Pages

Thursday 11 July 2024

Mohabbat Sy Intaqam Tk Novel Faiza Sheikh Complete Romantic New Novel

Mohabbat Sy Intaqam Tk Novel Faiza Sheikh Complete Romantic  New Novel  

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mohabbat Sy Intaqam Tk By Faiza Sheikh Complete Romantic Novel 

Novel Name: Mohabbat Sy Intaqam Tk

Writer Name: Faiza Sheikh 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

یہ منظر خان حویلی کا ہے جہاں آج معمول کے مطابق ہلچل مچی ہوئی تھی ۔۔۔۔ خان بیگم ادھر سے ادھر ملازموں کو کام سمجھا رہی تھیں ۔۔۔۔ آج خان حویلی میں جشن جا سا سما تھا ۔۔۔ ہر کوئی پر جوش سا اپنے کام میں مشغول تھا ۔۔۔ 

تبھی وہاں شانوال خان داخل ہوِئے۔۔۔۔۔۔ خان  بیگم کے آگے سر جھکاتے اس نے پیار لیا تھا ۔ ۔۔۔۔۔

شانوال خان ۔۔۔۔۔ کسرتی وجود ،سرخ و سفید رنگت ،عنابی ہونٹ ___نیلی آنکھیں ۔۔۔۔ جن میں سب کچھ تہس نہس کرنے کا جنون سا شامل تھا۔۔۔ن 

خان بیگم نے ایک نظر بھر کر اپنے خوبرو جوان بیٹے کو دیکھا جو سفید کڑ کڑاتے کاٹن کے سوٹ میں ۔۔۔۔ بے حد شاندار لگ رہا تھا ۔۔۔ 

انہوں نے فورا اس پر آیات الکرسی پڑھ کر پھونکی ۔۔۔۔۔

وہ ماں کی اتنی محبت پر دل سے متبسم ہوا تھا ۔۔۔۔ آج تک اسے شاید کسی نے مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا وہ نرم گو سا شانوال خان۔۔۔۔ صرف اپنی اماں سائیں کے لیے تھا ۔۔۔ 

ورنہ پوری حویلی شانوال خان سے رعب و دبدبے سے واقف تھی ۔۔۔۔۔

________

زرشے اب آپ زیادتی کررہی ہیں ہمارے ساتھ ۔۔۔۔ یشفہ اسے مردان خانے کی جانب جاتا دیکھتے ہوئے بولی تھیں ۔۔۔۔

آپا ۔۔۔۔ آپ نے پننگا کیوں لیا ۔۔۔۔۔ ہم سے یہ جانتے ہوئے کہ اس سڑو شخص کو صرف ہماری کلاس لگانے سے سکون ملتا ہے ۔۔۔۔۔اور آپ بھی ان کے ساتھ مل گئیں ۔۔۔ ہمیں یعنی زرشے حاقان کو ۔۔۔۔ آپ نے اس سڑو کے ساتھ ملکر برا بھلا کہا۔۔۔ اور تو اور ہماری ساری چاکلیٹیس بھی ضبط کر لیں ۔۔۔۔ آپ کو زرا ترس نہ آیا ہماری معصوم خواہشات کا گلا گھونٹتے ہوئے۔۔۔۔۔۔

زرشے بھی اپنے موڈ میں آتی ۔۔۔۔۔ یشفہ کو دھول چٹاگئی تھی ۔۔۔۔۔

زرشے حاقان حویلی کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی جس کو آج تک کسی غیر مرد نے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ حویلی کے قواعد پر ہی اسنے اپنی بیس سالہ زندگی گزاری تھی ۔۔۔ میٹرک کے بعد ان میں سے کسی کو پڑھنے کی اجازت نہ دی گئی تھی تبھی ۔۔۔زرشے کو بی اماں نے گھر داری میں لگا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

سفید میدے جیسی رنگت ۔۔۔۔گلابی تراشیدہ ہونٹ ۔۔۔۔ مخملی سا نازک جسم لمبے سیاہ بال جن کی چٹیا بنائے کمر پر تھی ۔۔۔ 

نازک سا کمسن سراپا کسی کو بھی اپنا اسیر بنا سکتی تھی زرشے حاقان ۔۔۔۔۔ 

اس کے حسن کی ۔۔۔۔ وجہ سے اکثر جہاں آرا بیگم پریشان رہتی تھیں ۔۔۔ حویلی کی روایات سے وہ بخوبی واقف تھیں ۔۔۔۔ وہ ڈرتی تھیں بنفشتے کی خوبصورتی سے ناجانے کونسا ڈر ان کے دل میں کنڈلی مار کے بیٹھا تھا۔۔۔۔ 

اچھا بابا ہم معافی چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔یشفہ گڑیا لاو ہماری ڈائری ہمیں لوٹا دو چندہ ۔۔۔۔۔۔۔

اس بار زرشے نرمی سے گویا ہوئی تھی وہ جانتی تھی یشفہ ایسے ہاتھ آنے والی نہیں۔۔۔۔.  

اوکے چلیں اگر آپ اتنی منت کر ہی رہی ہیں ۔۔۔۔تو میں مان جاتی ہوں میں دے دوں گی آپ کو آپ کی پیاری ۔۔۔۔۔۔ ڈائری مگر بدلے میں آپ کو مجھے پورا چاکلیٹیس کا بوکس دینا ہوگا ۔۔۔۔ بولیں منظور ہے ۔۔۔۔۔

یشفہ  بھی جلدی سے اپنے مقصد کی بات پر آتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔زرشے نے گھور کر اس مطلبی لڑکی کو دیکھا تھا ۔۔۔جو دن میں نہ جانے کتنے ہی چوکلیٹ کھا جاتی تھی ۔۔۔۔

اوکے میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم مجھے میری ڈائری دو میں تمہیں چاکلیٹ منگوا دوں گی ۔۔۔۔زرشے نے اس کے سامنے ہار مانتے ہوئے کہا تھا کیونکہ اس سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اپنی ضد میں آکر اس کی ڈائری کا کیا حال کرتی ۔۔۔۔۔ 

یشفہ درمیانے قد ،تیکھے نقوش کی مالک لڑکی تھی جس کے سنہرے بال اس کی  خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے تھے ۔۔۔کہنے کو وہ محض 18 سال کی تھی لیکن اس کے چہرے پر چھائی معصومیت کسی کا بھی دل لبھا سکتی تھی ۔۔۔۔اپنی نادانیوں کی وجہ سے یشفہ  آئے دن دادی سائیں سے ڈانٹ کھاتی  رہتی تھی ۔۔۔

اوکے میں دے دیتی ہوں آپ کی ڈائری مگر یاد رہے کہ وعدہ خلافی نہ ہو۔ ۔۔۔۔۔ یشفہ کسی بڑی اماں کی طرح اسے آرڈر دیتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔اور ایک ادا سے اپنے سنہری بالوں کو جھٹکتی چھپاک سے بھاگ چکی تھی ۔۔۔۔

پیچھے زرشے اپنی ڈائری کو سینے سے لگائے دل کی دھڑکنوں کو اعتدال پر لانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔

_______

 کہاں جا رہے ہو اور کیوں۔ ۔۔۔۔؟؟؟؟

شانوال خان نے اپنے سامنے کھڑے سانول خان سے سوال کیا تھا جو رات کے اس پہر نہ جانے کہاں جانے کی تیاریوں میں تھا شانوال کو اس کا یوں رات  بے رات باہر رہنا بالکل پسند نہ تھا ۔۔۔۔ایسا نہیں تھا کہ سانول کسی برائی میں تھا  تھا لیکن وہ چاہنے کے باوجود بھی اپنے بھائی پر نرمی برتنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا حویلی کے سخت قانون کو۔ ۔۔۔۔

شانوال جہاں کم گو تھا وہیں سانول لا ابالی سا جزباتی طبیعت کا مالک تھا ۔۔۔

اس کے جذباتیت سے ہی شانوال خان کو خوف محسوس ہوتا تھا۔ ۔۔۔وہ خود سے جڑے رشتوں کے معاملے میں بے حد حساس تھا  سانول  کی عادت تھی کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رشتوں کو کسی کے ساتھ بانٹ نہیں سکتا تھا جس میں سب سے اوپر اس کا بھائی تھا جس کے کہنے پر وہ دنیا کی ہر چیز ٹھکرا سکتا تھا

________

یہ منظر حاقان حویلی کا ہے جہاں راہداری سے گزرتے جونہی حویلی میں داخل ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی محل میں آگئے ہوں گاوں میں ہونے کے باوجود جدید ترز کی بنی یہ حویلی سب کی توجہ اپنی جانب مبزول کرنے میں کامیاب تھی سفید سنگ مرر سے بنی یہ حویلی اپنی مثال آپ تھی ۔ ۔۔۔۔۔

اس حویلی کے مکینوں کی بات کریں تو یہاں دو خاندان آباد ہیں حاقان سائیں اور فرقان سائیں۔ ۔۔۔ دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے سے بے حد محبت ہے حاقان سائیں کی شادی ان کی چچازاد نعیمہ بیگم سے ہوئی اور ان سے اللہ تعالی نے انہیں ایک بیٹی زرشے حاقان اور بیٹے ارتضی حاقان سے نوازہ ارتضی نرم گو طبیعت کا مالک تھا لیکن اپنے باپ کی سیاستوں میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔۔ ۔۔ وہ محض اپنی ماں اور بہن کے لیے جیتا تھا جو اس کی زندگی تھے ۔۔۔۔ 

دوسرے فرقان سائیں جن کی ا ہلیہ  نرمین بیگم ۔۔۔۔ زرا سخت مزاج کی خاتون تھیں جن کے ہاں شادی کے تین سال بعد ان کے گھر میں رب کی رحمت آئی جس کا نام زرشے کے نام پر یشفہ رکھا گیا۔ ۔۔۔حویلی میں عورتوں کے لیے ایک الگ مقام تھا ۔۔۔۔ حاقان جیسے حاکم طبیعت کے مالک ۔۔۔۔ زرا کم ہی گھر کی خواتین کی سنتے تھے پورے گاوں میں ان کی جلالی طبیعت کا بول بالا تھا۔ ۔۔۔۔۔ 

ارتضی باپ کے لاکھ کہنے کے باوجود ۔۔۔ اپنا بزنس سٹارٹ کر چکا تھا جس میں دوسالوں کے مختصر عرصے میں وہ اپنا ایک نام بنا چکا تھا۔ ۔۔۔ ارتضی شہر ہی رہائش پزیر تھا لیکن ماں کی طبیعت خرابی کے باعث کافی دنوں سے گاوں میں ہی قیام پزیر تھا ۔۔۔۔ 

اس کے علاوہ بھی تھی کسی کی سنہری آنکھیں جو ارتضی حاقان کا چین و قرار لوٹ گئیں تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔

__________

آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اس طرح صفائیاں دینے پر ۔۔۔۔میں آپ کی بات پر یقین کر لوں گی کبھی نہیں شانوال خان۔۔۔ آپ نے نا انصافی کی ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔۔

شانوال خان میرے ساتھ کسی غیر مرد کا نام جوڑتے ہوئے آپ کو ذرا حیا نہ آئی ۔۔۔۔

بہت چرچے  سنے تھے میں نے حویلی کے مردوں کی غیرت کی لیکن آج اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر مجھے ہنسی آتی ہے اپنی سوچ پر ۔۔۔۔ اگر آج میری جگہ آپ کی اپنی بہن ہوتی تو کیا آپ اس کے ساتھ یہی سلوک ہونے دیتے بتائیں مجھے شانوال  خان ۔۔۔۔

مانا کہ میں ونی ۔۔۔۔ہو کر آئی ہوں شانوال خان۔ ۔۔۔ لیکن ونی  ہوکر آنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں انسان نہیں ۔۔۔۔مجھے بھی درد ہوتا ہے تکلیف ہوتی ہے 

ارتضی ابھی ڈیرے سے واپس آیا تھا زمینوں کے کچھ معاملات دیکھنے میں اسے کافی وقت لگ چکا تھا ۔۔۔۔۔تب ہی اس نے ماں جی سے کھانا کمرے میں بھیجنے کا کہا تھا ۔۔۔۔ وہ روم میں آکر فریش ہوا ۔۔۔تبھی دروازے کی دستک پر اس نے آنے والے کو اجازت دی ۔۔۔۔

پر سامنے یشفہ کو دیکھ کر اسے بے پائیاں خوشی نے گھیر لیا ۔۔۔۔ارتضی نے اسے دیکھا جو گلابی سوٹ میں کھلتا ہوا گلاب ہی لگ رہی تھی

ارتضی کے قدم بے خودی میں اس کی جانب بڑھنے لگے

اپنے جانب اٹھتے ۔۔۔۔۔۔ ارتضی کے بھاری قدموں کی دھمک سے یشفہ کا نازک سراپا ۔۔۔۔ سہم سا گیا تھا۔ ۔۔۔۔ وہ اپنے اور ارتضی کے رشتے میں موجود ۔۔۔۔ مضبوطی سے ناواقف تھی ۔ ۔


اب اگر ایک بھی قدم آپ نے میری جانب بڑھایا تو میں آپ کو اسی وقت چھوڑ کر چلی جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔


یشفہ دروازے سے لگی تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔۔اسے محسوس ہوا تھا کہ ارتضی کے روم میں رات کے اس پہر آ کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے

اس شخص کی سائیکی سے وہ بخوبی واقف تھی لیکن اپنے ننھے سے دل کو کیسے سنبھالتی ۔۔۔

وہ تو کسی قیمت پر یہاں آنا نہیں چاہتی تھی مگر اپنی ماں کے حکم پر اسے سر جھکانا پڑا


یشفہ اس کی اسی جنونیت سے گھبراتی تھیں جو ہر روز اس کے سامنے آنے پر دکھاتا تھا اس کی یہ سائڈ حویلی کے کسی شخص نے نہیں دیکھی تھی ۔۔۔۔وہ نرم گو سا ارتضیٰ حاقان ۔


۔۔۔یشفہ کے لئے کسی ناگہانی آفت سے کم نہیں ثابت ہوتا تھا ۔۔۔۔جب بھی اس کا سامنا ارتضیٰ سے ہوتا تھا۔۔۔۔ ارتضیٰ اپنی بے باک جسارتوں سے اس کی سانسیں تک روک دیتا تھا


اسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ یہ ننھی سی جان یہ ستم برداشت نہیں کر پاتی تھی اس کی سرگوشیاں ہر لمحے اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھیں وہ جو سوچتی تھی کہ ارتضی سے پیچھا چھڑا لے گی ۔۔۔ اب اپنا ارادہ ملیامیٹ ہوتا نظر آرہا تھا ۔۔۔

ارتضی کا نکاح یشفہ سے اس کی خواہش پر ہی کیا گیا تھا ۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ یشفی ا بھی بہت معصوم ہیں


اسی لئے وہ کسی بھی طرح کا بوجھ ا س کے ننھے کاندھوں پر نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔ ارتضی حاقان کے لیے یہی بات کافی تھی کہ یشفہ اس کے نکاح میں تھی اس کے نام سے منسوب تھی اس سے زیادہ بھلا ارتضیٰ حاقان کو کیا چاہیے تھا ۔۔۔۔


اس کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں پہ ارتضی دل سے مسکراتا تھا ۔۔۔۔اسے اپنی زندگی میں یہ لڑکی جینے کی ایک نئی نوید بن کر چھانے والا سرور لگتی تھی اس کی معصومیت سے ارتضی جیسا مضبوط ایصاب کا مالک شخص اسیر ہوچکا تھا

__________


سانول خان ابھی باہر سے واپس آیا تو وہ اسے اپنے دوپٹے سے الجھتی ہوئی نظر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔


سانول خان کو عجیب سا محسوس ہوا کوئی اتنا جھلا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لڑکی اس کا ضبط آزماتی ہے آج بھی وہ یہی کر رہی تھی نیلے دوپٹے کو سنبھالنے کے چکر میں وہ کافی عجیب مخلوق لگی تھی سانول خان کو


۔۔۔۔۔وہ مسکرایا تھا ۔۔۔۔آج کافی دنوں بعد اس چڑیا کا دیدار ہوا تھا جو ہر وقت اس سے بچنے کے لیے پر تولتی تھی ۔۔۔وہ بے دھیانی میں چلتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی جب اس کا ٹکراؤ سانول خان سے ہوا

گرنے سے بچنے کے لئے بےساختہ ہی سانول خان نے اس کی نازک سی کمر میں اپنا بازو ہمائل کیے ۔۔۔۔۔

گرنے کے ڈر سے ابھی وہ چیخ مارتی کہ سانول کا دوسرا ہاتھ اس کے لبوں پر اپنی گرفت جما گیا ۔۔۔۔۔


کیا کر رہی ہو بیوقوف لڑکی کے گھر والوں کو اکٹھا کرنا چاہتی ہو؟؟؟۔۔۔


سانول کو اس کا بے دھیانی میں چلنا ذرا پسند نہ آیا تھا اگر وہ نہ دیکھتا تو اب تک وہ خود کو نقصان پہنچا چکی ہوتی ۔۔۔۔

یہ آنکھیں کیا اللہ جی نے تمہیں صرف ٹکر ٹکر دیکھنے کے لیے دی ہیں ۔۔۔۔ان کا استعمال کب سیکھو گی تم ۔۔


۔۔نیناں خان

سانوال خان کا انداز بدل چکا تھا وہ نیناں کو اس کی غلطی کا احساس کرانا چاہتا تھا ۔۔۔۔اس کے لیے یہ احساس ہی سوحان روح تھاکہ اگر وہ کچھ پل کی مزید دیری کرتا تو ۔۔۔کیا کرتا وہ چھوٹی سی نازک لڑکی اس کے رگ و پے میں سما چکی تھی ۔۔۔۔


آپ ۔۔۔۔۔ نیناں کے گلابی لبوں سے جونہی لفظ ادا ہوئے۔ ۔۔۔۔سانول خان کی نظریں بے ساختہ اس کے سرخ لبوں پر آٹھہری ۔۔۔نن

نیناں اس کے انداز پر کسمساتے ہوئے سانول کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔ ۔۔وہ بھی اہنی بے خودی پر لعنت بھیجتا جھٹکے سے اسے پرے کرتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ ۔۔۔۔۔


پیچھے نیناں اپنے دل پر ہاتھ رکھتی گہرے سانس بھرنے لگی پوری حویلی میں اسے خوف صرف سانول خان سے ہی محسوس ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔ جس کا لہجہ ہر بار کچھ جتلاتا ہوا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ناجانے وہ کیا ثابت کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔


نیناں سر جھٹکتی کچن کی جانب بڑھ گئی تائی سائیں نے آج ہی اسے دعوت کا بتایا تھا ۔۔۔۔۔ اسی لیے وہ اپنے کمرے سے نکل آئی تھی ۔۔۔۔۔ انہوں نے خصوصی طور اسے تیار ہونے کا کہا تھا یہی وجہ تھی وہ بے دھیانی میں اس ترم خان سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔

_________


حاقان سائیں ۔۔۔۔۔ دن بدن ۔۔۔۔۔ شانوال خان کا بول بالا ہونے لگا ہے ہمارے مزارعے بھی اب تو بغاوت کرنے لگے ہیں ۔۔۔۔ شانوال خان کی بڑھتی شہرت ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے سائیں ۔۔۔۔۔۔۔


ملازم نے سر جھکا کر ساری بات حاقان ۔۔۔ کے گوش گزار کی ۔۔۔جو کافی تزبزب کا شکارتھے ۔۔۔۔۔۔

وہ خود شانوال خان کی قابلیت کے قائل تھے لیکن اپنے مقابل کسی کو دیکھنا انہیں سخت ناپسند تھا ۔۔۔۔ وہ اپنا غرور و تنتنا کسی طور نہیں کھو سکتے تھے اور ہار ماننا ان کی فہرست میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔


اب جو ہونے جارہا تھا ۔۔ سب اس سے نے خبر تھے قسمت کے کھیل کو ن جانے ۔۔۔۔۔۔۔حاقان سائیں کے غرور نے اب کتنی زندگیوں کو روندنا تھا یہ تو وقت نے طے کرنا تھا ۔۔۔۔بہت بڑی قیمت چکانے والے تھےاس بار حاقان حویلی والے جس کے نتائج سے وہ بے خبر تھے ۔۔۔۔ ۔


__________


آج پنچایت میں اس بات کا فیصلہ ہو کر رہے گا ۔۔۔۔ آپ بے فکر ہو جائیں تائی سائیں ۔۔۔۔۔ ہمیں انصاف ہر صورت ملکر رہے گا یہ شانوال خان کا وعدہ ہے آپ سے ۔۔۔ ۔ ۔


۔

میں کبھی معاف نہیں کروں گی ان سب کو ۔۔۔۔۔ شانوال میرا ہنستہ بستہ گھر تباہ ہوگیا میری ساری خوشیاں مجھ سے روٹھ گئیں اور گناہگار آج بھی آزاد ہے ۔۔۔۔۔ مجھے صبر نہیں آتا مممممیں کیسے رہوں ۔۔۔۔۔


وہ روتے ہوئے شانوال خان کو بھی کڑے مراحل سے گزار گئیں تھیں ان کے درد پر خان حویلی میں موجود ہر شخص کی آنکھیں پر نم تھیں جو جوان بیٹے کو کھو کر ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے جی رہی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔ جس گھر میں خوشیوں کے شادیانے بجنے تھے وہاں دور دور تک تاریکی پھیل چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔


ایک کالی رات کی نظر سب کچھ خاک ہو چکا تھا۔ ۔۔۔۔۔ حویلی میں برہا ایک کہرام نے گاوں کے لوگوں کو بھی آبدیدہ کر دیا تھا اس حویلی میں موجود لوگوں کے احسانات و انسانیت کے سب قائل تھے ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہوتے ہیں ایسے لوگ لیکن۔ ۔۔۔ ان پر جو آج بیت رہی تھی کوئی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔


کبھی کبھی زندگی ہم سے ایسے امتحان لیتی ہے کہ ہم اس کے بعد ہر سبق بھول جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہر تختی خالی رہ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہر باب ختم ہوجاتا ہے۔ ۔


۔۔۔ یہی خان حویلی میں ہوا تھا ۔۔

آپ سمجھتے کیا ہے خود کو ۔۔۔۔۔

میری ہستی پر خدا بن بیٹھے ہیں آپ کو کس نے یہ حق دیا کیا آپ میری زندگی سے کھلواڑ کریں ۔۔۔۔۔

مانا کے مجھ سے ایک غلطی ہوئی تھی لیکن اس غلطی کا خمیازہ بھگت چکا ہوں بابا سائیں

میرے درد کو میرا ناسور نہ بنائیں۔۔۔۔۔۔۔ورنہ برسوں سے دبی آگ ۔۔۔اس بار بھڑکی تو اپنے ساتھ سب کو جلا کر راکھ کر دے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔


ارتضیٰ ۔۔۔۔۔۔لگام دو اپنی زبان کو اس سے پہلے کہ ہمارا ہاتھ اٹھ جائے ۔۔۔۔۔

ہمیں ہر حال میں پنچایت کا فیصلہ ماننا ہوگا ۔۔۔۔۔یہ سب جذباتی پن تمہیں خان حویلی کے وارث پر نشانہ سادھنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا

تمہیں کیا لگا کہ وہ اپنے بیٹے ۔۔۔۔۔کے گناہ گار کو اتنی آسانی سے معاف کردیں گے کبھی نہیں وہ خان حویلی کے لوگ ہیں جن کے لئے سب سے اوپر اپنے بنائے گئے قانون ہیں ۔۔۔۔

جو تم نے کیا اس کا ۔۔۔۔خامیازہ نہ صرف تم ہی نہیں ۔۔۔بلکہ اس حویلی کا ہر ایک فرد بھگتے گا ۔۔۔۔

شانوال خان تمہیں کسی طور نہیں بخشے گا ۔۔۔۔۔۔

اسی دن کے لئے ہم تمہیں سمجھاتے تھے ارتضی کے اپنے جذبات پر قابو رکھو لیکن تم نے ہماری ایک نہ سنی اور آج تمہاری چھوٹی سی بیوقوفی نے ہمارا مان عزت سب کچھ ہم سے چھین لیا ۔۔۔۔۔


ہم جانتے ہیں تمہارے اندر بہت آگ ہے لیکن آپ کو تب تک ٹھنڈا رکھنا چاہیے جب تک اسے ۔۔۔۔۔لاو ا نا بنا دیا جائے ۔۔۔۔ورنہ جھلسنے والے کے ہاتھ اور لگانے والے کا جسم دونوں ہی ساتھ جلتے ہیں

وہ تیزی سے ارتضی کی بات کاٹتے ہوئے بولے تھے انہیں ارتضی کا انداز ۔۔۔ذرا بھی پسند نہیں آیا تھا


بابا سائیں میں معافی چاہتا ہوں آپ سے میری بات ۔۔۔۔سمجھیں میں کیسے اپنی بہن ان ظالموں کے حوالے کردو ں ۔۔۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ کہ وہ و نی ہو کر جائے گی ۔۔۔۔۔اس کے بعد اس کا جو حال کیا جائے گا وہ شاید میں اپنے جیتے جی نہ دیکھ سکوں اسی لئے بابا سائیں مجھے اپنے ہاتھوں سے زندہ درگور کر دیں


آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی نازوں سے پلی بہن ۔۔۔۔ایک ایسے شخص کے پلے باندھ دوں جو سے محبت تو دور کی بات ہے اسے اپنی نفرت کی ہی بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔


ارتضیٰ کے لہجے میں بے بسی ہی بے بسی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے نازک سے بہن کا خیال آتے ہی دل سینے میں تڑپ اٹھا تھا ۔۔۔۔۔


ارتضی کو پنچایت کا فیصلہ قطعی نا منظور تھا ۔۔۔۔اس کی سرخ آنکھیں جیسے ابھی چھلکنے کو تیار تھیں

اپنی ا کلوتی بہن ۔۔۔جس کو اس نے کبھی زمانے کی ہوا نہ لگنے دی تھی ۔۔۔آج کیسے محض اپنے خاطر اسے قربان کر دیتا ۔۔۔۔۔۔

دونوں باپ بیٹے اس وقت کڑے مراحل سے گزر رہے تھے حویلی میں اس وقت موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا

ارتضیٰ کا دل کیا کہ وہ یہاں سے کہیں دور چلا جائے ۔۔۔۔۔جو کل صبح ہونے والا تھا اس نے نہ جانے کتنے زندگیاں مزید برباد کرنی تھیں ۔۔۔۔۔

صحیح کہا ہے کسی نے کہ انسان مجبور صرف دو ہی چیزوں کے سامنے ہوتا ہے زن اور زمین ۔۔۔۔ارتضیٰ ہاکان بھی آج بے بس تھا ایک ایسے شخص کے سامنے جو اس کا باپ تھا ۔۔۔۔


مگر وہ سو چ چکا تھا کہ اتنی آسانی سے تو وہ شانوال خان کو بھی نہیں جیتنے دے گا ۔۔۔۔جو ناسور دینے کی شانول تہیہ کر چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہی زخم ارتضی حاقان دے گا اسے ۔۔۔۔

________


یشفہ اور زرشے کا رو رو کر برا حال تھا انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ حاقان سائیں ۔۔۔۔ کیسے اس طرح کا فیصلہ کر سکتے ہیں آخر کیسے اتنی آسانی سے اپنا جگر گوشہ کسی کو دے سکتے ہیں ۔۔۔۔۔


مگر حویلی کی خواتین شاید یہ بات بھول چکی تھیں کہ بات جب حاقان سائیں کی پگڑی پر ۔۔۔۔آتی ہے تو وہ تمام رشتے ناتوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں

ہر وہ رشتہ ان کے لیے بے معنی ٹھہرتا ہے جو ان کی پگڑی کی لاج نہ بچا سکے

اس بار بھی ایک معصوم کی زندگی ان کی پگڑی کی بھینٹ چڑھنے جا رہی تھی ۔۔۔۔ایک ایسے گناہ کے عوض جو اس نے کیا ہی نہیں تھا

پورے گاؤں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیلی تھی کہ شانوال خان کی ونی میں آنے والی لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ حاقان سائیں ۔۔۔۔۔ کی بیٹی زرشے حاقان ہے


لوگوں میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگی تھی کسی کو یقین نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔کے حاقان سائیں اور ارتضی اس فیصلے کی منظوری دے چکے ہیں ۔۔۔۔۔

"اماں سائیں کیا میں آپ لوگوں کے لئے ۔۔۔۔۔۔اتنی آرزاں تھی کہ آپ لوگ مجھے لالہ سائیں کے لئے قربان کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔کیا میرا وجود آپ لوگوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا ۔۔۔آج تک آپ نے جو کچھ بھی کہا اماں سائیں میں نے ہر اس بات پر عمل کیا ۔۔۔۔سر جھکا کر آپ کا کہا مانا لیکن آج دل میں اس قدر تکلیف ہے ۔۔۔کہ آپ ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالیں تو مجھے کوئی افسوس نہیں ۔۔۔۔۔اتنا تو مجھے سمجھ آچکا ہے کہ بابا سائیں اپنا فیصلہ کسی طور نہیں بدلیں گے لیکن میری بھی ایک بات یاد رکھے گا اماں سائیں میرے اندر بھی حاقان سائیں کا لہو ہے ۔۔۔۔۔ایک بار میں نے اس گھر کی دہلیز پار کی تو تا عمر میں آپ لوگوں کو اپنی شکل دیکھنے کے لئے ترسا دوں گی ۔۔۔۔۔۔"

زرشے بھاری دل سے بولتے ہوئے اپنے کمرے میں بند ہو چکی تھی۔۔۔۔دل کا درد حد سے سوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی وقفے وقفے سے اس کی سانسیں نوچ رہا ہے ۔۔۔۔اسے بار بار ایک ہی خیال ڈس رہا تھا کہ کیا وہ سب کے لئے اتنی بے معنی تھی کہ ا سے ایک ہی جھٹکے میں سب خود سے الگ کرنے کے لیے تیار ہوگئے ۔۔۔۔


زرشے وہیں دروازے سے لگ کر بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔


اس نے تو زندگی بھر کسی باہر کے مرد کو دیکھا ہی نہ تھا ۔۔۔اپنے باپ بھائی کو ہیں وہ اپنا کل سرمایہ سمجھتی آئی تھی لیکن آج اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے باپ نے ہی اسے بے سروسامان کردیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔


بھری پنچایت میں اس کا سودا کر دیا گیا تھا ایک ایسے شخص کے ساتھ ۔۔۔۔۔جو نہ جانے اب اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا

ہمیشہ بیٹیوں کو ہی کیوں کہا جاتا ہے کہ باپ کی عزت سنبھال کر رکھنا ۔۔۔۔کوئی یہ کیوں نہیں سمجھاتا کہ بیٹوں کے گناہوں کی سزا بیٹیوں کو نہیں دی جاتی ۔۔۔۔جب بیٹیاں ساری عمر عزت سنبھال سکتی ہیں تو پھر تو کے لیے انہیں قربان کیوں کیا جاتا ہے


__________


خان حویلی میں جشن کا سماں تھا ۔۔۔۔۔

یہ جشن سانول خان کی کامیابی میں رکھا گیا تھا جس نے ۔۔۔حال ہی میں شہر کی بیسٹ یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا تھا ۔۔۔۔

اسی خوشی میں آج یہ تقریب رکھی گئی تھی جس میں گاؤں کے تمام معزز لوگوں کو مد عو کیا گیا تھا۔ ۔۔۔۔

ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب تھا ۔۔۔۔۔

تب بھی وہ ۔۔۔۔۔فریش سا ۔۔۔۔سیڑھیاں اترتے ہوئے دکھائی دیا ۔۔۔

سانول مکمل بلیک کرتا شلوار زیب تن کیا تھا جس میں اس کی سفید رنگت مزید دمک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔


وہ اپنی شاہانہ چال چلتے ہوئے ۔۔۔۔۔باری باری سب سے ملنے لگا ۔۔۔۔۔سانول خان کے انداز میں ایک ٹھہراؤ تھا جو دیکھنے والے کو مبہوت کرتا تھا ۔۔۔۔نہ جانے کتنی ہی لڑکیاں "سانول خان" کے اس انداز پر اپنا دل ہار چکی تھی جو کسی کو ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔


سانول ۔۔۔۔۔ اپنے دوستوں سے مل ہی رہا تھا جب اس کی نظر نیناں پر پڑی جو زنان خانے کے دروازے پر کھڑی اپنی مومی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی ۔۔۔۔


بے چینی اس کے انگ انگ سے نمایاں تھی ۔۔۔۔۔ شاید وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی سانول کی پیشانی پر بلوں کا اضافہ ہوا کیونکہ اس کے علاوہ بھی کئی نظریں تھیں جو نیناں خان کے سراپے پر ٹکی ہوئی تھیں یہی بات سانول خان کو بھڑکانے کے لیے کافی تھی


وہ ایک ہی جست میں نینا خان کے قریب پہنچ کر ۔۔۔۔۔بازوں سے کھینچتا خود کے بے حد قریب کر گیا تھا ۔۔۔۔۔ نینا تو اس اچانک حملے پر بوکھلا سی گِئی تھی


وہ تو کب سے تائی سائیں کا انتظار کر رہی تھی جو اسے یہاں ٹھہرنے کا بول کر نا جانے خود کہاں غائب ہو گئی تھیں ۔۔۔۔


نیناں کسمسا کر اس سے دور ہوتی کہ بہت اچانک سانول خان کا مضوط بازو اس کی کمر کے گرد حائل ہوتا اسے جھجھکنے پر مجبور کر گیا ۔۔۔۔۔


ساءییییییی۔ ۔۔۔ کیییا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟

نیناں کی زبان سے لفظ نکلنے سے انکاری تھے ۔۔۔۔۔۔۔ سانول خان کی گرم سانسیں نیناں خان کو اپنے چہرے پر پڑتی محسوس ہورہی تھیں ۔۔۔۔

اسے لگا وہ مزید دو سیکنڈ بھی سانول خان کے حصار میں رہی تو اس کے حواس ساتھ چھوڑ دینگے ۔۔۔۔۔


میری چھوڑو میری چڑیا ۔۔۔۔ یہ بتا و یہاں کیا کر رہی ہو۔ ۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو ۔۔۔۔ نا کہ یہاں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں حویلی کی عورتوں کو ۔۔۔۔۔ تو کیا تم ۔۔۔۔


کوئی خلائی مخلوق ہو۔ ۔۔۔ جسے ہر بار الگ سے سمجھانا پڑے گا۔ ۔۔۔۔


نیناں کا تو خود کو عورت کہنے ہر ہی منہ کھل چکا تھا ۔۔۔


"سائیں میں آپ کو کہاں سے عورت لگتی ہوں ۔۔۔۔ خوف کریں خدا کا "

وہ لہجے میں خفگی سموئے بولی تھی ۔۔۔۔۔ سانول کو جواب دینے کے چکر میں وہ یہ بات سرے سے ہی بھول چکی تھی کہ اب وہ سانول کے حصار میں کھڑی تھی بنا ہچکچائے ۔۔۔۔۔۔۔


سانول نے آئبرو اچکاتےاس کے جواب کو سراہا تھا کہ واقعی ۔۔۔۔۔۔


کیوں نیناں خان کیا تم عورت نہیں ہو۔ ۔۔۔۔؟؟؟؟ تمہیں ڈاوٹ ہے کیا۔ ۔۔

سانول کا انداز شرارت لیے ہوئے تھا۔


۔۔۔۔ نیناں اس کی بات پر بوکھلاتی ہوئی سٹپٹاسی گِئی تھی ۔۔۔۔ یہ شخص ہر بار اسے ایسے ہی لاجواب کرتا تھا۔ ۔۔۔۔

اور نیناں بیچاری سرخ پڑتی اپنے چھپنے کے لیے جگہ ڈھونڈنے نکل پڑتی کیونکہ اس شخص کا تو کوئی بھروسہ نہیں تھا


۔۔۔۔ کب کیا بول جائے ۔۔۔۔ اور پل بھر میں سامنے والے کو سرخ کرنے کی کوالٹی صرف سانول خان میں تھی ۔۔۔۔۔۔

_______

محبتوں کے نتائج اکثر ۔۔۔۔۔انسان کو اس نہج پر سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں جہاں اس کے پاس سوائے سمجھوتے کے کوئی راہ باقی نہیں رہتی

زرشے حاقان ۔۔۔۔۔۔ نے بھی آج ایک ایسا ہی قرض چکانا تھا ۔۔۔اپنے باپ کی پگڑی کا قرض ۔۔۔۔اپنے بھائی کی جان بچانے کا مان ۔۔۔۔ماں کی جھکی ہوئی نظروں میں چھپی التجا ۔۔۔۔۔دل میں ہوتی توڑ پھوڑ سے وہ نازک سی زرشے بری طرح بکھر چکی تھی


اس نے کب سوچا تھا کہ اس کے بابا سائیں اس کے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

اس نے تو ہمیشہ اپنے بابا کی باتوں کا مان رکھا تھا ۔۔۔۔

آج تک کبھی ان کے سامنے اپنی نظر نہیں اٹھائی تھی ۔۔۔۔۔

اور آج اس کے بابا ہمیشہ کے لئے اسے خود سے دور کرنے کی ٹھان چکے تھے ۔۔۔۔

اس نے خان حویلی کے لوگوں کے بارے میں سن رکھا تھا۔۔۔۔۔۔


کہ خان حویلی کے لوگوں کی دوستی بے مثال تھی تو دشمنی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں رہا تھا

زرشے آنے والے وقت سے شدید خوفزدہ تھی ۔۔۔۔۔۔

وہ خود کو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار کرنا چاہتی تھی لیکن دل ۔۔۔۔ کسی زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔ 

پنچایت لگ چکی تھی ارتضی اور حاقان صاحب کے کندھے جھکے ہوئے تھے دوسری جانب شانوال کے ہونٹوں پر تنزیہ مسکراہٹ تھی 

اک فتح مندی کی  مسکراہٹ ۔۔۔۔۔جو کچھ خان حویلی ارتضی حاقان  کی وجہ سے برداشت کر چکی تھی یہ تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔

اور کچھ ہی دیر میں مولوی صاحب بھی آ چکے تھے سرپنچ نے مولوی صاحب کو نکاح شروع کرنے کی اجازت دی شانوال خان نے بنا دیری کیے اس نازک سی لڑکی کو اپنے نکاح میں قبول کیا جس کو ابھی ناجانے کتنے امتحان دینے تھے 

حاقان صاحب ۔۔۔۔ مولوی صاحب کو لیے ایک کمرے کی جانب مڑ گئے جہاں وہ ساکت جامد سی کٹھ پتلی کی مانند بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔

اسے جیسے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا زرشے  کو محسوس ہوا کہ کوئی اس کے پاس آ کر بیٹھا ہے ذرا سی گردن موڑ کر دیکھا تو اپنے بابا سائیں کو پایا جن کی گردن اور کندھے جھکے ہوئے تھے زرشے نے ایک چبھتی سرخ نظر اٹھا کر سامنے کھڑے اپنے بھائی کو دیکھا جس کی سخت بھنچی ہوئی مٹھیاں  اس بات کی گواہ تھیں  کہ وہ اپنے اوپر کس قدر ضبط کیے کھڑا ہے 

ارتضی حاقان کو لگا تھا کہ کوئی اس کے ہاتھ سے اس کی زندگی چھین رہا ہے ۔۔۔لاڈوں سے پلی بہن کو دشمنوں کے حوالے کرنا اس کے لیے آسان نہ تھا 

پر وہ کسی طور اپنے بابا سائیں کے حکم کے خلاف نہیں جاسکتا تھا 

جو کھیل شانوال  خان اس کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔ارتضی حاقان نے خود سے عظم کیا تھا کہ کسی طور اسے نہیں بخشے گا ۔۔ ۔ 

کچھ ہی دیر میں نکاح پڑھایا جا چکا تھا ۔۔۔۔زرشے  کو معلوم نہ ہوا کہ کب اس نے اپنے سارے حقوق سانوال خان کے نام کردیے 

وہ بے جان سے گڑیا اب ہمت ہار چکی تھی ۔۔۔۔۔

شانوال  خان کا انتقام  جیت چکا تھا

ارتضی  میں مزید ہمت نہیں تھی کہ وہ کسی چیز کا سامنا کرتا اسی لیے وہاں سے جا چکا تھا 

ارتضیٰ کے جانے کے بعد ہی وہاں شانوال  خان اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا نظر اندر آیا تھا اس کی سیدھا اپنی نئی نویلی دلہن پر پڑی تھی جو خوف کے زیر اثر اپنے باپ کے کندھے سے لوجود میں جیسے چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوئی تھی وجود میں جیسے چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوئی تھی گی تھی شانوال خان کے  لب اسے دیکھ کر مسکرائے تھے جو سرخ چادر اوڑھے گھٹ گھٹ کر رورہی تھی 

بس کرو لڑکی رونا دھونا ۔۔۔۔ہمیں ابھی کی بھی حویلی کے لئے نکلنا ہوگا میرے پاس فضول وقت نہیں ہے اور یہ آنسو بعد کے لیے بچا کر رکھو ۔۔۔۔۔

شانوال خان کے لہجے میں موجود سردمہری محسوس کرکے زرشے کا نازک سراپا سہم سا گیا تھا  تھی وجود میں چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہوئی تھی 

زرشے  کا دل چاہا کہ دھاڑیں مار مار کر اپنی بے بسی پر روئے کا اپنی تباہی پر ماتم کناں ہو ۔۔۔۔باپ بھائی کے لئے تو وہ کل ہی مر چکی تھی اور آج سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں اپنے لیے بے پناہ نفرت دیکھتی وہ نئے سرے سے تکلیف سے دوچار ہوئی تھی 

کون کہتا ہے کہ محبت برباد کرتی ہیں کون کہتا ہے کہ محبت برباد کرتی ہیں کچھ نفرت بھی اس قدر اذیت ناک ہوتی ہیں کہ روح تک  تڑپ جاتی ہے 

شانوال خان ۔۔۔۔ نے اس کا بازو حاقان کی گرفت سے آزاد کرتے اپنی سخت گرفت میں لیا تھا حاقان صاحب آگ اگلتی نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھتے رہے جو روتے ہوئے شانوال سے اپنا آپ آزاد کراتی ان کے قریب آنے کی جدو جہد کر رہی تھی 

شانوال خان بنا  اس کے آنسوؤں سے  برستی آنکھوں پر توجہ دیں اسے اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا ۔۔۔اور جھٹکے سے لا کر گاڑی میں بٹھایا یہ سفر کتنا پرلطف ہونا تھا یہ تو کوئی زرشے حاقان  سے پوچھتا جس نے بیٹھے بٹھائے ایک پل میں اپنا سب کچھ گنوا دیا تھا ۔۔۔۔اور وہ قصور وار کہاں تھی کی ارتضی حاقان  کی بہن ہونا اس کا قصور تھا ۔۔۔۔۔

شانوال وقفے سے  اس کی جانب دیکھتا جو مسلسل روتے ہوئے اپنی حالت بگاڑ چکی تھی 

شانوال  خان کو اس لڑکی سے کوئی دلی  لگاؤ نہ تھا پر اپنے ساتھ ہوئی زیادتی اسے کسی بھی طرح کی احساس سے عاری کیے ہوئے تھے وہ کوئی سخت جابر قسم کا انسان نہیں تھا ۔۔۔ پر ارتضی حاقان کی بے  رحمی نے اس سے اس کی صلہ رحمی چھین لی تھی 

"اگر تم چپ نہ ہوئی تو میں تمہارا منہ اپنے طریقے سے بند کراؤں گا لڑکی ۔۔۔۔۔مجھے سخت الجھن ہے ان جھوٹے فریبی آنسووں سے  یہ انسان کو کمزور بناتے ہیں ور شانوال خان کمزور نہیں  تم کیا سمجھتی ہو تمہارے رونے سے مجھے تم پر رحم آئے گا "

اس کی دھاڑتی آواز سنتے زرشے کی آواز حلق میں ہی دم توڑ گئی تھی وہ تھک ہار کر اپنا سر سیٹ کی پشت سے لگا گئی ۔۔۔۔۔۔

دل میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگی تھی ۔۔۔۔بابا بھائی کس حال  میں چھوڑ گئے ہیں مجھے ۔۔۔۔

اب تو کوئی تکلیف بھی مجھے اتنی اذیت نہیں دے سکتی بابا سائیں جتنی آپ مجھے دے چکے ہیں دل میں اٹھتے طوفان  کو دباتے اپنی سرخ آنکھوں کو میچ گئی تھی ۔۔۔ابھی تو درد کی نئی منازل اسے طے کرنی تھی ان خاردار راستوں کا سفر کرنا تھا جو اس کے ساتھ ساتھ روح کو بھی زخمی کرنے والے تھے 

زرشے  کے  اچانک چپ ہونے پر ۔۔۔۔شانوال نے  ایک نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔

وہ لڑکی دیکھنے میں جتنی معصوم تھی اس سے زیادہ خوبصورت تھی ۔۔۔یہ شانوال خان کا اس کی ذات پر کیا گیا پہلا تجزیہ تھا۔۔۔۔اس کی نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے مومی چہرے پر بھٹکنے لگیں تھیں وہ کوئی کمزور نفس کا مالک شخص نہیں تھا پر اپنی ملکیت کا احساس دل میں انگڑائی لے کر بیدار ہونے لگا تھا ایک پل کو اس کا دل چاہا کہ اس کے سارے  آنسو بھی پوروں پر سمیٹ 

لے ۔۔۔۔دل کی لمحے بھر کے دغابازی کو شانوال خان نے سر جھٹکتے ہوئے خود سے دور کیا ۔۔۔۔ اور واپس سے ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی کو بھی آپ کی اصلیت نہ بتاؤں تو ابھی کے ابھی چلے جائیں یہاں سے ۔۔۔۔۔ ۔

ایسے کیسے میں تمہاری جان چھوڑ سکتا ہوں ۔۔۔آخر خان حویلی کی بہت لاڈلی ہوں ۔۔۔تمہارے نام نہاد بھائی نے جو میری بہن کے ساتھ کیا ۔۔۔۔۔اسے اتنی آسانی سے تو میں معاف نہیں کر سکتا ۔۔

میری معصوم بہن کی قربانی شانوال خان کو بہت مہنگی پڑے گی میں نے زندگی میں کبھی کسی سے اتنی نفرت نہیں کی جتنی نفرت میں خان حویلی کے لوگوں سے کرتا ہوں ۔۔۔۔اور نہ جانے اب اس نفرت میں کس کس کو جل کر بھسم ہو نا ہوگا ۔۔۔۔


ارتضیٰ حاقان ۔۔ ۔ لگام دو اپنی زبان کو ۔۔۔۔میں خان زادی ہوں ۔۔۔۔کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں ۔۔۔۔۔میرے بارے میں غلط الفاظ کا چناؤ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا یہ مت سمجھنا کہ لڑکی ہے تو خاموش ہو جائے گی ۔۔۔میرے باپ بھائی نے مجھے وقت پڑنے پر مضبوط بننا بھی سکھایا ہے ۔۔۔۔اگر میں چاہوں تو ابھی کے ابھی تمہارے غلیظ آنکھوں کو نوچ کر پھینک سکتی ہو ۔۔۔۔۔

پر میں اپنے ہاتھ خراب نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔۔تم جیسے لوگ اپنا گناہ قبول کرنے کے بجائے دوسروں کو اذیت ہی دے سکتے ہیں

اور خبردار آئندہ کے بعد تم نے میرا راستہ روکنے کی کوشش بھی کی تو ۔۔۔۔اپنی ٹانگوں کی سلامتی بھول جانا

ارتضی تو اس چھٹانک بھر کی لڑکی کے تیور دیکھ کر حیران تھا جو اسے للکار کے جا چکی تھی ۔۔۔۔۔

وہ غصے سے مٹھیاں بھیجتا وہاں سے نکل گیا تھا ۔۔۔۔۔

_______

زرشے نے حویلی میں قدم رکھا تو اس کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ قدم آگے بڑھنے سے انکاری تھے ۔۔

شانوال خان جو اس کے پیچھے ہی اندر آ رہا تھا اسے ایک جگہ پر ٹکا دیکھ ۔۔۔اپنا مضبوط ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھتا اسے اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کر گیا ۔۔۔۔


زرشے سہمی نظروں سے اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔جب دو عورتیں اس کے سامنے آکھڑی ہوئیں ۔۔۔۔۔اس نے ڈر کے مارے فوراً شانوال کا بازو تھا ما تھا جیسے وہ اسے سب مصیبتوں سے بچا لے گا پر شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ جس ستمگر کے بازو میں پناہ لینے کی کوشش کر رہی ہے

وہی اس کی ذات کی سب سے بڑی اذیت گاہ ہے ۔۔۔۔۔


اے لڑکی دور ہٹو میرے بیٹے سے ۔۔۔۔۔۔۔تائی جان نخوت سے زرشے کو دیکھتی سر جھٹکتے ہوئے بولی تھیں ان کی آواز میں خشونت نمایاں تھی ۔۔۔۔۔

انہوں نے جھٹکے سے زرشے کو کھینچ کر شانوال سے الگ کیا اور اپنے ساتھ نیچے لے جانے لگی


چھوڑیں معزرت خان بیگم مجھے چھوڑ دیں میں نے کچھ نہیں کیا میری کوئی غلطی نہیں مجھے چھوڑ دیں ۔

۔۔۔زرشے روتے ہوئے ان سے اپنا آپ چھڑا رہی تھی لیکن ان کی سخت گرفت کسی طور کم نہیں ہو نے والی تھی

تائی جان نے اسے نیچے بنی کوٹھری میں ۔۔۔۔۔دھکیلا تھا

لڑکی یاد رکھنا یہی تمہاری اصلی جگہ ہے

اور آئندہ کے بعد میرے بیٹے کے قریب پھٹکی تو اپنے انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی تمہارا بھائی میرے ایک بیٹے کو تو ۔۔۔مجھ سے دور کر ہی چکا ہے اور اب تم کیا چاہتی ہو

کہ اپنی خوبصورتی کے جال میں میرے دوسرے بیٹے کو بھی پھانس ہوگی میرے جیتے جی ایسا کبھی نہیں ہوگا تم ساری زندگی نارسائی کے روگ میں تڑپتی رہ جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔


تائی جان تنفر سے بولتی اسے اندھیرے کمرے میں چھوڑ کر جا چکی تھی ۔۔۔۔۔زرشے اندھیرے سے ڈرتی سہمتی اپنے دونوں بازو اپنے گھٹنوں کے گر لپیٹے اپنی سیاہ بختی پر آنسو بہانے لگی ۔۔۔۔یہ تو صرف شروعات تھی اس کی بد نصیبی ہی آگے جاکے نہ جانے کیا کچھ اسے برداشت کرنا تھا

_______

شانوال خان کو زرشے کی ۔۔۔۔۔التجا کرتی آنکھیں ایک پل کو سکون نہ لینے دے رہی تھیں اس کی آنکھوں میں عجیب سا سحر تھا جو شانوال خان کو اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا وہ چاہ کر بھی اس ساحرہ کے طلسم سے خود کو نہیں بچاپا رہا تھا ۔۔۔۔


یہ رات کا دوسرا پہر تھا جب شانوال سیاہ چادر اپنے کندھوں کے گرد لپیٹے ۔۔۔۔۔اس کمرے کی جانب قدم بڑھانے لگا تھا جہاں زرشے ۔۔۔بھوک پیاس سے نڈھال ۔۔

۔اپنے حواس کھو بیٹھی تھی

شانوال نے ایک نظر ادھر ادھر ڈالی ۔۔۔۔اور آہستہ سے دروازہ پرے دھکیلتا۔ ۔۔اپنے بھاری بوٹوں میں مقید قدم اندر رکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔


سرخ و سفید رنگت میں گھلی زردی دیکھ۔۔۔۔ شانوال خان کو اپنا آپ مجرم سا لگا ۔۔۔۔وہ اس لڑکی کے ساتھ کبھی ناانصافی کرنے کے حق میں نہیں تھا لیکن اگر وہ یہ بات کسی پر ظاہر کرتا تو کوئی بھی بات سے متفق نہ ہوتا ۔۔۔۔۔

اسی لئے چاہنے نہ چاہنے کے باوجود اس کے سامنے گٹھڑی بنی لڑکی اس کے نکاح میں تھی ۔۔۔۔۔۔

اسے عورتوں سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا ورنہ اس کے ارد گرد منڈلاتی تتلیاں کسی طور کم نہ تھیں

شانوال کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتیں ۔۔۔۔

زرشے کو اس حالت میں دیکھ شانوال کے قدموں میں بے ساختہ تیزی آئی تھی ۔۔۔۔اس نے زرشے کو بازو میں تھامتے پاس پڑے ایک بوسیدہ سے بیڈ پر لٹایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

ایک پل کو اس کی پیلی پڑھتی رنگت دیکھ کر و ہ خود بھی دھک سے رہ گیا ۔۔۔۔۔اس نے فورا اپنے خاص ملازم کو کال پر ڈاکٹر لانے کا حکم دیا اور خود اس کے قریب بیٹھا اس کے ہاتھ مسلنے لگا


کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر آج چکی تھی اس نے زرشے کا چیک کیا اور شدید پریشانی کے باعث بے ہوش ہونے کی وجہ بتائی ۔۔۔۔ڈاکٹرز زرشے کو انجیکشن لگاکر اسے دوائیاں وقت پر دینے کی ہدایات دیتی جا چکی تھی ۔۔۔۔۔

پیچھے شانوال ایک نئی کشمکش میں تھا کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے رات کے اس پہر ورنہ زرشے کی خیر نہیں ۔۔۔۔۔

اس نے دھیرے سے زرشے کے چہرے پر پانی کے چند چھینٹے ۔۔۔۔ڈالے زرشے ۔۔۔۔مندی آنکھیں کھول کر ۔۔۔۔اردگرد کے منظر کا جائزہ لینے لگی کی آخر وہ تھی کہاں ۔۔۔۔

کیا موت اسے اپنی آغوش میں لے چکی ہے یا سانسیں اب بھی باقی ہیں مزید کتنے زخم ہیں جو اس کی روح پر لگنے ہِیں


زرشے گہری سانس بھر کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی پر اپنے سامنے شانوال خان کو بیٹھے دیکھ اس کے رہے سہے ہوش و حواس بھی جانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ لہرا کر گرتی شانوال نےاپنے بازو بےساختہ اس کی کمر کے گرد حائل کیے


بس کریں ابھی تو آپ پر کوئی ظلم کے پہاڑ نہیں ٹوٹے جو اس طرح کا ردعمل ظاہر کر رہی ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔اگر ابھی سے ہارمان جائیں گی تو آگے کیسے برداشت کریں گی ۔۔۔۔آپ وہ بنیں جو آپ ہیں جو لوگ آپ کو بنانا چاہتے ہیں وہ نہیں اگر آپ غلط نہیں ہیں تو آپ کو برداشت کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

آپ سوچ رہی ہوں گی کہ میں یہ باتیں آپ سے کیوں کر رہا ہوں ۔۔۔۔دیکھیں میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور نہ ہی میں دشمنی کو برقرار رکھنے کے حق میں ہوں ۔۔۔۔میں بس اس سب سازش کے پیچھے چھپے اصلی چہرے کو سامنے لانا چاہتا ہوں جس کے لئے مجھے آپ کے ساتھ کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ہمیں سب کے سامنے یہی ظاہر کا نہ ہوگا کہ حویلی میں آپ کے ساتھ ۔۔۔۔کسی کا رویہ صحیح نہیں ہے ۔۔۔۔۔

اس کے بعد میں خود آپ کو آزاد کر دوں گا ۔۔۔لیکن تب تک آپ میری عزت اور میں نہیں چاہتا کہ میری عزت پر ذرا سی بھی آ جائے آپ اٹھیں اور یہ ۔۔۔۔کھانا کھائیں ۔۔۔میں جانتا ہوں کے تائی جان سخت خفا ہیں لیکن انہیں بھی اپنے بیٹے کے جانے کے دکھ نے ۔۔۔۔اندر سے خالی کر دیا ہے

مجھے یقین ہے کہ آپ میری بات کا مان رکھیں گی


شانوال خان کی ساری باتیں سن کر سر سے تو ساکت رہ گئی تھی اسے کہاں ۔ امید تھی کہ حویلی میں موجود کوئی شخص اس طرح اس کا خیال رکھ سکتا ہے۔ ۔۔۔۔اسے یہ سب بھی حویلی والوں کا نیا کھیل لگا تبھی وہ بدک سی گئی ۔۔۔۔۔


مجھے پتہ ہے کہ آپ کا یہ ایک نیا ڈھونگ ہے میں کسی بھی طرح آپ پر یقین کرنے کی ضامن نہیں ہوسکتی شانوال خان ۔۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے جو شخص میرے باپ کی عزت کو اپنے پیروں کی دھول بنا کر ان کے سر میں خاک ڈال چکا ہے اب مجھے اپنی عزت بنانے کی بات کر رہا ہے ۔۔۔۔۔کیسے یقین کروں


حد ادب لڑکی ۔۔۔۔ ہمارے ڈھیل دینے کا ہماری نرمی کا اتنا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ کہ ہم تم سے سرد رویہ اپنانے پر مجبور ہوجائیں ۔۔۔تمہیں سب بات سے آگاہ کرنا ہمارا فرض تھا کیوں کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہماری وجہ سے کسی زی روح کو کوئی نقصان پہنچے ۔۔۔پر شاید ہم غلط تھے آخر ہو تو تم بھی حاقان سائیں کی بیٹی ۔۔۔۔جو جوش میں ہمیشہ اپنے ہوش کھو دیتے ہیں


آپ میرے بابا سائیں کے بارے میں اس طرح بات نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔

میں تیار ہوں آپ کی ہر سزا کے لئے آپ جو چاہیں میرے ساتھ کر سکتے ہیں لیکن میرے باپ اور بھائی کے بارے میں مزید گوہر افشانی میں آپ کے منہ سے سننا نہیں سننا چاہتی ۔۔۔۔۔آپ کے خاندان نے ہمارے ساتھ جو کرنا چاہا وہ کر چکے ہیں آپ لوگ مزید سزا کے لیے بھی میں تیار ہوں لیکن اس کے بعد میں آپ کو محض اتنا کہنا چاہوں گی کہ کل کو کوئی دوسری زرشے اس دنیا میں آئی تو میں خود اپنے ہاتھوں سے دفنا دو گی ۔۔۔۔۔

اس چھوٹی سی لڑکی کی باتیں شانو ال کا پارہ بھر میں ہائی کر گئی تھی

اچھا تو تم مجھے اجازت دیتی ہوں کہ میں تمہارے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔اس کی نظر یں زرشے کو اپنے وجود کے آرپار ہوتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

نہیں میرا ۔۔۔۔وہ مطلب۔ ۔۔۔۔۔۔

زبان کو قابو میں رکھو لڑکی نہیں جانتی کہ کیا لفظ ادا کر رہی ہوں اگر میں ابھی تم سے اپنے حقوق لینے پر آیا تو ساری زندگی رونے میں گزر جائے گی تمہاری ۔۔۔۔۔اس لئے میرے سامنے بڑی باتیں کرنے سے گریز کرو ۔۔۔۔اگر تمہارے باپ اور بھائی کو تمہارا اتنا ہی خیال ہوتا تو کبھی بھی مجھ جیسے شخص کے حوالے تمہیں نہ کرتے

زرشے کو اس کی ساری باتیں صحیح لگی تھیں صحیح تو کہہ رہا تھا وہ آخر کس مان سے وہ اس کے سامنے اپنے باپ اور بھائی کا دفع کر رہی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اسے اپنی انا پر قربان کر چکے ہیں

طعنے مار رہے ہیں آپ مجھے ۔۔۔۔میں جانتی ہوں میری ذات آپ کے کسی کام کی نہیں ۔۔۔۔۔لیکن خدارا مجھ پر ایک احسان کردیں ۔۔۔۔

۔۔

زرشےا بھی بول ہی رہی تھی ۔۔۔۔۔ کہ شانوال خان کو باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی

وہ فورا الرٹ ہوا تھا اس نے زرشے کو چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا مگر وہ زندگی ہی کیا جو خاموش ہو جائے ۔۔۔۔۔

شانوال نے اسے سخت خوری سے نوازا تھا ۔۔۔۔۔۔ جس کی پٹر پٹراب بھی چالو تھی

تیش میں آکر شانوال خان ایک ہی جست میں اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتا زرشے کے لبوں سے تمام الفاظ چن چکا تھا معنی خیز لمحے خاموشی سے سرکنے لگے زر سے آنکھیں پھاڑے شانِ خان کو خود پر جو کے دیکھ رہی تھی جو بڑی مہویت سے اس کی سانسوں میں اپنی سانسیں الجھائے بے خود سا تھا ۔۔۔۔۔


دل کی دھک دھک کانوں میں سنائی دینے لگی تھی ۔۔۔۔۔

اسے لگا اگر دو پل بھی مزید وہ اس کی سانسیں قید کیے رہا تو بیہوش ہو جائے گی ۔۔۔۔

بیگم ہوش میں آجائیں ۔۔۔۔۔

قدموں کی چاپ دور ہوتے محسوس کرتا شانوال زرشے سے مخاطب تھا

میری خوشبو مدہوش کن ضرور ہے لیکن فلحال آپ پر یہ کرم نوازی محض آپ کی اس ٹر ٹر کرتی زبان کو خاموش کرانے کے لیے تھی ۔۔۔۔۔

شانوال اس سے الگ ہوتا ۔۔۔۔۔ شریر سے انداز میں بولا

زرشے کا چہرہ شرم سے تپنے لگا۔۔۔۔۔۔

ممممیں ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔وہ بوکھلائی ہوئی سے بے ربط جملے ترتیب دینے کی اپنی سی کوشش کرنے لگی پر سامنے والے کی سانسوں کی خوشبو اپنے وجود میں محسوس کرتی زرشے کانپ سی گئی ۔۔۔۔اور شانوال کی جانب رخ موڑے اپنی بکھرتی سانسوں کو سنبھالنے لگی ۔۔۔۔۔


شانوال خان۔ ۔۔۔ نے بھی سر جھٹکتے باہر کی راہ لی پر زرشے کی آواز نے قدم جکڑتے اسے اپنی جگہ منجمد کیا تھا۔ ۔۔۔


خان۔ ۔۔۔۔۔ ہم سے مستفید ہونے کے باوجود خالی ہاتھ رہ جائیں گے آپ کی یہ کرم نوازی ہماری طبیعت پر بے حد گراں گزری ہے چاہے کسی بھی مقصد کے تحت ۔۔۔۔۔ہو ۔۔۔۔۔۔


اسے جاتا دیکھ زرشے ہمت کرتی بول گئی ۔۔۔۔ پر وہ نتائج سے بے خبر تھی ۔۔۔

اس کا انکار۔۔۔۔ اہانت بھرا انداز ۔۔۔۔۔ شانوال خان کو اپنے قدموں پر پلٹنے پر مجبور کر گئے ۔۔۔۔۔۔

وہ چیل ۔۔۔۔ کی طرح زرشے کو ایک ہی پل میں خود میں سما گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ انداز انتہائی جارہانہ تھا کہ زرشے کو سانس سینے میں اٹکتی محسوس ہوئیں ۔۔۔۔۔


"اتنا بولیں بیگم جتنا برداشت کر سکیں ۔۔۔۔۔۔مجھے ضبط کے مراحل سے گزرنے پر مجبور مت کریں اور یہ جو حرکت آپ نے ابھی کی ہے


اس کے انجام سے شاید ابھی آپ نابلد ہے ورنہ کبھی ہمارے سامنے اپنی زبان کے جوہر دکھانے کی گستاخی نہ کرتیں ۔۔۔۔۔۔

ہم نے جو بھی ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر پہلے کیا وہ ہمارا حق تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو آئندہ اس طرح کی بات کرنے سے پہلے سوچ لیجے گا کہ آپ کے مقابل کوئی اور نہیں آپ کا شوہر ہے۔ ۔۔۔۔اور اگر شوہر کے اصلی معنی میں آپ کو سمجھانے بیٹھا تو دنیا کی لبرل سے لبرل عدالت آپ کو میری قید سے آزادی نہیں دے پائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔


شانوال کے اس انداز پر اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ شانوال کچھ کہتا وہ سر تھامتی اس کے کندھے پر ٹکا گئی ۔۔۔۔۔ بے ساختگی میں کی گئی زرشے کی یہ پیش قدمی شانوال کو ساکت کر گئی تھی ۔۔۔۔

وہ نرمی سے اسے بیڈ پر لٹائے ۔۔۔۔ باہر کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔

________

اگلی صبح کافی روشن اور چمکدار تھی

یشفہ اداس سے کھڑکی کے پاس موجود ۔۔۔۔۔اڑتے پرندوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔کل تک سب کچھ کتنا حسین خواب سا تھا آج لگ رہا تھا کہ کسی نے بے دردی سے سارے سپنے نوچ لیے ہوں۔ ۔۔۔

اسے زرشے کی بے پناہ یاد آ رہی تھی ۔۔۔۔۔


ارتضی جو جوگنگ سے ابھی لوٹا تھا اسے اس طرح بے خبر کھڑکی کے پاس کھڑا دیکھ ۔۔۔۔خود بھی وہیں چلا آیا۔ ۔۔۔۔۔

وہ دور سے ہی اس کی اداس صورت دیکھ کر بھانپ گیا تھا کہ معاملہ کس نوعیت کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔


کیا بات ہے جناب صبح صبح پرندوں کا دیدار ۔۔۔۔۔۔کبھی اس ناچیز پر بھی نظر کرم کر لیا کریں مجھ سے بھی آپ کا کوئی رشتہ ہے ۔۔۔۔۔

ارتضی کے انداز میں شکوہ ہی شکوہ تھا ۔۔۔۔

یشفہ ۔۔۔نے اس کی بات سننے کے باوجود بھی ایک غلط نگاہ اس پر ڈالنا ضروری نہ سمجھا تھا ۔۔۔۔۔

ارتضی کو اس کی بے اعتنائی کھلنے لگی تھی ۔۔۔۔

اس کا ارادہ یشفہ سے کھل کر بات کرنے کا تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر اپنا غبار نکالے جو وہ اندر دبائے بیٹھی تھی پوری حویلی میں چہچہاتی چڑیا بن کر گھومنے والی یشفہ کے لبوں پر جیسے قفل لگ گیا تھا۔ ۔ ۔


جی بالکل ارتضیٰ حاقان میں جانتی ہوں کے آپ کا میرے ساتھ کیا رشتہ ہے ۔۔۔۔لیکن دل میں خوف ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے ۔۔۔۔کہ کل کو اگر آپ سے مزید کوئی غلطی ہوئی تو اس کا ہرجانہ شاید مجھے


اپنی ذات قربان کر کے دینا ہوگا ۔۔۔۔۔۔

یشفہ کی بات نے ارتضی حاقان کی رگوں میں تپش بھردی تھی ۔۔۔۔

بس ۔۔۔۔۔یشفہ ارتضی حاقان ۔۔۔۔۔مزید کوئی الفاظ اپنی زبان سے ادا نہیں کرینگی آپ کیا لگتا ہے آپ کو کہ میں اتنا بے غیرت ہوں ۔۔۔۔کہ اپنے عزت کو اپنی غلطیوں کے عوض کسی کے بھی حوالے کردوں گا ۔۔۔۔۔

ارتضی کی بات پر یشفہ کا سرد قہقہ گونجا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔

واہ ارتضی حاقان کیا انصاف ہے آپ کا۔ ۔۔۔۔ ایک نے قصور لڑکی کو اپنے گناہ کے کفارے میں ونی کر چکے ہیں اور اب انا پر بات لگ رہی ہے اس معصوم پر ترس کیوں نہیں آیا اس نے کب دنیا دیکھی ہے جو اسے بے رحم لوگوں کے حوالے کردیا۔۔۔۔۔


ارتضی کا دل کیا وہاں سے غائب ہو جائے ۔۔۔۔ آج کی یشفہ ۔۔۔۔ بہت مختلف تھی ۔۔۔۔۔ یہ تو وہ نٹ کھٹ سی یشفہ نہیں تھی جو چاکلیٹ کے لیے رونے لگتی ۔۔۔۔ آج کی یشفہ تو اپنی بہن کے جانے کے سوگ میں ڈوبی اپنا غبار نکال رہی تھی ۔۔۔. وہ احساس کرانا چاہتی تھی ۔۔۔۔

کہ ارتضی حاقان کی آزادی کی قیمت جس نے چکائی ہے اس سے کیا رشتہ ہے ۔۔۔۔۔

ارتضی اس کے جذبات سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔ لیکن فلحال وہ اسے کچھ نہیں بتا سکتا تھا ۔۔۔۔۔

اس لیے وہاں سے جانا ہی مناسب سمجھا۔۔۔۔

میرے سوالوں سے بچنے کا اچھا حل ہے ۔۔۔۔ لیکن یاد رکھیے گا ۔۔۔۔ اس حویلی میں میری رخصتی تب تک نہیں ہوگی جب تک زرشے حاقان کو اس کا حق نہ ملے ۔۔۔۔۔۔

یشفہ اسے پتھر کا بت بنا چھوڑ جا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

ارتضی نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔

سب کچھ بکھر رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ چاہنے کے باوجود سمیٹ نہیں پارہا تھا آج یشفہ کی کہی باتوں نے اس کے دل پر بوجھ مزید بڑھا دیا تھا وہ تھکے قدموں سے ماں کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔

ارتضی نے دروازے پر دستک دی ۔۔۔۔ تو اجازت ملنے پر اندر چلا آیا۔۔۔۔۔


پر جونہی نظر اپنی ماں کے چہرے پر پڑی ارتضی کا دل تڑپ سا گیا۔۔۔دو ہی دن میں ان کے چہرے پر زردی چھا گئی تھی وہ صددیوں کی بیمار لگ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ حویلی میں ہر کوئی سوگوار تھا ۔۔۔۔ سوائے حاقان سائیں کے کوئی نہیں جانتا تھا کہ حاقان ۔۔۔۔۔ سائیں اس وقت کہاں موجود ہیں۔۔۔۔۔ کونسا کھیل سر انجام دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔


__________

سنو ۔۔۔۔۔ وہ ابھی حویلی سے نکلنے لگا ۔۔۔ ہے ۔۔۔۔ اپنا کام کردو اور یاد رکھنا اس بار اگر شانوال خان بچا ۔۔۔۔ تو اس کی جگہ تم دفنائے جاو گے پچھلی بار کہ طرح ۔۔۔۔ نشانہ کہیں اور نہیں لگنا چاہیے۔۔۔۔۔۔

وہ کال پر اپنی سرد آواز میں غرایا تھا شانوال خان کب تک میرے پھینکے جال سے بچو گے ۔۔۔ ہر بار تو میرا وار خالی نہیں جائے گا۔۔۔۔۔تم مجھ سے کبھی نہیں جیت پاو گے مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی تمہارا انتظام ہو جائے گا۔۔۔۔۔

ہاہاہا۔۔۔۔ وہ بولتے ہی خباثت سے قہقہہ لگا اٹھا تھا ۔۔۔۔۔

کوئی نہیں جانتا تھا اس کھیل کا اصل کھلاڑی کون ہے۔۔۔۔ مہروں پر بساط کھیلنا کس کو مہنگا پڑنا تھا۔۔. .


________

زرشے کو لگا کسی نے اس کے بال جڑ سے اکھاڑ دیے ہوں۔۔۔۔درد کی شدت سے اس کی آنکھ کھلی ۔۔۔ تو سامنے ہی بڑی بی سائیں کڑے تیوروں سے گھورتی اسے ہوش دلا رہی تھیں۔۔۔

ماہ رانی یہ تمہارے بابا سائیں کی حویلی نہیں جہاں تم مزے سے سوتی رہو اٹھو اور پوری حویلی کا کام آج سے تمہارے زمہ ہے اگر زرا سی کوتاہی کی میری حکم عدولی کی ۔۔۔۔۔ تو میں زرا سی بھی انسانیت نہیں دکھاوں گی۔۔۔۔

وہ جھٹکے سے اسے چھوڑ کر جا چکی تھیں۔۔۔۔


میرے دکھڑے بھی رائیگاں بابا

میرے بھائی کے سر سے وار دیا۔۔۔

میں نے مانا کہ بوجھ تھی گڑیا۔۔۔

اس لیے سر سے یوں اتار دیا۔. .

میری چاہت تھی ہار پھولوں کے

مجھ کو تحفے میں یوں دھتکار دیا۔. . .

جب کوئی پوچھے بیٹی کو بیاہا کیسے

چپ نہ رہنا بس کہنا کہ ہم نے مار دیا

لگتاہے تمہارے باپ نے بہت نازوں سے پالا ہے ۔۔۔۔۔لیکن بی بی یہاں یہ نازک مزاجی نہیں چلے گی

زرشے پوری حویلی کی صفائی کر چکی تھی ۔۔۔۔درد سے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ ۔۔۔ پر اسے لبوں سے ایک سسکی خارج کرنے کی بھی اجازت نہ تھی ۔۔۔

نیناں کو چھوٹی سی لڑکی پرترس آنے لگا ۔لیکن اگلے ہی لمحے وہ ترس تیش میں بدل چکا تھا۔۔۔۔

بہت بڑا نقصان تھا نیناں خان کا جس کی تلافی شاید وقت بھی نا کرپاتا ۔۔۔۔پر اسے دیکھتے کسی بے مہر کی یاد نے بڑی شدت سے دل پر غلبہ کیا تھا


نیناں خان ۔۔۔۔۔۔

کہاں جارہی ہو اس حلیے میں ۔۔۔ نیناں خان کو بڑی تیزی سے اپنےکانوں میں جھمکے پہنتے ۔۔۔۔ مصروف انداز میں کہیں جاتے دیکھ بے دھیانی میں پکارا تھا ۔۔۔۔

نیناں اس وقت سرخ روایتی لباس میں ملبوس گلابی نیچرل لپسٹک اپنے باریک سے ہونٹوں پر سجائے سانول خان ۔۔۔ کے دل کو چھو رہی تھی ۔۔۔

وہ ۔۔۔۔ سائیں ۔۔۔۔ ہماری سہیلیاں آرہی ہیں۔۔۔۔۔۔ انہیں کے ساتھ باغ جانا ہے۔۔۔۔

نیناں خان ۔۔۔۔۔ اس کی آواز میں عجیب سی بے چینی تھی ۔۔۔۔۔

. کچھ بتانا چاہتا ہوں بہت اہم۔۔۔۔۔۔

اپنے دل میں ان باتوں پر پہرہ بٹھالینا ۔۔۔۔

"توجہ طلب محبت بہت خاص ہوتی ہے جس میں ایک بیزار ہو تو دوسرا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اسی لیے میں نے اپنی محبت کو مختص کر لیا ہے لوگ تمہیں دیکھ یہ نہ کہیں کہ سانول خان ۔۔۔ کی منگ جارہی ہے بلکہ تمہیں دیکھ کر یہ قیاس کریں کہ سانول خان کی سانسیں چل رہی ہیں"

وہ بڑے خوبصورت انداز میں اپنے دل کی کیفیات نیناں خان تک پہنچا چکا تھا ۔۔۔۔۔

نیناں کو اپنا دل ہتھیلیوں میں دھڑکتا محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔ اسے سانول خان ۔۔۔۔ کی چاہت کا علم تھا ۔۔۔۔ پر آج اظہار نے تو وجود میں سرور سا بھر دیا تھا ۔۔۔۔۔

دل چاہا ساری دنیا کو چیخ کر بتائے کہ سانول خان۔۔۔۔ صرف نیناں خان کا ہے

نیناں نے بہت سرسری سی نگاہ اس شہزادے کی جانب ڈالی تھی جو خود بھی بلیک پینٹ شرٹ میں بے حد شانداز لگ رہا تھا ۔۔۔۔

تائی سائیں کی آواز پر جیسے وہ خواب سے جاگی تھی

تائی جان مسلسل اس کے سر پر کھڑی ۔۔۔۔زرشے سے کام کروا رہی تھیں ۔۔۔۔۔ان کے غصے سے حویلی میں ہر کوئی واقف تھا اسی لیے نیناں اس کی قسمت پر افسوس کرتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔


زرشے کے دل میں ہوک سی اٹھی تھی بے ساختہ ہی اپنی ماں یاد آنے لگی ۔۔۔۔ جس نے کبھی کانٹا بھی نہ چبھنے دیا تھا ۔۔۔۔۔


"کس مراقبے میں چلی گئی ہو لڑکی اٹھو ابھی تمہیں ۔۔۔ سب کے لیے شام کا کھانا بھی بنانا ہے۔۔۔۔ بہت کام ہیں مجھے بھی یوں۔۔۔۔ ہڈ حرامی کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔"


تائی سائیں کا کرخت لہجہ اسے پل بھر میں سہما گیا تھا۔۔۔


پر۔۔۔۔۔ بیگم۔۔۔ سسسائیں ۔۔۔ مجھے کھانا۔۔۔۔۔بنانا نہیں آتا۔۔۔۔۔زرشے ڈرتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔

تائی سائیں۔نے ترچھی نظر کیے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔ اور دوسرے ہی لمحے ان کا ہاتھ زرشے کے چہرے پر نشان چھوڑ چکا تھا ۔۔۔۔۔

"بدزات لڑکی بہانے بناتی ہو۔۔۔۔۔ تم کیا ۔۔۔۔۔ سمجھتی ہو بے وقوف ہوں

جو تمہاری بات پر یقین کروں گی ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ تانیہ بیگم اس کی جانب دوبارہ بڑھتیں ۔۔۔۔۔ ایک ترش آواز نے ماحول پر سکوت طاری کر دیا ۔۔۔

رک جائیے تائی سائیں ۔۔۔۔۔

اس لڑکی پر ہاتھ اٹھانا آپ کی توہین ہے آپ بس زرا تحمل سے کام لیں میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔۔

شانوال خان جو ابھی زمین کے مسلے سے الجھتا حویلی آیا تھا زرشے پر نظر پڑتے اس کی آنکھیں دہکنے لگیں۔۔۔۔۔۔

"اے لڑکی اٹھو اور ابھی ہمارے کمرے میں موجود تمام کپڑوں کو استری کرو ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ زرشے ہونک بنی اسے دیکھ رہی تھی جب ایک بار پھر شانوال کی سرد آواز نے اٹھنے پر مجبور کیا۔۔۔۔۔

زرشے وہاں سے ایسے غائب ہوئی جیسے بیل کے سر سے سینگھ ۔۔۔۔

پیچھے شانوال بھی تائی جان کو بہلاتا اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔

شانوال کمرے میں آیا تو زرشے ملازمہ کے ساتھ کھڑی بے یقینی سے اس کے کمرے کو نہا ر رہی تھی

شانوال نے ہاتھ کے اشارے سے ملازمہ کو باہر جانے کا کہا۔۔۔۔۔۔

اور خود دروازہ لاک کرتا زرشے ۔۔۔۔۔ کے عین پیچھے آکھڑا ہوا ۔۔۔


زرشے دروازہ بند ہونے کی آواز پر ڈر سے اچھلی تھی۔۔۔۔ جیسے ہی رخ موڑا ۔۔۔۔ شانوال خان کو دیکھ اسے بیتی رات پوری جازبیت کے ساتھ اس کی آنکھوں میں سمانے لگی ۔۔۔۔


"لگتا ہے بیگم۔۔۔۔۔ ابھی تک میرے حصار میں مقید دنیا بھلائے بیٹھی ہیں ۔۔"

شانوال کا انداز سپاٹ تھا ۔۔۔ جبکہ آنکھوں میں چھپی شرارت بڑی بھلی لگ رہی تھی ۔۔۔۔


آپ۔۔۔۔۔ کو اپنے بارے میں خوش فہمی ہے سائیں میں تو دیکھ رہی تھی کہ خان حویلی میں اور مزید کتنے بے ضمیر لوگ ہیں جو اپنے اصل رنگ چھپائے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔


زرشے ۔۔۔ اسے دیکھتی بے خوف انداز میں بولی تھی ۔۔۔۔۔دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔


"بہت بے باک ہیں بیگم اظہار کے معاملے میں ۔۔۔۔۔ لگتا ہے جلد ہی گھائل کردینگی ۔۔۔۔۔"

شانوال اس کے سرخ ہوتے گال پر دھیرے سے اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا تھا


زرشے کی ۔۔۔۔۔ سسکی سی بندھی تھی ۔۔۔ شانوال نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی جو اپنے ہونٹ کاٹتی ۔۔۔۔ خود کو رونے سےباز رکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ ہاتھ میں موجود اس کی شرٹ پر زرشے کی گرفت مضبوط ہوئی تھی۔۔۔۔۔


شانوال خان نے ایک قدم کا فاصلہ بناتے اسے اپنی خوشبو کے حصار سے آازد کیا تھا ۔۔۔۔۔

شاید اسے ڈر تھا ۔۔۔۔ کہ مزید ایک لمحہ اس ساحرہ کے قریب رہا تو سل اختیار سے جاتا رہے گا۔۔۔۔ لیکن وہ ان لمحوں کو کمزوری نہیں بنانا چاہتا تھا۔۔۔


شانوال کے دور ہونے پر زرشے نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔۔ اور وہاں سے جانے کو پر تولنے لگی۔۔۔۔۔

مجھے پتا ہے آپ کو۔۔۔۔۔ کافی جلدی رہتی ہے ہر کام کی . . . پر فلحال اپنے گال پر مرہم لگائیں میں نہیں چاہتا ۔۔۔۔ میرے علاوہ کوئی بھی آپ کے چہرے کی سرخی کا باعث بنے۔۔۔۔۔


زرشے اس کی بے باکی پر جلتی کڑھتی اس کے ہاتھ سے ٹیوب جھپٹنے کے سے انداز میں لے چکی تھی ۔۔۔.

شانوال اس کی دہکتی رنگت ہر بامشکل اپنا قہقہہ دبایا تھا ۔۔۔۔۔ وہ بڑی ہوشیاری سے اس کا دھیان اور تکلیف دونوں بھٹکا چکا تھا ۔۔۔ بنا اسے محسوس کرائے۔۔۔۔۔

_________

جب محبت پہرے بٹھاتی ہے تو انسان سب سے پہلے اپنی سماعت کھو دیتا ہے ۔۔۔۔ اپنی ساری حسیات اس شخص میں منتقل کردیتا ہے جس سے عشق ہو جائے اس کی آنکھوں سے دنیا دیکھنے لگتا ہے۔۔۔۔ اسی لیے عشق کے ہر مرحلے میں ۔۔۔۔۔۔ تصوف کے ساتھ تمنا شامل ہوتی ہے۔۔۔۔۔

نیناں ۔۔۔ ہاتھ میں سانول خان کی تصویر ہاتھ میں تھامے اس کے نقوش میں اپنی مخروطی انگلیاں پھیرتی جیسے محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔


بلالے اپنے پاس مجھے نا آئے جینا راس مجھے

کیوں تو نے چھین لیا مجھ سے میرا جہاں


نیناں کے رخسار بھیگتے جارہے تھے ۔۔۔۔ تکلیف اتنی تھی کہ چیخ چیخ کر روئے ۔۔۔۔۔ اور صبر ایسا تھا کہ آہ بھی نا نکل پائی ۔۔۔۔۔


وہ چلتی ہوئی الماری کے پاس آکھڑی ہوئی. ۔۔۔

الماری کھولتے اس کی بلیک شرٹ نکالتی اپنے سینے سے لگا گئی ۔۔۔۔۔ہاں اس کمرے کی ہر چیز میں اس شخص کی خوشبو بسی ہوئی تھی ابھی دن ہی کتنے ہوئے تھے ۔۔۔ ایک ہوئے جو جدائی کا ایسا منظر قسمت نے دکھایا کہ جس کے بعد دنیا کا ہر منظر دھندلانے لگا


نیناں خان ۔۔۔۔۔ کی سانسوں میں ۔۔۔۔ بسا سانول خان ۔۔۔۔ جاتے جاتے اس کا وجود بے معنی کر گیا تھا کیسے جینا ہے یہ بھی وہ بھولنے لگی تھی گھنٹوں اس کی تصویر کو تکتی رہتی ۔۔۔۔ نیند تو جیسے روٹھ سی گئی تھی ۔۔۔۔

سوتے ہوئے بھی سانول خان کو خود کے قریب محسوس کرتی وہ اس کی شرٹ خود سے لگا کر سوتی ۔۔۔۔۔


تو محبت کے اظہار کی شے مات بنا

میرے جینے کا خسارہ بھی مجھے سونپ گیا

میں سمجھتی تھی تجھے عشق ہے بلا کا مجھ سے

تو جدائی کا زخم دل میں میرے گھونپ گیا


سانول ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سسکی اس کے لبوں سے نکلتی تکیے میں دم توڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔

"بس ایک بار آجاو ۔۔۔ اپنی نین کے پاس ۔۔۔۔ سائیں۔۔۔۔۔ کبھی خود سے دور نہیں کروں گی اپنی قربت کے حصار میں چھپا کر رکھوں گی ۔۔۔ زمانے کی ساری حدود توڑ کر سانول خان ۔۔۔ کی بن کے رہوں گی ۔۔۔ بس ایک بار۔۔۔۔۔"

بے بس سی نیناں کی بھاری سرگوشیاں ۔۔۔۔ دل کو خالی سا کر رہی تھیں ۔۔۔ پر اس کا غم بانٹنے والا تو ۔۔۔ کب کا چین کی نیند جا سویا تھا۔۔۔۔ اتنی سی عمر میں وہ اپنا قیمتی اثاثہ کھوچکی تھی ۔۔۔۔ کہ اب کسی شے کی طلب دل میں باقی نہ رہی تھی ۔۔۔۔۔


میری محبت کی کہانی ۔۔۔۔سرخ پنوں پر لکھی جائے گی سانول خان۔۔۔۔ بیچ منجھدھار میں مجھے لا کر چھوڑا جہاں سانس بھی لوں تو روح بھی ساتھ کھنچتی ہے ۔۔۔۔ تم نے مجھے خود کا عادی بنایا ۔۔۔ میرے وجود کو اپنی خوشبو سے مہکایا اور اکیلا کر گئے ۔۔۔۔۔

کیوں سانول خان۔۔۔۔۔ نیناں کی آہیں ۔۔۔۔۔۔ سننے والا کوئی نہ تھا وہ بجھتے دیے کی مانند زندگی کھوتی جارہی تھی ۔۔۔۔

________

ارتضی نے ماں جان کو کھانا کھلا یا اور سکون آور دوا دیکر سلا آیا تھا ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے نکلتا اس کی نظر۔۔۔۔

اپنی ماں کے سرہانے ۔۔۔۔۔رکھی اس بلیک کوروالی خوبصورت ڈائری پر پڑی ۔۔۔۔۔دیکھنے میں اور ڈائری کافی پرانی معلوم ہوتی تھی


ارتضی تجسس کے مارے آگے بڑھا اور اس ڈائری کو اٹھا کر ۔۔۔۔۔کھولنے لگا۔ ۔۔۔۔۔

ابھی ارتضی نے ڈائری کھو لی ہوئی تھی کہ قدموں کی آہٹ پر وہ واپسی ڈائری سائیڈ دراز میں چھپا چکا تھا۔ ۔۔۔۔


حاقان سائیں ۔۔۔۔ جو کسی خاص کام سے کمرے میں آئے تھے ۔۔۔۔وہاں ارتضی کو دیکھ اچنبھے سے بولے۔ ۔۔۔۔


کیا بات ہے برخوردار آپ نے میرے ۔۔۔۔کمرے میں آنے کی زحمت کیسے کی ۔۔۔۔۔؟؟؟

وہ مصروف انداز میں کاغذات الٹ پلٹ کرتے ارتضی سے ہوچھنے لگے


کچھ نہیں بابا سائیں ۔۔۔۔۔۔اماں سائیں کو دیکھنے آیا تھا۔ ۔

بابا سائیں مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا ۔۔۔۔۔!!!

ابھی میں نے اماں سائیں کے پاس ایک ڈائری دیکھی ۔۔۔۔۔کیا ہے بابا سائیں اس ڈائری میں ۔۔۔۔۔۔۔جو اماں سائیں نے اسے اتنی احتیاط سے اپنے پاس رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔


ارتضی کے ۔۔۔۔اچانک سوالات پر ۔۔۔حاقان سائیں گڑبڑا سے گئے چہرے کا رنگ پھیکا پڑنے لگا ۔۔۔۔۔۔


ارتضی حاقان ۔۔۔۔۔تمہیں کوئی حق نہیں کہ تم اس طرح سے میری اور میری بیوی کی ذاتیات میں دخل اندازی کرو۔۔۔۔بہتر یہی ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو اور بھول جاؤ اس ڈائری کو ۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہے اس ڈائری میں ۔۔۔۔۔۔

بولتے ہوئے ان کا لہجہ اجنبی سا تھا ۔۔۔۔ارتضی نے کچھ چونک کر ان کے ہوائیاں اڑتے چہرے کو۔ دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔

ارتضی ایک نظر انہیں دیکھتا ۔۔۔ کمرے سے نکلتا چلاگیا ۔۔۔۔اس کے جاتے ۔۔۔۔ ہی حاقان سائیں نے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا۔ ۔۔۔۔ اور نگاہ اٹھا کر اپنی بیگم کو۔ دیکھا ۔۔۔۔ جو آج ناجانے کونسے راز اپنے بیٹے پر افشاں کرنے کی تیاری میں تھیں۔ ۔۔۔۔۔

___ _____

ارتضی کافی پریشان تھا ۔۔۔۔ اسے بابا سائیں کا اٹ پٹا سا رویہ عجیب لگا تھا ۔۔۔۔ زرشے کو اتنی آسانی سے خان حویلی والوں کو سونپنا ۔۔۔۔۔اور ان کا یہ عجیب رویہ کچھ تو بھید چھپائے بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔

اس کا ارادہ کسی طرح زرشے سے ملنے کا تھا ۔۔۔۔ رہ رہ کر جان سے ہیاری بہن کی یاد ستارہی تھی ۔۔۔۔جس کی کبھی آنکھ نا دکھنے دی تھی۔ ۔۔۔ اب اسے دیکھنے کو بھی ترس گیا تھا۔ ۔۔۔


ارتضی اپنے روم میں آیا اور جلدی سے فریش ہونے لگا۔ ۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے ہی اس نے حویلی کے خاص ملازم سے زرشے کی خبر لی تھی جسے سنتے وہ پاگل سا ہو اٹھا تھا۔ ۔۔۔۔۔آنکھوں میں ابھرتی نمی کو بہت کڑے ضبط سے اس نے چھپایا تھا۔ ۔۔۔۔۔اپنی گڑیا کو کھو چکا تھا۔ ۔۔۔۔ ارتضی حاقان ۔۔۔۔ لیکن اب مزید اسے تکلیف سے دوچار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ۔۔۔۔۔


ارتضی فریش ہو کر آیا تو ۔۔۔۔ یشفہ کو کمرے میں پاکر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ۔۔۔۔

جو اس کی نظروں سے انجان ٹیبل پر ناشتہ لگانے میں مصروف تھی۔ ۔۔۔۔۔ ارتضی کو یہ منظر کافی بھلا سا لگا ۔۔۔۔۔


وہ اپنا کام پورا کرکے جانے لگی۔ ۔۔۔۔ کہ ارتضی نے اس کی کلائی گرفت میں لیتے خود کے قریب کیا تھا۔ ۔۔۔۔

وہ کچی ڈال کی طرح ارتضی کے سینے سے آٹکرائی تھی ۔۔۔۔ دل میں کھد بد سی ہوئی تھی ۔۔۔۔


چچھوڑیں ۔۔۔۔ ہمیں ۔۔۔۔ آپ۔ ۔۔۔ ۔۔!!!


یشفہ کی کپکپاتی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی


یشفہ کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔۔ ۔ارتضی نے بے اختیار ہی اپنے انگوٹھوں سے اس کی سوجی آنکھوں کو مسلا تھا۔ ۔۔۔۔ وہ زرشے کے ساتھ ساتھ یشفہ کا بھی مجرم بیٹھا تھا۔ ۔۔۔۔۔


جانم ۔۔۔۔۔۔۔ معافی نہیں ملے گی کیا۔ ۔۔۔ میں عدہ کرتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔ زرشے بہت جلد ہمارے پاس ہوگی۔ ۔۔۔۔۔۔تم اگر مجھ سے ناراض رہی تو۔ ۔۔ شاید زندگی ختم ہو جائے۔ ۔۔۔۔


ارتضی اسے بازوں سے تھامے اپنے دل کا حال بتا گیا تھا

رب نہ کرے سائیں۔ ۔۔۔۔ آپ کو کچھ ہو۔ ۔۔۔۔ وہ بے ساختہ کہتی ۔۔۔ لب دانتوں تلے دبا گئی تھی

وہ کافی بکھرا ہوا لگا یشفہ کو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔تبھی وہ تڑپ سی گئ تھی


میں بہت محبت کرتا ہوں اپنی جند جان سے۔ ۔۔۔ اتنی کہ اس کی زرا سی بے رخی مجھے زندگی سے بیزار کرنے لگتی ہے۔ ۔۔۔ میرا عشق ہو تم ۔۔۔۔ مجھ سے ناراض مت ہونا۔ ۔۔۔۔


ارتضی محبت سے اس کی آنکھوں پر لب رکھتا ۔۔۔۔۔۔مسرور سا ہوا ۔۔۔۔ یشفہ نے اس کے بنیاں کو مٹھیوں میں بھینچتے خود کو گرنے سے بچایا ۔۔۔۔۔

ارتضی کے لب بے چینی سے اس کے چہرے کے نقوش پر سفر کرتے اچانک۔۔۔۔ اس کے سرخ چھوٹے سے لبوں کو اپنی تحویل میں لیتے یشفہ ۔۔۔۔ کی جان پر بنا گئے۔ ۔۔۔

لمس دہکتا انگارہ تھا۔ ۔۔۔ ارتضی تو ریشم جیسے وجود ۔۔۔۔ میں مکمل کھو گیا تھا۔ ۔۔۔۔دل بس اسے محسوس کرنے پر اکسا رہا تھا۔ ۔۔ تو دماغ نے اپنا بنانے کی ٹھان لی تھی۔

یشفہ اس کی گرفت سے خود کو آزاد کراتی گہرے سانس بھرنے لگی۔۔جو دو سیکنڈ میں ہی اسے حال سے بے حال کر چکا تھا۔. . اس کا معصوم سا دل سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ بے یقین سی سرخ بھیگے لبوں پر انگلیاں پھیرتی ۔۔۔۔۔خود کو سنبھال رہی تھی


جب ۔۔۔۔۔ ارتضی نامی دیو کا حصار اپنے گرد محسوس ہوا۔۔۔۔۔

ارتضی . ۔۔۔۔ یشفہ کے بالوں سے اٹھتے بھینی بھینی خوشبو میں سانس لیتا

۔۔۔۔اپنی تیکھی ناک اس کی گردن پر ٹریس کرنے لگا۔۔۔۔۔

یشفہ کی سانسیں ۔۔۔۔رکنے لگیں. . .

آج سے پہلے کبھی ارتضی نے یہ بے باکی کے مظاہرے نہیں کیے تھے ۔۔۔۔

یشفہ پوری طاقت لگاتے اسے خود سے دور کرتی دروازے کی طرف

بھاگی تھی۔۔۔۔۔۔۔


اس کے جاتے ۔۔۔۔ ارتضی بھی چہرے پر دھیمی سی مسکان سجائے ناشتہ کرنے لگا۔۔۔۔۔ ہونٹوں پر اب بھی ان نازک سی پنکھڑیوں کا لمس تازہ تھا۔۔۔ جس نے سکون ۔۔۔ و قرار سب چھین لیا تھا۔۔۔۔۔


_________

کبھی کبھی لگتا ہے آپ صرف۔۔۔۔ ایک جاگیر دار ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔

یہ پرواہ کا ناٹک کرکے کیا جتانا چاہتے ہیں کہ بہت بڑا احسان کیا ہے آپ نے ۔۔۔۔ مجھ پر۔۔۔۔ مجھ جیسی ان پڑھ لڑکی کو نکاح کیا ۔۔۔۔ اور اب اپنے گھر والوں کی مار سے بچاتے خود نیک و پارسا بن گئے ہیں ۔۔۔۔۔

پر یاد رکھیے گا ۔۔۔۔

میں آپ کو اپنے ساتھ کیے ۔۔۔۔۔ اس زبردستی کے بندھن پر کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔۔

میری عزت و نفس کو مجروح کرکے یہ جو آپ سب حویلی والوں نے اپنی انا کا پرچم بلند کیا ہے میرے لیے ناقابل طلا فی ہے۔۔۔۔۔


زرشے کی آواز ۔۔۔۔۔ میں نمی سی گھلنے لگی۔۔۔۔۔۔


زرشے بی بی۔۔۔۔آپ کی ساری سمجھ داری محض ہمارے لئے ہے ۔۔۔۔کبھی اپنا چھوٹا سا دماغ کسی اور کام میں بھی لگائیں۔ ۔۔۔یقین کریں بہت فائدہ مند ثابت ہوگا ۔۔۔۔۔۔

شانوال۔ ۔۔۔۔زرشے کے تلخ جملوں پر تنز کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔ یہ لڑکی شانوال خان کی توجہ ۔۔۔۔ ناچاہتے ہوئے بھی خود کی جانب مبزول کر وا رہی تھی ۔۔۔۔۔


ہاں ۔۔. جی بس آپ سب سمجھدار ہیں۔۔۔۔ آپ تو درخت دیکھتے ۔۔۔۔ بتا دیتے ہیں کتنے پھل دینگے۔۔۔۔۔

وہ بھی ترکی باترکی جواب دیتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔۔

اس کی بے تکی مثال پر ۔۔۔۔شانوال کے جناتی قہقہے ابل پڑے تھے ۔۔۔۔۔۔

ہاہہااہہا۔۔۔۔۔ جان جاناں۔۔۔۔۔۔ یہ ہمت صرف

" زرشے شانوال خان "ہی کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔

میں یہ پیشن گوئی ۔۔۔۔ درخت کے بارے میں تو نہیں کر سکتا ہاں۔۔۔۔ تمہارے بارے میں کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔جب ایک پری۔۔۔اور دیو کا ملن ہو گا ۔۔۔۔ تو انجام پر بہت سے پھول کھلیں گے ۔۔۔۔۔جن کی تعداد بارہ سے تو زیادہ ہی ہوگی. . . .

شانوال فل شرارتی موڈ میں اسے اپنی باتوں سے سرخ کر رہا تھا. . .

اس کی بے باکی پر زرشے ۔۔۔۔ ناخن تک سرخ پڑتی۔۔۔۔ دل کی دھڑکنوں پر قابو پانے لگی۔۔۔۔


شانوال ۔۔۔۔۔ لب دباتا۔۔۔۔۔۔ سٹڈی روم کی طرف قدم بڑھا گیا۔۔۔ کیا بھروسہ تھا اس ٹڈی کا کب ۔۔۔۔۔ بال نوچ لے۔۔۔


زرشے ۔۔۔۔ یہ آدمی انتہا درجے کا بے شرم۔۔۔۔۔ بد لحاظ اور بے باک ہے۔۔۔تو بس دور رہ اس سے۔۔۔۔۔

وہ شانوال خان کے جاتے خود سے بڑبڑائی تھی۔۔۔۔۔۔


میں نے سن لیا۔۔۔۔۔۔ ہے تمہاری گوہر افشانیاں ۔۔۔۔۔ شرم کرو اللہ ناراض ہوتا ہے۔۔۔۔۔ شوہر کی برائیاں کرتی ہو۔۔۔۔ نافرمان تو تم ہو ہی۔۔۔۔۔۔

ارتضی خشمگین نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔


زرشے ۔۔۔۔ کمر پہ ہاتھ رکھتی تیکھے چتونوں سے اس ۔۔۔ دیو کو گھورنے لگی ۔۔۔ جو کبھی بھی آجاتا تھا۔۔۔۔

لگتا ہے خان صاحب کو اپنی عزت پیاری نہیں جبھی بار بار ۔۔۔۔منہ کی کھانے آ جاتے ہیں ۔۔۔۔

ے جاناں ۔۔۔۔۔ ہم منہ کی کھانے نہیں منہ لگنے آتے ہیں آپ موقع ہی نہیں دیتیں ۔۔۔ ۔ ۔ ۔

خاننننننن۔ ۔۔۔۔۔۔۔زرشے کی آواز سنتا وہ فورا احتیاطی تدابیر اختیار کرتا۔ ۔۔۔ دروازہ بند کر چکا تھا۔ ۔۔۔

شانوال ۔۔۔ بس زرشے کو پرسکون کرنا چاہتا تھا۔ ۔۔۔ ۔۔ یہ صرف تبھی ممکن تھا جب زرشے اس سے اپنائیت محسوس کرے۔ ۔۔۔۔

اسی لیے شانوال خان۔ ۔۔۔ اس معصوم سی ساحرہ کو اپنے حصار میں قید کرنا چاہتا تھا۔۔.


________

نیناں اپنے کمرے میں بیڈ پر بے سدھ پڑی تھی ۔۔۔۔ جب کوٙئی ہیولا ۔۔۔۔ بالکونی ۔۔۔ پھلانگ کر روم میں داخل ہوا۔۔۔۔


پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہیولا ۔۔۔۔۔ بے خود سا اپنی ماسک میں چھپی ۔۔۔۔۔ سیاہ آنکھوں ۔۔۔۔ کو نیناں خان ۔۔۔ کے سراپے پر ٹکاتا۔۔۔۔ ا سکے سرہانے نیم دراز ہوا۔۔۔۔۔۔


کیا حال کر لیا ہے تم نے اپنا شہزادی ۔۔۔۔۔۔تمہیں ذرا ترس نہ آیا مجھ پر ۔۔۔۔۔۔ساری دنیا تم سے بے خبر ہو جائے تب بھی ۔۔۔۔میری جان تم مجھے اپنی سانسوں سے بھی زیادہ قریب پاؤگی ۔۔۔۔۔

بہت دکھ دیے ہیں نہ میں نے اپنی زندگی کو دیکھنا بہت جلد تمہارے سارے دکھوں کو اپنی محبت کے دامن میں سمیٹ لوں گا


وہ۔ ۔۔بکھرے سے لہجے میں بولتا ۔ ۔۔۔نینا ں خان کی پیشانی سے اپنے پیشانی ٹکا گیا تھا۔ ۔۔

شدید نیند میں ہونے کے باوجود بھی نیناں خان ۔۔۔۔اپنے دشمن جان کی خوشبو ۔۔۔محسوس کرتی بری طرح نیند میں کسمسائی تھی ۔۔۔


محبت بھی بڑی عجیب شے ہے ۔۔۔۔۔۔۔مل جائے تو طاقت بن جاتی ہے اور نہ ملے تو انسان کو ۔۔۔۔۔بے نام و نشان کر جاتی ہے


وہ بے بس سااپنی مضبوط انگلیوں سے نینا خان کے نقوش کو اپنی نگاہوں سے چھوتا کوئی جنونی پاگل لگ رہا تھا۔ ۔۔۔۔جسے جینے کے لیے زندگی کی نئی سانسیں مل گئی ہو ۔۔۔۔


بے ساختہ ہی وہ اپنا ماسک دو انگلیوں کی مدد سے نیچے سرکاتا نینا خان کے ہونٹوں پر بنے پل پر جھکا تھا ۔۔۔۔۔۔اسے اس سے شدید جلن تھی کیونکہ وہ ۔۔۔۔ نیناں خان کے۔ ۔۔۔ اس قدر قریب تھا۔ ۔۔۔


تیرے دل کی اداس حالت ہے

میں بھی اندر سے یار خالی ہوں

تو سمجھتی ہے مجھے تیرا اب خیال نہیں۔

۔۔۔ میں تو ازلوں سے تیرے در کا ہی سوالی ہوں

۔۔۔۔ مجھ کو مایوس نہ کر خود میں چھپا کر رکھ لے

میں کسی اجڑے سے دربار کا رکھوالی ہوں


فائزہ شیخ کی ڈائری سے۔۔۔۔۔


اس کے لمس میں بے پناہ شدت کے ساتھ محبت و احترام بھی شامل تھا۔۔۔۔۔ چھونے کی طلب میں بھی وہ اس نازک سی جان ۔۔۔ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا یہی تو تھا۔۔۔۔


ان کا رشتہ۔۔۔۔۔ بے حد مضبوط ۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کی خوشبو تک سے پہنچان جانے والے یہ دودل۔۔۔۔ کسی سازش کی بھینٹ چڑھ. گئے تھے ۔۔۔۔۔


محبتیں ۔۔۔۔ بھی ہمیں ایسے موڑ پر لے آتی ہیں جہاں انسان کے بس میں سب ہونے کے بعد بھی وہ بے بس ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔


سارے اختیارات ہونے کے باوجود بھی ۔۔۔ وہ تہی داماں رہ جاتا ہے۔۔۔. ہجر کے لمحات طویل ہونے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور محبت کی مدت قلیل ۔۔۔۔


________

سانول خان بے چینی سے اس کے چہرے کے نقوش چھوتا خود کو معتبر کر رہا تھا۔۔۔یہ اس کے لمس کی مسیحائی تھی کہ نیناں بری طرح اس کے لمس پر کسمساتی پرسکون سی ہوتی سو گئی تھی۔۔۔۔۔

سانول۔۔۔۔ نیناں کے گرد حصار باندھے اسے سینے سے لگائے ۔۔۔ اا کے بالوں سے اٹھتی مدہوش کن خوشبو خود میں اتار رہا تھا۔۔۔۔


کتنی کوشش کی تھی اس نے کہ اس لڑکی سے دور رہے گا یہ لڑکی اتنا ہی اس کے حواس پر سوار تھی ۔۔۔۔کہ وہ کچھ دن بھی نیناں سے دور نہیں رہ پایا تھا۔ ۔۔۔۔


سانول کی محبت نیناں خان کو اس کے رنگ میں رنگ چکی تھی

سانول ایک نظر دیوار گیر گھڑی پر ڈالتا جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

وہ جیسے آیا تھا جا چکا تھا۔۔۔۔ بنا یہ جانے کہ اپنے ساتھ جڑی اس نازک سی جان پر کیا بیتے گی لمحوں کی مسیحائی اس درد کا کفارہ کیسے ادا کر پائے گی جو نیناں خان نے جیے تھے


اگلی صبح نیناں کی آنکھ دروازےپر دستک سے کھلی۔۔۔۔

وہ کسلمندی سے اٹھ کر دروازہ انلاک کرنے اٹھی تو ملازمہ تھی


بی بی سائیں۔۔۔۔ بڑی بیگم نے بلایا ہے آپ کو۔۔۔۔

ملازمہ کہہ کر جاچکی تھی۔۔۔


نیناں کو اپنا سر بھاری محسوس ہورہا تھا رات بھی وہ بھوکی ہی سو گئی تھی ۔۔۔۔ اس سنگدل کی یادوں کے حصار نے مہلت ہی نہ دی تھی کہ ۔۔۔۔ کچھ اور کرتی ۔۔


نیناں فریش ہوکر آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال سلجھانے لگی۔۔۔۔۔مہرون فراک بلیک پلازو میں اس کی رنگت دمک رہی تھی پر آنکھوں میں چھائی ویرانگی ۔۔۔۔۔ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی ۔۔۔

سانول خان۔۔۔۔کیوں چلے گئے ۔۔۔۔ مجھے چھوڑ کر ۔۔۔۔ مجھے اپنا عادی بنایا۔۔۔۔ تاکہ مجھ سے دور چلے جاو۔۔۔۔۔۔

اس کی آواز بھیگنے لگی تھی ۔۔۔۔

ہر لمحہ جب کسی کے قرب کی چاہت دل میں جاگنے لگے تو سمجھ جاو۔۔۔۔ نیناں خان۔۔۔۔ وہ شخص زندگی کا حاصل ہے اس کے بنا سانسیں ادھوری ہیں۔۔۔ سانسوں کے بنا بھی کوئی بھلا جی پایا ہے جو تم جی سکو گی ۔۔۔

نیناں خان آئینے میں دیکھتی اپنے عکس سے مخاطب تھی


_______

میں اپنے ہر غم کو تم سے سود سمیت وصول کروں گا ۔۔۔۔۔تمہاری وجہ سے میں نے اپنی زندگی کو رلایا ہے ۔۔۔۔۔بہت پچھتاؤ گے تم اپنے ۔پیدا ہونے پر افسوس کرو گے ۔۔۔۔

سانول خان ۔۔۔۔۔ سرخ آنکھوں سے لیپ ٹاپ پر نظر آتے نیناں خان۔ ۔۔۔ کے اداس چہرے کو دیکھ غرایا تھا۔ ۔۔۔

وہ تو کبھی خواب میں بھی نیناں کو تکلیف دینے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔۔۔۔


_______

آج شانول ڈیرے پر آیا تھا۔۔۔۔۔ اپنے خاص آدمی کی مدد سے جو معلومات اسے حاصل ہوئی تھیں ۔۔۔. آگے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کو کافی تھیں۔۔۔۔۔

جیسے جیسے فیروز بتا تا جا رہا تھا شانول کی گرفت اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل پر سخت ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔۔


سائیں ۔۔۔۔ میرے لیے کیا حکم ہے ۔۔۔۔


فیروز کل ۔۔۔۔ گھوڑوں کی ریس ہے ۔۔۔۔۔ اپنا بادشاہ تیار کرو ۔۔۔۔ ہم کل ہی اس کے مقابلے میں اتریں گے۔۔۔۔۔

بہت شوق ہے حویلی کے لوگوں پر وار کرنے کا اب زرا ہم بھی تو مزا چکھائیں ۔۔۔

شانول کے لہجے میں سرد مہری تھی ۔۔ ۔

فیروز ۔۔۔جی سائیں کہتا جا چکا تھا۔۔۔۔.

شانول نے فورا کسی کو فون کر کے ساری بات سمجھائی ۔۔۔۔ اور احتیاط برتنے کا کہا۔۔۔۔۔اب جو اس کھیل کے مہرے تھے انہیں اکٹھا کرنے کا وقت تھا۔۔۔۔۔۔

پر شانول خان کی دشمنی کا بھی اپنا انداز تھا. . ۔۔۔۔

دشمن کی ہار ایک پل کی جیت شانول خان ۔۔۔۔ کو پسند تھی ۔۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا۔۔۔۔۔ کہ اپنے منافقوں کے شیرازے کیسے بکھیرنے ہیں ۔۔۔۔

میرے آگے تو ہار جائے گا

میرا اک وار یار کافی ہے

میں تو لہروں سے کھیل جاتا ہوں

میری پوری بساط باقی ہے ۔۔۔

_________

نکاح سے پہلے۔۔۔. ارتضی ۔۔۔۔ یشفہ۔۔۔۔اسپیشل

رات کے سناٹوں میں جہاں تمام ذی روح خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے وہیں دوسری طرف وہ دونوں ہاتھوں میں لیز پکڑے اپنے عزیز بابا جان

کے ساتھ بڑی انہماک سے ٹی-وی پر ترکی کا مشہور ڈرامہ ارتغرل دیکھنے میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔زرشے پہلے ہی سو چکی تھی کیونکہ وہ یشفہ کے پلین سے واقف تھی ۔۔۔۔

ایک طرف ارتضی حاقان تو دوسری طرف .۔۔۔۔۔ یشفہ موجود تھی

"بابا! کچھ جلنے کی سمیل آ رہی ہے نہ ؟؟؟؟" اچانک ارتضی نے یشفہ کو نشانے میں رکھ کر اپنے بابا کو کہا جو کہ ڈرامہ دیکھنے کےساتھ ساتھ لیز کے ساتھ بھرپور انصاف کر رہے تھے۔۔۔


"ہاں بیٹا۔۔۔۔سمیل تو ا رہی ہے"حاقان سائیں جو کے ارتضی کی بات کا رخ سمجھتے تھے سنجیدگی سے اس کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے بولے۔۔۔

"- بابا لگتا ہے آپکی لاڈلی ہمیں دیکھ کر اندر ہی اندر جل کر ککڑی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ہاہاہاہا"ارتضی نے ہنستے ہوئے یشفہ کو دیکھ کر کہا جو کے لیز ختم ہونے پر منہ پھولائے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔


"بابا اپنی لاڈلے کو کہہ دیں مجھ سے بات نہ کرے اور ان سے تو میری جوتی بھی نہ جلے۔۔۔۔"یشفہ نے سارا حساب برابر کرکے ارتضی کو لوٹایا۔۔۔

ایک یشفہ ہی تھی پوری حویلی میں جس کو حاقان سائیں لاڈ کرتے تھے ۔۔۔۔۔

۔۔۔اور ساتھ ہی لاڈلے کا لقب ارتضی کو لوٹاتے ہوئے کہا ساتھ میں حاقان سائیں کو بھی گھسیٹ چکی تھی جن کے ساتھ ارتضی بیٹھا تھا۔۔۔۔


یشفہ تھی ہی ایسی۔۔۔۔۔ اس کے مطابق وہ نہ کسی کا ادھار رکھتی ہے نہ کسی کو ادھار دیتی ہے(ارے بھائ پیسوں والا ادھار نہیں

بیعزتی والا ادھار )۔۔۔۔۔۔۔یشفہ بہت شرارتی سی تھی صاف دل کی کسی کی بھی چند سیکنڈ میں عزت کا کباڑا کرکے وہاں سے چلتی بنتی اگلا بندہ منہ کھولے رہ جاتا کہ اس کے ساتھ ہوا ہے تو ہوا کیا ہے۔۔۔


'ویسے مس الٹی کھوپڑی یہ جلنے کی بو کچن سے آرہی ہے تو پلیز اپنے تشریف کا ٹوکرا اٹھا کر چلتی نظر آئیے۔۔۔۔"

ارتضی اسے چڑاتے ہوئے بولا

یشفہ نے جب سچ میں کچھ جلنے کی بدبو محسوس کی توفورا اٹھ کے بھاگی کیونکہ کچھ دیر پہلے ہی بڑی محنت کر کے کیک بیک کرنے کے لیے رکھ کر آئ تھی۔۔۔۔۔


"چلو بھائ میں تو سونے چلا آپ دونوں بھی سو جائیں کل ڈیرے بھی تو جانا ہے"حاقان سائیں ارتضی کو یہ کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔


"اوہ خدایا!!! ارتضی کے بچے آپ وجہ سے میرا کیک جل گیا۔۔۔۔" یشفہ غصے میں ارتضی کو سنے لگی ۔۔.


"ارے اپنی قسمت ایسی کہاں خیر ابھی ارتضی سے کام چلا لو ارتضی کے بچے بھی ا جائیں گئے۔۔۔"ارتضہ نے افسردہ چہرہ بنا کر یشفہ کو چڑاتے ہوئے کہا۔۔۔


"آپ کا کچھ نہیں ہو سکتا بیٹا شادی کو ترستی عوام۔۔۔" بیچارے سائیں۔۔۔۔۔

ارتضی برے منہ بناتا اس مینڈکی سے بعد میں نپٹنے کا کا سوچتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا

یشفہ کی نظر اوون پر پڑی جہاں سے دھواں نکل رہا تھا میں جلنے کی بو چاروں اطراف پھیلی ہوئی تھی


اس نے کیک اوون سے نکالا کیک کم کوئلہ زیادہ بن چکا تھا ۔۔لیکن وہ یشفہ ہی کیا جو ہار مان جائے اچانک اس کے دماغ میں ایک دھماکے دار پلین آیا کچھ دیر پہلے کی پریشانی اب غائب ہو گئ تھی اور اسکی جگہ پر ایک شیطانی مسکراہٹ نے اس کے لبوں پر اپنا قبضہ جمایا اس نے جلدی سے اپنے پلین کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔۔۔۔۔


یشفہ نے جلدی سے پہلے سے بیک کیا ہوا کیک فریج میں سے نکالا جس پر چاکلیٹ سے ٹوپنگ کی گی تھئ کیک کو شیلف پر رکھا اور ساتھ ہی دوسری پلیٹ پر جلا ہوا کیک رکھا پلیٹ اور چھری اٹھائی اب اگلا قدم اپنے پلان کو مکمل کرنا تھا ۔۔


"ارتضی سائیں ۔۔۔ارتضی سائیں کہاں ہیں آپ ۔۔۔؟؟؟؟آجائیں


ساتھ مل کر چاکلیٹ کیک کھاتے ہیں۔۔" یشفہ نے کمرے میں داخل ہو کر چاروں طرف نظر گھمائی مگر ارتضی کہیں نظر نہ آیا تو اسے آوازیں دینے لگی ۔۔۔


ہاں کیا مسلئہ ہے تمہیں یش۔۔۔؟؟؟؟ سکون کی سانس نہیں لینے دیتی سو جاو جا کر ۔۔۔۔۔ مجھے بھی سونے دو قسمے احسان مند رہوں گا ۔۔۔۔


۔"ارتضی نے یشفہ کو بھڑکانے کے خاطر کہا جو کمرے میں آتے ہی اس کی نام کی ہانقیں لگانا شروع ہو گئی تھی۔۔۔۔


"میری طرف سے بھاڑ میں جائیں کبھی اچھا بھی بول لیا کریں ہر وقت سڑے کریلے کی طرح گھومنا ضروری ہے ۔۔کیک لائی تھی آپ کے لیے اب کھا کر دکھائیے ۔۔۔

۔" یشفہ نے بھی ارتض کو ۔۔۔۔ کرارہ جواب دیا ۔۔۔۔

"یار دوست نہیں ہو میری دیکھو سوری مگر کیک تو کھلاو پلیز ۔۔۔"ارتضی نے کیک کو دیکھتے ہی اپنا ئیت بھرا رویہ اپنایا ۔۔۔۔ نرمی تو شہد کی طرح ٹپک رہی تھی ۔۔۔۔۔تاکہ کیک کھا سکے۔۔۔۔

"اچھا چلیں ٹھیک ہے یہ لیں کھا لیں ۔۔آپ بھی کیا یاد کرے گیں کس سخی سے پالا پڑا ہے۔۔" یشفہ نے احسان جتاتے ہوئے پلیٹ ارتضی کی جانب کھسکائی ۔

"اب چلے گا پتا بچو۔۔۔ یشفہ سے پنگا از ناٹ چنگا۔۔۔۔۔" یشفہ اپنے دماغ میں ارتضہ کا ری ایکشن سوچتی مسکرائی اور اپنے کمرے میں آکر دروازہ لاک کرتی جلدی سے بیڈ پر جا کر سو گئ۔۔۔۔


"چلو جی کیک کھاتے ہیں ہائے رات کو کیک کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔۔۔۔"ارتضی نے جلدی ٹی وی چلا کر بیڈ سے پلیٹ اٹھائی اور ریموٹ اٹھا کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔


"یک۔۔۔۔اففففف ۔۔۔۔جلا کیک کھلا کر سارا منہ کا زائقہ خراب کرا دیا یشفہ۔۔۔۔۔۔ کی بچی اب تم بچ کہ رہنا ۔۔۔۔۔"ارتضی کیک کا پہلا چمچ کھاتے ہی واشروم کی طرف بھاگااور ساتھ میں اس شرارتی چوزی کو صلواتیں سنانے لگا ۔۔۔۔


__________


"زہ نصیب۔۔۔صبح صبح دیدار کرا دیا اب تو پورا دن اچھا گزرے گا۔۔۔"یشفہ جو کہ ابھی اٹھ کہ آئی تھی موبائیل میں دیکھنے کی وجہ سے زین سے ٹکرا گئ۔۔۔۔۔

زین یشفہ کو دیکھتا مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔


" زین۔۔۔قسمے تمہیں دیکھ کے مجھے بس گالیاں آتی ہے ۔۔تمہارا نام زین کی بجائے ذہنی مریض ہونا چاہیے تھا ہر بار بے عزتی کروانے ا جاتے ہو کیا بے عزتی کروائے بنا تمہارے حلق سے نوالہ نہیں گزرتا۔۔۔؟؟؟


یشفہ نے اسکو ٹھیک ٹھاک سنا دی مگر زین پھر بھی ڈھیٹ بنا اپنی بے عزتی سن کر مسکراتا رہا جیسے دعا نے اسکی تعریف میں زمین آسمان کو ایک کر دیا ہو۔۔۔۔۔


زین یشفہ کی خالہ کا بیٹا تھا نہایت آوارہ اور بد تمیز۔۔۔۔یشفہ کے سامنے آتے ہی اپنے ہربے استعمال کرنے لگتا مگر یشگہ اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی


کیونکہ زین یہ باتیں بڑھا چڑھا کر اپنی ماں یعنی کہ عزرہ بیگم کو بتاتا تھا عزرہ بیگم اس کی ماں کی اکلوتی بہن تھیں مگر نہایت مادہ پرست عورت تھیں ان کی نظر ہمیشہ دولت جائیداد پر تھی کے کسی طرح جائیداد ان کے حصے میں آجائے اسی لیے یشفہ کی خالہ اپنی چالوں سے حاقان. سائیں کو یشفہ کی زین کے ساتھ بدتمیزی بتاتی اور خود کو اور اپنے بیٹے کو مظلوم ظاہر کرواتی تھی ۔۔۔۔ہر وقت اپنے بیٹے کی اچھائی بیان کرتی نہ تھکتیں ۔۔۔۔تاکہ حاقان سائیں زین سے متاثر ہو جائیں اور اسے زین کی دلہن بنا دیں۔۔۔ See less

نیناں نیچے آئی تو تائی جان ۔۔۔ ملازمہ سے ناشتہ لگوا رہی تھیں ۔۔۔۔زرشے بھی وہاں موجود تیزی سے ہاتھ چلاتی ان کے کام کر رہی تھی ۔۔۔۔

السلام علیکم ۔۔۔ ماں سائیں ۔۔۔۔ نیناں نے تائی سائیں کے آگے جھکتے سلام کیا جس کا جواب انہوں نے روکھے سے انداز میں دیا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئیں ۔۔۔۔اور ساتھ ہی نیناں کو گھرک گئیں ۔۔۔۔

"نیناں سانول خان۔۔۔۔ ہم بار بار ایک ہی بات دوہرانے کے عادی نہیں ہیں بہتر یہی ہے حویلی کی بہووں کی طرح اپنی زمہ داری نبھائیں ۔۔۔یہ دن چڑھے تک سونا کوئی اچھی بات نہیں ۔۔۔۔۔"


جی ماں سائیں۔۔۔۔۔۔نیناں فرما برداری سے جواب دیتی خود بھی بیٹھتی اپنے لیے ناشتہ نکالنے لگی ۔۔۔۔۔

زرشے نے ایک نظر اس خوبصورت چہرے ۔۔۔۔ والی نازک سی پری پر ڈالی جو سیاہ فراک میں ملبوس تھی چہرے پر چھایا ہزن و ملال اس کے اندر کی توڑ پھوڑ کا گواہ تھا۔۔۔۔۔

یااللہ اس معصوم کی زندگی میں پھر دے رنگ بھردے ۔۔۔۔۔ میرے مالک ۔۔۔۔ اور اصلی گناہ گار کو سامنے لانے میں سائیں کی مدد فرما۔۔۔

زرشے نے دل سے دعا کی ۔۔۔۔

تائی جان اسے کھوئے دیکھ فورا لتاڑ گئیں ۔۔۔۔۔


اے لڑکی کیا ۔۔۔میری بہو کو گھور کر دیکھ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ !!!!

ہاں میرے بیٹے کو تو کھا گیا تمہارا بھائی اب ۔۔۔ میری بہو پر نظر ہے ۔۔۔۔ نکل جاو میری نظروں کے سامنے سے اور جاکر شانوال کو بلا کر لاو۔۔۔۔۔۔۔۔ بد بخت لڑکی اس سے پہلے کہ میں سب بھول جاوں ۔۔۔۔۔

ان کے دل چیرتے لفظ کوڑوں کی مانند زرشے پر برس رہے تھے۔۔۔۔۔

وہ جلدی سے وہاں سے بھاگتی اوپر کی جانب بڑھ گئی جہاں ابھی اس لارڈ صاحب ۔۔۔۔ کو بلوایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

________

زرشے روم میں داخل ہوئی تو چاروں طرف چھائے اندھیرے نے اس کا استقبال کیا ۔۔۔۔زرشے نے ڈرتے ڈرتے ۔۔۔۔ قدم بڑھائے ۔۔۔۔اچانک ہی قالین سے پاوں الجھتے سیدھا بیڈ پر بے سدھ سوئے ۔۔۔۔ شانوال پر جاگری ۔۔۔۔

جہاں ۔۔۔۔۔زرشے کی دبی دبی سی چیخ نکلی تھی وہیں ۔۔۔ شانوال۔۔۔ جو ابھی کچھ دیر پہلے سویا تھا ۔۔۔۔ اس افتاد پر ہڑبڑاتا آنکھیں کھولے جلدی سے سائیڈ لیمپ کی روشنی میں خود پر گرے وجود کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔

زرشے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرانے کے چکر میں مزید اس کی خوشبو کے حصار میں جکڑنے لگی

بے ساختہ ہی شانوال ۔۔۔۔ کے ہاتھ اس کی کمر کے گرد ہائل ہوئے ۔۔۔۔۔ زرشے تو اس کی سرخ آنکھوں میں نیند کا خمار دیکھتی ۔۔۔۔۔ سہم سی گئی ۔۔۔۔

دل جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو بیتاب تھا۔۔۔ سانسوں کی روانی پہ چھائی ۔۔ فسوں خیزی ۔۔۔۔۔۔اس کے حواس معتل کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

چچچھوڑیں۔۔۔ سائیں ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ بڑی بیگم نے آپ کو بلایا تھا۔۔۔۔ میں یہی کہنے آئی تھی ۔۔۔۔

زرشے گھبراہٹ سے چور لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔۔ شانوال خان کی حدرجہ قربت اس کے لیے نا قابل برداشت تھی۔۔۔۔۔

"سائیں کی جان۔۔۔۔۔ بہت تھک گیا ہوں۔۔۔۔۔ کچھ سکون فراہم کردو۔۔۔۔۔شانوال خان اس کی گردن میں چہرہ چھپاتا۔۔۔۔ خمارآلود آواز میں کہتا ۔۔۔۔۔ زرشے کو لال پیلا کر گیا۔۔۔۔۔۔۔

زرشے بھر پور مزاحمت کرتی اس سے اپنا آپ چھڑوانے لگی ۔۔۔۔۔

پر شاید شانوال کسی اور ہی موڈ میں تھا۔۔۔۔۔


زرشے ۔۔۔۔۔نے زور سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔۔۔۔ جو ضبط سے سرخ پڑتی ۔۔۔۔۔ لہو چھلکانے کو تھیں ۔۔.

شانوال اس کے مزاحمت کرتے ہاتھوں کو اپنی قید میں لیے کروٹ بدلتا ۔۔۔۔ زرشے کو مکمل اپنے حصار میں قید کر گیا ۔۔۔۔۔

وہ بے خود سا۔۔۔۔۔ اس کے گالوں پر اپنی چاہت کے پھول کھلاتا اسے سسکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے ۔۔۔۔کہ شانوال ۔۔۔۔ کے لب اس کے لبوں کو چھوتے زرشے آگے بڑھتی اس کی گردن پر اپنے دانت گاڑھ گئی۔۔۔۔۔۔شانوال اس کے ننھے سے حملے پر ۔۔۔۔۔لب بھینچتا مسکراہٹ دبانے لگا۔۔۔۔۔


"آج پتا چلا۔۔۔ن زرشے شانوال خان۔۔۔۔۔۔ کہ کیوں دل تمہاری قربت کا خواہاں ہے۔۔۔۔۔ آخر اس قدر جنون خیزی صرف شانوال خان ۔۔۔۔ کی بیوی میں ہو سکتی ہے ۔۔۔۔

شانوال اس کے گلے سے بھیگی لٹیں ہٹاتے ہوئے بولا۔۔۔۔


"ببببس۔۔۔ کریں ۔۔۔۔ خان۔۔۔۔ مجھے مت مجبور کریں۔۔۔۔۔۔خود سے جڑنے پر ۔۔میرے دل میں آپ کے لیے کوئی جزبہ نہی۔۔۔۔۔ میں بعد میں نہیں پچھتانا چاہتی سائیں۔۔۔۔ بخش دیں مجھے میں آپ کی طلب کا سامان نہیں بننا چاہتی۔۔۔۔۔ مت بھولیے ۔۔۔۔ میں ونی ہو کر آئی ہوں۔۔۔۔۔"


زرشے اسے حدود سے تجاوز کرتا دیکھ ۔۔۔۔۔ پھٹ پڑی تھی ۔۔۔۔ کیسے وہ شخص ۔۔۔ اپنی من مانی کرتا پل میں اسے بے بس کرتا تھا۔۔۔۔۔پر حقیقت ماننے کو شاید شانوال خان۔۔۔۔ تیار نہ تھا۔۔۔۔زرشے کے اندر پلتا خوف اسے ۔۔۔۔۔ اندر ہی اندر ۔۔۔۔ کھا رہا تھا وہ بے بس تھی ۔۔۔۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ۔۔۔۔۔۔اس رشتے کا کل کیا ہوگا۔۔۔۔

زرشے کی باتوں پر ۔۔۔۔۔شانوال کی آنکھوں میں قہر بر پا ہوا تھا کچھ دیر پہلے والی نرمی مفقود تھی جبڑے اس قدر سختی سے آپس میں بھنچے تھے کہ گردن کی رگیں واضح ہونے لگیں۔۔۔۔۔۔

مزید زرشے کو بولنے کا موقع دیے بنا ۔۔۔۔شانوال اس کے ہر لفظ کو اپنے لبوں کی سخت گرفت میں لیتا اسے سختی سے اپنے رشتے کا احساس دلانے لگا۔۔۔۔

کمر پر گرفت ۔۔۔۔پر لمحہ با لمحہ بڑھتی سختی نے الگ جان کنی کی تھی ۔۔۔۔۔

_______

نیناں ناشتہ کرکے واپس کمرے میں آتی ۔۔۔۔۔۔ اپنی ڈائری نکالتی ۔۔۔۔۔ اپنا پسندیدہ مشغلہ سر انجام دینے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اس کی عادت تھی شروع سے وہ کم گو تھی ۔۔۔۔ وہ اپنی ہر بات اس ڈائری میں لکھتی تھی جو سانول خان نے اسے دی تھی ۔۔۔۔۔

نیناں کی ۔۔۔۔۔زندگی میں . ۔۔۔۔۔ سانول کی جگہ سانسوں سے زیادہ تھی۔۔۔۔۔

"سائیں میں نے رات کو پھر سے آپ کو قریب محسوس کیا۔۔یوں لگا۔۔۔۔ آپ نے پھر سے نیناں سانول خان کے وجود کو اپنی خوشبو سے مہکایا ہو۔۔۔۔۔۔۔ پر میں ناراض ہوں سائیں آپ سے۔۔۔۔۔۔جب آپ کو محسوس کرتی ہوں ۔۔۔۔ تو لگتا ہے دھڑکنیں اعتدال پر ہیں ۔۔۔۔ پر آنکھیں کھولتی ہوں ۔۔۔۔۔ تو آپ دکھائی نہیں دیتے ۔۔۔۔ نا انصافی ہے سائیں ۔۔۔۔ "

نیناں قلم سے اپنے دل کا حال بیان کرتی ۔۔۔۔۔اپنی بے بسی پر زاروقطار روئی تھی ۔۔۔۔۔

دل کی حالت تھی کہ ابھی ۔۔۔۔۔۔زندگی ختم کردے۔۔۔۔۔ کونسے دکھ نے گھیراو کیا تھا کہ اب سانسیں گھٹنے لگیں تھیں ۔۔۔۔

محبت کی کشش نے بہت تڑپایا تھا۔۔۔۔۔ وہ مر مر کر جی جاتی ۔۔۔۔ لیکن جی جی کر مرنا نیناں خان کو خالی کر رہا تھا۔۔۔۔۔

_____________

یشفہ بہت پریشان تھی آج ارتضی نے اسے اپنے ساتھ باہر لیجانے کا کہا تھا۔۔۔۔ اس کے کسی دوست کے گھر پارٹی تھی ۔۔۔ وہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس وقت وہ ارتضی کو انکار کرکے اپنی شامت نہیں بلوانا چاہتی تھی۔۔۔.

اب تو اسے ارتضی کی بولتی نظریں جو پیغام دینے لگیں تھیں وہ خود ہی اس سے کتراتی پھر رہی تھی ۔۔۔۔

پر وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھی ۔۔۔۔۔

کہ ارتضی کبھی اس کے ساتھ ۔۔۔۔ نا انصافی نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔

یشفہ بے دلی سے الماری میں منہ دیے ۔۔۔۔۔ ڈریس منتخب کرنے میں مصروف تھی جب پیچھے سے کسی نے اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔۔۔


یشفہ دھک سے رہ گئی۔۔۔۔۔۔ پر اپنے ارد گرد ارتضی کے کلون کی خوشبو ۔۔۔ محسوس کر تی لب بھینچ گئی ۔۔۔۔۔

اور کڑے تیوروں سے اس کی طرف رخ کرتی ۔۔۔۔۔اہنے ازلی انداز میں آتی دونوں ۔۔۔۔ ہاتھوں کی مٹھیوں میں اس کے بال دطوچ گئی۔۔۔۔

"آپ. ۔۔۔۔۔۔کب سدھرو گے۔۔۔۔ میرا دل پھٹ جاتاابھی ۔۔۔۔۔۔۔جب دیکھو۔۔۔۔ میری جان ہلکان کیے رکھتے ہو۔۔۔۔۔۔۔ شرم نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔۔۔۔۔نا

وہ جنگلی بلی بنی اس کے سامنے غرائی تھی۔۔۔۔۔۔۔

لو جی۔۔۔۔ ابھی تو میں نے جان ہلکان نہیں کی ۔۔۔ محترمہ کی جب یہ حال ہے۔۔۔۔ اور جب میں کروں گا نا تو خود سے اپنا یہ سرخ چہرہ چھپاتی پھرو گی محترمہ ۔۔۔۔

اس کی معنی خیز بات پر یشفہ جنجھلاتی اس کے بالوں کو سختی سے دبوچ گئی

ارے۔۔۔۔۔ لڑکی چھوڑو۔۔۔۔ میرے بال گنجا کرو گی۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔ میں کیا منہ دکھاوں گا اپنے بچوں کو۔۔۔۔۔۔۔ کہ ان کے باپ کو ان کی ماں نے گنجا کر دیا۔۔۔۔۔۔

ارتضی اپنے بال اس کے ہاتھوں سے آزاد کراتا۔۔۔۔۔۔۔۔بے باکی سے بولا تھا۔۔۔۔۔


یشفہ اس کی باتوں سے زچ ہوتی واپس اپنے کام میں لگ گئی وہ الماری سے ایک سلک کی سرمئی فراک نکالتی ڈریسنگ روم میں جاتی دروازہ لاک کر گئی ۔۔۔۔

اس شخص کا کیا بھروسہ تھا کہیں بھی آجائے۔۔۔۔۔

یشفہ کے جاتے ارتضی بھی تیار ہونے روم کی جانب چل دیا۔۔۔۔۔ جہاان اس کا ساری تیاری ملازم پہلے سے کر چکے تھے

ارتضی نے بلیک ڈنر سوٹ لیا اور اگلے پانچ منٹ میں وہ مکمل تیار تھا۔۔۔۔۔ بلیک ٹیکسڈو میں اس کی وجاہت و شاہانہ پرسنیلیٹی مزید پر کشش لگ رہی تھی پیشانی پر گرے بال سرخ و سفید رنگت ۔۔۔۔۔ چہرے پر ہلکی سی بئیرڈ ہاتھ میں پہنا مخصوص بریسلیٹ۔۔۔۔۔ وہ واقعی کوئی شہزادہ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔

جس کا دل ۔۔۔۔ایک پری پر آیا تھا۔۔۔۔۔۔ جس نے اس کی راتوں کی نیندیں چرا لیں تھیں۔۔۔. ارتضی اب جلد از جلد ۔۔۔۔۔۔ یشفہ کو ۔۔۔۔۔۔اپنی دسترس میں چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔

جتنی محبت وہ یشفہ سے کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔

اور اس سے زیادہ بھروسہ ۔۔


"۔۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ زندگی میں کبھی کسی پر اندھا اعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ سامنے والا کب آپ کا اعتبار توڑ جائےآپ کو پتا بھی نہیں چلے گا۔۔۔۔ اور قصور بھی آپ کا بتائے گا کیونکہ آنکھیں آپ نے موندیں تھیں ۔۔۔۔ اس نے نہیں "


ارتضی کی محبت بھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یشفہ کے لیے بڑھتی جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

ارتضی ریڈی ہوکر ۔۔۔۔ سیدھایشفہ کے کمرے میں آیا۔۔۔۔۔

یار کیا تم ۔۔۔۔ دلہن بننے لگی ہو۔۔۔۔ کتنا ٹائم لگ رہا ہے۔۔۔۔یشفہ پر نظر پڑتے ۔۔۔۔۔۔ ارتضی کے باقی الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے

گرے سلک فراک بلیک شنیل کی شال میں اس کا دلکش سراپا ۔۔۔ہوشربا تھا ۔۔۔۔ لبوں پر لگی ہلکی سی گلابی لپسٹک ۔۔۔۔۔۔ بالوں کو اس نے کھلا چھوڑا تھا۔۔۔۔۔ اس وقت وہ مکمل ارتضی کی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔

ارتضی کی آنکھوں میں پسندیدگی کے سارے رنگ نمایاں تھے. . . .

وہ دھیمے قدم اس کی جانب بڑھاتا ۔۔۔۔۔

پر شوق نظروں سے یشفہ کو دیکھتا ۔۔۔۔۔ اس کا رخ اپنی جانب کرتا اپنی پیاسی نگاہوں سے ۔۔۔۔۔ اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چومنے لگا۔۔۔۔۔ بے قراری سی بے قرای تھی۔۔۔۔۔۔۔نگاہوں میں محبت تھی ۔۔۔۔ احترام تھا ۔۔۔۔ جنون کی تپش تھی ۔۔۔۔۔۔

یشفہ گھبراتی اپنی پلکوں کی باڑ گرائے انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔ اسے لگا شاید ارتضی کو وہ اچھی نہی لگی ۔۔۔۔۔

لبوں پر ستم ڈھاتی . . وہ دانتوں میں نچلے لب کو دبائے گہری سانسیں بھرنے لگی۔۔۔۔

ارتضی نے اپنے انگوٹھے سے اس کے لبوں کو آزاد کرایا ۔۔۔۔۔۔ اور سرخ اناری لبوں پر اپنی انگلیاں ۔۔۔۔۔۔پھیرتا بے ساختگی میں جھکتا ۔۔۔۔۔ اس کی پیشانی پر اپنا دہکتا لمس چھوڑتا اسے آنکھیں ۔۔۔ موندتی ایک سکون سا اپنے اندر اترتا محسوس کرتی ۔۔۔۔مسمرائز ہوئی ۔۔۔۔۔۔. .

لمس کی حرارت سے پور پور جلنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ ایسی لگن تھی تہش تھی۔۔۔ ارتضی کے لمس میں کہ یشفہ کی نظریں اس کے سامنے اٹھنے سے انکاری تھیں ۔۔۔۔

ارتضی کا دل چاہا کہ ایک پل میں اپنی جنون خیزیوں سے اس نازک سی جان کو آگاہ کردے ۔۔۔۔ کس قدر شدت ۔۔۔ سے اس نے چاہا ہے یشفہ کو۔۔۔۔ کتنی تڑپ سے اسے حاصل کیا ہے۔۔۔۔۔۔

پر ڈر تھا۔۔۔ کہ وہ پگلی کیا نام دے . . اس کی بے پناہ محبت۔۔۔۔ کبھی کبھی ۔۔۔۔ بے پناہ ۔۔۔ محبت بھی ۔۔۔۔ تکلیف و ازیت سے دوچار کرتی ہے ۔۔۔۔انسان اپنی محبت کے آگے بے بس ہوتا ساری دنیا بھولتا اس ایک شخص کا ہو کر رہ جاتا ہے جس سے اسے محبت کا احساس ملے۔۔۔۔۔۔

اس کے ساتھ زندگی کا ہر پل حسین لگنےلگتا ہے۔۔۔۔۔۔

اور جب وہ انسان زرا سی بے رخی دکھائے تو دل۔۔۔۔۔ کی حالت مردہ انسان سی ہوتی جاتی ہے جس کے جسم میں جان باقی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔

ارتضی اسے دیکھتا ۔۔۔۔۔ اپنے دل میں سوچ رہا تھا ۔۔۔۔ جب یشفہ نے ماحول پر چھائی معنی خیز خاموشی کو ختم کرتے ہمت جٹا کر اسے کندھے سے ہلایا۔۔۔۔۔۔۔


سائیں۔۔۔۔۔ پھر سے کوئی نٹ ۔۔۔۔ وٹ تو ڈھیلا نہیں ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ کہاں کھو جاتے ہیں۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔

اس کی سریلی آواز پر ۔۔۔۔۔۔وہ واقعی ہوش میں آیا ۔۔۔۔۔۔


نہیں ۔۔۔۔ جان جاناں۔۔۔۔۔میں جہاں تھا۔۔۔۔ اگر تمہیں بتانے بیٹھا ۔۔۔۔ تو یہیں بیہوش ہو جانا ہے۔۔۔۔۔

میرے ارادوں سے انجان ہی رہو۔۔۔۔ تو زیادہ بہتر ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ جان کاری تمہارے لیے ۔۔۔ کسی طور مناسب نہیں ۔۔۔۔۔ کیا بھروسہ ۔۔۔۔ یہیں میرا قیمہ بنا دو۔۔۔۔۔۔

ارتضی کی معنی۔خیز باتیں ۔۔۔۔ اس کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں ۔۔۔۔۔

وہ منہ بسورتی ۔۔۔۔۔ سائیڈ ہونے لگی۔۔۔۔۔

جب اتنی ہی تیزی سے ارتضی اس باہوں میں بھرتا نرمی سے اس کے لبوں کو اپنی تحویل میں لے گیا۔۔۔۔۔۔ کافی دیر سے خود پر بٹھائے ضبط کے پہرے ساتھ چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔۔پر آج اس کے لمس کی شدت نے یشفہ کے روم روم میں سر سرا ہٹ پیدا کر دی تھی۔۔۔۔۔ وہ چاہ کر بھی اس کے شکنجے سے خود کو آزاد نہیں کرا سکتی تھی۔۔۔۔۔

____________

کب تک یونہی رہنے کا ارادہ. ہے مراقبے سے نکل آو۔۔۔۔۔ یہ تو صرف ایک جھلک تھی میرے جذبات کی آنچ بھی تم جیسی نازک مزاج لڑکی برداشت نہی کر سکتی تو آئندہ اپنی زبان پر قابو رکھنا ۔۔۔۔۔


شانوال۔۔۔۔ اس کے لبوں سے نمی سمیٹتا ۔۔۔۔۔۔ سرد لہجے میں غرایا تھا ۔۔۔۔

وہ سہمی سی آنکھوں میں چمکتے آنسو لیے شانوال کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔. جو کتنی آسانی سے ہر اختیار چھِین گیا تھا۔۔۔۔۔۔

اس رشتے کے آغاز سے انجام تک جس رسوائی سے وہ بچنا چاہتی تھی شانوال خان۔۔۔۔۔اسی کھائی میں اسے دھکیل رہا تھا۔۔۔.


شانوال اس پر سے اٹھتا فریش ہونے چل دیا۔۔۔۔۔۔

________

یشفہ ۔۔۔۔ اور ارتضی دونوں وینیو پر پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔ ارد گرد کافی ہائی کلاس لوگ موجود تھے جنہیں دیکھتی یشفہ گھبراہٹ کے مارے ارتضی کے بازو پر گرفت مضبوط کر گئی ۔۔۔۔۔۔

انٹرینس پر کافی لوگوں کی نظریں ۔۔۔۔۔۔ یشفہ کے دمکتے سراپے پر ٹھہر سی گئی تھیں ۔۔۔۔ سرمئی فراک۔۔۔۔۔ سیاہ چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے پاوں میں پہنی نازک سی بلیک ہیل کندھے پر خوبصورتی سے لی شال نے اس کی شخصیت کو مزید نکھار دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

ارتضی پر اعتماد سا سب سے ملتا ۔۔۔۔۔ یشفہ کا تعارف کرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔جب ایک لڑکی انتہائی بے باک انداز میں ارتضی کے قریب اتی اس کے گال پر زبردست جسارت کر گئی۔۔۔۔۔۔۔

شیلہ کی بے باک حرکت پر یشفہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ پر دوسری طرف ارتضی نارمل تھا۔۔۔۔۔۔ ہائی سوسائٹی میں تو یہ سب عام بات تھی۔۔۔۔۔

یشفہ کا دل بری طرح دکھا تھا ۔۔۔۔۔

ہائے۔۔۔۔۔۔ اے ۔۔ ایچ تم نے دیر کردی آنے میں۔۔۔۔ دلفریب انداز میں شیلہ ۔۔۔۔ ارتضی سے شکوہ کرتی اس وقت یشفہ کو سخت زہر لگی تھی ۔۔۔۔

ارتضی نا محسوس انداز میں فاصلہ بناتا اپنے بزنس پارٹنر کی طرف متوجہ ہوا جو۔۔۔۔اسے بلا رہے تھے ۔۔۔.

ارتضی کے جاتے ۔۔۔۔ شیلہ یشفہ سے مخاطب ہوئی جو نظریں نیچے کیے ناجانے زمین پر کیا کھوج رہی تھی ۔۔۔۔۔

بے بی گرل۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے نیو گرلفرینڈ ہو ارتضی کی۔۔۔۔۔۔ پر زیادہ ہوا میں مت اڑنا ۔۔۔۔۔ اسے عادت ہے نئے شباب کی ۔۔۔۔۔

یشفہ اس کی باتیں سنتی گرنے کو تھی ۔۔۔۔۔

اس کا چہرہ ضبط سے سرخ تھا۔۔۔۔۔ وہ شیلہ کو نظر انداز کرتی دوسری جانب آگئی جہاں بیرے سب کو مشروبات سرو کر رہے تھے ۔۔۔۔۔

یشفہ چئیر پر بیٹھتی بے دھیانی میں سامنے پڑا گلاس لبوں سے لگا گئ ۔۔۔۔۔ یہ جانے بغیر کہ وہ ۔۔۔۔۔ حرام مشروب ہے۔۔۔۔ پہلا گھونٹ حلق میں اترتے اسے کڑواہٹ سی محسوس ہوئی پر ہر چیز سے زیادہ اس پر ارتضی اور شیلہ کی باتیں سوار تھی کہ وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے ایک ہی گھونٹ میں وہ مشروب اپنے اندر انڈیل گئی ۔۔۔۔۔۔۔


__________

نیناں آج پھر مزار پر آئی تھی۔۔۔۔۔۔ جہاں وہ بچپن سے اتی تھی ۔۔۔۔ ہمیشہ سانول ہی اسے اپنے ساتھ لاتا تھا آج پہلی بار تھا جب وہ اکیلی آئی تھی ۔۔۔ کچھ بہت خاص مانگنے ۔۔۔۔۔۔ جس کی درخواست کرتے التجا کرتے اس کے لب سوکھنے لگے تھے۔۔۔۔۔۔

نیناں فاتحہ پڑھتی دونوں ہاتھ دعا کی صورت اٹھائے سوالی کی طرح کھڑی اپنی فریاد سنا رہی تھی ۔۔۔۔۔

گلابی پر نور چہرہ ۔۔۔۔۔۔۔ کسی کی یاد سے مات کھایا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ کسی کے قرب کی چاہ میں ڈوبا لگ رہا تھا ۔۔۔۔


"جب کچھ نہیں تھا تب محبت باقی تھی ۔۔۔۔۔۔ اب کچھ نہیں ہے اب بھی عشق قائم رہنا ہے۔۔۔۔ میرے مقدر کے سائیں ۔۔۔۔۔ میرے سانول کو مجھ سے ملادیں ۔۔۔۔ ٹوٹی ہوئی امیدوں کو جوڑنا آپ کا کام ہے ناکام سی بندی ہوں ۔۔۔۔ پر رب کی رحمت سے مایوس نہی۔۔۔۔ میرے عشق کی ہر حد کو جاننے والے رب ۔۔۔۔ میرے سانول کو مجھ سے ملا دے ۔۔۔ مجھے میرے عشق کے سامنے سرخرو کر دے "

دعا مانگتی وہ زارو قطار روئی تھی ۔۔۔۔۔ دل کا درد آنسووں میں بہہ نکلا تھا ۔۔۔۔

بھیگی پلکیں اٹھِے ہاتھ ۔۔۔۔ ندامت کے آنسو ۔۔۔۔ رب کیسے فریاد رد کر تا ۔۔۔۔۔ وہ تو رحمن ہے اس کی رحمت ہمارے گناہوں کی بخشش کا سامان ہے۔۔۔۔

نیناں کو اپنے سر پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔۔۔۔۔

وہ جو بے خود سی دعاوں منتوں میں ڈوبی تھی ۔۔۔۔

نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔ ایک بے حد پر شفقت چہرے کو اپنے روبرو پایا۔۔۔۔۔


"عشق جب ہو ۔۔۔۔ تو ہجر لازم ہے دھی رانی۔۔۔ورنہ خالی وفاوں پر بیعت کون لیتا ہے۔۔۔۔۔ تلاش مت کر ۔۔۔۔ خود کو کھو دے ۔۔۔۔۔ اس کی ہو جا ۔۔۔۔ جو تیری تڑپ کو محسوس کرتا ہے انتظار میں ہے۔۔۔۔۔۔ تیرے ۔۔۔۔۔۔بن جا داسی اس کے در کی۔۔۔۔۔بھلا دے اپنی شان۔۔۔۔۔ "


وہ بزرگ لفظ لفظ میں موتی پروتے ۔۔۔۔۔ اس کی روح تک کو ۔۔۔۔۔ بے سکون کر گئے تھے ۔۔۔۔۔ ایک وجد تھا ان کے لفظوں کا ۔۔۔۔۔ کہ نیناں سانول خان کا وجود ساکت ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔


ہاں وہ تو رب کو بھول گئی تھی۔۔۔۔۔ کیسے ۔۔۔۔ جس رب سے مانگنا تھا اس کے علاوہ ساری دنیا کو خود سے واقف کرا دیا تھا۔۔۔ننن رب سے بے نیاز ہوتی ۔۔۔۔۔ کس در جا سکتی تھی۔۔۔۔۔جس کی تڑپ دل میں تھی۔۔۔۔ تو مٹانے والے کے سامنے جھکنا تھا۔۔۔۔۔۔۔.

_________

زرشے اپنے کپڑے درست کرتی نیچے چلی آئی ۔۔۔۔۔

اسے سر درد سے پھٹتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ وہ کل سے بھوکی تھی شانوال خان۔۔۔۔ سے ضد کے چکر میں اس نے کھانا ہی نا کھایا ۔۔۔تھا ۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی ہر آہ شانوال۔۔۔۔ اور اس کے خاندان کو لگے۔۔۔۔۔۔۔۔

جو اس نے جھیلا ہے ۔۔۔۔۔ اگر کسی اور پر ہوتا تو شایداب تک دم توڑ چکا ہوتا۔۔۔۔۔

رشتوں کی بغاوت نے دل و روح کو پور ہور زخمی کیا تھا۔۔۔۔۔ یہ کیسا حاکم تھا ۔۔۔۔ جو اپنے اختیارات کو اپنی بیوی کی سسک میں بدل کر خوشی محسوس کرتا تھا۔۔

یہ کیسی خواہشات تھیں جن کی تکمیل اس کی تذلیل سے منسلک تھی۔۔۔۔۔وہ چاہ کر بھی خود کو اس رشتے کے لیے تیار نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔ کیسے. بھول جاتی اپنا مقام ۔۔۔۔ وقت کی ٹھوکر نے ستم ظریفی کی تھی ورنہ آج وہ زرشے حاقان۔۔۔۔۔۔ خود میں اتنی یمت نا جٹا پاتی۔۔۔۔۔۔

شانوال نیچے آیا تو ۔۔۔زرشے کو سر تھامے دیکھ اس کی تیوریاں چڑھیں ۔۔۔۔۔۔

وہ قریب پہنچتا اسے بازو سے تھامتا اپنی جانب کر گیا ۔۔۔۔۔۔ جو کچی ڈال کی مانند اس کے سینے سے آلگی۔۔۔۔۔۔

شانوال کو وہ نیم بیہوش سی لگی۔۔۔۔۔۔پر نیند میں بھی اس کی خوشبو سے زرشے ۔۔۔۔ گھبراتی اپنا آپ آزاد کرانے لگی تھی ۔۔۔۔ ہر شدید بھوک پیاس نے شاید ہمت بھی نچوڑ لی تھی کہ وہ مقابلہ ر سکے

اسے اندازہ تھا۔۔۔۔۔ کہ محترمہ ضدی ہے ۔۔۔۔پر اس کی حالت دیکھ شانوال کو جی بھر کے تاو آیا ۔۔۔۔۔۔۔

محبت کے خساروں سے واقف لوگ ۔۔۔۔ کوئی اور جوگ نہیں پال سکتے ۔۔۔۔ خود کو کھو کر رب کو پانے والے کامیاب ٹھہرتے ہیں ۔۔۔ محبوب کی چاہ ہو تو پہلے محبت کو سمجھنا پڑتا ہے۔۔۔ اس ذات کو محب۔۔۔۔ بنانا پڑتا ہے جو محبتوں کا عروج ہے۔۔۔

بکھرے سے حلیے میں وہ مزار سے نکلتی کوئی دیوانی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ نیناں کو ہوش نہ تھا کہ اس کے قدم کہاں پڑ رہے ہیں ۔۔۔ وہ بس دل کی گھبراہٹ سے دور بھاگ رہی تھی اسے لگ رہا تھا مزید کچھ لمحوں کی دیری ہوئی تو ۔۔۔۔ وہ سب کھو دے گی ۔۔۔

وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ۔۔۔۔ بھرپور پر کشش حسن کی مالک لڑکی اپنے محرم کی محبت میں پور پور ڈوبی آج ۔۔۔۔ اپنا آپ کسی سوالی سا محسوس کر رہی تھی جس کے ہر۔۔۔۔ قدم پر رب تعالی نے اس کا ساتھ دیا تھا۔۔۔ وہ کیسے بھول گئی ۔۔۔ کہ محبت فقط کسی کا قرب حاصل کرنے کا نام نہیں۔۔۔۔۔

بلکہ کسی کا ہو کر جینے میں سکون ہے اور جو رب کا ہو جائے تو ا سکی ہر طلب بے معنی رہ جاتی ہے ۔۔۔۔۔


نیناں اپنی شال اچھے سے خود پر لپیٹتی درخت سے ٹیک لگائے بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔۔اسے لگ رہا تھا وہ اکیلی کسی صحرا میں بھٹک رہی ہے جس کی منزل اس کے گمان سے باہر ہے. . ۔۔


نیناں نے گہرے سانس لیتے آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔

منظر یکدم بدلاتھا۔۔

۔۔اب وہ ایک خوبصورت سفر میں محو تھی جہاں ہر طرف خوشبووں کا حصار تھا۔۔۔۔ ایک پر سکون وادی تھی چاروں اطراف چلتی ٹھنڈی ہوائیں۔۔۔۔۔


خیر کا پیغام دے رہی تھیں ۔۔۔۔ وہ دھیمے قدم اٹھاتی اس جھرنے کے پاس آکھڑی ہوئی جہاں پہلے سے کوئی سفید لباس میں موجود نماز ادا کرنے میں مشغول تھا۔۔۔۔۔


نیناں کی جانب اس شخص کی پشت تھی ۔۔۔۔ وہ نہی دیکھ پائی تھی اس شخص کا چہرہ کتنا دلفریب نظارہ تھا کہ نیناں ۔۔۔۔۔ بے خود سی اس سفید پر نور لباس میں موجود شخص کی پشت کو تکتی رہ گئی ۔۔۔۔۔


وہ شخص سجدے میں جھکا تو۔۔۔۔نیناں کو اس کے تلوے پر موجود تل دکھائی دیا ۔۔۔۔۔۔ سفید پاوں پر چمکتا وہ تل نیناں کو کہیں دیکھا ۔۔۔۔ ہوا سا لگا۔۔۔۔


اس سے پہلے کہ نیناں اس شخص کی جانب بڑھتی کسی نے زور سے کندھا جھنجھوڑتے اسے جگایا تھا۔۔۔۔۔

وہ نوری تھی ۔۔۔۔۔حویلی کی ملازمہ جو شاید نیناں کو ڈھونڈتی یہاں آن پہنچی تھی ۔۔۔.

بی بی ۔۔۔۔ سائیں مغرب ہونے کو ہے ۔۔۔ حویلی کی راہ لیں۔۔۔۔ اس سے پہلے بڑی سرکار ۔۔۔۔ سے ڈانٹ پڑے۔۔۔۔

نوری نے ڈرتے ہوئے اپنی بات اس کے گوش گزار کی۔۔۔۔۔

۔۔۔ ہاں نوری بس چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ پتا نہیں چلا ۔۔۔۔ کیسے وقت گزرا۔۔۔۔ تم پریشان مت ہو ۔۔۔۔ تائیں سائیں کچھ نہیں کہیں گی۔ ۔۔.

نیناں ہوش کی دنیا میں لوٹتی اسے سمجھانے لگی۔۔۔۔ اذان سنتے ہی دونوں کے قدم حویلی کی جانب تھے. ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں نیناں حویلی پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔

شکر تھا اس وقت ۔۔۔۔ یہاں کوئی موجود نہیں تھا۔۔۔۔ وہ سیدھا اپنے کمرے میں جاتی دروازہ بند کر گئی۔۔۔۔۔۔

آج ۔۔۔۔ جو کیفیت اس کے دل و دماغ پر طاری تھی۔۔۔۔ وہ بڑی حسین تھی ۔۔۔۔ نیناں چاہتی تھی کہ اب سے وہ صرف اپنے اللہ کی پیاری بن جائے۔۔۔۔۔ سب کے رنگوں میں رنگنے کے بجائے رب کے رنگ کو چن لے۔۔۔۔۔۔

وہ جلدی سے اپنے کپڑے بدلتی وضو کرنے چلی گئی ۔۔۔۔۔

نیناں نے پورے خشوع و خضوع سے وضو کرتے رب کی وحدانیت اور اپنے محبوب نبی ؐ کی تعریف بیان کی۔۔۔۔

ایک دھند سی تھی جو چھٹنے لگی تھی ۔۔۔۔۔

وہ جائے نماز بچھاتے ۔۔۔۔۔ رب کے سامنے سر باسجود تھی ۔۔۔۔۔ ناجانے کتنے آنسو پلکوں کی باڑھ توڑ کر بہہ نکلے تھے ۔۔۔۔ مگر آج یہ آنسو۔۔۔۔ سانول خان۔۔۔۔ کے نام کے نہیں ۔۔۔۔ بلکہ رب سے دوری کے آنسو تھے۔۔۔۔

ہر آیت پڑھتے وہ زاروقطار روئی تھی ۔۔۔۔۔ سارا غبار آنسووں کی صورت بہہ نکلا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک بوجھ سا جیسے دل سے سرکا تھا۔۔۔۔۔۔ کافی دیر وہ جائے نماز پر بیٹھی اپنے رب سے فریاد کرتی رہی ۔۔۔۔ اسے پتا نہ چلا کہ کب وہ نیند کی وادیوں میں گم ہوئی۔۔۔۔


آج وہ کافی دنوں بعد بغیر نیند کی دوا کے پرسکون سوئی تھی ۔۔۔۔ پلکوں پر ٹھہری نمی رب سے محبت کا اعلان کر رہی تھی ۔۔۔۔ پھر رب تعالی کیسے مایوس کرتا۔۔۔۔ رب نے اپنی رحمت کا نظارہ کراتے اسے اس سکون سے روشناس کرایا تھا کہ وہ لمحوں میں پرسکون ہوتی گئی۔۔۔۔۔

__________

شانوال اسے اپنے کمرے میں لایا تھا۔۔۔۔۔ پر وہاں ۔۔۔۔ماں سائیں کو موجود دیکھ کر اسے کچھ غلط ہونے کا شدت سے احساس ہوا تھا۔۔۔۔

شانوال نے لب بھینچتے ۔۔۔۔۔ ان کی بے یقین نظروں میں دیکھا تھا۔۔۔۔ جن کی نگاہیں شانوال خان کی باہوں میں پڑی زرشے پر ٹکی تھیں ۔۔۔۔

وہ ایسا بلکل نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ ماں سائیں کے غصے سے پوری حویلی واقف تھی جذباتیت میں وہ شانوال خان سے بھی آگے تھیں۔۔۔۔۔۔


"شانوال خان۔۔۔۔ دل بہلانے کے اور بھی طریقے ہو سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا اتنی جلدی ۔۔۔۔ اس بد کردار لڑکی کے جھانسے میں آجائیں گے ۔۔۔۔۔ لگتا ہے کافی گہرا تعلق ہو گیاہے۔۔۔۔ کیوں شانوال۔۔۔۔!!!!! "

ان کی چبھتی نظروں ۔۔۔۔ اور نازیبا الفاظ پر ۔۔۔۔ شانوال شرمندہ سا ہوتا زرشے کو بیڈ پر لٹاتا ان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔

ماں سائیں آپ جیسا سمجھ رہی ہیں ویسا کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ یہ لڑکی باہر بیہوش پڑی تھی کوئی ملازم بھی وہاں موجود نہیں تھا۔۔۔۔۔ اپنا مقصد پورا کیے بغیر میں اسے ۔۔۔۔۔ مرنے نہیں دے سکتا۔۔۔۔ محض اس لیے ہی اس ونی میں آئی لڑکی کو یہاں لایا۔۔۔۔


شانوال انہیں اپنی جانب سے مکمل مطمئن کرتا ۔۔۔۔۔ ان کے تاثرات جانچنے لگا کہ اندازہ لگا سکے وہ اس کی باتوں سے متفق ہوئی بھی ہیں یا نہیں۔۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔۔ شانوال خان ہم مان لیتے ہیں ۔۔۔۔ پر اس لڑکی کو اوقات میں رکھو۔۔۔۔۔ اور یہاں لانے کہ ضرورت بلکل نہیں ہے ورنہ ہم بھول جائیں گے کہ انسانیت بھی کوئی شے ہے۔۔۔۔۔

وہ دوٹوک انداز میں اسے اپنی بات سمجھاتی وہاں سے جاچکی تھیں۔۔۔۔۔۔

شانوال ان کے جانے پر جلدی سے دروازہ بند کرتا زرشے کے پاس آیا۔۔۔۔ جو بہتی آنکھوں میں مان ٹوٹنے کی بکھرتی کرچیاں لیے نیم واں آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اس کے کچھ دیر پہلے کہے تمام الفاظ سن چکی تھی ۔۔۔. شانوال بے بس سا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔

یہ ۔۔۔۔ سب ۔۔۔ جو ہوا تھا ۔۔۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔۔۔ اب زرشے کا بد گمان ہونا یقینی تھا ۔۔۔۔۔ وہ کتنی مشکل سے نارمل ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔ پر اس کے چند لفظوں سے جیسے زرشے کا وجود خاک ہو کر رہ گیا تھا


زرشے میری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!!!!

شانوال اسے سمجھانے کے لیے آگے بڑھا تھا ۔۔۔۔

جب وہ بیچ میں ہی ہاتھ اٹھا کر اسے روک چکی تھی ۔۔۔۔۔


مزید کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔۔۔ سننے کو شانوال خان۔۔۔۔ آخر دکھا دی نا اپنی اصلیت۔۔۔۔۔ کیا سمجھتے ہو پاگل ہوں میں جو ہر بار تمہارے جھانسے میں آجاوں گی۔۔۔۔ مذاق بنا دیا شانوال خان ۔۔۔۔ تم نے میری زندگی کا۔۔۔۔۔۔ سانس گھٹنے لگی ہیں میری۔ ۔۔۔۔ بس کردو۔۔۔۔۔ یہ سب. ۔۔۔ کونسا کھیل۔۔۔۔۔رچا رہے ہو اب۔۔۔۔ میری ذات پر باندھا ہر ضبط ٹوٹنے لگا ہے۔۔۔۔۔ اپنی انا کی جنگ میں اگر کسی لڑکی کو مہرہ بناو گے تو یاد رکھنا ۔۔۔۔۔ شانوال خان۔۔۔۔ بہن تمہاری بھی ہے ۔۔۔۔۔


بسسسسسسسس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زرشے حاقان۔۔۔۔۔۔ خبردار ۔۔۔۔ میری بہن کا نام بھی اپنی زبان پر لائیں۔۔۔۔ تو ہاں سچ ہے سب ۔۔۔۔۔ جو کچھ بھی تم نے سنا ۔۔۔۔۔ تمہاری حیثیت اتنی ہی ہے جتنی ۔۔۔۔۔ ایک ونی میں آئی لڑکی کی ہوتی ہے۔۔۔۔ اور بی بی ۔۔۔ ایک بات زہن نشین کرلو ۔۔۔۔

میری بہن تمہارے جیسی تو بلکل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔رہی کھیل کی بات ۔۔۔۔ تو شانوال خان نے ہارنا کبھی نہیں سیکھا۔۔۔۔۔ تمہارا میرے خلاف اٹھنے والا ہر قدم تمہیں ازیت کی نئی لہر سے روشناس کرائے گا۔۔۔۔ لگام ڈالو ۔۔۔ اس زبان کو ۔۔۔ ایسا نہ ہو۔ ۔۔۔ کہ میں سب بھول کر صرف خان کا اصلی روپ دکھانے پر مجبور ہو جاوں ۔۔۔۔


اسے دونوں بازوں سے پکڑتا شانوال غرایا تھا

۔۔۔۔وہ اپنی گرفت میں لیے زرشے کی سانسیں تک خشک کر گیا تھا۔۔۔۔۔ اس کی باتوں نے زرشے کے روم روم میں سرد لہرا پیدا کردی تھی۔۔۔۔ کہ زرشے رب سے دعائیں کرنے لگی اس زندگی سے آزادی کی۔۔۔۔۔

شانوال خان ۔۔۔۔ مجھے ڈرا کر خود کو بہادر ثابت کرنا چاہتے ہو۔۔۔۔ایک بار پھر وہ شیرنی بنی تمسخرانہ لہجے میں بولی تھی پر اس بار شانوال نے جس انداز میں اس کے لفظ ۔۔۔۔ چھینے تھے زرشے کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل تھا۔۔۔۔۔

شانوال کا لمس۔۔۔۔۔۔ بے رحم ۔۔۔ جھلساتا ہوا تھا۔۔۔۔ کہ وہ ہر سانس میں اترتی اس کی گرم دہکتی سانسوں سے تڑپ سی گئی ۔۔۔۔۔ پر شانوال اس کے مزاحمت کے تمام راستے مسدود کرتا اس کے لبوں پر گہری چھاپ چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔۔


"مرد اور سگریٹ قطعی جان لیوا نہیں ۔۔۔۔۔ زرشے بیگم۔۔۔۔ اگر انہیں تیلی نہ لگائی جائے ۔۔۔۔۔"

آئندہ کے بعد مجھ سے اس لہجے میں مخاطب ہونے سے پہلے سو بار سوچنا۔۔۔۔کیونکہ اگلی بار میں صرف لبوں پر ہی ۔۔۔۔۔ اتفاکیہ نہیں کروں گا۔ ۔۔ بلکہ تمہاری رگ رگ میں سما جاوں گا۔۔۔۔۔

_________

یشفہ وہاں بیٹھی چوتھا گلاس گٹک گئی تھی۔۔۔۔جب ارتضی کی اس پر نظر پڑی ۔۔۔۔۔وہ دوڑتا ہوا ۔۔۔۔

اس تک پہنچا اور فورا سے پہلے اس کے ہاتھ سے گلاس لیتے ناک تک لے گیا۔۔۔۔۔

اگلے ہی لمحے اس نے گلاس وہاں پٹختے ۔۔۔ سرد نظروں سے یشفہ کو گھورا ۔۔۔۔ جس کا دوپٹہ بے پرواہی سے کندھے پر جھول رہا تھا شال وہ پہلے ہی گرا چکی تھی۔۔۔۔۔۔

ارتضی کا پارہ ہائی ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔

یشفہ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھتی ارتضی کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔ پر ارتضی اب بھی بے تاثر کھڑا تھا۔۔۔۔


"وہ ۔۔۔۔۔ وہ چڑیل۔۔۔۔ شیلہ ۔۔۔ مجھ ۔۔۔ سے زیادہ پیاری ہے کیا۔۔۔ن!!!؛


یشفہ لڑکھڑاتے لہجے میں بولی تھی

یشفہ اپنے حواسوں میں ہوتی تو ۔۔۔۔ قطعا اس پر اپنا آپ ظاہر نہ کرتی۔۔۔۔ پر شیلہ کا ارتضی کے اس قدر قریب آنا ۔۔۔۔ یشفہ کو ناگوار گزرا تھا۔۔۔ کہ وہ سب بھول گئی تھی. . ۔۔

ارتضی کو لمحہ لگاسارا معاملہ سمجھنے میں یعنی وہ۔۔۔۔ صرف جیلسی میں ۔۔۔۔یہ سب کر گئی تھی ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ گرتی۔۔۔۔۔ ارتضی اس کی کمر میں بازو ہائل کرتا ۔۔۔۔ اسے کھڑے رہنے ہر مجبور کر گیا۔۔


"یو فولشش گرل۔۔۔۔۔تم نے کیا کیاہے۔۔۔یہ سب ہاں۔۔۔۔ جانتی ہو اس کی سزا ۔۔۔۔۔ "۔

ارتضی اسے سرد انداز میں باور کراتا ۔۔۔۔۔ اس کی جانب ہلکا سا جھکا تھا۔۔۔۔۔

ارتضی کی بات سنتی ۔۔۔۔ وہ اپنی بوجھل ہوتی پلکوں کو اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔

ارتضی ۔۔۔۔ کو اس کے من موہنے چہرے میں اپنا آپ ۔۔۔۔۔ معتبر لگا تھا۔۔۔۔ پر جو حرکت میڈیم نے کی تھی وہ بھی چھوٹی نہ تھی ۔۔۔ اس لیے وہ سوچ چکا تھا اس چیونٹی کو سبق تو وہ سکھا کر رہے گا۔۔۔۔۔

"آپ فولش۔۔۔۔۔ آپ کی فیملی فولش۔۔۔ وہ لیلہ ۔۔۔۔شیلہ کریلہ۔۔۔۔۔ فولش۔۔۔۔ آپ کی ساری گرلفرینڈز فولش۔۔۔۔۔ "


یشفہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی ۔۔۔۔۔ ایک ایک نام گنواتے ہوئے بولی تھی پر اس وقت آواز قدرے اونچی تھی کہ سب لوگ ان کی جانب متوجہ ہوئے تھے ۔ ۔۔۔۔۔


ارتضی لب بھینچے ۔۔۔۔ اس کا ہاتھ پکڑتا وہاں سے باہر نکل آیا۔۔۔۔ کیا بھروسہ تھا اگلے دو سیکنڈ میں نیا شوشہ چھوڑ دیتی۔۔۔۔ وہ تو پچھتایا تھا اس آفت کی پڑیا کو ساتھ لاکر۔۔۔۔۔

ارتضی نے اسے کار میں بٹھایا اور خود دوسری طر ف آتا ۔۔۔۔۔ فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوا۔۔۔۔

پر اگلا لمحہ ارتضی کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا ۔۔ ۔۔ یشفہ اپنے دونوں بازو اس کی گردن کے گرد ہائل کیے ریلیکس انداز میں اس کی گود میں بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔

ارتضی نے فورا گاڑی کے شیشے چڑھائے اور اسے خود سے دور کرنے لگا۔۔۔۔۔


"یشفہ ۔۔۔۔کیا حرکت ہے یہ پیچھے ہٹو ۔۔۔۔ ہمیں گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔


ارتضی اس کے بہکے حسن سے نظریں چراتے بولا تھا۔۔۔۔

پر یشفہ اس کی سننے کے بجائے گھورنے لگی۔۔۔۔


"جب وہ شیلہ کریلا ۔۔۔۔ آپ کے پاس آئی تھی۔۔۔۔ تب تو نہیں ۔۔۔ روکا۔۔۔۔۔ اور اب میں ۔۔۔ یعنی میں۔۔۔۔۔ اوہ یعنی یشفہ ارتضی حاقان اپنی پرسنل پراپرٹی کے پاس نہیں آسکتی۔۔۔۔ بولو کھڑوس۔۔۔۔۔"

ارتضی کا دل چاہا اسے گاڑی سے اٹھا کر باہر پھینک دے ۔۔۔۔۔ پر سنل پراپرٹی کے نام پر ارتضی کے چہرہ سرخ پڑا تھا۔۔۔۔۔

یشفہ۔۔۔۔۔۔ وہ صدمے سے یہی کہہ سکا۔۔۔۔

جی ارتضی بے بی۔۔۔۔۔۔ یشفہ شرماتے ہوئے اسے لاجواب کرتی سر پکڑنے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔ یعنی وہ۔اس وقت مکمل شیلہ بنی ہوئی تھی کسی طور ارتضی کے ہاتھ نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔

اچھا یشفہ تم سیٹ پر بیٹھو تو۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔

اس بار یشفہ کا حملہ کافی ۔۔۔۔۔۔ برق رفتاری سے ہوا تھاکہ ارتضی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔۔۔

__________

یشفہ اس کے گال پر لب رکھتی ارتضی کو شاکڈ کر گئی تھی وہ پھیلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا جو اتنی بڑی کاروائی کرکے اس کی گردن میں چہرہ چھپا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

جانم۔۔۔۔۔ بس کردو۔۔۔۔ کچھ میرے لیے بھی چھوڑ دو۔۔۔۔۔ مجھ معصوم کو بہکارہی ہو۔۔۔۔. رات تنہائی ۔۔۔۔ میں اور تم۔۔۔۔۔ ترس کھاو۔۔۔۔

ارتضی ضبط کرتا شرارت سے ا س کی کمر پر اپنے مضبوط ہاتھ کی انگلیاں چلاتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔ کہ یشفہ تیز ہوتی دھڑکنوں سے گھبراتی ارتضی کی شرٹ مٹھیوں میں جکڑ گئی ۔۔۔۔۔

"مجھے۔۔۔۔ نا ۔۔۔۔ آپ سے پوچھنا ۔۔۔ ہے ۔۔۔۔وہ ۔۔۔ شیلہ کریلا۔۔۔۔ کیا مجھ سے زیادہ پیاری ہے۔۔۔ ارتضی ۔۔۔۔ اس کے ہونٹ بھی کتنے موٹے ہیں اور میرے اتنے چھوٹے۔۔۔ اسی لیے آپ کو میں نہیں پسند وہ ۔۔۔۔پسند ہے۔۔۔۔۔ تبھی اس نے آپ کو کس کیا۔۔۔ نا. ۔۔۔. . "

ارتضی کی آنکھوں میں اپنی مخمور بھیگی نگاہوں سے وار کرتی آج وہ ارتضی حاقان کو پاگل کرنے کے در پر تھی ۔۔۔۔۔. اس کی نم آنکھیں دیکھ ارتضی خود کو سو بار کوس چکا تھا ۔۔۔۔


یشفہ کے چپ ہونے پر ارتضی گہرا سانس بھرتا رہ گیا۔۔۔۔۔وہ یشفہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں قید کیے ۔۔۔۔۔۔ اس کی ہیشانی پر لب رکھتے ہوئے بولا

"نہیں میری زندگی ارتضی حاقان ۔۔۔۔ کے لیے دنیا میں صرف ایک ہی لڑکی بنائی گئی ہے اور وہ ہے یشفہ۔۔۔۔ اور تم بہت پیاری ہو بلکہ سب سے پیاری ہو۔۔۔ اور تمہارے ہونٹ بھی بہت پیارے ہیں مجھے بہت پسند ہیں اور۔۔۔۔۔۔"

ارتضی ابھی مزید اپنی بات مکمل کرتا کہ یشفہ اس کی بات اچک گئی ۔۔۔۔۔

اور اپنی بند ہوتی آنکھوں کو بامشکل کھولتے اپنے نازک ہاتھ ارتضی کے کندھے پر جمائے بولی ۔۔۔۔۔۔


"تو ۔۔۔ تو پھر۔۔۔۔ آپ نے مجھے کس کیوں ۔۔۔ نہیں کیا۔۔۔۔ ارتضی۔۔۔۔ میرے ہونٹ تو چھوٹے ہیں نا۔۔۔۔ اس شیلہ جیسے نہیں نا ۔۔۔۔ پھر مجھے کس کریں جلدی سے ۔۔۔۔ میں پھر ۔۔۔۔ آپ سے بات کروں گی۔۔۔۔۔۔


ارتضی برا پھنسا تھا۔۔۔۔۔۔ پی اس نے تھی اور خمار ارتضی کو چڑھا رہی تھی ۔۔۔۔ ا

س کی بہکی باتیں ارتضی کو ۔۔۔۔ بے چین کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔

وہ جانتا تھا۔۔۔ کہ اگلی صبح اس چوہیا کو کچھ یاد نہیں رہنا ۔۔۔۔۔ ا

ور اگر یاد رہتا تو اپنی حرکتوں پر افسوس کرتی ہی فوت ہو جاتی


ارتضی اس کی بار بار کس کی رٹ پر۔۔۔۔۔

بہت ملائمت سے اس کے گلابی لبوں کو اپنے عنابی ہونٹوں کی دسترس میں لیتا اسے بلکل اپنے قریب کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔

یشفہ جو اس سے ننھی منی کس کی خواہشمند تھی۔۔۔۔ ارتضی کی شدت پر سختی سے اس کا کالر دبوچتی خود سے دور کرنے لگی ۔۔۔۔۔

پر ارتضی کو تو جیسے موقع مل گیا تھا


۔۔۔۔ وہ بے خود سا اس وقت خود کو سیراب کرنے کیں مصروف تھا۔۔۔۔۔

یشفہ کی سانسیں اکھڑتی محسوس کرتے وہ لمحے بھر کو اس سے دور ہوا تھا۔۔۔۔۔۔


اور اگلے ہی پل دگنی شدت سے اس کی گردن کو اپنے بوسوں سے معتبر کیا تھا۔۔۔۔

اس کا پر زور لمس یشفہ جیسی نازک جان کے لیے ۔۔۔۔ بے حد ۔۔۔۔ تڑپاتا ہوا تھا ۔۔۔ وہ گہرے سانس بھرتی ارتضی کے کندھے پر پیشانی ٹکا گئی۔۔۔۔۔۔۔


ارتضی کو اس کی سانسوں کی مہک ۔۔۔۔ اپنے سینے میں دھڑکتی اس کی دھڑکن ۔۔۔۔۔ کسی اور جہان میں لے گئے تھے


یشفہ کی سانسوں کی روانی درست کرتا وہ ۔۔۔۔ شرارت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔


"جی ۔۔۔ یشفہ بے بی ۔۔۔۔ مزید کوئی خواہش ہے تو بتائیں ۔۔۔ بندہ ناچیز ۔۔۔۔ حاضر ہے۔۔۔۔۔ "


ارتضی کی معنی خیز بات اس کے سر سے گزری تھی ۔۔۔۔۔۔


وہ ارتضی سے دور ہوتی اپنی سیٹ پر جا بیٹھی صاف ناراضگی کا اظہار تھا ۔۔۔۔۔


ارتضی مسکراتا مکمل اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔۔


"لوجی تم نے ہی تو کہا۔۔۔ تھا کس چاہیے ۔۔۔۔ کس چاہیے اب کردی تو تم ناراض ہو رہی ہو۔۔۔۔۔ یہ تو ۔۔۔ نا انصافی ہے نا۔۔۔۔۔"


ارتضی کی بات پر وہ ۔۔۔ گھور کے اسے دیکھنے لگی پر اس کی اگلی بات پر ارتضی کے چودہ تبک روشن ہو چکے تھے۔۔۔۔۔


" میں نے آپ کو ۔۔۔" کس" کا کہاتھا۔۔۔۔ ویسی "کس" ۔۔۔ جیسی اس شیلہ نے کی ۔۔۔ لیکن آپ نے وہ" کس" نہیں کی۔۔۔۔ بلکہ گرلفرینڈ والی "کس" کی جب میں نے آپ کو "کس" کا بولا تو آپ نے نہیں ۔۔۔ کی پر شیلہ نے آپ کو"کس" کی۔۔۔۔ اور جو کس آپ نے مجھے کی اس "کس" کی ہماری بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ آپ نے چیٹنگ کی ہے اور اب میں بابا کو بتاوں گی "


وہ بولی تو ارتضی ہونک زدہ سا اس کا چہرہ تکتا رہ گیا ۔۔

۔ وہ واقعی چھوٹا پیکٹ بڑا دھماکا تھی

ا سکی باتیں تھیں یا بم کا گولا۔۔۔۔ جو ارتضی حاقان کو ہلا گئیں تھیں

وہ الگ ۔۔۔ ہی کہانی ہے ۔۔۔ کہ اس بیچارے کو اس "کس " کا قصہ زرا پلے نا پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔


پر اس کی آخری بات پر ارتضی چو نکا تھا ۔۔۔۔۔

بابا سائیں کو پتا چلنا مطلب واٹ پکی ۔۔۔ اوپر سے جو شرمندگی ہونی تھی اس کا تو سوچ کر ہی ارتضی جھر جھری لے اٹھا ۔۔۔۔۔


"یشو۔۔۔۔ میری پرنسس یہ تو ہمارا سیکرٹ ہے ۔۔۔ نا۔۔۔۔ ہسبینڈ وائف والا ۔۔۔۔ تو آپ سب کو بتاو گی سب ڈانٹیں گے ۔۔۔۔۔ پھر انسلٹ ہو گی "


ارتضی اسے پیار سے سمجھاتا اپنے مطلب کی بات پر آیا تھا۔۔۔۔۔۔

ہمممم۔۔۔۔۔ ارتضی کی بات سن کر وہ تھوڑی تلے انگلی رکھتی پر سوچ انداز میں گویا ہوئی۔۔۔۔

"پھر میں کسی کو نہِیں بتاوں گی بس زرشے کو بتاوں گی کہ شیلہ نے آپ کو کس کیا ۔۔۔ اس لیے پھر میں نے آپ کو کس کیا ۔۔۔۔ اور پھر آپ نے مجھے کس کیا۔۔۔۔۔ہاہاہا کتنا مزہ آئے گا۔۔۔۔ میں زرشے کو بتاوں گی ہم سب نے کس کیا۔۔۔۔۔ "

ارتضی سر پکڑتا رہ گیا۔۔۔۔۔

یہ جنگلی بلی واقعی اسے ناکوں چنے چبوانے والی تھی۔۔۔۔۔۔

وہ ارتضی حاقان جو بڑی سے بڑی ڈیل دو منٹ میں اپنے نام کر لیتا تھا ۔۔۔


اس چھوٹی سی بلی نے چند لمحوں میں اسے تگنی کا ناچ نچایا تھا۔۔۔۔ کہ وہ بیچارہ سر پکڑ کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔


ارتضی نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈالی تھی ۔۔۔۔۔ وہ جلد از جلد اس کا خمار ختم کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔

کیونکہ اگر ایک بار ۔۔۔ ارتضی پر خمار چڑھتا تو

اگلے دن رخصتی ہی ہونی تھی۔۔۔۔۔وہ ارتضی حاقان جو بڑی سے بڑی ڈیل دو منٹ میں اپنے نام کر لیتا تھا ۔۔۔

اس چھوٹی سی بلی نے چند لمحوں میں اسے تگنی کا ناچ نچایا تھا۔۔۔۔ کہ وہ بیچارہ سر پکڑ کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔

ارتضی کار چلاتے وقتا فوقتا اس پر نگاہ ڈال لیتا ۔۔۔۔ وہ واقعی چاہے جانے کے قابل تھی

_______________

زرشے اسے خود سے دور کرتی شانوال خان کے چہرے پر اپنے نازک ہاتھ کی چھاپ چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔۔۔

۔کمرے میں چٹاخ کی آواز گونجی تھی

لمحے میں سب ساکت ہوا تھا۔۔۔۔ وہ بے یقین سی اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ کبھی شانوال کو ۔۔۔۔

شانوال خان۔۔۔۔۔ کے دھوکے ۔۔۔فریب نے اسے اس حد تک مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔


ورنہ زرشے جیسی دبو لڑکی پرندے کو تکلیف میں نہ دیکھ سکے ۔۔۔۔۔خواہ کسی انسان کو ۔۔۔۔


میں۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ میں۔۔۔۔ جان ۔۔۔۔بوجھ. . . . کر نہیں۔۔۔۔۔زرشے کپکپاتے لہجے میں اپنی بات پوری کرتی


جب اگلے لمحے شانوال غراتا شیر بنا پورا کمرہ تہس نحس کر چکا تھا۔۔۔۔

قیمتی سے قیمتی شے ا سکے پیروں میں ٹوٹی بکھری اپنی بے قدری پر رو رہی تھی بلکل زرشے حاقان کی طرح۔۔۔۔۔۔

زرشے ا سکے ۔۔۔۔ اتنے شدید ردعمل پر ۔۔۔ ڈر سی گئ تھی ۔۔۔۔۔۔

زرشے اس کے رویے سے سہمتی راہ فرار تلاشتی باہر کو بڑھی تھی پر برا ہو ۔۔۔۔ اس وقت کا جب اس کا پاوں نیچے پڑے کانچ پر پڑا تھا۔۔۔۔۔

ایک چیخ اس کے حلق سے نکلتی سسکی میں بدل گئی تھی۔۔۔۔

شانوال ۔۔۔ جو خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔


فورا سے پہلے اپنی سرخ انگارہ آنکھیں ۔۔۔اٹھا کر زرشے کی جانب دیکھا جو اپنا پاوں پکڑتی درد سے دوہری ہو رہی تھی

شانوال کا اگلا قدم زرشے کے دل پرپڑا تھا۔۔۔۔ وہ سب بھلائے اسے باہوں میں بھرتا بیڈ پر بٹھائے فرسٹ ایڈ باکس لایا تھا۔۔۔۔

بہت احتیاط سے اس کی مرہم پٹی کرتا۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے والے شانوال خان سے بلکلا مختلف تھا۔۔۔۔


زرشے بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھی کہ آخر کیسے ایک ہی شخص کے اتنے روپ ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔. .


کونسا روپ ۔۔۔تھا شانوال خان۔۔۔ کا ۔۔۔۔ یہ کیسی اجرت تھی جو اسے ملی تھی۔۔۔۔

وہ اپنی سوچوں میں اس قدر مگن تھی کہ محسوس نہ کر سکی کب اس نے پٹی کی ۔۔۔۔۔

شانوال اس کے پاوں پر بندھی پٹی پر لب رکھتا ۔۔۔۔۔ اسے ہلا کر رکھ گیا۔۔۔۔

زرشے کو اپنا دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔ وہ فورا سے پاوں کھینچنے لگی


پر دوسری جانب گرفت مضبوط تھی ۔۔۔۔


شانوال اس کے بے حد قریب آکر بیٹھا کہ زرشے کو اس کے کلون کی خوشبو اپنی سانسوں میں رچتی محسوس ہوئی ۔۔۔۔


وہ حلق تر کرتی نظریں جھکا گئی۔۔۔۔۔۔ اس میں مزید ہمت نہ تھی ۔۔۔۔اس کی مقناطیسی آنکھوں میں دیکھتی۔۔۔۔


وہ ابھی کچھ بولنے کا سوچ رہی تھی جب شانوال خان۔۔۔ کی آواز نے اس کے رونگٹے کھڑے کیے . . . .


"زرشے حاقان۔۔۔۔ جانتی ہو۔۔۔ خود کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو میں ہاتھ سمیت جڑ سے اکھاڑ دیتا ہوں۔۔۔۔ مجھ ہاتھ اٹھانے کی جرات آج تک کسی نے نہیں کی ۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔ تم نے کی۔۔۔۔۔ میں چاہوں ۔۔۔ تو یہیں ایک ہی رات میں تمہاری ۔۔۔۔ ساری بے اعتنائی ۔۔۔ غرور۔۔۔ خاک کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔ لیکن یہ شانوال خان کا معیار نہیں ۔۔۔۔۔ پر تمہارے لیے جو سزا میں نے تجویز کی ہے ۔۔۔۔۔ اس سے تمہیں کوئی بچا نہی سکتا"


شانوال اس کی تھوڑی دبوچتا اس کے لبوں پر نظریں۔جمائے بولا تھا۔۔۔۔۔

انداز میں سرد مہری زرشے پر کپکپی طاری کر گئی تھی۔۔۔۔


اور ۔۔۔حقوق کی بات تم نا ہی کرو تو بہتر ہے زرشے بی بی۔۔۔ کیونکہ اگر شانوال خان۔۔۔۔ تم سے حق لینے پر آیا تو ۔۔۔۔ تمہارے پور پور پر میرے حقوق کی مہر ثبت ہوگی

۔بہت نرمی سے اس کے لبوں پر بوسہ دیتا وہ لمبے ڈگ بھرتا روم سے جا چکا تھا

وہ سمجھ نہِیں پارہی تھی اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔۔۔۔۔

________

بہت مشکل لگتا ہے۔۔۔۔ اب سب کچھ ۔۔۔۔ شانوال خان ۔۔۔ ہمارے ۔۔۔مقصد تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہر بار تمہیں منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔۔۔ کیوں تمہارے اتنے آدمی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پارہے۔۔۔۔


وہ اپنی خباثت بھری آواز میں غرایا تھا۔۔۔۔۔ کہ سامنے والے نے ناگواری سے اسے دیکھا آنکھوں میں جلتا الاو تھا ۔۔۔۔

ہر بار۔۔۔۔ نہیں بچے گا ۔۔۔۔ قسمت اچھی تھی اس کی جگہ اس کا بھائی مارا گیا

پر اب جو حاقان کی بیٹی کے ساتھ ہوگا ۔۔۔۔ وہ دونوں خاندانوں کی جڑے ہلا کر رکھ دے گا بہت ۔۔۔۔۔ ناز ہے نا انہیں اپنی ۔۔۔۔ عزت وقار پر۔۔۔۔ اس بار ایسی گہری چوٹ دینگے کہ شانوال خان ۔۔۔۔ بلبلا کر رہ جائے گا۔۔۔۔۔

______

وہ دونوں گھر پہنچے ۔۔۔۔ تب تک یشفہ ۔۔۔۔۔ سوچکی تھی ۔۔۔

ارتضی نے شکر کا سانس لیا۔۔۔۔

ورنہ آج اس کی عزت ۔۔۔۔۔ کا کچرا کرنے میں اس لڑکی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔


واقعی محبت انسان سے کیا سے کیا کروا لیتی ہے اس کا اندازہ آج ارتضی حاقان کو بخوبی ہو گیا تھا۔۔۔۔


ارتضی اسے باہوں میں بھرے حویلی میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔ شکر تھااس وقت لاونج میں کوئی موجود نہ تھا ۔۔۔۔

ورنہ ورنہ جو درگت اس کی بابا صاحب نے بنانی تھی ۔۔۔۔ اس کی خیر نہیں۔۔۔۔


ارتضی ۔۔۔۔۔ یشفہ کو لیے ا سکے کمرے میں آیا تھا اور فورا سے پہلے اسے بستر پر لٹا کر کمفرٹر اوڑھایا اور وہاں سے جانے کے لیے پلٹا ۔۔۔۔


۔۔۔ رات کافی ہو چکی تھی ۔۔۔۔ اس کا ہوش ربا سراپا ارتضی کے حواس جھنجھوڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔


اس کا نازک کمسن وجود ارتضی کی نگاہوں کی حدت بھری گرفت میں تھا۔۔۔۔

دل میں اپنا حق انگڑائی لیکر بیدار ہونے لگا۔۔۔۔


آخر بیوی ہے میری میں کیوں اس طرح ری ایکٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔ حق ہے میرا ۔۔۔۔۔


اپنے بہکتے جذباتوں پر بندھ باندھنے میں ناکام ہوتے ارتضی نے خود سے سر گوشی کی تھی ۔۔۔۔۔


پر وہ ابھی اس رشتے کے لیے تیار نہیں ۔۔۔۔۔


ارتضی جلدی سے نکلنے لگا۔۔۔۔ عین اسی وقت ۔۔۔۔یشفہ نے کروٹ بدلتے اس کے ہاتھ کو کھینچ کر قریب کیا تھا۔۔۔۔


ارتضی اچانک افتاد پر بوکھلا سا گیا۔۔۔۔

یشفہ نے خود پر بوجھ محسوس کرتے دھیرے سے اپنی بوجھل پلکیں وا کیے۔۔۔۔


۔ ارتضی حاقان کو دیکھا تھا جو اپنی خمار آلود نگاہوں سے بے خود سا اسے ہی تک رہا تھا۔۔۔۔

یشفہ مسکراتے ہوئے اس کہ ناک سے اپنی ناک جوڑ گئی تھی۔۔۔۔ ارتضی نے آنکھیں موندے ۔۔۔۔ اس احساس کو محسوس کیا تھا ۔۔۔۔۔

رگ و جان میں اترتی یشفہ کی خوشبو ۔۔۔۔ الگ سحر طاری کر رہی تھی کہ ارتضی جیسے مضبوط اعصاب کے مالک مرد کو بھی بہکنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔

ارتضی اس کے مزید قریب ہوتا اس کی مسکراہٹ کو اپنے لبوں کی دہکتی گرفت میں لے چکا تھا۔۔۔۔

انداز میں اس بار نرمی کے ساتھ ساتھ عجب پاگل پن تھا کہ یشفہ اسے دور کرنے کی تگ و دد میں لگی بے دم سی ہوگئی۔۔۔۔

ارتضی نے اس کے مزاحمت کرتے ہاتھ گرفت میں لیتے اپنی مضبوط انگلیوں میں یشفہ کہ مومی انگلیوں کو پرویا تھا۔۔۔۔۔

اس کے جنون بھرے لمس سے یشفہ کی ہتھلیوں پر پسینہ پھوٹ پڑا تھا

ہر کوشش بے کار ہوتی دیکھ ۔۔۔۔ سانسوں کے لیے تڑپتی ۔۔۔۔ اس کی سانسوں کو خود میں اتار گئی ۔۔۔۔۔


کمرے میں معنی۔خیزی بڑھنےگی تھی ۔۔۔۔جب زرا سا دور ہوتے ارتضی نے اس کے اناری لب دیکھے ۔۔۔۔۔۔

ارتضی کے عنابی ہونٹوں پر بے حد پرسکون مسکراہٹ رقصاں تھی ۔۔۔۔۔


یشفہ تو بے حال سے ہوتی سانس بحال کرنے لگی تھی۔۔۔۔۔ابھی وہ سنبھلتی کہ ارتضی کی انگلیوں کا بے باک لمس اسے سچ میں ہوش میں لانے لگا تھا۔۔۔


آج کی رات میں کئی راز پوشیدہ تھے۔۔۔۔۔۔ جن کی سیاہی ناجانے کتنے لوگوں کی زندگی کو فنا کرنے والی تھی کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔۔

________

تمہیں کیا لگتا ہے کہ خان اپنے دشمنوں سے بے خبر ہے ۔۔۔۔

نہیں سانول خان ۔۔۔۔۔

اس ہر شخص کو اپنے کیے کی قیمت چکانی ہوگی جس نے میرے خاندان پر نگاہ اٹھانے کی کوشش کی ہے

تمہارا میری جگہ پر آنا کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی ۔۔۔۔اگر مجھے آنے میں تھوڑی سی بھی دیر ہوجاتی تو اس سے آگے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا ۔۔۔۔

بہت جلد ہمارے مجھے ہمارے سامنے ہوں گے اور ان کے عبرت ناک سزا ۔۔۔۔انہیں موت کے نزدیک لے جائے گی ۔۔۔۔

بھیا وہ سب ٹھیک ہے لیکن مجھ سے نینا کی حالت نہیں دیکھی جاتی پلیز کچھ کریں مجھے نیند سے ملنا ہے

سانوال خان کے ہر انداز میں ۔۔۔اضطراب نمایاں تھا

وہ چاہنے کے باوجود بھی نا خان سے خود کو دور نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔اوپر سے نینا کی اتنی بری حالت نے اسے مزید شرمندگی کی اتا گہرائیوں میں ڈبو دیا تھا ۔۔۔۔


سانول ہم جانتے ہیں کہ تمہاری ۔۔۔نینوں میں جان بستی ہے لیکن ہماری بات بھی سمجھو چھوٹے۔ ۔۔۔۔اس کا تمہارا اس جگہ سے نکلنا مناسب نہیں باہر دشمن ہماری تاک میں بیٹھے ہیں ۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ بنا بنایا سارا کھیل خراب ہو ۔۔۔۔۔


بس کچھ دن اور پھر تم ہم سب کے ساتھ پہلے کی طرح رہ سکو گے ۔۔۔۔

شانول نے اسے تسلی سے سمجھایا ۔۔۔۔۔پر سانول خان کی سوئی اب بھی نیناں پر اٹکی تھی اس کی دگرگوں حالت سے وہ تکلیف زدہ تھا

سانول اس وقت خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا نہ وہ اپنے بھائی کا مان توڑ سکتا تھا اور اور نہ ہی نیناں دوری برداشت کرسکتا تھا

وہ لڑکی جس کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہ اتری تھی سانول خان نے اسے بے گناہ ہونے کہ سزا پر چھوڑا تھا ۔۔۔۔

نینا خان کے ساتھ بتائے پل سانول کی زندگی کا اثاثہ تھے وہ کیسے اس سے بے نیاز ہو کر رہتا ۔۔۔

شانوال خان کب کا وہاں سے جا چکا تھا پیچھے سانول تھا اور اس کی نیناں ۔۔۔۔۔

غم و غصے میں سانول اپنے سامنے پڑی ٹیبل کی تمام چیزیں زمین بوس کر چکا تھا ۔۔۔۔

یہ اس سانوال خان آس لگائے بیٹھا تھا کہ نیناں اس کے انتظار میں ہے پر کل کس نے دیکھا ۔۔۔۔۔ کیا پتا تھا کہ وہ دوبارہ نیناں سے مل پاتا بھی یا نہیں ۔۔۔۔

وقت کی تباہ کاریوں میں کس کو برباد ہونا تھا اور کس کو آباد یہ وقت نے ہی طے کرنا تھا ۔۔۔۔۔

____

شانوال ۔۔۔۔اپنے خاص ملازم سے اہم معلومات لے کر ابھی ہوئی لوٹا تھا جب اس کا سامنا زرشے سے ہوا۔

۔۔جو پاؤں کی چوٹ کے باوجود اس وقت کچن کے کام کرنے میں مصروف تھی

شانول ۔۔۔۔ کو جی بھر کے اس پر تاو آیا۔۔۔۔

وہ ایک ہی جست میں اسے کچن سے گھسیٹتا باہر لایا تھا۔۔۔۔۔ جہاں اکا دکا ملازم تھے ۔۔۔۔

میری حکم عدولی کرنا تم اور تمہارے باپ دونوں کا شاید پیشہ ہے۔ ۔۔۔ جان بوجھ کر تم لوگ مجھے غصہ دلاتے ہیں اور اس کے بعد ۔۔۔۔مجھ سے جان چھڑانے کی کوششوں میں جٹ جاتے ہو ۔۔۔۔

اگر اتنا ہی کام کرنے کا شوق ہے تو سب سے پہلے اپنے شوہر کے حقوق کے بارے میں جاننا ۔۔۔۔۔۔۔


جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ تم کمرے سے باہر نہیں نکلوگی تو کس کی اجازت سے تم نے کمرے سے باہر قدم رکھا ۔۔۔۔۔کیا تمھاری نظر میں میری بات کی ذرا اہمیت نہیں ۔۔۔۔۔۔کیوں اپنے لئے ایسی سزاوں کا انتخاب کرتی ہو جن کے انجام پر صرف تباہی ہو ۔۔۔۔

شانوال خان کے لہجے میں شیر کی سی غراہٹ تھی ۔۔۔۔۔

زرشے سہمی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔

اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے کو تیار تھے ۔۔۔۔۔ شانوال۔ ۔۔ اسے دھکا دیتا وہاں سے اوپر کی جانب بڑھ گیا بنا یہ دیکھے کہ زرشے پیچھے ٹیبل پر جا گری ہے. ۔۔۔۔۔

ایک دلخراش چیخ اس کے حلق سے بر آمد ہوئی ۔۔۔۔۔۔

شانوال جو آخری سیڑھی پر تھا۔۔ زرشے کی آواز پر مڑا۔۔۔۔اور جو منظر اس نے دیکھا شانوال کو لگا

اس کی روح کسی نے کھینچ لی ہو ۔۔۔۔۔۔ زرشے لہولہان بے دم سی ہوتی اپنے حواس کھو چکی تھی ۔۔۔

وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھتا زرشے کا سر اپنی گو دمیں رکھتا اسے جگانے لگا۔۔۔۔

"زرشے۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔ یو۔۔۔۔ ویک اپ ۔۔۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔زرشے ۔۔۔۔۔پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔آئی ایم سوری ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔وہ حواس باختہ سا زرشے کو جھنجھوڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

وہ زرشے کو باہوں میں بھرے ۔۔۔۔۔ باہر کو بھاگا تھا جہاں کھڑے گارڈز ۔۔۔۔۔ اسے افراتفری میں آتا دیکھ الرٹ ۔۔۔۔ ہوئے تھے ۔۔۔۔


شانوال نے اسے گاڑی میں لٹاتے ہاسپیٹل کا رخ کیا تھا۔۔۔۔۔۔ آدھے گھنٹے کی مسافت ۔۔۔۔اس نے پندرہ منٹ میں طے کی تھی ۔۔۔۔۔ شانوال خان بولایا ہوا سا ۔۔۔۔۔ زرشے کو بے قراری سے دیکھتا ۔۔۔۔ ہسپتال آیا تھا ۔۔۔۔۔ جہاں ۔۔۔۔۔ڈاکٹر اسے پہنچان. کر فورا ہی زرشے کا ٹریٹمینٹ ۔۔۔۔۔ کرنے لگے تھے ۔۔۔۔۔

شانوال کی آنکھوں میں اب تک ۔۔۔۔زرشے کا لہولہان وجود گھوم رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسے رج کے خود خر تاو آیا ۔۔۔.

آخر کیا ضرورت تھی ۔۔۔۔ اس قدر سرد مہری دکھانے کی ۔۔۔۔۔۔ وہ تو پہلے ہی دکھوں کی ماری تھی اوپر سے شانوال خان۔۔۔۔ نے ا س کی روح کو کچوکے لگاتے اسے قریب المرگ کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔


"میں کیسے ۔۔۔۔اتنا ۔۔۔۔ گرسکتا ہوں ۔۔۔۔ کیسے اس کی تکلیف محسوس نہ کر پایا ۔۔۔۔۔"

شانوال اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے پاگل سا پھر رہا تھا۔۔۔۔۔۔

جب ڈاکٹر باہر آئی ۔۔۔ن اور زرشے کے خطرے سے باہر ہونے کی خبر دی ۔۔۔۔

"مسٹر خان شی از فائن بس کچھ سٹیچزلگے ہیں ۔۔۔۔ آپ کی وائف دوائیوں کے زیر اثر سوررہی ہیں کچھ دیر میں ان کو ہوش آجاِے گا۔۔۔۔۔"

ڈاکٹرا سے پیشہ وارانہ انداز میں کہتی جا چکی تھیں ۔۔۔۔


وہ تھکے تھکے قدموں سے ۔۔۔۔۔ روم میں انٹر ہوا تھا۔۔۔۔ جہاں زرشے کا کملایا سا وجود ۔۔۔۔۔ ہر درد سے بے خبر ۔۔۔۔ نیند کی وادیوں میں گم تھی۔۔۔۔۔۔۔


شانوال اس کے پاس بینچ پر آبیٹھا ۔۔۔۔۔ اس کی نظروں کی بے قراری ۔۔۔۔۔ زرشے کے نقش نقش پر عشق برسا رہی تھیں ۔۔۔۔ پر وہ ستمگر تھا کیسے کچھ ظاہر ہونے دیتا ۔۔۔۔۔ اس کی محبت تو انتقام پر مبنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

شانوال نے دھیمے سے ہاتھ بڑھا کر زرشے کی پیشانی پر بندھی پٹی کو چھوا ۔۔۔۔۔ دل میں درد سا اٹھا تھا ۔۔۔۔۔وہ بے ساختگی میں جھکتا نہایت نرمی سے اپنے ہونٹ زرشے کی پٹی پر رکھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔

کہاں گئی انا۔۔۔۔۔ کہاں گئی دھتکار۔۔۔۔۔۔ سب اس کی ازیتوں تلے دب کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔وہ بے بس سا لبوں کو دانتوں تلے دبائے ۔۔۔۔۔ خود کو پرسکون کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ آخر یہ۔نازک سی لڑکی اس کی زندگی کا حصہ بنتی جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔وہ کیسے تکلیف دیتا۔۔۔۔۔۔آج جو کچھ بھی ہوا۔۔۔۔

شانوال کولگا کسی نے اس کی سانسوں کی ڈور ۔۔۔۔ کھینچ لی ہو۔۔۔۔۔زرشے کی حالت نے اسے بد ہواس کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔آج شانوال خان ۔۔۔۔ نے اعتراف کیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔ زرشے حاقان ۔۔۔۔ کوئی معمولی لڑکی نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ ۔۔۔۔۔شانوال خان ۔۔۔۔ کا عشق آتش ہے. . جس کی تپش ۔۔۔۔ وہ برداشت کرنے سے قاصر تھی ۔۔۔۔

شانوال اس کا ہاتھ تھامے ۔۔۔۔زرشے کی فکر میں گم تھا جب اس کی جیب میں رکھا موبائل وائبریٹ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔

شانوال نے فون نکال کر سکرین دیکھی۔۔۔۔ تو . . . سانوال کا نمبر تھا ۔۔۔ جو اس نے ہی دیا تھا۔۔۔۔۔

شانوال کو ۔۔۔۔ کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔۔۔۔۔۔

اس نے جلدی سے کال پک کی۔۔۔۔۔۔دوسری طرف برزام کی پریشان کن آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔

"صاحب سانول صاحب کو بے حد تیز بخار ہے لیکن وہ دوا لینے سے انکاری ہیں ۔۔۔۔ انہوں نے کچھ کھایا بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ نیند میں بھی بس نیناں بی بی کا نام لے رہے ہیں ۔۔۔۔ "

شانوال نے ضبط سے مٹھیاں بھینچیں ۔۔۔۔ وہ کیسے بھول گیا۔۔۔۔ کہ سانوال خان میں بھی ۔۔۔۔ خانوں کا لہو تھا۔۔۔۔۔۔ جنونیت تو ورثے میں ملی ہے

برزام کی ساری بات سن کر اس نے گہری سانس لی بولا تو لہجے میں نرمی کا عنصر مفقود تھا ۔۔۔۔۔


"اوکے ۔۔۔۔۔ تم فکرمت کرو ۔۔۔۔۔اور حویلی سے نیناں کو لیکر سانوال لے پاس جاو ۔۔۔۔۔ اسے کہنا ۔۔۔۔شانوال خان کا حکم ہے۔۔۔۔۔"


جی سائیں ۔۔۔۔ آپ کا حکم ۔۔۔۔میں بی بی جی کے پا س پہنچاتا ہوں ۔۔۔۔۔

شانوال کال کٹ کر چکا تھا۔۔۔۔۔

اس کے دل میں محبت کی نئی کونپلیں پھوٹ پڑی تھیں ۔۔۔۔ سالوں بعد دل دھڑکتا محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ سانوال کی تکلیف خود میں محسوس کررہاتھا۔۔۔۔۔ آج جس احساس نے اسے زخمی کیا تھا۔۔۔۔۔ وہ محبت کی سیڑھی پر اس کا پہلا قدم تھا۔۔۔۔۔

میرے عشق کی جو آواز ہو

تیرا شہر سارا یوں جگ اٹھے

میں بتاوں تجھ کو کہ گم کہاں

تیرا پورپور مہک اٹھے

______________

نینا جو بھی نماز پڑھ کر فری ہوئی تھی دروازے پر دستک سنائی دی ۔۔۔۔۔

کون ۔۔۔۔۔؟؟؟؟نیناں نے سر پر اچھے سے بنفشی دوپٹہ سر پر لیا ۔۔۔۔اور آنے والے سے استفسار کیا ۔۔۔۔


بی بی سی نیچے برزام ۔۔۔۔شانوال سائیں کا خاص ملازم آپ کو لینے آیا ہے انہوں نے آپ کو اپنے پاس ۔۔۔۔۔۔ بلوایا ہے ۔۔۔۔آپ آجائیں وہ نیچے ہیں آپ کا انتظار کر رہا ہے

ملازمہ کی بات سن کر اسے حیرت ہوئی کیونکہ حویلی کی لڑکیوں کو باہر جانے کی اجازت نہ تھی یوں اچانک شانوال خان۔۔۔۔ کا اسے بلانا ۔۔۔۔۔ نیناں کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔۔۔۔

پھر بھی اسے اپنے بھائی کا حکم مانناتھا ۔۔۔۔ سو فورا ہی الامری سے کالی شیشوں سے کڑھی چادر اٹھائی اور ملازمہ کو جانے کا کہتی خود حجاب کرنے لگی۔۔۔۔۔۔

نیناں نیچے آئی ۔۔۔۔ تو گاڑی پہلے سے ہی تیار تھی۔۔۔۔۔۔

وہ گاڑی میں بِیٹھی اور آیات الکرسی کا ورد کرنے لگی ناجانے کیوں ا سکا دل بت حد گھبرا رہا تھا۔۔۔۔ اسی بے چینی میں وہ رات تک جاگتی رہی۔تھی۔۔۔۔۔۔


ڈرائیور اور بیزام اسے ایک کاٹیج لائے تھے نیناں بری طرح الجھی تھی اس کے وہم و گمان میں بھی آگے کی سیچویشن نہیں تھی ۔۔۔۔

وہ ان کی تقلید کرتی آگے بڑھی ۔۔۔۔ گھر کو نہایت خوبصورتی سے سیٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔

وہ دونوں اسے ایک کمرے کے باہر چھوڑ کر جا چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔

وہ کشمکش میں گھری تھی کہ کیسے اندر جائے ۔۔۔۔ ہمت کر کے اس نے قدم آگے بڑھائے اور جونہی دروازہ کھولنے پر نظر سامنے پڑِ ی سانسیں گویا سینے میں اٹک گئیں تھیں.۔۔۔۔۔

ساننننول۔۔۔۔۔۔ بہت آہستگی . . سے لبوں سے سرگوشی نما آواز نکلی تھی جو شاید نیناں خود بھی نا سن پائی تھی ۔۔۔۔۔

آنکھیں ۔۔۔۔۔ا س چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسے یقین کرتی ۔۔۔۔۔۔۔سانسیں جس کی مالا جپتی ہار رہی تھیں وہ یوں سامنے آئے گا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کب سوچا تھا ۔۔۔۔۔

زندگی کے سارے غم ختم ہوتے محسوس ہوئے تھے ۔۔۔۔دل کا دھڑکنا ۔۔۔ سانسوں کا تھمنا رگوں کی حرارت لبوں کی کپکپاہٹ ۔۔۔۔ حال جاں بیاں کر رہی تھی ۔۔۔۔ پورا وجود دیوانہ سالگا تھا۔۔۔۔سب سے بیگانہ ۔۔۔۔سانول غنودگی میں تھا اس لیے دشمن جاں کا آنا محسوس نہ کرسکا۔۔۔ نیناں بے جان ۔۔۔ قدموں سے سانول کی جانب بڑھ رہی تھی مگر دل و دماغ ماوف تھے ۔ بے آواز دھڑکنوں کی جنگ وجود میں برپا تھی۔

نیناں سانول کے قریب بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھ سے سانول کے ماتھے پر بکھرے ہوئے بالوں کو سنوارنے لگی۔۔۔ نجانے کیا تپش تھی اس لمس میں کیا احساس تھا جسے محسوس کرکے سانول خان اپنی مندی آنکھیں کھولنے پر مجبوہوا ۔۔۔۔۔ جانی پہنچانی خوشبو نے جینے کی امنگ دی تھی ۔۔۔

۔ نیناں کو اپنے قریب محسوس کرکے سانول کی روح تک سرشار ہوگئی تھی۔۔۔

نیناں اس تڑپ سے بے خبر اپنے کانپتے دل کو سبھالنے کی کوشش کررہی تھی کمرے میں دونوں کی۔سانسوں کی آواز گردش کررہی تھی ۔۔۔۔۔ دونوں نفوس آنکھوں سے ہم کلام تھے۔۔۔ اچانک نیناں کے گستاخ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گال پر بہہ نکلے۔۔۔ سانول نے بےقرار ہوکر اپنے انگلیوں کی پروں سے نیناں کے آنسوں چنے۔۔۔۔

نیناں ایک بار پھر سسک اٹھی۔۔۔ کیا ستم تھا یہ اپنے دل و جاں سے محبوب شخص کو خود کے لیے تڑپتا دیکھنا یہ شاید ہی کسی کے لیے آسان ہو ۔ محبت ہی انسان طاقت ہے مگر محبت ہی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔۔۔

دونوں نے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی بہت بڑی قیمت چکائی تھی۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کا ساتھ میسر ہوتے ہی ۔۔۔۔۔قسمت کی ستم ظریفی نے سب کچھ چھین لیا۔۔۔۔۔

سانول اسے خود پر جھکاتے نرمی سے اپنے سلگتے لبوں کو اس کی بھیگی پلکوں پر رکھا تھا۔۔۔۔۔ جان و قرار جیسے لوٹ آیا تھا ۔۔۔۔

سانول بے خود سا ۔۔۔۔ اسے تکے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ دونوں کا درد یکساں تھا۔۔۔۔۔

۔۔۔خاننننن۔۔۔۔ نیناں کی سرگوشی ۔۔۔۔ پر سانول نے آنکھیں بند کرکے کھولیں تھیں ۔۔۔۔۔۔

کتنا۔۔۔۔ دل نشین لہجہ تھا۔۔۔۔۔ مترنم آواز بھیگا لہجہ ۔۔۔۔۔ جنوں سے بھری سرگوشی ۔۔۔۔۔ سانول خان کو سب بھلا گئی تھی ۔۔۔۔

میں نے آپ کو بہت مس کیا ۔۔۔۔ سانول ۔۔۔۔ میری روح نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے بس زندہ لاش بن کر رہ گئی میں سانول کیوں کیا میرے ساتھ ایسا آپ ترس نا آیا ۔۔۔۔ مجھ پر ۔۔۔ مجھے اپنی جان کہتے ہیں ۔۔ ۔ پھر میرے بارے میں زرا نہیں سوچا آپ نے ۔ ۔۔۔ میں آپ کو نہیں بتا سکتی کہ یہ دن میں نے آپ کے بغیر کس طرح گزارے "

نیناں کی اواز میں صدیوں کی تڑپ تھی ۔۔۔۔۔ بھٹکے راہی کو جیسے سمندر میسر آیا ہو۔۔۔۔۔

سانول تڑپ سا گیا تھا۔۔۔۔۔ بے ساختہ اسے سینے سے لگاتا اس کی کمر کے گرد مضبوط حصار باندھ گیا تھا۔۔۔۔۔

نیناں اس کی گردن میں چہرہ چھپائے سسک رہی۔تھی ۔۔۔۔۔

اس کے لبوں کی کپکپاہٹ ۔۔۔۔ سانول کو اپنی گردن پر محسوس ہورہی تھی ۔۔۔ دونوں کے جذبات تلاطم خیز تھے ۔۔۔۔۔ جن کی تغیانی ۔۔۔ اپنے ساتھ بہا لینے کے در پر تھی ۔۔۔۔۔

زرشے نے مندی مندی آنکھیں کھول ۔۔۔۔ کر اپنے اردگرد نگاہ دوڑائی ۔۔۔۔ سر میں درد کی شدید لہر اٹھی تھی ۔۔۔۔ وہ ہاتھوں پر زور دیے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔.۔۔۔

شانوال ۔۔۔۔ جو ڈاکٹر سے ۔۔۔۔۔ اس کے ڈسچارج پیپرزبنوانے گیا تھا۔۔۔۔زرشے ۔۔۔۔کو ہوش میں آتا دیکھ فورااس کے پاس پہنچا تھا


اس ستمگر کو اپنے سامنے دیکھ کر کے سارے زخم پھر سے ہرے ہونے لگے تھے ۔۔۔۔ وہ فورا رخ موڑ کر اپنے آنسو چھپاگئی ۔۔۔۔۔ کسی صورت شانوال خان کی ہمدردی قابل قبول نہ تھی ۔۔۔


شانوال کے دل میں اس کی بے رخی دیکھ ہوک سی اٹھی تھی ۔۔۔۔ بے چینی نے پورے وجود پر بسیرا کیا تھا۔۔۔۔۔


"زرشے۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔"شانوال اس سے بات کرنے کے لیے الفاظ کھوجنے لگا تھا ۔۔۔۔۔

پر کچھ سمجھ میں نا آتے اپنے لب بھینچے اس کی زرد ۔۔۔۔ رنگت دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔ کچھ ہی دنوں میں اس کا کھلتا شاداب چہرہ ۔۔۔ مرجھا گیا تھا۔۔۔۔۔


"مجھے اندازہ تھا ۔۔۔۔ کہ شانوال خان کی بے حسی کس حد تک جاسکتی ہے ۔۔۔ پر جب کسی سے بات کرنے کے الفاظ کھوجنے پڑ جائیں تو سمجھ جانا شانوال خان۔۔۔۔ کہ سامنے والے کی ازیت ۔۔۔۔ تمہارے ضمیر کو کچوکے لگا رہی ہے۔۔۔۔"


زرشے ویسے ہی منہ موڑے اسے اس کے ۔۔۔۔ الفاظوں کو حلق میں دبا گئی تھی


۔۔۔۔۔ شانوال کی آنکھوں کے گوشے سرخ پڑنے لگے ۔۔۔۔۔۔


زرشے شانوال خان۔۔۔۔۔ مجھے کوئی شرمندگی نہیں. ۔۔۔ تم سے ۔۔۔۔ یہ ترحم بھری نگاہیں ۔۔۔۔۔ شاید تمہیں چبھ رہی ہیں ۔۔۔ پر میری بات نا ماننے کا انجام تمہارے لیے اس سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔۔

زرشے کے لفظوں نے ۔۔۔۔ اس کی انا پر وار کیا تھا ۔۔۔۔ وہ بھی کہاں ادھار رکھنے والا تھا ۔۔۔۔

اپنے زہریلے ۔۔۔۔ لہجے سے وہ زرشے کو ایک بار پھر خود سے بد ظن کر گیا تھا ۔۔۔۔


تو مجھے ظرف کے آداب سکھانے والے

میرے ہمراز کا لہجہ نہیں دیکھا تو نے

اس کے لفظوں نے مجھے ایسی تمازت دی

کہ مٹ گئے میرے سبھی نقش سہانے والے

میں جو سہتی تھی چپ رہنے کا فن جان گئی

میرے بابا نے کہا۔۔۔۔بیٹی۔۔۔ میں سب مان گئی


فائزہ شیخ کی ڈائری سے


کیونکہ جھکنا تو شاید اس نے سیکھا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔


زرشے کی آنکھوں سے آنسو بہتے اس کی گردن میں جذب ہونے لگے تھے ۔۔۔ کیا ملا تھا اسے ۔۔۔۔ ایسی بد نصیبی ۔۔۔۔۔ کہ جہاں وہ مر پا رہی تھی نا کھل کے سانس لے پارہی تھی ۔۔۔

شانوال ۔۔۔۔ اس سے اپنا بدلہ لیتا سکون میں تھا ۔۔۔۔ وہ خان تھا۔۔۔ اور خان کے لیے اپنی انا سے زیادہ اوپر کوئی شے نہیں ہوتی ۔۔۔


ابھی وہ دونوں ۔۔۔ اپنی الجھنوں میں تھے ۔۔ جب لیڈی ڈاکٹر اندر آئیں ۔۔۔۔

کیسی ہیں آپ مسز خان۔۔۔۔۔۔؟؟_____ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں پوچھا ۔۔۔


جی بہتر ۔۔۔

زرشے نے بھی ۔۔۔ خود کو کمپوز کرتے ۔۔۔۔ جواب دیا

ڈاکٹر مسکرائیں اور زرشے کا چیک کرتیں ۔۔۔۔ شانوال کو ڈسچارج پیپر تھماتی جا چکی تھی ۔۔. .


"چلو ۔۔۔۔ باقی کی تیمارداری ۔۔۔ تمہارا خان۔۔۔۔۔ اپنے کمرے میں کرے گا۔۔۔۔ یہ جگہ کچھ نا مناسب سی ہے۔۔۔۔"

وہ معنی خیزی سے بولتا زرشے کو بوکھلا گیا تھا ۔۔۔۔۔

زرشے خود پر قابو پاتی جلدی سے خود پر شال لپیٹتی اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

ابھی وہ ایک ہی قدم چلی تھی کہ ۔۔۔۔۔ حواس ساتھ چھوڑنے لگے ۔۔۔۔شانوال جو ۔۔۔ پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھا۔۔۔۔ ایک ہی لمحہ ضائع کیے بنا اسے اپنے مضبوط بازوں میں تھام چکا تھا ۔۔۔۔

زرشے نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔

پر اس کے چہرے پر نرمی کا کوئی تاثر موجودنہ تھا ۔۔۔۔ سپاٹ تاثرات لیے وہ زرشے کو باہوں میں بھرے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔ جو پہلے ہی ڈرائیور تیار کر چکا تھا ۔۔۔۔۔

شانوال کا ارادہ اس وقت حویلی جانے کا بلکل نہ تھا ۔۔۔۔

زرشے سب کے سامنے اس کی بے باکی پر شرمندگی کے مارے شانوال خان ۔۔۔ کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔۔۔۔۔

جو سب کے سامنے ہی اسے باہوں میں بھرے گاڑی کی بیک سیٹ پر بٹھا چکا تھا۔۔۔۔۔

زرا سی قربت پر اس کا چہرہ بھانپ چھوڑنے لگا تھا۔۔۔۔۔


زرشے چہرہ ڈھانپتی اپنے چہرے پر چھائی سرخی چھپانے لگی۔۔۔۔۔

اسے حیرت تب ہوئی جب ۔۔۔۔ شانوال خان ۔۔۔۔ اس کے بے حد قریب آبیٹھا ۔۔۔۔۔۔

زرشے نے بیچ میں پڑا ۔۔۔۔۔۔

سگریٹ کا پیک دیکھا ۔۔۔۔۔جو ان دونوں کے درمیان فاصلے کا باعث تھی ۔۔۔


زرشے ونڈو سے باہر دیکھنے لگی جیسے ۔۔۔ اس سے زیادہ ضروری کوئی کام نہ ہو۔۔۔۔۔

شانوال اپنے فون میں لگ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔


دونوں میں چھائی سرد مہری ۔۔۔۔ کی دیوار کوئی بھی گرانے کو تیار نہ تھا

زرشے ایک گہرا سانس بھرتی سیٹ کی بیک سے پشت ٹکا چکی تھی ۔۔۔۔.

ایک گھنٹے کے طویل سفر کے بعد ۔۔۔۔ وہ دونوں ۔۔۔ فارم ہاوس.۔۔۔ پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔۔۔ڈرائیور گاڑی سے اتر کر شانوال کے کام سے جا چکا تھا

شانوال نے نگاہ ۔۔۔۔۔ اٹھا کر زرشے کی جانب دیکھا ۔۔۔ جو شاید دوائیوں کے زیر اثر نیند میں جا چکی تھی ۔۔


"اس لڑکی نے تو مجھے اپنا نوکر سمجھ لیا ۔۔۔۔ ہے ہر جگہ اسے باہوں میں اٹھا تا پھروں۔۔۔۔۔۔"

شانوال ۔۔۔ نیلی آنکھیں چھوٹی کیے زرشے کو گھورتے دل میں مخاطب ہوا۔۔۔۔۔


وہ بنا کسی دیر کے ۔۔۔۔ اپنی سیٹ سے کھسک کر زرشے کے قریب ہوا اور اس کی مخروطی انگلیوں کو اپنے دانتوں کا نشانہ بنا گیا


اگلے لمحے گاڑی میں زرشے کی چیخ گونج اٹھی ۔۔۔۔۔


شانوال فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا یعنی محترمہ کو ہوش آچکا تھا۔۔۔۔۔

زرشے سہمی نظروں سے خود پر چھائے شانوال خان کو دیکھنے لگی ۔۔۔ جس کے وجود سے اٹھتی کلون کی خوشبو اس کے حواس جھنجھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔ درد کا احساس کہیں دور جا سویا تھا ۔۔۔۔


وہ پلکیں جھپکاتی اپنی کانچ سے آنکھوں کے ہیر پھیر سے شانوال کا ایمان ڈگمگا گئی تھی ۔۔۔ وہ فورا اس ساحرہ کے طلسم سے بچتا ۔۔۔۔ پیچھے ہوا ۔۔۔۔ڈر تھا دل بے اختیار نہ ہو ۔۔۔۔


وہ گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔ پیچھے زرشے بھی ہوش میں آتی اس کی بے حسی پر تڑپ سی گئی جو اس کی طبیعت کا خیال کیے بنا اکیلا ۔۔۔۔۔ اندر جا چکا تھا ۔۔۔۔

وہ خود گاڑی سے اترتی ۔۔۔ شانوال کے پیچھے ہمت کرکے قدم بڑھا گئی . ۔۔۔۔ دل میں آیا کہ یہیں سے بھاگ جائے سارے زخم درد تکلیف شانوال خان کے حصے میں آئے۔۔۔۔ پر کاش۔۔۔۔ ایسا ہوتا ۔۔۔شانوال خان ۔۔۔۔۔ اس کی محبت میں ڈوبا کوئی پاگل نہ تھا ۔. وہ جاتی بھی تو کہاں جاتی ۔۔۔۔۔


دل کی ازیت کو آنکھوں سے نکلنے کا راستہ اس بار ۔۔


۔زرشے نے نہیں دیا تھا ۔۔۔۔ وہ بھیگی پلکوں کے کنارے صاف کرتی اندر کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔۔

قدموں کی کپکپاہٹ اس کے اندر ہوتی توڑ پھوڑ بیان کرنے سے قاصر تھی

"روح کا درد ۔۔۔ہمراہی سے ملے تو جان ۔۔۔نکلنے کی بھی قصر باقی نہیں رہتی ۔۔۔ جس میں ہر وقت چہکنے والی چڑیاں خاموشی سے موت کی چادر اوڑھتی اپنے جذباتوں پر فاتحہ پڑھ لیتی ہیں "


یہی صبر زرشے حاقان کا نصیب بنا تھا جس سے وہ چاہ کر بھی ردو بدل نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔۔

________

نیناں کی جان لبوں پر آن ٹھہری تھی ۔۔۔۔ قسمت اسے ایسے ملائے گی سانوال خان سے اس نے کب سوچ تھا ۔۔۔۔ دل و دماغ پر چھائی گرد چھٹنے لگی۔تھی ۔۔۔۔

روح میں تحلیل ہوتی اس شخص کی موجودگی ۔۔۔۔۔ نیناں خان کی بے خودی کا باعث بنی تھی ۔۔۔

آنسو بھل بھل بہتے سانوال خان ۔۔۔۔ کی جدائی کا غم سنا رہے تھے کافی دیر دونوں ایک دوسرے کو محسوس کرتے رہے۔۔۔۔۔

نیناں اور سانول کے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا تھا۔۔۔۔۔ دلوں کی دھڑکنیں ۔۔۔۔ اپنے بیتے دنوں کی داستان سنا رہی تھیں ۔۔۔۔۔

سانول نے اپنے بخار سے تپے ہاتھ ۔۔۔۔۔نیناں کی کمر پر رکھتے اسے اپنے بے حد قریب لٹایاتھا۔۔۔۔

کہ نیناں اس کی قربت میں بہکتی سب فراموش کیے ایک بار پھر اس کے سینے میں سما گئی ۔۔۔۔۔اسے اب بھی سانول خان سے دوری کا خدشہ خائف کر رہا تھا

نیناں چاہ کر بھی اپنے اندر سے سانول کی جدائی کا درد نہیں نکال پارہی تھی ۔۔۔۔۔۔

تپتے صحرا میں جیسے ۔۔۔۔۔ سکون میسر آیا تھا۔۔۔۔ سانول خان تپتی دھوپ میں . . سایہ دار درخت کی مانند ثابت ہواتھا ۔۔۔۔۔۔نیناں کے لیے۔۔۔۔ جب اس کی سانسیں ختم ہونے کے در پر تھیں ۔۔۔۔ تو رب نے اسے سانول خان لوٹا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

"مجھے دور نہیں جانا ۔۔۔۔ آپ سے سانول ۔۔۔۔ پلیز مجھے خود سے دور نہیں کرنا ۔۔۔۔۔میں مر۔۔۔۔۔"

نیناں مزید بول نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔

نیناں کے بولتے لبوں پر سانول نے شہادت کیا انگلی رکھتے ۔۔۔۔۔۔اسے بات پوری کرنے نہ دی تھی ۔۔۔۔

سرخ کرسٹل آنکھوں میں نیناں کے لفظوں نے مزید سرخی پھیلا دی تھی ۔۔۔۔


"نیناں سانول خان۔۔۔۔۔۔ دوری کا عذاب تم نے اکیلے نہیں سہا سانول خان کی سانسوں نے بھی دغابازی کی ہے کہ۔.۔۔۔۔ زندگی بے معنی لگنے لگی تھی. . . ۔۔میری شدت وجنون کو آواز مت دو ۔۔۔۔ ورنہ آج تمہاری روح میں اتر کر اپنے بکھرے وجود کو سمیٹوں گا ۔۔۔۔۔"

وہ نیناں کی بات پر تڑپتا اسے بھی ۔۔۔۔ اپنی باتوں سے سہما گیا تھا۔۔۔۔۔۔

نیناں نے اس کی گرم سانسیں خود پر محسوس کرتے بھیگی پلکیں آہستگی سے موند لی تھیں۔۔۔۔۔ کوئی جائے فرار باقی نہ تھی ۔۔۔۔۔۔

سانول اس کی بے اختیار ادا پر مسکرایا تھا۔۔۔۔۔۔


دل اپنے انتخاب پر سرشار تھا۔۔۔۔۔

جنون خیزی کو قرار آیا تھا۔۔۔۔۔

دھڑکنیں۔۔۔۔۔اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگیں تھیں ۔۔۔


سانول اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ۔۔۔۔۔ نیناں کے لبوں پر جھک چکا تھا۔۔۔۔

لبوں کے الجھاو پر نیناں ساکت ہوئی تھی۔۔۔۔ دھک دھک کرتا دل سانول خان کے ہاتھوں میں دھڑکتا محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔۔


وہ بے یقینی کی کیفیت میں سانول کو خود سے دور کرنے کے لیے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ گئی ۔۔۔۔

پر اپنے ہاتھ کے نیچے دھڑکتے سانول خان کے دل کی دھڑکنیں محسوس کرتی وہ پاگل ہونے کے در پر تھی ۔۔۔۔۔۔


سانول اسے بے حد نرمی سے چھو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔نازک گڑیا کی مانند ۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ ۔۔۔۔ نیناں ابھی تیار نہیں اسی لیے وہ کسی بھی طرح کی زمہ داری اس پر نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔۔۔۔


سانول کی اپنی محبت کی ہلکی سی جھلک دکھا کر اس سے زرا سا دور ہوا۔۔۔۔ یوں کہ وہ مکمل اب بھی نیناں پر جھکا اس ی بکھری سانسیں ۔۔۔۔بھیگے لب دیکھتا مسرور سا ہوتا بار بار اس کی پیشانی چوم رہا تھا


میں بتاتی ہوں اپنے سارے دکھ اس کو

وہ ماتھا چوم کہ کہتاہے خدا خیر کرے ۔۔۔


نیناں خان کے لیے سانول خان ۔۔۔۔۔۔ سانسوں کی مانند تھا ۔۔۔۔۔جس سے دوری ۔۔۔۔ اس کی جان پر بنا گئی تھی ۔۔۔۔۔


"نین ۔۔۔۔۔ میری زندگی۔۔۔ میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا ۔۔۔۔بس یقین رکھو ۔۔۔اپنے سانول پر ۔۔۔۔ تم سے دوری میری برداشت سے باہر ہے ۔۔۔۔۔ "

سانول اسے مان بخشتااپنے الفاظوں سے نیناں خان کو معتبر کر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

________

ارتضی ۔۔۔۔۔ بڑی مشکل اسے خود سے دور کرتا ۔۔۔۔۔ اپنے بالوں میؑ ہاتھ پھیرتا خود کو کمپوز کر گیا تھا۔۔۔۔۔ دل بغاوت پر اکسا رہا تھا۔۔۔۔۔


پر ارتضی اپنی چوزی کا اعتبار کسی صورت نہیں توڑنا چاہتا تھا ۔۔۔

ارتضی کی نظر یشفہ کے بھاری ڈریس پر پڑی جس میں وہ کافی تنگ سی ہورہی تھی ۔۔۔۔۔


اس وقت کسی کو ڈسٹرب کرنا بھی مناسب نہ تھا ۔۔۔۔

وہ اٹھ کر ۔۔۔۔۔۔۔ یشفہ کے کبرڈ کی جانب بڑھا۔۔۔ اور وہاں سے ایک ڈھیلا ڈھالا فراک پاجاما نکال کر یشفہ کے قریب چلا ِآیا۔۔۔۔۔۔۔


دل میں آیا کہ ۔۔۔وہ بیوی ہے تیری ۔۔۔۔۔تو حق رکھتا ہے ۔۔۔۔ مگر یشفہ کی نیند میں بے خبری کا وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا ۔۔۔۔۔


ارتضی ہونٹوں پر دھیمی سے مسکان سجائے انیکسی کی جانب بڑھا ۔۔۔۔ جہاں ان کی ملازمہ رہتی تھیں ۔۔۔

ارتضی نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا تو۔۔۔۔اماں سکینہ آنکھیں ملتی باہر آئیں۔۔۔۔

اور ارتضی ۔۔۔۔ کو سامنے رات کے اس پہر ۔۔۔۔۔ دیکھ چونک اٹھی ۔۔۔۔


"وہ بی اماں ۔۔۔۔ نیناں کی طبیعت نہیں ٹھیک ُآپ اس کا ڈریس تبدیل کروادیں ۔۔۔۔ اس ٹائم تنگ کرنے کے لیے معذرت "


ارتضی پہلی بار کچھ جھجھکتے ہوئے ۔۔۔۔ ان سے مخاطب ہوا۔۔۔۔۔ وہ حویلی کے سپوت کی اس قدر بہترین تربیت پر۔۔۔۔۔

مسکرائیں تھیں ۔۔۔۔۔


اور فورا ۔۔۔۔اس کے ساتھ حویلی آگئیں نیناں کے کمرے کے پاس انہیں چھوڑتا وہ کچن میں اپنے لیے کافی بنانے چلا آیا ۔۔۔۔


اس وقت اسے شدید طلب ہورہی تھی ۔۔۔۔


ارتضی جب تک کافی بنا کر آیا بی اماں۔۔۔۔۔ نیناں کو ۔۔۔۔ چینج کر وا کر جا چکی تھیں ۔۔۔۔

ارتضی نیناں کےروم میں داخل ہوا تو لیپ ٹاپ ہاتھ میں تھا۔۔۔۔۔ آج اسے کچھ کام کرنا تھا ۔۔۔۔ اور کل شہر کے لیے نکلنا تھا ۔۔۔ اسی لیے نیناں ۔۔۔۔ سے دور جانے کے بجائے اس کے قریب رہنا ۔۔۔۔ اپنے احساسات کو سکون دینے کا طریقہ۔چنا ۔۔۔۔۔۔

ارتضی کافی پیتے ۔۔۔لیپ ٹاپ پر کل کے لیے ۔۔۔ اپنی پرزینٹیشن تیار کرنے لگا۔۔۔۔ اسے مسلسل کام کرتے ۔۔۔

چار گھنٹے بیت چکے تھے ۔۔۔۔ نیند آنکھوں پر پردے گرانے لگی ۔۔۔۔۔ ارتضی ۔۔۔۔۔نے ٹائم دیکھا تو صبح ہونے میں ایک ہی گھنٹہ باقی تھا وہ اپنے روم میں جانے کا ارادہ ترک کرتے۔۔۔۔۔

جمائی روکتے ۔۔۔۔ یشفہ کے پاس ہی دوسری طرف آلیٹا ۔۔۔۔۔ اور کب نیند میں گیا معلوم نہ ہوسکا ۔۔۔۔

_________

میں نہیں ۔۔۔۔۔ یہ. سب کیسے ۔۔۔۔۔!!!

یشفہ کی صبح آنکھ کھلی تو ۔۔۔۔ اس کی پہلی نظر اپنے حلیے پر پڑی ۔۔. . .

اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔۔ارتضی کو اپنے اس قدر قریب محسوس کرکے ۔۔۔۔

ارتضی کی دہکتی سانسیں ۔۔۔۔۔۔ یشفہ کو اپنی گردن جھلساتی محسوس ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔۔

آنکھیں آگے کا سوچ کر گرم سیال بہانے لگیں۔۔۔۔ تھیں۔۔۔۔اس کا دماغ سن ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔آخر ارتضی اتنا بے خود کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔


یشفہ کی سسکیوں پر ارتضی نے اپنی خمار آلود نظریں اٹھاتے ۔۔۔۔۔ یشفہ کے چہرے پر جمائیں تھیں۔۔۔۔۔


"ارتضی ۔۔۔۔۔ محبت میں بے خودی جائز ہے پر۔۔۔۔۔۔ آپ سب جانتے ہوئے بھی ۔۔۔ مجھ سے تعلق بنانے کے مرتکب کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ آپ نے کیوں میرے بارے میں نہیں سوچا"


یشفہ بولتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔۔۔

اس کی باتوں پر ارتضی کا دماغ بھک سے اڑا تھا ۔۔۔۔اس کی نظر بے ساختہ خود پر اور یشفہ پر پڑی ایک لمحہ لگا تھا اسے ساری بات سمجھنے میں ۔۔۔۔۔ اس کی خمار زدہ نگاہوں میں مزید سرخی اتری تھی۔۔۔۔

ارتضی کی آنکھوں میں چھائی سرخی ۔۔۔۔۔ دیکھ پل بھر کو ۔۔۔۔ یشفہ ڈر سی گئی تھی ارتضی اس کے پاس سے اٹھ کر

۔۔۔۔ دور کھڑا ہو گیا۔۔۔۔

ارتضی کو خود سے خوف محسوس ہوا ۔۔۔۔ کہیں وہ اپنے تیش میں یشفہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ۔۔۔۔


"یشفہ ارتضی حاقان جب جب ۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں تم سے اپنی محبت میں ہر حد سے تجاوز کر جاؤں گا ہر بار تمہاری معصومیت مجھے بے بس کرتی ہے ۔۔۔۔آج تک میں نے تمہارے ہوش میں ۔۔۔۔ تمہارے ساتھ بد سلوکی نہیں کی تمہیں لگتا ہے رات کی تنہائی میں اپنے ہی گھر میں نقب زنی کروں گا ۔۔۔۔ یہی اعتبار تھا تمہارا۔۔۔"

ارتضی پاگل بنا غرایا تھا۔۔۔۔۔


ارتضی کی آواز میں ۔۔۔۔۔ ٹوٹے ہوئے کانچ کی مانند ۔۔۔۔۔ کرچیاں تھیں۔۔۔۔

جیسے اپنی آنکھوں سے ہی وہ یشفہ کے وجود کو خاکستر کردے گا ۔۔۔۔


"تو پھر کیا کر رہے تھے میرے اتنے قریب ۔۔۔ اور میرے کپڑے ۔۔۔۔ یہ کس نے تبدیل کیے کیا سمجھتے ہیں کہ اپنی جھوٹی باتوں سے ۔۔۔۔ بہلا لیں گے مجھے ۔۔۔۔ دھوکہ دیا ہے آپ نے۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔۔ اپنی محبت کی آڑ میں میرا وجود داغدار کر گئے ۔۔۔۔۔"


یشفہ کے الفاظوں نے ۔۔۔۔۔ ارتضی کی ۔۔۔۔۔۔سب سے بڑی ہار ماپی تھی۔۔۔۔

۔ وہ بے ساختہ آنکھ سے چھلکتے آنسو کو چھپاتا تمسخرانہ قہقہہ لگا اٹھا ۔۔۔۔۔۔ وہ اتنا ہنسا تھا کہ آنکھوں میں پانی آنے لگا ۔۔۔


مجھ کو جو زعم تھا تو میرا ہے

یار یہ دکھ ہی رہا ۔۔۔ رات ہے اندھیرا ہے

میرے ہر دکھ کی پزیرائی جہاں میں نے کی

تیرے دامن سے جو لپٹا تو کیا لٹیرا ہے

میں نے وارا تھا خود کو تیری محبت کے لیے

تو نے جو لفظ کہے ۔۔۔۔ مان کہاں چھوڑا ہے ۔۔


ارتضی کے سارے جذبات بے مول ہوتے ۔۔۔۔۔ راکھ کا ڈھیر بنے تھے ۔۔۔۔۔

وہ قدم قدم چلتا عین یشفہ کے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔ جس کانازک سا سراپا ۔۔۔۔ لرز ش کا شکار تھا۔۔۔۔۔


بہت نرمی سے ارتضی نے اسے تھامنے بیڈ پر بٹھایا تھا۔۔۔۔ اور خود اس سے کچھ فاصلے پر نیم دراز ہوتا ۔۔۔۔ ہاتھ تھام گیا۔۔۔۔۔


"جانتی ہو۔۔۔۔ میری محبت میں ۔۔۔۔پہلے جذباتیت شامل تھی۔۔۔۔ سوچا تھا تمہیں خود میں قید کروں گا۔۔۔۔ اپنی خوشبو سے تمہارے وجود کو معتبر کروں گا ۔۔۔ تمہاری آتی جاتی سانسیں میری تابع ہونگی ۔۔۔۔۔ میری پناہوں میں تمہارا سکون چھپاہوگا۔. . پر آج لگتا ہے ۔۔۔ کسی نے دل کھینچ کر مٹھی میں مسل دیا ہو۔۔۔۔"


ارتضی اپنے دل کی پاگل خواہشات بتاتا آخر میں سرد لہجہ اپنا گیا تھا۔۔۔۔ یشفہ کے ہاتھ کی انگلیوں میں الجھتی اس کی مضبوط انگلیوں نے گرفت سخت کی تھی کہ یشفہ کراہ اٹھی تھی ۔۔۔۔


ار___ارتضی مجھے تکلیف. . ۔۔۔۔شششش ۔۔۔ یشفہ نے تکلیف سے دوہرے ہوتے التجا کی تھی


"یشفہ ارتضی حاقان ۔۔۔۔ تکلیف درد ازیت سب میرے لیے چھوڑ دو۔۔۔۔ اپنے لیے صرف ایک لفظ کا چناو کرو ۔۔۔۔ ناسور۔۔۔جو اب تمہیں ارتضی حاقان کی. نفرت سے ملے گا۔۔۔۔۔ تمہارا وجود سسکتا میرے پہلو میں ہوگا۔۔۔ پر ہر طلب بےمعنی ٹھہرے گی ۔۔۔۔"


ارتضی اسے بیڈ پر بے دردی سے دھکیلتا باہر جا چکا تھا ۔۔۔۔۔یشفہ کو پہلی بار ارتضی کے اس روپ سے خوف محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔۔

__________

زرشے اندر آئی تو ۔۔۔۔ دیکھتی رہ گئی ۔۔فارم ہاوس کو انتہائی خوبصورت انداز سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔ وہاں موجود ہر شے اپنے قیمتی ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھی ۔۔۔۔


زرشے پریشانی سے انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔ کہ اتنے سارے کمروں میں سے کس کمرے میں جائے خود تو وہ لارڈ صاحب ۔۔۔ ناجانے کہاں گم ہو گیا تھا۔۔۔۔


ابھی وہ شانوال خان کو کوس رہی تھی جب ایک ادھیڑ عمر عورت اس کے پاس چلی آئیں


"آئے بٹیا۔۔۔۔۔ رانی ۔۔۔۔ آپ کو کمرہ دکھاوں ۔۔۔۔۔۔مجھے سائیں نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔


وہ اسے اپنے آنے کے مقصد سے آگاہ کرتیں ہوئی بولیں ۔۔۔۔۔

جی شکریہ۔۔۔۔۔۔ وہ ممنون نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑی ۔۔۔۔۔۔

جس روم میں زرشے آئی ۔۔۔ وہاں کا حال بھی نیچے سے مختلف نہ تھا۔۔۔۔ گلاس وال ۔۔۔۔۔۔ پر لٹکے ۔۔۔۔۔ گرے سٹائلش پردے۔۔۔۔۔ بلیک بیڈ شیٹ ۔۔۔۔۔ جہازی سائز بیڈ پر بچھی ۔۔۔۔۔ کمرے کو مزید خوبصورت بنا رہی تھی ۔۔۔۔

وہ بی اماں جاچکی تھیں۔۔۔۔۔

زرشے بیڈ پر بیٹھی ۔۔۔۔۔ اور شال اتار کر سائیڈ پر رکھنے لگی جب ۔۔۔۔ شانوال خان بنا شرٹ کے فریش سا باہر آیا ۔۔۔۔۔

زرشے کا شال اتارتا ہاتھ اپنی جگہ ساکت ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ پھیلی آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑے ۔۔۔۔۔ شانوال خان۔۔۔۔۔کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔


"کیا بات ہے مجھے دیکھنے میں اتنی مصروف ہو کہ اپنی حالت ۔۔۔۔ دیدہ زیبی کا بھی دھیان نہیں۔۔۔۔۔"


شانوال اس کی نظریں خود پر محسوس کرتا۔۔۔۔ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔ پر اس کی مسکراہٹ کچھ جتاتی ہوئی تھی۔۔۔۔

زرشے ہوش میں آتی جلدی سے خود پر شال واپس لپیٹ گئی ۔۔۔

چہرہ بھانب چھوڑنے لگا تھا۔۔۔۔


آخر کیوں تھا یہ شخص اتنا بے باک۔۔۔۔۔ زرشے دل میں سوچتی اپنے ہونٹ چبانے لگی ۔۔۔۔۔اسے الجھن سی ہورہی تھی۔۔۔۔ شانوال خان کے ساتھ ایک کمرے میں رہتے۔۔۔۔۔۔ دونوں ہی اپنے مابین رشتے کی حقیقت سے واقف تھے ۔۔۔۔۔پر وہ جواب دیے بنا نہ رہ پائی۔۔۔۔


آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں ۔۔۔۔۔ آپ کو نہیں بلکہ دن دھاڑے آپ کی بے شرمی کو دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔ آپ کو شاید زیادہ ہی شوق ہے اپنی ۔۔۔ باڈی دکھانے کا ۔۔۔۔ جو کسی نازک حسینہ کی مانند آپ دکھاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔

زرشے ۔۔۔۔۔ بھی اپناحساب برابر کرتے بولی تھی۔۔۔ وہی اس کےنازک حسینہ کے لقب پر ۔۔۔۔۔ شانوال خان۔۔۔۔ کامسرور قہقہہ روم میں گونج اٹھا تھا ۔۔۔۔۔

زرشے اسے ہنستے دیکھ خفگی سے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی مجال ہے جو اس سٹون مین پر میری کسی بات کا ۔۔۔۔ اثر ہو جائے ۔۔۔ ہر وقت حکم جھاڑتا رہتا ہے ۔۔۔۔ زرشے جلتی کڑھتی وہاں سے باہر جانے کو تھی جب ۔۔۔۔

شانوال اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیتا ۔۔۔۔۔زرشے کو کپکپانے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔۔۔۔

چچچھوڑیں ۔۔۔۔۔ کییا کررہے ہیں آپ۔۔۔۔۔ کوشش کے باوجود وہ اپنے لہجے کی لڑکھڑاہٹ پر قابو نہیں پاسکی تھی۔۔۔۔۔۔

شانوال خان کی دہکتی سانسیں اپنی صراحی دار گردن پہ محسوس کرتے وہ ۔۔۔۔۔ تڑپتی ہوئی اس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔

پر وہ شانوال خان کی گرفت کو کیسے کم کر سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل کی دھڑکنیں کانوں میں سنائی دینے لگیں تھیں ۔۔۔۔


شانوال اس کا رخ اپنی جانب کرتا نے قراری کے عالم میں اپنی انگلیوں کی پور پر اس کے حسین نقوش کا لمس جگانے لگا ۔۔۔۔ یہ عمل بے خودی میں تھا وہ چاہ کر بھی ۔۔۔۔۔ اس لمحے سے خود کو نہیں نکال پایا تھا۔۔۔۔۔


______


ارتضی حاقان کی محبت و جنون سے واقف ہو ۔۔۔ یشفہ ۔۔۔ مگر اب جس نفرت سے تمہارے پور پور کو میں بکھیروں گا دنیا کی کوئی طاقت تمہیں نہیں سمیٹ پائے گی۔۔۔۔۔ مجھ سے کہا تمہارا ہر لفظ تمہیں ہر روز نئے ۔۔۔ زخم سے آشنائی دلائے گا

ارتضی اپنے روم میں آتا ۔۔۔ ہر چیز تہس نہس کر چکا تھا۔۔۔۔دل و جان میں بھونچال سا آگیا تھا۔۔۔۔۔ یشفہ کی اس قدر بے اعتباری پر ۔۔۔۔۔ دل جتنا ۔۔۔ تڑپتا کم تھا

چاہت کی ہار۔۔۔ اعتبار پر بھاری پڑتی ہے ۔۔۔ ارتضی اپنا سامان باندھ کر صبح ہی شہر کے لیے نکل گیا تھا۔

۔۔۔راستہ بھر اس کے ذہن میں یشفہ کے تلخ الفاظ گونجتے رہے۔۔۔۔

ناجانے وہ کتنی دیر تک سگریٹ پھونکتا اپنا غم غلط کرتا رہا ۔۔۔۔

دل سینے میں سر پٹخ پٹخ ۔۔۔

۔ کر اپنی بے قدری پر رو رہا تھا۔۔۔۔ وہ مرد تھا ۔۔۔۔ کہاں اجازت تھی خود کو ظاہر کرنے کی ۔۔۔۔

ایک محبت نے اس کے مان کو راکھ کر ۔۔۔۔۔۔ ہوا میں تحلیل کر دیا تھا۔۔۔۔۔

وہ چاہ کر بھی ۔۔۔۔۔ خود کو نہیں سنبھال پارہا تھا۔۔.


ارتضی اپنے شہر والے فلیٹ میں پہنچا تو نعمان جو کہ اس کا واحد دوست تھا وہاں پہلے سے موجود تھا۔۔۔.

بلیک پینٹ کوٹ میں بکھرا حلیہ لیے ارتضی کو دروازے پر دیکھ نعمان کو ۔۔۔ اچنبھا ساہوا۔۔۔. .

"یار ارتضی کیا ہوا ہے تجھے۔۔۔۔ ہاں اور یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تو نے ۔۔۔۔. "

نعمان اس کے پاس آتا پریشانی سے استفسار کرنے لگا

کچھ نہیں نعمان ۔۔۔۔ پلیز مجھے اس وقت اکیلا چھوڑ دے اور دروازہ لاک کر کے جانا ۔. . .

ارتضی بیزار یت سے کہتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔ نعمان کی نظروں نے دور تک اس کی پشت کا پیچھا کیا


۔۔۔۔۔۔ کچھ تو غلط تھا مگرکیا۔۔۔۔۔ ارتضی سے بعد میں بات کرنے کا سوچتے وہ وہاں سے اپنی جاب کے لیے نکل گیا۔. . .

________

زرشے ۔۔۔ کے ایک دم چٹکی کاٹنے پر۔۔۔۔۔۔ شانوال کی ساری مدہوشی ہوا ہوئی تھی ۔۔۔. . .

وہ جھٹکے سے پیچھے ہوتا تیکھی مرچ کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔


"قابو رکھیں ۔۔۔ سردار صاحب ۔۔۔۔اتنی بے خودی اچھی نہیں ۔۔۔۔"


یشفہ اسے حقیقت کا آئینہ دکھاتی باہر بھاگ گئی تھی ۔


۔۔ پیچھے شانوال ۔۔۔۔ اس کے اس طرح خود سے دور جانے پر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا ۔۔۔۔


"کیا چاہتی ہے یہ لڑکی مجھ سے۔۔۔۔ کیوں میرے حواسوں پر سوار ہورہی ہے۔ ۔. کیوں دل اس کے قرب کی چاہ کر بیٹھا ہے۔۔۔۔۔ "


شانوال کی بے چینی عروج پر تھی وہ دل کو ڈپٹتا ۔۔۔۔۔۔شرٹ پہنتا ۔۔۔۔ باہر کی جانب بڑھا ۔۔

۔ا بھی اسے بہت اہم کام کرنا تھا جس کام کے لیے وہ اتنی دور آیا تھا ۔۔۔۔۔


ایسے خالی۔ہاتھ واپس جانا ۔۔۔۔۔ شانوال خان ۔۔۔ کو منظور نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے ہر حال میں وہ چپ حاصل کرنی تھی


۔۔۔۔۔۔ شانوال مطلوبہ جگہ پہنچا تو ۔۔۔اس کے آدمی پہلے سے مودب انداز میں کھڑے اسی کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔


شانوال چہرے پر سرد تاثرات سجائے بلیک روم میں داخل ہوا جہاں دو لوگوں کو کرسی پر رسیوں سے باندھا گیا تھا ۔۔۔۔


"لگتا ہے ۔۔۔ میرے معزز مہمانوں کی کافی خاطر داری کر چکے ہیں میرے ۔۔۔ آدمی ۔۔۔۔. "

شانوال ان کے زخمی چہرے دیکھتا تمسخرانہ انداز میں بولا تھا ۔۔۔۔ آنکھوں میں چھائے سر د تاثر نے وہاں بیٹھے دونوں نفوس کو کانپنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔

۔"

۔۔۔۔ سائیں ۔۔۔ ہمیں جانے دیں ہم نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو پیسے دیے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔رحم کریں سائِیں "

شانوال خان کی دہشت سے وہ ۔۔۔۔ پٹر پٹر اپنی رام کہانی سنانے لگے تھے۔۔۔۔۔پر شاید اپنے سامنے کھڑے دشمن سے انجان تھے جو اڑتی چڑیا کے پر گننے ۔۔۔۔ میں ماہر تھا۔۔۔۔. تو ان کی چال کیسے نہ۔سمجھ پاتا۔۔۔۔. . .

شانوال ۔۔۔۔ ان میں سے ایک کے قریب بیٹھا اور اپنا مخصوص ۔۔. الہ نکالتا ۔۔۔۔۔۔۔. بولنے والے کا ہاتھ زخمی کر گیا۔۔۔۔۔. کمرہ دلخراش چیخوں سے گونج اٹھا تھا پر پرواہ کسے تھی ۔۔۔۔ یہ لوگ ناجانے کتنی زندگیاں برباد کر چکے تھے ۔۔۔


"شاید تمہیں معلوم نہیں ۔۔۔۔ کہ مجھے فضول بولنے والوں سے سخت کوفت ہوتی ہے۔. . . تم نے میرے دومنٹ ضائع کیے۔۔۔۔۔ اب سزا تو بنتی ہے "

شانوال کے اطوار میں کسی طور رعایت نہ تھی ۔۔۔۔

پہلے آدمی کا حال دیکھتا ۔۔۔ دوسرا پسینے سے شرابور ہوا تھا۔۔۔۔ وہ دماغ میں تانے بانے بننے لگا۔۔۔۔جھوٹ بولتا ۔۔۔۔ تو اپنے ساتھی کی طرح پکڑ اجاتا ۔۔۔۔ اور سچ بولتا تو شاید کوئی ۔۔۔۔سزا میں کمی واقعہ ہو جاتی ۔۔۔۔

یہی سوچ کر وہ شانوال کے سامنے اپنی زبان کھول گیا۔۔۔۔۔جیسے جیسے شانوال خان سنتا جارہا تھا۔۔۔۔ اس کی پیشانی کی رگیں ۔۔۔۔ تن رہی تھیں ۔۔۔۔ ہاتھوں کی مٹھیوں کو سختی سے بھینچتا ۔۔۔۔۔وہ ضبط کی انتہا پر تھا۔۔۔۔۔۔

وہ چپ ۔۔۔۔۔ جسے شانوال کب سے ڈھونڈ رہاتھا ۔۔۔۔ کہیں اور نہیں بلکہ زرشے کی باڈی میں موجود تھی یہ بات شانوال کے لیے کسی شاک سے کم نہ تھی ۔۔۔۔۔ کوئی اپنی حوس میں اتنا اندھا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔

شانوال خان۔۔۔۔۔ لمبے ڈگ بھرتا ۔۔۔۔ باہر کو بھاگا تھا۔۔۔۔۔ اب اسے ساری چال سمجھ آنے لگی تھی۔۔۔۔۔ دوسری طرف زرشے کے لیے دل میں موجود آخری پھانس بھی نکل گئی تھی۔۔۔۔۔۔

اس بیچاری کو کہاں معلوم تھا کون درندہ اس کی طاق لگائے بیٹھا ہے۔۔۔۔۔۔

شانوال ۔۔۔۔ کو کسی بھی طرح زرشے کی حفاظت کرنی تھی ۔۔۔۔ اب جو بات اسے پتا چلی تھی ۔۔۔۔۔ اس سے زرشے پر خطرہ مزید بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔زرشے کی یہاں موجودگی کی بھی دشمنوں کو خبر ہو چکی تھی ۔۔۔۔

شانوال نے ایک گاڑی کو مسلسل اپنی گاڑی کا پیچھا کرتے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔ا سی لیے وہ ان لوگوں کو چکما دینے کے خاطر زرشے کو اپنے ساتھ فارم ہاوس لے آیا تھا تاکہ آگے کے پلین کو ترتیب دے سکے ۔۔۔۔

زرشے سے دوری کا احساس ہی دل و دماغ میں ۔۔۔۔ بھانبھڑ سے جلا رہا تھا۔۔۔۔

شانوال سوچ چکا تھا ۔۔۔ اسے کسی بھی طرح اپنا ۔۔۔ رشتہ زرشے سے مضبوط کرنا ہوگا۔۔۔۔۔ تاکہ ۔۔۔ وہ آگے آنے والے حالات کامقابلہ شانوال خان کی بیوی کی طرح کرے ۔۔۔

شانوال ۔۔۔ فارم ہاوس ۔۔۔ واپس آیاتو ۔۔۔وہ سامنے ہی بی اماں کے ساتھ بیٹھی اپنے چہرے پر ہلکی سی مسکان سجائے ۔۔۔۔ باتیں کرنے میں مشغول تھی۔۔۔۔۔

شانوال کا دل کیا ۔۔۔۔ کہ اسے اسی طرح دیکھتا ۔۔۔ جائے کیا قصور تھااس معصوم کا ۔۔۔۔ جو یہ سب دیکھنے کو ملا۔۔۔۔۔

شانوال ۔۔۔ گلا کھنکھارتا ۔۔۔۔ ان کے سامنے موجود کاوچ پر آبیٹھا ۔۔۔۔۔ بی اماں اس کے لیے پانی لینے گئیں ۔۔۔۔۔ تو زرشے بھی نا محسوس انداز میں اپنا دوپٹہ سر پر جماتی وہاں سے جانے کو پر تولنے لگی۔۔۔۔۔۔۔

گلابی فراک میں اس وقت وہ کھلا ہوا گلاب لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ شانوال کو خوشی ہوئی تھی اسے اس طرح ۔۔۔۔۔ بی اماں سے باتیں کرتا دیکھ ۔۔۔۔ کوئی تو تھا ۔۔۔ جس سے وہ بات کرتی ورنہ اسے تو ہمیشہ کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔۔۔


زرشے ابھی اٹھی ہی تھی ۔۔۔۔ جب شانوال کی آواز کانوں میں پڑِ ی۔۔۔۔

"زرشے ۔۔۔۔۔ میرے سر میں شدید درد ہے ۔۔۔۔. پلیز سر دبا دو۔۔۔۔۔ "

شانوال نے پہلی باراسے اس کے نام سے بلایا تھا۔۔۔۔۔

وہ انگلیاں چٹخاتی عجب کشمکش میں گھری کھڑی تھی۔۔۔ کہ آخر کیسے اس کے قریب جائے ۔۔

آپ دوا لے لیں۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔ سونا ہے ۔۔۔ زرشے جی کڑا کر کے وہاں سے جانے لگی ۔۔. .

پر شانوال کی گرفت میں اپنی کلائی کی وجہ سے ممکن نا ہوسکا ۔۔۔۔شانوال نے اسے بے حد نرمی سے قریب کرتے زرشے کا مومی نازک سا گلابی ہاتھ ۔۔۔ اپنی کشادہ پیشانی پر رکھا۔۔۔۔ اس سے زیادہ وہ کچھ سننے کے موڈ میں نہ تھا


زرشے ناک منہ چڑاتی ۔۔۔۔۔ ہولے ہولے اس کا سر دبانے لگیں جب بی اماں پانی لائیں ۔۔۔۔۔ شانوال نے پانی پیا اور زرشے کا ہاتھ تھام کر روم میں لے آیا ۔۔۔۔

زرشے کو بی اماں کی موجودگی میں ۔۔۔ ایسے ہاتھ پکڑ کر لانے ہر حیا سی آئی۔. . . پر اس کھڑوس سے کچھ بھی کہنا بے کار تھا ۔۔۔۔

شانوال اسے بیڈ پر بٹھا تے خود اس کی گود میں سر رکھ گیا ۔۔۔۔۔

زرشے تو حق دق سی اس کے تیور دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

آخر شانوال خان کرنا کیا چاہ رہا تھا۔۔۔۔ بے خودی سے بے خودی تھی۔۔۔۔۔

وہ کبھی بے چینی سے اس کی ہتھیلی پر۔۔۔۔ اپنا نام لکھتا تو کبھی اپنے بالوں میں اس کے ہاتھ کی دھیمی حرکت محسوس کرتا ۔۔۔ وہ پاگل سا ہورہا تھا ۔۔۔۔. . بے بس سا سمندر قریب ہو ۔۔۔ اور پیاسا سیراب نہ ہو سکے ۔۔۔۔۔ اس کی تڑپ اس وقت کوئی ۔۔۔۔۔ شانوال خان سے پوچھتا ۔۔۔۔

بہت اچانک ۔۔۔۔ شانوال خود پر جھکا گیا ۔۔۔۔ کہ اس کی مغرور ناک ۔۔۔ زرشے کی چھوٹی سی سرخ ناک سے مس ہونے لگی۔۔۔۔۔

زرشے پاگل ہوتی دھڑکنوں سے خود کو اس سے دور کرنے لگی ۔۔۔۔۔ پر اپنی گردن میں ہائل اس کے بازو نے ایسا نہ ہونے دیا ۔۔۔۔۔


وہ اپنی شانوال اپنی نیلی آنکھوں میں خمار کی سرخی لیے۔۔۔۔۔لمحہ با لمحہ زرشے کو خود کے نزدیک کرتا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔


زرشے کی جان ۔۔۔۔ تو تب ہوا ہوئی جب ۔۔۔۔۔۔۔شانوال کے لب اس کے کانپتے ہونٹوں سے مس ہوئے ۔۔۔۔. دھڑکنوں میں طلاطم سا برپا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ کس عذاب میں ڈال رہا تھا شانوال خان۔۔۔۔۔۔زرشے کی بے بسی عروج پر تھی ۔۔۔۔

وہ ساکت سی خود میں اترتی ۔۔۔۔۔ شانوال خان کی سانسوں کو محسوس کرتی آنکھیں موند گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مزاحمت کرنے ہی کب دیتا تھا۔۔۔۔ وہ دشمن جاں ۔۔۔۔۔۔ ایسے داو آزمانا اس کی پرانی عادت تھی۔۔۔۔۔۔۔

لبوں کی رنگیوں سے سیراب ہوتا۔۔۔۔. . وہ زرشے کے نقوش پر اپنا پر حدت لمس چھوڑتا ۔۔۔ اسے خود سے بیگانہ کر گیا۔۔۔.۔۔۔ دونوں کی بکھری سانسیں کمرے میں گونجتی معنی خیز خاموشی کع توڑنے میں ناکام رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔

حسین چہرے تو ۔۔۔۔ بہت ہوتے ہیں ۔۔۔. پر جس کے قرب کی چاہ نکاح میں آنے کے بعد ہونے لگے ۔۔۔۔ وہ اجساس بے حد خوبصورت ہوتا ہے ۔۔۔۔ ہر رشتہ اس احساس کے سامنے بے معنی لگتا ہے۔۔۔۔ دامن میں محبت کے پھول کھلتے ۔۔۔۔۔۔۔ دلوں کی فصلیں آباد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ دو محبت کے آوارہ پنچھیوں کی اڑان ایک ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ پر کبھی کبھی ۔۔۔۔ پالینے کے بعد بھی خالی پن ساتھ رہتا ہے ۔۔۔۔۔ کون جانے کس لمحے ۔۔.۔۔۔۔ میں کتنی صدیاں جینی ہیں ۔ ۔۔۔۔


_________

سانوال خان ۔۔۔۔ کے سر چڑھ کر بولتی محبت ۔۔۔۔۔۔ اسے دیوانہ کر گئی تھی۔۔۔ نیناں خان کا اس کی باہوں میں ہونا ۔۔۔ا س کی محبت وشدت کا ثبوت تھا۔۔۔۔

سانوال ۔۔۔۔ اپنے لبوں سے اس کے نقش نقش کو معتبر کرتا کسی اور جہاں میں تھا۔۔۔۔ اپنی جسارتوں سے وہ کچھ ہی دیر میں نیناں خان کا حلیہ بگاڑ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔اسے حد سے تجاوز کرتا دیکھ نیناں اپنی بکھری سانسوں کو سنبھالتی ۔۔۔۔ پل میں اس سےدور کھڑی ہوتی رخ موڑ گئی ۔۔۔۔۔

سانول خان کا جنون ہر بار ایسے ہی اس کے حواسوں پر چھآتا اسے پاگل کرتا تھا۔۔۔۔۔

آج بھی اس کی قربت میں ڈوبی ۔۔۔۔ وہ ہر ۔۔۔ بات بھول گٙی تھی ۔۔۔۔۔۔

سانول ۔۔۔ اس کا بکھرا حلیہ بکھری سانسیں دیکھ۔۔۔۔ دل و جان سے مسکرایا تھا۔۔۔۔۔۔۔.

اپنے نام سے چھائی اس کے گالوں پر موجود لالی اس وقت بہت بھائی۔تھی سانول خان کو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لڑکی ۔۔۔۔۔ کسی بھی وقت سانول کے دل کے تار چھِڑ سکتی تھی ۔۔۔۔۔

اس کی سانسوں سے کھیلنا ۔۔۔۔۔ سانول خان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔۔۔۔۔ پر اس کی نازک مزاجی پر رحم کھاتا ۔۔۔۔۔۔اسے آرام سے اپنی گرفت سے آزاد کر گیا ۔۔۔۔۔

" نیناں سانول خان۔۔۔۔۔۔ محبت کی پہلی منزل پر ہی ہار مان لی ۔۔۔۔ ابھی تو میری محبت کی ایک جھلک نے تمہیں پاگل کردیا یے سوچو جب۔میں پورا ۔۔۔۔ تمہاری روح تک سفر کروں گا . . . تمہارا نازک وجود . . کیسے اپنی سہمی سانسوں کو ۔۔۔۔۔۔بچاِئے گا مجھ سے۔۔۔۔۔"

سانول اسے رخ موڑے کھڑا دیکھ معنی خیزی سے بولا تھا۔۔۔۔۔

نیناں نے اس کی بے باکی پر تپ کر اسے دیکھا۔۔۔۔

" سانول آپ ۔۔۔ آپ بہت بے شرم ہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ لجائی لجائی سے اس کے دل میں اتر رہی تھی ۔۔۔۔۔

اس کی کپکپاتی آواز پر سانول قہقہہ لگااٹھا۔۔۔۔۔ ۔

نیناں کی معصومیت . . . . دل لبھانے کے سارے ہنر سے آشنا تھی ۔۔۔


چلو اب آہی گئی ہو تو اپنے سر کے سائیں کے لیے کچھ بنا دو کل سے بھوکا ہوں ۔۔۔۔۔

سانول ۔۔۔۔ بھی زرا شوخی سے اسے ریلیکس کرنے کو بات بڑھاتے ہوئے بولا

تو نیناں بنا جواب دیے جلدی سے باہر کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر کی تگ ودد کے بعد اسے کچن اور سوپ بنانے کا سارا سامان ڈھونڈ چکی تھی ۔۔۔

وہ جلدی جلدی ہاتھ چلاتی ۔۔۔۔۔سانول کے لیے سوپ تیار کرنے لگی ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر کی محنت کے بعد اس نے سوپ تیار کرکے ٹرے میں رکھا ۔۔۔۔اور روم کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔۔

نیناں روم میں آِئی تو اس کی نظر فریش سے سانول پر پڑِِی جس نے شاید ابھی شاور لیا تھا۔۔۔۔۔

وہ ٹرے سائیڈ پر رکھتی ۔۔۔۔دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے گھورنے لگی۔۔۔۔


"یہ اتنے شوخے کیوں ہورہے ہیں آپ ہاں۔۔۔۔ کیوں شاور لیا آپ نے اتنی رات کو جانتے ہوِئے بھی کہ کتنا تیز بخار ہے ۔۔۔۔ یا یہ سب آہ صرف مجھے تنگ کرنے کے لیے کر رہے ہیں سانول ۔۔۔۔"


وہ لڑاکا عورتوں کی طرح اس سے جرح پر اتر آئی تھی ۔۔۔۔

اتنے دنوں بعد اس کا یہ روپ دیکھ . ۔۔۔۔ سانول کے دل میں ٹھنڈک سی اتر گئی تھی ۔۔۔۔ کب سے وہ اپنی شیرنی کو مس کررہا تھا۔۔۔۔۔۔

سانول تولیے سے بال رگڑتے۔۔۔۔ نیناں کی طرف قدم پیشی کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ جو آنکھیں چھوٹی کیے اس سے حساب کتاب پر اتری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

"میری شیرنی ۔۔۔۔۔۔بہت ۔۔۔۔لو فیل کر رہا تھا۔۔۔۔۔اور پھر تمہارے جیسی توپ کے سامنے کوئی بخار بھلا کیسے ٹک سکتا ہے"


سانول کی آنکھوں سے چھلکتی شرارت پر وہ خفگی سے اپنے لائے سوپ کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔

سانول . . ہلکے سے ٹراوز شرٹ میں ریڈی ہوتا اس کے قریب آبیٹھا ۔۔جو خفا سی منہ پھلائے۔۔۔۔۔ سوپ کی ٹرے اس کی گود میں رکھتی وہاں سے جانے لگی۔۔۔۔۔۔

سانول کا مانو ۔۔۔۔دل ہی بند ہونے کو تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"نیناں خان۔۔۔۔۔ تم اس کمرے سے باہر قدم نہیں نکالو گی۔۔۔۔۔ تم سے گستاخیاں کرنے کا پورا حق ہے مجھے۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں خفا ہونے پر منانے کا بھی حق محفوظ رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔ اس لیے فورا واپس آو۔۔"

سانول کی آواز سرد تھی۔۔۔۔۔۔۔

نیناں اس ضدی شخص سے کبھی نہیں جیت سکتی تھی۔۔۔۔۔ اسی لیے اس سے زرا فاصلہ بناِئے ۔۔۔۔۔۔ بیڈ پر بیٹھی ۔۔۔۔۔ اور سوپ پلانے لگی۔۔۔۔۔

سانول کی نظریں۔۔۔۔ مسلسل ۔۔۔۔۔۔نیناں کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں ۔۔۔۔ دل وجاں میں سمائی یہ پری زاد ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی زندگی کا اثاثہ تھی. . . . .

سانول ابھی ۔۔۔۔اس کے نقوش کے زیرو بم میں الجھا ہوا تھا۔۔۔۔۔

نیناں کی بھیگی آواز نے اس پر چھائے فسوں کو توڑا تھا۔۔۔۔۔


"سانول ۔۔۔۔آپ نے یہ ناٹک کیوں کیا۔۔۔۔۔ کیوں مجھے اس ازیت میں اکیلا تپتے صحرا میں چھوڑ گئے ۔۔۔۔۔ کیا میری محبت اتنی بے معنی تھی۔۔۔۔آپ کے لیے سانول ۔۔۔۔۔

سانول کو دوائی دے کر اس کے ۔۔۔۔۔۔۔قریب نیم دراز ہوتی اپنے دل کی بات کو زبان دے گئی۔۔۔۔ لفظوں میں چھلکتا قرب تھا۔۔۔۔۔ سانول نے آنکھیں میچتے ۔۔۔۔خود پر قابو کیے ۔۔۔۔ اپنے سینے سے لگی نیناں خان کو دیکھا۔۔۔۔۔۔


مجھے سچ اور صرف سچ جاننا ہے۔۔۔۔۔ نیناں کا انداز قطعا تھا. . . . اس کے دو بدو سوالوں پر سانول ۔۔۔۔۔۔ گہرا سانس بھرتا اسے حقیقیت سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔


نیناں میں جو تمہیں بتاوں گا۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھنا ۔۔۔۔۔ پورے تحمل سے میری بات سنوں گی ۔۔۔۔ اوکے۔۔۔.

سانول اٹھ کر بیٹھتا ۔۔۔۔ نیناں خان کے دونوں ہاتھوں پہ بوسہ دیتے سمجھانے والے انداز میں بولا تھا۔۔۔۔۔۔

نیناں زور و شور سے اس کی بات پر سر ہلانے لگی ۔۔۔۔۔.

۔۔۔.۔۔۔۔۔

خان حویلی میں کوئی ہے جو ہماری بربادی کا سبب ہے ۔۔۔۔۔۔ ہمارے باباکی موت کوئی حادثہ نہیں تھی بلکہ حق کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے بابا کو قتل کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔

اس میں کوئی قباحت نہیں کہ وہ ہمارے لیے ۔۔۔۔کافی قابل احترام ٹھہرے ہیں ۔۔۔۔لیکن انہوں نے دشمنوں کا ساتھ دیا ۔۔۔۔ ہمارے لیے موت کےدروازے ۔۔۔ وا کیے۔۔۔۔

ِخان حویلی میں دو بھائیوں کے علاوہ بھی ۔۔۔۔۔ کوئی ۔. . کال کوٹھری میں آباد تھا۔۔۔۔ جسے سالوں پہلے ۔۔۔۔۔ بے گناہ ہوتے ہوتے ہوئے بھی سزا کاٹنی پڑِی تھی ۔۔۔۔

پر مکافات عمل سامنے ۔۔۔۔ آنا ہوتا ہے ۔۔۔ تو خان حویلی کیسے بچ پاتے ۔۔. .

تمہارے بابا۔کی تمہارے علاوہ بھی ایک اور اولاد ہے ۔۔۔۔۔ میرے اور شان بھائی کے بعد حویلی کا ایک اور وارث ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ادا سائیں (چاچا سائیں ) کی ناجائز اولاد ہیں ۔۔۔۔ان کی ماں کو حویلی میں قید کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ دادا سائیں نے ان کے نکاح پر رضا مند ی نہ دیتے ۔۔۔۔ ان کو کال کوٹھری کی سزا سنائی ۔۔۔۔۔۔ چچا جان نے بھی اپنا مطلب پورا کرتے ۔۔۔۔۔ان سے ۔۔۔۔ سارے تعلق ختم کرلیے۔۔۔۔. .

وہ آئے دن خان حویلی میں ظلم و عتاب کا نشانہ بنتیں ۔۔۔اور ان کی سسکیاں اسی کوٹھری میں دم توڑ جاتیں۔۔۔۔۔ ایک دن کسی ملازمہ کی مدد سے وہ بھاگ نکلیں جب وہ گھر سے نکلیں تو ۔۔۔۔انہیں اپنے اندر نئی تبدیلی کا احساس ہوا۔۔۔۔۔۔۔بے سرو سامان وہ سڑکوں پر ماری ماری پھرتی رہیں ۔۔۔۔۔

تبھی ۔۔۔۔۔۔ان کی خوبصورتی کو دیکھ ایک عورت انہیں کوٹھے پر بیچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں کی زندگی کسی موت سے کم نہ تھی۔۔۔۔انہوں نےا پنے بچےکو. ۔۔۔۔ دنیا میں لانے تک کی مہلت مانگی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ نو ماہ بعد کوٹھے پر انہوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی زندگی کو خیر بعد کہہ دیا. . . . . . .

وقت تیزی سے گزرنے لگا۔۔۔۔۔ قحلم اب بیس سال کا ہوگیا تھا۔۔۔.۔۔۔ کوٹھے کی رانی بائی اسے ساری حقیقت سے پہلے ہی آگاہ تھیں ۔۔۔۔ اور اس کے دل میں پنپتے نفرت کے جذبے نے نئے ۔۔۔۔ راستے تلاش کیے ۔۔۔.

اس کا مقصد حویلی کے ہر وارث کو ختم کرنا ہے۔۔۔۔ اسی لیے قحلم ہمارے دشمن کے ساتھ مل کر ہم پر حملہ کیا جس میں ۔۔۔۔۔ بھائی اور میں تو بچ گئے لیکن ڈرائیور لالہ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔. . . ہمارا دشمن قحلم کی نفرت کا فائدہ اٹھاتے حویلی کے اندر قہرام مچا گیا ہم ۔۔۔۔سب چیزوں سے با خبر تھے بس اب صحیح وقت کاا نتظار ہے۔۔۔۔۔۔

جو ہوا۔۔۔۔۔۔اس کے ۔۔۔۔ بعد قحلم کی نفرت جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کا فائدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی تیسرا اٹھا رہا ہے جو ہم ہونے نہیں دینگے۔۔۔۔۔


تم سوچ رہی ہو گی ۔۔۔ کہ مجھے یہ سب باتیں کیسے پتا چلیں ۔۔۔۔۔۔ تو حاقان حویلی میں موجود عورت ۔۔۔۔زرشے بھابھی کی ماں ۔۔۔۔۔ جو ان سب رازوں سے واقف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی دوست کی ہمراز ۔۔۔۔ قحلم کی چھان بین کے وقت ۔۔۔۔ ان کی سچائی سامنے آئی ۔۔۔۔۔۔ تو شانوال بھائی نے ان سے ملاقات کی ۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کسی بات کو نا سنتے ایک ڈائری ان کے حوالے کی ۔۔۔۔۔۔ جس میں بیتی زندگی کا ہر پننہ درج ۔۔۔.۔۔۔ کسی مظلوم کی آہوں سسکیوں ۔۔۔۔۔ سے پر تھا۔۔۔۔. . .

سانول سانس لینے کو رکا۔۔۔۔تھا۔۔۔۔

بس اسی لیے اصل مجرم کو سامنے لانے کے لیے ۔.۔۔۔۔ مجھے روپوش ہونا پڑا ۔۔۔۔

نیناں کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔۔۔۔ آنکھوں میں چھائی ۔۔۔۔۔ بے اعتباری باپ کی حاکمیت و مظلومیت نے ۔۔۔ دل کرچی ۔۔۔۔ کیا تھا۔۔۔۔۔حویلی کے مکینوں کے اس قدر بھیانک روپ سے وہ لرز سی گئی تھی ۔. . . . . .

سانول اس کی حالت سمجھتا نیناں کو سینے میں بھینچ گیا ۔۔۔. . نیناں کی سسکیاں ۔۔۔۔. اس کا رونا سانول کو ۔۔۔۔۔۔ بھی پریشان کر گیا تھا۔۔۔۔۔ پر وہ چاہتا تھا۔۔۔ آج وہ سارا غبار نکال دے.۔۔۔تاکہ آنے والے وقت کا بہادری سے سامنا کر سکے۔۔۔۔.

سانول نے ابھی بھی اسے آدھی حقیقت سے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ نیناں تکلیف میں رہے۔۔۔۔۔

سانول اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اس کا چہرہ اپنےروبرو کرتا ۔۔۔۔۔۔ اس کی بہتی آنکھوں سے شبنم کے قطرے اپنے لبوں لر سمیٹنے لگا۔۔۔۔


_________

قحلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں تک پہنچا تمہارا پلین ۔۔۔۔۔ آخر کب تک انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔ یا تمہارا ارادہ بدل گیا ہے۔۔۔۔۔۔

دشمنوں کی کوئی خیر خبر رکھو۔۔۔۔۔۔۔شانوال اتنی خاموشی سے تو بیٹھنے والا نہیں ۔۔۔۔۔۔

قحلم نے سرد نگاہ ان پر ڈالی جو کہنے کو اس کا باس تھا۔۔۔۔۔۔۔ خان حویلی سے نفرت میں ان کا ایک بڑا ہاتھ تھا۔۔۔۔


"قحلم نام ہے میرا۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے موت بھی کتراتی ہے ۔۔۔۔ خان حویلی کے ایک ایک شخص کو حساب چکانا ہو گا۔۔۔۔۔۔ مجھ پر میری ماں پر ہوئے ہر ظلم کا ۔۔۔۔ ایک شریف عورت کو کوٹھے کی زینت بنانے کا ۔۔۔۔اب وہی ان کے ساتھ ہوگا ۔۔۔۔۔. "

قحلم کی آواز میں غضب کا قہر تھا۔۔۔۔. .

___________

شانوال بے خود سا ۔۔۔۔اس کے کانوں میں سر گوشیاں کرتا ۔۔۔۔۔ کسی اور جہاں میں مہو سفر تھا۔۔۔۔

زرشے کے کندن بدن جابجا سرکتے اس کے ہاتھ ۔۔۔۔اس کی دھڑکنوں میں ۔۔۔۔ارتعاش پیدا کر گئے تھے ۔۔۔سانسوں کے بکھراو نے۔۔۔۔۔۔ دونوں کو طلسم زدہ کیا تھا۔۔۔۔۔.

شانوال کے دل کی بات شاید ہی وہ۔۔۔ جان پاتی۔۔۔۔ شانوال اپنی مطلوبہ جگہ پر ہاتھ رکھتے نرمی سے اس کے دل کے مقام پر انگلیاں پھیرتے ۔۔۔۔ چپ کو محسوس کیا تھا۔۔۔۔.

تو اس کا اندازہ درست نکلا تھا۔۔۔۔۔۔

زرشےکے دل کے مقام کے بےحد قریب وہ چپ تھی۔۔۔۔ شانوال نے بے خود ہوتے اس کے قلب پر اپنے احمریں لبوں کی نرماہٹ بخشی تھی ۔۔۔۔.۔۔۔۔ لبوں کی نرمی ۔۔۔۔۔ سے زرشے کی ہتھیلیاں پسینے سے نم ہوئی تھیں. ۔۔۔۔.

عین اسی وقت شانوال ۔۔۔۔ اس کی انگلیوں میں اپنی مضبوط انگلیاں الجھا چکا تھا۔۔۔۔. . .

وہ کسی گہرے بادل کی طرح زرشے پر جھکا سایہ کر گیا تھا ۔۔۔ بوند بوند اس کے وجود پر اپنی خوشبو کے مسحورکن ۔۔۔۔ لمحے فراخ دلی سے بخشتا ۔۔۔۔ز رشے کی مزاحمت کو ۔۔۔۔۔ مات دے گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زرشے آنکھیں موندے اس کی انگلیوں پر گرفت سخت کر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔

"تم ڈر رہی ہو زرشے شانوال خان۔۔۔۔۔ میری قربت میں تمہارے وجود پر بکھرتی سانسیں توکوئی اور داستان بیان کر رہی ہیں ۔۔۔۔"

زرشے کو پلکیں موندے سانسیں۔۔۔۔۔ کھینچتے دیکھ ۔۔۔۔۔۔ شانوال معنی خیز لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

زرشے نے پلکوں کی چلمن اٹھائے۔۔۔ ایک نظر شانوال خان کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ محض ایک نظر شانوال خان کو پاگل کر گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔

زرشےکے وجود کے گرد حصار باندھتے وہ ۔۔۔۔اس کے گلابی لبوں پر اپنے احمریں . . . . ہونٹ ثبت کرتا ۔۔۔ اس کی سانسوں کو قطرہ قطرہ خود میں اتارتا مدہوش ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔

دونوں کی سانسیں ۔۔۔۔ملن کی التجا لیے ۔۔۔۔۔ ہاتھ پھیلائے کھڑی تھیں ۔۔۔۔۔

میری سانسیں جو ملیں ہیں تیری سانسوں سے

اب یہ لگتا یے کہ ۔۔۔۔ جینے کی طلب باقی ہے ۔۔۔

محبتوں کے خراج وصولتے وہ بے ضرر سی لڑکی دیوانی ہوئی تھی ۔۔۔۔. محبتوں ۔۔۔۔ کا ۔۔۔۔۔وار کاری تھا۔۔۔۔۔ وہ چاہ کر بھی اس وقت اسے خود نہیں کر پارہا تھا۔۔۔۔ ضبط کی تنابیں ٹوٹنے کو تھیں ۔۔۔۔۔

"شانوال ۔۔۔۔۔۔۔ بس ۔۔۔ کریں ۔۔۔میں مر جاوں گی۔۔۔۔"

سانسوں کی آزادی ملنے پر زرشے آنے والے لمحات سے گھبراتی ۔۔۔۔۔۔ اسے دور کرنے کی تگ ودد میں تھی ۔۔۔۔۔

پر شانوال ۔۔۔۔۔ کی مدہوشی ہر بات سے بے بہرہ کرتی زندگی کی نئی ڈور باندھنے کو تھی ۔۔۔ اب چاہ کر بھی خود پر بند باندھنا مشکل تھا۔۔۔۔۔۔۔.

زرشے کا ضبط ٹوٹا تھا ۔۔۔۔شانوال کی حد درجہ بے باکی پر وہ سہم کر ۔۔۔۔۔ رونے لگی تھی۔۔۔۔۔۔

شانوال جو اس کی سانسوں کو خود میں مد غم کرتا جارہا تھا۔۔۔۔ مسلسل ہچکیوں کی آواز پر سر اٹھا کر۔۔۔۔۔ زرشے کو دیکھنے لگا جس کا پورا چہرہ آنسووں سے تر تھا ۔۔۔۔۔

وہ جھٹکے سے ۔۔۔۔زرشے سے دور ہوتا۔۔۔۔۔ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔

زرشے کا بکھرا حلیہ ۔۔۔۔۔ روئی آنکھیں ۔۔۔۔۔۔اسے پاگل کردینے کو کافی تھیں ۔۔۔۔۔

یہ اس کی منزل نہیں تھی ۔۔۔۔۔ اگر آج وہ یہ قدم اٹھا لیتا تو شاید ہی کبھی زرشے کا اعتبار جیت پاتا۔۔۔۔۔۔

"زرشے ۔۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔۔ میں "

شانوال خود کو کمپوز کرتے ۔۔۔۔اسکے قریب آیا ۔۔۔۔اور دھیمے لہجے میں مخاطب ہوکر بولنے کی کوشش کی ۔۔۔

پر زرشے کا خوف سے برا حال تھا۔۔۔۔۔ وہ سہمی چڑیا کی مانند اپنے دونوں گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے ۔۔۔ کپکپا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

شانوال نے بعد میں بات کرنے کا سوچا اور روم سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔

زرشے اس کے جاتے ۔۔۔۔ اپنی بے قدری پہ پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔۔۔۔ وہ جانتی تھی ۔۔ شانوال خان لمحوں کی گرفت میں اس پر اپنا حق جتا رہا تھا ۔۔یہ پیش قدمی بھی زرشے کو شانوال خان کی کسی چال کا حصہ لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔

"بابا۔۔۔۔ "زرشے کے منہ سے سسکی آزاد ہوئی ۔۔۔ وہ چلتی ہوئی آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔

جہاں نظر آتا عکس ۔۔۔۔. اسے اندھیروں میں دھکیل گیا۔۔۔۔ سرخ انگارہ ہوتے بھیگے لب ۔۔۔۔۔ گردن پر سرخ نشانات ۔۔۔۔ گالوں کی سرخی بکھرا حال ۔۔۔۔۔۔۔ شانوال خان کی شدتوں کے گواہ تھے۔۔۔۔۔۔وہ شخص ساحر تھا۔۔۔۔اپنی زات میں الجھانے کے ہنر سے بخوبی واقف تھا۔۔۔.

یہی شاید زرشے کی بھول تھی۔۔۔۔ شانوال سے بدظن ہونا اسے آگے نئی ۔۔۔۔ازیتوں میں مبتلا کرنے والا تھا۔۔۔۔ محافظ کو ۔۔۔۔ لٹیرا سمجھتی ۔۔۔ وہ سب کھونے والی تھی ۔۔۔۔شاید اس کے حصے میں خسارے ہی لکھے تھے ۔۔. . .

________

قحلم نے جب سے اپنی ماں کو کھویا تھا۔۔۔۔ وہ دنیا کے لیے ایک درندہ بن گیا تھا اس کے دل میں کسی کے لیے رحم باقی نہ تھا۔۔۔۔۔۔ آئے دن اس کی انا کے فیصلوں میں کوئی معصوم ۔۔۔۔سزا بھگتتا ۔۔۔ اور وہ محض تماشائی تھا۔۔۔۔

شانوال خان۔۔۔۔ اور خان حویلی کے لوگوں سے اس کا بیر. . . . . . اب ایک نئی بساط پر پلٹنے والا تھا ۔۔۔۔۔ اس بار یہ بازی کس کس کو داو پر لگانے والی تھی ۔۔۔. کون جانے ۔۔۔ وقت کی بے رحم تھپیڑوں میں جو آنے والے تھے اپنی زندگی کی چند لمحوں کی خوشیوں کو بھی ۔۔۔۔ محروم ہونے والے تھے ۔۔۔

________

نیناں کو سینے سے لگائے سانول اس کے گھنے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسے پر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔ آج وہ ایک بار پھر ٹوٹ کر بکھری تھی ۔۔۔۔

ظلم و بر بریت کی انتہا تھی کہ ایک معصوم عورت اس کی بھینٹ چڑھی ۔۔۔۔ جس کی کوئی غلطی نہ تھی. ۔۔۔۔ سوائے اس کے اس نے محبت کی ۔۔۔۔۔۔ اور وہی محبت اسے کھا گئی ۔.

"سانول ۔۔۔۔ بابا نے بہت غلط کیا۔۔۔۔۔ بہت۔۔۔۔۔ قحلم بھا۔۔۔اور ان کی ماما کا کیا قصور تھا۔۔۔۔۔ کیوں ہوا یہ سب ۔۔۔ کیا ان کے دل میں زرا خوف خدا نہ آیا "

نیناں ۔۔۔۔۔ اپنی سوجی سرخ آنکھوں کو سانول کے چہرے پر گاڑھے اس سے جواب مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔

"نیناں ۔۔۔۔زندگی میں جن لوگوں پر ہم اندھا اعتماد کرتے ہیں وہی ہمارے ساتھ کھیل جاتے ہیں محبتطکا روگ انسان کو کھا جاتا ہے ۔۔۔ ادا سائیں کے وقتی بہلاو نے سب کچھ تباہ کر دیا ۔۔۔۔۔ جس میں دو معصوم زندگیوں نے سب کچھ کھو دیا ۔۔۔۔ قحلم کی محرومیوں کا ازالہ شاید کوئی نا کر سکے ۔۔مگر ہم ان کے لیے دعا کر سکتے ہیں "

سانول اسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔


نیناں اسکی شرٹ مٹھیوں میں جکڑے اپنا غم غلط کرنے میں مصروف تھی ۔۔۔۔ زندگی کی تلخ حقیقیتیں انسان کو کافی بار ۔۔۔۔ یہ باور کراتی ہیں ۔۔۔۔ کہ محبت کے نام لر لٹنے والوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ۔۔۔۔۔ بے قدری جس کی ۔۔۔ ہوتی ہے وہ عورت ہے ۔۔۔ مرد تو ۔۔۔ لباس کی طرح عورت بدلتا ہے ۔۔۔۔ اور پھر پاکیزہ کہلاتا ہے۔۔. . . "


نیناں اس کے سینے سے لگی کوئی چھوٹی بچی لگ رہی تھی ۔۔۔سانول ۔۔۔۔ مبہوت سا اپنے بازوں میں بکھری اپنی متاع حیات کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ جس کا ہر روپ سانول خان ۔۔۔ کو دیوانہ کرتا اسے بے خود ہونے پر اکساتا تھا ۔۔۔.

سانول نیناں کے سر پر تھوڑی ٹکائے ہوئے ۔۔۔ مختلف سوچوں میں گم تھا ۔۔۔ جب اس کا سیل بجنے لگا۔۔۔

سانول نے ہاتھ بڑھا کر . . . . ٹیبل سے فون اٹھایا اور کال پک کی ۔. .

"کیسے ہو سانول ___اور نیناں گڑیا کیسی ہے"


دوسری طرف شانوال خان تھا ۔۔۔ جو اپنے حواسوں پر چھائے خمار سے فرار تلاش کرتا ۔۔۔۔۔ سانول خان کو فون کر بیٹھا تھا۔۔۔


"میں ٹھیک بھا سائیں ۔۔۔ شکریہ میری زندگی مجھے لوٹانے کے لیے اب میری نین ہے میرے پاس ۔۔۔ مجھے بھلا کیا ہونا ہے ۔۔۔ آپ بتائیں سب ٹھیک تو ہے نا زرشے بھابھی کیسی ہیں ۔۔۔۔"۔

سانول کے منہ سے زرشے کا نام سن کر۔۔۔۔۔ شانوال کی نظروں میں کچھ دیر پہلے کے لمحات گزرنے لگے ۔۔۔ جب وہ نازک سی حسینہ ۔۔۔۔ اس کی باہوں میں مقید تھی۔۔۔۔۔۔ اپنی آتی جاتی سانسوں کی شانوال خان کی سانسوں سے الجھا چکی تھی ۔۔۔۔۔ اور شانوال خان نے بھی اس دلفریب کھیل کو اپنی سانسوں کی روانی سے بر قرار رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔


"بھا سائیں __کہاں گم ہو گئے ہیں "

سانول کی آواز سنتے وہ ہوش میں آیا ۔۔۔۔ اور گہرا سانس بھرتے ۔۔۔۔کچھ ضروری ہدایات دیتے نیناں کو واپسی حویلی چھوڑنے کاحکم دیا

"بھا سائیں ۔۔۔۔ یہ ظلم نہ کریں ابھی تو میری بیگم سے صلاح بھی نہیں ہوئی ہے اور آپ ہیں کہ ظالم سماج بنے اسے دور کر رہے ہیں "


سانول تو ا سکی بات سنے بدک کر نیناں کو اپنے حصار میں قید کر گیا ۔۔۔۔ جیسے ابھی شانوال اسے لیجائے گا۔۔۔۔۔۔

اسکی حد درجہ بے باکی پر ۔۔۔۔ سر تا پیر سرخ پڑتی ۔۔۔ اس کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔۔۔۔۔۔

"چھوٹے بات کو سمجھو ۔۔۔ نیناں گڑیا کا تمہارے ساتھ رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے مت بھولو ابھی ہم اصل مجرم تک رسائی نہیں حاصل کر پائیں ہیں ۔۔۔ اس سے پہلے نیناں کو میں کسی امتحان میں نہیں ڈالنا. چاہتا ۔۔۔ آگے تم خود سمجھدار ہو "

شانوال نے اسے ۔۔۔. طریقے سے سمجھاتے اپنی بات مکمل کی اور کال کٹ کر دی۔۔۔۔۔


__________

"کیا ہوا سانول ۔۔۔ آپ ۔۔۔ اداس کیوں ہیں"


نیناں نے سانول کی آنکھوں میں اترتی سرخی دیکھ اپنے مومی ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامے ۔۔۔۔۔ محبت سے استفسار کیا تھا

سانول اس کی آنکھوں کے بھنور میں ڈوبتا اس کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کر گیا ۔۔۔ شاید چھوڑ جانے کا خدشہ تھا ۔۔۔۔۔


"نیناں میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔ میری سانسیں اٹکنے لگتیں ہیں تمہاری دوری کے احساس سے جسم و جان سلگنے لگتے ہیں کوئی مجھے کیوں نہیں سمجھتا ۔۔۔۔۔

سانول بے بسی سے نیناں کی پیشانی سے پیشانی ٹکراتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔۔۔

نیناں کو اس کی محبت پر رشک آیا تھا۔۔۔۔۔. مگر وہ اب کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔۔۔


"سانول. آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں ۔۔۔ آپ کا عشق مجھے کبھی آپ سے دور نہیں ہونے دے گا ۔۔۔۔ ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے ۔۔۔ بس یہ کچھ وقت کی دوری برداشت کر لیں ۔۔۔ شانوال بھا نے کچھ سوچ کر ہی آپ کو کہا ہو گا۔۔۔۔"


نیناں دلکش لب و لہجے میں ۔۔۔۔۔ بولتی اسے مبہوت کر گئی تھی ۔۔۔۔

سانول نے بے ساختہ ۔۔۔ اس کی پیشانی ۔۔۔۔۔چومی تھی ۔۔۔۔ دل کی دنیا زیرو زبر ہوئی تھی ۔۔۔۔

محبت کا تناور درخت ۔۔۔۔ جنون کی بنیاد پر نہیں اعتماد کی بنیاد پر ہونا چاہیے تاکہ کبھی ہجر کی نوبت آئے تو ہر بار اپنے ساتھی کو اپنے ساتھ کا احساس دلا سکیں ۔۔۔۔

_________


شانوال رات گئے تک قحلم کی تلاش میں لگا رہا اپنے آدمیوں سے اسے خبر ملی تھی کہ قحلم آج اپنے باس سے ملنے جائے گا۔۔۔ اسی لیے شانوال نے اس پر کڑی نظر رکھی ۔۔۔۔۔۔

شانوال کی گاڑی قحلم کی جیپ کے پیچھے ہی تھی ۔۔۔۔۔۔ پر جس راستے کی طرف وہ جارہا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھ ۔۔۔۔ شانوال کا دماغ سن پڑنے لگا ۔۔۔۔۔ اس نے دل میں دعا کی کہ کاش جو وہ سوچ رہا ہے سب جھوٹ نکل آئے اور ویسا نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔

قحلم جیپ سے اترتا ایک گھر کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔ شانوال نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے پیچھے ہی قدم بڑھائے ۔۔۔۔۔

قحلم نے دروازہ کھولا اور اندر جاتے ہی دوبارہ بند کر دیا۔۔۔۔۔۔ شانوال ارد گرد نظریں دوڑانے لگا کہ اندر کا ماجرہ جان سکے ۔۔۔۔۔۔تبھی اس کی نظر گھر کے دوسری طرف بنی کھڑکی کی جانب گئی شانوال جلدی سے اس طرف بڑھا اور آہستہ سے کھڑکی کا پٹ وا کیے ۔۔۔ اندر جھانکنے کی کوشش کی ۔۔۔۔

جہاں سامنے ہی قحلم تھا اور اس کی پشت کی جانب ایک اور شخص ۔۔۔۔ جو مکمل بلیک کپڑوں میں ملبوس تھا شانوال اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا ۔۔۔۔۔ مگر اب اس کا دھیان مکمل ۔۔۔ ان آوازوں پر تھا جو اندر سے آرہی تھیں. ۔۔۔۔

قحلم اپنے باس کو غصے سے سارا ماجرہ بتا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر باس کی آواز سنتے ۔۔۔۔ شانوال کو لگا ۔۔۔ کمرے کی چھت اس کے سر پر آگری ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔۔۔ کہ یہ شخص قحلم کا باس ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

وہ جلدی سے اپنے آدمیوں کو کوئی مسیج کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔ آج شاید قدرت اس کے ضبط کا امتحان لے رہی تھی ۔۔۔ زندگی مِیں ۔۔۔ کبھی نا ہارنے والا شانوال خان ۔۔۔۔آج اچنبھت تھا ۔۔۔۔

_______

نیناں کی پیشانی ہر بار بار بوسہ دیتے سانول ۔۔۔۔ اس کے پاس ہونے کا یقین کر رہا تھا۔۔۔۔۔

دل اس کی آتی جاتی سانسوں کو سنتا ۔۔۔۔۔ ہر طرف سے بے بہرہ ہو چکا تھا ۔۔۔

نیناں نے آہستہ سے اس کا سر گود میں رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی سرخ آنکھوں ہر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔۔

وہ چاہتی تھی کہ سانول کچھ دیر آرام کرے۔۔۔۔۔۔

پر سانول کا ردعمل اس کے بر عکس تھا وہ نیناں کا ہاتھ جھٹکتا ۔۔۔ بچے کی طرح اٹھ بیٹھا ۔۔۔۔۔

"تم اسی لیے سب کر رہی ہو نا مجھے چھوڑ کر جانا چاہتی ہو بولو ۔۔۔۔۔ مگر اس بار میں ایسا نہیں ہونے دوں گا.۔۔۔ نیناں صرف سانول کی ہے ۔۔۔۔۔ "

نیناں اس کی جنونیت پر بے بسی سے آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔۔ یہ شخص اپنے اظہار کے معاملے میں کبھی کنجوسی نہیں کر سکتا تھا ایسا نیناں کا مانناتھا ۔۔. .


"آپ کی محبت میرے وجود میں خون کی روانی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔۔۔۔ آپ کی یہ بے قرار دھڑکنے آپ کا ہر راز مجھ تک پہنچا دیتی ہیں تو بھلا میں آپ سے دور کیسے جا سکتی ہوں ۔۔۔۔ کوئی سانسوں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے کیا "


نیناں نے بنا کچھ کہے اس کے دل کے مقام ہر ہاتھ رکھتے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی

سانول نے اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ ننھا سا بطہ تھا نیناں کے لیے جس کی زرا سی دوری اس کی جان پر بنا رہی تھی ۔۔۔۔۔

_________

زرشے جلدی سے واش روم میں بند ہوئی ۔۔۔۔

شاور آن کرتے شانوال خان کے لمس کو اپنےو جود سے مٹانا چاہا ۔۔۔ دل کی دھڑکنوں کی بغاوت ہر نا جانے اس نے کتنی بار خود کو لعن طعن کی تھی ۔۔۔۔ وہ ایسی نہیں تھی جیسا شانوال خان بنا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

زرشے اپنے لب رگڑتی انہیں مزید سرخ کر گئی تھی ۔۔۔۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ خود کو وجود سے ہر وہ حصہ الگ کردے جس پر شانوال خان کا جھلساتا لمس موجود تھا ۔۔۔۔۔

زرشے کو لگ رہا تھا اس لمس کی حرارت سے اس کا پورا وجود جل کر راکھ ہو جائے گا ۔۔۔۔

وہ چیخ کر اپنے بال نوچتی وہیں بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔


"شانوال خان۔۔۔۔۔ تمہاری انا عزیز ۔۔۔۔ تمہارا غصہ سر ماتھے پر۔۔۔۔تمہاری دھتکار منظور ۔۔۔۔۔ بس یہ محبت کا کھیل ۔۔۔۔۔لمحوں یی گرفت ۔۔۔۔۔ مجھ پر مت کرو مر جاوں گی میں "


زرشے روتے ہوئے خود سے سر گوشی کی تھی۔۔۔۔پر وہاں کون تھا جو اس دل نادان کی سنتا ۔۔۔۔۔

آج زرشے کو شدت سے اپنے کمزور ہونے کا احساس ہوا تھا ۔۔۔ ہاں وہ کمزور تھی شانوال خان کے سامنے اس کی زات محض چند لمحوں کا کھیل تھی ۔۔۔۔۔۔وہ چاہ کر بھی خود کو اس دیو کی قربت سے آازاد نہیں کرا پائی تھی۔۔۔۔۔ وہ کیسے اس کی سانسوں پر دسترس حاصل کر گیاتھا۔۔۔۔۔۔

عورت ہر بات ہر سمجھوتہ کر لیتی ہے پر مرد سے ملنے والی محبت پر سمجھوتہ نہیں فیصلہ کرتی ہے. . . . ۔ کیونکہ نکاح میں آنے والی عورت کا واحد سر براہ اس کا محرم ہوتا ہے ۔۔۔۔جس پر وہ ماں باپ کے بعد سب سے زیادہ اعتبار کرتی ہے اس کی محبت میں کھوٹ نکل آئے تو عورت سونا ہوکر بھی مٹی بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔

_____

ہائے ۔۔۔۔۔۔کیسے ہو۔۔۔۔قحلم ۔۔۔۔۔"


ایک خوبصورت سی لڑکی ۔۔۔۔چلتی ہوئی قحلم کے قریب آئی ۔۔۔۔۔۔اور بے باک انداز میں. ۔۔۔اس کے گالوپہ انگلیاں چلاتے ۔۔۔ہوئے بولی. ۔۔۔۔


"ڈونٹ بی اوور سمارٹ بے بی ۔۔۔۔آئی ایم دی کنگ "


قحلم اس کا اپنے چہرے پر گردش کرتا ہاتھ پیچھے کمر سے لگاتا ہوا پھنکارہ تھا۔۔۔۔۔


قحلم کو سمجھ آرہا تھا ۔۔۔۔کہ وہ کس ارادے سے اس کے قریب آرہی ہے۔۔۔۔۔۔ اور کس نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔اس لیے وہ چاہنے کے باوجود ۔۔۔بھی وہ اسے سخت سے سخت نہیں سنا پایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔آج کا دن ۔۔۔۔ اس کے لیے ۔۔۔۔کافی مصروف تھا ۔۔۔۔


نگین ۔۔۔۔۔ اپنے ہاتھ پہ اس کی سخت گرفت محسوس کرکے۔۔۔۔سسکی تھی ۔۔۔.

_______

بڑی بیگم کو شانوال کے ساتھ ۔۔۔زرشے کی موجودگی انگاروں پر لوٹا گئی تھی ۔۔۔۔

وہ فورا اپنے وفادار ملازم کو ۔۔۔۔۔فارم ہاوس روانہ کر چکی تھیں ۔۔۔۔

شانوال کا ۔۔۔۔۔ اس لڑکی کے ساتھ ہونا ان کے لیے کسی خطرے سے خالی نہیں تھا۔۔۔۔۔

اسی لیے وہ ۔۔۔۔ مضطرب سی پوری حویلی میں بولائی بولائی سی پھر رہی تھی۔۔۔۔۔

بار بار شانوال کو فون کرنے پر ۔۔۔۔بھی شانوال نے کال پک نہ کی تھی۔۔۔۔یہ ان کے لیے حیرت انگیز بات تھی ۔ ۔۔۔ شانوال خان ۔۔۔۔۔۔ کسی لڑکی کی زلفوں کا اسیر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ اس بات پر یقین کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں ۔۔۔۔۔۔

________

زرشے کی آنکھ عشاء کے وقت کھلی وہ کسلمندی سے آنکھیں کھولتی۔۔۔۔۔۔ جلدی سے وضو کرنے چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ارادہ نماز پڑھ کے تلاوت کرنے کا تھا ۔۔۔۔ ویسے بھی کافی دنوں سے اس نے تلاوت نہیں کی تھی ۔۔۔

زرشے فیروزی سوٹ میں ملبوس۔۔۔۔۔۔ بڑی سی نیوی بلیوشال نماز سٹائل میں اوڑھے ۔۔۔۔ جا نماز پر جا کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔

آنکھوں سے بے ساختہ ۔۔۔۔۔آنسووں کا جھرنا ۔۔۔۔۔بہنا شروع ہوئے ۔۔۔۔۔ اس کا پورا چہرہ آنسووں سے تر تھا۔۔۔۔۔دعا کے لیے اٹھے ہاتھ اپنی خالی لکیروں سے الجھ بیٹھے تھے آخر کیا لکھا تھا اس کے نصیبوں میں کب تک یوں بے آسرا رہنا تھا ۔. کیا واقعی شانوال خان اس کا سائبان تھا ....

کیا اس کی زندگی میں صرف تڑپنا رہ گیا تھا۔ ۔ ۔ آج وہ اپنے رب کے آگے فریادی تھی جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔۔۔۔۔

سب کچھ بدل رہا تھا شانوال خان بھی ۔۔۔۔ا س کی محبت بھری سر گوشیاں زرشے کو پل بھر کی خوشی دیکر ازیتوں کے تپتے صحرا میں لا چھوڑتی تھیں ۔۔۔۔

مضبوط بننے کے چکر میں وہ کمزور ہوتی جارہی تھی۔ ۔۔۔۔ خوشیاں تو مانو کہیں دور جا سوئی تھیں ۔ ۔۔۔کتنے ماہ ہو گئے تھے اپنے بھائی ماں باپ سب کو دیکھے۔۔۔۔.۔۔۔ ایک سونے کا پنجرہ تھا ۔۔۔زرشےحاقان باندی ۔۔۔۔.

وہ اپنے رب سے حال دل بیان کرکے اٹھی اور قراآن پاک کی تلاوت کرنے لگی۔۔۔۔بار بار آنکھیں نم ہورہی تھیں ۔۔۔۔پر روح شاید ہرسکون ہو تی جارہی تھی ۔۔۔ ۔زرشے نے تلاوت کے بعد عقیدت سے قرآن پاک کو چومتے سینے سے لگایا ۔۔۔. ایک پر سکون لہر اسے اپنے اندر تک اترتی محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔

رب سے بہتر اس کی مخلوق کو کون جان سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ انسان کا سکون الله کے زکر میں پوشیدہ ہے. . . . . . یہی سکون آج بے چین سے زرشے کو ملا تھا. . . . . .

_________

نیناں کچھ دیر پہلے حویلی کے لیے نکل چکی تھی ۔. .

سانول خود اسے باہر تک چھوڑنے آیا تھا۔ ۔۔۔

پر اب اسے جلد از جلد ۔۔۔۔۔اس پلین کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا تھا. . . .

نیناں خان ۔۔۔۔کو وہ کسی صورت خطرے کی نظر نہیں کر سکتا تھا اسی لیے. . . . بنا ضد کیے مان گیا۔. .

سانول اندر آیا اور اپنے ملازم کو ۔۔۔۔۔آواز دی ۔۔۔۔۔

جو مودب انداز میں اس کے سامنے کھڑا حکم کا منتظر تھا۔۔۔۔

سانول نے اسے سر جھکائے دیکھ کوفت سے سر جھٹکا ۔. .


"کتنی بار آپ سب سے کہا ہے کہ یوں۔۔۔میرے سامنے سر مت جھکایا کریں۔۔۔آپ لوگ کام کرتے ہیں ہمارے لیے. ۔۔زرخرید غلام نہیں ہیں "


سانول بڑھکیلے انداز میں اپنے تئیں سمجھارہا تھا۔۔.


"جی سوہنا سائیں ۔۔۔۔۔اب ایسا نہیں ہوگا "۔


ملازم بھی اس کی بات پر ۔۔۔۔سر ہلاتے۔. . . . اپنے سائیں کی زندگی کے لیے دعا کرنے لگے ۔۔۔۔سانول خان ۔۔۔۔کی بات ہی نرالی تھی اسے شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتا تھا.

سانول نے اپنے کپڑے نکالنے کا کہا اور خود کمرے کی جانب بڑھ گیا۔. . . نیناں کے جانے پر ایک یاسیست سی چھائی ہوٙئی تھی. . . .

"تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔۔۔اب مجھ سے نہیں بچ سکتے ۔۔۔۔۔تمہارے کھیل میں ہی تمہیں مات نا دی تو میرانام بھی سانول خان نہیں ۔۔۔۔بہت بھیانک انجام ہوگا۔۔۔۔خان سے ۔۔۔۔کھیلنے کا "


وہ گھائل شیر تھا۔۔۔۔۔ناجانے کونسا قہر ڈھانے والا تھا ۔۔۔۔۔

_______

نیناں سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے بیٹھی ۔۔۔۔۔سانول خان کو سوچ رہی تھی۔۔۔اس کا اظہار انداز محبت ۔۔۔۔۔۔ آنکھوں میں جذبات کی فروانی ۔۔۔۔۔نیناں سانول خان کی جان پر بنا گئی تھی ۔. . .

سانول خان کا عشق ۔۔۔۔۔ نیناں خان سے زیادہ گہرا تھا ۔۔۔۔.

نیناں خان تو تنکے کی مانند اس پر شوق سمندر میں بہنے لگی تھی ۔۔۔.

کیونکہ سانول خان ۔۔۔۔۔صرف نیناں خان کا عشق نہیں محرم تھا جسے دعاوں میں مانگا تھا ۔۔۔۔اور دعاوں میں مانگے جانے والے لوگ انمول ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔

نیناں گم سم سی تھی۔۔۔۔

جب گاڑی جھٹکے سے حویلی کے سامنے رکی ۔۔۔۔

نیناں بھی گہرا سانس بھرتی ۔۔۔۔اپنی شال کو اچھے سے لپیٹتے اندر قدم بڑھا گئی ۔۔۔

دل سہما ہوا تھا کہ سب کے سوالوں کے کیا جواب دے گی ۔۔۔۔۔

نیناں نے جونہی لاونج میں قدم رکھا اس کا سامنا تائی سائیں سے ہوا۔۔۔۔

جو جلے پیر کی بلی کی مانند ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

نیناں نے حلق تر کیا۔۔۔۔.

اپنے پیچھے آہٹ پاتے۔۔۔۔انہوں نے پلٹ کر دیکھا اس پہر. ۔۔۔۔نیناں کو اپنے سامنے دیکھ ۔۔۔۔۔۔ انہیں۔۔۔۔۔کسی ۔۔۔انہونی کا احساس ہوا۔۔۔۔۔

"نیناں سانول خان۔۔۔۔کب سے اتنی ازاد ہو گِئی کہ یوں ۔۔۔۔باہر گھومتی پھرو۔۔۔اور وہ بھی میری اجازت کے بنا ۔۔۔۔کیا تمہارا ہوپ اتنا کھل گیا ہے۔۔۔۔ہاں"

تائی سائیں ۔۔۔اس کے مقابل کھڑی ہوتیں سخت لہجے میں باز پرس کرنے لگیں ۔۔۔

نیناں تو اچانک ان کے سوالوں پر بوکھلا سی گئی ۔۔۔. .

"وہ ۔۔۔نہیں ۔۔۔میں تو ۔۔۔۔"

نیناں نے جھجھکتے بات مکمل کرنی چاہی تھی ۔۔۔۔جب ان کا سیل بجنے لگا ۔۔۔۔۔۔نیناں نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔۔

تائی سائیں نے شانوال خان کا نمبر دیکھ ۔۔۔فورا کال پک کی۔۔۔۔۔


"شانوال خان ۔۔۔۔۔اپنے ۔۔۔۔دل بہلانے کے بعد یاد آگیا تمہیں کہ کوئی تمہاری ماں بھی ہے۔۔۔۔۔یا اب بھی فرصت نہیں ملی ۔۔۔۔۔ اس چال باز لڑکی نے پھنسا ہی لیا نا تمہیں اپنے دام میں ۔۔۔۔ "


ان کی آوا ز میں زرشے کے لیے بے پناہ نفرت تھی۔۔۔۔۔۔جسے سنتے شانوال خان نے سختی سے لب بھینچے تھے ۔. .


"آپ اس طرح بار بار زرشے کے کردار کو مہرہ نہیں بنا سکتیں اماں سائیں. . . . وہ جیسی بھی ہے میری بیوی ہے۔۔. میں کتنا بھی اپنا دل بہلاوں یہ سراسر میرا زاتی معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔بے فکر رہیں آپ کی دشمنی کو نہیں بھولا ہوں ۔۔۔۔۔یہی بتانے کے لیے فون کیا تھا۔۔۔۔نیناں۔۔۔کو ہم نے بلوایا تھا ۔ ۔ ۔۔. ہمیں کچھ سائن چاہیے تھے سانول کے کام کے لیے تو ۔۔۔۔آپ غصہ نہ کریں ۔۔۔۔۔باقی باتیں گھر آکر کرتا ہوں "۔۔

اپنے بپھرے لہجے میں وہ انہیں اچھی طرح ہر بات باور کرا کے کال کاٹ چکا تھا۔۔۔۔

نیناں تب تک ان کی نظروں سے بچتی اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔. . . .

_________

ارتضی کو یہاں آئے مہینہ ہونے کو تھا اس نے حویلی کے یر فرد سے جیسے ناطہ توڑ لیا تھا۔۔۔۔۔۔سواِئے اپنی ماں کے جو اس کی محبت میں روز ہی حویلی آنے کا کہتیں ۔۔ پر ارتضی کسی نا کسی کام کا بہانہ کرکے انہیں ٹال دیتا۔۔۔

یشفہ کی بے اعتباری نے ارتضی حاقان کو بری طرح توڑا تھا ۔۔۔۔. وہ اب ہر چیز سے بیزار خود کو مشین بنا چکا تھا سارا دن رات اس کا آفس میں ہی گزرتا ۔۔۔کچھ دیر کے لیے فلیٹ آتا. . . . . . اور پھر سے وہی روٹین ۔۔۔۔۔وہ بھاگ رہا تھا ۔۔۔خود سے دل میں ہوتے درد سے ۔۔. . . یہاں آنے کے بعد بھی اسے انتظار رہا کہ شاید وہ ظالم لڑکی ایک بار کال کرے اس سے معافی مانگ لے۔۔۔۔پر ارتضی کا انتظار ۔۔۔۔انتظار ہی رہا ۔۔۔۔۔

محبت بھی عجب شے ہے. . . . جہاں مان ہو ۔۔۔وہاں اعتبار نہ ہو۔۔۔تو بکھرنے کے لیے سہارا بھی موجود نہِیں ہوتا ۔۔۔۔۔محبت کی ہر خوبصورتی ۔۔۔۔ دونوں فریقوں میں اعتبار کی بنیاد پر ہوتی ہے۔۔۔۔جہاں اعتبار کا سکہ ۔۔۔ڈگمگایا ۔۔۔۔وہیں قسمت پلٹ جاتی ہے. . . .


ارتضی دن رات کی بے آرامی کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔مر جھا سا گیا تھا. ۔. نعمان بھی اکثر اس کےپاس آتا جاتا رہتا تھا ۔۔۔۔ پر ارتضی کا حال ۔۔۔دیکھ وہ یہاں آنا چھوڑ چکا تھا۔۔۔۔کتنی بار وہ اس سے کہہ چکا تھا ۔۔۔حویلی جا نے کا خود کو سنبھالنے کا۔۔۔۔۔بہت بار کوشش کر چکا تھا. ۔۔ پر ارتضی نے تو اپنی ذات سے ہی بیر باندھ لیا تھا۔۔۔۔

کہ نعمان بھی پیچھے ہٹ گیا۔۔۔۔وہ وقت دینا چاہتا تھا ارتضی کو۔۔۔۔

پر ارتضی شاید اب خود کو برباد کرنے کی ٹھان چکا تھا۔۔۔۔

آج بھی جب حویلی سے کال آئی تو ۔۔۔دل میں اس سنگدل لڑکی کے لیے امید سی جاگی کہ کاش دوسری طرف ۔۔۔۔یشفہ کی آواز سننے کو مل جائے ۔۔۔ مگر یہ دیوانے کا خواب ہی رہا۔۔۔۔آنکھوں کی سرخی مزید بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔سر خ و سفید رنگت میں۔۔۔۔۔آتش سا برپا ہوا تھا۔۔.

"ارتضی ۔۔۔بیٹا. ۔۔کب آنا ہے تم نے ۔۔۔۔۔اب تم بھی مجھے تڑپاو گے۔۔ ۔اپنی بہن کی طرح "

ان کی بھیگی آواز سنتا ارتضی شرمندہ ہوا. ۔۔وہ ماں تھیں ان کا کیا قصور تھا اس سب میں ۔۔۔۔۔۔وہ تو پہلے ہی بیٹی کی جدائی پر کمزور پڑ چکی تھیں ۔.


" اماں سائیں آپ رو ئیں مت میں صبح ہی حویلی چکر لگاوں گا ۔۔. . پر ایک شرط پر ۔. . کہ آپ مجھے رکنے پر مجبور نہیں کرینگی. ۔. "

ارتضی نے ان کے سامنے اپنی ۔۔۔۔۔شرط رکھی تو چارو ناچار انہیں ماننا پڑا۔۔۔۔۔ان کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ آرہا ہے ۔. .

"ٹھیک ہے میرے شہزادے. . . بس اب تم آجاو اپنی ماں کو مزید نہ ترساو۔۔۔۔۔"۔

ان کی تڑپ اتنی دور بیٹھا ارتضی محسوس کر چکا تھا۔. . تبھی انہیں ریلیکس کرتا ان کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔۔ ۔کل کیا ہونے والا تھا کس کو خبر تھی ۔. . .

_____،،

زرشے نیچے آئی تو کوئی موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔وہ لاونج میں ہی کاوچ پر آبیٹھی. ۔. . . ابھی اسے بیٹھے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ کچھ نقاب پوش اسے اندر آتے دکھائی دیے زرشے خوف زدہ ہوتی وہاں سے بھاگنے لگی ۔۔۔.

اس سےپہلے کہ وہ بھاگتی ۔۔۔ان میں سے ایک پھرتی سے آگے بڑھتا. . . . . زرشے کو بازو سے دبوچ گیا۔۔.

"کہاں بھاگ رہی ہے۔۔۔۔۔چھمک چھلو۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں خوش نہیں کرے گی. . . . . "

وہ خباثت سے زرشے کے سراپے پر نظر گاڑھتے بولا۔۔۔۔۔۔زرشے مزاحمت کرتی اپنا آپ چھڑانے لگی ۔۔. پر وہ نازک سی لڑکی کہاں تک مقابلہ کر سکتی تھی ۔. .


اس سے پہلے کہ زرشے چیختی ۔۔۔۔ نقاب پوش اس کے منہ پر رومال رکھتا بیہوش کر چکا تھا۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ فارم ہاوس خالی تھا۔۔۔۔۔ شانوال خان کہاں تھا۔۔۔۔کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔ زرشے حاقان کی زندگی میں اب درد کے کونسے باب نے دستک دی تھی ۔


__________

زرشے کو لیے وہ ایک خالی بلڈنگ میں آئے تھے ۔۔. .

زرشے ہوش میں آتے ہی چیخنے لگی تھی. . ۔۔۔وہ بےبسی کی آخری حد پر تھی

میرے وجود کے ٹکڑے بھی کر دیے جائیں تب بھی ان پر شانوال خان کی مہر لگے گی تم جیسے لوگ میرے خان ۔۔۔کے پاوں کی خاک کے برابر بھی نہیں ۔۔۔۔۔"

زرشے اسے نخوت سے دیکھ کر غرائی تھی ۔۔


"اچھا چلو دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔اب کیسے بچائے گا تمہارا خان"


۔۔۔۔۔ان میں سے ایک آگے بڑھتا تیزی سے زرشے کا دوپٹہ دور اچھا چکا تھا ۔۔۔۔۔زرشے بے بسی سے بلند آواز میں چیخ اٹھی. . . . . .


"مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔پلیز تمہیں خدا کا واسطہ ۔۔۔۔۔ "

زرشے اس کے ہاتھ اپنی گردن پر محسوس کرتی پاگل ۔۔۔۔ہوتی سر ادھر ادھر مارنے لگی تھی. ۔. .

سب اس کی بے بسی پر قہقے لگانے لگے. . . . . .

کہ اچانک کمرے میں ۔۔۔۔ چٹاخ کی آوز گونج اٹھی۔۔۔۔زرشے کا گال ۔۔۔۔بھاری ہاتھ پڑتے سنسنا اٹھا تھا ۔۔۔۔اس حیوان کو اپنے اس قدر قریب دیکھ ۔۔۔۔دل نے شدت سے اپنی موت کی دعا مانگی تھی. . . . . .

"شانوال خان ۔۔ مجھے معاف کردو میں تمہاری ۔۔۔۔۔امانت کی حفاظت نہیں کر پائی ۔۔۔۔۔۔"

یہ آخری الفاظ تھے ۔۔۔۔جو اس نے بیہوش ہونے سے پہلے کہے. . ۔ اس کے بعد کیا ہوا۔۔۔۔. صرف خدا کو خبر تھی کونسا قہر ٹوٹنے والا تھا. ۔. .

باہر بارش زور و شور سے برس رہی تھی۔۔۔۔۔وہ بھی زرشے حاقان کے نقصان پر آبدیدہ تھی ۔۔۔۔


اک پیار کا نغمہ ہے موجوں کی روانی ہے ۔۔۔. .

زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے۔۔۔۔. .


______

ارتضی صبح ہی حویلی پہنچ چکا تھا. . . . . . . ماں کی طرف سے پر تپاک استقبال نے اس کے چہرے پر ہلکی سے مسکان بکھیر دی تھی. . . .

وہ کیسے بھلا اپنی ماں کو دکھ دے سکتا تھا ۔۔۔۔۔جنہوں نے صرف ان کے خاطر ۔۔۔۔ اپنا سب وار دیا. . . . وہ کافی دیر ان کےپاس. بیٹھا ان کے شکوے سنتا مسکرا رہا تھا. . .

ارتضی اماں سائِیں سے مل کر سیدھا اپنے روم میں آیا تھا ۔

وہ روم میں داخل ہواتو پورا روم اندھیرے میؑ ڈوباہوا تھا ۔۔۔۔۔

ارتضی ویسے بھی کافی تھکا ہوا تھا. . . . . وہ لائٹ اون کرنے کے بجائے سیدھا اپنے بیڈ پر ڈھے گیا. . . . .

ارتضی ابھی لیٹا ہی تھا ۔. کسی کی نسوانی چیخ پر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ۔۔اور جلدی سے سائیڈ لیمپ اون کیا ۔. . اپنے سامنے نیند سے بوجھل آنکھیں لیے یشفہ ۔۔۔کو بیٹھا دیکھ ۔. . . دل میں ہلچل سی ہوئی تھی حیرت کی بات یہ تھی ۔۔۔۔کہ وہ یہاں اس کے کمرے میں کیوں تھی

"تم۔۔۔۔یہاں میرے روم میں کیا کر رہی ہو ؟؟؟؟؟

ارتضی کرخت آواز میں اس سے سوال گو تھا. . . . .

یشفہ پورے مہینے بعد اسے سامنے دیکھ ۔۔۔۔آنسووں سے بھری آنکھوں میں ڈھِیروں شکایت لیے اس کے سینے سے جالگی تھی۔۔۔۔. .

دونوں میں ایک لفظ کا تبادلہ نہیں ۔۔۔۔ہوا تھا۔۔۔۔

یشفہ اپنی کمزور باہیں اس کی کمر کے گرد ہائل کیے سختی سے ارتضی کی شرٹ مٹھیوں میں دبوچے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔۔جیسے کبھی الگ نا ہونے کا ارادہ ہو۔۔۔.

ارتضی تو اس کے ردعمل پر حیران ساسن رہ گیا تھا. . . . . یشفہ کے آنسووں سے ارتضی کو اپنی شرٹ بھیگتی محسوس ہوئی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ ارتضی اس کے گرد اپنا حصار باندھتا۔۔۔۔۔۔ یشفہ کے پر ازیت لفظوں کی بزگشت اس کے کانوں میں صور کی مانند چلنے لگی۔۔. .

"کہاں تھے آپ۔۔۔۔۔آپ تو محبت کرتے ہیں مجھ سے پھر ایسا کیوں کیا ۔۔۔ایک بار میری یاد نہیں آئی. . . . . میں کبھی معاف نہی کروں گی آپ کو ارتضی کبھی نہیں "

وہ سوں سوں کرتی ارتضی سے شکوہ کناں تھی ۔۔۔۔جو بے تاثر چہرہ لیے اسے خود سے پرے دھکیل گیا۔. . .


"یشفہ بی بی ۔۔۔۔۔میں وہی حوس پرست انسان ہوں جو رات کےا ندھیرے میں تمہارا فائدہ اٹھا چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے یہ ہمدردی کس لیے۔۔۔ میرے لیے جو ازیت چنی ہے کافی ہے ۔۔۔۔۔اب تمہارا قریب ہونا موت کے مترادف لگ رہا ہے۔. . . مجھ سے باز پرس کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتی ہو اب تم "


ارتضی شہادت کی انگلی اٹھاتا اسے سخت لہجے میں باور کراتے بولا

آنکھیں ضبط سے سرخ پڑنے لگیں تھیں. . . پورا مہینہ اس سنگدل لڑکی کے انتظار میں گزارہ تھا۔۔۔۔ اسے دیکھنے کی چاہ نے ارتضی حاقان کو سکون تہس نہس کر دیا تھا وہ چاہ کر بھی ۔۔۔۔ اس ظالم پری کے لیے خود کو سخت نہیں کر پایا تھا۔۔۔پر وہ اب یشفہ کو اس کی بے اعتباری کی سزا دینا چاہتا تھا۔۔۔۔.


"آپ ۔۔۔آپ مجھ پر ظلم نہیں کر سکتے آپ پر صرف اور صرف میرا حق ہے۔۔۔۔۔۔ سنا آپ نے میرے علاوہ کسی کے بارے میں سوچا بھی تو. جان لے لوں گی آپ کی بھی. . ۔اور اپنی بھی ۔۔۔۔"۔

یشفہ اس کے دل جلانے والے انداز سے خائف ہوتی گریبان مٹھی میں جکڑ گئی تھی

سوں سوں اب بھی جاری تھی ۔۔۔۔۔جس پر ارتضی نے کوفت سے آنکھیں گھمائیں کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا. . . . .

"میڈیم آپ کا ہوگیا تو آپ میرے روم سے جاسکتی ہیں مجھے سونا ہے ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر کوئی اور جرم عائد کردیں ۔۔۔۔"

ارتضی نے اس کے ہاتھ اپنے کالر سے جھٹکتے کہا تھا. . . . .

یشفہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے روٹھے صنم کو دیکھ رہی تھی. ۔۔۔۔اس کے جانے کے بعد ہی یشفہ کو اپنے تلخ لفظوں کا احساس ہو چکا تھا۔. کافی بار اس نے ہمت کی تھی ارتضی سے معافی مانگنے کی مگر۔۔۔۔ ہر بار ہمت ٹوٹ جاتی. . . . . . ارتضی سے دور ہونا کسی صورت منظور نہ تھا۔۔۔۔سر آنکھوں پر بٹھانے والا شخص اچانک بے رخی برتنے لگے تو کیسا لگتا ہے یہ کوئی اس وقت یشفہ سے پوچھتا. . .

ارتضی وہاں سے ہٹنے لگا ۔۔۔۔جب اتنی ہی تیزی سے اسے روکنے کو آگے بڑھتی یشفہ کے لب ارتضی کے لبوں سے ٹکرائے تھے۔۔۔۔۔.

یشفہ ساکت سی سانس تک روک گئی تھی ۔۔۔۔۔دل کی دھک دھک کانوں میں سنائی دینے لگی تھی ۔۔۔

ارتضی خود اس اچانک صورت حال پر بھونچکا تھا. . . . . دل میں جذبات کا طوفان امڈ آیا تھا ۔۔۔۔ارتضی ضبط کے کڑے مراحل سے گزرتا۔۔۔۔۔فورا پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔۔

یشفہ چور نظروں سے اس کی جانب دیکھتی اپنی سانس بحال کر رہی تھی جو اس کی زرا سی قربت پر پھول گئی تھی

یشفہ جلدی سے وہاں سے جانے لگی۔۔۔۔ کارپٹ پر پاوں اڑنے سے وہ گرنے لگی تھی ۔۔۔تبھی دو مضبوط باہوں نے اسے اپنے حصار میں لیتے گرنے سے محفوظ کیا تھا۔۔۔۔

یشفہ۔۔۔۔ناراضگی میں بھی اسے اپنی جانب متوجہ پاکر سسک اٹھی تھی۔۔۔۔۔واقعی اس شخص کی محبت انمول تھی ۔. . . کسی مضبوط تناور درخت کی طرح جو ہر سر د و گرم سے اسے بچا سکتا تھا۔۔۔.

یشفہ بنا کچھ کہے۔۔۔۔۔۔بھی اپنی التجا اس تک پہنچا چکی تھی. . . .

ارتضی نے اسے سیدھا کرتے رخ موڑنا چاہا ۔۔۔. پر یشفہ کے اگلے قدم نے اس کے سارے احساسات منجمد کر دیے. . . ۔۔۔

وہ ہمت کرتی ایک بار پھر اس کے سامنے آتی. . . . . اس کے دونوں بازوں کو اپنی کمر پر باندھے خود اس کے سینے سے لگ گئی تھی. . . . .

ارتضی کے حصار میں کھڑی وہ کوئی چھوٹی بچی معلوم ہورہی تھی. . . . .

ارتضی سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔سب کچھ وہ بے سکون تھی ۔۔۔۔. اس کا بکھرا حلیہ. . . . . گواہ تھا. . . کہ وہ اپنی غلطی پر پیشمان ہے۔۔. اس کی اس پیش قدمی نے ارتضی حاقان کو زرا پگھلایا تھا۔. .


ارتضی نے بھی اس کے بالوں پر نامحسوس انداز میں لب رکھتے. . . کمر کے گرد ہائل بازوں پر دباو دیتے یشفہ کو اپنے پاوں پر کھڑا کیا تھا۔۔۔۔۔۔

"بیگم۔۔۔کیوں اپنی ننھی سی جان پر اتنے ظلم کرتی ہو جب میری ناراضگی برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے تو۔۔. "۔

ارتضی اسے یوں ہی اپنے ساتھ لگائے بولا تھا. . .


"کیوں کہ مجھے اپنے جن کو تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے ۔۔ مجھے کیا معلوم تھا یہ جن ڈریکولابن جائے گا۔۔۔"

یشفہ بھی اسے تیکھے چتونوں سے گھورتے بولی تھی ۔۔۔۔

اچھا تو میں ڈریکولا ہوں ہاں۔ ۔۔۔۔ابھی بتاتا ہوں۔۔۔۔۔۔

ارتضی نے بولتے ہی یشفہ کے احمریں لبوں پر اپنے ہونٹ ثبت کیے تھے لمس میں بے پناہ شدت تھی کہ یشفہ کپکپا اٹھی مگر اس نے ارتضی کو خود سے دور کرنے کی غلطی نہیں کی ۔۔۔۔

اور ارتضی تو اپنا سارا غصہ جنون ۔۔۔۔۔بے اعتباری یشفہ کی سانسوں میں اتار دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔

سانسیں رکنے پر یشفہ نے اس کی گردن میں بازو ہائک کرتے خود کو گرنے سے بچایاتھا۔۔۔۔۔اس کی حالت سے بے خبر. . . . ارتضی مکمل اس میں گم اپنی تشنگی مٹا رہا تھا۔۔۔

ارتضی پیاسے صحرا کی طرح خود کو سیراب کر رہا تھا ۔۔۔ یشفہ نے سانسوں کی بکھرتی روانی پر اسے دور کیا۔۔۔۔۔اور ارتضی کی شدتوں سے بچنے کے لیے ارتضی کے سینے سے سر ٹکا گئی ۔۔۔

ارتضی کی اپنی سانسیں ۔۔۔۔پھول گِئی تھیں. . .

"جانم جتنا مجھے ترساو گی اتنا ہی میری شدتوں میں اضافہ ہوگا۔۔۔۔"۔

ارتضی اس کی بے ترتیب حالت پر. ۔۔۔۔ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔۔

یشفہ شرم سے سرخ پڑتی دوبارہ اس کے سینے پر سر رکھتی آنکھیں موند گئی۔۔۔جہاں اس کا سکون تھا۔۔۔.

محبت کی بازی ۔۔۔۔. جیتنے کے لیے انا کے سکے کو نکالنا ضروری ہوتا ہے ورنہ نا محبت باقی رہتی ہے نا مان ۔۔۔

محبت اور انا کسی سکے کے دو الگ الگ رخ ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی پانے کے لیے دوسری شے قربان کرنی پڑتی ہے۔۔۔


زندگی کی بھاگ دوڑ میں کبھی بھی اپنوں کی بے اعتباری کا سبب بننے والے رشتے جٹ نہیں پاتے جسکی وجہ سے ان کی بنیاد کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور ذیادہ عرصے تک قائم نہیں رہے سکتے۔۔۔۔یشفہ نے ارتضی سے اظہار میں پہل کرتے اپنے رشتے کو نئی امید بخشی تھی۔۔۔۔۔۔اگر یشفہ اب بھی اپنی انا کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی تو شاید اس کی وجہ سے ان کا رشتہ تباہ ہو جاتا۔۔۔


۔

دل کا جہاں پھر سے آباد ہونے کو تھا۔۔۔۔

"یشو ۔۔۔ اگر تمہارا رات میرے کمرے میں ہی رکنے کا پروگرام ہے تو چلو بیڈ پر چلتے ہیں دیر کس بات کی ویسے بھی کافیییییی تھکن ہے کیوں نا میری تھکن ہی اتار دو۔۔۔ "


ارتضی اسے کافی دیر۔۔۔سینے سے لگے دیکھ کر معنی خیز انداز میں بولتا یشفہ کے چودہ تبک روشن کر گیا۔۔. .

یشفہ جھٹکے سے سر اٹھا کر اپنے بے شرم شوہر کو گھورنےلگی۔۔


"بہت ہی کوئی بیہودہ۔۔۔۔بات تھی ارتضی ۔۔۔ "

یشفہ کے گھورنے پر ارتضی کا قہقہہ گونج اٹھا ۔۔۔۔۔

یشفہ نے جلدی سے اسے ہنستا دیکھ نظریں پھیریں ۔۔۔. کہ کہیں اس مغرور شہزادے کو اسی کی نظر نا لگ جائے ۔. ۔

.

یہ بات وہ مانتی تھی ارتضی ۔۔۔۔ہر بار اسے خود سے نئے انداز میں متعارف کراتا اس کے دل میں ایک الگ مقام بنا چکا تھا۔۔۔۔۔یشفہ پچھلے ایک مہینے سے اس کے طلسم میں جکڑی بے چین سی پوری حویلی میں پھر رہی تھی ۔۔۔جب کہیں سکون نا آیا تو ارتضی کے کمرے میں ہی شفٹ ہو گئی ۔۔۔۔اس کی چیزوں میں ارتضی حاقان کے لمس سے اپنے دل کو راحت پہنچانے لگی تِھی. . . . آج اسے سامنے دیکھ مانو دل پر ٹھنڈی پھوار سے برس پڑی تھی ۔۔۔.

مگر ارتضی کو اج یہاں دیکھ کر یشفہ کے بے چین دل کو سکون آیا ارتضی کی شدتیں یشفہ کو خود میں سمٹنے کا سبب بننے لگی تھیں نا تو یشفہ کو ارتضی کی غیر موجودگی چین لینے دیتی۔۔۔۔اور جب ارتضی یشفہ کے سامنے ہوتا تو یشفہ کو اپنے جزباتوں کی اگ سے جھلسا دیتا ۔۔۔۔۔

بیگم کیا سوچ رہی ہیں آپ۔۔۔۔۔۔"ارتضی نے یشفہ کے شرم سے سرخ چہرے کو دیکھتے ہو شرارت سے کہا۔۔۔

ارتضیییئئئ۔۔۔۔۔"یشفہ نے ارتضی کی شدتوں سے گھبراتے ہوئے ارتضی کا نام پکارا۔۔۔۔

چلو آ جاو سوتے ہیں اس سے پہلے میرا ارادہ بدل جائے۔۔۔۔۔ "ارتضی نے پھر سے یشفہ کو تنگ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔

یشفہ کو پتا تھا اگر اس نے ارتضی کی بات نا مانی تو ارتضی اپنی دوسری بات کو کر گزرنے سے کبھی نہیں رکے گا اسی لیے جلدی سے بیڈ کے ایک کنارے پر جا کر لیٹ گئ۔۔۔

ارتضی نے جب یشفہ کو خود سے اتنے دور سوتے ہوئے دیکھا تو یشفہ کے نزدیک ہو کر یشفہ کا سر اپنے سینے پر رکھتا اس کے گرد محبت بھرا حصار قائم کر گیا ۔۔۔

یشفہ نے نگاہ اٹھا کر ارتضی کی جانب دیکھا۔۔۔۔یہ شاندار مرد صرف یشفہ کا تھا ۔۔۔۔

اسے ارتضی پر جی بھر کر پیار آیا۔۔۔اور خود کے کیے پر پچھتاوا بھی کہ اس نے اتنے پیار کرنے والے شوہر کو اپنی انا کے سر کر دیا ۔۔۔۔

میری وجہ سے تمہیں پھر کبھی کوئ تکلیف نہہں ہو گی ارتضی۔۔۔۔"یشفہ نے ارتضی کے سینے پر سر رکھے خود سے وعدہ کیا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شانوال جیسے ہی فارم ہاوس واپس آیا اسے معمول سے ذیادہ خاموشی محسوس ہوئی۔۔۔۔اور ساتھ ہی مین گیٹ بھی کھلا ہوا تھا لاونج میں ہمیشہ ٹیبل پر پڑا گلدان زمین ٹکرون میں بٹا کچھ غلط ہونے کا الارم دے رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔کسی انہونی کے خوف سے شانوال کے دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہو۔گئ۔۔۔

زرشے۔۔۔زرشے کہاں ہو تم۔۔۔۔۔"

شانوال زرشے کو اونچا اونچا پکاڑتے ہوئے فارم ہاوس کے ہر کونے میں دیکھنے لگا۔۔۔۔۔شانوال کے دماغ میں برے برے خیالات آرہے تھے۔۔۔۔۔شانوال اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ ایسا کچھ نا ہوا ہو۔۔۔۔


گھر کے چپا چپا چھان مارنے کے بعد بھی شانوال کو زرشے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔۔۔۔پریشانی سے شانوال کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا ۔۔ آنکھیں ضبط سے سرخ پڑنے لگیں ۔۔۔۔۔۔دل زرشے کی غیر موجودگی محسوس کرتے ۔۔کانپ اٹھا تھا


پریشانی و ہزیانی کیفیت میں شانوال کی تمام سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی شانوال نے لمبی سانسیں لیتے خود کا کالم کیا ۔۔۔

دماغ مختلف الجھنوں کا شکا ر تھا۔۔۔۔شانوال ۔۔۔خود کو بہتر کیے واپس حواسوں میں لوٹا۔۔۔۔ جلدی سے شانوال نے اپنے دوست کو فون کیا جو کہ پولیس میں کمشنر تھا آسے ساری صورت حال بتائی ۔۔۔۔۔ زرشے کی لوکیشن پتا لگانے کو کہا۔۔۔۔اور ساتھ ہی یہ سب کاروائی خوفیہ رکھنے کو کہا۔۔۔۔شانوال نہں جانتا تھا کہ زرشے کس حالت میں ہو گئ اسے زرشے کی عزت سب سے ذیادہ عزیز تھئ۔۔۔۔


تم بلکل بھی پریشان مت ہو ہم ابھی اپنی کاروائی شروع کرتے ہین۔۔۔۔"

کمشنر نےشانوال کو تسلی دی اور فورا اپنی نفری کو تیا ر کیا۔۔۔۔اور زرشے کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔۔۔


_____


زرشے خالی بلڈنگ میں بے ہوش پڑی تھی اس کے ارد گرد انسانوں کی کھال میں موجود وہ بھیڑیے تھے جو معصوم جانوں کو نوچ ڈالتے انہیں کبھی خدا سے خوف محسوس نہیں ہوا۔۔۔۔ زرشے کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے جن پر خون کے داغ ان حیوانوں کی درنگی کو دکھناے کے لیے کافی تھے۔۔۔۔جسم کے کچھ برہنا حصوں پر سگریٹ سے داغے جانے والے سیاہ دھبے اپنی قسمت پر ماتم کناں تھے۔۔۔۔


زرشے کے ساتھ وہ جانور اپنا گندا کھیل کھیلنے میں مصروف تھے۔۔۔۔زرشے کے جسم پر جگہ جگہ ان وحشیوں کی درندگی کے نشان بنتے جا رہے تھے ۔۔۔جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ بدلتے ہوئے سیاہ اور نیلے ہو گے تھے۔۔۔۔

جب ایک درندہ تھک جاتا تو دوسرا اسکی جگہ پر پھر سے اپنی حوس مٹانے آتا ۔۔۔۔۔ ایک کونے میں شراب کی بوتلیں بھی پڑی تھی گویا یہ درندے بھرپور تیاری کے ساتھ عزت لوٹنے کو تیار تھے وہ درندے شراب پی کر دوبارہ سے اپنے فحاشی کرنے کے لیے عروج پر تھے۔۔۔۔

مسلسل یہ گھنونا کھیل کھیلا جا رہا تھا شراب کے نشے میں دھند انہہں خدا کا خوف بھول گیا اسکے قہر سے کیسے بچ سکتے تھے وہ جہنوں نے ایک معصوم کا دامن میلا کیا تھا ۔۔۔۔

زرشے کی قسمت میں فقط درد ہی درد موجود تھا۔۔۔بے شک جو خدا درد دینے پر قادر تھا وہ خوشی دینے پر بھی قادر ہے۔۔۔۔


زرشے کی حالت پر اسمان سے بھی انسو کے قطرے بارش کی شکل میں برسنے لگے۔۔۔۔۔اج ہر شے زرشے کے ساتھ ہوئ درندگی پر شکوہ کناں تھا۔۔۔اج پھر سے ایک بیٹی ان درندوں کے ہاتھوں اپنے دامن پر داغ لیے بے اسرا پڑی ہوئ تھی ۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔

شانوال نے گھر مین کسی کو زرشے کے متعلق یہ بات نہیں بتائ۔۔۔۔شانوال کو پریشانی میں وہ بات تو بھول ہی گئ جب شانوال نے زرشے کو گفٹ میں لوکٹ دیا تھا جس پر ٹریسر لگا ہوا تھا۔۔۔۔جیسے ہی یہ شانوال کو یاد ایا اس نے اپنا موبائیل جیب مین سے نکالا اور اس پر زرشے کی لوکیشن چیک کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ٹریسر شانوال کے موبائیل کے ساتھ کو نیکٹڈ تھا جسے شانوال نے زرشے کی سیفٹئ کے لیے لگایا تھا۔۔۔۔۔


شانوال تیزی سے اپنی گاڑی کہ طرف بھا گا ۔۔۔۔ جلدی سے اس لوکیشن پر روانہ ہوا۔۔۔۔ایک منٹ بھی ضائع کرنا مناسب نا سمجھا گاڑی کو اس لوکیشن کہ سمت پر ڈال دیا جو کہ موبائیل دکھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔راستے میں بارش شروع ہو گئ مگر شانوال کو کسی چیز کی پر واہ نہیں تھی ۔۔۔۔اس وقت شانوال کو صرف زرشے کا خیال تھا۔۔۔۔


وہ لوکیشن ایک زیر تعمیر فیکٹری کی تھی جو کہ شہر سے بیس کلو میٹر دور تھئ۔۔۔۔ شانوال نے ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے دو گھنٹوں کا فاصلہ پچپن منٹ میں طے کیا ۔۔۔جلدی سے اسئ فیکٹری کے پاس گاڑی روکی۔۔۔۔۔

گاڑی سے باہر نکلتے ہی شانوال بارش میں بھیگ گیا مگر آسے کای چیز کا ہوش نہیں تھا وہ بس جلد سے جلد اپنی متاع جان کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔۔

فیکٹری میں تیزی سے داخل ہوتے ہی شانوال کو ان دیکھے خوف نے گھیر لیا سانسوں کی رفتار مدھم ہونے لگی ۔۔۔۔موبائیل اسی جگہ کی لوکیشن دیکھا رہا تھا۔۔۔ جب شانوال نے اردگرد دیکھا تو اسے زرشے کا لوکٹ زمین پر پرا ہوا نظر ایا جلدی سے شانوال نے لوکٹ کو اٹھایا۔۔۔

زرشے کا لوکٹ یہاں ہے تو وہ بھی یہی ہو گی۔۔۔۔"

یہ خیال دماغ میں اتے ہی شانوال کے قدموں میں تیزی آگئ جلدی سے فیکٹری کی تمام جگہیں دیکھنے لگا نیچے کچھ نہیں نظر ایا تو شانوال جلدی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھا سیڑھیوں پر لال چوڑیاں ٹوٹی پڑی تھیں

۔۔۔شانوال کو چوڑیاں دیکھتے ہی زرشے کے ہاتھ میں آج صبح پہنی ہوئی لال رنگ کی چوڑیاں یاد انے لگی۔۔۔۔۔


چوڑیوں کی یہ حالت شانوال کی پریشانی کو بڑھا رہی تھی۔۔۔۔اجلت سے سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے وہ آگے کہ جانب بڑھا جہاں زرشے بہت بری حالت میں بے ہوش تھی۔۔۔ جلدی سے شانوال زرشے کے پاس پہنچا۔۔۔۔زرشے کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے جسم کے برہنا حصوں پر موجود نیل درد ناک کہانی سنا رہے تھے۔۔۔

زرشے کی یہ حالت دیکھتے ہی شانوال کے انکھوں میں مرچیاں سی بھرنےلگیں۔۔۔۔تکلیف سے جان جانے کو تھی

شانوال گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھتا جھکتا چلا گیا ۔۔۔۔

میں نہیں پہنچ پایا نہی بچا پایا تمہیں زرشے۔۔۔۔۔"شانوال نے زرشے کی حالت کو دیکھتے ہوئے روتے ہوئے خود سے کہا۔۔۔۔


تمہارا خان تمہیں نہیں بچا سکا میری زندگی مجھے معاف کردو ۔۔۔۔۔زرشے کو بیہوش بکھرے حلیے میں دیکھ وہ جوان مرد پھوٹ پھوٹ کے رویا تھا. . . . یہ زندگی کتنے دکھ دے گی میری زرشے کو۔. . پلیز الله جی میری سانسیں روک دیں ۔۔۔۔۔کاش یہ صرف خواب ہو۔۔۔ الله جی۔۔۔مگر یہ تو حقیقت تھی جو کہ انکھیں بنس کر لینے کے بعد بھی نہیں بدلنی تھی۔۔۔ ۔۔. . شانوال نے چادر سے زرشے کے وجود کو کور کیا ۔۔۔۔

زرشے کو شانوال نے اپنی باہوں میں اٹھاتے تیزی سے سیڑھیاں اترٹے ہوئے گاڑی میں ڈالا ۔۔۔۔دل کی دھڑکن حد سے سوا تھی ۔ زرشے کو گاڑی کی بیک سائید پر لٹا کر دروازہ بند کیا۔۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا وہ ضبط کی آخر ی حدود پر تھا۔. .


آنسو پلکوں کی بار توڑ کر داڑھی میں جذب ہونے لگے تھے.۔۔۔ اس نے جلدی سے ہسپتال کی طرف گاڑی کو بھگایا زرشے کی سانسوں کی رفتار مدھم چل رہی تھی۔۔۔۔شانوال بار بار بیک مرر سے زرشے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔بارش اپنے پورے زور و شور سے برسنے میں مصروف تھی


ہسپتال کے باہر گاڑی روکتے شانوال نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور زرشے کو اپنی باہوں میں بھر کر ہسپتال تیز قدموں سے بڑھا۔۔۔۔۔تمہیں کچھ نہین ہونے دو گا زرشے۔۔۔شانوال نے انسو کو انکھوں سے بہنے سے روکا۔۔۔


رات کے اس پہر سارا ہسپتال تقریبا خالی تھا۔۔۔۔نرس نرس۔ نرس۔۔ڈاکٹر ڈاکٹر ۔شانوال نے بلند آواز میں پکارتے ۔۔. . سے نرسوں کو بلایا خالی ہسپتال میں شانوال کی تیز اواز گونجی۔۔۔۔ شانوال کو ۔۔۔۔ڈاکٹر سامنے کمرے سے اتے ہوئے نظر ائی ۔


ڈاکٹر میری بیوی کا علاج کریں اس کی سانسیں مدھم چل رہی ہیں۔۔۔۔۔شانوال نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی کہا تو ڈاکٹر نے شانوال کی حالت دیکھتے ہوئے نرسوں کو سٹریچر پر زرشے کو ایمر جنسی میں لے جانے کا کہا۔۔۔


دیکھے مسٹر یہ ریپ کیس ہے ہم پولیس کو اطلاع دیے بغیر ان کا علاج نہیں کر سکتے۔۔۔ڈاکٹر نے زرشے کی حالت دیکھ کر شانوال کو کہا۔۔۔۔

ڈاکٹر ۔۔۔۔۔مجھے میر ی زرشے ٹھیک چاہیے پلیز اس کا علاج کریں وہ خطرے میں ہے۔۔۔۔شانوال نے التجائیہ لہجے میں ڈاکٹر سے کہا۔۔۔


ڈاکٹر کو شانوال کی بکھری حالت سرخ انکھوں پر ترس ایا جو کہ اپنی بیوی کے غم میان پوری طرح نڈھال ہو چکا تھا۔۔۔۔ڈاکٹر جلدی سے وارڈ کی طرف بڑھی۔۔۔


کیوں اخر کیوں سارے درد زرشے کے نصیب میں کیوں ۔۔۔کاش زرشے کے حصے کی تمام تکلیفیں میں اپنے اوپر لے سکتے۔۔۔تمہاری ڈھال بننے کا وعدہ کیا تھا مگر اج وہ وعدہ ٹوٹ گیا اج تمہارا خان ہار گیا زرشے اج ہار گیا۔۔وہ بارش میں چیختا کوئی دیوانہ لگ رہا تھا ۔. . ہار گیا تھا شانوال خان۔۔۔۔نہیں بچا پایا زرشے کو ان درندوں سے۔۔۔۔۔۔۔


جس نے بھی تمہارا یہ حال کیا ہے ان کو نست و نابود کر دوں گا یہ تمہارے خان کا تم سے وعدہ ہے زرشے میری زندگی۔۔۔۔اج جتنے تم نے دکھ جھیلے اس سے دوگنی ازیت تمہیں اس حال تک پہنچانے والے کو دوں گا یہ تمہارے خان کا تم سے وعدہ ہے زرشے میری جان۔۔۔۔بارش شانوال کے آنسو کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہی تھی


------

ارتضی یشفہ کو لے کر اپنے فلیٹ پر جا رہا تھا وہ مزید یشفہ کو خود سے دور نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔۔۔مگر اماں سائیں کی ناراضگی کے ڈر سے ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تا کہ ان سے یشفہ کو لے جانے کی اجازت لے سکے


ارتضی نے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔۔۔

اماں سائیں کی اجازت ملتے ہی کمرے کے اندر داخل ہوا۔۔۔

آو۔۔۔ارتضی۔۔۔۔اماں سائیں کو ارتضی کو اپنے کمرے میں دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔۔۔۔

ارتضی نے اماں سائیں کے ہاتھوں کو تھام کر عقیدت سے بوسہ دے کر اپنی انکھوں پر لگایا۔۔۔

اماں سائیں اپنے بیٹے کے پیار پر واری جا رہی تھیں۔۔۔

اماں سائیں کی بدولت ہی تو ارتضی اس حویلی میں واپس ایا تھا اور اپنی عزیز از جان بیوی کے اس نئے روپ کا احساس ہوا تھا


اماں سائیں دراصل میں یشفہ کو شہر لے جانا چاہتا ہو اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم جائیں ۔۔۔۔

ارتضی نے مودب لہجے میں اپنی اماں سائیں سے جانے کی اجازت طلب کی۔۔۔۔

آخر میں بھی تو تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتی تھی ارتضی۔۔۔۔تم دونوں جاو اور اگر دل کرے تو ایک دو دن وہاں اکیلے گزار لینا۔۔۔۔

اماں سائیں نے خوش دلی سے ارتضی کو اجازت دیتے ہوئے ارتضی کے ماتھے پر پیار سے بوسہ دیا۔۔

جی اماں سائیں۔۔۔۔اب اجازت دیں ہم نکلنے کی تیاری کریں ۔۔۔

ارتضی نے محبت بھرا لمس اماں سائیں کی پیشانی پر چھوڑا اور روانگی کی اجازت طلب کی۔۔۔۔

اللہ تم دونوں کو نظر بد سے بچائے میرے بچے فی امان اللہ۔۔۔۔

اماں سائیں نے ارتضی اور یشفہ کو نظر بد سے بچنے کی دعا کی اور ارتضی کو بہت سی دعاوں میں رخصت کیا ۔۔۔


اجازت ملتے ہی ارتضی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تا کہ اپنی پٹاخہ کو دیکھ سکے وہ تیار ہے یا نہیں۔۔۔


کمرے میں داخل ہوتے ہی ارتضی کی نظریں یشفہ کے وجود پر مرکوز ہو گئ تھیں

یشفہ نیوی بلیو کلر کے کامدار سوٹ ساتھ میں شانے پر ہم رنگ ڈوپٹہ سجائے بالوں کو کیچر میں مقید کیے کانوں میں چھوٹے آویزے پہنے بالوں سے الجھ رہی تھی۔۔۔

ارتضی اہستگی سے یشفہ کی جانب بڑھا جو کہ بار بار ائینہ کے سامنے ٹھہر کر اپنے آویزوں کو کان میں ڈالنے کی کوشش میں مگن تھی پر ناجانے کیا دشمنی ہوگئی تھی یشفہ سے ان چھنکتے آویزوں کو ۔۔۔۔۔ وہ جھنجھلائی ہوئی سی ارتضی ۔۔۔۔کے دل میں اتر رہی تھی ۔۔۔ارتضی نے آگے بڑھتے ۔۔۔۔ یشفہ کے ہاتھ سے گولڈن آویزے لیے اور ارام سے کان میں ڈالنے لگا۔۔۔


یشفہ ائینے میں اپنے اور ارتضی کے عکس کو دیکھنے میں محو تھی جو بڑے منہمک انداز میں یشفہ کے کان میں آویزے ڈالنے میں مگن نظر آ رہا تھا۔ارتضی بلیو پینٹ کوٹ میں جچ رہا تھا۔۔۔۔یشفہ نے دل ہی دل میں اپنی جوڑی کو سراہا تھا۔۔۔۔ دل نے شدت سے دعا کی۔۔۔۔کہ لمحات یہیں تھم جائِیں۔۔۔۔


لو ہو گیا۔۔۔چلو اب ہم پہلے ہی لیٹ ہو گئے ہیں تم لڑکیوں کی تیاری کبھی مکمل ہی نہیں ہوتی۔۔

ارتضی نے جب یشفہ کو آویزےپہنا ئے تو یشفہ اپنے سینڈل پہننے بڑھ گئی جسے دیکھ ارتضی نے یشفہ کی تیاری پر ٹونٹ مارا۔۔۔۔

میں تیار ہو۔۔۔۔ارتضی کبھی خود کی تیاری پر غور کیا ہے آپ نے مجھ سے ڈبل ٹائم لگاتے ہیں

یشفہ نے چڑتے ہوئے ارتضی پر جوابی کاروائی کی جو کہ خود پر پرفیوم سپرے کر رہا تھا۔۔۔۔

اوکے میڈم۔۔۔۔۔اب چلیں۔۔۔

ارتضی نے یشفہ کے ٹونک پر چلنے کو کہا۔۔۔۔

کب کوئی لڑکیوں کو باتوں میں ہرا سکتا ہے۔۔۔

دل ہی دل مین ارتضی نے خود سے کہا۔۔۔۔

آپ نے کچھ کہا ارتضی۔۔۔"یشفہ نے جب ارتضی کو منہ ہی منہ میں بڑبراتے ہوئے دیکھا تو ارتضی سے دریافت کیا۔۔۔

کچھ نہیں گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔۔"ارتضی نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

ارتضی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا یشفہ بھی گاڑی کا دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئ۔۔۔۔


گاڑی کے چلتے ہی ٹھنڈی ہوائیں ۔۔۔۔۔رقص کرنے لگیں یشفہ مگن انداز میں ۔۔۔۔۔۔۔ باہر دیکھتی۔. . . ان ہوائوں سے خود کو پر سکون کرنے لگی. . . ۔۔۔۔یشفہ نے میوزک پلیئر ان کر دیا۔۔۔


گاڑی میں گانے کی آواز گونجنے لگی۔۔۔۔


میری ہر ایک صدا میں تو

میری ہر ایک دعا میں تو

می چاہوہر پل رہو تیری


ارتضی کے سنگ گانے کے بول سنتے ہی سفر مزید سہانا ہو گیاتھا ۔۔۔یشفہ کو گانے کے بول اپنے دل کی تر جمانی کرتے ہوئے محسوس ہورہے تھے


اپنی باہوں میں کٹے زندگی

تجھ سے ہی راحتیں ملی

تجھ سے هی چاهتیں ملی

هے میری اتنی سی التجا

میں بن کے رهو تیری صدا


ارتضی نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے یشفہ کو دیکھا جو کہ گانےکے بول سنتی مگن نظر آرہی تھی۔۔۔۔


سفر بیتنے کا پتا ہی نہ ۔۔۔ چلا ۔۔۔ارتضی کا فلیٹ آ گیاتھا ۔۔نعمان کو وہ پہلے ہی بتا چکا تھا اس لیے وہ ہاسٹل جا چکا تھا ۔۔ ۔۔۔ ارتضی گاڑی سے اترا اور یشفہ کی سمت کا دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔


ارتضی نے اپنا ہاتھ یشفہ کی سمت بڑھایا۔۔۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے فلیٹ میں داخل ہوئے۔۔۔


ارتضی نے اپنے آنے سے پہلے ہی یہاں کہ صفائی کروا دی تھی۔۔۔۔


یشفہ جیسے ہی اندر داخل ہوئی اچانک سے پھولون کہ بارش ہونے لگی۔۔۔

یشفہ کو یہ سب خواب لگ رہا تھا۔۔۔خواب سی کیفیت میں یشفہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر گھومنے لگی۔۔۔۔


ارتضی یشفہ کی مسکراہٹ دیکھ کر کھو ساگیا۔۔۔۔اسی مسکراہٹ کو پانے کے لیے ہی تو ارتضی نے اتنی محنت کی۔۔۔اور ارتضی کی محنت رنگ لائی تھی ۔


دونوں اندر گئے۔۔۔۔تو ہر جگہ گلاب کے پھول بکھرے پڑے تھے۔۔۔۔پورا گھر پھولوں کی خوشبو سے نہایا ہوا تھا۔۔۔۔۔


یشفہ تمہارے لیے اندر ایک گفٹ پرا ہے۔۔۔۔

ارتضی نے خمار بھرے لہجے میں یشفہ کو کمرے میں جانے کے لیے کہا۔۔۔۔۔۔


یشفہ جیسے ہی کمرے میں گئ تو کمرہ بھی موم بتیوں کی روشنی اور گلاب کے پھولوں سے معطر تھا۔۔۔۔


یشفہ نے پورے کمرے میں نگاہ دوڑائی ۔۔ تو اسے بیڈ پر گفٹ پیک پڑا ہوا نظر ایا۔۔۔۔یشفہ نے تجسس سے اگے بڑھ کر گفٹ اٹھایا اور اس کو کھولنے لگی۔۔۔

مگر گفٹ کھولتے ہی اندر موجود گفٹ کو دیکھتے ہی یشفہ شرم سے پانی پانی ہو گئ۔۔ ۔۔


یشفہ جلدی سے پہن کر تیار ہو جاو۔۔۔۔

ارتضی نے باہر سے ہانک لگائ۔۔۔ارتضی گفٹ کو کھولتے ہی یشفہ کا ری ایکشن جانتا تھا۔۔


ارتضی میں نہیں پہن سکتی پلیز۔۔۔۔

یشفہ نے کمرے سے باہر اتے ہی ارتضی کو دیکھتے سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔ ۔۔۔


یشفہ پہن لو میں تمہیں اس ڈریس میں دیکھنا چاہتا ہو۔۔۔۔

ارتضی نے یشفہ کو التجا بھرے انداز میں کہا۔۔۔


مگر پھر بھی یشفہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔۔۔


اوکے نہیں پہننا مت پہنو۔۔۔۔

ارتضی کو بار بار یشفہ کی نہیں سن کر تیش آنے لگا ۔۔۔ اور اسی تیش کے چلتے بالکونی میں چلا گیا۔۔۔۔


ارتضی تو ناراض ہو گئے اب انہیں کیسے مناو۔۔۔۔

یشفہ نے اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے ارتضی کی ناراضگی کو مٹانے سوچا۔۔۔۔


اور جلدی سے کمرے کی طرف بڑھ گئی یشفہ کسی صورت بھی ارتضی کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے ڈریس نکالا ۔۔۔اور اس ڈریس کو ڈرسینگ روم لے کر چینج کرنے چلی گئ۔۔۔

ڈریسنگ روم کا دروازہ کھلا۔۔۔ یشفہ ارتضی کے دئے گئے ڈریس میں ملبوس سہمی سی باہر آئی اور ڈریسنگ مرر کے سامنے جا ٹھہری ۔۔۔ مگر خود کو دیکھتے ہی یشفہ کی نگاہیں شرم سے جھک گئ سارے جسم کا خون نچوڑ کر اس کے چہرے پر واضح ہونے لگا۔۔۔۔۔

یہ سب کرنا بے حد مشکل تھا مگر یشفہ کسی بھی حالت میں ارتض کو منانا چاہتی تھی۔۔۔بلیک کلر کے ڈریس میں یشفہ کا بے داغ وجود چمک رہا تھا۔۔۔یہ ڈریس سلیو لیس ہونے کے ساتھ ساتھ بیک لیس بھی تھا۔۔۔۔یشفہ نے بال کھلے چھوڑ دیے جس سے اس کی نازک سی پشت چھپ سی گئی تھی ۔۔۔۔۔

یشفہ ہولے ہولے قدم بڑھاتی ہوئی بالکنی میں چلی آئی جہاں ارتضی کی پشت یشفہ کی جانب تھی یشفہ اپنے قدموں کو زمین پر مضبوطی سے جماتے ہوئے ارتضی کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔

اور ارتضی کے گرد اپنے نازک نرم ہاتھوں کا حصار باندھ دیا ۔۔۔

ارتضی کو جیسے ہی یشفہ کے ہاتھوں کا لمس اپنی پشت پر محسوس ہوا وہ سرشاری سے مسکرایا۔۔۔۔۔دل میں ایک ٹھنڈل سی اترتی محسوس ہوئی ۔۔. ارتضی کی ساری ناراضگی ہوا ہو گئ۔تھء

دونوں ہی خاموش رہ کر ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے۔۔۔رات کے سناٹے کو ارتضی اور یشفہ کے بے ترتیب سانسوں کی اواز چیر رہی تھی۔۔۔۔

-------


زرشے اپنے کمرے میں بیڈ پر سوئی ہوئی تھی جب اسے کمرے میں ہل چل محسوس ہوئی جیسے ہی زرشے نے اپنی انکھیں کھولیں ۔۔ ایک سائے کو بیڈ کی جانب بڑھتے دیکھا۔۔ اس واقع کے بعد زرشے ذہنی طور پر کافی کمزور ہو ہو گئی تھی زرشے نے جیسے ہی اس سائے کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا۔۔۔تو اونچی اواز میں چلانے لگی۔۔۔


شانوال جو کہ زرشے کی کنڈیشن کی وجہ سے دوسرے کمرے میں سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔جیسے ہی زرشے کی چلانےکی اواز سنی تو جلدی سے کمرے کی طرف بھاگا جہاں زرشے کو کچھ دیر پہلے سلا کر ایا تھا۔۔۔۔


جیسے ہی اس سائے نے شانوال کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے کھڑکی کی طرف لپکا۔۔۔۔مگر شانوال نے پھرتی سے اس کو پکڑا اور پورے اشتعال کے ساتھ اسے میز کے کونے پر دے مارا۔۔۔۔

غصے سے شانوال کی انکھیں لہو چھلکا رہی تھی اگر انے میں شانوال کو دیر ہو جاتی یہی خیال ہی شانوال کے لیے سوہان روح تھا۔۔۔۔

اس کا سر میز کے کونے پر لگا اور کراہتے ہوئے زمین پر گرا

اس سے پہلے شانوال مزید اس شخص پر اپنا قہر دھاتا کہ تبھی اپنے پیچھے سے شانوال کو زرشے کی سرد اواز سنائی دی۔۔۔

"آپ ۔۔۔۔نے مار دیا. . . ۔۔۔اسے. ۔۔ ہاہاہا ۔۔۔مجھے بھی ماردیں۔۔۔۔ واو ۔۔۔سب مر گئے. . . . ہاہاہا"

زرشے اپنے سامنے پڑے شخص کو ۔۔۔۔تڑپتے دیکھ ۔۔۔۔اس بپھرے شیر کی طرف بھیگی نگاہیں اٹھاتی۔۔۔۔۔۔سرد مہری سے قہقہ لگا اٹھی۔۔.



"انففففف۔۔۔۔زرشے شانوال خان۔۔۔۔۔اب کوئی کو تاہی کی یا خود کو نقصان پہنچایا ۔۔۔تو تمہاری زندگی موت سے بدتر بنا دوں گا ۔. . کیسے تم یہ سب کر سکتی ہو ۔۔۔ ہاں ۔۔۔جواب دو مجھے۔۔ "


شانوال اسے کندھوں سے دبوچتے ۔. . . غضب ناک ہوا تھا۔۔۔۔

"زرشے پھٹی پھٹی آ نکھوں سے شانوال خان کے خونخوار روپ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔دل میں اٹھتا درد بڑھنے لگا تھا ۔۔۔ آنکھوں میں شدید خوف تھا. . . . . وہی خوف. ۔۔۔ جو کسی ماں کو اپنے بچے سے بچھڑنے کا ہوتا ہے۔ ۔۔۔وہی خوف جو زندگی اور موت کے درمیاں سانس کا ہوتا ہے

شانوال خان نے بے دردی سے اسے پیچھے دھکیلتے۔۔۔۔ہاتھ شیشے میں دے مارا تھا ۔۔.

زرشے کی آنکھوں میں شانوال خان۔۔۔کے لیے اپنی عصمت کے تار تار ہونے کا خوف اسے بے موت مار رہا تھا۔۔۔۔۔اس وقت کوئء شانوال خان سے اس کی جان بھی مانگتا تو کوئی بعید نا تھی شانوال خان ۔۔۔. سانسیں ہار دیتا۔۔۔۔اتنی چبھن تھی ان آنکھوں میں سب لٹ جانے کا خسارہ تھا. . . . .

زرشے اس کی حرکت پر سہمتی ۔۔. نازک ہاتھ اپنے سرخ ہوتے لبوں پر جما چکی تھی۔۔۔۔۔۔


شانوال نے خود کو ریلیکس کیا۔۔۔زرشے شانوال کے رویہ سے ڈر رہی تھی شانوال نے اپنا غصہ ضبط کیا۔۔۔شانوال کو زرشے کا بے گانہ رویہ بے موت مار رہا تھا۔۔۔


شانوال نے خود کوٹوٹنے سے بڑی مشکل سے روکا ہوا تھا۔۔۔وہ اپنے قدم زرشے کی طرف بڑھانے لگا جو کونے میں اپنے لبوں پر انگلی رکھے بنا حرکت کیے ساکن ٹھہری تھی۔۔۔


میرےے پاس متت انا ۔۔۔مجھے بھی مار دو گے نا اپ ۔۔۔ زرشے نے خوف سے سمٹتے ہوئے بھیگی نگاہوں سے شانوال کے بڑھتے قدموں کو دیکھ کر سوالیہ لہجہ میں کہا۔۔۔


شانوال کو زرشے کی بے اعتباری پر غصہ ا رہا تھا مگر وہ زرشے کو کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ ساری غلطی شانوال کی تھی۔۔۔۔

مگر فلحال ۔۔۔۔ شانوال کو پر سکون رہ کر زرشے کو سنبھالنا تھا۔۔۔


دیکھو زرشے آپ۔۔۔۔۔تو میری زندگی ہو نا میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا۔۔۔۔۔شانوال نے انکھوں میں نمی لیے زرشے کو سمجھانا چاہا۔۔۔


زرشے حیرانگی سے کبھی شانوال کو دیکھے جا رہی تھی تو کبھی اس تڑپتے وجود کو جو کہ اب ساکن ہو چکا تھا۔۔۔۔


آو زرشے مل کر کھانا کھاتے ہیں۔۔

شانوال نے جب مسلسل زرشے کو اس لاش کی طرف ٹک ٹکی ۔۔۔ باندھے دیکھا تو پیار سے زرشے کو بہلا کر کچن میں لے گیا۔۔۔


زرشے بنا حس و حرکت زندہ لاش کی طرح شانوال کے ساتھ چلتی جا رہی تھی۔۔۔شانوال نے درد سے انکھوں کو میچتے ہوئے زرشے کو چیئر پر بیٹھایا۔۔

شانوال نے فریج سے کھانا نکال کر اوون میں گرم کیا اور اہستگی سے نوالے بنا کر زرشے کے منہ میں ڈالنے لگا۔۔۔۔

زرشے نے منہ نہیں کھولا مگر شانوال نے زبردستی نوالہ زرشے کے منہ میں دیا۔۔۔زرشے سرخ انکھوں سے زمین کو گھورنے میں مصروف تھئ۔۔۔۔

اج شانوال زرشے کو آئس کریم کھلانے باہر لے جانے کا پلین تھادونوں نے خاموش ماحول میں کھانا کھایا۔۔.

شانوال زرشے کا دماغ بٹانے کے لیے اسے گاڑی میں بٹھا کر باہر لے آیا تزحا۔۔۔۔وہ جلد سے جلد زرشے کو ٹھیک کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

شانوال نے گاڑی میں میوزک پلیئر ان کیا مگر پھر بھی زرشے نے کوئی ریسپونس نہ دیا ۔۔۔ وہ بے سدھ سی ۔۔بس اپنی ہاتھوں کی خالی لکیروں کو گھورنے میں مصروف تھی۔۔۔۔


شانوال نے گاڑی ائس کریم پارلر کے باہر روکی۔۔۔۔اور اپنے اور زرشے کے لیے ائس کریم ارڈر کی۔۔۔۔مگر زرشے کسی چیز میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔۔۔


ائس کریم کے اتے ہی شانوال نے زرشے کو ائس کریم کھلانے کی کوشش کی ۔۔۔مگر زرشے نے ساری ائس کریم گرا دی جا سے شانوال کے کپڑے خراب ہو گئے۔۔۔۔

زرشے خود میں سمٹ گی اسے لگا ابھی شانوال بھی اسے ان لوگوں کی طرح مارے گا۔۔۔۔۔وہی سب پھر سے یاد اتے ہی زرشے کی سانسیں مدھم ہونے لگی۔۔۔۔

جب شانوال نے زرشے کی ایسی حالت دیکھی تو جلدی سے زرشے کو انہیلر دیا۔۔۔۔۔

شانوال اپنی محبت سے زرشے کو سمیٹنے لگا اسے پورا یقین تھا کہ اپنی محبت سے شانوال جلد ہی زرشے کو ٹھیک کر ے گا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔


_________


رات کے پہر جب ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا تبھی ایک وجود چادر میں لپٹا پوا چھپتا چھپاتا حویلی کے اندر محتاط قدموں سے داخل ہوا۔۔۔۔ اور جلدی سے حویلی کے پیچھے کی طرف جانے لگا۔۔۔اور پھر اچانک سے رک گیا۔۔۔۔اپنی چادر سمیٹ کر پائپ کے زریعے کھڑکی سے کمرے کے اندر کھود گیا۔۔۔۔


نیناں جس کو سانول کی غیر موجودگی چین نہیں لینے دے رہی تھی ۔۔۔کھڑکی سے کسی کے کودنے کی اواز سن کر الرٹ ہوئی اور جلدی سے اپنے کمرے کی لائٹ آن کر دی مگر اپنے سامنے سانول کو دیکھ کر بے خودی میں نیناں کی انکھیں بھیگ گئیں اور بے اختیار وہ آگے بڑھتی ۔۔۔۔ سانول کے سینے سے جالگی۔۔۔۔


ہمیں پہلے معلوم ہوتا کہ ہمارا وارم ویلکم ہونا ہے تو ہم پہلے چلے اتے۔۔۔۔۔۔سانول نے نیناں کے انسو اپنے ہاتھوں کی پوروں سے صاف کرتے ہوئے ذومعنی کہا۔۔۔۔


نیناں نے اپنے آنسو صاف کرتے ۔۔۔۔اپنا سرخ پڑتا چہرہ چھپایا ۔۔۔۔۔اور سانول کو لے کر بیڈ پر بٹھایا۔۔۔۔۔


آپ نے کچھ کھایا۔۔۔۔

نیناں نے سانول کو دیکھتے متفکر لہجے میں استفسار کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔


ابھی تو نہیں کھایا کیونکہ مجھے پتا تھا اپ ہمارے بنا کھانا نہیں کھاتی ۔۔۔

سانول نے اپنی جیب سے کھانے کا لفافہ باہر نکالا جو کہ اتے ہوئے راستے میں نیناں کے فیورٹ ریسٹورینٹ سے لیا تھا۔۔۔۔


دونوں نے پیار سے ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے نوالہ بنا بنا کر کھانا کھلایا۔۔۔۔


اپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔

نیناں نے جب سانول کے چہرے پر غور و فکر کے تاثرات دیکھے تو پریشانی کی وجہ پوچھی۔۔۔

نیناں مجھے بہت بے چینی ہو رہی ہے بھا سائیں کچھ نہیں بتا رہے زرشے بھاجائی کی طبیعت کیسی ہے اور مجھے زرشے کو ملنے سے بھی منع کر دیا۔۔۔۔

سانول نے اپنی پریشانی کا سبب نیناں کو بتایا۔۔۔

اپ پریشان مت ہوں۔۔۔رات کافی ہو گی ہے سو جائیے۔۔۔۔

________

ارتضی یشفہ کو ناشتے دینے کے بعد فلیٹ سے آنےوالی آفت سے بچنے کے لیے مصلحت کے تحت باہر آیا تھا ۔۔۔

۔۔یشفہ۔۔۔کو اپنا اپ خوش۔۔۔نصیب لگ رہا تھا۔۔۔۔ارتضی نے اج جیسے یشفہ کا خیال کرتے ناشتہ بنایا ۔۔۔ وہ ایسا ہی تھا بنا کہے یشفہ کی ہر بات جاننے والا ۔۔۔یہی بات یشفہ کو خود پر مغرور بناتی تھی۔۔۔

۔۔یشفہ نے بھی ارتضی کے لیے کچھ سپیشل کرنے کا سوچا


"ارتضی۔۔۔ مجھے اتنا کیوٹ سرپرائز دیا ہے تو مجھے بھی ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے ۔۔. میں بھی ارتضی کو سر پرائز دوں گی ۔ ۔"۔یشفہ نے مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے دل میں کہا۔۔۔۔


"یہ مجھے چہرے پر بھاری پن کیوں فیل ہو رہا ہے اور چہرہ عجیب بھی محسوس ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔"


یشفہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی ۔۔۔اچنبھے سے خود سے بڑبڑائی۔۔. . .


یشفہ نے ٹرے سائیڈ پر رکھتے۔۔۔۔۔بیڈ سے نیچے آ کھڑی ہوئی۔۔۔ نازک سے سفید پیروں میں ۔۔۔۔گلابی ہی بٹر فلائی سٹائل کی سٹائلش چپل اڑستی ۔۔۔ ڈریسنگ مرر کے سامنے جا کھڑی ہوئی


اہہہہہہہہہ ۔۔۔۔یشفہ نے جب ڈریسنگ مرر میں دیکھا تو ۔۔۔۔اس کے لبوں سے خوف کے مارے دلسوز چیخ نکل گئ۔۔۔۔


وہاں تو عجیب ہی مخلوق ٹھہری تھی آنکھوں کے اوپر تک سارا سرخ رنگ لگا ہوا تھا اور اس پر بلیک لائنر سے ٹھہری لائینز اس کی آنکھوں کو مزید خوف ذدہ کر رہی تھیں لال رنگ لبوں کے پورے کناروں پر پھیلا ۔۔۔۔شکل کو مزید خوف ناک بنا رہا تھا۔۔


۔یشفہ نے چیختے ہوئے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔۔


ارتضی نے فلیٹ میں قدم رکھا ۔۔۔۔یشفہ کی چیخ سنائی دی۔۔۔. ارتضی کے تو ہاتھ پاوں پھول گئے پریشانی سے بھاگتے ہوئے ارتضی جلدی سے اپنے کمرے کی طرف لپکا۔۔۔۔


کمرے میں داخل ہوتے ہی ارتضی نے

یشفہ کو صیح سلامت دیکھ کر ۔۔۔۔ گہری سانس خارج کرتا۔۔۔۔ گہرا سانس بھر کہ رہ گیا. . . . .


یشفہ اب بھی بنا ادھر ادھر دیکھے چیخے جارہی تھی۔۔. .


ارتضی نے اس کی گلا پھاڑ چیخوں سے بچتے۔۔۔۔ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے. . . . سہلایا۔۔۔۔۔

جو یشفہ کی دل دہلا دینے والی چیخ سن کر سن پڑ گئے تھے. . . .


یشفہ تم ٹھیک ہو نا۔۔۔۔

ارتضی نے ا سے مسلسل چیختے دیکھ۔۔۔۔اسے بازوں سے پکڑتے ایک بار خود کی تسلی کے لیے پوچھ لیا۔۔۔۔

یشفہ نے جیسے ہی ارتضی کی آواز اپنے قریب سنی وہ

جلدی سے ارتضی کی باہوں میں پناہ لینے کے لیے ارتضی جانب بھاگی۔۔ ۔۔ارتضی یشفہ کے ڈرے سہمے وجود کو اپنے ساتھ مظبوطی سے لگائے کھڑا تھا۔۔۔یشفہ کا جسم ہولے ہولے خوف کی وجہ سے لرز رہا تھا۔۔۔۔


وہ ارتضی کی پناہوں میں سما کر پر سکون ہو گئی تھی ۔۔۔


"کیا ہوا یشفہ ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔۔"


ارتضی نے جب یشفہ کو پر سکون ہوتے ہوئے دیکھا تو ایک بار پھر سے یشفہ کو شانوں سے تھامے پیار سے استسفار کیا۔۔۔۔


وہ ۔۔وہ ادھر کوئی تھا۔۔۔۔

یشفہ نے ڈرتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے اپنی انگلیوں کا رخ شیشے کی جانب کیا۔۔۔۔


ارتضی کو لگا شاید واقعی کوئی فلیٹ میں گھس آیا ہے وہ سپاٹ تاثرات لیے۔۔۔۔۔ محتاط قدم بڑھاتے ہوئے پورے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔


مگر کمرے میں کسی ذی روح کے وجود کا احساس ارتضی کو نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔ارتضی پرسکون ہوتا اس کی جانب متوجہ ہوا. . .


"یشفہ کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔ادھر او تم خود دیکھ لو۔۔۔۔"

ارتضی نے یشفہ کو اپنی جانب بلاتے ہوئے کہا جو کہ ابھی بھی خوف ذدہ نگاہوں سے اردگرد دیکھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔


یشفہ ارتضی کے بلانے پر ہمت کرتی۔. . چھوٹے چھوتے قدم اس کی طرف بڑھانے لگی کہ تبھی پھر سے یشفہ کی نگاہ ڈریسنگ مرر پر ٹھہر سی گئی ۔۔۔۔


اہہہہہہہہ۔۔۔ یشفہ نے ایک بار پھر سے چیخنا شروع کر دیا۔۔۔۔

ارتضی یشفہ کو نا سمجھی کی حالت میں دیکھ رہا تھا

جب کمرے میں کوئی ہے ہی ۔۔۔۔۔نہیں تو یشفہ کس کو دیکھ کر خوفزدہ ہے۔۔۔.

یہی بات ارتضی کو الجھائے جا رہی تھی۔۔۔


اس کی نظر اچانک ہی ۔۔. یشفہ پر پڑی جو مرر میں اپنے عکس کو دیکھتی چیخے جا رہی تھی۔۔۔۔یہ دیکھ کر ایک ہنسی کا پھوارہ اسے کے لبوں سے پھوٹا۔۔۔.


ہا۔۔۔ہاہاہہاہ۔۔۔۔یشفہ ۔۔۔ہااہاہہا مطلب تم۔۔۔

مسلسل ہنسنے کی وجہ سے ارتضی کی بات بیچ میں ہی رکنے لگی۔. . .


یشفہ اپنے ڈر کو بھلائے ارتضی کو دیکھنے میں مگن تھی۔۔۔۔جو کب سے منہ کھولے ہنسے جا رہا تھا


ارتضی۔۔۔۔

یشفہ ہولے سے ارتضی کو پکارتی ارتضی کی جانب قدم بڑھا رہی تھی جو بیڈ کے کنارے کے ساتھ ٹھہرا مسلسل ہنسے ہی جا رہا تھا۔۔۔


ارتضی پر سایا تو نہیں ہو گیا۔۔۔

یشفہ نے خوف کے زیر اثر لبوں کو زبان پھیر کر تر کرتے ہوئے سوچا۔۔۔۔


ارتضی۔۔۔۔یشفہ نے ہولے سے ارتضی کے مضبوط شانے پر اپنا نازک سا ہاتھ رکھتے ہوئے ارتضی کو پھر سے پکارا۔۔۔۔


ارتضی اب بھی قہقہے لگاتا ۔۔۔۔ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ ہنسنے کی وجہ سے ارتضی کی انکھوں میں پانی جمع ہونے لگا۔۔۔۔۔ چہرے کی سفید رنگت سرخ رنگ پڑنے لگی تھی۔۔۔.


ااس نے یشفہ کے چہرہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

یشفہ کو خود کی طرف عجیب نگاہوں سے تکتے پا کر اپنی ہنسی کو بریک لگائی ۔۔اپنی چہرے پر سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا. . .


ارتضی نے یشفہ کو شانوں سے پکڑتے ہوئے ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا کیا۔۔۔۔یشفہ نے جب مرر میں غور کیا تو اسے ارتضی اپنے پیچھے کھڑا نظر آیا۔

۔۔مطلب جس سے یشفہ ڈر رہی تھی وہ کوئی ۔۔۔۔اور نہیں بلکہ یشفہ۔۔۔خود تھی۔۔۔۔


یہ تو میں ہی ہوں۔۔۔۔

یشفہ نے پر سکون ہوتے ہوئے گہرئ سانس ہوا میں چھوڑی ۔۔۔۔


مگر میری حالت ایسی کس نے کی۔۔۔یہ خیال اتے ہی یشفہ کی نگاہوں نے ارتضی تک کا سفر طے کہ اسے اپنا جواب اس کا ۔۔۔۔مسینا چہرہ دیکھ ۔۔۔۔۔ مل گیا تھا. .


ارتضی نے جب یشفہ کو خود کی جانب تکتا ہوا پایا تو جلدی سے اپنی بتیسی نمایاں کر کے اس بات کا کریڈٹ ۔۔۔۔لینا چاہا۔۔۔۔

ارتضی حاقان نے اج سب سے بڑا مہاز جیت لیا تھا ۔۔۔۔


ارتضی نے جب یشفہ کے چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ غصے کو لیتے دیکھا تو ارتضی کو کہیں گڑبڑ ہوتی ہوئ محسوس ہوئ۔۔۔


یشفہ سخت تیوروں سے ارتضی کی جانب قدموں کو حرکت دینے لگی ارتضی نے معافی مانگنے کی کوشش کی مگر یشفہ اج معاف کرنے کے موڈ میں بلکل نہیں تھی۔۔۔۔


"یشفہ میں تمہیں مزید خوبصورت بنانا چاہتا تھا۔۔۔مجھے۔۔۔بلکل اندزہ نہیں تھا۔۔۔تمہارا ری ایکش یہ ہو گا۔۔۔۔پلیز سوری ۔۔۔۔"


وہ اپنے قدم یشفہ سے دور لے جاتے ہوئے محبت سے منانا چاہا۔۔۔


یشفہ کو ارتضی کے چہرے کے اتار چڑھاو. . . مزا دلا رہے تھے وہ اپنی ہنسی کو مشکل سے ضبط کیے ۔۔۔۔۔

گھور کر ارتضی کو دیکھنے لگی۔. . .

۔۔۔۔جب ارتضی کسی طرح ہاتھ۔۔۔نہ آیا ۔۔

اچانک یشفہ درد سے کراہتی نیچے جاگری۔۔۔۔


"کیا ہوا زندگی. ۔. کیسے گری تم "

اسے درد سے دوہرا ہوتے دیکھ ۔۔۔۔. فورا اس کے پاس پہنچتے پیر کا معائنہ کیا۔. . . .

اس کی سوں سوں اب بھی جاری تھی ۔۔۔۔۔۔


ارتضی نے جب یشفہ کی خراب ہوتی حالت کو دیکھا تو جلدی سے ساری مستی چھوڑ کر فکر مندی سے یشفہ کو لیے بیڈ کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔۔


یشفہ تم ٹھیک ہو۔۔۔۔

ارتضی نے گھٹنوں کے بل جھکتے ہوئے یشفہ کی جانب فکر مندی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔


یشفہ نے اپنے ہاتھوں میں چھپایا فیس پاوڈر ارتضی کے چہرے پر مل دیا۔۔


ارتضی کی ڈارھی اور بال بھی سفید ہو گئے ۔۔۔۔


حساب برابر۔۔۔۔۔

یشفہ نے ارتضی کی شکل دیکھ کر کھل کھلاتے ہوئے کہا۔۔۔جو کہ کارٹون سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔


ارتضی یشفہ کی چلاکی کو سمجھتا۔۔۔۔آبرو اچکا گیا۔. .

یشفہ جلدی سے اٹھ کر بھاگنے لگی۔۔۔۔مگر اس سے پہلے ہی ارتضی نے یشفہ کو پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔۔۔۔


ارتضی اپنے چہرے کا رنگ یشفہ کی گال سے اپنی گال مس کرتے ہوئے یشفہ کے چہرے پر منتقل کرنے لگا ۔۔۔یشفہ کی پلکیں ارتضی کی قربت پاتے ہی بھاری ہو کر لرزنے لگی۔۔۔۔ارتضی کو یشفہ کے پلکوں کا جھل ملانا مسمرائز کر رہا تھا۔۔۔ ارتضی کی قربت کے سائے میں یشفہ کے لب کپکپانے لگے۔۔۔دونوں کے دلوں کی دھرکن بے ترتیب ہون کر ارتعاش برپا کرنے لگی اس سے پہلے ارتضی کے لب یشفہ کے لبوں پر قبضہ کرتے یشفہ ارتضی کے حصار سے نکلتی کمرے کی جانب بھاگ گئ۔۔۔۔


ارتضی نے یشفہ کو پیچھا چھڑواتے دیکھا تو جلدی سے کمرے کی جانب قدم برھائے جہاں پر یشفہ گہرے سانس لے کر اپنے دل کی ڈھرکن کو کنٹرول میں لانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔


ارتضی کی انکھیں جزبات کی شدت سے لال ہونے لگی۔۔۔۔اس سے پہلے کہ ارتضی خود کے جزباتوں پر کنٹرول کھو دیتا جلدی سے کمرے سے نکل کر جانے لگا۔۔۔۔


یشفہ نے جیسے ہی ارتضی کو کمرے سے جاتے دیکھا تو ارتضی کی پیچھے جانے لگی۔۔۔۔


ارتضی۔۔ ۔یشفہ۔۔۔نے بوجھل لہجے میں ارتضی کو کمر سے پکڑے اپنے نازک ہاتھوں کی گرفت میں قید کر لیا۔۔۔۔


مجھے خود کا عادی بنا کر مجھے تنہا کبھی مت چھوڑنا ارتضی۔۔۔آپ کی یشفہ آپ کے ۔۔۔۔ بنا ایک لمحہ بھی گزارنے کا نہیں سوچ سکتی۔۔۔تم میرے روح کے مکین ہو۔۔ ۔۔۔

یشفہ نے جزبات سے بھر پور لہجے میں ارتضی کی کمر سے سر ٹکائے انکھیں موندے کہا۔۔۔


یشفہ کے لہجے کی تپش محسوس کرتے ہوئے ارتضی نے یشفہ کو شانوں سے تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔۔۔اور مضبوطی سے یشفہ کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر کے یہ احساس دلوایا کہ ہم دو جسم ضرور ہیں مگر ہماری روح ایک ہی ہے۔ ۔۔۔۔


------

اج کا دن اب کی زندگیوں میں تبدیلیاں لانے والا تھا دشمن جو پیٹ پیچھے وار کر کے چھپ جاتے تھے اج کا دن ان سب کو بے نقاب کرنے والا تھا۔۔۔۔۔

-----


ان چار مہینوں میں شانوال اپنے دشمنوں کو بے نقاب کرنے میں صرف کر دیے جہنوں نے شانوال کی زرشے کو ازیت دی تھی۔۔۔۔

زرشے کی حالت۔۔۔ سسکیاں۔۔۔آہیں۔۔۔۔ چیخیں سب کچھ شانوال کے ذہن کے پردون پر ہر وقت لہراتا رہتا تھا۔۔۔اس کا مقصد بس زرشے کے مجرموں کو منظر عام پر لا کر انہیں عبرت ناک سزا دینا تھا۔۔۔


شانوال ان لوگوں کو ترپتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند تھا جس نے شانوال کی زرشے کو دکھ پہنچایا تھا۔۔۔۔


اخر کار اتنے مہینوں کی محنت رنگ لانے والی تھی۔۔۔۔شانوال جلد از جلد مجرموں تک پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔۔


شانوال اپنے کمرے میں ٹھہرا بس ایک ہی بار کو لگا تار سوچے جا رہا تھا۔۔۔اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ زرشے کے گھر قدم رکھنے سے پہلے اصل مجرموں کو شانوال اپنا قہر دکھائے گا۔۔۔


اس کام کو سر انجام دینے کے لیے شانوال نے کئ بندوں کو خفیہ طور پر اس کام میں جوڑ رکھا تھا۔۔۔


وہ خان تھا۔۔۔۔۔اسے پہلے . . . . اس بات کا علم تھا کہ اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا مگر اس کے پیچھے چھپے سیاہ چہرے کو کو بے نقاب کرنا ابھی باقی تھا۔۔۔قلحم اس سب کے پیچھے موجود تھا مگر قلحم کے ساتھ کون کون اس کام میں ملوث تھا اس راز سے واقف ہونے کے لیے ہی شانوال اتنا انتظار کرنا پڑ رہا تھا۔۔۔۔


شانوال اپنے خیالوں میں گم تھا جب فون کی گھنٹی ۔۔۔ نے پرسکون ماحول کی فضا کے سناٹے کو چیرا۔۔۔


شانوال حال میں۔۔۔واپس لوٹا ۔۔ اور اپنا فون اٹھاتے کال پک کی

فون کی سکرین پر پرائیوٹ نمبر کالنگ جگمگا رہا تھا ۔۔


۔شانوال نے فون کو بے صبری سے اٹھاتے ۔۔۔۔ کال ۔۔۔اٹینڈ کر کے کان سے لگایا۔۔۔۔شانوال کے خاص ادمی کا فون تھا۔۔۔


سر خبر ملی ہے کہ آج قلحم کا باس آ رہا ہے۔۔۔۔اور یہ دونوں جس جگہ ملنے والے ہیں اس جگہ کا ایڈریس میں نے آپ کو میل کر دیا ہےشانوال نے جیسے ہی کال اٹھائی ۔۔۔۔تو شانوال کا خاص بندہ جو اس نے مخبری کے لیے لگایا تھا اس نے شانوال کو اپ ڈیٹ دی۔۔۔

اپنے کاموں میں الجھنے کی وجہ سے شانوال ایک بار بھی زرشے کو دیکھنے نہیں گیاتھا وہ اسے ٹائم دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ ۔۔آج اسے شدت سے زرشے کی یاد آرہی تھی ۔۔۔۔۔کب سے اس کی من موہنی صورت نہیں دیکھی تھی ۔۔۔۔ شانوال نے زرشے کی ناراضگی دور کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔۔۔۔


وہ اجلت میں ریڈی ہوا۔۔۔نیلے رنگ کی قمیض شلوار پہنے۔۔۔سلیقے سے بالوں جیل سے سیٹ کیے ۔۔۔ پاوں میں بلیک پشاوری چپل پہنے اس نے قیمتی گھڑی کو اپنی کلائی کی زینت بنایا۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل سے اپنا پسندیدہ پرفیوم اٹھا کر خود پر سپرے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک الودائی نگاہ اپنی تیاری پر ڈالی ۔۔وہ مطمین ہو کر گاڑی کی چابیاں اٹھاتا ہوا جلدی سے پورچ کی طرف روانہ ہوا۔۔۔


پرفیوم کی مہک سے گاڑی مہک اٹھی تھی ۔۔۔۔۔شانوال نے سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔۔۔۔اتنے دنوں تو جیسے تیسے اپنے دل کو سمجھا کر اس نے خود کو زرشے سے دور رکھاتھا یہ صرف شانوال خان ہی جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔مگر اب دوری برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔

۔

گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی ۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ۔۔۔ شانوال کے اعصاب کو سکون بخش رہی تھیں ۔۔۔۔زرشے سے ملنے کا خیال ہی شانوال کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کیے جا رہا تھا۔۔۔۔


اس کی ناراضگی کا سوچتے ۔۔۔۔ شانوال کے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔


انسٹیٹیوٹ پہنچنتے ہی شانوال نے گاڑی کو بریک لگایا اور بے قراری سے داخلی دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔۔اس کے قدموں میں تیزی تھی دل نے قرار تھا ۔۔۔۔سانسوں میں چبھن تھی۔۔۔۔


جان تمنا کو دیکھنے کی خوشی ہی انوکھی تھی آج کتنے دنوں بعد اس کا دیدار ہو گا۔۔۔بے چین دھڑکنوں کو قرار آ جائے گا۔۔۔


اپنا تعارف کروا کر شانوال جلدی سے بلڈنگ کی طرف بڑھا۔۔۔ یہ تھوڑی سی دوری بھی شانوال کو سالوں پر محیط لگ رہی تھی۔۔۔۔


شانوال وارڈن سے پوچھتا ۔۔۔۔۔۔گہرا سانس بھر کے زرشے کے روم کی جانب بڑھا۔۔۔

زرشے اپنے بستر پر بیٹھی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی کیچر میں مقید بالوں کی آوارہ لٹیں بار بار چہرے کو چھونے کے لیے مچل رہی تھی۔۔۔سرمئ رنگ کے سادہ سے سوٹ اور شفاف چہرے کے ساتھ۔۔۔۔۔ زرشے جازب نظر لگ رہی تھی دستک کی آواز سنتے ہی سوچ میں پڑ گئ۔۔۔۔

کون۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

زرشے نے دستک ہونے پر استفسار کیا ۔۔۔۔


شانوال کے کانوں میں جیسے ہی زرشے کی آواز پڑی بے قرار روح کو سکون سا ملنے لگا ۔۔


زرشے نے دروازہ کھولا تو اس کی نگاہیں ساکت ہو گئیں اس دشمن جان کو اتنے دنوں کے بعد دیکھ کر آنکھیں بھرنے لگی۔۔۔۔

دل نے دہائی دی تھی ۔۔۔.


اسے ملنا بھی کب یاد آیا جب زرشے نے خود کو سنبھالنا سیکھ لیا تھا۔۔۔۔زرشے نے اپنے جزبات کو قابو کرتے۔۔۔۔ اپنی پلکیں بار بار جھپک کر آنسووں کو پینے لگی۔۔۔


زرشے بنا کچھ بولے سائیڈ ہوتی چہرے پر سپاٹ تاثرات سجائے وہاں سے ہٹ گِئی۔۔۔۔۔۔


شانوال نے زرشے کا سرد رویہ دیکھتے۔۔۔۔. دل کی حالت غیر ہوتی محسوس کی ۔مگر اس میں زرشے کی کوئی غلطی نہیں تھی وہ خود بھی تو زرشے کو مضبوط بنتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔اب جب سب کچھ اس کی مرضی کا تھا تو کیوں دل ابھی بھی بے قرار تھا۔۔۔


شانوال کی پیاسی نگاہیں ۔۔۔۔ زرشے کے بے داغ روشن چہرے کا طواف کرتے ہوئے خود کو سیراب کرنے لگیں۔۔۔۔


وہ ۔۔چند قدم اگے بڑھا کر زرشے کو اپنے حصار میں مضبوطی سے قید کر لیا۔۔۔۔گویا اتنے دنوں کی ازیت ۔۔۔۔۔زرشے کو محسوس کرانا چاہتا ہو۔۔۔۔


زرشے شانوال۔۔۔کی بانہوں میں مچلنے لگی۔۔۔مگر اس نے اپنی گرفت کم کرنے کی بجائے ۔۔۔زرشے کے گرد حصار سخت کر دیا۔۔

۔۔شانوال کا لمس پا کر زرشے بکھرنے لگی۔۔۔۔

اتنے دنوں کا پڑھایا سبق شکوے شکایات سب بہتے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔شانوال کی پناہوں میں خود کو محسوس کرتے۔۔۔۔ سارا تیش شکوے سمندر کی جھاگ کی مانند لگنے لگا۔۔۔۔۔


زرشے نے اس کی گرفت میں کسمساتے۔۔۔۔آخر کار مزاحمت ترک کردی۔۔۔. . . وہ اپنے نازک ہاتھ شانوال کے گرد حائل کیے اس کی قمیض ۔۔۔۔۔کو مٹھیوں میں دبوچ گئی۔۔۔.

دونوں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکنوں کی تال سنتے خاموش تھے. .


زرشے۔۔۔۔"

شانوال نے لبوں کو ہولے سے زرشے کے کان کے ساتھ حرکت دیتے ہوئے زرشے کی بالوں کی مہک کو اپنے اندر اتارا۔۔۔اتنے دنوں کی بے آرامی ۔۔۔۔ گھٹن ۔۔۔۔آسودگی میں بدلنے لگی تھی۔۔۔۔۔


شانوال نے۔۔۔زرشے کے گر اپنا حصار نرم کرتے۔۔۔۔اسے سامنے کیا۔۔۔

اور زرشے کی انکھوں پر باری باری اپنے لب رکھے جو کہ خاموشی سے بہتیں ۔۔۔۔۔اپنا کرب بیان کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔وہ اپنے لبوں کی خاموش حرکت سے زرشے کے سارے دکھ ایک ایک کر کے چننے لگا۔۔۔


زرشے بھی انکھیں بند کر کے اس آحساس کو اپنے وجود میں اتارنے لگی۔۔۔۔


"تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔۔۔۔ میری زندگی میں ان بیتے دنوں کی ازیت کو کم نہیں کرسکتا ۔۔۔تم سے دوری میرے لیے برداشت سے باہر ہے مگر یہ ضروری تھا۔۔۔۔میری جان سمجھو اپنے خان کو ۔۔۔۔۔اور ریڈی ہو جاو بگ سرپرائز کے لیے"


شانوال نے زرشے کے ماتھے پر عقیدت سے لب رکھتے ہوئے زرشے کی روئی روئی ۔۔۔۔غلافی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔۔۔جن میں رونے کہ باعث لال ڈورے تیر رہے تھے۔۔۔


شانوال نے زرشے کو اس کے فیورٹ ریسٹورینٹ سے کھانا کھلایا دونوں ہی ایک۔دوسرے کے سنگ حسیں سفر کو محسوس کر رہے تھے۔ شانوال نے اگاڑی کا رخ فارم ہاوس کی جانب موڑ دیا جہاں پر زرشے کے لیے ایک بہت بڑا سر پرائز موجود تھا۔۔۔۔۔۔۔


زرشے گاڑی کو فارم ہاوس کی جانب جاتے دیکھ کر حیرانگی سے شانوال کی جانب دیکھنے لگی

۔۔۔۔۔جسکی انکھوں میں جنون صاف نظر ا رہا تھآ مگر یہ جنون کس شے کا تھا زرشے اس کو سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔


گاڑی فارم ہاوس کے سامنے رکی چوکیدار نے دروازہ کھولا اور گاڑی گیراج میں آرکی۔۔۔۔۔شانوال ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کر زرشے کی جانب بڑھ کر کار کا دروازہ کھولتے۔۔۔۔اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔


زرشے۔۔۔۔۔ شانوال کا ہاتھ تھامتی ۔۔۔گاڑی سے اتری۔۔۔

شانوال زرشے کو اپنے ساتھ لیے لاونچ میں سے گزر کر سٹدی روم کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔


زرشے حیرانگی سے شانوال کی تمام حرکات و سکنات نوٹ کر رہی تھی۔۔۔

جو بنا کچھ بولے بس زرشے کا ہاتھ تھام کر آگے کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔

سٹدی روم کی دیوار پر جہاں زمین پر کارپٹ بچھی ہوئ تھی شانوال نے کارپٹ کو ہٹایا تو نیچے سے لکڑی کا بنا سیکرٹ ۔۔۔۔ڈور دکھائی دیا۔۔۔۔


"شانوال۔۔۔یہ سب۔۔۔۔"

زرشے نے حیران نگاہ سے یہ سب دیکھتے ہوئے شانوال سے ۔۔۔۔استفسار کیا۔۔۔۔۔۔اندر ہی اندر اسے گھبراہٹ ہونے لگی. .


جو ۔۔۔۔ اسی دروازے کو کھولنے میں مگن تھا۔۔۔


"سب سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔۔۔. "

شانوال نے زرشے کی بے صبری پر کہا۔۔۔


شانوال نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو نیچے سے سیڑھیاں نمودار ہو گئیں۔۔۔


سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے شانوال نے زرشے کی طرف ہاتھ بڑھایا جس کے لیے یہ سب کسی پر اسرار شے سے کم نا تھا۔۔۔


دونوں نیچے اترے شانوال نے روشنی کرنے کے لیے بلب آن کیا تو زرشے کی نگاہ ان دو وجود پر گئ جو کرسی پر بندھے بیٹھے تھے ان۔۔۔کی حالت بہت نازک تھی ۔۔۔۔تشدد کے نشان واضح تھے۔۔۔۔


شانوال۔۔۔یہ۔۔یہ۔۔۔تو مر گئے تھے نا۔۔۔تو یہاں کیسے۔۔۔زرشے نے جب کاشان کو ابتر حالت میں۔۔۔ کرسی پر بیٹھے دیکھا تو آنسو بھری آنکھوں سے شانوال کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔


یہی تمہاری حالت کا ذمہ دار ہے۔۔۔۔زرشے۔۔۔۔اور پھر شانوال ساری بات زرشے کو بتانے لگا۔۔۔

جسے سن کر زرشے بے یقینی کی کیفیت میں ۔۔۔۔ساکت رہ گئی۔۔. ۔۔۔آنکھیں جل تھل ہونے لگی ۔۔۔۔. . اس کے اپنوں نے اسے برباد کیا تھا۔۔۔۔۔


کچھ دیر پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شانوال کو جب اپنے خاص آدمی کا فون آیا۔۔۔

تو اس نے باس کے آنے کا بتایا۔۔۔۔.جسے سنتے شانوال کا خون اس کھول گیا

اتنے لمبے عرصے کہ انتظار کہ بعد آج مجرم کا سیاہ چہرہ بے نقاب ہو جانا تھا۔۔۔ اشتعال کی لہریں شانوال کے وجود کے اندر دوڑنے لگیں ۔۔۔۔۔ آنکھیں غضب ناک ہوتے ہوئے لہو چھلکانے لگیں۔۔۔۔


شانوال نے بے صبری سے کال بند کر تے ہوئے ای میل چیک کی۔۔۔۔


آج اتنے مہنیوں کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔میرے قہر کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاو۔۔۔۔شانوال نے ضبط سے اپنے لب بھینچتے ہوئے اپنی مٹھیوں کو سختی سے بند کرتے تیش سے سوچا۔۔


شانوال نے جلدی سے صوفے پر پڑا ہوا کوٹ اپنے مضبوط شانے پر ڈالا اور اس لوکیشن کی جانب اجلت سے گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوا۔۔۔۔۔جہاں آج اس کی تباہی کے زمہ دار ۔۔۔دونوں دشمن ملنے والے تھے۔۔۔

۔یا خدا خیر۔۔۔

اماں سائیں نماز پڑھ کر اپنے کمرے سے نکلی جب انکی نظر شانوال پر پڑی جسے اجلت میں سیڑھیوں سے پھلانگتے غصے بھرے سرد تاثرات چہرے پر سجائے کہیں جاتے دیکھا تو جلدی سے شانوال کی جانب بڑھیں۔۔۔۔۔۔


خان۔۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔اتنی اجلت میں کہا جا رہے ہو۔۔۔اماں سائیں نے شانوال سے پریشانی کے ساتھ استسفار کیا۔۔۔


"اماں سائیں اج اصل دشمن بے نقاب ہوں گے۔۔۔۔ انہیں شانوال خان کے قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔۔"۔


شانوال نے جب اماں سائیں کو اپنے قریب پایا ۔۔۔ تو سرد تاثرات کے ساتھ اپنے منصوبوں کو واضح کرنے لگا ۔۔۔اس کے لہجے میں شیر جیسی غراہٹ تھی۔۔۔۔


شانوال لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا حویلی کے پورچ میں ٹھہری اپنی گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔۔وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ۔۔۔۔۔غصے کی وجہ سے ماتھے کی رگیں پھولی ہوئی تھیں ۔۔. ۔


شانوال ریش ڈرائیو کرتے تیس منٹ کا سفر پندرہ منٹ میں طے کر کے اس لوکیشن پر پہنچا۔۔۔۔۔


وہ لوکیشن اسی جگہ کی تھی جہاں پر ایک بوسیدہ سا گھر موجود تھا وہ احتیاط سے مضبوط قدم اٹھاتے ہوئے اس گھر کے اندر داخل ہوا۔۔۔یہاں ذیادہ سکیورٹی موجود نہیں تھی۔۔۔۔۔ شاید انہیں شانوال کے اس جگہ پر آ جانے کی امید ہرگز نہیں تھی۔۔۔


شانوال جیسے ہی گھر میں داخل ہوا پورے گھر کی چھان بین کرنے لگا اسی دوران اسے ایک کمرے سے باتوں کی آواز انے لگی۔۔۔۔

شانوال چھپتے چھپاتے اس کمرے کا جائزہ لینے لگا


جس کمرے سے آوازیں آرہی تھیں ۔۔۔شانوال کو اس بات کا ادراک ہو گیا کہ کمرے میں صرف دو ہی لوگ موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔

اس ۔۔۔نے اندر جھانکنے کے لیے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔. .


اس شانوال کو میں بر باد کر دینا چاہتا ہو ان حویلی والوں نے میری ماں پر ظلم ڈھائے ان سب کا بدلہ میں شانوال سے لے کر رہو گا۔۔۔۔جس ازیت سے میری ماں دو چار ہوئی ۔۔۔ہے میں اس سے پوری حویلی والوں کو واقفیت دلانا چاہتا ہوں تاکہ انہیں بھی احساس ہو جب خو پر بیتتی ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔


قلحم نے زہر خند لہجے میں اپنے اندر کا زہر اگلنا شروع کر دیا۔۔


اندر ہونے والی تمام باتیں شانوال کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں مگر شانوال حقیقت کی تہہ تک جانا چاہتا تھا۔۔۔اسی لیے یہ اب سننے کے بعد بھی اپنے اندر کی آگ کو پھیلنے سے روکے کھڑا تھا۔۔۔


"تم فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔مجھے بھی اس حاقان سے بدلہ لینا تھا جس نے میری پسند پر قبضہ کر لیا اور ہمیشہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے میرے ساتھ نا انصافی کی۔۔۔۔اپنے بھائی کا بدلہ میں نے اس کی بیٹی سے لیا زرشے حاقان سے۔۔۔۔۔۔"


دونوں کا مشترکہ قہقہ کمرے میں گونجا۔۔۔۔


یہ دوسرا آدمی کون ہے جس کے دل میں ذرشے کے باپ کے خلاف اتنا زہر موجود ہے۔۔۔ شانوال نے اس حقیقت سے پردا اٹھانے کے لیے دروازیے کو تھوڑا اور دھکیلا۔۔۔

سامنے کو ئی اور نہیں بلکہ۔۔۔زرشے کا چچا کاشان ٹھہرا تھا۔۔۔


یشفہ کا باپ تو ایکسیڈینٹ میں مر گیا تھا پھر یہاں کیسے۔۔۔مطلب زرشے کی حالت کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ۔۔۔ بلکہ زرشے کا سگا چاچا ہے۔۔۔۔

یہ سوچ آتے ہی غصے سے شانوال کے ماتھے کی رگیں واضح ہونے لگیں۔۔اس سے پہلے کے وہ اپنے قدم آگے بڑھاتا ایک اور نئے ہونے والےانکشاف نے شانوال کو منجمد کر دیا۔۔۔اس کے قدموں کو زنجیر کر دیا۔۔۔ ساری حسیں بیدار ہوگئ۔۔ کہ کوئ اس درجہ تک سفاک کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔


ان بے وقوف لوگوں نے سمجھ لیا کہ میں ایکسیڈنٹ میں مر گیا مگر انہیں کیا خبر تھی کہ یہ سب میرا ہی پلان تھا۔۔۔۔میں تو کبھی مرا ہی نہیں اس حاقان سے بدلہ لینے کے لیے ہی تو میں نے یہ ناٹک کیا تھا۔۔۔

۔۔۔شانوال کا ضبط جواب دے گیا۔۔۔


شانوال دروازہ کھولتے ہوئے لہو چھلکاتی آنکھوں سے کمرے میں داخل ہوا اور ان دونوں پر زخمی شیر کی طرح جھپٹ پڑا۔۔۔دونوں ہی شانوال کو اپنے سامنے دیکھ کر خوف ذدہ ہو گئے۔۔۔۔ان کی انکھیں خوف سے پھیل گئیں ۔۔۔


شانوال کو زرشے کی حالت بار بار ذہن کے پردوں پر پھر سے چلتی ہوی محسوس ہو رہی تھی وہ بپھرا شیر بنا دونوں پر لپک رپا تھا اس نے انہیں تب تک نہیں چھوڑا جب تک دونوں آدھ مرے نہیں ہوئے۔۔۔۔


"میری زرشے کو ہاتھ ۔۔۔۔لگایا نا تو نے۔۔۔"

شانوال پھر سے وہ بھیانک رات یاد کرتے دوبارہ ان دونوں پر حملہ اور ہوا۔۔۔


سر پلیز رک جائیں ۔۔۔آپ کیوں اپنے ہاتھ ناپاک کر رہیں ہیں۔۔۔ تبھی شانوال کا خاص آدمی وہاں آیا۔۔۔۔اس نے شانوال ۔۔۔۔کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ جو کسی کہ قابو میں نہیں آرہا تھا۔۔۔ ۔۔


انہیں لے جاو۔۔۔یہاں سے۔۔۔"

شانوال نے گہری ۔۔۔۔ سانس لے کر خود کو پر سکون کرتے ہوئے اپنے آدمی سے کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

قلحم اور کاشان دونوں کی حالت قابل رحم تھی ان دونوں کے چہرے سے جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا شانوال نے دونوں پر کئ کاری وار کیے تھے۔۔۔


سچ نے رشتوں پر کتنا گہرا اثر ڈالنا یہ تو انے والے وقت نے ہی اشکار کرنا تھا۔۔۔۔

زندگی اپنے ایک حصے کو بے نقاب کرنے کے بعد پھر سے اپنی ڈگر پر روانہ تھی حویلی کے سب مکین سکون سے اپنے اپنے کمروں میں چین کی نیند سوئے نئے خواب بننے میں مگن تھے ایسے میں صرف ایک ہستی واشروم کے اندر بری طرح سے کھانستے ہوئے واش بیسن پر جھکی ہوئی ۔۔۔۔تھی بار بار الٹیاں کرنے کے باعث ۔۔۔ چہرہ ۔۔۔۔ لٹھے کی مانند سفید ہو رہا تھا آنکھیں پانی سے بھر کر سرخ ہو رہی تھیں ۔۔۔گھنی پلکیں پر نم سی تھیں ۔۔۔۔۔


ارتضی کی آنکھ ۔۔۔۔۔سسکیوں کی آواز سے کھلی اس نے تعجب سے سائید ٹیبل پر پڑے موبائیل کو اٹھایا۔۔۔۔۔۔ٹائم دیکھا تو اس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔۔۔۔اوراپنے ذہن کو بیدار کیا جو کہ سوئی جاگی۔۔۔کیفیت میں تھا اور اپنا ہاتھ بیڈ پر دوسری طرف لے گیا جہاں یشفہ تھی۔۔۔۔

مگر اب جگہ خالی تھی ارتضی نے جلدی سے اٹھ کر مضبوط پیروں میں چپل ڈالتے لائٹ آن کی اور واشروم کی جانب بڑھا جہاں سے یشفہ کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔۔۔۔۔


واشروم میں یشفہ۔۔کے سوائے اور کون ہو سکتا ہے وہی ہو گئ۔۔اتنی رات کو واشروم میں کیا کر رہی ہے۔۔ طبعیت تو ۔۔۔ٹھیک ہے اس کی۔ ۔۔ارتضی نے پریشانی کے ساتھ ماتھےپر ہاتھ لگاتے ہوئے سوچا یشفہ کی طبعیت خرابی کا سوچ کر ہی اس کی دھڑکنیں ۔۔۔۔۔بڑھنے لگیں تھیں ۔۔۔۔


یشفہ دروازہ کھولو۔۔اوپن دا ڈور۔۔۔۔۔۔۔ارتضی نے واشروم کے دروازے پر ناک کرتے . ۔۔یشفہ سے کہاانداز میں تشویش تھی۔۔۔


وہ جو واش بیسن پر جھکی ہوئی تھی ارتضی کی آواز سن کر دیوار پر ٹنگا ہوا تولیہ اٹھا کر منہ پونچھتی ہوئی۔۔۔۔ واشروم کا دروازہ اندر سے کھولے باہر نکلی۔۔۔بار بار الٹیاں کرنے سے یشفہ نڈھال ہو گئ تھی۔۔۔یشفہ کی ٹانگیں اس کا مزید بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوتی ساتھ چھوڑ گئیں ۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ ۔۔۔۔۔ زمین بوس ہوتی ارتضی نے یشفہ کو جلدی سے اپنے مضبوط باہوں میں تھام کر سہارا دیا۔۔۔


یشفہ تم ٹھیک ہو۔۔ ارتضی نے گھبراہتے ہوئے یشفہ کے چہرے پر آئی ۔۔۔۔ آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے پریشانی سے استسفار کیا جس کا چہرہ سفید پڑ رہاتھا ۔۔۔۔ جیسے کسی نے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا ہو۔۔


ہاں۔۔ہاں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔یشفہ نے نڈھال ہوتے ہوئے کمزور لہجے میں کہا۔۔۔


ارتضی نے یشفہ کو باہوں میں بھر کر بستر پر احتیاط سے لٹا یا اور کمفرٹر ڈالتا خود بھی۔۔۔۔ بیڈ کے دوسرے کنارے یشفہ کے پاس ہی ٹک گیا۔


۔یشفہ ڈاکٹر کو بلاوں۔۔۔۔ارتضی نے پریشانی سے یشفہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے استفسار کیا۔. . وہ کافی بے چین ہوا تھا یشفہ کی حاکت دیکھ جس کی رنگت زرد پڑ رہی تھی۔۔۔۔


"شاید رات کو جنک فوڈ کھا لیا تھا اسی وجہ سے فوڈ پوئزنگ ہو گئ ہوگی۔۔"


۔۔ارتضی کو مطمین کرنے کے لیے یشفہ نے نڈھال حالت میں بھی اپنے ہاتھ کو اس کے پریشان چہرے پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔

یشفہ اسے ریلکس کرتی محبت سے ۔۔۔اسے دیکھنے لگی. . . . ۔۔ارتضی کے چہرے پر خود کے لیے اتنی پریشانی دیکھ اسے رشک آیا تھا. . اپنی قسمت پر



"پریشان مت ہو ارتضی میں ٹھیک ہوں "

۔۔۔یشفہ نے ارتضی کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا اسے پتا تھا اگر ارتضی کو تسلی نا دلائی ۔۔۔۔ تو اسکا سر پھرا شوہر رات کے اس پہر بھی۔۔۔۔۔ڈاکٹر بلانے سے گریز نہیں کرے گا۔۔


یشفہ ارتضی کے سینے پر سر رکھتے ہوئے آرام سے سو نے لگی۔. ۔ یہی وہ واحد پناہ گاہ تھی جہاں دنیا جہاں کا سکون آباد تھا۔۔۔


"تم میری روح میں بستی ہوں میری سانسیں چلنے کے لیے ضروری ہے کہ تمہاری سانسیں چلتی رہیں تمہیں کچھ بھی ہو تو یہ سانسیں رکنے لگتی ہیں ۔۔۔"

ارتضی نے یشفہ کی پیشانی پر اپنے لب رکھتے ہوئے سرگوشی کرتے۔۔۔۔۔۔ اس کے گرد اپنے بازو ہائل کیے. . . اپنی آنکھیں سکون سے موندگیا۔۔۔

یشفہ صبح جلدی نیند سے بیدار ہو گئی۔۔۔تھی رات کا سارا منظر. . . . اس کی نگاہوں میں پوری جازبیت کے ساتھ آن سمایا تھا ۔۔

ارتضی کی بے چینی و بے قراری اس کا اضطراب ۔۔۔۔۔۔ یشفہ سے چھپا نہیں تھا۔۔۔۔۔اس شخص کی محبتیں۔۔۔ لا زوال تھیں. . . . . اپنے لیے ارتضی کی محبت دیکھ یشفہ جتنا اپنے رب کا شکر ادا کرتی کم تھا۔.۔۔۔۔۔۔ جس نے اس کی اتنی نادانیوں کے بعد بھی ۔۔۔ ارتضی جیسا ہمسفر نوازہ ۔۔۔۔


یشفہ نے ارتضی کو دیکھا جو سکون سے سویا کوئی معصوم بچہ لگ رہا تھا ساری رات . یشفہ کے لیے جاگتا اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔باربار اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے وہ کوئی دیوانہ ہی معلوم ہوا۔۔۔۔۔یشفہ رات بھر اس کے لمس کے حصار میں مقید رہی ۔۔.


ارتضی کی نیند میں خلل نا پڑے. . . اسی لیے وہ دبے پاوں ۔۔۔۔ بستر سے اٹھنے لگی مگر سر میں اٹھتی ٹھیس نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔


اہ۔۔۔یشفہ کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکلی۔۔۔


ارتضی جو کہ پہلے سے ہی جاگ چکا تھا مگر یشفہ کو نیند میں دیکھ کر اپنی آنکھیں ہھر سے بند کر لیں تھیں۔۔۔۔


جب ارتضی نے اپنی شرٹ کو یشفہ کے اٹھتے ہی کھینچتے ہوئے محسوس کرنے کے ساتھ یشفہ کی سسکی سنی تو جلدی سے اپنی انکھیں کھولی۔۔


ارتضی کی نگاہیں یشفہ سے ٹکرائیں۔۔۔۔۔۔یشفہ کے بال ارتضی کی شرٹ کے بٹن میں الجھے ہوئے تھے جنہیں یشفہ بار بار کھینچتے ہوئے نکالنے کی کوشش میں لگی ہوئی ۔۔ تھی ۔۔


"یشفہ آرام سے ۔۔۔تم بھی۔۔۔نا۔۔۔۔ کبھی کبھار بچی بن جاتی ہو۔۔ہاتھ ہٹاو میں دیکھتا ہوں۔"


۔۔ارتضی نے کہتے ساتھ ہی یشفہ کے ہاتھ ہٹائے اور آرام سے اس کے بال اپنی شرٹ کے بٹن سے نکالنے لگا۔۔


جیسے ہی یشفہ کے بال شرٹ کے بٹن سے نکلے۔۔۔یشفہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے عجلت میں ۔۔۔ پیروں میں چپل ڈالے واشروم کی جانب دوڑی. . . اور جلدی سے واش بیسن پر جھک گئ۔۔۔


ارتضی بھی تیزی سے واشروم کی جانب لپکا جہاں یشفہ مسلسل جھکی ابکائیاں کرنے میں مصروف تھی۔۔


یشفہ۔۔۔ارتضی نے اس کی پیٹھ تھپ تپھائی ۔۔۔


جیسے ہی یشفہ کی حالت سنھبلی ارتضی نے اسے تولیہ پکڑایا۔۔ اور شانوں سے تھام کر اپنی باہوں میں بھرتا بستر پر ۔۔۔ لٹاگیا۔.


"کوئی ضرورت نہیں تمہیں کہیں باہر جانے کی میں ابھی ڈاکٹر کو بلا کر آتا ہوں۔۔۔"


اس نے رات بھی یشفہ کے تسلی دلانے پر ڈاکٹر کو نہیں بلایا تھا مگر اب صبح پھر سے اس کو مسلسل ابکائیاں کرتے دیکھ ارتضی کو تشویش ہونے لگی کہ کہیں کوئی ۔۔۔ سنجیدہ مسلہ نا ہو۔۔۔


ارتضی جلدی سے لیڈی ڈاکٹر کو بلا لایا جو کہ ان کی اچھی دوست تھیں ۔۔۔وہ جیسے ہی ڈاکٹر کو لے کر حویلی آیا تو سامنے ہی ماں سائیں موجود تھیں ۔۔۔


"ارتضی سب ٹھیک تو ہے بیٹا یہ ڈاکٹر۔"


۔۔انہوں نے پریشانی سے ارتضی کے پاس جا کر پوچھا جو صبح ۔۔۔صبح ڈاکٹر کو لے آیا تھا۔۔۔۔ انہیں بھی پریشانی نے آن گھیرا۔۔.


ماں سائیں۔۔۔۔۔ کل سے یشفہ کی طبعیت خراب ہے رات سے الٹیاں کیے جا رہی یے اسی کے چیک اپ کے لیے مریم کو بلوایا ہے "


ارتضی نے اجلت میں انہیں جواب دیا اور سیڑھیاں پار کرتا ڈاکٹر کو لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔


اماں سائیں بھی تیزی سے دونوں کے کمرے کی جانب بڑھیں۔۔ ۔۔۔اخر وہ بھی اس دور سے گزر چکی تھیں کچھ کچھ اندازہ تو انہیں بھی ہو رہا تھا۔۔۔۔


آپ ۔۔۔۔ کمرے سے باہر جائیں مجھے ان کا چیک اپ کرنا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر نے یشفہ کا چیک اپ کرتے ہوئے ارتضی کو کہا جو کہ مسلسل یشفہ کو پریشان نگاہوں سے تک رہا تھا۔۔۔۔ڈاکٹر کے کہنے پر وہ باہر چلا گیا۔۔۔


-----

زرشے کے دل میں موجود سارا خوف ڈر شانوال نے اپنی محبت سے دور کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اب اس کے دل میں شانوال کی بخشی ہوئی محبت تھی. . . . اس کا دیا ہوا مان تھا جس نے پھر سے زرشے کو مظبوط کیا تھا۔۔۔۔وہ شانوال خان کی سنگت میں بکھر کے نکھری تھی۔. . . . کیا تھا وہ شخص مسیحائے جان ۔۔۔جس نے اپنے عشق سے زرشے حاقان کا نازک وجود معتبر کیا تھا۔۔۔۔


وہ۔۔۔۔ دونوں ہی سوئے ہوئے تھے جب دروازے پر دستک ہوئی ۔زرشے نے کسلمندی سے اٹھتے ہوئے اپنی آنکھیں ملیں ۔۔۔اس وقت کون آ گیا۔۔۔اس نے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا ۔۔۔تو سامنے ملازمہ تھی

بانو بی جو کہ کافی عرصے سے حویلی میں ملازم تھیں انہوں نے ہی شانوال اور زرشے کو اماں سائیں کا حکم سنایا۔۔۔کہ وہ زرشے اور شانوال کو اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔۔۔


زرشے نے اماں سائیں کا حکم سنتے ہی شانوال کو آٹھایا اور خود الماری سے کپڑے لیتے واشروم کی جانب بڑھ گئ ۔۔۔


زرشے جیسے ہی واشروم سے باہر آئی تو شانوال پہلے ہی باہر کھڑا تھا۔۔۔


"اب دیکھ کیا رہے ہیں ۔۔۔۔جلدی سے تیار ہو جائیں۔۔۔۔ اماں سائیں بلا رہی ہیں ۔۔۔"


زرشے نے واشروم سے نکلتے ہوئے شانوال کو دھکا دے کر واشروم کے اندر دھکیلا۔۔۔


سارے رومینس کا بیڑا غرق کر دیا۔۔۔۔شانوال بڑبڑاہٹ کے ساتھ واشروم کا دروازہ زور سے بند کر گیا۔۔


شانوال کی بڑبڑاہٹ سنتے ہی زرشے کی لبوں پر جاندار مسکراہٹ در آئی ۔۔ ۔۔


زرشے جلدی سے ڈریسنگ مرر کے سامنے چلی آئی۔۔۔۔ اور اپنے بالوں کو سلجھاتی ۔۔۔ساتھ اپنے کپڑوں کے ساتھ میچنگ مہرون لپ سٹک لگا کر ریڈی ہوئی۔۔۔۔ اس میں بھی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔.


واشروم کا دروازہ کھلا اور شانوال منہ پھلاتا ہوا باہر آیا۔۔۔

۔زرشے نے جب شانوال کا موڈ خراب دیکھا تو جلدی سے ڈریسنگ مرر سے شانوال کا فیورٹ پرفیوم لے کر اس پر چھڑکا


جو ۔۔۔۔۔۔سرمئ رنگ کا سوٹ پہنے سرد تاثرات لیے جاذب نظر آ رہا تھا پرفیوم چھڑکنے کے. . . بعد بھی شانوال چہرے پر سرد تاثرات لیے سنجیدہ یونہی کھڑا رہا۔۔. .


زرشے کب اس شخص کی ناراضگی سہہ سکتی تھی. ۔۔ جس نے اس کے رگوں میں پھر سے زندگی بھر دی تھی جو اس کے دل میں بستا تھا


زرشے نے ایک ہاتھ شانوال کی انکھوں پر رکھا اور پھر ایڑیوں کے بل زرا اونچا ہو کر اپنے لبوں کو شانوال کے لبوں سے جوڑ گئی۔۔۔۔ یہ سب ایک سیکنڈ میں ہوا تھا۔۔۔۔وہ فورا سے پہلے ۔۔۔۔ پیچھے ہو کر اماں سائیں کے کمرے کی جانب بھاگی۔۔۔۔

جانتی تھی اس سوئے ہوئے شیر کو جگا کر بھاگنا آسان نہیں۔۔۔۔۔


شانوال کو اپنی بیوی کی اس معصوم حرکت پر جی بھر کر پیار آیا۔ اس کا ہاتھ بے ساختہ اپنے لبوں پر آن ٹھہرا جہاں ایک نرم گرم لمس ۔۔۔۔ موجود تھا۔۔۔۔۔۔ناراضگی پل بھر میں غائب ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔


۔شانوال نے بھی اپنے قدم اماں سائیں کے کمرے کی جانب بڑھا دیے۔

وہ دونوں اس وقت اماں سائیں کے کمرے میں موجود تھے ۔۔۔۔ وہاں اماں سائیں کے علاوہ کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔


دونوں نے مل کر اماں سائیں کو سلام کیا۔۔

السلام علیکم ۔۔۔۔۔اماں سائیں ۔۔۔۔"

اماں سائیں نے دونوں کے سلام کا جواب دیا اور اگے بڑھ کر دونوں پر ہزار کے کئ نوٹ گھما کر دونوں کی جوڑی کو حاسدوں نگاہوں سے محفوظ رکھنے کے لیے صدقہ کیا اور پیسے بانو بی کو بلا کردیے اور اسے کمرے سے جانے کو کہا۔۔۔


آپ دونوں کے لیے ہم نے کچھ سوچا ہے یہ سوچ تو پہلے ہی رکھا تھا مگر کچھ مسائل میں اتنا الجھے کہ یہ آپ ۔۔۔۔۔کو دینے کا موقع ہی نہیں ملا۔۔۔۔اماں سائیں نے ایک لفافہ الماری سے نکالتے ہوئے شانوال کے ہاتھوں میں رکھا۔۔


شانوال نے جیسے ہی لفافہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ لفافے میں دو ہنی مون کی ٹکٹ تھیں ۔۔۔ شانوال نے حیرانگی سے اماں سائیں کی جانب دیکھا۔۔۔


ہاں میرے بچے۔۔۔یہ تمہارے لیے ہے تم دونوں کے رشتے نے بہت سے اتار چڑھاو دیکھیں ہیں اسی لیےباہر جاو۔۔۔۔۔ گھومو پھرو۔۔۔۔۔۔اس ٹرپ پر اور ایک دوسرے کو مزید وقت دو۔۔۔اماں سائیں نے لہجے میں پیار سموتے ہوئے زرشے کو دیکھ کر کہا۔۔


ہنی مون کے نام پر ہی زرشے کا چہرہ سرخ ہو گیا دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔۔۔۔ وہ بنا کچھ بولے۔۔۔ اپنے روم کے جانب بڑھ گئ۔۔۔

تم بھی جاو پیکنگ کرو۔۔۔یہاں کی فکر مت کرنا میں سب سنھبال لوں ۔۔۔گی۔۔۔اماں سائیں نے شانوال کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے اسے روانہ ہونے کی تیاری کرنے کے لیے کہا۔۔۔


-----


تمہیں پتا ہے نیناں اماں سائیں نے شانوال زرشے کو اپنے کمرے میں کیوں بلایا ہے۔۔ سانول نے پر تجسس لہجے میں نیناں۔۔۔۔ سے پوچھا۔۔۔


سانول کو اس ساری بات کا علم پہلے سے ہی تھا اسی لیے اس نے یہ سب نیناں کو بھی بتایا۔۔۔


مجھے کیسے پتا ہو گا کیوں بلایا ہے۔۔۔۔نیناں نے گھبراتے لہجے میں نگاہیں نیچے کرتے ہوئے سانول کو کہا جس کی بے باک نگائیں نیناں کو خود میں سمٹنے پر مجبور کر رہی تھیں ۔۔۔


سانول نے اپنے ہاتھ کو حرکت دی اور نیناں کی ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا۔۔۔


چلو میں ہی بتا دیتا ہوں۔۔ سانول نے جب نیناں کو نگاہیں اٹھاتے ہوئے دیکھا تو شوخ لہجے میں کہا۔۔


دراصل اماں سائیں دونوں کو ہنییییی مونننن پر بھیجنا چاہتی ہیں۔۔۔سانول نے گہرے لہجے میں ہنی مون کو کھینچتے ہوئے نیناں کے اس کی قربت سے دہکتے چہرے کو پر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔


نیناں سانول کی بے باک سرگوشیوں سے خود میں سمٹی جا رہی تھی جسم کا سارا لہوں چہرے پر اپنی جھلک دکھانے لگا۔۔۔


اماں سائیں نے مجھ سے بھی پوچھا ہے تو کیا خیال ہے۔۔۔۔

سانول نے اپنے لب نیناں کے کان کی لو پر لگاتے پوئے بھاری سرگوشی کئ۔۔۔


نیناں کی اواز سانول کی گہری بے باک سرگوشیاں سن کر اور اس کا دہکتا لمس برداشت کرتے حلق میں ہی کہیں گم ہو گئیں۔۔۔


نیناں کو جب اپنی فرار کی کوئ راہ سمجھ نہیں ائ تو اس نے تیزی سے سانول کے سینے میں پناہ لے لی۔۔۔


سانول نے بھی نیناں کو ستانا چھوڑ کر اپنی باہیں نیناں کے گرد ہاحل کر لی جس کے دل کی ڈھرکنیں سینے میں شور مچاتی ہوئ سانول کو صاف محسوس ہو رہی تھی۔۔۔سانول بھی انکھیں موندھے اس احساس کو اپنے اندر اتارنے لگا۔۔ See less

تبھی شانوال کی نگاہ زرشے کی جانب مڑی جو نڈھال حالت میں انکھیں بند کیے صوفے پر آڑھی ترچھی لیٹی ہوئ تھی۔۔۔

زرشے۔۔۔زرشے۔۔۔شانوال جلدی سے بستر سے اٹھا اور ایک جست میں ہی صوفے تک پہنچا۔۔بار بار اس کو پکار کر ہولے ہاتھ سے زرشے کی گال تھپتھاپائ۔۔۔

شانوال نے جلدی سے فون آٹھایا اور ریزورٹ کی انتظامیہ کو فون کر کے لیڈی ڈاکٹر بھیجوانے کا کہا۔۔۔

زرشے کا رنگ نقاہٹ کے باعث پیلہ ہو رہا تھا۔۔۔شانوال نے جگ سے پانی نکال کر اس کے چہرئے پر چھڑکا۔۔۔

تبھی دروازے پر ناک ہوا۔۔۔۔۔۔زرشے کی حالت کا سوچ سوچ کر شانوال کو خود پر ہی غصہ آ رہا تھا کہ اس نے زرشے کا خیال رکھنے میں کوئ کوہتائ کر دی ہے۔۔۔

جب شانوال اپنے اندر غصے کے ابال کو ضبط کرنے میں ناکام ہوا تو اپنا ہاتھ سخت مٹھی بنائے دیوار پر دے مارا۔۔۔

خون کی کچھ بوندیں ہاتھوں پر نمودار ہوئ مگر یہ درد اس درد سے کم تھا۔۔۔

ختم شدہ 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mohabbat Sy Intaqam Tk Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mohabbat Sy Intaqam Tk written by Faiza Sheikh  . Mohabbat Sy Intaqam Tk  by Faiza Sheikh  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment