Pages

Sunday 18 August 2024

Tasawur E Ishq By Jiya Abbasi New Complete Romantic Novel

Tasawur E Ishq By Jiya Abbasi New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tasawur E Ishq By Jiya Abbasi Complete Romantic Novel 


Novel Name: Tasawur E Ishq

Writer Name: Jiya Abbasi

Category: Complete Novel

" سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے  

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی 

نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے

پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو 

میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے 

تو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ 

غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے۔۔۔"

فضاء میں گونجتی کلام کی آواز اور رات کا چھایا اندھیرا ماحول کو پُراسرار بنا رہا تھا۔ وہ حیرت سے گاڑی میں بیٹھا شیشے کے پار جگمگاتی ان روشنیوں کو دیکھ رہا تھا۔ گہری رات میں بھی یہاں رونق لگی ہوئی تھی۔

" یار علی !! یہ تو کدھر لے آیا ہے۔ وہ بھی اتنی رات کو۔" وہ جھنجھلاتا ہوا بولا۔

" کاشف کچھ دیر کے لیے خاموش نہیں رہ سکتا؟ تیرے سارے سوالوں کے جواب مل جائینگے پر ابھی خاموشی سے چل۔" علی نے اسے ٹوکا ساتھ ہی گاڑی سے نکل کر سامنے بنی مزار کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھتا چلا گیا۔ 

کاشف نے غصّے سے سیڑھیاں چڑھتے علی کی پُشت کو گھورا پھر نہ چاہتے ہوئے بھی گاڑی سے نکل کر اس کے پیچھے چل دیا۔

" کدھر ہیں وہ یہیں چبوترے پر تو بیٹھے ہوتے ہیں۔"

خود سے بڑبڑاتا ہوا وہ دور سے ہی چبوترے کے ارد گرد دیکھنے لگا کہ تبھی لوگوں کے ہجوم کو چیرتا ہوا ایک سایہ اسے چبوترے کے ایک کونے پر بیٹھا دکھائی دیا۔

" کاشف ادھر آ وہ رہے۔" علی پُرجوش انداز میں کہتا ہوا چبوترے کی طرف بڑھا۔

کاشف جو حیرت سے مزار میں چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ علی کی آواز پر خود بھی چبوترے کی طرف بڑھ گیا۔

" اتنی رات میں بھی یہاں لوگ موجود ہیں۔" وہ حیرت زدہ لہجے میں علی سے بولا۔

" اس درگاہ میں دن رات ایسی ہی رونق رہتی ہے۔ خیر مجھے بس اُس بابا سے ملنا ہے۔ اتنی رات کو چادر چڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں۔" وہ کہتا ہوا چبوترے کے قریب جا رکا۔ جہاں وہ شخص اپنے سامنے بیٹھے شادی شدہ جوڑے کیلئے دعا کر رہا تھا۔

" یہ بابا ہیں؟ یہ کہاں سے بابا لگتے ہیں؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر اس آدمی کی داڑھی ہٹا دی جائے اور بال کاٹ کر چھوٹے کر دیئے جائیں تو پورے کراچی میں اس سے زیادہ خوبصورت مرد شاید ہی کہیں ملے۔"

کاشف اس کے کان میں گھس کر بولا۔ حیرت کے مارے آنکھیں اُبل کر باہر آنے کو بیتاب تھیں۔

" فضول گوئی سے پرہیز کرو۔"

علی اسے آنکھیں دکھاتا واپس سامنے بیٹھے شخص کی طرف متوجہ ہوا جو اُس شادی شدہ جوڑے کی کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔ ایک پل کیلئے علی اس کی مسکراہٹ میں کھو سا گیا۔ دل نے کاشف کی بات پر گواہی دی۔ وہ شخص واقعی حُسن وجمال میں اپنی مثال آپ تھا۔

" تو کہاں کھو گیا؟ " کاشف نے اس کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے پوچھا۔

" کہیں نہیں۔"

وہ سوچوں سے باہر آیا اور واپس اُن لوگوں کی طرف دیکھنے لگا۔ جہاں وہ شادی شدہ جوڑا اب جانے کے لیے اُٹھ رہا تھا۔ اُس جوڑے کے جاتے ہی وہ دونوں سیدھا اُس بابا کے سامنے جا بیٹھے۔

" السلام علیکم  بابا !! "

" وعلیکم السلام !! " سنجیدہ چہرے سے سلام کا جواب دیتے وہ اپنے گرد موجود اونی چادر کو ٹھیک کرنے لگا۔

" بابا آپ کو یاد ہے پہلے میں آپ سے اپنی جاب کیلئے دعا کروانے آیا تھا۔" علی نے یاد دلانا چاہا۔

" ہاں یاد ہے۔" اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

"مجھے جاب مل گئی ہے۔ نیوز اینکر کی۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔ آپ سے دعا کروانے کے بعد میں نے سوچا تھا نوکری ملتے ہی آپ کے پاس آؤں گا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ یہ سب آپ کی دعا کی وجہ سے ہوا ہے۔"

علی نے کہتے ہی جھک کر اس کا ہاتھ تھام کر بوسہ دیا اور دونوں آنکھوں سے لگا کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

" بابا ایک بات پوچھوں؟ "

کاشف جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا تھا زبان میں اُٹھتی کھجلی کے باعث اب بولے بنا نہ رہ سکا۔

" پوچھو !! "

" آپ پر کس کا ہاتھ ہے؟ "

کاشف کے سوال پر علی نے غصّے سے اسے دیکھا جبکہ سامنے بیٹھے شخص کے چہرے پر مدہم سی مسکراہٹ آگئی۔

" میرا مطلب ہے کہ آپ کی دعا قبول ہوجاتی ہے تو آپ تو۔۔۔" وہ بول ہی رہا تھا کہ سامنے بیٹھے شخص نے اس کی بات کاٹ دی۔

" نہ تو میں کوئی ولی اللہ ہوں، نہ مجھ پر کسی کا ہاتھ ہے۔ یہ تو ٹوٹے دل سے سدا نکلتی ہے جو عرش تک پہنچ جاتی ہے۔"

" اووو !! یعنی دل پر چوٹ کھائی ہے۔"

کہنے کے ساتھ ہی اس نے پورے دانتوں کی نمائش بھی کر دی جو کمر پر پڑتے علی کے گھونسے نے اندر بھی کر دی۔

" اب ہم چلتے ہیں۔"  اس سے پہلے کاشف کوئی اگلا سوال کرتا علی فوراً بول اُٹھا۔

" نہیں تم یہاں لائے مجھے اپنی مرضی سے تھے پر اب میں جاؤں گا اپنی مرضی سے۔ بابا آپ اپنی کہانی سنائیں نا کیا ہوا تھا۔" علی کو انکار کر کے وہ بابا سے گویا ہوا۔

" نہیں ابھی نہیں پھر کبھی ابھی جاؤ تم لوگ رات بہت ہوگئی ہے۔" اس نے ٹالنا چاہا پر دل میں ایک خواہش ضرور جاگی تھی اپنا غم بانٹنے کی۔

" آپ سنائیں آپ کی کہانی سننے کیلئے میں ایک رات تو کیا ایک ہفتہ بھی ادھر بیٹھے رہ سکتا ہوں۔"

کاشف کی بات پر اس نے بےتاثر چہرے سے اسے دیکھا۔ اتنے ماہ وسال میں آج پہلی دفعہ تھا جب کوئی اسے سننا چاہتا تھا ورنہ یہاں سب اپنی ہی سنانے آتے تھے۔

" کاشف چلو۔"

علی نے کندھے سے پکڑ کر کھینچا پر وہ ڈھٹ بنا اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھتا رہا جو چہرہ نیچے جھکا کر بیٹھ گیا تھا۔

" سنائیں نا۔" وہ پھر بولا۔

سامنے بیٹھے شخص نے چہرہ اُٹھا کر ان دونوں کو دیکھا ساتھ ہی دھیرے سے مسکرا دیا۔

۔*********۔

اسٹاف روم سے نکل کر اس نے تیزی سے اپنے قدم کلاس کی جانب بڑھا دیئے۔ آج کلاس کا پہلا دن تھا اور آج کہ دن ہی اسے دیر ہوگئی تھی۔

" اُففف !! سر جمال نے کہاں پھنسا دیا۔"

گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے بڑبڑائی ساتھ ہی اپنی رفتار بھی بڑھا دی۔ تیز تیز چلتے ہوئے ابھی وہ کلاس کے دروازے پر پہنچی ہی تھی کہ اندر کا ماحول دیکھ کر دروازے پر ہی رک گئی۔

" بول سالے اب پنگا لے گا مجھ سے ہاں؟ "

کالر سے پکڑ کر اُوپر کو اُٹھائے وہ غصّے سے اسے پوچھ رہا تھا۔ سارے اسٹوڈنٹس ارد گرد جمع ہو کر ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

" نہیں یوسف بھائی غلطی ہوگئی۔ آئندہ نہیں کروں گا۔ اب نیچے اُتار دو۔" وہ دبلا پتلا سا لڑکا ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔

" یار یوسی چھوڑ دے مر جائے گا بیچارا۔" نوید نے کہتے ہوئے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا کہ تبھی پیچھے سے آتی رعب دار آواز پر سب ایک پل کیلئے سُن ہوگئے۔

" یہ کیا ہو رہا ہے؟ " وہ جو اتنی دیر سے کھڑی سب برداشت کر رہی تھی اب بولے بنا نہ رہ سکی۔

یوسف نے چہرہ موڑ کر پیچھے دیکھا جہاں وہ کھڑی اسے ہی گھور رہی تھی۔ اس نے فوراً اُس لڑکے کا کالر چھوڑ دیا۔ جو جا کر سیدھا زمین پر گرا تھا۔

" اوئی ماں !! " وہ کمر سہلاتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔

" یہ کلاس ہے یا مچھلی بازار؟ زرا بھی تمیز نہیں ہے۔" وہ غصّے سے بولی۔ کلاس میں موجود سارے اسٹوڈنٹس حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔

یوسف نے پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے سر سے پیر تک اس لڑکی کو دیکھا۔ بلیک سادہ شلوار قمیض میں سر پر دوپٹہ لیئے، بھوری کام دار چادر کو اپنے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ سیاہ کپڑوں میں اس کی گوری رنگت دمک رہی تھی۔ براؤن آنکھوں میں غصّہ لیے وہ قابلِ قبول صورت والی لڑکی اس وقت اسے زہر لگی تھی۔

" آپ کو کوئی مسئلہ ہے مادام؟ " یوسف نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

وہ بنا کوئی جواب دیئے مڑی پیچھے سے ہنسی کی آوازیں بلند ہوئیں پر وہ ضبط کرتی سیدھا ڈائیس کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔

" کلاس !! آئی ایم یور نیو اکنامکس ٹیچر جسمین ملک۔ سر جمال کی جگہ اب سے میں آپ کی اکنامکس کی کلاس لوں گی۔" 

وہ جو اس کے خاموش ہو کر مڑ جانے پر مذاق اڑانے میں لگے تھے۔ اب سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ پھٹی آنکھوں میں حیرت اور خوف لیے سب ساکت کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر پہلے مچنے والا شور سناٹے میں بدل گیا تھا۔

" سیٹ ڈاؤن !! "

بس کہنے کے ساتھ ہی ایک بار پھر کلاس میں ہل چل مچی اور اگلے ہی لمحے سب اپنی اپنی جگہ پر موجود تھے۔

" اے یہ ٹیچر ہے؟ کہاں سے؟ " نوید نے یوسف کی طرف جھک کر سرگوشی کی۔

" اب انٹر پاس اسٹوڈنٹس ہم ماسٹرز والوں کو پڑھائیں گے۔" نوید کے ساتھ بیٹھا جنید بھی بول اُٹھا۔

" اووو بھائی !! اس کی معصوم شکل پر مت جاؤ۔ یہ پچھلے سال میری بہن کی کلاس فیلو رہ چکی ہے۔ ٹاپ کی جینئس اس لیے سر جمال نے ان محترمہ کو اپنی جگہ بلا لیا۔" اب کہ حذیفہ بولا۔ جو یوسف کے ساتھ بیٹھا کب سے سامنے بورڈ پر کام کرتی جسمین کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔

" تجھے کیسے پتا؟ " یوسف نے اسے مشکوک نظروں سے گھورا۔

" کیا مطلب کیسے پتا چلا۔ میری بہن کی دوست تھی ایک بار گھر بھی آچکی ہے۔" حذیفہ چڑ کر بولا۔

ابھی وہ سب اپنی اپنی باتوں میں مگن تھے کہ تبھی جسمین پیچھے مڑی اور ایک نظر سب پر ڈال کر رعب دار آواز میں بولی۔

" اسے پڑھ کرآئے گا۔ کل آپ سب سے پوچھوں گی۔ اگر جواب نہیں دیا تو کلاس سے باہر اور ضرورت پڑنے پر یونی سے بھی۔" اس نے بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر ڈائیس سے اپنا سامان اُٹھا کر کلاس سے باہر نکل گئی۔

وہ جو ہنسی مزاق اور ادھر اُدھر کی باتوں میں سارا پیریڈ نکال چکے تھے اب ساکت آنکھیں پھاڑے بورڈ کی طرف دیکھ رہے تھے۔

" ابے !! کاپی کرو۔" ہوش میں آتے ہی پیچھے سے کوئی لڑکا چلایا۔

" ابے ٹائم نہیں ہے۔ جلدی تصویر لو۔"

ایک بار پھر کلاس میں ہل چل مچ گئی تھی۔ جتنی خاموشی سے وہ آئی تھی۔ اتنی ہی خاموشی سے چلی بھی گئی تھی۔ لیکن کچھ دیر پہلے والا ان کا سکون اب برباد کر گئی تھی۔

۔*********۔

وہ گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی اسے ابا حضور تخت پر بیٹھے تسبیح پڑھتے نظر آئے۔ وہ انہیں سلام کرتا ان کے پاس ہی تخت پر جا کر بیٹھ گیا۔

" کیسا رہا آج کا دن؟ " حیدر صاحب اسے شفقت سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے جو ان کا واحد سہارا تھا۔

" اچھا تھا۔ آپ بتائیں گھر پر اکیلے بور ہونے کے علاؤہ اور کیا کِیا؟ " یوسف نے انہیں چھیڑا پر وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ غلط موضوع چھیڑ چکا ہے۔

" جب میرے بور ہونے کی اتنی پرواہ ہے تو میری بہو کو کیوں نہیں لے آتے تاکہ میرے آنگن میں بھی رونق ہو جائے۔" حیدر صاحب کی بات پر وہ آنکھیں گھماتا ہوا اُٹھا۔

" میری شادی کے بجائے آپ خود شادی کیوں نہیں کرلیتے۔"

" بکواس بند کرو۔" انہوں نے غصّے سے اسے گھورا۔

وہ افسردگی سے مسکراتا ہوا کچن کی جانب بڑھ گیا۔ جانتا تھا اب جب تک وہ اس کی شکل دیکھتے رہیں گے غصّے سے اسے بکتے رہیں گے۔ آخر اماں حضور سے اتنی محبت جو کرتے تھے۔

سلمیٰ بیگم دو سال پہلے ہی ان دونوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں اور تب سے ہی ان کے گھر میں ویرانی چھا گئی تھی۔ حیدر صاحب گورمنٹ اسکول میں ٹیچر تھے۔ اس لیے صبح سے دوپہر تک کا وقت بچوں کو پڑھانے میں گزر جاتا تھا پر وہاں سے آنے کے بعد وہ گھر میں اکیلے ہی ہوتے تھے جب تک یوسف نا گھر آ جاتا۔  یہ ہی وجہ تھی کہ حیدر صاحب اکثر اس کی شادی کا ذکر لے کر بیٹھ جاتے تھے۔ پر وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا کوئی نہ کوئی ایسی بات کر دیتا تھا کہ وہ موضوع کو بھول کر اسے بکنے بیٹھ جاتے تھے۔

" آج سالن بنانے کی باری آپ کی ہے۔" وہ کچن سے جھانکتا ہوا بولا۔

" جانتا ہوں اسکول سے آکر ہی بنا دیا تھا۔ فریج میں رکھا ہے نکال کر گرم کر لو۔" وہ غصّے سے بولے۔

یوسف مسکراتا ہوا کچن سے نکل کر کمرے کی جانب بڑھ گیا تاکہ اپنے اور حیدر صاحب کیلئے فریج سے سالن نکال کر گرم کر سکے۔

۔*********۔

" کیسا رہا تمہارا یونی کا پہلا دن؟ "

وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ڈنر کر رہے تھے کہ تبھی جہانگیر ملک نے اسے مخاطب کیا۔

" اچھا تھا بابا سائیں۔" جسمین نے انہیں جواب دیتے ہوئے سامنے بیٹھے اپنے جان سے پیارے بھائی بلاج کی طرف دیکھا جو آنکھوں سے اسے پُرسکون رہنے کا اشارہ کر رہا تھا۔

" ٹھیک ہے۔ لیکن بلاج ہم نے تمہارے کہنے پر یونیورسٹی میں پڑھانے کی اجازت دی ہے۔ اس لیے زرا بھی اونچ نیچ کے زمہ دار تم ہوگے۔"

جہانگیر ملک کی بات پر بلاج نے ایک نظر اپنے دونوں بڑے بھائیوں کو دیکھا جن کے چہروں پر طنزیہ مسکراہٹ موجود تھی۔

" جی بابا سائیں آپ بےفکر رہیں۔ مجھے اپنی بہن پر پورا بھروسہ ہے جب اُس نے پڑھائی کے دوران کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی کہ ہم سب کا سر جھکے تو ان شاءاللّٰہ آگے بھی کچھ نہیں ہوگا۔" وہ جتا کر بولا۔

جسمین جو سر جھکائے ڈنر کرنے میں مصروف تھی۔ اس نے مزید سر نیچے جھکا دیا۔ کبھی کبھی بہت مشکل لگتا ہے۔ کسی کی بات کا بھرم رکھنا۔ پر اسے بلاج کے بھروسے کا بھرم ساری زندگی رکھنا تھا۔

" اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو۔ ورنہ ہم لوگ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے۔" دلاورنے سر جھٹکتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔

" بڑے بھائی !! یہ صرف میری بہن نہیں ہے۔ آپ لوگوں کی بھی ہے۔ اتنی بے اعتباری اچھی نہیں ہوتی۔" دلاور کی بات پر وہ ناگواری سے کہتا واپس کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔

" ہم بھی اس سے نفرت نہیں کرتے۔ چھوٹی بہن ہے ہماری لیکن تم شاید خود کو اس کا باپ سمجھ بیٹھے ہو جو اس کیلئے ہر فیصلہ خود ہی کر لیتے ہو۔" اب کے خاور بھی بول اُٹھا۔ جس پر دلاور بھی اس کی تائید کرنے لگا۔

" بالکل چار جماعتیں کیا ہم سے زیادہ پڑھ لیں خود کو ہم سب کا باپ سمجھنے لگا ہے۔ بابا سائیں یہ آپ کے لاڈ پیار کا نتیجہ ہے۔ ہم دونوں سے چھوٹا ہو کر بھی ہر بات میں اپنی چلاتا ہے۔"

بلاج جو کب سے خود پر ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا ابھی اس نے کچھ بولنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ جہانگیر ملک نے خاموش کرا دیا۔

" بس بہت ہوگیا۔ تم سب کو لڑنے کیلئے نہیں کہا۔ ویسے بھی ہمیں بھی اپنی بیٹی پر بھروسہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے یونی میں پڑھانے کی اجازت دی۔ اب خاموشی سے اپنا کھانا ختم کرو اب ہم کوئی مزید بحث نہیں سنے۔"

جہانگیر ملک کے کہتے ہی سب اپنی اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ پر جسمین کا دل بالکل اُچاٹ ہوگیا تھا۔ وہ پلیٹ آگے کرتی ہوئی اُٹھی اور سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ بلاج نے تاسف بھری نگاہوں سے تینوں کو دیکھا اور خود بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

۔*********۔

" امی آپ یہ دوائی لیں پھر میں آپ کے کپڑے نکال دیتی ہوں۔" جسمین فائزہ بیگم کو بیڈ سے اُٹھاتے ہوئے بولی۔ جو شدید بخار میں تپ رہی تھیں۔

" وہ وائٹ سوٹ نکال دو۔" دوائی لے کر انہوں نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی اور جسمین کو دیکھنے لگیں جو جلدی جلدی ان کا کمرہ سمیٹ رہی تھی۔

" تمہارے بھائیوں نے کچھ کہا کیا آج ؟ " وہ اس کے چہرے پر چھائی افسردگی دیکھ کر پوچھنے لگیں۔

اپنے دونوں بیٹوں کی عادت سے واقف جو تھیں۔ باپ کے ساتھ رہتے رہتے دلاور اور خاور بھی جہانگیر ملک جیسے ہی روایتی بھائی بن گئے تھے۔ جو عورت کو چار دیواری تک محدود رکھنا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ بس ایک بلاج ہی تھا جو ماں کے قریب ہونے کی وجہ سے اور کچھ باہر ملک سے تعلیم حاصل کرنے کیے بعد تھوڑا آزاد خیال ہوگیا تھا۔ اس لیے ہی وہ اکثر جسمین کے حق میں اپنے باپ کے سامنے بھی کھڑا ہو جاتا تھا۔ کچھ وہ لاڈلا بھی اتنا تھا کہ جہانگیر ملک اس کی کسی بات کو رد نہیں کرتے تھے۔

" نہیں امی بس آپ کو تو پتہ ہے خاور بھائی اور دلاور بھائی تھوڑے سخت طبیعت کے مالک ہیں۔ اس لیے بس اتنا ہی کہہ رہے تھے۔ سنبھل کر رہنا کچھ اونچ نیچ نہ ہو۔ بابا سائیں کی سیاسی جماعت پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ ویسے ہی الیکشن سر پر ہیں۔" وہ کپڑے نکال کر فائزہ بیگم کے پاس آکر بیٹھ گئی اور سر ان کی گود میں رکھ لیا۔

" یہ سیاست نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا خیر !! تم ان کو کوئی موقع نہیں دینا۔ اس سے صرف تمہارا ہی نہیں بلاج کا بھی سر جھک جائے گا۔" وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سمجھانے لگیں۔

" جانتی ہوں امی۔ اگر میرا پیر پھسلا تو میرا بھائی منہ کے بل گرے گا۔ آپ فکر نہیں کریں میں کسی کا بھی سر جھکنے نہیں دوں گی۔" جسمین نے کہتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔

سر جمال کے کہنے پر اس جاب کیلئے بلاج نے کس کس طرح سے اپنے بابا سائیں کو منایا تھا۔ یہ وہ اچھے سے جانتی تھی۔ اس لیے ہر قدم اب پھونک پھونک کر چلنا تھا۔

" چلیں آپ کپڑے بدل کر آرام کریں میں بھی اپنے کمرے میں جاتی ہوں۔"

" ٹھیک ہے۔"

فائزہ بیگم کے کہتے ہی وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اُٹھ کر کمرے سے باہر نکلی کہ تبھی سامنے سے بلاج آتا نظر آیا۔

" تم سوئی نہیں ابھی تک؟ " وہ قریب آکر بولا۔

" نہیں بس جا ہی رہی تھی۔" 

" خاور بھائی اور دلاور بھائی کی باتوں کو دل پر مت لو۔ تمہیں پتہ ہے وہ دل کے بُرے نہیں ہیں۔" جسمین کے افسردہ چہرے کو دیکھتے ہوئے اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

" جی بھائی جانتی ہوں۔" وہ دھیرے سے بولی۔

" چلو اب پریشان نہ ہو جاکر سو جاؤ۔" بلاج نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ جس پر وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔

۔*********۔

صبح کے آغاز کے ساتھ ہی وہ تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑتا اپنی بائیک لے کر یونی کیلئے روانہ ہوچکا تھا۔ ساتھ ہی نوید کو بھی اس نے راستے سے پِک کر لیا تھا۔

"ابے !! آرام سے چلا بائیک ہے جہاز نہیں۔" نوید یوسف کی ہواؤں سے باتیں کرتی تیز رفتار پر چلایا۔

" تو نے ہی تو کہا جلدی چلا یونی کیلئے دیر ہو رہی ہے۔" وہ بھی تقریباً چلاتے ہوئے بولا۔

" ابے تو یونی کیلئے دیر ہو رہی ہے اوپر جانے کیلئے نہیں۔ کیوں ٹکٹ کٹوانے پر تُلا ہے۔" یوسف کی تیز رفتار پر اسے خوف محسوس ہونے لگا جو گاڑی کو ہواؤں سے باتیں کروا رہا تھا۔

" لے آگیا ٹھکانا۔" وہ بائیک کو یونیورسٹی کے سامنے روکتا ہوا بولا۔

" جنید اور حذیفہ پہنچ گئے۔" نوید گاڑی سے اُتر کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔

" کہاں ہیں وہ؟ "

" اور کہاں ہونگے۔ کلاس کے باہر ہیں۔" باتیں کرتے وہ سیدھا کلاس کی طرف پہنچ گئے تھے جہاں حذیفہ اور جنید ان کا انتظار کر رہے تھے۔

" بڑی جلدی آگئے مجھے تو لگا تھا باراتیوں کا انتظام کرنا پڑے گا۔" جنید انہیں دیکھتے ہی بول اُٹھا۔

" بیٹا تیری بارات تو وہ ہٹلر لائے گی آج۔ سنا نہیں تھا کیسے بول کر گئی تھی۔ اسے پڑھ کرآئے گا۔ کل آپ سب سے پوچھوں گی۔ اگر جواب نہیں دیا تو کلاس سے باہر اور ضرورت پڑنے پر یونی سے بھی۔" حذیفہ جسمین کی نکل اُتارتا ہوا جنید کو اچھا خاصا تپا گیا تھا۔

" ابے چپ !! اُس کا تو نام بھی مت لے میرے سامنے۔ کتنی اکڑ ہے اُس میں۔"

" چل یار !! کچھ نہیں کہتی مس جسمین۔ دیکھا نہیں تھا کل یوسف کو بھی کچھ نہیں کہا اور نہ پرنسپل سے شکایت کی۔" نوید کلاس کے اندر داخل ہوتے ہوئے بولا۔ وہ سب بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے کلاس اندر چلے گئے۔

" ہاں !! بس رعب جمانے کی کوشش کر رہی ہیں۔" یوسف نے سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا ساتھ ہی اپنے برابر والی سیٹ پر بیٹھے رضا کے ہاتھ سے بسکٹس کا پیکٹ چھین لیا۔

" یہ میرا ہے۔" وہ بیچارہ معصوم سی شکل لیے اسے دیکھنے لگا یوسف کے ہاتھوں کل کی مار بھولا نہیں تھا۔

" تیرا تھا اب میرا ہے۔" یوسف بسکٹ منہ میں ڈالتے ہوئے بولا۔ وہ بیچارہ بس اس کی شکل دیکھتا رہ گیا۔

" یار !! یوسی مت تنگ کر اُسے۔" نوید نے اس کے ہاتھ سے پیکٹ چھین کر واپس رضا کو تھما دیا۔

" وہ ہٹلر نہیں آئی۔۔۔" حذیفہ بول ہی رہا تھا کہ تبھی جسمین کلاس میں داخل ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی سارے سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔

" کلاس اُمید ہے سب پڑھ کر آئے ہوں گے۔" اس نے کہتے ہوئے ایک نظر سب پر ڈالی۔ سارے ایسے خاموش بیٹھے تھے جیسے کوئی انوکھی بات کر دی ہو۔

" یو اسٹینڈ اپ !! " جسمین نے یوسف کو اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پر وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے کھڑا ہو گیا۔

" نام کیا ہے آپ کا؟ "  وہ اس خوبصورت سے مرد کو دیکھتے ہوئے بولی۔ جو نیوی بلو شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ پہنے اپنے سادہ سے حلیے میں بھی سب میں نمایاں لگ رہا تھا۔

" سید یوسف حیدر !! " یوسف نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

" ادھر آئے اور Arc Elasticity of Demand کو ڈیفائن کریں۔"

جسمین کے کہنے پر وہ خاموشی سے جا کر اس سے تھوڑا فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔ سب چپ سادھے اس ہٹلر کی نانی کو دیکھ رہے تھے۔ جو واقعی انہیں یونی سے باہر نکالنے کے ارادے سے آئی تھی۔

" چلیں مسٹر یوسف حیدر شروع کریں۔"

کہنے کی دیر تھی کہ یوسف حیدر اپنی آواز سے وہاں بیٹھے ہر بندے کو جکڑتا چلا گیا۔ بوریت بھرا سبجیکٹ بھی آج سب کو اچھا لگ رہا تھا۔ جہاں سب توجہ سے اسے سن رہے تھے وہیں جسمین حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ یہ کل والا یوسف تو نہیں تھا۔

۔**********۔

" واہ یوسی !! تو نے تو بولتی بند کر دی اُس ہٹلر کی۔" وہ چاروں کینٹین میں بیٹھے فرینچ فرائز اور برگر کے ساتھ پورا پورا انصاف کر رہے تھے۔ جب منہ میں برگر ٹھونسے حذیفہ گویا ہوا۔

" یار کیا ہٹلر ہٹلر لگا رکھا ہے شرم کرو ٹیچر ہیں وہ ہماری۔" نوید چڑ کر بولا۔ وہ ایسا ہی تھا غلط بات مذاق میں بھی برداشت نہیں کرتا تھا۔

" نوید ٹھیک بول رہا ہے۔ وہ ٹیچر ہیں ہماری۔" یوسف نے کہتے ہوئے جنید کی پلیٹ سے فرائز اُٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔ اپنے تو وہ پہلے ہی صفا چٹ کر چکا تھا۔

" تو بڑی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔ او ہاں !! آج تعریف جو ہوگئی محترم کی۔" جنید بھی بول اُٹھا۔

" خاک تعریف ہوگئی۔ اتنے بڑے لیکچر پر بس ایک گوڈ۔" یوسف نے منہ بناتے ہوئے سر جھٹکا ساتھ ہی ایک اور فرائز منہ میں۔

" اپنے فرائز تو تو سارے ٹھونس گیا۔ اب میرے پر کیوں ہاتھ صاف کر رہا ہے۔" جنید نے گھور کر پلیٹ اس سے دور کرنی چاہی پر وہ بھی ایک تھا۔

" اوو !! ہٹلر۔"

" کہاں؟ " جنید نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ تبھی اس کے ہاتھ سے پلیٹ چھین کر یوسف کینٹین سے باہر کو بھاگ گیا۔

" رک سالے آج تو تو گیا۔ مجھے قسم ہے ان آلو کی جیس تیل میں یہ پکے ہیں۔ اُسی سے تجھے جلاؤں گا۔ نہیں تو فرائز مجھ پر حرام ہیں۔"

ایک لمبا چوڑا ڈائلاگ مار کر وہ جیسے ہی کینٹین سے باہر نکلا دروازے پر کھڑے یوسف نے کیچپ لگی کھالی پلیٹ اس کے منہ پر مار دی۔

" تیرے فرائز شہادت پاہ گئے۔" کہنے کے ساتھ ہی یوسف بھاگا پیچھے جنید نے بھی دوڑ لگا دی۔ جبکہ نوید اور حذیفہ کے ساتھ ساتھ کینٹین میں بیٹھا ہر شخص ان کی حرکتوں پر ہنسی سے بے قابو ہو گیا تھا۔

فٹبال گراؤنڈ میں چلتے ہوئے وہ لڑکوں کو کھیلتے کودتے دیکھ رہی تھی فری پیریڈ کی وجہ سے وہ ادھر چلی آئی تھی۔ جہاں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ذہن کو سکون عطا کر رہے تھے۔ گلابی شلوار قمیض میں سر پر دوپٹہ لیے اس نے بھوری کام دار چادر کو مضبوطی سے اپنے گرد لپیٹ کر قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ پیچھے سے اُڑتی بال سیدھا اس کی کمر پر آ لگی۔

" اففف !! "

غصّہ ضبط کرتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جہاں سر پر ہاتھ رکھے زبان دانتوں میں دبائے یوسی دی گریٹ کھڑا تھا۔ ساتھ ہی وہ تینوں سفید چہرہ لیے کبھی اسے تو کبھی جسمین کو دیکھ رہے تھے۔

" سوری مس جسمین غلطی سے ہوگیا۔" نوید جلدی سے بولا۔

جسمین نے جھک کر بال اُٹھائی اور کچھ بھی کہے بغیر ان کی طرف اُچھال کر واپس مڑ گئی مگر جانے سے پہلے ایک نظر یوسف کو دیکھنا نہیں بھولی تھی۔ جو معافی مانگنے کے بجائے ڈھیٹ بنا کھڑا تھا۔

"بدتمیز !! " وہ بڑبڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

" بچ گئے یار ورنہ مجھے تو لگا تھا آج واقعی سر کے آفس لے جائیں گی۔" حذیفہ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔

" مجھے تو لگ رہا ہے یہ پرسوں والے اسائمنٹ میں ہم سے بدلہ نکالنے والی ہیں۔" جنید جسمین کی پُشت کو گھورتے ہوئے بولا۔

" یار بس بہت ہوگیا۔ اب ایک لفظ مس جسمین کے خلاف نہیں۔" نوید نے جنید کو گھورا اور یوسف کی طرف بڑھ گیا جہاں وہ ایک بار پھر اپنے کھیل میں مشغول ہو چکا تھا۔

" تمہیں سوری کرنی چاہیے تھی یوسی۔" نوید نے بال کو ٹانگوں سے روکتے ہوئے کہا۔

" تم نے بول تو دیا ایک ہی بات ہے۔" وہ سرسری لہجے میں بولا۔

" ہاں پر۔۔۔" نوید بول ہی رہا تھا کہ یوسف نے اس کی بات کاٹ دی۔

" یار میں نے جان بوجھ کر نہیں مارا اور اب بس فٹبال پر دھیان دو مس جسمین چلی گئیں۔" اس نے جھنجھلاتے ہوئے بال کو ہٹ کیا جو اب کے سیدھا اُڑتا ہوا سر وقار کے سر پر جا لگا۔ وہ غصّے سے چلاتے ہوئے پیچھے مڑے۔

" یوسفففف !! "

اور بس ہواؤں میں گونجتی ان کی آواز کے ساتھ ہی وہ چاروں کسی بوتل کے جن کی طرح وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔

۔*********۔

" امی بہت دور ہو رہا ہے ٹھیک سے بام لگائیں۔" وہ بیڈ پر لیٹی کراہتے ہوئے بمشکل بولی۔

" آخر کیسے لگ گئی بال؟ " فائزہ بیگم نے اس کی کمر پر موجود سرخ نشان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" کہا تو ہے۔ بچے کھیل رہے تھے۔ لگ گئی آکے بال تو اب کیا پکڑ کر مارتی اُنہیں۔" اس نے منہ بسور کر جواب دیا ساتھ ہی دل ہی دل میں یوسف کیلئے کوسنے بھی جاری تھے۔

" اچھا یہ دوائی لگا دی ہے آرام کرو کل یونی نہیں جانا ٹھیک ہے۔"

" جی " وہ کراہتے ہوئے سیدھے ہو کر لیٹ گئی۔ فائزہ بیگم نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا جہاں تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ وہ دوائی اُٹھا کر بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئیں۔

" دودھ  بھجوا رہی ہوں پی لینا۔" وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ جبکہ جسمین نے بڑبڑاتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔

" بیڑا غرق ہو یوسف !! " 

۔*********۔

" تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟ "

حیدر صاحب نے کھانا کھاتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھا جس پر تھکن سوار تھی۔ وہ ابھی کوچنگ سینٹر سے بچوں کو پڑھا کر آیا تھا اور آتے ہی کھانا گرم کر کے تخت پر ہی کھانے بیٹھ گیا تھا۔

" اچھی جا رہی ہے۔" اس نے مختصر سا جواب دیا۔

" اور کوچنگ؟ "

" وہ بھی۔ بس جلدی ماسٹر ہوجائے جاب ملتے ہی سینٹر چھوڑ دوں گا۔ پھر ایک ملازم بھی رکھ لوں گا جو گھر کے کام کر دیا کرے۔" اس نے مسکرا کر کہا جبکہ حیدر صاحب کو اس کے پیچھے چھپی اداسی اچھے سے محسوس ہوگئی۔

" ماں کو مس کر رہے ہو؟ " ایک اور سوال جو اس کی مسکراہٹ کو چھین گیا۔

" نہیں۔۔ مطلب ہاں۔۔۔ مطلب اُنہیں بھولا کون ہے۔ وہ تو یاد بن کر ہمیشہ مجھے اپنے پاس محسوس ہوتی ہیں۔" وہ افسردگی سے بولا۔

" تبھی کہتا ہوں شادی کر لو تاکہ تمہارا دل بہل جائے۔"

" ابو پلیز !! یہ باتیں نہ کریں اور ویسے بھی کون ہمیں اپنی لڑکی دے گا۔ آپ کی تنخواہ میری یونی کی فیس بھرنے میں چلی جاتی ہے اور جو کچھ میں کما کر لاتا ہوں اس سے گھر کا خرچہ ہی پورا ہو جائے وہ ہی بہت ہے۔ ایسے میں کسے پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ ہمیں اپنی بیٹی دے۔" وہ ٹھیک ٹھاک چڑ چکا تھا اس موضوع سے۔

" آنے والی اپنا نصیب خود لے کر آتی ہے۔"

" اب ایسا کوئی نہیں سوچتا ابا۔ آج کل لوگوں کا بینک بیلنس نہ بھرا ہو تب تک کوئی بیٹی نہیں دیتا اور اب بس کریں جب تک میں کچھ بن نہیں جاتا مجھ سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرے گا۔" وہ کہہ کر کھانے کے برتن اُٹھاتا کچن کی طرف بڑھ گیا۔

حیدر صاحب وہیں تخت پر بیٹھے اس کی پشت کو دیکھتے رہے۔ وہ اپنی زندگی میں ہی اس کا ہنستا بستا گھر بار دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر اس خواہش پر وہ ہمیشہ ہی چڑ جاتا تھا۔

۔*********۔

فائزہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ ابھی بھی سو رہی تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر کھڑکیوں پر پڑے پردے ہٹا دیئے۔ جس کے باعث چھن سے آتی سورج کی روشنی سیدھا اس کے چہرے پر پڑنے لگی۔ دھوپ کی تپش کے باعث جسمین نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اس نے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔

" اُٹھ جاؤ ایک بجنے والا ہے۔" فائزہ بیگم اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔

" کیااااا !! آپ نے مجھے اُٹھایا کیوں نہیں؟ مجھے یونیورسٹی جانا تھا۔" جسمین تیزی سے اُٹھ بیٹھی۔

" کل تمہاری کمر میں درد تھا اس لیے میں نے نہیں اُٹھایا۔ جب تک آرام نہیں کروگی تو ٹھیک کیسے ہوگا۔" فائزہ بیگم کی بات پر جسمین خاموش ہوگئی پر پھر کچھ خیال آنے پر پوچھا۔

" بابا سائیں اور بھائی کہاں ہیں؟ "

" دلاور اور خاور بابا سائیں کے ساتھ جلسے کیلئے گئے ہیں اور بلاج ہسپتال میں کوئی ایمرجنسی کیس تھا تو وہ ہسپتال چلا گیا۔"

" اچھا ٹھیک ہے۔" وہ کہتی ہوئی بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" آپ ناشتہ تیار کروا دیں میں تیار ہو کر آتی ہوں۔"

" ٹھیک ہے۔"

 فائزہ بیگم اثبات میں سر ہلاتے ہوئے باہر چلی گئیں۔ جسمین نے بھی آگے بڑھ کر الماری سے کپڑے نکالے اور باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔

۔*********۔

" یار آج مس جسمین کیوں نہیں آئیں؟ "

وہ چاروں اس وقت پارکنگ میں موجود تھے جب جنید نے یاد آنے پر پوچھا۔

" تجھے کیا؟ ہوسکتا ہے بیمار ہوں یا کوئی کام ہو۔" یوسف فوراً بولا۔

" ابے !! کہیں تیری فٹبال نے اپنا کام تو نہیں دکھا دیا۔ جو آج وہ یوں غائب ہوگئیں۔" حذیفہ نے کل کے واقعے کو سوچ کر ہنستے ہوئے کہا۔

اس کی بات پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی تھی۔ (جانے سے پہلے وہ ایک نظر) سوچتے ہی یوسف کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

" اور اسائمنٹ کا کیا بنا؟ سیمسٹر اسٹارٹ ہونے والے ہیں اور اس اسائمنٹ کے نمبر بھی اُس میں شامل ہوں گے۔" نوید سنجیدہ ہو کر بولا۔

" ہاں ہاں معلوم ہے۔ سر جمال نے بتا دیا تھا۔"

" لیکن اب تو مس جسمین لیں گی نا۔"

یوسف کی بات پر حذیفہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" ظاہر سی بات ہے۔ اب وہ ہیں تو وہ ہی لیں گی۔"

" اچھا چلو اب کل ملیں گے۔" یوسف کہتا ہوا بائیک پر بیٹھا ساتھ ہی بائیک اسٹارٹ کردی۔ نوید بھی ان دونوں سے مل کر یوسف کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ سب اپنی اپنی منزلوں کی طرف گامزن ہو چکے تھے۔

۔*********۔

" بھائی یہ لیں چائے۔"

وہ بلاج کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔ سامنے ہی بلاج ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑا اپنی گھڑی اُتار رہا تھا تھوڑی دیر پہلے ہی وہ ہسپتال سے واپس آیا تھا اور اب جہانگیر ملک کے کہنے پر وہ بھی جلسے میں شامل ہونے جا رہا تھا۔

یوں تو جہانگیر ملک کی خواہش تھی کہ ان کے تینوں بیٹے سیاست میں شامل ہوتے۔ مگر بلاج شاید ان کے ہر اصول اور خواہش کو توڑنے کے لیے پیدا ہوا تھا۔ سیاست میں شامل ہونے کے بجائے اس نے ڈاکٹر کی فیلڈ کا انتخاب کیا تھا۔ حالانکہ یہ بات جہانگیر ملک کی طبیعت پر گراں گزری تھی۔ مگر اولاد کی محبت میں وہ یہ بھی برداشت کر گئے تھے۔

" آج تم یونی نہیں گئیں؟ " بلاج نے اس کی طرف مڑتے ہوئے سوال کیا۔

" نہیں بھائی بس تھوڑی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔"

" ہاں امی بتا رہی تھیں۔ ویسے آج جمال کا فون آیا تھا مجھے بتا رہا تھا سب ٹیچرز یونی میں تمہاری بہت تعریف کر رہے ہیں۔" وہ مسکرا کر بولا۔ جسمین بھی دھیرے سے مسکرا دی۔ 

سر جمال اور بلاج بچپن کے دوست تھے۔  یوں تو سر جمال کی فیملی یو کے میں رہتی تھی پر وہ یہاں پاکستان میں ہی ہوتے تھے۔ کچھ ذاتی کام کی وجہ سے انہیں یو کے جانا پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے سر جمال نے بلاج کو راضی کر کے اپنی جگہ جسمین کو یونیورسٹی میں بھیج دیا تھا۔ کہ جب تک اُن کی واپسی نہیں ہوتی وہ ان کی جگہ پڑھائے گی۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ کیونکہ جسمین اس یونیورسٹی کی ٹاپ کی اسٹوڈنٹ رہ چکی تھی۔ اس لیے آنکھیں بند کر کے اسے اپنی یونیورسٹی میں خوش آمدید کہا گیا تھا۔

" اچھا آپ یہ چائے پکڑیں میں زرا امی کی مدد کردوں۔" وہ کپ اسے پکڑا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ جبکہ بلاج پُر سوچ نظروں سے اسے جاتے دیکھتا رہا۔

" کیا بابا سائیں نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے؟ "

۔*********۔

رات بھر اسائمنٹ بنانے کے بعد بھی صبح اس کی آنکھ وقت پر کھل چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوا تو اپنے اور حیدر صاحب کیلئے ناشتہ تیار کرنے کچھ میں چلا آیا۔

" حیرت ہے ابو ابھی تک نہیں اُٹھے۔"

وہ سوچتا ہوا ہاتھوں کو تیزی سے حرکت دینے لگا۔ چائے چڑھا کر وہ حیدر صاحب کے کمرے کی طرف بڑھا۔ عادت کے بر خلاف آج حیدر صاحب کافی دیر تک سو رہے تھے۔ ورنہ اس کے اُٹھنے سے پہلے ہی وہ ناشتہ تیار کر چکے ہوتے تھے۔

" ابو ابو اُٹھ جائیں۔"

یوسف اُنہیں آواز دیتا کچن سے نکل کر کمرے کی طرف بڑھا۔ ابھی کمرے کا دروازہ کھولا ہی تھا کے سامنے کا منظر دیکھ کر یکدم چلا اُٹھا۔

" ابو !! "

وہ تیزی سے آگے بڑھا اور فرش پر منہ کے بل گرے حیدر صاحب کو سیدھا کرکے ان کے گال تھپتھپانے لگا۔

" ابو۔۔۔ ابو آنکھیں کھولیں۔ کیا ہو گیا آپ کو؟ "

گھبراہٹ کے مارے اس کے اپنے ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہونے لگی تھی۔

" کیا کروں؟ کیا کر۔۔۔ ہاں راشد۔۔۔راشد کو بلاتا ہوں۔" وہ تیزی سے اُٹھا اور پڑوس میں موجود رحم صاحب کے بیٹے کو بلانے چلا گیا۔

۔*********۔

کلاس اوف ہوچکی تھی وہ کلاس سے باہر نکل کر اسٹاف روم کی طرف بڑھ گئی۔ اسکے پیچھے ہی نوید سب اسٹوڈنٹس کے اسائمنٹ لے خاموشی سے چل رہا تھا۔ پریشانی اس کے چہرے پر واضح طور پر محسوس کی جاسکتی تھی۔

" یہ ادھر رکھ دیں۔" وہ ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی اور ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا جو الجھا الجھا لگ رہا تھا۔

" از ایوری تھنگ اوکے نوید ؟ "

" جی مس بس وہ آج اسائمنٹ جمع کروانا تھا نا لیکن یوسف نہیں آیا حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا مگر پتا نہیں آج کیا ہوا وہ فون بھی اٹینڈ نہیں کر رہا۔" نوید کی بات پر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا مگر بولی کچھ نہیں۔

" میں جاؤں مس؟ " جسمین کو خاموش دیکھ کر اس نے پوچھا۔

" ہاں جائیں۔" وہ فوراً بولی۔

نوید بھی سیدھا اسٹاف روم سے باہر نکل گیا۔ آج آخری تاریخ تھی اسائمنٹ جمع کروانے کی اور یوسف کا کچھ پتا ہی نہیں تھا۔

" کہاں ہو تم یوسی؟ "

فون کان سے لگائے وہ کینٹین کی جانب بڑھ گیا جہاں جنید اور حذیفہ اس کا انتظار کر رہے تھے۔

۔*********۔

" بہت بہت شکریہ راشد تم نے میری اتنی مدد کی ورنہ میں تو بہت پریشان ہو گیا تھا کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔" یوسف اس کے گلے لگتے ہوئے بولا۔

تھوڑی دیر پہلے ہی وہ ہسپتال سے واپس آئے تھے۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا بلڈ پریشر لو ہونے کے باعث وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ کچھ کمزوری بھی حیدر صاحب کے اندر بڑھتی جا رہی تھی۔

" اب آپ پریشان نہ ہوں اور کوئی بھی بات ہو تو میرے نمبر پر کال کر دے گا میں آجاؤں گا۔" راشد نے اس سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔

" ایک بار پھر بہت شکریہ یار۔"

" ایسے نہیں بولیں یوسف بھائی۔ آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ آخر پڑوسی ایک دوسرے کی مدد کیلئے ہی ہوتے ہیں۔"وہ مسکرا کر بولا اس کی بات پر یوسف بھی دھیرے سے مسکرا دیا۔

" اچھا اب چلتا ہوں۔ انکل کا خیال رکھے گا بائے۔" راشد کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی یوسف کمرے میں آیا جہاں حیدر صاحب بیڈ پر لیٹے آرام کر رہے تھے۔

" آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔" یوسف ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتا ہوا گویا ہوا۔

" میں بھی ڈر گیا تھا۔ اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتا جب تک اپنی آنکھوں سے تمہارا ہنستا بستا گھر نہ دیکھ لوں۔" وہ نحیف سی آواز میں بولے۔

" ابو پلیز !! ایسی باتیں نہیں کریں کچھ نہیں ہوا آپ کو۔ ان شاءاللہ آگے بھی ٹھیک رہیں گے اور اپنے پوتا پوتی کو بھی دیکھ لیں گے۔" وہ لہجے میں شرارت لیے کہنے لگا۔ جس پر حیدر صاحب مسکرا دیئے۔

" ان شاءاللہ !! جلدی یہ دن اللّٰہ میری زندگی میں لائے۔"

" آجائے گا۔ لیکن ابھی آپ آرام کریں میں آپ کیلئے کچھ لائٹ سا بنا کر لاتا ہوں۔" وہ کہتا ہوا اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

حیدر صاحب اس کی پُشت کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اس کے اچھے نصیب کی دعا کرنے لگے۔ اس بات سے انجان کے آنے والا وقت ان کے بیٹے کی زندگی میں کیا طوفان لانے والا ہے۔

۔*********۔

بیل مسلسل بجے جا رہی تھی۔ وہ حیدر صاحب کو دلیا کھلا کر کمرے سے باہر نکلا اور بیرونی دروازے کی طرف آیا۔ جس کے پار کھڑا شخص شاید کچھ زیادہ ہی جلدی میں تھا۔

" او بھائی صبر کر لیا کرو بندہ چل کر آتا ہے اُڑ کر نہیں۔"

اس نے بلند آواز میں کہتے ہوئے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے اُن تینوں کو کھڑے دیکھ کر حیران رہ گیا۔

" کیا دروازے پر ہی کھڑا رکھے گا یا اندر بھی آنے دے گا۔"

نوید کی بات پر وہ فوراً دروازے سے ہٹ کر ایک سائڈ پر ہوا۔

" تم لوگ اچانک کیسے؟ "

" کیسے کیا مطلب؟ انکل کی طبیعت خراب ہے اُن سے ملنے آئے ہیں۔" اب کے حذیفہ بولا۔

" تمہیں کیسے پتا ابو کی طبیعت خراب ہے؟ " یوسف نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ اس نے تو کسی کو بتایا ہی نہیں تھا پھر انہیں کیسے خبر ملی۔

" ظاہر سی بات ہے۔ بغیر کسی وجہ کے تم چھٹی نہیں کرتے اور آج تو اسائمنٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی اور تم آج ہی غائب ہوگئے۔" نوید نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

" ہاں پہلے تو لگا تم بیمار ہوگے۔ لیکن اب جب تم صحیح سلامت کھڑے ہو تو۔۔۔"

" تو تم سمجھ گئے ابو کی طبیعت خراب ہے۔" جنید کی بات کاٹ کر یوسف فوراً بولا۔

" ہاں اور اگر تمہاری انویسٹیگیشن ختم ہو گئی تو اب ہم انکل سے مل لیں۔"

" ہاں کیوں نہیں آؤ۔" حذیفہ کی بات پر وہ انہیں ساتھ لیے اندر کی جانب بڑھ گیا۔

" السلام علیکم انکل !! "

" وعلیکم السلام !! آؤ آؤ میرے شہزادوں بڑے دنوں بعد چکر لگانا ہوا۔" حیدر صاحب پیار سے انہیں دیکھتے گویا ہوئے۔

" طبیعت بھی تو بڑے دنوں بعد خراب ہوتی ہے نا آپ کی۔"

زبان میں اُٹھتی کھجلی کے باعث جنید ایک دم بولا پڑا۔ جس پر نوید اور حذیفہ کو تو کھانسی اُٹھ آئی۔ جبکہ یوسف نے گھور کر اسے دیکھا ساتھ دائیں ہاتھ کا مکا بنا کر اس کی کمر پر جڑ دیا۔ البتہ حیدر صاحب اس کی بات پر ہنس دیئے تھے۔

" یعنی تم لوگوں سے ملاقات کیلئے مجھے روز بیمار ہونا پڑے گا۔"

" ارے نہیں انکل !! ہماری عمر بھی آپ کو لگ جائے میں تو مذاق کر رہا تھا۔" جنید نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے عقیدت سے ان کے ہاتھ تھام لیے۔

حذیفہ اور نوید بھی ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گئے تھے۔ انہیں باتیں کرتا دیکھ یوسف مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل کر ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے باہر چلا گیا۔

" بابا سائیں آپ نے بلایا۔"

جہانگیر ملک جو سگار پیتے کسی گہری سوچ میں گم تھے اس کی آواز پر چونک کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں بلاج کھڑا اجازت طلب نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

" ہاں !! آؤ تم سے ضروری بات کرنی ہے۔"

ان کے کہتے ہی وہ جہانگیر ملک کے سامنے رکھی کرسی پر جا بیٹھا۔ اب دونوں آمنے سامنے موجود تھے۔ درمیان میں ایک ٹیبل حائل تھی۔ جس پر سگار کا سامان پڑا تھا۔

" تمہیں ہم نے جسمین کے رشتے کے بارے میں بتایا تھا نا۔"

" جی بابا سائیں۔" وہ سر جھکائے بولا۔

" دلدار خان کا بیٹا اگلے ماہ پاکستان واپس آرہا ہے۔ تب ہم جسمین اور شیراز کی منگنی کر دینگے۔ جتنی جلدی ہو سکے جسمین کو یہ بات سمجھا دو ورنہ پھر ہم اپنے طریقے سے بات کریں گے۔" بلاج کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے وہ دوٹوک لہجے میں بولے۔

" بابا سائیں آپ محض پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے اپنی بیٹی کا رشتہ اُس دلدار خان کے گھر کر رہے ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ وہ کتنا عیاش آدمی ہے۔ جب باپ ایسا ہے تو بیٹا کیسا ہوگا۔" وہ بےبسی سے بولا۔

جب سے جہانگیر ملک نے اس رشتے کے بارے میں اسے بتایا تھا۔ تب سے ہی وہ انہیں اس رشتے کے نقصانات گنواہ رہا تھا۔ مگر جہانگیر ملک نے شاید اس بار قسم کھا رکھی تھی۔ وہ اس کا نکتہ اعتراض اُٹھنے سے پہلے ہی رد کر دیتے تھے اور آج بھی یہی ہونا تھا۔

" تم بھی تو ہماری اولاد ہو پر کتنا فرق ہے تم میں اور ہم میں پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ شیراز بھی اپنے باپ کی طرح ہوگا۔"

جہانگیر ملک کی بات پر بلاج خاموش ہوگیا۔ وہ سمجھ گیا تھا اب وہ کچھ بھی کہہ لے جہانگیر ملک نے اپنی ہی کرنی ہے۔

" اب جاؤ رات بہت ہوگئی ہے اور جتنی جلدی ہوسکے خود کو اور جسمین کو اس رشتے کیلئے تیار کرو۔ شیراز کی آمد کے بعد ہم کوئی تماشا برداشت نہیں کرینگے۔"

" جی۔"

وہ دھیمی آواز میں کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ چاہ کر بھی آج وہ اپنی بہن کیلئے کچھ نہیں کر پایا رہا تھا۔

۔*********۔

سر وقار کی کلاس آف ہوئی تو یوسف نے باہر نکل کر اپنے قدم تیزی سے اسٹاف روم کی جانب بڑھا دیئے۔ ان تینوں کو وہ پہلے ہی کینٹین میں جانے کا کہہ چکا تھا اور خود اسٹاف روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے ہلکے سے دستک دے کر اجازت طلب کی۔ 

" کم ان۔"

اجازت ملتے ہی اس نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھا دیئے۔ جہاں وہ سفید شلوار قمیض میں سر پر لال دوپٹہ لیے بیٹھی کام میں مصروف تھی۔ یوسف اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

" مس جسمین !! "

" یس !! "

جسمین نے چہرہ اُٹھا کر اسے دیکھا۔ جو میرون شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس ہاتھ میں فائل پکڑے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ یوسف کے آنے کا مقصد اسے اچھی طرح سے سمجھ آ گیا تھا۔

" مس یہ اسائمنٹ وہ کل۔۔۔"

" کل آخری تاریخ تھی اسائمنٹ جمع کرانے کی۔ آپ نے نہیں کروایا یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ رولز سب کے لیے برابر ہیں۔" وہ تیزی سے اس کی بات کاٹ کر بولی۔

یوسف نے سر نیچے جھکا لیا۔ ہاتھ کی مٹھی سختی سے بھینچ لی تھی۔ جسمین کو لگا وہ کچھ بولے گا۔ مگر وہ خاموش رہا۔

" اب آپ جا سکتے ہیں۔" وہ کہہ کر اپنی جگہ سے اُٹھی ابھی دو قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ یوسف نے اسے پکڑ کر دیوار سے لگا دیا۔

" چھوڑو چھوڑو۔" گلے پر موجود یوسف کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہ بمشکل بولی کہ تبھی اندر آتے نوید نے بھاگ کر اسے پکڑا۔

" چھوڑ یوسف پاگل ہو گیا ہے کیا۔" نوید ہٹانے کی کوشش کرتا ہوا بولا مگر یوسف پر تو جیسے کوئی جنون سوار ہو گیا تھا۔ کچھ سن ہی نہیں رہا تھا۔

" چھوڑو۔"

آنکھوں کو سختی سے میچ رکھا تھا۔ تکلیف کے باعث ایک آنسو تیزی سے نکل کر اس کے گال پر بہہ گیا۔ تبھی جسمین نے پلکوں کی جھالر اُٹھا کر اس سنگ دل کو دیکھا۔ نم آنکھیں، کپکپاتے ہونٹ۔۔۔ یوسف فوراً اسے چھوڑ کر پیچھے ہوا اور بس یہیں سے تصورِعشق کا آغاز ہوا۔

" آؤٹ۔۔۔ آؤٹ گیٹ آؤٹ !! "  گلے پر ہاتھ رکھے وہ چیخی۔

نوید فوراً یوسف کو کھینچتا اسٹاف روم سے باہر لے گیا۔

" یہ کیا حرکت تھی۔ وہ تو شکر ہے میں تجھے بلانے آ گیا۔" نوید غصّے سے چلایا۔

یوسف نے اپنا بازو چھڑا کر ایک نظر اسٹاف روم کے بند دروازے پر ڈالی اور بغیر کوئی جواب دیئے نوید کو وہیں کھڑا چھوڑ کر تیزی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

ابھی تو " عین " لکھا ہے

ابھی تو " شین " باقی ہے

 ابھی اُن " منزلوں " پر ہم کہاں

جہاں " قاف " باقی ہے

۔**********۔

" آج اتنی جلدی آگئے؟ "

بیل کی آواز پر حیدر صاحب نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے یوسف کو کھڑا پایا۔ وہ بغیر کوئی جواب دیئے ان کی سائڈ سے نکلتا اندر کی جانب بڑھا۔

" کیا ہوا اتنے خاموش کیوں ہو؟ "

حیدر صاحب نے پھر پوچھا آج سے پہلے کبھی انہوں نے اسے یوں خاموش نہیں دیکھا تھا۔ چاہے کتنی بھی بڑی بات ہو وہ تھوڑی دیر بعد ہی نارمل ہو جاتا تھا۔ مگر آج اس کی خاموشی کچھ بُرا ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔

" کچھ نہیں ہوا بس کلاس نہیں تھی تو گھر آ گیا کچھ تھکن بھی محسوس ہو رہی ہے۔ میں ابھی آرام کرنے جا رہا ہوں تھوڑی دیر بعد کھانا تیار کردوں گا۔" وہ اپنی پیشانی مسلتے ہوئے بولا۔ حیدر صاحب نے غور سے اسے دیکھا جو کافی پریشان لگ رہا تھا۔

" نہیں تم رہنے دو آرام کرو میں خود کر لوں گا۔"

" آپ کی بھی تو طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔"

" میں اب بالکل ٹھیک ہوں تم جاؤ جاکر سو جاؤ۔"

حیدر صاحب کے کہنے پر یوسف اثبات میں سر ہلاتا کمرے میں چلا آیا اور سیدھا بیڈ پر بیٹھ کر سر ہاتھوں میں تھام لیا۔

" اُف !! یہ کیا کر دیا میں نے۔ اتنی گھٹیا حرکت کیسے ہوگئی مجھ سے۔" اپنے بالوں کو مٹھی میں سختی سے جکڑے اس نے شرمندگی سے سوچا۔

" پتا نہیں میں کب اپنے غصّے کو قابو کرنا سیکھوں گا۔" خود سے بڑبڑاتا وہ وہیں بیڈ پر لیٹ گیا۔

اس بات سے انجان کہ آنے والا وقت کتنی ہی تبدیلیاں اس کی زندگی میں لانے والا ہے۔ پھر شاید غصّہ اکڑ تو بس نام کو ہی رہ جانا ہے۔

۔*********۔

وہ تینوں کلاس میں بیٹھے لیکچر نوٹ کر رہے تھے۔ جب نوید نے چہرہ موڑ کر اپنے برابر والی سیٹ کو دیکھا۔ تین دن گزر چکے تھے۔ اُس دن کے بعد سے یوسف دوبارہ یونی نہیں آیا تھا اور نہ ہی کال اُٹھا رہا تھا۔ جنید اور حذیفہ تو اُس سے ملنے گھر بھی جانا چاہتے تھے پر نوید نے یہ کہہ کر روک دیا کہ " اُسے اپنی غلطی کا احساس خود ہونے دو۔" اسے شدید غصّہ تھا یوسف پر اور مس جسمین کے سامنے شرمندگی بھی بہت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ بات کرنا چاہتا تھا مس جسمین سے یوسف کی طرف سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔ پر یوسف نے تو کچھ بھی کرنے لائق نہیں چھوڑا تھا۔ حرکت ہی ایسی گھٹیا کی تھی۔

" آج وہ پھر نہیں آیا۔" نوید کی نظریں سیٹ پر دیکھ حذیفہ اس کی طرف جھکتے ہوئے سرگوشی میں بولا۔

" کام بھی تو ایسے کیے ہیں۔ کیسے ہمت ہوگی آنے کی۔" اس نے کہتے ہوئے سر جھٹکا اور واپس لیکچر نوٹ کرنے لگا۔

" پر بات ہوئی کیا تھی جو وہ اس حد تک پہنچ گیا؟ " جنید نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی یوسف کے پاس پہنچ جائے پر پھر نوید۔۔۔

" کیا ہونی ہے بات؟ یقیناً مس جسمین نے اسائمنٹ لینے سے انکار کر دیا ہوگا اور بجائے اُن کے انکار کو رد کر کے اپنی مجبوری بتانے کے یوسف صاحب نے اُن کا گلا ہی پکڑ لیا۔" نوید نے اندازہ لگایا یوسف کی عادت کو تو وہ اچھے سے جانتا تھا۔

" پر یار !! مس جسمین کو بھی انکار نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ سب ٹیچرز جانتے ہیں یوسف بغیر کسی وجہ کے چھٹی نہیں کرتا۔"

" مس جسمین نئی ہیں۔ انہیں ابھی اتنا نہیں پتا اسٹوڈنٹس کے بارے میں۔" حذیفہ کی بات پر نوید جتاتے ہوئے بولا۔

جس پر وہ دونوں خاموش ہو کر واپس اپنے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئے۔ نوید بھی گہرا سانس اندر کھینچتا واپس نوٹس پر جھک گیا۔ اسے بے حد افسوس تھا۔ یوسف کیلئے، مس جسمین کیلئے۔۔۔

۔*********۔

دوپہر کے دو بجنے کو تھے اور یوسف ابھی بھی اپنے کمرے میں لیٹا گہری نیند میں سو رہا تھا۔ در حقیقت وہ سویا ہی حیدر صاحب کے اسکول جانے کے بعد تھا۔ رات تو ساری جاگ کر گزاری تھی یا یوں کہا جائے کہ کسی کو یاد کرنے میں گزاری تھی۔

" چھوڑ چھوڑ۔"

" چھوڑ یوسف پاگل ہو گیا ہے کیا۔"

" آؤٹ۔۔۔ گیٹ آؤٹ۔"

" نہیں۔۔۔ نہیں میں۔" یوسف ایکدم نیند سے ہڑبڑا کر اُٹھا۔ لائٹ جانے کے باعث وہ پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ کچھ گھبراہٹ بھی طاری ہونے لگی تھی۔ جس کی اصل وجہ آنسوؤں سے بھری دو آنکھیں تھیں۔

" اُف !! کہاں پھنس گیا۔"

چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے بےبسی سے سوچا کہ تبھی بیرونی دروازے پر لگی بیل کی آواز سنائی دینے لگی۔

" یقیناً ابو آگئے۔"

یوسف جلدی سے بستر چھوڑتا دروازے کی جانب دوڑا جہاں واقعی حیدر صاحب کھڑے دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔

" السلام علیکم ابو !! " اس نے دروازہ کھولتے ہی سلام کیا۔

" وعلیکم السلام برخوردار !! " سلام کا جواب دیتے ہوئے حیدر صاحب نے بغور اسے دیکھا جس کی آنکھیں ابھی سو کر اٹھنے کی چغلی کھا رہی تھیں۔

" کھانے کو کیا بنایا ہے؟ "

ان کے سوال پر یوسف ایک دم گڑبڑا اُٹھا۔ سارا وقت تو سوتا رہا تھا۔ کھانا پھر کیا فرشتوں نے آکر بنانا تھا۔

" جی۔۔۔ وہ۔"

" یوسف بیٹا !! کیا بات ہے؟ کیا چھپا رہے ہو؟ دو تین دن سے یونیورسٹی بھی نہیں جا رہے۔ کچھ ہوا ہے کیا؟ " حیدر صاحب نے تخت پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ساتھ ہی جھک کر چپل اُتارنے لگے۔

" نہیں تو ابو۔ ایسی کوئی بات نہیں۔" وہ وہیں کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔ آخر باپ تھے۔ دل میں چھپی چوری کیسے نہ پکڑتے۔

" یوسف کیا میں تمہیں نہیں جانتا؟ تمہارے غصّے کو بھی اچھے سے جانتا ہوں۔ اگر کوئی بات ہے تو مجھ سے شیئر کرو۔"

یوسف چلتا ہوا ان کے پاس ہی زمین پر آ بیٹھا اور سر ان کے گھٹنوں پر ٹکا دیا۔

" ابو بس ایک غلطی ہوگئی۔ لیکن اب ہمت نہیں ہو رہی کے اُسے سدھار سکوں۔"

" جب غلطی کرتے وقت شرم محسوس نہیں کی تو معافی مانگنے میں کیسی شرم۔" وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔ ان کی بات پر یوسف نے فوراً سر اُٹھا کر دیکھا۔

" ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ یہ ہی سوچ رہے ہو مجھے کیسے پتا کہ کسی اور کے ساتھ زیادتی کر آئے ہو؟ " یوسف نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" میں اپنے بیٹے کو اچھے سے جانتا ہوں۔ اگر نقصان تمہارا ہوتا تو تم کبھی اتنے پریشان نہ ہوتے لیکن تم سے یقیناً کسی اور کا نقصان ہوگیا۔ جو تمہیں سکون نہیں لینے دے رہا۔"

" جی ابو بہت غلط کر دیا میں نے۔" اس نے واپس سر ان کے گھٹنوں پر ٹکا دیا۔

" کیا معافی کی گنجائش نکل سکتی ہے؟ "

حیدر صاحب نے کچھ شک کے تحت پوچھا۔ وہ کس غلطی کی بات کر رہا تھا وہ نہیں جانتے تھے۔ پر جو خیالات دماغ میں آ رہے تھے۔ وہ اُن کی نفی بھی چاہتے تھے۔

" ہاں !! اب ایسا بھی غلط نہیں کیا کہ معافی نہ مل سکے۔" ان کی بات میں چھپا مطلب یوسف اچھے سے سمجھ گیا تھا۔

" تو پھر بیٹا مجھے بھی معاف کر دو۔ کیونکہ میں نے بھی کچھ ایسا نہیں کیا کہ مجھے بھوکا رہنے کی سزا دی جائے۔" حیدر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر وہ تیزی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

" سوری ابو !! باتوں میں بھول ہی گیا۔ میں ابھی کچھ آپ کیلئے بناتا ہوں۔" وہ کہتا ہوا سیدھا کچن میں چلا گیا۔ جبکہ حیدر صاحب اس کی بوکھلاہٹ پر مسکراتے ہوئے اُٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

۔*********۔

" کیا میں اندر آجاؤں؟ "

فائزہ بیگم جو الماری کے سامنے کھڑی کپڑے نکال رہی تھیں۔ اس آواز پر چونک کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں بلیک شلوار قمیض میں ملبوس اُن کا شہزادوں جیسا بیٹا بلاج کھڑا تھا۔

" آجاؤ بیٹا۔"

اجازت ملتے ہی وہ ان کے بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا۔ فائزہ بیگم بھی فوراً الماری کا دروازہ بند کر کے بیڈ پر اس کے سامنے آ کر بیٹھ گئیں۔

" کیا ہوا کوئی بات ہے؟ "

" ہاں !! بہت ضروری بات ہے۔" بلاج سنجیدہ سا بولا۔

" کیا ہوا؟ سب ٹھیک تو ہے؟ " وہ پریشان ہو اُٹھیں۔

" امی بابا سائیں جسمین کا رشتہ دلدار خان کے بیٹے شیراز سے پکا کرنا چاہتے ہیں۔"

بلاج کی بات پر وہ بے یقینی سے اسے دیکھے گئیں۔

آخر کون نہیں تھا جو دلدار خان کی عیاش طبیعت سے واقف نہ رہا ہو۔

" تم۔۔۔ تم نے اُنہیں منع نہیں کیا؟ " وہ دھیرے سے بولیں۔ کتنی مشکل سے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے۔ بھلا کون جانتے بوجھتے اپنی بیٹی ایسے لوگوں میں دیتا ہے۔ پر شاید جہانگیر ملک یہ کر سکتا ہے۔

" کوشش کی تھی۔ پر کچھ سننے کو تیار نہیں ہیں۔" وہ سر جھکائے کہنے لگا جیسے ساری غلطی اسی کی ہو۔

" اب؟ "

فائزہ بیگم کے سوال پر اس نے گہرا سانس لے کر ان کی طرف دیکھا۔ جو نم آنکھوں میں امید لیے اسے دیکھ رہی تھیں۔

" جسمین کو ابھی نہیں بتاے گا میں کچھ کرتا ہوں۔" بلاج کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور ہمت نہیں تھی ان آنکھوں میں دیکھنے کی۔

" چلتا ہوں۔"

وہ فوراً وہاں سے نکل گیا۔ جبکہ فائزہ بیگم ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے جاتے دیکھ دل ہی دل میں جسمین کے اچھے نصیب کی دعا کرنے لگیں۔

تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑتا ہوا آج یوسف وقت سے پہلے ہی یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔ پارکنگ ایریا میں بائیک کھڑی کر کے وہ وہیں کھڑا انتظار کرنے لگا۔ جب ایک بلیک مرسیڈیز عین اس کے سامنے آ رکی۔ ڈرائیور نے گاڑی سے نکل کر فوراً پچھلی نشست کا دروازہ کھولا۔ جہاں سے وہ بھورے رنگ کی فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ میں ملبوس، بلیک شال اپنے گرد لپیٹے باوقار سی گاڑی سے باہر نکلی۔

یوسف جو یک ٹک گاڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جسمین کے باہر نکلتے ہی نظریں نیچے جھکا لیں۔ تاکہ دل میں چھپا چور آنکھوں سے عیاں نہ ہوجائے۔

جسمین نے ایک نگاہ نظریں جھکائے یوسف پر ڈالی اور اسے نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئی۔

" کیا کھڑا گھور رہا ہے؟ نکل۔" ڈرائیور کی نظر خود پر دیکھ کر یوسف آنکھیں دکھاتا ہوا بولا۔ جس پر ڈرائیور مزید سخت گھوری سے نوازتا واپس گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی یوسف نے اسٹاف روم کی طرف دوڑ لگا دی۔

اسٹاف روم کے دروازے کے سامنے پہنچ کر اس نے جھجکتے ہوئے دروازہ کھولا سامنے ہی جسمین اپنے سامنے کھڑے لڑکے کو لسٹ دیتی ہوئی نظر آئی۔

" یہ لسٹ جا کر نوٹس بورڈ پر لگا دیں۔"

" یس مس۔"

وہ تابعداری سے کہتا فوراً وہاں سے نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی یوسف چلتا ہوا جسمین کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جو مکمل طور پر اسے نظر انداز کیے کام کرنے میں لگی تھی۔

" میں۔۔۔ وہ میں اُس دن کے رویے کیلئے معافی مانگنے آیا ہوں۔" وہ جھجکتے ہوئے گویا ہوا۔

" میں کوئی امیر باپ کی اولاد نہیں ہوں۔ اس لئے جب آپ نے۔۔۔"

" مسٹر یوسف حیدر آپ جا سکتے ہیں۔ میں اس وقت مصروف ہوں۔" جسمین اس کی بات کاٹ کر مصروف سے انداز میں بولی۔

یوسف نے اپنے لب بھینچ لیے۔ غصّے کی ایک شدید لہر اس کے جسم میں دوڑی تھی۔ ایک بار پھر وہ اسے سنے بغیر جانے کو کہہ رہی تھی۔ جسمین آج بھی وہی تھی مگر یوسف اب وہ یوسف نہیں تھا۔

" ایم سوری !! میں اُس دن کیلئے شرمندہ ہوں۔"

جسمین نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا۔ یہ وہی یوسف تھا۔ جس نے کلاس میں بدتمیزی کرنے بعد معافی مانگنا تک ضروری نہیں سمجھا تھا۔ یہ وہی یوسف تھا۔ جو فٹبال گراؤنڈ میں بال مارنے کے بعد شرمندہ تک نہیں ہوا تھا۔ لیکن آج اس کے سامنے نظریں جھکائے شرمندہ کھڑا معافی مانگ رہا تھا۔ دل میں آیا کہ معاف کر دے۔ غربت تو قتلِ عام تک کروا دیتی ہے۔ مگر۔۔۔ مگر وہ دن ذہن کے پردے پر آتے ہی دل میں اُٹھتی رحم دلی دم توڑ گئی۔

" آپ جا سکتے ہیں مسٹر سید یوسف حیدر !! " جسمین روکھے لہجے میں بولی ساتھ ہی ایک ہاتھ سے دروازے کی طرف اشارہ کر دیا۔

یوسف نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں، ملال ، شکوہ ، شرمندگی اور۔۔۔ اور کچھ ایسا کہ جسمین اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔

یوسف خاموشی سے دروازے کی جانب بڑھ گیا جب پیچھے سے اسے جسمین کی آواز سنائی دی۔

" اپنے نام کے ساتھ سید لگاتے ہیں نا مسٹر یوسف تو اس نام کا ہی لحاظ کر لیں۔ آئندہ غصّے میں بھی کسی لڑکی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا۔ اپنے غصّے پر قابو پانا سیکھیں۔"

" صرف نام کا نہیں اب تو بہت سی چیزوں کا لحاظ رکھنا ہے مس۔۔۔ جسمین۔" آخر میں اس کے نام پر زور دیتے وہ مڑے بغیر بولا اور سیدھا اسٹاف روم سے باہر نکل گیا۔

جبکہ وہ وہیں ساکت کھڑی بند دروازے کو دیکھ رہ گئی۔

" یہ سب کیا تھا؟ "

۔*********۔

وہ باہر نکل کر تیزی سے کلاس کی جانب بڑھ رہا تھا جب نوٹس بورڈ کے سامنے اسے اسٹوڈنٹس کا جھنڈ نظر آیا۔ وہیں وہ تینوں بھی ساکت کھڑے آنکھیں پھاڑے بورڈ کی جانب دیکھ رہے تھے۔ وہ چلتا ہوا ان کے پاس آ گیا۔

" کیا ہو رہا ہے؟ "

" ابے تو یہاں کیسے؟ " حذیفہ اور جنید نے اسے دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ البتہ نوید نے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا۔

" کیا مطلب یہاں کیسے؟ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں یہاں پڑھتا ہوں۔" یوسف ماتھے پر بل ڈال کر بولا۔

" واہ !! یہ آج ہو کیا رہا ہے۔ سورج مشرق سے ہی نکلا ہے نا۔" حذیفہ نے کہتے ہوئے اس کے گلے میں ہاتھ ڈالا جبکہ یوسف ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔

" کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں۔"

" بھئی یہ دیکھ لسٹ میں سب سے پہلے تیرا نام ہے۔ مس جسمین نے تجھے فیل نہیں کیا۔" حذیفہ نے بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔

" اور تو اور آج تو بھی یونی آ گیا ورنہ اتنے دنوں سے شکل تک نہیں دکھا رہا تھا۔"

اب کے جنید بولا۔ جسے یوسف نے سنا ہی نہیں اس کی نظریں تو بورڈ پر تھیں جہاں سب سے پہلا نام یوسف حیدر کا تھا۔ شرمندگی میں کچھ مزید اضافہ ہوا۔ ضمیر نے تھوڑا اور ملامت کیا۔ یوسف ہاتھوں کی مٹھی سختی سے بھینچ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا جبکہ وہ دونوں اسے پیچھے سے آوازیں ہی دیتے رہ گئے۔ البتہ نوید مسکرا دیا تھا۔ یوسف کی حالت کو اچھے سے جو سمجھ گیا تھا۔

۔*********۔

کلاس لینے کے بعد جسمین نے ڈرائیور کو کال کر کے واپس بلا لیا تھا۔ یوسف کی باتوں سے اس کو بے چینی ہو رہی تھی اور اُس کی آنکھیں۔۔۔

جسمین کوئی بچی نہیں تھی جو مرد کی نظر کو نہ پہچان پاتی۔ یوسف کی آنکھوں میں سر اُٹھاتے جزبوں کو دیکھ چکی تھی پر پھر بھی نہ جانے کیوں جھٹلانے میں لگی تھی۔

" یہ سب میرا وہم بھی ہو سکتا ہے۔ میں اُس سے عمر میں بڑی ہوں بھلے ایک دو سال سہی پر بڑی تو ہوں اور پھر سب سے بڑھ کر ٹیچر ہوں اُس کی پھر وہ کیوں سوچے گا ایسا؟ ہاں شاید مجھے ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔" گاڑی کے شیشے کے پار دیکھتی وہ سوچوں میں گم تھی کہ تبھی ڈرائیور کی آواز پر چونکی۔

" جسمین بی بی گھر آ گیا۔ آپ یہیں اُتر جائیں۔ مجھے ملک سائیں نے بلایا ہے۔" وہ گاڑی بیرونی دروازے کے سامنے روکتے ہوئے گویا ہوا۔

" اچھا ٹھیک ہے۔"

جسمین نے کہتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اُتر کر آگے کی طرف بڑھ گئی۔ جہاں دروازے پر کھڑے رشید میاں پہلے سے اس کے لیے دروازہ کھولے کھڑے تھے۔

۔*********۔

" بابا سائیں آپ نے بلاج کو درمیان میں کیوں گھسیٹا؟ آپ بس ایک حکم کرتے اور جسمین خاموشی سے شیراز سے شادی کیلئے تیار ہو جاتی۔" دلاور اور خاور اس وقت جہانگیر ملک کے ساتھ بیٹھک میں موجود تھے جب دلاور غصّے سے گویا ہوا۔

" اگر میں اُسے درمیان میں نہیں لاتا تو وہ یہ خبر سنتے ہی کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیتا۔ اس لیے پہلے رشتے کی بات بلاج سے کی۔ پتا تو ہے جسمین کے معاملے میں کتنا جزباتی ہے وہ۔" جہانگیر ملک نے حقے سے کش لیتے ہوئے کہا۔

" جسمین ہماری بھی بہن ہے۔ ہم اُس کا بُرا نہیں چاہتے۔" دلاور ناگواری سے بولا اور کسی حد تک سچ بھی تھا۔ محبت تو دلاور اور خاور کو بھی جسمین سے تھی پر ان کی سخت مزاجی اور سوچ کبھی اس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔

" دلاور بھائی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مگر بابا سائیں کی شے ملنے پر ہی بلاج اتنا سر پر چڑھا ہے۔" خاور نے کہتے ہوئے سامنے صوفے پر بیٹھے جہانگیر ملک کو دیکھا جو سوچوں میں گم دکھائی دے رہے تھے۔

" اب تم لوگ پھر سے مت شروع ہو جاؤ۔ ویسے بھی آخری فیصلہ ہمارا ہی ہوگا۔" جہانگیر ملک دوٹوک لہجے میں کہہ کر وہاں سے چلے گئے۔ جبکہ وہ دونوں وہیں بیٹھے پارٹی کے متعلق باتوں میں مصروف ہو چکے تھے۔

۔*********۔

نوید گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی نورین بیگم صوفے پر بیٹھی نظر آئیں۔ جو پوری توجہ کے ساتھ ٹی وی پر ترکش ڈرامہ دیکھنے میں مگن تھیں۔

" السلام علیکم !! "

" وعلیکم السلام !! "

نورین بیگم کے بجائے جواب کچن کے دروازے سے باہر آتی صوبیہ نے دیا۔

" یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ " نوید نے صوفے پر جگہ سنبھالتے ہوئے ماں سے پوچھا۔ جو ابھی بھی ٹی وی دیکھنے میں مگن تھیں۔

" کیا مطلب ہے میں یہاں کیا کر رہی ہوں۔ یہ میری خالہ کا گھر ہے جب چاہے آسکتی ہوں۔" ہاتھ میں پکڑی چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ منہ بنا کر بولی۔

" یہ صرف خالہ کا گھر نہیں تمہارا ہونے والا سسرال بھی ہے۔ اب شادی سے پہلے ہر وقت منہ اُٹھا کر ادھر نہیں آجائے کرو۔" نوید کی بات صوبیہ کے سر پر لگی تلوں پر بجھی۔

" دیکھ رہی ہیں خالہ انہیں۔"

" او ہو !! لڑوں نہیں اور صوبیہ جاؤ جا کر اس کیلئے کھانا گرم کرو۔" نورین بیگم کے کہتے ہی نوید نے جلا دینے والی مسکراہٹ اس کی طرف اُچھالی جس پر وہ منہ بنا کر اُٹھی اور کچن کی جانب بڑھ گئی۔

" چلی گئی وہ تم بھی جاؤ اور ہاتھ منہ دھو کر کھانے کیلئے آجاؤ۔" وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولیں۔ جس پر وہ شرمندہ ہوتا " جی اچھا " کہہ کر کمرے کی طرف چل دیا جبکہ ایک بار پھر نورین بیگم پورے انہماک کے ساتھ ٹی وی دیکھنے میں مگن ہو چکی تھیں۔

۔*********۔

چار پائی بچھائے وہ چھت پر لیٹا بظاہر آسمان پر نظر آتے تاروں کو دیکھ رہا تھا۔ مگر سوچوں کے تانے بانے کہیں اور جوڑے تھے۔

" جسمین نے مجھے پاس کر دیا۔ پر کیسے؟ کیا وہ مجھ سے ناراض نہیں؟ پر آج تو اُن کا رویہ بتا رہا تھا کہ وہ سخت خفا ہیں۔" دائیں پاؤں کو ہلاتا وہ آج کے رویہ پر غور کرنے لگا۔ پہلے دن سے اب تک جسمین کی ہر ایک ایک بات کو ذہن میں دوہراتے ہوئے یوسف دھیرے سے مسکرا دیا۔

" تو میڈم صرف دھمکیاں دیتی ہیں ان پر عمل نہیں کرتیں۔ اچھی بات ہے۔ جلد ہی آپ کی ناراضگی بھی دور کر دینگے۔"

مسکرا کر سوچتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس بات سے بےخبر کل کا دن اس کیلئے کس قدر شرمندگی کا باعث بنے والا ہے۔

۔*********۔

پوری کلاس میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ایک دوسرے کو دھکیلتے وہ سیٹوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جب تیزی سے چلتے ہوئے وہ کلاس کے اندر داخل ہوئی۔

" سیٹ ڈاؤن کلاس !! " رعب دار آواز کے ساتھ ہی کلاس میں سناٹا چھا گیا تھا۔

سب خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک نظر سب پر ڈال کر وہ ڈائس پر جا کھڑی ہوئی جب ایک مردانہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

" مے آئے کم ان؟ "

ہمیشہ کی طرح اپنے سادہ مگر پُرکشش حلیے میں دروازے پر کھڑا یوسف کلاس میں آنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔

" آپ لیٹ ہیں مسٹر یوسف۔" جسمیں سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

" مس جسمین وہ۔۔۔"

" کلاس سے باہر کھڑے رہیں تاکہ سب کو پتا چلے وقت کی پابندی نہ کرنے کا انجام کیا ہے۔"

جسمین کی بات پر سب اسٹوڈنٹس دروازے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔ پہلی دفعہ تھا کسی ٹیچر نے یوں یوسف کو باہر کھڑے رکھا تھا۔

خود پر سب کی نظریں محسوس کرتا اس نے چہرہ نیچے جھکا لیا۔ بُرا تو بہت لگا تھا پر ضبط کر گیا۔ باقی کا پیریڈ بھی یوں ہی باہر کھڑے اٹینڈ کیا۔

کلاس ختم ہوئی تو جسمین ایک نظر اس پر ڈال کر اسٹاف روم کی جانب بڑھی جب یوسف نے بھی اپنے قدم اس کے پیچھے بڑھا دیئے۔

" اچھا طریقہ ہے بدلہ لینے کا۔"

" سوری؟ " وہ پیچھے مڑی ساتھ ہی الجھن بھری نظروں سے یوسف کو دیکھا جو اس کے ساتھ ہی رک گیا تھا اور اب مسکراہٹ چہرے پر سجائے آتے جاتے اسٹوڈنٹس کو دیکھ رہا تھا۔

" اسٹاف روم والی بات کا اچھے سے بدلہ لیا ہے آج آپ نے۔" اب کے یوسف نے اس کی طرف دیکھ کر جواب دیا جس پر جسمین کی بھنویں بھینچ گئیں۔

" وہ بدلہ نہیں پنشمنٹ تھی۔" وہ جتا کر بولی۔

" چلیں اب آپ بدلے کو پنشمنٹ کا نام دے دیں ہمیں وہ بھی منظور ہے۔" یوسف مسکرایا۔ جبکہ جسمین ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگی۔

" آج غصّہ نہیں آرہا؟ " یوسف کی آنکھوں میں اُبھرتے جزبے کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔

" آیا تھا بہت آیا تھا پر۔۔۔" وہ رکا اور سر نیچے جھکا لیا۔ جسمین کو سمجھ نہ آیا وہ زمین کو دیکھ رہا ہے یا اپنی مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔

" پر؟ " جسمین نے مزید بولنے پر اکسایا۔

" پر کسی نے کہا تھا غصّے پر قابو پانا سکھو۔ بس وہ ہی کر رہا ہوں۔" یوسف نے جیسے ہی سر اُٹھا کر کہا۔ جسمین فوراً نظریں جھکا گئی۔ مزید اس کی آنکھوں میں دیکھنا برداشت سے باہر تھا۔

مزید کچھ بھی بولے وہ مڑ کر تیزی سے نکل گئی۔ جبکہ یوسف وہیں کھڑا مسکراتے ہوئے اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگی۔

" کیا ایسے کیا دیکھ رہا ہے نکل آگے۔" پاس سے گزرتے لڑکے کے سر پر چپت لگاتا اسے گھورتے ہوئے کینٹین کی جانب بڑھ گیا۔

" مجھے نکلنے کا بول کر خود ہی نکل گیا۔"

" ابے یہ یوسف کہاں رہ گیا؟ مجھے تو لگا تھا غصّے میں سیدھا یہاں آیا ہوگا۔"

حذیفہ دروازے پر کھڑا، کینٹین میں نظریں دوڑاتا ہوا بولا۔ جبکہ نوید اور جنید پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر ٹیبل پر جگہ سنبھال چکے تھے۔

" آتا ہی ہوگا تو بھی بیٹھ کر پیٹ پوجا کر لے۔" جنید نے کہتے ہوئے وہاں موجود لڑکے کو اپنے پاس بلایا۔ جو اس کے ایک اشارے پر آرڈر لینے کیلئے ہاتھ میں کاپی پین لیے دوڑا چلا آیا تھا۔

" ابے کہیں وہ پھر غصّے میں مس ہٹلر کے پاس تو نہیں پہنچ گیا۔" الفاظ منہ سے ادا ہی ہوئے تھے کہ تبھی سامنے سے مسکراتے ہوئے یوسف ان کے پاس چلا آیا۔

" خیریت تو ہے بھائی؟ اتنی بے عزتی کے بعد بھی مسکرا رہا ہے۔" جنید نے بغور اس کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے پوچھا کہ تبھی وہ لڑکا برگر اور فرائز لیے ان کی ٹیبل پر حاضر ہوگیا۔

" چھوٹے ایک میرے لیے بھی۔" یوسف لڑکے سے کہتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ وہ تینوں حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ جب تینوں کی نظر خود پر محسوس کر کے یوسف جھنجھلا گیا۔

" کیا اُلو کی طرح گھورے جا رہے ہو۔"

" تو پھر تو ہی بتا دے ماجرا کیا ہے؟ " نوید اسے گھورتے ہوئے بولا۔ جسمین سے معافی مانگنے والی بات یوسف نے کل رات ہی اسے فون پر بتا دی تھی۔ جس کے بعد سے نوید کی ناراضگی بھی دور ہو گئی تھی۔

" کچھ نہیں ہے۔ آخر تم لوگ جاننا کیا چاہ رہے ہو؟ " یوسف نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

" ہم یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں۔ اتنی بے عزتی کے بعد بھی تجھے غصّہ نہیں آیا؟ "

" الٹا مسکراہٹ تو دیکھو بابے میاں کی۔" جنید کی بات حذیفہ نے بیچ میں ہی اچک لی۔

" کچھ بھی نہیں ہے تم لوگ اپنی اوور ایکٹنگ بند کرو اور مجھے سکون سے کھانے دو۔"

یوسف نے انہیں لتاڑا ساتھ ہی پاس آتے لڑکے کے ہاتھ سے برگر کی پلیٹ تھام کر اس کے ساتھ بھرپور طریقے سے انصاف کرنے لگا۔

" ویسے آج لیٹ کیوں ہوگئے؟ " نوید نے یاد آنے پر پوچھا۔

" کچھ نہیں بس بائیک خراب ہو گئی تھی راستے میں۔" یوسف سرسری انداز میں بولتا واپس پلیٹ پر جھک گیا۔

" ویسے مس جسمین نے تجھے پاس کیسے کر دیا؟ " کل سے مچلتا ذہن میں سوال اب کے جنید کی زبان پر آ ہی گیا۔

" جاکر مس جسمین سے ہی پوچھ لے۔"

جسمین کے نام پر امڈ آنے والی مسکراہٹ کو بروقت دبا کر وہ دانت پیستے ہوئے بولا اور اٹھ کر تیزی سے کینٹین سے باہر نکل گیا۔ مزید ان کے ساتھ بیٹھنا پیروں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے برابر تھا۔

" دلا دیا نا غصّہ اُسے۔" نوید نے رکھ کر جنید کے سر پہ ایک ہاتھ مارا۔ جس پر جنید اسے گھوری سے نوازتا اپنا سر سہلا کر رہ گیا۔

۔*********۔

یونی سے واپس آنے کے بعد جسمین کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔ کافی دیر سونے کی کوشش کرتی وہ بےچینی سے کمرے میں لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی۔ آنکھیں بند کرتے ہی یوسف کی وہ جزبے لٹاتی نظریں بار بار اس کے ذہن کے پردے پر اُبھر رہی تھیں۔ جنہیں جھٹک کر وہ کچھ دیر آرام کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔

" اُف!! " تھک ہار کر وہ اُٹھ بیٹھی۔

" کیا مصیبت ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ مجھے یوسف سے اس بارے ميں بات کرنی ہوگی۔ مگر کہوں گی کیا؟ اُس نے بھی تو ابھی کچھ نہیں کہا یا شاید میں ہی کچھ غلط سوچ رہی ہوں۔ ہاں شاید ایسا ہی ہے میں ہی بلاوجہ سر پر سوار کر رہی ہوں۔"

خود کو دھوکہ دیتی وہ ایک بار پھر یوسف کی نظروں کو جھٹلاتے ہوئے خود کو مطمئن کرنے لگی۔

" میں۔۔ میں اب اُس سے دور ہی رہوں گی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ جب میں اُسے کچھ بولوں گی ہی نہیں تو وہ بھی مجھ سے الجھے گا نہیں۔"

خود سے بڑبڑاتی وہ بیڈ پر پڑا اپنا دوپٹہ اُٹھا کر اچھے سے اوڑھتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اب جب نیند آنی ہی نہیں تھی تو کیوں نہ فائزہ بیگم کا ہی کچھ کام میں ہاتھ بٹا دیا جائے۔

۔*********۔

وقت کا کام ہے گزر جانا اور وہ پر لگا کر تیزی سے گزرتا جا رہا تھا۔ جسمین نے یوسف کی حرکتوں پر ٹوکنا چھوڑ دیا تھا۔ کچھ جسمین کی یوسف کیلئے ناپسندیدگی بھی تھی۔ کچھ ان کے مابین یوسف کے جزبات بھی۔

جہاں یونی کے پہلے دن سے وہ یوسف کے رویے سے اُسے ناپسند کرتی تھی۔ وہیں اب یوسف کے جزبے لٹاتی نظروں سے پریشان رہنے لگی تھی۔

جسمین کو دیکھتے ہی جو چمک اس کی آنکھوں میں در آتی تھی۔ وہ کسی اور کو دکھے یا نہ دکھے پر جسمین کو ضروری نظر آجاتی تھی۔

دوسری طرف یوسف تھا۔ جو یونی کے پہلے دن سے ہی جسمین کی طرف کھینچا جا رہا تھا۔ وہیں وہ خود کو جھٹلاتا اب مکمل طور پر اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا۔

نہ چاہتے ہوئے بھی وہ جسمین کو سوچنے لگا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی اپنی نظریں نیچے کر لیتا۔ کہیں دل میں چھپا چور آنکھوں سے عیاں نہ ہو جائے۔ مگر چور تو پکڑا گیا تھا۔ جو خود چیخ چیخ کر اپنے ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔

وہ جو خوبصورتی اور وجاہت میں اپنی مثال آپ تھا۔ وہ ایک قابلِ قبول سی صورت والی کے عشق میں گرفتار تھا۔

" پہلی نظر نے جو تصورِ عشق سے نوازا ہے

رہائی نہیں اس میں کوئی۔۔۔ بس گہرائی تک اُتر جانا ہے "

۔*********۔

" یوسف !! "

وہ چاروں اس وقت کلاس میں بیٹھے لیکچر سن رہے تھے۔ جب نوید نے چہرہ موڑ کر یوسف کو دھیرے سے آواز دی۔

دونوں کہنیوں کو ٹیبل پر ٹکائے، چہرہ ہاتھوں میں دے پوری توجہ سے یوسف سامنے دیکھ رہا تھا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ توجہ لیکچر پر ہے یا لیکچر دینے والی پر۔

" ابے یوسف !! "

اب کے نوید نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔ جس پر یوسف جھنجھلاتا ہوا اس کی طرف مڑا۔

" کیا ہے؟ "

آواز اتنی اونچی تھی کہ جسمین جو کب سے اس کی نظروں کو خود پر برداشت کر رہی تھی موقع ملتے ہی پھٹ پڑی۔

" مسٹر یوسف حیدر آؤٹ !! " وہ دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔

کلاس میں ایک دم سناٹا چھا گیا تھا۔ جہاں پہلے سرگوشیوں میں آوازیں گونج رہی تھیں اب وہاں ایسا سکوت طاری تھا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی دھماکے کی طرح ثابت ہوتی۔

" لیکن مس۔۔۔"

" آئی سیڈ آؤٹ !! "

یوسف کی بات کاٹتے ہوئے ایک بار پھر کہا گیا۔ وہ سر جھکائے کھڑا ہو گیا۔ سب اسٹوڈنٹس حیرت سے کبھی اسے تو کبھی جسمین کو دیکھ رہے تھے۔ یہ بھی پہلی دفعہ تھا کہ کسی ٹیچر نے یوں یوسف کو کلاس سے باہر نکل جانے کو کہا تھا۔ ورنہ جسمین سے پہلے تک وہ ہر ٹیچر کا چہیتا ہی رہا تھا۔

" شاید آپ کو سنائی نہیں دے رہا۔"

ایک بار پھر سناٹے میں آواز گونجی۔ یوسف دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے وہاں سے تیزی سے نکلتا چلا گیا۔

نوید نے شرمندہ سی نظر حذیفہ اور جنید پر ڈالی جو اسے بُری طرح سے گھورنے میں لگے تھے۔

" مجھے کیا پتا تھا ایسا ہو جائے گا۔"

اس نے دھیرے سے احتجاج کیا جبکہ وہ دونوں سر جھٹک کر واپس لیکچر کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔

۔*********۔

وہ دستک دے کر کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی جہانگیر ملک کرسی پر بیٹھے اخبار میں موجود خبروں کو پڑھنے میں مصروف تھے۔ وہ چلتا ہوا ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

" کیا ہوا؟ "

جہانگیر ملک نے اخبار سے نظر ہٹاتے ہوئے سامنے کھڑے بلاج کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو چہرے پر سنجیدگی لیے انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔

" یہ لیں یہ وہ فائل ہے جس میں دلدار خان کے بیٹے کے سارے کرتوت درج ہیں۔"

اس کی بات پر جہانگیر ملک جو پرسکون بیٹھے تھے ایک دم سیدھے ہوکر اسے دیکھنے لگے۔

" یہ سب۔"

فائل ہاتھ میں لیے وہ ایک ایک صفحہ پلٹ رہے تھے جہاں موجود تصویر اور درج معلومات شیراز کی بد کاریوں کی گواہ تھی۔

" اس شخص کو اپنی بیٹی دینے جا رہے تھے آپ۔ وہ تو اچھا ہوا اپنے دوست کی مدد سے میں نے ساری معلومات حاصل کرلی ورنہ نہ جانے میری بہن کا کیا حال ہوتا۔" وہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔

" اُمید کرتا ہوں اس سب کو دیکھنے کے بعد آپ اپنا ارادہ بدل دینگے، بقول آپ کے وہ میری بہن ہی نہیں آپ کی بیٹی بھی ہے۔"

جتا کر کہتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی جہانگیر ملک نے ہاتھ میں پکڑی فائل کو زور سے سامنے دیوار پر دے مارا۔ جس سے تصویریں نکل کر فرش پر ادھر اُدھر بکھر گئی تھیں۔

۔*********۔

جسمین اسٹاف روم میں داخل ہوئی تو یوسف پہلے ہی اس کی ٹیبل کے سامنے رکھی چیر پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے آرام سے بیٹھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی جسمین کا دماغ گھوم گیا۔

" آپ یہاں کیا کر رہے ہیں مسٹر یوسف؟ " ہاتھ میں پکڑی فائل کو ٹیبل پر پٹختے ہوئے وہ غصّے سے گویا ہوئی۔

اسے سامنے دیکھ کر یوسف بھی اس کے مقابل نظریں جھکائے کھڑا ہوگیا۔

" آپ جانتی ہیں میری غلطی نہیں تھی پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا آپ اب تک ناراض ہیں؟ " وہ پوچھ رہا تھا جس پر جسمین مزید بھڑک اُٹھی۔

" ناراض !! میں بھلا آپ سے کیوں ناراض ہونے لگی؟ آپ کوئی مونٹیسوری کے بچے نہیں ہیں۔ جن کو ناراضگی دکھا کر ہوم ورک کروایا جائے۔"

" تو پھر آپ نے مجھے کلاس سے کیوں نکالا؟ " اب کے ضبط سے لال ہوتی نگاہیں اُٹھا کر جسمین کو دیکھا۔

اس کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر جسمین کو وہ دن شدت سے یاد آیا۔

وہ جو یوسف کی نظروں سے تنگ آ کر باز پرس کرنا چاہتی تھی۔ اس کے بدلتے رویے کا پوچھنا چاہتی تھی۔ اب خاموش کھڑی تھی۔ سارے الفاظ زبان پر آکر دم توڑ گئے تھے۔ جسمین نے فوراً اپنی نظریں جھکا لیں۔

" میرے ضبط کا مزید امتحان مت لیں۔" غصّے سے کہتا وہ وہاں رکا نہیں تھا۔

اس کے جاتے ہی گہرا سانس لے کر خود کو پرسکون کرتی جسمین فائل اُٹھا کر وہیں چیر پر بیٹھ گئی۔ ابھی اور بھی بہت کام تھے جو مکمل کرنے تھے۔

" یار یہ مس جسمین بیچارے یوسف کے ہاتھ دھو کر پیچھے کیوں پڑ گئی ہیں؟ "

جنید اور حذیفہ اس وقت نوید کے گھر موجود تھے۔ جب جنید شان سے صوفے پر بیٹھتا ٹی وی کا ریموٹ سنبھالتے ہوئے بولا۔

" اب ایسا بھی نہیں ہے۔ لیکچر کے دوران یوسف کے چلانے کی وجہ سے مس جسمین نے اُسے باہر نکالا تھا۔" نوید نے جسمین کی سائڈ لیتے ہوئے کہا۔

" اور یوسف چلایا کس کی وجہ سے تھا؟ " حذیفہ اور جنید دونوں نے اسے گھور کر دیکھا۔

" ہاں تو مجھے کیا معلوم تھا وہ لیکچر سننے میں اتنا مگن ہے کہ میرے بلانے پر چلا اُٹھے گا۔"

جو کچھ سیکنڈز پہلے جسمین کی حمایت میں بول رہا تھا اب اپنا دفاع کرنے لگا۔

" وہ لیکچر سننے میں مگن نہیں تھا۔ وہ لیکچر دینے والی میں مگن تھا۔"

جنید کی بات حذیفہ اور نوید نے چونک کر اسے دیکھا۔ جبکہ جنید نے ٹانگیں پھیلا کر سامنے ٹیبل پر رکھیں اور مزید صوفے پر پھیل کر بیٹھ گیا۔

" کیا مطلب ہے تیرا؟ " دائیں طرف بیٹھے حذیفہ نے جنید کا گریبان پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی جانب کیا۔

" تم دونوں نے شاید نوٹ نہیں کیا پر میں نے کئیں مرتبہ دیکھا ہے۔"

" کیا؟ " دونوں اشتیاق سے ایک ساتھ بولے۔

" ہٹلر کی نانی (جسمین) کو دیکھتے ہی اپنے بال ایسے سنوارنے لگ جاتا ہے جیسے وہ سیدھا یوسف کے پاس آکر اُس کی وجاہت کے قصیدے پڑھیں گی۔" اس نے کہتے ہوئے یوسف کی طرح اپنے بال پیچھے کیے۔

" اُن کا نام سنتے ہی ایک مسکراہٹ چہرے پر آ جاتی ہے جسے وہ فوراً چھپا جاتا ہے تاکہ کوئی دیکھ نہ لے پر میری زیرک نگاہوں نے سب دیکھ لیا۔"

" بکواس مت کر۔"

اس کی ناٹنکی پر حذیفہ نے بدمزہ ہوتے ہوئے اس کا گریبان چھوڑا۔ جب کے نوید کا دل کر رہا تھا ایک مکا مار کر اس کا جبڑا توڑ دے۔

" بکواس نہیں ہے یہ نوٹ کر لینا آج کل اُس کی حرکتیں ایسے ہی مشکوک ہو گئی ہیں۔"

" کس کی حرکتیں مشکوک ہو گئیں؟ "

پیچھے سے آتی آواز پر تینوں نے چہرہ موڑ کر دیکھا جہاں نورین بیگم ہاتھ میں چائے کی ٹرے لیے کھڑی تھیں ساتھ سینڈوچ بھی موجود تھے۔

" کچھ نہیں امی بکواس کر رہا ہے۔" نوید صوفے سے اُٹھا اور آگے بڑھ کر نورین بیگم کے ہاتھ سے ٹرے تھام لی۔

" بکواس !! میں بکواس نہیں کر رہا جلد ہی سب کو پتا چل جائے گا یوسف میاں کتنے پانی میں ہیں اور۔۔۔"

وہ بول ہی رہا تھا جب حذیفہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر منہ بند کر دیا۔ نورین بیگم بھنویں اچکائے دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔

" یہ کیا بول رہا ہے؟ "

" آہ !!  آج اس نے ضرورت سے زیادہ پڑھ لیا نا تو ہضم نہیں ہو رہا اس لیے بکواس کر رہا ہے۔ آپ جائیں جاکر کام کریں۔" نوید نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور انہیں شانوں سے تھام کر باہر لے گیا تاکہ جنید کوئی اور بکواس ان کے سامنے نہ کر دے۔ ان کے جاتے ہی صوفے پر مکوں اور تھپڑوں کی جنگ چھڑ چکی تھی۔ جس میں جیت حذیفہ کی ہی ہوئی تھی۔

" سالہ !! "

۔*********۔

کمرے میں بیڈ پر لیٹا وہ غصّے سے کھول رہا تھا۔ کس طرح خود پر قابو پا کر وہ اسٹاف روم سے نکلا تھا۔ یہ بس یوسف ہی جانتا تھا۔

" جتنا میں اپنے غصّے پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہوں اتنا ہی مجھے آزما رہی ہیں۔" وہ بڑبڑاتا ہوا بیڈ سے اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

" ایک تو یہ گھر کے کام پتا نہیں عورتیں کیسے کر لیتی ہیں۔"

خود سے کہتا ابھی وہ کچن کی طرف بڑھا ہی تھا کہ حیدر صاحب کے کمرے سے آوازیں آنے لگیں۔ وہ تیزی سے ان کے کمرے کی جانب بڑھا۔

" ابو !! ابو کیا ہوا ہے؟ سنبھالیں خود کو۔"

یوسف تیزی سے حیدر صاحب کی طرف بڑھا جو سینے پر ہاتھ رکھے بمشکل الماری کا سہارا لیے کھڑے تھے۔ تکلیف کے اثار چہرے پر واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے تھے۔

" آپ ادھر بیٹھیں میں راشد کو بلاتا ہوں۔ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہم ہسپتال چلتے ہیں۔" حیدر صاحب کو بیڈ پر بیٹھاتا وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔

حیدر صاحب نم آنکھوں سے اسے جاتے دیکھنے لگے وقت کے ساتھ ساتھ یوسف کیلئے ان کی فکر بڑھتی جارہی تھی۔ سب سے زیادہ فکر انہیں یوسف کی تنہائی کی تھی۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اس کا ہنستا بستا گھر دیکھنا چاہتے تھے۔ تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ ان کے بعد ان کا بیٹا تنہا نہیں رہے گا کوئی ہوگا جو اس کے دکھ درد میں شامل ہو گا۔ اس کی خوشیوں کا شریک ہو گا۔ پر وہ نہیں جانتے تھے آنے والے وقت میں تنہائی کا ایک طویل عرصہ ان کے بیٹے کا مقدر بنے والا ہے۔

۔*********۔

" سالے ہمیں بتا نہیں سکتا تھا انکل کی طبیعت خراب ہے؟ اگر میں تجھے فون نہیں کرتا تو اب بھی ہمیں پتا نہیں چلتا۔" نوید غصّے سے یوسف کا گریبان تھامے غرایا۔

تھوڑی دیر پہلے ہی نوید نے یوسف کو کال کری تھی جس پر یوسف نے روتے ہوئے حیدر صاحب کی طبیعت سے لے کر ہسپتال آنے تک کی ساری بات اس کے گوش گزار کردی تھی۔ جسے سنتے ہی وہ تینوں دوڑے چلے آئے تھے۔

" مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کیا کروں ڈاکٹر کا کہنا ہے ابو کو میجر اٹیک ہوا ہے اور اور۔۔۔"

مزید کچھ کہنا مشکل ہو گیا وہ روتے ہوئے سیدھا نوید کے گلے سے لگ گیا۔ پیچھے کھڑے جنید اور حذیفہ کی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں۔

" اکیلے لایا ہے انکل کو؟ " حذیفہ نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔

" نہیں راشد تھا ساتھ ابھی کسی کام سے اپنے گھر گیا ہے۔" یوسف کہتے ہوئے نوید سے الگ ہوا اور بہتی آنکھوں سے آپریشن تھیٹر کے بند دروازے کو دیکھنے لگا۔

" فکر نہیں کر انکل بالکل ٹھیک ہو جائیں گے تو بس دعا کر، چل ہم دونوں چل کر نماز پڑھتے ہیں۔ جنید اور حذیفہ ہیں انکل کے پاس چل۔"

" ہاں یوسی تو جا ہم دونوں ہیں یہاں پر جیسے ہی کوئی خبر ملے گی فوراً تجھے فون کردیں گے۔" جنید بھی نوید کی ہاں میں ہاں ملاتا بولا۔

" چل میرے ساتھ۔"

نوید اُسے زبردستی کھینچتے ہوئے ہسپتال سے باہر لے گیا۔ یوسف کو یوں روتا دیکھنا ان تینوں کی برداشت سے باہر تھا اب بس یہ ایک ہی طریقہ تھا جس سے یوسف کو سنبھالا جا سکتا تھا۔

بے شک اُس رب کے آگے جھکنے میں ہی سکون ہے۔ جس کے آگے جھک کر انسان ہارتا نہیں بلکہ جیت جاتا ہے۔

۔*********۔

جہانگیر ملک اس وقت غصّے سے بھپرے بیٹھک میں موجود تھے۔ سامنے ہی کرسیوں پر دلاور اور خاور بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر پہلے ہی وہ تینوں زمینوں پر سے واپس لوٹے تھے۔ اس دوران ہی جہانگیر ملک نے بلاج اور شیراز کے خلاف سارے ثبوتوں کا بتا دیا تھا۔ جس کے بعد خاور اور دلاور کا غصّہ بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

" یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ مرد کے شادی سے پہلے ایسے تعلقات عام بات ہے ایک بار جسمین کی شادی شیراز سے ہوجاتی تو وہ سب چھوڑ دیتا بابا سائیں۔ آپ کو اس معاملے میں بلاج کو بیچ میں نہیں لانا چاہیئے تھا بلکہ فیصلہ سنانا چاہیئے تھا۔" دلاور غصّے سے بھپرا گویا ہوا۔

" ہمیں کیا معلوم تھا وہ یوں اُس شیراز کا اعمال نامہ ہمارے منہ پر دے مارے گا۔" غصّے سے کہتے وہ سگار سے کشش لینے لگے۔

" اس سے ہماری پارٹی کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ دلدار خان لوگوں کو بھڑکا کر اپنی پارٹی کے حق میں استعمال کرے گا اور ہم بس ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔" خاور جہانگیر ملک کے غصّے کو اور ہوا دیتے ہوئے بولا۔

" ہم ایسا کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ دلدار خان کو خود پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیں گے۔" وہ غرائے۔

دلاور نے ایک نظر خاور کو دیکھا اور گلا کھنگار کر آگے کو جھکا۔

" میں تو کہتا ہوں بابا سائیں۔ آپ کو بلاج کی سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جسمین کا رشتہ شیراز سے طے کر ہی دیں۔"

" یہ کیا بولا رہے ہیں دلاور بھائی ہوش میں ہیں؟ " خاور حیرت سے اسے دیکھنے لگا جبکہ جہانگیر ملک بھڑک اٹھے۔

" ہاں!! دماغ درست ہے تمہارا؟ بلاج کو معلوم ہوا تو گھر میں طوفان کھڑا کر دے گا۔ یہ اب ناممکن بات ہے۔ جسمین کی شادی اب کبھی دلدار خان کے بیٹے سے نہیں ہوسکتی۔"

" پر بابا سائیں۔۔۔"

" بس جاؤ اب یہاں سے ہم کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتے ہیں۔" دلاور کی بات کاٹتے ہوئے انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ مزید اس موضوع پر بحث بیکار تھی۔

وہ اچھے سے جانتے تھے۔ جسمین کے معاملے میں بلاج کسی بھی حد تک گزر جانے والا انسان تھا۔ اُس کی دنیا ماں بہن کے گرد ہی گھومتی تھی۔ جن کیلئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔

۔*********۔

بلاج آپریشن تھیٹر سے باہر نکلا تو سامنے ہی دو لڑکے بےچینی سے آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑے نظر آئے۔ ان میں وہ لڑکا نہیں تھا۔ جو مریض کو یہاں لے کر آیا تھا۔

بلاج ان پر ایک نظر ڈالتا آگے بڑھنے لگا تھا کہ تبھی ان میں سے ایک لڑکا اس کے پاس آیا۔

" ڈاکٹر اب کیسے ہیں حیدر انکل؟ " جنید نے بیتابی سے پوچھا۔

" آپ کون اور وہ کہاں ہیں جو پیشنٹ کے ساتھ آئے تھے؟ " پلٹ کر سوال کیا گیا۔

" جی وہ۔۔۔"

جنید بول ہی رہا تھا جب تیزی سے یوسف بھاگتا ہوا ان کے پاس آیا پیچھے ہی نوید بھی تھا۔

" ڈاکٹر کیسے ہیں میرے ابو وہ ٹھیک تو ہیں نا بولیں کچھ ہوا تو نہیں؟ "

کس قدر بیتابی سے وہ پوچھ رہا تھا۔ بلاج کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

" ینگ مین !!  آپ کے فادر بالکل ٹھیک ہیں۔ بس طبیعت دوبارہ نہ بگڑے اس لیے احتیاط کرنی پڑے گی۔"

" مبارک ہو یوسف !! " تینوں خوشی سے یوسف سے لپٹ چکے تھے۔

بلاج مسکرا کر انہیں دیکھنے لگا۔ ایک خواہش دل میں جاگی تھی۔ جس کا ممکن ہونا ناممکن تھا۔

" ڈاکٹر میں ابو سے مل سکتا ہوں؟ "

یوسف واپس بلاج کی طرف متوجہ ہوا۔ جس پر بلاج بھی اپنی سوچوں سے باہر نکل آیا۔

" نہیں ابھی نہیں پیشنٹ کو میجر اٹیک پڑا تھا اس لیے ابھی اُنہیں " آئی سی یو " میں انڈر آبزرویشن رکھیں گے اُس کے بعد وارڈ میں شفٹ کر دینگے۔"

یوسف کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیشہ ورانہ انداز میں کہتا بلاج وہاں سے فوراً چلا گیا جبکہ یوسف اور باقی تینوں ایک بار پھر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے چل دیئے تھے۔

۔*********۔

رات کے کھانے کے بعد فائزہ بیگم جسمین کے ساتھ کمرے میں چلی آئی تھیں اور اب دونوں بیڈ پر بیٹھیں باتوں میں مصروف تھیں جب بلاج بھی ان کے پاس چلا آیا۔

" May i come in? Two most beautiful ladies in the world !! "

" آجاؤ بیٹا۔" فائزہ بیگم اسے دیکھ کر مسکرا دیں۔

" اور کیا باتیں ہو رہی ہیں میرے بغیر؟ " وہ مسکرا کر پوچھتا ان کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔

" میں جسمین کو شیراز کے رشتے کا بتا رہی تھی۔" فائزہ بیگم اب کے سنجیدہ انداز میں بولیں۔

" امی آپ سے کہا تھا نا اسے نہ بتائیں۔" وہ بھی ایک دم سنجیدہ ہوگیا۔

" کوئی بات نہیں بھائی ویسے بھی اللّٰه کا شکر ہے آپ کو سب سچائی پہلے ہی معلوم ہوگی۔" جسمین نے مسکرا کر کہتے ہوئے اس شانے پر سر رکھ دیا۔

" ویسے پتا ہے امی آج ہسپتال میں میں نے ایک لڑکے کو دیکھا اپنے والد کو لے کر آیا تھا۔ آج تک میں نے اتنا خوبصورت مرد نہیں دیکھا۔ اُسے دیکھتے ہی میرے دل میں خواہش جاگی کے اپنی جسمین کیلئے بھی ایسا ہی کوئی لڑکا مل جائے۔"

وہ اپنے کندھے سے لگی جسمین کے سر پر ہاتھ پھیرتا فائزہ بیگم سے مخاطب ہوا۔ انداز سے صاف ظاہر تھا وہ جسمین کو تنگ کرنے کیلئے کہہ رہا ہے۔

جسمین نے سر اُٹھا کر خفگی سے بلاج کو دیکھا اور بیڈ سے فوراً اُٹھ گئی۔

" مجھے نیند آرہی ہے۔" وہ مڑی جب فائزہ بیگم کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔

" ویسے کیا نام تھا لڑکے کا؟ " وہ اپنی مسکراہٹ دبائے پوچھ رہی تھیں۔

" یوسف نام تھا۔"

کمرے سے باہر جاتی جسمین کے قدم اس نام پر ایک دم سست ہوئے۔ نظروں کے سامنے ایک سایہ سا لہرایا کہ تبھی بلاج کی اگلی بات اسے سوچوں کی دنیا سے باہر لے آئی۔

" پر آپ تو جانتی ہیں نا۔ بابا سائیں کبھی جسمین کی شادی برادری سے باہر نہیں کرینگے۔ اس لیے یہ خواہش بس دل میں ہی رہ گئی۔"

بلاج مزید کچھ کہہ رہا تھا۔ مگر جسمین سر جھٹکتی تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ اچھے سے اپنے گھر کی رسم و رواج اور طور طریقوں کو جانتی تھی۔ جن کی خلاف ورزی کرنے کا انجام موت کے سوا کچھ نہ تھا۔

آج صبح سے موسم ابر آلود ہو رہا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے ماحول کو خوشگوار بنا رکھا تھا۔ ایسے میں وہ ہاتھوں میں فائلز پکڑے، جامنی رنگ کے سادہ شلوار قمیض کے ساتھ دوپٹہ سر پر لیے، سیاہ کام دار چادر کو اپنے گرد لپیٹے سوچوں میں گم چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی یونی کے پارکنگ ایریا سے نکل کر اندر کی جانب بڑھ رہی تھی۔

پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا اس دوران یوسف یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔ اُس کی غیر حاضری کی وجہ نوید نے جسمین کو پہلے دن ہی بتا دی تھی۔ یہ سوچ کر کہ کہیں یوسف کے یونی آنے کے بعد مس جسمین اُسے پھر پنیش نہ کردیں۔

ادھر جسمین جسے بلاج کے منہ سے یوسف کا نام سن کر شبہ ہوا تھا نوید کی بات پر یقین میں بدل گیا تھا۔ لیکن فرق کیا پڑنا تھا؟ یہاں تو ہر بات بےمعنیٰ تھی۔

یونہی سوچوں میں گم نظریں نیچے جھکائے وہ کوریڈور میں چلتی اسٹاف روم کی جانب جا رہی تھی جب کسی نسوانی آواز پر ٹھٹھک کر رکی۔ نظریں اُٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی زرا فاصلے پر ایک لڑکی کھڑی اپنے سامنے کھڑے لڑکے سے باتیں کر رہی تھی۔ دیکھنے سے ہی وہ کسی امیر گھرانے کی معلوم ہو رہی تھی مگر سامنے کھڑا لڑکا۔۔۔ جسمین نہ چاہتے ہوئے بھی وہیں رک گئی۔

" تمہیں کس بات کا غرور ہے آخر؟ یونی کا ہر لڑکا مجھ سے بات کرنے کیلئے مرتا ہے اور تم تم مجھے ٹھکرا رہے ہو۔ آخر تمہارے پاس ہے ہی کیا یوسف؟ " وہ غصّے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ غرائی۔ آواز اتنی اونچی تھی کہ چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی جسمین تک باآسانی پہنچ گئی۔

" صحیح کہا محترمہ انوشے صاحبہ !! میرے پاس کچھ نہیں پھر کیوں آپ میرے پیچھے پڑی ہیں؟ آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اپنی خوبصورتی، اپنے روپے پیسے سے آپ دنیا کی ہر چیز حاصل کر سکتی ہیں۔"

سارے لحاظ بالائے طاق رکھ کر، ارد گرد سے بے نیاز وہ دونوں ایک دوسرے سے لڑنے میں لگے تھے۔ ایک قید کرنے کیلئے لڑ رہا تھا تو دوسرا اس قید سے رہائی کیلئے لڑ رہا تھا۔ جسمین حیرت سے انہیں دیکھتی رہی۔

" میں تم سے محبت کرتی ہوں۔" وہ تقریباً چلائی۔

" نہ نہ آپ مجھ سے محبت نہیں کرتیں۔ بس ضد ہے حاصل کرنے کی۔ لیکن میں ان مردوں میں سے نہیں جو روپے پیسے کے لالچ میں کسی سے بھی کھیل جائیں۔ مجھ سے دور رہیں آپ ایک اچھی لڑکی ہیں اور ایک لڑکی ہونے کے ناطے باعثِ احترام بھی۔ اس لیے میں آپ سے کوئی بدتمیزی نہیں کرنا چاہتا۔" ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے وہ اپنے غصّے پر ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

" تم میری محبت کو ضد کہہ رہے ہو۔" انوشے نے اس کا گریبان پکڑنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی یوسف نے اس کے ہاتھوں کو جھٹک دیا۔

" اچھا تو یہ ضد نہیں۔ پھر چلیں ابھی ہم دونوں جا کر نکاح کر لیتے ہیں اور مجھے اُمید ہے کہ آپ کی یہ محبت ساری زندگی میری اس غریبی کے ساتھ باخوشی سمجھوتہ کر لے گی۔" یوسف نے چیلنج کرتی نظریں اس کی آنکھوں میں گاڑیں۔

" کیا مطلب ہے تمہارا؟ " وہ ایک دم گڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی۔

" کیا مطلب کیا؟ محبت میں نکاح نہ ہو تو سب بیکار ہے اور مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ آپ کے گھر والے اتنے آزاد خیال تو ہونگے کہ ہمارے نکاح کو قبول کر لیں۔"

یوسف نے اس کے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اس وقت وائٹ ٹی شرٹ اور بلیک ٹائٹس میں ملبوس تھی۔ انوشے اس کا مطلب سمجھتے ہی بھڑک اُٹھی۔

" تم اب میرے کپڑوں پر انگلی اُٹھا رہے ہو۔"

" نہیں میں آپ لوگوں کی آزاد خیالی بتا رہا ہوں۔" وہ دو بدو بولا۔

" دیکھو میں تم سے ابھی نکاح نہیں کرسکتی۔۔۔"

" بس !! میں کوئی آپ کے چند دن کی عیاشی کا سامان نہیں ہوں۔ ایسی محبت پر سو بار لعنت جس میں نکاح نہ ہو۔"

وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا اپنی بات کہہ کر جانے کیلئے مڑا ہی تھا کہ پیچھے کھڑی جسمین کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رکا۔

اس کی ایک جھلک نے تپتے صحرا میں شبنم کے قطروں کا کام کیا تھا۔ وہ کھلے دل سے مسکرایا اور عین اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

" آپ کے ابو کی طبیعت کیسی ہے؟ " جسمین سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔ البتہ یوسف کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔

" ٹھیک ہے !! اب سب ٹھیک ہے مس (وقفہ) جسمین۔"

یوسف نے کہتے ہوئے ایک نظر اس کے فائلز پکڑے ہاتھوں پر ڈالی دوسری اس کے سنجیدہ چہرے پر۔

" لائیں میں لے کر چلتا ہوں۔"

کچھ بھی کہنے کا موقع دیئے بغیر وہ اس کے ہاتھ سے فائلز لے کر اسٹاف روم کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ وہ کھڑی یہ سوچ رہی تھی کہ۔۔۔ آیا یہ نام کا اثر ہے یا تربیت کا؟ کہ آج تک کوئی زلیخہ یوسف کو تسخیر نہ کر پائی۔

" کون کہتا ہے کہ مرد کسی عورت کو "نہ" نہیں کہہ سکتا

مرد اگر کردار والا ہو تو کوئی اسے "عام" نہیں کہہ سکتا "

۔*********۔

" سارا پیسہ تو انکل کے علاج میں لگ گیا اب تو سمسٹر کی فیس ادا کیسے کرے گا؟ "

کلاس کے بعد وہ چاروں لائبریری میں بیٹے اسائنمنٹ پر کام کر رہے تھے جب جنید نے یاد آنے پر پوچھا۔

" کر لوں گا کچھ ابو کی طبیعت سے بڑھ کر نہیں تھے وہ پیسے۔" کتابوں میں سر دیئے وہ سرگوشی نما آواز میں بولا۔

" میرے پاس کچھ سیونگز رکھی ہیں۔" نوید نے اس کے کان میں گھس کر بتایا۔

" نہیں میں دیکھ لوں گا۔ اس کی ضرورت نہیں۔" یوسف نے فوراً انکار کیا۔ لاکھ چاروں میں گہری دوستی سہی پر وہ اپنی خوداری پر کہاں حرف آنے دیتا۔

" لیکن یوسف۔۔۔"

" مس جسمین آئی ہیں۔"

ابھی نوید بول ہی رہا تھا جب حذیفہ کی بات پر دونوں نے سر اُٹھا کر لائبریری کے دروازے کی طرف دیکھا۔

ہاتھ میں پیپر پکڑے وہ اپنے ساتھ کھڑے اسٹوڈنٹ سے دھیرے سے کچھ بول رہی تھی۔ جس پر وہ لڑکا سر ہلاتا کتابوں کی جانب بڑھا۔

نوید نے چہرہ موڑ کر یوسف کو دیکھا۔ جس کا ہاتھ بےاختیار اپنے بالوں کی طرف گیا تھا۔ نوید کے زہن میں ایک دم جنید کی بات گھوم گئی۔

" ہٹلر کی نانی کو دیکھتے ہی اپنے بال ایسے سنوارنے لگ جاتا ہے جیسے وہ سیدھا یوسف کے پاس آکر اُس کی وجاہت کے قصیدے پڑھیں گی۔"

نوید نے زرا کا زرا چہرہ موڑ کر اپنے سامنے بیٹھے جنید کو دیکھا جس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں (Told you) والے تاثرات تھے۔

نوید نے چہرہ چھت کی طرف کیا اور نفی میں سر ہلاتا واپس کتابوں میں جھک گیا۔

" اس کا کچھ نہیں ہو سکتا !! "

۔*********۔

بلاج گاڑی سے ٹیک لگائے پندرہ منٹ سے یونیورسٹی کے سامنے کھڑا جسمین کا انتظار کر رہا تھا۔ آج وہ گھر پر ہی موجود تھا اس لیے خود ہی جسمین کو لینے چلا آیا تھا۔

" کہاں رہے گئی۔"

ابھی گھڑی پر نظر ڈال کر اس نے جسمین کو کال کرنے کے لیے موبائل جیب سے نکالا ہی تھا کہ سامنے سے جسمین آتی دکھائی دی۔ اس نے موبائل واپس جیب میں رکھ لیا۔

" السلام عليكم !! "

" وعلیکم السلام!! کتنی دیر لگا دی کب سے کھڑا انتظار کر رہا ہوں۔" سلام کا جواب دیتے ہی وہ فوراً بولا۔

" سوری بس کام سمیٹتے سمیٹتے دیر ہوگئی۔" مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس نے وضاحت پیش کی۔

" اچھا چلو چلیں۔ راستے میں تمہیں آئسکریم بھی کھلاتے ہیں۔"

بلاج نے کہتے ہوئے جسمین کیلئے ابھی گاڑی کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے پکارا۔

" مس جسمین !! "

۔*********۔

یوسف جو اسائنمنٹ مکمل کرنے کے بعد لائبریری سے نکل کر پارکنگ ایریا کی طرف آرہا تھا۔ یونی کے گیٹ کے باہر کھڑی جسمین کو دیکھا جو کسی مرد کے ساتھ کھڑی مسکرا کر بات کر رہی تھی۔ وہ ایک منٹ کو اس کی مسکراہٹ میں کھو سا گیا۔ پہلی دفعہ وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس کی معصوم مسکراہٹ، اس وقت یوسف کو دنیا کا یہ حسین ترین منظر لگا تھا۔ وہ ابھی اسی منظر میں کھویا تھا کہ زہن میں ایک دم کچھ کلک ہوا۔

وہ کسی مرد کے ساتھ کھڑی تھی اور وہ مرد اُس کیلئے گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا۔ یوسف تیزی سے ان کی جانب بڑھا۔ کچھ چھین جانے کا ڈر، خوف، غصّہ، بےچینی بیک وقت وہ کئی کیفیت کا شکار ہوا تھا۔

" مس جسمین !! "

آواز پر دونوں نے مڑ کر یوسف کی طرف دیکھا جو بلیک پینٹ اور ریڈ چیک والی شرٹ میں ملبوس چہرے پر سنجیدگی لیے کھڑا تھا۔

" مسٹر یوسف رائٹ؟ " بلاج اسے دیکھتے ہی پہچان گیا بھلا یہ چہرہ بھی کوئی بھول سکتا تھا۔

" جی بھائی یہ میرے اسٹوڈنٹ ہیں یوسف حیدر۔" جسمین جو یوسف کے پکارنے پر گھبرا گئی تھی فوراً بولی۔ کہیں بلاج یوسف کو لے کر مشکوک نہ ہوجائے۔

اُدھر جسمین کے منہ سے بلاج کیلئے بھائی لفظ سن کر یوسف کے دل کی دنیا میں قوس و قزح کے رنگ کھل اُٹھے تھے۔ وہ فوراً بلاج سے مصافحہ کرنے کے لیے آگے بڑھا۔

" السلام عليكم ڈاکٹر بلاج !! "

" وعليكم السلام !!  کیسی ہے اب آپ کے ابو کی طبیعت؟ " بلاج نے مسکرا کر پوچھا۔

" جی بہتر میں لے کر آؤں گا انہیں چیک اپ کیلئے۔" جواباً یوسف بھی مسکرایا۔

" کیوں نہیں ضرور لے کر آنا اب اُنہیں کافی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔"

" جی۔" یوسف نے اثبات میں سر ہلایا۔

" ویسے آپ کو کچھ کام تھا اپنی مس جسمین سے؟ " بلاج پوچھ رہا تھا۔ جبکہ یوسف کا زہن تو " اپنی " لفظ پر ہی اٹک کے رہ گیا تھا۔ وہ بے اختیار ہو کر جسمین کو دیکھنے لگا۔ جس پر جسمین مزید گڑبڑا گئی۔

" مسٹر یوسف؟ "

وہ چونکا اور خود کو کمپوز کرتے ہوئے بلاج کی طرف دیکھا۔

" جی اسائنمنٹ کے متعلق کچھ پوچھنا تھا پر اب میں کل پوچھ لوں گا۔" اپنی عادت کے برخلاف جا کر اس نے جھوٹ بولا۔

" چلیں ٹھیک ہے اب ہم بھی چلتے ہیں ویسے ہی دیر ہو گئی ہے۔ چلیں جسمین؟ "

یوسف سے کہتا وہ جسمین کی طرف متوجہ ہوا۔ جو اثبات میں سر ہلاتی فوراً گاڑی میں بیٹھ گئی۔

" اچھا یوسف چلتا ہوں۔"

بلاج نے ایک بار پھر یوسف سے مصافحہ کیا اور خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر آکر گاڑی اسٹارٹ کرتا آگے بڑھا لے گیا۔

یوسف وہیں کھڑا گاڑی کو دور جاتے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔

" کیا ہوگیا ہے مجھے؟ "

۔*********۔

" تم نے پہلے نہیں بتایا تم یوسف کو جانتی ہو؟ " بلاج گاڑی ڈرائیو کرتے پوچھ رہا تھا۔

جسمین ایک دم چوکنا ہوئی۔ وہ ایسا کچھ نہیں ہونے دینا چاہتی تھی جس کی وجہ سے اس کے بھائی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔

" بھائی جب آپ نے بتایا تھا تو تب مجھے پتا نہیں تھا آپ کس یوسف کی بات کر رہے ہیں۔ اُس کے بعد یوسف بھی ایک ہفتے تک یونیورسٹی نہیں آیا تھا تو مجھے تب معلوم ہوا کہ یہ وہی یوسف ہے۔" اس نے وضاحت پیش کی۔

" اچھا پھر بعد میں تو بتانا چاہیئے تھا۔"

" وہ بھائی یونی میں سمسٹر شروع ہو رہے ہیں تو مصروفیات کی وجہ سے بالکل میرے دماغ سے نکل گیا۔"

" اچھا چلو کوئی بات نہیں۔ ویسے کافی اچھا لڑکا ہے۔" بلاج روڈ پر نظریں جمائے مسکرا کر بولا۔

" جی۔" وہ محض اتنا ہی کہہ سکی۔

زندگی عجیب ہوتی جا رہی تھی جتنا وہ کوشش کرتی یوسف سے دور رہنے کی وہ اتنا ہی اس سے جڑتا جا رہا تھا اور اب تو بلاج سے بھی اس کا سامنا ہوگیا تھا۔

" یااللّٰہ بس میری وجہ سے میرے بھائی کا سر مت جھکنے دینا۔" دل ہی دل میں اپنے رب سے مخاطب ہوتی وہ شیشے کے اُس پار دیکھنے لگی۔ ایک تھکن تھی جو اس پر نہ جانے کب سوار ہو گئی تھی۔

۔*********۔

رات کے سائے پر پھیلائے چاروں سوں پھیل چکے تھے۔ ایسے میں وہ حیدر صاحب کے کمرے میں بیٹھا انہیں دوائیں دے رہا تھا۔ دفعتاً بیرونی دروازے پر لگی بیل بج اُٹھی۔

حیدر صاحب کو آرام کرنے کی ہدایت دیتا وہ کمرے سے باہر نکل کر دروازے کی جانب بڑھا۔

" اس وقت کون آگیا۔"

جھنجھلا کر کہتا ابھی اس نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ سامنے دانت نکالے وہ تینوں کھڑے نظر آئے۔

" کیوں آئے ہو؟ "

" بے مروت انسان !! کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی لحاظ ہوتا ہے۔ تو نے تو سب بیچ کھایا۔ ہمیں اندر بلانے کے بجائے پوچھ رہا ہے کیوں آئے۔" نوید نے اسے شرم دلانی چاہی جو بدقسمتی سے یوسف کو چھو کر بھی نہیں گزری۔

" ابو سو رہے ہیں آرام سے بولو۔"

یہ تو اچھی بات ہے۔ چل پھر شامی چاچا کے ہوٹل پر چل کر بات کرتے ہیں۔" کہتے ہی جنید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کھینچ لیا۔

" کیا مسئلہ ہے؟ دروازہ تو بند کرنے دو۔"

یوسف نے جھنجھلاتے ہوئے ہاتھ چھڑوایا اور مڑ کر دروازہ بند کرنے لگا۔ کنڈی لگا کر وہ چاروں دو گلی چھوڑ کر شامی چاچا کے ڈھابا نما ہوٹل کی طرف بڑھ گئے۔

رات ہونے کے باوجود بھی یہاں دن کا سا سماں تھا۔ کھلے آسمان تلے لکڑی کی ٹیبلز پر موجود افراد کھانے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے۔ یہاں ہمیشہ مرد حضرات ہی موجود ہوتے تھے۔ البتہ عورتیں اکثر کھانا خرید کر لے جایا کرتی تھیں مگر یہاں بیٹھ کر نہیں کھاتی تھیں۔

" یہ ٹیبل خالی ہے ادھر آجاؤ۔"

حذیفہ نے ایک ٹیبل کی طرف اشارہ کیا ساتھ ہی آگے بڑھ کر کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا۔ اس کی تقلید کرتے وہ تینوں بھی اس ٹیبل کے پاس جا کر کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

" چھوٹے !! " نوید نے چہرہ موڑ کر وہاں موجود کام کرتے لڑکے کو آواز دی پھر ان کی طرف متوجہ ہوا۔

 کیا منگوائیں؟ " 

" تم لوگوں کو جو کھانا ہے کھاؤ لیکن میں بتا رہا ہوں ایک پھوٹی کوڑی نہیں دوں گا بل خود دینا۔" یوسف نے پہلے ہی ہری جھنڈی دکھائی۔

" ہاں مر مت۔ ہم تینوں دے دیں گے۔"

نوید نے اسے جھڑکا۔ تبھی وہ لڑکا کندھے پر رومال لٹکائے ان کی ٹیبل پر آیا۔

" چار بریانی کی پلیٹ، دو نہاری کی پلیٹ ساتھ میں ریتا سلاد اس کے بعد چائے لے آنا اب جاؤ۔"

کسی کو بھی بولنے کا موقع دیئے بغیر جنید نے فوراً آرڈر دیا ساتھ ہی اُسے چلتا کر دیا۔

" گھور تو ایسے رہے ہو جیسے بریانی نہیں مجھے کھانے کا ارادہ ہو۔" تینوں کی نظریں خود پر جمی دیکھ وہ مزاق اڑانے والے انداز میں کہتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ جبکہ نوید اور حذیفہ اب کے یوسف کی طرف گھوم گئے۔

" کیا ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ " دونوں کی نظریں خود پر دیکھ کر اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

" تم بتاؤ آج کل کیا کر رہے ہو؟ " وہ تینوں اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یوسف کے ماتھے پر بل پڑنے لگے۔

"کیا کہہ رہے ہو؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ صاف صاف بولو کیا بات ہے۔"

"ٹھیک ہے صاف صاف بتاؤ۔ مس جسمین کو پسند کرتے ہو؟ " جنید کے کہنے پر وہ چونک کر باری باری تینوں کو دیکھنے لگا۔ گلے میں گلٹی سی اُبھر کر معدوم ہوگئی۔

" یہ کیا بکواس ہے؟ "

" یہی تو پوچھ رہے ہیں یہ کیا بکواس ہے۔ تم کیا کرتے پھر رہے ہو؟ " نوید اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھورتے ہوئے بولا۔

" دیکھ یوسی مان لے کچھ ایسا ہے تو۔" حذیفہ نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہمت بڑھانی چاہی۔ یوسف نے خاموشی سے سر نیچے جھکا لیا۔

اتنے میں وہ لڑکا ان کا آرڈر لیے ٹیبل کے طرف چلا آیا۔ اس دوران سب خاموشی سے بیٹھے ارد گرد دیکھنے لگے۔ کھانا ٹیبل پر سجا کر وہ لڑکا گیا ہی تھا کہ نوید آگے کو جھکا اور یوسف کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا۔

" یوسی وہ ٹیچر ہیں۔ خود کو یہیں روک لو۔"

" کیا روک لوں ہاں؟ کیا روک لوں؟ " وہ ایک دم بھڑک اُٹھا دور جانے کا خیال ہی اتنا سوہان روح تھا کہ جو اقرار وہ تنہائی میں نہ کر سکا ان تینوں کے سامنے کر رہا تھا۔

" کچھ بھی میرے بس میں نہیں ہے سب خود بخود ہوتا جا رہا ہے۔ میں چاہ کر بھی خود کو روک نہیں پارہ جب تک اُن کی ایک جھلک نہ دیکھ لوں میرے بےچین دل کو آرام نہیں آتا۔ اُن کے منہ سے نکلی باتوں کو خود بخود اپنانے لگا ہوں۔ خود کو اُن کے مطابق ڈھالنے لگا ہوں۔ مجھ میں کچھ بھی تو میرا نہیں رہا جسے میں روک لوں۔" بے بسی سے کہتے اس نے سر ہاتھوں میں تھام لیا۔

وہ تینوں شاکڈ کی سی کیفیت میں اسے دیکھ رہے تھے۔ یہ وہ یوسف تو نہیں تھا۔ جو لڑکیوں کی پرچھائی سے بھی دور بھاگتا تھا۔

" یوسف !! تم پہلے تو ایسے نہیں تھے۔" حذیفہ کو اب بھی یقین نہ آیا۔

" پہلے وہ بھی تو نہیں تھیں۔"

اس کی بات پر حذیفہ خاموش ہوگیا تھا۔ تب جنید نے پوچھا۔

" اب آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ ویسے ہمارے اور اُن کے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے۔"

" پتا نہیں میں ابھی خود بھی کچھ نہیں جانتا۔" اس نے سر اُٹھا کر ان تینوں کو دیکھا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔

" یہ سب تم کھا لینا میں چلتا ہوں ابو گھر پر اکیلے ہیں۔" کچھ بھی کہنے کا موقع دیئے بغیر وہ فوراً وہاں سے نکل گیا۔ جبکہ وہ تینوں ایک دوسرے کو دیکھتے اپنی اپنی سوچوں میں گم ہو چکے تھے۔

۔*********۔

" یوسی وہ ٹیچر ہیں۔ خود کو یہیں روک لو۔" نوید کا اسے روکنا اس کے آگے بڑھتے قدموں کو بھاری کر رہا تھا۔

" یوسف !! تم پہلے تو ایسے نہیں تھے۔" حذیفہ کی بے یقینی میں ڈوبی آواز اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔

" اب آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ ویسے ہمارے اور اُن کے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے۔" جنید کا سوال اسے احساسِ کمتری میں مبتلا کر رہا تھا۔

وہ سن ہوتے دماغ کے ساتھ واپس گھر لوٹا اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا۔ چاروں طرف بس اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔ ایسا ہی اندھیرا اسے اپنی آنے والی زندگی میں بھی نظر آتا دکھائی دیا۔

" کیوں اللّٰه کیوں؟ "

یوسف چلتا ہوا آگے آیا اور بیڈ کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گیا۔

" کیا یہ اتنا ہی ناممکن ہے؟ کیا میں اس قابل نہیں کہ اُن کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ کیا میں اس لائق نہیں؟ "

کمرے کی کھڑکی سے اندر آتی مدہم سی چاند کی روشنی سیدھا اس چہرے پر پڑ رہی تھی۔ تب ہی ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر بہہ گیا۔

" اگر وہ میرے نصیب میں نہیں، اگر یہ اتنا ہی ناممکن ہے، تو پھر یہ محبت کیوں؟ نئی زندگی کا تصور کیوں؟ یہ تصورِ عشق کیوں؟ اللّٰه آخر کیوں؟ "

آنکھیں سختی سے میچ کر سر اپنے گھٹنوں سے ٹکا دیا۔ آخر تھا ہی کیا اس کے پاس کہ کچھ کھونے کی طاقت رکھتا۔ ایک بیمار باپ، تین دوست اور یکطرفہ محبت۔

۔*********۔

نوید گھر میں داخل ہوا تو پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا کہ تبھی بائیں ہاتھ پر بنے کمرے کی لائٹ جلتی نظر آئی۔ اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ ترک کرکے وہ بائیں ہاتھ پر بنے کمرے کی جانب مڑ گیا۔ ابھی دروازے پر ہاتھ ہی رکھا تھا کہ وہ کھلتا چلا گیا۔ نوید اندر بڑھا کہ سامنے ہی بیڈ پر وہ دشمن جاں بیٹھی نظر آئی۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑوں پہنے، آنکھوں پر چشمہ لگائے وہ کوئی کتاب پڑھنے میں مشغول تھی۔

" تم پھر آگئیں؟ "

آواز کانوں میں پڑتے ہی صوبیہ نے سر اُٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا ساتھ ہی دھیرے سے مسکرائی۔

" مجھے اچھے سے معلوم ہے کہ مجھے اس گھر میں دیکھتے ہی آپ کے دل میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیں۔" وہ بیڈ سے اُٹھی اور چلتی ہوئی عین اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

" اس لیے یہ اٹیٹیوڈ کسی اور کو دکھانا۔"

"صوبیہ میں ابھی مذاق کے موڈ میں نہیں۔" نوید جو پہلے ہی یوسف کی وجہ سے پریشان تھا۔ اس کی بات پر مزید چڑ گیا۔

" کیا ہوا ہے آپ کو؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ " صوبیہ نے ایک دم پریشان ہو کر اس کا ماتھا چھوا۔

" بخار تو نہیں ہے پھر کیا ہوا ہے؟ " اپنے لیے اس کی اتنی فکر دیکھ کر نوید ایک دم ڈھیلا پڑا اور جا کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ صوبیہ بھی اس کے ساتھ ہی بیڈ پر جا بیٹھی۔

" کیا ہوا ہے کچھ بتائیں گے بھی؟ "

" یوسف !! "

" ہاں !! یوسف بھائی کیا ہوا اُنہیں؟ ٹھیک تو ہیں؟ " وہ الجھی۔

" دماغ خراب ہو گیا ہے اُس کا۔" نوید تھکے ہوئے انداز میں بولا۔

" کیوں کیا ہوا؟ کیا بات ہے مجھے بتائیں ہوسکتا ہے میں کوئی مدد کر دوں۔"

" جناب کو محبت ہوگی۔ بتاؤ اب تم اس میں کیا مدد کرسکتی ہو؟ " نوید نے چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھا جبکہ صوبیہ تو اس کی بات سن کر ہی خوشی سے چہک اُٹھی۔

" ارے تو اس میں اتنا منہ لٹکانے والی کیا بات ہے۔ آپ تو ایسے اداس ہو رہے ہیں جیسے آپ کی گرل فرینڈ آپ کو ریجکٹ کر کے کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ہو۔" وہ ہنستے ہوئے بولی انداز صاف مذاق اُڑانے والا تھا۔

" تم سے تو بات ہی کرنا بیکار ہے۔" نوید مزید تپ اُٹھا۔

" اچھا سوری !! ویسے یہ تو اچھی بات ہے نا۔ آنٹی کے بعد ویسے بھی اُن کے گھر کو کسی عورت کی ضرورت ہے اور انکل اور یوسف بھائی کب تک اکیلے زندگی گزاریں گے۔" اب کہ صوبیہ سمجھاتے ہوئے بولی۔

" مسئلہ یہ نہیں ہے۔"

" پھر؟ "

" صوبیہ اُسے یونی میں ٹیچر سے محبت ہوگئی ہے۔"

" کیا؟ " وہ اچھل کر بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں ہاتھ بے اختیار منہ پر رکھ لیے۔

" دل لگی کرنے کیلئے اُنہیں ٹیچر ہی ملی تھیں۔" وہ اب بھی شاکڈ تھی۔

"وہ دل لگی کرنے والا انسان نہیں۔ وہ بہت زیادہ مس جسمین کے معاملے میں سیریس ہے۔" نوید نے کہتے ہوئے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا یوسف کو کیسے روکے۔

" پھر بھی ٹیچر کے ساتھ۔" صوبیہ کہتے کہتے رکی۔

" وہ ہم سب سے ایک دو سال ہی بڑی ہوں گی۔ پچھلے سال ہی پڑھائی مکمل کی ہے۔ سر جمال کی اسٹوڈنٹ تھیں۔ اس لیے سر نے اپنی جگہ بلا لیا۔" اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے نوید نے تفصیل بتائی۔

" اوہ !! پھر کیا پرابلم ہے؟ "

" پرابلم یہ ہے کہ وہ ٹیچر ہیں اور پھر اُن کے اور ہمارے اسٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں نہیں چاہتا یوسف کا دل ٹوٹے۔" اس نے اب اصل وجہ بتائی۔ جسے سمجھتے ہوئے صوبیہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔

" دیکھیں نوید !! جو دکھ قسمت میں ہوں وہ تو آنے ہی ہیں کوئی روک نہیں سکتا سوائے اللّٰه کی ذات کے۔ ہو سکتا ہے یہ محبت نہیں بلکہ آزمائش ہو؟ "

" آزمائش؟ " نوید نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ صوبیہ واپس اس کے برابر آ بیٹھی۔

" اللّٰه تعالیٰ آزماتے ہیں انسانوں کی محبت دل میں ڈال کر پھر اُن کے چہرے دکھا کر۔۔۔ پھر پوچھتے ہیں کہ کون ہے تیرا میرے سوا؟

اور پھر اُس وقت ہر انسان کی محبت دل سے نکل کر وہاں صرف اللّٰه کی محبت رہ جاتی ہے۔ اس لیے آپ پریشان نہ ہوں۔ اللّٰه انسان کی ہمت سے زیادہ اُسے نہیں آزماتا۔" نوید اس کی بات پر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرا دی۔

" اور اگر یہ آزمائش نہیں ہوئی تو؟ "

" تو پھر جس نے دل میں محبت ڈالی ہے۔ وہ ملا بھی دے گا۔ بس دعا کریں۔ کیونکہ انسان دل کے معاملے میں بےبس ہوتا ہے۔ دعا کے علاوہ ہم کچھ اور کر بھی نہیں سکتے۔" اس نے کہتے ہوئے انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ کیا۔

نوید نے ایک نظر اوپر کی طرف دیکھا پھر اس کی انگلی کو۔ ہاتھ بڑھا کر دھیرے سے اس کی انگلی تھام لی۔

" لگتا ہے اب خالہ سے بات کرنی پڑے گی؟ "

"خالہ سے بات کمرے سے جانے کے بعد کرے گا۔ جائیں۔" مسکرا کر کہتی وہ اُٹھی ساتھ ہی نوید کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ سے اُٹھایا۔

" شرم کرو ہونے والے شوہر کو کمرے سے نکال رہی ہو۔" نوید ہنستے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔

" شرم میں شادی کے بعد کروں گی فی الحال میں بےشرم ہی ٹھیک ہوں۔" کمرے سے نکال کر وہ اس کے منہ پر دروازہ بند کر چکی تھی۔ جبکہ نوید مسکرا کر بالوں میں ہاتھ پھیرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ صوبیہ سے بات کرنے کے بعد وہ اب خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔

۔*********۔

صبح کے آغاز کے ساتھ ہی یونیورسٹی میں ہلچل مچ چکی تھی۔ ایسے میں اکاؤنٹس کی کلاس میں بیٹھے وہ سب ابھی Assets اور liabilities کے درمیان میں پھنسی اپنی کشتیوں کو نکالنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ سر ساجد کا پیریڈ آف ہوگیا۔ اگلا پیریڈ فری تھا۔ اس لیے وہ چاروں کلاس سے باہر نکل آئے۔

" چلو فٹبال گراؤنڈ چلتے ہیں۔"

" ہاں ٹھیک ہے۔" حذیفہ کے کہنے پر وہ تینوں ہامی بھرتے فٹبال گراؤنڈ کی طرف بڑھ گئے۔

دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا یوسف ان تینوں کے پیچھے چل رہا تھا کہ تبھی اس کی نظر کوریڈور میں کھڑی جسمین پر پڑی۔ سیاہ شلوار قمیض پر ہم رنگ دوپٹہ لیے، بھوری کام دار چادر کو اپنے گرد لپیٹے، باوقار سی مس جسمین تمام اسٹوڈنٹس کے درمیان بھی الگ ہی نمایاں ہو رہی تھیں۔

ابھی وہ اپنے سامنے موجود اسٹوڈنٹس کو کچھ سمجھا ہی رہی تھی جب خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرکے چہرہ بائیں جانب موڑا۔

یوسف نے فوراً منہ پھیر لیا ساتھ ہی تیز تیز قدم بڑھاتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ جبکہ اس کا منہ پھیرنا جسمین کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوا تھا۔ وہ حیرت سے اسے جاتے دیکھنے لگی۔ یوسف تو کبھی کلاس میں بھی اس پر سے نظریں نہیں ہٹاتا تھا اور آج یوں منہ پھیر جانا۔

" خیر !! اچھا ہی ہے۔"

اس نے سوچتے ہوئے سر جھٹکا اور واپس اسٹوڈنٹس کی طرف متوجہ ہوگئی۔ مگر دل کے کسی کونے میں کچھ ٹوٹا ضرور تھا۔

۔*********۔

" جہانگیر ملک تم ہمارے بیٹے کو انکار کر رہے ہو؟ "

بیٹھک میں موجود وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے جب دلدار خان نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔

" دیکھو دلدار خان !! اب معاملہ میرے ہاتھ میں نہیں تمہارے بیٹے کے کرتوتوں سے بلاج واقف ہے۔ اب ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتے۔"

جہانگیر ملک نے معاملہ ٹھنڈا رکھنے کیلئے سادہ سے لہجے میں جواب دیا۔ مگر شاید دلدار خان لڑنے کی نیت سے ہی آئے تھے کہ فوراً بھڑک اٹھے۔

" کیا مطلب ہے تمہارا کرتوتوں سے؟ یہ کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں۔ کیا اپنے دونوں بڑے بیٹوں کی عیاشیوں سے واقف نہیں تم؟ "

" تم اب اپنی حد سے آگے بڑھ رہے ہو دلدار خان۔" وہ بھی جواباً دھاڑے۔

" واہ جہانگیر ملک واہ !! اپنے بیٹوں کی بات  آئی تو تمہیں حد یاد آگئی۔ میری ایک بات یاد رکھنا۔ میں اتنی آسانی سے بھولوں گا نہیں۔ اپنی بے عزتی کا بدلہ لے کر رہوں گا۔"

دلدار خان پھنکار کر کہتے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر وہ وہاں سے نکلتے چلے گئے۔

" ہنہہ !! دیکھ لوں گا میں بھی۔ کچی گولیاں تو میں نے بھی نہیں کھیلیں۔"

زیرلب گالی دیتے بڑبڑائے اور اُٹھ کر باہر حویلی کی جانب بڑھ گئے۔ آنکھوں میں سوچ کے سائے لہرا رہے تھے۔

۔*********۔

فٹبال گراؤنڈ میں کھڑا وہ غائب دماغی سے ان تینوں کو دیکھ رہا تھا۔ سوچوں کے تانے بانے سب جسمین سے جوڑے تھے۔ یوسف وہاں سے منہ پھیر کر چلا تو آیا تھا پر دل شاید وہیں چھوڑ آیا تھا۔

وہ یوں ہی کھڑا انہیں دیکھتا رہا جب بال ہوا میں اُڑتی ہوئی سیدھا اس کے سینے پر آ لگی۔

" ابے یوسف دھیان کہاں ہے تیرا؟ ٹھیک سے کھیل۔" حذیفہ نے اسے گھورا۔

یوسف نے نیچے گری بال کو دیکھا ساتھ ہی اُٹھا کر ان کی طرف اچھال دیا۔

" تم لوگ پریکٹس کرو میں ابھی آیا۔"

" کہاں جا رہا ہے؟ "

نوید نے اسے جاتے دیکھ کر پوچھا۔ مگر وہ سنے بغیر ہی وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

" اسے کیا ہوا؟ "

جنید حیرت سے یوسف کو جاتے دیکھ رہا تھا۔ فٹبال کے معاملے میں یوسف کافی حد تک جنونی تھا۔ مگر آج اس کی غائب دماغی ان سب کو حیرت میں مبتلا کر رہی تھی۔

" پتا نہیں ہوسکتا ہے کوئی کام یاد آگیا ہو۔ خیر بال پاس کرو۔"

نوید نے ان کا دھیان بٹانا چاہا پر وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا یوسف اس وقت کہاں گیا ہوگا۔

۔*********۔

واپس کوریڈور کی طرف آ کر وہ چاروں اطراف میں نظر گھماتا اُسے ڈھونڈ رہا تھا۔ پر نہ جانے وہ کہاں چھپ کر بیٹھ گئی تھی۔ یوسف تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ ایک ایک کلاس دیکھتا وہ بےچین ہوتے دل کے ساتھ جسمین کو ڈھونڈ رہا تھا۔ بس اُس کی ایک جھلک کیلئے کہ تبھی وہ اسے اسٹاف روم کی طرف جاتی دکھائی دی۔

یوسف وہیں کھڑا اسے دیکھنے لگا۔ اس کی ایک جھلک نے ہی جلتے دل پر پھوار کا کام کیا تھا کہ تپتے صحرا سے نکل کر وہ ساگر کنارے آ کھڑا ہوا ہو۔ اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتا وہ جسمین کو جاتے دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً وہ رکی۔

یوسف فوراً قریب موجود پلر کے پیچھے چھپ گیا۔

اُدھر خود پر کسی کی نظریں محسوس کرتی جسمین رک کر چاروں جانب دیکھ رہی تھی۔ پر وہاں کوئی ایسا موجود نہیں تھا جو اُس کی طرف متوجہ ہو۔

" شاید میرا وہم ہے۔" خود سے کہتی وہ واپس اسٹاف روم کی جانب بڑھ گئی۔

یوسف نے پلر کی آڑ لے کر اسے جاتے دیکھا۔ جسمین تیزی سے چلتے ہوئے بائیں جانب مڑ رہی تھی۔ وہ جا چکی تھی پر یوسف وہیں کھڑا اس لمحے کو محسوس کر رہا تھا جب پیچھے سے کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔

" یوسف حیدر !! "

۔*********۔

" ابے یار یہ یوسف کہاں رہ گیا؟ " جنید جھنجھلاتا ہوا بولا۔

کب سے وہ تینوں اُس کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے پر یوسف نے تو شاید نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔

" ہمیں کیا پتا۔ ہم بھی تیرے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔" حذیفہ نے اس کی بات کو مذاق میں اُڑایا۔

" جب منہ کھولنا بکواس ہی کرنا۔" جنید تپ کر بولا۔

نوید وہاں بیٹھا بیزاری سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ دفعتاً وہ فٹبال چھوڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

" چلو سر وقار کی کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے۔"

نوید انہیں ساتھ چلنے کا اشارہ کرتا خود بھی فٹبال گراؤنڈ سے باہر نکل گیا۔

ایک دوسرے سے باتیں کرتے ابھی وہ کوریڈور میں پہنچے ہی تھے جب ان کی نظر یوسف پر پڑی جو اپنے سامنے کھڑے شخص سے باتیں کر رہا تھا۔

۔*********۔

" یوسف حیدر !! "

پیچھے سے آتی آواز پر یوسف چونک کر مڑا سامنے ہی سر وقار کھڑے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

" جی سر !! "

" کس کو چھپ چھپ کر دیکھ رہے ہو؟ "

" کیا مطلب ہے سر آپ کا میں آپ کو لڑکیاں تاڑنے والا لگتا ہوں؟ " آنکھیں پھیلاتے ہوئے یوسف نے پلٹ کر سوال کیا۔

" ابھی دو منٹ پہلے تک تو مجھے نہیں لگتا تھا پر اب تم مشکوک ہو۔"

انہوں نے کہتے ہوئے اوپر سے نیچے تک یوسف کو دیکھا۔ یوسف کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوگئی۔

" سر یہ نیند میں ہے۔"

پاس سے آتی آواز پر دونوں نے چہرہ موڑ کر دائیں جانب دیکھا۔ جہاں وہ تینوں کھڑے تھے۔

" نیند میں؟ "

" جی سر آج کل اسے نیند میں چلنے کی بیماری ہوگئی ہے۔ جاگتی آنکھوں سے نیند میں چلا جاتا ہے۔ اب دیکھیں آپ کو لگ رہا ہے یہ اُٹھا ہوا ہے لیکن یہ سو رہا ہے۔" جنید نے کہتے ہوئے یوسف کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا۔

یوسف نے دانت پیستے ہوئے اسے گھورا جبکہ پیچھے کھڑے نوید اور حذیفہ اپنی مسکراہٹ دبانے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔

" برخوردار !! کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے۔ اگر آپ سب کا مذاق ختم ہو گیا ہو تو کلاس میں چلیں۔" 

ان تینوں سے کہتے وہ یوسف کی طرف مڑے جس پر یوسف نے گڑبڑا کر سر نیچے جھکا لیا۔

" میری نظریں آپ پر ہی ہیں۔"

" جی سر۔" سر جھکائے ہی جواب دیا۔

" Be careful !! "

ایک کڑی نظر یوسف پر ڈال کر وہ وہاں سے چلے گئے۔ جبکہ اب یوسف کا ذہن ان تینوں سے بچنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا جو اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے میں لگے تھے۔

" یوسف کے بچے !! "

۔*********۔

" سردارنی جی وہ چھوٹے سرکار ( بلاج ) کو ضروری کام کی وجہ سے ہسپتال جانا پڑگیا اور وہ بول کر گئے ہیں آپ ڈرائیور کو بھیج دے گا تاکہ چھوٹی بی بی کو یونی سے لے آئیں۔"

فائرہ بیگم ابھی اپنے بھائی کے گھر سے لوٹی تھیں جب شبانہ (ملازمہ) نے کمرے میں آکر بلاج کا پیغام دیا۔

" لیکن سلیمان (ڈرائیور) کو تو خاور نے بلا لیا۔ آج اُس کا ڈرائیور نہیں آیا تو خاور سلیمان کو اپنے ساتھ لے گیا۔" فائزہ بیگم ایک دم پریشان ہو اُٹھیں۔

" اب کیا کریں سردارنی جی؟ " شبانہ نے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

تم ایسا کرو بلاج کو فون کرو وہ کچھ کر لے گا۔"

" جی سردارنی جی۔"

شبانہ تابعداری سے کہتی فوراً کمرے سے نکل کر لاؤنج میں موجود ٹیلیفون کے پاس چلی آئی۔ بلاج کا نمبر ملا کر وہ اُس کے فون اُٹھانے کا انتظار کرنے لگی۔ بیل جا رہی تھی پر کوئی اُٹھا نہیں رہا تھا۔ مایوسی سے ریسیور رکھ کر وہ واپس فائزہ بیگم کے کمرے میں چلی آئی۔

" سردارنی جی چھوٹے سرکار فون نہیں اُٹھا رہے۔"

" ہائے اللّٰه !! اب کیا ہوگا۔"

فائزہ بیگم پریشانی سے اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ گھر میں کوئی اور بھی موجود نہیں تھا کہ وہ جسمین کو لینے بھیج دیتیں۔

" سردارنی جی ابھی تو چھوٹی بی بی کے آنے میں تھوڑا وقت ہے ہوسکتا ہے تب تک سلیمان یا چھوٹے سرکار گھر آجائیں۔"

" ہاں اللّٰه کرے ایسا ہی ہو۔ چلو تم جاؤ جاکے کام کرو اور تھوڑی دیر بعد پھر بلاج کو فون کرنا شاید اُٹھا لے۔"

" جی اچھا۔"

شبانہ اثبات میں سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی جبکہ فائزہ بیگم سفری تھکن کے باعث کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے بیڈ پر لیٹ چکی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند اُتر چکی تھیں۔

۔*********۔

یونی تقریباً خالی ہونے لگی تھی۔ چند ہی لوگ چلتے پھرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسے میں وہ یونی کے باہر کھڑی کب سے ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی۔ جس نے گویا آج نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔

" اف !! حد ہے۔ کہاں رہے گئے؟ "

خود سے بڑبڑاتی وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ جب یونی کے گیٹ سے اپنی بائیک پر بیٹھا یوسف باہر آتا دکھائی دیا۔

جسمین کے پاس سے گزرتا یوسف بڑی شان سے اسے نظر انداز کرتا بائیک آگے بھگا لے گیا۔ جبکہ جسمین حیرت سے اسے جاتے دیکھنے لگی۔ ایک نظر بھی اس نے جسمین پر نہیں ڈالی تھی۔ یوسف کا رویہ آج اسے قدم قدم پر حیران کرنے پر تُلا تھا۔

اُدھر یوسف جو خود پر ضبط کرتا اس کے پاس سے گزر کر گیا تھا۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بائیک واپس یونی کی جانب موڑ لی۔ تیزی سے بھگاتا وہ عین اس کے سامنے جا رکا۔ جسمین حیرت سے اس سرپھرے کو دیکھنے لگی۔

" ابھی تک یہاں کیا کر رہی ہیں؟ " سامنے روڈ پر دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔

" ڈرائیور نہیں آیا۔" نہ چاہتے ہوئے بھی جواب دیا۔

" بیٹھیں یہاں کھڑے رہنا ٹھیک نہیں۔" سنجیدگی ہنوز قائم تھی۔

" نہیں میں ٹیکسی لے لوں گی۔" جان چھڑانے والے انداز میں کہتی وہ ابھی روڈ کی طرف دیکھتی اپنی گاڑی کو تلاش کر رہی تھی جب یوسف کی بات پر چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔

" راہ چلتے اجنبی پر بھروسہ ہے اپنے اسٹوڈنٹ پر نہیں۔" آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔ جسمین نے اپنی نظریں نیچے جھکا لیں۔ وہ کیسے اس کی سوچ تک پہنچ گیا تھا۔ 

" لیں یہ بیگ میں کندھے پر لٹکا لیتا ہوں اس طرح یہ بیگ ہمارے درمیان آجائے گا اور آپ مجھ سے ٹچ نہیں ہوں گی۔"

یوسف نے کہتے ہوئے بائیک پر آگے رکھا اپنا بیگ اُٹھایا اور کندھے پر لے لیا۔

جسمین اپنی جگہ یونہی کھڑی رہی۔ اسے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ یوسف کے ماتھے پر بل پڑنے لگے مگر اگلے ہی لمحے وہ مسکرا دیا۔

" مجھ پر نہ سہی اللّٰه پر تو بھروسہ ہے اُسی کا نام لے کر بیٹھ جائیں۔ یقین کریں مایوس نہیں ہوں گی۔"

یوسف کی بات پر وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ جہاں ایک مرد اور عورت کے درمیان تیسرا "شیطان" ہوتا ہے۔ وہاں وہ اپنے اور جسمین کے درمیان "اللّٰه" کو لے آیا تھا۔

وہ خاموشی سے سر جھکائے بائیک پر جا کر بیٹھ گئی۔ بیچ میں یوسف کا کتابوں سے بھرا بیگ موجود تھا جو ان کے بیچ فاصلہ پیدا کر رہا تھا۔ وہ مطمئن سی ہوگئی۔

" بائیک مضبوطی سے پکڑ لیں اور مجھے راستہ بتاتے رہے گا۔" یوسف نے کہتے ہوئے بائیک اسٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی۔

تیز دھوپ میں چلتی گرم ہوئیں بھی ٹھنڈی محسوس ہو رہی تھیں۔ راستے میں گزرتا ہر منظر آج سے پہلے کبھی اتنا خوبصورت نہیں لگا تھا۔ دھیرے دھیرے چلاتا جہاں یوسف اس پل کو محسوس کر رہا تھا۔ وہیں جسمین یہ سوچ رہی تھی کہ کیا اس سے حسین کوئی سواری ہوسکتی ہے؟

" ٹھیک سے بیٹھی ہیں نا؟ " یوسف نے زرا کا زرا چہرہ موڑ کر پوچھا گاڑیوں کے شور میں اس کی آواز سنا کافی مشکل تھا۔ جسمین نے چہرے کو تھوڑا آگے کیا۔

" کیا بول رہے ہیں؟ "

" ٹھیک سے بیٹھی ہیں؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟ " یوسف کا متفکر لہجہ، وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔

" ہاں ٹھیک ہے۔"

ایک ہاتھ سے سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتی جسمین ارد گرد دیکھنے لگی یہ علاقہ قدرِ سنسان تھا۔ چند ایک بائیک ہی ادھر سے گزرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ آج سے پہلے اس نے کبھی ان راستوں پر غور نہیں کیا تھا پر آج یوسف کے ساتھ بیٹھی وہ سب محسوس کر رہی تھی۔

" چھمک چھلو ادھر بھی دیکھ لو۔"

وہ ارد گرد دیکھتی اپنی سوچوں میں گم تھی۔ جب دو لڑکے بائیک پر بیٹھے اس پر جملہ اُچھال کر ہنستے ہوئے آگے نکل گئے۔

یوسف کی غصّے سے رگیں تن چکی تھیں۔ سختی سے لب بھینچے اس نے بائیک کی رفتار تیز کردی۔

" یوسف چھوڑو۔"

اس کا ارادہ بھانپ کر جسمین فوراً بولی۔ مگر وہ نظرانداز کیے تیزی سے بائیک دوڑاتا ان کے سامنے جا رکا۔

یوسف کو اپنے سامنے دیکھ کر ان لڑکوں نے فوراً بریک لگایا۔ عین ممکن تھا کہ ان کی بائیک یوسف کی بائیک سے ٹکرا جاتی۔

" اے پاگل ہے کیا؟ " بائیک پر بیٹھے لڑکوں میں سے آگے والا غصّے سے چلایا۔

یوسف بائیک چھوڑ کر کندھے پر لٹکا بیگ جسمین کو پکڑاتا ان کی جانب بڑھنے لگا تھا جب جسمین نے اس آستین کو پکڑ کر روکنا چاہا۔

" نہیں یوسف جانے دو۔"

یوسف نے ایک نظر اس کے پریشان چہرے کو دیکھا اور نرمی سے اپنی آستین اس کی گرفت سے چھڑائی۔

" ابے مان لے مان لے اپنی بہن کی بات مان لے۔" ان دونوں کو دیکھ کر اُن لڑکوں نے پھر جملہ پھینکا اور ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسنے لگے۔

اور یہیں یوسف حیدر کی بس ہوئی تھی تیزی سے ان کی طرف بڑھ کر آگے بیٹھے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر وہ بائیک سے ہوا میں اُٹھا چکا تھا۔ وہ دبلا پتلا سا لڑکا یوسف جیسے مضبوط قد و قامت کے مالک شخص کے سامنے بچہ ہی لگ رہا تھا۔

" اب بول سالے کیا بول رہا تھا۔" گریبان سے پکڑ کر اُٹھائے وہ غرایا۔ تبھی دوسرا لڑکا بائیک چھوڑ کر یوسف کی طرف بڑھا۔

" ہاں تو بھی آجا۔"

کہنے کے ساتھ ہی گریبان سے پکڑے لڑکے کو دوسرے لڑکے کے اوپر اچھال دیا۔ دونوں سیدھا جاکر زمین بوس ہوچکے تھے۔ یوسف آگے بڑھا اور بھپرے ہوئے شیر کی طرح ان جھپٹ گیا۔ اچھا خاصا تماشا لگ چکا تھا۔ جسمین پریشانی سے کھڑی ان تینوں کو دیکھ رہی تھی۔ آس پاس سے گزرتے لوگ بھی رک رک کر اس تماشے کو دیکھنے لگے تھے۔ معاملے کی نزاکت کو وہ اچھے سے سمجھ گئے تھے اس لیے کوئی بھی ان لڑکوں کو بچانے نہیں آیا تھا۔

" یوسف چھوڑ دو پاگل مت بنو۔"

جسمین چلائی۔ یوسف کے غصّے سے تو وہ اچھی طرح واقف تھی۔ غصّے میں تو اس نے جسمین کے عورت ہونے کا لحاظ نہیں کیا تھا وہ تو پھر بھی لڑکے تھے۔

" بیٹا چھوڑ دو مر جائیں گے۔ ان لوگوں کو تو بس اللّٰه ہی ہدایت دے سکتا ہے۔"

جسمین کے چلانے پر ایک آدمی نے آگے بڑھ کر یوسف کو روکنا چاہا۔ جو بیدردی سے ان لڑکوں کو پیٹنے میں لگا تھا۔

" آج کے بعد کسی لڑکی پر یوں جملے اچھالنے سے پہلے اس دن کو یاد کر لینا۔"

یوسف کہہ کر پیچھے ہٹا اور جسمین کی جانب بڑھ گیا کچھ بھی کہے سنے بغیر وہ اس کے ہاتھ سے بیگ واپس کندھے پر لٹکاتا بائیک پر بیٹھ گیا۔ جسمین نے غصّے سے اسے گھورا۔

" بیٹھ جائیں ویسے ہی دیر ہو گئی ہے۔" مسکراہٹ دبائے وہ بولا۔

" سدھرنا مت تم۔"

دانت پیس کر کہتی وہ بھی بائیک پر بیٹھ چکی تھی۔ یوسف نے مسکرا کر بائیک اسٹارٹ کی اور آگے بڑھا لے گیا۔ اب جلد از جلد گھر بھی تو پہنچنا تھا۔

بلاج اپریشن تھیڑ سے نکل کر سیدھا اپنے ہسپتال کے روم میں آیا۔ ایمرجنسی کیس کی وجہ سے اسے ہسپتال آنا پڑ گیا تھا۔ لیکن ہسپتال آنے سے پہلے ہی اس نے شبانہ کو ہدایت کر دی تھی کہ یونیورسٹی سے جسمین کو وقت پر لینے پہنچا جائے۔

ابھی وہ تھوڑا آرام کرنے کی غرض سے اپنے روم میں موجود چیئر پر بیٹھا ہی تھا کہ سامنے موجود ٹیبل کی دراز سے اسے موبائل ٹون کی ہلکی سی آواز محسوس ہوئی۔ بلاج نے ہاتھ بڑھا کر دراز کھولی اور اپنا فون نکال کر دیکھنے لگا۔ موبائل بج بج کر بند ہو چکا تھا۔ تقریباً بیس کے قریب گھر سے مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں۔ اس نے پریشان ہوتے ہوئے کال ملائی۔ پہلی ہی بیل پر دوسری جانب سے اُٹھا لی گئی تھی۔

" ہیلو !! " اسپیکر میں سے شبانہ کی آواز ابھری۔

" شبانہ خالہ میں بلاج بات کر رہا ہوں۔ گھر سے فون کر رہے تھے۔" اس نے فون کرنے کی وجہ بتائی۔

" جی چھوٹے سرکار !! وہ سلیمان کو تو خاور سرکار نے بلا لیا تھا اب جسمین بی بی کو لینے جانے والا کوئی نہیں اور اُن کی یونی کی بھی چھوٹی ہوئے کافی دیر ہوگئی ہے۔" شبانہ پریشانی سے بولی۔

" واٹ !! میں نے کہا بھی تھا اُسے وقت پر لینے جائیں سلیمان کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔" وہ غصّے سے چلایا۔

" چھوٹے سرکار وہ۔۔۔"

" بس میں خود لے آؤ گا۔ حد ہوتی ہے غیر زمہ داری کی۔" اس کی بات کاٹ کر کہتا وہ موبائل رکھ کر گاڑی کی چابی اُٹھاتا ہسپتال سے باہر نکل گیا۔

پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی۔ اپنی تھکن بھلائے اب وہ جلد از جلد یونیورسٹی پہنچنا چاہتا تھا جہاں اس کی جان سے عزیز بہن کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔

۔*********۔

" تم۔۔۔ تم نے کہا تھا اب غصّہ نہیں کرو گے۔ لیکن نہیں اپنی فطرت سے باز تھوڑی آؤ گے۔ بدمعاشوں کی طرح اُنہیں پیٹنے میں لگے تھے۔"

آپ جناب بالائے طاق رکھ کر بائیک پر بیٹھی وہ مسلسل یوسف کو سنانے میں لگی تھی جو جسمین کی جھڑکیوں کو مزے سے سنتا اس کے غصّے کو مزید بھڑکا رہا تھا۔

" وہ تو جیسے شرافت دیکھا رہے تھے۔" زرا سا چہرہ موڑ کر وہ بولا۔ جسمین نے گھور کر اسے دیکھا۔

" میں تمہاری بات کر رہی ہوں۔"

" ہاں !!  آپ کو میری ہی بات کرنی چاہیئے اور کسی کی کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔" یوسف نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔

" سدھر جاؤ ورنہ اس بار سمسٹر میں فیل کردوں گی۔" جسمین کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایسا کیا کرے کے اس سرپھرے انسان کی عقل ٹھکانے آجا۔

" اچھا چھوڑیں بتائیں آگے سے دائیں یا بائیں؟ " اس کی دھمکی کو نظرانداز کرتے ہوئے یوسف نے راستہ پوچھا۔

" دائیں اُس کے بعد ایک گلی چھوڑ کر بائیں ہاتھ پر گاڑی روک دینا۔" اب کے آرام سے جواب دیا۔

یوسف اثبات میں سر ہلاتا گاڑی کو اس کے بتائے راستے پر لے گیا تھوڑی دیر بعد ہی وہ اس علاقے میں پہنچ کر بائیک روک چکا تھا۔ اس علاقے میں چھوٹے چھوٹے مکانات موجود تھے۔ یوسف حیرت سے ان مکانات کو دیکھنے لگا۔ جسمین کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ ایسے گھروں سے ہوسکتی ہے۔

" آپ یہاں رہتی ہیں؟  یہ علاقہ تو کسی گاؤں سے کم نہیں لگتا۔" یوسف نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا جو بائیک سے اُتر کر اپنی چادر ٹھیک سے اوڑھنے میں لگی تھی۔

" یہاں تک لانے کیلئے شکریہ۔"

اس کے سوال کو نظر انداز کرتی وہ شکریہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ یوسف وہیں بائیک پر بیٹھا ماتھے پر بل ڈالے اسے جاتے دیکھتا رہا۔ وہ تیزی سے چلتی سیدھا سڑک کے کنارے پر پہنچ کر دائیں جانب مڑ گئی۔

یوسف ایک لمحے کیلئے وہیں کھڑا سوچتا رہا جسمین کے پیچھے جائے یا یہیں سے مڑ جائے۔ جانے نہ جانے کی تکرار میں اس نے بائیک اسٹارٹ کی اور فوراً اس سمت بڑھ گیا جہاں جسمین گئی تھی۔

" یہ یہاں۔۔۔"

وہاں پہنچ کر اس نے بائیک روکی اور سامنے موجود اس حویلی کو دیکھا۔ جو وہاں موجود تمام عمارتوں میں سب سے بلند و بالا اور خوبصورت تھی۔

" یہ یہاں رہتی ہیں۔"

دروازے پر کھڑے چوکیدار سے باتیں کرتی جسمین کو دیکھ کر وہ حیرت سے بڑبڑایا ساتھ ہی بائیک اسٹارٹ کرکے تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

جسمین جو رشید میاں سے سلام دعا کرکے اندر جانے ہی لگی تھی اپنے پیچھے سے آتی بائیک کی آواز پر اس نے چونک کر پیچھے دیکھا جہاں سے یوسف گزر کر جا چکا تھا۔ وہ اندر تک کھول کر رہ گئی۔

" یہیں روک لو خود کو یوسف !! "

جسمین غصّے سے زیرِ لب بڑبڑائی۔ وہ یہ کیسے سوچ سکتی تھی کہ یوسف یہاں تک آتا اور اس کا گھر نہ دیکھتا۔

۔*********۔

فائزہ بیگم سے ملنے کے بعد وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔ بیڈ پر لیٹی وہ ابھی یوسف کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ دروازہ کھول کر بلاج تیزی سے اندر آیا۔

" کیا ہوا بھائی؟ " اُٹھ کر بیٹھتی وہ اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی۔ 

" تمہیں لینے یونیورسٹی گیا تھا۔ اتنی دیر سے وہاں کھڑے ہو کر تمہیں تلاش کرتا رہا اگر آگئی تھیں تو مجھے تو فون کر کے بتا دیتیں۔" جسمین کو دیکھ کر پرسکون ہوتا وہ اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔

" تھوڑی دیر پہلے ہی ائی ہوں۔ آتے ہی امی کے پاس چلی گئی تھی تو اُن سے باتوں میں بالکل دماغ سے نکل گیا کہ آپ کو بتادوں سوری۔" وہ شرمندہ سی ہو کر وضاحت کرنے لگی۔

" اچھا چلو کوئی بات نہیں لیکن آئی کیسے ہو؟ "

بلاج کے سوال پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔ آیا کہ سچ بتائے یا نہیں۔

" وہ بھائی۔۔۔!! "

" کیا ہوا ٹیکسی لی تھی؟ " بلاج نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"وہ بھائی مجھے یوسف چھوڑ کر گیا ہے۔" ڈرتے ڈرتے وہ سچ بول گئی۔ کچھ بھی چھپا کر وہ بلاج کا اعتبار نہیں کھونا چاہتی تھی۔

" جسمین ٹیکسی سے آجاتیں۔" بلاج ایک دم سنجیدہ ہوا اب اس کے چہرے پر فکر مندی کی جگہ سنجیدگی نے لے لی تھی۔ جسمین اسے دیکھتی رہے گئی۔

" میں ٹیکسی سے ہی آ رہی تھی پر یوسف نے کہا غیر پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے اسٹوڈنٹ پر کر لوں۔" وہ نظریں جھکائے بولی۔ اب اسے اپنے فیصلے پر افسوس ہو رہا تھا کہ کیوں وہ یوسف کے ساتھ آئی۔

" جسمین جب تم ٹیکسی سے آؤ گی تو کسی میں اتنی ہمت نہیں ہو گی کہ تم پر باتیں بنائے۔ لیکن جب تم یوں کسی کے ساتھ بائیک پر آؤ گی بھلے وہ تمہارا اسٹوڈنٹ ہی کیوں نا ہو۔ لوگوں کو موقع مل جائے گا تم پر طرح طرح کی باتیں بنانے کا۔ مجھے تم پر اعتبار ہے لیکن کسی کو باتیں بنانے کا موقع ملے یہ میں نہیں چاہتا۔" بلاج کی بات پر اب کے اس نے نظروں کے ساتھ ساتھ سر بھی شرم سے جھکا دیا۔

" میں آگے سے خیال رکھوں گی بھائی۔" وہ محض اتنا ہی بول سکی۔

" چلو تم آرام کرو میں بھی اپنے کمرے میں جاتا ہوں۔" جسمین کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتا، بلاج اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

اس کے جاتے ہی بیڈ پر بیٹھی جسمین کا ضبط جواب دے گیا تھا۔ گھٹنوں میں سر دیئے وہ خود کو آنسو بہانے سے روک نہ سکی۔

۔*********۔

" یوسف یہ دوائی ختم ہوگئی ہے لے آنا۔" سیاہ آسمان تلے وہ دونوں صحن میں بچھی چار پائی پر بیٹھے تھے۔ جب حیدر صاحب نے یوسف کو مخاطب کیا۔ جو ان کے برابر میں لیٹا غائب دماغی سے آسمان کو تک رہا تھا۔

" یوسف تم سے کہہ رہا ہوں۔" جواب نہ پاہ کر انہوں نے پھر پکارا۔ 

" یوسف !! "

" جی۔۔۔ جی ابو آپ نے کچھ کہا؟ " اس نے چونک کر حیدر صاحب کو دیکھا۔

" ہاں یہ دوائی ختم ہو گئی لے آنا۔" حیدر صاحب بغور اسے دیکھتے ہوئے بولے۔

" جی کل لے آؤ گا۔" اثبات میں سر ہلاتا وہ واپس اپنی سابقہ حالت میں لیٹ گیا۔

" کیا بات ہے یوسف کچھ پریشان ہو؟ " حیدر صاحب کے سوال پر اس نے چہرہ موڑ کر انہیں دیکھا جو زرا سی دیر میں ہی اس کی پریشانی کو بھانپ گئے تھے۔

" ابو جو نصیب میں نہیں اُسے زہن سے کیسے نکالوں؟ "

اس نے کہتے ہوئے چہرہ موڑ کر واپس آسمان کی طرف دیکھا۔ اوپر موجود تاروں کو تکتا وہ ان میں کسی کے عکس کو تلاش کر رہا تھا۔

" تمہیں کیسے پتا نصیب میں نہیں؟ کیا تم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی؟ " حیدر صاحب نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ جبکہ یوسف اب کے اُٹھ کر بیٹھتا پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔

" میں کوشش کیسے کروں جبکہ مجھے پتہ ہے وہ چیز میرے نصیب میں نہیں۔"

" کوشش کرنے کے بجائے یہ سوچ لینا کے نصیب میں نہیں یہ تو بیوقوفی ہے۔" یوسف کی بات پر وہ مسکرا کر بولے۔ وہ الجھ کر حیدر صاحب کو دیکھنے لگا۔

" مطلب؟ "

" جو بن مانگے مل جائے وہ نصیب اور جو لاکھ کوششوں کے بعد بھی نہ ملے تو وہ بھی ہمارا نصیب مگر کوشش کرنے سے پہلے یہ مان لینا کہ نصیب میں نہیں تو یہ سرا سر بیوقوفی ہے۔" حیدر صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

" مطلب میں کوشش کروں؟ "

" ہاں !! کیوں کہ کچھ لوگ نصیب کے معاملے میں بہت خوش قسمت ہوتے ہیں۔ بن مانگے سب مل جاتا ہے اور کچھ لوگوں کے نصیب میں محنت کرکے حاصل کرنا لکھا ہوتا ہے۔ مگر ملتا سب کو ہے۔ اگر حاصل کرنے کی نیت ہو تو۔" اب کے وہ جتا کر بولے۔

وہ یہ تو نہیں جانتے تھے کہ ان کا بیٹا کس چیز کی خواہش دل میں لیے بیٹھا ہے مگر وہ یہ ضرور جانتے تھے وہ خواہش کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ آخر اپنی اولاد کے بارے میں ماں باپ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔

" اور اگر محنت کر کے بھی نصیب میں حاصل کرنا نہ لکھا ہو؟ " کہتے ہوئے اس نے اپنا سر حیدر صاحب کے گھٹنے پر رکھ دیا۔

" اللّٰه کا فرمان ہے کہ میں تمہارا گمان ہوں۔ مجھ سے جیسا گمان رکھو گے تمہارے ساتھ ویسا ہی معاملہ پیش آئے گا اس لیے اُس اللّٰه سے نا امید اور مایوس ہونا چھوڑ دو تمہارے راستے خود بخود سیدھے ہوتے چلے جائیں گے۔ کیونکہ اُس کے گھر میں دیر ہے پر اندھیر نہیں۔ سمجھے؟ " یوسف کے سر پر ہاتھ پھیرتے انہوں نے پوچھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"جی !! میں کوشش کروں گا ابو۔"

کہتے ہوئے یوسف نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جبکہ حیدر صاحب اس کے چہرے پر نظریں جمائے اس کی ہر جائز خواہش کے پورا ہونے کی دعا کرنے لگے۔

۔*********۔

صبح سے ایک کے بعد ایک کلاس لیتی وہ کافی تھک چکی تھی۔ کچھ ذہنی طور پر بھی تھکن سوار تھی جس کے باعث جسمین اپنے اندر چڑچڑا پن محسوس کر رہی تھی۔ ایسے میں وہ لیکچر دے کر کلاس روم سے باہر نکلی تو سامنے ہی یوسف کو کھڑا پایا۔ وہ شاید ابھی اپنی کلاس لے کر ہی آیا تھا۔ نیوی بلو شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح اپنے سادہ سے حلیے میں بھی ماحول پر چھایا ہوا تھا۔ ایک نظر اس پر ڈال کر نظریں پھیرتی وہ آگے بڑھ گئی۔ کل جو خول زرا سا چٹخا تھا۔ آج وہ پھر پوری مضبوطی سے اس پر چڑھ چکا تھا۔

یوسف حیرت سے اسے جاتے دیکھنے لگا۔ وہ تو سمجھا تھا ان کے بیچ کھڑی سرد مہری کی دیوار گر چکی ہے مگر۔۔۔ وہ تو اپنی جگہ ہی قائم تھی۔

" یہ ایسے نہیں مانیں گی۔" خود سے بڑبڑاتا یوسف فوراً اس کے پیچھے لپکا۔

تیزی سے قدم بڑھاتی وہ لائبریری کی طرف جا رہی تھی جب پیچھے سے آتی آواز پر ایک دم رکی۔

" مس (وقفہ) جسمین !! "

" کیا ہے؟ " وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں کہتی پیچھے مڑی۔

" وہ موبائل میں بیلنس ختم ہو گیا۔"

" تو؟ "

" تو آپ کا موبائل مل سکتا ہے؟ ایک کال کرنی ہے۔" معصومیت سے پوچھا گیا۔

" یہ لو۔"

اس نے ہاتھ میں پکڑا موبائل یوسف کی طرف بڑھا دیا۔ جس نے موبائل لیتے ہی تیزی سے نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا تھا۔ موبائل کان سے لگاتے ہی آس پاس سے موبائل ٹون بجنے کی آواز آنے لگی۔

" او ہو !! یہ تو میری جیب میں ہی ہے۔"

یوسف نے کہتے ہوئے موبائل جیب سے نکالا جس پر ابھی بھی جسمین کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔

" یہ لیں ہو گیا کام۔ بس مسڈ کال ہی دینی تھی۔"

 اس نے واپس موبائل جسمین کو پکڑایا اور مڑ کر تیزی سے نکلتا چلا گیا۔ جبکہ جسمین ناسمجھی سے اس کی پشت کو گھور رہی تھی کہ تبھی چونک کر اپنے موبائل کی طرف دیکھا۔ جہاں اجنبی نمبر سے میسج جگمگا رہا تھا۔

" سیو مائے نمبر مس (وقفہ) جسمین !! "

" یوسف کے بچے۔"

غصّے سے کھولتی پیر پٹخ کر لائبریری کی طرف بڑھ گئی۔ دل ہی دل میں یوسف کے لیے کوسنے بھی جاری تھے۔ جو بیوقوف بنا کر اس کا نمبر لے اُڑا تھا۔

" بلاج رکو !! "

بلاج جو ہسپتال کے کوریڈور میں چلتا اپنے روم کی طرف جا رہا تھا پیچھے سے آتی نسوانی آواز پر ایک دم رکا۔ وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی اس تک آئی۔

" اب چلو۔" مسکرا کر کہتی وہ اس کا ہاتھ پکڑ چکی تھی۔

" یاسمین کیا کر رہی ہو کوئی دیکھ لے گا۔"

بلاج نے گھور کر اسے دیکھا ساتھ ہی ہاتھ چھڑوانے کی ہلکی سی کوشش کی جس پر یاسمین کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔

" جب دل نہیں کر رہا ہاتھ چھڑوانے کا تو کوشش کیوں کر رہے ہو؟ "

" تم نا۔۔۔روم میں چلو کوئی آجائے گا۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ یاسمین کا ہاتھ پکڑے اپنے روم میں لے آیا۔

" بیٹھ جاؤ۔" کرسی کی طرح اشارہ کرتا وہ خود بھی بیٹھ چکا تھا۔

" تم گھر والوں سے کب بات کرو گے؟ " اب کے وہ منہ پھیلائے اسے گھور رہی تھی۔ بلاج مسکرا دیا۔

" ڈاکٹر یاسمین عباسی !! یہ کوئی مسئلہ کشمیر نہیں جو تم اتنا پریشان ہو رہی ہو۔"

" تمہارے گھر والے خاندان کی کسی لڑکی سے تمہاری شادی کر دینگے اور تم بول رہے ہو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔" بلاج کی بات پر وہ دانت پیس کر بولی۔

" یار ابھی مجھ سے بڑے دو بھائی اور ہیں کیسے بات کروں ابھی بابا سائیں سے؟ " بلاج نے اسے سمجھانا چاہا پر شاید آج وہ سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔

" تم۔۔۔ تم بس اپنے بھائیوں کی شادی کا انتظار کرتے رہو اور میرے گھر والے میری کہیں اور شادی کرا دینگے۔ بلکہ جب تم میں اتنی ہمت نہیں کے میرا ہاتھ تھام سکو تو اظہارِ محبت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اپنے جزبات کو دل میں ہی رکھتے۔ مجھے یوں حسین خواب نہ دکھاتے جن کی تعبیر نہیں۔"

غصّے سے اسے سناتی یاسمین جانے کیلئے مڑی ہی تھی کہ بلاج فوراً کرسی سے اُٹھ کر اس کے پاس آیا۔

" ہوگیا تمہارا؟ "

شانوں سے تھام کر وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا پوچھ رہا تھا۔ یاسمین نے نظریں نیچے جھکا لیں۔

" تین سال سے اس ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں۔ تین سال سے تم مجھے جانتی ہو۔ اگر ہمت نہ ہوتی تمہارا ہاتھ تھامنے کی تو کبھی تم سے اظہار نہیں کرتا۔ ہم مچیور انسان ہیں۔ ٹین ایجرز کی طرح بیہو مت کرو۔"

" لیکن اگر تمہارے بابا سائیں نہیں مانے تو؟ " یاسمین نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔

" ایک مرد صرف اپنے سے جڑی ہوئی عورتوں کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے۔ میری ماں بہن کو کوئی اعتراض نہیں۔ تم سے اظہار کرنے سے پہلے ہی میں نے اُن کو تمہارے بارے میں بتا دیا تھا۔ باقی بابا سائیں کی فکر مت کرو۔ وہ نہ بھی مانے تو پھر بھی میں تم سے ہی شادی کروں گا۔ سمجھی؟ " بلاج کی بات پر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

تین سال سے وہ ایک ساتھ تھے۔ ایک تعلق میں تھے پر اب اس تعلق کو وہ نام دینا چاہتی تھی ایک مقام دینا چاہتی تھی۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کچھ خوابوں کی تعبیر نہیں ہوتی، کچھ رشتوں کا مقام نہیں ہوتا۔ کچھ رشتے بے نام ہی رہتے ہیں بے مقام ہی رہتے۔ 

۔*********۔

وہ تینوں اس وقت جنید کے گھر پر موجود تھے۔ جو ماں کے سامنے چار پائی پر بیٹھا ان کی جھڑکیاں سن رہا تھا۔ ساتھ ہی ایک قہر آلود نظر ان تینوں پر ڈالتا جن کے دانت اندر جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

" ارے ان تینوں کو دیکھ کتنے پیارے بچے ہیں اور ایک تو ہے۔ جسے زرا گھر کی فکر نہیں اللّٰه نے بھی ایسی نالائق اولاد میرے ہی نصیب میں لکھی تھی۔"

ریحانہ بیگم نے روٹی بیلتے ہوئے کچن کی کھڑکی سے جھانک کر کہا۔ دل تو کر رہا تھا ہاتھ میں پکڑا بیلن کھڑکی کے سامنے بیٹھے اپنی نالائق اولاد کے سر پر دیں ماریں۔

" میں نے کہا نا موبائل سائلنٹ پر تھا۔ آپ کی کال کا پتا نہیں چلا اور آپ نے منگوا تو لیا پاپا سے سودا۔" جنید جھنجھلا اُٹھا۔

" ویسے دن بھر اس موئے موبائل سے چمٹا رہتا ہے تب تجھے بڑا پتا ہوتا ہے۔ کس کا فون، کس کا میسج لیکن گھر سے جب کوئی فون کرے تو تیرے اس موبائل کو موت پڑ جاتی ہے۔" کھا جانے والی نظروں سے جنید کو گھورتے ہوئے روٹی اُٹھا کر اس کے سامنے لاکر رکھی۔ ان دونوں ماں بیٹے سے بے نیاز وہ تینوں سامنے کھانا دیکھ کر فوراً ٹوٹ پڑے تھے۔

" اللّٰه کرے تم کمینوں کو ہضم نہ ہو۔ میری بد دعا لگ جائے۔" جھگڑالو عورتوں کی طرح انہیں کوستا وہ دانت پیس کر بولا۔ جبکہ یوسف نے منہ کی طرف جاتا ہاتھ روک کر اسے گھورا اور ہاتھ میں پکڑا نوالہ اس کے منہ میں ٹھوس دیا۔

" دیکھ رہی ہیں آنٹی کھانے بھی نہیں دے رہا۔" نوید نے شکایت لگانے والے انداز میں کہا۔

ریحانہ بیگم غصّے سے جنید کو گھورتی فاروق میاں کو کھانا دینے چلی گئیں۔ ان کے جاتے ہی سب کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ سوائے جنید کے جس کا سارا دھیان یوسف پر تھا۔

" یوسی آخر تجھے ہو کیا گیا ہے؟ "

" کیا مطلب؟ " کھانے سے ہاتھ روک کر یوسف نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

" کل تو مس جسمین کو بائیک پر لے کر کہاں گیا تھا؟ " جنید کے سوال پر جہاں نوید اور حذیفہ نے چونک کر اسے دیکھا وہیں یوسف کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

" واقعی یوسف؟ " دونوں نے بے یقینی سے پوچھا۔

" میں انہیں گھر چھوڑنے گیا تھا لانگ ڈرائیو پر نہیں لے کر گیا۔" ناگواری سے کہتا وہ واپس پلیٹ پر جھک گیا۔ البتہ وہ تینوں ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ گئے۔

" وہ عام سی شکل و صورت کی، ایسا بھی کیا ہے مس جسمین میں کہ تو نے اپنی عقل ہی بیچ کھائی؟ " جنید کی بات پر اس نے نظریں اُٹھا کر تینوں کو سنجیدہ نظروں سے دیکھا پھر ٹھنڈے ٹھار لہجے میں گویا ہوا۔

" تمہارے پاس وہ نگاہ نہیں جس سے میں اُنہیں دیکھتا ہوں میرے لیے وہ دنیا کی حسین ترین لڑکی ہیں۔"

کھانے سے ہاتھ کھینچتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ تینوں حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ جو کبھی یونی میں لڑکیوں کے کسی کام کی بھی تعریف نہیں کرتا تھا۔ آج وہ قابلِ قبول سی صورت والی لڑکی کو حسین کہہ رہا تھا۔

یوسف اُٹھ کر باہر چلا گیا جب کچھ دیر بعد ریحانہ بیگم ہاتھ میں ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوئیں۔

" یوسف کہاں گیا؟ "

" وہ امی اُسے کچھ کام تھا۔" جنید فوراً بولا۔ 

" کام تھا یا تم نے کچھ کہا ہے؟ "

ریحانہ بیگم کی بات پر تینوں خاموش ہی رہے۔ وہ ایک نظر تینوں کے جھکے سر پر ڈالتیں کمرے کے ساتھ ہی بنے کچن میں چلی گئیں۔

۔*********۔

رات کے پہر وہ غصّے سے کھولتے ہوئے اپنے کمرے میں ادھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی۔ یونی سے آنے کے بعد سے اسے صرف یوسف کی کال کا انتظار تھا تاکہ اُسے کھری کھری سنا سکے۔

پر نہ تو اُس نے کال کری اور نہ ہی شاید کوئی ارادہ رکھتا تھا۔

" تمہیں تو میں چھوڑوں گی نہیں یوسف !! بہت تم نے تماشا دیکھا دیا اب مجھے یونی کی انتظامیہ سے بات کرنی پڑے گی۔"

خود سے بڑبڑاتی وہ بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی۔ پاس پڑا موبائل اُٹھا کر دیکھا جو خاموش پڑا تھا۔

" بس اب کل صبح دیکھنا تم میں کیا کرتی ہوں۔"

سوچتے ہوئے موبائل سائڈ پر رکھ کر وہ سونے لیٹ چکی تھی۔ پر کون جانے آنے والا کل زندگی میں کیا رنگ لانے والا تھا۔ کون جانے۔۔۔

بسا لینا کسی کو دِل میں ، دِل ہی کا کلیجہ ہے

پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا

۔*********۔

صبح ہوتے ہی جسمین یونیورسٹی کیلئے تیار ہو کر نکل چکی تھی۔ ڈرائیور کو جلدی چلنے کی ہدایت دیتی وہ گاڑی سے باہر دیکھنے لگی۔ آج اس نے یوسف کو سنانے کی اور انتظامیہ کو بتانے کی ٹھان لی تھی۔ چاہے جو بھی ہو جائے اب یوسف کو مزید آگے نہیں بڑھنے دے گی۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ تبھی ڈرائیور کی آواز پر چونکی۔

" بی بی جی آپ کی یونی آگئی۔"

" جی ٹھیک ہے۔"

اپنا بیگ اُٹھاتی وہ گاڑی سے باہر نکل گئی۔ پارکنگ ایریا سے گزر کر وہ ابھی کوریڈور کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ اپنی بائیک پر بیٹھا یوسف یونی کہ اندر داخل ہوا۔ بائیک کی آواز پر جسمین نے مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں یوسف بائیک سے اُتر کر ادھر ہی آ رہا تھا۔

" کیا ہوا ادھر کیوں کھڑی ہیں؟ " عین جسمین کے سامنے رکتے ہوئے گویا ہوا۔

" آپ نے میرا نمبر کیوں لیا تھا؟ " دانت پیستے ہوئے پوچھا۔

" اوو !! " ہونٹوں کو گول کر کے وہ زرا آگے کو جھکا۔

" آپ میری کال کا انتظار کر رہی تھیں؟ " سوال تھا یا میزائل جسمین کو آگ لگا گیا۔

" اننف !! بہت ہوگیا مسٹر یوسف حیدر کافی دنوں سے آپ کی بدتمیزی برداشت کر رہی ہوں۔ لیکن اب میں آپ کی شکایت انتظامیہ سے کروں گی۔" غصّے سے کہتی وہ جانے لگی تھی کہ تبھی یوسف نے دوپٹے کا پلوں پکڑ کر روکا۔

سرخ رنگ کے شلوار قمیض پر سیاہ چادر لیے وہ قابلِ قبول سی لڑکی، جو کل تک اسے دنیا کی حسین ترین لڑکی لگتی تھی۔ اس وقت اسے زہر لگ رہی تھی۔

" کیا کہیں گی انتظامیہ سے؟ " اب کے یوسف نے غصّے سے پوچھا۔ پر اس بار جسمین ڈری نہیں تھی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کر جواب دیا۔

" یہی کہ تم مجھے ہراس کر رہے ہو۔"

" جھوٹ !! جھوٹ ہے یہ آپ جانتی ہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ کیا میری موجودگی سے آپ کو کچھ غلط محسوس ہوا؟ کبھی آپ پر غلط نگاہ ڈالی؟ نہیں آپ بھی جانتی ہیں میں نے کبھی ایسا نہیں کیا اور کسی پر یوں تہمت لگانا کتنا بڑا گناہ ہے جانتی ہیں نا آپ۔"

شانوں سے تھام کر اپنے قریب کرتا وہ غرایا۔ اس اچانک کے ردِعمل سے جسمین کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے ہی اٹک کر رہ گیا۔

" اب کیوں خاموش ہوگئیں؟  بولتی کیوں نہیں کچھ؟ " یوسف نے اسے جھنجوڑا۔

" تم بس مجھ سے دور رہو میں کسی کو کچھ نہیں کہوں گی۔" خود کو چھڑواتی وہ دھیرے سے بولی۔

" کیوں دور رہوں؟ کیا آپ نہیں جانتی میں کیا چاہتا ہوں؟ کیا سوچتا ہوں؟ " یوسف نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔

" دیکھو یوسف چھوڑو کوئی دیکھ لے گا۔" اس کی بات کو نظر انداز کرتی جسمین ارد گرد دیکھنے لگی۔

" ٹھیک ہے آپ چاہتی ہیں آپ سے دور رہوں تو ٹھیک ہے۔ میں ایک بار سیٹل ہو جاؤں جاب لگ جائے پھر سیدھا گھر آؤں گا آپ کا ہاتھ مانگنے۔"

اپنی بات کہہ کر وہ پیچھے ہٹا گویا اُسے جانے کا راستہ دے رہا ہو پر جسمین وہیں کھڑی ساکت نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ کیا کہہ گیا تھا۔

" تم۔۔۔ تم ہوش میں ہو؟ " وہ چیخی۔

" آہستہ بولیں میں نہیں چاہتا کوئی باتیں بنائے۔" یوسف نے ٹوکا۔

" کیوں؟  کیوں آہستہ بولوں؟  تم جانتے بھی ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟ " جسمین بےبسی سے بولی۔

وہ کیا سوچ کر آئی تھی اور کیا ہو رہا تھا۔ اسے لگا تھا اس کی دھمکی پر یوسف پیچھے ہٹ جائے گا پر وہ تو سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا۔

"میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔" یوسف نے جتاتی نظروں سے اسے دیکھا۔

" دیکھو تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔ " جسمین نے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے اسے سمجھانا چاہا۔

"میں اُن بےغیرت مردوں میں سے نہیں جو اپنی محبت کو کسی اور کیلئے چھوڑ دوں۔ آپ کو میری زندگی میں ہی آنا ہے۔"

اگر جسمین کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس اظہارِ محبت پر خوشی سے جھوم اُٹھتی۔ آخر یونی کی کون سی ایسی لڑکی تھی جو اس حسین وجمیل مرد کے منہ سے اظہارِ محبت نہ سننا چاتی تھی؟ پر مقابل جسمین تھی جو خوف سے لرز رہی تھی۔

" یوسف تم۔۔۔"

" بس مجھے کچھ نہیں سننا آخر ہے ہی کیا میرے پاس ایک بیمار " باپ " اور ایک " آپ "۔۔۔ اس لیے چھوڑنے کی بات مت کرے گا۔"

جسمین کی بات کاٹ کر کہتا، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا نکل گیا۔ جبکہ وہ وہیں ساکت کھڑی اسے جاتے دیکھ رہی تھی۔

"عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے

پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے"

(اکبرالہ آبادی) 

دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔ یونی میں ایگزامز کی تیاری زوروشور سے جاری تھی۔ اکثر اسٹوڈنٹس کتابوں میں سر دیئے کبھی لائبریری، کلاس حتیٰ کہ یونی کے گراؤنڈ میں بھی پڑھتے ہوئے پائے جاتے۔ ایسے میں وہ چاروں بھی ہر موج مستی کو سائڈ پر رکھ کر پوری طرح سے پڑھائی میں مشغول ہو چکے تھے۔

اُس دن کے بعد سے یوسف نے جسمین کے سامنے سے گزرنے سے بھی گریز کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ طے کر چکا تھا۔ اب جب تک وہ کسی قابل نہیں ہوجاتا تب تک جسمین کے پاس سے بھی گزر کر نہیں جائے گا۔

دوسری طرف جسمین تھی جو یوسف کے اس گریز پر شکر ادا کرتے نہیں تھکتی تھی۔ دل میں اکثر یہ خیال بھی آتا تھا کہ یونیورسٹی چھوڑ چھاڑ کر گھر پر ہی بیٹھ جائے تاکہ یوسف کے دماغ سے جسمین کا خیال بھی نکل جائے پر اُس سرپھرے سے کوئی اُمید نہیں تھی۔ کیا پتا غصّے میں اس کے گھر ہی پہنچ جائے۔

ان ہی باتوں کو سوچتے ہوئے اس نے یونیورسٹی چھوڑنے کے خیال کو ہی ترک کر دیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ یوسف وقتی کشش کا شکار جو وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔ پر کون جانے یہ وقتی کشش کس قدر شدت اختیار کر جائے گی۔۔۔

۔*********۔

وہ کمرے میں بیٹھا یونی جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ آج اس کا تیسرا پیپر تھا۔ جس کیلئے وہ جلدی جلدی تیار ہوکر اپنا بیگ اُٹھاتے ہوئے حیدر صاحب کے کمرے میں چلا آیا۔ آنکھیں بند کرے وہ بیڈ پر لیٹے تھے۔

بڑھتی عمر اور مسلسل طبیعت خراب کے باعث بہت کمزور ہو چکے تھے۔ جس کی وجہ سے یوسف کی پریشانی دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ اکثر وہ چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس بھی لے جاتا۔ جن کا ہر بار یہ ہی کہنا ہوتا کہ حیدر صاحب بالکل ٹھیک ہیں یہ کمزوری ان کی بڑھتی عمر اور اٹیک کے باعث ہے۔ جس کا علاج صرف احتیاط ہے۔

" ابو !! "

یوسف نے دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی۔

" ابو میں یونی جا رہا ہوں۔" وہ پھر بولا مگر حیدر صاحب ویسے ہی لیٹے رہے۔ یوسف ایک دم پریشان ہوکر آگے بڑھا۔ وہ تو ہلکی سی آواز پر بھی چونک کر اُٹھ جاتے تھے اور آج اس کے آواز دینے پر بھی آنکھیں نہیں کھول رہے تھے۔

" ابو اُٹھ جائیں ابو۔"

پاس پہنچ کر یوسف نے کندھے سے پکڑ کر ہلایا کہ تبھی حیدر صاحب کی گرد بےجان ہوتی دائیں جانب ڈھلک گئی۔ یوسف فوراً پیچھے ہٹا۔ حیدر صاحب پر نظریں جمائے وہ بے یقینی سے دیکھ رہا تھا۔ ساکت وجود کے ساتھ۔

" ابو !! "

لب دھیرے سے ہلے کہ یکدم جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ رفتا رفتا ڈھنڈا پڑتا وجود، اس سے کھڑے رہنا مشکل ہوگیا۔ خوف سے حیدر صاحب کو دیکھتا وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتے ہوئے آگے بڑھا۔

" ابو اُٹھیں ابو۔" اس نے پھر پکارا مگر۔۔۔

بے جان پڑے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ یوسف وہیں ان کے بیڈ کے سرہانے گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گیا۔

" ابو اُٹھ جائیں نا۔ دیکھیں میرا پیپر ہے آج۔"

معصوم بچوں کی طرح کہتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک بار پھر حیدر صاحب کو ہلایا۔

" ابو ابو اُٹھیں۔ اُٹھتے کیوں نہیں؟ میں اکیلا کیا کروں گا۔ اُٹھیں۔۔۔ اُٹھیں ابو۔"

حیدر صاحب کے بے جان وجود کو جھنجوڑتا وہ چھ فٹ کا مرد بلک بلک کر رو رہا تھا۔ گھر کا درو دیوار اس کی سسکیوں سے گونج رہا تھا۔ پر اب وہاں ایسا کوئی نہیں تھا جو کسی چھوٹے بچے کی طرح اسے اپنی آغوش میں لے کر چپ کرواتا۔ یہ غم اسے تنہا ہی اُٹھانا تھا اور شاید ساری زندگی اُٹھانا تھا۔

" ابوووو !! "

۔*********۔

کلاس میں کھڑی وہ بار بار گھڑی میں وقت دیکھ رہی تھی۔ پیپر شروع ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے تھے۔ کلاس روم میں سب ہی اسٹوڈنٹ موجود تھے سوائے یوسف کے جو اب تک وہاں پہنچا نہیں تھا۔

"حد ہے لاپرواہی کی۔ پیپر شروع ہوئے پندرہ منٹ سے اوپر ہوگئے اور وہ جناب اب تک نہیں آئے۔"

جسمین بڑبڑائی۔ نگاہیں بار بار دروازے کی طرف اُٹھتی پھر خود ہی مایوسی سے جھک جاتیں۔

عجیب بےچینی ہو رہی تھی۔ یوسف اپنی پڑھائی کو لے کر اتنا غیر زمہ دار تو ہر گز نہیں تھا۔ بے وجہ تو وہ کبھی چھٹی نہیں کرتا تھا پھر آج کیوں؟ وہ ان ہی سوچوں میں گم تھی جب نوید کی آواز پر چونک اُٹھی۔

" مس جسمین ابھی تک یوسف نہیں آیا۔ ایک کال کر لوں؟ " نوید نے اجازت چاہی۔ پریشانی اس کے چہرے سے ہی عیاں ہو رہی تھی۔

" ٹھیک ہے کلاس کے باہر جائیں۔"

پیپر کے بیچ سے اُٹھ کر جانے کی اجازت تو نہ تھی پر پھر بھی جسمین نے دے دی۔ اس کے کہتے ہی نوید اپنی جگہ سے اُٹھ کر باہر نکل گیا۔ موبائل کان سے لگائے وہ پریشانی سے اپنی پیشانی مسل رہا تھا۔

" فون اُٹھاؤ یوسی۔"

بیل مسلسل بج رہی تھی پر دوسری طرف سے شاید نہ اُٹھانے کی قسم کھا رکھی تھی۔

" ڈیم اٹ !! "

اس نے ایک بار پھر ملایا۔ بیل جاتی رہی مگر اس بار بھی کسی نے اُٹھایا نہیں تھا۔ اب اسے صحیح معنوں میں فکر ہونے لگی۔ عجیب عجیب سے خیالات ذہن میں آرہے تھے۔ جنہیں جھٹکتا وہ مسلسل رابطے کی کوشش کر رہا تھا۔

" راشد کو فون کرتا ہوں۔"

کانپتے ہاتھوں سے راشد کا نمبر ملاتا اُس کے فون اُٹھانے کا انتظار کرنے لگا۔ دوسری ہی بیل پر کال اُٹھالی گئی۔

"السلام عليكم نوید بھائی !! " اسپیکر سے راشد کی آواز اُبھری۔

" راشد !! راشد تم ابھی کہاں ہو؟ " بے چینی سے پوچھا۔

" گھر پر ہوں۔ کیا ہوا؟ سب ٹھیک ہے؟ " نوید کی پریشانی بھانپتے ہوئے راشد سنجیدگی سے بولا۔

" نہیں تم ابھی کہ ابھی یوسف کہ گھر جاؤ اور دیکھ کے بتاؤ سب ٹھیک ہے نا۔"

" ٹھیک ہے میں جاتا ہوں۔"

راشد کے کہنے پر نوید وہیں کھڑا بےچینی سے انتظار کرنے لگا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ وہ کبھی گھڑی کو دیکھتا تو کبھی کلاس روم کے دروازے کو۔

" نوید بھائی !! " اسپیکر سے راشد کا بھیگا لہجہ اُبھرا۔ جس نے نوید کے پیروں تلے سے زمین ہی کھینچ لی۔

۔*********۔

" ایسی کیا بات ہوگئی جو یوسف ابھی تک نہیں آیا؟ "

جنید نے زرا سا جھک کر آگے بیٹھے حذیفہ سے کہا مگر جسمین کی سخت گھوری نے اس کی بولتی بند کر دی۔

" مسٹر جنید فاروق !! اب آپ کلاس سے باہر ہونگے۔"

"سوری مس !! "

جنید فوراً اپنے پیپر پر جھک گیا۔ اسے گھور کر جسمین نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے نوید اندر آرہا تھا۔

" مسٹر نوید !! جلدی اپنی سیٹ پر بیٹھیں۔"

جسمین نے اس کے فق چہرے سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ کچھ غلط ہونے کے احساس نے شدت سے سر اُٹھایا تھا۔ نوید فوراً اپنی سیٹ کی طرف بڑھا۔ سیٹ پر سے پیپر شیٹ اُٹھاتا وہ جسمین کے پاس آیا۔

" یہ لیں مس۔"

" کیا مطلب؟ " جسمین نے حیرت سے اپنے سامنے موجود خالی شیٹ کو دیکھا۔

"مجھ۔۔۔ مجھے جانا ہے مس یوسف۔۔۔ یوسف کے فادر کی ڈیتھ ہوگئی۔" اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتا وہ بمشکل بولا۔ اس کی بات پر پیچھے بیٹھے جنید اور حذیفہ بھی ایک دم اُٹھ کھڑے ہوئے۔

کلاس میں ایک دم سناٹا چھا گیا تھا۔ سب ہاتھ روکے بے یقینی سے نوید کو دیکھ رہے تھے۔ نوید فوراً کلاس سے باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی جنید اور حذیفہ بھی جسمین کی طرف بڑھے اور اپنی اپنی شیٹ تھما کر وہاں سے نکلتے چلے گئے۔ جسمین چاہ کر بھی انہیں روک نہیں سکی۔ یہ خبر سننے کے بعد اس کی اپنی حالت بھی عجیب ہونے لگی تھی۔

۔*********۔

" یوسف بھائی سنبھالیں خود کو۔ ایسے تو مت روئیں۔"

راشد خود بھی رو رہا تھا ساتھ ہی یوسف کو سنبھالنے کی کوشش بھی کر رہا تھا جس کا رونا تھم ہی نہیں رہا تھا۔ آخر تھمتا بھی کیسے یہ وقت تو ہوتا ہی ایسا ہے کہ میت کو دیکھ کر دشمن کے بھی آنسو نکل آتے ہیں۔ پھر وہ تو اس کا باپ تھا۔

" بیٹا صبر کرو۔ ہم سب نے ہی ایک دن جانا ہے یہی تو دنیا کا قانون ہے۔" راشد کے ابو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

محلے کے اور بھی لوگ وہاں جمع ہوتے جا رہے تھے۔ کچھ لوگ میت کو غسل کے لیے لے جا چکے تھے۔ تدفین کا وقت عشاء کی نماز کے بعد کا تھا۔ جان پہچان والوں نے باہر قناتیں لگا کر قرآن خوانی شروع کروا دی تھی۔

" یوسف۔۔۔ یوسف !! "

رش کو چیرتے ہوئے وہ تینوں گھر میں داخل ہوئے سامنے ہی یوسف دیوار سے لگا بیٹھا بے آواز آنسو بہا رہا تھا۔ راشد بھی اس کے پاس ہی موجود تھا۔

وہ تینوں تیزی سے ان کی جانب بڑھے۔ یوسف جو خود پر ضبط کرنے کی کوشش کرتا بے آواز رو رہا تھا۔ ان تینوں کو دیکھتے ہی خود پر ضبط کھو بیٹھا۔ ایک دوسرے سے لپٹ کر وہ دھاڑے مار مار کر رو دیئے۔ فضاء میں چاروں کے رونے کی آوازیں گونج رہی تھی۔ ہر آنکھ ان کو روتا دیکھ کر خود بھی نم ہوچکی تھی۔

" موت کی بانہوں میں سو جاتے ہیں 

 اچھے لوگ بہت جلد کھو جاتے ہیں "

وہ تھوڑی دیر پہلے ہی ہسپتال سے واپس لوٹا تھا اور سب کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں چلا آیا۔ ابھی وہ بیڈ پر بیٹھا سامنے لگی ایل ای ڈی پر کوئی پروگرام دیکھ رہا تھا جب جسمین ہاتھ میں چائے کا کپ لیے کمرے میں آئی۔

" بھائی چائے !! "

" ہاں لے آؤ۔" وہ سیدھا ہو کر بیٹھا۔ جسمین نے آگے بڑھ کر اسے کپ تھما دیا۔

" کیا ہوا؟ کچھ پریشان لگ رہی ہو۔" بلاج نے اس کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" نہیں تو آپ بتائیں کیسا رہا آج کا دن؟ "

جب سے یوسف کے ابو کی خبر سنی تھی تب سے ہی وہ یوسف کے بارے ميں سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی اور اب یہ ہی پریشانی اس کے چہرے سے بھی واضح ہونے لگی تھی۔ اس لیے جسمین نے باتوں کا رخ بلاج کی طرف موڑ دیا۔

" سب ٹھیک ہے بس یاسمین۔۔۔"

" کیا ہوا یاسمین کو؟ " بلاج کے بات ادھوری چھوڑنے پر وہ پوچھ بیٹھی۔

" وہ چاہتی ہے میں بابا سائیں سے بات کروں۔" نظریں اسکرین پر جمائے اس نے سرسری سے انداز میں کہا۔

" ہاں تو کر لیں اس میں کونسی بڑی بات ہے۔" وہ کہتے ہوئے اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ بلاج نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

" یہ تم کہہ رہی ہو؟ اچھے سے پتا ہے ابھی دلاور اور خاور بھائی بھی ہیں۔"

" وہ تو پتا نہیں کب شادی کرینگے۔ بابا سائیں نے بھی کہا مگر وہ سنتے ہی نہیں۔ اب کیا اُن کی وجہ سے آپ بیٹھے رہیں گے؟ "

جسمین کے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی جھنجھلاہٹ در آئی۔ دلاور اور خاور کی وجہ سے بلاج اپنی زندگی کی خوشیاں بھی حاصل نہیں کر پا رہا تھا۔ جبکہ دلاور اور خاور۔۔۔ جب حرام منہ لگ جائے تو حلال میں کہاں سکون ملتا ہے۔ اُن دونوں کا بھی یہی حال تھا۔ جس کے باعث وہ ہمیشہ شادی سے انکار کردیتے تھے۔ بھلا ایک کے پابند ہو کر کیسے رہ سکتے تھے۔

" تو کیا کروں؟  اچھا نہیں لگتا نا۔ اُن دونوں سے پہلے میں شادی کر لوں۔ لوگ کیا کہیں گے بڑے بھائیوں کے ہوتے ہوئے چھوٹے نے کر لی۔" چائے کا کپ اسے واپس تھماتے ہوئے بلاج بولا۔

" اب لوگ ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ یہ تو نصیب کی بات ہے۔ جس کی جب شادی ہو جائے۔ آپ بابا سائیں سے بات کریں۔ ویسے بھی انہیں منانے میں بھی کافی وقت لگ جائے گا۔"

بلاج کو مشہورہ دے کر وہ چائے کا کپ اُٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ جبکہ ایل ای ڈی کی اسکرین پر نظریں جمائے وہ سوچ میں غرق ہو چکا تھا۔ جہانگیر ملک کا راضی ہو جانا بھی آسان نہیں تھا۔ وہ بھی تب جب لڑکی عام سے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو۔

۔*********۔

تھوڑی دیر پہلے ہی وہ سب قبرستان سے واپس لوٹے تھے۔ ایک ایک کر کے سارے جان پہچان والے اور آس پڑوس کے لوگ اس سے مل کر جاتے جا رہے تھے۔ وہ خاموشی سے چار پائی پر بیٹھا ان کی باتوں اور دلاسوں پر اثبات میں سر ہلا رہا تھا۔ اب کہنے کو کچھ بچا ہی کیا تھا۔ قریب ہی بچھے تخت پر وہ تینوں خاموش بیٹھے ویران نظروں سے سب دیکھ رہے تھے۔ کسی کے پاس ایسے کوئی الفاظ نہ تھے جو یوسف کے درد کو ختم کر سکتے۔

" اپنا خیال رکھنا بیٹا کچھ بھی چاہیئے ہو تو راشد کو بلا لینا۔" راشد کے ابو نے کہتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ بس اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔

اُن کے جانے کے بعد وہ تینوں تخت سے اُٹھ کر اس کے پاس چلے آئے۔

" یوسف !! "

وہ یونہی خاموش بیٹھا رہا۔ رونے کے باعث آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ یوں تو اس کی سیاہ خوبصورت آنکھوں میں قدرتی طور پر گلابی ڈوریں کھینچی تھیں۔ مگر اب رونے کی وجہ سے سرخ انگارا ہو رہی تھیں۔

" صبر کر ہم ہیں نا تیرے پاس۔" نوید اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ اس سے زیادہ اور کہہ بھی کیا سکتے تھے۔

" میں۔۔۔ میں اب کیا کروں؟ سب کچھ سب کچھ ختم ہو گیا۔ کچھ نہیں بچا می۔۔۔ میرے پاس۔"

سانس پھولنے کے باعث وہ اٹک اٹک کر بولا رہا تھا۔ شدتِ جذبات میں اس کا سانس ایسے ہی پھولنے لگتا تھا جس کی وجہ سے بولنے میں دقت ہوتی تھی۔

" تم۔۔۔ تم لوگ بتاؤ میں کیا کروں مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا یہ درد میں۔۔۔ میں ایسا کیا کروں کہ وہ واپس آجائیں یا میں اُن کے پاس چلا۔۔۔"

" یوسف !! " وہ تینوں ایک ساتھ چلائے اور فوراً یوسف سے لپٹ گئے۔

" صبر کروں اب وہ واپس نہیں آسکتے نہ ہی تم اُن کے پاس جاؤ گے جب تک اللّٰه کا بلاوا نہیں آجاتا۔" حذیفہ نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔

" پر میں۔۔۔ میں اکیلے کیسے۔۔۔"

" اکیلے نہیں ہو تم ہم تینوں ہیں تمہارے پاس۔ سمجھے؟" جنید اس کی بات کاٹتا ہوا بولا کہ تبھی کمرے میں موجود یوسف کے موبائل کی ٹون بجنے کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔

" میں لے کر آتا ہوں۔" نوید اُٹھ کر کمرے میں چلا گیا جبکہ وہ دونوں بیٹھے اسے چپ کروانے کی کوشش کرنے لگے۔

۔*********۔

بیڈ پر لیٹی وہ بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی۔ دل تھا کہ کسی طرح بھی سکون میں نہیں آ رہا تھا۔ اسے رہ رہ کر یوسف کا خیال آ رہا تھا۔ بار بار اُس کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔ 

" آخر ہے ہی کیا میرے پاس ایک بیمار باپ اور ایک آپ۔" پریشان ہوتی وہ اُٹھ بیٹھی۔

" کیا اور کوئی نہیں اُس کے گھر میں۔ اس وقت وہ کیا کر رہا ہوگا۔" سوچتے ہوئے اس نے سائڈ ٹیبل پر سے اپنا موبائل اُٹھایا۔

" کیا کال کروں؟ نہیں یہ ٹھیک نہیں۔"

خود سے بڑبڑاتے ہوئے اس نے انباکس کھولا جہاں یوسف کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ ابھی تک اس نے یوسف کا نمبر سیو نہیں کیا تھا اور نہ ہی سیو کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

" تعزیت ہی تو کرنی ہے ایک بار فون کر لینے میں کیا ہرج ہے۔"  گہرا سانس لے کر آخر کار اس نے کال ملا ہی دی۔ بیل جاری تھی پر دوسری طرف سے کوئی اُٹھا نہیں رہا تھا۔ دفعتاً اس نے کال کاٹ کر موبائل سائڈ پر رکھ دیا۔

"یونیورسٹی میں مل کر ہی تعزیت کر لوں گی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔"

سوچتے ہوئے وہ واپس سونے کیلئے لیٹ گئی۔ کچھ دیر بعد ہی وہ گہری نیند سو چکی تھی۔

۔*********۔

حیدر صاحب کے کمرے میں داخل ہو کر وہ چاروں جانب نظر دوڑا رہا تھا۔ ٹون مسلسل بج رہی تھی۔ پر فون کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ تھوڑا آگے بڑھا کہ تبھی اسے بیڈ کے قریب فرش پر پڑا موبائل بجتا ہوا نظر آیا۔ اس سے پہلے وہ آگے بڑھ کر موبائل اُٹھاتا کال کٹ گئی۔

" یوسف بھی نا۔"

بڑبڑاتے ہوئے اس نے فرش سے موبائل اُٹھا کر اون کیا۔ سامنے ہی مس جسمین کا نام جگمگا اُٹھا۔

" یہ !! " بے یقینی سے موبائل کو گھورتا وہ کئی بار اس نام کو دھورا چکا تھا۔

" یار !! یوسی یہ کیا کر رہا ہے۔"

اس نے پریشانی سے سوچا۔ حذیفہ پہلے ہی جسمین کے گھروالوں کے بارے میں ان دونوں کو بتا چکا تھا۔ بہن کی کلاس فیلو ہونے کے باعث وہ جسمین کے بارے میں اچھے سے جانتا تھا۔

" شاید دوبارہ کال کریں۔"

نوید وہیں رک کر جسمین کی کال کا انتظار کرنے لگا۔ مگر پانچ منٹ گزر جانے کے بعد بھی کال نہ آئی تو موبائل وہیں بیڈ پر رکھ کر وہ کمرے سے باہر نکل آیا۔

" کیا ہوا کس کی کال تھی؟ " جنید نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔

نوید نے ایک نظر یوسف کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ جب بھی تینوں میں سے کسی نے جسمین کا ذکر کیا تب تب یوسف چڑ جاتا تھا اور اب وہ پہلے ہی بہت دکھی تھا مزید اس کا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے جھوٹ بول گیا۔

"موبائل کمپنی والوں کا تھا۔"

" تو اتنا ٹائم کیوں لگا دیا اندر؟ "

" بکواس بند کرو۔ میں کھانے کا انتظام کرتا ہوں۔ یوسف نے ویسے بھی پورا دن کچھ نہیں کھایا۔" جنید کے سوال پر چڑ کر کہتا بات ہی بدل گیا۔

۔*********۔

صبح کی روشنی کے پھیلتے ہی وہ تیار ہو کر یونیورسٹی کیلئے روانہ ہو چکی تھی۔ سارا وقت یونی میں پیپر لینے کے بعد اب وہ سکون سے سانس لیتی اسٹاف روم میں بیٹھی تھی کہ ایک بار پھر اسے یوسف کا خیال ستانے لگا۔

آج یوسف کا پیپر نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ چاروں یونی نہیں آئے تھے اور کون جانے اب آتے بھی کہ نہیں۔

" کیا ایک بار فون کر لوں۔ آخر تعزیت ہی تو کرنی ہے۔" اس نے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھتے ہوئے سوچا۔

" نہیں ٹھیک نہیں لگتا۔"

جہاں دل اُسے کال کرنے پر اُکسا رہا تھا وہ دماغ اسے باز رہنے پر مجبور کر رہا تھا۔

" کال کر ہی لیتی ہوں نہ جانے وہ کب تک یونی نہ آئے۔"

خود سے بڑبڑاتے ہوئے اس نے انباکس کھولا ساتھ ہی یوسف کے نمبر پر کال ملا دی۔ بالآخر دل اور دماغ کی جنگ میں جیت دل ہی ہوئی تھی۔

" فون اُٹھاؤ یوسف !! "

موبائل کان سے لگائے وہ زیرِ لب بولی کہ تبھی کال ریسیو ہوئی ساتھ ہی اسپیکر میں سے مردانہ گھمبیر آواز ابھری۔

" بےچین دل کو کیوں قرار نہیں آتا

اُن کی آواز سنے بنا اب آرام نہیں آتا "

" یہ دونوں کہاں جا کر مر گئے اب تک آئے کیوں نہیں؟ " نوید کچن میں کھڑا برتن دھو رہا تھا۔ جب یوسف کو کمرے سے باہر آتا دیکھ جھنجھلا کر بولا۔ 

رات وہ تینوں یوسف کے گھر پر ہی رک گئے تھے۔ ساری رات جاگنے کے بعد تھوڑی دیر کیلئے ہی نوید کی آنکھ لگی تھی کہ اُٹھا تو وہ دونوں ہی غائب تھے اور اب تک واپس نہیں لوٹے تھے۔

" یار بتایا تو ہے۔ وہ دونوں آتے ہی ہوں گے جنید کو گھر سے فون آیا تھا اور حذیفہ اپنی امی اور بھائی کو گھر چھوڑنے گیا ہے۔" چاول سے بھرا برتن چولہے پر رکھ کر وہ مصروف سے انداز میں بولا۔

حذیفہ کی امی اور چھوٹا بھائی آج صبح ہی یوسف سے ملنے آئے تھے۔ جس کے بعد حذیفہ انہیں بائیک پر چھوڑنے چلا گیا تھا تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے دھکے نہ کھانے پڑیں۔

" حذیفہ کی تو سمجھ میں آتا ہے پر یہ جنید یہ کونسے جھنڈے گاڑنے گیا ہے جو ابھی تک نہیں لوٹا؟ " اب وہ سارے دھولے برتن کو کپڑے سے صاف کر کے ریک میں رکھ رہا تھا۔

" وہ شاید آنٹی کو اپنے ساتھ لارہا ہو کہہ رہا تھا وہ آنا چاہ رہی ہیں۔"

یوسف نے چاولوں میں چمچہ چلاتے ہوئے کہا۔ وہ دوپہر کے کھانے کیلئے چاول گرم کر رہا تھا۔ اس کے بعد انہیں کل تیجے کی تیاری بھی کرنی تھی۔

صبح سے لوگوں کا آنا جانا لگا تھا جس کے باعث نوید ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کر پایا تھا اور یوسف اس کا تو دل ہی ہر چیز سے اُچاٹ ہو چکا تھا۔

" ٹھیک ہے اور اسے میں گرم کر لوں گا تو جا کر آرام کر ساری رات جاگتا رہا ہے۔" چمچہ یوسف کے ہاتھ سے لیتے ہوئے نوید نے اسے کچن سے باہر نکال دیا۔

یوسف خاموشی سے حیدر صاحب کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ آرام کیا کرنا تھا۔ اسے تو بس تنہائی چاہیئے تھی۔ وہ تنہائی جو اب ساری زندگی کیلئے اس کی ہمسفر بن چکی تھی۔

" کیوں مجھے اکیلا چھوڑ دیا ابو اب میں کیا کروں گا۔" سوچتا ہوا وہ بیڈ پر لیٹ گیا کہ تبھی کل رات سے بیڈ پر پڑا موبائل بج اُٹھا۔

موبائل اُٹھا کر دیکھا تو اسکرین پر جسمین کا نام چمک رہا تھا۔ بے یقینی سے دیکھتے ہوئے یوسف نے فوراً کال ریسیو کی۔ گویا یوں کہ کہیں جسمین کال ہی نہ کاٹ دے۔

" ہیلو !! "

۔*********۔

اسپیکر میں سے اُبھرتی یوسف کی آواز پر وہ ایک دم سن ہوچکی تھی۔ سارے الفاظ زبان پر آکر دم توڑ چکے۔ دو سیکنڈز پہلے وہ اس سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی پر دو سیکنڈز بعد کہنے کو جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔

" ہیلو !! "

ایک بار پھر یوسف کی آواز ابھری جو اسے ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی۔

" السلام عليكم !! " جسمین نے مدہم سی آواز میں سلام کیا۔

" وعليكم السلام !! کیسی ہیں؟ "

یوسف کے پوچھنے پر جسمین پھر سے خاموش ہو گئی۔ کیسا بندہ تھا حال احوال اسے پوچھنا چاہیئے تھا اور پوچھ وہ رہا تھا۔

" ٹھیک ہوں آپ کے ابو کے بارے میں پتا چلا تھا۔ سن کر افسوس ہوا۔" اب وہ کیا یوسف سے حال احوال پوچھتی۔ اپنے عزیزو کو کھونے کے بعد انسان کیسا ہو سکتا ہے۔ اس لیے سیدھا تعزیت کرنے لگی۔

" جی !! " اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ چند لمحے ان کے درمیان ایسے ہی گزرے جب جسمین نے ہی سلسلہ کلام جوڑا۔

" اکیلے ہو یا کوئی ساتھ ہے؟ " سوال پوچھتے ہوئے وہ خود بھی جھجھک رہی تھی مگر کل رات سے مچلتا سوال بالآخر زبان پر آ ہی گیا تھا۔

" نوید ساتھ ہے جنید اور حذیفہ تھوڑی دیر پہلے اپنے گھر گئے ہیں۔ " یوسف حیران ہوتا ہوا بولا۔ آج وہ جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا۔ بھلا وہ کب اتنی لمبی بات چیت کرتی تھی۔

" کوئی رشتے دار وغیرہ نہیں ہے؟ "

" ابو کے ایک بھائی تھے اُن کا بھی انتقال ابو کی شادی سے پہلے ہی ہو گیا تھا اور امی ایک لوتی اولاد تھیں نانا کی اس لیے کوئی رشتے دار نہیں۔" وہ بتا کر خاموش ہو گیا۔ ماں باپ کے ذکر نے ایک بار پھر غم سے دوچار کر دیا تھا۔

" اور نانی دادی وغیرہ؟ " ایک اور سوال۔

" نہیں ان سب کا انتقال بھی میرے بچپن میں ہو گیا تھا۔"

یوسف کی تنہائی کا سوچ کر اب کے جسمین کو حقیقتاً دکھ ہوا۔ کتنا اکیلا رہ گیا تھا وہ۔

" اچھا اب میں فون رکھتی ہوں۔ اپنا خیال رکھیے گا مسٹر یوسف۔" کہنے کے ساتھ ہی جسمین نے کال کاٹ دی اور اُٹھ کر اسٹاف روم سے باہر نکل آئی۔

دوسری طرف یوسف بیڈ پر بیٹھا موبائل کو گھورے جا رہا تھا جیسے یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ کیا واقعی ابھی اس نے جسمین سے بات کری ہے۔

جبکہ کمرے کے باہر کھڑا نوید جو یوسف کی ساری باتیں سن چکا تھا۔ اب دل ہی دل میں صرف اور صرف اس کی خوشیوں کی دعائیں کر رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا اب کوئی طوفان اس کے جان سے عزیز دوست کی زندگی میں آئے پر کون جانے آنے والا وقت کن کن طوفانوں کو ان سب کی زندگی میں لانے والا ہے۔

۔*********۔

غم ہو یا خوشی کچھ بھی دائمی نہیں رہتا۔ وقت کی لہروں میں سب کچھ بہتا چلا جاتا ہے۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پر اپنا ایک الگ مقام بنا جاتے ہیں جسے کوئی اور حاصل نہیں کرسکتا۔ ان کے جانے سے جو خلا ہماری زندگی میں شامل ہو جاتا ہے وہ کسی کے آنے جانے سے بھی بھر نہیں پاتا۔

حیدر صاحب کے جانے سے جو خلا یوسف کی زندگی میں شامل ہو گیا تھا اس کا کوئی نعم البدل نہیں تھا اور نہ ہی کبھی ہونا تھا۔ بس وقت گزرنے کے ساتھ اسے اپنے حالات سے سمجھوتہ کرنا تھا۔ اُن کے بغیر رہنے کا سمجھوتا۔۔۔

" یوسف گھر پر اکیلے رہ کر کیا کرے گا۔ آج پیپر ہے چل یونی چل۔"

نوید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا جسے جھٹکے سے اس نے چھڑا لیا۔ وہ تینوں کافی دیر سے یوسف کے سر پر کھڑے اسے منانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جو نہ جانے کی ضد پکڑ کر بیٹھا تھا۔

حیدر صاحب کو گئے چار دن گزر چکے تھے اور ان دنوں میں وہ ایک بار بھی گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ آنے جانے والوں سے مل کر وہ اپنا زیادہ تر وقت حیدر صاحب کے کمرے میں ہی گزارتا تھا۔ اُن کی چیزوں کو چھو کر بے آواز روتا رہتا تھا۔ جس کے باعث وہ تینوں اب بالکل بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔

" میں نے کہا نا تم لوگ جاؤ۔ میرا دل نہیں ہے۔" صحن میں بیچھی چار پائی پر بیٹھا وہ آسمان میں نظر آتے غیر مرئی نقطے پر نگاہیں جمائے بولا۔

" یوسف ضد نہیں کر کچھ ہمارے بارے ميں بھی سوچ۔" جنید نے اسے سمجھانا چاہا۔ جس پر وہ مزید چڑ گیا۔

" تو تم لوگ جاؤ۔ کس نے روکا ہے۔"

" دیکھ یوسف بہت ہوگیا۔ بہت تو نے من مانی کر لی اب اُٹھ ورنہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جائے گا۔"

حذیفہ کی دھمکی پر اس نے گلہ آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔ پھر بےبسی سے اُٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ کندھے پر بیگ لٹکائے وہ کمرے سے باہر آیا۔ اسے دیکھتے ہی وہ تینوں مسکرا دیئے۔ بالآخر حذیفہ کی دھمکی کام کر گئی تھی۔

۔*********۔

" بلاج پلیز کچھ کرو۔ میرے گھر والے میرا رشتہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ میری شادی کسی سے بھی کر دینگے۔"

کیفے ٹیریا میں بلاج کے سامنے بیٹھی وہ بےبسی سے کہہ رہی تھی۔ آنسوں تھے کہ پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آنے کو بیتاب تھے۔

" تمہیں کہا ہے نا کچھ نہیں ہوگا تم انہیں میرے بارے میں بتا دو میں جلد ہی اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر لے کر آجاؤ گا۔" ٹیبل پر موجود یاسمین کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر وہ تسلی دیتے ہوئے بولا۔

" یوں رویا مت کرا کرو۔ روتی ہو تو مجھے لگتا ہے کہ میں دنیا کا سب سے کمزور انسان ہوں۔ جس کے ہوتے ہوئے بھی تمہاری آنکھوں میں آنسوں آجاتے ہیں۔"

بلاج کے کہنے پر وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔ تبھی بلاج نے ہاتھ بڑھا کر اس کی نم پلکوں کو چھوا۔

" میں بس ڈر جاتی ہوں۔" بھیگی آواز میں کہتی وہ معصوم سی یاسمین بلاج کو اور بھی پیاری لگی تھی۔

" میں ہوں نا پھر کیوں ڈرتی ہو۔ بس اللّٰه سے دعا کیا کرو کے وہ ہمیں ہمارے ارادوں میں کامیاب کر دے۔"

" کرتی ہوں۔ پر تم بھی اپنے گھر والوں سے جلدی بات کرو۔" اب کے یاسمین اسے گھورتی ہوئی بولی۔ اس کے یوں تیزی سے بدلتے مزاج پر بلاج مسکرا دیا۔

وہ بہت غیر متوقع مزاج کی مالک تھی پل بھر میں ہی اس کا مزاج بدل جاتا تھا اور یہی بات بلاج کو بڑی شدت سے اپنی طرف کھینچتی تھی۔

" اچھا اب اُٹھو ڈیوٹی ٹائم شروع ہونے والا ہے۔"

بلاج کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور یاسمین کا ہاتھ تھام کر کیفے ٹیریا سے باہر نکل گیا۔

" ہاتھ دیا تھا اس نے اپنا میرے ہاتھ میں

پھر کیوں قسمت نے چھین لیا ایک ہی وار میں

وہ تو کہتا تھا بس ایک میرا ہے وہ

پر ایک میرا ہی نہیں ہوا دیارِ یار میں "

۔*********۔

" اکاؤنٹس کے پیپر میں تو مجھے سو میں سے سو ملیں گے دیکھنا۔" جنید نے کلاس سے باہر نکل کر جوش سے کہا۔ جسے نوید نے اگلے ہی لمحے ٹھنڈا کر دیا۔

" ہاں بس فرق اتنا ہوگا دو زیرو سے پہلے ایک غائب ہو گا۔"

" شکل اچھی نہ ہو تو بات اچھی کر لینی چاہیئے۔"

جنید منہ بناتا ہوا بولا۔ جس پر وہ تینوں مسکرا دیئے۔ ابھی وہ کینٹین کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ کا ایک لڑکا ان کے پاس آیا۔

" آپ چاروں کو ایڈمنسٹریٹر کے روم میں بلایا ہے۔"

" ہمیں؟ " وہ چاروں ایک ساتھ بولے۔

" جی !! "

وہ لڑکا کہہ کر جیسے آیا تھا ویسے ہی نکل گیا۔ جبکہ وہ چاروں حیرت میں ڈوبے ایڈمنسٹریٹر ڈیپارٹ کی جانب بڑھے۔

" سر ہم اندر آجائیں؟ "

ایڈمنسٹریٹر روم کے دروازے پر کھڑے وہ چاروں اجازت طلب نظروں سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ رہے تھے۔ وہ وہاں اکیلے نہیں تھے۔ بلکہ بڑی سی ٹیبل کے گرد ان کے بائیں جانب سر وقار اور جسمین کے ساتھ ساتھ تین اور ڈیپارٹمنٹ کے ٹیچر بھی موجود تھے۔

" یس !! کم ان۔" سر دانیال نے اجازت دی۔

وہ چاروں چلتے ہوئے آگے آئے اور ان کے سامنے ادب سے با آواز بلند سلام کرکے سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔

" مسٹر یوسف آپ کے فادر کی ڈیتھ کا سن کر افسوس ہوا۔" شائستہ لہجے میں وہ یوسف سے مخاطب ہوئے۔

" جی سر !! " سر جھکائے ہی وہ دھیرے سے بولا۔

" اور آپ تینوں۔۔۔ مس جسمین نے بتایا آپ کی گہری دوستی کے بارے ميں کیسے پیپر کے بیچ سے اُٹھ کر آپ یونی سے چلے گئے تھے۔" اب کے ان کا رخ اُن تینوں کی طرف تھا۔ جو سمجھ گئے تھے۔ " آج تو شامت پکی۔"

" سر وہ۔۔۔"

" جب ہم بات کر رہے ہوں تو بیچ میں نہیں بولا کریں۔ انڈرسٹینڈ؟ " نوید کی بات کاٹتے ہوئے انہوں نے ٹوکا۔

" جی !! " جھکا سر مزید جھک گیا۔

" دوستی ہونا اچھی بات ہے لیکن اس کیلئے اپنا مستقبل برباد کرنا کیا ٹھیک ہے؟ " سر دانیال نے سوالیہ نظروں سے ان تینوں کو دیکھا۔ وہ سر جھکائے خاموش کھڑے رہے۔

" اب آپ لوگ بول سکتے ہیں۔"

ان کی بات پر وہاں بیٹھے ٹیچرز کے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ رینگ گئی۔ جبکہ بیچارے اسٹوڈنٹس اس وقت بس چلو بھر پانی کی خواہش کر رہے تھے ڈوب مرنے کیلئے۔

" بتائیں کیا دوستی کے پیچھے یوں مستقبل کو برباد کرنا ٹھیک ہے؟ اگر آپ کی اس حرکت پر یونیورسٹی سے نکال دیں تو؟ " سر دانیال نے پھر پوچھا۔

" سر !! ڈگری تو ہمیں کوئی بھی یونی دیے دے گی۔ مگر یوسف جیسا دوست قسمت سے ملا کرتے ہیں۔ اگر یوسف کیلئے ہمیں یونی بھی چھوڑنی پڑی تو وہ بھی چھوڑ دینگے۔" نوید پراعتماد لہجے میں بولا۔

" جی سر !! ویسے بھی بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے آج کی فکر کرنی چاہیئے کل کی نہیں اور آج میں سب سے اہم کام یوسف کی مدد کرنا تھا۔ اس کے ساتھ کھڑے ہونا تھا۔" اب کے حذیفہ بھی ہمت کرتا ہوا بولا۔

وہاں موجود تمام افراد دلچسپی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ جبکہ ساتھ کھڑے یوسف کی آنکھوں میں ان کی دوستی کو دیکھتے ہوئے نمی اُترنے لگی۔ آج حقیقتاً اسے اپنی قسمت پر رشک آ رہا تھا کہ اللّٰه نے اسے دوستی جیسے قیمتی رشتوں سے مالا مال کر رکھا تھا۔

" اور آپ کیا کہیں گے مسٹر جنید؟ " سر دانیال نے دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا۔

" ہماری دوستی کو لفظوں کی ضرورت نہیں سر !! اس بات کا چھوٹا سا عملی نمونہ آپ دیکھ چکے ہیں۔ لیکن اب آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو۔۔۔ یہ تو صرف پیپر تھا اگر کسی موڑ پر ہمیں ایک دوسرے کیلئے جان کی بازی بھی لگانی پڑی تو پیچھے نہیں ہٹیں گے۔" جنید ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جس پر وہ دھیرے سے مسکرا دیئے۔

حذیفہ اور نوید نے تو پھر بھی نظریں جھکا کر بات کی تھی پر اپنی بات کا یقین دلانے کیلئے جنید نے نظریں اُٹھا کر جواب دیا تھا۔

" آئی ایم ایمپریسڈ !! کیا دوستی ہے۔" کہتے ہوئے انہوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ ان چاروں کو سمجھ نہ آیا۔ یہ طنز تھا یا وہ واقعی متاثر ہوئے ہیں۔

" آج سے پہلے کبھی یونیورسٹی میں ایسا نہیں ہوا لیکن مس جسمین اور سر وقار کے کہنے پر اور باقی انتظامیہ کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ۔۔۔"

وہ رکے اور ایک نظر ان کے جھکے سروں کو دیکھا۔ وہ سب سانس روکے کھڑے تھے۔ نہ جانے آگے کیا بُری خبر سنانے والے ہوں۔

" آپ چاروں کو ایک اور موقع دیا جائے گا اور جن دو پیپرز کو آپ نے اٹیمپٹ نہیں کیا وہ دوبارہ لیے جائیں گے۔"

" تھینکیو۔۔۔ تھینکیو سر !! "

وہ چاروں ایک دم خوشی سے کھل اُٹھے۔ وہاں بیٹھے سب ٹیچرز انہیں دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

" آپ کو خاص طور پر سر وقار اور مس جسمین کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ آپ لوگ اس یونی کے جینئس اسٹوڈنٹس ہیں اس لیے ان کی سفارش پر ہی آپ لوگوں کو دوسرا موقع دیا گیا ہے۔"

سر دانیال کی بات پر یوسف نے جسمین کی طرف دیکھا جو خاموش بیٹھی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔ یونی آنے کے بعد سے وہ اب اسے دیکھ رہا تھا۔ ورنہ سارا وقت تو سر ساجد کی کلاس میں پیپر دینے میں ہی گزر گیا تھا۔

" تھینکیو سر وقار۔۔۔ تھینکیو مس جسمین !! "

چاروں ایک ساتھ بولے جس پر مس جسمین اور سر وقار نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ان کا شکریہ قبول کیا۔

" اب آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ اگر کچھ پیپرز کے متعلق پوچھنا ہو تو اپنے ٹیچرز سے پوچھ لیجئے گا۔"

" جی سر !! "

دمکتے چہروں کے ساتھ مسکرا کر کہتے وہ سب فوراً وہاں سے نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی وہاں بیٹھے ٹیچرز بھی اپنے اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔

" کیا ضرورت تھی ایسے سر کے سامنے ڈائلاگ مارنے کی جان کی بازی لگا دینگے وغیرہ وغیرہ۔" ایڈمنسٹریٹر ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر اب وہ کینٹین کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جب یوسف جنید سے گویا ہوا۔

" اچھا تو کیا غلط کہا۔ جب بھی تو نے کسی سے پنگا لیا ہے ہم ہی تیرے ساتھ کھڑے تھے اور ایک دفعہ یاد ہے جب تو نے اُس موٹے جمشید سے پنگا لیا تھا۔ کیا بھاری ہاتھ تھا اُس موٹے کا میرا جبڑا ہی ہلا دیا تھا۔"

اپنے جبڑے پر ہاتھ رکھ کر جنید نے جھرجھری لی۔ شدت سے اسے وہ دن یاد آیا تھا۔ جب یوسف جنید کے محلے میں جمشید نامی آدمی سے اُلجھ گیا تھا۔

" ہاں تو تیرے ساتھ تو ہونا ہی یہی چاہیئے تھا۔ میں تو کہتا ہوں وہ موٹا جمشید دو اور تجھے لگاتا۔" یوسف نے اسے مزید چڑھایا۔

" دیکھ بیٹا میرا بھی وقت آئے گا۔ لے تو اب کسی جمشید سے پنگا میں بالکل تجھے بچانے نہیں آؤں گا۔"

" پہلے کونسا تو بچانے آیا تھا؟ الٹا میں نے ہی تجھے بچایا تھا۔"

" اچھا بس کردو تم دونوں شروع ہی ہو جاتے ہو۔" یونہی نوک جھونک میں وہ کینٹین تک پہنچ گئے تھے جب نوید نے انہیں ٹوکا۔

" ویسے یوسف مس جسمین سے سفارش کا تو نے تو نہیں کہا؟ " حذیفہ جو کب سے اس سوچ میں ڈوبا تھا۔ کینٹین کے باہر ہی رکتے ہوئے یوسف سے پوچھ بیٹھا۔

" دماغ خراب ہے۔ سفارش کی بات کرتا نا تو انتظامیہ سے مجھے ہی یونی سے نکالنے کی سفارش کر دیتیں۔" یوسف بھڑک کر بولا۔

" آپس میں لڑنے کے بجائے ایسا کرو مس جسمین سے ہی پوچھ لو۔"

نوید ایک ہاتھ سے کوریڈور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ جہاں سے جسمین ہاتھ میں فائلز پکڑے سر وقار کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی آ رہی تھی۔ یوسف فوراً ان دونوں کی طرف بڑھا۔

" ابے او احمق !! کہاں جا رہا ہے رک۔"

یوسف کو جاتا دیکھ وہ پیچھے سے چلائے پر وہ ان سنی کرتا آگے بڑھ گیا۔ ناچار انہیں بھی اس کے پیچھے جانا پڑا۔

" السلام عليكم !! "

دونوں کو مشترکہ سلام کرتے ہوئے اس نے ایک نظر جسمین کو دیکھا پھر سر وقار کی طرف متوجہ ہو گیا۔

" برخوردار کوئی کام تھا؟ "

سر وقار نے سوالیہ نظروں سے یوسف کو دیکھا۔ اس کے پیچھے ہی وہ تینوں بھی آ کھڑے ہوئے تھے۔ جب سر وقار کے پوچھنے پر جنید فوراً بولا۔

" سر ہم آپ دونوں کو پرسنلی مل کر تھینکس کہنا چاہتے تھے۔ آپ نے ہمارے لیے اتنا کچھ کیا۔ ہم سب آپ دونوں کے دل سے شکر گزار ہیں۔ اس لیے ہم سب آپ کو شکریہ کہنے چلے آئے۔" اس بات پر سروقار نے بڑی شان سے گردن اکڑائی۔

" بالکل شکر گزار ہونا بھی چاہیئے۔ کیونکہ آپ لوگوں کا پچھلا ریکارڈ دیکھتے ہوئے مس جسمین نے مجھ سے کہا تو میں نے ہامی بھر لی۔ ورنہ اس سمسٹر میں تو آپ پکا فیل ہو چکے تھے۔"

سر وقار کے کہنے پر سب کی نظریں جسمین کی طرف اُٹھیں جو چہرہ نیچے جھکائے اپنے پیر کے انگوٹھے کو گھور رہی تھی۔

" اچھا مس جسمین میں چلتا ہوں اور تم۔۔۔" جسمین سے کہتے ہوئے وہ ایک دم یوسف کی طرف مڑے۔ وہ جو ٹک ٹکی باندھے جسمین کو دیکھ رہا تھا سر وقار کے مخاطب کرنے پر گڑبڑا اُٹھا۔

" جی۔۔۔ جی سر !! "

" ساری بات ایک طرف لیکن تم اب بھی مشکوک ہو۔ سمجھے؟ " وہ انگلی اُٹھا کر بولے۔ یوسف ان کی بات کا مطلب سمجھ کر سر جھکا گیا۔ یعنی سر وقار ابھی تک بھولے نہیں تھے۔

" جی !! " وہ محض اتنا ہی کہہ سکا۔

البتہ سر وقار اسے گھوری سے نوازتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ان کے جاتے ہی وہ تینوں بھی وہاں سے کھسک لیے۔ اب کوریڈور میں صرف جسمین اور یوسف ہی ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔

" کچھ کہنا ہے مسٹر یوسف؟ " جسمین نے ارد گرد دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہاں موجود ہر اسٹوڈنٹ اپنے آپ میں مگن تھا کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ تھوڑی پُرسکون ہوئی۔

" مجھے شکریہ کہنا تھا۔" جسمین پر نظریں جمائے وہ دھیرے سے بولا۔

" کتنی دفعہ شکریہ کرین۔۔۔"

" آپ نے اُس دن کال کی تھی اُس کیلئے شکریہ۔" نرمی سے جسمین کی بات کاٹتے ہوئے اس نے شکریہ ادا کیا۔ جس پر وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔

" شکریہ کی ضرورت نہیں یہ تو میرا فرض تھا۔ آپ کے فادر کا سنا تھا تو۔۔۔"

ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ دی۔ جبکہ باپ کا ذکر آتے ہی یوسف کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی۔ اس کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے جسمین نے چہرہ اس کی طرف موڑا تو چونک اُٹھی۔

نم آنکھیں لیے وہ خود پر ضبط کر رہا تھا۔ صبح سے اس کے ڈیپارٹمنٹ کے کئی ٹیچرز اور اسٹوڈنٹس حیدر صاحب کی تعزیت کیلئے اس کے پاس آ چکے تھے۔ اپنے آنسوؤں پر بندھ باندھتا وہ سب سے ملا تھا پر اب اپنے سامنے جسمین کو دیکھ کر وہ کمزور پڑ رہا تھا۔ خود پہ چڑھایا خول آہستہ آہستہ سرک رہا تھا۔ جیسے کسی اپنے کے ہونے کے احساس نے اسے مجبور کر دیا ہو کہ اپنے دل کا غبار نکال کر اس کے سامنے رکھ دے۔

" یوسف !! "

جسمین اس کی آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں کو دیکھ کر نفی میں سر ہلانے لگی۔ یوسف دھیرے سے مسکرا دیا۔ نم آنکھیں، ہونٹوں پہ تبسم وہ اس وقت کے سحر میں کھو سی گئی کہ اچانک پیچھے سے ایک اسٹوڈنٹ تیزی سے آگے بڑھتا بے دھیانی میں جسمین سے ٹکرایا۔

" آآاہ !! " ہاتھ سے فائلز چھوٹ کر نیچے گر گئیں۔

" دیکھ کر نہیں چل سکتے۔" یوسف غصّے سے کہتا اُس لڑکے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ جسمین نے اس کا بازو تھام کر روکا۔

" کوئی بات نہیں غلطی سے ہوگیا ہوگا۔"

" سوری مس میں نے دیکھا نہیں تھا۔" وہ لڑکا سہما ہوا بولا۔

" دیکھا نہیں۔ آنکھیں گھر چھوڑ کر آیا ہے؟ " یوسف پھر اپنا بازو چھڑا کر آگے بڑھنے لگا کہ جسمین نے فوراً اس لڑکے کو منظر سے ہٹایا۔

" بیٹا آپ جاؤ۔"

اس کے کہتے ہی وہ لڑکا شکر مناتا بوتل کے جن کی طرح وہاں سے غائب ہو گیا۔ جبکہ اس کو جاتا دیکھ یوسف سر جھٹک کر نیچے پڑی فائلز اُٹھانے لگا۔

" بیٹا سیرئیسلی؟ " فائلز اُٹھا کر جسمین کو پکڑاتے ہوئے وہ بھنویں اچکا کر بولا۔

" ہاں تو اسٹوڈنٹ ہے وہ میرا اب ہر کوئی تمہاری طرح غنڈا نہیں ہوتا۔ سدھرنا مت تم۔" ایک بار پھر سارے لحاظ بالائے طاق رکھ کر وہ آپ سے تم پر اُتر آئی۔

" تم !! آپ مجھے " تم" ہی بولا کریں۔ آپ کے منہ سے یہ زیادہ اچھا لگتا ہے۔" جسمین کے غصّے کو خاطر میں لائے بغیر وہ سرشاری سے مسکراتا ہوا بولا۔

" دفع ہو جاؤ۔" غصّے سے پیر پٹختی، اس کے ہاتھ سے فائلز جھپٹ کر وہاں سے نکلتی چلی گئی۔ جبکہ یوسف آسمان کی طرف دیکھتا وہیں کھڑے ہو کر ان بیتے لمحوں کو محسوس کرنے لگا۔

"عشق کا تو پتا نہیں پر۔۔۔

جو تم سے ہے وہ کسی اور سے نہیں۔"

۔*********۔

وہ گھر میں داخل ہوا تو لاؤنج میں ہی فائزہ بیگم ملازموں کے سر پر کھڑی انہیں ہدایت دے رہی تھی۔ بلاج مسکرا کر دیکھتا ان کے پاس ہی چلا آیا۔

" السلام عليكم !! "

" وعليكم السلام !! آج جلدی آگئے۔" وہ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوئیں۔

" جی بس ڈیوٹی ٹائم ختم ہوگیا تھا تو گھر آگیا۔" تھکے تھکے سے انداز میں کہتا وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔

" اچھا کیا۔ تم فریش ہو جاؤ میں تب تک کھانا لگواتی ہوں۔" بلاج سے کہتی وہ پاس کھڑی شبانہ کی طرف مڑیں۔

" جاؤ شبانہ بلاج کیلئے کھانے کا انتظام کرو۔"

" جی سردارنی جی !! " تابعداری سے کہتی وہ فوراً وہاں سے نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی بلاج سیدھا ہوکر بیٹھا۔

" امی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"

" ہاں بولو کیا بات ہے؟ "

" امی میں چاہتا ہوں آپ یاسمین کے گھر میرا رشتہ لے کر جائیں۔" وہ سنجیدگی سے فائزہ بیگم کو دیکھتے ہوئے بولا۔

" کیا !! پر تمہارے بابا سائیں، تم نے اُن سے بات کی؟ " فائزہ بیگم ایک دم پریشان ہو اُٹھیں۔

" نہیں پر کر لوں گا آج یا کل میں اُس کے بعد آپ کو وقت نکال کر یاسمین کے گھر جانا ہے۔" بلاج آرام سے بولا۔

" ٹھیک ہے لیکن تم پہلے بابا سائیں سے بات کرو۔ اُنہیں اعتراض ہو سکتا ہے اس رشتے سے۔" انہوں نے اسے سمجھانا چاہا۔

" اُن کے اعتراض کی مجھے پرواہ نہیں۔ اگر وہ نہیں مانے تو پھر بھی یہ شادی ہوکر رہے گی۔"

اپنی بات کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ صوفے پر بیٹھی فائزہ بیگم کا سکون پل بھر میں غارت کر گیا تھا۔

۔*********۔

اپنے کمرے سے نکل کر وہ سیڑھیاں اُترتی نیچے آ ہی رہی تھی جب اس کی نظر کچن میں جاتی شبانہ پر پڑی۔

" شبانہ خالہ میرے لیے چائے بنادیں پلیز بہت سر میں درد ہو رہا ہے۔"

" جی بی بی !! بس ابھی لائی۔" جسمین کو دیکھ کر وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔

" اچھا امی کے کمرے میں ہی لے کر آجائے گا میں وہیں جا رہی ہوں۔"

" جی ٹھیک ہے بی بی جی !! " اس کا حکم سنتے ہی وہ فوراً کچن میں گھس گئی۔ جبکہ جسمین فائزہ بیگم کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

" امی میں آجاؤ؟ " دروازے پر دستک دیتے ہوئے اس نے اجازت طلب کی۔

" ہاں آجاؤ بیٹا۔" وہ جو بیڈ پر لیٹی آرام کر رہی تھیں جسمین کی آواز پر اُٹھتے ہوئے بولیں۔

" کیا بات ہے امی؟ جب سے یونی سے آئی ہوں آپ کو پریشان دیکھ رہی ہوں۔ سب ٹھیک ہے نا؟ " بیڈ پر بیٹھتے ہی اس نے سوالیہ نظروں سے فائزہ بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" کیا ٹھیک ہے۔ ناجانے یہ بلاج کب سدھرے گا۔ ہر وہ کام کرتا ہے۔ جو تمہارے بابا سائیں کو پسند نہیں۔" وہ پریشانی سے بولیں۔

" کیوں کیا ہوا؟ اب کیا کر دیا بھائی نے؟ "

" کرنا کیا ہے۔ کہہ رہا ہے بابا سائیں نہیں مانے تو تب بھی یاسمین سے شادی کرے گا۔ مجھے تو ڈر ہے کہیں کچھ غلط نہ ہوجائے۔ باپ بیٹے کی ضد بحث میں۔" ان کا خدشات سے لبریز لہجہ جسمین کو بھی پریشان کر گیا۔

" آپ فکر نہیں کریں۔ بلکہ اللّٰه سے دعا کریں سب ٹھیک ہو گا انشاء اللّٰه۔"

" ہاں !! اللّٰه کرے ایسا ہی ہو۔"

فائزہ بیگم گہرا سانس لیتے ہوئے بولیں۔ باپ اور بیٹے کے بیچ پیس کر جو رہ گئی تھیں۔ ایک سیر تھا تو دوسرا سوا سیر۔۔۔

۔*********۔

" یوسی تو واقعی مس جسمین سے شادی کرے گا؟ "

رات کے اندھیرے میں وہ چھت پر چار پائی بچھائے لیٹے، آسمان پر نظر آتے چاند کو تک رہے تھے۔ جب نوید نے چہرہ موڑ کر یوسف سے پوچھا۔ اس وقت وہ یوسف کے گھر پر موجود تھا جبکہ حذیفہ اور جنید تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے اپنے گھر جا چکے تھے۔

" ظاہر سی بات ہے۔"

یوسف نے کہتے ہوئے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور دھیمی آواز میں گانا لگا کر موبائل سائڈ پر رکھ دیا۔

" یوسف یہ اتنا آسان نہیں۔" نوید نے اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔

" جانتا ہوں۔ مجھے بھی آسانیاں پسند نہیں۔" یوسف اس کی طرف چہرہ موڑ کر مسکراتا ہوا بولا ساتھ ہی نوید کے ہونٹوں کو بھی مسکراہٹ نے چھو لیا۔

" ویسے گانا بڑا اچھا لگایا ہے۔ کیا مس جسمین کی یاد آ رہی ہے؟ " فضاء میں پھیلے گانے کے بول سنتا، نوید شرارت سے بولا۔

" شٹ اپ !! " مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے یوسف نے مصنوعی گھوری سے اسے نوازا۔

" چل چل یہ شٹ اپ کسی اور کو بول میں تیری مسکراہٹ دیکھ چکا ہوں۔" وہ ہنسا پر یوسف نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔

" اچھا ویسے ایک بات تو بتا؟ "  یوسف کی طرف کروٹ لیتے ہوئے اس نے پوچھا۔

" نہیں۔"

نوید کے فضول سوال سے بچنے کیلئے اس نے صاف انکار کیا۔ لیکن وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔ اس کے انکار کو کسی بھی خاطر میں لائے بغیر پوچھ بیٹھا۔

" پہلی دفعہ کب پسند آئیں؟ "

یوسف نے اسے گھورا جس پر اپنے دانتوں کی نمائش کرتا وہ پھر بولا۔

" بتا بھی دے ہم سے کیا شرمانا۔"

" اُن کے یونی میں پہلے دن سے ہی جب وہ مجھے ڈانٹ رہی تھیں۔ کلاس میں ہنگامہ کرنے پر۔" یوسف واپس اپنا چہرہ موڑ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔

" اوووو !! " نوید نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھا۔

" اب میں تیرا منہ توڑ دوں گا کوئی فضول سوال کیا تو۔" جھنجھلا کر کہتا وہ چار پائی پر سے اُٹھا اور موبائل میں لگا گانا بند کرتے ہوئے نیچے کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ بیچارا نوید اسے جاتا دیکھ کر پیچھے سے چلاتا ہی رہ گیا۔

" ابے رک جا میں بھی آتا ہوں۔"

پر وہاں پرواہ کسے تھی؟ یوسف میاں تو یہ جا وہ جا۔۔۔

گزرے دنوں کے مقابلے میں آج موسم قدرِ خوشگوار تھا۔ صبح سے آسمان پر بادلوں نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا۔ یوں تو کراچی کا موسم زیادہ تر گرم ہی رہتا ہے۔ مگر آج صبح سے چھائے بادلوں نے ماحول میں خنکی سی پیدا کر دی تھی۔ ایسے میں وہ چاروں ہنستے مسکراتے کلاس سے نکل کر پارکنگ ایریا کی جانب بڑھ رہے تھے۔ آج ان کا آخری پیپر تھا یا یوں کہا جائے بیچارا وہ پیپر تھا جسے یہ خود چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔۔۔

" ابے یار یہ یونی کی چھٹیاں کینسل نہیں ہو سکتیں؟ ورنہ میری اماں تو بازار سے سودا منگا منگا کر میری جوتی کے ساتھ ساتھ پاؤں بھی گھسوا دینگی۔" جنید جھرجھری لیتا ہوا بولا۔

" ایک کام کر راستے میں کھڑے ہو کر کسی سے پنگا لے لے۔ پھر میں پولیس کو بلا لوں گا تاکہ وہ تجھے پکڑ کر تھانے میں بند کر دیں۔ اس طرح تو گھر کے کام سے بھی بچ جائے گا اور تیری چھٹیاں بھی آرام سے گزر جائیں گی۔" حذیفہ نے اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا۔

" میرے پاس اس سے بھی اچھا آئیڈیا ہے۔ یہاں سے ہم سیدھا نفسیاتی ہسپتال جاتے ہیں اور تم دونوں کو وہاں چھوڑ کر میں اور یوسف گھر چلے جائیں گے۔ کیوں یوسی؟ " نوید نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ یوسف کے سامنے کیا۔ اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا یوسف ہنس دیا۔

" بالکل!! "

" تو تو چپ ہی کر۔ نفسیاتی ہسپتال کی ضرورت تو تجھے پڑے گی جب مس جسمین کے بھائی تیری عقل ٹھکانے لگائیں گے۔" حذیفہ چڑ کر بولا۔

" میری عقل ٹھکانے لگانے والے ابھی پیدا نہیں ہوئے۔"

کہتے ہوئے یوسف ارد گرد دیکھنے لگا۔ نظریں جسمین کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ جو صبح سے ایک بار بھی اسے نظر نہیں آئی تھی اور آج تو اس کا آخری پیپر تھا پھر تو چھٹیوں کے بعد ہی اُس کا دیدار نصیب ہونا تھا۔

" ادھر اُدھر کیا دیکھ رہا ہے سامنے دیکھ گاڑی میں بیٹھ کر جا رہی ہیں۔" یوسف جو ادھر اُدھر دیکھنے میں لگا تھا۔ جنید کی بات پر چونک کر سامنے دیکھا۔ جہاں وہ کار میں بیٹھی یونی سے باہر نکل رہی تھیں۔

" شٹ !! " وہ دل ہی دل میں کراہ کر رہ گیا۔

" ہاں تو کیا کہہ رہا تھا یوسف؟ تو تیری عقل ٹھکانے لگانے والے ابھی پیدا نہیں ہوئے۔" حذیفہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے چوٹ کی انداز واضح طور پر مذاق اڑانے والا تھا۔

" اب لگ گئی عقل ٹھکانے؟ "

" تیری تو رک سالے۔"

دانت پیستا یوسف اس کے پیچھے بھاگا۔ جس پہ پارکنگ ایریا میں چوہے بلی کی دوڑ لگ گئی۔ جبکہ ان دونوں کو دیکھتے نوید اور جنید کے قہقہے فضاء میں گونج اُٹھے تھے۔

" انتظار اتنا تھا پر بات نہ ہونے پائی

 تم ملے بھی تو ملاقات نہ ہونے پائی "

۔*********۔

" بابا سائیں مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔"

جہانگیر ملک اس وقت بیٹھک میں موجود تھے۔ ان کے دائیں جانب بچھے تخت پر دلاور اور بائیں جانب بچھے تخت پر خاور بیٹھا تھا۔ وہ تینوں اپنے سامنے زمین پر بیٹھے لوگوں کے مسائل سن رہے تھے۔ جب بلاج ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

کافی دنوں سے وہ ہسپتال میں ہی مصروف تھا جس کے باعث جہانگیر ملک سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں مل پایا۔ آج اسے کچھ فرصت ملی تھی تو سیدھا اپنے اور یاسمین کے بارے ميں بات کرنے چلا آیا۔

" ابھی جاؤ تم سب۔"

جہانگیر ملک نے انہیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ بیٹھے سب ہی لوگ ان کے سامنے سر جھکاتے فوراً وہاں سے نکلتے چلے گئے۔

" بولو کیا بات ہے۔" چہرے پر سنجیدگی لیے اپنے مخصوص اکھڑ لہجے میں پوچھا۔

" میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔" بنا کوئی تمہید باندھے بلاج صاف لفظوں میں بولا۔ جس پہ دلاور اور خاور کے چہروں پر طنزیہ مسکراہٹ در آئی۔

" واہ !! چھوٹے سرکار اب بڑے ہو گئے۔" خاور نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا۔

" میں آپ سے بات نہیں کر رہا تو بہتر ہے خاموش رہیں۔" سخت نظروں سے خاور کو گھورتا وہ واپس جہانگیر ملک کی جانب مڑا جو حیرت سے اس کے انداز کو دیکھ رہے تھے۔

" بابا سائیں یاسمین اچھی لڑکی ہے۔ میرے ساتھ ہسپتال میں کام کرتی ہے۔ اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ مجھے اُمید ہے آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔"

" دماغ خراب ہے تمہارا؟ ہم تمہاری شادی کسی خاندانی لڑکی سے کرینگے۔ وہ لڑکی نہ جانے خاندانی ہے بھی یا نہیں۔" وہ ایک دم بھڑک اٹھے۔ بلاج ہمیشہ سے ضدی تھا پر آج وہ ایک لڑکی کے پیچھے یوں باغی بھی ہو جائے گا انہوں نے سوچا نہیں تھا۔

" کہا نہ شریف خاندانی لڑکی ہے۔ بس ملکوں میں سے نہیں ہے۔" وہ ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا۔

" بابا سائیں اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اب ملک خاندان میں ایک عام سی لڑکی بہو بن کر آئے گی۔" دلاور نے جہانگیر ملک کے غصّے کو مزید ہوا دینی چاہی۔

" ذات پات میں کچھ نہیں رکھا۔ وہ خاندانی ہے عزت دار ہے۔ مجھے امید ہے آپ ایک بار میری بات پر نظرثانی کرینگے۔ باقی آپ نہیں بھی مانے تو تب بھی بیوی وہ میری ہی بنے گی۔" اپنی کہہ کر بلاج وہاں سے تیزی سے نکل گیا۔ جبکہ وہاں بیٹھے جہانگیر ملک کا غصّے سے بُرا حال تھا۔

" ہنہہ !! دیکھ لیا بابا سائیں یہ آپ کی دی ہوئی ڈھیل کا نتیجہ ہے۔" دلاور ہنکار بھرتا بولا۔

" بالکل پہلے ہی اس کی لگام کس لیتے تو آج یوں سامنے نہ کھڑا ہوتا۔" خاور بھی اس کی تائید کرنے لگا۔

" میں تو کہتا ہوں۔ اُس لڑکی کو ہسپتال سے ہی اُٹھا لیتے ہیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری کچھ دنوں میں خود ہی بھول جائے گا۔" دلاور نے مشورہ دیا۔

" نہیں !! ہم اس معاملے کو خود دیکھ لینگے۔ ہم نہیں چاہتے وہ ہم سے بدگمان ہو کچھ ایسا کرنا پڑے گا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔" پُرسوچ انداز میں کہتے وہ کسی فیصلے پر پہنچ چکے تھے۔

۔*********۔

آج یونیورسٹی آف ہوئے پورے چار دن ہو چکے تھے۔ ایسے میں بیڈ پر لیٹا ارد گرد سے بے نیاز وہ کانوں میں ہینڈ فری لگائے پاؤں مسلسل ہلا رہا تھا۔ دفعتاً دروازہ کھول کر وہ اندر آئی۔

" حذیفہ !! حذیفہ اُٹھو تمہارے دوست آئے ہیں۔" اس کے کان سے ہینڈ فری کھینچ کر وہ چلاتے ہوئے بولی۔

" اوہو !! تو چیخ کیوں رہی ہیں؟ " وہ جھنجھلایا۔

" تم سن جو نہیں رہے۔" کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے حذیفہ کو گھورا اور مڑ کر واپس دروازے کی طرف بڑھی۔

" مہوش آپی کچھ کھانے کے لیے لادو میرے اور میرے دوستوں کیلئے۔" حذیفہ پیچھے سے اونچی آواز میں بولا۔

کمرے سے باہر نکلی مہوش نے رک کر اسے خونخوار نظروں سے گھورا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی وہ سسرال سے میکے آئی تھی۔ ابھی سفر کی تھکن اُتری نہیں تھی کہ یہاں فرمائشیں شروع ہوگئیں۔

" امی سے بول دو اب میں نئی نویلی دلہن کام کرتی اچھی نہیں لگتی۔" اس نے آنکھیں مٹکائیں۔

" ارے رہنے دو !! چار مہینے کی دلہن وہ بھی نئی نویلی جا کر کام کرو شاباش۔ امی بھی تھکی ہوئی ہیں۔" کہتے ہوئے مہوش کو سائڈ پر کرتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ پیچھے وہ دانت پیس کر اس کو کوستی کمرے کے بجائے کچن کی جانب بڑھ گئی۔

" امی آپ کیا کر رہی ہیں؟ "

ابھی کچن میں پہنچی ہی تھی کہ سامنے ہی نسرین بیگم کام میں لگی نظر آئیں۔

" حذیفہ کے دوستوں کیلئے چائے بنا رہی ہوں۔"

" رہنے دیں میں کرتی ہوں۔ آپ کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں جائیں آرام کریں۔" اس نے نسرین بیگم کے ہاتھ سے برتن لے کر ایک طرف رکھا اور انہیں شانوں سے تھام کر کچن سے باہر لے آئی۔

" جائیں آرام کریں۔"

" تم بھی نا۔" نسرین بیگم مسکراتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔

ان کے جاتے ہی وہ جلدی سے ہاتھ چلاتی چائے اور اسنیکس ٹرے میں سجا کر ڈرائنگ روم کی طرف بڑھی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سامنے ہی چاروں صوفے پر بیٹھے باتوں میں مشغول تھے۔

" اب باقی باتیں بعد میں پہلے کچھ کھا پی لو سب۔" مہوش نے اندر داخل ہو کر مسکراتے ہوئے کہا۔

" ارے واہ !! آپی یہ ہوئی نہ کچھ بات۔" جنید فوراً کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھ سے ٹرے تھام لی۔

" تم آ رہے تھے تو " ردا " کو بھی اپنے ساتھ لے آتے۔ کیسی ہے وہ؟ "

اس نے جنید کی چھوٹی بہن کے بارے میں پوچھا۔ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے وہ چاروں دوست ہی ایک دوسرے کے گھر کا حصّہ بن چکے تھے۔ جس کے باعث باقی بھائی بہنوں میں بھی اچھی جان پہچان ہو گئی تھی۔

" وہ بالکل ٹھیک ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا آپ آئی ہوئی ہیں ورنہ لے آتا۔" کہتے ہوئے جنید نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور خود واپس صوفے پر بیٹھ گیا۔

" چلو ٹھیک ہے۔" وہ کہہ کر جانے ہی لگی تھی جب اس کی نظر حذیفہ پر پڑی جو کب سے اسے مخفی سے اشارے کر کے یوسف کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مہوش اس کا اشارہ سمجھ کر مسکرائی ساتھ ہی یوسف کو دیکھا جو چائے پینے میں مصروف تھا۔

" یوسف !! "

"جی آپی؟ " یوسف فوراً متوجہ ہوا۔

" جسمین کیسی ہے؟ " مہوش کے پوچھنے پر ایک دم ان تینوں نے بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو روکا جبکہ یوسف خونخوار نظروں سے حذیفہ کو گھورنے لگا۔

" ٹھیک ہوں گی۔ مجھے کیا پتا جیسے میری ٹیچر ہیں ویسے ہی حذیفہ کی بھی ہیں اس نے بتایا نہیں آپ کو؟ " وہ واپس مہوش کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

" ہاں حذیفہ نے بتایا تھا سب بتا دیا تھا۔" اس نے معنی خیز لہجے میں کہا اور ایک بار پھر یوسف نے خونخوار نظر حذیفہ پر ڈالی۔

" ویسے پتا ہے کلاس میں جسمین بہت خاموش رہتی تھی میرے اور کچھ ایک دو اور لڑکیوں کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔ اب بھی وہ اتنی ہی خاموش رہتی ہے یا اب بولنے لگی ہے۔" یوسف کا موڈ بگڑتا دیکھ مہوش اب ہلکے پھلکے انداز میں بولی۔

" اب بھی کم بولتی ہیں بس فرق اتنا ہے جب منہ کھولتی ہیں زہر اگلنے لگتی ہیں۔"

جنید نے کہتے ہوئے ہاتھ سے سانپ کی طرح اشارہ کیا۔ جس پر یوسف کے علاوہ سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔

" بکواس بند کرو۔" یوسف ناگواری سے بولا۔

" اچھا ویسے تم لوگ جانتے ہو وہ سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ جسمین اور اُس کا بھائی بلاج ہی بس زرا نرم مزاج ہیں ورنہ باقی تو وہ سب سخت طبیعت کے مالک ہیں۔" اب کے مہوش سنجیدگی سے ان سب کو دیکھتے ہوئے بولی انداز وارن کرنے والا تھا۔ جیسے کہنا چاہتی ہو (کچھ غلط نہ کرنا ورنہ بہت کچھ غلط ہو جائے گا)

" آپ جو سمجھانا چاہ رہی ہیں میں سمجھ گیا آپی آپ فکر نہیں کریں۔ میں کچھ غلط نہیں کروں گا۔" یوسف مسکراتا ہوا بولا۔ وہ مہوش کی بات میں چھپا مطلب اچھے سے سمجھ گیا تھا۔

" ہمم !! چلو تم لوگ باتیں کرو میں چلتی ہوں۔" مہوش کہہ کر دروازے کی طرف بڑھی۔ یوسف پُر سوچ نگاہوں سے اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔ جب کندھے پر ہاتھ رکھ کر نوید نے اسے ہلایا۔

" کیا سوچ رہا ہے؟ "

" نہیں کچھ نہیں۔ تم بتاؤ کیا بول رہے تھے۔"

یوسف نے بات بدلی جس کے بعد ایک بار پھر وہ سب اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔

۔*********۔

کھڑکی کے سامنے کھڑی وہ افق پر نظر آتے ماہتاب کو دیکھ رہی تھی۔ پر نہ جانے کیوں سوچوں کے تانے بانے یوسف سے جڑ رہے تھے جسے دیکھے بنا چار دن گزر چکے تھے۔

" کیوں میں تم کو سوچ رہی ہوں جبکہ اچھے سے جانتی ہوں یہ بات ناممکن ہے۔" وہ خود سے بڑبڑائی۔

" لیکن اگر بابا سائیں یاسمین کیلئے مان گئے تو۔۔۔ اُف یہ میں کیا سوچ رہی ہوں۔" سر جھٹکتی وہ کھڑکی کے سامنے سے ہٹ کر بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی کہ دفعتاً اس کا موبائل بج اُٹھا۔

" اب یہ اتنی رات کو کسے سکون نہیں۔" جھنجھلاتے ہوئے اس نے سائڈ ٹیبل پر رکھا فون اُٹھایا۔ دیکھا تو انجان نمبر سے کال تھی۔ اُکتا کر موبائل واپس سائڈ پر رکھ دیا۔

" ایک تو ان مجنوں کو کوئی اور کام نہیں کوئی بھی انجان نمبر ملا کر فون گھما دینگے۔"

وہ بڑبڑاتے ہوئے ابھی لیٹنے ہی لگی تھی جب موبائل پر مخصوص میسج کی ٹون بجی۔

" اب کیا ہے؟ " اس نے پھر ہاتھ بڑھا کر موبائل اُٹھایا۔ اُس ہی نمبر سے میسج تھا۔ ابھی میسج کھولا ہی تھا کہ اس کا خون کھول اُٹھا۔

" کال ریسیو کریں مس (وقفہ) جسمین۔"

" یوسف !! " غصّے سے موبائل کو گھورتی ابھی وہ سائلنٹ پر لگانے ہی لگی تھی کہ ایک بار پھر اسی نمبر سے کال آنے لگی۔

ایک خیال آیا کہ کال کاٹ کر موبائل سائلنٹ پر لگا دے مگر پھر دل کے کسی کونے نے بغاوت کر دی اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے فون اُٹھا ہی لیا۔

" ہیلو !! "

اسپیکر سے بھاری گھمبیر مردانہ آواز اُبھری جو ایک پل کیلئے جسمین کی دھڑکنیں بے ترتیب کر گئی۔

" کیوں کال کی ہے؟ " خود پر قابو پاتی وہ لہجے کو سخت بناتے ہوئے بولی۔

" نہ سلام نہ دعا بندہ اتنے دن بعد بات کر رہا ہے، اگلا حال چال ہی پوچھ لیتا ہے۔" دوسری طرف سے شرارت بھری آواز ابھری۔

" کوئی کام کی بات کرنی ہے تو کرو ورنہ مجھے یہ سب پسند نہیں۔" اس نے ٹوکا۔

" پسند تو مجھے بھی نہیں پر وہ کیا ہے نہ کافی دنوں سے آواز نہیں سنی تو سوچا کال کر لوں۔ میں مس کر رہا تھا آپ کو۔" گھمبیر آواز میں کہتا وہ جسمین کو چپ لگا گیا۔

دونوں طرف خاموشی چھا چکی تھی۔ جسے کچھ لمحے بعد ہی یوسف کی آواز نے ہی توڑا۔

" جھوٹ ہی بول دیں۔ آپ نے بھی یاد کیا؟ "

" مسٹر یوسف حیدر ہوش کے ناخن لیں۔ آپ سے عمر میں بڑی ہوں اور سب سے اہم بات ٹیچر ہوں۔" جسمین نے واپس اپنی جون میں لوٹتے ہوئے اسے لتاڑا۔

" عاشق کبھی عمر ، مقام ، امیری ، غریبی ، خوبصورتی ، بدصورتی نہیں دیکھا کرتا۔ مجھے آپ سے عشق ہے اس حقیقت کو آپ بدل نہیں سکتیں۔" ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہی جانے والی بات اس خاموش کمرے میں گونجتی محسوس ہو رہی تھی۔ یوسف کے لفظوں نے جسم میں لرزش سی پیدا کر دی تھی۔ جسمین نے موبائل پر گرفت مضبوط کی۔

" پر میں تم سے محبت نہیں کرتی۔" اس نے آواز میں سختی لانی چاہی پر ناکام رہی۔

" نہ کریں میں اپنے رب سے دعا میں آپ کو مانگ لوں گا۔" کہنے کے ساتھ ہی کال کاٹ دی جبکہ جسمین معاؤف ہوتے دماغ کے ساتھ موبائل کان سے لگائے ویسے ہی بیٹھی تھی کہ اچانک موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر بیڈ پر جا گرا ساتھ ہی بے جان ہوتا ہاتھ بھی نیچے ڈھلک گیا۔ ارد گرد بس ایک ہی آواز گونجتی محسوس ہو رہی تھی۔ گھمبیر آواز ، تصورِ عشق کی آواز۔۔۔

" ریزہ ریزہ ہونا۔۔۔ بنتا ہے میرا

اترا ہے میرے دل پہ تصورِ عشق تیرا "

۔*********۔

موبائل ہاتھ میں لیے چھت پر کھڑا وہ آسمان پر کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ جسمین سے بات کرنے کے بعد سوچ کے تمام زاویے صرف ایک نقطے پر ہی آکر الجھ رہے تھے۔

کیا کبھی جسمین کو اس سے محبت ہوگی؟ کیا اس کی محبت اُس کے دل تک راستہ بنا لے گی؟ کیا اس سفر کی کوئی منزل ہوگی یا اس سفر میں اسے بھٹکتے رہ جانا ہے؟ 

" آپ کو میری زندگی میں آنا ہوگا جسمین !! میں آپ کو آپ سے نہیں اپنے رب سے مانگوں گا۔" وہ سرگوشی میں بولا۔

جبکے بدلوں میں چھپا چاند اس کی سرگوشی پر مسکراتا ہوا بادلوں سے نکل کر آب و تاب سے چمک اُٹھا۔ دور کہیں چلتی موسیقی کی گونج فضاء میں پھیلتی اس کے دل کا حال سنانے لگی۔ اندھیری رات میں خنکتی ہوائیں جھوم جھوم کر ترنم کو چھیڑتی محبت کے گیت گانے لگیں۔ ہاں مُحب کیلئے محبت کے گیت۔۔۔

کیونکہ محبت ایک ایسا شجر ہے جس کی جڑیں ایک بار اپنی جگہ بنا لیں تو مضبوطی سے پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ پھر اس درخت کو کاٹ کر پھینک بھی دیا جائے تو بھی جڑیں اپنی جگہ نہیں چھوڑتیں۔ محبت بھی دل کی سر زمین پر ایک بار پنجے گاڑ دیے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ پھر چاہے محبوب مر بھی جائے اُس کی محبت اپنی جگہ نہیں چھوڑتی۔

یوسف کے دل میں بھی جسمین کی محبت کی جڑیں پھیل چکی تھیں جو رفتا رفتا اس کے دل کو جکڑتی چلے جا رہی تھیں۔ وہ چاہ کر بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا تھا اور وہ کرنا چاہتا بھی نہیں تھا۔

وہ جو حسن میں اپنی مثال آپ تھا ایک معمولی سی صورت والی کے عشق میں گرفتار تھا۔

بھلا محبت نے کبھی حسن کو دیکھا ہے؟ کبھی خوبصورتی کی چاہ کی ہے؟ کبھی دولت کی طلب رکھی ہے؟ کبھی عمر کی سمجھداری مانگی ہے؟ کبھی جسموں کی ہوس کی ہے؟  اس نے کب بھلا سودا کیا ہے؟ یہ تو ازل سے۔۔ ہاں ازل سے اندھی ہوتی ہے۔ یہ بے غرض ہوتی ہے۔ تبھی تو اکڑی گردنیں جھکا کر۔ انا کو مٹا کر۔ فقیر کو بادشاہ بنا کر تو کبھی بادشاہ کو گھٹنوں پر لا کر محبت کا مطلب سمجھاتی ہے۔ اسے امر بناتی ہے۔ تاحیات بناتی ہے۔

" یوں بھی ہوتا ہے کہ یکدم کوئی اچھا لگ جائے

بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے "

(ظفر اقبال)

" چھوٹے سرکار آپ کو بڑے سرکار نے لان میں بلایا ہے۔"

بلاج ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہسپتال جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ جب ملازم نے آکر اسے جہانگیر ملک کا پیغام دیا۔

" ٹھیک ہے جاؤ میں آتا ہوں۔"

" جی چھوٹے سرکار۔" وہ اثبات میں سر ہلاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

" ضرور یاسمین والے معاملے پر بات کرنی ہوگی۔"

سوچتے ہوئے بلاج نے ایک نظر خود کو آئینے میں دیکھا پھر ڈریسنگ ٹیبل سے اپنی گھڑی اُٹھا کر کلائی پر باندھتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ قدم تیزی سے لان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ وہ حویلی کے اندرونی دروازے کو عبور کرتے ہوئے لان میں پہنچا جہاں جہانگیر ملک کرسی پر بیٹھے ہاتھ میں اخبار لیے پڑھنے میں مشغول تھے۔

" آپ نے بلایا بابا سائیں؟ " بلاج نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" ہاں تم سے کل والے معاملے پر بات کرنی ہے۔"

بلاج کی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور ہاتھ میں پکڑا اخبار تہہ کرکے درمیان میں موجود ٹیبل پر رکھ دیا۔

" یوں تو وہ لڑکی کہیں سے بھی ہمارے خاندان کی بہو بنے لائق نہیں پر ہم مجبور ہیں۔ جہاں تمہاری ہر ضد کے آگے سر جھکایا ہے وہاں ایک اور سہی۔" وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے بولے جبکہ ان کی بات پر ایک دم بلاج کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

" سچ بابا سائیں آپ اس رشتے کیلئے راضی ہیں؟ "

" ہاں !! کہہ دو اُس لڑکی سے ایک دو دن میں فائزہ بیگم اس کے رشتے کیلئے آئینگی۔ تیار رہیں وہ لوگ۔"

جہانگیر ملک نے اپنی ناگواری کو دباتے ہوئے کہا۔ دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کر تو لیا تھا پر ایک عام سے گھرانے کی لڑکی کو بہو بنانا انتہائی مشکل تھا۔

" شکریہ بابا سائیں۔" آنکھوں میں چمک لیے اس نے جہانگیر ملک کا ہاتھ تھام کر بوسہ لیا۔

" اب جاؤ ہمیں بھی کچھ کام سے شہر جانا ہے۔" وہ اپنا ہاتھ پیچھے کھینچتے ہوئے بولے۔

بلاج مسکراتا ہوا اثبات میں سر ہلا کر فوراً وہاں سے نکل گیا اب اسے جلد از جلد یہ خوش خبری یاسمین کو جو سنانی تھی۔

۔*********۔

یونیورسٹی کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی ایک بار پھر زندگی معمول کے مطابق چل پڑی تھی۔ یہ ان کا آخری سمسٹر تھا جس کے بعد سب اسٹوڈنٹس نے اپنی اپنی منزل کی طرف بڑھ جانا تھا۔ اس لیے سب نے پہلے سے زیادہ دل لگا کر پڑھائی شروع کر دی تھی۔ جن میں سب سے آگے یوسف حیدر تھا جسے صرف اپنا کیریئر ہی نہیں بنانا تھا بلکہ ایک قابل انسان بن کر جسمین کو بھی اپنی زندگی میں لانا تھا۔ جو اب اس کی اولین ترجیح بن چکی تھی۔۔۔

" یوسف جلدی چل کلاس کیلئے دیر ہوگئی تو سر ساجد نے پھر کلاس میں بیٹھنے ہی نہیں دینا۔"

نوید تیزی سے کلاس کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔ جبکہ وائٹ کلر کی ٹی شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ میں ملبوس یوسف صاحب آنکھوں پر چشمہ لگائے، بڑی فرصت سے نظریں ادھر اُدھر گھماتے جسمین کو ڈھونڈتے ہوئے چل رہے تھے۔

" تیرے پیروں میں زنگ لگ گیا ہے جو اتنی سست روی سے چل رہا ہے۔ ایک تو صبح ہی صبح بائیک نے دماغ گھما دیا اوپر سے اب تو بھی شروع ہو جا۔" نوید نے پیچھے مڑ کر غصّے سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ پہلے ہی راستے میں بائیک خراب ہو جانے کی وجہ سے وہ تپا ہوا تھا اور اب یوسف کی حرکتیں۔۔۔

" تو کلاس میں جا میں آ رہا ہوں۔"

یہ کہہ کر وہ مڑ کے جانے ہی لگا تھا جب نوید نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے کی طرف کھینچا۔

" نہیں چل کلاس میں۔ اپنی یہ عاشقی کسی اور وقت کیلئے رکھ۔"

" ابے چھوڑ جانے دے۔ بس دیکھ کر آتا ہوں۔" یوسف خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتا ہوا بولا۔ جبکہ نوید اسے کھینچتا ہوا کلاس کی طرف لے جا رہا تھا۔

" بعد میں دیکھنا ورنہ سر ساجد ہمیں دیکھ لینگے۔"

نوید نے کہتے ہوئے کلاس کے سامنے پہنچ کر پیچھے سے یوسف کو دونوں بازوؤں سے پکڑا اور کلاس کے اندر کو دھکا دے دیا جہاں سے باہر آتی جسمین یوسف سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ جس کے بعد ایک بار پھر نوید کی جگہ بیچارا یوسف اس کا نشانہ بن گیا۔

" کیا بدتمیزی ہے یہ مسٹر یوسف؟ " غصّے سے گھورتے ہوئے وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولی۔ جبکہ کلاس میں بیٹھے حذیفہ اور جنید حیرت سے یوسف کو دیکھ رہے تھے۔ جو آج نہ جانے کیا سوچ کر آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگا آیا تھا۔

" یہ ڈبل بیٹری کب سے ہوگیا؟ " جنید نے زرا سا جھک کر اپنے آگے بیٹھے حذیفہ سے پوچھا۔

" جب سے اس کے اوپر کا چیمبر خالی ہوگیا۔"

حذیفہ اس کی طرف دیکھ کر مذاق اُڑاتے ہوئے بولا پھر واپس چہرہ دروازے کی طرف موڑ لیا جہاں جسمین کھڑی یوسف کو سنانے میں لگی تھی۔

" ماشاء اللّٰه !! چشمہ لگا کر بھی آنکھیں گھر چھوڑ آئے ہیں۔" وہ طنز کرتے ہوئے بولی۔

یوسف نے ایک نظر کلاس میں بیٹھے سب اسٹوڈنٹس پر ڈالی جو مسکراہٹ دبائے انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔ 

" سوری مس (وقفہ) جسمین !! "

آنکھوں پر لگایا چشمہ درست کرتا وہ شرارت سے جسمین کو دیکھتے ہوئے بولا۔ جبکہ اس لفظ توڑ توڑ کر بولنے پر وہ بھنا کر رہ گئی۔

" ہٹیں سامنے سے۔"

غصّے سے اس کی چشمے کے پیچھے چھپی خوبصورت آنکھوں کو گھورتے ہوئے کہا۔ یوسف مسکراتا ہوا سائڈ پر ہوگیا تبھی وہ تیزی سے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

" پڑ گئی ٹھنڈ ؟ یہ تو تیری آنکھوں کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی ٹھنڈا کر گئیں۔"

پیچھے کھڑے نوید نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اس کے کان میں گھس کر کہا۔ جس پر یوسف اسے گھوری سے نوازتا اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔

۔*********۔

گھر کے لان میں لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھی وہ اداسی کی مورت بنی خالی خالی نظروں سے سامنے موجود درخت کو دیکھ رہی تھی۔ سب گھر والے اس وقت کل کی منگنی کیلئے تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ یوں تو ساری تیاریاں لگ بھگ مکمل ہو چکی تھیں مگر کچھ چند چیزیں تھیں جو آخری وقت کیلئے چھوڑ رکھی تھیں اور اب وہی سب مکمل کرنے تمام گھر والے باہر گئے ہوئے تھے سوائے یاسمین کے جو اپنی منگنی پر خوش ہونے کے بجائے اداس بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔

کچھ دن پہلے ہی فائزہ بیگم اور جسمین اس کے گھر رشتہ لے کر آئی تھیں۔ جسے اس کے گھر والوں نے بھی خوشدلی سے قبول کر لیا۔ بھلا بلاج جیسے قابل انسان کو انکار کرنے کی حماقت کون کر سکتا تھا۔ سب کچھ اچھے سے چل رہا تھا۔ رشتہ پکا ہو چکا تھا اور کل منگنی کی تقریب رکھی گئی تھی مگر نہ جانے کیوں ایک عجیب سی بے سکونی تھی جو اسے گھیرے ہوئے تھی۔ حالانکہ اسے تو خوش ہونا چاہیئے تھا۔ بالآخر من چاہا ہمسفر مل رہا تھا جو اس کی محبت تھا۔ لیکن ان وسوسوں اور اندیشوں کا کیا کرتی جو ایک پل بھی چین نہیں لینے دے رہے تھے۔

رات رات بھر ڈھولکی، خوشیوں کے شادیانے بجاتے چہکتے چہرے، ہنسی ٹھٹھا کرتی بچوں کی ٹولی بھی اس کے گرد پھیلے سناٹے کو کم نہیں کر پا رہی تھی۔ کچھ وقت پہلے سب کچھ بہت قریب تھا اور اب سب کچھ دور جاتا لگ رہا تھا۔ مانوں ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہو۔ کہیں پیچھے چھوٹتا جا رہا ہو۔ سب دسترس سے نکل کر دور جا رہا ہو اور وہ تنہا کھڑی ویران آنکھوں سے سب ہوتا دیکھ رہی ہو۔ یوں کہ ابھی پلکیں جھپکی اور سب ختم۔۔۔ بس تاریک ، تنہائی ، موت کا سا سناٹا اور وہ۔۔۔

" آپی یہاں کیا کر رہی ہیں؟ "

قریب سے آتی آواز پر اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں قمر بیگم اور لبابہ (چھوٹی بہن) کھڑی سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔

" آپ لوگ آگئے۔ ابو اور داؤد (چھوٹا بھائی) کہاں ہیں؟ " پلٹ کر سوال کیا یا شاید ان کا سوال سنا ہی نہیں تھا۔

" تمہارے ابو اور داؤد کو کچھ کام یاد آگیا تھا۔ وہی کرنے گئے ہیں۔ تم یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو؟ " قمر بیگم نے اس کے بجھے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پھر پوچھا۔

پچھلے دو دن سے وہ یوں کھوئی کھوئی سی رہنے لگی تھی۔ سب کے ساتھ ہو کر بھی یوں محسوس ہوتا جیسے وہ ان کے درمیان ہے ہی نہیں۔ کوئی کچھ کہہ دیتا تو ہوں ہاں سے زیادہ جواب نہ دیتی۔ گھنٹوں گھنٹوں خاموش بیٹھی رہتی یا عبادت میں مشغول ہو جاتی۔

" کچھ نہیں امی۔ وہ بس کوئی کام نہیں تھا تو یہاں بیٹھ کر آپ کا انتظار کرنے لگی۔ آپ بتائیں خرید لیا سارا سامان اب تو کچھ نہیں رہ گیا؟ " دھیرے سے کہتے ہوئے اس نے بات ہی بدل دی۔

" ہاں !! سب آ گیا۔ بس اللّٰه خیریت سے یہ دن دیکھنا نصیب کرے۔"

" آمین !! " دونوں بہنیں ہم آواز بولیں۔

" چلو اب یہاں بیٹھ کر کیا باتیں کر رہی ہو جاؤ جا کر یہ سامان رکھو۔" قمر بیگم لبابہ کو ڈپٹتے ہوئے بولیں اور خود یاسمین کے پاس آکر کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔

" یاسمین مجھے معلوم ہے تم اتنی اداس کیوں ہو۔ یہ وقت ہوتا ہی ایسا ہے۔ جہاں نئے رشتے کے بنے کی خوشی ہونٹوں پر مسکراہٹ بن کے سجی ہوتی ہے۔ وہیں پرانے رشتوں کو چھوڑ کر جانے کا دکھ آنکھوں میں آنسو بن کر جھلکتا رہتا ہے۔" وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پیار بھرے لہجے میں بولیں۔ یاسمین دھیرے سے مسکرا دی۔

" کل تمہاری منگنی ہے خوش رہو یوں اداس رہو گی تو سب سوچیں گے ہم تمہارے ساتھ زبردستی کر رہے ہیں۔"

" امی آپ لوگوں کو چھوڑ کر جانے کا دل نہیں کر رہا۔" قمر بیگم کے گلے میں بانہیں ڈال کر وہ ان کے ساتھ ہی لگ کر بیٹھ گئی۔ اب انہیں کیا بتاتی وہ کیوں اداس ہے جبکہ اسے خود اپنی اداسی کا سبب معلوم نہیں تھا۔

" یہ ہی دنیا کا رواج ہے بیٹا۔ ہر لڑکی کو ایک دن ماں باپ کا گھر چھوڑ کر اپنے شوہر کے گھر جانا ہوتا ہے اور پھر بلاج بھی تو کتنا اچھا ہے مجھے یقین ہے وہ تمہیں اتنا خوش رکھے گا کہ ہماری یاد بھی تمہیں نہیں آئے گی۔" وہ پیار سے یاسمین کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔ بیٹی کی جدائی کا سوچ کر خود کی بھی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔

" ایسے نہیں بولیں دیکھے گا میں بلاج سے کہہ کر روز آپ سب سے ملنے آیا کروں گی۔" ان سے الگ ہوتی وہ خفگی سے بولی۔

قمر بیگم مسکرائیں ساتھ ہی یاسمین کے سر پر بوسہ دیتی اس کی ابدی خوشیوں کیلئے دعا کرنے لگیں۔ پر کون جانے آنے والا وقت اپنے ساتھ کیا لے کر آتا ہے۔ یاسمین کے دامن میں خوشیاں یا ان کی جھولی میں غم۔۔۔

۔*********۔

" تیری ان خوبصورت آنکھوں کو کس کی نظر لگ گئی جو یہ چشمہ لگانا پڑ گیا۔"

کلاس سے نکل کر وہ چاروں کینٹین کی طرف جا رہے تھے جب حذیفہ مسکراہٹ دباتے ہوئے گویا ہوا۔

" میری آنکھوں کو کسی کی نظر نہیں لگی لیکن تیری یہ خوبصورت مسکراہٹ بند نہ ہوئی تو اسے میری نظر ضرور لگ جائے گی۔" یوسف نے گھورتے ہوئے کہا ساتھ ہی آنکھوں پر لگا چشمہ اُتار کر ٹی شرٹ کے کالر میں لگا لیا۔ 

" جچ رہا ہے لڑکے اُتار کیوں دیا؟ " اس کے چشمہ اُتارنے پر جنید فوراً بولا۔

" تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے میری آنکھیں ٹھیک ہیں ابھی اندھا نہیں ہوا میں۔" وہ چڑ کر بولا ساتھ ہی ایک نگاہ ہاتھ میں پکڑے نوٹس پر ڈالتا، کینٹین میں جانے کے بجائے آگے بڑھ گیا۔

" اوے !!  کہاں جا رہا ہے کینٹین تو یہ رہی؟ " وہ تینوں پیچھے سے چلائے جبکہ وہ سنی ان سنی کرتا ہاتھ میں نوٹس تھامے آگے بڑھے جا رہا تھا۔

" کوئی حال نہیں۔"

نوید تاسف سے اس کی پشت کو دیکھ کر بڑبڑایا پھر مڑ کر ان دونوں کے ساتھ ہی کینٹین میں چلا گیا۔ جبکہ دوسری طرف یوسف تیزی سے قدم بڑھاتا اسٹاف روم کے سامنے جا کھڑا ہوا ساتھ ہی دروازے پر دستک دے کر اجازت طلب کی۔

" یس کم ان !! "

اجازت ملتے ہی وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ سامنے ہی کرسی پر بیٹھی نیلے آسمانی رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس، سر پر ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی۔ ہمیشہ کی طرح بلیک چادر اس کے کندھوں کے گرد لپیٹی ہوئی تھی۔ وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔ صد شکر تھا اس وقت اسٹاف روم میں اور کوئی نہیں تھا۔

" مس (وقفہ) جسمین !! " اس نے دھیرے سے پکارا۔

ٹیبل پر اپنے سامنے کتاب کھول کر بیٹھی جسمین اس کی پکار پر جی جان سے تپ اُٹھی۔ کچھ تھوڑی دیر پہلے والی ناراضگی کا بھی اثر تھا۔

" آپ ایک کام کیوں نہیں کرتے مسٹر یوسف !! میرے نام کے ساتھ مس لگانے جیسا تکلف چھوڑ دیں۔ پھر بولنے میں دشواری نہیں ہوگی۔" بنا اس کی طرف دیکھے وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔

آج یوسف کا یوں کلاس میں سب کے سامنے لفظوں کو توڑ کر بولنا اس کے غصّے کو مزید بھڑکا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ خود کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھتی فوراً وہاں سے نکل گئی تھی اور اب پھر وہ سر پر کھڑا اسے غصّہ دلا رہا تھا۔

" جیسی آپ کی خواہش (وقفہ) جسمین۔" کہتے ہوئے یوسف نے مسکراہٹ دبائی۔

جسمین نے سخت نگاہوں سے اسے گھورا پھر واپس چہرہ نیچے جھکا لیا۔ اس سرپھرے مجنوں کو کچھ بھی کہنا ہی دیوار سے سر پھوڑنے کے مترادف تھا۔

" کچھ پوائنٹس کلیئر نہیں ہو رہے سمجھا دیں۔" یوسف نے جسمین کے سامنے پڑی کتاب کو دیکھتے ہوئے اب کے سنجیدگی سے کہا۔

" ابھی میں کچھ مصروف ہوں۔ پرسوں پوچھ لیجئے گا۔" بنا اس کی طرف دیکھے وہ مصروف سے انداز میں بولی۔

" پرسوں؟ کل کیوں نہیں؟ "

" کل میں نہیں آؤں گی۔"

" کیوں؟ "

یوسف کے اس " کیوں" پر جسمین نے نگاہ اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ جو بڑی فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایک خیال آیا کہ کہہ دے " تمہیں وجہ بتانا ضروری نہیں" لیکن اس طرح وہ لمبی بحث لے کر بیٹھ جاتا۔ دوسرا خیال کے وجہ بتا دے۔ مگر کیا گارنٹی تھی وہ بات کو طول نہ دیتا؟ 

" بلاج بھائی کی منگنی ہے۔"

گہرا سانس لے کر جسمین نے وجہ بتانا ہی بہتر سمجھا۔ یوسف نے نگاہیں واپس ٹیبل پر موجود کتاب پر جمائیں اور مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا۔

" مجھے بلائیں گی منگنی میں؟ "

" نہیں۔" فٹ سے جواب آیا۔

" بہت ہی بے مروت ہیں۔" یوسف نے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا۔

" تمہارے معاملے میں؟ ہاں ہوں۔" وہ مسکرائی ساتھ ہی یوسف کو ٹھیک ٹھاک تپا گئی۔

" آپ نا۔۔۔"

ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ پیچھے سے دروازہ کھول کر مس مریم داخل ہوئیں۔

" اوکے مس باقی میں بعد میں سمجھ لوں گا اب چلتا ہوں۔" چبا چبا کر بولتا وہ نوٹس تھامے مڑا اور مس مریم کی طرف مسکراہٹ اچھال کر سلام کرتا اسٹاف روم سے باہر نکل گیا۔ البتہ کرسی پر بیٹھی جسمین کے دل میں یوسف کو تپا کر اب ٹھنڈک پڑ چکی تھی۔

گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا وہ سامنے موجود یونیورسٹی کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں سے اسٹوڈنٹس ایک دوسرے سے باتیں کرتے، ہنستے، مسکراتے باہر آتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس نے ایک نظر ہاتھ پر بندھی گھڑی پر ڈالی پھر نظریں واپس سامنے دروازے کی طرف مرکوز کر دیں۔ چند سیکنڈز ہی گزرے تھے جب اسے سامنے بائیک پر بیٹھا یوسف باہر آتا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک لڑکا بھی موجود تھا۔ جو ساتھ چلتی دوسری بائیک پر بیٹھے لڑکوں سے باتیں کر رہا تھا۔

" السلام عليكم سر !! " یوسف نے بلاج کے قریب آکر بائیک روکتے ہوئے سلام کیا اس کی تقلید کرتے حذیفہ اور جنید نے بھی بائیک روک دی۔

" وعليكم السلام !! اینڈ ڈونٹ کال می سر۔۔۔ بلاج بھائی کہہ سکتے ہو۔" ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے، بلاج مصافحہ کرتے ہوئے بولا اور ساتھ ہی ایک نظر اُن تینوں پر ڈالی۔ اس کے دیکھتے ہی وہ تینوں بھی فوراً بائیک سے اُتر کر دست بوسی کیلئے آگے بڑھے۔

" اور آپ کے ابو کی طبیعت کیسی ہے یوسف؟ "

ان تینوں سے سلام دعا کے بعد بلاج واپس یوسف کی طرف متوجہ ہوا۔ جس کے چہرے سے باپ کے ذکر نے مسکراہٹ چھین چلی تھی۔

" اُن کا انتقال ہو گیا بلاج بھائی۔" وہ دھیرے سے بولا۔

" اوہ !! اللّٰه ان کی مغفرت فرمائے۔" بلاج نے اس کے کندھے پر تھپکی دی۔ یوسف کے چہرے پر چھائے حزین کو دیکھ کر اسے حقیقتاً دکھ ہوا تھا۔

" آمین !! " یوسف کے ساتھ ساتھ پیچھے کھڑے وہ تینوں بھی ہم آواز بولے۔

" آپ یقیناً مس جسمین کو لینے آئے ہیں۔" ماحول میں چھائے حزین کو کم کرنے کیلئے یوسف بات بدل گیا۔

" ہاں وہ۔۔۔ لو آگئی۔"

بلاج بول ہی رہا تھا جب اس کی نظر سامنے سے آتی جسمین پر پڑی۔ وہ مسکرایا۔ اس کی نظروں کے تعاقب میں ان چاروں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ ان کے پاس ہی آ رہی تھی۔

" بھائی آپ؟ "

ان چاروں کو اگنور کرکے وہ بلاج کے پاس آکر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

" ہاں میں۔ آج ہسپتال سے جلدی نکل گیا تھا تو سوچا تمہیں بھی ساتھ لیتے چلوں۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

" اوہ یاد آیا بلاج بھائی !! مبارک ہو مس جسمین بتا رہی تھیں کل آپ کی منگنی ہے۔"

یوسف جو جسمین پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔ یاد آنے پر مسکراتا ہوا بولا۔

اس کی بات پر جسمین کا چہرہ یک دم فق ہوا۔ زرا کی زرا نظر پھیر کر اسے دیکھا۔ جس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔ جبکہ پیچھے کھڑے وہ تینوں حیرت سے کبھی یوسف کو تو کبھی جسمین اور بلاج کو دیکھ رہے تھے۔

" تھینکس !! ویسے آپ سب بھی آؤ نا کل منگنی میں۔"

بلاج کے کہنے پر اب کے جسمین نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ تو سمجھ رہی تھی بلاج اس پر غصّہ کرے گا کہ کیوں گھر کی بات کسی غیر کو بتائی پر یہاں تو وہ خود ہی انہیں گھر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔

" کیوں نہیں بلاج بھائی ہم ضرور آئیں گے۔" مسکراتی نظروں سے جسمین کو دیکھتا وہ بلاج سے بولا۔

" نہیں !! میرا مطلب ہم کیسے آ سکتے ہیں؟ ہمیں تو آپ کا گھر بھی نہیں پتا۔" نوید جو انکار کیلئے کوئی جواز ڈھونڈ ہی رہا تھا۔ یوسف کے ہاں کہتے ہی فوراً بول اُٹھا۔

" ہاں اور تو اور ہم وہاں کسی کو جانتے بھی نہیں ہیں۔ تو اچھا نہیں لگتا۔" حذیفہ نے بھی اس کی بات کی تائید کی۔

" یوسف نے دیکھا ہے ہمارا گھر جب وہ جسمین کو گھر چھوڑنے آیا تھا اور پھر میں اور مس جسمین تو ہیں آپ کو کمپنی دینے کیلئے۔" بلاج نے مسکرا کر کہتے ہوئے ان کا انکار رد کر دیا۔ جسمین اسے دیکھتی رہ گئی۔

(آخر کیا ضرورت ہے انہیں بلانے کی؟) کہا نہیں تھا بس سوچ کر رہ گئی۔

" آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں تو ہم ضرور آئیں گے۔ کیوں یوسف؟ " کب سے خاموش کھڑا جنید بھی بالآخر بول اُٹھا۔ بھلا مفت کی دعوتیں بھی کوئی چھوڑتا ہے۔

" ہاں بلاج بھائی !! " یوسف نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے یقین دہانی کروائی ساتھ ہی ایک نظر جسمین کو دیکھا جو بےچینی سے کھڑی ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخا رہی تھی۔

" یہ ہوئی نا بات۔ چلو اب ہم چلتے ہیں اور آنا ضرور میں انتظار کروں گا۔"

ایک بار پھر سب سے مصافحہ کرکے اس نے جسمین کیلئے کار کا دروازہ کولا اور اسے بٹھا کر خود بھی ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھالتے ہوئے کار اسٹارٹ کرتا آگے بڑھا لے گیا۔ ان کے جاتے ہی وہ چاروں بھی بائیک اسٹارٹ کرکے گھر کیلئے روانہ ہو چکے تھے۔

۔*********۔

" بھائی آپ نے انہیں کیوں بلا لیا؟ آپ کو پتا تو ہے دلاور بھائی اور خاور بھائی کو یہ بات پسند نہیں آئے گی۔"

انگنت شکنیں ماتھے پر سجائے اس نے بلاج کو دیکھا جو سنجیدگی سے سامنے دیکھتے ہوئے کار ڈرائیو کر رہا تھا۔

" اُنہیں میں نے بلایا ہے اور تمہارے اسٹوڈنٹ ہیں کوئی کچھ نہیں بولے گا۔ اٹس ناٹ آ بگ ڈیل !! " وہ سکون سے بولا۔

جسمین اسے دیکھتی رہ گئی۔ کہاں تو اسے یوسف کے ساتھ گھر آنا پسند نہیں آیا تھا اور اب وہ خود ہی اسے گھر پر بلا رہا تھا۔ کیوں؟

" بھائی پھر بھی مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا۔"

" تم فکر نہیں کرو۔ اگر کچھ مسئلہ ہوا بھی تو میں دیکھ لوں گا۔ تم بس آرام سے کل کی تیاری کرو۔" جسمین پر نظر ڈالتا وہ مسکرا کر بولا۔

اس کے چہرے پر سجی مسکراہٹ کو دیکھ کر جسمین بھی مسکرا دی اور دل ہی دل میں اس کی ابدی خوشیوں کی دعا کرنے لگی۔ آخر ایک یہ ہی تو تھا جو اس کا ہمدرد تھا۔

۔*********۔

یونیورسٹی سے سیدھا وہ چاروں یوسف کے گھر آگئے تھے اور اب نوید اور حذیفہ صحن میں بچھے تخت پر بیٹھے یوسف کو غصّے سے گھور رہے تھے۔

بلاج سے ہامی بھرنے کے بعد سے نوید اور حذیفہ کا دماغ کھول رہا تھا۔ کہ کیوں یوسف نے ہامی بھری جبکہ مہوش نے بتایا بھی تھا۔ جسمین کے گھر والے کتنے سخت مزاج کے مالک ہیں۔ لیکن نہ جانے یوسف کیا سوچ کر بیٹھا تھا کہ خود بھوکے شیروں کے پنجرے میں جا کر انہیں دعوت دے رہا تھا۔

" کیا ضرورت تھی تجھے ہاں کرنے کی منع کر رہا تھا نا میں۔" اس کے سر پر کھڑا حذیفہ غرایا۔

" تمہیں نہیں جانا مت جاؤ میں ضرور جاؤں گا۔" وہ پرسکون سا بولا۔

حذیفہ اور نوید حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ جبکہ ساتھ بچھی چار پائی پر لیٹا جنید ساری سچویشن کو انجوائے کر رہا تھا۔

" او بھائی !! جب وہ خود دعوت دے کر گئے ہیں تو کون کافر ہوگا جو مفت میں ملی نعمت سے انکار کرے۔" مزے سے پاؤں ہلاتے ہوئے جنید نے ان دونوں سے کہا جو اب اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

" تو اپنا منہ بند رکھ اور تم کوئی ضرورت نہیں اکیلے جانے کی۔ اب بول دیا ہے تو سب جائیں گے۔ تیرا کیا بھروسہ مس جسمین کو وہاں دیکھ کر تو پھر اپنی عاشقی جھاڑنے بیٹھ جائے اور ان کے بھائی تجھے موت کے گھاٹ اتار دیں۔"

جنید کو چپ کراتا وہ یوسف سے بولا ساتھ ہی اسے گھوری سے نوازتے ہوئے تخت سے اُٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گیا۔

" تمہیں اور بھی کچھ کہنا ہے؟ " یوسف نے حذیفہ کی طرف دیکھا جو اب بھی اس کے سر پر کھڑا تھا۔

" نہیں آپ کو بھلا کون کچھ کہہ سکتا ہے۔ آخر کرنی تو اپنی ہی ہے۔" منہ بنا کر کہتا وہ جنید کے برابر میں جا کر لیٹ گیا۔

یوسف نے مسکرا کر اسے دیکھا پھر خود بھی اُٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گیا۔ اب بیچارے نوید کی کسی نے تو مدد کروانی تھی۔

۔*********۔

کمرے میں لیٹی وہ خالی خالی نگاہوں سے چھت کو گھور رہی تھی آج کا سارا دن یونہی سوچوں میں گم رہ کر گزر چکا تھا اور اب بھی نیند تھی کہ مہربان ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ تنگ آ کر اس نے بائیں جانب کروٹ بدلی جب دفعتاً سائڈ ٹیبل پر رکھا اس کا موبائل بج اُٹھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اُٹھاتے ہوئے اسکرین کو دیکھا جہاں بلاج کا نام جگمگا رہا تھا۔ یاسمین نے فوراً کال ریسیو کی۔

" ہیلو !! "

اسپیکر سے ابھرتی گھمبیر آواز اسے رونے پر مجبور کر گئی۔ وہ صبح سے اس گھٹن زدہ احساسات سے چھٹکارا چاہ رہی تھی جو نہ آنسوؤں کے زریعے باہر نکل رہے تھے نہ کم ہو رہے تھے۔

" یاسمین !! "

ایک بار پھر اسپیکر سے آواز ابھری ساتھ ہی یاسمین نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹا۔

" ہیلو !! یاسمین جواب دو؟ "

اب کے جھنجھلاتے ہوئے پکارا گیا۔ یاسمین نے فوراً خود پر قابو پایا اور آنسو صاف کرتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں گویا ہوئی۔

" ہاں !! ہاں بولو کیا ہوا۔"

" تم رو رہی ہو؟ " آواز میں موجود گیلا پن محسوس کرتے ہوئے بلاج نے فوراً پوچھا۔ بھلا اس سے بھی کچھ چھپا سکتی تھی وہ؟ جو اس کی روح تک میں اُتر گیا تھا۔

" نہیں میں بس۔۔۔"

" بہانے نہیں وجہ بتاؤ۔ کیا ہوا ہے؟ " یاسمین کی بات کاٹتے ہوئے ڈپٹ کر پوچھا۔

" مجھے۔۔۔ مجھے نہیں پتا کیا ہو رہا ہے۔ بس بہت ڈر لگ رہا ہے۔ جیسے سب ختم ہو جائے گا۔ میں تمہیں کھو دوں گی۔ پلیز تم مجھ سے نکاح کر لو۔ میں اگر مر بھی گئی تو کم از کم تمہارے نام سے تو مروں گی۔"

ایک ہی سانس میں کہتی وہ ایک بار پھر سے رونا شروع ہو گئی۔ جبکہ اس کی بات پر بلاج ایک لمحے کیلئے ساکت رہ گیا۔

" کیا بکواس کر رہی ہو۔ کل ہماری منگنی ہے اور آج تم یہ فضول باتوں کو سوچ کر رو رہی ہو۔" وہ چلایا۔ یاسمین کی بات نے اسے اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا۔

" میں کوئی بکواس نہیں کر رہی۔ تم نہیں جانتے میری کیا حالت ہے۔ تم بس یہ بتاؤ مجھ سے کل نکاح کر رہے ہو یا نہیں؟ " آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے دو ٹوک لہجے میں پوچھا۔

" ٹھیک ہے رونا بند کرو۔ نکاح چاہتی ہونا فائن۔ کل ہماری منگنی نہیں اب نکاح ہوگا۔ لیکن آئندہ یہ بکواس مت کرنا۔"

درشت لہجے میں کہتا وہ یاسمین کو مسکرانے پر مجبور کر گیا۔

کیا تھا وہ؟ جو اپنے بابا سائیں کے سامنے نہیں جھکتا تھا اس کے آنسوؤں سے ہار جاتا تھا۔ ہر بات مان جاتا تھا۔ اس لمحے اسے حقیقتاً اپنی قسمت پر رشک ہوا تھا۔ وہ اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا کہ بلاج جیسے شخص کو اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔

" وعدہ کرو۔" اس نے یقین دہانی چاہی۔

" تمہیں مجھ سے بھی وعدہ لینے کی ضرورت ہے؟ " سوالیہ انداز میں خفگی ظاہر کی۔ یاسمین پھر مسکرادی۔

" نہیں !! "

" چلو پھر اب سکون سے سو جاؤ اور جب میں فون کروں تب اپنے گھر پر نکاح کا بتانا۔ ٹھیک ہے؟ "

" ٹھیک ہے بائے۔"

مسکرا کر کہتے ہوئے اس نے فون رکھ دیا۔ ساری بےچینی پل میں ہوا ہوئی تھی۔ اب بےشک کچھ بھی ہو جائے کم از کم یہ اطمینان تو رہے گا کہ ملک بلاج صرف یاسمین عباسی کا ہے یہاں بھی اور وہاں بھی۔۔۔

       بچھڑ گئے اس جہاں میں تو کیا

اُس جہاں میں تو بچھڑنے کی روایت نہیں ہے

           یہ جسم نہ ہوا میرا تو کیا

یہ محبت تو کسی اور کی عنایت نہیں ہے

صبح ہوتے ہی حویلی میں ہل چل مچ چکی تھی۔ برسوں بعد اس گھر میں پھر سے رونق لگی تھی۔ فائزہ بیگم کی تو خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہا تھا۔ جہاں سب ملازمین کو ہدایت دیتی کچن میں پکوان تیار کروا رہی تھیں۔ وہیں خاور لاؤنج کو دلہن کی طرح سجانے میں لگا تھا۔ ہر ایک وہاں رات میں ہونے والی تقریب کی تیاریوں میں لگا تھا۔ بلاج نے سارا انتظام اپنی حویلی میں ہی رکھا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یاسمین اور اُس کے گھر والوں کو ان کی وجہ سے کسی پریشانی کا سامنا ہو۔ ابھی بھی وہ اوپر کھڑا سارے انتظامات دیکھ رہا تھا۔ جب شبانہ نے آکر اسے جہانگیر ملک کا پیغام دیا۔

" چھوٹے سرکار مہمان جا چکے ہیں اب آپ بڑے سرکار سے مل سکتے ہیں وہ بیٹھک میں موجود ہیں۔" وہ سر جھکائے بولی۔

" ٹھیک ہے آپ امی کو بتا دے گا میں بابا سائیں کے پاس گیا ہوں۔"

بلاج کہتا ہوا فوراً سیڑھیاں اُتر کر لاؤنج سے گزرتے ہوئے حویلی سے باہر نکل گیا۔ لان پار کرتے ہوئے سامنے بنی مہمانوں کی بیٹھک میں پہنچا جہاں جہانگیر ملک دلاور کے ساتھ بیٹھے سگار سلگا رہے تھے۔

" بابا سائیں !! "

" آؤ بلاج شبانہ بتا رہی تھی تمہیں ہم سے کوئی بات کرنی ہے۔" وہ اسے سامنے رکھے چھوٹے سے تخت پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئے۔

" جی بابا سائیں۔ بات تو کل ہی کرنا چاہتا تھا لیکن رات کافی ہوگئی تھی۔ اس لیے مناسب نہیں لگا۔" ایک نظر دلاور پر ڈال کر اس نے جہانگیر ملک کو دیکھا جو کھوجتی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

" ایسی بھی کیا بات ہوگئی؟ آج تمہاری منگنی ہے کہیں ارادہ تو نہیں بدل لیا؟ " طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے دلاور نے پوچھا ساتھ ہی سگار کا کش لیتے ہوئے دھواں ہوا کے سپرد کر دیا۔

" ارادہ تو بدل لیا لیکن یاسمین کو چھوڑنے کا نہیں بلکہ مضبوط رشتے میں باندھے کا۔ آج منگنی نہیں میرا اور یاسمین کا نکاح ہوگا۔" وہ پرسکون انداز میں بولا جبکہ سامنے تخت پر بیٹھے جہانگیر ملک اس کی بات پر یک دم بھڑک اٹھے۔

" دماغ خراب ہے تمہارا۔ سارے مہمانوں کو منگنی کی دعوت دے چکے ہیں۔ کیا جواب دیں گے ہم کہ کیوں آخری وقت میں فیصلہ بدل دیا۔ سب مہمان طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔ کچھ احساس بھی ہے تمہیں؟ "

غصّے سے بلاج کو گھورتے ہوئے بولے۔ بس نہیں چل رہا تھا اُس فساد کی جڑ کو ہی اُکھاڑ کر پھینک دیں۔ جس کی وجہ سے ان کا بیٹا اتنا باغی ہو گیا ہے۔

" بابا سائیں مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے کون کیا کہہ گا،  کیا سوچے گا۔ میں بس آپ کی اجازت لینے آیا ہوں۔" بلاج اب بھی اسی طرح پرسکون سا بولا جبکہ گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے دلاور بڑی دلچسپی سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔

" جب تم طے کر ہی چکے ہو تو ہماری اجازت کی کیا ضرورت؟ ویسے بھی جب اُس لڑکی کو بہو بنانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو تمہارے اس فیصلے کو بھی قبول کرنا ہی پڑے گا۔" جہانگیر ملک نے اپنی ناگواری کو دباتے ہوئے کہا۔

دلاور نے بھنویں اچکا کر حیرت سے انہیں دیکھا جو چھوٹے بیٹے کے آگے ہتھیار ڈالے جا رہے تھے۔ اُس کے ہر فیصلے پر سر جھکاتے جا رہے تھے۔

" مطلب میں آپ کی طرف سے ہاں سمجھوں؟ " امید بھری نظروں سے جہانگیر ملک کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

" اب یہ کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑے گا۔ جاؤ جا کر کہہ دو اُس لڑکی کے ماں باپ سے۔ " ہاتھ سے جانے کا اشارہ کرتے گویا انہوں نے بات ہی ختم کر دی۔

بلاج آگے بڑھا اور ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتا بیٹھک سے باہر نکل گیا جبکہ اس کے جاتے ہی ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے دلاور جہانگیر ملک کو دیکھتے ہوئے بولا۔

" واہ !! کبھی ہمارے ساتھ اتنی رعایت نہیں کی۔ اس کی ہر ناجائز بات پر سر جھکاتے جا رہے ہیں۔"

" تم جو آج یوں عیاشیاں کرتے پھر رہے ہو یہ ہماری ہی ڈھیل کا نتیجہ ہے اور جہاں تک رہی بلاج کی بات تو تم اچھے سے جانتے ہو ہم یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔ ہم اُسے خود سے بدگمان نہیں کرنا چاہتے۔"

ہنکار بھر کر کہتے وہ اسے بھی ہاتھ سے جانے کا اشارہ کر چکے تھے۔ جس پر وہ خباثت سے مسکراتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا۔

۔*********۔

" لیکن فائزہ بہن یوں اچانک نکاح؟ مطلب ایسی کیا بات ہوگئی کہ آپ نے یوں منگنی کی جگہ نکاح رکھ لیا؟ " اسپیکر سے ابھرتی پریشان کن آواز نے کمرے میں چھائی خاموشی کو توڑا۔

اس وقت بلاج فائزہ بیگم کے کمرے میں ان کے سامنے موجود تھا۔ جو کمرے کے وسط میں کھڑی قمر بیگم سے فون پر بات کرتیں اس نئی تبدیلی کا بتا رہی تھیں۔ قریب ہی بیڈ پر بیٹھی جسمین بےتاثر چہرے سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ کوئی دلچسپی نہیں تھی یہ جاننے میں کہ کیوں منگنی کی جگہ اب نکاح ہو رہا ہے۔ یہ مروں کا فیصلہ تھا۔ جس پر ہمیشہ کی طرح فائزہ بیگم اور جسمین نے سر جھکا دیا تھا۔

" یہ ان کے بابا سائیں کا فیصلہ ہے۔ لیکن آپ پریشان نہ ہوں۔ جیسا چل رہا تھا سب ویسا ہی رہے گا۔ بس منگنی کی جگہ اب نکاح ہوگا۔" ان کی پریشانی بھانپ کر فائزہ بیگم سمجھاتے ہوئے بولیں۔

" پر اب ہم مہمانوں کو کیا بولیں گے سب کو منگنی کا کہہ چکے ہیں۔"

قمر بیگم کی بات پر اب کے فائزہ بیگم بھی خاموش ہو گئیں۔ ان کے تو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اس بدلاؤ کی وجہ۔

" لائیں امی مجھے دیں۔ میں بات کرتا ہوں۔"

انہیں خاموش دیکھ کر بلاج نے ان کے ہاتھ سے موبائل لیا ساتھ ہی کان سے لگاتا قمر بیگم کو سلام کرتے ہوئے بولا۔

" آپ فکر نہیں کریں آنٹی۔ جو بھی سوال کرے تو کہہ دے گا۔ ہم نے آخری وقت پر فیصلہ بدل دیا۔ اس طرح کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔ باقی میں خود دیکھ لوں گا۔"

" لیکن بیٹا پھر بھی۔۔۔"

" آنٹی بس اب آپ یہاں آنے کی تیاری کریں باقی رہی مہمانوں کی بات تو وہ تب ہی دیکھ لینگے۔"

بلاج نرمی سے ان کی بات کاٹتا ہوا بولا۔ اب انہیں کیا بتاتا یہ خود ان کی بیٹی کا ہی فیصلہ ہے۔ جو نہ جانے کونسے وہم پال کر بیٹھ گئی ہے۔

" ٹھیک ہے بیٹا۔ جیسے آپ لوگوں کو بہتر لگے۔" دھیمے لہجے میں کہتی وہ فون بند کر چکی تھیں۔

بلاج نے موبائل جیب میں رکھ کر فائزہ بیگم کو دیکھا جو خاموش کھڑی سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔

" آپ کو کچھ کہنا ہے؟ "

" یہ یقیناً تمہارا فیصلہ ہے بابا سائیں کا نہیں۔ ہیں نا؟ " اسے دیکھتے ہوئے وہ یقین سے بولیں۔ آخر بیٹے کی رگ رگ سے واقف تھیں۔

" بالکل !! کوئی شک نہیں اس میں۔" ڈھٹائی سے اعتراف کرتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ فائزہ بیگم اور جسمین ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔

"نئی بات نہیں ہے۔" مسکرا کر کہتے ہوئے جسمین نے کندھے اچکا دیئے۔

۔*********۔

ملک خاندان کی حویلی کو بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ رات کی تاریخی میں خوبصورت لان کو گولڈن لائٹس اور بھی حسین اور دلکش بنا رہی تھی۔ چاروں اطراف میں پھیلی گلاب کی خوشبو وہاں موجود مہمانوں کو سکون بخش رہی تھی۔ بلاج اور خاور نے تیاری میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔ ایک کے بعد ایک مہمان آتے جا رہے تھے۔ بیرونی دروازے کے آگے دلاور اور خاور مہمانوں کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ جبکہ اپنے کمرے کی کھڑکی پر کھڑی جسمین بیرونی دروازے سے داخل ہوتے مہمانوں کو دیکھتے ہوئے اُن چاروں کے نہ آنے کی دعا مانگ رہی تھی جب اچانک دلاور اور خاور بھی اسے اندر آتے دکھائی دیئے۔ شاید سارے مہمان آچکے تھے۔ جس کے باعث وہ دونوں اندر چلے آئے تھے۔ اس نے شکر کا سانس لیا جو اگلے ہی لمحے گلے میں اٹک گیا۔

" یہ !! "

بیرونی دروازے سے داخل ہوتے حذیفہ اور جنید اس کی پریشانی کو بڑھا گئے تھے۔ اُن کے پیچھے ہی نوید اور یوسف بھی داخل ہوئے۔ یوں تو سب نے ہی ایک جیسے لباس زیب تن کیے تھے۔ مگر سفید شلوار قمیض کے اوپر بلیک واسکٹ پہنے وہ وہاں موجود سب مہمانوں میں نمایاں لگ رہا تھا۔ ایک پل کو ساری پریشانی بھلائے جسمین اسے دیکھتی رہ گئی۔ جب بھی اسے یوسف کا خیال آتا تھا تو وہ اکثر یہی سوچا کرتی تھی کہ آخر ایسا کیا ہے اس میں جو یوسف جیسا حسین مرد اس کا دیوانہ بنا پھر رہا ہے؟  کچھ بھی تو نہیں۔۔۔

بے شک اس کی رنگت گوری تھی۔ صورت بھی قابلِ قبول تھی کہ کوئی بھی مرد اسے انکار نہیں کرتا مگر اُن مردوں میں یوسف حیدر بھی شامل ہو سکتا ہے یہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔

" تم آگئے۔"

وہ دھیرے سے بڑبڑائی۔ جبکہ نیچے کھڑے یوسف نے خود پر جمی کسی کی نظروں کو محسوس کرتے جونہی چہرہ اُٹھا کر اوپر دیکھا، اس کی نگاہیں پلٹنا بھول گئیں۔

گالڈن کڑھائی کے ساتھ میرون کلر کی فراک میں ملبوس، بالوں کا خوبصورت سا جوڑا بنائے،  وہ ہلکے ہلکے میک اپ میں بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ نفاست سے کیے گئے میک اپ نے اس کے عام سے نقوش میں جان ڈال دی تھی۔ کہ اس وقت نیچے کھڑا یوسف حیدر واقعی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ آیا کہ کیا وہ اتنی ہی حسین تھی یا آج اسے لگ رہی ہے۔

" ابے یوسف !! " نوید نے اسے شانے سے تھام کر ہلایا۔

" کیا ہے۔" وہ جھنجھلایا۔

" کیا کر رہا ہے مروائے گا کیا چل۔" بازو سے اسے کھینچتے ہوئے وہ چاروں قریب ہی موجود خالی ٹیبل کی جانب بڑھ گئے۔ جبکہ اوپر کھڑی جسمین نے کھڑکی کا پردہ برابر کیا اور مڑ کر کمرے سے نکلتی بلاج کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ جہاں یاسمین اور لبابہ کے ساتھ فائزہ بیگم اور قمر بیگم بھی موجود تھیں جبکہ تمام مرد حضرات لان میں بلاج اور مولوی صاحب کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے نکاح نامہ بھرنے میں مشغول تھے۔

" تم کہاں تھیں۔ کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔" فائزہ بیگم اسے دیکھتے ہی گویا ہوئیں۔

" بس اپنے کمرے سے آ رہی ہوں۔ آپ کو کچھ کام تھا؟ " 

" ہاں !! جاؤ جا کر دیکھو ظفر بھائی (یاسمین کے ابو) نکاح کیلئے اندر تو نہیں آرہے۔"

جسمین سے کہتی وہ یاسمین کی جانب مڑی جو سنہرے کامدار جوڑے میں دلہن بنی کسی آسمان سے اُتری حور سے کم نہیں لگ رہی تھی۔

" لیں انکل اور خاور بھائی خود ہی آگئے۔"

اس سے پہلے جسمین کمرے سے باہر جاتی جب داؤد کے ساتھ ظفر عباسی اور خاور ملک خود ہی دستک دیتے کمرے میں چلے آئے۔ فائزہ بیگم نے انہیں دیکھتے ہی فوراً یاسمین کے چہرے پر گھونگھٹ کیا۔

ظفر صاحب آگے بڑھ کر یاسمین کے برابر ہی بیڈ پر بیٹھے اور نکاح کی اجازت لیتے ہوئے نکاح نامے پر دستخط کروانے لگے۔ لبابہ اور قمر بیگم نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ پاس کھڑے داؤد کی آنکھیں بھی بہن کو دیکھ کر نم ہونے لگی تھیں۔

ظفر صاحب نے دستخط کروا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا پھر اُٹھ کر دلاور اور داؤد کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی یاسمین اپنی امی اور بہن سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ رونے لگی۔

" امی آپ یاسمین بھابھی کو دیکھیں میں زرا باہر جا کر مہمانوں کو دیکھتی ہوں۔"

جسمین کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور سیڑھیاں اُتر کر لاؤنج سے ہوتی باہر لان میں چلی آئی جہاں اب بلاج سے نکاح کی اجازت لی جا رہی تھی۔

جسمین نے قریب ہی موجود پلر کی آڑ لی اور مسکراتے ہوئے اپنے جان سے پیارے بھائی کو دیکھنے لگی۔ جو سنہری شیروانی زیب تن کیے کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔

وہ یوں ہی مسکراتے ہوئے اس خوبصورت منظر کو دیکھتی رہی جب اچانک عقب سے آتی گھمبیر آواز پر چونکی۔

" ہمارا وقت کب آئے گا۔ جب ایسے ہی دستخط کر کے میں آپ کو اپنی دسترس میں لے لوں گا۔"

" اکثر اوقات حسین خوابوں کی تعبیر بہت بھیانک ہوا کرتی ہے مسٹر یوسف حیدر !! روک لو یہیں خود کو۔۔۔" پیچھے مڑ کر جسمین نے اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

" یہیں رکنے کیلئے آگے نہیں بڑھا تھا۔ ویسے بھی شادی تو بہانا ہے۔ وہ حق حاصل کرنے کے لیے جس میں میں آپ کو سرد گرم ہواؤں سے بچا کر رکھ سکوں، آپ کا خیال رکھ سکوں کہ تنکا بھی آپ کو نہ چبھ سکے۔ میری نظروں کے سامنے ہوں تاکہ یہ سکون ہو کہ آپ ٹھیک ہیں، خوش ہیں۔"

جسمین کی آنکھوں میں جھانک کر کہتا وہ اپنے ایک ایک لفظ پر یقین کرنے پہ اسے مجبور کر رہا تھا۔ وہ بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھے گئی۔

" اور؟ "

اس کے سحر میں جکڑتے ہوئے جسمین نے بےاختیار پوچھا۔ یوسف کا خاموش ہونا اسے اچھا نہیں لگا تھا۔ چاہے جانے کا احساس رفتا رفتا وجود میں سرایت کر رہا تھا۔ وہ چاہ کر بھی خود کو اس کی سوچوں سے باہر نہیں نکال پا رہی تھی۔

" اور آپ کی راہ سے ہر وہ پتھر ہٹا سکوں جو آپ کو تکلیف پہنچائے، ہر اس طوفان کے سامنے کھڑا ہو سکوں جو آپ تک آنا چاہے۔ اپنے کندھے پر سر رکھ کر آپ کا ہر آنسو اپنی پوروں پر سمیٹنا چاہتا ہوں۔ خوش رکھنا چاہتا ہوں، خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ بس اتنا حق چاہتا ہوں۔"

جسمین کے چہرے پر آتی آواره لٹوں کو کان کے پیچھے کرتا وہ ایک ایک لفظ اس کی روح تک اُتار رہا تھا۔ جبکہ وہ بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھتی رہی۔ جیسے ابھی پلکیں جھپکیں اور سب غائب۔۔۔

" بہت مشکل ہے یوسف۔ اتنا مشکل کے ناممکن لگنے لگے۔" یوسف کو دیکھتے ہوئے اس نے دھیرے سے کہا۔

لان میں لگی جگمگاتی روشنیاں یوسف کی سیاہ آنکھوں میں پڑتیں انہیں اور بھی سحر انگیز بنا رہی تھیں۔ جنہیں یک ٹک دیکھتی جسمین بالکل فراموش کر چکی تھی۔ وہ اس وقت کہاں ہے، ارد گرد کیا ہو رہا ہے، کون دیکھ رہا ہے، کیا کر رہا ہے۔۔۔ یاد تھا تو بس سامنے کھڑا یہ شخص جو اس سے بےپناہ محبت کرتا تھا۔

" مشکل ہے ناممکن نہیں۔ مجھے بس آپ کا ساتھ چاہیئے باقی میں سب سنبھال لوں گا۔"

یوسف کی بات پر وہ چونک کر اس پُرفسوں لمحے کے اثر سے نکلتی دو قدم پیچھے ہٹی۔ ابھی وہ جانے کیلئے مڑی ہی تھی کہ دائیں جانب سے آتی خاور کی آواز پر اندر تک کانپ اٹھی۔

" ابے یہ یوسف کہاں غائب ہو گیا۔ مجھے معلوم تھا یہ ایسا ہی کچھ کرے گا یہاں آکر۔" نوید لان میں ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے دانت پیس کر بولا۔

" ضرور مس جسمین کے پاس گیا ہوگا۔ فون کال کے بہانے بیوقوف بنا گیا۔"

حذیفہ نے ہنس کر کہتے ہوئے برابر میں بیٹھے جنید کو دیکھا جو گردن ہلا ہلا کر گنگناتا ساتھ دونوں ہاتھوں سے ٹیبل بھی بجا رہا تھا۔

" کھانے کے انتظار میں تو ہمارا کیوں دماغ کھا رہا ہے۔" اس کے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے حذیفہ نے اسے گھورا۔

" تم دونوں اس وقت سکون سے بیٹھ جاؤ۔ ایک تو اُس یوسف نے دماغ گھما رکھا ہے۔ اوپر سے تم بھی شروع ہو جاؤ۔"

غصّے سے انہیں گھور کر کہتا وہ پھر لان میں نظر دوڑانے لگا۔ پر یوسف میاں تو انہیں بیوقوف بنا کر ایسے غائب ہوئے تھے کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

" تم دونوں ادھر بیٹھو میں زرا یوسف کو دیکھ کر آتا ہوں۔"

" کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یوسف آتا ہی ہوگا تو پریشان نہ ہو۔" اس کو کھڑے ہوتے دیکھ جنید نے فوراً ٹوکا۔

" کیسے پریشان نہ ہوں۔ خود موت کے منہ میں چل کر آگئے ہیں۔" نوید جھجھلایا۔

یہاں موجود لوگوں کو دیکھ کر ہی اسے عجیب سی وحشت ہو رہی تھی۔ ان کی دنیا میں اور جسمین کی دنیا میں فرق اسے واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ جس کے بعد وہ طے کر چکا تھا۔ اب تو کسی بھی قیمت پر وہ یوسف کو مس جسمین کی طرف بڑھنے نہیں دے گا۔

" اچھا تھوڑی دیر تک رک کر انتظار کر لے پھر یوسف نہ آیا تو چلے جانا ڈھونے۔"

اس کا ہاتھ پکڑ کر حذیفہ نے واپس اسے کرسی پر بٹھایا۔ جس پر وہ زیرِ لب بڑبڑاتا بیٹھ تو گیا مگر نظر اب بھی یوسف کی تلاش میں ارد گرد گھوم رہی تھیں۔

۔*********۔

" کیا ہو رہا ہے یہاں؟ "

ماتھے پر بل ڈالے خاور تیز تیز قدم بڑھاتا ان کے پاس پہنچا۔ اس کی کرخت بھری آواز سن کر ہی جسمین کا چہرہ فق ہو گیا تھا جبکہ یوسف چہرے پر سنجیدگی لیے خاور کو دیکھ رہا تھا۔

" بھائی !! " وہ زیرِ لب بولی۔ جسے پاس کھڑے یوسف نے بآسانی سن لیا۔

" کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟ " سخت نگاہ جسمین پر ڈال کر وہ یوسف سے گویا ہوا۔

" میں مس جسمین کا اسٹوڈنٹ ہوں اور ہمیں بلاج بھائی نے یہاں بلایا ہے۔" یوسف نے اس ہی طرح سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

" اسٹوڈنٹ؟ " اب کے خاور نے سوالیہ نظریں جسمین پر جمائیں۔ جو فوراً اثبات میں سر ہلا گئی تھی۔

" اگر اسٹوڈنٹ ہے بھی تو یہاں کیا کر رہا ہے۔ جا کر باقی مہمانوں کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتا اور یہ بلاج۔۔۔ بلاج نے کیوں بلایا؟ وہ کیسے جانتا ہے اسے؟ "

سخت لہجے میں کہتے ہوئے ایک بار پھر اس نے اپنا رخ یوسف کی طرف کرلیا۔ جو خود پر ضبط کرتا، اس کے نہ ختم ہونے والے سوالوں کو سن رہا تھا۔

" وہ بھائی۔۔۔"

" ارے یوسف !! اچھا ہوا تم آ گئے۔"

اس سے پہلے جسمین خاور کو بلاج اور یوسف کی ملاقات کا بتاتی، بلاج خود ہی وہاں چلا آیا۔ اسے دیکھتے ہی جسمین نے سکھ کا سانس لیا۔ 

" آپ نے بلایا تھا بلاج بھائی کیسے نہ آتے۔" مصافحہ کرتے ہوئے یوسف نے مسکرا کر کہا۔ خاور ناگواری سے انہیں دیکھنے لگا۔

" اسے تم نے بلا یا ہے؟ "

" ہاں صرف اسے نہیں اس کے دوستوں کو بھی۔" خاور کے سوال پر بلاج نے لہجے میں زرا سی سختی لاتے ہوئے کہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کوئی تماشا ہو اور ماحول بگڑ جائے۔

" سنبھال کر رکھو اپنے مہمانوں کو۔" طنزیہ لہجے میں کہتا خاور وہاں نکلتا چلا گیا مگر جانے سے پہلے ایک کڑی نظر یوسف پر ڈالنا نہیں بھولا تھا۔

" ویسے بلاج بھائی آپ نے تو کہا تھا منگنی ہے۔ لیکن آپ کا تو نکاح ہوا ہے۔ میں ابھی یہی مس جسمین سے پوچھ رہا تھا کہ   ُآپ کے بھائی آگئے اور۔۔۔" دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ دی۔

یوسف کے جھوٹ پر جسمین نے چونک کر اسے دیکھا جس کے چہرے پر جھوٹ بول کر بھی شرمندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔

" ہاں پہلے منگنی ہی ہو رہی تھی پھر آخری وقت میں فیصلہ بدل دیا۔ سوچا بعد میں بھی تو نکاح کرنا ہی ہے تو پھر منگنی جیسے فضول جھمیلوں میں کیوں پڑنا اور بس پھر کر لیا نکاح۔" بلاج ہنستے ہوئے بولا۔ اس کی بات پر یوسف بھی مسکرا دیا۔

" اچھا فیصلہ کیا آپ نے نکاح مبارک ہو۔"

یوسف نے کہتے ہوئے ایک نظر جسمین پر ڈالی۔ جو خاموشی سے کھڑی ارد گرد دیکھ رہی تھی۔ مگر اندر سے خاور کا خوف بھی اسے کھائے جا رہا تھا۔

" بہت شکریہ !! اچھا جسمین میں زرا اندر جاتا ہوں جب تک تم یہاں مہمانوں کو سنبھال لو۔" یوسف کا شکریہ ادا کر کے وہ جسمین سے مخاطب ہوا۔

" جی بھائی !! " جسمین نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

بلاج مسکرا کر یوسف کا کندھا تھپکتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور ایک بار پھر یوسف نے اپنا سارا دھیان جسمین کی طرف مرکوز کر دیا۔

" ڈرنے کی ضرورت نہیں آپ پر کبھی کوئی بات نہیں آنے دوں گا میں۔"

" جھوٹ بول کر۔" جسمین اس کے تھوڑی دیر پہلے بولے گئے جھوٹ پر طنز کرتے ہوئے بولی۔

"جھوٹ نہیں بولا۔ میں واقعی آپ سے نکاح کی وجہ پوچھنے والا تھا مگر باقی باتوں میں بھول گیا۔" یوسف مسکرایا۔

جبکہ اس کی بات پر جسمین گھوری سے نوازتی آگے بڑھ گئی۔ لیکن عقب سے آتی گنگنانے کی آواز سن کر مسکرائی ضرور تھی۔

" آپ کے شہر میں ہم لے کے وفا آئے ہیں

مفلسی میں بھی امیری کی ادا لائے ہیں

مفلسی میں بھی امیری کی ادا لائے ہیں "

سرشاری سے گنگناتا وہ خود بھی اپنے قدم ٹیبل کی جانب بڑھا چکا تھا۔

۔*********۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی بیڈ پر یاسمین بیٹھی نظر آئی ساتھ لبابہ بھی تھی۔ جو بلاج کو دیکھتے ہی شرارت سے مسکراتی وہاں سے اُٹھ کر فوراً کمرے سے باہر نکل گئی۔ جبکہ اسے دیکھتے ہی یاسمین مسکراتی ہوئی بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

" آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ " اپنی بے ساختہ امڈ آنے والی شرم پر قابو پاتی وہ لہجے کو ہموار رکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

" ہممم !! آپ؟ " بلاج نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی جانب قدم بڑھا رہا تھا۔ یاسمین نے گڑبڑا کر نظریں پھیر لیں۔

" ہاں تو نکاح ہوگیا نا۔ تو اب تو آپ ہی بولوں گی۔ عزت دینی چاہیے نا شوہر کو۔ وہ الگ بات ہے تم اس لائق نہیں۔" آخر میں شرارت سے کہتی وہ پھر سے اپنی جون میں لوٹ چکی تھی۔

" اچھا رکو ابھی بتاتا ہوں۔" کہنے کے ساتھ ہی بلاج نے اسے بازو سے تھام کر ایک جھٹکے سے خود سے قریب کرتے ہوئے اس کی بولتی ہی بند کر دی۔

" کوئی آجائے گا۔" وہ منمنائی۔

" کوئی نہیں آرہا سب مہمانوں کے ساتھ مصروف ہیں۔ ویسے بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔"

بلاج نے نرمی سے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے اپنے سامنے کیا ساتھ ہی اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں تھام لیا۔ جبکہ اس کی محبت لٹاتی نظروں سے گھبرا کر یاسمین نے نظریں جھکا لیں۔ چہرہ شرم سے سرخ پڑنے لگا تھا۔

" کل کیوں رو رہی تھیں؟ آخر چل کیا رہا ہے تمہارے دماغ میں مجھے بتاؤ۔"

دھیمے لہجے میں سوال کیا جو پھر سے یاسمین کے چہرے پر اداسی لے آیا۔ نکاح کی خوشی میں وہ اس بات کو بھول ہی بیٹھی تھی یا شاید اب سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

" مجھے بس ڈر لگ رہا تھا کہ میں آپ کو کھو دوں گی اس لیے۔" بلاج کے چہرے کو ہاتھ سے چھوتی وہ خود کو یقین دلانے لگی، نگاہوں کی پیاس بجھانے لگی۔

" یاررر !! مانا کہ میرے بابا سائیں اور بڑے بھائی جلاد ٹائپ دیکھتے ہیں لیکن ہیں نہیں۔ تم بلاوجہ ہی پریشان ہو رہی تھیں۔ دیکھو ہوگیا ہمارا نکاح۔ مجھ پر سارے حقوق رکھتے ہوئے اب تم میرے سامنے کھڑی ہو۔" محبت سے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔

یاسمین جو بڑے آرام سے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھی ایک بار پھر شرم وحیا کے رنگ چہرے پر لیے دھیرے سے نظریں جھکا گئی۔ چہرہ تپ اُٹھا تھا۔ بلاج کی قربت سے لرزتی پلکوں کو اُٹھانے کی کوشش میں وہ ناکام ہو رہی تھی۔

بلاج نے مسکراتے ہوئے اس کی پلکوں کو اپنی پوروں سے چھوا اور آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اپنے سینے سے لگا چکا تھا۔

" ویلکم ٹو مائے لائف مسز یاسمین بلاج !! "

کان میں سرگوشی کی جس پر یاسمین نے پُرسکون ہوتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔

" مجھے اچھا لگتا ہے تیرا نام اپنے نام کے ساتھ 

جیسے صبح جُڑی ہو کسی حسین شام کے ساتھ "

۔*********۔

" یوسف تو آخر سمجھتا کیوں نہیں ہے بات کو؟ " نوید کمرے میں داخل ہوتے ہوئے غصّے سے بولا۔

تھوڑی دیر پہلے ہی چاروں ملکوں کی حویلی سے واپس لوٹے تھے۔ جس کے بعد جنید اور حذیفہ تو اپنے گھر کیلئے روانہ ہوگئے تھے مگر نوید نے یہیں رک کر یوسف سے بات کرنے سوچا تھا۔ جس کے بعد اب وہ یوسف کے کمرے میں کھڑا غصّے سے اسے دیکھ رہا تھا جو کچھ سننے کیلئے تیار ہی نہیں تھا۔

" کیا سمجھوں تیری بات ہاں؟ کہا نا میں جسمین کو نہیں چھوڑوں گا بس بات ختم۔" چلا کر کہتا وہ واسکٹ اُتار کر بیڈ پر پھینک چکا تھا۔

" تو نے کیا اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں؟ تو نے دیکھا نہیں زمین آسمان کا فرق ہے مس جسمین کی اور ہماری دنیا میں۔ جانتے بوجھتے تو موت کے منہ میں جا رہا ہے۔"

نوید نے کہتے ہوئے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔ بس نہیں چل رہا تھا یوسف کے سر پہ کچھ دے مارے تاکہ اس کی عقل تو ٹھکانے آئے۔

" موت برحق ہے۔ کسی سے ڈرتا نہیں میں۔" یوسف بھی دوبدو بولا ساتھ ہی آگے بڑھ کر الماری سے پہنے کیلئے ٹی شرٹ اور ٹراؤزر نکالنے لگا۔

" موت برحق ہے۔ لیکن جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جانا بیوقوف ہے اور میں تجھے یہ بیوقوفی نہیں کرنے دوں گا۔"

نوید نے اس کی پُشت کو گھورتے ہوئے کہا۔ جو اب کمرے میں لگے پردے کے پیچھے جا کر کپڑے بدلنے لگا تھا۔

" تو اگر میرا ساتھ نہیں دے سکتا تو تو یہاں سے جا سکتا ہے۔ مجھے تیری نصیحت کی بھی ضرورت نہیں۔" ہاتھ میں شلوار قمیض تھامے یوسف پردے کے پیچھے سے نکل کر عین اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ جو بے یقینی سے اسے دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا رہا تھا۔

" یعنی مس جسمین تیرے لیے اتنی اہم ہوگئی ہیں کہ اُن کے پیچھے مجھے جانے کو بول رہا ہے۔"

"میں تجھے تیری باتوں کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ ہر بات میں مس جسمین کو بیچ میں نہیں لا۔"

ناگواری سے کہتا ہوا ایک بار پھر وہ الماری کی طرف بڑھا اور ہاتھ میں پکڑا سوٹ تہہ کر کے الماری میں رکھ دیا۔

" بیچ میں تو تو لے ہی آیا ہے یوسف وہ بھی ہمارے بیچ میں۔" نفی میں سر ہلا کر کہتا وہ جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ رک کر یوسف کو دیکھا۔

" جا رہا ہوں۔ اب تب ہی ملوں گا جب ہمارے بیچ سے مس جسمین چلی جائیں گی۔"

کہنے کے ساتھ ہی نوید سیدھا وہاں سے نکلتا چلا گیا جبکہ یوسف گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر بیٹھتا بالوں کو مٹھی میں جکڑ چکا تھا۔

" یہ عشقِ محبت کی روایت بھی عجیب ہے صاحب 

پایا نہیں ہے جس کو اُسے کھونا بھی نہیں چاہتے "

۔*********۔

صبح ہوتے ہی حویلی میں ایک اور مسئلہ کھڑا ہو چکا تھا۔ خاور جو کل رات سے یوسف کو لے کر مشکوک ہو رہا تھا۔ اپنے تمام شکوک وشبہات لیے جہانگیر ملک کے کمرے میں جا پہنچا۔ جس کے بعد دلاور اور بلاج کو بھی وہیں بلا لیا گیا تھا اور اب جہانگیر ملک اپنے سامنے صوفے پر بیٹھے بلاج سے غضبناک لہجے میں باز پرس کرنے میں لگے تھے۔ جسکے جواب وہ بڑے سکون سے دے رہا تھا۔

" میری یوسف سے ملاقات ہسپتال میں ہوئی تھی جب وہ اپنے ابو کو لے کر آیا تھا۔ تب سے میں اُسے جانتا ہوں بعد میں پتا چلا وہ جسمین کا اسٹوڈنٹ ہے۔ جس کے باعث یوسف سے اچھی بات چیت ہوگئی تھی۔ اس لیے میں نے بلا لیا اُسے نکاح پر اس میں برائی کیا ہے۔" سکون سے بتاتے ہوئے اس نے جہانگیر ملک کو دیکھا جو پیشانی پر انگنت شکنیں لیے اسے گھور رہے تھے۔

" تمہارا مہمان تھا تو تم تک رہتا۔ جسمین سے باتیں کیوں کر رہا تھا؟ "

بائیں جانب صوفے پر بیٹھے دلاور نے ناگواری سے کہا۔ جس پر بلاج کا دل چاہا اپنا سر دیوار میں دے مارے۔ وہ کب سے ایک ہی بات دھرا رہا تھا۔ جسے وہ سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں تھے۔

" کہا تو ہے جسمین کا اسٹوڈنٹ ہے۔ وہ یہاں مجھے اور جسمین کو ہی جانتا تھا تو ظاہر سی بات ہے ہم دونوں سے ہی ملے گا۔"

" اتنا بڑا اسٹوڈنٹ؟ " خاور نے آگ کو مزید بھڑکایا۔

" وہ چھوٹا ہے جسمین سے۔ پر آپ اپنی سوچ کو تھوڑا بڑا کر لیں۔" ناگواری سے کہتے ہوئے اس نے خاور کی طرف سے رخ پھیر لیا۔

" کتنا چھوٹا دو تین سال؟ جسمین سے تو بڑا ہی لگ رہا تھا بابا سائیں وہ۔" بلاج کی بات پر خاور نے جہانگیر ملک کی معلومات میں مزید اضافہ کیا۔

" بابا سائیں ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ لوگ سمجھ رہے ہیں۔ بےفکر رہیں اب وہ ادھر کبھی نہیں آئے گا۔"

بلاج نے بات بگڑتے دیکھ بات ہی سمیٹ لی۔ ویسے بھی جس مقصد کیلئے اس نے یوسف کو بلایا تھا وہ پورا ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ اب نہیں چاہتا تھا کوئی نیا مسئلہ کھڑا ہو۔

" آئندہ اس حویلی میں کوئی باہر کا آدمی نہیں آنا چاہیئے۔ یہ پہلی غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں۔ لیکن اب اگر ایسا ہوا تو ہر ایک اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہوگا۔"

جہانگیر ملک نے غصّہ ضبط کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا۔ برادری سے باہر کی لڑکی کو بہو تو بنا لائے تھے مگر کسی بھی قیمت پر وہ گھر کی بیٹی کو غیر برادری کی بہو نہیں بنے دینگے۔

" آپ فکر نہیں کریں ایسا ہی ہوگا۔ لیکن اب اس بارے میں جسمین سے کوئی بات نہیں کرے گا۔"

بلاج کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور سیدھا جہانگیر ملک کے کمرے سے نکل کر ہسپتال کیلئے روانہ ہوگیا جبکہ کمرے میں بیٹھے اُن تینوں کا غصّے سے بُرا حال تھا۔

" اب دیکھے گا جس طرح اس نے اُس کم ذات لڑکی کو ہمارے گھر کی بہو بنا دیا ایسے ہی جسمین کو کسی کم ذات مرد کے ساتھ بیاہ دے گا اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائے گے۔" دلاور ہنکار بھر کر کہتا سگار کا کش لینے لگا۔

" ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ اُس سے پہلے ہی میں جسمین کا رشتہ کسی اپنی برادری کے مرد سے کر دوں گا اور اس بار بلاج بھی کچھ نہیں کہہ سکے گا۔" جہانگیر ملک کی بات پر دلاور طنزیہ انداز میں مسکرایا۔

" لیکن رشتہ آئے گا کہاں سے اب تو وہ دلدار خان بھی ہمارا دشمن بنا بیٹھا ہے۔"

خاور نے پیشانی پر بل ڈالے پوچھا۔ اسے یوسف کی شخصیت نے ہی کئی وسوسوں میں ڈال دیا تھا۔ جس طرح بے خوف انداز میں یوسف نے اسے جواب دیا تھا یہ باور کرانے کیلئے کافی تھا کہ وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں۔ گو کہ اسے یقین تو نہیں تھا کہ یوسف اور جسمین کے درمیان کوئی تعلق ہے۔ لیکن اپنے شک کو بھی یقین میں بدلنے نہیں دینا چاہتا تھا۔

" اس کی فکر نہیں کرو ہم جلد ہی اس کا انتظام کر لینگے فی الحال اپنی پارٹی پر توجہ دو۔ دلدار خان لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکانے میں لگا ہے۔ کچھ ایسا کرو کے سب خودبخود ہماری طرف لوٹ آئیں۔"

سگار کے کش لیتے ہوئے جہانگیر ملک متفکر سے بولے شیراز کے رشتے سے انکار کے بعد دلدار خان نے لوگوں کو بھڑکا کر اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کر دیا تھا جو جہانگیر ملک کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوا تھا۔

" ٹھیک ہے بابا سائیں اس کا بھی کام ہوجائے گا آپ پریشان نہ ہوں۔"

دلاور سگار کا دھواں ہوا کے سپرد کرتا صوفے پر سے اُٹھا اور خاور کو ساتھ آنے کا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ جہانگیر ملک پُر سوچ انداز میں غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے کسی فیصلے پر پہنچ چکے تھے۔ بس اب عمل کرنا باقی تھا۔

کلاس ختم ہوتے ہی وہ باہر نکلا تو کافی غصّے میں تھا۔ نوید نے صبح سے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی اور نہ ہی اس نے کوئی کوشش کی تھی جبکہ بیچارے جنید اور حذیفہ تو ان دونوں کے درمیان پیس کر رہ گئے تھے۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کس کا ساتھ دیں اور کسے چھوڑ دیں۔

" یوسی !! یوسی رک۔" جنید بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے آیا۔

" مجھے ابھی کوئی بات نہیں کرنی تم بھی اُس کے پاس جا سکتے ہو۔" بنا مڑے ہی جواب دیا۔ قدم تیزی سے اسٹاف روم کی جانب بڑھ رہے تھے۔

" یوسف یہ کیا طریقہ ہے۔ اگر نوید تجھ سے ناراض ہے بھی تو بجائے اُسے منانے کے تو نخرے دکھا رہا ہے۔"

جنید نے اس کا گریبان پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنی جانب موڑا۔ قدم رک چکے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے غصّے سے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔

" میں نخرے دیکھا رہا ہوں یا وہ بحث لگا رہا ہے۔ ویسے بھی دوستی نوید نے توڑی ہے میں نے نہیں۔ اُس کی ضد ہے کہ وہ مجھ سے تب ہی ملے گا جب میں مس جسمین کو چھوڑ دوں گا اور ایسا کبھی نہیں ہوگا۔"

یوسف دانت پیستے ہوئے بولا۔ آواز اتنی نیچے تھی کہ آس پاس سے گزرنے والوں کو بمشکل ہی سنائی دے۔

" تو اب وہ ہم سب سے بڑھ کر ہوگئی ہیں؟ " جنید نے حیرت اور کچھ افسوس کے ملے جلے جذبات میں گھیرے اس سے پوچھا۔ بےیقینی سی چاروں سوں پھیلی تھی۔

" وہ تم سے بڑھ کر ہیں نہ تم ان سے بڑھ کر۔ سب کی اپنی جگہ، اپنی حیثیت، اپنا مقام ہے مگر یہ بات تم تینوں کو سمجھ نہیں آرہی۔" یوسف رکا پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں جتا کر بولا۔

" نہ تو میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں اور نہ ہی جسمین کو چھوڑوں گا۔ باقی تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے یا نہیں یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے۔"

کہنے کے ساتھ ہی لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ جبکہ جنید وہیں خاموش کھڑا اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون غلط ہے یوسف یا نوید؟ 

ایک دوسرے کی بھلائی چاہتا تھا تو دوسرا اپنے سے جڑے ہر شخص کو اپنے پاس رکہنا چاہتا تھا۔ غلط تو دونوں ہی نہیں تھے پھر کیا غلط تھا وقت یا حالات؟

فی الحال یہ تو وقت نے ہی بتانا تھا۔ جو اپنے ساتھ نہ جانے کیا فیصلہ لانے والا تھا۔

۔*********۔

ہسپتال کے کوریڈور میں تیزی سے قدم بڑھاتا وہ اس کمرے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جس کے دروازے پر نصب نیم پلیٹ پر ڈاکٹر یاسمین کا نام لکھا تھا۔ وہ دستک دے کر بنا جواب کا انتظار کیے اند داخل ہوا۔ جہاں سامنے ہی چیئر پر ڈاکٹر عارفہ بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں جبکہ یاسمین ہاتھ میں پانی کا گلاس لیے اس کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔

" کیا ہوا؟ "

بلاج کی آواز پر دونوں نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔ چہرے پر فکرمندی لیے وہ انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔ عارفہ فوراً ہاتھ کی پشت سے آنسو رگڑتی اُٹھ کر بلاج کے سائڈ سے گزرتے ہوئے روم سے باہر نکل گئی۔

" اسے کیا ہوا؟ " بلاج نے بھنویں اچکائیں اور چلتا ہوا یاسمین کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

" وہ اپنے کزن صارم سے محبت کرتی تھی۔" یاسمین کہتے ہوئے اسی چیئر پر بیٹھ گئی جہاں کچھ دیر پہلے عارفہ بیٹھی تھی۔

" تو اس میں رونے والی کیا بات ہے۔" بلاج ہنسا جس پر یاسمین نے منہ بناتے ہوئے اسے دیکھا۔

" بات یہ نہیں ہے۔ دراصل عارفہ نے جذبات میں آکر اظہارِ محبت کر دیا۔ جس کے بعد صارم نے اسے بےحیا ، بدکردار اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ وہ اس سے شادی نہیں کرے گا۔ اب دیکھو نا میں نے بھی تو تم سے نکاح کا کہا تھا تو کیا تم۔۔۔"

یاسمین بولتے بولتے رکی، چونک کر بلاج کو دیکھا۔ جو سکون سے ٹیبل کے ساتھ ٹیک لگائے اسے سن رہا تھا۔

" میں نے تم سے نکاح کا کہا تو کیا تم بھی مجھے بُری لڑکی سمجھنے لگے ہو؟ " یاسمین کی ڈری سہمی آواز پر بلاج مسکرایا اور اس کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا لیا۔

" یاسمین !! عورت اپنے اظہارِ محبت کی وجہ سے پستی کی طرف نہیں جاتی بلکہ مرد کی کم ظرفی اسے پستی میں دھکیل دیتی ہے اور میں کم ظرف مرد نہیں ہوں۔"

بلاج کی بات پر وہ سب کچھ بھول کر کھلے دل سے مسکرا دی۔

ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔ یہ کم ظرفی ہی تو تھی۔ اگر نامحرم سے اظہارِ محبت حرام ہے تو صرف عورت کیلئے کیوں مرد کیلئے کیوں نہیں؟ نہ جانے کیوں لکھنے والوں نے جب بھی لکھا ہمیشہ تضاد ہی لکھا کہ معاشرے نے بھی گناہوں کی سزا سنائی تو عورت کو سنائی اور مرد کی طرف سے ہر ایک نے آنکھیں موند لیں۔

" تو تمہیں بھی یہ ہی لگتا ہے صارم کی غلطی ہے؟ " یاسمین نے اس کی رائے جانی چاہی۔

" ہاں !! ہمارے نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کو بھی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔ جسے حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ تو پھر اپنے نبی کے اُمتی ہوتے ہوئے ان کی پیروی کرتے ہوئے ہم کیسے عورت کے حق سے انکار کر سکتے ہیں۔

عارفہ نے صارم سے اظہارِ محبت کیا وہ اس کا حق تھا۔ قبول کرنا یہ نہیں کرنا صارم کا حق۔ لیکن اس بات پر عورت کی کردار کشی کرنے کا حق کسی کو نہیں۔"

وہ کہہ کر خاموش ہوگیا جبکہ یاسمین بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھے گئی۔ کتنا اچھا انسان تھا وہ یا کتنی خوش قسمت تھی وہ۔ حساب لگانا مشکل نہیں ناممکن تھا۔

" اب کیا سوچ رہی ہو؟ " اس نے یاسمین کے سامنے چٹکی بجائی۔

" سوچ رہی ہوں کہ اگر ہر مرد کی سوچ تمہاری طرح ہو جائے تو کوئی عورت اپنے اظہار پر آنسو نہ بہائے۔" وہ مسکرا کر بولی۔

" یہ تو ہے۔" بلاج نے کہتے ہوئے فخر سے کالر جھاڑے۔

" اچھا بس اب زیادہ ہواؤں میں اڑنے کی ضرورت نہیں۔" مقابل بھی یاسمین تھی فوراً زمین پر لاکر پٹخا۔

" اچھا نہیں اُڑتا ہواؤں میں پر اب جلدی چلو قسم سے یار بہت بھوک لگی ہے۔"

بلاج نے معصوم سی شکل بنائی جس پر وہ کھلکھلا کر ہنستی چیئر سے اُٹھ کر اس کے ساتھ ہی روم سے باہر نکل گئی۔ اب ان کے قدم کیفے ٹیریا کی جانب بڑھ رہے تھے۔

۔*********۔

" یس کم ان !! "

آفس کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دھیرے سے دستک دی جب اجازت ملتے ہی وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا سامنے ہی جامنی رنگ کے شلوار قمیض کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے وہ چیئر پر بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے موجود ٹیبل پر لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا جس کے کی بورڈ پر انگلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ آج چادر شانوں کے بجائے چیئر کی پشت پر موجود تھی۔ یوسف اس کو دیکھ کر مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔

" آپ ادھر ہیں میں آپ کو اسٹاف روم میں ڈھونڈ رہا تھا۔" اس کی بات پر جسمین نے ہاتھ روکتے ہوئے چہرہ اوپر اُٹھا کر اسے دیکھا جو ایسے اپنی کارکردگی بتا رہا تھا کہ اس بات پر ابھی جسمین اسے شاباشی دے گی۔

" کوئی کام تھا یوسف حیدر ؟ کہ آپ کو مجھے ڈھونڈتے ہوئے میرے آفس تک آنے کی زحمت کرنی پڑی۔"

نظریں واپس لیپ ٹاپ پر جماتے ہوئے بولی۔ انگلیوں نے بھی ایک بار پھر حرکت کرنی شروع کر دی تھی۔ جبکہ سامنے کھڑے یوسف کی پیشانی پر جسمین کا انداز دیکھتے ہوئے بل پڑنے لگے۔ دماغ تو پہلے ہی گھما ہوا تھا باقی کسر اس کے رویے نے پوری کردی۔

" مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ؟ " ہاتھ ٹیبل پر مارتے ہوئے وہ غرایا۔ اس کے انداز پر جسمین فوراً سہم کر پیچھے ہوئی تھی۔

" یہ کیا بدتمیزی ہے مسٹر یوسف !! " خود پر قابو پاتے ہوئے غصّے سے کہا۔

" کوئی بدتمیزی نہیں ہے۔ آپ بتائیں کیوں کرتی ہیں میرے ساتھ ایسا؟ ایک دن اچھے سے بات کر لینگی تو دوسرے دن پھر وہی بیگانگی کی چادر اوڑھ لیں گی۔ آخر کیوں؟ "

غصّے سے اسنے مٹھیاں بھینچ لیں۔ سب کچھ غلط ہوتا جا رہا تھا وہاں وہ تینوں ناراض تھے تو یہاں جسمین کی بیگانگی اسے مزید تیش دلا رہی تھی۔ اس کے لیے وہ اُن تینوں سے لڑ گیا تھا مگر جسمین تھی کہ اپنے خول سے باہر ہی نہیں آ رہی تھی۔ زرا یہ خول چٹختا کے پھر وہ دوگنی مضبوطی سے اسے خود پر چڑھا لیتی۔

" یوسف آخر کیا چاہتے ہو تم؟ " بےبسی سے اسے دیکھتے ہوئے وہ جیسے ہاری۔

" آپ کو۔" جواب فوراً آیا۔

" یہ ناممکن ہے آخر سمجھتے کیوں نہیں؟  تمہاری یہ وقتی دلگی ہم دونوں کیلئے مشکلات کھڑی کر دے گی۔" جسمین نے سمجھانا چاہا۔ جبکہ اچھے سے جانتی تھی۔ اس سرپھرے کو سمجھانا انتہائی مشکل تھا۔

" کوئی وقتی دلگی نہیں ہے سمجھی۔ آج کہہ دیا آئندہ نہیں کہیے گا ورنہ پھر انجام کی زمہ دار خود ہونگی۔" ٹیبل پر جھک کر ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا وہ جسمین کو سن کر گیا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی۔ وہ بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھے گئی۔

" آج مجھے بتا ہی دیں یہ چوہے بلی کا کھیل کب تک چلے گا۔ کیونکہ میں آپ کا پیچھا چھوڑنے والا تو نہیں۔"

" دیکھو یوسف تم سمجھتے کیوں نہیں۔ میرے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے۔" چیئر سے اُٹھتی وہ یوسف کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ بے بسی،  بے رخی، بیگانگی، اس انسان کے سامنے سب بیکار تھا۔

" یوسف تم دیکھو بھول جاؤ مجھے کوئی بھی اچھی لڑکی تمہیں مل جائے گی۔ بلکہ انوشے۔۔۔ انوشے تو تم سے محبت کرتی ہے اسے اپنا لو۔۔۔"

یوسف کا ہاتھ تھامے وہ اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ انوشے کے ذکر پر اس نے فوراً ہاتھ پیچھے کھینچ لیے۔

" انوشے اور مجھ سے محبت؟ محبت نہیں کرتی وہ اُسے بس ہر اُس شخص کے ساتھ ٹائم پاس کرنا ہوتا ہے جو دوسروں کی پہنچ سے دور ہو۔ آج کل وہ سائنس ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے کے ساتھ ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا؟ "

یوسف کے سوال پر جسمین نے نظریں چرائیں۔ آج صبح ہی تو اس نے انوشے کو کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا۔ جانتے بوجھتے بھی وہ انوشے کو بیچ میں لے آئی۔

" کیا ہوا خاموش کیوں ہوگئیں؟ " چبھتا ہوا لہجہ۔

جسمین نے بےبسی سے اپنے ماتھے کو مسلا۔

" تم فی الحال جاؤ یہاں سے میں مزید کوئی بحث نہیں کرسکتی۔" وہ واپس چیئر پر جا کر بیٹھ گئی۔ یوسف نے لب بھینچے اسے دیکھا۔

" مس جسمین مت کریں ایسا میرا دل دکھا کر کبھی خوش نہیں رہ پائیں۔"

الفاظ تھے یا نہ جانے کیا۔ جسمین وہیں ساکت رہ گئی۔ یوسف تو جا چکا تھا مگر اس کے لفظوں کی بازگشت پورے آفس میں سنائی دے رہی تھی۔

۔*********۔

" اوئے چھمک چھلو زرا ادھر بھی دیکھ لو۔"

یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھے وہ تینوں لڑکے ہر آنے جانے والی لڑکی کو آوازیں لگا رہے تھے۔ جن میں سے کچھ تو انہیں جواباً باتیں سناتے ہوئے آگے نکل جاتیں اور کچھ مسکراہٹ اچھال کر ان کی حوصلہ افزائی کرتیں۔ جس پر وہ مزید شیر بنتے چھوٹی موٹی چھیڑ چھاڑ پر بھی اُتر آئے تھے۔

" ارے کہاں جا رہی ہو پنکی میڈم بالآخر تم آج ہاتھ آ ہی گئیں۔" عبائے میں موجود سامنے گزرتی لڑکی کو دیکھتے ہی ان میں سے ایک آگے آیا۔

"دیکھو وکی سامنے سے ہٹ جاؤ ورنہ میں پرنسپل سے شکایت کر کے تمہیں ایکسپیل کروا دونوں گی۔" سامنے جم کر کھڑے وکی کو اسنے دھمکی دی جس پر ڈرنے کے بجائے وہ قہقہہ لگاتا ہوا آگے کو جھکا۔

" ایم این اے کا بیٹا ہوں۔ مجھے ایکسپیل کرواؤ گی؟ "

" ہٹو سامنے سے راستہ چھوڑو۔"

وہ سائڈ سے نکلنے لگی کہ وکی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ پاس کھڑے دونوں لڑکے بھی ان کے قریب آگئے تھے۔

" چھوڑ میرا ہاتھ۔"

بےبسی سے کہتے ہوئے پنکی نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی مدد طلب نظروں سے ارد گرد دیکھا مگر وہاں کھڑے تماشائی بنے لوگوں میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس کی مدد کو آتا۔

" نہیں چھوڑتے کیا کر لو گی؟ " ایک بار پھر قہقہہ لگاتے ہوئے سوال کیا۔

" سنا نہیں کیا کہا لڑکی نے ہاتھ چھوڑو اس کا۔"

عقب سے آتی آواز پر ویکی نے جیسے ہی چہرہ موڑ کر پیچھے دیکھنا چاہا منہ پر پڑنے والے گھونسے نے اسے زمین بوس کر دیا۔

گراؤنڈ میں ایک دم سناٹا چھا گیا تھا وہاں موجود کچھ لڑکے لڑکیاں آنکھیں پھاڑے حیرت سے نیچے گرے وکی کو دیکھ رہے تھے تو کچھ دلچسپی سے سامنے کھڑے اس گھونسا مارنے والے خوبصورت ترین مرد کو۔۔۔

" شرم آنی چاہیے تم سب کو۔ یہ لڑکا تم سب کے سامنے اس لڑکی سے بدتمیزی کر رہا ہے اور تم سب کھڑے دیکھ رہے ہو۔" وہ غصّے سے سب پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔

"یوسف یہ ایم این اے کا بیٹا ہے۔" وہاں کھڑے یوسف کے کلاس فیلو نے اسے اپنی طرف سے آگاہ کیا۔ وہ یوسف کے غصّے اور مار دھاڑ والی طبیعت سے بخوبی واقف تھا۔ مگر مقابل بھی پہنچی ہوئی شخصیت کا بیٹا تھا۔

" ایم این اے کا بیٹا ہے تو کیا؟ یہ یونیورسٹی اس کے باپ کی نہیں ہے۔" کہنے کے ساتھ ہی ایک اور گھونسا وکی کے منہ پر جڑا۔ وہ جو ابھی اُٹھ کر ٹھیک سے سنبھلا بھی نہیں تھا۔ کہ اس دوسرے گھونسے نے واپس زمین بوس کر دیا۔

یوسف پہلے ہی غصّے سے جسمین کے آفس سے نکلا تھا مگر گراؤنڈ میں پہنچتے ہی سامنے کے منظر نے اس کا مزید دماغ گھما دیا۔ جس کے بعد اس کا خود پر قابو پانا ناممکن ہو گیا۔

" سالوں کھڑے کیا دیکھ رہے ہو ماروں اسے۔"

وکی نے نیچے گرے، چہرہ اُٹھا کر اپنے دوستوں کو کہا جو پنکی کے ساتھ کھڑے اسے مار کھاتے دیکھ رہے تھے۔

" ہاں !! آؤ تم بھی۔ میرے بھی ہاتھوں میں صبح سے کھجلی ہو رہی تھی۔" یوسف شرٹ کے آستین اوپر چڑھاتا ہوا بولا۔

ان میں سے ایک آگے بڑھا اور یوسف کے منہ پر مکہ مارنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

اگلے لمحے دونوں ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہو چکے تھے۔

" اوو شٹ !! لگتا ہے پرنسپل کو بلانا ہی پڑے گا۔"

وہاں کھڑے یوسف کے کلاس فیلو نے فوراً آفس کی جانب دوڑ لگائی کہ تبھی سامنے سے آتے نوید سے بُری طرح ٹکرایا۔ پیچھے ہی جنید اور حذیفہ بھی موجود تھے۔

" ٹونی کے بچے دیکھ کر نہیں چل سکتا۔" نوید نے گھورا۔

" سوری !! " عجلت میں کہتا وہ سائڈ سے نکلنے لگا کے نوید نے اس کا گریبان پکڑ کر روک لیا۔

" کہاں بھاگے جا رہا ہے۔"

" پرنسپل کو بلانے۔"

" کیوں؟ " حذیفہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بھنویں اچکائیں۔

" وہ گراؤنڈ میں یوسف کی لڑائی ہوگئی ہے وکی سے۔"

" وکی؟ وہ ایم این اے کا بیٹا؟ " جنید نے آنکھیں پھاڑے پوچھا جس پر ٹونی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" او بیوقوف یوسف !! اسے تو اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتے۔" نوید نے غصّے سے کہتے ہوئے فوراً گراؤنڈ کی جانب دوڑ لگائی حذیفہ اور جنید بھی اس کے پیچھے لپکے جبکہ ٹونی پرنسپل کے آفس کی جانب بڑھ گیا تھا۔

" کیا ہو رہا ہے یہ یوسف۔"

گراؤنڈ میں پہنچ کر نوید کی نظر جیسے ہی یوسف پر پڑی فوراً چلایا۔ گراؤنڈ کا حال عجیب ہو چکا تھا۔ وہاں کھڑے اسٹوڈنٹس خوف زدہ سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ جہاں وکی کے دونوں ساتھی تو زمین پر پڑے ہوئے تھے مگر وکی اور یوسف برابری کا مقابلہ کرتے ہوئے ابھی بھی لڑ رہے تھے۔ یوسف کے سر سے خون بہہ رہا تھا جو اس کی بھوری رنگ کی شرٹ کو تر کر چکا تھا۔ جبکہ وکی کا منہ خون سے بھر چکا تھا۔

" یوسف چھوڑ یہ کیا حالت بنا لی۔" وہ تینوں فوراً ان دونوں کے پاس پہنچے۔

نوید نے یوسف کو پکڑ کر قابو کرنا چاہا ساتھ ہی جنید اور حذیفہ نے بھی وکی کو بازوؤں سے پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا۔

" چھوڑو مجھے اسے تو ابھی بتاتا ہوں میں باپ کے نام پر اچھلنے والے پلے۔" یوسف نے جھٹکے سے نوید کو خود سے دور کرتے ہوئے قدم وکی کی جانب بڑھائے کہ پھر سے نوید نے اسے پیچھے سے تھام لیا۔

" یوسف کتنا خون نکل رہا ہے پاگل ہے کیا چل اور تو تو بھی نکل یہاں سے۔"

یوسف سے کہہ کر وہ وکی کی جانب مڑا اور غصّے سے گھورتے ہوئے بولا۔ بس نہیں چل رہا تھا وکی کا حشر کر دے جس کی وجہ سے یوسف کا اتنا خون بہہ گیا تھا۔

" چھوڑو مجھے پھر بتاتا ہوں۔"

وکی نے تڑپتی مچھلی کی طرح خود کو ان کی گرفت سے آزاد کروانا چاہا مگر حذیفہ اور جنید کی گرفت مضبوط تھی۔

" چل یوسف۔"

نوید یوسف کو لے کر مڑا ابھی دو قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ زمین پر گرے وکی کے دوستوں نے اُٹھ کر حذیفہ اور جنید پر حملہ کر دیا۔ جس پر وکی نے فوراً خود کو چھڑواتے ہوئے اپنی ٹانگ میں چھپی گن نکال کر یوسف پر فائر کر دیا۔ حملہ اتنا اچانک تھا کہ سب اپنی جگہ ساکت رہ گئے۔

گولی چلنے کی آواز کے ساتھ ہی سناٹا چھا گیا تھا۔ سب ششدر سے آنکھیں پھاڑے کبھی یوسف کو تو کبھی وکی کو دیکھ رہے تھے۔ وکی کے ہاتھ سے فوراً گن چھوٹ کر نیچے گری۔ کپکپاتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں کو چہرے کے سامنے کیا جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو۔ کیا واقعی یہ اس نے کیا ہے۔

" یوسف آنکھیں کھول۔"

" یوسف !! "

حذیفہ اور جنید چلاتے ہوئے نوید کی جانب بڑھے جو یوسف کا سر اپنی گود میں رکھے زمین پر بیٹھا تھا۔

" کیا ہو رہا ہے یہاں؟ "

پرنسپل بھی ٹونی کے ساتھ وہاں چلے آئے۔ جب زمین پر گرے یوسف کو خون میں لت پت دیکھتے ہوئے اپنے پوچھے جانے والے سوال کا جواب خودبخود مل گیا۔

اُدھر جسمین جو گولی چلنے کی آواز سن کر تجسس سے  کوریڈور سے گزرتے ہوئے ادھر آ رہی تھی کہ سامنے پڑے یوسف کے وجود کو دیکھ کر قدم وہیں ساکت رہ گئے۔

"میں اُن بےغیرت مردوں میں سے نہیں جو اپنی محبت کو کسی اور کیلئے چھوڑ دوں۔ آپ کو میری زندگی میں ہی آنا ہے۔ جسمین !! "

" یہیں رکنے کیلئے آگے نہیں بڑھا تھا۔ ویسے بھی شادی تو بہانا ہے۔ وہ حق حاصل کرنے کے لیے جس میں میں آپ کو سرد گرم ہواؤں سے بچا کر رکھ سکوں، آپ کا خیال رکھ سکوں کہ تنکا بھی آپ کو نہ چبھ سکے۔ میری نظروں کے سامنے ہوں تاکہ یہ سکون ہو کہ آپ ٹھیک ہیں، خوش ہیں۔"

" کوئی وقتی دلگی نہیں ہے سمجھی۔ آج کہہ دیا آئندہ نہیں کہیے گا ورنہ پھر انجام کی زمہ دار خود ہونگی۔"

" مس جسمین مت کریں ایسا میرا دل دکھا کر کبھی خوش نہیں رہ پائیں۔"

اپنے ارد گرد اسے بس یوسف کے لفظوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ تبھی بےاختیار ہاتھ لبوں پر لے جا کر اس نے اپنی سسکی روکی۔ کچھ کھو دینے کے احساس نے بڑی شدت سے انگڑائی لی تھی۔ دل تھا کہ جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ نظریں سامنے جمی تھیں جہاں طوفان برپا تھا اسٹوڈنٹس ٹیچرز ادھر سے اُدھر بھاگتے، کوئی پولیس کو فون ملا رہا تھا تو کوئی ایمبولینس کو کال کرنے میں لگا تھا۔

وہ وہیں کھڑی ساکت وجود، ساکت نظریں لیے اس منظر کو دیکھتی رہی۔ کب پولیس آئی، کب ایمبولینس یوسف کو لے کر گئی، کب رش چھٹا، کب طوفان تھما کچھ۔۔۔ کچھ خبر نہیں تھی۔ یاد تھا تو بس زمین پر پڑا خون یوسف حیدر کا خون۔۔

" نہیں میں۔۔۔ میرا یوسف !! "

" اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے 

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے 

یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانا ہے 

جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانا ہے

 آغاز محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے 

اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانا ہے 

آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں 

نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانا ہے 

ہم درد بہ دل نالاں وہ دست بہ دل حیراں 

اے عشق تو کیا ظالم تیرا ہی زمانا ہے 

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے 

کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

یہ عشق نہیں آساں، اِتنا ہی سمجھ لیجے

 اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

یہ حُسن وجمال اُن کا، یہ عشق وشباب اپنا

جینے کی تمنّا ہے، مرنے کا زمانہ ہے

اب دل کو خدا رکھے، اب دل کا زمانہ ہے

اشکوں کے تبسم میں، آہوں کے ترنم میں

معصوم محبت کا معصوم فسانہ ہے "

(جگر مراد آبادی)

ہاتھ میں بوکے تھامے وہ گاڑی سے باہر نکلتی سامنے موجود عمارت کے اندر داخل ہوئی۔ تیز تیز قدم بڑھاتی وہ کوریڈور سے گزرتے ہوئے اس روم کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ دروازے پر دستک دے کر اس نے ہینڈل کو تھام کر آگے کو دھکیلا دروازہ کھلتا چلا گیا۔ سامنے ہی وہ بلیک ہاف سلیوز ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس بیڈ پر بیٹھا مسکرا کر اپنے دوستوں سے باتوں میں مصروف تھا۔ سر اور بازو پر پٹی بندھی تھی۔ یوسف کو مسکراتے دیکھ وہ خود بھی مدہم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے آگے بڑھی۔

" مس جسمین !! "

حذیفہ اور نوید جو مزے سے صوفے پر پھیل کر بیٹھے تھے اسے دیکھتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے جبکہ جنید بیڈ کے قریب ہی بینچ پر ڈھٹائی سے بیٹھا یوسف کیلئے لائے گئے پھلوں سے بھرپور طریقے سے انصاف کر رہا تھا۔

" کیسے ہو آپ لوگ؟ "

ان سب سے پوچھتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑا بوکے یوسف کی جانب بڑھا دیا۔ جسے اس نے سرشاری سے مسکراتے ہوئے تھام لیا تھا۔

" ہم سب ٹھیک ہیں آپ بیٹھیں نا۔"

نوید صوفے کے پاس سے ہٹتے ہوئے بولا۔ حذیفہ بھی اس کے ساتھ ہی سائڈ پر ہوگیا۔ جسمین اثبات میں سر ہلاتی خاموشی سے صوفے پر جا بیٹھی۔ ہسپتال کے اس روم میں جہاں کچھ دیر پہلے ہنسی مذاق چل رہا تھا اب وہیں ماحول میں خاموشی چھا چکی تھی۔

" آں !! حذیفہ چل ڈاکٹر سے ڈسچارج کا پوچھنا تھا نا۔"

نوید جنید کو بھی اشارہ کرتا حذیفہ کے ساتھ روم سے باہر نکل گیا۔ تاکہ دونوں کو سکون سے بات کرنے کا موقع مل سکے۔

" اوو !! میں بھی زرا یوسف کی دوائیاں لے آؤ ڈاکٹر نے کہا تھا لانے کیلئے۔" جنید بھی بہانہ بناتے ہوئے اُٹھا اور روم سے باہر نکل گیا۔ مگر اپنے ساتھ کیلے لیجانا بھولا نہیں تھا۔

" کیسے ہو تم؟ "

جسمین جو سر جھکائے بیٹھی تھی ان تینوں کے جاتے ہی یوسف سے گویا ہوئی۔ جو ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

" اب ٹھیک ہوں اب سب ٹھیک ہے۔"

وہ مسکرایا۔ جسمین نظریں پھیرتی ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ اس کی بات میں چھپا مطلب وہ اچھے سے سمجھ گئی تھی۔

" وکی کو یونی سے ایکسپیل کر دیا ہے۔ لیکن تم نے وکی کے خلاف کیس واپس کیوں لے لیا؟ " یوسف کی بات کا اثر زائل کرنے کیلئے پوچھا۔

"مجھے بس اُسے اس کی اوقات بتانی تھی جو ہوگیا۔ آج صبح ہی اپنے باپ کے ساتھ یہاں آکر معافی مانگ کر گیا ہے بلکہ اپنے بیٹے کی حرکت کی وجہ سے ہسپتال کا سارا خرچہ بھی انہوں نے ہی اُٹھایا ہے۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ 

کل کے جھگڑے میں گولی صرف یوسف کے بازو چھو کر گزری تھی۔ زخم زیادہ گہرا نہیں تھا کہ وہ وکی کے خلاف کیس چلاتا اور پھر آج صبح ہی تو وکی اپنے باپ عثمان چودھری کے ساتھ اس سے معافی مانگنے چلا آیا تھا۔ جس کے بعد یوسف نے اسے معاف کرتے ہوئے کیس واپس لے لیا تھا اور پھر عثمان چودھری نے بھی خوش ہوتے ہوئے ہسپتال کا سارا خرچہ خود اُٹھا لیا تھا۔ حالانکہ یوسف کی خوداری کو یہ گوارا نہیں تھا لیکن عثمان چودھری کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے گناہ کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ جو چند پیسوں میں ممکن تو نہیں پر ان کے دل سے کچھ بوجھ کم ہو جائے گا۔ ان کے لہجے میں چھپی شرمندگی اور افسوس کو محسوس کرتے ہوئے پھر یوسف نے بھی دوبارہ انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ وہ ایک باپ کا سر مزید جھکا نہیں دیکھ سکتا تھا۔

" نوید کہہ رہا تھا تم آج ڈسچارج ہو رہے ہو۔"

" ہاں زخم زیادہ گہرا نہیں ہے نا تو ڈاکٹر نے کہا آج رات تک چھٹی مل جائے گی پھر گھر جا سکتا ہوں۔"

یوسف کی بات پر اثبات میں سر ہلاتی وہ خاموش ہو گئی۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔ کیا بولے، کیا بات کرے۔ خود پر جمی یوسف کی مسلسل مسکراتی نظریں بھی اسے کنفیوز کر رہی تھیں۔ وہ یونہی خاموش بیٹھی تھی کہ یوسف کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا۔

" ویسے کچھ خوفناک واقعات بظاہر تو غلط ہوتے ہیں مگر ہماری زندگی میں سب ٹھیک کر جاتے ہیں۔"

وہ اسے بتا رہا تھا یا جتا رہا تھا۔ جسمین یہ تو نہ سمجھی مگر بات میں چھپا مطلب ضرور سمجھ گئی تھی۔

اس جھگڑے کے بعد صرف اپنے دوستوں سے ہی یوسف کے تعلقات ٹھیک نہیں ہوئے تھے بلکہ جسمین کے مخفی جذبات بھی ظاہر ہونے لگے تھے جو اسے آج ہسپتال تک لے آئے تھے۔ صرف یہ ہی نہیں کل رات بھی وہ یوسف کے نمبر پر کال کر کے نوید سے اس کی خیریت دریافت کر چکی تھی۔ جسے یوسف کے ہوش میں آتے ہی نوید نے اس کے گوش گزار کر دیا تھا۔ جسمین کو اس کی پرواہ ہے اس احساس نے ہی ہر تکلیف کو اس سے دور کردیا تھا۔ وہ خوش تھا اور اب جسمین کو اپنے سامنے بیٹھا دیکھ خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہا تھا۔

" تم ایسے ہی گھورتے رہو گے تو میں چلی جاؤں گی۔" وہ جھنجھلائی۔

" کیسے؟ " پرسکون انداز میں سوال کیا نظریں اب بھی نہیں ہٹائی تھیں۔

" ایسے جیسے ابھی گھور رہے ہو۔" انگلی اُٹھا کر یوسف کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔ جس پر مسکراتے ہوئے یوسف نے نظریں پھیر کر دروازے کی طرف مرکوز کر لیں۔

" مجھے اچھا لگا آپ آئیں۔" وہ اب سنجیدہ تھا اور جسمین اب بھی خاموش۔

یہ اعتراف بہت مشکل تھا کہ وہ بھی اس سے محبت کرنے لگی ہے۔ اسے تکلیف میں دیکھ کر وہ خود بھی سکون سے نہیں رہ پائی۔ وہ وہاں تھی پر دل یہاں اٹکا ہوا تھا۔

" کچھ بولیں گی نہیں۔" اس کی چبھتی خاموشی یوسف کو ایک آنکھ نہ بہائی۔

" میں چلتی ہوں۔" وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یوسف نے بےچینی سے پہلو بدلا۔

" ابھی تو آئی تھیں۔"

" رہنے نہیں آئی تھی ملنے آئی تھی۔" 

" ابھی ٹھیک سے ملی کہاں ہیں۔"

" تو کیا اب تمہارے گلے لگ جاؤ۔" وہ چڑ کر بولی۔ جبکہ اس کی بات پر یوسف نے فراغ دلی سے بانہیں پھیلاتے ہوئے گویا اسے گلے لگنے کی دعوت دی۔

" دفع ہو جاؤ۔ اگلی بار یہ ہاتھ ہی ٹوٹ جائیں۔" غصّے سے پیر پٹختی وہ روم سے باہر نکل گئی۔ پیچھے یوسف قہقہہ لگاتا اب اپنا فون اُٹھا کر نوید کو کال ملانے لگا۔

" ملاقات تو ہے تمہیں دیکھنے کا بہانہ 

 چھوڑ دو یہ باتیں کیا کہے گا زمانہ "

۔*********۔

" شبانہ یہ لو اس جوڑے کو میرے کمرے میں رکھ دو۔" فائزہ بیگم نے لاؤنج میں صفائی کرتی شبانہ کے پاس آ کر اسے جوڑا تھمایا۔ جس پر وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جوڑا لے کر فوراً کمرے کی جانب بڑھی۔

" اور ہاں سنو یاسمین کے گھر فون ملا کر مجھے دو۔ کل درگاہ پر حاضری دینے جانا ہے۔ میں چاہتی ہوں رخصتی سے پہلے ایک دفعہ یاسمین کو ساتھ لے کر درگاہ پر ہو آؤ۔" ایک اور حکم دیا۔

" جی سردارنی جی بس یہ رکھ کر آئی۔"

شبانہ کہہ کر فوراً کمرے میں چلی گئی۔ جبکہ فائزہ بیگم وہیں لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھ گئیں کہ تبھی دروازے سے انہیں جسمین اندر آتی دکھائی دی۔

" اتنی دیر لگا دی آنے میں۔"

" امی ٹریفک بہت تھا۔ خیر آپ بتائیں کیا ہوا؟ " جسمین ان کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔ ساتھ ہی شانوں پہ سے چادر اُتار کر سائڈ پر رکھ لی۔

" کل یاسمین کو لے کر درگاہ پر جاؤ گی تمہیں بھی چلنا ہے کل یونیورسٹی نہیں جانا۔"

" جی ٹھیک ہے۔" جسمین نے اثبات میں سر ہلایا۔

" ایک تو یہ شبانہ کہاں رہ گئی۔"

" آگئی سردارنی جی۔"

شبانہ لاؤنج میں آتے ہوئے بولی ساتھ ہی لاؤنج میں موجود ٹیلی فون پر یاسمین کے گھر کا نمبر ملا کر ریسیور فائزہ بیگم کو تھما دیا۔

" بی بی جی آپ کیلئے کچھ لاؤ۔" ادب سے سر جھکائے جسمین سے پوچھا۔

" جی چائے میرے کمرے میں لے آئیں۔"

فائزہ بیگم کو فون پر بات کرتے دیکھ جسمین اُٹھ کھڑی ہوئی اور شبانہ کو چائے کا بول کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ حکم ملتے ہی شبانہ بھی کچن کی جانب چل پڑی تھی۔ جبکہ فائزہ بیگم وہیں بیٹھی قمر بیگم سے باتوں میں مصروف تھیں۔

۔*********۔

ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر نوید یوسف اپنے گھر ہی لے آیا تھا۔ یوسف کے انکار کے باوجود بھی اس نے ایک نہیں چلنے دی تھی۔ ویسے بھی اب یوسف کے گھر تھا ہی کون جو اس کا خیال رکھتا۔

" تو اب آرام کر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔" نوید نے پانی کا جگ سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔

" میں بالکل ٹھیک ہوں اتنی بھی چوٹ نہیں لگی جو تم لوگ مجھے مریضوں کی طرح ڈیل کر رہے ہو۔" وہ جھنجھلایا۔

" گولی لگی ہے تجھے۔ وہ الگ بات ہے کہ تجھ جیسی ڈھیٹ چمڑی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔"

نوید بھی چڑ کر بولا۔ یوسف کی حرکتوں پر غصّہ تو آ رہا تھا مگر کچھ بھی بولنے سے خود کو باز رکھا ہوا تھا۔

" ویسے پتا ہے وکی کو ایکسپیل کر دیا ہے یونی سے۔"

" جانتا ہوں ٹونی جب آج ملنے آیا تھا تو اس نے بتا دیا تھا اور مس جسمین نے بھی۔" یوسف مسکرایا جبکہ نوید نے گھور کر اسے دیکھا۔

" یوسف آخر میں تیرا کیا کروں؟ تو نے کل حالت دیکھی تھی اپنی اگر کچھ ہو جاتا تو۔" خفگی سے کہتے ہوئے نوید اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔

" تو کیا ہوتا ؟ ویسے بھی تو تو ناراض تھا نا۔ اب کیا ہوا؟ " یوسف نے بھنویں اچکائیں۔

" ناراض تھا تجھ سے نفرت نہیں کرتا تھا۔" نوید نے دانت پیسے۔

" لیکن میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں۔"

یوسف نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسے جتایا کہ اگر نوید یہ سوچ رہا ہے۔ اب یوسف اس کی بات مان لے گا اور مس جسمین کے معاملے میں پیچھے ہٹ جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔

نوید خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر گہرا سانس لے کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔

" یوسف میں تیرا دشمن نہیں ہوں۔ میں بھی تیری خوشی چاہتا ہوں۔ اگر مس جسمین کی وجہ سے تجھے تکلیف ہوئی تو مجھ سے برداشت نہیں ہوگا۔"

" مجھے مس جسمین کی وجہ سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور اب تو وہ بھی مجھے پسند کرنے لگی ہیں۔" کہتے ہوئے وہ مسکرایا۔ آج جسمین کی آنکھوں میں وہ اپنا عکس واضح طور پر دیکھ چکا تھا۔

" ٹھیک ہے مان لیا مس جسمین تجھے پسند کرنے لگی ہیں۔ لیکن ان کے گھر والے کیا وہ تجھے قبول کرینگے اور اگر انہوں نے تجھے قبول نہیں کیا تو کیا مس جسمین اپنے گھر والوں کے خلاف جا کر تیرا ہاتھ تھام سکیں گی؟ "

نوید کے سوال نے اب کے یوسف کو چپ لگا دی۔ جسمین نے ہمیشہ یہ کہہ کر اسے روکنا چاہا تھا کہ اُس کے گھر والے یوسف کو قبول نہیں کرینگے اور بالفرض قبول نہیں بھی کرتے تو کیا جسمین اس کا ساتھ دے گی یا پیچھے ہٹ جائے گی اور کیا تب یوسف جسمین کو چھوڑ پائے گا؟ یہ سوچ ہی سوہان روح تھی۔

" زیادہ سوچ مت آرام کر ابھی تیری طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔" اسے سوچوں میں غرق دیکھ کر نوید کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔ سر میں ویسے ہی چوٹ لگی تھی اور اب یہ سب باتیں اسے مزید ذہنی اذیت سے دوچار کر دیتیں۔

" چلتا ہوں کچھ چاہیئے ہو تو آواز دے دینا۔"

نوید اسے چادر اوڑھا کر لائٹ بند کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ اس اندھیرے میں بھی یوسف آنکھیں کھولے کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا۔ سوچوں کے تانے بانے اب بھی وہیں جڑے تھے۔

۔*********۔

" کیا میں اندر آجاؤں؟ "

وائٹ ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس دروازے پر کھڑے بلاج نے دستک دیتے ہوئے پوچھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی وہ ہسپتال سے واپس آیا تھا اور اب فریش ہونے کے بعد سیدھا جسمین کے کمرے میں چلا آیا تھا۔

" آئیں نا بھائی۔"

جسمین جو کل مزار پر جانے کیلئے کپڑے نکال کر دیکھ رہی تھی۔ بلاج کی آواز پر فوراً اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

" کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیتے۔" کپڑوں کو واپس الماری میں رکھتے ہوئے بولی۔

" نہیں کام تو نہیں تھا۔ ڈرائیور بتا رہا تھا آج تم یونی کے بعد ہسپتال گئی تھیں۔" بلاج نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" جی آپ کو بتایا تو تھا یوسف کو گولی لگی تھی تو سوچا ایک بار ہسپتال میں دیکھ آؤں۔" جسمین نے مصروف سے انداز میں کہا جبکہ اس کی بات پر بلاج کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی مگر بولا کچھ نہیں۔

" کیا ہوا خاموش کیوں ہوگئے؟ " الماری بند کرکے اس نے چہرہ موڑ کر بلاج کو دیکھا۔

" نہیں کچھ نہیں اچھا کیا۔ ویسے امی بتا رہی تھیں کل درگاہ پر جا رہے ہو یاسمین کو لے کر۔" بلاج نے بات بدلی۔

" جی اُس کے لیے ہی کپڑے نکال رہی تھی۔ امی نے بھابھی کے گھر فون تو کر دیا تھا پر آنٹی کہہ رہی تھیں وہ لوگ مزار پر نہیں جاتے۔ لیکن امی کے کہنے پر یاسمین بھابھی کو بھیج دیں گی۔" تھوڑی دیر پہلے فائزہ بیگم سے ہونے والی گفتگو اب اس نے بلاج کے گوش گزار کر دی۔

" ٹھیک ہے چلو تم اب آرام کرو میں چلتا ہوں۔" بلاج جانے کیلئے مڑا ہی تھا کہ جسمین نے پیچھے سے آواز دے دی۔

" بھائی آپ کو میرا ہسپتال جانا بُرا لگا؟ " ذہن میں مچلتا سوال زبان پر آیا۔

" نہیں مجھے بُرا نہیں لگا بچے لیکن بابا سائیں کو یہ بات ناگوار گزر سکتی ہے اس لیے احتیاط کرو۔" وہ مسکرا کر بولا۔ جس پر جسمین نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" ٹھیک ہے بھائی۔"

" ہمم !! گڈ گرل۔"

بلاج کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ وہ مسکراتی ہوئی بیڈ پر جا لیٹی۔ جسمین کیلئے یہ ہی بہت تھا کہ بلاج کو بُرا نہیں لگا اور پھر رہی بابا سائیں اور بڑے بھائیوں کی بات تو بلاج تھا تو انہیں سنبھالنے کیلئے۔

تپتی دوپہر میں تیز رفتاری سے دوڑتی دو گاڑیاں سیدھا اس مزار کے سامنے جا رکی تھی۔ ایک میں فائزہ بیگم اور شبانہ موجود تھیں جبکہ دوسری گاڑی میں جسمین کے ساتھ یاسمین بیٹھی تھی۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس سر پر لال دوپٹہ لیے یاسمین حیرت سے اس جگہ کو دیکھ رہی تھی۔ وہ پہلے کبھی مزار پر نہیں آئی تھی۔ نہ ہی اسنے کبھی آنے کا سوچا تھا۔ وہ الگ فرقے سے تعلق رکھتی تھی بلاج الگ۔ مگر دل مل چکے تھے جس کے بعد ہر ذات پات، فرقہ واریت کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔

" چلیں بھابھی؟ "

گاڑی کا دروازہ کھول کر جسمین نے اترنے کا اشارہ کیا جس پر یاسمین سر ہلاتی باہر نکل آئی۔ وہ یہاں آنا نہیں چاہتی تھی مگر بلاج کی خوشی کیلئے انکار بھی نہیں کر پائی تھی۔

" بیٹا مجھے معلوم ہے تم یہ سب نہیں مانتی پر تم یہاں ہماری خوشی کیلئے آئیں مجھے اچھا لگا۔ باقی تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہم میں سے کوئی تمہیں مجبور نہیں کرے گا۔" فائزہ بیگم نے اس کے پاس آ کر شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ یاسمین مسکرا دی۔

"چلو آجاؤ۔"

یاسمین کو ساتھ لیے وہ مزار کی سیڑھیاں چڑھنے لگیں۔ شبانہ اور جسمین بھی ان کے پیچھے ہی تھیں۔ سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس، سر پر ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے جسمین تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ارد گرد لوگوں کو بھی دیکھ رہی تھی۔ اتنی دھوپ میں بھی وہاں ایک جہان آباد تھا۔

سیڑھیوں سے اوپر پہنچ کر وہ پھولوں کے ہار اور منت کی چادر ہاتھ میں لیے زنانہ حصے میں آکر فاتحہ پڑھنے لگی۔ یاسمین حیرت سے وہاں موجود سب عورتوں کو چادر چڑھاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

" بھابھی آپ میرے ساتھ آئیں۔"

جسمین اس کا ہاتھ تھامے وہاں سے نکل کر اس دیوار کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ جہاں کتنوں کی مردایں دھاگے کی صورت بندھی تھیں۔

" یہ اتنے دھاگے کیوں بندھے ہیں؟ " یاسمین نے حیرت سے اس سبز رنگ کی جالی دار دیوار پر بندھے دھاگوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" منت کے دھاگے ہیں۔" جسمین کہتے ہوئے خود بھی ہاتھ میں موجود منت کا دھاگہ باندھنے لگی۔

 ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کے پاس مانگنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ لیکن اس بار کسی امتحانی پرچے میں پاس ہونے کیلئے دعا نہیں کرنی تھی بلکہ زندگی کے امتحان میں پاس ہونے کی دعا کرنی تھی۔ وہ مانگنا تھا جو اب سے پہلے کبھی نہیں مانگا تھا۔ وہ پانا تھا جو اب سے پہلے کبھی نہیں چاہا تھا۔ وہ ایک شخص جو اب سے پہلے خواب تک میں نہیں آیا تھا۔ وہ۔۔۔ جو یوسف حیدر تھا۔ ایک جسمین کا۔۔۔ یوسف حیدر !! 

" یہ کیا۔۔۔"

منت کا دھاگہ باندھتے ہوئے اس کی نظر اس نشان پر پڑی۔ جو " سیاہ " تھا۔

" کیا ہوا؟ " اس کے چہرے پر چھائی پریشانی کو دیکھتے ہوئے یاسمین نے پوچھا۔

" میرے دھاگے پر یہ سیاہ نشان ہے۔ یہ کوئی اچھا شگون نہیں۔"

" او ہو !! کیا بات کر رہی ہو یہ صرف ایک دھاگہ ہے اور ویسے بھی اللّٰه کو تمہاری فریادیں اور دعائیں سنے کیلئے ان دھاگوں کی ضرورت نہیں۔" جسمین کی پریشانی کم کرنے کیلئے وہ سمجھاتے ہوئے بولی۔

" اچھا کیا یہ ہمیشہ یہیں بندھا رہے گا؟ " یاسمین نے بات بدلی۔ جس میں کچھ تجسس بھی شامل تھا۔

" ہاں۔"

" ویسے اگر تم بعد میں کبھی یہاں آئیں تو تمہیں کیسے پتا چلے گا ان میں سے تمہارا دھاگہ کونسا ہے؟ " ایک اور سوال۔ جسمین نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

" یہ میں نے دیوار کے کونے پر باندھا ہے اور پھر اب تو اس پر یہ سیاہ نشان بھی موجود ہے۔"

یاسمین کی بات کا اثر اس پر ہوا تھا یا نہیں۔۔۔ پر اب وہ اس سیاہ نشان کو الگ ہی نظر سے دیکھ رہی تھی۔

" او ہاں !! یہ تو فائدہ ہو گیا۔ اب اس سیاہ نشان سے تم فوراً پہچان جاؤ گی کہ یہ ہی تمہارا ہے۔"

" جی !! اب چلیں امی کے پاس چلتے ہیں۔" جسمین مسکرا کر کہتی اسے لیے فائزہ بیگم کی طرف بڑھ گئی جہاں وہ چبوترے پر بیٹھے فقیروں میں سامان تقسیم کر رہی تھیں۔ شبانہ ہاتھ میں کھانے پینے کے ساتھ ساتھ کپڑے وغیرہ لیے ان کے پیچھے کھڑی تھی۔

" آگئیں تم دونوں۔" ان دونوں کو دیکھ کر وہ مسکرائیں۔

" جی !! اب آپ نے غریبوں میں سامان تقسیم کر دیا تو چلیں؟ "

" ہاں چلو اور شبانہ یہ باقی سامان سیڑھیوں پر بیٹھے لوگوں میں تقسیم کر دو جب تک ہم گاڑی میں جا کر بیٹھتے ہیں۔"

شبانہ کو ہدایت دیتیں وہ ان دونوں کے ساتھ واپس گاڑیوں کی طرف بڑھ گئیں۔ سب سے زیادہ انہیں یاسمین کی فکر تھی جو نہ جانے یہاں آ کر کیسا محسوس کر رہی تھی۔

" تم پریشان تو نہیں ہوئی بیٹا۔" گاڑی کے پاس پہنچ کر انہوں نے پیار سے پوچھا۔

" نہیں آنٹی کوئی پریشانی نہیں ہوئی آپ فکر نہیں کریں۔" یاسمین مسکرائی۔ اسے خوشی تھی کہ فائزہ بیگم نے اسے زبردستی کچھ کرنے کو نہیں کہا تھا۔ نہ ہی اپنے رنگ میں رگنے کی کوشش کی تھی۔

" چلو گاڑی میں بیٹھو تم دونوں شبانہ کے آتے ہی چلتے ہیں۔"

" جی۔"

فائزہ بیگم کی بات پر اثبات میں سر ہلاتی وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہی شبانہ بھی سامان تقسیم کرکے ان کے پاس چلی آئی تھی۔ جس کے بعد وہ فوراً ہی وہاں سے نکلتے گھر کیلئے روانہ ہو چکے تھے۔

۔*********۔

" کیا بونڈنگ ہے آپ میں۔" جنید نے یوسف کو دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا۔

یوسف کو چوٹ لگنے کی وجہ سے آج یوسف اور نوید یونی نہیں گئے تھے۔ اس لیے حذیفہ اور جنید یونی کے بعد ان دونوں سے ملنے چلے آئے تھے اور اب کمرے میں بیٹھے مسلسل شرارت سے یوسف کو دیکھ رہے تھے۔

" بکواس نہیں کرو سیدھے طریقے سے بکو کیا کہنا ہے۔" یوسف جانتا تھا کوئی پتے کی بات تو کرینگے نہیں اس لیے چڑ کر بولا۔

" آج تو نہیں آیا اور مس جسمین بھی۔ اس لیے تنگ کر رہا ہے تجھے۔" حذیفہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

" تو میں کیا کروں؟ مجھے تو چوٹ لگی ہے اس لیے نہیں گیا۔" وہ مزید چڑا جبکہ ذہن میں جسمین کو لے کر ہل چل مچ چکی تھی۔

" ہاں اور وہ تیری وجہ سے نہیں آئی ہوں گی۔ دل نہیں لگے گا نا تیرے بغیر۔" جنید نے کہہ کر حذیفہ کے ہاتھ پر ہاتھ مارا ساتھ ہی دونوں قہقہہ لگا کر ہنس دیئے۔

انہیں ہنستا دیکھ یوسف کا دل کیا سائڈ ٹیبل پر رکھا گلدان اُٹھا کر ان دونوں کے سر پر دے مارے۔

" تنگ مت کرو اُسے۔" نوید ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھامے کمرے داخل ہوتے ہوئے بولا۔ نظر سیدھا ان دونوں پر پڑی تھی جو بیڈ پر گرے ہنسنے میں لگے تھے۔ 

" بس نوید تجھے پتا ہے تو مجھے کب اچھا لگتا ہے۔" نوید کے ہاتھ میں چائے کی ٹرے کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

" ہاں جب تیری عزت افزائی کرتا ہوں گھونسوں کے ساتھ۔" جنید کو جواب دیتے ہوئے اس نے ٹرے بیڈ کے درمیان میں رکھ دی۔ کل سے اس نے بغیر کسی خاص وجہ کے یوسف کو بیڈ سے اُٹھنے نہیں دیا تھا۔ سارا سامان اسے بیڈ پر ہی لا کر دے رہا تھا۔

" مجھے باہر جانا ہے اور مزید گھر پر نہیں بیٹھ سکتا۔" یوسف کا موڈ خاصا چڑچڑا ہو رہا تھا۔ کچھ طبیعت کا اثر تھا تو کچھ کل سے نوید کی باتوں نے بھی ذہن کو الجھا رکھا تھا۔

" بیٹھے رہو چپ چاپ اور تم مجھے لیکچرز نوٹ کروا دینا آج کے۔" یوسف سے کہہ کر وہ حذیفہ اور جنید سے مخاطب ہوا۔ جو مزے سے چائے کی چسکیاں بھر رہے تھے۔

" اوکے۔"

" تم لوگ رکو میں بس ابھی آیا۔"

ان تینوں کو باتیں کرتے دیکھ یوسف نے اپنا موبائل اُٹھا کر جیب میں رکھا اور ان سے کہتا ہوا بیڈ سے اُتر کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ وہ اسے پیچھے سے آوازیں ہی دیتے رہ گئے۔

" آہ !! یہ نہیں سدھرے گا۔"

۔*********۔

کمرے میں بیٹھا دلاور خاموشی سے جہانگیر ملک کو دیکھ رہا تھا جو فون پر مسلسل ہدایت دیتے مقابل کو سمجھانے میں لگے تھے۔ جس پر مقابل بھی انہیں تسلیاں دیتے ہوئے اب فون رکھ چکا تھا۔

" کیا بابا سائیں کام ہوجائے گا نا؟ " مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے دلاور نے مسکرا کر پوچھا۔

" ہاں کریم نے ہمیں یقین دلایا ہے۔ مایوس نہیں کرے گا۔ کل کا سورج اس کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔" نفرت سے کہتے ہوئے انہوں نے خاور کی طرف دیکھا۔ جو صوفے پر آرام سے بیٹھا انہیں سن رہا تھا۔

" اس شجاع عالمگیر نے اپنے بیٹے کے رشتے کا کہا تھا۔ معلوم کرو کن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اس بار ہم بلاج کو اختلاف کرنے کا کوئی موقع نہیں دینگے۔" وہ ہنکار بھرتے ہوئے بولے۔

" آپ پریشان نہ ہوں میں سب معلوم کر لوں گا۔ بس اب جلد سے جلد آپ جسمین کا رشتہ کر دیں۔ ورنہ ایسا نہ ہو وہ بھی کسی مرد کو ہمارے سامنے لاکر کھڑا کردے۔"

خاور کا ذہن اب بھی یوسف میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ اس لیے اب وہ جلد از جلد جسمین کی شادی کروانا چاہتا تھا۔ نہ جانے کیوں پر یوسف اسے ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ اُس کی بے خوفی آج بھی اسے غصّہ دلا دیتی تھی۔

۔*********۔

رات کی تاریکی منجمند ہوئی۔ وہیں صبح کا سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ دوبارہ روشن ہوچکا تھا۔ کانوں میں رس گھولتی پرندوں کی چہچہاہٹ، فضا میں چھائی پھولوں کی مسحورکن مہک جو نتھنوں سے ٹکڑا کر لبوں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ بکھیرے ہوئے تھی۔ سرد ہوا کے جھونکے جو ہر سوں اپنے پر پھیلائے ہوئے تھا اپنے آپ میں مکمل ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ ایسے میں اس مکمل اور پرکشش تصویر کا حصہ بنے جسمین دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی اپنے آفس کی جانب بڑھ رہی تھی جب کوئی اور بھی اس کے ہم قدم آ ہوا۔

" کیسی ہیں؟ " درمیان میں زرا کا زرا فاصلہ رکھتے ہوئے یوسف نے پوچھا۔

" میں تو ٹھیک ہوں اور آپ؟ " بغیر اس کی طرف دیکھے ہی وہ پہچان گئی تھی سوال کرنے والا شخص کون ہے۔

" اف !! اب تو یہ " آپ " کہنے کی فارمیلٹی چھوڑ دیں۔ خیر میں بھی ٹھیک ہوں۔ ویسے کل میں آپ کو کال کر رہا تھا اُٹھائی کیوں نہیں؟ " خفگی سے سوال کیا۔ جسمین نے مسکراہٹ دبائی۔

" کیونکہ مجھے یہ فون پر رابطے نہیں پسند۔"

" اور کیا کیا نہیں پسند ابھی بتا دیں تاکہ آگے سے نہ کروں۔"

" اور۔۔۔۔ اور تم نہیں پسند۔" جسمین کے سنجیدہ انداز پر یوسف کے قدم وہیں رک گئے۔ جبکہ وہ مسکراہٹ دباتی آگے بڑھ گئی۔

" ایسے کیسے نہیں پسند؟ تبھی میری وجہ سے کل آپ بھی یونی نہیں آئیں۔" ماتھے پر بل ڈالے وہ ایک بار پھر اس کے پیچھے چلتے ہوئے بولا۔

" کس نے اتنی بڑی خوش فہمی میں مبتلا کر دیا؟ " آفس کے سامنے پہنچ کر جسمین نے رک کر اسے دیکھا۔ 

" کسی نے نہیں کیونکہ یہ خوش فہمی نہیں حقیقت ہے۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔ جسمین نے نظریں پھیریں اور آفس کا دروازہ کھول کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ یوسف بھی اس کے پیچھے ہی اندر آیا۔

" خوش فہمی اب غلط فہمی میں بدل رہی ہے مسٹر یوسف !! میں کل درگاہ پر گئی تھی۔ اس لیے کل یونی نہیں آ سکی۔" وہ جتا کر بولتی اپنی چیئر پر جا بیٹھی۔

" درگاہ !! آپ درگاہ پر جاتی ہیں؟ " یوسف نے بھنویں اچکائے اسے دیکھا۔

" ہاں کیوں؟ " وہ الجھی۔

" کچھ نہیں بس میں ان سب چیزوں کو نہیں مانتا اس لیے شادی کے بعد آپ مزار وغیرہ پر نہیں جائیں گی۔" وہ سکون سے بولتا جسمین کو ٹھیک ٹھاک تپا گیا۔

" تم۔۔۔ تم ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے؟ "

" آپ کا ہونے والا شوہر۔" یوسف مسکرایا جبکہ جسمین نے لب بھینچے گھور کر اسے دیکھا جو ڈھٹائی سے اس پر حق جتا رہا تھا۔

" لگتا ہے بازو پر لگی گولی نے دماغ پر اثر کر دیا ہے۔"

" گولی نے تو نہیں پر کسی کے تصور نے ضرور اثر کر دیا ہے۔" دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر جھکتا وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔ جسمین نے نظریں جھکا لیں۔

جسمین نے اظہار نہیں کیا تھا نہ ہی کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور نہ ہی یوسف اس سے اظہار کروانا چاہتا تھا۔ وہ جسمین کا بھرم رکھنا چاہتا تھا اور اب جب جذبات انداز سے جھلکنے لگے تھے تو لفظوں کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ یوسف کیلئے اتنا ہی کافی تھا کہ جسمین اب اس کے جذبات کو جھٹلا نہیں رہی تھی۔

" تم۔۔۔ تم کیوں آگئے آج یونی؟ ایک دو دن گھر پر اور آرام کرتے۔" جسمین نے بات بدلی۔ خود پر جمی یوسف کی نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھیں۔

" اگر نہیں آتا تو پھر معلوم کیسے ہوتا کہ آپ کو میری فکر ہے یا نہیں۔" یوسف کی بات پر وہ جھنپ سی گئی اور دل میں ہی خود کو کوسنے لگی کہ آخر اس نے یہ پوچھا ہی کیوں۔

" اب چلتا ہوں کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے۔"

شہادت کی انگلی سے اس کا گال چھوتا وہ پیچھے ہٹا اور سیدھا آفس سے باہر نکل گیا۔ جبکہ اپنے دائیں گال پر ہاتھ رکھے بیٹھی جسمین دھیرے سے مسکرا دی۔

۔*********۔

ہاتھ میں بندھی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے وہ سگنل کے کھلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ جلدی جلدی کرتے بھی اسے ہسپتال کے لیے دیر ہوگئی تھی باقی کی کسر اس ٹریفک جام نے پوری کردی تھی۔

" کھل جا یار ورنہ بلاج نے تو آج میرا قتل کر دینا ہے۔"

وہ بڑبڑائی ساتھ ہی موبائل اُٹھا کر دیکھا جہاں بلاج کے کتنے ہی میسجز وہ موصول کر چکی تھی۔ مگر ان کا جواب نہیں دیا تھا۔ ابھی وہ ان میسجز کو دیکھ ہی رہی تھی کہ دفعتاً موبائل ٹون بجی اسکرین پر بلاج کا نام جگمگانے لگا۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال ریسیو کی۔

" ہیلو !! "

" کہاں ہو کب سے میسجز کر رہا ہوں۔ جواب کیوں نہیں دے رہیں؟ " اسپیکر سے بلاج کی جھنجھلائی آواز ابھری۔

" بس آ رہی ہوں بابا ٹریفک میں پھنس گئی تھی۔"

سگنل لائٹ گرین ہوتے دیکھ اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی۔

" اوکے سنبھل کر آنا اور آئی لو یو۔"

محبت بھرے لہجے میں کہتا وہ کال کاٹ چکا تھا۔ یاسمین نے مسکراتے ہوئے موبائل ڈش بورڈ پر رکھا۔ روڈ پر نظریں جمائے وہ گاڑی تیزی سے آگے بڑھاتی قدرِ سنسان علاقے میں داخل ہو چکی تھی۔ اکا دکا گاڑیاں ہی پیچھے آتی دکھائی دے رہی تھیں۔ گاڑی کی اسپیڈ مزید تیز کرتی وہ آگے بڑھ رہی تھی جب پیچھے سے آتی بائیک نے یکدم سامنے آ کر راستہ روکا۔ یاسمین نے فوراً بریک پر پاؤں رکھ کر گاڑی روکی عین ممکن تھا کہ گاڑی سیدھا بائیک سے جا ٹکراتی۔

" آہ !! "

جھٹکے کی وجہ سے سر اسٹیرنگ ویل سے جا ٹکرایا تھا وہ کراہ اُٹھی۔ 

" کیا بدتمیزی ہے۔"

غصّے سے بڑبڑاتے ہوئے اس نے جیسے ہی چہرہ اُٹھا کر سامنے بائیک پر بیٹھے ان دونوں لڑکوں کو دیکھا کہ تبھی فضاء میں گولی کی آواز گونجی۔ درختوں پر بیٹھے پرندے شور مچاتے ہوئے فضاء میں اُڑتے چلے گئے۔ شاید رو رہے تھے۔ یکدم ماحول میں شور اُٹھا تھا اور پھر ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ سناٹا۔۔۔ موت کا سا سناٹا۔

" موت کی آغوش میں یوں بھی کھو جاتے ہیں 

پلکیں جھکاتے ہیں اور گہری نیند سو جاتے ہیں "

۔*********۔

تیزی سے کوریڈور سے گزرتا وہ اس روم کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ کانپتے ہاتھوں سے ہینڈل تھام کر آگے کو دھکیلا، دروازہ کھلتا چلا گیا۔ سامنے ہی وہ بلب کی روشنی میں اکیلی اسٹریچر پر لیٹی اپنی آخری آرام گاہ میں اُترنے کا انتظار کر رہی تھی۔ بلاج دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا اس کی جانب بڑھا۔

" بس آ رہی ہوں بابا ٹریفک میں پھنس گئی تھی۔"

بلاج نے اس کے چہرے کو دیکھا۔ جہاں ماتھے پر گولی کا نشان تھا۔ ماتھے پر گولی لگنے کے باعث وہ موقع پر ہی دم توڑ چکی تھی۔

بلاج نے دھیرے سے اس کے ماتھے کو چھوا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو وہ اس سے بات کر رہی تھی اور اب آنکھیں بند کیے ایسے لیٹی تھی جیسے اب اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔

" تم پھر اداس ہو آخر چل کیا رہا ہے تمہارے دماغ میں؟ "

اسے اپنی آواز آتی سنائی دی۔ کل ہی تو وہ اس کے چہرے پر 

چھائی اداسی کو دیکھتے ہوئے خفگی سے پوچھ رہا تھا اور وہ کہہ رہی تھی۔۔۔

" نہیں میں اداس نہیں ہوں بلکہ اب تو بہت خوش ہوں اب اگر موت بھی آجائے تو غم نہیں۔"

" بکواس نہ کیا کرو۔۔"

اب کے اپنی جھنجھلاتی ہوئی آواز سنائی دی۔ لیکن سامنے لیٹی لڑکی نے شاید بہت اچھے سے اس کی بات پر کان دھرے تھے کہ اب وہ بکواس کرنا تو دور کچھ اچھا بھی نہیں بول رہی تھی۔

" اُٹھو ایسے کیوں لیٹی ہو اُٹھو۔"

یاسمین کے چہرے پر جھکا وہ پیار سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔ بار بار پلکیں جھپکا کر وہ اس نمی کو پیچھے دھکیل رہا تھا جو ان کے دیدار میں دیوار بن رہی تھی۔

" اُٹھو اب کیوں ناراض ہو میں نے تو تمہاری ہر بات مانی ہے۔ نکاح بھی کیا تمہارے کہنے پر پھر کیوں میرے ساتھ ایسا کر رہی ہو۔"

بلاج نے اسے جھنجھوڑا مگر دوسری طرف خاموشی چھائی رہی۔ بھلا جانے والوں نے بھی کبھی پلٹ کر دیکھا ہے۔ کبھی جواب دیا ہے۔ وہ تو چلے جاتے ہیں بغیر پیچھے دیکھے، بغیر یہ جانے کہ ان کے جانے کے بعد پیچھے چھوٹ جانے والے پل پل کس اذیت سے گزریں گے۔

" ڈاکٹر بلاج !! "

پیچھے سے آتی مردانہ آواز پر بلاج فوراً سیدھا ہوا اور آنکھوں کو صاف کرتا دروازے کی طرف مڑا جہاں ڈاکٹر قدیر کے ساتھ پولیس آفیسر شبیر بھی موجود تھا۔

اس واقعے کے بعد وہاں سڑک پر سے گزرتے لوگوں نے کار میں موجود یاسمین کی لاش کو دیکھ کر فوراً پولیس کو کال کر دی تھی۔ وہاں پہنچ کر پولیس کو چیکنگ کے دوران یاسمین کی کار سے صرف ہسپتال کا کارڈ ملا تھا۔ جس پر یاسمین کا نام اور ہسپتال کا پتہ موجود تھا ساتھ ہی ہسپتال کا نمبر بھی تھا۔ جس کے زریعے سے پولیس نے فوراً ہی ہسپتال میں کال کر کے اطلاع دیتے ہوئے ایمبولینس کو بلا لیا تھا۔

" جی؟ "

" ڈاکٹر بلاج یہ ڈکیتی کا کیس لگتا ہے۔ کیونکہ آپ کی وائف کی کار سے سوائے ہسپتال کے کارڈ کے علاوہ کچھ برآمد نہیں ہوا اور بقول آپ کے اس واقعے سے تھوڑی دیر پہلے ہی انہوں نے آپ سے فون پر بات کی تھی۔"

آفیسر شبیر نے سنجیدگی سے بلاج کو دیکھتے ہوئے کہا۔ جہانگیر ملک اور ان کے گھرانے سے وہ بخوبی واقف تھا۔ اس لیے ان قاتلوں کو ڈھونڈنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا تھا۔

" مجھے بس جلد از جلد وہ قاتل اپنے سامنے چاہیں۔ وہ کون تھے اور کیوں ایسا کیا یہ پتا لگانا آپ کا مسئلہ ہے۔" بلاج خود پر ضبط کرتے ہوئے بولا۔

" آپ فکر نہیں کریں ڈاکٹر بلاج بہت جلد وہ قاتل آپ کے سامنے ہوں گے۔"

کہتے ہوئے آفیسر شبیر نے مصافحہ کیلئے بلاج کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس نے فوراً تھام لیا۔ دست بوسی کے بعد وہ روم سے باہر نکل گئے۔ جبکہ ڈاکٹر قدیر وہیں کھڑے اس کی ضبط سے لال انگارا ہوتی آنکھوں کو دیکھنے لگے۔ تسلی بخش جیسے سب الفاظ ختم ہو چکے تھے۔ سوائے دکھ کے اب کچھ نہ تھا کسی کے پاس۔

" سنبھال خود کو بلاج !! "

بلاج کا شانہ تھپک کر کہتے وہ خود بھی باہر چلے گئے۔ دروازہ بند ہوا اور خود پر کرتا ضبط بالآخر کھو دیا۔ پھوٹ پھوٹ کر روتا وہ وہیں اسٹریچر کے پاس بیٹھتا چلا گیا۔ یاسمین خود تو چلی گئی تھی مگر پل پل مرنے کیلئے بلاج کو چھوڑ گئی تھی۔

" بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

  اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا 

 خالد میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان​

 وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا​ "

(خالد شریف) 

عباسی ولا میں صفِ ماتم بچھ چکا تھا۔ آس پڑوس کے لوگ بھی جمع ہونے لگے تھے۔ گھر میں ماتم کا سما تھا۔ یاسمین کی میت کو ہسپتال سے گھر لے آئے تھے اور اب کفن میں لپٹی ان سب کے سامنے موجود تھی۔ فائزہ ملک قمر بیگم کے پاس تھیں جو روتے روتے بے ہوش ہوچکی تھیں۔ بڑی بیٹی کے جانے کا صدمہ ناقابلِ برداشت تھا۔

بلاج اور داؤد ظفر عباسی کے پاس موجود تھے جو بالکل سکتے میں آ چکے تھے۔ بیٹی کو ایسے رخصت کرنا پڑے گا یہ ان کے وہم وگمان میں بھی کہیں نہیں تھا۔

ادھر جسمین لبابہ کو سنبھال رہی تھی۔ خبر ملتے ہی وہ یونیورسٹی سے نکل کر سیدھا فائزہ بیگم کے ساتھ یہاں چلی آئی تھی۔

" اذان کا وقت ہو رہا ہے جس نے چہرہ نہیں دیکھا دیکھ لے پھر میت کو لے جائے گے۔"

وہاں موجود یاسمین کے رشتے داروں میں سے کسی نے کہا۔ سب اُٹھ اُٹھ کر چہرہ دیکھتے آخری دیدار کرنے لگے۔ کہ میت کو اٹھانے کا وقت آن کھڑا ہوا۔

قمر بیگم جو ہوش میں آنے کے بعد بالکل خاموش بیٹھی تھیں۔ یاسمین کی میت کو اُٹھاتے دیکھ دوڑ کر اس پر جھکی۔

" کہاں لے کر جارہے ہیں آپ سب میرے بیٹی کو؟ میری بیٹی کو تو کچھ نہیں ہوا۔ یاسمین۔۔۔میری جان۔۔۔اٹھو نا میری بچی۔۔۔ دیکھو نا اپنی ماں کی طرف۔" وہ چیخ چیخ کر رونے لگیں۔ وہاں موجود ہر آنکھ اشک بار تھی۔

" آپی آنکھیں کھولو نا۔" لبابہ چلائی۔

جسمین کیلئے لبابہ کو سنبھالنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ اس کے تو خود اپنے آنسو بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

فائزہ بیگم اور کچھ عورتوں نے قمر بیگم کو پکڑ کر پیچھے کیا جس کے بعد بلاج اور داؤد ظفر عباسی اور باقی مردوں کے ساتھ مل کر جنازے کو کاندھے پر اُٹھائے وہاں سے باہر نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی عورتوں کے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور ایک بار پھر قمر بیگم چیختے ہوئے ہوش و حواس سے بیگانہ ہوچکی تھیں۔

۔*********۔

تیری خوشبو کا پتہ کرتی ہے

مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے

شب کی تنہائی میں اب تو اکثر

گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے

دل کو اُس رہا پہ چلنا ہی نہیں

جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے

زندگی میری تھی لیکن اب تو

تیرے کہنے پر رہا کرتی ہے

اُس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ

دل کا احوال کہا کرتی ہے

(پروین شاکر)

رات کی تاریکی اپنا جوبن لیے پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔ اسی تاریکی میں وہ وجود دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے سامنے موجود اس گھر کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں کبھی اس کی متاعِ جان رہا کرتی تھی۔

آج پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا اُسے اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اس ایک ہفتے میں ایک پل بھی ایسا نہیں تھا جس میں بلاج نے اسے یاد نہ کیا ہو۔

لوگ کہتے ہیں جانے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا مگر کوئی ان سے پوچھے جس کی پوری دنیا ہی اُس ایک شخص کے جانے سے اُجڑ جائے تو وہ کیسے جیئے؟

اگر تم زندگی گزارنے کو جینا کہتے ہو تو پھر وہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ دیکھو !! ایک اور عاشق زندہ وجود مردہ جذبات لیے کھڑا ویران آنکھوں سے اپنے محبوب کا اُجڑا آشیانہ دیکھتے ہوئے جی رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اس کے دل کا آشیانہ اُجڑ چکا ہے مگر وہ جی رہا ہے۔ ریگستان میں پانی کی تلاش میں بھٹکتے اُس مسافر کی طرح جو ناکامی لیے جی رہا ہے۔۔۔

" یاسمین !! "

دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے، آنکھیں بند کیے وہ کار کی بونٹ سے ٹیک لگائے زیرِ لب بڑبڑایا۔ ہوا کے جھونکے اس کے چہرے کو چھوتے کسی اپنے کے پاس ہونے کا احساس دلا رہے تھے۔ وہ چند لمحے یونہی آنکھوں کو بند کیے کھڑا رہا کہ دفعتاً آنکھیں کھولیں۔ بائیں ہاتھ پر کسی اپنے کا لمس محسوس ہوا تھا۔ کوئی تھا جو اس کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھ میں لے رہا تھا۔ بلاج نے اپنے بائیں جانب چہرہ موڑ کر دیکھا۔ جہاں وہ کھڑی مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔ ہاتھ اب بھی نرم و نازک ہاتھ میں موجود تھا اور وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔

" اندر نہیں آؤ گے؟ "

" اب تم بلاتی نہیں۔" جواب میں شکوہ تھا۔

" میں بلاؤں گی تو آؤ گے؟ "

" کیوں نہیں۔"

اور وہ مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھی۔ وہاں جہاں وہ رہا کرتی تھی۔ دروازے پر رک کر بیل بجائی۔ چند لمحوں بعد ہی دروازہ کھلا سامنے داؤد تھا۔

" بلاج بھائی اکیلے آئے ہیں؟ "

اس نے بلاج کے پیچھے جھانکتے ہوئے پوچھا۔ شاید جسمین یا فائزہ ملک بھی ساتھ ہوں پر وہاں کوئی نہیں تھا سوائے بلاج کے۔

" اکیلے۔۔۔" وہ دھیرے سے بڑبڑایا ساتھ ہی اپنے ارد گرد دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا۔ بلاج نے گہرا سانس لیتے ہوئے سر جھٹکا۔ تو اب طے ہوا زندگی گزارنے کا بہانہ مل گیا۔ تخیل میں بنتی تصویر نگاہوں میں آنے لگی۔

" کیا ہوا اندر آئیں نا۔"

بلاج کو خاموش کھڑے دیکھ اس نے سائڈ پر ہوتے ہوئے اندر آنے کا راستہ دیا۔ بلاج خاموشی سے اندر کی جانب بڑھ گیا۔ لان سے گزر کر وہ اندرونی دروازے سے لاؤنج میں داخل ہوئے۔

" آپ بیٹھیں میں امی کو بلاتا ہوں۔" داؤد کہتا ہوا قمر بیگم کے قمرے کی جانب بڑھ گیا۔

بلاج خاموش نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا جب اپنے شانے پر کسی کا لمس محسوس کر کے پیچھے مڑا۔

" مجھے ڈھونڈ رہے ہو؟ " وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

" نہیں۔"

" پھر یاد نہیں کرتے مجھے؟ "

"نہیں۔"

" بھول گئے مجھے؟ "

" بھولتی ہی تو نہیں کہ یاد کروں۔" بلاج نے اس ہاتھ تھام کر اپنے عین دل کے مقام پر رکھا۔

" تم تو یہاں رہتی ہو جہاں داخل ہونے کا راستہ تو ہے لیکن باہر نکل جانے کا نہیں۔"

بلاج کی بات پر یاسمین کھل کر مسکرا دی۔ وہ نم آنکھوں سے اس کی مسکراہٹ کو دیکھے گیا۔

" بلاج بیٹا !! "

قریب سے آتی آواز پر وہ چونکا چہرہ موڑ کر دائیں جانب دیکھا داؤد کے ساتھ قمر بیگم کھڑی تھیں۔

" بھائی آپ بیٹھ تو جائیں۔ ایسے کیوں کھڑے ہیں؟ " داؤد کے سوال پر اس نے پھر نگاہیں چاروں طرف گھمائی۔ وہ اب بھی اکیلا ہی کھڑا تھا اور کیوں کھڑا تھا یہ بھی بس وہی جانتا تھا۔

" بیٹھ جاؤ بیٹا۔" قمر بیگم کے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلاتا صوفے پر بیٹھ گیا۔ قمر بیگم اس کے سامنے جا بیٹھیں۔ داؤد ان کے قریب ہی کھڑا رہا۔

" کیسی طبیعت ہے آنٹی؟ "

بلاج نے ان کے مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔جوان اولاد کے چلے جانے کے بعد بھلا ماں باپ کیسے ہو سکتے ہیں۔

" ٹھیک ہوں بیٹا۔" وہ دھیرے سے بولیں۔

" اور انکل وہ کہاں ہیں؟ "

" وہ باہر گئے ہیں کوئی کام تھا شاید۔" وہ کہہ کر خاموش ہو گئی جیسے کہنے کو کچھ بچا ہی نہ ہو۔

" اپنا خیال رکھیں آنٹی لبابہ اور داؤد کی ذمہ داری بھی آپ کے سر پر ہے۔" بلاج کی بات وہ اثبات میں سر ہلاتی یکدم رو پڑیں۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے اُٹھ کر قمر بیگم کے سامنے گھٹنوں کے بل جا بیٹھا۔

" ایسے نہیں روئیں آنٹی۔ میں ہوں نا آپ کے پاس آپ کا بیٹا۔ آپ فکر نہیں کریں میں کبھی بھی آپ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا۔" قمر بیگم کے آنسو صاف کرتا وہ انہیں دلاسہ دینے لگا اب سوائے دکھ اور دلاسوں کے رہ ہی کیا گیا تھا۔

" تم بہت اچھے ہو بیٹا۔"

قمر بیگم نے بلاج کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا پاس کھڑا داؤد بھی پیچھے سے بلاج کے گلے لگ گیا۔ تینوں کی آنکھیں نم تھیں جو اب کم ہی خشک رہا کرتی تھی۔

۔*********۔

" کیسی ہیں؟ "

وہ تیزی سے اسٹاف روم کی جانب بڑھ رہی تھی جب پیچھے سے آتی آواز پر رک کر پیچھے مڑی۔ سکن کلر کی شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ میں ملبوس ہاتھوں کو جیبوں میں ڈالے وہ مسکراتا ہوا جسمین کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

" تم پر فرض ہے کلاس سے پہلے میرے پاس آ کر حاضری دینا؟ " جسمین نے بھنویں اچکائیں۔

" بالکل فرض ہے جسے میں قضاء نہیں کر سکتا۔" وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔ بھلا شرمندگی پھر کیسے چھو کر گزر جاتی۔ جسمین نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے مڑ کر واپس چلنا شروع کر دیا۔ یوسف نے بھی اس کے ساتھ ہی قدم بڑھا دیئے۔

" بلاج بھائی اب کیسے ہیں؟ "

" ٹھیک ہیں بس خاموش ہو گئے ہیں زیادہ بات نہیں کرتے۔" بلاج کا سوچتے ہی جسمین کے چہرے پر اداسی اُتر آئی تھی چاہ کر بھی وہ اپنے جان سے پیارے بھائی کیلئے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔

" خاموش تو ہوں گے ہی کتنا خوش تھے وہ نکاح والے دن اور اب۔۔۔" دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ دی۔ کچھ پل یونہی خاموشی سے گزرے کے وہ پھر بولا۔

" میں تو اب اپنے لیے بھی ہر نماز میں دعا کرنے لگا ہوں کہ آپ کا ساتھ ساری زندگی کیلئے ملے ورنہ میں تو مر ہی جاؤں گا۔"

آس پاس سے گزرتے ہوئے اسٹوڈنٹس کو دیکھتا وہ دھیرے سے بولا۔ جبکہ سر جھکائے چلتی جسمین نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ یہ وہ یوسف تو نہیں تھا جس نے جسمین پر ہاتھ تک اُٹھا دیا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی تھا جو جسمین کے سامنے کھڑا اس کے بغیر مرجانے تک کی باتیں کر رہا تھا۔

" زیادہ فیلمی ڈائلاگ مت مارو۔"

" یہ ڈائلاگ نہیں حقیقت ہے۔ جس شخص کی دنیا بس ایک انسان سے جوڑی ہو اور اگر وہ ہی بچھڑ جائے تو بندہ زندہ رہ کر کیا کرے گا۔" محبت سے جسمین کی طرف دیکھتے ہوئے وہ اس کا اپنی زندگی میں مقام بتا رہا تھا محبت کا یقین دلا رہا تھا۔

" کوئی کسی کیلئے نہیں مرتا یوسف اور پلیز آئندہ یہ بات مت کرنا۔" سخت لہجے میں کہتی وہ تیزی سے آگے بڑھ چکی تھی جبکہ وہ وہیں کھڑا اسے جاتے دیکھ زیرِ لب کہہ رہا تھا۔

" پر یوسف حیدر آپ کیلئے مر سکتا ہے جسمین ملک !! "

۔*********۔

ڈھلتی شام میں وہ بیٹھک میں موجود حقے کے کش بھرتے اپنے سامنے بیٹھے دلاور کو سن رہے تھے جو ان کے سامنے تخت پر گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے پارٹی میں ہونے والے ہنگامے سے آگاہ کر رہا تھا۔

" دلدار خان نے ہماری ناک میں دم کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے بندوں کو لڑوا کر ہمارے ہی خلاف کرنا چاہ رہا ہے۔" وہ ہنکار بھرتے ہوئے بولے۔

" میں تو کہتا ہوں بابا سائیں اس کا بھی کام تمام کروا دیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔" مونچھوں کو تاؤ دیتا وہ خباثت سے مسکرایا۔

" اگر ہم نے ایسا کیا تو سب کا شک ہم پر ہی جائے گا اور ویسے بھی اُس لڑکی کے مرنے کی وجہ سے جو لوگ ہمدردی جتا رہے ہیں وہ بھی ہم پر شک کرنے لگیں گے۔"

کرخت لہجے میں کہتے ہوئے وہ حقے سے کش بھرنے لگے۔ جبکہ ان کے پاس کسی کام سے آتا بلاج چونک کر دروازے پر رکا تھا۔ باتوں سے تو یہ ہی لگا تھا گفتگو کا محور یاسمین ہے۔

" وہ آفیسر شبیر ابھی تک تو ہمارے بندوں کو پکڑ نہیں پایا تو کوئی اور ہم پر شک کیسے کرے گا۔" دلاور نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا کہ تبھی ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتا بلاج اندر داخل ہوا۔ 

" میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا بابا سائیں آپ اس حد تک گر سکتے ہیں۔ یاسمین کو میری زندگی سے نکالنے کیلئے آپ نے اُسے جان سے مار دیا۔"

بلاج بے یقینی سے جہانگیر ملک کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔ وہ تو قاتلوں کو باہر ڈھونڈتا پھر رہا تھا جبکہ وہ اس کے اپنے گھر میں موجود تھے۔

" کیا بکواس کر رہے ہو؟ "

جہانگیر ملک جو اچانک اس کی آمد پر گڑبڑا گئے تھے۔ اب سنبھل کر بولے۔ البتہ دلاور مزے سے بیٹھا ایک نئے تماشے کے شروع ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔

" بکواس !! میں بکواس کر رہا ہوں تو وہ کیا تھا جو آپ دونوں ابھی کر رہے تھے؟ یوں تو مجھے آپ کی اولاد ہونے پر پہلے بھی کوئی فخر نہیں تھا لیکن آج۔۔۔ آج مجھے شرم آرہی ہے آپ کا بیٹا ہونے پر۔"

سرخ آنکھیں لیے وہ بےبسی سے بولا۔ اب اپنے سامنے کھڑے شخص کو کیا کہتا جو باپ کے روپ میں سانپ بنا بیٹھا تھا۔ اپنی ہی اولاد کی خوشیاں نگل گیا تھا۔

" زبان سنبھال کر بات کرو۔ پتا بھی ہے کس سے کیا کہہ رہے ہو۔ ہوش میں تو ہو تم؟ " وہ دھاڑے۔ جو وہ نہیں چاہتے تھے وہ ہو گیا تھا۔ بلاج کو بدگمان نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اب اپنے خلاف کر بیٹھے تھے۔

" ایک بات یاد رکھے گا جہانگیر ملک !! آپ نے اُسے میری زندگی سے تو نکال دیا لیکن کبھی میرے دل سے نہیں نکال پائیں گے اور ویسے بھی اگر دشمن بھی مر جائے تو اُس کیلئے بھی دل میں نرم گوشہ پیدا ہو ہی جاتا ہے پھر وہ تو میری بیوی اور سب سے بڑھ کر میری محبت تھی۔" جتا کر کہتا وہ مڑ کر دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ یکدم رکا۔

" اور ہاں !! یہ بھی یاد رکھے گا۔ بُرائی کتنی ہی طاقتور کیوں نا ہو انجام اس کا زوال ہی ہوتا ہے۔ آپ کو بھی بہت جلد اپنے گناہوں کا حساب دینا ہوگا۔"

جہانگیر ملک کو وہیں ساکت چھوڑ کر بلاج وہاں سے فوراً باہر نکل گیا۔ جبکہ تخت پر بیٹھا دلاور مسکراتے ہوئے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔

" صدقے !! "

۔*********۔

کمرے میں داخل ہو کر اس نے پوری قوت سے دروازہ بند کیا۔ دل تھا کہ ابھی پھٹ جائے گا۔ یہ انکشاف ہی اتنا تکلیف دہ تھا کہ ابھی تک وہ اس بات کو مانے سے انکاری تھا کہ اس کا اپنا سگا باپ کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔ بلاج کا دل چاہا ہر چیز کو تہس نہس کر دے۔ آگے بڑھ کر بیڈ کی چادر کو نوچ کر زمین پر پھینک دیا۔ کشن اور تکیے نیچے فرش پر جا گرے تھے۔ 

اس نے مڑ کر ڈریسنگ ٹیبل پر موجود ساری چیزیں ہاتھ مار کر نیچھے گرا دیں۔ ہر چیز نیچے گر کر فرش پر بکھرتی چلی گئی۔ مہنگے پرفیوم کی شیشیاں نیچے چکنا چور ہو چکی تھیں۔ دو منٹ میں ہی کمرے کا نقشہ بدل چکا تھا۔

" کیسے کر سکتے ہیں بابا سائیں آپ ایسا؟ مارنا تھا تو مجھے مار دیتے۔ اُس معصوم کی جان تو نہ لیتے۔"

بلاج نے سوچتے ہوئے غصّے سے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر ہاتھ مارا جو زور دار آواز کے ساتھ چکنا چور ہو کر ماربل کے فرش پر گر چکا تھا۔

" کیا ہوا بھائی؟ "

" بیٹا؟ "

شور کی آواز سن کر اس کے کمرے کی طرف آتی جسمین اور فائزہ بیگم نے دروازے پر ہی رکتے ہوئے پوچھا۔ کمرے کی حالت دیکھتے ہی انہیں کسی گڑبڑ کے ہونے کا احساس ہو گیا تھا۔

" کچھ نہیں آپ لوگ جائیں۔"

بلاج خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔ چاہے کتنا ہی غصّے میں کیوں نا ہو۔ وہ کبھی اپنا غصّہ ان دونوں عورتوں پر نہیں اُتارا سکتا تھا۔

" پر ہوا کیا ہے؟ اپنے بابا سائیں کے پاس گئے تھے۔ کیا انہوں نے کچھ کہا ہے؟ " فائزہ بیگم نے ایک اور کوشش کی جبکہ اچھے سے جانتی تھیں۔ وہ کبھی اپنی وجہ سے انہیں پریشان نہیں کرے گا۔

" امی میں نے کہا نا کچھ نہیں ہوا۔ بس زرا سا غصّہ آ گیا تھا اب ٹھیک ہوں آپ جائیں۔ جسمین لے کر جاؤ۔" کہتے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا تاکہ ہاتھ سے نکلتا خون ان کی نظروں میں نہ آجائے۔

" چلیں امی۔"

جسمین نے فائزہ بیگم کو شانوں سے تھاما۔ فائزہ بیگم نے بھی اب کی بار کوئی بات نہ کی اور خاموش واپس پلٹ گئیں۔ ان دونوں کے جاتے ہی بلاج نے اپنا ہاتھ چہرے کے سامنے کیا جہاں سے تیزی سے خون نکل رہا تھا۔ ایک تلخ مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھولیا۔ کہیں دور سے ایک مانوس سی آواز سنائی دی تھی۔

" اپنا خیال رکھا کرو بلاج !! "

" بے وفا وقت تھا، وہ تھے یا مقدر میرا

بات جو بھی تھی بہر حال انجام جدائی نکلا "

جسمین خاموش کھڑی فائزہ بیگم کو دیکھ رہی تھی۔ جو واپس آنے کے بعد بیڈ پر بیٹھیں کب سے آنسو بہا رہی تھیں۔ بےشک بیٹے نے اپنے منہ سے دکھ کا اظہار نہ کیا ہو لیکن وہ ماں تھیں کیسے اس کے دل کا حال نہ جان پاتیں۔

" امی مت روئیں طبیعت خراب ہو جائے گی۔"

" کیسے نہ روں گھر میں خوشیاں آئیں نہیں کہ پہلے ہی انہیں نظر لگ گئی۔" وہ بےبسی سے بولیں۔

" اللّٰه کی یہی مرضی تھی امی انسان اللّٰه کے فیصلے کے آگے بےبس ہے۔" جسمین ان کے پاس جا بیٹھی اور اپنے ہاتھ سے ان کے آنسو صاف کرنے لگی۔

" جانتی ہوں لیکن۔۔۔"

کہتے ہوئے وہ پھر رو پڑیں۔ بیٹے کو تکلیف میں دیکھ کر ان کا اپنا دل بھر آتا۔ وہ چاہ کر بھی اس کی تکلیف دور نہیں کرسکتی تھیں۔ کتنا بےبس ہو جاتا ہے انسان زندگی کے ہاتھوں سب کچھ آنکھوں کے سامنے چھن جاتا ہے اور انسان بس کھڑا اپنے لٹنے کا تماشا دیکھتا رہتا ہے۔

" بس امی خاموش ہو جائیں یہ وقت بھی گزر جائے گا۔" اپنے ساتھ فائزہ بیگم کو لگاتے ہوئے جسمین نے تسلی دینی چاہی۔ لیکن خود اپنی آنکھوں کو بھیگنے سے نہ روک سکی تھی۔

۔**********۔

دو ماہ بعد۔۔۔

کمرے میں جلتی مدہم روشنی میں وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے بالوں کو سلجھانے میں لگی تھی۔ سوچوں کے تانے بانے اس ایک شخص سے جڑے تھے۔ جو کم ہی وقت میں اسے بہت عزیز ہو گیا تھا۔ اُس کے جذبات سے انکاری یہ دل کب بغاوت کر کے اس کے ساتھ جا ملا پتا ہی نہ چلا کہ ہر اصول اور رسم ورواج کو جانے کے بعد بھی وہ آنکھیں بند کیے اُس شخص کی طرف کھینچتی چلی گئی اور اب رگ رگ میں اُس شخص کی محبت اس خوشبو کی طرح بس چکی تھی جو پھول کے مرجھا جانے کے بعد بھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔ کوئی اسے چاہتا تھا بلکہ نہیں کوئی اس عشق کرتا تھا۔ جس کا تصور ہی اس کی زندگی کو مہکانے کیلئے کافی تھا۔

" اف !! کیا ہو گیا ہے مجھے۔"

جسمین نے اپنے سر پر ہاتھ مارا اور ایک بار پھر بالوں کو سلجھانے لگی۔ لبوں پر ایک خوبصورت تبسم رقص کرتا نویلی محبت کی نوید سنا رہا تھا۔

وہ یونہی سوچوں میں گم بیٹھی آئینے میں اپنے عکس کو دیکھنے لگی کہ دفعتاً ٹیبل پر رکھا اس کا موبائل بج اُٹھا۔ ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے موبائل اُٹھا کر اپنے سامنے کیا۔ اسکرین پر جگمگاتا نمبر اس کیلئے اب انجان نہیں تھا لیکن پھر بھی سیو نہیں تھا۔

" ہیلو !! " کال ریسیو کرتے ہی اسپیکر سے بھاری مردانہ آواز ابھری۔

" تم !! تمہیں میں نے منع کیا تھا نا کال نہیں کرنا۔" جسمین نے لہجے کو سخت بنایا۔

" آپ نے بلاج بھائی سے بات کی؟ " اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے یوسف نے اپنا سوال پوچھا۔

" دماغ خراب ہے تمہارا میں کیسے اُن سے ابھی ہمارے بارے میں بات کر سکتی ہوں وہ کیا سوچیں گے۔" وہ تپ اُٹھی۔

" ہماری شادی کے بارے ميں سوچیں گے اور کیا سوچیں گے۔" دوسری جانب سے سکون سے کہا گیا۔

" دیکھو تمہارے ایگزامز شروع ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد تمہارا ماسٹرز مکمل ہو جائے گا۔ بہتر ہے تب تک صرف اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔" جسمین نے اسے سمجھانا چاہا۔

" یہ ہی تو میں کہنا چاہتا ہوں۔ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں فوراً ہی آپ کو اپنی زندگی میں لانا چاہتا ہوں۔ اس لیے بلاج بھائی سے بات کریں۔" یوسف نے سمجھنا تو خاک تھا البتہ ڈھٹائی سے بولا۔

" ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی ضرورت نہیں۔"

" ہتھیلی کے بجائے پتیلی میں جما لیتا ہوں پر آپ بات کریں۔"

اب کے یوسف کی بات پر جسمین کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔ وہ اُٹھی اور موبائل کان سے لگائے کھڑکی کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

" مسٹر یوسف حیدر کیا کوئی کسی کیلئے اتنا بھی پاگل ہو سکتا ہے؟ "

" اب مجھے " کوئی" اور " کسی" کا تو نہیں پتا پر یوسف حیدر " جسمین ملک "  کیلئے ہو سکتا ہے۔"

وہ گھمبیر لہجے میں کہتا جسمین کا دل دھڑکا گیا تھا۔ اس نے موبائل پر گرفت مضبوط کی ہتھیلیاں بھیگنے لگی تھیں۔

" اچھا بس یہ فلمیں دیکھنا بند کرو اور پڑھائی پر توجہ دو بائے۔" اس نے کہتے ہوئے فوراً کال کاٹ دی جبکہ دوسری طرف بیچارا یوسف سنے سنے ہی کرتا رہ گیا تھا۔

۔*********۔

صبح ہوتے ہی جسمین یونی کیلئے اور بلاج ہسپتال کیلئے نکل چکا تھا۔ دوسری طرف خاور اور دلاور اس وقت جلسے کی تیاری کرنے کیلئے روانہ ہو رہے تھے۔ جبکہ جہانگیر ملک اپنے کمرے میں بیٹھے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ جب فائزہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔

" فائزہ آج شام کچھ مہمان آ رہے ہیں۔ ان کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہ رہے۔" اخبار کا صفحہ پلٹتے ہوئے انہوں نے اس نئی خبر سے آگاہ کیا۔

" کون؟ کون آ رہے ہیں؟ " فائزہ بیگم نے ہاتھ میں موجود چائے کا کپ انہیں تھماتے ہوئے پوچھا۔

" ہیں کچھ خاص مہمان۔ اب جائیں جا کر تیاری کریں ان کے آنے کی۔"

یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر اخبار پڑھنے میں مشغول ہو گئے جبکہ فائزہ بیگم مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آئیں۔

یہ حسرت ہی دل میں رہ گئی تھی کہ کبھی ان کا شوہر اپنے کسی فیصلے میں انہیں شامل کرتا۔ وہ تو صرف گھر میں موجود اُس سامان کی طرح تھیں جو ضرورت پڑنے پر ہی یاد آتا تھا۔

۔*********۔

" اس بار ایگزامز کے بعد ہم چاروں مری چلیں گے کیا خیال ہے؟ " کینٹین میں بیٹھے وہ چاروں آپس میں باتوں میں مصروف تھے جب جنید نے اپنا پلان بتایا۔

" اچھا آئیڈیا ہے۔ کیوں نوید، یوسی؟ " حذیفہ نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے ان دونوں سے پوچھا۔ جو برگر سے انصاف کرنے میں لگے تھے۔

" چار نہیں پانچ؟ "

یوسف کے کہنے کی دیر تھی کہ برگر کھاتے نوید کو یکدم پھندا لگا۔ اچھے سے جانتا جو تھا اس پانچویں شخص کو۔

" پانچ؟ پانچواں کون؟ "

جنید اور حذیفہ نے بھنویں اچکائے یوسف کو دیکھا۔ جو سکون سے کھانے میں لگا تھا۔ اسی سکون کے ساتھ جواب بھی دے دیا۔

" جسمین۔"

" ہاں !! وہ کیوں جائیں گی ہمارے ساتھ؟ " دونوں کی آنکھیں اُبل کر باہر آنے کو تیار تھیں جبکہ نوید نے فوراً پانی کا گلاس اُٹھا کر منہ کو لگا۔ گلے میں اٹکتا نوالہ اس کی جان بھی لے سکتا تھا یہ شاید یوسف کی بات۔

" کیا مطلب کیوں؟ ظاہر ہے شادی کے بعد میں اپنی بیوی کو ہر جگہ اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤ گا۔"

" ہیں؟ تو شادی کر رہا ہے؟ "

" اور ہمیں بتایا بھی نہیں۔"

جنید اور حذیفہ کا صدمہ خاصا گہرا تھا۔ البتہ نوید نفی میں سر ہلاتے ہوئے بڑبڑایا۔

" بلی کو خواب میں چھچڑے نظر آ رہے ہیں۔"

" اب تو بتا دیا نا اور مجھے کوئی چھچڑے نظر نہیں آ رہے۔" ان دونوں کو جواب دے کر آخر میں نوید سے کہتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی بڑبڑاہٹ جو سن لی تھی پھر جواب دینا تو فرض بن گیا تھا۔

" اب کہاں جا رہا ہے؟ "

نوید نے اسے جاتے دیکھ پیچھے سے آواز لگائی جسے یوسف ان سنا کرتا کینٹین سے باہر نکل گیا۔

" کیا واقعی شادی کر لے گا؟ " جنید نے حیرت سے پوچھا۔ حذیفہ اور نوید ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے۔ جواب کسی کے پاس نہ تھا سوائے قسمت کے۔

۔*********۔

گاڑیاں تیز رفتار سے دوڑتی ہوئی اس عظیم الشان حویلی کے سامنے جا رکی تھیں۔ دروازے پر کھڑے رشید میاں نے آگے گاڑی میں بیٹھے شخص کو پہچانتے ہوئے فوراً دروازہ کھولا۔ ڈرائیور گاڑی آگے بڑھاتا اندر پورچ میں لے آیا۔

گاڑی رکی ساتھ ہی ایک ادھیڑ عمر مرد دروازہ کھول کر باہر نکلا اس کے ساتھ ہی ایک ادھیڑ عمر عورت بھی گاڑی سے نکل کر پیچھے رکی گاڑی کی طرف دیکھنے لگی جس میں سے وہ دوشیزہ نکل کر ان کی طرف آ رہی تھی۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس، گلے میں لال رنگ کا دوپٹہ لیے، اپنے لمبے گھنے بالوں کو کمر پر پھیلائے، وہ دور دیس سے آئی کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔

" حورین بیٹا جلدی آؤ۔" شجاع عالمگیر نے بیٹی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ مسکراتی ہوئی ان کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

" آگئی پاپا۔"

" چلو دیر ہو رہی ہے۔"

شجاع عالمگیر دونوں کو اپنے ہمراہ لیے اندرونی دروازے کی طرف بڑھے جب دروازے سے باہر نکلتا بلاج ان دونوں میاں بیوی کو سلام کرتا، ساتھ کھڑی لڑکی پر ایک بھی نظر ڈالے بغیر آگے بڑھ گیا۔ البتہ پیچھے کھڑی حورین عالمگیر نے ایک بار اسے مڑ کر دیکھا ضرور تھا۔

" آؤ شجاع عالمگیر آؤ تمہارا ہی انتظار تھا۔" لاؤنج میں بیٹھے جہانگیر ملک اور فائزہ ملک انہیں دیکھتے ہی خوشدلی سے مسکراتے ہوئے ان کے پاس چلے آئے۔

" اور کیسے ہیں ملک صاحب؟ " شجاع عالمگیر نے بغل گیر ہوتے ہوئے پوچھا۔ مسز شجاع اور حورین فائزہ بیگم سے مل رہی تھیں۔

" بس اللّٰه کا شکر ہے۔ آؤ اندر چلیں آئیں نا بھابھی۔" ان تینوں کو اپنے ہمراہ لیے وہ ڈرائنگ روم میں چلے گئے۔ جبکہ فائزہ بیگم نے کچن کا رخ کیا اور شبانہ کو ہدایت دینے کے بعد خود جسمین کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

۔*********۔

کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی وہ کانوں میں ٹاپس پہن رہی تھی۔ اس نے ایک نظر اپنے کپڑوں پر ڈالی۔ گہرے نیلے رنگ کا شلوار قمیض جس پر ہلکا سا کام تھا۔ اس پر بےحد جچ رہا تھا۔

" پتہ نہیں کونسے مہمان ہیں۔" جسمین بڑبڑائی کہ تبھی فائزہ بیگم کمرے میں چلی آئیں۔

" تیار ہو؟ "

" جی امی۔"

" آجاؤ پھر مہمان آگئے ہیں؟ " وہ اس کو دیکھتے ہوئے بولیں۔

" جی چلیں۔"

جسمین کہتے ہوئے ان کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل کر سیڑھیاں اُترتی نیچے ڈرائنگ روم میں چلی آئی جہاں سب بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ جسمین سب کو مشترکہ سلام کرتی فائزہ بیگم کے ساتھ صوفے پر جا بیٹھی۔

" بیٹا ادھر آؤ نا ہمارے پاس بیٹھو۔"

مسز شجاع مسکرا کر اپنے اور حورین کے درمیان اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔ جسمین نے الجھ کر فائزہ بیگم کی طرف دیکھا جو خود بھی خاصی الجھی نظر آ رہی تھیں۔

" جاؤ جسمین۔" جہانگیر ملک کے کہنے پر وہ سر جھکائے اپنی جگہ سے اُٹھی اور ان دونوں ماں بیٹی کے درمیان جا بیٹھی۔

" اور بیٹا آج کل کیا کر رہی ہو؟ "

" جی آنٹی یونیورسٹی میں ٹیچر ہوں پر اب ایگزامز کے بعد چھوڑ دوں گی۔" وہ دھیرے سے بولی۔ ذہن میں چھن سے یوسف کی بات یاد آئی تھی۔

" اس بار ایگزامز کے بعد آپ یونیورسٹی چھوڑ دیں گی۔ میں نہیں چاہتا میرے ہوتے ہوئے میری بیوی یوں چند پیسوں کیلئے خود کو تھکاتی پھرے۔" جسمین نے چہرہ نیچے جھکا لیا۔ ساتھ ہی ہونٹوں پر در آنے والی مسکراہٹ دبائی۔

" یہ تو اچھی بات ہے بیٹا ویسے بھی "سمیر" کو یہ عورتوں کا نوکری کرنا پسند نہیں۔" مسز شجاع کی بات پر جسمین کی مسکراہٹ یکدم سمٹ گئی۔ فائزہ بیگم بھی فوراً سیدھی ہو کر بیٹھی تھیں۔

" آہ !! جسمین بیٹا جاؤ جا کر کچن میں شبانہ کو دیکھو۔" فائزہ بیگم نے اسے منظر سے ہٹانا چاہا۔ جسمین فوراً اثبات میں سر ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" میں بھی چلتی ہوں جسمین۔" حورین کہتی ہوئی اُٹھی اور اس کے ساتھ ہی ڈرائنگ روم سے باہر نکل آئی۔ کچن میں آکر جسمین نے اپنا سر پر جمایا دوپٹہ درست کیا اسے اب گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔

" جسمین ایک بات پوچھوں؟ " حورین نے کچن میں نظر دوڑاتے ہوئے کہا جہاں شبانہ کے ساتھ سارے ملازم کام میں لگے تھے۔

" جی بولیں۔" اس نے اجازت دی۔

" وہ جب میں اندر آ رہی تھی تو کوئی آدمی باہر جا رہا تھا وہ کون تھا؟ " کہتے ہوئے حورین کی نظروں میں بلاج کا سایا سا لہرایا۔

" آدمی؟ " اس نے سوالیہ نظروں سے حورین کو دیکھا۔ 

" ہاں وہ بلیک پینٹ شرٹ میں تھا۔"

" اوہ !! وہ بلاج بھائی تھے کسی کام کی وجہ سے آئے تھے واپس ہسپتال چلے گئے۔" جسمین نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

" ہسپتال کیوں؟ "

" وہ ڈاکٹر ہیں نا اس لیے ہسپتال گئے ہیں۔" وہ مسکرا کر کہتی شبانہ کی جانب بڑھ گئی۔ جبکہ حورین وہیں کھڑی سوچوں میں گم دھیرے سے بڑبڑائی تھی۔

" ڈاکٹر بلاج اتنا غرور !! "

یوسف تھوڑی دیر پہلے ہی کوچنگ سینٹر سے واپس لوٹا تھا اور اب کمرے میں بیڈ پر لیٹا خالی خالی نظروں سے چھت کو تک رہا تھا۔ حیدر صاحب کے جانے کے بعد ان چار دیواروں میں اب وہ اکیلا ہی رہ گیا تھا۔ اس لیے زیادہ تر وقت وہ باہر ہی گزارتا تھا تاکہ تنہائی کا احساس نہ ہو۔ لیکن جب کبھی وہ گھر پر ہوتا اور تنہائی کا احساس ستانے لگ جاتا تو جسمین کو ہی کال کر لیتا تھا۔ یوں تو جسمین نے منع کیا تھا پر اس تنہائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ جسمین کی ناراضگی بھی مول لے لیتا تھا۔

" یا اللّٰه !! ایک ایک کر کے میرے ماں باپ میری زندگی سے چلے گئے۔ جبکہ ان کے سوا میرا سگا کوئی نہ تھا پر اب میرے دوستوں اور جسمین کے سوا میرا کوئی نہیں۔ آپ تو جانتے ہیں میں جسمین سے کتنی محبت کرتا ہوں۔ میرے اللّٰه پلیز اب مجھ سے جسمین کو دور نہیں کیجئے گا۔"

وہ بیڈ پر سے اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ دل نہ جانے کیوں اداس ہو رہا تھا۔ عجیب سی بے چینی تھی جس کا علاج بس ایک ہی تھا۔ اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہونا۔

وہ صحن میں لگے واش بیسن کی طرف آیا اور وضو بنانے لگا۔ دور کہیں فضاؤں میں گونجتی عشاء کی اذان کی آواز اب قریبی مسجدوں سے سنائی دینے لگی تھی۔

یوسف وضو بنا کر گھر سے باہر نکلا اور دروازے کو تالا لگاتا مسجد کی جانب روانہ ہو گیا۔ ایک گلی چھوڑ کر ہی اگلی گلی میں محلے کی سب سے بڑی جامع مسجد تعمیر تھی۔ وہ پہلی صف میں جا کھڑا ہوا۔ باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد وہ دعا میں ہاتھ اُٹھائے اپنے رب سے محو گفتگو ہوا۔

" میں نے ہمیشہ اپنی زندگی میں ہر چیز کو محنت سے حاصل کیا۔ مجھے زندگی میں سہولیات میسر نہیں تھیں۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے بھاگنا پڑا ہے۔ بہت بھاگنا پڑا ہے۔ لیکن میں نے کبھی آپ سے شکایت نہیں کی میرے اللّٰه۔۔۔ جو بھی ملا، جیسے بھی ملا میں راضی رہا، راضی ہوں پر جسمین کو مجھ سے نہ چھینا۔ وہ چلی جائے گی تو کوئی کوشش، کوئی جدوجہد اُسے واپس نہیں لاسکے گی اور نہ ہی کوئی اور اس کی کمی کو پورا کر پائے گا۔ شاید اس دنیا میں ہر چیز کا نعم البدل ہو پر محبت کا نعم البدل کوئی نہیں۔۔۔ رشتہ ہر ایک سے جڑ جاتا ہے لیکن محبت ہر ایک سے نہیں ہوتی۔ میں اُس سے محبت کرتا ہوں اور آپ سے اُس کو مانگتا ہوں۔۔۔ بے شک آپ کے علاوہ اور کوئی نہیں جو مجھے اُس سے دور کر سکے اور نہ مجھے اُس سے ملا سکے۔۔۔"

یونہی بیٹھا وہ کافی دیر تک اپنے رب سے فریاد کرتا رہا اُس سے مانگتا رہا۔ جس کے خزانوں میں کمی نہیں۔ وہ نواز دے تو اُس کی رحمت اور نہ دے دو تو مصلحت۔۔۔

دعا مانگ کر یوسف اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہاں موجود نمازی مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ سب کے ساتھ وہ بھی مسجد سے باہر نکلتا گھر کی جانب بڑھ گیا۔ اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے بعد وہ اب قدرِ پرسکون تھا۔

" وہ دلوں کو یوں بھی نکھار دیتا ہے 

ایک خدا ہی تو ہے جو سب سنوار دیتا ہے "

۔*********۔

" امی میں آجاؤں؟ "

دروازے پر کھڑے بلاج نے دستک دیتے ہوئے پوچھا۔ فائزہ بیگم نے تھکے ہوئے انداز میں اسے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑی کتاب اور آنکھوں پر لگا چشمہ اُتار کر سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔

" کیا ہوا آپ اتنی تھکی ہوئی کیوں ہیں؟ " بلاج آگے بڑھا اور ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

" کچھ نہیں ہوا کیا ہونا ہے۔ آج کچھ مہمان آئے تھے۔ شاید تمہارے بابا سائیں نے جسمین کو دیکھنے کیلئے بلایا تھا۔" فائزہ بیگم کی بات پر بلاج نے چونک کر انہیں دیکھا جو بجھے ہوئے چہرے سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ ذہن کے پردے پر فوراً شجاع عالمگیر اور اس کی بیوی کا چہرہ گھوم گیا تھا۔

" شاید مطلب؟ "

" تمہارے بابا سائیں نے بتایا تو نہیں وہ لوگ کیوں آئے تھے اور نہ اُنہوں نے کچھ کہا پر اُن کے انداز سے تو ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے جسمین کو دیکھنے آئے ہیں۔" فائزہ بیگم نے وضاحت دی۔

" اچھا تو ٹھیک ہے نا جسمین کی شادی کرنی تو ہے ہی۔" بلاج نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ وہ اب یہ تو جان گیا تھا۔ جہانگیر ملک نے کرنا وہی ہے جو وہ چاہتے ہیں پھر چاہے اس کیلئے کسی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔

" ہاں پر میں نے چاہا تھا۔ کوئی اچھا سا لڑکا اپنی بیٹی کیلئے خود ڈھونڈوں پر تمہارے باپ نے تو یہ حق بھی مجھے نہیں دیا۔" فائزہ بیگم اپنی نم ہوتی آنکھوں کو بہنے سے روکنے کیلئے پلکیں جھپکانے لگیں۔

" بابا سائیں نے کبھی کسی کی چلنے دی ہے جو اب کسی کو موقع دینگے۔ خیر آپ فکر مت کریں۔ میں بات کروں گا بابا سائیں سے۔" بلاج ان کا ہاتھ تھپتھپا کر انہیں تسلی دیتا، اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس کے چہرے پر گہری سوچ کی پرچھائیاں تھیں۔

۔*********۔

ساری رات بےچینی سے سوتی جاگتی کیفیت میں گزارنے کے بعد صبح ہوتے ہی وہ یونیورسٹی پہنچ چکی تھی اور اب سبز رنگ کے شلوار قمیض میں سر پر دوپٹہ اوڑھے اپنے آفس میں بیٹھی وہ پھر کل آئے مہمانوں کے بارے ميں سوچ رہی تھی۔ مسز شجاع کا رویہ اور ان کی باتوں نے سکون سے سونے تک نہیں دیا تھا۔ اگر وہ واقعی اسے اپنے بیٹے کیلئے پسند کر گئیں تو۔۔۔ تو وہ کیا کرے گی اور یوسف اس کا کیا ہوگا۔

" میں تو اب اپنے لیے بھی ہر نماز میں دعا کرنے لگا ہوں کہ آپ کا ساتھ ساری زندگی کیلئے ملے ورنہ میں تو مر ہی جاؤں گا۔"

یوسف کی کہی بات کانوں میں گونجنے لگی۔ وہ ایک دم چیئر پر سیدھی ہو بیٹھی۔

" نہیں مجھے بلاج بھائی سے بات کرلینی چاہیے۔" وہ بڑبڑائی کہ تبھی دروازہ کھول کر یوسف اندر آیا۔ دستک دے کر اجازت لینے جیسا تکلف اس نے بہت پہلے ہی چھوڑ دیا تھا۔

" کیسی ہیں؟ " وہ اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ درمیان میں ٹیبل حائل تھی۔

" ٹھیک ہوں۔" جسمین نے اس کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ایک خیال سا ذہن میں آیا تھا۔ (کیا وہ اسے بتا دے)

" لگ تو نہیں رہیں۔ کوئی پریشانی ہے؟ " 

" ہاں !! سب سے بڑی پریشانی تو تم ہو۔"

وہ جو فکر مند ہو رہا تھا۔ جسمین کے جواب پر گھور کر اسے دیکھنے لگا۔

" مجال ہے جو کبھی محبت کا جواب محبت سے دے دیں۔"

" محبت کا جواب محبت سے دینا محرم کا حق ہوتا ہے نامحرم کا نہیں۔" جسمین نے اس کی طبیعت صاف کی۔ پر وہ بھی یوسف تھا کہاں باز آتا۔

" تبھی تو کہہ رہا ہوں بلاج بھائی سے بات کریں۔ مجھے محرم بنا لیں۔ پھر دیکھے گا آپ کے ہونٹوں سے مسکراہٹ جدا نہیں ہونے دوں گا۔" اس کی بات پر جسمین اپنی مسکراہٹ دباتی چیئر سے اُٹھ کر اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

" وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محبت ماند پڑ جاتی ہے یوسف۔" وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

" محبت کبھی ماند نہیں پڑتی جسمین یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور نکھرتی جاتی ہے۔ مضبوط سے مضبوط ہو جاتی ہے۔ بشرط یہ کہ واقعی محبت ہو۔" یوسف نے بھی اسی سنجیدگی سے جواب دیا۔ اس کی آخری بات پر جسمین ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

" کیا مطلب؟ "

" مطلب یہ کہ لوگ "کشش" کا شکار ہو کر سمجھتے ہیں محبت ہوگئی اور پھر اپنی جلد بازی میں شادی کرلیتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی یہ کشش ماند پڑ جاتی ہے اور طلاق کی صورت میں محبت کو بد نام کر جاتی ہے۔ ہم انسان دراصل اپنے جذبات کو سمجھ نہیں پاتے اور کشش یا پسندیدگی کا شکار ہو کر سمجھتے ہیں محبت ہوگئی۔" یوسف نے ہنستے ہوئے سر جھٹکا جیسے لوگوں کی سوچ کا مذاق اُڑا رہا ہو۔

" اور تم۔۔۔ تمہیں پتا ہے۔ تمہیں مجھ سے کیا ہے؟ کشش، پسند یا محبت؟ " جسمین نے بےتاثر چہرے سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

اس کے سوال پر یوسف ہاتھ سینے پر باندھے اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ جسمین نے فوراً نظریں جھکا لیں۔ ان خوبصورت سیاہ آنکھوں کی کشش اسے یونہی نظریں جھکانے پر مجبور کر دیتی تھیں۔

" میں کوئی ٹین ایجر نہیں ہوں جسمین جو " کشش" کا شکار ہوتا۔ بہت کم عمری میں زندگی کی سختیاں جھیلنے کے بعد میں ایک مچیور انسان بنا ہوں۔ پر پھر بھی پہلے پہل ملاقات میں مجھے یہی لگا تھا یہ محض " پسندیدگی" ہے۔ آپ بس مجھے اچھی لگنے لگی ہیں۔ کتنا اکورڈ تھا اپنی ٹیچر کیلئے ایسا بھی سوچنا۔" یوسف سر جھٹک کر مسکرایا جیسے اب اپنا ہی مذاق اُڑا رہا ہو۔

" اس لیے میں نے خود کو آپ سے دور ہی رکھنا مناسب سمجھا پر۔۔۔ آپ کو یاد ہے جب فٹبال گراؤنڈ میں آپ کو بال آکر لگی تھی۔" سوالیہ نظروں سے جسمین کو دیکھا جس نے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔

" آپ نے میری طرف دیکھا تھا کہ شاید میں آپ سے "سوری" کروں گا۔ مگر اس وقت میں خود سے اتنا الجھا ہوا تھا کہ میں نے آپ کو نظر انداز کرنا ہی بہتر جانا۔ لیکن آپ کو چوٹ پہنچانے کے بعد مجھے خود بھی کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ مگر تابوت میں آخری کیل تب ٹھوکی جب اسٹاف روم میں آپ کو تکلیف پہنچائی۔ تب میں نے جان لیا آپ کو تکلیف میں دیکھ کر میں خود کبھی سکون سے نہیں رہ پاؤں گا۔" اس نے گہرا سانس لے کر جسمین کی طرف دیکھا اور دھیرے سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ جسمین نے جھجھکتے ہوئے ہاتھ پیچھے کھینچنے کی کوشش کی مگر یوسف کی گرفت مضبوط تھی۔

" محبت چاہے اللّٰه سے ہو یا اُس کے بندے سے اپنا آپ مارنا پڑتا ہے۔ کیونکہ وہ شخص کبھی کسی سے محبت نہیں کرسکتا جو خود سے محبت کرتا ہو اور میں آپ سے محبت کرتا ہوں جسمین۔" یوسف نے کہتے ہوئے ایک نازک سا بریسلٹ اپنی پینٹ کی جیب سے نکالا اور جسمین کی کلائی میں ڈال کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

جسمین حالتِ مبہوت میں یوسف کو دیکھتے ہوئے اس اظہار کو سن رہی تھی مگر اگلے ہی لمحے اپنے ہاتھ میں موجود بریسلٹ کو دیکھ کر سن ہی رہ گئی۔

" کیسا لگا آپ کو؟ مجھے معلوم ہے یہ بہت قیمتی نہیں ہے پر۔۔۔"

" یہ بہت قیمتی ہے یوسف !! کیونکہ یہ محبت سے دیا گیا تحفہ ہے اور محبت سے دیئے گئے تحائف کی قیمت نہیں دیکھی جاتی۔ وہ اپنے آپ میں نایاب ہوتے ہیں۔" جسمین اس کی بات کاٹ کر بولی۔ یوسف مسکرا دیا۔

" میں ساری زندگی اسے سنبھال کر رکھوں گی۔"

" میں ساری زندگی ایسے تحائف دیتا رہوں گا۔"

یوسف کی بات پر اب کے جسمین دھیرے سے مسکرائی اور اپنے ہاتھ میں موجود چھوٹے چھوٹے نگوں سے سجے گولڈن بریسلٹ کو دیکھنے لگی جو اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

۔********۔

" بابا سائیں شجاع عالمگیر کے گھر والوں کو ہماری جسمین پسند آگئی ہے۔ میں تو کہتا ہوں رشتہ پکا کر دیں۔" صوفے پر بیٹھا خاور جہانگیر ملک کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔

" ہمیں بلاج کو بھی بتانا ہوگا۔ ورنہ وہ معلوم ہونے پر ہنگامہ کرے گا۔" بیڈ پر نیم دراز جہانگیر ملک نے ہنکار بھرتے ہوئے کہا۔

" آپ کو جو کرنا ہے ابھی کریں بابا سائیں کیونکہ بلاج اگر اُس لڑکی کے غم سے سنبھل گیا، اپنے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تو ایک بار پھر وہ ہمارے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے گا اور۔۔۔"

ابھی دلاور کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ بلاج کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

" یاسمین کا غم ضرور ہے لیکن ابھی اتنا بھی کمزور نہیں ہوا کہ اپنی بہن کی حفاظت نہ کر سکوں۔" دلاور کو دیکھتے ہوئے وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں جتا کر بولا۔

" آپ کو مجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں بابا سائیں۔ میں جان گیا ہوں کہ آپ نے وہی کرنا ہے جو آپ چاہتے ہیں پھر چاہے اُس کیلئے کسی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔" اب کے اس کا رخ جہانگیر ملک کی طرف تھا جو اس کی بات سنتے ہی سیدھے ہو بیٹھے۔

" کیا بکواس ہے یہ؟ تم ہماری باتیں سن رہے تھے؟ "

" مجھے کیا ضرورت آپ کی باتیں سننے کی آپ سے بات کرنے آ رہا تھا تو کانوں میں خودبخود پڑ گئی۔ خیر آپ کو جو کرنا ہے کریں میں نہیں روکوں گا۔ جسمین کی شادی کرانی ہے کریں پر۔۔۔" بلاج نے رک کر ایک نظر ان تینوں پر ڈالی۔

" پر میری ایک شرط ہے۔"

" کیسی شرط؟ "

جہانگیر ملک نے بھنویں بھینچ کر اسے دیکھا مگر اگلے ہی لمحے اس کے منہ سے ادا ہوتے لفظوں نے وہاں بیٹھے ہر شخص کو ساکت کر دیا تھا۔

" اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔"

بلاج کے جاتے ہی جہانگیر ملک ان دونوں کو دیکھ کر بڑبڑائے تھے۔

ڈائننگ ٹیبل پر موجود وہ سب خاموشی سے بیٹھے ڈنر میں مصروف تھے جب شجاع عالمگیر نے بیوی کو مخاطب کیا۔

" کرن بیگم آج جہانگیر ملک کا فون آیا تھا۔"

" اچھا تو کیا کہہ رہے تھے؟ آپ نے بتا دیا نا ہمیں جسمین پسند ہے۔" کرن عالمگیر نے کہتے ہوئے ایک نظر بیٹے کو دیکھا جس کے چہرے پر فوراً ناگواری اُتر آئی تھی۔

" مام پلیز میں۔۔۔"

" سمیر تم سے کسی نے کہا نہیں ہے کہ بیچ میں بولو۔" شجاع عالمگیر نے اس کی بات کاٹ کر سخت لہجے میں ٹوکا۔

" وہ اچھی لڑکی ہے سمیر ایک بار اُس سے مل لو تمہیں پسند آئے گی۔" کرن عالمگیر اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔

" اور پسند نہ بھی آئے تو یاد رکھنا شادی تمہاری جسمین سے ہی ہوگی۔ جہانگیر ملک کے ساتھ میں اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔ دیکھنا یہ رشتہ ہوجانے کے بعد اگلی بار چناؤ ميں جہانگیر ملک کے بجائے تم وزیر کی کرسی پر بیٹھو گے۔" شجاع عالمگیر کی بات پر وہ سر جھٹکتا واپس کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ پاس بیٹھی حورین نے مسکراتے ہوئے اس کے جھکے سر کو دیکھا۔

" کم آن !! اتنی بری بھی نہیں۔"

" تم چپ کرو۔"

سمیر نے گھور کر اسے دیکھا جس پر وہ مسکراہٹ دباتی شجاع عالمگیر کی طرف متوجہ ہو گئی۔

" جہانگیر ملک کو میں نے ہاں کہہ دی پر۔۔" شجاع عالمگیر نے رک کر ایک نظر ان تینوں کو دیکھا۔ جو انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔

" پر وہ چاہتا ہے کہ سمیر کے ساتھ ساتھ حورین کا رشتہ بھی اُس کے بیٹے بلاج سے کر دیا جائے۔" شجاع ملک نے دھماکہ کیا۔

" کیا یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ "

کرن عالمگیر نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ جبکہ اب کی بار سمیر ہونٹوں پر چڑانے والی مسکراہٹ سجائے حورین کو دیکھ رہا تھا۔ جو خود بھی بے یقینی سے کبھی ماں کو تو کبھی باپ کو دیکھ رہی تھی۔

" ہاں اُس نے کہا ہے جسمین کا رشتہ اسی صورت میں سمیر سے کرے گا جب ہم حورین کا رشتہ بلاج سے کرینگے۔" وہ سنجیدگی سے بولے۔

" تو آپ نے کیا جواب دیا؟ "

" دینا کیا تھا کہہ دیا ہمیں کوئی اعتراض نہیں آخر کو حورین کی شادی بھی تو کرنی ہے۔"

وہ سنجیدگی سے کہتے واپس کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے۔ کرن عالمگیر خاموشی سے انہیں دیکھتی رہیں پھر خود بھی اپنی پلیٹ پر جھک گئیں۔ جب مردوں میں فیصلہ ہو چکا تھا تو عورتوں کو بولنے کا کیا حق۔

" اب خاموش کیوں ہو؟ مسکراؤ۔" سمیر طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے دھیرے سے بولا۔ حورین نے اسے غصّے سے گھورا پھر اپنا چہرہ نیچے جھکا لیا۔ اب اس کے ہونٹوں پر واضح طور پر مسکراہٹ تھی۔

" تو تم بھی عام مردوں میں سے نکلے۔"

۔*********۔

جسمین کمرے میں موجود کھڑکی کے سامنے کھڑی اپنے ہاتھ میں پہنے گولڈن بریسلٹ کو دیکھ رہی تھی جب اس کے کمرے میں آکر شبانہ نے جہانگیر ملک کا پیغام دیا۔

" جسمین بی بی آپ کو بڑے سرکار باہر بلا رہے ہیں؟ " 

" باہر لاؤنج میں؟ "

"جی۔"

" ٹھیک ہے آپ چلیں میں آتی ہوں۔" جسمین کے کہتے ہی شبانہ اثبات میں سر ہلاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ جسمین نے بیڈ پر پڑا اپنا دوپٹہ اُٹھا کر سر پر لیا اور کمرے سے باہر نکل کر سیڑھیاں اُترتی لاؤنج میں آگئی جہاں سب ہی موجود تھے۔

" بابا سائیں آپ نے بلایا۔" وہ سر جھکا کر صوفے پر بیٹھے جہانگیر ملک کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

" ہاں !! ہمیں آپ سب کو کچھ بتانا تھا۔" وہ سب کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔

" ایسی کیا بات ہے کہ آپ نے سب کو یوں بلا لیا۔"

فائزہ بیگم نے کہتے ہوئے دلاور اور خاور کو دیکھا جو صوفے پر سکون سے بیٹھے سب سن رہے تھے۔ فائزہ بیگم کو زرا دیر نہ لگی یہ سمجھنے میں کے وہ دونوں پہلے سے ہر بات سے واقف ہیں۔

" ہم نے شجاع عالمگیر کے بیٹے سمیر کے ساتھ جسمین کا رشتہ پکا کر دیا ہے اور یہی نہیں حورین کا ہاتھ بھی ہم نے بلاج کیلئے مانگ لیا۔"

جہانگیر ملک کی بات جسمین اور فائزہ بیگم پر کسی بجلی کی طرح گری تھی۔ ایک کو شوہر سے گلہ تھا تو دوسری بے یقینی سے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ جسمین نے اسی بے یقینی سے بلاج کی طرف دیکھا جو سنجیدہ چہرے کے ساتھ اس کے بائیں جانب کھڑا تھا۔

" ہمیں اُمید ہے فائزہ بیگم آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اب جائے اور کل سے ان کی شادی کی تیاری شروع کر دے گا ہم جلد از جلد اپنے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں۔"

جہانگیر ملک کی بات پر فائزہ بیگم فوراً اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔ جب فیصلہ ہو چکا تھا تو ان کا وہاں کیا کام۔ پر واپس سیڑھیوں کی جانب بڑھتی جسمین نے ایک آس بھری نگاہ بلاج پر ڈالی تھی کہ شاید وہ کچھ کہے گا کوئی اعتراض اُٹھائے گا پر۔۔۔ وہ خاموش تھا۔ سنجیدہ، خاموش۔۔۔

۔*********۔

" مجھے اپنی بہن کی خوشیوں کی ضمانت چاہیئے۔" وہ جہانگیر ملک کے سامنے کھڑا سنجیدگی سے بول رہا تھا۔

" یہ کیسی شرط ہے؟ "

جہانگیر ملک نے کرخت لہجے میں پوچھا۔ بھلا بیٹیوں کے نصیب کی ضمانت بھی کسی کو ملی ہے؟ یہ تو قسمت کی بات ہے۔ آنگن میں پھول گریں یا پتھر۔۔۔

" یہ ہی شرط ہے مجھے اپنی بہن کی خوشیوں کی ضمانت چاہیئے اور۔۔۔" وہ رکا، چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ کتنا مشکل تھا یہ کہنا۔

" اور اس کیلئے آپ شجاع عالمگیر سے ان کی بیٹی کا ہاتھ میرے لیے مانگیں گے۔"

" کیا دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا۔"

بلاج کی بات پر ان تینوں کو جھٹکا لگا تھا۔ کہاں تو وہ یاسمین کے بعد کسی سے بات تک نہیں کرنا چاہتا تھا اور اب شادی کی بات کر رہا تھا۔

" یہ ہی میری شرط ہے بابا سائیں۔ اگر اُن لوگوں نے میری بہن کو وہاں خوش رکھا تو اُن کی بیٹی بھی یہاں خوش رہے گی۔ انکار کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ میں یاسمین کے قاتلوں کو بھولا نہیں ہوں۔" وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بہت کچھ جتاتا وہاں سے چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی ذہن کے پردے پر سب کچھ دھندلا گیا۔

بلاج نے آنکھیں کھول دیں۔ کمرے میں جلتی مدہم روشنی میں وہ کھڑکی کے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھا تھا۔ جب عقب سے آتی آواز پر وہ چونک کر اپنی سوچوں سے باہر آیا۔ چہرہ موڑ کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں جسمین کھڑی تھی۔

" بلاج بھائی۔"

" آ جاؤ بچہ۔" جسمین کو دیکھ کر وہ دھیرے سے مسکرایا۔

" بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔" وہ انگلیاں مروڑتی اس کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

" کیا بات ہے؟ بولو۔ " بلاج نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" بھائی مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔" نظریں جھکائے، انگلیاں مروڑتی وہ تیزی سے بول گئی۔ بلاج یونہی سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے حیرت نہیں ہوئی تھی نہ ہی وہ اس انکار پر الجھا تھا۔

" وجہ؟ " اسی سنجیدگی سے پوچھا۔

" میں۔۔۔ میں بھائی وہ۔۔۔" اس کے سمجھ نہ آیا۔ کیسے بولے، کیسے بتائے کہ وہ سمیر سے نہیں یوسف سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اُس سے محبت کرتی ہے۔

" بولو جسمین۔ میں وہ کیا؟ "

" بھائی میں۔۔۔" وہ پھر رکی پر اب کی بار بلاج نے اس کی مشکل آسان کر دی۔

" کسی کو پسند کرتی ہو؟ "

بلاج کی بات پر جسمین نے حیرت سے چہرہ اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ نہ غصّہ تھا، نہ نرمی بس سنجیدگی تھی۔ جسمین نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" کون ہے؟ "

" بھائی وہ۔۔۔"

" یوسف کو پسند کرتی ہو؟ " ایک بار پھر جسمین کے بولنے سے پہلے ہی بلاج نے اندازہ لگایا۔ وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ دونوں کے درمیان خاموشی حائل ہو چکی تھی۔

" میری بات کا جواب نہیں دیا جسمین؟ " بلاج کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا۔

" بھائی وہ۔۔۔"

" ہاں یا نہ؟ " سنجیدگی ہنوز قائم رہی۔

" جی۔"

اور بالآخر وہ اعتراف کر گئی۔ بلاج خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر چیئر سے اُٹھ کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

" جاؤ جا کر سو جاؤ۔ کل یونی بھی جانا ہے۔" بلاج نے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

" بھائی پر آپ بابا سائیں سے۔۔۔"

جسمین کو اب اس کا رویہ پریشان کرنے لگا۔ وہ کوئی ردِعمل کیوں نہیں دے رہا تھا؟ نہ ڈانٹا، نہ تسلی دی، نہ کچھ اور۔۔۔

" جاؤ جسمین۔"

" پر بھائی آپ۔۔۔"

اس کے الفاظ ابھی ادا بھی نہ ہوئے تھے کہ بلاج کا ہاتھ اُٹھا اور جسمین کے گال پر نشان چھوڑ گیا۔ تھپڑ کی گونج کے ساتھ ہی کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ گال پر ہاتھ رکھے جسمین بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔ جس بھائی نے کبھی ڈانٹا تک نہ تھا آج اس نے ہاتھ اُٹھا لیا تھا۔

" اس لیے تم پر بھروسہ کیا تھا؟ اس لیے بھیجا تھا تمہیں یونیورسٹی؟ کہ تم میرا ہی بھروسہ توڑ دو۔" وہ غرایا۔

" اپنے دماغ سے یوسف کا خیال نکال دو۔ تمہاری شادی وہیں ہوگی جہاں بابا سائیں چاہتے ہیں اور اب جاؤ یہاں سے۔" سخت لہجے میں کہتا وہ اپنا چہرہ موڑ گیا۔

جسمین الٹے قدموں سے پیچھے ہٹی اور مڑ کر دروازے کی جانب بڑھ گئی مگر کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے وہ رکی تھی۔

" مجھے لگا تھا آپ مجھے سمجھیں گے۔ لیکن میں غلط تھی۔ محبت کے دعوے کرنے والا جو یاسمین بھابھی کے مرنے کے دو ماہ بعد ہی دوسری شادی کیلئے تیار ہو، وہ میری محبت کو کیا سمجھے گا۔"

" جسمین !! " بلاج دھاڑا لیکن وہ سنے بغیر فوراً کمرے سے باہر نکل گئی۔

۔*********۔

" آہوں سے سوزِ عشق مٹایا نہ جائے گا

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا "

(امیر مینائی)

کمرے میں آکر وہ سیدھا بیڈ پر جا گری۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ بلاج اس کی پہلی اور آخری اُمید تھا اور اب اُس نے ہی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

خوابوں میں بنایا آشیانہ چکنا چور ہو چکا تھا۔ یوسف کے ساتھ زندگی گزارنے کے سب خواب اب بس خواب ہی رہنے تھے۔ سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ سب کچھ۔۔۔

" اب میں کیا کروں؟ " وہ بڑبڑائی۔

" اپنے دماغ سے یوسف کا خیال نکال دو۔ تمہاری شادی وہیں ہوگی جہاں بابا سائیں چاہتے ہیں۔" اسے بلاج کی آواز سنائی دی۔

" میں تو اب اپنے لیے بھی ہر نماز میں دعا کرنے لگا ہوں کہ آپ کا ساتھ ساری زندگی کیلئے ملے ورنہ میں تو مر ہی جاؤں گا۔" یوسف کا محبت سے بھرا لہجہ۔۔۔ جسمین نے اپنے ہاتھوں کو کانوں پر رکھ لیا۔

" مجھے معاف کر دینا یوسف !! اب میں کچھ نہیں کر پاؤں گی۔ میری آخری اُمید بھی دم توڑ گئی۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا کچھ بھی نہیں۔ ہم کبھی ایک نہیں ہوسکیں گے۔ تمہارا اور میرا ساتھ بس یہیں تک کا تھا۔ مجھے معاف کر دینا یوسف۔"

تصور میں یوسف سے مخاطب ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بند کمرے میں اس کی سسکیاں گونجنے لگی تھیں۔

۔*********۔

" مجھے معاف کر دینا گڑیا۔ تم غلط نہیں پر پھر بھی میں نے تم پر ہاتھ اُٹھایا۔" اس نے اپنا ہاتھ چہرے کے سامنے کیا جو کچھ دیر پہلے جسمین پر اُٹھا تھا۔

" میں اگر ایسا نہ کرتا تو یاسمین کی طرح ایک اور معصوم اس دنیا سے چلا جاتا۔ جو میں ہر گز نہیں چاہتا۔" چیئر پر بیٹھے اس نے بڑبڑاتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔ جیسے خود کو پُرسکون کرنا چاہتا ہو۔

" افسوس ہم ایسے معاشرے کا حصّہ ہیں جہاں خواہشوں ، رشتوں اور محبتوں کا گلا گھونٹ کر انا، وقار اور روایتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہم جیسے لوگوں کو اس دنیا میں صرف سانس لینے کی اجازت ہے۔ خواب و خواہشات پالنے کی نہیں۔۔۔" سوچتے ہوئے اس نے آنکھیں کھول دیں۔

پلکوں کی جھالر اُٹھتے ہی اُس محبوب ہستی کا چہرہ سامنے آیا تھا جو خاموش کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

" یاسمین !! کیا تمہیں بھی یہی لگتا ہے؟ کیا میرا فیصلہ غلط ہے؟ "

اسنے بےبسی سے پوچھا کہ شاید وہ تو کہہ گی وہ ٹھیک کر رہا ہے۔ یہ وقت کا بہترین فیصلہ ہے پر۔۔۔ وہ خاموش تھی۔ خاموش ہی رہی۔

" تم کچھ بولتی کیوں نہیں؟  کیا جسمین کی طرح تم بھی مجھ سے ناراض ہو؟ " اس نے پھر آس بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا پر وہ یونہی خاموش کھڑی رہی۔

ٹھنڈی ہوا کا تیز جھونکا کھڑی پر ڈلے پردے کو اُڑاتا ہوا ان کے درمیان لے آیا۔ بلاج نے فوراً چیئر سے اُٹھ کر پردہ ہٹایا۔

پردہ ہٹا، تخیل مٹا اور کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ ایک بار پھر وہ اکیلا کھڑا تھا۔ بنا کسی ہمدر اور سہارے کے وہ اس سفر میں بیچ و بیچ کھڑا تھا۔

۔*********۔

" کچھ غم یہ زندگی دیتی ہے

کچھ غموں سے زندگی ہوتی ہے

 کچھ لوگ سو جاتے ہیں

کسی کی آنکھیں  نیند جگاتی ہے

 کچھ راتیں روشن کرتے ہیں

کچھ کی صبح اُجڑ جاتی ہے

 کچھ لب سب کہتے ہیں

کوئی آنکھ حال سُناتی ہے

 کچھ غم بھی مُسکراتے ہیں

کوئی خوشی بھی رُلاتی ہے

 کچھ آنکھوں میں ڈوبا جاتا ہے

کوئی اشکوں میں ڈوباتی ہے "

(مانی گوندل) 

غموں کی شام بھی صُبحِ بہاراں نہ بنی، ہجر کی تڑپ کو اپنے جوبن پر لیے وہ دل کے آنگن میں یوں اُتری کہ ہر منظر کو ویراں کر گئی۔

وہ خالی خالی نگاہوں سے ارد گرد دیکھتی تیزی سے کوریڈور میں آگے بڑھ رہی تھی۔ جب اس کی نظر فٹبال کھیلتے یوسف اور اس کے دوستوں پر پڑی۔

یوسف اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ لیکن وہ مسکرا بھی نہ سکی اور آگے بڑھ گئی۔

" تم لوگ کھیلو میں ابھی آیا۔"

یوسف فٹبال ان تینوں کی طرف اچھال کر بھاگتا ہوا جسمین کے پیچھے آیا جو یوں چل رہی تھی جیسے اس کی آمد سے بے خبر ہو۔

" جسمین !! "

اف !! یہ پکار۔۔۔ جسمین نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس شخص کا سامنا کرنے کی ہمت اب اس میں نہیں تھی۔

" کیا ہوا ؟ میری طرف کیوں نہیں دیکھ رہیں؟  ناراض ہیں؟ "

ایک سانس میں سارے سوال کرتا وہ یکدم سائڈ سے گزر کر عین اس کے مقابل جا کھڑا ہوا۔ جسمین نے بروقت اپنے قدم روکے۔ عین ممکن تھا وہ اس کے سینے سے جا ٹکراتی۔

" کیا بدتمیزی ہے یہ مسٹر یوسف۔۔۔ " وہ دبی دبی سی آواز میں چلائی ساتھ ہی ایک نظر آس پاس سے گزرتے اسٹوڈنٹس پر ڈالی۔

" سوری !! پر آپ ایسے کیوں بات کر رہی ہیں؟ " یوسف کو اس کا لہجہ کھٹکا۔ جو پھر وہی بیگانگی لیے ہوئے تھا۔

" کچھ نہیں ہوا تماشا نہ بناؤ میرا سب اسٹوڈنٹس ادھر ہی دیکھ رہے ہیں۔" سرد لہجے میں کہتی وہ اس کے سائڈ سے گزر کر آگے بڑھ گئی۔ یوسف نے بھی اپنے قدم اس کے پیچھے بڑھائے۔

" جسمین کوئی غلطی ہوگئی مجھ سے؟ کیا ہوا ہے ایسے کیوں برتاؤ کر رہی ہیں؟ اچھا سوری مجھے معاف کر دیں میں نے کچھ کہا ہے تو۔"

عجیب بےبسی میں ڈوبی آواز جسمین کے قدم وہیں رک گئے۔ مڑ کر پیچھے دیکھا۔ وہ دو قدم کے فاصلے پر کھڑا اس سے اپنی نا کردہ غلطی کی معافی مانگ رہا تھا۔

" آفس میں آؤ۔"

وہ کہہ کر تیزی سے آفس کی جانب گئی۔ یوسف بھی اس کی تقلید کرتا چلنے لگا۔ آفس میں آکر اس نے ہاتھ میں پکڑی فائلز ٹیبل پر رکھیں اور گہرا سانس لے کر خود کو پُرسکون کرتی پیچھے مڑی۔ وہ قریب ہی کھڑا تھا۔

" اب بتائیں گی کیا ہوا ہے؟ یا مجھے پریشان کر کے کوئی خاص سکون ملتا ہے آپ کو؟ " وہ اب خفگی سے پوچھ رہا تھا۔

" دیکھو یوسف باہر سب ہوتے ہیں۔ یوں تم ہر وقت میرے آگے پیچھے گھومتے رہو گے اور بار بار آفس کے تو کبھی اسٹاف روم کے چکر لگاؤ گے تو لوگ مجھ پر باتیں بنائیں گے۔" وہ سمجھاتے ہوئے بولی۔

" کسی نے کچھ کہا ہے آپ کو؟ " یوسف کے ماتھے پر بل یوں پڑے کہ جیسے ابھی جا کر بولنے والے کا منہ توڑ آئے گا۔

" کسی نے کچھ نہیں کہا۔ لیکن تم میری بات سنو۔" جسمین نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ یوسف فوراً سیدھا ہو گیا۔ کسی اچھے بچے کی طرح۔

" تمہارے ایگزامز شروع ہونے والے ہیں۔ اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ اب تم مجھ سے تب تک نہیں ملوگے جب تک تمہارے ہاتھ میں ڈگری کے ساتھ ساتھ ایک اچھی جاب نہ ہو۔"

جسمین کی بات پر یوسف کو جھٹکا لگا۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔ جیسے یہ سب مذاق ہو اور ابھی وہ ہنسنا شروع کر دے۔

" یہ کیا کہہ رہی ہیں؟  کچھ اور مانگ لیں میں منع نہیں کروں گا مگر یہ نہیں۔" یوسف نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے صاف انکار کیا۔

اس کی بچوں جیسی ادا پر جسمین نے اپنے لب بھینچ لیے۔ اس وقت اسے خود پر شدید غصّہ آیا تھا۔ کتنے معصوم انسان کا دل دکھانے جا رہی تھی وہ۔۔۔

معصوم !! ہاں دنیا کیلئے نہ سہی لیکن اس کیلئے وہ معصوم ہی تھا۔ بچوں جیسا معصوم۔۔۔

" یوسف میں نے کہا نا۔ میں نہیں چاہتی میری وجہ سے تمہارا مستقبل برباد ہو۔ اس لیے اب صرف پڑھائی پر دھیان دو۔"

عام سی بات میں درد بھرے راز کو پوشیدہ کیے وہ کہہ گئی۔ یہ سوچتے ہوئے جو آج ان لفظوں میں چھپے مطلب کو نہیں سمجھا سکا، وہ کل سمجھ جائے گا۔

" لیکن میں دے رہا ہوں اپنی پڑھائی پر توجہ آپ اُس کی فکر۔۔۔"

" یوسف میں نے کہا نا۔ تم میری بات مانتے کیوں نہیں۔" یوسف کی بات کاٹ کر وہ تیز لہجے میں بولی۔ یوسف نے اپنے لب بھینچ لیے۔

" ٹھیک ہے پر وعدہ کریں۔۔۔" یوسف نے اپنی ہتھیلی جسمین کے سامنے پھیلائی۔

" کیسا وعدہ؟ " جسمین نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ جانتی جو تھی اب ہر وعدہ، ہر دعویٰ مستقبل میں جھوٹا ثابت ہونے والا تھا۔

" وعدہ کریں تب تک میرا انتظار کریں گی۔"

صرف ایک وعدہ جسمین کے وجود میں لرزش سی پیدا کر گیا۔

" کریں وعدہ۔"

یوسف پھر بولا اور اس بار نہ چاہتے ہوئے بھی جسمین نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ اس کی مضبوط ہتھیلی پر رکھ دیا۔

" وہ امید ہی کیا جس کی ہو انتہا 

 وہ وعدہ ہی نہیں جو وفا ہو گیا

 بھولا جو میں نے یہ عہدِ وفا

 پھر غم کا فسانہ اور جدا جدا "

۔*********۔

حویلی میں شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ جسے دیکھ دیکھ کر جسمین اندر ہی اندر گھٹنے لگی تھی۔ وقت بھی پر لگا کر یوں گزرنے لگا جیسے خود بھی ان کی جدائی کے انتظار میں ہو۔

دوسری طرف یوسف بھی سنجیدگی سے پڑھائی میں مشغول ہو چکا تھا۔ اسے بس اب اس وقت کے گزر جانے کا انتظار تھا تاکہ جلد از جلد جسمین سے مل سکے یوں تو یونیورسٹی میں وہ اسے دیکھ ہی لیتا تھا۔ لیکن جسمین کا اُترا چہرہ اسے پریشان کر دیتا تھا۔ جس پر وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ آخر کو جسمین سے وعدہ جو کر رکھا تھا۔۔۔

       " ترستی آنکھیں، اداس چہرہ، نحیف لہجہ، بغیر تیرے

        بکھری زلفیں، لباس اجڑا، وجود خستہ، بغیر تیرے

       عمیق جنگل، گھپ اندھیرا، ﮈوبی سانسیں، ضعیف دھڑکن

       برہنہ پاؤں، بے نام منزل، نشاں نہ رستہ، بغیر تیرے

       خاموش بلبل، سرد پت جھڑ، بے رنگ موسم، ویران گلشن

       نہ پھول خوشبو، ہوا نہ بادل نہ کوئی نغمہ، بغیر تیرے

       امید مدھم، مزاج برہم، مایوس جیون، بے آس ہر دم

       نہ کوئی خواہش نہ کوئی حسرت، نہ ہے تمنا، بغیر تیرے

       کالی صبحیں، سرخ راتیں، وقت ساکن، اداس شامیں

       ہزار صدیوں کے ہے برابر، ہر ایک لمحہ، بغیر تیرے

       تعویز الٹے، ادھوری منت، وظیفے، جادو ناکام سارے

       نہ استخارہ ہی کام آیا، نہ کوئی دھاگہ، بغیر تیرے

       عجیب قسمت، نصیب الجھا، غلط  لکیریں میرا مقدر

       ہاں گردشوں میں یہ آگیا ہے میرا ستارہ، بغیر تیرے

       ہجر کامل، فراق حاوی، جدائی یکسر، طویل دوری

       خواب قربت، وصال حسرت، رضا ہے تنہا، بغیر تیرے"

ادھر یونیورسٹی میں ایگزامز شروع ہوئے۔ وہیں جسمین کے ہاتھ میں سمیر عالمگیر کے نام کی رنگ پہنا دی گئی۔ جو اس کیلئے کسی عذاب سے کم نہ تھی پر اب وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ جہاں رتجگوں میں وہ پل پل کی اذیت سے گزرتی وہیں یوسف کے شب و روز کتابوں میں گزرتے لمحہ با لمحہ سرکنے لگے۔ وقت یوں تیزی سے گزرا کہ کسی کیلئے موت کی فریاد تو کسی کیلئے ملن کی آس بن گیا۔۔۔

اور پھر یوں ہوا کہ بالآخر وہ دن بھی آ گیا۔۔۔

وہ ایک ایسا دن جب اعزاز یافتہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ جب دل چاہتا ہے اور آگے بڑھا جائے تاکہ ساری دنیا کو فتح کر لیا جائے۔ تب بلندیاں چھوٹی لگتی ہیں اور حوصلے جوان۔ یونی کا سفر ختم ہونے جا رہا ہے اور زندگی نئے امتحانات لیے آگے بھی کھڑی ہے، سخت مقابلے اور نا ختم ہونے والی دوڑ کے ساتھ۔۔۔

بلیک گاؤن پہنے سر پر بلیک کیپ لگائے مسکراتے چہرے کے ساتھ گولڈ میڈل گلے میں ڈالے وہ اسٹیج پر کھڑا تھنکیو اسپیچ کر رہا تھا۔ سامنے ہی کرسی پر وہ بیٹی آنکھوں میں ویرانی لیے اسے دیکھ رہی تھی کہ تبھی وہ کرسی سے اُٹھی اور چہرہ نیچے جھکائے ہال سے باہر نکل گئی۔

اُدھر اسٹیج پر کھڑے یوسف کی نظروں نے اس کا تب تک پیچھا کیا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔ اسپیچ ختم ہوئی، تالیوں کا شور اُٹھا اس کے ساتھ ہی وہ اسٹیج سے اُتر کر پاس آتے لوگوں سے عجلت میں ملتا ہوا خود بھی ہال سے باہر نکل گیا۔ تیز تیز قدم بڑھاتا وہ پارکنگ ایریا کی طرف چلا آیا جہاں وہ کار میں پچھلی نشست پر بیٹھی جاتی دکھائی دی تھی۔

" وعدہ کرو تو وعدہ وفا کرو۔

ہوئی غلطی جو ہم سے تو گلہ کرو

یوں بات بے بات پھیر لیتے ہو رخ تم

جان ہی لینی ہے تو فقط ایک بار کہو "

۔*********۔

" جسمین یہ سوٹ پہن کر دیکھ لو بیٹا کہیں درزی نے ٹائٹ نہ کر دیا ہو ویسے ہی دن کم رہ گئے ہیں۔ پرسوں تم مایوں بیٹھ جاؤ گی۔ اس لیے آج یا کل تک سارے کام نمٹا لو۔"

فائزہ بیگم ہاتھ میں کام دار سوٹ پکڑے کمرے میں آکر بولیں۔ بیڈ پر لیٹی جسمین نے بےتاثر چہرے سے انہیں دیکھا پھر رخ موڑ کر واپس سامنے دیوار کی جانب دیکھنے لگی۔ جہاں لگی ایل ای ڈی پر کوئی فلم چل رہی تھی۔

" ٹھیک ہی ہوگا امی ایک طرف رکھ دیں۔" نظریں اسکرین پر جمائے کہا۔

" یہ کیا بات ہوئی تم کسی چیز میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہیں؟ ٹھیک ہے سب بہت جلدی میں ہو رہا ہے۔ لیکن اس میں اتنا اداس ہونے والی کیا بات ہے؟ "

فائزہ بیگم نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ جسمین کی اداسی کا سبب وہ شادی کو ہی سمجھیں تھیں کہ یہ وقت ہوتا ہی ایسا ہے۔ اپنے خونی رشتوں سے بچھڑنے کا خیال ہی ہر لڑکی کو یوں ہی اداس کر دیتا ہے۔ 

" اب میں آپ کو کیا بتاؤ امی۔ جب دل کی دنیا ہی ویران ہو جائے تو باہر کی دنیا میں بھی کوئی کشش، کوئی دلچسپی باقی نہیں رہتی۔" اس نے سوچا پر بولی کچھ نہیں۔

" چلو اب اُٹھو جلدی سے اسے پہن کر دیکھو۔ تب تک میں باہر جا کر تیاری دیکھ لوں اتنے کام پڑے ہیں ابھی۔" وہ کہتے ہوئے اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ 

ان کے جاتے ہی جسمین نے نم آنکھوں سے اس سرخ رنگ کے جوڑے کو ہاتھوں میں لے کر اپنے سامنے کیا۔ آنکھوں سے نکلتے آنسو گالوں پہ بہہ کر سیدھا جوڑے پر جا گرے۔

" دل کرتا ہے کہ تمہارے ساتھ کہیں دور بھاگ جاؤں یوسف۔ جہاں صرف ہم دونوں ہوں۔ کوئی دکھ نہ ہو، کوئی ظالم سماج نہ ہو۔ جو ہمیں جدا کر سکے۔ لیکن میں ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ دل دکھانا تو گناہ ہے نا۔ تو یوں دوسروں کا دل دکھا کر ہم خود خوش کیسے رہے سکتے ہیں اور پھر وہ تو میرے بھائی، میرے ماں باپ ہیں۔ میرے محرم، میرے اپنے۔ میں اُن کا دل کیسے دکھا سکتی ہوں۔"

تصور میں یوسف کو مخاطب کیے اس نے بےبسی سے آنکھیں موند لیں۔ مگر اس لمحے وہ یہ بھول گئی کہ دل چاہے اپنوں کا ہو یا غیروں کا، محرم کا ہو یا نامحرم کا " دل " دل ہوتا ہے۔

اور اسے توڑ کر، تکلیف پہنچا کر انسان اپنی خوشیوں کی توقع کیسے کر سکتا ہے۔

۔*********۔

اس وقت وہ وہاں موجود انٹرویو کیلئے آئی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی نگاہوں کا بھی مرکز بنا بیٹھا بےچینی سے سامنے دروازے سے باہر آتے امیدواروں کو دیکھتے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ 

جس کے بعد زندگی سے ہر بےچینی، ہر پریشانی کا خاتمہ ہو کر زندگی نے سہل ہو جانا تھا۔ ابو کا خواب پورا ہو جانا تھا۔ ساتھ ہی جسمین سے کیا وعدہ بھی۔۔۔

کیا کچھ نہیں سوچ لیا تھا اس نے اس سمے۔ جاب ملتے ہی اسے جسمین کو بتانا تھا۔ اس کا رشتہ مانگ کر اسے اپنی زندگی میں بھی لانا تھا۔ گھر بسانا تھا۔ اپنی فیملی کو بڑھانا تھا۔ کتنا خوبصورت لگ رہا تھا سب ایک حسین خواب کی طرح۔۔۔ وہ سوچنے لگا کہ تبھی ریسپشنسٹ کی آواز پر چونکا۔

" مسڑ یوسف حیدر !! "

اس نے سوالیہ نظروں سے مخاطب کرنے والی کو دیکھا۔ 

" جائیے اندر اب آپ کی باری ہے انٹرویو کی۔" ریسپشن پہ موجود لڑکی نے ایک بھر پور نگاہ اس وجیہہ شخص پہ ڈالتے ہوئے اسے آگاہ کیا۔

یوسف اُٹھا اور دروازے کے پاس پہنچ کر دستک دیتے ہوئے اس نے اجازت طلب کی۔ اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہوا۔

یہ روم بھی پورے آفس کی طرح شاندار تھا۔ سامنے شیشے کی میز کے پار تین لوگ کرسیوں پر براجمان تھے۔ ان میں سے دو نے سر اٹھا کر آنے والی کو ستائش بھری نظروں سے دیکھا۔ مگر یوسف کیلئے یہ نیا نہیں تھا۔ وہ اپنی ظاہری خوبصورتی سے بخوبی واقف جو تھا۔

" تشریف رکھیے مسٹر یوسف۔"

اپنی فائل ان کے سامنے رکھتا، یوسف آرام سے کرسی پر بیٹھا جس کے ساتھ ہی سوالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ آرام سے ان کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا جیسے انٹرویو دینا اس کے روز کا معمول ہو۔ یوسف کے سادہ سے حلیے میں بھی اس کی پُرکشش شخصیت کے ساتھ ساتھ حاضر جوابی اور کانفیڈنس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہے سکے۔

" مسٹر یوسف ہم امید کرتے ہیں آپ کے ساتھ ہمارا یہ سفر اچھا گزرے گا۔ آپ جاتے ہوئے ریسپشن سے اپنا اپائنٹمنٹ لیٹر لیتے جائیے گا اور کل صبح ٹائم پہ آفس پہنچ جائے گا۔" ان میں سے ایک مسکرا کر بولا۔ باقی دو بھی اس کی تائید کرتے ہوئے مسکرائے۔

" تھنکیو سر میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔"

یوسف نے سرشاری سے کہا اور دل سے اس رب کے آگے سجدہ ریز ہوا۔ جیت کے اس نشے نے میں بھی وہ بھولا نہیں تھا کہ یہ سب تو بس اُس رب کی کرم نوازی ہے۔ ورنہ انسان کی اتنی اوقات کہاں۔

یوسف ان سے مصافحہ کرتے ہوئے انٹرویو روم سے باہر نکل آیا۔ اس کے چہرے پر بکھرے خوشی کے رنگ دیکھتے ہی وہاں بیٹھے امیدوار سمجھ چکے تھے۔ کہ اس جاب کا حقدار اپنا حق حاصل کر چکا ہے۔ اب ان کیلئے یہاں کچھ نہیں۔ باقی کی کسر اندر انٹرویو روم سے آنے والے پیغام نے پوری کردی تھی۔ وہ مایوس ہوئے تھے۔ جبکہ ان سب سے بےخبر وہ سرشاری سے قدم اُٹھاتا آفس سے باہر نکل آیا تھا۔ چہرے پر دل موہ لینے والی مسکراہٹ تھی۔ اس نے ایک آخری نظر آفس کی بلڈنگ پر ڈالی اور پھر اپنی بائیک پر بیٹھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ اب اسے جلد از جلد یہ خوشی کی خبر جسمین کو جو سنانی تھی۔

صبح سے حویلی میں ہل چل مچی ہوئی تھی۔ ہر کوئی ادھر سے اُدھر دوڑتا تیاریوں میں مصروف تھا۔ ایسے میں فائزہ بیگم گھر کے اندر کے سارے انتظامات دیکھنے میں لگی تھیں۔ آج ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں نمی۔ ان کے بچے اب اپنے گھر کے ہونے جا رہے تھے۔ بس کچھ ہی دن تھے۔ جس کے بعد ان کی بیٹی نے پرائی ہو کر اپنے پیا سنگ چلے جانا تھا۔ یہ سوچ آتے ہی ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی۔ جبکہ بلاج کی زندگی میں ایک بار پھر خوشیوں کا سوچ کر ان کے ہونٹوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ بکھر جاتی اور پھر وہ دل ہی دل میں ان دونوں کی ابدی خوشیوں کیلئے دعا کرنے لگ جاتیں۔

" شبانہ یہ ٹوکرے کہاں لے جا رہی ہو؟  انہیں کچن میں رکھو۔" فائزہ بیگم شبانہ کو ہدایت دیتے ہوئے بولیں۔ 

" جی سردارنی جی۔"

وہ فوراً اثبات میں سر ہلاتی کچن کی جانب بڑھ گئی۔ جبکہ فائزہ بیگم اب لاؤنج میں صفائی کرتے دوسرے ملازم کو ہدایت دینے لگی تھیں کہ تبھی ان کی نظر سیڑھیوں سے نیچے آتے بلاج پر پڑی۔

" ارے بلاج بیٹا تم کہاں جا رہے ہو؟ " ان کی آواز پر بلاج نے بےتاثر چہرے سے انہیں دیکھا۔

" ہسپتال۔" ایک لفظی جواب دیا۔

" کیا پر کیوں؟ آج تو گھر میں تقریب ہے۔ تمہیں آج گھر پر ہی ہونا چاہیئے۔"

وہ پریشانی سے بولیں۔ پل بھر پہلے والی خوشی کہیں گم ہو گئی تھی۔ اس سمے وہ جان گئی تھیں کہ ان کا بیٹا کس دل سے یہ شادی کر رہا ہے۔

" تقریب رات میں ہے ابھی نہیں۔ مجھے ویسے بھی اس سے زیادہ ضروری کام ہیں۔" خشک لہجے میں کہتا وہ فوراً وہاں سے باہر نکل گیا۔

فائزہ بیگم وہیں کھڑی دل مسوس کر رہ گئی تھیں۔ اس بات سے یکسر انجان کے ان کی بیٹی بھی اب اس ہی درد سے گزرنے والی ہے۔

۔*********۔

" آج رات سی ویو کی طرف نکلتے ہیں وہیں ریسٹورنٹ میں ڈنر کرینگے۔ ٹھیک ہے نا یوسی؟ " جنید نے کہتے ہوئے آخر میں یوسف سے تائید چاہی۔ جس پر اس نے شانے اچکاتے ہوئے نیم رضامندی دی تھی۔

انٹرویو کے بعد یوسف سیدھا گھر کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جب راستے میں آتی نوید کی کال پر اس کے پاس چلا آیا۔ حذیفہ اور جنید تو پہلے سے ہی موجود تھے اور اب وہ چاروں نوید کے کمرے مل بیٹھے جاب ملنے کی خوشی میں رات باہر کھانے کا پلان بنا رہے تھے۔

" تو بس اپنی جگاڑ لگانے میں رہا کر۔" حذیفہ نے کہتے ہوئے اس کمر پر ایک دھموکا جڑ دیا۔

" کمینے !! "

وہ کمر سہلاتا ہوا بمشکل بولا۔ جبکہ انہیں دیکھ کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے نوید مسکرایا ساتھ ہی چہرہ موڑ کر یوسف کو دیکھ جو خاموشی سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

" کیا ہوا یوسی پریشان ہو کسی بات پر؟ " اس نے دھیرے سے پوچھا۔ 

" کچھ نہیں بس جسمین فون نہیں اُٹھا رہیں۔ تجھے بتایا تھا نا انہوں نے کہا تھا ڈگری اور جاب کے بعد بات کرنا۔" یوسف نے وجہ بتائی۔

نوید خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔ جسمین کی شرط پر بہت سے خیالات نے اسکے ذہن میں سر اُٹھایا تھا۔ جنہیں وہ جھٹک کر بس یوسف کی خوشیوں کی دعا کرنے لگتا۔ لیکن اب یوسف کی بات پر اسے شک ہوا۔ کہیں وہ خیالات سچ ثابت ہو گئے تو یوسف کا کیا ہوگا؟

" تم ایسے ہی پریشان ہو رہے ہو یوسف۔ ہو سکتا ہے کہیں مصروف ہوں اس لیے بات نہیں کر پاہ رہی ہوں۔" نوید نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کیلئے کہا۔

" ہاں پر ایسا بھی کیا کام کے بندہ ایک میسج بھی نہ کرسکے۔" یوسف نے منہ بنایا۔

" ہوتا ہے ایسا پریشان نہ ہو۔ جب انہوں نے وعدہ کیا ہے تو پھر فکر کیسی اور اب اپنا موڈ ٹھیک کر آج تو خوشی کا دن ہے۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

اس کی باتوں سے یوسف کے دل کو کچھ سکون ملا۔ جسمین کا وہ وعدہ یاد آیا۔ جب اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے اُس نے یقین دلایا تھا۔

یہی سب سوچتے ہوئے وہ تھوڑا مطمئن ہوا اور اب پورے دل سے ان تینوں کے ساتھ مل کر رات کا پلان ترتیب دینے لگا۔

۔*********۔

وہ کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑی باہر روشنیوں سے سجے اس لان کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں مایوں کی رسم کا سارا انتظام ہو چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں مہمانوں نے بھی آجانا تھا۔ جس کے بعد رسموں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا۔ اس نے بجھے دل سے کھڑکی پر پردہ ڈالا اور وہاں سے ہٹ کر بیڈ پر آ بیٹھی۔ ہاتھ بڑھا کر اپنا موبائل اُٹھایا۔ جس پر صبح سے یوسف کی کئی کالز اور انگنت میسجز آچکے تھے۔ چند میں وہ اسے اپنی جاب کے مل جانے کی خوشخبری دے رہا تھا۔ تو کچھ میں وہ کال نہ اُٹھانے پر ناراضگی جتا رہا تھا۔ پر زیادہ تر میسجز میں فکرمندی اور پریشانی ہی جھلک رہی تھی۔ جس میں وہ اس کی طبیعت اور گھر کے مسائل کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔

" کہیں آپ بیمار تو نہیں؟ "

" کہیں کوئی پریشانی تو نہیں؟ "

" کچھ ہوا ہے گھر میں مجھے بتائیں؟ "

"میں آپ کو مس کر رہا ہوں۔"

" میں پریشان ہو رہا ہوں۔ "

" آپ کال کیوں نہیں اُٹھا رہی؟ مجھے فکر ہو رہی ہے۔"

ایسے کہیں میسجز سے اس کا انباکس بھر چکا تھا۔ جن میں سے ایک کا بھی اس نے جواب نہیں دیا تھا۔ انہیں پڑھتے ہوئے وہ بس آنسو بہائے جا رہی تھی اور اب اس کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی۔

" جسمین بیٹا تیار ہو گئیں؟ " فائزہ بیگم نے کمرے میں آتے ہوئے پوچھا۔

"جی امی تیار ہوں۔" جسمین موبائل سائڈ پر رکھ کر اپنی آنکھیں صاف کرتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" ماشاء اللّٰه !! " فائزہ بیگم اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔ جو پیلے رنگ کے مایوں کے جوڑے میں ملبوس اپنی تمام تر سادگی میں بھی پیاری لگ رہی تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوم لیا۔

" اللّٰه نظرِ بد سے بچائے۔" فائزہ بیگم نے دعا دی یہ جانے بغیر کہ نظر تو پہلے ہی لگ چکی تھی " اپنوں " کی۔

" چلو تمہارے سسرال والے آ چکے ہیں۔ میں باہر سے لڑکیوں کو بھیجتی ہوں اُن کے ساتھ تم باہر آجانا۔"

وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ جبکہ جسمین ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ وہیں کھڑی رہی۔ اس کے بعد کمرے میں کون آیا، کون اسے باہر لے کر گیا، کس نے اسٹیج پر بٹھایا اور کون کون آکر رسم ادا کرتا گیا۔ اسے کچھ خبر نہ تھی۔ یاد تھا تو بس یہ کہ یوسف حیدر کو اپنی زندگی سے نکال کر وہ کہیں بہت دور جا رہی ہے۔ ایسی جگہ کہ اب واپسی کبھی ممکن نہیں۔۔۔

" کیسے چھوڑ دوں تجھ سے محبت کرنا

تو قسمت میں نہ سہی پر دل میں تو ہے "

۔*********۔

وہ کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولتا ہوا اندر داخل ہوا۔ پورا کمرہ تاریکی میں ڈوبہ ہوا تھا۔ کوئی ایسی ڈئیم لائٹ یا نائٹ بلب روشن نہیں تھا جو اس کمرے میں پھیلی تاریکی کو ختم کر سکے۔ اوپر سے اے سی کی ٹھنڈک نے بھی پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ مانوں یوں کے کسی نے اس کمرے کو مردہ خانہ بنا لیا ہو۔

وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا بیڈ کی جانب آیا جہاں وہ پیلے جوڑے میں بیڈ پر لیٹی محو خواب تھی۔ وہ جھک کر اُس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ آنکھیں یکدم نم ہوئی تھیں۔

" مجھے معاف کردو جسمین۔ میں نے تمہاری خوشیاں چھین لیں۔ پر کسی کی جان جانے سے بہتر یہی تھا کہ تم سے تمہاری خوشیوں کو دور کر دیا جائے۔"

بلاج شفقت سے اسے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔ آج پورا دن وہ اس کے سامنے نہ آ سکا۔ اتنی ہمت ہی نہیں تھی۔ بس دور سے ہی اس اداسی کی مورت بنی اپنی بہن کو دیکھ لیتا جس نے ایک یوسف کے بعد ہر خوشی خود پر حرام کر لی تھی۔

" میری دعا ہے اللّٰه سے سمیر تمہیں اتنا خوش رکھے کہ تم یوسف کو بھول جاؤ۔ اُس کا خیال بھی کبھی تمہارے ذہن میں نہ بھٹکے۔"

دل ہی دل میں اسے دعا دیتا وہ سیدھا ہوا کہ تبھی اس کی نظر سائڈ ٹیبل پر رکھے جسمین کے موبائل پر پڑی جس کی فرنٹ لائٹ بلنک کر رہی تھی۔ بلاج نے موبائل اُٹھا کر آن کیا تو سامنے اسکرین پر انجان نمبر سے کئی میسجز جگمگانے لگے۔

وہ ایک ایک کر کے پڑھتا گیا۔ اس دوران اسے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان میسجز کا جواب نہیں دیا گیا۔

بلاج نے ایک نظر سوئی ہوئی جسمین پر ڈالی پھر اپنی جیب سے موبائل نکال کر نمبر نوٹ کیا اور جسمین کا موبائل واپس اسی جگہ رکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ مگر اس لمحے اس کی روشن آنکھوں میں گہری سوچ کے سائے واضح تھے۔

۔*********۔

پوری رات دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد بھی صبح ہوتے ہی وہ آفس کیلئے تیار ہو کر گھر سے نکل گیا تھا۔ آج اس کا پہلا دن تھا اور وہ لیٹ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ سارے راستے تیز رفتاری سے بائیک چلاتے ہوئے وہ آفس پہنچ چکا تھا اور اب مینجر سے ہدایت ملنے کے بعد پوری توجہ سے اپنے کام میں مصروف تھا کہ دفعتاً اس کا موبائل بج اُٹھا۔ ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ جسمین ہوگی۔ مگر جب موبائل اُٹھا کر دیکھا تو ایک انجان نمبر اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ کال کاٹ کر موبائل واپس ٹیبل پر رکھنے ہی لگا تھا کہ وہ پھر بج اُٹھا اور اس بار نہ چاہتے ہوئے بھی یوسف نے کال ریسیو کر لی۔

" ہیلو !! "

" یوسف حیدر !! " اس کی آواز سنتے ہی اسپیکر سے مردانہ بھاری آواز اُبھری۔

" جی کون؟ " ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔ آواز جانی پہچانی لگی تھی۔ مگر کس کی؟

" یوسف میں بلاج بول رہا ہوں۔ کیا ہم آج مل سکتے ہیں؟ " بلاج کی بات پر وہ ایک لمحے کیلئے خاموش ہو گیا۔ وہ اس سے کیوں ملنا چاہتا تھا؟ کیا جسمین نے اس سے بات کر لی؟

" جی بھائی، بتائیں کہاں آنا ہے؟ " سارے سوالوں کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے پوچھا۔

بلاج نے اسے جگہ اور وقت بتا کر کال کاٹ دی۔ جبکہ یوسف موبائل ہاتھ میں پکڑے یہ سوچ رہا تھا کہ آیا جسمین کو فون کر کے اس بارے میں بتائے؟ مگر کیسے؟ وہ تو کال ہی نہیں اُٹھا رہی۔

ساری سوچوں کو جھٹکتے ہوئے وہ ایک بار پھر کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔ فی الحال یہ وقت اس بارے میں سوچنے کا نہیں تھا۔

" اب کہ سنتے نہیں ہو بات مگر 

پھر کہو گے کہ کوئی کہتا تھا 

موم کی طرح وہ پگھل سا گیا 

وہ جو پتھر کی طرح لگتا تھا

کوئی آہٹ تو دی ہوگی تم نے 

ہم کو کیوں یہ گماں لگتا تھا "

۔*********۔

رات کا سرمئی آنچل کائنات پر چھا چکا تھا۔ وہیں ڈھابہ نما ریسٹورنٹ میں وہ اس وقت ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ ایک جسمین کے بارے میں بتانا چاہتا تھا تو دوسرا جسمین کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا۔ مگر مناسب الفاظ دونوں میں سے کسی کے پاس نہ تھے۔ یوں کہ زبان پر قفل لگ گیا ہو۔

" یوسف تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں اپنے نکاح میں بلایا تھا؟ " چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بلاج گویا ہوا۔

یوسف نے کچھ الجھ کر اسے دیکھا۔ وہ ایسے کیوں پوچھ رہا تھا۔ بات اتنی پرانی تو نہ تھی کہ کوئی بھی بھول جائے۔

" ہاں !! پر آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ "

" تم جانتے ہو میں نے تمہیں وہاں کیوں بلایا تھا؟ " یوسف کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔

" کیوں بلایا تھا؟ " اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔ بلاج کا اندازہ اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر رہا تھا۔

" یوسف میں ایک مرد ہوں اور اپنی عورتوں پر اُٹھنے والی دوسرے مرد کی نظر کو اچھے سے پہنچان سکتا ہوں۔ تمہاری نظروں میں بھی اپنی بہن کیلئے محبت بہت پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔" بلاج جتاتا ہوا بولا۔ یوسف جو اس کی طرف دیکھ رہا تھا فوراً نظریں جھکا گیا۔

" میں چاہتا تھا تم میرے گھر آ کر ہمارے ماحول اور طور طریقوں کے بارے میں جان جاؤ تاکہ اپنے آگے بڑھتے قدموں کو وہیں روک لو۔ لیکن تم۔۔۔ تم نہیں رکے۔"

بلاج رکا، یوسف نے اپنی جھکی نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا اور اس لمحے بلاج نے جان لیا۔ وہ شرمندہ ہرگز نہیں تھا۔ بھلا محبت پر بھی کوئی شرمندہ ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے۔۔۔ تو پھر جا کر پوچھو اُس عاشق سے جس کیلئے یہ زندگی کا حاصل، ایک اعزاز ہوتا ہے۔ ذات کو کامل یا خالی کرنے دینے والا راز ہوتا ہے۔ یہ تو دیوانوں کی دنیا میں معتبر کر دینے والا وہ احساس ہوتا ہے۔

" آپ مدعے پر آئیں۔ اب کیا چاہتے ہیں مجھ سے؟ " یوسف خشک لہجے میں بولا۔

بلاج کے انداز سے ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ یہاں ان کا ساتھ دینے نہیں آیا۔ یہ جنگ بس جسمین اور یوسف نے ہی لڑنی ہے مگر۔۔۔ اگلے لمحے ادا ہونے والے بلاج کے الفاظ نے اس کی ہستی کو ہلا کر رکھ دیا۔ یوسف بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا اور وہ کہہ رہا تھا۔۔۔

" کل جسمین اور میرا نکاح ہے یوسف۔ امید کرتا ہوں اب تم اُسے تنگ نہیں کرو گے۔ اپنے قدم یہیں روک لو اور پلٹ جاؤ کیونکہ اب یہاں تمہیں کچھ نہیں ملنے والا۔" بلاج دھیرے سے بولا۔

وہ یوسف کی کیفیت سے بخوبی واقف جو تھا۔ اپنے محبوب کو کھو دینے کا دکھ کتنا اذیت ناک ہوتا ہے، بھلا اس سے بہتر کون جان سکتا تھا۔

" آپ۔۔۔ آپ جھوٹ بول رہے ہیں بولیں۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ وہ میرا انتظار کریں گی۔" یوسف چلایا۔

بلاج نے لب بھینچ کر آس پاس دیکھا۔ کافی لوگ اس کے چلانے پر متوجہ ہوئے تھے۔

"چلاؤ مت۔" وہ غرایا پھر خود کو پُرسکون کرتا ہوا بولا۔

" دیکھو یوسف میں جانتا ہوں تم بہت محبت کرتے ہو۔ لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ تم جسمین کو بھول جاؤ اور زندگی میں آگے بڑھو۔ پوری زندگی تمہارے سامنے پڑی ہے۔ سمجھ رہے ہو نا تم؟ "

اس نے سوالیہ نظروں سے یوسف کو دیکھا۔ جس کی سیاہ آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ جبڑے بھینچے اُٹھا اور ایک ٹھوکر کرسی کو مارتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ بلاج وہیں بیٹھا بےبسی سے اسے جاتے دیکھتا رہا۔ وہ چاہ کر بھی ان کیلئے کچھ کر نہیں سکتا تھا۔

" مجھے معاف کر دینا یوسف !! تم سے بہتر میری گڑیا کیلئے کوئی نہ تھا۔ پر کچھ کہانیاں بنتی ہی نامکمل رہنے کیلئے ہیں۔" وہ زیرِ لب بڑبڑایا پھر خود بھی اُٹھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

" شیشۂ دل پہ ایسی چوٹ پڑی 

ایک لمحے میں ریزہ ریزہ تھا

رت جو بدلی تو یہ بھی دیکھ لیا 

پتہ پتہ زمیں پہ بکھرا تھا

 اس کے کوچے کے ہو لیے ورنہ 

راستہ ہر طرف کو نکلتا تھا "

کمرے میں چکر کاٹتا وہ مسلسل جسمین کو کال ملا رہا تھا۔ مگر وہ تھی کہ کال اُٹھانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ یوسف نے غصّے سے موبائل دیوار پر دے مارا۔ جسمین کی کہی ساری باتیں اسے اب سمجھ میں آ رہی تھیں۔ کیوں وہ اسے ملنے سے، بات کرنے سے منع کر رہی تھی۔ کیوں وہ چاہتی تھی کہ یوسف اب صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دے اور کیوں وہ اب اس کی کال نہیں اُٹھا رہی تھی۔ اسکے میسجز کا جواب نہیں دے رہی تھی کیوں؟ کیونکہ وہ تو اپنا راستہ بہت پہلے ہی بدل چکی تھی۔ یوسف کو کہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئی تھی لیکن۔۔۔ لیکن وہ وعدہ۔۔۔ 

" تو وہ وعدہ بھی جھوٹا تھا جسمین !! کیوں کیوں کیا آپ نے ایسا؟ کس بات کا بدلہ لیا مجھ سے؟ " وہ چلایا۔

" ہاں !! شاید اسٹاف روم کی بات کا بدلا نکالا ہے نا آپ نے۔ اگر سزا ہی دینی تھی تو کوئی اور طریقہ اپناتیں مگر۔۔۔ مگر یہ تو نہ کرتیں۔ کیوں کھیل گئیں میرے دل کے ساتھ کیوں؟ " سر تھامے وہ وہیں زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ سوچ سوچ کے دماغ تھا کہ ابھی پھٹ جائے گا۔

" ایسے نہیں۔۔۔ آپ کو میرے ہر سوال کا جواب دینا ہوگا جسمین۔ اتنی آسانی سے آپ کو اپنی زندگی سے نہیں جانے دوں گا۔ کبھی نہیں۔۔۔"

تصور میں جسمین کو مخاطب کیے وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سیاہ آنکھیں شدید غصّے کے باعث سرخ ہو رہیں تھیں۔ اب اسے بس کل کا انتظار تھا تاکہ جسمین سے اپنے ہر ایک سوال کا جواب طلب کرسکے۔ اُس سے پوچھے کہ کیا اتنا آسان ہے کسی کا دل، امیدیں، وعدہ اور سب سے بڑھ کر اعتبار توڑنا۔۔۔

پر وہ یہ نہیں جانتا تھا۔ جب تقدیر کوئی فیصلہ کرلے تو انسان کے عہد، وعدے، ارادے سب بےمعنی رہ جاتے ہیں۔ کہیں قصے ادھورے رہ جاتے ہیں تو کچھ کہانیاں مکمل ہو جاتی ہیں۔ زندگی کی اس کتاب میں دیکھو۔۔۔ تقدیر کیا رنگ لاتی ہے۔

۔*********۔

جہاں سرمئی آنچل سرکا وہیں سنہری کرنوں کا جال آسمان پر پھیلتا ہوا کائنات کو منور کر گیا۔ ایسے میں ایک بار پھر ملکوں کی حویلی میں رونق لگ چکی تھی۔ یہی عالم شجاع عالمگیر کی حویلی کا بھی تھا۔

جہاں ایک طرف خوابوں کو سجائے اپنے پیا سنگ جانے کو بیتابی تھی وہیں دوسری طرف خوابوں کا گلا گھونٹ کر اب زمین میں اُتر جانے کی خواہش تھی۔

دونوں طرف نکاح کی تیاریاں زوروشور سے کی جارہی تھیں۔ یوں تو شجاع عالمگیر کا کہنا تھا کہ نکاح کی تقریب ان کی حویلی میں رکھی جائے مگر بلاج کے انکار پر جہانگیر ملک نے نکاح کی تقریب اپنی حویلی میں ہی رکھ لی تھی۔ جس پر شجاع عالمگیر نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ آخر وٹے سٹے کا ایک یہی تو فائدہ ہے اور نقصان بھی۔

" کیا میں اندر آجاؤں؟ "

سیاہ شیروانی میں ملبوس وہ دروازے پر کھڑا اندر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔

" آپ اندر آچکے ہیں بلاج بھائی۔"

جسمین جو عروسی جوڑے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ رہی تھی۔ خشک لہجے میں بولی۔ بلاج چلتا ہوا اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔

" ناراض ہو مجھ سے؟ " اس کے بےتاثر چہرے پر نظریں جمائے دھیمے لہجے میں پوچھا۔

آج سے پہلے اس نے جسمین کی ہر بات، ہر خواہش، ہر خوشی کو پورا کیا تھا پر آج وہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اسے نہیں دے پایا تھا۔ وہ اسے یوسف نہیں دے پایا تھا۔

" میں ناراض نہیں ہوں۔" اب کے وہ بھی دھیمے لہجے میں بولی۔

" تو پھر میری طرف کیوں نہیں دیکھ رہیں؟ " ایک اور سوال۔

جسمین نے بےتاثر نظروں سے اسے دیکھا۔ کوئی جذبہ، کوئی خوشی، کوئی دکھ تو ان آنکھوں میں نہیں تھا سوائے ویرانی کے۔

" میں ناراض نہیں ہوں۔ یہی میری تقدیر ہے۔ جسے میں قبول کرچکی ہوں آپ پریشان نہ ہوں۔"

کہتے ہوئے ایک بار پھر اس نے چہرہ موڑ لیا۔ آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے ناجانے کیا تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

" میں نے یہ سب تمہارے لیے کیا ہے جسمین۔ ایک وقت آئے گا جب تمہیں احساس ہوجائے گا۔"

بلاج اس کے سرخ دوپٹے سے ڈھکے سر کو دیکھتے ہوئے بولا۔ مگر اس بار وہ خاموش رہی جیسے اب نہ بولنے کی قسم کھا لی ہو۔

" تمہیں لگتا ہے میں نے یاسمین سے محبت نہیں کی اس لیے تمہاری محبت کو بھی نہیں سمجھ سکا۔ پر یقین مانوں جسمین !! جس درد سے تم گزر رہی ہو میں بھی اسی درد سے گزر رہا ہوں۔ دل میں " کسی" کو رکھ کر زندگی میں "کسی اور" کو لانا آسان نہیں ہوتا۔"

اب کے اس نے کہا نہیں تھا بس سوچا تھا اور وہ اس کی سوچ سے بےخبر سر جھکائے بیٹھی اپنے ہاتھ میں گولڈن بریسلٹ کو دیکھ رہی تھی۔

بلاج نے دھیرے سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر تیزی سے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ دروازہ بند ہوا ساتھ ہی کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ چند لمحے وہ یونہی سر جھکائے اس بریسلٹ کو دیکھتی رہی کہ تبھی پیچھے سے کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی۔

جسمین نے چونک کر سر اُٹھایا اور نظریں وہیں ٹھہر گئیں۔ لب ساکت ہوئے تھے اور دھڑکن وہیں تھم گئی۔

وہ بے یقینی سے آئینے میں نظر آتے اس عکس کو دیکھ رہی تھی۔ وہ عکس جو اس کی پرچھائی بن گیا تھا، دل کی دھڑکن کہ جینے کیلئے سانسیں بن گیا تھا، راتوں کا تڑپا دینے والا خواب بن گیا تھا۔ وہ عکس ایک یوسف کا عکس۔۔۔

" یوسف !! "

لب ہلے، وہ پیچھے مڑی۔ جہاں وہ کھڑکی کے پاس کھڑا دونوں ہاتھ سینے پر باندھے سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ عروسی جوڑے میں سجا سنوارا یہ وجود اس کیلئے نہیں کسی اور کیلئے تھا۔ یوسف نے سختی سے اپنے لب بھینچ لیے۔

" تم یہاں کیسے آئے؟ کسی نے آتے ہوئے تو نہیں دیکھا؟ " جسمین متفکر سی ہو کر یوسف کی طرف بڑھنے لگی مگر اس سے پہلے ہی وہ عین اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

" میں تم سے پوچھ رہی ہوں کچھ؟  یہاں کیوں آئے؟ " وہ یکدم تلخ ہوئی۔ وہی بیگانگی لیا انداز یوسف لب سیئے اسے دیکھتا رہا۔

" دیکھو یوسف جاؤ یہاں سے آج میرا نکاح ہے۔ تمہیں یہاں کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔"

" تو آپ شادی کر رہی ہیں گڈ۔" وہ اس کی بات نظر انداز کیے بولا۔ لہجہ طنزیہ نہیں تھا پر جسمین کو یہ طنز ہی لگا۔

" دیکھو یوسف مجھے معاف کردو۔ پلیز یہاں سے چلے جاؤ میں میں۔۔۔" مزید کچھ کہنے کی سکت نہ رہی تھی۔ جسمین نے یکدم اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔ آنسو تواتر آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔

یوسف جو اس کے سامنے کھڑا اس سے باز پرس کرنا چاہتا تھا، لڑنا چاہتا تھا، جھگڑنا چاہتا تھا، اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ آخر کیوں وہ بے وفائی کر گئی؟ وعدہ کیا پر وعدہ وفا نہ کیا۔ کیوں وہ بیچ راہ میں ہاتھ چھڑا گئی کیوں؟

پر اس کے جڑے ہاتھ اور بہتے آنسو کو دیکھ کر سارے الفاظ دم توڑ گئے تھے۔

وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا جسمین کے قریب ہوا تھا۔ اتنا قریب کہ لرز کر پلکوں کی جھالر گری اور یوسف کے رخسار کو چھو گئی۔

" الوداع !! "

جسمین کے کان میں سرگوشی کرتا گویا پگھلا ہوا سیسہ انڈیل رہا تھا۔ جسمین نے بمشکل پلکیں اُٹھا کر اسے دیکھا جو الٹے قدم پیچھے ہٹتا اس سے دور جا رہا تھا کہ تبھی وہ مڑا اور جس طرح اندر آیا تھا اسی طرح کھڑکی سے باہر نکل گیا۔

جسمین وہیں کھڑی بے جان ہوتے وجود کے ساتھ اس کھلی کھڑکی کو دیکھ رہی تھی کہ ایک تیز ہوا کا جھونکا اندر آیا۔ جو اس کے محسوسات کو جگاتا یہ باور کرا گیا۔۔۔

یوسف حیدر !! اکیلا نہیں گیا تھا۔ اس کا دل، روح، خوشیاں سب ساتھ لے گیا تھا۔

" یوسف !! "

ہاتھ آگے بڑھا کر اس نے روکنا چاہا مگر کب جب وہ جا چکا تھا۔ ہمیشہ کیلئے اس کی زندگی سے دور۔۔۔

" یوسف مت جاؤ۔۔۔"

وہ وہیں فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔ اپنی حالت کی پرواہ کیے بغیر وہ آنسو بہا رہی تھی۔ کمرے کے درودیوار اس کی سسکیوں سے گونجنے لگے تھے پر۔۔۔ وہ ایک آواز جس کو اسکی سسکیاں بھی دبا نہیں پائی تھیں۔ ہاں !! وہ آواز، وہ لہجہ، وہ لفظ۔۔۔

" الوداع !! "

۔*********۔

کھڑکی کے زریعے کمرے سے نکلتا وہ پائپ کے سہارے نیچے اتر آیا تھا۔ اس نے آس پاس دیکھا قریب ہی بائیں جانب دو آدمی بندوق لیے کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ دبے قدموں سے چلتا ہوا پلر کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔

" اب کیا کروں؟ کیسے نکلوں؟ "

وہ ابھی یہ ہی سوچ رہا تھا کہ ان کی نظروں میں آئے بغیر یہاں سے کیسے نکلے کہ تبھی اسے سامنے سے بلاج آتا دکھائی دیا۔ ان دونوں آدمیوں کو کچھ کہتا وہ انہیں اپنے ساتھ لیے آگے بڑھ گیا۔

یوسف نے آس پاس دیکھا فی الحال اس طرف اور کوئی نہیں تھا۔ اس نے شکر ادا کیا ساتھ ہی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فوراً آگے بڑھتا پیچھے کے دروازے سے باہر نکل گیا۔

یہ جانے بغیر۔۔۔ کہ اوپری کمرے کی کھڑکی سے دو آنکھیں اس منظر کو بغور دیکھ رہی تھیں۔

۔*********۔

انسان جو مرضی کر لے تقدیر کے آگے بالآخر بےبس ہو ہی جاتا ہے۔ تقدیر جب چاہے جسے چاہے آپ کی زندگی میں لے ہی آتی ہے اور جس سے چاہے جدا کر دیتی ہے کہ انسان لاکھ چاہنے کے باوجود بھی تقدیر کے آگے مجبور ہو جاتا ہے۔  وہ انسان جو ہواؤں کو تسخیر کر چکا ہے۔ سمندروں کو کھنگال چکا ہے۔ لیکن تقدیر سے جیتنے کی کوئی ٹیکنالوجی اب تک ایجاد نہیں کر سکا۔۔۔

یوسف بھی اپنی تقریر سے ہار چکا تھا۔ اس کے آگے بےبس ہوتا ہار مان چکا تھا۔ سب ختم ہو چکا تھا۔ اس کے آگے بڑھتے قدموں کے ساتھ کہیں سب بہت پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ وہ ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ چلتا کس راستے پر نکل آیا تھا اسے کچھ خبر نہیں تھی۔ وہ پیدل چل رہا تھا۔ صبح بائیک خراب ہونے کے باعث وہ جسمین سے ملنے ٹیکسی میں چلا آیا تھا۔ لیکن اب الجھتے ذہن کے ساتھ اسے یہ خیال بھی نہ رہا تھا کہ ٹیکسی ہی کر لے۔

" دیکھو یوسف جاؤ یہاں سے آج میرا نکاح ہے۔ تمہیں یہاں کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔" اسے جسمین کی آواز سنائی دی۔

اس نے آسمان کی طرف سر اُٹھا کر دیکھا۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ اس کے اندر بھی اداسی اترنے لگی۔ آسمان کی طرح دل بھی ویران ہو رہا تھا۔ وہاں سے نکلے کتنا وقت گزر چکا تھا۔ اسے اندازہ نہ ہوا۔ وہ یونہی غائب دماغی سے چلتا رہا کہ اچانک فضاء میں گونجتی گولی کی آواز پر اس کے قدم ایک دم تھمے تھے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں خاور اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا جیپ سے اُتر کر اس کے پاس آ رہا تھا۔ پیچھے کھڑے اس کے آدمی ہاتھوں میں ہتھیار اُٹھائے ہوئے تھے۔ تو بالآخر وہ وقت بھی آ گیا تھا۔۔۔

(وہ ہال میں گھونگھٹ لیے حورین کے ساتھ بیٹھی تھی۔ پردے کے اُس پار نکاح خواں سمیر اور بلاج کے ساتھ بیٹھے نکاح پڑھانا شروع کر رہے تھے۔)

" تیرے پیچھے اتنی دور تک آنا پڑا وہ بھی اپنی بہن کا نکاح چھوڑ کر خیر کوئی نہیں۔ اس کی قیمت تو ادا کر ہی لوں گا۔" اس نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا۔ یوسف نے بےتاثر چہرے سے اسے دیکھا۔ اس کی چھٹی حس اب بیدار ہوتی خطرے کا احساس دلا رہی تھی۔

(جسمین ملک ولد جہانگیر ملک آپ کو سمیر عالمگیر ولد شجاع عالمگیر کے نکاح میں حق مہر پچاس لاکھ سکہ رائج الوقت دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو " قبول" ہے؟ انہوں نے پوچھتے ہوئے گویا اس کی موت کا فرمان سنایا تھا۔)

 " مجھے تو پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ضرور کوئی نہ کوئی چکر ہے۔ جبھی تو اتنی دیدہ دلیری سے میرے ہی گھر پر کھڑے ہو کر میری ہی بہن سے محبت کی پتنگے لڑا رہا تھا۔" کہنے کے ساتھ ہی اس نے گھونسا یوسف کے منہ پر دے مارا۔ یوسف لڑکھڑایا مگر اگلے ہی لمحے سنبھل کر وہ بھی میدان میں اُتر آیا تھا۔

( بار بار نظروں کے سامنے یوسف کا چہرہ آ رہا تھا۔ اس نے سر اُٹھا کر دیکھا۔ سب کے چہروں پر خوشی تھی۔ مسکراہٹ تھی۔ ڈب ڈبائی آنکھوں سے وہاں موجود مہمانوں کو دیکھتے ہوئے وہ مدہم لہجے میں بولی " قبول ہے۔" )

خاور اور یوسف کو لڑتا دیکھ اس کے آدمی بھی یوسف پر جھپٹ پڑے۔ وہ بہادری سے سب کا مقابلہ کر رہا تھا کہ تبھی ان میں سے ایک نے پیچھے سے اس کے سر وار کیا وہ زمین پر جا گرا تھا۔

( "جسمین ملک ولد جہانگیر ملک آپ کو سمیر عالمگیر ولد شجاع عالمگیر کے نکاح میں حق مہر پچاس لاکھ سکہ رائج الوقت دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو " قبول" ہے؟ " ایک بار پھر پوچھا۔)

خاور نے اسے گریبان سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔ مٹی سے اٹا ہوا چہرہ، منہ سے نکلتا خون، یوسف دھندلائی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ خاور نے اب کہ اس کے پیٹ میں لات دے ماری وہ پیٹھ کے بل جا گرا۔

" مارو اسے ایک ایک ہڈی توڑ دو سالے کی زندہ نہیں بچنا چاہیئے۔" کہتا ہوا وہ پیچھے ہٹا تھا۔

( اس نے فائزہ بیگم کو دیکھا پھر بلاج کی طرف جو آنکھوں سے اشارہ کرتا اسے جواب دینے پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ سر جھکا کر دھیرے سے بول گئی۔ " قبول ہے۔" )

وہ بیدردی سے اسے مار رہے تھے۔ ایک یوسف کا ان سب سے مقابلہ کرنا نہ ممکن سی بات تھی۔ وہ نڈھال ہوتا اپنے ہاتھ پیر چھوڑ چکا تھا۔ ساتھ جینے کی تمنا بھی۔

" بس کرو اور اسے اُٹھا کر آگے کھائی میں پھینک دو کسی کو اس کی لاش بھی نہیں ملنی چاہیئے۔" خاور کی بات پر وہ حکم بجا لاتے یوسف کو اُٹھا کر آگے بڑھے تھے۔

( " کیا آپ کو قبول ہے؟ " جسمین کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔ بس آخری بار اور اجازت چاہی تھی۔ جس کے ملتے ہی اس کے تمام جملہ حقوق سامنے بیٹھے شخص کے نام ہوجانے تھے۔ )

وہ اسے اُٹھائے کھائی کے سامنے لے آئے تھے۔ یوسف نے بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا۔ موت کتنے قریب آن کھڑی تھی۔ ایک مدہم مسکراہٹ اس کے ہونٹوں کو چھوگی۔۔۔ جیسے کہنا چاہتی ہو اب جینے کی تمنا بھی کسے تھی۔

( " قبول ہے۔" )

اور یہاں اسی مقام پر ہاں!! اسی مقام پر یوسف حیدر نے آنکھیں بند کرتے ہوئے خود کو کھائی میں جاتا محسوس کیا تھا۔ سانس رکی تھی، وقت تھما تھا اور یوسف حیدر کا باب زندگی کی کتاب سے ختم ہوتا ہمیشہ کیلئے ماضی بن چکا تھا۔۔۔ وہ جا چکا تھا ہمیشہ کیلئے، جسمین کی زندگی سے کہیں دور اور شاید اس دنیا سے بھی بہت دور۔۔۔

" آپ غیروں کی بات کرتے ہیں

ہم نے اپنے بھی آزمائے ہیں

لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں

ہم نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں

کسی کا کیا جو قدموں میں جبین بندگی رکھ دی

ہماری چیز تھی ہم نے جہاں جانی وہاں رکھ دی

جو دل مانگا تو وہ بولے کہ ٹھہرو یاد کرنے دو

ذرا سی چیز تھی ہم نے خدا جانے کہاں رکھ دی

سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے۔۔۔ "

فضاء میں پھیلی کلام کی آواز کو خاموشی سے سنتا وہ اپنے سامنے آگ میں لپٹی لکڑیوں کو سلگتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ گہری ہوتی رات کے ساتھ ہوا میں شامل خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے ہاتھ جلتی لکڑیوں کے قریب لے جا کر انہیں گرمائش دینی چاہی۔

" پھر کیا ہوا؟ "

کاشف نے اس کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ساتھ بیٹھا علی بھی تجسس سے اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگا تھا۔

" پھر۔۔۔ " اس نے زیرِ لب دھرایا۔

" کیا جسمین کی شادی واقعی ہوگئی تھی؟ " کاشف نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔

" ہوگئی ہوگی۔" سامنے بیٹھا شخص دھیرے سے مسکرایا۔

" اور یوسف کے دوست، کیا انہوں نے اُسے نہیں ڈھونڈا؟ " اب کے سوال علی کی طرف سے تھا۔

" شاید کوشش کی ہو۔" کہتے ہوئے وہ اب اپنے گرد اونی چادر کو ٹھیک کرنے لگا تھا۔

" اور۔۔۔ اور کھائی میں گرنے کے بعد یوسف کا کیا ہوا؟ "

" کھائی میں گرنے کے بعد۔۔۔"

سامنے سلگتی لکڑیوں پر نظریں جمائے، وہ دھیرے سے بڑبڑایا تھا۔ ساتھ ہی ایک بار پھر ماضی کی کھڑکیاں کھولتے ہوئے اس نے یادوں کو اندر آنے کی اجازت دی تھی۔

۔*********۔

" ابا یہ تم کس راستے پر لے آیا۔" سترہ سالہ نواز اپنے باپ کو دیکھتے ہوئے بولا۔ جو ٹھیلے کو دھکا دیتا اس پتھریلے راستے پر آگے بڑھ رہا تھا۔

" تو چپ کر اور خاموشی سے دھکا لگوا۔ ہمیں جلدی یہ جڑی بوٹیاں حکیم صاحب کے پاس پہنچانی ہیں۔" وہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولے۔

وہ منہ بناتا ٹھیلے کو دھکا لگانے لگا اونچے نیچے پتھریلے راستے کے باعث ٹھیلے کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔

" کیا کر رہا ہے رک کیوں گیا دھکا لگا؟ " وہ نواز کو دیکھ کر جھنجھلا کر بولے جو رک کر نہ جانے کیا دیکھ رہا تھا۔

" ابا وہ دیکھو؟ وہ کون ہے؟ " اس نے ہاتھ سے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔

" کہاں؟ کون؟ "

" ارے وہ پتھر کے پاس شاید آدمی ہے۔ لگتا ہے اوپر سے گر گیا۔"

" کیا چل چل کے دیکھ تو سہی کون ہے زندہ بھی ہے یا نہیں۔" ٹھیلے کو ایک طرف کھڑا کر کے وہ بھاگتے ہوئے اس آدمی کے پاس آئے جو بڑے سے پتھر کے قریب منہ کے بل گرا ہوا تھا۔ سر سے نکلتا خون آس پاس کی مٹی کو بھی سرخ کر چکا تھا۔

" یہ کیا؟ یہ ادھر کہاں سے آیا؟ " وہ حیرت سے اس خون میں لت پت وجود کو دیکھتے ہوئے بولے۔

" شاید اوپر سے گر گیا ابا۔"

" یا پھر کسی نے مار کر پھینک دیا۔" وہ دھیرے سے بڑبڑائے۔

" کیا کہا؟ " نواز نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔

" کچھ نہیں۔۔۔ دیکھ یہ سانس لے رہا ہے۔ تو ایک کام کر اس کو اُٹھوا کر ٹھیلے پر ڈلوا۔ رات ہونے لگی ہے اسے یہاں چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔" وہ آسمان پر چھاتے سرمئی بادلوں کو دیکھتے ہوئے بولے۔

" چل اس کے پاؤں پکڑ ہمیں جلد از جلد وہاں پہنچنا ہے؟ " نواز کو حکم دیتے ہوئے انہوں نے زمین پر پڑے شخص کا بازوؤں سے پکڑ کر اُٹھایا۔ نواز نے بھی اسے ٹانگوں سے پکڑ  لیا تھا۔ بمشکل اسے اُٹھائے وہ ٹھیلے تک آئے اور اُس پر لٹا کر تیزی سے ٹھیلے کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔

" اب اگر یہ مر گیا تو؟ " نواز نے اس شخص کو دیکھتے ہوئے کہا۔

" پہلے حکیم صاحب تک پہنچ جائیں پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔" کہتے ہوئے انہوں نے قدموں کی رفتار تیز کر دی۔

ٹھیلے کو دھکیلتے ہوئے دونوں تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ اپنی منزل پر جا کر رکے۔

" اے ناصر لالہ !! تم سامان لے آئے جو حکیم صاحب نے منگوایا تھا؟ " انہیں دیکھتے ہی درگاہ کی سیڑھیوں پر کھڑا شخص بھاگ کر ان کی طرف آیا تھا۔

"ہاں ندیم !! حکیم صاحب کدھر ہیں؟ "

" اوپر درگاہ پر ہی ہیں۔ کیوں کیا ہوا؟ "

" وہ یہ آدمی کافی زخمی ہے ابھی سانس چل رہی ہے۔ چل اسے حکیم صاحب کے پاس لے کر چل۔" ناصر ٹھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ ندیم آگے بڑھا اور ٹھیلے پر لیٹے شخص کو دیکھتے ہی بوکھلا اٹھا۔

" ابے کس کو اُٹھا لایا۔ یہ پولیس کیس ہے۔ پولیس کو فون کر۔"

" اے پاگل ہے کیا؟ جب تک پولیس آئے گی یہ مر جائے گا۔ یہاں تو کوئی ہسپتال بھی نہیں۔ چل اُٹھانے میں مدد کر حکم صاحب کو دکھاتے ہیں وہ بتائیں گے کیا کرنا ہے۔"

ناصر نے اسے ڈپٹا جسکی وجہ سے مجبوراً وہ بھی اس کی مدد کرتا، اس شخص کو اُٹھائے سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا۔

" نواز سامان اُٹھا کر اوپر لے آنا۔"

ناصر سیڑھیاں چڑھتا چلاتے ہوئے بولا۔ جس پر نواز اثبات میں سر ہلاتا فوراً ٹھیلے پر سے سامان اُتارنے لگا تھا۔

۔*********۔

" حکیم صاحب یہ بچ جائے گا؟ "

ناصر نے حکیم صاحب کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جو پیالے میں پانی لیے کپڑا گیلا کرتے اپنے سامنے لیٹے شخص کے زخم صاف کر رہے تھے۔

" زخم گہرے ہیں پر زندگی اور موت اللّٰه کے ہاتھ میں ہے۔" وہ سنجیدگی سے بولے۔

" آپ کو نہیں لگتا ہمیں پولیس کو فون کرنا چاہیئے؟ " ندیم کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی تھی۔

" پولیس نے آکے کیا کر لینا ہے۔ یہ تو بیہوش پڑا ہے۔ پولیس آ کر ہمارا ہی دماغ کھائے گی۔" ناصر چڑ کر بولا۔

درحقیقت وہ خود کو ان سب جھمیلوں سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ جتنا کر چکا تھا۔ وہ کافی تھا۔

" ہاں پر اسے ہسپتال۔۔۔"

" ہسپتال کیلئے شہر جانا پڑے گا۔ تجھے حکیم صاحب کی صلاحیتوں پر کوئی شک ہے جو ہسپتال ہسپتال کرے جا رہا ہے۔ حکیم صاحب اسے دیکھ رہے ہیں نا۔ تو منہ بند کر۔" وہ ندیم کی بات کاٹتا اب کے سخت لہجے میں بولا۔

" تم دونوں اب کمرے سے باہر جاؤ۔ میں نے اس کے زخموں پر مرہم لگا دیا ہے۔ صبح دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔" ان دونوں سے کہہ کر وہ پاس رکھے برتن سے پانی نکال کر ہاتھ دھونے لگے۔

" لیکن اس کا کیا ہوگا رات کو طبیعت خراب ہو گئی تو؟ "

" تم لوگ جاؤ میں ہوں اس کے پاس دیکھتا رہوں گا۔" انہوں نے تسلی دی۔

وہ دونوں اثبات میں سر ہلاتے فوراً اس چھوٹے سے کمرے سے باہر نکل گئے۔ جبکہ حکیم صاحب وہیں بیٹھے اس اجنبی شخص پر آیتیں پڑھ کر دم کرنے لگے تھے۔

۔*********۔

کمرے کی کھڑکی سے چھن کر آتی سورج کی کرنے سیدھا اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ جس کی تپش محسوس کرتے ہوئے اس کی پلکوں کی جھالر لرز اُٹھی۔ اس نے بھاری ہوتے سر کے ساتھ بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا تو خود کو انجان جگہ پر پایا تھا۔

چھوٹا سا کمرا جس میں لکڑی کا پرانا دروازہ لگا ہوا تھا۔ وہیں دائیں جانب ایک کونے میں پانی کا مٹکا بھی موجود تھا۔ پاس ہی لکڑی کی ٹیبل موجود تھی۔ جس پر جائے نماز اور تسبیح رکھی ہوئی تھی۔

کمرے میں یونہی نظر دوڑاتے ہوئے اس نے اُٹھنے کی کوشش کرنی چاہی پر جسم میں دوڑتی درد کی ایک شدید لہر نے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ 

" لیٹے رہو بیٹا۔" حکیم صاحب دروازے سے اندر آتے ہوئے مسکرا کر بولے۔

" تمہارے سر پر شدید چوٹ لگی ہے۔ کمر میں بھی گہرا زخم ہے اور بائیں ٹانگ کی ہڈی بھی ٹوٹ چکی ہے۔ باقی چھوٹے چھوٹے زخم بھی تمہارے جسم پر موجود ہیں۔ اس لیے بس آرام کرو۔"

وہ اس کے پاس آ کر کرسی پر بیٹھ گئے۔ ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑا مرہم اس کے بازو پر لگانے لگے۔ اس نے بغور ان کا جائزہ لیا۔ وہ اس وقت سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ سفید داڑھی سے سجے نورانی چہرے پر نرم سی مسکراہٹ تھی۔

" میں کہاں ہوں اور یہاں کیسے آیا؟ " نحیف سی آواز میں پوچھا۔

" تم درگاہ پر ہو۔ پانچ دن پہلے ناصر تمہیں یہاں لے کر آیا تھا۔"

" پانچ دن؟ "

" ہاں !! تم شدید زخمی تھے۔ سوتی جاگتی کیفیت میں پانچ دن گزارنے کے بعد تم اب مکمل طور پر ہوش میں آئے ہو۔" وہ مسکرا کر بولے۔

" اچھا کچھ اپنے بارے میں بتاؤ نام کیا ہے تمہارا؟ "

" میرا نام؟ " اس نے دھیرے سے دھرایا۔

" ہاں !! کیا ہے تمہارا نام؟ "

" یوسف !! "

" ہمم !! اچھا یہ بتاؤ یہ سب کیسے ہوا؟ "

" یہ سب۔۔۔"

ان کے سوال پر سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ یوسف نے چہرہ موڑ کر اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی طرف دیکھا جو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔

" اچھا چلو یہ باتیں بعد میں کرینگے۔ میں تمہارے لیے کچھ کھانے کیلئے لاتا ہوں۔"

اسے سوچ میں گم دیکھ کر وہ کہتے ہوئے اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ جبکہ ایک بار پھر وہ آنکھیں بند کرتا واپس نیند کی آغوش میں اُترتا چلا گیا تھا۔

۔*********۔

وقت پر لگا کر اس رفتار سے گزرا کہ سب کچھ پیچھے چھوٹتا چلا گیا۔ اس کے زخموں کو بھرتے بھرتے دوماہ گزر چکے تھے۔ اس دوران ندیم نے بہت کوشش کی تھی کہ پولیس کو خبر کر دی جائے مگر یوسف کی ساری کہانی جاننے کے بعد حکیم صاحب نے سختی سے اسے منع کر دیا تھا۔ حکیم صاحب نے بھی اس دوران اس کا بہت ساتھ دیا تھا۔ ان کی محبت اور اپنائیت دیکھتے ہوئے اس نے خود پر بیتی کہہ سنائی تھی۔

وقت یونہی گزرتا جا رہا تھا۔ حکیم صاحب نے اسے مشورہ بھی دیا تھا کہ واپس چلا جائے۔ زندگی یہیں ختم نہیں ہو جاتی آگے بڑھ جائے۔ اپنا گھر بنائے پر یوسف کیلئے اب وہاں کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ اس میں اب ہمت نہیں تھی کہ اپنا ٹوٹا بکھرا وجود لے کر وہ اپنے دوستوں کے سامنے جائے۔

گاؤں اُجڑ چکا تھا۔ ایک فقیر کی طرح اب اسے اس درد پر ہی رہنا تھا۔ جہاں اپنے مردہ جذبات اور زندہ وجود کا بوجھ وہ خود ہی اُٹھا سکے۔۔۔

" ممکن نہیں مجھ سے یہ طرزِ منافقت

دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں "

۔*********۔

" مجھے یقین نہیں آ رہا کیا کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کر سکتا ہے۔" علی اسے بےیقینی سے دیکھتے ہوئے بولا۔

" آپ کو کتنے سال ہو گئے یہاں یوسف؟ " اب کے سوال کاشف کی طرف سے تھا۔

" آٹھ سال۔ " وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

" کیا ان آٹھ سالوں میں آپ کا دل نہیں کیا باقی سب کی طرح زندگی گزارنے کا؟ کسی ایک کے جانے سے زندگی ختم تو نہیں ہوجاتی۔" علی نے افسرده سے لہجے میں کہا۔

" وہ بھی یہی کہتی تھیں۔" کہتے ہوئے ایک جاندار مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا۔

محبوب کا ذکر، اُس کا خیال ہی ہر دکھ تکلیف کو بھلا کر چہرے پر مسکراہٹ لانے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ یہ آج اس شخص کے سامنے بیٹھے دونوں نفوس نے جان لیا تھا۔

" وہ کہتی تھیں کوئی کسی کیلئے نہیں مرتا یوسف !! پر میں اُن سے پوچھنا چاہتا تھا۔ کیا کبھی اُنہوں نے مردہ روحوں کو دیکھا ہے؟ جو بظاہر چلتے پھرتے انسان کو زندہ لاش کر دیتی ہیں۔ کہ ایک سانس لیتے وجود کے سوا اور کوئی احساس جذبات باقی نہیں رہتا۔ کیا کبھی دیکھا ہے؟ "

اس نے کہہ کر مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔ دل نے اس لمحے خواہش کی تھی کہ کاش وہ اسے اس حال میں دیکھے اور جان لے کہ مر جانا زندہ رہنے سے کتنا آسان ہوتا ہے۔

" میں جانتا ہوں اُن کی شادی ہوچکی ہے۔ اب اُن کے بارے میں سوچنا " گناہ " لگتا ہے۔ لیکن اُن کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنا " حرام " لگتا ہے۔" بات ختم کرتا وہ ایسے خاموش ہو گیا۔ جیسے اب کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا ہو۔

علی جو اسے زندگی میں آگے بڑھنے کا مشورہ دینا چاہتا تھا، سمجھانا چاہتا تھا کہ یوں کسی بے وفا عورت کے پیچھے اپنی زندگی برباد نہ کرے۔ لیکن یوسف کی کہی آخری بات پہ سب بے معنی لگنے لگا تھا۔

" مسٹر یوسف حیدر !! محبت کی دنیا کے بادشاہ تم سب کیلئے دعا کرتے ہو پر آج میں تمہارے لیے دعا کرتا ہوں۔ تمہارا حوصلہ، تمہارا صبر، تمہارا انتظار کچھ بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ بہت جلد تمہیں وہ مل جائے گا جس کی تمنا تم برسوں سے اپنے دل میں لیے بیٹھے ہو۔" کاشف نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے دعا دی تھی۔

" اب کچھ نہیں ہوسکتا سب ختم۔" اس نے پھر مسکرا کر سر جھٹکا۔

" یقین رکھنے والوں کیلئے ہی معجزے ہوا کرتے ہیں یوسف!! " کاشف بھی مسکرایا تھا۔

یوسف خاموش ہو گیا کہ تبھی فضاء میں اُٹھتی فجر کی اذان کی گونج نے ان تینوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔

" چلو دوست رخصت ہونے کا وقت آن پڑا ہے۔ اب اجازت دو۔" کاشف اور علی اُٹھ کھڑے ہوئے تو یوسف بھی ان کے ساتھ ہی اُٹھ گیا۔

" اچھا لگا تم دونوں سے مل کر۔"

" یہ تو ہمیں کہنا چاہیئے بلکہ اگر یہ علی آج مجھے نہ لاتا تو میں کبھی جان ہی نہیں پاتا کہ اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے محبت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔" کاشف نے مسکرا کر کہتے ہوئے مصافحہ کیلئے ہاتھ آگے بڑھا جسے یوسف نے فوراً تھام لیا۔ علی نے بھی آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کیا۔ جس کے بعد دونوں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔ ان کے جاتے ہی یوسف وضو بنا کر نماز ادا کرتا، اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوا تھا۔ اتنے ماہ و سال میں بھی کبھی کوئی شکوہ اس کی زبان پر نہیں آیا تھا۔ اس نے صبر کیا تھا اور۔۔۔

" إِنَّ اللّٰه مَعَ الصَّابِرِینَ "

(بے شک اللّٰــــــــــــہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) 

سلام پھیر کر اس نے دعا میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا۔ جہاں سیاہ بادل اپنا رنگ بدل کر نئی صبح کو خوش آمدید کر رہے تھے۔ ہر صبح کی طرح اس صبح بھی ایک آس دل میں لیے وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔

" فقیرِ عشق ہوں اک در سے لگا بیٹھا ہوں

بھکاری ہوتا تو در در پہ پڑا ملتا میں "

۔*********۔

چاند کی چاندنی میں اُٹھتا سمندر کی لہروں کا رقص ماحول میں ایک فسوں سا طاری کر رہا تھا۔ ایسے میں وہ ساحلِ سمندر کی نرم ریت پر بیٹھی سامنے سمندر کی اُٹھتی لہروں کا شور کو سن رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے وجود کو چھوتے تازگی کا احساس دلا رہے تھے۔ اس نے چہرے پر آتی چند آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے چہرہ موڑ کر اپنے بائیں جانب دیکھا۔ برابر میں وہ بیٹھا پانی کی طرف چھوٹے چھوٹے پتھر اُچھال رہا تھا۔

وہ مسکرائی اور واپس پانی میں اُٹھتی لہروں کو دیکھنے لگی۔ چاند کی روشنی میں گیلی ریت پر بیٹھے وہ ایک دوسرے کا حصّہ لگ رہے تھے۔

" اتنے خاموش کیوں ہو تم؟ " اس نے پھر چہرہ موڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" کیونکہ آپ کو میرا بولنا نہیں پسند۔" وہ یونہی پانی کی طرف پتھر اچھالتا ہوا بولا۔

" میں نے ایسا کب کہا؟ " وہ حیران ہوئی۔

" یہی تو مسئلہ ہے کچھ کہتی نہیں اب آپ؟ "

" کیا الجھی الجھی باتیں کر رہے ہو۔"

" تو آپ سلجھا لیں۔" وہ کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔

" کہا جا رہے ہو؟ " اس نے پوچھا۔

" پتا نہیں۔" جواب دیتا وہ سمندر کی لہروں کی جانب بڑھنے لگا۔

" رک جاؤ۔" وہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" مت جاؤ۔"

اُس نے گردن موڑ کر دیکھا پر رکا نہیں، ساتھ ہی ماحول میں ایک آواز بلند ہوئی تھی۔

" الوداع !! "

اور اس لمحے چاند کی روشنی مدہم پڑتی بادلوں میں جا چھپی۔ اندھیرے سمندر کی بھپرتی لہریں شور مچاتی یوں اُٹھیں کہ ہر منظر کو بہا گئی۔

" رکو۔۔۔ یوسف !! "

جسمین نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ چہرہ فق ہو رہا تھا مانو یوں جسم میں خون کا ایک قطرہ نہ رہا ہو۔ اس نے نظریں گھما کر دیکھا پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اے سی کی ٹھنڈک میں بھی اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ وہ اُٹھ بیٹھی ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی تو پورا کمرہ روشنی سے جگمگا اٹھا۔

" اُف !! آخر کب جان چھوٹے گی ان خوابوں سے۔" اس نے سر ہاتھوں سے میں تھام لیا۔

ان آٹھ سالوں میں ایسے ہی خواب اس کی ہر رات کا حصّہ بن چکے تھے۔ وہ اپنی من پسند جگہوں پر اس کے ساتھ ہوتی اور ہر خواب کا انجام یہی ہوتا جس کے بعد وہ گھبرا کر آنکھیں کھول دیتی۔

" یااللّٰه !! آج تو دیر ہوگئی۔"

اس نے سامنے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا۔ فجر کا وقت نکلتا جارہا تھا۔ وہ فوراً بستر چھوڑتی باتھ روم میں چلی گئی۔ چند لمحے بعد وہ وضو بنا کر باہر آئی اور جائے نماز بیچھا کر نماز ادا کرنے لگی۔

" آج دیر سے اُٹھی ہو؟ "

جسمین نے سلام پھیر کر دروازے کی سمت دیکھا۔ جہاں بلاج کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

" جی بھائی بس آنکھ دیر سے کھلی۔" وہ جائے نماز اُٹھاتے ہوئے بولی۔

بلاج چلتا ہوا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا اور بغور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا ان آٹھ سالوں نے کتنا بدل کر رکھ دیا تھا اس کو۔

" مجھے گاؤں جانا ہے۔ زمینوں کو دیکھنے۔ واپس آنے میں دو تین دن لگ جائیں گے۔ تم حورین کے ساتھ مزار چلی جانا۔" وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

" پر بھائی میں کیسے؟ آپ انہیں ساتھ لے جائیں راستے میں ہی تو ہے۔" وہ پریشان ہوئی۔ ان آٹھ سالوں میں وہ مزار تک جانے والی ہر راہ سے منہ موڑ چکی تھی۔

" میں نے کہا نا مجھے وہاں دو تین دن لگیں گے۔ تم جاؤ گھر سے باہر نکلا کرو۔ انسان کی صحت کے لیے بھی اچھا رہتا ہے۔"  وہ اس کا گال تھپتھپا کر کہتا بغیر اس کا جواب سنے فوراً دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

جسمین وہیں کھڑی اس کی پشت کو دیکھ رہی تھی کہ تبھی ماضی کی ایک بھولی بھٹکی یاد نے اس کے ذہن کے دروازے پر دستک دی تھی۔

" بابا سائی آپ نے کس مصیبت کو گھر میں لاکر بٹھا دیا۔"

جسمین جو شادی کے بعد پہلی دفعہ گھر آئی تھی اور اب جہانگیر ملک سے ملنے ان کے پاس آ رہی تھی کمرے سے آتی دلاور کی آواز پہ دروازے پر ہی رک گئی۔

"تو کیا کروں یاسمین کی طرح اسے بھی مروا دوں؟ " جہانگیر ملک کی کرخت بھری آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی اس نے بے اختیار منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔

" بابا سائیں نے یاسمین بھابھی کو مروا دیا۔" وہ بے یقینی کی کیفیت میں بڑبڑائی۔ یہ انکشاف ہی ناقابلِ قبول تھا۔

" دلاور بھائی یہ شادی بلاج نے جسمین کی وجہ سے کی ہے۔ تاکہ سمیر اپنی بہن کا خیال کرتے ہوئے جسمین کو کبھی کوئی نقصان نہ پہنچائے اس لیے حورین کو تو برداشت کرنا پڑے گا۔" اب کے خاور کی آواز ابھری۔

وہ جو پہلے ہی جھٹکے سے باہر نہیں نکل پائی تھی۔ اس نئے انکشاف پر اس سے کھڑے رہنا بھی محال ہو گیا۔

" مجھے لگا تھا آپ مجھے سمجھیں گے۔ لیکن میں غلط تھی۔ محبت کے دعوے کرنے والا جو یاسمین بھابھی کے مرنے کے دو ماہ بعد ہی دوسری شادی کیلئے تیار ہو، وہ میری محبت کو کیا سمجھے گا۔" 

جسمین کو اپنی کہی بات یاد آئی۔ ساتھ ہی اسے شرمندگی بھی ہوئی۔ کتنے آرام سے وہ اسے کہہ گئی تھی کہ بلاج یاسمین سے محبت نہیں کرتا تھا۔ تبھی اتنی جلدی اُسے بھول کر آگے بڑھ رہا ہے۔ 

" بھائی نے میری وجہ سے یہ شادی کی اور میں ناجانے کیا سوچ بیٹھی تھی۔"

آنسوں بہاتے ہوئے اس نے سوچا کہ تبھی اندر سے آتی قدموں کی آواز پر وہ فوراً آنسوں صاف کرتے ہوئے وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ماضی کا دروازہ بند ہوا تھا اور وہ حال کی دنیا میں لوٹتی ہوئی سرد آہ بھر کر رہ گئی۔

" مجھے معاف کر دینا بھائی۔ ہمت نہیں مجھ میں آپ سے روبرو ہو کر معافی مانگ سکوں۔" وہ بڑبڑائی تھی۔

۔*********۔

" حدید چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ پھر چلنا ہے نا باہر۔"

ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے سے حورین اپنے پانچ سالہ بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولی۔ جو بیڈ پر بیٹھا کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔

" ہم کہاں جا رہے ہیں؟ " کھلونوں سے کھیلتے ہوئے ہی سوال کیا۔

" مزار پر جا رہے ہیں بیٹا۔"

" بابا تو چلے گئے۔ ہم کس کے ساتھ جا رہے ہیں؟ "

اس نے چہرہ اُٹھا کر معصومیت سے ماں کی پشت کو دیکھا جو آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھیں۔

" ہم پھوپھو کے ساتھ جا رہے ہیں۔ چلو اب جلدی سے اُٹھو۔" حورین نے اس کے پاس آکر اسے بیڈ پر کھڑا کیا۔

"میں پھوپھو سے تیار ہوں گا۔" حدید چہک کر کہتا فوراً بیڈ سے اُترا۔

" اچھا یہ لو کپڑے تو لے جاؤ اور پھوپھو دادو کے کمرے میں ہیں وہاں چلے جاؤ۔" حورین نے اسے کپڑے پکڑائے جسے لیتے ہی وہ خوشی سے چہکتا ہوا فوراً کمرے سے باہر نکل گیا۔

۔*********۔

بیڈ پر بیٹھی وہ خاموشی سے فائزہ بیگم کو دیکھ رہی تھی۔ جو تین سال سے فالج کے اٹیک کے باعث بستر سے لگی ہوئی تھیں۔ کافی عرصہ علاج کرانے کے بعد بھی کوئی دوا کام نہ آئی کہ وہ پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاتیں۔ ڈاکٹر ہونے کے باوجود بھی بلاج ان کیلئے کچھ نہیں کر سکا تھا۔ بے شک اللّٰه کے فیصلوں کے آگے انسان بے بس ہوجاتا ہے۔

" آہ امی !! ہم سب کو تو اپنے کیے کی سزا ملی پر نہ جانے آپ اور بھائی کس گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یا پھر یہ آزمائش ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔"

اس نے نم ہوتی آنکھوں کو صاف کیا اور ناشتے کے برتن اُٹھا کر کمرے سے باہر نکلنے لگی کہ سامنے سے حدید بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا۔

" آپ یہاں کیا کر رہی ہیں پھوپھو؟ "

" بیٹا میں دادو کو ناشتہ کرانے آئی تھی۔" وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

" اچھا مجھے تیار کر دیں پھر ہمیں مزار جانا ہے۔ ایسا ماما نے بولا ہے۔" کہتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑے کپڑے آگے کیے۔

" اچھا آپ اسے میرے کمرے میں لے کر جاؤ۔ میں ابھی برتن رکھ کر آتی ہوں۔"

جسمین کے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلاتا فوراً اس کے کمرے کی جانب بھاگ گیا جبکہ جسمین ناشتے کے برتن رکھنے نیچے کچن میں چلی گئی تھی۔

۔*********۔

وہ آج پھر اس گھر کے سامنے موجود تھا۔ جہاں سے اس کا چین، سکون، خوشیاں، راحتیں سب وابستہ تھیں۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اس نے اس در کو کھٹکھٹانا نہیں چھوڑا تھا۔ ابھی بھی وہ دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس نے ہاتھ بڑھا کر بیل بجائی۔ چند لمحوں بعد ہی دروازہ کھلا تھا۔ سامنے قمر بیگم کھڑی مسکرا کر اسے دیکھنے لگیں۔

" السلام علیکم !! "

" وعلیکم السلام !! بلاج بیٹا اندر آؤ۔" انہوں نے سائڈ پر ہوتے ہوئے اسے راستہ دیا۔

وہ آرام سے چلتا ہوا لاؤنج کی طرف بڑھا اور وہاں موجود صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔

" انکل کی طبیعت کیسی ہے؟ "

" اب ٹھیک ہے۔"

وہ کہتے ہوئے کچن کی جانب بڑھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد جب واپس آئیں تو ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھی۔

" داؤد آفس گیا ہے؟ "

" ہاں وہ آفس گیا ہے۔"

وہ بلاج کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں اور بغور اسے دیکھنے لگیں جو اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی بدلا نہیں تھا۔ جب اس کی شادی کا سنا تو فطری طور پہ ان کا رویہ اس کے ساتھ تلخ ہو گیا تھا۔ لیکن اس دوران بلاج کے پیار و خلوص نے یہ اچھے سے باور کرا دیا تھا کہ اس نے شادی ضرور کر لی ہے۔ مگر یاسمین اور اُس سے جڑے لوگوں کو بھولا نہیں ہے۔

" لبابہ کا فون آیا تھا؟ " اس نے سر اُٹھا کر قمر بیگم کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔

" ہاں آنے کا کہہ رہی تھی پر اس کی ساس کی طبیعت خراب ہو گئی تو آ نہیں سکی۔"

ان کی بات پر بلاج سمجھنے کے انداز میں سر ہلاتا واپس چائے پینے میں مصروف ہو گیا۔ لبابہ کی شادی کو ایک سال ہوگیا تھا۔ یہ رشتہ بھی بلاج نے ہی اپنے جان پہچان کے لوگوں میں کروایا تھا۔ رشتہ مناسب تھا۔ اس لیے قمر بیگم یا ظفر عباسی نے کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا تھا۔

" تمہارے بیٹے کی سالگرہ ہے نا اس مہینے میں؟ "

قمر بیگم کے سوال پر اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ ان کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔ بلاج نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" ہاں!! اس لیے آج حورین اُسے مزار پر لے کر جا رہی ہے۔"

" اچھا تم ان کے ساتھ نہیں جا رہے؟ " ایک اور سوال۔

" نہیں میں گاؤں جا رہا تھا دو تین دن کیلئے تو اس لیے آپ سے ملنے چلا آیا۔" اس نے مسکرا کر کہا۔ قمر بیگم بھی دھیرے سے مسکرا دیں۔

" اچھا کیا۔۔۔ میں نے تمہارے بیٹے کیلئے کچھ تحائف خریدے تھے پر تم ابھی جا رہے ہو تو بعد میں لے جانا۔"

" آنٹی !! "

اس نے چائے کا کپ ٹرے میں رکھا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ قمر بیگم بھی اس کے ساتھ ہی اُٹھ گئیں۔

" وہ گھر آپ کا بھی ہے۔ آپ خود آئے گا اُسے تحائف دینے۔" وہ ان کے ہاتھ تھام کر بولا۔

قمر بیگم خاموش ہی رہیں۔ ایک ماں کیلئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ اپنی بیٹی کی جگہ کسی دوسری عورت کو دیکھنا۔

" اچھا میں انکل سے مل آؤں پھر مجھے جانا بھی ہے۔"

بلاج مسکرا کر کہتا کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ قمر بیگم وہیں کھڑی نم آنکھوں سے اس کی پشت کو دیکھ رہی تھیں۔

" یاسمین کاش تم زندہ ہوتیں تو آج اس شخص کے ساتھ تم بھی اس گھر میں موجود ہوتیں۔" وہ سوچ کر رہ گئیں۔

۔*********۔

گاڑی تیز رفتاری سے دوڑتی ہوئی سیدھا اس درگاہ کے سامنے جا رکی تھی۔ اس نے گاڑی سے نکلتے ہی سیڑھیوں کی جانب دیکھا۔ آج بھی یہاں کا ماحول ایسا ہی تھا۔ جیسا آٹھ سال پہلے تھا۔ وہی چہل پہل، وہی رونق کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ پھر کیا تھا جو بدل گیا تھا؟

ہاں!! اس کا اپنا آپ بدل گیا تھا۔ اب وہ پہلے جیسی جسمین نہیں رہی تھی۔ جو اپنی منتوں مرادوں کیلئے یہاں کا رخ کیا کرتی تھی۔ اب یہ وہ جسمین تھی جس کی کوئی منتیں مرادیں ہی نہیں تھیں۔۔۔

" چلو جسمین کہاں گم ہو۔"

حوریں کی جھنجھلائی ہوئی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی جو سوچ کی دنیا سے باہر لے آئی۔

" کہیں نہیں۔ چلیں اب جلدی کریں جو کرنا ہے۔" جسمین بھی روکھے لہجے میں جواب دے کر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔

پیچھے ہی حورین اور حدید کے ساتھ سکینہ بی ہاتھ میں سامان پکڑے چل رہی تھیں۔

" آپ جائیں جا کر چادر چڑھا دیں۔ تب تک میں غریبوں میں سامان تقسیم کراتی ہوں۔"

جسمین کہتی ہوئی سکینہ بی کو اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے غریبوں کی جانب بڑھ گئی۔ جبکہ حورین حدید کو ساتھ لیے زنانہ حصے میں جا کر فاتحہ پڑھنے لگی تھی۔

" میں ان سب چیزوں کو نہیں مانتا اس لیے شادی کے بعد آپ مزار وغیرہ پر نہیں جائیں گی۔"

غریبوں میں سامان تقسیم کرتے ہوئے اسے یوسف کی کہی بات یاد آئی۔ اس نے نظریں اُٹھا کر چاروں طرف دیکھا۔ کوئی دیا جلا رہا تھا تو کوئی منت کا دھاگہ باندھ رہا تھا۔ اس کی نظر جالی دار سبز دیوار پر جا رکی۔

" سکینہ بی آپ باقی سامان تقسیم کر دیں میں ابھی آئی۔"

جسمین کہتے ہوئے فوراً اس جانب بڑھی۔ انگنت دھاگوں سے سجی سبز دیودار آج بھی ویسے ہی تھی۔

" ویسے اگر تم بعد میں کبھی یہاں آئیں تو تمہیں کیسے پتا چلے گا ان میں سے تمہارا دھاگہ کونسا ہے؟ " اسے یاسمین کی کہی بات یاد آئی۔

" یہ میں نے دیوار کے کونے پر باندھا ہے اور پھر اب تو اس پر یہ سیاہ نشان بھی موجود ہے۔" اب کے اسے اپنی آواز سنائی دی۔

اس نے دیوار کے کونے پر دیکھا۔ کئی دھاگوں کے بیچ پھنسا وہ سیاہ نشان والا دھاگا اب بھی موجود تھا۔ اس نے ہاتھ بڑا کر اس دھاگے کو چھوا۔

" او ہو !! کیا بات کر رہی ہو یہ صرف ایک دھاگا ہے اور ویسے بھی اللّٰه کو تمہاری فریادیں اور دعائیں سنے کیلئے ان دھاگوں کی ضرورت نہیں۔" یاسمین نے اسے سمجھانا چاہا تھا۔

" آپ نے ٹھیک کہا تھا یاسمین بھابھی۔ اللّٰه کو ان چراغوں کی، دھاگوں کی ضرورت نہیں۔ میں ہی شرک کر بیٹھی تھی۔"

وہ بڑبڑائی ساتھ ہی دھاگے کی گراہ ڈھیلی کرتے ہوئے اس نے ایک جھٹکے سے اُسے کھینچ لیا۔ یہی وقت تھا، یہی مقام تھا۔ جب آٹھ سال پہلے وہ یہاں دھاگہ باندھنے آئی تھی اور آج آٹھ سال بعد یہی دھاگہ کھولنے۔۔۔

جسمین نے نیچے نظریں جھکا کر دیکھا۔ دھاگہ کھل کر زمین پر جا گرا تھا۔ اس نے نظریں ہٹالیں اور سکینہ بی کی طرف بڑھنے لگی کہ سامنے سے حورین حدید کا ہاتھ تھامے اس کے پاس چلی آئی۔

" چلیں؟ "

" نہیں !! آگے چبوترے پر ایک بابا بیٹھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہ جو بھی دعا کرتا ہے۔ پوری ہو جاتی ہے۔ مجھے ابھی ان سے ملنا ہے چلو۔" حورین نے حکم دینے والے انداز میں کہا۔

" کیوں؟ آپ تو یہاں بھائی کے ساتھ آتی رہتی ہیں۔ وہ لے کے نہیں گئے بابا کے پاس؟ " جسمین نے اپنی ناگواری دباتے ہوئے پوچھا۔

" نہیں !! بلاج سے بھی کہا تھا کہ مجھے اُس بابا کے پاس لے کر چلیں۔ لیکن میری سنتے ہی کہاں ہیں۔ وہ تو گاڑی سے باہر نکل کر مزار کی سیڑھیاں تک نہیں چڑھتے تھے کہ اُن کے پاس ٹائم نہیں۔ میں ہی اکیلے آ کر چادر چڑھاتی تھی۔" وہ منہ بنا کر بولی۔

جسمین نے چونک کر اسے دیکھا۔ ایک یاسمین تھی جس کی ہر بات کو پورا کرنے کیلئے وہ بابا سائیں تک سے لڑ گیا تھا اور ایک حورین ہے۔ جس کے بقول بلاج اس کی سنتا ہی نہیں۔۔۔

" آخر ایسی بھی کیا وجہ تھی؟ " جسمین نے سوچا اور جو جواب اسے ملا وہ تھا " محبت " جو بلاج کو یاسمین سے تھی یا یوں کہو کہ یاسمین سے ہے۔۔۔

" اب کس سوچ میں گم ہو گئیں۔ چلو میں آج مل کر ہی جاؤ گی۔" وہ دوٹوک انداز میں کہتی ہوئی حدید کا ہاتھ تھامے آگے بڑھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جسمین کو اس کے پیچھے چلنا پڑا۔

" آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کمرے میں جا کر لیٹ جائیں۔"

وہ حکیم صاحب کو دیکھتے ہوئے بولا۔ جو چبوترے پر اس کے ساتھ بیٹھے کبوتروں کو دانہ ڈال رہے تھے۔

" مجھے معلوم ہے میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم مجھے بستر سے ہی لگا دو۔" وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولے۔

" میری اتنی مجال کہاں۔" یوسف بھی مسکرایا۔

" مجھے کچھ دوائیاں بنا کر رکھنی ہیں۔ ناصر کو بھیجا تھا جڑی بوٹیاں لانے لگتا ہے شام تک ہی آئے گا۔" وہ پریشانی سے کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

" فکر نہیں کریں۔ وہ آتا ہے تو میں آپ کو بتا دوں گا۔" یوسف نے انہیں تسلی دینی چاہی۔

" ٹھیک ہے پھر میں کمرے میں جاتا ہوں۔" وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے اُس چھوٹے سے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

ان کے جاتے ہی یوسف نے پاس رکھا دانہ اُٹھایا اور کبوتروں کو ڈالنے لگا۔ ابھی چند سیکنڈز ہی گزرے تھے کہ سامنے سے ندیم آتا دکھائی دیا۔

" اور یوسف کیا ہو رہا ہے؟ "

" کچھ نہیں تم سناؤ گھر میں سب کیسے ہیں؟ "

" ویسے تو سب ٹھیک ہے پر زوجہ نے کہا ہے بابا جی سے دعا کروا لوں۔" یوسف کے پاس بیٹھتا وہ ہنستے ہوئے بولا۔ صاف ظاہر تھا وہ مذاق اڑا رہا ہے۔

" یار !! میں ایک عام سا خطا کار بشر ہوں کوئی فرشتہ نہیں لوگ کیسے آنکھیں بند کرکے یوں کسی کے بھی مرید بن بیٹھتے ہیں۔ جس اللّٰه کی وہ عبادت کرتے ہیں میں بھی اُسی اللّٰه کی عبادت کرتا ہوں۔ وہ جو کافروں کی بھی آواز سنتا ہے تو ان کی کیوں نہیں سنے گا۔ یہ لوگ سوچتے کیوں نہیں؟ " یوسف نے تاسف سے کہتے ہوئے سر جھٹکا۔

" بیٹا ہر کوئی آسانی تلاش کرتا ہے۔ اب کون مصلہ بچھائے، کون دعا مانگے۔ انہیں بیوقوف لوگوں نے تو ان دو نمبر پیر فقیروں کی جیبیں چمکا رکھی ہیں۔ پھر یہ تو عام سی بات ہے اب تو مذہب کی اڑ میں ناجانے کیا کچھ ہونے لگا ہے۔" وہ افسوس کرتا ہوا بولا۔

" میں تنگ آ گیا ہوں۔ دل کرتا ہے یہاں سے چلا جاؤ پر دنیا سے بھی اب وحشت ہونے لگی ہے۔ ناجانے یہ سب کب ختم ہو گا۔" کہتے ہوئے یوسف آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔

اسے یاد تھا وہ دن جب ایک عورت اپنے بیٹے کو لے کر حکیم صاحب کے پاس آئی تھی کہ اُس کا بیٹا بیمار ہے کوئی علاج کام نہیں آرہا تب اُس ماں کی تکلیف دیکھتے ہوئے اس نے ویسے ہی اُس کیلئے دعا کر دی تھی پر کیا پتا تھا اس کی دعا ایسا رنگ لائے گی کہ عقیدت رکھنے والا ہر شخص اس کے در کا مرید بن جائے گا۔ اُس دن سے یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیا۔ جس یوسف کی اپنی دعائیں قبول نہیں ہوئی تھیں آج وہ دوسروں کیلئے دعاؤں کی قبولیت کا سبب بن گیا تھا۔

"اب یہ سب کبھی ختم نہیں ہوگا وہ دیکھو سامنے وہ عورتیں آ رہی ہیں۔"

ندیم نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔ جہاں ایک عورت تیزی سے ان کی جانب بڑھ رہی تھی جبکہ پیچھے دوسری بچے کا ہاتھ پکڑے آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔

" رقصِ سماء ہے

کہ لمحہِ ملن ہے "

یوسف نے نظریں گھما کر اس طرف دیکھا اور اسی لمحے حدید کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتی جسمین رک کر حدید کی طرف جھکی تھی۔

" پھوپھو میرے جوتے کی لیس کھل گئی۔"

" لاؤ میں باندھ دیتی ہوں۔" جسمین اس کے جوتے کی لیس باندھنے لگی۔ سر پر موجود دوپٹے نے اس کا چہرہ مکمل طور پر چھپا دیا تھا۔ چبوترے پر بیٹھا یوسف سرسری سی نظر ان پر ڈالتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ فضاء میں اذان کی آواز جو گونجنے لگی تھی۔

" ندیم ظہر کی اذان ہو رہی ہے۔ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔" وہ کہتا ہوا کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

" دعا واجب ہے

کہ لمحہِ ہجر ہے"

" سنیں یہاں بابا بیٹھتے ہیں نا؟ " حورین نے ندیم کے سامنے جاکر پوچھا۔

" ہاں !! پر وہ تو گئے ظہر کی نماز ادا کرنے۔ اب آپ انتظار کرسکتی ہیں تو کر لیں۔" وہ ارد گرد دیکھتا لاپرواہی سے بولا اور آگے بڑھ گیا۔

" اف !! اب کیا کروں۔" حورین نے اپنا ماتھا چھوا۔

" کیا ہوا؟ نہیں بیٹھے؟ " اس کا پریشان سا چہرہ دیکھ کر جسمین نے قریب آتے ہوئے پوچھا۔

" وہ نماز پڑھنے گئے ہیں۔ ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔"

" کیا !! بالکل نہیں۔ واپس جانے میں بھی وقت لگ جائے گا مجھے نماز بھی پڑھنی ہے اور پھر امی۔۔۔ واپس چلیں۔" اس نے صاف انکار کیا۔

" میں نے کہا نا مجھے ملنا ہے۔" حورین نے گھور کر اسے دیکھا " نہ" سننے کی عادت جو نہیں تھی۔

" سوری بھابھی پر میں جا رہی ہوں۔ آپ رک کر انتظار کریں۔" جسمین کہتی ہوئی حدید کا ہاتھ تھامے واپسی کیلئے مڑ گئی۔ ناچار حورین بھی جلتی کلستی اس کے پیچھے چل پڑی۔

۔*********۔

وہ کچن میں کھڑی کام میں مصروف تھی جب باہر سے آتی بیل کی آواز پر ہاتھ صاف کرتی تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ہی تھکا ہارا سا نوید کھڑا تھا۔

" اتنی دیر لگادی آج آنے میں۔" سلام دعا کے بعد صوبیہ اس کے پیچھے چلتے ہوئے بولی۔

" جنید اور حذیفہ سے ملنے گیا تھا۔" وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا لاؤنج میں صوفے پر جا بیٹھا۔

" یوسف بھائی کے سلسلے میں؟ "

صوبیہ نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔ آٹھ سال گزر گئے تھے۔ مگر اب تک ان تینوں نے اُسے ڈھونڈنا ترک نہیں کیا تھا۔

" امی اور تانیہ (نوید کی بیٹی) کہاں ہیں؟ " نوید نے بات بدلنی چاہی۔

" وہ دونوں سو رہی ہیں۔ لیکن میں نے جو پوچھا ہے اُس کا جواب دیں۔ بات نہ بدلیں۔" وہ بھی اسی کی بیوی تھی۔ اس لیے اس کا بات بدلنا فوراً پکڑ لیا۔

" ہاں !! یوسف کے سلسلے میں ملنے گیا تھا۔" وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے سکون سے بولا۔

" دیکھیں نوید آپ یقین کیوں نہیں کر لیتے یوسف بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔"وہ سمجھاتے ہوئے بولی۔

" اگر کچھ اچھا نہیں بول سکتی تو بکواس بھی مت کرو۔ جاؤ جا کر پانی لا کر دو۔" وہ ایک دم بھڑک اُٹھا۔

" نوید پولیس نے۔۔۔"

" کیا پولیس نے؟  پولیس نے کہا سمندر میں ڈوب کر مرنے والا شخص یوسف تھا تو میں آنکھیں بند کر کے یقین کر لوں جبکہ اُس کی لاش تک پانی سے نہیں نکال سکے۔" صوبیہ کی بات کاٹ کر وہ بولا نہیں غرایا تھا۔

جس دن یوسف غائب ہوا تھا۔ اسی دن ایک اور حادثہ پیش آیا تھا۔ ساحلِ سمندر پر ایک شخص نے پانی میں ڈوب کر خودکشی کر لی تھی۔ رات بھر تلاش کے بعد بھی اس شخص کی لاش نہیں ملی تھی اور نہ یہ پتا چل سکا تھا کہ وہ شخص کون تھا۔ لیکن جب نوید نے یوسف کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس اسٹیشن میں درج کروائی تو چند دن یوسف کو تلاش کرنے کے بعد پولیس نے یہ کہہ کر کیس بند کر دیا کہ ساحلِ سمندر میں ڈوب کر خودکشی کرنے والا شخص یوسف ہی تھا۔ نوید کے ساتھ ساتھ جنید اور حذیفہ کو بھی غصّہ تو بہت آیا تھا پر اس کرپٹ ادارے کا کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اس لیے تینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یوسف کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا۔ ہر وہ جگہ جہاں یوسف پایا جا سکتا تھا انہوں نے چھان ماری تھی۔ ان آٹھ سالوں میں کئی کئی بار ایک آس لیے ہر اُس جگہ گئے تھے جہاں یوسف ہوسکتا تھا پر ہر بار انہیں ناکامی ہی ملی تھی۔

" نوید یوسف بھائی بچے نہیں تھے جو کہیں کھو گئے ہیں اور تم انہیں ڈھونڈتے پھرو۔" صوبیہ اب کے تھکے ہوئے انداز میں بولی۔ چار سال ہونے والے تھے شادی کو اور ان چار سالوں میں جب بھی ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا اس ایک بات کو ہی لے کر ہوا تھا۔

" میں تم سے جھگڑا نہیں کرنا چاہتا اس لیے اگر میری پریشانی ختم نہیں کرسکتی تو بڑھاؤ بھی مت جاؤ یہاں سے۔" ہاتھ کی مٹھی بنائے وہ غصّہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔

" اچھا ٹھیک ہے اب کچھ نہیں بولتی۔ جائیں جا کر فریش ہو جائیں تب تک میں کھانا لگاتی ہوں۔"

وہ منہ بناتی ہوئی کچن کی جانب بڑھ گئی۔ نوید نے گھور کر اس کی پشت کو دیکھا پھر خود بھی اُٹھ کر کچن میں آیا اور فریج میں سے پانی کی بوتل نکال کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ مگر جاتے جاتے بھی صوبیہ کو گھوری سے نوازنا نہیں بھولا تھا۔

" اف !! پانی تو دینا ہی بھول گئی۔" دانتوں میں زبان دباتی، وہ بڑبڑائی۔

۔*********۔

کمرے میں بیڈ پر بیٹھی وہ کوئی کتاب پڑھ رہی تھی جب حورین کے کمرے سے آتی حدید کے رونے کی آواز اسے اپنی جانب متوجہ کر گئی۔

" یہ کیوں رو رہا ہے؟ " وہ کتاب وہیں بیڈ پر چھوڑتی، کمرے سے باہر نکل کر حورین کے کمرے کی جانب بڑھی۔ دروازے پر پہنچ کر دیکھا تو حورین اُسے ڈانٹ رہی تھی۔

" کیا ہوا بھابھی کیوں ڈانٹ رہی ہیں؟ " جسمین نے حدید کی جانب بڑھتے ہوئے پوچھا۔ حدید کا رونا اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

" اس نے اتنی مہنگی نائٹ کریم کی شیشی پھینک کر توڑ دی۔ اب میں کیا لگاؤ۔"

وہ غصّے سے چلاتے ہوئے بولی اور ایک بار پھر حدید کی طرف بڑھنے لگی تھی مگر اس سے پہلے ہی جسمین نے جھک کر حدید کو گلے سے لگا لیا۔

" کیا ہو گیا ہے بھابھی۔ کل نئی لے آئے گا۔ ایک رات نہیں لگائیں گی تو کچھ ہو نہیں جائے گا۔" جسمین کا کہنا تھا کہ وہ مزید بھڑک اٹھی۔

" بی بی میں اپنی خوبصورتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ آج جو اپنے شوہر کے دل میں اُتری ہوئی ہوں اس بناؤ سنگھار کی وجہ سے ہے۔ ورنہ آج میں بھی تمہاری طرح بھائی کے گھر پر پڑی ہوتی۔ ہنہہ !! خود تو پانچ سال گزارنے کے بعد بھی شوہر کے دل میں جگہ بنا نہیں سکی۔"

حورین کہتے ہوئے آخر میں دھیرے سے بڑبڑائی لیکن آواز اتنی اونچی تھی کہ جسمین کا دل چیر گئی تھی۔ حدید کا ہاتھ پکڑے وہ سیدھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" اول تو یہ گھر میرا ہے، میرے نام ہے اور جہاں تک رہی حُسن کی بات، اتنا بھی غرور اچھا نہیں ہوتا بھابھی۔ غرور صرف اللّٰه کی ذات کو جچتا ہے۔ اُس کے بندو کو نہیں۔" وہ ضبط کرتی ہوئی بولی۔

" جاؤ بی بی !! تمہارے لیکچر کی ضرورت نہیں اور ہاں میں حدید کی ماں ہوں۔ اسے کیسے سنبھالنا ہے اچھے سے جانتی ہوں۔ تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔"

کہتے ہوئے اس نے حدید کو اپنی طرف کھینچا۔ جس پر حدید کا ہاتھ جسمین کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس نے ایک نظر اپنے خالی ہاتھ کو دیکھا۔ آنکھوں میں تیزی سے آنسو جمع ہونے لگے تھے۔ وہ فوراً آنسوؤں پر بندھ باندھتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

۔*********۔

حورین کے کمرے سے نکل کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی تھی اور اب کھڑکی کے سامنے کھڑی افق پر نظر آتے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ حورین کی باتوں نے اس کے زخموں کو ایک بار پھر سے ہرا کر دیا تھا۔

جسمین جانتی تھی۔ وہ دل کی بُری نہیں ہے۔ بس کچھ حسن کا غرور ہے، کچھ غصّے کی تیزی اس لیے بنا سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے بول جاتی ہے اور کل جب اپنے لفظوں کا احساس ہوگا وہ معافی بھی مانگ لے گی۔ لیکن اپنے دل کو کیسے سمجھاتی جو حورین کی باتوں پر خون کے آنسو رونے لگا تھا۔ کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔ وہ یونہی آسمان کی طرف دیکھتی ماضی کو سوچنے لگی۔

" کہاں جا رہے ہیں آپ؟ "

کھڑکی پر پردے ڈال کر وہ مڑی تو سمیر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا باہر جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا۔ کل رات کا گھر سے نکلا وہ آج شام میں ہی تو لوٹا تھا اور تب سے اب تک اپنی نیند پوری کرنے کے بعد ایک بار پھر باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔

" تم سے کتنی بار کہا ہے میرے معاملے میں ٹانگ مت اڑایا کرو اپنے کام سے کام رکھو۔" وہ آئینے میں سے اسے دیکھتے ہوئے دانت پیس کر بولا۔

" میں بیوی ہوں آپ کی روک نہیں رہی لیکن جاننے کا پورا حق رکھتی ہوں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔" وہ بےتاثر چہرے سے اس کی پشت کو دیکھتی ہوئی دھیرے سے بولی۔ یہ رویہ تو وہ شادی کے پہلے دن سے برداشت کر رہی تھی۔

" بیوی ایک اولاد تک تو دے نہیں سکی اور خود کو بیوی کہتی ہو۔" سمیر طنزیہ لہجے میں بولا۔

" آپ۔۔۔ آپ اس بات کا ذمہ دار مجھے نہیں ٹھہرا سکتے۔ شادی کو پانچ سال ہونے والے ہیں۔ لیکن ان پانچ سالوں میں پانچ دن بھی آپ نے میرے ساتھ بیٹھ کر کبھی ٹھیک سے بات تک نہیں کی۔ سارا وقت گھر سے باہر رہتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو ایک نظر بھی مجھ پر ڈالنا گوارہ نہیں کرتے۔" کہتے ہوئے جسمین کی آواز رندھ گئی۔

ان سالوں میں یہ طعنے وہ کرن عالمگیر کے منہ سے بھی کئی بار سن چکی تھی۔ لیکن کیا کہتی کہ ان کا بیٹا ہی اسے وقت نہیں دیتا۔

" ناشکری عورت !! اگر اتنا ہی مسئلہ ہے تو آؤ تمہارے سارے مسئلے ختم کر دوں۔"

جسمین کا بازو پکڑ کر وہ اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا۔

" چھوڑیں یہ کیا کر رہے ہیں؟ کہاں لے جا رہے ہیں؟ جھوڑیں۔۔۔"

وہ چلاتے ہوئے مسلسل خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی مگر سمیر کان بند کیے سیڑھیوں سے نیچے اُترتا اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا۔

" جاؤ اپنے بھائی کے پاس۔ تمہاری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ویسے بھی تمہارے اُس باپ اور دوسرے بھائیوں کی وجہ سے برداشت کر رہا تھا۔ پر اب مزید یہ ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں۔"

دروازے کے سامنے پہنچ کر وہ اس کا بازو چھوڑتے ہوئے دھاڑا۔ جسمین فق پڑتے چہرے سے اسے دیکھے گئی پھر ہمت مجتمع کرتی گویا ہوئی۔

" میں آپ کی بیوی ہوں کہیں نہیں جا رہی اور میرا نہیں تو اپنی بہن کا خیال کریں اُس گھر میں آپ کی بہن بھی رہتی ہے۔"

جسمین نے ڈرانا ضروری سمجھا جبکہ وہ اچھی طرح سے جانتی تھی اس کا بھائی سمیر کی طرح کم ظرف نہیں۔ وہ کبھی ایک عورت سے بدلہ نہیں لے گا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی اس حویلی کے مردوں کو بےحسی اور خودغرضی باپ دادا کی وراثت سے ملی تھی۔

" اوہ !! اچھا دیکھتا ہوں تیرا بھائی کیا کرے گا۔" وہ غرایا۔

ان کی آوازیں سن کر کرن عالمگیر اپنے کمرے سے باہر نکل آئی تھیں۔ گھر کے سارے ملازمین بھی کام چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔

"بیٹا یہ کیا کر رہے ہو؟ " کرن عالمگیر نے ٹوکا۔

بھائی کو نہ سہی ماں کو تو بیٹی کا خیال تھا۔ وہ ان نزاکتوں کو سمجھتی تھیں کہ اگر جسمین کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو ان کی اپنی بیٹی کی زندگی بھی تباہ ہو جائے گی۔ آخر وٹے سٹے کا ایک یہی تو سب سے بڑا نقصان ہے۔

"میں سمیر عالمگیر اپنے پورے ہوش و حواس میں جسمین ملک کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔ طلاق دیتا ہوں۔۔۔ طلاق دیتا ہوں۔"

اسکے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ جو جسمین کو اپنے کان میں اُنڈلتا محسوس ہوا۔ وہ بےیقینی کا مجسمہ بنی ساکت نظروں سے اس خود غرض شخص کو دیکھ رہی تھی۔ جس نے بنا کسی غلطی کے اسے سزا سنا دی تھی۔

" نکلو اب یہاں سے دیکھتا ہوں تیرا بھائی کیا کرتا ہے۔"

سمیر نے ہاتھ سے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ پر جسمین کے کانوں تک تو اس کی آواز پہنچ ہی نہیں رہی تھی اسے تو اپنے الفاظ سنائی دے رہے تھے۔

" دیکھو یوسف مجھے معاف کردو۔ پلیز یہاں سے چلے جاؤ۔"

ہاں !! اس نے بھی یوسف کو اپنے گھر سے چلے جانے کو کہا تھا اور آج سود سمیت قسمت نے اسے سب لوٹا دیا تھا۔ یوں تو اسلام میں سود حرام ہے۔ لیکن مکافات عمل ایک ایسا کاروبار ہے جس میں سب کچھ سود سمیت ہی لوٹایا جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ خوشیاں ہوں یا غم۔۔۔

" نکلو یہاں سے کوئی جگہ نہیں اب یہاں تمہاری۔"

سمیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی جانب دھکیلا، وہ لڑکھڑاتی ہوئی سیدھا چوکھٹ کے پار جا گری تھی اور اس کے ساتھ ہی وہ سوچوں کے دلدل سے نکلتی حال میں لوٹ آئی تھی۔

" کافی عرصہ میں یہ ہی سوچتی رہی کہ سمیر نے مجھے کس بات کی سزا دی۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں اُس کے دل میں جگہ نہیں بنا پائی۔" اس نے خود کلامی کرتے ہوئے گولڈن بریسلٹ کو دیکھا جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا اس کی کلائی پر موجود تھا۔

" ہر بار سوچنے کے بعد مجھے ایک ہی جواب ملتا تھا کہ تمارا دل اُجاڑ کر میں دوسرے کی دنیا کیسے آباد کر پاتی۔ میرے ساتھ جو ہوا وہ میری کی گئی زیادتیوں کی وجہ سے تھا جو میں تمہارے ساتھ کر گئی۔" اس نے سرد آہ بھر کر اپنا سر کھڑکی سے ٹکا دیا۔ نظر پھر آسمان کی طرف اُٹھ گئی تھیں۔

" سب کچھ جانتے ہوئے بھی تمہیں امید دلائی اور پھر امید دلا کر چھوڑ دیا۔ کتنی تکلیف ہوئی ہوگی تمہیں اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب طلاق کے تین بول میرے منہ پر مار کر سمیر نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اُس سے تو میری کوئی دلی وابستگی نہیں تھی مگر مجھے پھر بھی تکلیف ہوئی تھی۔ لیکن تم سے۔۔۔ تم سے تو محبت کی تھی میں نے، امیدیں دلائی تھیں۔ پھر تمہارے دل پر کیا گزری ہوگی۔" ایک بار پھر اس نے سوچتے ہوئے نظریں اپنے ہاتھ میں موجود بریسلٹ پر مرکوز کر دیں۔

" بس ایک بار مل جاؤ یوسف !! بس ایک بار تاکہ میں تم سے اپنی ہر زیادتی کی معافی مانگ سکوں۔" تصور میں یوسف کو مخاطب کرتی، وہ بالآخر سسک اُٹھی۔ 

۔*********۔

" کیا یار اچھا بھلا گھر پر نیند پوری کر رہا تھا تو نے بلا لیا۔" جنید نے لاؤنج میں موجود صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

اتوار کے باعث وہ گھر پر اپنی نیند پوری کرنے میں مگن تھا۔ مگر نوید کی کال آتے ہی اسے بستر چھوڑ کر اس کے پاس آنا پڑا اور یہی حال کچھ حذیفہ کا بھی تھا۔

" تم لوگ بس نیندیں پوری کرتے رہو۔" وہ چڑ کر بولا۔

" اچھا چل غصّہ نہ کر اور بھابھی سے بول کچھ کھانے کو لا دیں۔" جنید نے ایک انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔ نوید نے ناگواری سے اسے دیکھا۔

" صوبیہ تانیہ کے ساتھ گھر گئی ہے رات کو آئے گی اور امی کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے گھر سے کھا کر آنا تھا۔"

" اچھا بس باہر چلتے ہیں وہیں پر کچھ کھا لینگے۔" جنید کا منہ کھلتے دیکھ حذیفہ نے ٹوکا۔

" چلو پھر چلیں۔"

جنید اُٹھ کھڑا ہوا اس کے ساتھ ہی نوید اور حذیفہ بھی کھڑے ہوتے گھر سے باہر نکل گئے۔ چند قدموں کے فاصلے پر ہی چائے کی دوکان تھی وہ تینوں وہاں چلے آئے۔

" چھوٹے تین کپ چائے ساتھ میں کچھ کھانے کیلئے بھی۔" نوید نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کام کرتے ملازم کو آواز لگائی پھر ان دونوں کی جانب متوجہ ہوا۔

" جسمین کا کچھ پتا چلا؟ "

" یار تو کیوں اُن کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ یوسف کو ڈھونڈنے کے بجائے اب تو مس جسمین کے پیچھے پڑ گیا۔" حذیفہ جھنجھلا کر بولا۔

" ہاں تو اب تک میں اس امید پر خاموش تھا کہ یوسف مل جائے گا مگر اب نہیں، میں اُس عورت کو چھوڑوں گا نہیں۔ اگر سمندر میں ڈوب کر مرنے والا شخص واقعی یوسف تھا تو اُس کی موت کی ذمہ دار وہ عورت تھی۔" وہ مٹھیاں بھینچے غصّہ ضبط کرنے لگا۔

" مس جسمین کی شادی ہوگئی تھی۔ کہاں ڈھونڈے گا تو انہیں؟ ہمارے پاس تو اتنا پیسہ بھی نہیں کہ کسی انویسٹی گیٹر کے زریعے ہی معلوم کر سکیں، دونوں کہاں ہیں۔ اوپر سے جسمین کے گھر والوں نے اپنا گھر بھی بدل لیا اب کہاں رہتے ہیں یہ بھی خبر نہیں۔" جنید نے اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ 

جسمین کے بارے میں اتنی معلومات بھی نوید نے ہی حاصل کی تھی۔ اس کا یوں جسمین کو تلاش کرنا جنید اور حذیفہ کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ ان دونوں کو بس یوسف سے مطلب تھا۔ باقی جسمین کا کیا ہوا، کس سے شادی ہوئی اور اُس کے گھر والوں نے اپنی حویلی چھوڑ کر کہاں گھر لیا؟ یہ سب جاننے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ البتہ جسمین کے گھر والوں نے حویلی کیوں چھوڑی یہ وہ تینوں اچھے سے جانتے تھے اور سن کر دکھ بھی ہوا تھا۔

" تم لوگ کچھ بھی کہو، بس ایک بار مجھے وہ عورت نظر آجائے چھوڑوں گا نہیں۔"

نوید کی بات پر اب کے وہ دونوں خاموش ہی رہے جان جو گئے تھے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

" اچھا چلو چائے پیو پھر چلتے ہیں یوسف کی تلاش میں۔" حذیفہ نے چائے کا کپ اُٹھاتے ہوئے کہا۔ جو ابھی ابھی دکان کا ملازم ان کی ٹیبل پر رکھ کر گیا تھا۔

" ہاں ٹھیک ہے۔"

نوید نے بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اپنا کپ اٹھا لیا جبکہ جنید غائب دماغی سے بیٹھا اپنے سامنے رکھے بھانپ اُڑاتے کپ کو گھور رہا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوسف کے ملنے کی امید دم توڑنے لگی تھی۔

تپتی دوپہر میں اپنے آبائی گاؤں کی سڑکوں پر چلتا ہوا وہ اس شہرِ خموشاں کے سامنے آ کر کھڑا ہوا، قدم تھے کہ تھم سے گئے۔ کچھ لمحے وہ وہیں کھڑا اپنی ہمت مجتمع کرتا رہا پھر ایک گہرا سانس لیتا وہ قبرستان میں داخل ہو گیا۔ اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ قدم اٹھاتا بائیں کنارے پر واقع ان پھولوں سے ڈھکی قبروں کے قریب جا پہنچا اور نم ہوتی آنکھوں سے قبروں کو دیکھتا وہ وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

" بابا !! " لب ہلے۔

اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ قبر پر رکھا۔ جیسے کسی کا لمس محسوس کررہا ہو۔ جیسے کسی اپنے سے مل رہا ہو۔ وہ اپنا جو آج منوں مٹی تلے دفن تھا۔

" بلاج میرے بچے مجھے فخر ہے تم پر۔" اسے جہانگیر ملک کی آواز سنائی دی۔

" اے میرے چھوٹے، میرا شیر!! " خاور اسے کندھے پر اُٹھائے پورے گھر میں گھوم رہا تھا۔

" بابا سائیں آپ نے اسے سر چڑھا رکھا ہے۔" دلاور کی خفگی بھری آواز ابھری۔

پھولوں سے ڈھکی قبر پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتے ہوئے بچپن سے لے کر جوانی تک کی ایک ایک یاد اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی۔ گلاب کی نم پتیوں کو چُھوتا ہوا اس کا ہاتھ جب قبر پر لگی تختی پر گیا تو ایک آواز اس کے کانوں میں گونج اُٹھی۔

" بلاج میرے بچے مجھے معاف کردو۔ میں نے تم سے تمہاری خوشیاں چھین لیں۔"

وہ قبر پر سر رکھ کر بیٹھ گیا۔ اس کا دل رو رہا تھا۔ بچھڑنے والے کو یاد کررہا تھا کہ تبھی اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر مٹی میں جذب ہوگیا۔

" میں نے آپ تینوں کو معاف کردیا۔ لیکن اصل مجرم تو آپ یاسمین اور اُس کے گھر والوں کے تھے۔" وہ دھیرے سے بڑبڑایا۔

بار بار اس کی نظروں میں خون سے لت پت جہانگیر ملک کا وجود سامنے آ رہا تھا۔ جو اس کے سامنے ہاتھ جوڑے معافی مانگ رہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور خود کو ماضی کی لہروں میں بہنے دیا۔

" جہانگیر ملک زندہ باد !! "

" جہانگیر ملک زندہ باد !! "

تقریر کے ختم ہوتے ہی لوگوں کا حد سے زیادہ ہجوم کھڑا اب یہ نعرہ لگا رہا تھا۔ سامنے ہی اسٹیج پر کھڑے جہانگیر ملک ہاتھ اوپر اُٹھائے مسکرا کر ان سب کی محبت وصول کر رہے تھے۔ ان کے پیچھے ہی دلاور  دائیں طرف جبکہ خاور بائیں طرف کھڑا تھا۔ ان کا جلسہ کامیاب ہوا تھا۔ ہر طرف ان کے نام کے نعرے لگ رہے تھے۔

وہ یونہی مسکراتے ہوئے سب کو دیکھ رہے تھے کہ تبھی سیاہ لباس میں چہرے پر نقاب لگائے دو نامعلوم افراد ہجوم کو چیرتے ہوئے ان کے سامنے آکھڑے ہوئے۔

لمحے کی دیر تھی کہ اندھا دھند فائرنگ کے ساتھ ہی وہاں کہرام برپا ہوگیا۔ پولیس بھی حرکت میں آچکی تھی۔ ہجوم میں بھی بھگدڑ مچ چکی تھی۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ نامعلوم افراد فوراً وہاں سے روپوش ہوگئے۔

اُدھر اسٹیج پر کھڑے لوگ جہانگیر ملک کے ساتھ ساتھ دلاور اور خاور کو بھی گھیرے میں لے چکے تھے۔ خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ ایمبولینس کے آتے ہی انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ مگر اللّٰه کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ بلاج کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی دلاور اور خاور دم توڑ چکے تھے جبکہ جہانگیر ملک بیٹے کا انتظار کرتے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔

" بابا سائیں !! "

بلاج ہانپتا کانپتا آئی سی یو میں داخل ہوا۔ اسے دیکھتے ہی جہانگیر ملک کے آنسوؤں میں روانی آگئی۔

" بابا سائیں !! "

"بلاج میرے بچے مجھے معاف کردو۔ میں نے تم سے تمہاری خوشیاں چھین لیں۔" اپنے کانپتے ہاتھوں کو اس کے سامنے جوڑتے ہوئے وہ آج اعتراف کر رہے تھے۔ بلاج نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

" بابا سائیں میں۔۔۔"

اس سے پہلے بلاج ان سے کچھ کہتا۔ ایک ہچکی سنائی دی تھی۔ ساتھ ہی آنسو بھی آنکھوں میں ٹھہر سے گئے۔

" بابا سائیں !! "

وقتِ رخصت تھا۔ اس دنیا میں آنے والے کیلئے۔

بلاج ساکت نظروں سے انہیں دیکھے گیا۔ تو کیا انصاف ہوگیا تھا؟ کیا اللّٰه نے یاسمین کو انصاف دلا دیا تھا؟ جس انا، جس شہرت، جس کرسی کیلئے وہ دوسروں پر ظلم کرتے آئے تھے وہ سب دنیا میں ہی رہ گیا تھا۔ اللّٰه نے ان کی رسیوں کو کھینچ لیا تھا۔

ظالم چاہے جتنا بھی ظلم کرلے مگر جب اللّٰه ان کی ڈھیلی چھوڑی رسی کھینچنے پر آتا ہے تو بندے کی ساری چالاکیاں دھری رہ جاتی ہیں۔ جہانگیر ملک اور اس کے بیٹوں کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا تھا۔ بیٹا ہونے کے ناطے بلاج تو انہیں سزا نہیں دلا سکا تھا مگر اللّٰه نے انصاف ضرور کر دیا تھا۔۔۔

" بابا سائیں !! "

آنکھیں کھولتے ہوئے اس نے سرد آہ بھری۔ انسان کتنا سخت جان ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اسے ان گزرے آٹھ سالوں میں ہوگیا تھا۔ جس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا، وقت آنے پر خاموشی سے سہہ جاتا ہے۔

" سب بکھرتا چلا گیا بابا سائیں اور میں کچھ بھی نہیں کرسکا۔ انسان کتنا بےبس ہو جاتا ہے نا قسمت کے آگے۔" آنکھ سے نکلتے آنسوؤں کو اس نے گال پر بہنے دیا۔

" پہلے یاسمین مجھے چھوڑ کر چلی گئی جس کے بعد میں نے جسمین سے یوسف کو بھی چھین لیا۔ پھر آپ تینوں بھی اس دنیا سے چلے گئے جس کا صدمہ امی برداشت نہ کرسکیں اور بستر سے ہی لگ کر رہ گئیں اور۔۔۔ اور پھر سمیر اُس کو بھی موقع مل گیا۔ اُس نے بھی میری گڑیا کو طلاق دے دی۔"

کرب سے سوچتے ہوئے اس نے گالوں پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا اور کھڑے ہو کر تینوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے لگا۔

ہر صورت میں نقصان ان دونوں بہن بھائی کا ہی تو ہوا تھا۔ جسمین کی طلاق کے بعد بلاج نے بھی یہی سوچا تھا کہ جیسے اس کی بہن کو واپس لوٹا دیا گیا ہے، وہ بھی سمیر کی بہن کو ویسے ہی لوٹا دے۔ مگر اس کی تربیت اور مردانگی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ وہ ایک کمزور پر ناحق ظلم کرے۔ غلطی بھائی نے کی تھی تو پھر بہن کو سزا کیوں؟

یہ سوچ آتے ہی اس نے ہر ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سیاست سے بھی ہر تعلق ختم کر دیا تھا۔ حویلی چھوڑ کر نیا گھر خرید لیا۔ جسے اس نے جسمین کے نام کر دیا تھا تاکہ مستقبل میں جسمین کو کوئی طعنہ نہ ملے۔ مگر اس کے باوجود بھی وقتاً فوقتاً حورین اُس پر اپنی زبان کی تیزی دیکھا جاتی تھی۔ جسے سن کر جسمین بس صبر کے گھونٹ بھر کے رہ جاتی۔۔۔

۔*********۔

ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی وہ جوس کا گلاس منہ کو لگائے گھونٹ گھونٹ حلق میں اُتار رہی تھی۔ جب جسمین ہاتھ میں ٹرے تھامے کچن میں داخل ہوئی۔ وہ ابھی فائزہ بیگم کو کھانا کھلا کر آئی تھی اور اب سنک کے پاس جا کر برتن دھونے لگی۔

" سنو !! "

گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے حورین نے جسمین کو مخاطب کیا۔ صبح سے ان کا اب آمنا سامنا ہوا تھا۔

" جی !! "

جسمین نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جبکہ اچھی طرح سے جانتی تھی وہ کیا کہنے والی ہے۔

" سوری !! کل رات میں غصّے میں کچھ زیادہ ہی بول گئی تھی۔"

حورین کی بات پر وہ خاموش ہی رہی۔ چوٹ دل کو لگی تھی پھر زبان سے کیا کہتی۔

" کچھ بولو گی نہیں؟ " اس کو خاموش کھڑا دیکھ کر حورین پھر بولی۔

" بھائی کی کال آئی؟ " جسمین نے بات ہی بدل دی۔

" ہاں!! تمہارا پوچھ رہے تھے۔ تمہیں کال بھی کر رہے تھے پر شاید تم سو رہی تھیں۔" اس نے کہتے ہوئے ایک بار پھر گلاس اُٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔

" جی بس وہ رات دیر سے سوئی تھی۔ اچھا بھائی نے کچھ بتایا؟ وہ قبروستان گئے تھے؟ "

برتنوں کو دھونے کے بعد کیبنٹ میں رکہتے ہوئے جسمین نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" ہاں گئے تھے۔ وہاں سے واپسی پر ہی کال کی تھی۔ ایک تو سمجھ نہیں آتا ساری زندگی آبائی گاؤں سے دور رہنے کے بعد مرتے وقت کیوں آبائی گاؤں کی یاد جاگ جاتی ہے۔" آخری بات اس نے دھیرے سے کہی تاکہ جسمین تک نہ پہنچ سکے۔

اسے بلاج کا گاؤں جانا بالکل پسند نہیں تھا اور چونکہ بلاج نے اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے جہانگیر ملک اور دونوں بھائیوں کو اپنے آبائی گاؤں میں ہی دفنایا تھا۔ اس لیے وہ باپ بھائیوں کی قبر پر فاتحہ پڑھنے اور زمینوں کے معاملات سنبھالنے کیلئے سال میں کئی بار گاؤں کا چکر لگا آتا تھا۔

" اچھا سنو اپنے بھائی کو کال کر لینا انہیں تم سے بات کرنی تھی۔" اس نے کچن سے باہر نکلتی جسمین سے کہا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی کچن سے نکل کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

" ہنہہ !! لوگوں کو اپنی بیوی بچوں کی فکر ستائے رکھتی ہے مگر ہمارے میاں یہاں بہن کی فکر میں گھلتے رہتے ہیں۔" وہ بڑبڑائی۔

۔*********۔

" یوسف بھائی یہ سامان کہاں رکھوں؟ "

سامان ہاتھ میں اُٹھائے نواز کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔ سامنے چارپائی پر لیٹے یوسف نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔

" اسے تم حکیم صاحب کے پاس لے جاؤ وہ بتا دینگے۔" 

" جی ٹھیک ہے۔" یوسف کے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلاتا واپس کمرے سے باہر نکل گیا۔

" اے یوسف میاں تم ہم کو ایک بات تو بتاؤ۔" پاس ہی فرش پر جڑی بوٹیوں کو پیسنے میں مگن ناصر نے اسے مخاطب کیا۔

" ہاں پوچھیں !! " یوسف نے کروٹ لیتے ہوئے چہرہ اس کی جانب موڑ لیا۔

"  تم شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ کیا تمہارا دل نہیں کرتا بیوی ہو، بچے ہوں۔ کب تک ایسے حال میں زندگی گزارتے رہو گے؟ " ناصر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

" جب جذبات، خواہشات سب دفن ہو جائیں تو انسان کس حال میں زندگی گزار رہا ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بس زندگی گزر جائے اتنا کافی ہے۔" یوسف اس کی پہلی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔

" ہاں وہ تو ٹھیک ہے پر تعلق ختم ہونے کے بعد مرد تو آگے بڑھ ہی جاتا ہے۔ ایک کے پیچھے ساری زندگی یوں تنہا تو نہیں گزار دیتا۔"

کہتا ہوا وہ برتنوں کو ایک طرف رکھ کر یوسف کی چارپائی کے سامنے ہی کرسی رکھ کر بیٹھ گیا۔ ان آٹھ سالوں میں وہ یوسف کے بارے میں سب کچھ تو نہیں پر بہت کچھ جان گیا تھا۔ جیسے یوسف کی تعلیم کیا ہے۔ اس کے ماں باپ اب اس دنیا میں نہیں اور یہ بھی کہ وہ کسی لڑکی سے محبت کرتا تھا اور اُس کے بعد کسی سے شادی نہیں کی۔

" کوئی کہتا ہے تعلق ختم ہونے کے بعد مرد آگے بڑھ جاتا ہے تو کوئی کہتا ہے عورت۔۔۔ مگر حقیقت یہ ہے جس نے محبت کی ہی نہ ہو وہی آگے بڑھتا ہے۔ سچا اور مخلص ہمیشہ وہیں بندھا رہ جاتا ہے پھر چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔" یوسف نے مسکرا کر کہتے ہوئے سر جھٹکا۔ نگاہوں میں یکدم کسی کا سایا لہرایا تھا۔

" تمہارے فلسفے تو میری سمجھ سے باہر ہیں۔ ہمارے یہاں تو دو تین شادی کر لیتے ہیں۔ ایک تم ہو جس نے ایک بھی نہیں کی۔" ناصر منہ بناتا ہوا بولا۔

یوسف نے مسکرا کر اسے دیکھا مگر بولا کچھ نہیں کچھ باتوں کے جواب میں خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے۔ ویسے بھی وہ اچھے سے جانتا تھا۔ ہم مشرقی لوگ شادی کو ہی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ زندگی میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد بھی وہ شخص دنیا کی نظر میں کچھ بھی نہیں جس کی " شادی" نہیں ہوئی۔ مگر درحقیقت شادی صرف زندگی کا ایک حصّہ ہے۔ زندگی کا مقصد نہیں۔۔۔

" اب اکیلے اکیلے کیوں مسکرا رہے ہو؟ " اسے مسکراتے دیکھ ناصر پوچھ بیٹھا۔

" کچھ نہیں مجھے نیند آ رہی ہے۔"

" اے تم بھی بڑا عجیب بندہ ہے۔" ناصر اسے گھورتا ہوا کرسی سے اُٹھا اور واپس اپنے کام میں لگ گیا۔ جبکہ ناصر کی اس بات نے یوسف کو ناجانے کیا کچھ یاد کرا دیا تھا۔

" سدھر جا یوسی۔"

" یہ کبھی نہیں سدھر سکتا۔"

" ابے مروائے گا کیا یوسی۔"

" یوسف کے بچے میں تجھے بچانے نہیں آؤں گا۔"

" ہم ایک دوسرے کیلئے جان دے بھی سکتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں کیوں یوسف۔"

نوید کی باتیں، جنید کی شرارتیں، حذیفہ کی مسکراہٹیں سب اس کے ذہن میں گھومنے لگا تھا۔ بے چین ہو کر یوسف کروٹ بدلتے ہوئے چھت کو گھورنے لگا۔ اسے آج جسمین کے ساتھ ساتھ اُن تینوں کی باتیں بھی شدت سے یاد آ رہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ انہیں دیکھنے خواہش بھی اب شدت اختیار کرنے لگی تھی۔

۔*********۔

فجر کی اذان کے ساتھ ہی آسمان پر چھائے سرمئی بادل دھیرے دھیرے سرکتے نئی صبح کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ایسے میں بلاج گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے کھڑا حویلی کو دیکھ رہا تھا ساتھ ہی ایک ملازم اس کا سامان گاڑی میں رکھ رہا تھا۔ جب کامران اس کے پاس چلا آیا۔ وہ ان کی آبائی حویلی کے ملازم کا بیٹا تھا اور والد کے انتقال کے بعد اب وہی حویلی کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ جب بھی بلاج کا گاؤں آنا ہوتا۔ اس سے پہلے ہی کامران حویلی کی صفائی کروا دیتا تھا تاکہ بلاج کو کوئی پریشانی نہ ہو۔

" چھوٹے سر کار آپ جا رہے ہیں۔ ایک دو دن اور رک جاتے۔"

" نہیں کامران مجھے جلدی پہنچنا ہے اور اکمل میرے ساتھ جا رہا ہے۔ تم بس حویلی کی دیکھ بھال کرتے رہنا۔" بلاج نے اس کا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔

" چلیں ٹھیک ہے جیسے آپ کو بہتر لگے۔" کامران نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

ملازم سامان گاڑی میں رکھ چکا تھا اور اب گاڑی کا دروازہ کھولے بلاج کے بیٹھنے کا انتظار کر رہا تھا۔

" چلو چلتا ہوں۔"

بلاج کامران سے مصافحہ کرتا اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا۔ ملازم نے گاڑی کا دروازہ بند کیا پھر گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔

" اکمل تم واقعی شہر جانا چاہتے ہو نا۔ یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟ " بلاج نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اکمل کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" جی چھوٹے سرکار مجھے وہاں کام کرنا ہے تاکہ گھر والوں کو کچھ پیسے ہی بھیج سکوں۔"

" ٹھیک ہے پھر چلو۔"

" جی۔" اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور حویلی کے بیرونی دروازے سے باہر نکالتے ہوئے سڑک پر ڈال دی۔

گاڑی اپنی رفتار سے سڑکوں پر دوڑتی آگے بڑھ رہی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔ بلاج جو اپنی سوچوں میں گم بیٹھا تھا اس جھٹکے سے باہر نکل آیا۔

" کیا ہوا گاڑی کیوں روک دی؟ "

" وہ یہ درگاہ ہے نا، میں بس تھوڑی دیر میں آیا۔"

اکمل کے کہنے پر بلاج نے نظریں گھما کر شیشے کے پار دیکھا جہاں لوگ سیڑھیاں چڑھتے مزار پر جا رہے تھے۔

" ٹھیک ہے جلدی آنا۔"

بلاج کے کہتے ہی وہ اثبات میں سر ہلاتا فوراً گاڑی سے نکل کر مزار کی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ بلاج وہیں گاڑی میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔

" اف !! یہ کہاں رہ گیا۔ ایک تو فون نمبر بھی نہیں ہے بندہ کال ہی کر لے۔"

تھوڑی دیر گزرنے کے بعد بھی جب وہ نہ آیا تو بلاج جھنجھلا اُٹھا ساتھ ہی گاڑی سے نکل کر اس نے اپنے قدم بھی مزار کی سیڑھیوں کی جانب بڑھا دیئے۔

۔*********۔

صبح کی تازہ ہوا میں سانس لیتا وہ ادھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔ زندگی بس اس درگاہ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ اپنے دوستوں سے ملنے کی ہمت اپنے اندر مفقود پاتا تھا۔

" کیا وہ مجھے یاد کرتے ہوں گے؟ " اس نے سوچتے ہوئے پاس موجود کیاریوں کو دیکھا جن میں کھلتے پھول اس کی محنت کا ثمر تھے۔

" ان آٹھ سالوں میں کیا کچھ بدل گیا ہوگا۔ ان کی شادی ہوگئی ہوگی۔ بیوی، بچے، جاب ذمہ داریاں بڑھ گئی ہوں گی۔ ایسے میں کہاں انہیں یاد ہوگا کہ کوئی یوسف حیدر بھی ان کی زندگی میں تھا۔" اس نے سرد آہ بھری۔

یونہی چند لمحے وہ مزید ادھر سے اُدھر سے ٹہلتا رہا پھر تھک کر وہیں چبوترے پر آ بیٹھا۔

" اور مانو کیا حال ہے تمہارا۔"

پاس لیٹی بلی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا کہ تبھی قریب سے آتی آواز پر وہ ایک پل کیلئے سن ہو گیا۔

" یوسف تم۔۔۔"

مزار کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا وہ اوپر آیا۔ صبح کے باعث ابھی چند لوگ ہی چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔ اس نے نظر گھما کر دیکھا اکمل ادھر کہیں بھی نہیں تھا۔ بلاج نے اپنے قدم آگے کی طرف بڑھا دیئے۔

ابھی چند قدم چلا ہی تھا کہ سامنے ہی ایک آدمی ٹہلتا ہوا نظر آیا۔ سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس، سرمئی چادر اپنے گر لپیٹے وہ اس کی طرف پشت کیے ہوئے تھا۔ اُس کے سیاہ لمبے بال گردن کو چھو رہے تھے۔

بلاج نے اس پر سے نظریں ہٹا لیں اور ایک بار پھر اکمل کو ڈھنڈنے لگا کہ اچانک نظر بھٹک کر پھر اُس آدمی پر پڑی اور وہیں ٹھہر گئی۔

سیاہ داڑھی، کالی گہری آنکھیں جن میں قدرتی گلابی ڈوریں کھینچی تھیں، تیکھے نقوش، سرخ و سفید رنگ کا حامل وہ شخص بلاشبہ وہی تھا۔ جو چبوترے پر بیٹھا بلی کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ بلاج نے اپنے قدم اس کی جانب بڑھا دیئے۔

" کل جسمین اور میرا نکاح ہے یوسف۔ امید کرتا ہوں اب تم اُسے تنگ نہیں کرو گے۔ اپنے قدم یہیں روک لو اور پلٹ جاؤ کیونکہ اب یہاں تمہیں کچھ نہیں ملنے والا۔" بڑھتے ہوئے قدموں کے ساتھ اسے اپنی آواز سنائی دی۔ 

" آپ۔۔۔ آپ جھوٹ بول رہے ہیں بولیں۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ وہ میرا انتظار کریں گی۔" یوسف کی درد بھری آواز اُبھری جس نے اس کے بڑھتے قدموں کو بھاری کر دیا۔ ہر ایک قدم اُٹھانا مشکل لگ رہا تھا۔

" دیکھو یوسف میں جانتا ہوں تم بہت محبت کرتے ہو۔ لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ تم جسمین کو بھول جاؤ اور زندگی میں آگے بڑھو۔ پوری زندگی تمہارے سامنے پڑی ہے۔ سمجھ رہے ہو نا تم؟ " سامنے نظریں جمائے اس نے تب کے یوسف اور اب کے یوسف میں فرق کرنا چاہا۔ زمین آسمان کا فرق تھا جو ان کے درمیان آ کھڑا ہوا تھا۔

"یوسف تم۔۔۔"

بلاج اُس کے عین سامنے جا کھڑا ہوا۔ یوسف جو بلی کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر رہا تھا۔ اس آواز پر ایک پل کیلئے رکا پھر تیزی سے چہرہ اوپر اُٹھا کر بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔

" یوسف تم۔۔۔ تم یوسف ہی ہونا۔"

بلاج ششدر سا اپنے سامنے زمین پر بیٹھے اس شخص کو دیکھ رہا تھا۔ وہ کیا تھا۔ کیا بن گیا تھا۔

" بلاج۔۔۔ بلاج بھائی آپ۔۔۔ آپ یہاں ؟ "

آٹھ سال بعد وہ اپنے سامنے اس شخص کو دیکھ رہا تھا۔ جسمین سے جڑا شخص۔۔۔ یوسف نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بلاج بےجان ہوتے وجود کے ساتھ اس کے سامنے ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

" کیا۔۔۔ کیا وہ بھی آئی ہیں؟ وہ تو مزار پر جایا کرتی تھیں۔ کیا آج بھی یہاں آئی ہیں؟ دیکھیں میں آٹھ سال سے یہاں بیٹھا اُن کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ۔۔۔ آپ خاموش کیوں ہیں بتائیں؟ " بچوں جیسی معصومیت چہرے پر سجائے وہ بلاج کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بلاج نے نفی میں سر ہلا دیا۔

" اوہ !! نہیں آئیں۔ ابھی بھی نہیں آئیں۔"

سر کھجاتا یوسف نفی میں سر ہلاتے ہوئے دھیرے سے بڑبڑایا۔ کیا دیوانوں جیسی حالت تھی۔ بلاج کو سمجھ نہ آیا کیا بولے اس سے،  کیا پوچھے اس سے۔

" اُن۔۔۔ اُن کی شادی ہوگئی تھی نا۔ بچے۔۔۔ بچے ہونگے۔ اب تو بڑے۔۔۔ بڑے ہوچکے ہوں گے۔" یوسف مسکرایا اور بلاج کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

" کیا انہوں نے اپنے کسی بیٹے کا نام میرے نام پر رکھا؟ کیا۔۔۔ کیا یوسف حیدر اُنہیں یاد ہے؟ کیا ماضی کی کتاب میں اب بھی یوسف حیدر کا نام درج ہے یا اُن صفحوں کو اپنی زندگی کی کتاب سے پھاڑ پھینکا؟ "

کیا بیتابی تھی اس کے لہجے میں۔ کیا آس تھی نظروں میں جیسے زندہ رہنے کی اُمید مانگ رہا ہو۔

بلاج کے سامنے بیٹھا یہ شخص کیا تھا؟ وہ سمجھ نہ سکا۔ محبت تو اس نے بھی یاسمین سے کی تھی پر اُس کے جانے کے بعد وہ آگے بڑھ گیا تھا۔ حورین کا شوہر بن گیا تھا پر۔۔۔ پر سامنے بیٹھا یہ شخص کیا تھا؟ جس نے اپنی زندگی کے آٹھ سال ایک لڑکی کیلئے برباد کر دیئے تھے۔ محبت تو بلاج نے بھی کی تھی، محبت تو یوسف نے بھی کی تھی پر۔۔۔ پر شاید "یاسمین عباسی" ، "جسمین ملک" کی طرح خوش قسمت نہیں تھی کہ ایک مرد اُس کیلئے اپنی زندگی کو یوں برباد کرتا۔ یہ شرف تو بس جسمین کو حاصل ہوا تھا کہ آٹھ سال بعد بھی وہ کسی کے دل میں دھڑکن بن کر دھڑکتی تھی۔

"یوسف تم۔۔۔ تم نے یہ کیا حال۔۔۔ "

دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ دی۔ اس شخص کے آگے اپنا آپ بہت چھوٹا لگ رہا تھا۔ یاسمین سے وعدے اس نے کیے تھے۔ جنہیں وہ نبھا نہیں سکا اور یوسف۔۔۔

یوسف نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ وہ تو التجائیں کرتا رہا تھا۔ جسے جسمین نے بیدردی سے دھتکار دیا تھا۔ پھر ایسا کیوں تھا کہ آج بھی وہ اس ہی در پر پڑا تھا۔ جبکہ لاکھ وعدوں کے بعد بھی بلاج آگے بڑھ گیا تھا۔

" آپ۔۔۔ آپ مجھے بتائیں۔ جسمین کا شوہر اُن کا۔۔۔ اُن کا خیال تو رکھتا ہے نا؟ اُس سے بولے گا خیال رکھا کرے کیونکہ یہ حق اُسے ملا ہے۔" 

 بلاج کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے یوسف نے پھر پوچھا۔ جبکہ اس کی بات پر بلاج نفی میں سر ہلاتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ کم از کم اس کے پاس تو یوسف کے سوالوں کے جواب نہیں تھے اور نہ ہی اتنی ہمت تھی کہ مزید اس شخص کے سامنے بیٹھ سکے۔

" کہاں۔۔۔ کہاں جارہے ہیں رکیں۔۔۔ رکیں تو۔۔۔"

یوسف بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ مگر بلاج مسلسل نفی میں سر ہلاتا اُلٹے قدموں پیچھے ہٹتا جا رہا تھا کہ اچانک مڑا اور تیزی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ جبکہ یوسف وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا۔

" وہ نہ ملیں تو کیا ہوا

یہ عشق ہے ہوس نہیں۔۔۔

میں اُنھیں کا تھا اُنھیں کا ہوں

وہ میرے نہیں تو نہ سہی۔۔۔"

۔*********۔

لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی کرن عالمگیر کوئی میگزین دیکھ  رہی تھیں کہ تبھی ہاتھ میں سوٹ کیس پکڑے ماڈرن سی " رجا " سیڑھیاں اُترتی دکھائی دی۔

" اتنی صبح کہاں جا رہی ہو بیٹا؟ "

کرن عالمگیر نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جس کی دو ہفتے پہلے ہی سمیر سے پسند کی شادی ہوئی تھی۔

" اپنے گھر؟ " مختصر سا جواب دیتی وہ ان کے پاس آ کر رکی۔

" کیا مطلب ابھی ایک ہفتے پہلے تو تم رک کر آئی ہو۔" کرن عالمگیر نے ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھا۔

" میں رہنے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے اپنے گھر جا رہی ہوں۔" وہ دانت پیس کر کہتی آگے بڑھنے لگی کہ یکدم کرن عالمگیر نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا۔

" یہ کیا کہہ رہی ہو آخر ہوا کیا ہے؟ "

" ہوا کیا ہے !! یہ آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں ہوا کیا ہے؟ ارے آپ کا بیٹا ایک نامرد ہے نامرد۔۔۔ اور آپ کہہ رہی ہیں ہوا کیا ہے۔" رجا بےباکی سے چلاتے ہوئے بولی۔

" اے لڑکی یہ کیا بکواس کر رہی ہو ہوش میں تو ہو۔" سارے لحاظ بالائے طاق رکھ کر اب وہ بھی کاٹ دار لہجے میں بولیں۔ کام کرتے سارے ملازمین جو ان کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔

" یہ بکواس نہیں حقیقت ہے۔ اس وجہ سے ہی آپ کی پہلی بہو طلاق لے کر گئی ہوگی اور اب میں بھی جا رہی ہوں۔" غصّے سے پھنکارتی وہ تیزی سے سوٹ کیس گھسیٹتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئی۔

" تم سب کیا تماشا دیکھ رہے ہو کام کرو۔" ملازمین پر چلاتے ہوئے کرن عالمگیر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگیں کہ تبھی نائٹ گاؤن میں ملبوس سمیر بیتابی سے بھاگتا ہوا نیچے آیا۔

" امی رجا۔۔۔"

" چلی گئی وہ تمہارے منہ پر کالک مل کے۔" اس کی بات کاٹ کر کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔

" نہیں وہ ایسے کیسے جاسکتی ابھی تو میرے ساتھ سو رہی تھی۔" سمیر نے بڑبڑاتے ہوئے پاس موجود گلدان فرش پر دے مارا پھر واپس تیزی سے اوپر کی جانب بڑھا۔

" کیا کر رہے ہو رکو۔۔۔ رکو سمیر۔۔۔" کرن عالمگیر بھی اس کے پیچھے بھاگیں۔

" امی وہ ایسے کیسے جا سکتی ہے وہ تو مجھ سے پیار کرتی ہے۔ میں اُسے لے کر آؤں گا امی۔" سمیر کمرے میں آکر الماری سے کپڑے نکالنے لگا۔ عجیب دیوانوں جیسی حالت تھی۔

کرن عالمگیر وہیں دروازے پر کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگیں کہ اچانک ان کی آنکھوں میں جسمین کا روتا ہوا چہرہ آیا۔ ماضی میں کہی سمیر کی باتیں ان کے کانوں میں گوجنے لگیں۔

" جاؤ اپنے بھائی کے پاس۔ تمہاری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ویسے بھی تمہارے اُس باپ اور دوسرے بھائیوں کی وجہ سے برداشت کر رہا تھا۔ پر اب مزید یہ ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں۔"

" میں آپ کی بیوی ہوں کہیں نہیں جا رہی اور میرا نہیں تو اپنی بہن کا خیال کریں اُس گھر میں آپ کی بہن بھی رہتی ہے۔" جسمین کی ڈری ہوئی آواز سنائی دی۔

" نہ جانے وہ کونسا دن آئے گا جب میرے بیٹے کو اولاد ہوگی۔ مجھے سمیر کی دوسری شادی کرا دینی چاہیئے۔ یہ عورت تو کبھی اسے بچہ نہیں دے سکے گی۔" کبھی کے کہے اپنے الفاظ یاد آئے۔

"میں سمیر عالمگیر اپنے پورے ہوش و حواس میں جسمین ملک کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔ طلاق دیتا ہوں۔۔۔ طلاق دیتا ہوں۔"

وہ بےاختیار اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر سسک اُٹھیں۔ ماضی کی ساری باتیں دماغ میں گھومنے لگی تھیں۔ ایک جسمین تھی جو پانچ سال تک ان کے بیٹے کو صبر سے برداشت کرتی رہی۔ ایک شکوہ تک زبان پر نہیں آنے دیا تھا اور ایک رجا تھی۔ محبت کی دعوے دار جو چند دن بھی سمیر کو برداشت نہ کرسکی بلکہ سارے ملازمین کے سامنے اسے بے آبرو کر گئی۔

" دیکھ لو سمیر تمہیں جسمین کی آہ لگ گئی۔ جس طرح تم نے اُسے زلیل و رسوا کیا تھا۔ آج تم بھی ویسے ہی زلیل و رسوا ہو گئے۔" انہوں نے سمیر کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ جو اب کپڑے بدل کر گاڑی کی چابی اُٹھا رہا تھا۔

" کہاں جا رہے ہو؟ "

" رجا کو لینے۔" کہتے ہوئے وہ آگے بڑھنے لگا کہ کرن عالمگیر نے اسے بازوؤں سے تھام لیا۔

" دماغ درست ہے تمہارا۔ کیوں تماشا بنانے پر تلے ہو۔ جانے دو اُسے ابھی تو گھر کے ملازموں کے سامنے یہ بات کھلی ہے پھر پوری دنیا کو پتا چل جائے گا۔ لوگ تھوکیں گے ہم پہ۔"

وہ اسے جھنجھوڑنے لگیں مگر وہ تو جیسے سن ہی نہیں رہا تھا۔ اپنے بازوؤں کو ان کی گرفت سے نکالتا آگے بڑھنے لگا کہ اچانک سر چکرایا اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتا نیچے فرش پر جا گرا۔

" سمیر !! "

۔*********۔

گاڑی سیدھا مین گیٹ کے سامنے جا رکی تھی۔ چوکیدار نے گاڑی کو پہچانتے ہوئے فوراً دروازہ کھولا۔ جس پر اکمل گاڑی آگے بڑھاتا پورچ میں لے آیا۔

" چھوٹے سرکار گھر آ گیا۔"

اس نے بلاج کو پکارا جو سوچوں میں گم ساکت بیٹھا تھا۔ وہ اس سارے وقت میں ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ کس طرح اکمل کو گھر کا ایڈریس سمجھاتا آیا تھا یہ بس وہی جانتا تھا۔

" اچھا تم سامان اُٹھا کر اندر لے آؤ۔ میں سکینہ بی سے کہہ کر تمہارے گیسٹ روم میں رہنے کا انتظام کرواتا ہوں۔" بلاج کہہ کر گاڑی سے نکلتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔ وہ اس وقت صرف تنہائی چاہتا تھا۔

" سکینہ بی اکمل کیلئے گیسٹ روم کی صفائی کروا دیں۔ اب سے وہ ادھر ہی رہے گا اور ہاں کوئی بھی مجھے تنگ نہ کرے میں ابھی اکیلے رہنا چاہتا ہوں۔"

وہ کچن میں کام کرتیں سکینہ بی سے کہتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ساتھ ہی زور دار آواز کے ساتھ کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔

اُدھر جسمین جو اپنے کمرے میں لیٹی تھی۔ باہر سے آتی شور کی آواز سن کر فوراً کمرے سے باہر نکل آئی۔

" سکینہ بی کیا ہوا؟ یہ گیسٹ روم کیوں صاف کروا رہی ہیں؟ "

" وہ بی بی جی چھوٹے سرکار کے ساتھ کوئی مہمان آیا ہے۔ اُن کیلئے ہی یہ کمرہ تیار ہو رہا ہے۔" سکینہ بی نے تفصیل بتائی۔

" بھائی آگئے۔" جسمین نے چہرہ موڑ کر بلاج کے کمرے کی طرف دیکھا جس کا دروازہ بند تھا۔

" جی بی بی پر انہوں نے کہا ہے کوئی تنگ نہ کرے ابھی وہ اکیلے رہنا چاہتے ہیں۔"

" اکیلے۔۔۔"

جسمین نے ایک بار پھر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی کچھ سوچ کر واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

" پریشان لگ رہے ہو، کیا بات ہے؟ "

وہ ڈرائنگ روم میں موجود صوفے پر بیٹھتے ہوئے گویا ہوا۔ سامنے ہی جنید بیٹھا ہوا تھا خاموش سا۔

" کوئی بات نہیں۔" جنید نے گہرا سانس لیتے ہوئے منہ پر ہاتھ پھیرا۔

" اچھا بتا فریال بھابھی اور  دونوں بچے کیسے ہیں؟ " حذیفہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر بات بدل دی۔

" سب ٹھیک ہیں۔ بس میں ٹھیک نہیں ہوں۔" وہ تھکے تھکے سے انداز میں کہہ اُٹھا۔ اس کی پریشانی حذیفہ اچھے سے سمجھ رہا تھا۔ پر کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔

" جانتا ہوں جو تیرے دل و دماغ میں چل رہا ہے، میں سب سمجھ رہا ہوں۔ میری حالت بھی تجھ سے الگ نہیں ہے۔" حذیفہ اسے دیکھتے ہوئے بولا کہ تبھی ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھامے مسکان (حذیفہ کی بیوی) اندر چلی آئی۔

" السلام عليكم بھابھی !! "

" وعليكم السلام جنید بھائی !! آپ فریال اور بچوں کو ساتھ نہیں لائے؟ " وہ ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

" نہیں بھابھی سیدھا آفس سے آیا ہوں، اس لیے انہیں ساتھ نہیں لایا۔"

" اچھا چلیں ٹھیک ہے مگر اگلی بار ساتھ لے کر آئے گا۔" 

" جی ضرور۔" جنید مسکرا کر بولا، جس پر مسکان سر ہلاتی واپس باہر چلی گئی۔

اُس کے جاتے ہی ڈرائنگ روم میں خاموشی چھا گئی تھی۔ حذیفہ نے چائے کا کپ اٹھا کر جنید کی طرف بڑھایا جسے اس نے تھام کر واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔

" اب میری امید دم توڑنے لگی ہے حذیفہ، کوئی تسلی، کوئی دلاسا اب کام نہیں آ رہا۔ میں کیا کروں؟ " جنید کی بات پر حذیفہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ کچھ ایسا ہی حال اس کا بھی تھا۔

" نوید بھی شاید اس بات کو قبول کر چکا ہے۔ وہ اس بات کا اقرار نہیں کرتا۔ لیکن اب وہ یوسف کو ڈھونڈنے کے بجائے جسمین کے پیچھے پڑ گیا ہے۔" پیشانی کو مسلتے ہوئے جنید نے بےبسی سے کہا۔

" ہاں !! اب وہ انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔ شاید یوسف کے ملنے کی امید اب اس نے بھی چھوڑ دی ہے۔" حذیفہ دھیرے سے بولا۔ دونوں ہی نوید کے رویے کو نوٹ کر رہے تھے۔ مگر چاہتے ہوئے بھی اُسے روک نہیں سکتے تھے۔ 

" کیا۔۔۔ کیا واقعی یوسف اب اس دنیا میں نہیں رہا؟ کیا اب ہم کبھی اُس سے نہیں مل پائیں گے؟ "

ایک آس نظروں میں لیے اس نے حذیفہ کو دیکھا جیسے اپنے لفظوں کی نفی چاہتا ہو۔ پر سامنے بیٹھے شخص کے پاس بھی کوئی امید، کوئی دلاسا نہیں تھا جو اسے تھما سکے۔ وہ خاموش رہا اور ایک بار پھر چائے کا کپ اُٹھا کر جنید کی طرف بڑھا دیا۔ جسے اب کی بار پھر اُس نے تھام لیا مگر اب اب کی بار واپس ٹیبل پر نہیں رکھا تھا۔

۔*********۔

" میں اس کی محبت سے اک دن بھی مکر جاتا 

 کچھ اور نہیں ہوتا اس دل سے اتر جاتا 

 جس شام گرفتاری قسمت میں مری آئی 

 اس شام کی لذت سے میں اور بکھر جاتا 

 خوشبو کے تعاقب نے زنجیر کیا مجھ کو 

 ورنہ تو یہاں سے میں چپ چاپ گزر جاتا 

 آواز سماعت تک پہنچی ہی نہیں شاید 

 وہ ورنہ تسلی کو کچھ دیر ٹھہر جاتا 

 ذہنوں کے مراسم تھے اک ساتھ بھی ہو جاتے 

 اک راہ اگر کوئی دیوار میں کر جاتا 

 تاثیر نہیں رہتی الفاظ کی بندش میں 

 میں سچ جو نہیں کہتا لہجے کا اثر جاتا 

 اب تیرے بچھڑنے سے یہ بات کھلی مجھ پر 

 تو جان اگر ہوتا میں جاں سے گزر جاتا 

 دل ہم نے عظیمؔ اپنا آسیب زدہ رکھا 

جو خواب جنم لیتا وہ خوف سے مر جاتا

(طاہر عظیم)

رات کی تاریکی میں ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ ایسے میں وہ ریلنگ پر ہاتھ ٹکائے بالکنی میں کھڑا تھا۔ بے تاثر چہرے سے غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے وہ سوچوں میں گم تھا کہ ایک تیز ہوا کا جھونکا اس کے چہرے کو چھو کر گزر گیا۔ ماتھے پر پڑے بال ہوا کے زور سے بے ترتیب ہوئے تھے جس کے ساتھ ہی ایک مانوس سا لمس اس کو پیشانی پر محسوس ہوا۔ آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو فریب کی گرفت میں آنے دیا۔ تخیل کو حقیقت بننے دیا۔ کوئی دھیرے سے اس کے بال ہٹا رہا تھا۔

" پریشان ہو؟ " وہ پوچھ رہی تھی۔

" ہاں!! "

" کیوں؟ "

" کیا تمہیں نہیں پتا؟ " اس نے چہرہ موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔

" وہ ماضی کا بہترین فیصلہ تھا۔ یہ سب ایسے ہی ہونا تھا۔" اُس نے پریشانی سے نکالنا چاہا۔

" میں نے تمہارے ساتھ بھی ناانصافی کی یاسمین۔" بلاج نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے کہا۔

یوسف سے ملنے کے بعد اس کے ملال میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔

" میں نے تمہیں زندگی سے نکال دیا۔"

" پہلے ہی نکل چکی تھی۔"

" میرے دل میں اب بھی ہو۔"

" ہمیشہ رہوں گی۔"

" کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟ "

"بالکل بھی نہیں۔"

وہ مسکرائی، بلاج کو اس کی مسکراہٹ بھلی لگی۔

" بلاج بھائی !! "

عقب سے آتی جسمین کی آواز پر وہ چونکا، تخیل مٹا وہ اکیلا کھڑا تھا۔ خالی الذہنی سے اس نے جسمین کی طرف دیکھا پھر گہرا سانس لے کر واپس چہرہ موڑتے ہوئے سامنے موجود روشنی سے جگمگاتے گھروں پر نظریں جما دیں۔

" آپ جب سے آئے ہیں ایک بار بھی بھابھی کے بارے میں نہیں پوچھا۔" جسمین نے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا۔ جسے اس نے فوراً تھام لیا۔

" اس نے میسج کر کے بتا دیا تھا وہ گھر جا رہی ہے۔"

" یہ نہیں بتایا کیوں جا رہی ہیں؟ "

جسمین نے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ جس کے چہرے پر حد درجہ سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ کچھ پریشان ہوئی۔

" نہیں۔"

" آپ نے پوچھا نہیں؟ "

" نہیں !! میں نے جاننا ضروری نہیں سمجھا۔" وہ ہنوز سامنے دیکھتے ہوئے بولا۔ جسمین اسے دیکھتی رہ گئی۔

" سمیر کی بیوی اُسے چھوڑ کر چلی گئی۔ کرن آنٹی بہت رو رہی تھیں۔ اس لیے حورین بھابھی اُن کے پاس چلی گئیں۔"

جسمین رجا کے گھر چھوڑ کر جانے کی وجہ نہیں جانتی تھی پر جتنا جانتی تھی اس کی تفصیل بلاج کو بتا دی۔ حالانکہ اُس نے پوچھا نہیں تھا پر بلاج کی خاموشی جسمین کو چبھنے لگی تھی وہ چاہتی تھی بلاج کوئی بات کرے، اس لیے سمیر کا ہی ذکر چھیڑ دیا۔

" ہنہہ !! دیر سے ہی سہی وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔" بلاج نے تلخی سے سوچا مگر بولا کچھ نہیں۔

" آپ پریشان لگ رہے ہیں کوئی بات ہے؟ "

" مجھے حورین سے شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔" اس کی زبان سے ایک دم پھسلا جسمین چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

" یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ "

" ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اُس سے شادی کر کے میں نے منافقت کی ہے۔ دل میں کوئی "اور" زندگی میں کوئی "اور" بلکہ شاید ماضی میں کیا گیا میرا ہر فیصلہ غلط تھا۔" اس نے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا۔

" ماضی میں کیا گیا ہر فیصلہ، وقت کا بہترین فیصلہ تھا۔" جسمین بھی اب سامنے دیکھنے لگی تھی۔ کیا کچھ یاد نہیں آ گیا تھا۔

" نہیں اگر بہترین فیصلہ ہوتا تو آج پچھتا نہیں رہا ہوتا۔" بلاج نے اس کی بات کی نفی کی۔

" ہم کبھی "آنے" یا "جانے" والوں کو روک نہیں سکتے۔ یہ تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔"

" میں آج بھی صرف یاسمین سے محبت کرتا ہوں۔"

" وہ بیوی تھی آپ کی۔" جسمین نے سر ہلا دیا۔

" وہ محبت ہے میری۔" بلاج نے ترمیم کی۔

" حورین ایک اچھی لڑکی ہے مگر میں اُس سے محبت نہیں کر سکا۔"

" اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کیونکہ دل پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا اور نہ ہی نکاح نامے پہ کہیں محبت کا خانہ ہوتا ہے۔ تبھی تو اللّٰه نے بیوی کو شوہر کی اطاعت اور شوہر کو حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔" وہ کہہ کر خاموش ہو گئی۔

بلاج نے بھی پھر کوئی بات نہیں کی تو جسمین نے ایک بار پھر چہرہ اس جانب موڑا، بلاج کے ہاتھ میں موجود کپ میں اب چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ اس نے کپ واپس لے لیا، وہ ابھی مڑ کر جانے ہی لگی تھی کہ بالکنی کے دروازے پر حورین کو کھڑا پاکر اس کے اُٹھتے قدم وہیں تھم گئے۔

" حورین بھابھی !! " وہ بڑبڑائی۔

بلاج اس کی بڑبڑاہٹ کو سنتے ہوئے خود بھی پیچھے مڑا اور ایک پل کیلئے ٹھٹھک سا گیا۔ 

" کیا اس نے سب سن لیا؟ " اس نے سوچا۔

جسمین سر جھکائے حورین کے سائڈ سے گزر کر بالکنی سے کمرے میں آئی اور حدید کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ پیچھے اب بس وہ دونوں رہ گئے تھے۔

" تم کب آئی؟ "

" جب آپ اپنی پہلی بیوی کو یاد کر رہے تھے یا یوں کہوں کہ مجھ سے شادی پر پچھتا رہے تھے۔"

حورین کے طنز پر اس نے آنکھیں گھمائیں، تو اس نے سن لیا تھا۔ بلاج کچھ بھی کہے بغیر کمرے میں آگیا کہ تبھی اسے اپنے پیچھے حورین کی آواز سنائی دی۔

" اتنا بڑا دھوکہ !! آپ شادی شدہ تھے۔"

" کوئی دھوکہ نہیں دیا۔ تمہارے گھر والے میری پہلی شادی کے بارے میں سب جانتے تھے۔" وہ ایک دم مڑ کر ناگواری سے بولا۔

پہلے ہی یوسف کی وجہ سے اس کا ذہن الجھا ہوا تھا اور اب یہاں ایک نئی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ ان آٹھ سالوں میں اس نے اپنا دل ہمیشہ جسمین کے سامنے کھولا تھا۔ کبھی اس کی اور حورین کی "یاسمین" کے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو یہ ہی سمجھا تھا کہ شجاع عالمگیر نے اسے یاسمین اور بلاج کی شادی کے بارے میں سب بتا دیا ہوگا۔ مگر وہ اس سب سے انجان بھی ہوسکتی ہے یہ کبھی اس نے نہیں سوچا تھا۔

" اب کہاں ہے وہ؟ " حورین نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" فکر نہیں کرو، وہ اب اس دنیا میں نہیں۔ تم سے تمہارا حق کوئی نہیں چھنے گا۔" بلاج کہہ کر جانے لگا کہ وہ پھر بولی۔

" اور محبت ؟ "

اس ایک سوال پر بلاج کے قدم تھم سے گئے۔ ساری ناگواری کہیں دور جا سوئی تھی۔ اب وہ ترس بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

" حق تو دے دیا پر محبت نہیں دے سکے۔۔۔ صحیح کہا نا؟ "

" میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ بیوی ہو تم میری۔"

بلاج نے کہتے ہوئے نظریں چرائیں اور یوں اس کا نظریں چرانا حورین نے بڑی شدت سے محسوس کیا تھا۔ یقیناً اس کا دل رکھنے کیلئے وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

" نہیں !! نہیں ہے آپ کو مجھ سے محبت۔ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہا کرتیں ملک بلاج۔ میں صرف آپ کی بیوی ہوں محبت نہیں۔ مجھ سے تو صرف حسنِ سلوک کیا ہے آپ نے جسے میں بیوقوف محبت سمجھتی رہی۔ محبت تو اُس یاسمین سے کی تھی۔"

وہ چلاتے ہوئے بولی۔ آنسو تواتر آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ بلاج تاسف سے اسے دیکھے گیا۔ آخر کہتا بھی کیا؟ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ۔۔۔

بےشک مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے۔ مگر دل اُس کے پاس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ جسے بلاج ملک دس سال پہلے یاسمین عباسی کو دے چکا تھا۔ وہ مر ضرور گئی تھی۔ لیکن آج بھی محبت بن کر وہ بلاج ملک کے دل میں زندہ تھی کہ حورین عالمگیر کی موجودگی بھی اسے بلاج ملک کے دل سے نکال نہیں پائی تھی۔۔۔

کیونکہ بعض لوگوں کیلئے ہمارے دل میں ہمیشہ ایک جیسا مقام رہتا ہے۔ فاصلے یا غیر موجودگی سے نہ وہ مقام ختم ہوتا ہے۔ نہ کوئی اور اس مقام تک پہنچ پاتا ہے۔ البتہ بعض لوگ ہمارے آس پاس ہی موجود ہوتے ہیں لیکن کسی احساس و اپنائیت سے خالی جذبہ لیے بس رسمِ دنیا نبھانے کیلئے۔۔۔

" میں فی الحال خود بہت پریشان ہوں۔ اس لیے بہتر ہے ہم بعد میں بات کریں۔" بلاج کہہ کر فوراً کمرے سے باہر نکل گیا۔ اپنے پیچھے اس نے حورین کے چلانے کی آواز صاف سنی تھی۔

۔*********۔

" عمر کچی ہو ، ذہن بوڑھا ہو 

 اس جوانی کا دکھ سمجھتے 

 جس میں رانی نہیں ہے راجہ کی 

 اس کہانی کا دکھ سمجھتے ہو "

رات بھر بے ہوشی کے عالم میں رہنے کے بعد اس کی آنکھ تقریباً صبح چھ بجے کے قریب کھلی تھی۔ کمرے میں پھیلی بلب کی روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی۔ اس نے واپس آنکھیں بند کر لیں۔ اسے قریب سے ہی ناصر اور حکیم صاحب کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ چند سیکنڈز یونہی لیٹے رہنے کے بعد اس نے پھر آنکھیں کھولیں، لیٹے لیٹے ہی نگاہیں گھما کر خالی الذہنی سے پورے کمرے کو دیکھا۔

کل بلاج سے ملاقات کے بعد وہ سارا دن بےسکون رہا تھا۔ آٹھ سال اس نے اُس عورت کو نہیں دیکھا تھا۔ دل میں اب بھی کہیں ایک آس تھی کہ شاید وہ اس کا انتظار کر رہی ہو۔ مگر کل بلاج کو دیکھنے کے بعد اس کی وہ آس بھی ختم ہوگئی تھی۔ اُس نے کچھ کہا نہیں تھا پر اس کے زخموں کو ایک بار پھر ادھیڑ گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر وہیں جا کھڑا ہوا تھا جہاں آٹھ سال پہلے تھا۔ اس کی طبیعت بگڑنے لگی تھی۔ حکیم صاحب نے اسے کچھ دوائیاں بھی دی تھیں۔ مگر سر میں اُٹھتی درد کی لہر رات تک شدت اختیار کر گئی تھی۔ اسے میگرین کا اٹیک ہوا تھا۔ جس کے بعد وہ بےہوش ہو گیا تھا۔۔۔

" اب طبیعت کیسی ہے؟ "

یوسف کو جاگتے دیکھ کر کرسی پر بیٹھے حکیم صاحب نے پوچھا۔ ناصر کسی کام سے باہر چلا گیا تھا۔

" پانی۔۔۔ پانی۔"

" لو پانی پی لو۔"

پاس موجود مٹکے سے پانی نکال کر یوسف کو سر سے تھوڑا اوپر کو اُٹھایا اور گلاس اس کے منہ سے لگا دیا۔

" اب بہتر محسوس کر رہے ہو؟ " گلاس واپس رکھتے ہوئے پوچھا۔

" جی !! " وہ پھر لیٹ گیا۔

کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔ حکیم صاحب سامنے کرسی پر بیٹھے اسے دیکھتے رہے پھر چند لمحوں بعد ہی اس خاموشی کو توڑتے ہوئے گویا ہوئے۔

" کب تک اس طرح زندگی گزارتے رہو گے؟ آٹھ سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے کسی کو بھولنے کیلئے، مگر تم آج بھی وہیں کھڑے ہو۔"

" میں نے اُنہیں کبھی بھولنے کی کوشش نہیں کی۔" یوسف دھیرے سے کہتا اُٹھ بیٹھا۔

" تم اپنی زندگی برباد کر رہے ہو۔ واپس لوٹ کیوں نہیں جاتے؟ " 

" کچھ برباد نہیں کر رہا میں اور اب واپس کیسے لوٹ جاؤں؟ وہاں کچھ نہیں بچا میرے لیے۔" اس نے نظریں جھکائے کہا۔

" کسی ایک کے چلے جانے سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی۔ زندگی جینا سیکھو۔" انہوں نے سمجھانا چاہا۔

" زندگی جینے کیلئے " خواہشات " کا ہونا ضروری ہے اور زندگی گزارنے کیلئے ایک " آس" کا۔۔۔ اور اب دونوں ہی میرے پاس نہیں۔" وہ بولا تو آواز بھرا گئی۔

" مایوسی کفر ہے میرے بچے۔ اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔" اب کے یوسف خاموش ہو گیا کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ اسے خاموش دیکھ کر وہ مزید کہنے لگے۔

" جس عورت کے پیچھے تم اپنی زندگی برباد کر رہے ہو، وہ کبھی تمہاری تھی ہی نہیں۔ اس لیے بہتر ہے تم شادی کر لو، گھر بار کے ہوجاؤ گے تو اس فریب سے بھی نکل آؤ گے۔ جس میں اتنے سالوں سے جی رہے ہو۔"

یوسف اب بھی خاموش رہا۔ حکیم صاحب اس کیلئے معتبر تھے۔ وہ ان سے بحث نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کافی دیر اس کے بولنے کا انتظار کرتے رہے۔ مگر یوسف کچھ نہ بولا تو وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔

" تمہارے لیے ناشتہ بھیجتا ہوں۔ اُٹھ کر منہ ہاتھ دھو لو۔"

وہ کہہ کر دروازے کی جانب بڑھے۔ یوسف وہیں بیٹھا انہیں جاتے دیکھتا رہا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ انہوں نے شادی کی بات کی تھی۔ ان آٹھ سالوں میں وہ کئی بار اس سے یہ بات کہہ چکے تھے مگر اس معاملے میں وہ خود کو بےبس پاتا تھا۔

" کاش میں اپنا دل چیر کر دیکھا سکتا تو شاید یہ باتیں آپ کبھی نہ کہتے۔" وہ بڑبڑایا۔

۔*********۔

جسمین کچن میں کھڑی فائزہ بیگم کیلئے ناشتہ بنا رہی تھی۔ جب ایک ہاتھ میں سوٹ کیس اور دوسرے ہاتھ میں حدید کا ہاتھ پکڑے حورین نیچے آئی۔

" کہاں جا رہی ہیں بھابھی !! " اسے دیکھتے ہوئے جسمین کچن سے باہر نکل آئی۔

" جا رہی ہوں گھر چھوڑ کر، جس گھر میں میری کوئی حیثیت نہیں مجھے وہاں نہیں رہنا۔" وہ غصّہ ضبط کرتے ہوئے بولی۔

" یہ کیا کہہ رہی ہیں؟ بھائی نے کچھ کہا ہے؟ "

" کچھ کہا ہے؟ واہ بی بی ایسے بن رہی ہو جیسے تمہیں تو کچھ پتا ہی نہیں۔ کیا کہہ رہی تھی کل۔ محبت ضروری نہیں صرف حسن سلوک کافی ہے۔" وہ غصّے سے چلائی۔

" اپنا گھر تو بسا نہیں سکی اور میرے شوہر کو بھی مجھ سے بدظن کرنے کوشش کرتی رہی۔ تم جیسی عورتیں ہوتی ہیں جو کسی کے دل میں نہیں اُتر پاتیں۔۔۔"

" حورین !! "

بلاج کی دھاڑ پر حورین کی چلتی زبان کو بریک لگ گیا۔ جسمین جو خود پر ضبط کرتی اس کی باتیں سن رہی تھی فوراً پلٹ کر کچن میں چلی گئی۔ یہ اب دونوں میاں بیوی کا معاملہ تھا۔ اسے بیچ میں نہیں آنا چاہیئے تھا۔

" آئندہ اگر میری بہن کو کچھ بولا تو اچھا نہیں ہوگا اور جا رہی ہو تو جاؤ۔ لیکن حدید کہیں نہیں جائے گا۔" بلاج نے اس کے قریب آتے ہوئے کہا۔

طبیعت خراب ہونے کے باعث وہ ہسپتال جانے کے بجائے واپس گھر لوٹ آیا تھا۔ مگر گھر پہنچتے ہی سامنے کے منظر نے اس کا دماغ گھما دیا تھا۔

" ہاں!! اب تو مجھے جانے کیلئے کہیں گے۔ آخر اپنی بہن کا بدلہ جو لینا ہے۔" وہ طنزیہ انداز میں بولی۔

" میں اللّٰه کے انصاف پر یقین رکھتا ہوں۔ اگر اپنی بہن کا ہی بدلہ لینا ہوتا تو اُسی دن گھر سے باہر نکال دیتا جب تمہارے بھائی نے میری بہن کو طلاق دی تھی۔" وہ بھی اسی کے لہجے میں بولا۔

" خیر اپنی مرضی سے جا رہی ہو۔ سوچ سمجھ کر جانا میں لینے نہیں آؤں گا۔"

دوٹوک انداز میں کہتا، حدید کا ہاتھ تھامے وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ حورین نے بےبسی سے سوٹ کیس کو اُٹھا کر دور پھینکا۔ وہ جو یہ سوچ رہی تھی کہ اس طرح بلاج اس سے معافی مانگے گا اسے منائے گا، سب بیکار گیا تھا۔ وہ اُلٹا اسے دھمکا گیا تھا۔

" سکینہ بی یہ برتن چھوڑیں، کچھ کپڑے تھے دھلائی کیلئے آپ وہ جا کر دیکھیں۔" حورین کچن میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔

" ٹھیک ہے بیگم صاحبہ۔" سکینہ بی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کچن سے نکل گئیں۔

ان کے جاتے ہی حورین چلتی ہوئی ڈائننگ ٹیبل کے پاس آئی جہاں جسمین بیٹھی ٹماٹر کاٹ رہی تھی۔ مصروف رہنے کیلئے وہ اکثر سکینہ بی کی مدد کر دیا کرتی تھی۔

حورین خاموشی سے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتے رہنے کے بعد وہ گویا ہوئی۔

" کیا بہت خوبصورت تھی؟ "

" کون؟ " جسمین چونکی۔

" بلاج کی پہلی بیوی؟ "

اس کے سوال پر جسمین نے گہرا سانس لیا۔ وہ اب اس عورت کو کیسے سمجھائے جو مرد کے دل میں اُترنے کا راز بس حسن کو ہی سمجھ بیٹھی تھی۔

" نہیں وہ آپ جتنی خوبصورت نہیں تھیں۔" حورین کے چہرے پر نظریں جمائے کہا۔ وہ بے یقینی سے جسمین کو دیکھنے لگی۔

" پھر۔۔۔ پھر وہ کیوں اُس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ مرنے کے " بعد بھی اُسے نہیں بھولا؟ " وہ پوچھ رہی تھی۔

" بھولے وہ اس لیے نہیں کیونکہ "محبت" کرتے ہیں اور رہا سوال محبت کیونکہ کرتے ہیں؟ تو۔۔۔ " جسمین رکی، حورین نے بےچینی سے پہلو بدلا۔

" اس سوال کا جواب تو شاید خود محبت کرنے والے کے پاس بھی نہیں ہوگا۔"

کہتے ہوئے ایک تلخ مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی۔ پہلے وہ خود بھی ہمیشہ یہی سوچتی تھی کہ یوسف اس سے کیوں اتنی محبت کرتا ہے۔ وہ اُس جیسی خوبصورت تو نہیں۔۔۔

" مطلب؟ میں سمجھی نہیں۔ " حورین الجھی۔

" مطلب یہ کہ شاید بات ساری "نصیب" کی ہوتی ہے۔ اس لیے ازل سے لوگ لڑکی کے نصیب سے ڈرتے آئے ہیں۔"

" تمہارا مطلب میرا نصیب اچھا نہیں؟ " جسمین کی بات پہ حورین کے ماتھے پر انگنت بل پڑے تھے۔

" میرا مطلب یہ ہرگز نہیں۔ بس اتنا سمجھ لیں سب کو " سب کچھ " نہیں ملتا، جیسے یاسمین بھابھی "محبت" کے معاملے میں نصیب والی تھیں۔ ویسے ہی آپ "خوبصورتی" کے معاملے میں نصیب والی ہیں۔ اللّٰه نے بڑی فرصت سے آپ کو بنایا ہے۔ آپ بھی فرصت سے اس رب کو وقت دیا کریں اور لاحاصل کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں۔"

ٹہرے ہوئے لہجے میں کہتی جسمین اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ٹماٹر کٹ چکے تھے۔ وہ کیبنٹ کی جانب بڑھ گئی۔

حورین خاموشی سے اسے دیکھنے لگی جو کٹے ہوئے ٹماٹروں پر پلیٹ ڈھکنے کے بعد سنک کے سامنے کھڑی ہاتھ دھو رہی تھی۔

" کیا تمہارے پاس یاسمین کی کوئی تصویر ہے؟ " حورین نے دھیرے سے پوچھا۔

جسمین جو ہاتھ دھو کر اب کچن سے باہر نکل رہی تھی۔ یکدم رکی، زرا کا زرا چہرہ موڑ کر حورین کو دیکھا۔ جو سر جھکائے اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔

" اسٹور روم میں جو الماری ہے، اُس کی ڈرار میں نکاح کا البم موجود ہے۔"

وہ کہہ کر فوراً وہاں سے نکل گئی۔ جبکہ حورین وہیں بیٹھی جسمین کی باتوں پر غور کرنے لگی۔

۔*********۔

اس وقت تک مزار پر ایک دنیا آباد ہوچکی تھی۔ ادھر سے اُدھر چلتے لوگوں میں کوئی چادر چڑھا رہا تھا، تو کوئی منتوں کے دھاگے باندھ رہا تھا۔ کہیں غریبوں میں کھانا تقسیم ہو رہا تھا، تو کہیں دیوں کو جلا رہا تھا۔ ایسے میں وہ جبوترے کے کونے میں ان سب سے بےنیاز بیٹھا آسمان کو تک رہا تھا۔ جہاں باقی دنوں کی نسبت آج موسم ابر آلود تھا۔

" آج پورے آٹھ سال، چار مہینے اور دس دن ہوگئے۔ مگر آج بھی میں وہیں کھڑا ہوں۔ اُسی دن، اُسی جگہ جہاں مجھے اپنا آپ کھائی میں گرتا محسوس ہوا تھا۔"

اس نے آنکھیں بند کرلیں جس کے ساتھ ہی سارا منظر آنکھوں میں ایک بار پھر گھوم گیا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔

" انسان ساری زندگی "چاہ" کے پیچھے بھاگتا ہے۔ خود کو حاصل اور لاحاصل کے درمیان بےسکون رکھتا ہے۔ لیکن تقدیر کے ہاتھوں جو آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ وہ لاحاصل ہوتی ہے۔" اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے اپنے اندر کے اضطراب کو کم کرنا چاہا۔

" آٹھ سال پہلے "حاصل" کی چاہ نے مجھے آج "لاحاصل" تک پہنچا دیا۔"

سوچتے ہوئے آنکھوں میں نمی اُترنے لگی۔ ان آٹھ سالوں میں ایک بار بھی اس کی زبان پر کبھی شکوہ نہیں آیا تھا۔ لیکن آج اس کا دل بےچین ہوتا شکوہ کر رہا تھا۔ 

یوں تو زبان پر اب بھی کوئی شکوہ نہیں تھا کہ اُس پر اس کا اختیار تھا۔ مگر آنکھ سے بہتا ہوا آنسو اور دل سے اُٹھتی آہ پر کیسے قابو پاتا، وہ تو بےاختیار تھا۔

چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے منظر کو دھندلا کرتے پانی کو صاف کیا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ ابھی چند قدم آگے کی جانب بڑھائے ہی تھے کہ سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اپنی جگہ ساکت ہو گیا۔

۔*********۔

اسٹور روم کے دروازے کو دھکیلتی وہ اندر داخل ہوئی۔ پورا کمرہ تاریکی میں ڈوبہ ہوا تھا۔ دروازہ بند کر کے اس نے دیوار کی سائڈ پر نصب سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لائٹ جلائی۔ پورا کمرہ روشنی سے جگمگا اٹھا۔

چاروں طرف دھول مٹی سے اٹا پرانا سامان بکھرا پڑا تھا۔ وہیں دائیں جانب دیوار سے لگی وہ الماری بھی موجود تھی۔ حورین چلتی ہوئی اس الماری کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ہاتھ بڑھا کر الماری کے دروازوں کو کھولا۔ سامنے ہی ایک ڈرار موجود تھی۔ بس ہاتھ بھر کا فاصلہ تھا اور اسی ہاتھ کی ذرا سی جنبش سے اُس راز کو آج آزاد ہوجانا تھا۔

ایک انجان سا احساس اور عجیب سی کیفیت اس پہ طاری ہوئی تھی۔ ساری الجھنوں کو جھٹکتے ہوئے اس نے دایاں ہاتھ ڈرار کی طرف بڑھایا۔ وہ جانتی تھی کہ ابھی کا ہی کوئی اگلا پل اس کو اُس چہرے سے آگاہی دے جائے گا۔ وہ چہرہ جو آٹھ سال گزرنے جانے کے بعد بھی اس کے شوہر کے دل کا مکین تھا۔

حورین کے دونوں ہاتھوں نے میکانکی انداز میں ڈرار کو چھوا۔ ڈرار کھلی سامنے ہی سرخ مخمل میں لپٹی البم موجود تھی۔

ویسے تو اسٹور روم میں ہر چیز دھول مٹی سے اٹی ہوئی تھی، ماسوائے اس البم کے جس پر زرہ برابر بھی دھول موجود نہ تھی۔ یوں جیسے روز اس کو کھولا جاتا ہو، صاف کیا جاتا ہو۔۔۔

ہاتھ میں البم اُٹھائے اس نے کھولا۔ سامنے ہی ایک بڑی سی تصویر موجود تھی۔ جس میں سنہرے کامدار جوڑے میں ملبوس دلہن بنی لڑکی یقیناً یاسمین تھی۔ حورین غور سے اسے دیکھنے لگی۔ کتابی چہرہ، صاف رنگت، گلابی لب، ستواں ناک اور ڈارک براؤن عام سی آنکھیں۔ عام سے نین نقوش میں بھی وہ لڑکی خوبصورت لگ رہی تھی۔

" بلاشبہ تم خوبصورت ہو مگر اتنی بھی نہیں کہ حورین عالمگیر کا مقابلہ کر سکو۔"

وہ بڑبڑاتے ہوئے دوسری تصویر دیکھنے لگی۔ جس میں بلاج اور یاسمین ساتھ کھڑے مسکرا رہے تھے۔ اس کی نظریں وہیں ٹھہر گئیں۔ کیا جاندار مسکراہٹ تھی بلاج کے چہرے پر، مانو یوں کے ساری کائنات اس کے ہاتھوں میں تھما دی ہو۔

ان آٹھ سالوں میں کبھی اس نے بلاج کو اس طرح مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔ جس طرح وہ تصویر میں مسکرا رہا تھا۔ یقیناً یہ یاسمین کے ساتھ کا ثمر تھا۔ خواہشوں کو پا لینے کی سرشاری تھی۔ جو اُس کی مسکراہٹ سے جھلک رہی تھی۔

" کیا واقعی تمہیں اس سے اتنی محبت ہے کہ اس کے بعد ہر خوشی کو خود پر حرام کر لیا۔"

اسے اپنا وجود انگاروں پر جلتا محسوس ہوا تھا۔ اس نے واپس البم ڈرار میں رکھی اور الماری کو بند کر کے سیدھا کمرے سے باہر نکل گئی۔

" جسے اپنے حسن پہ تھا ناز بڑا

    آج اُسی کی ذات ہے غم زدہ

 جس کے قہقہوں سے گونجتا تھا آشیاں

   کیوں وہی گلاب ہے اشک زدہ "

۔*********۔

" میں اندر آجاؤں؟ "

دروازے پر کھڑا بلاج اس سے اجازت مانگ رہا تھا۔ جسمین اسے دیکھ کر مسکرا دی۔

" آجائیں بھائی۔"

" کیا کر رہی تھیں؟ " وہ اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

" کچھ خاص نہیں بس فارغ تو ہوتی ہوں اس لیے یہ کتاب پڑھ رہی تھی۔ خیر !! آپ بتائیں کہاں چلے گئے تھے؟ " کتاب سائڈ پر رکھتے ہوئے جسمین نے پوچھا۔ حورین سے جھگڑے کے بعد وہ تب کا گھر سے نکلا اب رات میں آیا تھا۔

" بس کچھ ضروری کام یاد آگیا تھا۔" بلاج کہہ کر خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔

" کیا ہوا کوئی بات ہے؟ " جسمین کو اس کا انداز کچھ عجیب لگا۔

" مجھے بتاؤ اگر میں کوئی فیصلہ کروں تو تم انکار تو نہیں کرو گی؟ " اس نے تمہید باندھی۔

" کبھی انکار کیا ہے؟ " پلٹ کر سوال کیا۔

" نہیں پر اب کچھ بھی تمہاری مرضی کے بغیر نہیں کرنا چاہتا۔"

بلاج نے کہتے ہوئے گہرا سانس لیا۔ شاید یہ احساسِ ندامت ساری زندگی اس کا پیچھا نہیں چھوڑنے والا تھا۔

" کیا بات ہے؟ " جسمین نے اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" تم شادی کر لو جسمین۔"

بلاج کی بات پر وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ جس بھیانک خواب میں پانچ سال گزارے کے بعد وہ جاگی تھی، اب اُسے دوبارہ دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔

" پر بھائی کیوں؟ " وہ بمشکل بولی۔

" کیونکہ میں نہیں چاہتا کوئی میری بہن کو یہ طعنہ دے کہ وہ اپنا گھر نہیں بسا سکی۔"

بلاج کو حورین کی باتیں اب تک چبھ رہی تھیں۔ اس لیے اُس نے کوئی اچھا لڑکا دیکھ کر جسمین کی شادی کرانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

" دیکھو جسمین !! اگر تم یہ سوچ رہی ہو میں تمہیں اس گھر سے نکالنا چاہ رہا ہوں تو ایسا نہیں ہے۔ یہ گھر تمہارا ہے، تمہارے نام ہے۔ شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ یہیں رہنا۔" اسے خاموش دیکھ کر بلاج کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا تھا۔ سو اس نے کہہ دیا۔

" ایسا کچھ نہیں ہے بھائی۔" جسمین دھیرے سے بولی۔

" پھر سمیر کی وجہ سے؟ تو اُس نے بھی دوسری شادی کر لی اور دیکھو اُس نے جو کیا آج اُس کا انجام بھگت رہا ہے۔ پھر ہر مرد سمیر کی طرح نہیں ہوتا۔" بلاج نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔

" ٹھیک ہے بھائی !! جو آپ کو بہتر لگے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔" سر جھکائے وہ رضامند ہوئی۔

" تھنکیو گڑیا !! میرا مان رکھنے کیلئے۔"

بلاج مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ پیچھے بیٹھی جسمین کے زخم نئے سرے سے تازہ ہوئے تھے۔

۔*********۔

ہاتھوں میں لوشن لگاتے ہوئے اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے سے بلاج کو دیکھا جو حدید کو اپنے سینے پر لٹا کر اُس کے ساتھ کارٹون دیکھ رہا تھا۔ گھر واپس آنے کے بعد اس نے ایک بار بھی حورین کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ بلاج اس سے ناراض تھا اور اس کی ناراضگی کو وہ اچھے سے سمجھ بھی گئی تھی۔

" سمیر کی اور رجا کی علیحدگی ہو رہی ہے۔"

بلاج کو آئینے میں دیکھتے ہوئے اس نے زرا بلند آواز میں کہا تاکہ بیڈ پر بیٹھے بلاج تک باآسانی پہنچ جائے۔

" ظاہر ہے یہ تو ہونا ہی تھا۔ تمہارے بھائی نے بھی میری بہن کے ساتھ کچھ کم غلط نہیں کیا تھا۔" ٹی وی پر نظریں جمائے وہ روکھے لہجے میں بولا۔

" ایسے تو نہیں بولیں۔" وہ تڑپ اُٹھی۔

مانا کہ بھائی نے غلط کیا تھا۔ مگر وہ بہن تھی، بھائی کیلئے ایسی باتیں کہاں برداشت کر سکتی تھی۔

" بُرا لگا نا۔ مجھے بھی ایسے ہی بُرا لگتا ہے جب تم کچھ میری بہن کو کہتی ہو۔" کہتے ہوئے بلاج نے اس کی طرف دیکھا۔ حورین شرم سے سر جھکا گئی۔

" سوری !! "

" دیکھو حورین !! تم میری بیوی ہو۔ میں تم سے بھی پیار کرتا ہوں۔ لیکن بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو۔ میری وجہ سے وہ تمہیں کچھ نہیں کہتی، اس کا مطلب یہ نہیں تم اُسے باتیں سنا جاؤ۔"

حورین کے جھکے سر کو دیکھ کر اب کے بلاج  نے نرم لہجہ اپنایا۔ وہ اسے جھکا نہیں چاہتا تھا۔ بس غلطی کا احساس دلانا چاہتا تھا۔ جو اُسے ہو بھی گیا تھا۔

" میں جسمین سے معافی مانگ لوں گی۔" وہ ہنوز سر جھکائے بولی۔

" اس کی ضرورت نہیں، بس آئندہ احتیاط کرنا۔"

اب کے حورین نے سر اُٹھا کر آئینے میں سے بلاج کو دیکھا جو واپس ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا ساتھ ہی حدید سے کچھ کہہ بھی رہا تھا۔

" پیار !! " اسے نے چند سیکنڈ پہلے کہے بلاج کے لفظوں کو سوچا۔

" رشتوں میں پیار، اپنائیت تو فطری بات ہے۔ لیکن محبت یا عشق جو کچھ بھی تھا وہ آپ کو اب بھی یاسمین سے ہے مجھ سے نہیں۔"

سوچتے ہوئے اس نے آئینے میں نظر آتے اپنے عکس پر نگاہ جمائی کہ تبھی اسے جسمین کے کہے الفاظ یاد آئے۔

" سب کو " سب کچھ " نہیں ملتا، جیسے یاسمین بھابھی "محبت" کے معاملے میں نصیب والی تھیں۔ ویسے ہی آپ "خوبصورتی" کے معاملے میں نصیب والی ہیں۔" 

" خوبصورت !! " اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

" اللّٰه نے بڑی فرصت سے آپ کو بنایا ہے۔ آپ بھی فرصت سے اس رب کو وقت دیا کریں۔"

" فرصت سے وقت۔۔۔" وہ بڑبڑائی۔ جسمین کی باتوں کو سوچتے ہوئے ایک بار پھر اس کی نظر بلاج پر پڑی۔

" اور لاحاصل کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں۔" 

" لاحاصل !! " یکدم اس کے منہ سے نکلا۔ دسترس میں یہ شخص ہو کر بھی اس سے کتنا دور تھا۔ یہ اسے کل رات پتا چلا تھا۔

" تم نے ٹھیک کہا تھا جسمین !! غرور صرف اللّٰه کی ذات کو جچتا ہے۔ اُس کے بندوں کو نہیں۔ میں جو یہ سوچتی تھی کہ بلاج نے مجھے پہلی نظر میں ہی پسند کر لیا تھا، اس لیے میرا رشتہ بھجوایا۔۔۔

مگر نہیں یہ تھی میری اوقات جو مجھ سے پوشیدہ تھی۔ یہ محبت کا نہیں مجبوری کا رشتہ ہے۔ جو یہ انسان نبھاتا آرہا ہے۔" اس نے دکھ سے سوچتے ہوئے آنکھیں میچ لیں۔

۔*********۔

صبح کا نرم سا اجالا سبزہ زار میں اتر چکا تھا۔ آسمان پہ سفید بادلوں کے ٹکڑے چلتے نظر آ رہے تھے۔ ہوا میں خنکی تھی اور فضاء میں پھولوں کی مہک چاروں سوں پھیل چکی تھی۔ ایسے میں وہ تینوں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ فیملی پارک میں موجود تھے۔ اتوار کے باعث وہ سب ایک ساتھ گھومنے نکل آئے تھے۔

" فریال بچے دیکھو آگے جا رہے ہیں انہیں پکڑو۔" جنید نے اپنے چار سالہ جڑواں بچوں کو دیکھتے ہوئے بیوی سے کہا۔ جو صوبیہ اور مسکان سے باتوں میں مصروف تھی۔

" تم نے کیا پاؤں میں مہندی لگا رکھی ہے جا کر پکڑو۔" وہ اس کے کان میں گھس کر گھورتے ہوئے بولی۔ آواز اتنی اونچی تھی کہ پاس بیٹھی مسکان اور صوبیہ کیلئے اپنی مسکراہٹ دبانا مشکل ہوگیا۔

" موٹی بیٹھے بیٹھے پھٹ جائے گی۔" جنید اسے گھور کر کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

" یار تم لوگ باتیں کرو، میں حنان اور ہما کو لے کر آیا۔"

" نہیں رک ہم بھی تیرے ساتھ چلتے ہیں۔ ایک چکر لگا آتے ہیں۔" حذیفہ اور نوید بھی اس کے ساتھ ہی اُٹھ گئے۔

" صوبیہ اسے پکڑو ہم ابھی آئے۔" نوید نے دو سالہ تانیہ کو صوبیہ کی گود میں دیا اور ان دونوں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔

" کزنز میں شادی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے۔ شوہر کو کچھ بھی کہہ لو بیچارا صبر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔" مسکان فریال کو آنکھ مارتے ہوئے شرارت سے بولی۔

فریال جنید کی چچا زاد تھی۔ جبکہ مسکان کی حذیفہ سے شادی رشتہ کرانے والی کے توسط سے ہوئی تھی۔ دونوں کی شادی کو پانچ سال ہو چکے تھے۔ اس دوران اللّٰه نے جنید کو دو جڑواں بیٹا، بیٹی سے نوازا تھا۔ مگر حذیفہ کی ابھی کوئی اولاد نہیں تھی۔

" اور مسکان تم بتاؤ حذیفہ بھائی کیسے ہیں؟ " صوبیہ نے بھی شرارت سے پوچھا۔

" بہت اچھے !! شادی کو پانچ سال ہوگئے۔ مگر ایک بار بھی انہوں نے احساس نہیں ہونے دیا کہ انہیں بچوں کی خواہش ہے۔ جبکہ گھر میں سب جانتے ہیں حذیفہ کو بچے کتنے پسند ہیں۔" مسکان نے کہتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔

" کوئی بات نہیں یار !! اللّٰه کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ دیکھنا اللّٰه تعالیٰ جلد ہی تمہیں بھی ماں کے عہدے پر فائز کر دیں گے۔"

" آمین !! " صوبیہ کی بات پر وہ دونوں ایک ساتھ بولیں۔

" ویسے محترمہ آپ کا تو تیسرا آنے والا ہے۔ لگتا ہے حذیفہ سے زیادہ تو جنید بھائی کو بچے پسند ہیں۔"

ماحول میں چھائی اداسی کو ختم کرنے کیلئے مسکان نے باتوں کا رخ واپس فریال کی طرف موڑا۔ جو ایک بار پھر تخلیق کے مرحلے سے گزر رہی تھی۔

" ایسا بھی کچھ نہیں ہے۔" وہ منہ بنا کر بولی، ساتھ ہی چہرہ موڑ کر اُن تینوں کو دیکھا جو حنان اور ہما کے ساتھ کھیل رہے تھے۔

" جنید آج کل بہت اداس رہنے لگا ہے۔" اب کے وہ سنجیدہ تھی۔

" اور نوید مصروف۔" صوبیہ نے کہتے ہوئے گہرا سانس لیا۔ جانتی جو تھی، آخر میاں کہاں مصروف ہو سکتا ہے۔

" یقیناً یوسف بھائی کی وجہ سے ہونگے۔ حذیفہ کا بھی یہی حال ہے۔ ویسے میں اُن کے بارے ميں زیادہ تو نہیں جانتی پر ہمیشہ یہی دعا کرتی رہتی ہوں وہ جہاں بھی ہیں لوٹ آئیں۔" مسکان بولی، جس پر اُن دونوں نے دل سے آمین کہا تھا۔

۔*********۔

لان میں لگی کرسیوں پر بیٹھے وہ تینوں باتوں میں مصروف تھے ساتھ ہی ویل چیئر پر فائزہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہیں تھوڑے فاصلے پر حدید اپنی سالگرہ میں ملنے والے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ جو اسے دو دن پہلے ملے تھے۔ موسم خوشگوار ہونے کے باعث وہ سب لان میں آ کر چائے پینے لگے تھے۔

" جسمین میں سوچ رہی تھی۔ کہیں رشتہ لگنے سے پہلے تم ایک بار اُس بابا کے پاس ہو آؤ۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا، اُس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔"

حورین نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا جو حدید کو کھیلتے دیکھ مسکرا رہی تھی۔

" اس کی کیا ضرورت ہے بھابھی جو نصیب میں لکھا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔" اس نے ٹالنا چاہا۔ آج پورے ایک ہفتے بعد پھر دوبارہ اس کی شادی کے متعلق کوئی ذکر چھیڑا تھا۔

" میڈم دعائیں نصیب بدل دیتی ہیں اور میں کونسا کہہ رہی ہوں تم درگاہ پر جا کر چادر چڑھاؤ۔ بس بابا سے اپنے لیے دعا کروا لینا۔ کیوں بلاج، ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟ "

جسمین سے کہتے ہوئے آخر میں اس نے بلاج کو گھسیٹا جو ان دونوں کی باتوں سے بےنیاز بنا بیٹھا چائے پی رہا تھا۔

" کوئی حرج نہیں ہے جانے میں، باقی تمہاری مرضی۔" بلاج نے کندھے اچکا کر کہا پھر واپس چائے کی طرف متوجہ ہو گیا۔

" ان کو چھوڑو میں کہہ رہی ہوں نا تمہیں جانا چاہیئے۔ کیا پتا اُن کی دعا سے کوئی اچھا رشتہ مل جائے۔" حورین نے ایک بار پھر اسے قائل کرنا چاہا۔

" ویسے ایک رشتہ ہے میرے دوست کا، مجھے مناسب بھی لگ رہا ہے۔ سوچ رہا ہوں وہیں جسمین کا رشتہ کر دوں۔ لڑکا بھی اچھا پڑھا لکھا ہے۔" بلاج نے سنجیدگی سے کہا۔

جسمین نے چونک کر اسے دیکھا پھر واپس نظریں جھکا لیں۔ جب شادی کی اجازت دے ہی دی تھی تو اب اعتراض کیسا۔

" اچھا کون ہے وہ؟ " حورین نے فوراً اشتیاق سے پوچھا۔

" ہے ایک تم نہیں جانتی۔"

" پھر تو تمہیں ضرور جانا چاہیئے جسمین۔ جا کر اپنے لیے دعا کروانا تاکہ یہ رشتہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔" حورین کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی تھی۔ جسمین نے گہرا سانس لیا۔

" ٹھیک ہے۔ آپ کہتی ہیں تو میں چلی جاؤں گی۔"

جسمین کے راضی ہوجانے پر بلاج نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ اسے روکنا چاہتا تھا لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

" تم ایسا کرنا اکمل کے ساتھ کل ہی چلی جانا۔"

" کل؟ کل نہیں، کل تو حدید کے اسکول میں پیرنٹس میٹنگ ہے۔" حورین جو اس چکر میں تھی کہ جسمین کے بہانے خود بھی بابا سے مل آئے گی۔ اب اسے اپنے پلان پر پانی پھرتا ہوا دکھائی دیا۔

" ہاں کل حدید کے اسکول میں پیرنٹس میٹنگ ہے۔ اس لیے میں نے کہا ہے اکمل کے ساتھ جانے کو۔" بلاج نے جتایا۔

" مگر۔۔۔"

" مگر وگر کچھ نہیں۔ جو کام جتنی جلدی ہوجائے اتنا اچھا ہے۔"

بلاج دوٹوک لہجے میں کہتا ہوا اُٹھا اور فائزہ بیگم کو لے کر اندر چلا گیا۔ جبکہ پیچھے بیٹھی حورین دل مسوس کر رہ گئی۔

۔*********۔

صحن کے بیچوں بیچ کھڑا وہ خالی خالی نظروں سے ان درو دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں کبھی اس نے اپنے عزیز از جان دوست کے ساتھ زندگی کی حسین یادیں گزاری تھیں۔

" یوسف !! "

اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے ان دونوں کو دیکھا جو راشد کے ساتھ مل کر سامان ادھر سے اُدھر کر رہے تھے۔ پارک سے واپسی پر کچھ دیر آرام کرنے اور ادھر اُدھر کے کام نبٹا لینے کے بعد وہ تینوں سیدھا یوسف کے گھر آگئے تھے اور اب دو گھنٹے سے اس گھر کی صفائی کرنے میں مصروف تھے۔ ان آٹھ سالوں میں ایک بار بھی ان لوگوں نے اس گھر کی درو دیوار کا رنگ پھیکا پڑنے نہیں دیا تھا اور نہ کسی گرد کو یہاں موجود ساز وسامان کو چھونے دیا تھا۔

" نوید ادھر آکر مدد کر۔"

حذیفہ نے الماری کو کھسکاتے ہوئے آواز لگائی۔ صفائی ہوچکی تھی اب وہ سامان کو اُس کی جگہ پہنچا رہے تھے۔ نوید اس کی مدد کیلئے آگے بڑھا۔

" جلدی کرو یار رات ہونے لگی ہے۔ گھر دیر سے پہنچا تو فریال کا بڑا سا منہ بن جائے گا۔" جنید خود منہ بنا کر بولا جس پر وہ تینوں ہنس پڑے۔

" تیرے ساتھ ہونا بھی یہی چاہیئے۔"

" تو تو منہ بند ہی رکھ، تیرا حال بھی مجھ سے کچھ کم نہیں۔ کیونکہ صوبیہ بھابھی بھی فریال کی طرح ہی جلاد ہیں۔" نوید کی بات پر جنید نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا۔

" بھائی آپ تینوں منہ ہاتھ دھو لیں تب تک میں کھانے پینے کیلئے کچھ لاتا ہوں۔" سامان کو اُس کی جگہ پہنچانے کے بعد راشد کمر سیدھی کرتے ہوئے بولا۔

" ہاں یار جلدی لے آ تب تک میں اپنی کمر سیدھی کر لوں۔" جنید کہتا ہوا تخت پر جا لیٹا جبکہ نوید واش بیسن اور حذیفہ واش روم کی طرف بڑھ گیا۔

" نیستی کھسک آگے۔" نوید منہ ہاتھ دھو کر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔

" تو ایک ہفتے سے کہاں مصروف ہے؟ " جنید نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" جسمین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مصروف تھا۔"

اس نے سکون سے جواب دیا۔ جبکہ تخت پر لیٹا جنید اور واش روم سے آتا حذیفہ دونوں حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔

" تو پھر کچھ پتا چلا؟ " حذیفہ نے اس کے سامنے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

" ہاں !! " 

" کیا پتا چلا؟ "

" سب کچھ !! "

چہرے پر مسکراہٹ سجائے نوید نے ان دونوں کو دیکھا جو بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس کی مسکراہٹ انہیں کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں لگی۔

" دیکھ نوید !! تیری بیوی ہے، بچی ہے کچھ بھی غلط کرنے سے پہلے اُن کے بارے میں سوچ لینا۔" حذیفہ نے سمجھانا چاہا۔

" اور بھلے اب ان کا سیاست سے تعلق ختم ہو گیا مگر وہ ابھی بھی اثر و رسوخ والے ہیں۔ اگر جسمین کو کچھ ہوا تو بلاج ہمیں چھوڑے گا نہیں۔" جنید نے بھی حذیفہ کا ساتھ دیتے ہوئے کہا۔

" میں ڈرتا نہیں ہوں کسی سے، اس بات کو دماغ میں بٹھا لو۔" نوید کا ٹھنڈا ٹھار لہجہ ایک پل کیلئے دونوں کو خاموش کر گیا۔

" دیکھ نوید اللّٰه بہتر انصاف کرنے والا ہے۔ انتقام کی آگ میں جلنا چھوڑ دے۔ ایسا نہ ہو تو کسی کے ساتھ زیادتی کر جائے۔" حذیفہ نے ایک اور کوشش کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ نوید پر اس کا اثر ہونے والا نہیں۔

" فی الحال جا کر دروازہ کھولو راشد آیا ہوگا کھانا لے کر۔" بیل کی آواز پر نوید نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ حذیفہ اسے گھور کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ جنید تخت سے اُٹھتا اب خود بھی ہاتھ منہ دھونے لگا تھا۔

۔*********۔

اگلے دن بلاج تیار ہو کر ناشتے کے بعد حورین اور حدید کو ساتھ لیے اسکول کیلئے روانہ ہو گیا تھا۔ جبکہ پیچھے جسمین فائزہ بیگم کو کھانا کھلانے کے بعد اب خود درگاہ پر جانے کیلئے تیاری کر رہی تھی۔ بلاج نے جاتے ہوئے اسے ہدایت دی تھی کہ جلدی لوٹ آئے، زیادہ ٹائم لگانے کی ضرورت نہیں۔ جسمین تو ویسے ہی جانا نہیں چاہتی تھی اس لیے فوراً اُس کی بات مان گئی تھی۔

" اف !! بھابھی نے کہاں پھنسا دیا۔" کمرے میں آتے ہوئے وہ بڑبڑائی اور الماری سے کپڑے نکال کر باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ چند لمحوں بعد وہ واپس آئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنانے لگی۔

" ایک اور بار شادی پھر وہی سب۔۔۔ میں کچھ بھی کرلوں لیکن کبھی خوش نہیں رہ پاؤں گی۔" بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹتے ہوئے اس نے سوچا۔

" دل دکھانا کتنا بڑا گناہ ہے۔ اس کا احساس صحیح معنوں ميں اب ہوا ہے۔ کیا کیا تھا میں نے؟ ایک شادی ہی تو کی تھی۔ اُس کی اجازت تو اللّٰه نے ہی دی ہے مگر۔۔۔ جہاں ہمارے جائز عمل میں کسی کی تکلیف شامل ہو جائے وہ کام کبھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا۔"

بال باندھ کر اس نے ایک نظر خود کو آئینے میں دیکھا پھر بیڈ پر پڑا دوپٹہ اُٹھا کر سر پر اچھے سے اوڑھنے کے بعد اپنا موبائل اُٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

" سکینہ بی میں جلدی واپس آ جاؤں گی تب تک آپ امی کا خیال رکھے گا۔" جسمین لاؤنج میں آ کر سکینہ بی سے بولی۔

" فکر نہیں کریں بی بی۔ ابھی تھوڑی دیر میں بختاور بھی آجائے گی وہ سنبھال لے گی بڑی سردارنی کو۔" انہوں نے تسلی دی۔ جس پر جسمین اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئی جہاں اکمل کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔

۔*********۔

" کیا ہوا یوسف؟ پریشان لگ رہے ہو۔"

حکیم صاحب اس کو کمرے میں ٹہلتے دیکھ کر گویا ہوئے۔ جو بھورے رنگ کا شلوار قمیض زیب تن کیے ادھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔

" نہیں پریشان تو نہیں ہوں بس تھوڑی سی گھبراہٹ ہے۔"

" ایک کام کرو کمرے سے باہر نکل کر ٹہل لگاؤ، قدرتی ہوا میں سانس لو گے تو شاید گھبراہٹ ختم ہو جائے۔" وہ سنجیدگی سے بولے اور کمرے میں رکھی جڑی بوٹیوں کو چیک کرنے لگے۔

" اس بار ناصر کیا سامان اُٹھا لایا۔" وہ بڑبڑائے، شاید اچھی نہیں تھیں۔

" کچھ کہا آپ نے؟ " یوسف نے مڑ کر انہیں دیکھا۔

" نہیں کچھ نہیں تم جاؤ پانی وانی پیو۔ اگر پھر بھی گھبراہٹ کم نہ ہوئی تو کوئی انتظام کرتے ہیں۔"

" جی ٹھیک ہے۔" حکیم صاحب کی بات پر وہ اثبات میں سر ہلاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

ناجانے کیوں صبح سے عجیب سی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔ جسے وہ خود کوئی نام نہیں دے پا رہا تھا۔ حکیم صاحب کو تو کہہ دیا تھا کہ گھبراہٹ ہے مگر وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا۔

" کیا ہو رہا ہے مجھے۔۔۔"

کچھ دیر ٹہلتے رہنے کے بعد جب کچھ حاصل نہ ہوا تو وہ چبوترے پر جا کر بیٹھ گیا اور نگاہ کیاریوں میں لگے پھولوں پر جما دی۔ ابھی اسے چند لمحے ہی گزرے تھے کہ اچانک نظر بھٹک کر سامنے سے آتے شخص پر پڑی۔ جو بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

۔*********۔

" تسکین دل کی خاطر 

تم بچھڑتے وقت مسکراتے رہو 

او جانے والے دور جاتے ہوئے 

پلٹ پلٹ کے نظر ملاتے رہو 

دل غلطی کر بیٹھا ہے

غلطی کر بیٹھا ہے دل۔۔۔"

سفید شلوار قمیض میں ملبوس سر پر لال رنگ کا دوپٹہ اوڑھے وہ ایک بار پھر اس درگاہ کے سامنے کھڑی تھی جس کی فضاؤں میں گونجتی کلام کی آواز وہاں موجود لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ رہی تھی۔ 

جسمین دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی مزار کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ مگر آج کسی دھاگہ، دیا یا چادر کیلئے وہ یہاں موجود نہیں تھی۔ آج اسے بس دعا کی ضرورت تھی۔ وہ دعا جو اس کی آٹھ سالوں کی بےسکونی کو ختم کر سکے، وہ دعا جو اسے پچھتاوے سے نجات دلا سکے، وہ دعا جو اسے معافی دلا سکے۔۔۔

(دل غلطی کر بیٹھا تو بول کفارہ کیا ہوگا 

 میرے دل کی دل سے توبہ، دل سے توبہ میرے دل کی) 

سیڑھیاں چڑھ کر اس نے نظریں چاروں اطراف میں دوڑائیں۔ سب کچھ ویسا ہی تھا، جیسا پہلے تھا۔ دیا جلاتے، منتوں کے دھاگے باندھتے، چادر چڑھاتے اور وہی کلام پڑھتے لوگ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ پھر یہ کیسا احساس تھا جو اسے الجھا رہا تھا؟

ساری سوچوں کو جھٹکتے ہوئے اس نے اپنے قدم آگے کی جانب بڑھا دیئے۔ جہاں وہ ایک بار پہلے بھی حورین کے ساتھ جا چکی تھی۔ ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ اس کے اندر کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ دل تھا کہ یہیں سے واپس لوٹ جائے اب ان سب چیزوں پر اس کا عقیدہ نہیں رہا تھا۔ پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ آگے بڑھتی جارہی تھی کہ اچانک ہوا میں اُٹھتے قدم وہیں منجمد ہو گئے، دھڑکن رکنے لگی، سانس تھم سی گئی اور آنکھیں وہیں ساکت رہ گئیں۔۔۔

(دل کی توبہ ہے دل اب پیار دوبارہ نہ ہوگا 

تو بول کفارہ، کفارہ بول کفارہ، تو بول کفارہ، 

کفارہ بول او یارا، او یارا بول کفارہ کیا ہوگا)

سامنے ہی وہ بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ کچھ اُس کا بھی حال ایسا ہی تھا۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی اور اسی بے یقینی کو یقین میں بدلنے کیلئے وہ آہستہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ گرم ہوا کے جھونکے ان کے پاس سے گزرتے ہر منظر کو ساکت کر گئے تھے۔ وقت تھم سا گیا تھا۔ گویا یوں کہ اب یہی رک جاؤ، اب کہیں نہ جاؤ۔۔۔

" مسٹر یوسف حیدر کیا کوئی کسی کیلئے اتنا بھی پاگل ہو سکتا ہے؟ "

" اب مجھے " کوئی" اور " کسی" کا تو نہیں پتا پر یوسف حیدر " جسمین ملک "  کیلئے ہو سکتا ہے۔"

ماضی میں پوچھے جانے والا سوال اور اُس کا جواب آج حقیقت کی عملی تصویر بنا سامنے کھڑا تھا۔ ماضی حال بن کر دونوں کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔۔۔

(جگنو... جگنو کر کے ، تیرے ملن کے دیپ جلاے ہیں

ہم نے جگنو جگنو کر کے ، تیرے ملن کے دیپ جلاے ہیں)

" عاشق کبھی عمر ، مقام ، امیری ، غریبی ، خوبصورتی ، بدصورتی نہیں دیکھا کرتا۔ مجھے آپ سے عشق ہے اس حقیقت کو آپ بدل نہیں سکتیں۔" گزرے لمحوں کو یاد کرتا، وہ ایک ایک قدم بڑھاتا اس کی جانب بڑھنے لگا۔ کبھی دور نہ ہونے کیلئے۔۔۔

(اکھیوں میں موتی بھر بھر کے

 تیرے حجر میں ہاتھ اٹھائیں ہیں)

" اکثر اوقات حسین خوابوں کی تعبیر بہت بھیانک ہوا کرتی ہے مسٹر یوسف حیدر !! روک لو یہیں خود کو۔۔۔" کانوں میں گونجتی آوازیں اور پیروں میں پڑی ظالم سماج کی زنجیروں کو توڑتی وہ بھی لمحہ بہ لمحہ فاصلہ کم کرنے لگی۔ کبھی دور نہ جانے کیلئے۔۔۔

 (تیرے نام کے حرف کی تسبیح کو سانسوں کے گلے کا ہار کیا دنیا بھولی اور صرف تجھے، ہاں صرف تجھے ہی پیار کیا

تم جیت گئے ہم ہارے۔۔۔ ہم ہارے اور تم جیتے)

" پر میں تم سے محبت نہیں کرتی۔"

" نہ کریں میں اپنے رب سے دعا میں آپ کو مانگ لوں گا۔" گزری یادوں کی دھند کو صاف کرتا اور پلکوں کو جھپک کر آنکھوں میں اُبھرتی نمی کو دور دھکیلتا، وہ اپنی دعاؤں کے قبول ہونے کا یقین کرنے لگا۔۔۔

(تم جیت گئے ہم ہارے۔۔۔ ہم ہارے اور تم جیتے

تم جیتے ہو لیکن ہم سا کوئی ہارا نہ ہوگا)

قدم تھمے تھے۔ وہ عین اس کے مقابل کھڑی تھی۔ بنا پلکیں جھپکائے، بغیر کچھ بولے وہ بس اسے دیکھے جا رہی تھی کہ تبھی چہرے پر آتیں سیاہ زلفیں دیدارِ یار میں رکاوٹ بننے لگیں۔ جنہیں یوسف نے ہاتھ بڑھا کر کان کے پیچھے کر دیا۔ یوں کے اب درمیان میں کوئی نہ آئے۔۔۔

" یو۔۔۔ یوسف !! "

لب ہلے اور اگلے ہی لمحے وہ اپنے پورے قد کے ساتھ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکی اس سے معافی مانگ رہی تھی۔ ارد گرد کی پرواہ کیے بغیر۔۔۔

(میرے دل کی دل سے توبہ، دل سے توبہ میرے دل کی

دل کی توبہ ہے دل اب پیار دوبارہ نہ ہوگا 

تو بول کفارہ، کفارہ بول کفارہ، تو بول کفارہ، 

کفارہ بول او یارا، او یارا بول کفارہ کیا ہوگا)

بنا کچھ کہے اس نے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اُٹھایا۔ لوگ حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ وہ ان کی نظروں کی پرواہ کیے بغیر اس کا ہاتھ تھامے تیزی سے چبوترے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔

(ہمیں تھی غرض تم سے اور تمہیں بے غرض ہونا تھا۔

تمہیں ہی لادوا ہو کر ہمارا مرض ہونا تھا۔

چلو ہم فرض کرتے ہیں کہ تم سے پیار کرتے ہیں

مگر اس پیار کو بھی کیا ہمی پہ فرض ہونا تھا)

وہ کسی بے جان گڑیا کی طرح اس کے ساتھ کھینچی چلی جا رہی تھی۔ نظروں میں اب بھی بے یقینی تھی۔ اس نے ایک نظر یوسف کے ہاتھ میں موجود اپنے ہاتھ کو دیکھا پھر یوسف کی پشت کو۔۔۔

(دھڑکن دھڑکن دھڑکے۔۔۔ دھڑکے۔۔۔!!! 

 ہم نے دھڑکن دھڑکن کر کے، دل تیرے دل سے جوڑ لیا

آنکھوں نے آنکھیں پڑھ پڑھ کے، تجھے وِرد بنا کے یاد کیا)

چبوترے کے ایک طرف لاکر یوسف نے ہاتھ چھوڑ دیا ساتھ ہی جسمین کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتی کونے پر جا بیٹھی۔ نظریں تھیں کہ اس کے چہرے سے ہٹنے کو انکاری تھیں۔ اب تک اسے لگتا تھا کہ یوسف سے ملاقات اب بس ایک خواب رہ گیا ہے پر وہ خواب آج حقیقت بن کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مگر کس حال میں۔۔۔

" یہ کیا حال بنا لیا تم نے؟ "

طویل خاموشی کے بعد وہ بولی، ساتھ بیٹھا یوسف دھیرے سے مسکرا دیا۔

" یہ تو مجھے آپ سے پوچھنا چاہیئے۔ کیا حال بنا لیا آپ نے؟ " وہ اس کے مرجھائے ہوئے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔

" تمہاری بددعا لگ گئی۔"

" میں نے کبھی بددعا دی ہی نہیں۔"

" مگر دل تو دُکھا تھا نا تمہارا۔"

بھرائی ہوئی آواز، یوسف نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسے رونے سے باز رکھا۔۔۔

(تجھے پیار کیا تو تو ہی بتا، ہم نے کیا کوئی جرم کیا

اور جرم کیا ہے تو بھی بتا، یہ جرم کہ جرم کی کیا ہے سزا)

" تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اپنی زندگی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو تم؟ " کہتے ہوئے بالآخر وہ سسک پڑی۔

یوسف خاموشی سے اسے دیکھتا رہا نقصان تو اس کا ہوا تھا، مگر بھگت وہ رہی تھی۔ بظاہر تو وہ بدلا تھا، مگر ٹوٹ وہ گئی تھی۔

" کچھ نہیں کیا میں نے اپنی زندگی کے ساتھ " کچھ" کیا ہی تو نہیں۔ کیونکہ مجبور آپ تھیں دنیا کی خاطر میں نہیں۔۔۔"

(تمہیں ہم سے بڑھ کر دنیا، دنیا تمہیں ہم سے بڑھ کر

 تمہیں ہم سے بڑھ کر دنیا، دنیا تمہیں ہم سے بڑھ کر

 ہم کو تم سے بڑھ کر کوئی جان سے پیار نہ ہوگا)

جسمین نے بھیگی نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا جو پُرسکون سا بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر چھایا سکون اسے مزید بے سکون کر گیا۔ اس شخص کو تکلیف پہنچا کر اس نے اپنی دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت بھی خراب کر لی تھی۔ ایک بار پھر جسمین نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔۔۔

(میرے دل کی دل سے توبہ، دل سے توبہ میرے دل کی

دل کی توبہ ہے دل اب پیار دوبارہ نہ ہوگا )

" معاف کر دو یا جو چاہے سزا دے دو۔" بھیگی آنکھیں، جڑے ہاتھ، وہ اس کے ساتھ بیٹھی اپنے لیے کسی فیصلے کی منتظر تھی۔

(تو بول کفارہ، کفارہ بول کفارہ، تو بول کفارہ، 

کفارہ بول او یارا، او یارا بول کفارہ کیا ہوگا)

یوسف نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے آہستہ سے اس کے جڑے ہاتھوں کو الگ کیا۔

" کوئی سزا نہیں اور معاف۔۔۔ معاف تو پہلے ہی کر دیا تھا۔" یوسف مسکرایا۔ جبکہ جسمین کی برداشت یہاں آ کر جواب دے گئی۔

وہ مسلسل بہتی آنکھوں سے اسے دیکھتی اُٹھ کھڑی ہوئی اور ہاتھ منہ پر رکھ کر اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹتی وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔ یوسف نے بےبسی سے اسے جاتے دیکھا مگر روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔

" اُف یہ محبت !! "

اگر محبت کرنا اتنا ہی آسان ہوتا تو نہ یہ کہانیاں لکھی جاتیں، نہ افسانے بنتے، نہ انسان یہ درد کہتا، لکھتا۔۔۔

جب بھی ان دیوانوں کو لگتا کہ آگے کی راہ ہموار ہے تو ایک آندھی چلی آتی کہیں سے اور پھر وہی ڈر، اب کیا ہوگا آگے۔۔۔

دروازہ کھول کر وہ کمرے میں داخل ہوا تو پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بلاج نے ہاتھ بڑھا کر دیوار کے سائڈ پر نصب سوئچ بورڈ کے زریعے لائٹ جلائی۔ پورا کمرہ روشنی سے جگمگا اٹھا۔

" بھائی!! "

جسمین جو بیڈ پر لیٹی خالی خالی نظروں سے چھت کو گھور رہی تھی۔ لائٹ آن ہو جانے پر چہرہ موڑ کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی جہاں بلاج کھڑا تھا، وہ اُٹھ بیٹھی۔

" کیا ہوا؟ حورین بتا رہی ہے تم جب سے آئی ہو کمرے میں بند ہو۔ امی کے پاس بھی نہیں گئیں۔ " بلاج اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا۔

درگاہ سے واپسی کے بعد وہ اپنے کمرے میں ہی بند ہو کر رہ گئی تھی۔ اس دوران حورین نے کئی بار اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر وجہ جاننے کی کوشش کی تھی مگر وہ تو جیسے نہ کھولنے کی قسم کھا بیٹھی تھی۔ کمرے میں بند ہوئے اسے دوپہر سے رات ہونے کو آئی تھی۔ اس لیے صورتحال سے تنگ آ کر حورین نے بلاج کو فون ملا دیا تھا۔ جو سب سنتے ہی ہسپتال سے بھاگا بھاگا سیدھا گھر چلا آیا تھا اور اب جسمین کے سامنے بیٹھا تھا۔

" کچھ نہیں بھائی بس سر میں درد تھا تو دوائی لے کر سو گئی تھی۔" اس نے جھوٹ کا سہارا لیا۔

وہ جو یہ سوچتی تھی یوسف سے ملنے لینے کے بعد، اُس سے معافی مانگ لینے کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تو ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ بے سکونی ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی تھی۔ یوسف کا اس جگہ ہونا ہی اسے انگاروں پر دھکیل گیا تھا۔ وہ وہاں سے کیسے واپس لوٹی تھی، کب گھر آئی، اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ اسے ذہنی یکسوئی کی ضرورت تھی۔ دل پہ چھائی بےچینی اور ذہن پہ چھائے اضطراب سے نمٹنا تھا اور اس کیلئے اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔

" میں تمہیں دوپہر میں فون بھی کر رہا تھا تم نے اُٹھایا نہیں پھر اکمل کو کال کی تو اُس نے بتایا تم بابا سے ملنے گئی ہو اور اپنا موبائل گاڑی میں ہی بھول گئی ہو۔" بلاج اس کے تاثرات کو بغور دیکھتے ہوئے بولا۔ جس کا بابا کے ذکر پر چہرے کا رنگ فق ہوگیا تھا۔

" سوری !! وہ بعد میں موبائل چیک نہیں کیا تھا تو آپ کی کال کا پتا ہی نہیں چلا۔ اس لیے کال بیک بھی نہیں کر سکی۔" وہ مدہم سی آواز میں معذرت کرنے لگی۔

" خیر !! تم کھانا کھا لو پھر آرام کر لینا۔ حورین بتا رہی ہے دوپہر سے تم نے کچھ نہیں کھایا، یوں خالی پیٹ دوائی لینا ٹھیک نہیں۔"

" جی بھائی میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔" اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ بلاج مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتا، کمرے سے باہر نکل گیا۔

۔*********۔

رات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ ایسے میں وہ کمرے کے دروازے پر کھڑا، افق پر نظریں جمائے اُس چہرے کو سوچ رہا تھا۔ جسے آج ساڑھے آٹھ سال بعد اس نے دیکھا تھا۔ وہ جو یہ چاہتا تھا کہ جسمین ایک بار اسے یہاں دیکھ لے اور جان لے کہ اُس کے بعد وہ کس حال میں ہے۔ تو اس کی خواہش کو آج پورا کر دیا گیا تھا۔ اسے جسمین سے ملا دیا گیا تھا۔ اسے یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ اُس رب کی بارگاہ میں دیر ہے اندھیرے نہیں۔

" تو بالآخر ساڑھے آٹھ سال بعد میری دعاؤں کو سن لیا گیا۔"

اس کا دل اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوا۔ دیر سے ہی سہی پر اس کی دعا کو قبول کر لیا گیا تھا۔

" آہ جسمین !! کتنی باتیں تھیں کرنے کو مگر لفظوں نے ساتھ نہ دیا۔" سوچتے ہوئے وہ مسکرایا۔

آخری ملاقات کی طرح وہ آج بھی جسمین سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ ڈھیر ساری باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اپنے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ مگر اس بار بھی سارے الفاظ، ساری باتیں زبان تک آتے ہی دم توڑ گئی تھیں۔ اُسے سامنے دیکھتے ہی اس کا ذہن کسی سلیٹ کی طرح صاف ہو گیا تھا۔

" میرے اللّٰه !! بہت نوازا ہے آپ نے مجھے اگر میری عبادت کے برابر ملتا تو شاید کچھ نہ ملتا۔"

اس کی آنکھیں یکدم نم ہوئی تھیں۔ وہ مڑ کر کمرے میں آ گیا اور وضو بنا کر شکرانے کے نفل ادا کرنے لگا۔ آج اس کا دل پُرسکون ہوگیا تھا۔

" سجدہ فرش پر... کہ عرش ہلا گیا

سر جھکانے کی اک ادا نے کیا خوب کمال کیا "

۔*********۔

فجر کی اذان کے وقت حسبِ عادت بلاج کی آنکھ کھلی تو پورا کمرہ روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ اس نے بےاختیار آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔ کمرے میں جلتی تیز روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی۔

" حورین بھی نا، ساری لائٹس رات کو کھلی چھوڑ دیں۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے اُٹھ بیٹھا کہ تبھی اس کی نظر سامنے نماز پڑھتی حورین پر پڑی۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔

" اف اللّٰه !! یہ معجزہ کسے ہوا۔" ایک نرم سی مسکراہٹ بلاج کے ہونٹوں کو چھو گئی۔

اس نے رمضان کے علاوہ کبھی حورین کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔ کئی بار تو بلاج نے ٹوکا بھی تھا کہ وہ نماز پڑھا کرے پر مجال ہے جو کبھی حورین پر اثر ہو جاتا۔ مگر آج اسے یوں نماز ادا کرتے دیکھ اسے اچھا لگا تھا۔

" چلو دیر سے سہی عقل تو آئی۔ اب اللّٰه اس پر قائم رہنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔" دل سے دعا کرتا وہ خود بھی اُٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا۔

ادھر حورین نے سلام پھیر کر دعا میں ہاتھ اُٹھائے تو بےاختیار آنکھوں سے آنسو جھلک پڑے۔ اتنے دنوں سے جسمین کی باتوں میں الجھے رہنے کے بعد بالآخر وہ آج اس مقام پر پہنچ ہی گئی تھی کہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ سکے، اس کی عبادت کر سکے، اُسے فرصت سے وقت دے سکے، جو ہمیشہ اسے نوازتا آیا ہے۔

" گر مانگا میں نے جب بھی تجھ سے " جہاں" مانگا

 حسرتوں کی "خاطر" میں نے کیا کیا نہیں مانگا

 نہیں مانگا تو ایک " تجھے" تجھ سے نہیں مانگا 

 جو دل پر پڑی ٹھوکر تو میں نے صرف " خدا " مانگا "

۔*********۔

سنہری صبح ملک ہاوس کے سر سبز لان میں پھیل چکی تھی۔ ایسے میں وہ اداسی کی مورت بنی خالی خالی نظروں سے لان میں کھلتے پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔ کہ ماضی کی یاد ہوا کے جھونکے کے ساتھ اس کو چھو کر گزر گئی۔

" میں تو اب اپنے لیے بھی ہر نماز میں دعا کرنے لگا ہوں کہ آپ کا ساتھ ساری زندگی کیلئے ملے ورنہ میں تو مر ہی جاؤں گا۔" اس کے کانوں میں یوسف کی آواز گونجی تھی۔

" تم واقعی مر گئے یوسف۔ تم نے اپنا آپ مار دیا۔ کیوں کیا تم نے ایسا؟ " اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے پشت کرسی سے ٹکا دی۔ دھوپ کی تمازت سے اس کی صاف رنگت میں شفق کی سرخی گھولنے لگی تھی۔

" کاش۔۔۔ کاش تم اپنے ساتھ یہ نہ کرتے یا پھر مجھے معاف کرنے کے بجائے سزا سنا دیتے تو شاید میں اتنی بے سکون تو نہ ہوتی۔" اس نے آنکھیں کھول دیں جو نم پانی سے بھرنے لگی تھیں۔

" تم نے معاف کر دیا لیکن میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔ تمہاری اس حالت کی ذمہ دار میں ہوں صرف اور صرف میں۔"

آنسو رخساروں پہ بہہ کر اب ٹھوڑی تک آگئے تھے اس نے ہاتھ اُٹھا کر بیدردی سے انہیں صاف کر دیا۔ ناچاہتے ہوئے بھی وہ یوسف کی اس حالت کی ذمہ دار بن چکی تھی۔ جو اس کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔ وہ تو اُس کا بھلا چاہتی تھی پر انجانے میں خود ہی بُرا کر بیٹھی تھی۔

" کیوں کی تم نے مجھ سے اتنی محبت؟ اس قابل تو نہ تھی میں۔" 

تلخ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر اس نے سوچا اور اُٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ اس کے پچھتاووں میں ایک اور پچھتاوے کا اضافہ ہو چکا تھا۔

" ہزاروں عیب تھے مجھ میں، مجھے معلوم تھا یہ بھی

  مگر ایک شخص تھا ناداں، مجھے انمول کر گیا "

۔*********۔

" تم کل بابا سے ملی تھیں؟ "

حورین نے جسمین کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ دونوں اس وقت فائزہ بیگم کے کمرے میں، ان کے کپڑے تبدیل کروا رہی تھیں۔

"ہاں !! " وہ بےتاثر چہرے سے بولی۔

" کیا کہا تھا تم نے بابا سے؟ کل تو تمہاری طبیعت کی وجہ سے پوچھ ہی نہیں سکی۔" اس نے تجسس سے پوچھا۔

" بس اپنے گناہوں کیلئے معافی کی دعا کروائی تھی۔ اگر وہ معاف ہوجاتے تو مجھے سکون آجاتا مگر شاید میں نے اللّٰه کو کچھ زیادہ ہی ناراض کر دیا۔" وہ افسردہ ہوئی جبکہ حورین چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

" کیا کیا ہے تم نے ایسا جو تمہیں لگتا ہے معافی نہیں ملی؟ " کپڑے بدل کر اب وہ کمرے کو سمیٹنے لگی تھیں۔

" دل دُکھایا ہے۔"

" کس کا؟ "

" محبت کرنے والوں کا۔" انداز ہنوز بے تاثر تھا۔

" کیا الجھی الجھی باتیں کرنے لگی ہو؟ بلاج کو تم نے کچھ کہا ہے؟ " اب حورین محبت کرنے والوں میں بس ایک بلاج سے ہی واقف تھی اس لیے اُسی کا نام لے لیا۔

" نہیں۔ "

" پھر امی؟ " پوچھتے ہوئے ایک نظر فائزہ بیگم کو دیکھا جو ساڑھے تین سال سے بستر سے لگیں تھیں۔

" نہیں۔ "

" اف !! پھر کس کی بات کر رہی ہو؟ یقیناً اپنے مرحوم باپ بھائیوں کے بارے میں تو کر نہیں رہی ہوگی۔" اب وہ جھنجھلائی۔ جسمین اکثر اسے ایسے ہی زچ کر دیتی تھی۔

" اچھا چلو بتاؤ اور کیا دعا کروائی؟ میں بھی تمہارے ساتھ چلتی اگر حدید کے اسکول میں پیرنٹس میٹنگ نہ ہوتی تو۔"

حورین کے کہنے پر جسمین نے دل میں شکر ہی کیا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں گئی۔ ورنہ ابھی موضوع کچھ یوں ہوتا۔۔۔یوسف کون ہے، کب سے جانتی ہو، کیا تعلق ہے، وغیرہ وغیرہ۔

" کیا ہوا خاموش کیوں ہوگئی؟ بتاؤ اپنے رشتے کیلئے دعا کروائی؟ "

" نہیں۔"

" کیوں تمہیں دعا کروانی چاہیئے تھی تاکہ اللّٰه رشتے میں آسانیاں پیدا کرے۔" اس نے تاسف سے جسمین کو دیکھا جو فائزہ بیگم کے پرانے کپڑے اُٹھا کر باتھ روم کی طرف بڑھ رہی تھی۔

" جب گناہوں کی معافی مل جائے گی تو آسانیاں بھی اپنے آپ پیدا ہوجائے گی۔"

وہ کہہ کر باتھ روم میں چلی گئی ساتھ ہی اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ صاف اشارہ تھا کہ اب مزید بات نہیں کرنی۔

" عجیب لڑکی ہے، آدم بیزار !! "

حورین بڑبڑائی پھر سر جھٹک کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

۔*********۔

دن بھر آفس میں گزارنے کے بعد وہ گھر لوٹا تو سامنے ہی لاؤنج میں صوبیہ اور نورین بیگم بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔

" السلام علیکم !! " دونوں نے اسے دیکھتے ہی سلام کیا۔

" وعليكم السلام !! اتنا بھی ہوش نہیں ہے کہ میں دروازے کی بیل بجا رہا ہوں تو کوئی آکے دروازہ ہی کھول دے۔" وہ غصّے سے دونوں کو گھورتے ہوئے بولا۔

" اندر آ گئے نہ تو غصّہ کس بات کا۔" صوبیہ لاپرواہی سے کہہ کر واپس ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئی۔

" اف خدا !! "

نوید ان دونوں ساس بہو کو دیکھتا رہ گیا جو اس قدر ٹی وی میں مگن تھیں کہ پانی تک پوچھنے کا خیال نہیں آیا تھا۔

" صوبیہ پانی لے کر فوراً کمرے میں آؤ ورنہ قسم ہے کل سے ٹی وی اس گھر میں نظر نہیں آئے گا۔" غصّے سے کہتا وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ اس کا ارادہ کچھ دیر آرام کرنے کا تھا۔ ابھی کمرے میں آکر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہاتھ سے گھڑی اُتار رہا تھا جب اس کی نظر ٹیبل پر رکھے لفافے پر گئی جس پہ اس کا نام لکھا ہوا تھا۔

" یہ کس نے بھیجا ہے۔" بڑبڑاتے ہوئے اس نے ٹیبل پر سے لفافہ اُٹھا کر کھولا۔

" نوید اقبال !! 

آخری ملاقات، تاروں سے سجی رات، سمندر کی لہریں، ہم اور تم، کچھ یاد آیا؟ "

اندر موجود کاغذ پر لکھی تحریر پڑھ کر وہ ایک پل کیلئے ساکت رہ گیا۔ آخری ملاقات !! وہ کیسے بھول سکتا تھا۔ اس نے کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا، اس تحریر کے علاوہ وہاں اور کچھ نہیں تھا۔

" صوبیہ۔۔۔ صوبیہ !! " وہ چلایا۔

" آگئی بھئی یہ لیں پانی۔" پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑے وہ اس کے سامنے آئی۔

" یہ کس نے بھیجا ہے؟ " نوید نے لفافہ اس کے سامنے کیا۔

" ایک لڑکا آیا تھا اُس نے دیا ہے۔"

" کچھ کہا تھا اُس نے؟ " اس نے بےتابی سے پوچھا۔

" کچھ کہا۔۔۔" اس نے ذہن پر زور ڈالا۔

" ہاں کہا تھا۔۔۔ آٹھ بجے۔"

" آٹھ بجے؟ کچھ اور نہیں کہا؟ " وہ حیران ہوا۔

" نہیں بس آٹھ بجے کا کہہ کر وہ فوراً چلا گیا۔ اس لیے میں کچھ اور پوچھ ہی نہیں سکی۔"

صوبیہ کی بات پر نوید نے دیوار پر موجود گھڑی میں وقت دیکھا جہاں سات بجنے میں پندرہ منٹ تھے۔

" او شٹ !! " وہ جیب سے موبائل نکال کر کان سے لگاتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔

" اب آپ کہاں جا رہے ہیں؟ پانی تو پیتے جائیں۔" وہ پیچھے سے چلائی مگر وہ سنی ان سنی کرتا گھر سے ہی باہر چلا گیا۔

۔*********۔

وہ لکڑی کے ٹیلے سے ٹیک لگائے کھڑا اپنی خوبصورت سیاہ آنکھوں سے اس فسوں خیز منظر کو دیکھ رہا تھا جہاں تاروں سے سجی رات میں اُٹھتی سمندر کی بھپری ہوئی لہریں کنارے پر آتیں اور واپس پلٹ جاتیں۔ ٹھنڈی ہوا کہ جھونکے لہروں سے یوں ٹکراتے کے مدھر ساز بن کر ماحول پر چھا جاتے۔ نرم ریت کی اُٹھتی خوشبو نتھنوں سے یوں ٹکراتی کہ بوجھل طبیعت پر کوئی روح پھونک جاتی۔۔۔

وہ وہاں یونہی کھڑا اس حسین منظر کے سحر میں جکڑا رہا کہ چند لمحوں بعد ہی کسی کی مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

نگاہیں گھما کر بائیں جانب دیکھا کہ خوبصورت سیاہ آنکھوں میں چمک اُتر آئی۔ سامنے ہی ماضی کی حسین یادیں حقیقت کا روپ لیے کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔

" فَبِأَيِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُكَذِّبَانِ "

(تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے) 

لمحہ بے خودی بنتا اس کی زبان سے ادا ہوا تھا۔

گھر سے نکل کر اس نے حذیفہ اور جنید کو کانفرنس کال ملائی تھی۔ جس کے ذریعے اسے معلوم ہوگیا تھا کہ ایسا ہی خط اُن دونوں کو بھی ملا ہے۔ کال پر جنید اور حذیفہ کو سیدھا "سی ویو" پہچنے کا کہہ کر وہ خود بھی اپنی بائیک پر سوار ہوگیا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ تینوں اس مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں آخری بار ان چاروں نے یوسف کو جاب ملنے کی خوشی میں حسین وقت گزارا تھا۔

" کہاں ہوسکتا ہے وہ؟ "

جنید نے بےتابی سے نظریں گھماتے ہوئے وہاں موجود لوگوں میں اُس شخص کو تلاش کرنا چاہا جو ساڑھے آٹھ سال پہلے ان سے بچھڑ گیا تھا۔

" کہیں کسی نے مذاق تو نہیں کیا؟ " حذیفہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔

" مذاق کون کرسکتا ہے؟ یہ وہی ہے میرا دل کہہ رہا ہے یہ یوسف ہی ہے۔" نوید نے کہتے ہوئے اپنے قدم آگے کی جانب بڑھا دیئے۔ ان کے ہر ہر انداز سے بےچینی جھلک رہی تھی۔

" یوسف !! " وہ چلائے۔

آس پاس موجود لوگ مڑ مڑ کر انہیں دیکھنے لگے۔ مگر وہاں پرواہ کسے تھی۔ وہ یونہی اُسے پکارتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ جب لکڑی کے ٹیلے سے ٹیک لگائے کھڑا یوسف چہرہ موڑ کر انہیں دیکھنے لگا۔

" فَبِأَيِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُكَذِّبَانِ "

جسمین کے بعد ان تینوں کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر بےاختیار اس کے منہ سے یہ آیت ادا ہوئی تھی۔ وہ اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتا کم تھا۔ اس کے دوست اسے بھولے نہیں تھے بلکہ آج بھی اس کی ایک پکار پر بھاگے چلے آئے تھے۔

" یوسف !! " 

اس کے نام کی صدا پھر فضاء میں گونجی۔

یوسف اپنی آنکھوں میں خوشیوں کا ایک جہاں آباد کیے دھیرے دھیرے ان کی طرف بڑھنے لگا۔

" اتنی شدت سے پکارو گے تو فرشتے بھی آسمان سے اُتر کر زمین پر آجائیں پھر یوسف حیدر کیسے نہیں آتا۔" مسکراتے ہوئے کہتا وہ ان کے سامنے جا کھڑا ہوا مگر درمیان میں اب بھی فاصلہ موجود تھا۔

" یوسف !! "

اس نام کے ساتھ ہی لہروں کا شور رکا تھا، ہوا تھم سی گئی اور سب ساکت رہ گیا۔ وہ آنکھوں میں بے یقینی لیے اسے دیکھے گئے جو آج بھی ویسا ہی تھا جیسا ساڑھے آٹھ سال پہلے تھا۔

بلو جینز اور وائٹ شرٹ میں ملبوس وہ دراز قد و قامت کا مالک شخص اپنی تمام تر وجاہت لیے ان کے سامنے کھڑا تھا۔

" تم زندہ ہو۔۔۔"

نوید آنکھوں میں دکھ، خوشی، بے یقینی جیسے کئی تاثرات بیک وقت لیے اس کی طرف بڑھا۔ جبکہ وہ دونوں ابھی بھی شاک اور بے یقینی کے عالم میں وہیں کھڑے تھے۔

" نوید !! "

یوسف مسکراتا ہوا خود بھی اس کی طرف بڑھنے لگا مگر یہ کیا۔۔۔ قریب پہنچتے ہی نوید کی آنکھوں کے تاثرات یکدم بدلے دکھ، خوشی، شاک، بےیقینی کی جگہ صرف "غصّے" نے لے لی۔

" نوید میں۔۔۔"

الفاظ ابھی ادا بھی نہ ہوئے کہ اگلے ہی لمحے یوسف حیدر منہ کے بل نرم ریت پر جا گرے تھے اور اس کے ساتھ ہی نوید کے پیچھے کھڑے جنید اور حذیفہ فوراً ہوش میں آئے تھے۔

" یوسف !! "

" سالے تیری تو۔۔۔"

نوید نے دونوں ہاتھوں سے اس کا گریبان پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا اور ساتھ ہی اس پر لاتوں، گھونسوں کی برسات شروع کر دی، جس میں اب حذیفہ اور جنید بھی شامل تھے۔

" کمینوں مجھے لگا تھا تم مجھے دیکھ کر خوش ہو گے مگر تم تو مجھے مار رہے ہو۔" یوسف نے لڑکھڑاتے ہوئے کہا۔

نچلا ہونٹ پھٹ چکا تھا۔ آنکھ کے پاس نیل پڑے تھے جس کے باعث دائیں گال سوجنے لگا تھا۔ اس کا یہ حال کبھی نہ ہوتا اگر سامنے کوئی دشمن کھڑا ہوتا۔ مگر مقابل کوئی دشمن نہیں اس کے اپنے عزیز از جان دوست تھے۔ جن پر وہ ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا تھا۔

" شکر کر تجھے اس سمندر میں نہیں ڈبویا ورنہ دل تو کر رہا اسی پانی میں ڈوبا ڈوبا کر مار دیں۔" نوید کہتے ہوئے ایک بار پھر اس کی طرف بڑھا لیکن اس بار حذیفہ نے اسے روک لیا۔

" یوسف تم کہاں تھے یار؟ "

حذیفہ کہتے ہوئے اچانک اس کے گلے لگ کر رونے لگا تھا۔ اسے دیکھتے ہی جنید کی آنکھیں بھی پانیوں سے بھر گئیں۔ وہ بھی آگے بڑھ کر یوسف کے گلے سے لگ گیا۔

" آہ !! "

یوسف نے کراہ کر ان دونوں کو دیکھا جو اس کے گلے سے لگے آنسو بہا رہے تھے۔

" واہ !! مار مجھے پڑی ہے اور رو تم دونوں رہے ہو۔" اس نے ماحول میں چھائی اداسی کو ختم کرنے کیلئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ جس پر حذیفہ اور جنید ہنستے ہوئے اس سے الگ ہوئے۔

" چلو اب ذرا محبوبہ کو منا لوں۔" یوسف آنکھ مار کر کہتا ہوا نوید کی طرف بڑھا جو منہ پھیر کر کھڑا تھا۔ کچھ بھی کہے بغیر یوسف سیدھا اس کے گلے سے لگ گیا۔

نوید نے خود کو اس سے چھڑوانے کی کوشش کی مگر یوسف کی پکڑ مضبوط تھی۔ اس نے تھک ہار کر اس کے گرد بازوں پھیلا دیئے، ساتھ ہی آنسو کو بہنے دیا۔

" تو کہاں چلا گیا تھا یوسی؟ ہم نے تجھے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔"

یوسف کچھ نہ بولا۔ بس اس کے گلے سے لگ کر خود بھی آنسو بہاتا رہا۔ جبکہ انہیں دیکھ کر حذیفہ اور جنید کی آنکھیں ایک بار پھر نم ہوئی تھیں۔ وہ دونوں بھی آگے بڑھ کر ان کے گلے سے لگ گئے۔

۔*********۔

بائیک کو تیزی سے دوڑاتے ہوئے وہ اس گلی میں آ رکے تھے۔ جہاں اس نے بچپن سے لے کر جوانی تک کا سفر طے کیا تھا۔ یوسف حیرت سے گلی میں چاروں طرف نگاہیں گھماتا نوید کی بائیک سے اُترا۔ اس عرصے میں بھی یہاں سب ویسا ہی تھا، کچھ نہیں بدلا تھا سوائے گھروں پر ہوئے رنگ و روغن کے۔

" سب ویسا ہی ہے۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنے گھر کے دروازے کی طرف بڑھا جہاں سے اُٹھتی پینٹ کی مہک تازہ تازہ ہونے کا احساس دلا رہی تھی۔

" تالا لگا ہے۔"

اس نے پیچھے مڑ کر ان تینوں کو دیکھا۔ نوید آگے بڑھا اور اپنی بائیک کی چابیوں کے ساتھ موجود تالے کی چابی نکال کر دروازے پر لگا تالا کھولنے لگا۔

" چلو آجاؤ۔"

دروازہ کھول کر وہ چاروں اندر داخل ہوئے کہ تبھی ماضی کی یادوں نے یوسف کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

" یوسف بیٹا بھاگو نہیں گر جاؤ گے۔"

"بیٹا بارش ہو رہی ہے اندر آؤ۔"

" سارے کپڑے گندے کر لیے آنے دو تمہارے ابو کو شکایت کروں گی۔"

ماں باپ کی آوازیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ اس نے آگے بڑھ کر لائٹ جلا دی اور ایک ایک چیز کو دیکھنے لگا۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ گھر ایک عرصے سے خالی پڑا تھا۔ درودیوار پر کھلتا ہوا رنگ، سازوسامان پر موجود چمک بتا رہی تھی کتنی حفاظت سے انہیں رکھا گیا ہے۔

" یہ سب تم لوگوں نے۔۔۔"

وہ ان تینوں کی طرف مڑا جو خاموش کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ یوسف کی کیفیت سے وہ بخوبی واقف تھے۔

" تیرا اور تیرے سے جوڑی چیزوں کا خیال ہم نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا۔" جواب جنید کی طرف سے آیا۔

" میں راشد کو فون کر دیتا ہوں۔ وہ دوائی وغیرہ لے آئے گا تاکہ تیرے زخموں پر لگا سکیں۔"

نوید نے کہتے ہوئے موبائل جیب سے نکالا اور ایک طرف ہوکر کال کرنے لگا۔ جبکہ حذیفہ کھانا برتنوں میں نکالنے کیلئے کچن کی طرف بڑھ گیا۔ جو وہ راستے سے ساتھ لے آئے تھے۔

" لاؤ میں مدد کرواتا ہوں۔" نوید کال کر کے کچن میں چلا آیا۔

" دیکھ لو نوید اگر تم جسمین کو نقصان پہنچا دیتے تو آج خود کو معاف نہیں کر پاتے۔" چند لمحوں کی خاموشی کے بعد حذیفہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ سالن برتن میں نکالتے ہوئے نوید کے ہاتھ ایک پل کیلئے تھمے تھے۔

" اس لیے میں تمہیں سمجھاتا تھا کہ اللّٰه بہتر انصاف کرنے والا ہے۔ تم انتقام کی آگ میں نہ جلو کہیں تم سے زیادتی نہ ہوجائے۔ کیونکہ انسان کسی دوسرے کے ساتھ تو کیا خود اپنے ساتھ بھی انصاف نہیں کرسکتا۔"

حذیفہ کی بات پر اس نے گہرا سانس لیا اور برتن ایک طرف رکھ کر اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

" تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اللّٰه نے مجھے زیادتی کرنے سے بچا لیا۔ ورنہ شاید پھر میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاتا۔" اس کی بات پر حذیفہ دھیرے سے مسکرا دیا۔

" خیر !! چلو اب جلدی کرو لگتا ہے راشد بھی آگیا۔"

حذیفہ اس کا کندھا تھپک کر ٹرے اُٹھاتا کچن سے باہر نکل گیا۔ صحن میں ہی وہ تینوں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ 

" اب کیسا لگ رہا ہے؟ " جنید نے یوسف کے سر پر دوائی لگاتے ہوئے پوچھا۔

یوسف نے نظریں ترچھی کیے اسے دیکھا۔ دل میں خواہش اُٹھی کوئی ڈنڈا اُٹھا کر اس کے سر پر دے مارے اور پوچھے اب کیسا لگ رہا ہے۔ مگر دل میں اُٹھتی خواہش کو دبا کر بس اتنا ہی بولا۔

" اب ٹھیک ہے۔"

" چلو اچھا ہے۔" جنید نے ٹیوب بند کر کے واپس راشد کو پکڑائی۔

" یوسف بھائی آپ اتنے سالوں سے کہاں رہ رہے تھے؟ " راشد نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

کھانا تخت پر لگاتے حذیفہ اور نوید نے بھی رک کر اسے دیکھا تھا۔

" یار پھر کسی دن بتاؤ گا آج میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔" یوسف نے ٹالنا چاہ، فی الحال وہ یہ وقت گزرے ماضی پر بات کر کے برباد نہیں کرنا چاہتا تھا۔

" چلو آجاؤ سب کھانا کھا لو۔"

نوید اس کی کیفیت کو بخوبی سمجھ رہا تھا اس لیے سب کو کھانے کی طرف متوجہ کر لیا اور اب وہ سب خوشگوار ماحول میں ایک ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔

۔*********۔

ہوا کی دوش پر سوار ہو کر یہ ایک ماہ اتنی تیزی سے گزرا کے پتا ہی نہ چلا۔ اس ایک ماہ میں اس نے پھر سے خود کو اس ماحول میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہوگیا تھا۔ یوں تو اس کی واپسی پر محلے داروں نے کہیں سوالات اُٹھائے تھے کہ وہ اتنا عرصہ کہاں تھا؟، کہاں رہے رہا تھا؟، اگر زندہ تھا تو واپس کیوں نہیں آیا؟ 

مگر ان سب کے سوالات کا جواب اس نے بس یہ کہہ کر دیا تھا کہ وہ "دوسرے شہر چلا گیا تھا نوکری کے باعث" اس سے زیادہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا اور نہ ہی اس سے زیادہ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا واپسی اتنی آسان نہیں ہوگی۔ واپس آنے کے بعد اسے ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔ کیونکہ وہ جن کیلئے واپس آیا تھا وہ اسے دیکھ کر خوش تھے اور یہی اس کیلئے کافی تھا۔

اس نے نوید، جنید اور حذیفہ کو بھی یہی بتایا تھا کہ  جسمین کی شادی کی خبر سے دلبرداشتہ ہو کر وہ دوسرے شہر چلا گیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اصل وجہ جان کر وہ تینوں جسمین کیلئے اپنے دل میں نفرت پالیں۔ ویسے بھی وہاں رہنے کا فیصلہ یوسف کا اپنا تھا۔ اس میں جسمین کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس لیے اس نے چھپانا ہی بہتر سمجھا تھا۔

تاہم یوسف ان تینوں کے گھر والوں سے بھی ملا تھا اور اس سب میں سب سے اچھی بات یہ تھی کہ کسی نے بھی اس کی گمشدگی کو لے کر کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ وہ سب یوسف سے ایسے ملے تھے جیسے یہ ساڑھے آٹھ سال کا عرصہ ان کے درمیان آیا نہ ہو۔ ان تینوں کے ہنستے بستے گھر دیکھ کر اسے خوشی ہوئی تھی اور دل میں ایک کسک بھی اُٹھی تھی کہ ان کی خوشیوں میں شامل نہ ہوسکا۔ مگر وہ پھر بھی خوش تھا۔ دیر سے ہی سہی وہ ایک بار پھر ان سب کے درمیان موجود تھا۔

یوسف نے اس دوران نوکری کی تلاش بھی شروع کر دی تھی۔  اب جب یہاں رہنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو کمانے کا زریعے بھی تو تلاش کرنا تھا۔ اس نے کئی جگہ نوکری کے لیے انٹرویو دیا تھا اور خوش قسمتی سے ان میں سے ایک کمپنی میں اسے جاب مل بھی گئی تھی۔ یوں تو تجربہ نہ ہونے کے باعث وہ جاب اس کی قابلیت کے مطابق نہ تھی۔ لیکن کچھ " ہونا " کچھ " نہ ہونے" سے بہتر تھا۔ ویسے بھی ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے کیلئے قدم ہمیشہ پہلی سیڑھی پر ہی رکھنا پڑتا ہے۔ یوسف نے بھی پہلا قدم رکھ دیا تھا۔ جہاں سے اب اسے آگے بڑھتے ہی جانا تھا۔

" تو بالآخر ایک لمبی مسافت کے بعد میں اس مقام تک پہنچ گیا۔" 

چھت پر چارپائی بچھائے وہ آسمان کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا اور اُس دن کو سوچنے لگا جب وہ درگاہ سے واپس اپنی دنیا میں لوٹنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

" تو تم نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔"

کمرے میں داخل ہو کر حکیم صاحب اسے دیکھتے ہوئے بولے۔ جو چھوٹے بال اور بنا داڑھی کے، وائٹ شرٹ اور بلو جینز میں ملبوس وہی پہلے والا یوسف لگ رہا تھا جب وہ زخمی حالت میں ان کے پاس لایا گیا تھا۔

"جی !! فیصلہ مشکل تھا۔ لیکن اب میں اپنے دوستوں سے ملنا چاہتا ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں ایک بار یہاں سے چلا گیا تو شاید واپس کبھی لوٹ نہیں پاؤں گا۔" یوسف نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ جانتا تھا ایک بار یہاں سے نکل گیا تو واپسی ناممکن ہے۔ اس لیے اس نے اپنے کپڑے وغیرہ بھی یہاں موجود غریبوں میں تقسیم کر دیئے تھے۔ یوسف یہاں خالی ہاتھ آیا تھا اور یہاں سے جانا بھی خالی ہاتھ ہی چاہتا تھا۔

" لیکن آپ فکر نہیں کریں میں آپ سے ملنے آتا رہو گا۔ آپ کا یہ بیٹا کبھی آپ کو بھولے گا نہیں۔"

یوسف ان کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے بولا، جس پر حکیم صاحب مسکرا دیئے۔ 

وہ یوسف سے بیٹوں کی طرح محبت کرتے تھے۔ اس لیے جہاں وہ اس کے فیصلے پر خوش تھے وہیں اس کی جدائی نے غمگین بھی کر دیا تھا۔

" اللّٰه تمہیں ہر راہ میں کامیاب کرے میرے بچے۔"

انہوں نے دل سے دعا دی۔ جس کے بعد وہ وہاں سے نکل کر واپسی کے سفر پر چل پڑا اور اس کے ساتھ ہی ایک ہوا کا جھونکا اسے ماضی سے حال میں لے آیا۔

" میں کبھی آپ لوگوں کو نہیں بھول سکتا۔ آپ ہی تو وہ وجہ ہیں جس نے مجھے گمراہ نہیں ہونے دیا بلکہ اس آزمائش پر پورا اترنے میں ہر قدم پہ میرا ساتھ دیا۔"

سوچتے ہوئے اس نے پرسکون انداز میں آنکھیں بند کر لیں اور رات کی تاریکی میں ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرنے لگا۔

وہ اب پُرسکون تھا کیونکہ عشقِ مجازی میں ناکامی کے بعد وہ گمراہی کی طرف نہیں گیا تھا بلکہ آزمائش پہ پورا اُترنے کیلئے اس نے مزید اللّٰه سے گہرا تعلق جوڑ لیا تھا اور یہی اس کی کامیابی کی نشانی تھی۔

۔*********۔

وہ عشاء کی نماز ادا کر کے ابھی فارغ ہی ہوئی تھی کہ بلاج دروازے پر دستک دیتا اندر داخل ہوا۔

" آج بہت دیر سے پڑھی تم نے نماز۔"

" جی بس امی کے کمرے میں تھی تو ٹائم کا پتا نہیں چلا۔" وہ جائے نماز ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی۔

" آپ بتائیں کوئی کام تھا؟ "

" ہاں !! دراصل میرے دوست کے گھر والے کل تمہیں دیکھنے آنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کل ذرا اچھے سے تیاری کر لینا۔"

بلاج مسکراتے ہوئے بولا جبکہ وہ مسکرا بھی نہ سکی۔ اس ایک ماہ میں بس یوسف کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ اس رشتے والی بات کو یکسر فراموش کر چکی تھی۔

" کیا ہوا تم خاموش کیوں ہوگئیں؟ " بلاج نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا۔

" نہیں وہ یوں اچانک، مطلب اتنی جلدی۔۔۔" جسمین کو سمجھ نہیں آیا کیا بولے۔

" جلدی کہاں ہے۔ وہ تو پہلے ہی آنا چاہ رہے تھے مگر بس کسی وجہ سے آ نہیں سکے۔ پر کل وہ ضرور آئیں گے۔ تم اُن کیلئے کھانے میں کچھ اچھا بنا لینا۔" 

" جی۔"

بلاج کے چہرے سے جھلکتی خوشی کو دیکھ کر وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔ ایک بار پھر اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اس رشتے سے انکار کر سکے۔

۔*********۔

صبح ہوتے ہی ملک ہاؤس میں ہلچل مچ چکی تھی۔ حورین سکینہ بی کے ساتھ مل کر سارے انتظامات کروا رہی تھی۔ جبکہ جسمین خاموشی سے اپنے کمرے میں خود کو بند کیے بیٹھی تھی۔ اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ جاننے میں انتظام کیسے ہو رہا ہے۔ کون کون گھر آ رہا ہے یا اس کا ہونے والا شوہر کیسا ہے۔

وہ ایک بار پھر اُس مقام پر آ کھڑی ہوئی تھی جہاں سے بربادی کا سفر شروع ہوا تھا اور ایک بار پھر وہ خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔ چاہتے ہوئے بھی وہ یہ سب روک نہیں سکتی تھی۔

" بہت غلط وقت پر ملے تم یوسف !! میں ایک بار پھر اُسی مقام پر جا کھڑی ہوئی۔ جہاں چاند کو پا لینے خواہش نے پہلی بار سر اُٹھایا تھا اور اب دل ایک بار پھر چاند کی خواہش کرنے لگا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب چاند بادلوں میں چھپ گیا ہے۔"

اپنے ہاتھ میں موجود بریسلٹ کو دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑائی کہ تبھی کمرے کا دروازہ کھول کر حورین اندر داخل ہوئی۔

" تم کیا کر رہی ہو بند کمرے میں لیٹے لیٹے۔ جلدی تیار ہو جاؤ مہمان آنے والے ہوں گے۔" وہ اسے گھورنے لگی۔

" گھوریں نہیں جا رہی ہوں تیار ہونے، اُن کے آنے سے پہلے تیار ملوں گی۔" وہ بیڈ پر سے اُٹھتے ہوئے بولی۔

" جلدی کرو۔ وہ آگئے تو اچھی خاصی بے عزتی ہوجائے گی۔" وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ جسمین الماری سے کپڑے نکال کر باتھ روم میں گھس گئی تھی۔

۔*********۔

شام چار بجے کے قریب مہمانوں کی آمد ہوئی تھی۔ جب

ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھامے وہ سکینہ بی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ سامنے ہی صوفے پر حورین کے ساتھ وہ تینوں عورتیں بیٹھی تھیں۔ جن میں سے ایک اس کی اور حورین کی ہم عمر تھی جبکہ دو ادھیڑ عمر خاتون تھیں۔

" السلام عليكم !! " اس نے مشترکہ سلام کیا۔

" وعلیکم السلام !! آؤ بیٹا بیٹھو۔"

دونوں ادھیڑ عمر عورتیں مسکرا کر اسے دیکھنے لگیں۔ جو آسمانی رنگ کے ہلکے سے کام والے شلوار قمیض میں ملبوس، سر پر اچھے سے دوپٹہ لیے اب انہیں چائے کے کپ پکڑا رہی تھی۔ ہلکے سے میک اپ میں بھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔

" ماشاء اللّٰه !! جتنا سنا تھا یہ تو اُس سے زیادہ پیاری ہے۔" ان میں سے ایک بولی، جسمین مسکرا بھی نہ سکی اور ان کے سامنے والے صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔

" آپ یہ لیں نا یہ تو ٹیسٹ کریں۔" حورین نے پلیٹس ان کے آگے بڑھائی۔ جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ تھام لیا۔

وہ سب باتوں میں مصروف ہو چکے تھے جبکہ وہ غائب دماغی سے سب کو دیکھے جا رہی تھی۔ کیا ہو رہا تھا، وہ کیا کہہ رہی تھیں، اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ ان سب کے مسکراتے چہرے دیکھ کر اس کا جی چاہ وہاں سے کہیں غائب ہو جائے۔ جہاں اس کے سوا کوئی نہ ہو۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔

۔*********۔

" بہت بہت مبارک ہو بھئی حذیفہ امین !! "

یوسف حذیفہ کو دیکھتے ہوئے بولا۔ جس کے چہرے سے ہی خوشی جھلک رہی تھی۔ آفس سے آنے کے بعد وہ سب یوسف کے گھر چلے آئے تھے۔ لیکن یہاں پہنچ کر حذیفہ سے ملنے والی خبر نے سب کو ہی خوش کر دیا تھا۔

" ہاں بھئی بہت بہت مبارک ہو اب تو تو بھی پاپا بننے والا ہے۔" نوید نے بھی مسکراتے ہوئے مبارک باد دی۔

" چلو اس کے بھی ٹڈی، ٹڈے دنیا میں آجائیں گے پر اب تو بھی شادی کر کے ہمیں دس بارہ بچوں کا تایا، چاچا بنا دے یوسی۔" جنید شرارت سے یوسف کو دیکھتے ہوئے بولا۔ جس کے چہرے کے زاویے یکدم بگڑے تھے۔

" میری چھوڑ تو اپنے ٹڈوں کی فکر کر دوسری بار تیسرے بچے کا باپ بن رہا ہے مگر عقل اب بھی نہیں آئی۔"

یوسف کے کہنے پر نوید اور حذیفہ کا قہقہہ ابل پڑا تھا۔ جبکہ جنید نے تخت سے تکیہ اُٹھا کر اس کی طرف اُچھالا تھا۔

" چل جنید آج تو چائے وغیرہ بنا لے بہت تھکن ہو رہی ہے۔" یوسف کہتا ہوا وہی تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔

" یا اللّٰه !! جلدی ایک عدد بھابھی بھیج دے تاکہ اس بیچارے غریب کی بھی ماسیوں والی زندگی سے جان چھوٹے۔" جنید آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھاتا دوھائی دینے لگا۔

" بیٹا بھابھی کے بعد نہ صرف یہ گھر کے کام کرے گا بلکہ زن مریدوں کی طرح انہیں اپنے ہاتھ سے نوالے بنا بنا کر کھلائے گا۔"

نوید مذاق اُڑاتا ہوا بولا ساتھ ہی یوسف کو چارپائی سے اُٹھتے دیکھ چھت کی طرف دوڑ لگا دی۔

" رک سالے ابھی بتاتا ہوں کون زن مرید۔ " یوسف اس کے پیچھے بھاگتا چلایا۔ 

وہ دونوں چوہے بلی کی طرح پورے گھر میں بھاگتے پھر رہے تھے۔ جبکہ انہیں دیکھ کر جنید اور حذیفہ کے قہقہے اس گھر کے درودیوار میں گونجنے لگے تھے۔ بالآخر ایک بار پھر یہ گھر ان کی خوشیوں، قہقہوں سے آباد ہو گیا تھا۔ جس کے درودیوار ایک عرصے سے ویران رہے تھے۔

۔*********۔

" بلاج اتنی جلدی بھی کیا ہے جو انہوں نے اس جمعے کو نکاح رکھ دیا؟ "

حورین اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی جو حدید کو ہوم ورک کروا رہا تھا۔

" وہ لوگ سادگی سے نکاح اور رخصتی کرنا چاہتے ہیں اس لیے جمعے کو رکھا ہے۔ جہیز وغیرہ کا کوئی سین نہیں ہے، میرے دوست نے منع کر دیا۔ بس وہ نکاح کروا کر جسمین کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔" وہ سنجیدگی سے بولا۔

" ایک تو آپ کے دوست کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ کیا ہے، کیسا دکھتا ہے اور آپ ہیں کہ اتنی سادگی سے رخصت کر رہے ہیں۔" وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔

" میں جسمین کا بھائی ہوں، اُسے ایسے ہی کسی کے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور جہاں تک دیکھنے کی بات ہے تو نکاح کے وقت دیکھ لینا۔" بلاج اسے دیکھتے ہوئے جتا کر بولا پھر واپس حدید کی طرف متوجہ ہوگیا۔

" وہ سب ٹھیک ہے۔ لیکن کچھ تو دھوم دھام ہونی چاہیئے۔"

" نکاح جتنی سادگی سے ہو اتنا ہی بابرکت ہوتا ہے۔ سمجھی !! " اس نے دوٹوک انداز میں کہہ کر بات ہی ختم کردی۔

حورین اسے گھوری سے نوازتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ سارے ارمانوں پر بلاج اور اس کے دوست نے پانی پھیر دیا تھا۔ کیا کیا نہیں سوچا تھا۔ شاپنگ، پارلر، کپڑے، جوتے، میک اپ۔۔۔ مگر اب سب دھرا رہ گیا تھا۔

" دونوں بھائی بہن کیا کم تھے۔ جو یہ گھر کا ہونے والا داماد بھی دنیا کا خشک ترین انسان نکلا۔" وہ زیرِ لب بڑبڑاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

۔*********۔

نکاح جمعے کو طے پایا تھا اور ایک دن ہی باقی رہے گیا تھا۔ ویسے تو کوئی خاص تیاری کرنی نہیں تھی۔ پر پھر بھی حورین اور بلاج نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ بے شک لڑکے والوں نے سادگی سے نکاح کرنے کو کہا تھا مگر یہ اُس کی بہن کی زندگی کا سب سے اہم دن تھا۔ وہ کیسے کوئی کمی چھوڑ سکتا تھا۔ 

" مجھے اللّٰه نے ہر چیز سے نوازا ہے۔ اچھی بیوی، بچے، پیاری سی بہن، ماں اور خوشیوں سے بھرا گھر مگر۔۔۔ محبت کی کمی پھر بھی پوری نہیں ہو پائی۔ دنیا میں شاید ہر چیز کا نعم البدل ہو لیکن محبت کا نہیں ہوتا۔ محبت بچھڑ جائے تو دل کی دنیا ویران ہو جاتی ہے۔ جیسے ساڑھے آٹھ سال پہلے میری ہوگئی تھی۔"

لان میں بیٹھا وہ اپنے گھر پر نظریں جمائے سوچنے لگا۔ پورے ملک ہاؤس کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔ جگمگاتی روشنیاں پورے لان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہر دیکھنے والی آنکھ کو خیرہ کرنے کو بیتاب تھیں۔

" اپنی زندگی کی اس کمی کو تو میں پورا نہیں کرسکتا سوائے اس سے سمجھوتا کرنے کے۔ پر میری دعا ہے جسمین کل جب تم دلہن بن کر اپنے شوہر کے گھر جاؤ تو تمہاری زندگی کبھی محبت سے خالی نہ رہے۔ تمہارا شوہر تمہیں اتنی محبت اور عزت دے کے زندگی کے سارے غم بس ایک خواب لگنے لگیں۔ ان کی پرچھائیاں بھی کبھی تمہارے آس پاس نہ بھٹکے۔"

اس نے گہرا سانس لے کر خود کو پُرسکون کیا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ جہاں افق پر نظر آتے چاند میں کوئی سایا سا لہرایا تھا۔

" اس اُمید پر جی رہا ہوں یاسمین !! جس رب نے ہمیں دنیا میں جدا کر دیا، وہی ہمیں آخرت میں ملا بھی دے گا۔"

رات کی سیاہ چادر تلے، اس نے آنکھیں بند کر کے ہوا کی خنکی کو محسوس کیا کہ تبھی کسی نے دھیرے سے اس سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے، سر شانے سے لگا کر سرگوشی کی تھی۔

" آمین !! "

۔*********۔

جمعے کا دن سورج کی سنہری کرنوں کے سائے میں بڑے خوشگوار انداز میں طلوع ہوا تھا۔ نرم سی دھوپ پھیلی ہوئی تھی اور ہوا کے جھونکے وقفے وقفے سے پیڑوں کو جھومنے پہ مجبور کررہے تھے۔ جب نیلے آسمان میں ایک آواز بلند ہوئی تھی۔ مؤذن کی آواز۔۔۔

" ٱللَّٰهُ أَكْبَرُ... ٱللَّٰهُ أَكْبَرُ "

( اللّٰه بہت بڑا ہے، اللّٰه بہت بڑا ہے )

فضاؤں میں گونجتے اذان کے کلمات سے کائنات میں سکوت چھا گیا تھا۔

" ٱللَّٰهُ أَكْبَرُ... ٱللَّٰهُ أَكْبَرُ "

( اللّٰه بہت بڑا ہے، اللّٰه بہت بڑا ہے )

مؤذن نے کلمات کو دہرایا تھا۔ جس کے ساتھ ہی وہ لبیک کہتا مسجد کی طرف بڑھنے لگا تھا۔

" أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ... أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ "

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللّٰه كے علاوہ كوئى معبود نہيں،

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللّٰه كے علاوہ كوئى معبود نہيں )

اذان کے کلمات کو یقین کے ساتھ دل میں دہراتا وہ آگے بڑھتے جا رہا تھا۔ 

" أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ ٱللَّٰهِ... أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ ٱللَّٰهِ "

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلی اللّٰه علیہ و آلہ وسلم اللّٰه تعالى كے رسول ہيں،

 ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلی اللّٰه علیہ و آلہ وسلم اللّٰه تعالى كے رسول ہيں )

جمعے کی نماز کے باعث مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ مسجد میں داخل ہو کر نماز کی ادائیگی کیلئے وضو بنانے لگا۔

" حَيَّ عَلَىٰ ٱلصَّلَاةِ... حَيَّ عَلَىٰ ٱلصَّلَاةِ "

( نماز كى طرف آؤ، نماز كى طرف آؤ )

نلکے سے نکلتا ڈھنڈا پانی اس کے اعصاب کو سکون بخش رہا تھا۔ وضو کے ہر قطرے کے ساتھ اجر و ثواب بھی بڑھ رہا تھا۔

" حَيَّ عَلَىٰ ٱلْفَلَاحِ... حَيَّ عَلَىٰ ٱلْفَلَاحِ " 

( فلاح كى طرف آؤ، فلاح كى طرف آؤ )

وہ وضو بنا کر آستینوں کو نیچے کرتا مسکرا کر نمازیوں کو دیکھنے لگا۔ 

" ٱللَّٰهُ أَكْبَرُ... ٱللَّٰهُ أَكْبَرُ "

( اللّٰه بہت بڑا ہے، اللّٰه بہت بڑا ہے )

بچے، بوڑھے، جوان ہر کوئی اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کیلئے حاضر تھا۔

" لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ "

( اللّٰه تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )

نماز کی ادائیگی کیلئے صفیں بننے لگیں تھیں۔ وہ جا کر امام کے پیچھے والی صف میں کھڑا ہو گیا۔ امام کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد وہ دعا مانگ کر اُٹھا ہی تھا کہ تبھی کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔

" دلہے میاں اب چلیں؟ آپ کی دلہن انتظار کر رہی ہیں۔" بلاج مسکرا کر بولا۔

سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں اس بات پر چمک اُتر آئی تھی۔ کوئی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ بھی وہ شخص جو چند لمحوں بعد اپنے سارے جملہ حقوق اس کے نام کرنے والا تھا۔ کتنا خوبصورت احساس تھا، جو اسے اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔

" نیکی اور پوچھ پوچھ !! چلیں سالے صاحب۔" وہ شرارت سے بولا۔

بلاج اس کی بات پر مسکرایا اور اپنے ہمراہ لیے گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔ جہاں اس کی گڑیا اپنے گڈے کے انتظار میں دلہن بنی بیٹھی تھی۔

۔*********۔

ساری رات کی جاگی آنکھیں آتش بنی اس کے عروسی سراپے میں چار چاند لگا رہی تھیں۔ وہ اس وقت سلور اور لائٹ گرے امتزاج کا گھیرے دار فراک میں ملبوس تھی جس پہ ہم رنگ اسٹونز کے ساتھ ہلکا پھلکا کام تھا۔ اس نے خالی خالی نظروں سے آئینے میں خود کو دیکھا ماضی ایک بار پھر خود کو دہرانے لگا تھا۔

" پھر وہی سب شاید یہ ہی میرے گناہ کی سزا ہے کہ ساری زندگی میں محبت کو ترسوں۔"

سوچتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ میں موجود گولڈن بریسلٹ کو دیکھا۔ سلور جیولری کے ساتھ وہ ایک لوتا گولڈن بریسلٹ کچھ عجیب لگ رہا تھا۔

" کیا میرا گناہ اتنا بڑا تھا کہ مجھے معاف نہ کیا جائے؟ "

دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے خود کو رونے سے باز رکھا پھر گہرا سانس لے کر پلکوں کو اُٹھایا ہی تھا کہ حورین کچھ لڑکیوں کو اپنے ہمراہ لیے اس کے کمرے میں چلی آئی۔

" جسمین تیار ہو؟ "

" جی۔"

" چلو پھر آجاؤ سب مہمان آچکے ہیں اور دلہے میاں بھی مولوی صاحب کے ساتھ نیچے موجود ہیں۔ اب بس تمہارا انتظار ہے۔" وہ مسکرا کر کہتے ہوئے آگے بڑھی اور جسمین کو کھڑا کر کے اس کے چہرے پر گھونگھٹ ڈال دیا۔

" چلو لڑکیوں اس کو لے کر چلو۔ سارے مہمان لان میں انتظار کر رہے ہیں۔" حورین کہہ کر ان سے پہلے ہی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔ جبکہ باقی لڑکیاں جسمین کو تھامے دھیرے دھیرے سیڑھیاں اُترتی نیچے آئیں اور لاؤنج کو پار کر کے اسے لان میں لے آئیں۔ جہاں نکاح کا انتظام مکمل تھا۔

لان کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ سفید اور لال گلاب کے پھولوں کی خوشبو چاروں سوں پھیلی ہوئی تھی۔ لان کے بیچوں بیچ سفید ریشمی پردہ لگا تھا، جس کے ایک طرف مرد اور دوسری طرف عورتیں موجود تھیں۔ ساتھ ہی دونوں طرف تخت لگے تھے جن پر سرخ مخمل کی چادر بچھا کر گاؤ تکیے رکھے گئے تھے۔

" جسمین بڑی قسمت والی ہو تم۔ ایسے دلہے کیلئے تو لڑکیاں ناجانے کیا کچھ کر جاتی ہیں اور تمہیں بیٹھے بٹھائے مل گیا۔" ان میں سے ایک لڑکی اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔

" ویسے یہ بات تو ہے۔ دوسری شادی اور اتنا اچھا شوہر قسمت والوں کو ملتا ہے۔" دوسری لڑکی نے بھی اس کی تائید کی اور سامنے دیکھنے لگی۔ جہاں دلہا مولوی صاحب کے ساتھ تخت پر بیٹھا تھا۔

انہوں نے جسمین کو بھی عورتوں والی سائڈ پر لے جا کر تخت کے درمیان میں بٹھا دیا۔ دلہا دلہن کو دیکھ کر کسی کی آنکھوں میں رشک، حسد، تو کسی کی آنکھوں میں ستائش ابھری تھی۔ مگر اس سب سے بے نیاز وہ چہرہ جھکائے بیٹھی تھی کہ تبھی اس کے کانوں میں بلاج کی آواز پڑی، جو مولوی صاحب سے نکاح پڑھانے کو کہہ رہا تھا۔ 

جسمین کا ذہن ماؤف ہونے لگا گھونگھٹ میں چھپے اس کے سوگوار چہرے پر موت کا سا سناٹا پھیلا، زندگی لمحہ بہ لمحہ اس سے دور ہونے لگی۔ اسے لگا اب سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے، تو کیا وہ اب مر جائے گی؟ کیا اس کا دل و روح بھی اب اسے یوسف حیدر کے سوا کسی اور کا ہوتا دیکھ برداشت نہیں کر سکتے؟ ہاں شاید۔۔۔ اسے لگا دل اب روکا، روح اب فنا ہوئی مگر۔۔۔ اگلے ہی پل جیسے اسے زندگی کی نوید سنائی۔ جب دوسری آواز مولوی صاحب کی اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"جسمین ملک بنت جہانگیر ملک آپ کو سید یوسف حیدر بن سید حیدر علی کے نکاح میں حق مہر پچاس ہزار سکہ رائج الوقت دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو قبول ہے؟ " نکاح کے کلمات ادا کئے تھے یا اس کی سماعتوں پہ دھماکہ۔۔۔

جسمین نے شاک اور بے یقینی کے عالم میں چہرہ اُٹھا کر گھونگھٹ کی آڑ سے سفید پردے کے اُس پار دیکھا۔ جہاں وہ بیٹھا خود کو اس کی نظروں کے حصار میں محسوس کرتے ہوئے مسکرایا تھا۔

بلاشبہ وہ وہی تھا۔ اس کی آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتی تھیں۔ وہ یوسف حیدر ہی تھا۔ اس کا یوسف حیدر۔۔۔

" بولو جسمین۔۔۔" حورین نے اسے شانے سے پکڑ کر ہلایا۔ وہ جیسے ہوش میں آئی۔ یہ کیسی آگاہی تھی؟ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ مگر لب پھر ہلے تھے۔

" قبول ہے !! "

وہ ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت میں یوسف کو دیکھ رہی تھی۔ دنیا جیسے تھم سی گئی تھی اور فضاء میں بس ایک ہی آواز گونجتی سنائی دے رہی تھی۔ مولوی صاحب کی آواز۔۔۔

" کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟ " ایک بار پھر کلمات دہرائے گئے۔ مگر اب کی بار بے یقینی میں نہیں دل وجان سے کہا گیا تھا۔

" قبول ہے !! "

" کیا آپ کو قبول ہے؟ " آخری بار اور اجازت چاہی تھی۔ جسمین کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔ بس ابھی کا ہی کوئی لمحہ اور اگلے پل سارے جملہ حقوق اس سامنے بیٹھے شخص کے نام ہوگئے۔

"قبول ہے !! "

آنکھیں یکدم نمکین پانیوں سے بھری۔ اس نے بلاج کی طرف دیکھا جو ہونٹوں پر تبسم اور آنکھوں میں نمی لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ بالآخر وہ آج اس فرض سے بھی سبکدوش ہوا تھا۔

جسمین ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ حورین نے فوراً آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا تھا۔ ابھی اگر مردوں میں نکاح نہ پڑھایا جا رہا ہوتا تو بلاج فوراً اس کے پاس چلا آتا۔

" بس کرو لڑکی وہ دیکھو سامنے مولوی صاحب دعا کروا رہے ہیں۔" حورین نے اس کی توجہ سامنے دلائی۔

جسمین نے جونہی نگاہ اُٹھا کر دیکھا، عین اس لمحے درمیان سے پردہ ہٹا دیا گیا اور دیدارِ یار کو ہونے دیا۔

" ریزہ ریزہ ہونا، بنتا ہے میرا...

 اترا ہے میرے دل پہ تصورِعشق تیرا..."

وہ سب سے گلے مل رہا تھا پر دیکھ اسے رہا تھا۔ ارد گرد کی پرواہ کیے بغیر ایک استحقاق کے ساتھ، جیسے اب کوئی رکاوٹ نہ رہی ہو، کہ اب کوئی دوری نہ رہی ہو۔۔۔

سب سے مل کر وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھنے لگا۔ ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ سرشاری جھلک رہی تھی۔

سب کچھ پا لینے خوشی، سب فتح کر لینے کی چمک اپنی سیاہ خوبصورت آنکھوں میں لیے وہ "مسز جسمین یوسف" کی جانب بڑھ ہی رہا تھا جب کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر روکا۔

" کہاں دلہے میاں؟ اب ملاقات اسٹیج پر ہی ہوگی چلو۔" نوید نے شرارت سے کہا۔ جس پر جنید اور حذیفہ اسے گھیرے میں لیے لان کے پچھلے حصّے کی طرف بڑھے۔

یہاں بھی گلاب کے پھولوں اور فینسی لائٹس کے زریعے اسٹیج کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ کہیں کچھ ایسا نہیں تھا، جہاں کوئی کمی رہ گئی ہو۔ اُن دونوں نے اسے لے جا کر اسٹیج پر موجود سرخ مخمل کے خوبصورت سے صوفے پر بٹھا دیا۔ سارے مہمان بھی اس طرف آ چکے تھے۔ وہ بےچینی سے پہلو بدلتا " اُس" کا انتظار کر رہا تھا۔ جب پھولوں سے بنی راہداری پر سرخ آنچل تلے اُسے لایا گیا۔

یوسف یک ٹک اسے دیکھتا رہا کہ تبھی ذرا کی ذرا نظر اُٹھا کر جسمین نے اسے دیکھا جو سفید شلوار قمیض پر بلیک واسکٹ پہنے وہ بہت سی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔

جسمین نے نظریں واپس جھکا دیں۔ حورین اور باقی لڑکیاں اسے تھامے اسٹیج پر لے آئیں، ساتھ ہی اسے یوسف کے پہلو میں بٹھا دیا۔

" اُٹھ اُٹھ کر دیکھیں گے لوگ... 

 ہم بیٹھ جائیں گے برابر میں تمہارے... "

پلر سے ٹیک لگائے کھڑا وہ نم آنکھوں سے جسمین کو دیکھ رہا تھا۔ ان گزرے دنوں میں وہ کس کیفیت میں مبتلا رہی تھی۔ بلاج کو اچھے سے اندازہ تھا پر وہ اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ اس لیے خاموشی سے اسے تڑپتا دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا۔ جسمین کی وہ تڑپ اس خوشی کے آگے کچھ بھی نہیں تھی جو آج اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔

" شادی مبارک ہو گڑیا !! "

وہ زیرِ لب بڑبڑایا ساتھ ہی نظر پھیر کر یوسف کو دیکھنے لگا۔ عین اس لمحے یوسف کی نظر بھی اس کی طرف اُٹھی تھیں۔ دونوں کی نظریں ملیں، جو گزرے دنوں کی یاد کو تازہ کر گئیں۔

" بلاج بھائی !! "

یوسف بلاج کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے بولا۔ جو ایک بار پھر درگاہ پہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔

" آپ آج پھر یہاں۔۔۔" دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑی۔

" تم نے جو سوالات مجھ سے کیے تھے، انہیں کے جواب دینے آیا ہوں۔" وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے ہوئے اس کے پاس آیا۔

" بیٹھ کر بات کرتے ہیں؟ "

یوسف سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ آج اس کے انداز میں وہ بے قراری مفقود تھی جو پہلی ملاقات میں تھی۔

" بیٹھ جائیں۔" یوسف نے کرسی کی طرف اشارہ کیا اور خود سامنے چارپائی پر بیٹھ گیا۔

"تم نے مجھ سے پوچھا تھا یوسف۔۔۔ کیا جسمین نے اپنے کسی بیٹے کا نام تمہارے پر رکھا ہے۔"

چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بلاج کی آواز کمرے میں گونجی۔ یوسف خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ جیسے کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔

" نہیں !! اُس نے اپنے کسی بیٹے کا نام تمہارے نام پر نہیں رکھا۔ جانتے ہو کیوں؟ " بلاج نے سر اُٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔

" کیونکہ اُس کی کوئی اولاد ہی نہیں اور نہ ہی شوہر ہے۔"

" کیا مطلب؟ "

یوسف کی خاموشی ٹوٹی ساتھ ہی آنکھوں میں حیرت اُتر آئی۔ جبکہ اس کے سوال پر بلاج افسرده سا مسکرایا اور پھر سمیر اور جسمین کی بابت بتاتا چلا گیا۔

وہ کہہ کر چپ ہوا تو کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ یوسف لب بھینچے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ جس جسمین کو وہ ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا تھا، اُس کے ساتھ اتنا سب ہوگیا تھا اور وہ خود یہاں بےخبر سکون سے زندگی گزار رہا تھا۔

" تمہیں یاد تو ہوگا یوسف آٹھ سال پہلے میں نے تم سے کہا تھا جسمین کی زندگی سے دور چلے جاؤ۔" بلاج رکا۔۔۔ جیسے مزید کہنے کیلئے ہمت جمع کر رہا ہو۔

" آج آٹھ سال بعد میں ہی تم سے کہہ رہا ہوں، میری بہن کو اپنا لو۔"

وہ کس کیفیت سے دوچار ہو کر یہ سب کہہ رہا تھا۔ یہ بس بلاج ہی جانتا تھا۔ وہ جو کسی کے آگے جھکتا نہیں تھا آج یوسف حیدر کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔

" تمہیں میں یقیناً خودغرض لگ رہا ہوں گا۔ پر میں مجبور ہوں یوسف، کیونکہ میری بہن وہ خوش نہیں ہے۔ اگر میں اُس کی شادی کہیں اور کر بھی دوں تو وہ ہمیں دکھانے کیلئے خوش ہونے کی کوشش کرے گی مگر خوش رہ نہیں پائے گی۔" اس نے رک کر یوسف کو دیکھا جو خاموش بیٹھا فرش کو گھورتے ہوئے ناجانے کیا سوچ رہا تھا۔

" میں تم سے معافی مانگنے کو بھی تیار ہوں یوسف اور۔۔۔"

" نہیں بلاج بھائی نہیں۔" بلاج کی بات کاٹتے ہوئے یوسف نے نفی میں سر ہلایا۔

" آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ بس حکم کریں، میں تیار ہوں۔"

یوسف کی بات پر بلاج اسے دیکھتا رہ گیا۔ آخر کیا تھا یہ شخص بجائے ناراض ہونے کے، غصّہ دکھانے کے، طعنہ دینے کے وہ کتنی آرام سے اس کی طلاق یافتہ بہن کو اپنی عزت بنانے کیلئے تیار ہوگیا تھا۔

" تم۔۔۔ تم سچ کہہ رہے ہو؟ " بلاج کو جیسے یقین نہ آیا۔

" بالکل !! جیسے آپ کو جسمین کی خوشی عزیز ہے۔ ویسے ہی مجھے بھی اُن کی خوشی عزیز ہے۔ میں نے جسمین سے وعدہ کیا تھا۔ کبھی کوئی دکھ اُنہیں چھو کر نہیں گزرے گا۔ مگر اب جو ہوگیا میں اُسے بدل تو نہیں سکتا۔ لیکن یہ وعدہ ضرور کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں، جسمین کو کوئی تکلیف، کوئی دکھ چھو کر بھی نہیں گزرے گا۔"

یوسف کے لفظوں میں ایسی سچائی تھی کہ بلاج کو ان پر ایمان لانا ہی پڑا۔ وہ بے اختیار ہو کر اس کے گلے سے لگ گیا۔

" تھنکیو۔۔۔ تھنکیو سو مچ یوسف !! "

" اس کی ضرورت نہیں بلاج بھائی یہ میرا فرض ہے۔" یوسف دھیرے سے بولا۔ جسمین کو خوش دیکھنا اس کے فرض میں ہی تو شامل ہو گیا تھا۔

" اچھا ایک بات بتاؤ تم یہاں آئے کیسے؟ مطلب تم نے اپنا گھر بار کیوں چھوڑ دیا؟ "

بلاج کے پوچھنے پر یوسف تلخی سے مسکرایا اور پھر خاور اور اپنے جھگڑے کی بابت بھی بیان کر دی۔ آج جیسے انکشافات کا دن تھا۔ ہر راز پر سے پردہ اُٹھنا تھا۔

" اففف میرے خدا !! "

بلاج نے اپنا سر تھام لیا۔ ان بہن بھائیوں کی وجہ سے اس شخص کو کیا کچھ برداشت کرنا پڑا تھا۔

" یوسف خاور بھائی نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا۔ اُن کی جگہ میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔ پر اب وہ اس دنیا میں نہیں تم پلیز اُن کو معاف کر دو تاکہ ان کا عذاب کچھ کم ہو سکے۔" اس نے شرمندگی سے کہا۔

" آپ شرمندہ نہ ہوں۔ میں انہیں معاف کر چکا ہوں۔ میرے دل میں کسی کیلئے کوئی شکوہ نہیں۔" یوسف مسکرا کر بولا۔

" اور ہاں !! پلیز جسمین کو اس بارے ميں مت بتانا۔ میں نہیں چاہتا اُس کے دل میں خاور بھائی کو لے کر اب کوئی گلا رہے۔" ایک اور درخواست کی، جس پر بھی یوسف نے یقین دلاتے ہوئے کہا تھا۔

" آپ فکر نہیں کریں، میں کبھی جسمین کو نہیں بتاؤ گا۔"

" تم بہت اچھے ہو یوسف !! " 

اس انسان کی اعلیٰ ظرفی کے آگے بلاج کو اپنا آپ چھوٹا لگنے لگا۔ شرمندگی میں مزید اضافہ ہوا تھا پر اب وہ کر بھی کیا سکتا تھا؟ ماسوائے معافی مانگنے کے۔

" اچھا مجھے اپنا فون نمبر دے دو تاکہ میں تم سے رابطے میں رہو۔"

" میرے پاس فون نہیں ہے۔"

" کیا پر۔۔۔" بلاج کہتے کہتے خود ہی رک گیا۔

یوسف خاموشی سے اُٹھا اور سامنے رکھی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔ واپس آیا تو ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔

" یہ حکیم صاحب کا نمبر ہے۔ آپ اس نمبر پر کال کر کے مجھ سے رابطہ کر لے گا۔" وہ کاغذ بلاج کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔

" ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں۔ تم سے فون پر رابطہ رہے گا۔" بلاج کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔

" ایک۔۔۔ ایک احسان کریں گے مجھ پر۔" یوسف نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔

" ہاں بولو۔"

" کیا آپ معلوم کر کے بتا سکتے ہیں میرے دوست کہاں رہتے ہیں؟ مطلب اپنے پرانے گھر میں ہی ہیں یا گھر بدل لیا۔" یوسف کے کہنے پر بلاج اسے دیکھتا رہا پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔

" ٹھیک ہے ایک دو دن میں تمہیں کال کر کے بتاتا ہوں۔"

بلاج کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور پھر اس کے بعد وہ یوسف سے رابطے میں رہا تھا۔ اس نے یوسف کے دوستوں کی خبر بھی اسے دے دی تھی اور جس دن جسمین درگاہ پر جا رہی تھی، یہ بات بھی بلاج نے اسے فون پر بتا دی تھی۔ جس کے بعد یوسف نے بےچینی سے جسمین کا انتظار کیا تھا پر چونکہ بلاج نے اسے منع کیا تھا کہ وہ اپنے اور بلاج کے رابطے کا ذکر جسمین سے نہ کرے اس لیے وہ بھی اُس دن انجان بن گیا تھا۔۔۔

" بلاج بیٹا !! "

عقب سے آتی آواز پر وہ سوچوں کے گرداب سے باہر آیا۔ مڑ کر دیکھا تو سامنے قمر بیگم اور لبابہ کھڑی تھیں۔

" بیٹا اب ہم چلتے ہیں، کافی دیر ہوگئی۔"

" پر ابھی تو کھانا بھی نہیں کھلا اتنی جلدی کیوں۔" اس نے سنجیدگی سے دونوں کو دیکھا۔

" بیٹا کھانے کا کیا ہے نکاح میں شریک ہونا تھا۔ وہ ہوگئے اب چلتے ہیں۔" وہ مسکرا کر دھیرے سے بولیں۔

" بالکل بھی نہیں میں کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دوں گا آپ آئیں میرے ساتھ۔" بلاج کہتا ہوا انہیں اپنے ساتھ لیے ٹیبل کی جانب بڑھ گیا۔

وہیں دور کھڑی حورین نے بےتاثر چہرے سے یہ منظر دیکھا تھا۔ اسے دکھ نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ لاحاصل کی "چاہ" دل سے نکال کر وہ اپنا دل اللّٰه کے ساتھ جوڑ چکی تھی۔ پھر بلاج نے محبت نہیں دی تو کیا۔۔۔؟ 

اُس نے حورین کو عزت دی تھی، جو عورت کو دیئے جانے والے تحائف میں سب سے انمول تحفہ ہے۔ عورت محبت کے بغیر تو رہ سکتی ہے مگر عزت کے بغیر نہیں اور وہ اس بات پر رب کی شکر گزار تھی کہ اُس پاک ذات نے اسے بلاج جیسا شوہر دیا۔ جو عورت کو عزت دینا جانتا تھا۔ اس کے بھائی سمیر کی طرح نہیں۔ جو جسمین کو محبت تو دور عزت تک نہیں دے سکا تھا۔۔۔

" جسمین تم نے ٹھیک کہا تھا۔ سب کو سب کچھ نہیں ملتا۔ کسی کو زمین نہیں ملتی، کسی کو آسمان نہیں ملتا۔"

وہ زیرِ لب کہتی، کرن عالمگیر کی طرف بڑھ گئی۔ جنہیں بیٹے کی دوسری بار طلاق نے بہت کمزور کر دیا تھا۔

۔*********۔

"جسمین بیٹا تم آرام سے بیٹھو اور لڑکیوں اب اس کا پیچھا چھوڑ دو اور کمرے سے باہر نکلو۔"

رخصتی کے بعد جسمین کو سیدھا یوسف کے گھر لے آئے تھے اور اب اسے عجلہ عروسی میں بٹھاتے ہوئے آرام کا کہہ کر نورین بیگم اُن تینوں سے مخاطب ہوئیں، جن کا آج باہر جانے کا ارادہ نہیں لگتا تھا۔

" پتا ہے جسمین میرا تو پکا ارادہ تھا تمہارے گھر آنے کا پر آخری وقت پر یہ خوش خبری مل گئی۔" مسکان بڑی بے تکلفی سے بتانے لگی۔

یوسف کا رشتہ لے کر جسمین کے گھر صوبیہ، نورین بیگم اور ریحانہ بیگم (جنید کی امی) گئیں تھیں۔ جبکہ فریال اور مسکان نئے مہمان کی عنقریب ہونے والی آمد کی وجہ سے نہیں جاسکی تھیں اور چونکہ جسمین یونیورسٹی کے زمانے میں مہوش سے دوستی کے باعث حذیفہ کے گھر جاچکی تھی، تو کہیں وہ نسرین بیگم کو پہچان نہ لے اس لیے حذیفہ نے انہیں بھی جانے نہیں دیا تھا۔ جس کے باعث جسمین کو زرا بھی شک نہیں ہو پایا تھا۔۔۔

" ویسے جسمین تم بڑی خوش قسمت ہو۔ مجھے تو لگا تھا یوسف بھائی یونیورسٹی کے بعد سب بھول جائیں گے مگر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک سچے عاشق ہیں۔" صوبیہ شرارت سے بولی۔

اس کی بات پر جہاں مسکان اور فریال ہنسی تھیں وہیں جسمین نے جھینپ کر سر نیچے جھکا لیا۔

" بس کرو لڑکیوں اُٹھو، تنگ نہیں کرو۔"

نسرین بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے گویا ہوئیں، ساتھ ہی تینوں کو اُٹھایا جو منہ بناتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔

" بیٹا کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو۔" وہ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔

" نہیں آنٹی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔"

" چلو ٹھیک ہے بس تم آرام سے بیٹھو یوسف آتا ہی ہوگا۔" وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔

ان سب کے جانے کے بعد کمرے میں سناٹا چھا گیا تھا۔ جسمین نے نظریں اُٹھا کر کمرے کا جائزہ لیا۔ سرخ، سفید گلاب کے پھول اور کینڈلز سے سجا چھوٹا سا کمرہ بےحد خوبصورت لگ رہا تھا۔ لیکن یہ گھر تو کیا کمرہ بھی اس کے کمرے جتنا بڑا نہیں تھا۔ پر سیج پر بیٹھی یہ لڑکی مادہ پرست نہیں تھی۔ یہ چیزوں کو نہیں دینے والے کی محبت کو دیکھتی تھی اور اس کا شوہر محبت کے معاملے میں مالدار انسان تھا اور یہی اس کے اطمینان کیلئے کافی تھا۔۔۔

" یہ کیا ہو رہا ہے مجھے۔"

اس نے اپنی ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑا جو آنے والے لمحات کو سوچتے ہوئے بھیگنے لگی تھیں۔ دل عجیب ہی لے میں دھڑکنے لگا تھا کہ تبھی دروازے پر آہستہ سے دستک ہوئی اور اگلے ہی پل وہ دروازہ کھول کر اندر آیا تھا۔

" آگئے آج ہم بھی یہاں، بزم اپنی سجا لیجئے

 ہے یہ ملن کی گھڑی، آپ بھی دل لگا لیجئے"

یوسف نے واسکٹ اُتار کر کرسی پر رکھی پھر جسمین کو دیکھا جو پلکیں جھکائے مہندی سے سجے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔

" یہ چوڑیاں، یہ کنگن، یہ جھمکا، یہ مہندی

 سنگھار تو میرے ہیں، پر طلبگار تیرے ہیں "

وہ سر سے پاؤں تک اس کیلئے سجی تھی۔ یہ بناؤ، یہ سنگھار سب اس کیلئے کیا گیا تھا۔ یہ زینت، یہ زیبائش یوسف حیدر کیلئے تھی۔ ان ہاتھوں میں رچی مہندی یوسف حیدر کے نام کی تھی۔ جس کا کبھی اس نے خواب دیکھا تھا، وہ آج حقیقت کا روپ لیے اس کے سامنے تھا۔ یوسف کمرے کے وسط میں کھڑا یک ٹک جسمین کو دیکھے گیا۔

" فَبِأَيِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُكَذِّبَانِ "

دل نے ایک بار پھر صدا لگائی تھی۔ نکاح سے اب تک وہ اس آیت کو کتنی بار دل میں دہرا چکا تھا۔ اس کا اندازہ شاید اسے خود بھی نہیں تھا۔

" یا اللّٰه !! یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ یہ کیسا احساس ہے؟ "

جسمین نے اپنی ہتھیلیوں کو مکمل طور پر بھیگتا محسوس کیا۔ اس کیلئے یہ سب پہلی مرتبہ نہیں تھا۔ پر شاید محبوب کی نظر کا اثر تھا کہ سب نیا سا لگ رہا تھا۔ یوسف کی نظروں کا ارتکاز جسمین کو پلکیں جھکائے رہنے پہ مجبور کررہا تھا۔

" تو جھانسے کی رانی !! آج نہیں بولیں گی مسٹر یوسف آپ پر فرض ہے میرے پاس آ کر حاضری دینا۔"

یوسف کی شوخ آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی اور اگلے ہی لمحے وہ اس کے سامنے آ بیٹھا۔

" آج کیوں بولتی بند ہے؟ "

اس کے انداز سے ہی سرشاری جھلک رہی تھی۔ دل کی دنیا آباد ہوئی تھی تو سب کچھ اچھا لگنے لگا تھا۔ وہ واپس اپنی ترنگ میں لوٹ رہا تھا۔

" تم۔۔۔تم بدتمیزی نہیں کرو۔"

جسمین جو پہلے ہی نروس ہو رہی تھی۔ جھنجھلا کر بولی۔ اس کی بات پر یوسف کا قہقہہ کمرے میں گونج اُٹھا۔

" اچھا نہیں کرتا بدتمیزی پر تنگ تو کرسکتا ہوں نا۔"

یوسف کی معنی خیز بات پر جسمین رو دینے کو ہوئی۔ وہ پہلے ہی اس سے نکاح پر الجھی ہوئی تھی۔ اوپر سے یوسف کی باتیں۔

" اچھا جھوڑیں باتیں۔ یہ لیں آپ کی رونمائی کا گفٹ۔"

اس کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے یوسف نے بات بدل دی اور ایک سرخ مخمل کی ڈبیا اس کی طرف بڑھائی۔ جسے جسمین نے تھاما نہیں تھا۔

" اس میں کیا ہے؟ "

" کھول کر دیکھ لیں۔" یوسف نے ایک بار پھر اس کی طرف بڑھائی۔

" تم کھولو۔"

فرمائش کی، جسے سنتے ہی یوسف نے مسکراتے ہوئے ڈبیا کھول کر اس کے سامنے کر دی۔ خوبصورت گولڈ کی چین میں موجود لاکٹ جس پر یوسف لکھا تھا۔ اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

" پہنا دو۔"

ایک اور فرمائش، یوسف کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔ اس نے چین گلے میں پہنا کر جسمین کی کلائی تھام لی۔ جس میں لٹکتا گولڈن بریسلٹ اس کی محبت کی نشانی اب بھی موجود تھا۔

" شادی مبارک ہو !! "

دھیرے سے کہتے ہوئے اس نظریں اُٹھا کر جسمین کو دیکھا۔ جس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگی تھیں۔

" تم کیسے؟ مطلب تم تو درگاہ۔۔۔"

ابھی جسمین کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ یوسف نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔

" آج نہیں !! آج میرا دن ہے۔ اس بارے میں پھر کبھی بات کرینگے۔"

اس کے لہجے میں ایسی آنچ تھی کہ جسمین نظریں جھکانے پر مجبور ہوگئی۔ تبھی ایک موتی آنکھ سے نکل کر اس کے رخسار پر بہہ گیا۔

" انہیں بھی آج روکے رکھیں۔" یوسف نے آنسوؤں کو اپنی پوروں پہ سمیٹا۔ جسمین نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

" اچھا یہ بتائیں کیا آپ کو میری یاد آتی تھی؟ " اس کے دوپٹے سے پنز نکالتے ہوئے یوسف نے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا۔ مقصد صرف دھیان بٹانا تھا۔

" بہت !! جن کے لیے میں نے تمہیں چلے جانے کو کہا تھا۔ وہ سب ہی مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ تمہارے جانے کے بعد میں محبت کو ترسی ہوں یوسف۔"

جسمین کی بات پر یوسف کے پنز نکالتے ہاتھ تھمے تھے۔ اس نے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے جسمین کو اپنے سینے سے لگا لیا۔

" انسان جس سے محبت کرتا ہے، بدلے میں اُسی سے محبت چاہتا ہے۔ پھر چاہے دنیا کی ساری محبتیں اس کے قدموں میں ڈھیر کیوں نا ہو جائیں۔ اُس شخص کی محبت کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔" یوسف کے سینے سے لگی، وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔

" روئیں نہیں۔۔۔ اب تو میں ہوں نا آپ کے پاس، اب کبھی آپ کسی چیز کیلئے نہیں ترسیں گی۔"

اپنے سینے سے لگائے وہ وعدہ کر رہا تھا، یقین دلا رہا تھا، باور کروا رہا تھا۔ جسمین نے پُرسکون ہو کر آنکھیں موند لیں۔ ایک وہی تو تھا، جو وعدے نبھانا جانتا تھا۔

" وعدہ وفا کیلئے ایک آس چاہیئے

ہمیں جینے کیلئے تیری سانس چاہیئے

پلکوں پہ سپنے اور سپنوں میں پیاس چاہیئے

ہمیں تجھ سے تجھ تک آنے کی اجازت چاہیئے "

۔*********۔

بے شک آزمائشوں کے بعد آسانی ہے !!

وقت پر لگائے اپنے ساتھ زندگی کے چھ سال لے گیا مگر ان چھ سالوں میں یوسف کی محبت میں زرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔

لوگ کہتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محبت ماند پڑ جاتی ہے۔ مگر ہماری محبت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور نکھرتی گئی ہے۔ یوسف کی بے لوث محبت نے میرے ہر غم کو بھر کر اپنا آپ منوایا ہے۔ جہاں یوسف نے مجھے پلکوں پہ بٹھایا۔ وہیں وہ میرا لاڈلا بن بیٹھا۔ میری ہر بات کو حکم کی طرح ماننا اور اپنی ہر بات ضد کرکے منوا لینا اُس کی عادت بن چکا ہے۔ یہی نہیں جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ہماری محبت بھی عادت میں بدلتی جا رہی ہے۔ روز آفس سے آنے کے بعد اُسے میں گھر پر نہ ملوں تو جناب کا موڈ بگڑ جاتا ہے۔ اسی طرح باہر جاتے وقت میرا اُس کی بائیک پر بیٹھنا، اُس کے سارے کاموں کو اپنے ہاتھ سے کرنا اب میری عادت میں شامل ہو گیا ہے۔

بھائی اکثر کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس آ کر رہ لیں۔ کیونکہ چار سال پہلے ہوئے امی کے انتقال کے بعد ان کے دل میں ڈر سا بیٹھ گیا ہے۔ کہیں مجھے بھی نہ کھو دیں۔ اس لیے اکثر یوسف کی اور بلاج بھائی کی اس بات کو لے کر نوک جھونک ہوجایا کرتی ہے۔ مگر مجال ہے جو یوسف صاحب بلاج بھائی کی بات مان جائیں، اُن کی خوداری پہ حرف نہ آجائے۔ لیکن سچ کہوں تو مجھے بھی میری اور یوسف کی چھوٹی سی جنت ہی بہت عزیز ہے۔ بڑے بڑے محلوں میں تنہا رہنے کے بعد اب میں نے جان لیا کہ سکون اونچے اونچے محلوں میں نہیں بلکہ اپنوں کے دل میں رہنے سے ملتا ہے اور اب یہ ہی میرا آشیانہ ہے۔

ہماری شادی کو چھ سال ہوگئے اور ان چھ سالوں میں اللّٰه نے ہمیں دو پیارے بیٹا بیٹی سے نوازا ہے۔ بڑی بیٹی سلوا !! جو ابھی پانچ سال کی ہے مگر خوبصورتی کے معاملے میں اپنے باپ پر گئی ہے۔ یوسف کی جان بستی ہے اس میں اور بلاج بھائی کی بھی۔ اس لیے سلوا کی پیدائش پر ہی بلاج بھائی نے اس کا ہاتھ میرے شہزادے حدید کیلئے مانگ لیا تھا۔ ہمیں بھی کیا اعتراض ہونا تھا۔ آخر کو اصل سے سود پیارا ہوتا ہے۔ ہم نے بھی با خوشی سلوا کا ہاتھ حدید کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ اور ہمارا چھوٹا بیٹا ابراز !! اُس کے بارے ميں کیا بتاؤ وہ ابھی صرف دو سال کا ہوا ہے۔ جو ہم دونوں میاں بیوی کے ساتھ ساتھ ماموں ممانی، بھائی بہن سب کا ہی لاڈلا ہے۔

خیر !! ان چھ سالوں میں جہاں ہم نے بہت سے رشتوں کو پایا ہے وہیں کچھ عزیز لوگوں کو کھو بھی دیا ہے۔ امی کے بعد حکیم صاحب بھی تین سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ جس کے بعد یوسف نے درگاہ پر جانا چھوڑ دیا تھا۔ ایک بار پھر باپ جیسے انمول رشتے کو کھونا آسان نہیں تھا۔ پر انسان کر ہی کیا سکتا ہے ماسوائے اپنے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے۔

اب باقی رہا سوال یوسف کے دوستوں کا تو دنیا ادھر کی اُدھر ہوسکتی ہے مگر ان چاروں کی دوستی ختم نہیں ہو سکتی۔ وہ آج بھی ویسے ہی ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ کر ایک دوسرے کے ہی کندھے پر آنسو بہانے والے اور اب یوسف کی بدولت مجھے بھی تین پیاری سی بہنیں مل گئی ہیں۔ جو کسی انمول تحفے سے کم نہیں ہیں۔۔۔

" کیا کر رہی ہو؟ "

جسمین جو ڈائری پہ سر جھکائے بیٹھی تھی یوسف کی آواز پر سیدھی ہوئی۔

" کچھ نہیں گزرے لمحوں کو ڈائری میں قید کر رہی ہوں۔"

کمرے کے دروازے پر کھڑے یوسف کو دیکھتے ہوئے وہ مسکرا کر بولی۔

" تم لمحوں کو چھوڑوں، مجھے قید کر لو اپنی بانہوں میں۔" اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتا وہ شرارت سے بولا۔

شادی کے دوسرے دن سے ہی وہ آپ سے تم پر آگیا تھا۔

" مسٹر یوسف حیدر کتنی دفعہ کہا " تم" نہیں " آپ " کہہ کر مخاطب کیا کریں۔ آپ سے بڑی ہوں میں۔" جسمین نے مصنوعی گھوری سے نوازا۔

" مس (وقفہ) جسمین کتنی بار بتایا ہے، اسٹوڈنٹ نہیں اب شوہر ہوں میں آپ کا۔" وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔

" زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں۔"

جسمین نے انگلی اُٹھا کر اسے دھمکایا۔ لیکن یوسف صاحب نے دھمکی کا اثر لینے کے بجائے وہی انگلی تھام کر جسمین کو اپنے سینے پر گرا لیا۔

" گزرے لمحوں کو قید کر لیا، اب اسے بھی اس لمحے قید کر لو۔" اس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرتے ہوئے وہ اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔

" سر پر نہ چڑھو۔" مسکراہٹ دبائے کہا۔

" نہ چڑھائیں بس اپنا لاڈلا بنا لیں۔" اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے ٹکائے، خمار آلود لہجے میں بولا کہ تبھی بیڈ پر سوئے ابراز کے رونے کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔

" ایک تو اسے ہمیشہ غلط وقت پر انٹری مارنی ہوتی ہے۔" یوسف جھنجھلا کے پیچھے ہٹا۔ جسمین اپنی مسکراہٹ دباتی ابراز کی طرف بڑھی جس کے رونے سے بیڈ پر سوئی سلوا بھی جاگنے کی تیاری کر رہی تھی۔

" اب تم جلدی تیار ہو جاؤ۔ حذیفہ کی بیٹی کی سالگرہ ہے، اگر دیر سے پہنچے تو تمہاری شامت آنی ہے۔"

" ہاں جا رہا ہوں۔"

الماری سے کپڑے نکال کر وہ باتھ روم جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھنے لگا تھا کہ رک کر واپس مڑا۔

" آئی لو یو، مائے ڈئیر سوئیٹ ہارٹ !! "

یوسف اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا، جسمین دھیرے سے مسکرائی۔

" لو یو ٹو ڈئیر ہسبنڈ !! "

اور اس اظہارِ محبت پر یوسف حیدر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔

" دیکھنا حشر میں تم پہ مچل جاؤں گا

تصورِ یار سے گزر کر، تصورِ عشق پاؤں گا "

۔*********۔

ختم شد۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Tasawur E Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tasawur E Ishq written by Jiya Abbasi. Tasawur E Ishq  by Jiya Abbasi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment