Pages

Saturday 17 August 2024

Dil Maane Na By Sanaya Khan New Complete Romantic Novel

Dil Maane Na By Sanaya Khan New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dil Maane Na By Sanaya Khan Complete Romantic Novel 

Novel Name: Dil Maane Na 

Writer Name: Sanaya Khan

Category: Complete Novel

عریشہ کالج سے واپس آتے ہی کچن میں آکر اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو چکی تھی 

عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔امی نے کہا ہے برتن دھونے  بعد  کے  جا کر تیار ہو جانا آج تمہارے سسرال والے تاریخ پکی کرنے آرہے ہے۔۔۔۔۔

ردا اپنی امی کا میسیج عریشہ کو دے کر جا چکی تھی اور عریشہ سن ہو کے کھڑی رہ گئی تھی ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے انسوں جاری ہو گئے تھے دو ہے دِن پہلے اُس کا رشتہِ پکہ ہوا تھا اُس دن سے وہ روئے جا رہی تھی ساری رات رونے کے بعد وہ بہت ہمت کرکے کالج گئی تھی اور واپس آتے ہی یہ خبر سن کر پھر اُس کا دل اُداس ہو گیا تھا

عریشہ کے امی ابّو ایک حادثے میں فوت ہو گئے تھے اُس وقت عریشہ کی عمر صرف سات سال تھی اپنوں کے نام پر اُس کے صرف تایا ہی تھے اس لیے عریشہ اُن کی ذمےداری بن گئی تایا ابو کا برتاؤ اُس کے ساتھ لیا دیا ہی تھا لیکن تائی امی کو وہ زہر لگتی تھی تایا ابو دبئی میں نوکری کرتے تھی اس لیے کبھی کبھی ہی گھر پر رہتے تھے اور اُن کے پیچھے تائی اُس کے ساتھ نوکروں سے بھی بدتر سلوک کرتی تھیں اُن کی باتیں طعنے ہمیشہ عریشہ کا دل چھلنی کر دیا کر دیتے تھے لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی جب اللہ نے ہی اُس کی قسمت میں یہ سب لکھا تھا تائی امی اُس سے گھر کا سارا کام کروایا کرتی تھی اپنی خدمت کروایا کرتی تھی اور پہننے کے نام پر اُسے اپنی بیٹیوں ردا اور فائزہ کے پرانے کپڑے اور سامان دیا کرتی تھی 

تائی امی کو دیکھ اُن کی دونوں بیٹیاں بھی اُس پر ایسے ہی حکم چلاتی تھی اور وہ چپ کرکے سہتی رہتی تایا جی کے کہنے پر انہوں نے دسویں کے بعد اُس کا داخلہ تو کروا دیا تھا لیکن اُنھیں اُس کا پڑھنا بھی بہت کھٹکتا تھا وہ جلد سے جلد اُس کے لیے کوئی رشتہ ڈھونڈھ کر اپنے بوجھ کو کم کر دینا چاہتی تھی لیکن کئی رشتے والے اُس کے لیے انکار کے چکے تھی وجہ دو تھی ایک عریشہ کا رنگ ہلکا سا سانولا تھا اور دوسری کے وہ یتیم تھی اسلئے کچھ ملنے کی امید نہیں تھی عریشہ کو اُن کے انکار کرنے کے بعد تائی امی کی جو گالیاں اور باتیں سننے ملتی وہ الگ بے چاری گھنٹوں روتی رہتی 

دو دن پہلے اُس کے لیے ایک رشته آیا تھا اور اُن لوگوں کو وہ پسند بھی آگئی تھی لیکن حیرت کی بات یہ تھی کے وہ لوگ بہت رئیس اور اونچے گھرانے کے لوگ تھے  اسی لیے عریشہ ڈری ہوئی تھی وہ جانتی تھی تائی امی اُس سے چھٹکارا پانے کے لیے کسی بھی طرح اُس کی شادی کرنا چاہتی ہے اس لیے اُسے کچھ غلط ہونے کا اندازہ ہو رہا تھا وہ سات سال کی عمر سے اتنا کچھ سہتی آئی تھی اب آگے کی زندگی میں پتہ نہیں اُسے اور کیا کیا دیکھنا تھا لیکن وہ صرف رو سکتی تھی کچھ کر نہیں سکتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

💜💜💜💜💜

ردا جو اُس سے دو سال بڑی تھی اُس نے عریشہ کو اپنے کپڑے تنگ کرکے پہنائے تھے اور اُسے تیار کرکے باہر لے آئی تھی وہ اُن لوگوں کے درمیان خاموش بیٹھی تھی اور اُس کے ذہن میں وہی چل رہا تھا 

خوش رہو بیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔سب کچھ جانتے ہوئے تم نے اس رشتے کے لیے ہاں کہہ کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے

وہ اُس لڑکے کی دادی تھے جو عریشہ کے سے پر ہاتھ رکھے محبت سے کہہ رہی تھی اور عریشہ نے اُن کی بات پر سر اٹھا کر اُنھیں دیکھا اُن کے " سب کچھ جانتے ہوئے" والے لفظ عریشہ کے حلق میں اٹک گئے تھے مگر وہ کہہ نہیں پائی دادی نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر تیسری انگلی میں اپنے پوتے کے نام کی انگوٹی پہنائی تھے جسے وہ بے تاثر نگاہوں سے دیکھتی رہی

رضیہ جی۔۔۔آپ نے عریشہ کو سب کچھ بتا تو دیا تھا نہ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بار لڑکے کی ماں بولی تھی شاید وہ دادی کی بات پر عریشہ کا حیران ہونا نوٹس کر چکی تھی

جی ہاں آپ نے جو کہا تھا میں نے سب بتا دیا اسے۔۔۔۔۔بہت ہی سمجھدار اور نیک ہے میری بچی۔۔۔  ۔ 

تائی امی کے منہ سے اکثر ایسے ہی الفاظ نکلا کرتے تھی اُس کے لیے لیکن صرف رشتے والوں کے سامنے 

دادی نے ایک بار پھر اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا کچھ دیر بعد جب وہ لوگ جا چکے تھے عریشہ تائی امی کےپاس آئی اُس نے فیصلہ کیا تھا کے وہ ہمت کرے گی اور تائی سے پوچھے گی کے وہ کیا بات ہے ۔۔آخر یہ اُس کی زندگی کا سوال تھا

تائی امی۔۔۔۔۔۔۔۔

تائی امی پان بنا کر منہ میں ڈال رہی تھی جب وہ اُن کے کمرے میں آئی اُسے دیکھتے ہی تائی امی کے

 چہرہ پر ناگواری چھا گئی 

وہ۔۔۔۔۔۔۔تائی امی۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔۔مجھے پوچھنا تھا کے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے وہ لوگ کونسی ۔۔۔ک   ک۔۔۔۔۔کونسی بات  کے بارے میں  پو    پوچھ رہے۔۔۔ پوچھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے مجھے ۔۔۔۔۔

اُس کی زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی اُس نے بہت مشکل سے سے جھکائے اتنے الفاظ ادا کیے تھے

تائی امی کڑے تیوروں سے اُسے دیکھتی اٹھ کر اُس کے پاس آئیں تھی

اچھا تو تو یہاں مجھ سے سوال جواب کرنے آئی ہے

ہاں اُن لوگوں نے مجھے کہا تھا تجھے بتانے کو

اُن کے بیٹے میں ایک کمی ہے لیکن تو کونسی حور ہے  تیری شکل تو دیکھنے لائق بھی نہیں ہے تجھے شکر منانا چاہیے کے پھر بھی وہ تجھے قبول کر رہے ہیں ۔,۔..۔۔۔۔ورنہ ساری زندگی ہمارے سر پر بوجھ بن کر پڑی رہتی کوئی نہیں تھوکتا تیری شکل پر۔۔۔۔اتنا بڑا خاندان۔۔۔۔اتنی دولت۔۔۔۔۔۔اتنا رتبہ۔۔۔۔۔۔اتنا سب کچھ ہے اُن کے پاس کے اُس لڑکے کی کمی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔۔۔ ۔۔۔تجھے تو میرے پیر دھو کر پینے چاہیے کے تیری اوقات سے بڑھ کر گھر میں تیری شادی کر کے دے رہی ہوں

تائی امی کے الفاظ زہر میں ڈبوئے گئے تیروں کی طرح اُس کے دل کو چھلنی کرتے رہے وہ جانے کے لیے پلٹ گی

رک۔۔۔۔۔۔۔

تائی امی نے اُسے روکا

میری بات کان کھول کر سن لے۔۔۔۔۔۔۔۔تو اس گھر میں صرف تین دن کی مہمان ہے ۔۔۔۔۔۔تین دن بعد تو شادی کرکے اُس گھر میں رہنا چاہتی ہے یا سڑک پر یہ تیرا فیصلہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیوں کے میں اب تجھے اس گھر میں تو نہیں رکھنے والی ۔۔۔۔۔۔تجھے جیتنا برداشت کرنا تھا کر لیا۔۔۔۔۔ تیری بھلائی اسی میں ہے کے بنا منہ کھولے چپ چاپ شادی کر لے۔۔۔زیادہ نخرے کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔اب دفع ہو یہاں سے 

تائی امی گرجی تھی اور وہ روتی ہوئی باہر نکل گئی تھی

💜💜💜💜💜

قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔

قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تین بار قبول ہے کہنے کے ساتھ اُس نے نا صرف ماہر جمال کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کیا تھا بلکہ اپنی آنے والی زندگی کی تکلیفوں اور مشکلوں کے لیے بھی خود کو تیار کیا تھا جن سے وہ نا واقف تھی

ابھی تک ایک ڈر اُس کے دل میں قائم تھا جانے کیا ہونے والا ہوگا۔۔۔۔کونسا کڑوا سچ آئیگا اُس کے سامنے کونسی کمی تھی اُس کے شوہر میں۔۔کیا وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔۔۔۔۔یا عمر میں اُس سے بہت بڑا تھا یا اُس کی شکل و صورت میں کوئی خامی تھی

پتہ نہیں کیا تھا سوچ سوچ کر وہ تھک چکی تھی

رخصتی کے وقت اُسے اپنے ماں باپ شدّت سے یاد آرہے تھے تایا ابو سے گلے لگ کر وہ بہت روئی تھی اور اُس گھر کو الوداع کہہ کر وہ نئے گھر میں آئی تھی لیکن وہ نیا گھر صرف گھر نہیں ایک محل تھا گزرتے وقت کے ساتھ اُس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا

کیا سوچ رہی ہو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُسے گم سم بیٹھے دیکھا تو پوچھ بیٹھی

اُس نے سے نفی میں ہلا دیا

ماہر کی فیملی میں اُس کی دادی کے علاوہ سوتیلی ماں اور اُن کے دو بچے تھے سکندر اور عالیہ۔۔۔ والد کا انتقال چار سال پہلے ہوا تھا جب کی ماہر کی ماں اُس کے پیدائش کے وقت ہی انتقال کر گئی تھیں

ماہر کی کزن بہن رائنا نے ہی اُسے سب بتایا تھا جو شادی شدہ تھی وہ بہت پیاری اور بہت ملنسار تھی اُن کا آٹھ سالہ بیٹا زیان عریشہ کے پاس ہی بیٹھا تھا 

پریشان مت ہو اب یہ تمہارا ہی گھر ہے۔۔۔۔۔۔   

رائنا نے اُسے نروس دیکھا تو پیار سے بولیں 

مجھ بڑھیا پر تم نے جو احسان کیا ہے وہ میں زندگی بھر نہیں چکا سکتی ۔۔۔۔۔بس ایک فکر تھی مجھے کے مرنے سے پہلے اپنے ماہر کا گھر بستا دیکھ بھی پاؤں گی کے نہیں لیکن تم نے آج میری وہ فکر بھی دور کر دی اب میں سکون سے مر سکتی ہوں میرے بچے کا خیال رکھنے کے لیے تم جو ہو۔۔۔۔۔۔ یقیناً۔تم بہت ہی نیک ہو بیٹا تبھی تو تم نے میرے پوتے کی اتنی بڑی خامي کو جان کر بھی اُس کا ساتھ دینا قبول کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی اُس کے پاس ہی بیٹھی بول رہی تھی اور ایک بار پھر وہ ڈر بڑھنے لگا تھا

  اللہ تمہارا دامن خوشیوں سے بھر دیں تمہاری ہر خواہش پوری کریں اور تم دونوں کو ہمیشہ ساتھ رکھے ۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُسے دل سے دعا دی

عریشہ کو رائنا کمرے میں لے آئی تھی اور بیڈ پر بٹھا دیا تھا کمرے میں کوئی سجاوٹ یا بیڈ پر پھول وغیرہ نہیں تھے لیکن پھر بھی کمرہ بہت عالیشان تھا اتنا بڑا کے تائی امی کے گھر کے دو کمرے برابر اور رنگ برنگی دیواریں جہاں جگہ جگہ تصویریں اور شو پیس لگے تھے  بیڈ کے سرہانے والی دیوار پر ایک بڑی سی تصویر لگی تھی وہ ماہر کی تصویر تھی یہ اُسے نیچے نام پڑھ کر پتہ چلا وہ اُس تصویر کو دیکھنے کے بعد اُس سے نظریں نہیں ہٹا پائی پچھلے کچھ دنوں سے اُس کے دل میں جتنے خدشات تھے سب غلط ثابت ہوئے تھے وہ کسی شہزادے سے کم نہیں تھا گندمی رنگت خوبصورت نقوش ۔۔۔۔۔۔۔۔گہری کالی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔کالے بال جو ماتھے پر بکھرے تھے ۔۔۔۔۔۔کسرتی بدن ۔۔۔۔  گرے  سوٹ میں اپنا ہاتھ سامنے کرکے نظر کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی پر رکھی ہوئی تھی دوسرا ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا کلین شیو کیے چہرے پر غضب کی کشش تھی 

عریشہ اُس تصویر کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔وہ سانولی سے لڑکی جسے ہمیشہ بدصورت ہی کہا گیا تھا وہ چاہے اتنی بدصورت تھی نہیں لیکن ماہر کے مقابل میں وہ بہت عام تھی اُس تصویر میں ماہر کی عمر پچیس چھبیس سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔اُس کمرے میں اور بھی بہت تصویریں تھی اُس کی دادی کے ساتھ فیملی کے ساتھ دوستوں کے ساتھ اور ہر تصویر میں ماہر کا مسکراتا ہوا چہرہ تھا عریشہ نے ایک تصویر سائڈ ٹیبل سے اٹھائے اُسے دیکھتے ہوئے دل سے دعا کی کے آگے بھی اُس کے خدشات غلط ثابت ہوتے رہے دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ تصویر رکھتے ہوئی فوراً سیدھی ہو کر بیٹھ گی اب ایک گھبراہٹ نے آن گھیرا تھا وہ جو اُس کے قریب آرہا تھا اُس سے سامنا ہونے کی گھبراہٹ عریشہ چہرہ چھپائے بیٹھی تھی اور دونوں ہاتھ آپس نے رگڑ رہی تھی ماہر آکر اُس کے قریب بیڈ پر بیٹھا تھا اور اُس کے چھپے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا اُس کے یوں دیکھنے سے عریشہ کی دھڑکنیں بڑھنے لگی تھی اُس خاموش کمرے میں عریشہ کی چوڑیوں کی آواز بار بار سنائی دے رہی تھی اُس نے دونوں ہاتھوں کو جوڑے رکھا تھا کے ماہر نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا عریشہ نے دوسرے ہاتھ سے اپنا دل تھام لیا تھا ماہر ایک ہاتھ میں اسکا ہاتھ لیے دوسرے ہاتھ سے اُس کی چوڑیوں کو آگے پیچھے کر رہا تھا پہلے بہت دھیرے پھر اُس نے تیزی سے چوڑیوں کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا تھا اس حرکت پر عریشہ حیران ہوتی اُس کے پہلے ہی وہ چونکی جب ماہر نے ایک دم سے تالیاں بجانا شروع کر دی عریشہ نے گھونگھٹ کو پیچھے کرکے دیکھا تو وہ اُسے دیکھ کر ہنس رہا تھا اور دوبارہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی چوڑیوں سے کھیل رہا تھا عریشہ کو اُس کی دماغی حالت اور شبہ ہوا اُس نے اپنا ہاتھ ایک دم سے پیچھے کھینچا جس پر ماہر نے اُسے منہ کھولے دیکھا 

دو نا مجھے تمہاری بنگلس سے کھیلنا ہے

وہ ہاتھ آگے بڑھا کر اُس کا ہاتھ مانگ رہا تھا اور عریشہ صدمے سے اُسے دیکھ رہی تھی

پلیز دو نا ماہر کو تمہاری بنگلز بہت اچھی لگی اگر تم ماہر کو اپنی بنگلز سے کھیلنے دو گی تو ماہر بھی تم کو اپنے ٹویز دیگا

وہ کسی بچے کی طرح بات کر رہا تھا اور عریشہ اُس کے لب و لہجے پر شاک سے ہو کر اُسے دیکھ رہی تھی

پتہ ہے ماہر کے پاس  بہت بہت بہت سارے ٹويز ہے پلین ہے۔۔۔۔۔۔روبوٹ ہے اور نئی والی کار بھی ہے ۔۔۔۔تمہیں کیا چاہیے

اُس نے اپنی انگلیوں پر گنتی کرتے ہوئی کہا عریشہ کا سر گھومنے لگا اتنی بڑا فریب کیا گیا اُس کے ساتھ اتنی بڑی بات چھپائی گئی اُس سے اُسے ایک پاگل کے حوالے کردیا اُس کے اپنوں نے وہ  فورا بیڈ سے اُتری اور دروازے کی طرف بھاگی

بیوی رک جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اُسے روکنے کے لیے آواز دی اُس کے بیوی کہنے پر وہ حیران ہوتی رک کر پلٹی تھی

ماہر کو چھوڑ کر مت جاؤ

وہ بیڈ سے اتر کر اُس کے پاس آیا تھا اور معصومیت سے بولا

بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کے الفاظ دہرائے

ہاں دادی نے بولا کے تم میری بیوی ہو مطلب میری سب سے بیسٹ والی فرینڈ ہو۔۔۔۔ اور اب تم ماہر کے ساتھ ہی رہو گی ہمیشہ۔۔۔۔۔۔۔

اُس کی بات پر عریشہ نے ایک دم سے منہ پر ہاتھ رکھا اور رونے لگی اُس کے شوہر کے لیے بیوی کا مطلب یہ تھا

نہیں بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر ایکدم سے کہتا اُسکے پاس آیا

رونا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔دادی نے کہا ہے اگر ماہر کی بیوی روئے گی تو اللہ تعالیٰ ماہر سے ناراض ہو جائے گے پھر وہ ماہر کو کبھی چاکلیٹ اور ائس کریم نہیں دینگے 

ماہر نے پریشان شکل بنائے کہا عریشہ کے رونے میں روانی آگئی اُس کی زندگی برباد ہو چکی تھی 

پلیز نہیں رونا بیوی۔۔۔۔۔۔۔ماہر تمہیں تنگ نہیں کریگا۔۔۔۔۔تمہاری بنگلس بھی نہیں مانگے گا پرومیس

ماہر اُسے مزید روتا دیکھ اُداس ہو رہا تھا عریشہ نے دروازہ کھولا اور باہر بھاگنے لگی

بیوی رک جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اُسے روکنے کے لیے آواز دی لیکن وہ نہیں رکی سیڑھیاں اُتر کر ہال میں آچکی تھی اُسے یہاں نہیں رہنا تھا ایک پاگل کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی دروازے سے باہر قدم رکھتے ہوئے وہ رک گئی ایک پل میں یاد آگیا کے آخر جائیگی کہاں تائی کے کہے لفظ اُن کی کڑواہٹ عریشہ کو سن کر گئی وہ وہیں دروازے میں بیٹھ گئی 

عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا اُسے یوں چوکھٹ میں بیٹھے دیکھ کر گھبرا کر اُس کے پاس آئی

کیا ہوا عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے ساتھ آو

رائنا نے اُسے اٹھایا اور دادی کے کمرے میں لے آئی دادی سونے کی تیاری میں تھی عریشہ کو روتا دیکھ پریشان ہو گئی

کیا ہوا بچے ماہر نے کچھ کہہ دیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس کی باتوں کا برا نہیں ماننا ۔تم۔۔۔ ۔۔۔میں جانتی ہوں تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا لیکن تم بہت جلد اُسے سمجھنے لگوں گی

 عریشہ بے آواز روئے  جا رہی تھی اور دادی اُسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی

عریشہ تمہیں پتہ تھا نا ماہر کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔

۔رائنا جو کب سے چپ تھی اُس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی

کچھ پتہ نہیں تھا مجھے۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں بتایا گیا تھا مجھے   ۔۔۔۔۔۔کیوں کہ کسی کو فرق ہی نہیں پڑتا تھا میری مرضی سے میری زندگی سے ۔۔۔۔۔۔کیوں کے میں کونسی حور ہوں جو ایک اچھے لڑکے ایک اچھی زندگی کی امید کر سکتی ہوں میں تو خود دوسروں پر بوجھ ہوں جسے ہلکا کرنے کے لیے چاہے کسی بھی دلدل میں دھکیلنا پڑے وہ غلط نہیں ہوگا

وہ اپنے اندر آتے اُبال کو چاہ کر بھی روک نہیں پائی

اور سخت لہجے میں بولی

مانا میں کوئی حور نہیں ہوں مگر میں پاگل بھی نہیں ہوں جو مجھے ایک پاگل سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کہتے کہتے روک گئی تھی

نہیں بیٹا رونا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم کبھی تجھے دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔۔ہم نے کبھی نہیں چاہا تھا کے کوئی لڑکی بنا ماہر کے بارے میں جانے شادی کے لیے ہاں کرے ۔۔۔۔۔مگر تیری تائی نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیٹا شاید یہی قسمت کو منظور ہوگا۔۔۔۔۔۔تو ہی میرے ماہر کا نصیب ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے ماہر کو چھوڑ کر مت جا۔۔۔۔۔۔

اب دادی کی آنکھیں بھی بھیگنے لگی تھی اور عریشہ اُن کی مطلبی باتوں پر اُنھیں بے یقینی سے دیکھنے لگی وہ اُسے اپنے پاگل پوتے کے لیے اُس کی زندگی مانگ رہی تھی

نہیں دادی۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے اُنھیں سنبھالتے ہوئے کہا

ہمیں کوئی حق نہیں ہے عریشہ کو روکنے کا۔۔۔۔ اُس کی بھی اپنی مرضی ہے۔۔۔  اپنی خواہشیں ہے۔   ۔۔۔ہم اپنے مطلب کے لیے اُس کی خوشی کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہم اس کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے دادی۔۔۔۔

وہ دادی کو سمجھانے لگی اور دادی بے بسی سے اُسے دیکھنے لگی

ہاں صحیح کہہ رہی ہے رائنا  میں تیرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتی لیکن اپنے پوتے کی زندگی کی خاطر تیرے آگے ہاتھ جوڑ کر بھیک تو مانگ سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں ہاتھ جوڑے عریشہ کے آگے جھکنے کو تھی

دادی۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ ہڑبڑا کر اٹھی اور اُن کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیے

میرے بچے کو تیری ضرورت ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔اُسے کسی اپنے کی ضرورت ہے ۔۔    اُسے چھوڑ کر مت جا ۔۔۔۔۔مجھے تجھ سے بہت امیدیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔رک جا بیٹا مت جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے ماہر کو بس تو ہی بچا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔اُس کے دشمنوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ہی اُسے ٹھیک کر سکتی ہے۔۔۔۔

دادی زاروقطار رو رہی تھی اور عریشہ اُن کے گلے سے لگ گئی اب دونوں بے تحاشا رو کر اپنا گن ہلکا کر رہی تھی

ماہر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا عریشہ۔۔۔۔۔۔۔وہ تو بہت ہی سمجھدار اور پیارا تھا اپنوں کے لیے جان تک دے دینے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ماموں کا انتقال ہوا تب اُس نے چھوٹی سی عمر میں اُن کی ساری ذمےداریاں اپنے سر لے لی تھی آفس اور کام کے ساتھ دادی کہ بہت خیال رکھتا تھا وہ لیکن ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ایکسیڈنٹ میں اُس کے سر پر بہت گہری چوٹ آئی تھی دو دن تک بے ہوش رہنے کے بعد جب اُسے ہوش آیا تو اُس کی حرکتیں عجیب سی ہو گئی تھی بہت کوششیں کی لیکن ٹھیک نہیں ہوا وہ۔۔۔۔۔اُس کا دماغ کسی بچے جیسا ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔پتہ نہیں کس گناہ کی سزا ملی اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ دادی سے الگ ہو کر رائنا کو دیکھنے لگی 

گناہ۔۔۔۔۔۔اُس کا گناہ صرف اتنا تھا کے اُس کے باپ نے اُس کے لیے دوسری شادی کی تاکہ اُسے ماں ملے ۔۔۔۔۔۔۔اُس کا گناہ تھا کے اُس نے اپنوں پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا ۔۔۔۔۔۔ اُس کا گناہ تھا کے اُس کے باپ کی وصیت میں وہ ساری جائیداد کا اکلوتا وارث تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔جس جائیداد کے لیے اُس کے اپنے ہی دشمن بن گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے رائنا کی ادھُوری بات کو مکمل کیا تو عریشہ کی نظریں بھی دادی کے چہرے پر آٹھری

دادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے اُنھیں روکنا چاہا

نہیں رائنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے مت روک۔۔۔۔۔عریشہ کا سب کچھ جاننا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ماہر کی بیوی ہے ۔ اُسے حق ہے سب جاننے کا۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے فیصلہ کیا تھا کے وہ عریشہ کو ساری حقیقت بتائیگی شاید تب عریشہ رک جائے

آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اُسے کمرے سے باہر لے آئی تھی اور عریشہ بس چلتی گئی

افف۔۔۔۔شادی والے ڈرامے نے تھکا دیا مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ بیگم صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی 

مام مجھے سمجھ نہیں آتا آپکو کیا ضرورت تھی اُس پاگل کی شادی کروانے کی۔۔۔۔۔۔

سکندر نے ناگواری سے کہا

 اُس بڑھیا نے رٹ جو لگائی ہوئی تھی کے مرنے سے پہلے پوتے کی شادی کروانی ہے ۔۔۔۔۔بہت یقین ہے اُسے کے شادی کے بعد اُس کا پوتا ٹھیک ہو جائیگا سوچا چلو اُس کی یہ غلط فہمی بھی دور کر دیتے ہے ۔۔۔۔۔۔۔

سکندر اور عالیہ اُنکے بیڈ پر بیٹھے تھے اور وہ سوچنے والے اندا، میں سامنے دیکھ رہی تھی

بس چھ مہینے اور اُن دونوں کو جھیلنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی ماہر پچیس سال کا ہوا ساری جائیداد اُس کے نام ہو جائیگی اور پھر ہم وہ اپنے نام کر والے گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے بعد وہ بڑھیا اپنے پاگل پوتے اور بہو کو لے کر جنت میں جائے یا جہنم میں ہمیں کیا۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ نحوست سے ہنسی تھی

لیکن مام کل کو اگر یہ لڑکی ہمارے لیے پریشانی بن گئی تو

سکندر نے سنجیدگی سے کہا

وہ کیا پریشانی بنے گی میں خود اُسے اتنا پریشان کرونگی کے میرے آگے منہ کھولنے کی بھی ہمت نہیں کریگی وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔شوہر تو پاگل ہے ہی اگر اُسے بھی پاگل نا کر دیا تو کہنا

نفیسہ بیگم کمینگی سے ہنستے ہوئے بولیں تھی

لیکن مام اگر اُسے پتہ چل گیا کے ماہر بھائی کی یہ حالت ہماری وجہ سے ہے اور وہ ایکسیڈنٹ بھی ہم نے کروایا تھا تو۔۔۔۔۔۔۔۔

عالیہ نے پریشان ہوتے ہوئے کہا اور عریشہ نے اپنے منہ اور ہاتھ رکھ لیا جو کھڑکی کے پاس کھڑی اُس کی باتیں سن رہی تھی 

چپ۔۔۔۔۔۔۔منہوس کہیں کی۔۔۔۔۔۔۔اپنا منہ بند رکھ۔۔۔۔۔۔۔اُسے کچھ پتہ نہیں چلے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جاھل گنوا ر  لڑکی اتنی چالاق نہیں ہے۔۔۔۔نا میں اتنی بے وقوف ہوں کے اُسے کچھ پتہ چلنے دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم لوگ جاؤ اپنے کمرے میں ۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ بیگم نے اُسے ڈپٹتے ہوئے کہا عالیہ منہ بسور کر اٹھ گئی اور سکندر بھی اُنھیں باہر آتا دیکھ عریشہ جلدی سے دادی کا ہاتھ تھام کر جلدی سے چلتی ہوئی اُن کے روم میں آگئی اس کے پہلے کے وہ لوگ اُنھیں دیکھتے

دیکھا تم نے کیسے اُس کے اپنے ہی اُس کے دشمن بنے ہوئے ہے۔۔۔۔۔۔۔ان کا بس چلاتا تو شاید میرے بچے کو جان سے مار دیتے اگر اُس وصیت میں یہ نا لکھا ہوتا کے اگر ماہر کو کچھ ہوتا ہے تو اُس کی دولت ٹرسٹ کو چلی جائیگی

دادی نے کمرے کا دروازہ بند کرتی عریشہ کو دیکھتے ہوئے کہا رائنا شاید اپنے کمرے میں جا چکی تھی کیوں کے زیان اکیلا تھا

شاید میرے بیٹے کو ان کی بری نیتوں کا انداز بہت پہلے ہی ہوگیا تھا تب ہی اُس نے ایسی وصیت بنائی ۔۔ لیکن یہ دولت آج اُس کی جان کی دشمن بن گئی ہے

دادی آپ کچھ کرتی کیوں نہیں یہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ انہیں گرفتار کیوں نہیں کروا دیتی۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُنھیں پریشان دیکھا تو اُن کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی

۔میں اکیلی بڑھیا کیا کر سکتی تھی بیٹا۔۔۔۔بنا ثبوت کے کیسے کچھ کر پاتی۔۔۔۔۔اور یہ بھی ڈر تھا کے اگر میں اُن سے اُلجھی تو کہیں مجھے ماہر سے دور نا کر دیں۔۔۔۔۔۔اُس کے بعد تو میرا ماہر بلکل اکیلا ہو جاتا کون ہوتا پھر اُس کے ساتھ۔۔۔۔۔اُس لیے میں اُس کی شادی کر دینا چاہتی تھی تاکہ کوئی ہو جو اُسے ان فریبیوں سے بچا سکے ۔۔۔۔۔جب پہلی بار تمہیں دیکھا تو مجھے لگا تم ضرور میرے ماہر کا ساتھ دوگی میرے ماہر کو تم ہی بچاؤگی۔۔۔۔۔۔اور میں نے اللہ سے بہت دعائیں کی کے تم ہی میرے ماہر کی بیوی بنو

اللہ نے میری دعا قبول کر لی بیٹا ۔۔۔۔۔اسی لیے کہتی ہوں۔۔۔۔۔تم میرے ماہر کو چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔۔۔اللہ کی مرضی سمجھ کر رک جاؤ۔۔۔۔۔اُسے ضرورت ہے ایک ساتھی کی۔۔۔۔۔مت جاؤ بیٹا

دادی ایک بات پھر اُس کے آگے التجا کر رہی تھی

میں نہیں جاؤنگی دادی۔۔۔۔۔ویسے بھی میں بھول گئی تھی کے واپسی کے راستے تو میرے بہت پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔پہلے بھی تو اپنی قسمت سے لڑتی ہی رہی اب کیوں یہ شکایت کروں کے کے۔میری قسمت بری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اللہ نے مجھے اسی کام کے لیے یہاں بھیجا ہے تو میں اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں جاؤنگی۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا 

وعدہ کرو بیٹی تم میرے ماہر کو کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُس کے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا

میں وعدہ کرتی ہوں دادی۔۔۔۔جب تک سب کچھ ٹھیک نہیں ہو جاتا۔۔۔۔۔جب تک آپ کو یقین نہیں ہو جاتا کے آپ کا ماہر محفوظ ہے میں کہیں نہیں جاؤنگی۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُن کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا

💜💜💜💜💜💜

وہ واپس اُسی کمرے میں آئی تھی جس سے بھاگی تھی کم سے کم یہ زندگی پچھلی زندگی سے تو اچھی تھی جہاں وہ کسی کے کام آسکتی تھی جہاں کسی کو اُس کی ضرورت تھی وہ اُن پر بوجھ نہیں تھی بلکہ اُن کی ضرورت تھی  اُس نے دیکھا ماہر بیڈ پر سویا ہوا تھا ٹیڈی بیئر کو سینے سے لگائے اُس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی اُس کے اندر عریشہ نے اپنے آپ کو دیکھا وہ بھی تو بچپن سے اپنوں کے دیے گئے درد سہتی آرہی تھی جیسے کے ماہر 

اُس نے ماہر کے پیروں پر کمفر ڈالا اور واش روم میں آگئی

💜💜💜💜💜

ماہر کی آنکھ کھلی تو سب سے پہلے ساتھ سوئی عریشہ پر پڑی پلکیں جھپکتے ہوئے وہ اُسے حیرت سے دیکھتا رہا یقین کرنے کے لئے کے وہ سچ میں وہاں موجود ہے یہ اُس کا خواب ہے ماہر نے اُس کے قریب چہرہ کرتے ہوئے دھیرے سے ہاتھ آگے بڑھا کر اُس کے گال کو چھونا چاہا اور جیسے ہی اُس کے گال کو ہاتھ ٹچ ہوا اُس نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا ہلکی سے ہلچل سے بھی عریشہ کی آنکھ کھل گئی اُس نے ماہر کا چہرہ اتنے قریب سے دیکھا تو گھبرا کر اٹھ بیٹھی ماہر فوراً پیچھے ہوا اور بیڈ سے اتر کر اُس کی سائڈ پر آیا

 تم نہیں گئی ماہر کو چھوڑ کر۔۔۔۔۔

وہ خوش ہوتے ہوئے بولا عریشہ نے سر دھیرے سے نفی میں ہلا دیا

مطلب تم ماہر سے غصّہ نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بار اُس کی معصومیت پر چاہ کے بھی عریشہ کی مسکراہٹ رک نہیں پائی

مطلب اب بیوی ماہر کے ساتھ ہی رہےگی

عریشہ نے سر اثبات میں ہلا دیا اور ماہر اپنی جگہ پر کودتے ہوئے تالیاں بجانے لگا عریشہ اُس کی حرکت پر اُسے دیکھتی رہی

💜💜💜💜💜💜💜💜

ہمیشہ خوش رہو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دادی کے پاس آئی تو انہوں نے اُسے پیار سے گلے لگا لیا

دادی آپ ناشتے میں کیا کھائے گی بتائیے نا میں ابھی بنا کر لاتی ہیں

عریشہ اُن سے الگ ہوتے ہوئے بولی

تمہیں یہ سب کرنے کئی کوئی ضرورت نہیں ہے بیٹا کام کرنے کے لئے نوکر چاکر ہے نہ تم بس ماہر کا خیال رکھو

دادی نے اُس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

کرنے دیجئے نا امی جان ۔۔۔۔۔ شکل تو دیکھ ہی چکے ہے اسی بہانے اس کے گن بھی دیکھ لیں گے۔۔۔

نفیسہ بیگم اُن اپنی بات کہتی ہوئی وہاں آئی

گڈ مارننگ بہو رانی ۔۔۔۔۔۔۔اب تم سے کوئی شرارت بھری بات پوچھنا تو فضول ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیوں کے نئی نویلی دلہن کی طرح رات بھر جاگنے کی ضرورت تو پڑی ہی نہیں ہوگی تمہیں ۔۔۔۔۔پھر بھی نئی جگہ تھی نیند تو آئی نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ بیگم نے جی بھر کر اُس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی وہ سر جھکا گئی اور کچن کی طرف چلی آئی

بات کرتے وقت اتنا خیال کیا کرو کے اُس کی پرانی سہیلی نہیں ساس ہو تم۔۔۔۔۔۔۔ عزت دو گی تو ہی عزت ملےگی

عریشہ کے جانے کے بعد دادی نے نفیسہ بیگم کو ڈانٹا

میں تو مذاق کر رہی تھی امی۔۔۔۔۔ویسے بھی آپ نے کونسا بہت اچھا کیا اُس کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہر سے اُس کی شادی کروا کے۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ بیگم کہاں چپ رہنے والی تھیں دادی نے اُنھیں جواب دینے کی بجائے وہاں سے چلے جانا مناسب سمجھا

سکندر نے  عریشہ کو کچن میں جاتے دیکھا تو خود بھی اُس کے پیچھے اندر چلا آیا عریشہ نے دھیرے سے جواب دیا اور دوبارہ کام میں مصروف ہو گئی

کوئی مدد تو نہیں چاہیے نہ عریشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر کی آنکھیں اُس کے چہرے پر گڑی ہوئی تھی وہ آکر اُس کے پاس کھڑا ہو گیا تھا اور اُس کا یہ لوفرانا انداز عریشہ کو ذرا پسند نہیں آیا 

نہیں ۔۔۔۔آپ چلیے نا سکندر بھائی میں بس پانچ منٹ میں ناشتہ لے آتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے سکندر کو باہر بھیجنا چاہا

وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھائی وغیرہ مت کہو۔۔۔۔۔۔بھائی بننے والی نا میری عمر ہے نا ارادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گردن سہلاتے ہوئے بولا

ویسے تم نہیں جانتی مجھے کتنا افسوس ہوا تمہیں دیکھ کر اتنی خوبصورت لڑکی اور ایک پاگل سے شادی کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔بہت زیادتی ہوئی ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔

سکندر۔۔۔۔۔۔۔تم یہاں کیا کر رہے ہو..

سکندر کے قدم اُس کی جانب بڑھ رہے تھے اور وہ گھبرا کر اپنے ہاتھ مروڑ رہی تھی جب رائنا کی اواز پر سکندر فوراً پیچھے ہوا اور عریشہ کی جان میں جان آئی

سنا نہیں تم نے سکندر ۔۔۔۔۔۔۔۔میں پوچھ رہی ہوں تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے دوبارہ پوچھا

وہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے سوچا کہ ان کی کچھ مدد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدد۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج تک تم نے پانی بھی خود سے لے کر لیا ہے جو چلے ہو مدد کرنے۔۔۔۔۔اگر مدد کرنا ہے تو اپنی لاڈ لی بہن کی کرو شاید اسی بہانے وہ کچن میں تشریف لے آئے۔۔۔۔۔۔۔

رائنا بھی جواب دینے میں ماہر تھی وہ جل کر اُسے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا

یہ تمہیں تنگ تو نہیں کر رہا تھا نہ۔۔۔

نہیں آپی۔۔۔۔۔۔آپ کو۔کچھ چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے بات بدل دی وہ پہلے ہی دن شکایت نہیں کرنا چاہتی تھی

کچھ نہیں میں تو بس دیکھنے آئی تھی کے تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں

رائنا کہتی ہوئی فرج سے دودھ نکالنے لگی اور اُس سے بات کرتے ہوئے عریشہ دوبارہ کام میں مصروف ہو گئی

💜💜💜💜💜💜

ارے واہ۔۔۔۔۔۔۔۔کھانا تو لا جواب بنا ہے۔۔۔۔۔۔۔کیوں نفیسہ۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُس کے کھانے کی تعریف کرتے ہوئے نفیسہ بیگم کی جانب دیکھا وہ شکل بگاڑ کر بیٹھی تھی اُنھیں شاید امید نہیں تھی کے عریشہ کھانا بنا پایگی

سچ عریشہ۔۔۔۔۔۔بہت ہی ٹیسٹی کھانا بنایا ہے تم نے۔۔۔۔۔لگتا ہے تم سے تو سیکھنا پڑے گا کافی کچھ

رائنا نے بھی بہت دل سے اُس کی تعریف کی

اتنا اچھا کھانا تو ممّی کو بھی نہیں آتا مامی۔۔۔۔۔۔۔

زیان نے بھی عریشہ کی تعریف کی تو رائنا نے اُسے مصنوعی غصے سے گھورا

نفیسہ۔۔۔بہو سے رسوئی کروائی ہے ساس بن کر تو اب ذرا ہاتھ کھول کر نیک بھی دے دیں اُسے۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے نفیسہ بیگم کو یاد دلائے ہوئے کہا نفیسہ بیگم نےاپنی انگلی سے انگوٹھی اُتار کر عریشہ کے ہاتھ میں رکھی

رکھ لو پہلی رسوئی کا انعام ہے

کھانا اچھا بنا لیتی ہو۔۔۔۔۔۔

نفیسہ بیگم نے بے دلی سے تعریف کی 

دادی نے ایک باکس اُس کی جانب بڑھایا

یہ کیا دادی۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے کہا اُسے اپنی بیوی کے ہاتھ میں چوڑیوں کی آواز بہت اچھی لگتی ہی اسی لیے میں چاہتی ہن یہ چوڑیاں ہمیشہ تمہارے ہاتھ میں رہیں

اُس باکس میں سونے کی بریک چوڑیاں تھی عریشہ کو ماہر کی رات والی بات یاد آئی

اگر شاعرانہ انداز میں کہا جائے تو دل کرتا ہے بنانے والے کے ہاتھ چوم لوں۔۔۔۔۔۔۔

سکندر نے عریشہ کو دیکھتے ہوئے کہا عریشہ نے اُس کے انداز میں جو نوٹس کیا شاید کسی اور نے نہیں کیا تبھی کچھ کہا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ تم کھڑی کیوں ہو بیٹا آؤ تم بھی بیٹھ جاؤ ناشتہ کرو۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُسے بیٹھنے کے لیے کہا 

ہاں عریشہ جلدی سے تم بھی کھا لو پھر ہمیں باہر جانا ہے رات کے فنکشن کے لیے کچھ شاپنگ کرنے

آج ایک چھوٹی سی ریسیپشن پارٹی رکھی گئی تھی اس لیے رائنا نے بھی اُسے بیٹھنے کو کہا مگر وہ اس طرح کھڑی ادھر اُدھر شاید کسی کو ڈھونڈ رہی تھی

کیا ہوا عریشہ کیا سوچ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے اُسے بے چین دیکھ کے پوچھا

آپی وہ ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔ماہر جی نہیں آئے ناشتہ کرنے

آخر اُس نے جھجھکتے ہوئے پوچھ ہی لیا

۔اُس کے یہاں آنے سے کچھ لوگوں کے حلق میں نوالے اٹک جاتے ہے اس لیے وہ اپنے کمرے میں کھانا کھاتا ہے

دادی مجھے بھوک نہیں ہے اگر آپ کہیں تو میں پہلے ماہر جی کو ناشتہ دے آؤں

عریشہ اُن کی بات کا مطلب سمجھ گئی تھی اور نفیسہ کا منہ بگڑتے ہوئے بھی دیکھ چکی تھی دادی نے اُس کی بات پر اثبات میں سے ہلا دیا

💜💜💜💜💜

ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ناشتے کی پلیٹ لے کر کمرے میں داخل ہوئی تو ماہر ڈرائنگ بک لیے کچھ بنا رہا تھا اُس کی آواز پر فورا بک اٹھا کر پیچھے چھپا لی

ماہر جی یہ کیا چھپا رہے ہیں آپ مجھ سے ۔۔۔۔۔۔

 اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی

چھپا نہیں رہا ہوں ڈرائنگ بنا رہا ہوں تمہارے لیے

میرے لیے۔۔۔۔۔۔ تو مجھے بھی بتائیے نا 

عریشہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا

ابھی نہیں ۔۔۔۔۔جب کمپلیٹ ہو جائیگی تب ہی بتاؤنگا

چلیے ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔لیکن پہلے ناشتہ کر لیجئے ۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور ناشتے کی پلیٹ آگے کی

نہیں ماہر کو بھوک نہیں لگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ناشتہ نہیں کرنا۔۔۔۔ابھی ڈرائنگ بنانی ہے

اُس نے پلیٹ ہاتھ سے پیچھے کی

ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔ڈرائنگ بعد میں بنا لیجئے گا ابھی آپ ناشتہ کیجئے ۔۔۔۔۔پھر آپکو دوائی بھی لینی ہے

عریشہ نے سمجھاتے ہوئے کہا

نہیں ماہر کو دوائی نہیں لینی۔۔۔۔۔ماہر کو دوائی گندی لگتی ہے

وہ برا منہ بناتے ہوئے بولا

ماہر جی  اگر آپ دوائی نہیں لے گے تو ٹھیک کیسے ہونگے

ماہر تو پہلے سے ہی بلکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔

ماہر کے جواب پر عریشہ کو لگا وہ غلط کہہ گئی

ہاں ٹھیک تو ہے لیکن آپ کو اسٹرونگ بننا ہے نا تو دوائی تو لینی پڑے گی

وہ اُس کی بچکانہ ضد پر بچوں کی طرح اُسے سمجھانے لگی

ماہر الریڈی بہت اسٹرونگ ہے دیکھو ماہر کے مسلز بھی کتنے ہارڈ ہے

اُس نے اپنی ٹی شرٹ کی ہالف آستین کو اوپر کرکے اُسے اپنے مسلز دکھائے 

لیکن آپ کو اور بھی بہت بہت بہت زیادہ اسٹرونگ ہونا ہے نہ سپر مین جیسی طاقت لانی ہے نہ 

عریشہ اُسے منانے کی کوشش کرنے کے لیے بولی ماہر نے سر نفی میں ہلا دیا تو عریشہ نے پلٹ نیچے رکھتے ہوئی اُسے مصنوعی غصے سے دیکھا

ماہر جی آپ نے کیا کہا تھا ۔۔۔۔۔۔آپ میری ہر بات مانے گے کہا تھا نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے سنجیدگی سے کہا تو ماہر نے سر ہاں میں ہلا دیا

تو پھر چلیے ورنہ مجھے برا لگ جائیگا اور میں آپ سے ناراض ہو جاؤنگی۔۔۔۔۔۔۔

وہ دھمکی دینے لگی

اوکے ۔۔۔۔لیکن تمہیں ماہر کو اپنے ہاتھ سے کھلانا پڑیگا  ۔۔۔تبھی ماہر کھائے گا۔۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔

ماہر نے ایک نئی شرط رکھی عریشہ انکار نہیں کر سکتی تھی ورنہ پھر وہ ضد کرنے لگ جاتا اتنا تو وہ سمجھ ہی گئی تھی کے اُسے منانا بچے کو منانے جیسا ہے بہت مشکل

ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کی بات مانتے ہوئے اُسے کھلانا شروع کیا ماہر اُس سے باتیں کرتے ہوئے کھانے لگا اور وہ مسکراتے ہوئے اُسے دیکھنے لگی

💜💜💜💜💜💜

شام ہونے کو آئی تھی جب رائنا اور عریشہ واپس آئی رائنا نے اُسے نا صرف ریسیپشن کے لیے بلکہ اُس کے علاوہ بھی بہت ساری شاپنگ کروائی تھی کپڑے جویلری میک اپ اور بہت کچھ عریشہ کی زندگی میں یہ پہلی دفعہ تھا جب اُس نے اپنے لیے کچھ لیا تھا شاپنگ کے بعد رائنا نے اُسے پارلر میں تیار کروایا آج وہ اصلی معنی میں دلہن لگ رہی تھی آف وائٹ کلر کے لہنگے میں اورنج دوپٹہ اُس پر بہت سج رہا تھا

وہ دادی سے مل کر روم میں آئی تاکہ مہمانوں کے آنے سے پہلے ماہر کو تیار ہونے کے لیے کہہ سکے لیکن اندر آتے ہی وہ ماہر کو دیکھ کر حیران ہو گئی

ماہر آئینے کے سامنے کھڑا تھا بلیک ٹراؤزر اور سفید شرٹ میں کلین شیو کیے ہاتھ پر گھڑی باندھے وہ وہی تصویر والا ماہر لگ رہا تھا  اپنے بالوں میں برش کرتے ہوئے اُن کو پیچھے کر رہا تھا لیکن اُس کے بال اتنے سلکی تھے کے بار بار اُس کے ماتھے پر آکر گر جاتے اُس نے آئینے میں عریشہ کے عکس کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا اُسے طرح جیسے عریشہ اُسے دیکھتی رہ گئی تھی

واو ۔۔۔۔۔بیوی تم تو بلکل دلہن جیسی لگ رہی 

ہو۔۔۔۔۔۔۔لیکن تم دلہن کیوں بنی۔۔۔۔۔۔۔آج تمہاری شادی ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر بڑی آنکھیں کرکے حیرت سے بولا اُس کی بات پر عریشہ ہنس دی

نہیں ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج گھر میں فنکشن ہے نا اسی لیے

ہاں ۔۔۔۔دیکھو ماہر بھی فنکشن کے لیے ریڈی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ کیا آپ نے تو شرٹ کے بٹن غلط لگائے ہوئے ہے۔۔۔۔دکھائیے میں ٹھیک کرتی ہوں

عریشہ نے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ اُس نے بٹن آگے پیچھے لگائے ہے عریشہ نے اُس کی شرٹ کے سارے بٹن دوبارہ سے کھولے اور ٹھیک سے لگانے لگی اُس کے بال ہوا سے اڑ کر ماہر کے چہرے پر  آرہے تھی جس سے اُسے بہت اُلجھن ہو رہی تھی اُس نے عریشہ کے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے اُس کے گلے تک ہاتھ لے جا کر وہیں پکڑے رکھا عریشہ نے حیرت سے سر اٹھا کر دیکھا

بیوی تمہارے بال ماہر کی آنکھ میں آرہے ہے جب تک تم ماہر کے بٹن ٹھیک کروگی تب تک ماہر تمہارے بالوں کو ہولڈ کر کے رکھے گا اوکے

ماہر نے اُس کے پوچھنے سے پہلے ہی جواب دیا تو وہ مسکرا دی

ہاتھ ڈالیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کی شرٹ کو ٹھیک کرنے کے بعد کورٹ اٹھا کر اُسے پہنایا 

ماہر ہینڈسم لگ رہا ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بولا

بہت ہینڈسم ۔۔۔۔لیکن ہاں آپ کو پارٹی میں اچھے سے  رہنا ہوگا کوئی شرارت نہیں کرنی ہوگی۔۔۔اور بڑوں کی سب بات ماننی ہوگی

عریشہ نے کورٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے اُسے ہدایت دی جو دادی نے نے اُسے کہا تھا ماہر نے اُس کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے گردن ہلا دی عریشہ نے اپنی آنکھ سے کاجل انگلی پر لیتے ہوئے اُس کے کان کے پیچھے لگایا

یہ کیا لگایا بیوی تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں نا اس لیے کالا ٹیکہ لگایا ہی تاکہ آپ کو کسی نظر نہ لگے۔۔۔۔۔اب چلیں

عریشہ نے وضاحت دی اور اُس کا ہاتھ تھام لیا

بیوی رُکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اُس کا ہاتھ ہلکے سے کھینچا وہ روک گئی ماہر اُس کے قریب آیا اور اپنی پہلی انگلی بہت احتیاط سے اُس کی آنکھ کے قریب لے جاکر آنکھ کے کنارے سے مس کیا 

اب ماہر کی بیوی کو بھی کسی کی نظر نہیں لگے گی

نفیسہ بیگم  غصے سے ماہر کی جانب بڑھی تھی لیکن عریشہ فوراً ماہر کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی

نہیں امی جی پلیز جانے دیجئے۔۔۔۔۔۔۔ماہر جی نے جو کیا میرے لیے کیا۔۔۔۔۔۔پلیز انہیں معاف کر دیجئے

فنکشن میں ماہر نے عالیہ کی سہیلیوں پر جوس کا گلاس پھینک دیا تھا کیوں کہ وہ عریشہ پر ہنس رہی تھی تب تو نفیسہ بیگم کنٹرول کر گئی تھی لیکن اُن کے جاتے ہی وہ ماہر پر اپنا غصّہ نکال رہی تھی 

بیچ میں سے ہٹ جاؤ لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لڑکے کی وجہ سے بار بار لوگو کے سامنے بے عزت ہونا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔خود تو پاگل ہے اسے کیا فرق پڑتا ہے لیکن بدنامی تو ہماری ہوتی ہے۔۔۔۔۔

ماہر عریشہ کے پیچھے کھڑا دانتوں سے ناخن چبانے رہا تھا چہرے پر ڈر اور نفیسہ بیگم اُسے غصے سے دیکھ رہی تھیں

بس نفیسہ۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُسے روکنا چاہا

امی جی میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کے آئندہ ماہر جی ایسا کچھ نہیں کرینگے پلیز آج اُنھیں معاف کر دیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے ریکویسٹ کرتے ہوئے کہا

ہمارے معاملے نے دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں تم ہٹو بیچ میں سے ۔۔۔۔۔اگر آج اسے سزا نہیں دی تو اگلے بار پھر یہی کریگا

نفیسہ بیگم اُس کے سائڈ سے آگے بڑھتی ماہر کا ہاتھ پکڑنے لگی تھی

نفیسہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اس بار سختی سے پکارا تو وہ رک گئی

یہ ماہر کی بیوی ہے مت بھولو۔۔۔۔۔۔۔۔ماہر کے کسی بھی معاملے میں دخل دینا اس کا حق ہے ۔۔اور کن لوگوں کی پرواہ کر رہی ہو تم وہ جو ہمارے گھر آکر ہمارے ہی بہو بیٹے کا مذاق بنا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔اُن غیروں کے لیے اپنے ہی بیٹے کو سزا دو گی تم

بس یہ بات یہیں ختم کرو۔۔۔۔عریشہ ماہر کو لے کر اندر جاؤ ۔۔۔۔۔اور تم بھی جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے بات ختم کرتے ہوئے کہا نفیسہ بیگم تن فن کرتی چلی گئی اور ماہر کو لیے عریشہ بھی روم۔میں آگئی

💜💜💜💜💜💜 

ماہر جی یہ آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔میں نے آپ کو کہا تھا نہ کے کوئی شرارت نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔۔

لیکن وہ لوگ ماہر کی بیوی پر ہنس رہے تھے

لوگو کے ہنسنے سے کچھ نہیں ہوتا ماہر جی۔۔۔۔۔۔لوگ تو کسی کو خو

ش دیکھ ہی نہیں سکتی  ۔۔۔۔ اگر ہم لوگو کی باتوں کو دل سے لگا لیں تو جینا مشکل ہو جائیگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں صرف سن کر نظر انداز کر دینا چاہیے ۔۔۔۔۔یہی اُن کی باتوں کا جواب ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔

بیوی تم نے جو بولا ماہر کو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا

ماہر جی آپ بھی نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلیے اب سو جائیے جلدی سے گڈ نائٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Good night

💜💜💜💜💜💜💜

آپی، آپ اتنی جلدی جا رہی ہے کچھ دن رک جائیے نا پلیز ۔۔۔۔۔

دو دن بعد رائنا نے جانے کی تیاری کر لی تھی عریشہ نے اُسے روکنے کی کوشش کی رائنا نے پچھلے دو دنوں میں اُس کا اتنا خیال رکھا تھا وہ اُسے بہت مس کرنے والی تھی

رک جاتی اگر زیان کے پاپا گھر پر اکیلے نا ہوتے۔۔۔۔اور کوئی ہے بھی نہیں نہ اُن کا خیال رکھنے کے لیے اسی لیے مجھے جانا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن تم فکر مت کرو زیان کو میں یہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں اور یہ تمہیں بلکل بور نہیں ہونے دے گا 

رائنا نے اُسے پہلے ہی بتا دیا تھا کے زیان کے پاپا کو سکندر پسند نہیں اسی لیے وہ نا اُس گھر میں آتے ہیں نہ عریشہ کا زیادہ رہنا پسند کرتے ہیں

آپ چلی جائیگی تو بلکل اچھا نہیں لگے گا۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا رائنا نے پیار سے اُس کے چہرے پر ہاتھ رکھا اس گھر میں دادی اور ماہر کے علاوہ کسی کو اُس سے فرق نہیں پڑتا تھا اور اب عریشہ کا اضافہ ہوا تھا

اچھا دادی میں نکلتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔خدا حافظ

وہ دونوں باہر آئی تو دادی صوفے پر بیٹھی تھی رائنا اُن سے گلے ملتے ہوئے بولی دادی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعا دی 

آپی آپی آپی۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ باہر نکلنے ہی والی تھی کے ماہر اُسے آواز دیتا ہوا سیڑھیاں اترنے لگا

ارے ماہر کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔دھیرے چلو گر جاؤگے

اُس کے ہاتھ میں چاکلیٹ کا باکس تھا جیسے اُس نے نیچے آکر چھپا لیا تھا

آپی۔۔۔۔۔ماہر آپ کے لیے گفٹ لے کر آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا دکھاؤ۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے ہاتھ آگے بڑھایا

آنکھیں تو بند کرو نا۔۔۔۔۔۔۔

اچھا بابا کر لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے آنکھیں بند کی تو ماہر نے باکس اُس کے ہاتھ میں رکھا اور تالیاں بجانے لگا 

واو اتنی ساری چاکلیٹس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھینکو ماہر۔۔۔۔۔۔

رائنا نے مسکراتے ہوئے کہا 

میں جا رہی ہُوں۔۔۔۔۔ تم اپنی بيوی کا خیال رکھنا اُسے تنگ مت کرنا اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا کے تنبیہہ کرنے پر وہ فوراً بولا تھا

💜💜💜💜💜💜💜💜

Hi beautiful

رائنا کے  جانے کے بعد وہ کچن میں ماہر کو ناشتہ کروانا تھا اس لیے پلیٹ لگانے لگی تب سکندر کی آواز سنائی دی تو پلٹی

کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اُس کے پاس آکر کھڑا ہوا تھا اور عریشہ گھبرا کر لب کاٹنے لگی

جی کچھ نہیں میں ماہر جی کے لیے ناشتہ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اُس کے اور قریب آنے لگا تھا جس سے عریشہ گھبرا کر چپ ہو گئی سکندر نے اُس کے چہرے پر آئی لیٹ کو انگلی سے پیچھے کیا

یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کا ہاتھ ہٹایا وہ مزید پیچھے نہیں ہو سکتی تھی

گھبراؤ مت عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔اس گھر میں صرف میں ہی تو ہوں جو تمہیں سمجھتا ہوں میں جانتا ہوں کتنی تکلیف ہوتی ہوگی تمہیں ماہر کو دیکھ کر۔۔۔۔۔۔وہ تو یہ بھی نہیں سمجھتا کے بیوی کیا ہوتی ہے شادی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔تو۔تمہاری خوشی کو کیا سمجھے گا لیکن تم فکر مت کرو میں ہوں نا

عریشہ نے جھکی نظریں اٹھا کر اسے حیرت سے دیکھا لفظ اتنے گندے نہیں تھے جتنی گندی اُس کی سوچ اور نظریں تھی

میں تمہارا خیال رکھوں گا۔۔۔۔۔۔ماہر نہیں تو اُس کا بھائی ہی سہی۔۔۔۔۔جو خوشی وہ تمہیں نہیں دے سکتی وہ میں دونگا۔۔۔۔۔ کبھی خود کو تنہا محسوس مت کرنا بس جب دل چاہے میرے پاس آجانا۔۔۔۔۔۔۔میں تمہاری تنہائی

وہ کہتا ہوا اُس کے قریب بڑھنے لگا تھا عریشہ اُس کی بات کے معنی سمجھ کر اندر تک کانپ گئی جانے کہاں سے اُس میں یہ ہمت آئی کے اُس نے سکندر کو دھکا دیا اور وہاں سے بھاگتی ہوئی باہر نکلی

روم میں آکر وہ بیڈ پر گر گئی اور منہ چھپائے رونے لگی ماہر ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہا تھا اُسے روتا دیکھ اُس کے پاس آیا

کیا ہوا بیوی۔۔۔۔۔تم کیوں رو رہی ہو۔۔۔۔۔۔

ماہر جی پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دیجئے آپ جائیے یہاں سے

اُس نے چہرہ دوسری جانب کر لیا ماہر اٹھ کر اُس طرف سے آیا اور بیڈ پر دوزانو بیٹھ گیا0

نہیں بیوی ماہر نہیں جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ نا کیوں رو رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔ماہر سے غصّہ ہو کیا لیکن آج تو ماہر نے تمہاری بنگلس بھی نہیں مانگی

شادی والی رات اُس کا رونا ماہر کو لگا وہ پھر چوڑیوں کے لیے رو رہی ہے

ان بنگلس اور کھلونوں سے بڑھ کر بھی دکھ ہے ماہر جی زندگی میں ۔۔۔لیکن۔۔آپ نہیں سمجھے گے۔۔۔۔اس لیے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے۔۔۔۔۔رونے دیجئے مجھے آپ جائیے یہاں سے....

عریشہ غصے میں اُس پر چینخ پڑی تھی اور وہ ڈر گیا تھا

نہیں بیوی ماہر تمہیں نہیں رونے دیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم روؤں گی تو ماہر کا بھی دل کریگا رونے کو۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس بار ڈرتے ہوئے بولا اور عریشہ اُس کی جانب حیرت سے دیکھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی وہ اُداس ہو گیا تھا شاید عریشہ کو روتا دیکھ کر عریشہ اُس کے سینے سے لگ گئی تھی

۔۔۔۔۔میں تھک گئی ہوں اپنی قسمت سے لڑتے لڑتے ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔ہر بار ایک نیا غم ایک نئی مشکل میرے سامنے آجاتی ہے۔۔۔۔۔میں کیا کروں کیسے لڑوں ان مشکلوں سے میرا تو ساتھ دینے والا بھی کوئی نہیں ہے ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔میں اکیلی انکا سامنا نہیں کرنا سکتی نا ہی ان سے بھاگ سکتی ہوں مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آتا میں کیا کروں میں خود کو نہیں سنبھال سکتی اپنی زندگی کو بہتر نہیں بنا سکتی تو میں کیا آپ کے لیے کچھ کر پاؤں گی ماہر جی۔۔۔۔۔۔میری ہمت تو ان لوگوں باتیں سن کر ہی دم توڑ دیتی ہے مجھے  کچھ سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اُس کے گرد بازو لپیٹے روتے ہوئے اپنے دل کی بات اُسے بتا رہی تھی اور ماہر نا سمجھے سے اُسے سن رہا تھا 

ایک بات بولو بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چپ ہو گئی تو ماہر نے دھیرے سے کہا عریشہ نے الگ ہو کر اُسے دیکھا اور سے اثبات میں ہلا دیا

تم نے جو بھی کہا ماہر کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔۔

وہ معصومیت سے آنکھیں بڑی کرکے بولا جیسے ڈر رہا ہو کے اُسے برا نہ لگ جائے عریشہ روتے روتے ہنس دی

آپ جائیے کارٹون دیکھیے۔۔۔۔۔۔۔میں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔

وہ اُسے کیسے اپنی باتوں کا مطلب سمجھاتی ماہر اُس کے کہنے پر سے ہلاتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا

میں جانتی ہوں ماہر جی آپ یہ سب نہیں سمجھ سکتے لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کے وہ لوگ بھی نہیں سمجھتے جو خود کو عقلمند مانتے ہیں۔۔۔۔۔۔کمی آپ میں نہیں اُن لوگو میں ہے جو آپ کا مذاق بناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آپ کو برا کہتے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ تو جو کرتے ہیں انجانے میں کرتے ہیں لیکن وہ سب تو جان بوجھ کر سوجھ سمجھ کر آپ پر طنز کرتے ہیں اور پھر بھی خود کو سمجھدار کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

میں کیا کروں ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دور سے ہی اُسے دیکھ کر بات کر رہی تھی سکندر کی باتوں نے اُسے درا دیا تھا

رات کو عالیہ اور اُس کی سہیلیوں کا ہنسی اڑانا

مہمانوں کی طنزیہ نظریں

ماہر کی امی کا غصّہ کرنا 

اور سکندر کی باتیں

یہ سب باتیں فلم کی طرح اُس کے دماغ میں چل رہی تھی

کاش کے آپ ٹھیک ہوتے تو یہ سب نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے اپنے آپ کے خلاف ایسے سازشیں نا کرتے۔۔۔۔۔۔۔آپ پر طنز نا کرتے آپ کو برا بھلا نہ کہتے

آپ کی بیوی پر غلط نظر نہ ڈالتے 

کسی کی ہمت نہیں ہوتی کے آپ کا مذاق اڑا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کو ٹھیک ہونا ہوگا ماہر جی۔۔۔۔انہیں جواب دینا ہوگا۔۔۔۔۔آپکو میرا ساتھ دینا ہوگا ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔

میں آپ کو ٹھیک کر کے رہوں گی۔۔۔۔۔۔اب تک میں صرف اپنی قسمت پر روتی آئی ہو  افسوس کرتی آئی ہوں کیوں کے میں کچھ کر نہیں سکتی تھی ۔لیکن اب میں کر سکتی ہوں اس بار اپنی قسمت کو بدل سکتی ہوں اور اس بار اللہ کو بھی میرا ساتھ دینا ہوگا۔۔۔۔۔۔اس بار میں لڑوں گی ماہر جی آپ کے لیے دادی کے لیے اپنے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جیت کر رہوں گئی 

اُس نے فیصلہ کر لیا تھا اس بار ہمت کرنی ہی ہے اپنی قسمت پر رونا نہیں ہے بلکہ اُسے اچھا بنانا ہے بس ماہر ٹھیک ہو جائے تو سب صحیح ہو جائے لیکن کیسے ۔۔۔۔بس یہ سوال تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ماہر کو ہسپتال لے کر آئی تھی جس کے لیے وہ بہت مشکل سے راضی ہوا تھا

ماہر کا ٹریٹمنٹ  میں ہی کر رہا ہوں جو دوائیاں میں نے اُسے دی ہے مجھے یقین تھا وہ اُس پر اثر کریگی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ کوئی رسپانس نہیں کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔ حالانکہ پہلے ایک مہینے میں اُس کی حالت میں سدھار ہو رہا تھا لیکن اب کوئی چینجز نہیں ہو رہے اُس میں۔۔۔۔۔۔۔میں نے دوائی چینج بھی کی لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر واحد مشہور سائیکیکٹرسٹ تھے اور ماہر کا علاج شروع سے اُن کے پاس ہی چل رہا تھا یہ اُسے دادی سے پتہ چلا اُس نے ڈاکٹر کی بات پر دور بیٹھے ماہر کو دیکھا جو فش پوٹ میں موجود مچھلیوں کو دیکھ کر خوش ہو رہا غا

تو اب ہمیں کیا کرنا ہوگا ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے ماہر کا بلڈ ٹیسٹ کرنا ہوگا تبھی کچھ پتہ چلےگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے آخر دوائی اُس پر اثر کیوں نہیں کر رہی ہے میں نے پہلے بھی یہ کہا تھا لیکن ماہر کی امی نے منع کردیا کے بس دوائی ہی دے دوں۔۔۔میں اُنھیں فورس نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔۔لیکن یہ ٹیسٹ کرنا بہت ضروری ہے عریشہ

ڈاکٹر واحد نے اُسے تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا وہ پریشان ہو کر اُنھیں دیکھنے لگی ماہر نے کہا تھا اُسے انجکشن سے ڈر لگتا ہے اور عریشہ اُسے یہ یقین دلا کے لائی تھی کے انجکشن نہیں لینا پڑیگا

ڈاکٹر میں نے بہت مشکل سے ماہر جی کو یہاں آنے کے لیے راضی کیا ہے اُنھیں انجکشن سے بہت ڈر لگتا ہے اُنھیں بہت غصّہ آئیگا سن کر۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے اپنا ڈر بتاتے ہوئے کہا ڈاکٹر وحید مسکرانے لگے

کوئی بات نہیں یہاں دِن بھر ماہر جیسے انجکشن سے ڈرنے والے بچے آتے ہے ہم اُسے ہینڈل کر لینگے ڈونٹ وری۔۔۔۔۔۔

اُنہوں نے عریشہ کو تسلی دی لیکن وہ اب بھی پریشان تھی

ماہر جی اگر میں آپ سے کچھ مانگوں تو آپ دینگے

وہ ماہر کے پاس آئی اُسے سمجھانے کی غرض سے اُس کی بات پر ماہر ہونٹ پر انگلی رکھے سوچنے لگا

اوکے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ بڑا والا ٹیڈی بیر مت مانگنا اُس کے بنا ماہر کو نیند نہیں آتی نا۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سوچ کر اُس کی بات مانتے ہوئے بولا اُس کی بات پر عریشہ مسکرا دی

ماہر جی ڈاکٹر انکل آپ کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک چھوٹا سا انجکشن لگانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔

اُس نے جھجھکتے ہوئے کہا اُس کی بات ختم ہوتے ہی ماہر نے ڈاکٹر کی جانب دیکھا جو شیشی سے انجکشن میں دوائی بھر رہا تھا

نئیں بیوی ماہر کو انجکشن نہیں لگوانا۔۔۔۔

ماہر نے عریشہ کا دوپٹہ ۔پکڑ لیا تھا اور کبھی اُسے کبھی ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے ڈرنے لگا

کچھ نہیں ہوگا ماہر جی ۔۔۔۔۔۔۔ میں ہوں نہ آپ کے پاس ۔۔۔۔۔۔اِدھر دیکھیے میری طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کے پاس بیٹھتے ہوئے اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے اپنی جانب کیا ماہر اُسے خوفزدہ ہو کر دیکھنے لگا ڈاکٹر نے دوسری طرف سے آکر اُس کے بازو میں انجکشن لگایا جس پر ماہر زور سے چینخا تھا

بس ہو گیا۔۔۔۔دیکھیے کچھ بھی نہیں ہوا

ماہر نے عریشہ کو غصے سے دیکھا اور پیر پٹختے ہوئے دروازے کی جانب بڑھا

ماہر جی میری بات تو سنئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عریشہ اُس کے پیچھے چلی تھی

ماہر تمہاری کوئی بات نہیں سنے گا تم گندی ہو جھوٹی ہو چیٹر ہو ماہر کی دوست نہیں ہو تم۔۔۔۔۔۔ماہر تم سے کٹٹی ہے ۔۔۔۔۔اب تم سے کبھی بھی بات نہیں کریگا۔۔۔۔۔۔

۔۔سیڑھیاں جلدی جلدی اترتے ہوئے وہ آکر گاڑی میں بیٹھ گیا عریشہ بھی اندر  بیٹھ گئی اور ڈرائیور کو چلنے کے لیے  کہا

سوری نا ماہر جی ۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز میری طرف دیکھیے تو صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر اُس سے منہ پھیرے کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا

نئیں ماہر تمہاری طرف دیکھے گا بھی نہیں اور بات بھی نہیں سنے گا تم گندی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سوری بھی تو بول رہی ہوں نہ۔۔۔۔اور آگے سے کبھی ایسا نہیں ہوگا پکّا۔۔۔۔۔دیکھیے بیوی نے اپنے کان بھی پکڑ لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے دونوں کان پکڑے لیکن ماہر نے اُس کی جانب دیکھا ہی نہیں 

بھیّا گاڑی روکنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے آئس کریم پالر دیکھا تو گاڑی رکوا کر باہر آگئی 

ماہر جی آپ کو آئس کریم کھانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے ماہر کی جانب سے آکر پوچھا تو ماہر نے اُسے خفگی سے دیکھتے ہوئے سے اثبات میں ہلا دیا مطلب اُس کا غصّہ عریشہ سے تھا ائس کریم سے نہیں

یہ لیجئے آپ کا فیوریٹ چاکلیٹ فولیور۔۔۔۔۔۔

وہ واپس اندر آئی کو آئس کریم کپ اُس کی جانب بڑھایا ماہر نے وہ لے کے واپس منہ پھر لیا

اب تو غصّہ تھوک دیجئے نا ماہر جی ورنہ مجھے رونا آجیگا۔۔۔۔۔۔

عریشہ اُداس ہوتے ہوئے بولی

اوکے ماہر گھر جا کر غصّہ تھوک دیگا ۔۔۔۔۔گاڑی میں تھوکنا گندی بات ہوتی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نارمل ہو کے اب اُسے سمجھانے لگا عریشہ اُس کی نا سمجھی پر ہنس دی

💜💜💜💜💜

مامی آپ بھی ہمارے ساتھ لوڈو کھیلو نا

ماہر اور زیان ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے لوڈو کھیل رہے تھے  ماہر جیتنے پر تالیاں بجا رہا تھا اور زیان مایوس شکل بنائے بیٹھا تھا عریشہ ماہر کے لیے کھانا لے کر وہاں آئی

نہیں زیان مجھے لوڈو کھیلنا نہیں آتا

عریشہ کو کبھی موقع ہی لب ملا تھا کوئی کھیل۔کھیلنے کا اس کا بچپن تو کھو چکا تھا

کوئی بات نہیں مامی میں آپ کو سکھا دونگا

تم کیوں سکھاؤ گے...... بیوی ماہر تم کو سکھائے گا اس کے بعد ہم دونوں مل کر سب کو ہرائینگے

ماہر نے زیان کو زبان دکھائی

ماموں خود تو روز مجھ سے ہار جاتے ہو آپ کیا مامی کو سکھاؤ گے۔۔۔۔مامی میں آپ کو سکھاؤنگا

بیوی صرف ماہر سے سیکھے گی کیوں کے بیوی ماہر کی بیسٹ فرینڈ ہے

ماہر نے عریشہ کا بازو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا تھا

مامی آپ کی نہیں میری بیسٹ فرینڈ ہے

زیان بھی آج ضد پے تھا

بیوی تم ماہر کی فرینڈ ہو نا زیان کی نہیں ہو نا

ماہر نے اُس کی جانب دیکھا

مامی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ دونوں کیوں جھگڑا کر رہے ہیں میں آپ دونوں کی دوست ہوں اور آپ دونوں مل کر مجھے سکھائے گے اوکے۔۔۔۔۔۔

اوکے۔۔۔۔۔

دونوں ایک آواز میں کہا اور عریشہ ہنس دی

بیوی جلدی کھلاؤ نا ماہر کو بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ماموں اتنے بڑے ہو گئے ہو پھر بھی مامی کے ہاتھ سے کھانا کھاتے ہو شیم شیم۔۔۔۔۔۔۔۔

زیان ماہر کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار تھا

بیوی تم ماہر کو کھلا رہی ہو نا اس لیے یہ جیلس ہو رہا ہے۔۔۔۔

ماہر عریشہ کے کان کے قریب ہاتھ لے جاتے ہوئے بولا اور دھیرے سے ہنسنے لگا

ماہر بھائی اندر جائیے اپنے روم میں۔۔۔۔۔۔

عالیہ اندر آتے ہوئے بولی

کیا ہوا عالیہ۔۔۔۔۔

میرے کچھ فرینڈز آئے ہیں آپ ماہر بھائی کو اندر لے کر جائیے

عریشہ کے پوچھنے پر اُس نے نے نیازی سے جواب دیا کچن کے سامنے بڑا سا ڈائننگ ایریا تھا اور ٹھیک سامنے صوفے رکھے ہوئے تھے

نہیں ماہر نہیں جائیگا۔۔۔۔بیوی ماہر نہیں جائیگا ماہر کو بھوک لگی ہے

ماہر نے اُس کے کچھ کہنے سے پہلے جلدی سے کہا

بھوک لگی ہے تو اپنے روم۔میں جا کر کھانا کھائیے۔۔۔۔میرے دوست باہر کھڑے ویٹ کر رہے ہیں جلدی کیجئے

ماہر جی چلیے ہم اندر کھا لینگے۔۔۔چلو زیان۔۔۔۔۔

وہ اٹھی اور پلیٹ بھی ہاتھ میں اٹھا لی

نہیں بیوی ماہر کو یہیں کھانا ہے اندر نہیں جانا۔۔۔۔۔۔

ماہر نے عریشہ کا ہاتھ پکڑ لیا 

کمپرومائز نہیں کرنا ہے عریشہ 

اگر ان کے منہ بند کرنے ہے تو تجھے منہ کھولنا ہوگا

عریشہ اُسے سمجھاتی اس کے پہلے دل سے آواز آئی وہ واپس بیٹھ گئی اور اسپون اُس کی جانب بڑھایا

لیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔

عالیہ نے اُسے واپس بیٹھتے دیکھا تو اُس کی پیشانی پر لکیریں پر گئی

سنا نہیں آپ نے میں نے کیا کہا۔۔۔۔۔لے کر جائیے انہیں

تم نے نہیں سنا عالیہ۔۔۔۔۔۔۔۔ماہر جی نہیں جانا چاہتے اندر۔۔۔آخر ان کے یہاں بیٹھنے سے پریشانی کیا ہے

اُس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی عریشہ نے اُسے دیکھا

پریشانی ہے میں نہیں چاہتی کے یہ میرے دوستوں کے سامنے اپنا پاگلپن کرے اور میری امیج خراب ہو

تمیز سے بات کرو عالیہ۔۔۔۔۔مت بھولو یہ تمہارے بڑے بھائی ہے۔۔۔۔اور جن کے لیے تم انہیں پاگل کہہ رہی ہو وہ غیر لوگ ہے

عریشہ نے سختی سے کہا

مجھے تم سے بحث نہیں کرنی انہیں لے کے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔

ماہر جی کہیں نہیں جائے گے وہ اپنے گھر میں اپنی جگہ پر ہے اگر کسی کو اُن سے پرابلم ہے تو اُسے گھر میں آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔

اور اگر تمہیں اپنے بھائی کی موجودگی سے شرم آرہی ہی تو تم اپنے دوستوں کو لے کر کہیں اور جا سکتی ہو

عریشہ نے اُسے آرام سے جواب دیا اور اُس سے نظریں ہٹا لی

مام۔۔۔۔۔مام باہر آئیے۔۔۔۔۔

عالیہ نے زور سے پکارا

کیا ہوا کیوں چلا رہی ہو

نفیسہ بیگم جھنجھلا کر باہر نکلی تو عالیہ نے مرچ مسالہ لگا کر سب بتا دیا 

آپ ہی بتائیے امی جی میں نے کچھ غلط کہا کیا۔۔۔۔۔۔آپ ہی تو کہتی ہے نا کہ کے ماہر جی آپکو سب سے عزیز ہے

نفیسہ کے دیکھنے  پر عریشہ اُس کے پاس آئی نفیسہ کے جھوٹے پیار جتانے کا آج اُس نے فائدہ اٹھانا چاہا

تم غلط سمجھ رہی ہو عریشہ۔۔۔۔۔۔ عالیہ نے صرف اسلئے ایسا کہا کیوں کے وہ نہیں چاہتی کوئی اس کے بھائی کا مذاق بنائے۔۔۔۔

نفیسہ نے بجائے اُس سے الجھنے کے میٹھے الفاظ استعمال کیے

وہی تو میں کہہ رہی ہو امی جی عالیہ کو ایسے دوست بنانے ہی نہیں چاہیے۔۔۔۔۔۔جو اس کے بھائی کا مذاق بناتے وقت اپنی دوستی بھی بھول جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوست ایسے نہیں ہوا کرتے عالیہ  یا شاید انہیں یقین ہوگا کے اس سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے عالیہ کو لاجواب کر دیا تھا

امی جی آپ ہی کہیے نا عالیہ سے کے اپنے دوستوں کو لے کر کسی ہوٹل یا کیفے میں چلی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی تو نہیں چاہے گی کے کوئی ماہر جی کا مذاق بنائے ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُسے پتہ تھا کے نفیسہ بیگم سے کیس طرح بات کرنا ہے اسلئے وہ اُن نے چہرے پر موجود غصّہ نظر انداز کرتی ہوئی بولی عالیہ نے اپنی ماں کو خاموش دیکھا تو اُسے گھور کر پلٹی

واقعی بہت قابو میں رکھا ہے آپ نے اپنی بہو کو۔۔۔۔۔۔۔

جاتے ہوئے وہ دبی آواز میں اپنی ماں کو طعنہ مارنا نہیں بھولی

۔رکو عالیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ اُس کے پاس آئی

آج اپنے دوستوں کو یہ ضرور بتا دینا کے یہ گھر ماہر جی کا ہے اور جو اُن کی عزت کریگا اس گھر میں صرف اسی کی عزت ہوگی۔۔۔۔۔۔

اُسے جتانے کے ساتھ وہ دھمکا بھی چکی تھی وہ پر پٹختی ہوئی ماں کو گھور کر باہر نکل گئی اور نفیسہ بیگم عریشہ کا نیا روپ دیکھ کر حیران رہ گئی

💜💜💜💜💜💜💜💜😝

میرا دل بہت بے چین ہے ڈاکٹر جاننے کے لیے کے رپوٹ میں کیا ہوگا اسی لیے آپ کا میسیج آتے ہی میں یہاں آگئی۔۔۔۔۔

صبح جلدی سے وہ ہسپتال چلی آئی تھی ڈاکٹر کا میسیج آتے ہی 

میرا شک صحیح تھا عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماہر پر میری دوائی اس لیے اثر نہیں کر رہی ہے کیوں کہ اُسے ایک اور دوائی بھی دی جا رہی ہے۔۔۔۔

عریشہ کو ڈاکٹر کی بات حیران کر گئی

یہ ایک ایسی دوائی ہے جس سے ماہر پر نا تو کوئی اور دوائی اثر کر سکتی ہے نا ہی اُس کی حالت میں سدھار ہو سکتا ہے

لیکن ڈاکٹر میں تو آپ کو ساری دوائیاں دکھا چکی ہوں وہ سب آپ کی ہی دی ہوئی ہے اور اُس کے علاوہ تو کوئی دوائی نہیں دی جاتی اُنھیں ۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے دماغ پر زور ڈال کر سوچا لیکن اُسے کچھ یاد نہیں آیا

ہو سکتا ہے تمہیں پتہ نہ چلا ہو ۔۔۔۔۔۔۔تمہاری غیر موجودگی میں کبھی اُسے یہ دوائی دی گئی ہو

اُن کی باتوں میں موجود اشارے کو عریشہ سمجھ گئی تھی ڈاکٹر واحد اُن کے گھر کے ہر راز سے واقف تھے شاید 

اُس دوائی کو بند کرنا بہت ضروری ہے عریشہ جب  تک وہ بند نہیں ہوگی کوئی دوائی کا فائدہ نظر نہیں آئیگا تمہیں بہت دھیان رکھنا ہوگا کے وہ دوائی اُسے کیسے دی جا رہی ہے  اُس کے کھانے کی ہار چیز کا سیمپل مجھے بھیجو چاکلیٹ ۔۔۔۔آئس کریم یہاں تک کہ پانی کا بھی ٹیسٹ کر کے ہی پتہ چلے گا کچھ ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا اور اُس نے سر اثبات میں ہلا دیا

تم سمجھتی کیوں نہیں ۔۔۔۔میں اُس سے فلھال دشمنی نہیں کر سکتی وہ ماہر کی بیوی ہے اگر بات بگڑ گئی تو بڑھیا اُسے اور ماہر کو ہم سے دور کر دےگی کچھ مہینوں کی بات ہے جب تک ماہر کی جائداد پوری طرح ہماری نہیں ہو جاتی اُس کے بعد کوں کہہ رہا ہی اُسے برداشت کرنے کو

عالیہ غصے میں تھی کے اُس کی ماں نے عریشہ کو کچھ کہا نہیں نفیسہ نے اُسے وجہ بتائی

مام یہ سب باتیں میں جانتی ہوں لیکن میری ایک بات یاد رکھیے گا آپ ۔۔۔۔۔۔یہ لڑکی آپ کے لیے مشکل بننے والی ہے 

عالیہ نے اُنھیں وارن کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی

بات تو سہی ہے بہت زیادہ اڑ رہی ہے وہ لگتا ہے پر کترنے پڑے گے اُس کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ بیگم کو اپنا غصّہ کسی طرح تو نکالنا تھا باہر سے ماہر کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی وہ روم سے باہر آئی تو زیان اور ماہر بھاگ رہے تھے نفیسہ بیگم کچن میں چلی آئی اوون میں کیک رکھا ہوا تھا اُنہونے احتیاط سے  وہ کیک باہر نکال کر رکھا اور باہر آئی

ماہر یہاں آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُنہوں نے دیکھا زیان وہاں موجود نہیں ہے تو ماہر کو باہر سے آواز دی  وہ اُن کے پاس آگیا

وہ دیکھو تمہاری بیوی نے تمہارے لیے چاکلیٹ کیک بنایا ہے

سچی۔۔۔۔۔۔۔۔چاکلیٹ کیک واو

ماہر خوش ہوتے ہوئے ہونٹوں اور زبان پھیرنے لگا

ہاں جاؤ اور وہ برتن اٹھا کر ٹیبل پر لے آؤ 

ماہر نے گردن ہلا دی اور اندر آکر برتن اٹھانے لگا برتن اتنا گرم تھا کے ہاتھ لگاتے ہیں اُس کے منہ سے زور کی چینخ نکلی

آہ ه ہ ه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ممّی ۔۔۔۔۔۔ممّی ۔۔۔۔۔۔۔

وہ زور سے چلاتے ہوئے اپنے ہاتھ جھٹکنے لگا اور نفیسہ اپنے کمرے  میں چلی گئی اُس کی آواز پر عریشہ کمرے سے باہر بھاگتی ہوئی آئی

کیا ہوا ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے گھبرا کر پوچھا

بیوی ماہر کا ہاتھ جل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو ۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے دیکھا اُس کے دونوں ہاتھ سرخ ہو گئے تھے اور وہ رو رہا تھا عریشہ نےجلدی سے  اُسے کچن میں موجود کرسی پر بٹھایا اور فرج سے ٹھنڈا پانی لے کر جگ میں اُس کا ہاتھ ڈالا

کیسا شور ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ انجان بنتے ہوئے وہاں آئی

ٹھیک ہو جائیگا ماہر جی

ماہر کو روتا دیکھ عریشہ بھی رونے لگی تھی

کیا ہوا عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی جی۔۔۔۔۔دیکھیے نا ماہر کا ہاتھ جل گیا ہے

یا اللہ یہ کیسے ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔

اُنہوں نے مصنوعی حیرت جتائی عریشہ کا دھیان اُن کی طرف تھا ہے نہیں وہ ماہر کو دیکھ دیکھ کر ہی تکلیف محسوس کر رہی تھی

اتنی غیر ذمےدار کیسے ہو سکتی ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔جانتی ہو نہ ماہر کتنا نا سمجھ ہے۔۔۔۔۔اُسے اکیلا کیوں چھوڑا تم نے۔۔۔۔۔۔یہیں خیال رکھ رہی ہو میرے بیٹے کا۔۔۔۔

کیا ہوا نفیسہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی بھی اُن سب کی آواز پر کمرے سے نکل کر وہاں آئی

دیکھ رہی ہے امی کیا کیا آپ کی لاڈلی بہو نے میرے بچے کا ہاتھ جلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔باتیں تو یہ اتنی بڑی بڑی کرتی ہے لیکن کام ۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے شوہر کا دھیان تک نہیں رکھ سکتی یہ

۔میں سچ کہہ رہی ہوں دادی مجھے بلکل پتہ نہیں تھا کے ماہر کچن میں چلے جائے گے میں تو بس واش روم۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی عریشہ اور ماہر کے قریب آکر حیرت سے نفیسہ کی باتیں سن رہی تھی عریشہ نے اُنھیں کچھ کہنا چاہا  لیکن نفیسہ نے بیچ  میں اُس کی بات کاٹ دی

صفائیاں دینا بند کرو۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم سے نہیں ہوتا تو صاف صاف کہہ کیوں نہیں دیتی کیوں ماہر کی سگی بننے کا ناٹک کرتی رہتی ہو ۔۔۔۔۔۔عریشہ بی بی باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے دوسروں کو اپنے شوہر کی عزت کرنا سکھا رہی ہو پہلے خود تو اپنے بیوی ہونے کا فرض نبھانا سیکھ لو

بس نفیسہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عریشہ تم ماہر کو لے کر جاؤ اور مرہم لگاؤ 

دادی نے ہاتھ اٹھا کر نفیسہ بیگم کو روکتے ہوئے کہا عریشہ ماہر کو لیے روم۔میں چلی گئی

ہاں آپ کیوں اُسے کچھ کہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو تو اُس کی غلطیاں نظر ہی نہیں آتی نا

سب نظر آتا ہے مجھے کوں صحیح ہے کون غلط ہے ۔۔  اور کس کو میرے ماہر کی فکر ہے سب جانتی ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی کی بات کا مطلب سمجھ کر وہ چپ رہی دادی چلی گئی اور نفیسہ بیگم خوش ہوتے ہوئے مسکرا دی اُنہونے ماہر کو زخم دے کے عریشہ کو چوٹ تو دے ہی تھی لیکن زبان سے بھی اُسے اتنا کچھ کہہ کر اُنھیں اب سکون محسوس ہو رہا تھا

💜💜💜💜💜💜💜💜

ٹھیک ہو جائیگا ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔ 

عریشہ نے اُس کے دونوں ہاتھوں پر ائنمنٹ لگائی اور اُنھیں تھامے رکھا اُس کا چہرہ اور آنکھیں بھی سرخ ہو گئی تھی

بہت جل رہا ہے بیوی۔۔۔۔ماہر کو بہت دکھ رہا ہے۔۔۔۔

و

آپ نے گرم برتن کیوں پکڑا ماہر جی۔۔۔۔۔۔آپ کیوں گئے تھے کچن میں

عریشہ کو بھی اُسے تکلیف میں دیکھ کر بہت تکلیف ہو رہی تھی

ماہر کی ممی نے ماہر کو بولا کے بیوی نے تمہارے لیے کیک بنایا ہے۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ماہر گیا تھا کچن میں

وہ ہنوز اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا اور وقفے وقفے سے پھونک رہا تھا عریشہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی 

تو آپ دھیان سے پہلے چیک کرتے نہ یا کسی بڑے کو کہتے ۔۔۔۔مجھ سے وعدہ کیجئے کے آئندہ آپ ایسا نہیں کرینگے

عریشہ اُس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور ماہر نے گردن ہلا دی وہ اُسے کیسے بتاتی کے اپنی ہی ماں سے بچ کے رہے وہ اُس کی دشمن ہے

بیوی بہت دکھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔

ماہر ہاتھوں پر بار بار پھونک رہا تھا عریشہ نے اُس کے ہاتھوں کو اوپر کرتے ہوئے پھونکنا شروع کر دیا شاید ماہر کو اُس سے راحت محسوس ہو رہی تھی تبھی وہ سکون سے آنکھیں بند کرنے لگا

میں جانتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے بدلہ لینے کے لیے آپ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی لیکن آپ نے ماہر کو چوٹ پہنچائی اپنے ہی بیٹے کو۔۔۔۔جو آپکو ماں کا درجہ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتنی بے رحم ہے آپ ۔۔۔۔۔ ماں تو اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اُنھیں ہر مصیبت سے بچاتی ہے اور آپ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ماں کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر سو چکا تھا اور عریشہ اُس کے چہرے پر اب بھی تکلیف کے آثار دیکھ سکتی تھی

آج جتنا درد آپ کی وجہ سے ماہر کو ہوا ہے نہ اتنا ہی درد آپکو بھی ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دولت بہت عزیز ہے نہ آپ کو تو تیار رہے کیوں کہ اب میں بھی آپ کی عزیز شے پر ہی چوٹ کرونگی

عریشہ اپنی سوچ میں گم تھی کے دروازے پر دستک ہوئی

ماہر سر کے لیے دودھ۔۔۔۔

ملازم نے ٹرے اُس کی جانب بڑھایا

وہ سو گئے ہے آپ اسے واپس لے جائیے۔۔۔۔۔۔۔

جی اچھا۔۔۔۔۔۔

ملازم سر ہلاتے ہوئے چلا گیا

رحیم۔۔۔۔۔۔۔ماہر کو دودھ نہیں دیا

نفیسہ بیگم نے اُسے دودھ واپس لاتے ہوئے دیکھا تو روک کے پوچھا

نہیں میڈم ماہر سر سو گئے ہیں۔۔۔۔۔

بے وقوف ۔۔۔۔۔۔۔کتنی بار کہا ہے تم سے ۔۔۔۔۔۔جاؤ اور اُسے جگا کر دودھ پلاؤ اور جب تک وہ دودھ پی نا لے واپس مت آنا سمجھے۔۔۔۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔

ملازم نے واپس آکر ماہر کے روم کے دروازے پر دستک دی

میں نے آپ سے کہا نا کے ماہر جی سو گئے ہے۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے حیرت سے کہا

وہ میڈم نے کہا ہے کہ اُنھیں  جگا کر دودھ دینا ہے۔۔۔۔۔

ملازم نے نفیسہ کی بات بتائی تو عریشہ حیرت سے سوچنے لگی کے آخر نفیسہ کو ماہر کے دودھ پینے کی اتنی فکر کیوں ہے اُس کے ذہن میں ایکدم سے ڈاکٹر کی بات آئی

دیجئے۔۔۔۔۔۔۔آپ جائیے

اُس نے دودھ لے کر ملازم کو روانہ کیا

💜💜💜💜💜💜💜

تمہارا شک صحیح تھا عریشہ ۔۔۔۔۔دوائی اسی دودھ میں ملی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے صبح ہوتے ہی ایک نوکر کے ہاتھوں دودھ کی جانچ کروانے کے لیے ہسپتال بھیج دیا تھا اور کچھ ہی گھنٹوں بعد ڈاکٹر نے فون پر اُسے بتایا 

جو ماں اپنے بیٹے کی جان کی دشمن ہے۔۔۔۔۔مجھ سے بدلہ لینے کے لیے اُسے چھوٹ پہنچا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔  وہ اُس کا اتنا خیال رکھے ہو ہی نہیں سکتا

تمہیں اب خیال رکھنا ہوگا کے ماہر وہ دودھ نا پیے

ڈر نے اُسے جتاتے ہوئے کہا

لیکن اگر ماہر دودھ نہیں پیے گے تو وہ لوگ کہیں کسی اور چیز میں دوائی نا ملانے لگ جائے ۔۔۔۔۔

اُنھیں  پتہ مت چلنے دو اُنھیں یہی لگنا چاہیے کے ماہر روز وہ دودھ پیتا ہے ۔۔۔۔۔سمجھ رہی ہو نہ

جی ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔

عریشہ اُن کی بات سمجھ گئی تھی اور سوچ چکی تھی کے کیا کرنا ہے

ایک اور بات دوائی اثر کریگی تو کچھ چینجز نظر آئینگے ماہر میں۔۔۔۔۔ تمہیں دھیان رکھنا ہوگا۔۔۔۔۔ 

ڈاکٹر اُسے اور بھی کچھ سمجھا رہے تھی لیکن سامنے سے سکندر کو آتا دیکھ اُس کا دھیان اُس کی طرف چلا گیا

جی میں رکھتی ہوں۔۔۔۔۔

اُس نے جلدی سے فون بند کیا کے سکندر کو شک نا ہو جائے

کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہی ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

سکندر نے ہے انداز میں عریشہ کو مخاطب کیا

جی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جانے لگی لیکن سکندر نے اُس کی کلائی پکڑ لی

کبھی دو پل ہمارے ساتھ بھی گزار لیا کرو۔۔۔۔۔۔قدر کرنے والوں کی اتنی بے قدری نہیں کرتے

آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔۔۔میں ماہر کو دیکھتی ہوں اُنھیں بھوک لگی ہوگی

عریشہ نے کسی بھی طرح ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی

بھوک تو ہمیں بھی لگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت زوروں کی

سکندر نے سرگوشی میں کہا اور اُس کے دیکھنے پر آنکھ ماری

مامی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ممّی کا فون ہے ۔۔۔۔۔

زیان کی آواز پر سکندر فوراً اُس سے دور ہٹا اور عریشہ نے بنا وقت لگائے وہاں سے جانے کی کی

ہاں زیان میں بس ابھی آئی ۔۔۔۔

وہ دوڑتی ہوئی اندر بھاگی تھی جانے کیوں سکندر کا سامنا وہ اب تک نہیں کر پا رہی تھی شاید اُس سے ڈر اسلئے لگتا تھا کیوں کہ یہاں بات عزت کی تھی

💜💜💜💜💜💜💜

میں یہاں اپنا فرض پورا کرنے آیا ہوں جمال سر کی وصیت کے بارے میں آپ کو بتانے

نفیسہ کمرے سے باہر نکلی تو اپنے وکیل کی آواز سنی جو ہال میں عریشہ اور دادی کے پاس بیٹھا بات کر رہا تھا  وہ حیران ہوئی کے آخر وہ یہاں کیوں آیا ہے

جیسے کے آپ سب جانتے ہیں جمال سر نے اپنی آخری وصیت میں ساری پراپرٹی ماہر سر کے نام کی ہے لیکن اس پراپرٹی پر حق اُنھیں تب ہی حاصل ہوگا جب وہ پچیس برس کے ہو جائینگے 

کمپنی اور پراپرٹی سے جڑے کچھ فیصلے لینے کے لیے اُنھیں پاور آف اٹارنی دی گئی ہے 

لیکن اب جب کے ماہر سر کی حالت ٹھیک نہیں ہے اُس پاور آف اٹارنی کا استعمال ماہر سر کی وائف یعنی آپ کر سکتی ہے 

اُس نے عریشہ کی جانب اشارہ کیا اور نفیسہ بیگم حیرت سے سوچنے لگی کے کیسے

میں۔۔۔۔۔۔۔عریشہ نے بھی حیرت سے پوچھا اور نفیسہ بیگم کا رنگ  اڑا ہوا چہرہ دیکھا

جی ہاں قانون کے مطابق شوہر کی جائداد پر پہلا حق اُس کی بیوی کا ہوتا ہے اور اس پاور آف اٹارنی پر بھی آپکو حق حاصل ہے آپ اُس کے ذریعے اس گھر اور کمپنی سے جڑا کوئی بھی فیصلہ لے سکتی ہے

عریشہ جو جھٹکا نفیسہ کو دینا چاہتی تھی وہ اُسے لگ چکا تھا حالانکہ ابھی عریشہ کا کام پورا نہیں ہوا تھا

جب تک پراپرٹی ماہر سر کے نام نہیں ہو جاتی تب تک اور اگر پراپرٹی ماہر سر کے نام ہو جانے کے بعد بھی وہ ٹھیک نہیں ہوتے تو قانون کے مطابق اس ساری دولت کی حقدار آپ رہتی ہے

اب تو نفیسہ کی جان ہی شاید نکل گئی تھی تبھی وہ پتھر بن گئی

لیکن اُن کے بعد تو حقدار وہی ہوگا نا جسے وہ بنانا چاہے

جی ہاں پراپرٹی ہولڈر کو حق ہوتا ہے کے وہ کس کے نام کرنا چاہتا ہے لیکن ماہر سر اس وقت اس حالت میں نہیں ہے کے وہ کوئی فیصلہ لے سکے اسی لیے قانون کے مطابق آپ ہی اُن کی نومینی ہے اور پراپرٹی آپ کو ہی ملتی ہے لیکن اگر پچیس سال پوری ہونے تک ماہر جی کو کچھ ہوتا ہے تو پراپرٹی ٹرسٹ کو جائیگی یہ آپ لوگ شاید جانتے ہے ہوگے

عریشہ نے وکیل صاحب کو بلوا کر یہ سب کہلوایا تھا نفیسہ کو جھٹکا دینے کے لیے اُسے یقین تھا اب وہ ماہر کو تکلیف پہنچا کے یا کسی بھی طریقے سے عریشہ سے پنگا نہیں لے گی 

ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔اتنے سالوں تک ہم اس جائداد کو پانے کے لیے کوششیں کرتے رہے اور وہ لڑکی سب لے جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹھے بٹھائے اس سب کے مالکن بن جائے گی

نفیسہ بیگم وکیل کی بات سننے کے بعد بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہی تھی اور سکندر اور عالیہ اُنہیں دیکھ رہے تھے

آپ کو ہی بہت شوق تھا نہ اُس پاگل کی شادی کروانے کا ۔۔۔۔

عالیہ نے پھر اُنہیں غلطی یاد دلائی

تو چپ کر میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں میرے جلے پر نمک مت چھڑک سمجھی 

نفیسہ اس پر چینخ پڑی

ریلیکس مام ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا

سکندر نے اُنہیں چپ کروانا چاہا

کیا کچھ نہیں ہوگا ماہر کی جائداد پر اُس کی بیوی کا حق ہو جائیگا اب کیا کرے گے ہم

ایک بار ماہر کو پچیس سال کا ہونے تو دیجئے اُس کے بعد وہ خود یہ سب ہمارے نام کر دیگا

لیکن کیسے بھائی سب جانتے ہیں ماہر پاگل ہے اُس کے سائن بھی نہیں چلے گے 

This is impossible

عالیہ نے اس کی بات پر حیرت سے کہا

Every thing is possible

بس کچھ پیسے دو اور کام پورا  آجکل ایمان بکتے دیر نہیں لگتی ۔۔۔۔۔

بس کچھ وقت تک انتظار کیجئے مام اور تب تک پلیز یہ ساس بہو والی لڑائیاں بند رکھیے ورنہ پروبلم ہو جائیگی

سکندر نے اُنہیں تسلی دی وہ پہلے ہی سب سوچ چکا تھا کہ کیا کرنا ہے

💜💜💜💜💜💜💜💜

واہ کیا رونق ہے اس گھر کی دیکھا۔۔۔۔ اگر  تیرے آگے ماں باپ بھی ہوتے نا وہ بھی تیرے لیے ایسا نصیب نہیں ڈھونڈ پاتے

تائی امی آج اس سے ملنے آئی تھی عریشہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے اُسے خوش ہونا چاہیے حیران ہونا چاہیے یہ ڈرنا چاہیے کیوں کے تائی امی بنا مقصد تو آئی نہیں ہوگی

گھر میں سب کیسے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اریشہ نے دھیرے سے پوچھا اب بھی وہ اُن سے نظریں ملانے سے در رہی تھی

گھر کے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں ۔۔۔۔۔تمہاری شادی پر اتنا خرچ کردیا کے اب کھانے کے لالے پڑ گئے تمہارے تایا بھی اس مہینے پیسے نہیں بھیج پائے ۔۔۔۔اب تمہارے لیے اتنی عیش کو زندگی کر کے دی ہے تو تم بھی ہمارے لیے کچھ تو کر ہی سکتی ہو۔۔۔۔۔مجھ کچھ ہزار روپے دے دو خرچ کر لیے

اریشہ کو سمجھ آگیا نے تائی امی کیوں آئی ہے کاش کے وہ اُنہیں۔ کہہ پاتی کے آپ نے عیش دیکھ کر نہیں بلکہ کچھ اور وجہ سے اُسے یہ زندگی دی ہے

روپے۔۔۔۔۔۔۔

ہاں بھئی اتنا بڑا کاروبار ہے ان کا کیا جائیگا کچھ دے دو گی تو ۔۔۔۔

نہیں تائی امی ۔۔۔۔۔۔میں ایسا نہیں کر سکتی

وہ جھجھکتے ہوئے بولی

کیوں نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔۔اچھا سمجھ گئی۔ ۔۔نئی نئی شادی ہوئی ہے سب کیا کہے گے یہی نہ۔۔۔۔  

ایسا کرو یہ چوڑیاں مجھے دے دو میں اسی سے کام چلا لونگی

تائی نے اس کی چوڑیاں دیکھ کر کہا اس نے فوراً ہاتھ پیچھے کرلیا

کیا سوچ رہی ہو اتارو چوڑیاں۔۔۔۔۔۔۔وہ اُسے طرح چوڑیوں کو ایک ہاتھ سے چھپائے بیٹھے رہی

نہیں تائی امی میں ۔۔۔۔یہ چوڑیاں نہیں دے سکتی مجھے دادی نے دی ہے۔۔۔۔۔۔۔

اس نے ہمت کر کے کہا

مت بھول بچپن سے میں نے پالا ہے تجھے تب جا کر ہوئی اور یہ دادی ملی تجھے۔۔۔اُتار جلدی

تائی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چوڑیاں اتارنی چاہی

نہیں تائی امی۔۔۔۔۔۔۔

اریشہ آپ ہاتھ کھینچتے ہوئے بولی لیکن اُنہیں نے اس کی کلائی اوپر سے دبا کر پکڑی ہوئی تھی اور چوڑیاں کھنچ رہی تھی

یہ کیا کر رہی ہو تم چھوڑو ماہر کی بیوی کو

ماہر نے منہ کھولے تائی کی حرکت دیکھی تو اریشہ کا ہاتھ چھڑوا یا

پرے ہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے ماہر کو دھکا دیا اور واپس اریشہ کا ہاتھ پکڑا اریشہ نے ماہر کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا اریشہ کی آنکھیں بھر آئیں تھی

اُتار چوڑیاں میں کہتی ہوں۔۔۔

گندی آنٹی چھوڑو ماہر کی بیوی کو ۔۔۔۔۔۔بیوی چوڑیاں نہیں دے گی

اس نے تائی امی کے ہاتھ کو جھٹک کر اریشہ کا ہاتھ پکڑ کر خود سے لگا لیا

پاگل لڑکے نکل یہاں سے

تائی امی نے اب کے اُسے زور سے دھکا دیا ماہر ٹیبل کے قریب گرا تھا اور ٹیبل پر رکھا واس اٹھا کر غصے سے اُن کی جانب بڑھا تھا

ماہر۔۔۔۔۔۔۔۔

اریشہ اُسے روک پاتی اس میں پہلے ماہر نے وہ واس تائی امی کے سر پر مارا جس سے وہ چینخ پڑی اُن کے سر سے خون بھی نکلنے  لگا

ہائے۔۔۔۔پاگل نے مار دیا ۔۔۔۔۔۔۔

وہ واویلا مچانے لگی اور ماہر گھبرا کر اریشہ کے پیچھے چھپ گیا

کیا ہو رہا ہے عریشہ۔۔۔۔۔۔۔

شور کی آواز پر دادی کمرے سے باہر نکلی اور ساتھ زیان بھی نفیسہ عالیہ اور سکندر گھر میں نہیں تھے

کیا ہوگا دیکھیے آپ کے پاگل پوتے نے خون نکال دیا سر سے 

ارے اسے کھلا کیوں چھوڑ رکھا ہے پنجرے میں بند کرو اس پاگل کو

تائی امی ماہر کو دیکھتے ہوئے زور زور سے بول رہی تھی

تائی امی ۔۔۔تمیز سے بات کیجئے۔۔۔۔۔۔۔اور جائیے یہاں سے

آپ نے مجھے پال کر جیتنا بڑا احسان کیا تھا اس سے دس گنا وصول کر چکی ہے آپ ۔۔۔۔مت بھولیے یہ میرا گھر ہے اور اب ایک پل بھی میں یہاں آپ کو برداشت نہیں کرونگی 

ماہر کو کوئی کچھ کہے عریشہ سے کیسے برداشت ہوتا ماہر اپنے کمرے میں بھاگ گیا تھا

جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔لیکن یاد رکھنا غلط کر گئی تو آج۔ ۔۔۔ 

تائی امی اُسے کڑے تیوروں سے گھورتی ہوئی چلی گئی اُنہیں جاتا دیکھتے ہوئے اریشہ رونے لگی تھی

برا مت ماننا بیٹا ۔۔۔۔۔۔تم تو جانتی ہو نا ماہر کو صحیح غلط کی سمجھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اُسے غصّہ آگیا ہوگا تبھی اس نے ایسا کیا کرنا وہ کبھی ایسا نہیں کرتا تم دل پر مت لینا اس کی طرف سے میں معافی مانگتی ہوں

دادی کو لگا کے کہیں اریشہ برا مان کر ماہر سے ناراض نہ ہو جائے کے اس کی تائی امی کو مارا اسلئے خود اُسے سمجھانے لگی اریشہ نے اُن کی جانب دیکھا اور اُن کے گلے لگ گئی

دادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج پہلی بار مجھے ایسا لگا جیسے میں اکیلی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔میرا ساتھ دینے والا کوئی ہے۔۔۔۔۔جو میرے لیے کسی سے بھی لڑ سکتا ہے جو مجھے مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے لیے میں کچھ معنی رکھتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج پہلی دفعہ خود کو بہت محفوظ محسوس کر رہی ہوں دادی۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اُن کے گلے سے لگے ہوئے رونے لگی اور دادی نے مسکراتے ہوئے اُسکی سر پر ہاتھ پھیرا

💜💜💜💜💜💜

سوری بیوی۔۔۔۔۔۔ماہر آگے سے کبھی ایسا نہیں کریگا پرومس

وہ کمرے میں داخل ہوئے تو اُسے دیکھتے ہی ماہر نے کان پکڑ لیے

آپ کو اتنا غصّہ کیوں آگیا تھا ماہر جی۔۔۔۔۔۔

وہ آکر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی

۔

وہ گندی آنٹی بیوی کی  بنگلس چھین رہی تھی نا 

ماہر کو ان بنگیلس کی آواز اچھی لگتی ہے ماہر کسی کو یہ نہیں لینے دیگا

ماہر نے معصومیت سے کہا اور اریشہ اس کے گلے سے لگ گئی

مجھے نہیں پتہ تھا ماہر جی کے آپ میری ہاتھوں میں جو چوڑیاں ہے وہ بھی کسی کو چھیننے نہیں دے گے۔۔۔۔میں تو ہمیشہ سے ہارتی آئی ہوں پر اب لگتا ہے آپ میری جیت بن کر میری زندگی میں آئے ہے میں غلط تھی جو مجھے لگا کہ اللہ نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے آپ سے بہتر تحفہ تو مجھے مل ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس سے الگ ہوئی اور اپنے گال صاف کرتے ہوئے اُسے دیکھا

ایک بات بولوں بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے پوچھا تو اریشہ نے سر ہلا دیا۔

تم نے جو بولا ماہر کو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے معصومیت سے کہا اور اریشہ اس کی بات پر ہنستی چلی گئی

I love you mahir ji۔۔۔۔۔۔۔

وہ دوبارہ اس کے گلے لگی اور دھیرے سے بولی آج پہلی دفعہ اس نے ماہر کو اپنے دل تک پہنچتے ہوئے محسوس کیا تھا

💜💜💜💜💜💜

وہ دادی سے مِل کر۔کمرے میں آئی تو ماہر بیڈ پر بیٹھا سنجیدگی نے سامنے دیوار کو دیکھ رہا تھا

اتنا شانت وہ کبھی نہیں ہوتا تھا

ماہر جی ۔۔۔۔آپ یہاں ایسے کیوں بیٹھے ہے چلیے نا باہر چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانا چاہا لیکن اس نے بنا دیکھے عریشہ کا ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔جس پر اریشہ بہت حیران ہوئی

کیا ہوا ماہر جی۔۔۔۔۔ ناراض ہے آپ مجھ سے۔۔۔۔۔

وہ غصّہ ہو کر ہی ایسی حرکتیں کرتا تھا اریشہ اس کے قریب بیٹھی اور ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ اپنی جانب کیا

Stay away from me

ماہر نے نا صرف اس کا ہاتھ جھٹکا بلکہ اُسے دھکا بھی دیا وہ ماہر نہیں کوئی اور تھا جس کے چہرے پر نہ معصومیت تھا نا ہونٹوں پر مسکان

ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اریشہ گھبرا گئی کے آخر اُسے کیا ہوا

کہا نا دور رہو مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔دور رہو۔۔۔۔۔دور رہو

ماہر نے سر پکڑتے ہوئے زور سے چلانا شروع کر دیا 

کیا ہو گیا ماہر جی آپ ایسے کیوں کر رہے ہیں ادھر دیکھیے

اریشہ نے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا لیکن ماہر فوراً اپنی جگہ سے اٹھ گیا

جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسٹ گو۔۔۔۔۔۔۔, جاؤ و و و۔۔۔۔۔۔

وہ دیوانہ ور اپنا سر پکڑے چلاتا رہا اور آنکھیں مندیں سر کو زور سے دبانے لگا جیسے اس کا سر پھٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔اس کی حالت دیکھ کر اریشہ کو در لگ رہا تھا ماہر لڑکھڑا کر گرنے والا تھے کے اریشہ نے اُسے پکڑ لیا اور بیڈ پر لٹایا وہ ہوش میں نہیں تھا

💜💜💜💜

میں بہت ڈر گئی تھی ڈاکٹر۔۔ماہر نے پہلے کبھی ایسا برتاؤ نہیں کیا اُن کا غصّہ اُن کے بولنے کا انداز بہت عجیب تھا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جب انہیں ہوش آیا تو اُنہیں کچھ یاد ہی نہیں تھا وہ بلکل نارمل تھے

وہ ڈاکٹر کے پاس آئی تھی کل والا واقع بتاتے ہوئے وہ منظر پھر اس کے ذہن میں گھوم رہا تھا

دوائی کی افیکٹ سے ایسا ہوتا ہے اریشہ پرانی یادیں ذہن سے ٹکراتی ہے تو مزاج میں تبدیلی ہوتی ہے ڈرنے والے کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ اچھی خبر ہے کے وہ اتنا فاسٹ رسپانس کر رہا ہے ۔۔۔۔۔

میری مانو تو تم اسے اسائلم  میں ایڈمٹ کر دو۔۔۔وہاں ہر وقت ہر وقت اُسکا دھیان بھی رکھا جائے گا اور ٹریٹمنٹ بھی اچھے سے ہو پائیگا

نہیں ڈاکٹر میں ماہر کو اپنی نظروں سے دور نہیں بھیجنا چاہتی ۔۔۔۔اُن کی جان کے دشمن کبھی بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔۔۔اگر وہ میرے سامنے ہوگے تو مجھے تسلی بھی رہیگی اور ہمت بھی ملےگی

عریشہ نے سہولت سے انکار کر دیا

میں تمہارے جذبات سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے جیسا تمہیں سہی لگے۔۔۔۔۔۔۔یہ نیند کی گولی ہے

انہوں نے ایک باطل اس کی جانب بڑھائی

آئندہ اگر  ماہر کو اس طرح کا دورہ پڑتا ہے اور وہ بے قابو ہو جاتا ہے تو اُسے شانٹ کرنے کے لیے تم یہ دوائی دے سکتی ہو 

اریشہ نے سر ہلا دیا

بہت شکریہ آپکا ڈاکٹر۔۔۔۔۔ آپ میں میری اتنی مدد کی ہے کے شکریہ لفظ بھی چھوٹا ہے

مدد۔۔۔۔۔۔یہ تو ایک ڈاکٹر کا فرض ہے عریشہ

ڈاکٹر واحد نے حیران ہوتے ہوئے کہا

ڈاکٹر کا فرض تو مریض کو دوائی دے کر ٹھیک کرنا ہے لیکن آپ نے جو کیا ہے وہ فرض سے کہیں اوپر ہے اور میں آپکی احسان مند ہوں۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ کی آنکھوں پر کالی پٹی بندھی تھی اور وہ ماہر اور زیان کے ساتھ گارڈن نے کھیل رہی تھی ماہر اور زیان اُس سے دوری پر کھڑے اُسے آوازیں دے رہے تھے اور وہ اُنھیں پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی سکندر نے دور سے اُسے دیکھ کر اوپر سے نیچے تک اُس کا جائزہ لیا پیلے سلوار کرتے پر کالے رنگ کا دوپٹہ جو گلے میں ڈالا ہوا تھا ادھر اُدھر سے نے نیاز وہ ہنستی ہوئی دونوں کو پکڑ رہی تھی سکندر مسکرایا ہوا اُس کے ایک دم قریب آکر رک گیا اور عریشہ نے اُسے پکڑ لیا

۔پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے خوش ہوتے ہوئے آنکھوں سے پٹی ہٹائی لیکن سکندر کو اتنے قریب دیکھ کر اُس کی مسکراہٹ تھم گئی اُس نے فوراً اُس کا بازو چھوڑا

اب پکڑ ہی لیا ہے تو چھوڑیئے گا مت۔۔۔۔۔۔۔

سکندر معنی خیزی سے مسکرایا عریشہ فوراً پیچھے ہوئی

ماہر جی زیان آپ دونوں کھیلے میں ابھی آتی ہوں

عریشہ اندر جانے لگی سکندر بھی اُس کے پیچھے چلا آیا

عریشہ۔۔۔۔۔۔

اُس نے عریشہ کی کلائی پکڑ لی

سکندر بھائی میرا ہاتھ چھوڑیئے

 بھائی نہیں صرف سکندر۔۔۔۔۔۔۔

ہمیشہ کی طرح آج بھی اُسے عریشہ کا بھائی کہنا برا لگا عریشہ اپنا ہاتھ اُس سے چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی

کیا ہوا عریشہ میرا پاس انا تمہیں اچھا نہیں لگتا کیا

سکندر اُس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا

ہاتھ چھوڑیئے میں نے کہا۔۔۔۔

عریشہ نے پہلی دفعہ سختی سے کہا

لو چھوڑ دیا اب بتاؤ اتنا گھبراتی کیوں ہو مجھ سے میں تمہیں کھا تھوڑی جاؤنگا

دیکھیے مجھے آپ کا ایسے بات کرنا بلکل پسند نہیں ہے مجھ سے دور رہا کرے آپ ۔۔۔۔۔۔

وہ بنا اس کی جانب دیکھے غصے سے بولی

اور اگر دور نا رہوں تو۔۔۔۔۔۔۔

سکندر نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا

تو میں دادی کو  بتا دونگی آپ مجھے تنگ کر رہے رہے ہیں۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کی جانب دیکھ کے کہا اور اندر چلی گئی اور سکندر مسکرایا اُسے عریشہ کی دھمکی پر ڈر نہیں لگ رہا تھا بلکہ ہنسی آرہی تھی

💜💜💜💜💜💜💜

تم جو کر رہی ہو بلکل صحیح کر یہی ہو عریشہ ۔۔۔۔۔۔۔یہ لوگ یہی زبان سمجھتے ہیں

آج رائنا اُس سے ملنے آئی تھی وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے اندر جا رہیں تھیں

پتہ نہیں آپی مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آجاتی ہے ایک وقت تھا جب میں اپنی غلطی نا ہونے پر بھی صفائی دینے کے لیے زبان نہیں کھول پاتی تھی اور اب۔۔۔۔۔ 

 کوئی ماہر جی کو کچھ کہہ دے یا تکلیف پہنچانے کی کوشش بھی کرے یہ بات میری روح تک جھنجھوڑ دیتی ہے میرا سارا ڈر ختم ہوجاتا ہے اُس وقت ایسا لگتا ہے وہ میں نہیں کوئی اور ہی عریشہ ہے جو ہر ڈر ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے نڈر ہو کر کھڑی ہے

اُس کی بات پر رائنا دھیمے سے ہنس دی

وہ ماہر کی بیوی عریشہ ہے جو اپنے شوہر کی ڈھال بن کے کھڑی ہوتی ہے اور یہ طاقت اس رشتے کی طاقت ہے کسی نے سچ ہی کہا ہے عریشہ کے اس رشتے میں بہت طاقت ہوتی ہے تبھی تو تم ماہر سے اس قدر اٹیچ ہو گئی ہے ویسے ہے کہاں جناب نظر نہیں اربے

وہ اِدھر ادھر نظریں گھماتے ہوئے بولی

زیان اور وہ اپنے روم میں ہے کوئی مووی دیکھ رہے ہے

مجھے پتہ چلا کہ اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو ملنے چلی آئی

میں اُنھیں بلا کر لاتی ہوں۔۔۔۔۔۔

تب تک میں دادی سے مل لیتی ہوں

عریشہ اپنے کمرے میں چلی آئی اور رائنا دادی کے روم میں چلی گئی عریشہ اندر آئی تو دیکھا زیان اور ماہر بیڈ پر کھڑے اخبار کی تلوار بنائیے لڑ رہے ہیں

ماہر جی زیان کیا کر رہے ہیں آپ دونوں ۔۔۔۔۔کیوں لڑ رہے ہیں

بیوی ہم لڑ نہیں رہے ہم وہ کر رہے ہیں دیکھو۔۔۔۔ ۔

ماہر نے ٹی وی کی جانب اشارہ کیا جہاں ایک مووی میں فائٹنگ سین چل رہا تھا وہ مسکرائی

چلیے باہر آپ سے ملنے رائنا آپی آئی ہے۔۔۔۔۔ ۔

ممّی آئی ہے۔۔۔۔۔ 

زیان اُس کی بات سنتے ہی بعد سے اُترا اور باہر بھگا

بیوی یہ تم نے کیا کیا ۔۔۔۔۔اب ماہر کس کے ساتھ کھیلے گا

ماہر اُسے جاتے دیکھ منہ بسور عریشہ کو بولا عریشہ نے دوپٹہ نکال کر بیڈ پر پھینکا اور زیان والا اخبار اٹھا لیا

بیوی کس دِن کام آئےگی

ماہر اُس کے ساتھ ہنستے ہوئے فائٹ کرنے لگا کچھ ہی دیر میں عریشہ تھک کر بیٹھ گئی

بس ماہر جی میں تھک گئی۔۔۔۔۔

نہیں بیوی ماہر کو کھیلنا ہے اٹھو نا

ماہر اُس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے لگا

دیکھیے ٹی وی میں بھی ختم ہو گیا بیٹھ کے مووی دیکھیے اب۔۔۔۔

اُس کے کہنے پر ماہر بیٹھ گیا ٹی وی پر اگلے ہی پل ایک كسنگ سین چل رہا تھا جس اور عریشہ نے ماہر کی جانب کن انکھیوں سے دیکھا وہ بہت اشتیاق سے آنکھیں  بڑی کیے ٹی وی دیکھ رہا تھا

بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر کو بھی ایسے کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے عریشہ کی جانب دیکھ کر کہا جس پر عریشہ نے حیرت سے اُسے دیکھا

ایسے نہیں بولتے ماہر جی۔۔۔۔

وہ فوراً وہاں سے اٹھ گئی جانتی تھی ماہر پیچھے پڑ جانا ہے

لیکن ماہر کو کرنا ہے۔۔۔۔۔۔

ماہر بھی اٹھ گیا عریشہ نے اُس کی جانب پیٹھ کرکے آئینے کے آگے کھڑی ہو گئی

ہم ایسا۔۔۔۔۔ نہیں کر سکتے ماہر جی

کیوں نہیں کر سکتے وہ لوگ بھی تو کر رہے ہے نا

وہ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لوگ بڑے ہے نا۔۔۔۔۔۔ہم تو بچے ہے اور بچے ایسا نہیں کرتے

عریشہ کو فوری طور پر جو بہانہ سوجھا اُس نے بنا دیا

لیکن ماہر کو کرنا ہے کرنا ہے کرنا ہے

ماہر پیر پٹختے ہوئے زور سے بولا

کیا ہوا ماہر کیوں چلا رہے ہو۔۔۔۔

رائنا نے اندر آتے ہوئے اُس کی آواز سنی تو پوچھنے لگی 

آپی بیوی ماہر کی بات نہیں مان رہی ماہر کو بھی ایسا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر اُس کے پاس آکر ٹی وی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا رائنا نے پہلے ٹی وی کو پھر عریشہ کو دیکھا جو شرم سے نظریں جھکائے کھڑی تھی رائنا بنا ہنسے نہیں رہ پائی

ماہر جی۔۔۔۔چلیے کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔

نئیں۔۔۔۔۔ ماہر تم سے غصّہ ہے بات بھی نئیں کریگا

ماہر اُس کی بات پر منہ بناتے ہوئے روم سے باہر چلا گیا

ویسے ہر ضد تو پوری کرتی ہو تم اُسکی تو یہ ضد پوری کرنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔

رائنا نے اُس کے پاس آکر شرارت بھرے لہجے میں کہا

آپی۔۔۔۔۔۔آپ بھی نہ۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے رائنا کو خفگی سے گھورا تو وہ ہنس دی

💜💜💜💜💜

ماہر جی ۔۔۔۔۔۔چلیے منہ کھولیے جلدی

ماہر کے پاس کھانا لے کر آئی اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی

ماہر کو نہیں کھانا ۔۔۔۔تم ماہر کی فرینڈ نہیں ہو کوئی بات نہیں مانتی 

وہ اب بھی اُس سے غصّہ تھا

ٹھیک ہے اگر آپ کھانا کھا لینگے تو ۔۔۔۔۔

عریشہ نے پلیٹ ٹیبل پر رکھی اور اُس کے قریب بیٹھتے ہوئے اُسے لالچ دینے کی کوشش کی لیکن وہ پیچھے ہٹ گیا

کہا نا نہیں کھانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ اُس کا غصّہ کیسے ختم کرے وہ تو اُس کی بات تک بھی نہیں سن رہا تھا وہ سوچ ہی رہی تھی کے اچانک لائٹ چلی گئی اور روم میں اندھیرا ہو گیا  

بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماہر کو ڈر لگ رہا ہے لائیٹ کیوں بند ہو گئی

ماہر نے گھبرا کر اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے سر  اُس کے شولڈر سے لگا  دیا تھا

۔ابھی آجائے گی ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے ماہر کو تسلی دی ماہر اُسے گھبرائی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور اسکا چہرہ عریشہ کے اتنے قریب تھا کے وہ اُس کی سانسوں کی ہلکی سی آواز بھی سن سکتی تھی اُس نے دھیرے سے جھک کے ماہر کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے تھے اور اُسے لمحے لائٹ آگئی تھی عریشہ فورا پیچھے ہوئی ماہر بھی لائیٹ کی جانب دیکھتے ہوئے اُس سے دور ہوا

اب تو کھانا کھائے گے نا آپ ۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُسے گھورتے ہوئے کہا ماہر نے سر ہلا دیا

اور وہ ہنس دی

💜💜💜💜💜💜

رحیم اوپر سے میرا فون لے کر آؤ

عالیہ جلدی جلدی میں نیچے اتر آئی تھی ملازم کو دیکھ کر اُسے کہتی ہوئی وہ اپنے بالوں کو ٹھیک کرنے لگی

کتنا وقت لگا رہے ہو جلدی آؤ

سیڑھیوں  پر ملازم کو دیکھ کر وہ چینخ کر بولی ملازم گھبرا کر جلدی جلدی اترنے لگا آخری سیڑھی اور اُس کا پاور مڑا اور وہ تو پلر کر سہارا لے کر گرنے سے بچ گیا لیکن فون نیچے گر کر تین حصے میں بٹ گیا عریشہ وہیں صوفے پر بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی اُس نے دیکھا عالیہ غصے سے ملازم کی طرف بڑی کو اُسے تھپڑ مار دیا

یو ایڈیت گدھے یہ کیا کیا تم نے میرا فون توڑ دیا

عالیہ یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔ہاتھ اٹھانے سے پہلے یہ تو سوچ لیتی کے یہ بہت بڑے ہے تم سے عمر میں ۔۔۔۔

عریشہ فوراً وہاں آئی

نظر نہیں آتا تمہیں اس بیوقوف نے میرا فون توڑ دیا 

توڑ نہیں دیا ٹوٹ گیا غلطی سے ۔۔۔۔ کیا تم سے کبھی غلطی نہیں ہوتی ۔۔۔۔اس کا مطلب یہ تو نہیں کے تم ان پر ہاتھ اٹھا دو۔۔۔۔

عریشہ غصے سے بولی

تم اپنے کام سے کام رکھو اور یہ گیان نا اپنے پاس ہی رکھو

یہ دیکھنا بھی میرا ہی کام ہے عالیہ کے میرے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ان سے معافی مانگو

عریشہ نے غصے سے کہا تو عالیہ کے ساتھ رحیم نے بھی اُسے حیرت سے دیکھا

What۔۔۔۔۔۔

لگتا ہے ٹھیک ہے سنائی نہیں دیتا تمہیں۔۔۔میں نے کہا  ان سے معافی مانگو

عریشہ نے لفظوں پر زور دیتے ہوئے اپنی بات دہرائی

میں اس نوکر سے معافی مانگوں۔۔۔۔۔۔

ہاں اس نوکر سے جو تمہارے سارے کام کرتا ہے اس نوکر سے جس کے بنا تم  اپاہج ہو۔ایک گلاس پانی بھی اٹھ کر نہیں پی سکتی معافی مانگو ۔۔۔۔۔۔۔

میں معافی نہیں مانگوں گی سمجھیں تم۔۔۔

عالیہ۔۔۔۔۔۔اگر تم نے ان سے معافی نہیں مانگی تو آج سے اس گھر کا کوئی ملازم تمہارا کوئی بھی کام نہیں کریگا تمہیں اپنے کام خود کرنے ہونگے۔۔۔۔۔اور تم جانتی ہو کے میں ایسا کر سکتی ہیں

عریشہ نے اُسے جتاتے ہوئے کہا عالیہ پہلے حیران ہوئی پھر سے جھٹکا

I m sorry۔۔۔۔

وہ اُسی غصے سے بولی

انہیں انگریزی نہیں آتی عالیہ۔۔۔۔۔ہندی یا اردو کا استعمال کرو اور تھوڑا نرمی سے احسان نہیں کر رہی ہو کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ کے ٹوکنے پر اُس نے ناگواری سے اُسے دیکھا

معاف کرنا غلطی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملازم سے معافی مانگ کر وہ عریشہ کو نفرت بھری نظر ڈالتی ہوئی باہر چلی گئی

💜💜💜💜💜💜

 کانچ ٹوٹنے کی زوردار آواز پر وہ کمرے میں آئی اندر کا منظر دیکھ کر اُس کے قدم دروازے میں ہی پتھر ہو گئے ۔۔پورا روم بکھرا پڑا تھا ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا سارا سامان زمین پر بکھرا پڑا تھا  دیوار پر لگا بڑا سا آئینہ زمین پر ٹکڑے ٹکڑے پڑا تھا ماہر جنونی کیفیت میں بیڈ سے تکیوں کو پھینک کر چادر کھینچ رہا تھا وہ کمرے نے موجود ایک کے بعد ایک ہر چیز کو تباہ کر رہا تھا سارے فوٹو فریم نکال کر زمین پر پٹخ رہا تھا اور عریشہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے کیا کرے کیسے اُسے روکے۔۔۔۔

ماہر جی۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے بلکونی کے دروازے پر لگے پردوں کو زور سے کھینچ کر پھینکا سلائڈ دور کھلا ہوا تھا ورنہ وہ اُسے بھی توڑ دیتا وہ بالکنی میں آگیا تھا عریشہ خود کو سنبھالتی گھبرا کر اُس کی طرف بڑھی۔۔۔اُس وقت وہ جس حالت نے تھا کچھ بھی کر سکتا تھا عریشہ کے پیر میں کانچ چبھ رہے تھے اور وہ اُس تکلیف کو نظر انداز کر رہی تھی ماہر بالکنی میں لگی گرل کی دیوار کو پیر مار کر توڑنے  کی کوشش کر رہا تھا 

عریشہ نے اُس کی پشت سے لگتے ہوئے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے اُسے مضبوطی سے پکڑ لیا تھا وہ اُس کی جانب پلٹا اُس کا چہرہ دیکھ کر عریشہ کو پہلی دفعہ بہت ڈر لگا غصے سے بھری آنکھیں سرخ ہو گئی تھی بکھرے بال اور پسینے سے بھیگا چہرہ جس پر دنیا بھر کی سختی تھی اُس نے عریشہ کے ہاتھ ہٹا کر اُسے دھکا دیا اور دوبارہ دیوار کو مارنے لگا 

نہیں ماہر جی رک جائے

اگر وہ دیوار ٹوٹ جاتی تو وہ سیدھے نیچے زمین پر جا گرتا عریشہ بے بسی سے روتے ہوئے اُس کا بازو پکڑے اُسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی دادی بھی گھر پر نہیں تھی رائنا اور زیان کو چھوڑنے گئی تھی اور اُسے کسی نوکر کو بلانے کا بھی نہیں سوجھا

عریشہ کے روکنے کا اُس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا

چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے ایک بار پھر عریشہ کو دھکا دیا تھا اور وہ دیوار سے جا لگی تھی ماہر اُس گرل پر پوری طاقت سے وار کر رہا تھا لیکن وہ بہت مضبوط تھی عریشہ اٹھ کے اُس کے سامنے آئی

ماہر جی شانت ہو جائیے میری بات سنیے

عریشہ نے اُس کی جانب ہاتھ بڑھانا چاہا ماہر سختی سے ہاتھ پکڑ کر اُسے پیچھے دھکیل دیا

عریشہ نے پوری ہمت اور طاقت جمع کر کے اُسے اپنی جانب کھیچا اور وہ دونوں زمین پر گرے تھے  ماہر نے دوبارہ اٹھنا چاہا تھا لیکن عریشہ نے اُس کا بازؤں پکڑ کے اُسے روکا ۔۔۔۔۔۔

رک جائے ماہر جی۔۔۔۔ہوش میں آئیے۔۔۔۔۔دیکھیے مجھے

ماہر کے ٹھیک سامنے وہ بیٹھی تھی اور ۔ماہر اُسے غصے سے دیکھ رہا تھا عریشہ نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اُس کا چہرہ تھاما تھا

پلیز ماہر جی ایسا مت کیجئے خود کو تکلیف مت پہنچائیے آپ جانتے ہیں آپ کو چوٹ لگتی ہے تو مجھے بھی درد ہوتا ہے اور آپ ہی نے کہا  تھا نا کے آپ اپنی بیوی کو روتا نہیں دیکھ سکتے

وہ اُسے اتنے قریب سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی اور ماہر خالی خالی نظروں سے اُسے دیکھنے لگا جیسے اُس نے کچھ سنا ہی نہ ہو اُس کا سختی سے بھینچے لب دھیرے سے کھلے تھی اُس کا چہرے پر کوئی سختی نہیں تھی اُس نے دھیرے سے آنکھیں بند کی اور اُس کا سے عریشہ کے کندھے پر گر گیا

💜💜💜💜💜

کیا عریشہ اس سچویشن سے گھبرا کر ماہر کا علاج کرنے کا خیال چھوڑ دے گی ۔۔۔۔  کیا لگتا ہے

مجھے بات ڈر لگ رہا ہے ڈاکٹر اگر ماہر کو کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اگر یہ سب دوائی کے اثر سے ہو رہا ہے تو مجھے اُنھیں دوائی نہیں دینی۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن کا ٹھیک ہونا اُن کی زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہے میں اُن کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتی

وہ آج ڈاکٹر کو کال والے حادثے کے بارے میں بتانے آئی تھی اور کہتے ہوئے رو دی تھی

عریشہ ریلیکس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں ڈاکٹر آپ نہیں جانتے کیسی حالت ہو گئی تھی اُن کی ۔۔۔۔جیسے کوئی جنون سوار ہو گیا تھا اُن پر اللہ نا کرے ایسے میں اُنہوں نے خود کو کچھ کر لیا تو۔۔۔۔۔۔۔اُن کی زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے میرے لیے

اُس نے اپنے گال پر بہتے آنسو صاف کیے

خود کو سنبھالو عریشہ ۔۔۔تمہیں کمزور نہیں پڑنا ہے۔۔۔۔تم یہ سب اُس کو اچھی زندگی دینے کے لئے ہی تو کر رہی ہو نا مشکلیں تو آئینگی ہی پر تمہیں ہار نہیں ماننی چاہیے ڈر کے۔۔۔۔۔۔۔اُسے ہمیشہ کے خطرے سی بچانا ہے تو یہ خطرہ اٹھانا ہوگا تمہیں

ڈاکٹر نے پانی کا گلاس اُس کی طرف بڑھایا عریشہ نے ایک گھونٹ لے کر واپس رکھ دیا

ایک بار پھر میں تمہیں وہیں صلاح دونگا کے ماہر کو اسائلم بھیج دو اکثر ایسی سچویشن آنے پر فوری علاج کی ضرورت پڑتی ہے میں جانتا ہوں تمہارے لیے مشکل ہے لیکن ہمت کرنی ہوگی تمہیں کیوں کہ اُس کا دور جانا ہی بہتر ہے ورنہ اُسے ایسے دیکھ کر تم یوں ہی کمزور پڑتی رہوگی اور ایک دِن ہار مان لو گی اتنا آگے بڑھ کر پیچھے مڑنا بیوقوفی ہوگی عریشہ۔۔۔۔۔۔اور  یہ بھی سوچو اگر وہ لوگ ماہر کو ایسے دیکھے گے تو اُنھیں  بھی شک ہوگا

اُن کی باتوں کو سمجھتے ہوئے عریشہ گہری سوچ میں پڑ گئی اُسے ڈاکٹر کی بات صحیح لگی ویسے بھی وہ نفیسہ اور سکندر کو کچھ کہتے وقت ڈرتی تھی کے وہ ماہر کو کچھ کر نہ دیں اُسے محفوظ رکھنا تھا اور اُس کے لیے یہ بہتر آپشن تھا 

لیکن ڈاکٹر اگر کسی کو  پتہ چل گیا کے ماہر کا علاج چل رہا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کو پتہ نہیں چلےگا بس کچھ دن سب کو اس دھوکے میں رکھنا ہوگا کے ماہر کہیں چلا گیا ہے کھو گیا ہے اُن کا دھیان صرف ماہر کو ڈھونڈنے میں رہے گا اور بلکل فکر مت کرو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کے ماہر کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی اُس کا پورا خیال رکھا جائیگا حفاظت کی جائیگی میں خود یہ ذمےداری لیتا ہوں۔

اُنہونے یقین دلایا اور عریشہ کو بھروسہ تھا کیوں کہ ڈاکٹر نے اب تک اُس کی اتنی مدد کی تھی 

ٹھیک ہے ڈاکٹر اگر یہی صحیح ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے گہری سانس لے کے کہا

💜💜💜💜💜💜

وہ ماہر کو گھر سے شاپنگ کے بہانے لے آئی تھی لیکن جانے سے پہلے دادی کو سب بتا دیا تھا اور ماہر کو اُن سے ملایا تھا دادی کو عریشہ پر پورا بھروسہ تھا اُنہوں نے اُس کے اس فیصلے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا  وہ ماہر کو لیے شاپنگ مال آئی تھی اور وہاں سے اپنی گاڑی سے نکل کر ڈاکٹر کی گاڑی میں بیٹھ کر وہ دونوں ایک نئے راستے پر چل دیئے تھے یہ اس لیے کے ڈرائیور کو شک نا ہو 

بیوی ہم کہیں جا رہے ہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے شہر سے باہر جاتے راستے کو دیکھ کر پوچھا

ہم نہیں ماہر جی آپ جا رہے ہیں۔۔۔۔۔کچھ دن آپکو اُن انکل کے ساتھ رہنا ہے

اُس نے سامنے گاڑی چلاتے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

نہیں بیوی ماہر نہیں جائیگا تمہارے بنا ۔۔۔۔۔۔

میری بات سنئیے۔۔۔۔۔۔آپ کا جانا بہت ضروری ہے اسی لیے میں آپ کو بھیج رہی ہوں آپ ہی نہ کہا تھا کہ آپ بیوی کی ہر بات مانے گے ۔۔۔۔آپ کو بھروسہ ہے نہ مجھ پر 

اُس نے ماہر کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ماہر نے سے ہلا دیا لیکن چہرہ مایوس ہو گیا تھا

تو پھر بس کچھ مت پوچھیے میں جو کر رہی ہوں آپ کے لیے کر رہی ہوں ۔۔۔میرے لیے بہت مشکل ہے ماہر جی آپ کو خود سے دور بھیجنا لیکن آپ کے لیے میں یہ جدائی برداشت کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔آپ وہاں محفوظ رہے گے ہر خطرے سے ۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے ماہر کو سمجھاتے ہوئے کہا وہ چپ ہو کر اُسے دیکھنے لگا گاڑی سڑک کے ایک طرف رکی جہاں ڈاکٹر واحد کھڑے تھے ڈرائیور اُتر کر اُن کے پاس چلا گیا

اپنا خیال رکھیے گا ماہر جی اب آپ کے اندر صرف آپ کی ہی نہیں میری بھی جان بستی ہے

عریشہ اُس کے گلے لگ گئی اُس کا دل نہیں چاہا کے ماہر کو الگ کرے لیکن وہ مجبور تھی

ماہر کو جلدی بلوا لینا بیوی ۔۔۔۔۔  

وہ باہر نکلی تو ماہر نے کھڑکی سے سر نکالتے ہوئے کہا 

بہت جلد ہم ساتھ ہونگے ماہر جی اور  تب سب ٹھیک ہوگا

اُس کی گاڑی کو عریشہ نے نظروں سے بوجھل ہونے تک دیکھا

💜💜💜💜💜💜

اُس نے ڈاکٹر کے کہے کے مطابق گھر میں یہی بتایا کے ماہر کہیں چلا گیا ہے اُس کے گم ہونے کی کمپلیٹ بھی لکھائی تاکہ اُن لوگوں کو یقین ہو جائے نفیسہ اور سکندر اس خبر سے پریشان ہو گئے تھے لیکن سکندر نے اُسے یقین دلایا تھا کے وہ ماہر کو ڈھونڈھ لیگا ویسے بھی ابھی اُن کے پاس دو مہینے کا وقت تھا 

عریشہ اپنے کپڑے فولڈ کرکے الماری میں رکھ رہی تھی جب سکندر بنا دستک دیے اندر آیا اُسے دیکھ کر عریشہ نے دوبارہ رخ پھر لیا

میں جانتا ہوں تمہیں ماہر کے گم ہونے کا کوئی خاص افسوس نہیں ہے ۔۔۔۔ہو کر بھی وہ آخر  صرف نام کا شوہر تھا بیوی کا حق تو تمہیں کبھی ملا ہی نہیں  تو اُس کے گم ہونے سے کیا فرق پڑیگا تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر مسکراتے ہوئے الماری سے ٹیک لگائے اُسے دیکھنے لگا عریشہ وہاں سے ہٹ کر بیڈ پر رکھے کپڑے اٹھانے لگی

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تم میری قدر نہیں کرتی میں تمہیں اتنی اہمیت دیتا ہوں اور تم مجھے یوں نظر انداز کرتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر بھی چل کر اُس کے پیچھے آیا عریشہ دوسری الماری میں کپڑے رکھ رہی تھی

بس کرو عریشہ اب یہ دوری ختم کر دو

سکندر نے قریب آکر اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئی اُس کا رخ اپنی جانب کیا  اور پلٹنے کے ساتھ ہی عریشہ نے اُسے ایک زوردار تھپڑ سے نوازہ وہ گال پر ہاتھ رکھے اُسے حیرت سے دیکھنے لگا

خبردار جو آئندہ میرے ساتھ ایسی بیہودہ باتیں کرنے کی یا مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش بھی کی

عریشہ۔۔۔۔۔۔

سکندر نے غصے سے کہا

عریشہ نہیں عریشہ بھابھی بولو۔۔۔۔۔مت بھولو کے میں تمہارے بڑے بھائی کی بیوی ہو ۔۔۔اور بھابھی کا درجہ ماں کے برابر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔یا پھر تم اتنے بدتمیز ہو کے اپنی ماں سے بھی ایسی باتیں کرنے میں تمہیں شرم نہیں آتی

Just shut up

یو شٹ اپ ۔۔۔۔تم نے کیا سوچا کے میرے منہ میں زبان نہیں ہے یا میں تمہاری بدتمیزیاں اس لیے برداشت کر رہی ہوں کیوں کے میں تم سے ڈرتی ہوں۔۔۔۔۔۔یہ تمہاری غلط فہمی ہے میں صرف اس رشتے کا لحاظ کرکے چپ تھی ۔۔۔۔لیکن اگر تم نے اس رشتے کا مان نہیں رکھا تو میں بھی اپنی حد بھول جاؤنگی 

عریشہ نے انگلی اٹھا کر اُسے وارن کرتے ہوئے کہا سکندر نے پہلی بار اُس کا یہ روپ دیکھا تھا اس لیے وہ حیران تھا

دھمکی دے رہی ہو تم مجھے۔۔۔۔یو نو وہاٹ۔۔۔۔۔۔ایک منٹ صرف ایک منٹ لگے گا مجھے تمہیں اس گھر سے دھکے دے کر نکالنے کے لیے۔۔۔۔۔۔ 

ایک منٹ نہیں ایک دِن کا وقت دے رہی ہوں تمہیں اگر نکال سکتے ہو تو نکال کر دکھاؤ کیونکہ اب میرا اس گھر میں رہنا تمہارے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔۔۔۔۔

 Just wait۔۔۔۔۔۔۔

سکندر اُسے آنکھوں سے ڈرانے کی کوشش کرتا جانے کو پلٹا وہ اُس کے سامنے آئی

اور ہاں ۔۔۔۔۔۔ تمہیں بہت شوق ہے نہ بے چاری عورتوں کو سہارا دینے کا تو جا کر کسی بیوہ یا طلاق شدہ کا دامن کیوں نہیں تھام لیتے تمہاری آگ بھی بجھ جائیگی اور اسی بہانے ایک نیکی بھی کما لو گے۔۔۔۔لیکن میری طرف آگے سے بری نظر اٹھانے کی غلطی بھی مت کرنا سکندر

اس نے سکندر کو آخری جھٹکا دیا اور سکندر غصے سے سرخ آنکھیں لیے وہاں سے چلا گیا وہ نہیں جانتا تھا یہ عریشہ ماہر کی بیوی ہے جو ماہر کے جانے کے بعد اور مضبوط ہو گئی تھی کیوں میں اُسے ڈر نہیں تھا کے ماہر کو کوئی تکلیف پہنچا دیگا اس لیے سنبھال کے چلے اب وہ بے فکر نڈر عریشہ تھی جو اُن کے لیے مصیبت بننے والی تھی

آپ سچ میں کچھ دیکھنا نہیں چاہتی یا آپکو دکھائی ہی نہیں دیتا

نفیسہ دادی کے پاس آئی اور غصے بولی دادی صوفے پر بیٹھی تسبیح پڑ رہی تھی

کیا ہوا نفیسہ۔۔۔۔۔۔

اُنہوں نے دھیرے سے پوچھا

آپ کا پوتا جس میں آپ کی جان بستي تھی وہ لاپتہ ہے اور آپ اتنے سکون سے بیٹھی ہے کہیں وہ پیار چھو تو نہیں ہوگا

میں کیا کر سکتی ہوں نفیسہ اسے ڈھونڈھ تو رہے ہے ہم اور کیا کرے

اُس لڑکی کی وجہ سے آپ کا پوتا آپ سے دور چلا گیا۔۔۔منہوس ہے وہ ۔۔۔۔۔پتہ نہیں کہاں چھوڑ آئی اُسے۔۔۔۔اوپر سے ہم سے ایسے بات کرتی ہے جیسے کہیں کی مہارانی ہو ۔۔۔۔۔  میں پوچھتی ہوں وہ لڑکی اب تک اس گھر میں ہے کیوں۔۔۔۔نکال کیوں نہیں دیتی آپ اُسے یہاں سے

تم جانتی ہو مجھ میں کسی سے لڑنے الجھنے کی طاقت نہیں ہے میں کیا کر سکتی ہوں

دادی جانتی تھی عریشہ جو کر رہی ہے صحیح کر رہی ہے لیکن اس وقت وہ اُس کا ساتھ دے کر اُن لوگوں کے دل میں شک نہیں ڈال سکتی تھی 

آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اب جو کرونگی میں کرونگی آپ بیچ میں مت آئیے گا بس۔

۔

نفیسہ عریشہ کے کمرے کے پاس آئی سکندر بھی اس بر اُس کے ساتھ آیا

عریشہ ۔۔۔۔۔۔باہر نکلو۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا امی جی

عریشہ نے باہر آکر اُنھیں دیکھا سکندر کا چہرہ دیکھ کر وہ سمجھ گئی وہ اپنا کہا پورا کرنے آیا ہی

۔۔۔۔۔کتنی بھولی بنتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ تم نے کیا سوچا تم میرے بیٹے کو دھمکی دو گی اور میں چپ کر کے سنتی رہوں گی۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنے راب میں رکھنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو عریشہ بی بی ۔۔۔۔۔۔

اپنا سامان اٹھاو اور نکلو اس گھر سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے ہاں یاد آیا تم تو کچھ لائی ہی نہیں تھی اپنے ساتھ سوائے اس گز بھر لمبی زبان کے ۔۔۔۔۔بہت چلا لیا اسے اب دفع ہو جاؤ ہماری زندگی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ بیگم غصے سے بولیاور سکندر اُسے دیکھ کر طنزیہ ہنسا

یہ آپ کیا کہہ رہی ہے امی جی۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس گھر سے کیسے جا سکتی ہوں یہ گھر میرا ہے کوئی اپنے گھر سے جاتا ہے کیا

اپنی یہ نوٹنکی بند کرو تمہارے ڈرامے ہم پر کام نہیں کرنے والے سمجھیں۔۔۔۔۔

سکندر نے سختی سے کہا

میں ڈراما نہیں کر رہی ہوں ۔۔۔۔صاف لفظوں میں کہوں تو آپ لوگ مجھے اس گھر سے نہیں نکال سکتے کیوں کے یہ گھر میرا ہے

اُس کی بات پر نفیسہ نے اُسے آنکھیں سکیڑ کر دیکھا

وہ کیا ہے نہ ساسو ماں آپ بہت بھولی ہے لیکن کوئی بات نہیں میں ہوں نا میں آپ کو سمجھاتی ہوں

عریشہ نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے کہا

 بات یہ ہے کہ میرے مرحوم سسر جی نے اپنی تمام جائداد کا وارث میرے شوہر ماہر احمد کو بنایا ہے وہ اکیلے اس سب کے مالک ہے اور اُن کی بیوی ہونے کے ناطے اُن کی پراپرٹی میں برابر کا حق مجھے قانون بھی دیتا ہے اور سماج بھی

لیکن اب تک یہ پراپرٹی ماہر کے نام ہوئی نہیں ہے اس لیے نا وہ مالک بنا ہے نہ تم حقدار۔۔۔۔۔۔

سکندر نے بیچ میں ٹوکا

بلکل صحیح کہہ رہے ہیں آپ دیور جی۔۔۔۔   لیکن کیا ہے نہ پاور آف اٹارنی بھی ماہر جی کے ہی نام ہے

پاور آف اٹارنی کا مطلب سمجھتی ہے ساسو ماں۔۔۔۔۔کوئی نہیں میں بتاتی ہوں۔ ۔۔۔

پاور آف اٹارنی مطلب اس تمام جائیداد۔۔۔گھر۔۔۔کمپنی۔۔۔۔اور پورے کاروبار کی باگ ڈور ماہر  جی کے ہاتھ میں سونپی گئی ہے اس پراپرٹی سے جڑا ہر فیصلہ صرف ماہر جی لے سکتے ہیں اور اس ملک کے قانون کے مطابق جب شوہر بیمار ہو  ۔۔۔۔باہر گیا ہو۔۔۔۔۔يا لاپتہ ہو تو اُس کے سارے حقوق خود بخود اُس کی بیوی کو مل جاتے ہیں اس لیے میں اس گھر کی مالک ہوں آپ لوگ نہیں اور کبھی دیکھا ہے آپ نے کے کسی نے مالک کو ہی گھر سے باہر نکال دیا ہو

مت بھولو کے اگر تم ماہر کی بیوی ہو تو میں اُس کی ماں ہوں ۔۔۔۔۔۔

نفیسہ اندر سے گھبرا تو گئی تھی پر باہر اب بھی مضبوط کھڑی تھی

آپ کو تو آپ کے مرحوم شوہر بھول گئے ساسو ماں تو میں یاد رکھ کے کیا کروں۔۔۔۔سچ سچ بتائیے ایسا کیا کیا تھا آپ نے جو اُنہوں نے وصیت میں ایک پھوٹی کوڑی بھی آپ کے نام نہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ تو شاید ہی کوئی انسان ہو جو اپنے دو بیٹے ایک بیٹی اور بیوی میں ساری جائیداد صرف ایک بیٹے کے ہی نام کر دے یہ نا انصافی کیوں کی انہوں نے لگتا ہے آپ اچھی بیوی نہیں تھی  

وہ جانتا تھا صرف ماہر ہی ہے جسے دولت سے زیادہ رشتوں کی قدر ہے۔۔۔۔۔۔۔وہیں ہے جو آگے تک سب کو لے کر چل سکتا ہے۔۔۔۔۔دولت انسان کو جانور بنا دیتی ہے شاید اُسے احساس تھا کے اگر یہ دولت غلط ہاتھوں میں پر گئی تو یہ گھر بھی بکھرے گا اور رشتے بھی

دادی نے عریشہ کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا اُنھیں بہت افسوس تھا کے دولت کی خاطر کیسے اُن کے اپنے رنگ بدل رہے تھے

میں آپ کے بھلے کے لیے ایک صلاح دیتی ہوں مجھے اس گھر سے نکالنے کا خیال اپنے دماغ سے نکال دیجیۓ اس گھر میں کون رہیگا کون نہیں رہیگا بلکہ یہ گھر بھی رہیگا یا نہیں یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف مجھے ہے کہیں ایسا نہ ہو مجھے گھر سے نکالنے کے چکر میں آپ لوگو کو ہی بے گھر ہونا پڑے

اس بار عریشہ نے سنجیدگی سے کہا

دھمکی دے رہی ہو تم ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مان لو نکال دیا تمہیں اس گھر سے ۔۔۔۔۔کر کیا لوگی تم

سکندر نے غصے سے کہا

یہ بھی بتانا پڑیگا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں سیدھے پولیس اسٹیشن جاؤنگی۔۔۔۔۔اور وہاں جا کر دو شکایتیں درج کر واونگی پہلی پراپرٹی پر قبضے کے ۔۔۔۔اور یقین مانیے کے مجھے نا کسی ثبوت کی ضرورت پڑےگی نا کاغذ کی ۔۔۔۔۔۔کیوں کے سارا شہر جانتا ہے جمال احمد اور ان کی وصیت کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔

دوسری شکایت ڈومیسٹک وائلینس یعنی گھریلو ہنسا کا

میں اپنے ناخنوں سے چہرے اور ہاتھوں پر کچھ نشان بنا لونگی اور وہاں جا کر روتے ہوئے بولونگی 

انسپکٹر صاحب میری ساس اور نند نے مجھے مار مار کر گھر سے نکال دیا

اُس کے بعد میں واپس گھر کے اندر اور آپ جیل کے اندر

تو بتائیے ساسو ماں کہاں رہنا پسند کریگی آپ

عریشہ نے اُن دونوں کو غصّہ دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی سکندر اُس کی جانب غصے سے بڑا لیکن نفیسہ نے اُسے روک لیا

سکندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُنہوں نے ایک نفرت بھری نظر عریشہ پر دلی اور سکندر کو لیے چلی گئی

میں جانتی ہوں دادی آپ کو میرا یہ برتاؤ برا لگتا ہوگا آخر ہے تو وہ آپ کے اپنے ہی لیکن میں کیا کروں میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے ورنہ یہ لوگ ہمیں ہمیشہ ڈراتے رہے گی ۔۔۔۔۔۔

عریشہ۔۔۔۔۔تم جو کر رہی ہو صحیح کررہی ہو  ۔۔۔۔۔اور میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا وہ مسکراتے ہوئے اُن کے گلے لگ گئی

ماہر جی کے واپس آنے تک کی بات ہے دادی اُس کے بعد سب ٹھیک ہوجائےگا

💜💜💜💜💜💜💜

مام آپ نے مجھے کیوں روکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اب ایک پل بھی اُسے برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔میری سوچ سے کہیں زیادہ شاطر نکلی وہ

ٹھنڈے دماغ سے کام لو سکندر۔۔۔۔غصے میں کوئی ایسا قدم مت اٹھا لینا جس سے ہماری سالوں کی محنت بیکار ہو جائے

نفیسہ نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

مام آپ کیوں اُس کی دھمکیوں سے ڈر رہی ہے۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں کر پائیگی وہ۔۔۔۔۔۔ ۔  

پھر بھی میں اس وقت کوئی نئی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتی یہ سچ ہے کے پاور آف اٹارنی ہے اُس کے پاس دو مہینے ہونے کے پہلے اگر اُس نے ہمیں یہاں سے نکال دیا یا کچھ غلط فیصلہ کر لیا تو ہم کچھ نہیں کر پائے گے اور اگر ایک بار ہمارے خلاف پولیس کیس بن گیا تو آگے اگر کچھ بھی غلط ہوا پہلا الزام ہم پر ہی آئے گا

نفیسہ بہت دور کی سوچ کے بیٹھی تھی۔

ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے پھر اور برداشت کرتے رہے اُسے۔۔۔سکندر نے غصے سے کہا

ماہر کو ڈھونڈھو ماہر کے ملنے تک اُسے برداشت کرنا ہوگا  مجھے تو شک ہو رہا ہے کے ماہر کو اُس نے ہی کہیں چھپا دیا ہے اتنی چالاک نکلی یہ لڑکی ۔۔۔۔ضرور اس نے ماہر کی دولت کے لیے ہی اُس سے شادی کی ہے

 ماہر کے دستخط ہی یہ جائداد ہمیں دلا سکتے ہے اُس کے بعد اُس لڑکی کو بھی پتہ چل جائیگا کے بیوی کا کوئی حق نہیں رہ جاتا جب شوہر خود ہے وہ سب کسی اور کے نام کر دیں

نفیسہ نے سوچتے ہوئے کہا سکندر اُس کی بات سمجھتے ہوئے رک تو گیا لیکن اُسے عریشہ پر غصّہ بہت آرہا تھا

💜💜💜💜💜💜

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔

وہ لوگ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھی اپنے منیجر کو دیکھ کر سکندر نے پوچھا

جی مجھے میڈم نے بلایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منیجر نے عریشہ کی جانب اشارہ کیا نفیسہ بیگم عالیہ سب نے اُسے دیکھا

بیٹھے منیجر صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُن سب کو نظر انداز کرکے کہا تو وہ بیٹھ گیا 

آپ سے کام کے متعلق کچھ باتیں ڈسکس کرنی تھی ماہر جی ہے نہیں تو کوئی کاروبار سنبھالنے والا بھی نہیں ہے اس لیے کیا ہو رہا ہے کتنا نقصان ہو رہا ہے کوئی نہیں جانتا ہے 

لیکن میڈم سکندر سر تو سب دیکھتے ہے اور اُنھیں پتہ ہے میری وفا داری کے بارے میں سالوں سے میں ہی اس کاروبار کا دھیان رکھ رہا ہوں

اُس نے عریشہ کی بات ختم ہوتے ہی کہا عریشہ نے سکندر کی جانب دیکھا اُس کی ایمانداری وہ اچھے سے جانتی تھی

آپ جانتے ہیں اس کمپنی کے مالک کون ہے 

جی ہاں ماہر سر ہی اؤنر ہے۔۔۔۔۔

تو آپ کی وفاداری کس کی طرف ہونی چاہیے ماہر کی یا سکندر کی ۔۔۔

اُس کی بات اور سکندر نے اُسے ناگواری سے دیکھا اور نفیسہ نے حیرت سے

ماہر سر کی

منیجر دھیرے سے بولا تھا تو وہ سکندر کا غلام لیکن اس وت عریشہ اُس کے اوپر تھی

تو اس وفاداری کو نبھاتے ہوئے آپ پوری ایمانداری سے اپنا کام کرینگے ایک پیسہ بھی بنا مقصد کسی کو نہیں دیا جائیگا ہر چیز کا حساب چاہیے مجھے ۔۔۔۔آج سے ہماری کمپنی کے اکاؤنٹ مسٹر انور چیک کرے گے میں نے اُنھیں آپ پر نظر رکھنے مطلب آپ کا ساتھ دینے کے لیے رکھا ہوا ہے اگر مجھے آپ کے خلاف ایک بھی شکایت ملی تو آپ کی چھٹی تو ہوگی ہی ساتھ میں حوالات کی ہوا بھی کھانی پڑےگی 

اُس نے اپنی ایک سہیلی کے شوہر انور کو نوکری دی تھی گھر کے تمام حالات بتاتے ہے اُس نے اُنھیں خاص تنبیہہ کی تھی کے وہ دھیان رکھے اُن کی کمپنی میں جو نقصان ہو رہا ہے اُس کا پتہ کرے 

وہ کیا ہے نہ منیجر صاحب میں اس لیے یہ سب آپ کو سونپ رہی ہوں کیوں کے سکندر آج سے آفس نہیں آئیگا اس لیے سب آپ کو ہی سنبھالنا ہے سمجھ رہے ہیں نہ آپ۔۔۔۔۔۔

اُس نے رک کے کہا سکندر اور نفیسہ نے حیرت سے اُسے دیکھا

جی میڈم۔۔۔۔۔۔

آپ جا سکتے ہیں

عریشہ نے کہا تو وہ اٹھ گیا لیکن سکندر اور نفیسہ کی نظریں اب بھی اُس اور تھی

یہ کیا نیا تماشا ہے اب میرے آفس جانے سے کیا پروبلم ہے تمہیں

سکندر نے اُس کی خاموشی پر خود ہی پوچھ لیا

تمہارے آفس جانے سے مجھے کوئی پروبلم نہیں ہے

وہ کیا ہے نہ میں نہیں چاہتی تم اتنی سی عمر میں 

ان زمیداریوں کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھاو تمہیں اپنی پڑھائی پر دھیان دینا چاہیے ورنہ جب ماہر جی آکر مجھ سے پوچھے گے تو میں کیا جواب دونگی اُنھیں کے میں نے اُن کے پیچھے سے اُن کے بھائی کا دھیان نہیں رکھا۔۔۔۔۔یہ نہیں ہوگا مجھ سے سکندر ہے نا امی جی۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے اپنی بات ختم کرکے نفیسہ کو دیکھا

شرم نہیں آتی تجھے منہ کھولے سکندر سکندر بولی جا رہی ہے رشتے کا خیال کر کے بھائی بھیّا ہی لگا لیتی کم سے کم

نفیسہ نے اُسے شرم دلائی اس بات پر عریشہ کھل کر ہنسی اور سکندر کو دیکھا

میں تو انہیں سکندر بھائی ہی کہنا چاہتی تھی امی جی لیکن کیا ہے نا کچھ لوگو کو عزت راس نہیں آتی انھونے نے ہے مجھے بولا کے مجھے سکندر بولا کرو سکندر بولا کرو۔۔۔اب اگر کوئی اتنی ضد کرے کے تو انسان کیا کرسکتا ہے ہے نا سکندر۔۔۔۔

اُس نے سکندر کی بارہ بجتی ہوئی شکل دیکھی تو ہنسی روک نہیں پائی وہ چمچ پلیٹ میں پٹخ کر اٹھ گیا

تین مہینے بعد۔۔۔۔۔۔

ماہر کو گئے ہوئے تین مہینے ہو چکے تھے گھر کے حالات اب بھی اُسے طرح تھے عریشہ سکندر اور نفیسہ کو اُسے طرح ہینڈل کیے ہوئی تھی اور وہ لوگ ماہر کے انتظار میں اُسے برداشت کرتے آرہے تھے ماہر کو ڈھونڈنے میں سکندر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن پھر بھی وہ اُسے نہیں ڈھونڈھ پایا تھا نفیسہ کو شک تھا کے عریشہ جانتی ہوگی ماہر کہاں ہے لیکن نفیسہ نے اُس پر کافی دن نظر رکھی نا وہ کہیں باہر جاتی تھی نا کسی سے فون پر بات کرتی تھی جب کچھ پتہ نہیں چلا تو وہ خاموش رہ گئی

وہ بالکونی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی نظریں تو آسمان پر تھی پر دھیان دور کہیں ماہر کے خیالوں میں تھا ماہر کے جانے کے بعد سے با تک ایک دفعہ بھی اُس نے ماہر سے بات نہیں کی تھی اُس کا حال احوال ڈاکٹر ماہر سے ہی معلوم کرتی رہی

عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے اُسے پکارا تو وہ روم کے اندر آئی رائنا کل ہی آئی تھی

جی آپی۔۔۔۔۔۔

پھر سے ماہر کو یاد کر رہی ہو۔۔۔تم ایک بار اُسے فون کرکے بات کیوں نہیں کر لیتی 

رائنا نے اُسے اُداس دیکھا تو بولی

نہیں آپی  ۔۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ ابھی اور کتنے دِن اُنھیں وہاں رہنا ہوگا میں نہیں چاہتی کے میں اُن سے بات کروں اور پھر وہ ہم سب کو یاد کرکے اُداس ہوتے رہے مجھے پتہ ہے بہت مشکل سے دل لگا ہوگا اُن کا وہاں ۔۔ بہت یاد بھی کرتے ہوگے شروع میں لیکن اب تو عادت ہو گئی ہو گی نہ بس کچھ دن اور پھر وہ ٹھیک ہو جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے میں تب تک تو انتظار کر ہی سکتی ہوں

وہ اپنی دھونے بولی گئی بنا یے جانے کے کوئی تیسرا بھی اُن کی باتیں سن رہا ہے اور وہ تھی نفیسہ۔

مجھے تو پہلے سے ہی شک تھا کے تونے ہی ماہر کو کہیں چھپایا ہے۔۔ بتا کہا ہے وہ

نفیسہ کو دیکھ کر عریشہ گھبرا گئی تھی اور رائنا بھی اُسے سوجھا ہی نہیں کے وہ کیا جواب دے

امی جی میں۔۔۔۔۔

کوئی بہانے مت بنانا نا اب کوئی دھمکی کام آنے والی جو کر سکتی ہو کر لو ۔۔۔اب میں تمہیں نہیں چھوڑنے والی

نفیسہ نے اُسکی بات کاٹ کر چینختے ہوئے کہا

مامی جی۔۔۔۔۔۔۔۔

رک ۔۔۔۔۔۔خبردار جو ہمارے بیچ میں کچھ بولی

چل یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے اُنھیں روکنا چاہا تو وہ اُسے دھمکاتی عریشہ کا بازو پکڑے اُسے کھینچنے لگی

کیا ہو رہا ہے مام۔۔۔۔۔۔۔ 

عالیہ نیچے ہی تھی زیان اور دادی بھی

نفیسہ یہ تم کیا کر رہی ہو

دادی نے حیرت سے پوچھا

آپ بھی چپ ہی رہے تو بہتر ہے۔۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ بھی اس لڑکی کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔۔۔۔ دونوں نے مل کر ماہر کو کہیں بھیج دیا ہے بتا کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔ 

نفیسہ نے دادی کو غصے سے جواب دیا اور عریشہ کو سختی سے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا

چھوڑو اُسے نفیسہ۔۔۔۔۔

آپ بیچ میں مت آئیے۔۔۔۔  اس لڑکی نے ہمارا جینا حرام کر دیا ہے ۔۔۔۔اتنے دن سے ہمیں پریشان کرتی رہی ہمیں بیوقوف بناتی رہی ۔۔۔۔تین مہینے سے ہم ماہر کو ڈھونڈھ رہے ہیں پتہ نہیں اس نے کہاں چھپایا ہے اُسے

نفیسہ بیگم غصے سے بولی آواز پر سکندر اپنے کمرے سے باہر آیا اور وہیں سے سب دیکھنے لگا

بس نفیسہ بہت ہوگیا ۔۔۔ماہر کی سگی بننا بند کرو۔۔۔۔تم اسے اسلئے نہیں ڈھونڈھ رہی کیوں کے تمہیں اُس کی بہت فکر ہے یا بہت پیار ہے ۔۔۔۔بلکہ تم لوگو کو تو اس بات کی فکر ہے کے اگر وہ نہیں ملا تو تمہارے کاغذات پر دستخط کون کریگا۔۔۔۔دولت کے لیے اتنا گر گئے تم لوگ کے انسانیت کو ہی مار دیا

ہاں ہم لوگ برے ہے چاہیے ہمیں اُس کی دولت۔۔۔ کیا ہمارا کوئی حق نہیں تھا جو اکیلے اُسے وارث بنا دیا آپ کے بیٹے نے۔۔۔۔ ہمیں جو ہمارا حق نہیں دیا گیا ہم اُس کے لیے لڑ رہے ہیں تو اُس میں غلط کیا ہے میرے بچوں کا بھی اس پر حق ہے اور اُنھیں یہ حق ملےگا

نفیسہ نے دادی کی بات کاٹ کر جواب دیا عالیہ خاموشی سے اُن کی باتیں سن رہی تھی اور زیان گھبرا کر رائنا نے لگ کر کھڑا تھا

بتا کہاں ہے ماہر۔۔۔۔۔۔۔

رک جاؤ نفیسہ۔۔۔۔۔۔

نفیسہ دوبارہ عریشہ کی بڑھ رہی تھی دادی نے اُنھیں روکنا چاہا تو اُنہونے دادی کو زور سے دھکا دیا دادی زمین اور گر گئی تھی

دادی۔۔۔۔۔۔

رائنا اور عریشہ دونوں رک ساتھ گھبرا کر آگے بڑھی تھی لیکن اُس کے پہلے ہی کسی نے اندر آتے ہوئے دادی کو زمین سے اٹھایا تھا وہ ماہر تھا

ماہر۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر کو۔دیکھ کر دادی نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے اُسے دیکھا ماہر سنجیدگی سے اُنھیں دیکھ رہا تھا اور اُس کی آنکھیں دھندلی ہو گئی تھی نفیسہ اُسے دیکھ کر گھبرا گئی تھی پھیر خود کو سنبھالتی ہوئی اُس کی جانب بڑھی

ماہر بیٹا تم آگئے۔۔۔۔۔کہاں چلے گئے تھے تم کتنا ڈھونڈا ہم نے تمہیں۔۔۔۔کہاں کہاں نہیں ڈھونڈھ ایسا کوئی دِن نہیں جب تمہارے ملنے کی دعا نا کی ہو میں نے۔۔کہاں چلے گئے تھے تم

نفیسہ نے اُس کے دونوں بازؤں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا دادی بھی اب کی بے شرمی پر حیرت سے اُنھیں دیکھ رہی تھی رائنا تو ماہر کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی لیکن عریشہ کی آنکھیں اُس کے اوپر آکر پتھر ہو گئی تھی بلیک جینس اور اسکی بلیو شرٹ میں آج وہ کوئی اور ہی ماہر لگ رہا تھا بلکل اُس تصویر جیسا

مام پلیز بس کیجئے ۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اُن کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا 

اب آپکو کوئی جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے میں سب جانتا ہوں 

ماہر نے دھیرے سے کہا اُس کی آنکھیں سرخ تھی اور پلکیں نم

ماہر بیٹا۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یقین نہیں ہوتا کے آپ نے صرف دولت کے لیے یہ سب کیا ۔۔۔۔آپ ایک بار مجھے کہہ کے تو دیکھتی میں کبھی انکار نہیں کرتا مام۔۔۔۔۔

اتنے دن تک آپ پریشان ہوتی رہی بے سکون ہوتی رہی ایک بار تو کہا ہوتا کے ماہر یہ سب کچھ مجھے چاہیے میرے نام کر دے۔۔۔۔۔اپنے آپ کو بھی آپ کے حوالے کے دیتا مام

ماہر نہیں روک پایا خود کو رونے سے اُس کا دل پچھلے ہر دِن رویا تھا جب سے وہ ہوش میں آیا تھا اور آج آنکھوں بھی رو دی تھی اُس نے ہمیشہ صرف پیار چاہا تھا اور اُسے صرف دھوکہ ملا

سکندر اور عالیہ مجھ سے الگ نہیں تھے کبھی بھی جب میں خود آپ سب کا ہوں تو یہ دولت میری کیسے ہوئی مام۔۔۔۔یہ دولت میرے لیے کبھی بھی کچھ نہیں تھی میرے لیے تو ہمیشہ سے آپ لوگ ہی میری دولت تھے آپ کے پیار اور ساتھ کے سوا اور کچھ نہیں چاہا میں نے کبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر بھی نیچے آیا تھا اور نفیسہ بیگم کے پاس کھڑا تھا نفیسہ بیگم سن ہو کر اُس کی باتیں سن رہی تھی عریشہ دادی اور رائنا کے ساتھ عالیہ بھی اُس کی باتوں پر اپنے انسوں نہیں روک پائی ماہر نے اپنی پچھلی جیب سے کچھ کاغذات نکالے تھے شاید وہ سب سوچ کر آیا تھا

یہ لیجئے مام میں نے ان کاغذات پر دستخط کرکے یہ سب آپ کے نام کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔بس ایک ریکویسٹ ہے آپ سے ۔۔۔۔۔۔مجھے اس گھر میں رہنے دیجئے میں اس گھر کو نہیں چھوڑ سکتا اس گھر میں بہت ساری خوبصورت یادیں ہے امی کی پاپا کی عالیہ سکندر اور میرے بچپن کی آپ کی ۔۔۔۔۔۔میں بہت جلد اس گھر کی قیمت ادا کردونگا ۔۔۔ 

اُس نے کاغذات اُن کی جانب بڑھائے جسے سکندر نے فوراً تھام لیا

آپ لوگ سکون سے اپنی زندگی  گزار سکتے ہے کبھی آپ لوگو کو پریشان نہیں کرونگا بس ہمیشہ آپ کی خوشیوں کی دعا کرونگا

وہ نفیسہ بیگم کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جو اُن کی جانب دیکھنے سے گریز کر رہی تھی

بس ماہر۔۔۔۔۔یہ لوگ اس لائق نہیں ہے۔۔۔۔یہ تمہارے پیار تمہاری اچھائی کے لائق نہیں ہے ۔۔۔۔ان لوگوں نے تمہاری جان لینے کی کوشش کی ۔۔۔۔انہیں سزا میلنی ہی چاہیے۔ ۔۔۔

رائنا نے آگے بڑھ کر اُن دونوں پر ایک نفرت بھری نظر ڈالتے ہوئے کہا

نہیں آپی۔۔۔۔۔۔ جو بھی ہو ہے تو یہ میرے اپنے ہی  ۔۔۔۔اور اپنی کو سزا دینا خود کو سزا دینے سے کم نہیں ہوتا

اور پھر کیوں ۔۔۔۔۔۔اس دولت کے لیے ۔۔۔۔۔میری دولت تو آپ لوگ ہے میری فیملی ہی میرے لیے سب کچھ ہے ۔۔۔۔۔۔مجھے آپ لوگوں کے پیار اور ساتھ کے سوا اور کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔۔

اُس کا یہ روپ دیکھ کر عریشہ کے دل میں اُس کی جگہ اور گہری ہو گئی تھی اب تک تو صرف اُس نے ماہر کے چہرے کی خوبصورتی دیکھی تھی آج اُس کا صاف دل دیکھ کر عریشہ کی محبت میں اضافہ ہو گیا تھا

آپ اپنے دل میں کوئی گلٹ مت رکھیے گا مام۔۔مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔۔۔۔۔میں آپ کے لیے کچھ بھی کروں وہ کم ہی ہوگا

اُس نے دوبارہ نفیسہ کی جانب رخ کیا تھا

میں نے اپنی ماں کو کبھی نہیں دیکھا جب دیکھا تو آپ کو ہی ما ں کے روپ میں دیکھا میں بھلے ہی آپ کا بیٹا نہیں لیکن آپ ہی میری ماں ہے۔۔۔۔۔۔اور ماں کی محبت کا قرض تو کبھی ادا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔

پہلی۔دفعہ نفیسہ نے اسکا چہرہ دیکھا اور اُسے شاید شرم محسوس ہوئی

دیکھا نفیسہ۔۔۔۔۔۔یہ اُس محبت کی بات کر رہا ہے جو تم نے اسے کبھی نہیں دی ۔۔۔۔۔۔۔۔مبارک ہو نفیسہ ہیرے کو پیروں تلے روند کر تم نے اپنے لیے مٹی کا ڈھیر چن لیا اب چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔میرے بچے کو اب سکون سے رہنے دو ۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُس کے آپس آتے ہوئے کہا سکندر نفیسہ کا ہاتھ پکڑے اُسے بہت لے گیا اور علیہ بھی اُن کے پیچھے چل دی لیکن وہ باہر نکلنے تک ماہر کو دیکھتی رہی اور ماہر اُسے

دادی۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر دادی کی جانب پلٹ کر اُن کے گلے لگا اور پہلی دفعہ مسکرایا تھا اُس کی مسکراہٹ بھی بلکل اُسے جیسی تھی خوبصورت دادی نے اُس کے ماتھے پر پیار کیا وہ رائنا کے پاس آکر اُس کے گلے لگا

آپی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر تمہیں پتہ نہیں تمہیں دیکھ کر آج ہم سب کو کتنی خوشی ہو رہی ہے

رائنا نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا

چھوٹے نواب۔۔۔۔۔۔ کیسے ہو ۔۔۔۔۔

ماہر زیان کو دیکھ کر جھکا اور اُس کے گال پر باری باری پیار کیا عریشہ اُس کی ہر حرکت کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی

We missed you mamu

زیان نے ماہر کے گال پر کس کرتے ہوئے کہا

I miss you to chote nawaab۔۔۔۔

ماہر نے اُس کے گال۔کھینچے  اُسی وقت اُس کی نظر عریشہ پر پڑی اور اُس سے نظریں ملنے پر عریشہ نے سانس روکی جب کے ماہر کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی اُس نے دادی کی جانب دیکھا

دادی یہ کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اُس کے الفاظ وہاں کھڑے ہر کسی کو حیران کر گیۓ عریشہ اب بھی اُسے طرح کھڑی تھی

کیا مذاق کر رہے ہو ماہر ۔۔۔۔لگتا ہے کوئی اچھی شرارت سوچ کر آئے ہو

رائنا کو لگا وہ مذاق کر رہا ہے ماہر نے دوبارہ عریشہ کو دیکھا

آپی بتائیے نا کون ہے یہ۔۔۔۔۔سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔۔۔

پہلی بار عریشہ کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی 

یہ تم کیا کہہ رہے ہو ماہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُس کے پاس آکر حیرت سے پوچھا

کیا ہوا دادی۔۔۔۔۔

دادی کے تصورات دیکھ کر وہ پریشان ہوا تھا

ماہر تم عریشہ کو نہیں پہچانتے یہ تمہاری بیوی ہے۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُس کے سوال کا جواب دیا تھا اور ماہر نے حیرت سے عریشہ کو دیکھا عریشہ اُسے دیکھتے ہوئے پیچھے چار قدم چلتی پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی جب کے ماہر اُسے آخر تک دیکھتا رہا عریشہ کی زندگی کی اصلی جنگ تو اب شروع ہوئی تھی

💜💜💜💜💜💜💜

کیا سوچ رہے ہو سکندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لوگ فلیٹ میں آئے تھے جو اب ساری پراپرٹی کے ساتھ اُنھیں مل چکا تھا سکندر آنے کے بعد سے ہی کسی گہری سوچ میں گم تھا اور عالیہ رونے میں مصروف تھی  سامنے پیپر پڑے تھی اور اُس کی نظریں پیپر پر تھی اور دھیان ماہر کی باتوں پر

میں سوچ رہا ہوں کے ایسا کیا کروں جو اُس عریشہ کو سبق سکھا سکوں 

اُس نے نفیسہ کی جانب دیکھ کر کہا

بس اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں جو چاہیے تھا ہمیں مل گیا اب ہمیں اُن سب سے کوئی مطلب نہیں

نفیسہ نے سر جھٹکتے ہوئے کہا شاید ماہر کی باتوں نے اُسے شرمندہ کردیا تھا

نہیں مام اُس لڑکی نے جو کیا اُس کا بدلہ تو میں لے کر رہونگا اُس نے مجھے چیلنج کیا تھا اگر میں نے اب بھی اُسے جواب نہیں دیا تو یہ میری ہار ہوگی اب تک اُسے اس لیے برداشت کیا کیوں کہ پہلے پراپرٹی اپنے نام کرنی تھی اب اُسے اُس کی اوقات بتانی ہے ماہر کے نام پر اُس نے بہت نچایا ہمیں مجھے۔۔۔۔۔۔ سکندر احمد کو  اُس نے چونوتی دی تھی وقت آگیا ہے اب اُسے راستے لگانے کا ماہر میں اُس کی جان بستی ہے نا تو اب اُسے بے جان کر دونگا میں

کیا کرنے کی سوچ رہے ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ نے اُسے حیرت سے دیکھا

میں ماہر کو مار دونگا

اُس نے دھیرے سے جواب دیا اور نفیسہ کے ساتھ علیہ نے بھی اُسے حیرت سے دیکھا

دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا ۔۔۔۔پاگل ہو گئے ہو تم ۔۔۔تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ہم جو چاہتے تھے وہ مل گیا اب بھول جاؤ عریشہ کو بھول جاؤ پچھلی باتیں

نفیسہ نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا

۔نہیں بھول سکتا اُس نے میری جو بے عزتی کی کبھی نہیں بھول سکتا میں۔۔۔۔۔۔۔جب تک میں اُسے جواب نہیں دونگا مجھے چین نہیں آئیگا۔۔۔۔ماہر کی بیوی ہونے پر بہت گھمنڈ ہے اُسے ماہر نہیں رہیگا تب پتہ چلے گا اُسے سکندر کیا چیز ہے 

سکندر تم ایسا نہیں کروگے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہہ دیا

آپ کے کہنے پر ہی اُسے زندہ رکھا تھا اب اُس کی ضرورت نہیں ہے آپ کو تو کیوں میرے بیچ میں آرہی ہے 

سکندر نے سختی سے جواب دیا

مام۔۔۔۔۔۔۔

ابھی نفیسہ کچھ کہتی اُس کے پہلے عالیہ نے پکارا

تو دونوں اُس کی جانب متوجہ ہوئے

آپ جانتی ہے ماہر بھائی نے یہ کاغذات کب بنائے تھے 

اُس نے کاغذات ہاتھ۔میں لیتے ہوئے کہا

دو سال پہلے اُسی دِن جب انکا اکسیڈنٹ کروایا تھا آپ لوگو نے یہ سوچ کر کے ماہر بھائی سب جاننے کے بعد آپ لوگو کے خلاف ہو جائینگے آپ کو گھر سے نکال دینگے ۔۔۔۔۔لیکن ماہر بھائ۔۔۔۔۔۔۔ اُسی دِن اپنا سب کچھ ہمیں دینے کا فیصلہ کر چکے تھے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے سمجھ نہیں آرہا کے میں نے آپ دونوں کا ساتھ کیوں دیا ماہر بھائی کا ساتھ کیوں نہیں دیا ۔۔۔۔کاش کے میں اُن کی سگی بہن ہوتی تو شاید اُن کی طرح ہی ہوتی ۔۔۔۔۔۔میں نے اُن کو اتنا برا بھلا کہا اُن کا مذاق بنایا ۔۔۔۔۔۔کتنا پیار کرتے تھے وہ ہم سب کو کتنا خیال رکھتے تھے ہمارا اور ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا

عالیہ روئے ہوئے اُنھیں بتا رہی تھی اُسے بہت افسوس ہو رہا تھا

اور سکندر بھائ۔۔۔۔۔۔آپ کیسے بھول گئے اُن کے پیار کو آپ کے لیے کیا نہیں کیا اُنہوں نے ہمیشہ خود سے پہلے ہم دونوں کی خوشی کا خیال کرتے تھے وہ ہماری ہر خواہش پوری کرتے تھے اور آپ اُنھیں مار دینا چاہتے ہیں اتنا تو کوئی دشمن بھی بے رحم نہیں ہوتا جتنے آپ بھی ہو کر ہے      ۔۔۔۔۔۔پاپا نے صحیح کیا تھا جو ساری ذمےداری اُنھیں سونپی کیوں کے آپ تو اس لائق ہے ہی نہیں ورنہ بتائیے آج اگر آپ ماہر بھائی کی جگہ ہوتے تو کیا اپنے ساتھ اتنا کچھ کرنے والو کو اپنا سب کچھ دے دیتے اتنی آسانی سے

بس۔۔۔۔اپنی بكواس بند کرو۔۔۔۔اُس نے کوئی احسان نہیں کیا ہم پر ۔۔۔۔۔۔اور اگر اتنی ہی ہمدردی ہے تو چلی جاؤ اُس کے پاس ہی۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر نے غصے سے اُسے جھڑکا اور باہر نکل گیا

دادی ۔۔۔میں نے ڈاکٹر سے بات کی ہے اُنہوں نے بتایا  کہ ماہر کے ذہن سے پچھلے دو سال کی ساری باتیں بھول چکی ہے  اسی لیے نا اُسے عریشہ یاد ہے نہ شادی۔۔۔۔۔۔۔جس طرح ہم نیند میں ہوتے ہے اور جاگنے کے بعد ہمیں کچھ یاد نہیں ہوتا اُسی طرح ماہر کو بھی کچھ یاد نہیں 

رائنا نے عریشہ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عریشہ خاموش رہی وہ اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلی تھی رائنا ہار مان کے باہر آگئی دادی کے پاس بیٹھتے ہوئے اُنھیں پریشان دیکھ کر کہا

لیکن یہ حقیقت ہے رائنا جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا دِن رات اُس نے ماہر کے ٹھیک ہونے کی دعائیں کی ہے اُسے بچانے کے لیے لڑتی رہی۔۔۔۔ہر دِن اس کا انتظار کر تی رہی اور اس نے ۔۔۔۔۔۔اس نے اُسے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا اُسے بیوی ماننے سے ہی انکار کر دیا۔۔۔۔کیا گزر رہی ہوگی اُس کے دل پر۔۔۔۔۔

دادی افسوس سے بولی ماہر نے اُن کے پاس بیٹھتے ہوئے اُن کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے

دادی میں اُسے بیوی ماننے سے انکار نہیں کر رہا ہوں نہ ہی مجھے آپ کی کسی بات پر شک ہے میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کے مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔۔۔اور سچ دادی مجھے بلکل بھی یاد نہیں کے کب اُس سے میری شادی ہوئی کب میں اُس سے ملا مجھے کچھ یاد نہیں بلکہ مجھے اس کا چہرہ تک یاد نہیں ایسا لگتا ہے آج پہلی بار دیکھ رہا ہوں اُسے 

وہ خود ایک کشمکش میں تھا لاکھ یاد کرنے پر بھی اُسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا لیکن پھر بھی وہ دادی کو پریشان دیکھ کر اپنی ٹینشن بھول گیا تھا

دادی پلیز ماہر کو تھوڑا وقت دیجئے  ۔۔۔ ۔  اس میں ماہر کی کوئی غلطی نہیں ہے لیکن میں جانتی ہوں وہ سب ٹھیک کر دیگا 

رائنا نے پرامید نظروں سے اُسے دیکھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کے رائنا سے کیا کہے

اچھا میں چلتی ہوں دادی

رائنا جانے کے لیے اٹھ گئی تھی اُسے واپس اپنے گھر جانا تھا 

رک جاتی تو اچھا تھا بیٹا عریشہ کو بھی ابھی ضرورت ہے کسی کی

 عریشہ کی آپ بلکل فکر نا کریں وہ بہت سمجھدار ہے اور ماہر ہے نہ سنبھال لیگا اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا کا جانا ضروری تھا وہ دادی کو تسلی دیتے ہوئے بولی تو انہوں نے ماہر کی جانب دیکھا

💜💜💜💜💜💜

عریشہ کو اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا جو ہر بار اُس کے لیے ایک نئی مشکل لے آتی تھی کتنا انتظار کرتی رہی تھی وہ ماہر کے ٹھیک ہونے کا اور ماہر کو وہ یاد تک نہیں تھی وہ رائنا کے جانے کا سن کر باہر آئی تھی لیکن پھر ماہر کی باتیں سن کر واپس پلٹ کر اندر چلی گئی اور ماہر کی باتیں سن کر اُسے اور زیادہ تکلیف ہوئی تھی وہ بیڈ پر گرتے ہوئے بے اختیار رو دی تھی ماہر کا ٹیڈی بیئر اُس کے پاس تھا اُسے ہر وہ لمحہ یاد آرہا تھا جب ماہر اُس کے ساتھ تھا اُس کا خیال رکھتا تھا اُس سے ناراض ہوتا تھا اتنا اپنا پن ہوتا تھا اُس کی باتوں میں اور اب اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے اجنبیت دیکھ رہی تھی اُسے نا اپنی بیوی یاد تھی نا اُس کا پیار

آپ مجھے کیسے بھول سکتے ہے ماہر جی ۔۔۔۔۔۔۔

آپ ہی نا تو کہا نا کے میں آپ کی بیسٹ فرینڈ ہو آپ کبھی مجھے رونے نہیں دینگے تو اب کیوں آپ مجھے رُلا رہے ہیں۔۔۔۔۔پلیز ماہر جی آکر کہہ دیجئے کہ یہ سب مذاق ہے آپ مجھے نہیں بھولے ۔۔۔۔۔آکر کہیے نا کے بیوی مت روں ماہر کو اچھا نہیں لگے گا 

وہ زاروقطار روتے ہوئے اُسے تصوّر کرکے بات کررہی تھی آج تک جو بھی ہوا اُس کے دل پر بات نہیں آئی تھی لیکن آج اُس کا دل ٹوٹا تھا دروازے پر دستک ہوئی تو لگا اُس کی دعا قبول ہو گئی ہے اُس نے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے دروازہ کھولا اور سامنے ماہر کو دیکھ کر وہیں جم گئی ماہر کی نظریں اُس کی سرخ آنکھوں پر گئی لیکن اب وہ ماہر نہیں تھا جو آگے بڑھ کر اپنے جذبات ظاہر کرے اب ایک جھجھک تھی عریشہ نے رخ دوسری جانب کر لیا تھا

مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔۔۔۔۔۔

ماہر کے لفظوں سے اُس کا دل اور امیدیں اب دوسری بار ٹوٹی تھی۔۔۔۔ماہر سوچ رہا تھا کیا کہے کیسے شروعات کرے ۔۔۔وہ عریشہ کو تھینکو بولنا چاہتا تھا    ۔۔اُس سے معافی مانگنا چاہتا تھا اُسے سمجھانا چاہتا تھا کہ وہ سب کچھ بھول گیا ہے لیکن اُس کے ساتھ ایک نئی شروعات کرنے کہا ارادہ رکھتا ہے 

عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے پہلی بار عریشہ کو بیوی کی بجائے نام لے کر پکارا تھا عریشہ نے آنکھیں سکیڑ کے اُس کی جانب دیکھا

میں جانتا ہوں آپ پریشان ہے  ۔۔۔۔لیکن میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اپنی بات کی شروعات کی تھی لیکن عریشہ کے قدم اپنی جانب بڑھتے دیکھے تو اُس کی زبان کو بریک لگ گئے وہ بنا رکے اُس کی جانب بڑھی تھی اور اُس کا چہرہ دیکھ کر ماہر کے قدم خود پیچھے ہو گئے تھے لیکن عریشہ نہیں رکی تھی یہاں تک کہ ماہر دروازے کے باہر ہو گیا تھا اور عریشہ نے اُسی  انداز میں اُسے دیکھتے ہوئے دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا تھا اور وہ سوچتا رہ گیا کے یہ ناراضگی تھی غصّہ تھا یہ دھونس تھی ۔۔۔۔

اب یہ کیا تھا۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔۔

وہ بند دروازے کو کنفیوز ہو کر دیکھ رہا تھا پھر کندھے اچکا کر وہاں سے ہٹ گیا

💜💜💜💜💜💜

اگر تم اُداس رهوگی تو مجھے اچھا نہیں لگے گا چلو کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُسے بلایا تو وہ مزید انکار نہیں کر پائی وہ اپنے دکھ میں دادی کو شامل نہیں کرنا چاہتی تھی

آپ پریشان مت ہُوئیں دادی میں ٹھیک ہوں اور ہر بار اپنی زندگی سے ایک نیا امتحان ملنے کی عادی ہوں میں۔۔۔۔

جس طرح ہر بار تم نے سامنا کیا ہے اس بار بھی کرنا ہوگا تمہیں۔۔۔۔۔۔ تم وہی لڑکی ہو جس نے ماہر کو ہر مصیبت سے بچایا ہے سب سے اکیلی لڑ کر جیتی ہو تم تو کیا یہاں آکر ہار مان لو گی۔۔۔۔۔اب بھی لڑنا ہوگا اپنی محبت کے لیے۔۔۔۔۔اگر وہ سب بھول چکا ہے تو یاد دلاؤ اُسے ۔۔۔۔۔۔ایک نئی شروعات کرو بیٹا ۔۔۔۔۔

دادی نے پیار سے کہا وہ لوگ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے زیان اور ماہر بھی وہاں آئے ماہر سے نظریں ملی تو عریشہ نے نظریں چُرالی وہ ناراض تھی اُس سے مگر کہنا نہیں چاہتی بس ظاہر کر رہی تھی

عریشہ۔۔۔۔۔

ماہر نے بہت ہمت کرکے اُسے پکارا تھا وجہ تھی دادی وہ دادی کو یقین دلانا چاہتا تھا کے وہ سب ٹھیک کرنا چاہتا ہے اُس کے ایک بات پھیر نام لینے پر عریشہ نے اُسے غصے سے دیکھا

  ایک گلاس پانی ملےگا۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے جگ کی جانب اشارہ کیا کو عریشہ کے پاس تھا عریشہ نے گلاس باہر کر اُس کی جانب بڑھایا ماہر نے ہاتھ آگے کیا تھا گلاس لینے کے لیے لیکن عریشہ نے بجائے اُس کے ہاتھ میں دینے کے گلاس ٹیبل پر رکھا اور کافی زور سے رکھا کے پانی اچھل کے ماہر کے چہرہ تک پہنچا عریشہ کے چہرے پر اب بھی غصّہ تھا اور یہ دادی نے بھی دیکھا تھا

عجیب لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔یار چھوٹے نواب یہ ہمیشہ ایسے ہی بی ہیو کرتی ہے یا مجھ سے بدلہ لے رہی ہے

ماہر نے زیان کے قریب ہوتے ہوئے کہا

ماموں آپ ایسے نام لے کر بلاؤ گے تو ایسے ہی کریگی نا۔۔۔۔۔۔۔۔

نام لے کر نہیں بلاؤں تو کیا اب سب کے سامنے اسے ڈارلنگ بےبی جانو شونا بولوں اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر خود سے بڑبڑا

ماموں اب آپ کو مامی کے ہاتھ سے نہیں کھانا ہے

زیان نے اُسے خود کھاتے دیکھ کے کہا اُس ہر بات نہیں سمجھ آئی تھی 

میں کوئی بچہ ہوں کیا چھوٹے نواب ۔۔۔۔۔۔

ماہر تھوڑا شرمندہ ہوئے بولا 

لیکن پہلے تو آپ ہمیشہ مامی کے ہاتھ سے ہی کھاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔زیان کی بات پر دادی کے ساتھ عریشہ نے بھی اُسے دیکھا

چھوٹے نواب منہ بند کر کے کھانا کھاؤ

ماہر نے سختی سے کہا 

مامو آپ جب سے واپس آئے ہیں بہت عجیب ہو گئے ہے منہ بند کرکے کیا ناک سے کھانا کھاوں ۔۔۔۔۔

زیان کی بات پر دادی کی ساتھ عریشہ بھی مسکرا دی اور ماہر نے اُسے پہلی دفعہ مسکراتے دیکھا تو دیکھتا رہے گیا

وہ دروازے کے قریب کھڑا اس اُلجھن میں تھا کے دستک دے یا نہ دے اندر جائے یا نا جائے جیسے ہی اُس نے دروازے پر دستک دینے کے لیے ہاتھ رکھا عریشہ نے دروازہ کھولا تھا اور وہ گرتے گرتے بچا تھا عریشہ اُسے حیرت سے دیکھ رہی تھی اور وہ سیدھا ہو کر بمشکل مسکرا رہا تھا عریشہ  نے واپس اندر جاتے ہوئے اُس کی جانب پشت کر دی تھی ماہر نے اپنی بیوقوفی پر سر پے ہاتھ مارا اور اندر آیا

وہ ۔۔۔۔۔۔میں یہ پوچھنے آیا تھا کے ۔۔۔۔۔۔یہ میرا روم تھا ۔۔۔۔مطلب ہے۔۔۔۔۔مطلب تھا۔۔۔۔۔۔۔افف

اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے شاید وہ پہلا لڑکا تھا جو کسی لڑکی سے مخاطب ہونے میں گھبرا رہا تھا وجہ تھی اُس لڑکی کی آنکھیں جو ہر وقت اُسے کھا جانے والے انداز میں دیکھتی تھی

مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔۔مجھے کہاں سونا ہے۔۔۔۔۔۔

آخر اُس نے اطمینان رکھتے ہوئے پوچھا

جہنم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عریشہ نے اُس کی جانب دیکھ کے ہاتھ باندھتے ہوئے جواب دیا ماہر نے لب بھینچ کر اُسے دیکھا 

میں پہلے کبھی گیا نہیں تمہارے پاس فل ایڈریس ہو تو دے دوگی پلیز۔۔۔۔۔

ماہر نے بنا غصّہ کیے اُسی کے انداز میں پوچھا

باہر نکلیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ کی بے حسی پر وہ آنکھیں چھوٹی کیے اُسے دیکھنے لگا

دروازہ وہاں ہے ۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کے یوں دیکھنے پر اشارے سے دروازے کی جانب ہاتھ بڑھایا

مجھے پتہ ہے۔۔۔۔

پیروں کا بھی پتہ ہوگا آپ کو انہیں استمال کرکے باہر جائیے اب  ۔۔۔

عریشہ  نے وہیں انداز برقرار رکھا نا وہ ناراضگی دکھا رہی تھی نا غصّہ اس وقت وہ ہٹلر لگ رہی تھی ماہر اُسے دیکھ کر سر نفی میں ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا لیکن دروازے میں رک کر۔اُسے ایک بار اور گھورنا نہیں بھولا

وہاں سیڑھیاں ہے ۔۔۔ ۔ 

اُس کے دیکھنے پر عریشہ دروازہ بند کرنے کے ارادے سے آگے بڑھی

پتہ ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے پہلی بار اُسے غصے سے جواب دیا اور اب سچ میں اُسے برا لگا تھا عریشہ کا یہ انداز

ہاں آپ کو تو سب پتہ ہے سوائے میرے۔۔۔۔۔۔۔

اور پہلی ہی دفعہ اُس نے عریشہ کے لہجے میں ناراضگی محسوس کی تھی

💜💜💜💜💜💜

پتہ نہیں وہ کیا چاہتی ہے ۔۔۔۔بات کرنا تو دور میری کوئی بات سننے کو بھی تیار نہیں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔بار بار غصّہ کرتی رہتی ہے    گھورتی رہتی ہے منہ پر دروازہ بند کر دیتی ہی مجھے بہت انسلٹ فیل ہونے لگی ہے اب 

عریشہ سیڑھیاں اترتی ہوئی ماہر کو فون پر بات کرتے دیکھ کر رک گئی

وہ غصے میں لگ رہا تھا 

وہ تکلیف میں ہے ماہر۔۔۔۔۔۔۔۔دل ٹوٹا ہے اسکا۔۔۔۔۔اور تمہیں اُسے سنبھالنا  ہوگا ۔۔۔۔۔۔اُس نے بھی ہمیشہ تمہیں سنبھالا نا ہر مشکل سے لڑ کر تمہارا ساتھ دیا اب جب اُسے تمہاری ضرورت ہے تو کیا تم اُسے اکیلا چھوڑ دوگے 

رائنا نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی

میں کوشش تو کر رہا ہوں نہ آپی۔۔۔۔میرے لیے بھی بہت مشکل ہے مگر میں پھر بھی پیچھے نہیں ہٹا ۔۔۔اُس کا غصّہ اُس کی بے حسی سب اگنور کررہا ہوں میں صرف دادی کے لیے ۔۔۔دادی یہ سوچ سوچ کر پریشان رہتی ہے کے میں سب کچھ بھول گیا ہوں مجھے میری شادی یاد نہیں۔۔۔میں اُن کی خاطر ایک نئی شروعات کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔صرف اسی لیے میں بار بار اُس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر کے لہجے میں صاف ظاہر ہو رہا تھا کے عریشہ پر وہ کتنا ناراض تھا لیکن عریشہ کو اُس کی یہ بات ٹھیس پہنچا گئی کے وہ یہ سب صرف دادی کے لئے کر رہا ہے

وہ بہت سمجھدار ہے ماہر میں خود پہلی بار اُسے ایسے دیکھ رہو ہوں اور شاید اُس کی ناراضگی جائز ہے اتنا کچھ کرنے کے بعد کم سے کم یہ نہیں ڈسرو کرتی تھی وہ۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے لیکن اُس کی بھی تو کوئی غلطی نہیں ہے نہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ پیار کرتی ہے تم سے۔۔۔۔۔۔

رائنا کی بات پر وہ ایک پل چپ رہا

مجھے نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔۔اگر ایسا ہوتا تو یوں بار بار انسلٹ کرنے کی بجائے میری بات سنتی اٹلسٹ یہ تو جان لیتی کے میں کیا سوچتا ہوں ۔۔۔مگر اُسے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا مجھ سے ۔۔۔۔۔اُسے فرق نہیں پڑتا تو مجھے بھی فرق نہیں پڑتا

ماہر نے لا پرواہی صرف ظاہر کی تھی حالانکہ اُسے فرق پڑتا تھا عریشہ آگے مزید نہیں سن سکے اور واپس اوپر چلی گئی

ماموں چلیے نا لوڈو کھیلتے ہے   ۔۔۔ 

رائنا سے بات ختم کرکے ماہر وہ سوچتا ہوا بیٹھا تھا  تب زیان اُس کے پاس آیا

کیا لوڈو کھیلوں یار یہاں میری زندگی سے کھیل رہی ہے وہ۔۔۔۔

وہ اُسے طرح اپنی سوچ  میں گم بولا

کون ماموں۔۔۔۔۔

وہی ہٹلر آف مائے لائف عریشہ۔

ماہر نے اُس کی جانب دیکھا

آپ مامی کو عریشہ کیوں بول رہی ہو اب

زیان نے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا

تو کیا تمہاری طرح مامی بولوں 

پہلے تو آپ اُن کو بیوی بولتے تھےنا

کیا۔۔۔۔۔

زیان کی بات پر اُس کا منہ کھلا 

ہاں پہلے تو آپ ہمیشہ مامی کو بیوی بولتے تھے اب کیوں عریشہ بول رہے ہو۔۔۔۔

۔ارے یار چھوٹے نواب تب ہی تو میں سوچو جب بھی اُسے نام لے کر بلاؤں تو مجھے کھانے کو۔کیوں دوڑتی ہے۔۔۔۔۔ لیکن بیوی۔۔۔بیوی کیسے بلا سکتا ہوں میں اُسے۔۔۔۔۔۔۔

اُسے سمجھ آگیا تھا کے اُس کے پکارتے ہی عریشہ کا چہرہ کیوں بدل جاتا ہے

جیسے پہلے بولتے تھے ۔۔۔۔

پہلے کی بات اور تھی یار چھوٹے نواب ۔۔۔۔۔۔ اچھا ایک بات بتا اور کیا کیا کرتا تھا میں پہلے۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا

پہلے آپ ہمیشہ مجھ سے لڑتے تھے۔۔۔۔ٹوئیس بھی نہیں دیتے تھے ۔۔۔۔۔

یار اپنی شکایتیں لے کر مت بیٹھ جا۔۔پہلے ہی میری زندگی اُلجھی پڑی ہے اور تجھے کھلونوں کی پڑی ہے یہ بتا عریشہ کے ساتھ میں کیسے رہتا تھا

ماہر نے عاجزی سے کہا

مامی کے ساتھ تو آپ بہت اچھے سے رہتے تھے آپ کی بیسٹ فرینڈ ہے نہ وہ ۔۔۔۔۔۔ہمیشہ آپ اُن کے ساتھ رہتے تھے کھیلتے بھی اُن کے ساتھ تھے ۔۔۔۔۔کھاتے بھی اُن کے ہاتھ سے تھے ۔۔۔۔۔اور مجھے چڑھاتے بھی تھے۔۔۔۔۔۔۔

آخری بات پر اُس نے منہ بنایا تو ماہر بنا ہنسے نہیں رہ سکا

سوری یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا بتا مامی کو کیا پسند ہے ۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اُس کے گال پر پیار کرتے ہوئے اُسے خود سے لگاتے ہوئے پوچھا

وہ تو مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیان نے کندھے اچکا دیے 

💜💜💜💜💜💜💜💜💜

میں یہاں نہیں رہ پاونگی دادی۔۔۔۔مجھے جانے دیجئے

اُس نے ماہر کی باتیں سننے کے بعد وہاں نا رہنے کہا فیصلہ کیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کے دادی کی خاطر ہی سہی لیکن ماہر سمجھوتہ کر

ایسا مت  کہو بیٹا تمہارے بغیر یہ گھر کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔مت جاؤ 

دادی جان سے ایک ہی بات کیے اُسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی

نہیں دادی میں جس کام کے لیے یہاں رکی تھی وہ ہو گیا ہے ماہر جی ٹھیک ہوگئے ہے اب میں یہاں رک کر کیا کرونگی۔۔۔۔اب مجھے چلے ہی جانا چاہیے

تم بھلے ہی ماہر میں لیے آئی تھی لیکن اب مجھے بھی تمہاری ضرورت ہے تم میری بیٹی ہو ماہر سے پہلے میرا حق ہے تم پر ۔۔۔۔۔۔میں نہیں جانے دونگی تمہیں

پلیز دادی مت روکیے مجھے۔۔۔۔ نہیں  ہوگا مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیشہ ہی مجھے چھوٹا محسوس کروایا گیا کسی کی زندگی میں میری کوئی اہمیت تھی نا ضرورت۔۔۔میں بوجھ ہی رہی ہمیشہ جسے کوئی نہ کوئی برداشت کرتا رہا یہاں آکر میں خود سے ملی مجھے اتنی اہمیت دی آپ نے اتنا پیار دیا جو مجھے شاید زندگی بھر بھی نا ملتا یہ ہی میرے لیے کافی ہے دادی۔۔۔۔۔

اب میں اس گھر کا بوجھ نہیں بننا چاہتی ۔۔۔۔میں نہیں چاہتی ماہر جی کسی کے لیے بھی اپنی زندگی کا سمجھوتہ کرے اُنھیں بھی حق ہے اپنی زندگی اپنی خوشی اپنی مرضی سے جینے کا میں اُن کے قابل نہیں ہوں دادی وہ مجھ سے بہت اوپر ہے اُن کی بھی اپنی خواہشیں رہی ہوگی کیوں وہ اپنی خواہشیں بھول کے سمجھوتہ کرلے میں اپنے آپ کو اُن اور تھوپنا نہیں چاہتی دادی غلطی تو میری ہی تھی جو یہ بات بھول کر اُن سے محبت کر لی کے میں اُن کے لائق ہوں بھی یا نہیں ۔۔۔۔

اُس نے اپنے گال صاف کیے دادی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اُس نے سر نفی نے ہلا دیا

کچھ مت کہیے دادی۔۔۔۔بس مجھ سے وعدہ کیجئے آپ ماہر جی کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کریگی نا اُن سے ناراض ہوگیں ۔۔۔۔۔بلکہ ہمیشہ اُن کی خوشی میں خوش رہےگی

اُس نے دادی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا اُنہوں نے اُسے گلے لگا لیا

کیا ہوا دادی۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نیچے آیا تو دیکھا دادی اُداس بیٹھی تھی

عریشہ چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔دادی نے دھیرے سے جواب دیا بنا اُسے دیکھا

کہاں چلی گئی اور کیوں

وہ اُن کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا اُسے حیرت نہیں ہوئی تھی بلکہ دیکھ ہوا تھا

پتہ نہیں کہاں گئی ہوگی شاید واپس اُسی دنیا میں جہاں پہلے بھی کسی کو اُس کی ضرورت نہیں تھی ۔۔غلطی کی نا تھی اُس نے اچھی سزا ملی اُسے

بھلا آج کے زمانے میں خود سے پہلے کوئی دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے مگر اُس نے ایسا کیا۔۔۔  

دین رات تمہارے لیے جیتی رہی وہ    ۔ ۔۔ تمہیں ٹھیک کرنے کے لیے کوشش پر کوشش کرتی رہی کبھی ہر نہیں مانی اُس نے ۔۔۔وہ چاہتی تو جا سکتی تھی اُسی وقت تجھے چھوڑ کے جب اُسے سچ پتہ چلا ۔۔۔لیکن وہ نہیں گئی ۔۔۔۔  تیرے لیے رکی یہاں تجھے بچانے کے لیے۔۔۔۔ہار دِن دعا کرتی تھی تیرے ٹھیک ہونے کی۔۔۔۔۔ہمیشہ کہتی تھی ۔۔۔بس ماہر ہی ٹھیک ہو جائے تو سب صحیح ہو جائے گا

لیکن کیا ہوا۔۔۔۔۔کیا ملا اسے۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں پھر کیا کرتی وہ یہاں رہ کر۔۔۔۔۔۔

دادی کی باتوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کے وہ اُسے ہی ذمےدار سمجھتی ہے لیکن وہ اُنھیں صفائی نہیں سے دے سکا

کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کے وہ کیا چاہتی ہے ۔۔میں نے تو نہیں کہا تھا اُسے جانے کو بلکہ ہر وقت کوشش کر رہا ہوں اُسے منانے کی  سمجھ نہیں آتا کیا اُسے۔۔۔۔۔۔

ماہر نے دادی سے تو۔کچھ نہیں کہا لیکن دل ہی دل۔میں عریشہ کی عقل پر افسوس ضرور کیا

💜💜💜💜💜💜

تائی امی۔۔۔۔۔۔۔۔دروازہ کھلا تو تائی امی کو دیکھ کر اُس نے جھجھکتے ہوئے پکارا تھا آج پھر اُسے ڈر لگ رہا تھا

ارے تم یہاں ۔۔۔۔مائرا فائزہ جلدی آؤ بھئی دیکھو کوں آیا ہے مہارانی صاحبہ تشریف لائیں ہے۔۔ان کے سواگت کے لیے پھولوں کے ہار اور مٹھائی بھی لے کر آنا

کہیے مہارانی صاحبہ کیسے آنا ہوا اور آپکے پاگل مہاراج کہاں ہے اُنھیں نہیں لائی ساتھ میں آپ

تائی امی نے طنز کے تیر چلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ بے اختیار روں دی

تائی امی۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مائرا اور فائزہ بھی وہاں چلے آئے اور عریشہ کو دیکھ کر حیران ہوئے۔

چپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے کوئی رشتا جتانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھ آئی بھول گئی اُس دن کیسے ہے عزت کرکے اپنے گھر سے نکالا تھا مجھے جو یوں منہ اٹھا کر چلی ائی یہاں۔۔۔۔۔۔۔اتنے احسان کیے تجھ پر سب بھول گئی دولت ملتے ہی۔۔۔

تائی امی نے اُسے اُس دِن کی بات یددلائی 

کیا ہوا عریشہ تم اچانک کیسے آگئی تمہارے سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا کیا 

میرا نے ہنستے ہوئے پوچھا

نہیں اُنہوں نے نہیں نکالا میں خود چلی آئی

عریشہ نے سر جھکائے جواب دیا

خود چلی آئی۔۔۔۔تیرے باپ کا گھر ہے نہ جو خود چلی آئی۔۔۔۔۔۔ اُس پاگل  کے لیے مجھے گھر سے نکالا تھا اور اب جب خود راستے پر آئی تو میری یاد آئی تجھے لیکن میں اتنی اچھی نہیں ہوں کے تجھ جیسے کچرے کو اٹھا کر گھر میں لے لونگی چلی جا یہاں سے

میں کہاں جاؤنگی تائی امی ۔۔۔۔۔۔آپ کے سوا میرا ہے ہی کون۔۔۔۔۔۔۔۔

بڑی جلدی یاد آئی تجھے لیکن کوئی فائدہ نہیں تو ہم سب کے لیے مر چکی ہے بہت سالوں تیرا بوجھ اٹھا لیا اب کہیں اور جا کر منہ چھپا اور اگر کوئی نہیں رکھتا تجھے تو جا کر کنوئیں میں ڈوب جا

تائی امی نے دروازہ بند کرنا چاہا تو اُس نے اُنھیں روکا چاہے کتنا بھی کچھ بھی کے لے لیکن اُس کے پاس دوسرا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا سب سہ کر بھی اُسے یہی رہنا تھا

نہیں تائی امی۔۔۔۔۔۔۔

اری ہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس کے روکنے پر تائی نے اُس کا بازو پکڑ کے اُسے پیچھے دھکیل دیا تھا اور وہ نیچے گرنے کی بجائے کسی سے جا لگی تھی سر اٹھا کر اُس نے ماہر کا چہرہ دیکھا اور اُس کی روتی آنکھیں دیکھ کر  ماہر کو تکلیف ہوئی تھی 

لیجئے مہاراج بھی چلے آئی اپنی بیگم کے پیچھے۔۔۔ اسی کے لیے مجھے بے عزت کیا تھا نہ تونے ۔۔۔۔۔۔نکل جا اُس پاگل کو لے کر یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔اور آئندہ ہماری دہلیز پر کبھی قدم مت رکھنا ورنہ کسی کچرے کی گاڑی میں پھنکوا دونگی تجھے

بس ۔۔    تمیز سے بات کیجئے

ماہر نے اُن کے مقابل آتے ہوئے غصے سے کہا

لیجئے انکی بھی سنیئے     ۔۔۔۔۔۔جاؤ نہیں کرتی تمیز سے بات کیا کرو گے اُس دن کی طرح سر پھوڑ دو گے میرا۔۔۔۔۔وہ تمہارا گھر تھا اُس لیے وہاں شیر بن گئے یہاں کچھ نہیں کر پاؤگے تم

تائی امی نے اُسے غصے سے گھورتے ہوئے کہا اُس نے عریشہ کی جانب دیکھا

مجھے یاد تو نہیں کے میں نے ایسا کچھ کیا تھا لیکن جان کے خوشی ہوئی کیوں کے آپ اسی لائق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر آپ نے عریشہ کے اب کچھ بھی کہا تو میں آپ کے بڑی ہونے کا لحاظ کرونگا نا عورت ہونے کا

اگر اتنا ہی تجھے پیار ہے اس سے تو کیوں ایسے سڑکوں پر چھوڑ دیا اُسے لے جا اپنے ساتھ نا۔۔۔۔۔

لے کر ہی جاؤنگا۔۔۔۔۔کبھی نہیں چاہونگا کے میری بیوی اس گھٹیا جگہ یا آپ جیسے گھٹیا لوگوں کے بیچ رہے ۔۔۔۔جن کو نا بات کرنے کی تمیز ہے نہ رشتوں کا لحاظ   ۔۔ ۔۔پتہ نہیں کیسے یہ اتنے وقت تک جھیلتی رہی آپ کو مجھ سے تو آپ کی شکل برداشت نہیں ہو رہی۔۔     اور آپ فکر مت کیجئے آج کے بعد عریشہ اس گلی میں بھی قدم نہیں رکھے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے دروازے تک آنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔ چلو یہاں سے    ۔۔۔۔۔۔

ماہر ن اُن کی بات کاٹتے ہوئے غصے سے کہا تھا اور عریشہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے وہاں سے چلا گیا 

💜💜💜💜💜💜💜

کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی۔۔۔۔۔۔

کافی دیر بعد وہ کچھ بولا تھا وہ بھی بنا اُس کی جانب دیکھے  عریشہ نے کوئی جواب نہیں دیا

کچھ پوچھ رہا ہوں میں تم سے۔۔۔۔۔۔

اُس نے گاڑی کی اسپیڈ سلو کرتے ہے اُس کی جانب دیکھا لیکن وہ اب بھی اُسے نظر انداز کیے بیٹھی تھی ناراضگی صاف چہرے سے جھلک رہی تھی

عریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اب اور کچھ مزید پوچھتا کے عریشہ نے ٹیپ کا بٹن دبا کر گانا شروع کر دیا تاکہ اُس کی بات نہ سنی پڑے ماہر بس اُسے دیکھتا رہ گیا اُسے واپس لینے آنے کا اچھا سلہ دے رہی تھی وہ اُسے لیکن آج یہ حالات بھی تو ماہر کی ہی وجہ سے آئے تھی اُس نے کتنی امیدیں کی تھی ایک خوشحال زندگی کی اور سب ٹوٹ گئی آج تائی امی کو موقع اُس نے دیا تھا بے عزت کرنے کا عریشہ کا دھیان تائی امی کی باتوں سے ہٹ کر گاڑی میں بجتے گانے کی طرف گیا تھا اُس کے لفظ جیسے اُس کے دل کی اواز تھے

تیری آنکھوں کے دریا کا

اترنا بھی ضروری تھا

محبت بھی ضروری تھا

بچھڑنا بھی ضروری تھا

ضروری تھا کی

ہم دونو طواف ا آرزو کرتے

مگر پھر آرزؤں کا

بکھرنا بھی ضروری تھا

تیری آنکھوں کے دریا کا

اترنا بھی ضروری تھا

اُس نے ایک پل۔کے لیے ماہر کی جانب دیکھا تھا اور اُس کی نظروں کو محسوس کرکے ماہر نے اُسے۔۔۔عریشہ کی آنکھ سے ایک انسوں گرا تھا جسے رگڑتے ہوئے اُس نے چہرہ کھڑکی کی جانب کر لیا تھا

وہی ہے سورتیں اپنی

وہی میں ہوں وہی تم ہو

مگر کھویا ہوا ہوں میں

مگر تم بھی کہیں گم ہو

محبت میں دغا کی تھی

سو کافر تھے سو کافر ہیں

ملی ہیں منزلیں پھر بھی

مسافر تھے مسافر ہیں

تیرے دل کے نکالے ہم

کہاں بھٹکے کہاں پہنچے

عریشہ کو ہر لمحہ یاد آنے لگا جب وہ دور ہو کر بھی اُس کے قریب تھا اور آج قریب ہو کر بھی دور لگ رہا تھا

مگر بھٹکے تو یاد آیا

بھٹکنا بھی ضروری تھا

محبت بھی ضروری تھا

بچھڑنا بھی ضروری تھا

عریشہ نے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے ٹیپ بند کر دیا وہ کمزور نہیں ہونا چاہتی تھی کیوں کے ماہر کی ہمدردی نہیں چاہے تھی اُسے جو آجکل وہ اُسے دے رہا تھا گاڑی کو بریک لگا تو ماہر نے اُس کی جانب دیکھا

میں جانتی ہوں آپ مجھے دادی کی خاطر ہی واپس لے کر آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔آپ فکر مت کیجئے ۔۔۔ اس رشتے کو نبھانے کے لیے آپ کو سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔نا کوئی زبردستی کریگا آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔میرا ہونا نا ہونا ایک برابر ہی ہے۔۔۔۔آپ مجھے کسی بے جان کرسی ٹیبل کی طرح سمجھ سکتے ہیں جس کا آپ کی زندگی میں کوئی دخل نہیں ہوگا 

اریشانے دھیرے سے کہا اور ماہر کا دل کیا اُس کے منہ پر دو تھپڑ مرے مگر اُس نے اپنا غصے کنٹرول کیے دھیرے  سے پوچھا 

دیوار سمجھ سکتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔

اُس کے پوچھنے پر عریشہ نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا

کیوں کے تمہاری باتیں سن کے میرا دل کر رہا۔ہے

میں اپنا سر پھوڑ لوں۔ اور تمہارے جتنی سخت دیوار ہمارے گھر میں ایک بھی نہیں ہوگی

اس بار وہ غصے سے چینخ کر بولا تھا اور عریشہ در کر پیچھے ہوئی تھی اور گاڑی سے باہر نکل گئی تھی

💜💜💜💜💜💜

کیسی ہو عریشہ ۔۔۔بھابھی

سکندر نے بھابھی پر زور دیا تھا اور اُس کی اواز سن کر عریشہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے

کیوں فون کیا

یاد آرہی تھی تمہاری کافی دِن جو ہو گئے تمہیں دیکھے۔

بکوآس بند کرو سکندر اور فون رکھو۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے غصے سے کہا

یار بات تو سنو۔۔۔۔۔۔ایسے ناراض ہونا اچھا لگتا ہے کیا

عریشہ اُس کی ڈھٹائی پر سلگ کر رہ گئی

تمہیں کیا لگتا ہے سکندر اتنی آسانی سے اپنی انسلٹ کو بھول جائیگا ۔  تمہارا وقت ختم ہو گیا عریشہ اب میری باری ہے۔۔۔بس ایک وار اور سارے حساب برابر

سکندر اب سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا تھا

کتے کی دم ہو تم ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے بیزاری سے کہا اور ماہر اُسے کسی سے ایسے بات کرتے دیکھ اوپر جاتے جاتے رک گیا تھا

کیا کروں یار مجھے ہارنا بلکل پسند نہیں ہے خاص کر لڑکیوں سے تو بلکل بھی نہیں۔۔۔ ۔۔پہلے تو صرف میری نظر تھی تم پر ۔۔۔لیکن تم نے جو مجھے چیلنج کیا ہے اُس کے بعد تم میری ضد بن گئی ہو۔۔۔اور سکندر اپنی ضد پوری کرکے ہی رہتا ہے ۔

کیا کہا تھا تم نے کے کسی طلاق شدہ یا بیوہ کا دامن تھام لوں یہی نا 

میرا دل تو تمہارے ہی دامن کا دیوانہ ہے کیوں نہ ماہر کو۔مار کر تمہیں ہی بیوہ کر دوں تب تو کوئی شکایت نہیں ہوگی نا تمہیں

بكوس بند کرو ۔۔۔یقین نہیں ہوتا کے کوئی اتنا ڈھیٹ اور کمینہ بھی ہی سکتا ہے ۔۔۔۔شرم نام کی تھوڑی سی چیز باقی ہو تو ڈوب مرو۔۔۔

عریشہ نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے غصے سے کہا ماہر سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کے وہ کس سے اتنے غصے میں بات کر رہی ہے

باکواس ہے یا سچ یہ تو تمہیں تب پتہ چلے گا جب ماہر کی لاش تمہارے سامنے پڑی ہوگی۔ ۔  بہت گھمنڈ ہے نہ تمہیں اُس کی بیوی ہونے پر۔۔۔۔۔اُس گھمنڈ کو ہی ختم کر دونگا میں۔۔۔۔۔۔بہت حفاظت کرلی تم نے اُس کی اب بچا سکتی ہو تو بچا کر دکھاؤ اُسے سکندر سے

سکندر کمینگی سے ہنستے ہوئے بولا

۔تمہاری اوقات نہیں ہے سکندر کے میرے ہوتے ہوئے تم ماہر کو کوئی خراش بھی پہنچا سکو ۔۔۔۔ یہ گھمنڈ کبھی نہیں ٹوٹے گا نا ہی تمہاری گھٹیا چالیں کامیاب ہوگی۔۔۔۔۔جب تک میری سانسیں چل رہی ہے ماہر کی سانسیں نہیں رکے گی ۔۔۔۔میں اُن پر کوئی خطرہ نہیں آنے دونگی۔۔۔۔۔تم میں جتنی طاقت ہے جتنی ضد ہے لگا کر دیکھ لو۔۔۔۔میری محبت کے آگے جیت نہیں پاؤگے تم۔۔۔۔۔۔

اُس کے منہ سے سکندر کا نام سن کر وہ حیران ہوا تھا لیکن عریشہ کی باتیں اُس کا ذہن کسی اور ہی جانب لے گئی 

ایک بات اور۔۔۔۔۔۔عورت بہت کمزور ہوتی ہے ۔۔۔۔ایک مرد کے لیے اُسے ہرانا بہت آسان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔لیکن جب بات اُس کی عزت یہ محبت پر آتی ہے تو وہ دنیا کی کسی بھی طاقت کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتی ہے

اُس نے فون بند کرکے رکھا تھا اور پیچھے پلٹی تو۔ماہر کو دیکھا جو اب اُس کے پاس آرہا تھا 

سکندر۔۔۔۔۔کیا کہا اُس نے۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے سنجیدگی سے پوچھا

کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے سوچ کیوں اُسے بتا کر پریشان کرے اس لیے کہتی ہوئے وہاں سے جانے لگی لیکن ماہر نے اُس کا بازو پکڑے

 روک لیا

ہر بات پر منہ پھیرنا بند کرو۔۔۔بتاؤ کیا کہہ رہا تھا سکندر

وہ سختی سے بولا 

ایسے ہی فضول دھمکیاں دے رہا تھا کے آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ مار دیگا۔۔۔۔۔

وہ بنا اُس کی جانب دیکھے بولی تو ماہر نے ایک گہری سانس لی

آپ ٹینشن مت لیجئے۔۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں وہ بس مجھے ڈرانے کے۔لیے ایسا کہہ رہا ہے کچھ کریگا نہیں

عریشہ کو پتہ تھا ماہر کو سب سے زیادہ اپنے بھائی کی سوچ پر دکھ ہوگا اس لیے وہ جلدی سے بولی 

💜💜💜💜💜💜💜💜

وہ دادی کے گود میں سر رکھے لیٹا تھا اور اُن سے بات کر رہا تھا اُنھیں وہ اُس حادثے کے بارے میں بتا رہا تھا جب دو سال پہلے اُس کا اکسیڈنٹ ہوا تھا اُس دن اُس نے نفیسہ اور سکندر کی باتیں سن لی تھی اور اُسے بہت دکھ ہوا تھا کے وہ لوگ صرف اُس سے اپنے پن کا ناٹک کرتے رہے اُنھیں صرف دولت چاہیے اُس نے نفیسہ سے پوچھا کے وہ کیوں ایسا کر رہی ہے لیکن نفیسہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا وہ گھر سے باہر نکل کر گھنٹوں تک سڑکوں پر بھٹکتا رہا تھا پھر ایک فیصلہ کرکے وکیل سے ملا تھا اور پراپرٹی کے پیپر نفیسہ کے نام سے بنوائے تھے لیکن وہ اُس وقت اُن پر سائن نہیں کر سکتا تھا جب وہ یہ بات نفیسہ کو بتانے گھر کے لیے نکلا تھا راستے میں ایک ٹرک نے اُس کی گاڑی کو زور ڈر ٹککر ماری تھی اور اُس کے بعد ماہر کو کوئی ہوش نہیں رہا تھا یہ سکندر نے اس ڈر سے کیا تھا کے اُن کی حقیقت جاننے کے بعد کہیں ماہر اُنھیں گھر سے ہی باہر نا کر دیں لیکن نفیسہ نے اُسے بتایا کے ماہر کو مرنے نہیں دے سکتے اُسے بچانا ہوگا تو وہ خود اُسے ہسپتال لے کر گیا تھا اور وہ لوگ وہی رکے تھے جب تک ماہر کا علاج چلتا رہا جب اُسے ہوش آیا تھا اُس نے اپنے سامنے نفیسہ کو پایا تھا اُس نے کوشش کی تھی ٹوٹے لفظوں میں یہ بتانے کی کے وہ دولت نہیں چاہتا اسلئے سب اُن کے نام کرنے کو تیار ہے لیکن اُس کے بولنے میں تکلیف تھی اسلئے ٹھیک سے بول۔نہیں پایا تب سکندر اندر آیا تھا اور یہ بتاتے ہوئے کے اُن کی سلامتی کی لیے ماہر کا سب کچھ بھولنا بہت ضروری ہے اُس نے ایک انجکشن اُس کے بازو میں لگایا تھا وہ آنکھیں بند ہونے تک نفیسہ کو دیکھتا رہا تھا اور اُس کے بعد جب وہ بے ہوش ہوا تو دو سال بعد ہی ہوش میں آیا

شاید آج سکندر کی بات جان کر وہ دکھی ہو گیا تھا تبھی اُس کے چہرے پر اُداسی نظر آرہی تھی عریشہ دادی سے کچھ ہی فاصلے پر بیٹھی تھی صوفے پر کھنی رکھ کر گال پر ہاتھ رکھے اور اُس کی نظریں ماہر پر جمی تھی دھیان اُس کی باتوں سے زیادہ اُس کے لب و لہجے پر تھا 

جو ہوا اُسے بھول جاؤ بیٹا۔۔۔۔۔۔پچھلی باتوں کو یاد کرنے سے صرف تکلیف ہی ملنی ہے۔۔۔۔اب صرف آگے دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا  وہ اُن کا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا تب عریشہ کو دیکھا جو اب بھی اُس اندا میں اُسے دیکھ رہی تھی ماہر کی نظروں کا بھی اُس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور وہ  اسی طرح اُس پر نظریں جمائے بیٹھے تھی ماہر کو حیرت ہوئی اور دادی نے بھی دیکھا تو دھیمے سے مسکرا دی شاید اُنھیں وہاں سے اٹھ جانا ہی ٹھیک لگا تب ہی وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی لیکن عریشہ کا اس بات پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور ماہر بنا ہنسے نہیں رہ سکا وہ دھیرے سے اُس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا تھا اور اُسی کے انداز میں چہرہ ہتھیلی پر رکھے اُسے دیکھنے لگا پھر کچھ سوچتے ہوئے سیدھا ہو کر چہرہ اُس کے چہرے کے قریب لے گیا دھیرے سے اطراف میں نظریں گھما کر دیکھا کے کوئی موجود تو نہیں اور اُس کے چہرے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے اُس کے ہونٹوں پر جھکا لیکن اُس کا ہاتھ محسوس کرتے ہی عریشہ ہوش میں آئی تھی اور فوراً سیدھی ہو کر پیچھے ہوئی تھی اور صوفے کے کونے سے لگ گئی تھی 

یہ کیا کر رہے آپ ۔۔    

وہ گھبرا کر بولی تھی اور اُس کی گھبراہٹ اُس کے گلے میں بڑھتی گہرائی سے صاف ظاہر ہو رہی تھی

تم مجھے دیکھنا چاہ رہی تھی اس لیے میں قریب آگیا تھا تاکہ تمہیں دیکھنے میں آسانی ہو ۔۔۔

میں کیوں آپ کو دیکھوں گی اور دادی کہاں ہے

وہ اس پاس نظر دوڑاتی ہوئی بولی

اتنی بے شرمی سے تم مجھے گھور ے جا رہی تھی بے چاري دادی خود ہی اندر چلی گئی شرم کے مارے ۔۔۔۔۔

وہ ہنستے ہوئے بولا اور عریشہ نے خود کو کوسا کے دادی کیا سوچ رہی ہوگی اُس کے بارے میں

افف۔۔

وہ پریشان ہو گئی ماہر مسکراتے ہوئے اُس کے قریب ہوا تھا

پہلے کیوں نہیں بتایا کہ اتنا دل کر رہا ہے مجھے دیکھنے کا میں ہٹتا ہی نہیں تمہاری نظروں سے دور

ماہر شرارت سے بولا تھا اور عریشہ گھبرا گئی تھی مزید پیچھے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی وہ دھیرے سے اٹھتی ہوئی وہاں سے جانے لگی ماہر نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا

عریشہ۔۔۔      

میں کافی ٹائم سے کہیں باہر نہیں گیا تو میں سوچ رہا تھا کے کیا ہم آج شام ساتھ میں کافی پینے جا سکتے ہیں

وہ اُس کا ہاتھ چھوڑ کر اٹھتے ہوئے بولا تھا

جی نہیں مجھے بہت کام ہے۔۔۔۔

عریشہ نے انکار کرتے ہوئے کہا اور ماہر کا اب تک کہ موڈ خراب ہو گیا

ہاں میں بھول گیا تھا رانی وکٹوریہ پر پوری ریاست کی ذمےداری جو ہے 

وہ خود سے بڑبڑایا

کچھ کہا آپ نے۔۔۔۔۔۔

وہ جاتے جاتے رکی

نہیں۔۔۔

ہاں کہا۔۔۔۔۔۔

وہ پہلے انکار کر کے پھیر ہاں بولا عریشہ اُسے اُلجھن سے دیکھنے لگی

میں یہ کہہ رہا تھا کے دادی کو بہت بڑی غلط فہمی ہے تمہارے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔کے تم بہت سمجھدار ہو۔۔۔

وہ غصّہ کنٹرول کیے اطمینان سے بولا

آپ مجھے بیوقوف کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کی بات کر مطلب سمجھتے ہوئے حیرت اور غصے سے کہا

بلکل نہیں میری اتنی مجال کے میں تمہیں بے وقوف کہوں بے وقوف تو میں ہوں جو یہاں کھڑا ہو کر تم سے بات کر رہا ہوں

ماہر نے دانت پیستے ہوئے اپنی آخری بات مکمل کے اور اوپر پیشانی کے بالوں پر پھونک ماری اور پلٹ کر باہر جانے لگا عریشہ اُسے جاتے دیکھتی رہی

ماہر جی۔۔۔۔۔۔

کچھ یاد آنے  پر اُس نے ماہر کو آواز دی اور اُس کے پاس آئی

کہاں جا رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔

جہنم میں۔۔۔۔۔۔

ماہر نے بنا دیکھے غصے سے کہا اور اُس کے روٹھے انداز پر وہ بغیر مسکرائے نہیں رہ سکی لیکن جلد ہی ضبط بھی کر

 گئی

آپ باہر مت جائیے۔۔۔گھر پر ہی رہیے۔۔۔۔

اور گھر پر رہ کر کیا کروں یہ بھی بتا دو ۔۔۔۔کیوں کے اس گھر کی ٹیبل کرسیاں تو مجھ سے بات کرنا پسند کرینگی نہیں۔۔۔۔۔۔ہے نہ

وہ جل کر بولا

سکندر نے مجھے دھمکی دی تھی کے وہ آپکو ۔۔۔۔۔

اُس نے وجہ بتائی لیکن بات ادھُوری چھوڑ دی

میں نہیں چاہتی کے وہ آپ کو کوئی نقصان پہنچائے اس لیے آپ باہر نا ہی جائے تو بہتر ہے۔۔۔۔

اُس کے الفاظ میں اپنے لیے پیار اور فکر دیکھ کر ماہر کا غصّہ کہیں گم ہو گیا

ڈونٹ وری۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔۔اب میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔۔۔۔

وہ اُسے تسلی دیتا ہوا باہر نکلا تھا

رک جائیے ماہر جی۔۔۔۔۔۔

۔میں جانتی ہوں اب آپ اپنا خیال رکھ سکتے ہیں آپ کو میری ضرورت نہیں ہے اور میں کوئی زبردستی بھی نہیں کے رہی ہو  آپ کے ساتھ لیکن کم سے کم خود سے جڑے لوگو کی فیلنگز کی تو قدر کر سکتے ہے نا آپ دادی رائنا آپی ۔۔۔۔۔۔اگر آپ کو کچھ ہوا تو دکھ نہیں ہوگا کیا اُنھیں ۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کی بات کا کوئی اور مطلب نکالا تھا

میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔

ماہر نے حیران ہوتے ہوئے اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُس نے بات کاٹ دی

میں جانتی ہوں مجھے کوئی حق نہیں ہے دخل دینے کا لیکن میں آپ کی حفاظت کے لیے یہ کہہ رہی ہوں اگر آپ کو برا نہ لگے تو گھر میں ہی رہیے گا

وہ اپنی بات ختم کر کے جا چکی تھی اور ماہر اُسے بے یقینی سے دیکھ رہا تھا

اس لڑکی کا دماغ خراب ہے کونسی بات کو کہاں لے جاتی ہے سامنے والے کو موقع تک نہیں دیتی اور خود شروع ہوجاتی ہے اب یہ سب فضول کی باتیں کہاں سے آگئی بیچ میں۔۔۔۔میں نے ایسا بھی تو کچھ غلط نہیں کہہ دیا تھا۔۔۔۔۔

اُس کی بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا وہ صرف اُسے تسلی دینا چاہتا تھا کے اب وہ ٹھیک ہے اور مشکلوں کا سامنا کر سکتا ہے لیکن عریشہ کی باتیں اُس کا دل دُکھا گئی اُسے غصّہ آرہا تھا اس لیے وہ عریشہ کی بات نا مانتے ہوئے باہر نکل گیا

فون پر اُسے خبری نے بتایا کہ ماہر ابھی ابھی کہیں جانے کے لیے نکلا ہے تو اس نے ٹھیک ہے کہ کر فون بند کیا اور ڈراور سے بندوق نکال کر اپنے پاس رکھتے ہوئے باہر نکلا

کہاں جا رہے ہو سکندر۔۔۔۔

نفیسہ۔ نے اُسے بندوق رکھتے دیکھ لیا تھا اس لیے گھبرا کر پوچھا

ماہر کو جان سے مارنے۔۔۔۔ ۔

اس نے دوٹوک جواد دیا اور آگے بڑھا

سکندر تم۔ایسا نہیں کروگے جو بھی ہو بھائی ہے وہ تمہارا

نفیسہ نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے روکا

میرا کوئی بھائی نہیں ہے وہ صرف میرا دشمن ہے جب تک وہ زندہ ہے میں سکون سے نہیں رہ پاونگا اُسے مرنا ہی ہوگا

وہ غصے سے بولا عالیہ بھی اپنے روم سے باہر آئی تھی

نہیں بیٹا ایسا مت کرو میں نہیں چاہتی کے اُس کا قتل کرکے تم مجرم بنو اب ہمارے پاس سب کچھ تو ہے کوئی کمی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔پھر کیوں اپنی ضد میں آکر مصیبت کو بلا رہے ہو

نفیسہ نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

مام یہ اموشنل باتیں میرے ساتھ نا ہی کریں تو بہتر ہے ۔۔میں ماہر جیسا بیوقوف نہیں ہوں میں اپنا صحیح غلط سمجھتا ہوں اسلئے آپ کو میرے معاملے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے

وہ اُن کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولا

نہیں سکندر۔۔۔۔۔۔۔

وہ جانے لگا تو نفیسہ نے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے اس کا راستہ روکا

مام ہٹ جائیے۔۔۔۔  

میرے راستے میں مت آئیے آپ میں ماہر کو نہیں چھوڑنے والا

اس نے نفیسہ کا بازو پکڑ کر اُسے سائڈ میں کیا تھا اور وہ دیوار سے لگی اُسے  حیرت سے جاتے دیکھ رہی تھی علیہ نفیسہ کا پاس آئی اُسے روتے دیکھ

میں کیا اُسے کچھ کہوں میں نے اپنے ہاتھوں سے اُسے اس کھائی میں دھکیلا ہے ۔۔۔۔۔

نفیسہ کو احساس ہو رہا تھا کے اس نے کیا کیا ہے

مام مجھے جانا چاہیے پتہ نہیں سکندر بھائی کیا کرنے والے ہے

عالیہ نے پریشان ہوتے ہوئے کہا

ہاں چل میں بھی چلونگی ۔۔۔۔۔۔۔ 

نفیسہ بھی آنسووں صاف کرتے ہوئے اٹھ گئی

💜💜💜💜💜

عریشہ میں عالیہ بول رہی ہو

عرش نے عالیہ کی آواز سنی تو حیران ہوئی

 ہاں بولو۔۔۔۔۔۔عالیہ کے لہجے میں پریشانی محسوس کرکے وہ بنا غصّہ کیے بولی

ماہر بھائی کہاں ہے اُن کی جان خطرے میں ہے

عالیہ نے جلدی سے پوچھا

۔کیا کہہ رہی ہو تم

۔اریشہ نے اُلجھن سے پوچھا تو عالیہ نے اُسے ساری بات بتا دی عریشہ کے پیروں تلے زمین ہلنے لگی تھی اس نے دیوار کا سہارا لیا اور فون اُسے طرح چھوڑ کے ننگے پیر باہر کی جانب بھاگی

💜💜💜💜💜

ماہر کی گاڑی کے ٹھیک سامنے آکر سکندر نے گاڑی روکی اور اتر کر باہر آیا ماہر بھی گاڑی سے باہر نکلا وہ ایک سنسان علاقہ تھا وقفے وقفے سے گاڑیاں آتی جاتی تھی اسی لیے سکندر اُسے اس جگہ روکا تھا تاکہ کوئی بیچ میں نا آئے ماہر اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا سکندر نے بندوق نکال کر اس کے اوپر تان دی ماہر کو حیرانی سے زیادہ دکھ ہوا

تیار ہو جاؤ اپنے پیارے ابو جان کے پاس جانے کے لیے

اگر تمہیں میرے مرنے سے خوشی ملتی ہے تو ٹھیک ہے مار دو مجھے ۔۔۔لیکن کیا میں ایک بار جان سکتا ہوں کے اتنی نفرت کیوں ہے تمہیں مجھ سے ۔۔    میں نے تو تمہیں ہمیشہ سگے بھائی سے بڑھ کر سمجھا پھر کیوں تم مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہو

ایک نہیں ہزاروں وجہ ہے اس کی ۔ ۔۔تمہاری وجہ سے ہمیشہ ہی مجھے نیچے رہنا پڑا کسی کے پاس کوئی ویلو نہیں تھی میری سب کے لیے بس ایک ہی نام تھا۔۔     ماہر۔۔۔۔تمہارے آگے مجھے کبھی امپورتنس نہیں دی گئی یہاں تک کہ خود میرے باپ نے مجھے کبھی اپنا بیٹا نہیں سمجھا پیار کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔۔۔ کیوں کے تم تھے نا اُن کے بیٹے میں تو کچھ بھی نہیں تھا اُن کے لیے 

تم پاپا کو کبھی سمجھ نہیں پائے سکندر   ۔۔۔وہ مجھ سے زیادہ تمہیں چاہتے تھے

ماہر اس کی بات کاٹ کے بولا تھا

اچھا تبھی مجھے ھر بات پر ڈانٹتے تھے کبھی پیار سے بات نہیں کرتے تھے اور ایک دِن ساری جائداد اٹھا کر دے دی تمہیں اکیلے کو

دولت محبت کی ضمانت نہیں ہے سکندر    اس بات سے تم یہ طئے نہیں کر سکتے کے وہ تم سے پیار نہیں کرتے تھے  ۔۔اُنہوں نے کچھ سوچ کر ہی یہ فیصلہ کیا ہوگا ۔اور اب تو سب کچھ مل چکا ہے نہ تمہیں تو اب کیا چاہتے ہو

ماہر جانتا تھا سکندر کو بگڑتا دیکھ انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہوگا لیکن اُسے یہ بات اُن کے جانے کے بعد پتہ چلی تھی ورنہ وہ کبھی اُنہیں ایسا کرنے نہیں دیتا

تمہاری موت۔      

تمہارے خون سے ہی مجھے سکون ملے گا۔  آج تک کی ہر بات کا بدلہ لینے کے لیے۔۔  ۔مجھے ہمیشہ نیچا دکھانے کا۔۔۔۔۔مجھ سے میرا حق چھیننے کا اور عریشہ۔۔۔۔۔عریشہ کو سبق سکھانے کے لیے اُسے بتانے کے لیے کے سکندر کوئی نہیں برا سکتا  ۔۔۔   تمہیں مرنا ہوگا ماہر۔۔۔۔۔

سکندر نے ایک بار پھر گن اس کے آگے کر دی تھی اور ماہر کو جانے کیوں یہ غلط فہمی تھی کے وہ اُسے نہیں مارے گا تبھی وہ سکون سے کھڑا رہا لیکن سکندر نے گولی چلائی تھی اور سیدھے اس کے دل پر چلائی تھی لیکن اس کے دل کو گولی چھو نہیں پائی کیوں کے نفیسہ نے سکندر کو دھکا دیا تھا اور وہ زمین پر گرا تھا گولی ماہر کے دائیں بازوں کو چھو کر گزری تھی اور اس نے کافی گہرا گھاو دیا تھا اور اُسکی سفید آستین سرخ ہو گئی تھی

وہا ٹ دا ہیل اس دس مام۔۔۔ ۔۔  یہ کیا کیا آپ نے

سکندر اٹھ کر نفیسہ کی جانب غصے سے بڑھا

بھائی آپ ٹھیک تو ہے نا 

ماہر نے گاڑی کا سہارا لیا تھا عالیہ نے اُسے سنبھالتے ہوئے پوچھا تو اس نے سر اثبات میں ہلا دیا لیکن درد اس کے چہرے سے صاف نظر آرہا تھا

میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دونگی سکندر

نفیسہ نے اس کے دونوں بازو پکڑے تھے

میں نے آپ سے کہا تھا نا آپ بیچ میں مت آئیے اچانک سے اتنی ممتا کہاں سے جاگ گئی آپ میں جو آپ اسے بچانے کے پیچھے پڑی ہے 

آپ نہیں جانتی کے اسے دیکھ کر کتنا غصّہ آتا ہے مجھے کتنی نفرت محسوس ہوتی ہے اس سے 

اس نے دوبارہ ماہر کی جانب دیکھا اور زمین سے بندوق اٹھائی

سکندر

نفیسہ نے اُسے روکنا چاہا لیکن اس کے سر پر خون سوار تھا تبھی اس نے بندوق اٹھا کر ماہر کی جانب بڑھائی تھی نفیسہ نے اس سے بندوق چھیني چاہی تو اس نے نفیسہ کو زور سے دھکا دیا جس سے وہ زمین پر جا گری

ہٹ جائیے مام۔۔۔۔۔۔

سکندر۔۔۔۔۔  

نفیسہ کو گرتے دیکھ ماہر غصے سے چلّایا اور اس کا کالر پکڑ لیا نفیسہ کو عالیہ نے اٹھایا

بس بہت ہو گیا ۔۔۔کمینے پن کی بھی حد ہوتی ہے مام کو دھکا دینے کی ہمت کیسے کی تم نے

ماہر نے کالر سے اُسے کھنچ کے غصے سے کہا

تمہیں کیا لینا دینا میں دھکّا دوں۔۔۔۔ہاتھ اٹھاو۔۔۔۔ماروں۔۔۔۔۔۔  میری مرضی۔۔۔۔۔ ۔میری ماں ہے وہ 

وہ میری بھی ماں ہے۔۔۔۔۔ اور میں تمہیں اُن کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرنے دونگا

اس نے دوسرے ہاتھ سے بھی اس کی کالر پکڑے ہوئے کہا سکندر نے اُسے دھکا دیا تو وہ لڑکھڑا کے پیچھے ہوا

بس بہت ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔

اب کی بار وہ غصے سے اُسکی جانب بڑھا اور اس کے ہاتھ اٹھانے سے پہلے پکڑ کے اس کے منہ پر مکّہ رسید کیا سکندر نے بھی اس پر وار کیا ماہر نے اُسے گاڑی کی طرف دھکیلتے ہوئے ایک کے بعد ایک کئی لاتیں اور گھونسے اس کے پیٹ اور منہ پر جڑ دیے سکندر نے ایک موقع پا کر اُسے زور سے زمین پر دھکیلا جس سے اس کا سر پتھر سے ٹکرایا تھا اور خون بہنے لگا تھا مگر وہ اس درد کو برداشت کرتے اٹھ کر اس کی جانب بڑھا تھا اریشہ وہاں پہنچی تو یہ منظر دیکھ کر بری طرح ڈر گئی اوپر سے ماہر کی پیشانی سے بہتا خون اور خون سے بھیگی آستین اس کا دل حلق م آگیا تھا

یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔ماہر  جی۔۔۔۔۔۔

وہ اس کی جانب بڑی تھی لیکن ماہر دیوانہ وار سکندر کو مارنے میں مصروف تھا سکندر بھی موقع پاتے ہی وار کر دیتا لیکن اس کی ہمت شاید جواب دے گئی تھی تب ہی وہ نڈھال سے ہو کر ایک وار سے زمین اور جا گرا ماہر نے اس کا کالر پکڑ کر اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر اس کے منہ پر مارا وہ دوبارہ زمین پر گرا ماہر نے اُسے پھر سے اٹھایا سکندر کوئی بھی وار کرنے لائق نہیں بچا تھا اس کی آنکھیں بھی بند ہونے لگی تھی

ماہر جی چھوڑ دیجئے اسے

اریشہ نے سکندر کی حالت دیکھ ماہر کو روکنے کے کوشش کی نفیسہ اور عالیہ شاید اُسے روکنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے ماہر کے ہاتھ سے خون بہنے میں اور روانی آچکی تھی اس کی ہتھیلی سے خون کی بوندیں ٹپک رہی تھی وہاں لوگ رک کے دیکھنے لگے تھے اور کافی لوگ بھی جمع ہو چکے تھے

انسانیت تو بھول ہی چکے تھی اب جانور بھی بن چکے ہو تم اور جانوروں کو قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے

ماہر نے ایک بار پھر اُسے مار کر گرایا تھا اور پھر کالر پکڑ کے اٹھایا تھا

ماہر جی چھوڑیئے ۔   بھائی ہے یہ آپ کا۔۔

ایک بار پھر وہ اس پر وار کرتا ماہر اریشہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا

یہ میرا بھائی نہیں ہو سکتا عریشہ۔۔۔۔اتنا گھٹیا اتنا کمینہ۔۔۔۔۔اس کے دماغ میں اتنی گندگی بھری ہو سکتی ہے میں  نے سوچا بھی نہیں تھا ۔۔میں نے غلطی کی جو بچپنا سمجھ کر سب نظر انداز کرتا چلا گیا اگر پہلی ہی غلطی پر اسے دو تھپڑ لگاتا تو آج یہ اتنی دور نا نکلا ہوتا

اس نے سکندر جو زور کا دھکا دیا اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر زمین اور گرا تھا

کیا ہو رہا ہے یہ سب ۔۔۔۔۔۔

پولیس کی گاڑی وہاں آئی تھی شاید لوگوں میں سے کسی نے اُنہیں خبر کر سے تھی۔نفیسہ نے سکندر کا بازو پکڑ کر اُسے اٹھایا

انسپکٹر صاحب گرفتار کر لیجئے اسے اس نے ماہر کو جان سے مارنے کی کوشش کی ہے

۔سکندر کو اس نے انسپکٹر کے حوالے کیا اریشہ اور ماہر نے اُنہیں حیرت سے دیکھا وہ سکندر کو گرفتار ہوتے دیکھ رہی تھی اور ماہر اُنہیں اریشہ نے ماہر کی جانی۔ دیکھا اس کے چہرے پر کئی چوٹیں لگی تھی اور پیشانی سے بہتے خون کی لکیر تھوڑی تک آگئی تھی

ماہر جی یہ چوٹ۔۔۔۔    

اریشہ نے اُسے کہنا چاہ لیکن اس کا دھیان نفیسہ کی جانب تھا وہ جا نتا تھا کے اس وقت وہ کیا محسوس کر رہی ہوگی

پلیز ماہر جی اپ پہلے ہاسپٹل چلیے بہت خون بہہ رہا ہے

اریشہ نے اس کا بازو تھامتے ہوئے کہا نفیسہ نے پلٹ کے اس کی جانب دیکھا

ہاں بیٹا چلو۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ نے اُسے ہوش دلایا تو وہ آکر اریشہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا

💜💜💜💜

مام آپ نے سکندر کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نے اس کی ڈریسنگ کر دی تھی عالیہ اور نفیسہ وہیں موجود تھی  جب ماہر نے کہا

۔۔۔

اسی لائق ہے وہ اگر آج بھی اُسے سزا نہیں دی تو کبھی اپنی غلطی نہیں سمجھ پائیگا۔۔۔۔۔۔اُسے پتہ ہونا چاہیئے کے زندگی بے مول نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔

نفیسہ نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی کہا  اریشہ کو یقین نہیں ہوا کے وہ یہ بات کھ سکتی ہے تبھی اُسے بے یقینی سے دیکھنے لگی

میں جانتی ہوں مجھے کوئی حق نہیں ہے یہ سب کہنے کا کیوں کے جڑ تو میں ہی ہوں ۔۔۔۔میں نے ہی اُس کے ذہن میں یہ نفرت کے بیج بوئے تھے یہ پھل تو ملنا ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔جو کوئی ماں نہیں کرتی وہ میں نے کیا اپنے بچوں کی زندگی خراب کی میں نے ۔۔۔۔۔اُنھیں دولت کے لالچ میں انسانیت سے دور کر دیا

نفیسہ اریشہ اور ماہر دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے بولی اور آکر ماہر کے پاس بیٹھ گئی

تمہاری ماں کوئی بہت اچھی اور نیک عورت رہی ہوگی ماہر تبھی تو تم اتنے نیک ہو۔ مجھ جیسی عورت کی اولاد تو سکندر جیسی ہی ہو سکتی ہے انسان کو اُس کے گناہوں کی سزا اسی دنیا میں ملتی ہے شاید یہی میری سزا ہے کے میں اپنی اولاد کو تکلیف میں دیکھوں۔۔۔۔۔۔تم نے ہمیشہ مجھے اپنی ماں سمجھ کر پیار کیا لیکن میں نے تمہیں کبھی اپنا بیٹا نہیں سمجھا شاید اسی لیے آج میرے بیٹے نے اپنی ماں کو ماں نہیں سمجھا 

وہ روتے ہوئے ماہر کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر بولی ماہر نے اُن کے ہاتھ اور ہاتھ رکھا

مجھ سے اچھی تو یہ لڑکی ہے جو کچھ دِن پہلے ہی تمہاری زندگی میں آئی ہے لیکن تمہارے لیے ہم سب سے لڑ گئی ۔۔۔۔۔۔چند دن میں ہی اپنے رشتے کو حق سے زیادہ نبھایا اس نے۔۔۔ اور میں برسوں میں کبھی تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکی ۔۔۔۔۔پیار ایسا ہوتا ہے ماہر ۔۔۔۔۔بے غرض ۔۔۔۔

انھونے اریشہ کی جانب دیکھ کے کہا اور ماہر نے صرف ایک پل کے لیے اریشہ کو دیکھ کر نظریں ہٹا لیں

اللہ تو شاید ہی مجھے کبھی معاف کرے ہو سکے تو تم دونوں مجھے معاف کر دینا شاید میرے گناہ کچھ کم ہو جائے

نفیسہ نے سر جھکائے کہا

نہیں مام پلیز۔۔۔۔۔۔ماں معافی نہیں مانگتی۔۔۔۔۔۔مجھے گنہگار مت کیجئے۔۔۔۔۔۔۔مجھے کوئی شکایت نہیں ہے آپ سے آپ نے میری زندگی میں ماں کی کمی کو پورا کیا ہے اور اس قرض کو میں جان دے کر بھی نہیں  چکا سکتا 

ماہر نے اُن کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا

کس مٹی کے بنے ہو تم کیا تمہیں غصّہ نہیں آتا مجھ پر۔۔۔۔۔۔

نفیسہ نے پیار بھرے لہجے میں کہا اور ماہر اُن کے گلے لگ گیا آج حقیقت میں نفیسہ شرمندہ تھی اُن کے دل میں پچھتاوا تو اسی دن سے تھا جب ماہر واپس آیا تھا لیکن آج سکندر کو ایک بڑے مستقبل کی جانب دیکھ شدّت سے اپنے گناہوں کا احساس ہو رہا تھا اور ماہر کی قدر بھی نفیسہ اس سے الگ ہو کر وہاں سے اٹھائی اور اریشہ کے پاس آئی

معاف کر دینا مجھے ۔۔۔۔ہر ماں یہ ہی چاہتی ہے کے اُس کے بیٹے کو ایک  ایسی بیوی ملے جو اُس کی زندگی کو خوبصورت بنا دے اُس کے لیے پوری دنیا کو بھول جائے ۔۔۔تم بلکل ویسی ہی ہو لیکن میں ہی اچھی ماں نہیں ہوں تو کیسے تمہاری قدر کرتی ۔۔۔۔معاف کر دینا بیٹا ہمیں ہم گنہگار ہے تمہارے۔۔۔

نفیسہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہہ اریشہ اُسے جتنا جانتی تو اس اور یقین نا کرتی لیکن نفیسہ کی آنکھوں میں پشیمانی دیکھ وہ چاہ کے بھی خود کو روک نہیں پائی اور اُن کے گلے سے لگا گئی عالیہ ماہر کے پاس آئی اور اس کے گلے لگ گئی

عالیہ مام کو لے کر گھر جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ مام آپ گھر جا کر ریسٹ کیجئے اور کوئی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے نا سوچنے کو ضرورت ہے

نفیسہ کو پریشانی میں دیکھ کر اس نے یقین دلاتے ہوئے کہا عالیہ اُنہیں۔ اپنے ساتھ لیے گھر چلی گئی اور اریشہ نے اُن کے جانے کے بعد رائنا کو فون کرکے ساری صورتِ حال بتا دی۔۔۔

رائنا کو فون پر سب بتانے کے بعد وہ واپس اندر آئی ماہر اسی طرح بیٹھا اپنی سوچوں میں گم تھا 

وہ آ کر اس کے پاس بیٹھی اور سے خفگی سے گھورا ماہر اسے دیکھتا رہا بنا کچھ کہے بنا کچھ بولے عریشہ اس کے سینے سے لگ گئی اور اپنے دل کا غبار اتارنے لگی وہ اسے تکلیف میں دیکھ کر کتنا ڈر گئی تھی صرف وہی جانتی تھی 

 الگ ہو کر اس نے ماہر کو غصے سے دیکھا 

کیا سمجھتے ہیں آپ خود کو میں نے منع کیا تھا نہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے۔۔۔۔۔ کیا  آپ کو میری کوئی پروا نہیں ہے جو مجھے ہر بار تکلیف دیتے رہتےہے۔۔۔۔۔۔۔  کیا آپ کو مجھے پریشان دیکھ کر خوشی ملتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ ہے کتنا گھبرا گئی تھی میں اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو کیا ہوتا میرا۔۔۔۔۔۔۔ پہلے آپ کہا کرتے تھے مجھے کبھی رو نے نہیں دیں گے اور اب جب سے واپس آئے ہیں مجھے تکلیف پر تکلیف دیئے جا رہے ہیں آپ کو نہ میرے ر ونے سے فرق پڑتا ہے نہ میری اداسی  سے ۔۔۔

وہ آج پہلی بار اُس سے شکایت کر رہی تھی ماہر نے چھت کی جانب دیکھا

خدا کا شکر ہے ۔۔۔۔۔

 ایک گہری أه بھرتے  ہوئے کہا 

دماغ خراب ہے آپ کا ایسی حالت کے لئے کوئی خدا کا شکر ادا کرتا ہے بھلا 

اگر یہ سب نہیں ہوتا تو تمہارے دل کے جذبات زبان پر کیسےآتے  اتنے دنوں تک جب تم چپ تھی  خاموش تھی  مجھے کتنی تکلیف ہو رہی تھی تمہیں پتا بھی نہیں ہے آج کم سے کم اسی بہانے تم نے اپنے جذبات کا اظہار تو کیا 

ماہر نے اُس کے چہرے پر نظریں جمائے کہا عریشہ کچھ پل کے لیے خاموش ہو کر اُسے دیکھنے لگی

تو اور کیا کرتی میں کتنی تکلیف ہوئی تھی مجھے آپ کی بات سن کر کی آپ مجھے بھول گئے آپ مجھے کیسے بھول سکتے ہیں ماہر جی ہمارا رشتہ تو دل کا تھا نا 

برداشت نہیں ہو رہا تھا مجھ سے آپ کے چہرے پر اپنے لئے اجنبیت دیکھ کر آپ کے بدلے ہوئے لہجے میں غیروں جیسی فیلنگز آرہی تھی مجھے۔۔۔۔۔ آپ کا بدلا ہوا انداز آپ کی باتیں سب کچھ بہت اجنبی لگ رہا تھا مجھے کی  اس لئے میں بھاگ رہی تھی آپ سے 

عریشہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا ماہر نے اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کیا

میں سمجھتا ہوں لیکن کیا تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا عریشہ کے  اس میں میری کیا غلطی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر یہ سب نہیں کیا میرے ذہن سے اگر وہ ساری باتیں بھول چکی ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ جب میں نے تمہیں اس دن دیکھا تو مجھے تمہارا چہرہ اجنبی لگا مجھے یاد نہیں تھا کہ تم میری بیوی ہو مجھے ہمارا نکاح یاد نہیں تھا بھلے ہی میرے ذہن سے تمہاری ساری یادیں مٹ  چکی تھی مگر میں پھر بھی تمہیں اپنے دل کے قریب محسوس کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔مجھے کبھی نہیں لگا کہ مجھے تم سے محبت کرنی پڑے گی کیونکہ میں پہلے ہی اپنے دل میں تمہاری محبت محسوس کر رہا تھا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری ناراضگی سے مجھے فرق پڑتا تھا تمہیں روتا دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی تھی اس لیے  میں تم سے بات کرنا چاہتا تھا  تمہیں سمجھانا چاہتا تھا تمہیں منانا چاہتا تھا تمہیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ میری زندگی میں تمہاری کیا امپورٹنس ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں تم سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ پچھلا سب کچھ بھول چکا ہوں  لیکن تمھارے ہی  ساتھ ایک نئی شروعات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تم تو مجھے سمجھتی تھی نہ اریشہ تو کیوں نہیں سمجھ پائی یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔میں جانتا ہوں تمہیں تکلیف ہوئی ہے اور یہ تکلیف میں نے ہی دی ہے لیکن کیا تم نے میرے بارے میں سوچا ۔۔۔۔۔۔ میں اپنی زندگی کے دو سال کھو چکا ہو مجھے کچھ یاد نہیں ہے کہ میں ان دو سالوں میں کہاں رہا میں نے کیا کیا میری ہر یاد مٹ  چکی ہے میں چاہوں تو بھی وہ دو سال  واپس نہیں لا سکتا اسی لئے  ۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیے میں اب ایک لمحہ بھی نہیں گنوا نا چاہتا مجھے تمہاری ضرورت ہے عریشا آئی نیڈ یو ۔۔ ۔

اُسے اب جب موقع ملا تو اُس نے بنا رکے دل کی ہر بات اُس کے سامنے رکھ دی تھی عریشہ اُس کی نظروں کو سیدھے اپنے دل میں اترتا محسوس کر رہی تھی غلطی تو اُس سے بھی ہوئی تھی واقعی اس بار وہ ماہر کو سمجھ نہیں پائی تھی شاید اس لیے کیوں کے یہ معاملہ دل کا تھا اور دل کے فیصلے لیتے وقت انسان اکثر کمزور پڑ جاتا ہے

مجھ سے ناراض رہ کر مجھے یوں تکلیف مت دو میرا ساتھ دو میں اگر سب کچھ بھول گیا ہو تو مجھے یاد دلاؤ نئ یاد بنانے میں میری مدد کرو 

ماہر نے اُس کا چہرہ اُسے طرح تھامے ہوئے تھا اور وہ چپ ہو کر خالی نظروں سے اُسے دیکھے جا رہی تھی

آج چپ مت رہو عریشہ ۔۔۔۔۔۔ پلیز کچھ بولو 

ماہر اُس کی خاموشی سے عاجز ہو کر بولا عریشہ ہوش میں آئی اور اُس کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی

آپ کو آرام کی ضرورت ہے چلیں ۔۔۔۔۔۔

اُس نے بات ایک دم سے بدل جس اور ماہر بہت حیران ہوا مطلب اتنی باتیں بتانے کے بعد بھی اُس اور کو اثر نہیں ہوا تھا

جب تک تم مجھے میری بات کا جواب نہیں دیتی مجھ سے بات نہیں کرتی مجھے آرام نہیں آئے گا 

وہ اُداس ہوتے ہوئے بولا

گھر چل کر بات کریں گے ماہر جی۔ چلیے دادی پریشان ہوجائیں گی 

عریشہ نے دادی کی بات کی تو وہ اٹھ گیا لیکن اُسے دکھ ہوا تھا میں عریشہ اب بھی اُسے نہیں سمجھ رہی

💙💙💙💙💙

وہ کافی دیر سوکر جب نیند سے جاگا تو خود کو اکیلے پایا عریشہ روم میں نہیں تھی اسے بہت غصہ آرہا تھا اتنا سب کچھ کہنے کے بعد بھی عریشہ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا اس کے جذباتو کی کوئی قدر ہی نہیں تھی وہ دھیرے  سے بیڈ  سے اترا پورا بدن اور سر  درد کر رہا تھا لیکن پھر بھی وہ ابھی دادی کے پاس جانے کی سوچ رہا تھا جانتا تھا وہ بہت پریشان ہوئی ہوگی ان سے بات کرکے ان کو تسلی دینا چاہتا تھا اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے چاہے لیکن بازو بہت درد کر رہا تھا اس لئے اس کے ہونٹوں سے ہلکی سی آہ نکلی پر  وہ ہمت کرکے دوبارہ بٹن کھولنے لگا شرٹ  اتارنے میں بھی  اسے  تکلیف ہو رہی تھی  عریشہ اندر آئی اور جب اس نے دیکھا تو وہ اس کے قریب آی 

دیجئے میں کرتی ہوں     

اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہویے اس کی شرٹ نکالنی چاہی

رہنے دو میں خود کر لوں گا مجھے کسی کی ضرورت نہیں 

ماہر نے اپنے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اسے روکا تو وہ مسکرائی اور آگے بڑھی 

کبھی کبھی دوسروں کی مدد بھی لے لینی چاہئے 

وہ پیچھے سے اس کی شرٹ نکال کر  الگ کرتے ہوئے بولی ماہر نے اسے خفگی  سے گھورا 

وہ دوسری شرٹ نکال کر اسے پہنانے لگی 

احسان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کر لوں گا میں 

ماہر نے اُس کے ہاتھ سے شرٹ چھین لی جسے اگلے ہی پل عریشہ نے واپس کھینچا

اتنی فورمل باتیں مت کیجئے یہ پہلی بار نہیں ہیں جو آپ  میرے ہاتھوں سے شرٹ پہن رہے ہیں 

اُس نے ماہر کے ہاتھ آستین میں ڈالتے ہوئے کہا

Really 

ماہر حیرت سے پوچھا

جی ہاں اور ایک نہیں کئی بار میں آپ کو پہنا چکی ہوں 

وہ سامنے سے آکر کالر ٹھیک کرتے ہوئی مسکرائی اُس کے بال اڑ کر ماہر کے چہرے پر جا رہے تھے

افف  ۔۔۔۔ تمھارے بال 

وہ اُلجھتے ہوئے بولا عریشہ کو پہلے والی بات یاد آئی تو وہ مسکرائی

اب یہ بھی یاد دلانا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔کے بال تنگ کر رہے ہیں تو کیا کرنا ہے 

وہ اُس کی جانب دیکھ کر مصنوعی غصے سے بولی تو ماہر نے ہاتھ سے بالوں کو پیچھے کیا لیکن دوبارہ جھکنے پر واپس بال سامنے آجاتے اور وہ اُنھیں آنکھوں  میں جانے سے بچا رہا تھا عریشہ نے ماہر کے دونوں ہاتھ پکڑ کر گلے کے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے اپنی گردن پر رکھے ٹھیک اُس طرح جیسے ماہر نے کیا تھا

ہولڈ  کرکے رکھیے ۔۔۔۔

اور اُس کا ڈائلاگ دوہراتے ہوئے وہ اُس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی ماہر کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی اور عریشہ بھی سر جھکائے مسکرائی بٹن بند ہونے کے بعد اُس نے ماہر کی جانب اشارہ کرکے پوچھا سمجھ گئے تو اُس نے گردن ہلا دی ماہر کے ہاتھ اُس کی گردن سے ہاتھ کر اُس کی کمر پر آگئے تھے اور اُسے جانے سے روکا ہوا تھا

مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کے تم میرے ٹھیک نا ہونے کا بہت فائدہ اٹھا  چکی ہو۔۔۔۔۔۔سچ سچ بتاؤ کچھ ایسا ویسا تو نہیں کیا نا میرے ساتھ

وہ دھیرے سے کہتا ہوا شرارت سے مسکرایا

ایسا ویسا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے آنکھیں سکیڑ کر اُسے گھورا وہ نظریں آنکھوں سے نیچے لیجاتے ہوئے اُس کے ہونٹوں پر جھکا کے اچانک زیان کی آمد پر ہڑبڑا کر دونوں پیچھے ہوئے

ماموں ۔۔۔۔

زیان دوڑتا ہوا اُس کی طرف آیا تھا اور اُس کے گرد ہاتھ باندھتے ہوئے پیار سے بولا تھا 

سیریسلی چھوٹے نواب فرسٹ ٹائم تیری اینٹری پر غصہ آ رہا ہے 

وہ جھک کر اُس کے گال کھینچتے ہوئے بولا اور عریشہ کی جانب دیکھا

ماموں نیچے چلو نا۔۔۔۔۔۔

زیان اُس کی بات پر بنا کچھ کہے اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا

اوکے چلو۔۔۔۔۔

وہ اُس کے ساتھ چلا گیا لیکن پیچھے پلٹ کر عریشہ کو دیکھنا نہیں بھولا

💜💜💜💜💜💜💜💜

کیا لگتا ہے آگے کیا ہوگا

کیا سکندر سدھر جائیگا

کیا ماہر اُسے معاف کر دیگا

کیا نفیسہ ناٹک کر رہی ہے

اور کیا عریشہ اور ماہر کے سامنے اب کوئی پروبلم نہیں آئےگی

نفیسہ نے واپس جانے کی کوشش کی تھی لیکن ماہر نے اُنھیں روکے رکھا تھا نفیسہ بہت شرمندہ تھی اور اُن کے واپس آنے پر دادی بہت غصّہ تھی

کیا ضرورت تھی اُسے یہاں لانے کی۔۔۔۔پہلے ہی کیا کم مصیبتیں پیدا کی ہے اُس نے جو دوبارہ بھروسہ کر لیں اُس پر ۔۔۔۔۔۔مجھے نہیں لگتا کے وہ اتنی آسانی سے سدھرنے والی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے نیچے آتے ہوئے دادی کی بات سنی وہ بہت غصے میں لگ رہی تھی رائنا بھی شاید اُن کی بات سے متفق تھی تبھی چپ رہی

دادی۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ اُن کے پاس آکر بیٹھی

دادی مجھے لگتا ہے اُنھیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے میں نے اُن کی آنکھوں میں پچھتاوا دیکھ ا  ہے۔۔۔۔۔ آپ بھی بیتی باتیں بھول کر معاف کر دیجئے اُنھیں

میں اُسے معاف نہیں کر سکتی کبھی۔۔۔۔۔ گنہگار ہے و میرے بچے کی۔۔۔

دادی نے غصے سے کہا عریشہ نے اُن کا ہاتھ  اپنے ہاتھوں میں لیا

دادی۔۔۔۔۔وہ پچھتا رہی ہیں اپنے کئے پر اور اس سے بڑھ کر کیا سزا ہو سکتی ہے ان کے لیے ۔۔۔۔۔۔ اپنی غلطی ماننے کے لیے بھی بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے ہمیں اُنھیں  ایک موقع دینا چاہیے ۔۔۔۔۔پلیز معاف کر دیجئے اُنھیں۔۔۔۔ آپ جانتی ہے ماہر جی کو ہمیشہ سے اُن کی ضرورت ہے۔۔۔۔پیار کرتے ہیں وہ اُن سے ۔۔۔۔۔اُن کی خاطر بس ایک بار معاف کر دیجئے

عریشہ نے اُنھیں سمجھاتے ہوئے کہا تو اُنہوں نے پیار سے اُس کے چہرے پر ہاتھ رکھا

تمہاری بات کیسے ٹال سکتی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی کی بات پر وہ مسکرا دی

💜💜💜💜💜💜💜💜

ماہر عریشہ کے ساتھ رائنا اور زیان بھی اُن کے کمرے میں بیٹھے تھی ماہر بیڈ سے ٹیک۔لگائے بیٹھا تھا اور زیان اُس سے لگ کر جب کے عریشہ اور رائنا صوفے پر بیٹھی باتیں کر رہی تھی اچانک رائنا ماہر کی جانب دیکھتے ہوئے ہنسی تو وہ حیران ہوا 

اب آپ کیوں ہنس رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔

ماہر اُس کے اچانک ہنسنے پر حیرت سے بولا

پتہ ہے تم نا پہلے بلکل بچوں جیسے بہیو کرتے تھے ۔۔۔۔ہر بات پر ضد کیا کرتے تھے ۔۔۔اور ایک دِن تو تم۔۔۔۔۔

وہ بات ادھُوری چھوڑ کر ہنستے ہوئے عریشہ کو دیکھنے لگی تھی اور عریشہ ٹی وی کی جانب دیکھ کر اُس کی بات کر مطلب سمجھ گئی تھی اور جلدی سے سر نفی میں ہلا دیا تھا

بتائیے بھی ۔۔۔۔۔۔

ماہر نے بے چینی سے پوچھا

وہ دیکھو۔۔۔۔۔۔

رائنا نے اُس کا دھیان ٹی وی کی طرف کیا جہاں ویسا ہی کوئی سین چل رہا تھا

ایک دن تم نے اپنی میڈم سے ضد کی کے تمہیں یہی کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے ہنستے ہوئے بتایا اور ماہر شرمندہ ہو کر سر جھکاتے ہوئے گردن سہلانے لگا 

آپی۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُسے غصے گھورا تو اُس نے دونوں کان پکڑ لیے 

ایک بات پوچھوں تم سے۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا اور زیان کے جانے کے بعد جب آکر بستر پر لیٹی تھی تو ماہر نے دھیرے سے پوچھا عریشہ نے سر اثبات میں ہلا دیا

کیا تم نے میری وہ ضد بھی پوری کی تھی 

ماہر نے اُسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا اور چند پل اُس کی آنکھیں میں دیکھنے کے بعد عریشہ نظریں جھکا گئی تھی ماہر نے اُس کے اور اپنے درمیان کا فاصلہ کم کرتے ہوئے اُس کے قریب ہو کر اُس کی کمر پر ہاتھ رکھا تھا 

میں آپ سے ایک بات پوچھوں ۔۔۔ ۔۔

وہ اُسے اُسی طرح دیکھے جا رہا تھا جب عریشہ نے دھیرے سے کہا اور ماہر نے سے ہلا کر اجازت دو

پوچھو۔۔۔۔۔

کافی دیر وہ چپ رہی تو ماہر نے دوبارہ کہا

آپ کو ہمارا نکاح یاد نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے جھجھکتے ہوئے کہا اُسے در تھا ماہر ناراض ہوگا اور وہی ہوا۔

افف تم پھر سے۔۔۔۔ 

ماہر بیزاری سے بولا

ماہر جی میری بات سنیے۔۔۔۔۔میں نے آج پڑ ھا کے نکاح پورے ہوش و حواس میں دل سے ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور اُس وقت تو آپ اپنے ہوش و حواس میں تھے ہی نہیں تو کیا ہمارا نکاح۔۔۔۔۔۔نہیں ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

عریشہ سنجیدگی سے کہا اور ماہر فوراً اُس کے اوپر سے ہاتھ ہٹا کر اُسے بے یقینی سے دیکھا

 کیا بکوس کر رہی ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔اب ایک نیا ٹاپک ڈھونڈھ لیا تم نے 

ماہر نے غصے سے کہا اور اٹھ کے بیٹھ گیا

آپ سمجھ نہیں رہے ہے۔۔۔۔۔۔

سمجھنا تو دور میں تمہاری بات سننا بھی نہیں چاہتا

وہ اُس کی بات کاٹ کے غصے سے بولا اور دوسری طرف ہو کر اُس کی جانب پشت کیے لیٹ گیا اور عریشہ چہ کر بھی کچھ کہہ نہیں پائی

💜💜💜💜💜💜💜

کیا باتیں ہو رہی ہے دادی پوتے کے بیچ میں۔۔۔۔۔

رائنا اور عریشہ دادی کے کمرے میں آئی تو دادی ماہر سے کچھ بات کرنے میں مصروف تھی عریشہ نے ماہر کی جانب دیکھا جو کب سے اُس سے ناراض تھا اور بھی ہی کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا

ہم ماہر کی دوبارہ شادی کے بارے میں صلاح کر رہے تھے۔۔۔۔۔

دادی نے بتایا تو رائنا کے ساتھ عریشہ بھی حیران ہوئی

دوبارہ شادی۔۔۔۔۔۔یہ آپ۔کیا کہہ رہی ہے دادی۔۔۔۔عریشہ کے ہوتے آپ ماہر کی دوسری شادی کیسے کروا سکتی ہیں

رائنا نے پریشانی سے کہا

ارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی میں سمجھاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے کچھ کہنا چاہا تو ماہر نے روک دیا

وہ کیا ہے نہ اسے ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کے میں سب کچھ بھول چکا ہوں کتنا بھی سمجھاؤ مناؤ سمجھتی ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔تاکہ اس بار سارے ہوش وحواس میں سب کچھ ہو اور مجھے زندگی بھر تانے نہ سننے پڑے

وہ عریشہ کی جانب دیکھتے ہوئے بولا تھا اور عریشہ اپنے آنسو روکے وہاں سے چلی گئی تھی

ماہر دماغ خراب ہے تمہارا۔۔۔۔ کیسی باتیں کر رہے ہو تم ۔۔۔۔اور دادی آپ۔۔۔۔آپ کیسے ماہر کی دوسری شادی کرنے کو راضی ہو گئی

رائنا بے یقین سے ہو کر پوچھ رہی تھی اور ماہر ہنسی روکے اُسے دیکھ رہا تھا

لڑکی پہلے پوری بات تو سن لیا کرو۔۔۔۔۔ماہر کی دوسری شادی نہیں بلکہ دوسری بار شادی کہا میں نے عریشہ کے ہی ساتھ۔۔۔۔۔۔۔

دادی نے بات صاف کی تو رائنا نے ایک گہری سانس لی

کیا۔۔۔۔۔

ہاں ماہر چاہتا ہے کے ساری رسمیں ایک بار پھر سے ہو اور وہ دوبارہ عریشہ سے شادی کرے

دادی نے مسکراتے ہوئے ماہر کی جانب دیکھا تو وہ زبان دانتوں میں دبائے اُسے دیکھ رہا تھا رائنا نے  اُسے گھورا

اففف۔۔۔۔۔۔کتنے خراب ہو تم۔۔۔۔۔پہلے کیوں نہیں بتایا  ۔۔۔۔عریشہ کو کتنا برا لگا ہوگا ۔ اب جاؤ اور جا کر مناؤ اُسے

رائنا نے اُس کے کندھے پر مارتے ہوگے کہا

جانے دیجئے نا آپی ویسے بھی بہت بھاؤ کھاتی ہے اسی بہانے میری تھوڑی قدر ہو جائیگی ۔ ۔۔

باتیں بند کرو اور جا کر معافی مانگوں ۔۔۔۔ورنہ مار پڑےگی ابھی۔۔۔۔۔۔    

رائنا نے اُسے دھمکاتے ہوئے کہا تو وہ اٹھ گیا

آپ جیسے رشتےدار ہو تو آدمی کو ویسے ہی دشمنوں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ 

وہ خفگی سے کہتا ہوا باہر نکلا اور رائنا ہنس دی

یہ سب کیا ہو رہا ہے

اندر آیا تو عریشہ آنسو بہاتے ہوئے بیگ میں  کپڑے بھر رہی تھی

کیا کر رہی ہو تم۔۔ ۔۔۔

اُس نے دوبارہ پوچھا اور اُس کے سامنے آیا

میں جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔

اُس نے بیگ بند کرکے کہا

کہاں جا رہی ہو  ۔۔

جہنم میں۔۔۔۔

جہنم کا داروغہ کیا تمہارا رشتےدار لگتا ہے جو بار بار وہاں جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہو 

کیا فرق پڑتا ہے آپ کو میں کہیں بھی جاؤ۔۔۔۔۔۔آپ جائیے اپنی دوسری شادی کی تیاریاں کیجئے ۔۔۔بہت شوق ہے نہ آپ کو

عریشہ غصے سے بولی

ہاں شوق تو ہے کم سے کم بیوی کا پیار تو نصیب ہو گا تم تو گھاس بھی نہیں ڈالتی مجھے

ہاں تو جائیے کوئی ڈھونڈھ لیجئے گھاس ڈالنے والی۔۔۔۔۔۔۔میں جا رہی ہوں

تم نہیں جا سکتی۔ ۔۔  ۔۔۔

ماہر نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور بیگ لینے سے روکا

کیوں روک رہے ہے اب مجھے۔۔۔۔ کیا ضرورت ہے میری۔۔۔۔۔۔۔

تمہارے بنا یہ شادی کیسے ہوگی۔۔۔۔۔

کیوں میں کیا کوئی قاضی ہوں جو میرے بنا شادی نہیں ہو پائے گی

عریشہ نے جھنجھلا کر کہا ماہر اُس کے قریب آیا اور اُس کا ہاتھ پکڑا

اگر تم چلی جاؤ گی تو اپنے ہاتھوں پر میرے نام کی مہندی کون لگائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کون سرخ جوڑا پہن کر میری دلہن بنے گی

۔کیا مطلب۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے نا سمجھی سے پوچھا

 میں تمہارے ساتھ دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔تاکہ جو کچھ ادھورا رہے گیا ہے وہ پورا ہو جائے  ۔۔۔۔ہمارے رشتے  میں کوئی کمی نا رہے ۔۔۔۔کسی اور سے شادی کے بارے میں تو میں سوچ بھی نہیں سکتا

اُس نے عریشہ کا چہرہ تھامتے ہوئے پیار سے کہا

۔لیکن ہاں اگر تم بعد میں بھی ایسے ہی مجھ سے بات بات پر لڑتی رہی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔

وہ بات ادھُوری چھوڑ کے مسکرایا

تو۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُسے گھورتے ہوئے کہا

تو کچھ نہیں۔۔۔تب بھی میں ایسا نہیں کرونگا

میں کرنے بھی نہیں  دونگی

عریشہ نے اُس کی شرٹ پکڑ کے کھینچتے ہوئے کہا اور دونوں ہنس دیے ماہر نے اپنی جیب سے ایک رنگ نکالی

 شادی سے پہلے پرپوز  کرنا بھی تو ضروری ہے 

عریشہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا اور اُسکی تیسری انگلی میں وہ انگوٹھی پہنا دی

Will you marry me۔۔۔۔۔۔

اُس کی اُنگلیاں اپنے ہاتھ میں لیے پیار سے پوچھا

No۔۔۔

عریشہ نے فوراً جواب دیا 

دو تھپڑ مارونگا اب اگر نخرے کیے تو   ۔۔۔۔۔

ماہر نے مصنوعی غصے سے کہا وہ ہنس دی ماہر نے اُس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگا پھر اُس کی کلائی پر ہونٹ رکھے اور تیسری بار تھوڑا اوپر کس کرنا چاہا تو عریشہ نے ہاتھ کھینچ لیا 

زیادہ چانس پے چانس مت ماریے ۔

کیوں اس میں کیا تکلیف ہے

ماہر حیرت سے بولا

مت بھولیے ابھی صرف پرپوز کیا ہے شادی نہیں ہوئی آپ سے۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور باہر چلی گئی

دادی ماہر کہاں ہے آپ کو بتا کر گیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائنا نے ڈائننگ ٹیبل پر بھی ماہر کو غیر حاضر دیکھ کے دادی سے پوچھا

نہیں مجھے تو نہیں پتہ صبح سے نہیں دیکھا میں نے اُسے

دادی کے جواب پر اریشہ بھی پریشان ہو گئی کیوں کے صبح سے دوپہر ہو گئی تھی اور اب تک وہ نظر نہیں آیا تھا

پتہ نہیں کہاں گئے ہے کچھ بتایا بھی نہیں فون بھی نہیں اٹھا رہے ہیں

اریشہ نے پریشان ہوتے ہوئے کہا

لو آگیا۔۔۔۔۔

دادی نے دروازے کی جانب دیکھ کے کہا اور باقی سب نے بھی اس جانب دیکھا ماہر کے پیچھے سکندر تھا جسے دیکھ کر دادی نفیسہ سمیت سب کھڑے ہوگئے

یہ یہاں کیا کر رہا ہے ماہر۔۔۔۔یہ تو جیل۔میں تھا نا

دادی اس کے پاس آتے ہوئے بولی

میں اسے لے کر آیا ہوں دادی میں نے کیس واپس لے لیا ہے

ماہر نے دھیرے سے کہا اور نفیسہ کی جانب دیکھا

کیوں ۔۔۔۔۔۔۔کیا کوئی کسر باقی رہ گئی تھی یا جب تک یہ تمہیں جان سے مار نہیں دیتا تمہیں اس کا گناہ نظر نہیں ائیگا

دادی نے غصے سے کہا

ایسی بات نہیں ہے دادی میں اسے کبھی معاف نہیں کرونگا کیوں کے اس نے ساری حدیں توڑ دی ہے ۔۔۔میں اسے واپس لایا ہوں صرف مام کے لیے

میں جانتا ہوں مام اس کے جیل جانے سے بہت دکھی ہے میں اس کے گناہ کی سزا مام کو تو نہیں دے سکتا نا۔۔۔۔۔۔لیکن اسے سزا بھی ضرور ملےگی اور اس کی سزا ہوگی کے ہم میں سے کوئی بھی اسے تب تک معاف نہیں کریگا جب تک یہ اپنی غلطی سمجھ نہیں لیتا

یہ تو نہیں ہے بیٹا جسے کسی کے ناراض رہنے یا معاف نا کرنے سے فرق پڑےگا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں یہ کبھی نہیں سدھرے گا

دادی نے اُسے غصے سے دیکھا سکندر کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے جس سے اس کی سوچ کا اندازہ لگایا جا سکے

پلیز دادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہاری دادی صحیح کہہ رہی ہے ماہر۔۔۔۔۔۔اسے سزا ملنی چاہیے۔۔۔۔۔۔اور میرے لیے تم اسے کیسے واپس لا سکتے ہیں غلطی تو میں نے بھی کے ہے سزا تو مجھے بھی ملني ہی چاہیے نا۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا

دادی ماہر جی بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔ہمیں سکندر کو ایک۔موقع ضرور دینا چاہیے ۔۔۔۔آخر وہ اس گھر کا بیٹا ہے ۔۔۔۔پوتا ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔اس نے غلطی ضرور کی لیکن ہمیشہ سے مجرم نہیں ہے وہ اگر ہم آج اُسے موقع دے تو ہو سکتا ہے اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ہم اُسے سدھرنے کا ایک موقع نہیں دے سکتے دادی

اریشہ نے دادی کے پاس آکر اُنہیں سمجھاتے ہوئے کہا

تم لوگوں کو اگر یہی صحیح لگتا ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔اتنا کچھ کر چکے ہیں یہ لوگ کے اب یقین کرنے کو دل نہیں کرتا ۔۔۔۔

دادی نے بے نیازی سے جواب دیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی ظاہر تھا وہ نا خوش ہے ماہر کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے اریشہ سکندر کے سامنے آئی اور اُسے دیکھ کر سکندر نے نفرت سے منہ پھیر لیا

تمہیں مجھ سے یہی ناراضگی ہے نا۔۔۔۔  کے۔میں نے تمہیں چیلنج کیا تھا ۔۔۔۔۔تمہیں غصّہ دلایا تھا۔۔۔۔میں تمہیں وہ یاد دلانے نہیں بلکہ

آج میں تم سے معافی مانگنے آئی ہوں

میں اپنی ہار مانتی ہوں سکندر

پلیز پچھلی باتوں کو بھول جاؤ

نفرت کچھ نہیں دیتی سوائے تکلیف کے

میں جانتی ہوں اس نفرت نے اندر ہی اندر تمہیں بھی بہت ہے چین کرکے رکھا ہے کم سے کم خود کے لئے ہی اسے ختم کردو اب ہم سب تمہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں تم ہمارے دشمن نہیں ہو سکندر اسی لیے تمہیں یہ موقع دیا ہے اور اگلی بار شاید کبھی تمہیں دوسرا موقع نا ملے

اریشہ نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا سکندر اس کی جانب دیکھ کے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا

سکندر کی طرف سے میں تم دونوں سے معافی مانگتی ہوں بیٹا

ایسا مت کہیے مام پلیز۔۔۔۔۔

نفیسہ کے ہاتھ جوڑنے پر ماہر نے اُن کے ہاتھ پکڑ لیے

میں دادی سے بات کرکے آتا ہوں۔۔۔۔۔۔

وہ دادی کو منانے اُن کے کمرے میں چلا گیا

💜💜💜💜💜💜

کہاں جا رہی ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ کے جانے کی بات سن کر ماہر حیرت سے اُن کے پاس آکر بولا

بیٹا اب ہمیں یہاں سے جانے دو ہم اس قابل نہیں ہے کے تمہارے ساتھ رہ سکے ۔۔۔۔۔۔تم۔نے اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی اپنا بڑا پن دکھا کر ہمیں معاف کردیا لیکن اب سب کا سامنا کرنے بھی شرم محسوس ہوتی ہے اس لیے میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں تاکہ کم سے کم اب تمہاری زندگی میں سکون رہے

میں آپ کو کہیں نہیں جانے دونگا

ماہر نے فوراً کہا

نہیں بیٹا میں یہاں نہیں رہ سکتی میں اس عزت اور پیار کے لائق نہیں ہوں مجھے اتنا مان دے کر اور شرمندہ مت کرو

نفیسہ سر جھکا گئی

رک جاؤ نفیسہ ۔۔۔۔۔جو بیت گیا اُسے بھول جاؤ ہم بھی سب کچھ بھول چکے ہیں تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں اپنی غلطیوں پر پچھتاوا ہے اور تم بدل گئی ہو اتنا ہی کافی ہے۔۔۔۔۔۔اب ایک نئے سرے سے شروعات کرو پرانی باتوں کو بھول کر یہیں اچھا ہوگا

دادی کو جب یقین ہو گیا کے واقعی نفیسہ سدھر  چکی ہے تو ماہر کی بات اُنہیں غلط نہیں لگی

چاہوں بھی تو اپنی غلطیوں کو نہیں بھول سکتی میں ۔۔۔۔۔پھر بھی آپ لوگوں کی بات نہیں ٹالنا چاہتی لیکن کچھ وقت کے لیے مجھے یھاں سے جانے دیجئے۔۔۔۔۔  میں سکندر کو اس گھر سے دور لےجانا چاہتی ہوں تاکہ اس کے ذہن سے یہ سب بری باتیں نکل جائے وہ اپنی نفرت بھول کر ایک نئی شروعات کر سکے ۔۔۔۔۔بہت ضدی ہے وہ اگر یہاں رہیگا تو اسکے ذہن میں وہی ساری باتیں چلتی رہیگی میں اُسے اس سب سے باہر نکالنا چاہتی ہوں اسی لیے ہمیں جانا ہی ہوگا 

میں سوچ رہی ہم ہم سب کچھ وقت کے لیے دہلی چلے جائے عالیہ بھی وہاں پڑھنا چاہتی ہے اور سکندر کے ماموں بھی وہی رہتے ہے 

انہوں نے دادی کی بے مانتی ہوئے ماہر کی جانب دیکھ کے اپنے جانے کی اصل وجہ بتائی

ٹھیک ہے اگر آپ صرف کچھ وقت کے لیے جانا چاہتی ہے تو میں آپ کو نئی روکونگا کیوں کے میں بھی یہی چاہونگا جو آپ چاہتی ہے۔ ۔لیکن ابھی نہیں میری اور اریشہ کی شادی جب تک نہیں ہو جاتی۔ ۔۔۔۔۔۔تب تک آپ کہیں نہیں  جائیگی

لیکن بیٹا۔۔۔۔۔۔

امی جی۔۔۔۔۔کیا آپ ہماری خوشیوں میں شریک نہیں ہونا چاہے گی ۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ نہیں ہوگی تو سب ادھورا ادھورا لگے گا اس لیے پلیز رک جائیے

وہ مزید انکار کرتی اس کے پہلے اریشہ بول پڑی تو انہوں نے بات مان لی

۔ٹھیک ہے۔ ۔۔۔۔۔

انہوں نے مسکرا کر عریشہ کو دیکھا

اور آپ فکر مت کیجئے میرے پاس ایک بہت اچھی  ترکیب ہے سکندر کا دھیان پرانی باتوں سے ہٹانے کی آئے میرے ساتھ

اس نے نفیسہ کا بیگ اندر لے جاتے ہوئے کہا

💜💜💜💜💜💜

اریشہ لڑکیوں کے درمیان بیٹھی تھی اور وہ سب اس کا ہاتھ تھامے مہندی لگا رہی تھی ماہر دور سے ہی اُسے دیکھ رہا تھا اور زیان کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا

ماموں یہ سب مامی کے ہاتھ میں مہندی کیوں لگا رہے ہیں

کیوں کے وہ دلہن بننے والی ہے۔۔۔۔۔اسلئے

ماہر نے سوچتے ہوئے جواب دیا

تو آپ کو مہندی کیوں نہیں لگا رہے

میں دلہن نہیں بننے والا ہوں اس لیے

اس نے بے زاری سے جواب دیا وہ اس کے سوالوں سے تھک چکا تھا اور اریشہ سے بات کرنے کے لیے ترس چکا تھا 

ماموں مجھے بھی مہندی لگانی ہی۔۔۔۔۔۔

چھوٹے نواب لڑکے مہندی نہیں لگاتے

ماہر نے پیار سے اس کے گرد ہاتھ رکھتے ہوئے اُسے اپنے قریب کیا

کیوں۔۔۔۔۔۔۔

کیوں کے ۔۔۔لڑکوں کو مہندی پسند نہیں ہوتی

ماہر نے سوچتے ہوئے جواب دیا

پر مجھے تو پسند ہے نا تو میں کیوں نہیں لگا سکتا

میرے باپ مجھے معاف کر دے میرے پاس تیرے سوالوں کا جواب نہیں ہے 

ماہر نے عاجز ہو کر کہا اور جیسے ہی اریشہ کو وہاں سے اٹھ کے جاتے ہوئے دیکھا اس کے پیچھے چلا آیا لیکن وہ اس سے ایک بھی بات کرتا اس کے پہلے رائنا وہاں آگئی

کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر کو اریشہ کے پیچھے جاتے دیکھ وہ آنکھیں دکھاتی بولی اس نے سر نفی میں ہلا دیا اور اریشہ مسکرائی

جاؤ یہاں سے۔۔۔۔

کیوں جلاّد بن رہی ہے آپ مجھے مہندی تو دیکھنے دیجئے۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے  خفگی سے کہا

کل دیکھ لینا ابھی جاؤ کہا نا ابھی دلہن سے نہیں مل سکتے یہیں رول ہے

اس کے نا ماننے پر رائنا نے اس کا بازو پکڑ کے باہر کی جانب کیا تھا

پتہ نہیں کس کمینے نے یہ رول بنایا تھا مل جائے بس ایک بار

وہ بڑبڑاتا ہوا سیڑھیاں اترا تھا اور دوسری جانب سے سکندر کو گھر کے باہر جاتے دیکھ وہی رک کر کچھ سوچنے لگا تھا اریشہ اُسے پریشان دیکھ کر اس کے پاس آئی

کیا ہوا کیا سوچ رہے ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچ رہا ہوں پتہ نہیں سکندر کے دماغ میں کیا چل رہا ہے  کہیں وہ کچھ اور تو کرنے کی نہیں سوچ رہا 

ماہر نے پریشانی سے کہا اُسے ڈر تھا کہیں اب بھی سکندر اپنی نفرت میں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لیں

نہیں۔ ۔۔۔۔اب وہ کچھ نہیں کریگا

اریشہ نے یقین دلاتے ہوئے کہا

تمہیں کیسے پتہ

کیوں کے میں نے اُسے ایسی جگہ اُلجھا دیا ہی جہاں بڑے بڑے سورما بھی اپنی اکڑ بھول جاتے ہیں 

اریشہ نے ہنستے ہوئے کہا تو ماہر نے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا

مطلب

مطلب بتاونگی نہیں دکھاؤں گی۔۔۔ چلیے

وہ ماہر کے آگے سیڑھیاں اترتے ہوئے بولی اور ماہر اس کے پیچھے چل دیا

Excuse me۔۔۔۔۔۔۔۔

دھیان کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک لڑکی اس سے ٹکرائی تھی اور اُسے کھڑی گھور رہی تھی سکندر نے اس کے آگے چٹکی بجائی

سنائی نہیں دیتا یا اندھی ہو ہٹو سامنے سے

وہ اسی طرح کھڑی رہی تو وہ نا گواری سے بولا مگر وہ ٹس سے مس نا ہوئی سکندر خود ہی سائڈ سے نکلنے لگا تو وہ پھر سامنے آکر اس کا راستہ روک گئی سکندر دوسری سائڈ سے آیا تو پھر ہٹ کر اس کے سامنے ہو گی سکندر نے اُسے غصے و حیرت سے دیکھا

کر کیا رہی ہو تم۔۔۔۔

میں کیا کر رہی ہوں یہ تو تقدیر کر رہی ہے جو مجھے آج اپنے خوابوں کے شہزادے سے ملا دیا

وہ اس کے غصے کو نظر انداز کیے شرماتے ہوئے بولی

۔۔۔۔۔میں نے جتنا سوچا تھا اس سے کہیں زیادہ ہینڈسم ہے آپ 

وہ شرمنانے کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے انگلیاں مروڑ رہی تھی اور سکندر حیرت سے اس کی باتیں سن رہا تھا

راستہ چھوڑو جانے دو مجھے

میں تو ہٹنا چاہتی ہوں لیکن کیا کروں میری نظریں آپ کے چہرے سے ہٹنے کو تیار ہی نہیں ہے بس کہہ رہی ہے دیکھے جاؤ دیکھے جاؤ دیکھے جاؤ

اس نے مسکرا کر کہتے ہوئے آنکھیں بند کی اور اتنی دیر میں سکندر وہاں سے نکل گیا

یہ کون ہے اور ایسے کھلے عام سکندر پر لائن کیوں مار رہی ہے

ماہر نے اس منظر کو دیکھ کر کہا اریشہ ہنسی اس کی بات پر

کیوں کے یہ لائن اُسے سکندر کی امی نے دی ہے۔۔۔۔

اریشہ نے ہنستے ہوئے بتایا تو ماہر نے اُسے نا سمجھنے والے انداز میں دیکھا

یہ نایاب  ہے ماہر جی سکندر کی کزن اور امی جی اسے اپنی بہو بنانا چاہتی ہے

اچھا لیکن یہ ایسی حرکتیں کیوں کر رہی ہے

ماہر حیران ہوتے ہوئے بولا

کیوں کے میں نے اُسے ایسا کرنے کو کہا ہے

میں نے اُسے سکندر کے بارے میں سب بتا دیا اور وہ تیار ہے سکندر سے شادی کرنے کے لیے اور بس ایک کوشش کر رہی ہے اس کا دل بدلنے کی محبت سخت سے سخت دل کو پگھلا دیتی ہے ماہر جی اور سکندر کو نفرت سے نکالنے کے لیے محبت کی ضرورت پڑےگی اور نایاب پر مجھے پورا یقین ہے وہ سکندر کو بدل دیگی

اریشہ نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا

اتنی انٹیلیجنٹ ہو تم۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اس کو مسکرا کے دیکھا

وہ تو میں ہوں۔۔۔۔۔

وہ آنکھیں گھما کر بولی ماہر نے اُسے گلے لگانا چاہا تو فوراً پیچھے ہٹ گئی

کیا کر رہے ہے مہندی بگڑ جائے گی۔۔۔۔۔

یہ مہندی ہلدی شادی میرے لیے مصیبت بن گئی ہے ملنے تک موقع نہیں مل رہا تم سے

وہ جھنجھلا کر بولا

بس اور ایک دن کی تو بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اریشہ نے اس کی حالت پڑ ہنستے ہوئے کہا

اور اس کے بعد۔۔۔۔۔۔

وہ شرارت سے مسکرایا اور اس کی جانب جھکا

اس کے بعد آپکا سر۔۔۔۔۔۔۔

اریشہ جلدی سے کہہ کر اندر بھاگ گئی۔

💜💜💜💜💜💜

عریشہ کی ہر شکایت کو اُس نے ختم کر دیا تھا آج اُسے دوبارہ اپنی زندگی میں شامل کر کے اُس رشتے کو مضبوط کر لیا تھا اب کوئی کمی نہیں تھی جو اُن کے درمیان خلش پیدا کر سکے آج صحیح معنی میں خوش تھی اُس کا دل خوش تھا اور وہی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر بھی نظر آرہی تھی ماہر کی محبت نے اُسے زیادہ خوبصورت بنا دیا تھا اور کچھ سرخ جوڑے اور دلہن کے روپ میں سفید سلور قمیص میں وہ بھی ہر حد سے بڑھ کر دلکش لگ رہا تھا اُس کے چہرے اور آنکھیں سے صاف عریشہ کی محبت جھلکتی تھی

مام مجھے اس سب میں کوئی انٹریسٹ نہیں ہے آپ مجھے کیوں لے کر آئی ہے

شادی کے فنکشن میں نفیسہ اُسے زبردستی لے کر آئی تھی جب کے اُسے سخت کوفت محسوس ہو رہی تھی

تجھے کسی سے ملوانے

کس سے

۔وہ دیکھ رہے ہو۔۔۔۔وہ نایاب ہے تمہارے ماموں کی بیٹی ۔۔۔۔۔

نفیسہ نے دور کھڑی نایاب کی جانب اشارہ کیا کو اس کے دیکھتے ہے مسکرائی

تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔

اس نے نایاب کے بعد نفیسہ کو دیکھا

تمہیں کیسی لگی۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسہ نے جھجھکتے ہوئے پوچھا کے جانے کیا کہہ دے سکندر نے اُنہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا

میں چاہتی ہوں تم اس سے شادی کرو۔۔۔۔۔۔۔

اس کی نظروں سے وہ سمجھ گئی تھی کے وہ پھٹ سکتا ہے اس لیے فوراً بولی اور سکندر نے دوبارہ نایاب کو دیکھ اب کی بات نایاب نے پوری بے شرمی سے اُسے آنکھ ماری

شادی وہ بھی اس سے۔۔۔۔۔۔۔

مجھے شادی ہی نہیں کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ نفیسہ کی جانب دیکھ کے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے وہاں سے چل دیا بنا اُسے ایک بھی بات کا موقع دیے

کہاں جا رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔

نایاب نے سامنے آکر اس کا راستہ روکا سکندر اس کے سائڈ سے نکلنے لگا وہ پھر سامنے آگئی اور اپنا ہاتھ آگے کر دیا

میرے فنگر میں یہ رنگ پھنس گئی ہے آپ نکال دینگے پلیز مجھ سے نکل نہیں رہی ہے

میں نوکر نہیں ہوں تمہارا ہٹو یہاں سے۔۔۔۔۔۔

سکندر نے غصے سے کہا اور وہاں سے جانے لگا

جائیے ویسے بھی یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے

نایاب کی بات پر وہ رک کر پلٹا

کیا کہا تم نے۔۔۔۔

یہی کے یہ اتنا آسان کام نہیں ہے جو آپ کر پائے 

نایاب نے بات کو دہرایا سکندر واپس اس کے پاس آیا اور اس کے چہرے پر نظریں جمائے اس کا ہاتھ پکڑا اور پوری طاقت لگا کے رنگ کو باہر کھینچا لیکن رنگ اتنی تائٹ تھی نہیں اس لیے فوراً نکل گئی اور وہ حیرت سے رنگ کو دیکھنے لگا نایاب کھلکھلا کر ہنسی

یہ کیا بکوس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بكواس نہیں بہانا آپ کے قریب آنے کا

نایاب نے مسکراتے ہوئے کہا

کیوں یہ پاگل پن کر رہی ہو تم

سکندر حیران ہوتے ہوئے بولا پہلی  دفع اُس نے کوئی بےشرم لڑکی دیکھی تھی

کیوں کے۔۔۔۔

وہ شرماتے ہوئے اُسے دیکھنے لگی 

I love you۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جلدی سے کہہ کر بھاگ گئی سکندر نے فوراً اطراف میں دیکھا کے کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر اُسے جاتے ہوئے دیکھ اور سر نفی میں ہلا دیا

💜💜💜💜💜💜💜💜

کہاں جا رہے ہو ۔۔۔۔   

 کمرے کے دروازے تک پہنچا تو رائنا نے آکر اُس کا راستہ روک دیا

اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے میرا نیک نکالو۔۔۔

وہ کس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے حیرت سے  پوچھا

اندر جانے کے لیے۔۔۔۔۔

آپ بڑی بہن ہے میری ۔۔۔۔۔۔۔نیک چھوٹی بہن مانگتی ہے ۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اُسے یاد دلاتے ہوئے کہا

تو کیا ہوا اب مجھے بھی تو کسی نے نیک لینا ہے اُس کے لیے بڑا بھائی کہاں سے بناؤں اس لیے چھوٹے سے ہی لے رہی ہوں

رائنا اپنی جانب سے خلاصۃ کیا

نہیں یہ چیٹنگ ہے آپ نہیں مانگ سکتی

میں تو مانگ سکتی ہوں نا بھائی۔۔۔۔۔۔۔

عالیہ نے وہاں آتے ہوئے کہا  تھوڑا جھجھکتے ہوئے کے جانے اُس کا ریکشن کیسا ہو ماہر اُس کی بات پر مسکرایا اور والیٹ سے کچھ پیسے نکال کر اُس کی جانب بڑھائے جس پر رائنا نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے اُسے گھورا ماہر نے ہنستے ہوئے باقی کے نوٹ نکال کر اُس کی طرف بڑھائے 

اب تو جانے دیجئے مجھے۔۔۔۔۔۔۔

رائنا اور عالیہ اُس کی بات پر ہنس دی اور اسکا راستہ چھوڑ دیا

💜💜💜💜💜💜

وہی کمرہ جہاں آج پھر وہ دلہن بن کر بیٹھی تھی وہ کمرہ اور دلہن آج دونوں بدلے ہوئے تھے آج اُس سجے سجائے کمرے میں موم بتی کی  ڈھیروں روشنی اُسے روشن کیے ہوئے تھی آج وہاں گلاب کی مہک فضاؤں میں گھلی ہوئی تھی عریشہ کے دل میں آج کوئی ڈر کوئی خدشہ نہیں تھا بس خوشی تھی ایک عام لڑکی کی طرح مشکلیں تو آئیں تھی لیکن اُن مشکلوں سے لڑ کر وہ جیتی تھی اور آج اپنے کھوئے ہوئے پل واپس پا کر خوش تھی سامنے لگی ماہر کی تصویر دیکھ کر وہ مسکرائی تھی اُس تصویر کو پہلی دفع دیکھتے ہی اُس کے دل میں وہ شخص اُتر چکا تھا اور اب اُس کے عشق میں عریشہ خود کو بھول چکی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس نے دوپٹہ چہرے کے آگے کر لیا ماہر اندر آکر اُس کے قریب بیٹھ گیا تھا اور اُس کے چہرے سے دوپٹہ ہٹا کر پیچھے کیا اور ہاتھ گال پر رکھے اُسے غور سے دیکھنے لگا عریشہ نے نظریں نہیں اٹھائی

اب اس کے بعد لگا دل تو دل لگی ہوگی۔

ہم تم پر اپنی محبت تمام کر بیٹھے۔۔۔۔

وہ اُسی انداز میں اُسے دیکھتے رہا اور عریشہ نے اُسے داد دینے والے انداز میں دیکھا وہ سیدھا ہو کر بیٹھا اور اُس کے چہرے پر بکھرتے بالوں کو دھیرے سے اُس کے چہرے سے ہٹایا

بکھری ہوئی زلف اشارہ میں کہہ گئی

میں بھی شریک ہوں تیرے حالِ تباہ میں

اُس نے دوبارہ شعر پڑھا لیکن اُس کی قربت پر وہ چاہ کے بھی مسکرائی نا پائی ماہر نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اُس پر اپنے ہونٹ رکھے

تجھے چھو کر دیکھوں تو 

میری محبت روحانی لگے

اور تیری محبت روانی لگے

ماہر نے اُسے گلے لگاتے ہوئے اُسے اپنے حصار میں قيد کیا تھا اور اُس کے دوپٹے کو اُس سے الگ کیا

تیری خوشبو تیری باتیں تیرا چہرہ تیری یادیں

چھپانے کو میرے دل۔میں ہزاروں قید خانے ہے

ماہر نے اُس کے بالوں کی خوشبو کی اپنے اندر ااتارتے ہوئے اُس کے کان میں سرگوشی کی تھی عریشہ اُس کے اس نئے روپ پر حیران بھی تھی اور سرشار بھی ماہر نے اُس کے پیشانی پر ہونٹ رکھتے ہوئی بنا ہٹائے اُس کے ہونٹوں تک لے گیا تھا اور دھیرے سے چھو کر اُنھیں آزاد کیا تھا

ملا لوں تیری سانسوں کو اپنی سانسوں میں۔

قریب اتنا آؤں کے انتہا کر دوں۔۔۔۔۔۔

وہ جب بولا تو اُس کے اتنے قریب تھا کے اُس کے لب ہلتے ہوئے عریشہ کے گالوں کو چھو رہے تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور اُس کی سانسوں کی تپش سے عریشہ کے گال دہکنے لگے تھے۔ اُس نے دونوں ہاتھ ماہر کی پشت پر رکھ دیئے تھے۔ اُس کے سارے منصوبے فیل ہو گئے تھے ماہر کو تنگ کرنے کے۔۔۔۔۔ماہر ایک بار پھر اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اُس کے ہونٹوں پر جھکا تھا اور عریشہ نے اُس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اُسے روکا تھا 

کیا بات ہے آج تو آپ کے اندر مرزا غالب نظر آرہا ہے

ابھی عمران ہاشمی بھی نظر آئے گا

ماہر نے اُس اپنے ہونٹوں سے اُسکی انگلی ہٹاتے ہوئے شرارت سے کہا 

رکیے۔۔۔۔۔۔۔پہلے منہ دکھائی  ۔۔ ۔۔۔۔

اُس کے آگے بڑھنے پر عریشہ نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُسے پیچھے کیا

ابھی اتنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔

وہ بدمزہ ہوتے ہوئے بولا

جی ہاں۔۔۔۔بہت ضروری ہے نکالئے جلدی۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے اُس کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تو وہ اُسے خفگی سے گھورتے ہوئے وہاں سے اٹھا اور عریشہ ہنس دی ماہر نے ڈراور سے باکس نکال کر اُس کے ہاتھ میں رکھا اور کھول کر اُس میں سے ایک خوبصورت سا نیکلس نکالا جو نازک سا ڈائمنڈ کا تھا ماہر نے بنا کچھ کہے اُس کے گلے میں نیکلس پہناتے ہوئے اُس کی پشت پر ہونٹ رکھے عریشہ نے اُسے گھورا

ایسے کیا دیکھ رہی ہو اب تو شادی ہو گئی نا اور اس بار پورے ہوش و حواس میں ہر رسم پوری کر کے کی ہے اسلئے خبردار جو اب کوئی نخرے کیے

وہ اُس کے گھورنے پر مصنوعی غصے سے بولا اور اریشہ بنا ہنسے نہ رہ سکی

ماہر بھی اُس کے ہنسنے پر ہنستے ہوئے اُسے دیکھنے لگا

ویسے ہم مردوں کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے سماج نے۔۔۔۔لڑکیوں کو منہ دکھائی اور ہم مردوں کو کچھ نہیں یہ کیا بات ہوئی

ماہر نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا

بات تو صحیح ہے ۔۔۔۔۔۔

عریشہ نے ہنسی روکے کہا

اور نہیں تو کیا ہمیں بھی منہ دکھائی ملنا چاہیے کیا ہم لوگو کا منہ نہیں ہوتا

ماہر نے دکھی ہوتے ہوئے کہا

واقعی بڑے افسوس کی بات ہے۔۔لیکن خیر۔۔۔۔۔۔۔آپ فکر مت کیجئے میں آپ کے ساتھ یہ زیادتی نہیں ہونے دونگی۔۔۔۔۔بتائیے کیا چاہیے آپ کو۔

پکّا دوگی۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے اُس کے سر سے مانگ ٹیکہ نکالتے ہوئے پوچھا

ہاں بلکل۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے نا ۔۔۔۔۔کھیلنے کے لیے۔۔۔۔۔پیارے پیارے کیوٹ کیوٹ سے بچے چاہیے

ماہر نے سوچتے ہوئے کہا اور مسکرایا

بچے۔۔۔۔۔۔عریشہ نے حیرت سے پوچھا

ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہی کوئی ۔۔۔۔دس بارہ۔۔۔۔۔۔

ماہر اُسے دیکھ کر شرارت سے مسکرایا

بس۔۔۔۔۔۔۔۔

اریشہ نے وہی حیرانی اب بھی ظاہر کی

بسس ۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے احسان جتانے والے انداز میں کہا اور اریشہ نے اُسے گھورتے ہوئے اُسے دھکا دیا  وہ بیڈ پر گرا عریشہ نے اُس کے سینے پر ہلکے ہاتھوں سے وار کیے اور وہ ہنستا چلا گیا

آپ مردوں کی ڈیمانڈ ایسی ہوتی ہے اسی لیے یہ آپشن نہیں دیا آپ کو۔۔

عریشہ اُسے شرم دلاتے ہوئے بولی ماہر نے اُس کے دونوں ہاتھ پکڑتے ہوئے اُسے خود پر گرایا

بدتمیز لڑکی اتنا بھی نہیں جانتی کے آج کی رات شوہر پر ہاتھ نہیں اٹھاتے ۔۔۔۔۔۔

اور شوہر بے شرمی کرے تو کیا کرنا چاہیے

عریشہ نے اُسے گھورتے ہوئے کہا

خود بھی بے شرم ہو جانا چاہیے

اُس کے ہونٹوں کو دیکھتے ہوئے وہ مسکرا کر بولا

اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عریشہ بھی اُس کی بات پر ہنسی اور جلدی اُسے اُس کے ہونٹوں پر کس کر پیچھے ہوئی

لیجئے ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔

دھیرے سے ہنستے ہوئے بولی ماہر نے آنکھیں پھاڑے حیرت اور خوشی کے ملے جول تاثرات سے اُسے دیکھا اور اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُسے قریب کرنا چاہا عریشہ نے کشن کھینچ کر بیچ میں رکھ دیا اور ماہر کے ہونٹوں نے اُس کشن کو چھوا تب تک عریشہ اٹھ کر بیڈ سے اتر گئی

This is not fair۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اٹھتے ہوئے بولا

Everything is fair in love and war

عریشہ نے کشن اُس کی جانب اچھالا اور ہنستے ہوئے بولی

اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نے کھڑے ہو کر بیڈ سے چھلانگ لگائی اور اُسے کوئی بھی موقع دیے بنا اپنی گرفت میں لے کر سختی سے خود میں بھیچ لیا

زندگی میں مشکلیں بھی آتی ہے لیکن اُن کا سامنا کرنے والا ہی عقل مند ہے قسمت پر رونے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہمیں خود مضبوط بن کر اپنی زندگی کی کمیوں کو ختم کرنا ہوگا اس کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک ہمت اور دوسرا خدا پر یقین اور یہی ہے جو ایک دن اُس کمی کو آپ کی زندگی کی خوبصورتی بنا دےگی

ختم شدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dil Maane Na Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil Maane Na written by Sanaya Khan.Dil Maane na by Sanaya Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment