Pages

Thursday 11 July 2024

Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya By Yusra Eva New Complete Romantic Nove

Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya By Yusra Eva New Complete Romantic Nove

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya By Yusra Eva Complete Romantic Novel 

Novel Name: Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya 

Writer Name: Yusra Eva

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

”ادھر آؤ۔۔۔“

وہ دھاڑا۔۔۔

وہ ڈریسنگ روم میں جا رہی تھی۔۔۔ جب شاہ اس نے بلایا۔۔۔

” جی۔۔۔ جی۔۔۔ جی“

وہ ڈری سہمی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے سامنے آئی۔۔۔


”صبح سے کتنی مرتبہ بلایا ہے۔۔۔کیوں نہیں آئیں۔۔۔؟؟ “

اس کے پہنچتے ہی۔۔۔ شاہ نے بے دردی سے اسکا بازو دبوچ کر اپنے قریب کیا۔۔۔

” وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ میں بی بی جان کے پاس تھی۔۔۔“

” مجھ سے بھاگ رہی ہو۔۔۔؟؟ “ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کے غرایا۔۔۔

” نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ وہ۔۔ میں۔۔۔“

چٹاخ۔۔۔۔ اک زور دار تھپڑ اِس كے ہوش اڑا گیا۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ گرتی اسکی کمر جکڑی جا چکی تھی۔۔۔۔

” بند کرو یہ رونا نفرت ہے مجھے تمھارے ان آنسوں سے۔۔۔۔“

اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنے آنکھیں رگڑیں جن میں بے تحاشا خوف تھا۔۔۔۔

” میری کیا غلطی ہے۔۔۔۔؟؟؟ کیوں میرے ساتھ مجھے مما کے پاس۔۔۔“

جب آنسوں پہ اختیار نا رہا تو وہ ہچکیاں لے کے اس سے فریادیں کرنے لگی۔۔۔ اسکے الفاظ مکمل ہونے سے پہلے شاہ اس پہ برس پڑا اور اسے بےدردی سے تھپڑ مارتا گیا۔۔۔


” آہ۔۔۔ “


تھپڑوں سے اسکا پورا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔۔ ہونٹ کا کنارہ پھٹ گیا۔۔۔ وہ لڑکھڑا کے زمین پہ بیٹھ گئی۔۔۔۔


اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔۔ شاہ اسکے طرف قدم بڑھا رہا تھا۔۔۔ اور وہ پیچھے کھسکی جارہی تھی۔۔۔ دو سکینڈ بھی اسے نا لگے وہ اسکے سر پر جا پہنچا۔۔۔ اسکے بال مٹھی میں جکڑ کے پھنکارا۔۔۔۔


” تم ہی تو عذاب ہو تمہارے بھائی نے مجھ سے بدلا لینے کے لیے میرے معصوم بچے کو ماراصرف تمہاری وجہ سے۔۔۔۔ تم عذاب ہو سب کی زندگیوں میں۔۔۔ تمہارے وجہ سے ماہا چلی گئی صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔ اور تم پوچھتی ہو تمھارا قصور کیا ہے۔۔۔۔“


وہ سرخ آنکھوں سے اِسے دیکھ رہا تھا جو منہ چھپائے رو رہی تھی۔۔۔۔


شاہ نے اسکے بال چھوڑے اور اگلا حکم سنایا جسے سن کے اس کی روح تک کانپ گئی۔۔۔


” بند کرو یہ رونا۔۔۔۔ اور پانچ منٹ میں حولیا درست کر کے آؤ۔۔۔۔“


وہ شدت سے رو دی۔۔۔۔

”تمہیں سنائی نہیں دیا۔۔۔؟؟“

” جی۔۔۔ جی 

اس سے پہلے کے وہ مزید غصہ ہوتا۔۔۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے ڈریسنگ روم کی جانب بھاگی چلی آئی۔۔۔۔ ٹھنڈے پانی سے چہرہ دھویا تو جلن کچھ کم ہوئی۔۔۔ اور چینج کر کے باہر جانے لگی جہاں ایک اور سیاہ رات اسکی منتظرتھی۔۔۔

“لے لو واپس یہ آنسو،یہ تڑپ، اور یہ یادیں ساری

نہیں تم میرے تو یہ سزائیں کیسی”


☆.............☆.............☆


” بابا۔۔۔۔ بابا “


وہ بھاگتی ہوئی ازلان کے پاس آئی اور آتے ہی اپنے بابا کے گلے لگ گئی۔۔۔


” بابا میں نے آپکا اتنا ویٹ کیا۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ آپ نے کال بھی نہیں کی۔۔۔ پھر بھائی نے بتایا آپکی فلائٹ کینسل ہوگئی۔۔۔“


وہ آنکھوں میں نمی لیے ازلان سے شکایت کر رہی تھی۔۔۔


” حیا میری جان میں نے کال کی تھی۔۔۔ تمہارا فون بند تھا پِھر شاہ میر کو کال کی۔۔۔“


حیا کی پیشانی پہ بوسہ دے کر کہا۔۔۔۔


” بابا میں بہت پریشان ہوگئی تھی۔۔۔“


” جانتا ہوں تب ہی تو سب سے پہلے تمہیں کال کی۔۔۔۔ حیا رو تو نہیں دیکھو مجھے بھی پریشان کر رہی ہو۔۔۔ جانتی ہو مجھ سے تمہارا رونا برداشت نہیں ہوتا۔۔۔۔ اچھا ادھر دیکھو میں کیا لایا ہوں۔۔۔“


” کیا۔۔۔؟؟؟ “


اس نے بچوں کی طرح منہ پھلا کر کہا تو ازلان بے اختیار ہنس دیا۔۔۔


” چلو “


وہ دونوں سوٹ کیس کے پاس آئے۔۔۔ ازلان کے کہنے پہ حیا نے اسے کھولا اور جیسے ہی اسکی نظر چیزوں پے پڑی اس کی آنکھیں چمک گئیں۔۔۔۔


” بابا یہ ساری چاکلیٹس میری ہے نا۔۔۔؟ میں عمر بھائی کو نہیں دوں گئی۔۔۔“


وہ پیکٹ سے چکلیٹ نکال کے کھانے لگی۔۔۔ ازلان کسی بزنس کے سلسلے میں ایک ہفتے کے لیے لندن گیا تھا۔۔۔ اور حیا نے خاص ہدایت دے کر بھیجا تھا کہ اسکے لیے چاکلیٹس لانا نا بھولے۔۔۔۔


” ہاں بھائی تم ہی کھانا میں عمر کے لیے بھی اور لایا ہوں۔۔۔“


” بابا آپ کیوں لائے اس بدتمیز کے لیے آپ کو پتا ہے۔۔۔۔ انہوں نے میری فرینڈز کے سامنے کتنی انسلٹ کی۔۔۔ افشین جب مجھ سے ملنے آئی تو کیا کیا نہیں کہا اس سے۔۔۔“


” کیوں کیا کہا۔۔۔؟؟؟ “ ازلان مصنوئی غصّے سے بولا۔۔۔۔


” یہی کے میں کام چور ہوں۔۔۔ اور مما جب کوئی کام بولتی ہیں۔۔۔ میں تائی امی کے یہاں بھاگ جاتی ہوں۔۔۔“

حیا چاکلیٹ کھانے میں اس قدر مگن تھی کے ازلان کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ نا دیکھ سکی۔۔۔۔

” ڈونٹ وری اس گدھے کو میں دیکھ لونگا۔۔۔“ ازلان نے مصنوئی غصّے سے کہا۔۔۔۔

” تم یہ ڈریسز دیکھو ثانی اور تمہارے لیے ہیں۔۔۔ اور باقی جو اس سوٹ کیس میں ہیں وہ بھابھی کو دینا وہ عنایا کے لیے ہیں۔۔۔“

” واؤ بابا۔۔۔! اتنے ساری چیزیں۔۔۔۔ اور یہ ڈریسز کتنے خوبصورت ہیں۔۔۔ آپ ثانی بھابی اور میرے لیے سیم ڈریسز لائے ہیں۔۔۔؟؟؟ “

اب اوہ ایک ایک ڈریس کو کھول کے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ایک ہی ڈیزائن کے تقریباً دو ڈریسسز تھے۔۔۔


” ہاں پرنسز۔۔۔“


ازلان نے کوٹ اتارا اور موبائل نکال کے کوئی نمبر ڈائل کرنے لگا۔۔۔۔


” تھینک یو سو مچ بابا یو آڑ گریٹ۔۔۔“


ازلان مسکرایا آخر انہی کے لیے تو جیتا تھا وہ۔۔۔ اسکی نظر موبائل پہ تھی دوسری طرف سے کال اٹینڈ ہوگئی تھی۔۔۔


”کب سے کال کر رہا ہوں یار بلکل ماں پہ گئے ہو۔۔۔ تنگ کر کے مزہ آتا ہے۔۔۔“


” سلام بابا۔۔۔!“


ازلان کی آخری بات پر میر کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔۔۔


” بابا یعنی ابھی تک مما سے ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔؟؟ تبھی مجھ پہ برس رہیں ہیں۔۔۔“


وہ اپنے کیبن میں بیٹھا پیپرز چیک کرتے ساتھ چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔۔۔

” ڈیل کا کیا ہوا کال آئی انکی۔۔۔“ ازلان نے اِس کا سوال نظر اندازِ کیا۔۔۔

” جی بابا کال آئی۔۔۔ اور سوری ٹو سے آپکو اگلے بیس منٹ میں آفیس آنا ہے۔۔۔ مسٹر جیک نے کہا ہے ڈیل آپ ہی سائن کرینگے۔۔۔"

” اچھا میں آتا ہوں۔۔۔“

ازلان کال کاٹنے والا تھا کے میر بولا۔۔۔۔

” بابا مما سے مل لینا ورنہ مجھے یقین ہے یہ ڈیل ہاتھ سے جائے گی۔۔۔۔ ویسے آپ کے بغیر خوش بہت تھیں بس بھنگڑا ڈالنا رہ گیا تھا۔۔۔“


میر نے جلتے پہ نمک کا کام کیا۔۔۔ ازلان کو تنگ کر کے اسے ایک الگ ہی مزہ آتا ہے۔۔۔


” بالکل ماں پہ گیا ہے۔۔۔“


ازلان کی بڑبڑاہٹ میر کو واضع سنائی دی جسے سن کر اس نے باقاعدہ قہقہہ لگایا۔۔۔


حیا جو کب سے کپڑے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ازلان کے فارغ ہونے پہ پوچھ بیٹھی۔۔۔۔


” بابا اِس بیگ میں کیا ہے۔۔۔“ ازلان مسکرایا۔۔۔


” بابا اِس پورے بیگ میں ماما کے گفٹس ہیں۔۔۔؟؟ “ وہ حیرانگی سے ازلان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ ازلان کی مسکرائٹ سے جان گئی تھی سامان نور کےلئے ہے۔۔۔


” ہم۔۔۔! اچھا اب جاؤ نور كو بلا لاؤ اور جلدی بھیجنا۔۔۔۔“


” جی بابا ماما کے بغیر آپکا گزارا کہاں۔۔۔“ وہ مسکراہٹ دبا کے بولی۔۔۔


” کچھ کہا۔۔۔؟“


ازلان نے موبائل سے نظر ہٹا کے اسے دیکھا۔۔۔


” نہیں بابا میں جاتی ہوں۔۔۔“


وہ کہے کے فورا نکل گئی۔۔۔ ازلان بے چینی سے اسکا انتظار کرنے لگا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” بی بی جان مجھے ایک دفعہ مما سے بات کرنے دیں پلیز۔۔۔“


وہ بی بی جان کی گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔


” بیٹا شاہ نے کچھ کہا۔۔۔؟؟ “


بی بی جان اسکی حالت دیکھ کے سمجھ گئی۔۔۔ اب وہ اپنے پوتے کو کیسے سمجھائیں۔۔۔ جو انتقام کی آگ میں خود کا نقصان کر رہا ہے۔۔۔۔


” نہیں بی بی جان بس وہ امی کی یاد آ رہی ہے۔۔۔۔“


وہ آنسو صاف کرنے لگی وہ دوبارہ یہ غلطی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اسے اب بھی یاد ہے جب وہ یہاں شادی کر کے آئی تھی۔۔۔ کتنی خوش تھی وہ اپنی محبت کو پا کر۔۔۔


لیکن جب اسے حقیقت کا علم ہوا تھا کتنا روئی تھی۔۔۔ وہ اپنی ماں کے جھوٹ پہ جنہوں نے اسے یہ کہ کر بھیجا تھا کہ۔۔۔


شاہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔۔۔ کاش مما آپ اپنی بیٹی کا حال دیکھتی۔۔۔ جو آپ کے بیٹے نے کیا ہے اسے اپنی شادی کی رات علم ہوا تھا کے وہ خون بہا میں آئی ہے۔۔۔۔


اور جب شاہ کا رویہ اس نے بی بی جان کو بتایا پھر اس شخص نے جو اِس کے ساتھ کیا۔۔۔ سوچتے ہی اِس کی روح کانپ جاتی ہے۔۔۔ پورے ایک ہفتے تک وہ ایسے جگہ میں قید تھی جس کے بارے میں وہ یہ تک نہیں جانتی تھی کے وہ پاکستان میں ہے بھی یا نہیں۔۔۔


” بیٹا فون میرے پاس نہیں میں کسی سے منگواتی ہوں “


” ایک تو سب یہاں ملے ہوئے ہیں سب خبریں شاہ پتر کو دیتے ہیں۔۔۔“


” تو فکر نا کر میں بات کروا دونگی بس رویا نا کر۔۔۔ میرے بچے۔۔۔ میری لاڈلی پوتی ہے نا۔۔۔؟؟ “


بی بی جان اِس کا سر اپنی گود میں رکھے اسکے بال سہلانے لگی۔۔۔۔۔ یہ وہ پوتی تھی جو انکو مرادوں بعد حاصل ہوئی تھی۔۔۔۔


” بی بی جان وہ ماہا سے بہت محبت کرتے تھے نا۔۔۔؟؟ “


کب سے دِل میں چھپا سوال آج بی بی جان سے پوچھ ہی لیا۔۔۔۔ ہنی نے اسے بتا تھا اکثر شاہ اور ماہا کی لڑائی ہوتی۔۔۔ بچوں کی وجہ سے ماہا کو گھریلوں عورتوں سے سخت نفرت تھی۔۔۔ اور شاہ کو ماہا جیسے عورتوں سے۔۔۔۔ لیکن اِس کا دِل اِس کا دماغ اِس بات کی چیخ چیخ کے گواہی دیتا کے شاہ كے پہلی اور آخری محبت ماہا ہے۔۔۔۔


” نہیں بیٹا وہ تو ماہا خود ہر وقت شاہ پتر کے پیچھے پڑی رہتی تھی۔۔۔ بچوں پہ بھی دھیان نہیں دیتی تھی۔۔۔ ہنی کو تو ملازموں کے آسرے چھوڑ رکھا تھا۔۔۔۔


شاہ نے بتایا تھا وہ پاکستان آنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن ماہا نہیں آنے دیتی تھی۔۔۔ اسے ہر وقت ڈر لگا رہتا کے کہیں شاہ اسے چھوڑ نہ دے۔۔۔ اور وہ بچوں کی وجہ سے مجبور تھا وہاں کے قانون کے مطابق بچے ماں کے پاس رہتے۔۔۔ میرے شاہ کو ہمیشہ سے بچوں سے خاص لگاؤ تھا۔۔۔ وہ تو ہر وقت بس بچوں میں گم رہتا تھا اس کا چھوٹا بیٹا۔۔۔۔“

بی بی جان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔۔۔

”جان تھی شاہ کی اس میں وہ بالکل ٹوٹ گیا تھا۔۔۔ جب تین سالا عمر کی لاش اس گھر میں آئی تھی۔۔۔“

وہ بی بی جان کے گلے لگ گئی۔۔۔ وہ خود اس وقت کو یاد کر کے خوفزدہ ہوجاتی۔۔۔

” پتر ایک بات کہوں۔۔۔“

” جی بی بی جان۔۔۔“

وہ بی بی جان سے الگ ہو کر ان کے گود میں سر رکھے آنکھیں موند گئی۔۔۔ جو سکون اسے بی بی جان کی آغوش میں ملتا وہ دنیا کی کسی شہ میں نہیں۔۔۔


” مجھے لگتا ہے شاہ نے کسی مجبوری میں ماہا سے شادی کی ہے۔۔۔ پسند وہ تجھے کرتا تھا۔۔۔“

زخمی مسکراہٹ اِس کے ہونٹوں کو چھو گئ۔۔۔۔


نہیں بی بی جان آپ نہیں جانتی۔۔۔ وہ ماہا کے دیوانے ہیں مجھ سے پوچھیں جو ہر روز اس گناہ کی سزا سہتی ہے۔۔۔ جو اسنے کیا ہی نہیں وہ سوچ کہہ رہ گئ۔۔۔۔


” بی بی جان وہ جانتے تھے نا میں ان کی بچپن کی منگیتر ہوں؟؟ “


” ہاں بیٹا بچپن میں خود وہ ہر وقت تیرے پیچھے بھاگتا تھا۔۔۔ پورے گھر میں تجھے لیے گھومتا تھا۔۔۔ شاہ پندرہ سال کا تھا جب تو پیدا ہوئی تھی۔۔۔


بہت پیار کرتا تھا تجھ سے۔۔۔۔ کسی کو ہاتھ لگانے نہیں دیتا تھا۔۔۔ اک دفعہ وہ تیرے ماں سے لڑ گیا تھا۔۔۔ جب تو پانچ سال کی تھی۔۔۔ تو کسی بات پہ تھپڑ پڑا تھا۔۔۔ تو شاہ لڑنے لگا تھا كے معصوم بچی کو کیوں مارا۔۔۔؟؟؟ “


”تب سے تیرے ماں کی بھی یہی خواہش تھی۔۔۔ تم دونوں کی شادی ہو پر ایسے ہوگی یہ نا سوچا۔۔۔“


بی بی جان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔ اِس کے لیے یہ بات نئی نہیں تھی۔۔۔ بچپن ہی سے وہ یہ باتیں سنتی آ رہی ہے۔۔۔ بس فرق اتنا ہے پہلے اسے اپنی قسمت پہ رشک آتا تھا۔۔۔ اب اسے خود سے ذیادہ بد قسمت کوئی نہیں لگتا۔۔۔

دستک کی آواز پہ بی بی جان نے اندر آنے کی اجازت دی۔۔۔


” آجاو۔۔۔“ ملازمہ اندر آئی۔۔۔


” بی بی جان وہ بی بی جی کو شاہ صاحب بلا رہے ہیں۔۔۔“


” جا پتر۔۔۔“


محبت بھرے لہجے میں کہتے ہوے انہوں نے اسکے بال سہلائے۔۔۔


وہ اٹھ بیٹھی اور ملازمہ کے ساتھ چل دی دِل زور سے دھڑک رہا تھا نا جانے اب کیوں بلایا ہے۔۔۔؟؟؟


☆.............☆.............☆


حیا کچن میں نور اور عائشہ کے پاس چلی آئی۔۔۔


” ماما بابا آپکو بلا رہے ہیں۔۔۔ آپ کے بغیر انکا دِل نہیں لگتا۔۔۔“


” چُپ بدتمیز بہت بولنے لگی ہو۔۔۔“


نور نے اِس كے سر پے چپت لگائی۔۔۔۔ عائشہ ہنس دی(حیا کی تائی ) نور کا دل چاہا اسے خوب سنائے۔۔۔۔ بھابھی کے سامنے خوامخواہ وہ شرمندہ ہوگئی۔۔۔


" میں تو سچ بولتی ہوں مما۔۔۔“


حیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ پھر نور کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ جھٹ کہا۔۔۔

” ارے مما مجھےبعد میں مارنا بابا بلا رہے ہیں۔۔۔“

” تمہیں واپس آکر بتاتی ہوں۔۔۔“

نور نے کچن سے جاتے ہوئے کہا۔۔۔

” کیوں تنگ کرتی ہو نور کو۔۔۔ پھر جب ڈانٹتی ہے تو رونے لگتی ہو۔۔۔“

” تائی امی بس ایسے ہی روز روز تھوڑی موقع ملتا ہے مما کو شرماتے ہوے دیکھنے کا۔۔۔“

حیا کہتے ہی خود بھی عائشہ کے ساتھ ہنسنے لگ گئی ۔۔۔


” تائی امی کھانے میں کیا بن رہا ہے۔۔۔؟؟ “


سالن کی خوشبو محسوس کرتے ہی اسکی بھوک چمک اٹھی۔۔۔


” آج تو بہت کچھ بنے گا آج سب ساتھ ڈنر کریں گے۔۔۔“


حیا نے فریج کھول کے اسکا جائزہ لیا اور اس میں سے کیلا نکال کے کھانے لگی۔۔۔


” اچھا وہ کیوں۔۔۔؟؟؟؟ “


” آج تمھارے تایا کے دوست آرہے ہیں اپنی فیملی کے ساتھ۔۔۔“


وہ کیلا کھاتے انہیں سن رہی تھی۔۔۔


” اوہ !!! تو ڈنر آپکے پور شن میں ہوگا۔۔۔؟؟ “


” جی اور آج تم تیار ہوکر ٹائم پہ آجانا ایسے نہیں کے سو جاو۔۔۔“


عائشہ اسکی نیند سے محبت سے واقف تھیں۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے نو بجتے ہی حیا سو جاتی تھی


” اور ہاں حیا آج پاستا بھی بنایا ہے تمہارے لیے۔۔۔“


” سچ تائی امی۔۔۔“


وہ عائشہ کے دونوں گال کھینچنے لگئی۔۔۔۔


” آرام سے یار میری ایک ہی ماں ہے۔۔۔“


اپنی بے اختیاری پہ خود ہی شرمندہ ہوتی عائشہ کے گال چھوڑ دیے اسی وقت علی کی آواز پے دونوں چونکیں۔۔۔


” بلکل بچی بن جاتی ہو حیا۔۔۔“


عائشہ اپنے گال سہلاتے کہ رہیں تھیں۔۔۔


” اب تائی امی یہ مذاق میں نے مما سے کیا تو دو گھنٹے بابا کو لیکچر سنا پڑیگا۔۔۔“ عائشہ اسکی بات سن کر مسکرائی حیا اور نور کی نجانے کیوں نہیں بنتی تھی۔۔۔


اکثر وہ عائشہ سے نور کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی شکایات لگاتی۔۔۔ عائشہ اسکو سمجھاتی لیکن وہ دماغ میں اپنا ہی فلسفہ لیے بیٹھی رہتی۔۔۔


” تو ایسے کام کرتی کیوں ہو۔۔۔؟؟ “


علی نے فریج سے جوس نکال کے اسے ہونٹوں سے لگایا۔۔۔


” شوق ہے۔۔۔“ حیا نے کہ کر جیسے اپنی جان چھڑوائی۔۔۔ اور خالی لاؤنچ میں آکر ٹی وی دیکھنے لگی۔۔۔


☆.............☆.............☆


شاہ ہاؤس میں دو فیمیلیز کا قیام پزیر تھا۔۔۔


فیضان اور ازلان دونوں بھائی اپنی فیملی کے ساتھ یہاں رہتے۔۔۔ ازلان کی فیملی اوپر کے پوڑشن میں۔۔۔۔ جب کے فیضان کی فیملی نیچے کے پوڑشن میں رہتی ہے۔۔۔۔


ازلان اور نور کے چار اولادیں ہیں تِین بیٹے اور اک بیٹی سب سے بڑا بیٹا شاہ میر سِی

سول انجنئیر ہے اور اپنے بابا کے ساتھ ان کا کاروبار سنبھالتا ہے۔۔۔ شاہ میر کی بِیوِی ثانیہ ہے دونوں اولاد کی نعمت سےمحروم ہیں۔۔۔ شادی کو پانچ سال ہو چکے تھے ثانیہ کو اولاد کی کمی اکثر محسوس ہوتی۔۔۔ لیکن شاہ میر یہ کہہ کے ٹال دیتا کے ہمارے پاس بیٹی ہے تو حیا کی صورت میں۔۔۔ ثانی چُپ ہوجاتی اپنے محبوب شوہر کو دیکھ کے۔۔۔ جو اِس پر اپنی جان لُٹاتا تھا۔۔۔


پِھر حمزہ اور عمر ہیں۔۔۔ عمر ابھی بی بی اے کے دوسرے سال میں ہے۔۔۔ جبکے حمزہ ایم بی بی اس کے دوسرے سال میں۔۔۔ اور آخر میں سب کی لاڈلی حیا۔۔۔ جو ابھی انٹر کے پیپرز دے کر فارغ ہوئی ہے۔۔۔


فیضان ازلان سے پانچھ سال بڑا ہے۔۔۔ فیضان کی تِین اولادئیں ہیں۔۔۔ سب سے بڑی بیٹی عنایا جو شادی کر کے اپنے ساسرال جا چکی ہے۔۔۔ دوسرے نمبر پڑ شاہ ذر جو انجینئرنگ کے بعد اب جاب کرتا ہے۔۔۔ اور آخر میں علی جو حیا کا ہم عمر ہے اور میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کی تیاری کر رہا ہے۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” بابا مما آ گئیں۔۔۔“


ہنی کا کہنا تھا اور شاہ جیسے آگ بگولا ہو گیا۔۔۔


” وہ تمھاری ماں نہیں ہے۔۔۔ ہزار مرتبہ بتا چکا ہوں۔۔۔“


” بابا وہ بہت اچھی ہیں۔۔۔“


” شٹ اپ۔۔۔۔ تم معصوم ہو۔۔۔ تم نہیں جانتے اسے مجھ سے بحث نا کیا کرو۔۔۔۔ دیکھو ہنی میری جان تمہاری ماں صرف ماہا ہے۔۔۔ جو اب اس دنیا میں نہیں رہی۔۔۔ اسکی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔۔ اور وہ تو بلکل نہیں لے سکتی۔۔۔ تم نہیں جانتے ان لوگوں نے۔۔۔“


وہ غصہ میں بولے جا رہا تھا۔۔۔ جب اس نے دیکھا ہنی اسکی بات سے سہم گیا ہے۔۔۔ تو شاہ کو اپنے لہجے کا احساس ہوا۔۔۔ آخر میں اسکا لہجا کمزور تھا۔۔۔ وہ آگے کچھ کہنے سے پہلے رُک گیا۔۔۔


اب وہ اس معصوم بچے کو کیا بتاتا جس کا ذہن ابھی ان چیزوں کو سمجنے سے قاصر ہے۔۔۔ ہنی بھی چُپ ہوگیا جانتا تھا بحث کر کے کوئی فائدہ نہیں

دروازہ نوک ہوا۔۔۔


" آجاؤ “


وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی روم میں داخل ہوئی۔۔۔ سامنے شاہ اور اس کا چھ سالا بیٹا ہنی بیٹھا تھا۔۔۔


” منڈے کو ہنی کا رزلٹ لینے جائوگی اُس کے ساتھ۔۔۔“


" جی۔۔۔۔جی۔۔؟؟؟؟ " وہ بے یقینی سے شاہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔


” فارسی میں نے بولی نہیں کے تمہیں سمجھ نا آئے۔۔۔“


وہ مٹھیاں بھینچے کھڑا تھا۔۔۔ شاہ کا بس چلتا سامنے کھڑی اِس لڑکی کو گولیوں سے چھنی کر دیتا۔۔۔ صرف ہنی کی وجہ سے وہ مجبور ہے۔۔۔ ورنہ وہ کبھی پیڑینٹس میٹنگ میں اسے لے کر نہیں جاتا۔۔۔۔ بچپن سے ہی ہنی ماں کی محبت سے محروم رہا ہے۔۔۔


اور بھائی کی موت نے تو اسے نڈھال کر دیا تھا۔۔۔۔ اب وہ اپنے بیٹے کی زندگی خوشیوں سے بھر دیگا۔۔۔ اسکی ہر جائز نا جائز خواہش پورے کردیگا۔۔۔ اب یہی تو اِس کے جینے کا سہارا ہے۔۔۔


” نہیں۔۔۔نہیں میں چلونگی۔۔۔“ وہ اسکا غصّے سے ہمیشہ ڈر جاتی۔۔۔


" پوچھا نہیں ہے حکم سنایا ہے منڈے گیارہ بجے ہنی کے ساتھ۔۔؟؟ “


” گوٹ اٹ۔۔“


” جی “ وہ اس کے غصے سے سہم کر دو قدم پیچھے ہوئی اور سر جھکا کے بولی۔۔۔


” ہنی بیٹا بہت رات ہوگئی ہے جا کر سو جاؤ۔۔۔“ وہ اب ہنی کی طرف متواجہ ہوا۔۔۔


” جی بابا “


” بابا مما کو ساتھ لےجاؤں۔۔۔؟؟ وہ اسٹوریز سناتی ہیں۔۔۔؟؟ “


” او کے جاؤ۔۔۔“


اسکے گال تھپک کے بولا وہ موقع غنیمت جان کر چل دی۔۔۔


” اوہ شکر ہے ہنی تم اپنے ساتھ لے آئے۔۔۔“ خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی۔۔۔


” پری آپ چلیں گی نا۔۔۔؟؟ “


” ہاں میری جان ضرور چلونگی۔۔۔ پہلے یہ بتاؤ پوزیشن آئے گی۔۔۔؟؟ “

” ہاں ہر سال آتی ہے۔۔۔“ وہ خوشی سے بولا۔۔۔

” سچ ہنی یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔ ہم چلو پھر جب رزلٹ لیکر آئینگے تو تمہاری فوریٹ ڈش بناؤنگی۔۔۔“

” کونسی ڈش پری۔۔۔؟“ وہ خوشی سے چہکا۔۔۔

“ No more questions!!! its time to get some sleep ”

دونوں دروازے کے قریب پہونچے ہنی تو اندر چلا گیا وہ وہیں رک گئی۔۔۔

” پری آئیں نا۔۔۔؟؟ “


” بہت چالاک ہو ہنی باتوں میں الجھا کے دودھ بھلا دیا میں ابھی تمہارے لیے دودھ لے کر آتی ہوں۔۔۔“


” پلیز پری آج نہیں۔۔۔“ وہ التجا کرنے لگا۔۔۔


” میں لے کر آتی ہوں۔۔۔ آگر نہیں پیا تو اسٹوری بھول جانا۔۔۔“


وہ کہہ کے کچن میں چلی گئی فریج سے دودھ نکال کے اسے گرم کیا پھر دودھ میں تھوڑا کوکا پاؤڈر ڈال کے روم میں لے آئی۔۔۔ جہاں ہنی بے زار سا بیٹھا اِس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ وہ اِس کے قریب آئی اور گلاس اسکی طرف بڑھایا۔۔۔ وہ بنا دیکھے معصوم سی شکل بنا کہ رہ گیا۔۔۔ لیکن اس نے گلاس پیچھے نہیں کیا۔۔۔۔


ہنی نے چاکلیٹ ملک دیکھ کے پی لیا آخر میں بُرا سا منہ بنا کے گلاس سائڈ پے رکھ دیا۔۔۔ وہ مسکراتی ہوئی ہنی کے برابر لیٹ گئی۔۔۔ اور اِس کے بالوں میں دھیرے دھیرے اپنے مومی انگلیاں چلاتے ہوئے اسٹوری سنانے لگ گئی۔۔۔


کچھ ہے دیر بعد دونوں بے خبر نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔۔۔


☆.............☆.............☆


” اسلام و علیکم۔۔۔“


نور نے آتے ہی سلام کیا۔۔۔ اور ازلان کو ایک نظر دیکھ کے بیگس سائڈ پہ رکھنے لگی۔۔۔


ازلان دٙم بخود اسے دیکھتا رہا ایک ہفتے بعد وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ کتنا یاد کرتا تھا وہ اسے۔۔۔ فون پہ بھی مختصر بات کر کے وہ فون رکھ دیتی۔۔۔ وہ آج بھی ویسی ہی خوبصورت تھی۔۔۔ ایسے لگتا تھا وقت اسے چھو کر نہیں گزرا۔۔۔


” وعلیکم اسلام ۔۔۔۔۔۔ کب سے بلایا ہے اب آ رہی ہو۔۔۔“


وہ اٹھ کے نور کے قریب آیا اور اسکے ہاتھ سے بیگس لے کر سائیڈ پہ رکھ دیئے۔۔۔۔


” کیسی ہو۔۔۔؟؟ “


” میں ٹھیک ہوں۔۔۔ آپ کے کپڑے نکال دوں فریش ہوجائیں۔۔۔“


وہ وارڈوب کی طرف بڑھی کپڑے نکالنے۔۔۔


” تم نے مجھے مس کیا نور۔۔۔؟؟؟؟ میں نے تمہیں بہت مس کیا اِس ایک ہفتے میں نور۔۔۔۔ واقعی تمھارے بنا میرا گزارا نہیں۔۔۔“


وہ نور کے پیچھے سے اس کے کان کے قریب آکر بولا۔۔۔


”آج بھابی کی طرف دعوت ہے۔۔۔ فیضان بھائی کے دوست کی فیملی آرہی ہے۔۔۔“


نور نے سوال نظر انداز کر دیا۔۔۔ اور سادا سا شلوار سوٹ نکال کے بیڈ پہ رکھا۔۔۔


” ہوں۔۔۔“ ازلان کو دکھ ہوا جواب نا ملنے پہ۔۔۔


” میں آ جاؤنگا ٹائم پر اور کوئی آفس سوٹ نکال دو۔۔۔“


” آپ آفس جا رہے ہیں۔۔۔؟؟؟؟ “


نور نے شلوار قمیض وارڈروب میں رکھی اور فارمل سوٹ نکالا۔۔۔


” ہاں جس میٹنگ کے لئے گیا تھا آج اسے کی ڈیل فائنل ہوگی۔۔۔“


” اچھا۔۔۔! آپ فریش ہوجائیں میں آپکے لیے چائے لے کر آتے ہوں۔۔۔“


" ہوں۔۔۔“


وہ نور کو جاتا ہوا دیکھتا رہا جب تک نظروں وہ سے اوجھل نا ہوئی۔۔۔


( کیا واقعی میری بالکل فکر نہیں تمہیں نور۔۔۔؟؟؟ میرے جانے سے تمہیں کوئی فرق نہ پڑا۔۔۔ )


کاش نور میں تمہارے سارے دکھ دَرد دورر کر سکتا۔۔۔ کاش میں تمہارے ساتھ وہ سب۔۔۔


نور۔۔۔ نور تم نہیں جانتی تم میرے لیے کیا ہو۔۔۔ ایک آنسو ٹوٹ کے اسکی آنکھوں سے گررا تھا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ کمرے میں آئی تو دیکھا شاہ آ ئینے کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔۔۔

وہ خود پہ پرفیوم چھڑک رہا تھا۔۔۔ وہ اسے ایک نظر دیکھ کے وارڈروب کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کے پیچھے سے شاہ کی آواز آئی۔۔۔

” رات ہنی کے پاس کیوں سوئیں تھی۔۔۔؟؟ “ اسنے اپنے خشک ہونٹوں پے زبان پھیری اور لب کاٹنے لگی۔۔۔

” پتا نہیں چلا کب نیند آگئی۔۔۔“ وہ نظریں چرا کر بولی۔۔۔

شاہ اِس کے قریب آیا اور اپنے بھاری ہاتھ سے اِس کے بازو کو دبوچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔۔

” تم کیا سمجھتی ہو۔۔۔ بیوقوف ہوں میں۔۔۔۔ کیا میں نہیں جانتا تمہیں۔۔۔ میرے بیٹے كے ذریعے مجھ سے بچ رہی ہو۔۔۔؟؟ “

” ایک بات یاد رکھنا ہنی میرا اور ماہا کا بیٹا ہے۔۔۔ میرے لیے ہنی سب سے عزیز ہے۔۔۔ دُنیا کی ہر شئے سے۔۔۔ تمہاری وجہ سے اگر اسے کوئی تکلیف ہوئی۔۔۔ یا اس کی آنکھوں میں آنسوں آئے۔۔۔ تو تم اپنا حشر دیکھنا۔۔۔ جو میں کرونگا اپنے انہیں ہاتھوں سے گلا گھونٹ دونگا تمھارا۔۔۔“

وہ اپنے آنسوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ جانتی تھی آنسوں بہے تو تھپڑ لگیں گے۔۔۔

” نو بجے تک تیار رہنا تم دونوں کو پک کرلونگا۔۔۔“

” جی۔۔۔“ وہ سر جھکا کر اتنا ہی بولی قدموں کے جانے کی آواز آئی تو رکے ہوئے آنسوں کو بہنے دیا۔۔۔

” پری۔۔۔ پری“

ہنی کی آواز پہ آنسوں صاف کرتی وہ پیچھے مڑی۔۔۔

” پری میں نے اپنے سارے فرینڈز کو آپ کے بارے میں بتایا ہے۔۔۔ اور ان کو یہ بھی بتایا ہے کے میرے مما کتنی خوبصورت ہیں۔۔۔ اور مزے مزے کی ڈیشیز بناتی ہیں۔۔۔“

” اچھا۔۔۔“ وہ ہنسی ہنی نے دیکھا مٹے آنسوں کے نشان تھے۔۔۔

” پری آپ روئی تھیں۔۔۔؟؟ “


” نہیں تو۔۔۔“ وہ مسکرانے لگی۔۔۔


” پری اپنے ہی کہا تھا جھوٹ نہیں بولتے۔۔۔“ وہ اسکے آنسوؤں سے بہت کچھ جان گیا تھا وہ شاہ کا رویہ پری کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔۔۔۔


” ہنی ہمیں نو بجے تک تیار رہنا ہے۔۔۔ آپ کے بابا آئیں گے لینے پِھر ڈانٹ پڑے گی نا۔۔۔؟؟


اب چلو! “


” او کے “


ہنی جانتا تھا شاہ اِسے پسند نہیں کرتا اور ہر وقت ڈانٹتا ہے تبھی خاموش ہو گیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” حیا بیٹا یہ کپڑے شاہ زَر کے روم میں رکھ آؤ۔۔۔“


عائشہ اور نور باتیں کر رہیں تھی حیا کو عائشہ نے اپنے پورشن میں جاتے دیکھا تو بلایا۔۔۔


” جی تائی امی۔۔۔“ وہ کپڑے لے کر تایا کے پور شن میں آئی۔۔۔۔ ذہن میں مختلف سوچیں سوار تھیں۔۔۔۔ یا اللہ اگر وہ کمرے میں ہوئے تو۔۔۔۔?


سوچ کے ہی اسکے ہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑھ گئے۔۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی روم کی طرف بڑھی اور دھیرے سے دروازہ کھول کے اندر جھانکنے لگی شکر کے شاہ زَر روم میں نہیں تھا۔۔۔۔


وہ بیڈ پہ کپڑے رکھ کے مڑی ہی تھی کے واشروم کا دروازہ کھلا۔۔۔ اور نظر شاہ زَر پہ گئی۔۔۔ جس نے وائٹ ٹرائوزر کے ساتھ وائٹ ہی شرٹ پہنی تھی۔۔۔ گیلے بالوں کو ٹوول سے رگھڑتا باہر آیا اس پہ نظر پڑتے ہی آنکھیں لال ہوگئیں با مشکل وہ خود کو کنٹرول کیے ہوئے تھا۔۔۔


” وہ میں۔۔۔۔ وہ تائی امی نے کہا کہ۔۔۔ وہ یہ ڈریسز۔۔۔ روم۔۔۔ میں۔۔۔ میں جاتی ہوں۔۔۔۔“


لڑکھڑاتے لہجے میں بامشکل وہ بول پائی۔۔۔


” کتنی دفعہ کہا ہے میرے روم میں مت آیا کرو سنائی نہیں دیتا۔۔۔؟؟ یا مجھ سے بے عزت ہونے کا شوق ہے۔۔۔“ وہ غصے سے اسے گھورتا کہ رہا تھا۔۔۔


آنسو اِس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔۔۔۔


” گیٹ آؤٹ “ وہ دھاڑا۔۔۔۔


وہ بھاگتی ہوئی روم سے نکل گئی۔۔۔ اپنے کمرے میں آکر بے تحاشہ رَو دی۔۔۔


یا اللہ وہ کیوں مجھ سے اتنی نفرت کرتا ہے۔۔۔ بچپن سے وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔۔۔ میرا قصور تو بتا دے۔۔۔۔ رو رو کے کب وہ گہری نیند سو ئی اِسے ہوش نہ رہا۔۔۔

-------------------------------------


وہ تیار ہوکر ہنی کے ساتھ شاہ کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ تب ہی ملازمہ اسکا پیغام لے کر آئی۔۔۔

” بی بی جی شاہ صاحب باہر گاڑی میں ہیں۔۔۔“

” ٹھیک ہے۔۔۔“

وہ ملازمہ کو جانے کا اشارہ کر کے خود باہر آئی۔۔۔ ہنی کے ساتھ کار کی طرف بڑھی انہیں دیکھتے ہی گارڈز نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا۔۔۔۔ سامنے ہی وہ خوبصورت شخص اپنی بھرپور وجاہت کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔۔ پوری کار میں اِس کے کلون کی مہک تھی۔۔۔۔ شاہ نے سفید شلوار قمیض پر بلیک کوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے وہ موبائل چلانے میں مصروف تھا۔۔۔ اسنے پہلے ہنی کو اندر بھیجا۔۔۔ پھر خود بیٹھ گئی۔۔۔ ہنی ان دونوں کے بیچ میں بیٹھا تھا۔۔۔ شاہ نے اسکے بال سہلائے ایک غلط نظر بھی اس نے ساتھ بیٹھی اس لڑکی پہ نہیں ڈالی۔۔۔


پورے سفر کے دوران خاموشی رہی۔۔۔ ہنی اِس کی گود میں سر رکھے ہوئے تھا۔۔۔ ہنی کی ویکیشنس چل رہیں تھیں۔۔۔ وہ رات دیر تک جاگتا رہتا صبح جا کر کہیں اسکی آنکھ لگتی۔۔۔۔ ابھی بھی ہنی نیند میں جھول رہا تھا۔۔۔ اور شاہ وہاں پہنچنے تک مسلسل فون پہ لگا رہا۔۔۔


وہاں پہنچتے ہی۔۔۔ شاہ پرنسپل سے ملنے گیا۔۔۔ اور ہنی کی کلاس ٹیچر سے۔۔۔۔


” اسلام و علیکم۔۔۔! شاہ صاحب کیسے ہیں آپ۔۔۔؟؟ “


شاہ پرنسپل سے ملنے گیا۔۔۔ جو اس کا دوست بھی تھا۔۔۔ انکی ملاقات بزنس کے سلسلے میں ہوئی تھی۔۔۔


” وعلیکم اسلام۔۔۔! دیکھ لیں آپ کے سامنے ہوں۔۔۔۔ آپ سنائیں کیا حال ہیں۔۔۔؟؟ “


” بس شاہ صاحب اللہ کا کرم۔۔۔۔“


” آپ کے بیٹے کا یہاں پڑھنے کا ایک فائدہ ہے آپ ملنے تو آتے ہیں۔۔۔ پہلے تو بس عید کا چاند رہ گئے تھے۔۔۔“


شاہ مسکرایا۔۔۔‌ نہیں ایسے بات نہیں بس کچھ ماہ پہلے لندن سے آیا ہوں۔۔۔ اور یہاں بزنس سیٹ کرنے میں کافی ٹائم لگ گیا۔۔۔“


” چلیں اب سیٹ ہوگیا۔۔۔“


وہ فون کرکے پیون کو کچھ ہدایت دینے لگے۔۔۔۔


” ارے تکلف کی ضرورت نہیں رہنے دیں ناشتہ کر کے آیا ہوں۔۔۔۔“


” نہیں شاہ صاحب آپ کی خدمت کا موقع کیسے جانے دیں۔۔۔ آپ کا انتظار کر رہا تھا کہ ناشتہ آپ کے ساتھ کروں گا۔۔۔ اور ناشتا کیے بغیر میں آپکو جانے نہیں دوں گا آخر آپ ہاتھ کہاں آتے ہیں۔۔۔“


” اب تو چکر لگتے رہینگے رہنے دیجئے نیکسٹ ٹائم “

” آپ ہاتھ نہیں لگنے شاہ صاحب۔۔۔ اور آپ بھی تو جب آتے ہے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اس دفع ہمیں بھی موقع دیں۔۔۔“


“ Ok!! as you wish ”


”اور سنائیں شاہ صاحب بزنس سیٹ ہو گیا یہاں۔۔۔؟؟ “


” ہاں تقریباً ہو گیا لیکن ابھی بھی ایک دو چکر لگیں گے لنڈن کے۔۔۔“


اسی طرح باتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔۔۔


” آپ تو بالکل بھی اِس کی ممی نہیں لگتیں۔۔۔“


مس صوفیا نے حیرانگی سے سامنے بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا۔۔۔ جو تقریباً سترہ اٹھارا سال کی ہوگئی۔۔۔

” جی وہ حنان کی مما کی ڈیتھ ہوگئی ہے۔۔۔“

مس صوفیا کو سن کر افسوس ہوا اور حیرانگی بھی۔۔۔۔

” اوہ۔۔! لیکن حنان آپ کی اتنی تعریف کرتا ہے آپ اسکی اسٹیپ مدڑ لگتی نہیں۔۔۔“

” اسٹیپ مدر۔۔۔“ اسکے ہونٹوں سے ادا ہوا مس صوفیا نے بامشکل سنا۔۔۔

” او! آئی ایم سوری آپکو بُرا لگا “ مس صوفیا شرمندہ ہوئی۔۔۔

” نہیں اٹس او کے۔۔۔“


اسنے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔۔۔


” وہ یہ حنان کی رپورٹ کارڈ، کونگریچولیشنز حنان فرسٹ آیا ہے۔۔۔“


مس صوفیا بات بدلنے کے غرض سے بولیں۔۔۔۔


” تھینک یو “ وہ دل سے مسکرائی۔۔۔۔


” ہنی آج ناجانے کیوں سب بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔۔!! اور آج تمہاری وجہ سے مجھے فخر محسوس ہوا۔۔۔۔ مس صوفیا کے سامنے تھنک یو سو مچ میری جان۔۔۔!!! “


اسنے جھکتے ہوے ہنی کے سر پے بوسہ دیا۔۔۔


” پری آپ خوش ہیں۔۔۔؟؟ “ وہ چہکتے ہوئے بولا۔۔۔


” ہاں بہت “


اسکے ہونٹوں سے مسکراہٹ جا نہیں رہی تھی۔۔۔۔


” میں آپ کے لیے ہمیشہ فرسٹ آونگا۔۔۔ پِھر آپ کبھی رونا نہیں مسکراتی رہنا۔۔۔“

کیا وہ معصوم بچہ اسے سمجھتا تھا۔۔۔ اسنے مسکراتے ہوئے ہولے سے اسکی پیشانی پہ آتے بالوں کو سنوارا۔۔۔

کلاس ٹیچر سے ملنے کے بعد ہنی اسے مس بشری سے ملانے گیا۔۔۔ ہنی کے بقول وہ اسکی فوریٹ ٹیچر تھیں۔۔۔ وہ خوش اسلوبی سے ان سے ملی آج وہ بہت خوش تھا۔۔۔ وہ خوشی خوشی سب سے اسے ملا رہا تھا۔۔۔ جب مس بشری سے مل کے وہ اسٹاف روم سے باہر آئی۔۔۔ تب ہنی نے اس سے کہا۔۔۔

” پری آپ ہنستے ہوئے بہت خوبصورت لگتی ہیں۔۔۔ آپ ایسے ہی رہنا چینج نہیں ھونا۔۔۔“


” نہیں ہونگی اب اپنے فرینڈز سے ملاؤ۔۔۔“


وہ دونوں گراؤنڈ کی طرف آگئے جہاں ہنی کے فرینڈز کھڑے تھے وہ ہنی کے فرینڈز سے ملنے لگی۔۔۔


” دیکھو فرینڈز یہ پری ہیں میرے مما “


” تمہاری مما تو بہت پیاری ہیں “


” آپ بھی بہت پیارے ہو۔۔۔“ اسنے بچے کے گالوں کو پیار سے چھوا۔۔۔ اب سب بچے اس سے سوال کر رہے تھے۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے جواب دے رہی تھی۔۔۔ تبھی ڈرائیور شاہ کا پیغام لیکر آیا۔۔۔


” بی بی جی شاہ صاحب باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔“


” چلو ہنی اب چلتے ہیں۔۔۔“


واپسی کا سفر بھی خاموشی سے گزرا۔۔۔ شاہ کے پوچھنے پہ ہنی نے اسے اپنے پوزیشن کا بتایا۔۔۔ تو شاہ کے چہرے پہ خوشی دیکھنے لائک تھی۔۔۔ اسنے ہنی سے کہا کے وہ کوئی بھی فرمائش کر سکتا ہے۔۔۔


ہنی نے یہ کہہ کے ٹال دیا کے وہ سوچ کے مانگے گا۔۔۔۔


ہنی گھر آتے ہی دوڑ کر اندر چلا آیا۔۔۔ وہ شاہ سے تھوڑا آگے چل رہی تھی۔۔۔ کہ اسکا پاؤں اچانک مڑ گیا۔۔۔ شاہ نا سنبھالتا تو وہ ضرور زمین بوس ہوجاتی۔۔۔


” ابھی سے تھک گئیں تمہیں تو پوری زندگی میرے ساتھ رہنا ہے۔۔۔ بہت کچھ سہنا ہے پھر کیا کرو گی۔۔۔؟؟ “


وہ ملازما کو اسکے کے ساتھ آنے کا کہہ کر خود اندر چلاگیا۔۔۔ شاید آج بھی وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆




کوئی اسے زور زور سے ہلا رہا تھا۔۔۔ وہ گہری نیند سے جاگی مندھی مندھی آنکھیں کھولیں تو دیکھا سامنے ہی علی کھڑا دانت نکال رہا تھا۔۔۔


” جلدی اٹھو ہر وقت سوتی رہتی ہو۔۔۔“


" ممی بلا رہی ہیں گیسٹ آنے والے ہونگے ممی کی ہیلپ کرو جا کر۔۔۔۔ اب واپس سو نہ جانا۔۔۔“


علی نے باقاعدہ اسے وارننگ دی۔۔۔ حیا کی ایک بُری عادت تھی کہ بیڈ دیکھتے ہی نیند کی دیوی اس پہ مہربان ہو جاتی۔۔۔


" اُف کوئی ایسے اٹھاتا ہے جنگلی۔۔۔ ایک یہ جنگلی دوسرا اس کا وہ بدتمیز بھائی۔۔۔ میرا بس چلے تو اُسے گھر سے نکال دوں “


” کیا کہا۔۔۔؟؟ بھائی کے بارے میں کچھ کہا؟؟ “

علی اسکی بڑبڑاہٹ سن چکا تھا۔۔۔


” ہاں تمہارا بھائی ایک نمبر کا جنگلی غنڈا بدمعاش ہے۔۔۔ بات کرنے کی تمیز نہیں۔۔۔۔ اس کو تو آفس بھیجنے کی جگہ نرسری میں ایڈمیشن دلواناچاہیے۔۔۔۔ اِل مینرڈ “


” یعنی آج پِھر بھائی نے عزت افزائی کی۔۔۔ “

علی گہرا سانس لے کر بولا۔۔۔


علی اور حیا دونوں ہم عمر ہیں۔۔۔ دونوں میں کافی دوستی تھی۔۔۔ علی جانتا تھا شاہ زر حیا کو پسند نہیں کرتا۔۔۔


( یہی اک بات اسے بہت بُری لگتی ہے )


” جی نہیں آج میں نے اسے سنایا سمجھتا کیا ہے خود کو میں بھی کسی سے ڈرتی نہیں۔۔۔ کھڑوس کہیں کا “


وہ اپنا بھرم رکھنے کو بولی۔۔۔


” چھوڑو بھائی تو ہیں ہی آدھے پاگل اپنی ہی کرتے ہیں “


” آدھے نہیں پورے پاگل ہیں “


” اچھا چلو ممی ویٹ کر رہی ہونگی پھر مجھے ڈانٹ پڑے گی۔۔۔“


” تم جاؤ میں بس ٹو منٹس میں آئی “


” او کے “


علی کے جانے کے بعد وہ فریش ہونے چل دی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” حیا آگئی تم“

” جی تائی امی! اب بتائیں کیا کرنا ہے؟؟ “

” بس ڈائنگ ٹیبل ارینج کرنی تھی وہ میں نے کردی “

” سوری تائی امی میں سوئی ہوئی تھی۔۔۔ علی آیا تھا اٹھانے لیکن اسکے جانے کے بعد پتا نہیں کیسے پھر آنکھ لگ گئی۔۔۔“


وہ شرمندہ لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔


” ارے نہیں میری جان۔۔! میں نے ایسے ہی تمہیں بلایا تھا۔۔۔۔ تم اب آتی جو نہیں پہلے تو ہر وقت بس تائی امی کی رٹ لگائی رہتی تھیں۔۔۔ اب تو بھول ہی گئی ہو۔۔۔۔“


” سوری تائی امی اب پکا شام کی چائے آپ کی طرف۔۔۔ اب آپ بیٹھیں میں چائے بناتی ہوں “


وہ فرج سے دودھ نکالنے ہی لگی تھی کی عائشہ نے اسے روک دیا۔۔۔


” نہیں تم بیٹھو یہ پاستا کھائو چائے میں بناتی ہوں “


وہ گرما گرم پاستا ٹیبل پر رکھ کے اب چائے کے بنا رہی تھیں۔۔۔


” ہائے پاستا تھنک یو تائی امی “


وہ چائے میں چینی ڈالتی اسکی بات سن کر مسکرائیں۔۔۔


” کل سے ڈیلی تم نے آنا ہے۔۔۔ نہیں آئیں تو کان پکڑ کے سب کے سامنے سے لے جاؤنگی۔۔۔“


تائی کی دھمکی پہ وہ مسکراتے ہوئے پاستا کھانے لگی۔۔۔ اب وہ کیسے انہیں بتاتی کے شاہ زر کی وجہ سے وہ یہاں نہیں آتی۔۔۔ شاہ زر اسے دیکھتے ہی غصہ میں آجاتا۔۔۔ وہ آج تک یہ جان نہیں پائی تھی آخر کیوں وہ اس سے اتنی نفرت کرتا ہے۔۔۔؟؟؟


☆.............☆.............☆


گھر آتے ہی وہ فوراً کچن میں چلی آئی۔۔۔ جہاں ڈھیر سارے برتن اسکا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ اسنے پہلے تو برتنوں کو دیکھ برُی شکل بنائی۔۔۔ پھر اپنی آستینے فولڈ کر کے جلدی جلدی برتن دھونے شروع کیے۔۔۔


ابھی اسے کھانا بھی بنانا تھا ایک دو گھنٹے تو برتنوں میں لگ جانے تھے۔۔۔ وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی ان سے فارغ ہو کے سالن کے لیے سبزی کاٹنے لگی۔۔۔ اس نے چکن جلفریزی کے ساتھ آلو گوشت بنایا۔۔۔ اور میٹھے میں وہ ہنی کا فیوریٹ چوکلیٹ موس بنانے کا سوچنے لگی۔۔۔ ابھی وہ چوکلیٹ موس کے لئے سامان نکال ہی رہی تھی کہ۔۔۔ اسی وقت ملازمہ شاہ کا آرڈر لیکر آئی جسے اس وقت چائے کی طلب ہو رہی تھی۔۔۔ اسنے چائے کے لیے پانی چڑھایا اور ملازمہ کو روٹیاں بنانے کا کہ کر خود سویٹ ڈیش بنانے لگی۔۔۔


چائے کپ میں انڈیل کے اسنے ملازمہ کو دیکر آنے کا کہا اور سویٹ ڈش فرج میں رکھنے لگی۔۔۔


” بی بی جی شاہ صاحب نے کہا تھا چائے آپ لیکر آئیں “


اسنے بغیر کسی تاثر کے کپ اٹھایا اور اسٹڈی میں چلی آئی۔۔۔ نوک کرنے کے بعد وہ اندر آئی لیکن شاہ کو یہاں نا پاکر وہ روم میں چلی گئی۔۔۔


💖💖

ہنی فوراً اپنے کمرے میں آیا۔۔۔ لیکن یہاں کا منظر دیکھ کے اسکے منہ سے چیخ نکل گئی۔۔۔ ایک دن شاہ نے اسے کچھ ڈیزائنس دیکھائے تھے۔۔۔ ہنی نے ان میں روئیل بلو بیڈروم سیٹ پسند کیا تھا۔۔۔ اسے یقین نہیں آ رہا اِس کے روم میں وہی بیڈروم سیٹ سلیقے سے سیٹ کیا گیا ہے۔۔۔ اس نے شاہ کی کتنی منتیں کی تھی۔۔ بی بی جان سے بھی کہا تھا لیکن شاہ کا ایک ہی جواب ہوتا۔۔۔

” میٹرک کے بعد “لیکن آج اس طرح روم سیٹ دیکھ کے اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا۔۔۔ وہ بھاگتے ہوئے شاہ کے روم میں گیا لیکن وہاں کا منظر دیکھ اِس کی ساری خوشی دو پل میں غائب ہوگئی۔۔۔ وہ بیڈ شیٹ صاف کر رہی تھی سامنے ہی کپ کے ٹوٹے ہوے ٹُکرے گرے پڑے تھے۔۔۔


اس کی آنکھیں سرخ تھیں شاید وہ روتی رہی تھی۔۔۔ باتھ روم کا دروازہ کھول کے شاہ باہر آیا اس نے بلیک ٹرائوزر کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنی تھی۔۔۔ وہ ہنی کو دیکھ کے مسکرایا اور اِس کی طرف بڑھا۔۔۔ ہنی کو ایک پل لگا تھا سمجھنے میں وہ اتنا چھوٹا نہیں تھا کہ وہاں ہوئی واردات کی گہرائی نہ سمجھ پاتا۔۔۔ ضرور وہ چائے کا کپ لائی ہو گی جسے شاہ نے بغیر دیکھے تھام لیا ہو گا۔۔۔ گرم ہونے کی وجہ سے جہاں چائے شاہ کے کپڑوں پے گیڑی وہیں شاہ کا ہاتھ پری کے گال پٙر نشان چھوڑ گیا۔۔۔


ہنی مسلسل اسے دیکھ رہا تھا جس نے اپنا دوپٹا کچھ آگے سرکایا تھا۔۔۔ تاکہ اسکا چہرہ مکمل چھپ جائے جس طرح اس نے چہرہ چھپایا تھا۔۔۔ لگ رہا تھا جیسے اسے ہنی کے سامنے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔


وہ بیڈ شیٹ چینج کر کے اب ٹوٹے ٹکڑے اٹھا رہی تھی۔۔۔


” کیسا لگا سرپرائز۔۔۔؟؟ مائی پرنس۔۔۔“ شاہ کی آواز اسے سوچوں کی دنیا سے باہر لائی۔۔۔


” تھینک یو بابا اچھا تھا۔۔۔“ اسکا لہجا عام سا تھا۔۔۔ اب اسکے چہرے پہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی خوشی نہیں تھی۔۔۔


شاہ نے اسے اٹھایا اور بیڈ پہ اپنے برابر میں لٹا دیا۔۔۔ وہ ٹرے میں ٹکڑے رکھ کہ نیچے چلی گئی۔۔۔


” کیا ہوا ہنی۔۔۔؟؟ تُم ایکسائیٹڈ نہیں۔۔۔؟؟ حالانکہ کے پسند تمہاری تھی۔۔۔“ شاہ مسلسل اسے نوٹ کر رہا تھا۔۔۔ اسکی نظریں دروازے کی طرف تھیں جہاں سے ابھی وہ نیچے گی ہے۔۔۔


” نہیں بابا مجھے روم سیٹ بہت پسند آیا بس نیند آ رہی ہے۔۔۔“


وہ کروٹ بدل کے لیٹ گیا صاف ظاہر تھا وہ شاہ سے بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ شاہ کی پیشانی پے لاتعداد بل نمودار ہوئے۔۔۔


” ہنی خود کو اسکا عادی مت بناؤ اسے یہاں سے جانا ہے۔۔۔


اور ایک اہم بات اگر تمہیں لگتا ہے اسے تم سے لگاؤ ہے تو سب ناٹک ہے وہ سب لوگ جھوٹے ہیں۔۔۔“


” نہیں بابا دادو اور مما ایسی نہیں۔۔۔“


” مت کہو اسے مما نہیں ہے وہ تمہاری ماں۔۔۔“


نا چاہتے ہوے بھی شاہ کا لہجہ انتہائی سخت تھا۔۔۔۔


” بابا وہی میری مما ہے۔۔۔ ماہا مما میری مما نہیں تھی آئی ہیٹ ہر۔۔۔ شی واز سیلفش۔۔۔ شی یوس ٹو بیٹ آس۔۔۔ بابا اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ مما یہاں سے چلی گئی تو میں بھی عمر کے پاس۔۔۔“


” جسٹ شٹ آپ “


شاہ بے اختیار دھاڑا۔۔۔ ہنی سہم کے رونے لگا شاہ کو احساس ہوا۔۔۔ اسنے ہنی کو خود سے قریب کیا۔۔۔۔


” آئی ایم سوری ہنی۔۔۔“ شاہ نے اسے خود سے لگایا اور دیوانہ وار اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو چومنے لگا جیسے ابھی کوئی ہنی کو اس سے چھین لے گا۔۔۔


” بابا “ شاہ کا موڈ دیکھ ہنی کچھ پر سکون ہوا۔۔۔


” بولو بابا کی جان۔۔۔؟؟ “


” مما کو بلائیں۔۔۔“ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔۔۔۔


شاہ نے اک نظر ہنی کو دیکھا اس کے بال ہلکے سے سہلائے۔۔۔ پھر سامنے رکی ٹیلیفون اسٹینڈ کی طرف بڑھا۔۔۔ اور اسے کال کر کے اوپر بلایا۔۔۔


حکم ملتے ہی وہ فوراً کمرے میں آئی۔۔۔ شاہ نے سائیڈ سے موبائل لیا ہنی کو پیار کر کے اٹھا اب وہ اسکی طرف متوجہ تھا۔۔۔


” ہنی کے پاس ہی رہنا نیچے جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ اگر کچھ چاہئیے ہو تو کال کر ملازمہ کو بلانا “


وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا جو سر جھکائے حکم سنے کے لیے کھڑی تھی۔۔۔۔


” جی “


شاہ چلا گیا وہ ہنی کے ساتھ ہی لیٹ گئی اور اسے تھپکنے لگی۔۔۔۔


” مما یہیں رہنا “ اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہنی بول پڑا۔۔۔


اسکی کی آنکھوں میں نمی تھی وہ اتنے دھیرے سے بولا کے با مشکل وہ سن پائی۔۔۔


” ہنی کیا ہوا میرے جان۔۔۔؟؟ “


” مما آپ مجھ سے بھی ناراض ہیں۔۔۔؟؟ “


” نہیں ہنی میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتی۔۔۔ تم تھکے ہوئے لگ رہے ہو سو جائو۔۔۔“

” پہلے آپ پرومس کریں مجھے کبھی چھوڑ کے نہیں جائینگی چاہے کچھ بھی ہو۔۔۔؟؟ “

” اوکے پرومس “

اسنے ہنی کے بڑھے ہوے ہاتھ کو تھاما ہنی نے اسکے گال کو ہلکا سا سہلایا جو ابھی بھی لال ہو رہا تھا۔۔۔

وہ جانتی تھی ہنی باخبر ہے یہاں کیا ہوا تھا۔۔۔ وہ خود چھپتی پھر رہی تھی۔۔۔ ہنی سے ایک عجیب سی شرمندگی نے اسے گھیر رکھا تھا۔۔۔ وہ اسے تھپکتے سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

ہنی کے دِماغ میں ایک بات بیٹھ گئی ہے۔۔۔ جس سے وہ پیار کرتا ہے۔۔۔ وہ اسے چھوڑ کے چلے جاتے ہَیں۔۔۔ لیکن اس دفعہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ وہ اسکی سوچ غلط ثابت کر دے گی۔۔۔ وہ کبھی بھی اسے بے رحم دنیا کے سہارے تنہا نہیں چھوڑے گی۔۔۔ جب ماں باپ ہی دھوکا دیں تو اس ظالم دنیا کا کیا بھروسا۔۔۔ اور ہنی کے علاوہ اسکے ہے ہی کون۔۔۔؟؟ ہنی سوگیا تھا وہ اس کے ماتھے پے بوسا دی کر عصر کی نماز پڑھنے چلی گئی۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے لاؤنج کے چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔ اور اس کے بھائی تھے کے آہی نہیں رہے تھے۔۔۔ آخر تھک ہار کے وہ ان کے روم میں جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ عمر گنگناتا ہوا کوٹ کے بٹن بند کرتا اسی کے پاس آیا۔۔۔۔


” حیا میں کیسا لگ رہا ہوں۔۔۔“


وہ مسکراتا ہوا اِس سے پوچھا رہا تھا۔۔۔ آخر ایک گھنٹا لگا کے تیار ہوا تھا۔۔۔ مما نے جب اسے بتایا رجاء کی فیملی آرہی ہے۔۔۔ تو وہ بنا وقت ضائع کئے فوراً تیار ہونے چلا گیا۔۔۔ ورنہ اکثر ایسی کتنی ہی دعوتیں ہوتیں۔۔۔ نور اصرار کرتی رہ جاتی پر وہ نیچے نہیں آتا لیکن آج رجاء کا سن کر وہ فوراً تیار ہوکر آگیا۔۔۔۔


” بندر لگ رہے ہیں “


” کیا۔۔۔۔؟؟؟ “ اتنی محنت کے بعد ایسے ریمارکس اسے تو جیسے صدمہ ہو گیا۔۔۔


” میں بندر لگ رہا ہوں۔۔۔؟؟ اپنی شکل دیکھی ہے بندریا “ وہ تپ کے بولا ۔۔۔۔


” جی آپ سے تو لاکھ گُنا بہتر ہے۔۔۔۔ اور ویسے بھی آپ جس کے لیے اتنا تیار ہو کر آئے ہیں۔۔۔۔ وہ نہیں آئی۔۔۔


رجاء کے پیپرز ہو رہے ہَیں “ حیا کو اسکی شکل دیکھ کے ہنسی آگئی۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے جو نکھرا نکھرا سا اِس کے سامنے آیا تھا۔۔۔۔ اب ایک دم مُرجا گیا۔۔۔


” تمہیں کس نے کہا میں اس کے لیے تیار ہو کر آیا ہوں میرا کیا جائےاس سے۔۔۔۔ وہ تو ماما نے کہا تھا کے شکل اٹھا کے مت آ جانا اس لیے بس۔۔۔“


وہ اک پل کے لیے تو گھبرا گیا تھا پِھر سمبھل کے بولا۔۔۔۔


” تو انسان بن کے آتے نا ولیمہ نہیں ہے آپکا۔۔۔“ وہ غصے سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔ ایک تو انکی وجہ سے اتنی دیر ہوگئی اب مما اسے ہی سنائے گی۔۔۔


” تم منہ بند رکھو اپنا میری دادی نا بنو سمجھی۔۔۔“


عمر کو اب غصہ آنے لگا ایک تو جس کے لیے اتنا تیار ہوا وہ مہارانی آئیں نہیں۔۔۔۔ اور مما کو بھی اس نے آنے کا بول دیا تھا۔۔۔ اب واپس گیا بھی تو حیا کا شک یقین میں بدل جائے گا۔۔۔ اب اسے تین گھنٹوں تک وہاں بورنگ بیٹھنا پڑے گا۔۔۔ وہ جانتا تھا سب بزنس کی باتیں کریں گے جس میں اِس کی بالکل دِلچسپی نہیں تھی۔۔۔


” عمر کہاں جا رہے ہو۔۔۔؟؟ “


حیا ابھی جواب دینے ہی لگی تھی کے دونوں کو حمزہ کی آواز آئی وہ بھی تیار ہوکر آگیا۔۔۔۔


" کہیں نہیں تایا کے یہاں ہی جا رہا ہوں۔۔۔" وہ جھنجھلا کے بولا۔۔۔۔


” تم کس کے ولیمے میں جا رہے ہو۔۔۔“


میر بھی انکی طرف آگیا ثانیہ اور نُور پہلے ہی تیار ہو کر نیچے جا چکی تھیں۔۔۔


” بھائی آپکے ساتھ نیچے ہی جا رہا ہوں۔۔۔“


” اپنا رشتہ لیکر۔۔۔؟؟ “ میر نے ایک ابرو اچکا کر پوچھا۔۔۔۔


حیا اور حمزہ اسکی حالت دیکھ کے ہسنے لگے۔۔۔


” نہیں بھائی وہ بس ایسے ہی اور کوئی ڈریس پریس نہیں تھا اور مما بھی نیچے تھیں اسلیے۔۔۔“


” اسلیے سوٹ پہن کے آگئے؟؟ ویسے یہ سوٹ تو تم نے دوست کی شادی کے لیے لیا تھا۔۔۔؟؟ “ میر کچھ سوچتے ہوے بولا۔۔۔۔


” جی بھائی۔۔۔“ وہ پوری دانتوں کی نمائش کر کے بولا۔۔۔ میر نے اسے گھور کے حیا کی طرف رخ کیا۔۔ اسکی ساری حرکتوں سے وہ واقف تھا۔۔۔ حیا ایک ایک بات اسے بتاتی اب وہ اپنی پرنسز کو کیا بتاتا وہ ایک عرصے سے ان باتوں سے واقف ہے۔۔۔


” پرنسز چلو۔۔۔“


میر نے حیا کے کندھوں کے گرد بازو حمائل کیے اور اسے لیے نیچے اترنے لگا۔۔۔


” ٹھرکی لفظ تمہارے لیے بنا ہے۔۔۔“ پیچھے آتے حمزہ نے اسے دھیرے سے کہا۔۔۔ اور میر کے پیچھے چلنے لگا عمر نے اسے ظاہر کیا جیسے سنا ہی نا ہو۔۔۔

” بھائی اسے پرنسز کہہ کے آپ پرنسز کی توہین کر رہے ہیں۔۔۔ بندریا جیسی تو شکل ہے اسکی “

عمر نے پیچھے سے باآواز بلند کہا۔۔۔

” خود کو آئینے میں دیکھو اتنا تیار ہونے کے بعد بھی انسان جیسی کوئی فیلنگ نہیں آرہی۔۔۔۔ تم زو میں ہی بہتر ہو وہیں گھر بسا لو۔۔۔“ میر نے بھی ترکی با ترکی جواب دیا۔۔۔ عمر خاموش ہوگیا کہاں وہ بڑے بھائی سے بحث کرتا تھا۔۔۔؟؟

” میرے بھائی سے پنگا نالیں تو ہی اچھا ہے بھائی بوڈی بلڈر ہیں ایک مکا لگائیں گئے تو انڈیا جا کر لینڈ کرینگئے آپ۔۔۔“


عمر کا بس نا چلتا کے اس میسنی کو اٹھا کر باہر پھنک دے۔۔۔


” یہ بات تو حیا نے صیح کہی “


حمزہ جو کب سے خاموش تھا بول اٹھا۔۔۔


عمر نے اسے گھورا نور انہیں دیکھتے ہی ان کی طرف آئی۔۔۔


” حیا تمہیں میں کس لیے چھوڑ کے آئی تھی۔۔۔؟؟ “


نور نے آتے ہی اسے ڈانٹا۔۔۔


” مما عمر بھائی نے دیر کردی“


” ہاں تمہارے میر بھائی تو جیسے صبح سے تیار بیٹھے تھے “


عمر نے دھیرے سے تپ کر کہا کے کہیں میر نا سن لے۔۔۔


” آپ کی طرح نہیں ہیں سمجھے۔۔۔! فورًا تیار ہو کر آجاتے ہیں “


میر اور حمزہ انکی نوک جھوک کو انجوئے کر رہے تھے۔۔۔ بچپن سے ہی دونوں کی نہیں بنتی۔۔۔۔


” بس جواب دینا آتا ہے کتنی دفع کہا ہے بڑا بھائی ہے مت بےحس کیا کرو۔۔۔ میری بات کیوں نہیں مانتی تم؟؟ “


نور نے تنگ آکر کہا وہ جتنا اسے سمجھاتی حیا اتنی ہی بدتمیزی کرتی۔۔۔


” ماما یہ ہے ہی بدتمیز آپ کو پتا ہے وہ۔۔۔“ حیا بول ہی رہی تھی کے عمر نے اسکی بات کاٹی۔۔۔۔


” ہاں تمیز تو بس تمہیں ہی ہے۔۔۔“ عمر نے طنزیہ کہا۔۔۔


” بکواس بند کرو عمر! اور اندر جائو تم دونوں “


میر نے نور کا سرخ چہرہ دیکھا تو عمر اور حمزہ کو بولا۔۔۔۔


” جی بھائی “


حمزہ اور عمر نے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔۔۔ حیا اب بھائی کو دیکھ رہی تھی کے اسے بھی جانے کا بول دے۔۔۔ ورنہ ایک گھنٹہ نور کا لیکچرسننا پڑتا۔۔۔۔


” پرنسز تم ثانیہ کے پاس جائو۔۔۔“ وہ نرمی سے گویا ہوا۔۔۔


” جی بھائی “


حیا شکر کرتی فورًا کھسک گئی کہ کہیں نور پھر سے اسکی کلاس نا لے۔۔۔ اب میر پوری طرح سے نور کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ اسکے چہرے کی مسکراہٹ نور کو دیکھ ہمیشہ گہیری ہوجاتی۔۔۔۔

” میر دیکھا تم نے کس طرح جواب دینے لگی ہے۔۔۔ تم نے ہی اسے بگاڑا ہے۔۔۔ ایک نہیں سنتی میری 

نور کے لہجے میں پریشانی عیاں تھی۔۔۔

” مما بچی ہے ابھی وہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجاتا ہے آپ ٹینشن نا لیں۔۔۔“

” میر تم۔۔۔“

” مما بابا ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ آپ غصہ میں اور بھی پیاری لگتی ہیں “

میر نےآنکھوں میں شرارت لیے اس سے کہا۔۔۔ نور غصہ سے اسے گھورتی اندر چلی گئی۔۔۔ وہ بھی مسکراتا ہوا ڈرائنگ روم میں چلا آیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” آہاں! کریکشن مسٹر ہاشم لوگ ہمارے ساتھ کام نہیں کرتے۔۔۔ ہمارے لیے کام کرتے ہیں خیر آپ ڈیزائنز بھیجوا دیں۔۔ پھر اس ڈیل کے بارے میں کچھ سوچا جائے گا۔۔۔“


وہ عصر کی نماز پڑھ کے دعا مانگ رہی تھی۔۔۔ شاہ کی آواز اسے بہت قریب سے سنائی دی۔۔۔ وہ جانماز تہ کر کے اٹھی۔۔۔ شاہ ہنی کے پاس آیا اور اسکا لحاف برابر کیا۔۔۔ ایک نظر وہ ہنی پہ ڈال کے صوفے پے بیٹھ گیا۔۔۔ پاؤں ٹیبل پہ پہلائے اور ٹانگوں پہ لیپ ٹاپ رکھ لیا۔۔۔


وہ جاۓنماز رکھ کے شاہ کی طرف آئی جس کی انگلیاں تیزی سے کی بوڈ پر چل رہیں تھی۔۔۔ وہ اس کے پاس ہی کھڑی رہی۔۔۔ شاہ اسکی موجودگی نوٹ کر چکا تھا۔۔۔ لیکن اپنے کام میں مگن رہا پہلے وہ بنا کسی خوف کے ہر بات کہ جاتی تھی۔۔۔ لیکن اب وہ اس شخص سے اتنا ڈرتی تھی کہ اس سے چھوٹی چھوٹی بات کی اجازت لیتی کے کہیں اسے غصہ نا آجائے۔۔۔ صبح والے واقعہ میں بھی اس کی کوئی غلطی نہیں تھی پھر بھی سزا اسے ملی وہ گہرا سانس لیکر رہ گئی۔۔۔


” وہ۔۔۔ ہنی۔۔۔ سو۔۔۔ سوگیا۔۔۔ ہے۔۔۔ می۔۔ میں نیچے جاؤں۔۔۔؟؟“


” جاؤ۔۔۔“


حکم ملتے ہے وہ فورًا نیچے چلی آئی۔۔۔ اگر تھوڑی دیر بھی وہاں رکتی تو اپنی بےبسی پہ رونے لگتی۔۔۔ اور وہ اس شخص کے سامنے رونا نہیں چاہتی۔۔۔ وہ بی بی جان کے روم میں جانے لگی کے یکدم ملازمہ راستے میں آگئی۔۔۔


” بی بی جی وہ باہر کوئی امان شاہ آئے ہیں۔۔۔“


اگر ملازما نے اسکا ہاتھ پکڑا نا ہوتا تو وہ ضرور زمین بوس ہو جاتی۔۔۔ وہ بھاگنے کے انداز میں باہر آئی لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔ اور گارڈز لنچ کر رہے تھے اسے اچانک کھٹکے کی آواز آئی۔۔۔ وہ لون کی طرف بڑنے لگی۔۔۔ کہ تبھی جو شخص اس کے سامنے آیا اسے دیکھ اس کی سانسیں تھم گئیں۔۔۔ وہ تو اس شخص کو بھول چکی تھی لیکن وہ شاید اسے نہیں بھولا تھا۔۔۔ تبھی اتنی بےعزتی کے بعد بھی وہ شخص اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔


” ترس گئیں تھیں آنکھیں یارِ دیدار کی راہ میں۔۔۔ ہائے تم میں کچھ تو خاص ہے جو تم نے میرے جیسے شخص کو اپنے محبت میں دیوانہ کر دیا۔۔۔“


” تم۔۔۔ تم۔۔۔ یہاں کیا کر رہے ہو اور اندر کیسے آئے “


وہ بار بار پیچھے دیکھ رہی تھی کے کہیں شاہ نا آجائے۔۔۔


” یہ واقعی تم ہو مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔ وہ نڈر بہادر لڑکی وہ تیکھی چھری کہاں گئی۔۔۔؟؟؟ یہ آنکھوں میں خوف یہ آواز میں لڑکھڑائٹ کبھی دل نے تمہیں ایسے دیکھنے کی خواہش کی تھی۔۔۔ لیکن یقین کرو یار تم تیکھی چھری ہی غضب ڈھاتی تھی“


وہ طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کے بولا۔۔۔


” دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ گارڈز کو بلوا کر وہ حال۔۔۔“


” ہاہاہاہا!!! گارڈز کیا کریں گے مجھے ماریں گے یا سچ اگلوائینگیں کے کیوں میں یوں تم سے چوری چھپے ملنے آیا ہوں۔۔۔؟؟


چلو گارڈز کو چھوڑو تمہارے شوہر کے پاس چلتے ہیں ان سے مل بھی لوں اور اپنا حالے دل بھی سناؤں “


وہ خوف سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ لیکن وہ جانتی تھی اگر اس شخص کے سامنے وہ ڈر گئی تو وہ اسکا فائدہ ضرور اٹھائے گا۔۔۔۔


” تم جیسوں سے میں ڈرتی نہیں ہوں لگتا ہے تم اپنا حال بھول گئے۔۔۔ وہ تھپڑ بھول گئے وہ بے عزتی بھول گئخ جو میں نے تمہاری کی تھی تمہارے اپنوں کے سامنے ایک لڑکی سے مقبلا تو کر نہیں سکتے اور۔۔۔“


” شٹ آپ رسی جل گی پر بل نہیں گیا۔۔۔! کیا میں نہیں جانتا۔۔۔۔؟؟ تمہاری یہاں دو کوڑی کی عزت نہیں۔۔۔ تمہارا وہ محبوب شوہر جوتے کی نوک پے رکھتا ہے تمھیں۔۔۔ تم سے اچھی زندگی تو اس گھر کے ملازم گزارتے ہیں۔۔۔ بہت غرور تھا نا خود پے کہاں گیا وہ غرور وہ اکڑ۔۔۔؟؟؟ سب تمہارے بھائی کے دم سے تھا نا۔۔۔ اور کیا کیا تمہارے بھائی نے سولی پے لٹکا دیا تمہیں۔۔۔ خود قتل کر کے تمہیں خون بہا میں دے دیا۔۔۔ اب بلائو نا اپنے غیرت مند بھائی کو کہاں چھپ کے بیٹھا ہے اپنی موت کے خوف سے۔۔۔؟؟ “


آنسوں اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔۔۔ اس کے پاس آزر خان کی کسی بات کا جواب نہیں وہ سچ ہی تو کہ رہا تھا۔۔۔ باپ بھائی نے خون بہا میں بھیج دیا اور اسکی محبت نے اسے دنیاں والوں کے سامنے ذلیل کر دیا۔۔


“ نہیں میری جان ان خوبصورت آنکھوں پہ ظلم مت کرو سب بھول جاؤ۔۔۔ دیکھو ساری زندگی یہاں سڑنے سے اچھا ہے کے تم میرے ساتھ چلو دیکھنا رانی بنا کے رکھونگا تمہیں۔۔۔ بس تم اجازت دے دو ایک ہفتے کے اندر تمہیں یہاں سے نکال لونگا پھر۔۔۔“ بس اسک صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اسک ضبط یہیں تک تھا وہ چیخ کے بولی۔۔۔۔

” وہ مجھے چاہے مارے زندہ دفن کردے یہ اسکا معملا ہے تم کون ہوتے ہو میری فکر کرنے والے۔۔۔۔ مجھے تمہاری ہمدردی کی ضرورت نہیں سمجھے اور تمہیں میں کتنی بیوقوف لگتی ہوں۔۔۔۔ کے تمہارے باتوں میں آجاوں گی تم سے لاکھ گناہ اچھا وہ شخص ہے۔۔۔۔ کیوں کے وہ تمہاری طرح بے غیرت نہیں جب تک دل نہیں بھرا دل لگی کرتا رہا اور آخر میں بے رحم دنیا کے آسرے پے چھوڑ دیا۔۔۔ یا اسے قتل کر دیا۔۔۔ کتنی ہی لڑکیوں کا استمعال کر کے ان کی زندگی تباہ کر دی۔۔۔ تم جیسا شخص تو اپنی ماں کی بھی عزت نہیں کرتا ہوگا۔۔۔۔“


” تم۔۔۔“ وہ آگ بگولا ہوگیا یہ لڑکی ہمیشہ اسے ذلیل کرتی آئی تھی۔۔۔


” اگر میں نے اپنے شوہر کو یہاں بلایا نا تو وہ حشر کرے گا تمہارا۔۔۔ کہ گلی کے کتوں کو تمھاری لاش بھی نہیں ملے گی۔۔۔ اب آگر تم نے یہاں سے جانے میں مزید ایک منٹ لگایا تو۔۔۔“


” ابھی میں جا رہا ہوں تم سے تو میں فرست میں نپٹوں گا۔۔۔۔ “


آزر اسے ایک بھرپور نظر دیکھتا واپس لوٹ گیا وہ بھی خود کو نارمل کرتی اندر چلی گئی۔۔۔۔


******

” بھابی آپ سب واپس لندن جائیں گے۔۔۔؟؟ “ نور نے مسز اسفند سے پوچھا۔۔۔


” ہاں! لیکن واپس آنے کے لیے۔۔۔ وہاں سب سیل کر کے یہاں شفٹ ہو جائیں گے “


” ہاں اچھا ہے نا فارن کنٹریز میں پاکستان جیسا مزہ کہاں ہے۔۔“ عائشہ نے کہا۔۔۔


" صیح کہہ رہی ہیں بھابی آپ۔۔۔ وہاں عید، رمضان میں پاکستان کی بہت یاد آتی ہے۔۔۔ عید کے موقعے پر بھی گھر میں بیٹھے رہو نا کوئی رشتے دار نا کوئی اپنا۔۔۔ عام دنوں میں بھی سب چلے جاتے ہیں۔۔۔ اسفند آفِس، بچے یونیورسٹی، میں ہی ایک اکیلی گھر میں رہ جاتی ہوں۔۔۔“


مسسز اسفند کو ہمیشہ سے پاکستان میں رہنا پسند تھا۔۔۔


شوہر کی وجہ سے مجبور تھیں لیکن اب سوچ لیا تھا یہاں ہی رہنا ہے ہمیشہ کے لیے۔۔۔

اسی طرح باتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔۔۔ ثانیہ سب کے لیے کچن میں چائے بنا رہی تھی۔۔۔ خواتیں ڈنر کر کے فارغ ہوئیں تو چائے کا دور چلا مرد سب ڈرائنگ روم میں ڈنر کر رہے تھے سب بچے بھی وہیں تھے۔۔۔

حیا بالکنی میں آکر تازہ ہوا کو محسوس کر رہی تھی کے کوئی اسکے پیچھے آکھڑا ہوا۔۔۔

” ہیلو مس حیا “

حیا اس آواز پر پیچھے مڑی سامنے مسٹر اسفند کا بیٹا اشعر کھڑا تھا۔۔۔


” وعلیکم اسلام “ وہ اس کے جواب پہ مسکرایا۔۔۔ اشعر نے پہلے بار اسے میر کے آفس میں دیکھا تھا۔۔۔ تب سے اسے حیا پسند تھی۔۔۔ اسے آج بھی یاد ہے وہ کس طرح میر کی چیئر پر بیٹھ کر سب پر حکم چلاتی۔۔۔


” کیسی ہیں آپ؟؟ “


” ٹھیک ہوں “ جانے کیوں وہ شخص اسے برُا لگا۔۔۔


” کیا کرتی ہیں آپ ؟؟ “


( یہ دفعہ کیوں نہیں ہوتا )


” سونگس سنتی ہوں “


وہ ہنسنے لگا۔۔۔


” آئی مین آپ کیا پڑھتی ہیں ؟؟ “


اشعر کو اس سے بات کرنا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔


” سیکنڈ ایر کے پیپرز دیے ہیں۔۔۔ ابھی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لونگی۔۔۔ “ وہ جواب دیکر جیسے احسان کر رہی تھی کم سے کم اشعر کو تو یہی لگا۔۔۔


” گڈ “


وہ جانے کا سوچ رہی تھی کے شاہ ذر وہاں آگیا۔۔۔ وہ دور سے ہی دونوں کو باتیں کرتے دیکھ چکا تھا۔۔۔ اِس کا بس نہیں چل رہاتھاکہ اشعر کے دانت توڑ دے۔۔۔


” حیا “


” جی “ حیا اسے دیکھتے ہی گھبرا گئی وہ اتنا تو جانتی تھی کے شاہ ذر کو اسکا کسی سے بات کرنا پسند نہیں۔۔۔ اکثر جب وہ اپنے کسی کزن سے بات کرتی تو شاہ ذر جس طرح غصّہ سے اسے گھورتا وہ وہیں سے کھسک جاتی۔۔۔ اور وہ اسے کافی دفعہ وارن کر چکا ہے کے کسی سے بےتکلف نہ ہوا کرے۔۔۔


” تمہیں ممی بلا رہی ہیں فوراً جاؤ“


” جی “


اسکا لہجہ اشعر نے تو نہیں لیکن حیا نے نوٹ کیا تھا۔۔۔۔ تبھی ایک سیکنڈ بھی لگائے بغیر بھاگی۔۔۔ وہ حیا کے جاتے ہی اب اشعر کی طرف مڑا۔۔۔


” اشعر تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟ “


شاہ ذر نے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔ ورنہ اسکا بس نہیں چلتا سامنے کھڑے اس شخص کا حلیہ بگاڑ دے۔۔۔


” بس ایسے ہی گھر دیکھ رہا تھا تو تمہاری کزن مل گئی “


” بہت معصوم ہے “ اشعر اپنی ہی دھن میں بول رہا تھا شاہ زر کی رگیں تن گئیں۔۔۔


” ہاں! تب ہی تو دِل کے بہت قریب ہے “


شاہ ذر نے جس طرح اسے دیکھتے کہا۔۔۔ اگر اشعر اسکی آنکھوں کی سرخی دیکھتا۔۔ تو بولنے سے پہلے سو بار سوچتا۔۔۔


” کیا مطلب۔۔۔؟؟؟ تم پسند کرتے ہو اسے؟؟؟؟“


” پسند۔۔۔؟؟؟؟ آئی لو ہر۔۔۔ شی اِس مائی فیانسے۔۔۔“


بامشکل وہ خود کو روک پایا۔۔۔


” اوہ آئی ٹھوٹ شی اس سنگل “


اشعر یہ سن کے اداس ہوا۔۔۔


” میں چلتا ہوں ڈیڈ ویٹ کر رہے ہونگے “


اشعر کے جانے کے بعد شاہ ذر غصہ زبت کیے وہیں کھڑا رہا۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ کب سے اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔۔ وہ یہاں چچی کے پورشن میں بہت کم ہی آتا تھا۔۔۔ لیکن آج جو ہوا اس کے بعد اِس کے اندر اک ڈر بیٹھا جا رہا تھا۔۔۔ کہ کہیں اشعر اپنا رشتا حیا کے لیے نا بھیج دے۔۔۔


اچانک اسکی سیڑھیوں پے نظر پڑی جہاں سے حیا آتے ہوئے دکھائی دی وہ فوراً سے اس کے سر پر جا پہنچا۔۔۔۔

” کیا کہہ رہا تھا وہ تم سے؟؟ “

” انٹروڈکشن لے رہا تھا “

وہ ڈر گئ تھی لیکن اعتماد بال کر کے بولی اب اس نے سوچ لیا تھا ڈرنا نہیں ہے۔۔۔۔

وہ اِس کے قریب آیا اور اِس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔۔۔

” تم مجھے دوبارہ کسی مرد سے بات کرتی ہوئی نظر نا آؤ سمجھی۔۔۔؟؟ “ حیا کو اسکی بات عجیب لگی۔۔۔


” آپ سے مطلب۔۔۔؟؟؟ میں کیوں آپکی بات مانوں؟؟ “


شاہ ذر کا چہرہ غصے سے سرخ پر گیا۔۔۔

آ

” میں کچھ دنوں کے لیے منظر سے کیا غائب ہوا تمھارے پر نکل آئے۔۔۔؟؟ خیر ان پروں کو کاٹنا میں اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔۔۔ پہلے تم سے جڑے سارے حقوق تو لے لوں “


” ک۔۔ کی۔۔ کیا مطلب۔۔۔؟؟ “


شاہ ذر اس کی کیفیت سے لطف اٹھا رہا تھا۔۔۔


” سیدھی بات ہے بہت جلد تم میرے نکاح میں ہوگی۔۔“ وہ تو سنتے ہی کانپ گئی۔۔۔


” کیا۔۔۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ نہیں نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں “


” کیسے ہو سکتا ہے کیا مطلب میں جب چاہے جہاں دل چاہے تم سے نکاح کرسکتا ہوں کون روکے گامجھے۔۔۔؟؟ “


شاہ زر بھنویں اچکاتے ہوئے زرا سا مسکرایا۔۔۔ اور چار قدم کا فاصلہ طے کر کے دو قدم کے فاصلے پہ اسکے بے حد قریب آکھڑا ہوا۔۔۔۔

” آپ۔۔ ک۔۔ کیوں۔۔۔ مجھ۔۔۔ سے۔۔۔ شادی۔۔۔ کرنا۔۔۔ چاہتے۔۔ ہیں۔۔۔؟“

وہ دو قدم پیچھے ہوتی اس سے مخاطب ہوئی۔۔۔ شاہ ذر اسکی حرکت پہ مسکرایا۔۔ اور خود ہی پیچھے ہٹ کے تھوڑا فاصلا قائم کیا۔۔۔ وہ اتنی گبھرائی ہوئی تھے کے بامشکل جملہ مکمل کر پائی۔۔۔۔

” اتنا اہم سوال نہیں کے اسکا جواب دیا جائے!! بس یہ یاد رکھو ہمارا نکاح ضروری ہے سمجھی۔۔۔؟؟ “

” نہیں۔۔۔ نہیں میں آپ سے شادی ہر گز نہیں کرونگی۔۔۔ میں جانتی ہو آپ جان بوجھ کے مجھ سے شادی کر رہے ہیں تاکے میں نے جو آپ سے بدتمیزی کی آپ اس کا بدلہ لے سکیں ۔۔ “


شاہ ذر اس پاگل لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔۔۔ اور کیا الٹا سیدھا سمجھ رہی تھی اتنی سی بات کا کوئی بدلا لیتا ہے۔۔۔


” تم اپنے اس ننھے دماغ پے ذیادہ زور مت دو کل ممی آئیں گی رشتا لے کر مجھے جواب ہاں میں چائیے “


وہ اتنی سنجیدگی سے بولا کے حیا کو اس سے خوف محسوس ہوا۔۔۔


” آخر آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔۔۔؟؟ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی آپ بھی تو مجھے پسند نہیں کرتے۔۔۔“


اس نے حیا کا بازو اتنی زور سے دبوچا کے درد کی شدت سے اسکی آنکھوں میں پانی آگیا۔۔۔۔


” تو کس سے کرنی ہے شادی۔۔۔؟؟ اشعر سے۔۔۔؟؟ “ شاہ ذر کو جیسے اور کچھ سنائی ہی نہیں دیا۔۔۔


” آپ سے مطلب جس سے بھی کروں لیکن وہ آپ نہیں ہونگے "


شاہ ذر کی رگیں تن گئیں آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔۔ اسکے اندر کا لاوا جیسے پھٹ پڑنے کو بے چین تھا وہ غرا کے بولا۔۔۔


" میں جان سے نا ماردوں اسے۔۔۔“


وہ شہادت کی انگلی سے اس کے ٹھوڑی اوپر کرتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔


” سنو حیا! شادی تو دور کی بات اگر کسی غیر مرد کا خیال بھی تمہارے دماغ میں آیا۔۔۔ یا کسی سے بات کرتے ہوئے دیکھا تو خدا کی قسم اسے جان سے ماڑ دونگا “


وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اس سے ہلا نہیں جا رہا تھا۔۔۔ وہ بھاگنا چاہتی تھی لیکن اس کی ٹانگیں جیسے جم چکی تھیں وہ آخر میں بے بس سی ہو کر رو دی۔۔۔


” نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ کسی غیر مرد سے بات نہیں کرونگی۔۔۔ کسی کو نہیں سوچوں گی۔۔۔۔ “


وہ روتے ہوئے بولی شاہ ذر جانتا تھا وہ اس کی ایک دھاڑ سے کس قدر سہم جاتی ہے۔۔۔ اسکا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔ وہ عام سے لہجے میں بولا۔۔۔


" تو میں امید کرتا ہوں جواب ہاں میں ہوگا “


” نہیں “ وہ اس سے دو قدم پیچھے ہو کر بولی آنکھوں میں بے تحاشا خوف تھا۔۔۔۔


” کیوں۔۔۔؟؟ “ وہ تیز لہجے میں بولا۔۔۔


” وجہ بتائو مسئلہ کیا ہے تمھارے ساتھ۔۔۔؟؟ “ وہ اسکے قریب آیا۔۔۔


” نفرت کرتی ہوں میں آپ سے۔۔۔“


وہ قہقہہ لگا کے ہنسا پڑا۔۔۔

” جاناں۔۔! کوئی اور دلیل دو تمہاری نفرت سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا “

وہ بے بسی سے اسے دیکھتی رہی وہ کبھی اس شخص سے جیت نہیں سکتی تھی۔۔۔ وہ اسے دھکیلتے روتے ہوئے اپنے روم میں چلی گئی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ خود کو سنبھالتی اندر آگئی۔۔۔ لیکن اوپر جانے سے پہلے اسنے آواز دے کر ملازمہ کو بلایا۔۔۔

” جی بی بی جی! “

” میری طرف دیکھو کیا تم نہیں جانتی امان شاہ کون ہے؟؟ “

وہ غصے سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔

” نہیں بی بی جی “

وہ اسکا جواب سن کر چونکی۔۔۔

” تم کہاں سے ہو؟؟ “

” جی کراچی سے “

” اچھا! “

وہ گہرا سانس لے کر رہ گی۔۔۔

” ٹھیک ہے! تم جاؤ “

” روکو ایک سیکنڈ “ اچانک سے اسکے دماغ میں جھماکہ سا ہوا۔۔۔

” جی “

” جب تم جانتی ہی نہیں امان شاہ کون ہے تو ڈر کیوں رہیں تھیں؟؟ “

وہ بخوبی اس کے چہرے پہ خوف دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔

” وہ جی اکثر بی بی جان کے کمرے سے صحاب کی آواز آتی ہے کے وہ امان شاہ کو مار دینگے اور“

” اور کیا “

اس کی آواز لزر گئی۔۔۔ اپنے بھائی کے لیے یہ سب سن کر۔۔۔

” اور یہ کے وہ آپ کے بھائی ہیں “

اسے لگا جیسے ملازمہ اس پر طنز کر رہی ہے۔۔۔

” اسے اندر کس نے آنے دیا یہاں تو اتنے گارڈز ہیں پھر! وہ بغیر اجازت کے تو آ نہیں سکتا؟؟ “

” بی بی جی مجھے بس ان صاحب نے کہا تھا وہ آپ کے بھائی ہیں اور ملنا چاہتے ہیں اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی “

وہ مختلف سوچوں کو ذہن پے سوار کرتی کمرے میں آگئی۔ وہ ملازمہ کی بات سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” نور یہ ڈریسز میں تمھارے لیے لایا تھا کیسی ہیں؟؟ “

” ہوں اچھی ہیں۔۔۔ شکریہ “

” نور میں شوہر ہوں تمہارا یہ فرض ہے میرا۔۔۔ شکریہ بول کر مجھے لگ رہا میرے منہ پر تھپڑ مار رہی ہو “

اذلان کو برا لگا اِس کا شکریہ ادا کرنا۔۔۔ آج بھی وہ ویسے ہی ہے اِس سے غافل۔۔۔ وہ دکھ سے سوچنے لگا۔۔۔

” ایسی بات نہیں بس منہ سے نکل گیا۔۔۔“

نور نماز پڑھ کے فارغ ہوئی تو اذلان نے ڈریسزدیکھائیں جو وہ اسکے لیے لایا تھا۔۔۔۔۔

” اللہ کی بندی شوہر کو ناراض کر کے اللہ کو کیسے منائو گی۔۔۔“ ازلان نے گہرا سانس خارج کیا۔۔۔۔

” تو ہوتے رہیں ناراض مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا“

” جانتا ہوں میری جان “

وہ اسے محبت سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔

” اذلان کیا ہو گیا اب آپ کے بچے بھی شادی شدہ ہَیں اور آپ۔۔۔“

” یار ایک تو میں تمہارے منتیں کر کے تھک گیا۔۔۔ میرے ساتھ چلو۔۔۔۔ چلی تو نہیں اُلٹا ناراض ہو کر بیٹھی ہو۔۔۔ حالانکہ ناراض مجھے ہونا چاہیے۔۔۔ ایک کال تک تو تم نے کی نہیں۔۔۔“


” میں آپ سے راضی کب تھی اذلان “


اذلان کا دِل چاہا اِس لمحے کاش اسے موت آجائے۔۔۔۔ پُرانے زخم پِھر تازہ ہوگئے۔۔۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔۔۔ جہاں ہلکی سے نمی تھی۔۔۔


” اذلان آئی ایم سوری پتا نہیں کیسے۔۔“ وہ شرمندہ تھی۔۔۔


” نہیں نور آئی ایم سوری “


اذلان نے اس کا ہاتھ تھاما۔۔۔


نور نے مصنوئی غصے سے اسے دیکھا ۤاور اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔۔


” اب جان بوجھ کے موقعے کا فائدہ نا اُٹھائیں۔۔۔“ اذلان ہنس پڑا۔۔۔


” یار اِتنا مس کیا میں نے تمہیں۔۔۔ تمہاری ٹیسٹی ڈشز کو۔۔ تمہاری خوبصورت آواز کو۔۔۔ جسے روز صبح سننے کی عادت ہے۔۔۔ تمھارے خوبصورت چہرے کو اور۔۔۔“


وہ مزید کچھ بولتا نور نے بات بدل لی۔۔۔

” وہاں کک تو تھا۔۔۔ “

” ذرا اس کی چائے ہی ٹیسٹ کرلو تو دو دن تک کسی چیزیں کا ذائقہ نہیں آتا۔۔۔“

اذلان نے شکل ایسی بنائی کے نور کو ہنسی آگئی۔۔۔۔

” تم ہنستے ہوئے۔۔۔۔“

” جانتی ہوں میں لائٹ اوف کر رہی ہوں مجھے نیند آرہی ہے“ وہ اٹھنے لگی کے اذلان بولا۔۔۔۔


” نور تم پوچھو گی نہیں میں ایک دن لیٹ کیوں آیا۔۔۔۔؟؟ “


وہ اِس سے بولنے کے لیے ہمیشہ کوئی نا کوئی بات کرتا۔۔۔ ورنہ وہ تو ہمیشہ چُپ رہتی تھی۔۔۔ اور اب ایک ہفتے بعد دونوں ساتھ تھے اذلان اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔


” مجھے پتا نہیں تھا آپ کب آئیں گئے۔۔۔“


” اچھا تب ہی حیا سے پوچھا تھا۔۔۔“ وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔۔۔ اذلان کو خوشی ہوئے تھی جب حیا نے اسے بتایا کے نور اِس کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔۔۔ جبکے نور کو حیا سے ایسی ہی امید تھی آخر ہے جو باپ کی لاڈلی ماں کا راز کیسے رکھتی۔۔۔


” ایسے ہی پوچھ لیا ہوگا۔۔۔“ وہ عام سے لہجے میں بولی۔۔۔۔ وہ لائٹ بند کر رہی تھی جب اذلان بولا۔۔۔


” یار رک جاؤ مجھے نیند نہیں آ رہی تھوڑی دیر باتیں کرتے ہیں۔۔۔“


” صبح نماز کے لیے بھی اٹھنا ہے قضا ہوجائے گی “


” ٹھیک ہے بند کرو “


اذلان نے مایوس ہو کر کہا۔۔۔

نور آکر اِس کے برابر لیٹ گئی۔۔۔۔

” میری جان “ ازلان نے ہاتھ بڑھا کے اسے خود سے قریب کیا اور اِس کے ماتھے پہ بوسا دیا۔۔۔

” یار کیا کروں جب تک تمہاری پیشانی پہ بوسا نہیں دیتا نیند نہیں آتی۔۔۔“

وہ مسکرا کر بولا۔۔۔نور کچھ نا بولی وہ اسے الگ ہوکر لیٹ گئ۔۔۔

” حیا سے پوچھا کس فیلڈ میں جانا چاہتی ہے؟؟ “

جب کافی دیر نیند نا آئی تو اذلان نے پوچھا اچانک ہی اسے یاد آیا۔۔۔

” آپ پوچھ لینا اور یہ بات آپ کل کر سکتے تھے؟؟“

” یاد ابھی آیا “

نور آنکھیں موندے لیٹ گئی۔۔۔

” میرے بنا تو تم کافی خوش ہوگی میں جو نہیں تھا تمہیں تنگ کرنے کے لیے“

” میں حیا کے روم میں جا رہی ہوں۔۔۔“ وہ تنگ آکر اٹھنے لگی۔۔۔۔۔

ازلان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ وہ جانتا تھا نور کہنے کے ساتھ عمل کر بھی دیگی۔۔۔۔

” اچھا یار سو جاؤ “ وہ واقعی ہار گیا تھا اس سے ناجانے کب اسے سکون کی نیند آئے گی۔۔۔

” میرا ہاتھ تو چھوڑیں ۔۔۔“

” مجھے تم پہ بھروسا نہیں چلی گئی تو۔۔۔ اکیلے میں ڈر لگتا ہے۔۔۔“


نور اسکی بات سن کر ہنسنے لگی۔۔۔


” جھوٹے “


نور نے کہا نہیں بس اس کے ہونٹ ہلے۔۔۔


” اب ہنسنا بند کرو سوجائو۔۔۔“ کچھ ہی دیر میں اذلان کے ہلکے کھراٹوں نے اسے تحفظ کا احساس دلایا۔۔۔ وہ بھی کچھ دیر میں سو گئی۔۔۔۔۔ ہاتھ ابھی بھی ازلان کے ہاتھ میں تھا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” آپ لنچ روم میں کرینگے یا نیچے؟؟ “


وہ بنا اسے دیکھے، جواب دئیے میل سینڈ کر کے اٹھا اور انگلیوں کی پوروں سے آنکھ کی پپٹوں کو دباتے ہوے وہ ہنی کے برابر میں ہی لیٹ گیا۔۔۔۔


شاہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ آدھے سے زیادہ بیڈ پہ وہ لیٹا تھا اس کے حصّے میں جتنی جگہ آئی وہ سکھڑتی ہوئی بیٹھ گئی۔۔۔۔


” سر دباؤ “


اس نے اپنے کپکپاتے ٹھنڈے ہاتھ شاہ کے ماتھے پہ رکھ دئیے اور ہولے ہولے سر دبانے لگی۔۔۔ شاہ آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا۔۔۔ سوتے ہوے وہ کتنا معصوم لگ رہا تھا کتنا خوبصورت تھا یہ شخص اسے آج بھی یاد ہے۔۔۔ وہ ان گہری براؤن آنکھوں کی پہلی نظر میں ہی دیوانی ہوگئی تھی۔۔۔ اسکی کھڑی ناک تیکھے نفش موٹے سرخ ہونٹ جن میں سگریٹ کی وجہ سے اب گلابی پن نہیں تھا۔۔۔۔


ہنی گہری نیند سے جاگا اب وہ پہلے سے فرش لگ رہا تھا۔۔۔ ہنی کی نظر ان دونوں پر پڑی تو وہ ان کے قریب آیا اسے شرارت سوجی اسنے پری کا ہاتھ ہٹایا اور خود سر دبانے لگا۔۔۔ وہ اسکی کاروائی پہ مسکرائی شاہ نیند میں نہیں تھا ہاتھ کے لمس سے وہ پہچان گیا تھا۔۔۔ اسنے اپنی سرخ ہوتی آنکھیں کھولیں اور ہنی کو دیکھ کے بے ساختہ مسکرایا۔۔۔۔


” نیند پوری ہوگئی؟؟ “ شاہ نے اسے بازوں کے گھیرے میں لیکر اپنے ساتھ لٹایا۔۔۔


” ہاں! “


” صبح سے کچھ کھایا ہے؟؟ “


” نہیں “ وہ سر نفی میں ہلانے لگا۔۔۔


” چلو اٹھو پہلے لنچ کرلو “ شاہ نے اس کے بال بگاڑے اور ہاتھ بڑھا کے اسے اٹھایا۔۔۔


” رہنے دو “


جب وہ دوبارہ اسکا سر دبانے لگی تو شاہ نے کہا۔۔۔اسنے اپنا ہاتھ ہٹا دیا۔۔۔


” آپ دونوں بھی چلیں “


ہنی پری کو دیکھتے ہوے بولا۔۔۔


” مجھے بھوک نہیں ہے ! تم ان محترما کو لے جاؤ “


وہ ہنی کے سامنے بھی اس کا لحاظ نہیں کرتا۔۔۔ مخاطب بھی ایسے کرتا ہے جیسے وہ اسکی خریدی ہوئی غلام ہو۔۔۔ اور سچ ہی تو تھا وہ غلام ہی تو ہے اسکی۔۔۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے سوچنے لگی۔۔۔۔


” بابا آپ بھی چلیں نا؟؟ “


ہنی اس کے لہجے کی تلخی کو نظر انداز کرتے ہوے بولا۔۔۔


” ہنی دیکھو ضد نہیں کرتے تم جاؤ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں “


وہ بیڈ سے چھلانگ لگا کے اٹھا اور پری کی طرف آیا۔۔۔


” آرام سے یار گر جاتے تو؟؟؟ “


” نہیں بابا میں سٹرونگ ہوں نہیں گروں گا، پری صیح کہا نا میں نے؟؟ “


شاہ چونک کے ہنی کو دیکھنے لگا اور زیرے لب بڑبرایا۔۔۔


” پری “


کیا کچھ نہیں یاد آگیا اسے شاہ نے نظریں اٹھائیں تو وہ اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ نظریں ملنے پہ وہ خوف سے نظریں جھکا گئ۔۔۔ اب ہنی اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے لے جا رہا تھا۔۔۔ لیکن وہ تو اس ایک لفظ پر اٹک گیا تھا۔۔۔


” پری “

☆.............☆.............☆

” فیضان؟؟ “

” ہم “ وہ جو بیڈ پے لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا عائشہ کی آواز پے چونکا۔۔۔

” وہ مسز اسفند کی کال آئی تھی “

عائشہ نے استری شدہ سوٹ ہانگ کیا اور فیضان کے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔۔

” خیریت کچھ دیر پہلے تو یہاں سے نکلے ہیں “


فیضان نے چشما اُتار کے سائیڈ پے رکھا اب وہ پوری طرح سے عائشہ کی طرف متوجہ تھا جس کے چہرے سے پریشانی صاف عیاں تھی۔۔۔


” فیضان تمہیں نہیں لگتا حیا اب بڑی ہو رہی ہے؟؟“


” حیا کہاں سے آگئی اب بول بھی چُکو عائشہ کیا بات ہے؟؟ “


” اشعر کو حیا پسند آ گی ہے مسز اسفند چاہتی ہیں کے جلد ہی ۔۔۔ “


” نور کو یہ بات بتائی؟؟ “ فیضان نے بیچ میں ہی اسکی بات کاٹ دی۔۔۔


” نہیں لیکن اسے جاننے کا حق ہے؟؟ “


” کوئی ضرورت نہیں حیا میری بیٹی ہے اور اِسی گھر میں آئی گی “


فیضان نے روب دار آواز میں کہا۔۔۔


” فیضان آپ کی بات صیح ہے لیکن ازلان اور نور ہی اسکے ماں باپ ہیں “


” ہم بھی ہیں اور حیا کی شادی صرف میری مرضی سے ہوگی۔۔۔ چاہے ازلان یا نور رضامند ہوں یا نا ہوں اور نور کو بتانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ میں خود ازلان سے بات کر لونگا۔۔۔ اور تم شاہ زر سے بلکے میں خود ہی کر لونگا۔۔۔ اب ہر فیصلہ میری مرضی سے ہوگا۔۔۔ تم لوگ کا کیا دھرا دیکھ چکا ہوں میں۔۔۔ اب اپنی بچی کی زندگی خراب نہیں کرونگا “


”ٹھیک ہے پھر میں صبح ہی مسز اسفند کو جواب دے دونگی“


” ہم۔۔۔ عنایا سے بات ہوتی ہے؟؟ “ فیضان آنکھیں موندھے لیٹ گیا عائشہ اسکے تاثرات دیکھنا چاہتی تھی لیکن دیکھ نا سکی۔۔۔۔


” جی “


” کیسی ہے وہ؟؟ دو ماہ ہو چکے ہیں اسنے چکر نہیں لگایا “


” تمھیں یاد ہے؟؟ “ عائشہ نے حیرانگی سے فیضان کو دیکھا۔۔۔


” باپ ہوں اسکا دشمن نہیں “


” فیضان پلیز آپ اسے۔۔۔ “


" لائٹ آفکردو “ فیضان کا لہجہ یکایک تیز ہوا “


عائشہ نے اٹھ کے لائٹ آف کی اور کمرے سے جانے لگی کے فیضان کی آواز سے اسکے قدم تھم گئے۔۔۔


“ کہاں جارہی ہو؟؟ “ فیضان اب اٹھ کے بیٹھ چکا تھا۔۔۔


” جہاں بھی جاؤں تم سے مطلب “


” میرے پاس آؤ “ عائشہ جانے کا ارادہ ترک کر کے وآپس آگئی۔۔۔ وہ جاتی بھی تو فیضان اسے وآپس لے ہی آتا۔۔۔


” فیضان وہ میری بیٹی ہے مجھ سے نہیں دیکھی جاتی اسکی تکلیف وہ جب آتی ہے۔۔۔ امید بھری نظروں سے آپ کو دیکھتی ہے۔۔۔۔“ عائشہ نے ہلکے سے اسکے کندھے پے ہاتھ رکھ کے کہا جب بھی بات منوانی ہوتی وہ آپ کہ کر مخاطب کرتی۔۔۔ اور فیضان بھی یہ چاہتا تھا وہ آپ کہے لیکن عائشہ نے کہ دیا تھا عادت سے مجبور ہے کبھی کبھی بلائے گی۔۔ فیضان اسکی چالاکی پر دل ہی دل میں مسکرایا۔۔۔۔


” اسنے کیا کیا ہے تم نہیں جانتی کتنا بڑا ظلم کیا ہے خود کے ساتھ اگر تمہیں ذرا بھی اندازہ ہوتا تو۔۔۔ خیر بیٹی ہے وہ میری جس دن میں اس کی طرف سے مطمئن ہوجاوں گا معاف کردونگا۔۔۔ اب سو جاؤ آج کافی تھک گی ہو۔۔۔“


کمرے میں خاموشی چھاگئی فیضان تو سو چکا تھا۔۔۔ لیکن عائشہ کی سوچیں اسی موضوع کی طرف تھیں۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ بیڈ پے کروٹیں لیتے لیتے تھک گیا لیکن نیند کی دیوی اس پہ مہربان نہیں ہوئی۔۔ اس کے دماغ میں ابھی تک ہنی کا کہا گیا۔۔۔ وہ ایک لفظ گونج رہا تھا۔۔۔


” پری “


حلانکہ اسے یاد ہے پری کے بارے میں اسی نے ہنی کو بتایا تھا۔۔۔ لیکن وہ یہ سب بھلا چکا تھا وہ کمزور نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔۔ وہ نہیں بھول سکتا صرف اسکی وجہ سے اسنے اپنی بیوی اور اپنا معصوم بچا کھویا تھا۔۔۔ اسے یاد ہے آفیسر نے کہا تھا اس کے بیٹے کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔۔۔ عمر کو استہما تھا اسنے خود عمر کو انہیلر یوز کرنا سکھایا تھا۔۔۔ ایک انہیلر ہمیشہ میڈ کے پاس رہتا اور دوسرا اسنے میڈ سے کہا تھا۔۔۔ وہ عمر کی جیب میں رکھ دے۔۔ عمر۔۔۔ بھلے وہ چار سال کا ہو اسے استہما کے بارے میں پتا تھا۔۔۔ اسے پتا تھا جب جب اسے سانس نا آئے اسے انہیلر یوز کرنا ہے پھر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کے دم گھٹنے کی وجہ سے موت ہو۔۔۔ اور ایسا ہوا بھی ہو تو کسی نے جان بوجھھ کے ہی کیا تھا۔۔۔

اسے تڑپایا تھا اور وہ شخص اور کوئی نہیں اس کا اپنا تھا جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔ شاہ نے اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کی ٹھان لی تھی۔۔۔ وہ دن رات پاگل ہو رہا تھا کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔۔ اسنے امان کو لیکن ناجانے ابو نے اسے دنیا کے کس کونے میں چھپایا ہوا تھا۔۔۔ کے شاہ اسکے عکس سے بھی بےخبر تھا۔۔۔۔ وہ دن رات اپنے اندر کی آگ بجھانے کے لیے اسکی بہن کے ساتھ جتنا ظلم کر سکتا تھا۔۔۔ اسنے کیا خوشی کا ایک پل اسے نصیب نہیں ہونے دیا ہر رشتے سے اسے دور کردیا۔۔۔ نجانے کتنی دفعہ بےوجہ اس پہ تشدد کیا اچانک ہی اسے کمرے میں گھٹن سی ہونے لگی تو وہ نیچے آگیا وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا کے ہنی کی چہکتی آواز اسکی سماعتوں میں گونجی۔۔۔


” پری بس پیٹ بھر گیا “


” ہنی بس تھوڑا سا کھاؤ پھر پکا چاکلیٹ ماؤس کھلائونگی “


” نہیں مجھے کھانا نہیں کھانا چاکلیٹ ماؤس کھانا ہے پلیز پری!! پھر پکّا شام میں کھانا کھائونگا “


” اچھا میں لیکر آتی ہوں اور اگر تم نے شام میں کھانا نہیں کھایا تو پھر دیکھنا میں کبھی تمہارے لیے کوئی اسپیشل ڈیش نہیں بناؤنگی۔۔۔“


وہ کچن کی طرف بڑتی ہوئی کہ رہی تھی کے ایک دم چٹان جیسے سینے سے ٹکرا گئی۔۔۔۔ شاہ نے اسکے دونوں بازوں کو سختی سے جکڑ لیا۔۔۔


” اندھی ہو یا آنکھیں بند کر کے چلتی ہو۔۔۔؟؟ “

کہتے ہوے وہ روکا نہیں تھا ایک دم اسے چھوڑتے باہر نکل گیا۔۔۔


” کاش تم نے ان بند آنکھوں کو کھول کے سچائی جاننے کی کوشش کی ہوتی کاش۔۔۔! پلٹ آئو اس پہلے کے میں پتھر بن جاؤں۔۔۔“


شاہ کے جانے کے بعد وہ ہنی کے لئے چاکلیٹ ماؤس لے آئی۔۔۔ ہنی نے اس سے پوچھا کے شاہ نے اسے کیا کہا تھا۔۔۔


” انہوں نے کہا کے میں انکو بھی یہ اسپیشل ڈیش دوں چلو یہ کہا کر تم بابا کو بھی دے آنا مجھے کچن میں کچھ کام ہے اوکے؟؟ “


ہنی نے کھاتے ہوے سر ہاں میں ہلا دیا اور وہ کچن میں چلی آئی۔۔۔ شاہ کے لیے سویٹ ڈیش نکال کے اسنے ہنی کو تھما دی۔۔۔


☆.............☆.............☆

ٹیلی فون کی بجتی آواز سے وہ ایک دم اٹھی۔۔۔ کتنی مشکل سے اسے نیند آئی تھی۔۔۔ شاہ زر سے جھگڑے کے بعد وہ کمرے میں آگئی۔۔۔


بنا مہمانوں کو الوداع کیے۔۔۔ آج سونے سے پہلے وہ بابا سے بھی نہیں ملی۔۔۔ بابا کتنے ہی دیر دروازہ کھٹکھٹا کے چلے گئے۔۔۔ شاید انہیں لگا تھا اب تک حیا سوگئی ہوگئی۔۔۔ شاہ زر کی باتوں سے وہ اس قدر خوف زدہ ہوگئی کہ آتے ہی روم کا دروازہ اور کھڑکیاں لاک کردیں۔۔۔۔ اسنے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھایا لیکن دوسرے طرف کی آواز سنتے ہی اس کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ شروع ہوگئی۔۔۔


” تو کیا سوچا تم نے “


” کس۔۔ با۔۔۔ بارے۔۔ ما۔۔ میں۔۔۔“


” تمہیں آکر بتاؤں میں۔۔۔؟؟ “ وہ تیز لہجے میں بولا۔۔۔۔


” آپ۔۔ کا۔۔ مسلا۔۔۔ کیا۔۔ ہے۔۔۔ کیوں۔۔۔ مجھے۔۔۔ تنگ کر۔۔۔ رہے۔۔۔ ہیں۔۔۔ میں۔۔۔ فون۔۔۔ رکھ۔۔۔ رہی۔۔۔ ہوں۔۔۔ اگر۔۔۔ آپ۔۔ نے۔۔۔ مجھے۔۔۔ دوبارہ۔۔۔ تنگ۔۔۔ کیا۔۔ تو۔۔۔ میں۔۔ تائی۔۔۔ امی۔۔۔ سے۔۔۔ آپ۔۔۔ کی۔۔۔ شکایت

کرونگی۔۔۔۔“


” اچھا! فون بند کر کے دیکھاؤ میں بھی دیکھوں تم میں کتنی ہمت ہے۔۔۔“ وہ تحمل سے بولا۔۔۔


وہ فون رکھنا چاہ رہی تھی۔۔۔ لیکن اس میں جیسے شاہ زر کی کال کاٹنے کی بھی ہمّت نہیں تھی۔۔۔ دوسری طرف شاہ زر کے ہونٹ مسکرائے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں دبی دبی سسکیاں شاہ زر کو سنائیں دیں۔۔۔


” حیا! جس سے چاہے شکایت کرو چاہے تو اپنے تایا ابو سے کرو آئی جسٹ ڈونٹ کیر۔۔۔! اب تک میں تم سے شرافت سے بات کر رہا تھا۔۔۔ لیکن تمہاری موٹی عقل میں بات گھستی کہاں ہے کل ممی آئیں گی۔۔۔


اور اگر تمہارا جواب نہ میں ہوا تو پھر جو تمہارے ساتھ ہوگا اسکی زمہ دار تم خود ہوگی۔۔۔ کیوں کے شادی تو تمہاری مجھ سے ہی ہوگی۔۔۔ منع کرو گی تب بھی تمہیں اغواہ کر کے تم سے شادی کرونگا۔۔۔ تمہارا وہ بھائی پوری زندگی تمہیں ڈھونڈتا رہے گا۔۔۔ پر بیچارے کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔۔۔ اور تم میری دسترس میں ہوگی سب سے دور کوئی تمہارا اپنا نہیں ہوگا۔۔۔ پھر تمہارا حساب تو میں تفصیل سے کرونگا سارے بدلے لونگا بس ایک بار میرے ہاتھ لگ جاؤ “


آخر میں اسکا لہجا شرارتی تھا لیکن حیا کی تو حالت ایسی تھی جیسے کسی نے اسے موت کا پیغام سنایا ہو۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” بابا “


شاہ اس وقت گارڈن میں بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا۔۔۔ ہنی کی آواز نے اسکی سوچوں کا تسلسل توڑا۔۔۔


” نہیں ہنی میرا موڈ نہیں “


ہنی اسکے لیے سویٹ ڈش لے آیا تھا۔۔۔ لیکن شاہ نے انکار کردیا لیکن ہنی بھی تب تک نہیں گیا جب تک شاہ نے ٹیسٹ نا کیا۔۔


مجبورًا شاہ کو کھانا پڑا پھر دیکھتے دیکھتے شاہ نے پورا بائول ختم کردیا۔۔۔ ہنی اسے کھاتا دیکھ اُسی وقت اندر چلا گیا تھا۔۔۔


” سر آپ کو کچھ بتانا ہے “


گارڈ نے شاہ کو اکیلے دیکھا تو اس کی طرف آگیا۔۔۔ شاہ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ سامنے رکھی پلاسٹک چیر پے بیٹھ گیا۔۔۔


” بولو؟؟ کس بارے میں؟؟ “


” میم کے بارے میں “


وہ جو بےزاری سے بیٹھا تھا ایک دم الرٹ ہوگیا۔۔۔۔


” ہاں بولو “


شاہ پر سوچ نگاؤں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔


” سر باہر اعظم شاہ آئے ہیں “


چوکیدار ہانپتا ہوا اس تک آیا شاہ نے مٹھیاں بھینچ لیں شاہ اچھی طرح جانتا تھا وہ یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔


” زین ہنی کو کچھ دیر کے لیے باہر لے جاؤ “


شاہ نے سامنے بیٹھے گارڈ سے کہا۔۔۔


” یس سر “


شاہ نے چوکیدار کو اشارہ کیا کے وہ انہیں اندر لے آئے۔۔۔


مغرب کی نماز پڑھ کے وہ کچن میں چلی آئی۔۔۔ اپنے اور بی بی جان کے لیے چائے بنا کے وہ انکے کمرے میں آگئی۔۔۔ بی بی جان تسبی پڑھ رہیں تھیں۔۔ وہ انکا کپ رکھ کے باہر چلی آئی۔۔۔


” بیٹا اعظم صاحب آئے ہیں ابھی ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں جا کر مل لے ان سے جلدی جا وہ چلے جائیں گے “


اماں کی کہی بات سے اسکے ہاتھ سے کپ چھوٹ گیا۔۔۔ جب وہ نا ہلی تو اماں نے اسے جھنجھوڑا۔۔۔ کیا اسکو رہائی کا پیغام مل گیا؟؟ وہ اس قید خانے سے آزاد ہوگی؟؟؟


وہ بھاگتے ہوئے ڈرائنگ روم کے راستے کی طرف بڑھی۔۔۔ جو گھر بڑا ہونے کی وجہ سے دور تھا۔۔۔۔


لگاتار تین چار تھپڑ اعظم شاہ نے شاہ کے گالوں پے نشان چھوڑ گئے اعظم شاہ نے اسے کالر سے پکڑتے غراتے ہوئے کہا۔۔۔


” مجھے یقین نہیں آرہا تم میرے بیٹے ہو۔۔۔؟؟ اپنے بھائی پہ گولی چلائی تم نے۔۔۔؟؟ اپنے بھائی پے۔۔۔؟؟؟ جواب دو خاموش کیوں ہو جب بندوق تھامے ڈرے نہیں تو اب کیوں۔۔۔؟؟؟ یہی سب سکھایا تھا تمہیں میں نے بولو کہاں کمی رہ گی تھی میری پرورش میں۔۔۔“


” بابا میرے بیٹے کو مارا ہے اس ذلیل نے میں اسے۔۔۔“


ایک اور تھپڑ پڑا تھا اسکے گالوں پے شاہ مٹھیاں بھنچے کھڑا تھا۔۔۔


” جس دن یہ ثابت ہوا خون امان نے کیا ہے۔۔۔ اسی وقت تمہارے سامنے میں خود اپنے ہاتھوں سے اسکی گردن اکھاڑوں گا۔۔۔ لیکن اگر وہ بےگناہ ثابت ہوا تو اعظم شاہ اور اسما شاہ تمہارے لیے مر گئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔ اور اپنی بیٹی کو بھی لے جاؤنگا یہاں سے “


شاہ نے نظر اٹھا کے اپنے سامنے کھڑے اپنے بابا کو دیکھا۔۔۔ جو اب پہلے سے کمزور نظر آ رہے تھے۔۔۔


وہ تیزی سے پھولی سانسوں سے بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم تک پہنچی تبھی باہر نکلتے شاہ سے بُری طرح ٹکرائی شاہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔


” میرے بابا “ وہ رو دینے کو تھی یہ خواب سا ہی لمحہ تھا کے اسکے بابا اسکے قریب تھے بس چند قدموں کا فاصلہ تھا۔۔۔


” چلے گئے “


شاہ نے قہر آلود نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔


وہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کے شاہ نے اسکی کلائی اپنے گرفت میں لی۔۔۔


” نہیں نہیں پلیز بس ایک بار ملنے دو “


وہ روتے ہوے اسے منتیں کر رہ تھی۔۔۔


” اندر جاؤ “


وہ سخت لہجے میں گویا ہوا اسکی نظریں اسکا پورا وجود جلسہ دے رہیں تھیں۔۔


” بس ایک دفع ملنے دو پلیز وہ چلیں جائیں گے چھوڑ دو۔۔۔ چھوڑ دو تم نے مجھے پاگل کر دیا ہے تم۔۔۔ تم۔۔۔ ان۔۔ انسان نہیں حیوان ہو خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہو۔۔۔“ وہ چیختی ہوئی اس سے منتیں کر رہی تھی۔۔۔


شاہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا شاہ نے دوسرے ہاتھ سے اسکا چہرہ دبوچا۔۔۔۔


” تم۔۔۔ تمہیں۔۔ اللّه کا واسطہ۔۔۔ “ شاہ کی گرفت ڈھیلی پڑھ گئی وہی لمحہ تھا وہ بھاگتی ہوئی باہر آئی وہ چیخ چیخ کے بار بار بابا کہ رہی تھی۔۔۔۔۔


لیکن وہاں کوئی نہیں تھا گیٹ بند تھا وہ بھاگتے ہوے گیٹ تک آئی۔۔۔۔


” گیٹ کھولو “


گیٹ کو اپنے ہاتھوں سے جکڑے وہ چلائی۔۔۔


” میم وہ کب کے جا چکے ہیں “


چوکیدار نظریں جھکائے گویا ہوا آخر وہ اسکے بڑے صاحب کی اکلوتی بیٹی تھی۔۔۔ کیسے وہ اس سے نظریں بھی ملا پاتا۔۔۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اندر آگئی اور وہیں لاؤنچ میں زمین پے بیٹھ کے گھٹنوں میں سر دیے رونے لگی۔۔۔


” پری کیا ہوا “


اسے بیٹھتے تھوڑی دیر ہی ہوئی ہوگئی کے ہنی آگیا جو زین (گارڈ)کے ساتھ قریبی پارک میں گیا تھا۔۔۔۔


” ہنی۔۔۔ مے۔۔۔ میرے۔۔۔ بابا۔۔۔ مجھ۔۔۔ سے۔۔۔ میل۔۔ ملے بنا چلے گئے۔۔۔ میں انہیں بلاتی رہی وہ نہیں رکے۔۔۔۔ وہ ایسے کیسے چلے گئے میرے یاد نہیں آتی انھیں وہ مجھ سے پیار نہیں کرتے ہنی وہ ایسے تو نہیں تھی۔۔۔“


وہ مسلسل اپنے بابا کی شکایات کیے جا رہی تھی ہنی اسے چپ کراتا رہا جب وہ نا سنمبھلی تو اماں کو لے آیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” حیا! یہ اندھیرا کیوں کر رکھا ہے “

نور نے لائٹ آن کی اور کھڑکی کی طرف بڑھ کے پردے ہٹائے، پھر بیڈ کے قریب آئی جہاں حیا سو رہی تھی۔۔۔

” حیا اٹھو یہ کوئی سونے کا ٹائم ہے۔۔۔ دیکھو دن کے بارہ بج رہے ہیں۔۔۔ اور تم ابھی تک سو رہی ہو “


” حیا۔۔۔؟؟“ نور اسے اٹھانے لگی کے حیا اٹھ کے اسکے گلے لگ رونے لگی۔۔۔


” مم۔۔۔ مما۔۔۔ مج۔۔۔ مجھے۔۔۔ بہت ڈر۔۔۔ لگ رہا ہے۔۔۔“


حیا پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔۔


” حیا میری جان ہوا کیا ہے۔۔۔؟؟؟ کیوں رَو رہی ہو۔۔۔؟؟؟ کچھ بتاؤ تو۔۔۔؟؟؟ “ نور کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے حیا کبھی بھی ایسے بی ہیو نہیں کرتی۔۔۔


”حیا بولو کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟ “ نور نے پریشانی میں حیا کو بیڈ پے لٹایا اور پاس پڑے ٹیلی فون سے ازلان کو کال کرنے لگی۔۔۔


رو رو کے حیا سو چکی تھی نور نے چیک کیا تو اسے بخار تھا۔۔۔ اب اسکی پریشانی مزید بڑھ گئی۔۔۔ اسنے نے ناجانے کتنی کالز کیں ازلان نے ریسیو نہیں کیں۔۔۔


نور نے عائشہ اور ثانیہ ( حیا کی بھابی ) کو بلایا اور حیا کے پاس رہنے کو کہا۔۔۔ اور خود ڈاکٹر کو کال کرنے لگی۔۔۔ ازلان نے اسے اپنی دوست کا نمبر دے رکھا تھا۔۔۔ جو ڈاکٹر ہے اگر ایمرجنسی ہو تو وہ اسے فوراً کال کر کے بلائے۔۔۔ نور نے ڈاکٹر کو کال کرنے کے بعد میر کا نمبر ملایا پر وہ بزی تھا تبھی ازلان کی کال آئی۔۔۔


” ہیلو نور میں میٹنگ میں تھا اور فون “

” ازلان حیا کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ پلیز گھر آجائیں میں نے ڈاکٹر کو کال کی ہے “

”نور میں پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں تم حیا کے پاس رہنا اسے اکیلا مت چھوڑنا۔۔۔“

کال کاٹ کے وہ جتنی رش ڈرائیونگ کر سکتا تھا کر کے گھر پہنچا اور میر کو کال کر کے اطلا دی۔۔۔

☆.............☆.............☆

جیسے ہی ہوش میں آئی نظر سامنے کھڑے اپنی بھائیوں پہ گئی جو اِس کے لیے پریشان کھڑے تھے۔۔۔

” حیا کیسی ہو۔۔۔؟؟ “ شاہ میر نے اسے اٹھتے دیکھ کے پوچھا۔۔۔

حیا سے بولا نہ گیا گردن ہلا کر جواب دیا۔۔۔

” حیا میری جان کیا ہوا تھا۔۔۔؟؟ “

ازلان حیا کے سَر ہانے بیٹھا تھا دو گھنٹے سے پریشان تھا۔۔۔ نور کا فون سن کر فوراً ہی یہاں پہنچ گیا۔۔۔

” بابا “ اپنے بابا کو دیکھ آنسوؤں روک نہیں پائی اور رونے لگی۔۔۔

” حیا کیا ہوا رَو کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟؟ بولو کسی نے کچھ کہا۔۔۔“

ازلان بہت پریشان تھا نور اِس سے سب بتا چکی تھی شاہ میر اور عمر (جس دن کلاس جلدی ختم ہوجاتی عمر فورًا گھر آجاتا ہے ) بھی اسکے ساتھ ہی آئے تھے۔۔۔

” بابا! امجھے بہت ڈر لگ رہا ہے “

”کس سے۔۔۔؟؟ “ میر غور سے حیا کو دیکھ رہا تھا وہ اس کے تا اثرات سے جاننا چاہتا تھا کہ کیا جو وہ سوچ رہا ہے سچ ہے یا اسکا وہم ہے۔۔۔


” پتہ نہیں۔۔۔“ روتے ہوئے بولی۔۔۔


ازلان اِس کا سر تھپکنے لگا۔۔۔


” پرنسز ایک بات یاد رکھنا تمہارے بھائیوں کے ہوتے ہوئے کسی کی اتنی ہمت نہیں کے تمہیں نقصان پہنچائے اس لیے کسی سی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا! “


شاہ میر اِس کے سر ہانے آکر بیٹھ گیا۔۔۔


” بھائی آپ مجھے کہیں جانے نہیں دینگے نا میں آپ لوگ کے بغیر نہیں رہ سکتی “


ازلان اور شاہ میر کی نظریں ساتھ اٹھیں دونوں ہی اسکے عجیب و غریب رویے پے حیران تھے۔۔۔


” نہیں تم جانا چاہوگی تب بھی جانے نہیں دوں گا مائی پرنسز “ وہ اِس کے گلابی گال زور سے کیچتے ہوے بولا۔۔۔


” آ.......بھائی درد ہو رہا ہے “


ازلان جانتا تھا شاہ میر اِس سے سب بلوا لے گا۔۔۔ جس بھی وجہ سے وہ ڈر رہی ہے اس لیے پر سکون ہوگیا۔۔۔

” حیا آئس کریم کھاؤگی۔۔۔؟؟؟ عمر نے پوچھا

” ہاں “

وہ خوشی سے اٹھ بیٹھی۔۔۔

” لیکن آپ لے کر آنا وہاں جایا نہیں جائے گا مجھ سے “

” دیکھا بابا یہ اٹینشن سیکر ہے ناٹک کر رہی ہے۔۔۔۔ کچے کریلے نا کھلائوں تمھیں چڑیل “


عمر بولا صرف حیا کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے۔۔۔


” تمہاری زبان قینچی کی طرح نہیں چلنے لگ گئی علاج کرنا پڑیگا۔۔۔“ شاہ میر نے حیا کے سامنے مصنوئ غصّے سے کہا۔۔۔


” حیا چلو اٹھو یہ سوپ پیو “


تبھی نور اور عائشہ آگئی سوپ لے کر۔۔۔


” نہیں مما میرے منہ میں درد ہو رہا ہے “


ہاہاہا۔۔۔۔ ازلان ہنسا شاہ میر بھی مسکرایا۔۔۔


” دیکھا مما یہ آپکی لاڈلی بیٹی اتنی محنت مجھ پہ کی ہوتی آج کامرس کی جگہ mbbs میں ہوتا “

عمر نے کہا۔۔۔


” ہاں اور لوگوں کی ٹانگیں جوڑنے کے بجائے توڑ دیتے “


شاہ میر کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔۔۔


” لیکن بھائی عمر بھائی جیسے ڈاکٹر بنتے انسان تو رہنے دئیں کوئی جانور بھی علاج نا کرواتا “


” کیوں چڑیل اب ڈر نہیں لگ رہا پہلے آواز نہیں نکل رہی تھی اب میڈم کے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے بابا پیزہ کا بولیں فورًا اٹھ بیٹھے گی“


عمر نے اسے گھورتے ہوے کہا۔۔۔


” میر بھائی دیکھیں مجھے چڑیل کہہ رہے ہیں “


” تم چپ نہیں رہ سکتے “


ازلان نے باظاہر غصّے سے کہا لیکن نرمی سے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔ عمر بھی برا سا منہ بنا کر چپ ہوگیا۔۔۔


” بیٹا اب تم بس سے جانا کار کے تم لائک نہیں “


میر نے اسے دھمکی دینا ضروری سمجھا جو کام بھی آگئی۔۔۔۔


” بھائی میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔ حیا کا ڈر بھگا رہا تھا “


وہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوے بولا۔۔۔


” بس اب چپ رہو “


نور نے تنگ آکر کہا اور سوپ حیا کی طرف بڑھایا ۔۔۔


” حیا اٹھو بہانے نہیں چلیں گے “

” مما مجھے سوپ کو دیکھ کے ومیٹنگ ہوتی ہے “

وہ منہ بسور کر بولی۔۔۔

” تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا تھوڑا سا کھا لو “

عائشہ نے اسکا مُرجایا چہرہ دیکھ کے کہا۔۔۔

” تائی امی مما کچھ اچھا کھلائیں تو بندہ سوچے بھی سوپ کو دیکھ کے تو ویسے ہی چکر آنے لگتے ہیں “

وہ منہ پھلا کے تکیوں کے سہارے لیٹ گئی نور اسے گھور کے رہ گئی۔۔۔


” نور ادھر دو “


نور ازلان کے ساتھ بیٹھ گئی سوپ اسے دے دیا۔۔۔


” میر کل کس سے اچھے کوچنگ سینٹر میں حیا کا ایڈمشن کروانا اور میڈیکل کالجز کے فارم بھی لے آنا“


” وہ کس لیے بابا “


وہ نا سمجھی سے ازلان کو دیکھنے لگی۔۔۔ اپنے ایڈمشن کا سن کر اسکے کان کھڑے ہوگئے۔۔۔


” وہ اس لیے کے میری پرنسس ڈاکٹر بنے گی “


ازلان نے مسکراہٹ دباتے ہوے کہا۔۔۔ اسنے تو اطمینان سے بولا لیکن حیا کو لگا کسی نے اسکے سر پہ بم پھوڑا ہو۔۔۔ اسے سانس لینا مشکل لگا عمر اور میر نے باقاعدہ قہقہ لگا۔۔۔


” بابا میں کیسے میں نے تو سیکنڈ ایر ہی بڑی مشکل سے کیا ہے۔۔۔ نہیں بابا پلیز مجھے ڈاکٹر نہیں بنا۔۔۔ اور اگر ایڈمشن کرایا تو میں نہیں جاؤنگی اور کسی سے بات بھی نہیں کرونگی آپ سے بھی نہیں “


حیا بلکل رونے والی ہوگئی اور آخر میں غصے سے بولی۔۔۔


” اچھا! اور تم نے جو نور کو پریشان کر رکھا ہے اسکا کیا؟؟ “


” میں نے۔۔۔؟؟ لیکن میں نے تو کچھ نہیں کیا “


حیا پر سوچ نگاہوں سے ازلان کو دیکھتے ہوے کہا۔۔۔


” سوپ کیوں نہیں پی رہیں؟؟ “


” بس سوپ پینا ہے۔۔۔؟؟ پھر آپ ایڈمشن نہیں کرائینگے نا؟؟


اسنے بچوں کی معصومیت سے پوچھا۔۔۔


” نہیں “


ازلان مسکرا اٹھا حیا کی شکل دیکھ ک عمر کو ہنسنی ہی آگئی۔۔۔


سب کو پتا تھا حیا پڑھائی سے کتنا بھاگتی ہے۔۔۔ حیا بہت روئی تھی کے آگے نہیں پڑھنا۔۔۔ لیکن کسی نے اسکی ایک نہیں سنی۔۔۔ شاہ میر نے اِسے سیکنڈ ایئر کے پیپرز دلوائے جو اس نے رَو رَو کے دیئے۔۔۔ اور اک ہفتے تک کسی سے بات نہیں کی۔۔۔


عائشہ حیا کو دیکھنے لگی حیا بچپن سے اسے شاہ زَر کے لیے پسند تھی یہ بات نور اور ازلان جانتے تھے دونوں رازی تھے۔۔۔۔


سب کے جانے کے بعد ازلان نے حیا سے کہا۔۔۔


” حیا کچھ ایسا ہے جو مجھے پتا ہونا چائیے۔۔۔؟؟“


” بابا میں ٹھیک ہوں بھائی ہیں نا سب ٹھیک کر دینگئے “


ازلان سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


اماں کے سمجھانے پہ وہ کچھ بہتر ہوئی ورنہ تو جو رو رو کے اسکا حال ہوا تھا۔۔۔ اسے لگ رہا تھا آج اسکا دل پھٹ جائے گا۔۔۔ جب امی ابو کو اسکی فکر نہیں تو وہ کیوں کرے۔۔۔؟؟ اگر اسکے ابو چاہتے تو وہ اس سے مل سکتے تھے۔۔۔ لیکن وہ اس سے ملنا ہی نہیں چاہتے تھے۔۔۔ تبھی تو وہ اسے نظر بہر دیکھے بنا ہی روانہ ہوگئے۔۔۔ اماں اسکے لرزتے وجود کو دیکھتی رہیں کتنے ہی دیر ہنی یہاں وہاں کی باتیں کر کے اسکا دل بہلاتا رہا۔۔۔ دونوں ہی اسے کمرے میں لے آئے کمرے میں آتے ہی وہ عشاء کی نماز پڑھ کے سو گئی۔۔۔


شاہ نجانے کس وقت گھر سے نکلا اسے خبر نہ ہوئی گھڑی پہ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے وہ ابھی تک نہیں لوٹا۔۔۔


آج پورا دن شاہ گھر پہ رہا آٹھ بجتے ہی وہ روزانہ آفس کے لیے نکل جاتا تھا۔۔۔ لیکن آج پرنٹس میٹنگ ہونے کی وجہ سے گھر لوٹتے لوٹتے انہیں ایک بج گئے۔۔۔ اسلیے آج آفس کا کام اسنے گھر پہ ہی کیا۔۔۔ شاہ کی سوچوں کو جھٹکتی وہ نیچے چلی آئی اس وقت اسے شدید بھوک لگی تھی۔۔۔


صبح اسنے ہنی کے ساتھ ناشتہ کیا تھا پھر دن بھر کاموں میں الجھ کے اسے لنچ کرنا یاد ہی نہیں رہا۔۔۔


کچن میں آکر اسنے فریج کا جائزہ لیا جہاں روٹی اور سالن الگ سے نکال کے رکھا تھا۔۔۔ یقیناً اماں نے رکھا ہوگا اسنے کھانا نکال کے گرم کیا۔۔۔ تھوڑا سا کھا کر بچا کھانا فریج میں رکھا پھر ہنی کے خیال سے وہ اسکے کمرے میں چلی آئی جہاں وہ جہازی سائز بیڈ پے پر سکون نیند سو رہا تھا۔۔۔ وہ اسے دیکھ کے مسکرائی اسکی پیشانی پہ بوسہ دیکر اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” نور ادھر آؤ “


” جی “ وہ ازلان کو دودھ دیکر کمرے سے جانے لگی تھی کے اسکی کی پکار پہ وہ پیچھے مڑی۔۔۔


” بھابی سےتمہاری بات ہوئی؟؟ “ وہ آکر ازلان کے ساتھ ہی بیڈ پہ بیٹھ گی۔۔۔


” کس سلسلے میں؟؟؟؟ “ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔


” بھائی اور بھابی چاہتے ہیں حیا کی شادی شاہ زَر سے ہو “


” نور! کیا سوچ رہی ہو۔۔۔؟؟ “ جواب نا پاکر ازلان نے اسے دوبارہ مخاطب کیا۔۔۔


” حیا بہت چھوٹی ہے، اور شاہ زَر دِل سے راض ہے جو شاہ میر نے کیا اس کے بعد بھی۔۔۔؟؟ “


” ہاں! وہ پرانی باتیں ہیں چھوڑو۔۔۔ میں چاہتا ہوں کے حیا میرے سامنے رہے۔۔۔ ہمیشہ، اور دس سال ہی چھوٹی ہوگی ایج ڈفرنس کوئی بڑی بات نہیں تم سے بہتر یہ کون جان سکتا ہے۔۔۔“ آخری جملہ ازلان نے نور کو دیکھتے ہوے کہا وہ نظریں جھکا گئی۔۔۔


” جیسے آپ کو صحیح لگے۔۔۔“


” نور حیا تمہاری بھی بیٹی ہے۔۔۔ اسکی زندگی کا سوال ہے۔۔۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتا کوئی بات ہے تو کہہ ڈالو بعد میں پچھتانا نا پڑے “


”مجھے حیا کے نصیب سے ڈر لگتا ہے۔۔۔ ہر نماز میں دعا کرتی ہوں اس کے بہتر نصیب کی۔۔۔ تکلیف اسکو چھو کر نا گزرے اس کے ساتھ کچھ ہوا تو میں مر جاؤں گی مجھ سے اپنی بیٹی کے آنسوں برداشت نہیں ہونگے “


اسکی آواز بھراگئی ۔۔۔ آنکھوں سے نمکین پانی گالوں پر آپھسلا۔۔۔

” اور جہاں تک شاہ زَر کی بات ہے اِس رشتے سے مجھے کبھی انکار نہیں تھا۔۔۔ حیا جب پیدا ہوئی تھی بھابی نے یہ خواہش ظاہر کی تھی۔۔۔ نا جانے اس وقت کیا سوجا بھابی کو کہ حیا سے محبت نے مجھے ہاں کہنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ بھابی سے بڑھ کر حیا کو کوئی بہتر ساس نہیں مل سکتی۔۔۔ وہ ہر وقت میری نظروں کے سامنے ہوگی۔۔۔ اِس سے خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے۔۔۔ میں اِس رشتے کی لیے دِل و جان سے رازی ہوں۔۔۔ بس آپ شاہ میر سے بات کر لیں “

ازلان غور سے اسے سن رہا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں بھی نمی تھی اسے بات کا ڈر تھا ہمیشہ سے۔۔۔ حیا کے نصیب سے ڈر لگتا تھا نور کی آخری بات پے ہوش میں آیا۔۔۔


” ہاں وہ راضی ہے، اسکی فکر مت کرو۔۔“ ازلان نور کے قریب آیا اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔ اپنے دہکتے لب اِس کی پیشانی پے رکھ دیئے اور کان کے قریب سر گوشی کی۔۔۔


” آئی ایم سوری نور “


نور کا ضبط ٹوٹ گیا اِس کے سینے میں منہ چھپا کے رَو دی۔۔۔


” ازلان میں نے جان بوجھ کے بددعا نہیں دی تھی۔۔۔ پتا نہیں کیسے میرے منہ سے نکل گیا۔۔۔ آج بھی جب میں سوچتی ہوں تو میرے دل میں درد کی لہر اٹھتی ہے۔۔۔ میں کیوں اِس سے غافل رہی۔۔۔ کیوں میں نے اسے اپنے سینے سے نہیں لگایا۔۔۔ کیوں اسکے مر جانے کی دعائیں کرتی رہی۔۔۔ میں ایسی تو نہیں تھی ازلان پھر کیوں۔۔۔؟؟


اگر وہ سب نا ہوتا تو میں تو کبھی بھی اِس سے بات نا کرتی۔۔۔ پھر وہ مجھ سے نفرت کرنے لگتی نا؟؟ “


وہ اسکے سینے سے سر اٹھا کے جواب طلب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔


” ایسا کبھی نہیں ہوتا کیوں کے میں ایسا ہونے ہی نہیں دیتا “


ازلان نے اسے یقین دلایا ایک بےبس مسکراہٹ اسکو ہونٹوں کو چھو گئی۔۔۔


” آپ پلیز حیا کے لیے دعا کیا کریں باپ کی دعاؤں سے نصیب اچھے ہوتے ہیں “


” حیا جب سے میری زندگی میں آئی ہے یہی ایک دعا میرے لب پے ہمیشہ رہی ہے “


” ہوں “


نور اٹھنے لگی لیکن ازلان نے اسے خود میں قید رکھا تھا۔۔۔ وہ اس کا حصار توڑنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔۔۔


” آہاں اب بہت مشکل ہے آج تم خود میرے پاس آئی ہو۔۔۔ کچھ لمحے تو مجھے محسوس کرنے دو تم میرے پاس ہو “


” ازلان آپ “


” نور! “ وہ اِس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بولا۔۔۔


” تم آج بھی ویسے ہی ہو جیسے بیس سال پہلے تھیں۔۔۔ آج بھی ویسے ہی خوبصورت میرے بچوں کی ماں بالکل نہیں لگتیں۔۔۔“ وہ روکا اور ٹوٹے لہجے میں بولا۔۔۔


” میں پاگل ہوتا جا رہا ہوں نور تمہاری محبت میں۔۔۔ دن با دن کم ہونے کے بجائے میرے دل میں تمہارے محبّت اور بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔ کیوں میرا خود پہ اختیار نہیں۔۔۔؟؟ کیوں میں تمہیں اتنا چاہتا ہوں۔۔۔؟؟ میں ٹوٹ رہا ہوں نور بےبس ہوں۔۔۔ بس کردو نور۔۔۔ تم جتنا مجھ سے دور بھاگتی ہو اتنی ہی شدید مجھے تمہاری طلب ہوتی ہے۔۔۔“ وہ روکا نور اسے ہی دیکھ رہی تھی بنا پلک جھپکائے۔۔۔


” نور “


وہ اپنی پیشانی اسکی پیشانی سے ٹکراتے ہوے بولا۔۔۔


” مجھ جیسی محبّت تم سے کوئی نہیں کر سکتا۔۔۔ مجھ سے زیادہ تمہیں کوئی نہیں چاہ سکتا۔۔۔ تم میرا عشق ہو میرا جنون ہو۔۔۔۔۔ جانتی ہو۔۔۔؟؟ جب موت کا خیال آتا ہے تو دعا کرتا ہوں تم سے پہلے میں چلا جاؤں جانتی ہو کیوں۔۔۔؟؟ “


وہ جانتے ہوے بھی نفی میں سر ہلائے اسکی آنکھوں میں ہلکی نمی تیرنے لگی۔۔۔ ازلان مسکرایا۔۔۔


” میں تمہارے بنا ایک پل نہیں گزار سکتا۔۔۔ میری جان ہو تم۔۔۔


جانِ ازلان! “


ازلان نے اسکی کان کی لو کو چوما۔۔۔ وہ کچھ بولنا چاہ رہی تھی۔۔۔ لیکن اسکے سرخ ہونٹ کپکپا رہے تھے۔۔ آنسوں ازلان کے ہاتھ بھگو رہے تھے۔۔۔


“ تمہارے آنسو مجھے آج بھی تکلیف دیتے ہیں۔۔۔ کیوں کرتی ہو ان خوبصورت آنکھوں پہ ظلم۔۔۔ مجھے تکلیف پہنچاکے خوشی ملتی ہے نا۔۔۔؟؟ “


ازلان نے اسکے آنسوں صاف کرتے مصنوئی غصّے سے کہا۔۔۔ وہ جانتا تھا نور اسکی موت والی بات سے بے چین ہوگئی۔۔۔ ازلان کو شرارت سوجی اسنے نور کے کان کے قریب سر گوشی کی۔۔۔


” دیکھلو جلدی شادی کرنے کا فائدہ بیوی ویسے ہی خوبصورت رہتی ہے اور شوہر بھی قابو میں رہتا ہے “


نور سرخ پڑ گئی۔۔۔


” پلیز تنگ نا کریں“ اب وہ خود کو سنبھال چکی تھی۔۔۔


” ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا “


” ازلان پلیز مجھے حیا کو دیکھنے جانا ہے وہ سوئی ہے کہ نہیں “


”او کے جاؤ “ وہ اِس کے بالوں پہ بوسا دے کر بولا۔۔۔


☆.............☆.............☆

” کس سے پوچھ کے آئی تھی۔۔“ وہ دھاڑا۔۔۔


وہ فجر کی نماز پڑھ کے تسبیح ہاتھ میں لیے کچھ پڑھ رہی تھی۔۔۔ کہ شاہ بیڈ کی دوسری سائیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔


صاف ظاہر تھا وہ نماز پڑھ کے آیا ہے۔۔۔ اکثر وہ خود اسے فجر کی نماز کے لیے اٹھاتی یہ شاہ نے ہی اس سے کہا تھا۔۔۔ باقی چار وقت آفس ٹائمنگ میں ہی پڑھتا۔۔۔۔ وہ ایک لمحے کو گھبرا ضرور گئی تھی پھر تسبیح رکھ کے اسنے کہا۔۔۔


” م۔۔ مجھے بابا سے ملنا تھا۔۔۔“


” جب عمل کرتے وقت نہیں ڈریں تو اب کیوں زبان لڑکھڑا رہی ہے۔۔۔؟؟؟ منع کیا تھا میں نے پھر کیوں۔۔۔؟؟ اور میرے سامنے زبان چلا رہیں تھی۔۔۔ میرا دل تو چاہ رہا تھا۔۔۔ اسے وقت شوٹ کردوں لیکن اتنی آسان موت تمہیں نہیں دونگا “


بہت ٹھہرے کٹییلے لہجے میں وہ گویا ہوا۔۔۔


” چھ ماہ ہوگئے مجھے امی ابو سے ملے مجھے لگتا ہے یہ زندگی ایسے ہی تلخ رہے گی میری آخری سانس تک۔۔۔ میں انکی ایک جھلک دیکھنے کے لئے تڑپتی رہونگی۔۔۔ میرا اتنا قصور نہیں جتنی سزا مجھے ملی ہے۔۔۔ میں آج بھی یہی کہونگی مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔۔“


وہ اس تقریر سے اکتایا ہوا بیڈ پے لیٹ گیا اچانک کچھ یاد آنے پے شاہ کے ہونٹوں پے جان لیوا مسکراہٹ ٹھر گئی۔۔۔


” کیا وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں؟؟؟ “


یہی ایک سوال تھا جس سے وہ بچ رہی تھی۔۔۔ اسنے زور سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔۔۔ وہ نہیں سنا چاہتی تھی۔۔۔ اسکا دل چاہ رہا تھا وہ یہاں سے بھاگ جائے۔۔۔


” اپنے بیٹے کی زندگی مانگنے آئے تھے۔۔۔ انہیں تو شاید یاد بھی نہیں کے انکی کوئی بیٹی بھی ہے۔۔۔۔ “


وہ تو جیسے سنتے ہی ہوش کھو بیٹھی یہ تک بھول گئی کے بیڈ پر لیٹا شخص ہر وقت فرون کے روپ میں اسکے سامنے آیا ہے۔۔۔


” بابا نے میرا پوچھا ہوگا ایسا نہیں ہوسکتا انہوں نے پوچھا ہوگا آپ۔۔۔آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔۔“


شاہ اسے نظر انداز کرتا آنکھیں موند گیا۔۔۔


” پردے برابر کرو اور سکون سے سوجاؤ “


” بابا نے۔۔۔ پوچھا ہوگا آپ آپ۔۔۔ “


” شٹ اپ۔۔۔ میرے اندر کے حیوان کو مت جگاؤ اگر زندگی پیاری ہے تو سو جاؤ “


وہ اسکی دھاڑ سے کانپ اٹھی۔۔۔ اس نے اٹھ کے پڑدے برابر کیے اور لائٹ اوفف کردی۔۔۔


اسے اندھیرے سے ہمیشہ سے خوف آتا تھا لیکن شاہ اندھیرے میں سونے کا آدھی تھا۔۔۔ اب تو اسے بھی عادت ہوگئی تھی۔۔۔ وہ بیڈ پہ اکر لیٹ گئ کروٹیں بدل بدل کے تھک گئی لیکن اسے نیند نہیں آئی۔۔۔ وہ اس بات سے باخبر تھی یہاں سے جانا موت کو دعوت دینا ہے اسلیے خاموشی سے لیٹی رہی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” میر میرے کیبن میں آؤ “

” جی بابا “

ازلان فون رکھ کے مینیجر کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔۔

” آصف پریزنٹیشن ٹھیک ہے۔۔۔ تم جاؤ اور باہر بول دینا کوئی مجھے ڈسٹرب نا کرے باقی فری ہونے پہ میں خود تمہیں بلاؤنگا “


” اوکے سر “


مینیجر اٹھ کے چلا گیا تو ازلان سیٹ کی پشت سے سر ٹیکا کے آنکھیں موند گیا۔۔۔ آج کل وہ حیا کی وجہ سے پریشان ہے کوئی ایسے بات نہیں جو حیا نے ازلان سے نا شیر کی ہو اور اب نجانے کیا تھا جو وہ اس سے چھپا رہی ہے۔۔۔


” جی بابا “


میر کی آواز سے ازلان اپنی سوچوں سے باہر آیا۔۔


” حیا سے بات کی؟؟ “


” نہیں بابا “


میر اب ازلان کے سامنے ہی چیر سنبھال کے بیٹھ چکا تھا۔۔۔


” کیوں؟؟ “


ازلان نے ایک ابرو اچکا کے پوچھا۔۔۔


” بابا وہ نہیں بتائے گی۔۔۔ اور جب میں جانتا ہوں تو اس سے سوال کرنے کا فائدہ “


میر پر سکون بیٹھا تھا ازلان اسکے انداز پرحیران ہوا۔۔۔ کل سے خود وہ پریشان ہے پوری رات اسکی آنکھوں میں کٹی تھی۔۔۔


” جب سب جانتے ہو تو پہیلیاں کیوں بھجا رہے ہو صاف صاف بات کرو “


” بابا آپ حیا اور شاہ زر کی شادی کر دیں ساری پریشانیاں خود بہ خود حل ہو جائینگی “


ازلان کی گھوری سے ناچاہتے ہوے بھی اسکے لبوں پہ مسکان بکھر گئی۔۔۔۔


” مشورہ نہیں مانگا حیا کے رویہ کا بتاؤ آخر کس کا ڈر ہے اسے؟؟ “


میر نے گہرا سانس لیا اب جو اسے پتا تھا وہ ازلان کو بتانا ہی تھا گویا کے خود وہ پوری بات نہیں جانتا تھا اور اسے یقین تھا اسکے سارے سوالوں کے جواب صرف شاہ ذر کے پاس ہیں۔۔۔


” بابا شاہ زر حیا سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ مجھ سے کل اشعر نے حیا کا پوچھا کے کیا وہ شاہ زر سے اینگیجڈ ہے۔۔۔؟؟ میرے انکار پہ اسنے ساری بات بتائی کس طرح شاہ زر نے اس سے جھوٹ بولا “


” میر بچے نہیں ہو تم یہ تم بات بھی جانتے ہو حیا شاہ زر کا رشتہ بچپن سے طے ہے۔۔۔ منگنی نہیں ہوئی تو کیا ہوا رشتہ تو طت ہے تمہیں اشعر کو بتانا چاہیے تھا خیر وہ ڈرتی کس وجہ سے ہے؟؟ “


ازلان بغور میر کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ ازلان اچھی طرح جانتا تھا وہ کافی باتیں اس سے چپھائے ہوۓ ہے۔۔۔


” بابا آپ نے کبھی یہ بات نوٹس کی ہے جب شاہ زر گھر میں ہوتا ہے۔۔۔ حیا کبھی بھی تائی کے پورشن میں نہیں جاتی۔۔۔ اکثر تائی امی نے اسے اس بات پہ کافی ڈانٹا ہے۔۔۔ لیکن تائی کے اسرار پہ بھی وہ نہیں جاتی۔۔۔ اور یاد ہے بابا جب شاہ زر کاگان گیا تھا۔۔۔ حیا آپ کو ایک ہفتہ گھر میں نظر آئی تھی۔۔۔؟؟ نہیں نا وہ پورا دن تائی امی کے ساتھ تھی۔۔۔۔ بابا تمہید کا مطلب یہی ہے شاہ زر اب حیا سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ لیکن حیا نے منع کر دیا اور شاہ زر نے اسے ڈرایا دھمکایا “

” شاہ زر نے ڈائریکٹ فیضان سے بات کیوں نہیں کی وہ اچھی طرح جانتا ہے۔۔۔ حیا کبھی بھی کسی کو منع نہیں کریگی سواۓ نور کے “

اس بات پہ دونوں ہی مسکراۓ۔۔۔

” یہ تو آپ اپنے داماد سے پوچھیں “

ازلان غورسے میر کو تک رہا تھا۔۔۔


” بابا کیا ہوگیا نظر لگائیں گے کیا۔۔۔؟؟ “


وہ ازلان کی نظریں خود پہ مرکوز دیکھ کہہ اٹھا جو ہٹنے سے انکاری تھیں۔۔۔


” میر مجھے نہیں پتا تھا میں اتنا بےخبر ہوں پہلے تمہارے معاملے میں اور اب حیا “


ایک رنگ آکے گزرا تھا میر کے چہرے پہ ازلان نے بات بدلنے کے گرز سے لب کھولے لیکن میر کہہ اٹھا۔۔


” بابا وہ کیا ہے نا میں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ میں ساری زندگی اپنی بہن کا باڈی گارڈ بن کہ رہونگا ہر آنے والے تکلیف مجھ سے گزر کے جائے گی۔۔۔“


اسکا انداز ایسا تھا کے ازلان مسکرا اٹھا۔۔۔


” میر تم خوش ہو۔۔۔؟؟ “


ازلان سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔


” ہاں خوش تو بہت ہوں لیکن آپ کی بہو شوہر کو امپریس کرنے کے بجائے ساس سسر کو امپریس کرنے پہ تلی ہے “


” سمجھدار ہے وہ جانتی ہے اسکے شوہر کے دل کا دروازہ پیٹ سے نہیں ساس کی خدمت سے کھولے گا “


ازلان میر کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو صیح کہا نا؟؟


” وہ کھل چکا ہے بابا “


” جانتا ہوں!! میر میں بہت خوش ہوں تمہارے لیے اللّه تمہیں دنیا کی ہر خوشی سے نوازے “


ازلان کے لہجے میں میر کے لیے بے پناہ محبّت تھی۔۔۔ ازلان ٹائم دیکھ کے اٹھا ان کی ایک اہم میٹنگ تھی۔۔۔ اسنے میر کو چلنے کا اشارہ کیا اور چیر سے کوٹ اٹھا کے بلڈنگ سے باہر آگیا۔۔۔ جہاں کار میں میر اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


صبح دیر سے اسکی آنکھ کھلی اسنے ایک نظر بیڈ کی دوسری سائیڈ دیکھا شاہ وہاں نہیں تھا۔۔۔ وہ اٹھی وارڈروب سے شاہ کا سوٹ نکال کے بیڈ پہ رکھا اور خود نیچے کچن میں چلی آئی۔۔۔


دو انڈے بوائل کیے اور بلیک کافی بنا کے اوپر لے آئی۔۔۔ ٹرے ٹیبل پہ رکھ کے وہ بکھرے کمرے کو سمیٹنے لگی دوسری طرف شاہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا خود پی پرفیوم چھڑک رہا تھا۔۔۔ پھر رسٹ واچ کلائی پے باندھ کے ناشتہ کرنے لگا۔۔۔۔


گرم بھاپ اڑاتی بلیک کوفی کو منہ سے لگائے وقتاً فوقتاً ایک نظر اس پے بھی ڈال دیتا۔۔۔ جو ڈریسنگ ٹیبل کی بے ترتیب چیزوں کو اپنی جگہ رکھ رہی تھی۔۔۔ وہ کوفی پی کے اٹھ کھڑا ہو۔۔۔ بیگ اور موبائل لے کر وہ روم سے نکل گیا۔۔۔


شاہ کے جاتے ہی اسنے ایک گھیرا سانس لیا اور نیچے چلی آئی۔۔۔ گندھے کپڑوں کا ڈھیر نکال کے انہیں واشنگ مشین میں ڈالا۔۔۔ پہلے چکر میں شاہ کے کچھ کپڑے ڈالے۔۔۔ پھر اسی طرح شاہ کے باقی کپڑے بھی دھو ڈالے۔۔۔ ابھی ہنی اسکے اور بی بی جان کے کپڑے رہتے تھے۔۔ جو اسنے بعد میں دھونے کا سوچا۔۔۔ ابھی ہنی اور بی بی جان کے اٹھنے کا ٹائم تھا۔۔۔ ان کے لیے ناشتا بنانے وہ کچن میں چلی آئی۔۔۔۔

” پری میری چائے “

وہ جو چائے کپ میں انڈیل رہی تھی ہنی کی آواز پے جلدی جلدی چائے کپوں میں ڈال کے باہر آئی۔۔۔ ملازمہ کے ہاتھ بی بی جان کا ناشتا بھجوا کر خود وہ ہنی کے ساتھ بیٹھ گی۔۔۔ کچھ دیر وہ اسکے ساتھ بیٹی رہی ہنی اسے اپنی اسکول کی باتیں کرنے لگا۔۔۔ اور وہ چائے پیتے ہوئے غور سے اسکی باتیں سنتی رہی۔۔۔


پھر وہ وہاں سے اٹھ کے باقی کپڑے دھونے لگی صبح نو بجے سے اسنے مشین لگائی تھی۔۔ اب ایک بجنے کو آیا تھا۔۔۔ وہ جلدی جلدی اس کام کو نمٹا کے کھانا بنانے آئی۔۔۔


یہاں روز تقریباً پندرہ لوگوں کا کھانا بنتا گھر کے وہی ملے جلے چار پانچ افراد تھے۔۔۔ ملازمہ کو ملا کے باقی کھانا گارڈز کے لیے بنتا۔۔۔ جو دن رات پہرہ داری کرتے۔۔۔ شاہ نے اماں کو سختی سے حکم دیا تھا انکے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جائے۔۔۔


ان کے لیے صبح کا ناشتا ملازمہ کے زمہ تھا۔۔۔۔ زندگی کے رنگ بھی عجیب ہیں کل کس موڑ پہ لے جائے کیا پتا۔۔۔؟؟ کل تک انکی زندگی کتنی پر سکون تھی نا اپنوں کے کھونے کا نا ڈر تھا۔۔۔ نا ان کی جدائی کا گم وہ میلوں دور تھا لیکن شاہ کے لہجے میں اسکے لیے محبت تھی۔۔۔ اپنا پن تھا وہ آج بھی ان آنکھوں کو بھول نہیں پائی جسنے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔۔۔ اسکا دھیما لہجا اسکی باتیں دل کرتا بس وہ اسے سنتی رہی اور اب اسکے سامنے جانے سے ہی وہ خوف سے کانپنے لگتی۔۔۔۔


کتنے ماہ گزر گئے اسے یہاں آئے لیکن اسکی سزا میں کوئی رعایت نہیں بڑھی دن بھر وہ کسی مشین کی طرح کام کرتی اسکا جسم درد سے کراہتا لیکن وہ اف تک نا کرتی۔۔۔


وہ حویلی کا ہر محنت والا کام کرنے کو تیار تھی۔۔۔ چاہے رات بھر ہی کیوں نا کام کرنا پڑے۔۔۔ لیکن اسے شاہ کے پاس جانا منظور نہیں تھا۔۔۔ اسکے ساتھ گزارا پل پل لمحہ لمحہ وہ کس اذیت اور تکلیف سے گزارتی صرف وہی جانتی تھی اور اسکا رب۔۔۔۔


شاہ نے اسکے جسم ہی نہیں اسکی روح کو بھی زخمی کر ڈالا۔۔۔ ابھی وہ پچھلے وار سے ہی نہیں سنبھلتی کے وہ اسے نئے سرے سے کانچ کے باریک ٹکڑوں کی طرح بکھیر دیتا ہے۔۔۔۔


وہ آٹا گوندتے مختلف سوچوں میں گم تھی کے آذان کی آواز سے اسے ٹائم کا اندازہ ہوا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


حمزہ تھکا ہارا لائیبریری سے لوٹا اور آتے ہی گرنے کے انداز میں بیڈ پہ لیٹ گیا۔۔۔ نور اسکی کافی روم میں ہی لے آئی۔۔۔ جو وہ ہمیشہ آتے ساتھ ہی پیتا تھا۔۔۔


حمزہ میڈیکل کے تیسرے سال میں تھا اسلیے اسکا زیادہ وقت پڑھائی میں گزرتا۔۔۔ صبح یونیورسٹی جاتا پھر وہیں سے لائبریری چلا جاتا۔۔۔ شام کے چھ سات بجے جاکر اسکی واپسی ہوتی۔۔۔


” مما حیا کیسی ہے اب؟؟ “


وہ ہنوز آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا۔۔۔ نور کی موجودگی محسوس کر کے اس نے حیا کے متعلق سوال کیا۔۔۔ صبح بھی وہ اسے دیکھ کے یونی گیا تھا۔۔۔


” ٹھیک ہے۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اس لڑکی کی کچھ بتاتی نہیں بس روئے جاتی ہے “


نور نے اسکا بیگ اٹھا کے کبڈ میں رکھا جو اسنے آتے ساتھ بیڈ پر پھینک دیا تھا۔۔۔


” مما میرے سامنے تو ٹھیک تھی وہ کل رات کافی دیر ہم اسکے ساتھ بیٹھے تھے “


حمزہ اب اٹھ کے بیٹھ گیا تھا اسنے ہاتھ پکڑ کے نور کو اپنے ساتھ بٹھایا جو اسکا بکھرا کمرہ سمیٹ رہی تھی۔۔۔


” چھوڑیں مما صبح ماسی آکر کر لے گی “


” دو گھنٹے پہلے ہی کر کے گئی ہے “ نور نے افسوس سے کہا۔۔۔


حمزہ عمر ایک ہی روم شیر کرتے تھے۔۔۔ جہاں حمزہ صفائی پسند تھا وہیں عمر صرف گندگی پھیلانا جانتا تھا۔۔۔ کچھ دیر پہلے جو کمرہ بلکل صاف تھا اب گندگی کا ڈھیر لگ رہا تھا۔۔۔ ٹاول بیڈ پے پڑا تھا گندھے کپڑے زمین پے پرفیومز کے ڈھکن کھلے ہوے تھا جیل اوندھے منہ پڑی تھی۔۔۔ بند الماری سے الگ کپڑے نکل رہے تھے۔۔۔


” کیا حال ہے جناب!! میڈیکل پڑھ کے پاگل تو نہیں ہوگے؟؟ “


عمر آتے ہی دھڑم سے بیڈ پے حمزہ کے پاس گر پڑا حمزہ نے ایسے ظاہر کیا جیسے سنا ہی نا ہو۔۔۔


” وہ ٹھیک ہے تم بتائو اپنے حواسوں میں ہو کیا حالت کی ہے کمرے کی “


نور اٹھ کے عمر کے بکھرے کپڑے ترتیب سے رکھنے لگی اسے گندگی سے کوفت ہوتی۔۔۔


” مما تبھی کہتا ہوں شادی کر دیں اب اچھا لگتا ہے میری ماں اس عمر میں آرام کرنے کے بجائے کام کرے “


وہ انتہائی معصومیت سے گویا ہوا۔۔۔


” کوئی لڑکی راضی تو ہو “


نور نے اسے دیکھ افسوس سے کہا۔۔۔


” مما کون پاگل ہے جو آپ کے ہینڈسم بیٹے کو ریجیکٹ کرے گی “ عمر تو گویا سنتے ہی سکتے میں آگیا

” میرے لیے تو لڑکیوں کی لائن لگی رہتی ہے “

اس نے مصنوئی کالر جھاڑتے کہا۔۔۔

” ہاں اندھی ہونگی “

حمزہ بڑبڑایا۔۔۔

“ کچھ کہا “

” نہیں بھائی“


وہ بیزار سا ہوا۔۔۔


” عمر جم جاتے ہوئے مجھے آسیہ کے گھر ڈراپ کرنا “


نور الماری بند کر کے کمرے سے جانے لگی پھر یاد آتے ہی پلٹ کے عمر سے کہنے لگی۔۔۔


” کیوں مما خیریت؟؟ “


وہ سوالیہ نظروں سے نور کو دیکھنے لگا۔۔۔


” ہم!! آج انکے گھر میلاد ہےاور تمہارے لیے چائے بھجواؤں؟؟ “


” ہائے مما ماں ہو تو آپ جیسی جو دل کا حال سمجھ جائے “


وہ ایک ادا سے بولا۔۔۔ نور افسوس سے اسے دیکھتی چلی گئی۔۔۔ عمر اور حیا کا اللّه ہی مالک ہے دونوں کو سدھارنے میں وہ ناکام رہی ہے۔۔۔


” اور سناؤ یونیورسٹی میں میرے لیے کوئی بھابھی دیکھی “


حمزہ نے کوفی کا پہلا ہی گھونٹ لیا ہوگا کے عمر کی بات سے اسکا حلک تک کڑوا ہوگیا۔۔۔


(اسے اپنی کلاس کی وہ لڑکی یاد آگئی جو ہاتھ دو کے اسکے پیچھے پڑی تھی )


” بھائی معاف کرو!!! تمہیں کوئی کام نہیں۔۔؟؟ کوئی بندا اتنا فارغ کیسے رہ سکتا ہے؟؟ “


حمزہ نے باقاعدہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے خود حمزہ کا ایک ایک پل قیمتی تھا۔۔۔ جب سے اسنے میڈیکل پروفیشن چوز کیا ہے۔۔۔ اسکی راتوں کی نیند حرام ہوگئ ہے۔۔۔ دن رات وہ پاگلوں کی طرح پڑھتا رہتا تھا۔۔۔ اوپر سے عمر اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔۔۔ خود نہیں پڑھتا تو دوسروں کو بھی پڑھنے نہیں دیتا۔۔۔ اسی وجہ سے حمزہ نے لائبریری جوائن کی تھی۔۔۔


” کیا کروں یار زندگی سے پریشان ہوں آج کل مزہ نہیں آرہا گھر میں کوئی عزت ہی نہیں کرتا اور یونی جاکر تو زندگی عذاب بن گی ہے تبھی تم سے بات کر کے دل کو بھلا لیتا ہوں “


” اتنے بیزار ہو تو خودخوکشی کرلو “ حمزہ نے مشورہ دیا۔۔۔


” ڈر لگتا ہے “


” گھر چھوڑ دو “


” پیسے نہیں ہیں “


" ڈوب مرو “


حمزہ خود ہی وہاں سے اٹھ کے چلا گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ شاہ کے کپڑے پریس کر رہی تھی کے ہنی بھاگتا ہوا آیا۔۔۔


” پری چلیں کہیں باہر گھومنے چلتے ہیں “


” نہیں ہنی مجھے کام ہے اور ویسے بھی تمہارے بابا پرمیشن نہیں دیں گے “


” انہوں نے دے دی میں ان سے پوچھ کے آرہا ہوں اور بابا نے کہا کے ڈرائیور تھوڑی دیر میں ہمیں لینے آ رہا ہے اور مما میں نے بی بی جان سے بھی پوچھ لیا اب آپ تیار ہوجائیں نا پلیز “


” اوکے بس دو منٹ میں آئی “


وہ شاہ کے کپڑے چھوڑ کر تیار ہونے چلی گئی۔۔۔ ڈریس چینج کر کے سر پے دوپٹا درست کیا خود کو پوری طرح سے شال سے کور کیا۔۔۔ اور ہلکی سے پنک لپسٹک لگائی۔۔۔ آج وہ پورے چھ ماہ بعد گھر سے باہر نکل رہی تھی۔۔۔


اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا وہ کبھی بھی گھر میں ٹک کے رہنے والوں میں سے نہیں تھی۔۔۔ ہر وقت گھومتی پھرتی کبھی شاپنگ کرنے نکل جاتی کبھی لنچ کبھی دوستوں کے ساتھ سی وی یو یا کبھی امان بھائی سے فرمائش کرتی کے اسے پورا شہر گھمائیں۔۔۔


وہ بھی اس کی عجیب وہ غریب فرمائشوں سے تنگ آجاتے لیکن پورا ضرور کرتے۔۔۔ وہ ہنی کے ساتھ نیچے آگئی ڈرائیور اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھ آیا۔۔۔


” میم یہ سر نے دیا ہے “


ڈرائیور نے اسے کرڈیٹ کارڈ تھمایا اسے یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔ یہ شاہ نے ان کے لیے دیا ہے ڈرائیور نے اسے فون دیا جس پے شاہ کی کال آ رہی تھی۔۔۔


” السلام عليكم! “ اسنے جھٹ سے کال پک کر کے سلام کیا۔۔۔


” وعلیکم السلام! ہنی ساتھ ہے؟؟ “


وہی سنجیدہ لہجہ جو اس کی شخصیت کا خاصا تھا۔۔۔


” جی “


شاہ کی بھاری سرد آواز اسے پسینے میں نہلا گئی۔۔۔


” ہم! ڈرائیور نے کارڈ دیا؟؟ “


” جی “


جانے کیوں شاہ کے ہر سوال سے اسکے دل کی دھڑکن مزید تیز دھڑکنے لگتی۔۔۔ جانے کب وہ کیا کہ جائے جو اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ جائے۔۔۔۔


” ہنی جہاں کہے اسے لے جانا۔۔۔ جس چیز کی فرمائش کرے وہ خریدنا اور ایک بات یاد رہے۔۔۔ اسے ایک پل کے لیے بھی اکیلا مت چھوڑنا۔۔۔ ہر لمحہ گارڈز کے ساتھ رہنا ہنی کو کھروچ بھی آئی تو تمہاری قبر میں خود کھودوں گا “


” آئی سمجھ؟؟ “


” جی۔۔۔ جی “ فون بند ہوتے ہی اسے لگا کسی نے واپس اس کی سانسیں بحال کی ہوں۔۔۔ اسنے مسکراتے ہوے فون رکھا۔۔۔ اگر ہنی اسکی آنکھوں میں نمی دیکھتا تو دوبارہ سوال کرنے لگتا وہ دونوں آکر کار میں بیٹھ گئے۔۔۔ پہلے وہ مال گئی وہاں سے ہنی کے لیے ڈھیر ساری شاپنگ کی جوتے کپڑے کھیلونے سات آٹھ تو ہنی نے ضد کر کے واچیز لیں۔۔۔ جس پے مختلف قسم کے کارٹونز بنے تھے وہ پورے مال میں ایسے گھوم رہے تھی جیسے وہ روز ہی یہاں آتی ہو۔۔۔

اسے ہر شوپ کا پہلے سے ہی پتا تھا ہنی تو اسے دیکھتا رہ گیا۔۔۔ ہنی اسے کہتا رہ گیا لیکن وہ ضد پے اڑ گئی ہنی کے لاکھ کہنے پے بھی اسنے اپنے لیے کچھ نا لیا اسکا اپنا دل بھی چاہ رہا تھا کے وہ اپنے لیے شاپنگ کرے اور وہ کرتی بھی اگر شاہ کی کال نا آئی ہوتی۔۔۔

اس شخص نے اسے لاوارث سمجھ رکھا ہے کے جب چاہے بے عزت کرے وہ اسے ہنی کا خیال رکھنے کو بول رہا تھا۔۔۔ کیا ان چھ ماہ میں وہ ہنی کے لیے اسکی محبت کو محسوس نہ کر سکا وہ کیسے اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔۔۔

ہنی تو اسکی جان ہے وہ خود کو قربان کر دیتی لیکن ہنی پے کھروچ بھی نہیں آنے دیتی۔۔۔ چلتے چلتے ایک شوپ پے اچانک ہی اس کی نظر پڑھ گئ وہ ایک بوتیک تھا۔۔۔ جہاں مردانہ ڈریسسز تھیں ایک سوٹ پے اس کی نظر جم سی گئی۔۔۔ اسکا دل چاہا کاش وہ شاہ کو اس سوٹ میں دیکھ سکے بلیک شلوارقمیض کے ساتھ بلیک ہی ویسٹ کوٹ تھا۔۔۔ وہ اسکی گوری رنگت پے ایسے چمکتا جیسے سیاہ رات میں چوہدویں کا چاند۔۔۔ لیکن کیا وہ حق رکھتی تھی کے اس کے لیے خریدے۔۔۔؟؟؟


وہ اندر شوپ پے گئ اور وہ ڈریس خرید لیا وہ جانتی تھی شاہ اس کی پسند پہنا تو دور دیکھنا بھی گوارا نہیں کریگا۔۔۔ لیکن وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی جہاں اب بھی دل کے کسی کونے میں اسکی محبت زندہ تھی۔۔۔

اتنا سب ہونے کے بعد بھی۔۔


شاپنگ کر کے اب وہ ریسٹورنٹ میں آگئے۔۔۔ اور دونوں نے ہی پیزا آرڈر کیا گارڈز ریسٹورنٹ کے باہر ہی کھڑے تھے اسنے شاہ کے پیسوں سے شاپنگ نہیں کی لیکن پیزا کے معملے میں وہ خود پے کنٹرول نا کر سکی۔۔۔ آخر اتنے مہینوں بعد کھا رہی تھی۔۔۔ اب تو وہ اسکا ٹیسٹ بھی بھول چکی تھی۔۔۔ اور ویسے بھی شاہ اسکا شوہر ہے وہ اسکی ہر چیز پے مکمل حق رکھتی ہے۔۔۔۔ پیزا سے لطیف ہو کے ہنی کی فرمائش پے دونوں سی ویو آگئے۔۔۔


وہاں ہنی نے اسے خوب تنگ کیا اسکے منع کرنے کے باوجود وہ بار بار پانی کی طرف جاتا اور اسکا سانس وہیں اٹک جاتا۔۔۔ شاہ کے خوف سے جب سورج ڈوبنے لگا اور ہر طرف اندھیرا پھلنے لگا تو وہ ہنی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ وہ کافی تھک چکی تھی کار کی سیٹ پے سر رکھے وہ آنکھیں موند گئی ہنی بھی تھک ہار کے اب آرام کر رہا تھا۔۔۔


کار میں ہلکا ہلکا میوزک چل رہا تھا دونوں ہی میوزک سے لطف ہوتے اپنے سفر پے روانہ ہو رہے تھے کے کار ایک جھٹکے سے رکی۔۔۔ اسنے آنکھیں کھول کے سوالیہ نظروں سے ڈرائیور کی دیکھا۔۔۔


” بی بی جی لگتا ہے کچھ خرابی آگئی میں چیک کرتا ہوں “


” ہم “


” بی بی جی انجن میں کچھ خرابی ہے میں کسی مکینک کو لیکر آتا ہوں “


کار کا جائزہ لینے کے بعد ڈرائیور نے جانے سے پہلے اسکی اجازت لینا ضروری سمجھی۔۔۔


” ٹھیک ہے جلدی آنا “


ڈرائیور چلا گیا تقریباً آدھا گھنٹہ ہوگیا جب وہ نہیں لوٹا تو اس نے باہر آکر دیکھا۔۔۔ سنسان سڑک تھی ہر طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔۔۔ اسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا۔۔۔ کیوں کے پیچھے گارڈز نہیں تھے کہاں گئے۔۔۔؟؟ ہنی بھی کار سے اترکر نیچے آگیا۔۔۔


” مما کیا ہوا؟؟ “


” ہنی گارڈز پتا نہیں کہاں گئے۔۔ اور ڈرائیور بھی ابھی تک نہیں آیا “ ہنی کو لگا وہ رو رہی ہے۔۔۔


” پری اب کیا ہوگا؟؟؟ “ ہنی کو بھی اب اندھیرے سے خوف آرہا تھا۔۔۔


” ہنی پتا نہیں! “


وہ حقیقتاً اب پریشان ہوگی وہ اکیلی گھومتی رہتی لیکن اسکے ساتھ کبھی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا نا ہی وہ رات کو گھر سے باہر نکلتی تھی۔۔۔ اور آج تو ہنی بھی اسکے ساتھ تھا اسے خود سے زیادہ ہنی کی فکر ہو رہی تھی۔۔۔


” ہنی چلو کار میں بیٹھو کیا پتا ڈرائیور آجائے “


وہ دونوں اندر کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کے اچانک ایک ویگو آکر انکے قریب رکی دل نے شدت سے خواہش کی کے وہ شاہ ہو۔۔۔


کار کا دروازہ کھول کے تین لڑکے باہر نکلے وہ لڑکھڑا کے چل رہے تھے۔۔۔ تینوں اسے جن نظروں سے دیکھ رہے تھے اسکا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سماں جائے۔۔۔ وہ تینوں اس کی طرف بڑھ رہے تھے ہنی ڈر کے اس سے چپک گیا۔۔۔ اسنے سختی سے ہنی کو خود میں بھینچ لیا۔۔۔ اسکی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں اسکا پورا وجود ہی لرز رہا تھا۔۔۔۔


” یاروں آج تو جشن منانے کا دن ہے شکار خود چل کے آیا ہے “


” یاروں دیکھو کیا قیامت خیز حسن ہے “


ایک لڑکا دل پے ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔۔۔


اسکا بس نہیں چل رہا تھا کے ان کے منہ نوچ لے۔۔۔ وہ انکی گھٹیا گفتگو سن کر ایک قدم پیچھے ہوئی۔۔۔۔


” مما! “ ہنی بچا نہیں تھا کے انکی باتوں کو نا سمجھتا اسنے لندن میں پرورش پائی تھی وہ ان کی غلیظ باتوں کا مطلب بخوبی جانتا تھا۔۔


” مما؟؟ ارے یار یہ تو شادی شدہ ہے “


” لگتی تو نہیں؟؟ اتنی خوبصورت ہے یہ تو مشکل سے سترہ سال کی ہوگئی؟؟ “


” ابھی ہمیں کیا! بچے ہٹو ذرا تمہاری ماں کا دیدار تو کرنے دو “


اسکی ٹانگیں بُری طرح کانپ رہیں تھیں۔۔۔ وہ آپس میں گندی گفتگو کر رہے تھے اسنے شدت سے اپنے رب کو پکارا۔۔۔ اسکی آنکھیں لباب پانیوں سے بھر گئیں۔۔


“ Shut up! You bloody bastard ”


ہنی سے انکی غلیظ زبان برداشت نا ہوئی وہ حلق پھاڑ کے چیخا وہ تینوں لڑکے ہنی کی جرات پے حیران تھے۔۔۔ ان میں سے ایک آگے بڑھا اس سے پہلے کے وہ ہنی کو کچھ کرتا اسنے قریب پڑا پتھر اٹھایا اور آنے والے کے سر پے دے مارا وہ ہنی کا ہاتھ پکڑتی تیز تیز قدموں سے بھاگنے لگی۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ غصّے سے کمرے میں ٹہل رہا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کمرے کی ایک ایک چیز تہس نہس کردے۔۔۔ وہ آفس سے تھکا ہارا گھر لوٹا تو عائشہ معمول کے مطابق اسکے لیے کافی کمرے میں ہی لے آہیں۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بُری خبر بھی سنائی جس کی اسے امید تک نا تھی۔۔۔


اسے لگا تھا حیا اسکا پرپوزل اکسیپٹ کر لےگی پر اسکے برعکس جب نور نے اسے پرپوزل کا بتایا تو وہ اسے سب بتا گئ کس طرح شاہ زر اسے ڈراتا دھمکاتا ہے۔۔۔ دوسروں کے سامنے اسکی انسلٹ کرتا ہے۔۔۔


نور تو خیر اسکی باتوں میں نا آئی لیکن اسنے عائشہ کو ضرور بتایا۔۔ کیوں کے نور جانتی ہے وہ عائشہ کی کوئی بات نہیں ٹالے گی۔۔۔ اس لیے عائشہ ابھی شاہ زر کو وارن کر کے گئی ہے کے وہ اپنا رویہ سدھارے ورنہ فیضان کے سامنے اسکی پیشی ہوگی۔۔۔


وہ اس وقت اپنی ماں کی دھمکی سے نہیں ڈر رہا تھا بس ڈر اسے اس بات کا ہے کے اگر وہ نہیں مانی تو۔۔۔؟؟ یہی سوچ سوچ کے اسکا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔۔۔ وہ حیا کے روم میں بھی گیا تھا اسے سمجھانے پر بند دروازہ اسکا منہ چڑا رہا تھا۔۔۔


وہ کچھ سوچتا ہوا کافی پیتے اپنے آفس کا کام کرنے لگا حیا کے چیپٹر کو اسنے کل پر چھوڑ دیا چاہے کچھ بھی ہو کل وہ اسے منا کے رہیگا۔۔۔

☆.............☆............☆

وہ ہنی کا ہاتھ پکڑے تیز تیز قدموں سے بھاگ رہی تھی۔۔۔ بھاگتے بھاگتے اس کا سانس پھولنے لگا۔۔۔ لیکن وہ رکی نہیں بھاگتی رہی اسکے لیے کوئی نہیں آنے والا تھا۔۔۔ اسے خود اپنی عزت کی حفاظت کرنی تھی۔۔۔ وہ تینوں نشے میں دُھت اسکے پیچھے بھاگ رہے تھے۔۔۔۔ اسے دور سے دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔ آگے ایک سڑک تھی جو دور جاکر دو سڑکوں میں منتقل ہو رہی تھی۔۔۔۔ وہاں سڑک کی دونوں سائیڈ پے درخت لگے ہوے تھے۔۔۔۔ وہ اس سمیت بھاگنے لگی ہنی کی ہمت جواب دینے لگی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں وہاں پہنچ کر درخت کے پیچھے چھپ گئے۔۔۔ وہ تینوں بھاگنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔۔۔ ان میں سے ایک تھا جو ابھی مکمل ہوش وحواس سے بیگانا نہیں ہوا تھا۔۔۔


وہ تیز رفتار سے دوڑتا انکے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔۔ جیسے کوئی اپنے شکار کا پیچھا کرتا ہے۔۔۔۔ وہ لڑکا ہانپتا ہوا رکا کیوں کے آگے دو راستے تھے وہ سوچنے لگا دونوں کس راستے سے گئے ہونگے اسکا دوسرا ساتھی بھی تب تک پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ دونوں الگ الگ راستوں پر نکل پڑے۔۔۔۔ ہنی کی نظر انہیں میں سے ایک لڑکے پے پڑی جو انکے قریب آرہا تھا۔۔۔ لیکن درخت کی وجہ سے وہ انہیں دیکھ نہیں پایا۔۔۔۔


” پری۔۔۔ پری وہ۔۔ وہ۔۔۔ آگئے۔۔۔“ ہنی خوف سے کانپتے بھیگی آواز میں گویا ہویا اسے لگا شاید وہ رو رہا ہے۔۔۔۔


”ہنی۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ چپ۔۔۔ ہو۔۔۔ جائو۔۔۔ انہیں۔۔۔۔ پتا۔۔۔ نا۔۔۔ لگ۔۔۔ جائے۔۔۔۔ ہنی۔۔۔ میری۔۔۔ جان۔۔۔ میں۔۔۔ ہو۔۔۔ نا۔۔۔ میری۔۔۔ بات۔۔۔ مانو۔۔۔ پلیز۔۔۔ ہم یہاں۔۔۔ سے۔۔۔ نہیں۔۔۔ جا۔۔۔ سکتے۔۔۔ اگر۔۔۔ اٹھے۔۔۔ تو۔۔۔۔ انہیں۔۔۔ پتا۔۔۔ لگ۔۔۔ جائے۔۔۔ گا۔۔۔ بس۔۔۔ پلیز۔۔۔ چپ۔۔۔رہنا۔۔۔۔“


اسکا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔ آج صیح معینوں میں اسے ایک مضبوط سائبان کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ وہ دبی آواز رو رہی تھی۔۔۔ کاش کاش کہیں سے امان بھائی آجائیں روتے روتے اسکی ہچکی بندھ گی۔۔۔۔


سردیوں کا موسم تھا بھاگتے بھاگتے اسکے ہونٹ اور ناک سرخ ہوگئی۔۔۔ گال الگ دھک گئے ہنی کی بھی یہی حالت تھی۔۔۔ اسنے خود پے قابو پاتے اپنی شول اتار کر ہنی کو دی۔۔۔ جو سردی سے کانپ رہا تھا۔۔۔۔ اور اپنا دوپٹا درست کر کے شانوں تک اچھے سے پھیلایا۔۔۔۔ وہ دونوں اس قدر سہمے ہوے تھے کہ ایک ہی پوزیشن میں ناجانے کب سے بیٹھے تھے۔۔۔ بیٹھتے بیٹھتے اسکے پیروں میں درد ہونے لگا تھا۔۔۔ وہ تھوڑی پیچھے کھسکی کے کوئی نوکیلی چیز اسکے پیر میں چُبھی۔۔۔ اس سے پہلے کے اسکے منہ سے چیخ نکلتی ہنی نے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پے رکھ دیا۔۔۔ ہنی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔ اسنے سر اثبات میں ہلایا تو ہنی نے اپنا ہاتھ ہٹا دیا۔۔۔ وہ شخص ابھی بھی انکے سر پے کھڑا تھا۔۔۔ اتنی دیر میں ایک اور شخص آتا دیکھائی دیا۔۔۔ دونوں انہیں ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔ لیکن انہیں نا پاکر وہ دونوں آگے چلے گئے۔۔۔۔ وہ گہرا سانس لیکر رہ گی وہ ہنی کے ساتھ دھیرے سے اٹھی۔۔۔ ابھی اسنے قدم اٹھایا ہی ہوگا کے کسی نے پیچھے سے بیدردی سے اسکے بال اپنی مٹھی میں جکڑے۔۔۔ اسکے منہ سے ایک بلند چیخ فضا میں گونجی دوسرے شخص نے ہنی کو ایک زورداڑ تھپڑ مارا۔۔۔


” کیوں بے گالی دے کر کہا گیا تھا۔۔۔ تجھے کیا لگا بچ جائے گا “


” چھوڑو اسے ذلیل انسان بچے پے ہاتھ اٹھاتے شرم نہیں آتی “


وہ کیسے برداشت کرتی کہ کوئی ہنی کو ہاتھ لگائے۔۔۔


وہ شخص اب اسکی طرف بڑھا اور اسے بھی ایک زور ڈر تھپڑ لگایا۔۔۔


” مما “


ہنی رونے لگا۔۔۔


” یو راسکل!! چھوڑو پری کو “


ہنی اس چھڑوانے آ رہا تھا کے دوسرے شخص نے اسے روکنے کے غرض سے زور سے دھکہ دیا وہ اوندھے منہ زمین پے گرا اسکے سر پے ہلکی سے چوٹ آئی۔۔۔


” ہنی بھاگ جاؤ “


وہ چیختے ہوئے اس سے کہ رہی تھی۔۔۔ اور خود کو اسکی پکڑ سے چھوڑانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔۔۔


” نہیں مما “ وہ روتے ہوے بولا وہ اٹھنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔۔۔


” سلمان ابھی اسے پکڑ بھاگ نا جائے “


دوسرے شخص نے اسے کندھے سے پکڑ کے اٹھایا اور زور سے جھٹکا دیا۔۔۔


” چھوڑ دو اسے “


” سلمان پکڑ کے رکھ اسے تب تک میں ذرا اسے سے نمٹ لوں،


کیوں بے گالی دے تھی نا اب دیکھ اسکا کیا حال کرتا ہوں “


وہ ہنی کو دیکھتے ہوے خباثت سے کہتے قہقہہ لگا کے ہنسا۔۔۔ اس شخص نے اسے قریب آکر تھپڑ سے نوازا۔۔۔ اور دوپٹا کھینچ کے ہوا میں بلند کیا اسکا رواں رواں کانپنے لگا۔۔۔


” چھوڑو۔۔۔ میرے مما کو۔۔۔ چھوڑرو بابا۔۔۔ بابا “ وہ مسلسل چیختے ہوے ہلکان ہو رہا تھا۔۔۔


” نہیں نہیں! پلیز مجھ۔۔۔ مجھے چھوڑ دو یہ گناہ ہے میرا نکاح ہو چکا ہے۔۔۔ کیوں خود کو دوزخ کی آگ میں جھونک رہے ہو۔۔۔ یہ حرام ہے، اللہ کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ دو‎ “


اس شخص نے آگے بڑھ کے اسکی ایک آستین پھاڑ دی وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر منتیں کررہی تھی۔۔۔ لیکن وہ شخص کمینگی سے مسکرا رہا تھا۔۔۔


ہنی الگ بلک رہا تھا اس شخص نے آگے بڑھ کے اسکی دوسری آستین بھی پھاڑ دی۔۔۔ وہ چیختی رہی لیکن اس شخص نے اسکی ایک نا سنی وہ آنکھیں موندے اللہ‎ کو یاد کر رہی تھی کے اچانک ہی ایک چیخ فضا میں بلند ہوئی۔۔۔

اسنے اپنی آنکھیں کھولی تو سامنے کا منظر دیکھ اسکا دل چاہا ابھی اپنے خدا کے حضور سجدے میں جھک جائے۔۔۔ اس شخص کے بازو میں خنجر لگا تھا۔۔۔ وہ درد سے بلبلا رہا تھا۔۔۔ مارنے والا اور کوئی نہیں بلکے اسکا شوہر تھا۔۔۔ ہنی شاہ کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ گیا۔۔۔ گارڈز نے دونوں کو پکڑ رکھا تھا۔۔۔ پیچھے تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔۔۔ ایک شاہ کی باقی دو کے پاس گارڈز کھڑے تھے۔۔۔ وہی جو انہیں چھوڑ کے چلے گئے تھے۔۔۔

شاہ نے گارڈز کو اشارے سے ہنی کو اندر بیٹھانے کا کہا اور خود تیز قدم اٹھاتا اسکی طرف بڑھا۔۔۔ اور اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف کھنچتے ہوے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔ وہ مضبوط سہارا پاتے ہی بلکنے لگی وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔ شاہ آہستہ آہستہ اسکے بال سہلا رہا تھا۔۔۔ شاہ نے نرمی سے اسے خود سے دور کیا اور اپنے شول اتار کے اسکے گرد اچھے سے پھیلائی کہ اسکے جسم کا کوئی حصہ نمایاں نہ ہو۔۔۔۔


وہ ایک بار پھر اسکے سینے سے لگ گئی اسکی قمیض کو زور سے اپنی مٹھی میں جکڑتے ہوے اس سے شکوہ کر رہی تھی۔۔۔۔


” تم نے کیوں اتنی دیر کی۔۔۔؟؟ میں مرجاتی پھر آتے۔۔۔؟؟ میں نے کتنی ہی دعائیں کی میں بہت ڈر گئ تھی وہ لوگ۔۔۔“


” شش “ شاہ نے اس کے ہونٹوں پے اپنی شہادت کی انگلی رکھ دی۔۔۔


” کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے۔۔۔! میرے ہوتے ہوے کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔“


وہ دھیرے دھیرے اسکی کمر سہلاتا رہا شاہ کو لگا اسکا سارا وزن اسپے آگیا ہے۔۔۔ جب شاہ نے اسکا چہرہ اٹھایا تو دیکھا وہ بےہوش ہو چکی تھی۔۔۔ شاہ نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا۔۔۔ اسکے خاص آدمی نے آگے بڑھ کے دروازہ کھولا وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔۔


” اعصام بہت دانت نہیں نکلنے لگ گئے تمہارے؟؟“ شاہ نے احتیات سے اسے کار میں بٹھایا۔۔۔


” نہیں سر وہ بیوی کی بات یاد آگئی اسے پے ہنس رہا “


” کیوں؟؟ بیوی کے سامنے اس بات پے رویے تھے؟؟ “


شاہ نے اسکا سر سیٹ کی پشت سے لگایا جو نیچے ڈھلک رہا تھا۔۔۔


” نہیں سر تب بھی ہنسا تھا بچپن سے ہی ہنس مکھ ہوں“


شاہ اسے گھوری سے نوازتا اب اُن دونوں کی طرف بڑھا جو نشے میں دھت گارڈز کے پکڑنے کے باوجود ایک طرف لڑک رہے تھے۔۔۔۔ شاہ نے ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کی اور کوٹ اتار کے پھینکا جو اسکے گارڈ نے کار میں رکھا۔۔۔


شاہ تیزی سے اس شخص کی طرف بڑھا جس نے اسکی بیوی کی آستیں پھاڑی تھی اور ہاتھ کا مکا بنا کے پوری قوت سے اسکے منہ پے مارا۔۔۔۔


” آ “


“ how dare you to touch her!!!! She is my wife ”


وہ جنونی انداز میں اسے مارنے لگا اس پے لاتوں اور گھونسوں کی برسات کردی۔۔۔


” نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ چھون۔۔۔ چھونگا “


وہ زمین پے گرا خون میں لت پت سر دائیں بائیں ہلا کے اس سے منتیں کر رہا تھا۔۔۔


” شٹ اپ “


” کتے حرام زادے۔۔۔ تیری ہمت کیسے ہوئی اسے ہاتھ لگانے کی بول۔۔۔؟؟؟ موت کو قریب سے دیکھنے کی خواہش تھی تو بول تجھے بھوکے شیر کے آگے ڈالوں “


وہ ہانپتا ہوا اسے مارتا رہا بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے وہ معصوم چہرہ لہراتا وہ بھیگیں آنکھیں جو اس سے شکوہ کررہی تھیں۔۔۔


” سر وہ مر جائے گا “


گارڈ جو اسکی طرف بڑھتا اسے روکنے لگا تھا۔۔ شاہ کے الفاظ سے وہیں جم گیا۔۔۔۔


“ جان پیاری ہے تو خاموش رہو “


زور سے بوٹ وہ اسکے منہ پر مارتا اسے چھوڑتا ہوا کار کی طرف بڑھا۔۔۔


” اعصام “ وہ تیز تیز چال رہا تھا۔۔۔


” جی سر “ اعصام بھی اب تیزی سے اسکی بات سنتا اسکے ساتھ قدم ملا کر چل رہا تھا۔۔۔۔


” انہیں فارم ہاؤس لے جاؤ ایک سیکنڈ بھی یہ لوگ سونے نا پائیں اور نا ہی پانی کی بوند ان کے ہلک سے اترنی چائیے “


” لیکن سر ان میں سے ایک منسٹر کا بیٹا ہے اگر صبح تک گھر نا۔۔۔“


شاہ کی گھوری سے وہ چپ ہوگیا۔۔۔۔


“ Do as i say! ”


وہ سخت لہجے میں بولا۔۔۔

“ Yes sir ”

اعصام نے کار کا دروازہ کھولا۔۔ وہ باقی گارڈز کو اشارہ کرتا کار میں بیٹھ گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

پورا آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا موسم کے تیور رات سے بدلے ہوے تھے۔۔۔ ہر سمت تیز تیز ہوائیں چل رہیں تھیں وہ اس خوبصورت منظر کو تکے جا رہی تھی۔۔ پھر دل کی خواہش پے کچھ سوچ کے مسکرائی۔۔۔۔


پچھلی رات سے اب اسکی طبیعت کچھ بہتر تھی۔۔۔ میر کے حوصلے نے اسکا سارا ڈر ختم کر دیا۔۔۔ اب وہ شاہ زر کے بچے سے ڈرنے والی نہیں اسکے ساتھ تایا بابا بھائی سب ہیں۔۔۔ پھر وہ ایک بندے سے کیوں ڈر کے گھر میں بیٹھی رہے۔۔۔۔


اس خوبصورت موسم میں اسکا موڈ برگر کھانے کو چاہ رہا ہے گھر میں اس وقت کوئی مرد نہیں تھا جس کے ساتھ وہ جائے۔۔۔ اور اکیلی گئی تو بابا مما سے ڈانٹ پڑیگی اسلیے وہ کچھ سوچتے ہوئے ایک گھنٹے کی بحث کے بعد ثانی بھابھی کو زبردستی کھنچتے ہوے دبے پاؤں نیچے چلی آئی۔۔۔ تقریباً دس منٹ کی جدوجہد کے بعد وہ دونوں کار میں بیٹھیں مکڈونلس کی طرف روانہ ہو رہیں تھیں۔۔۔۔


” حیا مما سے بہت ڈانٹ پڑے گی “


ثانی کی گبھرائی ہوئی آواز نے کار کی خاموشی کو توڑا۔۔۔۔


“ او ہو بھابھی ڈانٹ آپ کو نہیں مجھے پڑے گی آخر سوتیلی بیٹی جو ٹھہری۔۔۔!!


اور پلیز پلیز بھابھی کسی کو نہیں بتانا خاص کر بابا وہ بہت پریشان ہو جائینگے “


حیا نے اپنا ہاتھ ثانی کے ہاتھ پے رکھا وہ اسے گھورتی رخ موڑ گئی۔۔۔۔


” تھنک یو بھابھی “


حیا نے زور سے اسکے گال کھنچے جس پے وہ اس پے ایک خفا نظر ڈالے مسکرائی۔۔۔۔ حیا بھی مسکراتی ہوئی باہر کا منظر دیکھنے لگی۔۔۔۔


وہ دونوں برگر آرڈر کر کے اپنے ٹیبل سنبھال چکی تھیں کچھ ہی دیر میں ویٹر برگر لے کر آگیا۔۔۔ حیا تو مزے سے کھانے لگی لیکن ثانی کےحلق میں تو ایک ایک نوالہ اٹک رہا تھا۔۔۔ ثانی کا موبائل مسلسل بج رہا تھا جس پے عمر کی کال آ رہی تھی۔۔۔ اسنے کال اٹینڈ کر کے موبائل کان سے لگایا۔۔۔


” ہاں اوکے!!! صیح عمر سنو “


” پلیز گھر میں کسی کو نہیں بتانا تم موسم دیکھ رہے ہو نا؟؟ ہمیں ڈانٹ پڑ جائے گی “


حیا اسکے چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی جو گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔۔۔


“ اوکے شکریہ “


” کیا ہوا بھابھی؟؟ “


” عمر کو کار چاہیے تھی اور کسی سے مانگتا تو سوال کرتے اسلیے ڈرائیور کو کال کر کے بلا لیا!!!


کچھ دیر بعد واپس بھیج دیگا تب تک ہمیں یہیں ویٹ کرنا ہوگا “


” پر بھابھی وہ ہماری ہے بابا نے گھر کی خواتین کی لئے چھوڑی تھی۔۔۔“ وہ خفگی سے کہنے لگی۔۔۔


” نہیں دیتے تو آج کلاس لگنی تھی “


حیا بُرا منہ بنا کے رہ گئ۔۔۔


ثانی برگر کی طرف متوجہ ہوگئ انہیں یہاں کافی دیر ہوگئی تھی بیٹھے بیٹھے۔۔۔ اب وہ کافی تھک چکے تھے کہ عمر کی کال سے ثانی سر تھامے بیٹھ گئی۔۔۔۔


وہ سر جھکائے اس پرابلم کا کوئی حل سوچ رہی تھی۔۔۔ جب کے حیا مزے سے دوسرا برگر کھا رہی تھی۔۔۔ بقول حیا ٹینشن میں اسے اور زیادہ بھوک لگتی ہے۔۔۔ باہر تیز بارش ہو رہی تھی جس کی وجہ سے آس پاس کے کافی راستے بند ہوگئے۔۔۔ ڈرائیور جو انہیں لینے آرہا تھا تیز بارش کی وجہ سے ٹریفک میں پھنس گیا۔۔۔ اب ثانی سر تھامے بیٹھی تھی اب تک شاید گھر والوں کو انکی غیر موجودگی کا علم ہوگیا ہوگا۔۔۔ وہ انہی سوچوں میں تھی کے ویٹر کی آواز سے چونک گئ۔۔۔۔


” میم باہر سر آپ لوگ کا ویٹ کر رہے ہیں “


بے ساختہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا جیسے پوچھ رہی ہوں کون ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟؟ ثانی نے حیا کا ہاتھ پکڑا حیا آخری نوالہ زبردستی منہ میں ڈالتے ہوئے ثانی کے ساتھ باہر آئی۔۔۔ اور آنے والے کو دیکھ کے اسے جیسے سانپ سونگ گیا۔۔۔ خود کو کوستے ہوئے وہ مرے مرے قدموں سے کار کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔


بارش اب تھم چکی تھی لیکن سڑک پر جابجا کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔۔۔ ثانی ایک ایک قدم احتیاط سے اٹھاتے ہوے کار کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔ جب کے حیا آنے والے کو دیکھ کر غصّے میں بڑبڑاتی رہی۔۔۔


” کیا ضرورت تھی ایسے موسم میں باہر نکلنے کی اب بھگتو!!!


کاش مما نے پکڑ لیا ہوتا “


اسے خود پے شاہ زر کی نظروں کی تپش با خوبی محسوس ہو رہ تھی۔۔۔ اس لیے وہ اسے نظرانداز کرتی اپنے ہی دھن میں چل رہی تھی کے اچانک ٹھوکر لگنے سے برُی طرح گر گئی۔۔۔۔


” آہ۔۔۔۔۔“

اسکی چیخ اتنی بلند تھی کے آس پاس کے لوگ اس نظارے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔

” حیا “

ثانی فوراً پیچھے مڑتی اسکے پاس چلی آئی شاہ زر بھی بھاگتا ہوا اس تک آیا۔۔۔۔

” بھابھی آپ کار میں بیٹھےمیں اسے لیکر آتا ہوں “

” لیکن بھائی۔۔۔ حیا کو چوٹ لگی ہے “

” نہیں بھابھی میری چپل ٹوٹ گی “


حیا نے سر اٹھا کے ثانی سے کہا لیکن وہ خود پے شاہ ذر کی تیکھی نظریں محسوس کرہی تھی۔۔۔ جس کے باعث وہ چپل جوڑنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔


” بھابھی ڈونٹ وری۔۔۔!!! آپ جائیں اس طرح یوں باہر کھڑے رہنا صیح نہیں۔۔۔“ ثانی سر ہلاتی ہوئی کار میں جاکر بیٹھ گئی۔۔۔۔


شاہ زر اسکی طرف بڑھا جو سر جھکائے اپنی ٹوٹی چپل کو جوڑ رہی تھی۔۔۔ اس کی پینٹ پے جگہ جگہ کیچڑ لگا ہوا تھا جب کے شرٹ صاف تھی ٹھوکر لگنے سے وہ زمین پے بیٹھ گئی تھی۔۔۔ اور اسکی چپل بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔ شاہ زر نے اسے بازو سے پکڑ کے اٹھایا وہ اسکی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ شاہ زر نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے سامنے بنی سیڑی پے بٹھایا۔۔۔ خود بھی وہاں بیٹھ کے اپنے جوتے اتارنے لگا۔۔۔ حیا اب بنا پلک جھپکائے اسے تک رہی تھی۔۔۔ شاہ زر نے جوتا اتار کے اس کی طرف بڑھایا۔۔۔


” اگر پوسٹ مارٹم مکمل ہوگیا ہو تو یہ پہنے کی زحمت کرینگی۔۔۔؟؟ یا میں خود پہناوں۔۔۔؟ “


وہ شرم سے سرخ پڑ گی کیا سوچتا ہوگا شاہ زر اس کے بارے میں۔۔۔؟؟ وہ اس سے جوتا لیکر پہن چکی تھی۔۔۔ اب وہ دونوں اٹھ کے کار کی طرف بڑھ رہے تھے کے شاہ زر نے اسکے قریب ہو کر سر گوشی کی۔۔۔


” آگے بیٹھنا “


وہ فرنٹ سیٹ پے اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔ پورے سفر میں خاموشی رہی شاہ زر ہمیشہ سے سنجیدہ مزاج کا تھا۔۔۔ ثانی بھی اس سے بات کرنے سے پہلے ہر بار سوچتی اسکا بیہویر ہر کسی کے ساتھ ہی روڈ ہے سوائے عنایا کے۔۔۔


شاہ زر نے کار ریورس کی اب وہ پارکنگ ایریا سے باہر آگئے تھے۔۔۔ وہ پورے سفر میں سر جھکائے بیٹھی رہی اپنی حرکت پے اسکا دل چاہ رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سماں جائے۔۔۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی کے کار ایک جھٹکے سے رکی ثانی باہر نکل گئ جب کے شاہ زر نے حیا کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔


” دروازہ لوک نہیں کرنا رات کو میں آونگا “


وہ پوری آنکھیں کھولے خوف سے اسے تک رہی تھی۔۔۔ جو بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا اسکی نظریں سامنے ونڈ سکرین پر ٹھریں تھیں۔۔۔


” کیوں؟؟ “


وہ بری طرح کپکپانے لگی۔۔۔


” تمہاری عقل ٹھکانے لگانی ہے “


اسنے اپنا رخ حیا کی طرف موڑا اور سرد آواز میں گویا ہوا۔۔۔


وہ الٹے پیر وہاں سے بھاگی وہ جتنا اس سے دوڑ بھاگنے کی کوشش کرتی وہ مزید اس کے قریب آجاتا۔۔۔ اسکے ہاتھ پیر بُری طرح کپکپا رہے تھے وہ آنکھوں کو رگڑتی اندر چلی آئی۔۔۔ لیکن آنسوؤں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔ وہ جو اندھا دھند بھاگ رہی تھی کسی نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کے اسکا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔۔


” حیا کیا ہوا۔۔۔۔؟؟ اور تم ٹھیک ہو نا۔۔۔؟؟ “


حیا نے پوری آنکھیں کھولے سامنے کھڑی اپنی بھابھی کو دیکھا۔۔۔ وہ خوف اور سردی کی شدت سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔


” ہاں بھابھی بس وہ۔۔۔ “


وہ سوچ ہی رہی تھی کیا بولے کے ثانی بول پڑی۔۔۔۔


” تم مما کی وجہ سے پریشان ہو تو ڈونٹ وری انہیں نہیں پتا اور میر سے بھی میری بات ہوگئ میں نے انہیں ٹیکسٹ کر دیا اگر پھنسے تو وہ سنمبھال لیں گے “


” بھائی “


اسکی ہونٹوں نے بی آواز جنبش کی۔۔۔


” پرنسز ایک بات یاد رکھنا تمھارے بھائیوں کے ہوتے ہوئے کسی کی اتنی ہمت نہیں کے تمہیں نقصان پہنچائے اس لیے کسی سی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔! “


اسے میر کی کہی گئی بات یاد آگئی وہ ہر بار کیوں بھول جاتی ہے اس کے بھائی ہر وقت اس کی حفاظت کے لیے موجود ہیں۔۔۔۔


اور اب آگر اسنے ڈرایا تو ڈائریکٹ تایا ابو کے سامنے اسکی پیشی کروائونگی۔۔۔


مسٹر شاہ زر بہت تنگ کر لیا مجھے اب دیکھنا تمہیں تمہاری نانی یاد دلائونگی۔۔۔۔ ایک سکون کی لہر اسکے اندر دوڑنے لگی۔۔۔


” کیا سوچنے لگی؟؟ “


” کچھ نہیں بھابھی “


حیا نے مسکراتے ہوے سر نفی میں ہلایا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” بابا “


شاہ کو دیکھتے ہی ہنی پھر رو پڑا وہ ابھی کار میں آکر بیٹھا تھا۔۔۔۔


” ہنی میری جان میں آگیا نا۔۔۔ کچھ نہیں ہوا تم اسے بھی پریشان کر رہے ہو۔۔۔ کہیں اٹھ نا جائے “


ہنی آکر اس کی گود میں بیٹھ گیا دوسری طرف وہ اس کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر اسکا سر اپنے سینے پے رکھ چکا تھا۔۔۔


” بابا؟؟ “


” ہمم! “


” مما کو یہاں درد ہو رہا ہوگا نا۔۔۔؟؟ “ ہنی نے اس کے گال کی طرف اشارہ کیا وہ سمجھ گیا تھا پھر بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔


” بابا وہ جس نے کان میں ایرینگس پہنے تھے اسنے مما کو دو دفع تھپڑ مارا اور سلیوس بھی۔۔۔“ شاہ کی پیشانی پے بل پڑھ گئے اس کی آنکھیں لہو رنگ ہوگئیں اسنے مٹھیاں بھنچ لیں۔۔۔


تھوڑی دیر بعد وہ بولا۔۔۔


” ہنی بی بی جان کو کچھ پتا نا لگے، خیال رکھنا “


” جی بابا “


شاہ نے دونوں کو خود سے قریب تر کر لیا۔۔۔ اگر انہیں کچھ ہوجاتا تو۔۔۔؟؟؟اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” حیا شاہ زر کتنے غصّے والا ہے مجھے تو کار میں سانس لیتے ہوے ڈر لگ رہا تھا ایک تو میوزک پلیئر بھی اوف تھا “


ثانیہ نے اسکی قریب آکر سرگوشی کی۔۔۔


” ہاں بھابھی مجھے تو ایسے گھورتے ہیں جیسے میں نے ان سے پیسے ادھار لیے ہیں “


ثانی اسکی بات سنتے ہی کہکلا کے ہنس دی۔۔۔


” پیسے نہیں اسکا دل لیا ہے تم نے۔۔۔!!! پاگل وہ تمہیں گھورتے نہیں دوسری نگاہوں سے دیکھتے ہیں“


ثانی نے ہلکی سے چپیٹ اسکے سر پے لگائی۔۔۔ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی تبھی عائشہ انکی طرف آئی۔۔۔


” حیا ثانیا نور تم دونوں کو ڈھونڈنے آئی تھی۔۔۔ تم لوگ کی وجہ سے مجھے جھوٹ بولنا پڑا “


وہ دونوں کو دیکھتے افسوس سے کہنے لگیں۔۔ اوپر سے حیا کے کپڑے دیکھ انہیں دونوں پے غصّہ آ رہا تھا۔۔۔


” آپ نے کیا بتایا انہیں؟؟ “

ثانیہ کے لہجے میں پریشانی واضع تھی۔۔۔ دونوں اب پریشانی سے عائشہ کو دیکھنے لگیں۔۔۔

” یہی کے دونوں چھت پے گئی ہیں “

” حیا تم چینج کر کے اوپر آجاؤ “

ثانی تیزی سے اوپر چلی گئی جب کے حیا عائشہ کا ہاتھ پکڑے تیزی سے عنایا کے روم میں آگئی۔۔۔

” تائی امی جلدی سے کوئی ڈریس نکال دیں میں فرش ہو کر آ رہی ہوں “

وہ عائشہ کو تیزی سے کہتی واشروم میں گھس گئ۔۔۔


” یا اللّه اسے کب اکل آے گئی ازلان کتنا فکر مند رہتا ہے ان کے لیے۔۔۔ نجانے کب یہ بچے ماں باپ کی پریشانی سمجھیں گے “


عائشہ نے حیا کے لیے عنایا کا ڈریس نکالا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں حیا فریش ہوکر آگئی۔۔۔ پہلے اسنے اوپر جاکر نور کو اپنا چہرہ دکھایا۔۔۔ تاکہ وہ پریشان نا ہو پھر نیچے آکر اپنی اور تائی کی چائے چولے پے چڑہائی۔۔۔


بچپن سے ہی اسکی نور سے زیادہ عائشہ سے بنتی تھی۔۔۔ جب بھی نور اسے مارنے دوڑتی عائشہ ہمیشہ اسکا بچاؤ کرتی۔۔۔ اسے اپنے ساتھ نیچے لے آتی۔۔۔ بچپن میں وہ اسکول سے آتے ہی عائشہ کے پورشن میں آجاتی۔۔۔ حیا اور عنایا کو گھر میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔۔۔ دونوں ہی عائشہ اور فیضان کی آنکھوں کا تارا ہیں تبھی فیضان کی خواہش ہے کے وہ اپنے لخت جگر کو ہمیشہ اپنے پاس رکھے۔۔۔


دل کی آرزو پے فیضان نے حیا کی پیدائش کے وقت ہی اسے نور سے مانگ لیا تھا۔۔۔ اور شاہ زر اس بات سے بخوبی واقف تھا اگر انجان تھی تو صرف حیا۔۔۔


” حیا چائے اچھی بنی ہے “


عائشہ نے چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔


” آپ سے تو سیکھی ہوں “


” حیا تم کب سے باتیں چھپانے لگیں؟؟


حیا نا سمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔


” تمہیں جب بھی شاہ زر تنگ کرے مجھے بتاؤ میں اس کے کان کھنچو “


وہ سمجھ گئی نور نے عائشہ کو سب بتا دیا ہے۔۔۔


” تائی امی آپ ناراض ہیں؟؟ “


وہ شرمندہ سے لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔


عائشہ نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔۔۔


” نہیں میری جان تم پورا حق رکھتی ہو کے اپنی زندگی کے فیصلے کر سکو “


” نہیں تائی امی یہ حق میں نے آپ لوگوں کو دیا ہے بٹ تائی امی شاہ زر نہیں۔۔!! آئی ہیٹ ہم “


وہ چیر سے اٹھ کے نیچے بیٹھ گئی اور عائشہ کی گودھ میں سر رکھے بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔


” حیا کل رات میں نے شاہ زر کو تمہارا فیصلہ سنایا لکین اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔۔۔ اور اسکی وجہ مجھے صبح سمجھ آئی۔۔۔ کوئی ایک چیز نہیں چھوڑی اس نے پورا کمرہ تہس نہس کر دیا سارا غصّہ کمرے کی چیزوں پے اتار دیا۔۔۔ بیٹا وہ رات سے پریشان ہے اسی لیے صبح آفس نہیں گیا اور جانتی ہو جب عمر کی کال آئی میں پریشان سی شاہ زر کے پاس گئی۔۔۔ ابھی اس نے پوری بات بھی نہیں سنی تھی کے چابی لیکر ایسے بھاگا جیسے اگر آج ٹائم پے نا پھنچا تو اپنی انمول چیز گواں دیگا۔۔۔ اسے تمہاری فکر رہتی ہے حیا آج کل بہت پریشان ہے وہ “

عائشہ بھی ماں تھیں بیٹے کی تکلیف ان سے دیکھی نہیں جاتی بیٹی کا دکھ کم تھا جو اب بیٹا بھی۔۔۔

” تائی امی مجھے ان سے ڈر لگتا ہے “

حیا نے سر اٹھا کے ایک نظر عائشہ کو دیکھ کے کہا۔۔۔۔ عائشہ نے اسکے معصومیت سے کہنے پے جھک کے اس کی پیشانی پے بوسہ دیا۔۔۔

” میری جان اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟؟ وہ غصّے کا تھوڑا تیز ہے لیکن دل کا بُرا نہیں تم اسکی خواہش ہو حیا بس وہ تمہارے ساتھ کسی اور کا نام نہیں سن سکتا۔۔۔ اب اگر وہ پریشان کرے تو فیضان ہے نا ان سے کہنا اکل ٹھکانے لگا دیں گے صاحب زادے کی “


وہ اپنی عزیز تائی کی گود میں سر رکھے ان کی ساری باتیں غور سے سن رہی تھی یہی تو ایک فرق ہے تائی اور مما میں۔۔۔ جو وہ بچپن سے محسوس کرتی آ رہی ہے ایک پیار سے سمجھاتی دوسری مار سے۔۔۔


تبھی وہ ہر کام کرتی جس سے نور اسے منع کرتی۔۔۔ اسکے برعکس وہ اس ہر کام سے اجتناب کرتی جس سے عائشہ اسے منع کرتیں۔۔۔ اور آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کے تائی کی باتوں سے وہ مطمئن نہیں تھی۔۔۔ وہ اور بھی کچھ کہ رہی تھیں لیکن حیا اپنے ہی خیالوں میں پہنچی ہوئی تھی۔۔۔


☆.............☆.............☆


شاہ اسے اپنی باہوں میں اٹھائے کمرے میں لے آیا۔۔۔ ہنی کو اسنے اماں کے پاس چھوڑ دیا تاکہ وہ اسے سنبھال لیں۔۔۔۔


بہت احتیاط سے اسے بیڈ پے لٹا کر لحاف سے ڈھانپ دیا۔۔۔


پھر سائیڈ ڈروز سے کریم نکال کے شاہ نے اسکے ہونٹوں پے لگائی اور اسکے ساتھ ہی بیڈ پے لیٹ گیا۔۔۔ اب وہ غور سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا گالوں پے آنسوں کے نشان بہت واضع تھے۔۔۔ ہونٹوں سے گلابی لپسٹک مٹ کر اب مکمل طور پے مدھم ہو چکی تھی۔۔۔ ہونٹوں کا کنارہ پھٹ چکا تھا جہاں سے خون بہہ کے سوکھ چکا تھا۔۔۔ بال الگ بھکرے ہوے تھے اور بازوں پے نظر پڑتے ہی شاہ نے ضبط کی شدت سے مٹھیاں بھنج لیں۔۔۔ وہ اسکے چہرے کے ایک ایک نفش کو اپنی انگلی سے چھو کر محسوس کر رہا تھا۔۔۔


” تمہیں چاہنے کا۔۔۔ نفرت کرنے کا۔۔۔ سزا دینے کا حق صرف مجھے ہے۔۔۔ صرف مجھے۔۔۔“


وہ اسکی گردن پے موجود تل کو اپنی شہادت کی انگلی سے چھو رہا تھا۔۔۔ اسے یہ تل ہمیشہ سے اچھا لگتا تھا۔۔۔ کتنا انتظار کیا تھا اسنے اس پل کا بس ایک نظر اسے قریب سے دیکھنے کی چاہ تھی۔۔۔ اور اب جب وہ قریب ہے تو اسکے سارے جذبات جا سوئے اسے دیکھتے ہی جو دل تیز رفتار سے دھڑکنے لگتا۔۔۔ اب چاہ کر بھی اسکے دیدار پر اس دل میں کوئی ہلچل نا تھی۔۔۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اٹھ کے اپنی جیب کی پاکٹ سے موبائل نکالا۔۔۔ اسکے ہاتھ تیزی سے موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کرنے لگے۔۔۔


” کیا پوزیشن ہے؟؟ “


” سر بہت مشکل سے پہنچے ہیں۔۔۔ ہر جگہ پولیس نے ناکہ بندی کی ہے۔۔۔ ہر نیوز چینل پر منسٹر کے بیٹے کی گمشدگی کی خبرئیں چل رہی ہیں۔۔۔“


” واٹ رابش!!! اتنی جلدی کیسے؟؟ “


اس نے مٹھیاں بھینچ کے موقا زور سے دیوار پر دے مارا۔۔


” سر وہ دو نہیں تین لوگ تھے یہ تیسرے لڑکے کا کام ہے۔۔۔ ورنہ وہاں کیا ہوا ہمارے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔۔۔ وہ سڑک کافی سنسان ہے وہاں کوئی نہیں جاتا “


شاہ اپنی پیشانی مسلنے لگا۔۔۔


“ ڈیم اٹ!! چاہے پرائم منسٹر کو انولو کریں۔۔


I will not leave them “


وہ ایک ایک لفظ چبا کے بولا۔۔۔


” اعصام میں سب دیکھ لونگا تم بس اُنہیں جگائے رکھنا۔۔۔ ایک منٹ کے لیے بھی سونے نا پائیں اور کوئی انہیں ہاتھ نہیں لگائے گا میں کچھ دیر میں پہنچتا ہوں “


” کلیر؟؟ “


” یس سر “


شاہ فون رکھ کے چینج کرنے چلا گیا اسنے وائٹ ٹرائوزر پے لائٹ بلو شرٹ پہنی جو اسکی گوری رنگت پے جچ رہی تھی۔۔۔ شاہ نے ٹیبل پے پڑا موبائل اٹھایا اور اماں کو کال کی۔۔۔


” اماں ہنی کو چینج کروا دیا؟؟ “


“ جی بیٹا “


” وہ اب کیسا ہے۔۔۔؟؟ آپ نے بات کی اس سے“

اسکی لہجے کی پریشانی اماں کو محسوس ہو رہی تھی۔۔۔

” اب بہتر ہے بیٹا پہلے بہت رو رہا تھا۔۔۔“

” اماں اسے اوپر لے آئیں اور کچھ ہلکا پھلکا بنا دیں ایک کام کریں سینڈوچ بنا دیں “

تیزی سے کہتے اسنے فون رک دیا۔۔۔

شاہ کمرے میں ٹہلنے لگا کچھ ہی دیر میں ہنی آگیا۔۔۔۔ ساتھ ملازمہ بھی تھی وہ ٹرے ٹیبل پے رکھ کے چلی گئ۔۔۔ شاہ نے اسے گودھ میں اٹھایا اور اسکی پیشانی چوم لی۔۔۔ ہنی بیڈ کے قریب آیا اور ایک نظر پری کو دیکھ کے شاہ کے ساتھ صوفہ پے بیٹھ گیا۔۔۔


“ ہنی یہ سینڈویچ کھاؤ “


” بابا میں نے پیزا کھایا تھا میرا پیٹ فل ہے “


ہنی اب پہلے سے بہتر لگ رہا تھا شاہ کچھ مطمئن ہوا کے وہ اب ڈر نہیں رہا۔۔۔


” اور اسنے کچھ کھایا؟؟ “


شاہ نے لاپروائی سے پوچھا جیسے اسکے ہونے نا ہونے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔


” ہاں مما میں نے ساتھ کھایا تھا “


” یہاں آؤ “


ہنی آکر شاہ کی گود میں بیٹھ گیا شاہ نے اسے مضبوطی سے خود میں بھینچ لیا۔۔۔


” وہاں کیا ہوا تھا مجھے سب بتاؤ شروع سے۔۔۔! انکا کہا گیا ایک ایک لفظ “


ہنی اسے سب شروع سے بتاتا چلا گیا جیسے جیسے ہنی بول رہا تھا۔۔۔ شاہ کے ماتھے کی شکنیں بڑتی جا رہیں تھیں۔۔۔ اسکی گلے اور بازوں کی نسیں واضع ہونے لگیں تھیں۔۔۔


” ہنی تم بڑے ہوگئے ہو تمہیں ہر مصیبت کے لیے تیار رہنا چاہئے۔۔۔ میں تم سے امید رکھتا تھا کے تم اسکی حفاظت کروگے۔۔۔ کل سے تم کراٹا کلاسز جوائن کروگے میری غیر موجودگی میں تم اسکی حفاظت کروگے انڈرسٹند؟؟ “


ہنی کو شاہ کی کسی بات کا بُرا نہیں لگا اس وقت ہنی کے چہرے پے جو خوشی تھی۔۔۔ وہ دیکھنے کے قابل تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔ شاہ کا دل بدل رہا ہے وہ اس سے نفرت نہیں کرتا نفرت کرتا تو اس قدر پریشان نہیں ہوتا۔۔۔

” جی بابا! اینڈ ای لو یو بابا۔۔“ ہنی خوشی سے اسکے گلے لگ گیا۔۔۔

” چلو آج تم یہیں سو جاؤ مجھے کچھ کام ہے “

شاہ نے اسے بیڈ پے لیٹایا اور لحاف اوڑھ کے دونوں کو ایک نظر دیکھ کے چلا گیا۔۔۔ اسنے لائٹ اوف نہیں کی وہ جانتا تھا وہ بچپن سے ہی اندھیرے سے ڈرتی ہے۔۔۔ ہنی کلمہ پڑھ کے بلکل اس سے چپک کے سو گیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


جیسے ہی لائٹ آن کی اپنی پیچھے سے قدموں کی آواز سنی۔۔۔ جو اس کے قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ اس کے بہت ہی قریب کوئی آکر رکا تھا۔۔۔ اسنے بے دردی سے اسکا رُخ اپنے طرف کیا

حیا نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔


” کیا کہاں تم نے چچی سے؟؟ “


” میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔ ڈرتی ہو تم مجھ سے۔۔۔؟؟ اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ریجکٹ کرنے کی۔۔۔“ حیا نے آنکھیں کھولیں تو وہ لہو رنگ آنکھوں سے اسے ہی گھور رہا تھا۔۔۔


” بولو “

وہ دھیمے مگر سخت لہجے میں بولا۔۔۔

حیا کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہو ئی اتنی رات کو شاہ زَر اِس کے روم میں اگر کوئی آگیا تو۔۔۔ یہ خیال ہی روح ہلا دینے والا تھا۔۔۔ اور آج وہ روم لاک کرنا کیسے بھول گئی؟؟

” کیا بکواس کر رہا ہوں میں۔۔۔؟؟؟ سنائی نہیں دیتا۔۔۔؟؟؟ “

” میں۔۔۔ میں۔۔۔ وہ “

” شٹ اپ بکریوں کی طرح میں میں کرنا بند کرو زبان ویسے تو خوب چلتی ہے مجھے دیکھ کے سانپ سونگ جاتا ہے۔۔۔؟؟ “


” آپ آپ۔۔۔ مجھے ڈانٹتے ہیں۔۔۔ اپنے روم سے نکال دیتے ہیں مجھے غصے سے گھوڑتے ہیں۔۔۔ وہ رونے لگی۔۔۔


”میں کچھ بھی کروں آپ سنانے لگ جاتے ہیں۔۔۔ میری ساری فرینڈز اسکول کی طرف سے گھومنے جاتی ہیں۔۔۔ آپ دھمکی دے کر مجھے چُپ کرا دیتے ہیں۔۔۔ میں پکنک پے بھی نہیں جاتی آپ کی وجہ سے۔۔۔ میں آپکی بچپن سے ہر بات مانتی ہوں پھر بھی غصہ کرتے ہیں۔۔۔ آپ تو مجھے پسند ہی نہیں کرتے۔۔۔ میں آج تک نہیں سمجھی آپ کیوں مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہیں۔۔۔ آپ کی وجہ سے علی بھی میرا مذاق اڑاتا ہے۔۔۔“


وہ اسکی بچکانہ باتیں سن کر مسکرا رہا تھا۔۔۔ یہ سب باتیں سچ تھیں لیکن وقت صیح نہیں تھا اقرا کا۔۔۔


”جاناں! “

شاہ زَر نے اسے محبت سے پکارا وہ تو اس لفظ پر حیران تھی۔۔ یہ میٹھا لفظ اسکے منہ سے کیسے نکلا۔۔۔

” بیوی بن کے آوگی تو کبھی روم سے نہیں نکالونگا“

وہ مسکرا کر کہتا اِس کے ہوش اڑا گیا۔۔۔

” اور نفرت نہیں صرف محبت کرونگا۔۔۔ بس جلدی سے میرے پاس آجاؤ۔۔۔“ وہ بس اسے دیکھتی رہی۔۔۔۔ شاہ زَر مسکرائے جا رہا تھا۔۔۔

یا اللہ کیا یہ وہی شخص ہے یا کوئی خواب ہے۔۔۔۔

” اور ہاں نکاح ہوگا۔۔۔ اینگیجمنٹ جیسے فضول رسمیں میرے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتیں۔۔۔ میں بہت جلد تم سے جڑے تمہارے سارے حقوق لے لونگا۔۔۔“ وہ اپنی انگلی سے اسکے گال کو چھوتے ہوے بولا حیا نے با مشکل خود کو سنبھالا شاہ زر کی نظریں اسے کنفیوز کر رہیں تھیں۔۔۔


”آپ نے کہا تھا۔۔۔ وہ کے۔۔۔ آپ۔۔۔ اگر منع کیا تو کڈنیپ۔۔ کیا سچ میں۔۔۔؟؟؟ ڈر ڈر کے اسکے ہونٹوں سے جملے ادا ہوئے۔۔۔۔


” ظاہر ہے میرے علاوہ تم کسی اور سے شادی نہیں کر سکتا یاد رکھنا۔۔۔“ سنجیدہ سے لہجے میں کہا۔۔۔


” کل ممی کو ڈائریکٹ تمہارے پاس بھیجوںگا اب جواب نا میں نہیں ہونا چاہیے“


وہ کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا پھر چلا گیا۔۔۔ اور وہ زمین پے بیٹھتی چلی گئی


” کیا شاہ زر مجھ سے “ اِس کے گال سرخ ہوگئے یہ سوچ ہی اِس کے لیے خوشی کا باعث تھی کے شاہ زر اس سے محبت کرتا ہے۔۔۔


اس نے سوچ لیا کل تائی امی کو کیا جواب دینا ہے سوچ کے ہی اِس کے ہونٹوں پے شرمیلی مسکان آگئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

دھرے دھیرے اسنے اپنی آنکھیں کھولیں کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔۔۔ وہ اٹھی لیمپ اون کیا پاس ہی ہنی سویا ہوا تھا۔۔۔ شاہ روم میں نہیں تھا اسنے ایک نظر وال کلاک پے ڈالی جہاں صبح کے پانچ بج رہے تھے۔۔۔ سب سے پہلے اسنے وضو کر کے شکرانے کے نفل ادا کئیے۔۔۔

کل جو ہوا وہ روح ہلا دینے والا منظر تھا۔۔۔ آگر شاہ نا آتا تو سب تباہ ہوجاتا۔۔۔ وہ خود کو مار دیتی کل کا دن اسکی زندگی کا خوفناک ترین دن تھا۔۔۔ سوچ کے ہی اسکی آنکھیں گرم پانیوں سے بھر گئیں۔۔۔


فجر کی اذان سنتے ہی اس نے نماز ادا کی اور ہنی کو پیار کر کے نیچے چلی آئی۔۔۔ کل پہلے مرتبہ میں نے شاہ کی آنکھوں میں اپنے لیے پریشانی دیکھی۔۔۔ اسکی آنکھوں میں ایک پیاس تھی جیسے اگر اسنے مجھے دوبارہ نہیں دیکھا تو بے چین ہوجاۓ گا۔۔۔ وہ بنا جانے بھی کہ سکتی تھی کل پورا دن وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتا رہا تھا۔۔۔ اب بھی شاید کہیں شاہ کے دل میں اسکے لیے محبت ہو؟؟


نہیں نہیں اسنے جو میرے ساتھ کیا کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔۔۔ وہ مجھ سے کیسے محبت کر سکتا ہے۔۔۔؟؟ بے وقت نفرت اور محبت ایک دل میں کیسے رہ سکتیں ہیں۔۔۔؟؟ “ لیکن شاہ نے کل جو اسے کہا اسنے جو شاہ سے کہا ابھی بھی شاہ کا لفظ اسے یاد تھے۔۔۔


” کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے۔۔! میری ہوتے ہوے کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا “


وہ بی بی جان کے پاس چلی آئی ایک یہی جگہ تو ہے جہاں اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔۔۔


وہ معمول کے مطابق گھر کے کاموں میں مصروف رہی مغرب کے بعد شاہ گھر آیا اور آتے ہی فورًا سے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ وہ بھی کچھ دیر بعد روم میں آگئی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کے وہ یہاں آنے پے پچھتانے لگی۔۔۔


اسنے وائٹ شلوار قمیض پے بلیک کوٹ پہنا تھا اور بال گیلے تھے۔۔۔ وہ فریش لگ رہا تھا اس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی۔۔۔ جو وہ بنا سانس روکے پئے جا رہا تھا۔۔۔ وہ ہوش میں حیوان بن جاتا تھا شراب کے نشے میں مار نا دے۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے پیچھے قدم بڑھانے لگی۔۔۔ شاہ کی نظر سامنے اٹھی تو اسے دیکھ شاہ کی رگیں تن گئی۔۔۔


وہ مشروب رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اب شاہ اسکی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ اور وہ اپنی جگہ جم سی گئی اس سے ہلا نہیں جا رہا تھا۔۔۔ شاہ نے قریب پہنچتے ہی اسکی گردن دبوچی۔۔۔ وہ خود کو چھڑوانے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی لیکن شاہ کی پکڑ مضبوط تھی۔۔۔۔


” تم جیسی غلیظ۔۔۔ گری ہوئی لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔۔۔ کل سج سنور کے کس سے ملنے گئیں تھیں؟؟ “


“ جواب دو “


اسکے زہریلے الفاظ سے وہ خود کو آگ میں جلتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اسکا دم گھٹ رہا تھا دعد کی شدت سے آنکھوں میں آنسوؤں آگئے شاہ نے زور سے جھٹکا دے کر اسے بیڈ پے گرایا۔۔۔


وہ دونوں ہاتھوں سے گلے کو پکڑے اپنی سانسیں بہال کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ اور وہ اسے قہر آلودہ نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔ شاہ کا بس نہیں چلتا کے وہ آج ہی اسے قتل کردے۔۔۔ پر مجبور تھا جب تک امان اسکے ہاتھ نہیں لگ جاتا۔۔ تب تک اس کو زندہ رکھنا مجبوری تھی۔۔۔ اسنے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اسے پہلے شاہ نے اسے بالوں سے پکر کے اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی جس کی آنکھوں میں اسکے لیے صرف نفرت تھی بے تحاشا نفرت۔۔۔


” تمہیں میرے ہاتھوں شہید ہونے کے شوق ہے؟؟“


”آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ بھی۔۔۔ بھی۔۔۔ جان۔۔۔ جانتے۔۔۔ ہیں۔۔کل۔۔۔ جو۔۔۔ ہو۔۔۔ اس میں۔۔۔ میری۔۔۔ غلطی۔۔۔ نہیں۔۔۔ تھی۔۔۔“ اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کے اس کے منہ سے ادا ہو رہے تھے۔۔۔

” تم جیسی بد کردار عورت سے کوئی امید نہیں خود انہیں اپنے جال میں پھنسایا ہو۔۔۔“ وہ بے یقینی سے اس شخص کو دیکھ رہ تھی۔۔۔ کل جو اسے دلاسے دے رہا تھا۔۔۔ آج وہی اسکے کردار کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔۔۔

وہ اپنا درد بھول گئی بھول گئی کے اس شخص نے سختی سے اسکے جبڑے اپنی گرفت میں کیے ہیں۔۔۔ یاد رہا تو بس اس شخص کی بےاعتباری جسنے اسکی روح تک کو زخمی کردیا۔۔۔

” کیوں کیا غلط کہاں میں نے۔۔۔؟؟ اس دن تمہارا عاشق تم سے ملنے نہیں آیا تھا۔۔۔؟؟ بولو۔۔۔؟؟ میری غیر موجودگی میں اس سے ملتی رہی ہو۔۔۔؟؟ میں تمہاری ہمت کی داد دیتا ہوں اتنی سیکورٹی کے بعد بھی تم میری آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی۔۔۔ اور مجھے کانو کان خبر نہیں ہوئی “


وہ زہر خند لہجے میں بولا اور ایک دم ہی اسے چھوڑ دیا وہ گرتے گرتے بچی جس طرح اسکے چہرے کی ہوائیں اوڑیں شاہ کو یقین ہوگیا گارڈ نے سچ بولا تھا۔۔۔


” جواب دو کون تھا وہ۔۔۔؟؟ اور کیوں آیا تھا۔۔۔؟؟ میرا نام لیکر وہ اس گھر میں داخل ہوا۔۔۔ تم ہی نے بولا ہوگا اسے ایسا ہی ہے نا۔۔۔؟؟ جواب دو ورنہ تمہاری گردن اُکھاڑ دونگا۔۔۔“


” وہ۔۔۔ وہ۔۔۔“


اس کی لڑکھڑاہٹ نے شاہ کو شدید طیش دلایا شاہ نے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پے مارا۔۔۔۔


” پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔ روک۔۔۔ جائیں۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ بتا۔۔۔ رہی۔۔۔ ہوں۔۔۔“ وہ کانپتی آواز میں بولی۔۔۔


” صرف سچ سنا ہے مجھے۔۔۔ اور اگر تم نے جھوٹ بولا پھر دیکھنا کیا حال کرتا ہوں تمہارا کیوں کہ سچ تو میں پتا کر وا لونگا “


وہ بیڈ پے بیٹھ گئی اور سر جھکاتے ہوئے بولنے لگی۔۔۔۔


” میں ایک دن کالج سے گھر آئی تو مردان خانے سے آوازیں آرہیں تھیں۔۔۔ باہر تین چار گھاڑیاں دیکھ کر میں تشویش میں مبتلا ہوگئی کے شاید کوئی وڈیرہ آیا ہے میں اندر جانے لگی تھی جب کسی نے مجھے میرے نام سے پکارا۔۔۔ وہ اجنبی تھا میں نے کبھی بھی پہلے اسے نہیں دیکھا۔۔۔ نا ہی وہ کسی آس پاس کے گاؤں سے تھا۔۔۔ اسلیے میں حیران رہ گی اسنے مجھ سے کہا وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ لیکن ابو اور بھائی نہیں مان رہے اور بہت جلد وہ اپنے طریقے سے انہیں منا لے گا۔۔ بھائی کی اس سے لڑائی ہوگئی اور وہ غصّہ سے چلا گیا پھر ایک دن وہ کالج میں مجھ سے ملنے آیا اسکا کہنا تھا میں اس سے شادی کرلوں “

شاہ غصّہ ضبط کیے اسے سن رہا تھا۔۔۔

” پھر کل اس سے ملنے کیوں گئ جب کوئی واسطہ نہیں تھا؟؟ “

وہ سانپ کی طرح پھنکارا وہ لرز گی۔۔۔۔

”ملازمہ۔۔۔ نے۔۔۔ مجھ۔۔۔ سے۔۔۔ کہا۔۔۔ کوئی۔۔۔ امان۔۔۔ شاہ۔۔۔ مجھ۔۔۔ سے ملنے۔۔۔۔آیا۔۔۔ہے “

اس نے دیکھا امان کے نام پے شاہ کی آنکھوں میں ایک عجیب سے چمک آئی۔۔۔ شاہ نے اور جیسے کچھ سنا ہی نا ہو وہ بس امان شاہ کے نام پے اٹک گیا۔۔۔

” تم سے ملنے امان آیا تھا نا۔۔۔؟؟ “ وہ زخمی مسکراہٹ ہونٹوں پے سجا کے بولا۔۔۔

”نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ۔۔۔ سچ۔۔۔ نہیں۔۔۔ مجھ۔۔۔ سے۔۔۔۔ آزار۔۔۔ خان۔۔۔ ملنے۔۔۔ آیا۔۔۔ تھا “

وہ اس پے ایک قہر برساتی نظر ڈال کر صوفہ پے گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔۔۔

شراب کی دوسری بوٹل کھول کر اسے نے منہ سے لگائی وہ پلک جھپکائے بغیر اسے تک رہی تھی۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ کانوں میں ہینڈفری لگائے نور کی موبائل سے سونگز سن رہی تھی۔۔۔ اسکے پاس اپنا فون نہیں تھا ازلان تو اسے لیکر دینا چاہتا تھالیکن نور نے سختی سے منع کردیا۔۔۔

” کیا ہو رہا ہے پرنسیسز؟؟ “

میر نے اسکے ایک کان سے ہینڈفری نکالی اور اسکی پلیٹ سے ایک کباب اٹھا کے کھایا۔۔۔ پھر ٹیبل پے رکھی چائے کا ایک گھونٹ پیا۔۔۔ حیا اسے دیکھ کے مسکرائی اور اپنی پلیٹ آگے کی کے وہ اور لے سکے آگر عمر ہوتا تو وہ مر کے بھی اسے نا دیتی۔۔۔ لیکن میر تو حیا کی جان تھی جیسے میر کی جان حیا ہے۔۔۔۔

” کچھ نہیں بھائی سونگز سن رہی ہوں۔۔۔“ وہ دوسرے کان سے ہنڈسفری ہٹاتے ہوئے بولی۔۔۔

“ آگے کا کیا ارادہ ہے۔۔۔؟؟ “ میر نے اسکی پلیٹ سے ایک اور کباب لیا۔۔۔

“ کیا مطلب بھائی “ وہ انجان بن گئی۔۔۔

“ ریزلٹ آگیا ہے تمہارا اب کس فیلڈ میں جانا ہے؟؟ بتا دو میں فارم لے آونگا“ وہ تحمل سے بولا۔۔۔

بھائی۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ اب۔۔۔ تو۔۔۔ میری۔۔۔ شادی۔۔۔ ہوگی۔۔۔“

میر نا چاہتے ہوے بھی اسکی معصومیت پرمسکرایا۔۔۔ وہ ایسی نہیں تھی کے بنا شرم لحاظ کے اس طرح بول دے۔۔۔ لیکن میر جانتا تھا صرف پڑھائی سے بچنے کے لیے وہ اس طرح کہ رہی ہے۔۔۔

” حیا! میری طرف دیکھو “

” جی بھائی۔۔۔؟؟ “

اسنے ایک پل کے لیے نظریں اوپر کیں میر کی مسکراہٹ سے وہ نظریں واپس سے جھکا گئی۔۔۔۔

” تم اپنے بھائی سے کب سے شرمانے لگ گئیں؟؟“

میر مسکراہٹ دبا کے بولا۔۔۔

” آپ بلکل اچھے بھائی نہیں ہیں “


وہ اسے گھورتی ہوئی بولی میر قہقہہ لگا کے ہنسا۔۔۔


” حیا تم نے اپنی مرضی سے شادی کے لیے ہاں کہا ہے یا دباؤ میں۔۔۔؟؟ “


حیا نہیں جانتی تھی اسکا بھائی اس سے اتنا باخبر لیکن اب وہ اس رشتے کے لیے راضی تھی۔۔۔


” مر۔۔ مرضی۔۔ سے “ وہ ٹوٹے الفاظ میں با مشکل بول پائی میر اسکی شرمیلی مسکراہٹ دیکھ کے کچھ پر سکون ہوا۔۔۔


☆.............☆.............☆

وہ اس کے سامنے ہی صوفہ پے بیٹھا تھا گھونٹ گھونٹ شراب وہ اپنے اندر اتار رہا تھا۔۔۔ آدھی سے زیادہ بوتل وہ خالی کر چکا تھا۔۔۔


شاہ نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا تو وہ خوف زدہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔


” یہاں آؤ “


اس کے حکم نے اسکی جان نکال دی اسنے شدت سے اپنے رب کو پُکارا۔۔۔ کاش کاش ،کچھ ہوجائے اسکی جسم سے اسکی روح نکل جائے۔۔۔ بی بی جان کا بلاوا آجائے یا ہنی ہی اسے پُکارتا آجائے۔۔۔ وہ اسے ہی اپنے لہو رنگ آنکھوں سے گھور رہا تھا۔۔۔ وہ مزید دیر کیے بغیر دھیرے دھیرے لڑکھڑاتے قدموں سے اسکے پاس آئی۔۔۔


شاہ نے ہاتھ پکڑ کے اسے صوفہ پے پٹکا کافی دیر سناٹا رہا۔۔۔ کمرے میں وحشت ناک خاموشی تھی۔۔۔ اسے اپنی سانسیں بھی صاف سنائی دے رہیں تھیں۔۔۔ اسنے دیکھا شاہ کسی سوچ میں گم تھا آنکھیں لال انگارا ہو رہی تھیں۔۔۔ اسےُ دیکھ اسے اپنی سانسیں بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔ کچھ دیر بعد بھاری مردانہ آواز اِس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔


” میں نے اپنے سارے عزیز رشتے کھودئیے۔۔۔ صرف انتقام کی آگ میں۔۔ ماں۔۔ باپ۔۔ بھائی۔۔ اور۔۔۔“ شاہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور بےبسی سے مسکرایا۔۔۔


” اپنی محبت جو شاید کبھی میری تھی ہی نہیں۔۔۔“


اسنے کرب سے اپنی آنکھیں بند کر لیں


” محبت میں نے کی تھی تم کس محبت کی بات کر رہے ہو۔۔۔؟؟؟ “ وہ سوچ کے رہ گی کہنے کی ہمت ہی کہاں تھی اس میں۔۔۔ وہ بول رہا تھا۔۔


”عمر۔۔۔ ص۔۔۔ صرف۔۔۔ چار۔۔ س۔۔ سال۔۔ کا

۔۔تھا۔۔۔“ اسنے اپنی انگلیوں سے آنکھوں کو مسلا وہ تھکا تھکا سا لگ رہا تھا اب وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ کے بول رہا تھا۔۔۔


”اپنے۔۔۔ ان۔۔۔ہی۔۔۔ ہاتھوں۔۔۔ سے۔۔۔ بڑا۔۔۔ کیا۔۔۔ تھا۔۔۔ میں۔۔۔ نے۔۔۔ اسے وہ بہت۔۔۔ کمزور۔۔۔ تھا۔۔۔ پریمچور۔۔۔ڈیلیوری۔۔۔ سے۔۔۔ ہوا۔۔۔ تھا۔۔ شاید۔۔۔ اسلیے۔۔۔ ہنی۔۔۔ سے۔۔۔ زیادہ۔۔۔ میری۔۔۔ توجہ۔۔۔ کا۔۔۔ مرکز۔۔ وہ۔۔۔رہا۔۔۔ ہے۔۔۔“


” اکثر۔۔۔ اسکی۔۔۔ چھاتی۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ درد۔۔۔ رہتا۔۔ وہ۔۔۔ راتوں۔۔۔ کو اٹھ۔۔۔ کے۔۔۔ رونے۔۔۔ لگتا،گہرے۔۔۔ گہرے۔۔۔ سانس۔۔۔ لینے۔۔۔ کی کوشش کرتا۔۔۔ ایک۔۔۔ دن۔۔۔ اسکی۔۔۔ حالت۔۔۔ حد۔۔۔ سے۔۔۔ زیادہ خراب۔۔۔ ہوگئی “


اسنے شراب کی بوٹل اٹھائی۔۔۔ بچی ہوئی شراب پی کے بوٹل کو زور سے ٹیبل پے پٹکا وہ بھیگی آنکھوں سے اسکے بولنے کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ وہ سب جاننا چاہتی تھی کے کیوں وہ اسکے بھائی پے شک کرتا ہے۔۔۔


” ہسپتال پہنچنا اُس وقت مجھے دنیا کا سب سے مشکل ترین کام لگا۔۔۔ اور وہاں جا کر جو مجھے پتا لگا۔۔۔ میری درد میں اضافہ کرنے کے لیے کافی تھا۔۔۔ عمر کو استھما تھا۔۔۔ میں نے اسے کبھی اکیلا نہیں رہنے دیا۔۔۔ گارڈ یا میڈ ہر وقت اسکے ساتھ رہتے۔۔۔ مجھے ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا اگر اسے اٹیک ہوگیا۔۔۔ اور ہم اسکا پاس نا ہوۓ تو یہ سوچ کے ہی میری روح کانپ اٹھتی تھی۔۔۔ میں نے اسے ہر طرح سے تیار کیا تھا وہ نڈر تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا وہ بیمار ہے۔۔۔ اور اٹیک ہونے کی صورت میں اسے کیا کرنا ہے“


شاہ نے صوفہ کی پشت سے سر ٹیکا کے آنکھیں موند لیں۔۔ وہ بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔


” آگر مجھے معلوم ہوتا وہ کبھی وآپس نہیں آئینگے میں انہیں جانے ہی نہ دیتا اس۔۔۔ دن۔۔۔ ماہا کو دو گولیاں سینے پے ماریں گئیں تھیں جب کے عمر۔۔۔ میرے۔۔۔ آہ۔۔۔ میرے۔۔۔ عمر۔۔۔ کو۔۔۔ تین گولیاں۔۔۔ ماری۔۔۔ گئیں۔۔۔ تھیں “


وہ خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں مکمل سرخ ہوچکا تھا۔۔۔ وہ آپنے آنسوں ضبط کر رہا تھا۔۔۔ جو روکنے کے باوجود گالوں پے پھسل گئے۔۔۔


” اس معصوم کو بہت تڑپایا ظالموں نے گولیاں مارنے کے باوجود جب اسکی سانسیں بند نا ہوئیں تو اسے تڑپا تڑپا کے مارا آخری وقت تھا وہ انہیلر کے لیے روتا رہا لیکن۔۔۔“


وہ روکا، شاہ کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹپکا جو اسکی داڑھی کے بال میں جذب ہوگیا۔۔۔ اسکی ناک سرخ ہو رہی تھی۔۔۔ وہ رو رہا تھا آنسوں روانی سے اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔۔۔ بار بار وہ اپنی آنکھوں کو صاف کرتا لیکن آنسوں تھے کے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔


”دو۔۔۔ گولیاں۔۔۔ ٹانگ۔۔۔ پے۔۔۔ لگیں۔۔۔ تھیں۔۔۔ اور۔۔۔ ایک۔۔۔ پیٹ۔۔۔ میں وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ رویا۔۔۔ ہوگا، درد۔۔۔ سے۔۔۔ بلبلایا۔۔۔ ہوگا، اسنے۔۔۔ اپنی۔۔۔ ماں کو۔۔۔ پُکارا۔۔۔ ہوگا۔۔۔ لیکن۔۔۔ وہ۔۔۔ تو۔۔۔

پہلے۔۔۔ ہی۔۔۔ مرچکی۔۔۔ تھی۔۔۔ اسے۔۔۔ تنہا چھوڑ۔۔۔ کے۔۔۔ اسنے۔۔۔ مجھے۔۔۔ پُکارا ہوگا۔۔۔ آ۔۔۔ میرا۔۔۔ عمر۔۔۔ ایک ظالم سے ظالم انسان کو بھی رحم آتا ہے۔۔۔ جانور کے اندر بھی ایک نرم گوشہ ہوتا ہے۔۔۔ لیکن تمہارا بھائی اسے ذرا سا بھی رحم نہیں آیا وہ میرا معصوم بچا تھا۔۔۔“


وہ چیخا اور شراب کی بوتل پوری قوت سے دیوار پے مار دی۔۔۔ اسکے جسم میں کپکپاہٹ طاری ہونے لگی وہ ایک دم سے اس سے دور ہوئی۔۔۔


” رحم نہیں آیا تمہارے بھائی کو غلطی میری تھی سزا مجھے دیتے۔۔۔ اپنی بےعزتی کا بدلہ اس معصوم سے کیوں لیا۔۔۔ جو تمہیں جانتا بھی نہیں تھا۔۔۔ روح نہیں کانپی اسکی۔۔۔ تب خدا کا خوف نہیں آیا اسے “


” اپنے بھائی کی لاڈلی ہو نا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کے تم نا جانتی ہو۔۔۔؟؟ آخر کار بابا نے مجھ سے تمہاری بےعزتی کا بدلہ لیا۔۔۔ پھر تم تو انکے ہر منصوبے میں شامل ہوگی یہ بھی جانتی ہوگی کے وہ کہاں ہے۔۔۔؟؟ “


وہ اسے جھنجھوڑتے ہوئے غیض و غضب کی انتہا پے نظر آ رہا تھا۔۔۔


” بلیوی می۔۔۔! میں۔۔۔ کچھ۔۔۔ نہیں۔۔۔ جانتی“ اسنے باقاعدہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔۔


شاہ نے غصّے میں کتنے ہی تھپڑ اسکے منہ پے مارے۔۔۔ اسکی ناک اور ہونٹوں سے خون بہنے لگا اور وہ خود کو سنبھالتی نیچے گر گئی۔۔۔۔

” آج مجھے احساس ہو رہا ہے۔۔۔! ماہا صحیح کہتی تھی تمہارے بارے میں۔۔۔ بدکردار ہو تم۔۔۔ آج میں اعراف کرتا ہوں وہی میری سچی محبت تھی۔۔۔ میری نسل کی امین اسنے اپنی زندگی میں صرف مجھ سے محبت کی۔۔۔ اپنے محرم سے وہ جیسی بھی تھی تمہاری طرح نیچ اور گری ہوئی نہیں تھی“

شاہ کی آنکھوں سے جیسے خون ٹپک رہا تھا وہ بھی اسکی آنکھوں میں دیکھ کے بولی۔۔۔

” ماہا تھی جھوٹی دھوکے باز دوسروں کی زندگیوں سے کھلنے والی۔۔۔“

شاہ شوکڈ ہوا غصہ سے دماغ پھٹنے لگا وہ وارڈروب کی طرف گیا اور بیلٹ نکال کر اسکے پاس آیا۔۔۔ وہ بے یقینی سے شاہ کو دیکھنے لگی کیا۔۔۔ وہ اتنا گِر گیا وہ بھول گیا اسنے جس پے ظلم کی انتہا کر دی وہ کون ہے۔۔۔؟؟


کیا یہی پرورش دی تھی مما نے اسے۔۔۔؟؟ کاش آج وہ اپنے بیٹے کو دیکھ لیتی جو اس قدر گِر گیا کے عورت پے ہاتھ اٹھانے لگا۔۔۔ وہ بھی وہ عورت جس سے وہ محبت کا دعویدار تھا۔۔۔ آج اسے پوری دنیا جھوٹی لگی ہر وہ شخص جھوٹا لگا جو کہتا تھا شاہ اس سے بےپناہ محبت کرتا ہے۔۔۔


وہ اسکی طرف بڑھ رہا تھا اور وہ پیچھے کھسک رہی تھی۔۔۔ کچھ دیر بعد کمرے میں درد ناک چیخیں گونجی وہ بنا روکے بیدردی سے اسے مار رہا تھا۔۔۔ اسکی سفید کمیز پے جگہ جگہ خون کے نشان تھے۔۔۔۔


” امی “


اسکے ہونٹوں نے بے آواز جنبش کی اور یہاں آکر وہ کمزور پڑ گیا وہ بنا سنے بھی جان چکا تھا۔۔۔ بیلٹ اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا بہت پہلے کا منظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔ ایک عورت نے اپنی دو دن کی بچی ایک پندرہ سالا بچے کے ہاتھ میں دی تھی۔۔۔ اسکا دم گھٹ رہا تھا شاہ بنا ایک غلط نظر اس پے ڈالے روم سے نکلتا چلا گیا۔۔۔


کبھی درد ہے تو دوا نہیں، جو دوا ملی تو شفاء نہیں!!!

وہ ظلم کرتے ہیں اس طرح، جیسے میرا کوئی خدا نہیں


☆.............☆.............☆


شام میں عائشہ جب نور کے پورشن میں آئی تو نور نے اسے حیا کی رضامندی کا بتایا۔۔۔

عائشہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے فوراً ہی نکاح کی ڈیٹ فکس کر دی عائشہ کا کہنا تھا کے شاہ زر جلد سے جلد نکاح کرنا چاہتا ہے۔۔۔ تبھی شاہ میر نے ایک دفع پھر حیا سے کنفرم کرنا بہتر سمجھا کے وہ اس رشتے سے خوش ہے یا نہیں۔۔۔ اور حیا کے چہرے پے میر کو جو نظر آیا اسکے بعد سے وہ کافی مطمئن ہوگیا اور نور کو بھی تسلی دیتا رہا۔۔۔

” السلام عليكم ممی! “

” وعلیکم السلام، کیسی ہو میری جان۔۔۔؟؟ “

عائشہ کا وہی ممتا بھرا لہجہ اسکی اذیتوں میں مزید اضافہ کر گیا۔۔۔


” ٹھیک ہوں ممی آپ بتائیں گھر میں سب کیسے ہیں؟ “


عنایا نے ایک نظر اپنے جلے ہاتھ کو دیکھا اور آنکھیں زور سے میچ لیں۔۔۔


” الحمدللہ بیٹا! تمہیں ایک خوشخبری سنانی ہے حیا اور شاہ زر کا نکاح طے ہوگیا۔ “


” سچ ممی؟؟؟ “ اسکی خوشی کی انتہا نہیں تھی اسکا بس چلتا ابھی اپنے بھائی کے پاس پہنچ جاتی۔۔۔۔


” ہاں اسلیے آج تیار رہنا عمر تمہیں لینے آئے گا اب ایک ہفتہ یہیں رہنا “


” نہیں ممی ایک ہفتہ تو بلکل نہیں عارف آگئے ہیں اور آپ جانتی ہیں وہ اجازت نہیں دیں گے اتنی مشکل سے انہیں چھٹی ملتی ہے “


” اچھا چلو دو دن تو رہ سکتی ہو میں خود عارف سے بات کرلونگی تم آجاؤ مجھے حیا کے لیے شاپنگ بھی کرنی ہے اور تمہارے بغیر وہ ممکن نہیں “


” نہیں ممی میں خود بات کرلونگی آپ پریشان نا ہوں میں پوری کوشش کرونگی آنے کی “


“ چلو صیح ہے لیکن کل تمہیں آنا ہی ہے میں عمر کو بھیج دونگی پھر ایک دن رہ کر کل چلی جانا؟؟ “


” جی ٹھیک ممی “ کچھ دیر تک دونوں باتیں کرتی رہیں پھر عنایا اٹھ کے کچن میں چلی آئی جہاں ڈھیر سارے برتن اسکا انتظار کر رہے تھے۔۔۔


☆.............☆.............☆


شاہ کے جانے کے بعد اماں آئیں اور اسکی حالت دیکھ اماں کو شاہ پے بے تحاشا غصّہ آیا۔۔۔ جس نے اسے لاوارث سمجھ رکھا تھا۔۔۔ اماں نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پلتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ اور اسکی ایسے حالت تو وہ خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتیں۔۔۔ انہیں اس پے ترس آیا چھوٹی عمر میں کیا کیا سہا ہے بچی نے۔۔۔ کتنی ہی دیر وہ انکی گود میں سر رکے روتی رہی۔۔۔


اماں اسے ساتھ لگائے دلا سے دیتی رہیں ساتھ ساتھ اسکی جسم سے زخم صاف کر کے دوائی لگائی پھر دودھ کے ساتھ نیند کی گولی دیکر سلایا۔۔۔ ہنی جب ملنے آیا اماں نے کہہ دیا وہ سو رہی ہے اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہنی خاموشی سے واپس لوٹ گیا۔۔۔


وہ اماں کو ہدایت دے کر نکلا تھا کے اسے ہوش میں لائے اور بی بی جان تک خبر نا پہنچے۔۔۔۔ رات جب شاہ کمرے میں آیا وہ گہری نیند سو رہی تھی۔۔۔


جگہ جگہ زخم کے نشان تھے۔۔۔ وہ اس کے پاس بیٹھ گیا اسے دیکھتا رہا۔۔۔ ناجانے کیوں اب اسے دیکھ کے اسکے دل میں کوئی جذبہ بیدار نا ہوتا۔۔۔


شاید نفرت نے اسے ہر جذبے سے عاری کر دیا ہے وہ اُسے دیکھتا رہتا اگر کال کی آواز سے وہ ہوش میں نا آتا۔۔۔۔


شاہ نے کال اٹینڈ کی دوسری جانب اِس کا خاص آدمی تھا۔۔۔


” شاہ صاحب “


” امان شاہ کا پتا چل گیا “


یہ وہ خبر تھی جس کا اس نے بے چینی سے انتظار کیا تھا۔۔۔


” وہ بھاگنا نہیں چائیے ورنہ تم سب کو شوٹ کر دونگا۔۔۔ اسے ٹریپ کرو مجھے وہ چاہئیے اور زندہ چاہئیے وہ مجھے سمجھے؟؟ “


” جی جی شاہ صاحب “


فون کٹ گیا غصہ سے اس کا چہرا سرخ ہوگیا اچانک اِس سوئے وجود پے نظر پڑتے ہی امان شاہ کا چہرا اِس کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔۔۔ نفرت کی لہر اِس کے پورے وجود میں دوڑنےلگی۔۔۔۔


شاہ نے سختی سے اس کا بازو دبوچ کر اُسے اٹھایا۔۔۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی نیند کے خمار سے سرخ آنکھیں کھولیں تو نظر شاہ پے گئی جس کی آنکھوں میں اِس کے لیے نفرت تھی بے تحاشا نفرت۔۔۔۔۔


” پلیز مجھے چھوڑیں میں مر جاؤنگی “


شاہ نے بازو اسکے گرد لپیٹ کر اسے اپنے گھیرے میں لے لیا۔۔۔ وہ اسکی گرفت میں مچلنے لگی۔۔۔


شرم اور ڈر سے اسکی حالت بُری ہو رہی تھی۔۔۔


” پلیز چھوڑ دیں “


شاہ نے اسکے گرد اپنی گرفت مزید سخت کر لی وہ جتنی اسے التجا کرتی۔۔۔ وہ اتنا وحشی بن جاتا شاہ کی آنکھوں میں اسے جو نظر آیا اس نے اس کے پورے جسم میں سنسنی پیدا کردی۔۔۔


” اتنی جلدی کیسے۔۔۔؟؟ اپنی نفرت کا اظہار تو کرنے دو۔۔۔ آج اِس نفرت کی آگ میں تمہیں بھی جلا دونگا “


خوف اِس قدر تھا کے آج تو اسے رونا بھی نہیں آ رہا تھا۔۔۔ آج اسے بی بی جان کے سارے الفاظ جھوٹے لگے۔۔۔


” شاہ کی محبت کے “


یاد رہی تو صرف نفرت جو شاہ کو اِس سے تھی۔۔۔ اور اِس کے بھائی سے اور وہ اسے نفرت کی آگ میں جلا کر خود پر سکون نیند سو گیا۔۔۔


مجھے رلا کر سونا تیری عادت بن گی ہے

جس دن میری آنکھیں نہیں کھلے گی تجھے نیند سے نفرت ہو جائے گی!


☆.............☆.............☆


” شاہ زَر “


” آئیں ممی باہر کیوں کھڑی ہیں “


” پہلے یہ آفس کا کام بند کرو باپ بیٹے ایک سے بڑھ کے ہیں سکون ہی نہیں زندگی میں،پتا نہیں کیا ہوگا بیچاری حیا کا؟؟ “


” کچھ نہیں ہوگا ممی، اسکی ہمت ہے کے سوال کرے؟؟ الفاظ تو مکمل اس سے ہوتے نہیں۔۔۔ سوال کیا کریگی؟؟ “ شاہ زَر مسکرایا۔۔۔


” اِس کا مطلب حیا نے صیح کہا تھا۔۔۔“ عائشہ اسے افسوس سے دیکھنے لگیں۔۔۔

حیا کہ بھی رہی تھی شاہ زر اسے ڈراتا دھمکاتا ہے عائشہ کو لگا تھا وہ بہانہ بنا رہی ہے۔۔۔

” کیا کہ رہی تھی “ وہ انجان بن گیا۔۔

” شاہ زر معصوم ہے وہ، کیوں تنگ کرتے ہو اسے “

” بس ممی سب نے اسکو سر پے چڑھا رکھا ہے بالکل بچی بنا دیا ہے “

” وہ بچی ہی ہے ابھی تمہیں ہی شادی کی جلدی ہے ورنہ میں نے نور سے انگیجمنٹ کا کہا تھا “

” ممی پہلے آپ پیچھے پڑیں تھیں میرے شادی کے اب جب کر رہا ہوں تو آپ کو جلدی لگ رہا ہے، ویسے بھی ممی اور دیر کی تو اپنے ہی بچے پاپا کی جگہ دادا کہہ کر پُکاریں گے “


سوچ کے خود ہی ہونٹوں پر مدھم مسکراہٹ آکر غائب ہوگئی۔۔۔


” ایسا کچھ نہیں ہوگا اتنا پیارا بیٹا ہے میرا اب بھی اپنے عمر سے چھ سال کم ہی لگتے ہو “


” استغفار ممی یہ جھوٹ عورتوں کے لیے ہیں ہم مرد اپنے ریئل ایج میں ہی خُوش ہیں “


” چُپ رہو میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے، جانتے ہو شاہ زرحیا جب پیدا ہوئی تھی تب سے میرے خواہش تھی وہ میری بہو بنے “


” پھر مبارک ہو خواہش پوری ہونے والی ہے “


شاہ زر مسلسل کی بورڈ پے ٹائپنگ کر رہا تھا۔۔۔


” ہاں حیا نے ہاں کر دی “ عائشہ نے کہا۔۔۔


” شاہ زَر تم نے کچھ کیا تو نہیں پہلے تو وہ نہیں مان رہیتھی “

” ممی چچی نے سمجھایا ہوگا “ وہ صاف مُکر گیا۔۔۔

” ہاں اس چچی کا نام شاہ زَر ہوگا “

” ہو سکتا ہے۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔“

” شاہ زَر سدھر جاؤ۔۔۔کیا کہا تم نے حیا سے؟؟ “

” یہی کے شادی کرلو ورنہ شوٹ کردوں گا “

” شاہ زَر “ عائشہ غصے سے بولی۔۔۔

” سوری ممی آپ بہو کی تیاری کریں باقی سب مجھ پے چھوڑ دیں “

” آپی کیسے ہیں “ وہ یکدم سنجیدہ ہوگیا۔۔۔

” بہت خُوش عارف نے نیا گھر لیا ہے اس کے لیے“


یہ خبر سن کر کی بورڈ پر چلتے اسکے ہاتھ رُک گئے۔۔۔


” گریٹ ممی۔۔۔ آپی خُوش ہوں گی “


” ہاں “


شاہ زر نے عائشہ کے چہرے پے خوشی دیکھی تو دل کو جیسے سکون میسر ہوا۔۔۔


عائشہ شاہ زَر کو کافی دے کر سونے چلی گئیں۔۔۔


☆.............☆.............☆

میر عجلت میں روم کا دروازہ کھول کے اسٹڈی ٹیبل کے قریب آیا اور پیپرز ادھر ادھر پٹکتے ہوے فائل ڈھونڈنے لگ گیا۔۔۔

” کیا ہوا میر “

” یار وہ ایک فائل تھی مل نہیں رہی۔۔۔ ابھی آدھے گھنٹے بعد میٹنگ ہے پتا نہیں کہاں رکھ دی۔۔۔“ وہ بِنا دیکھے اسے جواب دے رہا تھا ایک ایک فائل کو چیک کرتا وہ سائیڈ پے پٹک رہا تھا۔۔۔

” میر ذرا ادھر تو دیکھیں نا سلام نا دعا۔۔۔“ وہ اسکی بات کاٹ کر بولا۔۔۔

” جان! اب آپ سے۔۔۔ “


وہ پلٹا اور اس کے الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے۔۔۔


” السلام عليكم “ عنایہ نے سلام میں پہل کی۔۔۔


” وعلیکم السلام “ میر نے مسکرا کر جواب دیا

ثانیہ انہیں چھوڑ کر سائیڈ ڈرور دیکھنے لگی۔۔۔


” احمد کہاں ہے؟؟ “ میر نے اسکے دو سال کے بیٹے کے بارے میں پوچھا۔۔۔


” وہ ممی کے پاس ہے “


” تو اسے اوپر لیکر آتی چلو میں لے آتا ہوں “


وہ جانے لگا کے عنایا بول پڑی۔۔۔


” نہیں میر وہ بہت مشکل سے سویا ہے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں “


” کیوں کیا ہوا اسے۔۔۔؟؟ ڈاکٹر کو دکھایا۔۔۔؟؟ “ وہ فکر مند ہوا احمد ہی گھر میں سب سے چھوٹا تھا جب آتا سب کو اپنے آگے پیچھے گھوماتا۔۔۔

” جی اب بہتر ہے “

میر کا دل کٹ کہ رہ گیا وہ جو ہمیشہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کے بات کرتی۔۔۔ اپنی ہر خواہش اس سے پوری کرواتی۔۔۔ بنا اجازت لیے اسکا والٹ لے جاتی۔۔۔ آج مجرموں کی طرح اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔۔

” میر آپ کی فائل “

ثانیہ نے سامنے آکر اسے فائل دی۔۔۔ اسکی مسکراہٹ دیکھ کر میر بھی مسکرایا۔۔۔

“ ہائے! تمہارے بنا میرا کیا ہوگا “


الفاظ بولنے کہ بعد اسے احساس ہوا کے عنایہ بھی روم میں ہے۔۔۔


وہ جلدی سے انہیں اللہ‎ حافظ کہتا روم سے نکل گیا۔۔۔


” عنایہ تم بیٹھو آج میں نے چیز برگر بنایا ہے میں لیکر آتی ہوں بہت ٹیسٹی ہے “


” پھر چلو میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتی ہوں “


عنایہ شاہ زر کی اکلوتی بڑی بہن ہے۔۔۔ اسے جب حیا اور شاہ زر کے رشتے کا پتا چلا وہ فوراً ہی انہیں مبارکباد دینے چلی آئی۔۔۔

ثانیہ اور عنایہ کی آپس میں خوب بنتی تھی۔۔۔ ثانیہ کا مزاج ہی ایسا تھا کے وہ ہر کسی کا دل جیت لیتی تھی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

صبح وہ ٹوٹے جسم کے ساتھ اٹھی نظر ساتھ سوئے شاہ پے گئ۔۔۔ نفرت سے وہ رخ موڑ گئی جسم میں ہر جگہ نشان تھے۔۔۔ درد سے اسکا جسم ٹوٹ رہا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی شاہ اس قدر وحشی بن جائے گا۔۔۔ انتقام کی آگ اسے کہاں لے جا رہی ہے۔۔۔ اسے اندازہ نہیں ایک وقت آئے گا جب تم ترسو گئے ہر رشتے کے لیے لیکن کوئی تمہارے پاس نا ہوگا۔۔۔ وہ بیڈ سے اٹھی اور نماز ادا کی دعا مانگتے ہوئے اس کے آنسوؤں ایک لمحے کے لیے نا رکے۔۔۔


” یا اللہ مجھے موت دے دے۔۔۔ کوئی مجھ سے محبت نہیں کرتا۔۔۔ میرا ہر رشتہ مجھ سے منہ موڑ گیا۔۔۔ صرف اس ایک رشتے کی وجہ سے۔۔ جس سے میں نے خود دن رات رو رو کر مانگا۔۔۔“


وہ گھٹنوں میں سر رکھے سسکنے لگی اس پے ایسا وقت آگیا ہے کے وہ چاکر بھی کچھ نہیں کر سکتی نا جی سکتی ہے نا مر سکتی ہے۔۔۔


” یا اللہ کیا میرے مما بابا کو میں یاد نہیں آتی؟؟


بابا جو مجھے دیکھے بنا نہیں رہتے۔۔۔ وہ کیسے مجھے بھول گئے۔۔ ایک دفع بھی مجھ سے ملنے نہیں آئے۔۔۔ الٹا مجھے دھوکہ دے کر یہاں بھیج دیا۔۔۔ اور میری ماں ان کو بھی رحم نا آیا۔۔۔ بیٹے کے لیے بیٹی قربان کر دی۔۔۔ اور یہ شخص جس کا میں نے انتظار کیا اسنے میری کیا حالت کر دی یا اللہ میں نہیں رہ پاؤنگی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔۔ مجھے موت کیوں نہیں آجاتی۔۔۔ کوئی بھی نہیں جسے میری ضرورت ہو جو مجھے پیار کرے شاہ کہتا ہے۔۔۔ میں عذاب ہوں میں اسکی زندگی میں نا آتی تو سب ٹھیک ہوتا۔۔۔ کیا واقعی سب میرے وجہ سے ہوا ہے۔۔۔؟؟ پِھر وہ مجھے مار کیوں نہیں دیتا کیوں تڑپاتا ہے آخر کیوں؟؟؟


میرے سامنے ہر وقت وہ ماہا کا ذکر کرتا ہے۔۔۔ کاش کاش میں ماہا ہوتی۔۔۔ وہ اس دنیا کی خوش نصیب عورتوں میں سے ایک ہے۔۔۔ جس کے پاس شوہر کی بے پناہ محبت ہے۔۔۔ جو دیوانگی کی حد تک اسکے لیے پاگل ہے۔۔۔“ وہ روتی ہوئے دُنیا سے غافل اپنے رب سے شکایات کر رہی تھی وہ تو ہر انسان کی سنتا ہے کیسے ہو سکتا ہے اپنے بندوں کی مرادیں پوری نا کرے۔۔۔

وہ نماز ادا کر کے فریش ہو کے بی بی جان کے روم میں چلی آئی۔۔۔ انہیں سوتا پاکر وہ کچن میں آگئی اسے سخت پیاس لگی تھی۔۔۔ کل جتنا وہ چیخی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کے گلے میں خراشیں پڑگئیں چیخنے سے۔۔۔ اسکا گلا بلکل خشک ہو چکا تھا۔۔۔ پانی پی کر اسنے بے دھیانی میں گلاس رکھا جو سلیپ ہو کے نیچے گر گیا چھن کی آواز سے فرش پے کانچ کے ٹکڑے بیکھر گئے۔۔۔

وہ انھیں اٹھانے لگی کے ایک ٹکڑا اسکے ہاتھ میں چُبا جہاں سے خون بہہ نکلا ناجانے کیا ہوا اسنے کانچ کا ایک بڑا سا ٹکڑا اٹھایا۔۔۔

( تم عذاب ہو سب کی زندگی میں تم نا ہوتیں تو میرا بیٹا میرے پاس ہوتا میری بیوی زندہ ہوتی )


اسے شاہ کے الفاظ یاد آئے سچ ہی تو کہ رہا تھا وہ۔۔۔ کانچ کا وہ ٹکڑا اس نے اپنی کلائی پے رکھا اور آنکھیں موندے اپنی نس کاٹنے لگی تھی لیکن اُسی وقت ہنی آگیا۔۔۔


” پری یہ کیا کر رہی ہیں “ وہ دوڑتا ہوا آیا اور اس کا ہاتھ جھٹکا کانچ کا وہ ٹکڑا زمین بوس ہوگیا۔۔۔ ہنی ملازمہ کو آواز دینے لگا ملازمہ کے آتے ہی اسے کچن صاف کرنے کا کہ کر وہ پری کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ روم میں لے آیا۔۔۔


جگ سے گلاس میں پانی انڈھیل کے جب ہنی اسے دینے لگا تو وہ رونے لگی۔۔۔


” کیوں ہنی۔۔۔؟؟ تم کیوں آئے۔۔۔؟؟ کیوں بچایا مجھے۔۔۔؟؟ کسی کو بھی میری ضرورت نہیں سب نفرت کرتے ہیں مجھ سے میں عذاب ہوں سب کے لیے تمہیں بھی میری وجہ سے کچھ ہو نا جائے“


پہلے تو وہ اسکی بات سن کے حیران ہوا پھر اِس کی گود میں سر رکھے ہچکیوں سے رونے لگا۔۔۔


” آپ۔۔۔ آپ بہت بری ہیں۔۔۔ آج میں نا آتا تو سب ختم ہوجاتا۔۔۔ آگر آپکو کچھ ہوجاتا تو میں خود کو بھی مار دیتا۔۔۔ آپکو میرا احساس نہیں میرا بھائی چلا گیا۔۔۔ میرے بابا مجھ سے دور ہوگئے لیکن آپ۔۔۔ آپ نے میرا نہیں سوچا۔۔۔ آپ کو تو بچپن سے محبت ملی۔۔۔ مجھے تو مما نے بھی کبھی پیار نہیں کیا۔۔۔ بس ایک بابا تھے وہ بھی بھائی کے جانے کے بعد مجھ سے دور ہوگئے۔۔۔ کسی نے میرے بارے میں نہیں سوچا۔۔۔ میں دن رات خوف میں مرتا ہوں۔۔۔ عمر کے جانے کے بعد مجھے اکیلے روم میں ڈر لگتا ہے۔۔۔ لیکن بابا کو کبھی احساس نا ہوا میں دن بھر گھر میں بھوکا رہتا۔۔۔ اور آپ کو پتا ہے یہاں جو پہلے میڈ تھیں انہوں نے مجھے بہت بار مارا۔۔۔


جب جب میں بابا کو بتانے جاتا وہ ہمیشہ بزی رہتے اگر اس دن میں رویا نا ہوتا تو وہ کبھی بھی مجھے آپ کے پاس نہیں چھوڑتے۔۔۔ انہیں بس عمر کی فکر تھی میری نہیں پتا ہے۔۔ پری میں روز اللہ‎ سے دعا کرتا تھا۔۔۔ ماہا نور مما کو دوسروں کی مما جیسا بنا دیں۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بی بی جان کو جب میں نے بتایا تو انہوں نے کہا اللہ آگر آپ کو نا دے جو آپ نے مانگا ہو تو وہ آپ کو اس سے بہتر سے نوازتا ہے۔۔۔ اور پھر اللہ‎ نے آپ کو بھیج دیا‎ پری جب آپ آئیں تو مجھے لگا مجھے سب کچھ مل گیا۔۔۔ آپ جیسا پیار کبھی مما نے بھی نہیں کیا۔۔۔ میں جب اسکول سے آتا ہوں۔۔۔ تو یہ سوچ ہی میرے لیے خوشی کا باعس ہوتی ہے کے آپ میرا انتظار کر رہی ہونگی۔۔۔ مجھے رات کو ڈر نہیں لگتا کیوں کے میں جانتا ہوں کے جب تک سو نا جاؤں آپ مجھے چھوڑ کے نہیں جائیں گی۔۔۔


آپ کہتی ہیں کسی کو بھی آپکی ضرورت نہیں کوئی پیار نہیں کرتا مجھ سے پوچھیں آپ میرے لیے کیا ہیں۔۔۔ چاہے کوئی کچھ بھی کہے میری مما آپ ہیں آپ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔۔ نا ہی ماہنور مما۔۔۔ پری آپ نے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا۔۔۔ اگر آپکو کچھ ہوجاتا تو میں کیا کرتا پِھر سے مرجاتا۔۔۔ اور پھر دوبارہ کوئی پری نا آتی۔۔۔ میں اللہ سے آپ کے لیے دعا کرتا ہوں کے بابا آپ سے محبت کریں۔۔۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو۔۔۔ آپ آپ عذاب نہیں اللہ کا تحفہ ہیں میرے لیے۔۔۔ کوئی آپکی قدر کرے نا کرے میرے لیے آپ میری دُنیا ہیں“


اس کے آنسو تھم گئے وہ حیرانگی سے اپنی گود میں سر رکھے ہنی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ معصوم بچہ اسے بھی تو محبت کی ضرورت ہے۔۔۔ وہ اتنی خودغرض کیسے ہوگئی۔۔۔ ہنی کا کیوں نہیں سوچا وہ تو اِس کے بغیر ایک پل نہیں رہتا۔۔۔ اور آج ہنی کا انکشاف اسے لگا واقعی اِس کے صبر کا پھل ملا ہے۔۔۔


” ہنی میری جان آئی ایم سوری۔۔۔ مما کو معاف کردو۔۔۔ مجھے پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا۔۔۔“ ہنی اٹھا اور اِس کا زخم صاف کرنے لگا انگلی پے ہلکا سا کٹ آیا تھا وہ مسکراتے ہوے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ایک عجیب سے خوشی ملی تھی آج اسے۔۔۔


” مما سے ناراض ہو؟؟ “


” نہیں ہونا چاہیے؟؟ “


” سوری “ وہ کان پکڑ کے بولی ہنی مسکراہٹ روک کے بولا۔۔۔


” کیا یاد کرینگی معاف کیا “


” ہنی تم مجھے مما کہا کرو “


اسنے اپنی خوائش ظاہر کی۔۔۔


” اوکے “


وہ خوش دلی سے مسکرایا۔۔۔


” مما پیٹ میں چوہے کود رہے ہیں ناشتہ ملے گا۔۔۔؟؟ لیکن آپ نہیں بنائینگی میں ملازمہ سے کہہ دیتا ہوں “


ہنی کو اچانک وہ حرکت یاد آگی اسلیے ابھی وہ اسے کچن میں بھیجنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔


” نہیں میں لے کر آتی ہوں تم بیٹھو آج حلوہ پوری کھاتے ہیں میرا فیوریٹ “


” او کے پِھر میں مانگواتا ہوں آپ بیٹھیں “


” میں بنا دیتی ہوں ہنی “


” نہیں آج آپ میری سنیں گی “


وہ ضد کرنے لگا۔۔۔

” او کے “ اسنے ہار مان لی۔۔۔

ہنی نے ایک گارڈ سے حلوہ پوری منگوائی۔۔۔ دونوں نے مزے سے ناشتا کیا۔۔۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ہنی تو سونے چلا گیا۔۔۔ وہ کچن میں چلی آئی جہاں اسنے شاہ کا ناشتہ تیار کیا اور ملازمہ کے ہاتھ بھجوا دیا۔۔۔ اس میں ہمت نہیں رہی کے وہ اس شخص کے سامنے جائے۔۔۔

پھر وہ کچن میں چلی آئی بی بی جان کا ناشتہ بنا کر ان ہے کے پاس آگئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

مہندی لگا کے رکھنا


ڈھولی سجا کے رکھنا


لینے تجھے اوہ گوری


آینگئے تیرے سجنا


عمر حیا کو دیکھتے ہی شروع ہوگیا۔۔۔ جو اپنا چھوٹا سا پرس لیے لاؤنچ میں داخل ہوئی۔۔۔ اور کرسی کھسکا کر نظریں جھکائے بیٹھ گئی۔۔۔ سب ناشتہ کر رہے تھے عمر کے گانے پے حمزہ نے اسے گھور کے دیکھا۔۔۔ اشارہ تھا چپ ہوجائے ازلان اور شاہ میر مسکراہٹ چھپانے کے لیے پلیٹ پے جھک گئے۔۔۔


حیا سر جھکائے بیٹھی رہی بنا کسی چیز کو ہاتھ لگائے۔۔۔ نور جوس لے کر آئے تو حیا کے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔۔


” حیا “


وہ اِسی پوزیشن میں بیٹھی رہی حیا کے ساتھ ہی شاہ میر بھی بیٹھا تھا۔۔۔ اسنے حیا کے کندھوں پے ہاتھ رکھا تو وہ اس کے گلے لگ رونے لگی۔۔۔


” تم اپ ایک لفظ نا بولنا “


ازلان نے عمر سے کہا جو ہنسے جا رہا تھا۔۔۔


” بابا اسے رونے کی عادت ہے “


” بکواس بند کرو “


” سوری بابا “ وہ مصنونئ شرمندگی سے بولا۔۔۔


” پرنسز مذاق کر رہا تھا “


میر نے اسکے سر پے ہاتھ رکھنا چاہا تو وہ اس سے دور ہوئی اور ایک خفا نظر میر پے ڈال کے رہ گئ۔۔۔


شاہ میر اسکے انداز پے مسکرایا۔۔۔ شاہ میر نے بریڈ پے بٹر لگاکے سلائس اس کی طرف بڑھایا جو اسنے غصہ سے دور ہٹایا۔۔۔۔


” حیا بچی نہیں ہو جو ہر وَقت رونے لگتی ہو۔۔۔ چلو اب چپ چاپ ناشتہ کرو “


نور اسکی بدتمیزی دیکھ اسے ڈانٹنے لگی۔۔۔


” نہیں کرنا “


وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔


” بابا میں آپ سے بھی بات نہیں کرونگی آپ بھی ہنس رہے تھے اور بھائی آپ بھی “


وہ میر کو دیکھتے ہوے بولی میر مسکرا دیا غصہ سے حیا کی ناک سرخ ہو رہی تھی۔۔۔

” مجھے کوئی کالج چھوڑے گا یا میں اکیلے بس میں جاؤں وہ بھی اتنی گرمی میں “

” پہلے ناشتہ کرو “ وہ نظر انداز کر کے جانے لگی۔۔۔

” حیا وآپس آؤ مجھے غصّہ مت دلاؤ “

ازلان نے نور کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔

” اللہ‎ پوچھے دونوں باپ بیٹی سے “ نور بڑبڑائی۔۔۔

” میں جا رہی ہوں “ وہ دروازے تک گئی لیکن سب کو ڈھیٹ بنتا دیکھ ایک آخری کوشش کی۔۔۔ وہ جانتی تھی سب سمجھتے ہونگے وہ واپس آئےگی لیکن اس بار وہ اکیلی بھی چلی جائے گے لیکن کسی کو معاف نہیں کرے گی۔۔۔۔


” میں مارک شیٹ لینے جا رہی ہوں لیکن جو بھی مجھے لینے آئے دو بجے ہی آئے کیوں کے آج ہم فرینڈز کی گٹ ٹو گیدر ہے “ کہہ کے وہ رکی نہیں۔۔۔


” رکو تو “


شاہ میر اٹھنے ہی والا تھا جب ازلان نے بولا اور جلدی سے حیا کے ساتھ جانے لگا۔۔۔


” اب پورا دن بھوکی رہے گی۔۔۔ پتا نہیں کچھ کھائے گی بھی یا نہیں “


نور پریشان تھی جانتی تھی حیا بہت ضدی ہے۔۔۔


” ڈونٹ وری مما بابا ہیں نا “


میر نے نور کی پریشان صورت دیکھ کے کہا۔۔۔


” میر تمہارا اور ازلان کا ہاتھ ہے اسے بگاڑنے میں، دن با دن ضدی ہوتی جا رہی ہے۔۔۔“ میر ٹھوری کھجانے لگ گیا یہ نور کا تقریباً روز کا ڈائلاگ تھا۔۔۔


” اور تمہاری تو جلدی شادی کروائوں مجھ سے تو تم سدھرنے والے نہیں بیوی ہی آکر سُدھارے گی “


نور عمر سے کہنے لگی جو مزے سے ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔


” ود پلیر سویٹ ہارٹ “


کہتے ساتھ ہے وہ اٹھ کے بھاگ گیا میر کا بھروسا نہیں تھا کہیں کار کے چابی لے لیتا تو کیا عزت رہ جاتی یونیورسٹی میں۔۔۔


” مما آج میں یونی نہیں جا رہا۔۔۔ لائبریری جا رہا ہوں تو مجھے آنے میں دیر ہوجاے گی، اللہ‎ حافظ! “


” فی امان للہ “


نور حمزہ کے ساتھ ہی باہر گئی جب وہ بائیک پے بیٹھ کے چلا گیا۔۔۔ تو وہ بھی کچن میں آگئی۔۔۔ حمزہ نے خود ازلان سے بائیک لینے کا کہا تھا۔۔۔ اسے لاہور کے ٹریفک کا پتا تھا۔۔۔ اس کے لیے بائیک کا ایک الگ ہی مزہ ہے جہاں سے چاہے راستہ ڈھونڈ لو جہاں کار میں وہ پندرہ منٹ میں پہنچتا وہیں بائیک سے وہ پانچ منٹ میں پہنچ جاتا۔۔۔


” ثانیہ جاو میر ناشتہ کر کے اٹھ چکا ہے چلا نا جائے“


ثانیہ نے چولے کی آنچ کم کی اور کوفی کپ میں ڈال کر باہر لے آئی۔۔۔ دونوں کپ(اپنے اور نور کے لیے) ٹیبل پے رکھ کے روم میں آگئی اور جلدی سے والٹ ڈھونڈنے لگی آخر کار وہ بیڈ پے پڑا ملا۔۔۔

” ثانی “

” آئی میر جسٹ ون سیکنڈ “ وہ تیزی سے چل کے لاؤنچ میں آئی۔۔

” اللہ حافظ جان “

میر نے والٹ دیتے ثانیہ سے کہا۔۔۔

وہ سُرخ پڑ گئ، میر اِس کے گال پے چٹکی کاٹ کے چلا گیا ۔۔۔

ثانیہ کے آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کے گرا وہ اِس کے حفاظت سے لوٹ آنے کی دعا کرتی کچن میں چلی آئی۔۔۔


☆.............☆.............☆


” تمہیں آزادی چائیے؟؟ “


” نہیں “


” کیوں؟؟ خواہش تو یہی تھی تمہاری “


” اب نہیں ہے۔۔! سمجھ گئ ہوں یہی میرا نصیب ہے “


” نہیں! تمہیں یہاں سے جانا ہوگا “


وہ شاہ کو دیکھنے لگی وہ بالکنی میں کھڑی چاند کو دیکھ رہی تھی جب شاہ نے پیچھے سے آکر اسے مخاطب کیا۔۔۔ اس دن وہ بغیر ناشتہ کئے چلا گیا۔۔۔ اور پھر ایک ہفتے بعد لوٹا۔۔۔ تب سے وہ اُس سے کتراتی پھرتی ہے۔۔۔ جہاں شاہ ہوتا وہ فوراً اس جگہ سے چلی جاتی۔۔۔ اسی شاہ کی موجودگی سے وحشت ہونے لگی ہے۔۔۔ ایک دو دفعہ شاہ نے ملازمہ کے ذریعے آنے کا پیغام بھیجا لیکن وہ جان بوجھ کے بی بی جان کے پاس چلی گئی۔۔۔ جب وہ نا آئی تو شاہ خود اسکی عقل ٹھکانے لگانے بی بی جان کے روم میں آیا۔۔۔ جہاں وہ بی بی جان سے لاڈ اٹھوا رہی تھی۔۔۔ شاہ کی ویسے بھی اتنی ہمت نہیں کے بی بی جان کے سامنے اسے آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔۔۔


” کہاں؟؟ “


” جہاں سے آئی ہو “

” لیکن میں تو یہاں۔۔۔ خون بہا؟؟ “

” ہاں لیکن مجھے تمہاری نا چاہت ہے نا ضرورت، جس دن تمھارا بھائی ملا تم آزاد اور وہ قید۔۔۔

اور خون بہا سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا رسم نہیں تھی۔۔۔ تو بن جائے گی تم یہاں اب مزید نہیں رہوگی۔۔۔ اور یاد رکھنا آزادی صرف اس قید سے ملے گی مجھ سے نہیں۔۔۔ میرا نام قبر تک تمہارے نام سے جڑا رہے گا “

” آپ کیا کریں گے بھائی کے ساتھ “ وہ کانپ گئی۔۔۔

” بس اتنا یقین رکھو کے آسان موت نہیں دونگا “


اسکے لہجے میں چٹان جیسے سختی تھی۔۔۔


” اس کا آخری وقت بہت قریب ہے “


کتنا ظالم شخص ہے یا اللہ اسے خوف نہیں آتا وہ سوچ کہہ رہ گئی۔۔۔


” تمہارے سوچ سے بڑھ کے ظالم ہوں “


” میری بیوی کا قتل کیا ہے تمہارے بھائی نے، میرے معصوم بیٹھے کو مارا جو بےگناہ تھا “


وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا قدم قدم بڑھاتا اسکے قریب جا پہنچا اتنا قریب کے وہ کھڑکی سے جا لگی۔۔۔


” تمہارے بھائی کو رحم آیا تھا کیا وہ ظالم نہیں ہے۔۔۔؟؟


بولو۔۔۔؟ “


سختی سے اسے دونوں بازوں سے پکڑ کے وہ اسے جھنجھوڑنے لگا۔۔۔۔

” ہاں “ با مشکل وہ کہہ پائی اسکی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں۔۔۔ اسکی ٹانگیں اسکا بوجھ نہیں اٹھا پا رہی تھیں۔ اگلے ہی لمحے وہ گرنے کو تھی کے شاہ نے سنبھالا۔۔۔

” مبارک ہو شی اِس پریگننٹ “

ڈاکٹر کے الفاظ سن کر اک لمحے کے لیے تو وہ پریشان ہو گیا۔۔۔ اگلے ہی لمحے وہ ریلکس تھا

جب اسے ہوش آیا۔۔۔

کوئی پاس تھا۔۔۔

نظر سامنے گئی صوفے پے وہ بیٹھا تھا جو اِسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔


” طبیعت کیسی ہے؟؟ “


یا اللہ کیا یہ خواب ہے۔۔۔؟؟ اسے میرے فکر کب سے ہونے لگی۔۔۔؟؟


” جب سے پتہ چلا کے تم میرے بچے کی ماں بننے والی ہو۔۔۔“ شاہ اسکی آنکھوں میں دیکھ اسکے ذہن کو پڑ رہا تھا۔ وہ حیران رہ گئی۔۔۔۔

” میرا بچہ۔۔؟ میں پریگننٹ۔۔۔؟“

بےختیار اسکے ہاتھ اپنے پیٹ پے گیا۔۔۔

” دس بارا دنوں میں تمہارا بھائی میرے پاس قید ھوگا “

وہ سب بھول کے شاہ کو دیکھنے لگی جو سیگریٹ کے کش لے رہا تھا۔۔۔

” مجھے معلوم ہے وہ کہاں ہے۔۔۔ تمہیں میں آزاد کر دیتا لیکن اب تم میرا بچہ مجھے دے کر یہاں سے جاؤگی “

” جب تک میرا بچہ نہیں آتا تمہیں برداشت کرنا مجبوری ہے “


کہتے ہی وہ رکا نہیں تھا روم سے نکلتا چلا گیا۔۔۔


” وہ ایک جھٹکے سے ابھی سنبھلی نہیں تھی کہ وہ دوسرا دے گیا۔۔۔ اسنے کب یہ سوچا تھا ابھی وہ خود ایک کانٹوں بھرے راستے میں سفر کر رہی تھی۔۔۔ ایسے میں کیسے وہ ایک نئی زندگی کو جنم دینے کا سوچ سکتی ہے۔۔۔؟؟ جب وہ اسے چھوڑنے کا سوچ رہا ہے پھر یہ بچہ۔۔۔؟؟ کیا وہ اسے اس کے بچے سے الگ کر دیگا۔۔۔؟؟ کہیں وہ؟؟ “


ایک دم وہ کچھ سوچ کے کانپ گئی۔۔۔ اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔۔۔


” عمر کا بدلہ آنے والے بچے سے تو نہیں لے گا؟؟ “


وہ شاہ کے کہے گے الفاظوں پے غور کرنے لگی۔۔۔


” تمہیں میں آزاد کر دیتا لیکن اب تم میرا بچہ مجھے دے کر یہاں سے جاؤگی “


ْوہ اتنا ظالم نہیں اُسے تو اپنے بچوں کی خوشی عزیز ہے۔۔۔ وہ کیسے اتنے چھوٹے بچے کو اسکی ماں سے الگ کر سکتا ہے وہ خود کو مطمئن کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔۔۔ لیکن ہونا تو وہی ہے جو قسمت میں لکھا ہے۔۔۔

☆.............☆.............☆

” مما آج کیا بنانا ہے؟؟ “

ثانی نے کچن میں داخل ہوتے ہی نور سے پوچھا جو فریج سے چکن نکال رہی تھی۔۔۔

” میں سوچ رہی ہوں بریانی بناؤں آج سب جلدی گھر آجائیں گے “ نور نے چکن شیلف ر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔

” مما ویسے یہ اچھا ہے ہر فرائیڈے آپ کچھ نا کچھ اسپیشل بناتی ہیں۔۔۔ اور نماز کے بعد سب ایسے بھاگے آتے ہیں جیسے کبھی کھانا ملا ہی نا ہو “


نور کا ذہن کسی اور ہی سوچ میں تھا ثانیہ نے اِس کے کندھے پے ہاتھ رکھا۔۔۔۔


” کیا ہوا مما؟؟ “


” ثانیہ بھابی کی کال آئی تھی اُن کا کہنا ہے۔۔۔ شاہ زر اسی ہفتے نکاح کرنا چاہتا ہے “


” واٹ؟؟ اتنی جلدی۔۔۔؟“ ثانی حیران ہوئی۔۔۔


” مجھے بھی جلدی لگا۔۔۔ لیکن ثانیہ یہی صیح ہے مجھے حیا کی ہر وقت فکر لگی رہتی ہے بس نکاح ہوجائے رخصتی پڑھائی کے بعد ہوگی “


” کیا مطلب مما اسنے ایڈمشن کہاں لیا ہے ابھی۔۔۔؟؟ اور چاہیے کچھ بھی ہو مجھے نہیں لگتا وہ لیکن ان فیکٹ ٹیسٹ دینے ہی نہیں جائے گے “


” وہ ٹیسٹ دینے ضرور جائے گی مارکس بھی اس کے اچھے ہیں آرام سے ایڈمشن ہوجائے گا۔۔۔ اور اس دفع سارے کام حیا خود کرے گی۔۔۔“ نور نے مسکراتے ہوے اسے بتایا۔۔۔۔


” وہ کیسے مما؟؟ “ ثانیہ نور کو مطمئن دیکھ کے حیران ہوئی کیوں کے حیا کو منانا آسان کام نہیں وہہ کتنا ہی حیا کے آگئے پیچھے گھومتی تھی کہ پڑھ لے الٹا وہ تو ایگزمس کے دنوں میں ازلان کو مری کاغان گھمانے کا کہتی۔۔۔


” بس کچھ دنوں بعد پتا لگ جائے گا پہلے میر سے بات کر لوں۔۔۔ اور ثانیہ تم حیا کو اپنے ساتھ لے جانا اور اپنے پسند کی شاپنگ کرانا باقی کام ازلان اور میر دیکھ لینگے “


” مما پِھر میں شام کو ہی حیا کے ساتھ شاپنگ۔۔۔“


” نہیں کل جانا آج گھر پے کوئی ہے نہیں اور آگر ازلان کو پتا لگا تم دونوں اکیلے چلے گئے ہو تو بہت غصّہ کرینگے۔۔۔ کل جانا اور اپنے لیے بھی شاپنگ کرنا۔۔۔ میں خالی ہاتھ نا دیکھوں تمہیں۔۔۔ ثانی پتا ہے میری ہمیشہ سے خوائش تھی حیا کی شادی دھوم دھام سے کروں دیکھنا میں اپنے سارے ارمان پورے کرونگی آخر ایک ہی تو بیٹی ہے میری “


نور اپنے ہے خیالوں میں بولے جا رہی تھی کے اچانک نظرثانیہ پے گی جس کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔


” ثانیہ تم بھی میرے بیٹی ہو۔۔۔ مجھے حیا جتنی ہی عزیز ہو۔۔۔!!! اچھا رونا تو بند کرو میں نے پہلے بھی کہا تھا میں تمہارے آنکھوں میں آنسو نا دیکھوں “


ثانیہ نور کے گلے لگ کے رونے لگی۔۔۔


” آپ سب بہت اچھے ہیں میں اتنی محبت کے لائق نہیں مما۔۔۔ مجھے بُرا نہیں لگا میں سوچ رہی تھی کاش میری مما بھی آپ کی جیسی ہوتیں “


” نہیں تمھارے مما میں ہی ہوں میرے جیسے کیوں ہوتی میں کیوں نہیں“


ثانی مسکرائی پھر دونوں ہی حیا کی شادی کو ڈسکسس کرنے لگیں ساتھ ساتھ بریانی بنانے لگیں۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ دن بھر کا کام نپٹا کر تھکی ہاری روم میں آئی آج شاہ نے آفس سے کال کر کے اسے بیس لوگوں کا کھانا بنانے کو کہا۔۔۔


اس تاکید کے ساتھ کے ساری ڈشس دیسی ہونی چائیں وہ تو اتنی گھبرا گئ کے باقاعدہ اماں کو بتاتے اسکی آنکھوں سے آنسوؤں بہہ نکلے۔۔۔ اسے یہی ڈر تھا اگر کھانا اچھا نا بنا تو وہ اسکا کیا حال کریگا۔۔۔۔ اسنے بی بی جان سے دیسی ڈشسز کا پوچھ کر اماں کے ساتھ وہی بنائیں اور ڈرائیور کے ہاتھ کھانا بھجوا دیا۔۔۔۔


ابھی وہ نہانے کے ارادے سے روم میں آئی لیکن شاہ کو تیار دیکھ کہ چونکی۔۔۔ شاید کسی شادی یا پارٹی میں جانا ہو۔۔۔؟؟ وہ نک سک سے تیار بلیک سوٹ میں ملبوس کسی فائل کا مطالعہ کر رہا تھا۔۔۔ اور وہ اسے دیکھنے میں اس قدر گم تھی کے اسے آس پاس کی خبر ہی نہیں۔۔۔


بڑی بے لگام سی ہو گئیں ہیں میری آنکھیں

تیری دید کے مسلسل بہانے ڈھونڈتی ہیں


شاہ کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں لیے آئی۔۔۔۔


” اینی پروبلم؟؟ “


شاہ نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا جو محویت سے اسے تک رہی تھی۔۔۔


” نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ میں۔۔۔ یہ برتن اٹھانے آئی تھی۔۔۔؟؟ “


شاہ اسے نظر انداز کرتا کوئی نمبر ڈائل کرنے لگا۔۔۔۔


” عامر یسرا آگئی؟؟؟ “


” اوکے اوپ بھیج دو “ اسے سمجھ نہیں آیا کے وہ بیٹھے یا یہاں سے چلی جائے۔۔۔ شاہ کی موجودگی میں اسکی کوشش ہوتی کے وہ روم میں نا آئے۔۔۔

ابھی وہ اسی کشمکش میں الجھی تھی کے نوک کی آواز سے پیچھے مڑی شاہ نے بنا نظر اٹھائے آنے کی اجازت دے۔۔۔

” ہیلو سر! “

” ہوں “

وہ سامنے کھڑی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس کا لباس اسکے جسم کو ڈھکنے کے لیے ناکافی تھا۔۔۔ اسے حیرت ہوئی ایسی لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے۔۔۔ کیوں کے وہ اچھی طرح جانتی تھی شاہ کو ایسے لڑکیوں سے سخت نفرت ہے۔۔۔ ایک دوپٹا سر پے نا پہنے سے شاہ نے اسے جو سنائی تھی وہ آج تک نہیں بھولی۔۔۔

وہ لڑکی ہاتھ میں ایک بیگ لیے کھڑی تھی اسکی پیچھے ہی ملازمہ ایک خوبصورت ڈریس لیے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔ جو شاہ کے اشارے سے ڈریس رکھ کے وآپس لوٹ گی۔۔۔

“You have only twenty minutes miss ainy! Your time starts now ”

وہ اپنی بات کہ کر فائل چیک کرنے لگا۔۔۔

“Fine sir ”


اب وہ اسے مخاطب ہوئی۔۔۔


“ Mam! Please be seated ”


عینی نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھی سٹول چیر پے بیٹھنے کا کہا۔۔ اسکے بیٹھتے ہی وہ کسی ماہر بیوٹیشن کی طرح اسکا میک اپ کرنے لگی۔۔۔ روم میں اے سی ہونے کے باوجود اسکی پیشانی پے ننھےننھے پسینے کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔۔۔ کیوں کے شاہ سامنے ہی بیٹھا تھا۔۔۔ وہ وقتاً فوقتاً ایک نظر اسپے ڈالتا اور یہیں آکر اسکے دل کی دھڑکن تھم جاتی۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں کو آپس میں مسلتی دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کو سمبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔


“ Mam! Is everthing all right?? ”


” ہاں۔۔۔ ہاں “


وہ اپنے دوپٹے سے پیشانی پے آتا پسینہ صاف کرنے لگی۔۔۔


” آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں؟؟ “


وہ مسکراتی ہوئی مدھم لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی۔۔۔


” نہیں میں ٹھیک ہوں “


اسنے مسکرانے کی ناکام کوشش کی وہ شاہ کی نظر خود پے محسوس کر رہی تھی۔۔۔ ایک پل کو اِسنے نظر اٹھا کے دیکھا تو وہ فائل پے جھکا ہوا تھا۔۔۔ لیکن نظروں کی تپش اسے اندر تک گھائل کر رہی تھی۔۔۔۔


” میم چلیں اب آپ چینج کرلیں پھر میں آپ کے بال سیٹ کردوں “


وہ ملازمہ کا رکھا ہوا ڈریس لیکر فوراً ڈریسنگ روم میں بھاگ گئی۔۔۔ اور جان بوجھ کے لیٹ آئی۔۔۔ اسکو یہاں بیٹھنا مشکل لگ رہا تھا۔۔۔ پندرہ منٹ بعد وہ آکر وآپس اُسی جگہ بیٹھ گئی۔۔۔ عینی کے ہاتھ میں رولر تھا جس سے وہ اسکے بال کرل کرنے والے تھی لیکن شاہ کی آواز سے اسکے بڑھتے ہاتھ وہیں رک گیا۔۔۔


” مس عینی دوپٹا سر پے سیٹ کریں میں نہیں چاہتا میری بیوی کے خوبصورت بالوں کو کسی کی نظر لگے۔۔۔“


اسکا لہجہ ہر جذبے سے عاری تھا۔۔۔

” اوکے سر! “

عینی نے اس کے بالوں کا ہلکا سا جوڑا بنا کے دوپٹا سر پے سیٹ کیا کچھ لٹیں چہرے کے گرد بھکیردیں اب وہ اسے جیولری پہنا کر اسکا مکمل جائزہ لینے لگی۔۔۔

” سر یور وائف اِس ریڈی “

بیوٹیشن کے پکارنے پے وہ اسکے حسین سراپے میں کھوگیا بلاشبہ وہ بے حد حسین تھی۔۔۔

” مام یو آر لُوکنگ بیوٹیفُل “


وہ بیوٹیشن کی بات پے مسکرادی۔۔۔


” یو مئی گو نائو مس عینی “


اس سخت لہجے پے عینی کو اپنی انسلٹ محسوس ہوئی۔۔۔ عامر نے اسے کہا تھا سر کے سامنے منہ بند رکھنا اب بندا کب تک چپ رہ سکتا ہے۔۔۔ اور یہاں کے ماحول سے تو اسے خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ وہ اپنا ڈر مٹانے کے لیے اس سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔ لیکن اسی عزت افزائی پے اسکا دل چاہ رہا تھا سامنے بیٹھے شخص پے یہ سارا میک اپ مل دے۔۔۔ لیکن وہ خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی اور فًورا ہی وہاں سے روانہ ہوگئی۔۔۔ عینی کے جانے کے بعد شاہ قدم اٹھاتا اِس کے قریب آیا۔۔۔ نجانے کس احساس کے تحت اسنے اپنی آنکھیں سختی سے بند کر لیں۔۔۔ شاید شاہ کے خوف سے یا اسکی بدلتی نظروں سے۔۔۔ شاہ نے اسکی کمر کے گرد بازوں حمائل کر کے اسے اپنے قریب تر کیا۔۔۔


اب وہ اِس کی بالوں کی لٹ کو انگلی میں لاپیٹنے لگا جو اسکے گال کو چھو رہی تھی۔۔۔


” کیا رافع کا رشتہ آیا تھا؟؟ “


سوال ایسا تھا جسنے اسے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولنے پے مجبور کر دیا وہ اِس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی کیوں پوچھا یہ سوال۔۔۔؟؟؟ اسے کیا فرق پڑتا ہے۔۔؟؟؟وہ سوچ کے رہ گئی۔۔۔


شاہ نے اسکی لٹ کو کان کے پیچھے کیا اور سر پے ٹکا دوپٹا آگے کو سرکایہ تاکہ اسکے بال مکمل چھپ جائیں۔۔۔

” اتنا مشکل سوال ہے؟؟ “

” آیا تھا “

” پِھر؟؟ “

” انکار کر دیا “

” کیوں؟؟ “

” میں نے ہمیشہ انہیں اپنا بھائی سمجھا ہے کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا “


” لیکن وہ تو تمہیں پسند کرتا تھا۔۔۔ کرتا ہے نا؟ “ اچانک ہی غصے میں اِس سے مخاطب ہوا۔۔۔


” ہا۔۔۔ ہاں۔۔“ بامشکل وہ بول پائی اس کے غصے سے وہ ہمیشہ خوف زدہ ہوجاتی۔۔۔


” اس کے ساتھ گھومتی ہو۔۔۔ اور کہتی ہو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا؟؟ “


کمر کے گرد اِس کی گرفت سخت ہو گئی۔۔۔


” میں۔۔۔ کبھی بھی ان کے ساتھ کہیں نہیں گئی بھائی کے ساتھ جاتی تھی“


وہ عام سے لہجے میں کہ کے اپنے ہونٹ چبانے لگی۔ اسکی نظریں شاہ کے شرٹ کی بٹنوں پے تھیں۔۔۔۔


” تمہیں میں نے کبھی اپنی بیوی نہیں مانا میری بیوی صِرف ماہا ہے۔۔۔ تمہیں صرف بھائی اور بھابی کے کہنے پے لے جا رہا ہوں۔۔۔ ورنہ میرے نظر میں ایک نوکر کی حیثیت تم سے ذیادہ ہے تُم میرے لیے صِرف انتقام ہو “


وہ آگ اگلتے لہجے میں گویا ہوا۔۔۔ شاہ نے اسے ناگواری سے خود سے دور کیا۔۔۔


” تم سی اچھی زندگی تو یہاں کے نوکر گزارتے ہیں۔۔۔ “ اسے آزر کا کہا گیا جملہ یاد آیا۔۔۔ اگر ماہا اور آزر انکی زندگی میں نا آتے تو شاید شاہ صرف اسکا ہوتا اس سے محبت کرتا اسے وہی عزت دیتا جسکی وہ حقدار تھی۔۔۔۔

نوک کی آواز سے شاہ آنے والے کی طرف متوجہ ہوا اِس سے پہلے ہنی کی آواز نے کمرے کے سناٹے کو توڑا۔۔۔

” بابا “ ہنی بھاگتا ہوا شاہ کے پاس آیا۔۔۔ اسکے پیچھے ہی ملازما کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔

” بابا کی جان “ شاہ نے اسے اْٹھا کے اِس کے گالوں پے بوسا دیا اب وہ سوالیہ نظروں سے ملازمہ کو دیکھنے لگا۔۔۔ جو ہنی کے کپڑے ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔۔۔


” شاہ صاحب یہ چھوٹے صاحب کے کپڑے وہ کہہ رہے ہَیں بی بی جی سے ہی تیار ہونگے۔۔۔“ ناگوارہی سے شاہ کی پیشانی پے بل ابھرے وہ جتنا ہنی کو دوڑ رکھتا۔۔۔ اتنا ہی وہ اسکے قریب ہوتا جا رہا ہے اسکا دل چاہا اس لڑکی کو ابھی شوٹ کردے۔۔۔


” رکھ دو اور جاؤ یہاں سے “


ملازمہ اسکے تیور دیکھ کے فوراً کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔


” ہنی جلدی تیار ہو کر آنا میں ویٹ کر رہا ہوں اور ان محترمہ کو اگر رونے سے فرصت ملے تو ساتھ لے آنا “


وہ ہنی کو ہدایت دیے کر خود نکل گیا۔۔


” پری بابا نے پِھر کچھ کہا؟؟ “


وہ اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ چکا تھا۔۔۔


” نہیں میری جان اِدَھر آؤ “


وہ اِس کے پاس آگیا۔۔۔

” اِس ڈریس میں میرا بیٹا شہزادہ لگے گا “ اسنے شرٹ کا جائزہ لیتے ہوے کہا۔۔۔

” پری۔۔۔“

” ہنی کچھ نہیں ہوا تم اپنے بابا کو جانتے نہیں چھوٹی چھوٹی بات پے غصّہ کرتے ہیں۔۔۔!! چھوڑو انہیں چلو آؤ میں تمہیں تیار کردوں “ وہ اسکی چھوٹی سے ناک دبا کے کہنے لگی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” بھائی مجھے بدلہ لینا ہے۔۔۔“


حیا نے کار میں چلتے میوزک پلیئر کو اوفف کیا اور شاہ میر سے مخاطب ہوئی جو اسے کالج سے پک کرنے آیا تھا۔۔۔


” حیا اب یہ کیا بات ہوئی؟؟؟ عمر مذاق کر رہا تھا۔۔۔ اس طرح تھوڑی کوئی بدلہ لیتا ہے اور دیکھو آج کل مما تمہارے لیے کتنا پریشان ہیں۔۔۔ جانتی ہو اگر عمر نے شکایت لگائی تو اس دفع بابا اور میں کچھ نہیں کر سکے گیں “


شاہ میر کی بات پے حیا کی آنکھوں میں مصنوئی موٹے موٹے آنسو نکلنے کو بےتاب تھے۔۔۔ شاہ میر نے مسکراہٹ دبائی اب وہ کیسے اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسوؤں دیکھ سکتا تھا۔۔۔


” چلو ٹھیک ہے تم نہیں تو میں صیح !! ویسے بھی عمر کو پتا کیسے لگے گا “


” کیا مطلب بھائی؟؟ “


وہ چہکی کچھ دیر پہلے جو آنسوں گالوں پے لڑھکنے والے تھے یکدم غائب ہوگئے۔۔۔۔


” بیس روپے کھلے ہیں؟؟ “


میر نے ڈرائیونگ سلو کردی اور حیا کے طرف دیکھنے لگا۔۔۔

” جی بھائی ہیں “

حیا نے نوٹ میر کی طرف بڑھایا جسے اسنے تھام کر کار سائیڈ پے روک دی۔۔۔ اور جیب سے پین نکال کر اس پے کچھ لکھنے لگا۔۔۔ حیا ناسمجھی سے اسے دیکھتی رہی۔۔۔

میر نے کار سٹارٹ کر کے ایک سگنل پے روکی جب ایک بچا پھول لیکر آیا تو میر نے وہ نوٹ اسے تھمایا اور پھول اس سے لے لیا۔۔۔

” یہ آپ کے لیے مائے پرنسیسز “


میر جھک کے پھول اسکی طرف بڑھائے حیا ہنس دی۔۔۔


” نہیں بھائی یہ ثانیہ بھابھی کے لیے ہے آپ کی طرف سے۔۔!! گھر جاکر انہیں دونگی “


میر ثانی کے ذکر پے مسکرا دیا۔۔۔ حیا نے پھول تھامتے ہوے انکی خوشبو اپنے اندر اتاری۔۔۔


حیا کے پوچھنے پے میر نے اسے ساری بات بتادی جس پے وہ گھر پہنچنے تک قہقہ لگاتی رہی۔۔۔ اب اسے بےصبری سے رات کا انتظار تھا۔۔۔


☆.............☆............☆



وہ ہنی کو چینج کرانے لگی پھر اسکے بال سیٹ کر کے اسے شوز پہنے کا کہا۔۔۔


خود وہ وائٹ سنڈل پہنے لگی جو امی نے اسے دیے تھے۔۔ اسنے وائٹ گھیرے دار فروک پہنی تھی جو اسکی گوری رنگت پے کافی جچ رہی تھی۔۔۔


” چلو ہنی چلتے ہَیں بابا انتظار کر رہے ہونگئے “

اسنے سینڈل کی اسٹرپس بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔


” نہیں پہلے پرفیوم “


وہ شاہ کی پرفیوم کی طرف بڑھی وہ اسکی کی چیزوں کا خاص خیال رکھتی تھی۔۔۔ اِس کے غصے سے جو واقف تھی۔۔۔ اسنے پرفیوم ہنی پے اسپرے کی اور اس کا ہاتھ پکڑ کے نیچے چلی آئی۔۔۔ شاہ جو گارڈز سے کچھ کہ رہا تھا انکو آتے دیکھ گارڈ کو جانے کا کہ کر انکی طرف آیا۔۔۔ وہ سرجھکائے آخری سیڑی اتری تب تک وہ اسکے بے حد نزدیک پہنچ چکا تھا۔۔۔ شاہ نے ایک نظر اسکی جھکی پلکوں کو دیکھا پھر اسکے ہاتھ کو جس میں ہنی کا ہاتھ مضبوطی سے تھما ہوا تھا۔۔۔ اسکی گرفت سخت تھی جیسے اسے ڈر ہو ہنی اسکا ہاتھ چھوڑ کے بھاگ جائے گا۔۔۔۔


” بابا وی آر ریڈی “اچانک شاہ کی نظر ہنی کے شوز پے پڑی شاہ پنجو کے بل بیٹھا ہنی کے شوز کے تسمے باندھنے لگا۔۔۔

” اوہ بابا یہ میں نے بند کیے تھے پتا نہیں کیسے کھل گئے“

وہ شوز دیکھ مایوسی سے کہنے لگا۔۔۔

” بہت جلد بازی ہے تمہیں سیڑھیوں سے گِر جاتے تو؟؟ اتنا سمجھانے کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں اپنا خیال تو تم رکھ نہیں سکتے۔۔۔ چھوٹے بہن بھائی کا کیا خاک رکھو گے۔۔۔؟ “ شاہ کے آخری جملے پے اسے اپنے گال دہکتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔

” بابا میرے بہن آئےگی نا آپ خود دیکھنا میں اسکا کتنا خیال رکھونگا۔۔۔“ شاہ مسکرایا۔۔۔


” اچھا! چلو باہر تمہارے فرینڈز آگئے ہیں۔۔۔“ شاہ کہتے ساتھ ہی کھڑا ہوا اور اسکی پیٹھ تھپکی۔۔۔ اسنے ہنی کے دوستوں کا سنتے ہی اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔


لیکن ہنی کے فرینڈز اس وقت یہاں کیوں آئے ہیں۔۔؟؟؟


وہ تشویش میں مبتلا سوچنے لگی۔۔۔

” سچ بابا “کہتے ساتھ ہی ہنی بھاگ گیا وہ سر جھکائے وہیں کھڑی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اسے کسے کے لمس کا احساس ہوا۔۔۔ اس نے لمحوں میں شاہ کا بازو اپنے گرد حمائل ہوتے محسوس کیا۔۔۔ اب وہ اسے اپنے ساتھ لگائے چل رہا تھا وہ لان کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔

بڑی نفیس سی سجاوٹ سے بھرا لان تقریباً تمام مہمانوں سے بھر چکا تھا۔۔۔ ہر طرف چہل پہل تھی وہ حیرانگی سے سجے لان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ یہ ڈیکوریشن کب ہوئی۔۔۔؟؟ اور یہ تقریب کس خوشی میں رکھی گئی ہے۔۔۔؟؟ وہ تو سمجھ رہی تھی کہ کسی کے یہاں ڈنر پے انوائیٹڈ ہیں۔۔۔ اس کا حیران ہونا بجا تھا کیوں کے اسے لان میں آنے کی پرمیشن نہیں۔۔۔


لان میں آتے ہی سب کی نظریں ان پے جم گئیں وہ اتنی نظریں خود پے مرکوز دیکھ ایک دم شاہ کے مزید قریب ہوگئی۔۔۔ شاہ کو دیکھتے ہی بہت سے بزنس مین اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ انکے قریب آئے۔۔۔ اور اسے اسکی کامیابی پے مبارکباد دینے لگے۔۔۔۔ کافی عورتوں کی نظر جیسے اسپے ہٹنے سے انکاری تھیں۔۔۔ شاہ نے خود ہی اسکا تعارف کرایا وہ شاید اسے مردوں کے ہجوم سے دور بھیجنا چاہتا تھا۔۔۔ شاہ نے سامنے ہی بھائی بھابھی کو دیکھا بھابھی اپنی فرینڈز کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔۔۔ وہیں کچھ آگے جا کر بھائی مہمانوں کی مبارکباد وصول کر رہے تھے۔۔۔۔ وہ ان سے اکسکیوز کرتا بھابھی کے پاس آیا۔۔۔


بھابھی سے سلام دعا کے بعد وہ اسے انکے پاس چھوڑ کے اپنے کلائنٹس سے ملنے چلا گیا۔۔۔ اس کے جاتے ہی بھابھی نے اسے گلے لگایا۔۔۔


” بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔!!! اور ہاں بہت بہت مبارک ہو “


” مبارکباد کس لیے بھابھی۔۔۔؟؟ “ وہ واقعی جان نہیں پائی۔۔۔


” مجھے صبح ہی بی بی جان نے بتایا تم امید سے ہو۔۔۔“ بھابھی کی بات سے وہ ایک دم سرخ پڑ گی نظریں جھکا کے وہ ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔


” بھابھی بچے نہیں آئے۔۔؟؟ “ اپنی خفت مٹھانے کے لیے اسنے بات بدل لی۔۔۔


” نہیں وہ ماما کے طرف گئے ہیں آج ہی ماما امریکا سے آئی ہیں “


” اوہ تو آپ نہیں گئیں بھابھی؟؟ “


” نہیں میرا دل بہت چا رہا تھا لیکن یہ پارٹی اٹینڈ کرنا بھی ضروری ہے۔۔۔ تمہیں پتا ہے یہ پارٹی نیو برانچ کے کھلنے کی خوشی میں دی گئی ہے۔۔۔ اور انکو ایک بہت بڑا کنٹریکٹ ملا ہے اور برانچ کا نام تمہارے دادا احسن شاہ کے نام سے رکھا گیا ہے۔۔۔“ بھابھی اسے تفصیل بتا رہیں تھیں اور وہ انکی باتیں غور سے سن رہی تھی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


عمر اب آ بھی جاؤ “


” جی مما بس آیا “


” ثانیہ تم میر اور ازلان کو بلا کر لاؤ میں ذرا حمزہ کو دیکھ لوں اس لڑکے نے تو پڑھائی کو سر پے سوار کر لیا ہے “


نور نے ٹیبل پے سلاد رکھتی ثانیہ کو کہا اور کچن سے ہارپاٹ لینے چلی گئی۔۔۔


” صبح سے دماغ خراب کر کے رکھا ہے۔۔۔ پانچ سو لوگوں کو بتا چکا ہوں اب تو لگتا ہے اپنا نام بھی بھول جاؤنگا “


ڈائینگ ٹیبل پر ابھی حیا عمر اور حمزہ ہی آئے تھے ثانیہ ازلان اور میر کو بلانے گئی تھی۔۔۔ نور کچن سے پلیٹس وغیرہ وقتًا وقتًا رکھ رہی تھی۔۔۔


” کیا ہوا بھائی اتنا غصّہ کس بات کا ہے۔۔۔؟؟ “ حمزہ نے اسکی پریشان شکل دیکھی تو بول اٹھا۔۔۔


” یار صبح سے آدھے پاکستان نے کال کر کے تنگ کر رکھاہے، پوچھ رہے ہیں آپ عائشہ بات کر رہی ہیں۔۔۔؟؟ کچھ نے تو ڈیٹ کی اوففر کی میرے ساتھ ڈیٹ پے چلیں گی عائشہ پلیز۔۔۔! اور موٹے خوسٹ آدمی واٹس ہپ پے پیچرز بھیج کے پوچھ رہے ہیں میں آپ کو کیسا لگا۔۔۔؟؟ اب کیا بتائوں کے عدنان سمیع کے بھی باپ لگ رہے ہو۔۔۔“


پیچھے سے آتے ازلان اور میر نے بھی اسکی بات سنی۔۔۔


” تو عمر تم نمبر چینج کرلو “


ثانیہ نے پانی کا جگ ٹیبل پے رکھتے ہوے کہا۔۔۔


” بھابھی بہت خواری ہوگی، یہ نمبر میں اسکول ٹائمنگ سے یوز کر رہا ہوں اب چینج کیا تو بہت پرابلم ہوجائے گی “


” تو کیا ہوا۔۔۔؟؟ صیح کہ رہی ہے ثانیہ تم چینج کرلو “


نور نے بھی مشورہ دیا اسنے چلتے پھرتے عمر کی بات سن لی تھی۔۔۔


” بیٹھے بیٹھائے ایسی کالز کیوں آنے لگیں ہمیں تو کبھی نہیں آئیں کیوں بابا؟؟ “


میر حیا کے پاس چئیر کھسکا کے بیٹھ گیا۔۔۔


” ہاں بات تو صیح ہے “


ازلان اور نور کی نظر ملی نور نے نظر کا زاویہ بدلا اور ہارپاٹ سے روٹی نکالنے لگی۔۔۔


” بابا اس طرح مما کو گھور کیوں رہے ہیں میں روٹی نکال دیتا ہوں اس میں کیا ہے “

میر نے ازلان کو نور کی طرف محویت سے تکتا پاکر اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔۔

” تم پٹو گے کسی دن “ ازلان نے آہستہ سے سر گوشی کی۔۔۔

” اچھا ہے ترس گیا ہوں باپ کی مار کے لیے “ میر نے بھی ڈھیٹ بنتے کہا۔۔۔

” بھائی؟؟؟ بابا اور آپ کیا کھسر پُھسر کرتے رہتے ہیں؟؟ “

حمزہ نے میر کی سائیڈ سے سالن کا بول اٹھاتے ہوے کہا۔۔۔

” کچھ نہیں یار، بابا مجھ مظلوم پے ظلم کرتے ہیں “

میر انتہائی معصومیت سے گویا ہوا۔۔۔


” بس اب خاموش رہو تم دونوں “


ازلان نے میر اور حمزہ کو ٹوکا میر کا بھروسہ نہیں تھا پھر کچھ الٹا سیدھا بول جاتا۔۔۔


” بھابھی جب تک حیا بھائی کے سر پے سوار رہے گی آپ کی دال نہیں گلنے والی “


عمر نے مشورہ دیتے ساتھ ثانیہ کو شرارتًا سامنے دیکھنے کا کہا جہاں میر نے اپنی پلیٹ میں چاول ڈالنے سے پہلے حیا کی پلیٹ میں ڈالے۔۔۔


” عمر میر نے مجھے پہلے ہی کہ رکھا تھا کے حیا اسکی بیٹی ہے۔۔۔ اور بیٹی کا نمبر تو بیوی سے پہلے ہی ہوتا ہے۔۔۔“ ثانیہ نے مسکراتے ہوے کہا۔۔۔۔ عمر کے بولنے سے پہلے ازلان بول پڑا۔۔۔


” ہاں بھائی تم بتاؤ یہ کیا نیا مسئلہ نکل آیا۔۔۔!!! ایسا کیا کرتے رہتے ہو جو بےوجہ پوری عوام تمہیں تنگ کر رہی ہے۔۔۔“


حیا تو جیسے موقعے کی تلاش میں تھی فوراً بول اٹھی۔۔۔


” بابا میں بتاؤں یہ سارا دن فون پے کسی سے باتیں کرتے ہیں جب بھی میں قریب جاتی ہوں تو کوڈ ورڈس میں باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔۔۔“


عمر کا چہرہ ضبط کی شدت سے سرخ پڑگیا۔۔۔۔ نور اور ثانی حیا کی چلتی زبان کو دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ اُسے خود معلوم نہیں تھا وہ کیا بول رہی ہے دوسری طرف میر کو اب لگ رہا تھا کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے۔۔۔ البتہ حمزہ واحد شخص تھا جو اس ڈرامے کو اینجواۓ کر رہا تھا۔۔۔ آخر یہ موقع روز روز تھوڑی آنا ہے۔۔۔۔


” اور بابا پتا ہے بھائی موبائل پے کوئی سلائڈس نہیں پڑھتے کل ہی میں نے انکی مارکشیٹ دیکھی تھی 2.3 gp آئی ہے اور مما کو انہوں نے 3.2 gp بتائی ہے “


نور اور ازلان عمر کو حیرانگی سے تک رہے تھے۔۔۔ جبکے باقی سب کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے۔۔۔۔ میر نے حیا کے ہاتھ پے ہاتھ رکھا۔۔۔ جسکا مطلب تھا اب چُپ رہے۔۔۔ عمر کو نہیں پتا تھا حیا اسطرح اپنے اگلے پچھلے سارے حساب بے باک کر دے گی۔۔۔ اس کا بس نہیں چلتا اس میسنی کی گردن دبوچ دے۔۔۔ کیوں کے gp پے ازلان کے چہرے کے بدلتے رنگ عمر نے دیکھ لیے تھے۔۔۔ اب وہ جان چکا تھا اسکی کلاس لازمی لگنی ہے۔۔۔۔

” کیا بول رہی ہے حیا۔۔۔؟؟ تمہاری مارکشیٹ کہاں ہے۔۔۔؟؟ “

” بابا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ “ عمر کو لگا اسے سانس نہیں آ رہی۔۔۔

” ابھی تو پٹر پٹر زبان چل رہی تھی “ ازلان نے اسے غصّے سے گھورا۔۔۔

” فون دیکھائو “

عمر نے کانپتے ہاتھوں سے فون ازلان کی طرف بڑھایا۔۔۔


” پاسوورڈ کیا ہے؟؟ “


” ہماری کہانی “ جواب حمزہ کی طرف سے تھا جو کھانے میں مگن تھا۔۔۔۔


جہاں حیا اور ثانی کو ہنسی کنٹرول کرنا مشکل لگا وہیں ازلان نے اپنی پیشانی مسلی میر مسکراہٹ دباتا پلیٹ پے جھک گیا۔۔۔


” وہ بابا۔۔۔ یہ حیا ہر وقت میرا فون لیتی رہتی ہے۔۔۔ میک اپ۔۔ کوگنگ۔۔ گیمز۔۔۔ ڈاون لوڈ کرتی رہتی ہےاور۔۔۔ اور اگر میرے دوست دیکھ لیتے تو۔۔۔ اسلیے ایسا پاس ورڈ رکھا ورنہ پہلے نیمز رکھے تھے۔۔۔“


” ہماری کہانی۔۔۔؟؟ عقل گاس چرنے گئی ہے تمہاری۔۔۔؟؟؟ یہ کوئی پاسورڈ ہے کل کسی کے سامنے تم سے فون مانگو تو یہ پاس ورڈ بتاؤ گے۔۔۔۔ ابھی چینج کرو پاس ورڈ اور کھانے کے بعد اسٹدی میں آکر ملو مجھے۔۔۔“


” بابا بھائی ڈنر کے بعد واک کرنے جاتے ہیں پھر آکر سوجائیں گے ابھی کلاس لینا مزہ آ رہا ہے“ حیا کو تو ہنسی روکنا مشکل لگ رہا تھا ڈھٹائی سے ازلان کو بولا آخر کہاں وہ ازلان سے ڈرتی ہے۔۔۔


” مما یہ میرے ہاتھوں شہید ہوگی “ عمر نے دانت پیستے نور کے کان میں سر گوشی کی۔۔۔


” حیا اٹھو آج تم سب کے لیے چائے بناؤ “

نور نے تیز لہجے میں اس سے کہا۔۔۔


” لیکن مما میری چائے کوئی نہیں پیتا بھابھی بنا لیں گی “


وہ آخری نوالا حلق سے اتارتی نیچے چلی گئی۔۔۔


پیچھے سب کے چہروں پے مسکراہٹ دوڑ گی صرف نور اور عمر کے علاوہ۔۔۔


نور نے ازلان کو گھوری سے نوازا۔۔۔ جیسے کہ رہی ہو پہلے اپنی بیٹی کو سنبھالو۔۔۔ ازلان نے بھی صاف عمر کی طرف اشارہ کیا جسکا مطلب تھا اپنے لاڈلے کو اسٹڈی روم میں بھیج دینا۔۔۔ نور نظر انداز کرتی کھانے کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

بھابھی اسکا مہمانوں سے تعارف کرانے لگیں۔۔۔ اسکی حیرت کی انتہا نہیں تھی وہ عورتیں کافی حد تک بولڈ تھیں۔۔۔ بےتکلفی سے دوسرے مردوں کے گلے لگ کے مل رہیں تھیں۔۔۔ وہ بھی بولڈ تھی لیکن اسے اپنے لمٹس پتا تھیں۔۔۔ وہ کبھی کسی غیر مرد سے اس طرح بےتکلف نہیں ہوئی۔۔۔ ان عورتوں کے کپڑے بھی کافی عجیب تھے سلیو لیس بیک لیس ساڑیس زیب تن کی تھیں۔۔۔ نجانے کیوں اسے اس ماحول سے وحشت ہونے لگی اسکا دل گھبرانے لگا حلا نکہ اسے اس ماحول کی عادت تھی۔۔۔ لیکن اب وہ ویسی نہیں رہی اسنے خود کو کافی حد تک بدل لیا ہے۔۔۔ بھابھی اسے ساتھ لیے ایک جگہ بیٹھ گئیں اور ویٹر سے اسکے لیے جوس منگوایا۔۔۔


” مما “


” ہاں “ ہنی اِس کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔۔۔


” تم نے اسے بہت اچھے سے سنبھالا ہے۔۔۔ لگ ہی نہیں رہا یہ وہی ہنی ہے جو ہر وقت ڈرا سہما رہتا تھا۔۔۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب یہ ماہا کے پاس تھا۔۔۔ ماہا کا رویہ دیکھ کے میں سوچتی تھی ہنی اسکی سگی اولاد ہے بھی یا نہیں۔۔۔ لیکن اب مجھے لگ رہا ہے ہنی صیح ہاتھوں میں ہے تم نے ماں کا فرض بخوبی نبھایا ہے۔۔۔“


بھابی نے ہنی کو دیکھ کر کہا جوہر پانچ منٹ بعد اِس کے پاس آتا۔۔۔ کبھی خاموشی سے بیٹھتا کبھی کسی دوست سے ملواتا۔۔۔ اور اب کھانے کی فرمائش کر رہا تھا۔۔۔


” بھابی ہنی ہی تو میری زندگی میرا سب کچھ ہے۔۔۔“


بھابھی نے اسکی آنکھوں میں مچلتی نمی نہیں دیکھی۔۔۔


” ہوں۔۔۔ اللّه تمہیں ہمیشہ خُوش رکھے “


” آمین “


ویٹر انکی ٹیبل پے جوس رکھ کے چلا گیا۔۔۔ بھابھی کو اپنی کوئی دوست نظر آئی تو وہ ان سے ملنے چلی گئیں۔۔۔ کچھ ہی دیر میں سب ڈنر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔ اسے جانے کیوں ایسے لگ رہا تھا وہ ہر وقت شاہ کی نظروں کا مرکز رہی ہے۔۔۔ اِسے ہر وقت خود پے نظروں کی تپش کا احساس ہوا۔۔۔ اور آج شاہ سے ڈر بھی لگ رہا تھا رافع کا آخر کیوں پوچھا اس نے۔۔۔؟؟ کہیں وہ اسکے اور رافع کے متعلق بھی کچھ غلط تو نہیں سوچ رہا۔۔۔ اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا شاہ اس قدر شکی مزاج انسان ہے۔۔۔ وہ سر جھٹکتی لان میں کھیلتے ہنی کو مسکراتے ہوے دیکھ رہی تھی پہلے ہر وقت اسنے کھانے کی رٹ لگائی تھی۔۔۔ اب جب کھانا لگ چکا تھا تو وہ کھیلنے میں مصروف تھا۔۔۔ ہنی سے جاتے اسکی نظر اچانک شاہ پے گئی ایک خوبصورت لڑکی جس کا چہرہ میک اپ سے بھرا تھا اسنے بیک لیس ساڑی زیب تن کی تھی۔۔۔ وہ بےتکلفی سے شاہ کے گلے لگی۔۔۔ اپنا گال اسکے گال سے مس کیا اسکے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا۔۔۔ اسے اپنی آنکھوں میں نمی اُترتی محسوس ہوئی کیا وہ اب بھی اسے محبت کرتی ہے۔۔۔؟؟ اتنا سب ہونے کے بعد بھی کیا بھول گئ اپنی بےعزتی۔۔۔؟؟ شاہ کا دیا ہوا دھوکا۔۔۔؟؟؟ اسے کیوں اتنی تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔ ہاتھ کی پشت سے اس نے آنکھوں میں اُترتی نمی صاف کی۔۔۔ دل میں اٹھتے درد کو نظرانداز کرتے وہ واپس اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو اب کافی مزاحیہ لگ رہا تھا۔۔۔ شاہ نے کندھوں سے پکڑ کے اس لڑکی کو خود سے دور کیا اسے ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا اس سے پہلی کے وہ رُخ مورتی شاہ کی نظر اس پر پڑ چکی تھی۔۔۔۔ اب وہ اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ اسنے جلدی سے سامنے رکھا گلاس لبوں سے لگایا۔۔ جیسے خود کو بے نیاز ظاہر کرنا چاہ رہی ہو۔۔۔ اسی دوران ہنی

بھاگتا ہو اسکے پاس آیا۔۔۔ اور کھانے کی فرمائش کرنے لگا اسنے نرمی سے اپنے دوپٹے سے اسکا چہرہ صاف کیا۔۔۔ جو کھیلنے کی وجہ سے پسینے سے تر تھا۔۔۔ سب ڈنر کرنے میں مصروف تھے شاہ سب ویٹرز کو ہدایت دیتا اِس کی طرف آیا۔۔۔ اسی وقت ایک ویٹر نے ٹیبل پے کھانا لگایا وہ ہنی کو كھانا کھلانے لگی۔۔۔ ان کی ٹیبل پے پہنچتے ہی شاہ نے ہنی کو اٹھا کے اپنی گود میں بٹھایا۔۔۔ اب وہ ہنی کی جگہ سنمبھال چکا تھا۔۔۔ نظر سیدھے اس پے جا ٹھہری جو اسے نظرانداز کرتی ہنی کو دیکھ رہ تھی۔۔۔ وہ کب شاھ کی نظریں خود پے محسوس کر رہی تھی۔۔۔ ہنی کھانے سے جان چھڑا کر دوستوں کے ساتھ کھیلنے جانا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن وہ اسے چھوٹے چھوٹے نیوالے بنا کر کھلا رہی تھی۔۔۔ تاکہ ہنی بیٹھا رہے اٹھے نا اسے ڈر تھا ہنی کے جانے کا بعد نا جانے وہ کونسی دِل دکھا دینے والی بات کرے۔۔۔ شاہ اسکی چالاکی سے خوب محفوظ ہوا۔۔۔


” ہنی اتنے بڑے ہوگئے ہو کھانا خود کیوں نہیں کھاتے؟؟ “


” مما کے ہاتھ میں ٹیسٹ ہے ان کے ہاتھ سے ہر چیز اچھی لگتے ہے۔۔۔۔“


" اور میرے ہاتھ کی ہر چیز بد ذائقہ لگتی ہوگی۔۔۔۔؟؟ “


” ہاں “ کہتے ساتھ ہی وہ کھکھلا کے ہنسا

شاہ اسے ہنستا دیکھ مسکرایا۔۔۔


ہنی اٹھ کے چلا گیا۔۔۔ شاہ ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھا اسے دیکھنے لگا۔۔۔ وہ پلیٹ رکھ کے ٹشو سے ہاتھ صاف کرنے لگی۔۔ وہ دلچسپی سے اسے دیکھتا رہا پِھر اِس کے قریب ہو کر شہادت کی انگلی سے ٹھوڑی کو پکڑ کے اونچا کیا۔۔۔۔


” رو کیوں رہیں تھیں؟؟ “


وہ جتنا اسے لاتعلق سمجھتی تھی وہ تھا نہیں اسکی نظر سے کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔


” نہ۔۔ ئیں۔۔۔ نہیں تو “


” میں جھوٹ بول رہا ہوں؟؟ “


” نہیں۔۔۔ نہیں “ وہ ایک دم گھبڑا گی اور نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔


” انسان کو اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہیے۔۔۔ نا ہی اوقات سے بڑھ کے تمنا کرنی چاہیے۔۔۔ تمہیں میں نے ایسا کوئی حق نہیں دیا کہ۔۔۔ دل جلانے والی مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پے سجی تھی۔۔۔۔


وہ اسکی حرکت پے طنز کر رہا۔۔۔ وہ خود کو لعنت ملامت کر رہی تھی۔۔۔ اپنی آج والی حرکت پے جو اسے روم میں ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔۔۔ اور بے حس کے لیے روئی جو ایک پتھر دل انسان ہے۔۔۔۔

” رہی تمہاری بات تو میں تم پے مکمل اختیار رکھتا ہوں آخر تم خون بہا میں آئی ہو اور تمہیں عزت دینا تو تمہارے ساتھ نا انصاف ہوگی “

ایک پل میں اس نے آسمان سے زمین پے لاپٹکا۔۔۔

” اور ایک بات اپنے دماغ میں بیٹھا لینا اپنی چیز کو میں بُری طرح توڑتا ہوں۔۔ اسے روندتا ہوں۔۔ کچل دیتا ہوں۔۔۔ ضرورت پڑے تو جلا کے بھسم کر دیتا ہوں لیکن۔۔۔ لیکن اسے کسی اور لائق نہیں چھوڑتا!!! بھلے ہی تمہاری زندگی میں آنے والا پہلے مرد نہیں ہوں لیکن آخری میں ہی ہونگا کیوں کے میں تمہیں کسی اور لائق چھوڑونگا ہی نہیں۔۔۔“ سرد لیجے میں کہتے ساتھ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔


” کتنے مجبور ہیں تقدیر کے ہاتھوں نا اسے پانے کی اوقات نا اسے کھونے کا حوصلہ۔۔۔“


” آپ میری زندگی میں آنے والے پہلے مرد ہیں لیکن میں آپ کی زندگی میں آنے والی پہلی عورت نہیں ہوں “ اسے اپنے پشت پے اسکے کہے گئے الفاظ سنائی دیے۔۔۔۔

کچھ دیر بعد بھابھی اسکے پاس آگئیں دونوں نے ساتھ ہی ڈنر کیا۔۔۔ بھائی بھابھی بچوں کی وجہ سے جلد ہی روانہ ہوگئے۔۔۔ آہستہ آہستہ سب مہمان روانہ ہوگئے۔۔۔ شاہ نے اسکی طبیعت کے پیش نظر جلد ہی اسے ملازمہ کے ساتھ اندر بھیج دیا۔۔۔

وہ جلدی سے چینج کر کے ہنی کو لے کر بی بی جان کے روم میں سونے چلی گئی۔۔۔ آج اس شاہ سے خوف محسوس ہورہا تھا۔۔۔ ایک بار پھر وہ اس پے شک کر رہا تھاصبح جو ہوگا دیکھا جائے گا کوئی بہانہ بنا لیگی لیکن وہاں نہیں جائیگی۔۔۔

صبح جب اٹھی پتا چلا شاہ کچھ دنوں کے لیے ملک سے باہر گیا ہے۔۔۔۔ وہ سکون کا سانس لے کر رہی گئی اور خوشی خوشی آج وہ ہنی کی فیوریٹ ڈشز بنانے لگی۔۔۔


☆.............☆.............☆


اسنے ریلنگ پے ہاتھ ٹکائے نیچے دیکھا جہاں ڈائننگ ٹیبل پے تایا تائی بیٹھے ڈنر کر رہے تھے۔۔۔ دور سے علی بھی اسے ٹیبل کی طرف بڑتا نظر آیا۔۔۔۔ اسے بس یہی تسلی کرنی تھی کے شاہ زر وہاں بیٹھا تو نہیں۔۔۔؟؟


وہ دبے دبے قدموں سے سڑیاں اترتی نیچے آئی ایک نظر ڈائننگ ٹیبل پے بیٹے نفوس پے ڈالی اور آگے بڑھ آئی۔۔۔


” ارے حیا آؤ تم بھی ہمارے ساتھ بیٹھو “


علی اسے دیکھتا کہنے لگا تو تایا تائی کی نظر اس پے اٹھی۔۔۔


” ارے میری بیٹی آئی ہے؟؟ آؤ کھڑی کیوں ہو؟؟“


فیضان کا لہجہ ہمیشہ کی طرح نرم اور میٹھا تھا۔۔۔


” جی تایا ابو “


وہ خوش دلی سے مسکراتے تائی کے ساتھ بیٹھ گئ۔۔۔ ٹیبل پے پولائو، کوفتے،نگیٹس، کباب دیکھ کے اسکی بھوک چمک اٹھی۔۔۔


” نور سے لڑائی ہوئی؟؟ “


عائشہ نے پلاؤاور کوفتے اسکی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے دھیرے سے کہا کے کہیں اور کوئی سن نا لے۔۔۔


” جی “


وہ شرارتاً مسکرائی۔۔۔


” کیا کروں میں تمہارا لڑکی!!! کتنی بار سمجھایا ہے اُسے تنگ نا کیا کرو۔۔۔“

وہ اس وقت کھانے کی طرف متوجہ تھی اسلیے بےدلی سے عائشہ کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔

” پھٹ نا جائو “

عمر نے اسے کوفتوں سے انصاف کرتے دیکھتے کہا۔۔۔

” اپنے تایا کا کھا رہی ہوں سمجھے “

وہ ناک سکوڑ کے کہنے لگی۔۔۔

” حیا اب آگے کس فیلڈ میں ایڈمیشن لینا ہے “


یہیں آکے اسکی حالت خراب ہوجاتی۔۔۔ اسکا سارا موڈ خراب ہوگیا۔۔۔ پتا نہیں اسکی شکل دیکھتے ہے سب تعلیم کا کیوں پوچھنے لگ جاتے۔۔۔ جب اسنے نفی میں سر حلایا تو تایا اسے مختلف فیلڈز کا بتانے لگے ساتھ یہ بھی آرڈر دیا کے جلد ہے ایڈمشن لے۔۔۔ اسے اب پچھتاوا ہو رہا تھا نا وہ عمر کے ساتھ ایسا کرتی نا اسکے ساتھ ایسے ہوتا۔۔۔ اچھا خاصا اوپر ڈنر کر رہ تھی۔۔۔


” آتی “


دو سالہ احمد کی پکار پے وہ اسکی جانب متوجہ ہوئی جو نجانے کب آکر اسکے برابر میں بیٹھ گیا۔۔۔


” ارے احمد میری جان “


اسنے احمد کو اٹھا کے اپنی گود میں بٹھایا۔۔۔


” تائی امی عنایا آپی کہاں ہیں؟؟ “


” کل سے احمد کی طبیعت خراب ہے۔۔۔ صبح سے اسے سنبھالتی بیچاری ہلکان ہو رہی تھی ابھی جا کر سوئی ہے “


تائی امی افسردگی سے کہنے لگیں البتہ تایا کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔۔ حیا نے چھوٹا سا نوالہ بنا کے اسکے منہ میں ڈالا۔۔۔ احمد نے بنا چون چرا کے کھا لیا تو وہ اسی طرح اسے چھوٹے نوالے بنا کے کھلانے لگی۔۔۔


☆.............☆.............☆


” پری “


” ہم “


وہ لاؤنچ میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی ہنی پاس بیٹھا اپنا ہوم ورک کر رہا تھا۔۔۔ آج اسکا پہلا دن تھا ویکیشنسز کے بعد۔۔


” آپکا میڈیکل کالج میں ایڈمشن ہوا تھا؟؟ “


وہ ٹھٹکی اور نظر اٹھا کے ہنی کو دیکھا پھر واپس اپنے کام میں مشغول ہوگی۔۔۔


” ہوا تھا “


” پھر آپ نے پڑھائی کیوں چھوڑی۔۔۔؟؟ “


” کیوں کے مجھے یہ پروفیشن اچھا نہیں لگتا “


وہ تحمل سے اسے جواب دے رہی تھی۔۔۔


” پری اتنی مشکل سے میڈیکل میں ایڈمشن ہوتا ہے آپ نے اتنی بڑی اپورچیونیٹی گنوا دی “


وہ حیرانگی سے اسے تک رہا تھا جیسے اس جواب کی امید نا ہو۔۔۔


” بس ہنی میرا انٹرسٹ نہیں تھا مجھے لگا میں پڑھ نہیں پاؤنگی۔۔۔“


وہ اسکی حیرانگی بھانپ کے کہنے لگی۔۔۔ ہنی نے سمجھنے والے انداز میں سر ہاں میں ہلایا پھر تھوڑی دیر بعد گویا ہوا۔۔۔


” اور میں پتا ہے کیا بنا چاہتا ہوں؟؟


ہنی کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری۔۔۔


” کیا؟؟ “


وہ مسکراتے ہوے اس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔


” بزنس مین بلکل بابا کی طرح “


وہ بس اسکی بات پے مسکرائی۔۔۔


” آپکو کیا لگتا ہے مجھے کیا بنا چائیے “


” اچھا انسان “


بےساختہ اسکی زبان سے پھسلا۔۔۔


” جی؟؟؟ “


وہ پوری آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


” میرا مطلب تھا ہنی سب سے پہلے ایک اچھا انسان بنا چاہیے۔۔۔۔ اپنا آپ منوانا چاہیے۔۔۔ جب تم سکول سے نکلو۔۔۔ ہر کوئی تمہاری ذہانت قابیلیت تمہارے سوفٹ نیچر کی تعریف کرے۔۔۔۔ لوگوں سے تمہارا رویہ اچھا ہو۔۔۔۔ سب سے بڑی بات تم انسانوں کی عزت کرنا سیکھو۔۔۔۔ کسی کو خود سے کمتر نا سمجھو۔۔۔۔ اپنے رویہ سے اسے تکلیف نا پہنچاؤ اور آخری بات۔۔۔“ وہ سانس لینے کو رکی۔۔۔

” معاف کرنا سیکھو “

کہتے ساتھ وہ اٹھی اور کچن میں چلی آئی بنا ہنی کا ریکشن دیکھے۔۔۔

” آپ مجھے سب سے مختلف پائینگی “

اسکے جانے کے بعد ہنی نے خود سے عہد کیا۔۔۔ وہ کچن میں آگی روکے ہوے آنسوں کو بہنے دیا۔۔۔۔


” آپکا میڈیکل کالج میں ایڈمشن ہوا تھا “


نل کھول کے آنسوؤں سے تر چہرہ دھویا۔۔۔

” اتنی مشکل سے میڈیکل میں ایڈمشن ہوتا ہے آپنے اتنی بڑی اپورچیونیٹی گنوا دی “

” میں خوبصورت اوفرز کو ٹھکرایا نہیں کرتا “

شاہ کے زہریلی الفاظ سے اسے اپنوں کانوں کا پردھہ پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

” صبح تمہیں زندگی سے بھر پور تحفہ ملے گا۔۔۔“

اس نے دونوں کانوں پر سختی سے ہاتھ رکھے اور چیخ پڑی۔۔۔

” چُپ ہوجاؤ۔۔۔ تمہیں خدا کا واسطہ ہے چُپ ہوجاؤ۔۔ “

وہ تب تک منہ دھوتی رہی جب تک آنکھیں خشک نا ہوگئی ہوں۔۔۔ اسنے دوپٹے سے چہرہ صاف کیا اور باہر ہنی کے پاس چلی آئی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


عمر کانپتی ٹانگوں سے آگے بڑھا اسکا یہاں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔ لیکن نور نے اسے تسلی دی کے وہ بھی کچھ دیر میں یہاں آئے گی۔۔۔ ازلان اتنا سخت مزاج نہیں تھا کے عمر اسے دیکھ خوف سے کانپے۔۔۔ لیکن آج حیا نے انکشاف ہی ایسے کیے تھے کے ازلان کا غصّہ بجا تھا۔۔۔ عمر کو خاص کر فون والی بات سے ڈر تھا اگر ازلان نے اس سے متعلق سوال کیا تو وہ کیا جواب دیگا۔۔۔؟؟


” بیٹھ جائو بھائی “

ازلان جو اسے کب سے کھڑا دیکھ رہا تھا کہ اٹھا۔۔۔۔

ازلان نے ہاتھ میں پکڑی بک ٹیبل پے رکھی اور عمر کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ ازلان کا نارمل موڈ دیکھ عمر کو تھوڑی تسلی ہوئی۔۔۔

” بابا وہ میں۔۔۔“

وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتا اس سے پہلے ازلان بول پڑا۔۔۔

” عمر آج تک تمہاری ایسی کوئی خواہش ہے جو پوری نا ہوئی ہو۔۔۔؟؟ عمر نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔


” تو پھر کیا وجہ ہے ڈائریکٹ 3.5 سے 2.3 gp لینے کی ایسے کونسے غم ہے تمہاری زندگی میں۔۔۔؟؟ بتاؤ مجھے۔۔۔؟؟ “


عمر نے تھوک نگلا اسکے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔۔۔


” کوئی نہیں بابا “


وہ اپنے پاؤں کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔


” عمر مذاق مستی اپنی جگہ لیکن پڑھائی کے معملے میں کوئی رعایت نہیں برتوں گا۔۔۔ تمہیں اندازہ بھی ہے تمہاری gp کتنی گری ہے۔۔۔ اب کان کھول کے سنو۔۔۔!! مجھے تمہارا بہترین رزلٹ چاہیے اس سیمسٹر کا رزلٹ میں خود چیک کرونگا آئی سمجھ۔۔؟؟ “


ازلان کا لہجا تحکم بھرا تھا۔۔۔


” جی بابا “


وہ سر جھکائے شرمندگی سے گویا ہوا۔۔۔


” اور آگر رزلٹ اچھا آیا تو تم میری کار یونی لے جا سکتے ہو لیکن کبھی کبھی۔۔۔“

” سچی۔۔۔!!! او تھینک یو بابا۔۔۔“

اسکا بس چلتا ازلان کا منہ چوم لیتا۔۔۔ وہ خوشی سے کہتا باہر جانے لگا کے نور سے ٹکراتا بچا۔۔۔۔

” کیا ہوا۔۔۔؟“ نور کے ہاتھ سے کپ گرتے گرتے بچا۔۔۔

” کچھ نہیں مما بائے میں واک کرنے جا رہا ہوں “ وہ نور کے پیشانی پے بوسہ دیکر چلا گیا۔۔۔

” حد ہے سب گھوڑے پے سوار رہتے ہیں “

نور بڑبڑاتی ہوئی اندر آگئی۔۔۔ وہ اسے خوش دیکھ کے اندر سے مطمئن ہوگی تھی۔۔۔


” اپنے کیا کہا عمر سے وہ کافی خوش دیکھائی دیا“


چاۓ ازلان کے سامنے رکھتے ہوے اس نے پوچھا۔۔۔


” اس کو چھوڑو تم بتاؤ کیسے خوش ہوگی۔۔۔“


ازلان نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔


” ناراض کیا ہی کیوں؟؟ “


” غلطی ہوگئی “


اسکے لہجے کی ندامت نور کو صاف نظر آرہی تھی۔۔۔


” بار بار غلطی نہیں ہوتی۔۔!!! چائے ٹھنڈی ہوجائے گی پی لیجئے گا۔۔“


کہہ کے وہ چلی گی ازلان بےبسی سے اسکی پشت دیکھتا رہا۔۔۔


☆.............☆.............☆


ہر نماز میں اِس کے لبوں پے بس اک ہی دعا رہتی اپنے بھائی کی سلامتی۔۔۔ اب بھی وہ خدا کے حضور رو رو کر اپنے بھائی کی زندگی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔۔۔ وہ جہاں بھی ہو اللہ‎ کے حفظ و امن میں ہو۔۔۔


کل ہی شاہ گھر لوٹا تھا اور اسے اس بات کا علم ہوگیا تھا۔۔۔ جب بھی وہ کہیں جاتا اسے امان سے متعلق کوئی خبر ملتی۔۔۔ کل وہ مایوس ہوکر لوٹا تھا جسکا مطلب امان ابھی اسکے ہاتھ نہیں لگا۔۔۔ کل ڈرائنگ روم سے گزڑتے اس نے شاہ کی باتیں سنی تھیں وہ کسی پے برس رہا تھا۔۔۔ اسے غلط انفورمیشن دینے کے لیے۔۔۔ وہ آدمی شاہ سے اپنی غلطی کی معافی مانگ رہا تھا۔۔۔ اور کہہ رہا تھا جلد ہی امان کی لاش انکے سامنے ہوگی۔۔۔ تب سے جاں نماز پے بیٹھی اللہ‎ سے دعائیں کر رہی تھی۔۔۔


وہ نماز پڑھ کے اٹھی کے یکدم لڑکھڑا گئی دو مضبوط بانہوں نے اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔


” مما!!! بابا مما کو کیا ہوا “


ہوش و ہاؤس سے بیگانا ہونے سے پہلے اسے ہنی کی آواز سنائی دی۔۔۔ شاہ نے اسے بیڈ پے لٹایا۔۔۔


” ہنی اک گلاس دودھ کا لےکر آؤ۔۔۔“ ہنی نیچے چلا گیا کچھ دیر میں ہنی آیا ساتھ ملازمہ بھی تھی۔۔۔ شاہ نے اسے اٹھایا بمشکل اسنے آنکھیں کھولیں شاہ نے گلاس اسکے لبوں سے لگایا۔۔۔ بھوک اتنی شدید لگی تھی کے پورا گلاس خالی کر دیا۔۔۔۔


” صبح سے کچھ کھایا؟؟ “


” نہیں “

” کیوں؟؟ “ لہجہ سخت تھا۔۔۔


” جب بھی کچھ كھاتی ہوں کچھ دیر بعد ومیٹنگ ہوجاتی ہے “


ملازمہ کھانے سے بھڑی ٹرے رکھ کے چلی گئ۔۔۔ ہنی بھی ساتھ تھا شاہ نے اِس کے لیے كھانا منگوایا تھا۔۔۔ تاکہ اپنے سامنے کھلا سکے۔۔۔

” کھاؤ “ وہ چُپ چاپ کھانے لگی۔۔۔

ہنی نے بھی اِس کے ساتھ کھایا شکر کے کچھ دیر میں شاہ چلا گیا۔۔۔۔۔ وہ شاید اسٹڈی میں تھا وہ ٹرے رکھ کے کچن میں چلی آئی۔۔۔ ہنی کے لیے دودھ گرم کیا اور شاہ اور اپنے لیے چائے بنائی۔۔۔ پہلے گرم دودھ ہنی کو دیا اور اپنا کپ وہیں رکھ کے شاہ کی چائے اسٹڈی میں لے آئی۔۔۔ چائے رکھ کے جانے لگی جب شاہ کی آواز اِس کی سماعت سے ٹکرائی۔۔۔

” تُم جیو مررو آئی ڈونٹ کیئر۔۔۔۔ مجھے میرا بچہ صحیح سلامت چاہیے انڈر اسٹیند۔۔۔؟؟ “

” جی “

” جاؤ “

☆.............☆.............☆

” مما۔۔۔ مما “

” مما۔۔۔ مما۔۔۔ مما۔۔۔ “

وہ گلابی ٹرائوذر اور شرٹ میں ملبوس اوندھے منہ بیڈ پے لیٹی ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی۔۔۔ اسکی چیخ اتنی بلند تھی کی کچن میں کام کرتی ثانی کے ہاتھ سے فرائنگ سپون چھوٹ گیا۔۔۔ نور جو ازلان کے جانے کے بعد روم کی حالت درست کر رہی تھی بھاگتی ہوئی حیا کے کمرے میں آئی۔۔۔۔

نورحواس باختہ سی حیا کی جانب بڑھی۔۔۔۔

” کیا۔۔ کیا۔۔۔ ہوا؟؟ “

نور کی گھبرائی ہوئی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔ وہ اسی پوزیشن میں لیٹی ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی۔۔۔ ساتھ رونے کا مشگلا بھی جاری تھا۔۔۔ عمر ایک بھر پور انگڑائی لیتا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔

” من الجنتہ والناس “

حیا کو اس حالت میں دیکھتے اسکے قریب آکر عمر نے پڑھ کے پھونکا۔۔۔

” یہ کیا پڑھ رہے ہو۔۔۔؟؟ دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟؟ “ نور نے اسکی حرکت پر ٹوکا۔۔۔


” مما کیا ہوا حیا کو۔۔۔“ گھبرائی ہوئی ثانی کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔


” مما اس پے جن کا سایا ہے۔۔۔“ عمر نے دھیرے سے نور اور ثانیہ کے قریب آکر سرگوشی کی۔۔۔


جیسے آگر حیا سن لیتی تو اسکے اندر کا جن اس پے بل پڑتا۔۔۔ نور کا ہاتھ بے اختیار اپنے دل پے گیا۔۔۔ ثانی نے تھوک نگلا اسے ویسے بھی ایسے باتوں سے ڈر لگتا تھا۔۔۔


” چپ کرو ایسا کچھ نہیں “


کہتے ہی وہ حیا کے پاس آئی اور اسے سیدھا کیا۔۔۔ وہ اب اٹھ کے بیٹھ چکی تھی اور خونخوار نظروں سے عمر کو گھور رہی تھی۔۔۔


” مما یہ دیکھیں انہوں نے کیا کیا میرے بال۔۔۔“


کہتے ساتھ وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائی رو دی۔۔۔ اسکے بال نیچے سے مختلف کلرس سے ڈائی کیے گئے تھے۔۔۔ نور سر پکڑ کے بیٹھ گئی دونوں نکمے ایک سے بڑھ کے تھے پڑھائی کے علاوہ دنیا بھر کا کام کرالو ان سے۔۔۔۔


” مر “

نور غصّے کی شدت سے دانت پیستے ہوئی بولی۔۔۔

” مما کیا میرے پاس اتنا فالتو ٹائم ہے کے اپنی نیند حرام کر کے اسکے بال ڈائے کرونگا۔۔۔؟؟ “

وہ خفگفی سے حیا کو دیکھتے کہنے لگا۔۔۔ جسے ثانی چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

” ٹھیک ہے تم نے نہیں کیا نا۔۔۔؟؟ اب ازلان سے بات کرنا “

وہ کہہ کے اٹھی کے عمر اسکی راہ میں حائل ہوگیا۔۔۔

” مما۔۔۔ مما۔۔۔ رکیں کل اس نے کیا حرکت کی تھی بول گئی آپ۔۔۔؟؟ اس کی وجہ سے بابا کے سامنے اتنی شرمندگی اٹھانی پڑی۔۔“ نور غصّے سے اٹھ کے عمر کے قریب آئی۔۔۔


” چُپ۔۔۔ بلکل چُپ۔۔۔ ایک لفظ نہیں بولنا۔۔۔ حرکتیں خود کی تمہاری ایسی ہیں۔۔۔ اس نے کوئی جھوٹ تو نہیں بولا سچ ہی کہا تھا نا۔۔۔ تمہارے بابا تمہاری ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔۔۔ دن رات تم لوگ کے لیے محنت کرتے ہیں۔۔۔ اور تم یہ صلہ دے رہے ہو انکی محبت کا۔۔۔“ نور نڈھال سی بیڈ پے بیٹھ گئی۔۔۔


حیا اب اپنا غم بھول کے نور کو دیکھنے لگی جو ان دونوں کی وجہ سے پریشان تھی۔۔۔ حیا کو اس وقت عمر پے شدید غصّہ آرہا تھا۔۔۔


” مما آئی یم ریلی سوری میں بس چھوٹا سا مذاق کر رہا تھا۔۔۔ بٹ مما میں شرمندہ ہوں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ سوری مما گیو می لاسٹ چانس۔۔۔ پلیز؟؟ “


عمر گھٹنوں کے بل بیٹھا نور کے ہاتھ تھام کے بولا۔۔۔


” اٹھو فریش ہوکر آؤ پھر ثانی اور حیا کو شوپنگ کرانے لے جاؤ “


” لیکن مما میرے بال۔۔۔“ وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔ عمر سر کھجانے لگا واقعی چھوٹا سا مذاق اسے مہنگا پڑ گیا۔۔۔


” حیا نیچے سے ہیں اتنا فرق نہیں پڑتا۔۔۔!! تم حجاب باند لو اور اب بنا چوں چراں سب ناشتے کے لیے نیچے آؤ میں انتظار کر رہی ہوں۔۔۔“ کہتے ہی نور نے حیا کا بلینکٹ اٹھا کے تہ کیا اور اسے الماری میں رکھ کے نیچے آگئ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد سب ناشتے کی ٹیبل پے حاضر تھے۔۔۔ سنڈے کے دن سب کی یہی روٹین ہوتی ایک بجے کہیں جاکر سب ناشتہ کرتے۔۔۔ ناشتے کے بعد عمر کچن میں نور کے پاس چلا آیا۔۔۔

” مما ایک ریکویسٹ ہے “

” جانتی ہوں “

وہ بےنیازی سے کہنے لگی۔۔۔


” پلز سنبھال لینا “


عمر التجا کرنے لگا۔۔۔


” ایسے حرکت کرتے کیوں ہو؟؟ “


” غلطی ہوگئی یہ خیال پہلے آیا ہی نہیں “


” مما پیلز بابا کو سنمبھال لینا پلیز لاسٹ ٹائم “


عمر ملتجی انداز میں بولا۔۔۔ نور کی خاموشی کا مطلب یہی تھا وہ سنمبھال لےگی عمر پرسکون ہوتا باہر آگیا۔۔۔


☆.............☆.............☆

” وہ ابسنٹ مائنڈ ہے اسے ایکٹو رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔ تم اسے خوش رکھا کرو، اس سے کہو وہ گھومے پھرے ان بےجا سوچوں سے چھٹکارہ پائے ورنہ وہ اپنے ساتھ اپنے بچے کو بھی نقصان پہنچائے گی “

وہ ہر ہفتے اسے چیک اپ کے لیے سارا کے پاس بھیجتا جو اسکے عزیز دوست کی بیوِی ہے۔۔۔ کل جب وہ چیک اپ کرا کے لوٹی تھی تو سارا نے اسکی زہنی کیفیت دیکھتے ہوئے شاہ سے رابطہ کیا۔۔۔

کافی دیر وہ آفس میں بیٹھا اسی کو سوچتا رہا۔۔۔ گھر آکر اس کی نظریں اماں کو تلاشتی رہیں۔۔۔ جو اسے بی بی جان کے روم میں ملیں وہ انہیں مخصوص ہدایت دیتا روم میں چلا آیا۔۔۔

کل ہی اسے ارجنٹ ملک سے باہر جانا ہے۔۔۔ روم میں آکر فورا ہی وہ فرش ہونے چلا گیا۔۔۔ وہ جو بالکونی میں کھڑی تھی کمرے میں کسی کی موجودگی محسوس کرکے باہر آئی۔۔۔ شاہ ٹویل سے بال رگڑتا ڈریسنگ کے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔

” میرا بیگ پیک کرو!! اور شول سویٹر لازمی رکھنا “

” جی۔۔۔ جی “

شاہ اسے ہدایت کرتا ڈریسنگ ٹیبل سے فون اٹھا کے کال کرنے لگا۔۔۔ ٹویل ایک جھٹکے سے اسنے بیڈ پے پھنکا۔۔۔ شاہ کی گفتگو کچھ ایسے تھی کے نا چاہتے ہوے بھی وہ سن رہی تھی۔۔۔۔

وہ کسی کو پھانسی لگوانے کی بات کر رہا تھا۔۔۔ کوٹ سے آرڈر آگئے ہیں اور مجرموں کو کل صبح پھانسی لگائی جائے گی۔۔۔ شاہ نے اسے مہتات رہنے کی ہدایت کر کے کال کاٹ دی۔۔۔ اسنے بیگ پیک کر کے ملازمہ کے ہاتھ نیچے بھیج دیا۔۔ شاہ قدم اٹھاتا اسکی طرف بڑھا وہ بیڈ کے پاس کھڑی گیلا ٹول اٹھا رہی تھی۔۔۔ جب شاہ اسکے قریب آیا اور بہت نرمی سے اسکے گال سہلائے اسنے اپنی آنکھیں بند کر لیں کیا کچھ نہیں یاد آگیا یہ لمس۔۔۔

” اپنا خیال رکھنا اور ہنی کا بھی۔۔۔ وقت پے کھانا کھا لینا۔۔۔ اور ٹیبلیٹس لینا مت بولنا۔۔۔ سارا کا کہنا تھا تم دن با دن کمزور ہوتی جا رہی ہو۔۔۔ اور مجھے میرا بچا صحت مند چاہیے ؟؟ “

اسنے جھٹ اپنی آنکھیں کھولی آنسوں روانگی سے اسکی آنکھوں سے بہ نکلے آج وہ اسے اپنے رویہ سے حیران کر رہا تھا۔۔۔ اسنے بہت نرمی سے اسکی آنسوں اپنی پوروں سے صاف کیے اور اسکی پیشانی چومی۔۔۔۔

“ کسی کے لیے یہ آنسوؤں انمول ہوتے ہیں “

”کس کے لیے۔۔۔؟؟ “

نجانے کہاں سے اس میں ہمت آگی کے اسنے سوال کر لیا۔۔

” تھے۔۔۔“

اب کی بار وہی سرد لہجہ وہی اجنبی پن۔۔۔

وہ اسکی بات کا مفہوم جان گی آنسوں انمول ہوتے” تھے۔۔۔“ اب نہیں ” ہیں “ لیکن اب یہ آنسوں تو اسکا مقدار بن گئے ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا پتھر بن چکا ہے۔۔۔۔

وہ اپنا لمس چھوڑ کے جا چکا تھا وہ دھندلائی ہوئی آنکھوں سے دور جاتے اس کے چوڑے وجود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

عصر کی نماز پڑھ کے وہ شاہ کی وارڈروب سیٹ کر رہی تھی کے ہنی ہانپتا ہوا اس تک آیا۔۔۔

” مما جلدی آئیں مجھے آپ کو کچھ دکھانا ہے “

” ایسے ہی بتا دو ہنی ابھی میں کام کر رہی ہوں “ اسنے تہ شدہ کوٹ الماری میں رکھا۔۔۔

” نہیں آپ جلدی میرے ساتھ نیچے آئیں “

ہنی نے اسکا بازو پکڑ لیا کے کوئی دوسرا سوٹ نا اٹھا لے۔۔۔

” اچھا ایک سیکنڈ “

اسے پہلے کے وہ ٹائی اٹھاتی ہنی اسکا ہاتھ پکڑتا نیچے لاؤنچ میں لے آیا۔۔۔ جہاں ٹی وی کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور ایک پل کو جیسے سب اپنی جگہ تھم سا گیا۔۔۔

ٹی وی پے مسلسل ایک ہی خبر آ رہی تھی کے آج تین لوگوں کو پھانسی دی گئی ہے۔۔۔ اور وہ تین لوگ اور کوئی نہیں وہی تھے جنہوں نے اسکے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ وہ نیوز اینکر کہ رہی تھی کے یہ تینوں لوگ پانچ دن پہلے کسی کچڑے دان میں ملے تھے تینوں بیہوش تھے۔۔۔ بہت زیادہ مکدر میں ڈرگز لینے کی وجہ سے وہ ہوش وحواس سے بیگانا تھے۔۔۔ دوسری طرف انکے گھر والوں کا کہنا ہے ایک ماہ پہلے وہ تینوں کسی پارٹی میں گئے تھے۔۔۔ جہاں سے وہ لوٹ کے نہیں آئے۔۔۔۔ پولیس کو انکے جسم میں مختلف اشیاء سے مارنے کے نشان ملے ہیں جیسے ایک ماہ تک انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔۔۔ مزید انکیر کا کہنا تھا کے انکے پاس ڈرگز ملنے کی صورت میں پولیس نے ان پے انکوئری کی تو معلوم ہوا ان کے خلاف کافی ریپ کیسس درج ہیں جنہیں کسی نے ری اوپن کراکے پندرہ دنوں کے اندر سارے گواہوں اور ثابوتوں کو عدالت میں پیش کیا۔۔۔ اور آج ان تینوں دریندوں کو پھانسی دیکر عدالت نے ان ساری لڑکیوں کے ساتھ انصاف کیا جو انکی درندگی کا نشان بنی تھیں۔۔۔

ہنی کچھ کہہ رہا تھا لیکن وہ سن ہی کہاں رہی تھی۔۔۔ اسے بس کل کی وہ کال یاد آرہی تھی جو شاہ کو وصول ہوئی تھی۔۔۔ کیا یہ سب شاہ نے کیا کل وہ بھی تو کسی کو پھانسی لگوانے کی بات کر رہا تھا۔۔۔۔ ایک دم اس نے اپنی سوچ کو جھٹکا وہ کبھی بھی اسکے لیے کچھ نہیں کر سکتا نہیں کر سکتا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” خدا کی بندی بس کردو پورا مال خریدوگی کیا؟؟ “

عمر نے غصّے سے حیا کا چوتھا شوپر پکڑتے ہوے کہا۔۔۔ عمر حمزہ حیا اور ثانیہ کو نور نے شاپنگ کے لیے بھیجا تھا۔۔۔ وہ شام کے نکلے تھے اور اب رات ہونے کو آئی تھی۔۔۔ لیکن حیا اور ثانیہ کی شاپنگ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔ ابھی تک حیا نے اپنے لیے برائیڈل ڈریس تک نہیں لیا۔۔۔۔

” بھائی ابھی تک میں نے ڈریس ہی نہیں لیا “

حیا کی معصومیت کی انتہا تھی۔۔۔۔ وہ آنکھیں پٹپٹاتی معصومیت سے کہنے لگی۔۔۔

” تو یہ سب کیا ہے؟؟ “

” وہ بھائی الکریم کی نیو ونٹر کلیکشن آئی ہے، ختم نا ہوجائے اسلیے پہلے لے لیے “

وہ خوشی سے چہکتے ہوے بولی۔۔۔

” کیا؟؟ “

وہ دبی دبی آواز میں چیخ اٹھا۔۔۔

” تم لڑکیوں کا دماغ کیا گھٹنوں میں ہوتا ہے۔۔۔ آئی مہارانی شادی کی شاپنگ کرنے ہیں۔۔۔ اور لیکر ونٹر کلیکشن جا رہی ہیں۔۔۔۔ کیا کرتے ہو اتنے کپڑوں کا کہیں باہر جاکر سستے دام میں بیچتی تو نہیں؟؟ “

عمر کا دماغ گھوم گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے خوار کر رہی تھی۔۔۔ کبھی اس شاپ تو کبھی دوسری شاپ تین گھنٹے ایک ڈریس کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد بھی میڈم نے لینی دوسری ہے۔۔۔

” بیچنے کی ضرورت آپ کو ہے مجھے نہیں آپ تو الٹا بہن کے پیسوں پے جیتے ہیں “

” تو کیا کروں اب سوتیلا جو ٹھہرا۔۔۔ اب تو مما نے بھی پوکٹ منی بند کرنے کی دھمکی دے دی“

” اچھا کیا مجھے فون نہیں دیتے تھے نا بلکل صیح ہوا آپ کے ساتھ “

” اچھا صیح ہوا میرے ساتھ ٹھیک ہے اب یہ بیگز خود اٹھانا “

عمر نے ساری شوپرز نیچے پھنک دیں اور دیوار سے ٹیک لگا کے کھڑا ہوگیا۔۔۔ حیا آنکھیں پھاڑے اسکی حرکت دیکھنے لگی مال میں سب کے سامنے وہ اسکی بےعزتی کر رہا تھا۔۔۔

” کیا ہوا آنکھیں پھاڑے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔ بلاؤ نا اپنے میر بھائی کو نمبر دوں میں “

کہتے ساتھ وہ مزے سے گنگنانے لگا۔۔۔۔

” بھائی سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ اچھا سوری “

وہ اسے منتیں کرنے لگی آس پاس سے جاتے لوگ انکوگھور رہے تھے۔۔۔ ایک تو حمزہ اور ثانی بھی اسے کہیں دِکھ نہیں رہے تھے ورنہ وہ کبھی اسکی منتیں نا کرتی۔۔۔

” سوری کی بچی مما بابا سے بےعزت کرا کے کتنا خوش ہو رہی تھی۔۔۔ اور کیا کہا تھا بابا ابھی ڈانٹیں نا مزہ آرہا ہے اور مجھے یاد آیا۔۔۔ “

وہ اسے اگلے پچھلے سارے بدلے آج ہے لے رہا تھا۔۔۔ پتا نہیں کیا کیا یاد کروا رہا تھا۔۔۔ جو اسے خود کو یاد نہیں وہ تو بس ادھر ادھر نظارے گھمائے حمزہ اور ثانی کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔

عمر نے اسے تپانے کے لیے جیب سے نیل کٹر نکالا اور اپنے ناخن کاٹنے لگا۔۔۔ حیا اسکا رد عمل دیکھ کے رونے والی ہوگئی۔۔۔

” بابا کا نمبر دوں؟؟ میری آج کی کلاس کا ٹائم لے لو ان سے اسی وقت گھر پہنچیں گے “

وہ اسے زچ کرتا اپنے کام میں مصروف رہا۔۔۔

” بھائی اب کیا ہوسکتا ہے؟؟ کیا چاہتے ہیں آپ؟؟“

وہ اسکی بات کاٹتے ایک دم غصّے سے بولی۔۔۔ لیکن عمر سن ہی کہاں رہا تھا۔۔۔ وہ کافی دیر اسکی منتیں کرتی رہی آخرکار عمر ایک فیصلے پے آن پہنچا۔۔۔

“ ٹھیک ہے اپنا کریڈٹ کارڈ مجھے دو۔۔۔!! اب صرف تم برائیڈل ڈریس خریدو گی باقی تمہارا یہ بھائی ہے نا خرچ کرنے کے لیے آخر مجھے بھی تو بہن کی شادی کے لیے ڈریس لینا ہے “

عمر نے شوپنگ بیگز اٹھاتے ہوے کہا اور وہ پیر پٹکتی اسکے پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ دونوں بیٹھے مووی دیکھ رہے تھے ساتھ ہنی اپنا ہوم ورک کر رہا تھا کے اچانک اسے ٹائم کا اندازہ ہوا اور اسے کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

” مما چلیں باہر لون میں واک کرتے ہیں “

وہ اسکی بات کا کیا جواب دیتی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ اسے لون میں جانے کی پرمیشن نہیں۔۔۔۔

” ہنی وہ۔۔۔ مجھے واک نہیں کرنی میرا بلکل دل نہیں چاہ رہا “

وہ ٹی وی بند کر کے اٹھی۔۔۔ اسے ابھی عشاء کی نماز پڑھنی تھی۔۔۔

” مما بابا نے کہا تھا آپ کو روز اِسی ٹائم واک کرنی ہے “

” بابا نے کہا “ وہ سوچ میں پڑ گئی اماں نے اسے نہیں بتایا۔۔۔

” ہاں۔۔۔ لیکن کل سکول ہے تمہارا سو گے کب “

اچانک یاد آنے پے اسنے پوچھا۔۔۔

” مما ابھی دس بجے ہیں گیارہ تک سو جاؤنگا اب چلیں “

” اوکے “ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

شاہ کو گئے آج دوسرا دن تھا۔۔۔ شاہ کے جانے کے بعد وہ سکون سے رہنے لگی پورا دن ہنی اِسکے ساتھ ہوتا۔۔۔ ہنی میں تو اِس کی جان بستی تھی۔۔۔ گزرتے دن کے ساتھ وہ ہر روز اسکی اہمیت اسے جتاتا کے وہ اسکی زندگی میں کتنی اہم ہے۔۔۔ وہ جب کوئی کام کرتی ہنی بھی اسکے ساتھ کام کروانے آجاتا۔۔۔ وہ منع کرتی رہتی لیکن وہ اسکی ایک نا سنتا۔۔۔ کبھی وہ بھنڈی کاٹ رہی ہوتی تو وہ بھی چھری لے کر آجاتا۔۔۔

جس طرح وہ سبزیوں کا حشر نشر کر کے رکھ دیتا وہ اسکی کاروائی پے ہنستی چلی جاتی۔۔۔ لیکن ہنی کے سکول جاتے ہی وہ پورے گھر میں اداسی سے گھومتی پھرتی۔۔۔ اسے کچن کا کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں نا ہے گھر کے دوسرے کام کی۔۔۔ بس شاہ اور ہنی کے کام وہی کرتی۔۔۔

ایک دو بار ہنی کے فرینڈز گھر آئے اسنے نے ان کے لیے خاص اہتمام کیا تھا۔۔۔ ہر چیز اپنے ہاتھوں سے بنائی سب نے خوب مزہ کیا۔۔۔ وہ ہر گیم میں انکی جج بنی۔۔۔ وہ دن تھا جو چاہ کر بھی بھول نہیں سکتی۔۔۔ پہلی دفعہ تھا جب اسنے ہنی کو بےتحاشا ہنستے دیکھا۔۔۔ سب کے جانے کے بعد ہنی اسکے پاس آیا۔۔۔

“Mama you are the sunshine of my life”

ہنی نے اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔

اسنے ہنی کی پیشانی چومی۔۔۔۔

رات میں جب وہ اسے سٹوری سنا رہی تھی تو ہنی کی بات پے اسکے گال ٹماٹر کی طرح سرخ ہوگئے۔۔۔۔

” مما میری بہن کب آئے گے ؟؟ “

” بہن؟؟ “ بہن کے نام پے وہ بُری طرح چونکی۔۔۔

” ہاں بابا نے کہا ہمارے گھر میں ایک بےبی آنے والا ہے “

ہنی کے بالوں میں اسکے چلتے ہاتھ رکے اور وہ آنکھیں موندھے بازوں آنکھوں پے رکھے لیٹ گئ۔۔۔

” مما بتائیں نا؟؟ “ ہنی نے اسکی آنکھوں سے بازو ہٹایا۔۔۔۔

” بہت جلد “ وہ اسکی معصوم شکل دیکھ کے مسکرائی۔۔۔

” لیکن کب آئے گی میں اسے بہت مس کرتا ہوں “

” ہاہاہا “ وہ ہنسی۔۔۔

” آپکی بہن یا بھائی جلد آئے گا “

” آپ نے اس کا نام سوچا؟؟ “

" نہیں “

” پہلے نام تو سوچ لو “

" اَچّھا “ وہ سوچ میں پڑ گیا پھر بولا۔۔۔۔

” پری وہ آپکی طرح ہوگی نا؟؟ “

” نہیں وہ تمھارے دوست ہے نا عشاء اس کی طرح ہوگی “

وہ جانتی تھی ہنی کو عشاء بالکل پسند نہیں اور عشاء ہر وقت ہنی کو تنگ کرتی۔۔۔۔

” نہیں نہیں وہ بھوتنی کی طرح نا ہو “

” ایسا نہیں بولتے ہنی عشا اچھی ہے لیکن ناسمجھ ہے اور مجھے میرا بےبی بالکل تماری طرح چاہیے “

” وہ بلکل میرے ہنی کے جیسا ہوگا “

” سچی “

” مچی “ ہنی کے بہن کے مطالبے پے ایک پل کو اسے لگا جیسے کسی نے اسے گہری کھائی میں پھنکا ہو۔۔۔

وہ اسکے بالوں میں انگلی چلاتے بغور اسے تک رہی تھی وہ بلکل شاہ کی کاربن کاپی تھا چہرے کا ایک ایک نفش شاہ کا چرایا ہوا تھا۔۔۔

☆.............☆.............

” بھابھی آپ لوگ بنا بتائے چلے آئے میں نے ابھی جیولری لینی تھی۔۔۔“ حیا نے شو پنگ بیگز پھنکنے کے انداز میں رکھے اور صوفہ پے ڈھ گئ جہاں ثانی بیٹھی تھی۔۔۔

ثانی نے اسکی بات سنتے ہی شاپنگ بیگز سے ڈائمنڈ نکلیس نکالا۔۔۔

” بھابھی یہ۔۔۔“

اسکی آنکھیں حیرت سے کُھلی کی کُھلی رہ گئی۔۔۔۔

” بھائی صبح تمہارے اٹھنے سے پہلے عمر کے فرینڈ نے کال کی تھی کہ نیو برائیڈل ڈریسسز کی کلیکشن آئی ہے۔۔۔ اور عمر کو پیکس واٹس ایپ کیں تو ہم نے اسی وقت ڈریس سلیکٹ کر لی وہ وہی ہے جو عمر نے تمہیں لیکر دی ہے “

ثانی نے جیولری باکس حیا کو دیا جو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

” میں حمزہ کے ساتھ تمہارے لیے میچنگ سیٹ لینے گئ تھی اور اپنے لیے ڈریس پھر عمر نے کال کی تم لوگ گھر پہنچ گئے ہو ہم بھی آجائیں!!! پھر ہم شوپینگ کے بعد ڈائریکٹ گھر آگئے لیکن تم لوگ تو پہلے نکل گئے تھے پھر لیٹ کیوں پہنچے؟؟ “

” میرے وجہ سے “

عمر شوپنگ بیگز تھامے اندر آیا۔۔۔

” عمر بھائی جب آپ نے میرے لیے ڈریس سلیکٹ کر لیا تھا پھر میرے ساتھ خوار کیوں ہوئے؟؟ “

وہ غصّے سے اسے گھورتی ہوئی بولی۔۔۔

” مجھے لگا جہیز کے کپڑے لے رہی ہو مگر یہ میڈم ونٹر کلیکشن لینے بیٹھ گئیں۔۔۔!! یہ لو تمہارا کارڈ تین ہزار بچے ہیں “

کہتے ہی وہ بھاگ گیا۔۔۔۔

” کیا “ اسکی چیخ سن کر ثانی نے دونوں ہاتھ کان پے رکھ لیے۔۔

” کتنے پیسے تھے حیا؟؟ “ ثانی نے اسکا کھلا منہ بند کیا۔۔۔۔

” ٹھارٹی فائیو ٹھائوزنڈ “ وہ منہ بسورتی نیچے چلی گئ۔۔۔۔

ثانی اپنی ہنسی چھپاتی بیگز لیکر کمرے میں چلی گئ۔۔۔۔

” السلام عليكم !! سویٹ ہارٹ “

” وعلیکم السلام “ نور میر کو دیکھ مسکرائی۔۔۔

” یہ کس کا ڈریس ہے۔۔۔؟؟ “ وہ نور کے ہاتھ میں ڈریس دیکھ کر پوچھ بیٹھا جس سے وہ شوپر میں پیک کر رہی تھی۔۔۔

” عنایا کا ہے!! شاہ زر کی ایک ہی بہن مجھے لگا دینا چاہیے۔۔۔ اچھا ہے نا۔۔۔؟؟ ثانی لیکر آئی ہے۔۔۔ “ نور اسکے چہرے کو بغور دیکھ رہی تھی جیسے کچھ تلاش رہی ہو۔۔۔

” تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟؟ “

” خود دیکھ لیں “ میر نے شوپر نور کی طرف بڑھایا جو اس نے تھام لیا۔۔۔ اندر ایک خوبصورت رائل بلو کلر کا ڈریس تھا۔۔۔۔

” میر یہ۔۔۔ “

” آپ کے لیے۔۔۔۔“ میر اسکی بات کاٹ کے بولا نور کچھ کہتی میر مزید بولا ۔۔۔۔

” مما کل آپ یہی پہنیں گی اور اچھے سے تیار ہونگی۔۔۔!!! میری چھوٹی بہن لگتی ہیں آپ اور بیہو ایسے کرتی ہیں جیسے کوئی ستر سالہ بوڑھی ہوں “

” میر میری عمر نہیں کے ایسے بھاری کپڑے پہنوں اور یہ بہت ڈارک ہے۔۔۔ مجھ پے سوٹ نہیں کریگا “

وہ سوٹ پے ہاتھ پھیرتے کہنے لگی۔۔۔

” پہن کے بابا سے پوچھ لیجئے گا۔۔۔“ وہ شرارتاً بولا۔۔۔

” میر “ نور نے غصّے سے اسکے بازو پے چپت لگائی۔۔۔

” سوری۔۔۔ سوری مذاق کر رہا تھا!!! “ وہ دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھاتا کہنے لگا۔۔۔

” پلیز میری پیاری مما بوڑھوں کی طرح ایکٹ کرنا بند کریں کل آپ یہی پہنیں گی!! انسان کو وقت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔۔۔۔، ماضی صرف تکلیف دیتا ہے۔۔۔۔ انسان ماضی میں رہ کر کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔۔۔۔“ وہ ملتجی انداز میں گویا ہوا۔۔۔

” اس سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟؟ “ وہ بھرائی ہوئی آواز میں اس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔

” دل کا سکون حاصل کر کے اور وہ کیسے کرتے ہیں آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں!!! آپ نے سکھایا تھا۔۔۔۔“

میر نے نرمی سے اسکے ہاتھ چومے اور باہر نکل گیا

☆.............☆.............☆

شاہ وآپس آگیا تھا اسکا رویہ ویسا ہی تھا پر بچے کی وجہ سے وہ اسے بخش دیتا۔۔۔ ہر ماہ وہ باقائدگی سے اماں کے ساتھ چیک اپ کرانے جاتی جیسے جیسے دن قریب آ رہے تھے۔۔۔ اسکے اندر ایک خوف سا بیٹھا جا رہا تھا اگر بیٹی ہوئی تو؟؟؟ وہ کیا کریگی۔۔۔۔؟؟ اسکے ساتھ بھی اگر وہی سب کچھ ہوا تو کیا وہ برداشت کر پائے گی نہیں۔۔۔ اسکی ماں نے بیٹی کا غم برداشت کیا تھا۔۔۔ پر اِس میں ہمت نہیں تھی۔۔۔ لیکن ڈاکٹر نے جب بتایا بیٹا ہے وہ مطمئن ہوگئی تھی۔۔۔ یقیناً یہ خبر ڈاکٹر سارا نے شاہ کو بھی دی ہوگی۔۔۔ وہ اسے کے کہنے پے ہر ماہ چیک اپ کے لیے آتی تھی اور کمزوری کے بایس جو ادویات اسے prescribe کی گئیں تھیں وہ باقاعدگی سے انہیں لے رہی تھی۔۔۔ یہ ذمیداری شاہ نے اماں کے سُپرد کی تھی۔۔۔ وہ اسکا پورا خیال رکھتی تھیں گھر کے کسی کام کو ہاتھ لگانے نہیں دیتیں۔۔۔ وہ جانتی تھی یہ مہربانیاں صرف بچے کی وجہ سے ہیں جب وہ دنیا میں آجائے گا شاہ ویسے ہی پہلے کی طرح ظالم بن جائے گا۔۔۔

نو ماہ پٙر لگا کے گزر گئے اِس کے یہاں دو جڑوا بیٹے پیدا ہوئے۔۔۔ شاہ کو یقین نہیں آرہا تھا اللّه اس طرح اسے اپنی نعمت سے نوازے گا۔۔۔۔

وہ بہت خوش تھا اس کی خوشی کا ٹِھکانا نہیں تھا پورے اسپتال میں اسنے مٹھائی بٹوائی۔۔۔ ہاں ہنی نے شکوہ کیا تھا اسے بہن چاہیے تھی۔۔۔

” بابا مجھے بہن چاہیے تھی “ وہ منہ بسور کر بولا۔۔۔

” کوئی بات نہیں بیٹا انشاءلله نیکسٹ ٹائم“

اِس بات پے وہ سُرخ پر گئی۔۔۔ شاہ کی نظر سے یہ عمل چھپا نہیں تھا۔۔۔

” سچی؟؟ “

” ہوں “

ہنی مطمئن ہوتا بچوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔

وہ تکیوں کے سہارے بیڈ پے لیٹی ان دو ننھے فرشتوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جنہوں نے اسے مکمل کر دیا۔۔۔ دونوں اس وقت شاہ کے بازوں میں سوئے ہوئے تھے۔۔۔

بی بی جان نے کتنی ہی دعائیں کی تھیں اِس کی صحت کے لیے وہ بہت خوش تھیں۔۔۔ یہی تو ان کی ہمیشہ سے خواہش تھی۔۔۔ انھیں لگا تھا بچوں کے بعد شاہ کا رویہ بدل جائے گا۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا شاہ نے اسپتال میں ہی کہہ دیا تھا۔۔۔۔

” تُم یہ نا سمجھنا کے میں تم سے خوش ہوں گا یا کوئی ہمدردی دیکھاوں گا۔۔۔ یہ صرف میرے بچے ہَیں تمہارا کام انہیں سنبھالنا ہے۔۔۔ جب تک تمہیں آزاد نا کردوں۔۔۔ ورنہ میرے لیے آج بھی تم اتنی ہی نفرت کے قابل ہو جتنے اولین دنوں میں

تھیں “

وہ سر جھکائی سُن رہی تھی ساری خوشی دو پل میں ختم ہوگئی۔۔۔ بی بی جان جو اسے دیکھنے آئیں تھیں۔ دروازے پے ہی انکے قدم جم گئے۔۔۔۔

” بابا یہ کتنی پیارے ہَیں گولو مولو سے “ ہنی بچوں کے گالوں کو چھو کر پیار کرنے لگا۔۔۔

” ہاں بالکل تمہاری طرح ہَیں “

شاہ بھی بچوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔۔ اماں بی بی جان کا ہاتھ پکڑے اندر لا رہے تھیں لیکن بی بی جان کے رکنے سے وہ بی وہیں رک گئیں۔۔۔

“ بی بی جان اندر بیٹھ جائیں اتنی دیر کھڑے رہنا ٹھیک نہیں “

شاہ آواز پے پیچھے مُڑا اور بی بی جان کا ہاتھ پکڑ کے انہیں احتیاط سے صوفہ پے بٹھایا۔۔۔ اور بچوں کو انکے پاس لاکر خود وہیں بیٹھ گیا۔۔۔

بی بی جان نم آنکھوں سے اپنے پوتوں کو دیکھ رہیں تھیں انکی خواہش پوری بھی ہوئی تو کس طرح جب کوئی اپنا انکے پاس نہیں۔۔۔۔

” شاہ پتر ایک دفع اعظم کو فون کر کے یہ خوشخبری۔۔۔۔“

” بی بی جان میں اپنے بچوں پے انکا سایہ تک پڑنے نہیں دونگا۔۔۔ اور آج کے بعد انکا نام میرے گھر میں کوئی نہیں لےگا “

بی بی جان کافی دیر بیٹھیں رہیں اور اس دوران بچوں کو انہوں نے ایک پل کے لیے خود سے دور نا کیا کچھ دیر بعد وہ شاہ کے ساتھ لوٹ گئیں وہ اماں اور ہنی کو یہیں چھوڑ گیا تھا۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ثانیہ یہ کیا کر دیا دیکھو مجھے لگ رہا ہے حیا کی نہیں میری شادی ہے “ نور نے افسوس سے کہا۔۔۔

” ہاہاہا مما یو لک سو بیوٹیفل “

ثانیہ نور کو پارلر لے کر گئی تھی۔۔ ازلان کے کہنے پے۔۔۔ آج حیا کا نکاح ہونا ہے۔۔۔ حیا ابھی تک پارلر میں تھی۔۔۔ شاہ میر اور عمر اسے لینے گئے تھے۔۔۔

” میری پیاری مما آپ دلہن کی مما ہیں آپکو بیسٹ لگناچاہیے “

” لیکن اتنا ذیادہ “ وہ خود کو آئینے میں دیکھ کہنے لگی اسے رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا آخر پارلر گئی کیوں؟؟

” مما یاد آیا بابا آپکو ڈھونڈ رہے تھے ان کی ٹائی نہیں مل رہی “ ثانی نے یاد آنے پے فوراً کہا۔۔۔

” اچھا روکو میں بس دو منٹ میں آئی پھر ساتھ چلیں گے “

وہ اسے کہتے ہوے چلی گئی۔۔۔

” جی مما “ میر کا میسج پڑھتے ہی ثانی پرس اٹھا کے نیچے چلی آئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ اسپتال سے گھر آگئی بی بی جان نے اسے اپنے پاس روک لیا۔۔۔ جب تک کے وہ مکمل صحت یاب نہ ہوجائے شاہ کچھ نا بول سکا بی بی جان کے سامنے۔۔۔

اسنے خود کو بچوں میں اس قدر مصروف کرلیا کے اسے دنیا جہاں کا ہوش ہی نہ رہا۔۔۔ ہنی بچے اِس کی دنیا تھے ایسے لگتا تھا جیسے جینے کی وجہ ملی ہو۔۔۔ اور دو دو بچوں کو سنبھالنا آسان کام نہیں تھا پورا دن اسکا مصروفیت میں گزرتا۔۔۔ لیکن انکے آنے سے وہ ہنی کو نہیں بھولی تھی۔۔۔ چاہے بچے روتے وہ انہیں اماں کو پکڑا کر پہلے ہنی کا کام کرتی وہ چاہے۔۔۔ اسکی پڑھائی میں مدد کرنا ہو۔۔۔ اسٹوری سنانا۔۔۔ یا اسکی فوریٹ ڈشز بنانا ہو۔۔۔ وہ بن ماں کا بچا تھا محبت کا ترسا ہوا۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی ہنی پھر سے احساس محرومی کا شکار ہو۔۔۔

گھر میں اب اسے وہی مقام واپس دیا گیا جس کی وہ حقدار تھی بقول شاہ کے اب پہلے کی طرح ہی گھر کی ساری زمیداری اس پے تھی۔۔۔ لیکن اب وہ ایک پتھر بن چکی تھی جس پے شاہ کے رویے کا کوئی اثر نہیں ہوتا نا ہی اب وہ اسکی محبت کی طلبگار تھی۔۔۔

شاہ بچوں کی وجہ سے آفس سے جلدی آنے لگا تھا بچے جب شاہ کے پاس ہوتے تو وہ کسی نا کسی کام میں مصروف رہتی۔۔۔

ناجانے یہ اِس کی سوچ تھی یا سچ میں ایسا تھا اسے لگتا جیسے شاہ کو اس کا بچوں کے پاس رہنا پسند نہیں تھا۔۔۔

اس نے اک دفعہ کہا تھا جب وہ بچوں کو فیڈ کر وا کر کمرے میں آئی تھی۔۔۔ شاید ملازمہ نے اسے بتایا تھا کے وہ بچوں کے پاس ہے۔۔۔ شاہ بالکونی میں کھڑا تھا کے اسے اپنے پشت سے آواز سنائی دی۔۔۔

” آپ نے بلایا؟؟ “

” تمہیں یاد ہوگا میں نے کچھ کہا تھا۔۔۔؟؟ “ شاہ پیچھے مُڑکے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔

” جی۔۔۔ جی؟؟ “ وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

” کیا گھر میں کوئی کام نہیں جو ہر وقت میرے بچوں کے پاس رہتی ہو۔۔۔؟ جب تمہیں یہاں رہنا ہی نہیں تو ان کو اپنا عادی کیوں بنا رہی ہو۔۔۔؟؟ “

” میں کیسے رہونگی ان کے بنا “ ناچاہتے ہوے بھی اسکی آواز اونچی ھوگئ۔۔۔۔

” جیسے میں رہتا آیا ہوں عمر کے بغیر۔۔۔ بچے تو ابھی دو ماہ کے ہیں عمر تو چار سال کا تھا جب میں غم برداشت کر گیا تو تم کیوں نہیں کر سکتیں “ وہ اِس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔۔۔

” رونا نہیں ورنہ یہیں سے نیچے پھینک دونگا “

وہ اسکی آنکھوں میں نمی اُترتے دیکھ چکا تھا جس سے اسے سخت نفرت تھی۔۔۔

” تو ٹھیک ہے مجھے مار دیں ایسے زندگی سے موت اچھی “ وہ چلائی شاہ نے جھٹکے سے اسکے بال اپنی مٹھی میں جکڑے۔۔۔۔

” جسٹ شٹ اپ۔۔۔ دوباہ یہ آواز نکلی تو “ شاہ نے انگلی اٹھا کے اسے تنبیہ کی۔۔۔

” اُسی جگہ ویرانے میں چھوڑ آئونگا تاعمر کے لیے۔۔۔ اور تمھارا یہ مرنے کا شوق بہت جلد پورا کروں گا“

اسکے بالوں کو اپنی مٹھی سے آزاد کرتا۔۔۔۔ ایک نئی اذیت سے نوازتا وہ چلا گیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ثانی میر کا میسج دیکھتے ہی باہر آگئی۔۔۔ وہ کار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اسے آتا دیکھ سیدھا کھڑا ہوگیا۔۔۔

” بیوٹیفل “وہ گہری نظروں سے سجی سنوری ثانی کو دیکھ کے بولا۔۔۔ میر کی بات پے ثانیہ سُرخ پڑتی اپنی نگاہیں جھکا گئی میر اسکی بےساختگی پر مسکرایا۔۔۔

” چلیں؟؟ گھر میں کوئی ہے تو نہیں؟؟ “ ایک نظر اسنے کلائی پے بندھی گھڑی پے ڈالی اور ٹائم کا اندازہ لگاتے ہوئے کا۔۔۔

” بس مما بابا ہیں باقی سب تو چلے گئے۔۔۔“ وہ اب اپنا دوپٹا سیٹ کرتے کہنے لگی جو بھاری ہونے کی وجہ سے بار بار اسکے کندھوں سے ڈھلک جاتا میر کی نظریں ویسے ہی اسے پزل کر رہی تھیں۔۔۔

” وہ آجائیں گے تم بیٹھو “ کہتے ساتھ اسنے کار کا دروازہ کھولا۔۔۔۔

” لیکن میر مما نے کہا تھا ساتھ جانا “

میر نے اسکی ایک نا سنی اسکا ہاتھ پکڑ کے کار میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنمبھال کے میرج لان کی طرف روانہ ہوگیا۔۔

☆.............☆.............☆

بچوں کی گرون اپ ہونے کے بعد وہ انہیں لیکر ہنی کے روم میں شفٹ ہوگئی۔۔۔ بچوں کے بعد شاہ کا رویا پہلے دن جیسے ہی تھا۔۔۔ وہ اسکی آہوں سسکیوں سے لطف اٹھاتا۔۔۔ رات وہ اسے پاس بلاتا وہ ہچکیوں سے روتی سسکتی لیکن اسے رحم نا آتا بچے ابھی تین ماہ کے تھے اور وہ ایک بار پِھر پریگننٹ ہوگئی۔۔۔

وہی آسائشیں اسے دوبارہ میسر کی گئیں جسے اسکی طلب نہیں تھی۔۔۔ وہ تو محبت کی ترسی ہوئی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا۔۔۔ اپنی ماں کی گود میں سر رکھے خوب روئے۔۔۔۔ سب رشتے یاد آتے ہی اسکی آنکھیں بھیگ جاتیں۔۔۔ اس بار جب وہ چیک اپ کرانے گئی تو اسکے دل میں وہی خوف تھا وہ مختلف دعائوں کا ورد کرتی کلینک میں بیٹھی تھی۔۔۔ اسنے اپنے ٹھنڈے کانپتے ہاتھوں سے اماں کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔۔۔ نا جانے کیوں اسے لگا رہا تھا آج اسکا ڈر سچ ثابت ہوجائے گا ہر بار وہی نہیں ہوتا جو ہم سوچتے ہیں۔۔۔

وہ یک ٹک سارا کو دیکھ رہی تھی جو رپورٹس تھامے انکے قریب آرہی تھی۔۔۔ اور سارا نے آتے ہی جو خبر دی وہ اسکا دل چیر گئ اماں اسکا سفید پڑتا چہرہ دیکھ ڈاکٹر سے الوداع کلمات کہتیں اسے باہر لے آئیں کار میں بیٹھتے ہی اماں نے اسے جھنجوڑا تو اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے پورے راستے وہ روتی رہی۔۔۔ گھر پہنچتے ہی وہ تیزی سے کار سے نکلنا چاہتی تھی لیکن حالت کے پیش نظر اماں کا ہاتھ پکڑے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بی بی جان کے روم میں آگئی۔۔۔ اسنے اماں کا ہاتھ چھوڑا تو وہ باہر نکل گئیں۔۔۔ بی بی جان تسبی پڑھ رہیں تھیں اسے آتا دیکھ مسکراتیں ہوئیں پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔ وہ دھندھلائی ہوئی آنکھوں سے انکے پاس پلنگ پے بیٹھ گی اور انکے کندھے سے سر ٹیکا کے رودی۔۔۔

” بی بی جان آپنے صیح کہا تھا ڈاکٹر سارا بھی یہ کہتیں ہیں کے بیٹی ہے بی بی جان مجھے بیٹی نہیں چاہیے آپ دعا کریں نا بیٹی نا ہو میرے دعائیں قبول نہیں ہوتیں اللہ‎ میری نہیں سنتا وہ آپ کی سنے گا آپ دعا کریں۔۔!!! کاش کاش وہ میرے پیٹ میں ہی مر جائے۔۔۔ “

بی بی جان نے اسے دونوں کھندوں سے پکڑ کہ خود سے دور کیا۔۔۔

” میری بچی ایسا نہیں کہتے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اللّه بیٹی سے نوازتا ہے۔۔۔ ارے اعظم اور اسما تو کتنا روتے تھے۔۔۔ تیرے لیے کیا کیا نہیں کیا ہر جگہ جا کر دعائیں کروائیں دن رات وظیفے کیے اسما نے۔۔۔ اور جب تو ہوئی تو پورے گاؤں میں مٹھائی بٹوائی۔۔۔“

بی بی جان کہتے کہتے خاموش ہوگئیں انکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی۔۔۔

“ پھر؟؟ بولیں نا بی بی جان پھر کیا ہوا؟؟؟ مُرادوں سے مانگی بیٹی کے ساتھ یہ سلوک کیا۔۔۔؟؟ اسے خون بہا میں بھیج دیا۔۔۔ اسے سزا سنانے سے پہلے اسکا قصور تو بتا دیتے۔۔؟؟

کیا۔۔۔ کیا اسکا قصور یہی ہے کے وہ ایک بیٹی ہے جو قربانی کے لیے ہی مانگی گئی ہے۔۔۔۔“

وہ بی بی جان کو لاجواب کرتی روم سے نکل گئی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

گرم بھاپ اڑاتی چائے ٹرے میں لیکر وہ کمرے میں داخل ہوئی ایک بھر پور نظر پورے کمرے میں دوڑائی شاہ اسے کہیں نا دیکھا۔۔۔ شاید باتھروم میں تھا وہ ٹرے رکھ کے نیچے چلی آئی۔۔۔ اپنے گرد شآل کو اسنے مضبوطی سے تھام لیا اسکے ہاتھ پیر سردی کی شدت سے ٹھنڈے ہو رہے تھے۔۔۔ کچن میں آکر اسنے گیس اون کر کے آگ جلائی اور اپنے ہاتھ سیکنے لگی اکثر اس سرد موسم میں اسکے ہاتھ پیر سن ہوجاتے گیس بند کر کے اسنے اپنا مگ لیا اور لائونچ میں چلی آئی جہاں ہنی باسکٹ بال ہاتھ میں لیے اندر آرہا تھا۔۔۔

” ہنی ملازمہ کو بولو آندر آجائے بچوں کو سردی لگ جائےگی “

” جی مما “ وہ بال اُچھالتا لون کی طرف بھاگا۔۔۔

بچے دس ماہ کے تھے اب آہستہ آہستہ چلنے کی کوشش کرتے۔۔۔ وہ اکثر شام کے وقت بچوں کو ملازمہ کے ساتھ بھیجا کرتی۔۔۔ اس وقت بھی دونوں واکر میں پورے گارڈن کا چکر لگا رہے تھے۔۔۔

ملازمہ اور ہنی کے ساتھ دونوں واکر دھکیلتے اندر آئے بچے اسے دیکھتے ہی قلقاریاں مارنے لگے وہ مسکراتی ہوئی انہیں واکر سے نکالنے لگی پھر ملازمہ کے ساتھ دونوں کو اندر لے آئی۔انہیں سلانے کے بعد وہ ہنی کے پاس آکر بیٹھی۔۔۔۔

” ہنی؟؟ “ وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکائے بیٹھا تھا۔۔۔ وہ اس وقت اتنا تھکا ہوا تھا کے روم میں جانے کی بھی ہمت نہیں تھی۔۔۔

” جی مما “ ہنی نے ایک بھر پور انگڑائی لی اور جھکتا ہوا جوگرز کے تسمے کھولنے لگا۔۔۔

” ٹائم ٹیبل آگیا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟؟ “ اسکے لہجے میں صاف ناراضگی جھلک رہی تھی۔۔۔

” مما آپ بار بار revision کراتی ہیں مجھے سب یاد ہے اب بس پیپر سے ایک ہفتہ پہلے revise کرونگا “

ہنی تم۔۔ “ وہ کچھ کہتی اسے پہلے ہی اس آواز نے جیسے اسکے جسم سے روح نکل لی۔۔۔

” ازلان شاہ۔۔۔۔ ازلان شاہ “

وہ اتنی زور سے چییخا کے دَر و دیوار ہلتے محسوس ہوئے۔۔

وہ تو اسے دیکھتے ہی کانپ اٹھی جو اپنی موت کو بلا رہا تھا۔۔۔

” بھائی “ بہن کو دیکھ گویا ہلق میں آنسوؤں کا پھندا اٹک گیا ہو۔۔۔

” نور میری جان۔۔۔ “ وہ اسے دیکھتے ہی اسکی طرف بڑھا۔۔۔ اور نور مدت بعد اپنے بھائی کے سینے لگ بلک اٹھی۔۔۔۔

” نور میں آگیا ہوں نا سب ٹھیک کر دونگا “ وہ اسے تسلی دے رہا تھا کے یکدم نور کو ازلان کا خیال آیا۔۔۔۔

” نہیں بھائی۔۔ وہ۔۔ ازلان؟؟ “

” ازلان شاہ۔۔۔۔ ازلان شاہ“ وہ ایک بار پھر چیخا۔۔۔

” نہیں۔۔ نہیں۔۔ اسے۔۔ مت۔۔ بولائیں۔۔۔۔ بھائی۔۔ اور آپ۔۔ جائیں یہاں سے۔۔۔۔پلیز۔۔۔جائیں۔۔ ازلان۔۔ آجائے گا بھائی پلیز جائیں “

وہ اسے بار بار پیچھے دھکیلتے جانے کا کہ رہی تھی۔۔۔ اسکے آنکھیں بھیگتی جا رہیں تھیں جیسے آنسوں نے نا روکنے کی قسم کھائی ہو۔۔۔

” نور مجھے کچھ نہیں ہوگا میں۔۔۔ “ وہ اسے سمجھا رہا تھا لیکن نور پے تو جنون سوار تھا وہ دیوانوں کی طرح اسے جانے کی منتیں کر رہی تھی۔۔۔

” نور “ ازلان کی دھاڑ سے اسکے اوسان ختا ہوگئے

ازلان لمبے لمبے ڈھاگ بڑھتا سرڑیاں پھلانگتا نیچے آیا۔۔۔

” تم۔۔۔تم آج یہاں سے زندہ بچ کے نہیں جاؤ گئے “

ازلان اسکی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا نور مسلسل امان کو یہاں سے جانے کا کہہ رہے تھی بار بار وہ اسے باہر دھکیل رہی تھی لیکن امان کی نظریں ازلان پے مرکوز تھیں وہ اسے اپنے قریب تر آتا دیکھ رہا تھا۔۔۔ نور کی اتنی کوشس پے بھی وہ ٹس سے مس نا ہوا تو نور یکدم چٹان کی طرح ازلان کی راہ میں حائل ہوگی ازلان کا بس چلتا اسکا حشر کر دیتا لیکن اس وقت وہ امان کے خون کا پیسا تھا۔۔۔۔

نور کی آنکھوں میں التجا تھی اپنے بھائی کے لیے لیکن وہ اس وقت ایک باپ بنا ہوا تھا۔۔۔ جو انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔۔۔ ازلان کو اپنے سامنے وہ جلی ہوئی لاش نظر آرہی تھی۔۔۔ ازلان نے خون آلودہ نظروں سے اسے گھورا لیکن نور پے کوئی اثر نا ہوتے دیکھ ازلان نے بازوں سے پکڑ کے اسے ہٹایا اور پوڑی قوت سے امان کو گھونسا مارا وہ الٹے منہ زمین پے گرا اسکے حالق سے چیخ برامد ہوئی بی بی جان شور سن کر آگئیں وہاں کا قیامت خیز منظر دیکھ کے انکا سر چکرا گیا۔۔۔ ازلان دیوار پے لٹکی بندوق کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔

” نہیں ازلان پلیز بھائی کو چھوڑ دیں انہوں نے کچھ نہیں کیا “

وہ اسے ہاتھ جوڑ کر کہ رہی تھی۔۔ لیکن ازلان کی سر پے تو اس وقت جنون سوار تھا اسنے بندوق کا نشانہ امان کے ماتھے پے رکھا ازلان کو لگا وہ اسے معافی مانگے کا گڑگڑائے گا لیکن اسکے برعکس امان کے چہرے پے جان لیوا مسکراہٹ تھی۔۔۔

” شاہ پتر چھوڑ دے اسے کیوں خون سے ہاتھ رنگ رہا ہے۔۔۔ ارے اللّه بہتر انصاف کرنے والا ہے وہ قاتلوں کو سزا دیگا امان نے کچھ نہیں کیا “ ہلکی ہلکی سائرن کی آواز قریب تر آتی جارہی تھی۔۔۔

” بی بی جان یہ ذلیل انسان آج میرے ہاتھوں سے مرے گا اب اور نہیں تین سال سے انتظار کر رہا ہوں اس پل کا “

” مار دینا پہلے اپنی بیوی کے قاتیلوں سے تو ملو “ امان نے ناک سے بہتا خون بازوں سے صاف کیا۔۔۔

” میلونگا نہیں زمین میں گھاڑ دونگا “ وہ سانپ کی طرح پھنکارہ۔۔۔

” سر باہر پولیس آئی ہے “

” کس نے بلایا انہیں؟؟ مجھے انکی مدد کی کوئی ضرورت نہیں اسکا فیصلہ میں خود کرونگا نکالو اُنھیں“

گارڈ واپس جاتا اس سے پہلے پولیس دو آدمیوں کو اندر لے آئی۔۔۔ انسپکٹر آتے ہی ازلان کی طرف دوڑا اور دو اہلکاروں کے ساتھ مل کے اسے بندوق چھینے کی کوشش کی۔۔۔

” چھوڑیں شاہ صاحب قانون کو ہاتھ میں مت لیں “

” انسپکٹر چلے جاؤ ورنہ کل صبح تمہاری ڈیسک پے ٹرانسفر آرڈر ہونگے “ اسنے دونوں اہلکاروں کو چھٹکے سے خود سے دور کیا اور انسپکٹر کو دھمکایا۔۔۔

” مسٹر ازلان امان شاہ بےگناہ ہے “

اس آواز نے جیسے ازلان کی سماعتوں پے بم پھوڑا تھا اسنے آفسر کی طرف دیکھا جو اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لایا تھا جنہیں حوالداروں نے پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔

” یہ۔۔ کیا۔۔ کہ۔۔ رہے۔۔ ہیں۔۔ آپ۔۔۔ آپ نے ہی انویسٹیگیشن کی تھی۔۔۔“ اسکی آواز میں واضع لڑکڑاہٹ تھی جو اسکا غرور پاش پاش کر گئی۔۔۔۔

” ہمیں گمراہ کیا گیا تھا شاہ صاحب اس دفع مجرم نے خود اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے “

” کو۔۔کون۔۔۔ ہے۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ مجرم؟؟ “

اسے اپنی آواز کسی دور کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔۔۔۔

” شہروز خان (ماہا کا بھائی ) اور آذر خان (ماہا کا منگیتر ) “

” آذر خان “ ازلان کے لب بے آواز ہلے وہ اس نام سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔ لیکن آذر خان یہ نام اسنے سنا تھا لیکن کب کس کے منہ سے اس وقت اسکا دماغ کام کرنے سے انکاری تھا۔۔۔ لیکن وہیں نور اس نام سے برُی طرح چونکی وہ کیسے آزر خان کو بھول سکتی تھی تو اسکی زندگی عذاب بنانے والا وہ تھا جسے اسنے ٹھکرایا تھا۔۔۔

” انسپکٹر صاحب ذرا انہیں وجہ بھی بتا دیں “

امان کے لہجے میں واضع طنز تھا۔۔۔

” وجہ مسٹر ازلان آپ دونوں کی کوٹ میرج ہے ماہ نور شاہ کی نسبت آذر خان سےطے تھی۔۔۔ غیرت کے نام پے ماہ نور شاہ کو قتل کیا گیا ہے۔۔۔!! معافی چاہتے ہیں شاہ صاحب امان شاہ کو پھسانا ہمیں گمراہ کرنا سب سازش کے مطابق تھا۔۔۔ اب ان سب کے خلاف کڑے ثبوت ملے ہیں۔۔۔ بڑے سے بڑا وکیل ہائر کرلیں لیکن بچ نہیں پائیں گے۔۔۔“

سب کی نظریں اس وقت ازلان پے تھیں جو دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ سب سن رہا تھا۔۔۔ آج اسے پتا چلا زمین پیروں تلے سے نکلتی کیسے ہے امان نے آج اسے بُری طرح آسمان سے زمین پے پٹکا تھا۔۔۔۔ ازلان کی نظر اٹھی وہ سامنے ہی کھڑی تھی۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اس سے بہت دور وہ آنکھیں۔۔۔۔۔ اسے لگا تھا اگر وہ مزید یہاں رکا تو اس کی روح اسکے جسم کا ساتھ چھوڑ دیگی۔۔۔


وہ سن ہوتے ذہن کے ساتھ باہر نکل گیا کیسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔


☆.............☆.............☆


” نور تم آگئیں۔۔!! یار میری ٹائی کہاں ہے۔۔“ کھٹکے کی آواز پے ازلان بولا۔۔۔ وہ پیچھے مڑا نظر نور پے گئی جو روئیل بلو ڈریس میں حجاب لیے ازلان كے دِل کی دھڑکن بن کے دھڑک رہی تھی۔۔۔۔


” نُور میری جان “ ازلان نُور کی طرف بڑھا اور پیشانی پے بوسا دیا۔۔۔


” کتنی بددعائیں دی ہیں۔۔۔ جو تمہارے حصار سے نکلنا چاہوں تو بھی نہیں نکل سکتا “


وہ خوشدلی سے بولا لیکن نور کو لگا وہ طنز کر رہا ہے۔۔۔


” میں نے آپ کو کبھی بد دعا نہیں دی۔۔۔ بس خود کے لیے دعائیں کرتی تھی جو کبھی قبول نہیں ہوئیں “


نور کا لہجہ سرد تھا۔۔۔


” نور میں مذاق کر رہا تھا۔۔۔ جانتا ہوں تم کبھی مجھے بددعا نہیں دے سکتیں۔۔۔“


ازلان محبت بھرے لہجے میں اپنی صفائی پیش کر رہا تھا۔۔۔


” نور آج کا یہ دن ہمارے لیے بہت بڑا دن ہے۔۔۔!! آج حیا کسی اور کے نام ہوجائے گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔ دیکھنا تمہارے سارے خدشات دور ہوجائیں گے ہمارا انتخاب صیح ہوگا “


وہ اسے دیکھتے ہوئے کہ رہا تھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔۔۔


” اللہ‎ کرے ایسا ہی ہو “


نور کے دل سے دعا نکلی اپنی جان سے عزیز بیٹی کے لیے۔۔۔


” نور سترہ سال ہوگئے تمہاری بےرخی برداشت کیے۔۔۔!!! کیا اتنا وقت کم ہے کسی کے گناہ معاف کرنے کے لیے۔۔۔؟؟ جن گناہوں کا ازالہ میں کر سکتا تھا میں نے کیا۔۔۔ ہر طرح سے تمہاری نفرت برداشت کی۔۔۔ سب کے سامنے تم سے معافی مانگی جانتی ہو کیوں۔۔۔؟؟ کیوں کے محبت میں انا نہیں ہوتی۔۔۔ تم شاید مجھے معاف کر چکی ہو لیکن ہر بار انا بیچ میں آڑے آجاتی ہے۔۔۔۔ “


وہ آنکھوں میں نمی لیے اسے سن رہی تھی جو لہجے میں محبت سموئے اس سے التجا کر رہا تھا۔۔۔


” نور بہت تھک گیا ہوں میں۔۔۔ ایسا نا ہو کے معاف کرنے کا لیے میں رہوں ہی نا۔۔۔۔“ وہ دکھ بھرے لہجے میں استفار کر رہا تھا۔۔۔۔

” نہیں “ نور کا ہاتھ بے اختیار ازلان کے ہونٹوں پے گیا۔۔۔

ازلان اسکی بے ساختی پے مسکرایا۔۔۔

اسی وقت ازلان کی جیب میں رکھا فون بجا۔۔۔

” ہیلو “ اسے شدید غصّہ آرہا تھا اس مداخلت پے۔۔۔

” کہاں ہو یار تم لوگ؟؟ نکلے بھی ہو یا نہیں؟؟ “

فیضان کی آواز میں واضح جھنجھلاہٹ تھی۔۔۔

” حیا پہنچ گئی؟؟ “ ازلان کی نظر نور پے تھی جو فون آنے پے حواس باختہ سی اسکی ٹائے ڈھونڈنے لگی۔۔۔

” سب ہال میں ہیں تم میاں بیوی ہی رہ گے ہو “

فیضان تپا ہوا تھا اوپر سے ازلان کے بہس۔۔۔

” نہیں ثانیہ بھی ہے ہم بس نکل رہے ہیں “

ازلان نے یاد آنے پے کہا۔۔۔ نور اور ثانیہ ساتھ ہی پارلر سے آئیں تھیں البتہ حیا کو میر لینے گیا تھا۔۔۔

” ثانیہ حیا کے پاس ہے!! تم یہ بتاؤ آؤ گے یا نہیں ہم نکاح پڑوادیں “ فیضان نے دانت پسستے کہا۔۔۔۔

” تمہارے نمازے جنازہ نا پڑھوا دوں!!! بس آرہا ہوں“

ازلان نے بھی اسی کے لہجے میں جواب دے کر فون رکھ دیا۔۔۔

” نور یہ ٹائے تم باندھ دو مجھ سے نہیں بندھتی“

نور جو پریشان سے ٹائے ہاتھ میں لیے کھڑی تھی غصّے سے اسے گھورتی جلدی سے ٹائے باھندنے لگی اور روم سے نکل گئی۔۔۔ ازلان بھی اپنا کوٹ اٹھاتا اسکے پیچھے چلا گیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” بھاگ گیا ڈرپوک “

امان اسکے جاتے ہی بڑبڑایا اور آفیسر کا شکریہ ادا کر کے انہیں روانہ کیا۔۔۔ انکے جاتے ہی نور امان کے پاس آئی۔۔۔

” بھائی یہ سب مجھے یقین نہیں آرہا آپ۔۔۔ نہیں جانتے آج آپنے مجھے زندگی بخشی ہے۔۔۔“ وہ روتے ہوئے امان سے کہ رہی تھی۔۔۔

” نور میرے ساتھ چلو اور بی بی جان کو بھی لے آؤ“

امان نے اسکے آنسوؤں پونچھتے ہوۓ کہا۔۔۔

” نہیں بھائی میں نہیں آسکتی “

” نور “ امان حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

” بھائی میں اپنے بیٹوں کے بغیر کیسے رہونگی “

” کیا “ امان کو شدید جھٹکا لگا ایک نظر اسنے سر سے پیر تک اپنی بہن کو دیکھا جو اپنے بھاری وجود کو اچھے سے شول میں چھپائے ہوئے تھی۔۔۔

” ہاں بھائی عمر اور حمزہ ٹوئنس ہیں میرے بیٹے میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔۔ اور ہنی کے بغیر رہنے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔“ وہ سر جھکائےایسے کہ رہی تھی جیسے کوئی مجرم اپنی غلطی کا احتراف کرتا ہے۔۔۔۔

” تم اُس دھوکے باز کے ساتھ رہو گی۔۔۔؟؟ جسنے کبھی ہمیں پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا ہم سب کو چھوڑ کے چلا گیا تھا؟؟؟ “ اسکی حیرت کے انتہا نہیں تھی وہ کیسے ازلان کی سائیڈ لے سکتی ہے امان کو لگا وہ ایک بار پھر ہار گیا ہے۔۔۔۔

” نہیں بھائی مجھے اپنے بیٹے عزیز ہیں۔۔۔ اور آپ خود سوچیں کیا میں انہیں چھوڑ کے جا سکتی ہوں۔۔۔؟؟ وہ ابھی صرف دس ماہ کے ہیں اور ازلان کبھی بھی بچوں کو جانے نہیں دیگا۔۔۔ اسنے کہا تھا مجھے ڈائیورس دے کے بچے لے لیگا “

وہ ہونٹ کاٹ رہی تھی اسے یہ سب کہتے عجیب سی شرمندگی ہو رہی تھی۔۔۔


” آئی ایم سوری نور بہت دیر کر دی نا میں نے تین سالوں سے اِسی کیس کے پیچھے تھا۔۔۔ تم نہیں جانتی موت کے منہ سے بچ کے آئے ہیں۔۔۔ ان کو شک ہو گیا تھا ہم پے۔۔۔ لیکن اب وہ جیل میں ہیں “ وہ نادم تھا حیسے اس سب میں غلطی اسی کی ہو۔۔۔


” شکر ہے بھائی!! انہیں سزا ملنی چاہیے “


” ہوں!!! کب تم اتنی بڑی ہوگئی مجھے اندازا نہیں ہوا “


امان نے نور کے سر پے ہاتھ رکھتے ہوہے کہا۔۔۔


” بھائی آپ اندر چلیں۔۔۔ چلے آئیں نا۔۔“

اسے اپنے بھائی سے آج خوب ساری باتیں کرنی تھیں۔ وہ بازو سے پکڑے اسے کہنے لگی۔۔۔۔

” نہیں نور امی سے مل لوں تین سال ہوگئے انکو اپنی شکل نہیں دکھائی۔۔۔“ امان نے نرمی سے اپنے بازو چھڑائے۔۔۔

” کیا؟؟ نور چیخی۔۔۔

” بی بی جان کی یاد نہیں آئی پتر۔۔۔“ بی بی جان جو کب سے ان کی باتیں سن رہی تھیں کہ اٹھیں۔۔۔

” بی بی جان آپ کی دعائیں ہی ہیں جو آج میں آپ کے سامنے ہوں۔۔۔“ کہتے ساتھ امان نے شفقت سے انہیں اپنے ساتھ لگایا۔۔۔

امان بی بی جان کے کہنے پے انکے پاس ہی رک گیا۔۔۔۔ رات گیارہ کے قریب نور نے اسے کھانا کھانے کے بعد ہی روانا کیا ازلان پوری رات گھر نہیں لوٹا۔۔۔

☆.............☆.............☆

” بھابی پلیز میرے پاس بیٹھیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے “

” حیا میری گڑیا کچھ نہیں ہوا۔۔۔ آج تو تمہارے زندگی کا سب سے خوبصورت دن ہے اس میں بھلا گھبرانے والی کونسی بات ہے “

ثانیہ نے اس کے خوبصورت ساراپے کو دیکھا بلاشبہ وہ حسن وجمال کا پیکر تھی۔۔۔

” حیا “

” مما بابا “

وہ ازلان نور کو دیکھتے ہی کے ان کی طرف بڑھی میر اسے پالر سے برائیڈل روم میں لے آیا تھا۔۔۔ وہ ہجوم کو دیکھ کر اس قدر خوفزدہ تھی کے اس نے باہر جانے سے صاف منع کر دیا۔۔۔ اسلیے اب ثانی برائیڈل روم میں بیٹھی اسے سمجھا رہی تھی۔۔۔

لیکن اب نور ازلان کو آتے دیکھ اسے یقین تھا وہ حیا کو سنمبھال لیں گے۔۔۔

” نور یہ ہماری حیا ہی ہے نا اِس نے تو آج خوبصورتی میں تمہیں بھی ہرا دیا “

ازلان نے اپنی جان سے عزیز بیٹی کو دیکھتے ہوہے کہا۔۔۔

” بابا مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔“ حیا ازلان کے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔۔

” حیا ادھر دیکھو ڈر کس بات کا پورشن ساتھ ہی تو ہیں اور رخصتی تمہاری مرضی سے ہوگی آج تو صرف نکاح ہے۔۔۔ شاہ زَر بہت اچھا لڑکا ہے تمہیں ہمیشہ خوش رکھے گا۔۔۔ اگر ڈانٹے تو مجھے بتانا میں اسے سیدھا کر دونگی “

حیا نے معصومیت سے گردن ہان میں ہلائی۔۔۔۔ 

-------------------------------------


ماضی۔۔۔


شاہ پیلس میں احسن شاہ (ازلان کے داد) اپنے دونوں چھوٹے بیٹوں اعظم اور عالَم شاہ کے ساتھ اپنی پُرکھوں کی حویلی میں قیام پذیر تھے۔۔۔۔ اللہ‎ نے انہیں سات بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔۔۔ اعظم اور عالَم کو چھوڑ سب بڑے بیٹے اپنا حصہ لیکر علیدہ ہوچکے تھے۔۔۔ احسان شاہ نے بیٹوں کی شادی خاندان میں کی البتہ بیٹیاں خاندان کے باہر بڑی بیٹی لاہور میں سیٹل تھی۔۔ اور چھوٹی بیٹی سعودیہ میں۔۔۔


عالم کی شادی احسن شاہ نے اپنی دوست کی بیٹی زیبا سے طے کی۔۔۔ شادی کے دوران اعظم شاہ کی نظر اسما پے پڑی تو وہ اپنا دل ہار بیٹھے۔۔۔


اسما زیبا کی دوست تھی جو اسکی شادی میں شرکت کرنے آئی تھی۔۔۔ زیبا اور عالَم کی شادی کے بعد اسما اور اعظم کی شادی طے پائی۔۔۔ اس طرح دونوں سہیلیاں ایک ہی گھر میں دلہن بن کے آئیں۔ دونوں بہنوں کی طرح رہتیں۔۔۔۔


اللہ‎ نے عالَم شاہ کو تین بیٹوں سے نوازا بڑا بیٹا ارحم دوسرا فیضان جسے پیدا ہوتے ہی عالَم شاہ نے اپنی بہن کی گود میں ڈال دیا۔۔ عالَم شاہ کی چھوٹی بہن اولاد پیدا کرنے کی نعمت سے محروم تھیں اور یہ غم انھیں اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔۔۔ اپنے بہن کی یہ حالت دیکھ عالَم شاہ کا دل کٹتا تھا انہوں نے اپنی دوسری اولاد اپنی بہن کی گود میں ڈال دی۔۔۔ تیسرا بیٹا ازلان حبکہ اعظم شاہ کو اللہ‎ نے ایک بیٹے (امان شاہ) سے نوازا۔۔ ایک دن عالَم اور اسما اپنے بڑے بیٹے ارحم کے ساتھ کسی شادی سے واپس لوٹ رہے تھے کے اچانک ایک ایکسڈنٹ میں موقعہ پے ہی دم توڑ گئے۔۔۔ یہ خبر بجلی بن کی گر ی تھی شاہ ہاؤس کے مکینوں پے۔۔۔۔ بی بی جان تب سے بستر سے جا لگیں۔۔۔ ازلان اس وقت محظ دو سال کا تھا اسما نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔۔۔ آخر ازلان اسکی عزیز سہیلی کا بیٹا تھا۔۔۔ اعظم کا دل نا گھر میں لگتا نا آفس میں یہ کاروبار دونوں بھائیوں نے مل کے شروع کیا تھا۔۔۔ اب عالَم کے جانے کے بعد نقصان پے نقصان ہو رہے تھے۔۔۔ حساب کتاب کا سارا معملہ عالَم کے سُپرد تھا۔۔۔ بڑھتے نقصان کو دیکھ اعظم نے خود کو کاروبار میں مصروف کر لیا۔۔۔ دوسری طرف احسن شاہ اور بی بی جان بیٹے کے دکھ کو لیکر دن با دن کمزور ہوتے جا رہے تھے۔۔۔ احسن شاہ زیادہ تر ازلان کو اپنے پاس رکھتے۔۔۔ اب یہی تو ایک آخری نشانی ہے عالَم کی فیضان تو میلوں دور ہے۔۔۔ جس کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا ان کی بیٹی شادی کے بعد جو گئیں تو واپس مڑکے نہیں دیکھا۔۔۔ لیکن وہ اپنے گھر والوں سے رابطہ رکھے ہوئے تھیں۔۔۔ بس دن بھر کی مصروفیات انہیں پاکستان آنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔۔۔ اسما نے ازلان اور امان میں کوئی فرق نہیں کیا جو کپڑے کھلونے امان کے لیے لیتیں وہی۔۔۔ ازلان کے لیے انہیں یاد ہے ایک دن اعظم نے کہا تھا۔۔۔


” اسما ازلان میرے عزیز بھائی کی نشانی ہے امان اور ازلان میں کبھی فرق نہیں کرنا۔۔۔ وہ بچا چھوٹی عمر میں یتیم ہوگیا۔۔۔ اور یتیم کے حق کو مارنا اللہ‎ کو ناراض کرنا ہے مجھے یقین ہے تم انصاف کروگی۔۔۔ دیکھنا اللہ‎ تمہیں اسکا اجر ضرور دیگا “


اور اسما نے ان الفاظوں کو ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کر لیا۔۔۔


وقت کا کام ہوتا ہے گزرنا وقت یوں ہی گزر رہا تھا۔۔۔ ازلان ابھی پانچ سال کا تھا کے احسن شاہ خالق حقیقی سے جا ملا۔۔۔


دو سال کا بچا ناسمجھ باپ کی موت کو سمجھ نا سکا لیکن پانچ سال کا وہ بچہ بلک بلک کے اپنے دادا کی میت پے رویا تھا۔۔۔


ایک اور صدمہ شاہ ہاؤس کے مکینوں کے مقدر میں جا لکھا۔۔۔

گزرتے وقت کے ساتھ ازلان کا مزاج جتنا سنجیدہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ امان اتنا ہی شرارتی ہنس مکھ تھا لیکن دونوں کی ہی آپس میں نہیں بنتی۔۔۔ امان بچپن سے ہے ازلان سے نفرت کرتا تھا۔۔۔ لگتا تھا ازلان نے اسکے ماں باپ کو چھینا ہے۔۔۔ پہلے جو محبت صرف اسے ملتی تھی اب وہ باٹنے ازلان بھی آگیا۔۔۔ دونوں اس بات سے بخوبی واقف تھے کے ازلان عالَم شاہ کی اولاد ہے۔۔۔ بی بی جان نے ازلان سے کچھ نہیں چپھایا۔۔۔ امان جب جب اپنی ماں کو ازلان کے ناز اٹھاتے دیکھتا۔۔۔ حسد کی آگ میں جلتا اور یہ ایک حقیقت بھی تھی۔۔۔ ماں باپ کے جانے کے بعد سب نے ازلان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔۔۔ اور امان یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتا۔۔۔ لیکن کسی سے شکوہ نا کرتا۔۔۔ ازلان نے جب بھی دوستی کا ہاتھ امان کی طرف بڑھایا۔۔۔ امان نے بُرے طریقے سے اسے جھڑک دیا۔۔۔۔ اسے طرح زندگی کے پندرہ سال بیت گئے۔۔۔ ان گزرتے پندرہ سالوں میں جہاں اعظم شاہ دن با دن ترقی کی سڑھیاں چڑتے گئے وہیں اسما سے مردہ اولاد کا غم بھی ملا اس بار جب اسما کو امید سے ہونے کی خبر ملی تھی تو اسکے چہرے پے ڈھونڈنے سے بھی کوئی خوشی نہیں تھی۔۔۔ شاید اب بھی وہ نا امید تھی آخر وقت گزرتا گیا اور اللہ‎ نے اسما کو ایک خوبصورت بیٹی سے نوازا۔۔۔ ازلان امان جو آپریشن ٹھیٹر کے باہر کھڑے تھے یہ خبر سن دونوں ایک دوسرے کے گلے ملے۔۔۔ یہ خبر ایسے تھی کے انہیں اپنی دشمنی بھی بھلا گئی۔۔۔ اعظم شاہ کام کے سلسلے میں باہر گئے تھے یہ خبر سنتے ہی فوراً چلے آئے۔۔۔۔

اذلان شاہ کی زندگی میں وہ خوبصورت وقت آگیا جب اسے لگا اسے جینے کا مقصد مل گیا ہو۔۔۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا زندگی اتنی خوبصورت ہو سکتی ہے۔۔۔ وہ جانتا تھا وہ اعظم شاہ کی سگی اولاد نہیں یہ بات اسے کسی نے نہیں چھپائی وہ اپنے زندگی میں خوش تھا لیکن ایک کمی تھی جو اس پری نے آکر پوری کر دی۔۔۔

اسے یاد ہے کچھ ماہ پہلے بی بی جان نے اسما سے کہا تھا۔۔۔

” اسما اس دفع میرے دل کہتا ہے اللہ‎ تمہیں صحت مند اولاد سے نوازے گا۔۔۔ اور اگر بیٹی ہوئی تو میں نے سوچ لیا ہے وہ میرے ازلان کی دلہن بنے گی “

اسما بس انکی بات پے مسکرائی تھیں انہیں لگا تھا اس دفع بھی مردہ اولاد ہوگی۔۔۔ امان بھی اپنی ماں کے ساتھ وہیں بیٹھا تھا اور اس بات پے اسکے چہرے کے سخت تااثرات باہر کھڑے ازلان نے دیکھے تھے۔۔۔

ننھی سے نور پندرہ سالا اذلان کے ہاتھوں میں بے خبر سو رہی تھی۔۔۔ پاس ہی اسما آرام کر رہی تھیں انہیں بس اعظم شاہ کے آنے کا انتظار تھا آخر برسوں بعد اس گھر میں کوئی خوشی آئی تھی وہ انکا خوشی سے دھمکتا چہرہ دیکھنے کے لیے بےچین تھیں۔۔۔ اور وہاں کھڑا امان بہن کو یک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔۔۔ اس کا بس نہیں چلتا وہ اسے ازلان کے ہاتھوں سے لیکر پورا گھما دے۔۔۔۔

” اذلان یہ کتنی خوبصورت ہے نا؟؟ بالکل ڈول جیسے ہے نا؟؟ “

” ہوں “

وہ بس اسے دیکھے جا رہا تھا جو اس کے چھونے سے تھوڑا سا کسمساتی۔۔۔

” اذلان اسے مجھے دو “

” اٹھ جائے گی یار سونے دو “

” میں بھی اپنے ہاتھوں میں رکھوں گا پلیز دونا “

” اگر روئی تو چھوڑونگا نہیں “

” اچھا نا اب دو “ امان کو غصّہ ہی آگیا اب وہ اسکی بہن پے بھی حق جاتا رہا تھا۔۔۔

” دھیان سے پکڑنا “

کچھ دیر بعد اعظم شاہ بھی اپنی ننھی پری کو دیکھنے آئے جو کوئی حور ہی لگ رہی تھی۔۔۔ سرخ و سفید رنگت گلابی گال بڑی بڑی آنکھیں پتلے گلابی ہونٹ انہوں نے اسکے سر پے بوسا دے کر اسما کے پہلو میں لیٹا دیا۔۔۔ وہ جتنا خدا کا شکر کرتے کم تھا دس دن بعد آسما کو ڈسچارج کر دیا گیا گھر میں خوشیوں کا سماں تھا۔۔۔ پورے گاؤں میں مٹھائی بانٹی گئی۔۔۔ غریبوں میں کپڑے تقسیم کیے گئے اعظم شاہ نے بڑے پیمانہ پے دعوت رکھی جس میں خاندان کے ایک ایک شخص کو بلایا گیا۔۔۔ وہیں فیضان جو ازلان سے صرف کال پے بات کرتا تھا۔۔۔ آج پندرہ سالوں بعد اپنے بھائی کو روبرو دیکھا پورا دن وہ دونوں ساتھ رہے۔۔۔ آج ثمینه( فیضان کی ماں) بھی سالوں بات اپنے بھائی بھابھی ماں سے ملکر بہت خوش تھیں انکا تو جانے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ فیضان رات گئے تک بی بی جان کے پاس تھا دعوت کے اختتام ہوتے سب گھروں کو روانہ ہوگئے۔۔۔ البتہ ثمینه صبح کی فلائٹ سے سعودیہ چلی گئیں۔۔۔۔

” اس کا نام کیا رکھیں گے ابو؟؟؟ “

امان اِس ننھی پری کو دیکھتے ہوئے بولا جو اذلان کے بازؤوں میں سوئی ہوئی تھی۔۔۔

” اس کا نام نور ہے۔۔۔ “

اذلان فورًا بول اٹھا اعظم شاہ کے لب مسکرائے۔۔

” تم نے رکھا ہے؟؟؟ “

وہ پوچھ رہے تھے۔۔۔

” جی ابو وہیں اسپتال میں سوچ لیا تھا۔۔۔۔“

” ابو نور نہیں حفصہ اچھا نام ہے۔۔۔“

امان نے ایک غصیلی نظر سے ازلان کو نوازتے ہوئے کہا۔۔۔

” نور اچھا نام ہے امان !! اب سے اسکا نام ” نور العین “ ہے “

امان وہاں سے اٹھ کے چلا گیا اعظم شاہ نے اس بات کو خاص نوٹ نہیں کیا ازلان سوئی ہوئی نور کو اٹھائے اسما کے پاس چلا گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

گھر میں ہر کوئی اذلان کے جنون سے واقف تھا جو گھر میں آتے ہے نور کو اپنے پاس رکھتا۔۔۔ خود سے الگ نا کرتا۔ نور جب ایک سال کی ہوئی تو بی بی جان نے اسما اور اعظم کو اپنی خوائش کا بتایا۔۔۔

اعظم نے بی بی جان کو زبان دی تھی وہی ہوگا جو وہ چاہیں گی۔۔۔ اس طرح بچپن سے ہی وہ ازلان کے نام سے جڑ گئ۔۔۔۔ امان اور اذلان کی اکثر اِس بات پے لڑائی ہو جاتی ازلان چپ چاپ نور اسے تھما دیتا کیوں کے امان کا کہنا تھا وہ اسکی بہن ہے!!!

تمہاری کیا لگتی ہے؟؟ خیر وہ اسے بہن تو ہر گز نہیں کہ سکتا۔۔۔ گزرتے دنوں کے ساتھ اذلان کے دل میں نور کی محبت کی جڑیں مضبوط ہوتی جا رہیں تھیں۔۔۔ وہ اپنی زندگی سے خُوش تھا لیکن ایک دن اِس ممعول کی زندگی میں فرق آیا جب سیکنڈ آئیر کا رزلٹ آنے کے بعد اعظم شاہ کے کہنے پے دونوں نے یونیورسٹیز کے ٹیسٹ دیے۔ اور رزلٹ کا انتظار کرنے لگے۔۔۔

” پری۔۔۔ پری “

لاؤنچ میں آتے ہی ازلان نے گڑیا سے کھیلتی نور کو آواز دی۔۔

” ادلان بھائی آپ آدھے “وہ خوشی سے چہکتی ہوئی بولی۔۔۔

” ہاں یہ لو “

وہ اسے چاکلیٹ دینے لگا نور نے فوراً لے لی دیکھتے ہی دیکھتے پوری ختم کر دی۔۔۔

” کیا ہوا تمھارے دوست نہیں آئے آج؟؟ “

تین سالہ نور گلابی فروک میں ملبوس بالوں کی پونی کیے ہوئے خود کوئی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔۔۔

" وہ لافی ( رافع ) دھندا اسنے میلے دوست کو مالا وہ تلے گئے۔۔۔"

وہ اپنے توتلی زبان میں بولنے لگے۔ رافع بڑا ہی ڈھیٹ تھا جتنی بھی مار ازلان سے کھا لے سدھرنا اسے ہے نہیں۔۔

” اچھا۔۔۔۔ یہ بتاؤ امی کہاں ہیں؟؟ “

” امی وہ۔۔۔۔ وہ “

وہ آنکھوں کی پتلیاں گھما کے سوچنے لگے۔۔۔

” وہ تو ابو کے ساتھ گلی(گئی) ہیں۔۔۔ “

” اچھا پری پانی تو پلاؤ۔۔ “

” نہیں۔۔۔ “

" کیوں۔۔۔ “

" امی تہہ لہی تھیں آپ دا لحے ہو مدھے چھول کے اول امان بھائی بھی دھندے ہیں “

وہ چونکا پِھر بولا۔۔۔

” نہیں پری ہم کہیں نا جا رہے پانی پلا دو یار پیاس سے حالت بُری ہو رہی ہے یا زیحبا ( ملازمہ ) سے کہدو “

” نو میں لاؤں دی “

اذلان کے ہونٹوں پے مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔ وہ خود بھی جانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ لیکن پڑھائی تو زندگی کا حصہ تھی اسے اعظم شاہ کا ہر خواب پورا کرنا ہے جو انہوں نے امان اور اسکے حوالے سے دیکھا تھا۔۔۔


رزلٹ آنے کے بعد دونوں ہی کراچی روانہ ہوگئے۔۔۔ ہوسٹل میں رہنے کے بجائے انہوں نے فلیٹ میں رہنا بہتر سمجھا۔۔۔ دونوں کا الگ یونیورسٹی میں ایڈمشن ہوا تھا لیکن دونوں یونیورسٹیز ایک دوسرے کے قریب ہی تھیں۔۔۔ دو دن کی لگاتار محنت کے بعد انہیں ایک فلیٹ بھی بلاآخر مل گیا۔۔۔ لیکن وہاں الریڈی موجود تین لڑکوں نے پیسوں کی ڈیمانڈ بڑھا دی ناچارا انہیں ماننا پڑا۔۔۔۔


پہلا ہفتہ ازلان کا تو کافی بورنگ گزرا نور کے بغیر اسے رہنے کی عادت جو نہیں تھی۔۔۔ وہاں پہلے ہفتے ہی اسکی ماہ نور سے دوستی ہوگئی جو خود ایک جاگیردار فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔ ازلان کافی مغرور سا اپنی کلاس میں مشہور تھا۔۔۔۔


ٹیچرز اِس سے خوش تھے وہ كافی ذہین تھا۔۔۔ لیکن وہ ملا جلا کے ایک دو لوگوں سے رابطہ رکھتا اسکے گروپ میں تین لڑکے تھے۔۔۔ لیکن ماہ نور ایک ایسی تھی کے وہ جتنا اسے اگنور کرتا وہ اتنا اسکے پاس چلی آتی۔۔۔ اور اوپر سے جب قسمت ہی خراب تو بندا کیا کرے سر نے ماہ نور کے ساتھ ازلان کا گروپ بنا دیا۔۔۔


وہ اذلان کو ہر طرح سے اپنے طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی لیکن وہ اسے گھاس بھی نا ڈالتا ایک دن ماہا نے تنگ آکے پوچھا۔۔۔


” اذلان ! “


وہ دونوں اسائنمنٹ مکمل کر کے کینٹین جا رہے تھے جب ماہا نے پوچھا


” تم اینگیجڈ ہو یا کوئی گرل فرینڈ ہے؟؟؟ “


” کیوں پوچھ رہی ہو؟؟؟ “


اذلان کو اس کا گرل فرینڈ کہنا نا گوار گزرا۔۔۔


” ایسے ہی پوچھا “ وہ گھبرا گئی اسکے تیور دیکھ کر۔۔


” ہے؟؟ “ وہ ساوالیہ نظروں سے ایسے دیکھنے لگی۔۔۔


وہ چُپ رہا۔۔۔


” بتاؤ پلیز ہے؟؟؟ “


” ہاں منگیتر ہے “


وہ اس کی تصور سے مسکرایا ماہا اسکی مسکراہٹ سے تپ گئی جو دو پل کے لیے آکر غائب ہو گئی۔۔۔


” كون؟؟ “


” نور “


” تمھارے رلیٹو ہے؟؟ “


” ہوں۔۔۔۔کزن ہے “

” کیا بہت خوبصورت ہے؟؟ “

” پتا نہیں بس میرے لیے ہے وہ دنیا کی پہلی اور آخری خوبصورت لڑکی ہے۔۔۔ “ ازلان کہیں اور ہی پہنچ چکا تھا۔۔۔

ماہا غصے کی شدت سے سرخ پر گئے۔۔۔ وہ اذلان کی پیچھے پاگل ہے اور وہ گاؤں کی لڑکی کے پیچھے پاگل ہوا جا رہا ہے اِس کا بس چلے تو نور کا گلا دبا دے۔۔۔

” کیا کرتی ہے میرا مطلب کیس فیلڈ میں ہے؟؟ “

وہ اسکی بات پر چونکا ایک پل کے لیے اسے لگا وہ گائوں میں ہے اگلے ہی پل ماہا کو دیکھ وہی بُرا احساس جگا جو یہاں آکر اسے محسوس ہوا۔۔

” ابھی تو اسکول جانا اسٹارٹ کیا ہے اس نے “

” کیا؟؟ “ وہ چیخی۔۔۔۔

” آرام سے پاگل ہو کیا “

” سوری “

” وہ اسکول کیا مطلب اس کی ایج کیا ہے؟ “

” تین سال۔۔۔ میں اُس سے پندرہ سال بڑا ہوں۔۔ “

” مطلب وہ بچی ہے تم بچی سے شادی کروگے؟؟“

” بچی کیا کبھی بڑی نہیں ہوگی “ وہ ابرو اچکا کے پوچھنے لگا

” ایج ڈفرنس سے کیا ہوتا ہے؟؟؟ امی ابو سے بیس سال چھوٹں تھیں اور پچیس کا فرق بھی ہوتا ہے اِس میں کون سی بڑی بات ہے؟؟ “

” اگر وہ بڑی ہوکر تمہیں بھول جائے تو؟؟؟ “

” ایسا کبھی نہیں ہوگا “ وہ یکدم سنجیدہ ہو گیا۔۔۔

” تمہیں لگتا ہے وہ لڑکی ایک بڑی عمر کے آدمی سے شادی کرے گی۔۔۔ ہر لڑکی کے اپنے خواب ہوتے ہیں اَرمان ہوتے ہیں ان کو اپنے جیسا لائف پارٹنر چاہیے ہوتا ہے جس سے ہر بات شیئر کریں۔۔۔ لکھ کے رکھ لو وہ تمہیں کبھی قبول نہیں کرے گے “

” شٹ اپ ماہا!! وہ بچپن سے میرے نام سے جانی جاتی ہے ہمارے یہاں کوئی اپنے زبان سے نہیں مُکرتا اور جہاں تک نور کی بات ہے میں اسے کبھی بھولنے ہی نہیں دونگا شی از

مائن!!! انڈراسٹینڈ “

” لیکن اذلان “

” آئی تھنک اب کوئی کلاس نہیں مجھے گھر جانا چاہیے۔۔ گڈ بائے“

وہ غصہ زبت کرتے کچھ سوچنے لگی۔۔۔

☆.............☆.............☆

مہا نور کی باتیں اسے دل پر لگیں تھیں وہ اسی دن گھر گیا تھا۔۔۔ ہال میں ہی اسے نور نظر آگئی۔۔۔ وہ تھوڑی دیر اس سے باتیں کرتا رہا پھر بی بی جان اور امی سے ملکر واپس لوٹ آیا۔۔۔ گھر آتے ہی ایک اور دھماکہ تیار تھا امان اور ازلان نے لندن کی یونیورسٹی میں اپلائے کیا تھا۔۔۔ اسے وہاں ایڈمشن مل گیا لیکن امان کا سلیکشن نہیں ہوا اور اُس پورے دن ازلان نے کوشش کی وہ اُس کے سامنے نا جائے وہ اس وقت سُرخ چہرہ لیے اپنے لیے نگٹس فرائے کر رہا تھا۔۔۔ یہاں وہ سارے کام خود کرتے وہاں تو پانی تک انہیں نوکر لاکر دیتے۔۔۔ اعظم شاہ یہ خبر سنتے ہی خوش ہوگئے انہیں امید تھی ازلان کا سلیکشن ہوجائے گا۔۔۔ ازلان جو سوچ کے آیا تھا جانے کے لیے منع کردے گا انکا خوشی سے دمکتا چہرہ دیکھ کے خاموش ہوگیا۔۔۔

امان اسکے ساتھ ہی آیا تھا لیکن صبح ہی وہ واپس چلا گیا یہ کہ کر ” پڑھائی کا حرج ہوگا “وہ اس وقت بی بی جان کے روم میں بیٹھا تھا وہ نصیحتوں کی لمبی لسٹ لیکر اسے سنا رہیں تھیں اور وہ خاموشی سے انکی بات سن رہا تھا۔۔۔ دو دن سے یہی ہو رہا ہے کل اسے پاکستان کی سرزمین چھوڑ کے جانی ہے اور تب تک جو کوئی ملا صرف نصیحت کرتا رہا۔۔۔ پھر پورے گھر میں ازلان کی جانے کی تیاریاں شروع کردیں اسما نے ناجانے کیا کیا بنا کے اسکے بیگ میں رکھا تھا کپڑوں کے لیے وہ ایک بیگ لے جا رہا تھا۔۔۔ باقی بیگس میں اسما نے کھانے پینے سے لیکر ضروریات زندگی کی ہر شے رکھی اور آخر کار دو گھنٹے بعد اسکی فلائٹ تھی لیکن جانے سے پہلے وہ نور سے ملنا نہیں بھولا تھا ۔۔۔

” پری تم مجھے بھولوگی تو نہیں؟؟ “

ماہ نور کی باتوں کا اثر تھا جو وہ پوچھ بیٹھا۔۔۔

” بتاؤ؟؟؟ “

” مد ے بات نہیں کالنی “

( مجھے بات نہیں کرنی )

” کیوں؟؟ “ ازلان نے نور کی چھوٹی سے ناک دبائی۔۔۔

” آپ پنے کہا تھا آپ نہیں داھنگے آپ نے دھوت کہا تھا “

(آپ نے کہا تھا آپ نہیں جائینگے آپ نے جھوٹ کہا تھا )

” مجھے جانا ہے پِھر تمھارے لیے بہت کچھ لائونگا“

” کیا لائیندے “ وہ خوشی سے اپنی پوری آنکھیں کھول ازلان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

(کیا لائینگے )

”جو بولو گی۔۔۔۔ اور بہت ساڑی چاکلیٹس بھی صیح ہے؟؟؟ “

” اول حلوہ پلی بھی۔۔۔۔ “

” ہاہاہاہا وہاں حلوہ پوری نہیں ہوتی۔۔۔۔ “ ازلان کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔۔۔

” نہیں مودے تائیے۔۔۔ “

( نہیں مجھے چاہیے )

وہ منہ بسور کے بولی۔۔۔

” اچھا اور کچھ “ وہ مسکراہٹ دباتا کہنے لگا

اور وہ پوری لسٹ بتانے لگی اذلان خاموشی سے سنتا رہا۔۔۔

☆.............☆.............☆

” نور تمہاری امانت ہے ازلان۔۔۔!!! وہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔۔ مجھے یقین ہے جس کام کے لیے بھیج رہا ہوں وہی ہوگا صحیح کہ رہا ہوں؟؟؟ “ اعظم شاہ نے ازلان کے کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے اسے جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔ساتھ وارننگ بھی تھی جس پر ازلان مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔۔۔

” جی “ اسے ائیرپورٹ چھوڑنے صرف اعظم شاہ آئے تھے وہ خود سب کو منع کر آیا تھا۔۔۔ اسے ڈر تھا اگر وہ سب یہاں آتے تو وہ کبھی نا جا پاتا۔۔۔

اعظم شاہ شاید خود کو ہر ڈر سے آزاد کرکے اسے بھیجنا چاہتے تھے۔۔۔

” وہ تمہارے نام سے منسوب ہے خاندان بھر میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے۔۔۔ اپنا ہر قدم سوچ کے اٹھانا ازلان بہت امیدیں ہیں مجھے تم سے۔۔۔ اللہ‎ تمہیں کامیاب کرے “وہ انہیں یقین دلاتا اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔

لندن پہنچتے ہی اس نے سب سے پہلے ابو کے بتائے ایجنٹ سے رابطہ کیا جنہوں نے اسے فلیٹ دکھایا۔۔۔ وہ فلیٹ اسکی سوچ سے زیادہ چھوٹا تھا ایسا لگتا تھا جیسے انسان کا دم گھٹ رہا ہو۔۔۔ لکین وہ خوش تھا کونسا اسے یہاں ہمیشہ رہنا تھا۔۔۔ بس چار سال وہ خود ہی مسکرایا ابھی ہی سے اسکی حالت بُری ہونے لگی تھی کہاں وہ چار سال برداشت کر سکے گا۔۔۔

آتے ہی سب سے پہلے ازلان نے گھر سیٹ کیا ضرورت کی چیزیں وہ مارکیٹ سے لے آیا۔۔۔ پہلے تو اپنے لیے چائے بنائی جب دماغ کام کرنا شروع ہوا تو اعظم شاہ کو کال کر کے خیریت سے پہنچ جانے کی اطلا دی۔۔۔ کچھ دیر ان سے باتیں کرنے کے بعد وہ بیڈ پے آکر لیٹ گیا تھکن اتنی تھی کے وہ فورًا نیند کی وادیوں میں اُتر گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

یونیورسٹی آتے ہی اسے لگا وہ کسی دوسری دنیا میں آگیا ہو۔۔۔ اب انیس سال اس نے پاکستان میں گزارے تھے اب ایک دم کسی الگ ملک آنا عجیب لگ رہا تھا۔۔۔ نیا شہر نئے لوگ نجانے کتنا ٹائم لگے گا اسے ایڈجسٹ ہونے میں۔۔۔ پہلے دن ہی اسکا دل چاہا یہاں سے بھاگ جائے۔۔۔ وہ یونیورسٹی آگیا اپنے ڈاکومنٹس وغیرہ جمع کرواکر۔۔۔ وہ کلاس میں پہنچا دن بھر وہ غور سے سارے لیکچرز سنتا اور نوٹ کرتا رہا۔۔۔۔ لیکچرز ختم ہونے کے بعد وہ یونی کے قریب ہی ایک ریسٹورنٹ میں آگیا وہاں سے لنچ کرنے کے بعد وہ اپنے گھر کے نزدیک آس پاس جگہوں کو دیکھنے لگا اسے اب یہں رہنا تھا تو راستوں کا معلوم ہونا بھی لازمی تھا۔ پورے دن وہ باہر رہا آس پاس جگہیں دیکھتا رہا۔۔۔ رات گئے جب وہ گھر لوٹا تو کافی تھک چکا تھا اسے بھوک بھی لگی تھی لیکن خود کچھ بنانے کی ہمت نہیں تھی وہ ڈائریکٹ بس بیڈ پے اکر ڈھ گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

صبح پھر اسکا وہی معمول تھا شروع میں تو وہ ہر وقت فارغ رہتا۔۔۔ لیکن جیسے جیسے اسائنمنٹس، پریزنٹیشن ملیں اسکی مصروفیت بڑھتی گئی۔۔۔ کبھی کبھی وہ شام گئے گھر لوٹتا۔۔۔ لیکچرز کے بات اکثر وہ لائبریری جاکے وہاں پڑھتا۔۔۔ گھر آتے ہی اگر موڈ ہوتا تو وہ خود کھانا بنا لیتا۔۔۔ ورنہ نیچے قریب ہی ریسٹورنٹ سے کھانا منگوا لیتا۔۔۔ تقریباً وہ ہر ہفتے گھر کال کرتا امی سے گھنٹوں باتیں کرتا اور نور کے بارے میں وہ پوچھنا کبھی نا بھولتا۔۔۔ اکثر وہ فیضان سے بھی بات کرتا۔۔۔ ازلان کی دن بھر کی یہی روٹین رہتی جیسے ہی اسکا سیمسٹر کمپلیٹ ہوتا وہ فورًا ہی پاکستان کی ٹکٹ کرنفرم کروا دیتا۔۔۔ وہاں جاتے ہی بی بی جان اماں سب ایسے ملتے جیسے وہ کوئی جنگ فتح کر آیا ہو۔۔۔ امان سے اسکی ایک دو بار ملاقات ہوئی۔۔۔ لیکن امان نے اسے بُری طرح نظر انداز کیا۔۔ ازلان بھی پھر اس سے ملا نہیں۔۔۔ نور سے ملتے ہی اسے گھنٹوں اپنے پاس بیٹھائے رکھتا۔۔۔ پاکستان سے جاتے ہی پھر اسکا دل ویران ہوجاتا۔۔۔ وہ نور کی ہر برتھڈے پے اسے تحفہ بھیجتا۔۔۔ اور عید کے موقعے پے بھی وہ گھر والوں کے لیے تحفے لیتا۔۔۔ اسے نا تو رمضان میں چھٹی ملتی نا عید پر جانا بھی چاہے تو پیپڑس شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔ گزرتے وقت کے ساتھ وہ اس ماحول میں فٹ ہوگیا لیکن اسنے اس ماحول کو اپنی عادت نہیں بنایا تھا۔۔۔

دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینیں سالوں میں پٙر لگا کے اُڑ گئے اسکے سمسٹرس ہوتے گئے اور وہ صبر کے گھونٹ پیتا رہا۔۔ آخر کار اسکا لاسٹ سیمسٹر آن پہنچا ان تین سالوں میں ایک جو عجیب خبر امی نے اسے دی تھی وہ سن کے ازلان کافی حیران ہوا تھا۔۔۔ وہ تھا امان کا پولیس فورس جوائن کرنا امی نے اسے بتایا تھا وہ ٹیسٹ کی تیاری کر رہا ہے۔۔۔ خیر یہ خبر اسکے لیے حیران کن تھی کیوں کے امان کو کبھی اس پروفیشن میں انٹرسٹ نہیں تھا۔۔۔ ازلان نے رات کی پاکستان کی ٹکٹ کونفرم کروا لی اس دفع اسکا عید منانے کا ارادہ پاکستان میں تھا۔۔۔

☆.............☆.............☆

ائیرپورٹ سے باہر آتے ہی ازلان نے بھر پور انگڑائی لی وہ اس پورے سفر میں صرف سوتا رہا ہے باہر ہی ڈرائیور اسکا ویٹ کر رہا تھا۔۔۔ ایسا نہیں تھا کا کوئی اسے رسیو کرنے نہیں آتا وہ خود اعظم شاہ کو یہاں آنے سے منع کر دیتا۔۔۔ اسے اکیلے سفر کرنے کی عادت تھی۔۔۔ کسی اور کی موجودگی سے وہ سخت بیزار ہوتا۔۔۔

اسنے ڈرائیور کو پہلے کسی ریسٹورنٹ میں چلنے کا کہا۔۔۔ ازلان نے سفر کے دورڑان کچھ کھایا نہیں تھا اب بغیر لنچ کے اتنا لمبا سفر اسے بھوک سے بحال کر دیتا۔۔۔ گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے آکر رکی۔۔۔ وہ اندر چلا آیا بھیرے کو آرڈر دیکر انتظار کرنے لگا کے اچانک اسکی نظر سامنے سے آتے لڑکا لڑکی پے پڑی۔۔ وہ اسی کی طرف آرہے تھے بلاشبہ وہ لڑکی ماہ نور تھی۔۔۔ وہ کیسے اس سرپھری کو بھول سکتا ہے۔۔۔؟؟ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو اویس نے پہنچتے ہی اسے گلے لگایا اویس اسکے بہترین دوستوں میں سے ایک تھا وہ اسکا یونی فیلو تھا اسکا گروپ میٹ۔۔۔

” ازلان یقین نہیں آرہا تم ملے ہو!!! ایسے گئے کے واپس لوٹ کے ہی نہیں آئے “

وہ خوشدلی سے اس سے ملتا ہوا کہ رہا تھا۔۔

” نہیں یار ایسی بات نہیں آتا جاتا رہتا ہوں بس تم آج ملےہو “

وہ اس سے الگ ہوتے ہوہے بولا۔۔

” کیسی ہو ماہ نور؟؟ “

ازلان نے خود ہی بات کا آغاز کیا

” میں ٹھیک ہوں تم سناؤ ؟؟“ ماہ نور نے مسکرا کر جواب دیا ازلان کو یہ مسکرائٹ کھوکلی لگی۔۔۔

” الحمداللہ!!! تم لوگ کے سامنے ہوں دیکھ لو “

وہ کافی دیر یہاں وہاں کی باتیں کرتے رہے ازلان نے انہیں بتایا اسکا لاسٹ سیمسٹر ہے جب کے اویس اب جاب کی تلاش میں ہے پاکستان میں ویسے ہی انجینیرز کو مشکل سے جاب ملتی ہے وہ بھی باہر جانے کا سوچ رہا ہے۔۔۔ لنچ تینوں نے ساتھ کیا پھر ازلان اٹھ کھڑا ہوا اسے جلدی نکلنا تھا ورنہ رات کے وقت سفر خطرے سے خالی نہیں۔۔۔

” ازلان دیکھو کتنا بیوقوف ہوں اہم بات تو کی ہی نہیں میں یہاں تمہیں انوائٹ کرنے آیا تھا۔“

وہ سر پے ہاتھ مارتا کہنے لگا۔۔

” انوائیٹ؟؟؟ “

” ہاں wednesday کو ہماری انگیجمنٹ ہے اور تمہیں آنا ہے نہیں آئے تو گھر پہنچ جاؤں گا تمہارے۔۔۔ “ اویس نے ماہا نور کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور آخر میں ازلان کو دھمکی دی جس پے وہ مسکرایا۔۔۔

” ہاں آجاؤں گا اُسے دن میری واپسی کی فلائٹ ہے اٹینڈ کر کے جاؤنگا “ وہ اویس سے گلے ملتا وہاں سے نکل گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

صبح کا یہ منظر کتنا یاد آتا تھا اُسے وہاں وہ اس وقت حویلی کی چھت پے کھڑا باہر کے منظر دیکھ رہا تھا کل تھکا دینے والے سفر کے بات وہ رات میں حویلی پہنچا تھا کل اسے کافی دیر ہوگی تھی۔۔۔ حسب عادت سب اسکا انتظار کرتے سو گئے سوائے اسما کے۔۔ جو لائونچ میں چکر کاٹتے اسکا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔ اسما نے اسے دیکھتے ہی خوشی سے اسکی پیشانی چومی۔۔۔ اور ڈرائیور سے کہ کر سامان اندر رکھوایا۔۔۔ پھر ڈائنگ ٹیبل پے لے جاکر اسکی پسند کی ایک ایک چیز پلیٹ میں خود ڈالتے اسے کھانے کا کہتی رہیں ازلان کو بھوک تو نہیں تھی لیکن ان کی خوشی کے لیے وہ کھاتا رہا۔۔۔ صبح وہ سب سے ملا لیکن بابا شاید جلدی میں تھے تبھی جلد ہی اس سے ملکر چلے گئے۔۔۔ امی سے پوچھنے پے پتا چلا آج ایک اور لڑکی بٙلِی چڑھے گی۔۔۔ ظلم و ستم کا شکار ہوگی پہلے پنچائت کا فیصلہ اسکے دادا احسن شاہ کرتے تھے۔۔۔۔ وہ پوری تحقیقات کے بعد انصاف کرتے تھے لیکن اب فیصلہ دوسرے وڈیرے کرتے قتل چاہے چھوٹی یا بڑی بات پے ہو ظلم عورت پے ہوتا قاتل کو۔۔۔ آزاد چھوڑ دیا جاتا اور اسکی بہن بیٹی کو خون بہا میں دے دیا جاتا۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں تھا کے سامنے سے نور آتی دکھائی دی جو خود سے زیادہ وزن دار اپنا بیگ اٹھاۓ آرہی تھی۔۔۔ وہ اسے دیکھ مسکرایا۔۔۔ اسکا بیگ لیکر سائیڈ پے رکھا اور جیپ نکال کے اسے اپنے ساتھ گھومانے لیے گیا۔۔

عید کا دن آکر گزر گیا وہ واپسی کا سفر تہ کر رہا تھا عید کے دن پورا گھر خاندان کے لوگوں سے بھرا ہوا تھا اسکے چچا چچی ان کے بچے بیویاں سب ہی آئے تھے اور کچھ کزنس سج سنور کے اسکے سامنے کھڑی تھیں بس اسکے کہنے کی دیر ہوتی اور سب کھڑی ہوجاتیں۔۔۔ حکم پورا کرنے کے لیے اور چچیاں ایسے خوش اخلاقی سے ملیں جیسے وہ انکا بچھڑا ہوا بیٹا ہو۔۔۔ اسماں مسکراتے ہوئے ازلان کی حالت دیکھ رہیں تھیں پھر اسکے پاس آکر بی بی جان کے بلاوے کی اطلاع دی وہ شکر کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ اکثر ہمارے رشتے داروں کو لگتا ہے کے جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں بہت امیر ہونگے یا وہاں پڑھ کے وہ راتوں رات مالدر ہوجائیں گے۔۔۔۔ وہ سمجھ گیا تھا سب اسی لیے اسکی خاطرداری کر رہے تھے اسے اعظم شاہ سے پتا چلا تھا اسکے چچائوں کی بیویاں کس قدر لالچی ہیں۔۔۔ وہ یہ سوچتا بی بی جان کے پاس پہنچا تو اسے اصل وجہ معلوم ہوئی۔۔۔ بی بی جان نے اسے پراپرٹی کے پپرز دیے ایک پل تو اسے لگا امان نے کوئی ہنگامہ کیا ہوگا لیکن وہ پراپرٹی اسکے بابا کی نہیں اسکی ماں کی تھی۔۔۔ اسکے نانا نے اپنی زندگی میں ہی ساری جائیداد اپنی بیٹی کی نام کر دی تھی۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھیں ور اب وہ جائیداد فیضان اور ازلان کے حصّے میں آگئی فیضان کا حصہ بی بی جان دے چکی تھیں یہ ازلان کا تھا۔۔۔۔ وہ اُن سے نہیں لینا چاہتا تھا لیکن بی بی جان نے اسے زبردستی تھما دیے۔۔۔۔

وہ کار میں بیٹا گزرے تین دن سوچ رہا تھا وہاں بتایا ہر پل اسے حسین لگتا۔۔۔۔ نور وائٹ گرارے اور وائٹ ٹاپ میں ملبوس اس سے عیدی مانگ رہی تھی اور اسنے سب سے زیادہ عیدی ازلان سے ہی لی تھی۔۔۔۔

” سر ہوٹل پہنچ گئے “

” ٹھیک تم جائو میں سامان خود لے لوں گا “

اسنے کچھ پیسے ڈرائیور کو دیے اور اسے گائوں روانہ ہونے کا کہ کر خود ہوٹل روم میں آگیا۔۔۔ اسنے فون کر کے روم بک کروا لیا تھا کل ہی اسکی لندن کی فلائٹ ہے۔۔۔ روم سروس والوں نے اسکا سامان روم مین پہنچا دیا۔۔۔ وہ فریش ہوکر خود پے پرفیوم چہڑکتا ٹیکسی کروا کے اویس کے گھر آگیا آج اسکی انگیجمنٹ سرمنی ہے۔۔۔۔

” ازلان کیسے ہو یار؟؟ “

اویس اسے باہر ہی مل گیا وہ اسے اپنے ساتھ اندر لے آیا جہاں اسکے یونی فیلو تھے وہ ان سب کو باخوبی جانتا تھا آخر چھ ماہ اس یونی میں گزارے تھے۔۔۔

وہ سب سے ملنے لگا پھر کچھ ہی دیر بعد ماہ نور بلیک میکسی میں ملبوس نیچے آئی ازلان کو دیکھ اسکی آنکھوں میں جو چمک آئی وہ ازلان سی چپھی نہیں تھی۔۔۔ نیچے آتے ہی سب سے ملنے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو رنگ پہنائی۔۔۔

وہ اپنے ایک یونی فیلو سے بات کر رہا تھا کے اچانک ایک ویٹر سے ڈرنک اسکی شرٹ پے گر گیا۔ اویس جو پاس ہی کھڑا تھا۔۔۔

ویٹر کو غصّے سے دیکھتے اسکی طرف بڑھا۔۔

” اندھے ہو تم؟؟ “

اویس نے تیز لہجے میں اس سے کہا۔ ویٹر سوری کہتا سر جھکا گیا۔۔۔

” تم جائو!!! “ ازلان نے ویٹر سے کہا۔۔

” چھوڑو یار مجھے یہ بتاؤ واشروم کہاں ہے پوری شرٹ خراب ہوگئی “

اویس کے بتانے پے وہ سڑھیاں چڑتا اوپر آیا جہاں تین چار رومز تھے۔۔۔ سب کی لائٹس جل رہیں تھیں سوائے ایک کے وہ اسی میں چلا آیا۔۔۔

☆..........................☆

لائٹ اون کرکے اسنے اپنی شرٹ اتاری تھی کے فیضان کی کال آگئی۔۔۔ اسنے جلد ہی بات کر کے فون رکھ دیا اور واشروم کی طرف جانے لگا کے واشروم کا دروازہ کھول کے ماہ نور آگئی۔۔۔

” تم یہاں میرے روم میں کیا کر رہے ہو؟؟ “ماہ نور کڑے تیوروں سے پوچھ رہی تھی۔۔۔

” یہ اویس کا روم ہے۔۔!! آئی تھنک “

وہ اسے جتاتے ہوئے بولا اسے غصّہ ہی آگیا ماہ نور کے تیز لہجے پر آخر کہاں اُس نے کسی کی بدتمیزی برداشت کی ہے؟؟

” نہیں یہ میرا روم ہے اویس کا پہلا والا روم تھا “

کہتے ساتھ وہ جھکی اور بیڈ پے پڑا اپنا کلچ اٹھانے لگی کے اسے وقت اسکا پیر پھسلا اور وہ پوری کی پوری ازلان کے اوپر گر گئی۔۔۔

ازلان نے دونوں بازوں سے پکڑ کے اسے دور کیا وہ پھر اسکی اوپر گری کیوں کے اسکا دوپٹا ازلان کے نیچے دبا ہوا تھا۔۔۔

کھٹکے کی آواز پے دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے اویس اندر آتا دیکھائی دیا پھر وہی ہوا جو اسنے کبھی سوچا بھی نا تھا وہ اویس کو سمجھاتا رہا لیکن اسنے اسکی ایک نا سنی۔۔۔

” شٹ اپ ازلان تجھے میں نے بولا تھا پہلے والا میرا کمرہ ہے پھر کیوں آیا یہاں۔۔۔؟؟ یونیورسٹی میں کم گل کھیلائے تھے تم دونوں نے جو اب یہاں“

اویس نے اسکا گھریبان پکڑ کے کہا اب وہ ماہا کی طرف مڑا۔۔

” اور تم سب جانتا تھا میں کے تم اسے پسند کرتی ہو پھر بھی پھر بھی میں نے سوچا میں تمہارے دل سے اسے نکال دونگا بٹ مجھے نہیں پتا تھا تم اتنی نیچ گری ہوئی ہو “ کہتے ساتھ اسنے رنگ اٹھا کے اسکے منہ پے ماری۔۔

” اگر محبت کرتے نا تم!! تو اسکا اعتبار بھی کرتے۔۔ اگر میں اسے پسند کرتا تو کوئی مجھے روک نہیں سکتا تھا اسے اپنانے سے سمجھے تم۔۔۔ اور ایسی حرکت کر کے محبت پانے سے اچھا ہے میں ڈوب مروں “ کہتے ساتھ ازلان نے اپنی شرٹ اٹھائی اور وہاں سے نکل گیا اسے رہ رہ کر غصّہ آرہا تھا وہ وہاں گیا ہی کیوں۔۔۔

صبح وہ جانے کی تیاری کر رہا تھا کے اسے یونی کے ایک دوست کی کال آگئی اسکا نمبر دیکھتے ہی اسے اویس یاد آگیا کیوں کے وہ سب گروپ ممبرز تھے۔۔۔

کال اٹینڈ کرنے پے اسے پتا چلا ماہا نے خودکشی کی کوشش کی وہ سر تھام کے بیٹھ گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ اس وقت ہوپسٹل میں تھا ماہا سامنے ہی بیڈ پے لیٹی تھی۔۔۔

” کیوں کیا یہ سب؟؟ “

وہ نرمی سے گویا ہوا۔۔۔

” اویس نے منگنی توڑ دی تمہارے جانے کے بعد سب لوگ جن نظروں سے دیکھ رہے تھے میرا دل چارہا میں خود کو مار دوں صبح ایک اہم میٹنگ تھی!!!

میں آفس گئی تو وہاں جاتے ہی میرے لیے ایک اور بُری خبر تیار تھی مجھے جاب سے نکال دیا گیا ہے۔۔۔ وہاں پارٹی میں میرے کولیگز تھے صبح تک یہ خبر پورے اسٹاف میں پھیل گئی بوس نے کہا انھیں میرے جیسی کریکٹر لیس لڑکی اپنی کمپنی میں نہیں چاہیے۔۔۔ “ کہتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔۔

” مجھ سے شادی کرلو؟؟ “ وہ التجا کر رہی تھی

” تم جانتی ہو یہ ممکن نہیں “

اسکا لہجہ سخت تھا۔۔۔

” ہے!! اس سے بھی کر لینا!! بس مجھے اپنا نام دیدو “

وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے کہ رہ تھی جو سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔

” ایسا نہیں ہو سکتا مجھے گہنگار مت بنائو “

وہ ہارے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔ وہ اس وقت خود کو بےبس محسوس کر رہا تھا

” پھر میری موت ہی صیح “

وہ ڈرپ نکالنے لگی یہاں ازلان ہارگیا!!!! اپنی قسمت سے۔۔۔

☆.............☆.............☆

ہسپتال میں ہی انکا نکاح ہوا زین نے ہی نکاح خواں کا انتظام کیا۔۔۔ نکاح کے بعد وہ جانے ہی لگا تھا کے ماہا نے کہا وہ اسے بھی ساتھ لے جائے۔۔۔

” ابھی تم اپنے پرنٹس کے پاس رہو پھر۔۔ “

وہ بیزار تھا اس وقت اسکا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔۔۔

” اگر گئی تو کبھی واپس نہیں آؤں گی “

” کیوں؟؟ “

اسے کوئی انٹرسٹ نہیں تھا پھر بھی پوچھ بیٹھا۔۔۔

” میرے بابا مجھے دیکھتے ہی مار ڈالیں گے “

ازلان اسے بھی اپنے ساتھ لے آیا فلائٹ اسکی نکل چکی تھی وہ دونوں اس وقت ہوٹل میں تھے ازلان نے مزید پےمنٹ کر کے رہائش بڑھا دی۔۔۔ وہ اس وقت کافی بیزار اُلجھا ہوا تھا۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا گھر کال کر کے بتانا چاہیے یا نہیں۔۔۔۔

ایک دن میں کیا سے کیا ہوگیا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے ایسا کچھ بھی ہوگا۔۔۔ ماہ نور بیڈ پے لیٹی کب کی سو چکی تھی۔۔۔ وہ صوفہ پے لیٹا اپنی قسمت پے ماتم کناں تھا کیا ہوگیا تھا۔۔۔؟؟؟ کیوں۔۔۔؟؟ کیا غلطی تھی اسکی۔۔۔؟؟ اب وہ کیسے ابو کے سامنے جائے گا۔۔۔؟؟ کتنا مان تھا بھروسہ تھا انکو ازلان پے۔۔۔۔!!! وہ پوری رات ازلان نے انہی سوچوں میں گزار دی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ازلان نے ایک ہفتے میں ماہا کا پاسپورٹ اور باقی کاغذات تیار کروائے۔۔۔ اور اس کام میں وہ اسقدر خوار ہوا تھا کے بےاختیار اسے اعظم شاہ یاد آئے جنہوں نے تین دنوں میں اسکے جانے کے سارے انتظام کیے تھے۔۔۔ وہ دونوں اگلے ہفتے لندن روانہ ہوگئے۔۔۔۔ ازلان نے خود کو پڑھائی میں مصروف کر لیا ماہا اکثر چھوٹے گھر پے منہ خراب کرتی۔۔۔ لیکن وہ سیمسٹر ختم ہونے سے پہلے شفٹنگ نہیں کر سکتا۔۔۔ وہ پیپرز کی تیاری میں مصروف ہوگیا ان دنوں گھر سے کال بھی کم ہی آتی۔۔۔ سب جانتے تھے پپرز کی دنوں میں وہ بزی رہتا ہے۔۔۔ اللہ‎ اللہ‎ کر کے اسکا سیمسٹر گزر گیا۔۔۔ ازلان نے ایک بہترین فلیٹ رینٹ پے لیا جو رہنے کے قابل تھا۔۔۔ شفٹنگ میں انہیں کوئی مسلا نہیں ہوا آخر سامان تھا ہی کیا۔۔۔ رزلٹ آگیا اسے ڈگری بھی مل گئی اب وہ روز جاب کے لیے انٹرویو دینے جاتا اور کچھ ہی دنوں بعد اسے ایک کمپنی سے کال آئی اس نے جوائن کر لی۔۔۔

☆.............☆.............☆

اعظم شاہ نے جب اسے واپس آنے کا کہا تو ایک پل کو وہ گھبرا گیا پھر یہ کہ کے بہانہ بنایا کے ایک کمپنی کے ساتھ اسنے کنٹریکٹ کیا ہے۔۔۔ وہ چُپ ہوگئے۔۔۔ کہا کچھ نہیں لیکن ازلان کو انکی خاموشی سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔ انہوں نے اسے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرکے فون کاٹ دیا۔۔۔ ازلان نے گہری سانس خارج کی اور روم میں آگیا جہاں ماہ نور کسی پارٹی میں جانے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔۔

ماہا یہاں آتے ہی ایسی بدلی تھی کے ازلان خود حیران رہ گیا۔۔۔ ازلان نے یونی میں اسے کبھی دوپٹے کے بغیر نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اور یہاں دوپٹا تو دور کی بات وہ پورے کپڑے پہن لے وہی غنیمت ہے۔۔۔ اور پیسے وہ ایسے اُڑاتی جیسے پیڑ پے لٹکے ہوئے ملتے ہیں۔۔۔ آئے دن وہ کسی نا کسی پارٹی میں جا رہی ہوتی۔۔۔ ازلان جب اکیلا تھا وہ اپنا ہر کام خود کرتا تھا۔۔۔ لیکن ماہا کے آنے کے بعد اسنے میڈ رکھ لی۔۔۔ گھر کے کام سے کھانا بنانے تک سب کام وہی کرتی۔۔۔ ازلان کو نا پہلے اسکی ذات میں دلچسپی تھی نا اب ہے لیکن اسکی سوچیں یہیں جا کے اٹکتیں۔۔۔ اب آگے کیا ہوگا۔۔۔؟؟ وہ جانتا ہے اعظم شاہ آرام سے اسکے بارے میں سب پتا کروا سکتے ہیں۔۔۔ ایک یہ وجہ بھی تھی شفٹنگ کی بابا کا ایجنٹ انہیں آگاہ کر دیتا کے اب ازلان اکیلا نہیں رہتا۔۔

زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی وہ صبح آفس چلا جاتا رات گئے وہ گھر لوٹتا اور آتے ہی کھانا کھا کر سوجاتا۔۔۔ ماہا جب بھی اسے کوئی بات کرتی وہ ہاں ہوں میں جواب دیتے اپنا کام میں بزی ہوجاتا۔۔۔ سچ تو یہ تھا وہ خود کو اتنا مصروف رکھنا چاہتا تھا کے پاکستان کی ہر یاد اسکے دماغ سے مٹ جائے۔۔۔ اور ان دنوں سگریٹ کی بُری عادت اسے لگ چکی تھی۔۔۔۔ اسے بی بی جان امی نور شدت سے یاد آتے اور وہ اس قدر بےبس تھا کے چاہ کر بھی وہاں نہیں جا سکتا۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ہر وقت اُسے سوچتے رہتے ہو؟؟ “

وہ بالکنی میں کھڑا سیگریٹ کے کش لے رہا تھا کے ماہا اسکے کمرے میں آدھمکی۔۔۔

” تم میرے روم میں کیا کر رہی ہو؟؟ اپنے کمرے میں جائو “

وہ اس وقت نائٹ ڈریس میں ملبوس اسکے کمرے میں داخل ہوئی اسے اس حلیے میں دیکھ ازلان کا لہجہ خود با خود سرد ہوگیا۔۔۔۔

” ازلان مجھے تم سے بات کرنی ہے “

” جاؤ “ وہ رخ موڑ چکا تھا۔۔۔

” ازلان میں بیوی ہوں تمہاری!!! آخر اس سب میں میرا کیا قصور کیوں مجھے سزا دے رہے ہو میں سب رشتوں کو چھوڑ کے یہاں آئی ہوں۔۔۔ تمہارا رویے سے مجھے تکلیف پہنچتی۔۔۔ اس تکلیف سے بچنے کے لیے میں دن بھر باہر رہتی ہوں لیکن تمہاری کمی دوستی پوری نہیں کر سکتی ازلان۔۔“ وہ اسکی پیٹھ پے اپنا سر ٹیکائے بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔

” دیکھو ماہا میں نہیں چاہتا تمہاری زندگی برباد ہو۔ میرے ساتھ تمہارا کوئی فیوچر نہیں تم سمجھتی نہیں میں اپنی فیملی کے بغیر نہیں رہ سکتا پہلے ایک امید تھی کے واپس جاؤں گا لیکن اب مجھے لگ رہا ہے میں ساری زندگی یہیں سڑوں گا۔۔۔ مجھے سکون نہیں ملتا ماہا۔۔۔ میرے اندر بےچینی ہے میرا دل چاہتا ہے سامان اٹھاؤں اور پاکستان بھاگ جاؤں۔۔۔۔ لیکن تم۔۔ تم “ ازلان مڑا اور بازوں سے پکڑ کے اسے نرم لہجے میں سمجھاے لگا۔۔۔

” لیکن سب سے اہم رشتہ میاں بیوی کا ہے ازلان اب میں بیوی ہوں تمہاری تم میری بےچینی کا اندازہ لگاؤ کیا میں خوش ہوں اپنوں سے دور رہ کر تم خود سوچو اس انجان ملک میں کون ہے کوئی نہیں۔۔۔ اگر کوئی ہے تو صرف تم ہو جو مجھ سے منہ موڑے بیٹھے ہو “ وہ اسکے کندھ پے سر ٹکا کے سسک پڑی ازلان نے اسکے گرد بازو حمائل کیے۔۔۔

☆............☆.............☆

نجانے کتنا ارصہ گزر گیا تھا اس یہاں آئے ہوے اسنے دن گنا چھوڑ دئے۔۔۔ یہاں آنے کے بعد وہ دوبارہ پاکستان نہیں گیا عید، رمضان آکے گزر گئے وہ چھٹی لے سکتا تھا لیکن وہ نہیں گیا کس منہ سے جاتا ہر کوئی اسے پے انگلی اٹھاتا اور وہ کیسے جاتا بابا کے سامنے کتنا مان تھا بھروسہ تھا اعتماد تھا انکو ازلان پے سب ختم کردیا اسکے ایک غلط فیصلے نے لیکن وہ غلط فیصلہ اسنے کسی کی زندگی بچانے کے لیے لیا تھا لیکن کون سمجھتا اسے؟؟ کوئی نہیں!!!

گزرتے وقت کے ساتھ اسکی زندگی میں تبدیلی آئی اللہ‎ نے اسے خوبصورت بیٹے سے نوازا جس نے آکر ازلان کی زندگی بدل دی ازلان نے اسکا نام حنان(ہنی) رکھا۔۔۔

وہ تھکا ہارا آفس سے آتا تو اکثر ہنی اسے روتے ملتا وہ دو ماہ کا بچا تھا۔۔۔ جو ماں کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتا لیکن اسکی ماں کو اسکی فکر کہاں تھی۔۔۔ وہ نجانے کہاں رہتی جب بھی وہ آفس سے آتا گھر خالی ملتا۔۔۔ اور رات میں تھکن کی وجہ سے وہ جلد سو جاتا۔۔۔ صبح اٹھتا تو وہ اسے بیڈ پے سوئی ملتی۔۔۔۔ گھر کا یہ حال دیکھ کے ازلان نے ہنی کے لیے فل ٹائم میڈ رکھی جو ایک تیس پنتیس سال کی مسلم عورت تھیں۔۔۔ آفس سے آتے ہی اسکا فل ٹائم ہنی کے ساتھ گزرتا وہ جو ہر وقت سوچوں میں گم رہتا تھا اب ہنی کے آنے سے اسے ان سوچوں سے کچھ وقت کے لیے چھٹکارا مل جاتا۔۔۔ امی سے اسکی تقریباً ہفتے میں دو تین بار بات ہوتی۔۔۔ لیکن ابو سے جب بھی وہ بات کرتا اسکے پسینے چھوٹ جاتے۔۔۔ وہ ایک ایک بات کی تفصیل اس سے پوچھتے کنٹریکٹ کی بات کتنے ہی دفع وہ دہرا چکے تھے انکا کہنا تھا کنٹریکٹ ختم ہوتے ہی وہ پہلی فلائٹ سے پاکستان پہنچے اور اسے پاکستان چکر لگانے کا بھی کہتے جسے وہ ٹال دیتا۔۔۔۔

ماہا کو کافی دفع ازلان نے سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بات سنتے ہی چڑ جاتی اسے نا ازلان سے مطلب تھا نا ہنی سے وہ اپنی ہی دنیا میں خوش تھی۔۔۔ ازلان کافی حیران تھا اسکے دھوپ چھاؤں جیسے رویے سے ماہا کو خود اولاد کی خواہش تھی اور اب اسکا ہنی کے ساتھ روڈ بہویر دیکھ کے ازلان کا خون کھولتا وہ چھوٹی سے بات پے بُری طرح اسے مارتی ملازمہ نے اسے بتایا تھا ہنی اپنے روم سے کھیلتےکھیلتے ماہا اور ازلان کے روم میں چلاگیا۔۔۔

ماہا فون پے بات کر رہی تھی ہنی نے پاس پڑا سینڈل اٹھایا اور زور سے کھڑکی کے باہر پھنک دیا ماہا نے اسکی یہ حرکت دیکھ کے فورًا فون رکھ دیا اور پاس آکر زور دار تھپڑ اسکے سرخ گالوں پے مارا ہنی گلا پھاڑ کے رونے لگا۔۔۔ وہ اسے گود میں اٹھا کے ہنی کے روم میں آئی اور اسے بیڈ پے پھنکا۔۔۔ ملازمہ جو اسکا فیڈر تیار کر رہی تھی اسکی رونے کی آواز سن کر جلدی سے روم میں آئی اور اسے اٹھا کے اسکی پیٹ تھپکنے لگی۔۔۔ ماہا ملازمہ پے گرجنے لگی کہ وہ اسکے روم میں کیسے آیا ہنی کو سنبھالنا اسکی ڈیوٹی ہے اسکی لاپروائی کی وجہ سے ہنی نے سینڈل پھینک دیا ملازمہ چُپ چاپ اسکی ڈانٹ سنتی رہی۔۔۔

اس کا عجیب رویہ وہ سمجھنے سے قاصر تھا اسے دوسرا دھچکا تب لگا جب اسنے آنے والے بچے کو مارنے کا کہا ازلان تو اسکی بکواس سن کے اسپے خوب گرجا اور ساتھ دھمکی دے کے گیا۔۔۔

” اس خیال پے عمل کیا تو زندہ تم بھی نہیں بچو گی“

اسکے بعد ماہا نے ایسی کوئی بات نہیں کی یہی ازلان کے لیے کافی تھا کے وہ اب فالتو ضد نہیں کر رہی۔۔۔

آج امی سے بات کرتے وقت اس نے خود ہی نور کے بارے میں پوچھ لیا تو انہوں نے بھی صاف کہ دیا خود آکر دیکھ لو ازلان انکی بات پے صرف مسکرا کے رہ گیا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا امی اسے پاکستان بلانا چاہتیں ہے جانا تو وہ بھی چاہتا تھا پر قسمت کے ہاتھوں مجبور تھا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ہنی کے بعد انکی زندگی میں عمر آیا۔۔۔ پریمیچور ڈیلیوری سے ہونے کی وجہ سے وہ کافی کمزور تھا۔۔۔ ایک ماہ تک ڈاکٹرز نے اسے ہسپتال میں ہی رکھا اور اسے لیجاتے وقت بھی خاص ہدایت جاری کی۔۔۔۔

ہر انسان دنیا میں اپنی اہمیت خود منواتا ہی عمر بھی ایسا ہی تھا۔۔۔ ازلان نے عمر کی وجہ سے آفس سے کافی چھٹیاں کی تھیں وہ آئے دن بیمار رہتا اور گزرتے وقت کے ساتھ ایک انکشاف اس پے ہوا اکثر عمر رات کو گہرے سانس لینے لگتا پوری رات وہ چھاتی میں درد ہونے کی وجہ سے روتا رہتا ڈاکٹرز کو دیکھانے پے پتا لگا اسے استھما ہے ازلان پہلے ہی خاصہ پریشان رہتا تھا۔۔۔ اور اس پے عمر کے استھمک کا انکشاف۔۔ وہ ڈاکٹر سے پریسکریپشن لیکر گھر آگیا۔۔۔۔

ازلان نے میڈ کو سخت ہدایت جاری کی تھی۔۔ اسکا خیال رکھنے کے لیے وہ خود بھی زیادہ وقت عمر کے ساتھ رہتا۔۔۔ چھوٹی عمر میں وہ دونوں کافی سمجھدار ہوگے تھے۔۔۔ ماں کا رویے سے دلبرداشتہ وہ اسکے آس پاس بھی نہیں رہتے تھے دونوں بھائی ماں کے آتے ہی کمرے میں چلے جاتے پانچ سالہ ہنی تین سالہ عمر کا خود سے زیادہ خیال رکھتا۔۔۔ ہنی ماں کو دیکھتے ہی اس قدر ڈر جاتا کے عمر کو ہر اس جگہ جانے سے منع کرتا جہاں وہ ہوتی آگر اسکی کوئی چیز ٹوٹ جاتی یا گم ہوجاتی تو ان دونوں کی شامت آنی تھی۔۔۔ ہنی شروعات میں ساری باتیں ازلان کو بتاتا لیکن جب اسکے معصوم ذہن نے محسوس کیا اسکا نتیجہ جھگڑے کی صورت میں نکلتا ہے تو وہ چُپ رہنے لگا۔۔۔۔

وہ آفس سے تھکا ہارا گھر لوٹا ماہا نے محسوس کیا اسکا موڈ کچھ اوف ہے تو ہمیشہ کی طرح اس سے ہمدردی جتانے لگی جسے ازلان نے بُری طرح جھڑک دیا اب وہ اسکے بدلتے رویہ کو سمجھنے لگا تھا۔۔۔۔ وہ آفس میں تھا جب امی کی کال آئی باتوں ہی باتوں میں انہوں نے اسے بتایا کہ نور کے لیے رافع کا رشتہ آیا ہے۔۔۔ رافع اسکا تایازاد ہے ازلان کو وہ کبھی پسند نہیں آیا۔۔۔ وجہ اسکی شیطانی طبیعت تھی اسکا عجیب سا جھگڑالو نیچر تھا۔۔۔

امی شاید اس سے کچھ سننا چاہتیں تھیں اور وہ کہتا بھی لیکن وہاں سے کال کاٹ دی گئی۔۔۔ تب سے وہ پریشان ہے آفس سے بھی جلد ہی گھر آگیا۔۔۔۔

کونسا ایسا پل تھا جب وہ اسے یاد نا آئی ہو؟؟

اسکی ہر رات سوچوں میں گزرتی۔۔۔

جس دن امی اسکا ذکر نا کرتیں کتنا بےچین رہتا۔۔۔

اور اب اس خبر نے جیسے اسکے جسم سے روح نکال دی ہو۔۔۔

اور آج جب کروٹیں بدلتے بدلتے اسے نیند نا آئی تو دل کے ہاتھوں مجبور ہوکے وہ اس دشمن جاں کو کال کر بیٹھا۔۔۔۔

جیسے ہی بیل بجتی جا رہی تھی مکمل سوچیں اسکے گرد گھوم رہیں تھیں!!! وہ اسے جانتی ہوگی؟؟ کیا وہ اسے یاد کرتی ہوگی؟؟؟ انکے مابین رشتے کی سچائی جانتی ہو؟؟

” ہیلو “ نیند سے بوجھل آواز میں غصّہ نمایاں تھا۔۔۔۔ پاکستان اور لنڈن کی ٹائمنگس میں ساڑے تین گھنٹے کا ہی فرق تھا۔ وہاں بھی اس وقت رات ہو رہی تھی۔۔۔

” نور “ وہ یہ آواز وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔ اسکے منہ سے چیخ نکل گئی۔۔۔

” ازلان۔۔۔بھائی “ ازلان کو محسوس ہوا جیسے وہ رو رہی ہے۔۔۔

” نور۔۔ تم۔۔ کیسی ہو؟؟ “ اسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے تو وہ اسکا حال ہی پوچھ بیٹھا وہ اتنے سالوں بات اسکی آواز سن رہا تھا وہ اس سے طویل گفتگو کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔

” آپ۔۔۔ نے۔۔۔کہا تھا۔۔۔ آپ واپس آئیں گے۔۔ آپ نہیں آئے “

وہ اسکی بات نظر انداز کر کے بولی دوسری طرف ازلان کو کو شدید جھٹکا لگا لاسٹ ٹائم جب وہ گیا تھا اسنے نور سے وعدہ کیا تھا کے سیمسٹر ختم ہوتے ہی وہ پاکستان آجائے گا۔۔۔۔

” تمہیں یاد ہے؟؟ “ ازلان نے بےتابی سے پوچھا۔۔۔

” ہاں!!! “ جواب نا پاکڑ وہ مایوس ہوئی۔۔۔

” آپ نے جواب نہیں دیا “ ایک بار پھر اسنے پوچھا۔۔۔

” کس کے لیے آؤں؟؟ “

وہ جاننا چاہتا تھا کے کیا وہ انکے مابین رشتے سے آغا ہے یا نہیں ۔۔۔

” امی ابو بی بی جان “ ازلان سخت بدمزہ ہوا۔۔۔

” اور “ اسکے لہجے میں کچھ ایسا تھا کے نور یکدم سرخ پڑ گئی۔۔۔

” امان بھائی کے لیے “

ازلان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔۔۔

” اور “ اسنے پھر کوشش کی۔۔۔

” میرے لیے “ ازلان کے دھڑکن یکدم سے تھم گئی

” آئیں گے نا؟؟ میں۔۔۔۔میں انتظار کروں گی “

اسکے لہجے میں التجا تھی مان تھا۔۔۔

” ہاں “ ازلان نے سوچا وہ اسے بتا دے کے اب وہ اسکے لائق نہیں۔۔۔ لیکن الفاظ اسکے منہ میں ہی دم توڑ گئے اس میں ہمت نہیں تھی کے وہ کچھ بتا سکے۔۔۔

” نور میں۔۔۔ “ وہ کچھ بولتا کے اس سے پہلے ہی ماہا نے اس سے موبائل چھین کے کال کاٹ دی۔۔۔

ازلان شعلے برساتی نظروں سے اس دیکھنے لگا۔۔۔

” تمہارے ہمت کیسے ہوئی؟؟ “

ازلان نے غصّے سے اسے گھورتے کہا۔۔

” تم نور سے بات کر رہے تھے؟؟

وہ کب سے کھڑی ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔

” یہ تمہارا ہیڈک نہیں!!! “

” کیوں؟؟؟ کیوں آخر اسے بھول نہیں جاتے؟؟ کیوں وہ ہماری لائف میں سانپ کی طرح ڈنگ مارنے گھس گئی؟؟ آخر چاہتی کیا ہے وہ؟؟ کیوں سکون سے رہنے نہیں دیتی تمہیں؟؟ ہر وقت اسکی یادوں میں تو کھوئے رہتے تھے اب اس سے باتیں بھی کرنے لگے ہو۔۔۔ کل اس سے ملنے بھی پہنچ جاؤ گئے۔۔۔ “

وہ زہر خند لہجے میں گویا ہوا۔ ازلان نہیں جانتا تھا وہ نور سے اتنی نفرت کرنے لگی ہے۔۔۔


” شٹ اپ۔۔ جسٹ شٹ اپ اتنا زہر بھرا ہے تمہارے دل میں اسکے لیے؟؟ اب مجھے سمجھ آرہا ہے تمہارے بدلتے رویے کی وجہ لیکن اب بھی ایک بات سے انجان ہوں کیوں کیا؟؟ کیا حاصل ہوا تمہیں؟؟ جواب دو کیوں کیا تھا وہ ناٹک کیوں خود کو بےعزت کیا؟؟ ہر کسی کی نظروں میں اپنے لیے نفرت پیدا کر کے میرا دل جیتنا چاہ رہی تھیں کیوں کے محبت تو تمہیں مجھ سے کبھی تھی ہی نہیں اصل وجہ بتاو کیوں کیا؟؟؟ “

ازلان کے لہجے میں سانپ کی پھنکار تھی۔۔۔۔

ماہا نور کا چہرہ یکدم زرد پڑ گیا وہ صوفے کا سہارا لیکر بیٹھ گئی اور جگ سے پانی گلاس میں انڈیل کے ایک ہی سانس میں پی گئ۔۔۔

” ایسا۔۔۔ کچھ۔۔۔ نہیں “ وہ کانپتے لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔

” اب تمہارے منہ سے ادا ہونے والے لفظ میرا جواب نا ہوئے تو تم اس گھر سے باہر ہوگی “ ازلان کے سرد لہجے سے وہ بُری طرح کانپ اٹھی۔۔۔۔

” ازلان میں۔۔۔ میں “ وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی

” میں نے بچپن سے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں صرف مرد کا ایک حکم عورت کے لیے پتھر کی لکیر بن جاتا۔۔۔

میرے بابا نے مجھے یاد نہیں پڑتا کے کبھی پیار سے بلایا ہو۔۔۔ ہونہ۔۔ پیار سے بات کرنا تو دور وہ عورت کی عزت تک نہیں کرتے تھے کوئی ایسا دن نہیں تھا جب انہوں نے اماں پے ہاتھ نہ اٹھایا ہو ساری زندگی میں نے روتے گزاری لیکن ایک امید تھی کے شادی کے بعد اس ماحول سے آزاد ہو جاؤنگی لیکن نہیں یہاں بھی بابا نے مجھ سے میری زندگی جینے کے حق چھین کے ایک ایسے مرد کو دینے چاہے جو انہی کے نفش قدم پے چلتا۔۔۔ میرا منگیتر آزر خان انتہائی گھٹیا انسان تھا عورت اسکی کمزوری ہے کوئی ایسے لڑکی نہیں ہمارے علاقے میں جسے اسنے بخشا ہو آئے دن اسکی آواریوں کے قصے مشہور ہوتے۔ نشے کی حالت میں وہ اپنے باپ کی عزت تک نہیں کرتا۔۔ وہ مجھے کیسے عزت دیگا اس لیے میں نے بابا سے التجا کی کے وہ مجھے کراچی پڑھنے کے لیے بھیج دیں آگئے تو ویسے بھی جو ہونا ہے انکی مرضی سے ہوگا۔۔۔۔ لیکن ازلان محبت میں تم سے کرتی تھی اس لیے وہ سب کیا۔۔۔۔“

” شٹ اپ محبت تم صرف خود سے کرتی ہو!!! تمہیں مجھ سے محبت نہیں تھی میرے بیگ گراؤنڈ سے تھی۔۔۔ میرے جانے کے بعد تمہیں شکار اپنے ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہو اس لیے آخری دن تم نے مجھے پروپوز کیا تھا میرا پروپوزل جھٹلانے پے تم نے اویس کو اپنی طرف مائل کیا لیکن وہ تمہیں وہ آزادی نہیں دے سکتا جو تمہیں مجھ سے ملتی کیوں کے اگر تم اویس سے شادی کرتیں تو تمہاری فیملی تمہیں آرام سے ڈھونڈ لیتی اس لیے تم نے وہ گھٹیا حرکت کی اور اس میں زین بھی شامل تھا۔۔۔ “ ماہا نور نے جھٹکے سے اسے دیکھا وہ پوچھ نہیں رہا تھا بتا رہا تھا۔ ازلان کو یہ ساری باتیں خود زین نے بتائیں تھیں وہ ایک گیلٹ میں رہنے لگا تھا کے اسنے اپنے دوست کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔۔

” شک مجھے اُسی وقت ہوجانا چاہیے تھا جب زین کو نکاح خواں کا کہا میرے کہنے کی دیر تھی کے وہ حاضر ہوگئے۔۔۔ اور یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں تم کیوں میری طرف بڑیں تمہیں اولاد کو کوئی خواہش نہیں تھی تم بس میرے پیروں میں اولاد کی زنجیر ڈالنا چاہتیں تھیں۔۔۔ تبھی بےخوفی سے عمر کو مارنے چلیں تھیں۔۔۔ کیا ملا تمہیں ماہا یہ سب کر کے؟؟ آزادی ایسی آزادی چاہیے تھی تمہیں کے دن رات پارٹیز کرو اپنی اولاد کو ٹارچر کرو!!! کتنے خوفزدہ رہتیں ہیں تم سے تمہارے اپنے بچے اندازہ ہے تمہیں؟؟ میرا بس چلے تو میں نجانے کیا کر بیٹھوں۔۔۔ اس وقت مجھے تم سے شدید نفرت ہو رہی ہے میں سب بھلا سکتا ہوں لیکن جو تم ان دو معصوموں کے ساتھ کیا ہے نا وہ کبھی نہیں بھلا سکتا۔۔۔۔ “

ازلان کی گلے کی رگیں صاف واضع ہونے لگیں اس وقت ماہا کو ازلان سے خوف محسوس ہو رہا تھا

” اور ایک آخری سوال تم کیسے جانتیں تھیں میں اسی روم میں جاؤنگا “ ازلان نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا۔۔۔۔

” بس اتنا اندازہ تھا جہاں لائٹ اون ہوگی تم نہیں جائوگے۔۔۔

چار ماہ میں میں تمہیں اتنا تو جان گئی تھی تم اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے تمہیں لگے گا وہاں الریڈی کوئی ہے اسلیے نہیں جاؤ گے “

آزلان نے روم کے ایک دو چکر لگائے جیسے غصّہ کم کرنا چاہ رہا ہو۔۔۔

” کل ہم پاکستان جا رہے ہیں اگر نہیں جانا چاہتیں تو رہو یہاں “ کہتے ساتھ اسنے لائٹر اٹھا کے سیگریٹ سلگایا۔۔۔

” ازلان تم۔۔ اس سے۔۔۔ شادی؟؟ وہ کانپتے لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔

” میں وہاں صرف اپنی فیملی سے ملنے جا رہا ہوں اور انہیں سچ بتانے۔ یہ بات تم بھی جانتی ہو کوئی شادی شدہ مرد سے اپنی بیٹی کی دوسری شادی نہیں کریگا۔۔۔ لیکن ان سب میں جو اہم بات ہے وہ سنو اگر ایک ماہ کے اندر ہنی اور عمر کو تم نے اپنا عادی نا بنایا تو ٹھیک اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو تمہارے ہاتھ میں ڈائیورس پپیرز ہونگے۔۔۔“ وہ اسکے سر پے دھماکہ کر کے جا چکا تھا۔۔۔۔۔

☆............☆.............☆

” بابا مجھے توکلیٹ تاہیے “

تین سالہ عمر نے اپنے ننے ہاتھ ازلان کے گھٹنوں پے رکھے جو سامنے سے آتی اس خوبصورت لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ اپنی کسی دوست کی بات پے ہنس رہی تھی۔۔۔ ہنستے ہنستے اسکی ناک سرخ ہوگئی اور اسکی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔۔۔

” آ “عمر کی بات پے وہ چونکا اور موبائل نیچے رکھ کےعمر کو دیکھنے لگا جو اب رونے جیسا منہ بنا رہا تھا۔۔۔ اسنے ویٹر کو بلایا۔ اب ایک بار پھر ازلان کی نظریں اس حسین لڑکی کا طواف کر رہیں تھیں۔۔۔ ایک دم سے ازلان کے ماتھے کی پے بل نمایاں ہوہے وہ جلدی سے پیمنٹ کر کے باہر نکل آیا۔۔۔۔

عمر کو چاکلیٹ لیکر دینے کے بعد وہ گھر لوٹ آیا۔۔۔۔

کراچی آنے کے بعد وہ اپنے نانا کے گھر آگیا جو وصیت میں اسکی ماں کو ملا تھا۔۔۔ ازلان نے اپنے آنے کی اطلاع کسی کو نہیں دی البتہ اسے امی سے نور کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا تھا یہاں آکر اس نے نور کی ساری انفورمیشن نکلوائی وہ میڈیکل کے پہلے سال میں ہے۔۔۔ اور یہاں ہوسٹل میں اپنی دوستوں کے ساتھ رہتی ہے۔۔۔ لیکن آج اسے ریسٹورنٹ میں دیکھ کے ازلان کا خون کھول اٹھا اگر وہ وہاں سے نا آتا تو ضرور اسے دو تھپڑ لگا دیتا۔۔۔

نور نے بلیک ٹائٹ پنٹ پے ریڈ ٹاپ پہنا تھا جس کے اوپر اس نے بلیک کوٹ پہنا تھا لیکن کوٹ اُتاڑنے پے اس کے جسم کے حصّے نمایاں ہو رہے تھے اس نے سلیولیس شرٹ پہنی تھی جسکا گلا گہرا تھا ابھی تک سوچ سوچ کی اسکی کنپٹیاں سلگنے لگیں۔ نجانے کتنی نظریں اس پر اٹھی تھیں دل چاہ رہا تھا ایک ایک کی آنکھ پھوڑ دے۔۔۔۔

” ازلان “ وہ بیڈ پے آنکھیں موندھے لیٹا اسی کو سوچ رہا تھا کے ماہا کے پکارنے پر چونک اٹھ

” ہم “ وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔

” وہ مجھے کچھ پیسے چاہیے “ ازلان نے جیب سے والٹ نکالا اور اسکے ہاتھ میں تھماتا روم سے نکل گیا۔۔۔

ماہا نے والٹ کھولا تو اس میں ایک لڑکی کی تصویر تھی جس نے شرارہ پہن رکھا تھا۔ اسکے چہرے سے ہی معصومیت ھلک رہی تھی۔۔۔

وہ بلاشبہ نور تھی اور اتنی حسین تھی کے کوئی بھی اسکے پیچھے پاگل ہوسکتا ہے۔۔۔

ماہا کے شیطانی دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اسنے اپنا فون اٹھایا اور کسی کو کال کرنے لگی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ جو ٹیبل پے ٹانگ رکھے بیٹھا تھا کال آنے پے جیب سے موبائل نکال کے دیکھنے لگا۔۔۔ کسی انجان نمبر سے کال آرہی تھی۔۔۔ اسنے فوراً اٹھایا اور دوسری طرف سے آتی آواز نے اسکے ہوش اڑا دیے۔۔


” ہیلو آذر “


” تم۔۔ “


وہ اسکی آواز سنتے ہے آگ بگولہ ہوگیا اسے گالیوں سے نوازنے لگا دوسری طرف ماہا نے بےتاثر چہرے کے ساتھ فون رکھ دیا۔۔۔ اور موبائل سے نور کی پک لیکر آذر کے نمبر پے سینڈ کر دی۔۔۔


اب آذر مسلسل اسے کال کیے جا رہا تھا اور وہ مزے سے کمرے میں ٹہل رہی تھی جیسے اس کی کیفیت سے لطف اٹھا رہی ہو کچھ دیر بعد احسان جتانے والے انداز میں اسنے فون اٹھایا۔۔۔

” ہیلو ماہا “ وہ بےتابی سے بولا۔۔۔

” کیا ہے کیوں فون کررہے ہو؟؟ “

وہ جانتی تھی آذر تصویر دیکھتے ہے بے قابو ہوجائے گا۔۔۔ خوبصورت لڑکیاں اس جیسے حیوان کی کمزوری تھیں۔۔۔ لیکن ابھی جو اسنے ماہا کی عزت افزائی کی تھی اسکا سبق بھی تو سکھانا تھا۔۔۔۔

” یہ کس کی تصویر بھیجی ہے؟؟ “

” تمہیں اس سے کیا “وہ رکھائی سے بولی۔۔۔

” میں کیا پتا نہیں کروا سکتا “

وہ ایک دم اس پے چیخا اور کال کاٹنے ہی لگا تھا کے ماہا کہہ اٹھی۔۔۔

” روکو میں بتاتی ہوں!!! یہ لڑکی امیر خاندان کی اکلوتی بیٹی ہے خوبصورت ہے اور بلکل تمہاری پسند کے مطابق ہے “

” مجھے کیوں بھیجی “ وہ اسکا مقصد جاننا چاہتا تھا۔۔۔ اتنا تو اسے معلوم تھا ماہا نے اپنی مطلب کے لیے اسے کال کی ہے۔۔۔

” وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ میں نے شادی کرلی تو تم نے بھی۔۔ کرنی۔۔۔ ہوگی “

وہ ایک دم بوکھلاگئی تھی اسکا سوال سن کر۔۔۔۔

” ہاہاہاہاہاہاہا ماہا تمہیں میں اچھے سے جانتا ہوں بغیر کسی غرض کے تم کسی کو فائدہ نہیں پہنچاتی !!! اس لیے اب یہ آنکھ مچولی کا کھیل بند کرو اور صاف بات کرو “

وہ اسکا مذاق اڑاتے اس پے طنز کر رہا تھا اتنا تو وہ سمجھ گیا تھا کے ماہا نے کسی پریشانی میں ہی اسے فون کیا ہے۔۔۔

” ایسا کچھ نہیں۔۔۔ “

اسنے ہاتھ سے ماتھے پے آیا پسینہ صاف کیا۔۔۔

” جانتا ہوں تمہاری شادی ہو چکی ہے اور مجھے تم میں اب انٹرسٹ ہے بھی نہیں وجہ تم بھی جانتی ہو۔۔۔ لیکن ہاں تم نے آج مجھے خوش کر دیا اور ہو بھی میری کزن اس لیے کچھ بھی مانگو میں منع نہیں کرونگا “

وہ اسکا میٹھا لہجہ سن کے حیران رہ گئ یہ آذر تو نہیں تھا پھر اس نے بس اسے اتنا بتایا کے اسکا شوہر اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اور اگر وہ اسے پانے کا خواہش مند ہے تو ابھی ہی کچھ کرے ورنہ معاملہ اسکے ہاتھ سے نکل جائے گا۔۔۔۔ ماہا نے اپنے مطلب کی بات کر کے فون رکھ دیا۔۔۔۔

” تمہیں اتنی آسانی سے معاف نہیں کرونگا میری عزت کا جنازہ اتار کے اپنا محل بنانے چلی تھی۔۔۔ جو لوگ مجھ سے آنکھ اٹھا کے بات نہیں کرتے تھے۔۔۔ آج تمہاری وجہ سے میرے پیٹھ پیچھے مجھ پے ہنستے ہیں۔۔۔ ماہا نور تمہارا وہ حال کرونگا کے موت کے لیے بھی ترسو گی۔۔۔“ وہ سوچتے ہوئے اپنے آدمی کو کال کرنے لگا اور تصویر بھیج کے اسکی پوری معلومات حاصل کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے فون رکھ دیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ اپنی دوست حبہ کے گھر سے لوٹ رہی تھی وہ دونوں میڈیکل پڑھ رہیں تھیں۔۔۔ دو دن کی چھٹی ملنے پے اپنے گھر چلی آئیں۔۔۔ نور گھر میں اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی۔۔۔ کیوں کے امان بھائی کسی کیس میں الجھے ہوئے تھے۔۔۔ اس لیے صبح جلدی نکل گئے۔۔۔ ابو بھی اس سے معذرت کرتے آفس چلے گئے۔۔۔ وہ گھر میں اکیلی کیا کرتی اسلیے حبہ کے گھر چلی گئی۔۔۔ گھر آتے ہی پورچ میں کھڑی اتنی گاڑیاں دیکھنے پے ٹھٹکی پھر اندر چلی آئی۔۔۔۔

” وقعی تم اپنی مثال آپ ہو “

اس آواز پے وہ پیچھے مڑی سامنے ایک خوبرو نوجوان کھڑا بےباک نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔۔ آج نور کو صحیح معنوں میں دوپٹا نا لینے کا اندازا ہوا۔۔۔ وہ قدم اٹھاتا قریب آرہا تھا لیکن نور بےتاثر چہرے کے ساتھ وہیں کھڑی رہی۔۔۔ وہ ایک انچ اپنی جگہ سے نا ہلی جیسے اسے سامنے کھڑے شخص سے کوئی مطلب نا ہو۔۔۔

” تم بہت بہادر ہو ورنہ کسی کی ہمت نہیں میری آنکھوں میں دیکھنے کی “

” لیکن میری ہے کے میں تمہارے آنکھیں بھی پھوڑ دوں “

وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ کے قہقہہ لگا کے ہنسا۔۔۔

” شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے۔۔۔ لیکن تمہارا وہ باپ اور بھائی راضی نہیں لگتا ہے۔۔۔ اب انہیں اپنے طریقے سے سمجھانا پڑے گا۔۔۔ بٹ یو ڈونٹ وری ڈارلنگ تم سے روز ملاقات ہوگی “

بےباکی سے کہتے اسنے ہاتھ بڑھا کے نور کو چھونا چاہا جواباً زور دار تھپڑ کی آواز خاموش فضا میں گونج۔۔۔۔

” تم سے شادی۔۔۔؟؟؟ تمہاری منہ پے تھوکوں بھی نا۔۔۔ اور آئندہ اپنی نظریں اور ہاتھ قابو میں رکھنا ورنہ بینائی سے محروم ہو جاؤگے “

وہ جانے لگی کے آذر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ وہ شعلہ باز نظروں سے اسے دیکھتے ہوہے غُرایا۔۔۔

” تیری یہ ہمت کہ تو نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا “

وہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی اسی وقت اسکے دل کی مراد پوری ہوئی کے اسکے بھائی نے آتے ہی آذر کو پیٹنا شروع کر دیا۔۔۔ جوابًا آذر بھی امان پے بھوکے شیر کی طرح چھپٹا۔۔۔۔۔

سب مردان خانے سے باہر نکلے اور انہیں چھڑانے لگے۔۔۔

” کتے تجھ جیسا نفس پرست کسی لڑکی سے شادی کرنے کے لائق نہیں کمینے ہمت کیسے ہوئی رشتہ بھیجنے کی۔۔۔ اپنی بہن تو کیا گاؤں کی کسی لڑکی سے شادی نا ہونے دیتا تیری خونی جلاد تیرے خلاف جس دن ثبوت ملا اندر کر دونگا “

امان بھوکے شیر کی طرح غُرایا۔۔۔ اعظم شاہ انہیں لیکر اندر آگئے آج امان کے غصّے سے وہ بھی ڈر گئے تھے۔۔۔ باہر کھڑا آذر جو اسے گالیاں بک رہا تھا اپنے باپ پے برسا جنہوں نے اسے پکڑ رکھا تھا۔۔۔۔

” چھوڑو مجھے “ کہتے ساتھ اسنے خود کو چھڑایا

” آذر تو فکر نا کر میں۔۔ “ اسکے باپ نے کہنا چاہا جوابً آذر گرجا

”بس خاموش “ ہاتھ اٹھا کے وارن کرتا وہ جانے لگا جب زمین پے گری چین پے نظر پڑی اسنے مٹھیاں بھینچ کے وہ چین اٹھائی اور سب کو گاڑیوں میں بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی بیٹھتا وہاں سے نکل گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

” یہی وجہ تھی انکار کی؟؟ “

وہ اسکے آنسو دیکھتے ہوہے بولا جو روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔

وہ لیکچر لیکر نکل رہی تھی کے اسے آذر مل گیا۔۔۔ جو کب سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ اسنے آذر کو دیکھ بُرا سا منہ بنایا جو آذر دیکھ چکا تھا۔۔۔ آس پاس سٹوڈنٹس انہی کو دیکھ رہے تھے کیوں کے آذر اپنے آدمیوں کے ساتھ آیا تھا۔۔۔۔

” کیوں ان آنکھوں پے ظلم کرتی ہو میری جان۔۔۔ یہ شخص تمہاری قدر نہیں جانتا اسے اندازہ نہیں کہ کیا انمول موتی گنوایا ہے اسنے “

آذر کی غلیظط نظریں اسکے پھڑپِھڑاتے ہونٹوں پے تھیں لیکن نور اس وقت اپنے ہاتھ میں تھامے اس نکاح نامہ کو دیکھ رہی تھی اور ان برتھ سرٹیفکیٹس کو جہاں باپ کا نام صاف لکھا تھا ازلان شاہ۔۔۔۔۔

اسکا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔۔ باربار اسکی آنکھوں کے سامنے منظر دندھلا کے پھر صاف واضح ہونے لگتا۔۔۔ وہ اپنے بےجان وجود کو گھسیٹتے آگے بڑھنے لگی کے آذر نے اسے دونوں کندھوں سے تھام لیا۔۔۔

” آؤ میرے ساتھ میں چھوڑ دیتا ہوں “

اسنے ایک نظر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا اور اسکے دونوں ہاتھ جھٹکتی آگئے بڑھی۔۔۔۔

” اب بارات لیکر ہی آئونگا “

وہ ان سنی کرتے ڈرائیور کے ساتھ نکل گئی اسکی منزل ہوسٹل نہیں اسکا گاؤں تھی۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” بچے کیا ہوا کیوں رو رہی ہو “

امی نے اسے بتایا کے نور یونی سے ہی ہوسٹل جانے کے بجائے گھر آگئی اور دوپہر سے سوئی ہوئی ہے بغیر کچھ کھاۓ پیے۔۔۔۔

ی۔۔۔۔

” بھائی۔۔۔۔ ازلان۔۔۔ نے۔۔۔۔ دھ۔۔۔ دھوکا۔۔۔ دیا۔۔۔“

ازلان کے نام پے وہ بُری طرح چونکا اور اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔ کافی دیر وہ روتی رہی آخر خود ہی شرمندہ ہوکر الگ ہوگئی۔۔۔ وہ بنا سوچے سمجھے بول بیٹھی تھی اب اسے اندازہ ہورہا تھا۔۔۔ کیوں کے ان دونوں کے بیچ کبھی ازلان کا ذکر نہیں ہوا۔۔۔

” اب بتاؤ “

وہ نظریں بیڈ شیٹ پے گاڑے اسے سب بتاتی چلی گئی۔۔۔ اگر اس وقت امان کے چہرے پے وہ شیطانی مسکراہٹ دیکھ لیتی تو اسے بانے سے پہلے وہ سو بار سوچتی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ازلان کی دھمکی سے وہ کافی خوفزدہ ہوگئ اسلیے اپنا زیادہ تر وقت بچوں کے ساتھ گزارتی لیکن اسے یہ زندگی کبھی پسند نا تھی۔۔۔ یہ سب وہ اپنی ماں کو کرتے دیکھ چکی ہے۔۔۔ جو ساری زندگی ایک ظالم شخص کی غلامی کرکے انہیں اپنے بچے سونپ خالق حقیقی سے جا ملیں۔۔۔

وہ انکا خیال رکھتی لیکن مجبوراً اِسے اپنی وہی زندگی چاہیے تھی۔۔۔ جو وہ لنڈن میں گزار رہی تھی۔۔۔ اور وہ تبھی ملتی جب نور نام کا کانٹا اسکی زندگی سے نکلتا۔۔۔ ایک دن آذر نے اسے بلایا پہلے وہ تھوڑی خائف ہوئی۔۔۔ لیکن آذر کے کہنے پے کے اسکے پاس کچھ ایسا ہے جس سے ازلان نور سے بدظن ہوگا۔۔۔ وہ اسے ملنے کے لیے تیار ہوگئ۔۔۔۔ وہاں پہنچنے پے آذر نے جو اُسے دیا اسی رات ماہا نے ازلان کو دکھایا۔۔۔ بدلے میں آذر نے بھی اس سے نکاح نامہ اور برتھ سرٹیفکیٹس منگوائے۔۔۔۔ آذر نے جو اینولپ دیا اس میں نور اور کسی لڑکے کے تصویریں تھیں۔۔۔ آذر سے اسے معلوم ہوا یہ نور کا کوئی کزن ہے۔۔۔ جو اکثر اسے لینے آتا ہے۔۔۔۔ وہ تصویریں مختلف پوسیزس سے لیں گئیں تھیں۔۔۔ اور مختلف جگہوں پے لیکن ماہا ازلان کا بےتاثر چہرہ دیکھ غصّے سے کہہ اٹھی۔۔۔۔

” دیکھو اسے اسی کے لیے مرتے ہو نا دن رات اس بدکردار کے لیے نجانے کیا گل کھلاتی۔۔۔۔ “

ازلان کے تھپڑ نے اس کی چلتی زبان بند کی وہ اسے بےیقینی سے دیکھتی وہاں سے واک اوٹ کر گئی۔۔۔

ماہا جو اسے دکھانے آئی تھی وہ اسکے لیے نیا نہیں تھا وہ جانتا تھا نور اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی ہے۔۔۔ ازلان شروع کے دنوں میں اکثر اِسکی یونی جاتا جہاں ایک دو بار وہ اسے رافع کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔۔۔ لیکن اپنا آفس کھولنے کے بعد وہ اپنا زیادہ وقت آفس میں گزارتا۔۔۔۔ ازلان نے خود جاکر یہاں بچوں کا ایڈمشن کروا دیا۔۔۔ لیکن وہ ماہا کو باور کرانا نہیں بھولا تھا کہ اب انہیں ساری زندگی یہیں رہنا ہے۔۔۔ پاکستان آنے کے بعد تو ازلان کی روز ہی امی اور بی بی جان سے بات ہوتی لیکن اس نے یہاں آنے کے بعد خود سے اعظم شاہ کو کال نہیں کی تھی۔۔۔ وہ یہ بیوقوفی ہر گز نہیں کر سکتا امی اور بی بی جان تو نہیں لیکن اعظم شاہ اسکے نمبر پے غور ضرور کرتے جو پاکستان کاتھا۔۔۔۔

اور آج یہاں وہ انہیں سب کچھ بتانے کے ارادے سے آیا تھا۔۔۔ گھر میں آتے ہی اسکی ملاقات اماں سے ہوئی جو پریشان سی حال میں گھوم رہیں تھیں۔۔۔ ان سے ملنے پے ازلان کو جو خبر ملی اسکے ہوش اڑا گئی۔۔۔ اعظم شاہ کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا وہ ہوسپٹیلائز ہیں وہ اماں سے ہسپتال کا پوچھ کر فوراً ہی روانہ ہوگیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

امان ہسپتال کے کوریڈور میں پریشانی سے چکر کاٹ رہا تھا اسکا وار اسی پے الٹ گیا۔۔۔ نور سے نکاح نامہ اور سرٹیفکیٹ لیکر ازلان کی آوارگیوں کے قصے اس نے اعظم شاہ کو سنائے تھے۔۔۔

کیا کیا جھوٹ نہیں گڑے کے عیسائی لڑکی سے شادی کرلی، نشے کا عادی ہے، قرضدار بن گیا اور پڑھائی بیچ میں چھوڑ دی۔ اس نے کب سوچا تھا وہ یہ صدمہ جھیل نہیں پائینگے اور نتیجہ ہارٹ اٹیک کی صورت میں نکلا۔۔۔۔۔۔۔

نور آج پہلی دفع سجدے میں گری اعظم شاہ کی زندگی کی دعائیں مانگ رہی تھی اور اسما بیٹھی اپنی شوہر کے لیے آنسو بہا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

ازلان انکو دیکھ تیزی سے امان کی طرف بڑھا۔۔۔

” امان ابو کی طبیعت کیسی ہے۔۔۔؟؟ ڈاکٹر نے کیا کہا۔۔۔؟

ازلان پریشان سا امان کو بازوں سے پکڑ کے بےتابی سے پوچھنے لگا۔۔۔۔

” تمھاری وجہ سے ہوا ہے یہ سب تم زمہ دار ہو!!! “

امان نے اپنے کندھے آزاد کیے اور ایک دم سے ازلان کو خود سے دور کیا وہ گرے گرتے بچا۔۔۔

” دماغ ٹھیک ہے کیا بکواس کر رہے ہو؟؟ “

ازلان کا دماغ گھوم گیا وہ غلط وقت غلط جگہ پر اپنی نفرت کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔ ازلان جانتا ہے وہ جان بوجھ کے یہ حرکت کر رہا ہے۔۔۔ غلط فہمیاں پیدا کر رہا ہے۔۔۔ اسما اور اسکے بیچ کیوں کے وہ اسما کی آنکھوں میں حیرانگی دیکھ رہا تھا۔۔۔ امان کی بات نے انہیں بھی چونکا دیا۔۔۔

” سچ ہے یہ ابو کو تمہاری عیاشیوں کی خبر مل گئی۔۔۔ تم ازلان شاہ اگر میرے ابو کو کچھ ہوا نا تو نسلیں تباہ کر دونگا میں تمہاری۔۔۔“ امان کے لہجے میں سانپ کی سی پھنکار تھ۔۔۔۔

ازلان کا کالر امان کی گرفت میں تھا۔۔ ازلان تو ایک پل کو خاموش ہوگیا۔۔۔ وہ سمجھ گیا انہیں سب معلوم ہوگیا لیکن غلط طریقے سے یہ سچ نہیں جو امان بول رہا ہے۔۔۔۔

” چھوڑو اسے!! کس نے کہا یہ تم سے؟؟ “

اسما نے ازلان کا کولر چھڑواتے ہوہے امان سے پوچھا۔۔۔

” میں بھی وہاں موجود تھا “ وہ نظریں چُراتا ہوا سامنے شیشے کی طرف دیکھنے لگا جو پردوں سے ڈھکا ہوا تھا جہاں اندر ایک وجود زندگی اور موت کی بیچ لڑ رہا تھا۔۔۔

” ایسا نہیں ہے امی میں ایک بار ابو سے مل لوں انکی ساری غلط فہمی دور کردونگا “

ازلان نے نرم لہجے میں اسما سے کہا جو سالوں بعد اپنے بیٹے کو دیکھ پیار سے اسکا ماتھا چوم رہیں تھیں۔۔۔ ازلان مطمئن ہوا کم سے کم اسما کا دل تو بدگمانیوں سے صاف تھا۔۔۔

” چلے جاؤ یہاں سے ورنہ ایسا غم دونگا کے زندگی بھر اُس غم سے نکل نہیں سکوگے “

امان کے انگ انگ سے ازلان کے لیے نفرت جھلک رہی تھی۔۔۔ اسما بھی اسکی بات سے چونک اٹھیں امان کو آگ ہی تو لگی تھی۔۔۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی اسکی ماں ازلان کے فیور میں ہیں وہ ان ماں بیٹے کی محبت دیکھ حسد میں مبتلا ہوگیا۔۔۔۔

” امان “

اسما اسکی طرف بڑھیں۔۔۔۔

” امی اسے کہہ دیں چلا جائے یہاں سے ابو نے آگر اسے دیکھا تو ان کی طبیعت اور بگڑ جائے گی اسے کہیں چلا جائے یہاں سے “

ازلان وقت کی نزاکت دیکھ وہاں سے چلا گیا۔۔۔ لیکن ایک بات کا اسے یقین ہوگیا امان نے ہی ابو کو بتایا ہے۔۔۔ کیوں کے اسکی لیے انفور میشن کلیکٹ کرنا آسان ہے۔۔۔ امان نے خود اپنے لہجے سے ثابت کر دیا وہ وہ سانپ ہے جو ساری زندگی ازلان کو ڈسنے کے موقعے ڈھونڈے گا۔۔۔۔

وہ کوریڈور عبور کرکے ہسپتال سے جانے لگا تھا کے ایک خوبصورت چہرے نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔۔۔ دوپٹے کو نماز کے سٹائل سے باندھے وہ شلوار قمیض میں ملبوس سوجی آنکھیں لیے ایک لمحہ کو وہ اسکے سامنے آئی۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے وہ اپنی آنکھیں رگڑتی اسکے پاس سے گزر گئی۔۔۔

ازلان نے پیچھے مڑ کے اسے دیکھا جو اس سے بےنیاز اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی تھی۔۔۔۔۔ اور ازلان وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

اعظم شاہ گھر آچکے ان کے آتے ہی امان خود نور کو ہوسٹل چھوڑ آیا وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ لیکن اسکی پڑھائی کا کافی حرج ہو چکا تھا۔۔۔ اس دوران ازلان ان سے دو دفع ملنے آیا۔۔۔ لیکن اعظم شاہ نے اس سے ملنے سے منع کردیا۔۔۔ تو وہ بی بی جان اور امی سے مل کے لوٹ گیا۔۔۔ لیکن اسنے بی بی جان کو سب بتا دیا کے اس نے یہ سب مجبوری کے تحت کیا۔۔۔ اور بی بی جان کا جواب سن وہ بس مسکرا کہ رہ گیا۔۔۔ انہیں اپنے پر پوتوں سے ملنا تھا اور وہ انہیں ایک دن کے لیے اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔ ہنی اور حمزہ تو انہیں دیکھ خوشی سے اچھل پڑے پہلی دفع انہوں نے ماں باپ سے ہٹ کے کوئی رشتہ دیکھاتھا۔۔۔ ہنی پورا دن انکی تمیداری میں لگا رہتا۔۔۔ اور حمزہ اپنے بڑے بھائی کی حرکتیں دیکھ اسکا ساتھ دیتا۔۔۔ پھر مشکل سے تین دن گزرے ہونگے انہیں اپنا گھر یاد آنے لگا۔۔۔ ازلان انہیں واپس چھوڑ آیا وہ کہ رہیں تھیں کے ازلان کو کے وہ واپس آجائے کیسے آتا۔۔۔؟؟ اتنا آسان نہیں تھا ابو اسے ملنے کے لیے تیار نہیں تھے۔۔۔۔ تو کیسے ایک ہی گھر میں اسے برداشت کرتے وہ انہیں چھوڑ کے کراچی آگیا۔۔۔۔۔

بہت مشکل سے اسے ایک کنٹریکٹ ملا تھا اسنے اپنے کافی دوستوں سے رابطہ کیا انہی کے ذریعے اسے یہ کنٹریکٹ ملا۔۔۔

اسے کل ہی اپنے آئیڈیاز ٹیم کو دکھانے تھے اسے لیے وہ پوری رات اپنی پریزنٹیشن مکمل کرتا رہا اور آج صبح ہی ماہا نے اسے عمر کی طبیعت خرابی کا بتایا۔۔۔ ازلان نے ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لیکر ماہا کو جانے کا کہا لیکن اسکے صاف انکار پے وہ خون کے گھونٹ پی کہ رہ گیا۔۔۔۔ وہ خود ہی تیار ہوکر حمزہ کے ساتھ جانے لگا کے ماہا بھاگتی ہوئی آئی۔۔۔

” ازلان میں اسے لے جاؤنگی تمہاری میٹنگ ضروری ہے آخر ساری رات جاگ کر تم نے محنت کی ہے “

ازلان عجلت میں سر اثبات میں ہلاتے آفس کے لیے روانہ ہوگیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

اعظم شاہ کے گلے لگے وہ بچوں کی طرح رویا ایک قیامت آکر گزری تھی اس پے وہ ابھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو دفنا کے گھر لوٹا تھا۔۔۔

آہستہ آہستہ سب مہمان چلے گئے پورے گھر میں خاموشی کا راج تھا۔۔۔ امان باہر کار میں بیٹھا اعظم شاہ کا انتظار کر رہا تھا اور وہ یہاں بیٹھے اپنے عزیز بھائی کی نشانی کو بکھرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔۔۔

انہیں اسما نے بتا دیا تھا ازلان نے مجبوری میں شادی کی تھی تب سے وہ امان سے ناراض تھے۔۔۔ غلط بیانی پر اور ازلان سے ایک بار مل کر اس سے پوچھنا چاہتے تھے۔۔۔ کے کیوں ازلان نے انکی بیٹی کے خواب مٹی میں ملا دیے وہ اپنی بیٹی کی محبت سے واقف تھے۔۔۔ جو انجانے میں اسما نے اسکے دل میں جگائی تھی۔۔۔۔ لیکن اب وہ ٹوٹ چکا تھا بھکر چکا تھا اعظم شاہ نے اسے چلنے کا کہا تو اسنے انکار کردیا لیکن اعظم کے غصّے سے جھڑکنے پے یہ کہ دیا کے وہ جلد واپس لوٹ آئے گا۔۔۔ حلانکے اسکا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔ وہ گہری سانس لیتے امان کے ساتھ گھر لوٹ آئے۔۔

☆.............☆.............☆

اگر اسے معلوم ہوتا عمر کبھی واپس نہیں آئے گا وہ اسے جانے ہی نا دیتا۔۔۔ کوئی حیوان ہی تھا جس نے انہیں دردناک موت دی۔۔۔ ماہا کو اتنے بُرے طریقے سے مارا گیا تھا کے وہ تو اسے پہچان بھی نا پایا۔۔۔ لیکن حیرت اسے اس بات کی تھی وہ گاؤں کیوں گئی۔۔۔ اور ڈرائیور نے اسے اطلاع تک نہ دی وہ اکیلے ڈرائیو کرکے گاؤں پہنچ گئے؟؟ اسے تو تب معلوم ہوا جب انسپکٹر کی کال آئی ماہا کے موبائل سے انہوں نے اسے کال کی کیوں کے لاسٹ کال ماہا کے فون میں ازلان کی تھی اس لیے انہوں نے اسے کال کی۔۔۔۔

” بابا “

ہنی روتا ہوا اس سے لپٹ گیا۔۔۔

” کیا ہوا میری جا “

” بابا مجھے عمر نظر آتا ہے “

ازلان کا سانس ایک پل کے لیے تھم گیا۔۔۔ پھر وہ صبح ہی ہنی کے ساتھ گاؤں روانہ ہوگیا۔۔۔ امی ابو اسے دیکھتے ہی لپٹ گئے سب خوشگوار حیرت سے اسے ملے۔۔۔ امی نے جب ہنی کو گلے لگانا چاہا تو وہ ڈر کے ازلان کی ٹانگوں سے چپک گیا۔۔۔ وہ خوف سے آنکھوں کو بڑا کیے انہیں تک رہا تھا۔۔۔ اسما اسکی حالت سمجھتے اسے بی بی جان کے پاس لے آئیں اور انکی سوچ کے مطابق وہ بی بی جان سے خوشی سے ملا۔۔۔۔

” نور تم کچھ دنوں کے لیے آجاؤ۔۔۔ ارے میں بتا دونگی آؤ تو۔۔۔۔ یہاں میں اکیلے نہیں سنبھال سکتی۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے کل ہی پہنچ جانا “

نور کے آتے ہی اسما نے اسے سب بتا دیا۔۔۔ اسکے تو سنتے ہی ہوش اُر گئے پھر وہ بی بی جان کے پاس آگئی۔۔۔ جو ہنی پر کچھ پڑھ رہیں تھیں ہنی اسے دیکھتے ہی اٹھ بیٹھا۔۔۔۔

” پری؟؟ 

” کی۔۔۔کیا۔۔۔کہا۔۔۔تم۔۔نے۔۔۔؟؟ “ اسنے حیرت اور غصّے کے ملے جلے تااثرات سے استفار کیا

ایک دم اس لفظ سے نور کے گھاؤ پھر تازہ ہوگئے۔۔۔

” پری؟؟؟ “ ہنی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔۔

” میرا نام نور ہے “

وہ تھوڑا تیز لہجے میں بولی۔۔۔۔

” س۔۔۔سو۔ ۔۔سوری “

بی بی جان نے اسے ٹوکا تو وہ آنسوؤں پیتی اس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔

” تم نے پری کیوں کہا “

” بابا نے کہا آپکا نام پری ہے۔۔۔“ وہ بی بی جان سے چپک کر بیٹھ گیا۔۔۔ سامنے بیٹھی اس لڑکی سے اسے خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں چلی آئی اور رات تک وہیں رہی۔۔۔

صبح امی کی ڈانٹنے پے وہ زیادہ وقت ہنی کے ساتھ رہی۔۔۔ اور اس دوران اسے اپنے کل کے رویے پے شرمندگی ہوئی۔۔۔ وہ اس سے کافی دیر باتیں کرتا رہا وہ ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔۔۔ اسے مانا پڑا تھا ہنی کافی انٹیلجنٹ ہے۔۔۔ وہ ہر چیز کو گہرائی سے اوبزرو کرتا ہے۔۔۔ اسکے سوال سن کے تو نور کا دماغ چکرا جاتا۔۔۔ رات میں اسنے لوڈو منگوایا اور وہ بی بی جان کے کمرے میں رات دیر تک لوڈو کھیلتے رہے۔۔۔ پھر ہنی انکے ساتھ سونے لیٹ گیا اور وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔ اپنی بکس لیکر پڑھنے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ صوفہ پے ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھا تھا ہنی کو اسنے اپنی گود میں بٹھایا تھا۔۔۔۔

نور تیز دھڑکنوں کے ساتھ بھرپور مردانہ وجاہت کے مالک اس شخص کو تک رہی تھی گوی ی رنگت، تیکی نقش ونگار۔۔۔۔ وہ پردے کے اوٹ سے اسے تک رہی تھی۔۔۔۔۔

نور ہنی کو ڈھونڈ رہی تھی کے امی نے بتایا وہ ازلان کے پاس امی کے روم میں بیٹھا ہے۔۔۔ تب سے وہ اسے تک رہی تھی وہ دھیمی لہجے میں ہنی سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔

اسکی براؤن آنکھیں اسکا دھیما لہجہ اسے ایک بار پھر اپنے حصار میں جکڑے ہوے تھے۔۔۔۔ وہ جتنا پیچھا چھڑا لے وہ اس شخص کو چاہ کر بھی بھول نہیں سکتی۔۔۔۔

” پری “ ازلان کی گود میں بیٹھا ہنی اسے دیکھ چہک اٹھا جبکے نور گھبرا کے بلکل پردے کے پیچھے چُھپ گئی۔۔۔

” ہنی کے بچے تمہیں تو بتاتی ہوں “

ہنی کی پکار پے شاہ نے بھی اس طرف دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔۔۔ وہ اپنا فون لیکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنی کی پیشانی پے بوسہ دیتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔

ازلان کے جانے کے بعد اس نے ہنی کی خوب خبر لی۔۔۔ پھر غصّے سے اسکا ہاتھ پکڑ کے باہر لے آئی جہاں ٹیبل پے کیک رکھا تھا اور اوپر ہیپی برتھڈے ہنی لکھا تھا۔۔۔

” آپ کو کیسے پتا؟؟؟ “ نور اسکا خوشی سے دمکتا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔۔ ازلان تو ہر سال اسکی برتھڈے سلیبریٹ کرتا ہوگا۔۔۔ پھر بھی نور کو لگا جیسے وہ ان خوشیوں سے بہت دور ہے۔۔۔۔ یا شاید اسکی سوچ تھی۔۔۔۔

” امی نے بتایا تبھی تم سے تمہارے بابا ملنے آئے تھے نا؟؟ “

وہ ہنی کو دیکھ رہی تھی جس کی نظریں چاکلیٹ کیک پے اٹکی تھیں۔۔۔ ازلان کا نام لیتے ہی اسکی دھڑکن تیز ہوجاتی تھی۔۔۔

” ہاں!!!! تھینک یو سو مچ آپ بہت اچھی ہیں پری “

وہ چھری پکڑے کیک کھانے کے چکر یں تھا۔۔۔

” وہ تو ہوں تبھی صبح سے کیک بنانے میں لگی ہوں“

وہ ایک ادا سے بولی

” آپ کو کوکنگ آتی ہے “

وہ سن کے حیران رہ گیا۔۔۔

” ہاں بی بی جان بہت تیز ہیں کہتی ہیں لڑکیوں کو سب کام آنے چائیں “

نور نے اسکے کان میں گھس کے رازداری سے کہا جیسے بی بی جان کہیں سے آجائیں گی۔۔۔ ہنی اسکی بات سن مسکرا اٹھا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ہنی کے ساتھ اسکے دن کافی اچھے گزرے۔۔۔ اب وہ گھر میں سب سے بات کرنے لگا تھا۔۔۔ لیکن بی بی جان کا کہنا تھا اب بھی وہ اکثر راتوں میں ڈر جایا کرتا ہے۔۔۔ لیکن اب وہ پہلے کی طرح ڈرا سہما نہیں رہتا تھا۔۔۔ تین دنوں میں اپنوں کے پیار نے اسکا چہرہ پھول کی طرح کِھلا دیا۔۔۔ اب جب اسے نور کے جانے کا پتا لگ تو وہ بُجھ سا گیا اور اسے رُکنے کی منتیں کرنے لگا۔۔۔

” آپ کیوں جا رہی ہیں؟؟ اب میرے ساتھ کون کھیلے گا؟؟ “

ہنی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا کے کہیں وہ چلی نا جائے۔۔۔

” ہنی میرا بہت لوس ہو چکا!!! میری فرینڈ کی کال آئی تھی اگر میں نہیں گئی تو مجھے یونی سے نکال دینگے “

نکالنے والی بات اس نے ایسے ہی کہی تھی تاکہ وہ اسے جانے سے روکے نا۔۔۔۔

” ہنی میرے لیے میرے پڑھائی میرا فیوچر بہت امپورٹنٹ میں۔۔۔ میں تم سے ملنے آتی رہونگی اپنا خیال رکھنا “

وہ کار میں بیٹھ چکی تھی ہنی اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اس ویران دنیا میں تنہا رہ گیا ہے۔۔۔ اسکے آنکھوں سے اشک بہ نکلے گاڑھی اب اسکی آنکھوں سے کافی دوڑ نکل چکی تھی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” فنٹاسٹک فیضان تم بس ایک ہفتہ اور سنمبھالو میں جلد ہی آجاؤنگا اور سائٹ پے یاد سے جاتے رہنا جیسے میں نے بلڈنگ ڈیزائن کی تھی مجھے ویسے ہی چاہیے “

وہ ہر روز پولیس اسٹیشن کے چکر لگا رہا تھا مرڈر یہاں ہوا تھا اور اسے یقین تھا مجرم بھی اسی گاؤں میں ہوگا۔۔۔ اس نے یہ کیس امان کو نہیں دیا تھا وہ رٙتی بھر بھی اس پے بھروسہ نہیں کرتا۔۔۔ آفس وہ فیضان کے حوالے کر آیا تھا۔۔۔ جو بچوں اور عائشہ کو ان کے ننھیال چھوڑنے آیا تھا۔۔۔ اسے ہنی کی بھی ٹینشن تھی جو اپنی پڑھائی کو بھول بیٹھا تھا۔ اسکا اگلے ہفتے ہی واپس جانے کا ارادہ تھا۔۔۔۔

ازلان اسے دیکھ چکا تھا وہ پردے کے پیچھے چھپی ہوئی تھی اسکے پیر صاف نظر آرہے تھے وہ اسے کافی دفعہ حویلی میں گھومتے دیکھ چکا ہے جو ہنی کا ہاتھ پکڑے اسے پوری حویلی میںگھوماتی۔

ازلان جب دونوں کو ساتھ دیکھتا اسکے دل میں ایک خواہش جاگتی جس سے وہ جھٹک دیتا۔۔۔ یہ ناممکن تھا کے وہ ایک شادی شدہ مرد سے شادی کرتی اور وہ تو اپنی زندگی میں کافی آگے نکل چکی تھی۔۔۔

” شاہ صاحب آپ جلدی پولیس سٹیشن آجائیں؟؟ “

” ہاں بس میں آرہا ہوں “

وہ اسما سے کار کی چابی لیکر پولیس سٹیشن پہونچا۔۔۔

ریش ڈرائیونگ کر کے اس نے پندرہ منٹ کا سفر دس منٹ میں طے کیا۔۔۔ وہ اندر جا رہا تھا کے اسکی ٹکر امان سے ہوگئ۔۔۔ وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتا باہر نکل گیا ازلان بھی اندر آکر افسر سے ملنے لگا۔۔۔۔۔

” یاد رکھنا نسلیں تباہ کر دونگا میں تمہاری “

” ایسا غم دونگا کے زندگی بھر اُس سے نکل نہیں سکوگے “

” یہ بریسلیٹ(چین) بھی ان کی ہے یہ ہمیشہ انکی کلائی پے بندی ہوتی ہے “

” لوکیشن بھی آس پاس کی ہے “

امان کی خاموشی ایسا طوفان لائے گی وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔ نفرت اور حسد انسان کو آنکھوں سے اندھا اور عقل سے خارج کردیتی ہے۔۔۔ اور امان کی نفرت نے اس سے اسکی زندگی چھین لی۔۔۔۔

وہ چین اٹھاتا گھر پہنچا۔۔۔ اسما اور اعظم شاہ کو اسنے ایک ایک بات بتائی بچپن کی، ہسپتال کی اور اب افسر سے ہونے والی گفتگو لیکن اسکی توقع کے عین مطابق کسی نے اسکی بات پے یقین نہ کیا۔۔۔ ازلان کا غصّے سے بُرا حال تھا اگر یہی سب امان اپنے سگے بھائی کے ساتھ کرتا تب بھی ابو اسکا ساتھ دیتے۔۔۔۔؟؟ آج زندگی میں پہلی مرتبہ اسنے اعظم شاہ سے بدتمیزی کی تھی۔۔۔ یہ تک کہ دیا کے بیٹی کی محبت میں آپ نے بھی امان کا ساتھ تو نہیں دیا۔۔۔۔؟؟ وہ دونوں ہی اس وقت اسکے سامنے نڈھال سے بیٹھے تھے۔۔۔۔ ازلان نے ہنی کا سامان پیک کیا اور اسکے احتجاج کرنے کے باوجود اسے کار میں بٹھایا۔۔۔ اسما نے ازلان کی حالت دیکھ بی بی جان کو بھی انکے ساتھ روانہ کیا۔۔۔ ازلان نے ڈرائیور کے ساتھ انہیں روانہ کیا اور خود پولیس اسٹیشن چلا آیا۔۔۔۔

” شاہ صاحب ہم کنٹیکٹ کر رہے ہیں انکا نمبر بند ہے۔ وہ ایک کیس کے سلسلے میں گئے تھے “

ازلان کو اپنی غلطی کا احساس شدت سے اسنے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پر مارا اسے اعظم شاہ کو بتانا نہیں چاہیے تھا۔۔۔ یقیناً امان اب تک تو یہاں سے جا چکا ہوگا۔۔۔۔

اب اسکے پاس ایک ہی راستہ تھا امان کو واپس لانے کا۔۔۔

وہ خود جس رسم سے نفرت کرتا تھا آج اپنے بیٹے کے لیے وہ اس رسم کا حصہ بن گیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” کیا مسئلہ ہے!! ہر دوسرے دن حویلی میں مجھے کوئی پڑھنے بھی دیگا یا نہیں۔۔۔؟؟ “ وہ غصّے سے سامنے کھڑے ڈرائیور سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔

” بی بی جی صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں “

ڈرائیور نے یہی حربہ آزمایا۔۔۔ نور کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا وہ اپنا ضروری سامان لیتی کار میں آکر بیٹھ گی۔۔۔۔

گھر کا ماحول عجیب تھا اسکے تمام رشتےدار بیٹھے تھے اسما بیٹھی رو رہیں تھیں۔۔۔ اور تائی پاس ہی بیٹھیں انہیں چُپ کرا رہیں تھیں۔۔۔ کیا سب ختم ہوگیا۔۔۔؟؟ اسکے ابو چلے گئے اسے بےسہارا چھوڑ کر۔۔۔؟؟ ایک طرف عورتیں بیٹھیں تھیں تو دوسری طرف مرد وہیں اسکے ابو تایا کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔۔ بے جان وجود میں جان کیسے آتی ہے اس ایک پل نے اسے بتایا وہ تیز قدم اٹھاتی ابو کے پاس آئی۔۔۔۔

” نور آج نکاح ہے تمہارا ازلان کے ساتھ “

دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں اسنے سوچا بھی نا تھا۔۔۔ اسما نے اسے دیکھتے کہا اور پھر کچھ ہی دیر میں انکا نکاح ہوا وہ جو سمجھ رہی تھی رخصتی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ہوگی اسما کی بات سے حیران رہ گی۔۔۔۔

” نور تم جانتی ہو ازلان نے کیا کھویا ہے۔۔۔!! اس وقت وہ تھوڑا۔۔۔ اسما کو سمجھ نہیں آیا کیسے بات کرے۔۔۔

” تم اسے سنمبھال لوگی نور مجھے یقین ہے جانتی ہو وہ ایک دنیا سے لڑ سکتا ہے تمہارے لیے۔۔۔۔ اور اس بات سے بھی واقف ہو پہلے شادی مجبوری تھی اسکی۔۔۔“

” جی امی “

پھر ایک عجیب بات ہوئی نا مہندی لگی نا سجی سنوری۔۔۔ نا ہی رخصت وہ شوہر کے ساتھ ہوئی۔۔۔ امی ابو بار بار اسے دیکھ کے روتے امی بار بار اسکی پیشانی کے بوسے لیتیں۔۔۔۔

آخر رخصت ہوکے وہ اس گھر میں آگئ اماں کے ساتھ۔۔۔

یہاں آکر وہ بی بی جان سے ملی جو اسے دیکھ آنسو بہا رہی تھیں۔۔۔ اسے دیکھ ہنی تو خوشی سے اُچھل پڑا اسے اپنے ٹوائز دیکھانے لگا پھر پورا گھر اور جو سوال اسنے نور سے کیا وہ تو سنتے ہی بوکھلا گئی۔۔۔

” آپ کون سے روم میں رہیں گی؟؟ “

” تمہارے۔۔۔ بابا۔۔کا۔۔کون۔۔ سا۔۔۔ ہے؟ “

وہ جب شاہ کے کمرے میں پہنچی تو اسکا سوٹ کیس پہلے سے وہاں رکھا ہوا تھا۔۔۔ اسنے اپنی ڈریسز نکالیں اور الماری میں سیٹ کرنے لگی۔۔۔ اور ہنی اسکا میک اپ وغیرہ سب ڈریسنگ ٹیبل پے رکھ رہا تھا۔۔۔ نور کو ہنسی ہی آگئی ہنی اس سے سائے کی طرح چپکا ہوا تھا۔۔۔ سیٹنگ کے بعد وہ اپنا ڈریس لیکر نہانے چلی گئی اور ہنی نیچے چلا گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ جو سمجھ رہا تھا ابو امان کو اسکے حوالے کردیں گے۔۔ اس فیصلے سے اسکے ہوش اڑ گئے۔۔۔ وہ جس کے لیے دن رات تڑپا تھا۔۔۔ آج وہ اسکی دسترس میں تھی لیکن ازلان کے دل میں اب اسکی چاہ تھی۔۔۔؟؟ وہ نور کے لیے ہی تو آیا تھا۔۔۔ واپس پر ہوا کیا۔۔۔؟؟ وہ اپنی عزیز ہستی گنواں بیٹھا ایک بار پھر اسکی آنکھیں بھیگ گئیں۔۔۔۔

اگر ابو کو یہی منظور تھا تو یہی سہی ساری زندگی اب وہ یہیں تڑپتی رہے گی۔۔۔ اسکی شکل دیکھنے کے لیے وہ ترس جائینگے۔۔۔ اب عمر کے خون کا حساب وہی دیگی۔۔۔۔

وہ فرش ہو کے باتھروم سے نکلی تو سامنے ہی ازلان بیٹھا تھا ٹانگوں کو ٹیبل پے رکھے وہ سیگریٹ کے کش لے رہا تھا۔۔۔ اسکی نظریں باتھروم کے دروازے پے تھیں۔۔ جیسے نور کے آنے کا انتظار کر رہا ہو۔۔۔ اسکے سراپے کو دیکھ ازلان کی پیشانی پے بل نمودار ہوئے۔۔۔ وہ یک ٹک بےتاثر چہرے کے ساتھ اسے تک رہا تھا۔۔۔ پھر اٹھ کے اسکے سامنے آکھڑا ہوا اسکی ٹھوڑی سے پکڑ کے سر اونچا کیا۔۔۔۔ نور کے گال اس لمس سے تپ اٹھے کافی دیر تک جب ازلان بنا کچھ بولے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ تو نور نے نرمی سے اپنا چہرہ آزاد کرتے ہوہے سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔۔۔ اسکے کلون کی مہک نور کے حواسوں پے چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔

ازلان تو اسکی جُرت پہ حیران تھا۔۔۔

” میں آپکا ہر غم ہر تکلیف دور کردونگی۔۔۔ ماہا اور عمر کے جانے ۔۔۔۔ “

ایک پل لگائے بغیر ازلان نے بےدردی سے اسے خود سے الگ کیا۔۔۔ اور اسکے ہاتھ نے نور کی چلتی زبان بند کی۔۔۔

” نام بھی مت لینا سمجھی۔۔!! تم بھی تو ذمہ دار ہو اسکی موت کی “

وہ ایک ایک لفظ چبا کے بولا۔۔۔

وہ زمین پے گری بے یقینی سے اذلان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ کیا یہ وہی شخص ہے جو اسکی بیماری میں پوری رات جاگتا تھا۔۔۔؟؟ امی جس کی تعریف کیئے بنا نہیں رہتک تھیں۔۔۔؟؟ میرا محافظ۔۔۔؟؟ جو میرے رونے سے پہلے اس وجہ کو ختم کردیتا جس سے مجھے تلکیف ہوتی۔۔۔۔؟؟

اگلے ہی پل وہ اٹھی اور اِس کی آنکھوں میں دیکھ کے بولی۔۔۔۔۔

” تمہارے ہمت کیسے ہوئی مجھ پے ہاتھ اٹھانے کی۔۔۔ اور میں نے نہیں مارا تمہاری بیوی اور بیٹے کو “

” شٹ اپ تمہارے اتنی ہمت کے تم مجھے جواب دو “ اسکی گرج دار آواز پورے کمرے میں گونجی۔۔۔۔

” ہاں کیوں کے تم پڑھے لکھے جاہل ہو عورت پے ہاتھ اٹھاتے ہو نفرت ہو رہی ہے مجھے تم سے۔۔۔ نفرت۔۔۔۔ پہلے مجھے تم سے ہمدردی تھی اب نفرت ہے سنا تم نے نفرت۔۔۔۔ “

وہ اسکی قمیض کا کالر پکڑ کے تقریباً چیخ پڑی۔۔۔۔۔

اس وقت اسکا ذہن مفلوج ہوچکا ازلان کا یہ کونسا چہرہ وہ دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں نہ اسکے لیے محبت تھی۔۔۔ نا عزت اسے اپنے اتنے سال برباد ہوتے محسوس ہوئے جو وہ اسکے انتظار میں کاٹتی رہی۔۔۔

اذلان نے اِس کے بال مٹھی میں جھکڑے اور اسے بیڈ پے پٹکا دیا۔۔۔۔

” تمہیں میں بتاتا ہوں ہمدردی کے قابل کون ہے۔۔۔ آج کے بعد تم خود سے نظریں نہیں ملا پائوگی “

وہ اسکی آنکھوں میں حیوانیت دیکھ کے کانپ اٹھی۔۔۔۔ وہ وپیچھے کھسکنا چاہتی تھی لیکن اس سے پہلے ہی وہ اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔

کچھ دیر بعد کمرے میں اندھیرا چاہ گیا تھا۔۔۔

☆.............☆.............☆

اندھیرے کمرے میں اسکی مدھم سسکیاں گونج رہیں تھیں۔۔۔ کل رات وہ اسے بہت کچھ باوقار کرا چکا تھا۔۔۔ وہ خون بہا میں آئی ہے امی ابو نے اسے دھوکہ دےکر بھیجا تھا۔۔۔ بیٹے کے لیے بیٹی کو قربان کر دیا۔۔۔۔ وہ جو خود کو اہم سمجھتی تھی آج اسے احساس ہوگیا وہ سب اسکے بغیر بھی خوش ہیں۔۔۔

” بند کرو یہ رونا ورنہ ابھی گلہ دبا دونگا عقل ٹھکانے نہیں آئی ابھی تک تمھاری “

اسکی غراہٹ سنتے ہی وہ لرزتی ٹانگوں سے ڈریسنگ روم میں آگئی۔۔۔ نور نے خود کو آئینے میں دیکھا وہ صیح کہہ رہا تھا۔۔۔ اِس میں ہمت نہیں تھی کے وہ خود سے نظریں ملائے گردن پے بازؤوں پے جگہ جگہ سگڑیٹ سے جلانے کے نشان تھے۔۔۔

اسے ان زخموں کی پروا نہیں تھی۔۔۔ یہ زخم تو وقت کے ساتھ بھر جائیں گے لیکن ان زخموں کا کیا جو ازلان نے اسکی روح پے لگائے ہیں وہ کیسے بھریں گے۔۔۔۔

وہ چینج کر کے باہر آگئی تکیہ اٹھا کے صوفہ پے سونے لگی لیکن نیند تھی کے اِس پے مہربان نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ اور آنکھیں تھیں کے پانیوں سے بھرتی جا رہیں تھیں۔۔۔ آج ہر چہرے سے نقاب اٹھ چکا تھا اسنے سب کے بھیانک چہرے دیکھ لیے اب اسکے لیے کوئی قابلِ اعتبار نہیں رہا۔۔۔۔

جانے کب نیند اِس پے مہربان ہوئی۔۔۔۔

صبح اٹھی تو اذلان ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔۔۔

نور اٹھی اور اسے نظرانداز کرتی واشروم جانے لگے کے اذلان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔

” واقعی تم سے ہمدردی ہو رہی ہے “

طنزیہ مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پے سجی تھی۔۔۔

” بولوگی نہیں رات تو زبان خوب چل رہی تھی “

اسنے آنکھوں کو سختی سے بند کرلیا رکے ہوئے آنسوں بہہ نکلے۔۔۔۔

” کہا تھا نا یہ مگر مچھ کے آنسوں نا بہیں کونسی زبان سمجھتی ہو تم “

وہ اسکے آنسوؤں سے کمزور نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔۔۔ سختی سے کہتے اسنے زور سے نور کا ہاتھ دبایا۔۔۔

” آ “

” میں تمہاری کوئی خریدی ہوئی غلام نہیں میرے آنکھیں ہیں میرے آنسوؤں ہیں۔۔۔۔ ہنسوں بولوں روں تمہیں کیا تکلیف ہے “

غصّے سے کہتے اسنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی جو ازلان کی پکڑ میں تھا لیکن اسکی پکڑ مضبوط تھی نور نے اپنے لمبے ناخن اسکے ہاتھوں پے گاڑ دیے۔۔۔

” بہت بدتمیز ہو تم رات کے بعد بھی وہی حال ہے تمہارا۔۔۔ میرے قہر سے بچنا چاہتی ہو تو اپنی زبان کو لگام دو۔۔۔ اور میں تمہارا کوئی عاشق نہیں جو تم کہ کر مخاطب کرتی ہو “

ازلان نے اسکا دوسرا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لیا اور دونوں ہاتھوں کو کمر کے پیچھے لیجا کر گرفت مضبوط کردی۔۔۔

وہ رات کو ہوئی اسکی تذلیل یاد دلا رہا تھا۔۔۔ نور کا چہرہ غصّے سے سرخ ہوگیا۔۔۔ اچانک ازلان کا فون بجا وہ اسے چھوڑتے ہوئے فون کی طرف متوجہ ہوگیا دوسری طرف فیضان تھا جو اسے دس منٹ میں پہنچنے کا بتا رہا تھا۔۔۔ فون رکھتا ہوا وہ اسکے طرف متوجہ ہوا۔۔۔

” ناشتہ تیار کرو فیضان آرہا ہے “

” عزت اسے دی جاتی جو اسکے لائق ہوتا ہے۔۔!!! اور میں تمہاری کوئی نوکر نہیں خود جاکر بناؤ “

غصّے سے کہتی وہ بھاگنے کے انداز میں روم سے نکلی اسے پتا تھا وہ اس شخص کا مقبلا کبھی نہیں کرسکتی۔۔۔۔

☆............☆.............☆

تذلیل کے احساس سے ابھی تک اسکا چہرہ سُرخ تھا وہ ڈرائنگ روم میں بیٹا فیضان کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا لیکن اسکے چہرے پے چٹانوں سی سختی تھی۔۔۔

” ازلان مجھے بہت افسوس ہے یار۔۔۔!!! سوری میں آنہیں سکا تمہیں پتا ہے نا پاپا کے جانے کے بعد ماما کی کیا حالت ہے۔۔۔ وہ اپنے ہوش میں نہیں رہتیں انہوں نے عائشہ کو مارنے کی کوشش کی “

فیضان کبھی نا بتاتا لیکن اسے بےحد افسوس تھا وہ اپنے بھائی کے دکھ میں اسکے ساتھ شریک نہیں تھا اور اسے ازلان کی ناراضگی کا بھی ڈر تھا۔۔۔

” کیا؟؟ کیا ہوا ہے انہیں؟؟ “

وہ پریشان سا ناشتہ چھوڑ کے فیضان کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔

” بس یار بابا کے جانے کے بعد چڑچڑی سی ہوگئی ہیں،

میرے علاوہ کسی کو پہچانتی نہیں اور تم جانتے ہو جتنی عزیز مجھے ماما ہیں اُتنی ہی عائشہ ہے۔۔۔ اسلیے عائشہ کو یہاں اسکے ماں باپ کے پاس چھوڑنے آیا تھا کچھ دنوں کے لیے۔۔۔ ماما کا علاج ہو رہا ہے۔۔۔انشاللہ وہ جلد ٹھیک ہوجائیں گئی “

” لیکن کسی نے بتایا نہیں مجھے انفیکٹ بی بی جان نے بھی نہیں “

” میں نے کسی کو بتایا بھی نہیں “

بےنیازی سے کہتا وہ چائے کے سپ لینے لگا۔۔

” کیوں؟؟ “

” ہمدردی بٹورنے کا شوق نہیں!! “

کہتے ہی فیضان اٹھ کھڑا ہوا اسے جلدی نکلنا تھا۔۔۔ دونوں بی بی جان کے روم میں آگئے۔۔۔ بی بی جان محبت سے فیضان سے ملیں اور بیوی بچوں کا حال پوچھنے لگیں۔۔۔ ازلان کو فیضان کے سامنے شرمندگی نے آن گھیرا۔۔۔ نور اپنے گھٹیا لباس میں بی بی جان کے ساتھ بیٹھی۔۔۔ ناشتہ کر رہی تھی۔ نور فیضان سے ملی اور اسے نظر انداز کرتی پراٹھے کھاتی رہی۔۔۔ ایک نظر بھی اسنے ازلان پے نہیں ڈالی جو مٹھیاں بھینچے اپنا ضبط آزما رہا تھا۔۔۔۔

” سائٹ پے جاکر دیکھ لینا کام سٹارٹ ہوگیا ہے تم یہ بتاؤ یہ اعظم ماموں کی بیٹی یہاں کیا کر رہی ہے۔۔۔؟؟ “

فیضان اسکی پسند سے اچھی طرح واقف تھا تبھی پوچھ بیٹھا۔۔۔۔ آخر نور کے اکیلے آنے کا مقصد۔۔۔؟؟

” بیوی ہے میری!!! ابھی تم جاؤ تمہاری فلائٹ مس ہوجاۓ گی اس موضوع پے پھر کسی دن بات کرینگے “

وہ آرام سے اسکے سر پے دھماکہ کر کے زبردستی کار میں بیٹھا کے روانہ کر چکا تھا۔ آگر وہ روکتا تو ضرور اسکی کلاس لیتا۔۔۔

☆.............☆.............☆

ازلان آفس چلا گیا۔ اور نور نے بی بی جان کے حکم سے ہنی کو تیار کر کے اسکول بیجھا۔۔۔ وہ تو اسے دیکھتے ہی خوشی خوشی خود تیار ہونے لگا نور بھی اسکی مدد کرنے لگی پھر وہ ناشتہ کر کے چلا گیا۔۔۔

نور کا پورا دن گھر میں گھومتے پھرتے گزرا پھر ازلان کے آنے کے بعد سب نے ساتھ ڈنر کیا پھر وہ بی بی جان کے روم میں آکر انکے ساتھ سونے لگی۔۔۔ جنہوں نے یہ کہہ کر بھگا دیا شوہر کے کمرے میں جاؤ اب آخری راستہ ہنی تھا وہ اسکے روم میں آگئی۔۔۔

” اماں کوئی آرہا ہے؟؟ “

وہ ٹرائوزر اور شرٹ میں ملبوس منہ ہاتھ دھو کے ناشتے کے غرض سے کچن میں چلی آئی جہاں ملازمائیں بھاگ دوڑ میں لگیں تھیں۔۔۔

” ہاں اعظم صاحب کے بھائی بھابی “

” کیا؟؟ انہیں کوئی کام نہیں گھر پے ٹک کے نہیں رہ سکتے “

ناگواری سے کہتی وہ فریج سے بوتل نکالنے لگی۔۔۔

” بُری بات ایسے نہیں کہتے اور کتنی دفع کہا ہے گلاس میں پانی ڈال کے پیو اس طرح بوتل منہ سے نہیں لگاتے “

اماں نے اسے ٹوکا تو وہ گلاس میں انڈیل کے پینے لگی۔۔۔۔۔

” تائی آرہی ہیں!! اب انکے سامنے تو نئی نویلی دلہن بننا پڑیگا “

اسکی اپنے رشتےداروں سے کبھی نہیں بنی وجہ انکا لالچ تھا تائی اسکے لیے رافع کا رشتہ لائیں تھیں جو ہر وقت نور کے آگے پیچھے گھومتا جان بوجھ کے امان کے ساتھ اکثر اسے یونیورسٹی سے لینے آتا۔۔۔۔ تائی نے خوب کوشش کی تھی ازلان سے اسکا رشتہ تڑوانے کی تاکہ اپنی بیٹی کی شادی ازلان سے کر سکیں اور نور کی رافع سے۔۔۔۔

اس چکرر میں وہ کافی دفعہ اسما کے کان بھر چکی تھیں ازلان کے خلاف کے شادی کر رکھی ہوگی واپس نہیں آیگا اور ناجانے کیا کیا ایک دن نور نے انھیں جواب دیا جس پے اس نے اسما کا تھپڑ بھی کھایا تب سے نور انہیں ایک آنکھ نا بھاتی۔۔۔

مہمانوں کے آنے کے بعد کھانا سب نے ساتھ کھایا تائی کی نظر نور سے ہٹ نہیں رہی تھی جو زیورات پہنے انکے سامنے سج سنوڑ کے بیٹھی تھی۔۔۔ بی بی جان نماز پڑھنے چلیں گئیں وہ اٹھ کے کچن میں چلی آئی چائے تیار تھی۔۔۔ اسے سب کو سرو کرنی تھی۔۔۔ نور ڈرائنگ روم میں آکر سب کو چائے سرو کر رہی تھی کے اچانک تائی کو چائے دیتے کپ ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا چائے کے کچھ کترے تائی کے کپڑوں کو لگے۔۔۔

اذلان تو جیسے موقع کی تلاش میں تھا۔۔۔

” زبان کا استمعال تو خوب جانتی ہو یہ نہیں جانتیں آنکھیں کھول کے استمعال کی جاتیں ہیں؟؟ “

اسے ازلان سے یہ امید نہیں تھی کے وہ اپنے غصّہ یہاں نکالے گا اتنے لوگوں کے سامنے وہ شرمندہ ہوگئی۔۔۔ اسکی گردن نے نا اٹھنے کی قسم کھائی تھی۔۔۔۔

” فوراً صاف کرو اسے “

نور اب بے بےیقینی کی کیفیت میں اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ آج تک کسی کی اتنی ہمّت نہ ہوئی تھی کے کوئی اسے اس طرح مخاطب کرے یا حکم چلائے۔۔۔۔

” اب کیا سننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوگئیں۔۔۔؟؟ تمہیں بتایا تھا خون بہا میں آنی والی عورتوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔۔۔ مت بولو نور شاہ یہاں تم خُون بہا میں لائی گئی ہو تمہیں تو اِس بےعزتی کی عادت ہونی چائیے پانچ منٹ میں یہ جگہ صاف ہونی چائیے “

وہ اذلان کو دیکھنے لگی کیا پتا غلط سن لیا ہو کیا پتا وہ ملازمہ سے کہہ رہا ہو لیکن نہیں وہ اسی پر اپنی سرد نگائیں گاڑھے ہوئے تھا۔۔۔ اتنی تزلیل پے وہ سر جھکائے آنسوں پیتی رہی۔۔۔ اسے ڈر تھا اگر جواب دیتی تو کہیں وہ اس پے ہاتھ نا اٹھا دے پھر کیا عزت رہ جاتی اسکی؟؟

سب کو وہاں جیسے سانپ سونگ گیا۔۔۔ کہاں وہ محلوں میں رہنے والی ماں باپ کی اکلوتی بیٹی جس نے صرف سر اٹھا کے چلنا سیکھا تھا۔۔۔ اعظم شاہ نے جسے کبھی ڈانٹا نا تھا آج اِس شخص نے ان کی بیٹی کی کیا حالت کر دی سب سوچ کے رہ گئے۔۔۔

اور سب جیسے اِس تماشے سے لطف ہو رہے تھی تائی سب سے زیادہ خُوش تھیں۔۔۔ آخر نور نے انکے بیٹے کو ٹھکرایا تھا۔۔۔ وہ طنزیہ مسکراہٹ سے نور کو دیکھ رہیں تھی۔۔۔ جو اب کپڑا لے کر صاف کر رہی تھی۔۔۔ پھر ٹوٹے کپ کے ٹکڑے اٹھا کے وہ جو گئی تو وآپس نہیں لوٹی۔۔۔۔

” بی بی جان اس نے میری اتنی بےعزتی کی سب کے سامنے مجھ سے فرش صاف کرایا ہاو ڈیئر ہی؟؟؟ میرا دل چاہ رہا تھا سب کے سامنے اسکے چہرے سے نقاب اٹھاؤں۔۔۔۔۔ “

روتے روتے اسکی ہچکی بندھ گئی بی بی جان کے ہاتھ کانپنے لگے آخر شاہ بھی ایک روایتی عام سا جاگیردار نکلا۔۔۔ انکا ڈر صحیح تھا وہ اب اپنا انتقام اس بچی سے لے رہا ہے۔۔۔ وہ سن ہوتے ذہن کے ساتھ اسکی باتیں سن رہیں تھیں۔۔۔ کیا نقشہ بنایا تھا انہوں نے نور کے دل میں ازلان کے لیے اور کیا نکلا وہ۔۔۔؟؟ اب کیسے وہ اپنی پوتی کے برباد ہوے ماہ و سال کا حساب دیں گی۔۔۔

” اُس نے تائی کے سامنے میری بےعزتی کی مجھے نہیں رہنا یہاں۔۔۔ مجھے واپس جانا ہے آپ کسی سے کہیں مجھے چھوڑ آئے میں۔۔۔ میں امان بھائی کے پاس چلی جاؤنگی انھیں ڈھونڈوگی سب جھوٹے ہیں سب نے جھوٹ کہا مجھ سے صرف وہی اچھے ہیں باقی سب بُرے ہیں۔۔۔ مجھے یہاں نہ رہنا مجھے جانا ہے یہاں سے آپ آپ بولیں نا کسی سے مجھے چھوڑ آئے۔۔۔۔“ نور نے انہیں سب بتا دیا کل رات کی ایک ایک بات۔۔۔ سب کے جانے کے بعد وہ بی بی جان کے پاس آئی۔۔۔ ان کے گلے لگ وہ سب بتاتی چلی گئی بی بی جان کو اُمید نا تھی اذلان اِس قدر گر جائے گا۔۔۔ نور نے وہ پورا دن بی بی جان کے ساتھ گزارا رات میں جب اذلان آیا سب نے ساتھ كھانا کھایا اذلان کی نظر بار بار اُس دشمن جاں کو ڈھونڈ رہی تھی جو ہنی کے کمرے میں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” کیا بکواس کی ہے تم نے بی بی جان سے “

وہ ابھی فریش ہوکر نکلی تھی اسکی آنکھیں رونے سے کافی سوج چکی تھیں۔۔۔ اسکا اداس چہرہ اسکے دل کی حالت صاف عیاں کر رہا تھا۔۔۔ سر پر تولیہ لپیٹے ابھی وہ باہر نکلی ہی تھی کے ازلان اسکی سامنے آکھڑا ہوا اسکء پوچھنے پر نور کے چہرے پر اذیت بھری مسکراہٹ آن ٹھہری۔۔۔۔

” تمہارے کارنامے بتائیں ہیں انھیں۔۔!!!! تمہارا اصلی روپ دکھایا ہے۔۔۔ بہت بیوقوف بنا لیا تم نے سب کو اب اور نہیں کاش امی کو بھی تمہارا گھناؤنا چہرہ دیکھا سکتی “

اسنے نفرت بھری نگاہ ازلان کے وجود پر ڈالی

ازلان قدم اٹھاتا اسکے قریب چلا آیا اور اسکی کمر میں بازو حمائل کر کے اسے اپنے قریب تر کرلیا۔۔۔

” نفرت میں جانتی ہو کتنی شدت ہوتی ہے۔۔۔؟؟؟ نہیں جانتی تو آج پتا لگ جائے گا۔۔۔!!!! تم بہت خوبصورت ہو لیکن کیا فائدہ جب شوہر کے ساتھ وفادار نہیں۔۔۔۔ خوبصورت ہوتے ہوئے بھی میری نظر میں تم دنیا کی بد صورت ترین عورت ہو جانتی ہو کیوں۔۔۔؟؟ کیوں کے اس وجود پر نجانے کتنی مردوں کی گندی نظریں اٹھی۔۔۔ میں محسوس کر چکا ہوں جو تیر کی طرح میرے دل پر چُبی ہیں۔۔۔ آج کے بعد ایسے گھٹیا لباس میں اس گھر میں نا دیکھوں۔۔۔ “ وہ اسکے گھٹیا لباس پر طنز کرتا بولا۔۔۔

” دیکھو گے ہر روز دیکھو گے میری مرضی جو میں پہنوں اور اب تو ایسے ہی لباس پہنوں گی۔۔۔“ نور نے اسے خود سے دور دھکیلنا چاہا لیکن ناکام رہی ازلان کے پتھیریلے تااثرات اسے خوفزدہ کر رہے تھے۔۔۔ ازلان نے کچھ سوچ کر خود ہی اسے آزاد کیا اور موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کرتا وہاں سے نکل گیا۔۔۔ نور نے مرر میں جگمگاتے اپنے عکس کو غور سے دیکھا بلیک ٹائیٹس کے ساتھ شارٹ سلیو لیس شرٹ پہنی تھی اسے اس ڈریس میں کوئی خرابی نہیں نظر نہیں آئی اگر کوئی خرابی تھی تو وہ ازلان کے دماغ میں تھی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

نور کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک خوبصورت بیڈروم میں پایا۔۔۔ یہ جگہ اسکے لیے انجانی تھی آس پاس نظر دوڑائی مگر وہاں اسکے علاوہ کوئی نا تھا۔۔۔

وہ اک دم اٹھی ماں باپ سے تو دور ہوگئی اب بی بی جان

”نہیں۔۔۔۔۔نہیں “ وہ کیسے رہے گے۔۔۔

” نہیں۔۔۔میں۔۔۔میں۔۔۔اذلان “ وہ اک دم اٹھی۔۔۔۔

لاونچ میں ہی اسے ازلان نظر آیا جو سر تھامے بیٹھا تھا اسکے چہرے سے پریشانی صاف عیاں تھی وہ اذلان کے پاس اِس کے سامنے ہی زمین پے بیٹھ گئی۔ اِس کی آنکھوں میں سوال تھے کیسے آئی؟؟؟ کہاں ہے؟؟

” بی بی جان سے شکایت کی تھی۔۔۔؟؟ کیوں کیا تم نے نور۔۔۔ اسکا نتیجہ تو دیکھ لیتیں۔۔۔“

غصّے سے کہتے ہوئے آخر میں نرم لہجے میں اس سے بولا۔۔۔۔

” پلیز مجھ سے غلطی ہوگئے مجھے بی بی جان کے پاس جانا ہے۔۔۔ یہاں ہم کیوں آئے ہیں؟؟ مجھے گھٹن ہو رہی ہے یہاں“

نور کو ازلان کی خاموشی سے خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔۔۔

” اب تمہیں یہیں رہنا ہے ہمیشہ “

وہ دانت پیستے گویا ہوا۔۔۔ وہ اس وقت کسی اور ہی سوچ میں تھا نور کی آواز اسکے کانوں میں چُب رہی تھی۔۔۔۔ جبکہ نور کا جسم لرزنے لگا خوف سے اسکے ہاتھ کانپنے لگے۔۔۔

میسج ٹون رسیو ہوتے ہے اسنے ایک نظر موبائل کو دیکھا اور سکون کا سانس لیا۔۔۔ پھر ایک نظر آنسوں بہاتی نور پے ڈالی جس کے کانپتے ہاتھ اسکے گھٹنے پے رکھے تھے وہ نظریں زمین پے گاڑے نجانے کون سے خزانے ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔۔

” نور

” تم نے اچھا نہیں کیا۔۔۔ نور مجھے بی بی جان کی نظروں میں گرا دیا۔۔۔ کیا ملا یہ سب کرکے۔۔۔؟؟ کچھ نہیں صرف ذلت، رسوائی، تنہائی جو خود تم نے اپنے لیے چنی ہے۔۔۔ تم میرے نکاح میں ہو بیوی ہو میری تمہیں مار دوں زمین میں گاڑ دوں کیا کرلیگا تمہارا بھائی یا کوئی اور؟؟ کچھ نہیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا کوئی مجھے سے جواب نہیں مانگے کا کیوں کی تم خون بہا میں آئی ہو۔۔۔۔“

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔

” خیر اب رہنا یہاں اور سوچتی رہنا کون عزت کے لائق ہے اور کون نہیں۔۔۔۔“

دل جلانے والی مسکراہٹ سے کہتا وہ اٹھ کھڑا ہو۔۔۔۔

” نہیں۔۔۔ نہیں ازلان آئی ام سوری پلیز پلیز مجھے معاف کردیں میں کبھی بھی بی بی جان کو کچھ نہیں بتائونگی “

وہ اٹھ کے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ کے منت کرنے لگی۔۔۔۔

” مجھے تم پے رحم نہیں آرہا۔۔۔!!! جانتی ہو امان کو بھی نہیں آیا تھا عمر پے “

اسکی آنکھوں میں بسی نفرت نور کا پورا وجود جلا رہی تھی۔۔۔

” میں کیا کروں!! پلیز ایک آخری موقع دے دیں۔۔۔ ازلان میں یہاں مر جاؤنگی “

وہ پینٹ کی جیب سے موبائل نکالتا اس سے بے نیاز نظر آرہا تھا۔ یا جان بوجھ کے اسکا ضبط آزما رہا تھا۔۔۔۔

وہ جانے لگا تھا کے نور نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ ازلان کو ایک بار پھر کل والی حرکت یاد آگئی اسکی بیوی ہوکر وہ فیضان کے سامنے کس حلیے میں تھی۔۔۔۔

” دوبارہ تمہارے جسم پے ایسے گھٹیا لباس مجھے نظر نا آئیں اتنا ہے شوق ہے ایسے کپڑے پہنے کا تو میرے سامنے بیڈروم میں یہ شوق پورے کیا کرو “

سختی سے اسکو شانوں سے پکڑتے ہوئے وہ غُرایا۔۔۔

” پلیز مجھے۔۔۔ بی بی جان۔۔۔ کے پاس لے چلو۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں جو تم کہو گے وہی کرونگی “

” اتنی جلد ہار گئیں “ وہ قہقہہ لگا کے ہنسا

” سزا تو ضرور ملیگی تبھی عقل ٹھکانے آئے گی اور یہ غلطی دوبارہ نہیں ہوگی “

” اللہ‎ کرے تم مر۔۔۔۔۔جائو “ وہ جو اس سے منتیں کر رہی تھی چیختے ہوئے نڈھال سے زمین پڑ بیٹھ گئی۔۔۔۔

” تمہیں ساتھ لیکر مرونگا “

جواب فوراً ہی آیا تھا۔۔۔۔

” میں آج تک اتنی بےبس کبھی نہیں ہوئی تمہیں۔۔۔ عمر کا واسطہ مجھے بخش دو میں یہاں پاگل ہوجاؤنگی۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ مجھ۔۔۔۔ سے۔۔۔ محبت۔۔۔۔کرتے۔۔۔۔تھے۔۔۔۔ نا۔۔۔۔اُس۔۔۔۔ محبت۔۔۔۔ کا۔۔۔ واسطہ “

 پوچھ رہی تھی۔۔۔

” شٹ اپ عمر کا نام بھی مت لینا زبان کاٹ دونگا اور محبت مائی فُٹ شدید نفرت کرتا ہوں تم سے گیٹ آؤٹ۔۔۔۔۔آئی سے جسٹ گیٹ آؤٹ۔۔۔۔ “

وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھی اور کمرے میں جاتے ہی بند ہوگئ۔۔۔ آج سے پہلے اسے کبھی اتنا خوف محسوس نا ہوا۔۔۔۔

اسے شور سنائی دیا جیسے اذلان اپنا غصہ روم کی ہر چِیز کو توڑ کر نکال رہا ہو۔۔۔

☆.............☆.............☆

نور کو چھوڑ کر وہ گھر چلا آیا۔۔۔ بی بی جان نے اسے خوب سنائی تھی۔۔۔ وہ اسکے سامنے رو رہیں تھیں کے کیسے وہ اسے خون بہا میں آئی لڑکی کہہ سکتا ہے۔۔؟؟! نور سے یہ سن کے تو وہ کانپ اٹھیں تھیں انہیں ازلان سے ایسے رویے کی امید نا تھی۔۔۔۔

آج سے پہلے ازلان نے بی بی جان کی ایسے حالت نہیں دیکھی کہتے کہتے وہ ایک دم بیڈ پے ڈھ گئیں ان کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا۔۔۔ ازلان نے انہیں ہسپتال میں ایڈمٹ کیا پھر اسکی خبر لینے آیا جو اس سب کی ذمہ دار ہے۔۔۔ وہ دنیا جہاں سے بےنیاز ہنی کے روم میں سو رہی تھی ازلان اسے اٹھا کے فیضان کے فلیٹ میں لے آیا۔۔۔ وہیں اسے ڈاکٹر کا میسج آیا کے اب بی بی جان پہلے سے بہتر ہیں۔۔۔ وہ سکون کا سانس لیتا اسے سزا سنا کے واپس آگیا لیکن چین اسے کسی طور نا آیا۔۔۔۔

لیکن کوئی اسے کیوں نہیں سمجھتا اسنے اپنے وجود کا حصّہ کھویا ہے یہ لڑکی وہ ہے جسے امان اپنی جان سے بڑھ کے چاہتا ہے۔۔۔ تو وہ کیسے اسے خوش رکھ سکتا تھا۔۔۔ آخر ابو نے بھی امان کا ساتھ دیا اسے لگ رہا تھا۔۔۔ جیسے دونوں نے مل کے اپنی بےعزتی کا بدلہ لیا ہو وہ دن با دن اپنے ہر رشتے سے بدگمان ہو رہا تھا۔۔۔ کیوں کے دکھ دینے والے وہی تو تھے۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

جب آوازیں آنا بند ہوئیں تو وہ دروازہ کھول کے لائونچ میں آگئی ازلان وہاں نہیں تھا وہ پاگلوں کی طرح اسے پورے گھر میں ڈھونڈنے لگی لیکن وہ ہوتا تو ملتا۔۔۔ وہ دروازے کی طرف بڑھی لیکن وہ باہر سے لوک تھا۔۔۔ وہ چلا گیا اسے چھوڑ کے۔۔۔۔

دو دن تک وہ خوف سے کانپتی رہی اب تو لگتا تھا آنسوں بھی ختم ہوگئے۔۔۔ پہلی دفع اسنے اپنے مفاد کے لیے نماز پڑھی تھی اپنے بابا کی زندگی کے لیے۔۔۔ امی نے اسے کہا تھا چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس سے مانگو وہ بندو کو نا مراد نہیں لوٹاتا۔۔۔ آج دو دن بعد اسنے اپنے خوف کو ختم کرنے کے لیے نماز پڑھی سکون کے لیے جو اسے نماز پڑتے ہی میسر ہوگیا اُس دن وہ سکون سے سوئی۔۔۔ یہاں زندہ رہنے کے لیے ہر چیز موجود تھی کبرڈ کپڑوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ کچن میں ہر چیز فرش رکھی تھی۔۔۔ جیسے اسکے آنے سے پہلی ہی کسی نے رکھی ہوں۔۔۔ لیکن اسے یہاں صرف بی بی جان اور ہنی کی یاد آرہی تھی۔۔۔ نجانے کونسا جھوٹ بول کر ازلان نے انہیں مطمئن کیا ہوگا۔۔۔ امی ابو کو نا اب وہ یاد کرتی تھی نا ان سے کوئی گلہ۔۔۔۔

اسنے جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اسے لگا جیسے گلے میں آنسوؤں کا گولہ پھنس گیا ہو اسکی دعا میں ہمیشہ ازلان رہا ہے۔۔۔ وہ اسکی حفاظت سے لوٹ آنے کی دعا کرتی۔۔۔ جلد آنے کی دعا کرتی اب وہ خدا سے اسکے دل میں محبت مانگ رہی تھی۔۔۔ اپنی جگہ مانگ رہی تھی وہ بھی اسے اتنا ہی چاہے۔۔۔ اتنا ہی تڑپے جتنا وہ تڑپی ہیں لیکن تب وہ بحس بن جائے۔۔۔ تب وہ بھی وہی الفاظ دہرائے۔۔۔

” مجھے تم پے رحم نہیں آرہا “

چار دن ہوگئے اسے یہاں آئے کبھی کبھی اسے لگتااگر وہ مزید یہاں رہی تو پاگل ہوجاے گی۔۔۔ آگر وہ کبھی نا آیا تو یہ سوچ کی ہی اسکی روح کانپ اٹھتی۔۔۔۔

” آنسو، آہیں، تنہائی،،،،،،،،،،،،، ویرانی اور غم مسلسل اک ذرا سا عشق ہوا تھا کیا کیا وراثت میں دے گیا! “

دن با دن وہ کمزور ہوتی جا رہی تھی کھانا مشکل سے وہ ایک وقت کا کھاتی صرف زندہ رہنے کے لیے۔۔۔ دن بھر وہ نجانے کتنے چائے کے کپ خالی کرتی رہتی۔۔۔ اس کی نمازیں طویل ہوتی جا رہیں تھیں۔۔۔۔ وہ ہر وقت کچھ نا کچھ پڑھتی رہتی جس سے اسے سکون ملتا۔۔۔ جینس شرٹ اب اسنے پہنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ یہاں اسکے لیے جو کپڑے موجود تھے وہ سب ہی شلوار قمیض تھے۔۔۔ اور وہ ازلان کے لیے اتنی اہم نہیں تھی کے وہ اسکے لئے لاتا یہ سارے کپڑے پہلے سے کسی کے یوز کیے ہوئے لگ رہے تھے۔۔۔

ایک ہفتہ گزر گیا اسے یہاں آئے رات کو وہ کافی دیر روتی رہی۔۔۔ اسے اب یقین ہوگیا تھا وہ کبھی نہیں لوٹے گا۔۔۔۔

رو رو کر صبح جب اٹھی تو نظر ساتھ سوئے اذلان پے گئی۔۔۔

تو تم آگئے؟؟

پِھر سے مجھے ذلیل کرنے؟؟

اذلان شاہ میں تمہارے ظلم کی انتہا دیکھونگی آخر ایک دن تو تھک جائوگے لیکن اس وقت سے ڈرنا جب تم سارے رشتے گنوا بیٹھوگے بہت دیر ہو چکی ہوگی تمہیں لوٹ آنے میں۔۔۔ اور تب میں پتھر بن چکی ہونگی اور تم چاہ کر بھی مجھے موم نا کر سکو گے۔۔۔۔

وہ اٹھ کے فریش ہونے چلی گئی۔۔۔ واپس آئی تو نظر اذلان پے گئی جو جوتوں سمیت لیٹا ہوا تھا وہ آگئی بڑھی اور اسے کے پیر جوتوں سے آزاد کیے۔۔۔ اسی لمحے اذلان کی آنکھ کھل گئی نظر نور پے گئی جو اب اس کے شوز اٹھا کے سائیڈ پے رکھ رہی تھی۔۔۔۔

” ادھر آؤ “

نور وہیں جم گئی ساتھ دنوں بعد وہ یہ آواز سُن رہی تھی۔۔۔

ان نو سالوں میں وہ اتنا یاد نا آیا جو ساتھ دنوں میں آیا

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اِس کے پاس آئی۔۔۔

اذلان نے ایک پل لگائے بغیر اِس کی کلائی پکڑ ڈالی۔۔۔

” یہ تم فرمانبردار بیوی کیسے بن گئی؟؟ “

” لگتا ہے عقل آگئی تمہیں سہی کہہ رہا ہوں نا؟؟ “

وہ چُپ رہی۔۔۔

” کیا پوچھا ہے؟؟ “ وہ اسے غصّہ دلا رہی تھی۔۔۔۔

” جی۔۔۔ جی۔۔۔۔ “ آنکھوں میں پانی آگیا۔۔۔

” ناشتہ کر لو پِھر چلتے ہیں “

وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی کیا سزا ختم ہوگی؟؟

نہیں نہیں قید سے رہائی ملے گی۔۔۔ذلت تو عمر بھر کے لیے ہے۔۔۔

” جی۔۔۔۔آپ کے لیے ناشتہ بناؤں “

" چائے لے آؤ “

” جی “

چائے لے کر آئی تو دیکھا وہ فریش ہو کر آگیا چائے سامنے ٹیبل پے رکھ دی اور وہیں کھڑی رہی۔۔۔

” تم نے ناشتہ کیا؟؟ “

” نہیں “

” کیوں؟؟ “

” بھوک نہیں “

” بریڈ جیم لے کر آؤ اور اک کپ بھی “

” جی “ کہتے ہی وہ لینے چلی گئے۔۔۔

اسے ناشتہ کرنے کا کہ کر آدھی چائے اسکے کپ میں انڈیل دی دونوں ناشتے سے فارغ ہوے تو ازلان نے اسے رنگ پہنائی۔۔۔۔

” بی بی جان پوچھیں تو بتانا یہ رینگ کس نے دی؟؟

” جی 

” اور اگر پوچھیں اتنے دن کہاں تھی تو کیا بولو گی؟؟ “

” امی ابو کے پاس “ ازلان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔۔

” گڈ اسی سمجھداری کی امید تھی تم سے “

تو بی بی جان سے یہ جھوٹ بول کر انہیں چُپ كرا دیا۔۔۔

آخر طویل سفر کے بعد صرف کچھ قدم کا فاصلہ تھا منزل آنے پر وہ ہوا کے جھونکے کی طرح کار سے نکلی تھی۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ بی بی جان سے ملی لیکن اسکی آنکھوں سے ایک آنسو نا بہا وہ اب خود کے لیے مزید مشکلات نہیں پیدا کرنا چاہتی ویسے ہی یہ سفر بہت طویل تھا۔۔۔ ہنی اس سے نہیں ملا اسے دیکھتے ہی ناراض ہوکر کمرے میں چلا گیا تھوڑی ناراضگی دیکھا کر خود ہی مان گیا لیکن اسکا ایک جملہ نور کے دل پے لگا تھا۔۔۔

” پری تنہائی انسان کو ختم کردیتی ہے آہستہ آہستہ یہ مجھے بھی ختم کر رہی ہے “

وہی دن تھا اسکے لیے جب وہ حنان کو جان پائی تھی۔۔۔

ماہا کو اور عمر کو۔۔۔۔

پھر وہی وجہ بنی تھی اسکے جینے کی یہاں آتے ہی ازلان نے اسے کہہ دیا تھا اب وہ اس گھر کی ساری زمہ داری اپنے ہاتھ میں لے تب سے نوکروں کی آدھی فوج بھی یہاں سے روانہ ہوگئی۔۔۔

پھر دن رات کا اسکا یہی معمول رہا ہنی اور شاہ کے سارے کام وہ خود کرتی اور کچن کے کاموں کے لیے اسکے ساتھ ملازمہ تھی۔۔۔۔

ایک دن ازلان کی اجازت سے وہ بی بی جان کے کسی رشتے دار کی شادی میں گئی اور وہاں اسے حبہ ملی۔۔۔۔ وہ اب ہوسٹل میں نہیں رہتی کیوں کے وہ صرف نور کی وجہ سے وہاں رہتی تھی۔۔۔ اب وہ اپنی پھوپھو کے پاس رہتی ہے۔۔۔ اس دن حبہ نے اسے کہا کے آگر وہ نا آئی تو اسکی سیٹ کسی اور کو دے دی جائے گی۔۔۔ تب اسنے کمرے میں جانے سے پہلے بی بی جان سے پوچھا۔۔

” شوہر سے کوئی بات کیسے منواتے ہیں “

” مرد کے دل کا راستہ اسکے پیٹ سے ہوکر گزرتا ہے۔۔۔ شوہر جب گھر آئے تو بیوی کو تیار ہوکر مسکراتے ہوے اسکا استقبال کرنا چاہیے۔۔۔۔ شوہر کی دن بھر کی تھکان اتر جاتی ہے۔۔۔ کھانے کے وقت اسکے پسندیدہ پکوان اسکے سامنے رکھنے چاہیں۔۔۔۔ “

وہ اور بھی کچھ کہ رہیں تھیں نور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اوپر آگئی پسندیدہ پکوان تو وہ روز بناتی اسنے آئینے میں ایک نظر اپنے خوبصورت سراپے پے ڈالی۔ ابھی اسنے ڈریس تبدیل نہیں کیا تھا۔ اسنے اپنے بھکرے بال سہی کیے اور لبوں پے ہلکی سے گلابی لپسٹک لگائی۔۔۔۔


ازلان کے آنے سے پہلے اس نے اسکی ساری فیوریٹ دیسی ڈشیز بنائیں ملازمہ کے ساتھ ملکر پھر کمرے میں آکر تیار ہوئی۔۔۔ ازلان جب آفس سے آیا تو اسکی تیاری دیکھ کر ٹھٹکا پھر سر جھٹکتا فریش ہوکر ڈائننگ ٹیبل پر آگیا۔۔۔ اپنے پسندیدہ پکوان دیکھ کر اسکے دماغ میں الارم بجا ضرور کچھ تھا۔۔۔؟؟ نور کی تیاری یہ پکوان۔۔۔ وہ کھانا کھانے کے بعد واک کے لیے نکل گیا۔۔۔ نور نے اسکے جانے کے بعد بےدلی سے ایک آخری ٹچ اپ دیا۔۔۔۔

کلون کی مہک اسے کمرے میں محسوس ہو رہی تھی وہ قدم اٹھاتی دروازے کی طرف جانے لگی ازلان اسے بیڈ پے ہی نظر آگیا۔۔۔ وہ کھانے کے بعد روز ہی واک کرنے جاتا تھا آج بھی وہ وہیں سے لوٹا تھا اسنے اپنی شال اتار کے بیڈ پے پھینکی۔۔۔

نور تیز ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ اسکے سامنے کھڑی ہوگی ازلان نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا جو بھیگی ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑ رہی تھی۔۔ اگلے ہی لمحے اسکا ہاتھ پکڑ کے پاس بٹھایا۔۔۔

” بولو “

ازلان نے پیروں کو چپل سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔

اسے دیکھتے ہی نور کے الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے۔۔۔ اسے اپنی بےبسی پے رونا آرہا تھا اتنی محنت کی تھی اسنے میڈیکل کے لیے اسکا ایڈمشن بھی ہوگیا لیکن۔۔۔ لیکن آخر وقت پے اسکی قسمت نے اسے دھوکہ دے دیا۔۔

” ازلان۔۔۔ “

آنسوؤں کا گولہ اسکے حلق میں پھنس گیا۔۔۔

”ازلان۔۔ میں۔۔ نے۔۔ بہت۔۔۔ محنت۔۔۔ کی ہے۔۔ دن رات پاگلوں کی طرح پڑھتی رہی تب جاکر میرا میڈیکل میں ایڈمشن ہوا۔۔۔ پلیز مجھے اپنی اسٹڈیز کمپلیٹ کرنے دیں پلیز۔۔۔ میں گھر اور پڑھائی مینیج کرلوں گی۔۔۔پلیز “

وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتی رہی۔۔۔۔

ازلان نے ہاتھ بڑھا کے اسکی چہرے کی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔

” میں خوبصورت آفرز کو ٹھکرایا نہیں کرتا “

اسکے چہرے پے مسکراہٹ تھی کھوکھلی مسکراہٹ۔۔۔

اپنی اس ناقدری تذلیل پے وہ پھوٹ پھوٹ کے رودی وہ ہنس رہا تھا۔۔۔ اسپے مذاق اڑا رہا تھا اسکا۔۔۔

کاش کاش اس لمحے اسے موت آجائے۔۔۔

وہ اب کبھی اسکے سامنے سر نہیں اٹھا سکے گے۔۔۔

” کل تمہیں زندگی سے بھرپور تحفہ ملے گا۔۔۔ تمہارے اٹھارویں جنم دن کا تحفہ امید ہے تمہیں پسند آئے گا “

ُسُلگتی تلخ باتوں سے

بڑے بےدرد ہاتھوں سے

لو! دیکھو ہار دی تم نے۔۔

” محبت “

مار دی تم نے!!!!!

☆.............☆.............☆

صبح سے وہ جس کے لیے بےقرار تھی وہ تحفہ اسکے سامنے تھا۔۔۔۔ وہ جانتی تھی اسکے لے کوئی موت کا پیغام ہی آیا ہوگا لیکن کیا۔۔۔؟؟ اب تک جو ہو چکا ہے اس سے بدتر کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔

اس نے لفافے کو کھولا اور اندر سے جو نکلا وہ اسکی روح ہلا گیا۔۔۔۔

” اماں۔۔۔ وہ انسان نہیں حیوان ہے دیکھیں دیکھیں اسنے سب ختم کر دیا میری محنت، میرے خواب سب ٹوٹ کے بکھر گئے ریزہ ریزہ ہوگئے میرے خواب دیکھیں کچھ نہیں رہا میرے پاس خالی ہاتھ ہوں میں۔۔۔۔۔ “

وہ چیخ چیخ کے رو رہی تھی کبھی اپنے بال نوچنے لگ جاتی۔۔۔ اماں اسے سنبھالتے خود نڈھال ہو رہیں تھیں پھر یکدم سے وہ اٹھی اور سارے پپرز جلا کے راکھ کر دیے۔۔۔

کچھ دیر پہلے اسے ڈرافٹ سے ایک انولیپ وصول ہوا تھا اسے کھولتے ہی اسکی دنیا اجڑ گئی۔۔۔۔

اس اینولپ میں اسکے ڈوکمنٹس تھے اسکا ایڈمشن کینسل کر دیا گیا تھا۔۔۔ اور فیس کی آدھی رقم رولز کے مطابق واپس دے دی گئی۔۔۔۔۔

رات کو جب وہ گھر لوٹا تو اپنا بکھرا وجود لیے وہ اسکے سامنے تھی۔۔

” کیوں کیا میرے ساتھ ایسا یہ تلخ زندگی قبول کر تو چکی تھی “

” بیوقوف تم خود ہو شیر کے پنجرے میں ہاتھ ڈالا تھا تم نے کیسے وہ اپنا نقصان وصول کیے بغیر تمہیں آزادی دیتا “

ازلان نے کوٹ اتار کر سامنے کھڑی نور پر اچھالا۔۔ جو ناسمجھی سے پتھر بنی اسکے سامنے کھڑی تھی ازلان نے بےحد قریب آکر اسکا بازو دبوچا۔۔۔

” میرے لیپ ٹاپ سے جب تم نے اپنے سر کو میل بھیجی تھی!!!! اپنا رونا رویا تھا دکھوں کی داستان سنائی تھی اسی وقت صرف ایک کال سے میں نے تمہاری ایڈمشن کینسل کر وا دی۔۔۔ بہت جی لی تم نے اپنی آزادی اب قید رہنا زندگی بھر اس پنجرے میں ویسے بھی یونیورسٹی جاکر کیا گل کھلاتی رہی ہو سب خبر ہے مجھے۔۔۔ اور ہاں آخری بات میرے علاوہ کسی اور مرد کا نام تمہاری زبان پر ہوا تو وہ دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا سمجھی۔۔۔؟؟؟ چاہے وہ تمہارے سر ہوں یا وہ گھٹیا رافع اور نا ہی میرے لیپ ٹاپ سے کسی ایرے غیرے کو میل بھیجنے کی ضرورت ہے “

اسکے آنکھوں میں دیکھتے ایک ایک لفظ چبا کر بولا اور اسے دھکیلتا ہوا فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ہیپی برتھڈے پری “

“ یہ سب تم نے کیسے۔۔؟؟ اور کس سے منگوایا “

" بابا کہتے ہیں جو چاہیے ہو اعصام انکل سے بولوں وہ فوراً لادیں گے۔۔۔۔

” تمہیں کیسے پتا کے میری برتھڈے ہے؟؟ “

” ویسے ہی جیسے آپ کو پتا ہے “

آج جتنا وہ روئی تھی اتنا ہی ہنی اسے ہنسا رہا تھا۔۔۔ آخر کار جب اسکا پیٹ دکھنے لگا اسنے خود ہی تھپڑ ہنی کو رسید کیا۔۔۔۔

پورا کمرہ اسنے غباروں سے سجایا تھا جیسے وہ کوئی بچی ہو۔۔۔ کیک پے ہیپی برتھڈے پری لکھا تھا۔۔۔ اسنے مسکراتے ہوہے کیک کاٹا لیکن اسکی آنکھوں میں نمی تیر اٹھی دل میں درد کی لہر اٹھی پہلے ہنی کو کھلایا پھر اماں کو۔۔۔۔

دن گزرتے گئے یہ نور شاہ کی قسمت تھی اذلان آئے دن اسے ذلیل کرتا چھوٹی چھوٹی بات پے ہاتھ اُٹھانا جیسے اِس کی عادت بن چکی تھی اور انہیں گزرتے دنوں میں وہ موم کی گڑیا پتھر بن گئی جسے اب وہ چاہے جتنی بار سر ٹکڑائے لیکن وہ موم نہیں ہوگی۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ اندھا دھند سڑک پے گاڑی دوڑائے جا رہا تھا۔۔۔ آج یہ کیسا قیامت سا سماں تھا۔۔۔ وہ سب ہار بیٹھا۔۔۔ اپنی محبت۔۔۔ غرور۔۔۔ عزت۔۔۔ اور کیا پایا تھا اسنے۔۔۔؟؟؟ نفرت!! ہاں نفرت ان آنکھوں میں کتنی نفرت تھی اس کے لیے مزید ایک لمحہ رکتا تو اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتا۔۔۔ التجا کرتا کے نا دیکھ ان نفرت خیز آنکھوں سے۔۔۔ ان نظروں سے رواں رواں جل اٹھتا ہے میرا۔۔۔!!! کیسے برداشت کرتی تھی وہ اسکی نفرت کیسے۔۔۔؟؟ کہاں سے لاتی تھی اتنا حوصلہ۔۔۔۔

ایک دم اسنے بریک لگائی آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ منظر بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے دھندلا جاتا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے وہ بال بال بچا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ اب کیسے اس کے سامنے جائے گا۔۔۔ وہ تو اسکی معافی کے لائق تک نہیں۔۔۔

” یا اللہ!!‎ کیا ہوگیا مجھ سے۔۔۔؟؟ اب کبھی اس سے نظریں ملا بھی پاؤنگا یا نہیں۔۔۔؟؟

ازلان نے آنکھیں صاف کرکے کار سٹارٹ کردی گھر کا سوچ کے تو اسکے پسینے چھوٹنے لگتے۔۔۔ اب ایک ہی جگہ تھی وہ فلیٹ جہاں اسنے نور کو رکھا تھا۔۔۔۔ فیضان کا فلیٹ۔۔۔

☆.............☆.............☆

سب اس وقت تھکے ہارے گھر لوٹے تھے عنایا احمد کو لیکر سونے چلی گئی۔۔۔ جو نیند میں بامشکل چل رہا تھا۔۔۔ اور مرد سب وہیں لاؤنج میں رکھے صوفوں پے ڈھے گئے۔۔۔

” آج سونے کا موڈ نہیں میری سالوں کی دلی مراد پوری ہوئی ہے آج تو محفل جمے گی “ آج فیضان خوش گوار موڈ میں تھا۔۔۔

” عائشہ چائے بنا دو سب کے لیے۔۔۔؟؟ “ فیضان نے کمرے میں جاتی عائشہ سے کہا۔۔۔

” جی “ کہتے ہی عائشہ کچن میں چلی گئی۔۔۔ نور بھی اسکے پیچھے جانے لگی کے عمر اسے پکار بیٹھا۔۔۔

” ماما جاں نماز کہاں ہے؟؟ “

” اس وقت کونسی نماز؟؟ “

نور اسے ایسے دیکھنے لگی جیسے پوچھ رہی ہو دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔؟؟ نماز تو اسکے تینوں بیٹے وقت کی باپندی کے ساتھ پڑھتے تھے۔۔۔۔ ازلان ایک ایک کو گھسیٹ کے لے جاتا۔۔۔ اب بھی اسے پتا تھا تینوں نے پڑھی ہوگی۔۔۔۔

” شکرانے کا نفل پڑنگا بلا فائنلی نیچے شفٹ ہوگئی۔۔۔۔ آ “

میر کی مُکے سے وہ کراہ اٹھا۔۔۔۔

” بھائی آپ کے ساتھ بیٹھنا ڈینجرس ہے ہائے مر گیا پورے پہلوان ہیں آپ “

عمر اپنا بازو سہلاتا کہنے لگا۔۔۔ نور کچن میں چلی آئی جبکے حیا جو ویسے ہی شاہ زر کی نظروں سے پزل ہو رہی غصّہ پی کہ رہ گئی۔۔۔

تمہیں نا شفٹ کردوں کوارٹر میں “ میر کی بات پے وہ خاموش ہوگیا۔۔۔

” اتنے ہی تنگ ہو تو بتا دیتے آج ہی رخصتی بھی ہوجاتی میں تو تیار تھا “

حیا جو بھاری شرارے کے ساتھ بامشکل چل پا رہی اپنا سر جھکا گئی شرم سے اسکا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔۔ وہ ہیلز کے ساتھ تیز تیز چلنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ ثانی جو اسکا شرارہ سنبھال رہی تھی۔۔۔ اچانک حیا کے تیز چلنے سے حیران ہوگئی پھر اسکا سرخ چہرہ دیکھ سمجھ گئی۔۔۔ شاہ زر نے اسکی تیز چلتی رفتار کو دیکھ بامشکل اپنا قہقہہ روکا۔۔۔

” برخودار جب تک تمہاری عقل ٹھکانے نہیں آجاتی رخصتی کا سوچنا بھی مت۔۔۔!! آج نوکری ہے کل نہیں ہوئی پھر۔۔۔؟؟ یہ رسک میں نہیں لے سکتا۔۔۔۔ اسلیے عقل سے کام لو اور فیملی بزنس جوائن کرلو۔۔۔۔“ فیضان نے سنجیدگی سے کہا یہ وہاں بیٹھے سب نفوس کی ہی خواہش تھی۔۔۔ شاہ زر کان بند کرتے بس سر ہلاتا رہا۔۔۔ فیملی بزنس جوائن کرنے کا اسکا کوئی ارادہ نا تھا۔۔۔

” کر لے گا جلدی کیا ہے۔۔۔ آگر وہ خود سے محنت کر کے ترقی کرنا چاہتا ہے تو بھلا اس میں کیا بُرائی ہے “

عائشہ نے ڈش ٹیبل پے رکھتے کہا۔۔۔ حمزہ نے اٹھ کے اپنا کپ لیا اس وقت اسے چائے کی شدید طلب تھی۔۔۔۔

” بھائی اپنا فیملی بزنس ہے تو بھلا دوسروں کی جی حضوری کرنے کا فائدہ۔۔۔؟؟ اس سے اچھا باپ کے جی حضوری کرے آخرت بھی سنور جائے گی “

َِفیضان نے چائے کا سپ لیتے کہا عائشہ کمرے میں جا چکی تھی جہاں نور ابھی سب کے لیے چائے لیکر گئی۔۔

” وہ سنوار لونگا “ شاہ زر کوفت سے بڑبڑایا۔۔۔

” چھوڑو یار فیضان تم تو پیچھے ہی پڑھ گئے!!! جب دل چاہا جوائن کرلیگا “

باقی سب بھی اکتا گئے تھے اس فضول بحث میں۔۔۔ میر نے شاہ زر کو دیکھا جس کے چہرے سے آج مسکراہٹ جا نہیں رہی تھی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” تم اس وقت یہاں؟؟ “

فیضان نے ابرو اچکا کے پوچھا اس وقت رات کے چار بج رہے تھے۔۔۔ اسکے سر میں شدید درد تھا۔۔۔ وہ ٹیبلٹ لیکر سویا تھا لیکن مسلسل بیل کی آواز سے اسکا غصّہ ساتویں آسمان پے پہنچ گیا۔۔۔۔

ازلان اسے نظر انداز کرتا دوسرے کمرے میں آگیا جہاں نور ٹھہری تھی۔۔۔۔

” ازلان کیا ہوا آنکھیں سرخ کیوں ہے روئے ہو تم؟؟ “

وہ پریشان سا اس سے پوچھ رہا تھا۔۔

” بتاؤ؟؟ عمر سے ملنے گئے تھے؟؟ “

(ازلان اکثر قبرستان جاتا تھا عمر کی قبر پے )

وہ چُپ رہا۔۔۔

” بتا رہے ہو یا بی بی جان کو کال کروں “ اب کے فیضان کا صبر جواب دے گیا۔۔۔

” فیضان۔۔۔ میں۔۔ نے اپنے۔۔۔ ہاتھوں سے سب ختم کردیا بہت تکلیف پہنچائی ہے میں نے اُسے۔۔۔غصّہ۔۔۔آتا۔۔۔تھا۔۔۔ جب۔۔۔ وہ۔۔۔ مجھے۔۔۔ آگے۔۔۔ سے۔۔۔ جواب۔۔۔ دیتی۔۔۔ تھی۔۔۔ میں۔۔۔ نے۔۔۔ اسکے۔۔۔ ساتھ۔۔۔بہت۔۔۔ غلط۔۔۔ کیا۔۔۔۔ وہ۔۔۔ بہت معصوم۔۔۔ ہے میرے۔۔۔ ہر۔۔۔ ظلم۔۔۔ کو۔۔۔ برداشت۔۔۔ کرتی۔۔۔ رہی۔۔۔ میرے۔۔۔ سامنے۔۔۔۔ آنسو۔۔۔ بہانے۔۔۔ سے۔۔۔ بھی۔۔۔ ڈرتی۔۔۔۔ رہی۔۔۔ ہر۔۔۔ وقت۔۔۔ اسکی۔۔۔ آنکھوں۔۔۔ میں خوف۔۔۔۔ ہوتا۔۔۔۔ میرے۔۔۔ لیے،۔۔۔۔ اب۔۔۔ جب۔۔۔ میں۔۔۔ محبت۔۔۔ کے۔۔۔ لیے۔۔۔ ترس۔۔۔ رہا۔۔۔ ہوں۔۔۔ وہ۔۔۔ نفرت۔۔۔ کرنے۔۔۔ لگی۔۔۔ ہے۔۔۔ مجھ۔۔۔ سے “

وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتے رو پڑا۔۔۔ فیضان کی حالت اس وقت خود خراب تھی ایک اونچا چوڑا مرد اسکے سامنے رو رہا تھا جو اسکا بھائی ہے۔۔۔۔

” میں۔۔۔ ظالم ہو۔۔۔۔ ظالم ہوں۔۔۔۔ یہی۔۔۔ ہاتھ اٹھتے۔۔۔ یہی۔۔۔۔ ہاتھ۔۔۔۔ اٹھتے۔۔۔ تھے۔۔۔ اس۔۔۔ پر۔۔۔“

ازلان نے جھکا سر اٹھایا اور اپنے ہاتھوں کو دیکھ کہنے لگا۔۔۔ پھر اچانک ہی اسنے دونوں ہاتھ زور سے شیشے کی ٹیبل پے دے مارے۔۔۔ فیضان بوکھلاتا ہوا تیر کی تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔۔۔ جو اب بھی اپنے ہاتھوں کو ٹیبل پے مار رہا تھا۔۔۔۔

” چھوڑو پاگل ہو گئے ہو تم اپنا نہیں تو اپنے بچوں کا خیال کرو مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو انکے سامنے مرو تاکے وہ بھی دیکھ سکیں کے انکا باپ انہیں یتیم کر کے چھوڑ گیا “

فیضان نے اسے بٹھاتے ہوئے بہتا خون صاف کیا۔۔۔

” کون ہے وہ؟؟ “ اب وہ اسکے زخم کی پٹی کر رہا تھا۔۔۔

” نور “

سو والٹ کا کرنٹ لگا تھا فیضان کو ” نور “ اسکی پسند تھی یہ بات وہ ازلان کے کالج کے زمانے سے جانتا ہے۔۔۔۔

” سچ کیا ہے۔۔۔؟؟ “ فیضان کا لہجہ سرد تھا۔۔۔

ازلان دھیرے دھیرے اسے سب بتاتا چلا گیا۔۔۔ اس دوران اپنے کیے گئے ظلم کی داستان سناتے وقت اسکے چہرے پر کرب ناک اذیت تھی۔۔۔۔ دل ندامت کے بوجھ تلے رو رہا تھا۔۔۔۔

فیضان کا دل چاہا گولیاں اسکی الٹی کھوپڑی میں بھون دے جس نے اس سے سواۓ جھوٹ کے کچھ نہیں بولا بقول ازلان کے اعظم شاہ کی طبیعت خرابی کی وجہ سے انکا نکاح ہوا تھا۔۔۔۔

” اب کیسا فیل کر رہے ہو بدلے کے بعد؟؟ “

فیضان نے ایک ایک لفظ چبا کے کہا۔۔۔

ازلان شرمندہ سا وارڈروب سے شرٹ اٹھا کے واشروم میں گھس گیا کافی دیر بعد وہ فریش سا فیضان کے سامنے بیٹھا گیا۔۔۔

” اول نمبر کے جھوٹے ہو تم اور مجھے بھی دیکھو بیچاری اتنی ڈری سہمی سے رہتی تھی عائشہ نے بھی مجھ سے کہا لیکن میں ہر بار اس سوچ کو جھٹک دیتا۔۔۔“

فیضان کا غصّہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ ازلان جو کچھ دیر اس سوچ کو جھٹک کے بیٹھا تھا۔۔۔ اب پھر وہ نفرت بھری آنکھیں یاد آگئیں اسے نور کے سامنے جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ کہیں وہ کچھ ایسا نہ مانگ لے جس سے وہ ساری زندگی پچھتاوے اور تنہائی کی آگ میں جلتا رہے۔۔۔

کافی دیر بعد اسے احساس ہوا کے فیضان اسی کو دیکھ رہا ہے۔۔۔

” تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟ “

ازلان نے فیضان سے پوچھا جو اس سوال پر سر تھام کے بیٹھ گیا۔۔۔

” یار کنٹریکٹ چلا گیا تمہاری کمپنی کا وہ پیسے واپس مانگ رہے ہیں؟؟ “

فیضان کے چہرے کے زاوئیے مزید بگڑ گئے یاد کرکے۔۔۔

” تو دے دو ویسے بھی کون سا نقصان بتا رہا ہوں میں تو سب کچھ گواں بیٹھا ہوں “

ازلان ہونٹ کاٹنے لگا آنسو ضبط کرنے کے لیے یہی حرکت نور بھی کرتی تھی اور وہ کتنا بگڑتا تھا اس پے۔۔۔۔

” پیسوں کی بات نہیں وہ تو لوٹا دیے تمہاری ڈیزائنز انکے پاس ہیں۔۔۔۔“

” چھوڑو مجھے فرق نہیں پڑتا “

ازلان نے اپنی آنکھیں مسلیں جن میں شدید جلن ہو رہی تھی۔۔ ۔

” ازلان ہم لاہور شفٹ ہوجائیں۔۔۔؟؟ میں روز روز یہاں نہیں آسکتا۔۔۔ ہم وہاں بزنس اسٹارٹ کرلینگے اسی نام سے اتنا خاص فرق نہیں پڑیگا۔۔۔ بہت مشکل ہے ہر ہفتے یہاں آنا اوپر سے بچے کئ دن عائشہ کو منانے میں لگ جاتے ہیں۔۔۔ اور اس حالت میں عائشہ کو میری ضرورت ہے۔۔۔ اب میں ایک ماہ تک چکر نہیں لگائونگا تم ہینڈل کرلینا لیکن کل میں آفس آجاؤں۔۔۔“

فیضان اپنی دھن میں بول رہا تھا کے اسکی نظر ازلان پے پڑی جو بیڈ کی پشت سے سر ٹیکائے ہوئے تھا لیکن وہ بےبس تھا اسکا آنسوؤں پے اختیار نا تھا۔۔۔۔

” تم صیح کہہ رہے ہو مجھے بھی اس شہر سے وحشت ہونے لگی ہے۔۔۔ ہم جلد از جلد وائنڈ اپ کر کے لاہور شفٹ ہو جائینگے۔۔۔ باقی میں سنمبھال لوں گا تم بس کل چلے جانا میری ہمّت نہیں۔۔۔ کل مجھے اہم کام نپٹانے ہیں اور پلیز اب میں اکیلا رہنا چاہتا ہوں “

فیضان اسکا کندھا تھپک کے کمرے میں آگیا۔۔۔ سونے سے پہلے اسنے فون چیک کیا بی بی جان کے یہاں سے بیس مس کالز تھیں اسنے فوراً انہیں کال کر کے ازلان کی خیریت کی اطلا دی۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ گہری نیند سو رہی تھی جب کسی کے مسلسل بولنے کی آواز سے اٹھ بیٹھی سامنے ایل سی ڈی چل رہا تھا۔۔۔ اور شاہ زَر بیٹھا مزے سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

حیا کو اٹھتے دیکھا لبوں کو مسکراہٹ چھوگئی۔۔۔۔

” کتنا سوتی ہو؟؟ کب سے اٹھا رہا ہوں یار “

حیا حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی جسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔۔

” آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ اتنی رات کو یہاں آگر کوئی آگیا تو؟؟

حیا جھٹکے سے کھڑی ہوگی اسے ڈر تھا کوئی آ ناجائے۔۔۔

” میرے آنے سے پرابلم ہے یا کسی كے دیکھنے سے؟؟

کہتے ساتھ وہ اٹھ کے جیب میں ہاتھ ڈالے حیا کی طرف بڑھا۔۔۔۔

” کوئی آگیا تو کیا سوچے گا؟؟ “

جیسے جیسے شاہ زر کے قدم اسکی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔ اسکی دل کی دھڑکن مزید تیز ہونے لگتی۔۔۔

” کیا سوچے گا کیا۔۔۔؟؟ میں اپنی بیوی سے مل نہیں سکتا؟؟ “

” آپ کیوں آئے ہیں؟؟ اب تو میں نے کچھ نہیں کیا“

اسکی حالت غیر ہونے لگی وہ بلکل اسکے قریب تھا شاہ ذر کی گرم سانسیں وہ اپنی چہرے پے محسوس کر رہی تھی۔۔۔

” کچھ نہیں کیا؟؟؟ میری نیند اڑا کر کہہ رہی ہو کچھ نہیں کیا۔۔۔؟؟؟ تمہیں دیکھنے کے بعد خود پے اختیار نا رہا دل چاہ رہا تھا اُسی وقت تمہیں رخصت کرکے اپنے ساتھ لے جاؤں۔۔۔۔ مگر یہ ظالم دنیا “

شاہ زر نے اسکے گلابی ہونٹوں پے انگلی پھرتے ہوئے کہا۔۔۔ حیا کی پیشانی پے پسینے نمودار ہوئے۔۔۔ وہ اپنا سرخ ہوتا چہرہ مزید جھکا گئی۔۔۔ شاہ زر اسکی حالت سے خوب محفوظ ہو رہا تھا۔۔

” شاہ۔۔۔ زر۔۔۔ پلیز۔۔۔ جائیں۔۔۔ مما۔۔۔ آجائیں گی“

شاہ زر کو اس پے رحم آہی گیا۔۔۔ اس نے اسے نرمی سے خود سے آزاد کیا۔۔۔

” اب ہوئی ہے انگیجمنٹ۔۔۔!!!! یہ ہماری شادی کا تحفہ “

جیب سے رنگ نکل کے اسکے نے حیا کی انگلی میں پہنا دی۔۔۔ اور اسکی پیشانی پے بوسہ دیکر دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔ پھر یاد آنے پے پلٹا۔۔۔

” کل نو بجے تک تیار رہنا ڈوکمنٹس کے ساتھ “

کہ کر وہ چل گیا۔۔۔

حیا اپنی بے ترتیب دھڑکنوں کو سنبھالتی سونے کی کوشش کرنے لگی نیند اب اِس کی آنکھوں سے کوسوں دوڑ تھی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” امان آیا تھا “

بی بی جان کی گودھ میں سر رکھے وہ آنکھیں موندھے لیٹی تھی۔۔۔ دن بھر وہ عمر حمزہ کی وجہ سے اتنی تھک جاتی کے دو گھڑی لیٹنے کا ٹائم بھی نہیں ملتا۔۔۔ پوری رات دونوں بار بار اسے نیند سے جگاتے۔۔۔ اب جب وہ اماں کے پاس ہیں تو نور بھی بی بی جان کے پاس آگئی لاڈ اٹھوانے۔۔۔

” ہم!!! روز آتے ہیں “

وہ ہنوز اسی پوزیشن میں لیٹے انہیں جواب دی رہی تھی۔۔۔

” تو اسما اور اعظم سے مل کیوں نہیں لیتی اس طرح ماں باپ کو تنگ کرکے مزہ آتا ہے تجھے؟؟ “

وہ کچھ خفا خفا سے تھیں۔۔۔

” جیسے آپ کچھ جانتی ہی نہیں “

نور نے تپ کے کہا۔۔۔ انجان بنے کا مطلب؟؟

” ایسا کر کے تو شاہ کو انکی نظروں سے گڑا رہی ہے “

ازلان کے نام سے اسکی آنکھیں کُھل گئیں۔۔۔ بھلا اسکا یہاں کیا زکر؟

” کیا مطلب؟؟ “

” میرے دھی!!! اسما اور اعظم کا اس میں کیا قصور انکو تو ایک ساتھ تینوں اولادوں کا غم ملا۔۔۔ تو کیا چاہتی ہے وہ امان کو ازلان کے حوالے کر دیتے بول؟؟ “

ان کے لہجے سے صاف غصّہ جھلک رہا تھا۔۔۔

” تو آپکا مطلب ہے انہوں نے سہی کیا۔۔۔؟؟ مجھے بلی کا بکرا بنایا “

نور اٹھ بیٹھی وہ اسکے ہر دکھ ہر غم سے وعاکف تھیں۔۔۔ پھر بھی وہ کیسے انکا ساتھ دی سکتی ہیں۔۔۔

” یاد ہے تو نے ایک دفع پوچھا تھا مُرادوں سے مانگی بیٹی کے ساتھ یہ سلوک کیا۔۔۔؟؟ جانتی ہے میں چُپ کیوں تھی۔۔۔؟؟ کیوں کے میرا اعتبار ٹوٹا تھا آگر شاہ کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا۔۔۔ تو خدا کی قسم اعظم اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی دے دیتا۔۔۔ لیکن کبھی اپنی دھی کو سسک سسک کے مرنے کے لیے نہیں چھوڑتا۔۔۔ بیٹا تو ایک وار سے مار دیتے بیٹی تو ساری زندگی تڑپتی رہتی اپنا خون سکھا دیتی لیکن ظالموں کو رحم نا آتا “

” آج بھی اعظم اور اسما یہی سوچ رہے ہونگے کے تو اپنی زندگی میں خوش ہے۔۔۔ بس نا ملنے پر دل اداس ہوگا لیکن مطمئن ہونگے کے انکا فیصلہ سہی تھا “

وہ سچ کہ رہیں تھیں امی نے اسے لاعلم نہیں رکھا تھا۔۔۔ انہیں اپنے بیٹے پے یقین تھا مان تھا اور وہ سمجھ رہی تھی انہوں نے اسے دھوکہ دیکر بیجھا۔۔۔ تبھی بابا اس سے نہیں ملے۔۔۔ وہ دونوں اب تک ازلان سے امید لگائے بیٹھے ہونگے۔۔۔۔

” میری ایک بات یاد رکھنا “

” جو راز تیرے دل سے نکلا امید نا رکھنا دوسرا اسے راز رہنے دیگا “

وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔

” شاہ کا رویہ اعظم اور اسما کو بتائیگی تو ساری زندگی وہ ان سے نظریں نہیں ملا پائے گا۔۔۔ لیکن اسے اپنے دل میں رکھے گی تو شاہ ساری زندگی تیرا احسان مند رہے گا۔۔۔ اور یہ نا سوچنا کے اسما کو بتا کے دل کا غم ہلکا ہوجائے گا۔۔۔ نا ایسا نہیں ہونا غم تو نہیں لیکن گھر کی بات تیری تائی کو ضرور پتا لگنی ہے۔۔۔ کیوں کے راز کی حفاظت خود سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔۔۔ اسما کی منہ سے کہیں یہ بات نکلی تو لوگ ہنسیں گے خوش ہونگیں۔۔۔

میری دھی جو لوگ سامنے ہمارا دکھ بانٹتے ہیں۔۔۔ پیٹ پیچھے وہی ہنستے ہیں بس موقع چاہیے ہوتا کہ کہیں تماشا ہو تو ہم بھی اس منظر سے لطف اٹھائیں۔۔۔ ایک بات کی سو باتیں بنائیں۔۔۔ تو اپنی تائی کو جانتی نہیں ایک بات کی سو باتیں کر کے سنائے گی۔۔۔ تیرا چائے والا قصا اسنے جاکر اسما کو سنایا۔۔۔ اسما کی تو یہ سن کے حالت خراب ہوگئ اعظم سے ضد کرنے بیٹھ گئی کے تجھے واپس لے آئے۔۔ وہ تو میرے سمجھانے پے مطمئن ہوئی “

” امی “ وہ آنسوؤں ضبط کرنے کے لیے ہونٹ کاٹنے لگی۔ وہ کب اسے یاد نہیں آئیں۔۔۔

” ازلان کل سے گھر نہیں آیا وہ شرمندہ لگ رہا تھا “

بی بی جان نے اسکا اچھا موڈ دیکھ کر کہا وہ پر سکون سے انکی گودھ میں لیٹی ہوئی تھی نور کو سن کر غصّہ ہی آگیا۔۔۔

” آپ چاہتیں ہیں میں آپ کے پوتے کو معاف کردوں؟؟ تو نا ممکن ہے “

غصّے سے کہتے اس نے یہ بات واضع کردی وہ انکی ازلان کے متعلق کوئی بات نہیں سنے گی نا مانے گی۔۔۔۔ بی بی جان تو گھبرا ہی گئیں۔۔۔

” میں نے کب ایسا کہا۔۔۔؟؟؟ کیوں ہر کسی سے بدگمان ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ وہ تم میاں بیوی کا معملہ ہے اس میں بھلا میا کیا کام “

بی بی جان اسے ڈانٹنے لگئیں۔۔۔ وہ بھی خفا سے دوسری سائیڈ پے تکیہ رکھے لیٹ گئی۔۔۔ ابھی اسے لیٹے کچھ دیر ہی ہوئی ہوگی کے ملازمہ بلکتے حمزہ کو لے آئی۔۔۔

” میری جان۔۔۔۔ اتنی جلدی اٹھ گئے۔۔۔۔“ نور نے جھٹ سے اپنے روتے بیٹے کو ملازمہ سے لیا اور چھٹا چٹ اسکے دونوں گال چومے۔۔۔

بی بی جان اٹھ کے نماز پڑھنے چلیں گئیں نور حمزہ کو اپنے ساتھ لیٹا کر تھپکنے لگی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” نفرت کرتے ہو؟؟ “

دونوں اس وقت بیٹھے سمندر کی آتی جاتی لہروں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

” کرتا تھا “

” بدگمان ہو۔۔۔؟؟ “ازلان کا اگلا سوال جس کی توقع اسے تھی۔۔۔

” تھوڑا بہت!! کچھ سوال ہیں جن کے جواب تم سے چاہتا ہوں “

ازلان نے اسے کال کر کے بلایا تھا۔۔۔ وہ اپنے کیے پر بے حد شرمندہ تھا۔۔۔ اور اس سے معافی کا طلبگار تھا۔۔۔ لیکن نجانے وہ اسے معاف کریگا یا نہیں۔۔۔ لیکن غلطی امان کی بھی تھی وہ خود ہی ایسے حالات پیدا کرتا گیا کے ازلان کو اس پر شک ہو۔۔۔۔

” تمہارا رویہ تمہاری باتیں مجھ سے چیخ چیخ کے کہتیں کے تم ہی قاتل ہو۔۔۔؟؟ کیوں اتنی نفرت کرتے تھے۔۔۔؟؟ میری دوستی کو جھٹلاتے تھے۔۔۔؟؟ “

” نفرت نہیں غصّہ آتا تھا تم پے۔۔۔ ہم ایک ہی اسکول میں تھے۔۔۔ ایک ہی کلاس میں جب تمہاری فرسٹ پوزیشن آتی۔۔۔ اور میری تھرڈ تو ہمیشہ مجھے ڈانٹ پڑتی۔۔۔!! جس طرح ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں۔۔۔ اسی طرح ایک ماں کے پانچوں بچے برابر نہیں ہوسکتے۔۔۔ مجھے تو یہ بات سمجھ آتی تھی لیکن ابو امی کو نہیں۔۔۔ مجھے اس وقت صرف غصّہ آتا کے تھرڈ ہی تو آیا ہوں۔۔۔ پوزیشن لی تو ہے نا لیتا تو۔۔۔؟؟ جانتے ہو ازلان آگر میں فرسٹ بھی آتا۔۔۔ تب بھی امی ابو کا کہنا ہوتا 82% کیوں لیے دوسرے سیکشن میں تو 89% والا فرسٹ ہے انھیں خوش نہیں ہونا تھا۔۔۔ انسان کسی حالت میں خوش نہیں۔۔۔

اور جب مجھے پتا لگا تم میرے سگے بھائی نہیں تب مجھے تم سے نفرت ہوئی۔۔۔ اور کمپئیر کرنے کی اصل وجہ معلوم وہ چاہتے تھے جس طرح انکا بھتیجا ہمیشہ فرسٹ آتا ہے۔۔۔ اسی طرح انکا بیٹا بھی آئے۔۔۔ ایک طرف تمہارے لیے انکا محبت بھرا لہجہ مجھے حسد میں مبتلا کرتا دوسری طرف میں یہ سمجھتا کے وہ اپنے بیٹے کو بھتیجے سے آگے نکلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔

اس وقت میری بدگمانی عروج پر تھی پھر جب تم امی سے لاڈ اٹھواتے ابو سے فرمائشیں منواتے تب مجھے تم سے شدید نفرت ہوتی میں یہی سمجھتا رہا تم میرا حق مار رہے ہو۔۔۔۔

نور جب ہماری زندگی میں آئی میرے پسندیدہ نام کو کسی نے اہمیت نہیں دی سب کو تمہارا دیا گیا نام پسند آیا میری تو جیسے گھر میں اہمیت ہی نہیں۔۔۔ پھر مجھے لگا تم مجھ سے میری بہن بھی چھین لوگے۔۔۔ لیکن ایک عجیب بات بی بی جان کی تمہاری اور نور کی شادی کی خواہش سن کر مجھے غصّہ نہیں آیا۔۔۔ شاید اس لیے کے Brother کی کیٹگری میں تم شریک نہیں ہوگے۔۔۔ اور میں ہی نور کا اکلوتا بھائی رہونگا۔۔۔ اسے لیے جب جب وہ تمہاری پاس ہوتی میں اسے تم سے لے لیتا آگر نا دیتے تو تم سے نور کا جڑا رشتہ پوچھتا۔۔۔ خیر بہن تو تم اسے کہ نہیں سکتے تھے اسلیے شرافت سے مجھے تھما دیتے۔۔۔۔

تمہارا ایڈمشن ہوگیا میرا نہیں ہوا ابو کتنے خوش تھے تم اندازہ نہیں لگا سکتے۔۔۔ پھر تمہارے جانے کے بعد گاؤں کے حالات دیکھ کر ابو نے مجھے کہا میں پولیس فورس جوائن کر لوں۔۔۔ پہلی بار انہوں نے کچھ مانگا تھا۔۔۔ میں کیسے منع کرتا حلانکہ مجھے انٹرسٹ نہیں تھا بعد میں خود ہی ڈیولپ ہوتا گیا۔۔۔۔ پھر گزرتے دنوں کے ساتھ ابو تمہارے طرف سے پریشان رہنے لگے۔۔۔ مجھے انہوں نے کہا میں لندن جاکر تم سے مل آؤں وہ تمہاری جاب کی بات سے شک میں مبتلا ہوگئے تھے۔۔۔ اور یہ شک روز آکر تائی ان کے دماغ میں ڈالتیں۔۔۔ ایک دن نور سے برداشت نا ہوا اور تائی کو اُس نے اچھا خاصا سنا کے بھیج دیا۔۔۔ اس دن بابا اور مجھے احساس ہوا کے نور تمہارے حوالے سے بہت حساس ہے۔۔۔ بہت آگے نکل چکی ہے۔۔۔ اب ابو کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔۔۔ روز مجھے کہتے کے ایک نظر تمہیں دیکھ آؤں۔۔۔ تنگ آکر میں نے انہیں تمہاری طرف سے مطمئن کردیا یہ کہہ کر کے ایک آدمی کو بھیج کر پتا لگوا لیا ہے۔۔۔۔

پھر ایک کیس سولو کرکے دو ہفتوں بعد گھر لوٹا تو امی سے پتا چلا نور آئی جو آتے ہی کمرے میں بند ہوگئی۔۔۔ میں فوراً سے اسکے پاس گیا اور اسکی حالت دیکھ کے حیران رہ گیا۔۔۔ جو رو رو کر خود کو ہلکان کر رہی تھی۔۔۔ آذر نے اسے تمہارا نکاح نامہ اور بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹس دیے تھے۔۔۔ اس وقت میں اپنی خوشی میں بہن کے آنسوؤں کو فراموش کرتا ان پپرز کو Verify کرانے چلا گیا۔۔۔ پھر خوشی خوشی وہ پیپرز ابو کو دیکھائے۔۔۔ اور انہیں مکمل طور پر تم سے بدظن کر دیا پر مجھے نہیں پتا تھا۔۔۔ اسکا نتیجہ ہارٹ اٹیک کی صورت میں ہمیں وصول کرنا پڑیگا۔۔۔ اس وقت میں اتنا پریشان تھا کے مجھے خود نہیں پتا میں نے تم سے کیا کہ دیا اگر کچھ دیر اور تم وہاں رہتے تو شاید میرے دماغ کی نس پھٹ جاتی۔۔۔ میں اتنا پریشان تھا اندر پٹیوں میں لپیٹے وجود کی یہ حالت میری وجہ سے ہوئی یہی سوچ مجھے پاگل کر رہی تھی۔۔۔۔

اس دن مجھے وہ فقرا سمجھ آیا جو دوسروں کے لیے کنواں کھودتے ہیں خود اسی میں جاکر گرتے ہیں۔۔۔۔

خیر ابو کے گھر لوٹنے کے بعد میں خاموش رہنے لگا۔۔۔ انکے سامنے جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی پھر امی سے تمہارا سچ جاننے کے بعد ابو مجھ سے ناراض ہوگئے۔۔۔ ایک اور پریشانی آذر روز نور کی یونی جانے لگا۔۔۔ میں اُسے وارن کرتا رہا لیکن اس پے کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔۔

انہی دنوں عمر اور ماہانور کا قتل ہوا۔۔۔ ابو نے مجھے فون کر کے کہا میں کچھ دن فیضان بھائی کے پاس چلا جاؤں وہی میرے لیے سیف جگہ ہے۔۔۔۔“

ازلان بُری طرح چونکا جسے وہ پوری دنیا میں ڈھونڈتا پھر رہا تھا وہ اس کے پاس ہی تھا؟؟

” مجھے غصّہ آیا تھا کے تم مجھ پے شک کر رہے ہو پھر اپنے الفاظ یاد آتے تو صبر کر جاتا۔۔۔ تم نے کافی دفعہ میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔۔۔ اور ہر بار میں نے جھٹکا اس وقت مجھے اپنے بچکانے رویے پے غصّہ آتا۔۔۔ میرے پیچھے ابو نے نور کی شادی کردی یہ بات مجھے کافی ماہ بعد پتا چلی اور میرا دل چاہتا تھا کے تمہارا سر پھوڑ دوں۔“

اسکی لہجے سے غصّہ جھلک رہا تھا۔۔۔

” تمہیں کیسے پتا لگا کے آذر خونی ہے؟؟ “

” لاسٹ کال ماہا کو اسی کی آئی تھی۔۔۔ زوار کا کیس ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر کے پاس تھا انہیں سے پتا چلا وہ ایک خونی ہے۔۔۔ غریبوں کو مشکل وقت میں پیسے دیکر ان سے دگنا وصول کرتا جب وہ اس کی بڑھتی رقم ادا نہیں کرپاتے تو بیچارے خون سے رنگ جاتے۔۔۔ اس شخص نے اپنے بہنوئی تک کو قتل کر دیا۔۔۔ اپنے ہی معصوم بھانجوں کو نشے کا عادی بنا دیا۔۔۔۔ تو وہ عمر کو کیسے چھوڑ دیتا؟؟ “

عمر کی ذکر پے ازلان کو اپنی آنکھیں جلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔

☆.............☆.............☆

” مما پلیز معاف کر دیں میرے بابا کو انہوں نے بہت سزا کاٹ لی اپنے جرم کی “

وہ نور کو بیڈ پے بیٹھا کے اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا التجا کر رہا تھا۔۔۔ آج پھر وہ اسکے سامنے بکھر گئ میر نے اسے رونے سے روکا نہیں۔۔۔۔

” میر۔۔۔ میں۔۔۔ معاف کر چکی ہوں پر ناجانے کیوں اعتراف کرنے سے ڈر لگ رہا ہے “

آنسوؤں اسکے آنکھوں سے نکل کے چہرہ بیگھو رہے تھے۔۔۔

” کیسا ڈر “

وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ نور کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے کہے ساری زندگی ازلان اس سے معافی مانگتا رہا ہے۔۔۔ پھر وہ محبت کا دعوا کیسے کرتا ہے۔۔۔؟؟ اُسے تو بس معافی چاہیے اور معاف کرنے کے بعد اگر وہ اس سے لاپروا ہوگیا تو؟؟

” میری طرف دیکھیں کوئی ڈر نہیں ہے۔۔۔! آپ آج تک یہ بات جان نہیں پائیں آپ انکی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔۔۔۔

ڈر آپ کو اسی بات کا ہے کے وہ بدل جائیں گیں ؟؟ “ وہ پوچھ رہا تھا نور خاموش رہی۔۔۔

” انہوں نے اتنے سالوں میں آپ کو یہی تو یقین دلایا ہے کے ماہا نور مما انکی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔ آپ آج تک غلط فہمی میں جی رہی ہیں کے انہیں صرف گلٹ ہے یہ سچ نہیں کبھی انکی آنکھیں پڑھیں تو فخر کرینگی اپنی محبت پے خود پے۔۔۔۔۔

وہ نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔ نور کو اسکی ہر بات ماننی ہی پڑی۔۔۔ وہ سچ کہہ رہا تھا ازلان نے اسے آدھی زندگی یہ یقین دلاتے ہوئے گزاری۔۔۔۔

” پلیز مما معاف کردیں انہیں آج کل انکا بی پی بھی کنٹرول میں نہیں۔۔۔ انکی حالت دن با دن گرتی جا رہی ہے باہر سے جتنے وہ تندرست دکھتے ہیں اندر ہی اندر کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔ ایک دن آپ کے کہنے پے میں نے کسی کا دل ٹوڑنے سے روکا تھا آج آپ کی باری ہے۔۔۔۔ اس دن میں نے آپ کی مانی تھی آج آپ کو میری ماننی پڑے گی “

نور نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔

” یہی دیکھ لیں آج تک وہ آپ کے لیے بالوں کو کلر کرتے ہیں کے کہیں آپکے سامنے بوڑھے نا لگیں “

وہ روتے ہوے ہنسی اور اسکو زور سے مکا جڑا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” جہاں قتل ہوا تم آس پاس تھے؟؟ “

ازلان اس پے شک نہیں کر رہا تھا۔۔۔ وہ بس وضاحت چاہتا تھا۔۔۔

” میرا دل چاہتا ہے نکمے آفیسرز کو لات مار کے نکال دوں موبائل لوکیشن ٹریس کرلی ٹائم انکا باپ دیکھے گا؟؟ “

وہ افسوس کرتا ہوا بولا۔۔۔

” میں قتل کے بعد پہنچا تھا اس علاقے میں اور میں نے ہی انہیں اطلاع دی تھی ایک آدمی سے فون لیکر میرا فون بند ہوگیا تھا۔۔۔ قتل پانچ کے قریب ہوا تھا میں سات بجے پہنچا تھا “

امان اپنی صفائی پیش کرتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔

” تمہاری چین؟؟ “

” شک کر رہے ہو؟؟ “

امان نے ابرو اچکا کے پوچھا۔۔۔

” میرے باپ کی بھی توبہ “

ازلان نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا۔۔۔

” یہ کیا ہوا؟؟ “

امان کی نظر اسکی پٹی زدہ ہاتھ پے پڑی۔۔۔

” کچھ نہیں بس ایسے ہی تم بتاؤ؟؟ “

” تبھی ٹیکسی میں آئے ہو؟؟ “

وہ مسکراہٹ دباتا پوچھنے لگا۔۔۔ پھر اسکی گھوری پے کہنے لگا۔۔۔۔

” آذر جب نور سے اظہارِ محبت کررہا تھا۔۔۔ اسی وقت ہماری ہاتھا پائی ہوئی تب سے وہ چین بھی غائب ہے “

ازلان کے ماتھے کی شکنے بڑھنے لگیں۔۔۔ وہ دانت پے دانت جمائے غصّہ ضبط کر رہا تھا۔۔۔۔

” تم کہاں تھے جب وہ اظہارِ محبت کر رہا تھا؟؟ سالے کے دانت توڑ دیتے۔۔۔!! پولیس والے ہو کر بہن کی حفاظت نہیں کر سکتے۔۔۔؟؟ “ بس نہیں چلتا ازلان کا کے وہ آذر کی ہڈیاں توڑ دے۔۔۔۔

” اور تم نے کون سی کی۔۔۔۔؟؟ آخری وقت میں آگئے ہیرو بننے۔۔۔؟؟ “

امان نے بھی اسی کے لہجے میں اسے باوقار کرایا۔۔۔

” تو اسکا بدلہ بھی لیا تھا آدھی ادھوری خبر تو پہنچی نہیں ہوگی تم تک؟؟ “

ازلان نے اسے گھورتے کہا۔۔۔

” اسی واقع کے بعد تو بدگمانی کے بادل چھٹے ہیں!! مجھے اندازہ ہوا تھا کے نور صحیح ہاتھوں میں گئی ہے“

ازلان کو لگا کسی نے اسکے منہ پے تھپڑ مارا ہے۔۔۔ آگر اسے میرا نور کے ساتھ رویہ پتا لگ جاۓ تو۔۔۔؟؟ فوراً اندر کردیتا الزامات لگا کے ازلان سوچ کہ رہ گیا۔۔۔ نور کی ذکر سے اسکی دل میں دردکی لہر اٹھی۔۔۔

” تم نے ان کے ساتھ کیا کیا ازلان؟؟؟ “

” وہی جو ریپسٹ کے ساتھ کرنا چاہیے “

وہ نور اور ہنی کو دیکھنے کے بعد اپنے فارم ہاؤس گیا جہاں اعصام اسکے کہنے پر ان دونوں کو لیکر گیا تھا۔۔۔۔

ازلان جب وہاں پہنچا تو وہ دونوں پیاس کی شدت سے نڈھال زندہ لاش کی طرح پڑے ہوئے تھے۔۔۔ ازلان نے جنونی انداز میں انکی طرف بڑھا جس کے کان میں ایرینگ پہنی ہوئی تھی۔۔۔ اسے پوری شدت سے لات ماری خالی کمرے میں اس لڑکے کی چیخ گونجی۔۔۔۔

” اوپر بیٹھو “

وہ جو نڈھال سا زمین پڑ بےہوش گرا تھا اسکی دھاڑ سے خوفزدہ ہوکر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔ وہ دونوں اس وقت آمنے سامنے بیٹھے تھے انکے بیچ ٹیبل رکھی تھی جس پڑ کچھ بوتلیں پڑی ہوئیں تھیں۔۔۔۔

” عزت کیا ہے جانتے ہو۔۔۔؟؟؟ عزت وہ نہیں جو تم جیسے کتے کو سامنے تو سلام کرتے ہیں لیکن پیٹھ پیچھے گالیاں بکتے ہیں۔۔۔!!! عزت وہ ہے جو شریف انسان دن رات کی محنت کر کے کماتا ہے۔۔۔ وہ بھوکا تو رہ لیتا ہے لیکن مانگتا نہیں اور تجھ جیسے حیوان نے انہیں بھیک مانگنے پت مجبور کردیا۔۔۔۔

زرمین کو جانتے ہو اسے جس نے تمہارے خلاف رپورٹ درج کی تھی۔۔۔؟؟ رپورٹ درج ہونے کے دو دن بعد اسکا قتل ہوگیا اسکے نے ہر دروازہ کھٹکٹایا عدالتوں کے چکر کاٹے لوگوں کو بھیک مانگتے مانگتے قرضدار ہوگئے۔۔۔ اتنا پیسا بہا کے بھی اس شریف آدمی کو انصاف نا ملا اور اسنے خود کشی کرلی۔۔۔ آمنہ پندرہ سال کی تھی گل، شفا اپنی نانی کے گھر سے لوٹ رہی تھی گھر جانے کے لیے لیکن افسوس جب گھر پہنچی تب تک سب گنوا بیٹھی، نمرہ تمہاری خالہ زاد اسکو تک نہیں چھوڑا تم نے اور کل “ ازلان نے ہاتھ میں تھامی اسکے گناہوں کی فائل دور پھینکی اور اسکے بال مٹھی میں جکڑے ” کل جسے تم۔۔۔۔ “ ایک زور دار تھپڑ ازلان نے اسکے گال پرسید کیا ” بیوی ہے وہ میری یہ “ ازلان نے اسکا ہاتھ جکڑا ” یہی ہاتھ ہیں نا؟؟ اسی سے پھاڑی تھی اسکی آستین۔۔۔ اسی ہاتھ سے چھوا تھا نا، تھپڑ مارا تھا “ ازلان نے پاس رکھی بوتل کھولی وہ شخص سرخ ہوتی خوفزدہ آنکھوں سے اسکی کاروائی دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسکا گلا خشک ہو چکا تھا اس میں ہمت نہیں تھی وہ احتجاج کر سکے اسکی نیند سے بوجھل آنکھیں اس وقت ہوش میں آئیں۔۔۔ جب اسے ہاتھوں میں جلن محسوس ہوئی وہ درد کی کیفیت سے بلبلا اٹھا۔۔۔ ازلان نے اسکے ہاتھ تیزاب سے جلائے تھے۔۔۔ وہ چیخیں مارتا زمین پر جا گرا دوسرے ہاتھ کا بھی ازلان نے وہی حشر کیا اسکا دوسرا ساتھ یہ سب دیکھ کے موت کے خود سے کانپنے لگا۔۔۔۔

ازلان اٹھا اور اپنا بوٹ اسکی گردن پر رکھ دیا اسکی سانس بند ہونے لگی آنکھوں سے پانی بہتا جا رہا تھا وہ اسے مار ہی دیتا آگر ا عصام وقت پر نا آتا۔۔۔

” سر پلیز وہ مر جائے گا۔۔۔ “

” اعصام ایک واکیل ہائر کرو ان پر لگے سارے کیسز ری اوپن کرواؤ۔۔۔!!!! کراچی کے بیسٹ سے بیسٹ وکیل سے رابطہ کرو چاہے اور جھوٹے کیسز لگا کر اندر کرواؤ لیکن یہ زندہ بچنے نہیں چاہیے۔۔۔۔“

ازلان اسکے چہرے پر اپنے بوٹوں کے چھاپ چھوڑتا باہر کار میں آکر بیٹھ گیا اپنے ہاتھوں سے گلوز اتار کے باہر اُچھالے۔۔۔

” اعصام بہت شوق ہے نا انہیں نشہ کرنے کا ایک کام کرو انہیں دن رات نشے میں رکھو کھانے کو ترسا دو بہت عیاشی کرلی۔۔۔ ایک دن نشہ دے کر دوسرے دن انہیں ترسنے دو پھر یہی عمل تیسرے دن کرو لیکن انہیں اذیت ناک موت دو جب یہ پھانسی کے بندھے تک پہنچیں تو خود موت کے لیے ترسیں “

نفرت ہی نفرت اسکے پورے وجود میں دوڑ رہی تھی انکے گناہوں کی لسٹ اسکے ہوش اڑا گئی تھی۔۔۔ انکی عمر محض 21 یا 22 سال ہوگی اور اتنی عمر میں ایسے کام؟؟

” اوکے۔۔۔ سر آپ سے کچھ کہنا ہے “

” ہاں بولو “

” سر وہ۔۔۔ “ وہ ہچکچا رہا تھا آخر کیسے کہے اندر جو وہ ان لوگوں کی حالت دیکھ چکا تھا اب اسے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔

” اعصام کوئی پریشانی ہے تو بولو “ ازلان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے تسلی دی۔۔۔ شاید وہ اس سے اپنی کوئی پرسنل پرابلم شیر کرنا چاہتا ہو۔۔۔

” سر میم کے بارے میں کچھ بتانا ہے “

” بولو “ اب کی بار اسکے لہجے کی دھاڑ سے وہ جھٹ بولا۔۔۔

” سر جس دن اعظم صاحب آئے تھی اُس سے ایک دن پہلے میم سے کوئی ملنے آیا تھا “

” کون؟؟ “ ازلان نے مٹھیاں بھنچ لیا اسے خیال رافع کا آیا۔۔۔

” وہ اندر کیسے آیا “

” سر ہمیں بتایا گیا تھا کے گھر سے سامان منگوایا گیا ہے۔۔ “

” شٹ اپ اب بتا رہے ہو مجھے “ ازلان فیضان کے فلیٹ میں چلا آیا وہاں سے فریش ہوکر وہ عمر کی قبر پر گیا کچھ دیر اسکے پاس بیٹھ کر گھر آگیا۔۔۔۔

وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ خود اسکے سامنے چلی آئی اسکی دتنگی کا نشان بنے۔۔۔

امان خوش تھا نور صحیح ہاتھوں میں گئی ہے جبکے ازلان کے ذہن میں اس واقع سے پسینے چھوٹنے لگے۔۔۔۔

” گولی میں نے نہیں چلوائی تھی “

ازلان نے بات بدلی۔۔۔

” جانتا ہوں “

ازلان سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

” آذر نے چلوائی تھی فکر نا کرو بعد میں بابا کو بتا دیا تھا۔۔۔۔“

” مجھے اس سے ملنا ہے؟؟ “

” ابھی نہیں تمہارا ہاتھ ٹھیک ہوجانے کے بعد “

امان نے شیطانی مسکراہٹ ازلان کی طرف اچھالی وہ سمجھ کے مسکریا۔۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” نور؟؟؟ “

ازلان کو کسی کی ہچکیوں سے رونے کی آواز آئی اٹھ کے دیکھا تو نور دوسری سائڈ کروٹ لیے رو رہی تھی۔۔۔۔

میر کے سمجھانے پے وہ روم میں آئی لیکن ازلان سے بات کرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔۔۔ جب وہ بھاری بھرکم لباس تبدیل کر کے آئی تو ازلان سو چکا تھا آج کے فنکشن نے سب کو تھکا دیا تھا۔۔۔۔

” نور “

ازلان نے اِس کا رخ اپنی طرف کیا نور اِس کے گلے لگی رونے لگی۔۔۔۔ ازلان نے کچھ نہیں پوچھا جانتا تھا جب رونا بند ہوگا تب ہی وہ بولے گی ہوا بھی ایسا ہی۔۔۔۔

” اب بتاؤں کیا ہوا؟؟ “

” ازلان میں نے آپ کو معاف کیا “

ازلان کو لگا اسنے غلط سنا ہے۔۔۔

” کیا کہا تم نے؟؟ “

وہ ہنوز اِسی پوزیشن میں اس كے سینے میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔۔۔

” میں نے آپکو اتنا تنگ کیا اتنا صبر کرایا پھر بھی آپ نہیں ہارے میرے نفرت ہار گئی ازلان آپکی محبت کے آگے۔۔۔“

ازلان بے یقینی کی کیفیت میں گرا اسے دیکھا رہا تھا۔۔۔ وہ اب بھی سمجھ نہیں پایا یہ حقیقت ہے یا خواب۔۔۔

” میں نے آپ سی اتنی محبت کی آپ نے کیوں کیا میرے ساتھ ایسا۔۔۔“

نور نے زور سے مکا اسکے سینے میں مارا تو ازلان جیسے ہوش میں آیا۔۔۔

” پھر سے کہو کیا کہا تم نے؟؟ “

” نہیں “ وہ روتے ہوے نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔

” پلیز میں منتظر ہوں “

ازلان نے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا وہ ملتجی انداز میں بولتا مرنے کے قریب تھا۔۔۔ وہ تو امید ہی چھوڑ چکا تھا۔۔۔

” پلیز بولو نور میں مر جاؤنگا “

” مجھے آپ سے محبت ہے۔۔۔!!! میں نے آج آپ کو سارے الزاموں سے بٙری کیا معاف کیا آپکو “

ازلان نے اسے زور سے خود میں بھینچ لیا نور کو اپنے کندھے پے نمی محسوس ہوئی ازلان کے آنسوں اسکا کندھا بھگو رہے تھے۔۔۔۔

” میری جان، میری زندگی، میری اولین محبت ہو تم آج تم نے بھاری بوجھ میرے دل سے ہٹایا ہے۔۔۔ میں کس طرح تمہارا شکریہ ادا کروں۔۔۔۔ تم نہیں جانتی کتنا تڑپا ہوں میں راتوں کو اٹھ اٹھ کے رویا ہوں میں۔۔۔ جب تم روٹھ گئی تھی تو لگتا تھا میری زندگی میری دنیا مجھ سے روٹھ گئی “

ازلان کے اعتراف نے اسے سرشار کردیا اسکے دل میں سکون ہی سکون تھا۔۔۔

” بس اور نہیں۔۔۔ تمہارے آنسوں میرے دل پے گرتے ہیں “

وہ اسکے آنسو پونچھتے نرمی سے کہنے لگا۔۔۔

” انیس سال ہوگئےازلان کیسے اتنی ہمت كی۔۔۔؟؟؟ کیسے۔۔۔؟؟؟ میں نے ہر بار نفرت کا اظہار کیا آپ خاموش ہوگئے۔۔۔۔ میرے ہر نفرت کا جواب محبت سے دیا۔۔۔“

ازلان اسکے آنسوں پونچھتے اسے سن رہا تھا آج تو لگ رہا تھا۔۔۔ وہ سیلاب لاکر چھوڑے گی۔۔۔ وہ ہمیشہ خود بول کے اس سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا آج وہ خود مسکراتا ہوا اسے سن رہا تھا۔۔۔

” جب حیا چھ ماہ کی تھی یاد ہے وہ سیڑھیوں سے گری تھی۔۔۔ اسے چوٹ آئی تھی آپ نے کتنی دعائیں کی تھی۔۔۔ اس دن پوری رات آپ حیا کے ساتھ تھے۔۔۔ میں آئی تھی حیا کو دیکھنے لیکن آپ کے لفظوں نے میرے قدم روک لیے انسان تنہائی میں جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔ پھر بھی مجھے یقین نا آیا۔۔۔۔۔آپ کے الفاظ۔۔۔۔۔

” یا اللہ میرے زندگی میں دو ہی عورتیں آئیں جنہیں میں نے سب سے ذیادہ چاہا۔۔۔ نور اور حیا ایک کو میں نے خود اذیت دے کر خود سے ہمیشہ کے لیے دور کر دیا۔۔۔ اب حیا کا دکھ برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں اسے صحت یاب کر دے میرے مولا۔۔۔ ان دونوں کے سارے غم مجھے دے۔۔۔ حیا میں مجھے میری نور کی جھلک دیکھتی ہے۔۔۔ وہ مجھ سے دور ہوگئی میرے مولا حیا کو ہمیشہ میرے ساتھ رکھنا۔۔۔ اسے کوئی غم نا دینا اِس کی زندگی میں کسی ازلان کو نا بھیجنا “

” نور “ازلان نے شدت سے اسے پُکارا۔۔۔

” میری جان ادھر دیکھو!! “

” دیکھو نا “

ازلان نے اسکا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔

" نہیں “

” کیوں؟؟ “

” آپ مجھے اچھے نہیں لگتے۔۔۔۔ “وہ ابھی بھی رو رہی تھا۔۔۔۔

اسکی بات سن کر ازلان کا حلق پھاڑ قہقہہ کمرے میں گونجا۔۔۔

” ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔ اب میں تمھارے دِل کا حال جان گیا ہوں۔۔۔۔ جانتا ہو کتنی محبت کرتی ہو اِس کا اعتراف تم نے ‫انیس پہلے کیا تھا یاد ہے؟؟ “

ازلان نے اسکے دوپٹے سے بھیگا چہرہ صاف کیا۔۔۔

" اک تو اتنا رلاتے ہیں اُوپر سے سونے بھی نہیں دے رہے “

وہ ازلان سے الگ ہونے لگی لیکن ازلان نے ہونے نہیں دیا آج وہ بہت خوش تھا نیند اب اسکی آنکھوں سے بھاگ چکی تھی۔۔۔

” چلو مجھ سے باتیں کرو “

” آپ تو سو رہے تھے۔۔۔؟؟ “ نور نے یاد دلایا۔۔۔

” ارے بھاڑ میں گئ نیند “

وہ اسے گزرے ماہ و سال کی باتیں بتانے لگا۔۔۔ ساتھ ساتھ بہتی ندی اپنے ہاتھوں سے پونچھنے لگا۔۔۔ کچھ دیر بعد نور اسکے سینے پے سر رکھے سو گئی ازلان اسکی پیشانی چومتا شکرانے کے نفل پڑھنے چلا گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

” تم فیضان کے پاس تھے۔۔۔؟؟ “ اچانک یاد آنے پے اسے اپنا بیوقوف بننا ہضم نہیں ہوا۔۔۔

” سہی بیوقوف بنایا۔۔۔!!!! ابو جانتے تھے میں فیضان کو نہیں بتاؤنگا اور اس سے سکیور جگہ اور کونسی ہو سکتی ہیں تمھارے لیے “

وہ خود ہی جواب دیتا آنکھیں سکوڑ کے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

” اور تین سال تک وہاں تھے۔۔۔؟؟ “ ازلان حیرت اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت سے اسے تک رہا تھا۔۔۔

” نہیں بھائی بس دو دن وہ بھی مشکل سے۔۔۔ فیضان بھائی سے یہ کہہ رکھا تھا کہ ایک فرینڈ کی ہیلپ کرنے آیا ہوں۔۔۔ وہ پرابلم میں ہے مہربانی کر کے خیال رکھیے گا۔۔۔ ابو امی کو پتا نا لگے بس وہ سمجھ گئے کسی کو نہیں بتانا “

امان نے سائڈسے پتھر اٹھایا اور اسے دور تک اچھالا جو سمندر میں جاتے ہی کھو گیا۔۔۔

” پھر باقی عرصہ؟؟ “

” ابو کی مہربانی “ وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا کہنے لگا۔۔۔

” انہوں نے میرا ٹرانسفر کروا دیا۔۔۔!! لیکن میں صرف ثبوتوں کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ میرا دوست شکیل ہاتھ دھوکے آذر کے پیچھے پڑا تھا۔۔۔ آخر کار اسکے کالے دھندوں کی فائل شکیل کی ٹیبل پے آہی گئی۔۔۔۔ تب میں واپس لوٹا یاد ہے جب تمہارے گھر آیا تھا۔۔۔ جو دو آدمی پولیس کے ساتھ تھے وہ آذر کے آدمی تھے۔۔۔ چونکے آذر کو جیل سے باہر لانے میں خطرہ ہے۔۔۔ اسلیے اسکے آدمیوں کو لے آیا۔۔۔ ویسے تم نے مجھے جس کام کے لیے بلایا تھا وہ تو کرو “

امان فخر سے سینہ تان کے اسکے سامنے سیدھا ہوکر بیٹھ گیا جیسے وہ ابھی اسکے پیر پکڑ کے معافی مانگے گا۔۔۔

” اتنا عرصہ کیا کیا؟؟ “

ازلان نے جیسے کچھ سنا ہی نا ہو۔۔۔

” مکھیاں ماریں کھیتی باڑی کی “ وہ جل کے بولا۔۔۔

” پہلے تو ہر وقت نو لفٹ کا بورڈ لگائے گھومتے تھے اب بڑے خوش نظر آرہے ہو۔۔۔؟؟؟ “ موبائل کی بیپ سے امان نے میسج چیک کیا تو اسکے ہونٹوں پے مسکراہٹ دوڑگی جسے ازلان نوٹ کرنا نہیں بھولا تھا۔۔۔

” یار بس ڈیوٹی کرتا رہا اور ہاں تمہاری غلط فہمی دور کردوں میں تم سے نہیں چھپ رہا تھا۔۔۔ آذر سے چھپ رہا تھا۔۔۔ وہ کسی طرح مجھے ڈھونڈ کے نور کو باہر نکالنا چاہتا تھا۔۔۔ کیوں کے تمہاری سٹرونگ سیکورٹی سے وہ نور کو کبھی گھر کے باہر نہیں لاسکتا تھا۔۔۔ اور میں اسکے ہاتھ لگا ہوتا تو اب تک تم میرا چالیسواں اٹینڈ کر چکے ہوتے “ وہ فون رکھتے سنجیدگی سے بولا۔۔

” بہت بُری طرح بچا ہوں ورنہ آذر تو مار چکا ہوتا ابو کی ریکویسٹ پے میرا ٹرانسفر اسلام آباد ہوگیا سر نے مجھے ایک بچے کی حفاظت کے لیے بھیجا تھا۔۔۔ باقی ٹائم تو وہ گھر میں رہتا لیکن اسکول جاتے وقت سب کو الرٹ رہنا پڑتا اسکے پرنٹس کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔۔۔ وہ خاندان کا اکلوتا وارث ہے آگر اسی کچھ ہوجاتا تو میں بھی ڈیوٹی سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔۔۔ خیر اب وہ پاکستان سے باہر ہے اپنی نانی کے پاس ایک پر سکون زندگی گزار رہا ہے۔۔۔ میں اتنے عرصے یہی کر رہا تھا۔۔۔ میں ہر دن بس انتظار کرتا کے ثبوت میرے ہاتھ لگے۔۔۔ اور آذر کو میں اپنے ہاتھوں سے ماردوں۔۔۔ ساتھ تمہارے بھی ہوش ٹھکانے لگاؤں۔۔۔“ آذر کا سوچتے ہی اسکے چہرے کے زاویہ بدلے۔۔۔

” ایک آخری سوال کبھی نور سے ملنے آئے تھے؟؟ “

اسے پتا تھا جواب کیا ہوگا۔۔۔۔ ازلان کو پتا تھا اب اسے ہر جگہ سے شکست ملنی ہے۔۔۔

” نہیں بھائی۔۔۔ ابو جان سے مار دیتے اور تمہاری وجہ سے تو ٹرانسفر ہوا پاگل ہوں جو موت کے منہ میں واپس آتا۔۔۔!!! جیسے بھی تعلقات رہے ہوں مجھے تم سے اُس وقت ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ پاگل آدمی جو ہو مار وار دیتے تو۔۔۔؟؟ “ ازلان خاموش تھا اپنی کس بربادی پے ماتم کرتا۔۔۔۔۔

” ہاں یاد آیا تم نے کیا کہا نور سے بچے اپنے پاس رکھ کے اُسے ڈائیورس دو گے۔۔۔؟؟؟ “ ازلان تو حقیقتاً گھبرا گیا پھر سنمبھل کے بولا۔۔۔

” نہیں تو۔۔۔ ہاں غصّے میں کہا تھا جب وہ تمہاری حمایت کر رہی تھی “

” سنبھل کے پولیس آفسر ہوں اندر کردونگا ویسے بھی تمہاری میری بنتی نہیں تو رحم کی توقع تو رکھنا ہی نہیں۔۔۔

امان نے اسے وارن کرتے پھر سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔


” ازلان تمہیں سوچ سمجھ کے بولنا چاہیے طلاق مذاق نہیں تم نے کہہ تو دیا یہ سوچا سامنے والے کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی۔۔۔؟؟؟؟ “ ازلان نے بات سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا وہ اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔۔۔؟؟


☆.............☆.............☆


” حیا اٹھو۔۔۔!! گھوڑے گدھے بیج کے سوتی ہو؟؟“


نور کی تھکی تھکی آواز اسے نیند میں سنائی دی۔۔۔ نور پچھلے پندرہ منٹ سے اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ لیکن وہ تھی کے کانوں میں روئی ڈالے سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔


” حیا آج میں بہت تھک چکی ہوں تنگ مت کرو اٹھو “

نور نے باقاعدہ دونوں شانوں سے تھام کے اسے بٹھایا لیکن ہاتھ ہٹاتے ہی وہ واپس ویسے ہی گر گئی۔۔۔


” چچی آپ جائیں میں اٹھاتا ہوں “


کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد جب حیا باہر نہیں آئی تو وہ خود ہی اسکے کمرے میں چلا آیا۔۔۔


” شاہ زر میں اسے اٹھا رہی ہوں لیکن۔۔۔۔ “


” چچی آپ اسکا ناشتہ تیار کریں یہ عمل میں سر انجام دیتا ہوں “


وہ انہیں شرمندہ ہوتے دیکھ کہنے لگا۔۔۔


نور کے کمرے سے جاتے ہی شاہ زر نے ایک جھٹکے سے بلینکٹ کھینچا۔۔۔ وہ مندی مندی آنکھوں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھتی ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھی۔۔۔ اسکا ذہن بیدار ہوا تو اپنی حالت دیکھتے شرمندہ ہوگئی۔۔۔ ٹرائوزر کے پائچے جو اوپر ہوچکے تھے انہیں نیچے کرنے لگی۔۔۔ شاہ زر جو گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسکے سر جھکانے پے وہ خود ہی مخاطب کر بیٹھا۔۔۔


” رات تمہیں کہا تھا نو تک تیار ملو مجھے۔۔۔؟؟ چلو جلدی فرش ہوجاؤ پانچ منٹ ہیں تمہارے پاس میں الریڈی لیٹ ہو چکا ہوں۔۔۔“ وہ اسکے شرم سے جھکے چہرے کو دیکھتے ہوے بولا جس نے اوپر نا اٹھنے کی قسم کھائی تھی۔۔۔ جب وہ ٹس سے مس نا ہوئی تو شاہ زر آگے بڑھا وہی وقت تھا وہ کپڑے لیکر واشروم میں گھس گئی شاہ زر مسکراتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔۔۔


” ڈاکومنٹس کہاں ہیں؟؟ “


وہ نکھری نکھری سی اسکے سامنے تھی شاہ زر نے اسکے خوبصورت سراپے سے نظریں چراتے کہا۔۔۔


” وہ۔۔۔۔کس۔۔۔۔لیے؟؟ “


وہ ابھی بھی اپنی بھاری پلکیں جھکائے کھڑی تھی اسکے گال شرم سے دھک رہے تھے۔۔۔


” جو کہا ہے وہ کرو “


شاہ زر کا لہجا اتنا سخت تھا کے وہ بھاگتے ہوے ڈاکومنٹس لینے چلی گئی۔۔۔ واپس آئی تو نور نے اسے ناشتے کا کہا لیکن وہ ان سے شاہ زر کا پوچھ کر باہر آگئی جو کار میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔


کار میں بیٹھتے ہی کار زن سے اپنی منزل پے روانہ ہوئی دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی حیا اسکے دھوپ چھاؤں کے رویے سے اداس تھی۔۔۔۔


” حیا آدھے گھنٹے میں میری اہم میٹنگ ہے۔۔۔!!! وہ آفس میرا نہیں میں وہاں As a worker کام کرتا ہوں اور پریزنٹیشن مجھے دینی ہے۔۔۔۔ تم وقت کی نزاکت کو سمجھا کرو۔۔۔ “


شاہ زر نے کار روکتے ہی جذبوں سے چور لہجے میں کہا۔۔۔


” آی یم سوری حیا مائے سویٹ انوسنٹ Wifey!!!“


حیا اتنے میں ہی خوش تھی کے اسے اپنی غلطی کا احساس ہے۔۔۔ لیکن اگلے جملے سے وہ بُری طرح کپکپانے لگی۔۔۔ شاہ زر نے اسکے چہرے کو چومتی لٹوں کے پیچھے کیا جن کے سہارے وہ اس سے منہ چھپائے بیٹھی تھی۔۔۔


” چلو یار باہر آؤ مجھے ڈر ہے تمہارا ہارٹ فیل ہوگیا تو میں کیا کرونگا۔۔۔؟؟؟ تم بن “


حیا کے دیکھنے پے وہ ایک آنکھ دباتا کہتے ہوئے کار سے باہر نکلا۔۔۔ صبح صبح حیا کو دیکھ اسکا موڈ کافی خوشگوار ہوچکا تھا۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

” امید نہیں تھی تم ملو گے!!! “


آذر اسے دیکھتا کِھل اٹھا۔ اسکا بیٹا اسی پے گیا تھا تبھی تو آذر نے اسے ماردیا پہلے ازلان نے اسکی منگ سے شادی کی پھر اسکی پسند۔۔۔۔ وہ اسی کی وجہ سے اس سے شادی نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔


” کتوں کو امید رکھنی بھی نہیں چاہیے۔ انکا کام بھونکنا ہے “


ناچاہتے ہوئے بھی وہ اسکے سامنے بے سکون ہوگیا۔۔۔


” بہت افسوس ہوا تمہارے بیٹے کی موت کا چھ۔۔۔چھ۔۔۔ چھوٹی عمر میں بیچارہ بے موت مارا گیا “

وہ اسکا مذاق اڑا رہا تھا اسپر طنز کر رہا تھا ازلان نے سوچا تھا۔۔۔ وہ اسکے سامنے سکون میں رہ کر اسے بے سکون کر دیگا۔۔۔ لیکن عمر کے قاتل کو دیکھ کر اسکے اندر کا لاوا پھٹتا جا رہا ہے۔۔۔۔

” دو دن بس آج وکیل کہہ کر گیا ہے می آزاد ہوجاؤنگا!! “

” کیوں کیا۔۔۔؟؟ اور عمر ماہا گاؤں کیسے پہنچے۔۔۔؟“

وہ اسکے سامنے بیٹھا عام سے لہجے میں بولا گویا کے وہ امان کو بتا چکا تھا لیکن ازلان اس سے ایک ایک بات جاننا چاہتا تھا۔۔۔

” شادی سے پانچ دن پہلے وہ جھوٹ بول کے یہاں آئی اور تم سے شادی کر کے باہر بھاگ گئی۔۔۔۔“

وہ زہر خند لہجے میں کہتا نفرت آنکھوں میں سموئے ازلان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

” تم نے کیا کیا ہے اب تک بس چوڑیاں پہن کے بیٹھے رہنا۔۔۔ تمہارے بھیجی گئی فوٹوگرافس دیکھ کر ازلان نے کوئی ریکشن نہیں دیا۔۔۔ میں ہی پاگل تھی جو تم سے مدد لی نا تم اس لڑکی کو سنبھال پائے نا ازلان کو اس سے بدگمان کر پائے “

ماہا کو جو ازلان کے سامنے تصویریں دیکھا کے شکست ملی تھی اسکا غصّہ وہ آذر پے اتاررہی تھی۔۔۔۔

” اب وہ میرے کسی کام کی نہیں تھی اوپر سے روز فون کر کے دماغ چاٹ رہی تھی۔۔۔ کڈنیپ کر کے شادی کرلو نور سے۔۔۔۔ بھگا کے لے جاو اُسے۔۔۔ صرف اپنے مقصد کے لیے فون کرتی۔۔۔ مجھے اس میں دلچسپی تو کوئی تھی نہیں۔۔۔ آخر بار بار بندا ایک ہی چیز سے بور ہوجاتا “

وہ خباثت سے ہنستے ہوئے کہہ کر ازلان کو بہت کچھ جتا چکا تھا۔۔۔ ازلان کو دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ اپنے کہے الفاظ یاد آئے۔۔۔۔۔

” آج مجھے احساس ہو رہا ہے۔۔۔! ماہا صیح کہتی تھی تمہارے بارے میں۔۔۔ بدکردار ہو تم۔۔۔ آج میں اعتراف کرتا ہوں۔۔۔ وہی میری سچی محبت تھی۔۔۔ میری نسل کی امین۔۔۔ اسنے اپنی زندگی میں صرف مجھ سے محبت کی۔۔۔ اپنے محرم سے وہ جیسی بھی تھی۔۔۔ تمہاری طرح نیچ اور گری ہوئی نہیں تھی“

اسکے اپنے ہی الفاظ اسکا منہ چڑا رہے تھے۔۔۔ وہ اپنے کیے گناہوں کو گنتا تو ماہا سے زیادہ اسکا پلڑا بھاری ہوتا۔۔۔ وہ تو ایک معصوم سے اپنے انتقام کی آگ بُجھاتا۔۔۔۔ ایک بے گناہ پے ظلم کیے۔۔۔ وہ اس وقت خود کو زمین میں دھنستا ہوا محسوس کر رہا تھا۔۔۔

” ماہا آدھے گھنٹے میں ملو مجھے کام ہے “ ماہا کی اس کال کے اگلے دن اسے نے خود اسے کال کر کے بلایا۔۔۔

” میں نہیں آسکتی۔۔۔۔۔ “ وہ بےزاریت سے بولی۔۔۔

” پھر میں آجاؤں “

” میں۔۔۔۔ میں آرہی ہوں۔۔۔ “

وہ فوراً تیار ہوکر ازلان کے پاس آئی اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا کہہ کر آذر سے ملنے چلی آئی

اس دن میرا غصّہ ساتویں آسمان پے تھا وہ نور۔۔۔۔ وہ شکیل اس نے میری فیکٹری میں آگ لگوا دی سالے کی وجہ سے لاکھوں کا نقصان ہوا سارے ڈرگز جلا کے راکھ کر دیے۔۔۔ اوپر سے وہ دن رات فون کر کے دماغ کھا گئی۔۔۔ میں نے تو بہت پہلے سوچ لیا کتوں سے بدتر موت دونگا اُسے۔۔۔ لیکن اپنے ہاتھوں سے نہیں اُسی کے بھائی کے ہاتھوں۔۔۔۔ “ وہ قہقہہ لگا کے ہنس پڑا۔۔۔۔

” شمس۔۔۔۔۔۔بھائی “

ماہا آذر کے ساتھ اپنے بھائی کو آتے دیکھ کانپ اٹھی موت اسے اپنے قریب آتی محسوس ہوئی۔۔۔ وہ کانپتے ہاتھوں سے کار کا دروازہ کھول کے ڈرائیونگ سیٹ پے بیٹھ گئی۔۔۔ وہ پاگلوں کی طرح رو رہی تھی اسے اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔ اس کا بھائی بھوکے شیر کی طرح تیزی سے اسکے پاس آرہا تھا۔۔۔ وہ کانپتی ہوئی کبھی سیٹ کے نیچے۔۔۔۔ آگے پیچھے چابی ڈھوڈنے لگتی کبھی بال نوچے یاد کرنے کی کوشش کرتی۔۔۔ اسکی حرکت سے عمر جو اسکے ساتھ ہی فرنٹ سیٹ پے سویا تھا اٹھ بیٹھا۔۔۔۔

مندھی مندھی آنکھیں کھولے سرخ و سفید وہ معصوم اسکی حرکت دیکھ کر اسے پکار بیٹھا۔۔۔


” مما۔۔ “


” مما “


بابا تہاں ہیں؟؟ “ وہ شاید ماں کو دیکھ ڈر گیا تھا کیوں کے وہ کبھی اسکے ساتھ کہیں اکیلے نہیں جاتا ماہا جب اسے لائی تھی وہ سویا ہوا تھا۔۔۔


اسے ایک دم عمر کا خیال آیا وہ اسے بھی نہیں چھوڑونگے آج اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔۔۔ کتنے ہی غلط کام کیے تھے اسنے کراچی آنے کے لیے آذر کے ساتھ ناجائز تعلق قائم کیا اپنے باپ سے اپنی خواہشات منوانے کے لیے اس نے ہمیشہ آذر کو آگے بھیجا بدلے میں اسکی ہوس کا نشانہ بنتی رہی۔۔۔۔ ازلان کو اپنی طرف مائل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکامی کی صورت میں اویس کا استمعال کیا۔۔۔ جس نے ماہا کو اسکی شادی کے دنوں میں ہی پروپوز کیا اس سے اچھا موقع اسے کہاں ملنا تھا۔۔۔ بس اُسے اس گاؤں سے اور ان وحشی انسانوں سے آزادی چاہیے تھی۔۔۔ اس وقت اسکی قسمت نے اسکا بھرپور ساتھ دیا جو اسے ریسٹورنٹ میں ازلان ملا اسنے خود ہی اویس سے کہا تھا وہ اسے انوائٹ کرے۔۔۔۔ ہاں ایک رسک لیا تھا آگر ازلان اینگیجمنٹ پارٹی میں نا آتا تو لیکن اویس کا آپشن اسکے پاس محفوظ تھا۔۔۔ اور وہ دن بھی آیا جب اسنے ازلان شاہ کو فتح کرلیا زین کے ساتھ ملکر وہ ناٹک کیا خودکشی کا ڈرامہ وہ سب باتیں جو اسنے ازلان سے کیں آخر اسے ازلان سے زیادہ اسٹرونگ بیگ گراونڈ والا کون مل سکتا ہے۔۔۔؟؟؟ لیکن ایک ڈر ہمیشہ اسکے ساتھ رہتا ازلان کی خاموشی جو اسے خوفزدہ کر دیتی۔۔۔ جب بھی وہ سوچوں میں الجھا رہتا پریشان رہتا وہ اسکا دکھ درد بانٹنے اسکے پاس پہنچ جاتی اور ہنی کی پیدائش صرف ازلان کے پیر میں اولاد کی زنجیر ڈالنا تھی۔۔۔۔ لیکن نور۔۔۔۔ وہ چاہ کر بھی اسکی سوچیں نا بدل سکی۔۔۔ لیکن اسکی اپنی حرکتوں نے ازلان کو شک کرنے پے مجبور کردیا اور اُس نے زین سے سب اگلوا لیا یہ بات ازلان نے پاکستان آکر اسے بتائی تھی۔۔۔۔۔اب آخری وقت میں اسے خود سے زیادہ عمر کی فکر تھی۔۔۔ اسنے عمر کو اٹھا کے بےتحاشا چوما وہ ننھی جان اسکی وجہ سے آج موت کے سامنے کھڑا تھا ازلان جو اپنے بچوں کو کھروچ تک آنے نہیں دیتا ماہا نے انہیں کہاں لاکر کھڑا کردیا وہ روتے ہوئے اسے گلے سے لگائے چوم رہی تھی۔۔۔۔۔۔


اسکا پورا جسم پسینے سے شرابو تھا وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔۔۔ شمس نے زور سے مکا کھڑکی پے مارا اسے اپنے چہرے اور جسم پے شیشے کی کرچیاں لگتی محسوس ہوئیں عمر چیختے ہوے رو پڑا شمس نے اسے کار سے باہر نکالا وہ عمر کے ساتھ کھنیچتی چلی گئی۔۔۔۔۔


” معاف۔۔۔۔ کر۔۔۔ دیں۔۔۔ بھائی۔۔۔۔ اللہ‎۔۔۔ کا واسطہ ہے مجھ پے رحم کریں۔۔۔“ وہ اسکے پیر پکڑ کے معافی مانگ رہی تھی شمس نے بالوں سے پکڑ کے اسے اٹھایا لگاتار تھپڑ اسکے منہ پے مارے دوسری طرف بلکتا ہوا عمر زمین پے بیٹھے اپنی ماں کی حالت دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


” ہماری عزت کو نیلام کرکے کہتی ہے معاف کردوں۔۔۔؟؟؟ تیری وجہ سے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نا رہے میرا باپ بدنامی سہتے مر گیا اور تجھے معاف کردوں؟؟


” نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ “ اسے کوئی جھوٹ بھی نہیں سوج رہا تھا کے وہ کوئی مجبوری بتا دے تو شاید اسے معاف کر دیں۔۔۔


” وہ۔۔۔ معصوم۔۔۔ اُسے۔۔۔ تو۔۔۔جانے۔۔۔ دیں۔۔۔۔عمر بھاگ۔۔۔ جاو۔۔۔۔ یہ۔۔۔مار۔۔۔ دینگے۔۔۔بھاگو۔۔۔۔۔ “


اسے اس وقت بس عمر کی فکر تھی۔۔۔ عمر ابھی اپنی ماں کے پاس جانے کے لیے اٹھا ہی تھا کے دھڑام سے گر پڑا اسکی دونوں ٹانگوں پے آذر نے لگاتار فائر کیے دیکھتے ہی دیکھتے عمر کی منہ سے چیخیں بلند ہوتیں گیئں پھر وہ ساکت ہوگیا چھ کی چھ گولیاں شمس نے ماہا کی کھوپڑی میں خالی کردیں۔۔۔۔

” جا مر عیش کر “ شمس نے اسکے مردہ وجود کو دیکھتے کہا۔۔۔

” مما۔۔۔ مما “

گھٹی گھٹی چیخ خاموش فضا میں گونجی۔۔۔

آزر اسکی طرف بڑھا۔۔۔

” بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ ہنی۔۔۔ بھائی۔۔۔“

انتل ہنی بھائی کے پاش جانا۔۔۔ “ وہ روتے چیختے ہوے آزر سے کہ رہا تھا۔۔۔ آذر نے اسکی چاھتی پے فائر کیا عمر درد سے روئے جا رہا تھا آنکھوں میں خون سی سرخی تھی اسکا ہاتھ جیب میں جاتا دیکھ آذر اسکے پاس آیا وہ کانپتے ہاتھوں سے جیب تک جانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔ آذر نے جیب میں ہاتھ ڈال کے وہ مطلوبہ چیز نکالی۔۔۔۔ وہ انہیلر تھا۔۔۔ آذر اسکی بےبسی پے ہنستا ہوا ڈرائیور کو آرڈر دیکر انہیں ایک اڈریس پے پہنچانے کا کہا اور خود شمس کے ساتھ نکل گیا۔۔۔۔۔

” ڈرائیور انہیں گاؤں لے آیا دونوں کی لاش کو جلا کر وہ چین انکی لاش کے سامنے رکھی۔۔۔ اور میں نے امان کو کال کر کے بلایا وہ پولیس والا تھا خون کی خبر سے فوراً آجاتا بس۔۔۔۔

لیکن ایک بات کہوں تمہارا بیٹا کافی دیر تک زندہ رہا ڈرائیور نے بتایا وہ ایک ہی رٹ لگائے جا رہا تھا بابا کو بولاؤ ہاہاہا “

☆.............☆.............☆

” تائی امی “

وہ سوں سوں کرتی انکے گلے لگ گئی۔۔۔

” تائی امی شاہ زر چیٹر ہیں کھڑوس ہے دھوکہ دیا انہوں نے مجھے۔۔۔۔!!! مجھ سے فارم فل کروایا اور دھمکی دی ہے آگر ٹیسٹ میں فیل ہوگی تو تو گدو(پاگل خانے) چھوڑ آئیں گے “

تائی امی پہلے تو بھوکلا گئیں پھر انکا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں۔۔۔ وہ آتے ہی انکے گلے لگ گئ سامنے بیٹھی مہمان کو بھی نہیں دیکھا۔۔۔۔

” حیا سیما بھابی آئیں ہیں “

سیما انکے ساتھ والے بنگلو میں رہتی ہیں اور اکثر ہر گھر میں چکر لگاتی پھرتیں ہیں۔۔۔ حیا کو اپنی یہ پڑوسن بلکل نہیں پسند جو ہر وقت باتوں کو ادھر سے اُدھر کرتیں۔۔۔ وہ تائی سے الگ ہوتی ناچارا ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔ وہ ایک ماہ کے لیے اپنے سسرال گئیں تھیں۔۔۔ اور آج لوٹتے ہی انکے گھر چلیں آئیں۔۔۔۔

” یہ مٹھائی کھائیں بھابی “ عائشہ نے مٹھائی کی پلیٹ انکی طرف بڑھاتے کہا۔۔۔

” ہیں یہ کس خوشی میں “ وہ مٹھائی لیتے بولیں۔۔۔

” ہم نے سنا ہے آپکا گھر بِک گیا “

حیا نے معصوم سے شکل بنا کے کہا انہوں نے منہ میں لیجاتی مٹھائی فوراً رکھی۔۔۔۔

” استغفرالله کیا بول رہی ہے؟؟ “

” بچی ہے مذاق کر رہی تھی بھابی۔۔۔ حیا جاؤ نور بلا رہی تھی “وہ اس وقت تنہائی ہی چاہتی تھی تائی بھی سمجھ گئیں اسلیے اسے بھجنے میں عافیت جانی۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ طیش میں آکر اٹھ کھڑا ہوا کوئی اسکی آنکھوں میں جنونیت دیکھتا تو کانپ اٹھا تھا۔۔۔۔

” میرا بیٹا تھا وہ۔۔۔۔ میرا۔۔۔۔۔ ہر روز وہ زندگی و موت کے بیچ بلکتا۔۔۔ میں نے کیا کچھ نہیں کیا اسکے لیے ماں باپ بن کے۔۔۔ میں نے اسے پالا دن رات اسکے لیے ایک کردیے۔۔۔ اور تو دو ٹکے کا حرامی کتا۔۔۔ جسے صرف بھونکنا آتا ہے۔۔۔ میرے سامنے بیٹھا اسکی موت کا افسوس کر رہا ہے۔۔۔۔۔“

ازلان نے سامنے پڑا ٹیبل اٹھا کے اسکے سر پے دے مارا۔۔۔۔

” تجھے کس نے حق دیا کون ہے تو۔۔۔؟؟ بول خدا ہے۔۔۔۔؟؟؟ کبھی خوف آیا تیرے دل میں۔۔۔۔؟؟ موت جانتا ہے کیا ہوتی ہے۔۔۔۔؟؟ ایک معصوم کی جان لیکر سینہ تان کے کھڑا ہے میرے سامنے۔۔۔۔؟؟ ہمت کیسے ہوے تیری اسے چھونے کی میں نے کبھی اسی تھپڑ تک نہیں ماڑا اور تو نے اسکا وجود مٹا دیا۔۔۔۔“

وہ لاتوں اور گھونسوں سے اسے مار رہا تھا آذر کا وجود خون سے لت پت زمین پے گرا ہوا تھا۔۔۔۔۔

لیکن وہ روکا نہیں تھا عمر کی چیخیں ازلان کے کانوں میں گونج رہیں تھیں وہ کیوں نا تھا وہاں۔۔۔؟؟ کیوں

” چھوڑ۔۔۔دو “

” وہ بھی ایسے ہی روتی تھی بلکتی تھی اور میں اندھا بہرا ہو کر اس پے ظلم ڈھاتا تھا بے شک چال تیری تھی لیکن اعتبار تو میرا تھا۔۔۔ تو نے مجھے اسکی نظروں میں گرا دیا۔۔۔۔ سچ ہے میں اندھا تھا وہ پاک ہے اسکے کردار کا گواہ میں خود ہوں۔۔۔ اسکی محبت میں ہوں۔۔۔۔ نا تو نا وہ کمینہ رافع اب اگر میری کوئی عزیز جان ہستی بھی اسپرالزام لگائے تب بھی میرا اعتبار اس کے ساتھ ہے۔۔۔۔“

اسکی آنکھ سے ایک آنسو کا ننھا کترا ٹپکا تھا جو اسکی داڑی کے بال میں جذب ہوگیا۔ ازلان اسے مارتا ہانپنے لگا۔۔۔۔

” میں۔۔۔ میں۔۔۔ اس سے کبھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ ملونگا۔۔۔ “ وہ درد سے بلبلاتا ہوا بولا۔۔۔۔

” وہ دن آئے گا بھی نہیں “ ازلان کی بات سن کر آذر کی آنکھوں کے سامنے موت گھوم گئی۔۔۔

” اتنی اسان موت نہیں۔۔۔!!!! میری زندگی چھینی ہے تو نے تجھ جیسے کو تو زندہ بلکتا چھوڑنا چاہیے۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ تو۔۔۔ زندہ رہا تو یہاں سے بھی اپنے کالے کارنامے انجام دیتا رہے گا۔۔۔ “

وہ شیطانی مسکراہٹ سے اسے دیکھتا باہر آگیا

آذر کو اس وقت وہ ملک الموت لگا۔۔۔

” امان “

ازلان کی دھاڑ سے امان نے ایک آدمی کو اشارہ کیا۔۔۔ کچھ دیر بعد چار پانچ آدمی کمرے میں ایک بڑا سا پنجرہ لیکر آے اور اسے کھولتے ہی باہر نکل گئے۔۔۔۔

ازلان باہر کھڑا شیشے کے اُس پار کا منظر دیکھ رہا تھا وہ موٹے موٹے چوہے اسے نوچ کے کھا رہے تھے۔۔۔ آذر زندہ تھا آج وہ اپنی موت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جنکو وہ موت کے گھاٹ اتارتا رہا۔۔۔ وہ اس سے کتنی التجا کرتے تھے کاش وہ کرسکتا۔۔۔ لیکن ان جانوروں کے آگے وہ صرف اپنے خدا کو یاد کر سکتا تھا۔۔۔۔ اور آج پہلی دفع اسنے محسوس کیا۔۔۔۔ ڈر کو موت کو۔۔۔ اور آج اسے بےاختیار اللہ‎ یاد آیا۔۔۔۔

ازلان نے آنکھ سے بہتا آنسوں انگلی کی پور سے صاف کیا۔۔۔

ایک خوبصورت مسکراتا چہرا اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔

” عمر “ ازلان کی ہونٹوں نے جنبش کی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” بھابی آج آپ میرے روم میں سوئیں نا میں نے بہت سی موویز ڈاون لوڈ کی ہیں ہم ساتھ دیکھیں گے“

حیا ٹیسٹ کی تیاری کرنے کے بجائے ابھی تک پپرز کے ختم ہونے کی خوشی منا رہی تھی۔۔۔ اس نے پورا دن بیٹھ کے موویز ڈاون لوڈ کیں اب ثانی کو اپنے ساتھ رُکنے کے لیے فورس کر رہی ہے۔۔۔۔

” حیا میں۔۔۔ میں وہ رات کو جلدی سونا ہوتا ہے پھر میر کو صبح آفس جانا ہوتا ہے۔۔۔۔ اور میری آنکھ ہی نہیں کُھلتی۔۔۔۔“ ثانی نے بوکھلاتے ہوے عجلت میں کہا اب وہ کیسے بتاتی میر اسے پرمیشن نہیں دیگا۔۔۔۔

حیا منہ لٹکائے اب نور کے روم میں جا رہی تھی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

امی ابو نے اسے کُھلے دل سے معاف کیا آخر ماں باپ تھے۔۔۔ ایک نا ایک دن ماننا تھا۔۔۔ امی سے اسنے ایک سوال کیا جسکا جواب سن کر وہ لاجواب ہوگیا۔۔۔۔

” امی آپ نور سے کبھی ملی کیوں نہیں “

” اعتبار تھا تم پر۔۔۔!!! اور میں نے اسے کہا تھا تمہارا خیال رکھے۔۔۔ تب تم ناراض جو ہوگئے تھے ہم سے۔۔۔ “

وہ ان سے مل کر گھر آگیا۔۔۔۔

ہنی اسکول سے آتے ہی کھانا کھا کر سو گیا اور وہ عمر کو اٹھا کے بی بی جان کے پاس لے آئی۔۔۔

” بی بی جان اسے سلا دیں۔۔۔!! میں حمزہ کو سریلک کھلا دوں “

” لادے مجھے “

وہ عمر کو انہیں تھما کے کچن میں آگئی حسب عادت اسے سیلب پے بیٹھا کے سریلک بنایا پھر گود میں اٹھاۓ لاؤنج میں آگئی۔۔۔ وہ حمزہ کو سریلک کھلا رہی تھی کے خود پے نظروں کی تپش محسوس کر کے پیچھے مڑی اور۔۔۔ جیسے دنیا تھم سی گئی۔۔۔ کہی پل گزر گئے دونوں نے جنبش نہیں کی حمزہ نے ماں کو اپنی طرف متوجہ نا پاکر باؤل گرادیا وہ ہوش میں آتے ہی۔۔۔ بی بی جان کے کمرے میں دوڑی چلی آئی۔۔۔ اسے اب بھی ازلان سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔

اسکی کاروائی دیکھ کر ازلان کو خود سے نفرت محسوس ہوئی۔۔۔ وہ بلکتے ہوے حمزہ کو لیکر کمرے میں آگیا۔۔۔ وہ تو بس اسے دیکھنا چاہتا تھا کتنے دن بعد وہ چہرہ اسکے سامنے تھا۔۔۔ آج گھر آکر اسکی بےچینی ختم ہوگئ۔۔۔۔ بچوں کے بغیر وہ ذہنی مریض بن کے رہ گیا۔۔۔ کچھ دیر بعد عمر کو بھی اسنے اپنے پاس بلایا وہ پورا دن ازلان نے ان دونوں کے ساتھ گزارا نور نے بھی انہیں نہیں بلایا۔۔۔۔

بی بی جان نے اسے ملازمہ کے ذریعے بتایا کے نور کا بی پی کافی لو ہوچکا ہے اور وہ جانتا تھا کس وجہ سے ہوا ہے۔۔۔؟؟؟

☆............☆.............☆

” بابا ایک یہاں بھی ے “

” کہاں یہ لو تم لگاؤ “

نور ازلان کا بکھرا کبرڈ سیٹ کر رہی تھی ساتھ ان باپ بیٹی کی کاروائی بھی دیکھ رہی تھی۔۔۔ ازلان بالوں میں کلر لگا رہا تھا۔۔۔ اور حیا ایک ایک چھپے سفید بال کو ڈھونڈ کر برش سے رگڑ کر اس پر بلیک کلر کر رہی تھی۔۔۔


” السلام عليكم بیوٹیفل “ میر تھکا ہارا آفس سے آتے ہی اپنے روم میں جا رہا تھا۔۔۔ کے نور کو دیکھا جس کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔ اور سامنے ہی وہ دیوار سے لگی الماری سیٹ کر رہی تھی۔۔۔


” وعلیکم السلام “ نور نے خوبصورت مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر کہا آج کل نور اور ازلان اسے کافی خوش نظر آتے۔۔۔۔


” اوہ یہاں تو رونق لگی ہوئی ہے۔۔۔ بابا آج کل آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں کیا بات ہے۔۔۔؟؟ “


میر انکے بیڈ پڑ جوتے سمیٹ لیٹ گیا۔۔۔ آخر کب اس نے ازلان کو بخشا ہے۔۔۔ نور چاہ رہی تھی اٹھ کے چلی جائے ورنہ پھر میر حیا کے سامنے شروع ہوجائے گا۔۔۔۔


” حیا کا نکاح ہوگیا یہ خوشی کی بات نہیں۔۔۔؟؟ “


ازلان نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔ وہ جان کر بھی انجان بن جاتا حیا اپنا موضوع چھیڑنے پر اپنے آپ کو کام میں مگن ظاہر کرنے لگی۔۔۔


” نہیں وہ اس لیے پوچھ رہا تھا کے آج آپ کی سیکرٹری نے اتنی غلطیاں کیں پھر بھی آپ نے کچھ نہیں کہا۔۔۔


” میں حمزہ کو دیکھوں لائبریری سے آیا کے نہیں “


نور کہتے ہی فوراً چلی گئی۔۔۔ میر نے ازلان کو آنکھ ماریں جو خون خوار تیور لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ حیا کی پینٹ میں موجود موبائل بجا تو وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اسے معلوم تھا شاہ زر کی کال ہوگی۔۔۔


” بابا میں آتی ہوں “


ازلان نے اثبات میں سر ہلایا اور میر سے کہا۔۔۔۔

” تم سدھرو گے نہیں اچھا خاصا وہ یہاں بیٹھی تھی بھاگا دیا اُسے۔۔۔“ وہ نور کے جانے پر اسپر بگڑا۔۔۔

” بیٹھی کہاں تھی کام کر رہیں تھیں آپ بھی تو بالوں کو کلر کرنے میں بزی تھے۔۔۔ “ میر جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھنے کے انداز میں لیٹا تھا اٹھ کر ازلان کے ساتھ بیٹھا۔۔۔

” کس بیوقوف نے کہا۔۔۔؟؟ میں مرر سے اُسے دیکھ رہا تھا “

ازلان نے گھورتے ہوے اسے کہا۔۔۔

” بابا آپ کو نہیں لگتا مما کو سائیکایٹرسٹ کی ضرورت تھی۔۔۔؟؟ “ ازلان نے اسے ایسے دیکھا جیسے اسکی دماغی حالت پر شبہ کر رہا ہو۔۔۔

” بابا ایک تو پتا نہیں کیوں سب کو لگتا ہے پاگل ہی سائیکائٹرسٹ کے پاس جاتے ہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے بابا۔۔۔ میں نے مما کو کبھی نہیں کہا وہ آپ کو معاف کردیں۔۔۔ یقین کریں اگر ایسا کہتا تو وہ جو مجھے سب سے مختلف سمجھتیں عوروں کی طرح مجھ سے بھی بد ذظن ہو جاتیں۔۔۔ کہ انہیں سمجھنے والا کوئی نہیں۔۔۔ اور حقیقت بھی یہی ہے امی، ابو ماموں آپ ان کے گنہگار نہیں میری ماں کے ہیں۔۔۔ پھر کیوں ہر وقت ہر کوئی انہیں نصیحت کرنے آجاتا۔۔۔ جب مشکل وقت میں پاس نہیں تو اب کیوں۔۔۔؟؟ وہ اس تین سال کے عرصے میں وہ نہیں تھیں جنہیں میں نے گاؤں میں دیکھا تھا۔۔۔ اس گھر کے کونے کونے میں انکی کھلکھلاتی آواز گونجتی۔۔۔ جس طرح میں تنہائی کا شکار رہا اسے طرح مما بھی رہیں۔۔۔ مجھے ٹھیک کر کے وہ خود اُس راہ پر چل پڑیں۔۔۔ جانتے ہیں بابا میں اسکول سے آکر انکے چہرے پر کھوجتا انہیں پڑھنا چاہتا تھا۔۔۔ کیوں وہ حیا سے نفرت کرتی ہیں۔۔۔؟؟ اور تنہائی میں کیوں حیا سے محبت کرتی ہیں۔۔۔ کس سے چھپ رہیں ہیں خود سے۔۔۔؟؟ یا آپ سے۔۔۔؟؟

نہیں بابا وہ آپ کو اذیت دینے کے لیے حیا سے دور نہیں ہوئی تھیں۔۔۔ بلکے اُسے خوابوں کی دنیا دیکھنے سے بچانا چاہتی تھیں۔۔۔ انکے دماغ میں بس ایک بات گونجتی ہے۔۔۔ عورت چاہیے وہ گھر بھر کی لاڈلی ہو لیکن مانگی گئ صرف انتقام لینے کے لیے ہے۔۔۔ انہیں لگتا ہے وہ صرف قید رہ سکتی ہے آزادی اُسکا مقدر کبھی نہیں بن سکتی۔۔۔ وہ اپنی دنیا میں کھو چکی تھیں جہاں صرف تنہائی تھی کوئی نہیں تھا انکے پاس شاید میں بھی نہیں۔۔۔۔

میر سانس لینے کے لئے رکا۔۔۔

” مجھے انہوں نے سکھایا تھا میں معاف کرنا سیکھو۔۔۔ لیکن انہوں نے خود اس پر عمل نہیں کیا پتا ہے کیوں۔۔۔۔؟؟

کیوں کے محبت انہیں شاید آپ سے ہو پر اعتبار کرنے کی غلطی دوبارہ وہ نہیں کر سکتیں۔۔۔۔ وہ دوبارہ بکھرنا نہیں چاہتی۔۔۔ بابا میں پل پل انہیں پڑھنا چاہتا تھا کے اس وقت وہ کیا سوچ رہیں ہیں؟؟ مجھے سے باتیں کرتے وقت اِنکی سوچیں کس نقطے پر ہوگی۔۔۔۔؟؟؟ اسلیے میں نے بھی وہی عمل دہرایا انہیں اکیلا نہیں چھوڑا جس طرح وہ مجھے نہیں چھوڑتی تھیں۔۔۔۔۔۔ بہت سال بیت گئے بابا اگر آپ مما کی کاؤسلنگ کرواتے تو شاید جلد وہ اس ڈر سے باہر آجاتیں۔۔۔ وہ صرف کوئی ایسا شخص کر سکتا تھا جسے ازلان شاہ عزیز نا ہو۔۔۔ “

ازلان کو لگا آج میر واقعی بڑا ہوگیا ہے۔۔۔ اسکی ایک ایک بات سچ تھی۔۔۔ لیکن کبھی یہ خیال ازلان کو نہیں آیا۔۔۔

نور صحیح کہتی ہیں۔۔۔ وہ میر اور اسکے رشتے کو نہیں سمجھ سکتا۔۔۔ میر کو بھلے نور نے جنم نا دیا ہو لیکن وہ اسکی رگ رگ سے واقف ہے۔۔۔۔

” تم سہی کہ رہے ہو میر۔۔۔ “ ازلان نے مسکراتے ہونٹوں سے کہا۔۔۔

” آئ ایم ویری ہیپی فور یو بابا “

وہ دھیرے سے کہہ کر چلا گیا ازلان کے ہونٹوں پر زندگی سے بھر پوڑ مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” نور “

کیا کچھ نہیں تھا اس آواز میں ندامت، لاچاری، بےبسی، پاکے کھونے کا غم وہ نماز پڑھ کے فارغ ہوئی تھی جب ازلان آتا دکھائی دیا۔۔۔۔


نور بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھ گئی بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے ان پر سر رکھ کے رو دی۔۔۔


” نور “


ازلان فورا٧ اس کے پاس آیا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پے رکھا دیا۔۔۔


نور نے سر اٹھا کے اسے دیکھا اور غصّے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔۔۔ وہ اٹھنے لگی اسے ازلان کی موجودگی سے وحشت ہورہی تھی۔۔۔ جیسے ہی اٹھی گرنے کے قریب ہی تھی کے ازلان نے سہارا دیکر بیڈ پے بٹھایا۔۔۔


اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب ازلان گھٹنوں کے بل بیٹھا اسے دیکھنے لگا۔۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہےتھے۔۔۔ صدیوں کی پیاس تھی جو وہ آنکھوں کی ذریعے بجھا رہا تھا۔۔۔ نجانے پھر یہ لمحہ کب میسر آنا تھا۔۔۔۔


وہ نور کے چھوٹے سے گلابی ہاتھ کو دیکھتے ہوے بولا۔۔۔


” کبھی نہیں سوچا تھا جس سے اتنی محبت کی اُسے اذیت دونگا۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ نور میں بہت بُرا ہوں تم صحیح کہتی ہو ظالم ہوں۔۔۔۔ معافی مانگنے کے قابل نہیں۔۔۔۔ میں ہر وقت تم سے نفرت کا اظہار کرتا رہا۔۔۔ اور دیکھو تمہاری نفرت مجھے دو پل کے لیے برداشت نہیں ہو رہی نجانے کہاں سے اتنا حوصلہ لاتی تھیں تم۔۔۔۔“


وہ نم پلکوں سے سر جھکائے اسکے سامنے اعتراف کر رہا تھا۔۔۔ دھندلاتی آنکھوں کو وہ پلکیں چھپک چھپک کر برسنے سے روک رہا تھا۔۔۔۔ کیا کچھ نہیں سوچ کے آیا تھا۔۔۔ پر اسکے سامنے آتے ہی ازلان کے الفاظ منہ میں دب گئے۔۔۔۔


بار بار وہ آنکھیں اسکے سامنے لہرا رہیں تھیں جن میں بے تحاشا نفرت تھی۔۔۔۔


” مجھ سے نفرت نا کرنا نور۔۔۔“


وہ ملتجی انداز میں بھرائی ہوئی آواز سے کہ رہا تھا۔۔۔۔


نور کا دل چاہا قہقہہ لگا کے ہنسے نفرت نا کروں کیا یہ انسان کے بس میں ہے۔۔۔؟؟ انسان کے رویہ سے پتا لگتا ہے وہ محبت کہ قابل ہے یا نفرت کے۔۔۔ اور کونسی خوشی ازلان نے اسے دی تھی جو وہ اس سے محبت کرتی۔۔۔؟؟ وہ کہ رہا تھا۔۔۔


” ان گزرے تین سالوں میں تم میری عادت بن چکی ہو۔۔۔!!! میں “


” عادت نہیں کھلونا جسے آپ جب چاہیں کھیل سکیں “ وہ کاٹ دار لہجے میں گویا ہوتے ازلان کو لاجواب کر گئ۔۔۔


” میں بہت شرمندہ ہوں اپنے رویے پے خود کو تمہاری معافی کے قابل تک نہیں سمجھتا۔۔۔۔ خوشی کا ایک پل میں نے تمہیں نہیں دیا جس کے عوض تم سے معافی مانگ سکوں۔۔۔۔


نور تین سال ہم نے ساتھ گزارے جب بھی تم سے برا رویہ اختیار کرتا میرا دل بےچین ہوجاتا۔۔۔ میں گھر سے نکل جاتا۔۔۔ اور تب تک واپس نہیں آتا جب تک انتقام کی آگ مجھے اندھا نہیں کردیتی۔۔۔ جب تک کے میرے اندر کا سویا ہوا حیوان نہیں جاگ جاتا۔۔۔ تمہارے آنسوں مجھے کمزور بنا دیتے۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی یہ سوچ میرے گرد گردش کرتی کے تم بھی وجہ ہو۔۔۔ میری شادی کی خبر سے ابو ہوسپیٹیلائز ہوگئے۔۔۔۔ جب جب میں ان سے ملنے جاتا وہ میرے سامنے ٹوٹ جاتے۔۔۔۔ میں نے انکی بیٹی کی زندگی تبا کردی اور انہی دنوں وہ قتل۔۔۔۔۔“

ٹپ ٹپ آنسوں نور کی آنکھوں سے بھی بہہ رہے تھے۔۔۔ وہ بے آواز رو رہی تھی رو تو ازلان بھی رہا تھا۔۔۔۔ لیکن نور اس بس انسان کا سوچ رہی تھی۔۔۔ جس کے پاس ہر جواب موجود ہے اپنی صفائی پیش کرنے کا۔۔۔۔ خود بےچین رہتا اور پیچھے جو اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیتا اسکا کیا۔۔۔؟؟؟ ایک بار بھی اسنے نہیں سوچا وہ بھی ایک انسان ہے۔۔۔۔ وہ بھی جذبات رکھتی ہے۔۔۔۔ ہر بار وہ اسے رسوا کرکے ماتم کرنے کے لیے غائب ہوجاتا ہے۔۔۔۔؟؟؟ کس نے اسے حق دیا۔۔۔۔؟؟ وہ کوئی بےجان کہلونا ہے۔۔۔ جس پے کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔۔؟؟؟ کتنی ہی دفع وہ اسپے شک کرچکاتھا اسکا جواز پیش نہیں کرینگے۔۔۔۔؟؟؟


” نور تم سن رہی ہو۔۔۔۔؟؟ “ وہ اسے خیالوں میں کھوتا دیکھ کہ اٹھا۔۔۔۔


” ان سب باتوں کا مطلب۔۔۔؟؟ “ وہ اسے جتا رہی تھی ازلان کی نظریں اپنے آپ شرمندگی سے جھک گیئں۔۔۔۔


” تم نہیں مانو گی اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔۔۔ کب تم نے میری محبت دیکھی۔۔۔؟؟ دکھ، درد، تکلیف کے علاوہ دیا ہی کیا ہے میں نے تمہیں۔۔۔ پر نور یہ سچ ہے بہت محبت کی ہے میں نے تم سے۔۔۔۔ صرف تمہارے لیے واپس آیا تھا۔۔۔ ہر لمحہ تمہیں اپنے رب سے مانگا۔۔۔۔ لیکن جب پاس آئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔“


ازلان نے سختی سے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔۔۔۔ اسکا دل چاہ رہا تھا خود کو شوٹ کردے۔۔۔۔ دندھلاتی آنکھوں سے اسنے نور کا گود میں رکھا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔۔۔۔


” مجھ پے ایک احسان کردو۔۔۔۔ یا رحم۔۔۔۔ “


” مجھے چھوڑ کے مت جانا۔۔۔؟؟ بی بی جان نے کہا امان روز تمہیں لینے آتا ہے۔۔۔؟؟ کیا۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔چلی۔۔۔جاؤگی۔۔۔“


ازلان کی گرفت سخت تھی جیسے اسے ڈر وہ ابھی اسے چھوڑ کے چلی جائے گی۔۔۔۔


نور کے پرانے زخم پھر تازہ ہوگئے۔۔۔۔۔ وہی سخت ہاتھ۔۔۔۔


” کیوں۔۔۔؟ کیوں روکنا چاہتے ہیں۔۔۔؟؟ آپ تو مجھے ڈائیورس دینے والے تھے۔۔۔ میں نے آپ کی زندگی عذاب کی۔۔۔ میرے ہی وجہ سے آپ کی عزیزو جان بیوی کا قتل ہوا۔۔۔ پھر کیوں آپ مجھ سے معافی مانگ رہے ہیں۔۔۔ بھائی نے قتل نہیں کیا تب بھی نفرت تو کی تھی۔۔۔ نا آپ نے مجھ سے۔۔۔؟؟؟ “


نور نے ہاتھ چھڑاتے ہوہے سختی سے کہا۔۔۔ ایک وقت تھا جب وہ پوری طرح سے نور سے بدگمان ہوچکا تھا۔۔۔۔ لیکن آج اس نے خود حالت ایسے پیدا کیے تھے کے اب وہ چا کر بھی اسے یقین نہیں دلا سکتا۔۔۔۔


” نہیں نور یہ سچ نہیں میں تم سے نفرت نہیں کرتا تھا۔۔۔ بدگمان تھا کے تم مجھے بھلا کے اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی ہو۔۔۔ اور ماہا نام بھی مت لو اسکا میں نے کبھی اس سے محبت نہیں کی بس ایک گلٹ تھا۔۔۔۔ میرے اپنوں کی وجہ سے اسکی جان گئی میرے اپنے بھائی۔۔۔۔“ ازلان تڑپ اٹھا اس کی بدگمانی پے کاش گزرا وقت واپس آجاتا اب تو اسے ڈر تھا کیا وہ کبھی اسپے اعتماد بھی کر پائے گی؟؟


”وہ آپ کا بھائی نہیں ہے۔۔۔“ وہ جیختے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔


” نور تم بیٹھ جاؤ اِس حالت میں تم۔۔۔۔“ ازلان اٹھا اس سے پہلے کے وہ اس سنمبھلتا نور اسکا کالر پکڑتے چیخ اٹھی۔۔۔


” نہیں ازلان شاہ قاتل تم ہو۔۔۔۔ میرے خوشیوں کے۔۔۔۔ میرے ماں باپ کے۔۔۔۔ جنہیں تم نے جیتے جی مار دیا تم قاتل ہو۔۔۔۔۔ تم نے تین سالوں تک مجھ پے اور میرے بھائی پے ظلم کیا۔۔۔۔ میرے ماں باپ اِس قدر خوف زدہ تھے تم سے۔۔۔ کے مجھ سے بات نہیں کرتے۔۔۔۔ امان اپنی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے موت کے منہ سے واپس آیا۔۔۔۔۔ جنہوں نے تمہیں خود سے بڑھ کے محبت دی۔۔۔۔ ان پر ہی تکلیفوں کے پہاڑ توڑے۔۔۔ میرے ماں باپ کو جیتے جی مار دیا۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ تم جب یہی سب کرنا تھا۔۔۔۔ اپنی مرضی سے شادی کرنے تھی۔۔۔۔ تو کیوں مجھے سپنے دکھائے۔۔۔ بولو تم ہی کہ کر گئے تھے نا۔۔۔۔ کے میں تمھارے امانت ہوں۔۔۔۔ میں نے تو خیانت نہیں کی تم نے کیا کیا۔۔۔؟؟ تم ہر کسی سے لڑتے تھے میرے لیے۔۔۔۔۔ جب کوئی مجھے تکلیف پہنچاتا اُس کی حالت بگاڑ دیتے۔۔۔۔ اک دن رافع بھائی نے مجھے تھپڑ مارا۔۔۔ تم نے بدلے میں اسے کتنا مارا تھا۔۔۔۔ اور تم خود ظلم کرتے رہے مجھے پے۔۔۔۔ کیوں مُجھ سے رشتہ جوڑا میں خود تمھارے پاس آئے تھی بولو۔۔۔؟؟؟ پورے خاندان میں میرا مذاق بنایا۔۔۔۔۔ جانتے ہو ازلان ہر کوئی مجھے تمھارے نام سے جانتا تھا۔۔۔۔ جہاں جاتی یہ ازلان کی منگیتر ہے بچپن سے یہی سنتی آ رہی ہوں تو۔۔۔۔ کیسے محبت نا ہوتی تم سے۔۔۔؟؟ دن رات امی کی باتیں۔۔۔؟؟ بچپن سے خود سے جڑا تمہارا نام کیسے نا ہوتی محبت۔۔۔۔؟؟ لیکن تم نے۔۔۔۔ تم نے تو نہیں کی۔۔۔۔ صرف یک طرفہ محبت تھی۔۔۔۔ اور کیا کہا کہ ماہا سے محبت نہیں۔۔۔۔ نہیں ازلان شاہ میرے جسم پے زخم دیکھو جو اسکی محبت میں تم نے مجھے دیئے۔۔۔۔۔۔


اک دن میں نے اسے جھوٹا کہا تو تم نے مجھے بیلٹ سے مارا۔۔۔۔ بولو تمھارے کس عمل پے یقین کروں میں۔۔۔۔؟؟؟؟ میں۔۔۔۔۔ میں مر بھی جاتی نا تم تب بھی تمہیں مجھ پے رحم نا آتا۔۔۔۔۔۔۔


” محبت “


بےبسی کی انتہا تھی یہ لفظ اسے آسمان کی بلندیوں تک لے گیا اور کتنی بُری طرح سے اسکے ارمانوں کو روندتے ہوے زمین پے لا پٹکا۔۔۔۔


ازلان جو اسے خود کی نظروں میں گرانا چاہتا تھا آج وہ اپنی ہی نظروں میں گر گیا۔۔۔۔ وہ جو ہمیشہ یہ سوچتا تھا کے نور اسے لاتعلق رہی ہے۔۔۔ اسکا اعتراف اسے جلتے انگاڑوں کی مانند لگا۔۔۔۔ اسے خوش ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔ مگر اسے اپنی سوچ پے گھن آئی اپنی ہی محبت کو کیسے وہ کسی اور کے نام جوڑتا تھا۔۔۔۔


وہ اسکا کالر چھوڑتے ہوے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔۔


” سب جھوٹ بولتے تھے۔۔۔۔ کوئی میرے جسم پے زخم دیکھے تو ایسے محبت سے پناہ مانگے۔۔۔۔ تم نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی۔۔۔۔ محبت تم نے ماہا سے کی۔۔۔۔ کتنی خُوش نصیب ہے وه کے آج بھی تم اُس سے ویسے ہی جنونی محبت کرتے ہو۔۔۔۔ اس کے لیے مجھے تکلیف دیتے ہو۔۔۔۔۔ جانتے ہو کبھی کبھی میں سوچتے تھی کاش میں ماہا ہوتی کاش۔۔۔۔۔ لیکن نہیں میں تو نور ہوں۔۔ جو تمہارے نفرت کے قابل ہے۔۔۔۔۔ ہاں ازلان تمہیں مجھ سے نفرت کرنی چاہیے۔۔۔ شاید میں نا ہوتی تو ماہا زندہ ہوتی یہی کہاں تھا نا تم نے بولو ازلان۔۔۔۔ بولو نا۔۔۔۔ میں نفرت کے قابل ہوں نا۔۔۔۔۔“ وہ اسے اپنے زخم دیکھا رہی تھی ازلان پتھر بنا کھڑا تھا۔۔۔۔ اسکے پاس الفاظ نہیں تھے۔۔۔۔ وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔۔۔۔۔۔


” دیکھو میرے ہاتھ خالی ہیں ازلان۔۔۔۔ کچھ نہیں ہے میرے پاس۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ میرے اپنی نظروں میں میری کو عزت نہیں۔۔۔ تم نے دُنیا کے سامنے مجھے سوال بنا کے چھوڑ دیا ازلان۔۔۔۔۔


مرے ہوئے لوگوں کا بدلہ زندہ جانوں سے لیا جنہیں تم نے اندر سے مار دیا۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں معاف کردونگی یہاں سے نہیں جائونگی مجھے واپس ویسے بنا دو۔۔۔۔ جیسے میں تھی۔۔۔۔ جسے ہر کوئی محبت کرتا تھا۔۔۔۔ جیسی ظلم کا مطلب نہیں پتہ۔۔۔ جس پے سب جان چھیڑکتے تھے۔۔۔۔ جو لوگوں پے یقین رکھتی تھی۔۔۔۔ جس

نے کوئی تکلیف برداشت نہیں کی۔۔۔۔ ازلان میرا وہ مان لوٹا دو مجھے مجھے۔۔۔۔ دُنیا کے سامنے واپس سَرخرو کر دو۔۔۔۔ میرا ڈر ختم کردو۔۔۔۔ جس سے مجھے تم نے واقف کرایا۔۔۔۔ مجھے سکون دے دو ازلان۔۔۔ میری زندگی کے تین سال لوٹا دو۔۔۔۔ بولو کر سکتے ہو۔۔۔۔؟؟؟


نہیں نا۔۔۔؟؟؟ تم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔۔ صرف مار سکتے ہو۔۔۔۔ ڈرا سکتے ہو۔۔۔۔ ظلم کر سکتے ہو۔۔۔۔۔ نفرت کر سکتے ہو۔۔۔۔۔ بےعزت کرسکتے ہو۔۔۔۔ لیکن عزت نہیں دے سکتے تم۔۔۔۔۔۔ تم ک۔۔۔کک۔۔۔۔۔چھچھ۔۔۔۔۔کچھ۔۔۔۔نہ۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔“ وہ اسے جھنجوڑتے ہوے اسکے مضبوط بازوں میں جھول گئی۔۔۔۔


” نور “ ازلان چیخا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

صبح ازلان کی آنکھ حسب توقع فجر کے وقت کھلی۔۔۔ وہ اٹھا ہوتا تب بھی لیٹا رہتا۔۔۔ اسے ہمیشہ نور اٹھاتی۔۔۔ لیکن اب وہ بچوں کو لیکر دوسرے کمرے میں شفٹ ہوگئ تھی۔۔۔۔ ان کی ایک ایک چیز وہ روم سے لیجا چکی تھی۔۔۔


ان دنوں اسکا بی پی کافی ہائی رہتا۔۔۔ اس دن بھی جب وہ معافی مانگنے گیا اسکی طبیعت خراب ہوگئ۔۔۔ تب سے وہ دوبارہ اس سے ملنے نہیں گیا۔۔۔ مگر اس دل کو کیسے سمجھائے۔۔۔۔ وہ اب ہر وقت اسے دیکھنے کے لیے ترستا رہتا۔۔۔ وہ نماز پڑھ کے نیچے آیا۔۔۔ تب بھی وہ اسے نہیں دِکھائی دی۔۔۔ وہ تیار ہوکر بوجھل قدموں سے بنا ناشتہ کے آفس چلا گیا۔۔۔۔


نور اٹھی تو دیکھا گھر ملازموں سے بھرا ہوا تھا سب واپس آگئے تھے۔۔۔ نور لاپروا بنی اپنے لیے ناشتہ بنانے لگی۔۔۔۔


” بی بی جی یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟؟ “


ملازمہ اسے کام کرتے دیکھ بوکھلاتی ہوئی جلدی سے اسکے پاس آئی۔۔۔ اور اس کے ہاتھ سے فرائینگ پین لینے لگی جسے وہ ابھی چولہے پر رکھنے والی تھی۔۔۔


” شاہ صاحب نے سختی سے منع کیا ہے آپکو کچن میں نہ آنے دیا جائے “


” کیا پہلے میں یہ کام نہیں کرتی تھی؟؟ “


وہ اسے جتاتے ہوے بولی۔۔۔


” بی بی جی وہ شاہ صاحب نے صبح ہی کہا “ وہ جیسے اس کے سامنے اپنا اعتراف جرم کر رہی تھی۔۔۔۔


” تم جاؤ میں خود کر لونگی۔۔۔ وہ تیز لہجے میں بولی۔۔۔


” لیکن بی بی جی شاہ صاحب بہت غصہ کرینگے“


” جاؤ یہاں سے “وہ غصے سے بولی۔۔۔۔


ملازمہ اسکے تیور دیکھ کچن سے نکل گئی۔۔۔ ملازمہ کے جانے کے بعد وہ اپنا ناشتہ بنانے لگی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


حیا کا رو رو کر برا حال ہو گیا نور کا بس نہیں چل رہا تھا کہ تھپڑوں سے اس کا چہرہ لال کردے۔۔۔ شاہ میر سر پکڑ کے بیٹھ گیا ایک گھنٹے سے وہ اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔ وہ کسی کی بات نہیں سن رہی تھی۔۔۔ عمر بیٹھا شیک پی رہا تھا۔۔۔ اور حمزہ حیا کے نوٹس بنا رہا تھا۔۔۔ سارے امپورٹنٹ ٹوپکس وہ ایک جگہ نوٹ کر رہا تھا۔۔۔


” حیا اب تم روئیں تو تھپڑ پڑے گا۔۔۔۔ جتنا رو رہی ہو اتنا پڑھ لو۔۔۔۔ کیوں اپنا ٹائم ضائع کر رہی ہو؟؟ “ نور کا پارا ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔۔۔۔


” مما ابھی تو میں نے سیکنڈ ائیر کے پیپرز دیے تھے۔۔۔ اور اب یہ ٹیسٹ میں نے تو کچھ پڑھا بھی نہیں میں فیل ہوجاؤنگی۔۔۔“


اگر شاہ زر نے اسے دھمکی نا دی ہوتی تو وہ ٹیسٹ کا بتاتی بھی نا۔۔۔


” مما میں فیل ہوجاؤنگی “ عمر اسکی نقل اُتارتا کہنے لگا۔۔۔


” مما ایک ہفتہ تھا ان میڈم کے پاس پورے گھر میں مزے سے گھوم رہی ہے۔۔۔ کل بھابی کے ساتھ دو دریا پہنچ گئیں اتنا نہیں کے سر پر ٹیسٹ ہے بندا پڑھ لے اب دو دن پہلے رونے بیٹھ گئیں “


” شاہ میر ہے نا تمہاری تیاری کروا دیگا۔۔۔ تمہاری وجہ سے اب وہ بے چارہ بھی پوری رات جاگے گا۔۔۔۔ اور اب تم روتی نظر آئی مجھے تو دیکھنا “


نور نے افسوس سے کہتے آخر میں انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا۔۔۔ میر اور ازلان نے اسے سر پے چڑھا رکھا تھا۔۔۔ ایک تو ایگزامز سے کچھ دن پہلے پڑتی۔۔۔ اور ساتھ میں رونے کا مشغلہ بھی جاری رکھتی۔۔۔۔ میر پوری رات اسے پڑھاتا رہتا۔۔۔ اُسی دوران ثانی وقتاً وقتاً انکے لیے چائے بنا کر لاتی میر کے بغیر اسے سونے کی عادت نہیں تھی۔۔۔۔


” مما ہوجائے گا بچی ہے اب ڈانٹے تو نا ویسے بھی کب سے روئی جا رہی ہے۔۔۔۔ آپ بابا کو کال کریں شادی اٹینڈ کرنے گئیں ہے یا خود کا نکاح پڑھوانے۔۔۔۔“ میر شرارتً بولا۔۔۔


” ہنی “


نور غصے سے بولتے روم میں چلی آئی اور ازلان کو کال کرنے لگی۔۔۔۔


” چلو حیا پیزا آرڈر کرتے ہیں آج میرا پیزا کھانے کو دل چاہ رہا ہے پھر پڑھائی کرتے ہیں “


Hurrey!!!


سب سے بلند ثانی کی آواز تھی جسے سن کے میر مسکرا اٹھا۔۔۔۔


” بھائی یہ لیں نمبر “ حمزہ نے موبائل پے نمبر نکال کر میر کی طرف بڑھایا۔۔۔۔


” اور بھائی بولنا آدھے گھنٹے تک ڈلیوری کر دیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔“ عمر نے معصوم سی شکل بناتے کہا۔۔۔۔


” تم سب کس خوشی میں ٹپک پڑے “ میر نے طنزیہ لہجے میں سب سے کہا۔۔۔۔


” ہاں پیپر میرا ہے آپ سب کا نہیں بھابھی بھائی اور میں جاگیں گے تو ہم تینوں کھائیں گے “


” یہ کہاں لکھا ہے جس کا پیپر ہے وہی کھائے گا!!! ٹھیک ہے خود ہی بناؤ نوٹس “ حمزہ رجسٹر پین پٹک کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔


” بھائی نہیں آپ نہیں عمر بھائی کا بول رہی تھی ان کو نہیں کھلائونگی “


کارڈ والی بات حیا بھولی نہیں تھی جتا کے بولی۔۔۔۔


” حیا یار میں نے بھی تمہیں پیزا کھلایا تھا اپنے پیسوں سے یاد ہے جس دن عنایا آپی بھی آئیں تھیں“


” جی نہیں آپ نے ہنی بھائی سے لیے ہونگے۔۔۔۔۔ “


” اچھا تم سب چُپ کر جاؤ ساتھ مل کے کھا لینگے “ میر اس بحث سے اکتا چکا تھا۔۔۔


” مجھے شدیید بھوک لگی ہے یار حمزہ تم آرڈر کرو اور حیا اسکے بعد نون سٹوپ پڑھائی “


” جی بھائی “ حیا چہکی۔۔۔


حمزہ نمبر ڈائل کر کے پیزا آرڈر کرنے لگا تھوڑی دیر بعد سب پیزا کے مزے لے رہے تھے۔۔۔۔ پھر حمزہ اور عمر تو سونے چلے گئے جبکہ حیا ثانی اور میر کے روم میں پڑھائی کرنے چلی گئی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


نور نے فیڈر اسکے منہ سے نکالا اور رومال سے حمزہ کے ہونٹ صاف کیے پھر احتیاط سے اسے گود سے اٹھا کے بیڈ پے لٹایا۔۔۔۔


” بی بی جی باہر آپ سے ملنے کوئی آیا ہے “


” کون؟؟؟ “


وہ چونک کے ملازمہ کو دیکھنے لگی بھلا امان بھائی کے علاوہ اس سے کون ملنے آسکتا ہے۔۔۔۔


” پتہ نہیں جی کوئی موڈرن لڑکا لڑکی آئے ہیں “


” اچھا تم انہیں بیٹھاؤمیں آرہی ہوں “


” ہنی اب اٹھو یونیفارم چینج کرو میں کھانا گرم کر رہی ہوں “


” مما بھائی اور میں کارٹونز دیکھ رہے ہیں دیکھیں عمر کیسے ہنس رہا ہے اور مجھے بھوک بھی نہیں چھٹی ٹائم رول کھایا تھا “


” اور یونیفارم؟؟ “ وہ بھی اتنی آسانی سے چھوڑنے والی نہیں تھی۔۔۔


ہنی اسکی بات سن کے چُپ چاپ اٹھ گیا عمر بیڈ پے رکھے ٹیبلٹ کی سکرین کو مارنے لگا۔۔۔ ہنی جلد ہی ڈریسنگ روم سے نکلا شرٹ اسنے باہر آکر پہنی اور آتے ہی دھڑم سے بیڈ پے گر گیا۔۔۔ جس پے عمر ہنس کے تالیاں بجانے لگا۔۔۔۔ نور جلدی سے حمزہ کو تھپکنے لگی کے اٹھ نا جائے۔۔۔۔


” ہنی حمزہ کو دیکھنا اٹھ جائے تو بلانا “


” او کے پری “


نور کی گھوری پے وہ زبان دانتوں تلے دبا کے کہنے لگا۔۔۔


” اوکے مما “ نور نے احتیاط برتے ہوے اپنا دوپٹا ہٹایا جو حمزہ کے نیچے دبا ہوا تھا پھر سر پڑ دوپٹا درست کرتی نیچے چلی آئی۔۔۔۔


” جی یہ ڈریسز؟؟ “


سلام کے بعد نور نے سامنے کھڑی لڑکی سے پوچھا جو شرٹ پینٹ میں ملبوس تھی۔۔۔ بالوں کی پونی ٹیل بنا رکھی تھی۔۔۔۔ اور چہرہ میک اپ سے بھرا تھا۔۔۔۔ ساتھ ہی ایک عجیب آدمی کھڑا تھا جس نے کان میں بالی پہنی تھی۔۔۔ اور بال کندھوں تک آتے اسکے چہرے کو چھو رہے تھے۔۔۔۔


” یہ سر نے آپ کے لیے بھیجیں ہیں آپ جو چاہیں ان میں سے پسند کر لیں “


” کون سر؟؟؟ “


وہ تشویش میں مبتلا اسے پوچھنے لگی۔۔۔۔


” سر ازلان!!! اور میں ان کی پرسنل سیکریٹری ہوں “


” میں نے آپ سے تعارف تو مانگا نہیں لگتا ہے آپ کو کچھ زیادہ ہی شوق ہے انٹروڈیوس کرانے کا “


وہ مبہم سا مسکراتی اس پے طنز کر گئی جو سامنے کھڑی لڑکی نے با مشکل ہضم کیا۔۔۔۔


” خیر ان ڈریسسس کی ضرورت نہیں آپ لیجائیں “


” میم سر نے پیمنٹ کردی آپ کو لینے پڑینگے “

وہ مسکراتی ہوئی اس سے کہہ رہی تھی۔۔۔


” ابھی recently تو لیکر دی ہیں اوفف ازلان بھی نا “


وہ اسے بہت کچھ جتا گئی لیکن سبق تو ازلان کو بھی سکھاناتھا۔۔۔۔ اور بی بی جان کی بات بھی اسے یاد ہے گھر کی باتیں باہر نا جائیں کچھ سوچ کے نور نے اماں کو آواز دی۔۔۔۔


نور نے تقریباً ان میں سے دس ڈریسز سلیکٹ کیے اور زبردستی اماں کے ہاتھ میں تھما دیے وہ لڑکا بھی حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


جو گھر میں بھی پوری طرح خود کو شول میں چھپائے ہوۓتھی


” اماں آپ کی بیٹی کی شادی ہونے والی ہے نا یہ اُسی کے لیے ہماری طرف سے “


اماں ان مہنگے کپڑوں کو دیکھ رہیں تھیں بیشک یہ لان کے خوبصورت Embroidered سوٹ تھے لیکن انکی قیمت اچھی خاصی تھی۔۔۔ نور اس مہربانی کا مطلب اچھی طرح جانتی ہے۔۔۔ جب وہ ہنی کے ساتھ مال گئی تھی ازلان نے اس اچھی طرح جتایا تھا ہنی اسکا بیٹا ہے۔۔۔ اور اسکے پیسوں کا حقدار تو اب وہ یہ خیرات کیوں لیتی۔۔۔؟؟؟


جاتے سمے نور نے اس پرسنل سیکریٹی کو ایک چٹ تھمائی۔۔۔۔


” یہ آپ کے سر کے لیے آخر انکا شکریہ ادا کرنا ہے۔۔۔۔“


سفر کے دوران صوفیہ نے چٹ کھولی تو حیران رہ گئی وہ خالی تھی دونوں طرف دیکھا لیکن کچھ نہیں تھا۔۔۔۔ ازلان کے سامنے جاتے ہی اس نے ڈریسز کا بتایا جسے سنتے ہی ازلان ضبط کر گیا وہ پورے بدلے لے رہی تھی۔۔۔۔


صوفیہ کی دی چٹ کو اسنے بے قراری سے تھاما اسے کھولتے ہی پہلے تو وہ کچھ سمجھا نہیں پھر کچھ سوچ کے پنسل سے اس پیپر پے شیڈ کرنے لگا۔۔۔۔


” آپکی خیرات کی ضرورت نہیں۔۔۔!!! ابھی میرے ماں باپ زندہ ہیں۔۔۔ لہٰذا اپنا قیمتی وقت اور پیسہ مجھ پے برباد نہ کریں۔۔۔“


” جان تم ہی تو میرا انمول ہیرا ہو۔۔۔!! تم پے ہی تو وقت۔۔۔ جذبے۔۔۔ اپنی شدتیں۔۔۔ لوٹاؤنگا۔۔۔۔“


کہتے ساتھ ازلان نے موبائل پے نکلی نور کی تصویر پے اپنے لب رکھ دیے۔۔۔ یہ وہی تصویر تھی جو اسنے ریسٹورنٹ میں لی تھی جب وہ اپنے بیٹے عمر کے ساتھ تھا۔۔۔


” کسی کے پرسنل میں جھانکنا سے اچھا ہے آپ اپنی جوب پے Concentrate کریں ورنہ ہاتھ دھو بیٹھیں گی اپنی نوکری سے “


ازلان نے گھر لوٹنے سے پہلے آفس سے جاتی صوفیہ سے کہا۔۔۔۔


وہ اسے اچھی طرح جانتا تھا اور اسے اندازہ بھی ہوگیا تھا کے اس نے وہاں جاکر ضرور کچھ الٹا سیدھا کہا ہوگا۔۔۔ جس وجہ سے نور نے اس طرح اسے میسج بھیجا۔۔۔۔۔


نور نے ملازمہ کو ڈانٹ کر باہر بھیج دیا اس وقت وہ مزے سے بریانی کے لیے مسالا بھون رہی تھی۔۔۔ تبھی اس نے لونگ کو مسالوں والی ڈبی میں نا پاکر یہاں وہاں ڈھونڈا تبھی اسکی نظر اوپر رکھی لونگ پر پڑی۔۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے لینا چاہا لیکن قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسکا ہاتھ تک ڈبی تک نہیں جا رہا تھا۔۔۔۔ تبھی اسے اپنے پیچھے سے ایک جانے مانے لمس کا احساس ہوا اس خوشبو سے وہ انجان نہیں تھی۔۔۔۔


وہ کار سے نکل کر گھر کی طرف چل پڑا چوکیدار نے اسے دیکھتے سلام کیا اور کار کی چابی پکڑ کر پارک کردی۔۔۔۔


ازلان نے گھر میں داخل ہوتی ہی لاؤنچ میں کھیلتے عمر حمزہ کے گال چومے جسے دیکھنے کے لیے وہ بےچین تھا۔۔۔ وہ اسے کہیں نظر نہ آئی ملازمہ کو عمر حمزہ کے پاس چھوڑ کر نجانے وہ خود کہاں تھی۔۔۔


” نور کہاں ہے؟؟ “


ازلان نے عمر حمزہ کی نگہرانی کرتی ملازمہ سے پوچھا۔۔۔


” صاحب وہ بی بی جی۔۔۔ کچن میں ہیں صاحب ہم نے منع کیا تھا۔۔ لیکن۔۔۔ “


ازلان اسکا جملہ سنے بغیر کچن میں آگیا ان سے بےحس بیکار تھی۔۔۔


وہ اسے دیکھتے ہی اسکے قریب چلا آیا دل چاہا کے بس ایک بار اسکی بے داغ پیشانی چومے۔۔۔ پر نور کا ردعمل سوچ کر ہی اسے خود سے نفرت ہونے لگی۔۔۔ وہ قدم اٹھاتا اسکا پیچھے آن کھڑا ہوا۔۔۔ ہاتھ بڑھا کر اسنے ڈبی نکالی۔۔۔ اور سامنے شیلف پر رکھی۔۔ اسکے ہٹتے ہی نور نے اپنا کام جاری رکھا جیسے اسکی آمد سے نور کو کوئی فرق نا پڑا۔۔۔


” تمہیں کچن میں آنے سے منع کیا ہے جو چاہیے گارڈز سے کہو لا دیں گے یا ملازمہ سے کہو وہ بنا دیگی “


جواب نا اکرازلان نے پھر پکارا۔۔۔۔


” نور تمہارا بی پی لو ہوجائے گا۔۔۔۔“ اس سے زیادہ اسکی برداشت نہیں تھی اسنے فوراً نور کا ہاتھ پکڑا اور یہی اس سے غلطی ہوگئی۔۔۔


” ڈونٹ ٹچ می میں آپ کی غلام نہیں کے جب چاہا اپنی من مانی کی میری مرضی میں جو کروں آپ کو اس سے کیا۔۔۔؟؟ کیا مجھے برباد کر کے بھی دل نہیں بھرا جو ایک بار پھر مجھے چھو کر اذیت دے رہے ہیں۔۔۔۔۔“ نفرت سے کہہ کر اس نے کچن میں موجود نل سے اپنا ہاتھ دھویا۔۔۔ اتنا اسکے الفاظوں نے ازلان کو اذیت نہیں دی جتنی اسکی حرکت نے دی۔۔۔۔


” میرا لمس تمہیں اذیت دیتا ہے۔۔۔؟؟ کبھی محبت کرتی تھیں تم۔۔۔۔“ ازلان کا لب و لہجے سے سنجیدگی جھلک رہی تھی۔۔۔ وہ قدم اٹھاتا اسکے قریب آرہا تھا۔۔ اسکی آنکھوں میں آج وہی محبت تھی جو کبھی بچپن میں اس نے دیکھی تھی۔۔۔۔


” کرتی تھی اب نا محبت ہے نہ نفرت میں آپ کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔ کاش میں اپنی زندگی یہ یہ ماہ وسال مٹا سکتی کاش۔۔۔۔“ وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن رو پڑی۔۔۔۔


ازلان نے مٹھیاں بھینچ لیں اِس درد تکلیف کا احساس وہ کبھی نہیں کر سکتا تھا جو نور پر بیتی تھی۔۔۔ کاش وہ جان پاتی راتوں میں کس قدر وہ تڑپا ہے۔۔۔ کبھی اپنوں کے لیے تو کبھی اس ہمسفر کے لئے جس سے وہ محبت کا دعوا کرتا ہے۔۔۔۔ ماں باپ کو تو اس نے بھی پل پل یاد کیا لیکن۔۔۔ وہ یادیں وہ زندگی بھر نہیں بھول سکتا جو اسکے بیٹے سے جڑی ہیں۔۔۔ اور جنکا احساس اُس کو ہوتا جس پر وہ قیامت ٹوٹی ہے۔۔۔۔ جس طرح وہ اسکا درد نہیں سمجھ سکتا اُسی طرح نور بھی اس درد سے انجان ہے۔۔۔۔


” جانتی ہو میں وہ شخص ہوں جس نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماڑی ہے۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ یہ پچھتاوا میں زندگی بھر رہنے نہیں دونگا۔۔۔ نا تمہیں ان ماہ و سال کے گزرنے کا پچھتاوا رہے گا۔۔۔۔ میں اس نفرت سے بھی محبت کرونگا تم سے جڑی ہر چیز مجھے عزیز ہے۔۔۔۔ “


وہ اسے ایک محبت بھری نظر سے نوازتا بی بی جان کے روم میں آگیا۔۔۔ انہیں نور کا بتا کر(ہدایت دیکر کے نور اسکی وجہ سے خود کو بیمار کر رہی ہے)وہ اپنے کمرے میں چلا آیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


”میری جان میرے گولو مولو “ وہ اسے گدگدی کرنے لگی تو عمر کھلکھلا کے ہنس دیا۔۔۔


نور گارڈن میں بیٹھی عمر کے ساتھ کھیل رہی تھی حمزہ ہنی کے پاس تھا۔۔۔۔ وہ اندر جانے ہی والی تھی کے ایک کار گیٹ سے اندر آتی دکھائی دی نور حمزہ کو اٹھا کے کار کی طرف تیز تیز قدم سے چلنے لگی۔۔۔


” آرام سے پاگل ہو جو ایسے دوڑ کے آ رہی ہو تمہیں آرام کرنا چاہیے چلدو اندر “ وہ ہلکی سے خفگی لہجے میں سموئے بولا۔۔۔۔


” جی بھائی “


نور شرمندہ ہوگئی واقعی اس کی حالت نہیں تھی کے وہ اِس طرح بھاگے۔۔۔۔


” اور میرے بچے کو لاؤ ادھر دو “


امان عمر کو نور سے لیکر اندر کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔


” کیسی ہو گڑیا۔۔۔؟؟ امان نے عمر کے گالوں پے بوسا دے کر پوچھا۔۔۔۔


” کیسی لگ رہی ہوں۔۔۔؟؟ آپ بتائیں۔۔۔؟؟ بہن کو بالکل بھول گئے۔۔۔۔ اتنے دنوں بعد آئے ہیں “


وہ خفگی دکھاتی اس سے شکایت کر رہی تھی۔۔۔۔


” نور ازلان اور میں امی ابو سے ملنے گاؤں گئے تھے۔۔۔ وہ اپنے کیے پے بہت شرمندہ ہے ابو امی نے اسے معاف کردیا۔۔۔ گڑیا کوئی بھی انسان اپنے بچے کی لاش دیکھے تو پاگل ہونے لگتا ہے۔۔۔ ازلان بھی ایسے ہی اندھا انتقام لیتا رہا۔۔۔۔ مجھے لگا تھا اس لڑکی سے ازلان نے اپنی پسند سے شادی کی ہے۔۔۔ لیکن وہ صرف ہمارا وہم تھا بی بی جان تو اس لڑکی کے ساتھ رہیں بھی ہیں۔۔۔ انہی سے پوچھ لو انکے خوش گوار تعلقات کا “


نور جھنجلا کے رہ گئی۔۔۔۔


” خیر نور میری گڑیا اب سارے دکھ درد چلے گئے اب میں اپنی گڑیا کی آنکھوں میں آنسوں نہیں آنے دونگا۔۔۔ میں جانتا ہوں تم ازلان سے ناراض ہو اور تم دونوں کے خوشگوار تعلقات کا ازلان نے مجھے بتایا نہیں۔۔۔ تبھی اندازہ نہیں مگر یہ تم پر ہے کے معاف کرتی ہو یا نہیں میں فورس نہیں کروں گا۔۔۔۔ ازلان روز مجھ سے ملتا ہے ناجانے کتنی بار معافی مانگ چکا ہے۔۔۔۔( معافی تو دور کی بات الٹا اسکا بس چلے مجھ سے پیر پڑواۓ اپنے ) تمہارے شکایتیں بھی کرتا ہے کے مجھے دیکھتے ہی ایسے غائب ہوتی ہے جیسے بکرے کے سر سے سینگ “


نور چُپ چاپ سنے جا رہے تھی۔۔۔ اسے ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ اور یہ ازلان دوسروں کو جاکر اپنی دکھی داستان سناتا ہے میں نے ایک دفع سر کو کیا میسج کیا میرا ایڈمشن کینسل کروا دیا۔۔ بدتمیز دوگلا چالاک انسان۔۔۔


” میری ازلان سے کافی اچھی دوستی ہوگئی ہے “


امان نے اسکا بےزار سا چہرہ دیکھتے بات بدل دی۔۔۔


” اچھا ویسے میں تمہیں ایک سرپرائز دینے آیا تھا “

نور چونکی


” کیسا سرپرائز؟؟؟ “


” مجھے لگا تمہیں بھابی کی ضرورت ہوگی “ امان سر کھجانے لگا۔۔۔۔


” ہاہاہاہا “ آج وہ دل کھول کے ہنسی تھی۔۔۔۔


” سچ میں بھائی؟؟؟ چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔۔۔۔


” آپ بہت اچھے ہیں بھائی میری کب سے خواہش تھی کے میری بھی بھابی ہو۔۔۔۔ آپ شرما رہے ہیں؟؟ “


نور نے امان کا سرخ چہرہ دیکھا توقہقہہ لگا کے ہنسی۔۔۔


” اچھا تو میں اب اچھا ہو گیا۔۔۔؟؟؟ اور شرما کون رہا ہے بس مما پیچھے پڑھ گئیں تھیں میرے شادی کے “


نور ماں کا سن کے چُپ ہوگئی۔۔۔


” بھائی آپ بھابی سے ملیں۔۔؟؟؟ ڈیٹ فکس ہوگئ۔۔۔؟؟؟ میں بتا رہی ہوں میری اور بچوں کی شاپنگ آپ کرواۓگیں۔۔۔“


” اتنی محبت اپنے شوہر سے۔۔۔؟؟ اسے چھوڑ کے بھائی کے جیب خالی کرواؤگی۔۔۔؟؟ نور میں نے سنا تھا بہنیں بھائی کے لیے بھی شاپنگ شوہر کے پیسوں سے کرتی ہیں۔۔۔؟؟ “


” کنجوس نہیں ہوگئے آپ۔۔۔؟؟؟ “


نور نے امان کے بازو پے مکا جڑا۔۔۔۔


" آ۔۔۔۔۔ لگتا ہے کچھ ذیادہ ہی طاقت ور ہوگئی ہو۔۔۔ ہائے ہاتھ ہیں یا ہتھوڑے “


” بھائی آپکو تو میں۔۔۔۔ “


” مما۔۔۔۔۔۔۔ “ ہنی کے آتے ہی اسکی بات بیچ میں رہ گئی۔۔۔۔


امان اسے دیکھ کے چونکا پِھر سنبھل کے مسکرایا۔۔۔۔ ازلان کے حوالے سے اسے ہنی کبھی پسند نہیں آیا۔۔۔ پہلے جب وہ اسکے گھر آیا تھا امان اس سے دور ہی رہتا۔۔۔ وجہ نا پسندیدگی تھی لیکن جب سے امان یہاں آیا تھا۔۔۔ اسنے نور کے منہ سے یہی ایک نام بار بار سنا ہے اور اس دیکھتے ہی نور کی آنکھوں میں جو چمک آتی وہ امان کی آنکھوں سے چھپی نہیں تھی۔۔۔۔ امان جب جب آتا یا تو ہنی روم میں ہوتا یار قاری صاحب اسے پڑھانے آتے۔۔۔۔


” یہ آپکے ماموں ہیں “


نور نے امان کے کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوے کہا۔۔۔


” میرے ماموں؟؟؟ “


وہ امان کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کے امان اسکا سگا ماموں نہیں۔۔۔۔


” جی آپکے ماموں کیوں اچھا نہیں ہوں کیا؟؟ “ امان نے ہنی کی ناک کھنچتے ہوے پوچھا۔۔۔


” نہیں آپ تو پری کی طرح بہت اچھے ہو “ وہ کچھ دیر بعد ٹھہر کے بولا۔۔۔۔


” بلکل باپ پے گئے ہو سوچنے لگ گئے “


امان اسکی حرکت پے مسکراتا کہنے لگا اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کے ہنی کوئی نا سمجھ بچہ نہیں۔۔۔


” مجھے لگا آپ غصّے والے ہیں۔۔۔!!!میرے دوست کہتے ہیں پولیس والے غصّے کے تیز ہوتے ہیں۔۔۔ “


امان مسکراتا ہوا اسکی سنے جا رہا تھا۔۔۔۔


” دوسروں کے لیے تمہارے لئے ہر گز نہیں سمجھے“


امان اسکے بال بگاڑتا کہنے لگا۔۔۔


” اوکے اب جب ہم پرابلم میں ہونگے تو آپ کو کال کرینگے “


” ضرور “


” چلیں بھائی اندر چلتے ہیں بی بی جان کے پاس “


امان اندر چلا گیا جب کے ہنی کو دروازے پے روکتے دیکھ نور بھی روک گئی۔۔۔


” آؤ ہنی “


” جی مما بس ٹو منٹس میں آیا “


امان عمر کو گود میں بیٹھائے بی بی جان کی پلنگ کے پاس رکھی چیر پے بیٹھ گیا۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں میں کار کی چابی تھما دی تاکہ وہ اس سے بہلتا رہے اور روے نا۔۔۔۔


” بی بی جان آپ نور کو سمجھائیں بس ایک دفع امی ابو سے مل لے۔۔۔ اسی کی وجہ سے میں یہاں روکا ہوا ہوں۔۔۔ ابو نے آج باقاعدہ دھمکی دی ہے اگر نور کو لیکر نہیں آیا تو مجھے بھی گھر میں گھسنے نہیں دینگے “


وہ بیچارگی سے کہتا ان سے التجا کرنے لگا۔۔۔


” میں اسے سمجھا سمجھا کے تھک گئی ہوں مجال ہے جو میری ایک بھی سنے “


بی بی جان خود پریشان تھیں ہنی جو اندر آرہا تھا انکی باتیں سن چکا تھا۔۔۔


” ماموں آپ امی ابو کو یہاں لیکر آئیں “


امان جو اسکے ماموں بولنے سے خوش ہوا تھا۔۔۔ دوسری بات پے اسنے فوراً جیب سے فون نکالا اور اعظم شاہ کو اُسی وقت ٹیکسٹ کیا۔۔۔


” یار میں نے بھی سوچا تھا بس ابو کی ڈانٹ کے ڈر سے چپ تھا۔۔۔ اب ابو نے منع کیا تو تمہارا نام زندہ باد “ امان کی بات پرہنی ہنستے ہوئے اثبات میں سر ہلا کے رہ گیا۔۔۔۔


” چلیں بھائی آج آپکی پسند کا كھانا بنایا ہے “

نور دوپٹے سے ہاتھ پونچھتی کمرے میں آئی۔۔۔


” تم نے بنایا؟؟ “


وہ ڈرنے کی شکل بناتا کہنے لگا۔۔۔


” جی “ وہ خوشی سے بولی۔۔۔۔


” اللہ رحم کرے پِھر تو “


” کیا کہا اپنے؟؟ “


نور اسکے ہلتے لبوں کی بڑبڑاہٹ سن چکی تھی۔۔۔۔ باقاعدہ لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ کمر پے رکھ کے کہنے لگی۔۔۔۔ ہنی نے اسکا یہ روپ پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔۔۔ جب کے بی بی جان کے لیے یہ معمول کی بات تھی۔۔۔


” یار اک دفعہ تمہارے ہاتھ کی چائے پی تھی آج تک خود کو کوس رہا ہوں۔۔۔“ امان اسے تنگ کرنے کےغرض سے بولا۔۔۔


” ہاں تو نہ پیتے۔۔۔ یہ نہیں دیکھ رہے میں نے اتنے محنت سے بنائی “


ازلان نور کے پیچھے آن کھڑا ہوا اسے ڈر تھا اگر اسنے ایک قدم بھی پیچھے یا آگے کیا تو وہ اسکی موجودگی محسوس کرکے یہاں سے بھاگ جائے گی۔۔۔۔ اتنے دنوں بات وہ اسکی خوشبو کو محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اسکے دل سے ایک لمحے کو دعا نکلی کی کاش یہاں کوئی نا ہوتا۔۔۔ تو وہ اسکے بالوں میں منہ چھپاتا اس خوشبو کو محسوس کرتا۔۔۔ جو اسکے گرد اپنا حصار باندھ چکی ہے۔۔۔۔ آخر کب وہ اس سے اتنے دن دور رہی ہے؟؟ جب جب وہ اس سے بھاگی ہے ازلان نے اسے مجبور کر کے اپنے پاس بلایا ہے۔۔۔ لیکن اب وہ اس سے اتنی دور چلی گئی ہے کے ازلان چاہ کے بھی ان فاصلوں کو مٹا نہیں سکتا۔۔۔ ادھر باقی سب ازلان کو دیکھ کے اپنی مسکراہٹ روکے ہوے تھے۔۔۔۔


” ماموں مما بہت ٹیسٹی كھانا بناتی ہیں شاید آپ نے کبھی ٹیسٹی کھانا کھایا نہیں تبھی ٹیسٹ کا نہیں پتا “


” سن لیا؟؟ “ نور اترا کے بولی۔۔۔۔


” ہنی بیٹا مما نے کیا رشوت دی ہے؟؟؟ “


نور کا منہ کھل گیا اپنے اس عزت افزائی پر۔۔۔۔


” بابا آپ بتائیں مما ٹیسٹی كھانا بناتی ہیں نا؟؟ “

ہنی نے ازلان کی رائے لی۔۔۔۔


” ہم “ نور اپنی جگہ پے جم کے رہ گئی۔۔۔


” سنیں ماموں “ہنی نے جتانے والے انداز میں بولا۔۔۔


” ہاں بھائی میں نے ہار مان لی “


امان نے دونوں ہاتھ اوپر کرتے کہا۔۔۔ نور ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔۔۔ ازلان بلکل اس کے پیچھے تھا۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ جاتی ازلان اسکے قریب سے گزرتا امان سے گلے ملا۔۔۔ نور کرنٹ کھا کے دو قدم پیچھے ہوئی ازلان اسکے کندھے سے ٹکراتا آگے بڑھا تھا۔۔۔


” کیسے ہو “ امان نے عمر کو ہنی کی گود میں بٹھایا اور ازلان سے گلے ملا۔۔۔۔


” دیکھ لو تمھارے سامنے ہوں۔۔۔ تم سناؤں کیسے ہو؟؟ نور تنگ تو نہیں کرتی۔۔۔؟؟ امان شرارت سے بولا۔۔۔۔


” بی بی جان کھانا تیار ہے آپ سب باہر آجائیں “


کہتے ہی وہ ہنی کی گودسے حمزہ کو اٹھائے باہر آگئی۔۔۔ ازلان اور امان نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا پھر سر جھٹک کے باہر آگئے۔۔۔۔


کچھ دیر بعد سب ڈائیننگ ٹیبل پے موجود کھانا شروع کر چکے تھے۔۔۔۔


” ماموں اب بتائیں کھانا کیسا لگا؟؟ “


امان جو چاولوں سے انصاف کر رہا تھا بول اٹھا۔۔۔


” ماننا پڑے گا یہاں آکر میری بہن میں سارے گن آگئے ورنہ وہاں تو نکمی ہی تھی “


” نہیں امان تمہاری بہن میں سارے گن موجود تھے بس ہم واقف نہیں تھے یا یہ کہنا چاہیے اندھے ہوگئے تھے۔۔۔“


ڈائننگ ہال میں خاموشی چاہ گئی سب اپنے آپ کو مصروف ظاہر کرتے اپنے پلیٹس پے جھکے رہے۔۔۔۔


ازلان کی نظریں نور پے اٹک گئیں جو کھانے کے بجائے چمچ پلیٹ میں گھما رہی تھی۔۔۔۔


” کھانے کے بعد سب سی ویو چلیں؟؟؟ “

امان نے اس خاموشی کو توڑا۔۔۔


” یس ماموں “ ہنی چہکا۔۔


” کیا خیال ہے ازلان؟؟ “


” ہاں مجھے کیا پرابلم ہو سکتی ہے “


ازلان تو موقعے کی تلاش میں تھا۔۔ بس نور منع نہ کردے۔۔۔


” بھائی میں نہیں۔۔۔ “


” کوئی بہانہ نہیں ازلان میں جا رہا ہوں نور کو لیکر آجانا وہیں نور کے لیے ایک سرپرائز تیار ہے “


امان نور کے بولنے سے پہلے کہہ اٹھا۔ نور کو ناچار اٹھنا پڑا۔۔۔


کھانے کے بعد چائے پی کے امان چلا گیا نور بچوں اور ہنی کو تیار کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔


نور کو اِس حالت میں باہر جانا عجیب لگ رہا تھا۔۔۔ لیکن کیا کرتی امان کے اصرار پے چل رہی تھی۔۔۔۔


نور نے بچوں کو تیار کر کے ازلان کے پاس بھیج دیا ابھی وہ اپنا اور ہنی کا ڈریس نکال رہی تھی کے ہنی خود تیار ہوکر آگیا۔۔۔


” ڈریس کسنے پریس کیا؟؟ “ نور نو اسے تیار دیکھ کر پوچھا۔۔۔


” خود ہی کر لیا ملازمہ کورٹر میں چلی گئی “


وہ مسکراتی ہوئی اپنا ڈریس لیکر ڈریسنگ روم میں آگئی۔۔۔


” مما بھائی کہاں ہیں؟؟ “


” تمہارے بابا کے پاس ہیں “


” اور بابا کہاں ہیں؟؟ “


” لاؤنچ میں “


اچھا آپ تیار ہوگئیں؟؟؟ “


” ہاں بس ہوگئی “


نور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنا دوپٹہ سیٹ کرتے مصروف سے انداز میں کہ رہی تھی۔۔۔۔


” مما آپ ناراض تو نہیں ہونگے ایک بات کہوں؟؟ “


” ہاں میری جان بولو۔۔۔“ نور نے اپنے گرد اچھے سے شول لپیٹ لی۔۔۔


” مما آپ ہمیشہ ایسی رہیں نا موٹی آپ کتنی کیوٹ لگتی ہیں “


نور کو توقع نہیں تھی ہنی ایسا کچھ بولےگا۔۔۔


” رکو تمہیں بتاتی ہوں “


موٹی کہنے پے تو اسے واقع صدمہ ہوا نور اِس کے پیچھے لاؤنچ میں آگئی۔۔۔۔


ازلان بیٹھا عمر حمزہ کو فرائز کھلا رہا تھا کے ہنی بھاگتا ہوا آیا۔۔۔۔


” کیا ہوا خیریت؟؟ “


” مما پیچھے ہیں “


کہتے ہی وہ عمر حمزہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔۔۔


” نور سنبھل کے پاگل ہو جان نکال دی تھی میری “

نور جو آخری سیڑی سے آتی پھسلنے والی تھی اب ازلان کے بندھے مضبوط حصار میں تھی وہ بھاگتا ہوا اس تک آیا تھا۔۔۔۔


” عقل ہے یا نہیں حالت دیکھی ہے اپنی۔۔۔؟؟؟ آگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو۔۔۔؟؟ “ ازلان کے لہجے سے جھلکتی پریشانی نور کو واضع طورپر محسوس ہو رہی تھی لیکن یہ پریشانی کس لیے تھی وہ اچھی طرح جانتی ہے۔۔۔۔


” آپ فکر نا کریں میں مر بھی گئی تو آپ کا بچہ آپکو دے کر جاؤنگی “


” نور “ اسے صدمہ ہی تو لگا تھا اسکے الفاظ سن کر۔۔۔۔


” آپ یہی چاہتے تھے نا۔۔۔۔“ ازلان کی دھاڑ سے وہ ڈر ضرور گئی تھی لیکن خود کو کہنے سے روک نہیں پائی۔۔۔۔


” شٹ اپ۔۔۔دوبارہ مرنے کی بات کی تو اپنے ہاتھوں سے گلا دبا دونگا۔۔۔“ وہ غصّے میں اول فول بک گیا احساس اسے بعد میں ہوا۔۔۔۔


” یہی تو آپکی خواہش ہے ہمیشہ سے “


” نور ایسا میں نے کبھی نہیں چاہا “ وہ بےبسی سے بولا۔۔۔۔


” تمہیں کیا لگتا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھ کے مجھے خوشی ملتی ہے۔۔۔؟؟؟ نور وہ سب۔۔۔۔ میرے بات سن لو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دو۔۔۔۔میں۔۔۔۔“


نور اسکی بات کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔۔


” نہیں خوشی نہیں سکون ملتا ہے آپکو مجھے تکلیف میں دیکھ کر “


” یہ سچ نہیں نور “


وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا بےبس نظر آراہا تھا۔۔۔۔


” اچھا سچ نہیں تو کیا ہے سچ بھول گئے آپ یہ آپکے ہی الفاظ ہیں ازلان شاہ ہر روز آپ مجھ سے اپنی نہ ختم ہونی والی نفرت کا اظہار کرتے تھے۔۔۔۔۔“


ازلان نور کو بےبسی سے دیکھتا رہا کتنی بدگمان تھی وہ اس سے ازلان کو آج اندازہ ہوا وہ اپنے انمول چیز گنوا چکا ہے۔۔۔۔


نور نے دونوں ہاتھ اسکے چوڑے سینے پے رکھ کے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی ازلان نے خود ہی اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔


” ڈونٹ ٹچ میں۔۔۔“ غصے سے کہتی وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ لیکن دوسری طرف گرفت مضبوط تھی۔۔۔


” چھوڑیں۔۔۔۔“ وہ پوری مزامت کر رہی تھی۔۔۔۔


” نور بتاؤ میں کیا کروں۔۔۔؟ کیسے تمہارے چہرے پے خوشی لاؤں۔۔۔ کیسے تمھارے غم دور کردوں۔۔۔۔ کیسے معافی مانگوں تم سے۔۔۔۔ محبت کرتا ہوں میں تم سے۔۔۔ نور مجھے ایک موقع دےدو۔۔۔۔ پلیز“


کبھی وہ بھی اس سے التجا کرتی تھی۔۔۔ وہ بھی روتی تھی۔۔۔ جب اسنے رحم نہیں کیا تو وہ کیوں کرے۔۔۔۔


” بابا سوری آپ میرے وجہ سے نا لڑیں “


ہنی کے آتے ہی ازلان نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔ نور غصے سے ایک نظر ازلان کو دیکھ کے عمر حمزہ کے پاس آگئی۔۔۔ ازلان کا دِل کٹ کہ رہ گیا۔۔۔۔ وہ انہیں باہر آنے کا کہہ کر چلا گیا۔۔۔


” ہنی نور کہاں ہے؟؟ “


” بابا بس آ رہی ہیں اور بی بی جان نے عمر حمزہ کو جانے سے منع کردیا۔۔۔“ ہنی کا منہ پھلا ہوا تھا۔۔۔


” کیوں؟؟ “


” بابا باہر بہت ٹھنڈ ہے انکی طبیعت خراب ہوجاے گی “


” اچھا “


ازلان نے نور کو آتے دیکھ کار سٹارٹ کردی پچھلی سیٹ کے دروازے وہ لاک کر چکا تھا۔۔۔ اور اسکی توقع کے مطابق وہ پچھلا دروازہ کھول رہی تھی لیکن ہنی کو ڈھیٹ بنتا دیکھ کر آگے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” خیریت “


سلام کے بعد ازلان نے نور سے پوچھا جو اِس کا کوٹ طے کر کے وارڈروب میں رکھ رہی تھی۔۔۔۔۔


” ہاں وہ میر پریشان ہو گیا تھا آج آپنے کافی دیر کردی “


” میر یا تم؟؟ “


” میں کیوں پریشان ہونے لگی۔۔۔؟؟ آپکی مرضی جب آئیں “


ازلان نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ بٹھایا۔۔۔


” اچھا۔۔۔۔۔تب ہی ہر کسی کو کال کر کے میرے بارے میں پوچھ رہیں تھیں “


چہرے پے جاندار مسکراہٹ سجائے وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کے بولا۔۔۔


” جی نہیں۔۔۔۔ بس صباء اور شازیہ بھابی کو کال کی تھی “


وہ نظروں کا زاویہ بدل کے کہنے لگی۔۔۔


” جی انہوں نے ہی کہا اپنی بیوی کو کال کریں جس طرح وہ پریشان ہیں کہیں یہاں نا پہنچ جائیں “

ازلان اس کا ہاتھ سہلانے لگا۔۔۔۔


” اب ایسا بھی کچھ نہیں میں نے بس ایسے ہی کال کی تھی “


وہ کہاں ماننے والی تھی۔۔۔


” میں نے کہا تھا اب میں تمہارے دل کا حال جان گیا ہوں آپ کوئی فائدہ نہیں “


آج کل ازلان کافی خوش رہنے لگا تھا۔۔۔ میر سے اسے پتا چلا اب ازلان کا bp کنٹرول میں رہنے لگا ہے اسے نہیں پتا تھا اسکے اظہار سے ازلان پھر جی اٹھے گا اسوقت بھی اسکے چہرے سے مسکراہٹ ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔


” ہاں!! 19 سال بعد “


وہ مصنوئی خفگی سے بولی۔۔۔


” نہیں نور بہت پہلے شاید تب جب میں نے تمہیں کال کی تھی۔۔۔ تم نہ بتاؤ لیکن میں جانتا ہوں اس وقت تم رو رہیں تھیں۔۔۔۔ ویسے میرے ساتھ چلتیں سب سے مل لیتیں۔۔۔ میرے موجودگی کافی نہیں تھی سب کا ایک ہی سوال تھا بھابی کہاں ہیں؟؟؟


خیر شادی اچھے سے ہوگئی ارینجمینٹ بھی کافی اچھا تھا “ ازلان نے اٹھ کے اپنا نائٹ ڈریس لیا جو نور نے بیڈ پے پہلے سے نکال رکھا تھا پھر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔۔۔


” اب ولیمہ اٹینڈ کرنے تو چلنا ویسے آج کیوں نہیں چلیں “


ڈریسنگ روم سے نکلتے ہی ازلان نے ڈرور سے سگریٹ اور لائٹر نکالا نور نے اٹھ کے اسکے ہونٹوں میں دبا سگریٹ نکال کے ڈسٹبن میں پھنک دیا۔۔۔۔


” چھوڑ دونگا یہ عادت “ وہ مسکراتا ہوا بیڈ پے لیٹا اس سے کہہ رہا تھا۔۔۔


” صبح سے سر میں درد تھا اوپر سے حیا اُف۔۔۔۔ آپکے پیار نے بگاڑ دیا ہے اسے۔۔۔۔ میرا دِل چاہ رہا تھا اچھے سے اِس کی طبیعت صاف کردوں ہر بات پے ضد کرنے لگی ہے۔۔۔۔ پڑھائی سے ایسے بھاگتی ہے جیسے پڑھنا کوئی گناہ ہو گیا۔۔۔“


ازلان اسکا غصّے سے سرخ چہرہ دیکھ رہا تھا اب وہ بیڈ پے اسکے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔۔۔ ازلان بھی اسے سمجھانے کی پوری کوشش کرتا لیکن حیا کو بچپن سے پڑھائی سے سخت نفرت تھی۔۔۔۔


” یار بچی ہے ابھی “


” بچی ہے تو نکاح کیوں کرایا بلکہ اسکول بھیجیں۔۔۔!!! اتنی بڑی ہوگئی یہ لڑکی لیکن عقل نہیں آئی۔۔۔۔ اب اِس کی وجہ سے ہنی بھی پوری رات جاگے گا اور ثانیہ بھی ہنی کا انتظار کرتے۔۔۔۔۔ یہ کوئی طریقہ ہے پورے سال یہ بھی نہیں پتہ ہوتا سبجیکٹ كون كون سے ہیں اور آخر میں بیٹھ کے دوسروں کا دماغ کھاتی ہیں۔۔۔“


” تو کیا ہوا یار بھائی کس لیے ہوتے ہیں۔۔۔؟؟؟ تم سب چھوڑو اور سوجاو “


” ہوں “


وہ گہرا سانس لے کر رہ گئی۔۔۔


” سر میں کیا ابھی بھی درد ہے۔۔۔؟؟؟ سر دباؤں۔۔۔ “ ازلان نے پاس پڑا بام اسکے سر پے لگایا اور سر دبانے لگا۔۔۔


” کیا کر رہے ہیں اچھا لگتا ہے شوہر بیوی کا سر دبائے۔۔۔۔ ویسے بھی ابھی دَرد نہیں ہے پین کلر لی ہے بس سوجاؤں گی تو ٹھیک ہوجاۓ گا“ وہ اسکا ہاتھ ہٹاتے کہنے لگی۔۔۔


” یار باقی شوہر بیوی کا پتہ نہیں۔۔۔۔ میں تو میری نور کی خدمت میں ہر وقت حاضر ہوں۔۔۔۔۔ بندہ آپکا غلام ہے بس حکم کیا کریں “


نور ہنس دی۔۔۔ وہ اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی کم ہے۔۔۔ کیا نہیں ملا اسے زندگی میں اِس قدر محبت کرنے والا شوہر۔۔۔ بچے جو اِس کی زندگی ہیں اس پے جان چھڑکتے ہیں۔۔۔ اور سب سے بڑھ کے عزت کی زندگی جس کے لیے وہ ترس گئی تھی۔۔۔ بے شک آزمائش کے بعد اللہ‎ نے اسے اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا تھا۔۔۔۔ نور نے اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ اِسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ ازلان نے اسکا سر اپنی سینے پے رکھا تھا اور اسکے بال سہلا رہا تھا۔۔۔۔


” سو جاؤ جان!!! مجھے نیند نہیں آرہی “


جان کہنے پے ایک بار پھر وہ تپ گئی اور اسے مکا جڑا کمرے میں قہقہہ گونجا تھا نور نے سکون سے آنکھیں موند لیں۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


کار کے دروازے سے وہ ٹیک لگائے انکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔


نور فوراً امان کی طرف بڑھی ازلان اِس کی بے تابی دیکھ کے ہنس دیا۔۔۔ ابھی تو امان سے ملی تھی۔۔۔


” بھائی کہاں ہے سرپرائز آپ بھابی سے ملا نے لائے ہیں نا۔۔۔؟؟؟ “


” تمہیں کیسے پتہ؟؟؟ “


” مما آپ چھوڑ کے آگئی “ ہنی ہانپتا ہوا اس تک آیا ۔۔۔


” وہ اِس لیے ہنی کے آپ کے ماموں ہمیں آج آپکی مامی سے ملوائیں گے “


” تم تو بڑے تیز ہو بھابی ڈھونڈ بھی لے۔۔۔؟؟ “ ازلان کار پارک کر کے ہنی کے ساتھ ہی آگیا۔۔۔۔


” ہاں یار نور کی خواہش تھی اسے بھابی چاہیے تھی “


” نور سے ذیادہ تمہاری خواہش لگ رہی ہے اینڈ آئی ایم ڈیم شیور لو میرج ہوگی۔۔۔۔ “


” وہ تو نور کا ری ایکشن بتائے گا۔۔۔ نور آج تو مجھے تم سے خوف آرہا ہے۔۔۔۔ دیکھو میں اب تین بچوں کا ماموں اور کسی کا فیوچر ہسبنڈ ہوں مجھے مارا تو نقصان تمہارا ہوگا میں ہنی کا اکلوتا ماموں ہوں سوچ لینا “


نور کے گال سرخ ہوگئے وہ بےچینی اور ناراضگی لہجے میں سموۓ ہوئے بولی۔۔۔


” بھائی اب ملائیں بھی ورنہ آپ کے کہے پے عمل کردوں گی “


” اچھا بابا لا رہا ہوں غصّہ کیوں کر رہی ہو “


اور کار سے نکلنے والی شخصیت کو دیکھ کر نور کو سو والٹ کا کرنٹ لگا ازلان اور ہنی ناسمجھی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔۔۔۔


” یو چیٹر میری ہی دوست “ وہ امان کی طرف بڑھی۔۔۔


” ازلان یار سنبھالوں اپنی بِیوِی کو صبح بھی مُکا مارا تھا اس کے ہاتھ نہیں ہتھوڑا ہیں “


” بھائی کتنے چالاک ہے میرے بیسٹ فرینڈ کو پسند کرتے رہے۔۔۔ مجھے شک بھی نہیں ہونے نہیں دیا میرے سامنے کتنا چِڑاتے تھے اسے۔۔۔۔ اور حبہ تمہیں بھی بتاتی ہوں بدتمیز “


نور حبہ کا ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ لے گئی۔۔۔ امان ہنی اور ازلان وہیں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔۔ ساتھ امان نے ڈرائیور سے کافی منگوائی اور ہنی کے لیے آئس کریم۔۔۔


دونوں سمندر کی لہروں کو دیکھ رہی تھیں جب حبہ بولی۔۔۔۔


” سوری نور میں امان کو پسند کرتی تھی لیکن کبھی سوچانہیں تھا کہ وہ بھی مجھے پسند کرتا ہے۔۔۔ مجھے لگا ہم غریبوں کا نصیب اپنے جیسے لوگوں کے یہاں ہی لکھا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن میں غلط تھی امان بہت اچھے ہیں جانتی ہو انہوں نے مجھ سے نکاح کیا ہے۔۔۔“


” کیا؟؟ “ نور چیخی۔۔۔۔


” شادی ہوگئی بلایا بھی نہیں “


حبہ اِس کے معصومیت سے کہنے پے ہنس دی۔۔۔


” میرا بھائی مجھے خون بہا میں دے رہا تھا۔۔۔ امان نے اماں ابا سے بات کر کے راتوں رات مجھ سے نکاح کیا۔۔۔ اور پیسے دے کر بھائی کو بھی آزاد کروایا ورنہ شاید بھائی کو وہ لوگ مار دیتے۔۔۔“


نور کو آج امان پے ٹوٹ کے پیار آیا۔۔۔۔ حبہ اور نور ایک دوسرے کے گلے لگ کے خوب روئیں۔۔۔۔


کہاں وہ ایک دن بغیر ملے نہیں رہ سکتیں اور اب سالوں گزر گئےانہیں ملے ہوئے۔۔۔۔


دونوں کافی دیر باتیں کرتی رہیں۔۔۔ نور ہی سوال پوچھ رہی امان اور اسکے بارے میں حبہ تو اِسکی شادی سے واقف تھی۔۔۔ اس لیے کچھ نہیں پوچھا بس بچوں کی مبارک دی اور اِس کی حالت دیکھ کے کافی دفعہ نور کو تنگ کیا۔۔۔۔


” نور تم ایسے ہی رہو بہت کیوٹ لگ رہی ہو “


” شٹ اپ بہت بُری ہو تم “ وہ روہانسی ہوگئی سب ہی یہی کہ رہے تھے حتیٰ کے بی بی جان بھی۔۔۔


” بھائی اور کتنے باتیں ہیں کب ختم ہونگی بھئی“


آمان اور ازلان ایک ساتھ آئے امان نے نور کو دیکھ کے کہا۔۔۔ دونوں ایسے چپک کے بیٹھے تھیں جیسے ڈر ہو ابھی کوئی دونوں کو الگ کر دیگا۔۔۔


ازلان نے نور کی سوجی آنکھیں دیکھ کہ پوچھا۔۔۔۔


” نور تمہارے طبیعت ٹھیک ہے؟؟ “


” جی بس تھک گئی ہوں۔۔۔“ ازلان سے آج وہ نرم لہجے میں مخاطب ہوئی۔۔۔ جہاں ازلان حیران ہوا وہاں یہ بات بھی دماغ میں آئی کے اب ان کے سامنے غصہ تو کر نہیں سکتی۔۔۔۔


” آؤ چلو اب چلتیں ہیں ہنی بھی سو گیا ہے تم نے کچھ کھایا نہیں ہوگا۔۔۔؟؟؟ “


” كھانا کھایا تھا۔۔۔“ نور نے لہجے کو نارمل کرتے کہا۔۔۔ ورنہ وہ جو اس سے فرینک ہونے کی کوشش کر رہا تھا اسکو ضرور تگڑا جواب دیتی۔۔۔۔


” ہاں چڑیا جتنی تمھارے خوراک ہے جانتا ہوں “


” بھائی ہم ابھی یہیں ہیں “ امان نے اسی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔۔۔


” تو جاؤ روکا کس نے ہے “ جواب حاضر تھا۔۔۔۔


” دیکھ لو نور یہ عزت ہے تمھارے بھائی کی “


” بھائی “


” کیا ہوا؟؟؟ “ نور کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کے دونوں ہی پریشان ہوگئے۔۔۔۔


” تھوڑا نیچے جھکیں “


امان اسکی عجیب فرمائش سنتے ہوئے نیچے جھکا۔۔۔ نور نے اِس کی پیشانی پے بوسادیا اور اِس کے گلے لگ رونے لگی۔۔۔۔


” بھ۔۔۔ بھائی۔۔۔۔ بھائی۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔ بہت۔۔۔۔ چھ۔۔۔۔۔ اچھے۔۔۔۔ ہیں۔۔۔۔ “


” نور؟؟؟ “ ازلان نے اِس کے کندھے پے ہاتھ رکھا۔۔۔


” آ “ نور چیخی۔۔۔


” اَز۔۔۔ اَز۔۔۔ازلان“


” نور کیا ہوا؟؟ “


” ازلان اسے ہسپتال لے جانا ہوگا جلدی کرو “


ازلان نے بےتابی سے اسے اپنی بازوں میں اٹھایا اور ہسپتال لے آیا۔۔۔ تین گھنٹے سے مسلسل ازلان ٹہل رہا تھا پریشانی اِس کے چہرے سے عیاں تھی۔۔۔۔


” بیٹھ جاؤ ازلان “


” امان میری نور۔۔۔۔۔ تم نے سنا ڈاکٹر نے کیا کہا۔۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔ اسے کچھ ہوگیا تو میں بھی مر جاؤنگا۔۔۔۔۔ امان وہ مجھ سے ناراض رہے ٹھیک ہے لیکن مجھے چھوڑ کے۔۔۔۔ “


وہ امان کے گلے لگ کے بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔۔۔۔


” کچھ نہیں ہوگا حوصلہ رکھو “


ڈرائیور کے ساتھ امان نے ہنی اور حبہ کو گھر بھیج دیا ہبہ کا یہاں رہنا صحیح نہیں تھا۔۔۔


ڈاکٹر اوپریشن تھیٹر سے نکلتے ہی ان کی طرف بڑھی۔۔۔


” کونگریچولیشن مسٹر ازلان بیٹی ہوئی ہے “


ازلان اک جھٹکے سے روم کی طرف بڑھا۔۔۔ اسے بس نور کی فکر تھی۔۔۔۔ لیکن ڈاکٹر نے اسے اندر جانے سے روک دیا۔۔۔۔


” ڈاکٹر مجھے اپنی بیوی سے ملنا ہے۔۔۔۔“ وہ تیز لہجے میں کہتا انہیں غصّہ دلا گیا۔۔۔۔


” وہ بالکل ٹھیک ہیں بٹ تھوڑی کمزوری ہے۔۔۔ ابھی انجیکشن دیا ہے دو گھنٹے سے پہلے ہوش نہیں آئے گا۔۔۔“


ازلان گہرا سانس لیکر رہ گیا اور اپنے بیٹی کو دیکھنے لگا۔۔۔ جسے امان چھوڑ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔

ازلان کو وہ دن یاد آیا جب نور اِس کے بازوں میں تھی۔۔۔ بچی ہو بہ ہو نور کی کوپی تھی۔۔۔ ویسی ہی گوری رنگت گلابی گال چہرے کا ایک ایک نقش نور سے چرایا ہوا تھا۔۔۔۔ لیکن اسکی گردن پے وہ تل نہیں تھا۔۔۔


” ازلان “


” ہوں “ وہ چونکا۔۔۔


” نور بھی ایسی ہی تھی نا “


ازلان مسکرایا۔۔۔


” ہاں “


” یار بیٹیاں کتنی پیاری ہوتی ہیں۔۔۔ نور میرے لیے بھی میری بیٹی جیسے ہے۔۔۔ اور اب نور کی بیٹی میرا دِل چاہ رہا ہے۔۔۔۔ اسے سینے میں چھپا لوں دُنیا کی ہر بُری نظر سے بچا کے۔۔۔“


” ہاں امان سہی کہہ رہے ہو میں اِس پر کوئی بُری نظر پڑنے نہیں دونگا “


” امان میں فیضان کے پاس چلا جاؤنگا ہمیشہ کے لیے “


” یہ کیا بول رہو ہو ازلان؟؟؟؟ “


” ٹھیک کہہ رہا ہوں “ ازلان کو نجانے کیوں بیٹی کو دیکھ کر خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ اسے دیکھ کر نور کی وہ روئی روئی آنکھیں سامنے آرہی تھیں۔۔۔۔


” اس شہر کے ساتھ دردناک یادیں جڑی ہیں۔۔۔ اب میں مزید یہاں نہیں رہونگا “


امان نے سمجھ کے سر ہاں میں ہلایا دونوں نے بُرا وقت دیکھا تھا۔۔۔


” اب میری بیٹی دو بھی یار لے کر بیٹھ گئے ہو “


” کیوں دوں۔۔۔؟؟؟؟ نور کو دیتے تھے مجھے؟؟؟ “


” کیا یار اب بدلا لوگے۔۔۔؟؟ “


” ہاں “ ازلان مسکرایا۔۔۔


” اب دے بھی دو بولو تو کل ہی رخصتی کروا دوں حبہ کی۔۔۔؟؟ شادی تو کر چکے ہو “


” پِھر جلدی سے مجھے چچا بنانا “


امان چھینبپ گیا ازلان کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔۔۔۔۔


ڈرائیور کے آنے پے ازلان نے اس سے مٹھائی منگوا کے پورے ہسپتال میں بٹوائی۔۔۔۔


” بابا میری بیٹی کے لیے دعا کرنا۔۔۔“ ازلان نے اپنی بیٹی کا صدقہ اتارا اور ایک بزرگ سے دعا کروائی۔۔۔


” ازلان “ اس وقت وہ دونوں روم میں بیٹے تھے جہاں بچی کو رکھا گیا تھا۔۔۔۔


” ہوں؟؟ “


” امی ابو کو کال کر دی ہے اب کیا کریں۔۔۔؟؟ “ امان پریشان سا تھا۔۔۔۔


” کیا مطلب؟؟ “


” نور ان سے ناراض ہے۔۔۔ امی نے کتنی بار کہا نور سے انکی بات کر وا دو۔۔۔ لیکن نور نے صاف منع کر دیا “


” دیکھنا وہ خود بات کرلے گی بس ایک دفع ابو امی آجائیں تم بی بی جان کو لیکر آجاؤ میں یہاں ہو “ ازلان نے اسے تسلی دیتے ہوے کہا۔۔۔


امان کے جانے کے بعد ازلان نور کے قریب آیا اور اِس کی پیشانی پے بوسہ دیا۔۔۔


نور نے دھیرے دھیرے اپنے آنکھیں کھولیں اسکا سر بھاری ہو رہا تھا۔۔۔ اسنے خود پے جھکے ازلان کو دیکھا اور ذہن پے زور ڈال کے یاد کرنے لگی۔۔۔۔


” کیسی ہو نور؟؟؟ “


” ازلان میرا بےبی؟؟ “ ازلان مسکرایا۔۔۔


” بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔ تھینک یو سو مچ نور مجھے اتنی پیاری بیٹی دینے کے لیے۔۔۔“ وہ اسکے ہاتھوں کو اپنے لبوں سے لگاتا کہنے لگا۔۔۔۔


نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ مجھے نہیں۔۔۔۔ چاہیے۔۔۔۔۔ بیٹی نہیں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ میں نے اتنی دعائیں کی تھی کیوں میرے دعا قبول۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔ نہیں وہ میری بیٹی نہیں مجھے نہیں چاہیے۔۔۔۔۔“


نور بیڈ سے سر پٹکتے چیخ اٹھی۔۔۔ سر دائیں بائیں ہلاتے وہ رو رو کے خود کو ہلکان کر رہی تھی۔۔۔

ازلان کی حالت خراب ہوگئی اسکی یہ جنونی کیفیت دیکھ کر۔۔۔۔


” نور کیا کہہ رہی ہو بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔۔۔۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔۔۔ شکر ادا کرو نا کے رو اور خبر دار جو میری بیٹی کے بارے میں کچھ اُلٹا سیدھا کہا یا سوچا۔۔۔۔“

ازلان کا لہجہ آخر میں سخت ہو گیا۔۔۔


” اور انہی بیٹیوں کو آپ جیسا مرد اپنی پیر کی جوتی بناتا ہے۔۔۔ اس سے اچھا ہے کے یہ پیدا ہوتے ہی مرجائیں “


وہ جان چکا تھا اس کا جرم غلطی نہیں گناہ ہے جسکی سزا اسے بُھگتنی ہے لیکن اس طرح۔۔۔۔


نہیں۔۔۔ نہیں کیا اب بھی اسکے پیروں تلے زمین موجود ہے۔۔۔۔؟؟؟؟


☆.............☆.............☆

ازلان بیڈ پے اسکے ساتھ لیٹ گیا ایک نظر اسکے لرزتے وجودکو دیکھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے بازو سے کھینچ کر اسے اپنے سینے میں قید کر لیا۔۔۔۔ نور رونا دھونا بھول کر اس حرکت سے یک دم بوکھلاگئ تھی۔۔۔۔۔


” چھوڑیں مجھے۔۔۔“ وہ درشتی سے بولی۔۔۔


” جب تک روتی رہو گی میرے حصار میں قید رہوگی “


یہ لمس تو اسے سکون بخشتا تھا ازلان نے آنکھیں موند کر لب اسکے بالوں پے رکھ دیے۔۔۔۔


” کتنی مشکل سے یہ پل مجھے نصیب ہوۓ ہیں کیوں بھاگتی ہو مجھ سے اتنا۔۔۔؟؟؟ “


ازلان نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا۔۔۔۔


” آپ آج بھی اُتنے ہی وحشی ہیں۔۔۔!!! اب بھی زبردستی کر رہے ہیں۔۔۔ جب کے میں آپ کو اپنے پاس دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی۔۔۔۔ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں شدید نفرت “


وہ سرخ روئی روئی آنکھوں سے کہتی ہانپنے لگی۔۔۔۔ ازلان کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ طاری ہوگئ۔۔۔ اسکی ٹھوڑی پے گرفت خود با خود ڈھیلی پڑگئ۔۔۔۔ جس سوچ سے وہ کانپ اٹھتا تھا کتنی آسانی سے نور نے کہہ دیا۔۔۔۔ زلزلے سے تااثرات اسکے چہرے سے نمایاں تھے۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ازلان کے ہونٹوں پے مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔۔


” نفرت بتا رہی ہے کہہ

محبت غضب کی تھی “


نور نے غصّے سے اسکی شرٹ مٹھی میں جکڑ لی۔۔۔


” میں ابھی بھی اپنی بات پرقائم ہوں اگر اسی طرح روئی تو ساری زندگی اسے ہی میرے حصار میں قید رہوگی “


نور نے ہاتھ کی پشت سے آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کئے۔۔۔۔


” میں ایسا کچھ ہونے ہی نہیں دونگا وہ میری بیٹی ہے۔۔۔ نور مجھ سے جو گناہ ہوا ہے اسے میں ٹھیک تو نہیں کرسکتا۔۔۔۔ لیکن آج بھی اسکا در کھلا ہے اپنے بندوں کے لیے۔۔۔۔ سچے دل سے کی دعا انسان کے نصیب بدل دیتی ہے۔۔۔۔ میں بھی اس سے رو رو کر اپنی بیٹی کا نصیب مانگوں گا۔۔۔۔ ایک خوش حال زندگی اور اپنی جانِ عزیز کی معافی۔۔۔۔“


وہ اسے چھوڑ چکا تھا نور نے بیڈ پے لیٹتے ہی دوسری سائیڈ کروٹ لےلی۔۔۔ جسکا صاف مطلب تھا وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتی۔۔۔۔ ازلان نے اسکے پیروں پے پڑی چادر اٹھا کے اسکے اوپر اوڑائی نور ازلان کے جاتے ہی اسکی باتوں کو سوچنے لگی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


عنایہ روڈ کراس کر رہی تھی جب سامنے سے شاہ میر کی کار آتی دکھائی دی۔۔۔۔ وہ اپنے چار سالہ بیٹے احمد کے ساتھ ہسپتال آئی تھی۔۔۔۔ احمد کو سخت تیز بخار تھا عنایہ کل رات سے پریشان تھی۔۔۔۔ رو رو کر اس کا بُرا حال ہو گیا تھا۔۔۔۔ آج وہ اپنے بیٹے کا چیک اپ کرانے سرکاری ہسپتال آئی تھی۔۔۔۔ اب کیسے وہ اپنے حالات اپنے ماں باپ کو بتاتی۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔ اور باپ کے غصے سے بھی واقف تھی۔۔۔ وہ اپنے غلطی پے سخت پشیمان تھی۔۔۔۔۔ لیکن اب کیا فائدہ جب سب کچھ اِس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔۔۔۔


شاہ میر دوسرےروڈ پر تھا۔۔۔۔ اور اسے ہسپتال سے نکلتے دیکھ چکا تھا۔۔۔ اور اب روڈ کراس کر کے اسی کی طرف آرہا تھا۔۔۔

کار عنایہ کے پاس ایک جھٹکے سے رکی۔۔۔ شاہ میر اپنی بھر پور وجاہت کے ساتھ کار سے نکل کر اِس کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔


” تم یہاں کیسے؟؟ “


” وہ میں۔۔۔۔۔ احمد “


وہ نظریں جھکا کے بول رہی تھی۔۔۔ جیسے کوئی مجرم اپنی غلطی کا احتراف کرتا ہے۔۔۔


شاہ میر احمد کو دیکھنے لگا جو اِس کے کندھے پے سر رکھے سو چکا تھا۔۔۔ شاہ میر نے اپنا ہاتھ بڑھا کے احمد کے سر پے رکھا۔۔۔ جتنی تیزی سے ہاتھ رکھا تھا اتنی ہے تیزی سے ہٹایا۔۔۔۔ احمد بخار میں تپ رہا تھا۔۔۔ اسنے ہاتھ بڑھا کے اسے اٹھایا اور کار کی طرف چل دیا حکم تھا کے وہ بھی آجائے۔۔۔۔


عنایہ فوراً فرنٹ سیٹ پے میر کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔


” تم ہوش میں ہو اسے ناجانے کب سے بخار ہے اور تم اب اسے ہسپتال لے کر آ رہی ہو۔۔۔؟؟؟ “


وہ کار ریورس کرتے غصّے میں کہہ رہا تھا۔۔۔ عنایہ خاموش رہی۔۔۔


میر نے ایک نظر اس پے ڈالی وہ بے آواز رو رہی تھی اسکے آنسوؤں سے میر پریشان ہوگیا۔۔۔۔


" کچھ نہیں ہوگا عنایہ ہم ہسپتال جا رہے ہیں۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔“ وہ نرم لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔۔


” پلیز رَو نہیں اب کیا کان پکڑ لوں بچپن کی طرح “

وہ مصنوئی خفگی سے بولا۔۔۔۔


عنایہ تو اِس کی روئیے پے حیران تھی وہ کتنا عظیم انسان ہے ثانیہ واقعی بہت خوش قسمت ہے۔۔۔۔


” نہیں میں رَو نہیں رہی بس احمد کے لیے پرشان ہوں “


” سب ٹھیک ہوجائے گا “


” ڈونٹ وری اینڈ ٹرسٹ می “


” ہوں “


وہ اب اسے نظریں جھکاکے مخاطب ہوتی۔۔۔ اب اسے نظریں ملنے کی ہمت کہاں رہی تھی۔۔۔۔ میر احمد کو اپنے دوست کے پاس لے آیا۔۔۔ جو ڈاکٹر تھا اور شہر کے مشہور اسپتال میں جاب کرتا تھا۔۔۔۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کچھ دوائیں لکھ کے دیں۔۔۔ اور احمد کو کمزوری کے باعث ڈرپ لگا دی۔۔۔ میر اور عنایہ روم میں احمد کے ساتھ ہی تھے۔۔۔ دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی۔۔۔ عنایہ نے یاد آنے پے میر سے فون لیکر گھر کال کی اور بتا دیا کے اسے آنے میں دیر ہوگی۔۔۔۔


احمد کو اب گھر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔۔۔ میر نے فارمیسی اسٹور سے احمد کے سریلز لیکر عنایہ کو تھما دئے۔۔۔ اور کار سٹارٹ کر دی۔۔۔


کار عنایہ کے گھر کے پاس آکر رکی۔۔۔۔ عنایہ نکلنے لگی جب میر بولا۔۔۔


” عنایہ ہم آج بھی اچھے دوست ہیں۔۔۔۔۔ تم کیوں اجنبی بن گئی ہو۔۔۔؟؟؟ اگر تمہیں لگتا ہے میں ناراض ہوں تو تمہارے سوچ غلط ہے۔۔۔۔ میں اپنی پیاری دوست سے کبھی ناراض نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ پلیز اگر کوئی بھی پروبلم ہو مجھے کال کر دیا کرو آج میں نہ آتا تو۔۔۔؟؟؟ پلیز عنایہ مجھ پے احسان کرنا جب بھی کوئی پرابلم ہو مجھے کال کرنا۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اور خوش رہا کرو میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں “


عنایہ بھیگی آنکھوں سے بولی۔۔۔


آئی ایم سوری میر “


” یو آر سچ آ کائنڈ ہارٹڈ پرسن “


پِھر وہ رکی نہیں تھی احمد کو اٹھائے فوراً نکلتی چلی گئی۔۔۔


میر کار کی سیٹ پے سر رکھے سوچنے لگا۔۔۔۔


” عنایہ کیا ہوتا اگر یہ بات تم پہلے جان لیتیں “


میر کو اپنے گال بھیگتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔ اسے عنایا کے وہ لاتعلق الفاظ یاد آئے جن سے وہ بچپن سے پیچھا چُھرانا چاہتا ہے۔۔۔۔ اس سے ذیادہ دیر ٹھہرا نا گیا کار اسٹارٹ کی اور وہ آفس کی طرف نکل پڑا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مما میری بہن کہاں ہے؟؟ “


وہ بیڈ پے لیٹے چھت کو تک رہی تھی۔۔۔ اسے ہنی کی آواز پاس سے آتی محسوس ہوئی۔۔۔ وہ باہر سے ہی چلاتا ہوا اندر آیا۔۔۔۔


” ہنی “ اسکے قریب آتے ہی نور نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔


” ہنی میری ایک بات مانو گے۔۔۔؟؟؟ “ اسے خود سے زیادہ ہنی پے اعتبار تھا۔۔۔


” ہاں مما “ نور کی آنکھوں میں جو امید تھی ہنی نے اسے ٹوٹنے نہیں دیا تھا۔۔۔۔


” ہنی مجھ سے وعدہ کرو اپنی بہن کا خیال رکھو گے۔۔۔؟؟ “


اسکی لہجے کی پریشانی ہنی کو تشویش میں مبتلا کر گئی۔۔۔۔


” جی مما “


” اور اسکے لیے ہر روز دعا کروگے؟؟ “


” ہاں مما کرونگا آپ پریشان کیوں ہے؟؟؟ “


” تھی اب نہیں ہوں “ ہنی کا ہاتھ چھوڑ کے وہ مبہم سا مسکرائی۔۔۔


” ہم آجائیں؟؟؟ “


امان کے پیچھے کھڑے اپنے ماں باپ کو دیکھ کر نور کا سانس اٹک گیا۔۔۔ گلے میں گویا آنسوؤں کا پھندا اٹک گیا۔۔۔ کب یاد نہیں کیا تھا اس نے۔۔۔؟؟ کتنی ہی بار پکارا تھا۔۔۔ ایک مرتبہ بھی وہ اپنی بیٹی کو دیکھنے نہیں آئےکہ زندہ بھی ہے یا مرگئی۔۔۔۔


اسما کی نظریں نور پے تھیں جو انکے آتے ہی لاتعلق بنی جانے دیوار میں کیا ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔


” آپ بیٹھیں میں آتا ہوں “


امان ہنی کو اپنی ساتھ لیکر کمرے سے نکل گیا۔۔۔

اسما فوراً نور کی طرف آئیں۔۔۔ اور اسے کے چہرے کو بے تحاشہ چومنے لگیں۔۔۔ ساتھ روتی رہیں نور بھی بہتی ندی کو روک نہیں پائی۔۔۔۔


” نور میری بچی “


اسما کا محبت سے لبریز ممتا بھرا لہجا اس کے دل کو پھیگلا رہا تھا۔۔۔


” اپنی ماں سے ناراض ہو؟؟؟ “


” مجھے یہ حق حاصل نہیں۔۔۔“ اسکا لہجہ بیگانہ تھا۔۔۔۔


” نہیں۔۔۔۔ میری بچی سارے حق تمہیں ہی حاصل ہیں میری گڑیا اپنی ماں کو معاف نہیں کروگی؟؟ “


وہ سر جھکائے ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔۔


” نور میری جان “


” نہیں۔۔۔ نہیں ہوں میں آپکی جان۔۔۔ آپ آئے بھی لیکن صرف اپنے بیٹے کے لیے۔۔۔ بیٹی تو اسی وقت مرگئی تھی۔۔۔ جب نکاح کے بندھن میں اس سے باندھا تھا۔۔۔“ اعظم شاہ کا دل کٹ کہ رہ گیا بیٹی کی خوشی کے لیے تو انہوں نے اسکا نکاح ازلان سے کیا تھا۔۔۔ بہت پہلے وہ اسکی آنکھوں میں ازلان کا عکس دیکھ چکے تھے۔۔۔۔


” اللہ نا کرے کیا بول رہی ہو۔۔۔ اتنی بدگمان ہو میں نے تمہیں غلط ہاتھوں میں دیا نہیں۔۔۔ ابھی بولو تو اس گدھے کو تمہارے سامنے مرغا بناؤں “


وہ بہتی آنکھوں سے ہنس دی۔۔۔ اعظم شاہ نے اسے خود سے لگایا تو وہی لمحہ تھا جو وہ انکی آغوش میں اپنا غم مٹا گئی۔۔۔


” میں آپ دونوں کو ہر روز یاد کرتی آپ نہیں آتے تھے “


وہ کسی معصوم بچے کی طرح شکوہ کر رہی تھی جس پے اسما مسکرا دیں۔۔۔


” اب تمہیں خود سے دور ہی نہیں کرینگے “ اسما نے اسکی پیشانی چومتے کہا۔۔۔۔


وہ تینوں جب کمرے میں داخل ہوئے تو انکی نظر مسکراتی ہوئی نور پے گئی۔۔۔ اپنی زندگی کو یوں مسکراتے دیکھ ازلان کے دل میں سکون کی لہر اٹھی۔۔۔


” مما مجھے کوئی بےبی سے ملنے ہی نہیں دے رہا “ نور کا چہرہ سرخ پڑگیا بےبی کو تو اب تک اِس نے بھی نہیں دیکھا اُسے کیا بتاتی۔۔۔۔


” یار کہا تو ہے صبر کرو نرس ابھی دیکر جائے گی “

امان نے منہ بگاڑتے ہنی سے کہا۔۔۔


” ہنی اپنے امی ابو سے نہیں ملے “ اسما کا کہنا تھا وہ تو یکدم گھبرا گیا۔۔۔


” نہیں دادی امی وہ مجھے بےبی کو دیکھنے کی Exictement تھی اسلیے اب مل لوں۔۔۔“ وہ بھی انہی کی طرح اسما کو امی کہنے لگا تھا۔۔۔۔ کہتے ہی وہ دونوں سے ملکر اعظم شاہ کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔


” ازلان نور کو میں اپنے ساتھ لے جاؤنگا۔۔۔“ وہ اس سے اجازت نہیں لے رہے تھے اپنا حکم سنارہے تھے۔۔۔۔


” ابو ہم سب کچھ دنوں میں آجائیں گے ابھی نور کا ٹریول کرنا مناسب نہیں “


اعظم شاہ کو اسکی بات میں دم لگا تبھی خاموش ہوگئے۔۔۔۔


” ابو سب ساتھ ہی گاؤں چلیں گے “


” نہیں ہمیں آج ہی نکلنا ہے بی بی جان اور امان کو ساتھ لے جائیں گے۔۔۔ تین سالوں بعد میری بیٹی گھر آرہی ہے۔۔۔۔ تیاریاں بھی تو کرنی ہے اور ہاں میری نواسی کا عقیقہ حویلی میں ہوگا دھوم دھام سے کیوں صحیح کہا ناں حنان؟؟؟ “


” جی دادا ابو “ ازلان ابھی اسے منا لینا چاہتا تھا۔۔۔ گھر میں وہ اسے اہمیت نہیں دیتی وہاں جاکر تو اسے موقع مل جائے گا۔۔۔ گلابی کمبل میں لپیٹی بچی کو نرس نے ازلان کے ہاتھوں میں تھمایا۔۔۔ اسکہ ہاتھ کانپے تھے بچی کو دیکھتے ہی۔۔۔ اسے نور کے ساتھ ہونے والی گفتگو یاد آئی۔۔۔ یہ ننھا وجود اسکے دل کا ٹکڑا تھا سامنے ہی اعظم شاہ بیٹھے بچی کو دیکھنے کے لیے بےتاب تھے ازلان نے بچی انہیں تھما دی۔۔۔۔


” ابو میں نے اسکا نام سوچ لیا ہے “ امان نے ازلان کو دیکھتے کہا جو اسکی بات سمجھ کے مسکرا پڑا یعنی اب بچی پر پہلا حق وہ اپنا جاتا رہا تھا۔۔۔۔


” بولو؟؟؟ “


” حیا۔۔۔!! کیوں نور کیسا نام ہے؟؟؟ “ کہتے ہی امان نے نور کی رائے جاننا ضروری سمجھی۔۔۔


” بھائی جیسا آپ کو ٹھیک لگے مجھے تو نام بہت پسند آیا “


” پھر یہی نام ہوگا “


ازلان نے اعلان کرتے ہوے نور کو دیکھا جو منہ میں کچھ بڑبڑاتی ہوئی لیٹ گئی۔۔۔۔۔


” اسما بیس سال پرانا منظر یاد آگیا یہ ہو بہ ہو میری نور ہے اسکی آنکھیں دیکھو اسما “


نور کے دل میں درد کی لہر اٹھی وہ حیا کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی۔۔۔۔


اعظم شاہ اٹھ کے اسما کے پاس چلے آئے۔۔۔۔


” یہ زیبا ازلان دیکھو اسکی آنکھیں “


اسما نے ساتھ کھڑے ازلان کا بازو ہلایا اسکی نظر ان آنکھوں پے ٹھہر گئی۔۔۔ اسے اپنی ماں یاد تو نہیں لیکن تصویروں میں وہ انہیں دیکھ چکا تھا۔۔۔۔ شہد رنگ آنکھیں ہو بہ ہو اسکی ماں جیسی تھیں۔۔۔۔ ان سب میں ہنی تھا جو اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ جب یہ طویل لگنے لگا تو وہ اٹھ کے انکے پاس چلا آیا۔۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


میر عجلت میں سیڑھیاں چڑتا اوپر آیا وہ لاؤنچ میں بیٹھے نفوس کو نظرانداز کرتا اپنے کمرے میں آکر بند ہوگیا۔۔۔


نور جو مہمانوں کہ ساتھ بیٹھی تھی اسے ایک عجیب سے شرمندگی نے آن گھیر لیا۔۔۔ مہمانوں کے جانے کے بعد وہ میر کے کمرے میں آئی۔۔۔۔


نور جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی اندھیرے نے اسکا استقبال کیا۔۔۔ دروازہ بند کر کے اسنے لائٹ اون کی تو نظر بیڈ پے لیٹے میر پے پڑی جو جوتوں سمیت آنکھوں پے بازو رکھے لیٹا تھا۔۔۔


” ثانی لائٹ اوف کردو میری طبیعت ٹھیک نہیں “

وہ ہنوز اسی انداز میں لیٹا تھا۔۔۔


” میر کیا ہوا؟؟ “


نور نے آگے بڑھ کی اسکی پیشانی پے اپنا ہاتھ رکھا جو ہنوز موسم کے حساب سے نارمل تھی۔۔۔۔


میر نے بازو ہٹا دیے تھے وہ دنیا میں کسی کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔۔۔ لیکن سامنے بیٹھی اس ہستی کو نہیں جس نے زندگی کے ہر لمحے میں اسے صحیح مشورہ دیا تھا۔۔۔ جس کے فیصلے اسکی زندگی کو سنوار دیتے۔۔۔ آج بھی وہ اپنے فیصلے پے خوش تھا۔۔۔ لیکن دل میں کہیں ایک بےچینی تھی جو اُسے دیکھ کے ہوتی۔۔۔۔


” کس سے نظریں چرا رہے ہو ہنی؟؟؟ “


نور کو پاس بیٹھتے دیکھ وہ اٹھ گیا لیکن نظریں کلائی پے بندھی گھڑی پے جا روکیں۔۔۔۔ وہ آنکھیں پڑھنے کا فن جانتی تھی میر نظریں اٹھانے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔


” مما ثانی کہاں ہے؟؟ “


میر نے خود پے جمی نظروں سے جھنجلا کے پوچھا۔۔۔ نور اپنے سوال کا جواب نا پاکر اٹھی۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ جاتی ہنی نے اسکا ہاتھ پکڑ کے واپس بیٹھا دیا۔۔۔


” وہ آج ملی تھی مجھے۔۔۔ سرکاری ہوسپٹل کے باہر۔۔۔!! وہ بہت تکلیف میں ہے اسکی آنکھیں ہر پل اداس رہتی ہیں۔۔۔ وہ میرے سامنے ہچکچاتی ہے۔۔۔۔ مجھ سے بات کرنے سے گھبراتی ہے۔۔۔۔ وہ جو ہر وقت مجھ پے حکم چلاتی تھی۔۔۔۔ میرے پیسے لیکر اپنی من مانی کرتی تھی۔۔۔۔ اب اجنبی بن کے رہ گئی ہے۔۔۔۔“


وہ سامنے دیوار کو تکے اس سے مخاطب تھا۔۔۔۔


” کیا چاہتے ہو۔۔۔؟؟ “


نور کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے اتنی مشکل سے وہ سنبھلا تھا۔۔۔ اور آج ایک بار پھر وہ بکھر گیا۔۔۔۔ اس سب میں اس معصوم کی تو کوئی غلطی نہیں تھی۔۔۔۔ ثانی تو کتنی ڈری سہمی رہتی تھی۔۔۔۔ میر سے کتنی مشکلوں سے وہ عنایہ کو بُھلا پایا تھا۔۔۔۔


” آپ اُسکی ہیلپ کریں ایک بار وہاں ہوکر آئیں “


وہ امید بھری نظروں سے نور سے التجا کر رہا تھا۔۔۔۔


” ٹھیک ہے اور کچھ۔۔۔؟؟ “


” نہیں “


وہ نفی میں سر ہلاتا اب ریلکس تھا پھر خالی کمرے پے نظر پڑتے ہے ثانی کا خیال آیا۔۔۔۔


” اب تو بتا دیں ثانی کہاں ہے؟؟ “


” ہوسپٹل حیا کے ساتھ گئی ہے “


نور کے لہجے میں افسوس تھا۔۔۔


” ہوسپٹل؟؟ “


وہ یکدم پریشان سا ہوگیا فوراً جیب سے فون نکالا۔۔۔


” وہی اسکی ضد “


نور اسکی پریشانی بھانپ گئی ایک بات تو وہ سمجھ گئ تھی۔۔۔ ثانیہ میر کے دل میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے۔۔۔۔ پریشانی کی جگہ اب غصّہ تھا میر جتنا ثانی کو سمجھاتا۔۔۔ اتنی وہ بیوقوفوں والی حرکتیں کرتی۔۔۔ نا نور کی بات کا اس پے اثر ہوتا نا میر کی۔۔۔ وہ ہر لحاظ سے ایک پرفیکٹ بیوی اور بہو ہے۔۔۔ بس ایک اولاد نہ ہونے کا دکھ ہے جو اندر ہی اندر اسے کھاۓ جا رہا ہے۔۔۔۔ میر صابرو شکر ہے وہ نا ہی کسی میڈیسن پے یقین رکھتا ہے نا وظیفوں پے اسکے برعکس ثانی وہ ہر کام کرتی جس کے کرنے سے اولاد ملنے کی امید ہوتی۔۔۔۔


” حیا کا ٹیسٹ کیسا ہوا؟؟ “


میر نے موضوع بدلا۔۔۔


” صحیح ہوگیا بس اللہ‎ کرے ایڈمیشن ہوجائے مجھے تم تینوں نے اتنا پریشان نہیں کیا۔۔۔ جتنا اس لڑکی نے کیا ہے۔۔۔ کچھ بولو تو دونوں باپ بھائی شیر بن کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔“


حیا کے معاملے میں اگر میر اور ازلان کچھ پوچھیں تو نور نون سٹوپ شروع ہوجاتی ہے۔۔ میر نے مسکراہٹ روکنے کے لیے ہونٹ دانتوں تلے دبایا۔۔۔


” ہوجاۓ گا!! اوہ ہاں میں بتانا بھول گیا آج ڈنر باہر ہے۔۔۔ عمیر نے انوائٹ کیا ہے آج اسکے بھائی کا نکاح ہے “ میر نے یاد آنے پے نور کو بتایا۔۔۔


” ثانی کو لیجانا “ نور حکم دیتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ ایسا نہیں کے وہ ثانی کو لیجانا نہیں چاہتا۔۔۔ ثانی خود کو ایسے ماحول میں انفٹ فیل کرتی ہے۔۔۔ تبھی ہر بار منع کر دیتی۔۔۔ نور کے اسرار پر میر اب ضرور اُسے ساتھ لے جائے گا۔۔۔۔


” ثانی اور حیا دونوں کو “ نور کچھ نا بولی آگر حیا کے لیے منع کر دیتی تب بھی میر نے کونسااسکی بات ماننی تھی۔۔۔۔


” مما کوئی سوٹ نکال کے پریس کردیں۔۔۔ آپ کی بہو صاحبہ کا آنے کا ارادہ نہیں لگتا۔۔۔“ کہتے ہی وہ واشروم میں گھس گیا جبکے نور سوٹ نکال کے پریس کرنے چلی گئی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


نور کو ہسپتال سے آئے ایک ہفتہ ہو چلا تھا۔۔۔۔ بی بی جان کی غیر موجودگی کا بھی وہ خوب فائدہ اٹھا چکی تھی۔۔۔ ازلان سے لاتعلق تو تھی ہی لیکن حیا اسکا کیا قصور تھا۔۔۔۔ جو وہ اس معصوم کو سزا دے رہی تھی۔۔۔۔ نور نے ایک نظر بھی اپنی بیٹی پر نہیں ڈالی۔۔۔۔ اور یہی بات ازلان کو پریشان کر رہی تھی۔۔۔۔ ازلان رات میں حیا کو اپنے پاس سلاتا۔۔۔۔ جب کے دن بھر وہ اماں کے پاس رہتی۔۔۔۔ لمحہ لمحہ ازلان کو اذیت سے دو چار کر رہا تھا۔۔۔۔ اسے کبھی اندازہ نہیں ہوا ان سب کا۔۔۔۔ نور کی ذہنی حالت پے کیا اثر پڑیگا وہ جس کی دوسرے کے بچے میں جان اٹکتی تھی۔۔۔۔ کیسے وہ اپنی بچی سے لاتعلقی اختیار کر سکتی تھی۔۔۔۔ وہ اسے تنگ کرنے کے لیے یہ سب نہیں کر رہی اتنا تو وہ جانتا تھا۔۔۔۔ اس کے لیے وہ کبھی بھی اپنی بچی کو تکلیف نہیں پہنچائے گی۔۔۔۔


ازلان نے آج سوچ لیا تھا وہ نور سے بات کیے بنا نہیں جائے گا۔۔۔۔ وہ ہنی کے روم میں آیا نور اسے دیکھ چکی تھی۔۔۔۔ لیکن لاتعلق بنی فرش سے بکھڑے کھلونے سمیٹنے لگی۔۔۔۔


” نور مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔“ ازلان کو اپنا نظرانداز کرنا غصّہ دلا گیا۔۔۔۔


” لیکن مجھے نہیں کرنی “


ازلان نے غصے سے اِس کے ہاتھ میں موجود کھلونے جھپٹے اور بیڈ پے پھنک دیے۔۔۔۔ شانوں سے تھام کے وہ اسے اپنے مقابل کھڑا کر چکا تھا۔۔۔۔ نور کو اسکی سخت انگلیاں اپنے گھلوشت میں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں۔۔۔۔


” کیا قصور ہے حیا کا جو تم اسے دیکھتے ہی منہ پھیرلیتی ہو۔۔۔۔“ غصّے سے کہتے وہ یک دم بےبس سے ہوکر نرم پڑگیا


” وہ معصوم ہے نور۔۔۔۔ ایسا کیوں کر رہی ہو اس کے ساتھ۔۔۔۔؟؟؟ جانتی ہو اِس سے لاتعلقی اختیار کروگی تو وہ تم سے بدزہن ہوجائے گی۔۔۔۔ اولاد ماں کے سب سے ذیادہ قریب ہوتی ہے۔۔۔۔۔ نور میں اپنے کیے پے شرمندہ ہوں ضروری نہیں حیا کی زندگی میں بھی کوئی ازلان آئے۔۔۔۔۔۔ “


” آئے گا اور اس کہ ساتھ بھی وہی ھوگا۔۔۔۔ میں حیا کو اپنے پاس کبھی نہیں آنے دونگی۔۔۔۔ وہ دور رہے گی تو سہی ہے۔۔۔۔ کم سے کم اسے تکلیف تو نہیں ہوگی۔۔۔۔ وہ ہر غم برداشت کرلیگی میرے محبت اسے ضدی بنا دے گی۔۔۔۔ اپنے من مانیاں کرے گی وہ اور جب اس کی زندگی میں کوئی آپ جیسا شخص آئے گا۔۔۔۔ وہ ٹوٹ جائے گی۔۔۔ بکھر جائے گی۔۔۔ روئے گی۔۔۔ اور ایک وقت آئےگاجب وہ خود کو مارنے کی کوشش کرے گی۔۔۔۔ لیکن ضروری نہیں اس کے پاس بھی ہنی ہو جو اُس وقت اُس کی حفاظت کرے۔۔۔۔۔ “ دھماکہ ایسا تھا کے ازلان لڑکھڑا کے بیڈ پڑ ڈھےگیا۔۔۔۔


اس نے غصّے سے بیڈ شیٹ اپنی مٹھی میں جکڑ لی۔۔۔۔


” تم نے خود خوشی کرنی کی کوشش کی تھی۔۔۔۔؟؟؟ جواب دو۔۔۔۔؟؟ کیسے کر سکتی ہو تم ہمت کیسے ہوئی تمہاری۔۔۔۔؟؟ مانتا ہوں حیوان بنا ہوا تھا اس وقت۔۔۔۔ لیکن تم نے ہی تو کہا تھا میرے دکھ درد باٹنے آئی ہو۔۔۔۔؟؟؟ پھر۔۔۔۔؟ کیسے کمزور پڑ گئیں نور۔۔۔۔؟ “ وہ اسے جھنجوڑتے ہوئے جنونیت کی انتہا پے تھا۔۔۔


” ایک بار تو سوچتی اپنی محبت۔۔۔۔ “


” میں نے آپ سے کہا تھا نا مجھے امید کی وہ کرن بجھانی ہے میں اُسے بھجا چکی ہوں۔۔۔۔!!!! “


ازلان جانے کے لیے تیار کھڑا تھا کے نور نے شول اس کی طرف بڑھائی جو اسنے تھام کے اپنی گرد پھلائی۔۔۔۔


” ایک بات پوچھوں؟؟ “


” اجازت کیوں لے رہی ہو۔۔۔۔“


وہ ایک آئی برو اچکا کے پوچھنے لگا۔۔۔۔


” ڈر لگتا ہے۔۔۔؟؟ “


” پھر کیوں پوچھ رہی ہو “


” دل میں کہیں ایک امید کی کرن ہے اسے ہمیشہ کے لئے بجانا ہے “


” پوچھو!! “


” کبھی مجھ سے محبت ہوئی “


جان لیوا مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پے سجی تھی۔۔۔ ازلان نے لائٹر سے ہونٹوں کے بیچ دبا سگریٹ جلایا۔۔۔۔


” بے تکا سوال “


” تمہیں لگتا ہے مجھے جواب دینے کی ضرورت ہے “


” نہیں۔۔۔۔!!! جواب میں جانتی ہوں لیکن آپ سے سنا چاہتی ہوں۔۔۔۔“


” نہیں۔۔۔۔!!! کبھی تم سے ہمدردی نہیں ہوئی محبت تو خیر دور کی بات ہے “


وہ مذاق اڑانے والے انداز میں بولتا روم سے نکل گیا۔۔۔۔


ازلان نے اپنی آنکھیں سختی سے منچ لیں وہ اپنے پیروں پے خود کھلاڑی مار چکا ہے۔۔۔۔ وہ اب کبھی اسکا اعتبار نہیں کریگی۔۔۔۔


” مما بھوت لادی “


(مما بھوک لگی)


عمر آکر اسکی ٹانگوں سے لپٹ گیا نور نے اٹھا کے اسکا سر اپنے کندھے پے رکھا۔۔۔۔ ازلان کی سرخ آنکھیں جیسے بہنے کو بےچین تھیں۔۔۔۔ وہ کب سے ضبط کرتا ہونٹ بھینچے کھڑا تھا۔۔۔۔


” حیا تمہارے ساتھ سوئی گی “ ازلان نے جیسے اپنا حکم سنایا۔۔۔۔


” نہیں آپکے پاس ہی سوئے گی اگر وہ یہاں آئی تو میں دوسری روم میں شفٹ ہوجائونگی “


” پلیز نور یہ ظلم مت کرو “


وہ بےبسی کی انتہا پے تھا۔۔۔۔ کیسے وہ اپنی بیٹی کے زندگی بن ماں کا تصور کر سکتا ہے۔۔۔۔


” نہیں ازلان ظلم میں اپنے ساتھ کررہی ہوں اس کی بہتری کے لیے “


وہ عمر کو لیکر اسکے پہلو سے نکلتی چلی گئی اسے تنہا اور بے سکون کرکے۔۔۔۔


” آج کیوں تکلیف ہوتی ہے تمھیں میری بے رخی کی

تم ہی نے تو سکھایا ہے کیسے دل جلاتے ہیں! “


☆.............☆.............☆


” تم چلتی تو اچھا تھا “


میر شیروانی کے بٹن بند کرتا حیا سے گویا ہوا۔۔۔۔


” بھائی پھر کبھی “


وہ منہ پھلا کے ازلان کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔ اسکا دل تو بہت چاہ رہا تھا جانے کا۔۔۔۔ لیکن عمر نے جو اسکے بالوں کا گولہ غنڈہ بنایا تھا۔۔۔۔ اس وجہ سے وہ جا نہیں سکتی تھی۔۔۔۔ نکاح والے دن اسنے سر پے دوپٹا پہنا تھا۔۔۔۔ اور ٹیسٹ بھی وہ حجاب پہن کر دینے گئی تھی۔۔۔۔ لیکن اب شادی میں سر پے دوپٹا پہنا عجیب لگ رہا تھا۔۔۔۔


” حیا ثانی کو کہنا نیچے آجائے۔۔۔!! اللہ‎ حافظ بابا “


” فی امانِ للہ “


میر کے جواب میں ازلان نے کہا۔۔۔۔ حیا نے خراب موڈ سمیت ٹی وی اون کیا۔۔۔۔


” نور آئندہ میری بیٹی کو پارلر مت لیجانا کیا حال کیا ہے اسکے بالوں کا “


ازلان سخت غصّے میں آگیا حیا کا اوف موڈ دیکھ کر۔۔۔۔ نور نے اسے بتایا تھا یہ کارنامہ بیوٹیشن کا ہے۔۔۔۔۔


” اپنی بیٹی کو بولیں سر پے دوپٹا پہن لے “


حیا نے بگڑے موڈ کے ساتھ نور کو دیکھا جو حمزہ کی شرٹ پے بٹن لگا رہی تھی۔۔۔۔


” حیا میر کہاں ہے؟؟ “


” بھابی جلدی جائیں وہ باہر آپکا ویٹ کر رہے ہیں “


ثانی عجلت میں سب کو خدا حافظ کہتی باہر چلی گئی۔۔۔۔


” بابا اب مجھے یقین ہوگیا مما میری سٹیپ مدر ہیں“


حیا نے دھیرے سے ازلان کے کان میں سر گوشی کی جس پے ازلان مسکرایا۔۔۔۔


” میں نیچے جا رہی ہوں مما “ وہ ٹی وی کا ریموٹ ازلان کو تھما کر نیچے چلی آئی۔۔۔۔


” ہمم جلدی آجانا!!! “


” کیا کہا حیا نے آپ سے؟؟ “


” یہی کے اب اسے یقین آگیا تم اسکی سوتیلی ماں ہو “


ازلان ریموٹ سے چنیل چینج کرتا کہنے لگا۔۔۔۔


” ایک بات پوچھوں؟؟ “


وہ کڑے تیوروں سے ازلان کو گھوڑتی کہنے لگی۔۔۔۔


” دس پوچھو جان تمہیں کبھی منع کیا ہے؟؟ “


” مجھ پے تو بڑی پابندیاں لگاتے تھے دوپٹا سر پے لو، بغیر بتائے باہر مت جاؤ، جینز مت پہنو اور حیا اسے کچھ بھی نہیں کہا؟؟ “


ایک دم غصّے سے نور نے ریموٹ ازلان کے ہاتھ سے چھین کر ٹی وی اوف کردیا جو اسکی بات پر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔


” یار تمہاری بات الگ ہے اب بھی لگائیں ہیں۔۔۔ آخر بیوی ہو میری، میری ملکیت۔۔۔۔“ ازلان نے شرارت سے کہا پھر نور کا لال چہرہ دیکھ کے سنجیدہ ہوگیا۔۔۔۔


” نور ایسا نہیں کے میں نے حیا کو سمجھایا نہیں اُسکے جواب ہی ایسے ہوتے ہیں کے آگے سے میں کچھ کہ نہیں پاتا “


” مثلاً “ نور نے بے قراری سے پوچھا۔۔۔


” آپ کو مما نے کہا ہے۔۔۔؟ آپ مما کی زبان بول رہے ہیں۔۔۔“


نور ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔


” نور میری بات سنو حیا میں تمہیں کیا خرابی نظر آتی ہے۔۔۔۔؟؟ وہ ضد کرتی ہے لیکن معمولی چیزوں کی۔۔۔ تم نے کہا فون مت لےکر دو میں نے تمہاری بات مانی۔۔۔!!! حیا نے ضد کی لیکن صرف دو دن تک رہی۔۔۔۔ وہ گھر میں جسکا فون میلے خوشی خوشی لےکر گیمز کھیلنے بیٹھ جاتی۔۔۔۔ جس شخص کو ہم نے اس کے لیے پسند کیا۔۔۔ حیا نے بنا کسی چوں چرا کے شادی کرلی۔۔۔ اب بھی کہو گی وہ ضدی ہے۔۔۔۔؟؟ دیکھو نور ماں کا کام ہوتا ہے وہ اسے بیٹھ کر پیار سے سمجھائے۔۔۔۔ تم اسے یہی بات پیار سے سمجھائو گی۔۔۔ وہ مانے گی لیکن اسے حکم دوگی وہ کبھی نہیں مانے گی۔۔۔۔ اسکی جگہ آگر بھابی اسے ایک دفع بھی کہیں وہ مان جائے گی۔۔۔۔ جانتی ہو تمہارے بہیویر سے اسے ایک چڑ سے ہوگئی ہے۔۔۔۔ اس لیے وہ میری اور میر کی ہر نصیحت کو ” مما کی زبان بول رہی ہیں “ کہہ کر غصّہ ہوجاتی ہے تم جو کہتی ہو وہ اسکا الٹ کرتی ہے۔۔۔۔“


وہ نہایت نرم لہجے میں اسکا ہاتھ سہلاتا کہہ رہا تھا۔۔۔۔


” میں اُسے اپنی طرح ضدی نہیں بنانا چاہتی تھی۔۔۔ لیکن انجانے میں وہی کر بیٹھی۔۔۔۔ مجھے اسکا احساس تب ہوتا ہے جب وہ اہم مسائل بھابی سے شیر کرتی ہے۔۔۔۔ تب مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے بہت دور جا چکی ہے۔۔۔۔ “


وہ کرب سے اپنی غلطی کا اعتراف کر رہی تھی۔۔۔۔


” ایسا نہیں ہے نور۔۔۔۔!!! بس ایک دفع حیا سے بات کرو تم خود سمجھ جاؤ گی “


وہ اسے سمجھا رہا تھا لیکن نور سن ہی کہاں رہی تھی۔۔۔۔


” ازلان آپ کو میرا ضدی نیچر نہیں پسند۔۔۔۔ میرا جواب دینا نہیں پسند۔۔۔۔ مجھے لگتا تھا جیسے میں آپ کی آئیڈیل نہیں۔۔۔۔ اور یہی سب میں چاہتی تھی حیا میں بھی نہ ہو لیکن میں غلط تھی۔۔۔۔ “ وہ اپنی ہی دُھن میں کہے جا رہی تھی۔۔۔۔


” تم مجھے کبھی بُری نہیں لگی۔۔۔۔ بس اُس وقت میری آنکھوں پے انتقام کی پٹی چڑھی ہوئی تھی۔۔۔۔ تم جو کامصحیح کرتیں اُس پے بھی میں نقص نکلتا تھا۔۔۔۔ اور جانتی ہو اس بات کا شدید احساس مجھے تمہاری ذہنی کیفیت دیکھ کے ہوتا۔۔۔۔ جب تم حیا کو اگنور کرتیں تم اندازہ نہیں لگا سکتیں میں دن رات مرتا تھا۔۔۔۔ “


وہ اسکی آنکھوں میں نمی اترتا دیکھ چُپ ہوگیا۔۔۔۔ ازلان نے غلط بات چھیڑی تھی۔۔۔۔


” جب تک میں زندہ ہوں یہ سوچ دل سے نکال دو حیا تم سے بدذہن ہوگئی سمجھی۔۔۔!!! “


وہ اسکے آنسوں پونچھتا کہنے لگا نور ہلکے سے مسکرائی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

” میر آئی ایم سوری “


رات کو دو بجے وہ دونوں گھر لوٹے۔۔۔۔ میر نے پورے فنکشن کے دوران اس سے بات نہیں کی۔۔۔۔ ثانی سے اسکی ناراضگی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔ آخر وہ کب اس سے ناراض رہا ہے۔۔۔۔ کبھی میر نے اونچی آواز میں اس سے بات نہیں کی۔۔۔۔ وہ چاہتی تھی میر اسے ڈانٹے۔۔۔ شکوہ کرے۔۔۔ لیکن میر نے تو چپ رہنے کا فقل اپنایا ہوا تھا۔۔۔ جو ثانی کو بےچین کر رہا تھا۔۔۔۔


وہ تیزی سے اندر جاتے میر کے پیچھے اپنا بھاری فراک سنبھال کے چل رہی تھی کے یکدم میر کے رکنے سے وہ اسکی پشت سے ٹکرائی۔۔۔۔


” تم ٹھیک ہو؟؟ “


وہ اسے شانوں سے پکڑتا پوچھ رہا تھا۔۔۔


” جی “


وہ گھبرائی ہوئی تھی نہایت دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔۔


” تم اوپر جاؤ میں آرہا ہوں۔۔۔۔ اور سنو پریشان مت ہونا میں ناراض نہیں۔۔۔۔!!! “ میر نے اسکا گال تھپک کر کہا۔۔۔۔


وہ اپنا بھاری فراک سنبھالتی اوپر آگئی۔۔۔۔ اب وہ ُپر سکون تھی کے کم سے کم میر اس سے بےنیازی نہیں برتے گا۔۔۔۔


” کیا کر رہے ہو شاہ زر۔۔۔؟؟؟ ملتے ہی نہیں “


اسکے روم میں روشنی دیکھ کر میر نے ثانی کو جلد روم میں بھیج دیا۔۔۔ تاکہ وہ اسے بات کرسکے۔۔۔۔ سردمہری کی دیوار جو انکے بیچ حائل ہے۔۔۔۔ وہ اسے گرا سکے ان دونوں کا کم ہی سامنا ہوتا یا شاہ زر اسے دیکھتے ہی راستہ بدل دیتا۔۔۔ میر اس سے ہر رویے کی امید رکھتا ہے۔۔۔۔۔


شاہ زر نے ناگواریت سے میر کو دیکھا جو اسکے بیڈ پہ قبضہ کر چکا تھا۔۔۔۔


” پکوڑے تل رہا ہوں “


اسکے لہجے میں بےزاریت تھی۔۔۔ جسے میر نے محسوس کیا۔۔۔ شاہ زر اس وقت لیپ ٹاپ پے کوئی کام کر رہا تھا۔۔۔ فائلز اسکے ٹیبل پے بکھری ہوئیں تھیں۔۔۔۔


” کافی بزی رہنے لگے ہو “


میر نے بعد کرنے کےغرض سے ایک اور موضوع چھیڑا۔۔۔۔


” تمہاری طرح “


وہ تمہاری پے شوکڈ ہوا شاہ زر کبھی اسے اس طرح مخاطب نہیں کرتا۔۔۔۔


” پہلے آپ کہا کرتے تھے “


وہ کہے بغیر نا رہ سکا۔۔۔۔


” وہ مقام تم گواہ چکے ہو “


میر کی پیشانی پے پسینے کے ننھےقطرے نمودار ہوۓ اُسکا شک غلط نہیں تھا۔۔۔۔


” شاہ زر تم بد گمان ہو “


میر نے صفائی پیش کی۔۔۔


” پھر دور کردیں یہ بدگمانی “


وہ لاجواب ہوگیا۔۔۔ لیکن وہ کبھی اسے ” عنایا “ کے بارے میں نہیں بتا سکتا۔۔۔۔


” اس میں حیا کا کیا قصور۔۔۔۔؟؟ “ وہ اسکے روبرو کھڑا ہوگیا۔۔۔۔


” آپی کا کیا قصور تھا؟؟ “


جواب حاضر تھا۔۔۔۔


” حالت۔۔۔ “


” اوہ کم آن بھائی اب آپ کی کمزوری میری ہاتھ لگی ہے۔۔۔ تو پرانے گھسے پٹے ریزن دے رہے ہیں “


وہ شیطانی مسکراہٹ سمیت گویا ہوا میر کی رگیں تن گئیں۔۔۔۔


” کیا بکواس ہے جان سے نا ماردوں تمہیں “


وہ شاہ زر کا کالر پکڑتے چیخ پڑا۔۔۔۔


” بیوہ کرینگے اپنی بہن کو؟؟؟ “


وہ مسلسل اسکی کمزوری پے وار کر رہا تھا۔۔۔۔


” شاہ زر ایسا نا ہو کہ بد گمانی کا طویل سفر طے کرنے کا بعد تمہیں احساس ہو لیکن جب پیچھے دیکھو تو سب تباہ ہو چکا ہو “


” ہاہاہا کبھی ہم بھی بےبس تھے آج آپ ہیں۔۔۔۔ بہت تکلیف ہوتی ہے نا مجھے بھی ہوئی تھی۔۔۔۔ جب میری بہن تمہارے نام دلہن بن کے بیٹھی تھی۔۔۔۔ اور تم کمزور انسان آخر وقت میں اپنی محبت سے نکاح کر کے۔۔۔۔ اُسے میری بہن کے سامنے لا کھڑا کیا۔۔۔۔ کیسے بھول جاؤں میرے باپ کا جھکا سر۔۔۔۔؟؟؟ میری بہن کے آنسوؤں۔۔۔۔؟؟ وہ لوگوں کی رحم بھری نظریں کچھ نہیں بھول سکتا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔“


وہ چبا چبا کے ایک ایک لفظ کہتا اسے بہت کچھ باوقار کرا چکا تھا۔۔۔۔ میر کے لیے یہاں رُکنا مناسب نا تھا شاہ ذر کی آواز اتنی تیز ضرور تھی کے سوۓ نفوس کو اٹھا سکے۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


ازلان نے پھر نور سے حیا کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔۔۔ وہ آفس میں بزی رہنے کے باوجود حیا کے لیے جلدی آجاتا۔۔۔۔ وہ اس سے لاپرواہ تھی لیکن کبھی کبھی اسکے لیے ناشتہ بنا دیتی کپڑے پریس کر کے ملازمہ کے ساتھ بھیجوا دیتی۔۔۔۔ لیکن روم میں تو جیسے اس نے نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔۔۔


اس دوران اسما ایک ہفتہ آکر اسکے پاس روکیں تھیں۔۔۔ تب نور نے حیا کو اپنے پاس رکھا تھا۔۔۔۔ ابھی ازلان کا گاؤں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔۔۔ اُس نے اسما کے ذریعے اعظم شاہ کو پیغام بھیجا تھا۔۔۔۔


گزرتے دنوں کے ساتھ ہنی بھی نور کی حیا سے لاتعلقی پے پریشان تھا۔۔۔۔ جب بھی اسنے نور سے اس بارے میں پوچھا یا تو وہ بات بدل دیتی یا ایک ہی جملہ اسکی زبان پے رہتا ” تم ہو

نا “ ہنی چُپ رہ جاتا۔۔۔۔


حیا ازلان اور ہنی سے مانوس ہو چکی تھی۔۔۔۔ اسکول سے آتے ہی وہ پورے گھر میں اسی کو ڈھونڈتا۔۔۔۔ زیادہ وقت اسکا حیا کے ساتھ گزرتا۔۔۔۔ اسکے کام بھی وہ خود ہی کرتا چاہے وہ اس کا فیڈر بنانا ہو۔۔۔۔ کپڑے چینج کرنا ہو۔۔۔ اماں نے اسے سب سمجھایا تھا۔۔۔۔ امان ہر ہفتے ان سے ملنے آتا اپنا خالی گھر اسے کاٹنے کو دوڑتا۔۔۔۔ امان چاہتا تھا وہ انکے ساتھ رہے جب کے ازلان اس گاؤں کا سایہ تک حیا پے پڑھنے نہیں دینا چاہتا۔۔۔۔ تبھی وہ کسی نا کسی بہانے اعظم شاہ کو ٹالتا رہتا۔۔۔۔ ان دونوں ویسے بھی وہ لاہور جانے کی تیاری میں تھا۔۔۔۔ اس دفع امان اپنے ساتھ بی بی جان کو بھی لایا تھا۔۔۔۔ جو نور کی حرکت دیکھ آگ بگولہ ہوگئی۔۔۔۔ لیکن اتنی لمبی تقریر کا بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوا اسکا رویہ ویسے ہی تھا۔۔۔۔


وہ جو ہر وقت نور کے رویے سے پریشان رہنے لگا تھا۔۔۔۔ آج ایک امید اسکے دل میں جاگی تھی مانوس سے خوشبو اسکے آس پاس تھی۔۔۔۔ وہ نیند میں اسے محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔ ہوا کی سرد جھونکے نے اسکے آنچل کو لہرایا تو وہ اڑتا ہوا کروٹ لیٹے ازلان کے نیچے دب گیا۔۔۔۔ ازلان نے مندی مندی آنکھیں کھولیں تو وہ اسکے ہاتھوں پے چہرے پے اسکے سرخ پیروں پے اپنے ہونٹ رکھ رہی تھی۔۔۔۔ حیا نیند میں تھوڑا سا کسمسائی تو نور اسکے اٹھنے کے ڈر سے فوراً اس سے دور ہوئی۔۔۔۔ نظر اپنے کندھے پے گئی جہاں اب دوپٹا نہیں تھا۔۔۔۔ وہ ازلان کے نیچے دبا تھا وہ دبے پاؤں اسکے قریب آئی۔۔۔۔ شش وپنج میں مبتلا کھڑی سوچتی رہی کے دوپٹا لے یا نہیں۔۔۔۔ اگر نا لیتی تو ازلان ضرور یہ سمجھتا وہ اسکے سامنے کمزور پڑ گئی۔۔۔۔ نور نے دھیرے سے دوپٹا کھنچا اسی وقت ازلان نے دوسری سائیڈ کروٹ لی نور جلدی سے دوپٹا نکال کے کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔ ازلان اسکی خوشبو کو محسوس کرتا نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔۔۔۔


بی بی جان کے آنے سے یہ ہوا تھا کے اب وہ ساتھ ڈنر کرتے۔۔۔۔ ورنہ وہ تو تین چار دن گزر جانے کے بعد کہیں جاکے ازلان کو نظر آتی۔۔۔۔ ہر وقت کمرے میں بند رہنا اسکا پسندیدہ مشغلہ بن چکا تھا۔۔۔۔ جب وہ ڈائننگ ٹیبل پے آتی تو ازلان کی نظریں ہٹنے سے انکاری ہوتیں۔۔۔۔ نور غصہ پی کہ رہ جاتی ایک دو دفعہ ازلان نے ڈائننگ ٹیبل پے اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اسکا پیر برُی طرح زخمی ہوکر رہ گیا۔۔۔۔ ازلان نور کے آنے کے بعد ہی آتا اور ہنی کو وارن کر رکھا تھا کے بی بی جان کے پاس بیٹھے۔۔۔۔ اس طرح نور کو مجبورً ازلان کے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔۔۔۔ اٹھتی تو بی بی جان کی ڈانٹ سنی پڑتی۔۔۔۔ ازلان موقعے کا فائدہ اٹھا کے اسکا ہاتھ پکڑ لیتا۔۔۔۔ پہلے دن تو نور کے پاس ہتھیار نہ تھا۔۔۔۔ دوسرے دن وہ پوری تیاری کے ساتھ آئی تھی۔۔۔۔ اپنی پنسل ہیل سے ازلان کا پیر بُری طرح کچل ڈالا۔۔۔۔ لیکن وہ باز آنے والا کہاں تھا۔۔۔۔؟؟


ہفتے کا دن امان رات کو ہی آگیا تھا۔۔۔۔ لنچ کے بعد سب اپنے کمروں میں تھے۔۔۔۔ ازلان ہفتے کے دن جلد ہی لوٹ آتا۔۔۔۔ وہ صبح سے ہنی کا پروجیکٹ بنا رہی تھی۔۔۔۔ جو شام میں جاکے مکمل ہوا وہ حمزہ اور عمر کو لینے کے ارادے سے ازلان کے روم میں آئی۔۔۔۔ ازلان لیپ ٹاپ پے کوئی کام کر رہا تھا۔۔۔۔ جب کے عمر کبھی اسکے کندھے پے چڑتا ۔۔۔ کبھی اسکی گود میں بیٹھنے کی کوشش کرتا۔۔۔ حیا لیمن کلر کے لان کے فروک میں ملبوس گڑیا کو پکڑے اپنے منہ میں ڈال رہی تھی۔۔۔۔ نور عمر کو اٹھانے کے غرضسے اسکی طرف بڑھی دوسری طرف حمزہ چھ ماں کی حیا کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔ وہ اسکے پیر کو کھنچنے لگا کے حیا دھرام سے نیچے گری سڑھیوں سے لڑھکتے وہ خون میں لت پت ہوچکی تھی۔۔۔۔ بیڈ پے چڑنے کے لیے نیچے تین سیڑھیاں تھیں۔۔۔۔ نور یکدم پلٹی حیا کا سور وجود زمین بوس ہوچکا تھا۔۔۔۔ اسکے منہ سے نکلنے والی چیخ سے امان واشروم سے باہر نکلا۔۔۔۔ سب سے پہلے ہوش ازلان کو آیا وہ حیا کو اٹھائے سیڑھیاں پھلانگتا نیچے آیا۔۔۔۔۔ نور بھی اسکے پیچھے بھاگی۔۔۔۔ جب کے امان نے اماں کو اوپر بچوں کے پاس بھیجا وہ دوسرے کار لیکر انکے پیچھے نکل پڑا۔۔۔۔۔


وہ اسپتال کے کوریڈور میں پریشانی سے ٹہل رہا تھا۔۔۔۔ نور نے رَو رَو کے اپنی حالت خراب کر لی۔۔۔۔ امان اسے سمجھا رہا تھا جبکہ ازلان کو خود کا ہوش نہیں تھا۔۔۔۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اسے سانس آنا بند ہوگئی ہو۔۔۔۔۔


جیسے ہی روم کا دروازہ کھلا ازلان ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔۔۔۔


” شی اِس فائن ڈونٹ وری ہلکی سے چوٹ ہے “


” ہلکی سے ڈاکٹر اپنے دیکھا اس کا خون بہہ رہا تھا “


وہ پریشانی اور غصّے کے ملے جلے تااثرات کے ساتھ ڈاکٹر کو بتا رہا تھا۔۔۔۔


” مسٹر ازلان اب وہ ٹھیک ہے چاہے تو گھر لے جائیں لیکن اس کا خیال رکھا کریں “


نور اندر بڑھی اور حیا کو اٹھا کے اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔۔ وہ اسکے ہاتھوں کو پیروں کو چہرے کے ایک ایک نقش کو چومنے لگی ساتھ اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے۔۔۔۔


ازلان کے دِل میں سکون اُتر آیا آج اسے امی کی بات پے یقین آگیا اللہ جو کرتا ہے اچھے کے لیے کرتا ہے۔۔۔۔


یہ منظر ازلان نے موبائل میں قید کرلیا۔۔۔۔


گھر پہنچتے ہی ازلان نے سب کو تسلی دی۔۔۔۔ نور اب بس ہر وقت حیا کو اپنے ساتھ رکھتی امان نے باقاعدہ اسے ٹوکا تھا۔۔۔۔


” بیٹا بچ کے رہنا ان تینوں نے اپنی ٹیم بنا لی ہے “ تینوں سے مراد ہنی حیا اور نور۔۔۔۔ ازلان بس مسکرا کہ رہ گیا۔۔۔۔ اسکے وجود میں جو سکون دوڑ رہا تھا۔۔۔۔ اسکا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔۔۔۔ کوئی اسکی دولت لے لے لیکن یہ سکون اسکا مقدر بنا دے۔۔۔۔۔۔


” بی بی جان آپ کبھی میرا درد نہیں سمجھ سکتی وہ آپ کا اکلوتا پوتا ہے تو معاف کردوں اُسے۔۔۔۔۔؟؟ اُسکا دکھ درد دکھتا ہے آپ کو میرا نہیں۔۔۔۔؟؟ میں اپنی بربادی کا زمہ دار کس کو ٹھہراؤں۔۔۔۔ عمر کے مجرم تو جیل میں ہیں۔۔۔۔ میں کہاں کس عدالت میں جاؤں۔۔۔۔؟؟ بولیں۔۔۔۔؟؟ سترہ سال آپ نے اور امی نے میرے تباہ کیے۔۔۔۔


محبت۔۔۔۔؟؟ اُسے پتا بھی تھا نور نام کا وجود اسکے نام پر بیٹھا ہے۔۔۔۔؟؟ وہ شخص کبھی مجھ سے محبت نہیں کر سکتا۔۔۔۔ سب اُسکے لیے اہم ہو سکتے ہیں لیکن نور کبھی نہیں۔۔۔۔ میں نے تین سالوں میں ایک دن سکون کا نہیں گزارا۔۔۔۔ مرنا چاہا تو مر بھی نا سکی۔۔۔۔ دیکھیں میری قسمت ہر جگا مجھے دھوکہ دیگی۔۔۔ اور یہ۔۔۔۔۔“ نور نے اپنی گودھ میں سوئی حیا کو اٹھا کر زور سے سینے میں بھنچ لیا۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں سے گرم سیال بہہ رہا تھا۔۔۔۔ حیا کو وہ کچھ دیر پہلے ہسپتال سے لائی تھی اسکے ماتھے پر ابھی بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔۔۔


” ازلان سے نفرت میں میں اس قدر بڑھ گئی کے اپنی ہی بچی کے لیے بد دعا کی تاکے اس کی بیٹی بھی ظلم کا یہ ذائقہ چکھے۔۔۔۔۔ “ نور نے حیا کو واپس گود میں لٹایا۔۔۔۔ اسے ماتھے پر بندھی پٹی پر ہاتھ پھیر کر اسنے اپنے گلابی ہونٹ زخم زدہ ماتھے پر رکھے۔۔۔۔۔ پھر اپنے آنسوں پونچھتے بی بی جان سے کہا جو خود شرمندہ نظر آرہیں تھیں۔۔۔۔


” آپ سن لیں نفرت ہے۔۔۔۔ شدید نفرت ہے مجھے آپ کے پوتے سے۔۔۔ وہ میری پیر بھی پکڑ لے تب بھی اسے معاف نہیں کرونگی آئی ہیٹ ہر۔۔۔۔“ وہ بول رہی تھی لیکن باہر کھڑا ازلان خود کو یہاں مزید نا رک پایا۔۔۔۔


بی بی جان نے ازلان کی حالت دیکھتے آج پھر نور سے بات کی۔۔۔۔ کے وہ بچوں کو لیکر ازلان کے روم میں شفٹ ہوجائے۔۔۔۔ اتنا سخت رویہ نہ رکھے لیکن وہ تو سنتے ہی چیخ پڑی۔۔۔۔ ازلان آج خوش تھا تبھی وہ یہ خبر بی بی جان کو سنانے آیا تھا۔۔۔۔ لیکن ان الفاظوں نے اسے ذمین میں دھنس دیا۔۔۔۔ اسکو اپنا وجود آگ میں لِپٹا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔


نور کافی دیر کشمکش کا شکار رہی کے اندر جائے یا نہیں۔۔۔۔؟؟ حیا کا فیڈر اندر رکھا تھا نور نے ملازمہ کو لینے بھیجا تو ازلان کی حالت دیکھ وہ گھبرا کے وہ باہر آگئی۔۔۔۔ اس نے حیا کو نیو فیڈر نکال کے فیڈ کرایا۔۔۔۔ تو وہ رونے لگی نجانے کیسے جان جاتی تھی اپنی چیزوں کو اب وہ۔۔۔۔ رو رو کر ہلکان ہو چکی تھی اسے چپ کراتے نور خود نڈھال سی ہوگئی۔۔۔۔


اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو وہ کُھلتا چلا گیا نور نے کانپتی ٹانگوں سے پہلا قدم بڑھایا۔۔۔۔ سامنے کا منظر اسکے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔۔۔۔ ٹیبل پر شراب کی بوتل رکھی تھی۔۔۔۔ ازلان بیڈ پر لیٹا تھا۔۔۔۔ سائیڈ پر شیشے کے گلاس میں آدھی شراب پڑی تھی۔۔۔۔ نور نے بنا آواز کیے قدم بڑھائے۔۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ بیڈ پر رکھا حیا کا فیڈر اٹھاتی ازلان نے اسکی کلائی پکڑ کے اسے پاس بٹھایا۔۔۔۔ وہ خود بھی اٹھ کے بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔۔


” میں۔۔۔ تمہاری۔۔۔ آمد۔۔۔ سے اٹھ۔۔۔ چکا تھا۔۔۔ آ۔۔۔ دیکھو تمہیں تنگ کرتا ہوں نا۔۔۔ اب مجھے بھی تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔۔“ دوسرے ہاتھ سے ازلان نے اپنے دُکھتے سر کو سنبھالا۔۔۔۔


” تم۔۔۔ کیوں۔۔۔ چلی۔۔۔ جاتی ہو۔۔۔ مجھے۔۔۔ چھو۔۔۔ چھوڑ۔۔۔ کے۔۔۔۔؟؟


بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ تم۔۔۔ نے۔۔۔ کہا نفرت کرتی ہو مجھ سے۔۔۔ جھوٹ کہا تھا نا۔۔۔؟؟ بو۔۔۔ لو۔۔۔ جھوٹ تھا نا۔۔۔“


” چھوڑیں میرا ہاتھ سچ کہا تھا۔۔۔ تا کے آپ اپنی لمٹس میں رہیں۔۔۔۔ میں یہاں صرف بچوں کی وجہ سے ہوں۔۔۔“


وہ تو یہی سمجھی تھی کے ازلان معافی والے دن کی بات کر رہا ہے۔۔۔۔ جب نور نے اس سے نفرت کا اظہار کیا تھا اسے کیا پتا آج وہ پھر ٹوٹا ہے۔۔۔۔


” جھوٹ۔۔۔ جھوٹ کہتی ہو تم۔۔۔ “ اس نے سائیڈ پڑا گلاس زور سے اٹھا کے زمین پر دے مارا نور پوری جان سے کانپ اٹھی۔۔۔۔


” پلیز۔۔۔ صرف۔۔۔ایک بار کہو۔۔۔ مجھ۔۔ سے۔۔۔محبت کرتی ہو۔۔۔ جسٹ۔۔۔ لاسٹ۔۔۔ ٹائم۔۔۔۔ ورنہ میرا دل بند ہوجائے گا۔۔۔ پلیز۔۔۔“


اس نے بامشکل غصّے کو قابو کرتے اسکی کلائی چھوڑ دی۔۔۔ اور اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھام کے گویا ہوا۔۔۔۔


” لیو میں مسٹر ازلان یہ سچ ہے میں نے کبھی اس سچ کو مانا تھا۔۔۔۔ بلکے مانتی ہوں کے آپ نفرت کرتے ہیں مجھ سے۔۔۔۔ آپ بھی خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آئیں۔۔۔۔“ نور نے اسکا ہاتھ جھٹکا اور فیڈر اٹھاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔


اسنے قدم بڑھا کے روم سے نکلنا چاہا لیکن ڈریسنگ تک پہنچ کے وہ اسکی راہ میں پھر حائل ہوگیا۔۔۔۔


” نہیں۔۔۔ تم۔۔۔ ایسے نہیں جا سکتیں۔۔۔ مجھے پاگل۔۔۔ کر۔۔۔ دیا۔۔۔ ہے۔۔۔ تم۔۔۔ نے۔۔۔ اپنے قریب نہیں۔۔۔آنے۔۔۔ دیتیں۔۔۔ تمہیں۔۔۔ دیکھوں۔۔۔۔ تو۔۔۔ وہاں۔۔۔ سے۔۔۔ بھاگ۔۔۔ جاتی۔۔ ہو پل ۔۔بھر کی خوشی دے کر۔۔۔ تم مجھے۔۔۔چھونے۔۔۔نہیں۔۔۔دیتیں۔۔۔۔ “


ازلان نے کہتے ہی اسکی گردن پر موجود اس تل کو چھونا چاہا پر وہ پیچھے کھسک گئی۔۔۔۔ جتنی وہ اسکے سامنے بہادر بن رہی تھی۔۔۔۔ اسکا دل اندر سے سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔۔ اس وقت وہ ہوش میں نہیں تھا بس کسی طرح وہ یہاں سے نکل جائے۔۔۔۔


اسکے ہاتھ جھٹکنے پر ازلان نے اسکی کمر جکڑی آج وہ اسے معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔۔


” نہیں۔۔۔ آج نہیں۔۔۔ پلیز۔۔۔ بس ایک بار کہ۔۔۔ دو۔۔۔ تمہیں مجھ۔۔۔ سے۔۔۔ محبت ہے۔۔۔ یقین کرو۔۔۔ میں تمہیں ہیروں میں تول دونگا۔۔۔۔“ وہ ایک جذب کے عالَم میں کہ رہا تھا کیا کچھ نا تھا لہجے میں محبت،تڑپ، بےقراری،جنونیت۔۔۔


” آئ ہیٹ یو “ نور کی چیخ پورے کمرے میں گونجی۔۔۔۔


” دوبارہ کہو۔۔۔ نفرت ہے ہاں۔۔۔؟؟؟ نفرت۔۔۔۔۔“


وہ بھی اسکی طرح دھاڑ اٹھا۔۔۔ پھر پوری قوت سے ہاتھ کا مکا بنا کر ڈریسنگ کے شیشے پر دے مارا۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈریسنگ ٹیبل خون سے لت پت ہوگئی۔۔۔۔ نور کے ہاتھ سے فیڈر چھوٹ کر ذمین پر جاگرا اس کے حواس جب بیدار ہوئے تو اس نے فوراً ازلان کا ہاتھ تھاما۔۔۔۔


” یہ۔۔۔۔ ازلان۔۔۔۔ یہ اتنا خون۔۔۔۔ یہ آپ۔۔۔ نے۔۔۔کیا۔۔۔ کیا۔۔۔ یہ خون “


نور بہتی آنسوؤں سمیت گویا ہوئی۔۔۔ نور نے ازلان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ نہیں دیکھی۔۔۔ نور کو اپنی لیے روتا دیکھ اسکی مسکراہٹ گہری ہوگئی اس نے جھٹ سے ہاتھ چھڑوایا۔۔۔۔


” تم۔۔۔ تو۔۔۔ نفرت۔۔۔ کرتی۔۔۔ ہو۔۔۔ نا۔۔۔ پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ کیوں رو رہی۔۔۔ ہو۔۔۔ مرنے دو۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ کیا فائدہ۔۔۔ جب۔۔۔ تم۔۔۔ ہی۔۔۔پاس۔۔۔ نہیں آنے۔۔۔ دیتیں۔۔۔“


نور کو جیسے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔ اسنے ازلان کا ہاتھ تھاما اسے بیڈ پڑ بیٹھا کر وہ یہاں وہاں فرسٹ ایڈ باکس ڈھونڈنے لگی۔۔۔۔ ناکام ہونے کی صورت میں اسنے اپنا دوپٹا پھاڑا ازلان اسکی ایک ایک حرکت دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اسے بہتے خون کی پروا نہیں تھی۔۔۔۔ بس وہ یہیں رہے اسے چھوڑ کے نا جائے۔۔۔۔


” نہیں۔۔۔ جب۔۔۔ پیار۔۔۔ نہیں۔۔۔ تو یہ۔۔۔ مہربانی کیوں۔۔۔؟؟ لیو می۔۔۔۔“ اس نے اپنا اسکی پہنچ سے دور کیا۔۔۔۔


” ازلان دیکھیں کتنا۔۔۔ خون۔۔۔ بہہ۔۔۔ رہا ہے۔۔۔ پلیز۔۔۔“ وہ رو رہی تھی اسکے لیے۔۔۔ اسکی آنکھیں اسکے دل کا حال سنا رہیں تھیں۔۔۔


” میرا۔۔۔ قریب۔۔۔ آنا۔۔۔ پسند نہیں۔۔۔ نا۔۔۔ نفرت ہے۔۔۔ نا۔۔۔۔؟؟ تو کیوں پروا ہے۔۔۔ مر جاؤں جان۔۔۔ چھوٹے گی تمہاری۔۔۔ “


” نہیں ہے نفرت سنا آپ نے نہیں ہے۔۔۔ “ اس نے ایک بار پھر اسکا ہاتھ تھاما اس دفع ازلان نے ہاتھ نہیں کھینچا۔۔۔۔ چپ چاپ اسے دیکھے گیا اسکی گیلی پلکیں سرخ کپکپاتے ہونٹ۔۔۔۔ ماں بننے کے بعد وہ پہلی سے زیادہ خوبصورت ہوگئی تو ایک ممتا بھرا نور تھا اسکے چہرے پر۔۔۔۔


” میں۔۔۔ چھونا چاہتا ہو تمہیں۔۔۔ “ نور نے بھیگی آنکھیں اٹھائیں تو دنگ سے رہ گئ۔۔۔۔ وہ مسکرا رہا تھا اپنا ہاتھ بڑھا کے دل کی خواہش پر عمل کر رہا تھا۔۔۔ یہاں اسکی جان جا رہی تھی اور وہ۔۔۔؟؟ ناٹک تھا یہ سب۔۔۔۔؟؟ ایک بار پھر وہ اسکی سامنے بکھر گئی۔۔۔۔؟؟؟ مجبور کیا تھا ازلان نے اسے نور نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔


” ناٹک۔۔۔ جان بوجھ کے کیا مجھے کمزور بنانا چاہتے تھے۔۔۔؟؟ ہر بار یہی کرتے ہیں۔۔۔ آئ۔۔۔ ہیٹ۔۔۔۔ نہیں نا نفرت نا محبت۔۔۔ کوئی رشتہ نہیں۔۔۔۔“ اس نے بیدردی سے آنسوؤں پونچے وہ پٹی باندھ کے اٹھ چکی تھی۔۔۔۔


” نور روکو۔۔۔ تم نہیں جا۔۔۔ سکتیں۔۔۔ “ نور نے زمین سے فیڈر اٹھایا اور باہر کی طرف چل دی وہ اسکے پیچھے چلاتا رہا۔۔۔۔


” روک جاؤ نور۔۔۔ تم۔۔۔ نہیں جا سکتیں۔۔۔ “ وہ چیخ رہا تھا۔۔۔۔


” مجھے۔۔ چھوڑ کے۔۔۔ مت۔۔۔ “ اسکے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے شراب کا نشہ اس پر حاوی ہو چکا تھا۔۔۔ اس دشمن جاں کے جاتے ہی اسکی آنکھ سے ایک موتی ٹپکا تھا۔۔۔ اور وہ نشے میں لت پت بیڈ پڑ ڈھے گیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ تیزی سے کمرے میں داخل ہوا اور اپنا سلیپنگ گاؤن لیکر ڈریسنگ روم میں بند ہوگیا۔۔۔۔ جب باہر نکلا تو اسکی نظر بیڈ پے سوئی ثانی پے ٹک گئی جو اسکے انتظار میں بیٹی اُسی پوزیشن میں سو گئی۔۔۔


وہ تھکے تھکے قدموں سے بالکنی میں چلا آیا۔۔۔ آج پھر اسکے ذہن میں زندگی کی تلق یادیں اُبھریں۔۔۔۔ اسکے کانوں میں وہی آوزیں گونجنے لگیں۔۔۔۔


” پاگل “


” نفسیاتی مریض “


زندگی کی تلخ حقیقتوں سے وہ آج بھی پیچھا نہیں چھوڑا سکتا۔۔۔۔


بچپن میں وہ ماں کے لمس سے محروم رہا۔۔۔ لیکن باپ کا شفقت بھرا سایہ ہر وقت اسکے ساتھ رہا۔۔۔۔ یہی وجہ تھی کے اسے ماں کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔۔۔۔ لیکن جب اسکے دوست اپنا لنچ باکس لاتے۔۔۔۔ اپنی ماں کے بنائے زائیقہ دار کھانوں کا ذکر کرتے تب اسے ماں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی۔۔۔۔


اس نے کبھی اپنے باپ پے یہ باتیں واضح نہیں کیں۔۔۔۔ اسکا بھائی اور وہ ایک دوسرے کے لیے کافی تھے۔۔۔۔ اسے اپنی ماں سے کوئی خاص لگاؤ نا تھا۔۔۔ لیکن ایک دن اسے اپنے کمزور ہونے پے نفرت محسوس ہوئی۔۔۔۔ اسکے ماں باپ کا کسی بات پے جھگڑا ہوگیا۔۔۔۔ اسکی ماں انکے باپ کے جاتے ہی غصّے سے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔ اسکا تین سالہ بھائی فیڈر منہ میں ڈالے کمرے کی چیزیں پٹک پٹک کے پھینک رہا تھا۔۔۔۔


اسکی ماں نے فیڈر لےکر زور سے دیوار پے مارا۔۔۔۔ اور اسکے بھائی کو تھپڑ مار کے خود گھر سے ہی نکل گئی۔۔۔۔ رات کو جب اسنے باپ کو پوری بات بتائی تو اسکے باپ نے انہیں اپنی ماں سے دور رہنے کی تلقین کی۔۔۔۔ تب سے وہ ماں کے آتے ہی دونوں بھائی کمرے میں بند ہوجاتے۔۔۔۔


وہ اکثر اپنے باپ کو ٹیرس پے موجود پاتا گھنٹوں سیگرٹ پیتے ایک تصویر کو غور سے دیکھتے۔۔۔۔ کبھی کبھی انکی آنکھیں نم ہوتیں ایک دفعہ وہ انکے پاس ہی بیٹھ گیا۔۔۔۔ ازلان نے گھبرا کے والٹ جیب میں رکھنا چاہا۔۔۔۔ میر نے انکی کوشش سے پہلے ہی اسکے مطلق پوچھ ڈالا۔۔۔۔ تب ان کی منہ سے بس ایک لفظ سنا ” پری “ اِسکے باد وہ اِسے گود میں اٹھائے کمرے میں لے آئے۔۔۔۔


پر سکون زندگی میں ایک طوفان آیا جو اسکو تنہائی کا عذاب دےگیا۔۔۔۔ پاکستان آکر اسنے اپنی زندگی کی حسین خوشی گواں دی۔۔۔۔ اسکے باپ سے لوگ تعزیت کرنے آرہے تھے۔۔۔۔ لیکن وہ ایک کونے میں بیٹھا گھٹنوں میں منہ چھپائے کانپ رہا تھا۔۔۔۔ اسکا باپ تو اسے بھول چکا تھا۔۔۔۔ ملازمہ جو اسے کھانا کھلانے آرہی تهی۔۔۔۔ اسکی نا نا کی رٹ پے غصّے سے اسکے بال جکڑے۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے غلطی کا احساس ہوتے ہی اس سے معافی مانگی۔۔۔۔ ملازمہ پہلے ہی مہمانوں کی آمد سے چڑ چڑی ہو رہی تھی۔۔۔۔ اوپر سے اس کے نخرے لیکن وہ بچا نہیں تھا۔۔۔۔ جو باپ سے شیکایت نا کرتا اس احساس کے ہوتے ہی ملازمہ اسے بہلانے لگی۔۔۔۔


گھر میں ہر وقت موت سا سناٹا رہتا۔۔۔۔ اس بڑے گھر میں اسکے ساتھ کھیلنے کے لیے کوئی نا تھا۔۔۔۔ اسنے بال کو کک کیا جو سامنے والے گھر میں جاکر گری۔۔۔۔ گیٹ سے اندر آتے ہی اسکی ملاقات اپنے ہم عمر بچے سے ہوئی۔۔۔۔۔


” تم کون ہو۔۔۔۔؟؟ “ وہ بچا جو جھولا جول رہا تھا اس اندر آتے دیکھ جھولے سے اٹھ کے اسکی طرف بڑھا۔۔۔۔


” میں حنان ہوں اور تم۔۔۔۔؟؟ “


ہنی کی پر جوش آواز اس بچے کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔۔


” میں ارحم۔۔۔ تم یہاں کیوں آئے ہو؟؟ “


ارحم اسے اِدھر اُدھر تکتا پاکر بولا جو اسکے کسی چیز کی تلاش میں تھا۔۔۔۔


” میری بال تمہارے گھر میں آگئی ہے “


” اچھا تو لےجاؤ “


ارحم کا مطلب تھا خود ڈھونڈ کے لےجاؤ۔۔۔۔


” تم میرے ساتھ کھیلو گے؟؟ “


ہنی نے منت بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔


” ہاں کیوں نہیں “


پھر ہنی گھنٹوں اسکے گھر رہتا۔۔۔۔ اس کے ساتھ کھیلتا کبھی کبھی وہ بھی اسکے گھر چلا آتا۔۔۔۔ انکی دوستی دن با دن گہری ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ پھر ارحم اِسی کے اسکول چلا آیا۔۔۔۔ ہنی کی خوشی دیدنی ہوگئی۔۔۔۔ دن اسکے خوش گوار گزرتے۔۔۔۔ لیکن رات کی تنہائی میں اسے ہر شے سے خوف محسوس ہوتا۔۔۔۔ ہلکی سے آواز سے وہ کانپ اٹھتا انہی دنوں ایک خوفناک رات میں عمر اسے اپنے برابر لیٹا نظر آیا۔۔۔۔ ملازمہ اسے سلا کے اپنے کواٹر میں جا چکی تھی۔۔۔۔ اچانک آنکھ کھلنے پے اسکی نیند بھک سے اڑ گئی۔۔۔ وہ کروٹیں لیتے سونے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔۔ لیکن نیند نے نا آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔۔۔ وہ وہیں لیٹے لیٹے عمر کو سوچنے لگا کے کچھ ہی پل میں عمر اسکے برابر لیٹا نظر آیا۔۔۔۔ وہ بھاگتا ہوا ازلان کے کمرے میں چلا آیا۔۔۔۔ جو اپنا کوئی آفس کا کام کر رہا تھا۔۔۔۔ ہنی چُپ چاپ آکر بیڈ پے لیٹ گیا۔۔۔۔ پھر اِسی صبح وہ اسے گھر میں چلتا پھرتا نظر آیا۔۔۔۔ ہنی نے یہ بات ازلان کو بتائی تو وہ اُسی شام اسے ہسپتال لے گیا۔۔۔۔ ڈاکٹر اسے لگاتار سوال کر رہا تھا جس کا جواب وہ اعتماد سے دے رہا تھا۔۔۔۔


” مسٹر ازلان یہ ارحم کون ہے۔۔۔۔؟؟ حنان کی باتوں میں تقریباً دو لوگوں کا ذکر زیادہ ہے عمر اور ارحم میں اس بچے ارحم سے ملنا چاہتا ہوں “


ہنی شیشے کے اس پار ازلان کو دیکھ رہا تھا جو ڈاکٹر کی بات غور سے سن رہا تھا۔۔۔۔


” ہنی ارحم کون ہے۔۔۔۔؟؟ “ باہر آتے ہی ازلان نے اس سے سوال کیا وہ خاصا پریشان اور الجا ہوا سا لگ رہا تھا۔۔۔۔ راستے بھر وہ اس سے ارحم کے بارے میں سوالات پوچھتا رہا۔۔۔ جس کا ہنی اِسے جواب دیتا رہا۔۔۔۔


” تم مجھے وہاں لے چلو پھر ارحم کی ممی پاپا کی پرمیشن سے اسے تھوڑی دیر اپنے ساتھ لے چلیں گے۔۔۔۔“ہنی نے سر اثبات میں ہلایا گھر آتے ہی ہنی ازلان کو سامنے بنے بنگلے کی طرف لے گیا جس کا گیٹ کھولا ہوا تھا۔۔۔۔


وہ جو ہر وقت دل میں خواہش رکھتا تھا کے کاش اسکا بنگلا بھی اتنا ہی خوبصورت ہوتا۔۔۔۔ دونوں بنگلوں کو کمپئیر کرتا اس وقت اس گھر کی حالت دیکھ سہی معنوں میں اسکا سر چکرا گیا۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں سالوں سے کوئی آیا نا ہو۔۔۔۔ وہ جھولا جہاں ارحم بیٹھتا تھا۔۔۔۔ وہ ٹوٹا ہوا تھا جس بالکنی میں کھڑے ہوکر ارحم اس سے باتیں کرتا وہاں کھڑے رہنا محال لگ رہا تھا۔۔۔۔ ہنی بے یقینی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ چلاتے ہوۓ اسے آوازیں دینے لگا۔۔۔۔ لیکن وہاں کوئی ہوتا تو آتا۔۔۔۔ ازلان نے ہنی کو گود میں اٹھایا اور گھر چلا آیا۔۔۔۔


” جی صاحب۔۔۔؟؟ “ ازلان کی دھاڑتی آواز پورے گھر میں گونجی۔۔۔۔ سب ملازم فوراً اسکے سامنے حاضر ہوئے۔۔۔۔۔


” یہاں ہنی کا کوئی دوست آتا ہے۔۔۔؟؟؟ “


” نہیں صاحب “


ازلان کے ہاتھ کپکپانے لگے۔۔۔۔


” کوئی عجیب بات؟؟ “


” وہ چھوٹے صاحب ہمیشہ دو گلاس جوس کے منگواتے ہیں کھانا بھی دو لوگوں کا بنانے کو کہتے ہیں وہ کمرے میں بیٹھے نجانے کس سے باتیں۔۔۔ “


وہ ایک بیٹے کے غم میں دوسرے بیٹے کو بھی کھو چکا تھا۔۔۔۔


” بس اور یہ بات گھر کے باہر نہیں جانی چاہیے ورنہ۔۔۔۔۔“ ازلان کی آواز ناچاہتے ہوئے بھی کانپی تھی۔۔۔۔ صبح ہی وہ اسکے اسکول گیا اور وہاں جاکر اسکا شک یقین میں بدل گیا۔۔۔۔


” آپ نے بہت دیر کردی آنے میں۔۔۔۔ میں نے حنان سے کہاں تھا اپنے پرنٹس کو لے آئے لیکن اُس کا کہنا تھا آپ آؤٹ آف سٹی ہیں۔۔۔۔؟؟ “


” جی!!! آج ہی آیا ہوں۔۔۔۔۔ کیا کیا ہے ہنی نے “


وہ لڑکھڑاتی آواز میں گویا ہوا ہنی سے اسے یہ تواقع نہیں تھی۔۔۔۔


” ایک بچے کی بُری طرح پٹائی کی “


” حنان بے وجہ اسے نہیں مار سکتا کوئی ریزن ہوگا “


” وہ کلاس میں آٹینٹو ہے۔۔۔۔ اسکی پراگریس بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔ لیکن کلاس کے باہر اس کے کلاس فیلوز نے اسے خود سے باتیں کرتے دیکھا ہے۔۔۔۔ مجھے ایک بچے نے آکر یہ بات بتائی تھی۔۔۔۔ وہ لوگ اسے پاگل کہہ کے چڑا رہے تھے تبھی حنان نے اسکی پٹائی کر دی۔۔۔۔“


” آگر وہ بچہ نہ ہوتا تو میرے ہاتھوں سےنا بچتا “


وہ بڑبڑاتے ہوے وہاں سے اٹھ آیا اور پرنسپل (جو اسکا دوست تھا اس سے ملکر گھر آگیا )


” اگر دوبارہ ایسی کوئی بات ہو تو پہلے مجھے انفارم کرنا “


وہ پرنسپل سے کہہ آیا تھا۔۔۔۔


” ہنی ارحم کا کوئی وجود نہیں یہ تمہارے دماغ کا فتور ہے اور آج سے میرے ساتھ سونا “


ازلان کا اب دماغ پھٹنے لگا تھا ڈاکٹر کا کہنا تھا اسے ڈپریشن ہے۔۔۔۔ تنہائی میں رہ رہ کر وہ خود سے لوگوں کو امیجن کرکے ان سے باتیں کرنے لگا ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے کی ہنی کی حالت مکمل طور پے خراب ہوجۓ وہ ڈاکٹر کے کہے مطابق اسے گاؤں لے آیا تھا۔۔۔۔۔


وہ ڈرا سہما ہوا سا اپنے باپ کے ساتھ گاؤں آگیا۔۔۔۔ جب ہنی نے اسے پری کہہ کر مخاطب کیا۔۔۔۔ تو نور نے اپنا غصّہ اس پے نکلا جس وجہ سے وہ اس کے سامنے سہما سہما سا رہتا۔۔۔۔ لیکن پھر وہ اپنا پورا دن اسکے ساتھ گزارتی۔۔۔۔ مختلف گیمز منگواتی۔۔۔۔ اسکے ساتھ کھیلتی۔۔۔۔ وہ اپنی زندگی کے ماہ و سال بھولتا جا رہا تھا۔۔۔۔ ابو بھی اسے کبھی کھیت دکھانے لے جاتے۔۔۔ کبھی اپنے آفس لے جاتے۔۔۔۔ وہ اس گاؤں کی زندگی میں اپنے سارے زخم بھول چکا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ ایک بات سے واقف تھا اسکے باپ نے امی ابو اور بی بی جان کو اسکی حالت کا بتا دیا تھا۔۔۔۔ تبھی وہ اپنی بیٹی نور پے غصّہ کر رہیں تھیں۔۔۔۔ لیکن اسے اب ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔۔ اسے یہاں آکر حد سے زیادہ اہمیت ملی تھی۔۔۔۔ کوئی اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔۔۔۔ امی روز اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا اور میڈیسن کھلاتیں۔۔۔۔


اب وہ رات کو تنہا نہیں ہوتا تھا۔۔۔ اسکے اندر کا وہ ڈر ختم ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔ اور ایک دن اللہ‎ نے اسے زندگی کی سب سے بڑی خوشی سے نوازا۔۔۔۔ نور اسکے باپ کی بیوی، اسکی ماں بن کے اس گھر میں آگئی۔۔۔۔


” میر “


اسکی پشت سے آواز ابھری پھر اسنے اپنے سینے پے ٹھنڈے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا۔۔۔۔ وہ پیچھے سے دونوں ہاتھ اسکے سینے پے رکھے اسکی پیٹھ پے سر ٹکا گئی۔۔۔۔


” اذان بھی ہوگئی مجھے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا “


وہ اسکے ٹھنڈے ہاتھوں کو محسوس کرتے ہوئے بولا جو نماز ادا کر چکی تھی۔۔۔۔


” کیسے ہوتا ایک تو اتنی لیٹ آئے اور آتے ہی ٹھنڈ میں یہاں آکر کھڑے ہوگئے “ وہ ہنوز سر رکھے ہوئے بولی۔۔۔۔


” ہمم!!!! میں نماز پڑھ لوں “ میر نے اسکے ہاتھ ہٹائے اور اسکی پیشانی چومتا ہوا وضو کرنے چلا گیا۔۔۔۔



☆.............☆.............☆


اس واقعہ کے بعد نور ازلان کی ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔۔ نور نے صبح بی بی جان سے اپنے رویہ کی معافی مانگی۔۔۔۔ ساتھ ازلان کا شراب والا کارنامہ سنایا جسے سن کر بی بی جان نے وہ ساری بوتلیں باہر پھینکوادیں۔۔۔۔ ساتھ ازلان کی کلاس بھی لی اور لگے ہاتھوں نور کے الفاظ بھی اسکی سماعتوں میں گزارے۔۔۔۔۔۔


” آج یہ شراب وہ خود پی رہے ہیں کل انہی کی اولاد انکے سامنے پیے گی۔۔۔۔ ذرا احساس نہیں کے ہنی اب بڑا ہو چکا ہے۔۔۔۔ عمر حمزہ ناسمجھ ہیں لیکن چل پھر سکتے ہیں غلطی سے پی لیتے تو۔۔۔۔؟؟


صرف اپنی پروا ہیں انہیں۔۔۔۔ اب بھی آپ کہتی ہیں سدھر گیا ہے میرا شاہ پتر۔۔۔۔“ نور نے بی بی جان کی نقل اتاری جس پر بی بی جان نے اسے ایک دھپ لگائی۔۔۔۔ آج سالوں بعد انکی پوتی کی جھلک واپس لوٹی تھی ازلان نے اُسکے بعد کبھی اس حرام شے کو ہونٹوں سے نہیں لگایا۔۔۔۔۔


نور ازلان کے روم میں آئی حیا کو لینے ازلان آفس سے آکر فوراً حیا کو اپنے ساتھ اوپر لے گیا تھا۔۔۔۔ اب وہ اسکے روم کے باہر کھڑی اپنی انگلیاں مروڑتے سوچ رہی تھی بات کا آغاز کیسے کرے۔۔۔۔ کل کے بعد تو وہ اسکے سامنے جانے سے ڈر رہی تھی رات بھی وہ نجانے کس پہر حیا کو اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔۔


وہ اندر آئی تو دیکھا حیا ازلان کے سینے پے بیٹھی ہنس رہی تھی۔۔۔۔ ازلان نے موبائل پے شاید اسے کچھ چلا کے دیا تھا۔۔۔۔


” ازلان “


وہ اسکی آواز سن کے اُچھل پڑا۔۔۔۔ نور کو دیکھ کے اسے حیرت بھی ہوئی خوشی بھی۔۔۔۔ رات کے اس وقت وہ کبھی اسکے روم میں نہیں آتی۔۔۔۔ ازلان کی گہری نظروں سے اسکے دل کی دھڑکن تیز ھوگئی۔۔۔۔ گلابی گال سرخ ہوگئے۔۔۔۔ وہ مسلسل انگلیوں کو آپس میں مروڑ رہی تھی۔۔۔۔ وہ اسکی حالت سے محظوظ ہوتا حیا کو اٹھائے اِس کے پاس آیا۔۔۔۔


” زے نصیب کہیں یہ کوئی خواب تو نہیں “


نور نے شانوں سے لڑھکتا دوپٹا ٹھیک کیا اسکی نظریں زمین پے ٹکی تھیں۔۔۔۔ اسکی حرکت پر ازلان اپنی ہنسی نہیں روک پایا۔۔۔۔


” میں حیا کو لینے آئی ہوں “


”کیوں؟؟؟ نور کو لگا وہ طنز کر رہا ہے۔۔۔۔


” وہ میرے ساتھ سوئے گی “


اب وہ ازلان کو دیکھ کے کہہ رہی تھی۔۔۔۔


” لیکن میں اِس کے بغیر نہیں سو سکتا “


” یہ میرا ہیڈک نہیں “


” تمہارے پاس وہ تمھارے تین باڈی گارڈز ہیں تو پِھر۔۔۔۔؟؟ میرے پاس یہی ہے اسے بھی لے لوگی۔۔۔۔؟؟ “ معصومیت کی انتہا تھی نور نے دل ہی دل میں جلاد کے لقب سے اسے نوازا۔۔۔۔


” ویسے بھی کب تک بچتی رہوگی مجھ سے۔۔۔۔ آنا تمہیں یہی ہیں میرے پاس۔۔۔۔“ نور اسکی بدلتی نظروں اور بیہودہ گفتگو سے تپ گئی۔۔۔۔۔


” بس فضول بولنا آتا ہے۔۔۔۔ لائیں حیا کو دیں “


وہ ہاتھ حیا کی طرف بڑھا کے بولی اک تو ازلان کی باتیں اُف وہ سوچ کے رہ گئی۔۔۔۔


” ویسے ایک طریقہ ہے “


ازلان کچھ سوچتے ہوے بولا۔۔۔

” کیا۔۔۔؟؟ “

” میرے پاس آجاؤ “

” کبھی نہیں “

وہ درشتی سے بولی۔۔۔

” پِھر جاؤ اپنے باڈی گارڈز کے پاس حیا یہیں رہے گی۔۔۔۔“ وہ شیطانی مسکراہٹ ہونٹوں پے سجا کے بولا۔۔۔۔

نور وہاں سے چپ چاپ چلی گئی۔۔۔۔ اسے دو پل کی خوشی دے کر۔۔۔۔ وہ پھر تنہا ہوگیا اس ویران کمرے میں جس میں وہ کچھ پل کی زندگی پھونک کے چلی گئی۔۔۔۔ ازلان نے حیا کے ماتھے پے اپنے لب رکھے۔۔۔۔


پندرہ منٹ بعد اسے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔۔۔


” جان مجھے پتہ تھا تم آؤگی “


وہ اپنی فتح پے مسکراتا ہوا اٹھ بیٹھا نظر سامنے گئی ہنی اپنا پیلو لے کر آ رہا تھا۔۔۔ پیچھے حمزہ اور عمر بھی اپنا چھوٹا تکیہ ہاتھ میں لیے اندر آرہے تھے۔۔۔۔ اور انکے ساتھ ہی نور بھی۔۔۔۔


وہ دانت پیس کے رہ گیا۔۔۔۔۔


” بابا ہم اب یہیں سوئیں گے ماما نے کہا ہے “


” ہوں “

وہ خفا نظر نور پے ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

تینوں بیڈ پے پھیلے سو رہے تھے۔۔۔۔ نور کونے میں حیا کو لے کر سو رہی تھی۔۔۔۔ چاروں ایسی گہرے نیند سو رہے تھے جیسے کھیتی باڑی کرکے لوٹے ہوں۔۔۔۔۔

وہ منہ میں کچھ بڑبڑاتا صوفے پے جاکر لیٹ گیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” مما۔۔۔ مما۔۔۔ جلدی آئیں “

” روکو آرہی ہوں “


نور نے سبزی کی آنچ دھیمی کی اور میر کے کمرے میں آگئی۔۔۔۔ جہاں حیا اور ثانی بیٹھی لیپ ٹاپ سکرین کو تک رہیں تھیں۔۔۔۔


” کیا ہوا “


” مما انٹرویو کے لیے بلایا ہے۔۔۔۔!!! میرا میریٹ نمبر 20 ہے آئ ایم سو excited “


ثانی ابھی تک اسکرین کو تک رہی تھی۔۔۔۔ جیسے یقین نہ آیا ہو پھر یہ بات پورے گھر میں پھیل گئی۔۔۔۔ حیا نے پوری رات بیٹھ کرخود کو انٹرویو کے لیے پریپیر کیا۔۔۔۔۔ نور انگڑائی لیتی حیا اور ازلان کی طرف متوجہ تھی۔۔۔۔ جو اس سے کوئسچین کر رہا تھا۔۔۔۔ پھر حیا صبح ہی نور کے ساتھ جاکر انٹرویو دیکر آگئی۔۔۔۔ دو دن بعد کلاسز اسٹارٹ تھیں۔۔۔۔ اسنے یونی جاکر لیب کوٹ لیا اسکا Pharm D میں ایڈمیشن ہوا تھا۔۔۔۔ شاہ زر نے Pharm D کا فارم نور کے کہے مطابق لیا تھا۔۔۔۔ اس وقت وہ ٹائم پاس کرنے نور کو اسٹیشنری شوپ لے آئی۔۔۔۔ اسے صرف باکس لینا تھا۔۔۔۔ لیکن دیکھتے دیکھتے اسنے کلر پنسلز مارکرز پینٹنگز اور کچھ کومکس خریدے۔۔۔


رات کو ازلان کے آتے ہی اسنے نیا شوشہ شروع کردیا۔۔۔۔


” بابا مجھے پینٹس لا دیں “


وہ فیضان کے ساتھ واک کرنے جارہا تھا کے حیا بھاگتی ہوئی اس تک آئی۔۔۔۔


” وہ کیوں؟؟؟ “


” مجھے اپنا روم پینٹ کرنا ہے “


معصومیت کی انتہا تھی۔۔۔۔ ازلان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔۔۔۔ اتنی محنت سے یہ گھر اسنے خود ڈیزائن کیا تھا۔۔۔۔ اور حیا اپنا شوق پورا کرنے کے لیے Experiment اس گھر پے کرنا چاہ رہی ہے۔۔۔۔


” یہ آئیڈیا کہاں سے آیا؟؟ “


وہ جانتا تھا یہ نیا شوق کہیں سے دیکھ کے چڑھا ہوگا۔۔۔۔ ازلان جلدی میں تھا اسلیے چلتے چلتے اس سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔ دونوں اس وقت سیڑھیاں اتر رہے تھے۔۔۔۔


” مووی سے آیا۔۔۔۔!!! بابا میں بہت بور ہو رہی ہوں آپ کہیں گھمانے بھی نہیں لے جا رہے۔۔۔۔ اور علی بھی یہاں نہیں ہے“


وہ آنکھیں سکیڑتی رونے کو بےتاب تھی۔۔۔۔ وہ یہ چالاکیاں اکثر ازلان اور میر کو بلیک میل کرنے کے لیے اختیار کرتی تھی۔۔۔۔۔


” ہم تو کہاں جانا ہے میری پرنسیسز کو “


ازلان نے اسکے شانوں کے گرد بازو حمائل کیے۔۔۔۔


” سوات “ وہ ایک دم سے چہکتی ہوئی بولی۔۔۔۔


” مجھے لگا پیزا پارلر یا مکڈونلس جانے کا کہوگی “

ازلان کان کھجاتا کہنے لگا۔۔۔۔


” سوات اگلے سال چلیں گے ابھی عمر اور حمزہ کے پیپرز ہونے ہیں۔۔۔۔“ وہ اسے پیار سے سمجھاتا کہنے لگا تبھی فیضان ٹاول سے ہاتھ پونچھتا انکی طرف آیا۔۔۔۔


” کیا ہوا بھائی ہماری گڑیا نے منہ کیوں لٹکایا ہے؟؟ “


ٹاول پاس پڑی کرسی پے پھینک کے وہ منہ بگاڑتی حیا کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔


” کچھ نہیں یار سوات جانا ہے اسے اور لیجانے والا کوئی ہے نہیں “


” سوات۔۔۔۔؟؟؟ چلو علی آجائے پھر جائیں گے “


فیضان نے محض اسکا دل رکھنے کے لیے کہا جبکہ علی کے نام پے حیا کی آنکھیں چمکنے لگیں۔۔۔۔


” سچ تایا ابو علی آرہا ہے آپ نے بتایا کیوں نہیں؟؟“


فیضان اسکے بےتابی دیکھ کرہنس دیا۔۔۔


” آج ہی گدھے کا فون آیا تھا جلد ہی آجائے گا “


” اوہ تایا ابو۔۔۔۔!!! بہت مزہ آئے گا میں ابھی تائی امی کو بتاتی ہوں۔۔۔۔“ کہتے ہی وہ کچن میں بھاگ آئی جبکہ ازلان نے سکون بھرا سانس خارج کیا۔۔۔۔

” شکر سوات کا بھوت تو اترا چلو یار ورنہ واپسی لیٹ ہوجاۓگیں “

حیا اب کچن میں عائشہ کے ساتھ بیٹھی علی کے بابت پوچھ رہی تھی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

اسکا دم گھٹنے لگا وہ چیخنا چاہتی تھی۔۔۔۔ لیکن اسکے ہونٹوں پے مضبوط ہاتھ کی گرفت تھی کوئی اسے اپنی باہوں میں اٹھا رہا تھا۔۔۔۔ بہت احتیاط سے اسے بیڈ پے لٹایا۔۔۔۔ نور نے سختی سے بیڈ شیٹ کو مٹھی میں جکڑا وہ پرفیوم اور سیگریٹ کی بھینی بھینی خوشبو اپنی سانسوں میں اُترتی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔ ازلان اسکی آنکھوں کی جنبش اور پھڑپھڑاتے ہونٹوں سے جان چکا تھا وہ جاگ گئی ہے۔۔۔۔۔ آنکھیں کھولتے ہی نور کا چہرہ یکدم فق ہوگیا وہ اس پے جھکا تھا اسکی گرم سانسیں نور کا چہرہ جلسا رہی تھی۔۔۔۔ رات کی تنہائی میں وہ اسکے بہت قریب تھا۔۔۔۔ نور کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔۔ اسے وہ درد ناک راتیں یاد آنے لگیں وہ خوفزدہ آنکھوں سے اسے تک رہی تھی۔۔۔۔۔

” کیوں کیا تم نے؟؟ “

وہ تیز چلتی سانسوں کے ساتھ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔ اسکا گلہ پیاس کی شدت سے خشک ہوچکا تھا۔۔۔۔ وہ کہتے ہی مزید اس پے جھکا تھا نور کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ طاری ہونے لگی۔۔۔ وہ اسکی گردن پے انگلی پھیرنے لگا۔۔۔۔

” جانتی ہو جب سے تم نے خود کشی۔۔۔۔۔“

ازلان سے بولا نہ گیا سوچتے ہی اسکے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ اگر اسے کچھ ہوجاتا کیا کرتا وہ۔۔۔؟؟؟

” تمہیں اندازہ ہے کتنا بڑا گناہ کرنے جارہی تھی تم۔۔۔۔؟؟؟ جانتی ہو کل پوری رات میں سو نہ سکا۔۔۔۔ تمھاری باتیں مجھے یاد آنے لگیں۔۔۔۔ کل پہلے دفعہ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر دوبارہ لہرایا۔۔۔۔ وہی منظر فرق صرف اتنا تھا عمر کی جگہ تم۔۔۔۔۔ آ۔۔۔۔۔ نور میں عمر کا غم برداشت کر گیا لیکن تم۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ تم میں اور اس میں فرق ہے تم میری روح کا حصہ ہو۔۔۔۔۔ تمہارے بغیر میں کیسا جیتا “

نور کا دل چاہ رہا تھا اپنے کان بند کرلے اس کی روز کی تقریر سے وہ اُکتا چکی تھی۔۔۔۔ ازلان کی ساری باتیں جھوٹی لگتیں اب کیا فائدہ تھا ان بے مقصد باتوں کا۔۔۔۔ ایک آنسو اسکی آنکھ سے بہہ کے تکیے میں جذب ہوگیا نور نے ازلان کا بڑھتا ہوا ہاتھ دیکر اسکے سامنے ہاتھ جوڑدیے۔۔۔۔۔

” مجھے معاف کردیں پلیز مجھ سے دور رہا کریں۔۔۔۔ مجھے اپنے حال پے چھوڑ دیں مت بات کیا کریں مجھ سے اب تو مجھے بخش دیں ازلان۔۔۔۔ میں نفرت کرتی ہوں آپ سے شدید نفرت۔۔۔۔ جب ہنستے مسکراتے ہوئے میں آپکو دیکھتی ہوں تو میرے خوشی غائب ہوجاتی ہے۔۔۔۔ میرے ہنسی کہیں کھو جاتی ہے۔۔۔۔ میں آپکو اپنے آس پاس برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اب یہ ناٹک کیوں۔۔۔۔؟؟ اچانک سے میرے لیے محبت کیوں کبھی رحم نہیں آیا ہمدردی نہیں ہوئی اب محبت۔۔۔۔؟؟؟

میں نے آپکا وہ روپ دیکھا ہے جسے شاید آپ خود بھی واقف نہیں۔۔۔ وہ سب لوگ جو آپ کی محبت کے قصیدے پڑھتے تھے۔۔۔۔ وہ اس وقت نہیں تھے جب دن رات میں آگ میں جلتی تھی۔۔۔۔ وہ آکر پوچھیں مجھ سے کون ہے ازلان شاہ۔۔۔۔؟؟؟ تو میں انہیں بتاؤں ایک بے رحم انسان جو دوسروں سے رحم کی امید رکھتا ہے۔۔۔۔ آگر آپ نہیں چاہتے میں یہاں سے جاؤں تو دوبارہ یہ حرکت مت کیجیئے گا۔۔۔۔۔“

وہ جو اس پے جھکا تھا اسکے زہرخند الفاظ سن کے پیچھے ہوا۔۔۔۔ یہی موقع تھا جب وہ بیڈ سے اپنا دوپٹا اٹھا کے وہاں سے بھاگ آئی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ایک ہفتے سے وہ یونی جا رہی تھی۔۔۔۔ اور اب تو اسکا اپنا گروپ بھی بن چکا تھا۔۔۔۔ لیکن عمر سے وہ سخت پریشان تھی جو روز اسکی یونی آدھمکتا۔۔۔۔ اس لیے آج وہ اسے اکیلا پاکر اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔

” بھائی ایک بات تو بتائیں “

” جی پوچھیں مسز شاہ زَر “

وہ ہنستے ہوئے بولا حیا گھور کے رہ گئی۔۔۔۔ اب یہ روز کا معمول بن چکا تھا۔۔۔۔ عمر نکاح کے بعد ہاتھ دھو کر اِس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔۔۔ اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔۔۔۔

” اس دن آپ میری یونیورسٹی میں پیزا لیکر آئے تھے۔۔۔۔ اور اتنے پیار سے اپنی ہاتھوں سے کھلا رہے تھے۔۔۔۔ جان سکتی ہوں بہن سے اتنی محبت کب سے ہوگئی۔۔۔۔؟؟؟؟ “

عمر اک لمحے کے لیے چُپ ہو گیا۔۔۔۔ وہ ٹی وی دیکھتا ساتھ پوپ کارن سے انصاف کر رہا تھا کے حیا اسکے پاس آدھمکی۔۔۔۔

” وہ ایکچولی۔۔۔۔میں “

” اور ہاں یہ چھٹی میں آج کل آپ کیوں لینے آتے ہیں میں پوائنٹ سے آسکتی ہوں “

وہ اسکے ہاتھ سے پاپ کارن چھین کر کھانے لگی۔۔۔۔

" میرے بہن اب پوائنٹ میں آئیگی؟؟؟ “

وہ اسے گھور کے بولا اور پاپ کورن واپس چھینے۔۔۔۔


" اچھا اور جب میر بھائی نے آپکو کہا تھا۔۔۔۔ مجھے پک اینڈ ڈراپ دیں تو کیسے کہا تھا پوائنٹ میں آجانا آسمان سے اُتری پری نہیں ہو جسے لینے پہنچ جاؤں۔۔۔۔!!! اور اب جب میر بھائی کے ساتھ آنے لگی ہوں تو اچانک سے آپکو بہن کا خیال آگیا۔۔۔۔؟؟؟ شرافت سے بتائے روز کیوں آجاتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟ ورنہ مما کو بتائونگی۔۔۔۔۔“


وہ بوکھلاتا ہوا خود پے قابو کرتے کہنے لگا۔۔۔۔۔


” اوہ میرے پیاری بہن وہ بس ایسے ہی مجھے خیال آیا ایک ہی تو بہن ہے۔۔۔۔ اب اس کی بھی زمیداری نہیں لوں اور یار بھائی بھی تو کتنے بزی رہتے ہیں بس تبھی “


” یہ میرے سوال کا جواب نہیں “


وہ مسلسل اسے گھورے جا رہی تھی۔۔۔۔


عمر کو لگا آج وہ اسے بلوا کے چھوڑے گی۔۔۔۔ اب وہ اسے کیسے بتاتا کے میر بھائی کے کہنے پے ایک دن جب وہ اسے لینے گیا۔۔۔۔ تو وہاں اسکی دوست کو دیکھ کر وہ اپنا دل ہار بیٹھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کے عمر کی شامت آتی علی کی آواز نے دونوں کو اس طرف متوجہ کیا۔۔۔۔


” اسلام و علیکم “


” ارے وعلیکم اسلام میرے بھائی کیسے ہو۔۔۔۔؟؟اور ٹیسٹ کیسا ہوا۔۔۔۔؟؟ “ عمر کی جان میں جان آئی۔۔۔۔


” اچھا ہوا تم سناؤ۔۔۔۔؟؟ “ وہ حیا کو مکمل طور پے نظر انداز کر رہا تھا۔۔۔۔


” بس یار نہ پوچھو زندگی میں کتنے غم ہیں ابھی مڈز ختم ہونے کی خوشی نہیں منائی تھی کے تھڑڈ سمسٹر کے پیپرز اسٹارٹ ہوگئے “ وہ افسوس سے بولا۔۔۔۔

” علی تم آئے کب اور بتایا کیوں نہیں؟؟؟ “

حیا اسے دیکھ کے اتنی خوش تھی کے علی کا نظر انداز کرنا محسوس ہی نا کیا۔۔۔۔

” یار میرا بھی یہی حال ہے بابا پیچھے پڑگئے ہے۔۔۔۔ تقربیاً سب یونیورسٹیز کے ٹیسٹ دے چکا ہوں۔۔۔۔ اللہ‎ کرے کسی اچھی میڈیکل یونی میں ایڈمیشن ہوجائے “

علی نے اسکے سوال کا جواب نہیں دیا وہ اس سے ناراض تھا۔۔۔۔ جو خود اس کے بغیر نکاح کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔ علی کا بس نہیں چل رہا تھا شاہ زَر کا بُرا حال کردے۔۔۔۔ جس نے اسکے آنے کا انتظار تک نا کیا۔۔۔۔ وہ ممی اور پاپا سے بھی ناراض تھا۔۔۔۔ لیکن سب کی زبان پے صرف ایک ہی جملہ تھا ”

شاہ زر نے جلد بازی کی “

اور یہاں اکر وہ بھی چُپ ہوگیا۔۔۔۔ آخر کیا کرتا چھوٹا جو تھا اور شاہ زر کے غصّے سے بھی ڈرتا تھا۔۔۔۔ شاہ زَر کے سخت مزاج کو سب گھر والے جانتے تھے۔۔۔۔ علی حمزہ عمر شاہ زَر کے غصّے سے خود کو بچا لیتے لیکن حیا کا تو خدا ہی حافظ تھا۔۔۔۔ اور علی حیران تو اس بات پرتھا آخر حیا راضی کیسے ہوئی۔۔۔۔

” اوہ علی تو آپ مسز شاہ زَر سے ناراض ہیں؟؟ “

وہ ہنستا ہوا حیا کو دیکھ کے بولا۔۔۔۔

حیا کو غصہ ہی آگیا اِس کا مسز شاہ زَر کہنا کشن اٹھا کے اسے مارا۔۔۔ علی ہنسی روکے انکی نوک جھوک دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

” ہائے! مار ڈالا “

علی کی ہنسی نکل گئی اِس کے انداز پے۔۔۔۔۔

” میں ماما کو بتاتی ہوں پ رکیں “

” ہاں جاؤ مما کی چمچی۔۔۔۔ اور سنو چائے کے ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھیج دینا “

” زہر نہ بھیجوا دوں “

” نہیں وہ میرے طرف سے تم کھا لینا “

” بتمیز جاہل انسان “

وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن میں آگئی۔۔۔۔ ثانیہ بھابی کو چائے کا کہہ کر کمرے میں چلی گئی اسے علی کا رویہ پریشان کر رہا تھا۔۔۔۔

نور علی کی آواز سن کے لاؤنج میں آگئی۔۔۔۔ ثانی بھی چائے کے ساتھ کباب تل کے لے آئی۔۔۔۔ ساتھ اسنیکس اور سموسے بھی۔۔۔۔ نور نے علی سے ٹیسٹ کے بابت پوچھا۔۔۔۔ علی ڈاکٹر بنا چاہتا تھا لیکن اسکے انٹرمیڈیٹ مارکس کم تھے۔۔۔۔ اسلیے وہ مختلف یونیز میں ٹیسٹ دےکر آیا ہے کے شاید کہیں ہوجاۓ گورنمنٹ کے ساتھ پرائیویٹ کالجز میں بھی اسنے اپلائے کیا ہے۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” مما بابا کو تو اٹھائیں “

ازلان عمر کے رونے سے جاگ چکا تھا۔۔۔۔ جو ماں کو بیڈ پے ناپاکر رونے لگا۔۔۔۔ نور اُس وقت ہنی کا یونیفارم پریس کر رہی تھی۔۔۔۔ جو وہ رات کو کرنا بھول گئی تھی۔۔۔۔ ہنی یونیفارم پہن کے ڈریسنگ روم سے باہر آچکا تھا۔۔۔۔ ازلان کو ابھی تک سوتا پا کے وہ نور سے بولا اور اسکے ہاتھ سے سوکس لیکر پہنے لگا۔۔۔۔

ازلان نے ہلکی سے آنکھ کھول کے نور کو دیکھا جو عمر کا نیپی چینج کر کے اسے بیڈ سے نیچے اتار چکی تھی۔۔۔۔ اور اب ہنی کی بات سن کے ازلان کو اٹھانے اسکی طرف آرہی تھی۔۔۔۔

ازلان نے چادر منہ تک تان لی اسکے ساتھ صوفہ کم بیڈ پے حمزہ سویا ہوا تھا۔۔۔۔ رات کو نور کے الفاظوں سے وہ گہری کھائی میں گر چکا تھا۔۔۔۔ پہلی بار اسنے اللہ‎ سے اپنی محبت مانگی تھی۔۔۔۔ اُسکا دل صاف ہوجائے وہ محبت جو سو چکی ہے۔۔۔۔ پھر سے جاگ جائے کل پہلی بار وہ اسکی نفرت کے آگے رویا تھا۔۔۔۔ ایک وقت تھا جب نور رویا کرتی اپنی محبت کے لیے۔۔۔۔ کل وہی لمحہ تھا وہی پل تھے فرق صرف اتنا تھا کے۔۔۔۔ دعا کے لیے اُٹھنے والے ہاتھ ازلان کے تھے نور کے نہیں۔۔۔۔ فجر پڑھ کے وہ کمرے میں آیا بیڈ پے ایک نظر حیا اور نور پے ڈال کے وہ حمزہ کو اٹھا کے صوفہ کم بیڈ پے آگیا۔۔۔۔

وہ اپنی انگلیاں مروڑتی اسکے سر ہانے کھڑی رہی پھر مدھم آواز میں اسے مخاطب کیا۔۔۔۔۔

” ازلان “

وہ انجان بنا لیٹا رہا۔۔۔۔ نور نے چادر تھوڑی سی پیچھے کھسکائی تو ازلان کا چہرہ واضح ہوا۔۔۔۔ اس وقت اسکے چہرے پے سختی تھی۔۔۔۔ نور تھوک نگلتی اپنا ہاتھ بڑھا کے اسکے کندھے پے رکھا۔۔۔۔

” ازلان۔۔۔ اٹھ جائیں “

نور نے ہلکے سے اسکا کاندھا ہلایا۔۔۔۔ اگلے ہی پل ازلان نے اپنی سرخ ہوتی آنکھیں نور پے گاڑھ دیں ایک لمحے کو تو وہ خوفزدہ ہوگی۔۔۔۔۔

” آٹھ بجنے والے ہیں “

وہ بےتاثر چہرے کے ساتھ گویا ہوئی۔۔۔۔

” ہنی چلا گیا؟؟ “

نظریں ابھی بھی اسکے سراپے میں الجھی ہوئیں تھیں۔۔۔۔

” نہیں ناشتہ کر رہا ہے “

ازلان نے احتیاط سے اپنا بازو پیچھے کیا جس پے حمزہ سر رکھے لیٹا تھا۔۔۔۔ نور جانے کا سوچ رہی تھی لیکن ازلان اسکے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔

” آئندہ یہاں سے جانے کا مت کہنا۔۔۔۔!! جانتا ہوں بہت غلط کرچکا ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔ اور اسکا ازالہ بھی کرونگا تب تک معافی مانگوں گا جب تک سچے دل سے تم معاف نہیں کر دیتی لیکن یہاں سے جانے کی بات مت کرنا “

آخر میں ازلان کا لہجہ سخت تھا۔۔۔۔

” آپ کو لگتا ہے میں آپ کی بات مانوگی؟؟؟ “

وہ اب بھی اس پے حکم چلا رہا تھا۔۔۔۔ نور کو فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگی۔۔۔۔ وہ ہنی کی وجہ سے گاؤں نہیں جا رہی تھی کہ کہیں اسکا اسکول نا مس ہوجائے۔۔۔۔ لیکن اب اسنے سوچ لیا جمعہ کو ہنی کے اسکول سے آتے ہی وہ گاؤں کے لیے روانہ ہوجائےگی۔۔۔۔۔

” مجھے خود سے جڑے رشتے بہت عزیز ہیں نور۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا میرے بچوں کو یا انکی ماں(ازلان اسکی جھکی پلکوں کو دیکھ مسکرایا) کو تکلیف چھو کر بھی گزرے۔۔۔۔ ایک بار ہنی اور تمہیں اکیلے بھیجنے کی غلطی میں کر چکا ہوں۔۔۔۔ اب نہیں یہ جو باہر گارڈز کھڑے ہیں نا یہاں رہنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔۔۔۔ میرے وفادار ہیں انکے ہوتے ہوئے تم ایک قدم بھی اس گھر سے باہر نہیں نکال سکتیں۔۔۔۔ اور ایک بات تم الگ ہو خاص ہو، صرف میرے لیے ہو، تم چاہ کر بھی مجھے خود سے آزاد نہیں کر سکتیں۔۔۔۔ تمہاری جگہ ماہا ہوتی تو اسے کب کا آزاد کر چکا ہوتا لیکن تم نہیں۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں “

ازلان نے کہتے ساتھ نرمی سے اسکی پیشانی چومی نور کو جیسے کرنٹ چھو کے گزرا۔۔۔۔ اسنے زور سے اپنی پیشانی رگڑی۔۔۔۔ ازلان اسکی حرکت پے مسکرایا اور سوئے ہوۓ حمزہ کو اٹھا کے بیڈ پے لٹایا۔۔۔۔

” آپ مجھے قید نہیں کر سکتے “

وہ اسکے پیچھے سے چلائی۔۔۔۔ ازلان نے اب اپنا رخ نور کی طرف کیا۔۔۔۔


” تم لوگ یہاں سیف ہو۔۔۔۔!!! نور میں ویسے ہی بہت پریشان ہوں تم نہیں جانتی باہر۔۔۔۔


(اب وہ اسے کیسے بتاۓ کے آذر کی وجہ سے وہ کتنا پریشان ہے۔۔۔۔ اس دفع امان اسے وارن کرنے آیا تھا وہ یہ شہر چھوڑ کے چلا جائے۔۔۔۔ آذر کے بھائی اور چچا تحقیقات کر رہے تھے۔۔۔۔ انہیں یہی بتایا گیا تھا کے آذر انکاؤنٹر میں مارا گیا )


ازلان نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔


” کپڑے نکالو میں آفس کے لیے لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔۔ یہ بحث ہم رات کو کنٹینیو کرینگے “


” میں آپ کی نوکر نہیں “


وہ تپ کے بازو سینے پے باندھے کہنے لگی۔۔۔۔


” بیوی تو ہو۔۔۔۔!!! مزاجی خدا کو منع کروگی سوچ لو اللہ‎ کو ناراض کر رہی ہو “


ازلان کے جانے کے بعد وہ سوچ میں پڑ گئی پھر مطلوبہ چیزیں رکھ کے نیچے آگئی۔۔۔۔


اسکی توقع کے مطابق شرٹ پنٹ اور کوٹ پریس کر کے وہ بیڈ پے رکھ کے گئی تھی۔۔۔۔ وہ تیار ہوکر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔۔ خود کو خوشبوں سے نہا کر وہ اپنا والٹ اور موبائل اٹھا کے سوے ہوئے حمزہ اور حیا کے گالوں پے بوسہ دیکر نیچے آیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

” کن خیالوں میں کھوئے رہتے ہو۔۔۔۔؟؟ کیا ہوگیا ہے بتاؤ مجھے۔۔۔۔؟؟؟ اور آکر کام کرنے کا دل نہیں چاہتا تو گھر میں بیٹھے رہو “

ازلان کی گرجدار آواز سے بھی اسے کوئی فرق نا پڑا۔۔۔۔ وہ ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھا تھا اسکے ہاتھ میں کرسٹل بال تھی جسے وہ اپنے ہاتھوں سے گھما رہا تھا۔۔۔۔

” کیا مسئلہ ہے۔۔۔۔؟؟؟ “ ازلان کی جھنجلاتی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔ ازلان اسکے سامنے ہی بیٹھا تھا۔۔۔۔

شاہ میر آج جان بوجھ کر میٹنگ اٹینڈ کرنے نہیں گیا۔۔۔۔ میٹنگ کی ساری تیاری اسنے خود کی تھی اور اینڈ وقت پے اسکا دماغ سے سب کچھ نکل گیا پہلی دفع اسکے ساتھ ایسا ہوا تھا۔۔۔۔

” آپ شاہ زر کو کنوینس کریں کے وہ حیا کو طلاق دے دے “

ایک ہفتے سے اسکا دماغ درد سے پٹھا جا رہا آج بھی اسکے کانوں میں وہ چیخیں گونجتی ہیں۔۔۔۔ جن سے چاہ کر بھی وہ پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔۔۔۔ اسکے ننھے ذہن میں آج بھی وہ سب کسی فلم کی طرح چل رہا تھا۔۔۔۔ وہ سرخ روتی آنکھیں۔۔۔ وہ خوف سے کانپتا وجود۔۔۔ جسے خوش کرنے کی کوشش وہ ہر پل کرتا تھا۔۔۔ اور اس کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتیں جب اسکا باپ ایک بار پھر اسے توڑ دیتا۔۔۔۔۔۔

” کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟ ہوش میں ہو تم۔۔۔۔؟؟ “ اسنے گویا ازلان کے سر پے دھماکہ کیا۔۔۔۔

” ہاں میں اپنے حوش وحواس میں ہوں لیکن آپکا بھتیجا نہیں “ اس بار اس کی آواز کچھ بلند تھی شاہ زر کے خیال سے اسکی رگیں تن جاتیں۔۔۔۔

” شٹ اپ۔۔۔۔!!! تم کون ہو میری بیٹی کی زندگی کا فیصلہ کرنے والے۔۔۔۔؟؟ “ ازلان نے زور سے مکہ ٹیبل پے مارا طلاق کا نام تو وہ ایسے لے رہا تھا جیسے کوئی مذاق ہو۔۔۔۔

” اسکا بھائی ہوں۔۔۔۔“ اسکی آواز قدرے دھیمی ہوگئی وہ ازلان کو غصّہ نہیں دلانا چاہتا تھا۔۔۔۔ لیکن بےبس تھا اس سے پہلے کے شاہ زر رخصتی کا اعلان کردے انکا الگ ہونا بہتر تھا۔۔۔۔ اس وقت میر کی دماغ میں یہ خیال بھی نہ آیا کے طلاق کا داغ اسکی بہن کی زندگی تباہ کردےگا۔۔۔۔۔ اسے بس شاہ زر کی قید سے حیا کو آزاد کرنا تھا۔۔۔۔

” ضرورت نہیں ابھی اسکا باپ زندہ ہے “

ازلان نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوے کہا۔۔۔۔

” بابا پلیز آپ سمجھ کیوں نہیں رہے شاہ زر ٹھیک نہیں۔۔۔۔“

” کیا خرابی ہے گھر کا لڑکا ہے ویل سیٹل ہے۔۔۔۔ اور سب سے بڑی بات میری بیٹی کی پسند ہے۔۔۔۔ اور تم بھول گئے شاہ زر سے شادی کا تم نے خود کہا تھا۔۔۔۔“ وہ اسکی بات کاٹ کر تقریباً دھاڑتے ہوے بولا۔۔۔۔

” دماغ خراب ہوگیا تھا “ وہ بڑبڑایا جسے ازلان سن چکا تھا۔۔۔۔

” تو جاکر درست کرو اور ایک بات نور کے سامنے بکواس کرنے کی ضرورت نہیں خومخواہ ٹینشن لے گی۔۔۔۔!! جاسکتے ہو تم “ وہ اسے حکم صادر کرتا فائل کی طرف متوجہ ہوا ابھی تک ازلان کا BP ہائی تھا۔۔۔ جسکا اندازہ میر کو ہوچکا تھا وہ سمجھانے والے انداز میں قدرے دھیمے سے گویا ہوا۔۔۔۔

” بابا میری بات سن لیں “

ازلان نے ہاتھ اٹھا کے اسے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ وہ ضبط کرتا اٹھ کھڑا ہوا اسے غصّہ صرف شاہ زر پر تھا۔۔۔۔ اسکے پاس اب ایک ہے راستہ بچتا تھا کے وہ عنایہ سے بات کرے۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ابو جلدی آجائےگے۔۔۔۔ جی ابو۔۔۔۔ جی۔۔۔۔ ابو میں رکھتا ہوں۔۔۔ ایکچولی باہر ہوں گھر جاکر کال کرتا ہوں جی۔۔۔۔ خدا حافظ “

” نور۔۔۔۔؟؟ نور جلدی آؤ “

وہ فون رکھتا چلاتا ہوا نور کو بلانے لگا۔۔۔۔ نور جلدی سے عمر کا ہاتھ پکڑے کمرے میں آگئی۔۔۔۔ ازلان نے شال میں چھپی حیا کو بیڈ پے لٹایا۔۔۔۔ جو اسکے کندھے پے سر رکھے سو چکی تھی۔۔۔۔ اور کمبل سے اسے پورا ڈھانپ دیا۔۔۔۔

” کیا ہوا آپ حیا کو ایسے۔۔۔۔ “

” اچانک باہر بارش شروع ہوگئی دیکھو کہیں اسے بخار تو نہیں ہوگیا میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں “

نور نے جلدی سے اسکے پیشانی پے ہاتھ رکھا پھر کپڑوں پے جب پوری طرح سے تسلی کرلی تو ازلان سے مخاطب ہوئی جو ڈاکٹر کو کال کر رہا تھا۔۔۔۔

” کچھ نہیں ہوا آپ خومخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔۔۔۔ مجھے بھی ڈرا دیا دیکھے اسے پانی کا ایک بھی قطرہ نہیں لگا کپڑے بھی گیلے نہیں ہیں “

” اُف جان نکل گئی میری۔۔۔!! یا اللہ‎ تیرا شکر یہ اتنی چھوٹی ہے کے اب تو باہر لیجاتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔ آئندہ اسے نہیں لیجاؤنگا “ ازلان معمول کے مطابق واک کرنے گیا تھا وہ حیا کو روز ہی لیجاتا وجہ نور کی بےرُخی تھی۔۔۔۔ اب نور تو ٹھیک ہوچکی تھی لیکن ازلان کی عادت بن گئی تھی حیا کو ساتھ لے جانا۔۔۔۔

” مما۔۔۔۔ مما “

عمر اسے حیا کے ساتھ دیکھ کے چیخ چیخ کے روتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرنے لگا۔۔۔۔ نور روہانسی ہوگئی عمر نے اسکو تنگ کر رکھا تھا۔۔۔۔ جب بھی وہ اسے حیا یا حمزہ کے ساتھ دیکھتا۔۔۔۔ اسی طرح چیخ چیخ کے پورا گھر سر پے اٹھا لیتا۔۔۔۔ اسکے برعکس حمزہ صابر ہے جو ہر کسی کے ساتھ خوش رہتا۔۔۔۔ نئے چہرے دیکھ کے بھی وہ کبھی اس طرح کا برتاؤ نہ کرتا۔۔۔۔ لیکن غلطی اسکی بھی تھی جو اسنے عمر کو گود کی عادت ڈالی تھی۔۔۔۔ بی بی جان نور کو منع کرتیں تھیں اسے گودھل میں لیے نا پھرے۔۔۔۔ تب اُسے یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔۔ اور اب وہ اسکی وجہ سے ہلکان ہوتی عمر کا وزن بھی کافی تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اکثر اسے کمر میں درد رہتا۔۔۔۔۔

” یار تمہاری ماں مجھے بھی اہمیت نہیں دیتی “

پاس کھڑے ازلان نے اسکی مشکل آسان کرتے ہوئے اسے گود میں اٹھا لیا۔۔۔۔ نور نے اسکی بات جیسے سنی ہی نہیں عمر کو ازلان کے ساتھ دیکھ کے اب وہ پُر سکون تھی اپنا فون سائیڈ ڈرو سے اٹھا کے یوز کرنے لگی۔۔۔۔

” فون کہاں سے آیا؟؟ “

ازلان کو اسکے ہاتھ میں فون دیکھ کے شدید جھٹکا لگا۔۔۔۔

” آپ سے مطلب؟؟ “

وہ سکون سے کہتی اپنے کام میں مگن رہی۔۔۔ ساتھ حیا کی پیٹھ بھی تھپک رہی تھی۔۔۔ جو عمر کی چیخنے سے کسمسائی۔۔۔۔

” تم مجھے کہہ سکتیں تھیں۔۔۔۔!!! یقیناً امان سے منگوایا ہوگا “

اسکے ہاتھ میں موبائل دیکھ کے پہلے خیال امان کا ہی آیا۔۔۔۔ اسے غصّہ آرہا تھا جو بھی تھا وہ اسکا شوہر ہے وہ گھر کی بات باہر کیسے لے جا سکتی ہے۔۔۔۔ ازلان کو خود پے غصّہ آرہا تھا اُسے فون دینا یاد کیوں نا رہا؟؟

” نہیں ازلان شاہ مجھے خود سے جڑے ” رشتوں “کی عزت رکھنا آتی ہے چاہے وہ ”مجبوراً “ ہی کیوں نا جڑے ہوں “

وہ لہو رنگ آنکھوں سے گھورتی اسے کہنے لگی۔۔۔۔

” پھر یہ؟؟ “

ازلان کا لہجہ دھیما ہوگیا۔۔۔۔

” ایرینگز بیچ دیے “

موبائل اسنے بی بی جان سے منگوایا تھا جب وہ یہاں سے گاؤں گئیں تھیں۔۔۔۔ نور نے ان سے موبائل کی فرمائش ظاہر کی تھی جو انہوں نے وہاں یقیناً کسی ملازم سے منگوایا ہوگا۔۔۔۔ تاکہ گھر کے بڑوں کو پتا نہ لگے۔۔۔۔ لیکن نور کو اسکے چہرے کی اڑتی ہوائیاں دیکھنی تھیں جو وہ اس وقت دیکھ کے راحت محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔

” کس سے منگوایا؟؟ “

وہ مٹھیاں بھنچے کھڑا تھا نجانے اور کتننے امتحان تھے۔۔۔۔!!!! ان سب میں ایک بات تو تھی اب وہ غصّہ کنٹرول کرنا سیکھ چکا تھا۔۔۔۔

” ظاہر ہے آپ کے کسی وفادار سے “

بے نیازی سے کہتی وہ اسکا ضبط آزما رہی تھی۔۔۔۔

” وفادار کی ایسی کی تیسی شوہر مر گیا تھا۔۔۔۔؟؟ “

ازلان کی دھاڑ سے وہ حیا کے قریب ہوگئی جب کے عمر رونے لگا۔۔۔۔۔

” نہیں۔۔۔۔!! لیکن اُسکی نظر میں۔۔۔ میں ایک گری ہوئی عورت ہوں۔۔“

وہ اٹھ کے اسکے روبرو کھڑی اسکی آنکھوں میں دیکھ کے کہ رہی تھی۔۔۔۔ جو اب اس سے نظریں چُرا رہا تھا۔۔۔۔

” نور پلیز کیا تم بھول نہیں سکتیں “

وہ بےبس سا کہنے لگا۔۔۔۔

ا ہے “

وہ چُپ رہا کہنے کو کچھ تھا نہیں۔۔۔

” عمر کو سنمبھال لیجیے گا۔۔۔ آخر باپ کی بھی کچھ زمہ داری ہے۔۔۔۔ جب پیدا کر سکتا ہے تو خیال بھی رکھ سکتا ہے “

وہ روتے ہوے عمر کو دیکھ کے کہنے لگی۔۔۔۔

” کب بھاگا ہوں زمہ داری سے۔۔۔۔؟؟ بتاؤ۔۔۔۔؟؟ روکو کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔؟ “

وہ عام سے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا جو موبائل بستر پے بھول کے کمرے سے نکل رہی تھی۔۔۔۔

” میرا ڈرامہ آرہا ہے وہ دیکھنے جا رہی ہوں۔۔۔۔ ایک گھنٹے سے پہلے فارغ نہیں ہونگی تو دیکھ لیجئے گا انہیں “

وہ اسے زچ کرنا چاہ رہی تھی لیکن اسکی مسکراہٹ دیکھ کے وہ خود بے سکون ہوگئی۔۔۔۔ نور پاؤں پٹکتی کمرے سے باہر نکل گئی ازلان روتے ہوے عمر کو لیکر کمرے میں ٹہلنے لگا۔۔۔۔ آخر آدھے گھنٹے بعد کہیں جاکر اسکی آنکھ لگی تب تک حمزہ اور ہنی بھی سونے کے لیے لیٹ گئے۔۔۔۔ واقعی اسکے پیچھے وہ تین بچوں کو کیسے سنبھالتی ہے۔۔۔۔ اسے احساس ہو رہا تھا چھوٹی عمر میں ازلان نے اسکے ساتھ زیادتی کی ہے۔۔۔۔ وہ خود بیس کی ہے جو عمر اسکے پڑھنے کی ہے اُس میں وہ گھرداری سنبھال رہی ہے۔۔۔۔

☆.............☆.............☆۔۔۔

” ہاں “

” کیوں۔۔۔؟“

علی نے سرد نظروں سے اسے دیکھا جو انجان بن کے اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔

” علی میں نے منع کیا تھا لیکن کسی نے میری بات نہیں سنی اور شاہ زر۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ غصّہ کرتے اگر میں بابا کو پریشیرائز کرتی۔۔۔۔“ اب وہ کیسے اُسے بتاتی کے شاہ زر نے دھمکا کر اس سے نکاح کیا۔۔۔۔

” تم خوش ہو۔۔۔۔؟؟ نکاح تمہاری رضامندی سے ہوا ہے “

وہ بغور اسکا جائزہ لے رہا تھا لیکن اسکے چہرے پے ڈر کے کوئی تاثرات نہیں تھے۔۔۔۔ اسکے برعکس چہرے پے ُسرخی بکھر گئی۔۔۔۔ وہ شرم سے سر جھکا گئی علی کے ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو گئی۔۔۔۔

” میں معاف تو کسی صورت نہیں کرونگا “

علی نے اسکی حالت دیکھ کر بات بدل دی وہ جواب نہ دیتی لیکن اسکے چہرے کی بدلتی کیفیت سے وہ سمجھ گیا۔۔۔۔

” سوری علی۔۔۔۔ میری غلطی نہیں تھی پھر بھی معافی مانگ رہی ہوں۔۔۔۔“ وہ نظریں اوپر کو اٹھا کے اسے دیکھنے لگی کے شاید معاف کردے۔۔۔۔ پر علی اس سے بےنیاز بچے ہوئی چاولوں پر کڑھائی الٹ کے چمچ سے کھانے لگا۔۔۔۔

” علی۔۔۔۔ علی۔۔۔۔ “ وہ اسکی بےنیازی سے تپ گئی۔۔۔۔

” ایک شرط پے “ وہ کھاتے ساتھ بولا۔۔۔۔

” ک۔۔کیا؟؟ “ وہ اٹک کے بولی جیسے ابھی اسے چھت سے کودنے کا کہے گا۔۔۔۔

” نکاح کی ٹریٹ وہ بھی بھائی کے پیسوں سے منظور ہے؟؟ “

حیا علی کو اسے دیکھنے لگی جیسے اسکی دماغی حالت پے شبہ ہو۔۔۔۔

” میں انتظار کرونگا کمینگ سنڈے بومبے چوپاٹی اہٹ(at) 6pm “

علی نے اسے دیکھتے ہوے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔ لیکن حیا کی شکل دیکھ کے اسکا دل چاہ رہا تھا قہقہہ لگا کے ہنسے۔۔۔۔ وہ چہرے پے سنجیدگی لاتے اپنا کھانا ختم کرنے لگا۔۔۔۔ ابھی اسے عمر کے ساتھ جم جانا تھا جو انہوں نے کل ہی جوائن کیا تھا۔۔۔۔

☆............☆.............☆

وہ کب سے بے مقصد کمرے میں ٹہل رہا تھا۔۔۔۔ جب سے وہ گھر آیا تھا تب سے بےتاب تھا۔۔۔۔ ایک پل کو اسے سکون نہیں ملا۔۔۔۔ گھر آتے ہی اماں سے اسے پتا چلا نور بچوں کو لیکر گاؤں چلی گئی۔۔۔۔ اعظم شاہ اور امان کی کئی مرتبہ کال آتی تھی کے بچوں اور نور کو لیکر کچھ دن یہاں رہنے آجائے۔۔۔۔ لیکن وہ کچھ وقت نور کے ساتھ اکیلا رہنا چاہتا تھا تاکہ اسے منالے۔۔۔۔ اعظم شاہ نے ڈرائیور بھیجا اور نور تو جیسے موقعے کی تلاش میں تھی۔۔۔۔ اپنے ساتھ بچوں کو لےکر چلی گی۔۔۔۔

اسے رہ رہ کر اپنی زیاتیاں یاد آتی۔۔۔ کاش کاش وہ اس آزمائش پر پورا اترتا تو نور اس وقت اسکے ساتھ ہوتی۔۔۔۔ اسکے دل کی راحت اسکا سکون وہ خوبصورت چہرہ جس سے عشق ہو چلا تھا۔۔۔۔ وہ اب بیڈ پے لیٹا موبائل میں اسکی تصویر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جس میں وہ حیا کو اپنے ساتھ لگائے کبھی اسکے ہاتھ چومتی۔۔۔ کبھی اسکی پیشانی۔۔۔ کبھی اسکے سرخ گال۔۔۔۔ اور حیا یک دم سے اتنا پیار پاکے روتی چلی گئ۔۔۔ یہ وہی تصویریں تھیں جو اسنے ہسپتال میں لیں تھی۔۔۔۔ ازلان نے اپنے ہونٹ اس تصویر پے رکھ دیے جہاں وہ حیا کی پیشانی چوم رہی تھی۔۔۔۔ کچھ سوچ کہ اسنے لینڈلائن سے کال ملائی۔۔۔۔

جیسے جیسے بیل بجتی جا رہی تھی اسکے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ کچھ دیر بات وہ خوبصورت آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔۔

” ہیلو “وہ بنا کچھ کہے یہ آواز سن رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے پیاسے کو کنواں ملا ہو۔۔۔۔

” گندی بچی “ وہ حیا کو کسی بات پے ڈانٹ رہی تھی۔۔۔۔ جس کے نتیجے حیا کھلکھلا کے ہنس دی۔۔۔۔ سکون کے لہر ازلان کے پورے وجود میں دوڑنے لگی۔۔۔۔ اللہ‎ نے اسے ہر نعمت سے نوازا تھا وہ جتنا شکر کرتا کم تھا۔۔۔۔

” جب بات نہیں کرنی تو فون کیوں کرتے ہو “

کہتے ساتھ فون دوسری طرف سے رکھ دیا گیا۔۔۔۔

ازلان کتنی ہی دیر فون ہاتھ میں لیے دیکھتا رہا پھر فورًا اسکے سیل پے کالکی۔۔۔

آدھے گھنٹے تک وہ مسلسل فون کرتا رہا۔۔۔۔ لیکن رسیو نا ہوئی۔۔۔۔ پھر کہیں جاکے اسے ازلان پے ترس آیا۔۔۔۔

” ہیلو “ فون اٹھاتے ہی نور نے کوفت سے کہا وہ جان بوجھ کے کال اٹینڈ نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔ اوپر سے حیا کا سونے کا ٹائم تھا۔۔۔۔ اور وہ نور کو تنگ کیے جا رہی تھی۔۔۔۔ ابھی بھی وہ اسکا دوپٹا منہ میں ڈالے ہوئے تھی۔۔۔۔

” کیسی ہو “ ازلان نے لہجے میں محبت سموئے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔

” زندہ ہوں ورنہ آپ نے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی “ طنزیہ لہجے میں گویا ہوئی ازلان کا دل دکھا تھا۔۔۔۔

” ہنی عمر حمزہ کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟ “ وہی محبت بھرا لہجہ جسے نور کو چڑ تھی۔۔۔۔ پہلے کبھی سیدھے منہ بات نہیں کی۔۔۔ اب ہر وقت مٹھائی کی طرح میٹھا لہجہ۔۔۔۔

” آپ کے بنا بہت خوش “

اسنے جتایا کے اسے ازلان کی کوئی پروا نہیں اور وار صحیح گیا۔۔۔۔

وہ چابی لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

” حیا تو مجھے مس کرتی ہوگی “

دل کی بہلانے کو ایک اور سوال۔۔۔

” اسکی یہ بُری عادت چھڑوا دوںگی “

” یعنی یاد کرتی ہے۔۔۔۔!!! چلو یا اللہ‎ تیرا شکر ہے۔۔۔ بس حیا کی ماں بھی مجھے ایسے ہی یاد کرتی رہے۔۔۔“ اسکے دل سے دعا نکلی تھی جو اسکے لبوں پے آگئی۔۔۔۔

” ہاں قبر میں یاد کرونگی زندگی میں ناممکن ہے اور کچھ “

کاٹ دار لہجہ میں گویا ہوئی۔۔۔ وہ کار میں بیٹھ چکا تھا اسنے بلوٹوتھ ڈیوائس سے کنیکٹ کر کے فون رکھ دیا۔۔۔۔ نور کی بات پے وہ کانپ اٹھاتھا۔۔۔۔

” بولنے سے پہلے۔۔۔ “

” اور کچھ میں رکھ رہی ہوں “ نور نے اسکی بات تیزی سے کاٹی۔۔۔۔۔

ازلان کو غصّہ ہی آگیا وہ پورے بدلے اس سے لے رہی تھی۔۔۔۔

” کب آ رہی ہو۔۔۔۔؟؟ “ اسنے تھک ہار کے پوچھا۔۔۔۔

” جب دل چاہے گا “

کہتے ساتھ فون رکھ دیا۔۔۔۔۔ ازلان نے کار سٹارٹ کی آہستہ آہستہ وہ اسکی سپیڈ بڑھا رہا تھا۔۔۔۔ وہ جلد سے جلد اُس تک پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” جاؤ بھائی جا رہے ہیں آخری وارننگ دے رہا ہوں ورنہ سوچ لو کبھی بات نہیں کرونگا۔۔۔۔“ علی نے اسے باقاعدہ دھکا دے کر شاہ زر کے روم میں بھیجا جو آفس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔۔۔۔

” علی وہ مجھے کچا چبا جائینگے “ حیا رو دینے کو تھی علی نے اپنا سر پیٹ لیا۔۔۔۔

” ٹھیک ہے اب بات نا کرنا مجھ سے “ علی نے انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا تو وہ لرزتے قدموں سے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔ شاہ زر جو رسٹ واچ پہن رہا تھا آواز سن کر پیچھے مڑا حیا کو دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔۔۔۔ پھر وہ خوشی سے اسکے پاس آیا ایک جھٹکے سے اسے کھینچ کر اسکی کمر کے گرد بازو حمائل کیے۔۔۔۔ وہ جھٹکے کی وجہ سے اسکے چوڑے سینے سے جا لگی۔۔۔۔

” کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔۔۔؟؟ اتنی حسین صبح “

شاہ زر نے ہاتھ کی پشت سے اسکے گال سہلاتے کہا۔۔۔۔

حیا تو اسکی حرکت سے بوکھلا گئی۔۔۔۔ وہ یہ تک بھول گئی تھی کے یہاں آئی کیوں تھی؟؟

” کسی کام سے آئی تھی۔۔۔؟؟ “

وہ اسکی غیر ہوتی حالت سے لطف اٹھاتا پوچھ بیٹھا۔۔۔۔

” جی۔۔۔۔ جی۔۔۔ “ اس نے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا شاہ زر کے ہاتھ اب تک اسکے گال سہلا رہے تھے۔۔۔۔

” یعنی میں خومخواہ خوش ہو رہا تھا۔۔۔۔ بولو سویٹ ہارٹ کیسے یاد کیا ہمیں۔۔۔۔“ وہ اسے دھیرے سے چھوڑتا اب کوٹ پہن رہا تھا۔۔۔۔

” وہ۔۔۔ مجھے پ۔۔۔ پیسے چاہیئے۔۔۔ “

اس نے سختی سے آنکھیں بند کر لیں شاہ زر کے کوٹ پہنتے ہاتھ ٹھٹک کے رُک گئے۔۔۔۔۔ حیا کی حالت بھی اس سے پوشیدہ نہ تھی۔۔۔۔ آج سے پہلے اس نے کبھی اپنی مرضی سے اس دروازے تک آنے کی بھی کوشش نا کی تھی اور اب پیسے۔۔۔۔؟؟

” پیسے۔۔۔ بس۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔؟ “

وہ یکدم سوچوں کو جھٹکتا خوش گوار موڈ میں بولا کیا یہ کم تھا وہ خود اُسکے پاس آئی ہے۔۔۔۔

” جی۔۔۔۔ 

” ایک تو تمہاری جی سے میں تنگ آگیا ہوں۔۔۔۔“

” نکال لو “

شاہ زر نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا والٹ اٹھا کے حیا کو دیا۔۔۔۔ اسے کافی دیر ہو چکی تھی اب ناشتے کا ٹائم بھی نہیں تھا۔۔۔۔ اس لیے وہ جلدی سے لیپ ٹاپ اور فائلز ایک بیگ میں رکھ رہا تھا۔۔۔۔

” آپ نکال کے دے دیں “

” جتنے چاہیے نکال لو “

وہ اسے والٹ واپس کرنے لگی۔۔۔ لیکن شاہ زر نے وہیں سے تھوڑی سنجیدگی سے کہا تو وہ نکالنے لگی۔۔۔۔

” اس میں تھاؤزنڈز ہیں مجھے فائیو ہنڈرڈ چاہیے “

وہ والٹ چیک کرتی کہنے لگی۔۔۔ شاہ زر کا دل چاہ سر پیٹ لے اپنا کہاں محبت کر بیٹھا۔۔۔۔

” تو کیا ہوا رکھ لو۔۔۔ “

” نہیں میں ریٹرن کر دونگی۔۔۔ تھنک یو سو مچ “

حیا نے تھاؤزنڈ کا ایک نوٹ نکال کے والٹ اسکے سامنے رکھا اور جانے ہی لگی تھی کے شاہ زر نے ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔۔

” جی۔۔۔ جی میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ آپ سے پوچھ کے لیے “

” تمہیں پتا نہیں شکریہ ایسے نہیں بولتے “

شاہ زر نے قریب آکر اپنے ہونٹ اسکے دائیں گال پر رکھ لیے وہ پوری جان سے لرز گئی۔۔۔ اسکی ٹانگیں لرزنے لگیں اس سے پہلے کی اسکی ٹانگیں جواب دیتیں شاہ زر کے ہٹنے کے بعد وہ دوڑتی ہوئی روم سے نکل گئی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” گندی بچی صبح سے مما کو تنگ کیا ہے “

وہ فون رکھ کے حیا کی طرف متوجہ ہوئی جو اسکا دوپٹا منہ میں ڈالے بیٹھی تھی۔۔۔۔ نور نے اسے گود میں اٹھا کے اسکی چھوٹی سے ناک دباتے ہوئے کہا۔۔۔ تو وہ دوپٹا چھوڑ کے اسکے گلے میں لٹکی ہوئی چین سے کھیلنے لگی۔۔۔۔

نور اسے بیڈ پے لیٹا کر خود بھی اسکے ساتھ لیٹ گئی۔۔۔۔

وہ اسکے چہرے کے ایک ایک نفش کو اپنے ہاتھوں سے چھونے لگی۔۔۔۔ اسکے دل سے نکلی ہر بدعا دعا بن کے لگی تھی حیا کو۔۔۔۔

کتنی بدعائیں دیں تھیں اس معصوم جان کو جس کا کوئی قصور نہ تھا۔۔۔۔ کسی نے صحیح کہا ہے ماں کی بدعا بھی دعا بن کے لگتی ہے۔۔۔۔ اسکی ساری بددعائیں اللہ‎ نے رد کردیں۔۔۔۔ اسکے برعکس اسے ایک صحت مند خوبصورت بچی سے نوازا۔۔۔۔

گلابی روئی جیسے گال۔۔۔ بڑھی بڑھی آنکھیں۔۔۔ اسکی یہ شہد رنگ آنکھیں ہمیشہ نور کا دل پگلا دیتیں۔۔۔ اس نے اپنے گلابی ہونٹ ان آنکھوں پے رکھ دیے۔۔۔ اب بھی اسکا سونے کا ارادہ نہیں تھا۔۔۔ نور نے اٹھ کے عشاء کی نماز ادا کی اس دوران ہی اسکے پاس بیٹھی کھلونے سے کھیل رہی تھی۔۔۔۔ باسکٹ میں سے کچن سیٹ نکال کر کبھی منہ میں ڈالتی تو کبھی دور اُچھال دیتی۔۔۔۔

نور نماز پڑھ کر حیا کو لیکر چھت پے آگئی ٹہلتے ٹہلتے وہ اسے سلانے کی کوشش کر رہی تھی اور آہستہ آہستہ اسکی پیٹھ تھپک رہی تھی۔۔۔۔

” نور “

ماں کی آواز پے وہ چونکی اور پیچھے مُڑی۔۔۔۔

” جی امی آپ کب آئیں۔۔۔۔؟؟؟ “

وہ اب حیا کو لیے دروازے کی طرف بڑھنے لگی جہاں اسما کھڑی ہوکر اسے آواز دے رہیں تھیں۔۔۔۔

” بس ابھی آئی ہوں۔۔۔۔ نیچے آجاؤ تمہارے ابو انتظار کر رہے ہیں تمہارا۔۔۔۔“ نور انکے قریب آئی تو اسما نے شفقت بھرا ہاتھ حیا کے سر پے رکھا جو ایک ہی دن میں ان سے مانوس ہوگئی تھی۔۔۔۔

” خیرت۔۔۔؟؟ “ نور کے چہرے پے پریشانی ابھری۔۔۔۔

” اب تمہارے بغیر وہ کھانا کھانے سے رہے۔۔۔۔!!! ارے لاؤ اسے مجھے دو تم کھانا کھا لو۔۔۔۔“ وہ حیا کو دیکھ کے بولیں جو انکے پاس آنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی تھی۔۔۔۔

” امی پریشان کریگی آپ کو ویسے بھی جب سے آئی ہوں آپ کے پاس ہی تو ہے۔۔۔۔“ اسما نے حیا کو نور سے لیا اب دونوں ہی گلاس وال کھول کے نور کے کمرے میں آگئیں۔۔۔۔

” بچے تو تنگ کرتے ہیں اور حیا تو خاص ہے۔۔۔۔ جس نے ویران گھر میں جان پھونک دی۔۔۔۔ تمہارے ابو تو آج اتنے خوش ہیں کے ہر چیز تمہاری پسند کی بنوائی ہے۔۔۔۔ اور اب تم یہاں سے جانے کا بھول جاؤ بچوں کے آتے ہی میرا گھر آباد ہوگیا۔۔۔۔ میں نے اعظم کو بھی کہہ دیا اب تم واپس نہیں جائوگی “

نور انکی بات پے بس مسکرا کے رہ گئی۔۔۔

” جیسی آپ کی مرضی لیکن ہنی کو صرف چار دن کی لیو ملی ہے واپس تو جانا پڑیگا “

نور نے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔۔۔۔

” چھوڑو آج آئی ہو اور آتے ہی ماں سے بیزار ہوگئی “

” نہیں امی جان۔۔۔!!! میں تو اس لمس کے لیے ترس گئی تھی۔۔۔۔ “ نور نے انکی گردن میں بازو حمائل کرتے کہا۔۔۔۔

” اچھا اب جاو ورنہ تمہارے ابو پہنچ جائیں گے “

اسما نے مسکراتے ہونٹوں سے کہا اور اسکی پیٹھ تھپکی۔۔۔ تو نور نے جاتے ہوے حیا کی ناک زور سے دبائی جس سے وہ رونے لگی۔۔۔۔ اس سے پہلے کے اسما اسے مارنے دوڑتیں وہ ہنستے ہوئے وہاں سے بھاگی۔۔۔۔

” اللہ‎ عقل دے اس لڑکی کو اب تک نہیں سدھری “

وہ بڑبڑاتے ہوے اسے سلانے کی کوششکرنے لگیں۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” واہ یار مان گیا تمہیں شیر کے پنجرے سے زندہ بچ کےآئی ہو “ علی نے اسے دیکھتے ہی کہا جو پھولی سانسوں سمیت بھاگتی ہوئی اوپر جانے کو تھی۔۔۔۔

” دیکھو اب میں نے چیلنج پورا کر لیا اب ریسٹورینٹ میری پسند کا ہوگا۔۔۔“ وہ اپنے پورشن کی طرف بڑھتی کہہ رہی تھی۔۔۔۔

” اوکے اب شام میں چلیں گے مجھ سے انتظار نہیں ہوگا “

” اوکے ڈن “ حیا کہتی اپنی پورشن میں چل دی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ازلان نے دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھولا اندر آتے ہی اسکی نظر بیڈ پے سوئی حیا کی طرف گئ۔۔۔ اسے دیکھتے ہی ازلان کو ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو گئی۔۔۔۔ وہ قدم اٹھاتا بیڈ کی طرف بڑھا۔۔۔۔ جھک کے اسکے گلابی گالوں کو چوما پورے کمرے میں وہ اسے کہیں نظر نہ آئی۔۔۔۔ جسے دیکھنے کے لیے وہ کل سے تڑپ رہا تھا۔۔۔۔ ریش ڈرائیونگ کر کے بھی وہ لیٹ ہی پہنچا ایک لمحہ انہیں گھر میں نہ پا کر اسکی جان حلق میں آگئی۔۔۔۔ کیسے سمجھائے وہ نور کو وہی تو ہے اس کی جینے کی وجہ۔۔۔۔ ان چاروں کے بغیر تو وہ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔

نجانے اب وہ کہاں ہے۔۔۔؟؟؟ گھر میں آتے ہی اسکی پہلی ملاقات امی سے ہوئی۔۔۔۔ جنہوں نے اسے بتایا کے امان تینوں بچوں کو لیکر پارک گیا ہے۔۔۔۔ ازلان کو اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا تھا نور سے بات کرنے کے لیے۔۔۔۔ اسلیے وہ جلد ہی امی سے مل کے روم میں آگیا۔۔۔۔ لیکن وہ دشمنِ جان تو نجانے کہاں چھپی بیٹھی تھی۔۔۔۔ اسکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے وہ کل سے بےچین تھا۔۔۔۔ اسے لگا شاید وہ باتھروم میں ہو اس کے بڑھتے قدم بالکنی سے آتے دھوئیں کی وجہ سے تھم گئے۔۔۔ بند شیشے کے پار تیز دھواں آسمان کو چھو رہا تھا۔۔۔۔ وہ تقریباً بھاگتا ہوا وہاں گیا بالکنی کا شیشہ ایک جھٹکے سے کھولا اندر جاتے اسکی نظر گھٹنوں میں منہ چپھائے نور پے گی جس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔۔

” نور کیا ہوا تم ایسے کیوں بیٹھی ہو “

نور نے بھیگی آنکھیں اوپر اٹھائیں ازلان کی نظر اسکے بکھرے حلیے پے اٹک گئی جینز کے اوپر ڈھیلی شرٹ پہنے ہوئی تھی۔۔۔۔ آنکھیں ناک رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں۔۔۔۔ بال چہرے کے گرد بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ ازلان کا دل پھٹا جارہا تھا۔۔۔۔ اسکی آنکھیں گواہ ہیں وہ پوری رات روتی رہی ہے۔۔۔۔ اچانک ہی ازلان کا دم گھٹنے لگا دھوئیں سے اسکی آنکھیں جلنے لگیں۔۔۔۔۔ لیکن دل کی اس جلن کا کیا جو اسے لاعلاج لگ رہی تھی۔۔۔۔

” کیا اپنے گھر میں بھی باپندی ہے۔۔۔۔؟؟ یہاں بھی آپکا حکم چلے گا۔۔۔۔؟؟ “

” کیوں رو کر خود کو ہلکان کر رہی ہو اپنے اس مجرم کو سزا سناؤ خود کو بخش دو۔۔۔! کیا کروں نور۔۔۔؟؟

بولو!!!! تمہاری یہ حالت میرا دل چیر دیتی ہے جو مانگوں گی دونگا چاہے تو جان لےلو۔۔۔۔؟؟؟ “

نور نے کچھ نہیں کہا اور اپنی نظریں پھیر لیں۔۔۔ ازلان نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں آگ ان چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔۔۔۔ دو تین مختلف قسم کے جلے ہوے فروک۔۔۔۔ انگوٹھی جو جل چکی تھی۔۔۔ البم جو تقریباً راکھ بن چکی تھی۔۔۔۔ وہ بنا دیکھے جان چکا تھا۔۔۔۔ یہ نور اور اسکی تصویریں ہیں۔۔۔۔ جو مختلف موقعوں پے لی گئیں ہیں۔۔۔۔ تصویریں جل چکی تھیں لیکن کچھ ٹکروں میں نور کا چہرہ کہیں فروک۔۔۔ کہیں ازلان کے ہاتھ صاف دکھائی دے رہے تھے۔۔۔ اور بھی مختلف چیزیں جل رہیں تھیں۔۔۔ گفٹس تھے ڈولس۔۔۔ کلر باکس۔۔۔ یہ سب وہ گفٹس تھے جو وہ نور کے لیے لاتا تھا۔۔۔۔

” نور تم نے یہ سب۔۔۔ “

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اسے کیا کہے۔۔۔۔ اب تک وہ کیا سمجھتا رہا تھا۔۔۔۔؟؟؟ جو لڑکی صرف اس کے دیے گئے گفٹس کو اس طرح سالوں تک سنبھال کے رکھ سکتی ہے۔۔۔۔ اسکے دل میں ازلان کے لیے کتنی محبت ہوگی۔۔۔۔؟؟؟

” ازلان ان جلے ٹکڑوں کو دیکھیں یہ میری زندگی کا خوبصورت خواب ہے۔۔۔۔!!!!!! “

اسنے ایک ہچکی لی اسے بولنا محال لگ رہا تھا۔۔۔۔ ازلان جو اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔ نور نے ہاتھ اوپر کو اٹھا کے روکا۔۔۔۔

” اس وقت جو تم دیکھ رہے ہوں یہی سچ ہے۔۔۔۔ کوئی محبت نہیں تھی۔۔۔۔ تمہارے اور میرے بیچ میں کبھی کچھ نہیں تھا۔۔۔۔ اگر محبت تھی بھی تو میرے دل میں تھی۔۔۔۔ تمہارے لیے جو اب راکھ بن چکی ہے جانتے ہو کیوں۔۔۔۔؟؟ کیوں کے اب میں نے خواب اور حقیقت میں فرق کرنا سیکھا ہے۔۔۔۔ میں جو تمہیں بتاؤنگی شاید تم ہنسوں گے۔۔۔۔ مجھ پے قہقہے لگاؤ گے میرے بیوقوفی پے۔۔۔۔ میں نے زندگی میں صرف ایک شخص سے محبت کی۔۔۔۔ اُسی کو سوچا۔۔۔ چاہا۔۔۔ اور دل کی آرزو پے اُسے خدا سے مانگا۔۔۔ لیکن تمہیں یاد ہے۔۔۔۔؟ تم نے کہا تھا اوقات سے بڑھ کے تمنا نہیں کرنی چاہیے۔۔۔۔ میں نے کی اور منہ کے بل گری تمہیں ہنسی آرہی ہوگی مجھ پے۔۔۔۔ لیکن کیا کروں میں بیوقوف تھی نا۔۔۔۔ اپنوں کے چہرے نہ جان پائی تو میلوں دور بیٹھے اُس شخص کے دل میں کیسے جھانک پاتی۔۔۔۔ کے وہاں تو کسی اور کا بسیرا تھا۔۔۔۔ بی بی جان مما بابا سب نے مجھے صرف ایک سبق پڑھایا۔۔۔۔!!!

بچپن سے۔۔۔۔ صرف ایک سبق۔۔۔۔ میں ازلان کی منگیتر ہوں۔۔۔۔ کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی میری لیے گناہ کبیرہ ہے۔۔۔۔ میں ناسمجھ صرف سر ہاں میں ہلاتی رہی۔۔۔۔ اُنکی باتیں بنا کسی چوں چراں کے مانتی رہی۔۔۔۔ میں نے بن دیکھے ازلان سے محبت کی۔۔۔۔ خود سے زیادہ اسے چاہا۔۔۔ مما نے ایک مرتبہ بتایا کے اُسکی خواہش تھی کے اُسکی بیوی ڈاکٹر بنے۔۔۔۔ میں نے اس بات کو دل پے لگا لیا۔۔۔۔ مما نے کہا اسے کھانے میں یہ پسند ہے۔۔۔ وہ پسند ہے۔۔۔ میں نے ان چیزوں کو اپنی پسند بنا لیا۔۔۔۔ میں خود کہاں تھی۔۔۔؟؟ کہیں نہیں۔۔۔؟؟؟

میں نور تھی۔۔۔!!! نور۔۔۔!!! تمہاری منگیتر بیوی نہیں۔۔۔ پھر کیوں میرا وجود مٹا دیا۔۔۔۔؟ ازلان کو یہ کلر پسند ہے۔۔۔ وہ غصّے کا تیز ہے۔۔۔ اسے یہ پسند نہیں۔۔۔ مت پہنو۔۔۔ میں سب مانتی گئ۔۔۔ سوائے چند باتوں کے۔۔۔ میں خود کو بھولی نہیں تھی۔۔۔۔ کیوں بھولتی وہ منگیتر ہے میرا مزاجی خدا نہیں۔۔۔۔!!!! وقت کے ساتھ میرے جذبات بدلتے گئے۔۔۔۔ میں نے محبت کو جانا۔۔۔ اسے جذبے کو جانا۔۔۔ جو بچپن سے میرے خون میں لہو بن کے دوڑ رہا تھا۔۔۔۔ جب دس سال کی تھی۔۔۔ مما نے یہ البم دی۔۔۔ “ وہ راکھ بن چکی البم کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔۔۔۔

” ہر رات سونے سے پہلے ان تصویروں کو دیکھتی اور تمہاری اتنی محبت پے رشک کرتی۔۔۔۔

ہاہاہاہا محبت۔۔۔ بی بی جان مما کا کہنا تھا تم میری لیے ہر شخص سے لڑ سکتے ہو۔۔۔۔ مجھ سے اتنی محبت کرتے ہو کے جسکی حد نہیں۔۔۔۔ اسکا کوئی تول نہیں۔۔۔۔ سب مجھے نا سمجھ۔۔۔ سمجھ کر بیوقوف بناتے رہے میں بنتی رہی۔۔۔۔“

وہ بھیگی آنکھوں سے ہنس رہی تھی سامنے کھڑے شخص کو آگ میں جھونک کے وہ خود بھی جل رہی تھی۔۔۔۔

” دوستوں کو جب تمہاری بے لوث محبت کا بتاتی تو سب کی یہی دلی مراد ہوتی کے انہیں بھی تم جیسا جیون ساتھی ملے۔۔۔۔

اس وقت میں خود کو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کرتی۔۔۔۔ لیکن جب تمہاری شادی کا پتا لگا میں ٹوٹ گئ۔۔۔۔ مجھے لگا کسی نے مجھے گہری کھائی میں پھینک دیا ہو۔۔۔۔ میں اس رات تڑپتی رہی روتی رہی لیکن میری بےبسی کی انتہا دیکھو ازلان۔۔۔۔ مجھے تم سے نفرت نہیں ہوئی۔۔۔ دل کے کسی کونے میں تمہارے لیے اتنی سے بھی نفرت نہیں تھی۔۔۔ عمر کا جب علم ہوا اُس وقت میں سب بھول گئ۔۔۔۔ صرف تمہاری تکلیف کا احساس ہوا تم نے کس طرح سہا ہوگا۔۔۔ کیسے برداشت کی ہوگی اپنے بیٹے کی موت۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اور۔۔۔ جانتے ہو۔۔۔؟ ہنی سے مجھے اتنی محبّت کیوں ہے۔۔۔۔؟؟ کیوں کے مجھے اُس میں تمہارا عکس دکھتا تھا۔۔۔۔ وہ تمہارے وجود کا حصہ تھا۔۔۔ کیسے مجھے وہ عزیز نا ہوتا۔۔۔۔ مما نے جب تم سے نکاح کا بتایا۔۔۔۔ اس وقت صرف ایک پل کے لیے میں نے سوچا تھا۔۔۔ کے شادی شدہ مرد سے کیسے شادی کروں۔۔۔۔؟ لیکن اگلے ہی پل میری محبت نے مجھے ہرا دیا۔۔۔ اس دن مجھے لگا میں نے یہ دنیا فتح کر لی۔۔۔۔ مجھے سب کچھ مل گیا۔۔۔ کیوں کے مجھے میری محبت مل گئ۔۔۔۔ جس شخص کے لیے میں روتی تھی۔۔۔ اسے فتح کر لیا۔۔۔۔ کتنے ہی ارمان دل میں لیے میں اس کمرے میں تمہارا انتظار کرتی رہی۔۔۔۔ اور سوچتی رہی تم مجھے کونسا تحفہ دوگے۔۔۔۔ تمہاری محبت کی داستان سنانے والوں نے مجھے اس قدر اس خواب میں Involve کر لیا کے حقیقت سامنے ہوتے ہوئے بھی میں اُسے دیکھ نہیں پائی۔۔۔ اس کمرے میں بیٹھے یہی سوچ رہی تھی کے میری رونمائی سب سے الگ ہوگی۔۔۔۔ کچھ ایسا ہوگا جو زندگی بھر یاد رہےگا۔۔۔ اور ایسا ہی ہوا میں نے اس دن محبت کا اقرار کیا تھا۔۔۔۔ اسنے مجھ سے اقرار مانگا تھا۔۔۔ رونمائی میں اُس نے مجھے تھپڑ سے نوازا۔۔۔۔ سب سے انوکھا تحفہ جو نا چاہ کر بھی مجھے ساری زندگی یاد رہے گا۔۔۔۔ اس دن میں نے محبت کا خطرناک روپ دیکھا۔۔۔ ایک وحشی انسان جس نے درندگی کی انتہا کردی۔۔۔۔۔ جانتے ہو مجھے بہت درد ہوتا تھا۔۔۔۔ جب تم مجھے مارتے تھے۔۔۔ بہت تکلیف ہوتی تھی۔۔۔ جب تم مجھے سگریٹ سے جلاتے تھے۔۔۔۔ میرے کردار پے انگلی اٹھاتے تھے۔۔۔ میں نے تو کسی غیر مرد کا نام تک نہیں لیا۔۔۔ اور تم مجھ پے کیسے کیسے الزام لگاتے رہے۔۔۔ تم نے مار دیا مجھے۔۔۔ مار دیا میری محبت کو۔۔۔۔ دیکھو میں نے اس سب کو جلا دیا جو چیخ چیخ کے تمہاری محبت کی جھوٹی داستان سناتے تھے۔۔۔۔ آج سب ختم ہوگیا۔۔۔۔ میں اس بھیانک خواب سے باہر نکل آئی۔۔۔۔ حقیقت کی دنیا میں جس میں صرف نفرت ہے۔۔۔ صرف نفرت ہر کسی کے دل میں میرے لیے۔۔۔۔۔۔۔ “


کچھ نفرت کی نظر ہوا میرا یہ وجود!!!!!!

باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا


آج ازلان کو لگا وہ سب کچھ ہار گیا۔۔۔۔ کوئی اسکے چہرے کو دیکھتا۔۔۔۔ تو جان پاتا دولت ہوتے ہوئے بھی وہ کتنا غریب ہے۔۔۔۔ وہ محبت جیسی دولت کھو بیٹھا۔۔۔۔ اپنی زندگی کھو بیٹھا۔۔۔۔ اسکی سامنے ہی وہ رو رہی تھی۔۔۔۔ ازلان لڑکھڑاتا ہوا پیچھے ہوا۔۔۔۔ نور کا عکس اسکی آنکھوں کے سامنے دھندلاتا جا رہا تھا۔۔۔۔


کب اس نے سوچا تھا محبت کے سفر میں وہ اسکے ساتھ اسکی ہمسفر بن کے چل رہی ہوگی۔۔۔۔؟؟ وہ اُسے کبھی نہیں بھولی تھی۔۔۔۔ وہ اُسے بھول ہی نہیں سکتی۔۔۔۔ آج اِسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ محبت ملنے کی خوشی منائے یا محبت کھونے کا غم۔۔۔۔


وہ آنکھوں کو صاف کرتا نور کو اٹھانے لگا۔۔۔۔ لیکن اسے دیکھتے ہی نور نے نفرت سے اس کے ہاتھ جھٹک دیے۔۔۔۔ وہ پوری رات روتی رہی ہے۔۔۔ اگر ایسا ہی رہا تو وہ خود کو بیمار کردیگی۔۔۔۔ ازلان نے ملازمہ سے جوس منگوایا۔۔۔ جب وہ جوس لیکر آئی تو اسنے ایک ٹیبلٹ جوس میں ملاکر بڑھی مشکل سے نور کو پلایا۔۔۔ اور اسکے احتجاج کے باوجود باہوں میں اٹھا کر اُسے بیڈ پے لٹایا اور وہ روتی سوجتی آنکھوں سے ازلان کو دیکھتی لمحوں میں آنکھیں موند گئی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” واللہ مزہ آگیا کیا کھانا تھا “ علی سیون اپ کے سپ لیتا ہوا گویا ہوا۔۔۔۔


” ہاں دوسروں کے پیسوں سے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے “


علی اور حیا ہاتھ پے ہاتھ مارے ہنس پڑے۔۔۔۔


” یار ایسے ہی میں شرطیں جیتوں اور بھائی کے پیسوں سے کھاتا رہوں۔۔۔ ویسے یار ماننا پڑیگا شیر کے پنجرے سے زندہ لوٹ کر آئی ہو “


” کیا مطلب زندہ لوٹ کے آئی ہو شاہ زر میری ہر بات مانتا ہے۔۔۔ میں نے بس اُسے کہا مجھے پیسے چاہیں اُس نے فوراً دے دیے بلکے مجھے فورس کر رہا تھا کے اور لوں۔۔۔ میں نے ہی منع

کیا “ حیا اترا کر بولی۔۔۔۔


” واہ یعنی بھائی ہر بات مانتے ہیں؟؟ “


وہ تو سنتے ہی حیرت زدہ رہ گیا۔۔۔


” اور نہیں تو کیا۔۔۔؟؟ یہ دیکھو رنگ ون لاکھ کی ہے “


حیا نے ہاتھ میں پہنی رنگ دکھائی جو اسے شاہ زر نے دی تھی۔۔۔۔ ون لاکھ اس نے اپنی طرف سے بولا تھا کونسا یہاں شاہ زر نے ٹپک جانا تھا۔۔۔۔


علی تو سنتے ہی اُچھل پڑا۔۔۔۔


” سیریسلی حیا آئ کانٹ بلیو یار بھائی اتنا بدل جائینگے “

رنگ اپنی مثال آپ تھی وہ ضرور آسی نوے ہزار کی تو ہوگی۔۔۔۔

” پہلے کتنے کھڑوس تھے “

علی نے پُرانا منظر یاد کرتے کہا جب شاہ زر دونوں کی کھچائی کرتا تھا۔۔۔

” ہاں کڑوے کریلے “ حیا نے ہنس کر کہا اور دوسرا مشورہ دیا۔۔۔

” علی آئس کریم بھی منگواؤ ابھی تھری ہنڈرڈ بچے ہیں “ وہ پیسوں کو ہاتھ میں لہراتی بولی بل وہ پے کر چکی تھی۔۔۔۔

” ہاں یار میٹھے کے بغیر کیا مزہ چائے بھی پی کر جاتے ہیں کون سے ہمارے پیسے ہیں “

وہ ایک بار پھر دونوں ہاتھ پر ہاتھ مارے ہنس دیے۔۔۔۔ ساتھ چائے کا آرڈر دیا۔۔۔۔

دوسری سائیڈ پر شاہ زر جو اپنی گولیگس کے ساتھ بیٹھا انکی بکواس سن رہا تھا۔۔۔ اٹھ کھڑا ہوا اب اسکی برداشت جواب دےگئ تھی۔۔۔۔ ویسے ہی اسکے کولیگس اب جانے کو تھے۔۔۔ وہ ان کے ساتھ دروازے تک آیا انہیں الوداع کلمات کہ کر ان نکموں کی ٹیبل کی طرف آیا۔۔۔۔۔

” حیا نیکسٹ ٹائم بھائی سے تھاؤزنڈ ایکسٹرا لینا ویٹر کو ٹپ اور پیٹرول کا خرچہ بھی نکل آئے گا “

” ہاں اپنے پیسے دیکھ کر دل ٹوٹ جاتا ہے “ ایک بار پھر انکی ہنسی گونجی تھی۔۔۔ دونوں آئس کریم کے مزے لوٹ رہے تھے۔۔۔

” اگر تم دونوں کی بکواس پوری ہوگئی ہے تو اٹھنا پسند کروگے۔۔۔۔“ شاہ زر کی آواز سن کر دونوں جیسے سانپ سونگ گیا۔۔۔۔ اپنی جگہ سے اُچھل کر دونوں کھڑے ہوگئے۔۔۔۔۔

” میم سر آپ کی چائے “

” یہ آپ پی لیجیئے گا ہمیں جانا ہیں جلدی بل لیکر آئیں

فاسٹ “ حیا نے چور نظروں سے علی کو دیکھا جو اس سے لاتعلق بنا زمین کو گھور رہا تھا۔۔۔۔

” سر بل “

شاہ زر نے ایک نظر بل کو دیکھا اور جلدی سے پیسے نکال کر بل کے ساتھ رکھ دیے۔۔۔۔

” یہ لو پیسے اوبر کرا کے آجانا تمہاری کلاس میں گھر آکر لونگا۔۔۔۔“ ویٹر کے جاتے ہی اس نے علی سے کہا علی نے بھی بےشرموں کی طرح اس سے پیسے لے لیے۔۔۔۔

” چلیں مسز شاہ زر یا میری تعریف میں کچھ اور کلمات کہیں گی۔۔۔“ اسکے طنز کا مطلب تھا وہ انکے مابین ہوئی گفتگو سن چکا ہے۔۔۔۔

” میں علی کے ساتھ۔۔۔۔۔“ اس نے ابھی کہا تھا کے شاہ زر کی گھوری سے وہ خاموش ہوگئی۔۔۔۔

شاہ زر نے آگے بڑھ کے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔ پہلے علی کو جانے کا اشارہ کیا پھر دونوں اسکے ساتھ چل پڑے۔۔۔۔ شاہ زر نے حیا کو کار میں بٹھایا پھر دوسری سائیڈ سے آکر ڈرائیونگ سنبھالی۔۔۔۔ حیا نے بےچارگی سے علی کو دیکھا جو اس پر ہنس رہا تھا۔۔۔ اور باے کے لیے ہاتھ لہراتے آگے رکشا ڈھونڈنے چل پڑا۔۔

☆.............☆.............☆

” ہنی آج تم حمزہ عمر کو لیکر امان کے روم میں سونا۔۔۔۔!!! نور کے پاس نہیں جانا وہ حیا کے ساتھ سو رہی ہے ڈسٹرب ہوجائے گی “

وہ ہنی کے بال سہلاتا کہتا ہوا گارڈن میں آگیا۔۔۔۔

اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کے اسکی زندگی میں ایسا کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔ نور تک جانے کا راستہ بہت آسان تھا۔۔۔ لیکن اگر وہ لندن نا جاتا تو۔۔۔۔۔ کاش کاش اسے کبھی ماہا ملی ہی نا ہوتی کاش وہ اسکی باتوں میں آکر نور پر شک نا کرتا کاش۔۔۔۔

اپنے کندھے پے دباؤ محسوس کر کے ازلان نے آنے والے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی فوراً اپنی بھیگی آنکھیں پونچھیں۔۔۔

” کیا ہوا ازلان۔۔۔؟؟ “ وہ اسکے ساتھ ہی بینچ پے بیٹھ گئے۔۔۔۔

” نہیں کچھ نہیں۔۔۔ “ وہ نظریں چُرا گیا۔۔۔۔

اعظم شاہ نے اس کندھے پے ہاتھ رکھ کر رُخ اپنی طرف کیا تو وہ انکے کندھے پے سر رکھے بلک اٹھا۔۔۔۔۔

” ابو میں نے اسے کھو دیا وہ مجھ سے دور چلی گئی ہے۔۔۔۔ بہت تکلیف پہنچائی ہے میں نے اُس معصوم کو۔۔۔۔ میں کیسے ازالا کروں اپنی غلطیوں کا۔۔۔۔ آپ نے اس وقت مجھے تھپڑ کیوں نا مارا جب خون بہا کا مطالبہ کیا تھا۔۔۔۔ چمڑی ادھیڑ دیتے میری۔۔۔۔“ ازلان ان سے الگ ہوتے سر جھکائے بیٹھ گیا۔۔۔۔

” اپنے بیٹے سے لڑ جاتا لیکن ایک باپ سے کیا کہتا۔۔۔؟؟؟ کس طرح اسے حوصلہ دیتا۔۔۔؟ کس طرح کہتا کے میرا بیٹا بے گناہ ہے۔۔۔۔ جب کہ دنیا اس کے خلاف تھی۔۔۔۔“ اعظم شاہ کچھ پل کو ٹھہرے۔۔۔

” میری بیٹی نرم دل کی مالک ہے بہت جلد معاف کردیگی “

وہ اسے امید دلا رہے تھے۔۔۔ جب کے ازلان کا جسم کپکپا رہا تھا۔۔۔ اسے یہ سفر ناممکن لگ رہا تھا۔۔۔۔

” یہ معافی آگر طویل ہوگئی۔۔۔۔“

ازلان نے ٹوٹے دل سے اپنا خدشا ظاہر کیا۔۔۔۔

” نفرت کرتی ہے۔۔۔؟؟ “ وہ اسکی حالت سمجھ گئے تھے۔۔۔۔ مدھم لہجے میں استفار کیا۔۔۔ کاش کے وہ نا سنتا وہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتےتھے۔۔۔۔

” بہت زیادہ “

یہ کہتے اسکا دل رو رہا تھا۔۔۔۔

” تمہارے جس عمل نے اُسے تم سے دور کردیا اسے سدھارو۔۔۔۔ جیسے اسکی دل میں نفرت پیدا کی ویسے ہی محبت جگا دو۔۔۔ اور ایک بات یاد رکھنا معافی مانگنے سے کوئی چھوٹا نہیں ہوجاتا۔۔۔!!! “

انکا نرم لہجہ اسکے دل کو تسلی بخش رہا تھا۔۔۔۔

” آپ کو نفرت نہیں ہوئی مجھ سے۔۔۔۔۔“

دل میں امڈتا سوال زبان سے پھسل گیا۔۔۔۔

” کیسے ہوتی بہت عزیز ہو تم مجھے میرے بھائی کی نشانی۔۔۔!!!! میرے بیٹے ہو اپنے ہاتھوں سے پالا ہے میں نے تمہیں “

وہ انکے ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا وہ اسےسمجھاتے رہے۔۔۔ ازلان کا دل کافی حد تک پر سکونہو چکا تھا۔۔۔۔

” چلو اب بہت دیر ہوچکی ہے صبح نماز کے لیے بھی اٹھنا ہے “

” جی “

وہ اپنے روم میں سونے چلا گیا جہاں وہ رہتا تھا۔۔۔۔

 گا جو اب سو چکی ہے۔۔۔۔

صبح نور کی آنکھ دیر سے کھلی کافی دنوں بعد آج وہ گہری نیند سوئی تھی۔۔۔۔ اسکی نظر پاس سوئی حیا پے گئی۔۔۔ پھر اسے یاد آیا کے کل ازلان بھی آیا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ اسے کمرے میں کہیں نا دکھا۔۔۔۔ کل وہ کھانے کے بعد وارڈروب سے اپنا ڈریس نکال رہی تھی کے اسے وہ سب تحفے ملے اور اسنے غصّے سے جلا دیے۔۔۔۔ پھر جو ہوا ایک فلم کی طرح اسکے ذہن میں چلنے لگا۔۔۔۔

” آجاؤ “

” بی بی جی یہ آپ کی اور حیا بی بی کے کپڑے آگئے “

اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے کیچر اٹھا کے بالوں کو اس میں مقید کیا۔۔۔۔

” ہنی اور بچوں نے ناشتہ کیا۔۔۔؟؟؟ “

” جی “

” اور سنو اماں آئی ہیں۔۔۔۔؟؟ “ اسے نے کھڑکی کے قریب آکر پردے ہٹائے۔۔۔

” نہیں بی بی جی وہ آج آئینگی “

” ٹھیک ہے جاؤ تم “

” بی بی جی آپ کا ناشتہ؟؟ “

” چائے لے آؤ “

آج شاہ پیلس کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا۔۔۔۔ یہاں آنے سے پہلے وہ ہنی کی کلاس ٹیچر کو اپلیکیشن دیکر آئی تھی۔۔۔ پرنسپل چونکہ ازلان کا دوست تھا تبھی اسے چار دن کی چھٹی مل گئی۔۔۔۔ آج حیا کا عقیقہ تھا۔۔۔۔ خاندان بھر کو اس تقریب میں بلایا گیا ہے۔۔۔۔ اور کل سے امان کی شادی کے فنکشنز سٹارٹ ہیں۔۔۔۔ تقریب کے مطابق امی نے اسکے اور بچوں کے کپڑے بنوائے ہیں۔۔۔۔

وہ بالکنی میں کھڑی ملازموں کو دیکھ رہی تھی جن کے ہاتھ تیز تیز چل رہے تھے۔۔۔۔

حیا کی روتی آواز آئی تو وہ بوکھلاتی ہوئی کمرے میں آئی۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” جانِ من پریشان نہ ہو میں ہوں نا۔۔۔!!! “


فریش سا ازلان خوشبوں سے مہکتا اسکے سامنے تھا۔۔۔۔ وہ ایک ہاتھ سے اپنے گیلے بال پونچھ رہا تھا۔۔۔ جبکہ دوسرے ہاتھ سے حیا کو پکڑ کے اٹھاتے ہوئے اسکے قریب چلا آیا۔۔۔


” یہ میرا ٹاول ہے “


وہ اپنا گلابی ٹاول ازلان کے ہاتھ میں دیکھ کر چیخ پڑی۔۔۔۔


” تمہارا میرا کیا الگ ہے۔۔۔!!! میاں بیوی ایک دوسری کی چیزیں شئیر کرتے ہیں۔۔۔ تم نے شاید سنا نہیں ہے میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں “


ازلان نے اسکی Knowledge میں اضافہ کیا جو قہر برساتی نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔


” کوئی میری چیزیں استعمال کرے مجھے پسند نہیں “


وہ دانت پیستے گویا ہوئی۔۔۔۔ ازلان نے مسکراہٹ روکنے کے لیے ہونٹ کا کنارہ دبایا۔۔۔ اور ٹول اسکے منہ پے اچھالا۔۔۔۔


” اب نہیں چاہیے “


نور نے ٹاول کا گولہ بناکے بیڈ پر اچھالا اور حیا کو تقریباً اس سے چھینا۔۔۔۔ ازلان نے بھی مذامت نہیں کی حیا کو اسے تھما دیا۔۔۔۔


” کیوں۔۔۔؟؟ “ وہ اسکی طرف جھکا تھا حیا کے گلابی گالوں پر بوسہ دیا۔۔۔ نور سے اپنے گال مس کیے اور بازو فولڈ کرتا سنجیدہ لب و لہجے میں بولا۔۔۔۔ جب کے اسکی آنکھوں میں شررات ناچ رہی تھی۔۔۔۔


” آپکا استعمال شدہ ہے اس لیے “ وہ اسکی سائیڈ سے نکلی۔۔۔


اسکا لمس نور کو آگ میں نہلا گیا وہ اسے ”چیپ“ لقب سے نوازتی حیا کو بیڈ پے لیٹا کر اسکا پیمپر چینچ کرنے لگی۔۔۔ پھر پاس پڑے دسٹبن میں وہ گندھا پیمپر پھینکا۔۔۔۔


” اچھا۔۔۔!! تو آج سے چھت پے رہنا کھانا اکیلے کھانا کپڑے نیو لیکر پہننا۔۔۔۔ واشروم اوپر بنوانا اور کچن بھی اور ہاں بچوں سے ملنا بھی مت۔۔۔۔“


وہ ڈریسنگ کے سامنے آکھڑا ہوا خود پے پرفیوم سپرے کیا۔۔۔ اور موبائل چارجنگ سے ہٹا کر جیب میں رکھا۔۔۔۔


” اب ظاہر ہے مجھ سے نفرت ہے تو میرے بچوں سے بھی ہوگی۔۔۔ میرے ساتھ کھانا تمہیں گوارہ نہیں ہوگا۔۔۔۔ میرے روم میں رہنا بھی تمہارے لیے اذیت کا باعث ہوگا۔۔۔۔ میرے پیسوں کے کپڑے پہننا تمہیں منظور نہیں ہوگا۔۔۔ ایم آئی رائٹ “ نور کی تیکھی نظریں خود پے مرکوز دیکھ اسنے وضاحت کی۔۔۔۔


” آپ یہاں کتنے دن رہینگے۔۔۔۔؟؟ “ تھک ہار کے اسنے پوچھا وہ لان کا ہلکا سا کام شدہ فراک حیا کو پہنانے لگی جو باپ کی طرح مسلسل اسے تنگ کر رہی تھی اپنے ہاتھ پاؤں چلا کر۔۔۔۔


” میرا تو اپنا گھر ہے جب تک دل چاہے گا رہونگا۔۔۔۔ تم بھی رہ سکتی ہو ڈونٹ وری یہ تمہارا سسرال پلس میکا جو ہے “


نور اکتا چکی تھی اسلیے چپ ہوگئی کے شاید اسکی خاموش محسوس کر کے وہ کمرے سے چلا جائے۔۔۔۔ جبکے ازلان نور کا کوئی جواب نا پاکر بیڈ پے آکر اسکے بربرا لیٹ گیا۔۔۔ اور اسکے حسن کو دل میں اتارنے لگا۔۔۔ جو اب حیا کی آنکھوں میں سرما لگا رہی تھی۔۔۔ وہ مکمل اسکے دل و دماغ پے قبضہ جما چکی تھی۔۔۔ وہ جب سے اسکے نکاح میں آئی تھی۔۔۔ ہر ممکن کوشش کرتی اس سے دور رہنے کی(آخر اسکی وجہ بھی تو وہی تھا) جبکے ازلان کوئی موقع جانے نا دیتا۔۔۔۔ کسی نا کسی بہانے سے اسے روم میں بلاکر ہی دم لیتا۔۔۔۔ اور آج جب اسکا دل نور کے نام پر ایک بار پھر دھڑکنا شروع ہوا تھا۔۔۔۔ وہ اسکے لیے اجنبی بن گئی پہلے وہ اسکی ایک دھاڑ سے سہم کر کمرے میں پہنچ جاتی۔۔۔۔ اور اب وہ منتیں کر کے تھک جاتا۔۔۔ وہ نہیں آتی۔۔۔ آتی بھی تو تینوں باڈی گارڈز کو ساتھ لیکر۔۔۔۔۔ نور کو اب ازلان کی موجودگی سے کوفت ہونے لگی تھی۔۔۔۔ جس کی نظریں اس پر سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔۔۔۔ وہ اس وقت اپنی بیٹی کی طرف متوجہ تھی۔۔۔ سرمے سے سجی شہد رنگ گہری آنکھیں نور دیکھتی رہ گئی بےاختیار اسکا ماتھا چوما۔۔۔۔


” میری گڑیا “


” ہماری گڑیا۔۔۔!!! ڈارلنگ “ ازلان نے اسکا دوپٹا کھینچا۔۔۔ جو اسنے ڈھیلی شرٹ کے ساتھ پہنا تھا۔۔۔ وہ اسکی حرکت سے سٹپٹا گئی۔۔۔ اپنا دوپٹا دونوں ہاتھوں سے پکڑ کے چھوڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ اسکا تنفس بڑھ رہا تھا۔۔۔ ازلان کو خود پے جھکتا دیکھ۔۔۔۔ ازلان جو اسکے قریب تر ہوتا جا رہا تھا دستک سے بدمزہ ہوکر پیچھے ہوگیا۔۔۔۔


” آجاؤ “


نور نے اپنی سانسیں بحال کر کے کہا اور دوپٹا اچھے سے شانوں پر پھیلا دیا۔۔۔۔


” بی بی جی یہ آپ کی چائے۔۔۔“ ملازمہ چائے کے ساتھ بسکٹس اور سلائس بھی ٹرے میں لائی تھی۔۔۔ جو یقیناً اسما نے اسکے لیے بھیجے ہونگے۔۔۔۔


” آئندہ میری موجودگی میں کوئی بھی مجھے روم میں نظر نا آئے۔۔۔ باہر ملازموں کو بھی بتا دینا “


باہر جاتی ملازمہ کے قدم ازلان کی سرد آواز سے تھم گئے۔۔۔۔ اُس نے سر اثبات میں ہلا کر کمرے سے دوڑ لگائی۔۔۔۔ جبکہ نور اسکا غصّہ دیکر کچھ اور دور کھسک گئی۔۔۔۔


” جانِ ازلان تم کیوں دور جا رہی ہو تمہیں تھوڑی کہا ہے۔۔۔۔۔“ فون کی بجتی بیل سے اسکے ماتھے پے شکنیں نمودار ہوئیں۔۔۔ اسنے جیب سے فون نکلا اور نمبر دیکھتے ہی بنا کسی تاخیر کے فون اٹھا لیا۔۔۔


” اڈ۔۔۔ اڈ۔۔۔ اڈا “ حیا فون کی آواز پے خوشی سے چیخی۔۔۔۔


” جی ابو۔۔۔ جی بس آرہا ہوں۔۔۔ جی۔۔۔ “


” میری جان ابھی جلدی میں ہوں رات کو ملیں گے“


اعظم شاہ کا فون سن کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور جانے سے پہلے محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ جبکے نور اسکے جانے کے بعد غصّے کی شدت سے سرخ پڑ گئی۔۔۔۔


” ہونہہ دوغلے انسان اب مجھ سے محبت ہوگئی “


وہ اسکی سوچوں کو جھٹکتی بیڈ پے پڑا اپنا اور حیا کا ڈریس دیکھنے لگی جو آج کی تقریب میں اسے پہننا تھا۔۔۔۔ یہاں آکر وہ سکون سے رہ رہی تھی۔۔۔ حمزہ عمر کی بھی کوئی ٹینشن نہیں تھی۔۔۔ وہ امی کے ساتھ بہل گئے تھے۔۔۔۔ اور کل رات ہی اماں اور بی بی جان بھی گاؤں چلی آئیں۔۔۔۔ ازلان اپنی جلدبازی میں انہیں لانا ہی بھول گیا۔۔۔ جسکے بعد ابو نے اسکی خاص کلاس لی۔۔۔ اُس وقت نور بھی وہاں موجود تھی ازلان کی اتری شکل دیکھ کے اسے مزہ ہی آگیا۔۔۔۔


” مما “


اسکی سوچ ہی تھی وہ یہاں رہ کر پُر سکون ہے کیوں کے عمر اور حمزہ اسما کے ساتھ اندر آئے۔۔۔۔ اور حسبِ توقع عمر نے آتے ہی اس کے سامنے ہاتھ اوپر کیے جسکا مطلب تھا اسے گود میں اٹھائے۔۔۔۔ نور نے ایک دھپ اسے لگائی جس پے وہ رونی صورت بنا گیا۔۔۔۔ پھر جھک کر اسے اٹھاتے ہوئے پاس بٹھایا۔۔۔۔ جبکے اسما اسے شام کی تقریب کے بارے میں بتانے لگیں۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” ہاں تو مسز شاہ زر وہاں کیا فرما رہیں تھیں۔۔۔۔“ شاہ زر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے اس سے پوچھا۔۔۔


” ک۔۔۔۔کہاں۔۔۔؟“ وہ انجان بن گئی۔۔۔ اسے شاہ زر سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ لیکن شاہ زر کہیں سے نہیں لگ رہا تھا غصّے میں ہے۔۔۔۔ بلکے اسکا موڈ کافی فریش لگ رہا تھا۔۔۔۔


” یہی کے میں تمہیں کڑوا کریلا لگتا ہوں “


شاہ زر نے آنکھیں سیکوڑ کر دھمکانے والے انداز میں اسے یاد دلایا۔۔۔


” نہیں۔۔۔ تو۔۔۔ وہ بس۔۔۔ منہ سے نکل گیا “


وہ کانپتے لہجے میں بولی۔۔۔ شاہ زر کا بھروسہ نہیں تھا کار سے دھکا دیکر نکال دیتا جیسے بےعزت کر کے اپنے روم سے نکال دیتا۔۔۔


” اور کیا کہہ رہیں تھیں دوسروں کے پیسوں سے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے تمہارے میرے پیسے الگ ہیں کیا۔۔۔۔؟؟ “


شاہ زر نے پوچھتے ساتھ اس سے رائے لی۔۔۔ تو وہ سمجھی نہیں۔۔۔ سمجھ آنے پر اسکا دل چاہا اپنی عقل پر ماتم کرے۔۔۔۔


” میں۔۔۔ نے۔۔۔ بس۔۔ ایسے۔۔۔ ہی کہہ دیا تھا “


وہ انگلیاں مروڑے اپنی صفائی پیش کر رہی تھی۔۔۔۔


” علی کے ساتھ تو ہنس ہنس کر باتیں کر رہیں تھیں اور یہاں۔۔۔۔؟؟؟ “ شاہ زر نے اسکا جھجکنا، ڈرنا محسوس کر کے طنز کیا۔۔۔۔


” وہ علی تھا۔۔۔۔ “ حیا نے دھیمی سر گوشی کی تھی جسے شاہ زر نے باآسانی سن لیا۔۔۔


” میں آدم خور جانور ہوں “


” لیکن ہم تو کلاس ممالیہ سے بلونگ کرتے ہیں۔۔۔ “ حیا نے سمجھداری سے سوچ کے جواب دیا جو اس نے فرسٹ ائیر میں پڑھا تھا۔۔۔۔


” جب عقل بٹ رہی تھی تم کہاں تھیں۔۔۔۔؟؟ “ وہ تپ ہی تو گیا تھا اسکی بیوقوفوں والی باتیں سن کر۔۔۔۔


” عقل بٹتی ہے۔۔۔۔؟؟ “ حیا نے سمجھداری سے ایک اور سوال پوچھا۔۔۔۔۔


” تم بہت چالاک ہو مجھے باتوں میں الجھا کر اصل بات بھلا دی۔۔۔؟؟ میں نے پوچھا تھا بتایا نہیں تھا آدم خور جانور ہوں۔۔۔۔ جو انسانوں کی طرح بات نہیں کرتی۔۔۔۔؟؟؟ “ شاہ زر نے اسے گھورتے کہا حیا گھبرا گئی۔۔۔۔


” نہیں۔۔ نہیں۔۔۔ بس علی سے میری بچپن سے دوستی ہے “


اس نے تھوک نگلتے صفائی پیش کی۔۔۔۔


” مجھ سے نہیں۔۔۔؟؟ “ شاہ زر نے معصومیت سے پوچھا۔۔۔۔


” نہیں۔۔۔“ حیا نے بلا جھجک جواب دیا کونسے دونوں کے اچھے تعلقات رہ چکے تھے۔۔۔؟؟


” کیوں؟؟ “


” کیوں کے دوست ایسے ہوتے ہیں جو ہر بات ایک دوسرے سے شئیر کرتے ہیں۔۔۔ آپ تو آپنے روم تک میں مجھے گُھسنے نہیں دیتے۔۔۔۔“ وہ خفا نظر اس پر ڈالتے ہوئی بولی۔۔۔ تو شاہ زر کو اپنا گزرا رویہ یاد آیا۔۔۔۔


” اب تو وہ تمہارا بھی ہے۔۔۔ پورے حق سے آیا کرو جاناں۔۔۔!!! “ اس نے بات کو محبت بھری سر گوشی سے ٹال دی۔۔۔۔


” تمہیں پتا ہے یہ رنگ اسکی قیمت کیا ہے۔۔۔؟؟ “ شاہ زر نے احتیاط سے ڈرائیونگ کرتے ساتھ اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔


” نہیں۔۔۔ بٹ میری فرنڈ نے کہا ایک لاکھ کی ہوگی۔۔۔ “ حیا کو شک گزرا جیسے شاہ ذر نے علی اور اسکی بات سن لی ہے۔۔۔۔


” یہ 5 لکھ کی ہے۔۔۔۔“ پانچ کا سنتے اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔۔ اتنی ایکسپینسو تو میر نے بھی کبھی لیکر نہیں دی۔۔۔۔


” جی۔۔۔ جی۔۔۔۔؟؟ “ سوالیہ نظریں اس پر گاڑے حیا نے کنفرم کرنا چاہا۔۔۔۔


” جی یہ ممی کی رنگ تھی انہوں نے تمہارے لئے دی تھی۔۔۔ بٹ یے تین لاکھ کی ہے بٹ میں نے دو لاکھ اور ایڈ کر کے یہ ڈیزائن بنوایا۔۔۔۔ ممی والا اولڈ فیشن تمہیں یقیناً پسند نا آتا۔۔۔۔ “


گھر آچکا تھا شاہ زر نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا حیا اب غور سے ہاتھوں میں سجی یہ رنگ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔


” تم بےحد انمول ہو حیا۔۔۔ یہ رنگ تمہارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔۔۔۔“ شاہ زر نے ہاتھ کی پشت سے اسکا گال سہلایا۔۔۔۔


” میں کار پارک کرکے آیا تب تک ایک سٹرونگ سی چائے لیکر ہمارے روم میں آنا۔۔۔ “


ایک شرمیلی مسکان اسکے ہونٹوں پر چھا گئی وہ کار کا دروازہ کھولے اس سے دور ہوتی چلی گئی۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ وائٹ شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔۔۔۔ آج شال کے بجاۓ کندھوں پے کالے رنگ کا ویسٹ کوٹ پہنا تھا۔۔۔۔ جو اسکی بھرپور مردانہ وجاہت میں اظافہ کر رہا تھا۔۔۔۔ اسکی شخصیت کسی کو بھی دیوانہ بنانے کی کشش رکھتی تھی۔۔۔۔ لیکن وہ تو خود سامنے کھڑی حسن کا پیکر اپنی بیوی کا دیوانہ تھا۔۔۔۔ جو اسے نظر انداز کر کے اپنے میک اپ کو فائنل ٹچ دے رہی تھی۔۔۔۔


اسکی نظریں ایک پل کو بھی اس سے نا ہٹیں اسکے ہاتھوں میں لرزش محسوس کرتے ہوے بھی وہ ڈھیٹ بنا رہا۔۔۔


” ٹرن۔۔۔ٹرن “


کوئی پانچویں دفع امان نے کال کی ہر بار وہ اسے۔۔۔۔ ” ہاں بس پانچ منٹ میں آرہا ہوں “ کہ کر فون رکھ دیتا۔۔۔ لیکن اسکے فون اٹھانے پر گود میں بیٹھی اسکی بیٹی رونے لگتی۔۔۔۔ جو فون پے کوئی ویڈیو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اس دفع اسنے فون اٹھانے کی غلطی نہیں کی۔۔۔۔ کیوں کے نور اور حیا وہ واحد شخصیت ہیں جنکی آنکھوں میں آنسوں دیکھتے ہی وہ تڑپ اٹھتا تھا۔۔۔۔۔


ازلان نے حیا کو اٹھا کے بستر پے لٹایا اور چلتا ہوا اس دشمنِ جاں کے پیچھے آکھڑا ہوا۔۔۔


” کیا حال کردیا ہے میری معصوم بیوی کا۔۔۔“ ازلان افسوس سے بولا نظریں شیشے کے سامنے چوڑیاں پہنتی نور پے تھیں۔۔۔۔ جسنے ایک پل کو اسکی آواز پے نظریں اٹھائیں اور اگلے ہی پل اس سے بےنیاز ہوکر خود پے بوڈی اسپرے چھڑکا۔۔۔۔


” ایک گھنٹے سے میں تمہاری نا ختم ہونے والی جدوجہد دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔ بیوقوف لڑکی تم سادگی میں ہی غضب ڈھاتی ہو۔۔۔“ کہتے ہی ازلان نے پاس پڑے کیچر سے اسکے کُھلے بال بند کیے اس دوران اسکی نظر گردن پے موجود تل پے پڑھی وہ نرمی سے اسکی گردن چھونے لگا۔۔۔۔ جبکے ازلان کا دہکتا لمس نور کے پورے وجود میں سنسناہٹ بخش گیا۔۔۔۔ ازلان اسکے وجود سے امڈتی سحر انگیز خوشبو کو خود میں اتارنے لگا۔۔۔۔ جو اسے بےبس کر رہی تھی۔۔۔۔


” از۔۔۔از۔۔لان۔۔۔۔ “ بامشکل کانپتی آواز میں وہ گویا ہوئی۔۔۔۔ لیکن ازلان سن ہی کہاں رہا تھا۔۔۔۔ وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسکی گردن پے جھکا تھا۔۔۔ اور اسکے لرزتے وجود کی پروا کئے بغیر اپنی محبت کی نشانی ثبت کر گیا۔۔۔ خوف اور شرم سے نور کی حالت ُبری ہو رہی تھی۔۔۔۔


” حق رکھتا ہوں “ وہ آئینے میں اسکی جھکی پلکیں, کپکپاتے ہونٹوں کو دیکھ کے گویا ہوا وہ اسکی حالت سے خوب محظوظ ہوا۔۔۔۔


” اڈا۔۔۔ اڈا “ وقتاً وقتاً حیا کی آواز اس خاموش ماحول میں گونجتی۔۔۔۔


” آپ۔۔۔۔ ازالہ۔۔۔ کرنا۔۔۔۔ چاہتے۔۔۔۔ ہیں۔۔۔۔؟؟ “ وہ بند آنکھوں سے گویا ہوئی ازلان کی قربت اسے کسی صورت برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔ دل کے جن خانوں کو وہ سختی سے بند کر چکی تھی۔۔۔۔ ازلان ہر ممکن کوشش کر کے اسے واپس بےبس کر رہا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ کبھی اس محبت کو باہر آنے نہیں دیگی جسے وہ اب دفن کر چکی ہے۔۔۔۔


صبح ازلان کے جانے کے بعد وہ جس کشمکش میں گھری تھی۔۔۔ اسکا فیصلہ ہوچکا تھا آج پورا خاندان اس عقیقے میں مدعو تھا۔۔۔۔ آج اسکی اتنی تیاری کا مرکز انہیں نیچا دکھانا ہے۔۔۔۔ جو مشکل وقت میں اسکے حالت پے خوش ہوتے تھے۔۔۔۔ آج تک وہ اپنی بے عزتی نہیں بھولی۔۔۔۔ جو ازلان نے سب کے سامنے اسکی کی تھی۔۔۔۔


” ہاں بولو کس طرح کروں اپنی غلطیوں کا ازالا۔۔۔۔!!! جو کہو گی وہ کرونگا۔۔۔۔“ ازلان کو جیسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔۔۔ اسنے نے جھٹکے سے نور کا رُخ اپنی طرف کیا۔۔۔ اسکےلہجے میں بےقراری ہی بےقراری تھی۔۔۔۔


” سب کے سامنے معافی مانگیں گے۔۔۔۔؟؟؟ “ گہری خاموشی کے بعد اسکے لب ہلے۔۔۔


” بس۔۔۔؟؟؟ “ ازلان نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔۔۔۔ نور کو اس سوال کی توقع ہر گز نہیں تھی۔۔۔۔ اسکا دل تو اب بھی نہیں چاہ رہا تھا کے اسکا شوہر سب کے سامنے اس سے معافی مانگے۔۔۔۔ لیکن ازلان کو کب اس پے رحم آیا تھا۔۔۔۔؟؟؟ جو وہ کرے۔۔۔۔


” بہت چھوٹی خواہش ہے۔۔۔۔ پوری ہو جائے گی فلحال تم ذرا خود کو دیکھو۔۔۔۔“ ازلان نے شانوں سے تھام کے اس کا رُخ آئینے کی طرف کیا۔۔۔۔


” اس وقت تم میری ہم عمر لگ رہی ہو۔۔۔ کوئی پچیس چھبیس سال کی عورت۔۔۔۔ یہ میری نور نہیں ہے جو دنیا کو دکھانے کے لیے اس وقت جوکر بنی میرے سامنے کھڑی ہے۔۔۔۔ تم سادگی میں ہی سب کو مات دیتی ہو تمہارا اوروں سے کیا مقابلہ۔۔۔۔؟؟ جب شوہر ہی تمہارے عشق میں مبتلا ہو تو دنیا کی کیا پروا۔۔۔۔؟؟ وہ نا پہلے خوش تھے نا اب ہیں۔۔۔ کیوں تم نے ان کے لیے اپنی سادگی ختم کردی۔۔۔۔“ وہ سنجیدگی سے اسے آغا کر رہا تھا۔۔۔۔ جو خود کو بھول کر دوسرے کے مطابق اپنے آپ کو اُس روپ میں ڈھال چُکی ہے۔۔۔


نور کو ازلان کی باتیں دل پر لگی تھیں صحیح تو کہہ رہا تھا وہ۔۔۔ پہلے بھی اسنے یہی حرکت کی تھی اور بُری طرح اپنی بےعزتی کروائی تھی۔۔۔


” تم کہیں سے سولہ سترا سال کی نہیں لگ رہی۔۔۔۔ اس خطرنک میک اپ میں“ آخر میں وہ شرارت سے گویا ہوا۔۔۔۔


” بابا “


ہنی کی آواز پے وہ بوکھلاتا ہوا یکدم اس سے دور ہوا۔۔۔۔ جبکے نور شرمندہ سے ہوکر ڈریسنگ ٹیبل پر پھیلا میک اپ پاس پڑے باکس میں رکھنے لگی۔۔۔۔


” یار ناک کر کے آیا کرو “ ازلان بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا۔۔۔۔


” میری مما کا روم ہے کل جب نوک کر کے آیا تھا مما نے کہا میں ایسے ہی آجاؤں۔۔۔۔“ وہ ازلان کو جتا کر بولا۔۔۔


” اچھا بھائی معاف کرو یہ بتاؤ گیسٹ آگئے۔۔۔۔؟؟؟ “ ازلان نے ہار مانتے ہوئے کہا اور قریب آکر اسکی پیشانی پر بکھرے بال ہاتھ سے سنوارے۔۔۔۔


” ہاں بابا تائی امی تایا ابو سب آگئے بس آپ دونوں ہی رہ گئے“


فیضان کا نام سن کر وہ فوراً کمرے سے نکل گیا جبکے ہنی کی نظریں نور پے اٹک گئیں۔۔۔۔ جو ان سے بےنیاز بنی سب چیزیں ترتیب سے رکھ رہی تھی۔۔۔۔


” مما یہ کیا کیا ہے آپ نے۔۔۔۔؟؟ “


ہنی کا کہنے پے ایک نظر اسنے اپنے سجے سنورے روپ پر ڈالی۔۔۔۔ آنکھوں پے گہرا ڈارک براؤن آئی شیڈ لگایا تھا۔۔۔۔ ہونٹوں پر مہرون لیپس ٹک اور گالوں پر حد سے زیادہ بلاش اون۔۔۔ اسے تو اپنا میک اپ ٹھیک ہی لگ رہا تھا۔۔۔۔ شاید دو سالوں بعد کیا تھا اسلیے ساری کسر اسنے ایک ہی فنکشن میں نکال دی۔۔۔۔ وہ ہنی کا حیرت سے کُھلا منہ اور ریمارکس سن کر فوراً واشروم میں گھس گئی۔۔۔۔


رگڑ رگڑ کے اپنا چہرہ صاف کیا پھر باہر آکر ہلکا سا نیچرل میک اپ کیا۔۔۔۔ اور دوپٹا اپنے شانوں پر پھیلا کر ان دونوں کے پاس آگئی۔۔۔۔ جھک کے اسنے ہنی کے ساتھ کھیلتی حیا کو اٹھایا اور ہنی نے حیا کے ہاتھ سے فون لیکر جیب میں رکھا۔۔۔۔


” ہنی میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا مجھے ڈر لگ رہا ہے “


نور نے اپنے ٹھنڈے پڑتے ہاتھ سے ہنی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


نکاح کے بعد وہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی۔۔۔۔ لیکن اس واقع کے بعد تو حیا نے نیچے نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔۔۔ کتنی ہی دفع اسنے عائشہ سے حیا کا پوچھا۔۔۔ لیکن عائشہ کا ایک ہی جواب ہوتا روز ہی تو آتی ہے۔۔۔۔ پر آج وہ بُری طرح پکڑی گئی تھی۔۔۔۔ اسے فیضان نے اپنے پاس بٹھایا ہوا تھا۔۔۔۔ اور اسے حال احوال پوچھ رہے تھے۔۔۔۔ ورنہ وہ آٹھ بجتے ہی اپنے پورشن میں بھاگ جاتی کے کہیں شاہ زر سے ٹکراؤ نہ ہوجائے۔۔۔۔


” تایا ابو میں تائی امی کے پاس جاتی ہوں انہیں کام تھا مجھ سے۔۔۔“


وہ شاہ زر کو وہیں لاونچ میں فیضان کے ساتھ بیٹھتا دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔ شاہ زر بےزار سا بیٹھا رہا۔۔۔ پھر اٹھ کے اپنے کمرے میں چلا آیا چینج کرنے کی غرضسے۔۔۔۔ وہ آفس سے لوٹا تھا صرف حیا کی وجہ سے وہاں بیٹھا تھا۔۔۔۔


عائشہ جو توے پر روٹی ڈال رہی تھی فون کی آواز سن کر میکرو ویو کے اوپر رکھا فون اٹھایا اور کال اٹینڈ کرنے کے بعد مسکراتی ہوئی موبائل پاس بیٹھی حیا کو دیا جو ادرک کاٹ رہی تھی۔۔۔۔ حیا نا سمجھی سے عائشہ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔


” بیٹا شاہ ذر کی کال ہے بات کرو “


” جی “ اسنے کپکپاتے ہاتھوں سے فون تھاما۔۔۔


” ہیلو “ مری مری آواز با مشکل حلق سے نکلی۔۔۔۔


” میرے روم میں آؤ “


” جی۔۔۔۔ جی۔۔۔۔ “


” کتنی دفعہ کہا ہے جی جی مت کہا کرو۔۔۔ تین منٹ ہیں تمھارے پاس ایک منٹ بھی لیٹ آئیں تو تم مجھے جانتی ہو “


” سنئیں میں کیسے آؤں تائی امی پاس کھڑی ہیں“

وہ پریشانی سے گویا ہوئی۔۔۔۔


” تم کیا چاہتی ہو نیچے آکر تمہیں اپنے بازؤں میں اٹھا کے لاؤں سب کے سامنے بولو۔۔۔؟؟ یا خود آؤ گی۔۔۔؟؟ “

" نہیں۔۔۔نہیں میں آ رہی ہوں “ کہتے ہی اسنے کال کاٹ دی دوسری طرف شاہ زَر مسکراتا حیا کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔


وہ باہر کھڑی کتنی دیر سوچتی رہی۔۔۔۔ پھر ہمت جمع کرکے اندر کی طرف بڑھی۔۔۔۔ لاسٹ ٹائم کا واقع سوچ کر اسکے پسینے چھوٹنے لگے۔۔۔۔


” دروازہ لوک کرنا “


وہ اسکے حکم سے گھبرا گئی لیکن پِھر شاہ زَر کو دیکھا۔۔۔۔ جو اِسے سوچتا پاکر غصّہ میں آگیا۔۔۔۔ اسکی پیشانی پے بل نمودار ہوے۔۔۔۔ وہ ڈرتی جھجکتی اِس کے قریب آگئی۔۔۔۔ شاہ زَر اب اٹھ کے بیٹھ گیا حیا کے قریب آتے ہی اِس نے ہاتھ پکڑ کے اِسے پاس بیٹھا دیا۔۔۔۔ اِسکے ٹھنڈے پڑتے ہاتھ سے شاہ زر اِسکی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔۔۔۔ اگر وہ اسے دھمکی نا دیتا تو وہ کبھی نا آتی۔۔۔۔


” پہلے تو یہ بتاؤ نکاح کے بعد تم نے آنا کیوں بند کر دیا۔۔۔ اور اب ریسٹورنٹ والے واقعے کے بعد کمرہ نشین ہوگئیں۔۔۔ ہمیں خدمت کا موقع ہی نہیں دیتیں۔۔۔“


” وہ میں۔۔۔۔۔میں آتی تو ہوں “


جھکی پلکوں کی لرزاہٹ اسے اور معصوم اور دلکش بنا رہیں تھیں۔۔۔۔ تیز چلتی دھڑکنوں کو وہ با مشکل قابو کیے ہوئے تھی۔۔۔۔


” کب آتی ہو “


” جب آپ نہیں ہوتے “


بے اختیار اِس کی زبان سے پھسلا پِھر زبان دانتوں تلے دبا دی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔۔۔


شاہ زر مسکراتا ہوا اِسکے اور قریب آگیا۔۔۔۔ اسکی نظریں چاند کی طرح چمکتے چہرے پے تھیں۔۔۔۔ جو اپنا نچلا ہونٹ بڑی بے دردی سے کاٹ رہی تھی۔۔۔۔ شاہ زر کا دل چاہ رہا تھا وقت یوں ہی تھم جائے۔۔۔ وہ اس دل لوٹ لینے والے منظر کو قید کرلے۔۔۔۔ اسنے شوخ نظروں سے اسے گھورا اور بڑے آرام سے ہاتھ بڑھا کر اسکا نچلا ہونٹ آزاد کیا۔۔۔


” کیوں مظلوم پر ظلم کر رہی ہو۔۔۔۔“ وہ شرم وحیا سے کٹ کے رہ گئی۔۔۔ اسکی قُربت کے ساتھ لفظوں اور لہجے کی شرارت اور شوخی نے اسے مزید حواس باختہ کردیا۔۔۔۔


” وہ میرا مطلب۔۔۔۔۔ “ وہ انگلیوں کو آپس میں مروڑتی شاہ زر کو کنفیوس لگ رہی تھی۔۔۔۔


” کیا مطلب۔۔۔۔؟؟ “ شاہ زر اسے تنگ کر رہا تھا۔۔۔۔


” وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ آپ نے کیوں بلایا تھا۔۔۔؟؟ “ حیا نے بات بدلنا بہتر سمجھی۔۔۔۔


” خود سے تو آنے سے رہی اِس لیے بلانا پڑا۔۔۔۔“ شاہ زر کی محبت بھری سرگوشی سے وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔۔۔۔۔


” آپکو کوئی کام تھا۔۔۔۔؟؟ “ وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوے کہنے لگی۔۔۔۔۔


” اب تک کون سا کام کہا ہے تمہیں۔۔۔۔؟؟ “ وہ اسے نظروں کے حصار میں لیتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔۔


” نہیں وہ۔۔۔۔۔ اپنے پہلے کبھی بلایا نہیں۔۔۔۔“ اسکا دل چاہ رہا تھا یہاں سے بھاگ جائے۔۔۔۔ شاہ زر اسکی ہر بات سے کوئی نا کوئی بات نکالتا اسے بولنے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔۔۔۔


” پہلے نکاح کب ہوا تھا۔۔۔۔؟؟ “ حیا مسلسل اسے نظر انداز کرتی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی شاہ زر نے تنگ آکر اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔۔


” پلیز “ اسنے دبی دبی آواز میں احتجاج کیا۔۔۔۔ شاہ زر اسکی حالت سے جی جان سے محفوظ ہو رہا تھا۔۔۔۔


” کیا پلیز۔۔۔؟؟ “ شاہ زر کا معصوم لہجہ قابلے تعریف تھا۔۔۔ وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔


” میں جاؤں۔۔۔۔“ وہ روہانسی ہوگئ اپنا ہاتھ چھڑانے کی بھرپور کوشش کررہی تھی۔۔۔


” نہیں ایک کام کرو اب تم یہیں رک جاؤ سمجھ لو رخصتی ہوگئ تمہاری “


وہ تو مزے سے بول کر خاموش ہوگیا۔۔۔ یہ جانے بغیر کے مقابل کی کیا حالت ہوگی۔۔۔ اب گبھرانے کی باری شاہ زَر کی تھی وہ اس کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


” یار میں مذاق کر رہا ہوں۔۔۔۔ حیا ادھر دیکھو “


وہ اِس کے بازوں کو تھام کے بولا اور ٹھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اوپر کیا۔۔۔۔ چہرہ پے آنسوؤں کے ننے قطرے نمودار ہوے شاہ زَر نے اسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔


” کیا بچپنا ہے حیا میں مذاق کر رہا تھا یار۔۔۔۔ شوہر ہوں تمہارا کیوں گھبراتی ہو اتنا۔۔۔۔؟؟؟ اب تو ڈانٹتا بھی نہیں تمہیں۔۔۔۔۔ پِھر کیوں۔۔۔؟؟؟


کچھ پل یوں ہی گزر گئے۔۔۔ حیا کو قربت کا احساس ہوا تو یک دم الگ ہونے کی کوشش کی۔۔۔۔ لیکن شاہ زَر کی گرفت مضبوط تھی۔۔۔۔


” کوشش بیکار ہے؟؟؟ “


” پلیز شاہ زَر۔۔۔“ وہ ملتجی لہجے میں کہتی شاہ زر کو بےبس لگی۔۔۔۔


” یار پِھر پتہ نہیں کب نصیب ہوں یہ لمحے “


وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ شاہ زَر نے اسے خود سے الگ کرکے اسکے ہاتھ کو اپنے ہونٹ سے لگایا۔۔۔۔


” میں کل ملیشیا جا رہا ہوں کچھ ماہ کے لیے “


حیا کے چہرے پے اُداسی دیکھ کے شاہ زَر کو ایک گونہ سکون ملا۔۔۔۔ یعنی اسکے ہونے نا ہونے سے اسے فرق پڑتا ہے۔۔۔۔


” تمہیں تو خوشی ہوگی۔۔۔۔؟؟ “ وہ اس سے محبت کا اظہار چاہتا تھا۔۔۔۔ یا وہ اسے رُکنے کا ہی کہ دے اتنی میں بھی وہ خوش تھا۔۔۔۔۔


” کچھ پوچھا ہے میں نے۔۔۔۔؟؟ “ اسے مسلسل خاموش دیکھ کر شاہ زر کو غصّہ آگیا۔۔۔ لیکن اس دفع وہ اسکی رُعب دار آواز سے نہیں گھبرائی۔۔۔۔


” جانا ضروری ہے۔۔۔۔؟؟ “ اتنا کہنا تھا کے شاہ زر نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔۔۔۔


” اس خوبصورت چہرے کو حفظ کرلینے دو حیا۔۔۔!!! یہ لمحے مجھے بہت عزیز ہیں۔۔۔۔ جانتی ہو میری اولین محبت ہو تم۔۔۔۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا کے تمہیں کسی اور کا ہونے دیتا۔۔۔۔“


کبھی وہ اس سے محبت کا اک لفظ سنے کے لیے ترستی تھی۔۔۔ آج شاہ زَر کے اعتراف نے اسے اندر سے سرشار کردیا۔۔۔۔ شاہ ذر نے یہ اعتراف اسکے دل سے اپنی بدگمانی مٹانے کے لیے کیا تھا۔۔۔۔


” تم کچھ نہیں بولوگی “


شاہ زر نے اسے دیکھتے ہوے کہا۔۔۔


” تائی۔۔۔۔امی۔۔۔۔انتظار کر رہی ہونگی “


شاہ زر کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے بےختیار پیچھے ہوکر اسنے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔۔


” تمہارے جواب کا انتظار رہےگا۔۔۔۔ جس دن تم میری دسترس میں ہوگی۔۔۔ اس دن مجھے اظہار چاہیے۔۔۔۔ ورنہ تم مجھے جانتی ہوں اور اس دن میں کوئی رعایت نہیں برتوں گا۔۔۔“ شاہ زر نے اسکی طرف جھکتے ہوے دھیرے سے اسکے کان میں سر گوشی کی۔۔۔۔ حیا خود میں سمٹ کر رہ گئی۔۔۔۔ اور اپنا حیا سے سرخ پڑتا چہرہ جھکا گئی۔۔۔۔


” اور ہاں کل ہم ڈنر باہر کرینگے کل کا دن صرف میرے نام ہوگا۔۔۔ چھ بجے تک تیار رہنا۔۔۔۔“ حکمیہ انداز میں کہتے شاہ زَر نے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتے ہوئے بیڈ کے سائڈ دراز سے موبائل نکالا اور حیا کی طرف بڑھایا۔۔۔۔


” یہ اپنے پاس رکھو میں کال کرتا رہونگا “


” لیکن میں۔۔۔ “ موبائل دیکھ کر دل ہی دل میں خوش تو بہت تھی۔۔۔۔ لیکن بنا انکار کیے لینا اسی عجیب لگا۔۔۔۔ دل تھا کہ ناچنے کو چاہ رہا تھا۔۔۔۔ اب تو نور بھی اسے منع نہیں کر سکتی آخر اسکے شوہر کا دیا ہوا فون ہے۔۔۔۔


” میری ہر بات سے تمہیں انکار ہے چُپ چاپ رکھو “


اسکی ڈانٹ سن کر وہ چپ رہی۔۔۔۔


” اب میں جاؤں۔۔۔۔ “


وہ زمین کو دیکھتے ہوے کہنے لگی۔۔۔۔


” کیا خیال ہے آج ہی نا رخصتی کروالوں پھر ساتھ ملیشیا جائینگے ہنی مون۔۔۔۔“


اک دم وہ خوف سے پوری آنکھیں کھول کے شاہ زَر کو دیکھنے لگی شاہ زَر کا قہقہ بے ساختہ تھا۔۔۔۔


” جاؤ یار مجھے ڈر ہے کہیں بےہوش نہ ہوجاؤ “


وہ بھاگتے ہوئے روم سے نکل گئی لیکن اپنا فون اٹھانا نہیں بولی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ ہولے ہولے سہج سہج کر سڑھیاں اُتر رہی تھی۔۔۔۔ اسنے ایک ہاتھ سے حیا کو تھاما تھا۔۔۔ جبکے دوسرا ہاتھ ہنی کی گرفت میں تھا۔۔۔۔ وہ کوئی ریاست کی شیزادی ہی معلوم ہو رہی تھی۔۔۔۔ گولڈن اور ریڈ گھیرے داڑ فروک زیب تن کیا تھا۔۔۔ سیم ہی ڈریس اسکے کندھے سے لگی حیا نے پہنا تھا۔۔۔ انکے آتے ہے بڑے لاونچ میں بیٹھیں خاندان بھر کی خواتین کی نظریں ان پر ٹک گئی۔۔۔۔ ایک لمحے کو اسکی چال میں لڑکھڑاہٹ ہوئی۔۔۔۔ اتنی نظریں خود پے مرکوز دیکھ وہ کنفیوز ہوگئی۔۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے وہ پُر اعتماد سی چلتی ہنی کے ساتھ نیچے آگئی۔۔۔۔ اسکے چہرے پر نرم مسکراہٹ موجود تھی۔۔۔۔ نہ کوئی گھبراہٹ نہ کوئی اندیشہ چہرہ ہر جذبے سے بےتاثر تھا۔۔۔۔ لیکن دل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز چل رہی تھی۔۔۔۔


وہ سب سے خوش اسلوبی سے ملکر بی بی جان کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔ اسے اب بھی خود پے کہیں نظریں اٹھتی محسوس ہوئیں۔۔۔ جنہیں وہ نظر انداز کرگئی۔۔۔۔ اسکے کندھے سے لگی حیا نئے چہرے دیکھ کے ماں سے چپک کر رونے لگی۔۔۔۔ وہ ہلکے ہلکے اسکی پیٹھ تھپک رہی تھی۔۔۔۔ عائشہ بھابی یکدم اسکے پاس آئیں اس سے ملیں اور کندھے سے لگی حیا کو اٹھا کے اپنے ساتھ لے گیں۔۔۔۔ بنا اسکے رونے کی پروا کیے وہ کیا کہتی چُپ ہی رہی لیکن نظریں لاؤنچ کے دروازے پر جم گئیں تھیں۔۔۔۔


” شاہ کے پاس لے گئی ہوگی وہ باہر فیضان کے ساتھ ہے “


بی بی جان اسکی پریشان صورت دیکھ کے بولیں۔۔۔


” جی “


وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔۔۔ ہنی اس سے اجازت لیکر مردانے میں چلا گیا۔۔۔۔ جہاں عمر حمزہ کو اسما نے تیار کر کے بھیجا تھا۔۔۔۔ وہیں ازلان کے کچھ دوست اور خاندان بھر کے مرد بیٹھے تھے۔۔۔۔۔


” نور بیٹا!!! بیٹوں کے عقیقے پر بلایا نہیں تینوں بچوں کو ایسے چھپا رکھا ہے جیسے نظر ہی بس انہیں لگ جانی ہے “


” اور نہیں تو کیا پہلے تو کھانستی بھی تو ہر گھر میں خبر پہنچ جاتی تھی “


یہ اسکی تائیاں تھیں جو طنز کرنے آگئیں۔۔۔۔ اگر اتنی ہی آوارہ لگتی تھی وہ۔۔۔۔ انہیں تو رشتہ لیکر کیوں ٹپک جاتی تھیں۔۔۔۔ وہ اپنے اندر امڈتے لاوے کو بامشکل قابو کیے ہوے تھی۔۔۔۔


” آنٹی یہ سوال تو ازلان بھائی کے کھاتے میں آتا ہے۔۔۔۔ جنہوں نے اسے سب سے چھپا رکھا ہے “ یہ حبہ تھی جو اسکے پاس آکر کھڑی ہوگئ۔۔۔۔۔


” کیا جادو کیا ہے ہمارے بھائی پر۔۔۔۔“ یہ فقرہ نتاشا کی طرف سے تھا۔۔۔۔ اسکا پورا گروپ ہی آیا تھا اسے تو انہیں انوائٹ کرنا یاد ہی نہیں رہا لیکن امی نہیں بولیں تھیں۔۔۔۔ اسلیے آخر وقت میں بھی اسکی خوشی کا خیال رکھا۔۔۔۔۔ وہ چہکتی ہوئی ایک ایک کے گلے لگ کر ان سے ملی اسکی خوشی سے دھمکتا۔۔۔۔ چہرہ بی بی جان کو پُر سکون کر گیا۔۔۔۔ کھانا شروع ہوتے ہی سب خواتین ڈائنگ ٹیبل پر جمع ہوگئیں۔۔۔۔ آج ٹیبل پر چئیرز کا اضافہ کیا گیا۔۔۔۔ بچوں کو چادر بچا کر اُنکا کھانا نیچے لگایا گیا۔۔۔۔ جبکے نور کے لیے اسما نے وہیں لاونچ میں کھانا لگوایا۔۔۔۔


” ہاے اللہ‎ تم تو دن با دن پیاری ہوتی جا رہی ہو “ وہ اسے گھیر کر بیٹھ گئیں تبھی ملازمہ کھانے کے لوازمات لیکر آئی۔۔۔۔ جب کے دوسری ملازمہ نے نیچے چادر بیچھائی انکے بیٹھتے ہی نور نے کھانے کا سلسلہ شروع کیا۔۔۔۔ خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا اسے دوران باتوں کا سلسلہ بھی چل پڑا آج اتنے دنوں بعد وہ کھل کے ہنسی تھی اسکے قہقے پورے لاؤنچ میں گونج رہے تھے۔۔۔۔


” بہت بدتمیز ہو حفصہ اس طرح ٹیچرز کی نکل اتاڑتے ہیں “


ہنستے ہنستے اسنے ایک جھاپڑ اسے لگایا۔۔۔۔


” بدتمیز اور میں۔۔۔؟؟ “ وہ اپنی طرف انگلی کر کے بولی۔۔۔۔


” یہ تو سرا سر جھوٹ ہے بھائی۔۔۔۔ بدتمیز تو تمہاری بھابی ہے جو تمہارے بھائی سے نکاح کر کے بیٹھ گئ۔۔۔۔ اور بھنک تک پڑھنے نہیں دی “


حفصہ نے حبہ کو گھسیٹا جو آخری نوالہ منہ میں ڈال رہی تھی۔۔۔۔


” ہاں یہ بات تو سہی کی اور میڈم کے نخرے تو دیکھو پڑھائی کے بعد رخصتی ہوگئ۔۔۔۔ امان بھائی کی تو سنتے ہی حالت خراب ہوگئی جب تک امی ڈیٹ لیکر نہیں آئیں اُنکے حلق سے ایک نوالہ تک نہیں اُترا “


نور کی بات پر پاس بیٹھی افشین نے حبہ کو کہنی ماری جس پے وہ سرخ چہرے کے ساتھ نور کو صرف گھور کے رہ گئی۔۔۔۔


” حیا تمہاری بیٹی کتنی پیاری ہے ماشاءالله باہر ہم نے اُسےتمہاری دیورانی کے ساتھ دیکھا تھا “


لائبہ کی بات پر جہاں اسکے ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو گئی وہاں حیا کا خیال بھی آیا جسے وہ بھول بیٹھی تھی۔۔۔۔


” ارے چلو گاڑی باہر کھڑی ہے اور دلہن کو مایوں بھی تو بیٹھنا ہے۔۔۔۔“ افشین موبائل پر میسج پڑھ کے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ انکے جاتے ہی حبہ کے ماں باپ کو آنا تھا امان کو انگھوٹی پہنانے۔۔۔ نکاح تو ہوچکا تھا لیکن نور نے اعظم شاہ کو صاف کہا تھا کے اسکے بھائی کی شادی کا ہر فنکشن ہونا ہے۔۔۔۔ اور آج رات ہی انہوں نے امان کی منگنی کا سوچا تھا۔۔۔۔ صرف انگوٹھی ہی تو پہنانی تھی۔۔۔ پھر کل سے شادی کے باقی فنکشنز سٹارٹ ہونے تھے۔۔۔۔ نور انہیں باہر تک چھوڑنے آئی وہ ازلان کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔۔ امان بھائی تو حبہ کی وجہ سے کھڑے تھے۔۔۔۔ لیکن ازلان کیوں۔۔۔۔؟؟ پھر جلد ہی اسے جواب بھی مل گیا جب ان سب کو کار میں بیٹھا کے ازلان اور امان اسکی طرف آئے۔۔۔۔ وہ دروازے تک ہی انہیں چھوڑنے آئی تھی آگے وہ خود ہی ڈرائیور تک پہنچیں۔۔۔


” کیسا لگا سرپرائز؟؟ “


امان نے قریب آتے ہی پوچھا۔۔۔


" بہت اچھا بھائی تھینک یو سو مچ “


وہ اس سے گلے لگتے ہوے لاڈ سے بولی۔۔۔۔ ازلان نے خوشی سے دھمکتے چہرے کو بغور دیکھا اور کچھ سوچ کے مسکرا دیا۔۔۔۔


” بھئی یہ تمہارے شوہر کی طرف سے تھا۔۔۔۔


یہ فقرہ سن کر اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔۔۔ اسکا نام سن کر نور کے بگڑے تااثرات ازلان نے بخوبی نوٹ کیے۔۔۔۔ ازلان نے آنکھ کے اشارے سے امان کو جانے کا کہا۔۔۔


” احسان یاد رکھنا “


وہ اسے آنکھوں سے تنبیہ کرتا نور سے بولا۔۔۔۔


” میں مردان خانے میں جاتا ہوں ڈنر سٹارٹ ہوگیا ہوگا کہیں کوئی چیز رہ نا جائے۔۔۔۔ “ اسکی جاتے ہی ازلان نور کے سامنے اکھڑا ہوا۔۔۔


” مجھے دیکھ کے یہ بُرے بُرے منہ کیوں بناتی ہو “

بگڑے تیوروں کے ساتھ اس نے استفسار کیا۔۔۔۔


” بناتی نہیں بن جاتا ہے آٹومیٹک سسٹم ہے۔۔۔“ وہ جل کے بولتی اندر ہی اندر کڑ رہی تھی۔۔۔۔


” اسے Manual کرنا میں بخوبی جانتا ہوں۔۔۔۔!!! ویسے گلے تمہیں میرے لگنا چاہیے تھا۔۔۔۔ خیر اب بھی مل سکتے۔۔۔۔۔ “ جیسے جیسے وہ قریب آتا جا رہا تھا اسکی دل کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھے دھکیلتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی اپنے پیچھے سے اسنے ازلان کا جاندار قہقہہ سنا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” حیا یہ تیل لیکر کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟؟ “


نور نے کچن سے جھانکتے ہی اسے آواز دی۔۔۔۔


” مما وہ تائی امی سے تیل لگوانے جا رہی ہوں “


وہ عجلت میں کہتی جانے لگی کے نور کی آواز سے رُک گئی۔۔۔۔


” میں لگا دوں؟؟ “


” جی “


نور جلدی ہاتھ دھوکر ثانی سے سالن کا کہہ کر حیا کے پاس آگئی۔۔۔۔ حیا زمین پر بیٹھ گئی اور نور کے نرم ہاتھوں کا لمس محسوس کرنے لگی۔۔۔۔ بیپ کی آواز سنتے ہی پینٹ کی جیب سے فون نکالا اور دیکھتے ہی دیکھتے میسج کا جواب ٹائپ کرنے لگی۔۔۔۔


” یہ فون۔۔۔ “ نور کی آواز سن کر فون اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔۔۔۔ وہ تھوک نگلتی سر پیچھے گھما کے نور کے تااثرات دیکھنے لگی جو کسی بھی جذبے سے عاری تھے۔۔۔۔


” مما وہ۔۔۔ شاہ زر۔۔۔ نے دی۔۔۔ دیا سچ میں۔۔۔ آپ پوچھ لیں میں نے منع بھی کیا تھا۔۔۔“ وہ جان نہ پائی آیا نور غصّے میں ہے یا نہیں یا اُسے بُرا تو نہیں لگا۔۔۔۔ شاہ زر کا یوں بےتکلف ہونا۔۔۔۔ نور کا رویہ بھی اکثر شاہ زر جیسا ہوتا جو خاندان کے کسی بھی لڑکی سے اسکی بےتکلفی برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔


” حیا اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے۔۔۔۔؟؟ شاہ زر نے دیا ہے تو رکھ لو۔۔۔۔ تم مجھ سے اپنی باتیں کیوں شئیر نہیں کرتی “


نور نے ممتا سے پُر لہجے میں کہا۔۔۔ اسے اپنی غلطی کا احساس تھا۔۔۔ بلاوجہ کی پابندیاں لگا کر اسنے حیا کو خود سے بہت دور کردیا ہے۔۔۔۔ لیکن کر تو وہ یہ سب اِسکے بھلے کے لیے تھی۔۔۔۔ لیکن وہ چاہے کچھ بھی کرلے ہونا وہی ہے جو اسکے نصیب میں ہے۔۔۔۔ وہ صرف اسکے لئے دن رات دعا کر سکتی تھی جو وہ کرتی ہے لیکن اسکے کل سے لڑ تو نہیں سکتی۔۔۔۔


” آپ ڈانٹتی ہیں۔۔۔۔“


حیا نے شکایتی لہجے میں کہا۔۔۔۔


" تو غلط بات پر سراہاجاتا ہے۔۔۔۔؟؟ “


ازلان کا اثر اس پے بھی ہو چکا تھا پل بھر میں غصّہ اسکی عادت بن چکا تھا۔۔۔۔


” اچھا اب چھوڑو۔۔۔۔!!! “ نور کو خود ہی اپنے رویے کا احساس ہوا۔۔۔


کچھ دیر بعد اچانک یاد آنے پے حیا نے اکسائیٹڈ ہوکر اپنی بات شروع کی۔۔۔۔


” مما پتا ہے فزکس کے سر نے کہا آج میں آپ کے دو لیکچرز لونگا۔۔۔۔ ویسے بھی سلف سٹڈی میں آپ لوگ پڑھتے تو ہو نہیں پھر پتا ہے۔۔۔۔ کیا ہوا وہ اپنے یوایس بی کلاس میں ہی بھول گئے۔۔۔۔ میں لیب سے آکر وہ فوراً کلاس میں چلی آئی۔۔۔۔ اور یو ایس بی پانی میں ڈال دی پھر سر کے آنے سے پہلے واپس اسی جگہ رکھ دی۔۔۔۔ مما کلاس بھی نہیں ہوئی اور اس ویک جو پریزنٹیشن ہونی تھی وہ بھی نہیں ہوئی کیوں کے ٹوپیکس یو ایس بی میں سیو تھے۔۔۔۔۔ “


☆.............☆.............☆

نور اپنی اس نالائق بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس نے نہ پڑھنے کے ساڑے ریکارڈز توڑ دیے۔۔۔ مزے سے کہتے وہ خود ہی اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کے ہنسی۔۔۔ جب کے نور اپنی نکمی اولاد کو افسوس سے دیکھتی رہی آخر کہاں اِس سے غلطی ہوگئی۔۔۔


” حیا تمہارے سر کو پوری رات جاگنا پڑیگا نیو سلائڈس بنانے کے لیے “ نور نے اسے شرم دلانی چاہے۔۔۔۔


” وہی تو پروبلم ہے مما سر نے کہا خوش ہونے کی ضرورت نہیں لیپ ٹاپ میں سب سیو ہے۔۔۔۔“ وہ اپنے سر کی نقل اتارتی کہنے لگی۔۔۔۔


جبکےنور اپنی ڈھیٹ بیٹی کو دیکھنے لگی جس پے نہ ڈانٹ اثر کرتی ہے نا پیار۔۔۔۔ نور نے اسکا رخ سیدھا کیا اور چوٹی باندھنے لگی۔۔۔۔ پھر واشروم جاکر ہاتھ دھوئے تب تک حیا موبائل ایک دفع پھر سے چیک کرنے لگی۔۔۔


” تمہیں پتا ہے بچپن سے سب سے زیادہ مار تم نے مجھ سے کھائی ہے۔۔۔؟ “ وہ واشروم سے آکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔ اور حیا کا سر اپنی گود میں رکھ کر محبت سےچور مدھم لہجے میں اس سے کہنے لگی۔۔۔


” ہاں پتا ہے مما بابا نے بتایا تھا۔۔۔ اور یہ بھی بتایا کے مارتی مجھے تھیں تو پیار بھی سب سے زیادہ مجھے ہی کرتی تھیں۔۔۔“


” جب تک میں زندہ ہوں یہ سوچ دل سے نکال دو حیا تم سے بدظن ہوگی سمجھی۔۔۔؟؟ “


اسے ازلان کی بات یاد آنے لگی وہ ہر پل ہر لمحے اسکے ساتھ رہا ہے۔۔۔۔ اسکی کی گئی غلطیاں ازلان نے سدھاری ہیں۔۔۔۔ نور نے اسکی روشن پیشانی پر بوسہ دیا اور ممتا بھرے لہجے میں کہا۔۔۔


” حیا میری جان۔۔۔۔ کوئی بھی پروبلم ہو۔۔۔ کچھ بھی چاہیے ہو۔۔۔ کوئی بھی ڈانٹے۔۔۔ تم پہلے آکر مجھ سے اُسکی شکایت کروگی۔۔۔۔ شاہ زر کی بھی کر سکتی ہو۔۔۔ اُسکے کان کھینچوں گی آگر اُس نے میری بیٹی کو رلایا تو۔۔۔۔“ نور کی آخری بات پر حیا شرم سے اپنا چہرہ اسکی گود میں چھپا گئی جبکے نور اسکی حرکت پر مسکرادی۔۔۔۔


” اور حیا دیکھو کسی کی محنت کو اس طرح ضائع نہیں کرتے۔۔۔ وہاں اور بھی سٹوڈنٹس ہونگے جو نجانے کہاں کہاں سے پڑھنے آئے ہونگے۔۔۔ تمہاری غلطی کی وجہ سے اگر کورس کمپلیٹ نا ہوا تو سر ایکسٹرا کلاسس کے لیے دوبارہ سب کو بُلائیں گے۔۔۔۔ “


حیا غور سے نور کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔ اور کافی سچ بھی تھیں فرنٹ بینچرز کافی دور سے کلاسسز لینے آتےتھے۔۔۔۔


” مما آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔۔۔ یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں “


ازلان سہی کہتا تھا پیار سے سمجھانے پر ہی وہ سمجھے گی۔۔۔ آج پہلی دفع شاید حیا نے نور کی بات سنی تھی۔۔۔ نور نے ایک بار پھر اسکی ماتھا چوما۔۔۔


” میری پیاری بیٹی “


” عمر بھائی سے بھی زیادہ پیاری “


حیا نے مسکراہٹ دباتے پوچھا۔۔۔۔


” ہاں سب سے پیاری “ نور کی مسکراہٹ میں حیا کی ہنسی بھی شامل ہوگئی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


لاؤنچ تقریباً خالی ہوچکا تھا مہمان جا چکے تھے۔۔۔ صرف گھر کے حضرات ہی اس وقت موجود تھے۔۔۔ حیا کو اس نے بھابھی سے لیکر اپنے پاس بٹھایا تھا۔۔۔ کیوں کے انکا چھ ماہ کا بیٹا علی نیند سے اٹھتے ہی ماں کو ناپاکر چیخ پڑا۔۔۔ وہ اس وقت نور کے کمرے میں علی کو سنمبھال رہیں تھیں۔۔۔ جب کے انکے دونوں بچے ہنی کے ساتھ ڈائنگ حال میں کھانا کھا رہے تھے۔۔۔ اسکے تینوں بڑے تایا تائیاں اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھے۔۔۔۔


” بیٹا اب ازلان کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔؟؟ “


یہ اسکی تائی (رافع کے ماں) ہیں جو طنز کرنے سے باز نہیں آئیں۔۔۔


” ویسا ہی جیسا ہر محبت کرنے والا شوہر کا اُسکی بیوی سے ہوتا ہے۔۔۔۔ یا کہہ سکتیں ہیں اُس سے بڑھ کر “


وہ کیسے برداشت کرتا اسکی آنکھوں میں آنسوں ازلان نے پُر اعتماد لہجے میں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے انہیں دیکھتے اپنے اور نور کے رشتے کی حقیقت سے آغا کیا۔۔۔۔


” میں ازلان شاہ آپ سب کے سامنے۔۔۔۔“ وہ حال میں موجود سب نفوس کو دیکھتے ہوے گویا ہوا ”


اپنی بیوی سے کیے گئے ہر ظلم۔۔۔ ہر زیاتی کی معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔ میں یہ قبول کرتا ہوں کے میں غلطی پر تھا۔۔۔۔“ وہ نم لہجے میں پاس بیٹھی اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔۔


ازلان کے پل پل ہلتے لبوں سے نور کا سانس رُک رہا تھا۔۔۔ اسے اپنے گلے میں آنسوؤں کا پھندا اٹکا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔ اگر وہ اسی طرح بولتا رہا تو ضرور وہ ضبط کا دامن چھوڑ کے سب کے سامنے ٹوٹ پڑے گی۔۔۔۔


” میں نے اپنے جان سے پیارے ابو کو تکلیف پہنچائی اپنی ماں کا دل دُکھایا۔۔۔۔ عزیز ہستی کو اپنے نام سے باندھ کر چلا گیا۔۔۔۔ اور اُسے ہی خون بہا میں مانگا۔۔۔۔ میں نے جانے انجانے میں بہت بڑی غلطی کردی۔۔۔۔ لیکن لمحہ لمحہ خود بھی سلگتا رہا۔۔۔۔ مجھے معاف کردو نور۔۔۔۔ میں اپنی پوری کوشش کرونگا کے آئندہ زندگی میں تمہیں میری ذات سے کوئی تکلیف نہ ملے۔۔۔۔ امی ابو آخری بار اپنے اس بیٹے کی گئی غلطی کو معاف کردیں “


اعظم شاہ کے آتے ہی اس نے اپنا جھکا سر اٹھایا۔۔۔۔ انہوں نے اسکی پیشانی چوم کر اپنے ساتھ لگایا۔۔۔ اسما اور بی بی جان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔۔۔۔


” نہیں میرے بیٹے معافی کی ضرورت نہیں بہت پہلے معاف کر چکے ہیں تمہیں۔۔۔۔ کوئی ناراض نہیں تم سے کیوں صحیح کہا نہ اسما “ وہ اسکی پیٹھ تھپک کے بولے۔۔۔۔


” جی۔۔۔ “ اسما نے خوش دلی سے مسکراتے ہوے کہا۔۔۔۔ ازلان بی بی جان کی خواہش پے اعظم شاہ سے الگ ہوکر اُنکے سامنے جھکا تھا۔۔۔۔ بی بی جان نے شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پر رکھا۔۔۔۔


” شاہ میرے بچے۔۔۔ اللہ‎ تمہیں اپنی پوتوں کی بھی خوشیاں دیکھنا نصیب کرے۔۔۔“ وہ انکی دُعا پے جِی جان سے مُسکرایا اور اپنی جانِ عزیز کو دیکھا جس کا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔۔۔ وہ نم آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ پھر اپنی کزن کی زبان سے ادا ہوتے جملے پر وہ حیران رہ گئی۔۔۔۔


” یو آر سو لکی آپی۔۔۔۔!! ازلان بھائی جیسا ہمسفر خوش قسمت والوں کو ملتا ہے۔۔۔ انشاللہ میں بھی اُن میں سے ایک ہوں۔۔۔۔“ عاشی جو اسکے کزن کی بیٹی ہے اسنے نور کے کان میں سر گوشی کی۔۔۔۔ وہ ہارا تھا یا جیتا تھا اسے تو یہی لگا وہ ہار گئی ہے ایک بار پھر اور وہ جیت گیا ہے ایک بار پھر۔۔۔۔


حبہ کے پرنٹس کے آتے ہی منگنی کی رسم ادا کی گئی۔۔۔۔ اس دوران سب نور کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔۔۔۔ جو پل پل ازلان کی نظروں کے حصار میں رہی۔۔۔ وہ تو اپنی بھائی کے ساتھ بیٹھی تصویریں بنوا رہی تھی۔۔۔ جبکے ازلان ایک کندھے پر سوئی ہوئی حیا کو لیے کھڑا تھا۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ سے عمر کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔۔۔ جبکے حمزہ امان کی گود میں بیٹھا سب کے ہاتھوں سے مٹھائیاں کھا رہا تھا۔۔۔۔ آخر دلہن کی اکلوتی بہن کا بیٹا تھا پروٹوکول تو ملنا تھا۔۔۔ نور کا خوش گوار موڈ اس وقت غارت ہوا۔۔۔ جب اعظم شاہ نے انکی تصویریں لینے کو کہا ازلان کہاں باز آنے والا تھا۔۔۔۔ مختلف پوز سے اپنی اور اسکی بنوائی پھر بعد میں ازلان اور بچوں کی۔۔۔۔ فنکشن کے اختتام ہوتے ہی وہ فوراً بچوں کو لیکر امان کے روم میں چلی آئی۔۔۔ حمزہ عمر اور ہنی کو انکے روم میں سُلاکر وہ چینج کرنے کے غرض سے اپنے روم میں جانے لگی کی اس آواز نے نور کے چلتے قدم جکڑ لیے۔۔۔۔


” کیسی ہو نور؟؟ “


رات کی تنہائی میں خالی لاؤنچ میں دو نفوس کی چلتی سانسوں کی آواز خاموشی کو توڑ رہی تھی۔۔۔


” ٹھیک ہوں “


نور نے سپاٹ لہجے میں سامنے کھڑے رافع کو جواب دیا۔۔۔


” سچ بتانا نور کیا تم خوش ہو؟؟ “


” اپنی محبت کو پاکر کون خوش نہیں ہوتا۔۔۔۔“ اس آواز پر دونوں نے بیک وقت پیچھے مڑکر دیکھا۔۔۔۔


ناچاہتے ہوے بھی ازلان نے تیز لہجے میں پوچھا۔۔۔


” نہیں بھائی وہ بس میں نور سے۔۔۔۔ “ وہ گھبرا گیا۔۔۔


” آہاں کریکشن نور نہیں بھابی جس طرح میں تمہارا بڑا بھائی ہوں۔۔۔ اِسی طرح نور تمہاری بھابی ہوئی۔۔۔۔ بھلے عمر میں تم سے چھوٹی ہے لیکن میرے حوالے سے وہ رشتے میں تم سے بڑی ہے۔۔۔۔ اسلیے بھابی کہا کرو انڈراسٹینڈ۔۔۔۔ “


حکمیہ انداز میں کہتے اسنے نور کی کمر کے گرد اپنے بازوں حمائل کیے۔۔۔۔ اس لمس نے نور کے دل کے تار ہلا دیے وہ تو بس شدت سی اسکی ایک ایک کاروائی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔


“ تم ویسے اس وقت یہاں۔۔۔۔؟؟ “ ازلان نے ابرو اچکا کے پوچھا۔۔۔۔


” وہ بس میں سونے ہی جا رہا تھا “


رافع اپنے آنے پر سخت پچھتا رہا تھا۔۔۔ امی نے تو اسے کہا تھا نور اپنی زندگی میں خوش نہیں۔۔۔۔ اور اسے ٹھکرا کے خود پچھتاوے میں گھیری ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا۔۔۔۔


” گڈ۔۔۔!!! ہم بھی سونے جا رہیں ہیں ایکچولی حیا اور مجھے نور کے بغیر نیند ہی نہیں آتی۔۔۔“


وہ اسکی کھلی گفتگو سے شرم کے مارے زمین میں دھنس گئی۔۔۔۔ رافع کے جاتے ہی وہ پیڑ پٹکتی کمرے میں جا گھسی۔۔۔۔ جب کے ازلان اسکے تیور دیکھ کر محفوظ سا مسکراتا ہوا اس کے پیچھے لپکا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


رات کے تقریباً بارہ بجے وہ گھر لوٹے حیا خوشی سے شوپرز ہاتھ میں پکڑے اندر آئی اور آتے ہی عائشہ کو آواز دینے لگی۔۔۔۔


” آرام سے لگ جائے گی “


میر جو فون پے بات کر رہا تھا نیچے اس منظر کو دیکھ کر عجیب کشمکش میں گِھر گیا۔۔۔۔ شاہ زر کی چال وہ سمجھنے سے قاصر تھا وہ جہاں بھی ہو لیکن حیا کو مشکل گھڑی میں گرے دیکھ فوراً پہنچ جاتا ۔۔۔۔ حیا کو کسی اور کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتا اسے تکلیف میں دیکھ خود تڑپ اٹھتا ۔۔۔ ابھی بھی حیا کا پیر ٹیبل سے ٹکرایا بھی نہیں۔۔۔ لیکن شاہ زر شوپرز پھنک کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکا پیر دیکھنے لگا۔۔۔۔ پھر ہر طرح سے تسلی کر کے اسکے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔ عائشہ کے آتے ہی پُر جوش سی حیا ایک ایک چیز اسے دکھانے لگی۔۔۔۔ میر کو اور کیا چاہیے تھا بس اسکی بہن کی ہنسی جسے کھونے سے وہ کانپ اٹھتا تھا۔۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


دھاڑ سے دروازہ بند کرتے ہوئے وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔ اور پٹک پٹک کی کے ایک ایک زیور ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکنے لگی۔۔۔۔


” لگتا ہے بیگم صاحبہ کے مزاج درست نہیں “


ازلان نے کمرے میں آتے ہی اس کی حرکت کو دیکھتے ہوئے سوچا۔۔۔۔ پھر اپنا نائٹ ڈریس لیکر چینج کرنے چلا گیا۔۔۔۔ جب باہر آیا تو وہ کمرے میں نہیں تھی۔۔۔۔


نور نے وہی عمل دہرایا آتے ہی زور سے دروازہ بند کیا۔۔۔۔ کندھے پر سوئی حیا کو بیڈ پر لیٹا کر چینج کرنے چلی گئ اس دوران ایک دفع بھی اس نے ازلان کی طرف نہیں دیکھا جو موبائل یوز کر رہا تھا۔۔۔۔


” اسے وہیں امی کے پاس رہنے دیتیں “


اسکے آتے ہی ازلان نے پوچھا۔۔۔


” ہاں تاکہ رات کو بار بار اٹھ کر امی کو پریشان کرے “


بولنے کا انداز ایسا تھا جیسے بس چلے تو ازلان کو کچا چبا جائے۔۔۔۔ وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی اپنی ہاتھوں اور چہرے کو لوشن مل رہی تھی۔۔۔۔


” غصّہ کس بات پر ہے؟؟ “


اس پے نظریں جمائے ازلان سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔۔ اسے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کے نور صرف اس وجہ سے ناراض ہے کے رافع ان کی خوش حال زندگی کا سُن کر بےسکون ہوگیا۔۔۔۔ وہ اس پر شٙک نہیں کر رہا تھا لیکن رافع کی نظریں جس طرح نور پر اٹکیں تھیں۔۔۔ ازلان کا بس نہیں چل رہا تھا کے اسکے دانت توڑ دیتا۔۔۔۔


” اپنے پھوٹی قسمت پر “


کڑواہٹ بھرے لہجے میں کہتی وہ سونے کے لیے بستر پر دراز ہونے لگی۔۔۔۔ اس سے پہلے سرخ چہرے کے ساتھ خود کی طرف بڑھتے ہوئے ازلان کو دیکھ کر اسکی ٹانگیں کانپ گئیں۔۔۔۔ اسکے چہرے پر پتھریلے تااثرات تھے۔۔۔ آنکھوں میں گہری سرخ لالی۔۔۔ ہونٹ آپس میں بھینچے ہوے تھے۔۔۔۔ نور کو اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔ اسکی ٹانگیں ہلنے سے انکاری تھیں آج وہی پہلے والا خوف اسکی رگ رگ میں بس گیا۔۔۔ لمحوں میں اسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا۔۔۔ بہت قریب آکر وہ روکا تھا۔۔۔ نور ایک جھٹکے سے پیچھے ہوئی لیکن الماری ہونے کے بائث وہ قدم پیچھے نا بڑھا پائی۔۔۔ وہ قدم بڑھاتا اس کے چہرے کے قریب آن روکا۔۔۔ اپنے بازو دائیں بائیں رکھ کر ازلان نے اسکے جانے کے سارے راستے مسترد کردیے۔۔۔۔ خوف سے پھیلی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ٹپ ٹپ برسات جاری تھی۔۔۔۔


” نہیں۔۔۔ ازلان۔۔ پلیز “


نور نے اپنے چہرے کا رُخ موڑ لیا جیسے اسے خدشہ ہو کے ازلان اس پے ہاتھ اٹھائے گا۔۔۔۔ جبکے ازلان اسکی غیر ہوتی حالت سے بےخبر اپنے اندر کا اُبلتا لاوا اس پر نچھاور کر رہا تھا۔۔۔۔ پہلے ہی رافع کی آمد سے وہ سخت غصّے میں تھا اوپر سے اُسکی نظریں اپنی بیوی پے محسوس کرتے ہی ایک آتش فشاں سا اسکے اندر اُبل پڑا۔۔۔۔۔


” اسکی نظریں تمہارے سٙراپے میں الجھی ہوئیں تھیں دل چاہ رہا تھا اُسکی آنکھیں نوچ لوں۔۔۔۔ تین دفع وہ لاونچ میں عورتوں کے درمیان آیا تھا تمہیں دیکھنے۔۔۔ اور وہ پوچھ کیا رہا تھا۔۔۔؟؟ خوش ہو۔۔۔؟؟ یقین جانو آگر اُس وقت تم پاس نہ ہوتیں اسکا بھی وہی حال کرتا جو ( آذر ) “ آگ برساتے لہجے میں کہتے ہوے آذر کا نام لیتے لیتے وہ خاموش ہوگیا۔۔۔۔


” اور تم اُس کی وجہ سے مجھ پر غصّہ کر رہی ہو “ سختی سے کہتے ازلان نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوے خود سے قریب کیا۔۔۔۔


” آپ نے۔۔۔ اُس۔۔ اُسکے۔۔ سا۔۔ سامنے۔۔۔ اتنی۔۔۔ غلط۔۔۔ بات۔۔۔ کی۔۔۔ ک۔۔۔ کہ۔۔۔ میرے۔۔۔ بغیر۔۔۔آپ۔۔۔ آپکو۔۔۔ اور۔۔۔ حیا۔۔۔ ک۔۔۔ کو۔۔۔ نیند۔۔۔ نہیں۔۔۔ آتی۔۔۔ “ خوفزدہ لہجے میں کہتی وہ ازلان کا دل نرم کر گئی اسکا غصّہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔ اب اسے نور کی حالت کا احساس ہوا جو سر سے پیر تک بُری طرح کانپ رہی تھی۔۔۔۔


” آئ ایم سوری ریلی سوری نور۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں خود پے میرا کنٹرول نہیں۔۔۔ پلیز معاف کردو جان۔۔۔“


وہ اس کے نازک، ملائم اور خوشبو دار وجود کو خود میں سختی سے بھنچتے ہوے بولا جو اسکا فراخ سینہ پاکر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔۔۔۔


روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ گئیں ازلان کو اب اپنے رویے کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔۔۔۔ غصّے میں آکر اسنے زور سے مکا سامنے الماری پے مارا۔۔۔۔ جس سے نور ڈر کر اور اس سے چپک گئی اور سختی سے اس کی قمیض کو مٹھی میں جکڑ لی۔۔۔۔


” نہیں نور کچھ نہیں ہوا۔۔۔!!! کیوں مجھ سے خوفزدہ ہو رہی ہو میں کبھی تم پر۔۔۔۔“ وہ اسکے بال نرمی سے سہلاتے ہوے کہ رہا تھا کے اسکی زبان نے اسکا ساتھ چھوڑ دیا اسکے ادا کیے ہوے الفاظ خود اس پے ہنس رہے تھے۔۔۔۔


” ریلی سوری جاناں غلطی ہوگئ۔۔۔!!! میں سمجھا تھا تم اُسکی وجہ سے مجھ پر غصّہ کر رہی ہو۔۔۔۔ مجھے اندزہ نہیں تھا تم اتنا ڈر جاؤگی۔۔۔۔ پلیز مت ڈرا کرو اتنا مجھے خود سے نفرت ہونے لگتی ہے۔۔۔“ شرمندگی سے کہتے وہ آخر میں کسی ضدی بچے کی طرح اس سے التجا کر رہا تھا۔۔۔۔


” آ۔۔۔ آپ۔۔۔ بہ۔۔۔ بہت۔۔۔ بُرے۔۔۔ ہیں۔۔۔ مجھ۔۔۔ ات۔۔۔ اتنا۔۔۔ ڈرایا۔۔۔ وہ۔۔۔ پھٹا۔۔۔ ہوا۔۔۔ ڈول۔۔۔ ہے۔۔۔ سب۔۔۔ باتیں۔۔۔ سب۔۔۔ کے۔۔۔ سامنے۔۔۔ کرتا۔۔۔۔ ہے۔۔۔ میرا۔۔۔ مزاق۔۔۔ اڑاتا۔۔۔ ہے۔۔۔ اس۔۔۔ لیے۔۔ میں۔۔۔“


کہتے ساتھ وہ زور سے زور ُمکے اسکے دائیں جانب مارنے لگی وہ جبکے سر اسکی بائیں جانب رکھا تھا۔۔۔ ازلان سختی سے اپنے ہونٹ بھینچے کھڑا تھا درد تو اسے ہو رہا تھا لیکن اگر وہ اسے روکتا یا آواز نکالتا تو وہ خوفزدہ ہوجاتی۔۔۔ اسکا اندازہ ازلان کو اسکے ہچکیاں لیتے اور کانپتے وجود سے ہو رہا تھا۔۔۔۔


جب وہ تھک گئی تو ازلان اسکے لرزتے نازک وجود کو اپنی باہوں میں اُٹھائے بیڈ تک لے آیا۔۔۔ بہت احتیاط سے اسے لیٹا کر ازلان دوسری سائیڈ آگیا۔۔۔ جہاں حیا سو رہی تھی۔۔۔ اسکے ننھے تکیے الماری سے لیکر ازلان نے حیا کے چاروں طرف رکھ دیے کے کہیں گر نا جائے۔۔۔ اکثر وہ انکے درمیان ہی سوتی لیکن آج وہ نور کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔۔۔ پہلے ہی ازلان نے اسے پاگل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ اور اب ایک بار پھر وہ اسے تنہایوں میں چھوڑ کر خود سے علیحدہ کرنے کے غلطی نہیں کر سکتا۔۔۔ اس وقت ایک منٹ کی بھی دوری خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔۔۔۔ اتنی مشکل سے وہ اسکی سوچ کو بدل پایا تھا ورنہ آج تک وہ اپنی خود کی بیٹی سے غافل رہتی۔۔۔۔


ازلان آکر اسکے ساتھ ہی لیٹ گیا اور تکیے میں منہ چھپائے روتی نور کو ہاتھ بڑھا کے قریب کیا۔۔۔۔


” ڈونٹ ٹچ می “ نور اسکا ہاتھ جھٹکتی ہوئی اس سے تھوڑا فاصلے پر ہوئی۔۔۔ ازلان دوبارہ اسکے قریب آگیا۔۔۔۔


” آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ غصّہ کرتے ہیں۔۔۔“ اس بار وہ بھاگی نہیں تھی۔۔۔ وہ اسکے دل پے ہاتھ رکھے شکوہ کر رہی تھی۔۔۔


” اب نہیں کرونگا سوری۔۔۔!!! بولو تو کان پکڑ لوں “ ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد حمائل تھا جبکے دوسرے ہاتھ سے نور کا ہاتھ مضبوطی سے جکڑا تھا جو نور نے اسکے سینے پر رکھا تھا۔۔۔۔


” مارتے ہیں۔۔۔“ بنا اسکے جواب پر دھیان دیے ایک اور سوال۔۔۔۔


”مرہم بھی تو لگایا تھا۔۔۔!!! لیکن اب تم مار لینا “ اتنا درد عمل کرتے ہوئے نہیں ہوا جتنا اسکے ہونٹوں سے سُن کر ہوا۔۔۔۔


” بے عزتی کرتے ہیں “


” سب کے سامنے تمہیں سرخرو کیا۔۔۔!!! آج تمہیں وہی مقام دیا جس کی تم حقدار ہو۔۔۔“ کہتے ہی ازلان نے اسکی صاف شفاف پیشانی چومی۔۔۔۔


” نفرت کرتے ہیں۔۔۔۔!!! “ آنکھوں میں اشک لیے وہ اسے بتا رہی تھی۔۔۔۔


” تم سے بڑھ کے کسی سے محبت نہیں کی کیسے سمجھائوں “


وہ اسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکراتے ہوۓ بےبسی سے بولا۔۔۔۔


” مجھے آپ کی کسی بات پر یقین نہیں آتا۔۔۔“ وہ ہاتھ چھڑوا کر رُخ موڑنا چاہتی تھی لیکن اس مضبوط گرفت کو توڑنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔۔


” جانتا ہوں “ وہ اسکے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کرتا ہوا کہنے لگا۔۔۔


” میں آپ سے نفرت کرتی ہوں۔۔۔“ جب جانے کا کوئی راستہ نا بچا تو وہ وہیں اسکے سینے پر سر رکھے آنکھیں موند گی۔۔۔۔


” یہ بھی جانتا ہوں۔۔۔“ وہ اسکی کمر سہلاتا رہا جس سے وہ جلد ہی سوگئی۔۔۔۔


” میں آپ سے نفرت کرتی ہوں “ الفاظ تھے یا زہریلی کانٹے جو اسکا دل چیر گئے۔۔۔ اسکی مدھم ساسنسیں گواہ ہیں وہ سو چکی ہے۔۔۔ وہ اسے اپنی نظروں میں لیے کتنی ہی دیر خود سے اعتراف کرتا رہا۔۔۔۔


” میں چاہوں بھی تو وہ

لفظ نا لکھ پاؤں

جس میں بیان ہو جائے کے

کتنی محبت ہے تم سے ❤ “


☆.............☆.............☆


” مجھے یہ ہستی اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اسکو چھیننے چلے تھے تم۔۔۔؟“


ازلان آکر اسکے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔۔۔ دونوں کی نظریں حیا کے ہنستے چہرے پر تھیں۔۔۔ جو خوشی سے ایک ایک چیز عائشہ کو دیکھا رہی تھی۔۔۔ وہیں آنکھوں میں بےپناہ محبت لیے شاہ زر اس پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔۔۔۔


” کیا مجھے یہ ہستی عزیز نہیں۔۔۔؟؟ “


ازلان نے لب بھینچ لیے جیسے اسکی سوچ پر ماتم کر رہا ہو۔۔۔؟


” ہوتی تو طلاق کا خیال تمہارے دماغ میں نہ آتا۔۔۔!!! ایسی محبتیں لاکر دے سکتے ہو۔۔۔؟؟ ماں سے بڑھ کر چاہنے والی ساس۔۔۔؟؟ باپ جیسی محبت لوٹانے والا سسر۔۔۔؟؟ “


دونوں حیا پر نظریں جمائے ایک دوسرے سے ہمکلام تھے۔۔۔


” اور شوہر؟؟ اُسکے بارے میں کیا خیال ہے آپکا۔۔۔؟؟ “ میر نے اب کے شولا برساتی نظریں شاہ زر پر گاڑھ دیں۔۔۔


” مجھ سے تو بہتر ہی شوہر ثابت ہوگا۔۔۔“ میر کو اس جملے کی توقع نہیں تھی۔۔۔ دونوں نے چُپ سادھ لی گہری خاموشی میں صرف حیا کی آواز تھی۔۔۔ جو ان دونوں کو سنائی دی رہی تھی۔۔۔۔ میر کے لبوں نے پہلے سر گوشی کی۔۔۔۔


” بابا میں آپ کو نہیں۔۔۔ آپ کی بات الگ ہے شاہ زر نے اپنی رضامندی سے شادی نہیں کی۔۔۔“ وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کہ رہا تھا۔۔۔۔


” میں نے بھی نہیں کی تھی۔۔۔۔“ ازلان کی طرف سے جواب حاضر تھا۔۔۔۔


” وہ نفرت کرتا ہے حیا سے۔۔۔۔“ میر زچ ہوکر بولا۔۔۔


” میرا بھی نور کے لیے یہی دعوا تھا “


” بابا مما آپ کی پسند تھیں آج تک انکی جگہ کوئی نہیں لے سکا جب کے شاہ زر وہ صرف انتقاماً۔۔۔ “


” کیا مطلب۔۔۔؟؟ “ جھٹکے سے ازلان نے اسکی بات کاٹی اسے لگ رہا تھا وہ کچھ غلط سن چکا ہے۔۔۔۔۔


” اُسے لگتا ہے میں اینڈ ٹائم پر نکاح سے مکر۔۔“ میر نے ازلان کے تااثرات دیکھنے چاہے لیکن وہ سپاٹ چہرے لیے کھڑا تھا۔۔۔۔


” یہ سچ نہیں۔۔۔ میں فیضان سے خود بات کرونگا “


” نہیں بابا یہ مسئلہ صرف عنایہ سلجھا سکتی ہے اور کوئی نہیں۔۔۔ میں کل ہی عنایہ سے ملنے جاؤنگا “


میر تیزی سے چلتا ازلان کی رہ میں حائل ہوگیا۔۔۔ جو اسکی بات سنتے ہی نیچے جانے لگا تھا۔۔۔ میر کو اب ازلان کی حالت پریشان کر رہی تھی۔۔۔ جس کے ہاتھ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔۔۔ وہ ازلان کو خود کمرے میں چھوڑ آیا اور کپڑے پریس کرتی نور سے اسکا خیال رکھنے کا کہہ کر وہ پھر سے عنایا کا نمبر ڈائل کرنے لگا جو اسکا فون ہی نہیں اٹھا رہی۔۔۔


☆.............☆.............☆


عنابی ہونٹوں تلے خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی رات نور کی سنگت میں جلد ہے اسے نیند آگئی۔۔۔۔


عرصے بعد ازلان نے خود میں سکون اُترتا پایا بے اختیار اسکی نظر اپنے پہلو پر گئی۔۔۔۔ جہاں گلابی دوپٹا تکیے کے نیچے دبا ہوا تھا ازلان نے ڈوپٹا اٹھا کر اسکی خوشبو محسوس کی۔۔۔۔ مست کردینے والی خوشبو نے اسے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔۔۔ چند لمحے خوشبو کو اپنے اندر اتارا جو اسکے دل کے تاروں کو چھیڑ رہی تھی۔۔۔۔ محبت سے لبریز دل کو بےقابو ہونے سے روکا اور واشروم میں گھس گیا۔۔۔۔


” چٹاخ “


وہ کب سے پورے ڈائننگ ہال میں حمزہ کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔۔۔ جو اسکے ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔ بلاآخر نور نے پلیٹ نیچے رکھی اور بھاگ کے اسے پکڑ کے ٹیبل پر بٹھایا جہاں عمر پہلے سے بیٹھا نور کے ہاتھ سے بریڈ کے ننے نوالے چُپ چاپ کھا رہا تھا۔۔۔۔ جب ویسا ہی نوالا اسنے حمزہ کے منہ میں ڈالا تو حمزہ نے اُسے منہ سے باہر نکال پھینکا تب نور کا ہاتھ ان نرم سرخ وسفید گالوں پر اپنا نشان چھوڑ گیا۔۔۔۔


ازلان بنا تاخیر کیے بلکتے حمزہ کو اٹھانے بڑھا لیکن وہ اسکے پاس آیا ہی نہیں بلکے ماں کے سامنے دونوں بازو پھیلائے۔۔۔۔ کے وہ اُسےاٹھالے اور نور نے فوراً اسے اٹھا کے اپنی آغوش میں لیا اور حمزہ بھی گویا اسی انتظار میں تھا۔۔۔۔ مار کھانے کے باوجود نور کے سینے سے لگتے ہی اسکی آواز بند ہوگئی۔۔۔۔


” میرا غصّہ اس معصوم پر کیوں اتار رہی ہو۔۔۔“ نور بنا اسکی بات پے کان دھرے عمر کو ناشتہ کرانے لگی پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر دونوں کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئی۔۔۔۔


ازلان بس اسے دیکھ کے رہ گیا۔۔۔۔ تبھی اسما وہاں داخل ہوئیں ناشتے کی ٹرے ٹیبل پر دیکھ ازلان سے کہا۔۔۔۔


” کیا ہوا ازلان؟؟ ناشتا کرو تمہارے لیے یہ سب بنایا ہے “


اسما لوازمات سے بھری ٹرے دیکھتے ہوئیں بولیں جو جوں کی توں پڑی تھی۔۔۔۔


” امی سوری پتا ہی نہیں چلا یہ ٹرے کب رکھی مجھے لگا نور بنا کر لائے گی۔۔۔۔“ وہ چیئر سنبھال کے بیٹھ چکا تھا ازلان نے ایک پُوڑی پلیٹ میں ڈالی جبکے اسما اسکے لیے کٹلی سے چائے کپ میں ڈالنے لگیں۔۔۔۔


” وہ تمہارے لیے بھی ناشتا بنا رہی تھی۔۔۔ میں نے منع کر دیا اب میں ہی تمہارے لیے ناشتا بناؤں گی۔۔۔۔“ ازلان کے سامنے کپ رکھتے ساتھ ہی وہ اُسکے پاس ہے بیٹھ گئیں۔۔۔۔


” ہم ترس گیا تھا اس ذائقے کے لیے۔۔۔۔!! ویسے نور کہاں گئی؟؟ “


ازلان نے لقمہ لیتے ہی اسما سے کہا۔۔۔۔


” تمہارے ابو کے پاس گئی ہوگی اب اس گھر میں بچوں کے بغیر کسی کو چین نہیں ہنی، عنایا، شاہ ذر کو وہیں روم میں ناشتا کروایا اور نور کو بھی حکم سنا دیا کے دونوں کو ناشتا کرواکر اندر لے آئے “ ازلان مسکرایا۔۔۔


” اور میری پرنسز کہاں ہے۔۔۔؟؟ “ ازلان نے حیا کے متعلق پوچھا۔۔۔۔


” وہ عائشہ کے پاس ہے۔۔۔ صبح سے وہ اسے لیے لون میں گھوم رہی ہے۔۔۔“


ازلان جب تک ناشتا کرتا رہا اسما ساتھ ہی بیٹھیں رہیں۔۔۔ پھر اٹھ کے ملازمہ سے مہمانوں کا ناشتا بنوا کر اُنکے کمرے میں بھیجوا دیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


کیسا لگتا ہے جب کوئی چھپکے سے آپ کے دل میں سما جائے۔۔۔ دھیرے دھیرے آپ کی دل پر قبضہ جما لے۔۔۔ اپنی اتنی عادت بنا لے کے سانس لینا دشوار ہو۔۔۔ اس وقت حیا کی بھی یہی حالت تھی۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑی پلین کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گم تھی کے سرد ہوا کا جھونکا جو اس سے ٹکراتا ہوا ٹھنڈ کا احساس دلا رہا تھا۔۔۔ وہ اُسے محسوس بھی نا کر سکی۔۔۔۔ وہ تو بس پلین کی ہلکی چمکتی لائٹ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جو اس سے میلوں دور چلی گئی ساتھ میں اس شخص کو بھی لے گئی جو اسکے دل میں دھڑکن بن کر دھڑکتا ہے۔۔۔۔


کل پورا دن اسنے شاہ زر کے سنگ گزارا جس نے اسکی چھوٹی سے چھوٹی خواہش بھی پوری کی۔۔۔۔ کل شاہ زر کے کہنے پر اسنے بلیک ڈریس پہنا تھا جس میں اسکی گوری رنگت جچ رہی تھی۔۔۔۔ وہ خود پے اسکی جمی نظریں پل پل محسوس کر رہی تھی۔۔۔ شاندار ہوٹل میں بُک کی گئی ٹیبل پر دونوں نے شاہ زر کی کامیابی سیلیبریٹ کی۔۔۔ پروموشن کی خوشی میں کیک کاٹا شاہ زر نے یہ بات اسے سختی سے کسی کو بھی بتانے سے منع کیا ہے۔۔۔


ڈنر کے بعد شاہ زر اسے مال لے کر گیا اسنے جس چیز پر ہاتھ رکھا۔۔۔ شاہ زر نے اسے وہ دلائی پھر دونوں لونگ ڈرائیو پے نکل گئے۔۔۔۔ رات دیر تک لونگ ڈرائیو کے بہانے وہ اسکی پسند پوچھتا رہا۔۔۔۔ دن بہ دن شاہ زر کا بدلتا رویہ جتنا اسے حیران کر رہا تھا اُتنا ہے خوشی کا باعث بھی بن رہا تھا۔۔۔۔ شاہ زر کی بدلتی نظریں، اُسکا بدلتا رویہ، اِسکے پریشان ہونا، اسکی تکلیف میں تڑپنا سب ناقابلِ یقین تھا پر وہ یقین کرنے پر مجبور تھی۔۔۔۔


ایک وقت تھا جب وہ اسے دیکھنا تک پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔ اور آج جانے سے پہلے بار بار وہ پیچھے مڑ کر اسکے چہرے کو حفظ کر رہا تھا۔۔۔ جیسے بھول جانے کا خطرہ ہو۔۔۔۔


حیا بیڈ پر آکر لیٹ گئی پاس ہی فون پڑا تھا۔۔۔ لیکن وہ جانتی ہے میسج کر کے فائدہ نہیں جب تک جہاز لینڈ نہیں کرتا تب تک جواب نہیں آنا۔۔۔۔ کچھ سوچ کے اسنے میسج ٹائپ کیا۔۔۔۔


” زندگی خوبصورت ہے

مگر تمہارے ساتھ “


ٹائیپنگ کے بعد وہ فون رکھ کر لیٹ گئ۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” نور میں تم سے کچھ مانگوں دوگی مجھے۔۔۔؟؟ “


اسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے بھابی جس مان امید سے اسے دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔ نور کو گھبراہٹ ہونے لگی نجانے وہ کیا مانگیں۔۔۔؟؟


” جی۔۔۔ جی۔۔۔ بھابی “


اسکی آواز کی لڑکھڑاہٹ عائشہ نے باخوبی محسوس کی۔۔۔


” میں شاہ زر کے لیے تم سے تمہاری حیا مانگوں مجھے دوگی۔۔۔۔؟؟ “ دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔۔ مگر آج اسے لگ رہا ہے جیسے اسکے دل سے بہت بڑا بوجھ ہٹا ہو۔۔۔۔ نور کی نظریں بھابی سے ہوکر انکی گود میں بیٹھی حیا پر ٹک گئیں۔۔۔۔


” نور عنایا میری پہلی اولاد ہے اُسنے آکر مجھے مکمل کردیا۔۔۔۔ جانتی ہو جان بستی ہے فیضان کی اُس میں۔۔۔۔ شاہ زر کے بعد فیضان کی خواہش تھی کے عنایا جیسی بیٹی ہو۔۔۔۔ لیکن جیسے اللہ‎ کی مرضی علی نے آنا تھا۔۔۔۔ اور ہم دونوں ہی علی کی آمد سے بہت خوش ہیں۔۔۔۔ جب سے میں نے حیا کو دیکھا ہے میرا دل چاہتا ہے۔۔۔۔ اسے خود میں چھپا لوں۔۔۔۔ اس معصوم صورت نے میرا دل جیت لیا۔۔۔۔ اور یہ خیال میں نے پہلے فیضان سے شیر کیا وہ راضی ہے۔۔۔ پر کیا تم۔۔۔۔؟؟ “ عائشہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا نور نے عائشہ کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھے تسلی دی۔۔۔۔


” بھابی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ لیکن وعدہ کریں جب تک حیا بالغ نہیں ہوگی۔۔۔۔ اس بات کی اُسے بھنک تک نہیں پڑنے دینگی۔۔۔۔؟؟


ہاں شاہ زر کو آپ اس بات سے آگاہ رکھیں مجھے کوئی پرابلم نہیں۔۔۔۔“ نور نے باغور انکا خوشی سے دھمکتا چہرہ دیکھا۔۔۔۔


” سچ میں نور۔۔۔!!! تم نہیں جانتی تمہارے فیصلے نے مجھے کس قدر خوشی دی ہے۔۔۔“ کہتے ہی وہ اٹھ کر نور سے گلے ملیں اور فیضان کو بتانے کا کہ کر حیا کو اپنے ساتھ لے گئیں۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مما بابا کی طبیعت اب کیسی ہے۔۔۔۔؟؟؟ “


آفس سے آتے ہی وہ فوراً ازلان کو دیکھنے چلا آیا۔۔۔۔


” مت پوچھو ازلان کا۔۔۔!! کل رات طبیعت خراب تھی۔۔۔ اسلیے آفس بھی نہیں جانے دیا۔۔۔ اب حیا ان کو لیکر باہر گھومنے گئیں ہیں۔۔۔ تنگ کر دیا ہے دونوں باپ بیٹی نے “


نور بیڈ شیٹ چینج کرتے ہوے غصّے سے بڑبڑا رہی تھی۔۔۔


جبکے میر کمرے سے نکل کر لاؤنچ میں آگیا۔۔۔


تبھی وہاں تیزی سے نور آئی وہ آخر یہ خوش خبری کیسے بول سکتی ہے۔۔۔؟؟؟نور نے میر کے قریب آکر اسکی پیشانی چومی۔۔۔۔


” بہت بہت مبارک ہو میری جان۔۔۔“ نور کے لہجے میں بےپناہ خوشی تھی۔۔۔۔


” کس لیے۔۔۔۔؟؟ “ وہ ناسمجھی سے دیکھتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔


” تم نے مجھے دادی کے رتبے پر فائز کیا اس لیے “


” جی میں سمجھا۔۔۔۔۔؟ “ سمجھ آنے پر اسنے جھٹکے سے نور کے دونوں بازو پکڑ لیے۔۔۔


” میر پاگل ہو چھوڑو مجھے میں گر جاؤنگی “ میر نے اسے اٹھا کا پورا گھوما دیا۔۔۔ ازلان لاونچ میں داخل ہوتے ہی شوپرز رکھ کے میر پر چیخ پڑا۔۔۔۔


” اوہ پاگل ہوگئے ہو کیا۔۔۔؟؟ اپنی خوشی میں میرا نقصان مت کر دینا۔۔۔“


” بابا میں پاپا بننے والا ہوں۔۔۔۔!!! مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔“ میر نور کو چھوڑتے ہوے ازلان کی طرف بڑھا۔۔۔۔


” نہیں آرہا تو اپنی بیوی سے جاکر پوچھو۔۔۔“ ازلان نے اسے گلے لگا کر روم کی طرف اشارہ کیا جہاں ثانی بیٹھی تھی۔۔۔۔ میر بےقرار سا ثانی کا پاس چلا گیا۔۔۔۔۔


” تم ٹھیک ہو؟؟ “ ازلان نے نور سے کہا جو دل پے ہاتھ رکھے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔۔۔۔


” جی۔۔۔!!! حیا کہاں ہے۔۔۔؟؟ “ حیا کو ازلان کے ساتھ نا پاکر پوچھا۔۔۔۔


” بھابی کے پاس ہے۔۔۔۔!!! نور جلدی سے کھانا لگاؤ سخت بھوک لگی ہے۔۔۔۔“ ازلان نرمی سے اسکے گال پر ہاتھ پھیرتا کہنے لگا۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

“ ازلان انسان تمیز کے دائرے میں رہ کر بھی کھانا لگانے کا کہہ سکتا ہے۔۔۔۔“ نور نے فوراً ہی ازلان کا ہاتھ جھٹکا جو ابھی تک اسکے گال پر ٹہرا تھا۔۔۔۔


” کیا کروں تمہیں دیکھ کے ساری تمیز بھول جاتا ہوں “ وہ اسکے ہاتھ جھٹکنے پر مسکراتا ہوا ڈائننگ ٹیبل کے گرد اپنی مخصوص جگا سنبھال چکا تھا۔۔۔۔


” دادا بنے والے ہیں آپ کچھ تو شرم کریں کیسی چھچھوری حرکتیں کرتے ہیں۔۔۔۔“ نور نے اسے شرم دلانی چاہی۔۔۔۔


” بیوی کا گال ہی تھپکا ہے پڑوسن کا نہیں۔۔۔۔“ ازلان بھی تپ گیا جبکے نور بحث کا ارادہ ترک کرتے ہوے کچن سے سالن کا ڈونگا لینے چلی گئی۔۔۔۔


” تم نے کھانا بنایا ہے۔۔۔؟؟ میں منع کر کے گیا تھا۔۔۔۔ باہر شوپرس رکھیں ہے ان میں کھانا ہے وہ گرم کر کے لاؤ۔۔۔۔“ ازلان اسے ڈونگا لاتے دیکھ کہنے لگا۔۔۔۔۔


” ضرور حیا نے ضد کی ہوگی۔۔۔“ نور نے ٹیبل پر ڈونگا رکھا اور لڑاکا عورتوں کی طرح دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے کہا۔۔۔۔


” تمہارے آرام کے خاطر لایا تھا آخر دن بھر کام کرتی ہو۔۔۔“


وہ اسکے سرخ گالوں کو دیکھتے ہوے بولا۔۔۔۔


” جانتی ہوں میں آپ کی بیٹی کی حرکتیں ہیں۔۔۔۔“


” ہماری بیٹ۔۔۔۔ “ ازلان کے ہنسے پر وہ گھورتی ہوے شوپرس لیکر کچن میں گھس گئی۔۔۔۔ جبکے وہ وہیں بیٹھا اسکا انتظار کرنے لگا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مما با۔۔۔ بالون “


عمر چیختا ہوا اس کی گودھ میں مچل رہا تھا آج رات کو مہندی کا فنکشن تھا۔۔۔۔ لیکن وہ اسما سے ضد کرکے حبہ کے گھر چلی آئی۔۔۔ یہ کہہ کر کے فنکشن سے پہلے گھر پہنچ جائے گی۔۔۔۔


بہت احتیاط سے وہ گھر سے نکلی تھی کے کہیں عمر یا حمزہ اسے دیکھ نا لیں۔۔۔ لیکن اسے کیا پتا تھا جن سے وہ چھپ کے باہر نکل رہی تھی وہ الریڈی باہر گارڈن میں کھیل رہے ہیں۔۔۔۔ اور اسے دیکھتے ہی عمر اسکی ٹانگوں سے لپٹ گیا ناچارہ اسے عمر کو لیکر آنا پڑا۔۔۔۔


” مما کی جان پیسے نہیں ہیں نا ابھی بیٹھو بابا آجائیں پھر اُن سے لیں گے۔۔۔۔“ وہ اس وقت حبہ کے روم میں بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ اسکے آتے ہی حبہ اس سے لپٹ گئی۔۔۔ اور اسکی فرمائش پر اپنا برائیڈل ڈریس نکالنے چلی گئی۔۔۔۔ نور پھر وہیں اسکی کزنس کے ساتھ بیٹھی باتیں کرنے لگی کہ عمر جو اسکی گودھ میں چُپ چاپ بیٹھا تھا۔۔۔ اچانک ایک بچے کے ہاتھ میں بلون دیکھ کر ضد کرنے لگ گیا۔۔۔۔


” نہیں۔۔ نہیں۔۔۔ مما دندی۔۔۔ بلون تائیے “


وہ ہاتھ پاؤں مارنے لگا نور خامخواہ کہ سب کے سامنے شرمندہ ہوگئی۔۔۔


” کیا ہوا بیٹا۔۔۔؟؟ رو کیوں رہا ہے۔۔۔؟؟ بھوک تو نہیں لگی۔۔۔“


حبہ کی امی جو بھی کمرے میں آئیں تھیں اس طرح اسے مچلتے دیکھ کے کہہ اٹھیں۔۔۔۔


” نہیں آنٹی ناشتا کروا کر آئی تھی وہ شاید اپنے بابا کو یاد کر رہا ہے یہاں آکر بچے سارا دن انہی کے پاس رہتے ہیں “


نور نے نرمی سے اسکی پیشانی چومی اسکے گال اور ناک رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکے تھے۔۔۔۔ اوپر سے اتنی مہمانوں کی وجہ سے کمرے میں گرمی بےحد بڑھ چکی تھی۔۔۔۔


” بیٹا بچے آپس میں رہتے ہیں تو پریشان نہیں کرتے۔۔۔۔ تم اسے کب سے گودھ میں لیے بیٹھی ہو نیچے اتار دو بچوں کے ساتھ کھیلے گا تو بہل جائے گا “


نور نے انکے کہے پر عمل کیا لیکن ہر دو منٹ بعد اسکے پاس آکر بلون کی ضد کرتا یا۔۔۔۔


” بابا تے پاش جانا “ کہ کر تنگ کرتا۔۔ حبہ برائیڈل ڈریس لیکر آئی تو نور بس دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔ ڈریس بہت خوبصورت تھا۔۔۔۔ نور نے ڈریس پر ہاتھ پھیرا تو ایک تلخ مسکراہٹ اسکے ہونٹوں کو چھو گئی۔۔۔۔ اسکی بھی خواہش تھی کے وہ اسی طرح سجے سنورے دلہن بنے۔۔۔۔ لیکن کچھ خواہشیں دل میں ہی دفن ہوکر رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔


حبہ کے ساتھ وقت کیسے گزرا اسے اندازہ ہی نا ہوا اسکی اور بھی دوستیں یہاں آئیں تھیں۔۔۔۔ حبہ کی امی اسکے لیے کچھ نا کچھ رکھ کے جا رہیں تھیں (آخر دولہے کی بہن جو ٹہری ) جس سے حبہ منہ بنا کے بیٹھ جاتی۔۔۔۔۔


” بیٹی جا رہی ہے اُسکی خدمت نہیں کر رہیں اور ان میڈم کے نخرے اٹھا رہیں ہیں “ حبہ کی بات پر آنٹی نے اسے گھوری سے نوازا جبکے نور بھی اسے تنگ کرنے لگی۔۔۔۔


” تمیز سے بات کرو اب دوست نہیں نند ہوں “ وہ اترا کے بولی۔۔۔۔


” ویسے میرے بھائی کو تو قابو کر لیا۔۔۔۔ “ اسکا فقرہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کے حبہ لاچاری سے بولی۔۔۔


” پلیز نور “ وہاں بیٹھیں خواتین ہنسنے لگ گئیں جس میں نور کی ہنسی بھی شامل تھی۔۔۔۔ وقت گزرنے کا اندازہ ہوا تو نور نے اسما کو کال کی کے ڈرائیور کو بھیج دیں لیکن اسما کا جواب سنتے ہی وہ غصّے میں آگئی۔۔۔۔


” نور گھر پر کوئی ہے نہیں تم ایک کام کرو ازلان کو بلا لو “


کافی دیر وہ انکی بات پر غور کرتی رہی پھر ناچارہ اسے کال کرنی پڑی کیوں کے عمر گلہ پھاڑ کے رونے لگا۔۔۔۔ جیسے جیسے گھر میں مہمان کی آمد تیز ہو رہی تھی عمر نئے چہرے دیکھ کے اور رونے لگتا۔۔۔۔ چھوٹا سا گھر پورا مہمانوں سے بھر گیا۔۔۔۔ حبہ کے ننھیال والے آئے تھے اور انکی فوج اتنی تھی کے بیٹھنے کی جگا کم پڑھ رہی تھی۔۔۔۔


” ہیلو ازلان “ وہ عمر کو لیے کر حبہ کی بھابی کے کمرے میں آگئی جو اس وقت خالی تھا۔۔۔۔


” جان ازلان کہیں یہ کوئی خواب تو نہیں۔۔۔۔؟؟ غلط نمبر تو ڈائل نہیں کردیا۔۔۔۔؟؟ “ وہ جانتا تھا نور نے اسے کس مقصد کے لیے کال کی ہے ابھی کچھ دیر پہلے ازلان نے اسما کو کال کی کے نور کی آمد کا پوچھ لے۔۔۔۔ اسما سے بات کر کے اسے پتا لگا کے نور گھر نہیں پہنچی۔۔۔۔ اور اعظم شاہ ڈرائیور کے ساتھ بچوں کو گاؤں گھمانے لے گئیں ہیں۔۔۔۔ اسما نے اسے نور کو لانے کا کہا نکل تو وہ فیکٹری (ازلان یہاں آکر اعظم شاہ کی فیکٹری سنبھالنے لگا تھا جو اب امان کی شادی کے بائث نہیں سنبھل سکتے) سے اُسی وقت گیا تھا لیکن وہ حبہ کے گھر کے باہر اسی انتظار میں بیٹھا تھا کے نور اسے خود کال کرکے بلائے۔۔۔۔


” ہاں غلط ڈائل کردیا اب فون رکھ دوں۔۔۔۔؟؟ “ نور کے تپے ہوے لہجے سے وہ فوراً سنجیدہ ہوگیا کے کہیں کال نا کاٹ دے۔۔۔۔


” اچھا بتاؤ کیسے یاد کیا مجھ غریب کو “


” ازلان وہ میں۔۔ حبہ کے گھر ہوں آپ لینے آجائیں “

وہ ہونٹ کاٹتی بےبسی سے بولی۔۔۔۔


” مما۔۔۔ بابا۔۔۔ بابا “ عمر ازلان کا نام سن کر اُچھل پڑا اس سے فون چھینے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔۔۔۔


” آ ہاں۔۔ ایسے نہیں پیار سے بولو۔۔۔۔“ وہ عمر کی آواز سن چکا تھا اسے اندازا تھا یقیناً عمر نے اسے وہاں بیٹھنے نہیں دیا ہوگا۔۔۔۔ تبھی شارتاً وہ اسے تنگ کرنے لگا۔۔۔۔


” ازلان مجھے لینے آجائیں دیکھیں عمر بہت تنگ کر رہا ہے “


اسنے عمر کو بازو سے پکڑ کے بیڈ پر لٹایا اور غصّے سے آنکھیں دیکھائیں۔۔۔۔ لیکن تھا تو آخر باپ کی طرح ڈھیٹ اٹھ کے اسکے پیچھے آکھڑا ہوا اور پورا وزن ڈال کے اسپے گر پڑا۔۔۔


” ہائے اللہ‎ “ وہ پورے وزن کے ساتھ اس پڑ چڑھ گیا۔۔۔ عمر دو سال کا ہونے والا تھا لیکن دونوں ماشاءالله اتنے صحت مند تھے کے اسے اٹھانے میں مشکل پیش آتی ازلان تو اس بات بر اسے باقاعدہ لڑتا تھا۔۔۔۔


” وہ تو کریگا تم ہی تو کہتی ہو باپ پے گیا ہے “


ازلان کی بات پر وہ سرتاپا سلگ کر رہ گئی۔۔۔۔ کھینچ کے عمر کو آگے کیا اور باقاعدہ پٹک کے بٹھایا لیکن وہ کب سے ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے۔۔۔۔


” مما بابا تے پاش دانا۔۔۔ “


” بابا۔۔۔ شے باد کانی “


” ازلان۔۔۔۔ “ وہ رودینے کو تھی ازلان کو آخر اس پر رحم آہی گیا۔۔۔۔


” باہر آجاؤ “ پہلے تو ازلان کی بات سن کر حیران رہ گئی پھر جلدی سے دوپٹا درست کیا اور عمر کو اٹھائے نیچے چلی آئی۔۔۔۔


حبہ آنٹی سے ملکر ابھی وہ باہر نکلی ہی تھی کے ازلان کو سامنے کھڑا پایا۔۔۔۔


” کتنی دفع کہا ہے اسے مت اٹھایا کرو اپنی صحت دیکھی ہے۔۔۔۔ جو اسے اٹھانے چلی ہو۔۔۔؟؟ اور یہ رو کیوں رہا ہے۔۔۔۔؟؟ “ ازلان نے عمر کو اس سے لیتے ہوئے کہا ابھی وہ کچھ بولتی کے عمر بول پڑا۔۔۔۔


” بابا بلون تاہیے “ عمر پاس کھڑے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوے بولا جو ڈھیروں بلون لیے کھڑا تھا۔۔۔۔ ازلان نے جیب سے رومال نکل کر اسکا سرخ چہرہ صاف کیا۔۔۔


” بابا کی جان ڈھیر ساڑے بلون لیں گے۔۔۔۔!!! نور تم گاڑھی میں جاکر بیٹھو۔۔۔۔“ ازلان نے چابی اسے تھمائی جسے لیتے ہی وہ کار میں جاکر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔


” حکم کیسے چلا رہے ہیں کار میں جاکر بیٹھو “ وہ بڑبڑاتی ہوئی کار کا دروازہ کھول کے بیٹھ گئی۔۔۔


” اللہ‎ اتنے ساڑے بلونس؟؟ بگاڑ کے رکھ دیا ہے آپ نے ان دونوں کو کہیں بیٹھنے نہیں دیتے مجھے۔۔۔۔ اور اتنے سارے چاکلیٹس وزن دیکھا ہے انکا۔۔۔؟ سارا دن یہ باہر کی چیزیں کھاتے رہتے ہیں تبھی تو گھر کا کھانا دیکھ منہ بنانے لگتے ہیں۔۔۔۔“


ازلان نے عمر کو اسکی گودھ میں بٹھایا جو خوشی سے کھل اٹھا تھا۔۔۔۔ ہاتھ میں چاکلیٹس اور ٹوفیس سے بھری شوپر تھی جسے دیکھ وہ غصّے سے کھول اٹھی۔۔۔۔


” اس لیے کہتا ہوں تم بھی کھاؤ اور صحت بناؤ اگر تم میری وجہ سے پریشان ہوکے موٹی ہونے پر میں تم پر دیہان نہیں دونگا تو میری جان چاہے تم موٹی ہو یا کالی رہوگی میرے دل میں۔۔۔۔ “ ازلان نے بلونس پیچھے بیڈ سیٹ پر رکھے اور قریب آکر اسپر جھکتا ہوا کہنے لگا۔۔۔


” غلط فہمی ہے آپ کی اور مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کے آپ کے دل میں صرف ایک لڑکی کا بصیرہ ہے ” ماہا “ ۔۔۔۔ ویسے آپ تیسری شادی کیوں نہیں کر لیتے کم سے کم میری جان تو چھوٹے گی جہاں دو کی ہیں وہاں تیسری بھی سہی “


وہ اسے خود سے دور دھکیلتے ہوے کہنے لگی۔۔۔ جبکے ازلان کو اسکی بات سے کتنی تکلیف ہوئی۔۔۔۔ نور اسکا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی۔۔۔۔


” تیسری کیا چھوتی پانچویں چھٹیں بھی کرونگا “


وہ اس پر جھکتا ہوا کہنے لگا وہ اسکے تااثرات بغور نوٹ کر رہا تھا جبکے نور کا تو سنتے ہی سانس روک گیا۔۔۔۔۔


” لیکن صرف تم سے کیا ہے نا اس دل نے تمہارا نقشا حفظ کر لیا ہے کسی اور کو دیکھ کر دھڑکنا بھول جاتا ہے۔۔۔۔“ وہ اسکے اور قریب ہوا اور جھک کے اسکے ہاتھوں میں پکڑی جابی لیکر کار سٹارٹ کردی۔۔۔۔


” تب نہیں بھولا تھا جب کسی اور کو زندگی میں شامل۔۔۔“ اسکے لمس سے نور کو ہوش آیا جب بولی تو ازلان کو اسکا لہجہ بھیگا ہوا محسوس ہوا۔۔۔


ازلان نے سٹرنگ پر گرفت مضبوط کرلی ماہا کا ذکر اسے صرف اذیت دیتا تھا۔۔۔۔ اور وہ کچھ بھی کرلے نور کو یہ بات سمجھانا ناممکن ہے اور بےشک زیمدار وہ خود ہے۔۔۔۔ اسے اپنی غلطی کا احتراف تھا لیکن کیا فائدہ وہ اب اس سے میلوں دوڑ تھی۔۔۔۔


” تب دل تو دھڑکتا تھا لیکن جینے کی امید نہیں تھی۔۔۔ تو کیا فائدہ ہوا اس دھڑکتے دل کا۔۔۔۔“ ایک آخری صفائی پیش کی لیکن نور نے اسکی طرف دیکھا تک نہیں مجبور ہوکر ازلان نے پلیئر اون کرلیا تاکے اسکا موڈ ٹھیک ہوجاے۔۔۔۔


قسمت بادالدی ویکھی میں

احے جگ بادالدا ویکھیا

میں بادالدی ویکھے اپنے

میں رب بادالدا ویکھیا


سب کجھ بَدَل گیا میرا

سب کجھ بَدَل گیا میرا

چل جھڑ ہی جاوانگی


وے جی ہوں تو وی بَدَل گیا

میں تی…

وے جی ہوں تو وی بَدَل گیا

میں تے مر ہی جاوانگی


ازلان نے زور سے آنکھیں میچ لیں جبکے نور کی چہرے پر زہرخند مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔ ہاتھ بڑھا کے ازلان نے پلیئر اوفف کرنا چاہا جسے نور نے ہونے نہیں دیا۔۔۔۔ وہ لب بھنچتا ڈرائیونگ کرتا رہا رہا۔۔۔ عمر دونوں سے بےخبر ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ کھاتا رہا۔۔۔۔


قسمت بادالدی ویکھی میں

احے جگ بادالدا ویکھیا

میں بادالدی ویکھے اپنے

میں رب بادالدا ویکھیا


تو آخری امید میری

ٹٹ کٹے جونا نی

لوٹی ہوئی نوں وے جانی

لٹ کاٹے جوان ناا


میں جھوٹ بادالدا ویکھیا

میں سچ بادالدا ویکھیا

میں بادالدی پتھر ویکھیے نے

میں کچ بادالدا ویکھیا


سب کجھ بَدَل گیا میرا

سب کجھ بَدَل گیا میرا

چل جڑ ہی جاوانگی


وے جی ہوں تو وی بَدَل گیا

میں طے مر ہی جاوانگی


قسمت بادالدی ویکھی میں

احے جگ بادالدا ویکھیا

میں بادالدی ویکھے اپنے

میں رب بادالدا ویکھیا


منزل آتے ہی وہ عمر کو اٹھائے ہوا کے جھونکے کی طرح اسکی نظروں سے اوجل ہوگئی۔۔۔۔ پیچھے عمر بلونس کے لیے روتا رہا۔۔۔ لیکن نور کو کہاں فکر تھی ازلان نے مالی بابا کے ہاتھ میں بلوں تھمائے اور فیکٹری کی طرف نکال پڑا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


پل پل جس خوشی کے لیے وہ ترستی رہی آج اللہ‎ نے ثانی کو اُس خوشی سے نواز دیا۔۔۔ صبح میر اور ازلان کے آفس جاتے ہی اسکی طبیعت خراب ہوگئی۔۔۔ نور اور عائشہ اسکی حالت کے پیش نظر بنا کسی کو انفارم کیے اسے ہسپتال لیں گئیں۔۔۔۔ وہاں چیک اپ کے بعد جو اسے خبر ملی اسے اپنی کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔۔۔ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اسنے گھر آتے ہی شکرانے کے نفل ادا کیے۔۔۔ سجدے میں گر کر وہ اپنا ضبط کھو گئی نور نے ہی آکر اسے سنمبھالا تھا۔۔۔۔


” تھنک یو مائے بیوٹیفل، لولی اینڈ چارمنگ وائف “


میر نے پیچھے سے آکر اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔ ٹھوڑی اسکے کندھے پر رکھے نہایت دھیمے لہجے میں اسکے کان میں سر گوشی۔۔۔۔


ثانیا چونکی اور اسکے دونوں بازو ہٹا کے پیچھے مڑی لمحوں میں وہ اسکے سینے میں سما گئی۔۔۔۔


” یار تم لڑکیاں بھی عجیب ہو خوشی کے لمحوں میں آنسوں بہانا فرض سمجھتی ہو۔۔۔۔“ وہ اسکے سینے سے لگی سسک اٹھی۔۔۔


” پانچ۔۔۔ سالوں۔۔۔ بعد یہ خوشی نصیب ہوئی ہے میر۔۔۔ میر ۔۔۔ م۔۔۔ میں نے تو امید ہی چھوڑ دی تھی۔۔۔“


اسکی آنسوؤں سے لبریز آواز میر کو تکلیف دی رہی تھی۔۔۔ سچ ہی تو کہ رہی تھی وہ۔۔۔ احمد کو دیکھ کے میر کا دل بھی چاہتا تھا کے انکے آنگن میں پھول کھیلے۔۔۔ اسے ہمیشہ آدھی خوشیاں نصیب ہوئی ہیں جس جس کو اسنے چاہا وہ اس سے دور ہوگیا۔۔۔ چاہے وہ اسکا بھائی ہو یا اسکی محبت، ” نور “ وہ واحد حستی ہے جسے نجانے کس نیکی کی صورت میں اسے نوازا۔۔۔۔


” ثانی پلیز چُپ ہوجاؤ یار میری بیٹی کو ڈسٹرب کر رہی ہو “


اسکے لگاتار بہتے آنسوں میر کی شرٹ بھیگو رہے تھے۔۔۔۔ اسے اندازہ تھا یہ خبر سن کر وہ پورا دن روتی رہی ہوگی۔۔۔ اسکی حالت کے پیش نظر میر نے تیر نشانے پے چوڑا جو سہی جاکر لگا۔۔۔


” بیٹی۔۔۔؟؟ “ وہ ایک جھٹکے سے اس سے دور ہوئی۔۔۔


” ہاں بیٹی مجھے حیا جیسے بیٹی چاہیے۔۔۔ لیکن اسکی آنکھیں تمہاری طرح ہزل گرین ہونی چاہیں۔۔۔۔“


فرمائش تو ایسی تھی جیسے سب ثانی کے ہاتھ میں ہو۔۔۔۔ وہ بھیگی آنکھوں میں خفگی سموں اسے دیکھنے لگی۔۔۔ جبکے میر اسکے بدلتے تااثرات سے پُرسکون ہوگیا۔۔۔ شکر تھا اب وہ رو تو نہیں رہی تھی۔۔۔


” نہیں مجھے احمد جیسا گول مول بیٹا چاہیے۔۔۔۔ آ۔۔۔ آپ رو رہے ہیں میر۔۔۔“ وہ لہجے میں ہلکا غصّہ سموئے اپنے خواہش سے آغا کر رہی تھی کے اسنے میر کی آنکھوں میں مچلتی نمی دیکھی۔۔۔۔ جسے پلک چبکائے وہ چُھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔


” نہیں “ میر نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا۔۔۔۔


” اب بتاؤ کون ہو تم۔۔۔؟؟ “


میر کے سوال پر وہ اپنا رونا خفگی سب بھول گئی حتاکے میر کے آنسوں بھی۔۔۔۔


” میر۔۔۔۔ میں۔۔۔ “ اسکے لب پھڑپھڑائے۔۔۔


” پلیز بتاؤ جواب وہ دینا جسکی میں امید کر رہا ہوں۔۔۔۔“ میر نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا جیسے اسے حوصلہ دے رہا ہو۔۔۔۔


” حنان شاہ کی بیوی۔۔۔“ وہ اسکی سرگوشی پر مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔


” کس کے نام سے پہچانی جاتی ہو۔۔۔؟؟ “


” آپ کے۔۔۔“ پلکیں جھکائے آج وہ سارے احتراف کر رہی تھی۔۔۔۔


” اور والدین “ اس سوال کی امید تھی ثانی کو۔۔۔۔


” نور مما اور بابا۔۔۔“ میر نے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے دہکتے لب رکھے۔۔۔


” گڈ گڑل اقل آگئی۔۔۔!!! اب کبھی اپنے ماضی کا ذکر نا کرنا یہ بات یاد رکھو۔۔۔۔ اس میں نقصان صرف ہماری آنے والی اولاد کا ہوگا۔۔۔ تم اپنی پہچان بھول جاؤ صرف یہ یاد رکھو تم مما کی رشتےدار ہو “


” اور ہاں مجھ سے بھی ایسی کوئی بات نہیں کروگی “


وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔


” کونگریچولیشنس “


عمر اور حیا بن بولائے مہمان کی طرح ٹپک پڑے۔۔۔۔


” بھائی میں پھپھو بن گئی آئ ایم سو ایکسائیٹڈ “


میر قہقہہ لگا کے ہنس پڑا ثانیا جھینپ گئی۔۔۔


” بیوقوف بنی نہیں بنو گی “


” آپ سے بات نہیں کر رہی۔۔۔۔“ عمر نے اسکے سر پہ ہلکی چپیٹ لگائی۔۔۔۔ وہ کھاجانے والی نظروں سے اسے گھور کے رہ گئی۔۔۔ وہیں میر نے عمر کی گردن پر دباؤ ڈال کے چھوڑ دیا ثانی اور حیا ہنس پڑیں۔۔۔


” بھابھی مما سے بول کر اب میرے بھی ہاتھ پیلے کر دیں آپ خود ہی سوچیں آپ کے بچے کس کے ساتھ کھیلنگیے “


عمر نے دھیرے سے ثانیا کے کان میں کہا۔۔۔۔


” وہ تمہیں سوچنے کی ضرورت نہیں تم اپنی پڑھائی مکمل کرو۔۔۔“ میر نے ابرو اچکا کر کہا۔۔۔


” بھائی باہر آئیں ہم نے اسپیشل کیک بنوایا ہے اور کھانا بھی لیکر آئےہیں آج تو پارٹی ہوگی۔۔۔۔“ کہتے ہی وہ میر کو بازو میں ہاتھ ڈال کر کھنچتے اسے لاؤنچ میں لے آئی بیچھے عمر بھی زبردستی ثانی کو لے آیا جو نخرے کر رہی تھی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” میں کچھ کہتا نہیں اسکا یہ مطلب نہیں کی تم اپنی من مانی کرو یہ کیا پہنا ہے تم نے۔۔۔۔؟؟ جانتی ہو ابو کتنے غصّے میں ہیں صرف مجھے تنگ کرنے کے لیے تم۔۔۔ تم۔۔۔ یہ حرکت۔۔۔ فوراً جاکر چینج کرو کیوں کے اس لباس میں میرے جیتے جی تو تم ایک قدم بھی گھر سے باہر نہیں نکال سکتیں۔۔۔


بیگ لیس ریڈ ساڑی پہنے وہ پورے گھر میں گھوم رہی تھی۔۔۔ کبھی حمزہ کو تیار کرتی تو کبھی عمر جن ہونے ملازمہ تک کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔۔۔۔ گھر خالی تھا سب حال میں جا چکے تھے صرف وہ ابو ازلان اور عمر حمزہ ہی گھر پر تھے۔۔۔۔ اس نے صرف ازلان کو چڑانے کے لیے ساڑی پہنی تھی۔۔۔ لیکن اسے کیا پتا تھا کے اعظم شاہ بھی دیکھ لیں گے۔۔۔۔ یہ تو ابھی اسے ازلان کی زبانی پتا چلا وہ تو ابھی روم میں چینج کرنے کے گرز سے آئی تھی۔۔۔ لیکن ازلان کے لہجے سے وہ ضد پے اڑھ گئی۔۔۔۔


” کیوں مانوں میں آپ کی بات۔۔۔۔۔ “ اسکی آواز دھیمی تھی لیکن لہجہ سخت تھا۔۔۔ ازلان کا حکم جمانا آخر کب برداشت تھا اسے۔۔۔


” آگر دس منٹ میں تم چینج کر کے نہیں آئیں تو یہ کام میں خود اپنے ہاتھوں سے سر انجام دونگا سوچ لو۔۔۔؟؟ “


سرگوشی محبت سے لبریز لہجے میں نہیں کی گئی تھی۔۔۔ بلکے غصّے سے اسے وارننگ دے گئی تھی۔۔۔ اسکی کانپتی ٹانگوں نے حرکت کی اپنے اور ازلان کی بیچ اس نے فاصلہ قائم کیا۔۔۔۔


” آپ صدا کے ظالم رہیں گے میں بھی حیران تھی آپ کیسے بدل گئے۔۔۔۔ لیکن میں یہ بھول گئی تھی انسان اپنی فطرت سے نہیں بدل سکتا۔۔۔۔ میری بات ذہن نشین کر لیں اس پوری دنیا میں اگر میں نے کسی سے شدت سے نفرت کی ہے تو وہ آپ ہیں۔۔۔ صرف آپ۔۔۔ ازلان شاہ آئ ول نیور فورگیو یو!!!! “


وہ اس پر انگارے برسا کر جا چکی تھی۔۔۔۔ ازلان بھی تھک چکا تھا۔۔۔ اسکی برداشت کی حد جواب دینے لگی تھی۔۔۔ وہ پرسنل ایشو کو کیسے سر آم سب کی سامنے لا سکتی ہے۔۔۔ آج اسکی اس حرکت پر ازلان سرتاپا سلگ گیا۔۔۔ کوئی مرد کیسے برداشت کر سکتا ہے اپنی بیوی پر غیر مردوں کی نظریں۔۔۔ وہ جانتا ہے نور ایسے نہیں ہے لیکن اسے تکلیف پہنچانے کے لیے وہ غلط راہ اختیار کر رہی ہے۔۔۔۔ اسے ڈر ہے وہ کوئی اپنا نقصان نا کردے۔۔۔۔


اسے وقت کی نزاکت کا اندازہ ہوا تو اپنا کرتا لیکر دوسرے کمرے من گھسس گیا۔۔۔۔


” وہ رافع صاحب کے ساتھ چلی گئیں “


ملازمہ کو ازلان نے نور کو بلانے کا کہا لیکن جو جواب اسے ملا وہ اسکے درد میں اضافہ کرنے کے لیے کافی تھا۔۔۔۔


” اور کون ساتھ گیا ہے۔۔۔“ ازلان نے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوے ملازمہ سے پوچھا۔۔۔


” حمزہ عمر اور عشال بی بی (رافع کی بہن) “

وہ مسکراتا ہوا ہال میں جانے کے لیے نکل گیا۔ وہ اتنی بھی بیوقوف نہیں اپنی حفاظت کرنا بخوبی جانتی ہے۔۔۔۔ رافع کی بہن اگر نا ہوتی تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کے نور جائے۔۔۔۔


” ہاں بابا مما حبہ مامی کے ساتھ اسٹیج پر ہیں “

ازلان نے ہنی سے نور کی خیریت معلوم کی۔۔۔


” اوکے اور حیا کو ادھر دو “ وہ کچھ ہلکا پہلکا ہوگیا۔۔۔ ہنی سے حیا کو لیکر وہ مردوں والے پورشن میں چلا گیا۔۔۔۔


” بچوں کھانا کھا لیا ابھی رخصتی ہوگی سب گھر چلیں گے اس لیے گھر جاکر شور نہیں کرنا “ عائشہ نے ٹیبل کے گرد بیٹھی بچا پارٹی سے کہا۔۔۔۔


” عنایا تم عمر کو بھی کھلا دو “ عائشہ کے کہنے پر عنایا عمر کو بھی اپنے ساتھ کھلانے لگی۔۔۔ نور تو یہاں آکر سب کو بھول ہی بیٹھی تھی اسٹیج سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔ جبکے اسما اکیلے ایک ایک مہمان سے مل رہیں تھیں۔۔۔ عائشہ بھی انہی کے ساتھ تھی لیکن ایک نظر بچوں کو دیکھنے آگئیں۔۔۔۔


ڈیپ ریڈ شرارے کے ساتھ لونگ شرٹ پہنے وہ دلہن کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مشگول تھی۔۔۔ اس سجے سنورے روپ میں اسکا نازک سراپا الگ ہی نرالی چھپ اختیار کر گیا تھا۔۔۔۔ جو کے ازلان کو بُری طرح ڈسٹرب کر رہا تھا۔۔۔


اچانک ” برات آگئی “ کا شور گونجا اور اسٹیج پر ہلچل مچ گئی۔۔۔ ازلان اور اعظم شاہ دونوں امان کے ساتھ اسٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔۔


” پچاس ہزار سے کم ایک پیسا نہیں لینگے “


حبہ کی کسی کزن نے اونچی آواز میں اعلان کیا۔۔۔۔


” ہم بھی پچاس روپے سے زیادہ نہیں دینگئے “

دولہے والوں کی طرف سے بھی تڑک کر جواب آیا تھا۔۔۔۔ نور ازلان کو دیکھنے سے پرہیز کر رہی تھی۔۔۔ جو ڈھیٹوں کی طرح وقتاً وقتاً ایک نظر اس پر ڈالنا نہیں بھولتا تھا۔۔۔ وہ حبہ کے ساتھ ہی بیٹھی تھی کیوں کے پیسے وہ گھر جاکر امان سے ہتھیا نے والی تھی ابھی یہ دلہن والوں کی طرف سے فرض تھا۔۔۔۔


” آپ اپنے پاس ہی رکھیے اپنی دلہن کو منہ دکھائی دیجئےگا “


دلہن کی کزن نے جل کر کہا جس پڑ سب ہنس پڑے۔۔۔۔


ازلان نے انکی نا ختم ہونے والی نوک جھوک سے اکتا کر امان کی جیب سے جتنے آئے سب پیسے نکال کر دلہن والوں کو پکڑا دیے۔۔۔ امان نے اسے گھوری سے نوازا۔۔۔ جس کا ازلان پڑ کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔۔


امان رسموں کے لیے اسٹیج پڑ چڑ گیا آخر کار رسمیں ادا کر کے حبہ کو سب شاہ پیلس لے آئے۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” ویلکم بےبی “


میر کیک پر لکھی تحریر پڑھ کے مسکرایا، نظریں اٹھا کے ازلان کو دیکھا۔۔۔۔ جس نے صاف آنکھوں سے حیا کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ (مطلب یہ کارنامہ اُسکا تھا)


” بیوقوف بےبی کونسا آیا ہے۔۔۔؟؟؟ کونگریچولیشنس لکھوا کر آتیں “


عمر نے اسکی عقل پر ماتم کرتے کہا۔۔۔۔


” کیک کاٹو میر۔۔۔۔“ حیا کے لب ہلتے دیکھ نور نے جلدی سے کہا ورنہ نا ختم ہونے والی بحث شروع ہونی تھی۔۔۔۔


نور نے چھری میر کی طرف بڑھائی جسے تھام کر میر اور ثانی نے کیک کاٹا۔۔۔۔ کیک کاٹتے ہی میر نے پہلا ٹکڑا نور کو کھیلانا چاہا۔۔۔ لیکن بیچ میں حیا نے اپنا منہ آگئے کردیا اور کھاتے ہی انگھوٹھے اور شہادت کی انگلی کی انگلی کو آپس میں ملا کر زبردست کا اشارہ کیا۔۔۔


میر اسکی حرکت پر جی جان سے مسکرایا۔۔۔۔


” بھائی پہلا حق میرا ہے “


” پرنسیز یہ مما کی دعائوں کا نتیجہ ہے پہلا حق تو انہی کا ہے۔۔۔“ میر نے نور کو کیک کھلا کر باری باری سب کو کھلایا۔۔۔۔


” مبارک ہو آپ ممی کے عہدے پر فائز ہونے والی ہیں “


آخری ٹکڑا لیکر میر نے ثانی کو کھلایا اور باقی بچا ہوا خود کھا لیا۔۔۔ ثانی اسکے کھلی سرگوشی پر گھورتے ہوے کمرے میں چلی گئی۔۔۔


” بھائی میں پھوپھو بن گئی آئ ایم سو ایکسائیٹڈ “ میر قہقہہ لگا کے ہنس پڑا اور بےختیار اسکا ماتھا چوما۔۔۔۔


” بنی نہیں بنوگی “


نور نے اسکے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھتے ہوے کہا۔۔۔۔ جبکے باقی سب نور کی بات سن کر مسکراہ کے رہ گئے۔۔۔۔


” ہاں وہی اب اتنا ویٹ کرنا پڑےگا۔۔۔۔“ وہ منہ لٹکا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ ازلان نے اسکے چہرے پر پھیلی معصومیت دیکھی تو اسے میر کی کہی بات یاد آگئی یکدم وہ سنجیدا ہوگیا۔۔۔۔


” میر اسٹڈی روم میں آؤ اور ارمان ایسوسیشن کی فائل لےکر آنا “


ازلان سنجیدہ لب و لہجے میں کہہ کر چلا گیا۔۔۔ پیچھے سب اچانک سے بدلتے اسکے رویے کو سوچنے لگے۔۔۔۔


” میر کوئی پریشانی والی بات ہے۔۔۔؟؟ “


” نہیں مما آفس کا کام ہے ڈونٹ وری۔۔۔“ میر نور کو مطمئن کر کے ازلان کے پیچھے چلا گیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


حبہ اور امان کا شاہ پیلس میں شاندار طریقے سے ویلکم کیا گیا۔۔۔۔ رسموں کی ادائیگی کے بعد اسما نے نور سے حبہ کو امان کے روم میں لےجانے کا کہا۔۔۔۔ اس سے پہلے کے حبہ اٹھتی امان کی ایک کزن نے حکم صادر کیا۔۔۔


” امان بھائی یہاں بھی جیب ہلکی کرنی ہے “


” ازلان سے لو اسے بہت شوق ہے ہمدرد بنے کا جتنے چاہے مانگو فوراً دے دیگا۔۔۔۔“ اسکا کھلا طنز ازلان نے خوشدلی سے ہضم کیا۔۔۔ اب سب لڑکیوں کا رُخ ازلان کی طرف تھا۔۔۔


” ازلان بھائی اب آپ ہی ہیں ہمارے ہمدرد “


وہ سب اسکے گھیر کے بیٹھ گئے۔۔۔ بڑے سب کمروں میں جا چکے تھے اب حال یٙنگ جنریشن سے بھرا ہوا تھا۔۔۔


” ڈیمانڈ کیا ہے۔۔۔؟؟ “ ازلان نے ایک نظر ان لڑکیوں کو دیکھا جو اسے پورے طرح گھیرے ہوے تھیں اور تحمل سے بولا۔۔۔۔


” تیس ہزار “


” چالیس دونگا لیکن ایک شرط پر “ سب کے منہ کھل گئے لڑکے بھی حیران سے ازلان کو دیکھنے لگے جس کی ہونٹوں پڑ شیطانی مسکراہٹ سجی تھی۔۔۔۔


” لیکن ایک پروبلم ہے “ وہ ہاتھ ٹھوڑی پے رکھے کہنے لگا۔۔۔


” کیا “ سب یک زبان بولے۔۔۔۔

” وہ شرط صرف ایک ہستی پوری کر سکتی ہے “

اسکی نظریں سامنے رکھے صوفے پے بیٹھی نور پر تھیں جو کب سے حبہ کے کان میں گھسسی نجانے کون کون سی نصیحتیں کر رہی تھی۔۔۔ سب نے ازلان کی نظروں کے تعقب میں دیکھا جو نور پر فریض ہوکر رہ گئیں تھیں۔۔۔۔ امان نے اسکی چالاکی سمجھ کر ایک زور دار موکا اسکے کندھے پڑ ماڑا۔۔۔

” نور بھابی۔۔۔؟؟ “ فائز کی بلند سرگوشی کرنے پر نور یکدم چونک کر انکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔ سب کی نظریں خود پر محسوس کرکے وہ الجھن کا شکار ہوگئی۔۔۔۔

” کیا ہوا سب ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔۔۔“ نور کے پوچھنے پر عدیلہ نے اسے ازلان کی شرط کا بتایا۔۔۔ جسے سن کے اسنے اپنی سلگتی نظریں ازلان پر گاڑھ دیں۔۔۔

” منظور ہے تو بات آگے کی جا سکتی ہے “

وہ اپنی نشیلی براؤن آنکھوں میں محبت لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ نور کے دیکھنے پے جاندار مسکراہٹ اسکے ہونٹوں کو چھو گزری۔۔۔۔

” میں کوئی شرط ورت مانے والی نہیں “

غصّے سے کہتے ہی اسنے اپنا رخ حبہ کی طرف کیا۔۔۔۔

” ٹھیک ہے بیٹھے رہو میں تو چلا سونے “

” نہیں “

ازلان کے اٹھتے ہی سب اتنی زور سے چیخے کے وہ مسکراتا ہوا کان کھجاتا واپس بیٹھ گیا۔۔۔

” نور مان لو شرط کونسا جان لے لینگے تمہاری۔۔۔ الٹا کیا پتا اپنی جان ہتھیلی پڑ رکھ کے پیش کریں۔۔۔“ نوشین کے کہنے پڑ وہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔

” ہاں نور مان جاؤ نا پلیز ہمارے تو عیش ہوجائیں گے۔۔۔ “ عدیلہ نے ملتجی لہجے میں کہا۔۔۔


” نہیں “


وہ دونوں بازو فولڈ کیے اترا کر بولی ازلان دلچسپی سے اسکے بدلتے موڈ دیکھتا رہا۔۔۔ حبہ گھونگٹ میں منہ چھپائی انکی گفتگو سے سجی محفل خوب اینجوئے کر رہی تھی۔۔۔۔ جبکے امان اب اکتا چکا تھا وہ بس اپنی دلہن کو دیکھنے کے لیے بےچین تھا۔۔۔۔


” یار اب دے دو مجھے کیوں بلی کا بکرا بنا رہے ہو۔۔۔ خود تو شادی کر لی اب میری ہوئی ہے تو سانپ بن کر بیٹھ گئے اولین دشمن ہو میرے “


امان جو اسکے قریب ہی بیٹھا تھا دھیمے لہجے میں سر گوشی کی جسے ازلان ان سنی کر گیا۔۔۔۔۔


” پلیز “


” پلیز نور “ افشین نے دانت پیستے ہوے نور سے کہا جسکے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے تھے۔۔۔۔


” اب اتنے بھی نخرے نا دیکھاؤ “ اسکی ایک کزن تنگ آکر بولی۔۔۔۔


” چلانے کی ضرورت نہیں سن سکتی ہوں “ نور نے بھی اسی انداز میں اپنی کزن سے کہا۔۔۔۔ نور کی ان سے اچھی بنتی تھی یہ سب ہی ہم عمر تھیں۔۔۔۔


” ٹھیک ہے “ نور نے آدھے گھنٹے کی بحث کے بعد تنگ آکر کہا۔۔۔ ایک بار اسنے کھسکنے کی کوشش کی لیکن کوشش بیکار گئی ناچارہ اسے ہار ماننی پڑی۔۔۔۔


” یہ ہوئی نا بات “ امان خوشی سے نعرا لگاتا حبہ کے پاس آگیا۔۔۔۔ ازلان نے شرط کے مطابق رقم عدیلہ کو دی جو اب سب میں بانٹ رہی تھی۔۔۔۔


” لیکن شرط کیا ہے؟؟ “


فائز نے مشوک نگھاؤں سے ازلان کو دیکھتے ہوے پوچھا۔۔۔۔


” جسے شرط پوری کرنی ہے اسے ہی بتاؤنگا “


ازلان کہتے ساتھ اٹھ کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔ پیچھے سب چلاتے رہ گئے۔۔۔۔ نور اور باقی کزنس حبہ کو لیکر امان کے روم میں آگئیں۔۔۔۔ کچھ دیر کے بات جب امان کو لڑکوں نے چھوڑا تو وہ روم میں آگیا اور اسکے آتے بے باقی سب وہاں سے کھسک گئیں۔۔۔۔


نور اپنے کمرے میں جانے سے پہلے بچوں کو دیکھنے کے گرز سے اعظم شاہ کے روم میں آگئی جسکا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔۔


بیڈ پڑ اعظم شاہ اور اسما سوئیں تھیں اسکے درمیان میں حمزہ سویا ہوا تھا۔۔۔۔ جسکی ٹانگ اعظم شاہ کے پیٹ پڑ رکھی تھی۔۔۔۔ نیچے زمین پڑ گدھی بچھائے ہنی عمر اور شاہ زر کے ساتھ سویا ہوا تھا۔۔۔۔ نور نے چہرے پڑ سجی نرم مسکراہٹ سے ساتھ روم بند کیا اور اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔


ہونٹ کو بیدردی سے کاٹتی وہ ازلان کی شرط کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔ اسکے قدم دروازے تک آتے ہی رک گئے۔۔۔ گہری سانس لیکر وہ دھیرے سے کمرے میں داخل ہوئی تو حسب توقع ازلان جاگا ہوا تھا۔۔۔ اور حیا کو لیکر روم کے چکر لگا رہا تھا۔۔۔ نور اسے ایک نظر دیکھ کر چینج کرنے چلی گئی باہر آئی تو حیا بیڈ پڑ لیٹی نیند کے مزے لے رہی تھی۔۔۔۔ ازلان نائٹ ڈریس میں ملبوس صوفہ پڑ ٹانگ پڑ ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔۔۔۔ اور اسکے سامنے ٹیبل پڑ چھوٹا سا کیک رکھا تھا۔۔۔۔ نور کو کچھ سمجھ نا آیا وہ وہیں کھڑی رہی۔۔۔


” شرط یاد ہے نا۔۔۔؟؟ میں کیسے یہ موقع گواں سکتا ہوں۔۔۔ یہاں آؤ میرے پاس۔۔۔“ نور نے تھوک نگلا آج تو ازلان کا غصّہ ساتویں آسمان پر ہوگا ایک تو آج وہ رافع کے ساتھ بغیر ازلان کی اجازت لیے گئی تھی اوپر سے وہ ساڑی۔۔۔ اور اب یہ شرط جان بوجھ کے ازلان نے اسے پھنسایا تھا۔۔۔ وہ چُپ چاپ آکر اسکے پہلو میں بیٹھ گئی۔۔۔


” ہیپی اینورسیری سویٹ ہارٹ۔۔۔۔“ وہ اسے خود سے لگاتا بولا۔۔۔۔


نور کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں اسے تو یہ دن کبھی یاد ہی نہیں رہا۔۔۔۔ اسے اپنی شادی تک کی تاریک معلوم نہیں تھی نا ازلان سے وہ یہ توقع رکھ سکتی ہے۔۔۔۔ آخر وہ اسکی خون بہا میں مانگی بیوی جو ٹھری۔۔۔ اس نے بولنا چاہا لیکن ازلان نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔۔۔۔


” ہم۔۔۔ ہوم۔۔۔ ویٹ لیٹ میں کمپلیٹ فرسٹ۔۔۔ میری شرط یہی ہے کے بغیر کسی جھگڑے یا طنز کے تم کیک کاٹو گی۔۔۔ از ڈیٹ اوکے۔۔۔؟؟ “


نور نے اسکے کہنے پر اثبات میں سر ہلایا ازلان نے اسکا ہاتھ پکڑ کے کیک کاٹا۔۔۔۔ ایک چھوٹا سا پیس کاٹ کر نور کو کھلایا۔۔۔ جو کھاتے سمیت اسکے ہونٹوں سے جا لگا۔۔۔ ازلان نے اسے کھیلا کر خود اسکے ہونٹوں سے لگا۔۔۔ وہ تھوڑا کیک ٹیسٹ کیا جہاں نور اس حرکت پر اپنا سرخ چہرہ لیکر ازلان سے تھوڑا دور ہوئی وہیں وہ ہنس پڑا۔۔۔


” ریلکس کچھ نہیں کر رہا۔۔۔ ہاں آگر تم چاہو تو اب وہ ساڑی پہن کر آسکتی ہو۔۔۔۔“ ازلان کسی اور ہی موڈ میں تھا۔۔


” ہوگئی شرط پوری اب میں۔۔۔ “ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے نور اٹھ کھڑی ہوئی ازلان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔


” اوکے اب سیریس تمہارا گفٹ تمہیں لاہور جاکر ملے گا وہ گھر جو میں نے تمہارے لیے ڈیزائن کیا ہے۔۔۔۔ اور اس گھر کی مالک بھی تم ہو ہاں وہ ہے فیضان کا لیکن ایک پورشن میرا ہے۔۔۔۔ جس پر میں نے کام کروایا ہے۔۔۔ اور وہ میری طرف سے تمہارے لیے اینورسیری گفٹ۔۔۔ “ نور نے کچھ نا کہا بےتاثیر چہرے کے ساتھ سنتی رہی اسے اس سب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔


” آخری بات تم رافع کے ساتھ کیوں گئیں تھیں۔۔۔ ؟؟ “ اس سے پہلے کے وہ دوبارہ اٹھتی ازلان نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔۔۔ اور اسکی نگھاؤں میں بےاعتباری دیکھ کے وہ بولا۔۔۔


” نہیں شک نہیں ہے تمہارے دل کا حال جانتا ہو لیکن اگلے بندے کی نیت بھی جانتا ہوں۔۔۔ میرا خدا گواں ہے نور تمہیں پانے کی خواہش ایک عرصے سے میرے دل میں تھی۔۔۔۔ اور راستا بےحد آسان تھا تبھی مجھے کسی بات کا ڈر نہیں تھا۔۔۔۔ لیکن میں نے کبھی تمہیں ان نظروں سے نہیں دیکھا جن نظروں سے وہ۔۔۔۔۔“ ازلان نے مٹھیاں بینچ لیں۔۔


” میں بےاعتبار نہیں تھا نور بس قسمت میرے ساتھ نہیں تھی۔۔۔ مجھے ہمیشہ یہی لگتا کے تم خود سے اتنے بڑے شخص سے نکاح کے بندھن میں کبھی نہیں بندھو گی۔۔۔ اور بے شک یہ سوچ ماہا کی پیدا کی ہوئی تھی۔۔۔ خیر ہنی تمہارے ساتھ ہوتا تو شاید مجھے ڈر نا لگتا۔۔۔ مجھے حیرت تم پر ہے صرف مجھے تنگ کرنے کے لیے تم اسکے ساتھ گئیں یہ جانتے ہوئے بھی کے تم اسکی پسند رہ چکی ہو۔۔۔؟؟ اور لیکر بھی کہیں گئیں حمزہ عمر۔۔۔؟؟ جانتی ہو وہ پندرہ منٹ میں نے موت و زندگی کے بیچ گزارے ہیں۔۔۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتیں میری خوف سے کیا حالت ہو رہی تھی۔۔۔؟؟ “ ازلان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا جسے نور نے چھڑوایا نہیں۔۔۔ اسکے چہرے سے ظاہر تھا وہ کس قدر کرب میں رہا ہے نور کو شرمندگی نے آن گھیرا۔۔۔


” آئ ایم سوری۔۔۔۔ “ وہ شرمندہ سے بولی۔۔۔


” اٹس اوکے سو جاؤ۔۔۔ “ ازلان نے اسکا گال تھپکا، اسکا ہاتھ چھوڑ کے اٹھ کر سگریٹ کیس اور لائیٹر لیکر روم سے نکل گیا۔۔۔ نور کو خود پر غصّہ آیا۔۔۔ وہ اسے اذیت دینے کے چکر میں خود جل رہی تھی۔۔۔ رافع کی اٹھتی نظریں تو وہ کار میں بھی محسوس کر چکی تھی اور اسے افسوس بھی تھا اپنے آنے پر۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” میر جا رہے ہو؟؟ “


کل اسٹڈی میں ازلان نے میر کی خوب کلاس لی۔۔۔ وہ دن بھر بےچین رہنے لگا تھا۔۔۔ اسے اپنی پھول جیسی بیٹی کی فکر ستائے جا رہی تھی۔۔۔ رہ رہ کر نور کی بددعائیں یاد آتیں۔۔۔ آج ازلان نے خاص طور پر میر سے کہا تھا۔۔۔ وہ علی کو لیکر عنایا کے پاس ہو آئے اور شاہ زر کے رویے کا بھی ذکر کرے۔۔۔۔ میر نے انکے سوال پڑ ہلکے سے سر کو جنبش دی۔۔۔۔


” ہم۔۔۔!!! راستے میں کچھ لیتے جانا اس طرح خالی ہاتھ نہیں جاتے بیٹی دی ہے ہم نے وہاں “


” جی بابا۔۔۔!! میں چلتا ہوں اللہ‎ حافظ۔۔۔“ میر کہہ کر نیچے چلا آیا عائشہ نے شوپرز بھر کے عنایا کو دینے کے لیے کہا تھا۔۔۔۔ میر ان سے سامان لیکر علی کے ساتھ عنایا کے گھر آگیا۔۔۔


” پتا نہیں پاپا نے کیا سوچ کر آپی کی شادی یہاں کی “


میر نے علی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔

” السلام عليكم۔۔۔!! آہیے “

ہارون (عنایا کا دیور ) اُس نے دروازہ کھولا اور اِن سے خوش دلی سے ملکر اندر لے آیا۔۔۔

” بیٹھیں بھابی بھابی۔۔۔۔!!! “

وہ انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھا کر عنایا کو آوازیں دینے لگا۔۔۔۔

” علی تم۔۔۔؟؟ میر۔۔۔؟؟ کیسے ہو۔۔۔۔؟؟ مجھے بتایا ہی نہیں تم لوگ آرہے ہو۔۔۔۔؟؟ “ عنایا انہیں دیکھ کر خوش ہوگئی۔۔۔ ہارون انہیں اکیلا چھوڑ کر خود باہر نکل گیا۔۔۔۔

” بتاتے تو آپ کے چہرے پر یہ خوشی کیسے دیکھتے کیسی ہیں آپی۔۔۔۔؟؟ اور احمد کیسا ہے “

” اللہ‎ کا شکر ٹھیک ہے۔۔۔۔ “ عنایا نے بیٹھتے ہوے کہا۔۔۔۔

عنایا علی اور شاہ میر سے گھر والوں کا حال چال پوچھنے لگی۔۔۔۔ تبھی ایک بچا ڈرائنگ روم میں چلا آیا۔۔۔۔

” ٹیچر مجھے یاد ہوگیا ہے۔۔۔۔“ ایک بچے نے آکر اسے کاپی تھمائی۔۔۔۔

عنایا بوکھلا گئی علی اور میر حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ جو ہر بار مصروفیت کا کہ کر گھر نا آنے کا بہانا بناتی۔۔۔۔

” آپی یہ۔۔۔؟؟ “

” ٹیچر سولو کر لیے۔۔۔۔ “ تبھی ایک بچی نے آکر اپنا متحص کا کام اسے دکھایا۔۔۔۔

” تم لوگ اندر جائو میں آرہی ہوں اور اب کوئی باہر نا آئے “

دونوں بچے واپس چلے گئے عنایا انکی سوالیہ نظروں خود پڑ مرکوز دیکھ کہنے لگی۔۔۔۔

” علی وہ میں فارغ ٹائم میں آس پاس کے بچوں کو ٹوشن پڑھاتی ہوں خالی مجھ سے بیٹھا نہیں جاتا اس لیے بس۔۔۔ “

اس نے میر کی طرف نہیں دیکھا جس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔۔۔۔ وہ نہیں جانتی علی مطمئن ہوا یا نہیں لیکن ہارون کے آتے ہہی موضوع گفتگو بدل گیا۔۔۔

وہ باہر سے کھانے پینے کا سامان لے آیا عنایا نے جلدی میں سموسے پکوڑے بسکیٹس نمکو کولڈ ڈرنکس انکے سامنے رکھیں اور سینڈوچ شامی، کباب جلدی سے تل کے لے آئی۔۔۔۔

” آنٹی نہیں ہیں ہے گھر کے باقی افراد۔۔۔؟؟ “ میر نے ہارون سے اسکی ماں کا پوچھا۔۔۔

” امی سو رہیں ہیں۔۔۔ ناظمہ یونیورسٹی گئی ہے اور میں آپ کے آنے سے پہلے جاب کے لیے انٹرویو دیکر آیا ہوں۔ِ۔۔“ ہارون نے اسے پوری تفسیل بتائی۔۔۔۔

کچھ دیر بیٹھنے کے بعد میر اٹھ کھڑا ہوا اسے دیکھتے ہی علی بھی اٹھا۔۔۔ میر نے جو فروٹس خریدے تھے وہ اور باقی عائشہ کا دیا ہوا سامان عنایا کو دیکر علی کے ساتھ گھر لوٹ آیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

” آج کافی دیر تک سوتی رہیں۔۔۔؟؟ “

اسما نے نور کو دیکھتے ہوے کہا جو سوئی ہوئی حیا کو کندھے سے لگائے عائشہ کے برابر میں چیر سنبھال کے بیٹھ گئی۔۔۔

” امی آپ کی یہ نواسی سونے کہاں دیتی ہے۔۔۔؟؟ رات میں تین دفع تو رو کر اٹھایا ہے “

نور نے چائے کپ میں احتیاط سے انڈھیلتے ہوے کہا اسے حیا کے اٹھنے کا ڈر تھا جو اب اسکی گودھ میں بیٹھی سو رہی تھی۔۔۔۔


سامنے ہی ٹی وی لونچ میں پوری بچا پارٹی موجود تھی سواے ہنی کے۔۔۔۔ اور چھ ماہ کا علی چیخ چیخ کے رو رہا تھا کیوں کے بی بی جان اسکا تیل سرما کر رہی تھیں۔۔۔۔


” بچے ایسے ہی ہوتے ہیں علی کا بھی یہی حال ہے کل پوری رات میرے کمرے کے چکرلگاتے گزری ہے “


عائشہ نے مسکرا کے حیا کے نرم گالوں کو چھوتے ہوے کہا۔۔۔ جو نور کی گودھ میں آنکھیں موندھے سوئی ہوئی تھی۔۔۔


ابھی نور کچھ کہتی اس سے پہلے ہی ملازمہ ہانپتی ہوئی ان تک پہنچی۔۔۔۔


” بی بی صاحبہ۔۔۔ وہ۔۔۔ شاہ صاحب کو گولی لگی ہے “


نور کے ہاتھ سے سینڈوچ چھوٹ کر پلیٹ میں جا گرا۔۔۔ سب شاک سے کیفیت میں گھیرے تھے کے اسما کے وجود نے جنبش کی وہ فوراً سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئ۔۔۔۔


” نور تم ٹھیک ہو۔۔۔ نور۔۔۔۔؟؟ کون سے ہسپتال میں لیکر گئے ہیں۔۔۔۔؟؟ “ عائشہ نور کی زرد پڑتی رنگت سے پریشان ہوگئی۔۔۔۔ جو اس وقت شاک کی کیفیت میں گھری تھی۔۔۔ اسکا دماغ سن ہو چکا تھا۔۔۔۔ وہ عائشہ سے ہلتے لب دیکھ رہی تھی انسے ادا ہوتے جملے نہیں سن پا رہی تھی۔۔۔۔


” وہ بی بی جی انہوں نے بتایا نہیں “ ملازمہ خود پریشان تھی۔۔۔۔


” کال کس کی تھی؟؟ “


” جی ڈرائیور کی “


” وہاں کوئی ازلان کے ساتھ نہیں “


” جی امان اور فیضان صاحب ہیں “


” اچھا ہسپتال کا نام پوچھا؟؟ “


” بی بی جی ڈرائیور نے کہا شاہ صاحب نے سختی سے منا کیا ہے کوئی ہسپتال نہیں آئے گا خاص کر بی بی جی “


ملازمہ نے نور کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا نور نے بھی ” شاہ صاحب “ کے نام پر ملازمہ کو دیکھا۔۔۔


اسما نے گہرا سانس خارج کیا آگر صورت حال سنگین ہوتی تو فیضان اسے ضرور انفارم کرتا۔۔۔۔


” بھابھی۔۔۔ پلیز۔۔۔ اسے سنبھال لیں “


نور نے سوئی ہوئی حیا کو عائشہ کی گودھ میں رکھا اور بھاگتے ہوے اپنے کمرے میں جاکر بند ہوگئی۔۔۔

” اسے کیا ہوا عائشہ؟؟؟ “

بی بی جان جو علی کے چیخنے کی وجہ سے کچھ سن نا پائیں نور کو اسے دوڑ لگاتے دیکھ عائشہ سے پوچھ بیٹھیں۔۔۔۔

” کچھ نہیں بی بی جان وہ ازلان کی کال آگئی تھی اسی لیے بھاگتی ہوئی گئی ہے۔۔۔۔“ عائشہ نے اس وقت جھوٹ کا سہارا لینا ضروری سمجھا بی بی جان نے بھی سمجھ کر اپنا کام جاری رکھا۔۔۔

” نہیں۔۔۔ ازلان میں نے تو ایسا کبھی نہیں چاہا تھا تم۔۔۔ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا تمہیں تم۔۔۔ تم۔۔۔ مجھے چھوڑ کے نہیں جا سکتے تمہیں ابھی مجھے حساب دینا ہے۔۔۔۔ آگر تم گئے تو کبھی معاف نہیں کرونگی کبھی۔۔۔ نہیں “

وہ دروازے سے ٹیک لگے گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔۔۔۔

” نور 

اسما اور عائشہ دروازے پڑ دستک دیتی رہیں لیکن نور نے دروازا نہیں کھولا اسکا دل کانپ رہا تھا کوئی بری خبر سنے سے۔۔۔۔

” مما۔۔۔ مما۔۔۔ “ ہنی کی آواز سے وہ یکدم ہوش میں آئی صبح اسنے سب بچوں کو لاونچ میں دیکھا تھا۔۔۔۔ لیکن وہاں ہنی نہیں تھا اعظم شاہ بھی گھر پر تھے۔۔۔۔ نور نے تیر کی تیزی سے بڑھ کر دروازہ کھولا اور سامنے ہنی کی حالت دیکھ کر اسکا دل تیز رفتار سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔

” یہ ہنی۔۔۔۔ ہنی خون کہاں سے۔۔؟؟ تمہیں۔۔ چوٹ لگی ہے “

ہنی نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے بیڈ پڑ بٹھایا۔۔۔۔ سامنے رکھے جگ سے پانی گلاس میں انڈھیلا۔۔۔ اور اسے زبردستی پلایا جو بمشکل اسکے حلق سے اترا۔۔۔۔ ہنی نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اسکے آنسوں پونچھے اور اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔۔

” مما میں بابا کے ساتھ کراچی جا رہا تھا عمر کی قبر پر لیکن راستے میں کچھ لوگوں نے ہماری چلتی گاڑھی پڑ فائر کیا۔۔۔ اور کار روکتے ہی مجھے لیجانے لگے کے بابا بیچ میں آگئے۔۔۔۔ انہوں نے مجھ پر دو دفع فائرنگ کی اور دونوں دفع وہ گولی بابا کو لگی کیوں کے بابا جان بوجھ کر ہر دفع مجھے بچانے کے لیے سامنے آگئے۔۔۔ پھر ڈرائیور انکل نے ماموں اور تایا ابو کو کال کی ہم بابا کو لیکر ہسپتال پہنچے۔۔۔ کئی گھنٹے بابا کا آپریشن ہوتا رہا پھر بابا نے مجھے آپریشن کے بعد گھر بھیج دیا۔۔۔ انہوں نے کہا تمہاری مما رو رہی ہونگی میں انہیں جاکر سنبھالوں “ وہ ایک ہی سانس میں بولتا سب بتاتا چلا گیا اور نرمی سے اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوں صاف کیے۔۔۔

” مما پلیز مت روئیں پھر بابا کہیں گے میں نے آپکا خیال نہیں رکھا “

نور نے جیسے اسکی بات ہی نہیں سنی جھٹکے سے اسے خود میں بینچ لیا۔۔۔۔

” ہنی میں۔۔۔ بہت۔۔۔ ڈر۔۔ گئی تھی۔۔۔ مجھے۔۔ لگا۔۔۔ سب۔۔۔ختم ہوگیا۔۔۔۔“ وہ آنسوں بھری آواز میں اپنا خدشہ ظاہر کر رہی تھی۔۔۔۔

” ہنی تمہیں۔۔۔ کہیں چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔ “ اسنے ہنی کو خود سے الگ کرتے ہوے اسکے بازو ہاتھوں چہرے کو تھامتے دیکھنے لگی کے کہیں کوئی چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔۔

” نہیں مما میں ٹھیک ہوں ریلکس۔۔۔۔“ ہنی نے اسکے دونوں ہاتھوں کو پکڑتے کہا۔۔۔۔

” ہنی تم ہی اسے کھانا کھلائو صبح سے اسنے کچھ نہیں کھایا۔۔۔ ماں کی ذرا پروا نہیں کتنی دفع دروازا کھٹکھٹایا لیکن اسے تو ماں کو تنگ کرنے میں مزا آتا ہے۔۔۔“ اسما جو ازلان سے بات کر کے اب پر سکون تھی لوازمات سے بھری ٹرے اسکے سامنے رکھتے ہوے خفگی سے بولیں۔۔۔ نور پہلی دفع اس واقعے کے بعد کھل کے مسکرائی۔۔۔۔

” مما ویری بیڈ “ ہنی نے کہتے ہوئے ایک نوالہ بنا کر اسے کھلایا۔۔۔

اسما شکر کرتیں نیچے چلی آئیں نور کی حالت نے انکے ہاتھ پیر پھولا دیے تھے۔۔۔ ہنی خود صبح سے بھوکا تھا نور انجان نہیں تھی۔۔۔ کبھی وہ اسے نوالہ بنا کر کھلاتی تو کبھی ہنی کچھ دیر بعد کمرے میں ملازمہ آئی جس نے شاہ کے آنے کی خبر سنائی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ابو میں نے حیا کی پیدائش سے پہلے ہی کنسٹرکشن کا کام سٹارٹ کروا دیا تھا۔۔۔۔ کراچی جانے کے بجائے یہاں سے لاہور جائینگے اب تک کام مکمل ہوچکا ہوگا “


ازلان اعظم شاہ کے سامنے بیٹھا ان سے محو گفتگو تھا۔۔۔ اسکا بایاں کندھا پٹیوں سے جکڑا ہوا تھا۔۔۔ پہلی دفع کے وار سے تو وہ بچ گیا تھا۔۔۔۔ لیکن دوسری بار چلی گولی اسکا دل چیڑ دیتی اگرصیح وقت پر گاؤں کے لوگ نا آجاتے۔۔۔۔ دوسری دفع شوٹر نے سہی نشانا لگایا تھا۔۔۔ لیکن لوگوں کی آمد سے ڈر کر اسکا نشانا چھوٹ گیا اور وہ بائیک پر بیٹھتے ہی وہاں سے جلد روانہ ہوگئے۔۔۔۔


” ہاں ازلان جلد ہی وہاں شفٹ ہوجاؤ نجانے اور کتنے امتحان ہیں۔۔۔؟؟ پہلے عالَم، آصفہ، آغا جان اور پھر عمر نجانے اس زندگی میں اور کتنی موتیں دیکھنے لکھیں ہیں۔۔۔۔؟؟ وقت تو ہمارا ہے جانے کا اور۔۔۔“


اعظم شاہ بےبسی سے اسے دیکھتے کہ رہے تھے۔۔۔۔ اب وہ صرف انکا بیٹا نہیں انکی عزیز بیٹی کا شوہر تھا۔۔۔۔ چھوٹی عمر میں انکی بیٹی کا گھر اُجڑ جاتا۔۔۔ اگر ازلان کو کچھ ہوجاتا تو۔۔۔۔؟؟ یہ سوچتے ہی انکی روح کانپ اٹھتی ہے۔۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کی دیوانگی سے اچھی طرح واقف تھے۔۔۔ جو ازلان کے لیے کوئی غلط لفظ سنا بھی گنوارا نہیں کرتی۔۔۔۔ انہیں یاد ہے جب کوئی ازلان کے خلاف بولتا نور ہمیشہ بلا خوف وجھجک کے جواب دیتی بغیر بڑے چھوٹے کا لحاظ کیے۔۔۔۔


” اللہ‎ نا کرے ابو۔۔۔ آپ کا سایا ہمیشہ ہمارے سروں پڑ سلامت رہے۔۔۔ آپ بس بچوں اور نور کے لیے دعا کیا کریں “ وہ تڑپ کر بولا۔۔۔


” اپنے لیے نہیں کہو گے۔۔۔۔؟؟ “ اعظم شاہ نے غور سے اسے دیکھتے ہوے کہا۔۔۔۔


” میرے ساتھ تو ہر وقت اسکی دعائوں کا اثر رہتا ہے۔۔۔۔ کوئی ایک لمحہ نہیں ہوگا جب اسکی دعا میں میں نا رہا ہوں “


وہ کھل کر جی جان سے مسکرایا۔۔۔۔ اعظم شاہ بھی سمجھ کر مسکراے وہ جان گئے تھے وہ نور کی بات کر رہا ہے۔۔۔


” بس ہمدردیاں بٹورنے شروع ہوگئے “


امان نے آتے ہی با آواز بلند ازلان پر طنز کیا جس پر وہ مسکرایا۔۔۔۔ وہ مسکراہٹ اور گہری ہوگئی جب امان کے چھوڑے وجود کی پیچھے چھپی اسے اپنی زندگی نظر آئی۔۔۔ جس نے پل بھر کو سائیڈ پر ہوتے اپنی سوجی آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔ دونوں کی نظریں ملیں نور پھر امان کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔ ان آنکھوں نے ازلان کو بہت کچھ بتا دیا اسکا خدشہ صیح تھا نجانے کب سے وہ روتی رہی ہے۔۔۔؟؟


قریب آتے ہی امان ازلان کے ساتھ بیٹھ گیا اور ہلکا سا اسکا کندھاتھپکا جس پڑ ازلان کراہ اٹھا۔۔۔ اور اسے گھوری سے نوازا جبکے نور اعظم شاہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔ اعظم شاہ نے اسے بازو کے گھیرے میں لیا۔۔۔


” آج ہمارا گلاب مرجایا ہوا کیوں ہے۔۔۔؟؟ “


اعظم شاہ نے اسکے مرجائے چہرہ کو دیکھتے ہوے کہا۔۔۔۔


” نہیں ابو بس ایسے ہی “


وہ ہونٹ کا کنارا لبوں سے کاٹنے لگی۔۔۔۔ ازلان امان کی کسی بات کا جواب دیتے ہوئے بغور اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔


” ازلان بلکل ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ ایسے روکر خود کو ہلکان نہیں کرتے ہم۔۔۔؟؟ “ اعظم شاہ نے اسے پیار سے سمجھایا۔۔۔۔


” جی ابو۔۔۔!! “ وہ اپنا سر شرمندگی سے جھکائے ہوے تھی۔۔۔۔ اسے ازلان کے سامنے بہت عجیب لگ رہا تھا۔۔۔


” نور اب تم لوگ کراچی نہیں لاہور جاؤ گے فیضان کے گھر۔۔۔۔!!! کراچی میں جو سامان رہ گیا ہو۔۔۔ ملازموں سے منگوا لینا ویسے ازلان نے وہاں سب سیٹ کیا ہے۔۔۔۔ ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہے وہاں۔۔۔ “ اعظم شاہ کچھ توکف کے بعد بولے امان اور ازلان بھی انہیں غور سے سن رہے تھے۔۔۔ نور انکی بات سنتے ہی ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔


” بیٹا یہ ضروری ہے تم سب کی سیفٹی کے لیے وہاں عائشہ ہوگی تمہاری ساتھ اور فیضان بھی۔۔۔۔!!! انسان پر کب مشکل وقت پڑ جائے۔۔۔۔؟؟ کسی کو کیا خبر۔۔۔؟؟ تم وہاں رہوگی تو ہمیں بھی یہاں تسلی رہی گی ہم۔۔۔؟؟؟ “


” جی ابو۔۔۔“ انہوں نے تاہید چاہیے جس پر نور نے ہامی بھری۔۔۔


” ازلان اب گارڈز رکھلو تمہاری بیواقوفی کی وجہ سے ہوا ہے یہ سب۔۔۔۔ کس نے کہا تھا خطرہ ٹل گیا ہے جو تم نے گارڈز کو فارغ کردیا۔۔۔۔؟؟ خیر تب تک میں ہنی کے ڈاکومینٹس بنواتا ہوں۔۔۔۔ اسکا ایڈمشن کسی اچھے اسکول میں کروانا جہاں سیفٹی کا خطرہ نا ہو۔۔۔!! ازلان زندگی ہمیں ایک ہی موقع دیتی ہے ایک بیواقوفی ساری زندگی رونے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔۔ اور پیچھے صرف پچھتاوا رہےجاتا ہے سمجھے۔۔۔؟؟ “


” جی ابو “


ازلان کو انکی ایک ایک بات سچائی سے بھر پور لگی وہ آخر ان سب سے گزر چکا تھا۔۔۔


نور کے وہاں سے جانے کے بعد ازلان بھی اٹھ گیا آج امان کا ولیمہ تھا۔۔۔۔ لیکن اعظم شاہ نے صبح ہی کال کر کے کینسل کروا دیا۔۔۔ صبح اسما نے آکر انہیں جیسے ہی اطلا دی انہوں نے فیضان کو کال کر کے ہسپتال کا پوچھا۔۔۔۔ اور اچھی خاصی اسکی کلاس لی کے انہیں کیوں لاعلم رکھا گیا۔۔۔۔ وہ لمحے انہیں بھولنے سے نہیں بھولتے۔۔۔۔ رہ رہ کر بیٹی کا خیال دل میں آتا۔۔۔۔ بی بی جان بھی رو رو کر ازلان کی زندگی کی دعائیں مانگتی رہیں۔۔۔۔ آخر طویل دن کے بعد خوشی کی نوید انہیں ملی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ کسی خوبصورت خواب کی طرح پل بھر کو اسکی زندگی میں آئی۔۔۔ اور ایک رات چپکے سے بنا کچھ کہے کہیں چلی گئی۔۔۔۔ اسے تنہا کر کے ایک بار پھر اسکی زندگی ویران ہوگئی۔۔۔۔ تنہائی اسکا مقدار بن گئی۔۔۔۔ وہ راتوں کو اٹھ کے رونے لگتا ہر پل اسے محسوس ہوتا۔۔۔۔ کوئی سائے کی طرح اسکا پیچھا کر رہا ہے۔۔۔۔ اسکا باپ جو اذیت نور کو دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ خود انجان تھا کے سزا صرف اسکے بیٹے کو مل رہی ہے۔۔۔۔ اسکا دل دماغ ہر وقت کسی سوچ میں گھرا رہتا۔۔۔۔ پڑھائی میں بھی اسکی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ اس دوران بی بی جان بھی گھر میں موجود نہیں تھیں۔۔۔ رات کو اٹھ کے وہ اکثر اپنے باپ کے پاس سونے چلا جاتا۔۔۔ کچھ دنوں بعد بی بی جان گھر لوٹیں تو اسے بھی راحت ملی۔۔۔۔ وہ انہی کے ساتھ سونے لگا۔۔۔ لیکن اگلے ہی دن اسے ایک بار پھر زندگی کی نوید ملی جب وہ پھر اس گھر میں آگئی میر کو یاد ہے اسے دیکھتے ہی ِاسنے کہا تھا۔۔۔۔


” پری تنہائی انسان کو ختم کردیتی ہے آہستہ آہستہ یہ مجھے بھی ختم کر رہی ہے “


اور اُس دن میر نے اپنا دکھ، تنہائی، درد سب اسکے حوالے کردیا بچپن سے لیکر ایک ایک بات وہ اسے بتاتا چلا گیا۔۔۔۔ وہ صبح اسکے لیے خوشیوں کی نئی امید لیکر آئی تھی۔۔۔ زندگی یکدم ٹہر سے گئی تھی۔۔۔ اسکا ایک ایک پل کسی ہیرے کی طرح قیمتی تھا۔۔۔ اب نا اسے رات سے ڈر لگتا تھا نا تنہائی سے۔۔۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا زندگی چاہے کتنی بھی مکمل ہو کوئی نا کوئی کمی رہ جاتی ہے۔۔۔ وہ بھی چاہے کتنا ہی پر سکون ہوتا لیکن اکثر کئی بار وہ راتوں میں اٹھ جاتا۔۔۔ لیکن اپنے پاس سوئے وجود کو دیکھ کر نیند جلد ہی اس پر مہربان ہوجاتی۔۔۔۔


نور کے آنے سے کافی تبدیلیاں آئیں جیسے اسکی پروگریس رپورٹ بہتر ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔ وہ سپورٹس میں پارٹیسپیٹ کرتا۔۔۔ ہر ایکٹیویٹی میں بڑھ چڑ کے حصّہ لینے لگا تھا۔۔۔۔ ہر شام خود وہ اسے پاس بیٹھا کے پڑھاتی۔۔۔ اسکا دل رکھنے کے لیے اسکے ساتھ الٹی سیدھی گیمز کھیلتی۔۔۔۔ اسے وہ اچھی لگنے لگی تھی اسکا بس چلتا ہمیشہ اسے اپنے پاس رکھتا۔۔۔۔ لیکن اسکا اداس چہرہ بہت کچھ کہتا۔۔۔ جو وہ سمجھنے سے قاصر تھا پھر ایک رات جب وہ اسے بلانے گیا۔۔۔ تو اسکے قدم کمرے کے باہر ہی رک گئے اسے یقین نا آیا یہ اسکے باپ کی آواز تھی۔۔۔۔


” قاتل ہو تم لوگ جانور سے بدتر ایک معصوم بے گناہ کو سزا دی جسکا کوئی قصور نا تھا اور میرے سامنے زبان چلا کر پوچھ رہی ہو تمہارا قصور کیا ہے “


کہتے ساتھ ہی تھپڑ کی آواز کمرے میں گونجی اسے اپنی باپ کی کسی بات پر یقین نا آیا۔۔۔ وہ اسکے بھائی کی قاتل نہیں ہو سکتی۔۔۔ اسکا باپ بہت کچھ کہ رہا تھا۔۔۔ امان کو بھی قاتل کہ رہا تھا۔۔۔ لیکن اسکا دل گواہ تھا وہ سب بےگناہ ہیں۔۔۔ چار دنوں میں ایک ابنورمل ہوتے بچے کو انہوں نے زندگی کی راہ دیکھائی اسے پاگل ہونے سے روکا۔۔۔۔ اسے بےپناہ محبتوں سے نوازا۔۔۔۔ وہ بھلا کیسے قاتل ہو سکتے ہیں۔۔۔۔؟؟ اُسی رات اسے پتا چلا اسکے باپ نے بدلا لینے کے لیے ایک معصوم لڑکی کی زندگی تباہ کردی۔۔۔ اسی خون بہا میں یہاں لیا آیا ہے۔۔۔۔ اس میں مزید سنے کی ہمت نہیں تھی وہ مرے مرے قدموں سے نیچے بی بی جان کے پاس چلا آیا۔۔۔۔


صبح اسکی روئی سرخ آنکھیں بہت کچھ کہ رہیں تھیں۔۔۔ پہلے بار اسے شرمندگی نے آن گھیرا وہ اِس سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔۔۔ اسکے باپ کی وجہ سے اِسکی یہ حالت ہوئی ان سب کے باوجود اسکا رویہ ویسا ہی تھا۔۔۔۔ محبت بھرا لہجہ نرم مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اسکی ہر فرمائش پوری کرنا۔۔۔۔


ان سب کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے کا لیے کافی تھے۔۔۔ میر نے بھی اسی کا راستہ اختیار کیا۔۔۔ کبھی اس علم نا ہونے دیا کے وہ جانتا ہے وہ بھی اسی طرح چپکے سے اپنا درد خود میں ہی دفن کئے بیٹھا رہا۔۔۔ وہ خود اسکا اوفف موڈ دیکھ کر اسے دوستوں کو بلانے کا کہتی۔۔۔ اور وہ خوشی خوشی اپنے دوستوں کو دعوت دیتا۔۔۔ گھر بلاتا زندگی سے اسے محبت ہونے لگی تھی۔۔۔۔ اس دوران جڑوا بھائیوں کی خبر نے جیسے اسے ہواؤں میں منتقل کر دیا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا اسکا بہن یا بھائی آنے والا ہے۔۔۔۔ اسنے بہن کے لیے بہت دعائیں کی تھیں لیکن بھائی کی نوید سنکر بھی وہ بہت خوش تھا۔۔۔۔ کم سے کم اب وہ اکیلا نہیں اس نے اپنی ماں سے فرمائش کر کے اپنے ایک بھائی کا نام عمر رکھوایا۔۔۔۔ اور وہ تو جیسے پہلے سے راضی تھی خوشی خوشی مان گئی۔۔۔


وہ انکے ساتھ کھیلتا گھومتا خود جاکر باپ کے ساتھ انکے لیے کھلونے لاتا۔۔۔ اس دوران شاہ ذر اور عنایا کے آنے سے اسکی خوشی دُگنی ہوجاتی۔۔۔۔ زندگی کے پُر سکون ماحول میں صرف اسکے باپ کی کمی تھی۔۔۔ جو ان سے بہت دور تھا اسکے دل نے خواہش کی تھی کاش وہ انکے ساتھ ہوتا ان خوشی کے لمحوں کا بھر پور مزہ لیتا۔۔۔۔


ایک دن معمول کے مطابق وہ عمر حمزہ کو لینے گیا۔۔۔ جو گارڈن میں ملازمہ کے ساتھ موجود تھے۔۔۔ اپنے اپنے وُہقر میں بیٹھے وہ پورے لون کے چکر لگا رہے تھے۔۔۔ تبھی اسے گیٹ سے کوئی اندر آتا دیکھائی دیا۔۔۔ وہ نظر انداز کرتا اپنے بھائیوں کو لیکر اندر آگیا۔۔۔۔ اپنی ماں سے بات کرتے اسے جانی پہچانی آواز اپنے بیچھے سے آتی محسوس ہوئی۔۔۔۔ اور آنے والے کو دیکھتے ہی اسنی اپنی ماں کے سفید چہرے کو دیکھا۔۔۔۔ جو اپنی بھائی کو بھاگنے کا کہ رہیں تھیں۔۔۔۔ لیکن وہ تو آج انکے لیے خوشیوں کی نوید لایا تھا۔۔۔۔ اس دن امان نے جو سچائی بتائی وہ اسکے باپ سے اسکا سب کچھ چھین گئی چھین تو سب کچھ پہلے چکا تھا۔۔۔ بلکے گواں دیا لیکن احساس انہیں اس وقت ہوا پہلی دفع اُس دن اسنے اپنی باپ کی چال میں لڑکھڑاہٹ محسوس کی۔۔۔۔ پہلی دفع اپنی ماں کے چہرے پر نفرت کے تااثرات دیکھے۔۔۔۔ جو آج بلا جھجک اسنے واضع کیے اس دن کے بعد اسکا باپ گھر نہیں آیا۔۔۔۔ وہ کافی دن انکا انتظار کرتا رہا۔۔۔۔ لیکن وہ نہیں آئے۔۔۔ پھر تنگ آکر اسنے بی بی جان سے بات کی۔۔۔۔ جنہوں نے اسے تایا ابو کا نمبر دیا۔۔۔۔


کافی دیر کال کے دوران اسکا باپ اسے نصیحت کرتا رہا کے اپنے بھائیوں اور ماں کا خیال رکھے۔۔۔ کوئی اور وقت ہوتا تو اسے خوشی بھی ہوتی لیکن اسکا باپ آزمائش پر پورا نہیں اتر سکا سچ جانے کے بعد اسکے باپ کو اسکی ماں سے ہمدردی ہو رہی ہے۔۔۔۔


پھر اس نے ہر وقت اپنے باپ کو اسکے آگے پیچھے گھومتا پایا۔۔۔ جو اسے منانے کی ہر کوشش کرتا۔۔۔ زندگی کی گاڑی نارمل رفتار سے چل رہی تھی۔۔۔ اسے صرف ایک بار زندگی میں اس عورت کا عکس اپنی ماں میں دیکھا۔۔۔ جب اس نے حیا کو خود سے دور کردیا۔۔۔ اسے بےختیار وہ عورت یاد آئی جو عمر اور اسکی پرورش کرنے سے بچنے کے لیے انہیں مارتی۔۔۔۔ اسے اپنی بہن جان سے بھی عزیز تھی۔۔۔ وہ خود اسکا خیال رکھتا اسکا فیڈر بناتا کپڑے چینج کرتا۔۔۔ اسکے ساتھ کھیلتا پھر دیکھتے دیکھتے اسکی ماں خود ہی پشیمان ہوگئی۔۔۔ اب ہر وقت وہ حیا کو ساتھ لگائے گھومتی۔۔۔۔ میر نے آنکھیں کھولیں اور اپنی ساتھ سوئے وجود کو دیکھ کر مسکرایا۔۔۔ اور خود سے قریب کر کے اسے خود میں بینچ لیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


ازلان بیڈ پڑ لیٹنے کے انداز میں بیٹھا تھا۔۔۔۔ عائشہ اور فیضان اس سے ملکر جا چکے تھے۔۔۔ بی بی جان بھی کچھ دیر بیٹھ کر مغرب کی نماز پڑھنے کے گرز سے اٹھ گئیں۔۔۔ اب وہ اکیلا روم میں امان کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔ جو خواہ مخواہ ولیمہ کینسل ہونے کا الزام اس پر لگا رہا تھا۔۔۔


” ہائے اتنی مشکل سے شادی ہوئی تھی۔۔۔!!! سوچا تھا ولیمہ کے بعد ہنی مون پڑ نکل جاؤں گا۔۔۔ لیکن ابو نے تمہاری وجہ سے ولیمے کے ساتھ ہنی مون بھی کینسل کروا دیا “


امان نے لہجے میں دکھ سموئے کہا جس پڑ ازلان نے باقاعدہ قہقہہ لگایا۔۔۔۔


” واہ یار پورے دن میں آج یہ پہلی خوش خبری ملی ہے۔۔۔!! پہلے کیوں نہیں بتایا ہنی مون کینسل ہوگیا۔۔۔؟؟ “ ازلان نے ہنستے ہوے کہا۔۔۔۔


” دفع ہو۔۔۔!! “ امان نے زور سے اسکا کندھا ہلایا۔۔۔ ازلان نے بامشکل درد ضبط کیا۔۔۔


” السلام عليكم ازلان بھائی!!! اب کیسی طبیعت ہے آپ کی۔۔۔؟؟ “


حبہ کی آمد پڑ ازلان سیدھا ہوگیا امان بھی اس سے تھوڑا دور ہوکر سنجیدگی سے بیٹھ گیا۔۔۔ اور بغور اسکے کھلتے چہرے کو دیکھنے لگا۔۔۔۔


” الحمدللہ پہلے سے بہتر ہوں “


ازلان نے نور کو دیکھتے ہوئے کہا جو اسکی طرف دیکھنے سے بھی پرہیز کر رہی تھی۔۔۔


” بیٹھو۔۔۔!! “ ازلان نے صوفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔


” نہیں ازلان بھائی وہ ابو لینے آئیں ہیں جانا پڑیگا آپ کا حال پوچھنے آئی تھی۔۔۔ میری دوست کی تو رو رو کر حالت بُری ہوگئی۔۔۔ ابھی بھی میں یقین کے ساتھ کہ سکتی ہوں نماز میں آپ کے لیے دعا۔۔۔آ۔۔۔ “


حبہ کی چلتی زبان کو بریک تب لگی جب نور نے اسکے پیر پر زور سے اپنی سینڈل ماری۔۔۔


” جانا نہیں تم نے۔۔۔۔؟؟ انکل ویٹ کر رہے ہونگے “


نور نے تپ کر کہا امان اور ازلان دونوں نے اسکی حرکت نوٹ کی۔۔۔۔ ازلان نے دھیرے سے امان سے کہا۔۔۔۔


” حرکت دیکھ رہے ہو اسکی “


” وہ چھوڑو میری بیوی جا رہی ہے۔۔۔“ امان کو اپنی فکر لگی تھی۔۔۔۔


” اچھا ہے سکون سے رہنا “


ازلان کے کہنے پر امان نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھا پھر حبہ سے کہا۔۔۔۔


” کیوں جا رہی ہو۔۔۔؟؟ مجھ سے اجازت نہیں لوگی۔۔۔۔؟؟ “


” امی سے پوچھ کر جا رہی ہوں۔۔۔“ حبہ کا رعب جماتا لہجہ نور کو چونکا گیا بمشکل اسنے اپنی ہنسی روکی۔۔۔۔


” اچھا ابھی بتاتا ہوں۔۔۔۔“


امان نے دھیرے سے کہا جسے صرف ازلان نے سنا اور حبہ کو لیکر نکل گیا۔۔۔ نور نے مسکراتے ہوے دونوں کو جاتے دیکھا۔۔۔


” نور میرے پاس آؤ۔۔۔۔“ کمرے میں ازلان کی آواز گونجی جسے سنتے ہی نور کو احساس ہوا وہ دونوں کمرے میں تنہا ہیں صبح سے وہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی۔۔۔۔


” میں۔۔۔ وہ۔۔۔ “ اسکی اپنی زبان اسکا ساتھ نہیں دی رہی تھی نجانے وہ کیا پوچھتا۔۔۔؟؟


” پلیز نور صرف دو منٹ کے لیے میرے پاس آؤ۔۔۔“


وہ دھیرے سے چلتے اسکے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔ نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں۔۔۔۔


” میری طرف دیکھو۔۔۔“ ازلان نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اوپر کیا۔۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔


” پلیز میری طرف دیکھو نا “ وہ التجا کر رہا تھا نور نے اب بھی نظریں نہیں اٹھائیں۔۔۔۔


” کیوں۔۔۔۔؟؟ ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔؟؟ مان کیوں نہیں لیتی محبت اب بھی قائم ہے۔۔۔۔ جانتی ہو ڈاکٹرز نے کہا مجھے کسی کی دعا نے بچا لیا۔۔۔۔ گولی دل کے پاس سے گزر گئی۔۔۔۔ کوئی معجزہ ہی تھا جو آج میں تمہارے سامنے ہوں۔۔۔۔“


ٹپ ٹپ اسکی آنکھوں سے آنسوں بہ نکلے ازلان نے سیدھا ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے قریب کیا تو وہ اسکے شانے سے سر ٹکا کے رو دی۔۔۔۔ ازلان اسکی پیٹ تھپکاتا مسکرایا کل جب نور نے نفرت کا اظہار کیا تھا تو وہ کتنا بےسکون رہا۔۔۔۔ کسی کام میں اسکا دل نہیں لگا۔۔۔ بار بار نور کے الفاظ یاد آتے اور اسکے گناہ کا بوجھ بڑھتا جاتا۔۔۔۔


” وہ کون لوگ تھے۔۔۔“ نور نے اس سے دور ہوکر خود کو سنمبھالا۔۔۔۔


” ماہا کا بھائی تھا۔۔۔!!! جس نے خون کیا وہ جیل میں ہے۔۔۔ یہ اسکا دوسرا بھائی ہے جو ہنی کی جان لینے آیا تھا غیرت کے نام پڑ۔۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتا اسکی بہن کا وجود بھی اس دنیا میں رہے۔۔۔“ ازلان نے نفرت سے کہا اور شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔۔۔


” آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔۔؟؟ “ نور نے اسکی حرکت دیکھتے کہا۔۔۔


” پوچھو “ اسنے شرٹ کا آخری بٹن کھولتے کہا۔۔۔


” امان بھائی نے بتایا تھا مجھے عمر کا خون آذر نے کیا ہے۔۔۔ تو آپ نے کبھی پوچھا اُس نے ایسا کیوں کیا۔۔۔؟؟ “ آذر کے نام پر ازلان کی آنکھوں میں سرخی دیکھ کر نور نے تھوک نگلا۔۔۔۔ اسکی ٹانگیں کانپ جاتیں ازلان کو غصّے میں دیکھ کر خاص کر یہ نظریں جب اسکے لبوں پر کوئی اور نام ہوتا۔۔۔۔


” دوبارہ یہ نام اپنی زبان سے مت لینا تمہارے ہونٹوں پر صرف میرا نام ہونا چائیے۔۔۔۔ کیوں کے میں تمہارا محرم ہوں۔۔۔۔“ ازلان نے اسکا چہرہ شہادت کی انگلی سے اونچا کرتے کہا۔۔۔ نور نے نظریں جھکائے رکھیں۔۔۔۔


” خیر ماہا سے بدلہ لینے کے لیے عمر کو مارا ماہا نے اُسے ٹھکرا دیا تھا۔۔۔“ وہ اسکی ٹھوڑی سے ہاتھ ہٹا کر اب اپنی شرٹ اتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔


نور نے خود بڑھ کر دھیرے سے اسکی شرٹ اتاری وہ چوٹ کا خیال کر کے آرام سے اتار رہی تھی۔۔۔


” صبح سے یہ پہنی ہوئی تھی مجھے گندگی سے سخت کوفت ہوتی ہے “


وہ بلاوجہ ہی صفائی پیش کر رہا تھا۔۔۔ نور نے شرٹ اتار کر الماری سے دوسری شرٹ لیکر اسے پہنائی۔۔۔


وہ ہونٹ بھینچے درد ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ شرٹ احتیاط سے پہنانے کے بعد اب وہ شرٹ کے بٹن بند کر رہی تھی۔۔۔ اس دوران ازلان کی نظر اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھی۔۔۔ ازلان نے اسکے ہونٹوں کو چھوتی لٹ کو کان کے پیچھے کیا۔۔۔۔۔


” کیوں تم دن رات میرے حواسوں پر چھائی رہتی ہو۔۔۔؟؟ جس دن تمہیں نا دیکھوں مجھے یہ دنیا کیوں ویران لگتی ہے۔۔۔؟؟ “


وہ محبت سے چور لہجے میں کہتا نور کو اپنے قریب کر چکا تھا۔۔۔۔ اسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکا کر وہ اسکی تیز چلتی دھڑکن کو محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔ ازلان کے اندر سکون اترنے لگا وہ اسکے مقابل تھی اسکے پاس سکے بےحد قریب کاش کے یہ لمحیں تھم جائیں۔۔۔ وہ اسے کو دیکھتا محسوس کرتا رہا اسکے وجود کی سحر انگیز خوشبو اسے مدہوش کر رہی تھی۔۔۔۔


ابھی کچھ پل ہی گزرے ہونگے کے نور نے ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کے اسے خود سے دور دکھیلا۔۔۔۔ نور کو یہاں بیٹھنا دشوار لگ رہا تھا تیز چلتی دھڑکنوں کو قابو کیے ہوئے اسنے ازلان کو خود سے دور کیا۔۔۔۔


” دوبارا یہ حرکت کی تو دوسرا ہاتھ بھی توڑ دونگی “


تھکی نگاہوں سے اسے گھورتی وہ آخری بٹن کانپتے ہاتھوں سے بند کر کے اٹھی۔۔۔ اسکا لہجا مضبوط تھا وہ کافی حد تک خود کو سنبھال چکی تھی ازلان اسکی بات پر ہنس پڑا۔۔۔۔


” اچھا میرے بازو اٹھا کر دیکھاؤ۔۔۔!! ہے ہمت۔۔۔۔؟؟ تم حمزہ کو نہیں اٹھا سکتیں اور میرا ہاتھ۔۔۔ “ کہتے ہی وہ پھر ہنس پڑا۔۔۔۔


” آذر نے کبھی آپ سے میرے بارے میں کچھ کہا۔۔۔؟؟ “


نور نے اسکا اچھا موڈ دیکھ کر بات چھیڑی۔۔۔ ازلان کی نظریں اسے خوفزدہ کردیتیں تبھی وہ جان بوجھ کر خواہ مخواہ ڈریسنگ ٹیبل کی سیٹنگ چینج کرنے لگی۔۔۔۔


” میرا ضبط مت آزماؤ نور میں شدید نفرت کرتا ہوں اس سے۔۔۔۔۔“ نور کی لاتعلقی پر ازلان اسے گھور کہ رہ گیا نجانے وہ اس سے کیا اگلوانا چاہتی ہے اب یہ ذکر چھیڑنے کا مطلب۔۔۔؟؟


ازلان نے اس کی ڈرامے بازی دیکھ کر بات جاری رکھی۔۔۔۔


” اسنے مجھے ایک ایک بات بتائی کس طرح وہ تم سے ملا۔۔۔۔؟؟ تمہیں بدگمان کیا۔۔۔۔؟؟ اسنے صرف تمہیں نہیں مجھے بھی بدگمان کیا۔۔۔ نور تم بھی تو یہیں سمجھتی تھیں میں نے تمہیں دھوکہ دیا۔۔۔۔۔“


” نہیں ازلان میں نے اگر آپ کو غلط سمجھا بھی تھا تو میں خود چل کے آپ کے پاس آئی تھی۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کے آذر کی کافی باتیں سچ ہیں جسکا جیتا جاگتا ثبوت ہنی اور عمر ہیں۔۔۔ جبکے میں۔۔۔؟؟ آپ کو تو میں کوئی دھوکے بعض آوارہ لڑکوں کو پھنسا۔۔۔“ وہ اسکی بات کاٹ کر درشتگی سے بولی تھی۔۔۔۔


” شٹ اپ۔۔۔ خبردار جو اب تم نے اپنے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔“ ازلان کا پارا ہائی ہوگیا۔۔۔ وہ کیسے برداشت کرتا اپنی بیوی کے خلاف ایسے الفاظ۔۔۔؟؟ بیشک اس سے گناہ ہوا تھا اور وہ پیشیمان بھی ہے۔۔۔۔۔


” آپ سے بُرا کوئی ہو بھی کون سکتا ہے۔۔۔۔ میرے ان باتوں کی وجہ سے صرف ایک بات ہے۔۔۔ جس دن آپ نے درندگی کی انتہا کی تھی۔۔۔۔ اس دن امان بھائی نہیں آذر مجھ سے ملنے آیا تھا۔۔۔ اور جانتے ہی اسکی ایک ایک بات سچ تھی۔۔۔۔“


اسکی آواز اونچی ہوگئی گلہ رندھ گیا۔۔۔۔


” جانتا ہوں نور سب جانتا ہوں وہ مجھے بتا چکا ہے۔۔۔ میں اپنے کیے پر بہت شرمندہ۔۔۔“ ازلان کی لہجے سے شرمندگی واضع تھی وہ بنا اسکی بات سنے جانے لگی۔۔۔۔


” کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟؟ “ ازلان نے آس بھرے لہجے میں پوچھا کے وہ اسپر ترس کھاکر رُک جائے۔۔۔۔


” جہنم میں “ کہتے ہی زور سے دروازہ پٹک کے وہ تن فن کرتی چلی گئی ازلان بےبسی سے اسکی پشت دیکھتا رہا۔۔۔


☆.............☆.............☆


ثانی اب بھی گہری نیند میں تھی۔۔۔ میر نے ثانی کے گرد گھیرا ڈھیلا کیا۔۔۔ اور اٹھ کے لاونچ میں چلا آیا۔۔۔ آج نیند نے نا آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔۔ آج کا دن جہاں خوشیوں کی نوید لایا وہاں غموں کا ساگر۔۔۔۔ عنایا نے اسے کبھی کچھ نہیں بتایا لیکن وہ ہر بار اسکے دل کا حال جان لیتا ہے۔۔۔۔ وہ کرائیسس میں ہے اسے اندازہ تھا لیکن اس حد تک۔۔۔؟؟؟ اسکا شوہر اچھا خاصا کما کر پیسا بھیجتا ہے۔۔۔ پھر عنایا کی ایسی حالت کیوں۔۔۔؟؟ سوچ سوچ کی اسے عنایا پر غصّہ آرہا ہے۔۔۔۔ جو خود کو ایک گہری کھائی میں دھکیل چکی ہے جہاں سے نکلنا اب ناممکن تھا۔۔۔۔


وہ آج حیا کے لیے اسکے پاس گیا تھا لیکن عنایا کی حالت دیکھ کر وہ سب بھول گیا اپنے جانے کا مقصد تک۔۔۔۔


” حیا “ جس کی آنکھوں میں آنسوؤں دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتا ہے۔۔۔ جسکی خواہش پوری نا ہونے پر بےچین ہو جاتا ہے۔۔۔ جسے تکلیف میں دیکھ کر اسکا دل پھٹنے لگتا ہے۔۔۔۔ وہ کیسے اپنی پھول جیسے بہن ایک انتقام کی آگ میں جلتے انسان کے حوالے کر سکتا ہے۔۔۔۔؟؟ آخر کیا کرے۔۔۔؟؟ کس کے پاس جائے۔۔۔؟؟ کس سے مدد مانگے۔۔۔؟؟


” میر “


” مما آپ؟؟ “


وہ گارڈن میں سبز گھاس پر چہل قدمی کر رہا تھا وہ اتنی رات کو نور کو باہر سے آتا دیکھ چونک اٹھا۔۔۔۔


” ہاں!! تم اس وقت جاگ کیوں رہے ہو۔۔۔؟؟ “ نور شول اتار کر اسے تہ کرنے لگی۔۔۔۔


” مما نیند نہیں آرہی تھی تو سوچا یہاں گارڈن میں چکر لگاؤں۔۔۔ پر آپ اس وقت کہاں گئیں تھیں وہ بھی اکیلے۔۔۔؟؟ “


وہ اسے اکیلے آتا دیکھ حقیقتاً پریشان ہوگیا۔۔۔۔


” نہیں اکیلی کہا ازلان کے ساتھ گئی تھی انکا دل گھبرا رہا تھا تو باہر چکر لگانے گئے تھے “


ازلان کی طبیعت کا سن کر اسے پھر آج کا دن یاد آیا سب کچھ اسے اپنے ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔


” کیا ہوا مما انکی طبیعت پھر خراب ہوگئی۔۔۔۔؟؟ صبح ہی تو ٹھیک ہوئے تھے اور ہیں کہاں۔۔۔۔؟؟ “ کہتے ہی وہ گیٹ کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔


” میر پریشان نہیں ہو اب وہ بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔!! باہر انہیں وجدان بھائی مل گئے تو ان سے باتیں کرنے لگ گئے “


” اور آپ کو حکم دیا ہوگا اندر جاؤ “ میر بات مکمل کر کے ہنس پڑا جس میں نور کی ہنسی بھی شامل تھی۔۔۔ آج بھی وہ نور کے لیے اتنا ہی جنونی تھا۔۔۔۔


” بہت رات ہوگئی اب سوجاؤ ثانی بھی اکیلی ہوگی روم میں اللہ‎ اسے اکیلا چھوڑ دیا۔۔۔“


نور نے یاد آنے پر اسے ڈپٹا۔۔۔


”بس جارہا ہوں اب تو مجھے واقعی نیند آرہی ہے “


کہتے ہی وہ نور کے ساتھ اندر آگیا جب کے رات کی مکمل تاریکی میں اسکا فون بج اٹھا۔۔۔ میر نے کال رسیو کی اور آگے سے جو خبر ملی اسکا پورا وجود ہلا گئی۔۔۔۔۔


” میر کیا ہوا “ نور نے اسکے ساکت وجود کو دیکھتے کہا۔۔۔


” سب ختم ہوگیا مما “ کہتے ہی میر نے باہر کی طرف دوڑ لگائی۔۔۔


☆.............☆.............☆


” سوپ پی لیں “


نور نے اسکے سامنے سوپ رکھتے کہا۔۔۔


” نہیں پینا “


ازلان نے دیکھے بغیر بگڑا منہ بنا کر منع کر دیا۔۔۔۔


” نہیں پینا تو نا سہی “ وہ بھی تیکھی چھوری بنی ہوئی تھی۔۔۔۔


” نور۔۔۔!! ارے تم نے سوپ نہیں پلایا ابھی تک؟؟ “


اسما جو نور کو بلانے آئیں تھیں سوپ کا پیالہ بھرا دیکھ کے حیرت سے بولیں کیوں کے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے انہوں نے خود اپنی نگرانی میں سوپ بنوایا تھا۔۔۔


” وہی امی کہ بھی رہا ہوں صبح سے بازو میں درد ہے سوپ پلا دو لیکن۔۔۔۔“ ازلان کی بات پر نور آنکھیں پہلائے اسے دیکھنے لگی جو درد کا جھوٹا بہانہ کر کے خود کو مظلوم ظاہر کر رہا تھا۔۔۔۔ جبکے ازلان نے اسکے تااصرات دیکھ کر بمشکل اپنا قہقہہ روکا۔۔۔


” نور۔۔۔؟؟ “ اسما نے اسے ڈپٹا۔۔۔


” امی میں پلا رہی تھی میں نے سوچا پہلے حیا کو دیکھ آؤں۔۔۔۔“ نور نے سوپ کا پیالہ ہاتھ میں لیتے ہوے کہا۔۔۔۔


” میں جب واپس آؤں تو بائول خالی ملے مجھے اور ہاں جو لینے آئی تھی وہ بھول ہی گئی حیا کے کپڑے کہاں رکھے ہیں۔۔۔؟؟ “ نور نے بائول رکھا اور خود ہی کچھ کپڑے نکال کر اسما کو دیے جسے لیتے ہی وہ کمرے سے چلی گئیں۔۔۔


” پتا ہے تمہاری توجہ کے لیے میں کتنا ترسا ہوں۔۔۔۔ آگر مجھے پتا ہوتا اس ایکسیڈنٹ کے بعد تمہاری اتنی توجہ ملے گی۔۔۔ تو خود ہی یہ کارنامہ انجام دیتا۔۔۔۔“


نور نا تو اسکی طرف دیکھ رہی تھی نا اسے کوئی جواب دی رہی تھی۔۔۔ خاموشی سے اسے سوپ پلا رہی تھی۔۔۔ ازلان اسکی بےزاریت دیکھ کر خود ہی چُھپ ہوگیا۔۔۔ اسکے لیے یہ کافی تھا کے وہ اسکے پاس تھی۔۔۔ اسکے بے انتہا قریب ورنہ تو کراچی میں ہفتوں گزر جاتے وہ اسکی ایک جھلک کے لیے تڑپتا رہتا۔۔۔۔ جو خود کو اس سے چھپاتی پھرتی تھی۔۔۔۔


” شاہ صاحب یہ بی بی جی نے کہا میں دے آؤں “


ملازمہ نے ٹیبلیٹس کے پتے ازلان کی طرف بڑھاتے کہا۔۔۔ نور کی جگہ ملازمہ کو دیکھ وہ تپ گیا۔۔۔


” بی بی جی سے کہو میں واشروم جاتے سمیت گر گیا اور پلاسٹر بھی اتڑ گیا۔۔۔“ اس نے بےنیازی سے کہتے دوائیں لیکر بیڈ پڑ اوچھال دیں۔۔۔۔


” لیکن شاہ۔۔۔۔۔صاحب “ اگر نور ازلان کو مزے سے بیڈ پر دیکھتی تو کلاس ملازمہ کی لیتی۔۔۔ اسنے کہنا چاہا کے ازلان نے تیز لہجے میں کہا۔۔۔


” جو کہا ہے کرو “


ملازمہ الٹے پیر وہاں سے بھاگی۔۔۔۔ حواسہ باختہ سی نور کمرے میں داخل ہوئی ازلان کی بازوں کی پٹی پوری اتر چکی تھی۔۔۔۔ جہاں سے ہلکا خون بہ رہا تھا۔۔۔ نور نے جلدی سے پٹی کی اور پاس پڑی دوائیاں دیں ازلان مسکراتا ہوا اسے دیکھتا رہا آخر وہی تو تھی اسکے ہر مرض کا علاج۔۔۔ اب دن بھر وہ اسکی نظروں کے سامنے رہتی۔۔۔ اسما وقتاً وقتاً کسی نہ کسی بہانے سے اسے روم میں بھیج دیتیں کے اس حالت میں ازلان کے پاس رہے۔۔۔۔ اسکی ضرورت کا خیال رکھے۔۔۔ جبکے نور بگڑے منہ بنا کر اسکے چھوٹے چھوٹے کام کرتی۔۔۔۔ وہ مکمل تور پر نور پر دپنڈنٹ تھا۔۔۔ اسے کھانا۔۔۔ کھلانا کپڑے چینج کرنا۔۔۔ ڈریسنگ کرنا۔۔۔ وضو کرانا۔۔۔ سب نور کے ذمے تھا۔۔۔ اور ازلان یہ سہرانگیز لمحے پل پل جی رہا تھا اسے معلوم ہے یہ پل دوبارا نہیں آنے۔۔۔۔


نور بھلے ہی اپنے ہر امل سے اسے بےزاریت ظاہر کرتی۔۔۔۔ لیکن اسے ازلان کی تکلیف کا احساس تھا۔۔۔۔ وہ ہر کام مہارت سے انجام دیتی کافی دفع خود ڈاکٹر کو کال کر کے اسکے زخم کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔ جو بھی تھا آخر وہ اسکا شوہر اسکے بچوں کا باپ تھا۔۔۔۔ بھلے ہی وہ ایک اچھے شوہر کے زمر میں نہیں آتا لیکن باپ۔۔۔۔؟؟ اس سے بہتر کوئی ہو نہیں سکتا۔۔۔۔ ازلان کو بچوں سے بےپناہ محبت تھی۔۔۔۔ یا یہ کہا جاتا عشق تھا۔۔۔۔ چاہے وہ اسکے اپنے بچے ہوتے یا فیضان کے۔۔۔۔ وہ انکی جائز ناجائز ہر خواہش پوری کرتا۔۔۔۔ پھر وہ کیسے اپنے بچوں سے انکا باپ چھینتی۔۔۔۔؟ کیسے نا اسکی سلامتی کی دعائیں کرتی۔۔۔۔؟؟


” مما “


ہنی کی آواز نے اسکی سوچوں کا تسلسل توڑا۔۔۔


” ہاں میری جان بولو۔۔۔۔؟؟ “ اسنے ہنی کا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنے پاس بٹھایا۔۔۔۔


” آج مجھ پر بہت پیار آرہا ہے مما “


نور اپنے لب اسکے گال پر رکھے۔۔۔۔ ہنی نے اسکا خوشگوار موڈ دیکھتے کہا۔۔۔۔۔


” ہنی تمہیں پتا ہے میرے لیے تم کتنے اہم ہو۔۔۔ میں تو زندگی سے منہ موڑ چکی تھی۔۔۔۔ اپنی جان لینے چلی تھی۔۔۔۔ میں بھی تو آزمائش پر پورا نہیں اتر سکی۔۔۔۔ صرف ایک تم تھے جس نے صبر کیا۔۔۔۔ حلانکے نقصان سب سے زیادہ تمہارا ہوا۔۔۔۔“


وہ گارڈن کے گرد جاتی سڑیوں پر بیٹھی تھی اسنے ہنی کو خود سے ایک سیڑی نیچے بٹھایا تھا اور اسکے بالوں پر اپنا سر رکھے وہ اسے کہ رہی تھی۔۔۔۔ دونوں بازو ہنی کے گرد گھیرا بنا رہے تھے۔۔۔۔


” مما کاش ہم سب یہیں رہتے ہمارے جانے کے بعد امی ابو بھی اکیلے ہوجائیں گے۔۔۔۔“


وہ کسی اور ہی پریشانی میں تھا نور مسکراتے ہوے اسکے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔۔


” بابا سے کیا بات ہوئی۔۔۔۔؟“


ہنی ابھی ازلان سے ملکر آیا تھا۔۔۔۔ جب وہ گیا تھا تو چہرہ ہر پریشانی سوچ سے آزاد تھا۔۔۔۔ لیکن اب اسکی چہرے سے پریشانی صاف عیاں تھی۔۔۔۔


” مما ہم نیکسٹ ویک لاہور جا رہے ہیں “


ہنی کو کچھ دیر پہلے ازلان کی کہی باتیں یاد آگئیں۔۔۔۔


” ہنی تم اب بڑے ہو چکے ہو میرا سہارا ہو تم۔۔۔ میرے ہر دکھ ہر غم میں میرے ساتھ شریک رہے ہو۔۔۔۔ تمہیں ہی اپنے بھائیوں کا اور حیا کا خیال رکھنا ہے۔۔۔۔ ہنی حیا میرے دل کا ٹکڑا ہے میری سانسیں اسی دیکھ کے چلتی ہیں۔۔۔ اسی کبھی رونے مت دینا اسکے لبوں سے اتا ہونے سے پہلے اسکی ہر خواہش پوری کرنا۔۔۔۔“ وہ بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ہنی غور سے اسے سن رہا تھا۔۔۔۔


” ہنی ابو نے تمہارے ڈاکومینٹس بنوائے ہیں وہ چاہتے ہیں میں تمہیں ابروڈ بھیج دوں ہائیر اسٹڈیز کے لیے۔۔۔۔ لیکن میں ایسا نہیں کرونگا پہلی دفع میں نے انکی کسی بات سے اختلاف کیا ہے۔۔۔۔ باہر کچھ بھی نہیں جو مزہ اپنے وطن میں ہے۔۔۔۔ دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔۔۔ ابو نے پھر تمہارے سیفٹی کے لیے تمہارا نام چینج کروادیا۔۔۔۔ تمہارا ایڈمشن ایک بہترین اسکول میں کروا رہے ہیں۔۔۔۔ اب دیہان آگے تمہیں رکھنا ہے۔۔۔ اپنے بھائیوں اور بہن کا۔۔۔۔ کسی انجان آدمی سے بات نہیں کروگے اسکول سے ڈائریکٹ گھر۔۔۔۔ کسی دوست کے گھر نہیں جائوگے۔۔۔۔ دوستوں کو بلانا چاہو تو تمہاری مرضی لیکن تم کہیں نہیں جائوگے۔۔۔۔ اور نا ہی بغیر گارڈز کے گھر سے نکلوگے انڈراسٹیند۔۔۔۔؟؟ “

ہنی نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔۔


” بابا وہ سب سہی ہے لیکن مما کا خیال کون رکھے گا؟؟ “


ہنی نے مسکراہٹ دباتے ہوے کہا۔۔۔۔


” اسکے لیے میں ہوں نا۔۔۔!!! ویسے بھی میرے علاوہ وہ کسی کی بات مانتی کہاں ہے۔۔۔۔“ ازلان اسکے تصور سے مسکرا اٹھا آج کل اسکا روٹھا روٹھا سراپا اسے اور حسین اور دلکش بناتا۔۔۔۔


” آپ کی بھی نہیں مانتیں آپ ڈراتے ہیں بس اس لیے۔۔۔“ ہنی نے ازلان کا مذاق اڑاتے کہا۔۔۔۔


” بہت بولنے لگے ہو یہاں آکر۔۔۔۔“


ازلان نے اسکے گال کنچھتے ہوے کہا تبھی ڈاکٹر روٹین چیک اپ کے لیے وہاں آگیا۔۔۔۔ ڈاکٹر کے آنے کے بعد ہنی نور کے پاس چلا آیا۔۔۔۔ جانے کا بتاتے ہوے ہنی اداس تھا۔۔۔ نور کو احساس تھا یہاں آکر وہ کافی بہل چکا تھا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ ابھی نہا کے نکلی تھی کے بیل بھج اٹھی شاہ زر کا نام سکرین پڑ دیکھتے ہی اسکے ہاتھوں میں لرزش طاری ہوگئی۔۔۔۔


” ہیلو “ شاہ زر کی چہکتی آواز اسکے سماعتوں میں گونجی۔۔۔


” کیسی ہو؟؟ “ وہ جواب ناپاکر خود ہی بولا۔۔۔۔


” جی۔۔۔ میں۔۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ ٹھیک “


اسکی لڑکھڑاتے آواز پر دوسری طرف شاہ زر کے لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی۔۔۔


” میرا حال نہیں پوچھوگی؟؟ “


شاہ زر نے اسکی مسلسل چپی پر کہا۔۔۔۔۔


” جی۔۔۔ جی آپ کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟ “


بمشکل ہلک سے جملہ ادا ہوا۔۔۔۔ شاہ زر جب اسے شاپنگ کرانے لےگیا تو وہاں وہ ہر ممکن کوشش کرتا رہا کے حیا خود اسے مخاطب کرے۔۔۔۔ وہ اسکے ڈر کو ختم کر دے۔۔۔ لیکن باوجود کوشش کے حیا اس سے سہمی جھجکتی رہی۔۔۔ یہ اسکے کیے کا ہی نتیجہ تھا جو وہ بھگت رہا تھا۔۔۔۔۔


” تم بن ادھورا ہوں “


وہ مسلسل مسکرا رہا تھا۔۔۔ حیا کا سرخ پڑتا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔۔۔ جبکے دوسرے طرف حیا سرخ پڑتے چہڑے کے ساتھ ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔۔


” کچھ بولو بھی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ مجھے مس کرتی ہو۔۔۔۔؟؟ “


شاہ زر کو اب اسکی چپی پر غصّہ آرہا تھا۔۔۔۔


” وہ۔۔۔ وہ۔۔۔“ اسکا سنجیدہ لہجے سے حیا مزید بھوکلا گی۔۔۔۔


” ہاں یا نا میں جواب دو پندرہ منٹ کا بریک تمہارے ہکلاتے لفظوں کو سمجھنے میں گزر جائے گا۔۔۔۔“

وہ کوفت زدہ سا بولا۔۔۔۔


” جی۔۔۔ جی۔۔۔“ شاہ زر کی جھنجلاتی آوز سے فون اسکے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔۔۔۔


” کتنی مرتبہ کہا ہے سخت بُری لگتی ہیں مجھے جی جی کہنے والی لڑکیاں۔۔۔۔!!! لگتا ہے تمہاری خبر لینی پڑے گی۔۔۔۔ اب دیکھنا دن کے آٹھ گھنٹے تمہیں اپنے سامنے بیٹھائے رکھونگا پھر دیکھتا ہوں آواز کیسے نہیں نکلتی۔۔۔“


” جی۔۔۔ جی۔۔۔“ حیا کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔۔۔۔


” جاناں میری میٹنگ ہے شام میں کال کرونگا پھر ڈیٹیل میں سب سمجھاؤں گا۔۔۔۔“


کہتے ہی دوسری طرف سے فون رکھ دیا جبکے حیا کو اب اپنی بیوقوفی پر غصّہ آرہا تھا۔۔۔۔۔ جب وہ بدل چکا تھا پھر کیوں وہ اسی سے ڈر رہی تھی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

ازلان کی حالت دن با دن بہتر ہوتے جا رہی تھی۔ اسکے ٹھیک ہوتے ہی امان اور حبہ کا شاندار ولیمہ ہوا خاندان کے تقریباً سب ہی لوگ اس تقریب میں مدھو تھے ولیمہ کینسل ہوتے ہی سب مہمان گھروں کو روانہ ہوگے خاندان سے باہر کے کچھ ہی لوگ تھے جو کم عرصے میں پہنچ سگے تھے۔۔ ولیمہ ہوتے ہی اگلے دن فیضان اور ازلان ساتھ لاہور کہ لیے نکلے دونوں نے بائے روڈ جانے پر ترجیع دی۔۔

ہنی عمر اور حمزہ فیضان کے ساتھ انکی کار میں آرہے تھے جبکے ازلان نور ڈرائیور کے ہمراہ دوسری کار میں ازلان یہ سفر نور کے ہمرائی میں اکیلے گزرنا چاہتا تھا لیکن وہ اس وقت ڈرائیونگ کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ دونوں بیگ سیٹ پر برجمان تھے ازلان کی گودھ میں ہنستی کھیلتی حیا بیٹھی تھی جس کی قلقاریاں کار کے خاموش ماحول میں گونج رہیں تھیں۔ ازلان نے ایک نظر نور کو دیکھا جو ابھی بھی صدمے کی کیفیت میں تھی۔ آج جو اسکا رونا شروع ہوا پھر روکنے کا نام نہیں لیا یہاں تک کے اسے روتا دیکھ حیا بھی رونے لگی اسما اور اعظم شاہ خود غم میں ڈوبے ہوے تھے ایک امان ہی تھا جس نے نور کو سنبھالا۔۔ راستے میں ازلان نے ہوٹل کا بورڈ دیکھتے ہی فیضان کو کال کر کے روکنے کا کہا۔ وہ جانتا تھا اسنے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہوگا اور اسکے اسرار پر تو وہ سارا دن بھوکی رہ لے گی لیکن اسکی کوئی بات نہیں مانے گی۔۔

فیضان نے اندر ایک الگ روم بُک کیا جہاں وہ سب آرام سے بیٹھ کر لنچ کر سگیں۔ کھانا عائشہ نے آرڈر کیا اپنی اور نور کی پسند کا عائشہ فیضان کی پسند سے واقف تھی اس حساب سے کھانا آرڈر کیا۔ نور اپنے ساتھ حمزہ کو بھی چھوٹے نوالے بنا کر کھلا رہی تھی اور ازلان عمر کو باقی سب بھی لزیز کھانے سے لطف ہو رہے تھے۔ کھانے کے بعد ازلان نے سب کے لیے آئس کریم آرڈر کی اور جانے سے پہلے سبھی بچوں کے لیے چپس چاکلیٹس اور جوسسز لیے۔۔

لمبے سفر کے بعد وہ رات کو لاہور پہنچے۔ بچا پارٹی نے آتے ہی ہال میں قبضہ جما لیا۔

” بھابی تھوری دیر کے لیے حیا کو سنبھال لیں “

ازلان نے گھر میں داخل ہوتے ہی عائشہ سے کہا جو تھک ہار وہیں صوفہ پر ڈھ گئیں

” کیوں نہیں یہ بھی پوچھنے والی بات ہے “

عائشہ نے خوشی سے بولتی حیا کو اپنی آغوش میں لیا۔

” میری گڑیا “ عائشہ نے اسکے سرخ گالوں پر بوسہ دیتے کہا۔۔

نور جو وہیں پاس کھڑی گھر کو غور سے دیکھ رہی تھی اچانک اپنا بازو کسی کی گرفت میں پاکڑ بوکھلا گئی۔ اسکا بازو ازلان کی گرفت میں تھا جو اسے اپنے ساتھ اوپر لیکر جا رہا تھا نور یہاں اسے کچھ کہ بھی نا سگی کیوں کے بھابی اور بچے حال میں ہی بیٹھے تھے۔۔۔

” ازلان یہ کیا کر رہے ہیں؟؟ “

اوپر آتے ہی اس نے سوال کیا جسے ازلان نے ان سنا کردیا۔

روم کا دروازہ دھکیل کر وہ اسے ایک خوبصورت بیڈروم میں لے آیا کمرے میں ہلکی روشنی تھی جس سے کچھ صاف ظاہر نہیں ہو رہا تھا ازلان نے لائٹس اون کی تو وہ پھٹی آنکھوں سے بے انتہا خوبصورت کمرے کا جائزہ لینے لگی۔۔ ریڈ اور وائٹ تھیم میں خوبصورت نیو ڈیزائن بیڈروم سیٹ سیٹ کیا گیا تھا، بیڈ کی سائیڈس پر اسٹائیلش لیمپس لگے تھے۔ سامنے بڑا سا ایل ڈیے دیوار کے ساتھ فٹ تھا کھڑکی کو ریڈ پردوں سے کور کیا گیا تھا۔ نور حیرانگی سے سب دیکھ رہی تھی لیکن سب سے چونکا دینے والی اسکی اپنی تصویریں تھیں بیڈ سے لگی دیوار پر بڑی فل سائز کی اسکی اپنی اور حیا کی پک لگی تھی وہ وہی عمر اور حمزہ کے عقیقے والی تھی جس میں وہ حیا کو تھامے اسٹیئرس سے اتڑ رہی تھی اسکے چہرے پر دلکش مسکراہٹ تھی۔ روم میں جگہ جگہ اسکی اور حیا کی تصویریں تھیں جس میں کبھی وہ مسکرا رہی ہے کبھی حیا کے چہرے پر بوسے دی رہی تھی تو کبھی اسی اوپر اچھالتے اسکی مسکراہٹ میں خود مسکرا رہی ہے۔۔۔۔

” ریڈ تمہارا فوریٹ کلر ہے نا؟؟ “

ازلان نے پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیا اور ٹھوڑی گندھے پر رکھتے ہوے اسکے کان میں سر گوشی کی۔۔

نور کو برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ کیوں یہ سب کر رہا تھا وہ کیوں اس برف کی مورت سے سر ٹکرا رہا تھا اب کیا فائدہ جب وہ خود اسے پتھر بنا چکا ہے اب کیوں؟؟ کیوں وہ اس کے دل کو نرم کر رہا ہے؟؟ آخر کیوں؟؟

” بولو نا “ ازلان کے لب اسکی کان کی لو کو چھو رہے تھے ازلان کے لمس سے اسکے اوسان خطا ہوگے وہ خود میں سمٹ کر تھوڑا آگے ہوئی ازلان اسکی جھجک سے محفوظ ہوتا خود اسکا ہاتھ نرمی سے تھامے اسے وارڈروب کے سامنے کھڑا کیا۔۔

وارڈروب کھولتے ہی نور کی نظر مختلف ڈریسسز پر پڑی کچھ لون کے نیو سوٹس تھے تو کچھ بھرے کامدار کپڑے ساتھ ہی جیولری اور نیچے سائیڈ پر مختلف کلر کے صینڈلس رکھے تھے۔۔

” میں نہیں چاہتا کوئی بھی چیز تمہیں گزرے وقت کی یاد دلائے!!! اب میں تمہیں صرف ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ زخم دینے والا میں ہوں تو ملم بھی میں ہی لگاؤں گا۔ تمہاری ہر بات مانوں گا، غصّہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرونگا، اس وقت تک معافی مانگوں کا ازالہ کرونگا جب تک دل سے معاف نہیں کر دیتیں!!! تم نہیں جانتی میری زندگی کس قدر پاگل ہوں تمہارے لیے ہوا بھی تمہیں چھو کر گزرے تو برداشت نہیں ہوتا۔۔ “ کہتے ہی ازلان نے نرمی سے اسکے پیشانی چومی اور اسے دوسرے کمرے میں لے آیا۔۔

” یہ میری پرنسیسز کا روم!!! “

پنک کلر میں بیڈروم سیٹ سلیقے سے سجایا گیا تھا جہازی سائز بیڈ گول شیپ میں تھا جس کے گرد پنک جالی کے پردے لٹک رہے تھے جو پورے بیڈ کو کور کر رہے تھے وہ کسی ریاست کی شہزادی کا کمرہ معلوم ہوتا وہاں وال سے لگے بیڈ کے اوپر حیا کی ایک بڑی سی تصویر لگی تھی جس میں ہنستے ہوے اُسکے آگے کے دو دانت نظر آرہے تھے۔۔

وہیں روم میں کھلونے سے بھرا بکٹ رکھا ہوا تھا ایک بڑا سا ٹیڈی بیڑ ڈریسنگ ٹیبل کے سائیڈ پر رکھا ہوا تھا اور پیکٹ میں وریپ ڈولس بیڈ پر رکھیں ہوئیں تھیں۔ پورے کمرے کی والز کو پنک کلر سے پینٹ کیا گیا تھا اور چھت پر چھوٹے اسٹارز لگے تھے جو لائٹ بند کرتے ہی چمکنے لگتے۔ اسے محویت سے جائزہ لیتے دیکھ ازلان نے اسکا بازوں کھینچا اور باری باری باقی دو کمروں میں لے گیا ہنی کا بیڈروم سیٹ رائل بلو اور بلیک کومبینیشن میں تھا جبکے عمر حمزہ کا روم بلیک اور وائٹ کومبو میں۔۔

” کیسا لگا اپنا گھر جانتی ہو نور یہ سب میں نے خود ڈیزائن کیا ہے!!! حیا کی پیدائش کے وقت ہی میں نے یہاں آنے کا سوچ لیا تھا اور کام بھی اسی وقت اسٹارٹ کروایا تھا “

” حیا کا روم بہت خوبصورت ہے “

وہ کہے بینا رہ نا سگی۔ ازلان کو اور کیا چاہیے تھا وہ اسی پر خوش تھا ابھی وہ کچھ اور کہتا اس سے پہلے ہی نور کمرے میں چلی گئی۔۔


☆.............☆.............☆


سامنے کھڑے شخص کے الفاظ اسکے کان میں پگلا ہوا سیا انڈیل رہے تھے آگر موت آجاتی زمین پھٹتی آسمان اسکے سر پے گڑتا تب بھی اسے منظور تھا کم سے کم وہ ” عزت“ کی موت تو مڑتی لیکن اسے سزا ملنی تھی اسنے اپنے ماں باپ کو دکھ پوھنچایا تھا اس شخص کی محبت کو ٹھکرایا تھا جو اسے محبت کی بھیک مانگ رہا تھا جو اسے اپنی زندگی مان چکا تھا وہ زمین پے گڑنے کے انداز میں بیٹھ گئی اپنی زندگی اجڑنے پے پاگلوں کی طرح رو دی اسکا بیٹا اسے اس حالت میں دیکھ کے رونے لگا لیکن اسے ہوش ہی کہاں تھا وہ تو اُجڑی زندگی کا ماتم کڑ رہی تھی آج سب ختم ہوگیا سب۔۔۔ اسکے پاس کوئی ٹھکانہ نا تھا باپ تو پہلے ہی اسکی شکل دیکھنے کا رواں دواں نہیں تھا اب تو وہ اسے زندہ دفن کر دیتے۔۔۔

” اب یہاں بیٹھی کیوں ہوں نکلو میرے گھر سے سارا سکون غارت کر دیا ہے “

اسکی ساس زبردستی اسے اٹھانے لگی لیکن عنایا اپنے ہوش میں ہی کہاں تھی انکا ہاتھ یکدم جھٹک کے چیخ اٹھی

” جو آج میرے ساتھ ہوا ہے نا ایک دن آپ کی بھی اپنی بیٹی کے ساتھ ہوگا آج میں یہاں کھڑی اپنی ویران زندگی کا ماتم کررہی ہوں کل آپ کی بیٹی ہوگی!!! میری الفاظ یاد رکھیے گا انسان کو اپنے اعمال کی سزا اسی دنیا میں کاٹنی ہے مجھے انتظار رہیگا اپنے رب کے انصاف کا “

اسکی چیخ اتنی بلند تھی کے آس پاس کے گھروں میں اسکی آواز باآسانی پوھنچ سکتی تھی۔ وہ انہیں کہڑ آلودہ نظروں سے گھوڑ کے احمد کو اٹھانے لگی

” کہاں لے جا رہی ہو اسے؟؟؟ سوچ ہے تمہاری!!! میرا بیٹا یہیں رہیگا تم دفع ہوگی یہاں سے“

عارف نے حقارت سے کہتے ہوے احمد کو اٹھایا اور اسکے رونے کی پروا کے بغیر اسے کمرے میں لیجاکر بند کر دیا

” اب اٹھ یہاں سے منحوس ماڑی میرے بیٹے کو تو گھر سے نکال دیا پھر تجھے کیوں رکھوں یہاں، اٹھ میرے بچوں کو سانپ کی طرح نگل گئی “ اسکی ساس کا تیش کم آنے میں نہیں دی رہا تھا انہوں نے اسے بازوں سے پکڑ کے باہر داکھیلا اور دروازہ زور سے اسکے منہ پڑ بند کیا

” احمد احمد “ وہ چیخ چیخ کے دروازے سر سر ٹکا کے رو پڑی آس پاس کے جاتے لوگ اسے دیکھنے لگے۔۔۔

عارف سے اسکی پسند کی شادی تھی سب سے لڑ جگڑ کے اسنے عارف سے شادی کی جبکے عارف کی نسبت اپنی کزن حمنہ کے ساتھ تحہ تھی۔ دونوں نے خاندان کے خلاف جاکر شادی کی جسکا نتیجہ یہ نکالا کے فیضان نے عنایا سے سارے تعلق توڑ دیے لیکن عارف گھر کا واحد کمانے والا افراد تھا کیسے اسکی ماں اس سے منفرد رہ سکتیں ہیں۔ عنایا یہاں شادی کے بعد آ تو گئی تھی لیکن اسی وہ نئی نویلی دلہن والا پروٹوکول نہیں ملا پہلے دن سے ہی اسنے کچن سنمبھال لیا گھر کے کسی بھی افراد کا رویہ اس سے ٹھیک نہیں تھا سوائے ہارون کے جو کے ایک نہایت شریف، کم گو اور رحم دل انسان ہے۔ اسکی نندیں بھی شروع شروع میں اس سے اکھڑی رہتیں تھیں لیکن پھر ہارون کے سمجھانے پڑ انکا رویہ نارمل ہوگیا یہاں تک کے کبھی کبھی کچن میں اسکا ہاتھ بھی بٹاتیں۔ عارف سے شادی کے بات اسکی زندگی بدل گئی وہ جو محلوں میں رہنے والی تھی اب گلیوں کی مسافر بن گئی عارف شادی کی شروع دنوں میں اسکے خوب نخرے اٹھاتا جب تک وہ یہاں تھا اسکا ہر طریقے سے خیال رکھتا لیکن یہاں سے جانے کا بعد وہ بلکل بدل گیا۔۔ عارف کا ٹرانسفر اسلام آباد میں ہوگیا تھا وہ چاہتا تھا عنایا بھی اسکے ساتھ جائے لیکن اسکی ساس کو یہ بات ناگوار گزری تبھی کہ دیا

” عارف بیٹا گھر میں مہمانوں کا آنا جانا ہے شادی والا گھر ہے ایسے میں آگر تم اسے لے گئے تو لوگ کیا کہیں گئے ایک ہی بہو تھی وہ بھی ایسے موقعے پڑ ساس کے ساتھ نا رہی تمہارے بہن کے سسرال والے الگ سوال کرینگے “ عارف جو پہلے ہی ماں کو تکلیف دے چکا تھا مزید دینے کی ہمت نا تھی اور تب سے وہ ماں کی ہر بات مانتا گیا عنایا کو بھی صاف لفظوں میں کہ دیا کے میری ماں کی خدمت کرے بنا چوں چڑا کے انکی ہر بات مانے۔ تب سے عنایا نے اپنے ہونٹوں پڑ فقل لگا لیا سارا دن وہ گھر کا کام کرتی اسکی نندیں بھی کبھی کبھی ہاتھ بٹاتیں لیکن جب انکا موڈ ہوتا۔ جلد ہی اسکی دونوں نندوں کی ساس نے شادی کردی تاکے اپنے فرض سے سنکدوش ہوجائیں۔ نندوں کے جانے کے بعد گھر میں اسکی ساس ہارون اور ایک عنایا ہی تھی عنایا ہمیشہ عارف سے ضد کرتی کے وہ یہ نوکری چھوڑ دے اب تو اسکے سر اور کوئی زمیداری نہیں لیکن وہ ہمیشہ اس بات کو ٹال دیتا عارف کے جانے کے بعد انکے رشتے میں ایک خلل سی پیدا ہوگئی نجانے اسکی ساس عارف سے کیا کہتیں کے وہ فون پڑ ہمہ وقت اسے کام چوڑی کے طعنہ دیتا، ساتھ میں وہی ایک جملہ وہ ہر بار سنتی کے اسکا زیدہ وقت ماں کی طرف گزرتا حلانکے وہ ان سے مہینوں گزر جاتے نا ملتی عارف جب کچھ دنوں کے لیے رہنے آتا تو اسکا رویہ سرد رہتا زیادہ وقت وہ اپنی ماں کے ساتھ گزرتا۔ جب رات وہ کمرے میں آتا تو شکایتوں کی پوڑی لسٹ تیار کر کے آتا ماں کا خیال نہیں رکھتیں، بہنیں آتیں تو تم کمرے میں بند رہتیں، بہن کے سسرال والوں کا لحاظ تک نہیں کرتیں، آدھی تنخوا اپنی فضول چیزوں کو خریدنی میں لگاتی۔۔ یہ سارے الزام سن کر وہ تڑپ جاتی اور اس ظالم انسان کو دیکھتی رہتی جو کروٹ بدل کا محوخواب ہوجاتا۔۔

اسکے سونے کا بعد عنایا بےآواز روتی رہتی کتنے غلط الزام لگائے گئے تھے اس پڑ۔۔ وہ دن رات گھر کے کاموں میں گزار دیتی اپنے گھر جانے کا ٹائم کہاں ملتا اور خرچ ایک دفع اسنے اپنی ساس سے پیسے مانگے تھے عارف کے کہنے پڑ کیوں کے عارف کی تنخواہ انہی کے پاس آتی آگے سے انہوں نے اپنا رونا رو دیا کے پہلے ہی گھر کا خرچہ پوڑا نہیں ہوتا اور ایسے میں میں اپنی عیاشیوں کے لیے پیسے مانگ رہی ہوں انکا یہی خیال ہوتا کیوں کے میں امیر گھر کی لڑکی ہوں جو یقیناً بگڑی ہوئی ہوگی۔۔ عارف کی تلخ باتوں سے وہ اپنا رہا سہا اعتماد بھی کھو دیتی اسے یہ بعد میں ادراک ہوا کے اب عارف اس سے مکمل توڑ پڑ بدذہن ہو چکا ہے۔۔ ہارون نے اسے کافی دفع سمجھایا تھا وہ اپنے رشتے پڑ دیہان دے جو بھی بات ہے عارف سے سامنے رہکر کلیر کرے لیکن وہ اسے کیسے بتاتی عارف اسکی کسی بات کا اعتبار نہیں کرتا نا اس سے سنا گنوارہ کرتا ہے۔ وہ اسکی بہنوں کے ساتھ سہی نہیں نا ماں کے ساتھ اسے یہی سب سوچیں پریشان کرتیں کے وہ غلطی کر بیٹھا ہے یہاں تک کے احمد کے آنے سے بھی اسے کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی تھی۔ عنایا اپنا اور احمد کا سارا خرچ خود ہی اٹھاتی محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر یا پھر عائشہ جو دی جاتیں۔۔ اس سے کبھی کبھار جب وہ گھر جاتی تو واپسی پڑ ہمیشہ اسے احمد کی جیب سے کبھی دس تو کبھی پندرہ ہزار ملتے اور وہ اچھی طرح جانتی تھی کس نے یہ احمد کی جیب میں رکھا ہوگا؟؟ تب اسے خود سے نفرت ہونے لگتی۔۔۔

جس انسان کا اس نے دل دکھایا تھا وہ بن کہے اسکی ہر ضرورت سمجھ جاتا اور محبت کا دعویدار اسے تنہا کر کے چلا گیا۔۔شادی کے بعد پل پل اس نے سزا پائی تھی اور آج ہمیشہ کے لیے اسکے غلطی کی سزا اسکے مقدر میں لکھ دی گئی طلاق کی صورت میں آج عارف نے اسے اپنی زندگی سے بےدخل کر دیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔


☆.............☆.............☆


اتنے لمبے سفر کے بعد اسے شدید گرمی کا احساس ہو رہا تھا اس لیے وہ وارڈروب سے ازلان کے خریدے سوٹس میں سے ایک ڈریس لیکر نہانے چلی گئی۔ نہا کر وہ کچھ بنانے کا سوچ رہی تھی لیکن کچن میں کچھ تھا نہیں۔۔ نا مسالے برتن وغیرہ رکھے تھے نا پکانے کے لیے کوئی سامان تھا۔۔ وہ بھابی سے مانگنے کا سوچ کر نیچے چلی آئی۔۔۔

” نور آج یہیں ڈنر کرلو!!! اب کیا الگ سے کھانا بنائوگی اتنی تھکی ہوئی سفر سے آرہی ہو “

” بھابھی اب بھی تو تھک گئی ہیں؟؟ “

” ارے نہیں مجھے عادت ہے یہ فیضان کا روز کا کام ہے مجھے ہر کہیں ساتھ لیکر جاتے ہیں پہلے مما تھیں وہ بچوں کا خیال رکھتی تھیں پھر انکے جانے کے بعد یہ سفر کا سلسلہ ختم ہوا ورنہ مجھے عادت ہے بیٹھو تم “

عائشہ پھپھو(عائشہ کی ساس) کو یاد کرتے افسردہ ہوگی۔ کچھ دیر دونوں میں خاموشی حائل رہی پھر نور بھی اٹھ کر عائشہ کی مدد کرنے لگی۔

سب نے ساتھ مل کر ڈنر کیا۔۔۔ ڈنر کے بعد ازلان اور فیضان واک کرنے چلے گئے وہ بھی عمر حمزہ اور حیا کو سلا کر بھابی کے ساتھ چھت پر آگئی۔


☆.............☆.............☆


عنایا نے آج عارف کے آنے کی خوشی میں اسکی من پسند ڈشسز بنائی تھیں آج اس نے سوچ لیا تھا عارف سے اپنے تعلقات بہتر کر لیگی ایک ایک بات اسے بتا دے گی۔ اسلیے آج اس نے عارف کا لایا ہوا ڈریس پہنا تھا اور تیار ہوکر آخری دفع کھانے کا جائزہ لینے آگئی تبھی ہارون کچن میں داخل ہوا۔۔۔

” بھابی بھائی آ گئے ہیں اُن سے جاکر مل لیں یہ کام بعد میں ہوتے رہیں گئے “ ہارون نے اپنے ازلی سنجیدہ لہجے میں کہا اور سالن کا ڈھکن ہٹا کر جائزہ لینے لگا۔

” ہاں بس جا رہی ہوں یہ فش فرائے ہوجائے “

عنایا نے فرائنگ پین سے ڈھکن ہٹا کے فش کا جائزہ لیا جو مکمل طور پر تیار تھی۔ وہ کبڈ سے پلیٹ نکالنے لگی کے اسکا ریشمی دوپٹا سر سے ڈھلک کے پیر میں آ اٹکا اگر بروقت ہارون نا سمبھالتا تو وہ ضرور زمین بوس ہوجاتی۔ ہارون نے اسے دونوں کندھوں سے تھام رکھا تھا دوپٹا اسکا زمین بوس ہوچکا تھا نظارہ ایسا تھا کے کوئی بھی شخص غلط فہمی کا شکار ہوسکتا ہے اور ہوا بھی ایسا ہی تھا اسکی ساس نے کچن میں آتے ہی یہ نظارہ دیکھا۔ چیخ چیخ کے اپنے بیٹے کو بلاکر اسکی کردار کشی کی اسکے کردار پر حملہ کیا۔ وہ اپنے بیٹے کے کردار سے اچھی طرح واقف تھیں انکا بیٹا ایسا نہیں چاہے کچھ بھی ہوجاے انکا بیٹا اتنا گڑا ہوا نہیں وہ اپنی بہو کے کردار سے بھی واقف تھیں جسے انہوں نے ان پانچ سالوں میں ایک دفع بھی ننگے سر نہیں دیکھا لیکن اس وقت وہ صرف ایک ظالم ساس بنی ہوئیں تھیں جو اپنے بیٹے کو کسی بھی طرح اس رشتے سے آزادی دلوانا چاہتی تھیں آخر اس لڑکی کی وجہ سے انکے اکلوتے بھائی نے ان سے منہ موڑ لیا تھا حمنہ انکے بھائی کی بیٹی تھی جسکی نسبت عارف کے ساتھ تہہ تھی۔۔ عارف نے کچن میں اپنی بیوی کو جس حالت میں دیکھا وہ نا قابل یقین تھی وہیں اس نے تین حرف سنا کر ہمیشہ کے لیے اس رشتے سے آزادی پالی۔۔۔۔ ہارون جو بے یقینی سے ماں کو دیکھ رہا تھا اپنے بھائی کی زبان سے ادا ہوتے لفظوں کو سنکر ہمیشہ کے لیے اس گھر کو الوداع کہ کر چلا گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


ازلان صبح اٹھتے ہی ہنی کو لیکر اسکول چلا گیا جہاں ہنی کا ایڈمشن ٹیسٹ تھا پھر دوسرے دن رزلٹ کے بعد ہنی کا ایڈمشن وہاں ہوگیا وہ لاہور کا ایک مشہور اور بہترین اسکول تھا۔۔

یہاں آکر نور نے حمزہ اور عمر کا روم الگ کردیا وہ دونوں کو ہنی کے کمرے میں سلاتی گاؤں جانے کا ایک فائدہ یہ ہوا تھا بچے اب اکیلے سونے لگے تھے۔ نور کا رویہ ازلان کے ساتھ ویسا ہی سرد تھا وہ جتنا اس سے غافل رہتی ازلان اتنا ہی اسے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا جب کبھی شرٹ کا بٹن ٹوٹ جاتا وہ اسے اپنے پاس بیٹھا کر بٹن لگواتا۔ ٹائی یہ کہ کر پھینک دیتا

” مجھ سے نہیں بندھتی “ ناچارہ نور کو ٹائی باندھنی پڑتی۔ صبح جب وہ ہنی کو تیار کرتی تو ازلان کی آواز پورے گھر میں گونجھتی۔۔

” نور میرا والٹ نہیں مل رہا “

(حلانکے والٹ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا ہوتا )

” نور کار کی کئی کہاں ہے؟؟ “

” میرا لیپ ٹاپ نہیں مل رہا “

(رات کو ہی وہ زمیداری سے سارا اسٹف ٹیبل پر رکھ

کے سوتا )

” دوسرے کلر کی ٹائے دو یہ سوٹ نہیں کر رہی “

(میچنگ ٹائے دینے کے باوجود وہ ہر بات پر نخڑے دیکھاتا )

” کہاں چلی جاتی ہو ہزار بار کہا ہے جب تک۔ آفس نا چلا جاؤں سامنے رہا کرو اب ساکس نہیں مل رہے کہاں ہیں؟؟ “

نور ان باتوں پر اسے غصّے سے گھورتی مقابل بھی ڈھیٹ بنتا مسکراہٹ روکے اسکا سرخ چہرہ دل میں اُتاڑتا۔۔

شاہ زر، ہنی اور عنایا تینوں کو وہ خود اسکول چھوڑتا اور واپسی میں وہ گارڈز کے ساتھ آتے۔۔ ناشتا کر کے ہنی روز کچن میں کام کرتی نور کے پاس آتا اور اسکے کندھے سے لگی حیا کے گالوں پر بوسہ دیتا پھر کار میں بیٹھ کے ازلان کے آنے کا انتظار کرتا جو وہی عمل دوڑاتا۔۔۔

وہ کچن میں حیا کے لیے دودھ گرم کرتی نور کو اپنے حصار میں لیتا اور ایک برپھور ہگ کے بعد اسکی اور حیا کی پیشانی کو چومتے وہی بات دوڑاتا۔۔

” تمہارا یہ نرم نازک خشبودار لمس مجھے تازگی بخشتا ہے ہر بار لگتا ہے میں پھر جی اٹھا ہوں “ وہ روز یہ جملا اسکی سماعتوں میں اتاڑ کے جاتا۔

اکثر حیا کی یہی روٹین ہوتی کے وہ ازلان اور ہنی کے جانے سے دو یا تین منٹ پہلے سے اٹھ کر بیٹھ جاتی اور نور اسے اپنے ساتھ کندھے سے لگائے گھر کے باقی کام کرتی۔۔۔

آدھا دن اسکا حمزہ عمر کے آگے بیچھے گزر جاتا ازلان نے اسکی روتی شکل دیکھ کر اماں کو گاؤں سے بلایا اور ساتھ میں ایک فل ٹائم میڈ کا بھی انتظام کیا۔۔

وہ رات کو ڈنر کے بعد بیڈ شیٹ درست کر رہی تھی حیا زمین پر بیٹھی کھیلونوں کو منہ میں ڈالے ان سے کھیل رہی تھی۔ تبھی ازلان عجلت میں کمرے میں داخل ہوا۔

” نور سنو وہ۔۔ تم۔۔ اپنے ڈاکومینٹس دینا جلدی مجھے کہیں جانا ہے۔۔ “ ازلان تیر کی تیزی سے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کچھ پپرز نکالنے لگا۔ نور پہلے تو اسکی عجلت میں کہی بات سمجھی نہیں پھر سمجھنے پر حیرانگی سے ازلان کو دیکھنے لگی جو الماری کا حشر نشر کر کے پپرز ڈھونڈ رہا تھا۔۔

” تم ابھی تک یہیں کھڑی ہو جلدی کرو نور ایک آدمی سے ملنے جانا ہے اتنی مشکل سے ہاتھ لگا ہے “

” میرے پاس کوئی ڈاکومینٹس نہیں “ نور سردمہری سے گویا ہوئی اور بیڈ شیٹ درست کر کے نیچے بیٹھی حیا کو اٹھا کے بیڈ پر بٹھایا۔۔

” نور پلیز ابھی میں بحث کے موڈ میں نہیں جلدی اپنے ڈاکومینٹس نکالو کہاں رکھے ہیں؟؟ “

وہ اپنے مطلوبہ پپرز ڈھونڈ چکا تھا اب نور سے مانگ رہا تھا جس کو دینے میں کوئی دلچسبی نہیں تھی۔۔۔

” نور میں تم سے کہ رہا ہوں!!! کیوں مجھے غصّہ دلاتی ہو؟؟ “

ازلان کی آواز قدرے اونچی ہوگی۔۔ وہ اُسے وہیں کھڑا دیکھ تپ گیا۔۔

” میں نے کہا نا میرے پاس نہیں اُسی دن جلا دیے تھے جس دن آپ نے میرے خواب کو روندھ کر پھینکا تھا “ وہ اب استری اون کرکے ہنی کا یونیفارم پریس کر رہی تھی۔

” کیا بکواس کر رہی ہو؟؟ “

ازلان کو یقین نا آیا وہ چلتا ہوا نور کے پیچھے آن کھڑا ہوا اور جھٹکے سے اسکا رُخ اپنی طرف کیا۔۔

” یہی سچ ہے ازلان!!! میں نے اسی دن فیصلہ کیا تھا کے جب آپ کی آنکھوں سے بدگمانی کی پٹی ہٹے گی میں آپ کو ازالے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرونگی میں نے وہ ساری کشتیاں جلا دیں جو ہمارے دلوں کو جوڑتی ہیں اب آپ چاہے کچھ بھی کر لیں لیکن دل کے اس بند دروازے کو نہیں کھول سکتے اور اب مزید مجھے اس ٹوپک پر کوئی بات نہیں کرنی مجھے نماز کے لیے دیر ہو رہی ہے “ اتنی نفرت؟؟ یا میرے خدا کیا کر دیا میں نے؟؟؟ نا خود سکون سے رہا نا اسے رہنے دیا۔ بدلہ لیکر بھی کونسا سکون حاصل کیا میں نے؟؟ دن رات خود بھی جلتا رہا اور اپنے ساتھ اسے بھی جلاتا رہا۔۔

” میں اب بھی ہار نہیں مانوں گا!!! نور۔۔۔۔نور میں سب ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ “ ازلان کے کہے الفاظ نے اس کے تن بدن میں آگ لگا دی وہ اسکا کالر پکر کر چیخ پڑی۔۔۔۔

” کیا ٹھیک کریں گے؟؟ بولیں کیا ٹھیک کرں گے؟؟؟ میرے ڈر کو ختم کر سکتے ہیں؟؟؟ میری سوچوں کا رخ بدل سکتے ہیں؟؟ میرے اندر کی آگ کو ختم کر سکتے ہیں؟؟؟ بولیں بولتے کیوں نہیں؟؟ “ وہ نڈھال سے زمین پر گڑ گئی۔۔۔ وہ خود سے ہمکلام تھی ” میں۔۔۔ میں بہت بُری ماں ہوں بہت بُری میں نے اپنی بیٹی کو بددعا دی دن رات خدا سے اُسکے مرنے کی دعائیں کیں بی بی جان سے کہا کے دعا کریں وہ میرے پیٹ میں ہی دم توڑ دے!!! میرے الفاظ مجھے سونے نہیں دیتے میں اس پل کا سوچ کر کانپ اٹھتی ہوں جب اس کے جملائے حقوق کسی اور کے نام ہوجائیں گئے۔۔۔ پھر کیا وہ بھی اس سے نفرت کریگا جس طرح آپ کرتے ہیں؟؟ ہاتھ اٹھائے گا اس پ؟؟ سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹنے لگتا ہے ازلان۔۔۔ازلان۔۔۔۔ یاد ہے میں نے کہا تھا اس کی زندگی میں بھی آپ جیسا شخص آئے گا جو اسکے ساتھ ویسا ہی سلوک کریگا جس طرح آپ نے میرے ساتھ کیا آگر میری بددعا سچ ہوگئی تو؟؟ ازلان میں مر جاؤنگی۔۔۔۔ میری بیٹی کو کیسے ہاتھ لگا سکتا ہے۔۔۔ وہ میری۔۔۔ بیٹی ہے “

وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔

ازلان جو ساکت سا سب سن رہا تھا اسکے وجود نے جنبش کی نمی اسے اپنی آنکھوں سے بھی اتڑتی محسوس ہوئی وہ اسکے قریب ہی بیٹھ گیا بازو بڑھا کر اسے اپنی باہوں میں سمیٹنا چاہا تو وہ چیخ اٹھی

” اکیلا چھوڑ دیں میجھے پلیز چلے جائیں یہاں سے “

وہ منت بھرے لہجے میں کہ رہی تھی۔۔ بہت دیر تک وہ ندامت میں گڑا اسکے آنسو کا تھمنے کا انتظار کرتا رہا پھر جب برداشت نا ہوا تو اسے زبردستی اٹھا کے بیڈ پر لٹایا۔۔

” بددعائوں سے زیادہ دعائوں میں اثر ہوتا ہے تم ماں ہو اسکے مستقبل کے لیے دعا کرو۔۔۔۔ اور نور میری کوئی مجبوری نہیں میں ابو کی طرح بےبس نہیں ہونگا اس شخص کا وجود مٹا دونگا جو میری بیٹی پر غلط نظر ڈالے گا بھی۔۔۔ “

اس کے آنسو تھم چکے تھے۔ وہ اٹھ کے واشروم میں گھس گئی۔۔ ازلان اسکا باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا لیکن وہ شاید اسے سے چھپ رہی تھی۔۔۔ ازلان نے بےچین ہوکر ہنی کا سہارا لیا جو پڑھائی میں مصروف تھا بے شک وہ اسکے لیے اہم نہیں تھا لیکن وہ جانتا تھا اسکے بیٹے میں نور کی جان بستی ہے ایک وہی دنیا میں واحد شخص ہے جو اسے سنبھال سکتا ہے۔۔۔

” وہ پندرہ دن کی محنت کے بعد بہت مشکل سے یہ ڈاکومینٹس ریکور کر سکا۔۔۔۔ وہ اگلے دن ہی گاؤں گیا تھا بغیر کسی کو بتائے وہاں اپنا کام کرتا رہا وہ اپنے ساتھ اپنے خاص گارڈ کو لیکر گیا تھا۔۔۔۔ مسلسل اسکول کالج کے چکر لگانے کے بعد بالآخر وہ اس کے ڈاکومینٹس دوبارا حاصل کر سکا۔۔۔۔ ایدمٹ کارڈ اسے نور کے روم سے ملا تھا۔۔۔ باقی مارکشیٹ اسنے بورڈ سے دوبارا نکلوائی۔۔۔۔ آج وہ نور سے روبرو ایک آخری بار ریکویسٹ کرنے آیا تھا۔۔۔ اور اسے یقین تھا وہ اپنا خواب پورا کرنے کے لیے اسکی بات ضرور مانے گی۔۔۔


وہ اس وقت لاونچ میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ جو بھابی سے ملنے نیچی گئی تھی۔۔۔۔ جیسے ہی نور اوپر آئی ازلان نے کسی تاخیر کئے بغیر اسکا ہاتھ پکڑ اپنی بات شروع کی۔۔۔۔


” پلیز میری بات سن لو میں تمہارا ایڈمشن فارم فل کر کے آیا ہوں تمہارے ڈاکومینٹس بھی نکل گئے۔۔۔!!! میں جانتا ہوں تم بہت زہین ہو آرام سے ٹیسٹ کلیر کرلوگی۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں میری غلطیوں کی سزا خود کو مت دو۔۔۔ میں چاہتا ہوں تم اپنا خواب پورا کرو۔۔۔ اور اس سب میں میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔ بچوں کی فکر مت کرو فل ٹائم میڈ ہے۔۔۔ ورنہ گاؤں سے کسی کو بلا لونگا تم بس یہ ٹیسٹ کلیر کرلو۔۔۔۔؟؟؟ “


” آپ کو اینٹری ٹیسٹ کلیر کرنا بچوں کا کھیل لگ رہا ہے۔۔۔؟؟ میں زہین ہوں یا نہیں لیکن میں نے ٹیسٹ کلیر کرنے کے لیے دن رات محنت کی تھی۔۔۔ یہ کچھ دنوں کا کام نہیں ہے بہت محنت لگتی ہے اس میں۔۔۔۔ اور ویسے بھی اب میں پہلے کی طرح نہیں رہی۔۔۔۔ میں کوئی نوجوان لڑکی نہیں ایک میرڈ وومن ہو جس پڑ ذمداریاں ہیں۔۔۔ نا اب میرا ذہن پہلے کی طرح کام کرتا ہے۔۔۔“ وہ زخمی نظروں سے اسے دیکھتی گویا ہوئی۔۔۔۔


” تم کوشش تو کرو پلیز۔۔۔۔“ وہ التجا کر رہا تھا۔۔۔۔


” آپ کیوں میرے زخموں پڑ نمک چھیڑک رہیں ہیں۔۔۔ میں سب بھولنا چاہتی ہوں آپ پھر یاد دلا دیتی ہیں آخر چاہتے کیا ہیں۔۔۔۔“ وہ چیخ پڑی۔۔۔۔۔


” تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں بس ایک یہی خواہش ہے میری۔۔۔!!! دوگی نا ٹیسٹ۔۔۔؟؟ “ اسے جیسے اب بھی یقین تھا وہ اسکی بات مانے گی۔۔۔


” نہیں۔۔۔۔“ وہ ہاتھ چھڑوا کر رخ موڑ گئی۔۔۔۔


” پلیز “


” اب اگر ٹیسٹ کی بات کی تو خدا کی قسم اس گھر سے چلی جاؤنگی۔۔۔۔ کبھی نا واپس آنے کے لیے۔۔۔۔“ وہ اسے شہدات کی انگلی سے وارن کرتی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔


وہ تو پہلے ہی دن رات آگ میں جل رہا تھا۔۔۔۔ ہر گناہ اسکے ذمے لکھا جا چکا تھا۔۔۔۔ جہاں اس نے دن رات اسکی اولاد کو پالنے میں سرف کردیے۔۔۔۔ وہیں وہ اُسے مختلف اذیتوں سے نوازتا رہا۔۔۔۔ اپنا ہر جرم اسے دن رات کسی بچھو کی طرح کاٹتا۔۔۔۔ رات کی تاریکی میں ایک ہی بستر پر وہ کسی اجنبی کی طرح کروٹ لیکر سوجاتی۔۔۔۔ وہ پوری رات انگاروں میں خود کو جلستے کاٹتا۔۔۔۔ دن رات تیزی سے گزرتے اسکا یہی معمول تھا۔۔۔۔ وہ جان بوجھ کر ہر کام کے لیے اسے آواز دیتا اپنی اہمیت جتاتا جب موقع ملتا اس سے معافی مانگتا۔۔۔۔ اسکے لب سے اتا ہونے سے پہلے وہ کام انجام دے دیتا لیکن وہ محبوب اب بےحس بن چکا تھا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


میر کا دل اسکی حالت دیکھ کر ٹوٹ پڑا وہ دروازے سے سر ٹیکائے رو رہی تھی۔۔۔۔


” عنایا اٹھو چلو۔۔۔!!! “ میر نے بازو سے پکڑ کے اسے اٹھایا۔۔۔


” میر۔۔۔ ا۔۔۔ ح۔۔۔ م۔۔۔ د احمد مر۔۔۔ میرا۔۔۔ احمد۔۔۔ عارف اسے لے گیا میرے پاس آنے نہیں دیا۔۔۔ وہ بہت رو۔۔۔ رہا۔۔۔ تھا۔۔۔ میرا۔۔ احمد۔۔۔“


میر کا گویا میٹر گھوم گیا وہ بےحس لوگ انہیں ذرا رحم نہیں آیا۔۔۔۔ ایک لڑکی کو رات کے اندھیرے میں گھر سے نکال دیا۔۔۔۔ انہیں ذرا خدا کا خوف نہیں آیا خود کے گھر میں ماں۔۔۔ بہن۔۔۔ بیٹیاں ہیں پھر بھی انہیں احساس نہیں لڑکی کی عزت کیا خزانہ ہے۔۔۔؟؟ نا اسکی عزت کی پرواہ کی نا ممتا کی ایک ماں سے اُسکا بیٹا چھین لیا۔۔۔؟؟ میر نے عنایا کو بازو سے پکڑ کے اسے کار میں بٹھایا۔۔۔۔ اور کار لاک کر دی لیکن لاک کرنے سے پہلے وہ اس سے وعدہ کرنا نہیں بھولا تھا۔۔۔۔


” پلیز چپ ہوجاؤ عنایا میں احمد کو لے آونگا وعدہ کرتا ہوں۔۔۔۔ لیکن اب مجھے تمہاری ان آنکھوں میں آنسوں نا دیکھیں ورنہ گھر لے چلونگا۔۔۔۔“ میر کی دھمکی سے اسنے فوراً اپنے آنسوں پونچھے اور اسکی کاروائی دیکھنے لگی۔۔۔۔


قریباً پندرہ منٹ بعد ایک پولیس جیب آکر گھر کے سامنے رکی۔۔۔ جیب سے پولیس والوں کے ساتھ ایک واکیل بھی نکلا تھا۔۔۔ جو کار سے نکلتے ہی میر سے گلے ملا۔۔۔ وہ سب اب دروازہ کھولوا کر اندر جا چکے تھے۔۔۔۔


” کون ہو تم لوگ کیوں گھسے آرہے ہو ہمارے گھر۔۔۔؟“


میر عارف کی ماں کی بات نظر انداز کرتے وہ کمرہ دیکھنے لگا۔۔۔ جہاں احمد ہو سکتا ہے باقی پولیس والے بھی اوپر نیچے چھان بین کرنے لگے۔۔۔۔


تبھی دھڑام سے عارف روتے احمد کو اپنے ساتھ لگائے باہر آیا۔۔۔ میر کے سامنے وہ شخص کھڑا تھا جس نے اس سے اسکی زندگی چھینی تھی۔۔۔ ایک وقت تھا جب وہ اس سے انتہا کی نفرت کرتا تھا۔۔۔۔ لیکن آج وہ اس جذبے سے عاری تھا۔۔۔ آج میر کو اسے سامنے دیکھ کوئی نفرت۔۔۔ حسد۔۔۔ اپنا ٹھکرایا جانا۔۔۔ کچھ یاد نا آیا۔۔۔۔ کیوں کے اسکی زندگی اب کسی اور میں بستی تھی۔۔۔ جس نے اسے مکمل کر دیا اور جو اسے ایک نئی زندگی دینی والی تھی۔۔۔۔


” تم یہاں کیا کر رہے ہوا دفع ہو یہاں سے ورنہ حشر کر دونگا تمہارا۔۔۔۔“ میر کو دیکھ کر عارف لہو رنگ آنکھوں سے گویا ہوا وہ جانتا تھا میر عنایا کا سابقہ منگیتر ہے۔۔۔۔


” تم جیسے انسان عورتوں کو اپنے پیر کی جوتی سمجھتے ہیں جسے جب چاہا جیسے چاہا استمعال کیا۔۔۔۔!! کیا وہ انسان نہیں۔۔۔۔؟؟؟ اسے درد نہیں ہوتا۔۔۔۔؟؟ خیر تم جیسے دو کوڑی کے انسان سے میں طوقع بھی کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟ وہ لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہارے بھروسے یہاں آئی تھی۔۔۔۔ اپنے باپ تک سے ناراضگی موڑ لی اس نے اور تم۔۔۔۔؟؟ تم نے کیا کیا دو دن بھی خوش نا رکھ سکے جب سے وہ یہاں آئی ہے۔۔۔۔ میں نے ہر وقت اس کے ہونٹوں پڑ کھوکلی مسکراہٹ دیکھی ہے۔۔۔۔ لیکن کسی سے شکوہ شکایات کرتا نہیں دیکھا۔۔۔ کبھی اسے دوسروں کو تمہارے ظلم کی داستان سناتے نہیں دیکھا۔۔۔ جانتے ہو کیوں۔۔۔۔؟؟ کیوں کے وہ تم جیسے شوہر کی عزت رکھنا جانتی ہے۔۔۔۔ اپنے شوہر کا جھکا سر نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔ اور تم رات کے اندھیرے میں اپنی ہی عزت کو درندوں کے بیچ چھوڑ کر قاہروں کی طرح یہاں بیٹھے ہو۔۔۔۔؟؟ تم نے یہ تک نہیں سوچا ماں ہے وہ تمہارے بیٹے کی۔۔۔۔؟؟ ذلیل بےحس انسان جانتے نہیں تم مجھے اب آدھی زندگی اپنی کورٹ کے چکر لگاتے گزارنے لے جا رہا ہوں میں احمد کو روک سکتے ہو تو روک لو۔۔۔۔“


میر نے سرد نگاہوں سے اسے گھورتے کہا آخر میں اسکی آواز خود با خود آسمان کو چھو رہی تھی۔۔۔۔


” ہاتھ لگا کے دیکھاؤ یہیں دفن کر دونگا تمہیں “


عارف چیخا میر نے دیر کے بغیر بلکتے احمد کو اس سے چھپٹا۔۔۔۔ عارف کچھ نا کر سکا حوالداروں نے اسے دونوں بازوں سے آکر پکڑا۔۔۔۔


” مسٹر عارف لو کے مطابق بچے کی کسٹڈی ماں کو دی جاتی ہے۔۔۔۔ آپ اپنا اور ہمارا وقت برباد نا کریں۔۔۔۔ اگر آپ کو اپنا بیٹا چاہیے تو کورٹ میں جاکر کیس لڑیں۔۔۔۔“ میر باہر آگیا جبکے وکیل عارف کو سمجھاتا رہا جو میر کو گالیاں بک رہا تھا۔۔۔۔


پھر کچھ ہی دیر میں میر بلکتے احمد کو اپنے ساتھ لے آیا۔۔۔۔ عنایا نے جلدبازی میں کار کا دروازہ کھولنا چاہا جو لاک ہونے کی وجہ سے کھلا نہیں میر نے آکر دروازہ کھولا اور احمد کو اسکی گودھ میں بیٹھا دیا۔۔۔۔ وہ احمد کو دیکھ کے اپنے ہوش و حواس کھو گئی دیوانہ وار اسے چومتی رہی۔۔۔۔۔


” م۔۔۔ مما۔۔۔“ بلکتا احمد اپنی ماں کی آغوش میں آکر چُپ ہوگیا۔۔۔۔


میر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔۔۔۔!!! دل چاہ رہا تھا اس عارف کا حشر نشر کردے۔۔۔۔ اسے رہ رہ کر خوف آرہا تھا آگر سہی ٹائم پر نا پہنچتا تو۔۔۔۔؟؟؟ آس پاس سے گزرتے مرد عنایا کو جن نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ میر کو وہاں روکنا محال لگ رہا تھا۔۔۔۔ عنایا اور حیا ایسے ماحول میں پلی بڑھیں ہیں جہاں انہیں دنیا کی وہشت اور حوس بھری نظروں سے آشناس نہیں کرایا گیا تھا۔۔۔۔ دونوں ہر وقت مضبوط سہاروں کی بیچ رہیں ہیں۔۔۔۔ جہاں شاہ زر حیا کی ڈھال بن کر ہر وقت اسکی حفاظت کرتا۔۔۔۔ وہیں میر بھی اپنی محبت کی جان سے زیادہ حفاظت کرتا۔۔۔۔ ان معصوموں کو کیا پتا جہاں رحم دل انسان ہیں وہیں بے رحم انسان کا بھی بصیرہ ہے۔۔۔۔ اور میر سے بہتر یہ کون جان سکتا ہے وہ تو بچپن سے انسان کے مختلف بدلتے رویے دیکھ چکا ہے۔۔۔۔


” عنایا پلیز چپ ہوجاؤ تمہیں روتا دیکھ احمد بھی چپ نہیں ہو رہا۔۔۔“ نہایت نرمی سے وہ اسے کہ رہا تھا عنایا نے بمشکل اپنی سسکی روکی ورنہ اسکا دل چاہ رہا تھا داڑیں مار کر روئے۔۔۔۔ میر نے کار سٹارٹ کردی اب ایک اور امتحان انہیں دینا تھا نجانے اب زندگی کیا موڑ لے گی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


تین سال چار ماہ بعد۔۔۔۔۔


ازلان کمرے میں داخل ہوا تو سونامی کے بعد والا منظر اسکے سامنے لہرایا۔۔۔۔ کمرے کی ہر چیز بکھری پڑی تھی۔۔۔۔ مدھم سسکیاں مسلسل اسکے کانوں میں گونج رہیں تھیں۔۔۔۔ وہ آگے بڑھ آیا تو نظر بیڈ سے ٹیک لگاتی نور پر پڑی جسکا پورا وجود ہلکے ہلکے حل رہا تھا۔۔۔۔ ازلان تیر کی تیزی سے اسکے پاس گیا۔۔۔۔


” کیا ہوا نور۔۔۔۔؟“


ازلان نے گھٹنوں میں سر دیے روتی نور کا چہرہ اونچا کر کے پوچھا۔۔۔۔


” ازلان حیا؟؟ “ کہتے ہی وہ پھر رو پڑی۔۔۔۔


” کیا ہوا حیا کو وہ ٹھیک تو ہے۔۔۔؟؟ کہاں ہے بولو۔۔۔۔؟؟ “


وہ ایک ہی سانس میں بولا حیا کا سن کر اسکے اوسان خطا ہوگئے۔۔۔۔


” بابا میں یہاں “


چار سالہ حیا جو بیڈ کے نیچے چھپی تھی ازلان کی آواز سن کر فوراً باہر آئی۔۔۔۔۔ اور بیڈ پر سے اُچھلتے ہوے استک آئی۔۔۔ ازلان نے اسے دیکھتے ہی اٹھا لیا حیا کو دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی۔۔۔۔


” تم بچو گی نہیں آج میرے ہاتھوں۔۔۔۔“ نور تو اسی انتظار میں بیٹھی تھی جھٹکے سے اٹھ کر حیا کو لینے بڑھی دوسری طرف حیا اسے دیکھ چیخ پڑی۔۔۔۔


” بابا مما مالیں دی “


وہ ازلان سے مزید چپک گئی اور نور کو زبان نکال کر چڑانے لگی۔۔۔۔


” نور کیوں مار رہی ہو۔۔۔۔؟؟ کیا ہوا۔۔۔؟؟ خبردار جو اسے ہاتھ بھی لگایا۔۔۔“


نور اسکے زبان چڑانے پے غصّے سے کھول اٹھی۔۔۔ اور اسے ازلان سے چھپٹنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔۔۔۔ ازلان کا پوچھنا تھا برسات پھر جاری ہوگئی۔۔۔


” ازلان۔۔۔ اس نے۔۔۔ میرا۔۔۔ پورا۔۔۔ میک اب کٹ خراب کر دیا میری لپسٹک۔۔۔ واشروم میں بہا دیں اور میرا نیا سوٹ اس پڑ انک گرا دی۔۔۔۔“ ازلان نے ایک گہری سانس خارج کی وہ تو نجانے کیا سمجھ بیٹھا تھا۔۔۔۔۔


” بس اتنی سی بات ہے۔۔۔۔؟؟ میں لا دونگا۔۔۔۔“ ازلان نے نارمل سے انداز میں کہا۔۔۔۔


” بھائی میرے لیے وہ دبئی سے لائے تھے۔۔۔۔ اس نے سب توڑ دیا میری کوئی چیز نہیں چھوڑِی۔۔۔۔ اور یہ آپکو اتنی سے بات لگتی ہے۔۔۔۔؟؟ “


وہ غصّے سے کہہ رہی تھی ساتھ رونے کا مشگلہ بھی جاری تھا۔۔۔۔ اب ازلان حیا کو دیکھ رہا تھا جو اسکے کندھے سے لگی اپنا منہ چھپا رہی تھی۔۔۔۔


” بابا مما نے مدھے دھول سے مالا اول دانتا بھی “


نا آنے والے آنسوؤں کو زبردستی لاکر وہ معصومیت سے کہتی نور کے گویا تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔


” کیوں مارا تم نے منع کیا ہے نا میں نے حیا پر ہاتھ مت اٹھایا کرو “ مار کا سنتے ہی وہ غصّے میں آگیا۔۔۔۔


” میں نے کوئی اسے نہیں مارا صرف ڈانٹا تھا۔۔۔۔ کیوں کے یہ اپنا اسکول بیگ اسکول کے باہر پھینک آئی۔۔۔۔ اسے لگا اسکول بیگ نہیں ہوگا تو میں اسے اسکول نہیں بھیجوں گی۔۔۔۔ تبھی میں نے صرف ڈانٹا مارا نہیں یہ سب اپنی طرف سے بول رہی ہے اسے تو میں ابھی بتاتی ہوں۔۔۔۔“


وہ اسے پھر مارنے کے لیے آگے بڑھی کے ازلان پیچھے ہوگیا۔۔۔۔


” بابا مما دھندی “ حیا نے ناک سکوڑتے کہا اور اسے زبان نکال کے چیڑانے لگی۔۔۔۔ نور کا دل چاہا اپنی قسمت پر پھوٹ پھوٹ کے روئے اتنا خود اسنے اپنے ماں باپ کو تنگ نہیں کیا ہوگا جتنا حیا اسے کرتی ہے۔۔۔۔


” ازلان میں بتا رہی ہوں اگر یہ نہیں سدھری تو میں امی کے پاس چلی جاؤنگی اور وآپس نہیں آؤنگی “ وہ آنسوں پونچھ کر ایک تیز نگاہ حیا پڑ ڈال کر کمرہ درست کرنے لگی۔۔۔۔


” پرنسسز مما کو تنگ نہیں کرو اگر وہ چلی گئی تو میرا کیا ہوگا۔۔۔؟؟ “ ازلان کو اپنی فکر لگی تھی اسنے معصوم صورت بنا کر حیا سے کہا۔۔۔۔


” اتھا ہے تالی دآئیں ہم تائی امی تے پاش دآئیں گے “


( اچھا ہے چلی جائیں ہم تائی امی کے پاس چلے جائیں گئے )


وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔۔۔۔


” تم تو جاؤگی پرنسیسز میرا کیا ہوگا۔۔۔۔؟؟؟ اب مما کو تنگ نہیں کرنا پلیز۔۔۔“


وہ منہ پھلا کر ازلان کو دیکھنی لگی جبکے نور حیا کی بات سن چکی تھی۔۔۔ خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اس سے پہلے وہ حملہ کرتی ازلان اسے لیکر باہر کو بھاگا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” میر مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔“ عنایا جو اپنی اُجڑی زندگی کا خوب ماتم کر چکی تھی اب اسے ایک نئی ٹینشن ستا رہی تھی۔۔۔


” کچھ نہیں ہوگا میں ہوں نا اور آج کی رات تم احمد کو لیکر میرے روم میں سونا ثانی کے ساتھ۔۔۔“


میر نے کار سے نکلتے ہی اسکی طرف کا دروازہ کھولا اور واچ مین کو کار پارک کرنے کا کہ کر عنایا کو اندر لے آیا۔۔۔۔ نور فیضان کے پورشن میں ہی کھڑی لائونچ کے چکڑ لگا رہی تھی۔۔۔۔ پریشانی اسکے چہرے پر واضع نظر آرہی تھی۔۔۔۔ نور کی نظر عنایا اور احمد پر پڑی تو اسے کسی انہونی کا احساس ہوا وہ وہیں ٹھٹک کے رک گئی۔۔۔۔


” عنایا تم اوپر جاؤ۔۔۔!!! “ عنایا نے میر کی بات سنی ہی نہیں وہ نور کے سامنے آکھڑی ہوئی۔۔۔۔


” چچی عارف نے مجھے طلاق۔۔۔۔“


وہ نور کے سامنے ضبط ہار گئی۔۔۔ نور کو گویا یقین نا آیا ہچکیاں لیتی عنایا کو بمشکل نور نے سنمبھالا آنسوں اسکا چہرہ بھیگو رہے تھے یہ کیسا طوفان آگیا انکی ہستی زندگی میں۔۔۔۔؟؟؟ طلاق لفظ سنتے ہی انکے رونٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کتنی آسانی سے عارف نے اسے طلاق دے دی جیسے کوئی معمول سی بات ہو۔۔۔۔ نور نے اسے بیٹھا کر تسلی دی اور سب کچھ پوچھتی گئی۔۔۔ وہ عنایا کے چہرے پر چھائی اداسی بھلے ہی نا پڑھ پائی ہو لیکن میر کی آنکھوں کی بجتی جوک وہ اکثر دیکھتی تھی۔۔۔۔


” عنایا میری جان اللہ‎ بہتر کرےگا۔۔۔۔!!!! تم فکر نا کرو رات بہت ہوچکی ہے ابھی سوجاؤ کھانا کھایا ہے تم نے۔۔۔؟؟ “


نور نے اچانک یاد آنے پڑ پوچھا۔۔۔ عنایا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔


” اچھا چلو حیا کے روم میں سو جاؤ آؤ میرے ساتھ “


” نہیں مما آپ عنایا کو میرے روم میں لے جایئں حیا کو جانتی ہے نا آپ رو رو کر گھر سر پر اٹھا لے گی۔۔۔۔ میری فکر نا کریں میں عمر حمزہ کے ساتھ سو جاؤں گا۔۔۔“


نور عنایا کو میر کے کمرے میں چھوڑ کر اپنے روم میں آگئی اسے ابھی تک جیسے ان باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔ اسے اب رہ رہ کر عنایا کی فکر ستانے لگی اور سب سے بڑھی پریشانی فیضان کی تھی نجانے اب کیا ہوگا۔۔۔؟؟


☆.............☆.............☆


” حیا اٹھ جاؤ میں آئی تو بہت مارونگی “


نور کی آواز ازلان کے کانوں میں گونجی۔۔۔ ازلان کا ٹائے باندھتا ہاتھ رک گیا۔۔۔ اسنے ایک نظر سوئی ہوئی حیا کو دیکھا کل حیا کی ضد پے ازلان سب بچوں کو آیس کریم پارلر لے گیا تھا۔۔۔ نور منع کرتی رہی لیکن سننے والا کون تھا۔۔۔ حیا کے آگے ازلان ہمیشہ جھکا ہے۔۔۔۔ آئس کریم کھانے کے بعد رات کے تقریباً تین بجے وہ سب گھر لوٹے۔۔۔۔ عائشہ لاؤنچ میں ہی انکا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ شکر تھا فیضان سونے جا چکا تھا۔۔۔۔ ورنہ اتنی رات کو سب کی کلاس لگتی۔۔۔۔ عنایا شاہ زر اور علی کو عائشہ فوراً ہی سلانے لے گئی۔۔۔۔ جب ازلان بچوں کے ساتھ اوپر آیا تو نور بے صبری سے لاؤنچ کے چکر کاٹتے انکا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ انہیں دیکھتے ہی منہ پھلائے وہ ہنی، عمر اور حمزہ کو اپنے ساتھ لےگئی۔۔۔ لیکن انکی طرف ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔۔۔ ازلان اسکی اس ادا پر بھی فدا ہوا دن با دن وہ اسکے لیے آزمائش بنتی جا رہی تھی۔۔۔ جب وہ اسکی دتسترس میں تھی تو کتنی ناقدری کی تھی اس نے۔۔۔ اب وہ اسکی ایک محبت بھری نظر دیکھنے کے لیے ترستا رہتا ہے۔۔۔۔ جب غصّہ ٹھنڈا ہوا تو تقریبا رات کے چار بجے وہ کمرے میں آئی۔۔۔۔ وہ جو سمجھ رہی تھی دونوں سو گئے ہونگے حیا کو جاگتا دیکھ نور کا پارا ہائی ہوگیا۔۔۔۔ وہ مزے سے ازلان کے سینے پے سر رکھے ٹوم اینڈ جیری دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور ازلان نائٹ سوٹ پہنے پاپ کارن کھا رہا تھا۔۔۔۔ وہ غصّے میں اندر آئی سب سے پہلے آگے بڑھ کے ٹی وی اوفف کیا۔۔۔۔


” جان ازلان تمہارا ہی انتظر تھا کتنا ترساتی ہو اپنی ایک جھلک کے لیے اب تمہاری بنا میں کیسے سو سکتا ہوں “


ازلان کی آنکھوں میں یہ چمک ہمیشہ نور کو دیکھ کے آتی وہ اسے نظر انداز کرتی حیا کی طرف بڑھی۔۔۔ غصّے سے اسے اٹھایا اسکے مچلنے کی پروا کیے بغیر نائٹ سوٹ پہنایا۔۔۔ اور لائٹ اوفف کر کے دوسری سائیڈ پے حیا کو لیکر لیٹ گئی۔۔۔


” چپ کر کے سو جاؤ ورنہ باہر گارڈن میں بھوتوں کے پاس چھوڑ آونگی۔۔۔۔“ جب حیا اسے چھوڑ ازلان کے پاس جانے لگی تو نور نے کہا۔۔۔۔ حیا مارے خوف کے ایک دم نور سے چپک گئی۔۔۔ نور آہستہ آہستہ اسکی پیٹ تھپکتی رہی۔۔۔ ازلان نے انکی طرف کروٹ لی اور انہیں دیکھتے دیکھتے اسکی آنکھ لگ گئی۔۔۔۔


ازلان نے جلدی سے سوئی ہوی حیا کو اٹھایا، الماری سے اسکا استری شدہ یونیفارم لیا اور نیچے فیضان کے پورشن میں آگیا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا حیا نور سے اٹھے گی نہیں اور غصّے میں نور نے اس پڑ ہاتھ اٹھانا ہے۔۔۔۔ اسلیے وہ اسے لیکر نیچے آگیا جہاں پہلی نظر اسکی عنایا اور شاہ زر کے لٹکتے چہروں پر پڑی۔۔۔۔ شاہ زر اور عنایا بےدلی سے ناشتہ کر رہے تھے وہیں فیضان نیوز پیپر پڑھتے چائی سے لطف ہو رہا تھا۔۔۔۔


” السلام واعلیکم“


” ارے واعلیکم اسلام میری گڑیا آئی ہے۔۔۔“


فیضان حیا کو دیکھتے ہی کِھل اٹھا اٹھ کے اسکے کندھے سے سوئی حیا کو لیا جس پر وہ تھوڑا سا کسمسائی اور فیضان کے کندھے پے سر رکھے وآپس آنکھیں موند گئی۔۔۔۔


” بھابھی کہاں ہیں۔۔۔؟؟ “ ازلان نے استری شدہ یونیفارم چیر پے رکھا۔۔۔۔


” تمہارے لیے چائی بنانے گئی ہے آج اسے اندازہ تھا تمہارا ناشتہ یہیں ہے “


” یار بچوں نے پھنسا دیا۔۔۔“ وہ بیچارگی سے بولا۔۔۔


” اور تم پھنس گئے۔۔۔۔؟؟ کل تمہیں پیرس گھمانے کا کہیں گے تم لے جاؤ گے۔۔۔۔؟؟ “ فیضان نے اسے گھورتے کہا جس نے بچوں کو بگاڑنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی۔۔۔۔


” اف کورس۔۔۔! لے جاؤں گا۔۔۔۔“ وہ بےنیازی سے کہتا شاہ زر کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔


” تم سے کون بحث کرے۔۔۔!!! ناشتا کرو۔۔۔ “ فیضان نے سامنے پڑے پراٹھوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔


” یار بھابھی کو بلاؤ میں الریڈی لیٹ ہو چکا ہوں۔۔۔“ ازلان نے ریسٹ واچ دیکھتے کہا۔۔۔۔


” بھابھی آگئی تم ناشتہ کرو تب تک میں اسے تیار کر دیتی ہوں۔۔۔۔ اور یہ پراٹھے کھانے کے لیے رکھے ہیں۔۔۔ آج فیضان کی فرمائش پے بنائے ہیں تم لو نا۔۔۔“ عائشہ ٹرے ہاتھ میں لیے کچن سے باہر آئی جس میں چائے کا کپ اور دو دودھ کے گلاس تھے جسے دکھتے ہی عنایا شاہ زر بُرے بُرے منہ بنانے لگے۔۔۔۔


” جی بھابھی۔۔۔“ ازلان نے کہتے ہی صرف چائے کا کپ لیا پراٹھا کھانے کا اسکا موڈ نہیں تھا عائشہ نے خود ہی اسکی لاپروائی دیکھ کر پلیٹ میں پراٹھا رکھ دیا اور حیا کو لیکر اندر چلی گئی۔۔۔۔


” لو یونیفارم تو یہیں بھول گئ “


فیضان یونیفارم لیکر اسکے پیچھے ہی چلا گیا۔۔۔۔


” چاچو ہمیں نہیں جانا آپ کچھ کرو نا۔۔۔“ شاہ زر نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔


” بیٹا ایک دن کی بات ہے کل سے چھٹیاں تو ہیں چلو اب جلدی ناشتہ کرو ورنہ لیٹ ہو جاینگے۔۔۔“


ازلان نے عنایا کک کچھ بولنے سے پہلے ہی بات ختم کردی۔۔۔۔


عائشہ جب تک حیا کو تیار کر کے لائی تب تک ازلان ناشتا کر چکا تھا۔۔۔۔ اور فیضان بھی آفس کے لیے نکل چکا تھا۔۔۔۔


حیا اسکول یونیفارم میں ملبوس ہاتھ میں سلائس جوس لیے جسے وہ سٹرو کی مدد سے پی رہی تھی۔۔۔ دونوں پونیوں کو جھولتے عائشہ کا ہاتھ تھامے آرہی تھی۔۔۔۔


” بابا اشتول نہیں دانا “


آتے ہی اسنے بُری سی شکل بنا کر کہا۔۔۔


” بابا کی جان بس آج جانا ہیں پھر چھٹیاں آجائیں گی “


ازلان نے اسے گودھ میں اٹھایا اور اسکا اسکول بیگ تھامے چابی اٹھاتے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔


” ازلان حیا نے کچھ کھایا نہیں!!! راستے میں کچھ کھلا دینا “


” جی بھابی!! چلو شاہ زر عنایا ناشتا کر لیا نا یہ لو کار کی چابی تم لوگ چل کے بیٹھو میں آرہا ہوں “


ازلان نے کار کی چابی شاہ زر کی طرف بڑھاتے کہا حیا جو اسکے کندھے سے لگی تھی مسلسل نا جانے کے رٹ لگائے ہوئے تھی۔۔۔۔ دونوں پونیوں کو جھولتے سر نفی میں حلائے جا رہی تھی۔۔۔۔


” آؤ چلو اٹھو عنایا۔۔۔!!! “ عائشہ نے عنایا کو خفگی سے کہا جو ہیڈ ڈائون ہوکر سونے کا ناٹک کر رہی تھی۔۔۔۔


” کیا مصیبت ہے ممی کوئی نہیں آتا آخری دنوں میں۔۔۔۔“ بڑبڑاتے ہوئے وہ عائشہ کے ساتھ پورچ میں کھڑی گاڑھی کی طرف آگئی۔۔۔۔


” نور۔۔۔ “


ابھی اسکے ہلک سے آواز نکلی بھی نا تھی کے وہ بچوں کو لیے سڑیاں اترتی نظر آئی۔۔۔۔ ایک ہاتھ سے نیند میں جھولتے عمر کا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ میں اسکا بیگ تھما تھا۔۔۔۔ فریش سے حمزہ اور ہنی اسکے پیچھے آرہے تھے۔۔۔۔


نور نے آتے ہی ایک سرد نگاہ دونوں باپ بیٹی پڑ ڈالی اور پورچ کی طرف بڑھی ازلان بھی اسکی ہمراہی میں پیچھے چلا آیا۔۔۔۔


” بھابی کل شوپنگ کرنے چلیں۔۔۔؟؟ مجھے کچھ سامان لینا ہے۔۔۔“


نور نے عمر اور حمزہ کو فرنٹ سیٹ پڑ بیٹھا کر کار کا دروازہ بند کر کے عائشہ سے کہا۔۔۔۔


” ہاں کل چلیں گے عید آرہی ہے بچوں کے لیے کپڑے بھی خریدنے ہیں اور باقی سامان بھی “


عائشہ نے ہامی بھری پھر کار نکلنے تک وہ وہی کھڑی رہیں ازلان نے جاتے سمے ایک نگاہ اس دشمن جاں پر ڈالی جو اس سے بےنیاز بھابی سے باتیں کر رہی تھی پھر انکے جاتے ہی دونوں اندر چلی آئیں۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


میر نے کھینچ کے ایک زور دار لات عمر کی پیٹ پر ماری لیکن عمر نے بنا اثر لیے کروٹ بدل لی۔۔۔


” حمزہ یار کیسے سوتے ہو اس کے ساتھ “


میر نے بےزار ہوکر حمزہ سے کہا جو لیمپ کی روشنی میں سٹڈی ٹیبل پڑ بیٹھا پڑھائی کر رہا تھا۔۔۔۔


” بس عادت ہے۔۔۔!!! کچھ ہی گھنٹے ہوتے ہیں صبح ہونے میں تب تک برداشت کرلیتا ہوں۔۔۔“ وہ چپس کھاتے ہوے بولا۔۔۔


میر کو خود پر غصّہ آرہا تھا جو اسنے یہاں آنے کا سوچا اپنی پیاری سے بیوی کو چھوڑ کر۔۔۔۔ وہ کہاں آکر پھس گیا نجانے ثانی اس وقت کیا کر رہی ہوگی۔۔۔۔ یقینا سو رہی ہوگی کہیں عنایا کو اچانک دیکھ کر ڈر نا جائے ایک نئی پریشانی اسے لاہک ہوگئی۔۔۔۔


” بھائی کیا ہوا کیا سوچ رہیں ہیں۔۔۔؟؟ “


حمزہ اپنی بکس رکھ کر بیڈ پڑ آگیا رات کے چار بج چکے تھے اسے صبح یونیورسٹی بھی جانا تھا عموماً وہ اسی وقت سوتا تھا۔۔۔۔


” ثانی کا سوچ رہا ہوں اُسے میرے بنا سونے کی عادت نہیں عنایا کو دیکھ کر ڈر نا جائے۔۔۔۔ “


وہ دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔


” دونوں سو چکی ہیں۔۔۔!!!! ڈونٹ وری۔۔۔۔“ حمزہ نے بیڈ پر اپنی جگہ تلاشتے کہا کے اسے سونا کہاں ہے۔۔۔؟؟


” تمہیں کیسے پتا۔۔۔۔؟؟ “ میر نے آنکھیں سیکڑتے ہوے پوچھا۔۔۔۔


” وہ کچن سے چپس لینے گیا تھا تو آپ کے روم کی لائٹ اوف تھی۔۔۔۔“


” تھنک گوڈ۔۔۔!!! “ میر نے گہرا سانس خارج کیا۔۔۔


” بھائی میں یہاں سو جاؤں۔۔۔؟؟ “ حمزہ اسکے پاس جگہ بنا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔


” ہوں۔۔۔!!! لیمپ اوفف کردینا۔۔۔۔“ حمزہ آکر اسکے ساتھ ہی لیٹ گیا وہ تینوں بمشکل ایک بیڈ پڑ سوئے تھے۔۔۔۔ حتہ کے جہازی سائز بیڈ تھا لیکن تینوں سوتے وقت ساری تمیز بھول بھال کے سوتے ہیں۔۔۔۔ آج تک ازلان بھی اپنے سونے کی عادت نا بدل سکا نور کے علاوہ چاروں کو پھیل کے سونے کی عادت ہے۔۔۔۔



☆.............☆.............☆


نور پچھلے دس منٹس سے دروازے کے پاس کھڑی حیا کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ اسکی نظریں گیٹ پر مرکوز تھیں اور ٹھیک اُسی وقت بلیک لینڈ کروزی اندر داخل ہوئی۔۔۔۔ ڈرائیور نے پچھلے سیٹ کا دروازہ کھولا حیا عجلت میں نیچے اُتَر کے نور کی طرف بھاگی اور اسکی کھلی بانہوں میں سماں گئی۔۔۔۔


” میں فاشت آئی “


( میں فرسٹ آئی )


وہ اپنی توتلی زبان میں خوشی کا اظہار کر رہی تھی کے وہ ڈرائیور سے پہلے پہنچ گئی۔۔۔۔ یہ اسکا روز کا کہا جملا تھا نور روز اسی طرح اسکا انتظار کرتی۔ ۔۔۔


” میری گڑیا “


نور نے اسے گود میں اٹھایا اور ڈرائیور سے بیگ لے کر اندر چلی آئی۔۔۔۔


اوپر آکر اس نے بیگ ملازمہ کو پکڑا دیا اور حیا کو نہلانے لے گئ۔۔۔۔ نہلا کر اسے سی گرین امبرائویڈد فروک پہنایا۔۔۔۔ حیا کی پوری وارڈروب تقریباً فروکس سے بھری پڑی تھی۔۔۔ جو اسنے ہنی کی پسند سے حیا کے لیے لیے تھے۔۔۔ بقول ہنی کے فروکس میں وہ کسی پرنسیسز سے کم نہیں لگتی۔۔۔۔


نور نے اس کے ننھے بالوں کی دو پونیاں بنائی اور اسے اپنے ساتھ کچن میں لے آئی۔۔۔۔ کاؤنٹر پے اسے بیٹھا کر اس کے لیے جلدی جلدی نوڈلز بنانے لگی۔۔۔۔ نور جانتی تھی جب ازلان کی کال آئے گی وہ كھانا چھوڑ اسے باتوں میں لگ جائی گی۔۔۔ پھر نوڈلس کو کھانا تو دور وہ ہاتھ بھی نہیں لگائے گی۔۔۔۔


” حیا اسکول میں کیا کھایا۔۔۔۔؟؟ “ وہ کاؤنٹر پڑ بیٹھی اپنے ٹیڈی سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔


” ہنی بھائی نے شاموشا تھیلایا “


( ہنی بھائی نے سموسہ کھلایا )


نور اسکی بات سنتے ساتھ آٹا بھی گوند رہی تھی۔۔۔ سالن وہ چولے پے چڑھا چکی تھی۔۔۔ حیا اسے آج کی رواں دواں اپنی توتلی زبان میں سنا رہی تھی۔۔۔۔ نوڈلس بنتے ہی نور نے ہاتھ دھو کر اسے بائول میں انڈھلا اور فورک لیکر اسے کھیلانے لگی۔۔۔۔


” حیا کی مما اچھی ہیں یا بابا۔۔۔؟؟ “


وہ اکثر کھاتے وقت اسے ایسے سوال کرتی تاکے اسکا دھیاں بٹھا رہے۔۔۔ اس طرح باتوں میں الجھا کر ہی وہ اسے بمشکل آدھا کھانا کھلا سکتی۔۔۔۔


” بابا “


جواب ہمیشہ کی طرح وہی تھا۔۔۔ وہ اب اپنے ٹیڈی کے کانوں کو کھینچ رہی تھی۔۔۔


” حیا کا فووریٹ کارٹون کونسا ہے؟؟ “


نور نے نوڈلس فورک میں رول کر کے اسکے منہ میں ڈالے۔۔۔


” توم اند دھیلی “


” حیا کی فرینڈ کون ہے؟؟ “


” توئی نہیں “ حیا نے منہ بگاڑا۔۔۔


” وہ کیوں؟؟ “


” مما انا نے لیدل نہیں دیا “


(مما انا نے ریزر نہیں دیا )


وہ معصومیت سے کہ رہی تھی۔۔۔ نور اسکی بات پرمسکرائی ابھی آدھے نوڈلس بھی نہیں ہوئے ہونگے کے فون بج اٹھا۔۔۔۔۔


” بابا تی تول “


( بابا کی کال )


نور کا نوڈیلس سے بھرتا ہاتھ حیا نے جھٹکا۔۔۔۔


” بابا تی تول “


نور نے اسکی نقل اتارتے ہوئے اسکے ناک سے اپنی ناک مس کی۔۔۔ اور گالوں پے پیار بھری چٹکی کاٹی تو وہ منہ بنا کہہ رہ گئی۔۔۔۔


” مما دھندی “


نور نے ہنستے ہوئے کال اٹینڈ کر کے فون اس کے کان سے لگایا۔۔۔۔ وہ خود بات نہیں کرتی تھی فوراً سے حیا کو پکڑا دیتی۔۔۔۔


کیوں کے ازلان کو جب سے اسکا نمبر ہاتھ لگا تھا اکثر وہ اسے میسیجز کرتا۔۔۔ یہاں آکر تو میسیجز کی تعداد کہیں گناہ بڑھ گئی۔۔۔ اکثر جب فرایڈے کے دن وہ بھابی کے ساتھ کچن میں کام کرتی تو وہ اسے ” مس یو سویٹ ہارٹ “ ” لوو یو جان “ کے میسیجز کرتا۔۔۔۔ اکثر جمعے کو تو وہ تنگ آجاتی کیوں کے جمعے والے دن اور سنڈے کو وہ اور بھابی ساتھ لنچ اور ڈنر پریپیر کرتیں۔۔۔۔ ایسے میں کچن میں کام کرتے کرتے اسے بار بار ازلان کے میسیجز وصول ہوتے۔۔۔۔ بھابی خود حیران رہ جاتیں پھر ایک دن انہوں نے خود دیکھ لیا۔۔۔ بھابی سے اسکی بےتکلفی تھی وہ ایک دوسرے کا فون آرام سے دیکھ لیتی اس دن بھابی ازلان کے میسیجز دیکھ ہنس پڑیں۔۔۔ پھر نور نے غصّے میں آکر ازلان کا نمبر ہی بلاک کر دیا۔۔۔


دوسری طرف ازلان کسی فائل کے لیے نور کو کال کر رہا تھا۔۔۔ لیکن کال جا ہی نہیں رہی تھی یا کوئی آگے سے کاٹ دیتا۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آیا خیر پھر اسنے بھابی کو کال کر کے فائل ڈرائیور کے ہاتھوں منگوا لی۔۔۔۔ اُسی دن رات کو ڈنر کرنے کے بعد ازلان فیضان واک کرنے چلے گئے۔۔۔ جب ازلان واپس آیا تو نور روم میں نہیں تھی لیکن فون اسکا ڈریسنگ ٹیبل پڑ پڑا تھا۔۔۔ ازلان کو چیک کرنے پر پتا لگا اسکا نمبر بلاک ہے یہ صدمہ اسکے لیے کم نہیں تھا۔۔۔۔


” تم نے میرا نمبر بلاک کر دیا۔۔۔۔“ نور کے آتے ہی ازلان نے کڑے تیوروں سے پوچھا۔۔۔۔ یعنی حد ہوگئی وہ اسکے پیر پکڑ لے تب بھی اسنے معاف نہیں کرنا۔۔۔۔


” ہاں تو “ کیا شان بےنیازی تھی وہ اور تپ گیا پھر یکایک ایک خیال اسکے دماغ میں گونجا۔۔۔۔


” تمہیں بلکل احساس نہیں بی بی جان کی طبیعت خراب تھی۔۔۔ وہ تم سے بات کرنا چاہتی تھیں اس لئے کال کر رہا تھا “ نور نے جھٹکے سے اسکے ہاتھ سے فون لینا چاہا۔۔۔ لیکن ازلان نے پہلے ہی پکڑ مضبوط کر لی تھی شاید وہ اسکے ارادے سے واقف تھا۔۔۔۔


” اب وہ ٹھیک ہیں اور اس وقت انہیں پریشان نا کرو کل کال کرنا “


ازلان نے نرم لہجے میں کہا وہ آج خود ہی بی بی جان کو کال کر کے سمجھا دےگا۔۔۔ اس نے دل میں ہی سوچا اور خود نمبر انبلوک کر کے فون نور کو تھمایا پھر کبھی نور نے اسکا نمبر بلاک نہیں کیا۔۔۔۔


” پہنچ گئی پرنسز “


” بابا مما دھندی ہیں میلی نتل اتال لہی عمل تی تلاح “


(بابا مما گندی ہیں میری نقل اتارہیں ہیں عمر کی طرح)


دوسری طرف ازلان کا زندگی سے بھرپور قہقہہ گونجا نور جو روٹیاں پکا رہی تھی اپنی ہنسی نا روک سکی۔۔۔


” اور مما ہیں کہاں؟؟ “


وہ خوشگوار موڈ میں بولا۔۔۔


” لوتیاں بنا رہیں “


(روٹیاں بنا رہیں )


” مما کو فون دو “


” نہیں “


حیا نے تیز آواز میں کہا۔۔۔ اسے کہاں گوارا تھا اسکے بابا اسکے ہوتے کسی اور سے بات کریں۔۔۔ نور نے آکر اسکا فون لیا اور حیا کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔ حیا نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔۔۔۔


” پرنسسز ضروری بات کرنی ہے “ نور نے فون لائوڈسپیکر پر رکھا۔۔۔۔ جس سے ازلان کی آواز اب وہ صاف سن سکتی ہے۔۔۔ حیا کے لیے یہ نیا تجربہ تھا وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگی۔۔۔۔


” مما بابا تی۔۔۔ “(مما بابا کی آواز ) نور نے اسکے گلابی ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔۔


” پرنسیز مما کو بولونا بات کرنی ہے۔۔۔۔؟؟ “ ازلان نے منت بھرے لہجے میں کہا نور نے حیا کی ہونٹوں سے انگلی ہٹا دی۔۔۔۔۔


” مما بابا بلا لائے “


” بابا سے کہو میں بزی ہوں “ نور نے توے پر روٹی ڈالتے کہا۔۔۔۔


” مما سے بولو بہت ضروری بات کرنی ہے “


حیا چُپ چاپ اپنی بڑی آنکھوں سے کبھی فون کو تو کبھی نور کو دیکھتی اسکا موڈ اوفف ہوچکا تھا۔۔۔ کوئی اس سے بات ہی نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔


” کیا ہے۔۔۔؟“ نور نے پھاڑ کھانے والے انداز میں پوچھا۔۔۔


” کیا کر رہی ہو۔۔۔؟ “ وہ یکایک اسکی آواز سن کر موڈ میں آگیا۔۔۔


” ڈانس کر رہی ہوں “


” کبھی میرے سامنے تو نہیں کی۔۔۔“ ازلان نے تصور میں اسکے سرخ پھولے گالوں کو سوچا تو اسکے ہونٹوں پڑ مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔۔۔


” شرم نہیں آتی آپ کو۔۔۔؟؟؟ صرف بیہودہ باتین کرنے آتی ہیں “ وہ سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ بولی شکر تھا حیا انکی باتوں کو سمجھ نہیں سکتی۔۔۔۔۔


” تم نے وہ محاورہ سنا نہیں۔۔۔؟؟؟ جس نے کی شرم اسکے پھوٹے کرم۔۔۔ ویسے بھی میاں بیوی میں کیا شرم۔۔۔۔؟؟ “


” بابا کٹی۔۔۔!!! مما مدھے نیتے اُتالو “


( بابا کاٹی!!! مما مجھے نیچے اتارو )


نور جواب دیتی اس سے پہلے حیا بول اٹھی اور اسکے سامنے دونوں ہاتھ پہلائے۔۔۔۔ جسکا مطلب تھا مجھے نیچے اتارو نور نے توے سے روٹی اٹھا کے ہارپاٹ میں رکھی اور حیا کو نیچے اتارا۔۔۔۔


” پرنسسز بابا آپ سے ہی بات کر رہیں ہیں۔۔۔“ ازلان اسکی ناراضگی محسوس کرتا کہہ اٹھا وہ جانتا تھا شام تک وہ یہ بات بھول چکی ہوگی۔۔۔


” نہیں مما شے کل لہے “


( نہیں مما سے کر رہے)


کہتے ہی وہ ناراضگی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی عائشہ کے پورشن کی طرف چلی گئی۔۔۔۔

” حیا سڑیاں دیہان سے اترنا “ یہ حیا کی ڈیلی روٹین تھی کے کھانے کے بعد وہ عائشہ کے یہاں چلی جاتی۔۔۔ حیا گھر بھر کی لاڈلی ہے ازلان اور ہنی کی تو جان ہی اسی میں بستی ہے۔۔۔۔ فیضان اور عائشہ کا بھی اسکے بغیر گزارا نہیں۔۔۔۔ رات کو اکثر واک کرنے فیضان حیا کو اپنے ساتھ لیجاتا۔۔۔۔ عائشہ کا حیا کے ساتھ ایک الگ ہی لگاؤ ہے۔۔۔۔ نور اسے یہاں سے تیار کر کے بھیجتی تھی لیکن وہاں عائشہ اسے عنایا کی ڈیزائنر ڈریسسز پہناتی۔۔۔۔ نئے نئے ہیر اسٹائلس بناتی نور کو یہ بعد میں پتا لگا عائشہ بھابی کا بیٹیوں سے ایک الگ ہی لگواؤ ہے۔۔۔۔ وہ عنایا کے بھی ڈیلی مختلف ہیراسٹائلس بناتی اس کے لیے ٹاپس، نیکلیس، بریسلیٹس ہر ڈریس پر میچنگ الگ خریدتیں اب عنایا کی بچپن کی یوز کی ہر چیز وہ حیا کو پہناتیں جو بلاشبہ اُس پر خوب ججتی۔۔۔۔

” حیا “

ازلان کی سپیکر سے آواز اُبری تو نور خیالوں سے واپس لوٹی۔۔۔۔

” وہ چلی گئی “

” تم تو ہو نا؟؟ “

” مجھے کام ہے “

” ارے۔۔۔۔ “ وہ کہتا رہ گیا نور نے کال کاٹ دی اب بچوں کے آنے میں آدھا گھنٹا اس لے وہ کچن کا کام جلدی جلدی سمیٹنے لگی۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” عنایا آپی۔۔۔؟؟ آپ یہاں واٹ آ پلیزنٹ سپرائیس آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں۔۔۔“ حیا کی آنکھ کھلی تو اسکی نظر بیڈ سے ٹیک لگاتی عنایا پر گئی۔۔۔ عنایا اسکی آواز سے چونکی پھر بے ساختہ مسکرا اٹھی۔۔۔ کل رات میر کا روم بند ہونے کی وجہ سے ثانی حیا کے روم میں چلی آئی۔۔۔۔

” ہاں رات میں آئی تھی۔۔۔ “

عنایا نے ایک نظر احمد کو دیکھتے کہا جس کی نیند بھی کچی تھی ہلکی سے آہٹ پڑ اٹھ جاتا۔۔۔۔

” عنایا آرام سے سوئیں۔۔؟؟ کوئی مسلہ تو نہیں ہوا۔۔۔۔؟“

نور اُسی وقت کمرے میں داخل ہوئی اور عنایا سے رات کی بابت پوچھنے لگی۔۔۔۔

” جی چچی نیند آگئی تھی “

اسکے چہرے پر اداسی چاہ گئی رات کا منظر پھر آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔ وہ بالکنی میں بیٹھی فجر تک روتی رہی اذان کے آواز سے بھی اسے نماز کا ہوش نا رہا یا شاید اسنے جان بوجھ کر ادا نا ک۔۔۔۔

” اچھا چلو نیچے آجاؤ آج ناشتا وہیں لگایا ہے۔۔۔“ یکدم عنایا کے چہرے پر سایہ سا لہرایا یہ بات تو وہ فراموش کر چکی تھی۔۔۔!!!! ابھی اسکی پیشی فیضان کے سامنے باقی ہے۔۔۔۔

” چلو حیا جاکر فریش ہوجاؤ ورنہ یونی کے لے لیٹ

ہوجاؤگی۔۔۔۔“ نور نے عنایا کی حالت دیکھتے ہوئے حیا کو یہاں سے بھیجنا ہی سہی سمجھا۔۔۔۔

” نہیں آج میں احمد کے ساتھ کھلونگی۔۔۔“ حیا نے سوئے ہوے احمد کی ناک ہلکی سے دبائی۔۔۔۔

” واپس آکر کھیل لینا میں نے حمزہ کو روک رکھا ہے اسی بھی یونی جانا ہے وہ تمہیں ڈراپ کرتا جائے گا “

حیا بےدلی سے اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی نور قدم اٹھاتی عنایا کے پاس آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔


” عنایا یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا جو انسان تمہیں تنہا کر گیا اُس کا سوچ کر خود کو ہلکان مت کرو۔۔۔ تمہارے سامنے ابھی پوری زندگی پڑی ہے۔۔۔۔ اللہ‎ نے تمہیں جینے کا سہارا دیا ہے حوصلہ رکھو اب ہر مشکل گھڑی تھم چکی ہے۔۔۔!!! “


” چچی میں نے کیوں اس پر اعتبار کیا۔۔۔؟؟ کیوں اسکے لے میں نے۔۔۔۔۔ “ اسکی آواز رندھ گئی۔۔۔۔


” عنایا پرانی باتوں کو چھوڑو اب آگے کا سوچو پہلے تو چلو تیار ہوکر نیچے آجاؤ میں انتظار کر رہی ہوں “ نور نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔۔۔


” نہیں چچی پلیز مجھ میں ہمت نہیں کے میں پاپا کا سامنا کر سکوں۔۔۔“ عنایا نور کے لیے حیا سے کم نہیں تھی۔۔۔ اسکا دل دکھ رہا تھا اسے اس حالت میں دیکھ کر ایک مضبوط سہارا وہ کھو چکی تھی۔۔۔۔ لیکن آگے ابھی پوری زندگی پڑی تھی۔۔۔!!! کیسے وہ ایک صاحبان کے بغیر رہ سکے گی۔۔۔؟؟؟


” عنایا میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔؟؟ آج نہیں تو کل سچ پتا لگنا ہے انہیں۔۔۔ تم احمد کو تیار کر کے آجاؤ “ نور نے شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پر پھیرا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” ہنی بھائی یہ تیا ہے۔۔۔؟؟ “ ہنی جو الماری سے اپنا شرٹ نکال رہا تھا۔۔۔ حیا کی بات سن کر پیچھے مڑا جس کے ہاتھ میں پینٹز تھے۔۔۔۔


” پرنسیسز یہ پینٹز ہیں۔۔۔ “ وہ اسکے ہاتھ میں پینٹز دیکھ کر ایک پل کو تو پریشان ہوگیا کے کہیں وہ دیواریں ناخراب کرے۔۔۔ لیکن وہ جانتا تھا اسکے اسرار کرنے پر بھی وہ اسے پینٹز واپس نہیں دیگی۔۔۔۔۔


” وہ تیا ہودے ہیں؟؟ “


” ہم۔۔۔ دیکھو جس طرح یہ والس کلرڈ ہیں اسی طرح پینٹز سے بھی ہم کسی چیز کو کلر کرتے ہیں۔۔۔ جیسے تم ایپل ڈرو کر کے کلر کرتی ہو اسی طرح اس پینٹ سے بھی ایپل کو کلر کرتے ہیں۔۔۔ “ وہ کہتا ہوا ٹاول لیکر حیا کے پاس آیا۔۔۔۔


” میں تلوں تلل۔۔۔؟؟ “ وہ دنیا بھر کی معصومیت چہرے پر سجائے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔


” یہیں بیٹھ کر کرو گھر گندا نہیں کرنا میں نہا کر آتا ہوں۔۔۔۔“ وہ اسکے گال پڑ بوسہ دیکر واشروم میں گھس گیا۔۔۔۔ حیا کچھ دیر بیٹھی ان پینٹز کو دیکھتی رہی پھر مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہو۔۔۔


نور نے ملازمہ کے ساتھ مل کر رات کا کھانا تیار کیا۔۔۔ آج وہ کافی تھک گئی تھی پرسوں عید ہے اور آج اسنے ملازمہ کے ساتھ مل کر پورے گھر کی صفائی کی تھی۔۔۔ گھر کے کونے کونے کو چمکایا تھا۔۔۔ وہ آرام کرنے کے گرز سے دو گھڑی کمر سیدھی کرنے کو لیٹی کے دیکھتے ہی دیکھتے نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔۔


حیا نے ننے ہاتھوں سے ہینڈل گھمایا نور بیڈ پر لیٹی میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔۔ حیا نے اپنا چھوٹا سا پرس کھولا جو وہ اکثر نور کے ساتھ شوپنگ کرنے لے جاتی۔۔۔۔ پرس میں سے برش اور پینٹ نکالا۔۔۔ نور کے قریب آکر وہ اسکے سر ہانے بیٹھ گئی۔۔۔ پنک پینٹ نکال کر حیا نے اسکے گالوں پر مل دیا۔۔۔۔ یلو پینٹ اسکے چہرے پر۔۔۔ گرین پینٹ اسکی آنکھوں پر۔۔۔ پھر اپنی چھوٹی سے لپسٹک نکالی جو اسے عائشہ نے دی تھی۔۔۔ اور اسکے ہونٹوں پر مل دی۔۔۔ جس طرح وہ دبے پاؤں آئی تھی اُسی طرح لوٹ گئی۔۔۔۔


نور کی اچانک آنکھ کھلی گھڑی نو کا الرام بجا رہی تھی۔۔۔ نور تیزی سے سلیپرس پہن کر اٹھی وہ لاؤنچ میں آئی تو دیکھا حمزہ اور عمر ہوم ورک کر رہے تھے ہنی نیوز دیکھ رہا تھا جب کے حیا ہمیشہ کی طرح غائب تھی۔۔۔۔


” آج یہ دونوں خود سے ہوم ورک کر رہے ہیں خیریت

ہنی۔۔۔؟؟ “ نور نے بالوں کا ہلکا جوڑا بنایا اسکی آواز سن کر تینوں اسے دیکھنے لگے تبھی حمزہ اور عمر ہنسے۔۔۔۔ جبکے ہنی نے امڈتے قہقہے کا گلا گھونٹا۔۔۔۔


” کیا ہوا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔۔۔؟؟ “ نور نے خفگی سے عمر اور حمزہ کو دیکھتے کہا۔۔۔۔


” السلام عليكم بیوٹیفل۔۔۔!!! “ ازلان خوشگوار موڈ میں حیا کو لیکر اوپر آیا جو اسکے آنے سے پہلے اسکا استقبال کرنے کے لیے ہمیشہ نیچے اسے رسیو کرنے آتی ہے۔۔۔۔


نور نے مڑ کر کھاجانے والی نظروں سے اسے دیکھا وہیں ازلان کا چھت پھاڑ قہقہہ بلند ہوا۔۔۔ اس دفع نور کو کچھ غلط ہونے کا امکان ہوا۔۔۔۔


” کہیں تھیم پارٹی ہے یا۔۔؟؟ تمہارا اسکریو ڈھیلا ہوگیا ہے؟؟ “


وہ ابھی بھی مسکرا رہا تھا۔۔۔ جب کے ہنی حیا کو دیکھ رہا تھا جو ہونٹوں پر ہاتھ رکھے ہنسی روک رہی تھی۔۔ اب نجانے کیا ہونے والا ہے۔۔۔؟؟


” مما یو آر لوکنگ لائک آ جوکر “ عمر کہتے ہی ہنس پڑا نور نے ٹیبل سے اپنا فون اٹھایا۔۔۔۔ اور فرنٹ کیمرہ اون کرتے ہی اسکے ہوش اڑھ گئے۔۔۔ جبکے ازلان نے اسکی شکل دیکھ کر ایک بار پھر قہقہہ لگایا۔۔۔۔ تبھی نور چیخی ” حیا “ حیا بھی ڈر کر چیخ مارتی ازلان کے بازوں میں پھڑپھڑانے لگی۔۔۔۔


ازلان نے اسے نیچے اتارا جب تک وہ سمجھتا حیا دوڑ کے ہنی کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔۔۔


” مما آئندہ نہیں کریگی۔۔۔۔ “ ہنی نے نور کو کہا جو خونخوار نظروں سے حیا کو گھور رہی تھی۔۔۔ حمزہ عمر انکی بھاگ دوڑ دیکر ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔


” ہنی تم ہٹو۔۔۔ “ حیا نے ہنی کے پیچھے سے ہٹ کر ٹیبل پر سے بوٹل اٹھائی اور نیچے کو دوڑ لگائی۔۔۔۔ نور جو اسکے پیچھے بھاگ رہی تھی حیا کے گرائے گئے پانی سے سلپ ہوکر وہیں بیٹھ گئی۔۔۔ حیا یہ ساری حرکتیں ٹوم اینڈ جیری دیکھ کے سیکھی تھی۔۔۔۔


” نور “ ازلان نے لپک کے اسے اٹھایا۔۔۔


” ازلان میرا پاؤں بہت درد ہو رہا ہے۔۔۔ “


وہ پاؤں پکڑ کے بیٹھ گئی درد کی شدت سے اسکی آواز رندھی ہوئی تھی۔۔۔ ازلان نے ہنی کو حیا کے پاس جانے کا اشارہ کیا جو نور کو گرتا دیکھ اسکی طرف آرہا تھا۔۔۔۔


” کچھ نہیں ہوا روکو۔۔۔۔ “


ازلان نے اسے بیڈ پر بٹھایا۔۔۔ ملازمہ سے پانی اور ٹاول کا کہہ کر اسکے پیر کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔


” نور ادھر میری طرف دیکھو۔۔۔“ نور نے بھیگی آنکھیں اُٹھائیں تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔


” ٹرسٹ می۔۔۔ نیچے نہیں دیکھنا ورنہ درد۔۔۔


” آ۔۔۔۔ “ نور کی چیخ بلند ہوئی وہ اسے باتوں میں الجھا کر اسکے پیر موڑ چکا تھا۔۔۔ ازلان نے اسکی پیر کی مخصوص رگ کو دبا کر اسے تھوڑا موڑا۔۔۔ نور کو محسوس ہوا جیسے موچ کبھی آئی ہی نہیں تھی۔۔۔۔


" ازلان دیکھیں یہ بلکل ٹھیک ہوگیا۔۔۔“ وہ بچوں کی طرح اٹھ کر اسے اپنا پیر دیکھا رہی تھی ازلان ہنس پڑا۔۔۔


ملازمہ کے نوک کرنے پر ازلان نے اٹھ کر ٹاول اور پانی اس سے لیا اور روم بند کرکے نور کو بیٹھا کر اسکا چہرہ صاف کیا۔۔۔


“ میں فیس واش کر لونگی۔۔۔۔“


” ش۔۔۔۔“ ازلان نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔


” ایک تو پاس آنے نہیں دیتی۔۔۔ اوپر سے یہ تیور۔۔۔ اف مار ڈالوگی ایک دن۔۔۔۔۔“ نور نے بیڈ شیٹ مٹھی میں جکڑی وہ اسکا ضبط آزما رہا تھا۔۔۔۔


” حیا کو کچھ مت کہنا میں سمجاؤں گا۔۔ پلیز ریکویسٹ سمجھ لو۔۔۔“ نور نے خفا نظر اس پڑ ڈالی جو اب جیب سے رومال نکال کر اسکا گیلا چہرہ پونچھ رہا تھا۔۔۔


پھر حیا پورا دن اوپر نہیں آئی دوسرے دن خود ہی نور اسے لے آئی۔۔۔ اور پورا دن اس سے خفا رہی حیا نے بھی بول بول کر اسے تنگ کردیا۔۔۔ آخر خود ہی نور نے اسکی فرمائش پر نوڈلس بنا کر اسکا منہ بند کرا دیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” حمزہ بھائی آپ کو پتا ہے پرنیا نے سیکنڈ پوزیشن لی ہے بورڈ ایکزیمس میں۔۔۔۔“ حیا نے امان کی بیٹی کا ذکر کیا جسکا سن کر حمزہ کے کان کھڑے ہوگئے۔۔۔

” سچ میں۔۔۔؟؟؟ واؤ۔۔۔ یار گریٹ۔۔۔“ اسے گمان نہیں تھا وہ اتنی لائق ہے۔۔۔۔

” اور پتا ہے مما نے مامی سے بُرائی بھی نہیں کی میری نالائقی کی۔۔۔ “ دونوں ساتھ ہی ہنس پڑے۔۔۔ اب نور کا رویہ کافی حد تک بہتر تھا۔۔۔ نا ہی اب وہ اپنی بیسٹ فرنڈ حبہ سے حیا کی برائی کرتی۔۔۔۔

” شاہ زر سے بات ہوتی ہے۔۔۔؟؟ “ حمزہ اسکی یونی کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔

” جی۔۔۔“ شاہ زر کا ذکر ہمیشہ اسے شرمندہ کرتا۔۔۔ بھلا یہ پوچھنا ضروری تھا۔۔۔؟؟

” اچھی بات ہے۔۔۔ اس میں ڈرنا کیا تم اسکے نکاح میں ہو “

حمزہ نے گیٹ کے آگے کار روک کر مسکراتے ہوے اسے کہا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ بیڈ پے لیٹنے کے انداز میں بیٹھا تھا ٹانگوں پے لیپ ٹاپ رکھے وہ مسلسل کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔۔۔

” ازلان؟؟؟ “

” جی جان “ وہ مصروف سے انداز میں بولا اسے غصّہ تو بہت آیا ” جان “ پے مگر ضبط کر گی۔۔۔

” وہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے “

” اچھا۔۔۔! تو یہاں آکر کرو وہاں سے سمجھ نہیں آئے گا “

ازلان نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا تو وہ غصیلی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ازلان بے سکتہ مسکرایا۔۔۔

” سمجھنا چاہینگے تو سمجھ آئے گا نا۔۔۔ خیر وہ مجھے بچوں کے لیے عید کی شاپنگ کرنی ہے “

” تو چلو ابھی چلتے ہیں مال تو کُھلے ہونگے ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی “ ازلان نے لیپ ٹاپ سائیڈ پے رکھا اور ایک نظر گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

کو 

” اچھا “ ازلان مایوس ہوا

” تو پھر پیسے چاہئیے۔۔۔؟؟ “

” نہیں کریڈٹ کارڈ ہے۔۔۔ بس جانے کی پرمیشن چاہیے اور کار بھی ایکچولی وہ ڈرائیور ہنی اور عنایہ کو کوچنگ سینٹر ڈراپ کرنے جاتا ہے۔۔۔ اور تقریباً نو بجے جاکر وہ لوٹتے ہیں پھر تو ہم جا ہی نہیں پائیں گے “

ازلان نے نور کو کریڈٹ کارڈز دے رکھا تھا تاکہ جب دل چاہے شاپنگ کرے۔۔۔ وہ ہر ماہ اسکے اکائونٹ میں ایک لاکھ جمع کرواتا ہے۔۔۔ لیکن نور ہے کے خرچ کرنا تو دور کی بات ہاتھ بھی نہیں لگاتی۔۔۔ ازلان کے بہت بار کہنے پے بلاآخر خرچ کرنا شروع کیا۔۔۔ لیکن اپنے لیے لینے کی زحمت نہیں کی۔۔۔ وہ ان پیسوں سے صرف بچوں کے لیے شاپنگ کرتی اگر اسے کچھ چاہیے بھی ہوتا تو وہی کریڈٹ کارڈ یوز کرتی جو شادی سے پہلے اسکے پاس تھا۔۔۔ ابو آج بھی ہر ماہ اس میں نور کے لیے رقم دلواتے۔۔۔۔

” ٹھیک ہے ڈرائیور کو بھیج دونگا اور سنو گارڈز کو ساتھ لیکر جانا۔۔۔ انکے بغیر گھر سے نکلنا بھی نہیں۔۔۔“ ازلان کے دل میں آج بھی اپنوں کے لیے ایک خوف تھا عمر کو تو وہ کھو چکا تھا اب کسی اور کو کھونے کی ہمّت نہیں تھی اس میں۔۔۔ اور نور کے بغیر زندگی کا تو تصور ہی ازلان کی جان نکال دیتا ہے۔۔۔۔

ازلان واپس لیپ ٹاپ اٹھانے لگا پھر کچھ سوچ کر نور کے پاس آیا۔۔۔ اور اسکا ہاتھ پکڑ کے اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔۔۔

” مجھ پے رحم کرو نور “ وہ بےبسی سے بولا۔۔۔۔

” ازلان میں سمجھی نہیں۔۔۔۔ وہ واقعی نہیں سمجھی تھی۔۔۔۔

” تم کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو تمہیں ایسے دیکھ کے میں اندر سے مر رہا ہوں۔۔۔۔ تم نے جیسے ہر خوشی خود پر حرام کر رکھی ہے۔۔۔۔ کوئی بھی خوشی کا موقع ہو چاہے عید ہو یا کسی کی شادی تم نے وہی سالوں پرانے کپڑے پہنے کی قسم کھاۓ رکھی ہے۔۔۔۔؟؟ خود تو اپنے لیے کچھ لیتی نہیں میں لاؤں تو نوکروں کو اٹھا کے دے دیتی ہو۔۔۔ خود پے توجہ نہیں دیتی کل سے یہی ڈریس تم نے پہنا ہوا ہے۔۔۔ تم جانتی ہو میری ساری توجہ کا مرکز صرف تم ہو۔۔۔ اسلیے جانتے بوجھتے مجھے اذیت دیتی ہو۔۔۔!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی اور طریقہ اختیار کرو نور مجھے تنگ کرو سزا دو بُرا سلوک کرو لیکن خود کو تکلیف مت دو پلیز نور۔۔۔۔ مجھے تمہاری اس چُپی سے وہشت ہوتی ہے۔۔۔ کیا سوچتی ہو دن بھر کیا چلتا ہے تمہارے دماغ میں۔۔۔؟؟ بتاؤ مجھے یا ہنی سے شیر کر لیا کرو کہہ دو جو دل میں ہے۔۔۔!!! “ وہ اسکے قریب چلا آیا بےحد قریب۔۔۔۔


“ You have my whole heart for my whole life Janna I love you ❤ ”


کہتے ہی ازلان نے اپنے ہونٹ اسکے گال پر رکھ دئے وہ بدک کر اس سے دور ہٹی۔۔۔۔


” مرد جب عورت پر پہلی بار ہاتھ اٹھاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اسکی نظروں سے گر جاتا ہے۔۔۔ چاہے وہ کچھ بھی کر لے وہ مقام وہ دوبارا حاصل نہیں کر سکتا “


وہ اسے سرد نگاہوں سے گھورتی بہت کچھ یاد دلا گئی۔۔۔۔


” کیا انسان غلطی کر کے سدھرتا نہیں گناہ کر کے اُس سے(اللہ‎ سے) معافی کی امید نہیں رکھتا۔۔۔؟؟ جب تم اس سے معافی کی امید رکھتی ہو۔۔۔ تو دوسروں کو معاف کرنے کا ظرف کیوں نہیں رکھتی۔۔۔؟؟ تم نے اپنا رہن سہن اپنی عادتیں سب بدل دیں ہر وہ پہنا اوڑھنا چھوڑ دیا جو اُسے پسند نہیں۔۔۔ دن رات اس کی بارگاہ میں حاضری دیتی ہو اپنے گزرے فہل کی معافی مانگتی ہو۔۔۔!!!! کیا تم سے گناہ نہیں ہوے۔۔۔ غلطیاں نہیں ہوئیں۔۔۔ کیا تم نہیں بدلی۔۔۔۔؟؟ نور میں بھی تو گناہ پر تھا۔۔۔ عمر کی موت کے وقت پہلے مرتبہ احساس ہوا کے مجھے بھی اسے مٹی میں دفن ہونا ہے۔۔۔ اس دن صرف خدا کے خوف سے میں نے پہلی بار زندگی میں نماز ادا کی۔۔۔۔ اور جانتی ہو رفتہ رفتہ یہ خوف میری عادت بن گیا پھر میرا سکون۔۔۔۔!!!! “ ازلان کی آنکھیں جھلک اٹھیں۔۔۔


” جس دن نماز نا پڑھوں پورا دن بےچین رہتا ہوں۔۔۔ جب پانچ منٹ بھی نماز کے لیے لیٹ ہوجاؤں مجھے لگتا ہے میرا رب مجھ سے ناراض ہوگیا۔۔۔ جانتی ہو نور ان گزرے پانچ سالوں میں نے ایک نماز تک مس نہیں کی۔۔۔ نا ہی وقت کی تاخیر ہوئی۔۔۔ میں جانتا ہو وہ مجھے معاف کر چکا ہے۔۔۔ لیکن تمہارے معاملہ میں نہیں کیوں کے آج بھی راتوں کو میں بے چین رہتا ہوں۔۔۔ نیند اب بھی مجھ پڑ مہربان نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ بہت کوشش کی میں نے تمہیں تمہاری رضا سے پانے کی بہت۔۔۔۔۔۔ لیکن ناکام رہا تمہیں حاصل تو کر چکا ہوں لیکن تمہارا دل میرا نہیں “


ازلان نے قریب آکر اسکے دوپٹے سے اپنا چہرہ صاف کیا۔۔۔۔ وہ نہیں جانتا اس وقت نور کے دل کی حالت کیا ہے وہ بس ازلان کو یک ٹک دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔ اس لمحے نا اسکا دل کام کر رہا نا دماغ۔۔۔ ازلان کی باتوں سے جہاں سچائی جھلک رہی تھیں وہیں نور کے اندر خوف جنم لے رہا تھا۔۔۔؟؟ اسے اب بھی ازلان پر اعتبار نہیں تھا۔۔۔ اگر وہ بدل گیا تو۔۔۔؟؟ اگر وہ اسے معاف بھی کر دے پھر کیا۔۔۔؟؟ محبت تو آج بھی وہ اس سے نہیں کرتا۔۔۔؟؟


ازلان نے اسے یک ٹک اپنی طرف دیکھتا پا کر دل کی حالت پر مجبور ہوتے ہوئے اسکی پیشانی چومی دوسری طرف سے کوئی مذمت نا پاکر اسے بے انتہا حیرت ہوئی۔۔۔۔ پھر نہایت نرمی سے وہ اسکی گردن پر جھکا تھا اور دیوانہ وار اپنے محبت و جنونیت کی ایک نئی تحریر قائم کرتا چلا گیا۔۔۔۔ کہیں سماعتیں گزر گئیں دوسری طرف سے کوئی مذامت نہیں تھی۔۔۔ ازلان نے وارفتگی لٹاتی نظروں سے اسکے سہمے وجود کو دیکھا جو بُری طرح کانپ رہی تھی۔۔۔ آنکھیں بند کیے تیز سانسیں لے رہی تھی۔۔۔ پھر آہستہ سے اسکی کمر کے گرد حصار باندھتے ہوئے چند انچ کا فاصلہ بھی مٹا دیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


صبح ازلان کے اٹھنے سے پہلے وہ اٹھ گئی فریش ہوکر اس نے نماز ادا کی۔۔۔۔


” یا اللہ‎ میں نہیں جانتی کب میرا دل اپنے شوہر کے لیے صاف ہوگا۔۔۔ میں ہر ممکن کوشش کرتی ہوں کے گزرے وقت کا ایک پل بھی مجھے یاد نا آئے لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں۔۔۔!!!! یا اللہ‎ میرا دل میرے شوہر کے لے صاف کردے۔۔۔ وہی محبت جگا دے۔۔۔ جو ہر محبت کرنی والی بیوی اپنے شوہر سے کرتی ہے۔۔۔!!! میں اپنا ہر فرض بخوبی نیبھائونگی۔۔۔ اسکی ہر بات مانوں گی۔۔۔ ہر کام سر انجام دونگی۔۔۔ لیکن اس سے وہ محبت نہیں کر سکتی۔۔۔ جو اب دم توڑ چکی ہے۔۔۔ اس دل کے خانے کو بند کیے ایک ارصہ ہوگیا۔۔۔ اب چاہ کر بھی میں وہ نور نہیں بن سکتی۔۔۔ جو زندگی کا پل پل ہنسی مذاق میں گزار دیتی۔۔۔ جسکی زندگی ازلان شاہ سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی۔۔۔“ وہ جاں نماز پر بیٹھی دل میں اللہ‎ سے ہمکلام تھی۔۔۔ رات ازلان کی باتوں نے اسکا پتھر دل پگلا دیا تھا۔۔۔ لیکن دل کا وہ دروازہ کھول نا سکا جسکی چابی سے وہ خود اب ناآشنا ہے۔۔۔!!! لیکن وہ کبھی یہ بات ازلان پر واضع نہیں کریگی کیوں کے خوف اب بھی ہے وہ اُسکی محبت کا یقین اب بھی نہیں کرتی۔۔۔۔


ازلان جب اٹھا وہ اسے کہیں نا دیکھی وہ فریش ہوکر نیچے آیا تو نور حیا کو ناشتا کروا رہی تھی۔۔۔ رات حیا ہنی کے ساتھ ہی سو گئی تھی ازلان کو بھی اسے روم میں لانا یاد ہی نا رہا۔۔۔۔

” بابا آدھے۔۔۔“ حیا جوش وا خروش سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

” صبح بخیر زندگی۔۔۔“ ازلان نے حیا کے گالوں پر پیار کرتے کہا۔۔۔ مخاطب وہ نور سے تھا۔۔۔

” آپ کے لے ناشتا لاؤں۔۔۔؟؟ “ نا لہجے میں کوئی طنز تھا نا آواز غصّے بھری تھی وہ نہایت نرم لہجے میں اس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔

” ہاں لے آؤ۔۔۔!!! تم نے کر لیا۔۔۔؟؟ “ وہ اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھ کے بولا جو پہلے سے کہیں زیدہ حسین ہو چکا تھا۔۔۔ یہ ازلان کی محبت ہی تھی جس نے اسے نکھار دیا ہے۔۔۔

” جی “ نور کے جانے کے بعد وہ حیا کو ناشتا کرانے لگا۔۔۔ حیا نے اسکے کوٹ سے موبائل نکالا اور ناشتہ کرتے گیم کھیلنے لگی۔۔۔

☆.............☆.............☆


” اس وقت کونسی نماز ہے۔۔۔؟؟ “

میر کمرے میں داخل ہوتا باآواز بلند بولا۔۔۔ ثانی نے دعا مانگتے ہاتھ جلدی منہ پر پھیرے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

” آپ کہاں چلے گئے تھے میر۔۔۔؟؟ اور آپ کو پتا ہے عنایا بھی آئی ہوئی ہے۔۔۔“ ثانی نے جاں نماز مخصوص جگہ پڑ رکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔ میر اس وقت عنایا کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ آج ویسے بھی یہ ٹوپک تفصیل سے ڈسکس ہونا ہے۔۔۔ اس وقت وہ رات بھر کا جگا ثانی کے پاس آیا تھا اسے اپنا حالِ دل سنانے۔۔۔۔

” تم یہ بتاؤ اس وقت کونسی نماز ادا کر رہیں تھیں۔۔۔“

میر ثانی کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ تک لے آیا خود لیٹ کر اسے اپنے پاس بٹھایا۔۔۔

” آپ ہی تو نماز کے لیے اٹھاتے ہیں آج آپ تھے نہیں تو میری آنکھ نہیں کھلی۔۔۔ “ وہ شرمندہ سے بولی۔۔۔۔

” یعنی آگ دونوں جگا برابر لگی ہے۔۔۔“ میر نے کھل کر مسکراتے ہوے اسکا مومی ہاتھ تھاما۔۔۔ ثانی ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی میر نے سمجھ کر اسے خود سے اور قریب کرلیا۔۔۔۔

” ان پانچ سالوں میں کل پہلی مرتبہ میں تمہارے بغیر سویا ہوں۔۔۔!!! پوری رات میری تمہارے بارے میں سوچتے گزر گئی کے کیا کر رہی ہوگی۔۔۔؟؟ یقیناً سو رہی ہوگی خیر میری ناموجودگی محسوس کی ہوگی۔۔۔؟؟ عنایا کو اچانک دیکھ کر ڈر تو نہیں گئیں ہوگی۔۔۔؟؟ ثانی میں نہیں جانتا کب تم میری عادت بنی پھر ضرورت۔۔۔ اور پھر میری چاہت۔۔۔ میری محبت۔۔۔ میری زندگی بن گئیں۔۔۔ اب تمہارے بغیر سانس لینا بھی دشوار لگتا ہے۔۔۔“ میر نے محبت سے چور لہجے میں کہا ثانی کے گال تپ اٹھے اپنی خفت مٹھانے کو بولی۔۔۔۔

” لیکن کل میرے بغیر سانس تو لے رہے تھے۔۔۔“

” اچھا تو اب تم بولنے بھی لگیں۔۔۔“ میر نے اسکی ناک دباتے ہوے کہا مسکراہٹ مسلسل اسکے ہونٹوں کا احاطیہ کیے ہوے تھی۔۔۔۔

” آپ کی محبت کا اثر ہے۔۔۔!!! “

جھکی پلکوں سمیت وہ گویا ہوئی میر کی نظریں اسے پزل کر رہیں تھیں۔۔۔

” اچھا ایک بات بتاؤ تم شروع دنوں میں مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں تھیں۔۔۔؟؟ “ میر نے اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر بات بدل لی۔۔۔

” میں۔۔۔ تو نہیں۔۔۔ ڈرتی تھی۔۔۔ “

اسکی زبان ساتھ دینے سے انکاری تھی۔۔۔


” اچھا پھر مما سے کیوں کہا تھا مجھ ان سے ڈر لگتا ہے۔۔۔؟؟ “


میر نے ایک آئی ابرو اچکا کر کہا جبکہ ثانی کی پوری آنکھیں کھل گئیں۔۔۔۔


” آپ کو کیسے پتا۔۔۔؟؟ “ بولنے کے بعد بیوقوفی کا اندازہ ہوا۔۔۔۔


” یعنی کہا تھا۔۔۔!!! بتاؤ یار میں جانا چاہتا ہوں“

ثانی نے ایک نظر میر کو دیکھا پھر مسکراہٹ دباتے گویا ہوئی۔۔۔ اسے خود اپنی سوچ پر ہنسی آتی ہے کیا سمجھتی تھی وہ میر کو۔۔۔۔؟؟؟ اور ہوا کیا وہ بےحد مختلف انسان تھا۔۔۔ کبھی اسے یاد نہیں پڑھتا میر نے اسے کسی بات پڑ ڈانٹا ہو صبر اس میں کوٹ کوٹ کے بھرا تھا۔۔۔۔


” میر جب میں یہاں آئی تھی اس وقت آپ سیریس رہتے تھے۔۔۔ مجھے آپ سے خوف آتا تھا۔۔۔ یہاں تک کے جب مما آپ کو چائے دینے کا کہتیں میرے ہاتھ پیر پھول جاتے۔۔۔ میں نے کبھی آپ کو ہنستے، مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا ایک ماہ ہوا تھا مجھے آئے ہوئے آپ ویسے ہی تھے۔۔۔!!! پھر ایک دن میں نے آپ کو حیا کے ساتھ ہنستے دیکھا تب تھوڑی تسلی ہوئی کے آپ بھی ہماری طرح انسان ہیں۔۔۔“ میر نے اسے گھورا تو وہ مسکرادی۔۔۔


” آگے آپ جانتے ہیں مما آپکا ہر کام مجھ سے کرواتیں۔۔۔ آپ جب روم میں آتے تو مجھے باہر آنے سے منع کرتیں۔۔۔ اور اسی طرح ہماری بات چیت شروع ہوئی۔۔۔!!! آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔۔؟؟؟ “ بولتے بولتے ایک دم اسنے میر کو مخاطب کیا جو ثانی کو گہری نظروں سے تک رہا تھا۔۔۔۔


” ہاں پوچھوں تمہیں کبھی منع کیا ہے۔۔۔؟؟ “ وہ ہاتھ کا تکیہ بنا کر سر رکھے لیٹا تھا نظریں ثانی پر مرکوز تھیں۔۔۔۔


” آپ کی زندگی میں سب سے اہم کون ہے۔۔۔؟؟ “ وہ بیڈ شیٹ پر ہاتھ پھیرے نظریں جھکائے پوچھ رہی تھی۔۔۔ میر کو شرارت سوجی سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔


” ہانی “


” ہانی کون۔۔۔؟؟ “ وہ یکدم چونک کر میر کو دیکھنے لگی۔۔۔۔


” تم ہانی کو نہیں جانتی حیرت ہے ہانیہ میری بیٹی جس کے آنے میں ابھی آٹھ ماہ باقی ہیں کیسے گزریں گے یہ دن۔۔۔۔“


حیرت سے ثانی کو دیکھتے آخر میں وہ اداس ہوا۔۔۔


” ہانیہ نام بھی سوچ لیا کیا فائدہ۔۔۔ ہوگا تو بیٹا اور میری ٹیم میں ہوگا۔۔۔؟؟ “ ثانی نے پہلے ہی اسے وارن کردیا میر کو اسکا یہ بدلہ انداز دل سے بھایا تھا۔۔۔


” میرا نام حنان ہے تو بیٹی کا نام میرے نام سے ہوگا نا۔۔۔!!!! ہانیہ۔۔۔ تم دیکھتی رہو خواب ہونی تو بیٹی ہے۔۔۔“ دفتاً اسی وقت دروازہ کھٹکا۔۔۔۔


” کیا یار چین ہی نہیں ہے ابھی تو ملا ہوں بیوی سے۔۔۔۔“ اسکا خوش گوار موڈ غارت ہوگیا ثانی دروازہ کھولنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی وہ دروازہ لاک نہیں کرتی تھی۔۔۔!!! میر نے کچھ ٹائم اسکے ساتھ گزارنے کے لے لاک کیا ہوگا۔۔۔۔


دروازہ کھولنے پر میر نے دیکھا سامنے حمزہ اپنی شرٹ لیے کھڑا تھا۔۔۔


” بھابھی یہ بٹن لگا دیں الریڈی لیٹ ہو چکا ہوں “


حمزہ نے شرٹ ثانی کی طرف بڑھئی جس نے فوراً تھام لی۔۔۔


” اوکے۔۔۔!!! تم تیار ہوجاؤ میں ملازمہ کے ہاتھ بھجوا دونگی۔۔۔“ ثانی نے اسے دیکھتے کہا۔۔۔۔


” تھنک یو بھابھی “


وہ مسکراتا ہوا چلا گیا ثانی اندر آکر سوئی دھاگہ ڈرو سے نکالنے لگی۔۔۔۔


” ثانی یار کوئی سوٹ نکال دو میں فریش ہوکر آیا “


میر کہتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور واشروم میں گھسس گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” نور آؤ کچھ دیر یہیں بیٹھ جاؤ تھک گئی ہوگی “


” نہیں بھابھی بہت دیر ہوگئی ہے پتا نہیں بچوں نے کچھ کھایا بھی ہوگا یا نہیں اور ازلان بھی بس آتے ہی ہونگے “


” چلو ٹھیک اور نور سالن دوپہر کا رکھا ہوا ہے اگر ہنی نخرے کرے تو منگوالینا “


عائشہ شاپنگ بیگز تھامے اندر چلی گئی جبکے نور اوپر اپنے پورشن میں آگئی۔۔۔ آتے ساتھ ہی اسے اندازہ ہوگیا عمر اور حیا آپس میں لڑ رہے ہیں۔۔۔ دونوں کی چیخیں نیچے تک سنائی دے رہی تھیں۔۔۔۔ اوپر آتے ہی اسکی نظر عمر پے پڑی جو حیا کی پونی کھنچ رہا تھا۔۔۔ نور نے بیگز صوفے پے پھنکے اور انکی طرف بڑھی عمر نے ماں کو دیکھتے ہی حیا کو چھوڑ دیا۔۔۔


” مما اسنے میرے نوڈلس نیچے پھنک دئے تیسری دفع “


عمر نے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا جہاں نوڈلس گرے ہوے تھے زمین پے بھی نوڈلس گرے ہوے تھے۔۔۔ نور نے غصیلی نظر حیا پے ڈالی تو وہ دونوں ہاتھ کمر پے رکھ کے اسکی طرف دیکھتے ہوے بولی۔۔۔


” مما میلا کارٹون آ لہا تھا اشنے لیموٹ نہیں دیا “


( مما میرا کارٹون آرہا تھا اس نے ریموٹ نہیں دیا )


وہ جس انداز سے بول رہ تھی نور کا بس نا چلتا اسے تھپڑ لگا دے۔۔۔ ازلان نے اسکو سر پے چڑھا رکھا تھا جتنا وہ اسے ٹوکتی ازلان وہی کام کرنے کا اسے حوصلہ دیتا۔۔۔ نور نے اسے چھوڑ ملازمہ کو آواز دی۔۔


” ہاجرہ۔۔۔ ہاجرہ۔۔۔ “


” جی۔۔۔ بی بی جی “ وہ بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی۔۔۔


” یہ سب کیا ہے۔۔۔؟؟ یہاں صفائی کیوں نہیں کی۔۔۔؟؟ اور دونوں آپس میں لڑ رہے ہیں۔۔۔؟؟ کتنی دفع تمہیں کہا ہے جب ان میں لڑائی ہو حیا کو ہنی کے پاس چھوڑ آیا کرو۔۔۔ پر سنتی کہاں ہو میری اب کپڑا لاکر دو مجھے۔۔۔“ نور چاہ کر بھی لہجہ نرم نا رکھ سکی ایک تو اتنی تھکی ہوئی تھی اوپر سے آتے ہی انکی لڑائی ایک منٹ اس نے سکون کا سانس نہیں لیا۔۔۔۔


” اول میلے لیے فیرائد بناؤ “


( اور میرے لے فرائز بناؤ )


حیا کے حکم نے نور کے تن بدن میں آگ لگادی وہ حکم ایسے چلا رہی تھی جیسے سچ میں کوئی پرنسیسز ہو۔۔۔


” تھپڑ نا لگاؤں میں تمہیں دادی اماں “


ہاجرہ اب نور کی طرف دیکھنے لگی اسے سمجھ نہیں آیا کیا کرے۔۔۔!!


” میرے خیال سے تم سنے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوئی اب جاؤ۔۔۔“ نور نے تحمل سے کہا۔۔۔


” جی بی بی جی “ حیا نے منہ بسور کر دونوں کو دیکھا پر ازلان سے شکایات کا ارادہ کرتے ہوے دھپ سے چلانگ لگا کر سوفہ پر چڑھ گئی۔۔ اچانک حیا کی نظر شوپرس پر پڑی تو وہ انہیں کھولنے لگی اور اندر بال دیکھ کے اسنے وہ فوراً اٹھا لی۔۔۔۔


” یہ میری بال ہے میں نے مما سے کہا تھا “


عمر اسکے ہاتھ میں بال دیکھ کے تیزی سے اس سے چھینے لگا۔۔۔ دونوں طرف سے بھرپور مذامت کے بعد کوئی راستہ نا دیکھ حیا نے اسے پورے قوت سے دھکا دیا وہ اوندھے منہ زمین پے گرا۔۔۔ یہاں آکر نور کی برداشت جواب دےگئی۔۔۔۔ اسنے آؤ دیکھا نا تاؤ رکھ کے ایک زور داڑ تھپڑ اسکے گالوں پے مارا۔۔۔ اسی وقت ازلان لاؤنچ میں داخل ہوا۔۔۔ حیا نے گلا پھاڑ کے رونا شروع کیا عمر اور حمزہ ماں کی تیور دیکھ کے فوراً کھسک گئے۔۔۔۔ ازلان نے ایک کہر برساتی نظر سے اسے نوازا اور اپنی بلکتی بیٹی کو کندھے سے لگائے روم میں چلا گیا۔۔۔ نور کو اسکی نظروں سے کوئی فرق نا پڑا ملازمہ کے آتے ہی نور نے اس سے کپڑا لیا۔۔۔ پہلے لاؤنچ کی صفائی کی پھر کچن میں آکر کھانا گرم کرنے لگی۔۔۔ اسنے ملازمہ کے لیے بھی کھانا پیک کر کے اسے دیا آج وہ نور کے کہنے پے کافی دیر یہاں ٹہری تھی اور اسے کچھ پیسے دیے تاکے وہ بھی اپنے بچوں کو نئے کپڑے دلاسکے۔۔۔۔ ملازمہ کے جانے کے بعد وہ عمر حمزہ کے پاس چلی آئی انہیں کھانا کھلا کر سلایا اور عائشہ کو کال کی۔۔۔۔


” بھابھی آج ہنی وہیں سوئے گا کیا۔۔۔؟؟ ابھی تک آیا نہیں “


” ارے میں آئی تو شاہ زر اور میر دونوں ہی سوئے ہوئے تھے۔۔۔ کوچنگ سے اکر تھک جاتے ہیں ابھی آدھے گھنٹے پہلے اٹھیں اب ڈنر کر کے پڑھ رہے ہیں، میر عنایا تو جاگتے رہیں گے فیضان نے آج دونوں کو کیمسٹری پڑھانی ہے “


” ٹھیک ہے بھابھی۔۔۔!!! “


وہ شاپنگ بیگز لیکر روم میں آگئی جہاں حیا ازلان کے سینے پے سر رکھے اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ ازلان دھیرے دھیرے اسکی پیٹ تھپک رہا تھا۔۔۔ اسنے بیگز سائیڈ پے رکھے اور ازلان کی طرف آگئی۔۔۔


” حیا سو گئی کیا۔۔۔؟؟ آپ نے اسے اتنی جلدی کیوں سلایا۔۔۔؟؟ اب یہ پوری رات مجھے سونے نہیں دیگی۔۔۔“


اس نے حیا کو سوتے دیکھ ایک خفا نظر ازلان پے ڈالی اور جھک کے حیا کو ہلایا۔۔۔

” حیا “

نور نے ہلکے سے اسکا کندھا ہلایا تو وہ توڑا سا کسمسائی نور نے جھک کے اسے اٹھایا تو حیا نے ایک پل کو آنکھیں کھولیں اپنے ماں کو دیکھ اسکے کندھے پے سر رکھے وآپس سوگئ۔۔۔۔

” کیوں اٹھا رہی ہو ابھی تو سوئی ہے۔۔۔“

نور حیا کو لیے باتھروم میں بند ہوگئی ازلان اسے کہتا رہا وہ ان سنی کرتی حیا کا ہاتھ منہ دھلائے باہر آگئی۔۔۔ حیا بھی کوئی ڈھیٹ تھی نور کی اتنی کوشش کے باوجود پھر سے سوگئی۔۔۔

” کیا مصلا ہے تمہارے ساتھ میں اپنی بیٹی کے لیے جاگ سکتا ہوں۔۔۔ ایک تو اسے اتنی زور سے مارا اوپر سے نیند بھی خراب کر دی۔۔۔ “ ازلان ناچاہتے ہوے بھی غصّہ کر بیٹھا۔۔۔۔

” آپ کو نہیں پتا یہ مجھے کتنا تنگ کرتی ہے۔۔۔۔“

وہ اسکا ہاتھ منہ ٹویل سے پوچھتے ازلان سے شکوہ کناں تھی۔۔۔۔

” تو اس وجہ سے تم اس پڑ ہاتھ اٹھاوگی “ ازلان نے بےچارگی سے اسے دیکھتے کہا۔۔۔

” ہاں! جب تک سدھرے گی نہیں مار کھائے گی “

” نور تم۔۔۔۔ “ وہ مزید اسکے غصّے کو ہوا دی رہی تھی۔۔۔

” میں بحث کے موڈ میں نہیں ابھی مجھے حیا کو مہندی لگانی ہے “

کہتے ساتھ اسنے نیند میں جھولتی حیا کو بیڈ پے بٹھایا اور شوپرس سے مہندی نکال کے اسے لگانے لگی۔۔۔ حیا جو کچھ دیر پہلے رو رہی تھی ٹھنڈی مہندی کا لمس پاتے اب پوری آنکھیں کھولے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی یہ عجیب چیز آج اسنے پہلی بار دیکھی تھی۔۔۔۔

” مما یے تیا ہے “

( مما یہ کیا ہے؟؟ )

وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتے کہ رہی تھی جس پر نور مہندی لگا رہی تھی۔۔۔ ازلان دونوں کو دیکھ اٹھ کھڑا ہوا اسے عشاء کی نماز ادا کرنی تھی۔۔۔۔

” یہ مہندی ہے دیکھنا ابھی صاف کرینگے تو کلر آئے گا “

نور نے مصروف سے انداز میں مہندی لگاتے کہا۔۔۔

” کیشا تلر “

(کیسا کلر)

نور اب بُری طرح پھنس چکی تھی سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہوچکی تھی۔۔۔ اوپر سے حیا اتنی ہل رہی تھی کے مہندی صیح سے نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ نور نے آگے کے دونوں سائٹس پر مہندی لگائی اور زبردستی اسکا ہاتھ پکڑ کے پاس بیٹھایا جب تک مہندی سوک نا جائے۔۔۔۔

” مما مدھے بکلیوں کو دیتھنا “

( مما مجھے بکریوں کو دیکھنا )

وہ کہاں چپ رہ سکتی تھی ایک نئی فرمائش۔۔۔۔

” ابھی نہیں صبح دیکھنا ابھی تو وہ سو رہی ہونگی “

نور نے اسے پکڑ کے اپنی گودھ میں بٹھایا وہ اتنا ہل رہی تھی کے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔۔

” تھپڑ لگاؤں گی چپ کر کے بیٹھو۔۔۔۔!!! “ نور نے اب کے حیا کے دونوں بازو پکڑ لیے۔۔۔۔

” مدھے ہنی بھائی تو تلر دیتھانا “ حیا نے بھی اُسے غصّے سے گھورتے کہا۔۔۔۔

(مجھے ہنی بھائی کو مہندی کلر دکھانا )

” میر نیچے گیا ہے پڑھائی کر رہا ہے خبردار جو اسی پریشان کیا۔۔۔“ نور نے خونخوار تیوروں سے اسے دیکھا۔۔۔ حیا نے سر زور سے دائیں بائیں ہلایا جسکی وجہ سے اسکی پونی ٹیل زور سے نور کو لگی۔۔۔۔ نور کی گرفت ڈھیلی پڑی تو حیا سجدے میں بیٹھے ازلان کی گردن کے گرد بازو حمائل کر کے اس سے چپک گئی۔۔۔ ازلان نے سلام پھیرتے ہی اسے پکڑ کے اپنی گودھ میں بٹھایا۔۔۔ اور ہاتھوں پڑ کچھ پڑھنے لگا۔۔۔ حیا چپ چاپ بنا حرکت کیے بیٹھی رہی نور نے اسے خاموش دیکھ کچن کا رخ کیا اور دونوں کے لے کھانا گرم کر کے روم میں ہی لے آئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

ڈائننگ ہال میں موجود نفوش ڈائننگ ٹیبل پڑ اپنی مخصوص جگہ سنبھال چکے تھے۔۔۔ سب ہی وہاں موجود تھے سوائے نور اور عنایا کے۔۔۔۔ عائشہ نے ملازمہ کے ساتھ ملکر ناشتا لگایا میر کسی گہری سوچ میں تھا ازلان فیضان اس سے بے نیاز ناشتا شروع کر چکے تھے۔۔۔

حمزہ اور حیا بغیر ناشتا کیے ہی جا چکے تھے نور کے اسرار پر اسنے کہہ دیا۔۔۔۔

” مما یونی میں کر لیں گے “

نور نے اپنے ہی پورشن میں عنایا کو ناشتا کرایا اسکے اتنے کہنے کے باوجود وہ نیچے نہیں آئی۔۔۔۔

میر نے ایک نظر فیضان اور ازلان کو دیکھا جو ناشتا ختم کر چکے تھے۔۔۔ میر نے صرف چائے ہی پی جو بامشکل اسکے ہلک سے اتری۔۔۔۔

” تایا ابو۔۔۔!!! آپ سے ضروری بات کرنی ہے “

” ہاں برخودار بولو۔۔۔۔“

فیضان کا موڈ آج اچھا تھا میر کو انکے لہجے سے ہی اندازہہوا۔۔۔

” بابا تایا ابو کل رات۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ وہ عنایا واپس آگئی۔۔۔۔۔۔ عا۔۔۔۔عارف نے اُسے طلاق دے دی۔۔۔۔۔“

فیضان کے تااثرات یکایک سخت ہوگئے۔۔۔ دماغ کی نسیں واضع ہونے لگی۔۔۔۔ اسکے برعکس ازلان کا چہرہ سفید پڑ چکا تھا۔۔۔ ازلان نے فوراً پانی جگ سے گلاس میں انڈھیل کر ایک ہی سانس میں ختم کر ڈالا۔۔۔ اور دونوں ہاتھوں سے سر تھامے بیٹھ گیا۔۔۔ میر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے۔۔۔؟؟ انکے چہروں سے نہیں لگ رہا تھا کے دلاسے کی ضرورت ہے۔۔۔!!!

عائشہ جو اپنا چائے کا کپ تھامے کچن سے نکل رہیں تھیں میر کے منہ سے ادا ہوتے الفاظ سن کر انکا سانس اٹک گیا۔۔۔ میر کی نظر ان پڑ پڑی تو ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر میر ان تک پہنچا اور نرمی سے ہاتھ پکڑ کے انہیں پاس پڑے صوفے پڑ بٹھایا۔۔۔

” تائی امی!! “

” میر میری عنایا۔۔۔ میر۔۔۔“ وہ دوپٹا سے منہ چھپائے رو پڑیں۔۔ نور جو عنایا کو نیچے لارہی تھی عائشہ کو اس طرح روتا دیکھ حالات کی نزاکت کو سمجھ گئی۔۔۔۔

عنایا سب کو نظر انداز کرتی فیضان کے پاس آئی سامنے بیٹھا اسکا باپ بظاہر خود کو مضبوط ظاہر کر رہا تھا۔۔۔ لیکن وہ جانتی ہے اندر سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔۔۔ کیا نہیں کیا اسکے باپ نے اسکے لیے۔۔۔۔؟؟؟ منہ سے الفاظ ادا نہیں ہوتے تھے کے خواہش پوری ہوجاتی تھی۔۔۔!!! کتنا مان تھا بھروسہ تھا انہیں اپنی بیٹی پر اور کیا کیا میں نے۔۔۔؟؟ اس عظیم شخص کی عزت کو روند ڈالا الزام کسی اور کے سپرد کردیا۔۔۔؟؟

” پاپا “ عنایا گھٹنوں کے بل انکے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔ گھٹنوں پر رکھا فیضان کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام کر اس پر اپنے لب رکھ دیے۔۔۔

” آپ کا دل دکھایا تھا نا میں نے۔۔۔!!! دیکھیں مجھے سزا مل گئی۔۔۔ آپ کو تکلیف پہنچا کر میں خود بھی خوش نا رہی۔۔۔ پل پل مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔۔ لیکن آپ کے سامنے احتراف کرنے کی ہمّت نہیں تھی پاپا۔۔۔ مجھے لگا آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ میرا یہاں آنا بھی بند کر دیں گے۔۔۔ پاپا مجھے معاف کر دیں بہت سزا بھگت لی میں نے۔۔۔ اپنی نادانی کی میری وجہ سے میرا معصوم بیٹا بھی سزا سہتا رہا۔۔۔۔ پاپا پلیز یوں منہ مت موڑیں ایک آخری دفع معاف کر دیں۔۔۔۔ “

فیضان اٹھ کے لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔۔۔۔

نور عائشہ کو سنبھال رہی تھی۔۔۔ ازلان نے اٹھ کر عنایا کو اپنے ساتھ لگایا اور سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔۔۔۔

” بیٹا تم ابھی ہمارے ساتھ رہنا فیضان کو میں سمجھاؤں گا۔۔۔!!! تھوڑا وقت لگے گا لیکن سنبھل جائے گا۔۔۔“

” جی چاچو “

وہ آنسوں پوچھتی ازلان کے ساتھ اوپر آگئی ابھی نا اسکی حالت تھی نا عائشہ کی کے انکا سامنا ہو۔۔۔

☆.............☆.............☆

ازلان نے دعا مانگ کے حیا پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور اسے لیکر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ ٹیبل پر لگا کھانا دیکھ کے ازلان کی بھوک چمک اٹھی۔۔۔ آج دن بھر کام میں اسے کھانے کا خیال ہی نا آیا۔۔۔۔

” تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟؟ آؤ میرا ساتھ دو “

” وہ۔۔۔ میں نے مارکیٹ میں بھابی کے ساتھ برگر کھایا تھا۔۔۔ ابھی بھوک نہیں اور نماز کے لے بھی دیر ہو رہی ہے۔۔۔“

ازلان نے دھیرے سے اسکا گال تھپکا اور ہلکا سا مسکرایا اب اسکی زندگی اس سے روٹھی نہیں تھی۔۔۔۔

” ہم “

نور نے حیا کے ہاتھ دھلائے۔۔۔ مہندی کا رنگ بہت گہرا آیا تھا جسے دیکھتے ہی وہ خوشی سے اُچھلنے لگی۔۔۔ نور اسے واشروم سے باہر نکال کر وضو کرنے لگی۔۔۔۔

” بابا میلی مندی “

(بابا میری مہندی )

حیا نے مہندی سے سجے ہاتھ ازلان کے آگے کیے۔۔۔ ازلان نے خوشی سے ان ننھے ہاتھوں کو دیکھا اور جھک کے ان ننے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔۔۔۔

نور آستینیں نیچے کرتے ہوئے واشروم سے باہر آئی تو اسکی نظر ٹیبل کے گرد چکر لگاتی حیا پر گئی۔۔۔ جو ازلان کے ہاتھ سے ایک نوالہ کھا کر ٹیبل کا پورا روائونڈ لگانے کے باد آکر دوسرا نوالہ کھا رہی تھی۔۔۔۔ نور نے دوپٹا نماز کے سٹائل میں باندھا اور نماز ادا کرنے لگی۔۔۔

” آپ نے کھانا نہیں کھایا۔۔۔؟؟؟ “ نور نے تعجب سے اسے دیکھتے کہا۔۔۔

” ہم۔۔۔!! آں نہیں بیٹھو تمہارا ہی انتظار تھا۔۔۔“ وہ چونکا پھر موبائل رکھ کر ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے سامنے بٹھایا۔۔۔۔

” میں۔۔۔“ نور نے احتجاج کرنا چاہا بھوک اسے واقعی نہیں تھی۔۔۔۔

” کبھی خاموشی سی میری بات مان لیا کرو۔۔۔“ نور نے خاموشی میں ہی عافیت جانی کہیں وہ غصّہ ہی نا کر جائے۔۔۔۔

ازلان نے ایک پلیٹ میں چاول اور سبزی ڈال کر نور کے آگے رکھی جبکے اپنے لیے ایک پلیٹ میں چاول اور قورمہ نکالا۔۔۔ نور بےدلی سے چند لقمے لینے لگی۔۔۔ بھوک اسے واقعی نہیں تھی ازلان وقتاً وقتاً اسکی پلیٹ میں کچھ ڈال دیتا۔۔۔ بھنڈی اس نے شوق سے کھائی۔۔۔ اسے مرغ سالن پسند نہیں تھے۔۔۔ جبکے ازلان انہیں کا عادی تھا نور سبزیاں شوق سے کھاتی ہے وہ بھی گنی چنی۔۔۔۔

” تم کھا کیوں نہیں رہیں۔۔۔“ وہ پلیٹ میں ارد گرد چمچ گھما رہی تھی۔۔۔ ازلان نے اسکی اس حرکت کو دیکھ کر ٹوکا۔۔۔۔

” ازلان مجھے سچ میں بھوک نہیں۔۔۔“ وہ رودینے کو تھی ازلان نے اسکی شکل دیکھ کر بامشکل اپنی ہنسی ضبط کی۔۔۔۔

” اوکے “ نور اپنی پلیٹ لیکر اٹھ کھڑی ہوئی کچن میں آکر اس نے اپنے اور ازلان کے لے چائے چڑھائی۔۔۔ کمرے میں آئی تو ازلان وہاں نہیں تھا باتھروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی دروازہ بھی کھلا ہوا تھا وہ بچے ہوئے گندھے برتن اٹھا کے کچن میں آگئی۔۔۔ چائے تیار ہوچکی تھی وہ انہیں کپوں میں انڈیل کر لائٹ اوف کر کے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔

” ازلان چائے “

وہ جو کپ رکھ کر اپنی مخصوص جگہ پر جا رہی تھی گرفت پر اسکے قدم وہیں جم گئے۔۔۔۔

” جی “

اسکی سوالیہ نظریں ازلان پڑ مرکوز تھیں۔۔۔۔۔

” بیٹھو “ ازلان لیٹنے کے انداز میں ٹانگیں پھیلائے بیٹھا تھا۔۔۔ وہ تھوڑی سے جگہ بنا کر اسکے پاس بیٹھ گئی۔۔۔ ہاتھ ابھی بھی اسکی گرفت میں تھا۔۔۔

” تم نے مہندی نہیں لگائی۔۔۔؟؟ “ وہ اسکی ہتھیلی پے ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔۔۔۔

” ایسے ہی۔۔۔“ نور کو کوئی خاص لگا مڑ نہیں تھا نا ہی اس وقت دل چاہ رہا تھا۔۔۔ عائشہ نے مہندی لگوائی تھی۔۔۔ اور اسے بھی فورس کیا تھا لیکن اسنے سہولت سے انکار کر دیا۔۔۔

” کل میرے ساتھ چلنا “ نور نے بس سر کو ہلکی سے جنبش دی۔۔۔۔۔

” کبھی کبھی تمہاری فرمابرداری مجھے وحشت میں مبتلا کرتی ہے۔۔۔۔“ ازلان نے دکھی لہجے میں کہا وہ جانتا تھا اب بھی انکے بیچ سردمہری کی دیوار ہے جو نجانے کب گرے گی۔۔۔۔

” ازلان میں کوشش کر رہی ہوں۔۔۔!!! “ وہ نظریں جھکائے دھیرے سے بولی۔۔۔

” مجھے معاف کردیا۔۔۔؟؟ “ وہ خاموش رہی۔۔۔۔

” میری محبت پر یقین ہے۔۔۔؟؟ “ وہ جیسے اس پر سے نظریں ہٹانا بھول چکا تھا۔۔۔ نور لب کاٹنے لگی نجانے کیوں آواز ہلک سے نکل نہیں رہی تھی یا اب بھی اسکا دل بدگمانیوں میں گھیرا ہوا تھا۔۔۔۔ ازلان نے ایک گہری سانس خارج کی جیسے اسے یہی تواقع تھی۔۔۔

” حیا پر ہاتھ کیوں اٹھایا تھا۔۔۔؟؟ “ اسکا لہجہ نرم تھا وہ پہلے کی طرح غصّے میں نہیں تھا۔۔۔

” ازلان بہت ضدی ہے وہ۔۔۔!!! آپ کے جانے کے بعد میری ناک میں دم کیے رہتی ہے۔۔۔ کل تو مجھے تھپڑ بھی مارا تھا۔۔۔“ ازلان کو ہنسی آگئی وہ اپنے گال پڑ ہاتھ رکھے معصومیت سے کہ رہی تھی۔۔۔

” کیوں۔۔۔؟؟ “ ازلان نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا۔۔۔

” میں نے اسکی ڈول غصّے سے پٹک دی۔۔۔“

” وہ کیوں؟؟ “

” ضد کر رہی تھی کے بھابی کے ساتھ جانا ہے فیضان بھائی اور عائشہ بھابی کل انوئیٹڈ تھے ڈنر پے اب عائشہ بھابی مائیکے جا رہی تھیں اُسے کیسے لے جاتیں۔۔۔!! اور اچھا بھی نہیں لگتا ویسے ہی عائشہ بھابی کی وجہ سے میں کچھ پر سکون رہتی ہوں ورنہ تو حیا کی حرکتیں دیکھ کر میرا گاؤں جانے کو دل کرتا ہے۔۔۔۔“ گاؤں جانے کی بات سے ازلان کا موڈ غارت ہوگیا کتنی آسانی سے کہ دیتی تھی بنا یہ جانے اسکے بغیر کوئی سانس لینا بھول جاتا ہے۔۔۔۔

” اچھا چھوڑو!!! چائے پی لو پھر کچھ دیر چھت پر چلتے ہیں “ وہ اپنا آخری گھونٹ پی چکا تھا۔۔۔

” میں بہت تھک گئی ہوں ازلان۔۔!!! آج دن بھر بچوں کی شوپنگ کرتی رہی ہوں پھر کبھی۔۔۔“ وہ آج ہر بات پر نفی کر رہی تھی یہ نور نے خود بھی محسوس کیا تبھی ڈرتے ڈرتے اسنے ازلان کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔۔

” اوکے “ ازلان نے اسکی صاف شفاف پیشانی کا بوسہ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

” آپ کہاں جا رہے ہیں؟؟ “

” مجھے نیند نہیں آرہی ایسے ہی رائونڈ لگانے جا رہا ہوں “

ازلان کے جانے کے بعد وہ چائے ختم کر کے حیا کے ساتھ لیٹ گئی تھکن اتنی تھی کے فوراً ہی نیند آگئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

خدا خدا کر کے اسکا لیکچر ختم ہوا سر کے جاتے ہی وہ فوراً باہر کو لپکی۔۔۔ کیوں کے اب تک شاہ زر کی دس میسکال آچکی تھیں۔۔۔ اس نے شاہ زر کا نمبر ٹرائ کیا جو پہلے ہی کال میں پیک اپ کرلیا گیا۔۔۔

” ہیلو شاہ زر وہ میں۔۔۔ “

وہ ایک ہی سانس میں بولنے لگی جبکے دوسری طرف سے آتی آواز نے اسکی چلتی زبان کو بریک لگایا۔۔

” کون۔۔۔؟؟ شاہ زر واشروم میں ہے۔۔۔“ دوسری طرف انگریزی میں جواب دیا گیا۔۔۔ لڑکی کے ایسنٹ سے پتا لگ رہا تھا وہ ودیشی ہے۔ فون پر حیا کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔۔۔

” آپ۔۔۔ کون۔۔؟؟ “ اس نے لڑکھرتی آواز میں بمشکل پوچھا۔۔۔

” میں شاہ زر کی دوست۔۔۔!!! ویسے تم کون ہی۔۔۔؟؟ “

” کس کا فون ہے۔۔۔؟؟ “ وہ جواب دیتی اس سے پہلے ہی شاہ زر کی آواز اسے سپیکر سے سنائی دی۔۔۔

” حیا کالنگ لکھا تھا میں نے پیک کر لیا۔۔۔“ اس لڑکی نے انگریزی میں شاہ زر کو جواب دیا۔۔۔ حیا دونوں کی گفتگو غور سے سن رہی تھی اسکے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہیں تھیں۔۔۔

” فون رکھ دو۔۔۔!!! مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔۔۔“ حیا کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا اٹک گیا۔۔۔ اسے سانس لینا مشکل لگا وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن دوسری طرف سے فون رکھا جا چکا تھا۔۔۔

” حیا کیا ہوا۔۔؟؟؟ حیا۔۔۔“

مریم جو اسکی گہری دوست تھی اسکی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی۔۔۔ اور اسکا ہاتھ پکڑتی فوراً تھرڈ فلور پڑ آگئی جہاں سٹوڈنٹس نا ہونے کے برابر تھے۔۔۔ پہلے اسنے حیا کو پانی پلایا اور پھر رونے کی وجہ پوچھی۔۔۔ حیا نے روتے ہوے اسے ساری بات بتا دی۔۔۔۔

” سچ حیا کوئی ودیشی تھی۔۔۔؟؟ پتا ہے میرے جیجو میری بہن سے نکاح کرکے باہر چلے گئے اور وہاں جاکر شادی کر لی۔۔۔ جب گھر والوں کی طرف سے رخصتی کے لیے پریشر بڑھنے لگا تب جاکر انہوں نے شادی کا بتایا۔۔۔ اور پتا ہے تب تک انکو دو تین بچے بھی ہو چکے تھے۔۔۔“

وردہ جو انہی کے گروپ کی تھی نون اسٹاپ شروع ہوگئی اسکے ساتھ گروپ کی باقی لڑکیاں بھی آچکی تھیں۔۔۔ سب ہی حیا کے نکاح سے واقف تھے اور اب حیا کی بات سن کر سب سہی معینوں میں پریشان ہوگئیں۔۔۔

” تم چپ رہو ضروری نہیں سارے مرد ایک جیسے ہوں “ مریم نے حیا کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ کے اسے ڈپٹا۔۔۔

” مریم وردہ سہی کہ رہی ہے میرے ابو کو ہی دیکھ لو وہاں جاکر تیسری شادی کر لی۔۔۔ بس اتنا احسان ہے کے خرچ بھیج دیتے ہیں “ مریم نے ماریہ کو گھورا جسے وہ نظرانداز کر گئی۔۔۔

جبکے حیا اب بلک بلک کے رو رہی تھی۔۔۔۔

” حیا سوری یار میرا ارادہ تمہیں رلانے کا نہیں تھا “ ماریہ نے اسے گلے لگاتے ہوے کہا سب ہی اسے چُپ کرانے میں لگے تھے۔۔۔

” م۔۔۔ میں۔۔۔ اب۔۔۔ ک۔۔۔ کیا کروں “ حیا نے بھیگی آنکھوں سے موبائل کی طرف دیکھا جہاں شاہ زر کا نام جھگمگا رہا تھا۔۔۔ اس نے غصّے سے کال کاٹ دی۔۔۔

” میری بات مانوں تو اپنی جوانی کی فکر کرو میری بہن بیچاری آٹھ سال جیجو کے انتظار میں رہیں اب شادی ہوئی بھی تو تین بچوں کے باپ سے “

” مطلب۔۔۔؟؟ “ حیا کی سمجھ میں اس وقت کچھ نہیں آرہا تھا اب جب دل نے اسی قبول کر لیا ہے تو اُسنے راستہ بدل دیا۔۔۔۔

” طلاق لے لو “ حیا کی آنکھیں پوری کھل گئیں مریم نے رکھ کر تھپڑ اسے دے مارا۔۔۔۔ پھر وردہ، انوشہ، ماریہ اسے کنوینس کرتی رہیں جبکے ماریہ اور حفصہ نے اسے عقل مندی سے کام لینے کا کہا پہلے وہ شاہ زر سے ملکر غلط فہمی دور کرے پھر جاکر کوئی فیصلہ کرے۔۔۔

حیا نے ایک گھنٹے کی بحث کے بعد یہی حل نکالا کے مما سے بات کریگی۔۔۔ ابھی وہ انہی سوچوں میں تھی کے ایک بار پھر شاہ زر کا نام سکرین پر جھگمگیا حیا نے کوئی تاخیر کریے بغیر فون اٹھایا اور جب بولنے پر آئی تو شاہ زر کی دنیا ہلا دی۔۔۔

” مجھے طلاق چاہیے مسٹر شاہ زر۔۔۔!!!! میں کوئی ایری گیری نہیں کے جب چاہا عزت دی اور جب چاہا بےعزت کیا۔۔۔ اب میں آپ سے کوئی بات نہیں کرونگی اب تایا ابو آپ سے بات کرینگے۔۔۔۔“ اس نے بنا جواب سنے فون کاٹ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ہنی کیا ہوا پریشان کیوں ہو۔۔۔؟؟ “ نور نے بکس ہٹا کر اسکے آگے چیز سینڈوچ رکھا۔۔۔ وہ صبح سے کمرے میں بند تھا نور نے بھی اسے تنگ نا کیا حیا کو بھی وہ نیچے بھیج چکی تھی یہاں رہتی تو ہنی کو پڑھنے نا دیتی۔۔۔

” مما بس اکزیمس کی ٹینشن ہے عید کے فوراً بعد پپرز ہیں “

ہنی نے اپنی کنپٹیاں مسل کے خود کو ریلکس کیا پھر چیز سینڈوچ اٹھا کے کھانے لگا۔۔۔

” تیاری تو ہے تمہاری پھر۔۔۔؟؟ “ وہ اب اسکے کمرے کی حالت درست کر رہی تھی۔۔۔

” کیمسٹری۔۔۔“ اسنے بگڑی شکل بنا کر کہا!!!

کیمسٹری تو اسے بھی سخت بُری لگتی تھی اللہ‎ اللہ‎ کر کے وہ کیمسٹری میں پاس ہوئی تھی۔۔۔ ورنہ خود اسے پڑھا دیتی باقی سبجیکٹس کی طرح۔۔۔

” فیضان بھائی کی کیمسٹری سمجھ نہیں آرہی؟؟ “

” بس آرہی ہے پری۔۔۔!!!! بٹ مجھے 90+ پرسنٹیج چاہیے تبھی جا کر کسی اچھی یونی میں ایڈمیشن ملے گا۔۔۔“ اسکے ارادے دیکھ کے نور کو یقین تھا وہ اپنا کہا سچ کر کے دیکھائے گا اسنے مسکراتے ہوے اسکے لیے دل سے دعا کی۔۔۔

” انشااللہ آجائے گی تم کوشش کرنا میں دعا۔۔۔!! “

نہایت دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھلا نور نے آنے والے کو دیکھا۔۔۔ حیا اپنا چھوٹا سے پنک بیگ جو باربی کی شیپ میں تھا پہنے اندر آگئی۔۔۔ آتے ہی وہ نور کو نظرانداز کر کے بستر پر چڑھ کے ہنی کی گودھ میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔ ہنی کی چہرے پے ایک نرم مسکراہٹ آن ٹہری۔۔ ہنی نے اسکے دونوں نرم گالوں کا بوسہ لیا۔۔۔

” ہنی بھائی میلا ہوم ولک “ حیا نے اپنا چھوٹا سا بیگ شولڈرز سے نکال کے آگے کیا اور اپنی ہوم ورک کاپی نکالی۔۔۔

” دادی اماں تمہیں میں پڑھاؤنگی چلو کمرے میں “

نور جو کب سے اسکی کاروائی دیکھ رہی تھی کڑے تیوڑ لئے بولی۔۔۔۔

” نہیں ہنی بھائی شے پلونگی “ اسکی بلند آواز نور کا پارا ہائی کر گئی۔۔۔۔

” بہت مار کھاؤگی سر پڑ چڑھ گئی ہو بات کرنے کی تمیز نہیں۔۔۔ جب دیکھو ضد کرتی ہو صبح سے گارڈن میں بکریوں کے ساتھ بیٹھی ہو آج چھٹی تھی تو پڑھنا فرض نہیں “

حیا نے ناک سکوڑ کے سر نفی میں ہلایا۔۔۔ ہنی نے بھی سر پکڑ لیا حیا کوئی موقع جانے نہیں دیتی نور کو تنگ کرنے کا۔۔۔

” مما میں ہوم ورک کروا دونگا۔۔۔!!! اور ابھی بریک لے رہا ہوں نماز کے بعد پرھائی کرونگا۔۔۔“ ہنی نے نور کو دوبارا لب کھولتے دیکھ خود ہی کہا۔۔۔ نور نے اپنی اس بدتمیز بیٹی کو گھوری سے نوازا اور کچن میں چلی گی صاف مطلب تھا رات کو خبر لے گی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” شاہ زر کیا ہوا تم غصّے میں کیوں ہو۔۔۔؟؟ اور یہ تمہاری بیوی تھی۔۔۔؟؟ “

اسکے سامنے بیٹھی انگریز عورت جو عمر میں تیس یا پینتیس سال کی لگتی تھی پریشانی سے شاہ زر سے استفار کرنے لگی۔۔۔۔

” ہاں “ شاہ زر بامشکل خود کو سنمبھالے ہوے تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کے حیا اسکے سامنے ہوتی وہ اسکی عقل ٹھکانے لگاتا۔۔۔۔

” اوہ واقعی جتنی وہ خوبصورت ہے آواز بھی اتنی ہی سریلی ہے!!! “

وہ عورت مسکراتی ہوئی بولی جب کے شاہ زر اپنی ہی سوچ میں گم تھا۔۔۔۔

” شاہ زر بتاؤ تو کچھ غصّے میں کیوں ہو۔۔۔؟؟ “ تنی ہوئی نسوں کو دیکھ کر وہ بولی ماتھے پڑ بےتحاشا بل تھے۔۔۔۔

” میری بیوی مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے “ طلاق لفظ لیتے کس اذیت سے گزرا تھا وہی جانتا ہے۔۔۔

” واٹ۔۔۔ کہیں اس نے کچھ غلط تو نہیں سمجھا میں نے تو اسے یہی کہا کے تم میرے دوست ہو۔۔۔“ وہ عورت پریشان کن لہجے میں بولی جبکے شاہ زر اسکی بات سن کر مسکرا پڑا۔۔۔ پھر یکایک سنجیدہ ہوگیا۔۔۔!!! کیا اب بھی وہ اس پڑ اعتبار نہیں کرتی؟؟

” نہیں شانزے وہ جذباتی ہے۔۔۔۔ ناسمجھ ہے۔۔۔ اسکا اپنا ہی دماغ ہے جو عرصے پہلے کام کرنا بند کر چکا ہے۔۔۔!!! “ شاہ زر نے تلخ لہجے میں کہا۔۔۔

” تم اس سے بات کرو بتاؤ اسے کہ۔۔۔۔ “ وہ کچھ بولتی شاہ زر تیزی سے گاڑی کی چابی اٹھا کر لائونچ سے نکلنے لگا۔۔۔۔

” شانزے میں کورٹ جا رہا ہوں شام تک ریحان تمہارے سامنے ہوگا آئی پرومیس۔۔۔“ کہکر وہ جانے لگا جبکے شانزے اب تک بےیقینی کی کیفیت میں تھی۔۔۔۔

” تم سچ کہہ رہے ہو شاہ زر آئی کانٹ بلیو ڈیٹ “ بےاختیار ہوکر اس نے شاہ زر کے مضبوط بازو تھام لیے۔۔۔۔

” ہاں۔۔۔!!! “ کہکر وہ اپنا بازو آزاد کرتا تیر کی تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

نور نے ایک نظر حیا اور اپنا جائزہ لیا۔۔۔ نور نے وائٹ پلازو کے ساتھ ڈراک بلو شارٹ شرٹ پہنی تھی۔۔۔ کانوں میں وائٹ جھمکیاں اور دونوں ہاتھوں میں دو وائٹ کنگن پہنے تھے۔۔۔ حیا پنک شرارے اور وائٹ شرٹ میں بلکل ایک گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔ دونوں ہاتھوں میں نور نے بھر بھر کے اسے چوڑیاں پہنائی تھیں۔۔۔ حیا نے اس سے بال نہیں بنوائے نور کا اسکی دو پونیاں بنانے کا ارادہ تھا جسے سن کر حیا نے فوراً رد کر دیا۔۔۔۔


” مما پونی شے شل میں دلد ہوتا “


نور نے اپنی اس ڈرامےباز بیٹی کو دیکھا جو بار بار اپنا چھوٹا سا دوپٹا گلے میں ڈال رہی تھی۔۔۔ لیکن ریشمی ہونے کا باحث وہ گر جاتا۔۔۔ وہ حیا کا ہاتھ پکڑے نیچے جانے ہی لگی تھی کے ازلان آگیا۔۔۔


” عید مبارک۔۔۔!!! میرے رنگ میں رنگ کے بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔“ ازلان نے قریب آکر اسے عید کی مبارک باد دی اسکا اشارہ مہندی کی طرف تھا۔۔۔ ازلان کل اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا جانتا تھا اسنے اپنے لیے کچھ خریدا نہیں ہوگا۔۔۔ ازلان نے خود ہی اسے زبردستی مہندی لگوائی اور اپنی پسند کا اسکے لیے ڈریس خریدا۔۔۔ لیکن بہت زیادہ بھاری ہونے کی وجہ سے نور نے وہ ڈریس نہیں پہنا۔۔۔!!! ازلان اسے سمجھنے سے قاصر تھا وہ خود نہیں جانتی وہ کیا چاہتی ہے۔۔۔ کوئی ڈر ہے جو اسے اندر سے کھائے جا رہا ہے۔۔۔ جو کچھ ازلان نے اسکے ساتھ کیا مشکل تھا کے نور اب اس پر اعتبار کرے۔۔۔ انکے رشتے میں ایک تبدیلی آئی تھی اب وہ اس پڑ طنز نہیں کرتی نا اسکے سامنے روتی ہے۔۔۔ وہ آگے بڑنے کی کوشش کر رہی ہے جو مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔۔۔ ازلان نے حیا کو گودھ میں اٹھایا اور نیچے کی طرف بڑھا۔۔۔ نیچے آکر نور عائشہ کے پاس چلی آئی جب کے ازلان حیا کو لیکر گارڈن میں آگیا جہاں جانوروں کی قربانی کی جا رہی تھی۔۔۔ کھانا نور اور عائشہ نے صبح ہی بنا کر رکھ لیا تھا۔۔۔ بچے بھوک کے کچے تھے وہ تو لنچ کر کے قربانی دیکھنے چلے گئے۔۔۔ جبکے فیضان اور ازلان صبح سے قصائیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔۔۔


” مما۔۔۔ مما۔۔۔ “ روتی، سسکیاں بھرتی حیا آکر اسکی باہوں میں جھول گئی۔۔۔ نور کو اپنا مارنا تو گوارا تھا کوئی اور اسے ہاتھ لگائے اسے برداشت نا تھا۔۔۔ اپنی روتی بیٹی کو دیکھ کر وہ پریشانی سے اسکے پیچھے آتے ہنی کو دیکھنے لگی عائشہ بھی نور کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔۔۔ اسے لگا تھا علی یا عمر حمزہ میں سے کسی نے مارا ہوگا۔۔۔!!!!


” کیا ہوا ہنی یہ رو کیوں رہی ہے “


ہنی سے پوچھتے اسکی نظر حیا پر گئی جو منہ پورا کھولے رو رہی تھی لیکن اسکے منہ سے کوئی آواز نہیں نکل رہی تھی نور یکایک کانپ اٹھی اسکے منہ سے چیخ نکل گئی۔۔۔۔


” حیا “


نور نے اسے پورا جھنجوڑ ڈالا لیکن اسکے منہ سے کوئی آواز نا نکلی۔۔۔ ہنی نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی اسکے منہ میں ڈال کر مخصوص رگ کو دبایا تب جاکر حیا کی چخیں پورے لاونچ میں سنائی دیں۔۔۔ نور کی جان میں جان آئی عائشہ بھی جو صورت حال سے ڈر کر دوڑتی ہوئی آئی تھی۔۔۔ ہنی کی یہ کروائی دیکھ پر سکون سانس لی۔۔۔۔


” ہنی یہ کیسے کیا تم نے۔۔۔؟؟ “ نور نے حیا کو خود میں بھنچے پوچھا۔۔۔


” بی بی جان سے سیکھا تھا آپ جب گھر میں نہیں تھیں تو شاہ زر اور حمزہ کی لڑائی ہوئی تھی۔۔۔ حمزہ اسی طرح رو رہا تھا اسکے منہ سے بھی آواز نہیں نکلی تب بی بی جان نے بلکل ایسے ہی کیا۔۔۔“ نور نے بےاختیار اسکی پیشانی چومی زندگی نے جہاں اسے دکھ دیے تھے وہیں ہنی کی صورت میں ایک خوبصورت تحفہ بھی دیا تھا۔۔۔

” ہنی حیا رو کیوں رہی تھی۔۔۔؟؟ “

” مما ایک آخری بکری بچی تھی اُسی کی قربانی ہو رہی تھی بابا کروا رہے تھے۔۔۔!!! جس وقت قربانی ہوئی اُسی وقت حیا آگئی اور اسنے دیکھ لی تبھی میں اسکے پیچھے دوڑتا یہاں تک آیا۔۔۔“

پھر دن بھر حیا کی طبیعت ٹھیک نا ہوئی رات کو اسے سخت بخار ہوگیا۔۔۔۔ نور اور ازلان پوری رات اسکے لیے جاگتے رہے۔۔۔ ازلان کو تو لگا تھا وہ بھول جائے گی۔۔۔ لیکن اس بار ایسا نہیں تھا وہ ازلان سے بات تک نہیں کر رہی تھی۔۔۔ بس نور سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔ اسکا بخار کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔

صبح نور اسے بھابی کے پاس لے گئی لیکن وہاں بھی حیا اِسی سے چپکی رہی۔۔۔ شام میں ہنی اور ازلان کے آنے کے بعد وہ حیا کو لیکر اوپر آگئی۔۔۔۔

” پرنسیسز دیکھو بابا اور میں تمہارے لے کیا لائے ہیں “

حیا نے ایک خفا نظر ازلان پڑ ڈالی اور نور کی گودھ میں اور سکڑ سمیٹ کر بیٹھ گئی۔۔۔ ازلان نے جھک کے اسے اٹھایا۔۔۔ حیا نے اسکے کندھے پر اپنا منہ چھپا لیا نا رو رہی تھی نا بات کر رہی تھی بس اپنا غصّہ ظاہر کر رہی تھی۔۔۔۔

” پرنسیسز ادھر دیکھو یہ کتنی پیاری ہے بلکل تمہاری طرح۔۔۔!!! اچھا ٹھیک ہے تمہیں نہیں چاہیے تو عمر کو دے دیتے ہیں “

ازلان کا کہنا تھا حیا نے جھٹ سے چہرہ اوپر کیا ازلان کے ہاتھ میں ایک باسکٹ تھی جس میں دو چھوٹے بلی کے بچے تھے وہ پوری آنکھیں کھولے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔۔

” بابا نیتے اُتالو “

حیا نے باسکٹ میں سوئی ننی بلی کو ہاتھ میں لینا چاہا۔۔۔ اسے ڈرتا دیکھ ہنی نے اسکے ہاتھ میں بلی کا بچا تھمایا تو وہ خوشی خوشی چہکنے لگی۔۔۔۔

حیا کو کھیلنے دل بہلانے کے لے واپس ایک کھلونا مل گیا تھا۔۔۔ اب اس کا وقت انکے ساتھ زیادہ لگتا وہ بہت حساس تھی دوسروں کو تکلیف میں دیکھ خود رونے لگتی۔۔۔ چھوٹی سی بات دل میں لے لیتی بچپن سے اسکی اس طبیعت سے سب واقف تھے۔۔۔ کچھ دن تو دونوں کیٹنس اسکے ساتھ رہیں ایک دن گارڈن میں کھیلتے کھیلتے ایک کٹن باہر بھاگی۔۔۔۔ جسے کسی کار والے نے کچل دیا یہ واقع حیا کے سامنے ہوا تھا۔۔۔ پھر دوسری کٹن کا وہ اور زیادہ خیال رکھنے لگی۔۔۔ لیکن وہ بھی ایک دن غائب ہوگئی۔۔۔ حیا اسی ڈھونڈتی رہی لیکن وہ نا ملی پھر اسنے ایسے کوئی انمول چیز نا خریدی جو اسکے دل کو بھائے۔۔۔۔ میر نے اسے سمجھایا تھا یہ سب وقتی ہوتے ہیں ہر وقت ساتھ نہیں رہتے۔۔۔ انکے لے بیٹھ کر وہ روز روز رو کر ماں باپ کو پریشان نہیں کر سکتی۔۔۔ وہ اپنے اس بھائی کی ہر بات سمجھتی اور اسے دل سے مانتی۔۔۔ لیکن نور کے حکم چلانے غصّے سے ڈانٹنے اپنی بات منوانیں کی عادت نے اسے ضدی بنا دیا۔۔۔ اس معملے میں میر اور ازلان پوری کوشش کرتے اسے سمجھانے کی۔۔۔ لیکن وہ دونوں کی بات ایک کان سے سن کر سہولت سے دوسرے کان سے نکال دیتی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

گھر میں عجیب سا ماحول تھا حیا نے سوچا تھا گھر لوٹتے ہی سب کو شاہ زر کی۔ کی گئی حرکت کا بتائے گی۔۔۔ لیکن یہاں آکر اس دل دہلانے والی خبر ملی جو ثانی بھابی نے اسے دی کے عنایا آپی کو طلاق ہوگئی۔۔۔۔

نور سارا دن عائشہ کے پاس ہی رہی۔۔۔۔ عنایا نیچے نہیں آئی حیا کے ساتھ وہ اسکے روم میں شفٹ ہوگئی۔۔۔ فیضان اور ازلان بھی آج گھر میں تھے۔۔۔ فیضان نے خود کو کمرے میں بند کر رکھا تھا وہ اس وقت صرف تنہائی چاہتا تھا۔۔۔ ازلان کو اب رہ رہ کر حیا اور عنایا کی فکر ستانے لگی ہے۔۔۔ یقیناً شاہ زر میر کو ہی اسکا زمیدار ٹھیرائے گا۔۔۔۔ ان انیس سالوں میں ازلان نے نور سے کوئی بات نہیں چھپائی چھوٹی سے چھوٹی بات وہ اس سے شیر کرتا۔۔۔۔

چاہے عمر کی یاد ہی کیوں نا اسے ستاتی وہ بھی نور کے ساتھ شیر کر کے اپنا دکھ ہلکا کرتا۔۔۔ لیکن میر سے جڑی یہ بات نجانے نور پر کیا اثر کریگی۔۔۔ نور نے دن رات ایک کر کے اپنی بیٹی کے مستقبل کی دعائیں کی ہیں۔۔۔۔ ان تاک راتوں میں وہ بھی اسکے ساتھ جاگا ہے۔۔۔ اس بدعا کا اثر ختم کرنے کے لے جو انجانے میں نور نے اپنی ہی بیٹی کو دی ہے۔۔۔۔

حیا نے اپنا فون بند کر رکھا تھا ایک شاہ زر سے ہی وہ بات کرتی تھی۔۔۔۔ اب جب انکے بیچ سب ختم ہو چکا ہے تو وہ اس فون کا کیا کرتی۔۔۔۔ عنایا کے آتے ہی وہ شاہ زر کو فراموش کر چکی تھی۔۔۔ دن بھر وہ احمد کے ساتھ کھیل کر اپنا دل بھلا لیتی دن گزرتے جا رہے تھے۔۔۔۔ شاہ زر کا کوئی اتا پتا نہیں تھا نجانے وہ کہاں غائب ہوگیا ہے۔۔۔۔؟؟ ایک دن اسنے باتوں باتوں میں عائشہ سے بھی شاہ زر کا پوچھا۔۔۔ لیکن انکا بھی یہی جواب تھا کے تین دن سے شاہ زر کی کوئی کال نہیں آئی۔۔۔۔ لیکن عائشہ کو پُر سکون دیکھ کر حیا کو شک ہوتا۔۔۔ جیسے شاہ زر نے عائشہ کو پہلے سے ہی منع کر رکھا تھا کے وہ کوئی بھی خبر اس سے ریلیٹڈ حیا کو نا دے۔۔۔۔

آج میر کے دوست کی شادی ہے جس سے شاہ زر کی بھی اچھی خاصی دوستی ہے۔۔۔ کیوں کے وہ سب ایک ہی یونی سے گریجویٹڈ ہیں عائشہ اور نور نے فورس کر کے تینوں کو ہی تیار ہونے کا کہا۔۔۔ عائشہ چاہتی تھی اب عنایا پرانی زندگی کو بھلا کر نئے سفر کا آغاز کرے۔۔۔ عنایا کی عدت ختم ہوتے ہی فیضان نے عائشہ سے کہ دیا کے اسکے لے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈے۔۔۔ وہ بھی باپ تھا عنایا کی دن با دن بگڑتی حالت اسے خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔۔۔ وہ عنایا کو معاف کر چکے تھے لیکن سہی وقت کا انتظار تھا۔۔۔ جب تک وہ اپنی غلطی کو ُسُدھارتے نہیں تب تک عنایا کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔۔

میر نے کل ہی ایک پروپوسل کا انہیں بتایا جسے سن کر انکی رگیں تن گئیں۔۔۔۔ اور وہ اچھے سے جانتے تھے عنایا بھی راضی نہیں ہوگی۔۔۔ لیکن میر نے انہیں کل ہی قائل کر لیا اور ان سے وعدہ کیا تھا عنایا کو بھی وہ جلد منا لیگا۔۔۔ میر نے ازلان سے بھی کہ دیا تھا جب تک عنایا کی زندگی میں کوئی اسکا ہمسفر بن کر نہیں آتا تب تک حیا کی رخصتی کا خیال بھی دل میں نہیں لائے جب عنایا اپنے گھر خوش رہے گی اسی صورت میں حیا کی زندگی بھی خوشیوں سے بھر جائے گی۔۔۔

عنایا اور حیا پیچھے احمد کے ساتھ بیٹھیں تھیں اور آگے میر ثانیہ کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔ وہ اس وقت میر کے دوست کی شادی میں جا رہے تھے۔۔۔ میوزک پلیئر اون تھا ساتھ احمد کے سوالوں کی بوچھاڑ بھی جاری تھی جلد ہی کار اپنی منزل کو پھونچ گئی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ازلان نے ہر کوشش کی تھی نور کو منانے کی وہ کافی حد تک بدل چکی تھی۔۔۔ لیکن کبھی اسنے زبان سے اقرار نا کیا وہ اسے معاف کر چکی ہے۔۔۔؟؟ یا ازلان کی محبت کا یقین نہیں اُسے۔۔۔۔؟؟ ان گزرے سالوں میں ازلان نے خود کو بھی کافی حد تک بدل ڈالا تھا۔۔۔۔ نور کو وہی ازلان بن کر دکھایا تھا جسے اس سے محبت تھی۔۔۔ وہ اکثر اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتا۔۔۔۔۔


جب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے وہ نائٹ ڈریس میں ملبوس ہاتھوں پر لوشن ملتی وہ اسکے پیچھے آکھڑا ہوتا۔۔۔۔۔


” بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ یا مجھے ہی لگتی ہو۔۔۔“


نور خاموش رہتی اور یہی خاموشی ازلان کو اندر سے توڑ دیتی۔۔۔۔


سنڈے والے دن اکثر وہ انہیں باہر گھومانے لیجاتا وہاں وہ نور کو ہمیشہ ہر چیز میں آگے رکھتا کے وہ بچوں کی ہر پسند نا پسند سے واقف تھی۔۔۔۔ کبھی واٹر ورلڈ پارک جاتے تو وہاں ازلان ٹرائوزر میں ملبوس بچوں کو سوئمنگ سیکھاتا۔۔۔ نور وہیں کھڑی انہیں دیکھتی رہتی۔۔۔۔ تب ازلان شرارت کر کے اسے باہوں میں اٹھالیتا اس عمل پر سب سے زیادہ اسکی بیٹی خوش ہوتی۔۔۔ جو باپ سے ضد کر کے اسے سوئمنگ پول میں پھینکنے کا کہتی۔۔۔۔ تب وہ تپ کے حیا کو خون خوار تیوروں سے دیکھتی۔۔۔۔


” حیا گھر چلو پھر بتاتی ہوں “


” میری بیٹی کو دھمکی “


ازلان نے اسے تھوڑا ڈھیلا چھوڑا نورنے خوف کے زیرِ اثر سختی سے اسکا بازو جکڑا۔۔۔۔۔


” ازلان نیچے اتاریں ورنہ کبھی بات نہیں کرونگی۔۔۔۔“


وہ رو دینے کو تھی ازلان تو اسکی دھمکی سے ہی ڈر جاتا۔۔۔ بہرحال وہ اپنی کہے پر عمل کرتی عائشہ، فیضان بہت کم ہی انکے ساتھ آتے لیکن بچے ضرور جاتے۔۔۔۔۔


وہ اسکی ہر خوائش پوری کرتا اسکی پوری وارڈروب نئی فیشن ڈیزائن کپڑوں سے بھری تھی۔۔۔ نئی سنڈلس، جیلوری وہ آنے والے فیشن کے حصاب سے اسکی ڈریسسز منگواتا۔۔۔۔ یہ اسے اسما سے پتا چلا نور کو ان چیزوں کا بہت شوق ہے۔۔۔۔ ہر تقریب میں اسے نیو ڈریسز پہنا پسند ہے۔۔۔۔ ریپیٹیشن اسے سخت بُری لگتی ہے۔۔۔ فل میک اپ کرنا بھی اسکا شوق تھا جو اکثر وہ چُھپ کے حیا پر ٹرائی کرتی۔۔۔ اسکی بچکانہ حرکتیں ازلان کو بہت پسند تھیں۔۔۔۔ وہ موڈ میں ہوتی تو اس دن گھر کا ماحول اچھا ہوتا۔۔۔۔ ورنہ عمر اور حیا دونوں کی شامت آتی بس حمزہ اور میر ہی بچے رہتے۔۔۔۔۔


نور نے جہاں اکر اسے مکمل کیا تھا وہیں اسکے بچوں کو دین و دنیا کی تعلیم دی تھی۔۔۔۔ میر اسکے ساتھ مسجد جاکر فجر کی نماز ادا کرتا اسے بہت بعد میں پتا چلا وہ ہر صبح نور سے قرآن سیکھتا ہے۔۔۔۔ مولوی صاحب سے پڑھنے کے بعد بھی ہنی تلاوت سہی نہیں کرتا۔۔۔۔ پھر نور ہی اسے خود پورے دیہاں سے پڑھاتی اور ہر جمعے کو چاروں کو پاس بیٹھا کر قرآن معانے کے ساتھ پڑھتی۔۔۔۔۔


وہ اسکی کبھی کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات مانتی لیکن جب اداس ہوتی اسکے قریب بھی نا آتی۔۔۔۔ دھوپ چھاؤں جیسا منظر تھا وہ اسکے ساتھ ہنسی ہے، خوش رہی ہے لیکن دل سے۔۔۔؟؟ وہ نہیں جانتا کبھی کبھی وہ رات کو ڈر کے زیرِ اثر چیخ پڑتی ایک ہی جملہ اسکی زبان پر ہوتا ” ازلان مجھے مت ماریں “ وہ اسے اپنے سینے سے لگاتا۔۔۔ جب تک وہ پر سکون نہیں ہوجاتی نیند میں بھی اسکا ہاتھ ازلان کے دل پر ہوتا جسے وہ مضبوطی سے جکڑ لیتا۔۔۔۔ اسکے سونے کے بعد وہ اٹھ کر راتوں کو اپنی بیٹی کے لیے دعا کرتا۔۔۔ اسے لگتا جیسے اب بھی وہ اس تکلیف سے انجان ہے جس سے اعظم شاہ اور اسما گزرے۔۔۔ وہ اسے خوش دیکھ کر خوش ہوتا۔۔۔۔ تبھی امان اور حبہ کو یہاں آنے کا کہتا۔۔۔۔ کیوں کے حبہ کی آمد سے اسکا گھر قہقہوں سے گونجتا۔۔۔۔ نور کی اس خاموشی سے ازلان کو وحشت ہوتی۔۔۔ تبھی ایک بار جب حبہ اور امان یہاں رہنے آئے تو ازلان نے اپنے دل کی حالت نور کے سامنے رکھی۔۔۔۔


سردیوں کا موسم تھا بچوں کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔۔۔ فیضان بچوں کو ننھیال لے گیا تھا۔۔۔۔ اس دن سب گارڈن میں چیر رکھے بیٹھے تھے۔۔۔۔ سامنے لکڑیاں جلائیں تھیں۔۔۔۔ جس سے نور اور حبہ وقتاً ہاتھ سیکتیں۔۔۔ ازلان گٹار ہاتھ میں لیے کہنے کو تو ہنی کی فرمائش پر (جو اسنے خود ہنی کو کہا تھا کے فورس کرنا آج تمہیں میری آواز سننی ہے ) لیکن اصل میں اپنے دل کا حال اپنی بیوی کو سنانے کے لیے وہ کر رہا تھا۔۔۔۔


نور بھی خاموشی سی عوروں کی طرح بیٹھی تھی لیکن جب ازلان کی آواز گونجی اسکا دل معمول سے تیز دھڑکنے لگا۔۔۔۔


آپ بیٹھے ہیں بالیم پہ میری

موت کا زور چلتا نہیں ہے

آپ بیٹھے ہیں بالیم پہ میری

موت کا زور چلتا نہیں ہے


آپ بیٹھے ہیں بالیم پہ میری

موت کا زور چلتا نہیں ہے

موت مجھ کو گوارہ ہے لیکن


موت مجھ کو گوارہ ہے لیکن

کیا کروں دم نکلتا نہیں ہے

کیا کروں دم نکلتا نہیں ہے.....


جہاں سب اسکی آواز میں کھوئے تھے وہیں اسکے الفاظ سامنے بیٹی اسکی بیوی کا دل چیر رہے تھے کس قدر ظالم ہے۔۔۔۔ کیسے موت کی بات اتنی آسانی سے کر دیتا ہے۔۔۔۔؟؟ نور نے بمشکل اپنی سسکی دبائی ایک پل کو اس نے اس ظالم شخص کو دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ تھی۔۔۔ وہ اسکے چہرے سے اسکے دل کا حال پڑھ رہا تھا۔۔۔۔ اب وہ اور جوش سے گانا گنگنا رہا تھا۔۔۔۔


یہ ادا یہ نزاکت باراسیل

میرا دِل تم پہ قربان لیکن

یہ ادا یہ نزاکت باراسیل

میرا دِل تم پہ قربان لیکن


کیا سنبھالو گے تم میرے دِل کو

کیا سنبھالو گے تم میرے دِل کو

جب یہ آنچل سنبھالتا نہیں ہے


کیا سنبھالو گے تم میرے دِل کو

جب یہ آنچل سنبھالتا نہیں ہے


نور نے شکوہ کناں نظریں اٹھائیں وہ اس سے التجا کر رہا تھا۔۔۔ بس ایک دفع بس ایک دفع معاف کردو۔۔۔۔ بس ایک معافی میری توبہ۔۔۔۔۔ اسے نظریں پھیرتے دیکھ ازلان کی نظریں مایوسی سے واپس لوٹ گئیں۔۔۔۔۔ معاف تو کر چکا ہے ہمیں وہ بس انا آڑے آرہی ہے۔۔۔۔


میرے نالوں کی سن کر زبانیں

ہو گئی موم کتنی چٹانیں

میرے نالوں کی سن کر زبانیں

ہو گئی موم کتنی چٹانیں


میں نے پگھلا دیا پتھروں کو

میں نے پگھلا دیا پتھروں کو

اک تیرا دِل پگھلتا نہیں ہے


میں نے پگھلا دیا پتھروں کو

اک تیرا دِل پگھلتا نہیں ہے


اُسنے نظریں نہیں پھریں تھیں آنکھوں کی نمی اس سے چھپا رہی تھی۔۔۔ اُس سے جو اسکی رگ رگ سے واقف ہے۔۔۔۔


” بابا امیزنگ شی اس کراینگ۔۔۔!!!! داٹس مین وی وون۔۔۔ وہ اب آپ سے ناراض نہیں۔۔۔“ اسکی بات پر ازلان مسکرا دیا لیکن اسکا ہاتھ گٹار سے ہٹا نہیں اسکے لب مسلسل ہل رہے تھے۔۔۔۔


ماحقادی كے سبھی پینے والے

لڑکھڑا کر سانبحالتی ہیں لیکن

تیری نظروں کا جو جام پی لے

تیری نظروں کا جو جام پی لے

عمر بھر وہ سنبھالتا نہیں ہے


تیری نظروں کا جو جام پی لے

عمر بھر وہ سنبھالتا نہیں ہے


” حبہ میں آرہی ہوں ایک ضروری کام رہ گیا۔۔۔“


جلدی سے وہ پاس بیٹھی حبہ کے کان میں کہ کر وہاں سے بھاگئی۔۔۔۔


آپ بیٹھے ہیں بالیم پہ میری

موت کا زور چلتا نہیں ہے

موت کا زور چلتا نہیں ہے

موت کا زور چلتا نہیں ہے


اسکی آواز نے نور کا دور تک تعقب کیا۔۔۔۔ وہ بھی گٹار رکھ کر بہانے سے اسکے پیچھے چلا آیا۔۔۔۔


” کہاں بھاگ رہی ہو۔۔۔؟؟ اور کب تک بھاگو گی۔۔۔؟“ اس نے اندر جاتی نور کا بازو پکڑا۔۔۔۔


” میں آپ سے کبھی نہیں بھاگی تھی۔۔۔ آپ چلے گئے تھے مجھے چھوڑ کے وعدہ نبھایا نہیں۔۔۔“ آنکھوں میں نمی تھی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ شکوہ کر رہی تھی۔۔۔۔


” تم سیکھا دو نبھانا۔۔۔“


” سیکھ لیں اب تک نبھا رہی ہوں۔۔۔“ ازلان نے اسکے آنسوں پونچھے۔۔۔۔


” نفرت کرتی ہو نا۔۔۔؟؟ “


” نہیں۔۔۔ نفرت نہیں کرتی۔۔۔ “


” جھوٹ بول رہی ہوں۔۔۔؟؟ “ اسے لگا تھا شاید ازلان یہی سمجھا۔۔۔۔۔


” نہیں تم سچ بول رہی ہو تمہاری آنکھیں تمہارے دل کا حال عیاں کر دیتی ہیں۔۔۔“ وہ اسکی بات سن کر مسکرائی۔۔۔۔۔


” تم اگنور کرتی ہو دور جاتی ہو تو تڑپ اٹھتا ہوں۔۔۔۔ “ اسکی مسکراہٹ اسے حوصلہ دے رہی تھی۔۔۔۔


” آپ جو کہتے ہیں کرتی ہوں پھر۔۔۔؟؟ ازلان میں خود آؤنگی آپ کے پاس لیکن اُس دن جب میری بددعا دعا بن کر حیا کو لگے گی۔۔۔۔ اب آپ کو بھی مجھ سے شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔ اب تو نا طنز کرتی ہوں نا شکوہ۔۔۔۔۔ بس یہ ڈر میرے اندر سے ختم ہوجاے۔۔۔۔ میں نے آپ پر اعتبار کیا مجھ پر بھی کریں۔۔۔۔“


” آئی لوو یو نور۔۔۔ “ بےاختیار ہوکر ازلان نے اسکا ماتھا چوما۔۔۔۔


” لیکن میں نفرت نہیں کرتی۔۔۔۔“ وہ اسکے سینے سے لگی ہنستی ہوئی اس سے کہ رہی تھی۔۔۔ ازلان کی گرفت سخت تھی۔۔۔ اور اب تو اس سختی کی عادت ہوگئی تھی۔۔۔۔


” میلے بابا ہیں “


تبھی حیا کی غصّے بھری آواز آئی ازلان فوراً اس سے دور ہوا۔۔۔


اسی طرح زندگی کے ماہ و سال ہنستے روتے گزر گئے۔۔۔۔ وہ کبھی بہت خوش ہوتی کبھی اداس۔۔۔


ازلان گھر آتے ہی اسے اپنی نظروں کے سامنے رکھتا۔۔۔ اسے محبت کا یقین دلاتا وہ خوش ہوتی۔۔۔ لیکن جیسے جیسے وہ حیا کو بڑھتے دیکھتی وہ خوف اس محبت پر غالب آجاتا۔۔۔۔ چھوٹی سے بات پر چڑ جاتی لیکن اسے سنبھالنے والی دو جانین میر اور ازلان ہمیشہ ساتھ رہے۔۔۔۔ ان گزرے سالوں میں میر آہستہ آہستہ اسکی برین واشنگ کرتا گیا۔۔۔۔ ازلان نے بھی اسکا بھر پور ساتھ دیا تھا۔۔۔۔


اسے یقین تھا ایک دن خود وہ اسکے صبر کے سامنے ہار جائے گی۔۔۔ اور ہوا بھی ایسا آج سالوں بعد نور نے اسے محبت کا اظہار کیا اور کھلے دل سے اسے معاف کیا یا یہ کہنا ہوتا کے جھوٹی انا سے وہ باہر نکل آئی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ اپنا کام نپٹا کر تھکا ہارا پہلی فلائٹ سے گھر پہنچا عائشہ اسے لاونچ میں ہی اسکا انتظار کرتیں مل گئیں۔۔۔۔


وہ انہیں سلام کر کے اوپر جانے لگا کے عائشہ نے اسے آواز دیکر روکا۔۔۔۔


” کہاں جا رہے ہو فریش ہو جاؤ اور مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔“ عائشہ سے اسکی روز ہی بات ہوتی عائشہ شاہ زر کے مسلے سے آگا تھیں۔۔۔


شاہ زر نے انہیں کسی اور کو بتانے سے سختی سے منا کیا تھا۔۔۔ عائشہ نے اسے عنایا کا نہیں بتایا اسکا یہی ارادہ تھا کے شاہ ذر کے پاکستان آتے ہی وہ اسے بتائیں گی۔۔۔۔


” ممی حیا سے ملنے جا رہا ہوں ضروری کام ہے۔۔۔“


” حیا گھر پر نہیں سب عارش کی شادی میں گئے ہیں “


شاہ زر کی پیشانی پربل پڑ گئے۔۔۔۔


” مجھ سے بغیر پوچھے وہ میری بیوی کو اپنے دوست کی شادی میں لیکر گیا ہے۔۔۔؟؟ “ شاہ زر غصّے سے بولا۔۔۔۔


” شاہ زر کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔؟؟ تمہاری بیوی بنے سے پہلے وہ اسکی بہن ہے “


” یہی تو سارا مسلہ ہے۔۔۔۔“ شاہ زر دانت پیستے بڑبڑایا۔۔۔۔


” ممی میں فریش ہوکر آرہا ہوں کوئی اچھی سے شیروانی نکال دیں۔۔۔۔“ کہہ کر وہ اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ تیار ہوکر وہ فوراً گھر سے نکالا۔۔۔


ریش ڈرائیونگ کر کے وہ شادی حال میں پہنچا گھر کے نیچے ہی شامیانے لگا کے شادی کا انتظام کیا تھا۔۔۔۔ شاہ زر نے سیل نکالا اور عارش کے بھائی کو کال کی عارش کا بھائی اسکا کلاس فیلو تھا۔۔۔ اس شادی کا انویٹیشن شاہ زر کو بھی تھا تبھی شاہ زر کی جگہ عنایا یہ شادی اٹینڈ کرنے آئی ہے۔۔۔۔


” شاہ زر جاہل آدمی کتنی کالز کی تجھے نا تو منگنی میں آیا نا مہندی میں کل ہم سب نے اتنا انجوائے کیا سارے دوست آئے تھے ہمارے۔۔۔ تو آتا تو تجھے بھی مزہ آتا۔۔۔“ وہ اس سے گلے لگتا کہنے لگا۔۔۔۔


” مسلمان تو تُو ہے نہیں نا سلام نا دعا بس گالیاں دینا شروع ہوگیا۔۔۔۔“ شاہ زر نے ایک مکا اسکی پیٹ پر جڑا۔۔۔۔


” اسلام و علیکم۔۔۔۔!!! کیسے ہیں شاہ زر صاحب۔۔۔؟“ شاہ زر نے گھور کر دیکھا اسکی اس اداکاری پر۔۔۔


” تیرا کمرہ خالی ہے؟؟ “


” کیوں پوچھ رہا ہے “ اس نے حیران نظروں سے شاہ زر کو دیکھا۔۔۔۔


” بکواس نا کر بتا “ وہ پہلے سے تپا تھا اسے غصّے سے جھڑک دیا۔۔۔۔ شاہ زر اس سے چابی لیکر اسکے روم میں آگیا۔۔۔۔ ساتھ اس نے عنایا کو بھی میسج کر کے حیا کو اس روم میں بھیجنے کا کہا۔۔۔


” سیما آپی۔۔۔ آپ کہاں ہیں۔۔۔“


شاہ زر جو بالکنی میں کھڑا اسکے آنے کے انتظار میں سیگریٹ کے گہرے کش لے رہا تھا۔۔۔ حیا کی آواز سن کر وہ بالکنی کا دروازہ بند کر کے کمرے میں آگیا۔۔۔ لائٹ اسنے پہلے ہی اون کر رکھی تھی کے کہیں وہ ڈر نا جائے۔۔۔۔ وہ کمرے میں آیا تو حیا پیٹ اسکی طرف کر کے کھڑی تھی۔۔۔۔ کمرے میں وہ ارد گرد نظر دوڑا رہی تھی۔۔۔ جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو۔۔۔۔!!!! شاہ زر قدم اٹھاتا اسکے پیچھے آن کھڑا ہوا۔۔۔۔ اُسی وقت حیا پیچھے مڑی اس سے پہلے کے اسکی چیخ نکلتی شاہ زر نے اپنا ہاتھ ان نرم ملائم ہونٹوں پر رکھ دیا۔۔۔۔


اسکی شریکِ سفر جس پر وہ جائز حق رکھتا ہے۔۔۔ سجے سنور کے اسکے سامنے کھڑی اسکا امتحان لے رہی تھی۔۔۔ وہ نارنگی چھوڑی دار پاجامہ اور شارٹ شرٹ میں ملبوس اسکے دل کی تاروں کو چھیڑ رہی تھی۔۔۔۔


شاہ زر نے اسکے لبوں سے ہاتھ ہٹایا تو حیا دھیرے دھیرے پیچھے کھسکنے لگی۔۔۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں میں خوف سموئے شاہ زر کو تک رہی تھی۔۔۔ اچانک پیچھے بیڈ ہونے کی وجہ سے وہ دھڑام سے بیڈ پر گرگئی۔۔۔۔ شاہ زر نے اسکے دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر اس کے جانے کے سارے راستے مسترد کر دئے۔ ۔۔


” طلاق چاہیے۔۔۔۔؟؟ “ عجیب سا لہجہ تھا اسکا۔۔۔ نا غصّہ تھا۔۔۔۔ نا محبت۔۔ حیا نظریں چرا گئ۔۔۔۔ پہلے تو غصّے میں بغیر کسی ڈر و خوف کے طلاق مانگ لی تھی۔۔۔ اب جو وہ سامنے تھا تو حیا کو جیسے سانپ سونگ چکا تھا۔۔۔ نا بھولنے کی اسنے قسم کھا رکھی تھی۔۔۔۔


” نظریں کیوں چُڑا رہی ہو۔۔۔؟؟ میری آنکھوں میں دیکھ کر جواب دو۔۔۔“ ٹھوڑی سے پکڑ کے اسنے حیا کا چہرہ اونچا کیا مگر وہ آنکھیں بند کر گئی۔۔۔۔


” کس بات کا ڈر ہے حیا بی بی۔۔۔؟؟ قائروں کی طرح آنکھیں کیوں بند کی ہیں۔۔۔؟؟ بولو طلاق چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟؟ “


وہ سرد لہجے میں دھاڑ اٹھا۔۔۔۔۔ حیا پوری جان سے کانپ گئی۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں میں لرزش سی طاری ہوگئی۔۔۔ اسکے سہمے وجود سے شاہ زر کو آج چڑ سے ہو رہی تھی۔۔۔۔ اب تک حیا کی باتیں اسکے دماغ میں گونج رہیں تھیں۔۔۔


” جواب دو۔۔۔۔“ ہنوز اُسی پوزیشن میں اسے دیکھ وہ دھاڑا۔۔۔۔۔


” نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔“ حیا نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔۔


” پھر وہ بکواس کیوں کی تھی۔۔۔۔؟؟ “ شاہ زر کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔


” آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ وہاں۔۔۔ شادی۔۔۔ ک۔۔۔ کرنے۔۔۔ گئے۔۔۔ تھے۔۔۔“ ڈرتے ڈرتے اس نے اپنی دوستوں کا قول دوہرایا۔۔۔۔


” کیوں یہاں کی لڑکیاں مر گئی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟ “ حیا نے کوئی جواب نا دیا شاہ زر اسکے بہت ہی قریب تھا۔۔۔۔ آنکھیں بند کرتے کم سے کم وہ اسکی نظروں سے تو محفوظ تھی۔۔۔۔ لیکن اب شاہ زر کی نظریں ان شہد رنگ آنکھوں میں گڑھی تھیں جو برسنے کو بےتاب تھیں لیکن مقابل پر کوئی اثر نا ہوا۔۔۔۔


” طلاق کیوں مانگی تھی۔۔۔۔؟؟ اتنا بےاعتبار ہوں۔۔۔؟؟؟ تمہارے پیچھے پاگلوں کی طرح خوار ہو رہا ہوں اور تم طلاق مانگ رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟ تمہیں سب سے اِسی دن کے لیے بچا رکھا تھا کے ایک دن طلاق دے دونگا۔۔۔۔“ وہ اونچی آواز میں سخت لہجے میں گویا ہوا اس کی آنکھیں بےتہاشا سرخ ہو رہیں تھیں۔۔۔


” وہ۔۔۔ میری۔۔۔ دوست۔۔۔“


” تمہارے منہ سے آتا ہونے والے اگلے الفاظ آگر میرے سوال کا جواب نہیں ہوے تو اسی وقت تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤنگا۔۔۔!!! سمجھ لینا رخصتی ہوگئی۔۔۔“ اسکی تواقع کے مطابق پہلے تو وہ ہونق بنی اسے تکتی رہی پھر روتے ہوے اسنے ساری بات شاہ زر کو بتائی جسے سن کر اسکا دل چاہا اس بےوقوف لڑکی کی اور کلاس لے۔۔۔۔ جو فالتو سوچوں کو ذہن میں ڈالے اس سے طلاق کا مطابلہ کر رہی ہے۔۔۔ شاہ زر جو اس پڑ جھکا تھا اٹھ کر اسکے قریب آن بیٹھا۔۔۔۔


” ممی سے میں نے کوئی بات نہیں چھپائی تمہیں اس لیے نہیں بتایا کے پریشان نا ہو جاؤ نا ہی تم اتنی عقل مند ہو کے ہ مسلا میں تم سے ڈسکس کرتا۔۔۔ میرا دوست ارمان اپنی فیملی کے ساتھ فورن گھومنے گیا تھا۔۔۔ ارمان کی بیوی ایک فورینر تھی جس نے بعد میں اسلام قبول کرکے اُس سے شادی کرلی۔۔۔۔ وہ دونوں اپنی چھوٹی سے زندگی میں خوش تھے۔۔۔ اللہ‎ نے شادی کے دوسرے سال ہی انہیں جڑوا بچوں سے نوازا۔۔۔ ایک دن بچوں نے اسکول سے لوٹتے وقت ارمان سے ضد کی کے انہیں چھٹیاں اپنی نانی کے ساتھ گزارنی ہیں۔۔۔ ارمان ان کی خواہش پر انہیں لندن لے آیا۔۔۔۔ وہاں ابھی انکا دوسرا دن گزرا تھا کے رات کو گھر لوٹتے ہوئے کچھ لوگوں نے انہیں لوٹ لیا۔۔۔۔ اور ہاتھا پائی میں ارمان کے ہاتھوں ان میں سے ایک کی موت ہوگئی۔۔۔ میں نے پیسا پانی کی طرح بہا دیا اُسے جیل سے نکالنے کے لیے۔۔۔۔!! اس دوران میں بھابی اور بچوں کو دیکھنے ضرور جاتا جو اُن دنوں اپنی ماں کے گھر تھیں۔۔۔۔!!!! اُس دن بھی میں ان سے ملنے گیا تھا بھابی سے۔۔۔۔ میری اچھی خاصی دوستی ہوچکی ہے۔۔۔۔ وہ خوش اخلاق خوش مزاج خاتون ہیں۔۔۔ انھوں نے اگر تم سے کہ دیا وہ میری دوست ہیں تو اس میں کیا عیب ہے۔۔۔۔؟؟ “


وہ سر جھکائے اپنی بیوقوفی پر ماتم کر رہی تھی۔۔۔ شرمندگی کے مارے اس سے نظریں بھی اٹھائی نا جا رہیں تھیں۔۔۔۔


” میں اس دن بہت پریشان تھا شدت سے مجھے تمہاری یاد ستا رہی تھی۔۔۔ کتنی ہی کالز کیں تم نے جواب نا دیا میں پریشان ہوگیا۔۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کے تم میری کال اٹینڈ نا کرو۔۔۔۔ پھر میں نے ممی کو کال کی انہوں نے بتایا آج تمہارا کوئی امپورٹنٹ لیکچر تھا۔۔۔۔!!! حیا تم اندازہ نہیں لگا سکتیں اس وقت مجھے کتنا غصّہ آیا تھا تم پر۔۔۔۔۔ تم ایک میسج کر دیتیں میں کلاس میں ہوں۔۔۔ تمہیں ذرا احساس نا ہوا۔۔۔۔؟؟ پھر میرا غصّہ بھی بجا تھا اس لیے بھابی سے کہا تمہاری کال کاٹ دیں لیکن تم نے تو شاید قسم کھا رکھی تھی مجھے سکون کا سانس نہیں لینے دوگی۔۔۔۔!! دوسری مرتبہ جو تم نے کال پر بکواس کی اُسے سنتے ہی میں سب چھوڑ کے یہاں آرہا تھا۔۔۔۔ لیکن اپنے دوست کے معصوم بچوں کو دیکھ کر مجھ سے رہا نا گیا۔۔۔۔ اور میں نے اپنی انا بلائے طاق رکھ کر پاپا کو کال کی اور انہوں نے ایک ہفتے کہ اندر ارمان کو رہائی دلوائی “


” منہ دھو کر نیچے چلی جاؤ۔۔۔۔“ آنسوں نے اسکے میک اپ سے تر چہرے کو بھگو ڈالا تھا۔۔۔۔ کاجل آنکھوں کے گرد پہل چکا تھا۔۔۔۔ وہ کہتا ہوا بالکنی میں آکھڑا ہوا سگریٹ جلا کر اسکے گہرے کش لینے لگا۔۔۔ جس لڑکی کو پانے کے لیے اسنے اتنی جدوجہد کی وہ اسے ایک پل میں بے وفائی کا ٹیگ دیکر اس سے آزادی چاہتی ہے۔۔۔۔؟؟ کیا وہ اتنا گرا ہوا ہے حیا کی نظروں میں۔۔۔ کے بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور گواہ کے وہ اس پر شک کر رہی ہے۔۔۔۔؟؟ وہ بھی دوستوں کے کہنے پر جن کا ساتھ تو کچھ سالوں سے تھا۔۔۔۔؟؟؟ لیکن وہ تو اسے بچپن سے جانتی ہے کبھی اسنے اپنی خاندان کی کسی لڑکی سے بات تک کرنا گوارا نہیں کیا۔۔۔۔ کبھی اسکی نظریں حیا سے بھٹک کر کسی اور کے سراپے میں نہیں الجھی۔۔۔۔ حیا کے علاوہ کوئی لڑکی اسکے دل کو بھائی ہی کب تھی۔۔۔ وہ اس پر سے نظریں ہٹاتا تو کوئی اور دیکھتی نا۔۔۔!!! لیکن وہ بیوقوف لڑکی کبھی اسکی بدلتی نظروں کو پہنچان نہیں پائی۔۔۔۔ کبھی اسکے لہجے سے جھلکتی اسکی فکر جان نا پائی۔۔۔۔۔


” شا۔۔۔ شاہ۔۔۔زر۔۔۔“ اسکی بھیگتی لڑکھراتی آواز نے شاہ زر کی سوچوں کا تسلسل توڑا۔۔۔۔ چوڑیوں سے سجا حیا کا ہاتھ شا زر کی پیٹھ پے دھرا تھا۔۔۔۔


” حیا چلی جاؤ یہاں سے اکیلا چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔“ وہ نہایت دھیمے لہجے میں اس سے التجا کر رہا تھا۔۔۔۔ حیا بھیگی آنکھوں سے اسکی چوڑی پشت دیکھتی رہی پھر مرے مرے قدموں سے واپس لوٹ گئی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


حیا حال میں آکر عنایا اور ثانی کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔ عنایا نے اسے اوپر یہ کہہ کر بھیجا تھا کے پھولوں کی شوپر سیما آپی سے لے آئے۔۔۔ ابھی اسے بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی ہوگی کہ شاہ زر وہاں چلا آیا۔۔۔۔


” ماموں آپ کہاں تلے گئے تھے۔۔۔“ احمد فوراً آکر اس سے لپٹ گیا۔۔۔


” آپ کے لیے کھلونے لینے گیا تھا۔۔۔“ وہ ثانی اور عنایا کو سلام کر کے احمد کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ عنایا اور ثانی اچانک اسے دیکھ کر خوش ہوگئیں۔۔۔۔


” شاہ زر تم نے بتایا کیوں نہیں کے آرہے ہو ہم سب ساتھ ہی آجاتے۔۔۔۔“


ثانی نے خوشدلی سے اس سے کہا۔۔۔۔


” بھابی دراصل میں لیٹ ہوگیا تھا اور یہاں آنے کا پروگرام بھی لاسٹ مومنٹ پر بنا۔۔۔“ شاہ زر نے کبھی ثانی سے روڈلی بیہو نہیں کیا ثانی کا مزاج ہی ایسا تھا کے کوئی چاہ کر بھی سخت لہجے میں اس سے مخاطب نہیں ہوتا۔۔۔۔


” ویسے شاہ زر تمہارے جانے سے حیا بہت اداس رہنے لگی تھی۔۔۔۔“ ثانی نے حیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کب سے شاہ زر کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔ ثانی کے کہنے پڑ سٹپٹاتی ہوئی نظروں کا زاویہ بدلا۔۔۔۔


” جی بھابی وہ دیکھ رہا ہے۔۔۔۔“ شاہ زر نے طنز کیا جس پر حیا آنسوں پیتی رہ گئی۔۔۔۔ عنایا خاموش بیٹھی تھی وہ اپنی ماں کے کہنے پر آ تو گئی تھی لیکن اسکا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔ ابھی اسے شاہ زر کا بھی سامنا کرنا تھا اسی جب پتا لگے گا نجانے کیا ہوگا۔۔۔۔؟؟


شاہ زر تھوڑی دیر انکے ساتھ بیٹھا رہا پھر اٹھ کر مردوں والی سائیڈ چلا گیا جہاں اسے میر ملا آج اس نے میر کو نظرانداز نہیں کیا۔۔۔۔ وہ اس نارمل انداز میں ملا اور دونوں نے ایک ہی ٹیبل پڑ بیٹھ کر کھانا کھایا۔۔۔ فنکشن ختم ہوتے ہی میر اپنی کار میں سب کو لیے گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔ جبکے شاہ زر میر کے کہنے کے باوجود گھر نہیں گیا۔۔۔ اُسے اس وقت تنہائی چاہیے تھی اسلیے وہ کار لیکر ساحل سمندر کی طرف چل آیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” آپ نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی۔۔۔۔؟؟ ممی میں ملک سے باہر گیا تھا مر نہیں گیا تھا۔۔۔ “ شاہ زر اس وقت ساری تمیز بلائےطاق رکھ کر عائشہ سے ہمکلام تھا۔۔۔۔ جس نے ابھی اسے عنایا کی ڈائیورس کی خبر دی۔۔۔۔ ایک گھنٹے وہ سمندر کے کنارے بیٹھا حیا کے بارے میں سوچتا رہا۔۔۔۔ اس دوران حیا بھی بےچین رہی وہ بار بار اسے کال کر رہی تھی۔۔۔۔ لیکن شاہ زر نے اٹھانے کی زحمت نہیں کی خود سے لڑتے لڑتے وہ رات کے چار بجے گھر پہنچا اور آتے ہی عائشہ نے اسے دل دہلانے والی خبر سنائی۔۔۔۔


” اللہ‎ معاف کرے۔۔۔!!!! کیا بولے جا رہے ہو شاہ زر ماں کا بلکل خیال نہیں۔۔۔ اور کس لہجے میں بات کر رہے ہو مجھ سے۔۔۔۔ وہاں جاکر تمیز بھی بھول گئے ہو۔۔۔؟“ عائشہ نے باقاعدہ دل پر ہاتھ رکھ لیا۔۔۔ جو وہ سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں انکا بیٹا کتنے آرام سے کہہ گیا۔۔۔


” ممی اتنی بڑی بات ہوگئی میری بہن کی زندگی برباد ہوگئی۔۔۔ اور آپ نے مجھے بتانا تک فرض نہیں سمجھا۔۔۔۔؟؟ میرا دل چاہ رہا ہے ایک ایک کو تباہ کر دوں۔۔۔۔“ غصّے سے شاہ زر نے پاس پڑا واس دیوار پڑ مار دیا۔۔۔۔۔


” شاہ زر وہاں تم پہلے ہی پریشان تھے میں کیسے بتاتی۔۔۔ میں نے سوچا خیریت سے یہاں پہنچو پھر بتاؤں گی۔۔۔۔“ عائشہ اسے غصّے میں دیکھ کر خود ڈر گئیں انہیں شاہ زر کے اس رِد عمل کی توقع نہیں تھی۔۔۔۔


” مما آپ چچی سے بات کریں اسی ہفتے حیا رخصت ہوکر یہاں آئے گی۔۔۔۔!!! پاپا سے میں بات کر لونگا۔۔۔۔“ شاہ زر کی اگلی بات سے جہاں وہ بُری طرح چونکیں۔۔۔۔ وہیں انھیں بےانتہا حیرانگی ہوئی اچانک شادی کا کیا مقصد بہن کی زندگی اُجڑ گئی۔۔۔۔ اور اسے اپنی خوشیوں کی پڑی ہے گھر کا ماحول عجیب ہوگیا تھا۔۔۔۔ فیضان نے چُپ ساد لی تھی سب ڈنر کے وقت اکھٹا ہوتے ورنہ تو پورا دن ہر کوئی کمرے میں بند رہتا۔۔۔ عنایا نے بھی اوپر رہنا ہی بہتر سمجھا خود عائشہ نے بھی اس سے کہا ہے جب تک فیضان کا غصّہ کم نہیں ہوجاتا وہ اوپر رہے البتہ وہ روز اس سے ملنے جاتیں۔۔۔


” تمہاری شادی کہاں سے آگئی شاہ زر۔۔۔۔؟؟ تمہاری بہن کا گھر اجڑ گیا اور تمہیں اپنی فکر لگی ہے۔۔۔“


” ممی ٹرائے ٹو انڈراسٹینڈ۔۔۔۔!!! میں اور انتظار نہیں کر سکتا آپی کی ڈائیورس کو مہینہ ہو چلا ہے اب جو قسمت میں لکھا تھا وہ ہوکر رہتا ہے ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔۔۔؟؟ میں اس لیے شادی کا کہ رہا ہوں کے گھر کا ماحول بہتر ہوگا۔۔۔ حیا کے آنے سے اس گھر میں تھوڑی رونق ہوگی آپی کا ُمرجایا چہرہ بھی کھل اٹھےگا۔۔۔“ شاہ زر کی بات انھیں اب بھی قائل نا کرسکی انکے چہرے پر غصّے کی ابھرتی لکیریں واضع پیغام دے رہیں تھیں۔۔۔


” شاہ زر کیا ہوگیا ہے۔۔۔؟؟ اتنی جلدی۔۔۔؟؟ شادی تمہیں بچوں کا کھیل لگتا ہے۔۔۔؟؟ اور ازلان کبھی راضی نہیں ہوگا۔۔۔ ایک ہی بیٹی ہے اِِسکی۔۔۔ اسکے بھی کچھ ارمان ہونگے نور نے تو بہت کچھ بنایا ہے حیا کے لیے۔۔۔۔ اور گاؤں سے بھی امی ابو سب آئیں گے۔۔۔۔“ عائشہ چاہ کر بھی لہجہ نارمل نا رکھ سکی آج کل تو ویسے ہی انہیں بات بات پر غصّہ آجاتا۔۔۔۔


” شادی ہمیں کرنی ہے حیا اور میرا ہونا لازم ہے۔۔۔ باقی ضروری نہیں اور دوسری بات ممی اگر اس ہفتے رخصتی نہیں ہوئی تو یاد رکھیے گا میں ساری زندگی شادی نہیں کرونگا۔۔۔۔“ کہہ کر وہ بغیر انکی سنے غصّے سے گاڑی کی چابی اٹھا کر دروازہ دھڑم سے بند کر کے چلا گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” کیا ہوا علی تم اداس کیوں ہو۔۔۔؟؟ “ ناشتہ کے ٹیبل پر اس وقت علی تنہا بیٹھا تھا۔۔۔۔ حیا شاہ زر کے ساتھ یونی جانے کے گرز سے نیچے آئی تھی۔۔۔ ڈر تو اسے بہت لگ رہا تھا لیکن جو بیوقوفی وہ انجانے میں کر بیٹھی ہے۔۔۔ اب اسے سدھارنی بھی تھی شاہ زر کو منانے کا سوچ کر ہی وہ خوف میں مبتلا ہوجاتی۔۔۔ جتنا اسے شاہ زر سے ڈر لگتا تھا شاید ہی کسی اور سے لگتا ہو۔۔۔


” حیا عارف بھائی نے ٹھیک نہیں کیا اب عنایا آپی کا کیا ہوگا اور احمد اِسکا اس سب میں کیا قصور؟؟ “


علی اس وقت بہت اداس لگ رہا تھا۔۔۔۔


” تم سہی کہہ رہے ہو۔۔۔!!! پتا ہے میں روز کوشش کرتی ہوں کے عنایا آپی اداس نا ہوں انکے ساتھ رات میں موی دیکھتی ہوں۔۔۔ کبھی ہم مل کر احمد کے ساتھ لوڈو کھیلتے ہیں۔۔۔۔ ثانی بھابی بھی انھیں کسی نا کسی طرح باتوں میں الجھائے رکھتی ہیں تاکے انھیں کچھ یاد نا آئے۔۔۔۔ “ علی اسکی معصومیت پر مسکرا دیا وہ کیا بات کر رہا تھا اور حیا نے اسکا کیا رخ نکالا۔۔۔۔


” حیا میں انکے فیوچر کے بارے میں سوچ رہا ہوں اب کیاہوگا “


” ناشتا کر کے کالج جاؤ لیٹ ہوجاؤ گے “ فیضان نے آتے ہی علی سے کہا جو فیضان کی آتے ہی ناشتا شروع کر چکا تھا البتہ چائے عائشہ کچن سے لا رہیں تھیں۔۔۔


” کیسی ہو گڑیا۔۔۔۔!!! آتی ہی نہیں “ فیضان نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔


” نہیں تایا ابو ایسی بات نہیں میں آتی ہوں لیکن اب آفس جا چکے ہوتے ہو۔۔۔“ علی نے ایک سینڈوچ اٹھا کر اسکی پلیٹ میں رکھا تب تک عائشہ نے بھی ملازمہ کے ہاتھ چائے بھجوا دی۔۔۔۔


” ویسے آج تم یہاں کیسے۔۔۔؟“ علی نے ناشتے کے دوران اس سے پوچھا۔۔۔ اسی وقت شاہ زر بھی ناشتے کے گرز سے انکے پاس ہی بیٹھ گیا۔۔۔ وہ مکمل تور پر حیا کو نظرانداز کر رہا تھا جو حیا نے بخوبی محسوس کیا۔۔۔۔


” وہ میں لیٹ ہوگئی ہوں گھر پر کوئی ہے نہیں میں نے سوچا تم چھوڑ آؤ گے “ حیا نے کہا آہستہ سے تھا لیکن فیضان اس کی بات سن چکا تھا تبھی شاہ زر سے بولا۔۔۔۔


” حیا کو یونی چھوڑنے کے بعد آفس جانا “


شاہ زر نے ایک غصیلی نظر سے اسے نوازا اور ناشتا کر کے اٹھ کھڑا ہوا حکم تھا وہ بھی آجائے۔۔۔۔


” مجھ۔۔۔ مجھے آپ۔۔ سے با۔۔۔ بات کرنی ہے “


اسکے کار میں بیٹھتے ہی شاہ زر نے گاڑی سٹارٹ کردی۔۔۔ حیا دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلتے لڑکھڑاتے لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔۔۔


” فرمائیے۔۔۔۔“ شاہ زر کی نظریں سامنے ونڈسکرین پر جمی تھیں۔۔۔ حیا نے خشک گلا تٙر کیا اور ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوے بولی۔۔۔


” آئ ایم سوری شاہ زر۔۔۔۔ میں نے۔۔۔ آپ۔۔۔ پڑ۔۔۔شک کیا۔۔۔ میں سچ کہ رہی ہوں۔۔۔ میری فرنڈز نے طلاق کا کہا تھا۔۔۔ میں تو اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔“ وہ سوں سوں کرتی اپنی غلطی کا احتراف کر رہی تھی۔۔۔ شاہ زر نے ایک جھٹکے سے کار روکی اور پاس پڑے باکس سے کچھ ٹیشوز نکال کر اسکی طرف بڑھائے۔۔۔ جسے حیا نے لرزتے ہاتھوں سے تھاما شاہ زر کے چہرے پر سختی تھی حیا کی کوئی بات اس پر اثر نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔


” کب لینے آؤں۔۔۔؟ “ حیا نے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو اسے اپنی یونی کا گیٹ نظر آیا۔۔۔۔


” میں بھائی کو بلا لونگی۔۔۔۔“ حیا نے ناراض لہجے میں کہا اسے شاہ زر کا روٹھنا کسی تور برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔


” اوکے۔۔۔۔“ وہ شاہ زر کے چہرے کو دیکھتی رہی شاید کچھ بولو لیکن وہ اس وقت سنجیدگی سے ونڈسکرین کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔


حیا نے اپنا بیگ اٹھایا اور زور سے کار کا دروزہ بند کر کے باہر نکلی۔۔۔ شاہ زر جو کب سے قہقہہ روکے بیٹھا تھا اسکے جانے کے بعد فلک شگاف قہقہہ لگایا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔؟؟ “ میر تھکا ہارا کورٹ اتار کر ثانی کے برابر میں گرنے کے انداز میں لیٹ گیا۔۔۔ ثانی جو پوری توجہ سے فلم دیکھ رہی تھی میر کے گرنے پر چونک گئی۔۔۔۔


” کچھ کچھ ہوتا ہے۔۔۔۔“ اس نے میر کو دیکھتے جواب دیا۔۔۔۔ ایک بار پھر اسکی نظریں ٹی وی پر مرکوز ہوگئیں۔۔۔


” بکواس موی نا سر نا پیر۔۔۔“ میر نے اسے اپنی طرف متوجہ ناپاکر کہا۔۔۔۔


” کیوں۔۔۔؟؟ اتنی اچھی مووی ہے۔۔۔۔!!! میری فیورٹ یہ دیکھ کے ہی تو مجھے شاہ رخ خان پسند آیا۔۔۔“ میر اس کی بات سن کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔۔۔ اور غور سے ایک نظر ٹی وی میں نظر آتے شاہ رخ کو دیکھا آخر اس لنگور میں ہے کیا۔۔۔؟؟


” تمہیں یہ لنگور پسند ہے۔۔۔؟؟ “ وہ لہجے میں حیرت سموئے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔


” خبردار میر جو آپ نے کچھ اور کہا تو۔۔۔۔!!! “ ثانی نے اسے بیچ میں ٹوک دیا اسے کہاں گنوارہ تھا کوئی اسکے فیوریٹ ایکٹر کی اس طرح برائی کرے۔۔۔


” ایسی کیا بات ہے اس میں۔۔۔؟؟ پچاس کروس کر چکا ہے پھر بھی ہیرو کے رول کرتا ہے۔۔۔ یار حیرت ہے ہیروئن سے زیادہ تو یہ صاحب میک اپ تھوپ کر آتے ہیں۔۔۔۔“ میر اندر ہی اندر جل بھن کر بیٹھا تھا۔۔۔ ساری بھڑاس نکال کر اب ثانی کو دیکھ رہا تھا جس نے بُرا سا منہ بنا رکھا تھا۔۔۔۔


” میر شاہ رخ خان نیچرلی پیارا ہے۔۔۔ اسے ان بناوٹی چیزوں کی ضرورت نہیں۔۔۔“ وہ بُرا مان گئی۔۔۔۔


” نیچرلی ریلی۔۔۔؟؟ اپنی آنکھوں کا علاج کراؤ صاف پتا لگتا ہے جناب کاسمیٹکس سے نہا کر آئے ہیں۔۔۔۔“ میر منہ پھلا کر ٹی وی دیکھنے لگا سامنے ہوتا تو حلیہ بگاڑ دیتا۔۔۔۔ اس کی بیوی نے کبھی اسکی تعریف نہیں کی اور اس شاہ رخ خان کے لیے شوہر سے لڑ رہی ہے۔۔۔۔


” اس ایج میں خود کو مینٹین بھی تو کیا ہے۔۔۔!!! آپ خود بتائیں دیکھ کر پتا چلتا ہے۔۔۔ فیفٹی کے ہیں مجھے تو ٹوئنٹی تری کا لگتا ہے۔۔۔“


” استغفرالله ثانی۔۔۔!!! یہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا اور جہاں تک مینٹینسز کی بات ہے بابا کو دیکھو آج تک خود کو مینٹین رکھا ہے۔۔۔۔ میں نے تو اکثر مما سے کہا تھا بولیں تو انکی دوسری شادی کرواکر آپ کی جان چھڑوا دوں۔۔۔“ میر تو اچھل کر رہ گیا ٹوئنٹی تری پر یہ بات تو وہ خوب جان چکا تھا عورتیں اپنی بات منوا کر رہتی ہیں۔۔۔۔


” میر کیا بولے جا رہیں ہیں مما نے سن لیا نا تو پکڑ کے مارینگی۔۔۔“ ثانی حیران رہ گئی کیسے آرام سے وہ اپنے بابا کی دوسری شادی کا کہ سکتا ہے۔۔۔۔ وہ یہ جانتی نہیں تھی دونوں باپ بیٹے ایک سے بڑھ کر تھے۔۔۔ وہ یہ بات نجانے کتنی بار ازلان کے سامنے نور سے کر چکا ہے۔۔۔۔ نور تو کوئی رسپانس نہیں دیتی تھی البتہ ازلان آفس میں اسکا کام بڑھا کر خوب بدلہ لیتا۔۔۔۔۔


” مارینگی وہ تو خوش ہونگی جان چھوٹی۔۔۔۔“ میر کہہ کر خود ہی ہنس پڑا۔۔۔ ثانی ابھی تک حیران تھی میر اسکی گودھ میں سر رکھے اسے غور سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔


” کیسی بیوی ہو شوہر کی ذرا فکر نہیں تھکا ہارا آیا نا چائے نا پانی الٹا فضول بات پر بحث شروع کر دی۔۔۔۔ “ میر نے اسے دیکھتے نرم مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر کہا۔۔۔۔ ثانی پل بھر کو شرمندہ ہوگئی۔۔۔۔


” سوری میر میں ابھی آپ کے لیے چائے لاتی ہوں!! “


” نہیں بھائی بیٹھو بس سر کی مالش کردو آج بہت تھک گیا ہوں۔۔۔“ وہ اپنی نرم انگلیاں میر کے بالوں میں چلانے لگی۔۔۔۔ میر کو نشا سا چڑنے لگا میٹھی نیند اسکی آنکھوں میں اُترنے لگی۔۔۔۔


” تمہیں واقعی یہ لنگور پسند ہے۔۔۔؟؟ “ وہ آنکھیں موندھے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ دل میں جلن ابھی بھی قائم تھی۔۔۔۔


” ہاں “


ثانی نے پھٹ سے جواب دیا۔۔ میر تلملا کے خاموش ہوگیا کچھ دیر بعد ثانی نے خود ہی بات جاری کی۔۔۔۔


” ویسے ایک بات بتاؤں مجھے اس سے بھی زیادہ کوئی پسند ہے “


” کون ہے وہ دوسرا نمونا۔۔۔“ میر نے بگڑے موڈ کے ساتھ جل کر کہا۔۔۔


ثانی نے ایک نظر میر کو دیکھا اور نہایت دھیرے سے اسکا سر اپنی گودھ سے ہٹایا۔۔۔ میر کی آنکھیں ابھی بھی بند تھیں وہ اسکے کان کے قریب جھکی۔۔۔۔


” حنان شاہ “ کہتے ہی وہ بھاگنے کے ارادے سے دوڑی میر نے پھٹ سے آنکھیں کھولیں ثانی دروازے تک پہنچ چکی تھی میر تیر کی تیزی سے اسکی طرف بڑھا۔۔۔۔ جو اب دروازہ کھول کر باہر نکلنے کو تھی۔۔۔۔ میر نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔ پھر دوسرا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لیا اور پیر کی مدد سے کھلا دروازہ بند کیا۔۔۔ میر نے ثانی کے دونوں بازو پیچھے کیے وہ اسکے اتنا قریب تھی اسکا سر شاہ میر کے سینے سے ٹکرایا۔۔۔۔


” مجھ سے چالاکی مسز میر۔۔۔۔!!! اب بولو کون پسند ہے۔۔۔۔؟؟ اور خبردار جو اب اسکا نام زبان سے لیا بھی تو “


میر نے مصنوئی گفگفی دیکھاتے اس سے کہا۔۔۔۔


” شاہ۔۔۔ “

ابھی اسنے کہنا شروع کیا تھا کے میر نے اسے گھوری سے نوازا ثانی بےاختیار ہنسنے لگی۔۔۔۔۔


” شاہ میر “ ثانی نے لرزتی پلکوں سے اقرار کیا میر کی بدلتی نظروں سے اسکی پلکیں خود با خود جھک گئیں۔۔۔


” جانِ میر بہت تنگ کرتی ہو مجھے۔۔۔!!!! “ جھکی پلکوں کو دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے بولا اور محبت کی مہر اسکی پیشانی پر ثبت کی۔۔۔ کھٹکے کی آواز پر دونوں نے چونک کر دیکھا تو عنایا دروازہ کھولے سامنے کھڑی تھی اسکے ہاتھ میں پکوڑوں سے بھری پلیٹ تھی۔۔۔۔


” آئی ایم سوری مجھے لگا تھا ثانی اکیلے ہوگی۔۔۔“


” آؤ بیٹھو عنایا میں بس فریش ہونے جا رہا تھا تم بیٹھو ثانی کے ساتھ “


” میر آپ کے آنے سے پہلے ہم ساتھ ہی فلم دیکھ رہے تھے۔۔۔ اور پتا ہے شاہ رخ خان عنایا کا فوریٹ ہیرو ہے۔۔۔۔ ہم اسی پر بحث کر رہے تھے پھر عنایا پکوڑے تلنے چلی گئی۔۔۔۔ اور میں نے سوچا آپ سے بحث کنٹینیو کر کے تنگ کروں۔۔۔“


” اچھا تو اتنی دیر سے مجھے بیوقوف بنا رہیں تھیں “ میر نے کہتے ہی ہلکے سے اسکی ناک دبائی۔۔۔۔ جس پر ثانی ہنس دی اس وقت میر عنایا کی موجودگی فراموش کر چکا تھا۔۔۔ عنایا کو اپنا یہاں روکنا محال لگ رہا تھا۔۔۔ لیکن بغیر بتائے جانا بھی اسے عجیب لگ رہا تھا۔۔۔۔ وہ اسی کشمکش میں گری تھی کے احمد کی آواز آئی جو شاید اسے پورے گھر میں ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔۔


” احمد مجھے ڈھونڈ رہا ہے ثانیہ میں اسی دیکھ کر آتی ہوں “


ثانی اور میر جو خود میں کھوئے تھے عنایا کی آواز پر ہوش میں آئے۔۔۔ عنایا تو کہتے ساتھ چلی گئی ثانی میر سے الجھنے لگی۔۔۔۔


” میر آپ بھی نا باتوں میں الجھا دیا وہ بیچاری شرمندہ ہوگئی ہوگی۔۔۔۔“ وہ روٹھی روٹھی سی ناراض لہجے میں بولی۔۔۔۔


” کوئی شرمندہ نہیں ہوئی ہوگی تم یہ بتاؤ آج کل بہت بولنے نہیں لگ گئیں۔۔۔ جب سے گڈ نیوز سنی ہے میری فکر ہی نہیں۔۔۔ ویسے تو نیچے تک دوڑی چلی آتیں تھیں میر آپکا والیٹ، چابی آپ کی فائل اور اب یار کوئی ویلیو ہی نہیں۔۔۔۔؟؟ ابھی سے یہ حال ہے تو نجانے آگے کیا ہوگا تم تو بچوں کے آنے تک مکمل تور پر مجھے بھول چکی ہونگی۔۔۔“ وہ بیچارگی سے بولا۔۔۔۔


” میر آپ جیلیس ہو رہے ہیں۔۔۔؟؟ “ عنایا نے ہنسی ضبط کرتے کہا۔۔۔۔


” اور نہیں تو کیا آج مجھے بابا سے پیسے لینے پڑے کیوں کے آپ مجھے والٹ دینا بھول گئیں۔۔۔ آج لنچ کرنے میں ہوٹل گیا تھا۔۔۔ وہاں جاکر پتا لگا جیب میں والٹ نہیں اگر بابا سہی وقت پر نا آتے تو آج مجھے برتن دھونے پڑتے۔۔۔۔۔!!! تم خود سوچو شاہ کنسٹرکشن کا چشم و چراغ ہوٹل میں برتن دھو رہا ہے۔۔۔۔!!! یار کیا ویلیو رہ جاتی میری۔۔۔۔؟“ ثانی کو ہنسی کا دوڑا شروع ہوا تو وہ ہنستی چلی گئی۔۔۔ میر بھی اسے دیکھ مسکرا اٹھا۔۔۔۔


” اوہ گوڈ میر واقعی۔۔۔۔؟؟؟؟ میں حیا کو بتا کر آتی ہوں۔۔۔۔“ وہ جانے کے لیے دوڑی ہی تھی کے میر نے ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔


” ہاں ہنسی خوشی شوہر کے قصے سناؤ دو تین اور بھی ایڈ کرنا۔۔۔“ میر نے اسے گھورا جس کا اثر لیے بغیر وہ صبح والی بات بتانے لگی۔۔۔۔


” میر میں آپ کو بتانا ہی بھول گئی آج تائی امی آئیں تھیں اُن کا کہنا ہے اِسی ویک حیا کی رخصتی کردیں۔۔۔ سب راضی ہیں صرف بابا سے اجازت چاہیے انھیں۔۔۔“ ثانی تو بولے جا رہی تھی میر دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ سب سن رہا تھا۔۔۔۔ اسکے قدم اب نور کے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مما حیا ابھی بچی ہے آپ اتنی جلدی اسکی رخصتی کیسے کر سکتی ہیں۔۔۔“ نور جو حیا کی فرمائش پر لزانیا بنا رہی تھی۔۔۔ میر کی بات پر مسکرا اٹھی وہ ابھی تک اسے اپنی ننی گڑیا ہی سمجھتا ہے۔۔۔۔


” میر میں نے ابھی بھابی کو کچھ نہیں کہا جب تک ازلان ہاں نہیں کرتے میں کیسے ہامی بھر سکتی ہوں۔۔۔؟؟ “


نور نے لزانیا اون میں رکھتے ہوے کہا۔۔۔ میر ابھی بھی پریشان تھا۔۔۔۔ اسکا دل معمول رفتار سے تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ اتنے دن ہوگئے وہ ابھی بھی چاہ کر کچھ نہیں کر سکا نا عنایا سے اسکی بات ہوئی نا بابا سے۔۔۔


” تو آپ انکار کر دیں میں نے بہت کچھ سوچا ہے حیا کے لیے ایک ہی تو بہن ہے میری اسکی شادی بھی عجلت میں کردوں “


” میر شاہ زر ضد پکڑ کے بیٹھ گیا ہے پتا نہیں کیوں۔۔۔۔؟؟ وہ کسی کی بات سنے کا رواں دواں نہیں بھابی نے بہت مان سے کہا ہے۔۔۔۔ وہ عنایا کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھیں۔۔۔ اور اب شاہ زر تم خود سوچو ایک ماں کی کیفیت۔۔۔“ نور خود بھی راضی تھی اسی وجہ سے میر کو قائل کر رہی تھی اور یہ بات میر نے محسوس کی۔۔۔۔۔


” میر حیا کے آنے سے میرے گھر میں رونق ہوگی آنا تو اُسے ہے جلد یا دیر اگر جلدی آجائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔؟؟ “


عائشہ نور کو ڈھونڈتے کچن میں آگئی میر کی بات وہ سن چکی تھی۔۔۔۔۔


” تائی امی ابھی وہ بچی ہے۔۔۔۔“ میر نے کمزور سا احتجاج کیا۔۔۔


” میر میں نے کون سا اسے گھر کے کام کرانے ہیں۔۔۔ ابھی میرے ہاتھ پیر سلامت ہیں اور وہ بھی خیر سے پڑھائی مکمل کر لے پھر گھر تو اسی کا ہے جب چاہے سمبھالے۔۔۔۔“


” جی تائی امی “ اب وہ صرف ازلان کے ذریعے ہی انکار کر سکتا ہے عائشہ اسکی بڑی تائی ماں سمان ہے وہ ان سے بحث نہیں کر سکتا۔۔۔۔


” میر میں عنایا کو لینے آئی تھی۔۔۔ اب مہمانوں نے آنا ہے ایسے میں بڑی بہن کا ہونا لازم ہے۔۔۔ تم اُسے کہو میرے ساتھ چلے تمہاری بات سے وہ انکار نہیں کریگی “


انکی بات سن کر میر کا دل چاہا اپنا سر دیوار میں دے مارے۔۔۔۔ ابھی بات پکی ہوئی نہیں بابا کو معلوم نہیں گھر کے کافی افراد لاعلم ہیں۔۔۔۔ اور یہاں دو خواتین نے ہامی کیا بھرلی بس شادی ہوگئی۔۔۔


میر ان دونوں کو چھوڑ کر عنایا کو بلانے چلا گیا۔۔


☆.............☆.............☆



عنایا احمد کو لیکر کمرے میں آگئی اور اسے ایک پکوڑا تھما کر پلیٹ سائیڈ پر رکھ دی۔۔۔ اسے اپنی غلطی کا احساس بہت پہلے ہوچکا تھا۔۔۔ اس نے اپنے رشتے کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔۔۔۔ لیکن شاید قسمت میں یہی ہونا لکھا تھا۔۔۔


وہ جانتی ہے میر پر اب اسکا کوئی حق نہیں اب تو شاید انکے بیچ وہ بےتکلفی بھی نہیں رہی جو شادی سے پہلے تھی۔۔۔ لیکن اب میر کو ثانی کے ساتھ دیکر ایک عجیب سا احساس اسکے اندر جاگا۔۔۔ اگر وہ ثانی کی جگہ ہوتی تو۔۔۔۔؟؟ وہ اسکے ساتھ مسکرا رہی ہوتی وہ جگہ تو عنایا کی ہی تھی۔۔۔ جسے خود چھوڑ کے وہ غلط راہ پر نکل گئی۔۔۔


لیکن اب۔۔۔ اب وہ جگہ تو ثانی کی تھی اس سب میں اس بےچاری کا کیا قصور۔۔۔۔؟ غلطی تو میری تھی اور۔۔۔ میر تو شاید ساری زندگی میرے انتظار میں گزار دیتا۔۔۔۔ اگر ثانی اس سے نا ملتی تو میر نے یہ سب میرے لیے ہی تو کیا تھا۔۔۔۔ ثانی سے شادی نا کرتا تو میں عارف سے کیسے نکاح کے بندھن میں بندھ پاتی۔۔۔۔؟؟


عنایا اٹھی اور نظریں پورے کمرے میں دوڑانے لگی وہ اپنے ساتھ ایک بیگ لائی تھی جو اس وقت اِسے مل نہیں رہا تھا۔۔۔ کمرے میں ہر طرف دیکھنے کے بعد جب بیگ نا ملا تو وہ ڈریسنگ روم میں چلی آئی بیگ سامنے ہی پڑا تھا۔۔۔۔ شاید کپڑے نکلتے وقت وہ بیگ یہیں بھول گئی۔۔۔۔ عنایا نے بیگ میں سے اپنا پرس نکالا۔۔۔ وہ چیز جو کب سے اس نے چھپا رکھی تھی۔۔۔۔ اب نظروں کے سامنے تھی عنایا نے پرس کی پہلی زپ کھولی تھی اسے وہ انگھوٹی ملی جو میر نے اسے انگیجمنٹ والے دن پہنائی تھی۔۔۔ اسے دیکھ عنایا کی آنکھوں سے کہی اشک بہہ نکلے۔۔۔۔۔


” تم غلط راہ پر چل نکلی ہو عنایا!!! “


میر کب اسکے سامنے آکھڑا ہوا عنایا کو خبر نا ہوئی۔۔۔


” میر۔۔۔ میں۔۔۔ وہ۔۔۔ “ اسکے پھڑپھڑاتے ہونٹ یکدم بھنچ گئے۔۔۔ کیا کہتی وہ اس سے۔۔۔؟؟؟ چور تو اسکے دل میں تھا۔۔۔۔


” تائی امی تمہیں لینے آئی ہیں۔۔۔ اور میرے خیال سے اب تمہیں چلے جانا چاہیے عنایا۔۔۔“


میر کا لہجہ نارمل تھا وہ اسے آئندہ آنے والے وقت کے لیے تیار کر رہا تھا۔۔۔ وہ اسکا بھلا چاہتا تھا۔۔۔ وہ اسکے لیے بہت کچھ سوچ چکا تھا۔۔۔ اور اسے اُمید تھی اس بار عنایا اسکی کوئی بات رد نہیں کریگی۔۔۔۔


” میں احمد کو لیکر جا رہا ہوں تم آجانا “


وہ احمد کو اٹھا کر اسکے آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہوگیا۔۔۔ عنایا بوجھل قدموں کے ساتھ اسکے پیچھے چل دی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

لاہور آنے کے بعد سے کافی کچھ بدل چکا تھا۔۔۔ اسنے اپنی ماں کے رویے میں تبدیلی محسوس کی تھی۔۔۔ اب اسکے چہرے پر بےزاریت نہیں ہوتی وہ ہر وقت روتی نہیں تھی۔۔۔ گھر کا ماحول یکدم پر سکون ہوگیا تھا۔۔۔ لیکن نجانے کیوں ان کا رویہ حیا کے ساتھ سرد تھا۔۔۔۔ اور بابا بھی یہاں خاموش ہوجاتے کبھی کبھی انہیں ڈانٹتے لیکن وہ کان بند کر لیتیں۔۔


حیا اِن سے دن با دن دور ہوتی جا رہی تھی ایسے میں وہ خود حیا کے زیادہ قریب رہنے لگا کے کہیں وہ اسکی طرح احساس محرومی کا شکار نا ہوجائے۔۔۔۔ وہ روز ریسس کے دوران اسکی کلاس میں جاتا دونوں ساتھ لنچ کرتے۔۔۔۔ وہ اسے خود ہوم ورک کراتا۔۔۔ چھٹی ٹائم اُسے ساتھ لیکر نکلتا۔۔۔ لیکن بہت جلد اس پر ادراک ہوا حیا اس سے مختلف ہے وہ کوئی سہمی چڑیا نہیں بلکی اچھی خاصی سمجھدار ہے۔۔۔۔!!! جلد ہی نور اسکی حرکتوں سے تنگ آگئی۔۔۔ ایک بار تو باقاعدہ وہ سامان پیک کر کے گاؤں نکلنے کو تھی لیکن بابا کے آجانے سے جا نہیں پائیں۔۔۔ وہ خوش تھا اسکی بہن کم سے کم اسکی طرح ڈرپوک نہیں تھی۔۔۔ لیکن ایک شخص کے سامنے آتے ہی وہ شیرنی بھی ہرنی بن جاتی اپنی ساری بہادری کھو بیٹھتی۔۔۔۔ ” شاہ زر “ اور ایسا کیوں تھا وہ کبھی جان نا پایا۔۔۔؟؟


وہ بیس سال کا تھا جب نور نے اس سے عنایا کے بابت پوچھا وہ تو ہمیشہ سے عنایا کو پسند کرتا تھا۔۔۔ کسی اور لڑکی سے وہ اس طرح فرینک نہیں ہوا جتنا عنایا سے تھا۔۔۔ وہ انجینئرنگ کولج میں تھا جہاں لڑکیاں نا ہونے کے برابر تھیں۔۔۔ وہ عنایا کے علاوہ کسی اور لڑکی کو نا جان پایا ہے نا سمجھ۔۔۔ یہی وجہ تھی کی دن با دن بڑتی بےتکلفی کی وجہ سے وہ اسکے اور قریب آرہی تھی۔۔۔۔


اسے آج بھی وہ دن یاد ہے کتنا خوش تھا وہ اس دن خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اور عنایا۔۔۔ اُس نے کیا کیا اسکے ساتھ پل بھر میں اسے توڑ دیا۔۔۔۔


” قسم سے یار تم پہلی دلہن ہو جو اس طرح دولہے کے بیڈ روم میں چلی آئی۔۔۔ یقیناً کچھ رہ گیا ہوگا بتاؤ کیا لانا ہے آپ کا غلام ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہے “


وہ کُرتے کے بٹن بند کرتا ہوا بولا خوشی اسکے انگ انگ سے جھلک رہی تھی۔۔۔۔


” مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔۔۔“ وہ سرد لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔۔


میر یکدم پیچھے مڑا وہ بے یقینی سے عنایا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جیسے اسکی دماغی حالت پر شبہ ہو پھر مسکراہٹ دانتوں تلے دبا کر اسکے قریب چلا آیا۔۔۔۔


” یار ایسا جان لیوا مذاق مت کرو کمزور دل کا مالک ہوں دل نا بند ہوجائے۔۔۔“


” میں مذاق نہیں کر رہی یہ سچ ہے میں کبھی بھی تم سے شادی نہیں کر سکتی میر میں کسی۔۔“ عنایا بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔


” کیا۔۔۔ کیا۔۔ بول رہی ہو۔۔۔؟؟؟ دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔؟؟ “


وہ خوف زدہ لہجے میں گویا ہوا اسے اپنی دنیا بنے سے پہلے اُجڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ دل کے کونے میں درد کی لہر اٹھتی محسوس ہوئی۔۔۔


” کیا تمہارا ٹھیک ہے میں۔۔۔ کیسے ایسے شخص سے شادی کر سکتی ہوں جو مینٹلی سٹیبل نہیں۔۔۔ کیا یہ سچ نہیں کے تمہاری بھائی کے جانے کے بعد تم۔۔۔۔۔ “


عنایا نے ہونٹ بھینچ لیے آنسوؤں روانگی سے اسکے گال بھیگو رہے تھے۔۔۔ اور میر اسکی حالت دیوانگوں جیسی تھی۔۔۔ وہ کبھی اس جواب کی تواقع کم سے کم عنایا سے نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا بیڈ پر جا گرا اسکا دماغ سن ہوچکا تھا۔۔۔۔


” یہ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہو۔۔۔ سکتا۔۔۔ مذاق کر رہی ہو نا بولو پلیز مذاق ہے نا عنایا میں مر جاؤنگا۔۔۔۔“


وہ اٹھ کے عنایا کے قریب آگیا شانوں سے تھام کر اسے جھنجوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔

” نہیں میر تم میرے ساتھ ظلم کر رہے ہو مجھے پورا حق ہے کے نکاح میں میری رضامندی شامل ہو۔۔۔ میں انکار کر دونگی نکاح کے وقت اور اس سب کے زمیدار تم ہوگے میرے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کا سر بھی جھکا ہوا پاؤ گے۔۔۔۔“

وہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا تھا گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے وہ اسکے سامنے بکھر گیا۔۔۔

” میں۔۔ تم سے بہت محبت کرتا ہوں عنایا ہمیشہ سے میں نے اپنے دل میں کبھی کسی اور لڑکی کا خیال تک آنے نہیں دیا اس دل کو صرف تمہارا لیے سنبھال کر رکھا۔۔۔۔ میں۔۔۔ میں مر جاؤنگا عنایا میری زندگی مجھ سے مت چھینو میں۔۔۔ بہت خوش۔۔ رکھونگا تمہیں۔۔۔ ہر خواہش پوری کرونگا۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسوؤں نہیں آنے دونگا میں وعدہ۔۔۔ “

وہ اسکا مہندی سے سجا ہاتھ تھامے ہوے بولا۔۔۔۔ اسکے خود کے ہاتھ کانپ رہے تھے اسے ڈر تھا اگر وہ پھر انکار کردے تو۔۔۔۔؟؟؟ عنایا نے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کیا اور اسکے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گی۔۔۔۔

” کیا فائدہ۔۔۔۔؟؟؟ محبت مجھے تم سے تب بھی نہیں ہوگی میر۔۔۔ میر۔۔۔ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں۔۔۔ جانتے ہو میرے لیے وہ سب سے لڑ گیا۔۔۔ اپنی فیملی تک سے پلیز میر شادی سے انکار کردو مجھ پر ایک آخری احسان کردو۔۔۔۔ “ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔۔

” میں نے اُس کے علاوہ کسی کے بارے میں نہیں سوچا تم ہمیشہ میرے بیسٹ فرنڈ رہوگے۔۔۔ لیکن جیون ساتھی نہیں۔۔۔ تم میں اور اس میں بہت فرق ہے۔۔۔ وہ ایک بہت اچھا انسان ہے۔۔۔ چھوٹی عمر میں اس نے اپنی فیملی کو سپورٹ کیا۔۔۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سلیبریٹ کرنے والا انسان ہے۔۔۔۔ اسکے پاس باپ کی جائیداد نہیں اس نے اپنی محنت سے اپنی بہنوں کی شادی کروائی۔۔۔ انکا باپ بن کر ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی۔۔۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے وہ پوری یونی میں مشہور ہے۔۔۔۔“

” مجھ میں کیا کمی ہے کیا میں زہین نہیں محنت نہیں کرتا اگر تم چاہتی ہو خود کمائوں تو مجھے منظور ہے میں۔۔۔“

” نہیں تم اُس جیسے نہیں ہو سکتے اور سب سے بڑی وجہ تم مینٹلی سٹیبل۔۔۔“

ماضی انسان کو جینے نہیں دیتا ہر بار وہ خود سے لڑتا آگے بڑھا تھا۔۔۔۔ لیکن قسمت نے اسے ہر بار واپس اُسی مقام پر لا کھڑا کیا۔۔۔۔ یہ وہ عنایا نہیں تھی جس سے وہ محبت کرتا تھا۔۔۔ جو اس سے اپنی فرمائشیں منواتی تھی۔۔۔۔ یہ تو کوئی اور ہی عنایا ہے جس سے وہ آج تک ناواکف تھا۔۔۔

” عنایا تم تائی امی اور تایا ابو کا سوچو اُن پر کیا گزرے گی۔۔۔؟؟ وہ جیتے جی مر جائیں گے نیچے سب مہمان آچکے ہیں کیا عزت رہ جائے گی انکی۔۔۔؟؟ تم خود سوچو۔۔۔!!!! “

” میں نے سوچ رکھا ہے تم انکار کردو میں ابھی اِسی وقت عارف کو بولائونگی وہ نکاح کریگا مجھ سے۔۔۔۔“ وہ تو گویا سب کچھ سوچ کر بیٹھی تھی۔۔۔

میر کو آج یقین ہوگیا تھا وہ کبھی عورت کو جان نہیں پائے گا۔۔۔۔ آج عنایا میں اسے اپنی ماں کی جھلک نظر آرہی تھی۔۔۔ انہوں نے بھی خودگرزی میں خود کو تو تباہ کیا۔۔۔۔ ساتھ دوسروں کے لیے بھی عمر بھر کا پچھتاوا چھوڑ دیا آج عنایا بھی اسی مقام پر کھڑی تھی۔۔۔۔

” نہیں عنایا مجھے اپنے بڑوں کی عزت جان سے زیادہ عزیز ہے میں انکار نہیں کرونگا۔۔۔!!! تمہیں یہ سب پہلے ہی تایا ابو کو بتانا چاہیے تھا۔۔۔۔“ میر اب سنبھل چکا تھا وہ اٹھ کر جانے لگا تھا کے عنایا کی اگلے بات نے اسکے پیروں تلے سے زمین کھنیچ لی۔۔۔۔

” بتایا تھا میں نے ممی کو اور جانتے ہو کیا کیا انہوں نے تھپڑ مار کر میرا منہ بند کر دیا کہنے لگیں شادی اپنوں میں ہی ہوگی کسی انجان گھر میں وہ مر کر بھی مجھے نہیں بھجیں گی۔۔۔۔!!!! تم میری آخری امید ہو میر انکار کردو ورنہ خدا کی قسم میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے۔۔۔۔ شادی میں مر کر بھی تم سے نہیں کرونگی۔۔۔۔ اس سے اچھا ہے اپنی جان لے لوں۔۔۔۔“ وہ چیخ رہی تھی اسکی آواز بلند تھی میر لڑکھڑاتے قدموں سے بامشکل باہر پہنچا ۔۔۔

گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا اسے امان ماموں ملے جنکی مدد سے چُھپتے چُھپاتے وہ باہر پہنچا۔۔۔ گھر میں جب وہ ہوگا ہی نہیں تو خود ہی عنایا کا نکاح عارف سے پڑھا دینگے اس میں ہمت نہیں تھی کے وہ باپ سمان تایا کو منا کرتا۔۔۔۔

سپیڈ سو سے اوپر تھی وہ ماؤف ذہن کے ساتھ کار ڈرائیو کر رہا تھا نا اسے راستوں کا ہوش تھا نا آتی جاتی گاڑھی کا وہ تو اپنا آشیانہ ٹوٹنے کا ماتم کر رہا تھا۔۔۔۔۔

” عنایا کیوں کیا میرے ساتھ ایسا۔۔۔؟؟؟ میں۔۔۔ میں پاگل ہوں تب یہ خیال نہیں آیا جب اپنے کاموں کے لیے مجھے دوڑاتی تھیں۔۔۔ تب نہیں آیا جب ایگزمز میں دیر رات تک مجھ سے فزکس سمجھتی رہیں۔۔۔ تب خیال نا آیا جب اس پاگل کے ساتھ ضد کر کے گاؤں روانہ ہوئیں۔۔۔ تب نہیں آیا جب اس پاگل کے ساتھ مالز میں گھومتی رہیں۔۔۔ آج تمہیں خیال آرہا ہے میں پاگل ہوں۔۔۔ جھوٹ بولتی ہو تم دھوکے باز ہو میری ماں کی طرح خودگرز ہو تم۔۔۔“ میر نے زور سے اپنا ہاتھ سٹرنگ پر مارا دھندلی ہوتی آنکھوں سے اسنے سامنے کا منظر دیکھا تو ایک جھٹکے سے کار روک دی ایک بوڑھی عورت کسی کے ساتھ راستا پار کر رہیں تھیں کے ایک کار انہیں زور دار ٹکر سے اڑا لے گئی۔۔۔۔ اس عورت کے ساتھ جو کوئی بھی تھی وہ وہیں اپنی جگا ساکن ہوگئی اسکے وجود نے گویا ناحرکت کرنے کی قسم کھائی تھی میر فوراً کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلا لوگ جمع تھے لیکن کسی میں انسانیت نہیں تھی کے انہیں ہسپتال لے جائے۔۔۔۔۔

” ہٹیے۔۔۔ آپ لوگوں کو صرف تماشا دیکھنے آتا ہے کسی کی مدد کرنے سے جان جاتی ہے۔۔۔؟؟ قاہر لوگ!! “

میر ہجوم چڑتا بڑبڑاتا ہوا اس عورت کے پاس جا پہنچا پھر لوگوں کی مدد سے اسے کار میں بٹھایا۔۔۔ وہ ابھی ڈرائیونگ سیٹ پڑ بیٹھا تھا کے اسے اس دوسری عورت کا خیال آیا جو اسکے ساتھ تھی۔۔۔۔

میر کار سے نکلا تو ایک عورت اسے زمین پڑ بیٹھی نظر آئی اسکی نظریں خون پڑ جمی تھیں جو اس خاتون کا تھا۔۔۔۔

” سنیے ہمیں جلدی ہسپتال جانا ہوگا وہ ٹھیک ہوجائیں گی “


میر کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے لے جائے اس لڑکی سے زیادہ وہ اس خاتون کے لیے پریشان تھا۔۔۔۔ خون میں لتی پتی اس عورت کو دیکھ کر وہ اپنی پریشانی بھولا بیٹھا تھا۔۔۔ اسے ڈر تھا ایک منٹ کی تاخیر اس عورت کی جان نالے۔۔۔


” آپ۔۔۔ سچ۔۔ ک۔۔۔ رہے۔۔۔ میری۔۔۔ نانی۔۔۔ ٹھیک ہو۔۔۔ جائیں گی۔۔۔“ میر نے اسکی کیفیت بھانپتے ہوے ہاتھ پکڑ کے اسے کار میں بٹھایا کچھ دیر بعد کار ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔


” ثانیہ کون ہے۔۔۔؟؟ وہ عورت ثانیہ سے ملنا چاہتی ہیں “


عبائے میں ملبوس وہ لڑکی بجلی کی تیزی سے آپریشن تھیٹر میں داخل ہوئی۔۔۔ وہ خاتون اپنی آخری سانسیں لے رہیں تھیں۔۔۔ ڈاکٹرز نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے۔۔۔ خون بہت بہ چکا تھا اور انہیں یہاں لاتے کافی دیر ہوگئی تھی اب انکا بچنا ڈاکٹرز کے مطابق نا ممکن تھا۔۔۔۔


میر بھی اس لڑکی کے پیچھے دوڑا۔۔۔۔


” نانی۔۔۔ آپ۔۔۔ مجھے۔۔۔ چھوڑ کے نہیں جا سکتیں نانی “


میر نے سفید کپڑا جوڑیوں سے بھرے چہرے پڑ ڈال دیا۔۔۔ وہ لڑکی خاتون کے سینے پڑ سر رکھے رو رہی تھی۔۔۔ اسے جنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ لیکن وہ تو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔۔۔


میر نے اس عورت کو دفنانے کا انتظام کیا اس دوران ازلان اور فیضان کی مسلسل کالز آتی رہیں۔۔۔ وہ لڑکی قبرستان کے باہر میر کی گاڑی میں بیٹھی تھی جب اسے امان ماموں کا میسج وصول ہوا۔۔۔۔


” کہاں ہو ہنی یہاں نکاح خواں آگئے ہیں تمہارا ہی انتظار ہے جلدی پہنچو “


میر میسج پڑھ کر حیران رہ گیا وہ تو سمجھ رہا تھا اب تک عنایا اور عارف کا نکاح ہو چکا ہوگا۔۔۔


” تم کہاں جاؤ گی اب “


میر نے کار میں بیٹھتے ہی اس لڑکی سے سوال کیا جو نقاب سے چہرے کو چھپائے ہوئے تھی گیلی پلکیں گواہ تھیں آنسوں پل بھر کو نا تھمے تھے۔۔۔۔


” پتا نہیں “ اس نے نم آنکھوں کو انگلیوں سے مالا


” ماں باپ کہاں ہیں۔۔۔؟؟ “


” مر گئے “ میر چونکا اس لڑکی کا لہجہ عجیب تھا۔۔۔


” اور کوئی رشتےدار؟؟ “


” کوئی نہیں “


” نکاح کروگی مجھ سے۔۔۔!!!! میں تمہیں تحفظ دونگا “


پہلی بار میر نے اس لڑکی کی آنکھیں دیکھیں جو ہر پل جھکی رہیں تھیں۔۔۔ تحفظ پر اسکی آنکھوں میں جو چمک نظر آئی وہ میر کی نظروں سے پوشیدہ نا رہ سکی۔۔۔


نکاح کر کے وہ اسے اپنے ساتھ لے آیا کار روکتے ہی چوکیدار ہانپتا ہوا اس تک آیا لیکن کار میں موجود لڑکی کو دیکھ وہ پیچھے ہٹ گیا۔۔۔


” چٹاخ “


تھپڑ کی آواز پورے لاونچ میں گونجی۔۔۔ مہمان سب خاموشی سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے وہ سیاہ عبائے میں ملبوس لڑکی میر کے پیچھے چھپی تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔۔ میر چہرے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا جہاں ابھی ازلان کا ہاتھ اسکے گال کو چھوا تھا۔۔۔۔

” شرم آرہی ہے مجھے تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے۔۔۔ ایک لڑکی تمہارے انتظار میں دلہن بنی بیٹھی ہے اور تم دھڑلے سے آکر کہ رہے ہو میں نکاح کر چکا ہوں!!!! “

امان، نور، عائشہ، فیضان، حبہ اعظم شاہ اور اسما سب اپنی جگہ ساکن کھڑے تھے کسی کو یقین نہیں آرہا تھا میر ایسا بھی کر سکتا ہے۔۔۔؟؟

” خاموش کیوں کھڑے ہو جواب دو مجھے۔۔۔۔!!! کیا منہ دکھاؤں میں اپنے بھائی کو اور وہ بچی کیا قصور ہے اسکا۔۔۔؟؟ جب پہلے سے کسی کو پسند کرتے تھے تو منع کیوں نا کیا۔۔۔۔؟؟ کس چیز کا بدلہ لیا ہے ہم سے؟؟ “

شاہ زر فیضان کے ساتھ کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا اسکی بہن گونگٹ میں سر چھپائے میر کے انتظار میں بیٹھی تھی۔۔۔ سب مہمان آپس میں اس منظر پر رائے کا اظہار کر رہے تھے۔۔۔ شاہ زر کی آنکھوں میں دیکھتے دیکھتے خون کھول اٹھا۔۔۔۔

” ازلان اس سے پوچھو تو آخر اچانک یہ شادی کیوں کرکے آیا ہے۔۔۔؟؟ کیا پتا کوئی وجہ ہو۔۔۔“ اعظم شاہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا میر نے اپنے پیچھے کھڑی اپنی شریکِ حیات کا ہاتھ تھاما اور اسے کھنچتے ہوئے اوپر لے آیا۔۔۔ سب اسکی جرات پڑ حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

ازلان لہو رنگ آنکھوں سے اسکی ہمت دیکھ رہا تھا جو بھری محفل میں باپ کو نظرانداز کیے اس لڑکی کا ہاتھ تھامے اوپر لے آیا۔۔۔

” تم اِسی کمرے میں رہنا باہر مت نکلنا “

میر اسے اپنے روم میں چھوڑ کر نیچے جانے کے گرز سے آرہا تھا کے نور اسے لائونچ میں ہی مل گئی۔۔۔ نور اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنے اور ازلان کے مشترکہ بیڈروم میں لے آئی۔۔۔۔

” سچ سچ بتاؤ میر مجھ سے کچھ مت چھپانا “

اسے اپنے ساتھ بیٹھاتے ہوے نور نے پوچھا۔۔۔۔

” میرے دوست کی بہن ہے!!!! میں اسے پسند کرتا ہوں “

وہ نظریں چرا رہا تھا چاہ کر بھی وہ کم سے کم اس عورت سے نظریں ملاکر بات نہیں کر سکتا وہ عورت آنکھوں کو پڑھنے کا فن جانتی ہے۔۔۔۔

”جھوٹ۔۔۔!!! عنایا نے کیا کہا تم سے۔۔۔ “ میر نے چونک کر نور کو دیکھا اس نے بولنے کے گرز سے لب کھولے لیکن نور نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کے خاموش کیا۔۔۔۔

” نہیں میر جھوٹ مت بولنا ماں ہوں میں تمہاری اگر تم میرا چہرہ پڑھ سکتے ہو تم میں کیوں نہیں۔۔۔!!! عنایا شادی کے لیے راضی نہیں تھی میں جانتی ہوں اسکی بیزاریت سے میں پہلے ہی سمجھ چکی تھی۔۔۔۔ بھابی سے بھی کافی دفع پوچھا لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا۔۔۔۔ اور آج تمہارے جانے کے بعد عنایا کو تمہارے روم سے نکلتے دیکھا تھا۔۔۔اب صرف سچ بتاؤ “

نور کی تمہید سن کر اب وہ سمجھ چکا تھا جھوٹ بیکار ہے وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اپنا سر اسکی گودھ میں رکھ کر ضبط کھو بیٹھا۔۔۔۔

” مما اس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔۔۔۔؟؟ کیا کمی ہے مجھ میں۔۔۔ بتائیں آپ تو کہتی ہیں میں بہت ذہین ہوں۔۔۔ آپ کا لائق بیٹا ہوں پھر اس نے مجھے پاگل کہ کر کیوں ٹھکرایا۔۔۔ میں۔۔۔ اس سے بہت محبت کرتا ہوں مما اس کے علاوہ کبھی کسی کا تصور بھی نہیں کیا۔۔۔ مجھے لگا تھا وہ آپ جیسی ہے لیکن نہیں وہ۔۔۔ سیل فش ہے اسے کسی کی فکر نہیں “

اسکی پلکیں ہلکی سے نم تھیں۔۔ دل درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔۔ لمبا چوڑا مرد سسک رہا تھا بےاختیار نور کو وہ چھ سالہ ہنی یاد آیا جو اس سے اسکی زندگی مانگ رہا تھا۔۔۔۔

” فیضان بھائی عنایا سے تمہاری شادی کردیتے تم نے اتنا سنگین قدم کیوں اٹھایا ہنی۔۔۔“ اسنے میر کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔۔۔۔

” وہ موت کو گلے لگا لیتی اگر میں اس سے شادی کرلیتا۔۔۔!!! اس نے کہا میری دلہن بنے سے موت بہتر ہے۔۔۔۔ کوئی کسی پاگل سے کیوں کر شادی کرےگا۔۔۔“ وہ اس سے پوچھ رہا تھا جبکے نور عنایا کی سنگدلی پر حیران تھی۔۔۔۔

ازلان جو غصّے سے اسے سبق سکھانے آرہا تھا میر کی باتیں سن کر اسے یقین نا آیا فیضان اور امان بھی اسے روکنے اسکے ساتھ آئے تھے۔۔۔۔ تینوں میر کی باتیں سن کر وہیں رک گئے۔۔۔ پھر فیضان نے عائشہ کے ذریعے عنایا کو عارف کو بلانے کا کہا۔۔۔ اُسی دن عنایا کا نکاح بھی عارف کے ساتھ پڑھا کر اسے رخصت کر دیا گیا۔۔۔ فیضان نے اُسی دن عائشہ سے کہ دیا آج سے اسکی ایک ہی بیٹی ہے حیا عنایا اسکے لیے مر گئی۔۔۔۔


میر نیچے نہیں آیا تھا نور نے بھی اسے فورس نہیں کیا۔۔۔


” میر میری ایک بات مانو گے “


” میر ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے اسکا شوہر اس سے محبت کرے اُسے بٹا ہوا دل قبول نہیں ہوتا۔۔۔ کبھی ثانیا سے عنایا کا ذکر نا کرنا وہ ابھی ایک دکھ سے نہیں سنبھلی تھی کے شادی کے بندھن میں بندھ گئی۔۔۔ میر کسی کے لئے آسان نہیں ہوتا اجنبیوں کے بیچ رہنا۔۔۔!!! وہ اس وقت مجبور ہے پریشان ہے تم اسکی حوصلہ افزائی کرنا اس نئے رشتے کو قبول کرنا۔۔۔ تبھی جا کر وہ بھی قبول کریگی۔۔۔ اور آج کا دن ہر لڑکی کے لیے اہم ہوتا ہے یہ میرے کنگن ہیں تم یہ رونمائی میں ثانیہ کو دینا اور یاد رہے میر۔۔۔۔ تمہیں صرف نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے گزرے وقت کو یاد کر کے اپنی زندگی تباہ نا کرنا۔۔۔۔!!! یاد رکھنا میر تمہاری بھی ایک بہن ہے۔۔۔ “ ثانیہ کے نام پر اسے احساس ہوا اِسنے تو اُس لڑکی سے نام تک نہیں پوچھا تھا میر نور کے ہاتھوں سے کنگن لیکر اپنے روم میں آگیا۔۔۔


وہ لڑکی سفید دوپٹے میں ملبوس سلام پھیڑ رہی تھی۔۔۔ اسکی پشت میر کی طرف تھی۔۔۔ دعا مانگ کر جب وہ اٹھی تو میر دیکھتا رہ گیا ملائی جیسے گوری رنگت آنکھوں میں بلا کی معصومیت لیے وہ جائے نماز تہ کر کے بیڈ پڑ بیٹھ گئی۔۔۔


میر جیسے جیسے قدم بڑھا رہا تھا ثانی کا دل تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ وہ ہاتھوں کو آپس میں پیوست کیے بُری طرح لب کاٹ رہی تھی۔۔۔ یہاں تک کے اسکے ہونٹ سے خون رسنے لگا۔۔۔۔


ؓمیر اسکے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔۔ ثانی تھوڑا پیچھی کھسکی کوئی مرد کبھی اس طرح اسکے قریب نہیں بیٹھا۔۔۔۔


” کتنی عجیب بات ہے نا تم میرے روم میں میری بیوی بن کر بیٹھی ہو اور کچھ دیر پہلے تک میں تمہارا نام بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔!!!! قسمت کے عجیب کھیل۔۔۔!!! “ میر تلخی سے مسکرایا۔۔۔


” میں تمہارے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن جاننا چاہتا ہوں تم نے مجھے جو بتایا تھا۔۔۔ وہ آدھا سچ ہے مجھے یقین ہے جب تم مجھ پر اعتبار کرنے لگو گی تو خود سے مجھے اپنی سچائی بتاؤ گی اور اس دن کا مجھے انتظار رہے گا “


میر اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہ رہا تھا جو سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔۔


” یہ تمہاری رونمائی کا تحفہ۔۔۔!!! یہ میری ماں کے کنگن ہیں یہ نا سمجھنا کے عنایا کے لیے خریدا ہوا تمہیں دے رہا ہوں۔۔۔“ میر نے اسکی کلائی تھام کر اسے کنگن پہنائے۔۔۔ عنایا کے نام پڑ وہ نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگی۔۔۔


” عنایا وہ جس سے میری شادی ہونے والی تھی “


” آپ نے میری وجہ سے۔۔۔ شادی نہیں کی۔۔۔؟؟ آپ کے گھر والے ہمارے بارے میں۔۔۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا اور وہ آپ کی دلہن۔۔۔۔؟؟ “ ثانی کی آنکھوں میں خوف پھیلنے لگا۔۔۔ میر نے اسکی غلط فہمی دوڑ نہیں کی وہ اسے کبھی نہیں بتائے گا کے وہ عنایا کی خوشی کے لیے اسے چھوڑ چکا ہے۔۔۔ ورنہ وہ اسکی محبت سے بھی وعاکف ہوجاتی۔۔۔


” اُسکا نکاح ہو چکا ہے۔۔۔!!! وہ خوش ہے۔۔۔۔ تم پریشان نا ہو اور میری فیملی کو بھی اب کوئی پرابلم نہیں۔۔۔ اب تم آرام کرو میں یہیں بیٹھا ہوں “


میر اپنا لپ ٹاپ لیکر بیڈ پڑ ٹانگیں پھیلائے لیٹ گیا ثانی بھی کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔۔۔ پھر اسکی بات پر عمل کر کے لیٹ گئی۔۔۔ میر کو نیند تو آنی نہیں تھی نا ہی اسے مختلف سوچوں کو ذہن میں بیٹھانا تھا اسلیے وہ پریزنٹیشن بنانے بیٹھ گیا۔۔۔


میر عنایا کو بھلانے کی پوری کوشش کر رہا تھا جس میں نور نے اسکا بھرپورساتھ دیا۔۔۔ شروعات کے دنوں میں ثانی میر سے اس طرح چھپتی پھرتی جیسے وہ کوئی خطرناک بھیڑیا ہو۔۔۔ صرف نور تھی جس سے وہ کُھل کے بات کرتی اپنا غم بیان کرتی یہاں تک کے اپنی زندگی کے گزرے ماہ و سال کی ایک ایک بات اس نے نور کو بتا دی۔۔۔ جب بھی ثانی میر سے چُھپ کر روم سے نکل جاتی نور کہیں نا کہیں سے اسے پکڑ کے کبھی کوفی یا چائے اسکے باتھ میں تھما دیتی کے میر کو دے آئے اور ساتھ یہ حکم بھی جاری کرتی کے جب تک میر کمرے میں ہے اسے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ نور اسے گھنٹوں اپنے پاس بیٹھا کر سمجھاتی کے اب وہ میر کی بیوی ہے میر کے سارے کام وہ خود اپنے ہاتھوں سے کرے اس طرح کے ثانی کی غیر موجودگی میر سے برداشت نا ہو تبھی جاکر وہ عنایا کو بھلا پائے گا۔۔۔ ثانی انکی ہر بات مانتی چلی گئی اور واقعی انکی ہر بات سچ ثابت ہوئی۔۔۔ میر اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے ثانی کو آواز دیتا۔۔۔ چاہے وہ اسکا ناشتا ہو۔۔۔ کوئی فائل ہو۔۔۔ وہ ہر چیز کے لیے ثانی کو بلاتا۔۔۔ اب اسکی زبان پر صرف ثانیہ کا نام تھا۔۔۔ دھیرے دھیرے جس طرح وہ اسکے کمرے اسکے گھر میں جگہ بنا چکی تھی۔۔۔ اسی طرح اسکے دل میں بھی اپنی جگہ بنا لی۔۔۔ اور وہ جو دوعا کرتا تھا عنایا اسکی زندگی ہے۔۔۔ اب زندگی تو دور کی بات وہ تو اسکی زندگی میں شامل تک نہیں۔۔۔ جب دونوں کے بیچ اجنبی کی دیوار گری تب ثانیہ نے اسے اپنے بارے میں سب سچ بتا دیا۔۔۔


” ثانی “


میر نے اسے اپنے حصار میں لیکر ٹھوڑی اسکے کندھے پڑ رکھ دی۔۔۔ ثانی جو میر کی شرٹ پریس کر رہی تھی اس لمس سے ہڑبڑا گئی۔۔۔۔


” میر۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا۔۔ کر رہے ہیں۔۔۔ “ ثانی نے لڑکھڑاتی آواز میں احتجاج کیا اسکا جسم اس لمس سے ٹھنڈا پڑ گیا۔۔۔


” کتنی بار کہا ہے جب میں آفس سے آؤں تو کوئی کام کرتی نظر نا آؤ صرف میرے پاس رہا کرو۔۔۔“ میر نے استری کا پلگ نکالا اور اسے اپنے ساتھ لیکر بیڈ پڑ دراز ہوگیا۔۔۔۔


” میر “


میر نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے خاموش کیا۔۔۔۔


” ثانی کیا مجھ پر اعتبار کرتی ہو۔۔۔“ ثانی کے اثبات میں سر ہلانے پر میر نے مسکرا کر ہاتھ کی پشت سے اسکا گال سہلایا۔۔۔۔


وہ شرم و حیا سے سرخ پڑتی نظریں جھکا کر اسکے سینے میں اپنا منہ چھپا گئی۔۔۔۔


” مجھے بتاؤ ثانی سب کچھ۔۔۔!!! میں جانا چاہتا ہوں تمہارے گریز اس خوف کی وجہ بےاعتباری کی وجہ کیوں ہر شخص سے ڈرتی پھرتی ہو۔۔۔؟؟؟ کیوں کسی پر بھروسہ نہیں کرتیں “


اکثر میر حیا اور نور سے سن چکا ہے کے ثانی باہر جاکر عجیب بہیو کرتی ہے۔۔۔ نور اسکا ہاتھ پکڑ کے ہر جگہ اپنے ساتھ لیجاتی ہے۔۔ اول تو باہر جانے کے نام سے اسکی آنکھوں میں خوف سمٹ آتا ہے لکین کہیں جاتے ہی اسکی حالت غیر ہوجاتی ہے وہ سب کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے گھر کے گارڈز تک پے اعتبار نہیں کرتی مال میں نور کے پیچھے چھپتی چھپاتی چلتی ہے۔۔۔!!! ثانی نے اپنی ہر بات نور کو پہلے ہی باتا دی تھی جسے نور نے فوراً میر کے ساتھ شیر کی لیکن وہ چاہتا ہے ثانی اسے ہر بات خود سے بتائے۔۔۔۔


میر جو ثانی کے بالوں میں انگلیاں چلا کر اسکے بولنے کا انتظار کر رہا تھا اپنی شرٹ گیلی محسوس کر کے چونکا پھر ثانی کی بھیگتی آنکھیں دیکھ واپس اپنا عمل جاری رکھا۔۔۔۔


” میر نانی ماں کہتی تھیں میری ماں ایک طوائف ہیں انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں چھپایا۔۔۔ میر وہ نہیں چاہتی تھیں میں دھوکے میں رہوں۔۔۔ انکا ماننا تھا جب مجھے رہنا انہی لوگوں میں ہے تو انکی نظروں کا مفہوم جانو۔۔۔ انکی نفرت کی وجہ جانو اپنی ماں کے کیے گئے گناہ کا کفارہ آگے مجھے ہی عطا کرنا ہے۔۔۔ انہی لوگوں کے بیچ رہ کر۔۔۔!!!!


میری ماں نے اپنے ہی محلے کے ایک آدمی سے بھاگ کر شادی کی۔۔۔ کیوں کے میری نانی اور ماموں اس رشتے کے لیے راضی نا تھے وہ لڑکا اُس محلے میں کافی بدنام تھا۔۔۔ ہر کوئی اُسکی فطرت سے واکف تھا انجان تھی تو بس میری ماں یا جان کر بھی انجان بنی رہیں۔۔۔ پیچھے ماموں سب سے منہ چھپاتے پھرتے رہے نانی سے انہوں نے بات چیت بند کردی۔۔۔ دوسری طرف میری ماں اپنے شوہر کے ساتھ خوش تھیں۔۔۔ اس وقت انکی آنکھوں میں محبت کی پٹی بندھی ہوئی تھی جو انکی آنکھوں سے تب ہٹی جب شادی کے ایک ماہ بعد اس آدمی نے میری ماں کو چند روپیوں کے لیے ایک کھوٹے پر بھیج دیا۔۔۔ میری ماں کو جب پتا لگا وہ پریگنینٹ ہیں تو انہوں نے ابورشن کرانا چاہا لیکن وہاں ایک عورت نے انہیں کہا کے اگر بیٹی ہوئی تو اسے بھی اس دھندھے میں شامل کرنا میری ماں تو بے وفائی کے بعد ایک بےحس عورت بن چکی تھیں انھیں مجھ سے نفرت تو تھی ہی یہ بات سن کر انہیں اپنے اندر کی جلتی آگ کچھ کم ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔ میری پیدائیش کے بعد میری ماں نے مجھے نانی کے حوالے کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کے ایک دن اسے آکر لے جائیں گی اور اسے بھی اس کام میں شامل کرینگی۔۔۔۔ میری نانی نے میری ماں کو وہیں کھڑے کھڑے بےعزت کرکے گھر سے نکال دیا اور مجھے رکھنے سے بھی انکار کر دیا۔۔۔ میری ماں مجھے اپنے ساتھ لے گئیں لیکن وہاں کوئی نہیں تھا جو ایک چھوٹی بچی کو سنبھالے میری ماں نے تنگ آکر مجھے نانی کے دروازے کے باہر چھوڑ دیا اور خود جو گئیں تو اٹھرا سال بعد لوٹیں ایک بوڑھے امیر آدمی کا رشتہ لیکر۔۔۔ میری نانی سنتے ہی طیش میں آگئیں انہوں نے فوراً انکار کر دیا لیکن میری ماں تین دن کی مہلت دے گئیں کے اگر راضی نا ہوئے تو مجھے اپنے ساتھ اس کھوٹے میں لے جائیں گی۔۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کے اس امیر بڈھے سے شادی کر لے۔۔۔!!!! اس رات دوسرا دن تھا جب نانی اور میں آپ کی کار سے ٹکرائے اگر اس دن ہم گھر سے بھاگتے نہیں تو میری ماں “ وہ رندھی ہوئی آواز میں کہ رہی تھی میر مٹھیاں بھینچے ایک اور ماں کی داستان سن رہا تھا وہ بھی تو اس درد سے گزر چکا ہے لیکن ثانی کے درد کے آگے وہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔


” میر اٹھارا سال میں نے لوگوں کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھی ہے۔۔۔ میری ماں میرے ماموں مامی انکے بچے مجھے کوئی اچھوت چیز سمجھتے۔۔۔!!! مامی کی نظریں میرا دل چیر دیتیں دن بھر تانے میرا مقدر بن گیا تھا۔۔۔ نانی بس آنسوں بہاتی تھیں۔۔۔ وہ مامی سے دشمنی موڑ کر بےگھر نہیں ہونا چاہتی تھیں۔۔۔ ماموں تو مجھے رکھنے کے لیے تیار ہی نا تھے نانی نے انکے ہاتھ پیر جوڑ کر منتیں کی تب وہ مانے لیکن گھر میں درجہ ایک نوکرانی سا رہا۔۔۔۔۔۔


پتا ہے میر یہاں آکر لگا میں ایک الگ دنیا میں آگئی ہوں۔۔۔۔ نور مما اور بابا میرا ایسے خیال رکھتے ہیں جیسے میں انکی اپنی بیٹی ہوں۔۔۔۔!!!! تائی امی کا رویہ بھی مجھ سے سہی رہا اور پتا ہے جب میں اداس ہوتی ہوں تو عمر آکر مجھے ہنستا ہے، حیا مجھے اپنی فرنڈز سے ملاتی ہے کبھی بابا سے ضد کر کے ہمیں آئس کریم پارلر لے جاتی ہے مجھے تو وہ ہر جگہ ایسے لے جاتی ہے جیسے میں اسکی بیسٹ فرنڈ ہوں۔۔۔۔ یہاں آکر مجھے لگتا ہے میں دوزخ سے نکل کر جنت میں آگئی۔۔۔!!!! اگر مجھے پتا ہوتا کانٹوں بھرے سفر میں آگے گلاب ہی گلاب ہیں۔۔۔ تو میں ہنسی خوشی وہ سفر کاٹتی “


میر نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا اور ہونٹ اسکے گال پر رکھ دیا۔۔۔ ثانی نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو اب ثانی کے اس طرح دیکھنے پر مسکرا رہا تھا۔۔۔


” اب کبھی نا کہنا تم طوائف کی بیٹی ہو۔۔۔!!! بھول جاؤ اپنا ماضی اب سے مجھ سے جڑے سارے رشتے تمہارے ہیں۔۔۔ لیکن انکے علاوہ اور کوئی نہیں میں نہیں چاہتا جنہوں نے میری ثانی کو تکلیف پہنچائی ہے زندگی میں کبھی تم انھیں کسی رشتے کے حوالے سے یاد کرو۔۔۔!!!! وہ سب اجنبی ہیں بس ہم تمہارے ہیں۔۔۔۔ خاص کر کے میں۔۔۔ اس لیے کہتا ہوں جاناں میرے پاس رہا کرو دیکھنا ایک دن تمہیں بھی مجھ سے محبت ہو جائے گی۔۔۔“ وہ شرارتً اسکی گیلی پلکوں کو دیکھ کے بولا۔۔۔


” اگر نہیں ہوئی تو۔۔۔؟؟ “ ثانی نے مسکراہٹ روکتے کہا۔۔۔


” تو کیا کر سکتے ہیں بس اپنا غم اپنے آٹھ نو بچوں کو سناؤں گا۔۔۔!!!! “ میر نے اسے رونے سے باز رکھنے کے لیے موضوع چینج کیا۔۔۔ ثانی شرم کے مارے کٹ کے رہ گئی۔۔ سرخ پڑتا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔۔


“ ثانی۔۔ ثانی یار سوری مذاق کر رہا تھا “ وہ اسے روتا دیکھ برُی طرح گھبرا گیا۔۔۔ ثانی نے چُپکے سے اپنا دوپٹا اٹھایا میر اس کی کروائی سے بےنیاز اسے چُپ کرا رہا تھا کے ثانی اسے ہلکے سے دھکا دیتے روم سے نکل گئی۔۔۔۔


” ثانی یہ چیٹنگ ہے “ وہ جب تک سمجھتا ثانی بھاگ چکی تھی وہ اسکے پیچھے بڑبڑاتا رہا۔۔۔


میر وہ وقت یاد کر کے مسکرا دیا۔۔ عنایا کے ہاتھ میں وہ اینگیجمنٹ رنگ دیکھ کر ڈسٹرب ہوگیا تھا وہ نہیں چاہتا اب کوئی تماشا ہو۔۔۔ وہ ثانی کو اب کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔۔۔ عنایا کی وجہ سے وہ مزید اپنی خوش حال زندگی خراب نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ ابھی تو اسکی ثانی مسکرائی ہے۔۔۔ ابھی تو اسے ماں بنے کی خوشی ملی ہے۔۔۔ جس نے مکمل طور پر ثانی کو بدل دیا ہے۔۔۔ ایسے میں عنایا اب پھر ایک غلط راستے کا انتخاب کر کے انکی زندگی تباہ نہیں کر سکتی۔۔۔ میر نے سوچ لیا ہے اب جلد ہی اسے عنایا کی اجڑی زندگی سوارنی ہے۔۔۔


☆.............☆.............☆


حیا لازانیہ لیکر عائشہ کے پورشن میں چلی آئی۔۔۔ لازانیہ شاہ زر کی فیوریٹ ڈیش ہے آج نور سے ضد کر کے اسنے لازانیہ بنوایا تھا۔۔۔


” ارے حیا تم آؤ یہ کیا لائی ہو۔۔۔؟“ عائشہ نے حیا کے ہاتھ میں ڈیش دیکھتے کہا۔۔۔


” تائی امی وہ مما نے لازانیہ بنایا ہے “


” ارے واہ یہ شاہ زر کو بہت پسند ہے اچھا ہوا تم لے آئیں میں نے ابھی تک کچھ بنایا نہیں ایک کام کرو یہ تم اسے دے آؤ باقی علی کو بھی دو اسے بھی بھوک لگی ہے “


عائشہ نے ٹرے اس سے لیکر ایک پلیٹ میں شاہ زر اور علی کے لیے لازانیہ علیحدہ کیا۔۔۔ عائشہ سے لازانیہ لیکر وہ شاہ زر کے روم میں آگئی۔۔۔ شاہ زر گیلے بالوں کو کنگی سے بنا رہا تھا حیا کو دیکھ کر ایک پل کے لیے اسکا ہاتھ تھما پھر دوبارا عمل جاری ہوگیا۔۔۔۔


” یہ مما نے آپ کے لیے لازانیہ بھیجا ہے۔۔۔“ حیا نے خود ہی بولنے میں پہل کی۔۔۔


” رکھ دو “


وہی سرد لہجہ۔۔۔ حیا پلیٹ ٹیبل پڑ رکھ کر وہیں بیٹھ گئی اسکا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔ آتو گئی تھی وہ۔۔ لیکن اب کرے کیا۔۔؟؟ شاہ زر تو جیسے چُپ رہنے کی قسم کھا چکا ہے۔۔۔ بال بنا کر وہ اسکے سامنے بیٹھ گیا ایک نظر غلط اس پڑ ڈالے بغیر لازانیہ سے ایسے انصاف کر رہا تھا جیسے برسوں کا بھوکا ہو۔۔۔!!! حیا کا بس نہیں چل رہا تھا اسکے پیٹ میں گھونسے مارے۔۔۔۔۔


” ڈنر نہیں کیا۔۔۔؟؟ “ وہ جو غور سے اسے دیکھ رہی تھی اسکے سوال پڑ چونکی۔۔۔۔


” کیا ہے۔۔۔؟“ حیا نے ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کیوں پوچھا جناب تو ناراض ہیں۔۔۔؟؟


” تو گھور کیوں رہی ہو۔۔۔؟“


حیا سٹپٹا کر یہاں وہاں دیکھنے لگی۔۔۔ شاہ زر پلیٹ خالی کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ جیب سے سیگرٹ نکال کر وہ جلائی۔۔۔ حیا سے اب مزید برداشت نا ہوا جانے کہاں سے ہمت آئی سیگرٹ چھین کر دور پھینکا اور بھرائے ہوے لہجے میں بولی۔۔۔۔


” میں۔۔۔ کب۔۔۔ سے۔۔۔ آپ۔۔۔ سے معافی۔۔۔ مانگ رہی ہوں۔۔۔ آپ ہیں۔۔۔ کے۔۔۔ معاف ہی نہیں۔۔۔ کر رہے۔۔۔ آپ۔۔۔ بھی۔۔۔ تو۔۔۔ پہلے مجھ۔۔ سے روڈلی بیہو کرتے۔۔۔ تھے۔۔۔ میں نے بھی تو آپ کو معاف کیا حلانکے۔۔۔ آپ۔۔۔ نے۔۔۔ معافی۔۔۔ بھی۔۔۔ نہیں۔۔ مانگی۔۔۔ اوپر سے۔۔۔ اتنی گرمی میں۔۔۔ میں۔۔۔ نے۔۔۔ آپ کے لیے۔۔۔ لازانیہ بنایا۔۔۔“


” لازانیہ تم نے بنایا۔۔۔؟؟ “ شاہ زر نے اس جھوٹی کو گھور کر دیکھا۔۔۔

” ہاں “ حیا کو تھوڑی ڈھارس ملی سینہ تان کر کھڑی ہوگئی جیسے اپنے عمل پر فخر ہو۔۔۔۔

” گیس جلانے آتی ہے۔۔۔؟؟ “ شاہ زر نے ابرو اچکا کر پوچھا۔۔۔۔

” لیکن اس میں تو گیس نہیں جلاتے مما تو اون میں ڈالتی ہیں۔۔۔“ وہ سوچ کر بول رہی تھی جیسے نور کو خیالات میں تصور کر رہی ہو۔۔۔!!! واقعی گیس پر تو کبھی نہیں پکایا۔۔۔۔

” اچھا اِنگردینٹینس بتاؤ “ شاہ زر الماری سے ٹیک لگائی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

” وہ سب مما نے سامنے رکھا تھا میں نے ملا کر اون میں ڈال دیا بن گیا لازانیہ “ معصومیت کی انتہا تھی وہ نظر ہٹائے بغیر اسے تک رہا تھا حیا پزل ہوگئی۔۔۔۔

” عقل بڑی ہے یا بھینس۔۔۔“ شاہ زر کو معلوم تھا انوکھا ہی جواب ہوگا۔۔۔

” دروازہ بڑا ہے دونوں گزر سکتے ہیں “

جس طرح وہ سوچ کر بول رہی تھی اگلا بندا کوئی انوکھا جواب ہی تصور کر سکتا ہے پر ایسا بےتکا نہیں۔۔۔۔

” بیوقوف لڑکی۔۔۔۔“ شاہ زر نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف کھینچا اسے دیوار سے لگا کے جانے کے سارے راستے بند کر دیے۔۔۔۔

” آگر میں تمہیں یہاں سے جانے نا دوں تو “

وہ اسکی خوفزدہ آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔

” رات کی تنہائی میں آپ کی ہمسفر خود چل کے پاس آئی ہو۔۔۔!!! نکاح کا لائیسنس موجود ہو ایسے میں کوئی سٹوپڈ ہی ہوگا جو ایسا موقع جانے دیگا۔۔۔ کم سے کم یہ بیوقوفی میں تو نہیں کرونگا۔۔۔“ آنکھوں سے بےبسی کے مارے آنسوں نکل گئے۔۔۔

” بس اتنا ہی دم تھا ابھی تو شیرنی بنی گھوم رہیں تھیں۔۔۔“

شاہ زر نے اپنے دونوں ہاتھ دیوار سے ہٹا کر آزاد کیا۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ بھاگتی شاہ زر نے اسکا بازو پکڑ لیا اور کان کے قریب سر گوشی کی۔۔۔

” تمہارے ہاتھ کا بنا لازانیہ مزیدار تھا!!!! “

شاہ زر مسکرا رہا تھا۔۔۔ حیا کا اٹکا ہوا سانس کچھ بحال ہوا لیکن شاہ زر کی گرفت میں اسکا وجود ٹھنڈا پڑھ رہا تھا۔۔۔

” میں کال کرونگا اور اس دفع اگر رسیو نہیں کی تو منانے کا کوئی نیا طریقہ ڈھونڈنا “آزادی ملتے ہی وہ فوراً بھاگی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” تمہیں کیا لگتا ہے مسٹر شاہ زر بہت بڑے کھیلاڑی ہو تم۔۔۔؟؟؟ تم اپنی چال چلتے جاؤ گے اور میں ہاتھ ملتا بیٹھا رہوں گا۔۔۔؟؟ میں بیوقوف ہوں جو سمجھ نہیں سکتا کے تم اچانک رخصتی کیوں چاہتے ہو۔۔۔؟؟ میری بہن کی آنکھوں میں اگر تمہاری وجہ سے آنسوؤں آئے تو یقین مانوں مسٹر شاہ زر۔۔۔۔ “

” میر بھائی “ میر کی چلتی زبان اس ایک الفاظ بھائی پر رک گئی۔۔۔ وہ اس وقت شاہ زر کے کیبن میں بنا اجازت لیے داخل ہوا تھا۔۔۔۔

” آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔۔!!! میں۔۔۔۔“ میر کا پارا چڑھ گیا وہ درشتگی سے بولا۔۔۔


” تم بدلہ لینے کے لیے شادی کر رہے ہو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔!!! لیکن شاہ زر اس میں میری غلطی نہیں۔۔۔“ کہتے کہتے اسکی آواز آہستہ ہوگئی وہ اپنی صفائی پیش کر رہا تھا۔۔۔


” جانتا ہوں آپ کی غلطی نہیں آپی پر الزام عارف بھائی نے لگایا تھا بدنام وہ انکی وجہ سے ہوئیں آپی نے مجھے سب بتا دیا “


” سب کچھ؟؟؟ یا صرف طلاق کی وجہ “ میر کو یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔


” سب کچھ “ وہ پُر سکون بیٹھا تھا ہاتھ میں کچھ پپرز تھے۔۔۔۔


” ہاں سب بتایا شادی کے دن سے لیکر ایک ایک بات “


یہ سچ تھا کل عنایا نے اسے اپنی شادی سے لیکر ایک ایک بات بتا دی۔۔۔


” لیکن تمہیں رخصتی کی اتنی جلدی کیوں ہے؟؟ “


وہ ابھی بھی اس پر یقین نہیں کر پارہا تھا شاہ زر نے اسے حیا کی طلاق والی پوری بات بتا دی میر کو حیا سے اس بیواقوفی کی امید نہیں تھی۔۔۔۔


” آگر اب بھی رخصتی نا ہوئی تو مجھے ڈر ہے آپ کی بہن کورٹ نا پہنچ جائے مجھ سے طلاق لینے۔۔۔ اور حیا کے لیے پاپا نے پورا انتظام کر رکھا ہے آج میں اپنا ریزگنیشن لیٹر دینے آیا ہوں۔۔۔!!! انہوں نے شرط رکھی ہے کے جب تک میں فیملی بسنیس جوائن نہیں کرتا رخصتی نہیں ہوگی کیوں کے وہ چاہتے ہیں حیا آپ سب کی نظروں کے سامنے رہے “


شاہ زر سے مل کر بھی اسکے اندر کی بےچینی کم نہیں ہوئی شاہ زر سے ملنے کے بعد وہ ازلان کے پاس اپنی آفس چلا آیا۔ ۔ شاہ زر سے کی ایک ایک بات اس نے ازلان کو بتا دی پتا نہیں وہ مطمئن ہوئے تھے یا نہیں بس انہیں فیضان پر بھروسا تھا یہی بات ازلان نے میر سے کی۔۔۔۔


” ہنی مجھے فیضان پر یقین ہے حیا رہے گی تو ہماری نظروں کے سامنے نا۔۔۔ اور میں اپنی بیٹی کی خوشی بھی نہیں چھین سکتا مجھے اس پاک ذات پر اعتیماد ہے راتوں کو رو رو کر میں نے اپنی بیٹی کا نصیب مانگا ہے۔۔۔!!!!! “


پھر گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں نور کے پاؤں تو زمین پر پڑھ ہی نہیں رہے تھے۔۔۔ اسکی اکلوتی بیٹی کا اپنے گھر جانے کا وقت آگیا تھا کل ہی کی تو بات تھی وہ اس سے لڑتی تھی جھگڑتی تھی اپنے بابا سے شکایات کرتی تھی!!!!


گاؤں سے سب ہی آئے تھے اس دفع امان اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لایا تھا۔۔۔ فارس اور پرنیا۔۔۔ حبہ اور امان کی کل کائنات۔۔۔۔


کل سے سارے فنکشن سٹارٹ تھے کل مہندی کا فنکشن تھا۔۔ حیا اپنے کمرے میں بیٹھی شاہ زر کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کا ابھی میسج آیا تھا کے وہ کمرے سے باہر آئے اس سے ملنے لیکن نور نے اسے سختی عائشہ کے پورشن میں جانے سے منع کیا ہے یہ کہہ کر شادی سے پہلے وہ دونوں ہی ہرگز نہیں مل سکتے۔۔۔


☆.............☆.............☆

” بھابھی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں “


” ارے میں بس دو منٹ میں نوڈلس بنا کر آتی ہوں تم بیٹھو یہاں “


” نہیں نہیں بھابی میں بھی ساتھ چلتی ہوں “ اسکی ضدی عادت کے پیش نظر ثانی اسے ناچارہ اپنے ساتھ کچن میں لے آئی۔ اپنے اور حیا کے لیے تین پیکٹ نوڈلس بنا کر وہ حیا کے ساتھ اسکے روم میں آگئی۔ کل سے مہمانوں کا آنا شروع تھا آج نور اور ثانی حیا کے لیے مارکیٹ کے چکر لگا لگا کر تھک گئیں شکر تھا کے آدھی شوپنگ ہوچکی تھی باقی کا ارادہ کال کا تھا۔۔ ثانی رات کے اس پہر نیند نا آنے پڑ حیا کے روم میں چلی آئی جہاں ہلکی سے روشنی دروازے کے پاس نظر آرہی تھی اندر آنے پر ثانی کو حیا کی حرکت کا پتا لگا جو رات کے اس پہر لائٹ بند کر کے کوئی ہارر موی دیکھ رہی تھی۔۔۔ ثانی اسے ڈانٹنے کے بجائے خود اسکے ساتھ بیٹھ گئی نیند اسے خود بھی نہیں آرہی تھی۔۔ بیٹھے بیٹھائے دونوں کو جب بھوک نے جھنجوڑا تو حیا کو جھٹ سے نوڈلس کا آئیڈیا آیا جو ثانی فوراً ہی بنا کر لے آئی۔۔۔

” حیا مجھے لگتا ہے یہ جو ہیرو ہے نا اس نے پاسٹ میں چڑیل کے ساتھ کچھ کیا ہوگا تبھی وہ اپنا بدلا لینے آئی

ہے “


ثانی نے نوڈلس کھاتے ہوے اپنی رائے دی۔۔

” مجھے لگتا ہے وہ ہیرو کو پسند کرتی ہوگی بٹ ہیرو نے ہیروئن سے شادی کر لی ہوگی تو اس چڑیل نے یہ سن کر خودکشی کرلی اور اب چڑیل بن کر بدلا لے رہی ہے “


ثانی اسکی بات پر اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی۔۔ دونوں ہی غور سے موی دیکھ رہے تھے ساتھ نوڈلس کے ساتھ انصاف کر رہے تھے۔۔۔

تبھی حیا کی نظر سفید چادر پر پڑی جو اندھیرے میں ہل رہی تھی پھر اچانک سے چادر پھیل کر ہلنے لگی جیسے کوئی انسان چادر کے اندر بازو پھیلائے ڈانس کر رہا ہو۔ حیا کا سانس اٹک گیا آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ثانی جو ٹی وی پر نظریں جمائے نوڈلس سے بھرا چمچ منہ میں ڈال رہی تھی حیا کو اس طرح ہونک بنا دیکھ اسکی نظروں کے تعقب میں دیکھا تو بلند چیخ اسکے ہلق سے نکلی۔۔۔۔ حیا جو بت بنی ہوئی تھی چیخ سن کر اسکے وجود نے بھی جنبش کی اور وہ چیختی ہوئے ثانی سے لپٹ گئی وہ چادر اب انکے قریب آرہی تھی ثانی نے ایک نظر خوفزدہ سی حیا پر ڈالی اور اسکا ہاتھ پکڑ کے دور لگائی انکی چیخیں ایک پل کو نا روکیں وہ بھوت اب ہنس رہا تھا لیکن وہ دونوں ہوش و حواس سے بیگانہ دروازے تک پہنچی ہی تھیں کے انہیں میر کی آواز آئی جو ہینڈل کھول کر اندر آچکا تھا دونوں ہی بجلی کی تیزی سے اس سے لپٹ گئیں جبکے بھوت میر کو دیکھ کر الماری کے پیچھے چھپ گیا۔۔۔۔

” بھائی۔۔۔ بھوت “ پریشان سے میر نے دونوں کو بازو کے گھیرے میں لیا ان کی چیخیں سن کر جس طرح وہ بھاگا آیا تھا اسے ہی پتا تھا۔۔۔۔

” می۔۔میر بھوت “ ثانی نے اسکی شرٹ مھٹی میں جکڑی میر نے سختی سے اسے خود سے قریب کیا۔۔۔

” بھوت؟؟؟ “ میر بڑبڑایا اسکے کے چہرے پر حیرت اُبری

” کہاں ہے بھوت؟؟ “ میر کی نظریں پورے کمرے میں اس

” بھوت “ کو تلاش رہیں تھیں جو ناجنے کہاں چُھپا بیٹھا ہے۔۔

” میر کیا ہوا انھیں “ نیند سے بوجھل آنکھوں کو مسلتا ازلان بھی نور کے ساتھ وہاں آپہنچا حمزہ کی نیند تو تھی ہی کچی بامشکل اسکی آنکھ لگی تھی اب چیخیں سن کر وہ بھی دوڑا چلا آیا۔۔۔

” پتا نہیں بابا ڈر گئی ہیں “

ازلان حمزہ اور نور کی نظر ٹی وی پر پڑی جہاں کوئی ہارر سین چل رہا تھا تینوں کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کے یہ انکے دماغ کا فتور ہے۔۔۔

میر دونوں کو خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکے روم کا سہی طوڑ سے جائزہ لے سگے پر وہ دونوں تھیں کے سمن بوند کی طرح اس سے چپکی کھڑیں تھیں۔۔

” حیا ریلکس کوئی نہیں ہے!!!! اچھا تم لوگ روکو میں دیکھتا ہوں “

” نہیں میر آپ نا جائیں پلیز “ میر نے نرمی سے اسکی کمر تھپکی اور گرفت ڈھیلی کر کے دونوں کو خود سے دور کیا حیا فوراً جاکر حمزہ سے چپک گئی جبکے ثانی نور کے پیچھے چھپ گئی۔۔

” ثانی تمہاری طبیعت ٹھیک ہے نا؟؟ “

نور نے اسکی حالت کے پیش نظر پوچھا!!

” جی۔۔ جی مما “ نور نے اسکی پیشانی چھوئی جب یقین ہوگیا بخار نہیں تو سائیڈ پر رکھا پانی سے بھرا گلاس ثانی کے ہاتھ میں تھمایا جو ثانی نے گھٹا گھٹ پورا پانی ایک ہی سانس میں پی لیا۔۔۔

” ادھر آئو یار خود دیکھو کوئی نہیں ہے!!!! “ حمزہ نے خود سے چُپکی حیا سے کہا جو تھر تھر کانپ رہی تھی میر جو پورے کمرے کا جائزہ لے چکا تھا سوچ میں پڑ گیا پھر اسکی نظر الماری پر گئی جہاں نیچے کونے سے سفید کپڑا نظر آرہا تھا وہ بنا آواز کیے دھیرے سے الماری کی طرف بڑھا اور ہاتھ بڑھا کر جھٹکے سے سفید چادر کھنچی

” آ۔۔۔۔آ “ عمر اس اچانک حملے کے لیے تیار نا تھا چادر ہٹتے ہی ایک دم سے میر کو اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اسکا دل بند ہوگیا۔۔۔

”بھا۔۔۔ بھائی۔۔آپ۔۔جان۔۔۔نکال دی “ وہ دل پر ہاتھ رکھتا بیڈ پر ڈھ گیا۔۔۔ سب نے حیرت سے یہ منظر دیکھا حیا کے اندر غصّے سے جیسے لاوا سا پھٹنے لگا جبکے نور جلدی سے اسکی طرف لپکی۔۔۔۔

” عمر “ عمر نے آنکھیں موندھے نور کی گودھ میں سر رکھا دیا۔۔۔ میر اور حیا دونوں ہی اسکی چالاکی سمجھ چکے تھے

” تو تم کسے ایکسپیٹ کر رہے تھے؟؟؟ “

وہ دونوں بازو کو فولڈ کیے کڑے تیور لیے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ عمر موقعے کا بھر پور فائدہ اٹھا رہا تھا ازلان مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ نور تو اسکی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی۔۔

” میں انکا گلا دبا دونگی “ میر نے عمر کی طرف بڑھتی حیا کو فوراً سے تھاما جو اب ہاتھ پیڑ چلا کر شیرنی بنی ہوئی تھی۔۔

” حیا دیکھ نہیں رہی عمر کی حالت “ نور نے اسے ڈپٹا

” مما اوور ایکٹنگ کی دکان ہیں یہ سی ڈی انہوں نے ہی دی تھی اور کہا تھا بہت اچھی مووی ہے ضرور دیکھنا!!!! بھائی چھوڑیں “ آخر میں اس نے میر سے التجا کی۔۔ میر نے جھک کر اسکے کان میں کچھ کہا اور ہاتھوں میں کچھ تھما کے چھوڑ دیا۔ حمزہ اور ثانی عمر کی طرف بڑھتی حیا کو دیکھ رہے تھے حیا پلنگ پر چڑھ کے دھڑام سے نیچے بیٹھ گئی۔۔

” حیا “ اس سے پہلے نور کچھ سمجھتی عمر کو اپنی گردن پر نوکیلی چیز محسوس ہوئی وہ سرعت سے اٹھ کر بھاگا لیکن راستے میں میر نے اسکا کالر پکڑ لیا۔۔۔ حمزہ نے ایک انگڑائی لی اور الماری سے ٹیک لگا کر سین انجوائے کرنے لگا۔۔۔

” نوٹنکی بھاگ کہاں رہے ہو مما بابا نا ہوتے تو تمہیں بتاتا “ آخری بات میر نے نہایت دھیرے سے کہی کے صرف عمر سن سگے۔۔۔ عمر نے ایسی معصومانہ شکل بنا کے نور کو دیکھا کے آخر کو نور کو اس پر رحم آہی گیا۔۔

” میر چھوڑو اسے “ نور کے کہنے پر اسنے عمر کو چھوڑ تو دیا لیکن کلاس لینے کا ارادہ ترک نہیں کیا۔۔۔

” تمہیں شرم نہیں آتی ایسا گھٹیا مذاق کرتے ہوے؟؟؟ جانتے ہو نا حیا ڈر جاتی ہے تمہارے مذاق سے خدا نا خانستہ کچھ ہوجاتا تو؟؟ اور ثانی۔۔۔۔ اس کا خیال بھی نہیں آیا جانتے ہو نا کوئی شاک اسکے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے پھر بھی؟؟؟ “

” بھائی قسم لے لیں مجھے بھابی کا پتا نہیں تھا میں تو حیا کو تنگ کرنے آیا تھا!!!! مجھے کیا پتا تھا بھابی بھی ہونگی۔۔۔ اور لائٹس بھی تو اوف تھیں پتا ہی نہیں لگا۔۔۔ “ وہ مجرمانہ انداز میں سر جھکائے اعتراف کر رہا تھا۔۔۔

” لیکن یہ گھٹیا مذاق کیا کیوں؟؟ حیا کو کچھ ہوجاتا تو؟؟ “

میر اب گرجا تھا ثانی حیا یہاں تک کے عمر بھی سہم گیا۔۔

” بھائی میں بس آج کا دن اسپیشل بنانا چاہتا تھا آج یہاں حیا کی آخری برتھڈے جو ہے “ میر اسکی بات پر بُری طرح چونکا وہ بارا بجتے ہی حیا کو وش کردیتا تھا لیکن آج تو اسکے ذہن سے نکل ہی گیا۔۔۔

” فنٹاسٹک عمر!!!!! اس طرح یادگار بناتے ہیں؟؟ اب تو مجھے بھی تم پر غصّہ آرہا ہے یہ کوئی طریقہ ہے؟؟ چھوٹی بہن ہے تمہاری وہ۔۔۔۔ یہ مذاق آگر ہم پر ہی بھاری پڑ جاتا تو ؟؟ “

” ازلان اب بس بھی کریں ہو گئی غلطی۔۔۔ وہ شرمندہ بھی ہے اپنے کیے پے!!!! “

” میں نے منانے کا طریقہ بھی سوچا تھا “

وہ جھکے سر کے ساتھ بولا سب اسکی طرف متوجہ ہوگے۔۔

” کس طرح “ حمزہ نے پوچھا تو عمر نے سب کو آنے کا کہا سب اسکے ساتھ ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوے عمر نے ہاتھ پکڑ کے حیا کو آگے کیا۔۔۔

” ہیپی برتھڈے بھابی “

لائٹ اوف ہونے کی وجہ سے علی نے آنے والوں کو نہیں دیکھا اور پورا پارٹی پیک آنے والے پر چھڑک دیا عمر نے اسی وقت لائٹ اون کی ڈیکوریشن دیکھ کر سب کے منہ کھل گئے اور حیا خود پے گڑتے کلرفل پپرز دیکھ کر کھلکھلا اٹھی

” واؤ!!!! “ بےساختہ اسکے منہ سے نکلا پورا ڈرائنگ روم ڈیکوریٹڈ تھا۔۔۔۔ وال پر ہیپی برتھڈے برائیڈ ٹو بی لکھا تھا۔۔۔۔

” میڈم ڈرپوک صاحبہ یہ آئیڈیا میرا تھا اور بھوت والا علی

کا “ عمر نے فخریہ بتایا۔۔۔۔۔

” آپ سب “ علی ان سب کو دیکھ کر گھبڑا گیا ازلان نور اور عمر سب وہیں اندر ٹیبل کے پاس بیٹھ گئے جہاں کیک اور لارج پیزا رکھا تھا۔۔۔ پیزا دیکھ کر یکدم ثانی کی بھوک چمکی نوڈلیس بھی اسنے ٹھیک سے کھائے نہیں تھے۔ لیکن وہ چھپ چاپ آکر نور کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔

” ڈیکوریشن تو شاندار ہے!!!! لیکن تم لوگ میں عقل نام کی چیز ہے یا نہیں نور اور میرا ارادہ تھا کے حیا کی برتھڈے کل امی ابو کے ساتھ سلیبریٹ کرینگئے لیکن تم دونوں ٹہرے عقل مند ۔۔۔ “

ازلان کی بات پر عمر سر کھجا کے رہ گیا جبکے علی ہونک بنا سب کو دیکھ رہا تھا جو اسکی محنت کا خود لطف اٹھائے مزے سے پھیل کے بیٹھ چکے تھے۔۔۔

” تو محترم آپ کو بھوت دیکھاؤں؟؟ “

میر نے اسکے قندھے پر ہاتھ رکھا عمر نے اسے شارٹ میں ساری کہانی بتائی جسے سن کر علی نے تھوک نگلا۔۔۔

” بھوت سے کبھی مار کھائی ہے؟؟؟ دن میں تارے دیکھا دیتا ہے “ میر نے ہاتھ کا مقا بنا کر اس پر پوھنک ماری جس پر ازلان نے اسے گھوڑا مطلب تھا اب ” بس “ علی نے تھوک نگلا

” نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ بھائی میں۔۔۔ ننی سے جان آپ جیسے پہلوان کے ہاتھ ہی دب جائے گی “ وہ اسکے قندھے پر رکھے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتا بولا۔۔۔

” اب کیک کاٹیں “ نور نے سب کو کیک کی طرف متوجہ کیا۔۔

حمزہ ثانی کو پیزا کی طرف تکتا پا کر مسکرایا۔۔۔ حیا نے کیک کاٹا اور سب کو باری باری کھلایا ابھی سب کیک کھا رہے تھے جو نور سب کو کاٹ کر دی رہی تھی تبھی حمزہ نے میر کو اپنی طرف متوجہ کیا اور میر کے دیکھنے پر ثانی کی طرف اشارہ کیا جس کی نظریں پیزا سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔۔۔ میر مسکراتے ہوئے اٹھا وہ جانتا تھا ثانی پیزا کی دیوانی ہے اسنے پہلے بار زندگی میں یہاں آکر عمر کی برتھڈے پارٹی میں پیزا کھایا تھا جو نور نے گھر میں بنایا تھا۔۔


” پیزا کو دیکھ کر تو میری بھوک چمک اٹھتی ہے!!! علی یار یتیموں جیسی شکل کیوں بنائی ہے؟؟؟ تمہاری ہی محنت ہے ڈھٹ کے کھائو “ علی بمشکل مسکرایا۔۔ اور حیا کو گھور کر دیکھا جو اسے اگنور کیے ازلان کے ساتھ کیک کھا رہی تھی حیا سے اسکا رشتہ ایک بہن اور دوست کے جیسا مضبوط تو تھا ہی لیکن شاہ زر سے جُڑنے کے بعد اور مضبوط ہوگیا یہ سب پلین اسنے حیا کے لیے کیا تھا اور اسکا ارادہ شاہ زر کو بھی بلانے کا تھا لیکن میر نے آکر اسکے پورے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔۔۔۔


میر نے اٹھ کر پیزا کا ایک سلائس اٹھایا ساتھ ثانی کے پلیٹ میں دو سلائس رکھے۔ سب خود میں بزی تھے نور عمر علی آپس میں باتیں کر رہے تھے حیا ازلان سے کسی بات پر بحث کر رہی تھی اور بچا حمزہ جو میر کی حرکت دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔ ثانی نے کسی کو اپنی طرف متوجہ نا پاکر سکون بھرا سانس لیا اور پیزا پر حملہ شروع کر دیا۔۔۔


” تم کہاں چلیں “ سب اپنے کمرے میں جا چکے تھے ثانی بھی حیا کے ساتھ جا رہی تھی کے میر نے اسکا بازو پکڑ لیا

” حیا کے روم میں!!!! ویسے تھنک یو میر اتنا یمی پیزہ کھانے کے بعد اب تو میٹھی نیند آئے گی “ میر نے اسے گھوڑ کر دیکھا جسے اسکی پروا نہیں تھی۔ ۔۔ کتنے مزے سے کہ رہی تھی حیا کے روم میں۔۔۔

” حیا کے روم میں کیوں؟؟ چُپ چاپ اپنے کمرے میں چلو “

میر نے اسکا بازو پکڑ لیا کے کہیں چلی ہی نا جائے۔۔۔میر کو لگا تھا اسکے اونچی آواز سے وہ تھوڑا خائف ہوگی لیکن ثانی نے تو جیسے اثر ہی نہیں لیا۔۔

” نہیں میر حیا کی رخصتی تک میں اُسی کے ساتھ رہونگی ویسے بھی کل سے تو گیسٹ آرہے ہیں “ ثانی نے نرمی سے اسکا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی لیکن میر کا تو جیسے اسکا بازو چھوڑنے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔۔۔ثانی کو اسکی شکل دیکھ کر ہی ہنسی آرہی تھی۔۔۔

” ثانی مجھے نیند نہیں آگی نا تمہارے بغیر سونے کی عادت جو نہیں ہے!!!! “ وہ بےچارگی سے بولا۔۔۔

” مجھے تو بہت اچھی نیند آئے گی میر!!!! “

ثانی نے بمشکل اپنا قہقہ روکا میر کوئی معصوم بچا ہی لگ رہا تھا جو کھلونا نا ملنے پر کسی بھی وقت رونے لگتا۔۔

” بھابی چلیں نا ورنہ یہیں گِر جاؤنگی “ حیا جو کمرے تک پہنچ گئی تھی ثانی کو نا پاکڑ واپس آگئی اور اسکا بازو کھنچتے ہوے اپنے ساتھ لے گئی ثانی نے جاتے سمیت ایک مسکراتی نظر میر پر ڈالی جس نے اسے گھوڑا۔۔۔

” آئو گی تو میرے پاس ہی نا مسز میر “

جاتے سمیت ثانی نے میر کا جملا سنا تھا جس سے اسکے ہونٹوں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


ازلان بےتابی سے گارڈن میں ٹہل رہا تھا۔۔۔ اندر عائشہ اور نور گن چکر بنی لوازمات سے بھڑے ڈھونگے ٹیبل پر سجا رہیں تھیں۔۔ ازلان اور فیضان کی نگھائیں گیٹ پر مرکوز تھیں تبھی تین یکے بعد گاڑیاں اندر داخل ہوئیں۔۔

” اسلام علیکم ابو!!!! “ ازلان اعظم شاہ سے گلے ملکر امان کے پاس آیا جو ابھی کار سے نکلا تھا۔۔

” چچا آئیں عائشہ اور نور آپ لوگ کا بےتابی سے انتظار کر رہی ہیں “ فیضان اعظم شاہ سمیت سب کو اندر لے آیا۔۔۔۔

” بہت یاد کرتی ہوں آپ سب کو “

نور نے اسمہ سے گلے ملتے کہا

” ہاں تبھی ملنے بھی نہیں آتیں “

اسمہ نے غلا کیا تو وہ بس مسکرا کے رہ گئی۔۔

” ازلان آج بچے نظر نہیں آرہے سب کہاں ہیں “

فیضان نے ینگ جنریشن کو حال میں نا پاکر پوچھا۔۔

” پتا نہیں یار صبح سے کوئی دیکھا نہیں!!!! ہاں یاد آیا کل سب دیر سے سوے تھے۔۔۔۔ “ ازلان نے اسے کل کی کروائی سنائی جس پر فیضان نے کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کیا۔۔۔

” حبہ ماشاءالله پرنیا اور فارس بڑے ہوگے ہیں “

نور نے فارس اور پرنیا کو دیکھتے کہا جو فرمانبرداری سے اسمہ کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔

” ہاں بچے کب بڑے ہوجاتے ہیں پتا ہی نہیں لگتا اب حیا کو ہی دیکھو کل کی بات تھی ہماری ہاتھوں میں کھیلتی تھی۔اب دیکھتے دیکھتے شادی کی عمر آن پہنچی “

” سہی کہ ررہی ہو حبہ “ نور نے حامی بھری۔۔

” برخودار بڑی تعریفیں سنی ہیں تمہاری فیضان بھی کہتا ہے شاہ کنسٹرکشن کی ترقی میں تمہارا ہاتھ ہے!!!! لیکن وقت کے پابند نہیں ہو؟؟ چڑیا گھونسلا بنانے کے ساتھ دانا بھی لے آئی لیکن تم اب تک تیار نہیں ہوئے “ اعظم شاہ نے اسکے حلیے کو دیکھتے کہا جس نے ابھی تک ٹریک سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔

” نہیں ابو ایکچولی سب آپ کے آنے کا سن کر کچھ زیادہ ہی پُر جوش ہوگئے رگڑ رگڑ کے نہا رہے ہیں “ میر کی بات پر اعظم شاہ کا قہقہ بلند ہوا۔۔۔۔ عمر حمزہ آگے پیچھے لائونچ میں داخل ہوئے حمزہ آج معمول سے ہٹ کر تیار ہوا تھا میر نے غور سے اسکی تیاری دیکھی تھی جو کتابوں سے ہٹنے کا نام نہیں لیتا تھا آج اتنی دیر انسانوں کے بیچ کیسے بیٹھا رہ گیا۔۔۔

شام تک پورا گھر مہمانوں سے بڑھ چکا تھا۔۔ نور کے تایا تائی انکے بچے سب ہی آئے تھے۔۔

” بھائی آپ نے آج یہ سوٹ پہنا ہے ازلان اور فیضان بھائی کے لیے بھی سیم یہی کُرتا لیا ہے!!! “

” چلو پھر آج یہی پہن لیتا ہوں “

نور امان کو کُرتا دیکر حیا کے پاس چلی آئی جہاں سب لڑکیاں اسے گھیرے بیٹھیں تھیں۔۔۔

” حیا آپی آپ کی ہاتھوں میں مہندی بہت خوبصورت لگ رہی ہے “ حیا اتنے لوگوں میں ڈری سہمی بیٹھی تھی لڑکیاں اسکے ہاتھوں میں مہندی لگا رہیں تھیں لیکن اسنے ایک پل کو بھی اپنی نظریں نہیں اُٹھائیں نا ہی مہندی سے سجے ہاتھوں پر غور کیا اب پرنیا کی تعریف پر اسکا بھی دل چاہ رہا تھا مہندی دیکھے لیکن ان آنکھوں نے تو اوپر نا اٹھنے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔ پہلے تو وہ ثانی کو اپنے ساتھ بیٹھائے ہوے تھی لیکن اب وہ مہمانوں کی خاطر داری میں ایسی لگی تھی کے لوٹنا ہی بھول گئی۔۔۔

” بھابی چائے بن گئی؟؟ “

حمزہ جو کچن کے باہر کب سے انتظار کر رہا تھا پوچھ بیٹھا۔۔

” حمزہ تم اندر ڈرائنگ روم میں چلے جاؤ ابھی ٹائم ہے اتنی گرمی میں کب تک کھڑے رہو گئے “ ثانی یہی سمجھی تھی گرمی کی وجہ سے وہ کھڑا رہ کر تنگ آگیا ہے۔۔

” بھابی آپ بھی تو کھڑی ہیں؟؟ “ حمزہ نے الٹا سوال کیا جس پر ثانی تلخی سے مسکرائی وہ اسے کیا بتاتی اسنے تو دھوپ میں کھڑے رہ کر بھی پچاس ساٹھ لوگوں کا کھانا بنایا ہے۔۔۔

” مجھے عادت ہے حمزہ تم تو چوبیس گھنٹے ای سی میں رہتے ہو تمیں عادت نہیں نا “

” بھابی خوامخواہ بھائی نے بدنام کر رکھا ہے بغیر ای سی کے بھی پڑھ لیتا ہوں “ وہ شاید بُرا مان گیا تھا۔۔

” ہاں بھائی جانتی ہوں ابھی میرے ساتھ اس گرمی میں کھڑے رہ کر پُرو جو کردیا “

ثانی نے چائے کپوں میں اُنڈھیلتے کہا حمزہ نے تب تک مدد کرنے کے گرز سے بسکیٹس وغیرہ نکالے ثانی نے اسے کیک اور میٹھائی بھی دی جو ہر مہمان آتے ساتھ لے کر آرہا تھا۔۔۔۔ حمزہ ٹرے اور دیگر لوازمات باری باری لے گیا۔۔۔

” بھابی بریانی ختم ہوگئی ہے اس میں ڈال دیں “

پرنیا ہاتھ میں خالی ٹرے لیے کھڑی تھی ثانی اب پریشان ہوگئی کیوں کے اس نے پہلے ہی دیگوں میں دیکھ لیا تھا مردوں کے کھانے کے بعد کھانا کم پڑ گیا تھا اس نے حمزہ سے کہا تھا جواب میں حمزہ نے اس سے کہا کے ایک گھنٹے کے اندر کھانا آجائے گا لیکن دو گھنٹے ہو گئے دیگیں ابھی تک نہیں آئیں۔۔ وہ سوچ ہی رہی تھی کیا کرے کے فارس آگیا۔۔

” بھابی پرنیا آپ لوگ اندر جائیں میں دیگیں رکھوا دوں “

فارس کی بات سن کر دونوں کچن سے باہر آگئیں۔۔ وہ آدمی جیسے ہی دیگیں رکھ کر گئے پرنیا اور ثانی کچن میں چلی آئیں۔۔ جب کے فارس ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔۔۔

پرنیا نے سوچا خود ہی دیگ سے بریانی نکال کر ڈال لے کیوں کے ثانی ایک دفع پھر چائے بنانے لگی عموماً کھانے کے بعد یہاں چائے کا دور چلتا ہے۔ پرنیا سوچ پر عمل کر کے نیچے بیٹھنے کو تھی کی حمزہ آگیا۔۔۔

” لائیں میں نکال دوں “ حمزہ اسکے ہاتھ سے ٹرے لیکر خود ہی بیٹھ کر بریانی نکالنے لگا۔۔۔ چھوٹے نما اسٹول پر وہ بیٹھا پلیٹ سے بھر بھر کے بریانی نکال کر ڈش میں ڈال رہا تھا۔۔

پرنیا نے اکثر عمر سے اسکے بارے میں سنا تھا کے وہ کتابی کیڑا ہے۔ پرنیا اور اسکے بیچ کبھی سلام دعا کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی کیوں کے حمزہ عمر کی طرح باتونی نہیں تھا اسنے بہت کم لوگوں کو حمزہ سے گُلتے ملتے دیکھا تھا اسلیے وہ ہمیشہ اپنے اس کزن سے سنمبھل کر ہی ملتی۔۔

” اچھا ہوا حمزہ تم آگئے “ ثانی نے حمزہ کو کچن میں پاکر کہا نور نے اسے جُکنے سے منع کیا تھا ویسے ہی دو تین دن سے اسکی کمر میں شدید درد رہنے لگا تھا ایسے میں حمزہ کی آمد اسکے لیے فائدے مند ثابت ہوئی۔۔ پرنیا نے حمزہ کی بڑھائی ہوئی ٹرے تھامی تو اسکا ہاتھ حمزہ سے ٹچ ہوا اس لمس نے اسکی ریڑ کی ہڈی میں سنسنی دورائی وہ ٹرے تھامے فوراً کچن سے نکل گئی۔۔۔

” بھابی یہ چائے؟؟ سمجھ گیا مما کی چچی وغیرہ کے

لیے ہے؟؟ “

” سب کے لیے بنائی ہے اب شادی والا گھر ہے گِنے چُنے لوگوں کو تھوڑی دیں گئے “ حمزہ اسکی بات پر سر ہلا کے رہ گیا۔۔

گھر کے باہر ہی شامیانے بیچھا کر مہندی کا ارینجمنٹ کیا گیا تھا اسٹیج کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ساری ڈیکوریشن عمر نے خود اپنی نگرانی میں کروائی تھی۔۔ فنکشن کے اسٹارٹ ہوتے ہی حیا کو لاکر شاہ زر کے ساتھ بٹھایا گیا۔۔ باری باری سب نے حیا شاہ زر کو مہندی لگا کر میٹھائی کھلائی۔ عمر تھا تو حیا کا بھائی لیکن مہندی میں شرکت اس نے شاہ زر کی طرف سے کی تبھی سب کزنس کے ساتھ ملکر خوب محفل جمائی۔۔۔۔

” اللہ‎ تمہیں دنیا کی ہر خوشی سے نوازے “ اسما نے حیا کی پیشانی چومتے کہا۔۔ نور نم آنکھوں سمیت مسکرادی اسما اور ازلان نور حیا کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے عمر اور علی کا ڈانس دیکھ رہے تھے کے اچانک اسمہ نے حیا کو اپنے ساتھ لگا کر دعا دی۔۔۔

رات گئے تک مہندی کے فنکشن کی تقریب چلی سب ینگ پارٹی نے فل والیوم چلا کر ڈانس کیا۔ بڑے تھک ہار کر پہلے ہی اندر جا چکے تھے نور بھی حیا کو لیکر پہلے ہی حال سے نکل چکی تھی۔۔اب میر باہر کھڑا ٹینڈ وغیرہ ہٹوا رہا تھا کے اسکی نظر کچن کی کھڑکی پر پڑی جہاں روشنی صاف دیکھائی دے رہی تھی وہ سر جھٹک کر ان آدمیوں کی نگرانی کرنے لگا آدھے گھنٹے بعد کہیں جاکر لان اپنی مکمل شکل میں آیا تو وہ سونے کے غرض سے گھر کے اندر چلا آیا۔ کل سے وہ ثانی سے نہیں ملا مہندی کے کپڑے بھی ثانی نے پریس کر کے عمر کے ہاتھ بھجوائے تھے ابھی بھی اسکا دل سونے کا نام سن کر ہی خراب ہو رہا تھا اسکا روم آج کل بڑوں کے قبضے میں ہے۔ اس لیے ناچارہ اسے عمر کے ساتھ سونا پڑتا وہ ابھی عمر اور حمزہ کے روم کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کے اسکی نظر کچن پر پڑی جہاں ابھی بھی لائٹ روشن تھی۔ میر کے قدموں نے کچن کی راہ اختیار کی اور اندر آتے ہی اس کا دل چاہا اپنا ماتھا چوم لے جس نے سہی فیصلہ کر کے اسے یہاں بھیجا۔۔

” بہت خوش نظر آرہی ہو “ ثانی جو زہر مار کر نان کے ساتھ بچا سالن کھا رہی تھی میر کی آواز سن کر گھبڑا گئی۔۔

” میر آپ۔۔۔ افف ہارٹ فیل کرا دیا تھا میرا “ وہ دل پر ہاتھ رکھتی گہرا سانس لیکر بولی اچانک آواز سے اسے یہی لگا کوئی مہمان ہوگا سوچ کر ہی اسے شرمندگی ہو رہی تھی آگر آجاتے تو کیا سوچتے بُھکڑ بہو ہے۔۔

” ہارٹ فیل تو میرا ہونے والا ہے!!! تم یہ بتاؤ آج روم میں آئی کیوں نہیں سوٹ تک عمر کے ہاتھ بھجوایا “ وہ مصنوئی خفگی سے اسے دیکھتا کہ رہا تھا

” آج بھی برتن دھونے کی نوبت آئی “ ثانی نے ہنستے ہوے کہا

” میں مذاق نہیں کر رہا “ وہ بُرا مان گیا

” میر وہ حیا آنے ہی نہیں دی رہی تھی بہت گھبرائی ہوئی تھی اسلیے مجھے وہیں رُکنا پڑا “

” کل بھی حیا نے کہا تھا؟؟ مجھ سے دور جانے کے سارے بہانے ہیں۔۔۔ خیر چھوڑو تم یہ بتاؤ ڈنر نہیں کیا تھا “ وہ نفی میں سر ہلانے لگی

” کیوں؟؟ “ میر نے ابرو اچکا کر پوچھا اسے اب کھانے پینے میں اضافہ کرنا چاہیے تھا لیکن محترمہ بھوک ہڑتال کیے ہوے ہیں۔۔

” وہ۔۔۔ میر “ ثانی کھانا چھوڑ کر اب ہاتھوں کو آپس میں مسلنے لگی

” بولو بھی ثانی مجھ سے کیوں گھبڑا رہی ہو “ میر جو اسکے سامنے بیٹھا تھا اٹھ کر اسکے برابر میں آبیٹھا اور ان ہاتھوں کوا پنے ہاتھوں میں لیا جسے وہ گھوڑ رہی تھی۔۔۔۔

” میر صبح سے میرا دل چاہ رہا ہے پانی پوری کھانے کا اسی چکر میں کچھ کھایا نہیں اور اب جب بھوک برداشت نا ہوئی تو۔۔۔ “ وہ سر جھکائے ایسے بول رہی تھی جیسے کوئی بہت بڑا گناہ ہوگیا ہو۔

” چلو اٹھو “ میر نے ایک نظر اپنی ریسٹ واچ پر ڈالی اور اسے حکم دیتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔

” اس وقت “ وہ ہونک بنی میر کو تک رہی تھی بھلا اس نے کب سوچا تھا میر اس وقت اسے باہر لے جائے گا

” ہاں!! اب اتنی بھی دیر نہیں ہوئی “ ثانی اٹھی ہی تھی کے ہائی ہیل کی وجہ سے اسکا پیر لڑکھڑا گیا اگر میر اسے نا سمبھالتا تو ضرور پیر میں موچ آجاتی۔۔ میر نے بیٹھ کر اپنے شوز اُتارے اور اسکے پیروں کو سنڈیلس سے آزاد کر کے شوز ثانی کے سامنے رکھ دیے۔۔۔

” پہنوں اسے “

” میں اپنی چپل لے آتی ہوں “

” ثانی اب کہاں ڈھونڈوگی؟؟ اور گھر میں جتنے گیسٹ ہیں اس حساب سے اس صدی میں تو سلیپرس ملنے سے رہے یہی پہنو “ ثانی کو ناچارہ اسکے شوز پہنے پڑے۔ وہ شوز پہنےکے لیے واپس چئیر پر بیٹھ گئی اور میر اس کے حسن ربا سراپے پر غور کرتا رہا وہ جب اٹھی تھی تو میر کی ایک نظر نے اسکا بھرپور جائزہ لیا تھا۔۔ لائٹ پنک پلازو کے ساتھ لائٹ پنک کلر کی ہی شورٹ شرٹ زیب تن کی تھی پوری ڈریس پر بھاڑی کام ہوا تھا لمبے کھلے بال پوری پشت کو ڈھکے ہوے تھے اور سب سے الگ تھی ماتھا پٹی جو اسے اور خوبصورت بنا رہی تھی۔۔

” چلیں میر “ وہ ثانی کی آواز سے اس سحر سے باہر آیا پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر محبت سے اسکا ہاتھ تھامتے ہوے گویا ہوا۔۔۔

” ثانی بہت مشکل سے مجھے یہ خوشی نصیب ہوئی ہے میں نہیں چاہتا ہماری چھوٹی سے لاپروائی سے کوئی بڑا نقصان ہو!!! مجھ سے پوچھو مجھے کتنی تکلیف ہوتی تھی جب تمہیں مختلف ڈاکٹرز سے التجا کرتا دیکھتا تھا۔۔۔ وہ بیکار میڈیسنز دیکھتا تھا۔۔۔تم نہیں جانتی کتنا درد ہوتا ہے اس دل میں اپنی پیاری ہستی کو بکھرتا دیکھ۔۔۔ اور مجھے یہ آنے والی خوشی بہت عزیز ہے محبت اور بڑھ جاتی ہے جب محبت کی نشانی اُس ہستی سے ملے جو آپ کے دل کی مکین ہو “ ثانی میر کے ہاتھوں کو دیکھ لب کاٹ رہی تھی۔۔میر نے انگھوٹا اسکے پیٹ پر پھیرا جیسے وہ آنے والے زندگی کو محسوس کر رہا تھا پھر مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا احساس وہ اسے دلا چکا تھا وہ اسکا ہاتھ تھامے پورچ تک آیا۔۔۔۔

” میر مجھے میچنگ سینڈلس نہیں مل رہیں تھے تو مما سے اُدھار لیے “ کار میں بیٹھتے وہ گویا ہوئی اسکے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ میر کو واضع نظر آئی میر نے کار میں رکھے اپنے جوگرز پہنے تھے جو شیروانی کے ساتھ ایک

الگ ہی نفشا کھنچ رہا تھا۔۔۔۔

” مما ہیلس پہنتی ہیں؟؟ “ پوچھے بنا وہ رہ نا سگا۔۔

” میر انکا کلیکشن دیکھتے آپ۔۔۔ پہلی دفع جب حیا اور میں نے دیکھا تو ہم حیران رہ گئے تھے ساتھ خوب ہنسے بھی۔۔۔ خیر مما نے ہمیں کہا تھا لے لیا کرو جو پسند آئے تو یہ سینڈلس میں نے انکی غیر موجودگی میں لیے اور ڈریس کے ساتھ میچنگ فلیٹ چپل نہیں تھی۔۔۔“

” ہم!!! “ میر کی نظریں ونڈسکرین پr تھیں لیکن پورا دھیان ثانی کی طرف تھا وہ بولے جا رہی تھی اور میر سن رہا تھا جب وہ چُپ ہوتی تو میر کوئی سوال کردیتا آج کی تقریب کے مطلق اور وہ پھر شروع ہوجاتی۔۔

ایک جگہ پر گاڑھی روکتے ہی میر کار لاک کر کے باہر نکلا ثانی کار میں بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی پھر کچھ ہی دیر میں وہ گول گپوں سے بھری پلیٹ لے آیا۔۔۔

” لیجیے میڈم!!!! “ ثانی نے جھٹ سے پلیٹ تھامی اور فٹافٹ شروع ہوگئی۔

” میر آپ بھی لیں “ میر کو اپنی طرف تکتا پاکڑ ثانی نے کہا وہ تو بھول ہی چکی تھی ساتھ میر بھی ہے۔۔

” خیال آگیا آپ کو؟؟ میڈم نا گھر میں لفٹ کراتیں ہیں نا

باہر “ میر نے ناراض لہجے میں کہا۔۔

” اب اوفر کر تو رہی ہوں میر “ ایسا معصومانا انداز تھا جو میر کو مسکرانے سے نا روک سگا

” نہیں ثانی میں یہ سب نہیں کھاتا انفکٹ تمہیں بھی کھانے نا دیتا آگر کوئی ریسٹورنٹ کھلا ہوتا “

” کیوں؟؟ “

” یار پتا نہیں کونسا پانی یوز کرتے ہونگے “ اسکی بات سن کر ثانی اپنا سر پیٹ کے رہ گئی

” افف میر ایک تو آپ لوگ!!!! روڈ سائیڈ والے بھی انسان ہوتے ہیں وہی پانی پیتے ہیں جو آپ سب پیتے ہیں “

” ثانی بابا کو سخت ناپسند ہے روڈ سائیڈ چیزیں ہمیں تو آس پاس بھٹکنے بھی نا دیتے کے کہیں کھا کر طبیعت نا خراب ہوجاے “ ثانی نے بھی ارادہ کر لیا اور ایک گول گپا پانی سے بھر کی میر کے منہ میں ڈالنا چاہا لیکن وہ کھانے کو تیار ہی نا تھا۔۔۔

” میر کھائیں۔۔ میر پلیز نا بس ایک دفع “ وہ کبھی اپنا چہرہ ثانی کی طرف کر لیتا کبھی دوسری سائیڈ لیکن ثانی بھی اپنے نام کی ایک تھی اس نے میر کے رکھے ہاتھ پڑ اپنے بڑے ناخن گاڑے جس سے وہ چلا اٹھا۔ ثانی نے جھٹ سے اسکے کھلے منہ میں گول گپا ڈالا۔ میر نے اسے گھوڑا جو ہنسے جا رہی تھی۔۔

” کیا فائدہ بابا کی اتنی اسٹرکنسس کا میں نے کھلا تو دیا اُنکے بیٹے کو “ وہ ایک ادا سے بولی۔۔

” ثانی تمہاری جگہ عمر ہوتا نا تو؟؟ “ میر نے بڑا سا گول گپا بمشکل کھایا جو اسکے منہ میں فٹ ہی نہیں آرہا تھا۔ ایک بات تو تھی واقعی گول گپے تھے بڑے مزیدار

” تو؟؟ “ ثانی کے لب ہلے

” مار کھاتا “ میر کی بےنیازی سے کہنے پر ثانی نے معصوم شکل بنا کر دیکھا۔۔

” مجھے بھی مارینگے “ میر کو لگا وہ رو دیگی۔۔۔

” ہاے!!! میری جان تمہیں صرف پیار کر سکتا ہوں۔۔۔ تمہارا چہرہ دیکھ کے ہی غصّہ بیٹھ جاتا ہے ویسے گول گپے تو اچھے تھے “ میر نے اسکا بایاں ہاتھ تھامے کہا پھر ایک گول گاپا اسکی پلیٹ سے لیکر کھایا۔۔۔

” اب کیوں کھا رہے ہیں بیمار پڑ جائیں گئے “

” آپ کے ہاتھ سے کھائوں گا تو نہیں پڑونگا “ کہتے ہی میر نے ایک گول گپا ناراض سے ثانی کے منہ میں ڈالا جس نے بنا نخرے کیے منہ کھول کے کھایا۔۔۔

” چلو منانے کا ایک طریقہ ملا!!! اب ناراض ہوئیں تو آپ کے بھائی جان سے گول گپے لے آئونگا “ میر نے سپیڈ سے کھاتی ثانی سے کہا

” اب چلیں میر “ پلیٹ خالی کر کے اسنے میر کو اپنا اگلا حکم سنایا۔۔۔میر اسکی بات سن کر بدمزہ ہوا

” نہیں!!! میں سوچ رہا ہوں سی ویو چلتے ہیں گھر جاکر سونا ہی ہے اور میرا موڈ نہیں گدھوں کے ساتھ سونے کا “

میر نے بگڑی شکل بنا کر کہا

” میر مجھے صبح جلدی اٹھنا ہے مہمان کیا کہیں گئے ایک ہی بہو ہے وہ بھی کام چوڑ اور پھر حیا کو پارلر بھی لے کر جانا ہے میرے بغیر وہ جائے گی نہیں “ میر نے گہرا سانس خارج کیا اور اسکی بات مانتے ہوے گاڑھی ریورس کر کے گھر کی طرف موڑی۔۔۔


☆.............☆.............☆


میر ثانی کا ہاتھ پکڑے لاؤنچ میں داخل ہوا تبھی اسکا فون بجا میر نے جیب سے فون نکالا مس کال کے ساتھ ایک میسج بھی بھیجنے والے نے بھیجا تھا۔۔ میسج پڑھ کر میر نے ثانی سے کہا۔۔۔

” ثانی تم جا کر سو جاؤ مجھے ایک کام نپٹانا ہے “

” میر اس وقت کہاں جا رہے ہیں “ توقع کے مطابق وہ پریشان ہوگئی جو میر اسے نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

” گھر میں ہی ہوں، پریشان نہیں ہو بس وہ مینیجر سے ڈیکوریشن کے معطلق کچھ بات کرنی ہے “ میر نے اسکا گال ہلکا سا تھپکا اور پیشانی چومی

” اوکے آپ بھی جلدی سو جانا “

” ہم!!! اور سنو مجھے مس کرنا اور میری بیٹی کا خیال

رکھنا “ میر کی بات سن کر پل بھر میں وہ سرخ پڑ گئی میر اسکے سرخ چہرے کو دیکھ کر ہنستا چلا گیا جب کے وہ اسے گھوڑ کر اوپر چلی آئی وہ آخریی سیڑھی پر پہنچ کر رکی پیچھی مُڑ کر اس نے میر کو دیکھا تو وہ مسکراتا ہوا اُسے ہی دیکھ رہا تھا ثانی بھی اسکی طرف مسکراہٹ اُچھالتی اندر چلی گئی۔۔۔۔

” کہو عنایا تمہیں اس طرح اس وقت مجھے نہیں بلانا چاہیے تھا گھر میں مہمان ہیں “ عنایا جو گارڈن میں ٹہلتے بےصبری سے اسکا انتظار کر رہی تھی میر کی آواز سن کر ایک سکون بڑا سانس خارج کیا

” تم نے پاپا سے کیا کہا “ وہ اب اسکے سامنے کھڑی نظریں ملائے اس سے پوچھ رہی تھی

” میں سمجھا نہیں کیا کہنا چاہتی ہو؟؟ “ وہ جانتے بوجھتے انجان بن گیا۔۔

” انجان مت بنو ممی نے کل مجھ سے ہارون کے پروپوزل کی بات کی جو تم لیکر آئے تھے “ غصّہ اسکے لہجے سے جھلک رہا تھا اسے امید نہیں تھی میر کوئی ایسی حرکت کرے گا غصّہ تو اسے اس بات پر آرہا ہے کے میر نے ہارون کو اُسی وقت منع کیوں نا کردیا الٹا گھر بھر میں بات پھیلا دی۔ نور تک اسے سمجھانے آئی تھی۔۔

” دیکھو عنایا زندگی میں تمہیں آگے تو بڑھنا ہے اور زندگی تب خوبصورت لگتی ہے جب آپکا ہمسفر آپ کے ساتھ ہو “

وہ اسے قائل کر رہا تھا

” من چاہا ہمسفر کہو میر “ اسی اپنی ہی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی کرب ہی کرب تھا لہجے میں

” عنایا من چاہا ہمسفر نہیں تم آج بھی غلط ہو ایسا ہمسفر جو عمر بھر ساتھ رہنے کا دعوا کرے آپ کی آنکھوں سے دیکھے، آپ کے کانوں سے سنے نا کے اوروں کی باتوں پر عمل کر کے آپ کی کردار کشی کرے “ وہ نہیں جانتی طنز تھا یا وہ اسے سمجھا رہا تھا لیکن عنایا تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھی تھی

” یہ سب گُن ایک شخصیت میں ہیں میر اور اگر میں کہوں سہی معینوں میں میں محبت کو اب سمجھی ہوں تو؟؟ “

” مطلب؟؟ “ وہ اُلجا تھا

” میر میں اپنی غلطی پر آج تک پشتا رہی ہوں بہت غلط کیا میں نے تمہارے ساتھ، تمہاری محبت کو ٹھکرا کر خود بھی اذیت میں رہی۔۔۔ اور میں جانتی ہوں آج بھی تم مجھ سے محبت کرتے ہو اتنا ہی چاہتے ہو۔۔ تم مجھے دوسری شادی کا کہ رہے ہو مجھ سے بھی تو تم کر سکتے ہو دوسری شادی۔۔۔ “

دھماکہ تھا جو اس نے میر کے سر پر کیا تھا۔۔

” اچھا اور ثانی اس کا کیا؟؟؟ “ پہلی دفع زندگی میں اسے عنایا سے نفرت محسوس ہوئی۔۔۔

” ثانی۔۔۔ سے میں اسکے حصّے کی خوشی نہیں چھین رہی وہ بھی یہاں رہے گی۔۔ ویسے بھی میری وجہ سے تم نے اس سے شادی کی تھی ورنہ تم تو کبھی نا کرتے۔۔۔۔ میرا انتظار کرتے۔۔۔۔۔کیوں کے میں جانتی ہوں تمہاری محبت سچی ہے۔۔۔میر دیکھو ثانی بھی یہاں رہ لیگی جب تم اسے بتاؤ گئے تمہیں مجھ سے محبت ہے تو وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائے گی دیکھنا خود تم سے کہے گی کے عنایا سے شادی کرلو۔۔۔ “

میر کو آج خود پر افسوس ہو رہا تھا کتنا غلط تھا وہ ایک خود غرض لڑکی سے محبت کر بیٹھا۔۔۔ اگر ثانی نا آتی تو نجانے وہ اس فیز سے نکل بھی پاتا یا نہیں۔۔۔ آج اسے یقین آگیا تھا نور سچ کہتی ہے جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔۔

” افسوس عنایا ثانی کو جانتے ہوئے بھی تمہیں ذرا اس پر ترس نہیں آیا یہ جانتے ہوے بھی کے وہ میری خوشی کے لیے مجھے چھوڑ دے گی انفکٹ وہ تمہارے لیے بھی بڑی قربانی دینے کو تیار ہے مگر تم۔۔۔ تم اسکے بنے بنائے رشتے کو توڑ کر اپنا آشیانہ بنانا چاہتی ہو؟؟؟ ۔ افسوس عنایا تم آج بھی خود غرض ہو آج بھی تمہیں میری نہیں اپنی فکر ہے۔۔۔ تم صرف خود سے محبت کرتی ہو۔۔۔ میں آج بھی کہیں نہیں ہوں تم نے جو سچی محبت کی تھی نا وہ عارف سے کی تھی بغیر کسی غرض کے لیکن ہم سب۔۔۔ہم سب صرف کھیلونا ہیں تمہارے لیے اپنے طریقے سے چلانا چاہتی ہوں ہمیں۔۔۔ لیکن ایک بات میں بتا دوں اب میں وہ بیوقوف میر نہیں رہا جسے پاگل کہ کر تم نے ٹھکرایا تھا۔۔ ہاں پاگل تھا اُس وقت کیوں کے بےغرض محبت کی تھی میں نے تم سے تم سہی کہتی تھیں پاگل تھا میں جو تمہاری باتوں میں آجاتا۔۔۔ تمہیں زندگی سمجھ بیٹھا۔۔۔۔ مگر اب ہر گز نہیں عنایا۔۔۔۔ ہرگز نہیں ۔۔۔۔ اور ایک بات میرے دل میں تم کہیں نہیں ہو کہیں بھی نہیں صرف ثانی ہے۔۔۔ ثانی وہ لڑکی ہے جس نے مجھے مکمل کیا میرے اپنوں کی خدمت کی مجھ سے جُرے رشتوں کا احترام کیا انھیں اپنا مانا۔۔۔ میرے روم روم میں وہی ہے عنایا۔۔۔ تم کہیں نہیں۔۔۔۔ “ وہ اسے آئینہ دیکھا رہا تھا جو بہت ہی دردناک تھا

” ہارون بہت اچھا لڑکا ہی عنایا۔۔ ایک ماہ میں تایا ابو نے اسے کافی پرکھ لیا ہے وہ خود راضی ہیں اس رشتے کے لیے اس دفع اُنکا مان رکھ لو۔۔۔ ہارون کے متعلق تمہیں کچھ باتیں باتا دوں۔۔ جس دن میں تمہارے گھر آیا تھا ہارون سے اس دن جاب کا سن کر میں نے اسے جاب اوفر کی تھی اسکے لاکھ منع کرنے کے باوجود زبردستی میں نےappointment لیٹر بھیجوایا۔۔۔ اسکے ساتھ کام کر کے مجھے اسکے بارے میں پتا چلا کم گو کام سے کام رکھنے والا انسان ہے لیکن احترام کے معملے میں وہاں وہ خود سے کم تر ورکرز کی بھی ریسپیکٹ کرتا ہے۔۔۔ طلاق والے دن اُسی نے مجھے فون کر کے بلایا تھا اور وہ تب تک اُس محلے میں کھڑا رہا جب تک میں نا آگیا۔۔۔ اور جانتی ہو ہارون اس دن کے بعد سے گھر نہیں گیا ہوسٹل میں رہ رہا ہے اُس نے ساتھ آگے کی پڑھائی بھی شروع کردی ہے بہت محنتی لڑکا ہے اور مجھے امید ہے وہ تمہیں خوش رکھے گا!!!!! میں اب چلتا ہوں امید کرتا ہوں میری باتوں پر غور ضرور کرو گی۔۔۔“ میر اپنی کہ کر جا چکا تھا جب کے وہ آج پھر بکھر گئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” جی ابو آپ نے بلایا “ ازلان انکے بلانے پر فوراً چلا آیا۔۔

” ازلان شمس جیل سے رہا ہوگیا ہے اور وہ میر سے ملنا چاہتا ہے!!! بیٹا اب وہ پہلے کی طرح نہیں رہے وہ غرور وہ اکڑ اب ختم ہو چکی ہے وہ صرف ہنی سے ملکر اس سے معافی مانگنا چاہتا ہے “

” نہیں ابو وہ ہنی کو پھر سے کوئی نقصان پہنچائینگے “

ازلان کے بولنے سے پہلے نور نے مداخلت کی۔۔

” ہاں ابو نور سہی کہ رہی ہے معافی مانگنی ہے فون کر کے مانگ لے ہنی کہیں نہیں جائے گا “ اعظم شاہ نے بھی بحس کرنا مناسب نا سمجھا وہ بھی باپ ہے اولاد کے غم سے واقف ہیں۔۔۔

عنایا جو حال میں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی احمد کی آواز سن کر ڈریسنگ روم سے باہر نکلی۔۔

” مما یہ دیکھیں چاکلیٹس انکل نے دلائے “

احمد ہاتھ میں چاکلیٹس لیے بھاگتا ہوا اس تک آیا عنایا کی آنکھیں جلنے لگیں انکل یعنی میر نے اسے یہ سب دلایا ہے۔۔۔

” کہاں جا رہے ہو احمد؟؟ “

ماں کو اپنی طرف متوجہ نا پاکڑ وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی بھاگتا ہوا دروازے تک گیا لیکن اپنی ماں کی پُکار سن کر وہیں رک گیا

” حمزہ انکل کے پاس حیا آپی کو ہم لینے دا رے ہیں “

اسکے جانے کے بعد عنایا نے آنکھوں میں امڈتے پانی کو بہنے دیا۔ کل رات کاش وہ میر کو نا بلاتی ایک خوش فہمی تو رہتی لیکن اب تو وہ ایک آخری محبت بھی گنوا بیٹھی تھی۔۔۔

” میر۔۔۔۔ میر۔۔۔ اٹھو “

میر جو گہڑی نیند میں تھا ہربڑا کے اٹھا مندی مندی آنکھوں سے اسنے سامنے کھڑے وجود کو دیکھا پھر تکیہ میں منہ چھپا کر واپس سو گیا!!!!!

عنایا نے اس بار دونوں بازوں سے اسے جھنجھوڑ ڈالا

” یار سونے دو پوری رات کا جگا وا ہوں “

وہ بےزاریت سے کہ کر رخ موڑ گیا

” بعد میں سونا پہلے مجھے پیسے دو بیس ہزار چائیں “

بیس ہزار کا سن کر میر نے پوری آنکھیں کھول کر عنایا کو گھوڑا جسے پیسوں کی ذرا اہمیت نہیں

” بیس ہزار مال خریدنا ہے کیا؟؟؟ “

” بیس ہزار میں مال؟؟ میری ڈریس ہی مشکل سے آجاتی ہے!!! مجھے فرنڈ کو سرپرائز دینا ہے اس لیے چاہیے “

” عنایا اس مہینے تو میرا خود گزارا مشکل سے ہو رہا ہے بابا نے کہا ہے جب تک گریجویٹ ہوکر نہیں نکلتا تب تک دوبارا کریڈٹ کارڈ نہیں ملے گا یہ تو میں مما سے لیکر گزارا کر رہا ہوں “

” مجھے تمہاری دکھ بھری کہانی نہیں سننی جلدی دو “

میر کو حرکت نا کرتے دیکھ عنایا نے خود ہی اسکے منی باکس سے پندرہ ہزار نکالے۔۔۔

” پہلے میں نے سوچا تھا ریٹرن کردونگی لیکن اب ارادہ بدل گیا!!! خود ہاتھ سے دیتے تو واپس لوٹا دیتی لیکن یہ تو میں نے خود محنت سے نکالے ہیں “

” عنایا یہ غلط بات ہی یار مجھے پروجیکٹ کے لیے بھی پیسے چائیں “ اوہ اسکے پیچھے سے چلایا عنایا ان سنی کرتی چلی گئی۔۔

” عنایا یہ نیکلیس پہنانا “

سجی سنوری عائشہ کب اسکے روم میں آئی عنایا کو ہوش نا رہا وہ انکے نیکلیس کا ہق لگا کر خود بھی تیار ہونے لگی۔۔۔

☆.............☆.............☆

ڈیپ ریڈ شرارے میں وہ میر اور ثانی کے ہمراہ اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی میر نے اسکے کپکپاتے ہاتھوں پع اپنی گرفت مضبوط کرلی اسکے ٹھنڈے ہاتھوں میں میر کو واضع لرزش محسوس ہوئی۔۔

” پرنسیسز میں نے کہا تھا تم ہر راہ میں مجھے اپنا منتظر پاؤ گی “

میر کی دھیرے سے کی گئی سرگوشی پر وہ سر اثبات میں ہلا گئی۔ سب مہمانوں کی نظر اسکے خوبصورت سراپے پر تھی۔ ثانی اسے کوئی نا کوئی بات بتا کر اسکا دہیان مہمانوں پر سے ہٹا دیتی۔۔

شاہ زر سامنے ہی رکھی دولہے کی کرسی پر بُراجمان تھا اس نے خود کی طرف بڑھتی حیا کو ایک نظر تک نہیں دیکھا جیسے اسکے ہونے نا ہونے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا میر نے اسکا نظرانداز کرنا صاف محسوس کیا تبھی پریشانی، غم و غصّے سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔۔۔


اسٹیج پر پہنچتے ہی میر اسے شاہ زر کے پہلو میں بیٹھا کر اسٹیج سے اُتڑ گیا اسے ابھی بہت کام تھے عمر فارس کو پہلے ہی وہ کاموں پر لگا کر آیا تھا مہمانوں کی آمد کے لیے عورتوں والی سائیڈ پر نور اور عائشہ استقبال کے لیے کھڑی تھیں جب کے مردوں والے پورشن میں حمزہ فیضان اور ازلان۔۔۔


پورا حال مہمانوں سے بڑھ چکا تھا کچھ ہی دیر میں کھانا بھی لگایا گیا شاہ زر اور حیا کو سارے کزنس گھیر کر پکچرز بنوا رہے تھے پھر کچھ ہی دیر میں رسموں کا سلسلہ شروع ہوا مختلف رسموں کی ادائیگی کے بعد رخصتی کا شور گونجا ثانی نے اٹھ کے بڑے دوپٹے سے اسے پورا کور کیا ابھی حیا اٹھی تھی کے اسکی سماعتوں میں شاہ زر کی تیز آواز گونجی۔۔۔


” رخصتی اُس وقت ہوگی جب انصاف ہوگا کیوں شاہ میر سہی کہا نا؟؟ “


میر کے پورے وجود میں انگارے دھکنے لگے۔ وہ ہجوم کو چیڑتا لمبے لمبے ڈگ بڑھتا اسکے سامنے آکھڑا ہوا شاہ زر کا کالر اب میر کی گرفت میں تھا۔۔۔


” میں بھی سوچوں کتے کی دُم کیسے سیدھی ہوگئی بھری محفل میں میری بہن کو رسوا کر رہے ہو؟؟ بولو کیسا انصاف چاہتے ہو؟؟؟ بکو؟؟ “

شاہ زر نے شولا برساتی نگاہیں اس پر گاڑھ دیں


” آپ نے کیا کیا تھا بھول گئے؟؟ میری بہن دلہن بنی آپ کے انتظار میں بیٹھی تھی آپ نے رسوا کیا تھا اسے؟؟ دنیا کی نظروں میں اسے سوال بنا کے چھوڑ دیا؟؟ اسکے سپنے، خوشیاں نگل گئے؟؟ آج صرف تمہاری وجہ سے شاہ میر میری بہن طلاق کا داغ لیے میرے باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہے “


شاہ زر کی اونچی آواز سے دلہن بنی حیا کانپ اٹھی اسکے بہتے آنسو ازلان کے دل پر گِر رہے تھے اسے حیا کی جگہ نور کا عکس دیکھا جو بہتی آنسو سمیت اس سے شکوہ کناں تھی۔۔


” میں زمیدار نہیں “

میر کی دھار سے پاس کھڑی عنایا کی روح تک فنا ہوگئی۔


”بحرے حال رخصتی اس وقت ہوگئی جب تم اس لڑکی کو طلاق دوگے جو میری بہن کی جگہ لیکر بیٹھی ہے “

ہال میں سب نفوش کو جیسے سانپ سونگ گیا ثانیا کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔


” بھابھی “

حمزہ نے بروقت اسے سمبھالا ورنہ وہ ضرور زمین بوس ہوجاتی۔سب اسٹیج کے پاڑ ہوتے تماشے کو دیکھ رہے تھے نور کو پل پل اپنی سانسیں مدھم ہوتی محسوس ہورہی تھیں


” وہ جگہ کبھی تمہاری بہن کی تھی ہی نہیں بلکے وہ خود اسے چھوڑ کے گئی تھی اور طلاق “ میر نے اسکی عقل پر ماتم کیا


” میں نے کبھی اس سے اونچی آواز میں بات نہیں کی اور تم فرمائش کر رہے ہو طلاق کی نا ممکن ثانی کو آزادی صرف میری موت دی سکتی ہے “

” ٹھیک ہے!!! احساس تمہیں تب ہوگا جب تمہاری بھی بہن۔۔۔“

” بکواس بند کرو شاہ زر دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا؟؟ “

فیضان بروقت اسٹیج پر آن پہنچا اب وہ اسکے روبرو کھڑا تھا

” ہاں خراب ہوگیا ہے ان لوگوں نے کیا کچھ نہ کیا ہمارے ساتھ اور آپ آج بھی انکا ساتھ دے رہے ہیں؟؟؟ لیکن آپ شاید اپنے بیٹے سے انجان ہیں میں صرف کہونگا نہیں عمل بھی کرونگا آج یا رشتا جُڑے گا یا ہمیشہ کے لیے ختم فیصلہ شاہ میر کے ہاتھ میں ہے “

” تو ٹھیک ہے یہاں ایک نہیں دو طلاقیں ہونگیں جاتے ساتھ اپنی ماں کو بھی لیجانا “ شاہ زر کو کچھ لمحے لگے تھے سوچنے میں وہ پیچھے مُڑا اسکی سرخ انگارہ دھکتی آنکھیں حیا کا پورا وجود جلا رہیں تھیں شاہ زر نے سختی سے اسکا ہاتھ پکر کے پوری قوت سے اپنی طرف کھنچا

” آگر کوئی پیچھے آیا تو ابھی اِسی وقت طلاق کے تین حرف بول کر۔۔۔۔ “ اسنے ایک طاہرانہ نظر سے پورے حال کا جائزہ لیا اور گویا ہوا” اسے آزاد کردونگا “

” جان سے ماردونگا ہاتھ چھوڑو میری بہن کا کمینے

انسان “ ثانی نے پانچ سالہ شادی شدہ زندگی میں آج پہلی بار میر کو اتنے غصّے میں دیکھا تھا۔۔ اعظم شاہ کو آج شاہ زر میں ازلان کی جھلک دیکھی وہ بھی وہی غلطی کر رہا تھا جو ازلان نے کی تھی۔۔۔

میر کی رگیں تن گئیں حیا کا ہاتھ شاہ زر کے ہاتھ میں دیکھ کر وہ اسکی طرف بڑھا تھا کے ازلان نے بیچ راہ میں اسے روکا ۔۔

” چھوڑیں بابا آئ ول کل ہم!!! اسنے سوچا بھی کیسے میری بہن کو استمعال کرے گا؟؟؟ جان نا لے لوں اسکی؟؟ “

فیضان اس وقت خاموش کھڑا تھا شاہ زر کی دھمکی سے سب اپنی جگہ جم سے گئے تھے عمر حمزہ علی سب بے یقینی سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ عمر بھی آکر میر کو روکنے لگا جو ازلان سے سمبھل ہی نہیں رہا تھا

” ہنی بھائی۔۔۔ مجھے نہیں جانا۔۔۔ انکے ساتھ۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے “ حیا کی سہمی آواز انکا دل چیڑ رہی تھی شاہ زر اسکا ہاتھ پکڑے اسٹیج سے اُتڑا وہ اسکے ساتھ کھینچتی چلی جا رہی تھی کوئی اسے بچانے نہیں آیا سب کے پیروں پڑخر شاہ زر نے ایسی زنجیر باندھی تھی کے چاہ کر بھی کوئی اسے کھول نہیں سکتا

” میر وہ۔۔۔ حیا۔۔۔ کو طلاق۔۔۔ دے۔۔۔ دیگا میری بات سنو۔۔ “

ازلان نے ٹوٹے لہجے میں بامشکل کہا

” نہیں سنی چھوڑیں مجھے عمر چھوڑو مجھے۔۔۔۔ اسے روکنے کے بجائے مجھے روک رہے ہو؟؟ شاہ زر سے پہلے میں تمہیں جان سے ماردونگا “ میر کی انگارہ ہوتی آنکھوں سے بھی آج عمر نہیں ڈرا کیوں کے سوال اسکی بہن کی خوشیوں کا تھا۔۔۔

” بابا ہنی بھائی “

وو روتے ہوے اسکے ساتھ کھینچتی چلی جا رہی تھی۔۔۔

حمزہ مٹھیاں بھینچے کھڑا اپنی بلکتی بہن کو دور جاتے دیکھ رہا تھا۔۔

میر آپنے آپکو چھڑوانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا لیکن سامنے بھی ازلان تھا اسکا باپ آخر کب وہ اسے سے جیتا ہے؟؟ ایک دم سے اسنے عمر کو دھکا دیا ازلان گڑتے ہوے عمر کی طرف متوجہ ہوا اسی موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوے میر اسٹیج پھلانگتا ہوا نیچے اُتڑا اس سے پہلے کے وہ اپنی بہن تک پہنچتا اس آواز نے اسکے قدم جکڑ لیے۔۔۔۔۔۔

” ہنی “

نور کا بےجان وجود زمین بوس ہو چکا تھا۔۔۔۔

” میں نے اپنے کیے کی سزا پل پل پائی۔۔۔۔ میری زندگی سے خوشی لفظ مٹ گیا۔۔۔۔ میری محبت مجھ سے روٹھ گئی۔۔۔۔ انتقام کی آگ میں نے اپنی ہی زندگی تباہ کر دی یہاں تک کے تم بھی۔۔۔۔ میری وجہ سے۔۔۔۔ (کیسے کہتا اسے پاگل بنانے میں ازلان نے کوئی قصر نہیں چھوڑی ) جانتا ہوں عنایا نے تمہارے ماضی کی بیماری کو مد نظر رکتے ہوے تمہیں ٹھکرا دیا۔۔۔۔“


میر نے نظر اٹھا کے ازلان کو دیکھا جسکی نظریں کسی غیر نقطے کو تک رہیں تھیں۔۔۔۔ وہ بتانا چاہتا تھا جو اسکے ساتھ ہوا اسکی بھلائی کے لیے ہوا۔۔۔۔ لیکن اس وقت وہ ازلان کو ُسنا چاہتا تھا جس نے سالوں بعد اپنی یہ خاموشی توڑی۔۔۔۔۔


” میر جو جو ظلم میں نے اس پر کیے وہی مکافات عمل کی صورت میں میری اولاد پر ہوئے۔۔۔۔ شادی کی رات میں نے اسے ٹھکرایا تھا۔۔۔۔ تو عنایا نے بھی تمہارے ساتھ وہی کیا۔۔۔۔ جو اذیت نور کی صورت میں میں امان کو دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ آج وہی اذیت شاہ زر نے ہمیں دی میری حیا کی صورت میں۔۔۔۔“


میر خاموشی سے اپنے باپ کو سن رہا تھا۔۔۔۔ جو آج اپنی زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔۔۔۔ شاید ہی میر نے انہیں اس طرح ٹوٹتا ہوا دیکھا ہو۔۔۔۔۔


” میں جانتا ہوں تم ہر بات سے واقف ہو اسکے دُکھ درد میں برابر کے شریک ہو۔۔۔۔“


میر نے اپنا گرم پڑتا ہاتھ انکے ہاتھ پر رکھا۔۔۔۔ جیسے کہنا چاہ رہا ہو آپ کے دکھ میں بھی برابر کا شریک ہوں۔۔۔۔


ازلان نے آنکھیں موندی تو نور اور حیا کا بلکتا وجود اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔ رگ رگ میں اذیت کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔ اسنے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور گہرے سانس لینے لگا۔۔۔۔


” ہنی تم نے دیکھا نا وہ کس طرح اس سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔!!! نا۔۔۔ نجانے وہ کیا کرےگا میری بچی کے ساتھ۔۔۔۔ میر میرا دل پھٹ جائے گا اسے واپس لادو بس ایک بار واپس لادو میں۔۔۔۔ طلاق دلوا دونگا اسے ہاں۔۔۔۔ طلاق دلوا دونگا لیکن۔۔۔۔ اسے کسی تکلیف سے گزرنے نہیں دونگا “


میر گھٹنوں کے بل ازلان کے سامنے بیٹھا تھا ایک نھنا سا موتی اسکی آنکھ سے بہ نکلا۔۔۔۔ اگر اتنا آسان ہوتا تو کیا وہ اپنی بہن کو اس آزمائش میں ڈالتا۔۔۔۔؟؟؟


” بابا میں اُسے ڈھونڈوں گا دن رات ایک کر دونگا لیکن۔۔۔۔ لیکن اسے ظلم کا شکار ہونے نہیں دونگا “ ازلان تلخی سے مسکرایا۔۔۔۔


میر نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔ میر نے اٹھ کر ازلان کو گلے لگایا۔۔۔۔ جس کی آنکھیں نم تھیں کیا گزرے ماہ وسال میں اسکے باپ نے اپنے کیے کی سزا نہیں کاٹی تھی۔۔۔۔ پھر کیوں آج اسکی معصوم بہن اس گناہ کی سزا کاٹ رہی ہے۔۔۔۔۔


” میر اگر۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔ اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔؟؟ میں کیسے جی پاؤں گا۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ تمہاری بات مانتی ہے نا ہنی۔۔۔۔؟؟ تم اسے بلاؤ گے تو وہ اٹھے گی۔۔۔۔ جاؤ ہنی اسے اٹھاؤ نا۔۔۔۔ مجھ سے وہ خفا ہوگئی آخر جو ڈر تھا وہ سچ ہوا۔۔۔۔ اب تو وہ مجھے دیکھے گی بھی نہیں۔۔۔۔“


ازلان کا بس نہیں چل رہا اتنا روئے کے اسکے آنسوں خشک ہوجائیں۔۔۔۔ اسے لگ رہا تھا اسکا دل غم کی شدت سے پھٹ جائے گا۔۔۔۔


” بابا بہت سزا کاٹی ہے ہم نے لیکن اب اور نہیں۔۔۔۔ آپ دعا کریں بس مما ٹھیک ہوجائیں۔۔۔۔“ میر کی آواز بھرا گئی۔۔۔۔۔


ازلان نے اذان کی آواز سنی تو نرمی سے میر کو خود سے دور کیا اور نماز کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ لب بھنچے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔۔۔۔ حیا اسکے ساتھ ہی بیٹھی ہر چیز سے بےنیاز اپنی ہی سوچوں میں گھم تھی۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں وحشت تھی۔۔۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کار روک کر شاہ زر کو باہر پھینک دے۔۔۔۔!!!! کس غلطی کی سزا دی ہے اسنے۔۔۔۔؟؟ جس سے وہ واقف بھی نہیں۔۔۔۔؟؟ اس نے کب سوچا تھا اسکے ساتھ یہ سب ہوگا۔۔۔۔ رخصتی کا سن کر اس دفع حیا نے چُپ ساد لی تھی۔۔۔۔ کیوں کے اسے اب شاہ زر کی ہر کہی بات سچی لگتی تھی۔۔۔۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا وہ اتنا بڑا کھیل کھیلے گا۔۔۔


حیا نے سر سیٹ کی پشت سے ٹکا دیا۔۔۔۔ اسے آج نور شدت سے یاد آرہی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں غلطاں تھی کے اسے اندازہ بھی نا ہوا کے سفر تمام ہو چکا۔۔۔۔ وہ اپنی منزل کو پہنچ چکے تھے۔۔۔۔ شاہ زر نے باہر نکلتے ہی حیا کی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور اسے اپنے ساتھ کھنچتا ہوا لے آیا۔۔۔۔ وہ دلہن کے جوڑے میں ملبوس اس کے ساتھ کھنچتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ شاہ زر اسے ایک خوبصورت اپارٹمنٹ میں لے آیا۔۔۔۔ لفٹ کے انتظار میں وہ اسکا ہاتھ پکڑے خود سے بھی خفا نظر آرہا تھا۔۔۔۔ لفٹ کے آتے وہ اس پر چڑھ گیا۔۔۔۔ اوپر پہنچتے ہی فلیٹ کے لاک کو انلاک کر کے وہ اسے اندر لے آیا۔۔۔۔


حیا جو غصّے کی شدت سے سرخ پڑ چکی تھی۔۔۔۔ پوری قوت سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر سامنے کھلے کمرے میں بند ہوگئی۔۔۔۔ یہ عمل چند سیکنڈوں میں ہوا تھا شاہ زر بھونچکا رہ گیا پھر سمجھ آنے پر اسکے پیچھے دوڑ لگائی لیکن وہ روم لاک کر چکی تھی۔۔۔۔


” حیا دروازہ کھولو۔۔۔۔؟“ ذہن میں عجیب وسوسے آن ٹہرے۔۔۔۔


” حیا میں کہ رہا ہوں دروازہ کھولو۔۔۔۔؟“


شاہ زر دھاڑا اچانک شاہ زر کو اندر سے ٹوٹ پھوٹ کی آواز آئی۔۔۔۔ اسکا دل ڈوبنے لگا وہ جلدی سے ایک ڈرور میں سے چابی نکالنے دوڑا۔۔۔۔ لیکن آج اسے خوار ہی ہونا تھا۔۔۔۔ ایک ایک ڈرور کو چیک کیا اسے چابی کہیں نہیں ملی وہ واپس اسکی منتیں کرنے لگا۔۔۔۔۔


” حیا پلیز دروازہ کھولو میں سب بتاتا ہوں ایک بار بس دروازہ کھول دو۔۔۔۔“


وہ اندر بھپری شیرنی بنی ہوئی تھی زور سے کوئی چیز دروازے پر دے ماری۔۔۔۔ شاہ زر کو پل پل خطرے کا الارم بجتا محسوس ہوا۔۔۔۔ اب کی بار وہ کمرے کے ڈروز چیک کرنے لگا اور قسمت اچھی تھی کے اسے ڈپلیکیٹ چابی مل گئی۔۔۔۔ شاہ زر لاک انلاک کر کے کمرے میں داخل ہوا اور بےاختیار ایک گہرا سانس خارج کیا۔۔۔۔ پورے کمرے کی حالت بگڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ ڈریسنگ مرر تک ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو چکا تھا۔۔۔۔ لیکن اسکی تیز چلتی دھڑکن حیا کو دیکھ کر نارمل ہوئی۔۔۔۔ جو دیوار سے ٹیک لگائے رونے کا مشگلہ فرما رہی تھی۔۔۔۔۔


” حیا “


شاہ زر کے قدم حیا کی طرف بڑنے لگے وہ جو اپنی قسمت کو رو رہی تھی۔۔۔۔ شاہ زر کی آواز سن کر کھول اٹھی اسے اپنی طرف بڑتا دیکھ بجلی کی تیزی سے اٹھی۔۔۔۔ اور پاس پڑا چھوٹا واس ہاتھ میں اٹھایا۔۔۔۔ شاہ زر کی حیرانگی بجا تھی وہ جو اس سے ڈری سہمی رہتی تھی آج شیرنی بنی اسکے سامنے کھڑی ہے۔۔۔۔۔


” کیا پاگل پن ہے حیا رکھو اسے نیچے “ شاہ زر نے بُری طرح اسے گھورتے کہا۔۔۔۔۔


” اگر آپ میرے قریب بھی آئے نا تو آپ کے سر میں دے مارونگی۔۔۔۔“ ہاتھ میں واس لیے وہ ایک مختلف روپ میں اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔۔


” مجھے مارو گی۔۔۔۔؟؟ کس لیے۔۔۔۔؟؟ “ شاہ زر کو جیسے اسکی کہی بات پر یقین نا آیا۔۔۔۔۔


” آپ۔۔۔۔ دھوکے باز۔۔۔۔ جھوٹے۔۔۔ فریبی ہیں۔۔۔!!!! آج تک مجھ سے صرف جھوٹ بولا۔۔۔۔ اپنے مقصد کے لیے مجھ سے نکاح کیا۔۔۔۔ تاکہ آپ اپنی بہن کی بےعزتی کا بدلہ لے سکیں۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔ آپ نے مجھے چیٹ کیا۔۔۔۔ مجھے آپ پر ٹرسٹ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔“


گرم گرم سیال اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔۔۔۔ جس طرح کی حرکت شاہ زر نے آج کی تھی اُسے دیکھ کوئی بھی آسانی سے بدگمان ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔


” حیا ایسا کچھ نہیں بس ایک آخری بار میری بات سن لو۔۔۔!!! “


وہ ایک قدم بڑھا تھا کے حیا چیخ اٹھی۔۔۔۔


” وہیں رک جائیں ورنہ اپنی حالت کے زمیدار خود ہونگے “


” بہت برداشت کر لیا تمہارا پاگل پن شرافت سے اسے نیچے رکھو کم آن۔۔۔۔“ وہ ایک قدم اور آگے بڑھا اسے یہی لگا تھا کے حیا جیسی کمزور لڑکی اس پر کبھی وار نہیں کریگی اسکے قدم دھیرے سے آگے بڑھے۔۔۔۔۔ دوسری جانب حیا اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ غصّے سے کھول اٹھی۔۔۔۔ بھری محفل میں رسوا کرنے کے بعد بھی وہ اس سے امیدیں لگائے ہوئے تھا۔۔۔۔؟؟ یکایک شاہ ذر کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔۔۔ سرد نظروں سے گھورتا وہ جیسے اسکی جان لینے کے در پے تھا۔۔۔۔ حیا اب سہی معینوں میں ڈر گئی۔۔۔ غصّہ۔۔۔ خوف۔۔۔ کیا کچھ نا تھا ان ہیرنی آنکھوں میں۔۔۔۔ شاہ ذر نے پل پل بدلتی اس کیفیت کو دیکھا۔۔۔۔ وہ سہی جا رہا تھا حیا کے چہرے پر خوف کے سائے دیکھ اسے تھوڑی تصلی ملی۔۔۔۔ حیا نے تھوک نگلتے واس اپنی طرف بڑھتے شاہ زر کے سر پر مارا اور اپنی ہی حرکت پر بےیقینی سے شاہ زر کے سر سے ابلتے خون کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ اسکے دونوں ہاتھ ہونٹوں کی جانب گئے۔۔۔۔ اپنے بہادری پر وہ خود بھی حیران تھی۔۔۔۔ وہ جو یہ سمجھ بیٹھا تھا اسے غصّے میں دیکھ وہ نرم پڑ جائے گی غلط تھا۔۔۔۔ اس کے اندازہ اسے اپنے سر سے اُبلتے خون سے ہو رہا تھا۔۔۔۔۔


” آئی ایم سوری۔۔۔۔۔!!! پتا نہیں کیسے ہوگیا۔۔۔۔“


وہ اسکی طرف لپکی اور اپنے بھاری بھرکم دوپٹے سے اسکے سر سے بہتا خون صاف کرنے لگی۔۔۔۔


شاہ زر سر ہاتھوں میں تھامے کھڑا تھا چوٹ اتنی گہری نا تھی۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ نرمی سے اسکا خون صاف کر رہی تھی کبھی ” سی “ کی آواز ہوتی تو خوف لاحق ہونے لگتا آخر یہ کارنامہ جو اسکا تھا۔۔۔۔


” پہلی دلہن ہو جس نے شادی کی رات اپنے شوہر کو ایسا خوبصورت تحفہ دیا ہے۔۔۔۔“ وہ طنز کرتا اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے بیڈ تک لے آیا۔۔۔۔


” فرسٹ ایڈ دوسرے روم میں بیڈ کے پہلے ڈروز میں پڑا ہے اس سے بینڈج کرو۔۔۔۔“


وہ اسکے کہے مطابق فرسٹ ایڈ باکس لے آئی۔۔۔۔ پہلے کوٹن سے خون صاف کیا۔۔۔ پھر کریم لگا کر بینڈیج کرنے لگی۔۔۔۔ اس دوران شاہ زر اسے یک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔۔۔ جس کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہ رہا تھا۔۔۔۔ دو تین بار اسکے ہاتھ میں لرزش ہوئی لیکن وہ ایک پل کو بھی نظریں ہٹھائے بغیر اس کے قیامت خیز حسن کو اپنے دل میں اُتارتا رہا۔۔۔۔ وہاں تو میر کی موجودگی میں اسے بُری طرح نظرانداز کرتا رہا۔۔۔۔ لیکن اب اسکی محبت اسکے سامنے تھی۔۔۔۔ دوپٹا ایک کندھے سے ڈھلک کر بےترتیبی سے جھول رہا تھا۔۔۔۔ بال وہ پورے کھول چکی تھی زیور سے بےنیاز مٹے مٹے میک اپ میں بھی وہ اسے پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔


” کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔؟؟ “ بینڈیج کر کے جب وہ جانے لگی تو شاہ زر نے پوچھا۔۔۔۔


” یہ۔۔۔ بوکس۔۔۔ رکھ دوں۔۔۔۔“ ڈرتے ڈرتے کہا جیسے ابھی وہ اسکا سر پھوڑ دیگا۔۔۔۔۔


” چھوڑو اسے۔۔۔۔!!!! اور یہاں بیٹھو جب تک میری بات مکمل نہیں ہوتی۔۔۔۔ آپ محترمہ یہاں سے تشریف نہیں لے جا سکتیں۔۔۔۔“


ہاتھ پکڑ کے شاہ زر نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔۔۔۔ حیا کی سحر انگیز خوشبو اسکے ناتوں میں اتر رہی تھی۔۔۔۔


” تمہیں کب یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی کے میں تمہیں دھوکا دے رہا ہوں۔۔۔۔؟؟؟ “ حیا نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کیا۔۔۔۔ بےدردی سے بہتے آنسوں صاف کئے۔۔۔۔ اور دونوں ہاتھوں کو گودھ میں رکھے آپس میں مسلنے لگی۔۔۔۔ شاہ زر کو اسکا عمل اچھا نہیں لگا اور اسکی نارضگی کا بھی اندازہ ہوگیا بہت خفا ہے وہ اس سے۔۔۔۔۔


” حیا “


” آج آپ نے بھری محفل میں میری محبت کا جنازہ نکالا۔۔۔۔ مجھے طلاق کی دھمکی دی۔۔۔۔ اور آپ کے الفاظ انصاف چاہیے تھا آپ کو۔۔۔۔؟؟ کیا میرے ساتھ سہی ہوا۔۔۔۔؟؟ میں کس کا گریبان پکڑوں۔۔۔۔ میں تو ہر سچ سے لاعلم تھی پھر مجھے کیوں سزا دی۔۔۔۔؟؟ “ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے اس سے جواب طلب کررہی تھی۔۔۔۔


” تمہیں میں نے کوئی سزا نہیں دی نا ہی تمہارے ساتھ کوئی دھوکا ہوا ہے۔۔۔۔“ شاہ زر نرمی سے گویا ہوا۔۔۔۔


” مجھے آپ کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔۔۔۔“ وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ کہنے لگی۔۔۔۔ شاہ زر ایک گہری سانس لیتے گویا ہوا۔۔۔۔


” یاد ہے تم نے مجھ سے سوال کیا تھا اچانک مجھے تم سے محبت کیسے ہوگئی۔۔۔۔؟؟ کل تک جو تم سے نفرت کا داوا کرتا تھا۔۔۔۔ آج کیسے وہ شخص پور پور تمہاری محبت میں ڈوب گیا “


حیا نے جھٹ سے نظریں شاہ زر پر گاڑھ دیں اس سوال کا جواب تو وہ کب سے ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔ لیکن اسے اب شاہ زر پر اعتبار نہیں تھا۔۔۔۔ نجانے جو بولنے والا تھا وہ سچ بھی ہے یا جھوٹ۔۔۔۔۔


” آٹھ سال کا تھا میں جب تم لوگ یہاں ہمارے ساتھ رہنے آگئے۔۔۔۔ پہلے پہل تو میں تم پر دیہاں نہیں دیتا تھا۔۔۔۔ اپنی لائف میں بزی رہا۔۔۔ سکول۔۔۔ ٹیوشن۔۔۔ شام میں دوستوں کے ساتھ کھیل لیا۔۔۔ اور رات کو وہی جلدی سوجانا۔۔۔ لیکن تمہارے آنے کے بعد ایک تبدیلی آئی تھی۔۔۔ ممی جو میرے بلانے پر بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوجاتی تھیں۔۔۔ اب سو آوازیں دینے پر بھی نا آتیں۔۔۔ تم نے دھیرے دھیرے میرے پورے گھر پر قبضہ جمع لیا۔۔۔۔ جب بھی میں گھر آتا۔۔۔ کبھی تم لائونچ میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہیں ہوتیں۔۔۔۔ کبھی ممی سے فرمائش کرکے اپنے لیے کچھ اسپیشل بنواتیں۔۔۔۔ کبھی میری روم میں آکر میری چیزوں کا حشر نشر کردیتی۔۔۔ ممی سے شکایات کرتا تو ایک ہی جواب ملتا۔۔۔ بچی ہے افف یہ بچی سخت چڑ ہوگئی تھی اس لفظ سے۔۔۔۔ میں نے پہلی بار تمہیں گاؤں میں دیکھا تھا۔۔۔ تم پاپا کے ساتھ گھر میں داخل ہوئیں تھیں۔۔۔ مجھے وہ دن آج تک نہیں بھولتا وائٹ فروک میں ملبوس۔۔۔ بنا بالوں والے سر میں ہیر بن لگائی ہوئی تھی۔۔۔ جس طرح باقی سب تمھارے ساتھ کھیلتے تھے۔۔۔۔ میرا بھی دل چاہتا تھا تم میرے ساتھ کھیلو یہی سوچ کر زندگی میں پہلی بار میں نے پاپا کی گودھ سے تمہیں اٹھایا تھا۔۔۔۔ لیکن تمہارا رد عمل دیکھ کے بوکھلاتا ہوا جی بھر کے شرمندہ ہوا۔۔۔۔ گلا پھاڑ کے چیخ چیخ کے تم رو رہیں تھیں۔۔۔۔ اور ساتھ لگاتار مجھے مار رہیں تھیں۔۔۔۔ میں خوامخواہ ہی شرمندہ ہوگیا۔۔۔ وہاں چچا میر اور بی بی جان بھی بیٹھی تھیں۔۔۔ اُس دن پہلی بار مجھے تم سے نفرت محسوس ہوئی۔۔۔ اور پھر یہ بڑھتی چلی گئی۔۔۔ میں تمہاری بچکانہ حرکتیں دیکھ کر تمہیں ڈانٹتا۔۔۔ جب کہیں اسکول میں ملتی رُعب جما کر تمہیں تمہاری دوستوں کے سامنے ڈانٹتا۔۔۔ جو تم میرے ساتھ کرتی رہیں اسکول کے دنوں میں۔۔۔ وہی تمہیں لوٹاتا رہا۔۔۔ پھر جانتی ہو کالج ڈیز میں وہی حرکتیں یاد کر کے میں گھنٹوں مسکراتا رہتا۔۔۔ اور ایک دن عجیب سی دعا میرے دل سے نکلی کاش تم بھی یہاں ہوتی۔۔۔۔ حیا نفرت محبت نجانے کون سے جذبے میرے دل میں کس وقت امڈتے مجھے خبر نا رہتی کوئی۔۔۔۔ اور کوئی تمہیں دیکھتا تمہارے ساتھ کھیلتا ڈانٹتا مجھے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔ اسپیشلی ایک چیز مجھے انتہائی بُری لگتی تھی۔۔۔۔ جب تمہارا جھگڑا ہوتا۔۔۔ چاہے اسکول ہو یا گھر ناجائز۔۔۔ خواہشیں منوانا۔۔۔ جھوٹ بول کر اپنی بات پروف کر کے دوسرے کو مار کھلوانا۔۔۔ یہ سب تمہاری عادتیں تھیں بچپن میں۔۔۔۔ اور میر تمہیں ہر بات میں سپورٹ کرتا۔۔۔ تمہاری وجہ سے عمر اور علی مار کھاتے سب کے سامنے۔۔۔۔ معصوم بن کر صرف شیکایتیں لگاتی۔۔۔۔ یہی عادتیں مجھے تم سے دور لے گئیں۔۔۔ میں نے اس وقت یہ سوچا ہی نہیں کے تمہارا معصوم ذہن چھوٹی موٹی شرارتیں کرنے پر تمہیں اکساتا ہے۔۔۔۔!!!! میں سمجھتا رہا تم ایک چالاک شاتر لڑکی ہو۔۔۔۔ یہاں تک کے جب تم فرسٹ آئیر میں تھیں ممی نے مجھے ہمارے رشتے کا بتایا تھا۔۔۔۔ جو بچپن میں جڑا تھا انکا کہنا تھا اب میں اس رشتے کو نام دے دوں منگنی وغیرہ سب فضولیت ہے۔۔۔۔ بس تم سے نکاح کروں اور ممی کے منہ سے یہ سب سن کر میں آپے سے باہر ہوگیا۔۔۔۔ انھیں صاف انکار کر دیا پاپا جن سے آپی کی وجہ سے پہلے ہی میری نہیں بنتی تھی مجھ سے ناراض رہنے لگے۔۔۔۔ پھر گھر کا ماحول دیکھ کر میں نے اپنی پوسٹنگ اسلاما باد کروالی۔۔۔۔ وہاں جاکر بھی جب پاپا نے مجھ سے رابطہ نا کیا تو دل چاہا تمہیں شوٹ کردوں۔۔۔!!!!! “


وہ سانس لینے کے لیے رکا حیا دم سادھے اسے سن رہی تھی۔۔۔


” آپی سے ناانصافی کے بعد پاپا مجھ سے خود بات کرتے۔۔۔۔ لیکن جب سے تمہارے ساتھ شادی سے انکار کیا ایک دفع تک انہوں نے مجھ سے بات نہیں کی نا مجھے واپس بُلایا۔۔۔ حیا ناچتے ہوئے بھی میری سوچوں میں تم شامل رہتیں وہاں میں تمہیں اپنی کولیگز سے کمپئر کرنے لگا۔۔۔۔ خاندان کی لڑکیوں سے کمپیر کرنے لگا۔۔۔ اور سوچتا آخر کس وجہ سے میں نے تمہیں ریجیکٹ کیا۔۔۔۔؟؟ تمہاری بچکانہ شررارتوں کی وجہ سے۔۔۔۔؟؟؟ چہرے پر سجی اس معصومیت کی بینا پر۔۔۔۔؟؟ نہیں بلکے جواب صاف تھا تمہارے بھائی کی وجہ سے۔۔۔۔ ہاں حیا میر کی وجہ سے اس نے جو میری بہن کے ساتھ کیا۔۔۔۔ اسکے بعد میں تم لوگ سے کوئی رشتہ تک رکھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ میں تو لوٹتا بھی نا اگر آپی قسم دیکر بلاتیں نا۔۔۔۔“


شاہ زر کی نظریں کھلی کھڑکی سے نظر آتے سیاہ آسمان پر تھیں۔۔۔۔


” جب تک میں اپنے جذبوں سے واقف ہوتا تب تک ایک اور وجہ میرے سامنے آن کھڑی ہوئی۔۔۔۔ میں نے میر کا سارا غصّہ تم پر نکالا۔۔۔ تمہیں اپنے آس پاس گھر میں۔۔۔ روم میں۔۔۔ برداشت نا کرتا۔۔۔ میں تو تم سے شادی بھی نا کرتا۔۔۔ اگر اس وقت اشعر کی بدلتی نظروں کو محسوس نا کرتا۔۔۔ نجانے کیوں اس وقت تم مجھے خود سے دور جاتی ہوئیں دیکھی۔۔۔۔ مجھے لگا اگر آج میں نے فیصلہ نا کیا تو تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور چلی جاؤ گی اور میں چاہ کر بھی تمہیں پا نا سکوں گا۔۔۔


حیا میں نے کسی بدلے کی آگ میں تم سے شادی نہیں کی۔۔۔ بلکے دل کی رضامندی سے کی بس جب تمہارے بھائی کو دیکھتا اُس وقت ناچاہتے ہوئے بھی تمہیں اگنور کرتا جسے میر فوراً سمجھ جاتا۔۔۔۔ اور میں یہ سب کبھی نا کرتا اگر جو میری بہن طلاق کا داغ لیے میرے باپ کے گھر موجود نا ہوتی۔۔۔۔ میں نے وہ سب صرف میر کا ردِعمل دیکھنے کے لئے کیا۔۔۔۔ یہ بھی نا سوچا کے میرے زہریلی جملے کسی کی زندگی تباہ کر دینگے اس وقت مجھے ثانیہ بھابی کی آنسوؤں بھری آنکھیں بھی نرم نا کر سکیں۔۔۔۔ اور تمہارے بھائی سے طلاق کا مطالبہ کر بیٹھا۔۔۔۔“


حیا نہیں دیکھی جاتی اپنی بہن کی ویران زندگی۔۔۔۔“ شاہ زر کا لہجہ ہارا ہوا سا لگ رہا تھا۔۔۔۔ جیسے کوئی عزیز شے گواہ دی ہو۔۔۔


کافی دیر خاموشی رہی۔۔۔ حیا کے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے جس سے وہ اسے تصلی دے سکے۔۔۔ لیکن اسے اپنے بھائی پر یقین تھا نا اُس وقت نا اب وہ شاہ زر کی بات پر کوئی ردعمل ظاہر کر سکی اسے اپنے بھائی پر خود سے زیادہ بھروسہ تھا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مما۔۔۔۔ مما۔۔۔۔“


میر کی آواز سن کر وہ دوڑتی ہوئی سڑیوں تک آئی۔۔۔ بھابھی کے پورشن میں ہی اسے میر نظر آیا جسکی آنکھوں میں آج ایک انوکھی سے چمک تھی۔۔۔۔ وہ مسکرا رہا تھا نور کو دیکھ کی اسکی آنکھوں کی چمک دیدنی ہوگئی۔۔۔۔ اسکی مسکراہٹ دیکھ نور کے لب مسکرائے وہ قدم اٹھاتی اسکی طرف بڑھی آخری سیڑی پر آتے ہی میر نے عقیدت سے اسکا ہاتھ پکڑا اور پاس پڑے صوفہ پر بیٹھا کر خود اسکے سامنے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔۔


” لگتا ہے آج کوئی خاص چیز فتح کی ہے “


” وہ تو میں نے چھ سال کی عمر میں کرلی تھی۔۔۔۔“ میر نے جھک کر نور کے ماتھے کا بوسا لیا۔۔۔


” مما آج ہماری کمپنی کو بہت بڑا پروجیکٹ ملا ہے بابا اور تایا ابو خود حیران تھے۔۔۔۔!!! یہ پروجیکٹ ہاتھ سے نکلنے والا تھا اگر اینڈ وقت پر میں اپنے ڈیزائنس پیش نا کرتا “


میر نے مٹھائی کا پیکٹ کھولا اور برفی کا چھوٹا پیس نور کے منہ میں ڈالا۔۔۔۔


” مبارک ہو میر اللہ‎ تمہیں ہر راہ میں سفل کرے “

ممتا بھرا لہجہ میر مسکرا دیا۔۔۔۔


” میری کامیابی کا کریڈٹ صرف آپ کو جاتا ہے ہر راہ میں آپ میرے ساتھ رہی ہیں۔۔۔۔


“ Everything i am you helped me to be ”


میر نے نور کو دیکھتے کہا جو مسکرا رہی تھی۔۔۔


” مما پتا ہے یہ وہی ڈیزائنس تھیں جنہیں اینڈ ٹائم پر آپ نے ریجیکٹ کردیا اور مجھ سے چینجنگس کروائیں “


نور نے بھنویں سکڑیں جیسے یاد کر رہی ہو۔۔۔۔


” ویسے آپ کو آئیڈیا کہاں سے آیا “ میر نے اسے سوچتا پا کر کہا۔۔۔۔


” تمہارے بابا کو اکثر بناتے دیکھتی تھی انہیں تو نہیں کہتی تھی۔۔۔ کیوں کی انکی ڈیزائنزس پرفیکٹ ہوتی تھیں۔۔۔۔ لیکن میر مجھے یاد ہے تم چھوٹے سے پلوٹ میں کافی کچھ بنانے کا سوچ لیتے تھے۔۔۔۔ اب گھر کھلا کھلا ہو تو ہی بندہ سکون سے رہتا ہے۔۔۔۔ ایسے گھر کا کیا فائدہ جس میں حال ہو ہی نا۔۔۔ کمرے زیادہ ہو۔۔۔۔ لیکن چھوٹا اور سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے گزرنا محال ہو۔۔۔؟؟ “


میر نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلایا چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے ہی تو ہم سیکھتے ہیں۔۔۔۔ لیکن نور سے اس نے کافی کچھ سیکھا تھا جیسے صبر کرنا۔۔۔ لیکن آج یہ صبر اسکی جان لے رہا تھا۔۔۔ نم ہوتی آنکھوں کو وہ آستین سے پونچھے روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔۔۔


” آپ نے کہا تھا مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جائیں گی مجھ سے ناراض نہیں ہونگی۔۔۔۔ پھر آج کیوں آپ خود سے بھی ناراض ہیں۔۔۔۔؟؟ میری ایک دفع پکارنے پر آپ دوڑی چلی آتیں تھیں۔۔۔۔ آج میں رو رہا ہوں لیکن آپ۔۔۔ آپ جواب نہیں دے رہیں مت کریں میرے ساتھ ایسا میں مر جاؤنگا۔۔۔ آج جو ہوں آپ کی بدولت ہوں مما۔۔۔۔ ورنہ اس پاگل کو کون پوچھتا۔۔۔۔؟؟؟ کل جو مجھ پر ہنستے تھے طنز کرتے تھے۔۔۔۔ آج وہی میرے ایک جواب کے منتظر رہتے ہیں۔۔۔ مجھے اس مقام پر پہنچا کر آپ مجھ سے منہ نہیں موڑ سکتیں۔۔۔


مما۔۔۔ ایک بار بس ایک بار اعتبار کر کے دیکھیں میں۔۔۔ حیا۔۔۔ کو۔۔۔ لیکر آؤنگا۔۔۔ پلیز مما “ میر اسکا ہاتھ پکڑ کے بلک اٹھا۔۔۔۔ خاموش کمرے کی فضا میں میر کے رونے کی بلند آواز گونج رہی تھی۔۔۔۔۔


وہ اسکے سامنے ہی بیٹھا اس سے منتیں کر رہا تھا لیکن بیڈ پر لیٹا وجود تو شاید خود سے بھی ناراض تھا۔۔۔۔


قدموں کی آواز سن کر بھی وہ چُپ نا ہوا اپنے کندھے پر لمس کے احساس سے اسنے نور کا ہاتھ چھوڑ دیا اور پیچھے مڑا جہاں اعظم شاہ کھڑے تھے۔۔۔۔


” ہنی نجانے وہ اسے کہا لے گیا ہے ایسی پی اسے ٹریس نہیں کر پا رہا۔۔۔۔ شاہ زر کا نمبر بند مل رہا ہے۔۔۔۔ مجھے اب کسی پر اعتبار نہیں رہا تم پولیس کے ساتھ جاؤ سائے کی طرح انکے ساتھ رہو۔۔۔۔ اور حیا کو لے آؤ ورنہ میں اپنی دونوں بچیوں کو کھو بیٹھونگا۔۔۔۔“ آخر میں انکی آواز بھرا گئی میر اٹھ کے انکے سینے سے لگ گیا۔۔۔۔۔


” ابو۔۔۔ میں نے جانتے بوجھتے اپنی بہن کو ایک غلط شخص کے حوالے کردیا۔۔۔۔ غلطی میری ہے۔۔۔۔ مجھے اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا “


اعظم شاہ نے اسکی پیٹ تھپکی جیسے تصلی دینا چاہتے ہو۔۔۔۔ ارادوں سے بھلا کون واقف ہوتا ہے ایک بار پہلے بھی تو انہوں نے اپنے خون پر بھروسہ کیا تھا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” آپ مجھے اپنے ساتھ کیوں لے آئے۔۔۔؟؟ کافی دیر بعد اس خاموشی کو حیا نے توڑا۔۔۔۔


” تو کیا وہاں چھوڑ کے آتا۔۔۔؟؟ رخصتی کے بعد بیوی اپنے شوہر کے ساتھ جاتی ہے۔۔۔“ شاہ زر اب بہتر تھا اسکی عقل پر ماتم کرتے ہوے بولا۔۔۔۔


” لیکن۔۔۔۔ اس طرح نہیں میرے بابا۔۔۔ مما کتنا پریشان ہونگے۔۔۔“ وہ رو دینے کو تھی۔۔۔۔


” کوئی پریشان نہیں ہوگا اور جسے ہونا چاہیے اگر وہ پریشان ہے تو اچھا ہے۔۔۔“ حیا نے بُرا سا منہ بنا کر اسے دیکھا جبکے شاہ زر نے بغیر اسکے موڈ کی پروا کیے اسکا مہندی سے سجا ہاتھ تھاما۔۔۔۔


” میں نے تم تک آنے کے لیے بہت وقت گنوادیا ہے حیا لیکن اب نہیں۔۔۔۔ ہم واپس ضرور جائینگے لیکن کچھ دن بعد پرسوں ہماری فلائٹ ہے ہم پیرس جا رہے ہیں۔۔۔۔“


پیرس کے نام پر حیا کی آنکھوں میں بڑھتی چمک شاہ زر سے پوشیدہ نا رہی۔۔۔۔ مسکراتے ہوے اسنے اپنی ہونٹ ان مہندی سے سجے ہاتھوں پر رکھ دیئے۔۔۔۔ حیا خود میں سمیٹی شاہ زر سے دور ہوئی وہ اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔۔۔۔ جسے توڑنا حیا کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔۔


” آ ہاں۔۔۔ اب نہیں بہت انتظار کیا ہے۔۔۔۔ پہلے بیوقوف تھا جو ٹھکرا دیا۔۔۔ ورنہ آج بچوں کے ساتھ گھومنے آئے ہوتے۔۔۔۔“ وہ اسکی خوف سے پیلی شکل دیکھ کے ہنسا آج موسم بھی اسکے موڈ کی طرح خوش گوار تھا۔۔۔


☆.............☆.............☆


گھر میں موت سا سناٹا تھا کچھ دیر پہلے جہاں ڈھولک کی آواز گھر میں گونج رہی تھی۔۔۔۔ اب وہاں سناٹے کا راج تھا۔۔۔۔ میر کی ہدایت پر اسما نے ثانی کو دوائی دے کر سلایا تھا۔۔۔۔ پانچ گھنٹوں سے وہ پر سکون نیند کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔۔۔


اسما نماز کے بعد اب ہاتھوں میں تسبیح لیے اس پر کچھ پڑھ رہیں تھیں۔۔۔۔ آج انکی دعائیں صرف اپنی بیٹی کے لیے تھیں۔۔۔ انکا دل تکلیف کئی شدت سے پھٹ رہا تھا۔۔۔ بہتے آنسوؤں کو صاف کرتیں وہ مسلسل اللہ‎ سے دعا گو تھیں۔۔۔۔ عائشہ اور حبہ ہسپتال میں تھیں جبکے عمر حمزہ اور امان پولیس کی مدد سے حیا کو ڈھونڈنے گئے تھے۔۔۔۔ اس وقت تو سب ہی طلاق کے خوف سے کچھ نا کر سکے لیکن اب ازلان نے انہیں کہ دیا تھا کے وہ اسے ہر حال میں لے آئیں چاہے شاہ زر وہیں کھڑا کھڑا اسے طلاق ہی کیوں نا دے دے۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مجھے یہ پسند ہے اور یہی خریدیں گے۔۔۔“ حیا کل سے اس سے ناراض تھی لیکن وہ تو اسکی ناراضگی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہا تھا اپنی ہی کیے جا رہا ہے۔۔۔۔


” پہن بھی خود ہی لیجئیے گا۔۔۔“ حیا نے تپ کر کہا شاہ زر ان سنی کرتا کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ وہ شاپنگ کرنے آئے تھے حیا صبح سے اس سے ضد کر رہی تھی کے اسے نور کے پاس جانا ہے۔۔۔۔ لیکن شاہ زر اسکی ہر بات ان سنی کر دیتا صبح تو اس نے ضد کرنے پر حیا کو ڈانٹا بھی تب سے وہ منہ پھولائے ہوئے تھی۔۔۔۔۔ ہر ڈریس کو دیکھ کر بُرا سا منہ بناتی آخر شاہ زر نے خود ہی اسکے لیے ڈریس خریدا۔۔۔۔ وہ حیا کو یہاں لے تو آیا تھا لیکن اسکے پہنے کے لیے کچھ تھا نہیں اس لیے وہ پیرس جانے سے پہلے اسکے لئے شاپنگ کرنے چلا آیا۔۔۔۔ پیمنٹ کر کے اسنے حیا کا ہاتھ پکڑا اور فوڈ کوٹ کی طرف آگیا۔۔۔۔۔


” کیا کھاؤ گی۔۔۔۔؟؟ “ شاہ زر نے اس کے خفا چہرے کو دیکھتے کہا۔۔۔۔


” سُشی “ شاہ زر نے شہادت اور درمیانی انگلی سے اپنی پیشانی مسلی آج حیا نے قسم کھا رکھی تھی اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دے گی۔۔۔۔


” اور یہ کہاں ملتی ہے “ شاہ زر نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔۔۔


” اسی دنیا میں۔۔۔!!! یہیں کھائی تھی میں نے۔۔۔“ سنجیدہ لہجے میں وہ گویا ہوئی۔۔۔۔


” حیا یہاں نہیں ملتی انفکٹ کسی مال میں نہیں ملےگی یہ اسپیشلی بنوانی پڑیگی۔۔۔ یا کسی تھائی یا چائنیز ریسٹرورنٹ میں جانا پڑیگا۔۔۔“


” تو آپ آرڈر دیں کھاؤں گی تو یہی ابھی بھائی ہوتے فورًا سے بنوا دیتے۔۔۔۔“ وہ اسکی شولا انگیز نظروں کو اگنور کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔ اسکی سرخ آنکھیں حیا کو خوف میں مبتلا کر رہی تھیں۔۔۔۔ جانتی تھی غصّہ صرف لفظ بھائی پر آیا ہے۔۔۔۔


” کیا چاہتی ہو تم حیا۔۔۔۔؟؟؟ میں نے تم سے کہا نا جلد ہم گھر جائیں گے۔۔۔۔“


” تو کم سے کم مجھے انفورم تو کرنے دیں۔۔۔“ حیا نے اس سے بھیگے لہجے میں ریکویسٹ کی شاہ زر نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔


بیک سیٹ پر شاہ زر نے بیگز رکھے اور اسے فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی حیا نے ایک خفا نظر سے شاہ زر کو نوازا اور آنسوں پیتی نظریں ونڈسکرین پر گاڑھ دیں۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” حمزہ پاگل ہوگئے ہو ہم یہاں سب پریشان ہیں اور تم موبائل پر لگے ہو۔۔۔ کب سے تمہیں دیکھ رہا ہوں آخر کر کیا رہے ہو “


حمزہ گھبرا گیا اور موبائل فورًا جیب میں رکھا۔۔۔ عمر نے بغور اسکی حرکت دیکھی۔۔۔


” نہیں کچھ نہیں۔۔۔۔ وہ کل کا لیکچر پوسٹپونڈ ہوگیا وہی ارمان نے بتایا“


حمزہ اسے چھوڑ سامنے پولیس کی جیب کی طرف بڑھا جہاں میر پریشان سا کھڑا تھا۔۔۔۔ پاس ہی پولیس والے آس پاس کے لوگوں سے پوچھ تاج کر رہے تھے یہ وہی جگہ تھی جہاں سے شاہ زر کی گاڑھی گزری تھی۔۔۔۔ یہ ایریا بینک کے پاس تھا جہاں کیمیراز لگے تھے۔۔۔۔ انہیں یہاں تک آنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں آئی۔۔۔ عمر کی پُر سوچ نظروں نے حمزہ کا دور تک پیچھا کیا۔۔۔۔


” بھائی اب مما کی طبیعت کیسی ہے۔۔۔؟؟ “ حمزہ نے میر کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔


” اب بہتر ہے انہیں ہوش آگیا ہے۔۔۔“ میر اس لمس پرچونکا پھر نارمل لہجے میں کہا۔۔۔۔


” بھائی تو آپ جائیں نا انکے پاس ہم ہیں یہاں “


” میرا بھی دل یہی چاہ رہا ہے لیکن۔۔۔ حمزہ۔۔۔ کس منہ سے انکے پاس جاؤں۔۔۔ کیا بولوں انکو۔۔۔۔؟؟؟ جنہوں نے مجھ پر کبھی آنچ آنے نہیں دی آج میں انکی بیٹی کی حفاظت نہیں کر سکا۔۔۔۔؟؟ “ وہ نجانے کہاں پہنچا ہوا تھا۔۔۔ وہ اپنے آپ میں گم یہ بھول چکا تھا حمزہ اسکے سامنے ہے کھویا کھویا سا جیسے وہ اپنے آپ بڑبڑا تھا۔۔۔۔


” بھائی آپ کیا بول رہے ہیں انکی بیٹی۔۔۔؟؟ ایسا کیوں کہا اپنے جیسے مما کوئی اجنبی ہیں۔۔۔؟؟؟ اور ظاہر ہے کوئی ماں اپنے بچوں پر آنچ بھی آنے کیسے دیگی۔۔۔۔“ حمزہ کو اسکی دماغی حالت پر شبہ ہوا جبکے اسکی بات سن کر میر کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔۔


” سگی ماں بھی جان بوجھ کر اپنے ہی بچے کو موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے۔۔۔ جب۔۔۔ اسکے اندر انسانیت ختم ہوجاتی ہے۔۔۔ صرف خود کی فکر کرتی ہے اپنے ادھورے خوابوں کو پورا کرتی ہے۔۔۔۔ یا یہ بولا جائے آزادی چاہیے ہوتی ہے اُسے۔۔۔۔ یہ بھی نہیں سوچتی اسکے پیچھے کسی معصوم پر ظلم ہو رہا ہے۔۔۔۔۔“


” بھائی آپ ٹھیک ہیں “ اسکی کوئی بات حمزہ کے پلے نہیں پڑی۔۔۔۔


” ہاں مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔۔“ وہ پریشان سا تھکا تھکا لگ رہا تھا اس وقت۔۔۔۔ شاید حمزہ کا بولنا بھی اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔ اسنے شاہ زر کے کن کن دوستوں کو فون نہ کیا لیکن اسے ایک سراغ تک نہیں ملا نجانے اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔۔۔۔


” بھائی آگر شاہ زر بھائی مل گئے تو آپ کیا کرینگے؟؟؟ “


جھٹ سے میر نے اپنا رُخ حمزہ کی طرف کیا اور دانت پیستے گویا ہوا۔۔۔۔


” آگر اس وقت وہ میرے سامنے ہوتا تو یقین مانو اپنی بہن کو بیوہ کرنے سے بھی نہیں ڈرتا۔۔۔۔“


اُسی وقت میر کا فون بجا حمزہ نے تھوک نگلا وہ جو ارادہ کر کے آیا تھا اب اپنا ارادہ بدل گیا۔۔۔۔


” جی ابو۔۔۔ جی۔۔۔ مجھے بلا رہی ہیں۔۔۔ جی۔۔۔ جی ابو۔۔۔ بس دو منٹ میں آیا “


” حمزہ میں مما سے ملکر آتا ہوں تم پولیس کے ساتھ رہنا مجھے ان پر ذرا برابر ٹرسٹ نہیں۔۔۔“ میر نے فون رکھ کر عجلت میں اسے کہا اور امان جو پولیس کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔۔ اسے الگ سے ہدایت کر کے ہسپتال کے لیے نکل گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


ثانی نے دونوں ہاتھوں سے سر تھاما جو درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔۔ اس نے ایک نظر وال کلاک پر ڈالی جہاں صبح کے پانچ بج رہے تھے۔۔۔۔ اسے یاد آیا اسما نے اسے زبردستی دوائی دیکر سلایا تھا۔۔۔۔ وہ نیند کی گولیاں تھیں۔۔۔۔ اسے معلوم نہیں تھا حال میں جو کچھ ہوا اسکی روح تک ہلا گیا۔۔۔۔ وہ جو خود کو اب تک میر کی پسند سمجھے ہوئے تھی غلط تھی۔۔۔۔ میر نے تو کبھی اس سے محبت نہیں کی تھی۔۔۔۔ اسکے دل میں تو صرف عنایا کا راج تھا۔۔۔ عنایا۔۔۔۔ اسے عنایا کا وہ جھجکنا۔۔۔ شرمندہ ہونا۔۔۔ سب یاد آگیا۔۔۔ میر کو دیکھ کر ہمیشہ عنایا کا چہرہ مُرجا جاتا۔۔۔ جیسے اپنے کیے پر پچھتاوا ہو۔۔۔ جب وہ دونوں ساتھ ہوتے وہ کس طرح آس بھری نظروں سے اسے دیکھتی۔۔۔۔


ایک آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر اسکے ہونٹ پر آروکا۔۔۔۔ ثانی نے بیڈ پر پڑا اپنا دوپٹا اٹھایا اور پاؤں میں سلیپرز پہن کر نیچے آگئی۔۔۔۔


” عنایا “


ثانی کو روم کا دروازہ کھلا ملا اسلیے وہ بغیر دستک دیے اندر چلی آئی۔۔۔۔ احمد بیڈ پر سویا ہوا تھا جبکے عنایا اسے پورے کمرے میں نا دیکھی وہ بالکنی میں چلی آئی۔۔۔۔ گھٹنوں پر سر رکھے نجانے وہ کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔۔۔۔ ثانی اسکے ساتھ برابر میں بیٹھ گئی۔۔۔۔ اسکے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کے اسنے نرمی سے پکارا۔۔۔۔


عنایا نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور سیدھے ہوکر بیٹھ گئی۔۔۔۔ اسکی نظریں جھک گئیں نجانے ثانی کیوں اس وقت یہاں آئی تھی۔۔۔۔


” ایک بات پوچھوں سچ سچ بتانا۔۔۔۔“


وہ اپنی جگہ چور سی بن گئی۔۔۔۔ ضرور وہ اس سے نکاح والی رات کا پوچھنے آئی تھی۔۔۔ جس دن اسکا نکاح میر سے ہونا تھا۔۔۔۔


عنایا نے ہلکے سے سر کو اثبات میں جنبش دیا۔۔۔۔


” میر نے مجھ سے شادی کیوں کی۔۔۔۔؟؟ سب کا کہنا ہے میر اینڈ ٹائم پر مکر گیا جبکے میر نے مجھ سے کہا کے تمہاری شادی اپنی پسند سے ہوئی ہے۔۔۔۔ اور تم خوش بھی تھیں۔۔۔۔ عنایا تم نے مجھے بھی بتایا تھا۔۔۔۔ عارف تمہارا یونیورسٹی فیلو ہے۔۔۔۔ اب تم مجھے بتاؤ سچ کیا ہے۔۔۔ پلیز عنایا مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا۔۔۔۔ ورنہ میرا ہر رشتے سے اعتیماد اٹھ جائے گا۔۔۔۔۔“


” میر نے تم سے کیا کہا تھا کیوں اس نے تم سے شادی کی۔۔۔۔؟؟ “


عنایا نے سوال کے جواب میں واپس اس سے سوال کیا اب وہ اور میر کی نظروں سے نہیں گرنا چاہتی۔۔۔


” میرا کوئی نہیں تھا عنایا۔۔۔۔ میر نے صرف مجھے تحفظ دینے کے لیے شادی کی تھی۔۔۔۔ آئ مین مجھے ایسا لگتا ہے۔۔۔“


عنایا اسکی بات سن کر کچھ پل سوچ میں پڑ گئی پھر اسنے وجہ بتانے کے بجائے اُس دن والا پورا واقعہ بتایا۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ سن رہی تھی اس کے دل کا درد مزید بڑتا جارہا تھا۔۔۔۔


” ثانیا میں نہیں جانتی وجہ کیا تھی لیکن زندگی میں سب سے بڑی بیواقوفی میں نے میر کو ٹھکرا کے کی تم بہت لکی ہو ثانی شاید تمہیں اسکا اندازہ بھی نہیں۔۔۔۔“


ثانی اسے سن ہی کہاں رہی تھی وہ تو میر کے دھوکے پر شدد تھی۔۔۔ میر نے اسکا استعمال کیا۔۔۔ کیا عنایا اسکے لیے بہت اہم تھی۔۔۔؟؟ اور کیا آج بھی وہ اس سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔؟؟؟ ثانی جھٹکے سے اٹھی اور روم سے باہر آگئی۔۔۔۔


اسنے ہاتھ بےاختیار ہونٹوں پڑ رکھ کے سسکی روکی اور تیزی سے اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” آگر مجھے دیکھنے سے فرست مل گئی ہے تو لنچ کرو جو بہت ہی مشکل سے ارینج کیا ہے۔۔۔۔“ شاہ زر نے حیا کو مخاطب کیا جو کب سے اسے گھورے جا رہی تھی۔۔۔۔


” میری بھوک مر گئی “


وہ یہاں آکر حیا کا انوکھا ہی روپ دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ جو کبھی اس سے نظریں ملائے بات نہیں کرتی تھی اب اسکی ہر بات کی نفی کر رہی ہے۔۔۔۔ وہ دن بھر اسے گھومتا پھراتا مجال ہے جو وہ اس سے مخاطب بھی ہو۔۔۔۔ بس کبھی اسے غصّے سے گھورتی یا اجنبی بن کر سائیڈ پر ہوجاتی۔۔۔۔۔


” اوکے ایز یو وش۔۔۔“ وہ نیپکین سے ہونٹ پونچھتا اس سے بےنیاز سا بولا۔۔۔۔


” میں بھوکی رہوں۔۔۔؟؟“ اسے جیسے صدمہ پہنچا۔۔۔۔


” تمہیں بھوک کہا لگی ہے۔۔۔۔“ وہ ہنوز بےنیازی برتے ہوئے تھا۔۔۔


” لیکن بعد میں تو لگے گی نا۔۔۔“


وہ اسے اپنی بھوک کا احساس دلا رہی تھی۔۔۔۔ مال میں پانچ گھنٹے گھومنے کے بعد تو اسکی حالت بُری ہوگئی تھی۔۔۔ اوپر سے سُشی کی فرمائش اسے ہی مہنگی پڑھ گئی دو گھنٹے خوار ہونے کے بعد یہ ہوٹل ملا اور اب۔۔۔ شاہ زر کا رویہ منانے کے بجائے اسے تنگ کر رہا ہے۔۔۔۔


” بعد کا بعد میں سوچیں گے چلو اٹھو گھر جاکر پیکنگ بھی کرنی ہے۔۔۔۔“ شاہ زر نے اشارے سے ویٹر کو بلایا حیا اٹھ کر پہلے ہی باہر نکل گئی شاہ زر بے ساختہ مسکرایا اور ویٹر سے کچھ کہہ کر وہاں ویٹ کرنے لگا۔۔۔۔


وہ ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والے سیٹ کے باہر کار سے ٹیک لگا کے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔ اسے اپنوں کے بغیر بلکل مزہ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ اور شاہ زر اسکی بات سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔۔ وہ اٹ لیسٹ اسے اپنی ماں باپ سے بات کرنے تو دے۔۔۔۔ نجانے وہ کس حال میں ہونگے۔۔۔۔ اور میر کا سوچ کر اسکی آنکھیں بھر آتیں۔۔۔۔ کاش اس کے پاس فون ہی ہوتا وہ ایک کال کرتی اور میر بھاگا چلا آتا۔۔۔۔۔


اچانک ٹھا سے بند کرنے کی آواز پر وہ چونکی شاہ زر کار میں بیٹھ چکا تھا وہ بھی اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر کار میں بیٹھ گئی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ دھیمی چال چلتا اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔ نور نے اسکے پیچھے دیکھا جیسے کسی کی آمد کی منتظر ہو میر نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔


” حیا “ نور نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے پوچھا۔۔۔۔


” نہیں ملی “ وہ نظریں چُرا گیا۔۔۔۔


” میر۔۔۔ تم۔۔۔ نے وعدہ کیا تھا۔۔۔ “ تکیے میں وہ نھنا سا موتی اسکی آنکھوں سے نکل کے جذب ہوگیا۔۔۔


” بہت کوشش کی مما۔۔۔۔“ وہ چاہ کر بھی نا اس سے جھوٹ بول پاتا نا کوئی جھوٹا دلا سا دے سکتا۔۔۔


” میر۔۔۔ “ وہ رو پڑی۔۔۔۔


” پلیز مما سنبھالیں خود کو ہم۔۔۔ ہمارا بھی تو سوچیں ہم کتنا ڈر گئے تھے۔۔۔۔ مجھے بس کچھ دن دیں۔۔ میں اب اسے ڈھونڈ لونگا۔۔۔۔ اب آپ ہیں نا میری ہر مشکل آسان ہوجائے گی۔۔۔۔“


پھر کچھ ہی گھنٹوں میں وہ ڈسچارج ہوکر گھر آگئی سب نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

” بڑے آئے میری فکر ہے۔۔۔ یہاں بھوک سے مر رہی ہوں۔۔۔ اور وہ وہاں مزے سے سوئمنگ کر رہا ہے۔۔۔ جیسے زندگی میں پہلی دفع پول کی شکل دیکھی ہو۔۔۔۔!! جیسا کڑوا مزاج ہے کام بھی ویسے ہی ہیں۔۔۔“


حیا جلتی کڑھتی شاہ زر کو دیکھ رہی تھی جو پول میں مزے سے سوئمنگ کر رہا تھا۔۔۔۔۔


” یہ چلتے کیوں نہیں پورے سال کا آج ہی نہائینگے کیا۔۔۔؟؟ “ وہ کوفت زدہ سے بولی۔۔۔۔


” تم بور تو نہیں ہو رہیں “


شاہ زر نے اندر جانے سے پہلے پوچھنا مناصب سمجھا۔۔۔۔


” نہیں میں تو انجوائے کر رہی ہوں۔۔۔۔“ جل کر بولتے اس نے منہ پھیر لیا شاہ زر کندھے اٙچکاتے اندر چلا گیا۔۔۔۔


” آنٹی آپ ہٹیں یہاں سے دو دفع گرتے بچی ہیں۔۔۔؟؟ “


پول میں تیرتے بچے نے کہا جس کے سامنے حیا یہاں سے وہاں چکر لگانے میں بزی تھی۔۔۔۔


” آنٹی کسے کہا موٹے۔۔۔؟؟ آنٹی ہوگی تمہاری نانی۔۔۔۔ بدتمیز اور میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ویسے بھی جسے ہونا چاہیئے اُسے ہے نہیں تو تم کیوں ہلکان ہو رہے ہو۔۔۔؟“


حیا تو آنٹی لفظ پڑ پورا منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ خود موٹا اور مجھے آنٹی کہ رہا ہے۔۔۔؟؟؟ حیا نے بھی اپنے لہجے میں اسے اچھی خاصی سنائی۔۔۔۔


” آنٹی مجھے آپ کی نہیں اپنی فکر ہے کہیں آپ میرے اوپر نا گرجائیں۔۔۔۔“ حیا شیرنی بنی اسے پے جھپٹنے لگی تھی کے اچانک کسی نے اسے اپنی مضبوط باہوں میں اٹھایا۔۔۔۔


” شاہ۔۔۔زر“ وہ دبی دبی آواز میں چیخی شاہ زر کندھے پڑ ٹولیہ ڈالے اسے باہوں میں لیے کھڑا تھا۔۔۔۔


” مجھ سے بات نہیں کروگی۔۔۔۔؟؟ ناراض رہو گی۔۔۔۔؟؟ “ شاہ زر مسکراہٹ اُچھالتے گویا ہوا۔۔۔۔


” آپ کو کیا جائیں مزے کریں میرا کیا۔۔۔۔؟؟ میں تو آپ کی پسند ہوں ہی نہیں۔۔۔ تبھی تو ایسا سلوک کرتے ہیں “ وہ منہ ہی منہ بڑبڑائی۔۔۔۔


” جانِ من اتنا غصّہ۔۔۔۔؟؟؟ چلو اب اگر تم ضد پڑ آہی گئی ہو تو ایسا ہی سہی۔۔۔“ شاہ زر نے کہتے ہی گرفت ڈھیلی کی حیا چیخ اٹھی کیوں کے وہ اسے پول میں پھنک رہا تھا۔۔۔۔


” ناراضگی ختم کرو “


وہ پھر محبت سے اسے دیکھتے ہوے بولا۔۔۔۔۔


” کبھی نہیں۔۔۔۔“ وہ بھی اسکے کان کے قریب غرائی۔۔۔۔


” ٹھیک ہے “ شاہ زر نے پھر گرفت ڈھیلی کر کے اسے پھنکنا چاہا کے ایک بار پھر وہ چیخی۔۔۔۔


” نہیں۔۔ نہیں ہوں ناراض۔۔۔“


وہ آنکھوں کو سختی سے میچے ہوئے تھی اس نے زور سے شاہ زر کا بازو پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔


” یہ ہوئی نا بات جانِ من۔۔۔“ پھر شاہ زر اسے اپنی مرضی سے گھومتا رہا۔۔۔۔ حیا بے دلی سے مسکراتی رہی رات کو کہیں جاکر وہ گھر لوٹے۔۔۔۔


اندر شاہ زر پیکنگ کر رہا تھا کے اسے باہر سے دبی دبی سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں وہ پیکنگ چھوڑ کر لاؤنچ میں آگیا۔۔۔۔


” کیا مصلا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔؟؟؟ “


وہ ایک بار پھر اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔۔ اسکی آواز تیز تھی لہجہ سخت تھا۔۔۔۔


” مجھے۔۔۔۔ گھر۔۔۔ جانا ہے۔۔۔ ابھی۔۔۔ آپ۔۔۔ عمر۔۔۔ یا حمزہ بھائی۔۔۔ کو کال کریں۔۔۔ ان سے کہیں مجھے لینے آئیں۔۔۔۔“


آواز کی لڑکھڑاہٹ پڑ وہ قابو نا پا سکی۔۔۔ آج پھر شاہ زر وہی پرانے روپ میں اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔۔


” حیا میری کہی ایک بات تمہیں سمجھ نہیں آتی۔۔۔۔ صبح سے تمہارا رویہ دیکھ رہا ہوں آخر ایسا کیا کیا ہے میں نے جو تم اس طرح کا رویہ اختیار کیے ہو۔۔۔۔؟“


وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا آواز میں بےبسی تھی۔۔۔۔ وہ جو اسے پانے کے لیے بےچین تھا۔۔۔۔ آج پاکر بھی وہیں ہے وہ اسے حاصل تو کر چکا تھا۔۔۔۔ لیکن اسکے دل میں جو شاہ زر کا مقام تھا۔۔۔۔ اس سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔۔۔۔


اپنی ایک جذباتی کیفیت پر کیا تھا آگر وہ میر کو معاف کر دیتا۔۔۔ کم سے کم طلاق لفظ حیا کے لیے تو منہ سے نا نکالتا۔۔۔۔۔


” سب کے سامنے میری انسلٹ کی۔۔۔ مجھے ڈائیورس دینے کی دھمکی دی۔۔۔۔“ وہ جو سوچ رہا تھا وہی الفاظ اسکے ہلک سے برآمد ہوئے شاہ زر نے ہونٹ بھینچ لیے پھر کچھ دیر بعد اسکی کہی حرکت یاد دلائی۔۔۔


” میں نے دھمکی دی تھی تم تو عمل کرنے چلیں تھیں۔۔۔“ شاہ زر کی بات سن کر وہ رونا بھول گئی آنسوں تو نہیں نکل رہے تھے لیکن لہجہ بھیگا ہوا تھا ۔۔۔۔


” دیکھو حیا مجھ سے الگ تمہیں صرف میری موت کر سکتی ہے۔۔۔۔ بدلہ تو کیا تم میرے سینے پر چاقو سے وار کرو تب بھی میں تمہیں طلاق نا دوں۔۔۔۔“ وہ اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھمتا ہوا بولا۔۔۔۔


” بلکے پھر تو گِن گِن کے بدلے لینے چاہیے۔۔۔۔“ وہ معنی خیزی سے بولا تو حیا اپنا سرخ پڑتا چہرہ جھکا گئی۔۔۔۔ مسکراہٹ ایک لمحے کے لیے آئی تھی شاہ زر اسی میں خوش تھا۔۔۔


” چلو اب سب چھوڑو میری ہیلپ کرو۔۔۔“ شاہ زر نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے اٹھایا۔۔۔۔


” مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔۔


” کچن میں ایک شوپر رکھی ہے میں نے تمہارا کھانا وہیں پیک کرایا تھا۔۔۔“ شاہ زر نے نہایت ہی نارمل انداز میں کہا۔۔۔۔


” شاہ زر۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ میں نے کبھی سُشی نہیں۔۔۔ کھائی۔۔۔ میں۔۔۔ تو۔۔ وہ۔۔۔ “ حیا نے جھکی نظریں اٹھائیں شاہ زر کا چہرہ بےتاثیر تھا۔۔۔۔


” جانتا ہوں پریشان کر رہیں تھیں۔۔۔ خیر اٹھو کچن سے شوپر اور ایک پلیٹ لے آؤ۔۔۔“


وہ اسکی بات کاٹ کے بولا آج اسکا انداز ہی الگ تھا۔۔۔۔ ورنہ اتنا تنگ کرنے پڑ ڈانٹ ضرور پڑتی۔۔۔۔ اسے ویسے ہی بیٹھتا دیکھا شاہ ذر خود ہی پلیٹ اور شوپر لے آیا۔۔۔۔


” یہ تمہارا فوریٹ الفراڈو پاستا اور سنگاپورین رائیس۔۔۔۔ “


حیا نے پلیٹ میں سجی اپنی فوریٹ ڈیشز دیکھ کر حیرانگی سے شاہ زر کو دیکھا وہ اسکی آنکھوں میں امڈتا سوال دیکھ کے بولا۔۔۔۔


” حیا میں تمہارے سائے سے بھی واقف ہوں۔۔۔ دو کپ چائے بنا کر روم میں آنا۔۔۔“ حیا نے سر اثبات میں ہلایا شاہ ذر اندر پیکنگ میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔ اور حیا سوچ رہی تھی کے اگر وہ یہ چند دن اسکے ساتھ اچھے سے گزارے تو۔۔۔۔؟؟ وآپس تو اسے لوٹنا ہے کیوں نا کچھ اچھی یادیں بنا کر لوٹے۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” عائشہ۔۔۔۔“


وہ چادر سر تک تان کے سوئی ہوئی تھی یا سونے کا ناٹک کر رہی تھی نیندیں تو آج کل سب کی اُڑی ہوی ہیں۔۔۔۔


” عائشہ سن رہی ہو۔۔۔؟“ فیضان نے چادر ایک جھٹکے سے اسکے اوپر سے کھینچی۔۔۔۔


” کیا تکلیف ہے تمہیں فیضان۔۔۔۔۔“ وہ اٹھ کے کوفت زدہ سے بولی۔۔۔۔۔


” عائشہ یار بات تو سنو سچ کہ رہا ہوں دماغ اُس وقت کام ہی نہیں کر رہا تھا بس میں شاہ زر کو روکنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔“


” اور مجھے طلاق کا کہا۔۔۔؟؟ سب کے سامنے۔۔۔۔؟؟ “ وہ اسکی بات کاٹ کر دکھ بھرے لہجے میں بولی۔۔۔۔


” عائشہ سب کے سامنے کہاں۔۔۔۔؟؟ اسٹیج پر اُس خبیث سے کہا تھا۔۔۔۔ اب اعلان تو کیا نہیں جو پورا جہاں سنے گا۔۔۔۔“


” لیکن لوگ تو ایک دوسرے کو بتاتے ہیں نا۔۔۔؟؟ اس میں میرا کیا قصور اگر عنایا نے اپنی مرضی سے شادی کی شاہ زر گھر چھوڑ کے چلا گیا۔۔۔۔ تم بھی تو باپ ہو پھر مجھے کیوں سناتے تھے۔۔۔۔؟؟ “


فیضان اکثر عنایا کئی اُجڑی حالت دیکھ کے عائشہ کو سناتا۔۔۔ اگر وقت پر معلوم پڑ جاتا تو عنایا کے سر سے یہ محبت کا بھوت تو اُتارتے۔۔۔۔


” تمہیں عنایا نے کہا تھا وہ میر سے شادی کرنا نہیں چاہتی تم بتاتیں مجھے۔۔۔۔ اینڈ ٹائم پر پتا چلا وہ بھی اتفاقاً۔۔۔۔ ورنہ تم خود سوچ سکتی ہو کیسے تعلقات ہو جاتے ہمارے۔۔۔۔؟؟ تمہیں پتا ہے عائشہ میر نے کتنی بڑی قربانی دی ہے۔۔۔ اگر وہاں موجود لوگوں کو پتا چلتا کے لڑکی نے لڑکے سے شادی نا کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔۔۔۔ ساتھ خود کو مارنے کی دھمکی دی ہے۔۔۔۔ تو ساری زندگی ہماری بیٹی انگاروں پر گزارتی رشتےدار جینا حرام کردیتے۔۔۔ یہ بات میں نے شاہ زر تک کو نہیں بتائی کیوں کے میں نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ غیرت کے نام پر وہ اپنی بہن سے نفرت کرے۔۔۔۔ لیکن مجھے کیا پتا تھا بات اتنی بڑھ جائے گی۔۔۔ وہ نارمل تھا میرے سامنے۔۔۔ گھر بھی اُسنے حیا سے شادی نا کرنے کے لیے چھوڑا تھا۔۔۔ ناکے عنایا کی وجہ سے پھر یہ سب۔۔۔۔


اور اگر اُس وقت میں سچائی بتاتا تو وہ کبھی یقین نا کرتا۔۔۔ کسی کا اعتبار نہیں کرتا۔۔۔ کیوں کے وہ طلاق کی دھمکی دے چکا تھا۔۔۔ اُسے لگتا ہم بچا سمجھ کے اسے بیوقوف بنا رہے ہیں۔۔۔۔ یا بھلا رہے ہیں اُس وقت یقین خد میرے ہاتھ پاؤں کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔۔۔۔ عنایا کو دیکھا تھا۔۔۔؟؟ کیا حالت تھی اسکی۔۔۔۔؟؟ سب کے اوسان خطا ہوگئے تھے۔۔۔۔ اور ثانی اسکی کیا غلطی ہے۔۔۔۔؟؟ یہ تک نہیں سوچا اُس کے بچے کو کچھ ہوجاتا تو۔۔۔؟؟ کیا منہ لیکر جاتا مین ازلان کے سامنے۔۔۔۔ میرا خدا گواں ہے عائشہ اس وقت میرا دماغ میری زبان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔“


فیضان نے اسکا ہاتھ پکڑ کے نرمی سے دبایا اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ دیا۔۔۔۔ زخم اتنی آسانی سے نہیں بھرتے زندگی میں پہلی بار اس نے عائشہ کا دل دُکھایا تھا۔۔۔۔ اولاد نے کم تنگ کیا تھا اسے کے باقی رہی کہی قصر فیضان نے پوری کردی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مما آپ کو کچھ چائیے۔۔۔؟؟ “


آج ہسپتال سے آئے نور کو دوسرا دن تھا ثانی کی اب تک میر سے ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔ وہ نور سے ضد کر کے اسی کے روم میں کچھ دنوں کے لیے شفٹ ہوگئی۔۔۔۔


” نہیں ثانی۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ اتنی فکر مت کیا کرو اپنا خیال رکھو۔۔۔“ وہ اسکی حالت کی پیش نظر بولی۔۔۔۔


” مما میں تو بلکل ٹھیک ہوں بس آپ جلدی سے ٹھیک ہوجائیں۔۔۔۔ جب سے آپ ہوسپیٹالائز ہوئیں ہیں گھر میں کوئی ٹکتا ہی نہیں۔۔۔۔“


نور کے چہرے پڑ سایا سا لہرایا جب سے وہ گھر میں آئی ہے اسے کوئی مرد نظر نہیں آیا۔۔۔ سب ملکر بھاگ دوڑ میں لگے تھے۔۔۔۔ جیسے بس زندگی کا مقصد حیا کو ڈھونڈنا رہ گیا ہے۔۔۔۔ وہ بھی تو مجبور تھی اسکی اپنی چیخیں اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی اِسی دن سے وہ ڈرتی تھی۔۔۔ اسلیے بیٹی نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔۔


” ہاں پھوپھو آپ بس جلدی سے ٹھیک ہوجائیں “


پرنیا کی آواز نے اسکی سوچوں کا تسلسل توڑا۔۔۔ وہ اس وقت تنہائی چاہتی تھی لیکن بولنے سے ہچکچا رہی تھی۔۔۔۔ حیا کا سوچ کر اسکا دل پھٹنے لگتا وہ جانتی ہے۔۔۔۔ ازلان اور میر نے انہیں نور کے ساتھ چوبیس گھنٹے رہنے کو کہا ہوگا۔۔۔ تاکے وہ ان سوچوں سے چھٹکارا پا سکے۔۔۔۔


” نور تم نے میڈیسن لی۔۔۔؟“ اچانک حبہ نے کمرے میں آکر اس سے پوچھا۔۔۔۔


” ثانی ہے نا ٹائم سے پہلے دوائی دے دیتی ہے۔۔۔“


نور نے بمشکل مسکرا کر کہا اور آنکھیں موند لیں۔۔۔


” بھابی آپنے ڈنر نہیں کیا چلیں نیچی ورنہ میر بھائی سے مجھے ڈانٹ پڑنی ہے۔۔۔“ کمرے میں وہ دونوں ہی تھیں حبہ جا چکی تھی پرنیا اسے اپنے ساتھ لیتی لائٹ اوف کر کے لاؤنچ میں آگئی۔۔۔


” تمہیں کیوں۔۔۔؟؟ “


” آپ ان کا فون جو نہیں اٹھا رہیں انہوں نے مجھے کال کر کے آپ کا خیال رکھنے کو کہا ہے۔۔۔۔“ ثانی چپ رہی۔۔۔۔ وہ جان بوجھ کے اسکا فون نہیں اٹھا رہی۔۔۔۔ میر اسکی آواز سے اسکی دلی کیفیت جان لیتا۔۔۔ جب کبھی وہ شادی یا کسی فنکشن سے لوٹتی تو اکثر بےاولادی اور لاوارث کا تانا سن کر بھکر جاتی۔۔۔۔ میر ہی تھا جو اسے سمیٹتا تھا اسکے بغیر کہے وہ اسکے دل کا حال جان لیتا تھا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


ازلان کا زیادہ تر وقت اب آفس میں گزرتا فیضان اس سے شرمندہ تھا۔۔۔ آخر دلاسا دیتا بھی کیسے کیا کچھ نہیں بولا تھا شاہ زر نے۔۔۔۔ ازلان کے پاس اب مزید ہمت نا تھی کے بیٹی کی تلاش میں نامراد لوٹتا۔۔۔۔ فیضان اور ازلان ہی آفس سنبھالتے اعظم شاہ گھر میں ہی تھے۔۔۔۔۔ جبکے امان اور باقی گھر کے بچے دن رات گھن چکر بنے ہوئے تھے۔۔۔۔۔


ابھی بھی میر کسی سے فون پر بات کر رہا تھا کے حمزہ گھبراتا ہوا پھولتی سانس سمیت اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔۔


” بھا۔۔۔ بھائی۔۔۔ حیا پتا نہیں کہاں چلی گئی۔۔۔۔ مل ہی نہیں رہی چوکیدار نے بھی لاعلمی ظاہر کی ہے۔۔۔؟؟ ”


” تو ہم اب تک کیا کر رہے ہیں تمہیں ابھی فکر لگی ہے حیا کی یہاں سب کی حالت خراب ہوئی ہے۔۔۔۔ “ میر نے اسے کڑے تیوروں سے گھورتے کہا آج کل بات بات پر اسے غصّہ آجاتا دن بھر وہ گھن چکر بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔


” بھائی۔۔۔ وہ۔۔۔ میں جانتا تھا حیا کہاں ہے “


میر کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نا آیا وہ جو ڈھیلا سا کھڑا تھا ایک دم الرٹ ہوگیا۔۔۔۔۔


” کیا کہا۔۔۔؟؟؟ تم نے کہا تم جانتے تھے حیا کہاں ہے۔۔۔۔“ وہ اب بھی بےیقین تھا۔۔۔۔ اسکے ہاں میں سر ہلانے پر وہ اس کی طرف بڑھا۔۔۔۔


” بھائی بات سنیں میں ڈر گیا تھا۔۔۔ میں نے آپ سے پوچھا بھی تھا آپ نے کہا تھا۔۔۔۔“ اسکی بات کاٹتے ہوے میر دھاڑا۔۔۔۔


” شٹ اپ غصّے میں تھا میں تمہیں کیا لگتا ہے شاہ زر کے کارنامے کے بعد میں اسے گلے لگاتا۔۔۔؟؟ میری ماں وہاں ہوسپیٹیلائز تھیں میں پاگلوں کی طرح گلی گلی اسکی تلاش میں بھٹک رہا ہوں۔۔۔ اور تم میرے بھائی ہو یا اُسکے۔۔۔؟؟ اپنی بہن کے آنسوں نہیں دیکھے۔۔۔۔؟؟؟ اسکی پکار نہیں سنی۔۔۔۔؟؟؟ بھری محفل میں اس نے ہماری بہن کو طلاق دینے کی دھمکی دی۔۔۔۔ اور تم کیا چاہتے ہو کے میں اُسے پھولوں کا ہار پہناتا۔۔۔۔“ کہتے ہوئے وہ ہاپنے لگا۔۔۔۔


” بتاؤ اب کہاں ٹہرے تھے وہ۔۔۔۔؟؟ “


” اس ایریا میں۔۔۔۔“ وہ اسکے تیز لہجے سے گھبرا گیا جھٹ سے فون آگے کر کے لوکیشن دکھائی۔۔۔۔


” بھائی اب وہ یہاں نہیں ہیں “


” کار میں بیٹھو جلدی کرو “ وہ دونوں تیز قدم اٹھاتے کار میں بیٹھے کچھ دیر بعد کار ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” السلام عليكم “


” واعلیکم السلام “ انہوں نے اخبار رکھ کے ایک نظر اپنے اس شاندار بیٹے کو دیکھا جو آج صدیوں سے بیمار لگ رہے تھے۔۔۔۔


” نور کیسی ہے؟؟ “ ازلان نے ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کی۔۔۔۔


” اب بہتر ہے۔۔۔ مجھے یہ سوال تم سے پوچھنا چاہیے۔۔۔۔“ انہوں نے اسے باور کرایا اب وہ اُسکی زمیداری ہے اِنکی نہیں۔۔۔۔


” ہمّت نہیں اس کے سامنے جانے کی۔۔۔“ ازلان نے بےبسی سے انہیں دیکھتے کہا۔۔۔۔


” ابو اس وقت میں آپ کا دکھ سمجھ نا سکا آج دیکھیں قدرت کا کھیل کل جہاں آپ تھے آج میں ہوں۔۔۔۔ اُس وقت کتنی آسانی سے میں نے آپ سے معافی مانگی تھی۔۔۔ آپ نے معاف بھی کر دیا تھا حلانکے میرے گناہ کا پلڑا بھاری تھا۔۔۔ “


” ازلان میں ان میں سے نہیں جو گزرے وقت پر ماتم کرتا رہا ہوں۔۔۔ یہ سچ ہے تم نے مجھے گہری چوٹ پہنچائی تھی۔۔۔۔ لیکن وقت کے ساتھ وہ زخم بھر گئے۔۔۔ میں نے سچے دل سے تمہیں معاف کیا تھا۔۔۔ بس اب اپنی بیٹی کے لیے دعا کرو اللہ‎ اُسے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔۔۔“


وہ ایک پُر سکون سانس خارج کرتا عمر حمزہ کے کمرے میں آگیا آج کل یہی اسکا ٹھکانہ تھا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” میں نے آپ کی اور بابا کی بات سن لی تھی آپ دونوں بہت پریشان تھے۔۔۔۔ شاہ زر بھائی پر ٹرسٹ نہیں تھا بابا اور آپ کو۔۔۔ اور آپ کی باتیں سن کر میں بھی بےچین ہوگیا۔۔۔۔ میں نے سوچا بعد کے پچھتاوے سے اچھا کچھ حل سوچوں اگر شاہ زر بھائی سہی بھی ہوے تو نقصان تو کوئی نہیں ہونا تھا۔۔۔۔ اسلیے میں نے اپنے دوست سے ایک چپ لی۔۔۔ اسکا بھائی ایک آرمی آفسر ہے وہ چپ میں نے حیا کی چین میں فٹ کرائی وہی چین جو اسے بابا نے گفٹ کی تھی۔۔۔ جو وہ ہر وقت پہنے ہوئے ہوتی ہے۔۔۔ اُس چپ سے مجھے اکزیٹ لوکیشن پتا لگتی ہے۔۔۔ تین دن سے حیا مختلف شوپنگ مالس ریسٹورنٹ میں گھومی پھری ہے۔۔۔۔ لیکن کل رات اسکی لاسٹ لوکیشن ایئر پورٹ تھی اسکے بعد سے وہ چپ بند ہے کوئی لوکیشن نہیں مل رہی۔۔۔۔۔“


حمزہ نے میر کو پوری تفصیل سنائی جسے سن کر اسکی پریشانی کچھ حد تک کم ہوئی۔۔۔۔


” یعنی جیسا میں سوچ رہا تھا ویسا نہیں شاہ زر جان پوجھ کر حیا کو اپنے ساتھ لے گیا صرف ہمیں پریشان کرنے کے لیے۔۔۔۔ آئ تھنک شاہ زر اُسے تکلیف نہیں پہنچا سکتا حیا اسکی پسند ہے۔۔۔۔“


” بھائی آپ سب انکو اتنا بُرا کیوں سمجھتے ہیں۔۔۔؟؟ حیا جہاں شاپنگ کر رہی تھی میں گیا تھا اُسے دیکھنے۔۔۔ نخرے دراصل شاہ زر بھائی اٹھا رہے تھے حیا کے۔۔۔۔ وہ میڈم تو منہ پُھلائے بیٹھی ہوئیں۔۔۔ تبھی تو میں پُر سکون تھا۔۔۔۔“ میر اسکی آخری بات پر مسکرایا سکون کی لہر اسکے پورے وجود میں دوڑنے لگی۔۔۔۔۔


” ُبرا نہیں سمجھتا بس دل چاہتا ہے پانچ چھ تھپڑ ماروں اور ساٹھ ستر گھونسے“ دانت پیستے وہ گویا ہوا حمزہ چپ ہوگیا۔۔۔۔ کہیں یہ اسے ہی نا پڑھ جائیں۔۔۔۔


” صاحب یہ صاحب تو اکثر یہاں آتے ہیں کچھ دن پہلے اپنی بیوی کے ساتھ آئے تھے کل ہی دونوں کہیں گھومنے گئیں ہیں۔۔۔“ میر نے اسے اپنے فون میں شاہ زر کی تصویر دیکھائی جسے دیکھتے ہی وہ جھٹ پہچان گیا۔۔۔۔


” تمہیں کیسے پتا میاں بیوی ہیں۔۔۔۔؟؟ “ حمزہ نے اتنی انفارمیشن پے سر سے پیر تک چوکیدار کو گھورا۔۔۔۔


” صاحب ہر وقت لڑتے رہتے ہیں۔۔۔۔“ حمزہ اسکی بات سن کر ہنس پڑا۔۔۔۔


” اندازہ ہے کب تک آئیں گے۔۔۔“ میر نے فون جیب میں رکھتے ہوے پوچھا۔۔۔۔


” نئی نئی شادی ہے صاحب پتا نہیں کتنے دنوں کے لیے گئے ہیں “


” تمہیں کیسے پتا نئی نئی شادی ہے۔۔۔؟؟ “ حمزہ پوری تشویش کے موڈ میں تھا۔۔۔ اتنے صاف جواب اسے ہضم ہی کہاں ہو رہے تھے۔۔۔۔


” تم پوچھ لو جو جو پوچھنا ہے میں یہیں کھڑا ہوں “ میر نے بیزار ہوکر کہا۔۔۔۔


” صاحب انکے ہاتھوں میں مہندی لگی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔“ میر نے جھٹ سے اسکا کولر پکڑ لیا۔۔۔۔


” اپنی نظریں نیچے رکھا کرو بہن ہے وہ میری سمجھے۔۔۔ اور جب یہ لوگ واپس آئیں تمہاری پہلے کال مجھے آنی چاہیے سمجھے۔۔۔۔؟؟ “


” جی جی صاحب۔۔۔۔“ وہ ہکلاتے ہوئے بولا میر کو اس سے شراب کی بو آئی۔۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ کر واچ مین کے پاس آیا۔۔۔۔ اُسے بھی یہی ہدایت کر کے وہ وہاں سے چلا آیا۔۔۔ اب وہ بےچینی سے گھر پہنچنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” ثانی مما جاگ رہی ہیں۔۔۔؟؟ “ میر نے کچن میں جاتی ثانی کا فوراً ہاتھ پکڑا۔۔۔۔ حیا کی شادی کے بعد آج وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


” جی “


میر کے ساتھ حمزہ بھی تھا جسے دیکھ کے وہ شرمندہ ہوگئی۔۔۔ حمزہ خود ہی مسکراہٹ دباتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔


” تمہیں کیا ہوا۔۔۔؟؟ “


وہ اسکا مُرجھایا چہرہ دیکھ کے بولا میر کو دیکھ کے تو وہ ہمیشہ چہک اٹھتی۔۔۔۔ آج وہ اسے دیکھ کے ایسے ریکٹ کر رہی تھی جیسے جانتی ہی نہیں۔۔۔


” مجھے کیا ہونا ہے۔۔۔۔“ وہ بےنیازی سے کہتی نرمی سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی۔۔۔ اسکا ردِ عمل دیکھ کے میر نے گرفت اور مضبوط کرلی۔۔۔۔ وہ دن بھر ٹینشن میں یہ تک بھول گیا ثانی اُس واقعہ کا کیا اثر لیگی۔۔۔۔


” مجھے اگنور کیوں کر رہی ہو؟؟ “


میر نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا وہ کبھی اس سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کرتا۔۔ آج بھی اسک لہجہ نرم تھا۔۔۔۔


” میں آپ کو کیوں اگنور کرونگی؟؟ “


ثانی نے جیسے نظریں نا اٹھانے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔۔۔


” میری طرف دیکھو “


اسکی نظریں ہنوز جھکی ہوئیں تھیں۔۔۔۔


” میر مجھے جانا ہے اور بھی کام ہیں مجھے “


” مجھ سے زیادہ ضروری ہیں۔۔۔۔؟؟ “ میر کو اپنے گرد خطرے کا الارم بجتا محسوس ہوا۔۔۔ ضرور وہ کچھ ایسا جان گئی تھی جو اسے نہیں جاننا چاہیے تھا۔۔۔۔۔


” جی بہت اہم ہیں۔۔۔“ اسکا جواب سن کر میر کو دھچکا لگا۔۔۔۔۔


” نہیں میرے سوا کوئی اہم نہیں چلو روم میں اور تفصیل سے بتاؤ ناراض کیوں ہو۔۔۔۔“ اب تو اسکی بےصبری عروج پر تھی کیسے وہ اسکی ناراضگی برداشت کر ساکتا ہے۔۔۔۔


” مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا۔۔۔ اور جب تک مما ٹھیک نہیں ہوجاتیں میں انہی کے روم میں رہونگی۔۔۔۔۔“ اسکی آخری بات پر میر کو غصّہ تو آیا جسے بامشکل اسنے ہضم کیا۔۔۔۔۔


” لنچ کیا تم نے “


” جی “


میر نے جھک کر اسکے ماتھے کا بوسہ لیا۔۔۔


” ثانی میری جان میں دو دن سے کافی پریشان تھا لیکن میں تمہیں کال کرتا تھا تم رسیو نہیں کرتیں “


” میر مجھے مما کے لیے سوپ بنانا ہے “


” ثانی۔۔۔ تمہارا رویہ مجھے پریشان کر رہا ہے پلیز مجھے بتاؤ “


اسنے دونوں بازوں سے تھام کر اسے خود سے اور قریب کیا وہ ویسے ہی دن بھر سے پریشان ہے اوپر سے ثانی کا رویہ۔۔۔۔


” میں آپ کے لیے اتنی اہم نہیں میر آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔“ اسکی بات سن کر میر کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔۔


” بھائی اگر ملاقات ہوگئی تو آجائیں مما آپ کا ہی پوچھ رہیں ہیں۔۔۔۔“ حمزہ کی آواز سن کر میر کا دل چاہا اسکے دانت توڑ دے۔۔۔۔۔


” تم کیا ہو میرے لیے یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے تم خود بھی واقف ہو۔۔۔۔ مما سے ملکر تم سے نمٹتا ہوں سویٹ ہارٹ “


میر نے دو انگلیوں سے اسکے نرم گال کو چھوا اور نرمی سے اسے خود سے دور کرتا نور کے روم میں چلا گیا اسکے جانے کے بعد ثانی کچن میں چلی آئی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” تم سچ کہ رہے ہو میر۔۔۔؟؟ “


جسے سنے کے لیے وہ کب سے بےچین تھی وہ خبر ملی بھی تو کیسے۔۔۔؟؟ اسے لگا تھا ابھی حیا بھاگتی ہوئی اس تک آئے گی اور خوب اس سے شکوے شکایت کرے گی۔۔۔۔ لیکن ساتھ ایک خوش حال زندگی کی بھی خوشی سنائے گی۔۔۔۔


” اپنے اس نالائق بیٹے سے پوچھیں۔۔۔۔“


میر نے ایک تھپڑ اسکے کان کے نیچے رسید کرتے کہا حشر تو وہ اسک اچھا خاصا کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔


” ہاں مما میں حیا کو دیکھنے ہی مال گیا تھا۔۔۔۔“ حمزہ نے یقین دلاتے کہا۔۔۔۔۔


” وہ کیسی تھی رو تو نہیں رہی تھی۔۔۔۔“ نور نے بےتابی سے حمزہ سے پوچھا۔۔۔۔


” مما ابھی تو بھائی نے تفصیل بتائی بہت خوش ہے وہ۔۔۔۔“


” میر پھر شاہ زر واپس کیوں نہیں آرہا۔۔۔؟“ نور ابھی بھی بےچین تھی۔۔۔۔


” مما ابھی ناراض ہے وہ۔۔۔ عنایا کا سن کر وہ مجھے اسکا مجرم سمجھتا ہے اسلیے۔۔۔ لیکن آپ پریشان نا ہوں حیا ٹھیک ہے۔۔۔۔“ وہ نور کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دے رہا تھا۔۔۔۔۔


” میر ازلان کو بتایا “ یکدم اسے خیال آیا دل تو بہت ہلکا پھلکا ہوچکا تھا باقی اسے اپنی دعائوں، اپنے رب پر یقین تھا۔۔۔۔۔


” نہیں سب سے پہلے آپ کو بتانا تھا خیر حمزہ بتا چکا ہے “


میر کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی یہ بات تو وہ ازلان کو ضرور بتاۓ گا جو ہر وقت محبت نا ہونے کا شکوہ کرتا ہے۔۔۔۔۔


” مما یہ سوپ۔۔۔۔۔“ میر کو دیکھ کر اسکے آدھے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔۔۔۔ وہ جو یہ سمجھ رہی تھی میر اب تک جا چکا ہوگا۔۔۔ اپنے آنے پر سخت کوفت زدہ سے ہوگئی۔۔۔


” شوہر کو دیکھنے کی اتنی خوشی کے الفاظ ہی بھول گئی۔۔۔۔ لاؤ میں پیلا دیتا ہوں۔۔۔۔“ میر نے پُر شوخ لہجے میں کہا اور اٹھ کے اسکے ہاتھ سے سوپ کا باؤل لیکر نور کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔ نور نے احتجاج کیا لیکن وہ خود اسے سوپ پلانے لگا۔۔۔ اس دوران حمزہ کی نظر پرنیا پر پڑی جو ثانی کے پیچھے ہی کھڑی تھی۔۔۔۔


” چائے کی شدید طلب ہے اگر مل جاتی تو۔۔۔ “ ثانی تو یہاں سے ویسے ہی بھاگنے کے چکر میں تھی جھٹ سے کہا۔۔۔۔


” ہاں حمزہ میں لاتی ہوں “


” نہیں بھابی آپ بیٹھیں میں لاتی ہوں آپ تھک گئی ہونگی۔۔۔“ پرنیا کہتے ہی کچن کی طرف چل دی۔۔۔ میر نے سکون بھرا سانس خارج کیا ثانیہ کا ہر عمل میر کو نئے سرے سے بےچین کر رہا تھا۔۔۔


” میں چینج کر کے آتا ہوں “ حمزہ بھی وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔۔


” ثانیہ آؤ یہاں میرے پاس بیٹھو۔۔۔۔“ وہ نور کے کہنے پر بیڈ کی دوسری سائیڈ پر آکر بیٹھ گئی اس طرح کے نور ان دونوں کے بیچ بیٹھی تھی۔۔۔۔


” میر بہت خیال رکھا ہے اس نے میرا آج تم چاہے تو اپنے روم میں سونا۔۔۔۔“


میر نے فتح مند مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر اسے دیکھا۔۔ ” اب بتاؤ کیسے بچو گی “ آنکھوں میں سوال لیے اسکے ہونٹوں سے مسکراہٹ جا نہیں رہی تھی۔۔۔۔


” مما جب تک آپ ٹھیک نہیں ہوجاتیں میں اور پرنیا یہیں سوئینگے۔۔۔۔ ویسے بھی مما سب یہیں ہیں۔۔۔ میں نے اپنا روم ماموں اور مامی کو دے رکھا ہے “


ثانی نور کو دیکھ کر مخاطب ہوئی جس نے ہامی بھر لی میر کا چہرہ پل بھر میں مُرجھا گیا۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ ہی نہیں آرہی تھی۔۔۔ ثانی اٹھ کر گیلری کی کھڑکی بند کرنے لگی تاکے اے سی چلا سکے۔۔۔۔


” تم بیٹھو میں نماز پڑھ لوں “ نور میر سے کہ کر اٹھ گئی۔۔۔۔ ثانیہ گیلری کا دروازہ بند کرنے ہی لگی تھے کے کوئی بازوں سے پکڑ کے اسے اندر لے آیا۔۔۔


” جب تک تم بتاؤ گی نہیں میں پیچھا نہیں چھوڑونگا تم ٹینشن لوگی تو بچے۔۔۔۔“ میر نے اسے دیوار سے لگا کر اسکے جانے کے سارے راستے بند کر دیے۔۔۔۔


” ہاں آپ کو اپنے بچے کی فکر ہے مجھے کچھ ہوجائے آپکو۔۔۔ “


” ثانی۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا یہ تم کہ رہی ہو۔۔۔؟؟ جس خوشی کے لیے ہم دن رات ترستے رہے وہ میں تمہارے بینا۔۔۔؟؟ میں نے یہ خوشی تم بن نہیں مانگی تھی۔۔۔۔ میرے لیے تم اہم ہو نہیں چاہیے یہ بچا۔۔۔۔۔“ میر نے اسکی بات سختی سے کاٹی آخر میں اسکا لہجہ محبت بھرا تھا۔۔۔۔


” میر۔۔۔ “


ثانی نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کے کہنے سے روکا۔۔۔ اسکا دل کانپ اٹھا تھا وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے سسک اٹھی۔۔۔۔ میر گھبرا گیا وہ اسکی کنڈیشن سمجنے سے قاصر تھا۔۔۔۔۔


” سوری ثانی ریلی سوری آخر کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ جو تم ایسی باتیں کر رہی ہو بتاؤ مجھے۔۔۔۔؟؟؟؟ کیوں آخر تم مجھ سے بدگمان ہو۔۔۔؟“


” آپ۔۔۔ نے میرا استمعال کیا۔۔۔ مجھ سے اس لیے شادی کی نا تاکے عنایا کی عارف سے شادی ہو سکے۔۔۔۔؟؟ میں کوئی کھلونا نہیں ہوں میر کے جس کے لیے چاہے آپ مجھے استمعال کرتے پھریں۔۔۔۔“ اسکے آنسوں میں روانگی آگئی میر کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔۔۔ وہ یہ سب کم سے کم ثانیا سے سنے کی توقع نہیں کر سکتا۔۔۔۔


” کس نے کہا یہ تم سے۔۔۔؟؟ “ میر نے ہوش میں آتے ہی اس سے پوچھا اسک پہلا شک عنایا پر ہی گیا۔۔۔۔


” مجھے سب پتا لگ چکا ہے میر۔۔۔ میں نے آپ پر کتنا اعتیماد کیا تھا۔۔۔ کتنا بھروسہ تھا مان تھا آپ پر پوری دنیا ایک طرف میر لیکن آپ۔۔۔ آپ میرے جذبات کے ساتھ نہیں کھیل سکتے۔۔۔۔ لیکن آپ نے کیا کیا۔۔۔؟؟ مجھے توڑ دیا۔۔۔۔“ اسکے آنسوؤں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔


” میر۔۔۔ “ نور جو واشروم سے وضو کر کے نکلی تھی ثانی کی آواز سن دوڑتی ہوئی آئی۔۔۔۔


” ثانی کیا ہوا۔۔۔۔؟؟ میر کیا ہوا اسے تم نے رلایا۔۔۔۔؟؟؟ “ ثانی نور کے گلے لگ گئی ممتا بھرا لمس پاکر لمحوں میں وہ خاموش ہوگئی۔۔۔۔


” مما آپ اسے سنبھالیں میں آتا ہوں۔۔۔۔“ وہ اپنا فون سائیڈ سے لیتا لمبے لمبے ڈگھ بھرتا روم سے نکلتا چلا گیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


عنایا سے بات کرنے پر میر کو پتا چلا وہ اس دن والا سچ جان گئی ہے۔۔۔ عنایا نے اس سے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔۔۔۔ اُس دن کی ایک ایک بات وہ اسے بتاتی چلی گئی۔۔۔۔ یہ ثانیہ کی احساسِ محرومی تھی جس نے اس واقع کا غلط رخ کیا۔۔۔۔ وہ آج تک دھوکہ ہی تو کھاتی آئی ہے۔۔۔۔ اپنے سگے رشتے داروں سے اپنی ماں سے کیسے کر وہ یہ بات جان کر میر کا اعتبار کرتی۔۔۔۔؟؟ وقت تیزی سے گزر رہا تھا حیا کو گئے ایک ہفتہ تین دن گزر چکے تھے۔۔۔۔ ازلان فیضان کا وہی آفس سے گھر کا معمول تھا۔۔۔۔ عنایا ایک دو بار نور سے ملنی آئی۔۔۔۔ اسکے بات اسکی ہمت نا ہوئی۔۔۔۔ حلانکے نور اس سے محبت سے ملتی لیکن وہ خود کو ہی انکی حالت کی زمیدار ٹہراتی۔۔۔۔۔ حمزہ عمر واپس یونیورسٹی جانے لگے تھے۔۔۔۔ میر بھی اب روز ازلان کے ساتھ آفس جاتا۔۔۔ ثانی سے روز اسکی ملاقات نور کے کمرے میں ہوتی صبح وہ ناشتہ تیار کر کے ایسے غائب ہوجاتی۔۔۔۔ جیسے کوئی خونخوار شکاری اسکے پیچھے پڑا ہے۔۔۔۔ وہ آفس سے آتے ہی نور کے کمرے میں آدھمکتا۔۔۔۔ اسے خوب تنگ کرتا۔۔۔۔ وہ اسکی نظرے مسلسل خود پر محسوس کرتے چڑ جاتی۔۔۔ دوسری طرف میر اسکے اس خفا خفا چہرے سے خوب لطف اٹھاتا۔۔۔۔


پرنیا اکثر کچن میں ثانی کا ہاتھ بٹاتی شام کی چائے تو اس نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔۔۔ اس وقت سب ہی نور کے روم میں براجمن تھے۔۔۔ اسما انہیں کوئی واقع سنا رہی تھی۔۔۔۔ جسے سب غور سے سن رہے تھے پرنیا سب کو چائے سرو کر رہی تھی سب کو دیکر وہ بھی وہیں بیڈ پر عمر کے قریب بیٹھ گئی۔۔۔۔۔


” ثانی چینی دینا ذرا “


” میں دوسری بنا لاؤں مجھے پتا نہیں تھا “


” نہیں بس میں کچھ زیادہ میٹھی چائے پیتا ہوں۔۔۔۔“ ثانی سے کہتے اس نے پرنیا کو بھی ساتھ ہی جواب دیا۔۔۔۔ جو دوبارہ چائے کا کہ رہی تھی۔۔۔۔ ثانی نے ٹرے میں رکھی چینی اٹھائی اور بےدلی سے اٹھ کر میر کے پاس آئی۔۔۔۔ جو اکیلا صوفہ پر براجمان تھا۔۔۔۔ بیڈ کی سائیڈ پر ہی صوفہ سیٹ ہے۔۔۔۔ جہاں نور اور ازلان اکثر کھانا کھاتے۔۔۔۔ اس نے جھک کے چائے میں چینی ڈالی میر نے جان بوجھ کر کپ ہاتھ میں ہی پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی لیکن اگر میر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ لیتی تو اسکی شرارت کو سمجھتی۔۔۔۔۔


” اور ڈالوں۔۔۔؟؟ “


” ابھی تک خفا ہو؟؟ “


ثانی نے کوئی جواب نہیں دیا وہ ہٹنے لگی تھی کے میر کی چالاکی کا انداز ہوا وہ اسکا دوپٹا اپنی گرفت میں لیے ہوے تھا۔۔۔۔


” میر چھوڑیں “ اپنی بیواقوفی پر ماتم کرتی وہ سخت الجھن کا شکار تھی۔۔۔۔


” نہیں “ وہ نفی میں سر ہلاتا اسکی حالت سے لطف اٹھا رہا تھا۔۔۔۔


” سب لوگ ہیں یہاں کیا سوچیں گے “


” پہلے کہو آئی لوو یو۔۔۔۔!!! کان ترس گئے ہیں سنے کے لیے “


وہ کسی اور ہی موڈ میں تھا۔۔۔۔ اسکی بات سن کر ثانی کے کان کھڑے ہوگئے منہ پورا کھل گیا۔۔۔ جسے میر نے دوسرے ہاتھ سے مسکراتے ہوے بند کیا۔۔۔۔ آئ لیو یو تو ثانی نے کبھی اظہار کرتے ہوئے نہیں کہا یہ فقرہ تو ہمیشہ میر کی طرف سے آتا۔۔۔۔


” آپ کی خواہش ہی رہے گی۔۔۔۔“ وہ خود کو سنبھال چکی تھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔۔۔


” ٹھیک ہے خواہش ہی رہے اور تم بھی یہیں اسی طرح رہو گی۔۔۔۔“ وہ بےوجہ ضد کر رہا تھا اسکی بات نے ثانی کے چھکے چھڑوا دئے سب ہی یہاں موجودد تھے اسما تک کیا سوچیں گے سب۔۔۔؟؟


” میر پلیز “ اسے نے التجا کی میر کو ترس تو آیا لیکن وہ خود ایک ہفتے سے اسکی بےرخی برداشت کر رہا تھا۔۔۔۔


” سے آئ لوو یو “ اسنے آسان ہل بتا کر جیسے مشکل ہل کردی۔۔۔۔۔


” میں آپ سے بات نہیں کرونگی۔۔۔“ وہ منہ موڑ گئی جسکے بائث میر کی نظر نور پر پڑی جو یہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔ میر تو جیسے اور جوش میں آگیا۔۔۔


” مما یہیں دیکھ رہیں ہیں دیکھ لو مسکرا بھی رہیں ہیں “


” آئ لوو یو۔۔۔۔ “ نور کا سن کر اسنے جھٹ کہا میر نے بامشکل اپنا قہقہہ روکا اور اسے چھوڑ دیا۔۔۔۔


” میر سدھرو گے نہیں۔۔۔“ نور نے مسکراہٹ دباتے کہا سب میر کی طرف متوجہ ہوے وہ خاموش رہا۔۔۔۔ ثانی جاکر نور سے چپک کر بیٹھ گئی۔۔۔۔


” آخر بابا پر جو گیا ہوں۔۔۔“ میر نے مسکراہٹ دباتے کہا اب دونوں ثانی اور نور رُخ موڑے بیٹھیں تھیں۔۔۔


میر نور کا چہرہ دیکھ کر ہنس پڑا۔۔۔ جو ازلان کے نام سنتے ہی گھبرا جاتی جیسے ابھی وہ یہاں آجائے گا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

” اب بتائیے میڈم گھر والوں کی یاد آرہی ہے؟؟ “

شاہ زر نے اسکے چہرے کو چومتی لٹ کو کہنچتے ہوے پوچھا۔

” بہت آرہی ہے “ وہ ہنستے ہوئے شاہ زر کو دھکا دے کر کچن میں چلی آئی جہاں اس نے چاول دم پر رکھے تھے کھانا اسے خاص بنانا آتا نہیں تھا یہ بھی اس نے نیٹ سے دیکھ کر بنایا ہے۔ چاولوں کے ساتھ مرغ سالن۔۔۔ آج پہلی بار اس نے کوکنگ کی تھی چائے تو وہ خاصی اچھی بنا لیتی تھی لیکن کھانوں کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا۔۔۔

وہ آج بےحد خوش ہے کیوں کے شاہ زر کے وعدے کے مطابق کل وہ لوگ گھر لوٹیں گئے آج ہی وہ دونوں تُرکی سے لوٹے تھے ایک ہفتہ پلک چھپکتے گزر گیا۔۔ وہ دونوں مختلف ملکوں میں گھوم آئے تھے۔ زندگی میں کوئی نیا تجربہ ہم پہلی بار کرتے ہیں جیسے اسنے کیا اپنے سب سے بڑے خوف کو آزما کر زپ لائننگ اکثر جب وہ ٹی وی پر لوگوں کو یہ سب کرتے دیکھتی تو خود خوف سے کانپنے لگتی اونچائی دیکھتے ہی اسکے پسینے چھوٹ جاتے شاہ زر نے جب زپ لائننگ کی بات کی اسکے حؤاس کام کرنا بند ہوگئے اسکی التجائیں اسکا رونا کچھ کام نا آیا شاہ زر نے پہلے اسے بھیجا ہر طرح سے جائزہ لیکر کہیں کوئی غلطی نا ہوجائے ان کی ٹیم نے ہک اور بیلٹ اٹیچ کرنے کے بعد اسے اونچائی سے کھلے آسمان میں پھنک دیا زمین پیڑوں سے ہٹتے ہی اسے اپنی ٹانگیں بےجان ہوتی محسوس ہوئیں لمحوں میں اسے اپنے ہاتھ پر گرفت محسوس ہوئی۔۔۔

” ڈارلنگ آنکھیں کھولو اس خوبصورت نظارے کو دیکھو “

حیا نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں وہ درختوں سے کافی اونچائی پر تھی اسے یقین نہیں آرہا ایسے لگ رہا تھا اسکی خوائش پوری ہوگئی واقعی وہ کوئی پری ہے یا اسے پر لگ گئے اکثر وہ جب بچپن میں کبوتروں کو اُڑتے دیکھتی تو اللہ‎ سے دعا مانگتی کے اسے بھی پٙر لگ جائیں۔۔ وہ دونوں اسی طرح نجانے کتنی دیر نظاروں سے لطف ہوتے رہے پھر خود ہی آہستہ آہستہ نیچے زمین کی طرف بڑھے۔۔۔

اس دوران شاہ زر نے جو انکشاف کیا وہ اُس سے کافی دیر خفا رہی۔۔

“ حیا تمہیں پتا ہے بچپن میں تمہاری کٹن کہاں غائب ہوگئی تھی؟؟ “ حیا نے نفی میں سر ہلایا وہ شاہ زر کی جیکٹ پہنے ہوئے تھی شاہ زر نے اسکے گرد بازو حمائل کیے تھے وہ دونوں ندی کی طرف جا رہے تھے۔۔

” مجھے بہت غصّہ آیا تھا جب کٹن کے مرنے پر تم روئیں تھیں اور تمہیں بخار ہوگیا تھا۔۔ مجھ سے تمہارا رونا بلکنا برداشت نہیں ہوا اس لیے میں نے وہ کٹن ایک آنٹی کو دے دی تاکے اس کے مرنے پر تم نا رو۔۔۔ اُس وقت میں خود بچا تھا لیکن مجھ سے تمہارے آنسو برداشت نہیں ہوتے تھے۔۔۔ “ شاہ زر ایک بچی کے ہاتھ میں کٹن دیکھ کر بولا اچانک ہی اس کٹن کو دیکھ کر حیا والی کٹن یاد آگئی۔۔ اسے غصّہ آتا تھا حیا کے ساتھ کٹن کو دیکھ کر کیوں کے جب بھی وہ اُسے بُلاتا وہ اُس کٹن کے پاس چلی جاتی پورے گھر میں اسے گھماتی پھیراتی۔۔۔ اور اسے باھو تک نا دیتی

” ڈونٹ ٹاک ٹو می “ حیا اسے خود سے دور دھکیلتے آگے بڑھ گئی بہت مشکل سے شاہ زر نے اسے منایا۔۔

دن بھر وہ گھومتے کبھی اونچے اونچے پہاڑوں پر، کبھی اورمارا بیچ، کبھی وہ ضد کر کے اسے مال لے جانے کا کہتی جہاں وہ رفتہ رفتہ سب کے لیے کچھ نا کچھ لیتی جس ریسورٹ میں وہ دو دن ٹہرے تھے شاہ زر نے وہاں اسے ہارس رائیڈنگ بھی سکھائی تھی اقوریم، بوسفورس، یلووا استنبول کی ان خوبصورت جگہوں پر وہ شاہ زر کے ساتھ گئی تھی دو دن وہ لوگ دبئی میں رہے باقی دو دن انہوں نے پیرس میں گزارے جہاں وہ لوگ آئیفل ٹاور گئے پیرس کے مشہور میوزیم لوورے میں گئے، پیرس کی خوبصورت ہل مونٹمارٹے جو وال اوف لو کے نام سے مشہور ہے وہاں لوگوں کی بنائی گئیں خوبصورت پینٹنگز دیکھیں جس میں قدرت کے نظروں کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔۔۔ یہ ساری یادیں حیا نے کیمرہ میں قید کی تھیں گھر جاتے ہی سب سے پہلے وہ سب کو اس سفر کے بارے میں بتائے گئی۔۔۔۔

شاہ زر جو فون رکھ کے سر ہاتھوں میں دیے بیٹھا تھا بیل کی آواز پر چونک کے دروازہ کھولا ابھی اسکی نظر آنے والے پر پڑی ہی تھی کے زور دار مُقا اسکے چودہ طبق روشن کر گیا۔۔ وہ کراہ کر نیچے گِڑا میر نے اسے کالر سے پکڑ کے اٹھایا ابھی وہ ایک وار سے نہیں سنبھلا تھا کے میر نے دوسرا مُقا اسکے دوسرے گال پر مارا۔۔ شاہ زر نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کے اسے خود سے دور دھکیلا

” بھائی “ وہ ابھی اسے اور مارنے کے لیے اُٹھا ہی تھا کے حیا کی آواز آئی جو بھاگتی ہوئی اس تک آئی اور آتے ہی میر کے گلے لگ گئی۔۔

” بھائی آئ میسڈ یو “ خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی۔۔۔

” پرنسیسز تم ٹھیک ہو نا “ میر نے بےتابی سے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔

” ہم پریشان ہوگے تھے مما تو۔۔۔ “ میر نے کہتے لب بھینچ لیے۔ حیا کچھ پوچھتی اس سے پہلے اسکی نظر شاہ زر پر گئی بہتا خون دیکھ کر اسکے ٹانگوں میں لرزش طاری ہوگئی۔۔۔

حیا جلدی سے کاٹن لے آئی اور اِس سے شاہ زر کے ہونٹ صاف کیے پھر ایک نظر میر پر ڈال کر کچن میں چلی آئی شاہ زر نے ہی اسے کہا تھا وہ میر سے اکیلے میں ملنا چاہتا۔۔۔

” آپ کے آنے سے کچھ دیر پہلے میں نے آپی کو کال کی تھی کل ہم گھر آرہے تھے تو میں نے سوچا جانے سے پہلے آپی سے پوچھ لوں وہاں کی کیا سٹویشن ہے۔۔۔ “

میر کڑے تیوروں سے اسے گھوڑتے سن رہا تھا

” آئ ایم سوری بھائی ایک عرصے سے میں غلطی پر تھا۔۔ آپ سے بابا سے بے وجہ ناراض ہوتا رہا۔۔ انھیں میں نے تکلیف پہچانے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی۔۔۔ “

وہ نادم سا سر جھکائے اسکے سامنے بیٹھا تھا

” میرا بس چلے تمہاری یہ دو سو چھ ہڈیاں توڑ دوں۔۔ بہت کچھ ہے کہنے کے لیے مگر کیا کروں بہنوئی جو ٹہرے بہن دی ہے تو اب تمہاری کوتاہیاں بھی معاف کرنی پڑینگی “

میر نے اسے نادم سا ہوتے دیکھ کہا ورنہ موڈ تو ابھی بھی اسکا دانت توڑنے کا تھا۔۔۔

” اور چھوٹا بھائی بھی تو ہوں۔۔۔ “ شاہ زر کو تھوڑا حوصلہ ملا اس نے جھٹ سے اسکی بات کاٹ کے یاد دلایا

” لیکن مجھے عزت تو نہ دیتے لائق جو نہیں ہوں۔۔۔ “ میر نے بھی اسی کا کہا جملا یاد دلایا جس پر شرمندہ ہونے کے بجائے وہ مسکرا دیا۔۔۔۔

” بس اب شرمندہ نا کریں۔۔۔ آپ کی بہن وہاں آنسوں نا بہا رہی ہو بُلا لیتے ہیں اُسے بھی۔۔ “ میر اسکی چالاکی خوب سمجھ رہا تھا لیکن وہ اسے بتانا نہیں بھولا تھا اسکی غلطی نے میر کا کتنا بڑا نقصان کیا ہے۔۔

” تمہاری وجہ سے ثانی مجھ سے بات نہیں کر رہی میری حالت کا سوچو۔۔۔ “ وہ اُٹھ کے اسکے سامنے کھڑا کہ رہا تھا ” پانچ سالوں سے میں نے اُسے کہیں جانے نہیں دیا تمہاری وجہ سے دس دن میں اس کے بغیر رہا ہوں۔۔۔۔ ارے میر روم تک میں نہیں آتی مجھے دیکھ کے ایسے غائب ہوتی ہے جیسے شکار شکاری کو دیکھ کر ہوتا ہے “ شاہ زر کو ہنسی روکنا مشکل لگ رہا تھا اس نے خود ہی اُٹھ کر دروازہ کھولا تبھی حیا جو کان لگائے کھڑی سن رہی تھی دھرم سے نیچی گِڑی۔۔۔

” ارے۔۔۔ میر نے قہر آلودہ نظر سے شاہ زر کو نوازتے حیا کو اٹھایا

” تم ٹھیک ہو “ وہ اسکے بازو کا جائزہ لہتا پوچھ رہا تھا

” جی۔۔۔ جی بھائی وہ کھانا تیار ہے آپ لوگ آجائیں “

وہ شاہ زر کی نظروں سے خائف ہوتی جلدی سے بول کر چلی گئی۔۔۔

” ڈرایا ہے میری بہن کو؟؟ “ میر نے اسے گھوڑا

” نہیں بھائی چاھیں تو پوچھ لیں “ وہ جلدی سے بولا کے کیہں پھر نا میر کا ہاتھ اُٹھ جائے۔۔

” ابھی بھی ایک بات سمجھ نہیں آئی رخصتی سے پہلے تم نے خود کہا تھا عنایا نے تمہیں سب بتا دیا وہ کیا تھا؟؟ “

” میں سمجھا تھا۔۔۔ عارف نے آپ کی وجہ سے آپی کو طلاق دی ہے۔۔۔ وہ نیچ عارف میں ملنے گیا تھا اُس سے اُس نے کہا آپی۔۔۔۔ میرا دل چاہ رہا تھا خود کو شوٹ کردوں وہ گھٹیا باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا آپی کے نجانے کِن کِن سے تعلقات۔۔۔ اور وہ آپ کے ساتھ انولو۔۔۔۔ میں جانتا تھا سب جھوٹ ہے بس یہ سوال پوچھنا چاہتا تھا جب آپی کو خود سے پسند کیا تھا تو ایسا سلوک کیوں؟؟ مجھے یہی بتایا گیا تھا آپ سے انکار کے بعد عارف سے اسلیے شادی ہوئی کے اُسکا رشتا آپی کے لیے آیا تھا۔۔۔ وہ انھیں پسند کرتا تھا۔۔ اور بس آپی ناکام شادی کے مختلف بہانے بناتیں اور میں سوچتا شاید ٹھکرانے پر عارف کی انا گنوارہ نا کرسگی۔۔۔۔۔“ شاہ زر نے لب بھینچ لیے میر نے شاید ہی عارف جیسا کوئی گِڑا ہوا انسان دیکھا ہو۔۔۔ کتنا غلط کیا عارف نے اپنی ہی بیوی پر ایسا الزام لگا کر۔۔۔

” پھر آپی نے مجھے اُس نیچ عارف کی اصلیت بتائی۔۔ لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں بتایا کے عارف اُنکی پسند ہے۔۔۔ بس یہی بتایا عارف کے لگائے گے الزام جھوٹے ہیں اُسے بس موقع چاہیے تھا۔۔۔۔وہ بہت ڈری ہوئی تھیں بھائی۔۔۔۔ سب کچھ گنواں دیا انہوں نے۔۔ مجھے اِسی بات کا غصّہ تھا آگر آپ ثانیا بھابی سے شادی نا کرتے تو شاید آج؟؟ میں آپی کی اُجڑی زندگی کا زمیدار بھی آپ کو ٹہراتا رہا میں جانتا تھا وہ خوش نہیں بہت پہلے میں نے انھیں طلاق کا مشورہ دیا تھا تب آپی نے مما سے جھوٹ بلوایا تھا کے عارف نے اُنکے لیے نیا گھر لیا ہے۔۔۔۔ وہ طلاق کے حق میں بلکل نہیں تھیں بس پھر آپ کو دیکھتا تو۔۔۔ “

” بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا؟؟ “ شاہ زر چُپ رہا پھر حیا کے آنے کے بعد میر نون اسٹاپ اُسے سنتا رہا شاہ زر نے کہی بار حیا کو دیکھا جیسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہو لیکن وہ بھائی بہن تو سب سے بےنیاز مزے سے باتوں میں لگے ہوے تھے۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” شاہ زر؟؟ “

” ہم “ حیا کا سر شاہ زر نے اپنے سینے پر رکھا تھا اور نرمی سے اسکے سلکی بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا۔۔۔

” کیا سوچ رہے ہیں؟؟ میں تو اتنی ایکسائیٹڈ ہوں کے آپ کو بتا نہیں سکتی۔۔۔ میں نے تو البم بھی نکال کے رکھی ہے سب کو دیکھائونگی “ اسکی بات سن کر شاہ زر نے خود کو لعنت ملامت کی اُس وقت تو وہ حیا کو بغیر کسی خوف کے لے آیا تھا اب اسے احساس ہو رہا تھا کیا کر بیٹھا ہے وہ میر نے اسے بتایا اسکے جانے کے بعد نور کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔۔۔ کتنے خوار ہوے وہ ہمارے لیے خیر شاہ زر یہی تو چاہتا تھا پر اپنی بیوی کی بےعزتی یہ اس نے کب چاہا تھا؟؟ وہ اُسے دنیا جہاں کی خوشیاں دینے چلا تھا بھلا پیرس میں اسکے چہرے پر یہ خوشی تھی جو اپنوں سے ملنے کی ہے؟؟؟ شاہ زر نے قٙرب سے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔۔ اپنی ہی عزت کی بےعزتی کی؟؟ کتنا روئی تھی وہ۔۔۔ اور وہ بےرحم بن بیٹھا تھا۔۔۔۔ کتنی معصوم ہے وہ جو ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتی لیکن اب وہ کیسے اس غلطی کو سُدھارے ان سب باتوں کا احساس اِسے میر دلاکر گیا تھا اور یہ بھی کہ گیا تھا کل کی پیشی کے لیے تیار رہے یہ سب اِسنے پہلے کیوں نا سوچا؟؟

” دیں نا شاہ زر مجھے اپنی فرنڈ سے بات کرنی ہے پلیز پٙکا گھر کال نہیں کرونگی ویسے بھی کل ہم جا تو رہے ہیں؟؟ “ شاہ زر اسکے جھنجوڑنے پر خیالوں سے باہر آیا اور بےدہانی میں فون پکڑایا۔۔ حیا فون لیکر فوراً بالکنی میں آگئی۔۔

” ہیلو مریم۔۔ “

حیا کی چہکتی آواز سن کر مریم کو یقین نا آیا جیسے کوئی خواب ہو۔۔

” حیا یہ۔۔۔ تم۔۔۔ ہو۔۔ ؟؟ “

” ہاں مریم کیا ہوا مجھے بھول گئیں کیا؟؟ “ حیا کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا مریم کو اسکی آواز سے ہی لگا وہ بہت خوش ہے۔۔

” نہیں۔۔۔ تم کہاں ہو تمہیں پتا ہے یہاں سب کتنے پریشان

ہیں۔۔ “

” ہاں پتا ہے بھائی آئے تھے ٹینشن لینے کی کوئی بات نہیں۔۔ ہم کل واپس جا رہے ہیں مریم پتا ہے میں نے کہا تھا نا ایک دن میں پیرس ضرور جاؤنگی تمہیں پتا ہے اتنا مزہ آیا کے کیا بتاؤں، شاہ زر نے مجھے۔۔۔ “

” حیا تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟؟ یہاں آنٹی ہوسپیٹیلائز تھیں اور تم؟؟ اتنے لوگوں کے سامنے تمہارا شوہر تماشا کر گیا اور تم اُسکی تعریف میں قصیدے پڑھ رہی ہو تم کب بڑی ہوگی حیا پہلے جب منع کر رہی تھی میں تب تمہیں طلاق چاہیے تھا اور اب؟؟ میں یہ نہیں کہتی وہ غلط ہے بٹ کیا تمہاری عزت نہیں؟؟ میرا دل چاہ رہا تھا تمہارے اس شوہر کا گلا دبا دوں اِسے ذرا پروا نہیں بیوی ہو تم اُسکی۔۔۔ تمہارے ماں باپ رشتےداروں کے سامنے تماشا کر گیا کس نے حق دیا اُسے--؟؟؟

” مما۔۔۔ ک۔۔۔کو۔۔ک۔۔۔کیا۔۔۔ ہوا۔۔ “ حیا کے ہاتھ پیڑ کانپنے لگے موبائل اسکے ہاتھوں میں لرز گیا۔۔

” حیا۔۔ حیا ریلیکس آنٹی بلکل ٹھیک ہیں آج ہی میں اُن سے مل کر آئی ہوں۔۔۔وہ بلکل ٹھیک ہیں سن رہی ہو تم؟؟ “ مریم اسکی لڑکھڑاتی آواز سن کر ڈر گئی وہ تو اِسے احساس دلانا چاہتی تھی نور سے وہ آج ہی ملکر آئی تھی۔ اکثر وہ فرنڈز حیا کے گھر جاتیں اور مریم اور حیا کی تو اسکول سے دوستی تھی اور انکے پرنٹس بھی آپس میں دوست تھے۔۔

” مریم۔۔۔ میں۔۔نے۔۔۔تو۔۔۔ یہ۔۔ سب سوچا ہی نہیں۔۔۔ “ نور کا سن کر اسکے حواس کچھ بحال ہوئے۔۔

” حیا تمہیں عقل ہونی چاہیے۔۔۔ دس دن ہوگے تم اپنے پرنٹس سے کنٹیکٹ تو کرتیں؟؟ “ حیا نے آگے کچھ بھی سنے بغیر کال کاٹ دی آنسوں بےدردی سے پوچتے وہ کمرے میں آگئی۔۔

” کیا ہوا حیا؟؟ “ اسکی بھیگی آنکھیں شاہ زر کو خطرے کا الارم دے رہیں تھیں۔۔

” مل گیا آپ کو سکون؟؟ ہو گئی قصر پوری میری مما کو ہسپتال بھجوا دیا۔۔۔ میرے بھائیوں کو گلی گلی کی ٹھوکریں کھلوائیں مل گیا آپ کو انصاف؟؟ ہوگیا بدلہ پورا؟؟ آپ کی بہن کی بےعزتی ہوئی؟؟ میری بھی ہوئی۔۔۔ آپ تڑپے؟؟ میرے بھائی بھی تڑپے۔۔۔اب واپس چھوڑ آئیں مجھے۔۔۔ “

شاہ زر نے دونوں ہاتھ بالوں پر پھیڑتے خود کو پُر سکون کرنا چاہا۔۔

” چھوڑنے کے لیے نکاح نہیں کیا حیا۔۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور اب پچھتا بھی رہا ہوں۔۔۔ ہمت ہی نہیں چچا چچی کے سامنے جانے کی۔۔۔ تمہیں نقصان پہنچانے کا میرا کبھی ارادہ نہیں تھا انفکٹ اپنے اِسی غصّے کی وجہ سے ڈر رہا تھا اس لیے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا تم سے۔۔۔ لیکن حیا تمہارا نام کسی اور کے ساتھ سنتے ہی میری دماغ کی نسیں پھٹنے لگتی ہیں۔۔۔۔ “ وہ اس وقت خود ٹوٹا بھکرا سا تھا کیسے حیا کو سمیٹتا حیا اسے دیکھے بنا بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔۔

شاہ زر بھی آکر اسکے ساتھ ہی لیٹ گیا وہ کروٹ کے بل لیٹی تھی شاہ زر نے اپنا ہاتھ اسکے ایک بازو پر رکھتے کہا

” ناراض ہو؟؟ کیا کہا تمہاری دوست نے ضرور کوئی عقل مند ہوگئی۔۔ “ آخر میں وہ بڑبڑایا لیکن شکر تھا حیا نے نہیں سنا۔۔

” حیا۔۔۔ “ شاہ زر نے ایک اور کوشش کی۔۔۔

” ڈونٹ ٹچ می۔۔ مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔۔۔ ہر دفع جھوٹ بول کر لالچ دیکر مناتے ہیں۔۔ اب نہیں مانوں گی میری اتنی انسلٹ ہوئی سب کیا سوچ رہے ہونگے؟؟ “ وہ اس وقت شیرنی بنی ہوئی تھی

” صرف عورتیں ہی سوچ رہی ہونگی مرد اتنے فارغ نہیں۔۔ “

حیا نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا

” حیا؟؟ “ شاہ زر نے اب کی بار اسکا رُخ اپنی طرف کیا۔۔

” آگر اب آپ نے ایک لفظ بھی بولا تو میں آٹھویں فلور سے چھلانگ لگا لونگی “ حیا نے اپنا بازو چُھڑواتے غصّے سے کہا

” یہاں آٹھ نہیں تین فلور ہیں اور چھلانگ لگانے کا سوچنا بھی مت۔۔ صرف ٹانگ ٹوٹے گی۔۔ “ شاہ زر کی مسکراہٹ نے اسے اور تپا دیا۔۔۔

” اور آپ کو دکھ اس بات کا ہوگا کے خرچا کرنا پڑے گا “

” ہاں یار مرنا ہو تو بندہ سہی سے مرے دوسروں کا نقصان تو نا کرے “ وہ جان بوچ کر اسے باتوں میں الجا رہا تھا

” حیا مذاق کر رہا تھا یار!! “ اسکے آنسوں دیکھ وہ نرم پڑ گیا کیوں بھول جاتا ہے وہ اسکا اِسکڑو ڈھیلا ہے مذاق بھی سیریس سمجھے گی

” آپکا میرا مذاق کا رشتہ نہیں۔۔۔ پلیز یہاں تو سونے دیں۔۔ “ وہ کیا بول گئی تھی اسے خود اندازہ نہیں تھا شاہ زر نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور وہ اسکے گلے لگ روتی چلی گئی۔۔۔

” بس اب رونا بند کرو ورنہ تمہاری سوجی آنکھیں دیکھ کر وہ بلڈوزر پھر میری خبر لے گا۔۔۔ “

” کون بلڈوزر؟؟ “ حیا نے اسکی بات کاٹ کر اسکے سینے سے سر اونچا کر کے پوچھا

” علی علی۔۔۔ ناراض ہوجاے گا نا کل جب وہ تمہاری سوجیں آنکھیں دیکھے گا اب سو جاؤ۔۔۔ تھکی وی ہو نا “ شاہ زر کی بات سن کر وہ واپس اسکے سینے پر سر رکھے سو گئی۔۔ شاہ زر نے سُکھ کا سانس لیا۔۔


☆.............☆.............☆


” یہ دیکھیں تایا ابو یہ ڈرائنگ روم، حال، یہ گارڈن جیسا سکندر انکل نے کہا تھا ویسا ہی بنگلا ڈیزائن کیا ہے اور یہ ایک ایکسٹرا روم کی ایڈیشن بھی کی ہے فور گیسٹ ایز گیسٹ روم “

ازلان اور فیضان لاؤنچ میں ہی بیٹھے تھے میر ڈیزائنز ڈرا کر کے فیضان کو دیکھا رہا تھا جو کے کلائنٹ سکندر صاحب کی کہنے پر اس نے بنائیں تھیں۔۔۔

” بابا “

ازلان جو کہنے کو ٹی وی اون کیے بیٹھا تھا لیکن خیال کہیں اور ہی تھے اس آواز پر چونکا۔۔۔ اگلے ہی لمحے وہ شاہ زر کے ساتھ آتی حیا کو دیکھ کر بےتابی سے اسکی طرف بڑھا۔۔۔

” حیا میری جان۔۔ بابا کو کتنا پریشان۔۔می۔۔۔میں۔۔ میں کتنا گھبڑا گیا تھا تمہیں اندازہ نہیں ایک۔۔ ایک دفع کال تک نہیں کی تم نے بلکل یاد نہیں آئی اپنے بابا کی “ حیا آتے ہی ازلان کے گلے لگ گئی جو اب اس سے شکوہ کر رہا تھا۔۔میر نے اسے سب بتایا تھا لیکن بس وہ حیا کی آواز سنے کے لئے بےچین تھا۔۔۔

” سوری بابا میں نے آپ کو بہت مس کیا۔۔۔ آپ کو کال بھی کرنا چاہتی تھی۔۔ پر “ وہ کہتے کہتے رُک گئی۔ ایک خفا نظر سے شاہ زر کو نوازا۔۔۔

” بابا پر بہت مزہ آیا شاہ زر نے مجھے اتنا گھمایا میں کیا بتاؤں بابا۔۔ اور بابا میں نے زپ لائننگ بھی کی۔۔ یو کانٹ امیجن بابا مجھے کتنا مزہ آیا “ حیا سب باتیں بھول کر اپنا ایڈوینچر بتانے لگی جسے سُنانے کے لیے وہ کب سے بےچین تھی۔۔

حیا کو مسکراتے دیکھ ازلان کا رواں رواں شکر گزار تھا آج برسوں بعد اسے لگا راتوں میں مانگی دعائیں قبول ہوگئیں۔ اللہ‎ نے اسے معاف کر دیا بخش دیا اسے۔۔ اس کی زندگی لوٹ آئی تھی حیا کو دیکھ،، اب بس اسے اپنی زندگی کو یہ خوش خبری سنانی ہے آج وہ ہر ڈر و خوف سے آزاد ہوگیا آج برسوں بعد اِسے پُر سکون نیند آئے گی۔۔۔

” تم کہاں منہ اٹھائے اندر آرہے ہو بلکے کس کی اجازت سے آئے ہو؟؟ “ فیضان کی آواز سن سب گھر کے افراد نیچے آگے سوائے نور کے۔۔۔

” فیضان “ ازلان نے اسے روکنا چاہا آخر شاہ زر اب اسکا داماد تھا جبکے حیا تو فیضان کی پہلی بار تیز آواز سن گھبڑا گئی بلکل ازلان سے چپک گئی۔۔

” ازلان یہ ہمارا معملہ ہے “

” ہاں تو صاحب زادے بدلے کا بھوت اُتر گیا؟؟ یا بےروزگار ہوگے ہو “ میر اب اٹھ کے کھڑا ہو چکا تھا سائیڈ پلر سے ٹیک لگائے یہ منظر انجوائے کر رہا تھا اسکے دل کی مراد پوری ہو رہی تھی کل شاہ زر سے اس نے کہا تھا وہ انکے ساتھ چلے لیکن شاہ زر نے اُسوقت منع کر دیا یہ کہ کر کے وہ پریپیڑ ہوکر فیضان کے سامنے آئے گا۔۔۔۔ چلو اسے کیا اسے تو بس شاہذر کی عزت افزائی کا لُطف اٹھانا تھا۔۔۔

” سچائی پتا چل گئی پاپا ورنہ دم ہے مجھ میں کے خود کما کے کھاؤں اور حیا کو کھیلا سگوں“ شاہ زر کو فیضان کی بےروزگار والی بات سخت بُری لگی

” کہاں لے گئے تھے حیا کو؟؟ شادی کروائی ہے مر نہیں گئے تھے جو تم نے اسے یتیم سمجھ لیا ہے “ وہ اب بھی تیز لہجے میں اس سے مخاطب تھا حمزہ عمر دونوں ازلان اور حیا کے ساتھ کھڑے تھے آج پہلی بار وہ تایا کا یہ روپ دیکھ رہے تھے۔۔ علی میر کے برابر میں کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا

” پاپا میں نے کب کہا ایسا۔۔۔ میں تو بس پرائیویسی چاہتا تھا ظاہر ہے اب شادی کے بعد ہنی مون ہی منانے جاتے ہیں “ شاہ زر نے اس سوال کا جواب یہی سوچا تھا جھٹ سے بولا جب کی اسکی بات سے اعظم شاہ، عمر اور حمزہ مسکرائے

” شرم نہیں آتی تمہیں یہاں اتنا بڑا تماشا کر گئے اور دھڑلے سے بول رہے ہو کے ہنی مون منانے گیا تھا؟؟؟ اب بھی جاؤ منائو اور حیا سے ملنے کی کوشش کی تو کیس کردونگا تم پر “

” فیضان اب بس بھی کرو “

اعظم شاہ نے معملہ ہاتھ سے جاتے دیکھ کہا ثانی جو سیڑیوں پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی سامنے میر کو مسکراتے دیکھ حیرت زدہ رہ گئی میر نے اسے خود کو تکتا پاکر آنکھ ماڑی جس پر وہ سٹپٹا کر نظریں پھیڑ گئی۔۔۔

” نہیں آج تو ان نالائقوں کا فیصلہ ہو کر رہے گا ایک تو سارے گدھے یہیں آگئے ایک کم تھا جو اب یہ محترم۔۔۔“ میر کا ہلق پھار قہقہ انہیں چُپ کرا گیا ” گدھا “ کیسے کہا گیا تھا میر اور ازلان باخوبی واقف تھے ازلان نے اسے گھوڑی سے نوازا جیسے کہ رہا ہو ” شرم نہیں آتی باپ پر ہنستے ہو؟؟؟؟ “۔۔۔ ” اتنا تو چلتا ہے “

میر کا جواب بھی حاضر تھا اسکاقہقہ فیضان کی سنجیدہ شکل دیکھتے ہی بند ہوگیا۔۔۔

” ماموں ان سب نالائقوں کو اب چوبیس گھنٹے آفس بھیجوں گا اب یہ یہاں نظر نہیں آئیں گے کل سے عمر تم بھی مجھے آفس میں نظر آؤ میں ہاشم سے کہونگا سب سیکھا دے گا وہ تمہیں۔۔ اب بہت ہوگیا یہ سب ہمارے باپ بنے چلے ہیں تم سب کو کیا لگتا ہے ہمیں پتا نہیں؟؟ یہ شاہ زر ماموں اسکا دوست جیل میں تھا یہ اسے وہاں چُھڑانے گیا تھا ہمیں بتانا تک ضروری نہیں سمجھا یہ عمر صاحب تین گھنٹے جیل میں گزار کر آئے ہیں دوستوں کے ساتھ رات کو ریسنگ لگا رہے تھے وہ بھی ہائی وے پر۔۔۔ اور میر تم اب تک کوئی بُری خبر آئی تو نہیں نا آئے اس لیے اب تم سب کا انتظام کر کے رکھونگا “

عمر نے تھوک نگلا ازلان اِسے ہی دیکھ رہا تھا آج تو صیح معینوں میں اسے نانی یاد آگئی جب کے شاہ زر بھی بھونچکا رہ گیا۔۔ مدد اسکی فیضان نے ہی کی تھی لیکن جس طرح وہ بتا رہے ہیں شاہ ذر کو یقین ہوگیا وہ پہلے سے واقف ہیں۔۔۔ میر بھی سوچنے لگا راز تو ایسا کوئی تھا نا باقی چوکنا تو اسے رہنا پڑے گا۔۔۔

” اب بس کرو فیضان سبق سیکھا دینا ابھی تو بچارے کو آنے دو۔۔۔ میری بیٹی بھی آگئی اللہ‎ کا شکر ہے “

اعظم شاہ کے کہنے پر وہ چُپ ہوگئے۔ پھر کچھ ہی دیر میں ماحول خوش گوار ہوگیا شاہ زر نے ازلان سے معافی مانگی اور باری باری سب سے ملا جبکے میر حیا کا ہاتھ تھامے اوپر لے آیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


نور جو جاں نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی آنکھوں پر ہاتھوں کا نرم لمس محسوس کر کے اسکی روح تک پُر سکون ہوگئی انہی ہاتھوں کو تو وہ چوما کرتی تھی بیٹی کے نرم چھوٹے ہاتھ جن پر مہندی لگاتی تھی۔۔

” حیا “

” ڈٹیس نوٹ فئیر آپ نے پہچان لیا “ نور نے اسکا ہاتھ آگے کیا تو وہ گھوم کر اسکے پاس آگے آکر بیٹھ گئی۔ نور نے اسے بےپناہ محبت سے خود میں بھینچ لیا اسکے ماتھے گالوں کو والہانہ انداز میں چوما۔۔

” بس مما میں جلیس ہو رہا ہوں مجھے تو کبھی اتنا پیار نہیں کیا۔۔۔۔ ویسے اپنی بیٹی سے تو پوچھیں پوری دنیا گھوم کر آئی ہے اور میرے لیے تو کچھ لائی بھی نہیں۔۔ “

میر بھی آکر ایک گُھٹنا زمین پر رکھ کر بیٹھ گیا نور نے حیا کو چھوڑ کر اسکا بھی ماتھا چوما۔۔۔

” سب کے لیے لائی ہوں بھائی “

” اب کوئی پریشانی ہے؟؟ “ میر نے لہجے میں محبت ساموں نور سے پوچھا

” نہیں “ نور نے نفی میں سر ہلایا تو وہ مسکرا دیا اب حیا دونوں کے کان کھا رہی تھی وہاں کا ایک ایک واقع سنا رہی تھی جسے دونوں خاموشی سے سنتے۔۔۔


☆.............☆.............☆


” بہت ہنسی آرہی تمہیں اب کرنا چوبیس گھنٹے کام “

ازلان کیسے اپنا مذاق بھول سکتا تھا دونوں ابھی اعظم شاہ سمیت سب کو رخصت کر آئے تھے

” تایا ابو مذاق نہیں کر رہے تھے؟؟؟ “ میر کو صدمہ آن پہنچا

” تمہارا اور فیضان کا کون سا مذاق کا رشتہ ہے؟؟ “ ویسے سوچنے والی بات ہے۔۔ میر سر ہلا کے رہ گیا

” اچھا بابا اب آپ اپنے روم میں شفٹ ہوں نا۔۔۔“ ازلان نے نفی میں سر ہلایا اسکا بھی تنگ کرنا جائز تھا۔۔۔۔

” شام میں سب چلے گئے تھے بابا اتنے رومز خالی ہیں۔۔۔ اور سوچیں میری بیوی آپ کی بیوی پر قبضہ جما کر بیٹھی ہے میں کہ رہا ہوں آگر ایسا چلتا رہا تو کل آپ کی وارڈ روب میں میری بیوی کا سامان ہوگا اور آپ ہونگے میرے کمرے میں “

ازلان اسکی جزباتی کیفیت سے مزہ لے رہا تھا تبھی میر کی سکرین پر نور کالینگ جگمگایا

” تیسری دفع کال کر رہی ہیں “

میر نے موبائل آگے کر کے ازلان کو دکھایا جس نے کال پِک کر کے لائوڈسپیکر پر لگائی اور اسے بات کرنے کا اشارہ دیا

” ہیلو میر۔۔۔ “

ازلان نے کافی دنوں بعد آج اسکی آواز سنی تھی۔ اُسے تو خبر بھی نہیں کتنا بےچین و بےقرار رہا ہے وہ اس آواز کو سنے کے لیے۔۔

” جی مما “

” تم نے ازلان سے بات کی؟؟ “

” ہاں مما انہوں نے منع کردیا آج وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہے ہیں۔۔۔ کل صبح لوٹیں گے “ ازلان نے ابرو اچکا کے اسے دیکھا۔۔ میر نے ازلان کا شانا تھپکا جیسے تسلی دے رہا ہو

” لیکن میر۔۔۔۔ کیا وہ مجھ سے ناراض ہیں؟؟؟ تم انہیں کہو نا میں پریشان ہوں وہ فوراً آجائیں گئے۔۔ “

ازلان نے مسکراتے ہوے فتح مند نظروں سے میر کو چڑایا جو ہر وقت اسے یکطرفہ محبت کا تعنہ دیتا تھا

” مما آپ خود ہی کہ دیں بابا سن رہے ہیں “

میر نے شرارتً کہا دوسری طرف نور کے ہاتھوں سے موبائل گڑتے بچا

” میر۔۔۔ “

” بہت بُرے ہو تم “ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہنسنے۔۔ نور نے ہنسی کی آواز سنتے ہی کال کاٹ دی۔۔

” دیکھا کچھ دنوں کی دُوری بھی برداشت نہیں کر پائی “

” کیا خوش ہو رہے ہیں آپ بھی تو مجنوں بنے پھڑتے ہیں “

” مذاق تھا “ ازلان کی کٹھیلی نظریں دیکھتے ہی میر فوراً سے بولا۔۔۔۔

” جب معملا سیٹ ہو مجھے بلانا تب تک میں ایک راؤنڈ لگا کر آتا ہوں “ میر سر ہلاتے گھر کے اندر چلا آیا۔۔

” مما میرا نام مت لینا بس ثانی کو بولیں کے میر نے روم میں کار کی چابی رکھی وہ عمر کے ہاتھ بھجوا دے۔۔۔۔“ نور نے اسکی بات سن کر فون رکھ دیا اور ثانی سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔


” ثانیہ تمہارے روم میں کار کی چابی ہے وہ عمر کو دے دو نیچے ہی کھڑا ہے وہ۔۔۔“


ثانی اثبات میں سر ہلاتی روم میں آگئی۔۔۔ اسنے ہینڈل پر ہاتھ رکھا نجانے میر کمرے میں ہونگے یا نہیں سوچتے ہوئے وہ خاموشی سے اندر چلی آئی۔۔۔۔ روم میں مکمل اندھیرا تھا ابھی وہ لائٹ جلانے کا سوچ ہی رہی تھی کے کمرہ روشنی میں نہا گیا۔۔۔۔ اور روم کا دروازہ بند ہوگیا جس کے بند ہونے کی آواز اِسے باخوبی سنائی دی۔۔۔ ثانی پیچھے مڑی تو میر نظر آیا جو مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔ وہ اسے نظرانداز کرتی چابیاں ڈھونڈنے لگی۔۔۔۔


” نہیں ملےگی۔۔۔“


وہ سوالیہ نظروں سے میر کو دیکھنے لگی۔۔۔ جیسے پوچھ رہی ہو آپ کو کیسے پتا۔۔۔؟؟


” چابی میری جیب میں ہے “ میر نے اسکا ہاتھ تھاما جسے وہ چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی ساتھ ” چھوڑیں میر “ کی رٹ بھی جاری تھی۔۔۔۔


” ایک سیکنڈ پہلے میری بات سن لو۔۔۔ میں تمہارا ہاتھ بھی چھوڑ دونگا۔۔۔ یہاں سے جانے بھی دونگا بس میرے کچھ سوالوں کا جواب دو اور یاد رہے صرف ہاں یا نا میں اوکے۔۔۔۔؟؟ “ میر نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔ اسے اوپر بیڈ پر بیٹھا کے خود چیئر کھسکا کے اسکے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔


” میں نے تمہیں شادی کے لیے فورس کیا تھا۔۔۔؟؟ “


ثانی نے چہرے کا رُخ بدلا میر نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ سامنے کیا۔۔۔۔


” نہیں “


جواب دیتے وہ خود شرمندہ ہو رہی تھی اتنا سب کہ دیا تھا اس نے میر سے۔۔۔۔؟؟ شادی کے لیے تو میر نے اسے کبھی فورس نہیں کیا تھا۔۔۔۔ لیکن اب بھی اسکی غلط فہمی دور نہیں ہوئی۔۔۔۔


” تم سے جب رضامندی مانگی تھی تب کسی دباؤ میں آکر اقرار کیا تھا۔۔۔۔؟؟ “


” نہیں “


وہ دوپٹے کا کونا ہاتھ میں لیے پریشانی سے جواب دے رہی تھی میر اسکی حرکت باخوبی نوٹ کر رہا تھا۔۔۔۔


” میں نے تم سے کہا تھا عارف عنایا کا کلاس فیلو ہے وہ اسے پسند کرتی ہے شادی سے خوش ہے کیا جھوٹ کہا تھا “


ثانی نے دانتوں سے ہونٹ کا کنارہ اتنی زور سے دبایا کے اسکے ہونٹوں سے خون رسنے لگا۔۔۔۔


” میں نے تمہیں اجازت نہیں دی کے تم میرا نقصان کرو۔۔۔!!!!! ہاں یا نہیں۔۔۔؟؟“ وہ اسکی ہونٹ کی حرکت دیکھ خفگی سے بولا اور انگوٹھے کی مدد سے ہونٹ کا کنارہ آزاد کیا۔۔۔۔


” نہیں “


اسکے آنسوں آبشار کی طرح بہہ نکلے۔۔۔۔ اپنے ہی کہے لفظ اسے شرمندہ کر رہے تھے۔۔۔۔


” ثانی تم پہلی ہی نظر میں مجھے مختلف لگیں عوروں سے بلکل الگ۔۔۔ میں نے ہمارے گھر میں کسی کو نقاب لیتے نہیں دیکھا۔۔۔۔ پہلی دفع جب تمہیں دیکھا تم نقاب میں تھیں۔۔۔۔ نقاب کے ہالے میں چھپی تمہاری خوبصورت آنکھیں دیکھ مجھے تمہیں دیکھنے کی خواہش جاگی۔۔۔ ہسپتال میں بھی نجانے کیوں تمہارا رونا برداشت نہیں ہوا۔۔۔ اپنی کیفیت سے میں خود انجان تھا۔۔۔ تم مجھے بہت معصوم لگی۔۔۔ میں تمہیں دنیا کی بھیڑ میں چھوڑنا یا یہ کہو کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ بس دل کی خواہش پر اُس وقت تم سے نکاح کا پوچھا۔۔۔۔ لیکن تمہاری آنکھوں میں تحفظ کے نام پر جو چمک تھی وہ مجھ سے پوشیدہ نا رہ سکی۔۔۔۔ تب تمہارے ایک اقرار نے مجھے ہمت دی۔۔۔۔ ورنہ جس شخص نے فیلڈ بھی اپنے بابا سے پوچھ کے لی۔۔۔۔ اُس میں بھلا کہاں ہمت ہوتی کے بغیر بتائے نکاح کرے۔۔۔۔ اور جانتی ہو اُس وقت تو عنایا کا خیال بھی میری ذہن میں نہیں تھا۔۔۔۔ ہاں عنایا میری پسند تھی۔۔۔۔ ہے نہیں۔۔۔ پر حیرانگی کی بات پتا ہے کیا ہے جب جب تم میرے پاس ہوتی۔۔۔۔ ایک لمحے کے لیے بھی مجھے عنایا کا خیال نہیں آتا۔۔۔۔ نا ہسپتال میں آیا۔۔۔۔ نا تمہارے ساتھ۔۔۔۔ اُس وقت حلانکے عنایا نے مجھے بہت ہرٹ کیا تھا۔۔۔۔ اس کی باتیں بار بار میرے دماغ میں گونج رہیں تھیں۔۔۔۔۔“ نرمی سے ہاتھ کی پشت سے وہ اسکے آنسوں صاف کرتا اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا۔۔۔۔


” مجھے تم سے محبت کب ہوئی نہیں جانتا۔۔۔۔ بس اتنا جانتا تھا تم میری پاس تھی میری روم میں۔۔۔۔ شاید دل کے قریب۔۔۔۔ جب کوئی فائل چیک کرتا یا لیپ ٹاپ یوز کرتا۔۔۔۔ تمہیں روم میں یہاں سے وہاں۔۔۔۔ کبھی صفائی کرتے۔۔۔۔ سیٹنگ چینج کرتے۔۔۔ کپڑے پریس کرتے وقت دیکھتا رہتا۔۔۔ اوالین دنوں میں میری نظر بھٹک بھٹک کے تم پر ہی آکر رکتی۔۔۔۔ تم جب تک کام نپٹا کے روم میں نا آؤ مجھے نیند نہیں آتی تھی۔۔۔۔ ایک عادت سے ہوگئی تھی۔۔۔۔ تم نظر نا آؤ تو سب ادھورا سا لگتا ہے۔۔۔۔ ایک بےچینی سی رگ رگ میں سراعیت کر جاتی ہے۔۔۔۔ نامحسوس طریقے سے تم نے مجھے اپنا عادی بنا دیا۔۔۔۔ ہر چیز مجھے وقت پر مل جاتی۔۔۔۔ میرے شوز۔۔۔ ٹائے۔۔۔ کپڑے۔۔۔ کبھی کبھی مجھے فیل ہوتا جیسے میں کوئی چھوٹا بچا ہوں۔۔۔ تم ہر وقت میرے آگے پیچھے بھاگتیں۔۔۔۔


ابھی ایک آواز نہیں دیتا کے فوراً روم میں پہنچ جاتی ہو بس ایک بات مجھے بُری لگتی تھی تمہارا وہ خوف۔۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی ڈر کے کہیں بھاگ جاتی۔۔۔ خود بلاؤں تب جاکر آتیں اور پہل تو تم نے کی ہی نہیں تھی نا ثانی۔۔۔؟؟ پہل میں نے کی تھی آگر تم میری حوصلہ افزائی کر رہیں تھیں تو مما کے کہنے پر۔۔۔۔ جانتا ہوں میں یہ۔۔۔۔ مجھے بھی اکثر وہی سمجھاتیں تھیں کے زندگی میں آگے بڑھو۔۔۔۔ میں تمہاری جھجک دیکھ خود ہی تم سے بات کرتا۔۔۔۔ تمہارا بولنا مجھے اچھا لگتا تھا میں چاہتا تھا تم خود مجھے اپنے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔


جانتی ہو ثانی مجھے چہرے پڑھنے کا ہنر نہیں آتا لیکن تمہارا اداس چہرہ دیکھ میرا پورا دن خراب گزرتا۔۔۔۔ تم اکثر شادیوں سے آنے کے بعد اداس رہتیں صرف اس لیے کے ہمیں اولاد نہیں ہو رہی۔۔۔۔؟؟ تمہارا اداس چہرہ دیکھ کر میں پورا دن پریشان رہتا۔۔۔۔ اب حالت دیکھ لو تمہاری اس ناراضگی کی وجہ سے بابا نے مجھے دو ڈیلوں سے دور رکھا ہے۔۔۔۔ سمجھو اُچھال پھینکاکیوں کے میں اینڈ ٹائم پر فائل ہی غلط لے گیا۔۔۔۔۔“ ثانی کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔۔


” یعنی اب ناراض نہیں ہو نا۔۔۔؟؟ “ اسے ہنستا دیکھ وہ بھی مسکرایا۔۔۔۔


” میں نے اُسی دن پہلی بار نقاب کیا تھا میں نقاب نہیں کرتی۔۔۔۔ بس ان لوگوں سے بچنے کے لیے نانی نے خرید کر دیا تھا۔۔


”اور سوری میر میں جذباتی ہوگئی تھی۔۔۔۔ ایک ہی رشتہ تھا میرے پاس میں۔۔۔ میں سب کچھ بانٹ سکتی ہوں۔۔۔۔ ہر چیز میں کمپرومائز کر سکتی ہوں لیکن یہاں نہیں۔۔۔۔“ میر کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا وہ جھکا تھا اور اسکے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔۔۔۔


” میں بھی ثانی۔۔۔۔“


اس لمس سے یکدیم ثانی کا دل زور سے دھڑکا جیسے کرنٹ چھو کر گزرا ہو۔۔۔۔


” اب پلیز مما کے روم کی جان چھوڑ دو اب تو یہ دیواریں میرا چہرہ دیکھ کے اُکتا گئیں ہیں باربار پوچھنے لگتی ہیں کے کہاں گئی وہ حسین پری۔۔۔۔“


ثانی کی ہنسی میں میر کی مسکراہٹ بھی شامل تھی۔۔۔۔۔


” آئی لوؤ یو ثانی انکنڈیشنالی۔۔۔۔“میر نے محبت سے چور لہجے میں کہی کر اسکی بےداغ پیشانی چومی۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” یہ وہ لوگ پیتے ہیں جنہیں زندگی سے محبت نہیں ہوتی۔۔۔۔“


نور نے ازلان کے ہاتھ سے سگریٹ لیکر اچھالا جو دور ہوا سے لہرا کر وہیں چھت پر گڑ گیا۔۔۔۔ ازلان نے سامنے کھڑی نور کو دیکھا جو سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ ہاف بال کچر میں مقید تھے کچھ آوارہ لٹیں تیز ہوا کی وجہ سے چہرے کو چوم رہیں تھیں۔۔۔۔


” تمہیں کس نے کہا مجھے زندگی کی خواہش ہے۔۔۔۔؟؟ “ وہ رخ موڑ گیا۔۔۔


” آپ خفا ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟ “ ازلان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ گویا ہوئی۔۔۔۔


” حق ہے مجھے۔۔۔۔؟؟ “


” ازلان ایسے بات کیوں کر رہے ہیں مجھ سے۔۔۔؟؟ “


ازلان نے اسکی قمر کے گرد بازو حمائل کر کے اسے خود سے قریب کیا وہ بلکل اسکے سینے سے چپک گئی۔۔۔۔


” دس دن بعد میری یاد آگئی۔۔۔۔؟؟؟ اتنے سالوں سے تمہاری بےعتنائی برداشت کر رہا ہوں تم دو پل میری ناراضگی نا سہ سکیں۔۔۔۔؟؟ میں تمہیں پکارتا رہا تم نہیں اٹھیں۔۔۔ پھر تمہاری نفرت سے ڈر کے تمہارے سامنے آنے سے کتراتا رہا۔۔۔۔ میں پکارتا رہا۔۔۔ منتیں کرتا رہا۔۔۔ تم نہیں اٹھیں جانتی ہو دل پھٹ رہا تھا میرا۔۔۔۔ مجھے لگا کسی بھی وقت موت آکر مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیگی۔۔۔ میر تمہارے سامنے ایک دفع کیا رویا تم اٹھ گئیں میری ویلیو ہی نہیں۔۔۔۔“ نور جو افسردہ تھی ازلان کی پوری بات سنے پر مشکل سے اپنی ہنسی روکی۔۔۔۔ اپنا دایاں ہاتھ ازلان کے دل پر رکھ کے گویا ہوئی۔۔۔۔۔


” یعنی میرے زندہ بچنے کی خوشی نہ۔۔۔۔ “ گرفت تیز ہوتی محسوس کر کے وہ چُپ ہوگئی ساتھ ازلان کی خوفناک نظریں بھی اس پر گریں تھیں۔۔۔


” میں بہت ڈر گئی تھی ازلان۔۔۔۔ میں واقعی مر جاتی آگر حیا “ اسک لہجہ بھیگا ہوا تھا۔۔۔۔


” شٹ اپ۔۔۔!!!! ایک بار کہی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔۔؟؟ “


وہ کانپ ہی تو گیا تھا کتنا آسان تھا اسکے لیے مرنا وہ کیا کرتا بھلا اسکے بغیر۔۔۔۔؟؟


” آتی ہے۔۔۔۔۔“ وہ بھی خفا خفا سے بولی۔۔۔۔


” ازلان میر اور میرا رشتہ بہت گہرا ہے۔۔۔۔ وہ اس وقت میرے ساتھ تھا جب میرے اپنوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔۔۔۔ کوئی طاقت ہے جو ہر بار اسے میرے پاس بھیجتی ہے۔۔۔۔ وہ نعمت ہے جسے اللہ‎ نے مجھے نوازا ہے۔۔۔۔ میرے لیے وہ بہت خاص ہے پتا ہے کیوں۔۔۔۔؟؟ کیوں کے وہ آپ کے وجود کا حصّہ ہے۔۔۔۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔؟؟؟ “ وہ اسکی نظروں سے ہمیشہ خود میں سمٹنے لگتی۔۔۔۔ آج بھی وہی چاہت وہی محبت تھی ان آنکھوں میں۔۔۔۔۔


” نور۔۔۔۔!!! ماہا کو اولاد نہیں چاہئے تھی آج جانا اللہ‎ نے اُسے تمہارے لیے بھیجا تھا اور عمر۔۔۔۔ وہ اسکی چیز تھی اُس نے وآپس لیلی بےشک وہ وہاں بہت خوش ہوگا۔۔۔۔ “


ازلان افسردہ ہوگیا۔۔۔ نور نے اسکے سینے پر سر رکھ دیا۔۔۔۔ گرفت اور سخت ہوگئی جیسے وہ اسے بھی کھونے سے ڈرتا ہے۔۔۔۔


” جانتی ہو سگریٹ کیوں پیتا ہوں۔۔۔۔“


وہ دوسرے ہاتھ سے اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔۔۔۔ نور نے سر اٹھا کے گردن نفی میں ہلائی۔۔۔۔


” جب تم روٹھ جاتی ہو “


وہ مسکرایا بےبس مسکراہٹ۔۔۔


” اب نہیں روٹھوں گی۔۔۔“


وہ اسے یقین دلا رہی تھی ہاتھ ابھی بھی اسکے دل پر رکھا تھا۔۔۔۔۔


” روٹھنے دونگا بھی نہیں۔۔۔۔“


وہ اسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکراتا ہوا بولا۔۔۔۔


” تم خوبصورت نہیں ہوتی جا رہیں۔۔۔۔؟؟ “


” بس آپ کو لگتی ہوں۔۔۔۔ ویسے ہوں بھی۔۔۔۔!!!“


وہ مغرورانہ اندازہ میں کہتی خود مسکرائی ازلان کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔۔۔۔۔


” بٹ آپ کے دو سفید بال واپس آگئے۔۔۔۔“ نور نے ہنستے ہوے اسکے بال بگاڑے۔۔۔۔۔


” پھر کلر کرنا پڑےگا اُف۔۔۔۔“ سیاہ آسمان کو دیکھ اس نے دل سے دعا کی تھی۔۔۔ وہ اسی طرح اسکے ساتھ ہنستی مسکراتی رہے۔۔۔۔۔


” بہت صبر کیا میں نے بہت انتظار کیا تمہارا۔۔۔۔ اب میری باری تم وعدہ کرو میری بات مانوں گی۔۔۔؟ کچھ دنوں بعد بتا دونگا اب بس عنایا کی فکر ہے۔۔۔“


” کونسی بات اور عنایا کو کیا ہوا۔۔۔۔؟“ وہ بھی حقیقتاً پریشان ہوگئی۔۔۔۔


” کچھ نہیں اسکے لیے رشتہ آیا ہے اسے ڈن کرنا ہے۔۔۔۔ باقی رہا وعدہ وہ تمہیں کرنا ہے۔۔۔۔ ابھی اِسی وقت۔۔۔۔“


ازلان نے اپنے بازو ہٹا کر اسکی قمر کو آزاد کیا۔۔۔ اسکی آنکھوں میں خوبصورت چمک تھی جسے نور سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔ آج کا دن بہت خوش گوار تھا ازلان نے ہاتھ آگے کیا جسے نور نے فوراً تھام لیا کے کہیں پھر ناراض نا ہوجائے۔۔۔۔ ہاتھ رکھتے ہی ازلان نے ہاتھ کی گرفت مضبوط کرلی۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے اسکے بالوں کو کچر سے آزاد کرتا اسے لیے نیچے آگیا۔۔۔۔۔


آج سے وہ دونوں ہر ڈر و خوف سے آزاد ہوگئے۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” اسلام علیکم۔۔۔۔“


شاہ زر نے نظریں جھکائے ادب سے سلام کیا۔۔۔ نور اس وقت کچن سے اپنے کمرے میں جا رہی تھی تبھی شاہ زر لاؤنچ میں داخل ہوا۔۔۔۔۔


” وعلیکم السلام شاہ زر آؤ بیٹھو۔۔۔۔!!! “


نور نے مسکراتے ہوۓ اسے بیٹھنے کا کہا شاہ زر بہت مشکل سے یہاں تک آیا تھا۔۔۔۔ نور سے نظریں ملانے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔۔۔۔


” چچی میں لمبی چوڑی تمہید نہیں باندھوں گا۔۔۔۔ انجانے میں مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی۔۔۔۔ جو اگر کچھ الٹا سیدھا ہوجاتا تو زندگی بھر کا پچھتاوا میرے پیچھے چھوڑ جاتا۔۔۔۔ میں وقت پڑ سنبھل گیا اور اپنی غلطی پر پشیمان بھی ہوں۔۔۔۔ میں نے یہ خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ان سب کا آپ پر کیا اثر ہوگا۔۔۔۔۔“


” میں تمہیں ایک شرط پر معاف کرونگی اگر منظور ہے تو کہو پھر ڈیلنگ ہو سکتی ہے۔۔۔۔؟؟ بولو منظور ہے۔۔۔؟؟ “ شاہ زر کے خاموش ہونے کے بعد نور نے کہا۔۔۔۔


” حیا کو چھوڑنے کے علاوہ سب کر سکتا ہوں۔۔۔۔“ وہ تو کچھ اور ہی سوچ بیٹا تھا کیوں کے نور بےحد سنجیدہ تھی۔۔۔۔


” اللہ‎ نا کرے ایک تو تمہاری خود سے بنانے کی عادت نے تمہیں پھنسا دیا۔۔۔۔ شاہ زر پہلے دوسروں کی بات غور سے سنا کرو پھر تمہیں حق ہے بھلے اچھی بُری کوئی بھی رائے دو۔۔۔۔“


” جی چچی بولیں آپ بہت اچھا بولتیں ہیں۔۔۔۔۔“ شاہ زر نے سکون بھرا سانس خارج کرتے کہا۔۔۔۔


”ماں سمجھدار اور بیٹی عقل سے پیدل مجھ سے زیادہ تو حیا جذباتی ہے۔۔۔۔۔!!!


” بہت بدتمیز ہو۔۔۔۔!!!“ نور کو لگا وہ مذاق اڑا رہا ہے۔۔۔۔


” چچی سچ کہہ رہا ہوں چلیں اپنی شرط بتائیں۔۔۔“ وہ صوفہ پے پر سکون سے بیٹھ چکا تھا نور بھی اسکے سامنے آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔


” شاہ زر حیا نادان ہے ابھی گھر داری کا تجربہ نہیں اسکی چھوٹی موٹی غلطیاں بھلے معاف نا کرنا لیکن زیادہ غصّہ مت کرنا۔۔۔۔۔“


” بس اتنی سی بات چچی۔۔۔۔ گھر میں پہلے ہی اسکے سارے سپورٹیو موجود ہیں۔۔۔۔ ایسے میں اگر اسے ڈانٹوں بھی تو پاپا مجھے گھر سے نکال دیں گے اور ایک وجہ تو ویسے ہی انکے پاس ہے۔۔۔۔“


نور کی پوری بات سنے کے بعد شاہ زر نے کہا نور بس اسکی بات سن کر مسکرائی اور دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔۔۔۔


” لیکن یہ وعدہ رہا میرا میں پوری کوشش کرونگا غصّہ کم کروں۔۔۔۔ اور آپ کی پاگل بیٹی کو سنبھال سکوں۔۔۔۔“


خوشی نور کے چہرے سے جھلک رہی تھی وہ اٹھ کے شاہ زر کے لیے جوس بنانے چلی گئی۔۔۔۔ شاہ زر اب ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔۔۔۔ حیا کو منا منا کر وہ تنگ آچکا تھا۔۔۔۔ وہ تو یہاں آتے ہی اسے بھول چکی تھی غلطی سے ملتی بھی تو منہ ٹیڑھا کر کے سائیڈ سے گزر جاتی۔۔۔۔۔ شاہ زر کو اسکی بچکانہ حرکتیں دیکھ ہنسی تو بہت آتی لیکن مشکل سے ضبط کرتا کے کہیں اور زیادہ نا ناراض ہوجائے۔۔۔


☆.............☆.............☆


عمر یونی سے آتے ہی آفس چلا جاتا آج کل فیضان کا غصّہ عروج پر تھا۔۔۔۔۔ شاہ زر نے بھی ان سے معافی مانگنے کے بعد ان ہی کا بسنز جوائن کر لیا۔۔۔۔ فیضان سے ناراضگی اس لیے تھی کے وہ ان سے بدگمان تھا۔۔۔۔ اب بدگمانی کے بدل چھٹے تو اسے احساس ہوا اتنا تنگ کرنے کے بعد اِنکی ناراضگی بھی بجا تھی۔۔۔۔ صرف ایک حمزہ تھا جو آج کل بچا ہوا تھا۔۔۔۔ ورنہ وہ تینوں تو آج کل گھن چکر بنے ہوئے تھے۔۔۔۔ بھلے عمر کی فیلڈ الگ تھی لیکن کام اسے وہی دیا گیا تھا۔۔۔۔ وہاں اکاؤنٹس سیکشن میں فیضان نے اِسے کام پر لگا دیا تھا۔۔۔۔۔


” شاہ زر یہ لو فائل گیارہ بجے سے پہلے ٹائپ کر کے میل کردینا میں چلتا ہوں۔۔۔ “


میر نے اسکے کیبن میں آکر فائل تھماتے اسے کہا۔۔۔۔


” لیکن یہ آپ کا کام ہے میرے پاس الریڈی بہت کام ہے سو سوری۔۔۔۔“


شاہ زر صبح سے کام کر کے اد موا ہوچکا تھا۔۔۔۔ فیضان ہر تین گھنٹے بعد کوئی نا کوئی فائل اسکے کیبن میں بھیجتا۔۔۔ اس نے صبح ناشتے کے بعد کوئی چیز ہلک سے نہیں اُتاری۔۔۔۔


” یہ تمہیں ہی کرنا ہے شاہ زر۔۔۔۔!!! ایکچولی آج میرا موڈ باہر ڈنر کرنے کو ہے۔۔۔۔ میں نے تایا ابو سے کہا انہوں نے خوش دلی سے کہا جو کام ہے شاہ زر کو دیکر روانہ ہونا۔۔۔۔ ورنہ وہ فارغ دماغ کے ساتھ کوئی نئی منصوبہ بندی کرےگا۔۔۔۔“


میر نے مسکراہٹ دباتے کہا شاہ زر کو تپا کر جو اسے سکون ملا تھا۔۔۔۔ لفظوں میں بیان کرنا مشکل تھا آخر پورا ایک ہفتہ ثانی اس سے دور رہی تھی۔۔۔۔ کیسے وہ آسانی سے بھلا سکتا ہے۔۔۔؟؟ جبکے شاہ زر نے بمشکل اسکا طنز ہضم کیا تھا۔۔۔۔


” مجھے بھی تایا ابو نے یہی کہا۔۔۔ شاہ زر بھائی یہ میرا بھی کام۔۔۔۔“ عمر نے کیبن میں داخل ہوتے ہی میر کی بات سنی اور جھٹ کہتے ساتھ فائل شاہ زر کی ڈیسک پر رکھی۔۔۔۔


” کام سارا میں نے کردیا ہے بس دوبارہ چیک نہیں کیا جا رہا سستی ہو رہی ہے صبح یونیورسٹی بھی گیا تھا نا۔۔۔۔“


شاہ زر کی خون خوار نظروں کو نظر انداز کرتا وہ دانتوں کی نمائش کے بعد کیبن سے چلا گیا۔۔۔۔۔


” میں ثانی کو کال کروں تیار بھی تو ہونا ہے یو کنٹینیو۔۔۔۔!!!! “


میر جان لیوا مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر کیبن سے نکل گیا۔۔۔۔۔


شاہ زر کا بس چلتا دونوں بھائیوں کو غائب کر دیتا اب غلطی ہوگئی تو روز روز یاد دلانا ضروری ہے۔۔۔؟؟ یہ نہیں دیکھ رہے غلطی مان لی ہے۔۔۔۔؟؟ اور دوسری بلڈوزر کی بہن ہاتھ ہی نہیں آتی۔۔۔۔


شاہ زر تھکا ہارا رات کے بارہ بجے گھر لوٹا۔۔۔۔ لاؤنچ میں اندھیرا تھا یقیناً سب سو چکے تھے۔۔۔۔ اسے معلوم تھا حیا بھی سو چکی ہوگی وہ دُکھتے سر کے ساتھ کچن میں چلا آیا لیکن وہاں کا منظر دیکھ حیران رہ گیا۔۔۔۔۔


” یہ تم ہو۔۔۔۔؟؟ “ شاہ زر اسے ساڑی میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔


” جی اور کون ہو سکتی ہے۔۔۔؟؟ “ حیا قدم اٹھاتی اسکے پاس آئی۔۔۔۔۔


” تم نے یہ ساڑی کیوں پہنی ہے۔۔۔۔؟؟ “


” آج میں مریم کے گھر گئی تھی اسلیے۔۔۔۔“ وہ جو خوش ہوا تھا کے حیا اسکے لیے تیار ہوئی ہے صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔۔۔۔


” میں خوامخواہ ہی خوش ہو رہا تھا۔۔۔۔ خیر آپ محترمہ سوئیں نہیں۔۔۔“ شاہ زر نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔


” شوہر کی واپسی کے بغیر میں کیسے سو سکتی ہوں۔۔۔؟؟ “ شاہ زر تو حیرتوں میں ڈوب گیا۔۔۔۔


” تمہارے پرزے برابر ہوگئے۔۔۔۔؟؟ “


” کیا مطلب میرا اسکرو ڈھیلا ہے۔۔۔۔؟؟ “ حیا اسکی بات سن کر تپ گئی لڑاکا عورتوں کی طرح دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کے بولی۔۔۔۔


” ایک تو تم ناراض بہت ہوتی ہو۔۔۔۔ یہ مطلب نہیں تھا میرا یہ بتاؤ کے یہ بدلاؤ کیسے آیا۔۔۔۔؟؟؟


مجھے معاف کردیا۔۔۔۔؟؟ “ شاہ زر نے اسکا ہاتھ پکڑ کے کھینچا وہ اسکے سینے سے آلگی۔۔۔۔


” مما نے کہا نفرت ناراضگی میں ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔۔۔۔ دوسرے کو نفرت کی آگ میں جلا کر خود بھی جلتے ہیں۔۔۔۔ انہوں نے کہا معاف کرنا سیکھو۔۔۔۔ اور مجھے کہا کے آپ کے لیے اچھا سا ڈنر ریڈی کروں۔۔۔۔“ حیا نے معصومیت سے نور کی کہی بات دہرائی۔۔۔۔


” تم نے کھانا بنایا ہے۔۔۔۔؟؟ “ ایک اور انکشاف۔۔۔


” جی مگر روٹی جل گئی میں نے کوشش کی تھی۔۔۔۔“ وہ شرمندہ سی بولی۔۔۔۔


” کوئی بات نہیں پہلی بار تم نے میرے لیے بنایا ہے۔۔۔۔ اور مجھے بھی کسی نے کہا تھا چھوٹی موٹی کوتاہیاں معاف کردینی چائیں۔۔۔۔“ شاہ زر نے اسکی پیشانی چومی۔۔۔۔


” بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔ اینڈ تھنک یو حیا۔۔۔ اللہ‎ ایسی ساس ہر کسی کو دے۔۔۔۔“


آخر میں شاہ زر نے شرارت سے کہا جس پر حیا ہنس دی اور کھانا گرم کر کے شاہ زر کے ساتھ کھانے لگی۔۔۔۔


حیا نے ایک ہفتہ تو گھر میں خوب مزہ کیا سب کو گفٹس دیے اپنی اور شاہ زر کی پوری البم انکے سامنے کھول کے بیٹھ گئی۔۔۔۔ ایک ہی واقع وہ دن بھر سناتی رہتی۔۔۔۔ نور اسے مسکراتے دیکھتی تو دل ہی دل میں اسکے لیے ڈھیڑوں دعائیں مانگتی۔۔۔۔


فیضان نے شاہ زر کی حرکت کے بعد انکا ولیمہ رکھا۔۔۔۔ تاکہ رشتےداروں کو انکی آمد کا علم ہو ساتھ جو حالت بگڑے تھے کچھ بہتر ہوں۔۔۔۔


دوسرے ہفتے حیا نے ضد کر کے کچن سنبھالنے کو کہا تو فیضان نے اسے بھی پڑھائی کنٹینو کرنے کا حکم دیا جسے سنکر بمشکل اسنے اپنے آنسوں روکے تھے۔۔۔۔ علی اور عمر تو اسکی رونی شکل دیکھتے ہی ہنسنے لگتے۔۔۔۔۔


” پاپا۔۔۔ آپ۔۔۔ نے بلایا۔۔۔؟؟ “ عنایا نے ڈرتے ڈرتے فیضان کو مخاطب کیا۔۔۔۔


” ہاں آؤ اندر۔۔۔“ وہ ایک نظر فیضان کو دیکھ کر سر جھکائے اسکے سامنے ہی بیٹھ گئی۔۔۔۔


” میر نے تم سے ہارون کے مطعلق بات کی تھی تو کیا سوچا تم نے اس بارے میں۔۔۔۔؟؟ “


اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کے فیضان اس لیے اسے بلائے گا۔۔۔ وہ کافی دیر خاموش رہی پھر ہمت جھٹا کر بولی۔۔۔۔


” پاپا میں دوبارہ غلطی نہیں کرنا چاہتی میں اور احمد اکیلے خوش ہیں۔۔۔ می۔۔۔ میں جوب کرلونگی مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔۔۔“ عنایا نے تھوک نگلا اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔۔۔ آج فیضان نے خود اسے بلایا تھا سن کر اسے تو یقین نہیں ہو آرہا تھا۔۔۔۔


“ ہارون میرا انتخاب ہے عنایا۔۔۔!!! اِن دنوں میں اُسے اچھے سے پرکھ چکا ہوں۔۔۔ پچھلی بار تم نے غلطی کی تھی۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں تم اس غلطی کو ُسدھارو۔۔۔۔ میرا تجربہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے اکیلی عورت کے لیے زندگی بسر کرنا آسان ہے۔۔۔۔؟؟ نہیں شاہ زر کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔ کل علی کی شادی ہوگی انکے بچے ہونگے دونوں اپنی فیملی کے ساتھ خوش ہونگے تم ان سب میں کہاں ہوگی۔۔۔۔؟؟ کہیں نہیں بےشک شاہ زر کے لیے تم بہت عزیز ہو لیکن کب تک عنایا۔۔۔۔؟؟ جب تم اپنی زندگی میں خوش ہوگی تو وہ بھی خوش رہے گا۔۔۔۔ ہمیشہ اسکے دل میں تمہارے لیے عزت قائم رہے گی۔۔۔۔ ہمارا کیا ہے آج ہیں تو کل نہیں۔۔۔۔ اور چلو حیا اپنی بچی ہے لیکن اسکی کیا گارنٹی ہے کے علی کی بیوی تمہیں اس گھر میں برداشت کریگی۔۔۔۔؟؟؟ بات یہ نہیں کے عورت مرد کے بغیر کچھ نہیں لیکن مرد اسکے لیے سہارا بنتا ہے۔۔۔۔ دنیا کی بُری نظروں سے وہی اسکی حفاظت کرتا ہے۔۔۔۔ اور سب سے بڑی بات احمد اس کا کیا قصور ہے جو وہ باپ کے لمس سے محروم رہے۔۔۔۔۔“


وہ وہیں فیضان کے گھٹنوں پر سر رکھے ہچکیوں سے رو دی۔۔۔۔ یہ حقیقت تھی مگر طلق۔۔۔ آج بھی اسکے پاپا اسکے لیے اچھا چاہ رہے تھے لیکن اس میں ہمت نہیں تھی۔۔۔۔


” پاپا میں نوکروں کی طرح اُسکے گھر والوں کی خدمت کرتی تھی خرچ بھی نہیں مانگتی تھی خود چلاتی تھی پھر۔۔۔۔؟؟ کیوں کیا میرے ساتھ ایسا۔۔۔۔؟؟ میں اکیلی نہیں تھی اُس نے بھی گھر والوں کے خلاف جا کر شادی کی۔۔۔۔ پھر میں ہی کیوں پاپا۔۔۔؟؟؟ میں ہی کیوں برباد ہوئی گلی گلی احمد کو لیے پھرتی باپ ہوتے ہوۓ بھی یتیموں سی زندگی گزاری ہے احمد نے اُسکا کیا قصور تھا۔۔۔۔؟؟؟ “


” نہیں میرے بچے۔۔۔ اب اور نہیں۔۔۔۔ رونا اُنکو چاہیے جس نے تمہاری قدر نہیں کی۔۔۔۔“ فیضان نے اسے اٹھا کے خود سے لگایا ایک عرصے سے وہ اپنی جان سے عزیز بیٹی سے ناراض تھا لیکن آج۔۔۔ وہ خود ہار گیا برہم رکھتے رکھتے۔۔۔۔


” آپ ناراض ہیں نا پاپا میں۔۔۔ نے بہت غلط کیا “


” سب بھول جاؤ عنایا۔۔۔۔!!!! ایک نئی زندگی کی شروعات کرو۔۔۔۔“ اس نے خاموشی سے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔ ایک پر سکون مسکراہٹ فیضان کے لبوں پر چھا گئی۔۔۔۔


” آپی آپ پاپا کی باتیں دل پر مت لینا میں کبھی آپ سے یا احمد سے غافل نہیں ہوسکتا۔۔۔۔“ شاہ زر فیضان اور اسکی گفتگو سن چکا تھا اسکے ساتھ ہی حیا ٹرے میں کھیر لیے کھڑی تھی۔۔۔۔ آج عائشہ نے اس سے میٹھا بنوایا جو یقیناً وہ فیضان کو دینے کے گرز سے یہاں آئی تھی۔۔۔۔


” شاہ زر وہ بس۔۔۔۔“ ابھی بھی اسکی آواز شاہ زر کو بھرائی ہوئی لگی۔۔۔۔


” آپ نے بلکل صیح فیصلہ کیا ہے اب آپ کے رونے کے دن گئے۔۔۔۔ میں تو اُن لوگوں کو بے گھر کر دیتا اگر آپ نا روکتی اور اُس عارف کی وہ حالت کرتا کے اسلام باد تو کیا دنیا کے کسی ملک میں اسے جاب نہیں ملتی “


شاہ زر نے مٹھی بھینچتے سخت لہجے میں کہا عنایا کو عارف سے اب کوئی سروکار نہیں تھا وہ چُپ رہی۔۔۔۔


” آپی اب روم میں مت جائیے گا میں آرہی آپ لاؤنچ میں بیٹھیں میں خود آج اپنی بنائی کھیر سرو کرونگی “


عنایا جو جانے لگی تھی مسکرائی اور اسکا گال تھپک کے چلی گئی۔۔۔۔ شاہ زر بھی مسکراتا ہوا اسکے ساتھ اندر آگیا۔۔۔۔ آج کل فیضان ان چاروں کو دیکھ کر غصّے میں آجاتا جب تک میر یا شاہ زر اپنا مکمل کام دیکھا کر نہیں جاتے فیضان انہیں گھر میں گھسنے نہیں دیتا۔۔۔۔ اب بھی وہ فیضان سے کسی ڈیل کے مطعلق بات کرنے آیا تھا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

” یہ کیا حرکت ہے۔۔۔۔؟؟ “


وہ اسے دلہن کے جوڑے سے بےنیاز گھر کے عام کپڑوں میں دیکھ کر تپ گیا۔۔۔۔


” کیا۔۔۔؟؟ “ وہ انجان بن گئی۔۔۔


” میرے آنے سے پہلے سنگھار کیوں ختم کیا۔۔۔؟؟ “ وہ ابرو اچکا کے گویا ہوا۔۔۔


” ہارون میں بڑی ہوں تم سے کس طرح بات کر رہے ہو مجھ سے۔۔۔؟؟ “ کہاں وہ ہارون کے اس لہجے کی عادی تھی وہی تو تھا گھر میں جو اسکی عزت کرتا تھا۔۔۔۔


” نا تم میری بھابی ہو نا مجھ سے بڑی ہو آئی سمجھ۔۔۔۔؟؟ صرف بیوی ہو جسے میں اپنے دل کی رضامندی سے نکاح کر کے لایا ہوں۔۔۔“ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے بیڈ تک لے آیا اسے بیٹھا کے خود اسکے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔۔


” تمہارے لیے سب بھلا دینا آسان ہے۔۔۔۔؟؟ “


وہ اب بھی حیران تھی ایک وقت میں وہ اسکی بھابی رہ چکی ہے۔۔۔۔ ہارون کے لیے کیا اتنا آسان تھا سب۔۔۔۔؟؟؟ وہ چاہتا تو کسی بھی لڑکی سے شادی کر سکتا تھا۔۔۔۔


” ہاں “


” یہ عارف بھائی نے تمہارے لیے دیا ہے۔۔۔۔“


عنایا نے خط تھام کر اسکے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہارون بغور اسکے تا اثرات دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ فتح مند مسکراہٹ اسکے ہونٹوں کو چھو گئی۔۔۔۔ وہ اسے خود سے زیادہ جانتا ہے۔۔۔۔ آج ثابت ہوگیا۔۔۔۔ اسکے چہرے پر غصّے کی کوئی رمک نہیں تھی وہ نارمل انداز میں بےہیو کر رہی تھی۔۔۔۔


” ابھی تم نے کہا میں تمہاری بیوی ہوں اور اب یہ خط دے رہے ہو۔۔۔۔؟؟ جس نے تمہیں دیا اُسی وقت یہ پھاڑ کے اس کے منہ پر دے مارتے۔۔۔۔ ہارون اعتبار کے رشتے سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔۔۔۔ مجھے اُس شادی شدہ زندگی میں صرف اعتبار چاہیے تھا جو مجھے نہیں ملا۔۔۔۔ جانتے ہو تم نے مجھے جس شخص کا خط دیا اُسکے لیے میں نے اپنے ماں باپ تک کو بُھلا دیا اور وہ۔۔۔۔؟؟ اُسے تو یہ بھی نہیں پتا ہوگا اُسکی بیوی کس طرح گزارا کر رہی تھی۔۔۔۔؟؟؟ یہ تک معلوم نہیں ہوگا کے اپنے بچے کو لیکر گورنمنٹ ہسپتال میں دھکے کھاتی تھی۔۔۔۔ جس کا اِس لڑکی کع علم تک نا تھا کے ایسے جگہ بھی ہوتی ہے جسے ماں باپ نے پلکوں پر بٹھایا تھا۔۔۔۔ اُس شخص نے اُسے رات کے اندھیرے میں گھر سے نکال دیا۔۔۔۔ میرے دل میں اسکے لیے کوئی مقام نہیں نفرت تک کا جذبہ نہیں کیوں کے میں اُسے اہمیت ہی نہیں دینا چاہتی۔۔۔۔۔“


ہارون نے بغور اسے دیکھا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر فون کاٹ دیا دوسری طرف وہ شخص جو کان سے فون لگائے ہوئے تھا پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔۔۔۔ فلائٹ کے انائونسمنٹ ہوتے ہی وہ اپنا بیگ لیے اٹھ کھڑا ہوا پیچھے اسکی ماں اور بہن شرمندہ سے اسکے ساتھ چل دیں۔۔۔۔۔


ہارون نے فون کٹ کرنے کے ساتھ ہی جیب سی مخملیں ڈبی نکالی۔۔۔۔ اس میں سے رنگ نکال کے عنایا کا ہاتھ تھاما اور شہادت کی انگلی میں رنگ پہنائی۔۔۔۔


” ویلکم ٹو مائی لائف “


ہارون نے اسکے ہاتھ کی پُشت پر ہونٹ رکھے اسکے لب مسلسل مسکرا رہے تھے۔۔۔۔ عنایا کچھ سمجھتی اس سے پہلے ہی وہ اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


آج وہ اپنے کیے فیصلے پر بےحد خوش تھا عنایا ابھی فریش ہوکر نکلی تھی۔۔۔ آتے ہی وہ فوراً روم سے باہر نکل گئی۔۔۔ احمد اتنا چیخ رہا تھا کے اسکی آواز روم تک آرہی تھی۔۔۔ ثانیہ اور حیا اسکے لیے ناشتہ لیکر آئیں تھیں احمد رات بھر انہی کے پاس تھا۔۔۔۔


ہارون کمرے سے نکلتے ہی شاہ زر اور میر کے ساتھ ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔۔۔۔ اسے اپنی کیے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔۔۔۔ شیزہ اسکی پھوپھو کے بیٹی تھی جسکے ساتھ وہ نکاح کے بندھن میں بندھا تھا۔۔۔۔ اسے شیزہ سے کوئی جنونی محبت نہیں تھی۔۔۔۔ لیکن اسے اپنا ٹھکڑانا برداشت نہیں تھا۔۔۔۔ وہ ابھی یونیورسٹی میں داخل ہوا تھا کے شیزہ جس کے ساتھ اسکی شادی کو ابھی دو ماہ ہوے تھے اُس نے طلاق کا مطالبہ کیا کیوں کے اِسے اپنے محلے میں کوئی پسند آگیا تھا۔۔۔۔ وہ نئے لوگ شیزہ کے محلے میں شفٹ ہوگئے تھے شیزہ کی اس لڑکے کے ساتھ دوستی دن با دن گہری ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ یہ خبر اسے اپنی بہنوں سے ملتی جو اکثر شیزہ کے گھر جاتیں تھیں۔۔۔۔ لیکن شیزہ کا رویہ اُن سے اب بدلہ بدلہ سا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اِس نے طلاق کے لیے ہارون کو مجبور کردیا ناچارہ اِسے طلاق دینا پڑی۔۔۔۔ لیکن ساتھ ہی اس نے دوبار شادی نا کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔۔


عنایا کے گھر سے جانے کے بعد عارف کو صیح معینوں میں گھر کی حالت کا اندازہ ہوا۔۔۔۔ اماں نے اِسے ملازمہ رکھنے کو کہا۔۔۔۔ جو گھر کا سارا کام کرے اِسے ایک ہی ماہ میں اندازہ ہوگیا گھر کی پوری زمیداری عنایا پر تھی۔۔۔۔ اور وہ دن جب عارف اس سے معافی مانگنے آیا تھا۔۔۔۔ ہارون کو آج بھی یاد ہے اُسکی بڑی بہن کو شوہر نے طلاق دے دی یہ کہہ کر کے اسکا کریکٹر ٹھیک نہیں۔۔۔۔ اسل وجہ وہ بھی جانتی تھی اسے اللہ‎ نے دو بیٹیوں سے نوازا تھا۔۔۔۔ اور ڈاکٹر نے کمزوری کے بائیس کہ دیا تھا مزید بچہ کی خواہش اسکی جان لے سکتی ہے تبھی اسکے کردار پر الزام لگا کر اسے طلاق دے دی اُس دن اِس نے ماں سے شکوہ کیا تھا۔۔۔۔ اگر وہ دوسرے کی بیٹی کے ساتھ یہ نا کرتیں تو آج اُنکی بیٹی بھی اپنی جگہ خوش ہوتی اور یہ سب وہاں کھڑے عارف نے سن لیا۔۔۔ کتنے ہی دن اِسنے اپنی ماں سے بات نہیں کی اسے رہ رہ کر خود پر غصّہ آرہا تھا وہ کیوں اندھا بنا رہا۔۔۔۔؟؟ کیوں اپنی ماں کی باتوں میں آکر بیوی پر شک کیا کیوں اِس سے بُرا سلوک کرتا رہا۔۔۔۔؟؟ اس نے کب شوہر کا فرض نبھایا۔۔۔۔؟؟ کیا کیا اپنے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے۔۔۔؟؟ کچھ نہیں قربانیاں تو صرف عنایا نے دیں تھیں۔۔۔۔ عارف میں ہمت نہیں تھی وہ عنایا کے سامنے جائے۔۔۔۔ اسے جب معلوم ہوا ہارون شاہ کنسٹریکشن میں کام کرتا ہے۔۔۔۔ وہ اُسی دن اُس سے ملنے گیا اپنے کیے کی معافی مانگی۔۔۔۔ اور اس سے میر کا نمبر بھی مانگا کیوں کے عنایا کا نمبر یا بند جاتا یا تو وہ کال پک نہیں کرتی۔۔۔ میر ہی ایک ایسا شخص تھا جو شاید اُسکی بات سن لیتا۔۔ہارون نے اسے معاف تو کردیا لیکن میر کا نمبر نہیں دیا ساتھ ہارون نے جو انکشاف کیا۔۔۔۔ وہ اسے زلزلوں کی زد میں لے آیا عنایا سے شادی۔۔۔۔؟؟


” وہ میری بیوی ہے ہمت کیسے ہوئی تمہاری۔۔۔۔“


” شٹ اپ بھائی نہیں ہے وہ آپ کی بیوی۔۔۔ طلاق دے چکے ہیں آپ اُسے۔۔۔۔ میں پورا اختیار رکھتا ہوں کے اپنا رشتہ بھیجوں “


ہارون دھاڑ اُٹھا وہیں ایک شیطانی عمل اسکے دماغ میں گونجا۔۔۔۔ عنایا اِس سے ناراض تھی محبت تو اب بھی ہے نا انکے بیچ۔۔۔۔؟؟؟؟ وہ ضرور اِسکی بات مانے گی۔۔۔۔ عارف وہاں سے چلا گیا لیکن دو ہی دن بعد پھر وہ اِسکے فلیٹ پر موجود تھا۔۔۔۔


” یہ عنایا کو دے دو پھر جو فیصلہ وہ کرے۔۔۔۔ ہارون تم بھی کسی ایسی لڑکی کے ساتھ زندگی بسر کرنا نہیں چاھو گے جو تمہاری دسترس میں تو ہوگی لیکن اسکا دل تم سے میلوں دور ہوگا۔۔۔“


عارف کے الفاظ اسے خاموش کر گئے اعتبار تو اسے تھا عنایا پرلیکن اپنی قسمت پر نہیں۔۔۔۔


” کیا کہوں عنایا سمجھ نہیں آرہا۔۔۔ مرد کو ایک پُر سکون ماحول چاہیے ہوتا ہے۔۔۔۔ میں وہاں دن رات ہمارے لیے محنت کر رہا تھا تاکے جلد ہی اپنی زمیداریوں سے فارغ ہوکر تمہیں اپنے پاس بُلا لوں اماں کا میں نے دل دکھایا تھا۔۔۔۔ تم سے شادی کر کے اس کے لیے اکثر میں اماں کو مناتا تمہاری تعریف کرتا۔۔۔ کچھ دن تو اِیسے چلتا رہا۔۔۔ پھر اماں آئے دن مجھے بیوی کا غلام کے تعنے مارتیں۔۔۔ میں نے اُس دن کے بعد سے ان سے کہنا چھوڑ دیا۔۔۔۔ لیکن وہ دن رات میری دماغ میں تمہارے خلاف زہر بھرتی رہیں پہلے پہل تو میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔۔۔۔ لیکن جب میں گھر آتا تمہیں سوتا پاتا یا ہارون سے باتیں کرتے دیکھتا۔۔۔۔ اور یہاں مجھے اماں کی ساری باتیں یاد آتیں تمہارا گھر کے کاموں میں ہاتھ نا بٹانا ہارون کے ہمارے خلاف کان بھرنا۔۔۔ میں اِن سب باتوں پر یقین کرتا چلا گیا۔۔۔ کیوں کے جب اماں تمہارے خلاف کچھ بولتیں تو ہارون بھڑک اٹھتا۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میں تم سے دن با دن دور ہوتا چلا گیا یہاں تک کے احمد کے آنے کی خبر سن کر بھی مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ آئ ایم سوری عنایا معاف کردو مجھے۔۔۔۔ ایک آخری موقع دے دو احمد کا سوچو اُسے ہم دونوں کی ضرورت ہے میں بکھر رہا ہوں عنایا۔۔۔۔ مجھے پتا چلا ہے ہارون تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔ عنایا۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ تم شادی کرلو اُس سے پھر پہلے ہی دن طلاق کا مطالبہ کرنا۔۔۔۔ تبھی ہم دونوں کی شادی ہو سکے گی۔۔۔۔ پلیز عنایا ایک آخری بار اعتبار کرلو میرا۔۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں اِن سب سے دور لے جاؤنگا۔۔۔ جسٹ گیو می لاسٹ چانس۔۔۔۔“


عارف کے جاتے ہی ہارون نے یہ خط پڑھا۔۔۔۔ اسنے غصّے سے خط کو مڑوڑ ڈالا لیکن پھر سوچنے کے بعد اسے اپنی جیب میں رکھا۔۔۔ وہ عنایا سے شادی کر کے اسے اپنے فلیٹ میں لے آیا۔۔۔۔ ایک آخری بار اِس نے اپنی زندگی میں آئی اِس دوسری عورت کا امتحان لیا ایک تو دھوکا دے گئی۔۔۔۔ لیکن دوسری سے اِسے اُمید تھی وہ عنایا پر کبھی کبھی خوب حیران ہوتا کے اپنے آرام و آسائش ایک ایسے مرد کے لیے چھوڑ آئی جو اِسکی قدر تک نہیں کرتا۔۔۔۔ ہارون نے اسے خط تھمایا اب وہ اسکا رٙد عمل دیکھنا چاہتا تھا جو اِسکی تواقع کے مطابق تھا۔۔۔۔ آج اِس عورت نے ہارون کا دل جیت لیا ایک عورت نے اِسکا بھروسہ توڑا تو دوسری نے جوڑا اب عنایا اور وہ ایک دوسرے کے لیے تھے۔۔۔۔ کیوں کے وہ خود سے جُڑے رشتے بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے۔۔۔۔ اسے پتا ہے ایک نا ایک دن وہ اپنی ماں کو معاف ضرور کرےگا لیکن کتنا وقت لگے گا وہ یہ نہیں جانتا۔۔۔۔ اسکی بڑی بہن بھی عنایا کے خلاف تھی دو بہنوں کی شادی عنایا کے آنے سے پہلے ہو چکی تھی۔۔۔ بعد میں عارف نے اپنی چھوٹی بہن کی بھی شادی کردی جس میں ہارون نے اسکا بھرپور ساتھ دیا۔۔۔۔ دوسری طرف عارف نے عنایا کی پوری بات سنتے ہی فون رکھ دیا اور اپنی ماں اور بہن کے ساتھ اِس ملک کو الوداع کہ کر چلا گیا عمر بھر کا پشتوا لیے۔۔۔۔۔


” نو مور چاچو اونلی پاپا۔۔۔۔“


عنایا ان دونوں کی باتیں سن کر دل ہی دل میں شکر ادا کرتی وہ میڈ سے صفائی کروارہی تھی۔۔۔۔ آج ہارون گھر پر ہی تھا انکی شادی کو آج ایک ماہ ہوگیا اس ایک ماہ میں اسے انون نمبر سے کافی دفع کالز آئیں ایک تو اسنے تنگ ہوکر اٹھا بھی دی۔۔۔۔۔


” پلیز عنایا کال مت رکھنا میں عارف۔۔۔ ایک بار۔۔۔۔“ عنایا نے جھٹ فون رکھ دیا۔۔۔


وہ ہارون کے ساتھ خوش تھی کل ہی اسے اپنے امید سے ہونے کی خبر ملی جسے سن کر ہارون اور احمد دونوں ہی خوش تھے۔۔۔۔ لیکن اسے زندگی بھر ایک افسوس رہے گا کے اسنے ایک اچھے انسان کا دل دکھایا۔۔۔ وہ بھی اپنے مقصد کے لیے جب کے وہ شخص آج بھی اسکی خوشیاں چاہتا ہے۔۔۔۔


“ Thank you Meer for everything and sorry for everything ”


عنایا نے جلدی سے ٹائپ کر کے میر کے نمبر پر بھیج دیا۔۔۔

☆.............☆.............☆

میر نے مسیج دیکھ کر ایک گہرا سانس خارج کیا۔۔۔۔ اور سمائلی فیس سنڈ کر کے ثانی کو کال کی۔۔۔۔


” کیسی ہو سویٹ ہارٹ۔۔۔۔؟؟ “ وہ ڈیسک پر رکھا کرسٹل بال انگلی سے گھماتا ہوا اس سے مخاطب تھا۔۔۔۔


” ویسی ہی جیسے آپ صبح چھوڑ کے گئے تھے۔۔۔“ ثانی نے بندھا ہوا دوپٹا کھولا اور آس پاس روم کی دیواروں کو دیکھ فتح مند مسکرائی۔۔۔۔


” ثانی یار آفس میں دل ہی نہیں لگ رہا آج اچھی خاصی ڈیزائنس مکمل کی ہیں پھر بھی تایا ابو نے دھمکی دی ہے آٹھ بجے سے پہلے مجھے کوئی گھر میں نا دیکھے۔۔۔۔۔“


دوسری طرف ثانی کی کھلکھلاہٹ سن کر میر بھی ہلکا سا مسکرا دیا۔۔۔۔


” رکو تم آتا ہوں گھر پھر میرے سامنے ہنسا۔۔۔۔“ میر نے مصنوئی غصّہ دکھاتے دھمکی دی۔۔۔۔


” آج آپ کو سرپرائز ملنے والا ہے آپ نے جو بےبی گرلز کی پیکس لگائیں تھیں میں نے سب ہٹا دیں اور بےبی بوائے کی لگا دیں۔۔۔“ وہ اپنی کی ہوئی آج کی کروائی سنا رہی تھی جسے سن کر میر چلا اٹھا۔۔۔۔


” ثانی تم نے میری بیٹی کی پیکس ہٹا دیں۔۔۔۔“


” آپ کی بیٹی نہیں انگریزوں کی بیٹی تھی مما بھی بول رہیں تھیں کیا عجیب تصویریں لگائیں ہیں۔۔۔“ اسکی بات سن کر میر چپ ہوگیا اب گھر جاکر ہی وہ اسکی خبر لےگا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” تمہیں میں اتنا اچھا لگتا ہوں “


وہ ثانی کو اپنے حصار میں لیتا اپنی گردن اسکے کندھے پر رکھ کے گویا ہوا۔۔۔ گھر آتے ہی وہ سیدھا کمرے میں آگیا جہاں ثانی بیڈ پر مزے سے ٹی وی دیکھتے ساتھ فروٹس کھا رہی تھی۔۔۔۔ ساتھ اسنے ایک نظر پورے کمرے کو دیکھا جہاں صرف میر کی تصویریں تھیں۔۔۔۔ ثانی اسے دیکھ پلیٹ سائیڈ پر رکھ کے اٹھ کے اسکے پاس آئی آتے ہی اموماً میر چائے کی فرمائش کرتا ہے۔۔۔۔


” جی نہیں یہ میں نے اس لیے لگائیں ہیں کے میرا بیٹا بھی بلکل ایسا ہو “


” ہمارا بیٹا۔۔۔۔؟“ اس کے میرا بیٹا کہنے پر میر نے اسے یاد دلایا۔۔۔۔


” نہیں میرا بیٹا آپ کی بیٹی۔۔۔۔!!!“ اس نے جیسے میر کی عقل میں اضافہ کیا۔۔۔۔ میر اسکی بچکانہ باتیں انجوے کر رہا تھا پل بھر میں اسکی پورے دن کی تھکن اتر گئی۔۔۔۔


” یعنی میں اچھا لگتا ہوں تبھی آپ چاہتی ہیں آپ کا بیٹا میری طرح ہو۔۔۔۔“ ثانی نے خفگی سے اسے دیکھا وہ اسکی معصوم ادا پر مسکرا دیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


“ شاہ زر مجھے نیند آرہی ہے “


وہ ادھر سے اُدھر چکر لگاتے پریشان سی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔۔


” ابھی تم نے کہا مجھے سمجھ نہیں آتا گھوم پھر کر رٹا لگاؤں گی۔۔۔۔ اور اب نیند تم کتنا بھاگتی ہو پڑھائی سے۔۔۔۔“


وہ اِسے اِس وقت پڑھا رہا تھا خود وہ نو بجے آفس سے لوٹا تھا۔۔۔۔ آج کل اسکی اچھی خاصی آفس میں شامت آئی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ اوپر سے حیا کی پڑھائی کا کافی حرج ہو چکا تھا۔۔۔۔ جسے وہ کوور کرانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔۔۔ پر حیا کے پاس ہر بہانہ موجود ہے نا پڑھنے کا۔۔۔۔۔


” اوکے آدھا گھنٹہ ریسٹ کرلو پھر کنٹینیو کرتے ہیں “


وہ اسے آسان حل بتا کر خود اسکے لیکچرز نیٹ سے سنے لگا جسے سن کر وہ اسے خود سمجھاتا۔۔۔۔ کیوں فارمیسی اسکی فیلڈ نہیں تھی۔۔۔۔ وہ خود انجینرینگ کا سٹوڈنٹ تھا۔۔۔۔


” میں بھائی سے پڑھو۔۔۔۔۔“


ابھی اسکا جملہ پورا نہیں ہوا تھا کے اس نے شاہ زر کی تیز نظر خود پر محسوس کر کے رٹے لگانا شروع کر دیے۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


دن گزرتے گئے انہی دنوں نور نے ازلان سے عمرہ کرنے کا کہا۔۔۔۔ وہ دونوں فیضان اور عائشہ کے ساتھ عمرہ ادا کر کے کچھ ہی دنوں بعد وآپس آگئے۔۔۔۔


تب ازلان نے اسے اسکا وعدہ یاد دلایا پہلے تو نور صاف مُکر گئی لیکن پھر احسان جتانے والے انداز میں وعدہ پوچھا جسے سن کر اسکے ہوش اڑ گئے۔۔۔۔ ازلان نے اسے خاص میر کو نا بتانے کی تاقید کی۔۔۔۔۔


” یہ غلط ہے میر ناراض ہوجاے گا “


وہ تو بات سنتے ہی آگ بگولہ ہوگئی۔۔۔۔


” ہوجائے “ ازلان نے بےنیازی سی کہا۔۔۔۔


” آپ کو کوئی پروا نہیں سب کیا سوچیں گے “ نور کو غصّہ ہی آگیا تھا ازلان پر۔۔۔۔۔


” جو کہا ہے وہ کرو جانِ من باقی سب مجھ پر چھوڑ دو “


جان کے لقب سے اسکا چہرہ پل بھر میں سرخ ہوگیا ازلان اسے ہلتے نا دیکھ خود پیکنگ کرنے لگا۔۔۔۔۔


” میں شام تک آؤں تو مجھے پیکنگ مکمل ملے “


وہ اسے حکم صادر کرتا باقی کے کام نیپٹانے چلا گیا۔۔۔۔ اور پھر دونوں اُسی رات مری کے لیے نکل گئے۔۔۔۔۔


” بابا آپ نے ٹھیک نہیں کیا یہ چیٹنگ ہے میں آرہا ہوں آپ بتائیں کہاں ہیں۔۔۔۔“


صبح میر دونوں کو گھر میں نا پاکر پریشان ہوگیا پھر فیضان نے اسے ازلان کی پوری کروائی سنائی ازلان اُسے سب بتا کر گیا تھا۔۔۔۔


” اب تو میری بیوی کا پیچھا چھوڑ دو۔۔۔۔!!!! اور پاگل ہوں جو تمہیں یہاں بلا کر اپنا اچھا خاصا سکون غارت کروں۔۔۔۔“ ہمیشہ وہ اسے تنگ کرتا تھا آج ازلان کو اچھا موقع ہاتھ آیا تھا۔۔۔۔


” میں جیسے پتا نہیں لگوا سکتا “ وہ بھی تپے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔۔


” لگوا لو پتا۔۔۔!!! تو میں بھی تمہارا باپ ہوں میری سورسسز یوز کر کے مجھے ہی تک پہونچنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔“ ازلان آج بہت خوش تھا ہر طرف خوبصورت نظارہ اور ساتھ میں من چاہا ہمسفر۔۔۔۔۔


” بابا آپ نے ٹھیک نہیں کیا میں بدلہ لونگا۔۔۔۔۔“ میر کا غصّہ آج عروج پر تھا۔۔۔۔


“ ازلان یہاں آئیں نا۔۔۔۔“ نور جو آس پاس کے بچوں کو ٹوفیز بانٹ رہی تھی اسے ساتھ نا پاکر بُلا بیٹھی۔۔۔۔۔


” لے لینا میں ڈرتا ہوں کیا۔۔۔۔؟؟؟ میری بیوی بُلا رہی ہے فارغ ہوا تو کال کرونگا۔۔۔۔“ وہ اسے تپا کر کال بند کر چکا تھا۔۔۔۔


وہ اسکے ساتھ وقت بتانا چاہتا تھا۔۔۔ ہمیشہ جب کہیں وہ جاتے بچے انکے ساتھ ہوتے۔۔۔۔ خاص کر میر جو نور کے پلو سے چپکا بیٹھتا۔۔۔۔ اور عمر جی گلہ پھاڑ پھاڑ کر ماں کو ریگستان سے بھی بھلا لاتا۔۔۔۔


” آگر شاہ زر حیا کے ساتھ۔۔۔۔ تم سمجھ رہی ہو نا۔۔۔؟؟ آگر ایسا ہوتا تو تم روٹھ جاتیں مجھ سے۔۔۔۔“ وہ دونوں اِس وقت ندی کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے سورج ڈوب چکا تھا ہر طرف اندھیرا پھیلنے والا تھا۔۔۔۔


” نہیں ازلان مجھے ڈر صرف اپنی بددعائوں سے لگتا تھا اور آپ کو مکافات عمل سے۔۔۔!!!! آپ آزاد تھے آپ نے معافی مانگی توبہ کرلی۔۔۔۔ لیکن میں۔۔۔۔؟؟ مجھے اپنی بددعائوں کا کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ تب بی بی جان نے مجھے کہا بس ہر نماز میں اپنی بیٹی کا نصیب مانگنا اُس سے۔۔۔۔ میں مانگتی تھی لیکن بس ڈر پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔۔۔۔ ازلان میں نفرت میں خود بھی جلتی رہی آپ کو بھی جلاتی رہی۔۔۔۔ خسارہ صرف ہمارا ہوا آپ نے بھی بدلے کی آگ میں خود کو بھی جلایا اور مجھے بھی۔۔۔۔ سکون کسی کو بھی نہیں ملا۔۔۔ معملہ ہمیں اللہ‎ پر چھوڑنا چاہیے بے شک وہ بہتر انصاف کرنے والا۔۔۔۔“ آخر میں اسکے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ تھی جسے رات کے اندھیرے میں بھی وہ دیکھ چکا تھا۔۔۔۔


” ہاں تبھی تو مجھ پر رحم کھا کر تمہیں میرے ساتھ نکاح کے بندھن میں باندھا۔۔۔۔ ورنہ میں تو تمہیں پانے کی امید ہی چھوڑ چکا تھا۔۔۔۔“ نور نے اسے گھورا جو ہر وقت اپنی بات نکال کے بیٹھ جاتا ہے۔۔۔۔


” ازلان دادا بنے والے ہیں آپ۔۔۔۔ اچھا یہ بتا دیں ہم واپس کب جائیں گے۔۔۔۔؟؟ “ نور نے اسکا اچھا موڈ دیکھ کر اِسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے پوچھا ازلان بھی اِسکی چالاکی سے خوب واقف تھا۔۔۔۔


” جب بھی اچھے موڈ میں ہوتا ہوں یا وہ میر آجاتا ہے یا تمہارا بڑھاپا شروع ہوجاتا ہے۔۔۔۔؟؟ “ ازلان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے لیکر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔


” میرا نہیں آپکا۔۔۔۔“ نور نے مسکراہٹ دباتے کہا۔۔۔


” ازلان میر مجھے یاد کر رہا ہوگا۔۔۔۔؟؟ “ نور نے آخری کوشش کی۔۔۔۔


” اچھا ہے کرتا رہے۔۔۔۔!!! میرے اتنے اچھے دن ضائع کیے چلو آؤ واک کرتے ہیں۔۔۔ اور اب صرف ہمارے بارے میں بات کرنا سمجھی۔۔۔؟؟ “


ازلان نے اسکی ڈھلکتی شال اچھے سی اسکے گرد پھیلائی اور اسکا ہاتھ پکڑ کے چلنے لگا۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

پندرہ دن بعد وہ دونوں گھر لوٹے۔۔۔۔ گھر لوٹنے سے پہلے نور نے اسے عمر کی قبر پر چلنے کا کہا۔۔۔ وہ کتنا خوش ہوا تھا نور اندازہ نہیں لگا سکتی۔۔۔۔ اب وہ بھی اسکے دکھ درد میں برابر کی شریک رہے گی۔۔۔۔ ان کے گھر لوٹتے ہی میر نے ازلان کو دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔۔۔۔


” تم کیوں روٹھی محبوبہ بن بیٹھے ہو۔۔۔۔؟؟“

کھانے کے دوران ازلان نے سب کے سامنے میر سے پوچھا۔۔۔

” آپ کیبیوی بھاؤ نہیں دیتی کیا۔۔۔۔؟؟ “

وہ بھی تپا ہوا تھا نور سے بات کر رہا تھا لیکن ازلان سے ناراض تھا۔۔۔۔

” مرتی ہے مجھ پر پوچھ لو۔۔۔۔!!“ ازلان نے فتح مند مسکراہٹ سے کہا۔۔۔۔

” کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔ پورے دن دیکھتی بھی نہیں آپ کو۔۔۔۔!! ثانی کو دیکھیں کیسے پیار سے کچھ نا کچھ دے رہی ہے۔۔۔۔!!!“ میر نے بھی اب کے ازلان کو اچھا خاصا تپایا۔۔۔۔۔

” نور کوفتے دینا۔۔۔۔!!“ میر کی بات اسے ہضم ہی کہاں ہوئی تھی۔۔۔۔

” ازلان آپ کی سائیڈ پر ہی ہیں دیکھیں۔۔۔۔!!“ ازلان نے خونخوار نظروں سے میر کو دیکھا جو مسکراتا ہوا پلیٹ پر جھک گیا۔۔۔۔

نور کو اب حمزہ کی فکر تھی وہ چاہتی تھی اب وہ اپنی لائف میں سیٹل ہوجائے۔۔۔۔ اس نے عائشہ سے کہہ کر کافی رشتوں کی بات کی جن میں سے کچھ وہ آج حمزہ کو دیکھا رہی تھی۔۔۔۔ جسے کوئی دلچسپی نہیں تھی ان تصویروں میں۔۔۔۔

” حمزہ تمہیں کوئی پسند کیوں نہیں آرہی۔۔۔۔؟؟ “

نور اسے اب کوئی دسویں بار تصویر دیکھا رہی تھی جسے حمزہ نے ریجیکٹ کر دیا۔۔۔۔

” مما میں پسند کروں۔۔۔۔؟؟ “ عمر جو کب سی خاموش بیٹھا ای سی کے ریموٹ سی کھیل رہا تھا بول اٹھا۔۔۔۔۔

” کوئی ضرورت نہیں تمہاری شادی تو میں کسی بڑی عمر کی ٹیچر سے کرائونگی جو تمہیں سدھار دے پھر رہنا ساری عمر جیل میں۔۔۔۔۔“

عمر خاموشی سے بیٹھ گیا ہر کوئی اسے اب جیل کا تانا دینے لگا تھا۔۔۔۔ نور نے اسے ازلان سے تو بچا لیا لیکن خود سخت خفا تھی اس سے۔۔۔۔

” مما آپ کی بھتیجی بھی تو کنواری ہے۔۔۔۔؟؟ “

وہ سر جھکائے نور سے کہ رہا تھا عمر کے کان جھٹ سے کھڑے ہوگئے۔۔۔۔ جس کو وہ میسنا سمجھتا تھا کیا نکلا چُھپا رستم۔۔۔۔ کتنا چالاک تھا عمر کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی اور سب اسکو فلرٹی کہتے ہیں۔۔۔۔ عمر نے زور سے ہوٹنگ شروع کردی۔۔۔۔

” اوے ہوے “

” سچ تم نے مجھے خوش کر دیا میرے ذہن میں کیوں نہیں آیا چلو آج ہی میں بھائی کو کال کرتی ہوں۔۔۔!!“ اپنی بھتیجی کا سن کر نور خوش ہوگئی۔۔۔

” مما آپ آج نہیں کل بات کیجیئے گا ماموں سے “ حمزہ کہہ کر اٹھ گیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” آپ“

پرنیا اسے اپنی کالج میں دیکھ کر حیران رہ گئی اچانک وہ گاؤں کیوں آیا ہے۔۔۔؟؟؟

حمزہ نے اسکا جائزہ لیا وائٹ یونیفارم میں اسکی گوری رنگت جچ رہی تھی چھوٹی میں مقید بال۔۔۔ وہ اسکے سامنے کھڑی دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑے پریشان لگ رہی تھی۔۔۔۔

” پرنیا مما نے آج مجھ سے اپنی پسند پوچھی میں نے انھیں اپنی پسند سے آگاہ کردیا۔۔۔!!!“

وہ حمزہ کو نہیں دیکھ رہی تھی اسکی نظریں تو زمین میں نجانے کیا کھوج رہیں تھیں۔۔۔۔

” تمہیں میں پسند کرنے لگا ہوں۔۔۔ لیکن میں تم سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں کیا تمہیں کوئی پسند ہے۔۔۔۔؟؟ “

وہ خاموش رہی۔۔۔۔ کیسے بولتی اسے کوئی احتراز نہیں۔۔۔۔

” ٹیل می پلیز۔۔۔!!! میں عمر بھر کا پچھتاوا نہیں پالنا چاہتا “

” نو “

” تو امید رکھتا ہوں تم میری لیے ہاں کہو گی۔۔۔۔؟؟ “

وہ اسکا جواب سن کر مطمئن ہوگیا پرنیا نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔۔

” تمہاری چائے کی عادت ہو چکی ہے ویسے بھی جس فیلڈ میں میں ہوں مجھے دن رات کوئی چائے بنانے والی چاہیے۔۔۔!!!“

اسکی بات سن کر وہ ہنستے ہوۓ وہاں سے بھاگ گئی۔۔۔۔ عمر مسکراتا ہوا کار میں جا بیٹھا جو اب ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔

پرنیا جب چھٹیوں میں یہاں آتی تب اکثر حمزہ رات کو چائے پینے کے گرز سی کچن میں آتا۔۔۔۔ جہاں اسے پہلے سے پرنیاں اپنی اور حیا کی چائے بناتے نظر آتی۔۔۔۔ وہیں سے ان دونوں کی گفتگو کا سلسلہ چلا۔۔۔۔ حمزہ اس سے بات نہیں کرتا تھا لیکن اسکی نظریں ہر جگہ پرنیاں کو ڈھوندتیں جو اسکی نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے اس سے چُھپتی پھیرتی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ہیپی برتھڈے ٹو یو ہیپی برتھڈے ڈیر ہانیہ ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔۔۔“

میر نے اپنی تین سالہ بیٹی ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کے کیک کاٹا۔۔۔۔ اور چھوٹا سا ٹکڑا کاٹ کے ہانیہ کو کھلایا۔۔۔۔ پھر ثانی کو اور بچا ہوا ثانی کا خود ہنستے ہوئے کھایا۔۔۔ ثانی سرخ چہرے کے ساتھ صرف گھور کے رہ گئی ازلان اور نور دور سے کھڑے انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔

” اب تم شادی کے اتنے سالوں بعد شرماتی پھیرو گی تو لوگ کیا کہیں گے پھر سے۔۔۔۔؟؟ “

میر کہہ کر خود ہنسا ثانی تو سٹپٹاتی یہاں وہاں دیکھنے لگی۔۔۔۔

” بھائی آپ نے میرے بغیر ہی کیک کاٹ لیا۔۔۔“

حیا اپنے دو سالہ کے بیٹے کو گودھ میں لیے میر کے پاس آئی۔۔۔۔

” مجھے لگا تم مما بابا کے پاس ہو تم اندر کیوں گئیں

تھیں۔۔۔۔؟؟ “ میر نے حیا کے لیے کیک کاٹتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

” اپنے لاڈلے کو پمپر پہنانے۔۔۔۔!!! دیکھیں بھائی کیسے میرا سوٹ خراب کردیا اس شیطان نے اور آپ کی اِس بہن کو بھی عقل نہیں کے پمپر پہنا کے بھیجتی۔۔۔۔“

” خبردار جو میرے بیٹے کو شیطان کہا۔۔۔۔“

وہ اسے گھورتی میر کے پاس چلی آئی جو اسے چُپ رہنے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔۔۔ ورنہ مہمانوں کے سامنے اِسے اچھی خاصی سناتی۔۔۔۔ میر نے کیک کاٹ کے اسے کھلایا۔۔۔۔ حیا نے بھی چھوٹا سا پیس نکال کر اپنے بیٹے زین اور ہانیہ کو کھلایا۔۔۔۔

” میر کھانا لگ گیا ہے تم اپنے اسٹاف کو بولو وہاں آجائیں۔۔۔۔!!“ نور نے میر سے کہا وہ کب سے ڈنر کی تیاری کروا رہی تھی۔۔۔۔

آج میر کی بیٹی ہانیہ کا برتھڈے ہے ساتھ میں پرنیاں اور حمزہ کی اینگجمنٹ۔۔۔۔ آفس اسٹاف رشتےدار سب کو ہی میر نے اس تقریب میں انوائٹ کیا تھا۔۔۔۔

” کہاں کھوئی ہوئی ہو۔۔۔۔؟؟ “ ازلان نے اسکے کان کے قریب آکر سرگوشی کی پھر اسکے ساتھ کھڑا ہوگیا۔۔۔۔

” میر کا سوچ رہی تھی کل تک ثانی نے دنیا کے کسی ڈاکٹر کو نہیں چھوڑا تھا کیا کیا نہیں کرتی تھی۔۔۔۔ لیکن آج دیکھیں اللہ‎ نے اسے بے شمار خوشیوں سے نوازا ہے۔۔۔۔!!!!“ ازلان نے مسکراتے ہوئے اسکے کندھے کے گرد بازو حمائل کیے۔۔۔۔۔

دونوں کی نظر سامنے کھڑے اپنے بچوں پر تھی جن کے چہرے پر مسکراہٹ ہنسی، خوشی کے رنگ کھلے ہوے تھے۔۔۔۔ میر ثانی سے کچھ کہ رہا تھا جس پر ثانی کے گال سرخ ہوگئے۔۔۔۔ حیا بلیک ساڑی میں ملبوس علی کے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں سویٹ ڈش کھا رہی تھی۔۔۔۔ جبکے عمر جسے حیا نے زین اور ہانیہ کا خیال رکھنے کو بولا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔۔ ہانیہ ٹیبل کے پیچھے کھڑی زین سے چُھپ رہی تھی۔۔۔۔ جو اسے دیکھتے ہی مارنے لگتا۔۔۔۔ زین اور ہانیہ کی آپس میں بلکل نہیں بنتی ہانیہ جتنی معصوم خاموش گو تھی۔۔۔۔ زین اُتنا ہی شراتی تھا ہانیہ اپنا زیادہ تر وقت دادی کے ساتھ گزارتی۔۔۔۔ وہ زین کو دیکھتے ہی اپنی ماں یا دادی کے پلو میں چُھپ جاتی۔۔۔۔ اِس سے ہر وقت خوفزدہ رہتی۔۔۔۔ ہانیہ گھر کی جان تھی سالوں بعد گھر میں کسی کی قلقاریاں گونجی تھیں۔۔۔۔ وہ ثانی سے زیادہ گھر کے افراد کے پاس پائی جاتی۔۔۔۔ نور کو آج بھی اسکی پیدائش کا دن یاد ہے۔۔۔۔۔۔

” مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے “

میر جو پریشان سا اوپریشن تھیٹر کے باہر چکر لگا رہا تھا ڈاکٹر کے الفاظ سن کر سکتے میں آگیا۔۔۔۔ پہلے پہل تو اسے یقین نا آیا لیکن جب ازلان نے گلے مل کے اسے مبارکباد دی تو وہ خوشی سے چیخ پڑا۔۔۔۔۔۔

” بابا میں پاپا بن گیا “

ازلان بےاختیار ہنس پڑا میر نے روم کی طرف دوڑ لگائی جبکے ازلان فون کر کے سب کو اطلا 

میر جب خوشی سے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں کا منظر دیکھ اسکا موڈ بگڑ گیا۔۔۔۔ ثانی بیڈ پے لیٹی ہنستے ہوئے عمر اور حمزہ کی کروائی دیکھ رہی تھی جو روم کو ڈیکوریٹ کر رہے تھے۔۔۔۔

میر بگڑے موڈ کے ساتھ ثانی کے پاس بیٹھ گیا وہ غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جو آج پہلے سے بڑھ کر خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں سے ہنسی پل بھڑ کو نا رُکی۔۔۔۔ گلابی گال پھول کی طرح ِکھلے ہوئے تھے۔۔۔۔ میر کو مزید غصّہ آگیا انکی آمد پر۔۔۔۔ ثانی جو اسے دیکھ کے رو اٹھنے والی تھی میر کی نظروں سے شرم کے مارے سرخ پڑ گئی۔۔۔۔ جو حمزہ عمر کا خیال کیے بغیر اسے گھور رہا ہے۔۔۔۔۔

” تم لوگ کیسے آئے میں باہر ہی کھڑا تھا مجھے کیوں نہ دیکھے۔۔۔۔۔؟؟“ میر نے بامشکل خود کو کنٹرول کرتے ہوے پوچھا۔۔۔۔

” آپ جب یقین بے یقینی کی کیفیت میں تھے کے باپ بنا یا نہیں تب آئے۔۔۔۔“ عمر نے بلون پُھلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

” اب جاؤ گے کب۔۔۔۔۔؟؟ “

” ہم کیوں جائیں ہمیں اپنی بھتیجی دیکھنی ہے۔۔۔۔“ عمر جانے کا سنتے ہی پھٹ پڑا۔۔۔۔

” عمر کے بچے آفس جاؤ تم کل مجھے اس مہینے کی اب تک کی ساری ڈیلنگس کی لسٹ چاہئیے کلائنٹس کے نام سب موجودد ہوں۔۔۔۔ اور حمزہ تم نے پڑھنا چھوڑ دیا لائبریری جاؤ یہاں کیا کام تمہارا۔۔۔۔؟؟ “

میر نے بھی اسی کے لہجے میں جواب دیا عمر حمزہ اسکے تیور دیکھ کے باہر نکل گئے۔۔۔۔ عمر کو اپنی فکر تھی بھلا اتنا کام اس نے کب کیا تھا۔۔۔۔؟؟

دونوں اس وقت میر کی حالت سمجھ رہے تھے۔۔۔۔ انکے جاتے ہی ثانی کے آنسوؤں آبشار کی طرح بہہ نکلے۔۔۔۔۔

” ثانی رو کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟ دیکھو مجھے بھی رولاؤ گی میں روتا ہوا اچھا لگوں گا۔۔۔۔“

وہ اٹھ کے اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا ثانی بیڈ پی بیٹھی اسکے سینے سے لگی شکوہ کر رہی تھی۔۔۔۔ میر کی شرٹ کو اسنے سختی سے پکڑ رکھا تھا۔۔۔۔۔

” میر میں ہمیشہ احمد کو دیکھ کے دعا کرتی تھی اللہ‎ مجھے بھی اولاد کی نعمت سے نوازے۔۔۔۔ سب مجھے بہت سناتے تھے میر مجھے رونا آتا تھا کے میرے لیے لڑنے والا کوئی نہیں۔۔۔۔ شادیوں میں سب مجھے بانج کہتے تھے کبھی کبھی میری منہ پر کہہ دیتے میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔ مما بھی کب تک بولتیں مجھے ہمیشہ اُس جگہ سے لے آتیں لیکن اُن عورتوں کی باتیں ہر وقت میرا پیچھا کرتیں۔۔۔۔۔ میں بہت روئی تھی میر۔۔۔۔ اللہ‎ سے بہت دعائیں کی تھیں۔۔۔۔ “

ثانی نے آنسوں پوچھتے سر اٹھا کے میر کو دیکھا جس کی پلکیں ہلکی سے نم تھیں۔۔۔۔

” آپ رو رہے ہیں۔۔۔۔؟“ وہ اپنا رونا بھول گئی۔۔۔۔

” بلکل نہیں آج تو خوشی کا دن ہے۔۔۔۔ میں نے کبھی لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے بس اللہ‎ پر یقین رکھا ہے۔۔۔۔ اور دیکھو میرے اللہ‎ نے مجھے نا مراد نہیں لوٹایا۔۔۔۔“ میر نے اسکے ماتھے پر لب رکھ دیے۔۔۔۔۔

” میں بہت خوش ہوں ثانی آج سے پہلی کبھی اس خوشی کا احساس نہیں ہوا تھنک یو سو مچ جان۔۔۔“

میر نے اسکا ڈرپ لگا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگایا پھر بکھرے بال سمیٹ کے کان کے پیچھے کیے۔۔۔۔۔

” تم نے مجھے میری زندگی کا خوبصورت تحفہ دیا ہے۔۔۔۔ اپنی جان سے کھیل کر اب دوبارہ تمہیں اِس تکلیف سے گزرنے نہیں دونگا۔۔۔۔“ ثانی نے نظریں جھکا لیں میر نے ایک بار پھر اسکے ماتھے کا بوسہ لیا۔۔۔۔

” آپ نے دیکھا۔۔۔؟؟“

ثانی نے میر کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹایا اور سیدھے لیٹ گئی میر اسکی حرکت پڑ ہنس پڑا۔۔۔۔

” کسے۔۔۔۔؟؟ “ وہ سمجھا نہیں۔۔۔

” ہماری بیٹی کو۔۔۔“

اس نے ہونٹ کاٹتے کہا اسکا گلابی چہرہ اور گُلنار ہوگیا بیٹی کے ذکر پر۔۔۔۔۔

” بیٹی کی ماں سے فرست ملے تو دیکھوں۔۔۔!!! تمہیں پتا ہے تم پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگئی ہو۔۔۔؟ “ وہ محبت سے لبریز لہجے میں اسے دیکھتے ہوے بولا۔۔۔۔

” میں بھی خوبصورت ہوں بھائی “

عمر دانتوں کی نمائش کرتے ہوے اندر داخل ہوا پیچھے ہی حیا بچی ہاتھ میں لیے اندر آئی۔۔۔ میر سب بھول کے سرخ کمبل میں لپیٹی بچی کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ جسے حیا خوشی خوشی اندر لا رہی تھی۔۔۔۔

” بھابی یہ دیکھیں کتنی پیاری ہے۔۔۔۔ اللہ‎ دل کر رہا اسے کھا جاؤں بٹ ڈاکٹر نے کہا ہے کس نہیں کرنا جراثیم لگیں گے بھائی دیکھیں نا اسے۔۔۔۔“

ثانی اسکی بات سن کر نرمی سے مسکرائی حیا بچی کو لیکر ثانی کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔ میر دوسری سائیڈ تھا کبھی وہ خود اسے دیکھتی تو کبھی ثانی کو دیکھاتی۔۔۔۔ پھر میر کو لیکن دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔۔ میر خود اٹھ کر اسکے پاس آیا اِسنے کانپتے ہاتھوں سے اسے تھاما ایک ننھا سا موتی آنکھوں سے نکل کر اس ننھے گلابی ہاتھ پڑ آٹہرا جس سے وہ تھوڑا کسمسائی۔۔۔۔ میر بھیگی آنکھوں سے مسکرایا اور کچھ پڑھ کے اس پر پھونکا۔۔۔۔

حیا عمر ثانی تینوں اس دیکھ رہے تھے ماحول میں یکایک آفسردگی چھا گئی۔۔۔۔ سب ہی روم میں آچکے تھے میر کے آنسوں کمبل میں لپیٹی بچی کے ہاتھ بھیگو رہے تھے۔۔۔۔ ثانی کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں جو اسے اِبھی چُپ کرا رہا تھا۔۔۔۔ اب خود رو رہا تھا یہ لمس تھا اس نئے وجود کا جس نے میر کی ساری پریشانیاں تکلیفیں پل بھر میں ختم کر دیں۔۔۔۔

” مجھے دو ابھی وہ ننھی سے جان آئی ہے اور تم لوگ خوش ہونے کے بجاۓ رو رہے ہو۔۔۔۔ اللہ‎ کا شکر ادا کرو میر ثانی کی طبیعت ٹھیک نہیں تم اسے اور رولائو۔۔۔۔“

” سوری “

وہ کہتے ہی کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔ حمزہ پیچھے جانے لگا تھا کے نور نے روک دیا۔۔۔۔ حیا بھی چپکے سے جانے لگی تھی کے نور نے سختی سے ڈانٹ کے بیٹھا دیا۔۔۔۔ وہ اس وقت تنہائی چاہتا تھا نور اسکی رگ رگ سے واقف تھی۔۔۔۔

کچھ دیر بعد مسکراتا ہوا میر ہاتھ میں مٹھائی اور ڈھیر ساری شوپرز لیے اندر داخل ہوا۔۔۔۔ کمرے میں سب ہی موجود تھے نور اور حیا اوپریشن کے فوراً بعد بچی کے پاس چلی گئیں۔۔۔۔ اس کے کانوں میں اذان ازلان نے دی تھی۔۔۔۔۔

” حمزہ چار بلونس وہاں بےبی کے پاس لگاؤ۔۔۔۔ “

ڈیکوریشن ابھی بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔ عمر نے حمزہ سے کہا جو بہانے بہانے سی بچی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

” عمر آرام سے ابھی سوئی ہے اگر اٹھی نا تو خود ہی سمبھالنا۔۔۔“ ثانی اسے دھمکی دے کر خود لیٹ گئی۔۔۔۔

” اوف کورس بھابھی جان بےبی کا چاچو ابھی زندہ ہے “

ہنستا مسکراتا میر شوپرز کے ساتھ روم میں داخل ہوا ۔۔

” مما یہ کپڑے اسے پہنا دیں ڈاکٹر سے سب پوچھ کر آیا ہوں “

میر نے شوپرز سے کپڑے جوتے ساکس سب نکال کے سامنے رکھ دیے۔۔۔۔ حیا چھوٹے چھوٹے گلفظ ٹوپی دیکھ کے خوش ہو رہی تھی۔۔۔۔ نور کو تو ہنسی روکنا محال لگی۔۔۔۔ وہ ڈاکٹر سے پوری لسٹ لیکر آیا تھا کس طرح بچا پالتے ہیں۔۔۔۔ بےبی لوشن سوپ سب چیزیں بھر بھر کے لایا تھا اتنا جنونی تو ثانی نے بھی اسے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔

” ڈاکٹر نے یہ نہیں بتایا بچا کیسے پالتے ہیں “

نور نے اسکی چیک لسٹ دیکھتے کہا جو وہ ڈاکٹر سے بنوا کے آیا تھا حیا ثانی دونوں ہی ہنس پڑیں۔۔۔۔

” مما وہ تو آپ جانتی ہیں نا سب “ میر نے سر کھجایا۔۔۔۔۔

” یہ لو نور امی کی کال آئی ہے بات کرلو میں بھابی کو لیکر آتا ہوں نیچے کھڑی ہیں۔۔۔۔“ نور ازلان روم سے نکل گئے۔۔۔۔۔

” بھائی یہ بلون پھولا دیں میرے جبڑوں میں درد ہو رہا ہے۔۔۔۔“

میر اس وقت اپنی بیٹی کو دیکھ کر اب بھی یقینی بے یقینی کی کیفیت میں تھا کے عمر نے اسکے کندھے کو ہلا کر کہا۔۔۔۔۔

میر نے ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈالی عمر گھبرا گیا۔۔۔

” بھائی مذاق کر رہا تھا یو کنٹینیو۔۔۔۔“

عمر نے کہتے ہی دُکھتے جبڑوں سے خود بلون پُھلایا۔۔۔ ثانی اور حیا جو ایک ایک کپڑے اور چیزوں کو دیکھ رہے تھے ہنسنے لگے۔۔۔۔ حمزہ نے بھی اپنے دُکھتے جبڑے دبائے۔۔۔۔ میر اب واپس اپنی بیٹی کو دیکھ رہا تھا جس نے پہلی بار اپنی آنکھیں کھولیں اسکی آنکھوں کا رنگ سیم ثانی جیسا ہزل گرین تھا۔۔۔۔ میر نے ان ننھے پیروں اور آنکھوں کو چوما۔۔۔۔ سکون کی لہر اسکی رگ رگ میں سرایت کر گئی۔۔۔۔

” پاپا “

ہانیہ کی آواز سن کر نور حال میں لوٹی ہانیہ زین سے بچنے کے لیے اب میر کی طرف دوڑ لگا رہی تھی۔۔۔۔ میر نے خود آکر بیچ راستے میں ہی اسے اُٹھا لیا۔۔۔۔ اور زین کو ٹیبل پر بیٹھا دیا جس کا اُترنا اب نا ممکن ہے۔۔۔۔ ہانیہ تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔۔ میر نے مسکراتے ہوئے اسکے سرخ گالوں کو چوما۔۔۔۔۔

” مائے ڈول “

اب شاہ زر بھی آفس سے آچکا تھا اہم میٹنگ ہونے کی وجہ سے وہ پارٹی میں لیٹ پہنچا اور آتے ہی حیا کو اپنے ساتھ روم میں لےگیا۔۔۔۔

” میر اتنا کھیلائیں گے تو وہ موٹی ہو جائے گی۔۔۔“

میر ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنی بیٹی کو ٹیبل پر بیٹھا کر پاستا کھیلا رہا تھا۔۔۔۔ ثانی کی بات سن کر ہنس پڑا۔۔۔۔

” تو کیا ہوا میری بیٹی کو ہونا بھی ہیلدی چاہیے۔۔۔“

اس کے لہجے میں بےنیازی تھی۔۔۔۔ جیسے اسے کوئی فرق نہیں پر رہا۔۔۔

” چاہے پھر گھر بیٹھی رہے۔۔۔؟؟ کوئی شادی نا کرے “

ثانی بھی کہاں اِنہیں چھوڑنے والی تھی۔۔۔۔ اب وہ ٹشو سے ہانیہ کے ہونٹ صاف کر رہا تھا۔۔۔ ہانیہ ہو با ہو میر جیسی تھی۔۔۔۔ لیکن اسکی آنکھیں ثانی جیسی ہزل گرین تھیں۔۔۔۔ وہ کافی صحت مند بچی ہے اور رہی کئی قصر میر نے اسے کھلا کھلا کر پوری کردی۔۔۔۔۔

” نا کرے آئ ڈونٹ کئر میں اپنی ڈول کسی کو دونگا بھی نہیں۔۔۔“

میر نے اسے دیکھتے ہوئے حکمیہ انداز میں کہا ثانی کا پورا منہ کھل گیا۔۔۔ جس پر میر نے ہنستے ہوے کیک اس کے منہ میں ڈال دیا۔۔۔۔

” نہیں دونگا کیا مطلب میر بیٹیوں کی شادی کرانا لازم ہے اور انہیں ایک دن جانا پڑتا ہے۔۔۔۔ “ کیک کھا کر اس نے میر کو جیسے یاد دلایا۔۔۔۔

” اچھا لازم ہے۔۔۔۔؟؟ “ وہ پلیٹ رکھ کر سوچ میں پڑھ گیا اور ہانیہ کو اٹھا کر اسے گودھ میں لیا۔۔۔۔

” لیکن جانا تو لازمی نہیں نا شادی لازمی ہے وہ کر وادیں گے لیکن اسے آپنے پاس رکھونگا۔۔۔۔۔“

” وہ کیسے۔۔۔۔؟؟ “

” داماد کو گھر جمائی بنا کر۔۔۔۔“ کہتے ہی اس نے ہانیہ کے گال چومے ثانی اپنا سر پیٹ کے رہ گئی۔۔۔۔

” اُف میر آپ سے بحث فضول ہے آپ دونوں رہیں باپ بیٹی اپنی ٹیم میں۔۔۔۔“ وہ جانے ہی لگی تھی لیکن میر نے بھری محفل میں اسکا دوپٹہ پکڑ لیا ثانی اپنے آنے پر سخت پشتا رہی تھی۔۔۔۔

” تم بھی تو ہو ہماری ٹیم میں اور اگر خود کو نہیں سمجھتیں تو آجاؤ میں تو کُھلے دل سے تمہارا ویلکم کرتا ہوں “

دوپٹے سے کھنچ کر اسنے ثانی کو اپنے قریب کیا اور اسکی قمر کے گرد بازو حمائل کیے۔۔۔۔۔

” نہیں آنا آپ کی ٹیم میں تھوڑا سا اپنی بیٹی کے گال کا بوسہ لوں تو وہیں سے ڈانتے ہیں اور خود پورا ہانیہ کا گال لال کر دیتے ہیں۔۔۔۔“ ثانی نے اسکا بازو جھٹکا اور فاصلے پر کھڑی ہوگئی میر کو وہ خفا خفا سی لگی۔۔۔۔

” سویٹ ہارٹ تمہارے ہونٹوں پر لپسٹک لگی ہوئی ہوتی ہے اگر میری بیٹی بیمار پڑگئی تو۔۔۔۔؟؟ اِس عمر میں ویسے ہی بچوں کا امیون سسٹم ویک ہوتا ہے “

” آپ ہی تو کہتے ہیں میں آفس سے آؤں تو مجھے فریش ملو اور آپنے ہی کہا تھا لگایا کرو۔۔۔“ میر نے مسکراتے ہوے اپنے بال کھجائے اور ہونٹوں کو آپس میں پیوست کرتے اسکے قریب آکر کہا۔۔۔۔۔

” وہی تو تمہیں منع نہیں کرسکتا نا۔۔۔۔“ بیچارگی کی انتہا تھی۔۔۔۔ ثانی سٹپٹا گئی۔۔۔۔۔

” میر۔۔۔ آپ۔۔۔ “ اپنی خفت مٹانے کو اسنے بات بدلنی چاہی لیکن میر کی آنکھوں میں دیکھ وہ خود تک کو بھول گئی جو اب کسی اور موڈ میں تھا۔۔۔۔

” کیا میں۔۔۔ “ وہ اسکے مزید قریب آگیا کوئی انکی طرف متوجہ نہیں تھا سب ڈنر سے لطف ہو رہے تھے۔۔۔۔۔

” کچھ نہیں۔۔۔ “ اس نے خفا نظر میر پر ڈال کر جیسے ہار مان لی۔۔۔۔

” ویسے ایک راستہ ہے اگر تم اسی طرح میری لیے دو تین پیاری ڈول کا انتظام کرو تو۔۔۔“

وہ اسکی طرف جھکتا کہنے لگا ثانی نے اسے دور دھکیلا میر نے صرف اسے چڑانے کے لیے بولا تھا۔۔۔ ورنہ اب میر اسی کسی تکلیف سی گزرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اسکے لیے اسکی بیٹی ہانیہ ہی کافی تھی۔۔۔۔۔

” افففف۔۔۔ میر آپ بدتمیز ہوتے جا رہے ہیں میں مما سے آپ کی شکایات کرونگی۔۔۔۔ “

وہ کہتے ہی ہوا کے جھونکے کی طرح غائب ہوگئی۔۔۔ میر کا قہقہہ پورے حال میں گونجا اسے ہنستا دیکھ اسکے بازوں میں جھولتی اسکی بیٹی بھی ہنسی۔۔۔۔ تبھی میر کی نظر عمر پر پڑی جو ایک نہایت خوبصورت لڑکی کے ساتھ کھڑا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔ یکایک اسکی بےداغ پیشانی پڑ بل پڑ گئے۔۔۔۔ میر نے حال میں ثانی کو ڈھونڈا وہ حمزہ کے ساتھ کھڑی باتوں میں لگی ہوئی تھی۔۔۔۔ میر نے انکے قریب آکر حمزہ سے پلیٹ لیکر ثانی کو تھامائی اور ہانیہ کو اسے پکڑایا۔۔۔۔

ہانیہ کافی صحت مند تھی اور میر اسے ثانی کو پکڑانے کی غلطی نہیں کر سکتا جو خود ہیل پہنے ساڑی میں ملبوس تھی آج کی تقریب کے لیے نور نے ثانی اور حیا کے لیے سیم ڈریس بنوائی تھی۔۔۔۔

” پکڑو ہانیہ کو میں ذرا اسکی خبر لیکر آتا ہوں اور دھیان سے روئی تو تمہاری بھی خیر نہیں۔۔۔۔“

حمزہ سر ہلا کر رہ گیا ثانی نے بمشکل چہرے پر سنجیدگی طاری رکھی۔۔۔۔ میر ہانیہ کو اسے تھما کر زین کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔

” بھابی اب مزہ آئے گا مجھے کتابوں کا کیڑا کہتا ہے اب دیکھنا بھائی کتنے کیڑے نکلتے ہیں۔۔۔۔“

ثانی بھی اب دلچسپی سے میر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔

” عمر یار تمہارا بیٹا کب سے رو رہا ہے سنمبھالو اسے بہت پیارا ہے بلکل تم پر گیا ہے۔۔۔۔“

عمر جو لڑکی سی باتوں میں لگا تھا میر کی آواز سن کر گھبرا گیا اور اسکا اگلا جملہ تو اسکے ہوش اڑا گیا۔۔۔۔

” م۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔۔“ وہ تو یہ سن کر اُچھل پڑا زین بھی آفت کی پُڑیا ہنس رہا تھا۔۔۔۔

” تم شادی شدہ اور یہ بیٹا۔۔۔۔“ وہ لڑکی سن کر چیخ پڑی۔۔۔۔

” نہیں وہ میں۔۔۔ بھائی۔۔۔ می تو۔۔۔“

وہ ہکلاتا ہوا دونوں کو صفائی پیش کر رہا تھا۔۔۔ میر کی خونخوار نظروں کو دیکھ کر اس نے بمشکل تھوک نگلا۔۔۔۔

” ظاہر ہے اسی کا بیٹا ہے دیکھو بلکل عمر پر گیا ہے۔۔۔۔“ میر نے زین کی شکل پکڑ کے اس لڑکی کے سامنے کی تبھی زین چیخا۔۔۔۔

” پاپا “

زین نے شاہ زر کو حیا کے ساتھ آتا دیکھ چیخ کی اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔۔۔۔ تبھی میر نے زین کا چہرہ موڑ کر عمر کی طرف کیا کے لگے وہ عمر کو دیکھ کر بول رہا ہے۔۔۔۔ وہ لڑکی جو عمر کو دیکھ رہی تھی اب زین کو دیکھنے لگی جو عمر کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

” یو ایڈیٹ شرم نہیں آتی بچے کے باپ ہوکر ایسی حرکتیں کرتے ہو۔۔۔۔؟؟ “ وہ لڑکی چیختی ہوئی وہاں سی گئی اب عمر کی باری تھی۔۔۔۔۔

” تم جیسے گدھے کے لیے اپنے دوست کی بہن کا اتنا اچھا رشتہ ڈھونڈا ہے۔۔۔۔ اور تم یہ حرکتیں کر رہے ہو۔۔۔۔؟؟ لاسٹ وارننگ ہے دوبارہ ایسی حرکت کی تو میں خود تمہارا رشتہ تڑواؤں نگا۔۔۔۔“

میر نے زین عمر کو پکڑایا اور خود اسٹیج پر پرنیاں اور حمزہ کے پاس آیا جنکی ابھی منگنی کی رسم ہونا باکی ہے۔۔۔۔۔

” انڈین ڈراموں میں کس طرح دکھاتے ہیں کے ولین نے ہیروئن کا بیٹا اگواہ کیا اور سالوں بعد پڑھا لکھا کے اچھی ڈگری کے ساتھ گھر بھیج دیا۔۔۔۔۔ کوئی انہیں کیوں نہیں اگواہ کرتا چاہے تو خرچ لےلیں لیکن آفت اپنے گھر لے جائیں۔۔۔۔۔“ عمر نے زین کو دیکھتے کہا جس نے ابھی اسے بےوجہ تھپڑ مارا۔۔۔۔

” زین میری جان۔۔۔“ شاہ زر نے آکر اس سے اپنا بیٹا لیا۔۔۔۔

” بھائی یہ مجھ پر کیوں گیا ہے کوئی اور نہیں ملا تھا گھر میں اسے۔۔۔۔؟؟ “

عمر نے شاہ زر سے کہا اسکے پیچھے ہی حیا بھی آرہی تھی۔۔۔۔

” بہن کے ساتھ رہ کر تم بھی عقل سی پیدل ہوگئے ہو۔۔۔۔“ شاہ زر کہہ کر اسٹیج پر آگیا۔۔۔۔۔

” آئی ایم سوری “

شاہ زر نے دھیرے سی ثانی سے کہا ثانی اسے شرمندہ دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ وہ اسکی مسکراہٹ دیکھ پر سکون ہوگیا۔۔۔ شکر انا کو بلائے طاق رکھ کے شاہ زر نے معافی مانگ لی۔۔۔۔

” ارینج میرج کے ساتھ لو مریج بھی سکسیسفل ہوتی ہے “

میر نے اسٹیج پر بیٹھے حمزہ سے کہا جو ہر وقت ثانی اور اسے دیکھ کر ٹپس لیتا رہتا۔۔۔۔

” بھابی اور آپ کی دیکھا دیکھی میں نے لی ٹرینگ اب میرے کام آئے گی۔۔۔۔“

میر حمزہ کی بات سن کر ہنسا وہیں حمزہ نے پرنیاں کو رنگ پہنائی۔۔۔۔ نور نے چاروں بچوں کے خوشی سی دھمکتے چہرے دیکھے اور آنکھیں موند کے ازلان کے سینے پر سر رکھ دیا۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

The End.....

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya written by Yusra Eva.Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya by Yusra Eva is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment