Jaane Pehchane Se Ajnabi By Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 11 July 2024

Jaane Pehchane Se Ajnabi By Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel

Jaane Pehchane Se Ajnabi By  Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Jeene Pehchane Se Ajnabi By Sawera Ahmad Complete Romantic Novel 

Novel Name: Jaane Pehchane Se Ajnabi 

Writer Name: Sawera Ahmad

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اس کے ہاتھ بہت مہارت سے تیز تیز چلتے ہوئے آٹا گوندھ رہے تھے۔ ساتھ ہی چولہے پر بھنڈی کی سبزی بھی چڑھا رکھی تھی۔ اس نے آٹا گوندھ کے ایک طرف رکھ دیا اور اب چولہے پر رکھی ہانڈی کی جانب متوجہ ہوئی جو قریبا پک کر تیار ہو چکی تھی۔ 

اب اس نے چولہے سے ہانڈی اتار دی اور توے کو چڑھا کر روٹیاں بیلنے لگی۔ ان کے گھر میں وہ تھی اور بس اس کی ماں۔ ان دو لوگوں کے علاوہ اور تھا ہی کون؟

لہٰذا کھانا بھی اتنا ہی بنتا تھا۔ 

کھانا بنا کر کچن کے چند ایک دوسرے کام نبٹا کر وہ کپڑے جھاڑتی ہوئی باہر لان میں آگئی جہاں اسکی بوڑھی ماں مشین لگائے کپڑے دھو رہی تھی۔

"اماں آپ بھی نا بہت ضدی ہیں، کیا ضرورت ہے آپ کو بڑھاپے میں خود کو ہلکان کرنے کی۔ میں نے کہا تو کے میں کر دوں گی بعد میں" وہ شرمندہ سی ہو کر کہہ رہی تھی۔ 

تو فاطمہ بیگم نے مسکرا کر اپنی اس بیٹی کو دیکھا جس کا دل چڑیا جیسا تھا۔ وہ کسی غیر کو تکلیف میں نہ دیکھ سکتی تھی تو وہ تو پھر اسکی سگی ماں تھی۔

"میری جان، تم پریشان مت ہو۔ آگے ہی سارا گھر تم نے سنبھالا ہوا ہے مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیتی۔" انہوں نے ممتا بھرا شکوہ کیا جس پر وہ ہنس دی۔

"ظاہر ہے اب کام کرنے کی عمر تھوڑی ہے آپکی، آپ یہ رہنے دیجئے میں آ کر کر لوں گی" اس نے پھر زور دیا۔

"اچھا ٹھیک ہے میری استانی، جتنا ہو سکا ٹھیک باقی تم کر لینا۔ اب جاؤ جلدی اسکول کیلئے دیر ہورہی ہوگی۔" انہوں نے ٹوکا۔

"او ہاں، میں کپڑے تبدیل کرتی ہوں ورنہ دیر ہو جائے گی" اس نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور لان سے ملحقہ کمرے کی جانب جانے لگی مگر پھر رکی اور مڑی۔

"لیکن آپ نے یہ سارا اکیلے نہیں دھونا ہے۔ حسنہ خالہ کی بیٹی زرینہ کو میں بھیجتی ہوں آپ کی مدد کروا دے گی" جاتے جاتے بھی اس نے مسکرا کر کہا اور جھپاک سے کمرے میں گھس گئی۔

فاطمہ بیگم نے بے اختیار مسکرا کر نم آنکھوں سے اسے جاتے دیکھا۔

کون جانتا تھا کے بظاہر سب کے سامنے ہر دم مسکرانے والی مریم عبداللہ کا دل اندر سے کس قدر چھلنی چھلنی تھا۔

کس قدر زخم خوردہ تھی وہ؟

کوئی چاہے نہ جانتا ہو پر وہ تو ماں تھیں اسکی۔

اور بھلا ماں سے بھی اپنی اولاد کا درد چھپا رہ سکا ہے؟

چند لمحوں بعد ہی سفید اور ہلکے گلابی رنگ کے امتزاج والے سادہ سے شلوار قمیض پر وہ سیاہ بڑی سی چادر اوڑھتی ہوئی کمرے سے برآمد ہوئی۔

اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے میک اپ سے پاک تھا۔ اور وہ ایسی مصنوعی چیزوں کی عادی ہی کب تھی پہلے۔

اور اب تو اس کے پاس باقاعدہ وجہ تھی۔ نہ سجنے سنورنے کی۔

پاک گندمی رنگت سرخ اور مرون کڑھائی والے چادر میں دمک رہی تھی۔

جیولری کے نام پر ننھا سا ایک نگ والا لونگ اس کے چھوٹے سے ناک پر سج کر چہرے پر خوب جچتا تھا۔

سادہ سے پرنور چہرے کا سب سے حسین حصہ اسکی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تھیں جو مقابل کو اپنے سحر میں جکڑ لینے کا ہنر رکھتیں تھیں۔

فاطمہ بیگم نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ جیسے پہلی بار دیکھ رہیں ہو۔ مریم نے پرس اٹھاتے ہوئے لاشعوری طور پر چونک کر اپنی ماں کو دیکھا جن کی آنکھوں میں اس وقت اسے دیکھ کر دنیا جہاں کی تکلیف آ سمائی تھی۔

بے ساختہ وہ مجرم کی طرح نظریں چرا گئی۔

اور ان کو اللہ حافظ کہتی ہوئی وہ بنا ان سے نظریں ملائے گھر سے نکل گئی۔

وہ مجرم نہ تھی۔ مگر اپنی ماں کی تکلیف دیکھ کر وہ خود کو ہی مورد الزام ٹھہراتی تھی۔

وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چراتی پھرتی تھیں۔

مگر تکلیف دونوں کی ہی ایک دوسرے سے چھپی نہ تھی۔

"یا اللہ میری بچی کی آزمائش ختم کردے مالک" ان کے لبوں سے پہلی بار بے اختیار ایک درد بھری پکار برآمد ہوئی۔ اور وہ سسک پڑیں۔

دکھ سے بھرے دل کی پکار تو بنا کسی رکاوٹ کے عرش تک پہنچ جاتی ہے۔

پکار بھی وہ جو ایک بے بس اور دکھی ماں کی ہو۔

اور ہم سے ستر ماؤں جتنی محبت کرنے والا وہ ایک خدا بھلا کب ہمارے حالات سے بے خبر ہے؟

یہ تو اسی کا فرمان ہے کے مشکل کے ساتھ ہی آسانی ہے۔

"اور اپنے وعدوں میں اللہ سے سچا کون ہے؟" (القرآن)

                            ~~~▪☆☆☆▪~~~  

وہ اوندھے منہ مزے سے بستر پر پڑی تھی۔

لمبے ریشمی، چاکلیٹی براؤن بالوں نے اسکے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا۔

اچانک اسکے لاشعور نے اپنے سیدھے ہاتھ کی شہادت انگلی پر کسی شدید گرم چیز کو محسوس کیا اور تب۔۔۔

وہ شدید جلن محسوس کر کے چیختی ہوئی بستر پر اٹھ بیٹھی اور مندی مندی آنکھوں سے آس پاس کا منظر سمجھنا چاہا اور جب حسیات بیدار ہوئیں تو سامنے ہی چائے کا کپ تھامے زرش اسے گھور رہی تھی جسے دیکھ کر اسکی آنکھیں پوری کھل گئیں۔

"او ہو زری، کیا یار صبح صبح میری نازک انگلیاں جلا ڈالیں تو نے" اس نے منہ بنا کر کہتے ہوئے سفید اور گلابی ہاتھوں کو سامنے کیا۔ جس کی ایک انگلی گرم چائے کا کپ لگنے کی وجہ سے قدرے سرخ پڑ رہی تھی۔

"پتہ بھی ہے محترمہ ٹائم کیا ہورہا ہے؟" چائے سائیڈ ٹیبل پر پٹخی اور اسکا بیگ لا کر اسکے استری شدہ کپڑوں کے ساتھ رکھ دیا۔ 

"او مائی گاڈ، یونیورسٹی۔۔او خدایا۔۔آج تو مس شیریں نے ٹیسٹ لینا ہے" بھاگتے دوڑتے چیختی ہوئی وہ واش روم میں گھس گئی تو اس کے اس انداز پر زرش کی ہنسی بے ساختہ تھی۔

اسی وقت افشاں بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو زرش کی ہنسی کو بریک لگا۔

"اٹھ گئی یہ مہارانی۔ صبح سے بیس بار میں اٹھا چکی تھی پر مجال ہے جو یہ لڑکی ٹس سے مس ہوئی ہو۔" انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔

"آنٹی جی آپ کے اور ہمارے طریقے میں زرا فرق ہے۔" اس نے ایک بار پھر ہنس کر کہتے ہوئے چائے کا کپ انہیں دکھایا۔

جسے سمجھ کر وہ بھی ہنس پڑیں۔

"اسی لیئے تو تمہیں بلایا جلدی جلدی کر کے، تمہارے اور بلال کے علاوہ یہ کسی کی سنتی کب ہے" انہوں نے ہنس کر کہتے ہوئے سر جھٹکا۔

اسی وقت وہ واش روم سے دھلے ہوئے منہ کے ساتھ برآمد ہوئی۔

پانی کے شفاف قطرے اسکے سرخ و سفید چہرے پر موتی کی مانند چمک رہے تھے۔

اسکی عادت تھی۔ منہ دھو کر وہ تولیے یا کسی کپڑے سے خشک نہیں کرتی تھی۔ بلکہ قدرتی طور پر سوکھنے دیتی تھی۔

افشاں نے بے اختیار اسے دیکھ کر دل ہی دل میں سو بلائیں لے ڈالیں۔ مگر بظاہر غصے سے بولیں۔

"جلدی کرو، تمہاری وجہ سے زرش کو بھی دیر ہو جاتی ہے ہمیشہ" انہوں نے ڈانٹا جس کا الٹا ہی اثر ہوا۔

"ارے واہ، جب ویگنوں کے دھکے کھائیں گے تو دیر تو ہو ہی جائے گی نا۔ کتنا کہتی ہوں میں بھائی اور ابا سے کے مجھے گاڑی لے کر دو۔ مگر میری اس گھر میں سنتا کون ہے" غصے سے کہتی ہوئی پیر پٹخ کر استری شدہ کپڑے اٹھائے اور ڈریسنگ روم میں گھس گئی۔

جبکہ افشاں بیگم سر پیٹ کر رہ گئیں۔

"دیکھنا تم نے، پچھلے دو ہفتوں سے اسی طرح یہ ہمارا سر کھا رہی۔ اس مہنگائی کے دور میں بھلا نئی گاڑی خریدنا کوئی بچوں کا کھیل ہے۔ سمجھا سمجھا کر تھک گئیں میں اور بے جی۔ اوپر سے اسکی یہ ضد سن کر بلال بھی دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ اب وہ بے چارہ کرے بھی تو کیا۔ بہن کی خواہش پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے ویسے ہی افسردہ رہتا ہے۔ پہلے ہی کہتی تھی کے اسکے بے جا لاڈ نہ اٹھاؤ۔ بگڑ گئی اب یہ" افشاں بیگم کو اسی بے جا ضد سخت بری لگ رہی تھی۔

پر وہ بھی ایک ماں تھیں۔ جتنی اسکی۔ اتنی ہی بلال کی بھی۔

جسے اپنی یہ چھوٹی شرارتی بہن جان سے زیادہ عزیز تھی۔

"او ہو مدر، آپ اس کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ اسکا دماغ میں خود ہی ٹھکانے لگا دوں گی۔ آپ بس دل چھوٹا نہ کریں" زرش نے ان کے شانے تھام کر تسلی دی۔

کیونکہ افشاں بیگم اس کیلئے بھی ایک ماں کی ہی حیثیت رکھتی تھیں۔

"میری سمجھ دار بچی" انہوں نے محبت سے اسکی پیشانی چوم لی۔

جتنی وہ سمجھ دار اور پریکٹیکل تھی۔

مہر ماہ اتنی ہی جلد باز اور جذباتی۔

"اس کو لے آنا میں تب تک ناشتہ لگاتی تم دونوں کیلئے" انہوں نے مسکرا کر کہا اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔

زرش ڈیڑھ سال کی تھی جب اسکی ماں بیماری کے چلتے ننھی زرش کو چھوڑ گئیں۔

تب افشاں نے ہی اسے پالا تھا۔ ان کی مہر ماہ اس وقت ایک سال کی تھی۔ جب اس کے حصے کے دودھ میں زرش بھی شراکت دار ہوئی تھی۔

لہٰذا بلال اور مہر ماہ زرش کے دودھ شریک بھائی بہن تھے۔  جبکہ جہانزیب صاحب اور افشاں اسکے رضائی ماں باپ تھے۔

"ہو گئی ہو برائیاں میری تو چلیں اب یونی" اس نے اچانک سے کہا تو زرش بے ساختہ چونک کر اسکی جانب متوجہ ہوئی اور سر تا پیر اسے دیکھا۔

مرون گھنٹوں تک آتی فل آستینوں والی کرتی، سفید پاجامے میں ملبوس مرون جارجٹ کا دوپٹہ رسی کی طرح گردن میں ڈالے، ڈارک براؤن بال ہلکے گھنگھریالے کر کے شانوں پر دونوں طرف کو ڈالے، کاجل سے لبریز  شہد رنگ بادامی آنکھیں اور شنگرفی لبوں پر گلابی رنگ کے لپ اسٹک کی ہلکی سی تہہ۔

وہ ہمیشہ کی طرح تیار شیار کھڑی تھی۔

"کیا دیکھ رہی ہو" مہر ماہ نے اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا۔ تو وہ چونکی۔

"نہیں۔۔کچھ نہیں چلو آؤ ناشتہ کرتے ہیں۔ لیٹ ہو رہا ہے۔" اس نے کہا تو وہ بیگ اٹھاتی ہوئی زرش کے ساتھ چل دی۔

ناشتے کی میز کے سربراہی کرسی پر جہانزیب عالم بیٹھے اخبار میں گم تھے۔ وہ ایک یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے۔

آج کل فراغت ہی فراغت تھی۔

ان دونوں کے مارننگ وش کا جواب دیا اور پھر سے اخبار میں گم ہو گئے۔

وہ ناشتے کی میز پر بیٹھ گئی اور پوری رفتار سے ناشتہ کرنے لگی۔

زرش بھی اس کے برابر بیٹھ گئی۔

بے جی جو دور کرسی پر بیٹھی تسبیح کر رہیں تھیں  اسے یوں کھاتے دیکھ کر بے اختیار ٹوکا۔

"اے مہرو، انسانوں کی طرح کھا لے۔"

تو اس نے ہاتھ روک کر انہیں دیکھا۔

"آپ لوگ مجھے انسان سمجھ لیں تو نا" اس نے تپ کر کہا۔

زرش نے گھورا۔

"ہائے ہائے، لڑکی اتنی لمبی زبان۔ ہمارے زمانے میں اگر کوئی بزرگ کو الٹا جواب دیتا تھا تو وہی سے جوتا رکھ کے دیا جاتا تھا" بے جی نے جوتا دکھایا جس پر زرش نے بمشکل ہنسی دبائی۔

"تم کو بڑی ہنسی آرہی ہے۔ آنا زرا یونی تب بتاتی میں" ہلکی آواز میں اس نے زرش کو گھورکا تو اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی۔

"بے جی آپ کے زمانے گئے۔ اور ساتھ وہ باتیں بھی گئیں۔ اب زرا ہمارے زمانے کی  بات کی جائے تو آج کل وقت کے رفتار سے ملنے کیلئے ایک مشین درکار ہوتی ہے۔ جسے ہم عرف عام میں گاڑی بھی کہتے ہیں" مزے سے ناشتہ کرتے ہوئے کہا۔

توبے اختیار جہانزیب صاحب نے اخبار چہرے سے ہٹائی۔

"ہر بات کو توڑ مروڑ کر بہر حال تم نے کرنی اپنے مطلب کی بات ہی ہوتی ہے نا" افشاں بیگم جو تب سے خاموشی سے اسے سن رہیں تھی وہی کچن میں کھڑے کھڑے اسکی کلاس لی۔

"ہاں ہاں، میں تو ہوں ہی بری نا" اس نے روہانسی ہو کر جہانزیب صاحب کو دیکھا۔

تو انہوں نے بے اختیار مسکرا کر پھر سے اخبار چہرے کے گرد پھیلا لیا۔

ان کی اس نظر اندازی پر وہ ششدر رہ گئی اور فورا سے پیشتر اپنا بیگ اٹھایا۔ ساتھ خود بھی کھڑی ہوگئی۔

"تم نے آنا ہو تو آ جانا۔ میں جارہی۔ اونہہ" پیر پٹختے ہوئے وہ زرش کو کہہ کر منہ پھلائے گھر سے باہر نکل گئی۔

جب سب نے دیکھا کے وہ جا چکی تو بے ساختہ ہنس پڑے۔ 

زرش اور بے جی نے تالی ماری۔

"دیکھا تم نے افشاں اپنی شہزادی کو کیسے منہ پھلا کے گئی ہے" بے جی نے ہنستے ہوئے کہا۔

انہیں کافی حد تک افسوس بھی ہوا۔

"ارے اماں، اگر اس کو ابھی بتا دیتے تو بھلا کیا سرپرائز  رہ جاتا۔ دو دن بعد اسکی سالگرہ ہے۔ بلال نے اس کیلئے گاڑی بک کروا دی ہے۔ اب اسی دن اس کو سرپرائز دیں گے" جہانزیب صاحب نے مسکرا کر کہا۔

جبکہ زرش ہنستی ہوئی ان سب کو اللہ حافظ کہہ کر گھر سے نکل گئی۔

اور چشم تصور سے اس نے وہ لمحہ سوچا جب مہرو اپنے سامنے گاڑی دیکھتی۔

اس کا ریئکشن سوچ کر ہی وہ اور بھی ہنسی۔

                              ☆☆☆☆☆

وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے ارد گرد نگاہیں دوڑاتا تو کبھی گھڑی دیکھنے لگتا۔ جو صبح کے دس بج جانے کا اعلان کررہی تھی۔

اس کے باس نے آج صبح ہی صبح اسے سخت تاکید کرتے ہوئے ایئر پورٹ بھیجا تھا۔

کیونکہ ان کا بیٹا دوبئی سے واپس آرہا تھا۔

بلال نے "مسٹر غازی" والا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا۔

اس نے اکتا کر ایک بار پھر ادھر اُدھر دیکھا۔

کوئی متوجہ نہ ہوا تھا اب تک۔

تبھی اچانک اسکی ساری حسیات ایک دم الرٹ ہوگئیں۔

سفید ٹو پیس پر مرون کوٹ پہنے، سیاہ سن گلاسس لگائے وہ چھ فٹ کا ایک شاندار سا شخص سامنے سے چلا آرہا تھا۔

اور بلال جہانزیب کو پورا یقین تھا کے وہی اسکے باس کا بیٹا ہے۔

اور واقعی وہ چلتا ہوا بلال کے مقابل آگیا اور اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔

"غازی اردشیر؟" بلال نے گویا کنفرم کرنا چاہا۔

تو مقابل کی کشادہ پیشانی پر ناگواری کی لکیریں ابھریں۔

"بلا وجہ کے کوئیسچنز مجھے قطعی پسند نہیں۔۔۔مائنڈ اٹ" سرد لہجے میں کہہ کر بریف کیس اسکی جانب اچھال دی۔ جسے بلال نے بروقت کیچ کرلیا۔

تیز قدموں سے وہ آگے آگے چل رہا تھا۔

پیچھے بلال اسکے سامان والی ٹرالی گھسیٹ کر لارہا تھا۔

گرے کلر کے بی۔ایم۔ڈبلیو کے پاس وہ رکا۔

تب تک بلال بھی گاڑی تک پہنچ چکا تھا۔

"گاڑی میں خود ڈرائیو کروں گا" ماتھے پر بل ڈالے کہا۔

تو بلال نے میکانکی انداز میں چابی اسکی جانب بڑھا دی۔

جسے تھام کر وہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا۔

ناچار سامان رکھنے کے بعد وہ بھی فرنٹ ڈور کھول کر اسکے برابر بیٹھ گیا۔

"یہ ہنستا نہیں ہے کیا؟" بلال نے دل میں سوچا۔

تب تک اس نے گاڑی اسٹارٹ کر کے سڑک پر ڈال دی۔

کے 

"سر، آپ کو کیسے پتہ چلا یہی ہماری میرا مطلب آپکی گاڑی ہے؟" بلال نے بے ساختہ ذہن میں چل رہے سوال کو زبان دی۔

تو گاڑی چلاتے ہوئے اردشیر نے سن گلاسس کے اندر تلے نگاہیں موڑ کر اس خوش شکل نوجوان کو دیکھا جو قریبا اسکے ہم عمر تھا۔

"نمبر پلیٹ" مصروف سے انداز میں مختصر ترین جواب دیا۔ 

تب بلال شرمندہ سا ہو گیا۔

گاڑی کی نمبر پلیٹ پر ہی تو "غازی" لکھا تھا۔

                   ~~~▪☆☆☆▪~~~

وہ دونوں یونیورسٹی سے واپس ہونے کیلئے اب بس میں سنوار تھیں۔ توقع کے عین مطابق وہ سب کچھ بھول بھال کر ہنس رہی تھی۔

یہی تو اسکی خاص بات تھی۔ 

ہر تلخی لمحوں میں اسکے اندر سے زائل ہو جاتی تھی۔

اب بھی زرش نے اسے ہنستے دیکھ کر شکر کا سانس لیا۔

"دیکھا آج تم نے کے کیسے میں اس چڑیل عائمہ کو سبق سکھایا۔ اب وہ سو بار سوچے گی مجھ سے پنگا لینے سے پہلے" وہ اپنی حرکت پر خود ہی ہنس رہی تھی۔

عائمہ زرش اور مہرو کے کالج کے دنوں سے ہی دشمن رہی تھی۔

آئے دن مہر ماہ کا اس سے پنگاہ ہوتا تھا۔

آج تو اس نے اگلے پچھلے سارے حساب بے باق کرتے ہوئے عائمہ کے ریشمی سیاہ بال اسپری کرکے "ہرے رنگ" میں تبدیل کردیئے تھے۔

اور تو اور اسکی سیٹ پر "اسٹیکو" لگا آئی۔ جس پر عائمہ بے دھیانی میں بیٹھی تو چپک کر رہ گئی۔

اور اس پر سب اتنا ہنسے کے لوٹ پوٹ ہوگئے۔

"کیوں کرتی ہو ایسی حرکتیں، ڈانٹ بھی کھا لی نا پھر پرنسپل سے" زرش نے ہاتھ میں پکڑی فائل اسکے سر پر ماری۔

مگر پھر بھی وہ ڈھٹائی سے ہنستی رہی۔

"ڈانٹنے دو، میری بلا سے۔ بے جی کہتی ہیں بڑوں کی ڈانٹ دعا بن کر لگتی ہے" آنکھیں پٹپٹا کر کچھ ایسی معصومیت سے کہا کے زرش بھی مسکرا اٹھی۔

بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ وہ دونوں بمشکل کھڑی  تھیں جب زرش نے محسوس کیا کے دائیں طرف موجود اسکے ہاتھ پر کسی کا ہاتھ ٹچ ہورہا تھا۔

وہ گھبرا گئی۔

کنڈیکٹر خباثت سے مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔

ادھر اُدھر ہونے ہٹنے کی جگہ بھی نہ تھی۔

مہر ماہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے پوچھا کے کیا ہوا؟ تو اس نے اشارے سے اسکی توجہ اپنے دوسرے ہاتھ پر دلائی۔

اور جیسے ہی اس نے دیکھا تو غصے سے لال پیلی ہوگئی۔ راش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کنڈیکٹر نے اپنے سیاہ ہاتھ کی تین انگلیاں زرش کے ہاتھ پر رکھی تھیں۔

مہر ماہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تسلی دی اور اپنے بیگ سے ہاتھ ڈال کر ایک بند مٹھی باہر نکالی۔

فاصلہ کم تھا ان کے درمیان۔

مسکرا کر مہرو نے وہ ہاتھ کنڈیکٹر کے ہاتھ پر رکھ دیا جس میں کھلے منہ والی "سیفٹی پن" موجود تھی۔

ہاتھ کی پشت پر چبھن نے اسے اسکی نانی یاد دلا دی۔

مہرو دانت پیس کر مسکراتے ہوئے آہستگی سے بولی۔

"آواز نہیں کرنا بےغیرت، ادھر لوگ متوجہ ہوئے اور اُدھر تیری صحیح والی "کٹ" لگا دیں گے" سرگوشی میں کہا تو کنڈیکٹر نے بمشکل اپنی چیخ روکی۔

اور التجا بھری نظروں سے مہر ماہ کو دیکھا۔

جب کے اس دوران زرش خوب ہنسی۔

"اب بول کے بس میں چڑھنے والی ہر عورت میری بہن ہے۔ میں کسی کو نہیں چھیڑوں گا" دانت پیس کر دھیمے لہجے میں کہا۔

کنڈیکٹر نے جلدی سے اسکی بات کو دہرایا۔

"ہر عورت میری بہن ہے۔ آپ دونوں تو میری سگی بہنیں ہو آج سے" درد بھری آواز میں کہا۔

تو مہر ماہ نے اسکے ہاتھ میں گھونپی گئی وہ پن کھینچ نکالی۔

جس پر وہ بلبلا اٹھا۔

اور جلدی سے زرش کے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔

بس سے نیچے اترتے ہی زرش اور وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستی چلی گئیں۔

                       ~~~▪☆☆☆▪~~~

سرکاری گاڑی میں خاموشی سے وہ پچھلی نشست پر بیٹھا تھا۔ 

اسکا ڈرائیور بھی بڑی ہی خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا۔

اس خاموش خاموش سے فضاء میں نصرت فتح علی کی آواز ایک خوبصورت سا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔

"کالی کالی زلفوں کے پھندے نہ ڈالو

ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو! 

جبھی اسکا موبائل چنگھاڑا۔

"علی محمد گانے کی آواز کم کرو زرا" اس نے کہتے ہوئے کال ریسیو کرلی۔

دوسری طرف اسکا شاید کوئی جاننے والا تھا جس کی آواز پر اسکا چہرہ کھل اٹھا۔

"ارے نہیں یار پھر سے ٹرانسفر ہوا ہے میرا۔ ہاں یہی  کسی قصبے میں ہوا ہے شہر سے دور ہے کافی۔ تم تو جانتے ہی ہو کے بد قسمتی سے ہمارے ملک میں نہ ایمانداری سے ڈیوٹی خود کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں"

کہتے ہوئے خاموش ہوا پھر دوسری طرف کی بات سن کر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔

"نہیں یار بس بات یہی تھی کے میں نے ایک ڈرگ ڈیلر کو رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ اب وہ نکل آیا ہمارے سیاستدانوں کا خاص "پٹھو" تو بس اسے چھڑوا دیا گیا اور مجھے ٹرانسفر آرڈر تھما کر دور دراز کے علاقے میں بھیج دیا جہاں ان کو اپنے خلاف کریک ڈاؤن کا خطرہ نہ رہے"۔

اس نے ہنس کر کہتے ہوئے اپنے حالات بتائے۔

پچھلے تین سالوں میں یہ اسکا پندرہواں ٹرانسفر آرڈر تھا جو اسے تھمایا گیا۔ وہ بھی محض ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی کرنے کی وجہ سے۔

"اچھا سن امی کا خیال رکھنا۔ میں کچھ دنوں میں یہاں سیٹل ہونے کے بعد انہیں بلوا لوں گا" اس نے کہا اور دوسری طرف کی بات سن کر چند ایک مزید باتیں کرکے فون بند کردیا۔

"صاحب آپ کی منزل آگئی ہے" ڈرائیور نے گاڑی پکی سڑک سے اتار کر ایک قدرے دور پار کے علاقے میں روکی۔

"اچھا ٹھیک ہے۔ تم سامان اتروا لو تب تک میں آس پاس جائزہ لیتا ہوں زرا" وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا۔

ابھی وہ آس پاس کا جائزہ لے ہی رہا تھا کے ایک بزرگ پگڑی باندھے مسکراتے ہوئے اسکی جانب چلے آرہے تھے۔

ساتھ چند اور لوگ بھی تھے۔

اس نے ایک ابرو اٹھا کر ان سب کا جائزہ لیا۔

جبکہ وہ سب اشتیاق سے اس کڑکڑاتے ہوئے سفید شلوار قمیض میں ملبوس پشاوری چپل پہنے سرخ و سفید نوجوان کو دیکھ رہے تھے۔

جس کے کسرتی بازو ایسے تھے کے ابھی آستین پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے۔

"السلام و علیکم  جناب، آپ کے ہی منتظر تھے۔" انہی سفید داڑھی مونچھوں والے بزرگ نے خوشدلی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

تو وہ بھی مسکرا دیا۔

"آپ؟" اس نے سوالیہ انداز میں ان کا تعارف چاہا۔

"ہم شاہ زین ہیں۔ اس قصبے کے بزرگ اور یہ ہمارے ساتھی ہیں" انہوں نے مسکرا کر اپنے ساتھ موجود ایک ایک کا تعارف کروایا۔

"ڈی-ایس_پی وجاہت آفریدی" اس نے اپنے تعارف میں بس ایک جملہ کہا

جہانزیب عالم اور افشاں بیگم کی دو ہی اولادیں تھیں۔ بڑا بیٹا بلال اور اس سے چھوٹی مہر ماہ (جسے گھر والے پیار سے مہرو کہتے ہیں)۔ بلال کی پیدائش کے بعد کچھ پیچیدگیوں کے باعث افشاں بیگم کئی سال تک دوسری اولاد سے محروم رہیں۔ اور بہت منتوں و مرادوں کے بعد جا کر بلال کے قریبا آٹھ سال بعد مہر ماہ ان کی زندگی میں بہار بن کر آگئی۔

اور اس نے ان کی فیملی کو مکمل اور حتمی شکل دے دی۔

جہانزیب صاحب اور افشاں بیگم تو خوش تھے ہی مگر اس گلاب کی پنکھڑیوں سی سرخ اور آبگینے جیسی نازک بہن کو پا کر بلال کی بھی خوشی دیدنی تھی۔

بچپن سے ہی اسے عادت تھی ہر چیز مہر ماہ سے شیئر کرنے کی۔

ان ہی دنوں ان کے سامنے والے گھر میں سفیان قریشی اپنی بیوی خالدہ کے ساتھ شفٹ ہوئے تھے۔

آمنے سامنے رہنے کی وجہ سے بہت جلد سفیان قریشی اور جہانزیب عالم میں گہری دوستی ہوگئی۔

آنا جانا ہوا تو افشاں بیگم کی بھی اپنی ہم مزاج خالدہ بیگم سے دوستی اتنی گہری ہوئی کے لگتا تھا جیسے کتنے ہی سالوں کا یارانہ ہو۔

مگر خالدہ بیگم بہت کم زندگی لکھوا کر آئیں تھیں شاید ۔ان کو برین ٹیومر تھا۔ اور یہ بیماری بھی تب ہی ظاہر ہوئی تھی جب زرش کی پیدائش ہوئی۔

اس طرح ان لوگوں کا ساتھ مختصر سا رہا۔

اور وہ سال بھر کی زرش کو سفیان کی گود میں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملی۔

تب سفیان قریشی بکھر کر رہ گئے۔ انہیں اپنا ہوش ہی نہ تھا تو زرش کہاں سے یاد رہتی۔

اور یہی وہ وقت تھا جب افشاں نے آگے بڑھ کر اس ننھی پری کو گود میں لیا۔ اس کی دیکھ ریکھ کی۔

اور پھر جہانزیب عالم اور کئی دوسرے دوستوں کے ساتھ کا ہی اثر تھا کے سفیان جلد صدمے سے باہر آ ئے۔

تب انہوں نے دیکھا کے زرش کافی ہل جل گئی تھی افشاں بیگم کے ساتھ۔

تو بے اختیار وہ ان بے غرض لوگوں کے بے حد معترف ہوئے۔

تب سے ہی زرش اور مہر ماہ ایک ہی اسکول، ایک ہی کالج اور اب ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں۔

اور دو جسم ایک جان کی مانند تھی۔ ان دونوں کی دوستی۔ بالکل جہانزیب اور سفیان کی دوستی کی طرح۔

رہا بلال تو وہ ان دونوں میں ہی کوئی فرق نہیں کرتا تھا۔

زرش کو بھی سگی بہن جتنا ہی عزیز رکھتا تھا۔

ہاں البتہ مہر ماہ اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی۔

وہ اپنے حصے کی چیزیں بھی اسے دیا کرتا تھا۔

اسکے بے جا خواہشات کو پورا کرنے کیلئے بلال اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر جاب بھی کرتا تھا۔

کیونکہ محترمہ مہرو کو بچپن سے ہی نئے نئے کپڑے، جوتے، جیولری اور سجنے سنورنے سے عشق تھا۔

جیسے جیسے وہ بڑھی ہوتی گئی۔ بلال کی محبت اور لاڈ میں بھی اس کیلئے بے حد اضافہ ہوتا رہا۔

جہانزیب صاحب تو ٹھہرے ایک یونیورسٹی کے پروفیسر جن کے مہینے کی تنخواہ سے بمشکل گھر چل جاتا تھا۔

یہ بلال ہی تھا جس نے بچپن سے ہی اسکے لاڈ اٹھائے تھے۔

اور وہ بھی بے دھڑک ہو کر جو چاہے بھائی سے مانگ لیتی تھی۔

جیسے کے اب ڈرائیونگ لائسنس ملنے کے فوری بعد گاڑی کی فرمائش کر رہی تھی۔ اور پہلی بار بلال بے بس سا ہو کر اس سے چھپتا پھر رہا تھا۔

کیوں کے اپنی لاڈلی کو انکار کرنا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔

اور اسی بات پر مہرو پچھلے کئی دنوں سے اب منہ پھلائے رہتی تھی۔

سب کے لاکھ سمجھانے پر بھی اس نے اپنی ضد نہ چھوڑی۔

ایسی تھی وہ۔

بلا کی خود سر اور اگر ضد پہ کبھی اڑ جاتی تھی تو پھر بلال اور زرش کی بھی نہیں سنتی تھی۔

~~~•☆☆☆•~~~

عثمان غازی اور نگہت بیگم کی بھی دو اولادیں ہیں۔

اردشیر اور مہک۔

اردشیر مہک سے تین برس بڑا ہے۔

وہ بھی مہک پر اسی طرح جان نچھاور کرتا ہے جس طرح بلال مہر ماہ پر۔

کچھ دیر قبل ہی اردشیر ایئر پورٹ پہنچا تھا۔

اور اب اسکے آتے ہی "غازی ولا" اس وقت زندگی سے بھرپور مختلف آوازوں سے گونج رہا تھا۔

اردشیر کے آتے ہی جہاں سب خوش تھے۔ وہی اس کے انداز پر دکھی بھی تھے۔

کیونکہ اب وہ بہت کم بات کرتا تھا۔

بہت کم مسکراتا تھا۔

اور یہ باتیں نگہت بیگم کو کھل رہی تھیں۔

ہر ماں کی طرح وہ بھی اپنے بیٹے کو ہنستا کھیلتا دیکھنا چاہتی تھیں۔

اب بھی وہ اور صفیہ بانو (اردشیر کی دادی) اس کے ساتھ بیٹھے اسے بولنے پر اکسا رہے تھے۔

جبکہ وہ ان کے درمیان بیٹھا بھی اپنے موبائل پر لگا ہوا تھا۔

اور یہ حرکت دانستہ ان کے سوال جواب سے بچنے کیلئے تھی۔ یہ وہ دونوں خواتین اچھی طرح جانتی تھیں۔

جبھی بہت زیادہ اسے نہیں کرید رہیں تھیں۔

آخر کو پانچ سال بعد اب جا کر تو اس نے اپنی شکل دکھائی تھی۔

"مہک کہاں ہے؟" اس نے نگاہیں اٹھا کر ادھر اُدھر جائزہ لیا۔ اور اپنی اکلوتی بہن کو کھوجا۔

"وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہمارے جنگل والے فارم ہاؤس گئی ہے" نگہت بیگم نے اس کے سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

اس سے پہلے کے وہ مزید پوچھ گچھ کرتا ایک خوشگوار آواز گونجی۔ جس نے اردشیر کے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی متوجہ کر لیا۔

"شیرے، میری جان" برہان وہی سے بریک فیل گاڑی کی طرح بھاگتا ہوا اسکے سامنے آیا اور اسے زور سے خود میں بھینچ لیا۔

اور اس عرصے میں پہلی بار غازی اردشیر مسکرایا تھا۔

اور اتنی دلکش تھی اسکی مسکراہٹ کے بے جی اور نگہت بیگم نے بے اختیار اسکی بلائیں لے ڈالی۔

"کمینے، اب آئی ہے تجھے گھر کی یاد۔ اور شرم تو نہیں آئی نہ اتنا اچانک آ گیا اور مجھے بتایا تک نہیں کے میں ایئر پورٹ ہی آ جاتا تجھے لینے" برہان نے بہت دیر بعد اس سے الگ ہوتے ہوئے اسکے مضبوط شانوں پر ایک زوردار مکا رسید کیا۔

"بتا دیتا تو تیرے چہرے کی جو یہ خوشی ہے وہ کیسے دیکھتا" اردشیر نے اسکے بال بکھیرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

جبکہ اس عرصے میں وہ دونوں ہی نگہت بیگم اور بے جی کو فراموش کر چکے تھے۔

تبھی گلا کھنکار کر ان دونوں کو متوجہ کیا گیا۔

تو برہان نے اپنے دائیں جانب دیکھا۔ اور خجل سا ہو گیا۔

"سوری آنٹی جی آپ لوگ ادھر ہی تھے میں زرا ایموشنل ہو گیا اپنے یار نوں ویکھ کے" اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا اور ساتھ ہی بے جی سے لپٹ گیا۔

"بد ماش، بالکل نہیں بدلا تو ویسا کا ویسا ہی جھلا ہے" بے جی نے اسکے چپت رسید کی۔

تو وہ کان پکڑتا ہوا اردشیر کو ساتھ لیئے صوفے پر بیٹھ گیا۔

"بھائی، بھابھی اور کائنات کہاں ہیں؟ ساتھ نہیں آئے" نگہت بیگم نے اس سے پوچھا جو اب دنیا جہاں بھلائے اپنے بچپن کے ساتھی کو سامنے پا کر ہی اس سے محو گفتگو تھا۔

"او خیر۔۔۔مجھے تو جیسے ہی اطلاع ملی میں آفس سب کام چھوڑ چھاڑ کا ادھر بھاگا چلا آیا۔" اس نے زبان دانتوں تلے دبا کر کہا۔ کیونکہ محمودہ بیگم (برہان کی ماں) کی متوقع جھاڑ تو اسے اب یاد آئی تھی۔ جو اتنی بڑی خبر نہ دینے پر اسے پڑنے والی تھی۔

"اچھا چل ابھی فون گھما یوسف کو، اور کہنا محمودہ اور کائنات کو لے کر فورا یہاں پہنچے۔" بے جی نے حکم جھاڑا جس پر برہان فورا سے پیشتر موبائل نکال کر نمبر پش کرتا ہوا ذرا فاصلے پر چلا گیا۔

"بہو، یہ عثمان غازی کیوں نہیں آیا ابھی تک۔ بیٹا کب سے آیا بیٹھا ہے اور اس موے کو کام سے ہی فرست نہیں" بے جی نے اچانک نگہت بیگم پر دھاوا بول دیا۔

جس پر وہ سٹپٹا کر ان کی جانب دیکھنے لگیں۔

"جی فون تو کردیا تھا۔ اور کہا بھی تھا کے جلد گھر پہنچ جائیں۔ مگر۔۔" انہوں نے کہتے کہتے ندامت سے سر جھکا دیا

اب وہ کیا کہتیں کے عثمان صاحب تو سرے سے اردشیر کا سامنا ہی نہیں کرنا چاہتے تھے۔

ان کا غصہ پانچ سال بعد بھی جوں کا توں ہی تھا۔

وہ آج بھی اسے دیکھنے کے روادار نہ تھے۔

باپ کا ذکر چھیڑے جانے پر اردشیر بھی پل بھر میں بنا کچھ مزید کہے زینے طے کرتے ہوئے اوپر کی منزل پر بنے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

جبکہ نگہت بیگم اور بے جی ایک دوسرے کا منہ ہی تکتی رہ گئیں۔

تھوری دیر بعد برہان بھی واپس ان کی جانب آیا۔

"میں نے ان کو فون کردیا ہے۔ وہ کچھ ہی دیر میں دوڑتے ہوئے یہاں آجائیں گے" برہان نے موبائل جیب میں رکھتے ہوئے ہنس کر کہا۔

مگر پھر ان کے سنجیدہ چہرے اور اردشیر کی غیر موجودگی کو نوٹس کر کے اسکی مسکراہٹ سمٹی۔

"کیا ہوا آنٹی؟ اور یہ شیرو کہاں گیا؟" اس نے باری باری ان دونوں کو دیکھا۔

جو منہ پہ قفل لگائے بیٹھیں تھیں۔

"وہ اپنے کمرے میں گیا ہے بیٹا۔" نگہت بیگم نے نظریں چراتے ہوئے بتایا اور وہاں سے اٹھ کر کچن میں چلی گئیں۔ لیکن اتنی سی دیر میں بھی وہ اپنی اکلوتی پھوپھو کی آنکھوں میں نمی دیکھ چکا تھا۔

اور وجہ بھی وہ جانتا تھا۔

بے جی کے ساتھ ساتھ اسے بھی نگہت بیگم سے ہمدردی محسوس ہوئی۔

جو اپنے شوہر اور بیٹے کی اس سرد جنگ میں ان دونوں کے درمیان پس کر رہ گئیں تھیں۔

بے جی کو تسلی دیتے ہوئے اس نے اردشیر کے کمرے کا رخ کیا۔

اب ایک وہی تھا جو اسے سمجھا سکتا تھا۔

~~~•☆☆☆•~~~

گرمیوں کا موسم چل رہا تھا شام کے ٹھنڈے سائے ہر سو پھیل رہے تھے۔

کچھ ہی دیر میں سورج غروب ہونے کو تھا۔

چائے کا مگ تھامے وہ اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑی ٹھنڈے ہوا کے جھونکے سے لطف اندوز ہورہی تھی۔

وہ چار کمروں کا ایک مختصر سا فلیٹ تھا۔

جس میں وہ اور اسکے پاپا سفیان قریشی رہتے ہیں۔

ان کے سامنے والا ہی فلیٹ جہانزیب عالم کا تھا۔

سارا دن کبھی وہ مہر ماہ کے گھر تو کبھی مہرو اسکے گھر پھدکتی رہتی تھیں۔

اب بھی وہ تیسرے مالے کی بالکونی میں کھڑی نیچے فلیٹ میں ٹینس کھیلتے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔

جن کے ساتھ محترمہ مہرو بھی ہر روز اسی وقت باقاعدگی سے ٹینس کھیلتی تھی۔

مہرو اب بھی ان بچوں کے ساتھ نیچے کھیل رہی تھی۔

اور وہ اسکی حرکتیں دیکھ کر آپ ہی آپ ہنس رہی تھی۔

"بندر کہیں کی" اس نے ہنستے ہوئے خود کلامی کے انداز میں کہا۔

وہ جتنی شوخ اور چنچل تھی۔ مگر اسکا دل آئینے جیسا شفاف تھا۔

اور اسکی یہی بات زرش کو اس سے قریب کرتی تھی۔

کبھی کبھی وہ سوچتی تھی کے اگر مہرو اسکی اتنی اچھی دوست نہ ہوتی۔ اور اسکے گھر والوں سے اسے اتنی محبت اور اپنائیت نہ ملتی تو اسکی زندگی کتنی کٹھن ہوتی۔

اپنے والدین کی وہ پہلی اور اکلوتی ہی اولاد تھی۔

ماں تو اسکی رہی نہ تھی۔ اب رہے سفیان صاحب تو وہ ایک بینک میں ملازم تھے۔

جہاں سے وہ صبح کے گئے شام سات بجے تک لوٹتے تھے۔

ایسے میں اسے مہر ماہ کی دوستی کسی نعمت سے کم نہ لگتی تھی۔

خدا جب ہم سے کچھ لیتا ہے تو اس سے کئی گنا زیادہ اور بہتر سے ہمیں نواز بھی تو دیتا ہے۔

اس پاک رب نے اگر اسکی ماں کو اس سے الگ کیا تھا۔

تو بدلے میں کئی ایک رشتے بھی عطا کر دیئے تھے۔

ماں، باپ، بھائی، بہن، بے جی جیسی مشفق بزرگ۔

اسکے پاس سب کچھ ہی تو تھا۔

اور وہ ان نعمتوں کیلئے اپنے رب کی جتنی بھی مشکور ہوتی، کم تھا۔

کچھ لوگ دوستی میں چیزیں بانٹتے ہیں، غم اور خوشی بانٹتے ہیں

مگر مہر ماہ ایسی دوست تھی۔ جس نے اس سے اپنے تمام رشتے بانٹے تھے۔ اور بخوشی بانٹے تھے۔

تو ان سب کیلئے اگر وہ زرش سے اسکی زندگی بھی مانگتی تو وہ ہنسی خوشی دے دیتی۔

وہ اپنے ہی رو میں سوچے جارہی تھی۔ جب دروازے پر ہونے والے مخصوص بیل نے اسے خیالات سے واپس کھینچا۔

اس نے جلدی سے دروازہ کھولا تو سامنے ہی سفیان صاحب کی مشفق صورت نظر آئی۔

اس نے مسکرا کر سلام میں پہل کرتے ساتھ ہی ان کے ناتواں کندھے سے بیگ بھی لے لیا۔

تو وہ اسکے سر پر دست شفقت دھرتے ہوئے گھر میں داخل ہوگئے۔

"آپ بیٹھیے پاپا، میں پانی لاتی ہوں آپ کیلئے" اس نے کہتے ہوئے ان کا بیگ رکھا اور کچن میں چلی گئی۔

چند لمحوں بعد پانی سے بھرا گلاس تھامے وہ ان کے سامنے تھی۔

"رکھ دو بچے اور یہاں آو بیٹھو" انہوں نے مسکرا کر شفقت سے اسے پکارا تو وہ گلاس ان کے سامنے ٹیبل پر رکھتی ہوئی ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔

"کیسی ہے میری گڑیا" انہوں نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔

یہ ان کا روز کا معمول تھا۔

وہ جیسے ہی آفس سے آتے اسے ساتھ لے کر بیٹھ جاتے۔

اور اسکے تمام دن کی روداد اس سے پوچھتے ساتھ اپنی بھی کہتے۔

"بہت اچھی، آپ بتائیے آج کا دن کیسا رہا آپ کا" اس نے مسکراتے ہوئے ان سے پوچھا۔

"ہم تو بھئی بالکل ٹھیک ہیں۔ تھوڑے سے بوڑھے بھی ہو گئے ہیں۔" انہوں نے مسکرا کر کہا تو زرش نے منہ پھلا کر انکی جانب دیکھا۔

"جی نہیں، آپ بالکل فٹ ہیں ماشاءاللہ سے۔ کوئی بوڑھے ووڑھے نہیں ہوئے۔" اس نے قطعی طور پر کہا۔ تو وہ ہنس پڑے۔

"میں واقعی بوڑھا ہورہا ہوں میری بچی" انہوں نے اب کے سنجیدگی سے کہا تو زرش چونک گئی۔

"کیا ہوا پاپا؟ کوئی بات ہوئی ہے کیا" اس نے ٹھٹک کر پوچھا۔

تو انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ دھرا پھر گویا ہوئے۔

"پریشانی کی بات نہیں ہے بیٹا، آج اگر تمہاری ماں ہوتی تو وہ تم سے یہ سوال کرتی۔ مگر خیر" ان کی بوڑھی آنکھوں میں تکلیف ابھری۔

جس پر زرش کا دل کٹ کر رہ گیا۔

"ایسا مت کہیے پاپا، مما کو تو میں نے نہیں دیکھا۔ پر ہاں اتنا ضرور ہے کے آپ ہی میرے لیئے سب کچھ ہیں" اس نے گلو گیر آواز میں کہتے ہوئے ان کے سینے پر سر رکھ دیا۔

"تو بیٹا، اب جو میں کہنے والا ہوں اسے غور سے سنو۔ ہر باپ کی طرح میری بھی یہ خواہش ہے کے اپنے دن پورے کرنے سے قبل ہی میں تمہیں کسی محفوظ سائبان کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔ بیٹیاں تو امانت ہوتی ہیں۔ اور امانتیں تو ایک دن ان کے اصل حقدار کو ہی پہنچانی ہوتی ہیں۔ تو بیٹا آپ کی کیا رائے ہے۔ اگر آپ چاہو تو میں کوئی اچھا سا گھرانہ دیکھ کر آپ کو انہیں سونپ دوں۔ جو آپکے اصلی وارث ہیں۔ پھر میں پرسکون ہو کر مر سکوں گا" انہوں نے دھیرے دھیرے اپنی بات مکمل کی۔

اور انکی آخری بات پر اس نے تڑپ کر سر اٹھایا۔

"پاپا پلیز آپ ایسی باتیں نہ کریں، مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ اور آپ جو چاہیں گے میں وہ کروں گی۔ میں آپکی اچھی بیٹی ہوں نا پاپا" اس نے نم آنکھوں سے بچوں کے سے انداز میں ان سے تائید چاہی۔

تو انہوں نے ایک بار پھر اسے خود سے لگا لیا۔

"میری بچی کروڑوں میں ایک ہے۔ اور پاپا کی گڑیا ہے" ان کے آنسو گر کر انکی سفید داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔

اس پل انہیں خالدہ بیگم کی کمی شدت سے کھلی تھی۔

~~~▪☆☆☆▪~~~

سارے دن کا تھکا ہارا وہ آفس سے اب گھر لوٹا تھا۔

رات کے گیارہ بج رہے تھے۔

بے جی تو سرے شام ہی نماز پڑھنے کے بعد اپنے کمرے میں سو جاتی تھیں۔

جہانزیب صاحب بھی ٹی-وی دیکھتے دیکھتے اس وقت تک سو چکے ہوتے تھے۔

البتہ افشاں بیگم اور مہرو جاگ رہیں ہوتی تھیں۔

مگر آج خلاف معمول اس وقت وہ سو چکی تھی۔

افشاں بیگم اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔

جب وہ دروازہ ڈپلیکیٹ چابی سے کھول کر آہستگی سے اندر داخل ہوا اور پیچھے دروازہ بند کیا۔

لاؤنج میں ہی وہ سوئیٹر بن رہی تھیں جب آہٹ پر نگاہیں اٹھا کر بلال کو سامنے پایا۔

"آ گئے بیٹا، آؤ بیٹھو میں تمہارے لیئے پانی لاتی ہوں۔ پھر کھانا کھا لینا" انہوں نے گھنٹوں پر ہاتھ رکھ کر صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔

"نہیں امی، آج باس کے گھر میں انکے بیٹے کی آمد کی خوشی میں دعوت تھی۔ وہی کھا کر آیا ہوں۔ بس ایک گلاس پانی پلا دیں" تھک ہار کر صوفے پر خود کو گراتے ہوئے اس نے بتایا۔

"اچھا ٹھیک ہے" انہوں نے کہا اور کچن میں چلی گئیں۔

وہ اپنے ہی سوچوں میں گم تھا جب وہ اس کیلئے پانی لے آئیں۔

"مہرو کہاں ہے امی۔ دکھائی نہیں دی" اس نے گلاس تھامتے ہوئے پوچھا۔

"سو گئی ہے، جانتے تو ہو اسے۔ ایک نمبر کی ضدی ہے۔ بات چیت بند کر کے اس نے سارے گھر والوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اور اب خلاف عادت خاموشی اختیار کر لی ہے" انہوں نے اسکے سامنے والی نشست سنبھالتے ہوئے مہرو کو بے دریغ سنایا۔

تو تھکا ہوا ہونے کے باوجود بلال ہنس پڑا۔

"ارے امی، کرنے دیں ضد سب سے چھوٹی ہے وہ۔ اسکا حق بنتا ہے لاڈ اٹھوانا۔ اب بھئی اگر ہم گھ والے اسکی بات نہیں سنیں گے تو اور وہ بیچاری کیا کرے گی" اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔

"تمہاری اسی بات نے تو اسکا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچایا ہے۔ لڑکی ذات ہے وہ۔ اتنا سر چڑھائیں گے تو خدا جانے کل کو کیسے سسرال والے ملیں گے اس کو۔ گزارا نہیں کر سکے گی وہ" افشاں بیگم کے اندر کی فطری ماں کئی وسوسوں کا شکار ہو رہی تھی۔

"اللہ اس کے نصیب اچھے کرے امی، مہرو کو آپ کم ہانک رہی ہیں۔ میرا دل کہتا ہے کے وہ جس گھر جائے گی وہاں روشنیاں بکھیر دے گی۔ دیکھئے گا آپ۔ ہماری مہر ماہ جس گھر جائے گی اپنے گنوں کی وجہ سے وہ لوگ اسے پلکوں پر بٹھا کر رکھیں گے" بلال نے مسکرا کر سو فیصد یقین سے کہا۔

تو افشاں بیگم کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں۔

"یہ تمہارے اندر کا بھائی بول رہا ہے میرے چاند، میرے تو یہ سوچ کر ہی ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کے جتنی جذباتی اور بے وقوف یہ لڑکی ہے۔ آگے جا کر اسکا اللہ ہی حافظ ہے۔ نہ اسے کھانا بنانا آتا ہے۔ نہ یہ اتنی سلیقہ شعار اور سگھڑ ہے۔ اب اپنی زرش کو ہی دیکھ لو۔ ماشاءاللہ سے وہ بچی کتنی سمجھدار اور سلجھی ہوئی ہے۔ اور ایک یہ ہے۔ کوئی حال نہیں اسکا" انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔

"اللہ زرش کے بھی نصیب اچھے کرے۔ اور آپ خواہ مخواہ یہ سب سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کر رہی ہیں۔ ابھی تو وہ اپنے یونیورسٹی کے فائنل ایئر میں آئی ہے۔ جب وقت آئے گا تب دیکھی جائے گی۔ فلحال میں ذرا اس روٹھی شہزادی کو دیکھ آؤں" اس نے بات سمیٹتے ہوئے مہرو کے کمرے کا رخ کیا۔

اور پیچھے ایک بار پھر افشاں بیگم متفکر سی ہو گئیں۔

~~~•☆☆☆•~~~

درد ایسا ھے کہ بیان نہیں کر سکتے

کاغذ سے بھی لہو ٹپکتے ہیں

اشکوں سے آنسو بہتے ہیں

درد ایسا ہے کہ بیان نہیں کر سکتے

لفظوں میں بتا نہیں سکتے

مر چکی ہیں سب خواہشیں

اور مر چکے ہیں ہم بھی

زہر بن کر دوڑتا ھے جسم میں درد بھی

تم کیا جانو کیا سے کیا ہو کر رہ گئے ہیں ہم بھی

رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی، اپنی اکلوتی غمگسار اپنی ڈائری کھولے ہر رات کی طرح آج بھی زمانہ سو رہا تھا

ہر روز کی طرح آج بھی اپنی بے بسی کو وہ اس بے جان ڈائری میں قلم بند کر رہی تھی۔

فاطمہ بیگم عشاء پڑھ کر سو چکیں تھیں۔

وہ ان لوگوں میں سے ہر گز نہ تھی جو اپنے دکھوں کا اشتہار لگاتے ہیں۔

وہ تو ہر بات اپنے دل میں رکھ کر خود اذیتی کی حدوں کو چھوتی تھی۔

اسکی وجہ سے کسی کو تکلیف پہنچے یہ کب اسے گوارہ تھا؟

اتنا ہی نرم دل تھا مریم عبداللہ کا۔


"ایک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے ایک درد جگر میں ہوتا ہے۔

ہم راتوں کو اٹھ کے روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے۔"


میر تقی میر کا یہ شعر قلمبند کرکے اس نے ڈائری ایک طرف رکھ دی۔

اسکا ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔

تقدیر نے بھی اجب کھیل کھیلا تھا۔

لے دے کر سارا خسارا اسکے ہی حصے میں رکھ چھوڑا تھا۔

مگر اس نے پھر بھی خدا سے کوئی شکوہ نہ کیا۔

تب بھی نہیں جب اسکی بہن بھاگ گئی۔

تب بھی نہیں جب اسے اسکی مرضی کے خلاف لال جوڑا پہنایا گیا۔

تب بھی نہیں جب اسکے بہن کے کیئے کی سزا اسے دی گئی۔

اور وہ تہی دست و داماں رہ گئی۔

کرب سے اس نے آنکھیں میچ لیں۔

گرم گرم سیال اسکی بند آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے رہے۔


آج پھر سود و زیاں کا حساب کتاب ہوا۔

آج پھر اسکے نصیب میں خسارہ اور تنہائی ہی آئے۔


جانے یہ آزمائش کب ختم ہونا تھی۔

~~~•☆☆☆•~~~

آج خلاف معمول یونیورسٹی جانے کیلئے وہ جلدی تیار ہو گئی۔

نیلی جینز پر سیاہ گھٹنوں تک آتی فل آستینوں والی شرٹ پہنے۔ لمبے بالوں کی پونی ٹیل بنائے، وہ سادہ سی تیار ہوئی تھی۔

جب دل ہی خراب تھا تو تیار ہوتی بھی کیونکر؟

خاموشی سے ناشتہ کرکے وہ سامنے والے گھر کے دروازے تک آئی اور بیل پر انگلی رکھ کر ہٹانا بھول گئی جیسے۔


ہر روز زرش اسے لینے پہنچ جاتی تھی۔ آج وہ نہیں آئی تو مہر ماہ اپنا بیگ اٹھائے خود ہی اسکی طرف آ گئی تھی۔

بیل بجانے کے بعد اب وہ باقاعدہ دروازہ پیٹ رہی تھی ۔


"او زرش بی بی، مجھے کہتی ہو اور آج خود سوئی پڑی ہو۔ باہر نکلو ہمارے چاچا کی یونیورسٹی نہیں ہے جو منہ اٹھائے کبھی بھی پہنچ جائیں" اس نے زور زور سے پکارا۔

تب ہی افشاں بیگم کی پیچھے سے آواز پڑی۔


"بے جی ، آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو تالا پڑا ہے دروازے پر۔ اور زرش ہمارے گھر میں ہے۔ دوا لے کر سو رہی ہے وہ۔ آج نہیں جائے گی یونیورسٹی۔" انہوں نے بنا اسے مخاطب کیئے بظاہر بے جی سے کہا۔

تو وہ پیر پٹختی ہوئی "اونہہ" کہہ کر لفٹ میں گھس گئی۔

اور گراؤنڈ فلور کا بٹن دبا دیا۔

وہ ابھی فلیٹ سے باہر نکلی ہی تھی کے سامنے ہی بلال کو برانڈ نیو سیاہ ایکوا گاڑی سے اترتے دیکھ کر ٹھٹک کر رکی۔

اتنی دوری سے بھی وہ دیکھ سکتی تھی کے گاڑی زیرو میٹر چلی ہے۔

بالکل نئی نویلی۔

بلال نے گاڑی سے ٹیک لگائے ہوئے اشارے سے فاصلے پر کھڑی مہرو کو بلایا۔

تو وہ میکانکی انداز میں چلتی ہوئی اس تک آئی۔


بلال نے فورا سے پیشتر گاڑی کی چابی اسکے سامنے لہرائی۔

جس کے "کی-چین" پر مہر ماہ لکھا تھا۔

لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ ہوش کی دنیا میں آئی اور یقین ہو جانے پر خوشی سے چیختی ہوئی بلال سے لپٹ گئی۔


"او مائی گاڈ، بلال بھائی یہ میری گاڑی ہے۔ مائی پرسنل کار" وہ اب چیختی ہوئی باقاعدہ اچھل رہی تھی۔

جبکہ وہ اسکی خوشی دیکھ کر ہی نہال ہو گیا۔


"ہاں بالکل، یہ مہر ماہ جہانزیب کی ہی گاڑی ہے۔ تمہیں تمہارے برتھ ڈے پر سرپرائز دینا چاہ رہا تھا۔ پر کل رات کو تمہارے چہرے پر وہ سوکھے آنسوؤں کی لکیریں دیکھ کر میں نے ارادہ بدل دیا۔ اور کل کے بجائے آج ہی لے آیا" بھاری ہاتھ اسکے سر پر دھرتے ہوئے اس نے محبت سے چور لہجے میں کہا۔

تو وہ خوش ہوتی ہوئی پھر سے اسکے گلے میں جھول گئی۔


"آج تم اپنی گاڑی میں یونی جاو گی" اس نے مسکرا کر کہا تو وہ چیخی۔


"او مائی گاڈ، میں لیٹ ہورہی ہوں بھائی۔ باقی کا تھینک یو واپس آ کر کہوں گی" اس نے کہا اور جلدی جلدی اسکے سائیڈ سے ہو کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور اسے اللہ حافظ کہہ کر وہ زن سے گاڑی اڑا لے گئی۔


بلال مسکرا کر رہ گیا۔

☆☆☆☆☆


وہ اپنے ہی دھن میں خوشی اور جوش سے ڈرائیونگ کر رہی تھی کے بمشکل آدھا راستہ ہی طے کیا ہوگا جب سامنے سے آتے بی-ایم-ڈبلیو سے زوردار ٹکر ہوئی۔

اس نے ایک دم بریک لگایا۔

اور صدمے سے گنگ رہ گئی۔

اس سڑک پر اکا دکا گاڑیاں آ جا رہیں تھیں۔

لہٰذا کوئی متوجہ نہ ہوا۔

اور ایک دم ہوش آنے پر وہ غصے سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آگئی اور جائزہ لینا چاہا کے کتنا نقصان ہوا۔

یہ دیکھ کر وہ شاکڈ رہ گئی کے اسکا "برانڈ نیو ایکوا" اپنے دونوں ہیڈ لائٹس سے محروم ہو گیا تھا۔

"ہائے ربا، ستیاناس ہو۔ یہ کیا کیا تم نے؟" وہ سامنے والی گاڑی کو دیکھ کر چیخی۔

"باہر نکلو، باہر نکلو گاڑی سے" آستینیں چڑھاتے ہوئے اس نے اشارے سے سامنے والے کو پکارا۔

تو چند لمحوں بعد سیاہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس سیاہ سن گلاسس لگائے غازی اردشیر اسکے عین سامنے تھا۔

جسے دیکھ کر پل بھر کو مہر ماہ بھی مبہوت رہ گئی تھی۔

اسکے الفاظ گم ہوگئے تھے۔

وہ بنا پلکیں جھپکائے اپنے سامنے کھڑے اردشیر کو تک رہی تھی۔ جو اس سے دو قدم کے فاصلے پر کھڑا اسکی جانب متوجہ تھا۔

اور ایک دم گویا کوئی سحر ٹوٹا تھا اور وہ ہوش کی دنیا میں ہی نہیں بلکہ اپنے جون میں بھی واپس آگئی تھی۔

بس چند پل کی ہی تو بات تھی۔

"یہ کیا کیا تم نے؟ میری نئی نویلی گاڑی کا ستیاناس کر دیا۔ اندھے انسان جب سن گلاسس لگا کر ٹھیک سے نظر نہیں آتا تو کیوں پہن کر گاڑی چلاتے ہو؟ معلوم ہے میں نے آج ہی گاڑی خریدی اور تم" تیز تیز بولتے ہوئے آخر میں وہ رو دینے والی ہو گئی۔

جبکہ مقابل ہنوز خاموش اور پرسکون جھیل کی مانند رہا۔

جس میں کوئی ارتعاش پیدا نہ ہوتے دیکھ کر وہ پھر سے بھڑک اٹھی۔


"اوئے۔ میں تم سے مخاطب ہوں مسٹر سوٹ کیس۔ اندھے ہو؟ آنکھیں گھر میں بھول آئے ہو؟ یہ بڑی گاڑی نہ دکھائی دی تمہیں" اس نے اسکے سامنے چٹکی بجائی اور بانہیں وا کرکے "بڑی گاڑی" پر زور دیا۔


"اب میں کچھ کہوں؟" ٹھنڈے ٹھار لہجے میں پوچھا۔

تو اسکی زبان کو جیسے بریک لگا۔


"پہلی بات، یہ ڈبل روڈ ہے۔ اگر کبھی پہلے گاڑی چلانے کا اتفاق ہوا ہو تو یہاں ایک طرف سے گاڑی آتی ہے اور دوسری جانب سے جاتی ہے۔ لیکن تم جانے والا راستہ چھوڑ کر جان بوجھ کر اس راستے سے آئی جہاں سے مجھے آگے جانا تھا۔ تم میری راہ میں مخل ہوئی مس ہو ایور۔ اور یہ جو ابھی مجھے تم نے کہا ہے نا یہ بات تم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کے گاڑی چلانا تم عورتوں کو کبھی نہیں آیا"۔

سرد لہجے میں تمام حساب کتاب کرکے سارا خسارا اسکے حصے میں ڈال کر وہ پر سکون ہو کر پھر سے خاموش ہو گیا۔

مہر ماہ منہ کھولے اسے دیکھتی رہی۔

پھر ایک دم غصے سے بولی۔


"غلطی تمہاری تھی۔ میں اپنے راستے جارہی تھی چاہے جس بھی طرف سے جاتی۔ تم اچانک سے موڑ کاٹتے ہوئے جانے کس کونے سے نکل کر میرے سامنے آ دھمکے۔ یہ جو گاڑی کا ہارن ہوتا ہے نا یہ اسی مقصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور دوسری بات، عقل والی باتیں تم مرد ذات کی سمجھ سے بالاتر ہی ہوتی ہیں" دوبدو جواب دیتے ہوئے اس نے سینے پر ہاتھ باندھ لیئے۔


تو چند لمحے توقف کے بعد اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پھولا ہوا والٹ نکالا اور اس میں سے کڑکڑاتے ہوئے نیلے نوٹوں کی ایک گڈی اس کے منہ پر پھینکی۔ جسے لاشعوری طور پر اس نے کیچ کر لیا۔

اور گھور کر اسے دیکھا۔


"یہ رہی تمہارے نقصان کی قیمت، اب ہٹو میرے سامنے سے لیٹ ہو گیا آل ریڈی تمہاری وجہ سے" انگلی سے اشارہ کر کے اسے دور ہٹنے کو کہا۔

اور خود واپس مڑ کر اپنی گاڑی کی جانب آیا ہی چاہتا تھا جب اسکی پکار پر وہ رکا۔


"اے امیر زادے، رکو"۔

مہر ماہ نے باقاعدہ بھاگ کر فاصلہ مٹایا اور ایک مرتبہ پھر اسکی راہ میں مخل ہوئی۔

اس نے وہ گڈی اسے دکھائی جو ایک کاغذ سے اکھٹی کی گئی تھی۔ جس پر لکھا تھا "Rs. 70,000".


مہرو نے گڈی کھولی ہزار ہزار کے تیس نوٹ یعنی تیس ہزار نکالے اور باقی اسکا ہاتھ سامنے کر کے ہتھیلی پر دھر دیئے۔


"میرا نقصان بس اتنے میں ہی پورا ہو جائے گا۔" کاٹ دار لہجے میں کہتے ہوئے اس نے اپنے سائیڈ میں لٹکتے چھوٹے سے پرس میں سے مڑا تڑا سا ہزار کا نوٹ نکالا اور وہ بھی اسکے ہاتھ پر دھر دیا۔


"اپنی گاڑی کی ہیڈ لائٹس ٹھیک کروا لینا اور جو بچ جائے اس میں سے "گڑ" خرید کر کھا لینا۔ بے جی کہتی ہیں گڑ کھانے سے سڑی ہوئی شکل اور کریلے جیسی زبان میں بھی مٹھاس گھل جاتی" طنز کے تیر اس پر برساتے ہوئے وہ اسکے سائیڈ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

جبکہ اردشیر ہنوز خاموشی سے وہی کھڑا رہا۔ پھر سر جھٹک کر واپس اپنی گاڑی میں آ بیٹھا۔


دونوں نے ہی اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور دونوں ہی ایک دوسرے کے سائیڈ سے ہو کر بنا دوسری نگاہ ایک دوجے پر ڈالے وہ اپنے اپنے راستے ہو گئے۔


یہ جانے بغیر کے ان کا راستہ مثلث (🔺) کی طرح تھا۔

گھوم پھر کر بہرحال آنا انہوں نے ایک ہی جگہ تھا۔

•••☆☆☆•••☆☆☆•••


دن کے بارہ بج چکے تھے۔

جون کے اس مہینے میں سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا بلکہ آگ برسا رہا تھا۔

جبکہ باہر کے برعکس کمرے میں اے-سی کی خنکی پھیلی تھی۔

اور وہ سر تک کمبل اوڑھے سو رہی تھی۔

اطراف میں سنہرے بال بکھرے پڑے تھے۔

دروازے پر لگاتار دستک ہورہی تھی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔


"بیٹا، اٹھ جاؤ اب دن چڑھ آیا ہے۔ کب تک سوتی رہو گی"۔

نگہت بیگم کی آواز آئی۔


"او ہو مما، کون سا طوفان آ گیا ہے۔" نیند میں ڈوبی بیزار سی آواز ابھری۔

بالآخر اسے اٹھتے ہی بنی۔

لحاف پھینک کر سلیپرز پیروں میں اڑسے اور دروازہ کھولنے لگی۔

دروازہ کھلنے کے بعد سامنے ہی نگہت بیگم کی صورت نظر آئی۔


"کیا ہے مما، ابھی تو میں اسٹڈیز سے فری ہوئی ہوں یار۔ نیند بھی پوری نہیں کرنے دیتے"۔

بال سمیٹتے ہوئے مہک نے بیزاری سے کہا۔

تو نگہت بیگم برا منائے بغیر مسکرا دیں۔

کیونکہ وہ جانتی تھیں کے انکی لاڈلی بیٹی کتنی نک چڑھی اور مغرور واقعہ ہوئی تھی۔

"بیٹا دن کے بارہ بج چکے ہیں۔ اور پھر پتہ ہے نا کے بے جی کو کتنی بری لگتی ہے یہ دیر تک سونے کی عادت" انہوں نے پچکار کر کہتے اسکی دمکتی پیشانی چوم لی۔


"ان کو میں اچھی ہی کب لگتی، میری ڈریسنگ سے لے کر کھانے پینے تک پر بھی وہ نکتہ اعتراض اٹھاتی ہیں" اس نے گویا ناک سے مکھی اڑائی۔ اور الماری سے کپڑے نکال کر واش روم کا رخ کیا۔

تو نگہت بیگم نے افسوس سے سر جھٹکا۔

پندرہ منٹ بعد وہ تازہ دم ہو کر تولیے میں بال لپیٹتے ہوئے واش روم سے برآمد ہوئی۔

تب تک ملازمہ پروین اسکے لیئے کھانا لے آئی تھی۔

جسے دیکھ کر بے اختیار اسکی براؤن آنکھوں میں ناگواری در آئی۔

"یہ کیا ہے؟ میرا کھانا ہے یا پورے برات کا؟ اور وہ بھی اتنا تیل گھی والا۔ تم نہیں جانتی میں ڈائیٹ کانشس ہوں۔۔مما۔۔۔مما فورا ادھر آئیں"۔ اس پر برستے ہوئے مہک نے زور زور سے نگہت بیگم کو آوازیں دیں۔

اور کچھ ہی دیر میں وہ ہانپتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر اس کے کمرے میں ایک مرتبہ پھر موجود تھیں۔

اور پریشانی سے اسے دیکھ رہیں تھیں۔


"کیا ہوا بیٹا، کیا ہوا اتنا چیخی کیوں؟ میری تو جان ہی نکل گئی" انہوں نے سر تا پیر مہک کو دیکھ کر بے ساختہ اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ دیا۔

اس عرصے میں بے چاری پروین بنا ایک لفظ کہے ہاتھ باندھے سر جھکائے اس کے سامنے کھڑی تھی۔

جس پر اسکی غرور سے تنی گردن مزید تن کر کھڑی ہوگئی۔

خود پسندی کے جانے کس مقام پر تھی وہ لڑکی۔


"چیخوں نہیں تو اور کیا کروں، یہ دیکھیے کیا اٹھا لائی ہے یہ ہڈ حرام۔ کیا میں اس طرح کا کھانا کھاتی ہوں؟" اس نے غصے سے چیخ کر کہا۔

اور نزاکت سے کھانے کی ٹرے کی جانب انکی توجہ دلائی۔

جس میں تیل گھی سے پر کڑاہی گوشت، مرغ پلاؤ، کباب اور دو تین مزید چیزیں تھیں۔

نگہت بیگم نے افسوس سے اسے دیکھا۔

"پروین تم جاؤ" انہوں نے سر جھکائے کھڑی ملازمہ سے کہا۔ جو رو دینے کو تھی۔ انکے کہنے کی ہی دیر تھی بس۔ اور وہ بھاگ کر کمرے سے نکل گئی۔

تب وہ اسکی جانب متوجہ ہوئیں۔


"کیا ہو گیا ہے مہک بیٹے، کھانا ہی تو ہے۔ اور پھر وہ بے چاری نئی نئی آئی ہے ابھی۔ اندازہ نہیں تھا اسے کے آپ کیا کھاتی ہیں" انہوں نے اسکا غصہ ختم کرنا چاہا۔

"نیکسٹ ٹائم میرے لیئے ناشتہ، کھانا اور ہر کام کیلئے فضاء کو ہی بھیجیے گا آپ" ناک چڑھا کر قطعیت سے کہا۔ تو وہ سر ہلا کر رہ گئیں۔

"میں تمہارے لیئے کھانا بھجواتی ہوں"۔

کہہ کر وہ ٹرے اٹھائے اسکے کمرے سے باہر چلی گئیں۔

تو مہک ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ڈرائیئر سے بال سکھانے لگی۔

چمکتی ہوئی سنہری رنگت، کھڑی مغرور ناک، بھرے بھرے سے لب اور اس پر روشن بھوری آنکھیں۔ اسکے اور اردشیر کے نقوش کافی حد تک آپس میں ملتے تھے۔

اور کسی حد تک دونوں ہی ہم مزاج تھے۔

مغرور اور اکھڑ۔


وہ بال برش کررہی تھی جب بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا اسکا موبائل بج اٹھا۔

بالوں پر آخری دفعہ پھیر کر برش رکھتے ہوئے وہ مسلسل بجتے موبائل کی جانب متوجہ ہوئی۔

تو اسکرین پر جگمگاتا نام دیکھ کر اسکے لب دلکش سی مسکراہٹ میں ڈھلے۔


"ہائے عمیر، کیسے ہو؟" بظاہر سرسری انداز میں پوچھا۔


"میں تو ٹھیک ہوں میری جان، تم بتاؤ مجھے مس تو نہیں کررہی تھی؟" بے چینی سے پوچھا۔

تو وہ اسکی بے قراری سے حظ اٹھاتے ہوئے بولی۔


"نہیں تو، میرے پاس اتنا فری ٹائم نہیں ہے" انگلی پر سنہری بالوں کی لٹ لپیٹتے ہوئے اس نے بیزار سے لہجے میں کہا۔

ورنہ حقیقتا وہ اسکے ہی خیالوں میں گم رہتی تھی۔

مگر اقرار کرنا اسکی انا کو گوارہ نہیں ہوتا تھا۔

چوبیس سالہ مہک کی زندگی میں عمیر تب آیا جب یونیورسٹی میں اسکا پہلا سال تھا۔


جہاں وہ مزاج کی مغرور تھی۔ وہی یونیورسٹی لائف کی ٹف کمپیٹیشن میں باقی لڑکیوں پر سبقت لے جانے کی خواہش میں دن بدن اضافہ بھی ہوتا رہا۔

عمیر یونیورسٹی کا ایک بے حد خوبرو لڑکا تھا اور ایک امیر باپ کا بگڑا ہوا بیٹا بھی۔

وہ کپڑوں کی طرح لڑکیاں بدلتا تھا۔

ہر دوسرے دن ایک نئی لڑکی اسکے ساتھ نظر آتی تھی۔

وہ فطرتا ہی عیاش اور آوارہ واقعہ ہوا تھا۔

بھنورے کی طرح ہر ہر حسین لڑکی کے ارد گرد منڈلاتا رہتا تھا۔ اور مقصد پورا ہو جانے کے بعد انہیں کہیں رکھ کر بھول جاتا تھا۔

لیکن مہک اس کیلئے خاصا مشکل شکار ثابت ہورہی تھی۔

وہ پچھلے دو سالوں سے اسکے پیچھے تھا۔

جتنا وہ اسے پانے کی کوشش کرتا۔ اتنی ہی وہ چکنی مچھلی کی طرح اسکے ہاتھوں سے پھسل پھسل جاتی۔


وہ ہر روز کبھی اسکے ساتھ فلم دیکھنے، تو کبھی کسی پارٹی میں جاتی۔ کبھی ڈنر کرنے تو کبھی پکنک پر۔

ہاں اتنا ضرور تھا کے مہک کبھی اسکے ساتھ کہیں تنہا نہیں گئی تھی۔

مووی دیکھنے جاتی، پکنک پر یا پارٹی میں ہر جگہ وہ اپنی دوستوں کو دم چھلا بنا کر رکھتی تھی۔

بے جی کی ہر بات سے اسے اختلاف تھا مگر ان کی اس بات کو وہ بھی مانتی تھی کے مرد ذات کے ساتھ کبھی بھی کہیں تنہا نہیں جانا چاہیئے۔ خاص طور پر تب جب وہ ایک غیر ہو۔

بے شک وہ بہت حد تک ماڈرن تھی۔

مگر اپنی حفاظت کرنا وہ اچھی طرح جانتی تھی۔

اور عمیر ہر بار خون کے گھونٹ پی کر موقع کی تلاش میں ہاتھ ملتا رہ جاتا تھا۔

"ہاں ہاں، ایک میں ہی تو پاگل ہوں تمہارے پیچھے" عمیر نے جل کر کہا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

"اچھا مووی کا پلان ہے شام کو، آ رہی ہو نا؟" اس نے پتہ پھینکا۔

"ہاں آ رہی ہوں" اس نے ادا سے بالوں کی لٹ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔

"اور دیکھو اپنی سہیلیوں کو مت لے آنا ساتھ۔ یار خواں مخواہ وہ کباب میں ہڈی بنتی ہیں" اس نے آج کہہ ہی دیا۔

"کیوں نا لاؤں؟ میری دوستیں ہیں وہ۔ جہاں میں جاؤں گی وہ میرے ساتھ ہی جائیں گی۔اور اگر تمہیں اتنا ہی ہے تو شادی کرلو۔ پھر جی بھر کر گھومیں پھریں گے بنا کسی تیسرے کی موجودگی کے۔ ورنہ پھر میں نہیں جاتی۔ بائے" اس نے بات ہی ختم کرکے کال کاٹ دی۔

اور پھر سے ڈریسنگ میز کے سامنے تیار ہونے کھڑی ہوگئی۔

جب سے یونیورسٹی ختم ہوئی تھی۔ فراغت ہی فراغت تھی اسے۔

لہٰذا وہ اب سارا سارا دن گھومنے پھرنے، ہوٹلنگ اور شاپنگ میں گزار دیتی۔


عمیر اسے کال کرتا رہا مگر وہ نظر انداز کیے اپنے کام میں لگی رہی۔


یہ تو طے تھا کے وہ کبھی اسکے ساتھ تنہا نہیں جائے گی۔

~~~•☆☆☆•~~~


اسے یہاں آئے ہوئے تین دن ہو چکا تھا۔

اس عرصے میں وہ اچھا خاصا ایڈجسٹ ہو چکا تھا اس علاقے میں۔

آج وہ فراغت کے بعد گھومنے پھرنے کی غرض سے گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا علاقے کا جائزہ لے رہا تھا۔

اور کئی ایک جگہ رک کر وہ لوگوں کے مسائل بھی سن لیتا تھا اور انکے حل کی اپنی سی کوشش بھی کر دیتا۔

یا اگر مسئلہ زیادہ بڑا ہوتا تھا تو وہ حل کرنے کا وعدہ کر دیتا۔

یہ ایک قدرتی حسن سے مزین خوبصورت سا قصبہ تھا۔

اسے یہ علاقہ اور یہاں کے پر خلوص لوگ بے حد پسند آئے تھے۔

یہاں ضروریات زندگی کیلئے ہر چیز موجود تھی۔

اور یہاں کے چھوٹے سے بازار میں قریبا ہر چیز دستیاب ہوتی تھی۔

وجاہت کافی حد تک مطمئن تھا یہاں آ کر۔

من سون کا مہینہ تھا۔

آج صبح سے ہی کالے بادلوں نے آسمان پر ڈیرا ڈال رکھا تھا۔

ابھی وہ آدھا علاقہ ہی گھوما ہوگا کے اچانک ہی زور سے بجلی کڑکی اور بارش کی بے چین بوندیں تیزی سے کچی آبادی کو بھگونے لگیں۔

وجاہت آفریدی کے شاعرانہ مزاج کو یہ موسم بےحد بھاتا تھا۔

اب بھی بارش کی اس تیز بوچھاڑ کو دیکھ کر اسکا خوش گوار موڈ آپ ہی آپ اور بھی اچھا ہو گیا۔

اس نے گاڑی سست رفتاری سے چلا کر ایک شیلٹر تلے لاک لگا کر پارک کی۔

پھر چھتری اٹھائے پیدل ہی باقی راستہ طے کرنے لگا۔

گلیاں کافی تنگ اور چھوٹی تھیں۔

لہٰذا گاڑی کو وہاں سے گزارنا نا ممکن تھا۔


سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس بھورے بال ماتھے پر بکھیرے وہ واقعی اپنے نام کی طرح ہی وجیہہ تھا۔


گلیاں اب خالی پڑی تھیں۔

تھوڑی دیر پہلے والی چہل پہل اب ایک دم ہی غائب ہو گئی تھی۔

بارش کی وجہ سے بیشتر لوگ اپنے کچے پکے گھروں میں بند ہو گئے تھے۔


تبھی ایک طرف بنے اس پکے مکان کے صحن میں نظر پڑتے ہی وہ تھم سا گیا۔

مکان کی بیرونی دیوار بہت چھوٹی نہیں پر اتنی ضرور تھی کے صحن کا منظر وجاہت آفریدی با آسانی دیکھ سکتا تھا۔


کسی کی بھی موجودگی سے بے پرواہ وہ دھان پان سا وجود بارش کی بوندوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کر رہا تھا۔

اسکے ساتھ دو تین چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی تھیں جو اسکا ہاتھ تھامے پانی میں اچھل کود کر رہیں تھیں۔

جہاں کھڈا ہونے کی وجہ سے پانی جمع ہو گیا تھا۔


مریم عبداللہ جو خود کو ہر کسی کی نظروں سے ہمیشہ بچا کر رکھتی تھی۔ آج وہ کسی پر پوری طرح عیاں ہورہی تھی۔

اسکے کمر پر گرتے کھلے سیاہ بال اب اس کے وجود اور چہرے کے اطراف میں چپک کر رہ گئے تھے۔

جبکہ وہ ہر چیز سے بے نیاز بس اس تیز بوچھاڑ کے سامنے چہرہ اٹھائے ان برستے بوندوں کے ساتھ ہی جھوم رہی تھی۔

اس بات سے قطعی بے خبر کے اسکی لا علمی نے کچھ فاصلے پر موجود اس مضبوط سے شخص کو کیسے اپنے حصار میں لے کر زیر و زبر کیا تھا۔

بس ایک لمحے کی ہی تو بات تھی۔

وہ بے اختیار ہو کر اس منظر کو آنکھوں کے ذریعے گویا دل میں اتار رہا تھا۔

حالانکہ اخلاقی طور پر یہ حرکت قابل قبول نہ تھی۔

مگر اس وقت وہ اچھے برے کا سوچے بغیر ہی اسے تکتا چلا جا رہا تھا۔


اسکی نظروں کی حدت اتنی تھی کے بے خبر مریم کو اس ٹھنڈ میں بھی جلائے دے رہی تھیں۔

اور عین اسی وقت اس نے نگاہیں اٹھا کر اپنے سامنے دیکھا تو ششدر رہ گئی۔


دونوں کی نظریں ملی اور وجاہت آفریدی بے اختیار مسکرا دیا۔

جس پر مریم بھونچکا رہ گئی۔

اور اگلے ہی پل آؤ دیکھا نا تاو بس بھاگتی ہوئی وہ اپنے گھر کے اندر داخل ہو کر مقید ہو گئی۔


تو جیسے وجاہت کے گرد بنا سحر ٹوٹا۔


"بچوں ادھر آؤ" اس نے وہی کھڑے کھڑے پیار سے ان دونوں لڑکیوں کو آواز دی جو دس سال سے اوپر کی نہ تھیں۔ اور مریم کے یوں چلے جانے پر ایک دوسرے کا منہ تک رہیں تھیں۔


ان دونوں نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر چلتی ہوئی اسکے سامنے آگئیں۔


"وہ کون تھیں؟" اس نے جھکتے ہوئے مسکرا کر دلچسپی سے پوچھا۔


"ہم آپ کو کیوں بتائیں؟" ابھی ایک منہ کھولنے ہی والی تھی کے دوسری نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا۔

تو وجاہت سمجھ گیا کے وہ تھوڑی سمجھ دار تھی۔

"میں ایک پولیس آفیسر ہوں اور مجھے شک ہے کے اس لڑکی نے چوری کی ہے" اس نے زرا سنجیدگی سے کہا تو دونوں لڑکیوں نے بے اختیار منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔

"ہائے اللہ، نہیں پولیس انکل وہ چور نہیں ہو سکتیں۔ وہ ہماری استانی ہیں۔ ہمیں اچھی اچھی باتیں بتاتی ہیں۔ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتیں" دونوں نے معصومیت سے کہا۔

تو وجاہت نے بمشکل مسکراہٹ دبائی۔

"اچھا، استانی ہے تو کیا ہوا۔ استانی چوری نہیں کر سکتی کیا؟ مجھے پورا یقین ہے اس نے ہی چوری کی ہے" سنجیدگی سے اس نے اپنی بات پر زور دیا۔


"جب ہم کہہ رہے ہیں کے مس مریم نے چوری نہیں کی تو آپ مان کیوں نہیں لیتے۔وہ ہماری اسکول کی سب سے اچھی استانی ہیں"ان میں سے ایک نے منہ پھلا کر کہا۔

تو وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔


"اچھا اچھا ٹھیک ہے۔اب آپ دونوں اتنا کہتی ہو تو مان لیتے ہیں۔ لیکن اس کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کے میں نے آپ دونوں سے پوچھ تاچ کی۔ ورنہ اگر چور ان کے آس پاس ہوا تو وہ محتاط ہو جائے گا۔ ہوں سمجھ گئیں نا آپ دونوں؟" اس نے سنجیدگی سے کہا۔

تو ان دونوں نے کچھ کچھ سمجھتے اور کچھ نا سمجھتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔


"اب جاؤ شاباش اپنے گھر جاو۔ نہیں تو بیمار پڑ جاو گے آپ لوگ" اس نے باری باری ان دونوں کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ دونوں سر ہلاتی ہوئی اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔


"چلو جی، اب ایک نیا کیس ہاتھ لگا ہے۔ جو خاصہ دلچسپ ہے۔ مس مریم" اس نے مسکرا کر زیر لب کہتے ہوئے اسکا نام دہرایا اور اپنے راستے پھر سے چل پڑا۔


میرے ساتھ بڑا ہیر پھیر کیا اس نے،

مجھ جیسے شیر کو زیر کیا اس نے!

رات آٹھ بجے کا وقت تھا۔

جہانزیب صاحب کے گھر پر اس وقت سارے گھر والے کھانے کی میز پر براجمان ڈنر کرنے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

ہاں البتہ بلال کو اس وقت تک بھی آفس سے فراغت نہیں ملتی تھی۔

کیونکہ اسکا سارا دن آفس میں گزرتا تھا۔

لہٰذا وہ ان کے ساتھ موجود نہ ہوتا تھا۔


"تو مہر ماہ صاحبہ کو اپنی گاڑی کیسی لگی بھئی؟" جہانزیب صاحب نے کھانے کے دوران مسکرا کر اس سے پوچھا جو رغبت سے بریانی کھا رہی تھی۔

ان کے سوال پر اس نے ہاتھ روک کر انکی جانب دیکھا۔


"جی پاپا بہت بہت اچھی لگی۔ تھینکس ٹو یو اینڈ مائی سوئیٹ برادر " اس نے خوش ہو کر کہا۔


"ہاں اب تو خوش ہونا ہی ہے نا ان محترمہ کو۔ غضب خدا کا۔ گاڑی گاڑی کہہ کر بھائی کی جان کھا لی تھی" بے جی نے اسے چشمے کے پیچھے سے گھور کر کہا۔

تو مہرو برا منائے بغیر ڈھٹائی سے ہنستی رہی۔


"دیکھا آپ نے امی بے جی مجھ سے کیسے جیلس ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ان کے زمانے میں گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں۔" مہرو نے بھی پل میں حساب بے باق کیا۔

جہانزیب صاحب اسکی بات پر ہنس پڑے۔

جبکہ افشاں بیگم بھی منہ نیچے کیے مسکراتی رہیں۔

ساتھ مہرو کو ایک عاد گھوری بھی دی۔

جس کی اسے پرواہ کب تھی۔


"ہائے ہائے، غضب خدا کا۔ مجھ بڑھیا کو کیا ضرورت ہے بھلا تجھ سے جلنے کی" انہوں نے عینک کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے اسے ڈانٹا۔


"مہرو" افشاں بیگم نے گھور کر کہا۔ یک حرفی تنبیہہ۔

"او ہو امی، یہ میری اور بے جی کی بات ہے تو آپ نا آئیں درمیان میں ہاں" اس نے منہ بنا کر قطعی طور پر کہا۔

تو افشاں بیگم نے جوتے کی جانب اشارہ کیا۔ پھر اب کے جہانزیب صاحب کی طرف متوجہ ہوئیں۔

"یکھ رہے ہیں آپ۔ یہ سب آپ کے اور بلال کی شہہ پر ہی ہو رہا ہے۔ کیسی بگڑ گئی ہے یہ لڑکی۔ اگلے گھر جا کر ناک کٹوا دے گی ہماری" وہ پھر متفکر ہوئیں۔

"دیکھیں بے جی، امی کیسے مجھے بھگانے کی جلدی میں ہیں اس گھر سے۔ جیسے میں بوجھ ہوں کوئی۔ اب میں چلی گئی تو آپ لوگوں کا کیا ہوگا" اس نے ایسے کہا جیسے ان لوگوں پر بڑے احسان ہوں اسکے۔


"میں جوتا نکال کے بتاؤ کے کیا ہوگا؟" افشاں بیگم نے چٹخ کر کہا۔


"دیکھا آپ نے ابا، یہ مائیں اسی طرح ہم بچوں کو ڈرا کر رکھتی ہیں" اس نے آنکھیں پٹپٹا کر معصومیت سے کہا۔

جب کے افشاں بیگم کے جوتا نکالنے سے قبل ہی دروازے پر بیل ہوئی۔

جس پر سبھی متوجہ ہو گئے۔


"میں دیکھتی ہوں" مہرو ہاتھ پونچھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا تو بلال کو دیکھ کر وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئی۔


"بھائی آپ آج اتنی جلدی" وہ اس سے لگتی ہوئی بولی۔

تو بلال اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا ہوا اسے لیئے اندر کی جانب آ گیا۔

باقی لوگ متوجہ تھے۔ وہ بھی اسے دیکھ کر خوش ہو گئے۔


"دیکھیں امی آج بلال بھائی جلدی گھر آ گئے۔" اس کی خوشی دیدنی تھی۔


وہ سلام کرتا ہوا ان کے ساتھ ہی آ بیٹھا۔


"بھئی آج آپکے باس غازی عثمان نے آپ کو اتنے عرصے میں پہلی بار جلدی گھر آنے دیا ہے۔" جہانزیب صاحب نے تبصرہ کیا۔

تو وہ سب بھی متوجہ ہوگئے۔


"جی ابا۔ وہ کل ان کے ہاں ایک بزنس پارٹی متوقع ہے۔ اس کیلئے مجھے صبح منہ اندھیرے ہی جانا ہوگا۔ کیونکہ وہ کام کے معاملے میں مجھ پر ڈپینڈ کرتے ہیں۔ سو انہوں نے کہا آج جلدی گھر جاؤ پھر کل صبح معمول سے ذرا جلدی آ جانا" اس نے تفصیل ان کے گوش گزار کی تو وہ سب مطمئن ہو گئے۔


"یہ بڈھے عثمان انکل کو بھی چین نہیں پڑتا۔ اچھے بھلے بزنس ایمپائر کھڑے کر دیئے ہیں مگر انکی اور اور والی حرص ختم ہی نہیں ہوتی۔ بڑھاپے میں بھی ان کو پارٹیوں سے فرصت نہیں" مہرو کی زبان میں جیسے کھجلی ہوئی اور وہ بولے بنا نہ رہ سکی۔


"مہرو بیٹے ایسا نہیں کہتے پہلی بات وہ بڑے ہیں۔ پھر میرے باس بھی ہیں۔ انہوں نے ہی میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی مجھے اپنی طرف سے بنا کسی سود کے لون کے طور پر پیسے دیئے۔ جس سے میں نے تمہارے لئے ایک برانڈ نیو کار خریدی۔ ہمیں ان کا مشکور ہونا چاہیے گڑیا نا کہ انکی برائی کریں" بنا ڈانٹے یا سختی دکھائے بلال نے نرمی سے اپنی بات سمجھائی تو مہرو نے شرمندگی سے سر جھکا دیا۔

یہی بات اگر کوئی اور اس سے کہتا تو وہ اسکا اثر ہی نا لیتی۔


مگر وہ اسکا بلال بھائی تھا۔۔۔ جس میں مہرو کی جان بستی تھی۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کے وہ انکو پلٹ کر کچھ کہتی یا انکی بات سے انحراف کرتی۔


"چلو، پہلی بار تم نے اسے کچھ تو عقل والی بات سمجھائی۔ ہمارے سمجھانے کا تو اثر ہی کیا ہوتا اس پر" افشاں بیگم نے گھور کر اسکے جھکے سر کو دیکھا۔


"اور ہاں، یہ انویٹیشن کارڈ ہے جشن کا۔ ہمارے پورے اسٹاف کو فیملی سمیت مدعو کیا ہے باس نے۔اور مجھے تو انہوں نے بمع خاندان کے آنے کی خاص تاکید کی ہے" بلال نے یاد آنے پر اپنے کوٹ میں سے سیاہ و گولڈن رنگ کا شاندار سا کارڈ نکالا۔

جسے پاس ہی بیٹھے جہانزیب صاحب نے تھام لیا اور کھول کر پڑھنے لگے۔

سب کھانا بھول کر اب ان کو دیکھ رہے تھے۔

"ہوں۔ دو دن بعد جشن "غازی ہاؤس" میں متوقع ہے۔" انہوں نے کارڈ پڑھ کر ان سب کو آگاہ کیا۔

"جشن ہے کس خوشی میں جہانزیب میاں" بے جی نے پوچھا۔

"اماں ان کے بیٹے کے اعزاز میں ہے یہ جشن۔ غازی اردشیر کے" انہوں نے جواب دیا۔

"وہ اس جشن میں اردشیر کو اپنے تمام تر بزنس کیلئے ایم-ڈی نامزد کریں گے۔ پھر آگے ان کے سارے بزنس کو وہی سنبھالے گا" بلال نے باقی کی اطلاع دی۔

"ان کے بیٹے کو پہلے کسی نے نہیں دیکھا نا شہر میں؟" افشاں بیگم نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔


"پتہ نہیں امی، مجھے تو ان کے ہاں بطور مینیجر اپائنٹ ہوئے ابھی دو ہی سال تو ہوئے ہیں۔ اور میں نے سنا ہے کے وہ پچھلے پانچ سال سے دبئی میں رہ رہا تھا۔ اور اب پانچ سال بعد اس کی واپسی ہوئی ہے اپنے گھر" بلال کو جتنا معلوم تھا اس نے انہیں بتایا۔


سب کے برعکس مہرو قدرے بور ہوگئی انکے موضوع گفتگو سے۔


"اوہو، کیا آپ لوگ بھی اس انجانے شخص کو ڈسکس کرنے لگ گئے۔ ہوگا وہ کوئی امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد۔ ہمیں اس سے کیا؟" مہرو نے اپنی رائے دی جس پر افشاں بیگم اور بے جی کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں۔


"نہیں مہرو، وہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہاں تھوڑا سخت مزاج کا ہے اور کم گو بھی۔ مگر کافی ذمہ دار شخص ہے۔ اب یہی دیکھو کے دبئی سے آنے کے دوسرے ہی دن اس نے آفس سنبھال لیا۔ اور اب اس کو ایم-ڈی اسی لیئے بنا رہے ہیں کیونکہ وہ واقعی اس عہدے کے قابل ہے۔ ورنہ عثمان صاحب بڑے سخت مزاج کے ہیں۔" بلال نے اس کے خیال کو رد کیا۔

اور وہ بوریت سے اونگھتے ہوئے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال رہی تھی۔


"خیر میں جا کر یہ کارڈ زرش کو دکھاتی ہوں۔ وہ بھی ہمارے ساتھ جائے گی۔ اوف اور مجھے تو اپنا ڈریس بھی سلیکٹ کرنا ہے تھیم کے حساب سے" اس نے جہانزیب صاحب کے سامنے سے کارڈ جھپٹا اور پر جوش لہجے میں کہتی ہوئی سامنے والے گھر کو بھاگی۔


"یہ لو، ابھی ابھی اس بیچارے کو پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہی تھی اور اب اسی کے جشن میں جانے کیلئے باولی ہوئی جارہی ہے" افشاں بیگم نے مسکرا کر کہتے ہوئے سر جھٹکا۔

ان کی بات پر سبھی مسکرا اٹھے۔

جبکہ مہرو صاحبہ اب زرش کے ساتھ بیٹھی زور و شورو سے جشن کیلئے اپنا ڈریس ڈسائیڈ کررہی تھی۔ابھی سے۔۔۔۔۔

●••••☆☆☆☆☆••••●

وہ اسٹڈی روم میں بیٹھا اس وقت اپنے لیپ ٹاپ پر ایک پراجیکٹ کو حتمی شکل دے رہا تھا۔ جو آنے والے دنوں میں چائینیز ڈیلیگیشن کو انہوں نے فروخت کرنا تھا۔

جبھی کوئی دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

اردشیر نے چونک کر نووارد کو دیکھا۔


سیاہ کیپری پر سرخ آدھی آستینوں والی اسٹائلش لانگ شرٹ پہنے، سیدھے سلکی شولڈر کٹ بال سامنے کی طرف سے سرخ رنگ میں ڈائی کیئے ہوئے تھے۔

چھوٹی سیاہ آنکھوں پر آئی لائنر کی ہلکی سی تہہ اور لائٹ میک اپ کے ساتھ وہ اسکی کزن اور برہان کی بہن کائنات یوسف تھی۔


وہ مسکرا کر قدم قدم چلتی ہوئی اردشیر کے سامنے آ رکی۔


"ہائے پرنس چارم" اس نے اردشیر کو دیکھتے ہوئے دلچسپی سے کہا۔

تو وہ چونکا۔


"کائنات تم کب آئی؟ مامی اور ماموں جان بھی آ ئے ہیں کیا؟" اردشیر نے مسکرا کر پوچھا اور لیپ ٹاپ بند کرکے ایک طرف رکھا۔


"ہاں باہر سب آئے ہیں، برہان بھائی کے علاوہ" اس نے جواب دیا۔

جسے سن کر وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہو رہا تھا جب اس کے اٹھنے سے قبل ہی وہ ایک دم اس پر جھکی۔


"کیا کسی نے تمہیں بتایا ہے کے تمہاری اسمائل کتنی کیلنگ ہے؟" اردشیر پر سے نگاہیں ہٹائے بغیر دلچسپی سے کہا۔

تو اس نے نرمی سے اسکا بازو تھام کر خود سے زرا فاصلے پہ کیا۔

پھر گویا ہوا۔

"ہم اس طرح بھی بات کر سکتے ہیں"۔

تو وہ بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

پھر گویا ہوئی۔

"او اردشیر، پانچ سال کے گیپ نے تمہیں اور بھی ہینڈسم بنا دیا ہے۔ پر لگتا ہے تمہاری زندگی سے جا کر بھی دل سے نہیں گئی ہے وہ" کاٹ دار لہجے میں کہتی ہوئی وہ اس وقت غازی اردشیر کو زہر سے بھی زیادہ بری لگی تھی۔

اسکی آنکھوں میں شعلے امڈ آئے تھے اسکی بات سن کر۔

مٹھیاں بھینچ کر بمشکل اپنے غصے کو کنٹرول کیا۔


"وہ نہیں ہے اردشیر، اسکی یادوں سے نکل کر اپنے آس پاس تو دیکھو کتنی محبتیں ہیں تمہارے پاس۔ کتنے ہی لوگ تمہاری ایک نظر کے منتظر ہیں" کہتے کہتے اسکی آواز سرگوشی نما ہو گئی۔

جبکہ اردشیر کی بھوری آنکھوں میں پڑتے سرخ ڈورے اسکے ضبط کے گواہ تھے۔


"اردشیر، اسے بھول جاؤ اور۔۔۔۔


"اسٹاپ اٹ، جسٹ اسٹاپ رائٹ دیئر" اسکی بات مکمل ہونے سے قبل ہی اردشیر کا ضبط جواب دے گیا۔۔

ایک جھٹکے میں کرسی پر سے اٹھتے ہوئے وہ چیخا۔


کائنات اسے یوں بھڑکتے دیکھ قدم قدم پیچھے ہٹتے ہوئے وہ اس سے صحیح معنوں میں خوفزدہ ہوئی تھی۔


"نکل جاؤ ابھی کے ابھی یہاں سے۔۔۔اس سے پہلے کے میں اپنا ضبط کھو بیٹھو۔۔۔۔جسٹ گیٹ ؤٹ" اسکی آنکھوں سے نکلتے شولے کائنات کو اپنا وجود جلا کر خاکستر کرتے محسوس ہو رہے تھے۔

لہٰذا اس نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔

اسکے جاتے ہی وہ دوبارہ نڈھال ہو کر اپنی نشست پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا۔

گہری گہری سانسیں لے کر وہ خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

••••☆☆☆••☆☆☆••••

آج اتوار کا دن تھا۔

صبح سویرے ہی اٹھ کر اس نے جمع کیئے کپڑے دھوئے تھے۔


اور اب بیڈ پہ ان کپڑوں کو پھیلائے بیٹھی وہ انہیں تہ کر رہی تھی۔


گیلے ہونے کی وجہ سے گھنگھور سیاہ بال بیچ کی مانگ نکال کر اس نے کھلے چھوڑ دیئے تھے۔

اسکی سادگی بھی اپنی مثال آپ تھی۔


ساتھ ہی فائزہ بیٹھی اسکی مدد کروا رہی تھی۔


گاہے بگاہے وہ مریم پر بھی نظر ڈال لیتی تھی۔

جو سنجیدہ چہرہ لیئے بظاہر تو اپنے کام میں مصروف تھی۔ مگر اسے صاف محسوس ہو رہا تھا کے فائزہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔

مگر جھجھک رہی تھی۔ حالانکہ وہ اچھی خاصی باتونی تھی۔


"کوئی بات ہے تو بتاؤ گڑیا، تب سے میں دیکھ رہی ہوں کے تم شاید مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو" اسے آمادہ نہ دیکھ کر بالآخر مریم کو خود ہی پہل کرنا پڑی۔


اس نے سٹپٹا کر نگاہیں اٹھائے مریم کو دیکھا۔

"نن۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں تو مس مریم۔۔ایسی کوئی بات نہیں" اس کے یوں اچانک پوچھنے پر دس سالہ فائزہ گھبرا سی گئی۔

تو مریم نے اب کے مسکرا کر نگاہیں اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا۔


"گھبراؤ مت گڑیا، بتاؤ مجھے۔۔ کیا پریشانی ہے؟" نرمی سے اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس نے پوچھا۔

تو فائزہ سوچ میں پڑ گئی کے بتائے یا نا بتائے۔

بتا دیتی تو شاید وہ غصہ ہوتیں

نہ بتاتی تو وہ شاید اور برا مانتیں۔

بالآخر اللہ کا نام لے کر اس نے بتانے کا فیصلہ کیا۔

"وہ۔۔۔مس مریم وہ دو دن پہلے جب بارش میں ہم کھیل رہے تھے نا۔۔۔تو" فائزہ نے جھجھکتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

تو بے ساختہ مریم کی آنکھوں میں وہ منظر آ سمایا جب وہ اجنبی ارد گرد سے بے خبر ہو کر اسے دیکھ رہا تھا۔

اس نے سر جھٹکا۔


"ہاں۔۔۔پھر؟" اس نے مزید سننا چاہا۔


"تو پھر جب آپ وہاں سے چلی گئیں۔ تب وہ انکل نے ہمیں بلایا تھا اپنے پاس۔۔۔مجھے اور عائزہ کو۔۔۔اور آپ کے بارے میں پوچھا۔۔تو۔۔ہمارے منہ سے نکل گیا کے آپ ہماری استانی۔۔" نگاہیں جھکا کر گویا اعتراف جرم کیا تھا۔

اور مریم ششدر رہ گئی تھی۔

مگر اس نے خود کو نارمل کیا پھر فائزہ سے کہا۔


"بیٹا آپ ابھی جا کے باہر کھیلو۔۔ پھر بعد میں عائزہ کو ساتھ لے کر آنا اچھا۔ تم دونوں کو کل جو ٹیسٹ دیا تھا۔ وہ چیک کروں گی میں" اس نے سنجیدگی سے کہا۔


اور فائزہ کی جان میں جان آئی۔ اس کیلئے یہی غنیمت تھا کے مریم نے اس پہ غصہ نہیں کیا۔

وہ سر ہلا کر اسے اللہ حافظ کہتی ہوئی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔


تب مریم کا چہرہ غصے کے احساس سے شدید سرخ پڑ رہا تھا۔


"سمجھتا کیا ہے وہ خود کو۔ بد تہزیب کہیں کا۔ اگلی بار اگر اس نے کوئی ایسی حرکت کی تو بزرگوں سے کہہ کر اسکا دماغ ٹھکانے لگوا دوں گی۔" دل ہی دل میں اس نے تہہ کیا۔


جبکہ ذہن کے پردے سے وہ دو چمکتی سبز آنکھیں گویا چپک کر رہ گئیں تھیں۔

~~~▪☆☆☆▪~~~


وہ اس وقت پرتعیش سے گولڈن اور براؤن رنگوں کے امتزاج سے سجے ڈرائنگ روم میں بیٹھے اپنے متوقع ایم-ڈی کیلئے بنوائے گئے کاغذات کا پلندہ اٹھائے توجہ سے انہیں پڑھ رہے تھے۔

ساتھ یوسف صاحب (برہان کے ابا) اور انکے بزنس وکیل احتشام ملک بیٹھے تھے۔


دونوں نفوس خاموشی سے کاغذات کا جائزہ لیتے عثمان غازی کو دیکھ رہے تھے۔

بہت دیر بعد انہوں نے فائل بند کرتے ہوئے اپنے وکیل کی جانب بڑھایا۔


"بہت خوب احتشام، میں نے ان پر اپنے دستخط کر دیئے ہیں۔ اب تم اردشیر کا سائن لو ان کاغذات پر۔" انہوں نے ہدایات جاری کیں۔


"اوکے پھر میں ان کے دستخط لے کر ان کاغذات کی تین کاپیز بنوا دیتا ہوں۔ ایک کورٹ میں جمع کروانی ہوگی۔ دوسری اردشیر صاحب کے پاس رہے گی اور تیسری آپ کے پاس" ادھیڑ عمر وکیل نے انہیں آگاہی دی پھر ان کا اشارہ پاتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔

ساتھ ہی عثمان غازی اور یوسف صاحب سے مصافحہ کرنے کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے۔


"یہ آپ نے اچھا فیصلہ کیا عثمان بھائی، اب آپ آرام کریں اور اردشیر کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے دیں" یوسف صاحب نے توصیفی انداز میں کہا۔

تو انہوں نے محض سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔

●••••☆☆☆☆••••●


انہوں نے لیپ ٹاپ بند کرکے ایک طرف رکھا اور سائیڈ ٹیبل پر ابھی ابھی دھرا گیا گرم چائے کا مگ اٹھا لیا۔

ان کی عادت تھی یہ بھی۔

رات کو چائے پینے کے بعد ہی انہیں اچھی اور پرسکون نیند آتی تھی۔

ڈریسنگ میز کے سامنے بیٹھیں ہاتھوں پر لوشن لگاتی ہوئی نگہت بیگم بغور اپنے شوہر کے چہرے کا اتار چڑھاؤ ملاحظہ کر رہیں تھیں۔

پھر گہری سانس لی اور جیسے بے جی کا تھوری دیر پہلے پڑھایا گیا سبق ذہن میں تازہ کیا۔


"عثمان صاحب"۔

مخاطب کیئے جانے پر انہوں نے انکی طرف دیکھا۔

جو آئینے کی جانب چہرہ کیئے انہیں ہی دیکھ رہیں تھیں۔


"کہیے نگہت بیگم کیا بات ہے" ان کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا۔


تو وہ لب بھینچ کر ذہن میں جیسے الفاظ ترتیب دینے لگیں۔

اور بالآخر وہ آہستگی سے گویا ہوئیں۔


"آپ۔۔۔آپ اسے معاف نہیں کرسکتے عثمان صاحب؟۔۔ اکلوتا بیٹا ہے وہ ہمارا۔ آپ اسے ایک بار معاف تو کر دیجیئے۔ پھر وہ وہی کرے گا جو آپ کہیں گے اسے" ان کے آواز میں نمی گھل گئی تھی۔

اسکے برعکس عثمان صاحب کے چہرے پر انکی بات سن کر برہمی واضح ابھر آئی۔


"یہ تم کہہ رہی ہو نگہت بیگم؟ تم؟ ایک عورت؟۔ تمہارے سپوت نے جو کیا ہے وہ معافی کے قابل ہرگز بھی نہیں ہے۔ بیٹا ہونے کا فرض ادا کرنے کی باری جب آئی۔ تو کیا کیا آپ کے لاڈلے نے؟۔ اور اسے اگر میری بات ماننی ہوتی نا تو وہ پانچ سال قبل یہاں سے دبئی نہ بھاگتا۔ تب وقت تھا۔ مگر اب نہیں ہے۔" وہ جیسے بھڑک اٹھے تھے۔


"خدارا پرانی باتوں کو بھول جائیے۔ اب جا کر تو کسی طرح وہ خود کو سنبھال رہا ہے۔ لیکن نہیں۔ آپ کہاں سمجھیں گے اسکا درد۔ میرا بیٹا کس اذیت سے، کن تکلیفوں سے گزر رہا یہ آپ جیسا سنگدل باپ کبھی نہیں سمجھ پائے گا"۔


"نگہت بیگم۔۔۔اپنی گستاخ زبان کو وہی روک لو۔" انہوں نے انگلی اٹھا کر گویا وارننگ دی۔


"آپ نے ہمیشہ مجھے اسی طرح خاموش کروایا ہے۔ اور غلطی میری ہی ہے۔ میری اس خاموشی نے ہی میرے بچے کو برباد کر ڈالا ہے۔ لیکن اب بس۔۔" اپنی شادی کے اٹھائیس سالوں میں آج پہلی بار وہ یوں مخاطب کر رہیں تھیں اپنے شوہر کو۔

"خدا جانتا ہے کے میں نے ہمیشہ آپ کے ہر فیصلے کی تائید کی۔ اسکو حرف آخر جانا۔ اپنی زندگی کے اٹھائیس سال میں نے آپ کی ہی مانی۔ لیکن آج آپ میری ایک التجا بھی نہیں مان رہے؟" انہوں نے افسردگی سے کہا۔

"وہ اپنی مرضی سے گیا تھا۔ اور اب آیا بھی ہے تو اپنی مرضی سے۔ یہ اسکی واپسی پر دعوتیں، یہ جشن یہ سب میں اسی کا پردہ رکھنے کیلئے کر رہا ہوں۔ اب خدارا تم یوں چیخ چیخ کر ہر ایک کو پھر سے متوجہ نہ کردو کے میری ساری کوشش بے کار چلی جائے" انہوں نے انکے سامنے گویا ہاتھ جوڑ دیئے۔


اور وہ نم آنکھوں سے بس انہیں دیکھتی ہی رہ گئیں۔

آج بھی وہ ان سے نہیں جیت سکی تھیں۔

اپنے کمرے میں سنگار میز کے سامنے بیٹھی وہ بڑی ہی فرصت سے اپنی پلکوں کو مسکارا کے برش سے دو آتشہ کر رہی تھی۔

جب تن فن کرتی ہوئی محمودہ بیگم وہاں چلی آئیں۔


"میں نے کہا تھا نا تم سے کے اردشیر کے قریب جانے کی کوشش کرو۔ اسکے دل میں اپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کرو مگر تم سے یہ ایک کام بھی نہیں ہو سکتا ہے کائنات تو لعنت ہے تمہارے لڑکی ہونے پر" آگ بگولہ ہوئیں وہ اس پر برس رہیں تھیں۔

جبکہ کائنات بے نیازی سے انکی بات سنی ان سنی کر کے اب اپنے تراشیدہ ناخنوں پر نیل پالش لگا رہی تھی۔


"میں تم سے مخاطب ہوں۔ اتنی کوششیں کر رہی ہوں کے اردشیر کے قریب ہو سکو، اس کو تم اپنے بس میں کرو تاکہ ہم عثمان غازی کے دولت پر قابض ہو سکیں مگر تم ہو کے تم سے ایک ٹوٹے ہوئے دل والا مرد نہیں سنبھلتا؟ ارے شکر کرو کے اب تمہیں دوبارہ موقع ملا ہے اسکے قریب جانے کا۔ ورنہ سوچو، اگر وریشہ آج اسکی زندگی میں ہوتی تو ہم اور تم کیا کر سکتے تھے سوائے ہاتھ ملنے کے؟" انہوں نے دانت پیس کر کہتے ہوئے گویا اسے کچھ عقل دلانی چاہی۔


"میں سب سمجھتی ہوں ممی، مجھے زیادہ گیان نہ بانٹو آپ۔ اور اب میں تھک چکی ہوں۔ سچ کہوں تو مایوس ہو چکی ہوں اسکی طرف سے۔ میں نے اسے بہت چاہا تھا ممی پانچ سال قبل مگر اسکی بے اعتنائی اور بے رخی نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔ بہت مشکل سے میں نے اپنی محبت کا رد کیا جانا برداشت کیا ہے۔ اب میں بار بار اپنا دل نہیں توڑ سکتی۔ محض آپ کی دولت اکھٹی کرنے والی خواہش کو پورا کرنے کیلئے میں اپنے جذبات کی نا قدری نہیں سہہ سکتی۔ میں نے اب اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے اور آپ میری ماں ہیں میری تکلیف اگر آپ کم نہیں کر سکتی تو پلیز اسے بڑھانے کی وجہ بھی نہ بنیں۔" کائنات نے تھکے تھکے سے انداز میں کہا۔


جیسے وہ میلوں کا سفر طے کر آئی ہو اور اسے اب پتہ چلا کے یہ سفر تو لا حاصل تھا۔

جبکہ اس کے جذبات سے قطع نظر وہ کہہ رہیں تھیں۔


"اے لڑکی، اگر اسی طرح کی دو چار باتیں تم اردشیر کے سامنے جھاڑتی نہ تو آج وہ تمہارا ہوتا۔ مگر نہیں، تم سب کو تو میں ہی غلط لگتی ہوں۔ میں جو ہر وقت تمہارے اور برہان کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کرتی ہوں۔ اور آگے سے تم لوگ یہ صلہ دیتے ہو مجھے" کام نہ بنتے دیکھ کر منٹوں میں رنگ بدلا تھا انہوں نے۔


اور اب وہ ایموشنل کارڈ کھیل رہیں تھیں خود اپنی ہی بیٹی کے ساتھ۔


اور واقعی ان کا یہ حربہ کام بھی کر گیا۔

کائنات اپنی ماں کے آنسو (جو کے مگر مچھ کے ہیں) دیکھ کر فورا پگھل گئی۔


"آئم سوری ممی، پلیز میری وجہ سے آپ دکھی نہ ہوں۔" اس نے ان کے گلے لگتے ہوئے کہا۔


"تو اور میں کیا کروں پھر، تم لوگ تو مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہو۔ حالانکہ میں نے بھلا ہی تو چاہا ہے اپنے بچوں کا۔ تمہاری شادی اگر اردشیر سے ہو گئی تو اسکی بیوی بن کر عیش سے تو تم رہو گی نا اب اس میں میرا کیا مفاد ہے جو میں تمہیں یہ سب کرنے کو کہوں گی۔ میں تو دل سے یہی چاہتی ہوں کے میرے دونوں بچوں کا رشتہ غازی خاندان میں ہو جائے۔ بس پھر میں چین سے مر سکوں گی" چالاکی سے بات کو ایسا رخ دیا کے اب پھر سے کائنات سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی۔


اور ان کا تیر بالکل نشانے پر لگا تھا۔


ایسا نہیں تھا کے وہ بہت زیادہ غریب تھے یا دولت کی کمی تھی۔

یوسف صاحب اور برہان کے خود کا کھڑا کیا گیا مختصر سا کاروبار تھا۔


لیکن محمودہ بیگم کی حریص طبیعت کیلئے اتنی دولت کافی نہ تھی۔

اور سونے پہ سہاگہ جب وہ نگہت بیگم کے شوہر یعنی عثمان صاحب کا پھلا پھولا کاروبار دیکھتیں تو ان کے دل میں آگ سی لگ جاتی تھی۔

اوپر سے جب نگہت بیگم کے پاس نت نئے گہنے دیکھتی تو انکے منہ میں پانی آ جاتا۔


اور یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کے بھابھی اور نند کے رشتے میں مقابلہ ہمیشہ تگڑا رہتا ہے۔


اور یہی مقابلے کی ہوس دن رات انکی نیندیں حرام کیئے رکھتی تھی۔

پھر وہ نت نئے طریقے سوچنے لگتیں کے کس طرح سے نگہت بیگم کے برابر آیا جائے؟


لہٰذا اردشیر اور مہک سے بڑھ کر اور کوئی راستہ انہیں نظر نہ آتا تھا۔

●••••☆☆☆☆••••●


غازی ولا میں اس وقت شام میں متوقع پارٹی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔

صبح ہی صبح بلال کی ڈیوٹی لگ پڑی تھی۔

اردشیر اور اپنے باس غازی عثمان کے درمیان وہ گھن چکر بنا ہوا تھا۔


اردشیر کو اس نے آنے والے تمام مہمانوں سے متعلق تفصیلات بتائے۔

غازی اردشیر کو کچھ سمجھانا بلال کو اردشیر کی توہین ہی محسوس ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ خود کافی سمجھدار اور ذہین تھا۔

ہر سچویشن کو ہینڈل کرنا بخوبی جانتا تھا۔

بلال نے چند ایک ضروری باتیں ہی اسے بتائی۔


ذرا دیر پہلے آفس کے جھمیلوں سے فرصت ملی تو غازی ولا کی باقی تیاریوں کا جائزہ لینے چل پڑا۔


ڈیکوریٹرز اپنا کام کر رہے تھے۔ بلیک پینٹ کے ساتھ سفید شرٹ کے کف موڑے وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے ایک طرف کھڑا ان کو کام کرتے دیکھ رہا تھا۔


جب پیچھے سے نسوانی آواز پڑی۔

وہ چونکا۔

"تم ڈیڈ کے مینیجر ہو نا؟"۔ اس سوال پر اس نے مڑ کر دیکھا۔

اور مقابل کا سر تا پیر جائزہ لیا۔

بلیو جینز پر سیاہ آدھی آستینوں والی شرٹ پہنے، لمبے سنہرے بالوں کی فش ٹیل بنا کر شانوں پر ڈالے، سن گلاسس سر پہ ٹکائے مہک عثمان اسکے مقابل غرور سے تنی گردن کے ساتھ کھڑی نخوت سے پوچھ رہی تھی۔

بلال کی مسکراہٹ بے ساختہ تھی۔

"جی ہاں، کہئیے کیا کام ہے؟" پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیئے وہ پوری جان سے متوجہ تھا۔

اور زندگی میں پہلی بار مہک جیسی بولڈ اور کانفیڈینٹ لڑکی بھی اسکی گہری سیاہ آنکھوں کی وجہ سے پزل سی ہو رہی تھی۔


"تمہیں کیسے پتہ کے مجھے کچھ کام ہے؟" خود کو اسکے سحر سے نکالنے کیلئے مہک نے بے تکا سا سوال کیا۔

جس پر بلال جہانزیب کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔


"ظاہری بات ہے مس مہک کے آپ اس بندہء ناچیز کو یوں ہی تو نہیں مخاطب کریں گی نا؟" بلال کا چونکہ عثمان صاحب کے ساتھ انکے ہاں آنا جانا اکثر ہوتا رہتا تھا۔

تو یہ کیسے ممکن تھا کے وہ مہک سے واقف نہ ہوتا؟


اس قدر صاف گوئی پر مہک دنگ رہ گئی۔


"اچھا اب زیادہ باتیں نہ بناؤ، میری گاڑی سے شاپنگ بیگز اٹھا کر میرے روم میں رکھ آؤ" اس نے بے نیازی سے کہا اور مڑ کر جانے لگی تھی جب بلال کی بات سن کر رکی۔


"مس مہک میں یہاں آپکے پاپا کا کام کرنے انکے مینیجر کی حیثیت سے آیا ہوں، آپ کا باڈی مین نہیں ہوں میں جو ایسے کام کرتا پھروں آپ کیلئے" پرسکون لہجے میں دو ٹوک جواب دیا۔


جس پر مقابل کے تلووں میں لگی اور سر پہ بجھی۔


"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے پلٹ کر جواب دینے کی؟" غصے سے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔


تو بلال نے شانے اچکا دیئے۔


"بالکل ویسے ہی جیسے آپ نے ہمت کر لی مجھ سے اپنا یہ "سلی" سا کام کہنے کی" اسی کے انداز میں کہا۔


اسکی یہ بات سن کر مہک کا چہرہ غصے سے سرخ پڑ گیا۔

جسے مقابل دلچسپی سے دیکھنے لگا۔


"میں ابھی جا کر پاپا سے تمہاری کمپلین کرتی ہوں۔ دو منٹ میں تمہاری چھٹی ہو جائے گی یہاں سے" طنزیہ لہجے میں چٹکی بجا کر کہا۔


"یہ شوق بھی پورا کرکے دیکھ لیں۔ پھر جو ہوگا اس کیلئے بھی تیار رہیئے گا" پر سکون لہجے میں کہا۔

اور مہک کو اس شخص کے انداز حیران کر رہے تھے جو اس سے بالکل بھی متاثر نہ ہورہا تھا۔


"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟" غصے سے بولی۔


"آپ کو یاد ہے مس مہک جب پچھلی بار آپ نے مجھے اپنی خراب کھڑی گاڑی کو میکینک بلوا کر ٹھیک کروانے کا کہا تھا؟" بلال نے چند ماہ قبل والی بات اسے یاد دلائی۔

جب اس نے اپنے غرور میں محض بلال کو نیچا دکھانے کیلئے اسے یہ کام کہا تھا۔

اور اسے یاد تھا کے جب غازی عثمان کو یہ بات پتہ چلی تھی تو کیسے انہوں نے مہک کی کلاس لی تھی۔

اور اس سے کہا تھا کے بلال صرف ان ہی کا آرڈر فالو کرتا ہے کیونکہ وہ ان کا مینیجر ہے۔

اور عثمان صاحب کے غصے سے تو سب ہی پناہ مانگتے تھے۔

مہک نے جھرجھری لی۔


"جہنم میں جاؤ تم، میں خود کر لوں گی اپنا کام" اس پر لعنت بھیج کر تن فن کرتی ہوئی وہ آگے بڑھ گئی۔


جبکہ بلال سینے پہ ہاتھ باندھے تا دیر مسکراتا رہا۔

•••☆☆☆•••☆☆☆•••


کتاب ہاتھ میں پکڑے بلیک بورڈ پر وہ سوالات لکھ رہی تھی۔

جن کا اس نے ٹیسٹ لینا تھا۔

ارد گرد سے بے نیاز وہ مکمل طور پر اپنے کام میں لگی تھی۔

جب اسے دو تین بچوں کے "کھی کھی" کر کے ہنسنے کی آوازیں آئیں۔

اس نے مڑ کر دیکھا۔

وہ سب خاموش تھے۔

پھر سے سر جھٹک کر لکھنے لگی۔

جب ایک مرتبہ پھر آواز سنائی دی۔

اب کے وہ غصے سے مڑی۔


"کیا ہو رہا ہے یہ؟ کس کو ہنسی آ رہی ہے؟" سب پر نظریں ڈالتے ہوئے اس نے پوچھا۔


بچوں نے سر جھکا لیئے تھے۔


"ابھی جب بیس منٹ بعد میں آپ لوگوں کی ٹیسٹ کاپیز چیک کروں گی نا، پھر ہنس کر دکھانا مجھے"۔ سینے پر ہاتھ باندھے اس نے سب کو گھور کر کہا۔


"سوری مس" سب نے یک آواز ہو کر جلدی سے کہا۔


"چلو اب شاباش جلدی سے ٹیسٹ کاپی نکالو سب اپنے اور فورا شروع ہو جاؤ۔ اور دیکھو میری سب پر نظر ہے۔ کوئی کسی کی طرف نہ جھانکے" انگلی اٹھا کر زرا سختی سے کہا۔

تو سب نے سر ہلا کر اپنی کاپی نکالی اور دھڑا دھڑا سوال دیکھ کر جواب لکھنے لگے۔


مریم سینے پہ ہاتھ باندھے سب بچوں کو اپنی اپنی کاپیوں پہ جھکے دیکھ رہی تھی۔


تب غیر ارادی طور پر ہی اسکی نگاہ اپنے دائیں جانب کی کھلی کھڑکی پہ پڑی تو وہ ایک دم چونکی۔

اسے لگا اس نے وہاں کسی کو کھڑے دیکھا ہے۔

مگر پھر خود ہی اپنے اس خیال کی نفی کی۔


بیس منٹ پورے ہونے پر اس نے سب کو مزید لکھنے سے روک دیا۔

پھر ایک بچی نے اٹھ کر باقی سب کی کاپیاں جمع کر کے اسکے ٹیبل پر رکھ دیں۔


مریم کے آخری پیریڈ ختم ہونے کے ساتھ ہی چھٹی کیلئے بھی بیل بج گئی۔

جس پر سب بچے اپنے اپنے بیگ اٹھائے اسے اللہ حافظ کہتے ہوئے جلدی جلدی کلاس سے باہر کو بھاگنے لگے۔


"آرام آرام سے، ایک ایک کر کے" مریم نے انہیں ٹوکا تو وہ ایک ایک کر کے کلاس سے باہر نکل گئے۔


اور وہ ٹیسٹ کاپیاں شاپر میں رکھتی ہوئی، سیاہ چادر کو اچھی طرح اپنے گرد پھیلا کر پرس اٹھائے کلاس سے باہر آگئی۔

ابھی وہ اسکول کے دروازے کو پار کرکے باہر نکلی ہی تھی۔

کے ایک گاڑی عین اسکے برابر آ رکی۔


گھبرا کر نگاہیں اٹھائیں تو اپنے سامنے ہی پولیس یونیفارم میں ملبوس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان وجاہت آفریدی کو دیکھ کر اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔

سنا تو تھا کے کوئی نیا ڈی-ایس-پی آیا ہے شہر میں۔ مگر تصور بھی نہیں کیا تھا کے وہ پولیس آفیسر یہی شخص ہوگا۔

چونک کر اس نے اپنے آس پاس آتے جاتے لوگوں کو دیکھا۔


پھر خیال آیا کے اگر کسی نے ایسے دیکھ لیا تو اسکے بارے میں جانے کیا کیا قیاس لگایا جائے گا۔

لہٰذا بنا ایک لفظ کہے یا دوسری نگاہ اس شخص پر ڈالے وہ تیز قدموں کے ساتھ پھر سے اپنا راستہ طے کرنے لگی۔


جبکہ وجاہت آفریدی مسکراتے ہوئے گاڑی کے سائیڈ والے شیشے میں اسے دور جاتے دیکھتا رہا۔


"میں بھی دیکھتا ہوں کے کب تک آپ مجھے نظر انداز کرتی ہیں مس مریم، آخر کار تو آپ کو میری جانب متوجہ ہونا ہی ہوگا" خود کلامی کرتے، سبز چمکتی آنکھیں جانے کیا کیا خواب بننے لگیں تھیں۔


انجام سے بے بہرہ ہو کر۔

~~~•☆☆☆•~~~


"ارے بھئی جلدی کرو افشاں بیگم، آپ خواتین کی تیاریاں کبھی ختم بھی ہوتی ہیں کے نہیں" جہانزیب عالم نے کوئی چوتھی بار انہیں پکارا تھا۔

وہ تب سے تیار بیٹھے تھے۔

مگر انکی بیگم اور بیٹیاں تھیں کے انکی تیاریاں ختم ہی ہونے میں نہ آ رہی تھیں۔

شام سات بجے کا وقت دیا گیا تھا۔

اور اب قریبا پونے چھ بج رہے تھے۔


"جی جی بس آ ہی گئی" افشاں بیگم گولڈن رنگ کی ساڑھی میں بالوں کا جوڑا بنائے کمرے سے جھجھکتے ہوئے برآمد ہوئیں۔

کے انہیں دیکھ کر جہانزیب صاحب بھی ٹھٹک گئی۔

اتنے سالوں بعد آج جا کر وہ کسی موقع پر تیار ہوئیں تھیں۔


"مہرو کا کمال ہے یہ" افشاں بیگم نے جھینپ کر کہا تو جہانزیب صاحب بے اختیار ہنس پڑے۔


"اچھی لگ رہیں ہیں آپ۔ اور وہی ہم سوچیں کے کبھی ہمارے کہنے پر بھی آپ ایسے تیار نہ ہوئیں تو آج کیسے۔مہرو نے بڑا ہمت والا کام کیا ہے بھئی آج تو۔ انعام کی حقدار ہے وہ" انہوں نے مسکرا کر کہا۔

جس پر افشاں بیگم مزید جھینپ گئیں۔


"تو پھر لائیں میرا انعام" اسی اثناء میں اسکی چہکتی ہوئی آواز برآمد ہوئی۔

جہاں سیاہ رنگ کے اسٹائلش سے فراک میں،براؤن بالوں کو گھنگھریالے کر کے شانے پر دائیں طرف کو ڈالے، سیاہ اور سنہرے رنگ کے خوبصورت سے جھمکے کانوں میں پہنے، ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ کھڑی تھی۔


"ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے میری بچی، ہمیشہ کی طرح"۔

افشاں بیگم نے اسکی خوب بلائیں لیں۔

تبھی گولڈن رنگ کے خوبصورت سے فراک میں ملبوس زرش بھی وہاں چلی آئی۔


"اچھا جی، ساری تعریف اس مہرو کی بچی کیلئے، اور میرے لیئے کیا؟" منہ بنا کر مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔

تو افشاں بیگم نے بے اختیار اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اسکی ڈھیروں بلائیں لے ڈالی۔

اور چمکتی پیشانی پر بوسہ ثبت کیا۔


"بہت پیاری لگ رہی میری گڑیا، بالکل شہزادی" انہوں نے اسکے رخسار چھو کر محبت سے کہا۔

تو جہانزیب صاحب کے ساتھ ساتھ مہرو بھی مسکرا کر انہیں دیکھنے لگی۔


"اچھا بھئی اب جلدی کرو آپ لوگ، بلال کوئی چار بار کال کر چکا ہے اب تک۔" انہوں نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔


"جی بس آپ لوگ چلیں میں زرا بے جی کو دیکھ کر آتی ہوں۔ کتنا کہا میں نے ان سے مگر وہ نہیں آ رہیں" افشاں نے کہتے ہوئے ان کے کمرے کا رخ کیا۔


"ٹھیک ہے بیگم، آپ انہیں دیکھ لیں، چلو مہرو اور زرش تب تک آپ لوگ چل کر گاڑی میں بیٹھو"۔

جہانزیب صاحب نے انہیں آگے چلنے کو کہا تو وہ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرتی ہوئیں آگے آگے چل دیں۔

پیچھے وہ بھی ان کے ساتھ ہی گھر سے باہر نکل گئے۔

☆☆☆☆☆


غازی ولا اس وقت بقائے نور بنا ہوا تھا۔

تھیم کے حساب سے گولڈن، سفید اور سیاہ رنگ ڈیکوریشن میں کثرت سے استعمال کیئے گئے تھے۔


مہمانوں کی کافی بڑی تعداد موجود تھی۔

جبکہ انکی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری تھا۔


لوگ ہر طرف سنہرے، سیاہ یا پھر سفید رنگ کے لباس زیب تن کیئے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔


گھر کے مکین بھی ہر نئے آنے والے مہمانوں کا خوشدلی سے ویلکم کر رہے تھے۔


ویٹرز کی ہر طرف دوڑیں لگی ہوئیں تھیں۔

ان کے ہاتھ میں ہارڈ ڈرنکس اور سوفٹ ڈرنکس تھے جو وہ مہمانوں کو سرو کر رہے تھے۔


سیاہ رنگ کے ٹو پیس پر سفید کوٹ پہنے، سیاہ بال ماتھے پر بکھرائے غازی اردشیر خاص طور پر سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔


لوگ باری باری آ کر نئے ایم-ڈی کو مبارکبادی پیش کر رہے تھے۔

جنہیں وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ قبول کر رہا تھا۔


بلال بھی سیاہ ڈنر سوٹ میں ملبوس عثمان غازی کے ساتھ کھڑا تھا۔ جو چند ایک خاص مہمانوں سے مل رہے تھے۔


اینٹرنس وے پر سیکیورٹی کے اہلکار تعینات تھے۔

جو مستعد کھڑے تھے۔


انتظامات باہر اس وسیع و عریض کئی رقبے پر پھیلے لان میں کیئے گئے تھے۔

جہاں ذرا ذرا سے فاصلے پر گول میز رکھے ہوئے تھے۔

جن کو نفاست سے کینڈل پاٹ (شیشے کے جار میں رکھی موم بتیاں) اور سرخ گلاب کی پتیوں سے سجایا گیا تھا۔

اور جن کے گرد پانچ پانچ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔


اسی اثناء میں جہانزیب صاحب بھی اپنی فیملی سمیت وہاں آن پہنچے۔

بلال کی ان پر نظر پڑی تو عثمان صاحب سے معذرت کرتا ہوا وہی چلا آیا۔


"چلیں پاپا میں آپ کو اپنے باس اور اردشیر صاحب سے ملواتا ہوں۔ اور امی آپ لوگ ادھر بیٹھ جائیں۔ میں کچھ دیر بعد ادھر آتا ہوں" اس نے گول میز کی جانب اشارہ کیا۔


اور جہانزیب صاحب کو اپنے ساتھ لیئے اب وہ کچھ فاصلے پر تین چار لوگوں کے نرغے میں کھڑے عثمان غازی اور اردشیر کی جانب آ گیا۔


جبکہ افشاں بیگم زرش اور مہرو گول میز کے گرد رکھی کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔

جہاں آس پاس اور بھی لوگ بیٹھے تھے۔


وہ لوگ اب ذرا فاصلے پر کھڑے بلال کو جہانزیب صاحب کا ان لوگوں سے تعارف کراتے دیکھ رہے تھے۔

پھر بلال نے مسکرا کر کچھ کہتے ہوئے ان کی جانب اشارہ کرکے عثمان صاحب کو جیسے کچھ بتایا تھا۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے پلٹ کر اس گول میز کو دیکھا۔


اردشیر کی اس ٹیبل کی جانب پشت تھی۔

جہاں ابھی وہ مڑ کر دیکھنے ہی والا تھا کے ان کے میز کے سامنے دو تین خواتین آ کھڑی ہوئیں۔


جس سے یہ ہوا کے نہ تو اردشیر انہیں دیکھ سکا اور نہ وہ اسے۔


"السلام و علیکم، آپ یقینا بلال کے گھر والے ہیں۔ کیسے ہیں آپ سب؟" سیاہ ساڑھی میں ملبوس تیار شیار کھڑی نگہت بیگم نے مسکرا کر ان سے پوچھا۔

تو وہ تینوں بھی انکی تقلید میں کھڑی ہو گئیں۔


"وعلیکم السلام، جی اللہ کا شکر ہے۔ اور آپ نے بالکل ٹھیک پہچانا۔ میں بلال کی ماں ہوں افشاں جہانزیب، یہ دونوں اسکی بہنیں ہیں زرش اور مہر ماہ" انہوں نے خوشگوار لہجے میں سلام کا جواب دیتے ساتھ ہی اپنا اور ان دونوں کا تعارف بھی کروا دیا۔


جس پر نگہت بیگم نے مسکراتے ہوئے سر تا پیر دونوں لڑکیوں کو دیکھا۔

ان دونوں نے بھی ان کو سلام کیا۔

جس کا انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

اور نرمی سے مہرو کا رخسار چھوا۔

جس پر وہ ٹکر ٹکر انکا چہرہ ہی دیکھتی رہ گئی۔


"ماشاءاللہ بہت پیاری بچیاں ہیں آپکی۔ اور بلال بہت ہی محنتی بچہ ہے آپکا، عثمان صاحب اکثر انکے بارے میں بات کرتے ہیں۔" انہوں نے صاف گوئی سے کہا۔


جبکہ ان کے برابر کھڑی محمودہ بیگم گھور کر برے برے منہ بناتے ہوئے انہیں دیکھ رہیں تھیں۔

صاف ظاہر تھا کے انہیں نگہت بیگم کا ان لوگوں سے یوں بے تکلف ہونا پسند نہیں آ رہا تھا۔

اور ان کو تو نگہت بیگم کا ہر جوان لڑکیوں والی ماں سے بات کرنا خاص پسند نہیں آتا تھا۔

کیونکہ انکو ہمیشہ یہی خدشہ لاحق رہتا تھا کے کہیں وہ کسی کو اردشیر کیلئے پسند نہ کر لیں۔


ان سے نگاہیں ہٹا کر محمودہ بیگم نے ذرا فاصلے پر اپنی بیٹی کائنات کو دیکھا جو مہک اور دو تین لڑکیوں کے ساتھ کھڑی تھی۔


وہاں موجود تمام ہی لڑکیاں زیادہ تر امیر زادیاں تھیں۔

جنہوں نے مادر پدر لباس پہن رکھے تھے۔

جو بے حد قابل اعتراض تھے۔

مگر یہاں اعتراض کرنے والا تھا ہی کون؟

ان دولت کے پجاریوں کا ضمیر تو کب کا مردہ ہو چکا تھا۔

لہٰذا ان کی بیٹیاں کھلے عام ان کی موجودگی میں ہی غیر لڑکوں کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہیں تھیں۔

مگر کوئی پرسان حال نہ تھا۔


نگہت بیگم اب افشاں کے قریب نشست سنبھال چکی تھیں۔

جبکہ مہرو اپنی دوستوں کا اشارہ پا کر ان سے معذرت کرتی ہوئی زرش کا ہاتھ پکڑے وہاں سے اٹھ کر دور فاصلے پر کھڑیں اپنی اور زرش کی مشترکہ دو تین سہیلیوں کے گروپ میں چلی آئی۔

جن میں ثناء، علینا اور ماہین شامل تھیں۔


"کیا یار تم دونوں بھی بڑے بوڑھوں میں بیٹھی ہوئی تھیں۔" ثناء نے بے اختیار ٹوکا۔

اس کے پاپا بھی ایک امیر کبیر کاروباری آدمی تھے۔

جس کی وجہ سے وہ بھی یہاں مدعو تھے۔

مگر ثناء فطرتا مغرور نہ تھی۔

جس وجہ سے ہی ان دونوں کی دوستی ہوئی تھی اس سے۔

دعوت نامہ دکھائے بغیر اندر آنے کی اجازت نہ تھی۔

لہٰذا علینہ اور ماہین ثناء کے ساتھ ہی آئیں تھیں۔


"یہ محترمہ زرش بیٹھی تھی اور مجھے بھی بٹھا رکھا تھا وہاں" مہرو نے کہا۔


"زرش بیٹا، زرا یہاں آنا" اسی وقت افشاں بیگم نے اسے پکارا تو وہ مہرو کے رخسار پر چٹکی کاٹتی ہوئی واپس ان کی جانب چلی گئی۔

اب وہ چاروں ہی رہ گئیں تھیں۔


"اووففف یار، تم نے مسٹر ایم-ڈی کو دیکھا۔ قسم سے کیا لگتا ہے وہ۔ کاش ایسا ہینڈسم سا بندہ میرے پاس ہوتا" انکی دوست علینہ نے فاصلے پر کھڑے مسکراتے ہوئے اردشیر کو دیکھ کر حسرت آمیز لہجے میں تبصرہ کیا۔


مہر ماہ کی اسکی جانب پشت تھی۔

جبکہ باقی تینوں اسے با آسانی دیکھ سکتیں تھیں۔

سوائے مہرو کے۔


علینہ کے تبصرے پر مہرو نے بے اختیار اسکے چپت رسید کی۔


"ندیدی کہیں کی، تمہیں تو ہمارے کینٹین والا چاچا بھی ہینڈسم لگتا ہے۔" صاف مذاق اڑایا۔

جس پر ساری لڑکیاں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستی چلی گئیں۔

علینہ نے منہ بنا کر ان کو دیکھا۔


"اڑا لو میرا مذاق، لیکن اب ذرا وہ منظر بھی دیکھ لو۔ میں کچھ بھی سہہ سکتی۔ لیکن اتنے شاندار سے بندے کے ساتھ اس چڑیل عائمہ کو نہیں دیکھ سکتی" علینہ نے اب بھی وہی دیکھتے ہوئے جل کر کہا۔


جہاں پر اردشیر اب تنہا کھڑا۔ اور مختصر ترین سیاہ لباس میں عائمہ اسکے بے حد قریب کھڑی اس سے شاید کچھ پوچھ رہی تھی۔


"او گاڈ، واقعی یار اب تو مجھے بھی رشک سا ہو رہا ہے اس عائمہ کو دیکھ کر۔ دیکھو ذرا کیسے چپکی کھڑی ہے اس سے" ماہین نے بھی حسد بھرے لہجے میں کہا۔


"او ماہی بی بی، ذرا اپنی گستاخ نظروں کو سنبھال کر رکھو۔ ابھی آفاق بھائی کا نمبر گھمایا نا تو دوڑتے ہوئے یہاں آن پہنچیں گے۔ پھر آج کے آج ہی نکاح پڑھوا کر لے جائیں گے یہی سے تمہیں" ثناء نے شرم دلاتے ہوئے ساتھ ہی اسے دھمکی بھی دی۔

وہ اپنے خالہ زاد کے ساتھ منسوب تھی۔

آفاق کو شادی کی جلدی تھی۔

مگر ماہین صاحبہ کو اپنی آزادی پیاری تھی۔

لہٰذا یونیورسٹی ختم ہونے تک آفاق نے انتظار کرنے کی حامی بھر لی تھی۔


ثناء کی دھمکی پر وہ بوکھلا کر واقعی خاموش ہوگئی۔


"کیا تم لوگ بھی گھور گھور کر اسے دیکھ رہے ہو۔ کبھی کوئی لڑکا نہیں دیکھا؟" مہرو نے تینوں کی نظریں وہاں اپنے پیچھے کے منظر پر جمے دیکھ کر چڑتے ہوئے کہا۔


"تم بھی اسے دیکھو گی نا ایک نظر تو تمہارے بھی ہوش اڑ جائیں گے" علینہ نے نگاہیں ہٹائے بغیر یقین سے کہا۔


"اچھا ابھی دیکھتی ہوں کے ایسے کون سے ہیرے جڑے ہیں" اتنا کہہ کر وہ مڑی۔


اور اردشیر کو دیکھنے کے بعد اسکی آنکھوں کے سامنے زمین و آسمان گھوم گئے تھے۔

بس چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی تھی۔


"ہائے ربا، یہ۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا" تھوک نگل کر مرے مرے سے لہجے میں کہا۔


"کیوں، اڑ گئے نا ہوش" اسکی حالت سے بے خبر علینہ نے کہا۔


"ہاں، اڑ اڑ گئے ہوش۔ طوطے بھی اڑ گئے ہاتھوں کے" مہرو نے دوپٹے کا کنارہ انگلیاں میں گھماتے ہوئے وہ اب باقاعدہ رو دینے کو تھی۔


عین اسی پل اردشیر نے نگاہیں اسکی جانب اٹھائی تو مہرو نے جلدی سے پلو اپنے چہرے کے سامنے کر دیا۔


اردشیر چونک سا گیا اس حرکت پر۔


اور اب قدم قدم چلتا ہوا وہ مشکوک نگاہوں سے اسکی جانب دیکھتا ہوا آ رہا تھا۔


"او گاڈ، وہ تو ادھر ہی آ رہا ہے۔" ماہین کی چہکتی ہوئی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔


تو اس نے دوپٹے کے پیچھے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔


"مر جاؤ تم لوگ۔" اس نے اپنے پیچھے کھڑی ان تینوں کو گھرکا۔


جبکہ دوپٹے ہنوز چہرے کے سامنے پھیلایا ہوا تھا۔


"محترمہ، کیا پرابلم ہے۔ اپنا چہرہ کیوں چھپا رہیں ہیں آپ۔ دوپٹہ ہٹائیں ذرا" اردشیر نے عین اسکے سر پر پہنچ کر مشکوک لہجے میں کہا۔

جبکہ مہرو کی جان ہوا ہونے لگی۔


"رہنے دیجئے جی، آآ۔۔آپ سے نہیں دیکھا جائے گا" مہرو نے گویا منت کی۔


"کیا مطلب؟ آپ کا چہرہ کیا اتنا خوفناک ہے؟" اردشیر قدرے چونکا۔

وہ ابھی تک سیاہ دوپٹے کو اپنے چہرے کے سامنے پھیلائے کھڑی تھی۔


دنیا بہت چھوٹی ہے۔

یہ کہاوت مہرو نے پہلے صرف سنی تھی۔ مگر آج اس چھ فٹ کے آدمی کو پورے قد سے ایک مرتبہ پھر اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اس نے اس کہاوت کا گویا عملی نمونہ بھی دیکھ لیا تھا۔


جبکہ ثناء، ماہین اور علینہ کے ساتھ ساتھ ذرا فاصلے پہ کھڑی عائمہ بھی حیرت سے منہ کھولے اسے مہرو کو مخاطب کرتے دیکھ رہی تھی۔


"محترمہ، میں نے کہا اپنے چہرے کے سامنے سے یہ دوپٹہ ہٹائیں۔" اس نے اپنا مطالبہ پھر سے دہرایا۔


جبکہ مہرو کو لگا جیسے یہ شخص آج ٹھان کر آیا ہے کے اس سے اگلے پچھلے تمام بدلے لے گا۔


"آآ۔۔۔آپ کو۔۔۔شرم نہیں آتی۔۔۔یوں پرائی لڑکی کو کہتے ہوئے کے مجھے اپنا چہرہ دکھاؤ؟" اس وقت اور کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ اسی پر الٹ پڑی۔


"دیکھئے، مجھے کوئی شوق نہیں ہے کسی کا چہرہ دیکھنے کا۔ مجھے بس شک ہوا کے میں نے شاید آپ کو کہیں دیکھا ہے" اردشیر نے قدرے روکھے لہجے میں کہا۔


جبکہ وہ تینوں ابھی تک منہ کھولے نا سمجھی سے کبھی سامنے کھڑے اردشیر کو دیکھتیں تو کبھی دوپٹے کے پیچھے چھپی مہر ماہ کو۔


"ہائے ربا، اس کا مطلب کے اس کڑوے کریلے کو میرا چہرہ یاد ہے۔۔" مہرو نے ہلکی سی آواز میں خود کلامی کی۔

جس سے اسکی فکر دو چند ہو گئی۔


"کچھ کہا آپ نے مجھ سے؟" اردشیر نے اسکی بڑبڑاہٹ سن کر کہا۔ جو اتنی واضح نہ تھی کے اسے سمجھ آتی۔


"ارےے یار شیرو تو کیا یہاں کڑیوں کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ ادھر چل۔ دیکھ مہمان کب سے تیرا پوچھ رہے ہیں۔" اسی وقت برہان وہاں آن پہنچا۔

تو اردشیر اسکی جانب متوجہ ہو گیا۔


"اچھا تو چل میں آتا ہوں ابھی" اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔


"کوئی بہانہ نہیں۔ تو بس چل رہا ہے میرے ساتھ۔ انکل جی تجھے بلا رہے ہیں۔ تو چل" اس نے ایک نہ سنی اور اسکا بازو تھامے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ ہی لے گیا۔


خدا خدا کر کے مہرو نے چہرے پر سے دوپٹہ ہٹایا۔

اور سینے پہ ہاتھ رکھ کے بے اختیار کب سے اٹکی ہوئی سانس بحالی کی۔


پھر خیال آیا ان تینوں کا۔ جو اسے ایسے گھور رہیں تھیں جیسے کوئی چوری پکڑ لی ہو۔


"ایسے کیا گھور رہی ہو تم لوگ مجھے؟" مہرو نے بوکھلا کر پوچھا۔


"یہ کیا ہو رہا تھا ابھی؟ اور تم کیا اسے جانتی ہو پہلے سے؟" علینہ نے کڑے تیوروں سے پوچھا۔


"او ہو، بعد میں کبھی فرصت سے بتاؤں گی۔ ابھی چلو کھانا کھاتے ہیں۔ بہت بھوک لگی ہے" ان کا دھیان بٹانے کو اس نے بات بدلی۔

اور صد شکر کے انہوں نے اسکی بات مان لی تھی۔

•••••☆☆☆☆•••••


زرش اپنے ہی دھن میں مہر ماہ کو آس پاس دیکھتے ہوئے پکار رہی تھی جب سامنے سے آتے ہوئے شخص سے اسکا زوردار تصادم ہوا۔

اور اس قدر زور کی ٹکر لگنے پر وہ لہرا کر زمین بوس ہونے ہی والی تھی جب بر وقت کسی نے اسکا ہاتھ تھام کر نیچے گرنے سے بچایا۔


"سوری میم۔۔آئم ویری سوری۔ غلطی ہو گئی" سامنے ہی ویٹر کھڑا تھا۔ جبکہ اسکا ہاتھ تھامنے والا برہان یوسف اس ویٹر کے عین برابر کھڑا تھا۔

جانے کہاں سے آیا تھا یوں اچانک؟


اس نے فورا زرش کو واپس کھینچا۔ تو وہ اپنے پیروں پر آ گئی۔


"کیا کرتے ہو یار، ابھی گر کر چوٹ لگ جاتی انہیں۔ اب اردشیر غازی کے مہمان کیا چوٹ لگوا کر گھر جاتے ہوئے اچھے لگیں گے؟" برہان نے ذرا سختی سے ویٹر کو ڈانٹا پھر وہاں سے ہٹنے کو کہا۔

تو وہ بیچارا ایک بار پھر سے معذرت کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔


"ان کی غلطی نہیں ہے۔ میں ہی ذرا جلدی میں تھی۔ اور انہیں آتے دیکھا نہیں تو یہ سب۔۔۔" زرش نے سر جھکاتے ہوئے جیسے اعتراف کیا۔

جبکہ برہان دلچسپی سے اسکا خفت سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھنے لگا۔


"کوئی بات نہیں۔ پر آپ ٹھیک ہیں نا محترمہ؟" اس نے فکر مندی سے پوچھا۔


"جی میں ٹھیک ہوں۔ آپ؟" نا چاہتے ہوئی بھی اسکی زبان پھسلا۔ اور اس نے اسکے بارے میں پوچھا۔

جس پر برہان زیر لب مسکرا دیا۔


"میں برہان یوسف ہوں، اور یہ جو پارٹی ہے نا۔ یہ میرے یار شیرو میرا مطلب ہے غازی اردشیر کی ہے۔ وہ میرا کزن پلس دوست ہے" اس نے بھی بلا تامل بتا دیا۔

تو زرش نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔

اور آگے بڑھنے ہی لگی تھی جب اس نے پھر پکارا۔


"اور آپ؟" برہان نے پوچھا۔


تو وہ مڑی۔ پھر مسکرائی۔

"میں زرش ہوں، بلال جہانزیب میرے بھائی ہیں۔" اس نے فخریہ لہجے میں کہا۔

جس پر برہان نے مسکراتے ہوئے ایک ابرو اٹھایا۔


"او، تو آپ بلال کی بہن ہیں۔ آئی مسٹ سے۔ آپ کا بھائی واقعی بہت اچھا ہے۔ ورنہ ہر کوئی اتنی جلدی عثمان انکل کے کلوز نہیں آ سکتا۔ جتنا کے مختصر سے عرصے میں اس نے اپنی جگہ بنائی ہے"۔ برہان نے دل سے اسکی تعریف کی۔

جس پر زرش کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئی۔


"یس، میرے بھائی واقعی بہترین ہیں۔ ہر کام میں" مسکراتے ہوئے اس نے تائید کی پھر اپنے راستے ہولی۔


"اور آپ بھی۔۔مس زرش" زیر لب اس نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا۔

پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔


"کیا باتیں ہو رہی تھیں؟" مہرو نے مسکرا کر معنی خیزی سے پوچھا۔


"کچھ نہیں، وہ بس بلال بھائی کے بارے میں کہہ رہے تھے کے وہ بہت اچھے ہیں"۔ زرش نے کہتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا اور ایک قدرے خالی میز پر دونوں آ بیٹھیں۔


ایک مشہور گلوکار کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

جو اسٹیج پر کھڑا مائک سنبھالے سر بکھیر رہا تھا۔

ساتھ ہی ایک خاتون گلوکارا بھی اسکا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔


"تم بتاؤ، نئے ایم-ڈی کو مبارکبادی دے دی نا تم؟" زرش نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔

کیونکہ تھوڑی دیر پہلے کا منظر وہ بھی دیکھ چکی تھی۔

ہاں مگر دور ہونے کے باعث وہ سن نہ سکی تھی کے کیا باتیں ہوئیں دونوں میں۔


"ہاں اڑا لے، زرش بی بی تو بھی اڑا لے میرا مذاق۔ اور خبردار جو اس خبیث آدمی کا نام بھی لیا ہو میرے سامنے"۔ انگلی اٹھا کر کہتے ہوئی گاہے بگاہے اپنے آس پاس بھی نظر ڈال رہی تھی کے کہیں وہ پھر اسکے سر پہ نہ آن پہنچے۔


"ارے، میں کہاں مذاق اڑ رہی ہوں۔ میں تو خالی پوچھ رہی ہوں بس" زرش نے شانے اچکا دیئے۔


"ہائے ربا، وہ دیکھو۔۔۔ وہ دیکھو پھر سے مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔ زرش مجھے کہیں چھپا دو" اچانک ہی اردشیر پر اسکی نظر پڑی جو شاید کسی کو تلاش کر رہا تھا۔

جلدی سے میز پر جھکتے ہوئے مہرو زرش کے گولڈن دوپٹے میں اپنا منہ چھپانے لگی۔


"اوئے، یہ کیا کر رہی ہے۔ چلو سیدھی ہو۔ کبھی تو انسانوں کی طرح بے ہیو کر لو لڑکی" زرش نے اپنا دوپٹہ اس سے واپس کھینچ کر اسکا چہرہ سیدھا کیا۔


"ہیلو لیڈیز" اسی پل برہان اچانک ہی ان دونوں کی میز پر ان کے درمیان والی کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا۔

وہ دونوں بدک کر پیچھے ہٹیں۔


"کیا ہوا ایسے کیوں گھبرا رہی ہیں آپ دونوں۔ بھئی اب اتنے بھی برے نہیں ہیں ہم" برہان نے شرارت سے اپنے سیاہ بال سنوارتے ہوئے کہا۔

جس پر ان دونوں نے آس پاس دیکھا۔

کوئی متوجہ نہ تھا۔

انہیں ڈر تھا کے کسی انجان لڑکے کے ساتھ یوں بیٹھے دیکھ کر کہیں افشاں بیگم کا جوتا ہی ان کے سر نہ ہو جائے۔


"مس زرش یہ محترمہ کون ہیں؟" برہان نے بے تکلفی سے پوچھا۔

جس پر اب کے زرش جہاں ٹھٹھکی۔

وہیں مہرو نے گھور کر اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کے یہ لڑکا تمہیں پہلے سے جانتا ہے۔


"یہ میری بہن ہے۔۔۔مہر ماہ، اور میری سب سے بہترین دوست بھی۔" زرش نے سنبھل کر مسکراتے ہوئے بتایا۔


"او اچھا جی، تو مہر ماہ صاحبہ آپ کچھ دیر پہلے شیرو سے میرا مطلب ہے میرے یار اردشیر سے شرما کیوں رہی تھیں؟ چہرے پہ گھونگھٹ ڈال کے۔ بالکل پرانے زمانے کے ہیروئین کی طرح۔۔۔کہیں کوئی پنگا تو نہیں کیا اس سے آپ نے؟"۔ برہان نے مشکوک انداز میں پوچھا۔

جس پر مہرو نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔


"جج۔۔جی۔۔جی کیا مطلب ہے آپ کا۔ میں کوئی پنگے کرنے والی لڑاکا عورت دکھتی ہوں آپ کو؟" مہر ماہ نے چڑ کر الٹا سوال کیا۔


"ہوں، تو اسکا مطلب ہے پنگا کیا ہے آپ نے"۔ برہان نے سمجھداری سے کہا۔

مہرو نے اثبات پر غصے سے اسے دیکھا۔


اسی وقت محمودہ بیگم کی نظر وہاں ان دونوں لڑکیوں کے درمیان والی کرسی پر بیٹھے برہان یوسف سے ٹکرائی تو مارے طیش کے ان کا برا حال ہو گیا۔


"یہ مڈل کلاس لڑکیاں۔ ضرور میرے برہان کو پھانس رہی ہوں گی۔" مٹھیاں بھینچ کر انہوں نے خود کلامی میں کہا۔


"برہان۔۔۔ادھر آؤ فورا" وہی کھڑے کھڑے اسے آواز دی جو ذرا سی دوری سے با آسانی انکی بلند پکار سن چکا تھا۔


"جی ممی، آتا ہوں" وہ کہتے ساتھ ہی ان دونوں سے معذرت کرتا وہاں سے اٹھ کر ان کے پاس چلا گیا۔

مہرو کیلئے اتنا ہی کافی تھا۔

البتہ زرش نے اسکی ماں کے انداز کو صاف نوٹ کیا تھا۔

کے ان کو اپنے بیٹے برہان کا یوں ان دونوں کے ساتھ بیٹھنا کچھ خاص پسند نہ آیا تھا۔


"کیا کر رہے تھے وہاں؟ مجھے اچھی طرح پتہ ہے ان مڈل کلاس لڑکیوں کے چال چلن۔ ضرور تمہیں پھانس رہی ہوں گی" دانت پیس کر انہوں نے غصے سے کہا اور ساتھ ہی ان دونوں پر ایک تیز نظر ڈالی۔

برہان نے افسوس سے اپنی ماں کو دیکھا۔


"ممی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اور میں ہی انکی میز پر گیا تھا انہوں نے مجھے نہیں بلایا"۔ اس نے آہستہ آواز میں انکے خیال کو رد کیا۔


"دیکھا، ابھی دو منٹ نہیں گزارے ہوں گے تم نے ان کے ٹیبل پر۔ اور ابھی سے ماں کے ساتھ بحث کرنے لگ گئے۔ ارے اگر بیٹھنا ہی تھا تو مہک سے زیادہ حسین اور کوئی نہیں تھی یہاں۔ اسی کے ساتھ بیٹھ جاتے"۔ وہ اب اپنے مطلب کی بات پر آئی تھیں۔

اور برہان نے انکا مطلب اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔


"ممی پلیز، کم از کم اپنی تلخ باتوں سے آپ شیرو کی پارٹی تو مت خراب کریں۔ یہ باتیں ہم گھر جا کر بھی کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے یہ جگہ اور یہ موقع ہر گز بھی موزوں نہیں"۔ آہستگی سے اپنی بات مکمل کر کے وہ پھر رکا نہیں تھا۔

ان کے پاس سے نکلتا چلا گیا۔

اور وہ پیچ و تاب کھاتی رہ گئیں۔

~~~~☆☆☆☆~~~~


اور پھر یوں ہوا کے باقی کے جشن میں ان "چھ" شناسا سے اجنبیوں کی نظریں جانے ان جانے میں ایک دوسرے کو ہی تلاشتی رہیں۔


اردشیر نے بارہا اسے ڈھونڈا پر وہ نا ملی۔

مہرو اسکی نظروں کو متلاشی دیکھ کر چھپتی پھر رہی تھی۔


برہان کی نظریں اس سنہری پری سے جب ملی تب سے واپس پلٹنا بھول گئیں تھیں۔


زرش بارہا اسکی نظروں کو خود پر محسوس کر کے پزل ہو جاتی تھی۔


کون جانتا تھا کے وہ بلال جہانزیب جس کا وجود سب کیلئے باعث خوشی اور ذریعہ محبت ہے۔

اسکے اپنے دل میں کیا ہے۔

کس خوبصورتی سے وہ اپنا دل چھپا گیا تھا۔

یہ کوئی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا ہوگا۔


اور سفید لباس میں ملبوس سنہرے بالوں والی وہ مغرور سی شہزادی بارہا خود پر کسی کی پر حدت نظریں محسوس کرتی رہی۔

کئی نظریں بیک وقت ہی اس پر تھیں۔

مگر وہ ایک نظر جو سب سے زیادہ طاقت ور اور اپنی جانب متوجہ کرنے کا ہنر رکھتیں تھیں۔


مہک نے اسے جب بھی دیکھا وہ مسکراتے ہوئے اپنے سامنے کھڑے کسی نا کسی سے محو گفتگو ہی نظر آیا۔


اب دیکھنا یہ تھا کے یہ چھ کیسے لفظ "نا ممکن" جو کے ان کے درمیان دیوار بنا ہے کو گرا کر ملتے تھے۔

●•••☆☆☆☆•••●


پارٹی دیر تک جاری رہی۔

مگر جہانزیب صاحب اور افشاں بیگم زرش اور مہرو سمیت نگہت بیگم سے اجازت لے کر گھر واپس چلے گئے۔

کیونکہ بے جی تنہا تھیں۔

لہٰذا انہوں نے بھی اجازت دے دی۔


البتہ بلال نے خود ہی کہا کے عثمان صاحب اسے چند اہم ہدایات جاری کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا وہ بعد میں آئے گا گھر۔

وہ چاروں مہرو کی گاڑی میں واپس گھر کو روانہ ہو گئے۔


"بلال کے باس کی بیوی تو بہت ہی اچھے مزاج کی ہے۔ اتنی دولت مند ہیں۔ مگر غرور نام کو نہیں ان میں۔ ہم سے کافی گھل مل گئیں تھیں وہ جہانزیب صاحب"۔ افشاں بیگم نے خوشی خوشی اپنے شوہر کو ان کے حسن سلوک کے بارے میں بتایا۔

جس پر وہ بھی مسکرا دیئے۔


"صرف وہ ہی کیوں بیگم، خود عثمان صاحب اور اردشیر بھی کافی اچھے مزاج کے لگے مجھے۔ بہت اچھے سے پیش آئے۔ میرا خیال ہے لوگ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں کے وہ مغرور ہیں۔ ورنہ جو انہیں قریب سے جانتا ہوگا ان کیلئے وہ بے حد پر خلوص لوگ ہیں۔" جہانزیب صاحب نے بھی عثمان غازی سے متعلق انہیں بتایا۔

وہ سارا وقت انہیں بے حد عزت اور احترام سے مخاطب کرتے رہے تھے۔


"سچ، پھر تو اچھا ہی ہوا نا جو آج ہم اس پارٹی میں شامل ہوئے۔ ورنہ ان سے محروم ہی رہ جاتے ملنے سے۔ مجھے تو نگہت کی ساس بھی بالکل ہماری بے جی جیسی ہی مشفق لگیں۔ وہ بھی سارا وقت میرے ساتھ تھی۔ زرش بھی وہی میرے برابر ہی بیٹھی تھی۔ وہ اسے بھی پیار سے مخاطب کر رہی تھیں بالکل اپنے بچوں کی طرح"۔ افشاں بیگم انکی تعریف میں رطب السان تھیں۔

ان کی بات پر ان کے برابر بیٹھی زرش مسکرا کر ان کے شانے سے لگ گئی۔


افشاں بیگم پیار سے اسکے بال سہلانے لگیں۔


جبکہ مہرو خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی۔

اور جہانزیب صاحب فرنٹ سیٹ پر اس کے برابر بیٹھے تھے۔


"کیوں بھئی، مہرو نہیں تھی آپ کے ساتھ؟" جہانزیب صاحب نے پوچھا۔

جس پر مہرو نے ترچھی نگاہوں سے انہیں دیکھا۔


"یہ محترمہ تو اپنی سہیلیوں کو دیکھ کر ہی سب کو بھول گئیں تھیں۔ سارا وقت ان ہی کے ساتھ تھی۔ کتنی آوازیں دیتی رہی کے عثمان صاحب کی والدہ ملنا چاہ رہی ہیں مگر ادھر پرواہ کسے تھی۔" افشاں بیگم نے اسے پیچھے سے گھورتے ہوئے جہانزیب صاحب کو بتایا۔


"ہاں تو میں کیا کرتی آپ بزرگوں کے بیچ بیٹھ کر۔ بھئی میری فرینڈز وہاں آئی ہوئی تھیں۔ میں انہیں کمپنی دے رہی تھی"۔ مہرو نے منہ بنا کر کہا۔


تب تک ان کی گاڑی فلیٹ کے گیٹ سے اندر داخل ہو چکی تھی۔

رات کے دس بج رہے تھے۔

اب ان کی واپسی ہوئی تھی۔


خدا خدا کرکے وہ لفٹ کے ذریعے اپنے فلیٹ میں پہنچے۔

کے بے جی کی وجہ سے افشاں بیگم کافی متفکر تھیں۔


گھر میں داخل ہو کر انہوں نے ان کے کمرے میں جھانکا تو وہ خراٹے لیتی ہوئیں بے خبر سو رہی تھیں۔

جس پر انہوں نے ایک پر سکون سانس لی پھر دروازہ ادھ کھلا چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔


زرش بھی تھک گئی تھی۔

اسے بھی سفیان قریشی کی فکر تھی۔

لہٰذا وہ انہیں شب بخیر کہہ کر سامنے والے گھر میں چلی گئی۔

بلال ان سے ایک گھنٹہ بعد گھر پہنچا تھا۔


سب ہی تھک کر اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تھے۔


دونوں ہی لڑکیاں ان دونوں اجنبیوں کا سکون غارت کر کے اب خود پر سکون ہو کر سو گئیں تھیں۔

☆☆☆☆☆☆


رات کے گیارہ بج رہے تھے۔


جب اس نے اپنے برابر والے سنگل بیڈ پر لیٹی فاطمہ بیگم کی درد سے کراہتی ہوئی آواز سنی۔

وہ ایک دم اپنے بیڈ سے اچھل پڑی۔


تو زیرو پاور کی نیلی روشنی میں اس نے دیکھا کے فاطمہ بیگم سینے پہ ہاتھ رکھے تکلیف سے کراہ رہی تھیں۔


"اماں" ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر وہ اچھل کر اپنے بیڈ سے اتری اور سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر کمرہ روشن کیا۔

پھر ان کی جانب آئی۔


"اماں۔۔۔اماں کیا ہوا ہے۔۔۔اماں پلیز کچھ تو بولیں"۔ اس نے روتے ہوئے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس بھر کر ان کے منہ سے لگایا مگر انہوں نے بمشکل ایک گھونٹ پیا۔

انکی سانس اکھڑنے لگی تھی۔


صورتحال دیکھ کر مریم کے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے تھے۔


"او خدایا، میری مدد کر میرے مولا"۔ روتے ہوئی وہ اپنے رب کے حضور گڑ گڑائی۔

اس وقت تو ہر کوئی اپنے گھروں میں دروازے بند کیے بے خبر سو رہا ہوتا تھا۔


اس نے بنا کچھ سوچے ننگے سر، ننگے پیر باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔

کسی کو تو بلانا ہی تھا مدد کیلئے۔

وہ اپنے گھر کا چھوٹا سا گیٹ کھول کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔

زرد روشنی والی گلیاں سنسان پڑی تھیں۔


"کوئی مدد کرو۔۔۔خدارا میری امی کی زندگی کا سوال ہے" وہ ابھی اتنا ہی کہہ سکی تھی کے اپنے پیچھے اس نے قدموں کی چانپ سنی۔

تو وہ ایک دم جہاں تھی وہی تھم گئی۔


"مریم، آپ اس وقت یوں اس طرح کیا کر رہی ہیں گھر سے باہر؟" عین اسکے پیچھے وجاہت آفریدی پولیس کی وردی میں کھڑا اسے کچھ مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

مریم کی اسکی جانب پشت تھی۔


لیکن جب اس نے یہ شناسا آواز سنی تو ایک جھٹکے سے مڑی۔

جہاں اسکے پیچھے وہ کھڑا تھا۔


وجاہت اسکا آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔


"مریم، کیا ہوا۔ خیریت ہے سب؟"۔ اب کے سوال ہی نہیں اسکا انداز بھی بدلا تھا۔


"وہ۔۔۔وہ اندر۔۔۔۔میری امی۔۔۔وہ سانس نہیں لے رہیں" ٹوٹے پھوٹے لہجے میں اس نے اپنی بات سمجھانی چاہی۔

مگر اتنا ہی کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔


وجاہت کیلئے اتنا ہی جاننا کافی تھا۔

تیز قدموں سے وہ گھر کے اندر داخل ہوا اور ایک کمرے کے کھلے دروازے سے اندر کا منظر واضح تھا۔


فاطمہ بیگم نیم جان سی، زرد چہرے کے ساتھ اپنے بستر پر پڑی تھیں۔


"مریم، جلدی کریں۔۔۔ انہیں فورا قریبی کلینک میں لے جانا ہوگا"۔ متفکر لہجے میں اس نے مریم کو دیکھ کر کہا۔

تو اس نے مزید وقت ضائع کیے بغیر جلدی سے چادر اپنے وجود کے گرد پھیلایا پھر فاطمہ بیگم کا دوپٹہ ان پر ڈالتے ہوئے وہ وجاہت کی مدد سے انہیں اسکی گاڑی تک لے آئی۔

جو اس پتلی سی گلی کے سرے پر کھڑی کی گئی تھی۔


پھر کن دقتوں سے ان لوگوں نے کلنک تک کا سفر طے کیا یہ وہی جانتے تھے۔


اس علاقے میں دو ہی سرکاری ڈاکٹر تھے۔

ایک تو شہر میں ہوتا تھا جو ہفتے میں دو بار آتا تھا۔

جبکہ دوسرا ادھر ہی ہسپتال سے ملحقہ کمرے میں رہتا تھا۔

وہ اس وقت سو رہا تھا مگر ڈی-ایس-پی وجاہت کو اپنے سامنے دیکھ کر اسکی نیند اڑنچھو ہو گئی۔


بر وقت اس نے علاج کیا اور جو اطلاع دی اس سے مریم کے پیروں تلے سے رہی سہی زمین بھی نکل گئی۔

انہیں دو ہارٹ اٹیک ایک ساتھ ہوئے تھے۔


مریم سکتہ زدہ سی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

اور اس پورے عرصے میں آج پہلی بار اس نے اپنا کمزور پہلو اس شناسا سے اجنبی پر آشکار کیا تھا۔

وہ اس شدت سے روئی تھی۔

کے وجاہت آفریدی کو گمان گزرا جیسے اس لڑکی کا ناتواں وجود گویا ایک سمندر سمیٹے ہوئے تھا۔


ڈیڑھ گھنٹے کی سر توڑ کوششوں کے بعد جا کر فاطمہ کی حالت کچھ سنبھلی تھی۔

تو مریم کی جان میں جان آئی۔


"دیکھیے، مجھ سے جتنا بن پڑا۔ اپنی طرف سے میں نے پوری پوری کوشش کی ہے کے انکا علاج کر سکوں۔ مگر یہاں سہولیات کا فقدان ہے۔ اس لیئے آپ کو کل ہی انہیں شہر لے جا کر کسی اچھے اسپتال میں ایڈمٹ کروانا ہوگا۔ کیونکہ خطرہ انہیں اب بھی ہے۔" ڈاکٹر نے خاصے پروفشنل انداز میں مریم اور وجاہت کو انکی حالت سے آگاہ کیا۔

جس پر وہ ایک نئی فکر میں مبتلا ہو گئے۔


"آپ۔۔۔آپ کا بے حد شکریہ جو آپ نے رات کے اس پہر انجان ہوتے ہوئے بھی میری مدد کی۔ اور میں معذرت خواہ ہوں آپ سے میری وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی۔"


مریم نے دھیمے لہجے میں، نگاہیں جھکائے مروتا کہا۔

تو وجاہت بے اختیار اسے دیکھتا چلا گیا۔


"میں نے کوئی احسان نہیں کیا آپ پر۔ یہ سب انسانیت کے ناتے کیا ہے۔ مگر آپ کو مروت نبھانے کی ضرورت نہیں تھی۔" نا چاہتے ہوئے بھی اس نے شکوہ کیا۔

جس پر مریم نے نا سمجھی کے عالم میں اسے دیکھا۔


"مجھے لگتا ہے ہمیں جلد سے جلد آنٹی کو شہر لے جانا چاہیئے۔ اس سے قبل کے حالات مزید کشیدہ ہو جائیں۔ آپ تیاری کر لیں۔ کچھ گھنٹوں بعد نکلتے ہیں پھر۔" اس نے قطعیت سے کہا۔

مریم نے کچھ کہنے کو منہ کھولا مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ بھی مزید کہنے سننے سے روک دیا۔


"آپ کے کوئی رشتہ دار وغیرہ رہتے ہیں شہر میں؟" اس نے سوال کیا۔

مریم نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔


"جی، ایسا کوئی نہیں ہے میرا"۔ کرب سے آنکھیں میچ کر اس وہ صاف مکر گئی۔


وجاہت نے مزید کچھ کہے بنا اثبات میں سر ہلا دیا۔

پھر موبائل پر کوئی نمبر پش کرتا ہوا وہ فاصلے پر چلا گیا۔


"جن رشتوں کی وجہ سے۔ میری ماں کی، میری، میرے پاپا کی جگ ہنسائی ہوئی۔ ان رشتوں کے پاس میں کس منہ سے جا سکتی ہوں ڈی-ایس-پی صاحب"۔ اس نے خود کلامی کے سے انداز میں وجاہت کو مخاطب کیا۔


مگر وہ موبائل کان سے لگائے قدرے فاصلے پر کھڑا تھا۔

لہٰذا وہ اسکی سرگوشی نہ سن پایا۔

~~~•••☆☆☆•••~~~


زرش سے اس نے اپنی گاڑی کی ٹکر والی بات چھپائی تھی۔

ویسے تو وہ اپنی ہر بات ہی اس سے شیئر کرتی تھی۔

مگر یہ بات اس نے اپنے گھر میں کسی کو بھی نہ بتائی تھی۔

بہت ہی خاموشی کے ساتھ اس نے اپنی گاڑی کی ہیڈ لائیٹس ریپئر کروائی تھیں۔

لہٰذا کسی کو کچھ خبر نہ ہوئی۔


مگر ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے اپنے اور اردشیر کی بات شروع سے لے کر کل رات جشن تک سب کچھ بتاتی گئی۔

اور آخر تک آتے آتے زرش کا ہنس ہنس برا حال ہو گیا تھا۔


"تو تم اس لیئے چھپتی پھر رہی تھی اردشیر سے۔ کیونکہ تم نے اسکی گاڑی ٹھوکی پھر اس سے بد تمیزی سے بات کی۔ مگر مہرو اس میں یوں خوفزدہ ہونے والی بات تو نہیں تھی کوئی؟ نقصان تو تمہارا بھی ہوا تھا نا؟" زرش نے ہنسی روک کر سنجیدگی سے کہا۔


"بات ہے زرش، چھپنے والی ہی بات تھی۔ کیونکہ اگر اس کڑوے کریلے کے سامنے میرا چہرہ آ جاتا تو جو وہ میری بے عزتی کرتا وہ الگ اور بلال بھائی کے جاب پر حرف آ جاتا میری وجہ سے۔ خواہ مخواہ، وہ کتنی محنت سے اپنی پوزیشن بنا پائے ہیں عثمان غازی کی نظر میں۔ ان کی ساری محنت میری وجہ سے ضائع چلی جاتی۔" مہرو نے افسردگی سے کہا۔


تو زرش اثبات میں سر ہلانے لگی۔


"ہوں، بات تو تم نے بالکل ٹھیک کہی۔ یہ امیر زادے تو ویسے بھی ہر چھوٹی چھوٹی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ کچھ بعید نہ تھا کے تم نے جس طرح اردشیر سے بد تمیزی کی، وہ اسکا بدلہ بلال بھائی سے لیتا۔" زرش نے پر سوچ انداز میں کہا۔

تو مہرو بھی سر ہلا ہلا کر اسکی تائید کرنے لگی۔


"لیکن یہ بھی تو سوچو، آگے اگر ایسا کوئی موقع پھر آیا تو کیا تم ہمیشہ یونہی اس سے منہ چھپاتی پھرو گی۔ اس کا کوئی مستقل حل سوچنا چاہیے ہمیں۔" زرش نے گود میں رکھے پیکٹ میں سے چپس نکال کر منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔


وہ دونوں اس وقت مہرو کے روم میں تھیں۔

اور موضوع گفتگو تھا "غازی اردشیر"۔


"تو اب تم ہی کوئی آئیڈیا دو نا میں کیا کروں؟" مہر ماہ نے اس سے پیکٹ جھپٹتے ہوئے کہا۔


"ہوں، ایک راستہ ہے"۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد زرش نے کہا۔

جس پر مہرو پر جوش سی ہو گئی۔


"کیا حل ہے؟۔ جلدی بتاؤ"۔ بے چینی سے پوچھا۔


"تم اسکے آفس میں جا کر اس سے معذرت کر لو"۔ زرش نے اس سے پیکٹ واپس چھینتے ہوئے کہا۔

مگر ہاتھ ڈالنے پر پتہ چلا کے پیکٹ خالی ہو چکا تھا۔


"ہائے، سارا کھا گئی بکھڑ کہیں کی"۔ وہ چیخی۔


جبکہ مہرو اسے گھور رہی تھی۔


"مرنے کے اس سے بھی کئی زیادہ ودیا ودیا پلان ہیں اور زرش بی بی"۔ اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے کہا۔


"اچھا، اگر اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے تو بتاؤ؟"۔ زرش نے گھوری دی۔


تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔


"دیکھ، زیادہ سوچ مت۔ ایک بار جا کر صاف الفاظ میں اس سے معذرت کر لے۔ کیا ہو جائے گا۔ زیادہ زیادہ وہ تجھے زرا سا ڈانٹ دے گا یہی نا۔ پھر تو بھی اس سے کہہ دینا کے دیکھیں آپ نے بھی تو میرا نقصان کیا تھا نا۔ اور اب تو میں معذرت بھی کرنے چلی آئی ہوں آپ سے۔ لہٰذا اب آپ ان سب باتوں کیلئے بلال بھائی کو کچھ مت کہیے گا"۔ زرش نے اسے سمجھایا۔


تو بات کافی حد تک اسکے دل کو لگی۔


"ہوں۔ ٹھیک کہا تم نے۔ مجھے اگر وہ جوتے بھی مار لے تو بھی کھا لوں۔ مگر اس کے بعد اگر اس نے بلال بھائی کیلئے کوئی مشکل کھڑی کی نا تو اسکی ایسی کی تیسی کر دینا میں نے"۔ اس نے آستینیں چڑھا کر کہا۔


زرش کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔


"اوئے، ایسے معذرت کرنے گئی نا اگر تو، پھر واپس تجھے آفس سے باہر سیکیورٹی گارڈ والے چھوڑ آئیں گے بلکہ پھینک آئیں گے۔ زرا تحمل سے"۔ اس نے اسکے سر پر چپت رسید کرتے ہوئے کہا۔


"تو بھی چل نا میرے ساتھ پلیززز"۔ وہ منت کرنے لگی۔


"نا بابا نا، میں نہیں جاؤں گی۔ جب رائتہ پھیلا ہی دیا ہے تو نے۔ تو اب اسے صاف بھی خود ہی کر۔" زرش نے بدک کر کہا۔

تو وہ بے بسی سے بس اسے گھورتی ہی رہ گئی۔


اب ایک نیا محاذ کھلنے والا تھا۔

وہ بار بار عمیر کا فون ٹرائی کر رہی تھی مگر بے سود۔

آج کل وہ نوٹ کر رہی تھی کے عمیر کا دھیان اسکی طرف سے کم سے کم ہوتا جا رہا تھا۔

وہ اسے اگنور کر رہا تھا اور یہ بات مہک عثمان کی نازک طبع پر بے حد گراں گزر رہی تھی۔

وہ چاہے جتنی مغرور اور انا پرست سہی۔

مگر دل تو بہر حال اسکا بھی ہر دوسری لڑکی جیسا ہی تھا۔

نازک۔۔

جو اپنے محبوب کی اس بے اعتنائی پر ٹوٹ رہا تھا۔

اس نے ایک اور بار مزید کال ملائی مگر دوسری طرف سے اس نے فون ہی آف کر دیا تھا۔


"ڈیم اٹ"۔ طیش کے عالم میں اس نے موبائل زوردار انداز میں دیوار پر دے مارا۔

جو ٹوٹ کر کئی حصوں میں بٹ گیا۔


"تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا عمیر۔۔۔مہک عثمان ہوں میں۔۔۔کوئی بے نشان ذرہ نہیں ہوں میں۔۔ جو کھو جائے تو نا ملے۔۔۔تمہیں مجھ سے روبرو ہونا ہی ہوگا یو باسٹرڈ"۔ اس نے چیخ کر اسکے عکس کو مخاطب کیا۔

●••••☆☆☆☆••••●


بے-ایس مینجمنٹ کے آخری سال اور آخری سیمسٹر کے امتحانات قریب تھے۔

مہرو اور زرش آج کل بڑی ہی مصروف سی رہنے لگیں تھیں۔

یونیورسٹی لائف کے یہ چار سال ہنسی، مذاق اور مستی میں کہاں کٹ گئے۔ انہیں پتہ بھی نہیں چلا۔


ہر اچھی ماں کی طرح افشاں بیگم ان دنوں میں ان کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں۔

ان سے کوئی کام نہ لیتی تھیں۔

اور کام تو خیر مہرو صاحبہ ویسے ہی نہیں کرتی تھیں۔

اب تو ایگزامز کے بہانے تھے۔


وہ اپنے کمرے میں جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھی۔

اور یہی سوچ رہی تھی کے اردشیر کے آفس جائے تو جائے کیسے؟

کیونکہ وہاں بلال بھی تو ہوتا تھا۔

اور اگر وہ وہاں جاتی تو یقینی طور پر بلال اس پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیتا۔

پھر اسے حقیقت بتائے بنا اور کوئی چارہ نہ ہوتا مہرو کے پاس۔


اور اگر وہ بلال کو بتا دیتی کے پہلے ہی دن اس نے گاڑی سے ایکسیڈنٹ کر لیا تھا۔ وہ بھی اسکے باس کے بیٹے سے ٹکرائی تھی۔

تو کچھ بعید نہ تھا کے اسکے پیارے بلال بھائی نے جس طرح اسے گاڑی دلائی تھی۔ ویسے ہی اسکی لا پرواہی دیکھ کر واپس بھی لے لیتا۔

اور وہ یہی تو نہیں چاہتی تھی۔


"اوففف، کس مصیبت میں پھنسا گئی ہے یہ زری۔ اب بھلا میں، مہر ماہ جہانزیب اسکے آفس جا کر اس کڑوے کریلے، کڑوے بادام سے معذرت کرتی کیسی لگوں گی۔" وہ خود کلامی کرتے ہوئے ساتھ زرش کو بھی کوس رہی تھی جسکا یہ آئیڈیا تھا۔


"خیر، معذرت کیسے کی جاتی ہے مجھے تو وہ بھی نہیں پتہ۔ اوفف۔ جہنم میں جائے وہ آدمی، میرے پیپر سر پہ ہیں۔ بعد میں دیکھ لوں گی اس کو۔ تب تک ہو سکتا ہے وہ بھول ہی جائے"۔ اس نے خود ہی خود کو تسلی دی۔


"نہیں نہیں، بلال بھائی کو کچھ پتہ چلے اس سے قبل ہی یہ معاملہ رفع دفع کرنا ہوگا"۔ بیڈ پر دونوں پیر اوپر کر کے بیٹھتے ہوئے وہ خود ہی سوچ رہی تھی اور پھر خود ہی خود اپنے خیال کو رد بھی کر دیتی تھی۔


"میرا خیال ہے میں معذرت کر ہی لیتی ہوں اس سے۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا"۔ اس نے خود کو تسلی دیتے ہوئے اب فیصلہ کر کے اس پر مہر ثبت کی تھی گویا۔

•••☆☆☆•••☆☆☆•••


شہر کراچی کے اسپتال کا ہی وہ ایک ایمرجنسی وارڈ تھا۔

جہاں کچھ دیر قبل ہی مریم اور وجاہت فاطمہ بیگم کو لے کر آئے تھے۔

اور ڈاکٹرز نے فورا سے پیشتر انہیں ایمرجنسی میں لیا تھا۔


وجاہت ڈاکٹرز کی تجویز شدہ دوائیاں اور ڈرپس لینے ڈسپنسری تک گیا تھا۔

جبکہ مریم ریسیپشن پر کھڑی کاغذی امور نپٹا رہی تھی۔


دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔

اور رات سے لے کر اب تک اسکی آنکھوں نے نیند کی ایک جھپکی بھی نہیں لی تھی۔

نہ ہی اس کے حلق سے پانی کا ایک قطرہ بھی اترا تھا۔


فاطمہ بیگم سے زیادہ تو وجاہت کو اب مریم کیلئے تشویش سی ہو رہی تھی۔ اسکی حالت دیکھ کر۔


اس نے فون کر کے اپنے دوست فیضان کو بلوا لیا تھا۔

پھر اسے کچھ دیر کیلئے وہاں چھوڑ کر وہ مریم کے لاکھ انکار کے باوجود بھی اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا تھا۔

جہاں صرف اسکی بوڑھی ماں ہی تھی۔

مریم کے حالات وہ وجاہت کی زبانی سن چکی تھیں۔

لہٰذا انہیں اس سے ہمدردی تھی۔

جو تن تنہا ہی لڑ رہی تھی۔


انہوں نے زبردستی اسے چند نوالے کھلائے پھر قدرے صاف ستھرا لباس اسے پہننے کو دیا۔

جس سے اسکی ابتر حالت اب کافی حد تک بہتر محسوس ہوئی۔

اور یہ سب تب ہی ہو سکا جب وجاہت کو فیضان نے اسکے سامنے فون کر کے بتایا کے فاطمہ بیگم کی حالت اب قدرے بہتر ہے۔

ٹینشن والی کوئی بات نہیں ہے اب۔

تب جا کر مریم کی رکی ہوئی سانسیں بحال ہوئی تھیں۔


اس وقت بھی وہ وجاہت کی امی کے ساتھ ان کے بیڈ پر بیٹھی تھی۔

انہوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔

بالکل اپنی اولاد کی طرح۔


"آنٹی، آپ کی کوئی بیٹی نہیں ہے؟" مریم نے اس گھر میں بیٹی کی کمی کو محسوس کر کے پوچھا۔


"پہلے نہیں تھی۔ پر اب مل گئی ہے۔ تمہاری صورت"۔ انہوں نے محبت سے اسکا چہرہ تھام کر مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

ان کی اس قدر اپنائیت پر مشکور ہونے کے ساتھ شرمندہ بھی ہو گئی۔

مگر شکریہ جیسا چھوٹا لفظ کہہ کر وہ ان کے احسان کو کم نہیں کرنا چاہتی تھی۔


وہ ابھی تک حیران تھی خدا کے اس نظام کو دیکھ کر۔

جہاں ایک طرف تو انہیں اپنوں نے، اپنے خونی رشتوں نے ٹھکرا دیا تھا۔


اور دوسری جانب وجاہت آفریدی اور اسکی ماں تھی جو غیر ہو کر بھی کتنے خلوص کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

مریم کا دل اپنے اللہ کے حضور بے اختیار سجدہ ریز ہو گیا۔

بے شک اس پاک رب نے آج بھی اسے تنہا نہیں چھوڑا تھا۔

ہمیشہ کی طرح۔۔!

●••••☆☆☆☆••••●


وہ عمیر کو مزید فون کالز کرنے کا ارادہ ترک کیئے اس کافی شاپ میں آئی۔

جہاں عمیر کے آنے کے امکانات روشن تھے۔

وہ وہی ایک کونے والی میز پر بیٹھ کر اسکی آمد کا انتظار کرنے لگی۔


بیس منٹ کے انتظار کے بعد ہی اسے سلور رنگ کی اسپورٹس کار نظر آئی جو عمیر کی پسندیدہ تھی۔


اس میں سے عمیر اترا۔

جسے دیکھ کر ایک پل کو مہک کے خوبصورت چہرے پر بہار آگئی۔

مگر اگلے ہی پل فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک دبلی پتلی، لمبی قد و قامت والی خوبصورت سی لڑکی مسکراتے ہوئے اتری۔

جسے دیکھ کر مہک جل کر خاک ہو گئی۔


عمیر اسکا ہاتھ تھامے اندر کی جانب آگیا۔

اور اب وہ دونوں اسی ٹیبل پر بیٹھے۔ جہاں کبھی مہک اور عمیر بیٹھا کرتے تھے۔


وہ دونوں ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہوئے ایک دوسرے سے ناقابل بیان حد تک قریب تھے۔

اور انکی حرکتیں دن کے اس وقت وہ بھی پبلک پلیس پر دیکھ کر مہک بھی منہ دوسری طرف پھیرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔


ویٹر ان کا آرڈر لے کر چلا گیا۔


چند ساعت وہ یونہی انہیں دیکھتی رہی۔

پھر ایک دم وہ جیسے کوئی فیصلہ کر کے اٹھی تھی۔

چند قدم کا فاصلہ طے کرکے وہ عمیر کے سر پہ پہنچ گئی اور اسے گریبان سے پکڑ لیا۔


"یو چیٹ، تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے دھوکا دینے کی۔ تمہیں کیا لگا تھا تم میری کالز ریسیو نہیں کرو گے تو یوں ہی مجھ سے جان چھوٹے گی تمہاری۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی یو باسٹرڈ"۔ اس کا گریبان تھامے وہ ہذیانی کیفیت میں ارد گرد سے بے نیاز اب باقاعدہ چیخ رہی تھی۔

جبکہ عمیر کے ساتھ ساتھ اسکے برابر بیٹھی لڑکی بھی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔


آس پاس بیٹھے اکا دکا لوگ بھی انکی جانب متوجہ ہو رہے تھے۔


"واٹ از دس، کون ہو تم اور یہ کیا بدتمیزی ہے؟" تبھی اس لڑکی نے غصے سے مہک کو دیکھ کر کہا۔


"تو چپ کر، اور یہ فراڈیا تجھے بھی دھوکا دے رہا ہے۔ میری دوستیں بالکل ٹھیک کہتی ہیں کے یہ ایک نمبر کا لفنگا انسان ہے۔ جو ہر حسین لڑکی کے پیچھے منڈلاتا ہے اور مطلب پورا کرکے کہیں پھینک دیتا ہے۔ لیکن میں اتنی بے وقوف نہیں تھی جو یوں ہی اسے خود سے کھیلنے دیتی۔ اور اسی لیے اب مجھ سے مایوس ہو کر یہ کمینہ تمہارے پاس آیا ہے۔" اس نے غصے سے کہتے ہوئے ایک جھٹکے میں اسکا گریبان چھوڑا۔

پھر دور ہٹ کر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔


"او شٹ اپ یو بچ، یہ میری منگیتر ہے اور دو دن بعد میری اس سے شادی ہے سمجھی تم"۔ عمیر کے اس ایک جملے نے اسکے وجود کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔


اس پل مہک کو خود میں اور ان مڈل کلاس لڑکیوں میں قطعی کوئی فرق نظر نہیں آ رہا تھا۔

جن سے ہمیشہ وہ الرجک رہی تھی۔

وہ بھی تو دل ٹوٹنے پر اسی طرح روتی تھیں۔


"کیا؟ تم نے منگنی کر لی؟" صدمے سے بھری اسکی آواز جیسے کسی کنوئیں سے برآمد ہوئی تھی۔

جبکہ عمیر بے نیازی سے اسکی حالت زار پر ہنستا چلا گیا۔


"ثمرن تم اسکی باتوں میں مت آنا۔ در اصل کیا ہے نا کے بہت بار اس نے مجھ پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی مگر میں اسکے دام میں نہ آیا۔ ہر بار اسے ریجیکٹ کر دیا۔ اسی لیے اب یہ اس طرح مجھ سے بدلہ لینے آئی ہے۔ کہیں سے پتہ چل گیا ہوگا اسے کے میری شادی ہونے جارہی ہے تم سے۔ تو اس بیچاری سے رہا نہیں جارہا ہوگا۔ اینڈ ون مور تھنگ، میں اور ثمرن پچھلے تین سال سے اینگیجڈ ہیں۔ اور یہ میری کزن بھی ہے۔" عمیر نے خباثت سے ہنستے ہوئے اسے اسکی اوقات یاد دلائی تھی جیسے۔


اور جہاں اسکی بات پر ثمرن کے چہرے پہ اطمینان آیا۔

وہی مہک کے رگوں میں خون کی جگہ نفرت کا زہر دوڑنے لگا تھا۔

جو اسکی باتیں سن کر مسلسل اسے اندر سے کاٹ رہا تھا۔


"تم نے تو کہا تھا کے تم مجھ سے شادی کروگے؟"۔ جانے کیا سوچ کر اس نے یہ جملہ کہا۔


جس پر عمیر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔


"او کیا واقعی؟۔ شادی اور تم جیسی کیریکٹر لیس لڑکی سے؟۔ ارے کوئی پاگل ہی ہوگا جو تم جیسی سے شادی کرے گا۔ تم جیسی مغرور اور لوزر سے کوئی شادی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔"

عمیر نے پورے وثوق سے کہا۔


جس پر مہک کے اندر مزید آگ بھڑک اٹھی۔

رد کیئے جانے کی آگ۔

~~~•☆☆☆☆•~~~


مہر ماہ کیلئے ثناء کے بھائی کا رشتہ آیا تھا۔

اس شام اسکی ماں نے جب مہرو کو دیکھا تو جانے کیوں وہ انہیں اتنا بھا گئی کے انہوں نے فون کر کے شام تک ان کے گھر اپنی آمد کا عندیہ دیا۔

افشاں بیگم خوش بھی تھیں اور پریشان بھی۔


اس وقت جہانزیب صاحب اور افشاں بے جی کے کمرے میں بیٹھے تھے۔

جہاں مشاورت جاری تھی۔


"رخسانہ سے میں ملی تھی اس شام پارٹی میں، بہت ہی اچھی خاتون ہیں وہ۔ انکی بیٹی ثناء بھی اپنی مہر ماہ اور زرش کے ساتھ ہی انکی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ اچھی دوستی ہے اس سے بھی ان دونوں لڑکیوں کی"۔ افشاں بیگم نے ان دونوں کو بتایا۔

جو گہری سوچ میں گم تھے۔


"لیکن بہو، وہ ہیں بھی تو بڑے گھرانے کے۔ اور ماشاءاللہ سے ہماری مہرو کا تو جانتے ہی ہو تم دونوں۔ ایک نمبر کی کام چور اور پھوہڑ ہے۔ ان کے ہاں رشتہ کرنے پر وہ گزارہ کر پائے گی؟"۔ بے جی نے اعتراض اٹھایا جس پر جہانزیب صاحب بھی کسی حد تک متفق نظر آتے تھے۔


"ٹھیک کہہ رہیں ہیں اماں آپ، اور پھر وہ اونچے لوگ ہیں۔ ہم ان کی برابری کے نہ وہ ہمارے۔ رشتوں کو چلانے کیلئے ترازو کے دونوں پلوں کا برابر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میری بچی کہیں احساس کمتری کا شکار ہو کر نہ رہ جائے شوہر کے سامنے"۔ جہانزیب صاحب نے پر سوچ انداز میں کہا۔


"آپ لوگ زیادہ سوچ رہے ہیں، رخسانہ ایسی خاتون ہرگز بھی نہیں ہیں۔ میں ان سے بات کر چکی ہوں۔ اور پھر ایسا ہی خوشحال اور اچھا گھرانہ ہی تو خواب ہوتا یے ہر ماں باپ کا اپنی بچیوں کیلئے۔ تاکہ وہ بنا کسی پریشانی کے سکھ چین سے رہ سکیں"۔ افشاں بیگم کی باتوں سے یہ ظاہر تھا کے وہ کافی حد تک اس رشتے کے حق میں ہیں۔


"دولت کب سے سکھ چین کی علامت ہو گئی بہو، اگر دولت سے ہی سکھ خریدا جا سکتا تو سب سے دکھی تو پھر ہم ہی ہوتے۔ جو کم دولت مند ہیں۔" بے جی نے نرمی سے ٹوکا۔

جس پر افشاں بیگم نے سر جھکا دیا۔


"ملنے میں بھی کیا حرج ہے اماں، شام کو وہ آ رہے ہیں۔ مل کر دیکھ لیتے ہیں۔ پہلے سے ہی وسوسوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے ہمیں۔ مثبت سوچیں۔ انشاءاللہ سب بہتر ہوگا"۔ جہانزیب صاحب نے انہیں تسلی دی۔


"بلال سے بھی پہلے صلح مشورہ کر لو، آخر کار مہرو اسی کی چہیتی ہے"۔ بے جی نے مسکراتے ہوئے بہو بیٹے سے کہا۔


"آپ نے بالکل ٹھیک کہا اماں، اس کو تو بتانا بلکہ شام سے پہلے پہلے بلوانا پڑے گا۔ وہ بھی تو سر پرست ہے اپنی بہن کا"۔ افشاں بیگم نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔

جس پر ان دونوں نے بھی ان کی تائید کی۔


"آپ ابھی جا کر بلال کو اطلاع دیں، تاکہ وہ وقت رہتے ہی عثمان صاحب کو بتا کر ان سے اجازت لینے کے بعد گھر آ سکے"۔ جہانزیب صاحب نے کہا۔

جس پر افشاں بیگم فورا سے پیشتر ہی سر ہلا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔

●••••☆☆☆☆••••●


ان سب سے انجان مہرو اب غازی انڈسٹریز کے پرتعیش اور اونچی سی بلڈنگ کے ریسپیشن ڈیسک کے پاس اردشیر کی آفس میں موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق کر رہی تھی۔


"میم آپ بیٹھیے، سر ابھی سائٹ وزٹ کرنے گئے ہیں۔ بس آتے ہی ہوں گے کچھ دیر میں"۔ ریسیپشنسٹ نے اسے اطلاع دی تو وہ سر ہلاتی ہوئی ان سیاہ صوفوں میں سے ایک پر ٹک گئی جو ریسیپشن کے پاس ہی رکھی ہوئی تھیں۔


اس نے کونے میں رکھے ریک پر سے ایک بزنس میگزین اٹھا کر اپنے چہرے کے گرد پھیلا لی۔


"او گاڈ، اگر بلال بھائی نے مجھے یہاں اس طرح دیکھ لیا تو میری شامت آ جانی ہے"۔ اس نے دل ہی دل میں خود کو مخاطب کیا۔


میگزین کے کونے سے وہ گاہے بگاہے اینٹر ہونے والے دروازے کو بھی دیکھ لیتی تھی۔

ابھی تک وہ نہیں آیا تھا۔


دس منٹ لگاتار وہ خوف میں گھری اسکا انتظار کرتی رہی جب سامنے کا منظر دیکھ کر ہی اسکا دل بے اختیار اچھل کر حلق میں اٹکا۔

سیاہ تھری پیس سوٹ پہنے بال اسٹائل سے ماتھے پہ بکھرائے ارد گرد سے بے نیاز وہ آگے آگے چل رہا تھا۔

اسکے پیچھے پانچ چھ لوگوں کے علاوہ بلال بھی تھا۔

جس کے ہاتھ میں اسکا لیپ ٹاپ تھا۔

وہ سب اسکے قدم سے قدم ملانے کی کوشش میں تھے۔


بلال کو دیکھ کر اس نے جلدی سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔

وہ اسکے سامنے سے گزرتے ہوئے اب وی-آئی_پی لفٹ میں داخل ہو رہا تھا۔

جسے شاید صرف آفس کے مالکان ہی استعمال کرتے تھے۔

باقی سب باہر ہی رک گئے۔

صرف بلال اسکے ہمراہ لفٹ میں سوار ہو گیا۔


"او اللہ جی، بلال بھائی کو کسی طرح آفس سے باہر بھیج دیں۔ تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی"۔ اس نے دل ہی دل میں دعا مانگی۔

اور شاید لمحہ قبولیت کا ہی تھا کے بلال کچھ ہی دیر بعد سیل فون کان سے لگائے بات کرتا ہوا ریسپیشن کے پاس آیا۔


"میں تھوڑی دیر کیلئے گھر جا رہا ہوں، کچھ گیسٹ آ رہے ہیں۔ باس کو میں نے بتا دیا ہے۔ میرا ایک کوریئر آئے گا اسے سنبھال کر رکھ لینا۔" ریسپیشن پر ہدایات جاری کرتا ہوا وہ فون کان سے لگائے آفس کے ایگزٹ سے باہر نکل گیا۔

مہرو نے بے اختیار شکر کا سانس لیا۔


"ہمارے گھر پہ کون مہمان آیا ہوگا؟"۔ اس نے چونک کر سوچا۔


"خیر بلال بھائی کے کوئی مہمان ہوں گے"۔ وہ سوال کرتی خود کو خود ہی جواب دیتی ہوئی پھر سے ڈیسک کے پاس آئی۔


"میم، میں نے سر کو اطلاع دے دی ہے۔ آپ تھرڈ فلور پر جائیں۔ وہی پر سر کا کیبن ہے"۔ لڑکی نے اسے اطلاع دی تو وہ اسکا شکریہ کہتی ہوئی عام پسنجر لفٹ میں سوار ہو گئی۔

جو اسٹاف اور باقی لوگوں کیلئے تھی۔


چند لمحوں بعد ہی وہ اسکے فلور پر تھی۔

ہر طرف فون کی گھنٹیاں، بٹنوں کا شور، مختلف بولیاں۔

اے-سی کی خنکی اس پورے فلور پر پھلی تھی۔

وہ سب سے مصروف ترین فلور تھا شاید۔

کوئی بھی اسکی جانب متوجہ نہ تھا۔

دن میں سینکڑوں لوگ وہاں آتے جاتے تھے۔ کس کے

پاس وقت تھا کے وہ اتنا دھیان دیتا؟


وہ ہر کیبن کے دروازے پر رک کر نیم پلیٹ پڑھتے ہوئے جارہی تھی۔

بلال کے نیم پلیٹ پر جلی حروف میں "ایم_بلال جہانزیب" لکھا تھا۔

اور نام کے ٹھیک نیچے اسکا عہدہ لکھا تھا۔

جسے پڑھ کر انگلیوں سے چھوتے ہوئے مہر ماہ زیر لب مسکرائی۔

"میرا بھائی"۔ اس پل اسے بےحد فخر محسوس ہو رہا تھا۔


عین اس دروازے سے ذرا فاصلے پر ایک دوسرا بند دروازہ تھا۔

جس کے نیم پلیٹ پر "اے-ایس غازی" لکھا ہوا تھا۔

اور نیچے اسکا عہدہ تھا "ایم-ڈی"۔


مہرو نے بے اختیار تھوک نگلا۔

دل پر پتھر رکھ کر دروازے کو آہستگی سے ناک کیا۔


"کم ان"۔ فورا سے پیشتر بھاری آواز آئی۔

جس پر وہ پوری جان سے کانپ گئی۔


جی کڑا کر کے اس نے دروازہ کھولا۔

سامنے ہی وہ فائل پر نظریں جھکائے منہمک تھا۔


"آ جاؤ مہک جانو، تمہیں کب سے بھائی سے اجازت لینے کی ضرورت پڑ گئی"۔ اس نے نگاہیں ہنوز جھکا رکھی تھی۔


"مہک؟ او تو یہ سمجھ رہے ہیں شاید بہن آئی ہے"۔ اس کی انگلیاں مزید کپکپا گئیں۔


تبھی مقابل نے خاموشی محسوس کرکے سر اٹھایا اور اگلے ہی پل زلزلے کے آثار اسکے چہرے پر نظر آنے لگے۔


"تم"۔ وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے چیخا۔


مہرو نے جلدی سے کیبن میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا۔

جس پر وہ مزید شاکڈ ہوا۔


"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے آفس، میرے کیبن میں آ کر دروازہ بند کرنے کی؟"۔ ٹیبل کے پیچھے سے نکل کر وہ اسکے سامنے کھڑا سرد لہجے میں مزید اونچی آواز سے چیخا۔


مہرو کے الفاظ ہی کھو گئے۔


"دیکھیے۔ مجھے پتہ تھا کے آپ کی یوں ہی چیخیں نکلیں گی مجھے دیکھ کر،اسی لیئے میں نے دروازہ بند کیا۔ اور مم۔۔۔۔میں یہاں معذرت کرنے آئی ہوں آپ سے"۔ جلدی سے بولی۔


"کر لی معذرت؟، سن لیا میں نے۔ اب وہ پیچھے دروازہ ہے۔ نکلو ادھر سے"۔ بنا کوئی رعایت دیئے چٹکی بجاتے ہوئے دروازے کی جانب اشارہ کیا۔

جبکہ اسکی بات سن کر مہرو خوشگواریت سے مسکرائی۔

اور باقاعدہ دوڑ کر اسکے سامنے آئی۔


"ہائے سچی؟۔ لو بھلا میں کب سے یہی سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی کے آپ سے کیا کہوں گی کیسے کہوں گی۔ وہ کیا ہے نا کے زندگی کا یہ میرا پہلا اتفاق ہے معذرت کرنے کا۔ اس لیئے اتنا آئیڈیا نہیں مجھے۔ لیکن آپ نے تو میری مشکل ہی آسان کردی۔ تھینک یو، تھینکس آ لاٹ"۔ اسکی مسکراہٹ سمٹنے میں نہ آ رہی تھی۔

اردشیر نے حیرت سے اسکا انداز دیکھا۔


"اس رات پارٹی میں دوپٹے کے پیچھے میں ہی تھی۔ وہ جس کو آپ نے کہا تھا کے اپنا چہرہ دکھاؤ۔ تو لیجیے اب دیکھ لیجیے میرا چہرہ۔" اس نے زچ کرنے والے انداز میں کہا۔

اردشیر بدک کر چند قدم پیچھے ہٹا۔


"فورا سے پیشتر نکلو ادھر سے تم۔" دروازے کی جانب انگلی سے اشارہ کیا۔


مہرو نے گھور کر اسے دیکھا۔

وہ کچھ سخت ضرور کہتی مگر زرش کی بات اسے یاد آئی "زرا تحمل سے"۔


"دیکھیے، میں مانتی ہوں میں نے آپ سے بدتمیزی کی، مگر آپ نے بھی تو میرا نقصان کیا تھا نا۔ تو اب میں آپ سے معذرت کرتی ہوں کے آپ بھول جائیں ان باتوں کو۔ اور بلال بھائی کو اس سب سے متعلق کچھ پتہ نہ چلے"۔ وہ اسکی منت کرنے لگی۔


وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے خاموشی سے چند پل اسے دیکھتا رہا جیسے اندازہ کرنا چاہ رہا ہو کے وہ کتنا سچ بول رہی تھی؟۔


"ٹھیک ہے۔ کر لی قبول تمہاری معذرت، مگر آج تمہیں بزنس کا ایک اصول بتانا چاہوں گا۔ اور وہ یہ کے بزنس میں ذاتی زندگی کو جواز بنا کر کسی سے بدلے نہیں لیئے جاتے۔ تم اگر نا بھی کہتی تب بھی بلال میرا ایمپلائی ہے، اور غازی محض کسی راہ چلتے شخص کا بدلہ اپنے ایمپلائز سے نہیں لیتے"۔ تمسخر اڑاتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے باور کروایا۔


جبکہ اس قدر توہین پر مہر ماہ شرم کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی چلی گئی۔


"آئی ہوپ میرے اور آپ کے درمیان کوئی "آئندہ" نہیں آئے گا"۔

اسکے بعد مزید ایک لفظ بھی کہے یا نگاہیں ملائے بغیر دروازہ کھول کر وہ اسکے کیبن سے نکل گئی۔


اور پیچھے اسکے الفاظ کی باز گشت اب بھی اردشیر سن رہا تھا۔


"آپ کے اور میرے درمیان کوئی آئندہ نہیں آئے گا"۔

وہ غصے سے کھولتے ہوئے دماغ کے ساتھ گھر واپس آئی۔

مسلسل دروازے پر بیل دینے کے بعد جا کر دروازہ کھلا اور زرش کی صورت نظر آئی۔


"کیا مصیبت ہے۔ اس خبیث انسان کو۔۔۔

"ششش۔۔آہستہ بولو"۔ وہ چیختی ہوئی گھر کے اندر داخل ہو رہی تھی۔

جب زرش نے اسے وہی روک دیا۔

پھر گھر کا دروازہ بند کر کے وہ اسے لیئے اپنے سامنے والے گھر میں گھس گئی۔


"کچھ بتاؤ گی بھی کے یہ سب ہو کیا رہا ہے؟"۔ وہ حیرت سے زرش کے انداز دیکھ رہی تھی۔


"ادھر بیٹھو، بتاتی ہوں"۔ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر اسے وہاں بٹھا دیا اور خود بھی اسکے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔


"اب ذرا گہری سانس لو، کیونکہ تمہیں جھٹکا لگنے والا ہے"۔ زرش نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔


"اوففف او، کیا پہلیاں بجھوا رہی ہو زری، ایک تو ویسے ہی میرا موڈ اس خبیث کی وجہ سے خراب ہے"۔ اس نے چڑ کر کہا۔


"تمہارے لیئے ثناء کے بھائی کا رشتہ آیا ہے۔ اسکے گھر والے آئے بیٹھے ہیں اسی سلسلے میں"۔ زرش نے گویا بم پھوڑا تھا۔

اور وہ جو بے زار سی ہو کر غیر دلچسپی سے سن رہی تھی۔ مکمل بات سن کر اسکی پوری آنکھیں کھل گئیں۔


"وہاٹ؟ رشتہ؟ میرے لیئے؟ اور ہماری ثناء؟"۔ بے یقینی سے پوچھا۔

زرش نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔


"تمہارا مطلب اپنی یونی والی ثناء؟"۔ اس نے پھر سے پوچھا۔


"ارے ہاں بابا، ایک ہی تو ثناء ہے ہماری دوست۔ اور کون ہو گی"۔ زرش نے اسکے گال پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔


"میرا رشتہ؟ مہر ماہ جہانزیب اور وہ بھی شادی؟"۔ اب کے وہ اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑی ہو گئی۔


"چلو جی، ہو گئی سٹی گم"۔ زرش نے سر پیٹ لیا۔


"یار ثناء ایسے کیسے سوچ سکتی ہے۔" مہرو نے غصے سے کہا۔


"ثناء نہیں، اسکی ماں تو سوچ سکتی ہے نا بدھو"۔


"یار میں نے کوئی نہیں کرنی شادی وادی"۔ صاف انکار کیا۔


"بکو مت، چلو جلدی منہ دھو، تمہیں ساتھ لے کر آنے کو کہا ہے مما نے"۔ زرش نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکی ایک بھی سنے بغیر واش روم میں دھکیل دیا۔


کچھ دیر بعد ہی وہ اسے سمجھا بجھا کر گویا معرکہ سر کر کے سامنے والے گھر میں لے گئی۔

ڈرائینگ روم سے ہنسنے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

زرش نے جلدی سے جوس کی ٹرے اسکے ہاتھ میں تھمائی۔


تو وہ برے برے منہ بنانے لگی۔

"جاؤ جلدی"۔ اس نے زبردستی کمرے میں دھکیل دیا مہرو کو۔

وہ جھجھکتے ہوئے ڈرائینگ روم میں داخل ہو گئی۔

اور سب کو سلام کہا۔


ایک گھنٹے تک ڈرائینگ روم کے بند دروازے کے پیچھے گفت و شنید ہوتی رہی۔

اور بالآخر رخسانہ اور عادل (ثناء کے ابا) نے ان سب کو اس رشتے کیلئے منا کر ہی دم لیا۔


خوشی خوشی سب کا منہ میٹھا کروایا گیا۔

یہاں تک کے منگنی کی تاریخ بھی طے کر گئے وہ لوگ۔


مہرو برے برے منہ بناتی ہوئی بے بسی سے افشاں بیگم کو گھوری دیتی ہی رہ گئی۔

وہ بھی اسکی ماں تھیں۔ دانستہ ہی اسکی طرف دیکھنے سے گریز برتا۔


اور جب وہ لوگ ہنسی خوشی لوٹ گئے۔

تب جا کر مہرو آتش فشاں بن کر پھٹی تھی۔


"کیا سوچ کر آپ نے میری شادی طے کی۔ میں نے کوئی نہیں کرنی شادی وادی۔ میں اپنے گھر میں اچھی بھلی ہوں"۔ روتے ہوئے اس نے بے جی کی گود میں منہ چھپا لیا۔


"دیکھ مہرو، تمہاری ان بے تکی باتوں کی وجہ سے میں اتنا اچھا رشتہ گنوانے والی نہیں ہوں۔ اور سونے پہ سہاگہ کے اب باقی گھر والے بھی راضی ہیں۔ اس لیے یہ رونا دھونا اب تم ہر اچھی لڑکی کی طرح اپنی رخصتی کیلئے سنبھال کر رکھو۔

جو دو مہینے بعد ہے"۔ افشاں بیگم نے برتن سمیٹتے ہوئے ایک نئی اطلاع دی جس پر وہ پہلے سے زیادہ شاکڈ رہ گئی۔


"ہائے ربا، دو مہینے بعد؟۔ آپ میری سگی ماں ہی ہیں نا؟"۔ مہرو نے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ مشکوک لہجے میں پوچھا۔

جس پر افشاں بیگم کا غصہ مزید بڑھ گیا۔


"ابھی دو جوتے لگاؤں گی نا پھر پتہ چل جائے گا۔ اور خبردار جو اب میں نے تمہارے منہ سے انکار سنا ہو تو۔

رونے دھونے کے بجائے چل کر اپنی منگنی کیلئے شاپنگ کرو"۔ افشاں بیگم قطعیت سے کہتی ہوئی کچن میں چلی گئیں۔

باقی سب خاموشی سے انکی تکرار سن رہے تھے۔


اسکی وقت بلال ان کو باہر تک چھوڑ کر واپس گھر میں داخل ہوا تو مہرو نے آخری امید کے طور پر بلال کا گھیراؤ کیا۔


"بلال بھائی آپ ہی سمجھائیں نا امی کو، میں نے نہیں کرنی ابھی شادی۔ میرے ایگزیمز ہونے والے ہیں۔ پلیز ان سے کہیں انہیں منع کر دیں"۔ بلال سے لپٹ کر اس نے بے بسی سے کہا۔

تو بلال کو بے اختیار وہ تین سالہ مہرو یاد آئی جو اسی طرح اس سے اپنی ضد منوایا کرتی تھی۔


"دیکھ لیا اپنے لاڈ کا نتیجہ آپ لوگوں نے۔ ہمیشہ کہتی تھی کے مت اتنا سر چڑھاؤ اس کو۔ مگر تب میں ہی سب کو بری لگتی تھی۔ اب دیکھ لیں آپ سب بھی"۔ افشاں بیگم اسکی ناں ناں کی تکرار سن کر ایک بار پھر سے اس پر برس پڑیں۔


"امی آپ تو صبر کر جائیں، میں سمجھاتا خود اسے۔ میری گڑیا ہے میری بات سمجھے گی"۔ بلال نے یقین سے کہا اور اسے لے کر اسکے کمرے میں چلا گیا۔


اپنے سامنے اسے بٹھا کر وہ کرسی کھینچتے ہوئے اسکے سامنے بیٹھ گیا۔ "اب بتاؤ گڑیا، کیا وجہ ہے جو آپ اس رشتے سے منع کر رہی ہو، دیکھو اتنا تو تم اپنے بھائی کو جانتی ہو نا کے آج تک ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی میں نے تمہاری پسند کو ذہن میں رکھ کر کی ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کے تمہارا بھائی زندگی کے اتنے بڑے فیصلے میں تمہاری پسند، تمہارے ٹیسٹ (Taste) کو ہی نظرانداز کر دے؟"۔

اپنے مخصوص نرم لہجے میں وہ دھیرے دھیرے اسے سمجھا رہا تھا۔

اور مہرو دم سادھے خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔


"دیکھو بیٹا، تم مجھے احد سے شادی نہ کرنے کی کوئی ایک جینوئن وجہ بتاؤ، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کے خود ان کے گھر جا کر انہیں انکار کرکے ان سے معذرت کروں گا"۔ بلال نے اس کے بال سہلاتے ہوئے پر یقین لہجے میں کہا۔

تو مہرو نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔


"نہیں بھائی، میں یہ کبھی نہیں سہہ سکتی کے آپ میری وجہ سے کسی کے سامنے شرمندہ ہو کر معذرت کریں۔ مجھے آپ پر پورا یقین ہے۔ آپ کا فیصلہ مجھے منظور ہے"۔ اس نے پلکیں جھکا کر کہا۔

تو بلال نے بے اختیار اسے خود سے لگاتے ہوئے مسکرا کر خدا کا شکر ادا کیا کے اس نے اسے ثابت قدم رکھا۔


جبکہ کمرے کے باہر دروازے پر کھڑی انکی باتیں سنتی افشاں بیگم نے بھی اٹکی ہوئی سانس بحال کی اور شکرانے کی نماز پڑھنے چلی گئیں۔

سب سے مشکل مرحلہ مہرو کو منانا ہی تو تھا۔

جو خدا نے ان کیلئے اتنا آسان کر دیا تھا۔

ورنہ اسکے تیور دیکھ کر تو دل ہی دل میں افشاں بیگم دہل کر رہ گئیں تھیں۔

●••••☆☆☆☆••••●


وہ اپنے کمرے میں ادھر سے اُدھر انتہائی غصے کے عالم میں ٹہل رہی تھی۔

دوپہر میں کہی گئی عمیر کی باتوں نے اسکے اندر تک زہر بھر دیا تھا۔

جس سے اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں تھیں۔


یاد رہا تو بس اتنا کے عمیر نے اسے سب کے سامنے ذلیل کرکے رد کیا تھا۔

اس نے مہک عثمان کو رد کیا تھا۔

اور یہ بات اسے چین سے سانس لینے بھی نہیں دے رہی تھی۔


ٹہل ٹہل کر اسکے پیر شل ہو گئے تھے۔

تھک کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔

دوپہر سے وہ اپنے کمرے میں بند تھی۔

اور کسی نوکر میں اتنی ہمت کب تھی کے وہ اسکے بلائے بغیر اسکے کمرے کے دروازے پر ناک بھی کرتا۔


اس نے ایک فیصلہ کیا اور کمرے کا دروازہ کھول کر ادھر اُدھر جھانکا۔

نوکر اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔


جبکہ بے جی اور نگہت بیگم اس وقت گھر کے باغیچے میں بیٹھیں چائے پی رہی ہوتی تھیں۔


دبے قدموں سے زینے اتر کر نوکروں سے نظر بچاتے ہوئے وہ نیچے کی جانب بنے عثمان اور نگہت کے کمرے میں گھس گئی۔

اسے پتہ تھا کے عثمان اپنی ریوالور کہاں رکھتے ہیں۔

سائیڈ میز کے اوپر تلے والی دراز کھول کر اس نے وہ چھوٹی سی گن اٹھائی جو سیفٹی کیلئے رکھی گئی تھی۔


اس نے گن کھول کر چیک کی، وہ خالی تھی۔

نیچے والی دراز کھولی اس میں ایک چھوٹے سے بکسے کے اندر بلٹس رکھے تھے۔


فاتحانہ انداز میں اس نے دو گولیاں بکس میں سے نکال سے پستول میں بھر لی اور اسے لیئے وہ گھر سے باہر نکل گئی۔


اس وقت وہ مکمل طور پر اپنے آپے میں نہیں تھی۔

~~~•☆☆☆•~~~


شام کے سائے ہر سو پھیل رہے تھے۔

ایسے میں ٹھنڈی فرحت بخش ہوائیں سارے دن کی گرمی اور تھکن کے مارے انسان کے اندر تک سکون اتارتی تھی۔

فاطمہ بیگم سے وہ کچھ دیر قبل ہی مل کر آئی تھی۔

وہ بہتری کی جانب گامزن تھیں۔


وہ بالکونی میں چائے کا مگ تھامے کھڑی تا حد نگاہ پھیلی روشنیوں کو دیکھ رہی تھی۔


اسی پل کوئی اسکے پیچھے کھنکھکارا۔

جس پر مریم چونک کر متوجہ ہوئی۔

تو وجاہت دلچسپی سے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

وہ بھی اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔ پھر سے گردن موڑ کر دور تک پھیلی آبادی کو دیکھنے لگی۔


وہ قدم قدم چلتا ہوا اس ریلنگ کے پاس آ کھڑا ہوا۔

اس سے کچھ ہی فاصلے پر۔


مریم نے پھر بھی نگاہیں اٹھا کر اسے نہیں دیکھا۔

پچھلے کچھ دنوں سے اسکے لاکھ نا چاہنے کے باوجود بھی ان دونوں کے درمیان حائل کسی حد تک وہ اجنبیت کی دیوار اب خود بہ خود گر چکی تھی۔


"کیا سوچ رہی ہو"۔ وجاہت نے اپنی کافی کا مگ لبوں سے لگا کر دلچسپی سے اسکے چہرے کو دیکھا۔

جہاں آس پاس کی روشنیوں کا عکس پلٹ کر اسکے چہرے پر پڑ رہا تھا۔

اور اسے ویسا ہی چہرہ بنا رہا تھا جیسا کے کتابوں میں اکثر اس نے دیکھا تھا۔


"یہی کے اگر آپ اس رات نہ آتے تو شاید۔۔۔میں کبھی اپنی ماں کو دوبارہ نہ دیکھ پاتی"۔ اسکی سیاہ آنکھوں میں قطرے جھلملانے لگے۔


"ایسا کیوں سوچتی ہو، بچانے والی، زندگی دینے والی ذات تو صرف اس رب کی ہے۔ ہم تو صرف معمولی سے بندے ہیں اسکے۔" وجاہت نے اس سے نگاہیں ہٹا کر ملگجے سے آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا۔


مریم بے اختیار ہو کر اسے دیکھتی چلی گئی۔

وہ اس شخص کو اب تک نہ سمجھ سکی تھی۔


"مانتی ہوں، لیکن وسیلہ تو آپ ہی کو بنایا نا اس رب نے، میری مدد کیلئے"۔ مریم نے ادھ بھرے چائے کے کپ پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔

اسکی نظر اپنے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی پر ٹھہر سی گئی۔

جہاں واحد سونے کی انگوٹھی تھی اسکی جو وہ پہنتی تھی۔

مگر اسکا رخ موڑ کر ہتھیلی کی جانب کر دیتی تھی۔

لہٰذا ہاتھ کی پشت پر اسکا ڈیزائن نظر نہ آتا تھا۔


وجاہت نے اسکی خاموشی اور کھوئے کھوئے سے انداز کو نوٹ کرتے ہوئے اسکی جانب دیکھا۔

وہ ابھی تک اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی کو ہی دیکھ رہی تھی۔


"تم نے بتایا نہیں کے آنٹی کو ایسی کیا پریشانی لاحق ہو گئی تھی، جس سے انہیں دو، دو ہارٹ اٹیک ایک ساتھ آئے؟"۔ وجاہت نے اسکے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"میری شادی کی وجہ سے"۔ نا چاہتے ہوئے بھی اسکی زبان سے پھسلا۔


وجاہت ایک دم الرٹ ہو گیا۔

"کیا مطلب؟ کیا وہ آپکی شادی کروانا چاہتی ہیں اس وجہ سے؟"۔ وجاہت کو اسکی بات سمجھ نہ آئی۔


"میرا نکاح ہو چکا ہے۔" اس نے دھماکا کیا۔

جس کی نوعیت اتنی خطرناک تھی کے وجاہت کی سماعتوں کو چند لمحے کیلئے سن کر گئی۔


"تو پھر۔۔۔ تمہارا شوہر کہاں ہے؟"۔ اسے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔


"شادی کی پہلی ہی رات وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔" مریم نے تلخی سے مسکراتے ہوئے بتایا۔


وجاہت کی گرفت اپنے ہاتھ میں پکڑے کافی مگ پر سخت تر ہوتی چلی گئی۔


"کون ہے تمہارا شوہر؟" وہ اپنے ضبط کو خود ہی جیسے آخری حد تک آزمانا چاہ رہا تھا۔

جبھی اس سے وہ پوچھ رہا تھا جو سننے کی تاب ہی نہیں رکھتا تھا وہ۔


"عثمان غازی کا بیٹا، غازی اردشیر"۔ مریم نے کرب سے آنکھیں میچ کر اپنے آنسوؤں کے ساتھ ہی جیسے دل کے درد کو بھی باہر کا راستہ دیا۔


اور اب کے کافی مگ بھی وجاہت آفریدی کی تنگ سے تنگ تر ہوتی مضبوط گرفت کی تاب نہ لا سکا۔


چھناکے سے اسکے ہاتھ میں ٹوٹ کر اسکے ہاتھ پر زخم لگاتا چلا گیا۔


مگر ابھی ابھی لگے دل پہ زخم کا درد اتنا شدید تھا کے اسے اپنے ہاتھ سے رستا ہوا خون بھی نظر نہ آیا۔

●••••☆☆☆☆••••●


"بلال فورا غازی ولا پہنچو۔ گیٹ کے باہر میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ اور ہاں، اپنے دو دوستوں کو ساتھ لیتے ہوئے آنا "۔ مہک نے زخمی لہجے میں کہا۔


دوسری طرف وہ حیرت سے اچھل پڑا تھا۔


"میں نے آپ سے کہا تھا نا، کے اپنے ذاتی کام گھر میں موجود نوکروں سے کروا لیا کریں۔ مجھے نیچا دکھانے کیلئے یہ وقت ہرگز بھی مناسب نہیں۔ بائے"۔ بلال نے جل کر کہتے ہوئے فون رکھنا چاہا۔


"فون مت رکھنا یو اسٹیوپڈ، یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ میرے ہاتھ میں اس وقت گن ہے اور وہ بھی لوڈڈ۔ اگر تم پندرہ منٹ میں یہاں نہیں پہنچے نا تو میں اپنے آپ کو شوٹ کر دوں گی۔ اور تم جانتے ہو مہک عثمان کبھی کوری دھمکیاں نہیں دیتی"۔ کہتے ساتھ ہی اس نے رابطہ منقطع کردیا۔

بلال نے بے اختیار اپنا سر پکڑ لیا۔


"یا اللہ یہ پاگل لڑکی آخر چاہ کیا رہی ہے۔ جلد سے جلد مجھے وہاں پہنچنا ہوگا"۔ ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر وہ گھر میں بنا کسی کو ایک لفظ بھی بتائے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا۔


ریش ڈرائیو کرکے وہ اڑتا ہوا غازی ولا پہنچا تھا۔ گیٹ سے زرا دوری پر ہی اسے وہ نظر آئی تھی۔

جو ہر گز بھی اپنے حواسوں میں نہیں لگی اسے۔


وہ دوڑتے ہوئے اس کی گاڑی تک آئی اور فرنٹ سیٹ پر اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔


"آخر اس سب کا کیا مطلب ہے مس مہک؟"۔ وہ زچ ہوا۔


"گاڑی ہمارے جنگل والے فارم ہاؤس لے کر چلو، بتاتی ہوں"۔ اس نے حکم دیا۔


بلال نے لب بھینچ کر بنا مزید کچھ پوچھے گاڑی سڑک پر ڈال دی۔


چالیس منٹ کے طویل سفر کے بعد وہ فارم ہاؤس پہنچے۔

جہاں اسے مہک کی دو دوستیں علیشہ اور شہرین مظر آئیں۔


اسی وقت بلال کے دوست کامران اور فیض بھی اکٹھے وہاں آن پہنچے۔


"اب تم بتاؤ گی بھی یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے یہاں؟"۔ بلال کا ضبط جواب دے گیا۔

تو وہ پھٹ پڑا۔


"نکاح ہے تمہارا اور میرا، ابھی اسی وقت"۔ مہک نے سرد لہجے میں کہا۔


اسکی بات پر بلال کے ساتھ ساتھ باقی چاروں نفوس بھی اپنی جگہ پر ساکت رہ گئے تھے۔

"کیا کہا تم نے؟"۔ بلال نے لا یقینی کی کیفیت میں اس سے پوچھا۔


"وہی جو تم سب نے سنا۔ تم مجھ سے نکاح کر رہے ہو اور ابھی اسی وقت"۔ مہک نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔


"مہک، تم ہوش میں تو ہو؟۔ یہ کیسی ضد ہے؟"۔ علیشہ کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔


"تمہیں پتہ بھی ہے کے نکاح کتنا پاک رشتہ ہوتا ہے۔ اور تم کیا اسے ایڈونچر سمجھ رہی ہو۔ کھیل ہے یہ کوئی؟"۔ بلال اب کے اپنا ضبط کھو بیٹھا۔


اور اس سے قبل کے وہ آگے بڑھ کر مہک کو ایک عاد ہاتھ جڑ دیتا۔

کامران اور فیض نے درمیان میں آ کر بیچ بچاؤ کیا۔


"کیا کر رہا ہے بلال، وہ تو اپنے حواسوں میں نہیں ہے۔ تم ہی ہوش کرو کچھ"۔ کامران نے اسکے شانے کو مضبوطی سے تھام کر کہا۔


"بہت ڈرامہ ہو گیا۔ یہ چاروں گواہ ہیں ہمارے نکاح کے اور یہ ہے نکاح نامہ۔ فورا اس پر سائن کرو"۔ مہک نے سائیڈ میں لٹکائے پرس میں سے نکاح نامہ نکال کر اسے گاڑی کے بونٹ پر رکھ دیا۔


"تم نے یہ سوچا بھی کیسے کے میں تمہارے کسی پاگل پن میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ نمک حرامی میرے خون میں نہیں ہے"۔ بلال نفرت سے پھنکارا۔


"او کے فائن، میرے پاس اسکی بھی دوا ہے"۔ اور اس سے قبل کے کوئی کچھ سوچتا سمجھتا۔ اس نے پرس میں سے ریوالور نکال کر اپنی کنپٹی پر دھر لیا۔


"اب بتاؤ تم سائن کرو گے یا نہیں؟"۔ فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

اسکی آنکھوں میں اس وقت خون اترا ہوا تھا۔


"یہ کیا پاگل پن ہے مہک، ریوالور نیچے کرو"۔ اسکی دوست شہرین چیخی۔


"خبردار جو کوئی میرے پاس بھی آیا تو۔ اور یہ کوئی کھلونا نہیں اصلی پستول ہے۔ وہ بھی بھری ہوئی۔ اور تم لوگوں میں سے پیشتر یہ بات اچھی طرح جانتے ہو کے میں ریوالور چلانا کتنی اچھی طرح جانتی ہوں"۔ بلال کو دیکھ کر اس نے جتاتے ہوئے لہجے میں کہا۔


"ٹھیک ہے، چلاؤ گولی۔ آج میں بھی دیکھتا ہوں کے تم میں کتنی ہمت ہے"۔ بلال نے چیلنج دینے والے انداز میں کہا۔


"مت آزماؤ میری ہمت کو بلال جہانزیب، کہیں یہ نہ ہو کے بعد میں تمہیں پچھتانا پڑے"۔ وہ بے خوفی سے بولی۔


"شوق سے کرو خود کشی، ملا دو خاک میں اپنے باپ کی عزت۔ لیکن اگر آج تم یہاں سے زندہ بچ گئی نا مہک بی بی تمہارا باپ تمہیں زندہ درگور کر دے گا"۔ بلال نے اسے عثمان کا خوف دلا کر بعض رکھنا چاہا۔


"میں آخری بار کہتی ہوں، تم سائن کر رہے ہو یا نہیں؟"۔انگلی اٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں سوال کیا۔


"نہیں"۔ بلال کا لہجہ اٹل تھا۔


"ٹھیک ہے۔۔۔تو دیکھو میرے موت کا تماشا"۔ یہ کہتے ساتھ ہی وہ ٹریگر پر دباؤ بڑھاتی چلی گئی "ٹھاہ" کی دل دہلا دینے والی آواز پر انکے دل دھک سے رہ گئے۔ اور اس سے قبل کے گولی اسکی کھوپڑی اڑاتی ہوئی دوسری طرف سے نکل جاتی بر وقت علیشہ نے اسکا پستول والا ہاتھ کنپٹی سے ہٹا کر ہوا میں بلند کیا۔

بارود کی بو ان کے حواسوں پر طاری ہونے لگی۔


مہک نے جلدی سے علیشہ کو پرے دھکیلا اور ایک بار پھر سے پستول کنپٹی پر تان لی۔


"اس بار یہ گولی مس نہیں ہوگی"۔ مہک نے کہتے ہوئے پھر دباؤ بڑھانا شروع کیا۔


"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ٹھیک ہے میں کرتا ہوں۔۔۔پستول نیچے کرو"۔ بلال نے گھبرا کر ہاتھ اٹھائے۔

گویا ہار مان لی۔

اور بالآخر اسے نکاح نامے پر سائن کرتے ہی بنی۔

مہک نے بھی اپنے سائن کیئے۔


"یہ تم نے بالکل اچھا نہیں کیا مہک، اپنی اس جذباتیت پر تم بہت جلد پچھتاؤ گی"۔ بلال نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔

وہ سب ابھی تک شاک اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھے۔

●▪▪▪☆☆☆☆▪▪▪●


ہاشم غازی اور صفیہ بانو کی دو ہی اولادیں تھیں۔

فاطمہ اور عثمان۔

فاطمہ عثمان غازی کی بڑی بہن تھی۔

دونوں میں محض دو سال کا فرق تھا۔


ان کے باپ ہاشم غازی ان دنوں اپنے گاؤں کے سب سے معتبر اور امیر ترین آدمی تھے۔

ہر کوئی ان کا بے حد احترام کرتا تھا۔


فاطمہ کی شادی انہوں نے اپنے عزیز دوست عبداللہ سے کروا دی۔

جو فاطمہ سے قریبا دس سال بڑے تھے۔

اور پہلی بار انہوں نے عثمان کو پڑھنے کیلئے شہر بھیج کر ایک نئی سوچ، اپنے لوگوں میں ایک نیا شعور بیدار کیا۔


لیکن اپنے فیصلے پر وہ پچھتائے تو تب جب عثمان نے شہر میں کاروبار جمانے کی ضد کی۔

باپ دادا اور پرکھوں کی زمینیں چھوڑ کر ان کا بیٹا کاروبار کرنے کی باتیں کرے یہ انہیں گوارہ نہ تھا۔

مگر عثمان غازی نے بھی اپنی ضد منوا کر ہی دم لیا۔


ہاشم کو جب پتہ چلا کے عثمان نے شہر کی کسی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ تو انہیں گہرا صدمہ پہنچا۔

عثمان جانتا تھا کے اسکے ماں باپ نگہت کیلئے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔

اسی لیے انہوں نے شادی کرنے کے بعد ہی والدین کو بتایا۔

اور توقع کے عین مطابق ہاشم نے اسے اپنی جائیداد اور تمام رشتوں سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا۔


اس دوران فاطمہ نے چار سال کے فرق سے دو اولادوں کو جنم دیا۔

اور دونوں ہی بیٹیاں تھیں۔ وریشہ اور مریم۔


ان دنوں ہاشم کافی بے بیمار سے رہنے لگے تھے۔

صفیہ بیگم کے آنسو، واسطے اور قسموں نے بالآخر بیٹے کیلئے ان کا دل موم کر دیا۔ ایک لمبے عرصے کے بعد انہوں نے عثمان کی صورت دیکھی۔

اسکے ساتھ اسکی بیوی، سترہ سالہ اردشیر، اور تیرہ سالہ مہک بھی تھی۔


اور اصل سے سود زیادہ پیارا ہوتا ہے یہ کہاوت ہاشم کو تب سمجھ آئی تھی جب انہوں نے اپنے وارث اور اکلوتے پوتے اردشیر کو دیکھا تھا۔


فاطمہ کو بھی جب بھائی کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ بھی دوڑی چلی آئیں اس سے ملنے۔

اور یہی وہ وقت تھا جب بستر مرگ پر پڑے ہاشم نے اپنی زندگی کا ایک آخری اور مضبوط فیصلہ کیا تھا۔


دو رشتوں اور دو دلوں کو جوڑنے کا فیصلہ۔

وریشہ اردشیر سے پانچ سال بڑی تھی۔ اور مریم کے مقابلے میں وہ انتہائی خوبصورت اور کسی حد تک مغرور بھی واقع ہوئی تھی۔


مگر اس کے باوجود بھی ہاشم نے محض اپنی محبت میں وریشہ اور اردشیر کو رشتے میں باندھ دیا۔

ان دونوں کی منگنی کروا دی۔

وریشہ دل ہی دل میں اس زبردستی پر کڑھ کر رہ گئی۔


اس کے بر عکس اردشیر کو وہ مغرور اور اپنی ذات میں گم رہنے والی حسینہ بے حد پسند تھی۔

کج ادائی تو محبوب کی گھٹی میں ملی ہوتی ہے۔


وہ اردشیر سے بڑی تھی کچھ اس لیئے بھی اس پر وریشہ کا رعب زیادہ تھا۔


بہرحال یہ رشتہ طے کرنے کے ایک ہفتے بعد ہی ہاشم اگلے جہاں سدھار گئے۔


اردشیر اور مہک کی پڑھائی کا ہرج نہ ہو اس لیے عثمان غازی نے انہیں یوسف ہمدانی (نگہت کے بھائی) کے گھر بھجوا دیا۔


پھر خود باپ کے چالیسویں کے بعد ماں کے لاکھ انکار پر بھی اسے اپنے ساتھ ہی شہر لے کر آگئے۔

فاطمہ بیگم کا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا ان کے گھر۔

ساتھ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو بھی لے کر آتی تھیں۔


اس طرح اردشیر کی وہ پسندیدگی آہستہ آہستہ لڑکپن کی پہلی محبت بن کر اسکے حواسوں پر چھاتی چلی گئی۔

وریشہ جو گاؤں میں ہی مغرور تھی۔ تو اب شہر آ کر اسکے پاؤں ہی زمین پر نہ ٹکتے تھے۔

سونے پہ سہاگہ اردشیر جیسے حسین مرد کی اپنے لیئے دیوانگی دیکھ کر تو اسکی غرور سے تنی گردن کچھ مزید تن کر کھڑی ہو جاتی تھی۔


وریشہ وہاں آ کر مہینوں مہینوں رہتی تھی۔

لہٰذا اس سب کو دیکھتے ہوئے ہی عثمان صاحب نے اردشیر کو مزید پڑھنے کیلئے انگلینڈ بھجوا دیا تھا۔


اور پورے چھ سال بعد جب وہ واپس کراچی آیا تو اسکی آنکھوں میں وہ کچے خواب اب مضبوط ہو چکے تھے۔

محبت کے وہ رنگ کچھ مزید گہرے ہو گئے تھے۔


مگر وہ نہیں جانتا تھا کے وریشہ کیسے اسکی امانت میں خیانت کرتی رہی تھی اسکے پیچھے۔

وہ ایک آوارہ اور اوباش قسم کے لڑکے وقاص کے جھانسے میں آگئی تھی۔

کچھ وہ حسین تھی اور کچھ وقاص اپنی تعریفوں سے اسے اسکی ہی نظر میں اور حسین بنا کر پیش کرتا تھا۔


اردشیر تئیس سال کا تھا۔

اسکی تعلیم مکمل ہو چکی تھی۔ لہٰذا اب عثمان غازی نے فاطمہ سے مشورہ کرکے ان دونوں کی شادی طے کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔


اردشیر جتنا خوش تھا۔

وریشہ اتنی ہی اندر سے بھڑ بھڑ جلنے لگی تھی۔

اس نے فاطمہ بیگم کو صاف لفظوں میں انکار کر دیا۔

مگر وہ اسکے انکار کو خاطر میں نہ لائیں۔


جسکا بھیانک نتیجہ پھر انہیں تب بھگتنا پڑا تھا جب شادی سے چند گھنٹے قبل ہی وہ گھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئی تھی۔


فاطمہ بیگم کو جب پتہ چلا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

وہ وہی سر پکڑ کے بیٹھتی چلی گئیں۔


کمرے میں اس وقت عثمان صاحب، عبداللہ، نگہت اور فاطمہ کے ساتھ ساتھ اردشیر اور مریم بھی موجود تھے۔


"دیکھو بیٹا، باہر کئی بڑے بڑے بزنس ٹائیکون اور اعلی پائے کے مہمان آئے بیٹھے ہیں۔ اب ہماری عزت تمہارے ہاتھوں میں ہے اردشیر۔ ہماری پگڑی اچھلنے سے بچا لو میرے بچے۔" عثمان صاحب گڑگڑاتے ہوئے اسکے پیروں میں گرنے لگے تھے۔

مگر اس نے انہیں جھکنے سے قبل ہی تھام لیا۔

آج پہلی بار وہ انہیں اتنا بے بس اور بکھرا بکھرا سا دیکھ رہے تھے۔


مگر اسکے دل پر کیا بیت رہی تھی یہ صرف وہ ہی جان سکتا تھا یا اسکا خدا۔


"ٹھیک ہے ڈیڈ، میں اس سے شادی کرنے کو تیار ہوں"۔ خونخوار نظروں سے اس نے مریم کو گھورتے ہوئے کہا۔


وہ جو پہلے ہی سہمی ہوئی ایک کونے میں بیٹھی تھی مزید سمٹ کر کونے میں گھستی چلی گئی۔


وہ اس وقت صرف اٹھارہ سال کی تھی۔

مگر اتنی نا سمجھ اور گئی گزری تو نہیں تھی کے اس شخص کو اسکا دل قبول کر لیتا جس کو اس نے ہمیشہ ہی اپنی بہن کی محبت کا دم بھرتے دیکھا تھا۔


اور پھر یوں ہوا کے ان لوگوں نے ان دونوں کا نکاح نہیں پڑھوایا تھا۔ بلکہ دو جنازے اٹھائے تھے۔

یہ نکاح نہیں تھا۔ بلکہ سمجھوتا تھا۔


بڑے سے سرخ گھونگھٹ میں آنسوؤں سے تر چہرہ لیئے سر جھکائے بیٹھی وہ مولوی کو کہتے سن رہی تھی۔


"مریم عبداللہ بنت ولید عبداللہ آپ کو غازی اردشیر ولد عثمان غازی کے نکاح میں بعوض بیس لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت کے دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"۔

دو بار پوچھنے پر بھی وہ خاموش رہی۔

اور جب تیسری بار یہی سوال پوچھا گیا تو اسے اپنے کندھے پر فاطمہ بیگم کے ہاتھ کا دباؤ بڑھتا محسوس ہوا۔

آہستگی سے اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔


اور جانے کرب کی کن منزلوں سے گزر کر غازی اردشیر نے اس نکاح کیلئے حامی بھری تھی۔

نکاح ہو جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آیا جہاں اسکے ارمانوں، اسکی خواہشوں کی راکھ پر وہ لڑکی بیٹھی تھی۔

جو کبھی اسکی چاہت نہیں رہی تھی۔

اس نے تو کبھی نظر بھر کر اسے دیکھا بھی نہ تھا۔


قدم قدم چلتا ہوا وہ گلاب کے پھولوں کی سیج پر دلہن بنی بیٹھی مریم سے زرا فاصلے پر آ کر ٹھہر گیا۔


"کیا سوچا تم نے، کے اگر تمہاری بہن بھاگ گئی تو تم اب اسکی جگہ لے لو گی؟"۔ کاٹ دار لب و لہجے میں مخاطب کیا۔

مریم نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

(آپی یہ تم نے اچھا نہیں کیا)۔

دل ہی دل میں اس نے اسے مخاطب کیا۔

مگر بد دعا وہ پھر بھی اسے نہ دے سکی۔


"یہ غازی اردشیر کا دل ہے کوئی کرائے کا مکان نہیں، جس کا مکین پل پل بدلتا رہے۔ خبردار جو تم نے مجھ سے کوئی بھی امید لگائی"۔ پھنکار کر کہتے ہوئے انگلی اٹھا کر وارننگ دیتے ہوئے اسکا بازو دبوچ کر اپنے مقابل کھینچا۔

جھٹکے سے اسکا گر ہوا پلو اٹھایا جو اسکے سر سے پھسل کر پشت پر گر گیا۔

اسکی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ ساتھ خوف بھی تیر رہا تھا۔


"تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں۔ میں ابھی اور اسی وقت دبئی جا رہا ہوں۔ مجھے جتنا کرنا تھا میں کر چکا۔ میں نے خود پر تو جبر کر لیا مگر اپنے دل پر نہیں کرسکتا۔ جس میں مریم بی بی تم دور دور تک کہیں نہیں ہو۔ یہ دل پہلے اسکی محبت سے بھرا تھا۔

اب یہ دل اسکی نفرت سے اتنا بھرا ہے کے اس میں تم تو کیا کسی بھی عورت کی گنجائش اب کبھی نہیں نکل سکتی۔"۔ نفرت سے اسے پرے پھینکا۔

وہ اوندھے منہ بستر پر جا گری۔


وریشہ کیلئے بہت محبت سے لی گئی انگوٹھی اس نے جیب سے نکال کر اسکے اوپر پھینک دی۔


"یہ ہے تمہاری منہ دکھائی، آئی ہوپ اب کوئی کمی باقی نہیں رہی ہوگی۔ نکاح مبارک"۔ نفرت سے پھنکار کر کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔


مریم شدت سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

~~~•☆☆☆•~~~


وہ پچھلے دو گھنٹے سے بے مقصد ہی سنسان سڑکوں پر گاڑی دوڑا رہا تھا۔

یہ سفر لا حاصل تھا۔

گزرے دو مہینوں میں اس کے دل نے خوابوں کا ہاتھ تھام کر میلوں کا سفر طے کر لیا تھا۔


مگر جب وہ سب خواب ٹوٹے۔۔خواہشیں بکھریں۔

تو ایک دم ہی ایسی تھکن اسکی رگ رگ میں سرایت کر گئی جیسے نا جانے کتنی ہی مسافتیں طے کی ہوں گی اس نے۔


تھک کر اس نے وہی سڑک پر گاڑی روک دی۔

آس پاس جگہ سنسان پڑی تھی۔

کوئی ذی روح نہ تھا۔


گاڑی سے نکل کر بے اختیار وہ نا معلوم راستے پر چلنے لگا تھا۔

کچھ گھنٹے قبل کہے گئے کسی کے جملوں کی بازگشت اسکا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔


وہ بھاگ جانا چاہتا تھا۔۔

بہت دور۔۔

ان سب سے دور۔۔۔

اس سے دور۔۔۔

وہ بہت دور کہیں جا کر چھپ جانا چاہتا تھا۔

جہاں یہ اذیت اور دل کو اندر سے کاٹتا ہوا درد اسکے پیچھے نہ آ سکے۔


(میرا نکاح ہو چکا ہے)

مریم کی آواز اسے سنائی دے رہی تھی۔


اس نے زور سے اپنے کان بند کر لیے تاکہ آواز کا راستہ رک جائے۔


"کیوں کیا؟۔ آخر کیوں کیا میرا ساتھ ایسا؟"۔ وہ زمین پر گھٹنوں کے بل گرا اب چیخ چیخ کر سوال کر رہا تھا۔

شاید خود سے۔۔

شاید اس سے۔۔۔

یا شاید۔۔۔خدا سے!


"آخر میں ہی کیوں؟"۔


"میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا"۔ وہ بچوں کی طرح

پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔

ہاں وہ رو رہا تھا۔

وجاہت نے حیرت سے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

جو آنسوؤں سے تر تھا۔


وہ وجاہت آفریدی جس سے اچھے اچھے بھی پناہ مانگتے تھے۔

وہ ایک لڑکی کیلئے رو رہا تھا۔

اس دھان پان سے وجود کیلئے؟


ہاں، مگر وہ محض ایک لڑکی ہی تو نہیں تھی۔

وہ تو اسکی زندگی تھی۔


"اب۔۔۔اب میں کیسے جیوں گا۔۔۔کیسے میں قبول کروں کے وہ کسی اور کی ہے"۔


"میں نہیں سہہ سکتا یہ"۔


"میں نہیں دیکھ سکتا"۔

بلند آواز سے روتے ہوئے اسکا سر زمین پر جھکتا چلا گیا۔


مجھے منزلوں سے عزیز ہیں۔۔۔

تیرے راہ گزر کی مسافتیں،

کہ لکھی ہیں میرے نصیب میں،،،

ابھی عمر بھر کی مسافتیں،

اس ایک پل کی تلاش میں،،،

جسے لوگ کہتے ہیں زندگی!

تیری راہگزر میں بکھر گئیں۔۔۔

میرے عمر بھر کی مسافتیں!


دور افق پر چمکتا آدھا چاند بھی گواہ تھا۔

کے آج کی رات۔۔۔

سوگ کی رات تھی!

بمشکل اس نے اپنے بھاری ہوتے سر کو سنبھالا۔

اور لحاف پھینکتے ہوئے بستر پر اٹھ بیٹھی۔ سر دونوں ہاتھوں میں گرا دیا۔


سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے اس نے الارم دیکھا۔ جس میں دن گیارہ بجے کا وقت ہو رہا تھا۔

گزرے شب جو اس نے کیا تھا وہ سب اسکے ذہن پر سلائیڈ ہو رہے تھے۔

اس نے طنز سے مسکراتے ہوئے موبائل اسکرین پر عمیر کا نمبر دیکھا۔


"تم نے مجھے رد کیا تھا نا عمیر، اب دیکھو تمہاری شادی سے قبل ہی میں نے نکاح کر لیا۔ اب تمہیں یہ بریکنگ نیوز سناتی ہوں میں"۔ خود کلامی کرتے ہوئے اس نے فاتحانہ انداز میں عمیر کا نمبر ڈائل کیا۔

بیل مسلسل بجتی رہی، اور دوسری جانب سے کال ریسیو کیا گیا۔


"او مہک ڈارلنگ، تمہیں اب بھی میرے بغیر چین نہیں۔ ہاو چیپ از دیٹ۔ کل میری شادی ہے یار، اور دیکھو اب تم رونا دھونا مت شروع کر دینا"۔ خباثت سے کہتے ہوئے اس نے گویا اسکے زخموں پر نمک چھڑکا۔


"رونا دھونا مائی فٹ، مجھے کوئی روایتی مڈل کلاس لڑکی سمجھ رکھا ہے کیا جو میں تم جیسے چیٹ کیلئے روتی رہوں گی۔ تم نے کیا سوچا تھا کے میں ساری زندگی تمہارا انتظار کرتی رہوں گی۔

نیور۔۔ میں نے نکاح کر لیا ہے"۔ اپنی طرف سے اس نے دھماکہ کیا۔

دوسری طرف چند پل کیلئے خاموشی چھا گئی۔

اور مہک کو لگا وہ ضرور جل رہا ہوگا، اب پچھتا رہا ہوگا۔


"اچھا، کس سے کر لیا؟"۔ عمیر نے نارمل انداز میں پوچھا۔


"وہ میں نے ب۔۔۔۔

اور ایک دم اسکی زبان کو بریک لگا تھا۔

ایک جھماکے سے اسکے ذہن کے پردے پر وہ رات پوری طرح روشن ہو گئی تھی۔


اور اسکا وجود گویا برف کے سل میں ڈھل گیا تھا۔

کون تھا بلال؟ کیا بتانے جا رہی تھی وہ اسے؟

کے مہک عثمان نے عمیر کا متبادل بلال کو چنا تھا؟

وہ بلال جو اسکے باپ کے حکم کا غلام تھا۔

وہ بلال جو ایک معمولی سا ایمپلائی تھا اسکے باپ کا۔

اس کے ہاتھ سے موبائل پھسلتا چلا گیا۔

دوسری طرف سے عمیر نے جانے کتنی دیر تک ہیلو ہیلو کرنے کے بعد رابطہ قطع کیا تھا۔


بے اختیار اس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔

اس نے۔۔۔۔مہک عثمان غازی نے ایک معمولی سے مینیجر سے نکاح کر لیا؟


"او گاڈ۔۔۔۔او گاڈ"۔ اسکی گھٹی گھٹی سی چیخ برآمد

ہوئی۔

"یہ۔۔۔یہ مجھ سے کیا ہوگیا؟"۔ وہ بے یقینی سے بڑبڑا رہی تھی۔


اور اب اسے خیال آ رہا تھا کے اگر عثمان غازی یا اردشیر کو پتہ چل جاتا کے انکی لاڈلی نے کیا کیا ہے۔ تو وہ نا جانے کیا کر بیٹھتے۔


اس وقت اسکی حسیات مکمل طور پر بیدار ہو چکی تھیں۔

ساتھ ہی ایک پچھتاوے نے سر اٹھایا تھا۔


پچھتاوا جو نا ختم ہونے والا تھا۔

~~~•••☆☆☆•••~~~


ڈائیننگ ٹیبل پر براجمان وہ سب ہی عثمان غازی کو دیکھ رہے تھے۔

جن کے ہاتھ میں منگنی کا کارڈ تھا۔

جو کچھ دیر قبل ہی بلال ان سے چھٹی لینے کے ساتھ ہی انہیں دے گیا تھا۔

وہ اب اسے پڑھ رہے تھے۔


نگہت بیگم اور بے جی انکی جانب متوجہ تھیں۔

اردشیر مکمل طور پر کھانے کی جانب متوجہ تھا۔

جبکہ مہک وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں نہیں تھی۔

وہ بے دلی سے سوپ میں چمچ ہلا رہی تھی۔


"کیا لکھا ہے بیٹے"۔ بے جی نے اشتیاق سے پوچھا۔


"بلال کی بہن کی منگنی ہے امی کل شام کو۔ اسی کا کارڈ ہے یہ۔ ہمیں بھی پوری فیملی کے ساتھ دعوت دی ہے آنے کی"۔ عثمان صاحب اب ان کی جانب متوجہ تھے۔

بلال کے نام پر مہک نے چور نظروں سے عثمان صاحب کو دیکھا۔


"اچھا، بلال کی تو دو بہنیں ہیں نا عثمان صاحب۔ کون سی والی کی ہو رہی ہے منگنی اور کس کے ساتھ؟"۔ نگہت بیگم نے دلچسپی سے پوچھا۔


"مہر ماہ کا نام لکھا ہے کارڈ میں۔ اور بزنس میں میری کافی جان پہچان ہے عادل سے۔ اسی کے بیٹے احد سے ہو رہی ہے منگنی"۔ عثمان صاحب نے تفصیل بتائی۔


"یہ تو بہت اچھی بات ہے عثمان صاحب، اللہ اس بچی کے نصیب اچھے کرے۔ بہت پیاری تھی۔ ہمیں ضرور جانا چاہیئے۔" نگہت بیگم نے خوش ہو کر کہا۔


"آپ چلی جائیں، بے جی جانا چاہے تو انہیں بھی ساتھ لے جائیں۔ میں زرا مصروف ہوں۔ اب کل بلال بھی نہیں ہوگا آفس میں، جس کی وجہ سے کام کا پریشر زیادہ ہوگا۔ اردشیر چلا جائے گا آپ لوگوں کے ساتھ"۔ انہوں نے اس کی جانب دیکھے بغیر کہا۔


تو اردشیر نے ہاتھ روک کر ان کی جانب دیکھا۔


"مجھے یہ سب چونچلے پسند نہیں ہیں۔ اور پھر ہمارے تو ایسے بہت سارے ایمپلائز ہیں، اب کیا سب کے گھر جاتے پھریں گے"۔ بے نیازی سے کہتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور گود میں رکھے نیپکن کو ٹیبل پر پٹخ کر وہاں سے چلا گیا۔


"دیکھا تم نے، حکم عدولی تو جیسے اسکی شخصیت کا خاصہ بن کر رہ گئی ہے۔ مجال ہے جو کبھی یہ میری کوئی بات مان گیا ہو۔ ایسی نا خلف اولاد سے اچھا تھا کے میرا کوئی بیٹا ہی نا ہوتا۔ برہان کے ساتھ آپ دونوں چلی جانا۔" ماتھے پر بل ڈالے، وہ اسی کے انداز میں کہہ کر وہاں سے نکلتے چلے گئے۔


پیچھے بے جی اور نگہت بیگم افسوس سے سر ہلاتی رہ گئیں۔

جیسے کہہ رہی ہوں "یہ دونوں کبھی نہیں بدلیں گے"۔


جبکہ مہک کی پریشانی دو چند ہو گئی۔

وہ بھائی کو نہیں بخشتے، اگر میرے بارے میں انہیں پتہ چلا تو"۔ اور اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

●•••☆☆☆☆•••●


ہال میں اس وقت چند ایک خاص مہمان اور کچھ دوست، رشتہ دار ہی مدعو تھے۔

منگنی کی تقریب سادگی سے منعقد کی گئی تھی۔


گلابی اور ہلکے نیلے رنگ کے خوبصورت سلور رنگوں اور موتیوں کے کام والے غرارے میں ملبوس، گلابی دوپٹہ نفاست سے سر پہ ٹکائے، ہلکے میک اپ اور ہلکے زیورات سے آراستہ مہرماہ جہانزیب کی چھب ہی نرالی تھی۔


اسٹیج پہ رکھے صوفوں میں سے ایک پر براجمان وہ پاس کھڑی زرش کے کان میں منمنا رہی تھی۔


"اور کتنی دیر تک یوں تختہ مشق بنا کر رکھو گے تم لوگ، پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے میری کمر اکڑ گئی ہے"۔ وہ یوں گویا تھی جیسے یہ اسکی نہیں کسی اور کی منگنی ہو۔


سلور رنگ کے لہنگے میں ملبوس زرش عام دنوں سے ہٹ کر تیار ہوئی تھی۔

اور ہر کام میں پیش پیش تھی۔


"میری جان، بس کچھ دیر اور ابھی انکل اور آنٹی پہنچنے والے ہیں۔ انگوٹھی پہنانے کی رسم ادا کی جائے گی"۔ زرش نے اس کا مانگ ٹیکا درست کرتے ہوئے کہا۔

مہرو بل کھا کر رہ گئی۔


اور واقعی کچھ ہی دیر بعد رخسانہ اور عادل ثناء سمیت وہاں آن پہنچے۔

ماہین اور ثناء آ کر بے اختیار اس سے لپٹ گئیں۔

"ہائے مہرووو، تم اور احد بھائی۔۔۔مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا"۔ ثناء جذباتی ہو کر اس سے بار بار لپٹ رہی تھی۔

"اب اللہ ہی بچائے احد بھائی کو"۔ ماہین نے دونوں ہاتھ بلند کر کے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

اور مہرو نے بنا کسی کا لحاظ کیئے اسے ایک دھموکا جڑ دیا۔

ماہین بلبلا کر رہ گئی۔

"اوفف، ابھی سے یہ حال ہے۔ خدا جانے دلہے بھائی کا کیا ہوگا۔ پھوٹے نصیب احد بھائی کے"۔ ماہین نے بھی بدلہ چکایا۔


"توبہ کرو لڑکی، اللہ میرے بھائی کو سلامت رکھے۔ اور اب ہماری بھابھی کو بھی"۔ اس نے مہرو کے گرد بازو حمائل کر کے کہا۔


اسی وقت رخسانہ بیگم اسٹیج پر آگئیں۔


"ماشاءاللہ، بہت پیاری لگ رہی ہو۔ اللہ سلامت رکھے"۔ انہوں نے مہرو کے برابر بیٹھتے ہوئے اسکی پیشانی چوم لی۔

تو وہ جھینپ گئی۔

ثناء اور ماہین اسکے انداز دیکھ کر منہ پہ ہاتھ رکھے ہنسی دبانے لگیں۔


انہوں نے اسے رسم کی انگوٹھی پہنائی۔


"اب تم آفیشلی ہماری ہو گئی"۔ ثناء نے ہنس کر کہا۔

تو سب نے اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔


کون کس کے حصے آنا ہے یہ فیصلہ تو ابھی ہونا باقی تھا۔

●••••☆☆☆••••●


وہ الماری میں سر دیئے اپنے کپڑے نکال رہا تھا۔

اس قدر جلدی جلدی میں اس نے شہر تک کا سفر کیا تھا کے پہننے کیلئے کپڑے دو، تین جوڑے سے زیادہ نہ لیا تھا۔

کیونکہ اسے لگا تھا وہ بہت جلد واپس چلا جائے گا۔

مگر یہاں آ کر کچھ ایسا الجھا تھا کے پھر چاہ کر بھی نہ نکل سکا۔


ایک قدرے بہتر گرے کلر کی شرٹ اس نے پہننے کیلئے نکالی۔

تو اس شرٹ کی تیسرے نمبر والی بٹن ٹوٹی ہوئی دیکھ کر اسکا پارہ ہائی ہو گیا۔

زور سے اس نے شرٹ بیڈ پر پٹخ دی۔


آج کل ویسے بھی بات بے بات وہ یوں ہی چڑنے لگا تھا۔

حالانکہ یہ اسکی طبیعت کا خاصہ نہیں تھا۔


مریم جو اس کیلئے اسکی پسندیدہ بلیک کافی لے کر آ رہی تھی۔ اسے یوں غصہ کرتے دیکھ کر چونک گئی۔


"کیا ہوا وجاہت، کوئی پرابلم ہے کیا؟"۔ کافی کا مگ سائیڈ میز پر دھرتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔

فاطمہ بیگم کل ہی ڈسچارج ہو کر آئی تھیں اسپتال سے۔

لہٰذا اب مریم کی پریشانی کسی حد تک کم کوئی تھی۔


وجاہت نے نگاہیں اٹھا کر سیاہ رنگ کے ہالے میں دمکتا اسکا چہرہ دیکھا۔

اور لب بھینچ کر رخ موڑ لیا۔

وہ جتنا اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا، جتنا اسے مخاطب کرنے سے گریز کرتا تھا وہ اتنی ہی اپنی لا علمی میں اسکے سامنے آ جاتی تھی۔


مریم نے حیرت سے اسکے انداز کو نوٹ کیا۔


"کیا ہوا ہے؟ میں کچھ دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں کے آپ شاید مجھ سے کسی بات پر ناراض ہیں۔ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی تو آپ پلیز مجھے بتا دیں"۔ بہت دنوں سے دل میں چل رہے سوال کو اس نے بالآخر باہر کا راستہ دے ہی دیا تھا۔


اسکی بات پر وجاہت نے جھٹکے سے مڑ کر اسکی جانب دیکھا۔


"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، وہ بس میں واپس جانے کی تیاریاں کر رہا ہوں۔ عام طور پر آن ڈیوٹی میں چھٹی نہیں کرتا کبھی۔ لہٰذا مجھے واپس جانا ہوگا"۔ اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔


جبکہ مریم اسکے بنا کہے ہی اب اسکی شرٹ اٹھا کر سوئی دھاگہ لیئے اب بٹن لگا رہی تھی۔

وہ بہت کم زبان سے کسی کا شکریہ ادا کرتی تھی۔

اور اگر وہ واقعی کسی کی مشکور ہوتی تھی تو اسکے کسی کام آ جاتی تھی۔

یہ اسکا طریقہ تھا کسی کیلئے شکریہ ظاہر کرنے کا۔

وجاہت نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔

وہ متوجہ نہیں تھی۔

"پھر تو مجھے اور امی کو بھی واپس جانا چاہیئے۔ کیونکہ وہ اب پہلے سے کافی بہتر ہیں"۔ اس نے نگاہیں جھکائے جواب دیا۔

"نہیں، آپ میری بات کو غلط نہ لیں پلیز۔ آپ لوگ یہی ٹھہر جائیں۔ خدا ناخواستہ پھر سے کوئی مشکل آ گئی تو یہاں تک پھر سے پہنچتے پہنچتے بہت دیر ہو جائے گی۔

اور پھر میری امی بھی اتنے بڑے گھر میں اکیلی ہوتی ہیں۔ دیکھا نہیں آپ نے کیسے خوش ہیں وہ جب سے آپ لوگ یہاں آئے ہیں"۔ مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا۔


اسکی بات پر وہ بھی مسکرا دی۔


"یہ لیجیے آپ کی شرٹ"۔ اس نے شرٹ اسے تھمائی۔ جس پر اب بٹن لگ چکا تھا۔

وجاہت نے خاموشی سے تھام لی۔


"لیکن بہرحال جانا تو ہمیں ہوگا ہی نا ایک دن"۔ اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


وجاہت نے اب کے خاموشی سے اپنی کافی کا مگ اٹھا کر لبوں سے لگا لی۔


"اچھا یہ بتائیے کے اب آپ کا زخم کیسا ہے؟"۔ اس نے وجاہت کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

جس پر گہرے گھاؤ کی وجہ سے پٹی بندھی ہوئی تھی۔


اس نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا۔

"اگر ہاتھ کے زخم کا پوچھ رہی ہیں تو۔۔۔ہاں۔۔وہ ٹھیک ہے"۔ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے ذومعنی بات کہی۔


جس پر مریم نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔

وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

کچھ تھا اس کی سبز آنکھوں میں۔۔

جو پہلے نہیں دیکھا تھا اس نے۔

کچھ ایسا تھا اسکے چہرے میں۔

جو بدل گیا تھا۔

مریم اسکی آنکھوں میں دیکھ کر جیسے اسے پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

وجاہت اسکی کوشش بھانپ کر نظریں چرا گیا۔


"کچھ ہے وجاہت، جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں"۔ مریم نے صرف دل میں یہ بات کہی۔


کیونکہ وہ اس کیلئے کیا تھی؟۔

اور کس حق سے وہ اسے کریدتی؟


"کب جا رہے ہیں آپ؟"۔ اس نے پوچھا۔


"کل صبح نو بجے تک"۔ مختصر جواب دیا۔


جس پر وہ سر ہلا کر اسکے کمرے سے نکل گئی۔


وجاہت کی نظریں اسکے دور جاتے قدموں سے لپٹ کر رہ گئیں۔


کچھ اس طرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے

بچھڑ بھی جائیں تو ہاتھوں میں ہاتھ رہ جائے

اب اس کے بعد کا موسم ہے سردیوں والا

ترے بدن کا کوئی لمس ساتھ رہ جائے

میں سوئی رہوں،ترے خواب دیکھنے کے لیے

یہ آرزو ہے کہ آنکھوں میں رات رہ جائے

میں ڈوب جاؤں سمندر کی تیز لہروں میں

کنارے رکھی ہوئی کائنات رہ جائے

کاش مجھ کو سمیٹے کوئی زمانے تک

بکھر کے چاروں طرف میری ذات رہ جائے!!!

●●☆☆•••☆☆●●


وہ اپنے ہی دھن میں پھولوں کی ٹوکری اٹھائے جا رہی تھی۔

جب کسی سے زوردار ٹکر ہوئے جس کے نتیجے میں ٹوکری اسکے ہاتھ سے بلند ہو کر اسی کے سر پہ الٹ گئی۔

اور وہ مقابل کے ہاتھوں میں آ رہی۔


اسکے سیاہ بال اب سرخ گلاب کی پتیوں سے اٹے ہوئے تھے۔

اور وہ سیاہ آنکھیں پوری کھولے خود پر جھکے برہان کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

جو ابھی ابھی ہال میں اینٹری لے رہا تھا۔


اور سامنے سے تیز تیز چلتی ہوئی آ رہی زرش سے زوردار ٹکر کے بعد اسے گرنے سے قبل ہی تھام لیا تھا۔


گلاب کی چند پتیاں برہان کے اوپر بھی گری تھیں۔


وہ اسے شوخی سے دیکھتا ہوا مسکرا رہا تھا۔


"اتنا خوبصورت ویلکم۔۔۔آپ کو کیسے پتہ چلا کے ہم آنے والے ہیں"۔ آنکھوں میں شرارت اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ لیئے وہ بولا۔


تو زرش جلدی سے اسکے حصار سے نکل کر دو قدم پیچھے ہٹی۔

اور گھبرا کر اسے دیکھا۔

جو اب دلچسپی سے اسکا جائزہ لے رہا تھا۔


"آپ کے پاپا ٹرک ڈرائیور ہیں کیا؟"۔

اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

"جی؟ نہیں تو" زرش نے حیرت اور ناگواری سے اسے دیکھا۔

"پھر آپ ہمیشہ اتنی تیز رفتاری سے چلتے ہوئے ہم سے کیوں ایکسیڈنٹ کروا لیتی ہیں"۔ ہنستے ہوئے اس نے اپنے سیاہ بالوں کو جھٹکا دیا۔

جس سے گلاب کی پتیاں اسکے بالوں سے نکل کر نیچے گرنے لگیں۔

برہان نے مسکراتے ہوئے سر تا پیر اس کانچ کی گڑیا کا جائزہ لیا۔

جس پر زرش سٹپٹا کر اسے دیکھنے لگی۔


"مجھے زرا کام ہے۔۔۔ایکسکیوز می"۔ زرش اپنا لہنگا اور منتشر دل کی دھڑکنیں سنبھالتی ہوئی ہال سے باہر چلی گئی۔

جبکہ برہان ہنوز اسکی پشت تکتا ہوا مسکرائے جا رہا تھا۔

پھر بے جی اور نگہت بیگم کو اندر آتے دیکھا تو ان کی جانب متوجہ ہو گیا۔


"کہاں رہ گئیں تھیں آپ دونوں بیوٹی کوئینز"۔ اس نے بے جی کا لرزتا ہوا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام کر انہیں سہارا دیا۔

وہ زرا سا چلنے سے ہی ہانپنے لگتی تھیں۔

عمر ہی ایسی ہو رہی تھی ان کی۔

تو یہ معمول کی بات ہی تھی۔


اسی وقت افشاں بیگم کی جب ان پر نظر پڑی تو خوشگوار حیرت سے انکی جانب چلی آئیں۔


"السلام و علیکم، زہے نصیب! آپ لوگوں کی تشریف آوری ہمارے لیئے بے حد خوش آئند ہے"۔ انہوں نے بے جی کے گلے لگ کر نگہت بیگم سے ملتے ہوئے کہا۔

اور انکی اس قدر اپنائیت پر وہ دونوں بھی کھل اٹھیں۔


برہان البتہ ان کو سلام کرنے کے بعد ادھر اُدھر ہو گیا۔


جبکہ افشاں بیگم ان دونوں خواتین کو لیئے آگے والی نشستوں کی جانب بڑھیں۔

بے جی کو انہوں نے آہستگی کے ساتھ عذرہ بی بی (مہرو کی دادی) کے ساتھ بٹھا دیا۔


وہ دونوں ایک دوسرے کو حیرت اور بے یقینی سے تک رہی تھیں۔


جبکہ نگہت بیگم اب اسٹیج پر بیٹھی مہرو کی جانب چلی گئیں۔


"صفیہ آپا۔۔۔آپ۔۔۔یا میرے مولا مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا کے میں آپ سے مل رہی ہوں"۔ عذرہ بی بی کی چشمے کے پیچھے سے جھلکتی بوڑھی آنکھوں میں بے تحاشا نمی اتر آئی۔

وہ بے اختیار اپنی بہن سے لپٹ گئیں۔


"عذرا، یہ تم ہو۔میری بہن"۔ صفیہ بانو بھی آبدیدہ ہو گئیں۔ انکی آواز خوشی اور انبساط کی زیادتی سے لرز رہی تھی۔


ارد گرد موجود چند لوگ حیرت اور جوش سے اس ملاپ کو دیکھ رہے تھے۔


افشاں بیگم اور نگہت بھی مسکراتے ہوئے سوالیہ نظروں سے کبھی انہیں تو کبھی ایک دوسرے کو دیکھنے لگتیں۔


مہرو منہ کھولے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔


"یہ دونوں اتنا ایموشنل کیوں ہو گئیں ایک دوسرے کو دیکھ کر"۔ رہا نہ گیا تو پاس بیٹھی ثناء کو ٹہوکا مارا۔

اور اس سے پوچھا۔


"میں دیکھتی ہوں جا کر"۔ ثناء نے جواب دیا اور اسٹیج سے اتر کر ان دونوں کے پاس پہنچ گئیں۔

جہاں پہلے ہی چند خواتین، افشاں، نگہت اور رخسانہ بیگم انکے پاس کھڑی بھیگی آنکھوں سمیت مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہی تھیں۔


"ممی کیا ہوا ہے یہاں؟"۔ ثناء نے رخسانہ بیگم کے کان میں سرگوشی کی۔


"بیٹا، یہ عثمان صاحب کی والدہ ہیں۔ جو جہانزیب بھائی کی والدہ کی بہن ہیں"۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

تو ثناء حیرت سے گنگ رہ گئی۔

پھر بھاگی بھاگی مہرو کے پاس پہنچی۔


"مہرو بھابھی، یہ آپکی بے جی کی بہن ہیں"۔ ثناء نے جھٹ اسے خبر دی۔


"ہائیں؟؟ یہ کیا چکر ہے۔ آج تک تو ایسا صرف فلموں میں دیکھا تھا۔ اب بے جی کی کون سی بہن آ گئی"۔ مہرو نے حیرت سے کہا۔


"او ہو، تم نے کون سا کبھی بیٹھ کر بے جی سے پوچھا ہے کے انکی کتنی بہنیں ہیں یا تھیں"۔


"ارے ہاں، بے جی ہمیں بتاتی تو تھیں کے وہ تین بہنیں تھیں۔ جن میں سے ایک شادی سے قبل گزر گئیں۔ جبکہ انکی بڑی بہن اور ہماری بے جی کی الگ الگ شہروں میں شادی ہو گئی۔ بچھڑ گئی ہوں گی بے چاری دونوں اس طرح سے"۔ مہرو بچپن سے سنتی آ رہی بے جی کی کہانی ثناء کو بتانے لگی۔


"یار، کیا قسمت پائی ہے نا دونوں نے۔ کے اس جہاں فانی سے منہ موڑنے سے قبل ہی ایک دوسرے سے پھر مل بھی گئے۔ یہ ہوتی ہے خونی رشتوں کی کشش"۔ گال تلے ہاتھ رکھے ثناء نے دلچسپی سے کہا۔

تو مہرو نے اسکے سامنے چٹکی بجائی۔


"اوئے، آج کل زیادہ بڑی بڑی باتیں نہیں کرنے لگ گئی۔ اور ایک تو تمہارے اس بھائی کی وجہ سے آج سارے دن سے میں ایسے بیٹھی ہوں"۔ مہرو نے جل کر کہا۔

اور اسکے انداز پر ثناء کو بجائے غصہ آنے کے اور بھی ہنسی آئی۔


"تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ۔ مہمان اب آہستہ آہستہ جانے لگے

ہیں۔ اور پھر اب وہ آپ کے شوہر بھی ہیں"۔ ثناء نے مسکراہٹ دبائی۔

"ہونے والے" تصحیح کی۔

~~•••☆☆☆•••~~


"ٹرسٹ می، بے جی اپنی بہن کو وہاں دیکھ کر سارا وقت انہی سے چپکی رہ گئی۔ پتہ ہے اسکے بعد کتنی مشکل سے انہیں کھینچ کر گھر لانا پڑا۔ اور اب بتاؤ زرا واپس آنے کیلئے بھی شرط رکھی کے مجھے روز اپنی بہن سے ملوانے لے جاؤ۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بات ہی نہیں۔ شیرو چلے جایا کرے گا۔" آخری بات اس نے شرارت سے کہی تھی۔

جس پر اسے گھوری ملی۔


وہ لوگ تقریب سے اب لوٹے تھے۔

اور تب سے برہان اسے روداد سنا رہا تھا کے کیا ہوا کیسے ہوا۔

حالانکہ اردشیر غیر دلچسپی سے سن رہا تھا۔

اسے بھلا کب ایسی باتیں پسند تھیں۔


مگر بے جی کو انکی بہن مل گئی ہے اس بات پر تو وہ بھی چونکا تھا۔


"چلو اچھا ہوا، بے جی کے خوشی ہونے لائق کوئی تو بات ہوئی"۔ پر سکون لہجے میں کہا۔


"بے جی کو خوشی تو تب ہو جب وہ تیری بیوی اور اپنے پر پوتوں کے منہ دیکھ لیں"۔ موقع غنیمت جان کر برہان نے بات کا رخ موڑ دیا۔


"ہاں تو تم مجھ سے کم عزیز ہو کیا انہیں، تم بھی تو انکے پوتے جیسے ہی ہو۔ لے آ ایک عدد بیوی اور سنوا دے انہیں بچوں کی قلقاریاں۔ پھر تو بے جی بہت خوش ہوں گی"۔ اردشیر نے آج اس ذکر پر غصہ دکھانے کے بجائے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔


"اوئے یار، بیوی سے یاد آیا آج میں اس پری سے پھر ملا"۔ برہان نے کرسی کے بیک پر دونوں ہاتھ رکھے سر ٹکاتے ہوئے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔


"اچھا، اور پھر تجھے لفٹ نہیں کرائی ہوگی اس نے۔ ہے نا"۔ اردشیر نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔

جس پر برہان نے اسے گھورا۔


"تو کبھی خوش مت ہونے دے مجھے۔ پتہ ہے، آج تو وہ اس گانے کی عملی تفسیر لگی مجھے وہ کیا تھا کہ:


"بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے"۔

برہان نے گلا پھاڑ کر گانا سنایا۔


"بس بس میں سمجھ گیا۔ تو رہنے دے"۔ اردشیر نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔


"کیا یار، آج بھی تو میری آواز کا مذاق اڑاتا ہے۔ کتنا شوق ہوتا تھا بچپن میں مجھے سنگر بننے کا۔ پر کمینے شیرو تیری وجہ سے باقی بچے بھی مجھے پھٹا ہوا ڈھول کہتے تھے۔ اس لیئے میں نے کبھی گانا نہیں گایا پھر۔" برہان نے منہ بنا کر کہا۔

تو اردشیر کا چہرہ ہنس ہنس کر سرخ پڑ گیا۔


"شکر ہے میرے مالک، جو تو نے ہمیں بچا لیا۔ ورنہ اب تک تو جانے کتنے لوگ اسکی آواز سن کر خود کشی کر چکے ہوتے"۔ اردشیر نے ہنستے ہوئے اسکے شانے پر ایک مکا رسید کیا۔


"شاباشے، اڑالے میرا مذاق۔ اپنا وقت بھی آئے گا تیرا دیکھنا"۔ برہان نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہا۔


"اچھا، لیکن مجھے تو سنگر نہیں بننا تھا نا"۔ اس نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔


"پریکٹس کر لے، بیوی کو منانے کی بھی۔ اور گانا گانے کی بھی"۔


"میری چھوڑ، تو بتا تیری پری کیسی تھی؟"۔ اس ٹاپک سے بچنے کیلئے اس نے خوبصورتی سے موضوع بدل لیا۔

اور برہان سے بہتر اسے کون جان سکتا تھا۔

اسکی تکلیف چاہے ہر کسی سے چھپی رہی تھی۔

لیکن برہان کے پاس جو نظر تھی اس سے مخفی نہ رہ سکتی تھی زیادہ دیر۔


اسے آج بھی یاد ہے کے اس رات وہ کتنا رویا تھا۔ کتنی ہی تکلیفوں اور اذیتوں سے گزرا تھا۔

وہ اس شدت سے بچوں کی طرح رویا تھا اپنا دل ٹوٹنے پر کے برہان کو اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔

پھر سنبھلنے کے بعد اس نے برہان کو پہلی اطلاع یہی دی کے وہ دبئی جا رہا ہے۔

تو اسکی حالت کے پیشے نظر برہان چاہ کر بھی اسے روک نہ پایا۔

پھر اس کے بعد تو مانو ایک طوفان برپا ہوا تھا۔

عثمان صاحب کو یاد رہ گیا تو بس اپنی بہن کا خسارہ۔

اپنی بھانجی کا دکھ۔

اردشیر کا یوں مریم کو نکاح کے فورا بعد اسے چھوڑ کر دبئی چلے جانا قطعا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

لوگوں کو تو انہوں نے جیسے تیسے سنبھال لیا تھا۔

مگر فاطمہ اور مریم کا دکھ ان سے دیکھا نہ جا رہا تھا۔

وہ دونوں اس دن کے بعد پھر دوبارہ کبھی برہان کو نظر نہ آئی تھیں۔


اردشیر نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی اور اسے حال میں واپس کھینچا۔

تو جیسے برہان کے گرد ایک سحر ٹوٹا تھا۔

وہ جلدی سے بولا۔

"آ۔۔۔ہاں۔۔۔پری۔۔۔ہاں میں یہ بتا رہا تھا کے پری نے آج میرے اینٹری لیتے ہی مجھ پر پھول برسائے۔۔۔وہ بھی گلاب کے"۔ برہان نے سنبھل کر مسکراتے ہوئے بتایا۔


وہ تو ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بے ضرر بات بھی اسے بتایا کرتا تھا۔

پھر اپنی بدلتی کیفیت وہ اپنے یار سے کب تک چھپاتا۔


"مت دل لگا ان سے۔ یہ جو صنف نازک ہوتی ہیں نا یہ صرف چہرے سے خوبصورت اور معصوم نظر آتی ہیں۔ میرا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی تو دل لگا رہا ہے؟"۔

اردشیر کے لہجے میں خدشات تھے-

بے اعتباری رچ بس گئی تھی اسکے دل میں۔

وہ تو اب اپنے سائے پر بھی اعتبار نہیں کرتا تھا۔


"شیرو، وہ ایسی نہیں ہے۔ وہ تو مجھ سے بہت جھجھکتی ہے۔ اور بے تکلف بھی نہیں ہوتی کسی سے اتنا۔ تو بس زیادہ سوچ رہا ہے"۔ برہان اسکے خدشات کو سمجھتا تھا۔

جو واہمے اسکے وجود سے لپٹ گئے تھے۔

وہ بہت شدید تھے۔


"تو نہیں سمجھے گا دوست، یہ حسین اور معصوم چہرے ہی تو دھوکا دے جاتے ہیں"۔ اسکا لہجہ ٹوٹے کانچ کی کرچیاں سمیٹ لایا تھا۔


اور برہان نے اسکے درد کو اپنے دل میں محسوس کیا تھا اس پل۔

●•••☆☆☆☆•••●


اپنے کمرے میں وہ پریشانی سے ادھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔

آج تین دن ہو چکے تھے اسکے خفیہ نکاح کو۔

اور گھر میں کسی کو کانوں کان خبر تک نہ تھی۔


مہک کے سر پر جیسے ہر وقت یہ تلوار لٹکتی رہتی تھی کے اگر عثمان غازی کو پتہ چل جاتا تو وہ کیا کرتے؟


آج کل وہ نہ باہر کہیں گھومنے جا رہی تھی۔

نہ شاپنگ نہ دوستوں سے ملنا۔

پریشانی اتنی تھی کے وہ اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئی تھی۔


اور اوپر سے گھر میں آج کل اسکی شادی کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔

اردشیر سے تو گھر والے مایوس ہو چکے تھے۔

اب انکی امیدوں اور خوشیوں کا محور بس وہ ہی تھی۔


"اووفف کیا کروں میں"۔ اس نے جھنجھلا کر کہا۔

اور اچانک ہی ایک کوندا سا لپکا تھا اسکے ذہن میں۔

جس کے تحت اس نے جلدی سے بلال کا نمبر ڈائل کیا۔

چند لمحے توقف کے بعد ہی دوسری جانب سے کال ریسیو ہوئی۔


"کہیئے بیگم صاحبہ" ۔ بلال نے چھوٹتے ہی کہا۔


"او شٹ اپ، وہ میری زندگی کی ایک بھیانک غلطی تھی۔ لیکن خیر، اب بھی وقت ہے۔ اور پھر نہ تو تم میرے معیار کے ہو اور نہ میں تمہارے ٹائپ کی۔ تو بس میں یہ چاہتی ہوں کے تم مجھے طلاق دے دو"۔ مہک نے بنا کسی پس و پیش کے اپنا مطالبہ بتایا۔

جس پر دوسری جانب ایک قہقہہ پڑا تھا۔

مہک نے غصے سے موبائل کو گھورا۔


"تم کیا سمجھتی ہو مہک بی بی، کے یہ سب کھیل ہے۔ جب جی چاہا کھیل لیا۔ جب جی چاہا ختم کر دیا کھیل۔ یہ میری زندگی ہے فار گاڈ سیک"۔ بلال ضبط کرتے کرتے بھی جیسے پھٹ پڑا۔


"تو پھر ٹھیک ہے نا، تم جو بھی قیمت بولو گے میں دینے کو تیار ہوں۔زرا سوچو، تمہاری لائف بن جائے گی۔ لیکن اگر اسکے بجائے ڈیڈ کو اس نکاح کا علم ہو گیا تو تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ بھی تم سے چھن جائے گا۔"۔ مہک نے اسے لالچ دیتے ہوئے ڈرانے کی بھی کوشش کی۔


"اچھا، چلو خیر ہے۔ لیکن پھر اپنا انجام بھی سوچ لیا ہے نا تم نے؟"۔ بلال نے جتاتے ہوئے کہا۔


جس پر اس نے تھوک نگلا۔

مگر بظاہر غصے سے بولی۔


"تمہاری اتنی ہمت بھی کیسے ہوئی کے مجھ سے اس طرح بات کرو، اور وہ میرے ڈیڈی ہیں۔ میری ہر غلطی معاف کر سکتے ہیں وہ، تو یہ بھی کر ہی لیں گے۔ مت دو تم مجھے طلاق۔ لیکن جب ڈیڈ کو پتہ چلے گا تو وہ خود ہی میری آزادی کا سامان کر دیں گے۔ پھر میں جانو یا وہ"۔ مہک کے لہجے میں اپنے باپ کیلئے یقین تھا۔


"باپ چاہے جتنا امیر ہو، اپنی بیٹی کو طلاق دلوانے سے قبل سو بار سوچے گا۔ اور پھر عثمان صاحب جتنے بڑے بزنس مین سہی، مگر خون تو ایک جاگیردار کا ہے نا۔ تو سوچ لو مہک بی بی کے کہیں پانسہ الٹا نہ پڑ جائے"۔ بلال نے کہتے ساتھ ہی رابطہ منقطع کر دیا۔


"ڈیم اٹ، ہاؤ ڈیئر ہی"۔ مہک نے غصے سے کھولتے ہوئے دماغ کے ساتھ موبائل فون دیوار پر دے مارا۔


"مجھے بھائی سے بات کرنی چاہیے، وہ غصہ کریں گے مگر سنبھال لیں گے"۔ مہک نے ایک حتمی فیصلہ کیا۔

اور اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔


اسکا رخ اب اردشیر کے کمرے کی اوور تھا۔

●•••☆☆☆☆•••●


وہ ابھی ابھی عشاء پڑھ کر فارغ ہوئی تھی۔

فاطمہ بیگم دواؤں کے زیر اثر سو رہی تھیں۔

ایک نظر انہیں دیکھ کر مریم کمرے سے ملحقہ بالکونی میں آگئی۔


جہاں سرد ہواؤں نے اسکا استقبال کیا۔

وجاہت اپنی ڈیوٹی پر واپس جا چکا تھا۔


ان دونوں خواتین کے ساتھ اب مریم اسکے گھر میں تھی۔

وہ ان دونوں کا اچھے سے خیال رکھ رہی تھی۔

حالانکہ گھر میں نوکر تھے۔

مگر وہ پھر بھی فاطمہ کے ساتھ ساتھ عاصمہ بیگم ( وجاہت کی ماں) کا بھی خیال رکھتی تھی۔


وجاہت کا دوست فیضان اسکی ہدایات پر وہاں چکر لگاتا رہتا تھا۔

حالانکہ اسکا اپنا گھر بار تھا۔

بیوی بچے تھے۔ مگر دوست کیلئے وہ وقت نکال کر وہاں آ جاتا تھا۔ یہ دیکھنے کے کہیں انہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں یا کوئی پریشانی تو نہیں۔


ان کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت،

نہ دیوار کی وہ صورت ہے، نہ در کی صورت!


وہ جب وہاں سے نکل رہا تھا تو ان سبز آنکھوں میں کچھ بہت الگ تھا۔ جسے مریم نے نوٹ کیا اور دنگ رہ گئی تھی۔

اسکی ان سبز آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا۔

جسے وہ چاہ کر بھی کوئی نام نہیں دینا چاہتی تھی۔


"نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی، میں کسی کی امانت ہوں۔ اس کو بھلے ہی میرا خیال نہ ہو لیکن خدا تو دیکھ رہا ہے نا"۔ مریم نے سیاہ بھیگی آنکھوں کو جھپک جھپک کر بہت سے آنسو اپنے اندر اتارے۔

اور گویا خود کو اس سے متعلق سوچنے سے بعض رکھنا چاہا۔


مگر اسے وہ آنکھیں ایک لمحے کو بھی نہیں بھول رہی تھیں۔

دل کا درد کچھ مزید بڑھا تھا۔


مگر اسکا خیال تھا کے آئے ہی جا رہا تھا۔

مریم بے بسی سے سر جھٹک کر رہ گئی۔


"یہ ٹھیک نہیں ہو رہا"۔ اس نے بے اختیار خود کو ملامت کیا۔

اور ان ہراساں کر دینے والے خیالات سے بچنے کیلئے ہی وہ پھر جائے نماز بچھا کر بیٹھ گئی۔

●••••☆☆☆☆••••●


"چٹاخ" اردشیر کا بھاری ہاتھ اسکے گال پر پڑا تھا، وہ لڑکھڑا کر چند قدم پیچھے جا گری۔

اس قدر بھاری ہاتھ پڑتے ہی مہک کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔


بے یقینی سے نگاہیں اٹھا کر غصے کی شدت سے سرخ پڑتا اسکا چہرہ دیکھا۔


"یہ صلہ دیا ہے تم نے ہماری محبتوں کا، ہمارے بھروسے کا۔ ہم نے تمہیں اتنی آزادی دی تو اسکا مطلب یہ نہیں تھا کے تم یوں ہماری عزت کو ٹھوکر مار دو"۔ غصے کے ساتھ ہی اسکی آواز میں بے تحاشا دکھ اور صدمہ تھا۔


"نہیں بھائی۔۔۔پلیز۔۔۔۔ایسا مت کہیے۔ مانتی ہوں میری غلطی ہے پر اس وقت میں اپنے حواسوں میں نہیں تھی"۔ مہک نے شدت سے روتے ہوئے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔


"مانا کے تم نے اپنی نادانی میں یہ قدم اٹھایا۔ لیکن نکاح کرنے کیلئے تمہیں ہمارا وہ معمولی ایمپلائی ہی ملا تھا۔ اسے اتنی اہمیت دے کر تم نے بالکل بھی اچھا نہیں کیا"۔


"بھائی پلیز۔۔۔مجھے معاف کر دیں"۔ وہ ہنوز روئے جا رہی تھی۔ اردشیر نے نفی میں سر ہلایا۔


"جس طرح تم نے اتنی بڑی حماقت کی ہے۔ اب تم چل کر خود ڈیڈ کو یہ سب بتاؤ گی"۔ اس نے قطیت سے کہا۔

اسکی بات پر مہک نے تڑپ کر اسے دیکھا۔


"نہیں بھائی پلیز۔۔۔۔ڈیڈ کو پتہ چلا تو وہ میری جان لے لیں گے۔ آپ پلیز کچھ کریں۔۔۔آپ۔۔۔آپ بلال کو کہیں کے۔۔۔وہ مجھے طلاق دے دے۔۔۔ڈیڈ کو کچھ بھی پتہ نہیں چلے گا۔۔۔پلیز سیو می"۔ وہ اسکے پیروں میں گری گڑگڑا رہی تھی۔

سارا غرور، رُعب، طنطنہ سب غائب ہو گیا تھا۔

اب وہ بے بسی کی تصویر بنی تھی۔


اردشیر نے سختی سے لب بھینچ لیئے۔

کچھ بھی ہو پر اپنی بہن اسے بے حد عزیز تھی۔

بالآخر اسکے آنسو دیکھ کر دل پسیج گیا۔

اس نے مہک کو شانوں سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔

اور اسکے سر پر ہاتھ دھرا۔


"رونا بند کرو۔۔۔میں خود تو اس نکاح کے چکر میں پھنس گیا مگر تمہیں میں کسی ان چاہے رشتے کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا۔ تم بس خاموش رہو۔ جب تک میں یہ سب سیٹل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ڈیڈ کو بھولے سے بھی کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے۔۔۔انڈرسٹوڈ؟"۔ اس نے اسے تسلی دی۔


تو مہک نے بھیگی آنکھوں سمیت اثبات میں سر ہلا دیا۔

●•••☆☆☆☆•••●


مگر تقدیر پر کسی کا زور چلتا ہے۔

کوئی کتنی بھی دولت جمع کر لے بہرحال قسمت جب پانسہ پلٹتی ہے تو انسان اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔


اردشیر کے کچھ بھی سیٹل کرنے کی نوبت نہ آئی تھی۔

کیونکہ اس وقت مہک اور بلال کے نکاح نامے کی وہ کاپی عثمان غازی کے ہاتھوں میں تھی۔

جسے دیکھ کر انکے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا۔ تو دوسرا جا رہا تھا۔


ابھی کچھ دیر قبل ہی ایک غیر شناسا نمبر سے انہیں کال آئی تھی۔

اور جو ہوشربا انکشاف اس نے کیا عثمان صاحب بے اختیار بستر پر گر گئے تھے۔


انہوں نے یقین کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

جس کے نتیجے میں کال کرنے والے نے نکاح نامے کی کاپی بطور ثبوت انہیں بھجوائی تھی۔


آہستہ آہستہ ان کا صدمہ شدید غصے میں بدلا اور وہ تن فن کرتے ہوئے لاؤنج میں کھڑے اب چیخ چیخ کر سب کو پکار رہے تھے۔


انکی پکار سن کر وہ سب فورا وہاں بھاگے چلے آئے تھے۔

نگہت بیگم نے بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔


پانچ سال قبل بھی تو ایسا ہی شور مچا تھا۔

جس کے نتیجے میں انکو نا قابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔


"اللہ خیر کرے، کیا ہوا ہے عثمان صاحب؟" نگہت بیگم نے پریشانی سے انکا لال بھبھوکا چہرہ دیکھا۔


انہوں نے ایک تیز نظر فاصلے پر کھڑی مہک پر ڈالی۔

اردشیر بھی وہاں موجود تھا۔


"اب کیا ہوا ہے؟"۔ اس نے بظاہر سنجیدگی سے پوچھا۔

مگر ان کے انداز پر اسکا ماتھا ٹھنکا تھا۔


"جانتے ہو تم لوگ کے یہ کیا ہے؟"۔ انہوں نے خاکی لفافہ ان سب کے سامنے لہرایا۔


"کیا ہے یہ عثمان صاحب؟"۔ نگہت بیگم نے پوچھا۔


"یہ تمہاری لاڈلی کے کرتوت ہیں نگہت بیگم، تمہاری دونوں نالائق اولادوں نے مجھے کہیں منہ دکھانے کے قبل نہیں چھوڑا۔ پہلے اس نا خلف نے میرے ماتھے پر بد نامی کی مہر ثبت کی۔ اور اب بچی کھچی کثر اس کمبخت نے پوری کر دی ہے"۔ انہوں نے باری باری دونوں کو گھورا۔


مہک کا خوف سے خون خشک ہو چکا تھا۔

اس کا دل چاہا زمین شق ہو اور وہ اس میں سما جائے۔


وہ تیز قدموں سے اسکی جانب بڑھے تھے مگر عین اسی وقت اردشیر ان کے سامنے دیوار بن گیا۔

تو وہ جو مہک کی گردن دبوچنے جا رہے تھے۔

اس گستاخی پر خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔


"آرام سے ڈیڈ۔ اور اس تک پہنچنے کیلئے پہلے آپ مجھ سے بات کریں"۔ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔


جس پر عثمان صاحب بھونچکا رہ گئے تھے۔


"بہت خوب نگہت بیگم، دیکھ رہی ہو اپنے سپوت کو۔ اتنی ہمت بڑھی ہے اسکی کے یہ آج مجھے۔۔۔عثمان غازی کو دھمکا رہا ہے"۔ انہوں نے زور زور سے اپنے سینے پر دستک دیتے ہوئے کہا۔

اردشیر پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چبھتی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔


جبکہ مہک مکمل طور پر اسکے عقب میں چھپی ہوئی تھی۔

اسکے تاثرات نا قابل بیان تھے۔

لگ رہا تھا عثمان صاحب کی ایک اور گھن گرج کے نتیجے میں وہ گر پڑے گی۔


"کچھ بتائیں تو کے ہوا کیا ہے؟"۔ نگہت بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔


"ہونا کیا ہے۔۔۔تمہاری اس لاڈلی نے نکاح کر لیا ہے۔۔۔نکاح۔۔۔وہ بھی بلال کے ساتھ"۔


الفاظ تھے یا کیا جو نگہت بیگم کو کوڑے بن کر لگے تھے۔

اور اس سے زیادہ انکے پیر مزید بوجھ نہ سہار سکے۔

اور وہ لہرا کر زمین پر گر گئی۔


"امی"۔ وہ سب چیخ کر انکی جانب متوجہ ہوئے تھے۔

فورا سے پیشتر ڈاکٹر کو طلب کیا گیا۔

پھر اس نے چیک اپ کے بعد نگہت بیگم کیلئے کچھ دوائیاں تجویز کیں۔

انکا بی-پی شوٹ کر گیا تھا۔

اس اچانک ملنے والے جھٹکے کی وجہ سے۔

ڈاکٹر اپنا کام کر کے جا چکا تھا۔


عثمان صاحب کمرے میں ادھر سے اُدھر ٹہلتے اب بھی کافی غصے میں تھے۔

مگر نگہت بیگم کی حالت کے پیش نظر وہ خاموش ہوئے تھے۔


اردشیر وہی بیڈ پر ان کے پاس بیٹھا تھا جبکہ مہک کی تو اتنی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی کے وہ عثمان غازی کے سامنے بھی آتی۔

لہٰذا وہ اس وقت سے اپنے کمرے میں بند ہو کر رہ گئی تھی۔

جبکہ بے جی بھی نگہت بیگم کے دوسری جانب بیٹھیں تسبیح کر رہی تھیں۔


اردشیر کے ہاتھوں میں موجود نگہت بیگم کے ہاتھ میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔

اس نے نگاہیں موڑ کر دیکھا تو وہ اب آنکھیں کھولے ارد گرد دیکھ رہی تھیں۔


"ممی، آپ ٹھیک ہیں؟"۔ اردشیر نے ان سے پوچھا۔

تو انہوں نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

پھر عثمان صاحب کی جانب متوجہ ہوئیں۔


"عثمان صاحب، اسے معاف کر دیجئے۔۔۔وہ نادان ہے اور۔۔۔


"بس نگہت بیگم بس"۔ انکی نقاہت زدہ لہجے کے جواب میں وہ پھٹ پڑے تھے۔

وہ تب سے بھرے بیٹھے تھے۔

اور اب اپنی بھڑاس نکال رہے تھے۔


"تمہاری اسی شے کی وجہ سے وہ اتنی بے لگام ہوئی ہے۔ اگر تم اسے لگام لگا لیتی تو وہ یوں ہماری غیرت کو للکارنے کی گستاخی نہ کرتی۔ مان لو نگہت بیگم کے تم اپنی پرورش میں کہیں چوک گئی ہو۔ کہیں تو کمی رہ گئی ہے ہماری پرورش میں جو یہ آج ہماری اولادیں ہمیں یہ دن دکھا رہی ہیں"۔ اردشیر کو طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ پھنکارے۔


"بس کر عثمان، آج تک میں تیری ہر بات سنتی آئی ہوں۔اور تو نے اپنی نوجوانی میں جو کیئے تو کیا میں نے اور تیرے باپ نے تجھے معاف نہیں کر دیا تھا؟۔" بے جی نے پہلی بار مداخلت کی۔

جس پر عثمان صاحب نے سختی سے لب بھینچ لیئے۔


"تو نے اپنی مرضی سے شہر میں کاروبار جمانے کی ضد کی، اپنی مرضی سے ہمارے علم میں لائے بغیر شادی رچا لی۔ مگر ہم نے سب قبول کر کے تجھے کیا سینے سے نہیں لگایا پھر؟"


انکی بات پر وہ خاموش رہے۔


"خدا جب اپنے بندوں کو والدین کے درجے عطا کرتا ہے نا تو اسے اتنا بڑا کلیجہ بھی دیتا ہے کے جس میں اولاد کی ہر غلطی کو نظرانداز کرنے اور معاف کرنے کی ہمت ہوتی ہے"۔


"اردشیر کو تو کس لیئے سزا دیتا ہے؟ اسکا قصور کہاں تھا؟"۔

انہوں نے آج پہلی بار یہ سوال کیا تھا اپنے بیٹے سے۔


"تو اماں اب آپ ہی بتائیں کے میں کیا کروں؟ کیسے اپنی طرف بڑھتے اس بدنامی کے طوفان کو روکوں؟"۔ عثمان صاحب نے زچ ہو کر جیسے رسی کا سرا انکے ہاتھ میں تھما دیا۔


"ٹھنڈ رکھ پتر، مسئلے ایسے غصے کرنے سے حل نہیں ہوتے۔ اور اب اس نے نکاح کر ہی لیا ہے جب تو راضی خوشی اسے اپنے گھر کی کر دو۔ ایک بار عورت اپنے گھر کی ہو جاتی ہے نا تو اس میں سمجھ اور سوجھ بوجھ خود ہی آ جاتی ہے۔ تم لوگوں نے اسے اتنا سر چڑھا رکھا تھا۔ اسی دن کیلئے ٹوکتی تھی میں۔ اب جو ہوا سو ہوا۔ اسے بلال کے ساتھ رخصت کر دو۔ اسی میں ہم سب کی بہتری ہے"۔ بے جی نے اپنی طرف سے توجیح پیش کی۔


"لیکن بے جی وہ میرے کمپنی کا ایک ملازم ہے۔" عثمان صاحب بے بسی سے بولے۔


"انسان تو سب برابر ہوتے ہیں میرے بچے، دولت یا شہرت انہیں چھوٹا بڑا نہیں بناتی۔ بلکہ انکا طرز زندگی بناتا ہے۔ اور پھر وہ میری بہن کا پوتا ہے"۔ انہوں نے مسکرا کر بتایا۔

نگہت بیگم بھی بے جی کی بات سے متفق نظر آتی تھیں۔


"یہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ گزارا نہیں کر سکے گی بلال کے ساتھ۔ پھر فائدہ کیا ایسے زبردستی کے نکاح کا؟"۔ اردشیر نے مداخلت کی۔


"تم چپ رہو، اپنی زندگی تو تم نے برباد کر ہی لی ہے اس گھر سے بھاگی ہوئی کے پیچھے۔ اب کیا اپنی بہن کی زندگی بھی برباد کرنی ہے تم نے؟"۔ عثمان صاحب نے اسے جھڑک دیا۔


"وہ لڑکی ذات ہے بیٹا، اور خدا نے عورت کے مزاج میں ایسی لچک رکھی ہے کے وہ جیسا ماحول ہو اسکے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہے"۔ نگہت بیگم نے اسے سمجھایا۔


"نہیں، جو زبردستی آپ لوگوں نے میرے ساتھ کی تھی میں وہ بہن کے ساتھ آپ کو نہیں دہرانے دوں گا۔ مہک نہیں جائے گی بلال کے گھر"۔ وہ ہنوز اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔


"تو کیا کرو گے برخوردار؟ اسے ساری زندگی گھر میں بٹھا کر رکھو گے؟" عثمان صاحب نے طنز کیا۔


"میں نے یہ نہیں کہا۔ لیکن وہ لڑکا مہک کے قابل نہیں ہے" اردشیر نے بے بسی سے بس اتنا کہا۔


"شاباشے، تو تب اسکی عقل گھاس چرنے گئی تھی جب وہ اس سے نکاح نامے پر دستخط کروا رہی تھی؟۔۔۔۔کیا اس نے کہا تھا کے آ کر مجھ سے نکاح کر لو؟"۔ عثمان صاحب بھڑک اٹھے تھے۔


اور انکی اس بات کا جواب اردشیر کے پاس بھی نہیں تھا۔

وہ لب بھینچ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔


بے جی، عثمان صاحب اور نگہت بیگم نے خاموشی سے اسے جاتے دیکھا۔


"بلال کو فون کر کے بلواتا ہوں بات کرنے کو"۔ عثمان صاحب ان دونوں کو بتاتے ہوئے موبائل پر بلال کا نمبر پش کرنے لگے۔

●••••☆☆☆☆••••●

(گیارہ دن بعد)


آج وہ دونوں آخری پیپر دے کر گھر آئیں تھیں۔

اور اب گویا سکون ہی سکون تھا۔

وہ دونوں مزے سے زیادہ تر سوئی ہوئی ہی پائی جاتی تھیں۔


آج کل گھر میں مہرو کی شادی کی تیاریوں نے زور پکڑ لیا تھا۔

آئے دن بازاروں کے چکر لگتے تھے۔

تو کبھی درزی کے۔


غرض سارے گھر والے خوشی اور جوش سے اسکی شادی کی تیاریوں میں لگے تھے۔

اور خود وہ ہر چیز سے بے نیاز بس اپنی نیند پوری کرنے میں لگی تھی۔


زرش البتہ افشاں بیگم کا بھر پور ساتھ دے رہی تھی۔

اور آج بھی وہ دونوں مہرو کی شاپنگ کرنے بازار گئے ہوئے تھے۔

کیونکہ کل اسکی مایوں تھی۔


یہ سب اتنی جلدی تو نہیں ہونا تھا مگر بلال نے اچانک ہی جلدی جلدی کا شور ڈال دیا تھا۔

یہ کہہ کر کے اگلے ماہ وہ بزنس کے کام سے کینیڈا جا رہا ہے۔

اور وہاں اسے چھ مہینے کا کنٹریکٹ پورا کرنا ہے۔

جس کیلئے وہ اگریمینٹ سائن کر چکا تھا۔


مہرو کی شادی دو ماہ بعد ہونا تھی۔

مگر جب بھائی ہی شریک نا ہوتا تو کاہے کی شادی؟

لہٰذا مہرو کی ضد تھی کے بلال کو اسکی شادی میں ہونا ہے۔ ہر حال میں۔


اس دن جب عثمان صاحب کی اسے کال آئی تھی تب وہ گھبرایا گھبرایا سا انکے گھر پہنچا تھا۔

اور وہاں اسکے پہنچتے ہی جو سوال اس سے پوچھا تو اسکے ہوش ہی اڑ گئے۔


"تمہارا نکاح ہو گیا ہے بلال؟"۔ عثمان صاحب نے ڈرائنگ روم میں اپنے سامنے والے صوفے پر بیٹھے بلال سے پوچھا۔


اس وقت وہ اور نگہت بیگم وہاں براجمان تھے۔

باقی گھر کا اور کوئی فرد وہاں موجود نہ تھا۔

بلال کو امید نہیں تھی کے عثمان صاحب کو اتنی جلدی علم ہو جائے گا۔


"جی۔۔۔جی ہو گئی ہے"۔ اس نے سر جھکائے جواب دیا۔


"ہوں" انہوں نے ہنکار بھرا۔


"کس سے؟ جہاں تک میرے علم میں ہے شادی تو تمہاری بہن کی ہو رہی تھی۔ پھر تم نے اپنی شادی کیسے کروالی؟"۔ وہ سب جانتے تھے پر جانے کیوں اس سے اعتراف کروانا مقصود تھا۔


اور پھر تناؤ کی سی کیفیت میں زرا سی پس و پیش کے بعد بلال انہیں سب بتاتا چلا گیا۔

جب وہ شروع سے آخر تک سب بتا چکا تو خاموش ہو گیا۔

پھر سر جھکا کر جیسے ان سے سزا سننے کا متمنی ہوا۔


"ہوں۔ کم از کم تمہیں مجھے اعتماد میں لینا چاہیے تھا بلال، شاید ہم کوئی حل نکال ہی لیتے"۔ ان کا اشارہ اس بات کی جانب تھا کے تم نے مجھے خود سے کیوں نہیں پہلے بتایا اپنے اور مہک کے نکاح سے متعلق۔


بلال ان کی بات سمجھ گیا تھا۔

مگر وہ بے بسی سے خاموش رہا۔ اب وہ انہیں کیا بتاتا کے اس دن کے بعد وہ خود کتنا پریشان رہا تھا کے اگر عثمان صاحب کو پتہ چلا تو شاید اسے اپنی نوکری اور جان دونوں کی کال پڑ جاتی۔


"خیر، جو ہوا سو ہوا۔ اب جیسے بھی سہی نکاح تو ہو چکا ہے۔ اور طلاق تو سب سے غلیظ شے سمجھی جاتی ہے ہمارے معاشرے میں بیٹا۔ ہم اپر سوسائٹی کے ہیں ضرور، مگر بے جی کی تعلیمات ہمیشہ ہمارے شامل حال رہی ہے۔ اس لیئے آج بھی اچھے برے میں فرق نہیں بھولے۔ اور بچپنے میں ہی سہی پر مہک نے اپنی زندگی میں پہلی بار کوئی درست فیصلہ کیا ہے۔ تمہیں ہمسفر چن کے"۔ نگہت بیگم نے مسکرا اسی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


بلال دم سادھے، سر جھکائے انہیں سن رہا تھا۔

اسے لگا جیسے اسکے سامنے افشاں بیگم بول رہی ہیں۔


"تو ہم یہی چاہتے ہیں کے اب مہک کو تمہارے ساتھ رخصت کر دیں گے۔ تمہاری کیا رائے ہے۔ کیا تم اس نکاح کو قائم رکھنا چاہو گے یا۔۔۔۔


"نہیں سر" عثمان غازی کے جملہ مکمل کرنے سے قبل ہی وہ بے ساختہ بولا۔


"آپکی بات درمیان میں قطع کرنے کیلئے معذرت خواہ ہوں۔ مگر میں اس نکاح کو قائم رکھنا چاہتا ہوں"۔ اس نے سر جھکائے کہا۔


تو نگہت بیگم کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔

ورنہ انہیں ڈر تھا کے بلال شاید اس طلاق پر راضی ہوگا۔

اور ایک ماں کیلئے اس سے برا اور کیا ہو سکتا ہے۔ کے اسکی جوان جہاں بیٹی مطلقہ بن کر گھر بیٹھ جائے۔


"ٹھیک ہے، پھر میں چاہتا ہوں جلد از جلد تم مہک کو رخصت کر کے لے جاؤ"۔ عثمان غازی نے ماتھے پر بل ڈالے کہا۔


"میں آپکی بات سمجھتا ہوں۔۔۔مگر"۔ وہ رکا۔


"مگر کیا؟"۔ وہ دونوں چونکے۔


"میں نہیں چاہتا کے ان سب کا اثر مہرماہ کی شادی پر پڑے۔ دو ماہ بعد اسکی شادی ہے۔ کیا اسکے بعد میں رخصتی کر سکتا ہوں؟"۔ بلال نے اپنی بات کہنے کے ساتھ ہی ان سے بھی پوچھا۔


جس پر نگہت اور عثمان غازی نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اسے۔


"ٹھیک ہے، پھر مہرماہ کی شادی جلد کرنے کی کرو۔ اسکے بعد تم مہک کو رخصت کرکے لے جاؤ۔ اس طرح تمہاری بھی بات رہ جائے گی اور ہماری بھی"۔ عثمان صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔

تو بلال کو مانتے ہی بنی۔

اس کیلئے اتنا ہی بہت تھا کے مہرو کی شادی پر اسکی وجہ سے کوئی آنچ نہ آتی۔


"رخصتی کے فورا بعد تم کچھ عرصے کیلئے اسے لے کر کہیں ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں اردشیر کا سایا بھی کچھ عرصے کیلئے تم دونوں پر نہ پڑے۔ دیکھو بلال، وہ میرا بیٹا ہے اور میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس سے کچھ بھی بعید نہیں وہ کیا کر گزرے گا۔ کیونکہ اسکا یہ ماننا ہے کے مہک کے ساتھ ہم زبردستی کر رہے۔ ہم جانتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ مہک بھی اس رشتے کو قبول کر لے گی"۔ عثمان غازی نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔


"ٹھیک ہے سر، اگلے پندرہ دن کے اندر مہرو کی شادی ہو گی۔ پھر اسکے رخصت ہونے کے ٹھیک بعد میں اپنے گھر والوں سے بات کرکے رخصتی کروا دوں گا"۔ بلال نے رضامندی ظاہر کی۔


جس پر وہ دونوں بھی مطمئن نظر آ رہے تھے۔

●•••☆☆☆☆•••●


جب سے اس نے سنا تھا کے عثمان صاحب بجائے طلاق کروانے کے اسکی رخصتی کرنے جا رہے تھے۔

رو رو کر اسکا برا حال تھا۔

اب وہ کس منہ سے جا کر انکو انکار کرتی۔

یا اپنی بات منواتی۔


اردشیر آہستگی سے اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔

آگے بڑھ کر اس نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر کمرہ روشن کر دیا۔


مہک نیچے قالین پر گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی۔

آہٹ پر بھی سر نہیں اٹھایا۔

کیونکہ وہ بنا دیکھے بھی بتا سکتی تھی کے آنے والا اسکا بھائی ہے۔


"مہک، اٹھو گڑیا، کھانا کھا لو۔ ملازم بتا رہے تھے تم نے دوپہر سے کچھ نہیں کھایا"۔

وہ کھانے کی ٹرے اٹھائے وہی نیچے اسکے مقابل بیٹھ گیا۔


ٹرے رکھ کر اسکا چہرہ اٹھایا۔

جس پر آنسوؤں کی سوکھی لکیریں تھیں۔

رو رو کر اس نے اپنی آنکھیں سوجا لی تھیں۔

اردشیر کا دل دکھ سے بھر گیا۔

اسے بے اختیار وہ رات یاد آئی جب وہ خود بھی یونہی روتا رہا تھا۔


"کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا۔ جاؤ پہلے فیس واش کر کے آؤ۔ کم آن گیٹ اپ، اینڈ بی آ گڈ گرل"۔ اس نے اسے بچوں کی طرح پچکارا۔


مگر مہک کے وجود میں پھر بھی کوئی جنبش نہ ہوئی۔

وہ بس یک ٹک اردشیر کو ہی دیکھ رہی تھی۔

اور آنکھیں ایک مرتبہ پھر برسنے کو بے چین ہو اٹھیں۔


"آپ نے۔۔۔کہا تھا کے۔۔۔آپ سب ٹھیک کر دیں۔۔۔آپ سب سنبھال لیں گے۔۔۔تو آپ نے کیوں نہیں سنبھالا بھائی؟"۔ وہ شکایتی نظروں سے دیکھ رہی تھی اسے۔


اور زندگی میں پہلی بار اردشیر کو اپنی چھوٹی بہن سے نظریں چرانا پڑھ رہی تھی۔


"دیکھو مہک بیٹا، میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے ڈیڈ کو منانے کی۔ مگر تم تو جانتی ہو نا انکی ضد؟ جس بات میں انکی انا شامل ہو جاتی ہے پھر وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹتے"۔ اردشیر نے دھیرے سے کہا۔ گویا اپنی مجبوری بیان کی۔


"تو اسکا مطلب ہے کے آپ نے بھی ڈیڈ کے فیصلے کو مان لیا ہے۔ اور اب مجھے یہاں خوشی خوشی رخصت ہونے کیلئے منانے آئے ہیں؟"۔ مہک نے طنزیہ لہجے میں کہا۔


"نہیں مہک، ہر گز نہیں تم بلال سے شادی نہیں چاہتی نا؟"۔ اس نے سوال کیا۔


تو مہک نے ہولے سے نفی میں سر ہلایا۔


"تو ٹھیک ہے۔ پہلے تم اچھی بچی کی طرح کھانا کھاؤ۔ پھر میں کچھ سوچتا ہوں"۔ اس نے نوالہ اسکی جانب بڑھایا۔


تو مہک نے اثبات میں سر ہلا کر ہولے سے منہ کھول دیا۔


"اوفف، بھائی اتنا سارا تیل گھی والا کھانا۔ اور مرچیں"۔ مہک نے پہلے ہی نوالے میں سی سی کرتے ہوئے منہ بنا کر کہا۔

تو اردشیر اسکا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر ہنس دیا۔


"کچھ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ڈائیٹ سے ہٹ کر کھا لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں"۔ اس نے دوسرا نوالہ اسکی جانب بڑھایا۔


"آپ کو تو منع نہیں کر سکتے اب"۔ مہک نے منہ پھلا کر کہتے ہوئے دوسرا نوالہ لیا۔


دروازے پر ہی استادہ نگہت بیگم نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے یہ منظر دیکھا۔

●•••☆☆☆•••●


شادی کی تیاریاں زور و شورو سے جاری تھی۔

افشاں بیگم تو دو مہینے کا سوچ کر پہلے خوش تھیں۔

مگر صرف پندرہ دن میں شادی کی تیاریوں کا سوچ کر ہی ان کے ہاتھ پاؤں رہے تھے۔


باقی کی شاپنگ تو وہ زرش اور بلال کے ساتھ مل کر کر رہی تھیں۔


رخسانہ بیگم انکے گھر آئی بیٹھیں تھی۔

ساتھ احد بھی تھا۔

خوش شکل، درمیانے قد و قامت کا احد دیکھنے میں اتنا ہینڈسم تو نہ تھا۔ مگر اسکی ڈریسنگ سینس کمال تھی۔ جسکی وجہ سے وہ پر وقار لگتا تھا۔

مہرو سے چار سال بڑا۔


رخسانہ بیگم کے ساتھ ثناء بھی تھی۔

جو مہرو اور زرش کے ساتھ مہرو کے کمرے میں بیٹھی تھی۔


وہ برائیڈل ڈریس کی خریداری کرنے کیلئے ہی مہرو کو اپنے ساتھ لے جانے آئے تھے۔

تاکہ وہ اپنی پسند سے عروسی جوڑا خریدے۔


افشاں بیگم کو بھی کیا اعتراض تھا۔

البتہ زرش کو بھی انہوں نے ان کے ساتھ کر دیا تھا۔


مہرو اسٹائلش سے گلابی اور سفید رنگ کے امتزاج والے فراق میں ملبوس تھی۔ ہلکے گھنگھریالے بھورے بالوں کو اس نے کھلا چھوڑ دیا تھا۔

احد کی نظریں اس پری چہرہ کے وجود سے الجھ جاتی تھی۔

دل ہی دل میں وہ اپنی ماں کی پسند کو داد دے رہا تھا۔


وہ لوگ اب مال میں ایک دکان سے مہرو کے لیئے دلہن کا جوڑا پسند کر رہے تھے۔


"یہ دیکھو بیٹا، یہ ریڈ اینڈ گرین کلر کیسا ہے"۔ رخسانہ بیگم نے ایک خوبصورت سبز و سرخ رنگ کا بھاری کام والا لہنگا اسکے سامنے پھیلایا۔

جو آنکھیں چندھیا رہی تھی۔

مہرو کو بے حد پسند آیا۔


"یہ ٹھیک رہے گا"۔ اس نے موتیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

تو رخسانہ بیگم مسکرا دی۔


"مہرماہ، آپ میرے ساتھ آئیے کچھ دکھانا ہے"۔ احد نے اسے مخاطب کیا تو اس نے نگاہیں اٹھا کر رخسانہ بیگم اور زرش کو دیکھا۔

"جاؤ مہرو"۔ زرش نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔

رخسانہ بیگم نے بھی مسکرا کر تائید کی۔


جس پر وہ جھجھک کر احد کے ساتھ چل دی۔


وہ اسے لیئے ایک جیولری شاپ میں آ گیا تھا۔


"نیکلس دکھائیں وہ جو میں ابھی پسند کر کے گیا تھا"۔ احد نے دکاندار سے کہا۔


تو اس نے سر ہلا کر وہ بیش قیمتی ہیروں کا ہار ان کے سامنے رکھا۔


"یہ دیکھو، میں نے تمہارے لیئے سیلیکٹ کیا ہے۔ کیسا لگا تمہیں؟ پسند نہ آیا تو کوئی اور دیکھ لیں گے"۔ احد نے نرمی سے اسے مخاطب کیا۔

تو مہرو کیلئے پلکیں اٹھانا مشکل ہو گیا۔


"جی۔۔۔اچھا ہے"۔ اس نے آہستگی سے کہا۔


"صرف اچھا، ویسے ثناء تو بتا رہی تھی کے آپ کافی زیادہ بولتی ہیں۔ لیکن میرے سامنے تو آپ تب سے خاموش سی ہیں"۔ احد نے شرارت سے کہا۔


ساتھ ہی دکاندار کو وہ نیکلس پیک کرنے کی بھی ہدایت کی۔


"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے"۔ مہرو خجل سی ہو گئی کے اب مزید کیا کہے۔


تو اسکا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر احد بے ساختہ ہنس پڑا۔

پھر اسکا ہاتھ تھام کر ایک خوبصورت دل شیپ والا بریسلٹ باندھنے لگا۔


مہرو نے حیرت سے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


دور شیشے کی دیوار کے پار سے یہ منظر اردشیر کی نگاہوں سے گزرا۔

جو موبائل کان سے لگائے وہاں سے گزر رہا تھا۔


"بلال کی بہن"۔ اس نے آنکھیں چھوٹی کر کے مہرو کو دیکھا۔ جس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھی۔ اور ہونٹوں پر ایک آسودہ سی مسکان تھی۔ اسکا ہاتھ احد کے ہاتھ میں تھا۔


اس نے ایک نظر انہیں دیکھا۔

پھر آگے بڑھ گیا۔


جبکہ مہرو اس سے انجان اب بھی احد کو ہی دیکھ رہی تھی۔

یہ سوچ کر کے شاید یہ ہی اب اسکا ہمسفر تھا۔

کیا واقعی؟

●•••☆☆☆☆•••●


وہ بالکونی میں کھڑا سگریٹ انگلیوں کے درمیان تھامے، کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔

وہ سگریٹ کا عادی نہیں تھا۔

مگر پریشانی اتنی تھی کے کل سے وہ لگاتار پی رہا تھا۔


اسکی نگاہوں کے سامنے بار بار مہک کا آنسوؤں سے تر چہرہ آ جاتا تھا۔

سوچ سوچ کر اسکا دماغ سن ہو رہا تھا کے وہ آخر عثمان غازی کے فیصلے کو بدلے تو بدلے کیسے؟


کیسے بلال کو مجبور کرے کے وہ مہک کو اس ان چاہے رشتے میں باندھنے کے بجائے آزاد کر دے۔


وہ آنکھیں چھوٹی کیئے ہنوز باغیچے کے وسط میں لگے اس مصنوعی فوارے کو دیکھ رہا تھا۔

جس پر ایک جل پری کی شبیح بنی تھی۔

جس کے بال گھنگھریالے تھے۔

جس کے ہاتھوں میں مٹکا تھا۔

اور اس مٹکے میں سے آبشار بہتا تھا۔


دیکھتے ہی دیکھتے اس پتھر کی مورت کا چہرہ بدلنے لگا۔

اس میں رنگ بھرنے لگا جیسے۔


اسکی پتھرائی ہوئی آنکھوں اب روشن، چمکتی بھوری آنکھوں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔

اسکے باہم پیوست لب گلابی مائل شنگرفی مسکراتے لبوں میں بدل گئے تھے۔

اسکے پتھریلے بال اب لمبے گھنگھریالے بھورے بالوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔


اردشیر کی آنکھیں پوری کھل گئی۔

وہ جل پری مکمل مجسم بنی ہوئی تھی اسکے سامنے۔

اب اسکی جگہ وہ گلابوں سی لڑکی کھڑی تھی۔

وہ کتنی بے نیاز تھی اس سے؟

اتنی بے خبر کے اردشیر کی اٹھتی نظریں بھی اسے خود پر محسوس نہ ہوتی تھی۔

وہ ہنوز سامنے دیکھتی مسکرا رہی تھی۔


اردشیر نے سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے دھوئے کا مرغولہ اڑایا۔


مال کا کچھ دیر پہلے والا منظر بے اختیار اردشیر کی نظروں کے سامنے آ گیا تھا۔


اسکے لبوں پر ایک طنز بھری مسکراہٹ رینگ گئی۔

اب اسے بہت کچھ سمجھ آ رہا تھا۔


"میں یہاں آپ سے معذرت کرنے آئی ہوں"۔

اسکے ذہن میں گزری ملاقات کی آواز ابھری۔


"بلال بھائی کو کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے"۔

مہرو کی آواز اسے بہت دور کہیں سنائی دی تھی۔

ان جملوں کی جو اب ماضی بن گئے تھے۔


اس نے سگریٹ پھینک کر اپنے جوتے سے مسل ڈالی۔

پھر موبائل جیب سے نکال کر اس پر کوئی نمبر پش کرنے گا۔


کسی کو کال ملانے کے بعد وہ موبائل کان سے لگائے اب انتظار کرنے لگا۔

چند لمحے توقف کے بعد دوسری جانب سی کال ریسیو ہوئی۔


"ہاں اردشیر بولو کیا بات ہے؟"۔ مردانہ آواز گونجی۔


"مجھے آج ابھی اسی وقت آپ سے ملنا ہے خاور انکل"۔ اس نے اپنے فیملی لائر (Lawyer ) سے کہا۔


"کس سلسلے میں؟" انہوں نے چونک کر پوچھا۔


"کچھ خاص نہیں، بس کوئی کام کروانا ہے آپ سے"۔

اس نے تلخی سے مسکرا کر کہا۔


اسکی آنکھوں میں ویسی ہی چمک تھی۔

جیسے ہرن کو دیکھ کر شیر کی آنکھوں میں ابھر آتی ہے۔

وہ اس وقت سامنے والے گھر میں موجود تھا۔

جو سفیان قریشی کا تھا۔

ان کے اپنے گھر میں لڑکیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔

لہٰذا بلال اور جہانزیب صاحب رات سونے کیلئے سامنے والے گھر میں ہی موجود ہوتے تھے۔

اور انکی اپنی محفل ہوتی تھی۔ جہاں صرف مرد حضرات ہی ہوتے تھے۔


زرش بھی سارا دن ہی ان کے گھر گزارتی تھی۔

افشاں بیگم کی مدد کرنے اور کئی دوسرے کام سنبھالنے کیلئے۔

رات دیر تک جاگ کر وہ لڑکیاں ہلا گلا کرتی تھیں اور پھر وہی ان کے گھر سو جاتی تھیں۔

ہر اچھی دوست کی طرح مہرو کی سہیلیوں نے بھی ایک ہفتے پہلے آ کر انکے گھر میں ڈیرا جمایا تھا۔


افشاں بیگم اور بے جی تو جلد سونے چلی جاتی تھیں۔

بلال نے بھی آفس سے پندرہ دن تک کیلئے لیو لے رکھا تھا۔


وہ خوش تھا اپنی بہن کیلئے۔

کیونکہ احد اور اسکے گھر والے کافی اچھے لوگ تھے۔

ورنہ اسے تو یہی خدشہ تھا کے کہیں اس نے جلد بازی میں کوئی غلط فیصلہ نہ کر لیا ہو۔


رات کے گیارہ بج رہے تھے۔

وہ اس وقت کھلی کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔

نومبر شروع ہو چکا تھا۔

اور اب رات کے وقت ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں۔


اسکا ذہن کئی سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔

اسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کے اسکے ساتھ چند دنوں میں کیا سے کیا ہو گیا ہے۔


زندگی ہمیشہ سرپرائزز سے بھری ہوتی ہے۔

اگلا پل کیا لانے والا ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا۔

اور اگر جان لے تو دنیا میں ہر طرف ہلچل سی مچ جائے۔


اس نے کبھی خود سے بھی اظہار نہیں کیا تھا اپنے احساسات کا۔

اپنے جذبوں کو بلال جہانزیب نے بہت سینچ سینچ کر رکھا تھا۔

جہاں تک رسائی خود اسکے دل کے مکین کو بھی نہیں تھی۔


اس نے تو سوچا تھا کے وقت آنے پر اسکے جذبے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

آخر کار وہ فلک کا ایک چاند تھی۔ جس تک رسائی ہر ایک کو حاصل نہیں ہو سکتی۔

پھر بھلا وہ اپنے دل میں یہ خوش فہمی پال ہی کیسے سکتا تھا کے مغرور، خود سر اور کسی حد تک خود پسند لڑکی کبھی اسے قبول کرے گی؟


کبھی کبھی وہ خود کو بہت ملامت کرتا تھا۔

خود کا خود ہی مذاق اڑاتا تھا کے بلال جہانزیب "کہاں وہ اور کہاں تم"۔


مگر خدا اسکی جھولی ایسے بھر دے گا اس نے کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا۔


لیکن جس طرح یہ سب ہوا تھا۔ اس نے ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔

وہ تو اسکی وہ خواہش تھی جس کو وہ پوری نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔


"اب تو وہ اور زیادہ ناپسند بلکہ نفرت کرے گی مجھ سے"۔ بلال نے اپنے دل میں سوچا۔


چلو کچھ تو ہوگا جو وہ صرف مجھ سے کرے گی۔

نفرت ہی سہی۔

اس نے تلخی سے مسکرا کر کہا۔

●•••☆☆☆☆•••●


مہرماہ مایوں بیٹھ گئی تھی۔

آج اسکی مہندی تھی۔

پیلے رنگ اور سبز لیس والے لہنگا چولی میں ملبوس ہلکے زیور اور میک اپ کے ساتھ وہ اب اپنے ہاتھوں میں مہندی لگوا رہی تھی۔

افشاں بیگم اسکے چہرے کی مسکان دیکھ دیکھ کر ہی نہال ہو رہی تھیں۔

ایک طرح کی تسلی تھی کے وہ دل سے راضی ہوئی تھی۔

انہوں نے چپکے سے مہرو اور زرش کی باتیں سنی تھی۔

وہ باقی دوستوں اور کزنوں کے ساتھ بیٹھی انہیں وہ تحفے دکھا رہی تھی جو احد اور اسکے گھر والوں نے اسے دیئے تھے۔


اسکی بچوں جیسی خوشی دیکھ کر وہ بھی مسکرا رہی تھیں۔


مگر ساتھ ہی ساتھ یہ غم بھی تھا کے بیٹی کل کو اس گھر سے وداع ہو جائے گی۔

گھر کتنا بھرا پھرا لگتا ہے مہرو کی موجودگی میں۔

انہوں نے اپنے گھر پر نظریں دوڑائی۔

تو آنکھیں بھرا گئی۔


"مما، ادھر آئیں زرا"۔ اسی وقت زرش کی آواز آئی۔

تو انہوں نے جلدی سے اپنی آنکھیں پونچھ لی۔


"ہاں بیٹا، بس آ رہی ہوں"۔ انہوں نے جواب دیا۔

☆☆☆☆☆☆


وہ اس وقت ایڈووکیٹ خاور ٹالپور کے آفس میں تھا۔

جو ایک جانے مانے اور تجربہ کار وکیل تھے۔


"آخر تم یہ سب کیوں کرنا چاہتے ہو اردشیر؟۔ دیکھو بیٹا، عثمان صرف میرا کلائینٹ ہی نہیں بلکہ بہترین دوست بھی ہے۔ اس ناطے میں تمہیں مشورہ دوں گا کے یہ سراسر بدنامی ہے۔ تمہاری، تمہارے گھر والوں کی اور اس لڑکی کی بھی"۔ انہوں نے اسے سمجھایا۔


"مجھے پرواہ نہیں ہے خاور انکل، ویسے بھی ایک قول ہے کے اپنے ڈاکٹر اور وکیل سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہیے۔ جس کے تحت میں نے آپ کو سب کچھ بتایا ہے۔ اب آپ نے میرا ساتھ دینا ہے۔ فورا سے پیشتر درخواست ہائی کورٹ میں جمع کروائیں۔ ہمارے پاس صرف دو دن ہیں۔" اردشیر نے میز پر ہاتھ رکھ کر جھکتے ہوئے کہا۔


"دیکھو اردشیر، ان سب لیگل کاموں کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔ کم از کم ایک ہفتہ تو لگ ہی سکتا ہے"۔


"وقت ہی تو نہیں ہے میرے پاس۔ اور ان پیپرز کا کیا ہوا جو میں نے بنوانے کیلئے کہا تھا؟"۔ اردشیر کو اچانک یاد آیا تو پوچھا۔


"ہاں وہ کل تک تیار ہو جائیں گے۔ وہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے"۔ انہوں نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا۔


"گڈ" اردشیر کو تسلی ہوئی۔

••☆☆☆••••☆☆☆••


اس نے جائے نماز طے کرکے رکھا اور مسلسل بجتے فون کی جانب متوجہ ہو گئی۔ "ہیلو، السلام و علیکم"۔ مریم نے فون کان سے لگاتے ہوئے کہا۔


"وعلیکم السلام، کیسی ہیں آپ؟"۔ بہت دیر بعد ایک بھاری مردانہ آواز اسپیکر پر سنائی دی۔

وہ چونکی۔

آج پورے دو ہفتوں بعد وہ اسکی آواز سن رہی تھی۔

دل متضاد کیفیت میں گھر گیا۔


"ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟"۔ نا چاہتے ہوئے بھی پوچھا۔


"دیوانوں جیسا"۔ بے قرار لہجے میں فورا جواب آیا۔


"جی؟" ۔ مریم چونک چونک گئی۔


"کچھ نہیں، امی کیسی ہیں اور آنٹی کی طبیعت کیسی ہے اب؟"۔ اس نے ایک ساتھ دونوں کا پوچھا۔


"جی دونوں ہی ٹھیک ہیں ماشاءاللہ سے۔ اور امی اب رو بصحت ہیں"۔ مریم نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔


"چلو یہ تو اچھی خبر ہے"۔ دوسری طرف سے جواب آیا۔


"میں۔۔۔میں آنٹی کو بلاتی ہوں وہ آپ سے بات کر لیں گی"۔ بے ترتیب دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے اس نے کہا۔


"ان سے تو میں روز ہی بات کرتا ہوں۔ لیکن آپ کا جب بھی پوچھو تو آگے سے جواب ملتا ہے کے آس پاس نہیں ہے۔ اتنی گریز کس لیئے برت رہی ہیں آپ؟ جیسے میں کوئی کوڑ کا مریض ہوں"۔ وجاہت نے شکوہ کناں لہجے میں کہا۔

تو مریم اسکی اس قدر صاف گوئی پر ششدر رہ گئی۔


"نن۔۔۔نہیں تو۔۔۔ایسی تو کوئی بات نہیں"۔ اسے پہلے ہی اپنے دل کو سنبھالنا مشکل لگ رہا تھا۔ اور اوپر سے اسکے جملے۔۔۔اووفف!


دوسری طرف وہ شاید ہنس رہا تھا۔


"اچھا اچھا، امی کو فون دیجئیے، مبادا آپ غش ہی نہ کھا جائیں"۔ اس نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔

تو مریم اسکی بات پر تپ کر رہ گئ۔


ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر اس نے عاصمہ بیگم کو آواز دی۔

اور ان کے آتے ہی فون انکے حوالے کرکے اسے وہاں سے کھسکتے ہی بنی۔


اپنے کمرے میں جا کر اس نے دروازہ بند کر دیا۔

اور دھڑ دھڑاتے ہوئے دل پر بے اختیار ہاتھ پڑا تھا اسکا۔


"اووففف، کتنا فضول بولتا ہے"۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

•••☆☆☆••☆☆☆•••


جلدی جلدی تیار ہو کر وہ فائنل ٹچ کے طور پر جھمکے کانوں میں پہنتی ہوئی کمرے سے برآمد ہوئی۔

ہڑبڑاہت میں سنہرے رنگ کا نیلے نگوں والا جھمکا اسکے ہاتھ سے پھسل گیا۔


"اووفف" شدید کوفت زدہ ہو کر وہ اسے اٹھانے کو جھکی ہی تھی کے اسی وقت کسی کا سر اس کے سر سے بری طرح ٹکرایا۔


"آؤچ"۔ زرش اپنا سر پکڑ کے رہ گئی۔ اس بری طرح ٹکرائے جانے سے اب آنکھوں کے سامنے دھند سی چھا گئی تھی۔


"اوہ، آئم سوری، ویری سوری آپکو زیادہ تو نہیں لگی؟"۔ مقابل کی گھبراہٹ زدہ آواز اسکے کانوں میں پڑی۔


آنکھوں سے دھند چھٹی تو سامنے ہی برہان کا فکرمند چہرہ نظر آیا۔

جس دیکھ کر وہ کچھ مزید تپ گئی۔


"مارتے بھی ہیں اور اوپر سے کہتے کے زیادہ تو نہیں لگی۔ ہاں لگی ہے مجھے۔ سر گھوم رہا ہے"۔ زرش نے بنا لگی لپٹی رکھے کہا۔

اور ساتھ ہی اپنا جھمکا اٹھاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔


"سوری مس زرش، میں تو آپکا جھمکا اٹھا رہا تھا"۔ برہان نے معصومیت سے کہا۔


"آپ اپنے گھر سے یہاں تک میرا جھمکا اٹھانے آئے ہیں؟"۔ زرش نے جل کر کہا۔

ایک تو اسے ویسے ہی دیر ہو رہی تھی اور اوپر سے یہ شخص۔۔۔اووفف!


"جی میرا بس چلے تو آپ کو ہی اٹھا لے جاؤں" ۔ برہان نے اپنے سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑبڑا کر کہا۔


زرش چونکی۔

"کیا کہا آپ نے؟"۔ ایک ابرو اٹھا کر خطرناک تیوروں سے پوچھا۔


"ا۔۔۔اب وہ۔۔۔میں۔۔۔ہاں، آپکی ممی نے مجھے یہاں بھیجا ہے آپکو اور آپکی کزنز کو ہال لے جانے کیلئے"۔ برہان نے یاد آنے پر جلدی سے کہا۔


"اچھا، ایک منٹ۔ ماہین، حنا، رفت یار جلدی آؤ دیکھو مما نے ڈرائیور بھیجا ہے"۔ زرش نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔


اور وہ جو مسکراتے ہوئے دلچسپی سے اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا لفظ "ڈرائیور" پر اسکے چھکے چھوٹ گئے۔


"کیا؟؟ میں اور ڈرائیور؟"۔ برہان نے بے یقینی سے اپنے سینے پر انگلی رکھی۔


تو زرش نے مسکراہٹ ضبط کرکے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا۔


"یہ بات ہے۔ چلو کوئی نہیں۔۔۔اتنی خوبصورت خوبصورت حسینوں کیلئے کوئی کولی، موچی مکینک بھی بڑے شوق سے بن جائے۔ پھر یہ بندہء ناچیز تو بس ڈرائیور ہی بنا ہے"۔ ایک ادا سے اس نے جھک کر کہا۔


اسی وقت ساری لڑکیاں تیار شیار کمرے سے برآمد ہوئیں۔


"اووفف، جلدی کرو۔ مما پہلے ہی غصہ ہو ری تھیں"۔ زرش چیخی۔


"ہائے، یہ منڈا کون ہے؟"۔ حنا نے ماہین کو ٹہوکا مارا۔


"یہ برہان ہے۔ عثمان غازی کا بھتیجا، بتایا تھا نا اس دن پارٹی میں گئے تھے تو اسے وہاں دیکھا تھا۔۔ہینڈسم ہے نا؟"۔ ماہین نے سرگوشی میں کہا۔

جو اتنی بلند تھی کے قریبا سب نے ہی سن لی تھی۔


برہان نے فرضی کالر کڑائے۔ پھر زرش کو دیکھا۔

جو تپ کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔


"ہو گئی ہو سرگوشیاں ختم تو اب چلنے کی کریں؟"۔ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اس نے انہیں گھوری دی۔


تو وہ دونوں گڑبڑا گئیں۔


"آ۔۔۔ہاں ہاں چلو ہم تو بس یونہی"۔ ماہین نے جلدی سے کہا۔


تو وہ سب ایک ایک کرکے باہر نکل گئے۔

پیچھے زرش نے گھر لاک کیا اور انکے ساتھ ہو لی۔


راستے بھر وہ لوگ کھی کھی کرتیں برہان سے متعلق ہی باتیں کرتی رہی۔

زرش کے گھورنے کا بھی کوئی اثر نہ تھا۔

جبکہ برہان کی نظریں ہنوز آئینے میں نظر آتے اسکے چہرے سے الجھ رہی تھیں۔

☆☆☆☆☆☆


گہرے سرخ و سبز لہنگے کا بھاری موتیوں کے کام والے دوپٹے کا لمبا سا گھونگھٹ چہرے پر گرائے، سولہ سنگار کیئے دلہن بنی مہرماہ جہانزیب قدرے نروس سی تھی۔


مہمانوں کی کافی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔

جن میں نگہت بیگم بھی پہلی نشستوں میں سے ایک پر بیٹھی تھیں۔

تقریب میں مرد اور خواتین کیلئے ایک ہی ہال کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔


احد اس ہال کے دوسرے حصے میں تھا۔

جہاں باقی مرد حضرات موجود تھے۔


ایجاب و قبول کے مراحل ابھی طے ہونا باقی تھے۔


شہر کا سب سے مہنگا ترین ہال اس وقت بقائے نور بنا ہوا تھا۔

جسے پرپل اور وائٹ کلر کے تھیم سے آراستہ کیا گیا تھا۔

سوسن اور گلابوں کی مہک ہر سو پھیلی تھی۔


"افشاں بیگم، زرا ادھر باہر آکر بات سنیں"۔ جہانزیب صاحب نے خواتین ہال کے باہر سے انہیں کال کرکے اونچی آواز میں کہا۔

میوزک فل والیوم میں بج رہا تھا۔


"جی آتی ہوں"۔ افشاں بیگم نے بمشکل انکی بات سمجھ کر جواب دیا۔

اور ساتھ ہی کال بند کردی۔


کچھ ہی لمحوں بعد وہ ہال کے اینٹرنس پر تھی۔


"ہمارے خیال سے اب نکاح پڑھوا دینا چاہیے۔ مہمان بھی سارے آ چکے ہیں قریبا"۔ جہانزیب صاحب نے زرا بلند آواز سے کہا۔


جی جو آپ بہتر سمجھیں"۔ افشاں بیگم نے گویا رضامندی دی۔


"ٹھیک ہے ہم قازی کو بلواتے ہیں۔ آپ چلیے"۔ انہوں نے افشاں بیگم سے کہا تو وہ سر ہلا کر واپس ہال میں چلی گئیں۔


(سیاہ بی-ایم-ڈبلیو ہال کے باہر نہایت تیز رفتاری سے آ رکی۔۔۔۔اسکے عین پیچھے دو اور گاڑیاں بھی اسی طرح رکی تھیں)


چند ہی لمحوں بعد نکاح خواں کے ہمراہ جہانزیب صاحب اور عادل صاحب اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ وہاں آ موجود ہوئے۔

میوزک انہوں نے کچھ پل کیلئے بند کروا دیا تھا۔


(سیاہ کوٹ درست کرکے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اسکا رخ ہال کی جانب تھا)


قازی صاحب اسٹیج پر چڑھے اب مہرو کے سامنے کرسی پر بیٹھے کہہ رہے تھے۔


(تیز رفتاری سے چلتے ہوئے وہ خواتین کے حصے والے ہال میں اب ہال کے اندر قدم رکھ چکا تھا۔ اسکا رخ سامنے اسٹیج کی جانب تھا۔ سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے)۔


"مہرماہ جہانزیب بنت جہانزیب عالم آپ کا نکاح۔۔۔


"وہی رک جاؤ"۔ بھاری آواز گونجی۔

جس پر ان سب نے رک کر اپنے پیچھے دیکھا۔


اسٹیج کے عین نیچے وہ کھڑا تھا۔

اسکی آنکھیں ٹھہرے جھیل کی مانند پرسکون تھیں۔


اسی پل چند مسلح افواج چہرے پر ماسک لگائے، بندوقیں تھامے ہال کے اندر گھس آئے تھے۔

عورتیں انہیں دیکھ کر خوف کے عالم میں چیخ رہی تھیں۔


"چپ کرو، جس نے بھی آواز کی اسے وہیں اڑا دیں گے"۔ ایک مسلح آدمی نے سفاکی سے کہا۔

جس پر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔


"یہ کیا بدتمیزی ہے"۔ عادل نے آگے بڑھ کر کہا۔


"صبر صبر، بتاتا ہوں۔ قازی صاحب" اسے خاموش کروا کر اب اردشیر قازی کی جانب متوجہ ہوا۔

جسے نکاح پڑھانا بھول کر اب اپنی فکر لگ گئی تھی۔


گھونگھٹ نیچے کیئے بیٹھی مہرو اس آواز کی سفاکی کو ہزاروں میں بھی پہچان سکتی تھی۔

اسکی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔


"ایک سادہ سا سوال۔۔۔کیا ایک عورت نکاح پر دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟"۔ اس نے پرسکون لہجے میں سوال پوچھا۔

سب نے حیرت سے اس شخص کو دیکھا۔


"نہیں برخوردار۔۔۔یہ نا صرف حرام ہے بلکہ گناہ عظیم بھی ہے"۔ قازی نے جلدی سے جواب دیا۔


تو اردشیر نے فاتحانہ نظروں سے جہانزیب اور عادل کو دیکھا۔


"تو اطلاع یہ ہے کے یہ جو سرخ گھونگھٹ گرائے دلہن بنی بیٹھی ہے۔

یہ۔۔۔میری۔۔۔یعنی غازی اردشیر کی بیوی ہے"۔ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔


گویا دھماکہ کیا تھا۔

اور جس جس نے یہ سنا اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔


جبکہ مہرو کو اسکے الفاظ پتھر بنا گئے تھے۔

اردشیر نے ان سب کے چہرے دیکھے۔

جو دھواں دھواں ہو رہے تھے۔

افشاں بیگم نے بے اختیار کرسی کی پشت کو تھام لیا۔


اسی پل جہانزیب صاحب کے وجود میں جنبش ہوئی۔


"کیا بکواس کر رہے ہو تم؟ ہوش میں ہو؟ پی کر آئے ہو کیا؟" انہوں نے غصے سے اسکا گریبان پکڑ لیا۔


"میں۔۔۔بالکل۔۔۔ہوش۔۔میں ہوں"۔ اس نے جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑا کر اپنا کوٹ درست کیا۔


"تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔یہ جھوٹ ہے۔۔۔تم کیوں ایسا کہہ رہے ہو"۔ اسی پل افشاں بیگم روتی ہوئی اسکے سامنے آئیں۔


"یہ جھوٹ نہیں ہے۔ بلکہ یہی سب سے بڑی سچائی ہے"۔ اردشیر نے مہرو کو چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھ کر کہا۔


"لا هول ولا قوة۔۔۔یہ آپ لوگ مجھ سے کیا گناہ کروانے جا رہے تھے"۔ قازی صاحب نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔


"بکواس کر رہا ہے یہ۔۔۔کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟"۔ اسی وقت احد وہاں آن پہنچا۔

تو مہرو کی اٹکی سانسیں بحال ہوئی۔۔

اسے یقین تھا کے احد اسکا اعتبار ضرور کرے گا۔


اردشیر نے سر تا پیر اسکا جائزہ لیا۔

"ثبوت۔۔۔جب میں نے سنا میری بیوی۔۔۔۔یہاں شادی کر رہی ہے۔ تو ہاں میں ثبوت بھی لے آیا"۔ اردشیر نے اپنے کوٹ کی جیب سے نکاح نامہ نکال کر انکے سامنے لہرایا۔

جس پر وہ سب ششدر رہ گئے۔

"توبہ توبہ، کیا زمانہ آ گیا ہے۔ نکاح پر نکاح"۔ ایک عورت کی ملامت بھری آواز گونجی۔


جتنے منہ تھے۔ اتنی ہی باتیں ہورہی تھیں۔

جو لوگ کچھ دیر قبل تحفے اور مبارکبادی پیش کر رہے تھے۔

وہی اب زہر اگلنے لگے تھے۔


احد نے بے یقینی سے مہرو کو دیکھا۔

اور بس اسکی برداشت اتنی ہی تھی۔

ایک جھٹکے سے وہ نا صرف اٹھ کھڑی ہوئی بلکہ اپنا گھونگھٹ بھی اٹھا لیا تھا۔


اسکے خوبصورت چہرے پر شدید غصہ تھا۔


"یہ آدمی بکواس کر رہا ہے۔ میں تو اسے جانتی تک نہیں ہوں۔ احد آپ اسکی باتوں میں مت آئیے پلیز"۔ مہرو نے اپنے نم ہوتی آنکھیں رگڑتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔

حالانکہ اندر سے وہ ڈھے رہی تھی۔


"اردشیر، یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟ ہوش میں تو ہو؟"۔ نگہت بیگم نے آہستہ آواز میں اسے ملامت کیا۔


"آپ لوگ بار بار ایک ہی بات کیوں کر رہے ہیں۔ ہوش میں ہوں میں۔۔۔اور مکمل طور پر ہوش میں ہوں۔ بیوی ہے یہ میری"۔ اردشیر نے جھلا کر کہا۔


"بکواس بند کرو اپنی۔ خبردار جو تم نے ایک لفظ بھی مزید میرے خلاف کہا تو"۔ مہرو نے پھنکار کر کہا۔


"ناراض مت ہو ڈارلنگ، تم کہتی ہو تو میں کسی کو کچھ نہیں بتاتا۔ لیکن تم چلو میرے ساتھ ابھی اسی وقت۔ اب ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں"۔ اردشیر نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

مہرو نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔


"او، تو یہ بات ہے۔ جب تم نکاح کر ہی چکی تھی اس سے۔ تو مجھے اتنا بڑا دھوکا کیوں دیا؟"۔ احد پھٹ پڑا تھا۔


اور مہرو کے تو جیسے الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے اسکی بد گمانی دیکھ کر۔

یہ تھا اسکا ہمسفر، جسے اس سے مکرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا تھا۔


"احد بھائی، یہ جھوٹ بول رہا ہے اسکی باتوں میں مت آئیں۔ یہ پوری تیاری کے ساتھ آیا ہے۔ پتہ نہیں کیا دشمنی ہے اسے مہرو سے"۔ زرش نے آگے بڑھ کر مہرو کو تھامتے ہوئے کہا۔

جسے دیکھ کر لگتا تھا کے ابھی گر پڑے گی۔


"اب بھلا مجھے جھوٹ بول کر کیا حاصل ہوگا سالی صاحبہ"۔ اردشیر نے آنکھیں جھپک جھپک کر طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔


"اردشیر، ابھی کے ابھی معافی مانگو سب سے۔۔ یہ مذاق کا وقت نہیں ہے"۔ نگہت بیگم نے غصے سے کہا۔


"او کم آن مام، آپ کو لگتا ہے میں مذاق کر رہا ہوں؟۔ ڈیئر وائفی، تم بتاؤ نا سب کو اس دن جب تمہارا رشتہ آیا تھا تو تم میرے آفس آئی تھی۔ اور مجھے کہا تھا کے ہمیں کوئی بڑا اسٹیپ لینا ہوگا اپنے رشتے کے حوالے سے۔ کیونکہ تمہارے گھر والے تمہارا رشتہ طے کر رہے ہیں زبردستی۔ پھر اسی دن ہم نے نکاح کر لیا تھا۔ یاد ہے؟"۔ اردشیر نے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔

مگر اسکی آنکھیں مہرو کو اپنا تمسخر اڑاتی محسوس ہو رہی تھیں۔


"جب نکاح کر لیا تھا تو اس رشتے کیلئے حامی کیوں بھری تم نے؟"۔ احد نے دانت پیس کر اس سے سوال کیا۔

جو زرش کے سہارے پر کھڑی تھی۔

ورنہ کب کی زمین بوس ہو جاتی۔

وہ زخمی نظروں سے احد کو دیکھ رہی تھی۔

لب خاموش تھے۔


"یہ بھی میں بتاتا ہوں، در اصل نکاح تو ہم نے کر لیا تھا مگر مہرماہ اس بات پر ناراض تھی کے میں اپنے گھر والوں سے بات کیوں نہیں کر رہا ہمارے رشتے سے متعلق۔ اگر تم چاہو تو پچیس دن پہلے کا سی-سی-ٹی-وی فوٹیج دکھا سکتا ہوں اپنے آفس کا۔ جب یہ میرے آفس آئی تھی۔ اور اسی دن ہم نے نکاح کر لیا تھا"۔ فاتحانہ نظروں سے اس نے مہرو کا دھواں دھواں ہوتا چہرہ دیکھا۔


"بول دے مہرو کے یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ بول دے کے تو اس کے آفس نہیں گئی تھی کبھی بھی"۔ افشاں بیگم نے مہرو کو جھنجھوڑ ڈالا۔

مگر وہ خاموش رہی۔

جیسے گہرے صدمے میں چلی گئی ہو۔


اسکا ایک اقرار اسکے ناکردہ گناہوں پر مہر ثبت کر دیتا۔

وہ خاموش رہتی تب بھی خسارا اسکے ہی حصے آنا تھا


جب انہوں نے دیکھا کے وہ کچھ نہ بولی تھی۔

تو ایک جھٹکے سے افشاں بیگم نے اسکا بازو چھوڑ دیا۔

انکی آنکھیں غیر یقینی سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔


"بہت ڈرامہ ہو گیا۔ دیکھو ڈارلنگ، آج میں پوری برات لے کر آیا ہوں۔ شاباش اب چلو یہاں سے"۔ اسی پل اردشیر نے مہرو کا برف جیسا ٹھنڈا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے ساتھ لیئے جانے لگا۔

لمس محسوس کرتے ہی مہرو کی ساری حسیات بیدار ہو گئی۔


"چھوڑو مجھے، امی، پاپا یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میری بات کا یقین کریں"۔ مہرو چیخ رہی تھی۔ رو رہی تھی۔

مگر ان سب نے جیسے اپنے کان بند کر لیے تھے۔


اردشیر بنا رکے اسے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔


"خدارا کوئی تو روکو اسے، کوئی تو بچا لو مجھے اس جلاد سے"۔ عروسی لباس میں ملبوس وہ اسکے ساتھ گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔


"شٹ اپ، بنا مزید کوئی سین کریئیٹ کیئے چپ چاپ چلو میرے ساتھ"۔ اردشیر نے رک کر سفاکی سے کہا۔


افشاں بیگم اور زرش آگے بڑھی تھیں مگر اسی وقت دو آدمیوں نے ان پر بندوق تان لی۔


وہ لوگ بے بسی سے پل پل دور ہوتی مہرو کو دیکھتے رہے۔

جسکا ہاتھ اردشیر کے ہاتھ میں تھا۔

اور وہ اسے زبردستی اپنے ساتھ لیئے جارہا تھا۔


مہرو چیختی رہی مگر مقابل نے جیسے اپنے کان بند کر لیئے تھے۔

اسے گاڑی کے فرنٹ سیٹ پر ڈال کر وہ خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر بیٹھ گیا۔

"میں مر جاؤں گی مگر تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی"۔ مہرو نے روتے ہوئے گاڑی کا لاک کھولنے کی کوشش کی مگر بے سود


"آٹومیٹک ہے ڈیئر وائفی، یعنی میری مرضی کا غلام"۔ طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کرکے آگے بڑھا دی۔


اسکے آدمی بھی اسکے نکلتے ہی اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو کر اسکے پیچھے چل پڑے۔


"روکو گاڑی کو، گاڑی روکو۔۔۔ تم انسان نہیں درندے ہو درندے۔ میں تم سے شدید نفرت کرتی ہوں۔ سنا تم نے۔ میں تمہاری جان لے لوں گی۔۔۔۔ کہاں لے جا رہے ہو مجھے؟"۔ چیخ چیخ کر اسکا حلق سوکھ رہا تھا۔

اردشیر نے ایک ہاتھ سے اسکا ہاتھ سختی سے تھام رکھا تھا۔


"کمینے ذلیل انسان کہاں لے جا رہے ہو مجھے؟"۔ وہ حلق کے بل چلائی۔

اب تو طاقت بھی ختم ہو رہی تھی اسکی۔


"شہر سے بہت دور۔۔۔۔نکاح ہے میرا اور تمہارا"۔ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے گویا اسکی معلومات میں اضافہ کیا تھا۔

اور مہرو ایک مرتبہ پھر پتھر کی مورت بن گئی تھی۔


"میں مر جاؤں گی مگر تم سے نکاح نہیں کروں گی"۔ مہرو نے بے خوفی سے کہا۔


"تمہارے اچھے بھی کریں گے، اور کیا تمہیں پتہ ہے بلال اس وقت میرے آدمیوں کے پاس ہے۔ میرے ایک اشارے پر کچھ بھی ہو سکتا ہے"۔ اردشیر نے جیسے اسکے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا تھا۔

بے یقینی سے اس نے اسکی جانب دیکھا۔

شادی ہال جیسے منٹوں میں ماتم کدہ بن گیا تھا۔

مہمان جو وہاں انکی خوشیاں بانٹنے آئے تھے، طنز و طعنوں کے نشتر چلا کر اب رخصت ہو چکے تھے۔

یہاں تک کے خود دولہے کا خاندان بھی ان سے کوئی ہمدردی کا اظہار کیئے بغیر طعنے دے کر وہاں سے چلے گئے تھے۔

اب صرف بے جی، سفیان قریشی، جہانزیب صاحب، افشاں بیگم اور زرش ہی وہاں رہ گئے تھے۔


تب سے خاموش آنسو بہاتی زرش بالآخر پھٹ پھڑی۔


"آپ لوگ کیوں مہرو کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ اگر اس نے پہلے ہی نکاح کر لیا ہوتا تو وہ اتنی نا سمجھ نہیں تھی جو اس پر دوسرا نکاح بھی کر لیتی۔ مما آپ کو تو اپنی پرورش پر بھروسہ کرنا چاہیئے تھا۔ کسی نے بھی آ کر کہہ دیا کے مہرو نے اس سے نکاح کیا ہے، جالی نکاح نامہ دکھا دیا اور بس لے کر چلا گیا اسے۔

کیا آپ لوگوں کا بس اتنا ہی یقین تھا مہرو پر؟"۔ زرش روتے ہوئے ایک ایک سے پوچھ رہی تھی۔

گویا انہیں جھنجھوڑ رہی تھی۔

مگر ان سب کو تو جیسے چپ لگ گئی تھی۔


"جہانزیب، زرش ٹھیک کہہ رہی ہے یار، تم نے یوں کسی غیر کو اسے لے جانے کیسے دیا؟ کیا معلوم اسکے کیا ارادے ہوں؟ ایک بار مہرو کو صفائی کا تو موقع دے دیتے"۔ سفیان قریشی نے نرمی سے جہانزیب صاحب کے شانے پر ہاتھ رکھ کر انکی سنگین غلطی کی نشاندہی کی۔


"مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا سفیان کے سچ کیا ہے اور کیا جھوٹ ہے"۔ جہانزیب صاحب نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔


"فرق تو بالکل صاف اور واضح ہے پاپا، اگر وہ اتنا ہی صحیح تھا تو کیوں اپنے ساتھ مسلح افراد کو لے کر آیا؟ کیونکہ وہ غلط تھا۔ اور آپ نے یونہی اس پر اعتبار کر کے مہرو کو۔۔۔۔

زرش کہتے کہتے بے اختیار بے جی کے گلے لگ کر شدت سے رو دی۔


"بس پتر صبر رکھ، اللہ اسکی حفاظت کرے گا۔ اور کسی کو ہو نہ ہو پر مجھے اپنی بچی پر پورا اعتبار ہے"۔ انہوں نے ملامتی نظروں سے جہانزیب صاحب کو دیکھا۔

تو وہ نظریں جھکا گئے۔


"یہ بلال کہاں ہے؟ نظر نہیں آیا مجھے؟" افشاں بیگم نے فکرمندی سے پوچھا۔


"اسے کال آئی تھی کے فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے۔ وہ وہی گیا ہے دیکھنے"۔ جہانزیب صاحب نے انہیں اطلاع دی۔


اسی وقت وہ سامنے سے ارد گرد کا منظر حیرت سے دیکھتے ہوئے چلا آ رہا تھا۔

اسکے ساتھ ساتھ برہان بھی تھا۔


"کیا ہوا پاپا، سارے مہمان کہاں گئے؟ اور آپ لوگ سب اس طرح سے کیوں بیٹھے ہیں؟"۔ بلال کو شدت سے کسی انہونی کا احساس ہو رہا تھا۔


"بلال بھائی آپ۔۔۔کہاں چلے گئے تھے۔۔۔آپ کے پیچھے وہ۔۔۔۔وہ مہرو کو لے گیا۔۔"۔ زرش اسکے شانے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

اور بلال کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔


"ک۔۔۔کیا کہہ رہی ہو گڑیا۔۔۔مہرو۔۔کہاں ہے مہرو مجھے بتاؤ"۔ بلال نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے متفکر لہجے میں پوچھا۔

اور زرش روتے ہوئے شروع سے آخر تک اسے سب کچھ بتاتی چلی گئی۔

اور جیسے جیسے وہ سنتا گیا اسکے چہرے کی رنگت زرد پڑتی چلی گئی۔

اسکے دل کی رفتار سست سے سست تر ہوتی گئی۔


برہان کو وہ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔

اس نے جلدی سے اسے ایک کرسی پر بٹھا دیا۔


"بلال آر یو اوکے؟"۔ اس نے فکرمندی سے پوچھا۔

باقی سب بھی فکرمندی سے اسکی طرف بڑھے تھے۔


"دور رہیے مجھ سے۔۔۔میں ایک پل کیلئے اس سے دور کیا گیا آپ لوگوں نے اس پر سے اعتماد ہی کھو دیا؟ یہ فکر تب کہاں تھی جب وہ اس معصوم کو یوں گھسیٹ کر یہاں سے لے گیا"۔ بلال نے بھیگے لہجے میں شکوہ کناں نظروں سے اپنے والدین کو دیکھ کر کہا۔

جن کے سر جھکے ہوئے تھے۔


"یا خدا۔۔۔۔یا میرے مولا وہ نا جانے اسکے ساتھ کیا کر بیٹھے۔ میں اپنی۔۔۔بہن کی حفاظت نہ کر سکا۔"۔ وہ بڑبڑائے جا رہا تھا۔ اسکا دل جیسے اندر سے کٹ رہا تھا۔

افشاں بیگم نے آنسو بہاتے ہوئے بے بسی سے اسے دیکھا۔


اور ایک دم ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنی آنکھیں رگڑ ڈالیں جن میں سرخ اتر آئی تھی۔


"برہان، تم تو اسکے دوست ہو نا۔ تم۔۔۔تمہیں تو پتہ ہوگا وہ مہرو کو کہاں لے گیا ہے۔ فورا چلو اسے ڈھونڈتے ہیں"۔ بلال نے اپنے حواس بحال کرکے اس سے کہا۔

تو برہان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


"دعا کیجئے آپ لوگ کے مہرو سلامت ہو۔ اور اگر ایسا نہ ہوا نا۔۔۔۔تو میں آپ میں سے کسی کو بھی معاف نہیں کروں گا"۔ بلال نے رک کر سنگین لہجے میں ان سے کہا۔

پھر تیز قدموں سے برہان کے ساتھ ہو لیا۔


پیچھے وہ سب آنسو بہاتے مہرو کی سلامتی کیلئے دعائیں مانگتے رہے۔

•••☆☆☆☆••☆☆☆☆•••


ڈیڑھ گھنٹے کی لگاتار ڈرائیو کے بعد اس نے گاڑی ایک بنگلے سے سامنے روک دی۔

ہارن دینے پر گارڈ نے گیٹ وا کیا۔

تو گاڑی روش پر رینگتی ہوئی اندر داخل ہو گئی۔


پورٹیکو میں گاڑی روک کر اپنی طرف کا دروازہ کھولنے کے بعد وہ اسکی جانب آیا۔

جو سارا راستہ چیخ چلاتے ہوئے، رو رو کر اب خود ہی خاموش ہو گئی تھی۔


اردشیر نے اسکی جانب کا دروازہ کھولا مگر وہ ایک انچ بھی نی ہلی۔

جانے کتنی دیر وہ یونہی بے حس بنی بیٹھی رہتی اگر وہ کوفت زدہ ہو کر اسکے حنائی ہاتھ تھام کر گاڑی سے باہر نہ کھینچتا۔

اردشیر نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔


رونے کی وجہ سے آنکھوں کا سارا کاجل بہہ گیا تھا۔

ناک کے ساتھ ساتھ گال بھی سرخ پڑ رہے تھے۔

بھوری کانچ سی آنکھوں میں دنیا جہاں کی نفرت لیئے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔


اس پر سے نظریں ہٹا کر وہ اب اسی طرح مہرو کو کھینچتے ہوئے گھر کے اندر لے جانے لگا۔


مین دروازے پر بیل بجائی۔

کچھ لمحوں بعد ہی ایک ادھیڑ عمر خاتون نے دروازہ کھولا۔

جو حلیے سے گھر کی ملازمہ معلوم ہوتی تھی۔

اسے شاید انکے آنے کا پہلے سے ہی علم تھا۔

جبھی رات کے بارہ بج جانے کے باوجود بھی وہ جاگ رہی تھی۔

اس نے دلچسپی سے اردشیر کے برابر دلہن بنی کھڑی اس نازک پیکر کا سر تا پیر جائزہ لیا۔

جس نے اپنے وزن سے کئی زیادہ بھاری سرخ عروسی لباس اور زیورات زیب تن کیئے ہوئے تھے۔


"اسے لے جا کر اسکا حلیہ ٹھیک کروایئے اماں بی"۔ اس نے اسے انکی جانب دھکیل دیا۔

تو مہرو بمشکل گرتے گرتے بچی۔


وہ بنا دھیان دیئے زینے چڑھتے اپنا کوٹ اتارتے ہوئے اوپر کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔


"آؤ بٹیا"۔ انہوں نے نرمی سے مہرو کو مخاطب کیا۔

تو اسکے اندر تک کڑواہٹ گھل گئی۔


"میرے بھائی کو کچھ بھی ہوا نا اگر تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی"۔ اماں بی کے اپنی طرف بڑھتے ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے وہ چیخ پڑی۔


اسکی آواز پر وہ رکا۔

"اگر تم خاموشی سے میرے ساتھ کوآپریٹ کرو گی تو تمہارا بھائی ٹھیک رہے گا"۔ اس نے پلٹ کر اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا اور پھر باقی ماندہ سیڑھیاں بھی چڑھ گیا۔


تو وہ بے بسی سے اپنا غصہ ضبط کرتی رہ گئی۔

☆☆☆☆☆☆


برہان اور بلال ہر اس جگہ جا کر دیکھ چکے تھے جہاں اردشیر کے ہونے کا امکان تھا۔

مگر وہ خالی ہاتھ ہی لوٹے۔

بلال کی حالت قابل رحم ہو رہی تھی۔

وہ اس حالت میں نہ تھا کے گاڑی ڈرائیو کرتا۔

لہٰذا گاڑی برہان ہی چلا رہا تھا۔

گاہے بگاہے وہ اس پر بھی نظر ڈال لیتا تھا جو بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔


"پریشان مت ہو یار، وہ ٹھیک ہوگی۔ میرا دوست ہے شیرو، میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں وہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا"۔ برہان نے پر یقین لہجے میں کہتے ہوئے اسے تسلی دینی چاہی۔


"تم بے شک اسے اچھی طرح جانتے ہو گے۔ مگر اسکے پچھلے پانچ سالوں کا حساب تمہارے پاس بھی نہیں ہے برہان۔ کسی کو بدلنے کیلئے ایک لمحہ بھی کافی ہوتا ہے۔ وہ تو پانچ سال تم سب سے دور رہا۔ مجھے اس آدمی سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ بس مجھے میری مہرو صحیح سلامت چاہیئے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا نا تو میں غازی اردشیر کو زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔ بلال نے اپنے عزائم بتائے۔

جو اسکے چہرے سے بھی جھلک رہے تھے۔


"ایسا کچھ نہیں ہوگا بلال، تم یقین رکھو"۔ برہان نے تسلی دی۔


"آخر ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے جو شیرو اس حد تک چلا گیا؟۔ اور مجھے بھی نہیں شامل کیا اپنے راز میں"۔ برہان کی اپنی سوچیں بھی لامحدود تھیں

___________________________


"ناک کٹوا دی میری۔ سارے کاروباری دوست مجھے فون کر کر کے پوچھ رہے ہیں کے عثمان سنا ہے تمہارا بیٹا دن دہاڑے ایک لڑکی کو اسی کی شادی سے اغواء کر کے لے گیا ہے۔ سارے سوشل سرکلز میں ہم پر تھو تھو ہو رہی ہے۔

میں پوچھتا ہوں آخر ایسا بھی کیا اس پر جنون سوار ہو گیا تھا کے ایک دلہن کو سب کے سامنے نکاح نامہ دکھا کر اٹھا لے گیا؟

مذاق بنا کر رکھ دیا ہے میرے نام کا، میری ساکھ کا۔

ارے اولاد تو والدین کیلئے فخر کا باعث ہوتے ہیں۔ انکا غرور ہوتے ہیں۔

اور ایک یہ ہیں ہمارے صاحبزادے جناب غازی اردشیر، جن پر فخر تو دور کی بات ہے الٹا ہمارا سر آج تک شرم سے ہی جھکتا آیا ہے"۔ عثمان صاحب کو جب سے پتہ چلا تھا انکے تو جیسے اوسان خطا ہو گئے تھے۔

تب سے وہ ٹہلتے ٹہلتے اسے کوس رہے تھے۔

زرا دیر کو ٹھہرتے پھر ایک عاد طنز کے تیر نگہت بیگم کو دیکھتے ہوئے چلا دیتے جو تب سے سر پکڑ کے بیٹھی تھیں۔


اسی وقت انکا موبائل بج اٹھا۔

تو نمبر دیکھ کر فورا کال ریسیو کی۔


"میں کچھ نہیں جانتا، چاہے جو ہو جائے مگر کل کے نیوز میں یہ خبر نشر نہیں ہونی چاہیئے۔ میں تمہیں منہ مانگی قیمت دوں گا۔ مگر کسی بھی طرح اس خبر کو اپنے چینلز پر آنے سے روک دو۔ یاد رکھنا اگر کل کے اخبار یا نیوز چینل میں اس واقع کا ذکر بھی ہوا نا تو تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ بھی چھن جائے گا"۔ غصے سے کہتے ہوئے انہوں نے رابطہ منقطع کر دیا۔

پھر تھک کر صوفے پر خود کو گرا دیا۔


"اچھی طرح جانتا ہوں میں کے اس نے یہ سب کچھ اس بد ذات کیلئے کیا ہے۔ وہ غلطیاں کرے اور یہ صاحبزادے اس کو سدھارنے کے چکر میں اور مزید گرتے چلے جائیں۔ ہر دن کوئی نیا تماشا کھڑا کر دیتے ہیں یہ دونوں بہن بھائی۔ آخر مجھے چین سے مرنے کیوں نہیں دیتے"۔ عثمان صاحب نے دروازے کی اوٹ میں چھپی مہک کو دیکھ کر مزید طنز کیئے۔

جس پر وہ سر جھکا کر واپس پلٹ گئی۔


جبکہ اس سارے عرصے میں نگہت بیگم مجرم کی طرح سر جھکائے بیٹھی تھیں۔

انکے ساتھ ہی بے جی بھی پریشان سی بیٹھی تھیں۔

نیند ان سب کی آنکھوں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ نگہت بیگم نے ایک لمحے کی بھی تاخیر کے بغیر گھر آ کر سب کچھ شوہر کو بتایا تھا۔

کیونکہ پتہ تو بہرحال انکو چل ہی جانا تھا۔

پھر اگر کہیں اور سے پتہ چلتا تو شامت انہی کی آتی۔


"پتہ تو کر بچی کو کہاں لے گیا ہے وہ نامراد۔۔۔نا جانے کیا بیت رہی ہوگی اسکے گھر والوں پر"۔ بے جی نے پریشانی سے کہا۔


"میں نے پتہ کر لیا ہے۔ وہ اسے ہمارے پرانے والے بنگلے میں لے گیا ہے۔ شہر سے دور"۔ عثمان صاحب نے ماتھے پر بل ڈالے جواب دیا۔


"تو جب آپ نے پتہ کر ہی لیا ہے تو پھر اس سے مہرماہ کو بازیاب کیوں نہیں کروا لیتے؟"۔ اس عرصے میں نگہت بیگم نے پہلی بار مداخلت کی۔


"اتنا آسان ہے کیا؟ میں نے آدمی بھیج دیئے ہیں۔ چند گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے وہاں پہنچنے میں ہی"۔ عثمان صاحب نے انہیں معلومات دی۔

__________________________


اسکے دوست فرخ اور زوار اسکے بلاوے پر کچھ دیر بعد ہی قازی کے ہمراہ وہاں آن پہنچے تھے۔

مہرو بت بنی بیٹھی تھی۔

اسکا حلیہ اماں بی نے ٹھیک کر دیا تھا۔


وہ سرخ گھونگھٹ گرائے ویسے ہی بیٹھی تھی جیسے کچھ دیر قبل ہال میں دلہن بنی بیٹھی تھی۔

فرق تھا تو بس اتنا کے اسکا ہمسفر بدل دیا گیا تھا۔


کاٹن کے سفید شلوار قمیض میں کف موڑے چہرے پر ڈھیروں سنجیدگی لیئے غازی اردشیر مہرو کے عین سامنے کچھ فاصلے پر ہی بیٹھا تھا۔

قازی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا۔


"غازی اردشیر ولد عثمان غازی مہرماہ جہانزیب بنت جہانزیب عالم کو بعوض دس لاکھ حق مہر کے آپکے نکاح میں دیا جاتا ہے۔ کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟"۔ قازی نے پوچھا۔


اس نے جواب نہیں دیا۔


"کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟"۔ دوسری بار پوچھا۔

وہ خاموش رہا۔


"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"۔ تیسری بار پوچھا۔


اس نے نگاہیں اٹھا کر سامنے مہرو کو۔


"قبول ہے۔۔۔قبول ہے۔۔۔قبول ہے"۔ دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

تو مہرو نے فورا اپنی نگاہیں جھکا لیں۔


اب قازی مہرو کی جانب متوجہ ہوا۔


"مہرماہ جہانزیب بنت جہانزیب عالم آپکا نکاح بعوض دس لاکھ حق مہر کے غازی اردشیر ولد عثمان غازی کے ساتھ طے پایا ہے۔ کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"۔


مہرو خاموش رہی۔

اسکے سامنے تھوڑی دیر پہلے کا منظر گھوم گیا۔

تب بھی وہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔

مگر اب جیسے سارے جذبات برف بن گئے تھے۔


قازی نے دوسری بار پوچھا۔

مگر جواب ندارد۔


اردشیر نے نگاہیں اٹھا کر سرخ گھونگھٹ کے پیچھے نظر آتا اسکا چہرہ دیکھا۔

اسی پل اس نے نگاہیں اٹھائیں۔


اردشیر نے اسے اشارے سے اثبات میں سر ہلانے کو کہا۔


"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"۔

تیسری مرتبہ پوچھا۔


زور سے آنکھیں میچ کر اس نے بہت سے آنسو اپنے اندر اتارے۔

"قبول ہے"۔ آہستگی سے اسکے لب ہلے تھے۔

اور اسکے ساتھ ہی بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔


اسی وقت ان دونوں سے نکاح نامے پر دستخط لیئے گئے۔


"مبارک ہو یار۔۔۔دیر آئے درست آئے"۔ فرخ اور زوار نے ہنس کر باری باری اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا۔

تو وہ بھی مسکرا دیا۔


"مبارک ہو بٹیا"۔ اماں بی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اور بس۔۔۔اس کی برداشت اتنی ہی تھی۔

وہ وہاں سے اٹھ کر بھاگتی ہوئی زینے طے کرکے اوپر کے کمرے میں چلی گئی۔


"ویسے یار تو نے اچھا نہیں کیا بھابھی کے ساتھ۔ مانا کے تو نے ان سے محبت کی مگر تیرا طریقہ بہت غلط تھا"۔ زوار کو افسوس ہوا۔


اردشیر نے انہیں یہی بتایا تھا کے وہ مہرماہ کو چاہتا ہے۔ مگر اسکے گھر والے اسکی شادی کہیں اور کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اسے زبردستی اٹھا لایا ہے۔

کیونکہ اصل وجہ ایسی تھی جو وہ انہیں بھی نہیں بتا سکتا تھا۔


"محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے میرے دوست"۔ اس نے لاپرواہی سے کہا۔

کچھ دیر وہ ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔

رات کافی ہو گئی۔ لہٰذا اسکے دوست رات وہی ٹھہر گئے۔


کافی دیر بعد وہ اپنے کمرے میں گیا۔

کمرے کا دروازہ کھولتے ہی گلاب کے تازہ پھولوں اور ایئر فریشنر کی ملی جلی خوشبو نے اسکا استقبال کیا۔


"ان سب چونچلوں کی کیا تک تھی"۔

وہ جھنجھلا کر سوچتا ہوا کمرے میں داخل ہو گیا۔

مگر اسکا ذہن اتنا منتشر تھا کے کچھ بھی اسے متاثر نہیں کر پا رہا تھا۔

پرانے زخموں کے ٹانکے ادھڑ گئے تھے آج اس گلابوں کی سیج کو دیکھ کر۔


سجا سجایا کمرہ دلہن کے وجود سے عاری تھا۔

وہ اسے کہیں نظر نہ آئی۔


اس نے کچھ سوچ کر برابر والے کمرے کا رخ کیا۔

دروازہ کھلا ہوا تھا۔

اور توقع کے عین مطابق وہ بیڈ کی پائینتی سے ٹیک لگائے بے حس بیٹھی تھی۔

اردشیر ایک لمحے کو رکا۔

پھر آہستگی سے چلتا ہوا اسکے قریب جا کھڑا ہوا۔


"یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ چلو یہاں سے۔ میں نہیں چاہتا میرے دوست کل صبح اٹھ کر تمہیں اور مجھے الگ الگ کمروں میں دیکھیں۔ اور خواہ مخواہ کے سوال کریں"۔ کھردرے لہجے میں کہا۔


جس پر مہرو نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔

اسکے چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں تھیں۔


وہ اٹھ کر اسکے مقابل آ گئی۔


"نہ تو آپکی میری شادی عام حالات میں ہوئی ہے اور نہ میں اپنی مرضی سے اس نکاح میں آئی۔

اس لیئے خبردار جو مجھ سے کوئی امید بھی رکھی آپ نے۔ اور جو بھی مقصد تھا آپکا وہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔ اب اگر بلال بھائی پر آنچ بھی آئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا"۔ غصے سے کہتے ہوئے وہ پھٹ پڑی تھی۔


اردشیر نے چند لمحے اسکے جارحانہ تیور ملاحظہ کیئے۔

پھر جھک کر اسے بازوؤں میں اٹھا لیا۔


اور اسکی اس حرکت پر مہرو بھونچکا رہ گئی۔

اسکے ساتھ ہی ناگواری کی ایک شدید ترین لہر اسکے اندر دوڑ گئی۔


"یہ۔۔۔یہ کیا حرکت ہے چھوڑو مجھے"۔ وہ اب اسکے بازوؤں میں ہاتھ پیر مارتی بری طرح مچل رہی تھی۔


جبکہ وہ دھیان دیئے بنا اسے اٹھائے برابر والے کمرے میں آیا۔

اور اسے صوفے پر ڈال دیا۔


"گھٹیا شخص۔۔۔تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔۔۔میں تمہارا منہ نوچ لوں گی"۔ ایک دم سے وہ فاصلہ مٹا کر اسکے مقابل آئی اور اس سے قبل کے وہ اپنا کہا پورا کرتی اس نے اسکے دونوں ہاتھوں پر سختی سے گرفت کسی۔


مگر اس کے ناخنوں نے جیسے ہی اردشیر کی گردن کو چھو کر اس پر ایک خراش لگائی۔

اسی وقت اسکا بھاری ہاتھ اٹھا تھا۔

اور مہرو کے گال پر اپنا نشان چھوڑ گیا۔

زوردار تھپڑ کھا کر وہ اوندھے منہ صوفے پر جا گری۔


مگر اردشیر نے رکے بغیر اسکا بازو دبوچ کر ویسا ہی زناٹے دار تھپڑ اسکے دوسرے گال پر بھی جڑ دیا۔

وہ تاب نہ لاتے ہوئے اب کے نیچے گر پڑی۔

ایک مرتبہ پھر اس نے اسے اپنے مقابل کھینچا۔

وہ بے دم سی ہو کر اسکی جانب کھینچی چلی آئی۔


"جنگلی بلی۔۔۔۔تم ایسے ہی سلوک کی مستحق ہو۔ یہی حیثیت ہے تمہاری میرے نزدیک۔ تم اس قابل نہیں ہو کے غازی اردشیر تمہیں چھونا بھی پسند کرے"۔ ایک جھٹکے سے اسے صوفے پر پٹخ دیا۔


دروازے کو کنڈی لگانے کے بعد، اپنے بیڈ پر آ کر اس نے چادر کھینچ کر دور پھینک دی۔

جگہ بنا کر وہ وہی بستر پر بلینکٹ اوڑھ کر لائٹس آف کرتے ہوئے سونے کیلئے لیٹ گیا۔


وہ سن سی ابھی تک ویسے ہی بیٹھی تھی۔

خاموش کمرے میں وقفے وقفے سے اسکی سسکیاں گونج اٹھتی تھیں۔

مگر مقابل پر اسکا کوئی اثر نہ تھا۔


جیسے جیسے رات بیتتی رہی۔

ٹھنڈ اتنی ہی بڑھتی گئی۔

وہ صوفے پر بنا کسی بلینکٹ یا چادر کے سکڑی سمٹی بیٹھی رہی۔

سارے دن کے اعصابی دباؤ، دماغی طور پر ایک کے بعد ایک جھٹکے اور بھوک و پیاس۔

اسے اپنا جسم آگ کی طرح تپتا محسوس ہو رہا تھا۔

بخار نے اسے آ لیا تھا۔

جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ اپنے ہوش کھو کر دنیا و مافیا سے بے خبر ہوتی چلی گئی۔

بیڈ پر وہ آڑھا ترچھا سویا پڑا تھا۔

اسکی آنکھ دروازے پر مسلسل ہونے والے دستک کی وجہ سے کھلی۔

بلینکٹ اپنے اوپر سے اتار پھینکنے کے ساتھ ہی وہ اٹھ بیٹھا۔

عین اسی وقت اسکی نظر سامنے صوفے پر پڑے اس وجود سے ٹکرائی۔

جو سکڑی سمٹی اسی دلہن والے لباس میں آنکھیں بند کیے دنیا جہاں سے بے خبر شاید سو رہی تھی۔

زیورات اتار کر سامنے ہی چھوٹی سی کانچ کی میز پر رکھ چھوڑے تھے۔


اسکا چہرہ خطرناک حد تک زرد پڑ رہا تھا۔

اور وجود بھی ہولے ہولے لرز رہا تھا۔


اردشیر نے چونک کر اسے دیکھا۔

پھر لب بھینچ کر اس نے مسلسل بجتے دروازے کو دیکھا۔

اٹھ کر چند قدم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے وہ مہرو تک آیا۔


"اے لڑکی، اٹھو"۔ ماتھے پر بل ڈالے اس نے جیسے ہی اسے جگانے کیلئے اسکا گال تھپکا تو اسے احساس ہوا کے وہ بخار میں پھنک رہی تھی۔


"او گاڈ، اب یہ نئی مصیبت"۔ جھنجھلاکر اس نے کہا۔


چند لمحے یونہی کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر جھک کر اسکے وجود کو مضبوط حصار میں لے کر چند قدم کے فاصلے پر لا کر بیڈ پر ڈال دیا۔

جہاں کچھ دیر قبل وہ خود سو رہا تھا۔

ساتھ ہی بلینکٹ اس پر ڈال دی۔


مڑ کر دروازے تک آیا۔

اور جیسے ہی دروازہ کھول کر دیکھا سامنے ہی اماں بی کی صورت نظر آئی۔


"معافی چاہتی ہوں صاحب، وہ نیچے کچھ لوگ آئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کے بڑے صاحب نے انہیں بی بی جی (مہرو) کو لینے بھیجا ہے"۔ اماں بی نے سر جھکا کر متفکر لہجے میں کہا۔


تو اردشیر نے سنجیدگی سے گردن موڑ کر مہرو کو دیکھا پھر انہیں۔


"فرخ اور زوار چلے گئے؟" اس نے پوچھا۔


"جی صاحب وہ تو ناشتہ کر کے جلد نکل گئے۔ میں نے ان سے کہا بھی کے آپ کو جگا دیتی ہوں پر انہوں نے منع کر دیا"۔ اماں بی نے تفصیلی جواب دیا۔


جس کے جواب میں اس نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا۔


"اچھا، تم پہلے اسے ناشتہ کروا کر میڈیسن کھلا دو۔ پھر اسکا لباس تبدیل کروا دینا"۔ آہستگی سے اس نے کہا۔


اماں بی نے حیرت سے نگاہیں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔

اور انکی نظروں کا مفہوم بھانپ کر اردشیر ان سے نگاہیں چراتے ہوئے اپنے کپڑے نکال کر واش روم میں گھس گیا۔

●•••☆☆☆☆☆•••●


ادھر مہرماہ کے گھر والوں کی پریشانیاں لامحدود تھیں۔

رات بھر بلال اور برہان اردشیر کو تلاش کرتے رہے پر وہ نہ ملا۔

بلال کی حالت قابل رحم ہو رہی تھی۔


اس وقت سے بنا کچھ کھائے پیئے وہ بس مہرماہ کی سلامتی کی دعائیں کر رہا تھا۔


"میں اسے اتنی آسانی سے نہیں جانے دوں گا۔ اس پر ایف-آئی-آر درج کروا کے اغوا اور حبس بے جا میں رکھنے کے دفعات شامل کرواؤں گا"۔ بلال فیصلہ کن لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔


"کیا ہو جائے گا ان سب سے، عثمان غازی بہت اثر و رسوخ والا ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے وہ اتنی آسانی سے اپنے بیٹے کو جیل ہونے دے گا؟"۔ جہانزیب صاحب نے زچ ہو کر کہا۔

افشاں بیگم کے انسو رکتے نہ تھے۔

بے جی الگ پریشان تھیں۔

زرش بھی رو رو کر مہرو کی سلامتی کیلئے دعا مانگتے ساتھ اس وقت کو بھی کوس رہی تھی جب اس نے مہرو کو اسکے آفس بھیجا تھا۔

وہ کچن میں گھسی ان سب کیلئے چائے بنا رہی تھی۔

کل سے ہی کسی کے حلق سے کھانے کا ایک نوالہ بھی نہ اترا تھا۔


"تو اور میں کیا کروں؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بس چپ چاپ تماشا دیکھو اپنی بہن کی بربادی کا؟ میں ابھی اتنا کمزور نہیں پڑا ہوں کے یونہی کوئی آ کر ہماری غیرت کو للکارے اور میں صبر کرتا رہ جاؤں"۔ وہ بھڑک اٹھا تھا۔

وہ دھیمے مزاج اور نرم خو بلال جس سے وہ بس واقف تھے۔ یہ اس سے بالکل مختلف تھا۔

جہانزیب صاحب نے لب بھینچ کر اسکا لال بھبھوکا

چہرہ دیکھا۔


"کسی غیر نے آ کر کچھ بھی بکواس کر دیا تو آپ لوگوں نے مہرو کو چھوڑ کر اس پر یقین کر لیا؟۔ ایک بار تو اسے صفائی کا موقع دے دیتے۔ بس ایک بار میرے آنے تک رک جاتے۔ ایک بار تو مجھے بلوا لیتے۔ کتنا روئی ہوگی وہ۔۔ اس نے بھیڑ میں اپنے اس بھائی کا چہرہ تلاشا ہوگا۔ وہ کیا سوچتی ہوگی کے ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی اسکا دفاع کرنے والا یہ بھائی اتنے بڑے طوفان کے سامنے اسے تنہا کر گیا"۔ کرسی پر گر کر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے اب وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔


کب سے وہ خود کو سنبھالتا آ رہا تھا۔

خود کو تسلیاں دیتا رہا تھا کے وہ اسے ڈھونڈ لے گا۔

مگر اب اسکی ہمت ٹوٹ رہی تھی۔

اب وہ بکھر رہا تھا۔

بھربھری مٹی کی مانند اسکا وجود ڈھیر ہو رہا تھا۔

اور یہ منظر دیکھ کر وہاں موجود سبھی نفوس اپنے دل میں اٹھتے اس درد کو محسوس کر رہے تھے۔


دروازے پر ہونے والی بیل نے ان کا دھیان اپنی طرف کھینچا۔

ان سب نے چونک کر دروازے کو دیکھا۔

اور کہیں نہ کہیں خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کے شاید مہرو آ گئی ہے۔


"مہرو"۔ بلال نم آنکھیں رگڑتے ہوئے بے چینی سے دروازہ کھولنے گیا۔

مگر دروازہ کھلنے پر اسے مہرو کے بجائے عثمان صاحب اور نگہت بیگم کا چہرہ نظر آیا۔

بلال کے تاثرات انہیں اپنے سامنے دیکھ کر پتھر کے ہو گئے۔

باقی لوگ بھی وہی متوجہ تھے۔

ان دونوں میاں بیوی کو دیکھ کر انکے دل میں دکھ کے ساتھ ساتھ غصہ بھی امڈ آیا۔


"آپ لوگ۔ آیئے تشریف رکھیے"۔ ناچار جہانزیب صاحب نے آگے بڑھ کر انہیں اندر آنے کی دعوت دی۔

بلال البتہ ایک طرف کو ہو گیا۔


"شکریہ"۔ عثمان صاحب نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

اور وہ لوگ جہانزیب صاحب کی ہمراہی میں چلتے ہوئے ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئے۔

ان کے پیچھے پیچھے افشاں بیگم اور بلال بھی اندر چلے گئے۔

بے جی اور زرش البتہ وہی رک گئیں۔


"اب کیا لینے آئے ہیں یہ یہاں؟ ہماری بربادی کا تماشا دیکھنے آئے ہیں کیا؟"۔ زرش سے رہا نہ گیا تو طنزیہ لہجے میں کہا۔


"ایسا نہیں کہتے بچے، اور پھر قصور وار تو انکی اولاد ہے۔ وہ نہیں۔ اس عمر تک پہنچنے کے بعد اولاد کب اپنے ماں باپ کے فیصلوں کو اہمیت دیتے ہیں یا انہیں اپنے فیصلوں میں شامل کرتے ہیں؟"۔ بے جی نے نرمی سے پاس بیٹھی زرش کے بال سہلاتے ہوئے اسے سمجھایا۔

تو وہ لب بھینچ کر رہ گئی۔


"دیکھیے، میں جانتا ہوں آپ لوگوں کا دکھ بڑا ہے۔ اور بات آپکی ہی نہیں ہماری بھی غیرت پر آ گئی ہے اب۔ اس لیئے میں نے اس خبر کو کہیں بھی نشر ہونے سے روک دیا ہے۔ مجھے پتہ ہے یہ بیٹی کا معاملہ ہے۔ لہٰذا میں خود یہاں تک آیا ہوں"۔ عثمان صاحب نے آہستگی سے بات کا آغاز کیا۔


"اور آپ یہ سمجھتے ہیں کے اس سے ہماری جو بد نامی ہوئی ہے۔ جو ناقابل تلافی نقصان ہماری عزت کو پہنچا ہے آپ اس سے بری الذمہ ہو گئے؟۔ خبروں میں چاہے نا بھی آیا ہو مگر چار لوگوں نے تو دیکھا نا اور آٹھ باتیں بنا کر یہی نتیجہ اخذ کیا کے شاید ہماری بچی نے آپ کے بیٹے سے پہلے سے نکاح کر رکھا تھا"۔ جہانزیب صاحب نے طنزیہ لہجے میں ماتھے پر بل ڈالے کہا۔

جس پر عثمان صاحب مزید شرمندہ ہوئے۔


"میں اس بات سے قطعا انکار نہیں کرتا۔ لیکن جو بھی ہوا ہے میں اسکی تلافی کیلئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ مہرماہ کو اپنے گھر کی عزت بناؤں گا۔ اور آپ یقین کریں وہ مجھے مہک سے بڑھ کر عزیز ہوگی"۔ عثمان صاحب نے سوچنے کے بعد پر یقین لہجے میں کہا۔


"جی بھائی صاحب، یہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اور ابھی کچھ ہی دیر بعد اردشیر مہرماہ کو لے کر گھر آ رہا ہے"۔ نگہت بیگم نے اپنی طرف سے انہیں خبر دی۔

تو وہ سب چونک گئے۔


"کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں؟"۔ افشاں بیگم نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے جیسے تصدیق چاہی۔


"جی ہاں، بالکل سچ"۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔


"معاف کیجئے گا۔ مگر میں ان بھائیوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی عزت بچانے کیلئے اپنی بہن کو اسی کے مجرم کو سونپ دے"۔ اس عرصے میں پہلی بار بلال نے مداخلت کی۔

تو ان سب کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔


"دیکھو بلال، یہ جذباتی ہونے کا وقت نہیں ہے۔ تم سمجھدار ہو اور معاشرتی تقاضوں کو سمجھتے ہو۔ اس سب کے نتیجے میں مزید بدنامی ہی آئے گی ہمارے حصے"۔ عثمان صاحب نے اسے سمجھانا چاہا۔


"کیا کہتا ہے ہمارا معاشرہ کے ایک بے بس لڑکی کو اسی کے اغواء کار سے شادی کروا کے اپنی نام نہاد عزت بچاؤ؟ کیا یہی حل ہوتا ہے اس مسئلے کا؟ کیا کبھی اس عورت سے بھی پوچھا جاتا ہے کے وہ ایسا چاہتی بھی ہے یا نہیں؟ کہنے کو تو اکیسویں صدی ہے یہ، بہت آگے بڑھ گئے مگر ہمارے ہاں آج بھی اغواء شدہ اور گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا ہے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کیوں؟۔ میری بہن اپنی خوشی یا رضامندی سے نہیں گئی تھی۔ اسے آپ کا بیٹا زبردستی لے گیا تھا اسی کی شادی سے۔ آپ نے یہ سوچا بھی کیسے سر کے میں اسکے ساتھ یہ ظلم ہونے دوں گا۔

گناہگار کو سزا ملتی ہے۔ اسکا نکاح نہیں کروایا جاتا"۔ وہ آتش فشاں بن کر پھٹ پڑا تھا۔

اور اسکے ایک بھی سوال کا جواب ان میں سے کسی کے پاس بھی نہ تھا۔

کیونکہ سب جانتے تھے کے بلال جہانزیب اپنی جگہ بالکل درست تھا۔


اس نے سمجھوتے سے انکار کر دیا تھا۔

___________________________


اسکی حالت اب قدرے بہتر تھی۔

رائل بلیو اور آف وائٹ رنگ کے امتزاج والے خوبصورت پرنٹڈ کرتی، ٹراوز میں ملبوس نیلے رنگ کے سفید لیس والے دوپٹے کو سر پہ ٹکائے۔

شفاف چہرے کے ساتھ سنجیدہ سنجیدہ سی وہ اسکے برابر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔

اور مکمل طور پر اس سے رخ موڑ کر بیٹھی تھی۔

اسکے گالوں پر اب بھی مدھم سے انگلیوں کے نشان نظر آ رہے تھے۔

اماں بی نے ان نشانات کو چھپانے کیلئے اپنی سی کوشش کی تھی۔

مگر وہ پھر بھی واضح ہو رہے تھے۔


آف وائٹ اور سیاہ رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس سیاہ بالوں کو اسٹائل سے سنوارے، گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے وہ گاہے بگاہے اپنے برابر بیٹھی ہمسفر پر بھی نظر ڈال لیتا تھا۔

جو نوے ڈگری کے اینگل میں اس طرح گھوم کر بیٹھی تھی کے اردشیر کو اسکا نیم رخ ہی نظر آتا تھا۔


سارا سفر خاموشی سے کٹا تھا۔

انکا ایسا تعلق ہی کب تھا جس کے تحت وہ ایک دوسرے کو مخاطب بھی کرتے۔


چند گھنٹوں کے سفر کے بعد، سہ پہر کو وہ غازی ولا پہنچے۔


اردشیر نے جیسے ہی گاڑی کو بریک لگایا۔

مہرماہ فورا سے پیشتر دروازہ کھول کر گاڑی سے نیچے اتر آئی۔

چند لمحوں بعد وہ بھی گاڑی سے نیچے اتر آیا۔

وہ ابھی تک وہی کھڑی تھی۔

کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے وہ اسکے مقابل آ گیا۔


"یاد ہے نا جو میں نے سمجھایا ہے۔ میرے ساتھ کوآپریٹو رہو گی تو بہتر رہو گی۔ ورنہ اپنی مشکلات میں اضافے کے علاوہ تم کچھ نہیں کر سکتی"۔ زیر لب اس نے صبح کا پڑھوایا ہوا اپنا سبق اسکے سامنے پھر سے دہرایا۔

تو مہرو نے چبھتی ہوئی نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔


اردشیر نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ نگاہیں موڑ کر اسے دیکھا۔

وہ آنکھوں میں چبھن لیئے ہنوز اسے ہی دیکھ رہی تھی۔


"اتنے غور سے مت دیکھو۔۔۔کہیں تمہارا دل تم سے بغاوت نہ کر بیٹھے"۔ اسکی جانب جھک کر اس نے سرگوشی کی۔

گویا اسے تپایا۔


مہرو نے زہر خند ہو کر اسکی جانب دیکھا۔

"تم آخری شخص ہوئے نا تب بھی میرا دل تم پر نہیں آئے گا"۔ زہر میں بجھا تیر اس نے چلایا۔


"اتنا یقین ہے خود پہ؟"۔ اس نے جانچا۔


"اتنی نفرت ہے تم سے"۔ فورا جواب آیا۔


وہ ہنوز طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔

پھر اسکا ہاتھ تھام کر سختی سے گرفت کسی۔

اتنی سخت تھی اسکی گرفت کے مہرو کے منہ سے نا چاہتے ہوئے بھی سسکاری نکلی۔

مگر دوسری جانب پرواہ کسے تھی۔


"چلیں ڈیئر وائفی، آفٹر آل۔ آپ کے ان لاز بے صبری سے ہمارا انتظار کر رہے ہیں اندر"۔ اس نے اسے اطلاع دی۔

ساتھ ہی اسے کھینچتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔


دروازے پر بیل دیا۔

چند لمحوں بعد ہی دروازہ کھلا۔

اندر داخل ہوتے ہی اس کا پہلا سامنا عثمان صاحب سے ہوا۔

جنہوں نے اتنی سختی سے جبڑے بھینچ لیئے تھے اسے دیکھ کر جیسے ابھی اسکی گردن دبوچ لیں گے۔


ان پر سے نظریں ہٹی تو سامنے ہی مہرو کی پوری فیملی لاؤنج میں براجمان نظر آئی۔


"او ہو، سالے صاحب اپنی فیملی کے ساتھ ہی یہاں آئے بیٹھے ہیں ہمارے ویلکم کیلئے"۔ کمینگی سے مسکراتے ہوئے وہ بلال کو دیکھ رہا تھا۔


"شٹ اپ جسٹ شٹ اپ، ہم اچھی طرح جانتے ہیں کے مہرو نے کوئی نکاح نہیں کیا ہے تم سے۔ وہ نکاح نامہ جھوٹا تھا۔ مکار شخص تمہاری اصلیت سب کو پتہ چل چکی ہے"۔ بلال درمیانی فاصلہ عبور کرتے چیختے ہوئے اس تک آیا۔


اردشیر نے شانے اچکا دیئے۔

"آپ سب اسی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے"۔ اس نے مہرماہ کے گرد حصار کھینچ کر اسے خود سے قریب تر کر لیا۔

اسکے بازو پر اسکی گرفت سخت تر ہوگئی۔

مہرو نے بےبسی سے اردشیر کو دیکھا اور پھر بلال کو۔


پھر بمشکل گویا ہوئی۔

"یہ۔۔۔سچ ہے کے میں۔۔۔انکی بیوی ہوں۔۔نکاح ہو چکا ہے میرا ان سے"۔ مہرماہ نے زخمی نظروں سے بلال کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"مہروو"۔ بلال کا ہاتھ بلند ہوا تھا اور اس سے قبل کے مہرو کے گال پر پڑتا اردشیر نے اسے وہی روک دیا۔


"لگام دو خود کو، تمہارے سامنے مہرماہ جہانزیب نہیں بلکہ مسز مہرماہ اردشیر غازی کھڑی ہیں۔۔۔یعنی تمہارے باس کی بیوی"۔ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اسکا ہاتھ جھٹکے سے چھوڑ دیا۔


"ذلیل، میں تمہیں ابھی اسی وقت ہر چیز سے عاق کرنے کا اعلان کرتا ہوں"۔ عثمان غازی نے گرج دار آواز میں کہا۔


مگر اردشیر پر کوئی اثر نہ ہوا۔

"کیسے ڈیڈ؟ بھول گئے آپ نے جو پیپرز سائن کیے تھے مجھے ایم-ڈی بناتے وقت؟"۔ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ انہیں یاد دلایا۔


"غازی انڈسٹریز، شوگر ملز، فیکٹریز اور ہمارے آفس کا ففٹی فائیو پرسنٹ شیئر ہولڈر ہوں میں۔۔۔اور آپ صرف پینتالیس فیصد کے۔ تو آخری فیصلہ کس کا ہونا چاہیے؟ میرا یعنی غازی اردشیر کا" اسکی بات سن کر عثمان صاحب پر اوس پڑ گئی۔


جبکہ وہ فاتحانہ نظروں سے وہاں موجود سب کو دیکھ کر رہا تھا۔


"کسی کو کوئی اعتراض؟"۔ بلند آواز سے پوچھا۔

مگر سب کے سب خاموش رہے۔


تو وہ مسکراتے ہوئے روتی مہرو کو اپنے ساتھ گھسیٹ کر زینے طے کرتے اپنے کمرے کی اوور بڑھ گیا۔

اور وہ سب دیکھتے ہی رہ گئے۔

گھر میں معمول سے ہٹ کر آج ہسنے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

تھک کر وہ دوپہر میں کوئی کتاب پڑھتے پڑھتے سو گئی تھی۔

اور اب شام کے چار بج رہے تھے جب اسکی آنکھ کھلی۔

سردیوں کی وجہ سے سر شام ہی سورج رخصت ہونے کی تیاریوں میں تھا۔


واش روم میں گھس کر اس نے پانی کی چھینٹیں چہرے پر ماری۔

چہرہ پونچھ کر دوپٹہ اوڑھتے ہوئے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تو آوازیں عاصمہ بیگم کے کمرے سے آ رہی تھیں۔

اس نے دیکھا فاطمہ بیگم بھی اُدھر ہی براجمان تھیں۔

تبھی اچانک انکی نظر اس پر پڑی۔


"ارے، مریم بیٹا، آؤ اندر آ جاؤ نا۔ دیکھو وجاہت تب سے آیا بیٹھا ہے۔ ابھی تمہاری ہی بات ہو رہی تھی"۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔

تو مریم کے قدم من من بھر کے ہو گئے۔

آہستگی سے چلتی ہوئی وہ کمرے میں داخل ہوئی۔


"السلام و علیکم"۔ مقابل کے متوجہ ہوتے ہی اسکی گھنیری پلکیں خود بہ خود سایہ فگن ہو گئیں۔

اس نے بھی سر ہلا کر جواب دیا۔

تو وہ فاطمہ بیگم کے برابر بیٹھ گئی۔


"ہاں تو مریم، آپ کی امی بتا رہی تھیں کے آپ انہیں لے کر واپس جانا چاہتی ہیں۔ کیا بات ہے؟ کیا کوئی پریشانی ہے یہاں؟"۔ وجاہت نے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"جی۔۔امی ٹھیک کہہ رہی ہیں آپکی اجازت ہو تو ہم جانا چاہیں گے۔ آپ نے اور آنٹی نے ویسے ہی ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ اتنا تو کوئی اپنا بھی نہیں کرتا"۔ مریم نے بھی اب کے اسکی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا۔


"ہوں، تو آپ کا مطلب ہے ہم آپ کے اپنے نہیں ہیں۔ مریم کیا اپنا ہونے کیلئے خون کا رشتہ ہونا ضروری ہوتا؟ احساس اور خلوص کچھ بھی نہیں؟"۔ صاف ظاہر تھا اسکی بات سے کے اسے ٹھیس پہنچی تھی۔


"وجاہت ٹھیک کہہ رہا ہے بیٹی، کیا ہم آپ کے اپنے نہیں ہیں؟"۔عاصمہ بیگم نے بھی سوالیہ انداز میں وجاہت کی تائید کی۔


"ایسی کوئی بات نہیں ہے آنٹی، لیکن ہمیں جانا تو بہرحال ہوگا ایک دن"۔ مریم کیلئے ان کی بات کا جواب دینا دو بھر ہو رہا تھا۔


اب وہ انہیں کیا بتاتی کے اسکا اپنا دل کیسے اس سے بغاوت کر گیا تھا۔

اور کسی کے ساتھ جڑا رشتہ اس قدر مضبوط تھا کے نا ہونے کے باوجود بھی اپنے ہونے کا احساس دلاتا تھا۔ تو مریم کو جیسے شدید گھٹن ہونے لگتی تھی۔

لاکھ وہ اس رشتے کو نا مانتی ہو پر خدا تو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ پھر بھلا وہ کیسے خیانت کر لیتی۔


"اور اگر ہم آپ لوگوں کو نا جانے دینا چاہیں تو؟"۔ وجاہت اسکی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔


مریم اسکی ہٹ دھرمی دیکھ کر ہی غش کھانے کو تھی۔


"آپ لوگ ہمارے گھر کی انیکسی میں شفٹ ہو جائیں۔ پھر وہاں اپنی مرضی کے مطابق رہیے گا"۔ اس نے کہتے ہوئے جیسے اسکی مشکل آسان کرنی چاہی۔

وہ دیکھ سکتا تھا کے وہ کتنے ہی بندھ باندھ رہی تھی اپنے منہ زور جذبوں پر۔

تو وہ مزید اسے ستانا نہیں چاہتا تھا۔


"ہاں یہ ٹھیک رہے گا"۔ عاصمہ بیگم نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔

تو سب مریم کی جانب دیکھنے لگے۔

جیسے اب اسکا فیصلہ سننا چاہ رہے ہوں۔


"جی ٹھیک ہے۔ پر میری ایک شرط ہے"۔ رضامندی دینے کے ساتھ ہی اس نے ان سب کے چہرے دیکھتے ہوئے کہا۔


"کیسی شرط؟"۔ وجاہت نے ایک ابرو اٹھا کر سنجیدگی سے پوچھا۔


"ہم وہاں کا کرایہ ادا کریں گے"۔ مریم نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔


"اچھا اور کرایہ کیسے ادا کرو گی؟"۔ وجاہت نے جیسے طنز کیا۔


"آپ کو نہیں پتہ شاید۔ پر یہاں پاس کے ہی اسکول میں جاب کر رہی ہوں میں"۔ مریم نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔

تو وجاہت حیران رہ گیا۔


"امی یہ کیا کہہ رہی ہیں؟ اور آپ نے اجازت بھی دے دی مجھے بتایا بھی نہیں"۔ وجاہت نے پر شکوہ لہجے میں اب ماں سے سوال کیا۔


"کیا کرتی بیٹا، بہت ضد لڑکی ہے۔ اپنی ضد منوا کر ہی دم لیا۔ کہتی ہے کے گھر میں بے کار پڑے رہنے سے اچھا ہے وہ کوئی کام کر لے"۔ عاصمہ بیگم نے خفگی سے مریم کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"اور آپ آنٹی سے کچھ مت کہیے، انہیں میں نے ہی منع کیا تھا کے آپ کو کچھ نہ بتائیں"۔ مریم نے جیسے انکا دفاع کیا۔


"ہاں بھئی، اب آپ خواتین سے کون جیت سکتا ہے۔ اور یہاں تو ماشاءاللہ سے تین تین حسینائیں بیٹھی ہیں۔ اور ادھر میں بیچارا ایک اکیلا"۔ وجاہت نے کچھ اس انداز سے کہا کے وہ تینوں ہنس پڑیں۔


"تو بس طے رہا۔ اگر آپ کو میری شرط قبول ہے تو بتائیں۔ ورنہ پھر ہم کل ہی یہاں سے جا رہے ہیں"۔ مریم نے دھمکایا۔


"یہ دیکھیے، ہم نے کان پکڑ لیئے۔ "۔ اس نے باقاعدہ اپنے کان پکڑے۔

جس پر مریم نے مسکراہٹ دبائی۔


"یہ لو انیکسی کی چابی"۔ اس نے اٹھ کر دیوار میں لگے ہک سے چابی نکال کر اسے دی۔


"اب تو خوش؟"۔

تو اسکی بات پر مریم نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلا دیا۔


"اچھا اب تو آ ہی گیا ہے تو چند دن اور رک کے جانا یہاں"۔ عاصمہ بیگم نے وجاہت کو دیکھ کر کہا۔


"امی چند دن نہیں اب میں مسلسل یہی رہوں گا۔ کیونکہ میرا ٹرانسفر واپس لے لیا گیا ہے۔ کل ہی میں یہاں واپس شفٹ ہو رہا ہوں"۔ اس نے انہیں خوشخبری سنائی۔


"تو سچ کہہ رہا ہے؟"۔ عاصمہ بیگم کا چہرہ کھل اٹھا۔


"جی ہاں بالکل سچ۔ فیضان کے ماموں جو کے ایم این اے ہیں۔ ان کی سفارش سے میرا ٹرانسفر روک دیا گیا ہے۔" اس نے مریم کو فوکس کرتے ہوئے بتایا۔

جو پہلے ہی پزل ہو رہی تھی۔


"چلو یہ تو بہت اچھی بات ہے بیٹا۔ مبارک ہو"۔ فاطمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔


جبکہ مریم کو کہیں نہ کہیں لگ رہا تھا کے وجاہت اسکی نکاح والی بات کو بھلا رہا ہے۔

اور یہ کوئی اچھی خبر نہ تھی۔


اب اسے خود ہی اس سے ہر ممکن فاصلہ رکھنا ہوگا۔

اس نے اپنے دل میں خود سے کہا۔

_____________________________


وہ گئے تو تھے اسے لینے پر واپسی میں اپنے ساتھ دکھ اور مایوسی لے کر آئے۔

بلال بالکل بکھر کر رہ گیا۔

اسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کے مہرماہ۔۔۔اسکی پیاری بہن اسے دھوکہ دے سکتی ہے۔

وہ سب لوگ تو گھر واپس آ گئے تھے۔

مگر بلال اس وقت سے گھر نہ آیا تھا۔


گھر والوں نے مہرو سے ہر رشتہ توڑ دیا تھا۔

کیونکہ اسکی وجہ سے انکے حصے میں بد نامی آئی تھی۔

ان کو اب یقین ہو گیا تھا کے مہرماہ نے اردشیر سے پہلے سے ہی نکاح کر رکھا تھا۔


سوائے زرش اور بلال کے۔۔

ان دونوں کو ہی یقین تھا مہرماہ پر۔

کے جو کچھ بھی ہوا کم از کم اسکی مرضی سے ہر گز بھی نہیں ہوا۔


سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد رات دس بجے بلال کی گھر واپسی ہوئی۔

تو اسکی ابتر حالت دیکھ کر ان سب کے دل کٹ کر رہ گئے۔


جہانزیب صاحب، افشاں بیگم، زرش لاؤنج میں براجمان تھے۔

جب وہ گھر میں داخل ہوا۔

اور انکے ساتھ ہی آ بیٹھا۔


"یہ کیا حال بنا رکھا ہے بلال تم نے؟۔ کس کیلئے خود کو اتنی تکلیف دے رہا ہے؟ اس بہن کیلئے جس نے ایک بار بھی ہمارا نہیں سوچا"۔ افشاں بیگم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔


"آپ چاہے کچھ بھی کہئے امی، مجھے اس پر پورا اعتماد ہے۔ مجھ سے نہیں چھپے ہیں اسکے گالوں پر پڑے انگلیوں کے وہ نشان۔ نا ہی میں اسکی آنکھوں کا وہ درد اور التجا نظر انداز کر سکتا ہوں جو میں نے دیکھا تھا"۔ اسکے ذہن میں بار بار مہرو کا روتا ہوا چہرہ آ جاتا تھا۔

اور اسکے سفید روئی جیسے گالوں پر چھپے وہ انگلیوں کے نشان۔ جو گواہ تھے کے وہ کس دوزخ میں تھی۔


"ہاں تو خود اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے اس نے۔۔۔اب بھگتے وہ"۔ بظاہر تو افشاں بیگم نے ایسا کہہ دیا۔

مگر اندر سے وہ مہرو کیلئے پریشان تھیں۔


"خیر، میں یہاں کچھ اور کہنے آیا ہوں"۔ بلال نے سنجیدگی سے کہا۔

جس پر وہ تینوں اس کی جانب دیکھنے لگے۔


"یہ سب کچھ اردشیر نے اپنی بہن کی وجہ سے کیا ہے۔ اسکی بہن۔۔۔مہک عثمان غازی جو میرے نکاح میں ہے"۔ سر جھکا کر آخر کار اس نے انکشاف کر ہی دیا۔


ان کے اوپر سے جیسے کوئی روڈ رولر گزر گیا تھا۔

جھٹکا ایسا شدید تھا کے سنبھلنے میں وقت لگتا۔


بلال نے انہیں مختصر کر کے سب کچھ بتا دیا۔


"اب وہ یہ چاہتا ہے کے میں اسکی بہن کو طلاق دے دوں۔ جبکہ میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا"۔ بلال کا لہجہ اٹل تھا۔


"بہت خوب۔۔۔میرے بچوں، تم لوگوں کو اپنی گود میں کھلاتے وقت یہ کبھی نہیں سوچا تھا کے مجھے ایسے دن بھی دیکھنے پڑیں گے"۔ جہانزیب صاحب نے طنز اور دکھ سے کہا۔

وہ ان چند دنوں میں ہی پہلے سے کئی زیادہ بوڑھے اور کمزور لگنے لگے تھے۔

ایک کے بعد ایک جھٹکے انہیں اپنی اولاد کی طرف سے مل رہے تھے۔


"میں نے عثمان سر سے بات کر لی ہے، کل کی تاریخ میں مہک عثمان، مسز مہک بلال عالم بن کر اس گھر میں رخصت ہو کر آئے گی"۔ اس نے فیصلہ کن لہجے میں انہیں آگاہ کیا۔

تو افشاں بیگم نے گہری سانس لی۔

پھر گویا ہوئیں۔


"جب اس ایک لڑکی کی وجہ سے میری مہرو اتنی قربانی دے ہی چکی ہے۔ تو اب اسے بھی رخصت ہو کر یہاں لے آنا ہی بہتر رہے گا"۔ انہوں نے بھی تائید کی۔


"پر مما، وہ تو بہت ماڈرن ہے اور کافی مغرور بھی۔ کیسے گزارا کرے گی یہاں؟"۔ زرش نے نکتہ اٹھایا۔


"کر لے گی زری بیٹا، جب مہرو غازی اردشیر جیسے حیوان کے ساتھ گزارا کر رہی تو مہک کو بھی کرنا ہی پڑے گا"۔ بلال کے لہجے میں کچھ تھا جس پر وہ سب چونکے۔


"اب کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی کر لینا۔ اردشیر نے اسے وٹہ سٹا بنایا ہی اس لیئے ہے کے اِدھر تم اسکی بہن کو کوئی تکلیف پہنچاؤ اور اُدھر وہ مہرو کا جینا دو بھر کر دے"۔ جہانزیب صاحب نے اسے کسی بھی جارحانہ رویے سے روکا۔


"اس نے جب وٹہ سٹا بنا ہی لیا ہے پاپا، تو کیوں نا اب وہ خود بھی اسکا ذائقہ چکھے"۔

بلال نے غیر مرئی نکتے پر نگاہیں جمائے کہا۔


"دیکھو بیٹا، ایک عورت اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر محض ایک رشتے میں بندھ کر اسکے پیچھے پیچھے چلی آتی ہے۔ اور وہ رشتہ اسکا شوہر ہوتا ہے۔ تو یقینا پھر وہ محبت اور خلوص کی حقدار ہوتی ہے۔ نا کہ اس پر ظلم کیا جائے"۔ جہانزیب صاحب نے اب کے نرمی اختیار کی۔


"میں کب کہہ رہا ہوں کے میں اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑوں گا۔ میں بلال ہوں پاپا، آپ کا بیٹا آپکی اور امی کی تربیت میرے شامل حال ہے۔ میں غازی اردشیر نہیں ہوں پر اگر ضرورت پڑے تو اس سے کم بھی نہیں ہوں"۔ سخت لہجے میں کہتے ہوئے وہ پھر وہاں رکا نہیں تھا۔


جبکہ اسکے والدین اسکے ہر پل بدلتے رویے کے متعلق سوچتے رہ گئے۔

____________________________


صبح کا نور ہر سو پھیل گیا تھا۔

سردیاں اپنے جوبن پر تھیں۔ لہٰذا دھوپ اور بادلوں کی آنکھ مچولی جاری تھی۔


وہ شاور لے کر لمبے بھورے بال تولیے میں لپیٹتی ہوئی ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لینے لگی۔

پھول سا ہر دم کھلا کھلا چہرہ اب مرجھایا ہوا تھا۔

مسلسل روتے رہنے کے باعث اسکی براؤن آنکھوں تلے حلقے پڑ گئے تھے۔

شنگرفی لب قدرے خشک اور سفید پڑ رہے تھے۔

اس نے بے اختیار اپنے چہرے کو چھوا۔

چند دنوں میں وہ کیا سے کیا بن گئی تھی۔


وہ مہرماہ جو اپنے رنگ و روپ کو لے کر ہمیشہ سے ہی بہت زیادہ کانشس رہی تھی اب وہ خود سے اس قدر لاپرواہ ہو چکی تھی۔

اسکی اسکن سردیوں میں بے حد حساس ہو جاتی تھی۔

اور اسے یاد تھا کے کیسے وہ سردیاں شروع ہوتے ہی بلال کو اپنی چیزوں کی ایک لمبی لسٹ دے دیتی تھی۔

ماضی کو سوچ کر ہی اسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

سر جھٹک کر اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر نگاہیں دوڑائی تاکہ کوئی کریم یا لوشن جلد پر لگانے کیلئے مل جائے۔

پر وہاں تو ساری کی ساری مردانہ چیزیں رکھی تھیں۔


"لڑکیوں سے زیادہ تو یہ تیار ہوتا ہے"۔ زہر خند ہو کر اس نے دل میں سوچا۔


تولیے سے وہ اب اپنے بال خشک کرنے لگی۔


عین اسی وقت دھڑام سے دروازہ کھول کر کوئی کمرے میں داخل ہوا تھا۔

مہرو نے گھبرا کر نگاہیں موڑی۔

تو سامنے ہی اپنی تمام تر جاہ و جلال سمیت وہ کھڑا تھا۔

اسکے تیور مہرو کو بوکھلائے دے رہے تھے۔


قدم قدم چلتا ہوا وہ اسکے مقابل آ گیا۔

سر تا پیر اسکا جائزہ لینے لگا۔

جس پر مہرو مزید سمٹتی جا رہی تھی۔

بس نہ چلتا تھا کے سلیمانی چادر اوڑھ کر اسکی تیر کی طرح وجود کے آر پار ہوتی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔


"جانتی ہو تمہارے بھائی نے کیا کیا ہے"۔ سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسکے بھورے بالوں کی لٹ کو انگلی سے چھوا۔

مہرو بدک کر اس سے چند قدم پیچھے ہٹی۔

تو وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھے گیا۔


"تمہارے بھائی نے تمہارے بجائے اپنی بیوی کو چنا ہے"۔ دل و جان سے اسکی جانب متوجہ اب وہ اسے بتا رہا تھا۔


"کیا بکواس ہے یہ؟ میرے بھائی کی بیوی ہے اور مجھے ہی نہیں پتہ؟"۔ مہرو اب کے تمام تر خوف پس پشت ڈال کر اسکے سامنے ڈٹ گئی۔

گیلے بال سوکھ کر اب چہرے کے بائیں جانب شانے پر ڈال رکھے تھے۔

آنکھوں میں تپش لیئے وہ اسے جلا دینے کو تیار تھی۔


"بالکل ویسے ہی جیسے تمہارے ایک عدد شوہر سے متعلق تمہارا بھائی نہیں جانتا تھا"۔

ایک مرتبہ پھر فاصلہ پانٹ کر وہ اسکے قریب پہنچ گیا۔

مہرو دور ہٹتے ہٹتے ڈریسنگ میز سے جا لگی۔


"تمہارے جیسا سنگدل اور جلاد آدمی میرا شوہر کبھی نہیں ہو سکتا"۔ وہ غرائی۔


تو ایک دم ہی اس نے اسکا چہرہ دبوچ لیا۔


"تو کسے ہونا چاہیئے تھا تمہارا شوہر مہرماہ بی بی؟ تمہارے اس آشنا کو۔۔۔۔کیا نام تھا اسکا؟۔۔۔ ہاں، احد۔۔کیا اب بھی اس بیچارے کو اس خوش فہمی میں ڈال رکھا ہے تم نے کے ایک دن مجھ سے آزاد ہو کر تم اسکے پاس جاؤ گی؟"۔ وہ ہنوز اسکے چہرے کو اپنے مضبوط ہاتھ سے دبوچے کہہ رہا تھا۔


مہرو کی آنکھوں میں پانی آ گیا۔

اب یہ اسکی گرفت کا اثر تھا یا الفاظ کا فیصلہ کر پانا مشکل تھا۔

وہ ہنوز خود کو چھڑوانے کی سعی کر رہی تھی۔

ایک جھٹکے سے وہ اسے چھوڑ کر چند قدم پیچھے ہٹا تھا۔


مہرو کے گالوں پر ایک مرتبہ پھر اسکی مضبوط انگلیاں چھاپ چھوڑ گئیں۔

اسے لگا جیسے اسکے چہرے کی ایک عاد ہڈی تو چٹخ ہی گئی ہوگی۔


"یہی کر سکتے ہو تم۔۔۔۔جنگلی شخص تم سے کسی انسانی رویے کی امید بھی نہیں رکھی جا سکتی ہے۔میرے کردار پر انگلی اٹھانے کی تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی؟ "۔ وہ اب تمام تر لہٰذا بھلائے اسکے سامنے چیخ رہی تھی۔


"مجھے تو یہ ہی نہیں سمجھ آتا کے آخر تم کس گناہ کا بدلہ لے رہے ہو مجھ سے؟ کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا؟"۔ وہ اسکے سامنے کھڑی اس سے روتے ہوئے سوال کر رہی تھی۔

اور وہ اسپاٹ چہرے و تاثرات کے ساتھ اسے دیکھے جا رہا تھا۔


"تمہارے بھائی نے میری بہن سے نکاح کر رکھا ہے بیگم صاحبہ، جبکہ وہ اس سے طلاق چاہتی ہے۔ تو ڈیل سمپل ہے۔ اگر تم مجھ سے چھٹکارا پانا چاہتی ہو تو پہلے جا کر اپنے پیارے بھائی سے کہو کے وہ مہک کو آزاد کر دے اپنی مرضی سے۔ ورنہ پھر تمہیں بھول جائیں وہ"۔ سختی سے اسکا بازو دبوچے وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔

اور مہرو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔

پھر جب ہوش آیا تو پوری قوت لگا کر اس نے اسے پرے دھکیلا۔

وہ چند قدم پیچھے لڑکھڑا کر فورا سنبھلا۔

گھور کر اس نے اس دھان پان سے وجود کو دیکھا۔


"بکواس ہے یہ سب۔۔۔جھوٹ ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد تمہیں لگتا ہے کے میں تمہاری بات کا یقین کروں گی؟ تم صرف مجھے میرے اپنوں سے دور کرنے کیلئے یہ سب کھیل کھیل رہے ہو لیکن یاد رکھنا غازی اردشیر کے مہرماہ کا اپنے بھائی سے رشتہ اتنا کچا نہیں ہے کے تمہارے دیئے دھوکے کا ایک جھٹکا اسے توڑ کر رکھ دے"۔

وہ غصے سے کہتے ہوئے اب ہانپ رہی تھی۔


"بہت گھمنڈ ہے نا تمہیں اپنے بھائی پر؟ اسکی محبت پر؟ بہت جلد تمہاری آنکھوں سے یہ پٹی بھی میں نوچ پھینکوں گا۔ تب مسز مہرماہ۔۔۔تب مجھے آ کر بتانا کے آگاہی کی وہ روشنی اندھیرے کے عادی آنکھوں کو کیسے چبھتی محسوس ہوتی ہے"۔

چبا چبا کر ایک ایک لفظ کہنے کے بعد وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔


پیچھے وہ غصے سے بل کھا کر رہ گئی۔

__________________________


خبر ایسی تھی کے وہ چند لمحوں تک ہلنے کے بھی قابل نہیں رہی تھی۔

بالآخر عثمان صاحب نے اپنے فیصلے کے مطابق اسے رخصت کرنے کی ٹھان لی تھی۔

تب سے بے چینی حد سے سوا تھی۔

ساتھ ہی غصہ بھی ساتویں آسمان پر تھا۔


اسی وقت اسکا موبائل بج اٹھا۔

نمبر جانا پہچانا سا تھا۔

اس نے فورا ریسیو کر لیا۔


"تیاریاں کیسی چل رہی ہیں رخصتی کی؟"۔ چھوٹتے ہی عمیر کی طنز بھری ہنسی کے ساتھ ہی اسے یہ سوال سننے کو ملا۔

تو اسکی روح تک زخمی ہو گئی۔


"تمہاری بیوی چھوڑ کر چلی گئی ہے کیا تمہیں؟ چچ۔۔۔چچ۔۔۔افسوس ہوا"۔ مہک نے جل کر جواب دیا۔


"اپنی فکر کرو میکی۔۔۔میری لائف تو بالکل سیٹ ہے۔ تم نے تو کہا تھا کے تم نے نکاح کر لیا ہے۔ سیریئسلی مہک، بلال؟ اس سے زیادہ بیکار چوائس نہیں ہو سکتی تھی؟"۔ عمیر نے اسکا مذاق اڑایا۔


جس پر وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔

"تمہیں میری لائف میں انٹرفیئر کرنے کی اجازت نہیں ہے یو باسٹرڈ۔ تم اپنا گھر اور بیوی بچے دیکھو۔

او ہاں، دیکھا تھا میں نے کل تمہیں مال میں کے کیسے تم اپنی بیوی کے شاپنگ بیگز اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے دم ہلاتے ہوئے چل رہے تھے۔ اس سے زیادہ بیکار کام نہیں تھا تمہارے پاس؟"۔ وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔

وہ کہاں پیچھے رہتی؟


عمیر نے کچھ کہے بنا ہی فورا کال ڈسکینیکٹ کر دیا۔

مہک فون کو دیکھ کر بے ساختہ ہنستی چلی گئی۔


"لوزر۔ مجھے جلانے آیا تھا" سر جھٹک کر اس نے کہا۔


"بلال جہانزیب، منا لو خوشیاں تم جتنی مرضی منا لو۔ اسکے بعد تمہارا جینا حرام کر دوں گی میں۔ جانتے نہیں ہو تم کے کس سے پنگا لے رہے ہو۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ"۔ زہرخند ہو کر اس نے دل میں اسے مخاطب کیا۔

آج صبح سے ہی موسم خاصہ سرد ہو رہا تھا۔

بادلوں کی گھن گرج خبر دیتی تھی کے کچھ ہی دیر میں ابر رحمت برسنے کو ہے۔

بک شاپ سے اپنی پسندیدہ کتابیں خریدنے کے بعد اب وہ پیدل ہی سڑک کے اطراف میں چل رہی تھی۔

سرد ہوائیں اسکے کھلے سیاہ بالوں سے اٹھکھیلیاں کرتی تھیں۔

اطراف میں اکا دکا لوگ اور گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔

ایسے موسم میں وہ اور مہرماہ اکثر آئس کریم، پزا یا برگر کھانے جاتے تھے۔

آج وہ نہیں تھی۔

زرش کو اسکی کمی آج بے حد محسوس ہو رہی تھی۔

وہ ٹشو پیپر میں برگر تھامے ایک ہاتھ میں کتابیں پکڑے ابھی کچھ ہی دور چلی ہوگی کے ایک دم بوندا باندی شروع ہو گئی۔

وہ مزید تیز تیز چلنے لگی۔

بارش کی بوچھاڑ بھی اب تیز ہو رہی تھی۔


ابھی وہ کچھ ہی دور چلی ہوگی جب ایک گاڑی عین اسکے برابر آ رکی۔

وہ نظر انداز کر دیتی مگر کھلی کھڑکی سے اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان برہان کو دیکھا۔

جو خوش گوار حیرت اور کچھ کچھ دلچسپی سے اس بھیگی سی لڑکی کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔

زرش نے بھی رک کر اسے دیکھا۔


"مس زرش، آپ اس بارش میں کہاں بھٹک رہی ہیں؟"۔ برہان نے زرا بلند آواز سے پوچھا۔

گو فاصلہ کم تھا مگر بارش کی تڑ تڑ کی وجہ سے زرش تک بمشکل اسکی آواز پہنچی۔


"کیوں؟ بارش میں باہر نکلنے پر پابندی ہے کیا؟"۔ زرش نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔


"ہر گز نہیں، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو لفٹ دے سکتا ہوں گھر تک۔ کیا خیال ہے؟"۔ برہان نے مسکراتے ہوئے اسے آفر کی۔


"کوئی ضرورت نہیں۔ میں پیدل ہی چلی جاؤں گی۔ میرا گھر اتنا دور نہیں ہے یہاں سے"۔ وہ اسے بتا کر آگے بڑھنے لگی۔

جب گاڑی ریورس ہو کر ایک بار پھر اسکے برابر آگئی۔

تو زرش نے ناگواری سے اسے دیکھا۔


"اتنا بھی ناقابل اعتبار نہیں ہوں میں۔ اور اب تو آپ کی بہن کے شوہر کا دوست پلس کزن بھی ہوں۔ تو اتنا بھروسہ آپ کر ہی سکتی ہیں مجھ پر"۔ برہان نے اب کے سنجیدگی سے کہا۔

تو زرش سوچ میں پڑ گئی۔


مگر پھر آگے بڑھ کر اس نے فرنٹ ڈور کھولا اور اسکے برابر بیٹھ گئی۔


"تھینکس"۔ اس نے مروتا کہا۔

تو برہان نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔


"ویسے آپ اس بارش میں باہر کیوں گھوم رہی تھیں؟۔" وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔


"میں اور مہرو اکثر ایسے موسم میں باہر جاتے تھے۔ آئس کریم کھانے۔ وہ نہیں تھی تو میں بس اسے مس کر رہی تھی"۔ زرش کی آواز میں خود بخود نمی گھل گئی۔


تو برہان نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔

جو رخ موڑ گئی تھی۔


وہ کچھ بھی مزید کہے بغیر خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔


گاڑی اپنے ٹریک سے ہٹی تو زرش چونکی۔


"یہ تو میرے گھر کا راستہ نہیں ہے۔ آپ کہاں جا رہے ہیں؟"۔ اس نے گھبرا کر کہا۔


"جانتا ہوں، ہم غازی ولا جا رہے ہیں۔ آپکی بہن مہرو جو کے ہماری بھابھی ہیں کو لے کر ہم آئس کریم کھانے چلیں گے"۔ برہان نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔


"کیا پر یوں بنا اطلاع کے۔۔۔ہم کیسے کسی کے گھر جا سکتے ہیں؟"۔ زرش نے بوکھلا کر کہا۔

اور اوپر سے اسکا حلیہ۔۔۔۔وہ مکمل بھیگ چکی تھی۔


"آپ نہیں میں تو جا ہی سکتا ہوں نا۔۔۔میری پھپھو کا گھر ہے بھئی وہ"۔ برہان نے فخریہ کہا۔

تو زرش خاموش ہو گئی۔

اندر ہی اندر یہ ڈر بھی تھا کے اگر گھر میں پتہ چلا وہ بنا کسی کو خبر کیئے مہرو سے ملنے گئی ہے تو اسکی شامت پکی تھی۔


دس منٹ بعد گاڑی پوش ایریا میں واقع غازی ولا کے گیٹ سے باہر رکی۔

گارڈ جو گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔ برہان کو دیکھ کر فورا ہی گیٹ وا کر دیا۔

تو گاڑی رینگتی ہوئی گیٹ سے اندر داخل ہو گئ۔


"میرے گھر میں اگر پتہ چلا تو بہت ڈانٹ پڑے گی"۔ زرش ہنوز گھبرائی ہوئی تھی۔


"او ہو، مس زرش آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہیں۔ اور پھر آپ اپنی بہن سے ملنے آئی ہیں کسی غیر سے تھوڑی۔ اب زیادہ پریشان نہ ہوں بس چلتے چلیے"۔ پورٹیکو میں کار روک کے اس نے زرش سے کہا۔

تو اس نے سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔


پھر اسکے ساتھ ہی گاڑی سے نیچے اتر آئی۔

اسکے کپڑے اب کافی حد تک سوکھ چکے تھے۔

بارش اب بھی جاری تھی۔

مگر آہستہ آہستہ اب بوندا باندی میں بدل رہی تھی۔


وہ گھبرا کر ارد گرد کا جائزہ لیتی ہوئی اسکے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔


دروازے پر بیل دینے کے کچھ ہی لمحے بعد ملازم نے دروازہ کھولا۔


لاؤنج میں ہی بے جی، نگہت بیگم اور کائنات اور محمودہ بیگم بیٹھیں تھی۔

ساری خواتین چائے اور اسنیکس سے بھرپور انصاف کر رہی تھیں۔

اور خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ مہک کی رخصتی کی تیاریاں بھی زوروں پر تھیں۔


"ناٹ فیئر، آپ سب یہاں اکیلے اکیلے بیٹھیں کھا پی رہی ہیں۔ اور مجھے پوچھنا بھی گوارا نہ کیا"۔ برہان کے کہنے پر ان سب نگاہیں موڑ کر اسے دیکھا۔

اور اس سے کچھ ہی فاصلے پر جھجھکتی ہوئی زرش کو۔


"ارے زرش بیٹا تم"۔ نگہت بیگم خوش گوار حیرت سے اسے دیکھتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

جبکہ محمودہ بیگم اس لڑکی کو اپنے بیٹے کے ہمراہ دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔


نیلی جینز پر سیاہ گھٹنوں تک آتی سفید کرتی پہنے، سفید دوپٹہ گلے میں ڈالے کھلے سیاہ بالوں والی اس پری وش کو دیکھ کر کائنات نے بھی ناک بھوں چڑھایا۔


"او ہاں، یہ مس زرش بھابھی سے ملنا چاہ رہی تھیں۔ تو میں نے کہا کوئی بڑی بات نہیں میں ملوا دیتا ہوں"۔ برہان نے پلیٹ میں سے کباب اٹھاتے ہوئے عام سے لہجے میں بتایا۔

جبکہ زرش ٹھیک سے اسے گھور بھی نہ سکی۔


"آنٹی، مہرو کہاں ہے؟"۔ زرش نے نگہت بیگم سے پوچھا۔

وہ ریسورڈ ضرور رہتی تھی پر لو کانفیڈنس ہرگز نہیں تھی۔


"تم آؤ، آرام سے پہلے ادھر بیٹھ جاؤ۔ میں ابھی مہرماہ کو بلواتی ہوں"۔ انہوں نے پیار سے اسکا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیا۔

اور اب ملازمہ کو آوازیں دینے لگیں۔


"پروین۔ جاؤ جا کر بہو بیگم کو بلواؤ۔ کہنا انکی بہن ان سے ملنے آئی ہیں"۔ نگہت بیگم نے حکم دیا تو ملازمہ سر ہلاتی ہوئی زینے طے کر کے اوپر کے کمرے کی جانب چلی گئی۔


"اور بیٹا گھر میں سب کیسے ہیں؟"۔ اس کے برابر بیٹھ کر انہوں نے نرمی سے پوچھا۔


"جی آنٹی سب خیریت ہے"۔ آہستگی سے جواب دیا۔

محمودہ بیگم اور کائنات کی گھورتی نظریں اسے عجیب لگ رہی تھیں۔

ان دونوں نے ہی اسے مخاطب کرنا تو دور بلکہ نظر انداز ہی کر دیا تھا۔


"دونوں ماں بیٹیاں بالکل ایک جیسی لگ رہیں۔ پھر جانے یہ برہان کس پر گیا ہے"۔ زرش نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے دل میں سوچا۔


"زرش"۔ اسی وقت مہرو کی بے قرار آواز اسکے کانوں میں پڑی تو وہ بھی بے ساختہ اسکی جانب متوجہ ہوئی۔


مہرو بے چینی سے فاصلہ مٹا کر اسکے گلے لگ گئی۔

اتنے دنوں بعد کسی اپنے سے یوں مل کر اسکی آنکھیں خود بخود بھیگتی چلی گئیں۔

زرش کی بھی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔


سب لوگ مسکراتے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

جبکہ محمودہ بیگم بے زاری سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔


"تم یہاں۔۔۔ایسے اچانک؟"۔ بہت دیر بعد اس سے الگ ہو کر مہرو نے پوچھا۔


"میں لایا ہوں بھابھی۔۔۔آپ کا اکلوتا دیور"۔ زرش کے کچھ کہنے سے قبل ہی برہان نے فخریہ کالر کڑاتے ہوئے کہا۔

تو مہرو نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


"تھینک یو برہان بھائی"۔ وہ ممنون ہوئی۔


"او ہو، بھائی بولتی ہیں اور تھینکس بھی۔ دیٹس ناٹ فیئر"۔ برہان نے مصنوعی خفگی سے منہ بنا کر کہا۔

تو وہ ہنس دی۔


"اچھا آپ دونوں اتنے دن بعد مل رہی ہیں۔ جا کر کسی الگ کونے میں بیٹھے۔ ڈھیر ساری باتیں کریں۔ میں بھی تب تک اپنے یار کو دیکھ لوں۔۔۔۔ویسے لاڈ صاحب ہیں کہاں؟ بہت دنوں سے چھپتا پھر رہا ہے مجھ سے"۔ برہان کہتے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر رک کر مہرو سے پوچھا۔


"اسٹڈی روم میں ہیں"۔ اس نے جواب دیا۔


"ابھی خبر لیتا ہوں"۔ برہان کہتے ہوئے زینے چڑھ گیا۔


تو مہرو بھی زرش کو لے کر پول سائیڈ آ گئی۔


"واؤ، کتنی کول ہے یہ جگہ"۔ زرش نے سوئمنگ پول کے نیلے پانی کو دیکھتے ہوئے کہا۔


وہ دونوں اب چھتری تلے رکھے ان کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔


"جانتی ہو اس پورے سونے کے پنجرے میں ایک یہی جگہ ہے جو مجھے پسند ہے"۔ مہرو آج بہت دنوں بعد مسکرا رہی تھی۔

اس مسکراہٹ میں بھی چھپی سوگواریت کو زرش محسوس کر سکتی تھی۔


اس نے مہرماہ کا یخ پڑتا ہاتھ تھام لیا۔


"تم ٹھیک ہو نا مہرو۔ ہم سب تمہیں بہت بہت مس کرتے ہیں"۔ زرش نے اداسی سے کہا۔


"سب کیسے ہیں گھر میں؟ بے جی، امی، پاپا، سفیان انکل اور بلال بھائی؟ وہ سب مجھ سے ناراض ہوں گے۔ میں جانتی ہوں"۔ اسکی آواز میں نمی گھل گئی۔


"سب بالکل ٹھیک ہیں مہرو۔ اور کوئی ناراض واراض نہیں ہیں۔ ہاں بس ایک دوسرے سے ذکر نہیں کرتے۔ لیکن اکیلے میں ہر کوئی تمہیں یاد کرتا ہے۔ مجھ سے زیادہ تم انہیں جانتی ہو مہرو۔ تمہارے اپنے تم سے روٹھ بھلے ہی جائیں۔ پر تمہیں چھوڑ نہیں سکتے وہ"۔


زرش کے پر یقین لہجے پر اس نے گہری سانس لی۔


"تم ٹھیک تو ہو نا؟"۔ زرش نے تشویش سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پوچھا۔


"ہوں۔ زندہ ہوں، تمہارے سامنے ہوں۔ اب اور کیسے یقین دلاؤں؟"۔ مہرو نے تلخی سے مسکرا کر کہتے جیسے اپنا مذاق خود اڑایا۔


"کیوں ایسی مایوس بھری باتیں کرتی ہو۔ جو کچھ بھی ہوا مہرو بس اسے خدا کی مرضی جان کر قبول کرنے کی کوشش کرو۔ میں جانتی ہوں کے یہ کہنے میں جتنا آسان ہے کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ لیکن ناممکن بھی تو نہیں ہے نا۔ کم از کم وہ احد تو تمہارے قابل ہرگز بھی نہیں تھا۔ بزدل کہیں کا۔ مصیبت میں وہ تمہیں چھوڑ کر بھاگ گیا مہرو۔ تو اللہ جانے بعد میں مشکل وقت پڑھنے پر تمہارا ساتھ دیتا بھی یا نہیں۔ کتنا کمزور تھا اسکا اعتماد جو ایک جھٹکے میں ٹوٹ گیا"۔ زرش کو اس دن سے احد پر بے تحاشا غصہ چڑھا تھا۔

جب وہ جانے مہرو کے بارے میں کیا کیا کہہ کر، طعنے مار کے وہاں سے اپنی فیملی سمیت چلا گیا تھا۔

______________________________


"تجھے یہ بیٹھے بٹھائے آخر کیا سوجھی شیرو؟ جو تو نے ایسا انتہائی قدم اٹھا لیا؟ ایک بار بھی تو نے یہ نہیں سوچا کے کس فیملی سے واسطہ ہے تیرا؟"۔ برہان اب اسکے سامنے کھڑا اسے ملامت کر رہا تھا۔

جبکہ وہ صوفے پر سر جھکائے بیٹھا ہنوز خاموش تھا۔

کیا تھا اس خاموشی کے پیچھے؟

کوئی پچھتاوا؟

کوئی افسوس؟ یا احساس گناہ؟


"میں تجھ سے کہہ رہا ہوں شیرو؟ ادھر میری طرف دیکھ اور مجھے جواب دے۔ کیوں اس معصوم کی زندگی تو نے یوں برباد کر دی؟ جہاں تک میں تجھے جانتا ہوں شادی لفظ سے ہی تو الرجک تھا۔

پھر ایسا بھی کیا تھا کے اس بھرے پرے تقریب کو یرغمال بنا کر جھوٹا نکاح نامہ دکھا کر تو اسے وہاں سے لے گیا؟" برہان کے سوالات ہنوز تھے۔

پر اسکا چہرہ اسپاٹ تھا۔

اندازہ لگانا مشکل تھا کے اسکے ذہن میں کیا چل رہا ہے اس وقت۔


"اگر میں تجھے جانتا نہ ہوتا نا تو ضرور ایک پل کو رک کر سوچ لیتا کے کہیں تجھے اس سے عشق وشق تو نہیں"۔


"پاگل واگل ہے کیا۔ میں اور اس سے عشق؟ دیٹ مسٹ بی آ جوک"۔ اس عرصے میں پہلی بار اس نے منہ کھولا۔


"کہاں کی بات کہاں ملا دی تو نے؟ بھلا ایسے کرنے سے کیا ہو جانا تھا۔ کس سے کھیلے ہو تم شیرو۔ اسکی زندگی سے یا اپنے روٹھے ہوئے دل سے؟"


برہان کے سوالات سن کر بے چینی حد سے سوا ہوگئی۔

گھٹن اتنی بڑھی کے وہ کھلی کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔

بارش اب رک چکی تھی۔


بارش کی خوشبو اور ٹھنڈی ہوا نے اسے تازہ دم کیا۔

نظریں دوسری منزل سے نیچے جھکائی تو سامنے ہی وہ پول میں پیر لٹکائے زرش کے ساتھ بیٹھی بے فکری سے ہنستی ہوئی دکھائی دی۔


وہ دلچسپی سے اسکی جانب تکتا چلا گیا۔

بے اختیار ہو کر۔

بے ساختہ ہی۔

وہ پہلی بار اسے یوں بے تحاشا ہنستے دیکھ رہا تھا۔


کتنی خوبصورت تھی اسکی ہنسی!

بالکل پہلی بارش جیسی!

پھولوں پر پڑے شبنمی بوندوں جیسی!

آسمان پر دمکتے ستاروں جیسی۔۔۔

یا پھر۔۔۔

سمندر کے ان بے اختیار لہروں جیسی۔


وہ بے خود سا ہو کر اسے تکتا جا رہا تھا۔

اسے نہیں معلوم تھا اس منظر میں ایسا کیا تھا۔

اسے اپنے پیچھے مسلسل بولتا ہوا برہان بھی بھول چکا تھا۔


"میں کچھ کہہ رہا ہوں تجھ سے؟"۔ برہان نے زچ ہو کر اسکا کندھا ہلایا۔

تو وہ بے اختیار چونکا۔

دونوں لڑکیاں اب وہاں نہیں تھیں۔


"ہاں۔۔۔تم کیا کہہ رہے تھے"۔ اس نے پیشانی پر ہاتھ رکھے جیسے یاد کرنا چاہا۔

برہان نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے گھورا۔


"ایک تو اتنے مشکل مشکل الفاظ بول کر میں تجھے نصیحت کر رہا تھا۔ اور اب پتہ چلا کے ماشاءاللہ سے ہمارے غازی صاحب سن ہی نہیں رہے تھے"۔ اس نے اسکے شانے پر زوردار مکا رسید کیا۔


"میں نہیں جانتا یہ سب کیسے ہوا مجھ سے۔ بہرحال یہ سب میرا پلان نہیں تھا"۔ بے نیازی سے کہا۔


برہان نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"تو اسکی شادی کی تقریب میں پہنچا، تو نے بنا انکی یا اپنے باپ کی عزت کی پرواہ کیئے تقریب کو یرغمال بنایا۔ تو نے اسے سب کی نظروں سے گرا دیا اور اب تو کہتا ہے کے یہ تیرا پلان نہیں تھا؟ غازی کیا تیرے سینے میں دل کی جگہ آلہ فٹ ہے؟"۔ برہان نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔


"بکو مت۔ میں پریشان تھا۔ نہیں جانتا مجھ سے یہ سب کیسے ہو گیا"۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔


"اور کتنی زندگیاں برباد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو؟ کسی ایک کو تو بخش دے"۔ شکایتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے معنی خیزی سے کہا۔

تو اس نے گہری سانس لی۔

"بخش دوں گا۔ فلحال مجھے اور بھی کام ہیں ان عورتوں کی جھنجھٹ کے علاوہ"۔ بے رحمی سے کہتے ہوئے اس نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھا لیا۔

تو برہان افسوس سے اسے دیکھتا رہ گیا۔

________________________________

"سارے ارمان پر پانی پھیر دیا کمبخت دونوں بہن بھائی نے۔ میرے برسوں پرانے خواب کو مٹی میں ملا دیا"۔

غصہ ساتویں آسمان پر تھا ان کا ۔

سارا کمرہ الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔

"ممی، اب ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ جو ہوا وہ تو کسی کے بھی علم میں نہیں تھا"۔ کائنات نے گویا ناک سے مکھی اڑائی۔

جب سے اسے پتہ چلا تھا کے اردشیر نے مہرماہ سے نکاح کر لیا ہے۔

اسکی اردشیر کو پانے کی رہی سہی امید بھی اپنی موت آپ مر گئی تھی۔

اور آج کل تو وہ ویسے ہی وکی کے ساتھ پائی جاتی تھی۔

اس نے سوچا جب وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ گیا ہے اتنا سب ہونے کے بعد تو وہ خود بھی کیوں نا آگے بڑھ جائے۔

"تمہاری اس بے پرواہی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کائنات کے وہ کل کی آئی لڑکی غازی خاندان کی اکلوتی بہو بن کر بیٹھ گئی ہے۔

اوپر سے مہک بھی گئی ہمارے ہاتھ سے"۔ وہ بے قراری سے یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھیں۔

غصہ تھا کے کسی طور کم ہونے میں نہ آ رہا تھا۔

"مہک ویسے بھی آپ کے ہاتھ میں کب تھی ممی۔ اور فرض کریں اگر وہ خود سر اور ضدی لڑکی آپکی بہو بن جاتی اور میرے اکلوتے بھائی کی بیوی، آپ کو تو وہ ناکوں چنے چبوا دیتی"۔ کائنات نے طنزیہ ہنسی ہنس کر کہا۔

"اس لیے کہتی ہوں شکر ادا کریں کے اس سے ہم بچ گے"۔

"تو اپنے یہ عقلمندی والی باتیں سنبھال کر رکھ۔ اوپر سے وہ دو ٹکے کی لڑکی آج کل میرے برہان کے سر پر سوار رہنے لگی ہے۔ مجھے کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔

اب مزید نقصان کی میں متمنی نہیں ہو سکتی"۔ چیل جیسی آنکھیں چھوٹی کیئے وہ اب عقل کے گھوڑے

دوڑا رہی تھیں۔a

"کیا سوچا پھر؟ مجھے بھی بتائیں"۔ کائنات نے اب کے دلچسپی سے پوچھا۔


"جب وقت آیا تب تمہارے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی پتہ چل ہی جائے گا کے میں آخر چیز کیا ہوں"۔

پر سوچ انداز میں انہوں نے جواب دیا۔


جبکہ کائنات انہیں بس دیکھ کر رہ گئی۔

_____________________________

شادی ہال برقی قمقموں سے سجا اس وقت بقائے نور بنا ہوا تھا۔

شہر کے امراء، رؤسا اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان کئی ایک ہستی بلال اور مہک کی شادی میں شریک ہونے کیلئے آئے تھے۔


کسی کے زبان پر کوئی سوال نہ تھا۔

کسی ایک نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا تھا کے منگنی یا دوسری کسی بھی قسم کی تقریب کے بجائے یہ ڈائریکٹ شادی کیوں کروائی جا رہی تھی۔

کیونکہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی۔

وہ تو مہک عثمان تھی۔

وہ عثمان غازی، جسکا شہر بھر میں ایک نام تھا۔

اپنے وقت کے وہ سب سے مشہور بزنس مین تھے۔

دولت انکے گھر کی باندی تھی۔

تو شہرت و عزت انکے غلام۔


تو ایسے شخص پر سوال اٹھانے سے متعلق کوئی احمق ہی ہوتا جو سوچتا۔


سوال تو جہانزیب صاحب جیسے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر اٹھائے جاتے ہیں۔

جن کو با آسانی کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا ہے۔


تو انکی بیٹی مہرو پر لوگ چاہے جتنے سوال اٹھاتے۔

در پردہ لوگ چاہے جتنی سرگوشیاں مہرماہ جہانزیب سے متعلق کرتے۔


مگر مسز مہرماہ غازی سے سوال کرنے یا اس پر انگلی اٹھانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔

کیونکہ وہ عثمان غازی کی بہو اور غازی اردشیر کی بیوی تھی۔

جو اتنی ہی معتبر تھی جتنے کے غازی خاندان کے باقی افراد۔

الٹا سب انہیں مبارکبادی دے رہے تھے۔


سیاہ رنگ کے سلور کام والے ساڑھی میں ملبوس، لمبے بھورے بالوں کو گھنگھریالے کر کے چہرے کے بائیں طرف کو ڈالے، ہلکے ڈائمنڈ سیٹ اور پارٹی میک اپ کے ساتھ وہ مکمل طور پر انکے رنگ میں رنگی نظر آ رہی تھی۔

یہ بھی نگہت بیگم کی فرمائش تھی۔

کے وہ مہک کے ساتھ جا کر پارلر سے تیار ہو کر آئے۔

وہ بھی آج کل خاموش خاموش سی ایک روبوٹ کی طرح ان کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کر دیتی تھی۔


نگہت بیگم اس کا تعرف اپنے حلقے کے مختلف لوگوں سے کروا رہی تھیں۔

اور وہ بھی مصنوعی مسکراہٹ سجائے فردا فردا سب سے مل رہی تھی۔

اس مصنوعی ماحول اور مصنوعی لوگوں کے درمیان مہرماہ جیسی کھری اور خالص لڑکی کیلئے سانس لینا بھی دشوار تھا۔


بلال اور مہک دونوں ہی رنگ برنگے پھولوں اور برقی قمقموں سے سجے اسٹیج پر براجمان تھے۔


ڈیپ ریڈ کلر کے سنہرے کام والے بھاری بھرکم لہنگے میں پور پور سجی مہک عثمان موم کی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔

بلال لاشعوری طور پر ہی کنکھیوں سے اسے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔

جبکہ وہ قاتل حسینہ اس سے بے نیاز جانے وہاں بیٹھی بھی کیسے تھی۔


اسے ہمیشہ سے ہی اس مغرور اور اپنی ذات میں مگن حسینہ نے یوں ہی بے بس کر کے اپنی اوور کھینچا تھا۔

مگر تب وہ نہیں جانتا تھا کے آنے والے وقتوں میں مہک کی محبت اسکے دل میں اپنی جڑیں اس طور مضبوط کر لے گی کے وہ یوں بے بس ہو کر رہ جائے گا۔

________________________________


وہ شادی ہال سے باہر کسی کام سے گئی تھی۔

اور ابھی اینٹرنس وے پر قدم دھرا ہی تھا کے کسی نے بے دردی سے اسکا بازو دبوچ کر اپنی جانب کھینچا۔

وہ لڑکھڑا کر کسی کے حصار میں قید ہو گئی۔

اور اس سے قبل کے اسکی چیخ نکلتی اردشیر نے سختی سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔

مہرماہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھ رہی تھی۔

جبکہ اسکے مضبوط ہاتھ نے مہرو کا پورا چہرہ کور کر رکھا تھا۔

سوائے آنکھوں کے۔


"کتنی اچھی لگتی ہو تم جب خاموش خاموش سی رہتی ہو۔ ورنہ تو چوبیسوں گھنٹے پٹر پٹر کرتی رہتی ہو"۔

وہ دونوں نیم اندھیرے میں کھڑے تھے۔

کوئی ان کی جانب متوجہ نہ تھا۔


اسکا اتنا ہی کہنا تھا کے مہرو نے اپنے ہاتھ میں پکڑی کوئی ننھی سی نوکیلی شے اسکے ہاتھ پر چبھائی۔

اس اچانک افتاد پر اس نے لاشعوری طور پر اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

جہاں خون کی سرخ بوند ابھر آئی تھی اب۔


"تم انسان بن جاؤ۔ اور دوسروں کو بھی انسان سمجھنا سیکھ لو تو بہتر ہوگا"۔

نروٹھے پن سے کہا۔

تو وہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا۔


"کیا کہا تھا تم نے کے میں دھوکے باز ہوں؟ جھوٹ بول کر تمہیں تمہاری فیملی سے دور کرنا چاہتا ہوں؟۔ تو اب تم فیصلہ کر کے مجھے بتاؤ کے کس نے کتنا جھوٹ بولا تم سے۔ اپنے بھائی کے بارے میں اب کیا خیال ہے تمہارا؟ "۔ تمسخرانہ لہجے میں کہتے ہوئے اسکا مذاق اڑایا تھا۔


ضبط کے کڑے مرحلے سے گزرتے مہرو کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔

دکھ اسکے الفاظ کا تھا یا اپنوں کا اسے یوں ایک ہی پل میں پرایا کر دینے کا۔

فیصلہ کرنا مشکل تھا۔

وہ بری طرح مضبوط گرفت میں پھنسی اسکے کشادہ سینے پر زور لگا کر اسے خود سے پرے کرتے ہوئے ہلکان ہو رہی تھی۔

مگر اردشیر کا حصار مضبوط زنجیروں کی طرح اسکے ارد گرد پھیل کر اسے جکڑے ہوئے تھا۔

مارے بے بسی کے، نا چاہتے ہوئے بھی آنسو اسکے گالوں پر پھسلنے لگے۔

جنہیں مقابل نے انگلی کی پوروں سے چن لیا۔

"اونہہ، یہ آنسو سنبھال رکھو بیوی، ابھی تو بس شروعات ہے۔ ابھی تو تمہیں بہت کچھ دیکھنا اور سہنا ہے آگے چل کر۔ ابھی سے خود کو اتنا ہلکان نہ کرو میری جان"۔ طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہتا وہ اس وقت مہرو کو زہر سے بھی زیادہ برا لگ رہا تھا۔

مگر وہ ایک لفظ بھی کہے بغیر، سختی سے لب بھینچے آنکھوں میں چبھن لیئے اسے تک رہی تھی۔

وہ اگر اسے نا بھی بتاتا تب بھی مہرماہ یہ اچھی طرح جانتی تھی کے اس شخص کی سنگت میں زندگی کم از کم پھولوں کی سیج تو ہرگز بھی نہیں ہوگی۔

پر اب وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔

اپنوں نے تو اسے پہلے ہی ٹھکرا دیا تھا۔

اب جو بھی تھا، جیسے بھی تھا بس یہی شخص اسکے لیئے واحد پناہ گاہ تھا۔

جو جانے کس کس کی نفرتیں اس پر لٹا رہا تھا۔

ایک جھٹکے سے اس نے اسے خود سے پرے کیا اور مزید کچھ کہے بغیر مخالف سمت چلتے ہوئے وہ اس سے دور ہوتا چلا گیا۔

وہ ہر قدم اسے خود سے دور جاتے دیکھتی رہی۔

_________________________________

مرون رنگ کے گولڈن کام والا انار کلی سوٹ زیب تن کیئے، ادھ کھلے سیاہ بالوں کے ساتھ ہلکے پھلکے میک اپ اور جیولری میں زرش قریشی آج معمول سے ہٹ کر تیار ہوئی تھی۔

اسکی سنہری جلد پر یہ رنگ خوب جچتا تھا۔


"وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے،

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں"۔


وہ اپنے ہی دھن میں جا رہی تھی جب پیچھے سے کسی نے یہ شعر پڑھا۔

زرش رکی اور مڑ کر دیکھا۔

سیاہ ڈنر سوٹ میں ملبوس، کلین شیو اور ماتھے پر سیاہ بال بکھیرے وہ دل و جان سے اسکی جانب متوجہ تھا۔

دلکش مسکراہٹ اسکے لبوں کا احاطہ کیئے ہوئے تھی۔


زرش آنکھیں سکوڑ کر اسے دیکھتے ہوئے دو قدم کا فاصلہ عبور کرکے اسکے مقابل آ گئی۔


"یہ میرا تخیل تھا یا۔۔۔ابھی ابھی آپ واقعی شعر پڑھ رہے تھے؟"۔ ایک ابرو اٹھا کر اس نے مقابل کا بغور جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔


تو برہان خجل سا ہو گیا۔

"سچ کہوں یا جھوٹ؟"۔ اس نے فیصلہ اس پر چھوڑا۔


"میرے کانوں کو جھوٹ بالکل برداشت نہیں ہوتے"۔ فورا جواب آیا۔


برہان نے سر کو خم دیا۔ پھر ایک قدم مزید آگے بڑھ کر اسکے قریب جھکا۔

زرش نے گھبرا کر آس پاس دیکھا۔

میوزک کا شور تھا۔

کوئی بھی انکی جانب متوجہ نہ تھا۔


"اگر سچ کہوں تو تمہیں دیکھ کر کوئی بدذوق بھی شعر کہنے لگ جائے۔ آپ تو جیسے سارے ہتھیاروں سے لیس ہو کر آئی ہیں آج۔ کچھ تو رحم کیجئے ہمارے حال پر، اس دل ناتواں پر"۔ بوجھل اور گمبھیر لہجے کی سرگوشی نے زرش کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

اسکی گرم سانسیں وہ اپنے چہرے پر پڑتے محسوس کر سکتی تھی۔

زرش کا دل اسکے پورے وجود میں دھڑک رہا تھا۔


گھبرا کر فاصلہ بڑھاتے ہوئے وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔


برہان کی سیاہ آنکھوں میں دنیا جہاں کے رنگ تھے۔

جذبوں کا ایک جہاں آباد تھا ان آنکھوں میں۔

اس سے پہلے اسکی آنکھیں اتنی خوبصورت نہیں لگی تھیں۔

جتنی کے اپنا عکس ان میں دیکھ کر زرش کو اب لگ رہی تھیں۔

اسکا دل جیسے اس پل کنپٹی میں دھڑک رہا تھا۔

برہان ہنوز جذبے لٹاتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔


اور اس ایک پل نے ہی زرش سفیان کی دنیا تہہ و بالا کردی تھی۔

ایک حشر سا اٹھا دیا تھا اس ایک نظر نے۔

ایک پل میں وہ شخص عام سے خاص بن گیا تھا۔


جب جذبے پاک، سچے اور کھرے ہوتے ہیں تو محبوب کو بالآخر متوجہ کر ہی لیتے ہیں۔

اور اپنے ہونے کا یقین بھی دلا دیتے ہیں۔


برہان کا دل اسکی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔

پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کے زرش اس سے پھر بھی انجان رہتی؟

___________________________________

"مہرو میری بچی"۔

سب سے الگ تھلگ وہ ایک کرسی پر براجمان تھی جب اسکے پاس ہی افشاں بیگم کی بے قرار آواز گونجی۔

مہرو نے اپنے خیالات سے چونک کر دائیں جانب دیکھا۔

تو وہ آنکھوں میں نمی لیئے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔

"کیسی ہو تم؟" اسے اپنی جانب متوجہ دیکھ کر انہوں نے پوچھا۔

مہرماہ نے رخ وڑ لیا۔

"آپ سے مطلب"۔ بے رخی سے کہا۔

افشاں بیگم کا دل اسکی اس قدر بے رخی پر کٹ کر رہ گیا۔

"مہرو تم ایسی تو نہیں تھی۔ پھر کب سے اتنی بے حس ہو گئی ہو تم؟"۔ انہوں نے دکھ سے کہا۔

تو وہ بیٹھے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"کیا کروں امی، جیسا ماحول ہوگا، جیسے لوگوں کے درمیان رہوں گی وہی کچھ تو میرے اندر آئے گا نا"۔ بھرائی ہوئی آواز میں کہہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر منہ پھیر لیا۔

گویا اپنے آنسو چھپائے۔

"گزرے چند دنوں نے تجھے اتنا بدل دیا؟"۔ وہ حیران تھیں۔ اس سے کئی زیادہ دکھی۔

"یقین جانو ہمیں اس سب سے متعلق کچھ بھی نہیں پتہ تھا کے بلال نے مہک سے نکاح کر رکھا ہے۔ ہمیں تو ایک ہفتہ پہلے ہی بتایا اس نے"۔ انہوں نے اسکی ناراضگی کی یہی وجہ اخذ کی۔


"میری فکر مت کیجئے آپ، اکلوتے بیٹے کی شادی ہے آپ کی۔ اس پر توجہ دیجئے۔ اور اپنی بہو پر"۔ غصے سے کہتے ہوئے پیر پٹخ کر وہ وہاں سے چلی گئی۔


وہ افسوس اور دکھ سے اسکی پست تکتی رہ گئیں۔

_________________________________


وہ کافی دنوں سے نوٹ کر رہی تھی۔

عاصمہ بیگم اور فاطمہ بیگم کے درمیان اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی تھی۔

اور یہ شک اور بھی پکا ہو جاتا تھا جب مریم کو سامنے پا کر وہ دونوں خاموش ہو جاتی تھیں۔


وہ باہر لان میں جھولے پر بیٹھی انہی سوچوں میں گم آسمان پر چمکتے مکمل چاند کو دیکھ رہی تھی۔

جب اسے خود پر کسی کی دہکتی نظریں محسوس ہوئی۔

نگاہیں موڑ کر دیکھا۔

سیاہ ٹی شرٹ اور بھورے پینٹ میں رف سے حلیے کے ساتھ وہ بغور اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

مریم اسکی نظروں سے خائف ہونے لگی۔

نگاہوں کا زاویہ موڑ لیا۔

تو وہ گہری سانس لے کر پھر چند قدم آگے چلتا ہوا اسکے سامنے آ گیا۔


"کیا بات ہے مریم؟ دیکھ رہا ہوں کے آپ مجھے اگنور کر رہی ہیں یا شاید گریز برت رہی ہیں۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں معذرت کرنے کو تیار ہوں"۔

اسکے لہجے میں ویسی ہی تھکن تھی جیسے کے کوئی مسافر میلوں کا سفر طے کر آیا ہو۔


اسکی بات سن کر مریم اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔


"ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میری مصروفیت کے باعث شاید آپ کو ایسا لگ رہا ہوگا"۔ اس نے نفی کی۔


"تو پھر آپکی آنکھیں آپ کی زبان کا ساتھ کیوں نہیں دے رہیں؟"۔ اس نے اسکا چہرہ پڑھتے ہوئے کہا۔

جس پر ایک بار پھر وہ نگاہیں چرانے پر مجبور ہو گئی۔


"میں سمجھی نہیں آپ کی بات"۔ وہ سر جھکا کر بولی۔


وجاہت نے تھکی تھکی سی سانس کھینچی۔

پھر گویا ہوا۔


"آپ چاہے جتنی کوشش کر لیں مریم اسے چھپانے کی، پر محبت نا صرف آشکار ہو جاتی ہے بلکہ اپنا آپ بھی منوا لینے کی طاقت رکھتی ہے"۔ بوجھل لہجے میں اسکی زبان سے یہ بات پھسل گئی تھی یا وہ ٹھان کر آیا تھا کے آج اسے حال دل کہنا ہے۔


اسکی بات پر مریم نے جھٹکے سے سر اٹھا کر بے یقینی سے اسکی جانب دیکھا۔

کانچ سی سبز آنکھیں گواہی دے رہی تھیں کے وہ کس قدر سنجیدہ ہے۔


مریم کوئی جواب دیئے بغیر گھبرا کر جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔


"رکو مریم، آخر کب تک یوں بھاگو گی۔ جو شخص محبت سے دامن چڑھا کر ایک بار بھاگتا ہے نا تو محبت اس سے اتنی دور چلی جاتی ہے کے پھر کبھی اسکے دل پر دوبارہ دستک نہیں دیتی"۔

اسکی بات پر اسکے قدم زنجیر ہوئے۔


وہ اپنے قدموں پر کھڑی رہی۔

مڑ کر اس نے ایک بار بھی وجاہت کو دیکھنے کی غلطی نہیں کی۔

کیونکہ وہ جانتی تھی کے اگر ایک بار اس نے مڑ کر اسکی طرف دیکھ لیا تو وہ ہار جائے گی۔

اور یہی تو وہ نہیں چاہتی تھی۔

یہ اسکی انا نہیں تھی۔

یہ اسکی مجبوری تھی۔

جس سے قطع نظر وہ مزید کہہ رہا تھا۔


"میں۔۔۔وجاہت خان آفریدی آج ان ہواؤں کو۔۔

ستاروں سے بھرے اس آسماں کو۔۔۔۔

تمہارے پیروں سے جو لپٹی ہے اس زمیں کو۔۔۔

اس اکلوتے چاند کو گواہ بنا کر آج تم سے یہ بات کہتا ہوں۔۔۔

کے مریم عبداللہ۔۔۔ہاں مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔

میری زندگی میں آنے والی تم پہلی عورت ہو میں یہ نہیں کہہ سکتا۔

مگر تم۔۔۔صرف تم ہی آخری رہو گی، اس بات کی حقیقت میں کبھی شک مت کرنا۔

میں جانتا ہوں تمہارا جواب بھی۔۔۔

تم ٹھکرا دو گی یہ مجھے معلوم ہے۔۔

مگر محبت اپنے محبوب کی ہمارے پاس امانت ہوتی ہے۔

اور امانت کسی بھی حال میں اسکے حقدار کو پہنچانا ہی ہوتا ہے"۔ اسکی ایک ایک بات اسکے دل سے نکل رہی تھی۔ اور مریم کے گرد ایسا سحر باندھ رہی تھی۔

کے وہ خواہش رکھنے کے باوجود بھی اسے ان سنا نہیں کر پا رہی تھی۔

"آپ جانتے ہیں نا میری حقیقت۔۔۔اسکے باوجود بھی یہ سب۔۔" اس کے آگے اس سے کچھ بولا ہی نا گیا۔

اسکے حلق میں آنسوؤں کا گولہ سا اٹک گیا تھا جیسے۔

"یہ محبت تمہاری حقیقت کی محتاج نہیں ہے مریم۔۔

اس میں اتنی گنجائش ہے کے محبوب کا ہر راز، ہر عیب، ہر کمی دفن ہو جایا کرتی ہے۔

تمہاری سچائی تو اب پتہ چلی ہے۔۔

جبکہ یہ محبت تو روز اول سے تھی مجھے تم سے۔

اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اور بھی گہری ہوتی چلی گئی۔

میں نے تمہیں اپنا اظہار، اپنا دل سونپ دیا ہے مریم عبداللہ،

چاہو تو اسے قبولیت بخش دو۔۔۔

چاہو تو پیروں تلے روند کر چلی جاؤ۔

مگر اس محبت کو اب کوئی نہیں بدل سکتا۔

نہ تم۔۔۔نہ میں۔۔

کیونکہ یہ ہو گئی ہے مریم۔۔۔

یہ بس ہو گئی ہے"۔

کہتے ہوئے وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔


جبکہ وہ ہنوز سحرزدہ سی وہی کھڑی جیسے برف کا مجسمہ بن گئی تھی۔

اسکے ایک ایک لفظ میں سچائی تھی۔

اسکا اظہار اٹل تھا۔


_______________________________


شادی کی تقریب رات گئے تک چلتی رہی۔

بلال اور مہک نے ایک مرتبہ پھر سب کے سامنے قبول ہے کے الفاظ ادا کرکے اس رشتے کی مضبوطی پر مہر ثبت کی تھی۔

بے جی کے کہنے پر عثمان صاحب اور نگہت بیگم نے جہانزیب صاحب اور افشاں بیگم سے بات کرکے رخصتی کا شوشہ چھوڑ دیا تھا۔


مہرو کے سارے جذبات تب سے سن پڑ گئے تھے جب سے غازی اردشیر اسکی زندگی میں آیا تھا۔

کوئی کہہ سکتا تھا کے یہ اسکے اکلوتے بھائی کی شادی تھی۔

جس میں وہ ہو کر بھی نہیں تھی۔

اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کے اسکے بھائی کی شادی یوں چپ چاپ سے ہو جائے گی اور وہ مہمانوں کی طرح اس شادی میں شامل ہو کر ایک کونے میں پڑی رہے گی۔


رخصتی کے وقت نگہت بیگم سے لگ کر مہک نے اپنے دل کا سارا درد اپنے آنسوؤں کے ساتھ بہا لیا۔


اور بالآخر روتی دھوتی ہوئی مہک عثمان اب مہک بلال عالم بن کر ڈھیروں دعاؤں اور قرآن پاک کے سائے تلے رخصت کر دی گئی تھی۔

زندگی کا ایک نیا باب شروع کرنے کیلئے!

آہستگی سے وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

اور اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔


اور جیسے ہی وہ دروازہ بند کر کے مڑا تو دھک سے رہ گیا۔

دلہن صاحبہ نے شاید نہیں یقینی طور پر نفاست سے سجا پورا کمرہ ہی الٹ دیا تھا۔

کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر نہیں تھی۔


بلال نیم اندھیرے میں احتیاط سے قدم اٹھا رہا تھا کہ پیر رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی۔


پھولوں سے سجے سیج سے سارے پھول جیسے نوچ نوچ کر پھینک دیئے گئے تھے۔

سارے پھولوں کے بکے جا بجا پتی پتی ہو کر بکھرے پڑے تھے۔

دلہن کی جیولری فرش پر ادھر اُدھر پڑے تھے۔

وہ آہستگی سے قدم رکھتا جا رہا تھا جب کوئی چیز اسکے جوتوں تلے آ کر چرمرائی۔

پیر ہٹا کر دیکھا تو وہ دلہن کا خوبصورت اور بیش قیمت ہیروں جڑا ہار تھا۔

جو اپنی نا قدری پر رو رہا تھا۔

اس نے وہ اٹھا کر کانچ کی چھوٹی سی میز پر رکھ دی۔


خود وہ اوندھے منہ بستر پر گری سو رہی تھی یا جاگ رہی تھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔


"مہک"۔ بلال کی بھاری آواز خاموش کمرے میں گونجی۔

مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہ پا کر وہ تشویش زدہ ہو کر اسکے قریب پہنچا۔

سائیڈ لیمپ جلا دیا۔


"مہک اٹھو۔۔۔یہ کیا حال بنا رکھا ہے کمرے کا"۔ بلال کی نفاست پسند طبیعت کو یہ سب ناگوار گزرا۔

وہ پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔


"مہک"۔ بلال نے بستر پر گرا اسکا ہاتھ تھام لیا۔

تو وہ کرنٹ کھا کر لیٹے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔


"خبردار۔۔۔۔خبردار جو میرے قریب بھی آئے تم"۔ وہ دو دھاری تلوار بنی ہوئی تھی۔

روئی روئی سی سوجی آنکھیں۔۔

مٹا ہوا سا میک اپ۔۔۔

دوپٹہ سے عاری وجود۔

وہ اپنی تمام تر رعنائیوں اور طرحدار وجود سمیت اسکے سامنے تھی۔


بلال نے لب بھینچ کر بے بسی سے اسے دیکھا۔

پھر اٹھ کر اسکے مقابل آ گیا۔


"یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔۔دماغ درست ہے تمہارا"۔ قدرے سخت لہجے میں کہا۔


"دماغ تو اب تمہارا درست ہوگا بلال عالم، تم جانتے نہیں ہو کے تم نے کس خسارے کا انتخاب کیا ہے"۔ وہ پھنکاری۔


تو بلال مدھم سا مسکرا دیا۔

"اور اگر میں کہوں کے سب سے زیادہ فائدے میں، میں رہا تو؟"۔ اسے جلانے والے انداز میں کہا۔

تو مہک طنزیہ ہنسی۔


"تو میں کہوں گی کے یہ محض خوش فہمی سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ کیونکہ میں تمہارے نام ضرور ہو گئی ہوں مگر تم مجھے کبھی پا نہیں سکتے۔۔۔کیونکہ اتنی تمہاری اوقات نہیں"۔ نخوت سے کہتے ہوئے چہرے پہ آئی سنہری لٹ پیچھے کی۔


"میری اوقات اتنی ہی ہے مسز مہک بلال عالم کے آپ کی عرفیت میں نے اپنے نام سے تبدیل کردی ہے"۔ بلال نے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے پرسکون لہجے میں کہا۔

اور مہک اسکی یہ بات سن کر غصے سے بل کھا کر رہ گئی۔


"اونہہ، تمہارے لیے بہتر ہوگا کے تم اسے ہی غنیمت جانو"۔ استہزاء کہا۔


تو بلال دو قدم مزید آگے بڑھ کر اسکے قریب پہنچ گیا۔


مہک بے خوفی سے اسکی جانب دیکھتی رہی۔

اسکی آنکھوں میں بغاوت تھی۔

جسے بلال پڑھ چکا تھا۔

اور پھر۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک زوردار تھپڑ پہلی رات کی دلہن کے گال پر پڑا تھا۔

الٹے ہاتھ کا تھپڑ کھا کر وہ لڑکھڑا کر اوندھے منہ بستر پر جا گری۔

وہ جھکا اور اسکے سنہری بال مٹھی میں سختی سے بھینچ لیئے۔

مہک ششدر سی اسکے تیور دیکھ رہی تھی۔

"تمہیں کیا لگا تھا کے میں تمہارے فراق میں تڑپتا، تمہاری قربت کے خواب بن رہا ہوں گا؟"۔ غصے کی انتہاؤں کو چھو کر اس نے دوسرے ہاتھ سے سختی سے اسکا چہرہ دبوچ لیا۔

مہک کی ساری اکڑ دھری کی دھری رہ گئی تھی۔

"میری جان بستی ہے مہرو میں۔۔۔اسکی زرا سی تکلیف میں برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔اور تمہارے اس بھائی نے صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔۔تمہاری وجہ سے میری پھول جیسی بہن کو کانٹوں پر گھسیٹ لیا۔۔۔اسکی زندگی جہنم بنا دی۔۔۔۔اور تم نے سوچا کے بلال عالم تمہارے حسن سے زیر ہو کر اپنی بہن کے آنسو بھول جائے گا اور تمہیں بخش دے گا؟"۔ وہ دھاڑ رہا تھا۔

اسکی سیاہ آنکھوں سے شعلے لپک کر مہک کو جلا کر خاکستر کیئے دے رہے تھے۔

"تمہاری اتنی ہمت کے تم۔۔۔۔

وہ صدمے و غصے سے پاگل ہوئی جا رہی تھی۔

جھٹکے سے اس نے اس کا گریبان پکڑ لیا۔

"تم جیسی لڑکی کبھی بھی محبت کے قابل نہیں ہوا کرتی ہے۔ تمہاری خود غرضی نے میری بہن کی زندگی برباد کردی۔۔۔گناہ تم نے کیا اور کفارہ اس نے بھرا۔۔۔تو تھوڑی سزا تمہیں بھی ملنی چاہیئے مہک بی بی۔تاکہ تمہیں ایک سبق ملے کے مرد کوئی کھلونا نہیں ہوتا"۔

اس نے کہتے ساتھ ہی جھٹکے سے اسے خود سے قریب تر کر لیا۔

اسکی بات اور لہجے کو بھانپ کر اسے خوف آیا۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔۔بغیرت، ذلیل انسان چھوڑو مجھے"۔ وہ اسکے گرفت میں بری طرح سے مچل رہی تھی۔

اسکا گھیرا تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا تھا۔

وہ مسلسل خود کو چھڑوانے کی سعی کرتی رہ گئی۔

مگر صنف قوی کی طاقت کے آگے وہ بے بس تھی۔

کچھ نہ بن پڑا تو وہ شدت سے رو دی۔

مگر مقابل پر اسکے آنسو بے اثر ٹھہرے۔

اور وہ اسکی گرفت میں پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔

___________________________________


رات اچھی خاصی گہری ہو چکی تھی۔

شادی کی مسلسل تیاریاں اور آج سارے دن کی بھاگ دوڑ کے بعد تھک ہار کر غازی ولا کے مکین اب سو چکے تھے۔

سوائے مہرماہ غازی کے۔

نیند تو اس پر اسی دن سے حرام ہو گئی تھی جس دن سے وہ اس شخص کی بیوی بنی تھی۔

خود تو وہ آرام سے نرم گرم بستر پر آڑھا ترچھا لیٹا خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔

جبکہ وہ نیچے قالین پر لیٹی سر تک کمبل تانے کروٹیں لے رہی تھی۔


اسے یاد تھا جب اردشیر اسے اس گھر میں لایا تھا تو اسی رات اس نے مہرو کو اسکی جگہ دکھا دی تھی۔

وہ چاہے دولت و رتبے میں اس سے لاکھ کمتر سہی۔

مگر اپنے گھر میں تو وہ شہزادی کی سی حیثیت رکھتی تھی۔

لیکن ہاں، ایک حقیقت یہ بھی ہے کے لڑکی شہزادی صرف تب تک ہوتی ہے جب تک اپنے باپ کے گھر میں ہو۔

اسکے بعد تو اسکی زندگی بس اسکے ہمسفر اور بچوں کے نام ہو جاتی ہے۔

وہ اوروں کیلئے جیتی ہے۔

خود کو کہیں رکھ کر بھول جاتی ہے۔

مرد کا یہ روپ بھی بڑا عجیب ہے۔

کے ایک طرف تو غازی اردشیر اپنی بہن کی محبت میں صحیح غلط کا فرق بھلائے ہوئے تھا۔

اور وہی دوسری جانب عورت کے دوسرے روپ (یعنی اپنی بیوی) سے وہ غیر انسانی سلوک برتے ہوئے تھا۔

اس نے پھر دائیں جانب کروٹ لی۔

کمبل چہرے سے اتار کر وہ چہرے کی سیدھ میں اس شخص کو دیکھنے لگی جو کنگ سائز بیڈ پر پھیل کر لیٹا ہوا مزے سے سو رہا تھا۔

"دوسروں کو اتنی تکلیفیں دے کر یہ ایسے سکون سے سو کیسے جاتا ہے؟"۔ ملگجے سے اندھیرے میں مہرو نے پیشانی پر بل ڈالے سوچا۔

تبھی زیرو پاور کی سبز روشنی میں اس نے کسی چیز کو بیڈ کے نیچے سے نکل کر اپنی جانب اچھلتے ہوئے دیکھا۔

اور بس اسکی برداشت اتن ہی تھی۔

ایک جھٹکے سے وہ چیختی ہوئی اپنی جگہ سے اچھل پڑی۔

"ہائےےے اللہ۔۔۔۔بب۔۔۔بچاؤو۔۔۔بچاؤ کوئی مجھے بچاؤ"۔

اپنے بستر سے چھلانگ لگا کر بیڈ پہ وہ سیدھی اسکے اوپر کودی تھی۔

ایک بار کو تو وہ اسکی چیخ سن کر شاید نہ اٹھتا۔

مگر جس طرح سے وہ اس کے اوپر کودی تھی اسکے آنچے پانچے ڈھیلے ہو گئے۔

"اوفف مائی گاڈ"۔

کراہ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اپنے سینے پر بھاری پن سا محسوس کر کے اٹھا نہ گیا۔

جبکہ اس سے بے نیاز مہرو ہنوز چیخ رہی تھی۔


"بچاؤ۔۔۔۔بچاؤ۔۔۔وہاں کچھ ہے"۔


"کیا مصیبت ہے۔۔چیخنا بند کرو ورنہ یہی تمہارا گلا دبا دوں گا"۔ اردشیر کے جھڑکنے پہ مہرو نے فورا سے پیشتر اپنی چیخ دبا لی۔

کہ اس آدمی سے کچھ بعید نہ تھا وہ ایسا کر بھی گزرتا۔


"اور یہ تم میرے اوپر کیوں چڑھی بیٹھی ہو۔۔۔یہ کوئی بیٹھنے کی جگہ ہے۔۔۔پرے ہٹو"۔ جھلا کر کہتے ہوئے اسے پرے دھکیلا۔ پھر آگے سائیڈ لیمپ روشن کر دیا۔


جسکی سنہری روشنی میں وہ آنکھیں پھیلائے، منہ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی۔

بھورے لمبے بال بے ترتیب سے اسکے چہرے کے ارد گرد پھیلے ہوئے تھے۔

اردشیر نے نظریں چرا لیں۔


"کیا بات ہے؟ رات کے اس پہر ایسا کون سا بھونچال آ گیا جو تم میری نیند میں مخل ہوئی؟" کشادہ پیشانی پر بل ڈالے وہ غصے سے بولا۔

البتہ لہجے سے وہ پہلی سی سختی اب مفقود تھی۔ جو مہرو سے بات کرتے وقت اسکے لہجے میں در آتی تھی۔


"وو۔۔۔وہ نیچے۔۔۔شاید۔۔۔چھپکلی"۔ ہرنی سی آنکھوں میں بے پناہ خوف لیئے اس نے اس جگہ کی جانب اشارہ کیا جہاں وہ کچھ دیر قبل لیٹی ہوئی تھی۔

اردشیر نے کوفت سے اسے دیکھا۔


"چھپکلی؟۔۔۔۔تم ایک چھپکلی سے ڈر گئی مہرماہ؟"۔ اردشیر نے مصنوعی حیرت سے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

تو مہرو بنا اسکے لہجے کی سنجیدگی جانچے زور و شورو سے اثبات میں سر ہلانے لگی۔


"کچھ نہیں کرے گی۔۔۔وہ بے چاری تو خود تمہیں دیکھ کر ڈر گئی ہوگی۔ جاؤ جا کر سو جاؤ۔۔۔اور مجھے بھی سونے دو"۔اسے پرے کرتے ہوئے بلینکٹ لے کر پھر سے سوتا بن گیا۔

مہرو نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔

یہ تھا اسکا 'شوہر'۔ جس کیلئے اگر وہ مر بھی جاتی تو شاید تب بھی اسکے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔

مارے بے بسی کے اسے اور شدت سے رونا آ گیا۔


سوں سوں کی آواز سن کر اس نے چہرے سے بلینکٹ ہٹایا۔

سامنے ہی اسکا روتا ہوا چہرہ نظر آ رہا۔

جو معصومیت کے سارے رکارڈ توڑ ے اسے دیکھتی، ساتھ آنسو بھی بہا رہی تھی۔


بیزار سا ہو کر وہ پھر سے اٹھ بیٹھا۔

"کیا ہے؟ اب یہ رونے کا بخار کیوں چڑھا ہے؟" سخت لہجے میں اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

تو وہ جو چار آنسو رو رہی تھی۔

اپنی جگہ سے اچھل کر وہاں لیٹ گئی جہاں وہ ابھی سو رہا تھا۔

اردشیر اس اچانک افتاد پر حیرت سے اسے تک رہا تھا۔

بدک پر وہ اس سے دور ہٹ گیا۔

اب وہ اسی کا بلینکٹ تان کر مزے سے سونے لگی تھی۔

"یہ سب کیا ہے مہرماہ؟"۔ غصے سے اس کا کمبل کھینچا۔

"کیوں؟ ابھی آپ ہی نے تو کہا کے مہرماہ سو جاؤ۔۔۔کچھ نہیں ہوتا۔۔میں وہی تو کر رہی ہوں تو اب بھی آپ کو مسئلہ ہو رہا۔۔۔کھڑوس نہ ہو تو"۔ ننھی سی ناک سکوڑ کر اس کے ہاتھ سے کمبل کھینچا۔

پھر سے خود پر ڈال کر وہ سونے کیلئے لیٹ گئی۔

"یہ اچھی مصیبت گلے پڑی ہے میرے"۔ بڑبڑاتے ہوئے وہ بھی اسکے برابر ہی دراز ہوگیا۔

ساتھ ہی اس سے کمبل کھینچ لیا۔

مہرماہ نے گھور کر اسے دیکھا اور اب سرہانے پڑے کشنز اٹھا کر اسکے اور اپنے درمیان رکھنے لگی۔

اردشیر چونکا۔

"اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے؟"۔ اس نے حیرت سے کہا۔

"میں دیوار بنا رہی ہوں۔ تاکہ آپ میرے حصے والی جگہ پر نہ آئیں"۔ رسانیت سے جواب دے کر واپس لیٹ گئی۔

جبکہ وہ کہنی اونچی کیئے، ہاتھوں پر چہرہ ٹکائے اب فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"اور یہ دیوار پھاند کر اگر میں تمہاری طرف آ گیا تو؟"۔ مسکراہٹ ضبط کر کے اس نے کہا۔

اس بات پر مہرو نے اسے گھورا۔

پھر اسی کے سے انداز میں کہنی اونچی کر کے ہاتھوں پر چہرہ ٹکائے اسکی جانب دیکھا۔

اب ان کے درمیان رنگ برنگے مخملی کشنز کی دیوار تھی۔

"دد۔۔۔دیکھئیے، آپ جیسی عظیم شخصیت کو اپنے اصول توڑنا سوٹ تھوڑی کرے گا"۔ لہجے میں چاشنی گھول کر 'عظیم شخصیت' کو دانتوں تلے پیس ڈالا۔

"تو پھر ایسے عظیم شخصیت سے اتنا فاصلہ رکھنے کی کوئی وجہ؟ اس گریز کی پھر تک ہی کہاں بنتی ہے؟"۔ وہ جانے کس احساس کے تحت اس سے یہ سب کہہ گیا۔

جبکہ مہرو اسکی اس بات پر لاجواب ہو گئی۔


"فکر مت کرو۔ کردار کا میں پکا ہوں، اور اپنے نفس کو لگام دینا مجھے آتا ہے۔ سو جاؤ اب"۔ سنجیدگی سے کہا۔

جس سے اسکی پریشانی زائل ہو گئی۔


دونوں ہی ایک دوسرے سے رخ موڑ کر سو گئے۔

ان دونوں کے درمیان جمی برف اب پگھلنے لگی تھی۔

مگر فاصلہ اب بھی حائل تھا۔

دونوں اب بھی ایک دوسرے سے اجنبی ہی تھے۔


مہرو کو اس شخص سے لاکھ اختلافات سہی، مگر اتنا ضرور تھا کے اسکے دل سے اردشیر کو لے کر وہ خوف اب ختم ہو چکا تھا۔


شاید وہ اب سمجھوتا کر رہی تھی حالات سے۔

_______________________________

صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔

غازی ولا کے مکین اس وقت ڈائننگ ایریا میں موجود ناشتہ کرنے میں مگن تھے۔

گھر کا کوئی بھی مکین چاہے کتنا بھی مصروف کیوں نہ ہوتا۔ مگر کھانا بہرحال ایک ہی میز پر اکٹھا کھاتے۔

یہ اصول بے جی کا بنایا ہوا تھا۔

جس سے انحراف خود عثمان غازی بھی نہیں کرتے تھے۔

ہاں البتہ مہک اپنی من مرضی کرتی تھی۔

مگر آج وہ نہ تھی۔

تو بے جی بھی اداس تھیں۔


"یہ نئی دلہن کہاں ہے بہو، اسے بلواؤ کے آ کر ناشتہ کرے"۔ سربراہی کرسی پر براجمان بے جی نے مہرو کی کمی محسوس کرتے ہوئے نگہت بیگم سے استفسار کرنے کے ساتھ ہی حکم بھی سنایا۔

تو خاموشی سے ناشتہ کرتے اردشیر نے ایک پل کو ہاتھ روک کر انہیں دیکھا اور پھر سے کھانے کی جانب متوجہ ہو گیا۔


"میں اسے دیکھ آئی ہوں بے جی، سو رہی تھی تو میں نے جگانا ٹھیک نہیں سمجھا۔ پچھلے دنوں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے اس سے اسکا ذہن بہت منتشر ہوا ہے۔ اتنا بڑا دکھ جھیلنے کے بعد اب جا کر تو وہ کچھ سنبھل رہی ہے۔ اسے دیکھ کر لگا جیسے آج کئی دنوں بعد جا کر وہ سکون سے سوئی ہے"۔ نگہت بیگم نے بے جی کی بات کے جواب میں تفصیلی وضاحت دی۔

جس پر بے جی بھی سر ہلا کر ان کی تائید کر رہی تھیں۔


جبکہ اردشیر اپنی جگہ چور سا بن گیا۔


"شادی بہرحال جن حالات میں بھی ہوئی ہو ان دونوں کی مگر اب ایک دنیا جانتی ہے کے غازی اردشیر نے شادی کر لی ہے۔ تو ظاہری بات ہے کے دنیاداری نبھانے کیلئے رسم و رواج کی بھی پاسداری کرنی پڑے گی نگہت بیگم، بہت سارے انویٹیشن آئے ہیں میرے حلقہ احباب کی جانب سے نئے جوڑے کے اعزاز میں دعوت دینا چاہ رہے ہیں۔ تو میں سوچ رہا ہوں کے لاڈ صاحب نے جب شادی کر ہی لی ہے اپنی من مانی کرکے تو بیوی کی طرف بھی زرا توجہ دے دیا کرے"۔ عثمان صاحب نے ماتھے پر بل ڈالے اردشیر کی جانب دیکھتے ہوئے نگہت بیگم سے کہا۔


"جی آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں خود آج مہرماہ کو اپنے ساتھ مال لے جاؤں گی۔ اور اچھی سی شاپنگ کروا دوں گی"۔ نگہت بیگم نے مسکراتے ہوئے خیالات بتائے۔


"اب یہ ان دعوتوں کی بھلا کیا تک بنتی ہے"۔ اس عرصے میں پہلی بار اس نے لب کشائی کی۔

تو عثمان صاحب کی پیشانی پر پڑے بل مزید گہرے ہوئے۔


"تمہیں نہ ہو اپنی عزت کا خیال پر مجھے اپنی ساکھ پیاری ہے۔ لوگوں کی نظروں میں تماشا تو بنا ہی چکے ہو میرا اب کیا چاہتے ہو کے میں ہر ایک سے منہ چھپاتا پھروں؟۔

غازی اردشیر تمہاری پہلی شادی کو لوگ ابھی بھولے نہیں ہیں۔ درپردہ جو چہ مگوئیاں کرتے ہیں اس کا اندازہ تم نہیں لگا سکتے۔ اسی طرح اگر تم شادی کرکے بیویوں کو کہیں رکھ کر بھولتے رہے تو یہ جو اتنا بڑا ایمپائر کھڑا کیا ہے بزنس کا اسے سنبھالنے کیلئے پھر کوئی وارث نہیں بچے گا اس خاندان میں"۔ عثمان غازی نے کرخت لہجے میں اسکی کلاس لی۔

جبکہ وہ ہنوز سر جھکائے بیٹھا رہا۔


"اللہ نہ کرے کے ایسا وقت آئے۔ خیر کی دعا مانگو بچوں"۔ بے جی نے ٹوکا۔


"آپ کو ضرورت نہیں ہے کوئی نگہت بیگم، اسکی بیوی ہے اسے ہی لے جانے دیں اسے شاپنگ کروانے۔ میں بھی دیکھتا ہوں کے یہ کب تک اپنی ذمہ داریوں سے منہ پھیرتا ہے"۔ عثمان غازی نے جیسے چیلنج کیا اسے۔


"اب بس یہی دیکھنا باقی تھا"۔ وہ غصے سے بڑبڑایا۔

جسے عثمان صاحب نے سن لیا تھا۔


"یہ تو کچھ بھی نہیں ہے لاڈ صاحب، جو دن آپ نے ہمیں دکھائے ہیں اسکے سامنے سب ہیچ ہے"۔ انہوں نے طنزیہ کہا۔


"بس کرو اب تم، بہت میں نے تمہاری من مانی برداشت کر لی۔ تم یوں ہر دوسری لڑکی کی زندگی برباد کرتے رہو گے اور ہم چپ چاپ تماشا دیکھتے رہیں گے؟۔

اب خدا کے واسطے بس کرو۔ جتنی پہلے تم نے بد دعائیں سمیٹی ہیں نا اسکا بھگتان اب مہک کر رہی ہے۔

یہ انہی بد دعاؤں کا نتیجہ ہے جو آج ہم اس حال کو پہنچے ہیں۔

میں تو آج بھی فاطمہ آپا سے نظریں نہیں ملا سکتی۔ لیکن اب میں تمہیں مزید ایک اور زندگی سے کھیلنے ہرگز نہیں دوں گی۔

جب تم نے مہرماہ سے شادی کر ہی لی ہے اپنی مرضی سے، تو اب اسے وہ مقام اور درجہ بھی تم دو گے۔ اور اسکی ذمہ داریاں بھی قبول کرو گے۔

اپنے لیئے نہ سہی پر اب مہک کیلئے تم ایسا کرو گے۔

یہ دیکھو اب میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے سامنے کے خدارا ہمیں اور ذلیل مت کرو۔

ورنہ آج کے بعد تم سے میرا ہر رشتہ ختم"۔ نگہت بیگم نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

اور اپنی طرف بڑھتا اردشیر کا ہاتھ انہوں نے جھٹک دیا۔

عثمان غازی کافی حد تک ان کی بات سے متفق نظر آتے تھے۔ اور پرسکون بھی۔

کیونکہ وہ ان سے زیادہ نگہت بیگم کی سنتا تھا۔

وہ گم سم سا اپنی ماں کی طرف دیکھتا رہا۔

کیونکہ وہ بہت کم اس سے سخت لہجہ اختیار کرتی تھیں۔

اور اردشیر چاہے عثمان صاحب کی بات کو مذاق میں اڑا دیتا ہو پر اپنی ماں کی بات اس کیلئے بہت اہمیت رکھتی تھی۔

اور پھر وہ خاموش سے وہاں سے ہٹ گیا۔

____________________________________

وہ شاور لے کر بال تولیے سے خشک کرتا ہوا باتھ روم سے برآمد ہوا۔

تب صوفے پر گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی مہک کو دیکھا۔

وہ جب سے سو کر اٹھا تھا تب سے اسے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے پایا تھا۔


دروازے پر دستک کے ساتھ ہی نوراں (کام والی) کی صورت نظر آئی جو شاید کمرے کی صفائی ستھرائی کرنے آئی تھی۔

بلال کے کمرے میں کوئی ایک چیز بھی اپنی جگہ پر نہ تھی۔

وہ دل ہی دل میں حیران ہو رہی تھی کمرے کی ابتر حالت دیکھ کر۔


"اب کمرے کا جائزہ لے لیا ہو تو صفائی بھی کردو"۔ اسے یوں ارد گرد کا جائزہ لیتے دیکھ کر اس نے بال بناتے ہوئے سختی سے کہا۔

تو نوراں نے گھبرا کر اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کام میں لگ گئی۔


بلال خود پر پرفیوم اسپرے کرنے کے بعد اسکی جانب متوجہ ہوا تھا۔


"مہک اٹھو، تیار ہو فورا اور چل کر ناشتہ کرو"۔ بلال اسکے سر پر کھڑا سفید قمیض کے کف موڑتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

مہک نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔

اسکی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔


بلال نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔


"دفع ہو جاؤ تم میری نظروں کے سامنے سے۔ شدید نفرت کرتی ہوں میں تم سے، اور خبردار جو میرا نام بھی لیا تم نے"۔ وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔

ملازمہ نے دہل کر اسے دیکھا۔


"تم باہر جاؤ، تھوڑی دیر بعد آنا"۔ بلال نے اشارے سے ملازمہ کو کہا۔

تو وہ سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی۔

تب بلال اسکی جانب متوجہ ہوا۔

"یہ سب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے مسز مہک۔ چیخ چلانے سے یہ حقیقت اب نہیں بدل سکتی کے تم میری بیوی ہو۔ اور میں تمہارا سرتاج"۔ اسکے شانے پر ہاتھ رکھے تلخی سے مسکرا کر کہا۔

تو مہک اسے دھکیل کر فورا سے پیشتر فاصلے پر ہو گئی۔

"ہرگز نہیں مانتی میں اس رشتے کو۔ جھوٹ اور فریب پر بنے رشتوں کی بنیاد مخالف سمت سے چلنے والی ہوا کے زرا سے جھونکے کو بھی برداشت نہیں کر پاتی۔ اور زمین بوس ہو جاتی ہے۔

اور تمہارے میرے رشتے کا بھی یہی انجام ہونا ہے بلال عالم"۔ وہ غصے سے پھنکاری۔

تو بلال نے جھٹکے سے فاصلہ مٹا کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔

اور اسکے گرد حصار تنگ کردیا۔

"رشتہ جتنی آسانی سے جڑتا ہے نا مہک بی بی، اسے توڑنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ چاہے تم ایڑی چوٹی کا زور لگا لو، مگر اتنا جان لو کے یہ رشتہ تو اب ٹوٹنے والا نہیں ہے۔

اور شاید تم بھول رہی ہو کے میں اس رشتے کی مضبوطی پر مہر ثبت کر چکا ہوں"۔ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسکے چہرے پر آئی سنہری لٹ کھینچی۔

مہک نے گرفت توڑ کر نکلنا چاہا۔۔۔مگر بے سود!

"بی آ گڈ گرل، چلو شاباش فورا تیار ہو کر ناشتہ کرنے چلو"۔ اسے اپنی گرفت سے آزاد کرکے وہ ایک طرف ہو گیا۔

ا

ور کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔_________________________________

وہ جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر کاٹ رہی تھی۔

جب سے وجاہت نے ببانگ دہل اپنی محبت کا اقرار اس سے کیا تھا۔

اسکی پریشانی دوچند ہو گئی تھی۔

پہلے ہی اتنی مشکل سے وہ بند باندھ رہی تھی اپنے منہ زور جذبوں پر۔

اور اب تو اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔

اتنا سب جان کر وہ بھلا اب اسکے آس پاس پرسکون رہتی بھی تو کیسے۔

وہ کسی کی منکوحہ ہے۔

وہ بار بار خود کو یہ باور کروا کر اس سے دور تو کر دیتی تھی خود کو۔۔۔۔

مگر اپنے دل کا کیا کرتی؟ جو بغاوت پر اتر آیا تھا۔

"نہیں یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے امی سے بات کرنی ہوگی"۔ بالآخر ایک فیصلہ کرتے ہوئے اس نے فاطمہ بیگم کے کمرے کا رخ کیا۔

دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو وہ شاید ابھی ابھی نماز پڑھ کر اٹھی تھیں۔ اور جائے نماز تہ کر رہی تھیں۔

تبھی اس پر نظر پڑی۔

"اندر آؤ مریم۔۔۔بیٹا وہاں کیوں رکی ہو"۔ انہوں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے شیریں لہجے میں اسے بلایا۔

تو وہ اپنے خیالات سے چونکی۔

پھر دوڑ کر ان کے پاس آئی اور ان کی گود میں سر رکھ کر خاموش آنسو بہانے لگی۔

"کیا بات ہے بیٹا؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟"۔ انہوں نے شفقت سے اسکے سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

"میں تھک گئی ہوں امی۔۔۔میں ٹوٹ رہی ہوں اندر سے۔۔۔میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی، اپنے ارد گرد بٹھائے سارے پہرے اسکے منہ زور جذبوں کے آگے مجھے بے کار و بے معنی محسوس ہو رہے"۔ وہ روتے ہوئے اپنے دل کا درد بیان کر رہی تھی اپنی واحد رازداں سے۔

چہرہ ہنوز انکے گھٹنے پر رکھا ہوا تھا۔

فاطمہ بیگم کو اسکے گرم گرم آنسو اپنے کپڑوں میں جذب ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔

ان کا دل اسکی اس حالت پر کٹ کر رہ گیا۔

"کیا ہوا میری بچی، ایسی باتیں کرکے کیوں ماں کے دل کو دکھاتی ہو۔ تم تو میری بہادر بچی ہو، ایسی کمزوروں جیسی باتیں میری بیٹی کے شایان شان نہیں ہیں"۔ اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اسکی دمکتی ہوئی پیشانی چوم لی۔

"نہیں امی، میں نہیں ہوں بہادر۔۔خدارا میری مدد کریں ورنہ میں مر جاؤں گی امی۔۔۔۔میں مر جاؤں گی۔۔۔مجھے اس سے دور جانا ہے۔۔۔اسکے سائے سے بھی دور"۔ اسکی ایک ہی رٹ تھی۔

انہوں نے نم آنکھوں سے اسے خود سے لگا لیا۔


"بس چپ ہو جاؤ اب، میں یونہی تمہیں گھلنے نہیں دوں گی۔ بہت سزا کاٹ لی تم نے کسی اور کے کیئے کی۔۔۔بس اب اور نہیں میری بچی"۔ ان کے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر اسکے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔

____________________________________


عثمان غازی اور نگہت بیگم کے حکم پر وہ اسے مال لے آیا تھا۔

اور اب نہایت ہی بیزاری سے اسے لیئے ایک لیڈیز شاپ سے نکل کر دوسرے میں گھس جاتا تھا۔


مہرو بھی لگتا تھا جیسے اس سے گن گن کے بدلے لے رہی تھی۔

کبھی کہتی اس شاپ سے میچنگ جوتا خریدنا ہے تو کبھی کہتی میرا پسندیدہ پرفیوم اس شاپ میں ہے۔

کبھی کس رنگ کا ڈریس لینا ہوتا تو کبھی کس رنگ کا۔

اردشیر حیرت سے سوچ رہا تھا کے یہ وہ لڑکی تھی جس سے ناپسندیدگی کے باوجود بھی اس نے اسکی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔

اور اب اسے یوں شاپنگ کروا رہا تھا جیسے ان دونوں میں جانے کتنی گہری محبت تھی۔

"اب اگر تمہارے یہ چونچلے ختم ہو گئے ہوں تو واپس چلنے کی کرو"۔ دھیمے آواز میں وہ غرایا۔

تو مہرو جو ڈریس پسند کر رہی تھی گھور کر اسے دیکھا۔

"اتنی کیا جلدی ہے، ابھی تو میں نے ٹھیک سے کچھ خریدا بھی نہیں"۔ مہرو نے سرگوشی میں کہا۔

تو اسکی اس بات پر اردشیر کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔

"یہ پندرہ جوڑے کپڑے، دس جوڑی جوتے، سات برانڈڈ پرفیومز، میک اپ اور دوسرے فضول قسم کے کاسمیٹکس یہ سب ابھی کچھ بھی نہیں ہے؟"۔ اردشیر نے حیرت سے کہا۔

"اللہ توبہ، کیسے چیل کی طرح نظریں گاڑ رکھی ہیں میری چیزوں پر۔ اتنا ہی ہے تو آپ بھی کر لیں شاپنگ میں نے روکا ہے کیا"۔ جھلا کر کہتے وہ پھر سے مصروف ہو گئی۔

"میں سال کے بارہ مہینے میں چوبیس بار شاپنگ نہیں کرتا۔ یہ شیوا مردوں کا نہیں تم عورتوں کا ہے"۔ دو بدو جواب دیا۔

تو اثبات پر مہرو نے خونخوار نظروں سے اسے گھوری دی۔

جیسے تیسے کرکے تو اسکی شاپنگ ختم ہوئی اور کاؤنٹر پر کریڈٹ کارڈ سے بل پے کرنے کے بعد وہ دونوں مال سے باہر آ گئے۔

"اوففف خدایا، کوئی مجھے یوں شاپنگ بیگز اٹھائے بیوی کے پیچھے چلتے دیکھ لے تو کتنی انسلٹ ہوگی"۔ بیگز سے لدا پھندا وہ اسکے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

سیاہ پراڈو دور پرے کھڑی تھی۔

اس میں سے کوئی مسلسل جھانکتا دوربین سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

ایک ہاتھ میں موبائل تھام کر کان سے لگا رکھا تھا۔

"ہوں، تو یہ ہے غازی اردشیر کی بیوی۔۔۔کافی خوبصورت ہے ویسے"۔ دلکش احمریں لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے تھے۔

اسکا دھیان ہنوز مہرو پر تھا۔

"تیار ہو جاؤ اردشیر، آ رہا ہوں میں"۔ سیاہ دبیز مونچھوں تلے دلکش مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

قد آور آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنے میک اپ کو فائنل ٹچ دے رہی تھی۔

جب غازی اردشیر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

مہرو نے زرا کی زرا نگاہیں موڑ کر آئینے میں اپنے پیچھے اسے دروازے پر ہی ایستادہ دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں لگ گئی۔

جبکہ وہ مبہوت سا یک ٹک اسے ہی تکے جا رہا تھا۔

بنا یہ سوچے کے وہ اسکی نظروں کو خود پر محسوس کر سکتی تھی۔

رائل بلیو اور سلور رنگ کے کمبینیشن والی میکسی میں ملبوس، ہلکے سے میک اپ، نازک ڈایمنڈ نیکلس اور چھوٹے چھوٹے ڈائمنڈ ٹاپس پہنے، بالوں کو گھنگھریالے جوڑے میں باندھے وہ مکمل طور پر تیار تھی۔

بہت دیر بعد بھی جب اس نے نظریں نے پھیری تو مہرو نے ٹوکا۔

"کیا ہوا؟ ایسے کیا گھور رہے ہیں؟"۔ اسکی گہری نظروں سے خائف ہو کر ماتھے پر بل ڈالے مہرو نے سوال کیا۔

جبکہ بظاہر چہرے پر چھائی سختی کے برعکس اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

آج کل یہ جانے اسکے ساتھ کیا ہو رہا تھا کے وہ مغرور اور اکھڑ شخص جب بھی اسکے آس پاس ہوتا تھا تو اسے اپنے سامنے پا کر مہرماہ کے دل کی دھڑکنیں حد سے سوا ہو جاتی تھیں۔

جانے یہ کیا ہو رہا تھا اسکے ساتھ؟

"کچھ نہیں، تمہاری تیاری مکمل ہو گئی ہو تو چلنے کی کرو اب"۔ نگاہیں موڑ کر قدرے خشک لہجے میں کہا۔

"میں تیاری ہوں، چلیے"۔ وہ ہیلز پہن کر اسکے سامنے آئی۔

نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو وہ ہنوز اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

مہرماہ ایک مرتبہ پھر پزل ہو گئی۔

"ایسے گھور کیا رہے ہیں؟ کبھی کوئی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی کیا؟"۔ گھنگھریالی لٹ کو انگلی سے پیچھے کرتے ہوئے اس نے جھلا کر کہا۔

"تمہیں کس نے کہا کے تم خوبصورت ہو؟ ہونہہ، ایسا لگتا ہے جیسے نیلے رنگ کی بوری میں لال مرچ بھر بھر کر ڈالی ہو"۔ اس نے اسکے کپڑوں اور انداز پر چوٹ کیا۔

تو مہرو بھنا گئی۔

"ہاہ، کیا کہا میں اور لال مرچ؟ خود کی شکل دیکھی ہے کبھی آئینے میں۔۔ایسی شکلیں چھوٹے بچوں کو ڈرانے کے کام آتی ہیں"۔ اس نے بھی پل میں حساب بے باق کیا۔

"کیوں؟ اسی شکل کو جب روز چھپ کر دیکھتی ہو تب تم نہیں ڈر جاتی؟"۔ ایک ابرو اٹھا کر اس نے جتاتی نظروں سے اسے دیکھا۔

چوری پکڑے جانے کے خیال پر وہ دھک سے رہ گئی۔ دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔

وہ شرم سے سرخ پڑ گئی۔

یہ شخص اس سے اتنا بے خبر بھی نہیں تھا۔ جتنا کے وہ سمجھتی تھی۔

"اب۔۔۔زیادہ باتیں نہ بنائیں آپ۔ اور اب نہیں دیر ہو رہی آپ کو؟"۔ تیکھے چتونوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

تو وہ گرے کلر کا کوٹ درست کرتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس پر ایک نگاہ ڈال کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

پیچھے وہ سینے پر ہاتھ رکھے دھڑکنوں کو اعتدال پہ لانے کی کوشش کرنے لگی۔

__________________________________

بلال اور مہک کے ولیمے کی تقریب منعقد تھی۔

تقریب کے انتظامات شہر کے مہنگے ترین ہال میں کیئے گئے تھے۔


جامنی رنگ کے سفید اور سلور موتی اور نگوں کے کام والے شرارہ میں ملبوس سولہ سنگار کیئے اسٹیج پر بیٹھی نئی دلہن ہر کسی کے توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔

اسکے حسن میں اجب سوگواریت گھلی تھی۔

اسکے برابر سفید اور سیاہ رنگ کے ڈنر سوٹ میں ملبوس بلال بیٹھا تھا۔

اسکا چہرہ مطمئن اور پر سکون تھا۔

اسکی خوبصورت مسکراہٹ مہک کی جان جلا رہی تھی۔

ولیمے کے فورا بعد ہی ان دونوں کی کینیڈا کیلئے فلائٹ تھی۔

وہ بزنس کے کام سے جا رہا تھا۔

ساتھ اسکے مہک کو بھی جانا تھا۔

مہرو کی شادی طے ہونے سے دو دن قبل ہی اس نے اپنے اور مہک کے ویزا کیلئے اپلائی کر دیا تھا۔

اور اب انکی ساری تیاریاں قریبا ہو چکی تھیں کینیڈا جانے کی۔

مہک بھی آج کل چپ چاپ سی رہنے لگی تھی۔

اب کون جانتا کے یہ خاموشی وقتی تھی یا وہ واقعی سمجھوتا کر رہی تھی اپنے حالات سے۔

مہرماہ جہانزیب جب سے مسز مہرماہ غازی بنی تھی اپنی ہی فیملی سے کٹ کر رہ گئی تھی وہ۔

اب ایسا رویہ اپنا کر جانے وہ خود کو سزا دے رہی تھی یا اپنوں کو، کہنا مشکل تھا۔

اس وقت بھی وہ سب سے فارمل ہو کر ملی تھی۔

سوائے بے جی کے۔

اب بھی وہ ایک جگہ الگ تھلگ سی بیٹھی تھی۔

اور موبائل پہ ماہین کے میسج کا جواب لکھ رہی تھی جب اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔

نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو بلال عین اسکے سامنے کھڑا سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

مہرماہ کے تاثرات پتھر کے ہو گئے۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی، اور اس سے رخ پھیر لیا۔

اسکی اس قدر بے رخی پر بلال کا دل درد سے بھر گیا۔

"مہرماہ، میری جان اب تک تم اپنے بھائی سے ناراض ہو؟"۔ وہ اسکے شانے تھام کر محبت سے پوچھ رہا تھا۔

"ناراض؟ میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگی۔ مجھے حق ہی کہاں ہے کسی بات کی شکایت کرنے کا یا ناراض ہونے کا؟"۔ زخمی نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔

آنکھوں کی سطح تیزی سے گیلی ہو رہی تھی۔

"ایسا کیوں کہہ رہی ہو مہرو، تم جانتی ہو نا کے ہم سب تم سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ اور سب کی بات چھوڑو میں تمہیں کتنا چاہتا ہوں"۔ بلال نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا۔

"اگر اتنی ہی محبت ہوتی نا بھائی آپ کو مجھ سے، تو آپ ایک غیر لڑکی کو اپنی بہن پر ترجیح نہ دیتے۔ اب میرے سامنے یہ محبت کا ڈھونگ مت کریئے۔ آپ اگر چاہتے تو غازی اردشیر کی بہن کو آزاد کر سکتے تھے۔ مگر نہیں۔۔۔

اس نے غصے اور صدمے سے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں میں سے کھینچ لیئے۔

بلال کے ہاتھ فضاء میں خالی رہ گئے۔

اس نے بے بسی سے قدم قدم پیچھے ہٹتی مہرو کو دیکھا۔

جس کی آنکھوں میں اس وقت شدید بد گمانی اور کرب کے آثار تھے۔

"اب خدارا مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے آپ۔ میں نے آپ لوگوں کے فرض معاف کر دیئے ہیں۔ اب آپ لوگ مجھے بخش دیجئے"۔ اس نے ہاتھ جوڑ دیئے۔

بے دردی سے آنسو رگڑتے ہوئے وہ اس کے سائیڈ سے ہو کر اس سے بہت دور چلی گئی۔

اردشیر جو انکی جانب پشت کیئے انکی باتیں سن رہا تھا۔

مہرماہ کے جانے کے بعد وہ مڑا۔

چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ طاری کرکے وہ بلال کے مقابل آیا۔

"چچ۔۔چچ۔۔چچ! برا لگتا ہے نا اپنی اکلوتی لاڈلی بہن کی آنکھوں میں دکھ کے آنسو دیکھنا۔ خاصا تکلیف دہ منظر ہے ویسے"۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اب اسکے سامنے کھڑا افسوس کر رہا تھا۔

جس پر بلال نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

"بہت خوش ہو نا میری بہن کو مجھ سے بدظن کرکے؟"۔ آہستہ آواز میں وہ پھنکارا۔

"میں نے کچھ نہیں کیا ہے بلال، یہ تو تمہارے اپنے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے مہرماہ تم سے دور ہوئی ہے۔ میں نے تم سے کہا تھا کے مہک کو آزاد کرو اور بدلے میں مہرماہ کو میں چھوڑ دوں گا۔ مگر تم نے نہیں سنی۔ لہٰذا اب مجھے بلیم نہ کرو"۔ اس نے شانے اچکائے۔

ایسے جیسے یہ سب بہت آسان تھا۔

بلال کا مارے ضبط کے برا حال تھا۔

مٹھیاں زور سے بھینچ کر اس نے خود کو کچھ بھی سخت کہنے سے روک رکھا تھا۔ کیونکہ وہ وہاں موجود مہمانوں کے سامنے تماشا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

"تمہارے جیسا ذلیل اور کم ظرف انسان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا غازی اردشیر"۔ بے بسی بھرے غصے سے بس اتنا ہی کہا گیا۔

جبکہ وہ طنزیہ مسکرایا۔ اور اسکا شانہ تھپکتے ہوئے اس نے سرگوشی میں کہا۔

"اور دیکھو گے بھی نہیں بلال، کیونکہ میں اپنے نام کا بس ایک ہی پیس ہوں"۔ خوبصورت مسکراہٹ اچھال کر اس نے ایک آنکھ دبائی پھر کوٹ درست کرتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔

پیچھے وہ اپنا غصہ ضبط کرتا رہ گیا۔

____________________________________

ولیمے کی تقریب ابھی ابھی اختتام پذیر ہوئی تھی۔

عثمان غازی بے جی اور نگہت بیگم سمیت ایک گاڑی میں تھے۔

جبکہ مہرماہ اردشیر کے ساتھ اکی گاڑی میں تھی۔

وہ خاموش خاموش سی چہرہ موڑ کر بیٹھی کھڑکی سے باہر نظر آتے مناظر دیکھ رہی تھی۔

سب سے ملنے کے بعد اداسی اور بڑھ گئی تھی۔

افشاں بیگم اور جہانزیب صاحب سے وہ کھنچی کھنچی سی رہی۔

البتہ بے جی اور زرش سے اسے کوئی شکایت نہ تھی۔

خاموشی سے ڈرائیو کرتا ہوا اردشیر گاہے بگاہے اس پر بھی نظر ڈال لیتا تھا۔

وہ اس سے رخ موڑ کر بیٹھی تھی۔۔۔ہمیشہ کی طرح گریزاں!

وہ اسے سردی کے ان شاموں جیسی لگ رہی تھی۔

تنہا سی۔۔۔۔سوگوار سی!

اردشیر نے قدرے بور ہو کر سی-ڈی پلیئر چلا دیا۔

"اتنی محبت کرو نا،

میں ڈوب نہ جاؤں کہیں

واپس کنارے پہ آنا،

میں بھول نا جاؤں کہیں،

دیکھا جب سے چہرہ تیرا۔

میں تو ہفتوں سے سویا نہیں"

مہرماہ نے حیرت سے گردن گھما کر اسکی جانب دیکھا۔اسی پل اس نے بھی اس کی جانب نگاہیں موڑیں۔

"بول دو نا ذرا، دل میں جو ہے چھپا

میں کسی سے کہوں گا نہیں!

مہرماہ نے غصے سے ہاتھ بڑھا کر فورا سے پیشتر سی-ڈی پلیئر آف کردیا۔

"آف کیوں کیا؟ ایک تو تمہاری کمپنی میں رہ کر بندہ ویسے ہی بور ہو جاتا ہے"۔ اس نے جھنجھلا کر کہا۔

اسکی بات پر مہرو کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا۔

"ہاں، اس چڑیل کائنات کی کمپنی میں رہنے کے بعد آپ کو کسی اور کی کمپنی اچھی بھی کیوں لگے گی"۔ بے ارادہ ہی دل کی بات زبان پر آ گئی تھی۔

تقریب میں سارا وقت اس نے کائنات کو اس سے چپکے دیکھا تھا۔

اور یہ بات اسے زہر لگی تھی۔

اردشیر نے چونک کا اسکا لال بھبھوکا ہوتا چہرہ دیکھا۔

"کیا مطلب؟ کزن ہے وہ میری اب تمہیں اس سے کیا مسئلہ ہے؟"۔ وہ حیران تھا۔

اور وہ اسکی اس قدر بے خبری پر کڑھ کر رہ گئی۔

"ہاں ویری گڈ، جو چاہیئے کرتے رہیں میری بلا سے، جہنم میں جائیں آپ اور آپکی وہ بے ہودہ کزن"۔ کہہ کر غصے سے رخ موڑ لیا۔

"کیا تم۔۔۔اس سے جیلس ہو رہی ہو مہرماہ؟"۔ اردشیر نے پر سوچ انداز میں اس سے سوال کیا۔

اور اسکی بات سن کر مہرو پر اوس پڑ گئی۔

جھٹکے سے رخ موڑ کر ایک بار پھر اسکی جانب دیکھا۔

"وہاٹ؟ میں اور جیلس؟ وہ بھی اس چوہیا جیسی منہ والی سے؟"۔

"ہاں تو کیا تم نہیں ہو اس سے جیلس؟"۔ ردو بدل کے ساتھ پھر سے اپنا سوال دہرایا۔

"ہرگز بھی نہیں"۔ فورا سے پیشتر جواب دیا۔

"تو پھر اتنا غصہ کس بات کا ہے؟ کول رہو"۔ عام سے لہجے میں کہہ کر اس نے شانے اچکا دیئے۔

"میں کہاں ہو رہی غصہ؟ اور اپنے آپ کو اتنی اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے سمجھے آپ"۔ رکھائی سے کہا۔

"اہمیت دینے کی ضرورت ہے بھی نہیں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کے میں ہوں اہم"۔ پر یقین لہجے میں کہا۔

جس پر وہ اسے بس دیکھ کر رہ گئی۔

بولی کچھ نہیں۔

______________________________________

بھاپ اڑاتی کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو اسکا موبائل بج رہا تھا۔

زرش نے موبائل اٹھا کر دیکھا۔ کوئی غیر شناسا نمبر تھا۔

اس نے ریسیو نہ کیا۔

اور موبائل بیڈ پر اچھال کر اس نے ایک کتاب کھول لی۔

چند لمحوں بعد ہی میسج کی ٹون بجی۔

چونک کر اس نے موبائل اٹھایا۔

"زرش اٹس می، برہان"۔ مختصر پیغام تھا۔

نام پڑھتے ساتھ ہی اسکی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں۔

اسی وقت اس کی کال ایک مرتبہ پھر آ رہی تھی۔

چند لمحے توقف کے بعد زرش نے اوکے کر کے موبائل کان سے لگا لیا۔

"السلام و علیکم"۔

بھاری گھمبیر آواز اسکے دل کے تاروں کو چھیڑنے لگی۔

زرش نے گھبرا کر آہستگی سے جواب دیا۔

"کیسی ہیں آپ مس زرش؟"۔ دلچسپی سے پوچھا۔

"اچھی ہوں، آپ کیسے ہیں؟"۔ اس نے بھی پوچھنا لازمی سمجھا۔

"بالکل ٹھیک نہیں ہوں"۔ فورا سے پیشتر جواب آیا۔

"کیوں کیا ہوا خیریت ہے سب؟"۔ زرش نے متفکر لہجے میں پوچھا۔

دوسری جانب سے اس نے گہری سانس لی۔

پھر گویا ہوا۔

"آپ سے ملنے کے بعد کوئی خیریت سے کیسے رہ سکتا ہے زرش صاحبہ"۔ پر سکون جواب آیا۔

"کیا مطلب؟"۔ زرش چونکی

"مطلب کو چھوڑو، یہ بتاؤ کیا کر رہی ہو اس وقت؟"۔ اس نے دانستہ سوال بدلا۔

"کچھ نہیں، کتابیں پڑھ رہی تھی"۔ مختصر جواب دیا۔

"برہان، تمہیں نہیں لگتا ہمیں اردشیر بھائی اور مہرو کے رشتے کیلئے کچھ کرنا چاہیے؟"۔ زرش کئی دنوں سے جو سوچ رہی تھی۔

اس نے وہ برہان کو بتانے کا فیصلہ کر لیا۔


دوسری جانب وہ کہہ رہا تھا۔

"کیا مطلب کیا کرنا چاہیے؟ وضاحت دو"۔ برہان نے نا سمجھی سے کہا۔


"اوہو، مطلب یہ ہے کے ہمیں ان دونوں کو ایک کرنے کیلئے کچھ کرنا چاہئے۔ تم اردشیر بھائی کے سب سے قریبی دوست ہو اور مہرو سب سے زیادہ میرے قریب ہے۔ تو ہم دونوں سے بہتر ان دونوں کو کوئی نہیں سمجھا سکتا"۔ زرش نے اب کے تفصیلی وضاحت دی۔


"اوو آئی سی، ہاں پر اس کیلئے ہم دونوں کا ایک ٹیم میں ہونا ضروری ہے"۔ شرارت سے کہا۔

"میں ان دونوں کی بات کر رہی ہوں اور تمہیں اپنی پڑی ہے"۔ زرش نے دانت کچکچا کر کہا۔

"ہاں تو میں اپنے لیے تھوڑی کہہ رہا تھا۔ میں تو ان دونوں کیلئے کہہ رہا تھا"۔

"ٹھیک ہے ٹھیک ہے، اب زیادہ باتیں نہ بناؤ اور یہ بتاؤ کے ہمیں شروعات کہاں سے کرنی چاہیئے؟"۔ زرش نے پہلو بدلا۔

"وہ دونوں ایک ساتھ ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے۔ اس لیے ضروری ہے کے پہلے ان دونوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے"۔ اس نے بتانا شروع کیا۔

"تو کیا کریں؟ رسی سے باندھ کر تو نہیں رکھ سکتے نا دونوں کو؟"۔

"نہیں۔ بس ایسے حالات بنانے ہیں کے وہ دونوں خود بندھ جائیں"۔ اسکی آواز میں جوش اور دلچسپی تھی۔

"ویسے تمہیں یہ خیال آیا کیسے؟"۔ برہان نے اگلا سوال کیا۔

"کیوں نا آئے خیال؟ آخر کو وہ میری بہن ہے۔ مجھے نہیں آئے گا خیال تو اور کسے آئے گا"۔ زرش نے فورا جواب دیا۔

"میرا مطلب تھا کے جہاں تک مجھے معلوم ہے تمہارے گھر والے اور خاص طور پر بلال شیرو کو مہرماہ بھابھی کے حوالے سے سخت ناپسند کرتے ہیں۔ بلکہ مہرماہ بھابھی کو تو سرے سے وہ لوگ دور ہی کر دینا چاہتے ہیں شیرو سے، تو پھر تم ان دونوں کو پاس لانے کا خیال کیسے رکھتی ہو؟"۔ اس نے تفصیل بتا کر پھر سوال پوچھا۔

تو زرش نے گہری سانس لی۔

"کیونکہ مجھے لگتا ہے کے ان دونوں کو ایک ہونا چاہئے برہان، کیا تم نے دیکھا نہیں کے مہرو کی شادی ہونے کے عین وقت میں وہ وہاں کیوں آیا؟ کیونکہ وہی مہرو کی قسمت میں تھا۔ تو پھر وہ کسی اور کو کیسے مل جاتی؟

اس لیے اب یہ ضروری ہے کے وہ دونوں قسمت کے لکھے کو راضی خوشی مان لیں۔ اور رہی بات گھر والوں کی تو جب مہرماہ خود اپنے شوہر کو اور اس رشتے کو قبول کر لے گی تو پھر اسکے بعد کسی کے کچھ کہنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا"۔

وہ خاموش ہوئی تو دوسری جانب وہ گویا ہوا۔

"بہت سمجھدار ہو تم ویسے، ہاں مانتا ہوں یہ لائن کسی بزرگ کو کہنا چاہیے تھا پر خیر کوئی نہیں۔ اب میں نے کہہ دیا ہے۔ جیتی رہو"۔

زرش اسکی بات سنتے ہی کھلکھلا کر ہنس دی۔

"ایک بات کہوں؟" اس نے پوچھا۔

"ہاں جی"۔ زرش نے ہنسی روک کر کہا۔

"صرف صورت ہی نہیں، تمہارا دل بھی بہت خوبصورت ہے زرش۔ اچھا لگا یہ دیکھ کر کے تم سب کیلئے سوچتی ہو"۔ وہ دل سے کہہ رہا تھا۔

زرش اسکی بات پر قدرے جھینپ گئی۔

"اچھا، یہ بتاؤ کے پہلے مرحلے میں کیا کرنا ہے ہم نے؟"۔ زرش فورا موضوع پر آ گئی۔

"بتاتا ہوں۔ غور سے سنو"۔ کہتے ساتھ ہی وہ اسے تفصیلات بتانے لگا۔

اور وہ بغور اسے سن رہی تھی۔

______________________________________

مغرب کا وقت تھا۔

غازی ولا اس وقت شانت پڑا تھا۔

گھر کے سارے مکین اس وقت ادھر اُدھر ہو گئے تھے۔

بے جی اپنے کمرے میں نماز پڑھنے اور تسبیح کرنے میں مگن تھیں۔

عثمان غازی نگہت بیگم کے ساتھ اپنے کسی کاروباری دوست کے بیٹے کی شادی اٹینڈ کرنے گئے تھے۔

اردشیر ابھی ابھی آفس سے آ کر اپنے کمرے میں گیا تھا۔

جبکہ مہرو قدرے بور ہو رہی تھی۔

لہٰذا اس نے زرش کو کال کرکے بلوا لیا تھا۔

وہ دونوں اب لاؤنج میں بیٹھی ٹی-وی دیکھتے ہوئے ساتھ باتیں بھی کر رہی تھیں۔

اور پزا، سینڈوچز، چپس، پیسٹریز اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء سے بھرپور انصاف کر رہی تھیں۔

مہرو نوٹ کر رہی تھی کے زرش بارہا اپنا موبائل ہاتھ میں پکڑتی، کچھ پڑھنے کے بعد مسکرا کر ٹائپ کرتی اور پھر موبائل گود میں رکھ لیتی تھی۔

مہرماہ قدرے مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

جسے زرش نے محسوس کر لیا تھا۔

دل ہی دل میں اسکے تاثرات دیکھ کر گھبرا بھی گئی تھی کے کہیں مہرو کو پتہ نا چل گیا ہو برہان اور اسکے پلان کا۔

وہ اپنے خیالوں میں گم تھی کے عین اسی وقت مہرو نے جھپٹ کر اسکا موبائل اچک لیا۔

زرش نے بے یقینی سے اسے اپنے موبائل کا انباکس کھولتے دیکھا۔

اور اس سے قبل کے وہ کچھ پڑھتی فورا سے پیشتر زرش نے موبائل جھپٹ لیا۔

"اچھا، تو یہ چل رہا ہے آج کل"۔ مہرو نے کمر پر دنوں ہاتھ جمائے اسے گھورا۔

زرش گڑبڑا سی گئی۔

"کہیں اسے کچھ پتہ تو نہیں چل گیا؟"۔ زرش نے دل ہی دل میں خود سے پوچھا۔

پھر مہرو کو دیکھا۔

جس نے ایک مرتبہ پھر اسکا موبائل اچک لیا تھا۔

اور بھاگ کر وہ کانچ کی ٹیبل کے اس پار جا کھڑی ہوئی۔


"مہرو فون ادھر دے"۔ وہ اسکے پیچھے بھاگی۔

مگر وہ اسکے ہاتھ آئے بغیر کھلکھلا کر ہنستی ہوئی بھاگتی پھر رہی تھی۔

"مہرو رک جا نا، فون ادھر دے میں بتاتی ہوں سب"۔ زرش نے بے بسی سے کہا۔

تو وہ دور سے ہی بولی۔

"نہیں دوں گی۔ کتنی گھنی میسنی ہو تم زری، مجھ سے بھی سب چھپایا"۔ مہرو نے اسے موبائل دکھایا کے آؤ اب لے کر دکھاؤ۔

"ایسا کچھ نہیں ہے۔ تم غلط سمجھ رہی ہو"۔ زرش اسے پکڑنے کیلئے ہلکان ہو رہی تھی۔

وہ بھاگتے بھاگتے مین ڈور تک جا پہنچی تھی اور دروازہ ابھی اس نے کھولا ہی تھا کے اسی وقت باہر سے آتے شخص نے مہرو کو نا دیکھا اور دروازہ اندر کی جانب دکھیلا۔

اس سے قبل کے مہرو پیچھے کی جانب گرتی۔

نووارد نے سہولت سے مہرو کا ہاتھ تھام لیا۔

جس سے وہ فضاء میں معلق ہو گئی۔

زرش بھاگتے ہوئے جھٹکے سے فاصلے پر رک گئی۔

عین اسی وقت موبائل کان سے لگائے اوپر تلے کے زینے اترتے اردشیر کی نظریں اس منظر سے الجھ گئیں۔

اسکی آنکھوں میں شدید ناپسندیدگی اتر آئی۔

جبکہ ان سب سے بے نیاز وہ اجنبی اب بھی دلچسپی سے مہرو کو ہی دیکھ رہا تھا۔

زرش نے تھوک نگل کر فاصلے پر غیض و غضب کی تصویر بنے کھڑے اردشیر کو دیکھا۔

پھر جلدی سے آگے بڑھ کر مہرو کو سنبھال لیا۔

اور اسکا ہاتھ اجنبی سے الگ کیا۔

"مہرو تم ٹھیک تو ہو نا؟"۔ اس نے جلدی سے اپنا موبائل اسکے ہاتھ سے لیا اور اسے سہارا دیا۔

جبکہ مہرو ابھی تک شاکڈ سی تھی۔

اسی وقت وہ اجنبی دروازہ سے اندر داخل ہو گیا۔

اردشیر کی اس پر نظر پڑی تو غصے کی جگہ شدید حیرت نے لے لی۔

وہ ششدر سا سر تا پیر مقابل کا جائزہ لے رہا تھا۔

نیلی جینز کے اوپر گرے شرٹ کے ساتھ سیاہ لیدر جیکٹ پہنے، دائیں ہاتھ میں سیاہ رنگ کے کئی بینڈز، ہلکی بڑھی شیو، مونچھوں تلے احمریں لب، گندمی رنگت، گہری سیاہ آنکھیں، سیاہ بال پیچھے کو جمائے بلاشبہ وہ مردانہ شاہکار تھا۔

اسکے بازو کسرتی تھے۔ اسے دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا تھا کے وہ جم جانے کا عادی ہے۔

"شاہی تو؟" وہ خوشگوار حیرت سے اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔

"اب یہاں تک آنے کیلئے انویٹیشن لے گا تو؟"۔ اس نے بانہیں وا کرکے مسکرا کر اردشیر سے کہا۔

تو وہ تیز قدموں سے اس تک آیا۔

وہ بھی چند قدم آگے بڑھ کر اس سے بغلگیر ہوا۔

زرش اور مہرماہ حیرت سے ان دونوں کو دیکھتے تو کبھی ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے۔

بہت دیر بعد وہ دونوں الگ ہوئے۔

اردشیر کی مسکراہٹ اسکے لبوں سے جدا نہ ہوتی تھی۔

مہرو حیرت سے پہلی بار اسے کھل کر مسکراتے دیکھ رہی تھی۔

پھر بہت دیر بعد وہ ان دونوں لڑکیوں کی جانب متوجہ ہوئے۔

"یہ کون ہیں شیرے؟"۔ اس نے اردشیر کے کندھے پہ ہاتھ رکھے سوالیہ نظروں سے دونوں لڑکیوں کو دیکھا۔

جو گھبرائی گھبرائی سی تھیں۔

تو اردشیر نے تعارف کا سلسلہ شروع کیا۔

"یہ مہرماہ ہے میری مسز، اور یہ اسکی بہن ہے زرش"۔ اردشیر نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

"اور جناب یہ ہیں ہمارے۔۔۔۔

"اوہو، میں خود بتانا پسند کروں گا"۔ اس نے مسکرا کر ٹوکا۔

تو اردشیر نے خوشدلی سے اجازت دے دی۔

"شہزاد عمر شاہ نام ہے میرا مسز مہرماہ۔۔۔۔

جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ چند قدم آگے آیا اور مہرو پر آنکھیں گاڑ دیں۔

بھابھی کا تکلف اس نے نہیں کیا۔

"آپ کے میاں کا دوست ہوں، ویسے لوگ مجھے شاہی کہتے ہیں۔۔۔پیار سے"۔

اس نے 'پیار سے' پر قدرے زور دیا۔

مہرو بدقت مسکرائی اور اثبات میں سرہلایا۔

اسے وہ شخص خاصا پراسرار لگ رہا تھا۔

شاہی چند قدم پیچھے آیا۔

پھر بلند آواز سے بظاہر اردشیر کو مخاطب کیا۔

"شیرے، جہاں تک میرا خیال ہے تمہاری مسز کا نام مریم تھا۔۔۔نہیں؟" مہرماہ پر گہری نظریں جمائے اس نے عام سے لہجے میں یہ بات کہی۔

مہرماہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا۔

زرش بھی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔

اور ششدر تو خود غازی اردشیر بھی ہوا تھا اسکی بات سن کر۔

________________________________________________

ماحول میں تناؤ کی سی کیفیت محسوس کی جانے والی تھی۔

تب ایک دم ہی شاہی نے ایک زوردار قہقہہ بلند کیا۔

اسے یوں ہنستے دیکھ کر مہرو اور زرش کو اسکی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔

جبکہ اردشیر لب بھینچے خاموش کڑا تھا۔

"یار آپ لوگ تو مذاق بھی نہیں سمجھتے۔۔کم آن"۔ اس نے ہنسی روک کر باری باری ان تینوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

تو مہرو کو شدید غصہ آیا اس پر۔

جسے وہ بمشکل ضبط کرتے ہوئے سر جھکا گئی۔

جبکہ اردشیر بغور مہرماہ کے چہرے کا اتار چڑھاؤ ملاحظہ کر رہا تھا۔

"باقی سب کہاں ہیں؟ آنٹی، انکل، بے جی؟"۔ اس نے اردشیر کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ڈیڈ اور مام ایک شادی اٹینڈ کرنے گئے ہیں۔۔۔آؤ تمہیں بے جی سے ملواتا ہوں"۔ اردشیر نے اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا۔

"شیور۔۔۔بائے لیڈیز، اینڈ مسز مہرماہ آپ میرے لیئے اچھی سی کافی بھجوا دیجئے گا پلیز"۔ جانے سے قبل مڑ کر اس نے مہرماہ سے کہا۔

اور اسکی ہاں یا ناں سنے بغیر وہ دائیں جانب بے جی کے کمرے میں اردشیر کو ساتھ لیئے چلا گیا۔

"سمجھتا کیا ہے یہ خود کو۔ کیسا اجیب آدمی ہے"۔ مہرو نے پہلی ہی نظر میں اسے سخت ناپسند کر دیا۔

پروین کو بلوا کر اس نے کافی کا کہہ دیا۔

اور پھر زرش کو لیے وہ صوفے پر آ بیٹھی۔

"کافی ٹیڑھا آدمی لگتا ہے یہ تمہارے میاں کا دوست"۔ زرش نے بھی اپنی رائے دی۔

"ہاں تو وہ خود کون سا سیدھا آدمی ہے۔ جیسا خود ہوگا ویسے ہی تو اسکے دوست ہوں گے نا"۔ مہرو نے سر جھٹکا۔

"ہیلو بیوٹی فل لیڈیز"۔ چند لمحوں بعد ہی ایک چہکتی ہوئی آواز گونجی۔

دونوں نے بیک وقت سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی برہان کھڑا تھا۔

"آئیے آپ ہی کی کمی تھی"۔ واحد برہان ہی تھا جس سے وہ کسی حد تک بے تکلف ہو جاتی تھی۔

کیونکہ وہ کافی نرم خو اور مزاجا مہرو جیسا ہی تھا۔

"کیا ہوا بھابھی خیریت ہے۔ آپ کا موڈ خراب ہے غالبا؟"۔ وہ چونکا۔

"ٹھیک اندازہ لگایا ہے۔ موڈ واقعی خراب ہے محترمہ مہرو صاحبہ کا انکے میاں کے دوست کی وجہ سے"۔ جواب زرش نے دیا۔

"اوہوو، میرے علاوہ اور کون دوست آیا ہے؟"۔ برہان نے اب کے دلچسپی سے پوچھا۔

"ہیں کوئی شہزاد عمر صاحب"۔ مہرو نے جل کر کہا۔

"آہاں، اپنا شاہی۔۔۔ارے وہ تو شیرو کے بچپن کا یار ہے بھابھی۔ مانا کے تھوڑا ٹیڑھا ہے پر ہے بڑے دل والا"۔ برہان اسکی تعریف میں رطب السان تھا۔

"صرف تھوڑا ہی؟ وہ تو پورا کا پورا ہی ٹیڑھا لگتا ہے"۔ مہرو نے دانت کچکچائے۔

اسکے اس انداز پر زرش نے ہنسی دبائی کے مبادا کہیں اسکی بھی شامت نہ آ جاتی۔

"ویسے ہیں کہاں یہ صاحب؟"۔ برہان نے سوالیہ نظروں سے ان دونوں کو دیکھا۔

"بے جی کے کمرے میں"۔ جواب مہرو کی طرف سے آیا۔

"چلیے، میں دیکھتا ہوں جا کر"۔ اس نے کہتے ہوئے بے جی کے کمرے کا رخ کیا۔

____________________________________

انکی فلائٹ ابھی کچھ دیر قبل ہی کینیڈا لینڈ ہوئی تھی۔

چارلس ولسن عثمان صاحب کے بزنس میں شیئر ہولڈر تھے۔

چونکہ بلال ان کے فرم کا خاص بندہ تھا تو اس وجہ سے چارلس نے بذات خود ان کے رہن سہن کا وہاں بندوبست کروایا تھا۔

اسی کی بھیجی گئی گاڑی نے مہک اور بلال کو ایئرپورٹ سے ریسیو کی اور کینیڈا میں انکی عارضی رہائش گاہ پر انہیں پہنچا دیا تھا۔

سردی اپنے جوبن پر تھی۔

مہک مختصر سے لاؤنج میں صوفے پر براجمان گھر کا جائزہ لے رہی تھی۔

جو کے مختصر سا تھا۔

ایک بیڈروم، ایک ہی ڈرائنگ روم، چھوٹا سا کچن، ایک مختصر لاؤنج اور اس سے ملحقہ بالکونی۔

ولسن کو کپل کی مناسبت سے شاید یہی گھر ٹھیک لگا تھا۔

وہ جو محل جیسے گھر میں رہنے کی عادی تھی۔

اب اس چھوٹے سے دڑبے میں یک دم ہی گھٹن سی ہونے لگی تھی۔


اسی لمحے بلال نہا دھو کر کمرے سے برآمد ہو رہا تھا۔

جسے دیکھ کر اس نے رخ موڑ لیا۔ گویا اسے نظرانداز کیا۔


سادہ سے سفید شلوار قمیض میں ملبوس وہ اب عادتا آستینوں کے کف موڑ رہا تھا۔


"مہک، جاؤ میرے لیئے کافی بناؤ"۔ صوفے پر بیٹھتے اب اس نے ٹی-وی آن کر دیا۔


جبکہ مہک کو لگا جیسے اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔


"سنا نہیں تم نے؟ جاؤ جا کر کافی بناؤ میرے لیئے"۔ اب کے قدرے سخت لہجے میں اسکی جانب دیکھ کر کہا۔

اور اتنا ہی سننا تھا کے اسکا پارہ ہائی ہو گیا۔

"خود اٹھو اور جا کر بناؤ، میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں سمجھے تم"۔ وہ غضبناک ہوئی۔

تو بلال اٹھا اور اسکے مقابل آ گیا۔

کھینچ کر اسے خود سے قریب تر کرتے ہوئے وہ گویا ہوا۔

"شوہر سے کس طرح پیش آتے ہیں اب یہ بھی مجھے بتانا پڑے گا تمہیں؟ تمہاری یہ بدتمیزی دیکھ کر مجھے بدتہذیبی پر اترنے میں دیر ہرگز نہیں لگے گی۔

یاد رکھنا مہک بی بی کے جتنی مشکل تم بنو گی، اتنا ہی ٹیڑھا مجھے پاؤ گی۔ کیونکہ ابھی تم جانتی نہیں ہو کے بلال جہانزیب چیز کیا ہے"۔ لفظ چبا چبا کر کہے۔

اسکے تیور قدرے جارحانہ تھے۔

ایک پل کو تو مہک بھی بوکھلا گئی۔

اسکی گرم سانسوں کے تھپیڑے اسکے چہرے کو جھلسا رہے تھے۔

مہک نے کبوتر کی طرح زور سے آنکھیں میچ لیں۔

اور وہ یوں دلچسپی سے اسے تکتا جا رہا تھا جیسے کوئی خوبصورت ترین منظر اسکی آنکھوں کے سامنے ہو۔

بند آنکھوں کی ریشمی جھالریں لرزاں تھیں۔

گلابوں سے ہونٹ شاید سردی کی وجہ سے ہلکے ہلکے کپکپا رہے تھے۔

کھلے ہوئے سنہرے بالوں کی لٹیں اسکے رخسار چومتی تھی۔

بلال کا دل چاہا یہ منظر یہی ٹھہر جائے۔

کتنے خول خود پہ چڑھا لیتا تھا وہ۔

کتنا سخت اور پتھر دل ظاہر کرتا تھا خود کو؟

کتنے ہی بند باندھتا تھا اپنے جذبوں پر۔

اور یہ نازک سی پیکر اسکے سارے احتیاطی تدابیر کو مٹی میں ملا دیتی تھی۔

وہ بھی آخر بندہ بشر تھا۔

کب تک اسکے وجود سے نگاہیں چراتا جس کے ساتھ اسکا تعلق شرعی تھا، اور مضبوط بھی۔

وہ بے اختیار سا ہو کر اس کے چہرے پر جھکتا چلا گیا۔

فورا سے پیشتر مہک نے پلکیں وا کیں اور پوری جان لگا کر اسے خود سے پرے دھکیلا۔

وہ بمشکل دو قدم ہی پیچھا ہٹا۔

"تم تو بہت ہی ڈیسپریٹ قسم کے ہو بلال عالم، میں تو سمجھی تھی کے بڑی سخت جان ہے تمہاری پر نہیں۔ تم تو بہت ہی آوارہ مزاج اور کمزور نفس نکلے۔ پر نہیں غلطی تمہاری نہیں ہے۔ حسن چیز ہی ایسی ہے کے مقابل کو چاروں شانے چت کر دیتی ہے"۔

وہ اب غرور سے تنی گردن کے ساتھ سر تا پیر اسے طنزیہ نظروں سے گھورتی ہوئی اسکا تمسخر اڑا رہی تھی۔

اور بلال اپنی اس بے ساختگی پر پچھتایا۔

کردار پر ایسے حملے نے اسے انگاروں پر لوٹایا تھا۔

"بہت غرور ہے نا اپنی خوبصورتی پر تمہیں؟ دو دن۔مسز مہک صرف دو دن میں تمہاری یہ اکڑ نہ نکال دی تو میرے مرد ہونے پر لعنت"۔ چیلنج دینے والے انداز میں اس نے انگشت شہادت اٹھا کر اپنے ارادے بتائے تھے۔

مگر مہک نے طنزیہ سر جھٹکا۔

اس کو اب اس سے کوئی خوف نہ آ رہا تھا۔

کیونکہ اسے اب بلال کی کمزوری معلوم ہو گئی تھی۔

اور اسے یقین تھا کے وہ اپنے حسن سے اسے زیر کر لے گی۔

اب یہ تو وقت ہی بتاتا کے کون کس کو چاروں شانے چت کرنے والا تھا۔

____________________________________

کھانے کی میز پر اس وقت بے جی، جہانزیب صاحب اور افشاں بیگم براجمان تھے۔

ماحول میں اجب اداسی سی گھلی تھی۔

تینوں نفوس خاموش خاموش سے تھے۔

"بچوں کے جانے کے بعد گھر کتنا سونا ہو گیا ہے نا بے جی، ایک دم خاموش"۔ افشاں بیگم نے گھر کے ارد گرد نظریں دوڑاتے ہوئے اداسی سے کہا۔

انہیں اجب وحشت سی ہو رہی تھی اس خاموش اور سوگوار فضاء سے۔

بے جی نے گہری سانس لی جبکہ جہانزیب صاحب نے بھی ایک لمحہ رک کر انہیں دیکھا۔

"ہاں بہو، ٹھیک کہتی ہو تم۔ مہرو کے رہتے یہ گھر کتنا بھرا پرا سا تھا۔ وہ کیا گئی اس گھر کی رونق ہی چلی گئی"۔ بے جی نے نم آنکھیں جھپک جھپک کر بہو کی تائید کی۔

جہانزیب صاحب نے ان دونوں کو دیکھا۔

"تو آپ لوگ جا کر مل آئیں اس سے، اس میں کون سی بڑی بات ہے"۔ انہوں نے عام سے انداز میں کہتے خود کو لاپرواہ ظاہر کیا۔

مگر دل ہی دل میں خود انہیں بھی مہرو کو دیکھنے اور اس سے بات کرنے کی تڑپ تھی۔

انکی بات پر دونوں نے انہیں دیکھا۔

"جا کر بھی کیا فائدہ ہوگا، وہ تو ہم سے خار کھائے بیٹھی ہے"۔ افشاں بیگم کی آواز نا چاہتے ہوئے بھی بھرا گئی۔

انہیں بلال کے ولیمے کا وہ منظر یاد آیا جب اس نے انہیں دیکھ کر رخ پھیر لیا تھا۔

جو انکے دل کو مزید دکھا گیا۔

"مایوس مت ہو، جانتی تو ہو کے مہرو کا دل موم کی طرح ہے۔ اسے پگھلنے میں وقت ہی کہاں لگتا ہے۔ زرا غصہ ٹھنڈا ہونے دو اسکا پھر دیکھنا کیسے خود ہی بھاگی بھاگی آتی ہے تمہارے پاس"۔ بے جی نے مسکرا کر کہتے ہوئے انہیں تسلی دی۔


"اللہ کرے ایسا ہی ہو بے جی، میری بچی جلد میرے پاس لوٹ آئے۔ اسکا مرجھایا ہوا چہرہ مجھ سے چھپا نہیں تھا۔ ابھی تک اس نے اردشیر اور اپنے اس زبردستی کے رشتے کو قبول نہیں کیا ہے"۔ افشاں بیگم نے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا۔


"جن حالات میں یہ سب ہوا ہے اسے تو خود ہمارے ذہن قبول نہیں کر پار ہے، پھر وہ بھلا کیسے کرے گی"۔ بے جی نے تھکے تھکے سے لہجے میں جواب دیا۔


"کر بھی کیا سکتے ہیں۔ حالات نے ایسا رخ اختیار کیا ہے کے ایک طرف کنواں اور دوسری طرف کھائی والی بات ہو گئی ہے۔ اگر مہرو اردشیر سے خلاء لیتی ہے تو بھی اسکی زندگی خراب ہو گی۔ اور نہیں لیتی ہے تب بھی خوش تو وہ نہیں رہ پائے گی اسکے ساتھ۔

لوگ تو اب بھی چہ میگوئیاں کرتے ہیں۔ پھر اگر وہ طلاق یافتہ ہو کر گھر آ بیٹھی تو اسکا جینا اور بھی دو بھر ہو جائے گا۔

آخر کو ہم کب تک زندہ رہیں گے۔ پھر ہمارے جانے کے بعد تو وہ زمانے کے سرد و گرم سہنے کیلئے تنہا رہ جائے گی۔ رہا بلال تو کل کو اسکے اپنے بچے بھی ہوں گے۔

تب وہ بھی اپنی بہن کو بوجھ سمجھے گا۔

لہٰذا بہتر یہی رہے گا کے مہرو اردشیر سے سمجھوتا کر لے۔ اسی میں اسکی بہتری ہے"۔


جہانزیب صاحب نے ماتھے پر بل ڈالے اپنا تجزیہ بتایا۔

تو وہ دونوں خاموش ہو گئیں۔

اب وہ کر بھی کیا سکتی تھیں سوائے صبر کے۔

____________________________________

صبح کا حسن ہر سو بکھرا پڑا تھا۔

سردیوں کی وجہ سے ہلکی ہلکی دھند نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔

مرون رنگ کی شال اوڑھے، بھاپ اڑاتی کافی کا مگ تھامے مریم ٹیرس پر آ گئی۔

صبح کا یہ وقت اسکا پسندیدہ تھا۔

سرد ہواؤں کو وہ اپنے اندر اتارتی پرسکون سی تھی۔

وہ قدرت کے اس حسن میں مکمل کھو سی گئی تھی۔

جب کوئی بہت خاموشی اور آہستگی سے بنا کوئی چاپ پیدا کیئے اس سے کچھ ہی فاصلے پر، مگر اسکے برابر آ ٹھہرا تھا۔

سبز کانچ سی آنکھیں اس بے خبر سی حسینہ کے چہرے پر ٹھہر سی گئی۔

سردی کی وجہ سے اسکی ستواں ناک اور رخسار سرخ پڑ رہے تھے۔

سیاہ ہرنی سی آنکھوں میں ٹھنڈ کے باعث پانی آ گیا تھا۔

جو اسکی سیاہ آنکھوں میں ستاروں کی مانند چمک رہا تھا۔

وجاہت دلچسپی سے اس خود میں مگن لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو آس پاس سے بے نیاز بالکل اس قدرتی منظر کا حصہ معلوم ہوتی تھی۔

وہ بنا پلکیں جھپکائے یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔


"وہ جب سامنے آ جاتے ہیں نظر کے،

ہم درد بھول جاتے ہیں عمر بھر کے،

اس سے پہلے کتنی پرامن تھی زندگی،

ہم تو پچھتا رہے ہیں محبت کرکے!"


ایک جذب سے اس نے شعر پڑھا۔

آواز پر مریم نے جھٹکے سے رخ موڑا۔ تو وہ دل و جان سے اسکی جانب متوجہ تھا۔


وہ پلٹ کر جانے لگی۔

"رنجش ہی سہی دل دکھانے کیلئے آ۔۔

آ پھر سے مجھے چھوڑ جانے کیلئے آ۔۔۔!"

سینے پر ہاتھ باندھے سبز کانچ اسکی پشت پر جمائے اس نے ایک مرتبہ پر حال دل کہا۔

تو نا چاہتے ہوئے بھی وہ رکی۔

مگر پلٹی نہیں۔

وہ دو قدم آگے آیا، اور اس سے کچھ فاصلے پر ہی رک گیا۔

"اپنی دانست میں مجھے یوں نظرانداز کرکے تم میرے دل سے اپنا آپ مٹا سکو گی مریم؟"۔ بھاری گھمبیر آواز میں ہلکے سے شکوے کی رمق بھی تھی۔

مریم نے زور سے مٹھیاں بھینچ کر آنکھیں بند کر لیں۔

وہ اسے نہیں سننا چاہتی تھی۔

وہ اس سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔

مگر ہائے رے محبت!

وہ جتنا دور بھاگتی تھی۔

محبت اسے اتنا ہی پیچھے کی جانب کھینچ کر جکڑ لیتی تھی۔

اور اسکی جکڑ اتنی زور آور تھی کے مریم اس گرفت کو توڑنے میں کبھی کبھار تھکنے لگ جاتی تھی۔

اب بھی وہ تھک رہی تھی۔

"وجاہت پلیز، آپ میرے لیے اس سب کو اور مشکل مت بنائیں"۔ بے بسی سے بس اتنا ہی کہا گیا۔

"میں تو تمہاری راہ کا ہر کانٹا اپنی پلکوں سے چن لینا چاہتا ہوں مریم۔ تمہاری ہر مشکل کو خود پہ جھیل لینا چاہتا ہوں۔ اگر بھروسہ کرو مجھ پر تو"۔ اسکے انداز میں رتی برابر فرق نہ آیا۔

جس پر وہ تپ ہی تو گئی۔

ایک جھٹکے سے مڑی۔

"یہی تو میں نہیں چاہتی۔ کیوں نہیں آپ میری مشکل سمجھتے ہیں؟

کیوں نہیں آپ قبول کرتے ہیں کے میں کسی اور کی ہوں؟"۔

وہ پھٹ پڑی تھی۔

وجاہت نے لب کھولنے چاہے مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش رہنے کو کہا۔

جس پر وہ لب بھینچ کر اسے سننے لگا۔

"نہیں وجاہت اب بس، جانتے ہیں میں کیا سوچتی ہوں؟ کبھی جاننے کی کوشش کی آپ نے؟ نہیں نا؟

پھر کیسے اتنی بڑی غلط فہمی پال لی آپ نے؟ کیوں کر مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا؟"۔ وہ رو دی۔

"جانتے ہیں وہ شخص کیوں مجھے چھوڑ گیا؟

کیونکہ اسے لگتا ہے کے ساری لڑکیاں وریشہ جیسی ہوتی ہیں۔

لیکن میں اسے بتانا چاہتی تھی کے میں وریشہ نہیں ہوں۔

میں مریم ہوں۔ اپنے بابا کا غرور، اپنی ماں کا عکس"۔ اس نے اپنے آنسو رگڑ ڈالے۔

وجاہت خاموشی سے اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔

"آ کر دیکھ لے غازی اردشیر، کے مریم اسکے بعد بھی اسکی ہے۔

پھر چاہے اس نے مجھے نہ اپنایا ہو۔

جانتے ہیں یہ انگوٹھی وریشہ کی تھی۔ وہ اس کو میرے منہ پہ مار گیا تھا۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کے میں نے اسے کیوں اپنے ہاتھوں کی زینت بنا رکھا ہے؟"۔ اس نے بائیں ہاتھ کی پشت اسے دکھائی۔

جس کی تیسری انگلی میں واحد سونے کی انگوٹھی چمک رہی تھی۔

"اس لیئے کے مجھے ہر پل، ہر گھڑی یہ انگوٹھی یاد دلاتی رہے کے میں اس شخص کی امانت ہوں۔ اور کہیں کسی مقام پر بھولے سے بھی میرے دل میں کوئی بغاوت سر نہ اٹھانے پائے۔

ورنہ اس کا کہا سچ ہو جائے گا۔

اس لئے مسٹر وجاہت میری ایک بات آپ آج سن لیں۔

کے مریم ایک بے وفا بیوی کے بجائے ایک بے وفا محبوب کہلوانا زیادہ پسند کرے گی"۔

ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔

اور بنا اسکی کچھ بھی سنے جھٹکے سے مڑ گئی۔

پیچھے وہ دل میں اٹھتے درد کے باوجود مسکرا دیا۔

پہلے صرف محبت تھی۔

مگر اب اس سے عقیدت بھی ہو چلی تھی۔

_____________________________________

وہ سنگار میز کے آئینے کے سامنے کھڑی اپنے سیاہ بال سلجھا رہی تھی جب اسکے موبائل پر رنگ ہوئی۔

چونک کر زرش نے موبائل اٹھایا۔

جہاں برہان کا نام جگمگا رہا تھا۔


"السلام و علیکم، کہیے کیا بات ہے؟"۔ سلام میں پہل کے ساتھ ہی اس نے پوچھا۔


"اہممم۔۔میرے فون کا انتظار ہو رہا تھا کیا؟"۔ جواب دینے کے ساتھ ہی شرارت سے کہا۔


"اور یہ غلط فہمی کیوں ہوئی آپ کو؟"۔ زرش نے برش پھینک کر کمر پہ ہاتھ رکھا۔


"خیر ہماری بات چھوڑو، آپ کے مطلب کی بات ہے۔ کہو تو عرض کروں؟"۔ اب کے وہ سنجیدہ ہوا۔

"اچھا، اور وہ کیا؟"۔

"میں نے ڈیسائیڈ کر لیا ہے کے ہم اگلے دس دن کیلئے شمالی علاقہ جات کے سیر سپاٹے کیلئے جائیں گے۔ کیا خیال ہے؟"۔ اس نے تائید چاہی۔

"بہت ہی بھونڈا خیال ہے۔ لوگ جون جولائی میں شمالی علاقہ جات کی سیر کو جاتے اور تم جنوری میں وہاں لے جا کر ہماری قلفی جمانا چاہتے؟"۔ زرش نے اسکا پلان رد کیا۔

"ارے یہی تو مزا ہے۔ گرمیوں میں ویسے ہی لوگ بے زار سے ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں۔ جبکہ سردی کا یہ فائدہ ہے کے لوگ ایک دوسرے سے چپک کر رہتے۔ "۔ برہان کو زرش کی تردید زرا پسند نہ آئی۔

"بس بس، اب مجھے فوائد مت گنواؤ تم۔ جا کر اپنے چہیتے دوست کو راضی کرو۔ اس کو راضی کرنا بھی کے-ٹو سر کرنے جیسا ہی ہوگا"۔ اردشیر سے متعلق گلفشانی کی۔

جس پر برہان تپ ہی تو گیا۔

"خبردار جو میرے دوست کے خلاف کچھ بھی کہا۔ پہلے تم اپنی دوست کو راضی کرو جا کر۔ وہ بھی ماونٹ ایورسٹ جیسی ہی ہیں"۔ بدلہ چکایا۔

"ہاہ؟ کیا کہا تم نے؟ ابھی میں جا کر مہرو کو سب بتاتی ہوں۔ اسکے سامنے تو بڑا بھابھی بھابھی کا راگ الاپتے ہو نا تم"۔

"بے شک بتاؤ، تم لڑکیوں کو اور کوئی کام بھی ہوتا ہے سوائے چغلیاں کرنے کے"۔

"دیکھو اب تم حد سے آگے نہ بڑھو"۔ زرش نے دانت کچکچائے۔

"اچھا بابا سوری، اب پلان پہ فوکس کرنے دو گی تم؟"۔ جھنجھلا کر ہار مانتے ہوئے کہا۔

"ہاں تو میں بھی وہی کہہ رہی ہوں نا"۔ وہ بھی کچھ ڈھیلی پڑی۔

"تو بس ٹھیک ہے، تم کل ہی جا کر مہرماہ بھابھی کو مناؤ تب تک میں بھی شیرو کو راضی کرتا ہوں"۔ اس نے کہا اور کال کاٹ دی۔

جبکہ زرش سوچ رہی تھی کے مہرو کو کس طرح منائے اب۔

____________________________________

وہ اپنے ہی دھن میں سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب عین اچانک سے ہی شاہی اسکے سامنے آ گیا۔

وہ خوفزدہ ہو کر لڑکھڑائی تو شہزاد نے آگے بڑھ کر سرایت سے اسکا بازو تھام لیا۔

اسٹڈی روم سے نکلتے اردشیر کی نگاہوں سے یہ منظر چھپا نہ رہ سکا۔

"آپ ٹھیک ہیں مسز مہرماہ؟"۔ اس نے فکرمندی سے اسکی جانب دیکھا۔

تو مہرو نے سنبھل کر اپنا بازو اس سے چھڑوایا

اور قدرے ناگواری سے اسے دیکھا۔

خاکی جینز پر سیاہ شرٹ اور سیاہ لیدر جیکٹ پہنے، سیاہ پیچ دار ہیئربینڈ سے بالوں کو پیچھے کیئے وہ اسے پہلے دن سے کئی زیادہ ناپسند آیا تھا۔

"ٹھیک ہوں میں"۔ مختصر ترین جواب دیا اور اسکے سائیڈ سے نکل کر باقی ماندہ سیڑھیاں چڑھ گئی۔

تو وہ اسکے انداز بے رخی کو دیکھ کر زیر لب مسکرا دیا۔

"مہرماہ ادھر آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے"۔ ماتھے پر بل ڈالے قدرے روکھے لہجے میں کہا۔

تو کمرے کی جانب بڑھتے مہرو کے قدم تھم گئے۔

شاہی نے زینے اترتے کنکھیوں سے ان دونوں کو بھی دیکھا۔

پھر تلخی سے مسکرا کر وہ رکے بنا زینے اتر گیا۔

اردشیر واپس اسٹڈی میں چلا گیا۔

اسکے پیچھے مہرو بھی اسٹڈی روم میں داخل ہو گئی۔

تو وہ جو غصے سے ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔

اسے سامنے پاتے ہی آگے بڑھا۔

غضبناک ہو کر اس نے اسکے بازو پر گرفت کسی۔

"کیا کر رہی تھی تم ہاں؟ بہت دنوں سے دیکھ رہا ہوں یہ سب کوئی وضاحت دو گی کے یہ کیا چل رہا ہے؟"۔ اس نے اسکے دونوں بازو دبوچ لیئے۔

تکلیف کی شدت سے مہرو کی آنکھوں میں پانی آ گیا۔

بے یقینی سے وہ اردشیر کا وجیہہ چہرہ غصے سے سرخ پڑتا دیکھ رہی تھی۔

"یہ کیا بکواس ہے۔۔۔اور آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟"۔ مہرو نے بمشکل اپنی بات مکمل کی۔

اسکی یہ بے خبری غازی اردشیر کے غصے کو اور بڑھا گئی۔

اس نے مزید اسے اپنی گرفت میں قید کر لیا۔

مہرو کا سانس رکنے لگا۔

اسکی گرفت کی وجہ سے نہیں۔

اسکی آنکھوں میں اترے لہو کی وجہ سے۔

وہ پوری جان سے لرز گئی

اس پل اسے اس شخص سے شدید خوف آ رہا تھا۔

اسکی خوبصورت بھوری آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔

"اتنی معصوم مت بنو مہرماہ بیگم، اچھی طرح جانتی ہو تم کے میں کس کی بات کر رہا ہوں۔ کیا کر رہی تھی شاہی کے پاس؟"۔ اس کا غصہ انتہاؤں پر تھا۔

اسکی بات مہرو کو چابک بن کر لگی تھی۔

زخمی نظروں سے اس نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔

"میں نہیں جانتی کے آپ کے ذہن میں یہ کون سا کیڑا گھسا ہے جو آپ ہر بار بنا کچھ سوچے سمجھے میرے کردار پر سوال اٹھاتے ہیں۔ مگر غازی اردشیر یہ جان لو کے مہرماہ آپ کی ان اپر کلاس لڑکیوں جیسی ہرگز نہیں ہے جو اپنی عزت ہتھیلی پر لے کر گھومتی ہیں"۔ اس نے چبا چبا کر کہا۔

"جو پوچھا ہے اسکا جواب دو۔ تمہیں کیا لگتا ہے کے تمہاری یہ بڑی بڑی باتیں میرا دل موم کر دیں گی؟ اعتبار کی پٹی میری آنکھوں پر باندھ دو گی اس طرح؟

اپنی یہ غلط فہمی دور کر لو پیاری بیوی، کیونکہ میں ان مردوں میں سے ہرگز بھی نہیں ہوں جو اپنی بیوی کے ہاتھوں بے وقوف بن جاتے ہیں"۔ اس کے انداز اور لہجے میں رتی بھر فرق نہ آیا۔

"افسوس ہے تمہاری چھوٹی سوچ پر، ترس آتا ہے تمہاری ذہنیت پر۔ اتنا ہی مسئلہ ہے نا اگر تو جا کر اپنے اس دوست سے کہو، وہی آ جاتا ہے ہر بار میرا راستہ کاٹنے۔

اسے کیوں نہیں بعض رکھتے آپ؟"۔ اس نے اپنے لہجے کو قدرے مضبوط بنا کر کہا۔

کیونکہ وہ جانتی تھی کے اگر وہ اس پل کمزور پڑی تو ساری زندگی اسے یونہی اپنے کردار کی صفائی دینی پڑے گی۔

اس کے برعکس اسکا دل سوکھے ہوئے پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔

"میں تمہیں پہلی اور آخری دفعہ کہہ رہا ہوں کے اگلی بار اگر شاہی تمہارے آس پاس بھی نظر آیا تو میں تمہارے وجود کے سات ٹکڑے کرکے سات الگ الگ دریاؤں میں بہا دوں گا۔ یاد رکھنا میری بات"۔

کہتے ساتھ ہی ایک جھٹکے سے اسے خود سے پرے دھکیلا۔

اور اسٹڈی روم سے باہر نکل کر دھڑام سے دروازہ بند کیا۔

مہرو کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ رہا تھا۔

اسکے پیروں نے مزید اسکے وجود کا بوجھ سہارنے سے انکار کر دیا۔

تو وہ ٹوٹے ہوئے شہتیر کی مانند زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

وہ بستر پر مزے سے اوندھے منہ پڑی سو رہی تھی۔

ریشمی سنہرے بال چہرے کے اطراف میں بے ترتیب سے بکھرے پڑے تھے۔

اسکی نیند میں خلل کا باعث وہ تیز روشنی بن رہی تھی جو ناک کی سیدھ میں کھل رہی کھڑکی سے چھن کر آ رہی تھی۔

بیزار سی ہو کر اس نے تکیہ اپنے چہرے پر رکھ لیا۔


"مہک، اٹھو اور میرے لیئے بریک فاسٹ بناؤ لیٹ ہو رہا ہوں میں آفس کیلئے"۔ بلال کی مصروف سی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

مگر اس نے متعلق پرواہ نہ کی۔


"مہک اٹھو میں نے کہا"۔ اسے آمادہ نہ دیکھ کر بالآخر بلال نے اس پر سے بلینکٹ کھینچ لیا۔

جس کی وجہ سے وہ کوفت زدہ ہوکر اٹھ بیٹھی۔


"کیا ہے؟ ایسی کون سی قیامت آگئی ہے آخر؟"۔ دانت بھینچ کر وہ غرائی۔

دل تو کیا کے ناخنوں سے مقابل کا منہ ہی نوچ ڈالے۔


"اپنے دل میں چل رہے یہ خونی منصوبے ایک طرف کرو اور جا کر میرے لیئے ناشتہ بناؤ۔ ایک اچھی بیوی کی طرح"۔ سنجیدگی سے کہتے ہوئے آخری جملے پر قدرے زور دیا۔


"میں نے تم سے پہلے بھی کہا ہے کے میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں۔ اور نہ ہی مجھے یہ سب آتا ہے، اور اگر آتا بھی ہوتا تو تب بھی تمہارے لیے نہ کرتی"۔ وہ بھنا گئی۔


"دیکھو مہک بی بی یہ پاکستان نہیں کینیڈا ہے۔ یہاں نہ تو تمہارے نخرے اٹھانے والا تمہارا باپ ہے، نہ تمہاری غلطیوں پر پردہ ڈالنے والی ماں اور نہ ہی محبت لٹانے والا تمہارا وہ بھائی۔ اس لیئے اگر اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں چاہتی تو وہی کرو جو میں کہتا ہوں۔ وہ بھی بنا کسی چوں چراں کے۔ سمجھی تم"۔ رسانیت سے کہتا ہوا وہ اب کوٹ پہن رہا تھا۔

جبکہ مہک خونخوار نظروں سے بس اسے دیکھ ہی رہی تھی۔


"تمہیں کیا لگتا ہے کے مجھے یہاں پردیس میرے اپنوں سے دور لاکر تم اپنی اجارہ داری قائم کر لوگے مجھ پر؟ نیور۔۔۔میں ان ٹپیکل ہاؤس وائوز کی طرح ہرگز نہیں ہوں جو شوہر کو طاقتور جان کر اس سے ڈر جاتی ہیں۔ میں مہک عثمان ہوں کوئی عام لڑکی نہیں سمجھے تم"۔ چیخ کر اسے باور کروایا۔

جبکہ اسکی اثبات پر بلال کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ رینگ گئی۔


"شاید تم بھول رہی ہو کے اب تم مہک عثمان نہیں بلکہ مہک بلال عالم ہو۔ اور جتنی جلدی تم اس بات کو قبول کرو گی، تمہارے لیئے وہی بہتر ہوگا"۔ بالوں کو برش کرتے وہ ڈریسنگ مرر میں اس سے مخاطب تھا۔

تمسخر اڑاتی نظریں مہک کے الجھے بکھرے اور خود سے بے پرواہ وجود پر جمی تھیں۔


"تمہیں کیا لگتا ہے کے میں ڈرتی ہوں تم سے؟" وہ اٹھ کر اسکے مقابل آ گئی۔

بلال خود پر پرفیوم اسپرے کرنے کے بعد اب اسکی جانب متوجہ تھا۔

"تمہارے حالات تو یہی کہتے ہیں مہک بی بی، غالبا"۔ اسکی سنہری لٹ کو انگلی سے چھیڑتے ہوئے کہا۔

"خیر اگر تم نہیں بنا سکتی ناشتہ تو کوئی بات نہیں۔ میں تو ویسے بھی آفس میں کچھ کھالوں گا، تم اپنی فکر کرو ڈیئر وائف۔ میرے کنٹریکٹ کے مطابق مجھے یہاں چھ ماہ رہنا ہے اور تم بھی یہ بات جانتی ہو کے جب تک میں نہ چاہوں تم پاکستان تو کیا اس گھر سے بھی قدم باہر نہیں نکال سکتی۔ لہٰذا اب تمہیں کھانا خود بنانا پڑے گا۔ کیونکہ دیار غیر میں تمہارے لیئے نوکروں کی فوج نہیں کھڑی ہے"۔ کاٹ دار لہجے میں جتایا۔

طنزیہ مسکراہٹ اسکے لبوں کا احاطہ کیئے ہوئے تھی۔

بلال نے ایک نگاہ غلط اس کے دھواں دھواں ہوتے چہرے پر ڈالی پھر اپنا لیپ ٹاپ لیئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

مہک نے اپنے بال مٹھی میں جکڑ لیئے۔

یہ شخص ہر دن اسکی مشکلات میں اضافہ کر رہا تھا۔ مقصد اس کا غرور توڑنا تھا۔

گھر سے باہر نکلتے ساتھ ہی بلال نے گھر کا مین ڈور لاک کردیا تھا۔

اسکی واپسی اب شام کے وقت ہونا تھی۔

جسکا مطلب تھا کے اب اس بند گھر میں مہک کو سارا دن تن تنہا ہی گزارنا تھا۔

_________________________________

اس بھری دوپہر میں بھی سردی کی وجہ سے شام کا گماں ہوتا تھا۔

ملکہ کوہسار کے پورے شہر نے اس وقت برف کی سفید چادر اوڑھ لی تھی۔

مری کے ہی ایک ہوٹل کے 'سوئیٹ روم' میں بھاپ اڑاتی کافی کا مگ تھامے مصنوعی آتش دان کے پاس مہرماہ بیٹھی حرارت حاصل کر رہی تھی۔

باہر کے شدید موسم کے برعکس کمرے میں حرارت تھی۔

آج صبح ہی مہرماہ اردشیر کے سنگ وہاں پہنچی تھی۔

زرش اور برہان کے بے حد منانے پر بھی وہ دونوں کہیں ساتھ جانے کیلئے تیار نہ ہوئے تھے۔

لہٰذا ان دونوں نے نگہت بیگم کی مدد لینا چاہی۔

اور ان کو بھی بھلا کیا اعتراض ہوتا اگر ان کا بیٹا اور بہو ساتھ ہو جاتے۔

بلکہ وہ تو خود حیران تھیں کے انہیں پہلے کیوں خیال نہ آیا اردشیر اور مہرو کو کہیں باہر بھیجنے کا۔

مگر دیر آید درست آید کے محاورے پر عمل کے تحت انہوں نے اردشیر کو حکم دیا کے وہ مہرماہ کو ساتھ لے کر دس پندرہ دنوں کیلئے شمالی علاقہ جات چلا جائے۔

ماں کے سامنے وہ بہت منمنایا مگر نگہت بیگم نے اسے شیشے میں اتار کر ہی دم لیا۔

بالآخر اسے مانتے ہی بنی۔

ناچار، مہرو کو بھی آنا پڑا۔

کافی مگ کی گولائی پر انگلی پھیرتی وہ اپنی سوچوں منہمک تھی جب دروازے پر ہورہی دستک نے اسے خیالات سے چونکایا۔

"روم سروس"۔ دستک کے ساتھ ہی آواز ابھری۔

مہرماہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔

سردی کی ایک تیز لہر کمرے میں داخل ہوئی تھی۔

ساتھ ہی دروازے سے ویٹر اب کھانے کی ٹرالی دھکیلتا ہوا اندر داخل ہوا تھا۔

کھانے کی ٹرالی صوفے کے پاس چھوڑ کر وہ مؤدب سا ہوا۔

"ہیو آ گڈ ڈے میم"۔ اس نے سر جھکا کر مروت نبھایا۔

جس پر مہرماہ نے سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔

اور پھر اسکے باہر نکلتے ہی دروازہ بند کردیا۔

اسی وقت باتھ روم کا دروازہ کھلا۔

اور باتھ روب پہنے غازی اردشیر گیلے بال تولیے سے رگڑتا ہوا ڈریسنگ مرر کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

اس کے مضبوط وجود کے عین پیچھے آئینے میں مہرماہ غازی کا شفاف عکس جھلملا رہا تھا۔

ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتی، نگاہیں چراتی، لب کاٹتی وہ سخت مضطرب لگی تھی اسے۔۔جانے کیوں؟

"کوئی آیا تھا کیا؟"۔ اس نے آئینے میں دیکھتے ہوئے سرسری سا پوچھا۔

سوال پر مہرماہ نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"جی۔۔۔ہوٹل اسٹاف"۔ مختصر سا جواب دے کر وہ صوفے پر ٹک گئی اور محض اپنا دھیان بٹانے کو ٹرالی سے کھانا نکال کر کانچ کی میز پر چننے لگی۔

اردشیر کی گہری نظریں اس کے عکس پر جمی تھیں۔

مرون اور سفید رنگ کے لباس میں ملبوس گہرے بھورے بالوں کو بائیں جانب ڈالے وہ خود کو مصروف اور بے نیاز ظاہر کر رہی تھی۔

مگر اپنی اس کوشش کے باوجود بھی وہ اپنی نظروں کو اس شخص پر اٹھنے سے روک نہ پا رہی تھی۔

لباس بدل کر وہ اب خود پر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا۔

جبکہ مہرماہ کھانا شروع کر چکی تھی۔

کیونکہ بھوک اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔

"بہت ہی بے مروت ہو تم تو۔۔۔اچھی بیویوں کی طرح اپنے شوہر کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی کھانا شروع کردیا"۔ اس کے برابر بیٹھ کر اس نے اسے مخاطب کیا جو سب کچھ بھلائے کھانے میں مگن تھی۔

"اور یہ کس نے کہہ دیا آپ سے کے بیویوں پر انتظار لازم ہے؟ میں کوئی پرانے زمانے کی ہیروئین تھوڑی ہوں جو بیٹھی آپ کا انتظار کرتی پھروں"۔ چٹخ کر جواب دیا۔

اس کی بات سن کر اردشیر کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

"ویسے تمہیں یہاں میرے ساتھ تمہاری مرضی کے خلاف بھیجا گیا ہے، آئی ہوپ تمہیں برا نہیں لگا ہوگا"۔ پلیٹ میں کھانا نکالتے ہوئے اس نے عام سے لہجے میں یہ بات کہی۔

جس پر مہرماہ نے ہاتھ روک کر حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔

دل میں سوچا کے یہ آج سورج کہاں سے طلوع ہوا ہے۔

"گزرے دو ماہ میں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے اس میں بھی تو میری مرضی نہیں تھی نا؟ لیکن پھر بھی سب کچھ ہوا۔ اب تو عادت ہو گئی ہے، آپ کی مرضی کے مطابق چلنے کی"۔ وہ تلخی سے مسکراتے ہوئی حال دل کہہ گئی۔

اردشیر نے چونک کر اس کی جانب دیکھا، وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

کچھ تھا اس کی بھوری آنکھوں میں۔۔۔

کچھ ایسا جو اس سے پہلے مہرماہ نے نہیں دیکھا تھا۔

اس کا رویہ بدل رہا تھا اس کے ساتھ۔

مہرماہ کو لگا جیسے وہ کبھی اس شخص کو سمجھ نہ پائے گی۔

اس کی گہری نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے مہرماہ کی پلکیں خود بخود بھاری ہو کر جھکتی چلی گئیں۔

اردشیر نے حیرت سے اس کی گلابی پڑتی رنگت دیکھی۔

"میں نے یہ کبھی نہیں کہا کے تم میری من مرضی کے مطابق چلو مگر بس اتنا ہی تو چاہتا ہوں کے تم صرف اور صرف میری بن کر رہو"۔ بھاری بوجھل لہجے میں اس کی زبان سے دل کی بات پھسل گئی تھی۔

مہرماہ نے جھٹکے سے پلکیں اٹھا کر بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا؟"۔ وہ کہنا کچھ اور چاہ رہی تھی اور پوچھ کچھ بیٹھی تھی۔

سوال پر اردشیر نے گہری سانس کھینچی۔

کہا کچھ نہیں۔

ٹرے سے نیپکن اٹھا کر وہ مہرماہ کے ہونٹ کناروں پر لگے کھانے کو آہستگی سے صاف کرنے لگا۔

وہ دنگ رہ گئی۔

اس سے قبل بھلا کب اس نے اتنی توجہ سے نوازا تھا۔

مہرماہ کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کے اردشیر تک اس کے بے ترتیب دھڑکنوں کی آواز بخوبی پہنچ رہی تھی۔

"جانتا ہوں یہ تعلق زبردستی کا ہے، اعتراف ہے مجھے کے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے میں نے۔ زبردستی تم سے نکاح کر کے"۔ اس کی جانب دیکھتے ہوئے وہ دھیرے دھیرے کہہ رہا تھا۔

وہ باتیں جو اسے بے کل رکھتی تھیں۔

جو اسے اندر ہی اندر کسی زہریلے ناگ کی طرح ڈستی تھیں۔

"کیا تم وہ سب بھول نہیں سکتی مہرماہ؟"۔

اور مہرماہ نے بھلا اس سے قبل کب اس شخص کو اتنا عاجز اور نرم پایا تھا؟

آج اس کا ہر انداز اسے چونکا رہا تھا۔

"مجھے۔۔۔آپ سے کوئی شکوہ نہیں۔۔شاید اسے ہی قسمت کا کھیل کہتے ہیں"۔ مہرماہ نے بس اتنا ہی کہا۔

وہ اگر اتنی نرمی دکھا رہا تھا۔

اسے شرمندگی تھی، تو بھلا وہ کیوں جھوٹی انا کو سربلند رکھتی؟


"کیا تم۔۔۔سچ کہہ رہی ہو؟"۔ بے اختیار ہو کر اردشیر نے مہرماہ کے دونوں ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیئے۔

مہرماہ کو اس کے ہاتھوں کی مضبوطی اور حدت محسوس کرکے اس حرارت بھرے کمرے میں بھی ٹھنڈے پسینے آ گئے۔


اس کی گہری بھوری آنکھیں لو دے رہی تھیں۔

ان میں جذبات کا ایک سمندر موجزن تھا۔

وہ جذبات جنہیں مہرماہ بخوبی پڑھ سکتی تھی۔۔۔مگر کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔۔۔جانے کیوں؟

اس کے نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مہرماہ نے ایک مرتبہ پھر اپنی نظریں جھکا دیں۔

اور آہستگی سے اردشیر کے ہاتھوں میں سے اپنے ہاتھ کھینچ لیئے۔

"جی۔۔بالکل سچ"۔

اس کا بس اتنا کہنا تھا۔

اور اردشیر کیلئے بس اتنا ہی کافی تھا!

________________________________

وہ ناشتے کی ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔

مگر فاطمہ بیگم کو اب تک سوتا ہوا پا کر وہ حیران رہ گئی۔

جب سے ہوش سنبھالا تھا، ماں کو اس نے ہمیشہ فجر کے وقت پابندی سے جاگتے پایا تھا۔

"کمال ہے۔۔۔امی اب تک سو رہی ہیں"۔ مریم تشویش زدہ ہوئی۔

پھر قریب پہنچ کر دیکھنا چاہا۔

"امی۔۔۔امی اٹھ جائیں دن چڑھ آیا ہے"۔ اس نے آوازیں دیں۔

مگر جواب نہ آیا۔

"امی۔۔۔اب اٹھ بھی جائیں نماز بھی قضاء ہو گئی آپ کی آج"۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔

ان کا چہرہ خطرناک حد تک زرد پڑ رہا تھا۔

ہونٹ سوکھے اور بے رنگ پڑ رہے تھے۔

مریم کا دل زور سے دھڑکا۔

اس کی سانس رک گئی۔

"نن۔۔۔نہیں۔۔۔امی اٹھیں۔۔۔۔امی اٹھیں۔۔۔۔اٹھیں نا پلیز۔۔۔اٹھ جائیں"۔ وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی، چلا رہی تھی اور فاطمہ بیگم کے برف جیسے وجود کو جھنجھوڑ رہی تھی۔

مگر ان کی آنکھیں پھر بھی نہ کھلیں۔

"امی اٹھیں۔۔۔امی۔۔۔امی"۔ وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔

آواز سنتے ہی وجاہت اور عاصمہ بیگم آگے پیچھے دوڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔

ان کے چہروں پر پریشانی واضح رقم تھی۔

"یا اللہ خیر، کیا ہوا بیٹا۔۔۔کیا ہوا میری جان؟"۔ عاصمہ بیگم نے آگے بڑھ کر بے اختیار مریم کو خود سے لگایا۔

وہ سسک سسک کر رو رہی تھی۔

"آنٹی۔۔۔۔امی۔۔۔امی اٹھ۔۔کیوں نہیں۔۔۔رہی"۔ آنسوؤں اور ہچکیوں کے درمیان اس نے بس اتنا کہا تھا۔

اور وجاہت جو ابھی ڈیوٹی پر جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا، اس نے فورا سے پیشتر اپنے فیملی ڈاکٹر کو کال ملائی۔

"السلام و علیکم! جی، کامران انکل آپ فورا گھر پہنچیں۔۔۔نہیں، خیریت نہیں ہے۔۔۔پلیز آپ جلد یہاں پہنچیں"۔ جلدی جلدی اس نے بات مکمل کی اور کال ڈسکنیکٹ کرکے وہ اب مریم کی جانب متوجہ ہوا۔

وہ عاصمہ بیگم کے بازوؤں میں چیخ چیخ کر روتے ہوئے بری طرح مچل رہی تھی۔

ان کیلئے اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔

وجاہت نے لب بھینچ کر اس سے رخ موڑ لیا۔

اس سے مریم کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔

اگر وہ اس کا محرم ہوتا تو شاید اسے اپنا مضبوط کندھا پیش کرتا۔

دس منٹ بعد ہی ادھیڑ عمر ڈاکٹر کامران وہاں اپنے مخصوص سوٹ کیس کے ہمراہ آن پہنچے تھے۔

انہوں نے کسی کے کچھ بھی کہنے سے قبل ہی اسٹیتھو سکوپ لگا کر فاطمہ بیگم کی دھڑکن چیک کی۔

ان کے بائیں ہاتھ کی نس چیک کی مگر ان کے وجود میں زندگی ہوتی تو ہی کوئی جنبش ہوتی نا۔۔

انہوں نے سرد سانس کھینچی۔

ساتھ ہی وجاہت کی جانب دیکھا۔

"آئم سوری، شی از نو مور"۔ انہوں نے شکستہ سے لہجے میں تصدیق کی۔

جسے سن کر مریم کے منہ سے دل خراش چیخ نکلی اور وہ زمین بوس ہونے سے قبل ہی وجاہت کے بازوؤں میں جھول گئی۔

برفباری وقفے وقفے سے جاری تھی۔

اپنے کمرے سے ملحقہ اس چھوٹی سی بالکونی میں کافی کا مگ تھامے مہرماہ کھڑی اطراف میں نظر آتے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔

اور سوچ رہی تھی کے بلاشبہ اللہ تعالٰی بہترین مصور ہے جس نے اس خوبصورت دنیا کو تخلیق کیا۔

بالکونی کے اوپر چھتری کی وجہ سے برف اندر نہیں جا پاتی تھی۔

تاحد نگاہ برف کے گالے سفید چادر کی مانند بچھی تھی۔

وہ چونکی تو تب جب کسی نے بہت آہستگی سے اس کے شانوں پر گرم شال پھیلائی تھی۔

نگاہیں موڑ کر دیکھا تو وہ عین اس کے پیچھے، اس کے قریب کھڑا تھا۔

بھوری بلوریں آنکھیں بے تابی سے مہرماہ کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔

اسے لگ رہا تھا جیسے غازی اردشیر اسکے چہرے کو نہیں بلکہ اس کے چہرے کے راستے دل کو پڑھ رہا تھا۔

وہ بے وجہ ہی اس کی نظروں سے خائف ہونے لگی۔

"کیا ہوا؟ ایسے۔۔۔کیا دیکھ رہے ہیں؟"۔ اس نے اپنی زبان کی لڑکھڑاہٹ واضح محسوس کی۔ خفت سے اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔

وجہ ٹھنڈ تھی یا اس شخص کی قربت۔۔۔وہ سمجھنے سے قاصر رہی۔

"دیکھ رہا ہوں کے سامنے کا نظارہ کتنا دلچسپ ہے"۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ذومعنی بات نے مہرماہ کو حواس باختہ کردیا۔

جبکہ غازی اردشیر اب گھوم کر اس کے سامنے آگیا۔

جس سے اطراف میں نظر آتا وہ قدرتی حسن اس کے مضبوط وجود کے پیچھے چھپ گیا۔

"میں تو سوچ رہا تھا کے شاید تم یہاں اپنی مرضی کے برخلاف آکر خوش نہیں ہو۔ مگر اب لگتا ہے کے شاید تم کافی مطمئن ہو یہاں آ کر"۔ اسے خاموش پا کر سلسلہ کلام پھر سے جوڑا۔

مقصد شاید اپنے اور اس کے درمیان حائل خاموشی کو توڑنا تھا۔

"خوشی کا تو پتہ نہیں پر ہاں میں مطمئن ضرور ہوں۔ کیونکہ مجھے ایسے شدید موسم پسند ہیں"۔ اس نے بھی بلا تامل سادگی سے اطراف کیا۔

جبکہ اردشیر ہنوز اس کے سرخ پڑتے چہرے کو نظروں میں رکھے ہوئے تھا۔

ایک پل کو بھی اس کے چہرے پر سے نظر نہیں ہٹ رہی تھی۔

جیسے اگر نگاہیں ہٹا لیں تو یہ منظر کھو جانے کا خطرہ ہو!

"اچھا لگا یہ جان کر کے میری موجودگی کے باوجود بھی تم مطمئن رہ سکتی ہو"۔ ایک قدم آگے بڑھا کر اس نے درمیان میں حائل تمام تر فاصلہ پانٹ لیا۔


مہرماہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹی۔۔۔مگر اردشیر نے مزید فاصلہ بڑھنے سے قبل ہی اس کے گرد بانہوں کا مضبوط حصار کھینچ لیا۔

مہرماہ کیلئے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنا بھی خاصا دشوار امر تھا۔


"آآ۔۔۔آپ۔۔۔یہ۔۔۔کیا۔۔۔۔"


"ششش۔۔۔خاموش"۔ اردشیر نے اس کے پھڑپھڑاتے لبوں پر انگلی رکھ کر خاموش کروا دیا۔


مہرماہ پتھر کی مورت بن گئی تھی۔

وہ بنا پلکیں جھپکائے یک ٹک اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔

اس کے چہرے پر تحریر جذبے اور آنکھوں میں وہ اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔


"بہت بولتی ہو تم۔ شاید تمہیں پتہ نہیں ہے کے تم خاموشی میں زیادہ حسین لگتی ہو"۔ وہ انگلی سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھو کر گویا اس چہرے کو ازبر کر رہا تھا۔

مہرماہ کا وجود شل ہو رہا تھا۔

دل کی دھڑکن سوا نیزے پہ تھی۔


اچانک ہی برفباری کا سلسلہ پھر شروع ہو چکا تھا۔

سردی بڑھنے کے باعث چند لمحوں میں ماحول پر چھا جانے والا فسوں ایک دم غائب ہو گیا تھا۔


"سردی۔۔۔بڑھ رہی ہے"۔ اس کے لہجے میں منت در آئی۔

اس کی قابل رحم حالت دیکھ کر غازی اردشیر کے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔

اور آہستگی سے اس ریشم سے وجود کو خود سے الگ کیا۔

موقع غنیمت جان کر مہرماہ تیزی سے کمرے میں گھس گئی۔

"یہ اتنا ڈرتی کیوں ہے مجھ سے؟ کچھ کرنا پڑے گا"۔ اردشیر نے منہ بنا کر سوچا۔

پھر شانے اچکا کر اندر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔

________________________________

خالی گھر بھاں بھاں کرتا کاٹنے کو دوڑ رہا تھا۔

سارا دن بولائی بولائی سی پھرتی رہی وہ اور اب شام ہونے کو آئی تھی۔

"اوووفففف اوو، کہاں پھنس گئی ہوں میں"۔ بیڈ پر گرتے ہوئے ریشمی سنہرے بال مٹھی میں جکڑ لیئے۔

ایک تو تنہائی اور اوپر سے بھوک الگ ستا رہی تھی۔

صبح سے ایک نوالہ بھی نہیں کھایا تھا کھانے کا۔

گھر میں کھانا پکانے کیلئے ایک آدھ چیزیں موجود تھیں۔

مگر مہک بی بی کو کچھ بنانا تو دور پانی ابالنا بھی نہیں آتا تھا۔

بھوک اس کے سر پر سوار ہو رہی تھی۔

صبح سے بیسیوں بار تو وہ کچن کو اتھل پتھل کر دیکھ چکی تھی۔

مگر کھانے لائک کوئی بھی چیز نگاہوں کے سامنے سے نہیں گزری اس کے۔

"جان بوجھ کر اس کمبخت نے ایسا کیا ہے۔ ایک بریڈ تک نہیں ہے جو میں کھا سکوں۔ اوپر سے فون بھی لے لیا میرا"۔ وہ خود سے باتیں کرتی، جلتی کڑھتی ساتھ اسے بھی سو صلواتیں سنا رہی تھی۔

شام کے سات بج رہے تھے۔

اسی لمحے دروازے پر کھٹکا ہوا۔۔۔وہ الرٹ ہوگئی۔

بلال اپنا بریف کیس اٹھائے اندر داخل ہو رہا تھا۔

اور اپنے پیچھے گھر کا دروازہ بند کردیا۔

بریف کیس اور کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکتے ہوئے وہ کچن میں چلا گیا۔

پانی کا گلاس بھر کر وہ اس مختصر سے لاؤنج میں صوفے پر گر گیا۔

اور ایک ہی سانس میں پانی چڑھا کر خالی گلاس ٹیبل پر رکھ دیا۔


اس دوران مہک خاموشی سے اس ساری کاروائی کو دیکھتی رہی۔

اس عرصے میں پہلی بار بلال نے اس کی جانب دیکھا۔

جس کی آنکھوں میں واضح چبھن تھی۔


"کیا ہوا؟ ایسے گھور کیا رہی ہو؟ کھانے کا ارادہ ہے کیا؟"۔ بلال نے طنزیہ انداز میں کہا۔

جس پر تپ ہی تو گئی تھی وہ۔

"تمہیں کھا کر میں نے اپنی صحت خراب کرنی ہے کیا؟"۔ استہزاء انداز میں کہہ کر سر جھٹکا۔


"نہیں کیا ہے نا کے صاف ستھرا کچن تمہارے پھوہڑ پن اور خالی پیٹ کی گواہی دے رہا تھا۔ اس لیئے بس تصدیق کرنا چاہ رہا تھا کے کہیں بھوک شدید تو نہیں لگی! مگر تمہارے اس پھاڑ کھانے والے انداز کو دیکھ کر میری تصدیق ہو گئی"۔ لبوں پر دل جلانے والی مسکراہٹ طاری کیئے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔


جس پر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور چند قدم کا فاصلہ طے کر کے اس کے سامنے آ گئی۔


"تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟"۔ بے بسی بھرے غصے سے بس اتنا کہا۔


"بد قسمتی سے تمہارا شوہر"۔ گہری سانس لے کر وہ اس کے مقابل آ ٹھہرا۔

"ہونہہ، میرا شوہر کم از کم تمہارے جیسا تو ہرگز نہ ہوتا"۔ تمسخر اڑایا۔

"لیکن افسوس، مجھے تم جیسی بیوی سے ہی کام چلانا پڑے گا"۔ شانے اچکا کر کہا۔

اس قدر توہین پر مہک نے زور سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

"تمہیں اگر اتنے ہی مسئلے ہیں مجھ سے تو طلاق کیوں نہیں دے دیتے"۔ وہ غرائی۔

"اس لیئے مہک بی بی کیونکہ تم اسی کی مستحق ہو، جو رویہ تمہارے ساتھ رواں رکھا ہے میں نے"۔ وہ پرسکون لہجے میں بولا۔

جبکہ اس کی یہ بات سن کر مہک کے غصے میں چار چاند لگ گئے۔

مگر حیرت کی بات تھی کے وہ خاموش رہی۔

"ظاہر ہے اب تم تو کھانا بنا نہیں رہی، چلو میں ہی کچھ اپنے لیئے بنا لیتا ہوں"۔ اس پر ایک گہری نگاہ ڈال کر وہ مڑا۔

اور مہک کو یکلخت ہی غصہ بھول کر اپنی بھوک یاد آئی۔

تو مارے بے بسی کے رونا آنے لگا۔

ضبط کے کڑے مراحل سے گزر کر اس نے بولنا شروع کیا۔

"سنو، میں۔۔۔بھی تمہاری ہیلپ کراؤں گی"۔ آہستگی سے کہا۔

جبکہ بلال اس کی بات سنتے ہی ٹھٹھک کر مڑا۔

دنیا جہاں کا سمندر اس کی بھوری آنکھوں میں موجزن تھا۔

بے اختیار اس نے لب بھینچ لیئے اور پھر سر تائید میں ہلا دیا۔

پھر بنا مزید اس کی جانب دیکھے وہ کچن میں گھس گیا۔

پیچھے پیچھے وہ بھی اپنے آنسو پونچھتی اس کے ساتھ چلی گئی۔

بلال نے پہلے ٹماٹر، پیاز اور دیگر سبزیاں لا کر کاؤنٹر پر رکھی۔

پھر فریز ہوا چکن نکال کر آستینیں چڑائے وہ واش بیسن کے قریب دھونے لگا۔

وہ دلچسپی سے ساری کاروائی ملاحظہ کر رہی تھی۔

"تمہیں۔۔۔یہ سب کیسے آتا ہے؟"۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھا۔

اس کی بات پر وہ سر جھکائے اداسی سے مسکرا دیا۔


"میری امی جب بھی کچھ بناتی تھیں تو مہرو کو اپنے ساتھ کچن میں لگا دیتی تھیں۔ جبکہ اسے کھانا بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لہٰذا وہ کچن میں امی کے پاس کبھی کبھی مجھے کھڑا کر دیتی اور خود دبے پاؤں وہاں سے کھسک جاتی۔ اب امی بیچاری کھانا بناتی ہوئی ہدایات بھی دیتی جاتیں۔ لیکن انہیں پتہ ہی نہ ہوتا کے پیچھے ان کی بیٹی نہیں ان کا بیٹا کھڑا ہے"۔ بات مکمل ہونے پر دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

اب وہ سبزیاں کاٹ رہا تھا۔

جبکہ بہت دیر ہنستے رہنے کے بعد اس نے پھر پوچھا۔

"تو کیا تمہاری امی کو پتہ نہیں چلتا تھا کے وہاں اصل میں کوکنگ سیکھنے کیلئے کون کھڑا ہے؟"۔ پر سوچ لہجے میں پوچھا۔

یہ ان کی پہلی ایسی گفتگو تھی جس میں وہ دونوں ایک نارمل جوڑے کی طرح بات کر رہے تھے۔

پہلی باضابطہ گفتگو۔

"نہیں، کیونکہ وہ جس طرح جاتی تھی ویسے ہی واپس بھی آ جاتی تھی۔ اور امی بیچاری سوچتیں کے وہ تب سے وہی کھڑی سیکھ رہی ہے"۔ اداسی سے مسکراتے ہوئے وہ بتا رہا تھا۔

اور مہک کو مہرماہ کیلئے اس کی یہ محبت دیکھ کر اپنا بھائی اردشیر یاد آ گیا۔

تو آنکھوں کا گوشہ تیزی سے بھیگنے لگا۔

جسے اس نے آستیں سے رگڑ ڈالا۔

بلال نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

اور اس کے چہرے پر کرب کے آثار دیکھ کر اسے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

پہلے تو اس نے قصد کیا تھا کے اسے نہیں بتائے گا، مگر اب دل کیا کے بتا دے۔

"تمہاری امی کا فون آیا تھا۔ آج دوپہر کو جب میں آفس میں تھا"۔ اس نے آہستگی سے اطلاع دی۔

جس پر وہ چونکی۔

"کیا کہہ رہی تھیں وہ؟"۔ اس کے چہرے پر یک دم ہی روشنیاں بکر گئیں۔

"تمہارا پوچھ رہی تھیں۔ بے جی نے بھی بات کی انہیں بھی تمہاری فکر تھی"۔

"اور۔۔۔۔ڈیڈ؟"۔ باپ کے متعلق پوچھتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی۔

بلال نے گہری سانس کھینچی۔

"نہیں، ان سے صرف آفس کے سلسلے میں بات ہوئی تھی بس"۔ اس نے صاف گوئی سے بتایا۔

اثبات پر اس کی آنکھیں مزید نمی سمیٹ لائیں۔

"وہ مجھ سے۔۔۔اب بھی ناراض ہیں"۔ بچوں کی سی اداسی سے اس نے پوچھا تھا یا بتایا تھا بلال سمجھنے سے قاصر رہا۔

"دیکھو، باپ اپنی بیٹی سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور محبت بھی وہی سب سے زیادہ کرتا ہے۔ اسی لیئے جب بیٹی کچھ غلط کرے تو دل بھی سب سے زیادہ اس باپ کا ہی دکھتا ہے۔ تمہارے بھائی اردشیر نے انہیں اتنا دکھ نہیں دیا ہوگا جتنا تم نے ان کے بھروسے کو توڑ کر انہیں دیا ہے۔ لہٰذا تم انہیں تھوڑا وقت دو تاکہ وہ اس شاک سے سنبھل جائیں۔ اور مجھے یقین ہے کے وہ تمہیں بہت یاد کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں"۔ اپنی بات مکمل کر کے اس نے اس کی جانب دیکھا۔

وہ مطمئن ہوئی تھی یا نہیں مگر خاموش ضرور ہو گئی تھی۔

شاید اسے پچھتاوا تھا اپنے کیئے پر۔

اپنے پیاروں کا دل دکھانے پر۔

"اینی وے، چلو کھانا تیار ہو چکا اب تم سرو کرنے میں میری ہیلپ کرو"۔

اپنی بات کا اثر زائل کرنے کو اس نے بات بدلی۔

مہک اثبات میں سر ہلا کر برتن میز پر چننے لگی۔

جبکہ بلال پرسوچ نگاہوں سے ہنوز اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

محبت ایک درخت کی طرح ہے۔ جو بڑا ہونے میں جتنا وقت لے گا اس کی جڑیں اتنی ہی مضبوطی سے گہری۔۔۔اور گہری ہوتی جاتی ہیں۔ اور جب اس کی جڑیں دل میں گہری ہو جائیں تو انسان کا دل اس درخت کو اپنا خون پلا پلا کر سینچتا ہے۔ پھر ایک بار اگر یہ تناور درخت بن جائے تو دنیا چاہے ادھر کی ادھر ہو جائے مگر اس محبت کو کوئی نہیں بدل سکتا۔

نہ وہ جس سے محبت ہو۔

اور نہ وہ جسے محبت ہو!

__________________________________

دوپہر کا وقت تھا۔

اور دن کے اس پہر سردی نہ ہونے کے برابر تھی۔

وہ دونوں اس وقت ایک کافی شاپ میں آمنے سامنے بیٹھے دنیا جہاں سے بے خبر بس ایک دوسرے کی باتوں میں مگن تھے۔

برہان کی بات پر زرش نے جھینپ مٹانے کو کافی کا مگ لبوں سے لگا لیا۔

نیلی جینز پر کریم کلر کی ہائی نیک اور سیاہ کوٹ پہنے، بالوں کو جیل سے سنوارے، کلین شیو نک سک سے تیار برہان یوسف کی آنکھوں سے اس وقت روشنیاں پھوٹ رہی تھیں۔

جبکہ زرش جامنی رنگ کی شرٹ پر سفید جینز پہنے، رنگ برنگی اسکارف کو اپنے شانے پر سیٹ کیئے ہما تن گوش تھی۔

اس کے سیاہ بال آبشار کی طرح چہرے کے اطراف میں بکھرے پڑے تھے۔

اس کے چہرے پر بھی اس کے اسکارف کی طرح کئی رنگ بکھرے پڑے تھے۔

"تم نے جواب نہیں دیا میری بات کا؟"۔ برہان نے پھر سے اپنی بات دہرائی۔

"تم نے تو کہا تھا کے مہرماہ اور اردشیر بھائی سے متعلق بات کرنی ہے تو میں آ گئی۔ لیکن پچھلے پندرہ منٹ سے تو تم میرا انٹرویو ہی لیئے جا رہے ہو"۔ زرش نے اسے گھوری سے نوازتے ہوئے کہا۔

جس پر وہ ہنس دیا۔

"ارے یار، ان دونوں کو ہم نے جہاں بھیجا ہے نا وہاں کے نظارے دیکھ کر سخت سے سخت دل بھی پگھل جایا کرتے ہیں۔ تم دیکھنا زرش جب یہ دونوں واپس آئیں گے نا تو دعائیں دیں گے ہم دونوں کو"۔ برہان نے پورے وثوق سے کہا۔

"اور اگر پھر بھی کچھ نہ بنا تو؟"۔ اسے اب بھی شبہ تھا۔

"تو۔۔۔تو میرا سر اور تمہاری جوتی"۔ اس نے سر اس کے سامنے پیش کیا۔

اس کے انداز پر زرش کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

گاڑی سائیڈ میں پارک کر کے اس سے اترتا ہوا شہزاد ان دونوں کو اس طرح دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔

"یہ دونوں۔۔۔یہاں ایک ساتھ؟"۔

"معلوم کرنا پڑے گا"۔ کچھ سوچ کر اس نے اپنا پی کیپ لیا اور اسے قدرے ترچھا کر کے پہنتے ہوئے عین ان کے پاس والی ٹیبل پر برہان کی جانب پشت کرکے اس طرح بیٹھ گیا کے زرش کو اپنی جگہ سے اس کی پشت ہی نظر آ رہی تھی۔

"اصل میں مجھے تم سے۔۔۔کچھ کہنا تھا"۔ پانچ منٹ بعد برہان نے کہنا شروع کیا۔

"کیا؟"۔ زرش نے نگاہیں جھکا کر بمشکل اتنا پوچھا۔

(ادھر شاہی ہما تن گوش تھا)

"میں۔۔۔مجھے نہیں پتہ۔۔۔کے یہ کیسے ہوا۔۔۔۔پر۔۔۔زرش۔۔۔"

برہان ہچکچایا۔

"میں۔۔۔کہنا چاہتا ہوں کے۔۔۔"۔ اس نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔

زرش نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے زرش۔۔۔پہلے مجھے لگا کے شاید یہ بس پسندیدگی ہے مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لگتا ہے کے شاید میں غلط تھا۔۔۔یہ محض ایک پسندیدگی نہیں تھی۔۔۔بلکہ ایک اسٹرانگ فیلنگ ہے۔۔جو میں نے پہلی بار صرف تمہارے لیئے ہی فیل کیا"۔ وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامے اس کی جانب دیکھتا اپنا اظہار سونپ رہا تھا۔

اور زرش حیرت زدہ تھی۔

(او، تو یہاں اب یہ نئی لو اسٹوری شروع ہو گئی ہے۔۔۔دوستوں کو ملواتے ملواتے یہ دونوں خود بھی مل گئے۔۔۔پرفیکٹ ہیپی اینڈنگ۔۔۔اونہہ، میرے رہتے یہ سب نہیں ہوگا۔ بٹ فرسٹ آف آل، یہ خبر تو مامی جی کو دینا بنتا ہے) شاہی کے دل میں شیطانی منصوبے جنم لے چکے تھے۔ اب اسے انتظار تھا تو صحیح وقت کا!

اور ایک ساتھی کا۔۔۔اور اسکے شیطانی دماغ کو یہ یقین تھا کے محمودہ بیگم سے بڑھ کر وہ ساتھی کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔

___________________________________

پورے پانچ دن ہوگئے تھے آج۔

آس پڑوس کے جتنے بھی عاصمہ بیگم یا وجاہت کے جاننے والے تھے وہ سب ہی آتے رہے تھے تعزیت کرنے۔

مگر نقصان تو صرف مریم عبداللہ کا تھا نا۔۔

تو دکھ بھی اسکا ہی بڑا تھا سب سے زیادہ۔

دنیا کے سرد و گرم جھیلنے کیلئے وہی تنہا رہ گئی تھی پیچھے۔

پہلے کیا زندگی نے کم امتحان لیئے تھے جو اب ایک نیا زخم، ایک نیا غم اسے ملا تھا۔

اس کی آنکھیں لگاتار برس رہی تھیں۔

مگر آنسو تھے کے ختم ہی نہ ہوتے تھے۔

اس کی بہن گھر سے بھاگی۔

اپنے والدین کے ساتھ اس نے بھی یہ بد نامی جھیلی۔

بہن کی جگہ اسے شادی کا جوڑا پہنایا گیا۔

خون کے گھونٹ پی کر اس نے کفن کے طور پر پہن لیا۔


اپنے تمام خوابوں اور ارمانوں کو جلا کر خاکستر کرکے وہ کسی کی ان چاہی دلہن بنی۔

پھر جب اس شخص نے اسے ذلت کے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور اسے اسی کی نظروں میں گرا دیا تو وہ بکھر گئی۔

وہ تو چلا گیا تھا۔

مگر اس کے پیچھے جو مزید نقصان مریم اور اسکے والدین کو سہنا پڑا، جو بدنامی ان کے حصے آئی اس کی وجہ سے وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر دور پار کے علاقے میں شفٹ ہونے پر مجبور ہو گئے۔

مگر اتنی بدنامی جھیلنے کے بعد ہر غیرت مند باپ کی طرح عبداللہ بھی تا دیر نہ جی سکا۔

اور پھر ایک رات خاموشی سے اس جہاں فانی سے کوچ کر گیا۔

اپنی بیٹی اور بیوی کو بے سہارا چھوڑ کر۔

مگر پھر بھی نا جانے کس دل سے صرف اپنی ماں کیلئے مریم نے خود کو تنکا تنکا کر کے جوڑا۔

اور اب اتنے دکھ جھیلنے کے بعد اس کی ماں کا بھی دل رک گیا تھا۔

مریم کو بتائے بغیر انہوں نے صرف اپنی بیٹی کیلئے عثمان ولا میں ایک مرتبہ پھر رابطہ کیا۔

فون ملازم نے اٹھایا تھا۔

انہوں نے نہ تو عثمان غازی کا پوچھا اور نہ ہی نگہت بیگم کا۔

صرف اردشیر سے بات کرنا چاہی۔

مگر دوسری جانب سے انہیں جو اطلاع ملی اس نے ان کے جسم سے خون نچوڑ لیا تھا۔

وہ نڈھال سی ہو کر بستر پر گر گئیں۔

ملازمہ نے بتایا تھا کے وہ اپنی بیوی کے ساتھ شہر سے باہر گیا ہے۔

یہ بات ان کے اعصاب پر بے حد گراں گزری۔

جس سے انہیں تیسری بار جان لیوا اٹیک ہوا۔

اس نے تو سوچا تھا کے اب اس کا دل اتنے دکھ جھیلنے کے بعد پھتر کا ہو گیا ہے۔

اب اسے کوئی چیز رلا نہیں سکے گی کبھی۔

اب اسے کسی بات سے فرق نہیں پڑے گا۔

مگر اب یہ دکھ اس سے برداشت نہ ہو رہا تھا۔

ضبط کرتے کرتے بھی اس کی آنکھیں چھلک جاتی تھیں۔

اسے لگتا تھا جیسے اس کا دل پھٹ جائے گا۔

وہ بستر پر ایک بیمار حال مریضہ کی طرح پڑی تھی۔

آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ ہلکے پڑ چکے تھے۔

الجھا بکھرا حلیہ، مرجھایا ہوا چہرہ۔

ویران آنکھیں۔۔۔خشک پڑتے ہونٹ۔


دروازہ آہستہ سے کھلا تھا اور کھانے کی ٹرے اٹھائے وہ اندر داخل ہوا۔

آہٹ پر اس نے نگاہیں موڑ کر دیکھا۔

وہ اب اس کے بیڈ کے قریب کرسی کھسکا کر بیٹھ چکا تھا۔


"مریم، چلو شاباش اٹھو۔۔اور جلدی سے کھانا کھا لو"۔ پانی کا گلاس بھر کر اس نے سائیڈ میز پر دھرا۔

اس کی بات پر مریم کی آنکھیں پھر برس پڑیں۔

اس نے چہرہ اس کی جانب سے پھیر لیا۔

"دیکھو مریم، مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا ہے۔ اپنے دکھ کو پس پشت ڈال کر کسی طرح سہی مگر جینا پڑتا ہے۔ ان کیلئے جنہیں دکھ ہوتا ہے ہماری ایسی حالت دیکھ کر"۔ اس نے معنی خیزی سے کہا۔

جس پر وہ تڑپ کر لیٹے سے اٹھ بیٹھی۔

"وہ میری ماں تھی وجاہت، ماں تھی وہ میری۔۔۔میں جانتی ہوں کے وہ ہارٹ پیشنٹ میری وجہ سے بنی۔ وریشہ کی وجہ سے نہیں۔ ان کے موت کی ذمہ دار صرف میں ہوں وجاہت صرف اور صرف میں۔ میری وجہ سے وہ اس حال کو پہنچیں۔ اور اب۔۔۔مجھے تنہا چھوڑ گئیں۔۔۔۔اب۔۔۔اب میں انہیں۔۔۔کہاں دیکھوں گی وجاہت؟ اب۔۔۔کون مجھے اپنے سینے سے لگا کر میرا ہر دکھ چن لے گا؟ اب کون میری پرواہ کرے گا وجاہت۔۔۔۔اب کون میرے لیئے روئے گا۔۔۔"۔ روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھنے لگی۔

وجاہت نچلا لب دانتوں تلے بے دردی سے کچلتے اس کی حالت زار دیکھ رہا تھا۔

وہ بے بس تھا۔

وہ اس کی ماں کہاں سے لاتا اس کیلئے؟

"اگر مرنے کے بعد کوئی آ سکتا واپس تو ہاں میں لے بھی آتا ان کو۔۔۔مگر قدرت کے خلاف کون جا سکتا ہے؟

کون اس قانون کو بدل سکتا ہے مریم؟

کیا کوئی خدا سے لڑ سکتا ہے؟ بولو مریم؟ کیا کوئی خدا کے بنائے قانون سے انحراف کر سکتا ہے؟

اس کے بنائے چند قانون اس قدر کڑے ہیں کے ہم چاہیں یا نا چاہیں مگر ہمیں ماننا پڑتا ہے۔۔۔اور موت بھی ان میں سے ایک ہی ہے"۔ وہ دھیرے دھیرے اسے حقیقت کے معنی سمجھا رہا تھا۔

وہ اسے بتا رہا تھا کے کبوتر کی طرح آنکھیں میچ لینے سے حقیقت بدل نہیں جایا کرتی۔

وہ اسے سمجھا رہا تھا کے خدا اپنے فیصلوں میں بے نیاز ہے۔

مریم یک ٹک خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔

اسکی سسکیاں وقفے وقفے سے گونج اٹھتی اور پھر کمرے میں سکوت چھا جاتا۔

"تم نے نماز پڑھی؟"۔ وجاہت نے اسے پانی پلاتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔

اثبات پر اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

اور اس سے نگاہیں چرانے لگی۔

"جہاں تک میں تمہیں جانتا ہوں مریم تم نے کبھی نماز جان بوجھ کر قضاء نہیں کی۔۔۔تو اب جب تمہیں سب سے زیادہ خدا کے قریب ہونا چاہیے تم اس سے فاصلہ بڑھائے ہوئے ہو۔۔۔پھر تمہیں صبر کیسے آئے گا۔۔۔بتاؤ؟" اس کے لہجے میں نہ سختی تھی اور خشکی۔

بس ایک خاموش تنبیہ تھی۔

وہ اس وقت وہاں اس کے محبوب کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مخلص دوست کی حیثیت سے بیٹھا اسے تسلی اور دلاسہ دے رہا تھا۔

ایک سچے اور اچھے دوست کی طرح۔

مریم کو لگ رہا تھا جیسے خدا نے اپنا پیغام وجاہت کو وسیلہ بنا کر اس تک پہنچایا تھا۔

"میں۔۔۔نماز پڑھوں گی"۔ اس نے آنسوؤں سے تر چہرہ صاف کرتے ہوئے عزم سے کہا۔

تو وجاہت کے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔

"ہاں۔۔۔پر اس سے پہلے تم کھانا کھاؤ گی"۔ نوالہ بنا کر اس کی جانب بڑھایا۔

مگر اس کے لب باہم پیوست رہے۔

آنکھیں پھر بھیگنے لگیں۔

"پلیز مریم"۔ التجائیہ لہجے میں بس اتنا کہا۔

جس پر اس نے آہستگی سے لب وا کیئے اور اس کے ہاتھ سے نوالہ لے کر اپنے ہاتھ سے کھانے لگی۔

اس کا گریز ہنوز تھا۔

کیونکہ بہرحال وہ ایک غیر شخص تھا۔

اور وہ اب بھی کسی کی منکوحہ تھی۔

یہ بات اسے اب بھی نہیں بھولی تھی۔

وجاہت نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کے وہ اب تھوڑا بہت سہی مگر سنبھل تو رہی تھی۔

مرون جینز پر سیاہ شرٹ اور گوتھک اسٹائل کی سیاہ جیکٹ پہنے، عادتا سیاہ بالوں کو ہیئر بینڈ سے پیچھے کیئے محمودہ بیگم کے گھر کے مہمان خانے میں ان کے عین سامنے والی نشست پر براجمان شہزاد عمر شاہ نے اپنے چہرے پر اس وقت دنیا جہاں کی فکر و پریشانی طاری کر رکھی تھی۔

موضوع گفتگو تھا "برہان"۔


البتہ سیاہ آنکھوں میں بلا کی شیطانی چمک تھی جو اسے ایک انسان نما بھیڑیے کا تاثر دے رہی تھیں۔

لگ رہا تھا جیسے محمودہ بیگم سے زیادہ خود شاہی کو برہان کی فکر ہو۔


دو دن پہلے اس نے جو زرش اور برہان کو دیکھا تو اصل بات سے کئی زیادہ بڑھا چڑھا کر اس نے برہان کی ماں کو سنایا تھا۔

کیونکہ اس کے نزدیک محمودہ بیگم کو جتنا بھڑکایا جاتا اتنا ہی شاہی کے حق میں بہتر ہوتا۔


الف سے یہ تک وہ پوری کہانی ان کے گوش گزار کر چکا تھا۔

اور محمودہ بیگم اس کے سامنے ضبط کرتی دانت پہ دانت جمائے بمشکل وہاں بیٹھی تھی۔

دل تو ان کا یہی کر رہا تھا کے زرش ان کے سامنے آئے اور وہ اس کے وجود کو تہس نہس کر کے رکھ دیں۔


شاہی بغور ان کے چہرے کا اتار چڑھاؤ ملاحظہ کر رہا تھا۔

"دیکھیئے آنٹی، آپ اردشیر کی مامی ہیں تو اس کا مطلب میری بھی عزیزہ ہی ہیں اور قابل احترام بھی۔ لہٰذا میں یہ قطعا برداشت نہیں کر سکتا کے برہان کو وہ کل کی لڑکی آپ لوگوں کے خلاف کر دے۔ بس اسی لیے میں نے سوچا کے یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کے آپ کا بیٹا کہاں، کیا کرتا پھر رہا ہے"۔ وہ ہنوز ان کے چہرے کو پڑھتے ہوئے گویا تھا۔

اب محمودہ بیگم کے چہرے پر غصے کی جگہ پریشانی اور اندیشوں نے لے لی تھی۔

"اچھا کیا بیٹا تم نے جو مجھے وقت رہتے بتا دیا۔ میں تمہاری احسان مند ہوں۔ شکریہ"۔ انہوں نے مروتا کہا۔

ورنہ حقیقت تو یہ تھی کے وہ اب واقعی بے حد پریشان ہو چکی تھیں۔

"شکریہ والی کوئی بات نہیں آنٹی، مجھے خوشی ہوگی اگر میں آپ کے کسی کام آؤں۔ ہاں، بس اس کے ریٹرن میں آپ سے مجھے مدد چاہیے اپنے کام کیلئے"۔

وہ اب فورا اپنے مطلب کی بات پر آ گیا تھا۔

جس پر محمودہ بیگم پہلے تو چونکی مگر پھر سنبھل کر بولیں۔

"تو یعنی تم بھی میری طرح بے مطلب کسی کے کام نہیں آتے۔ مجھے سمجھ جانا چاہیے تھا"۔ انہوں نے طنزیہ کہا۔

جس پر شاہی کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔

"بے شک، اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں"۔ لاپرواہی سے شانے اچکا دیئے۔

"خیر، بتاؤ کیسا کام؟"۔ چند لمحے توقف کے بعد انہوں نے خود ہی پوچھ لیا۔

شاہی نے بھی بنا کسی پس و پیش کے آرام سے اپنی بات کہہ سنائی۔

جتنے آرام سے اس نے یہ بات کہی اتنی ہی غیر آرام دہ محمودہ بیگم ہوگئیں۔

"لیکن تم آخر ایسا کیوں چاہتے ہو؟ اردشیر تو تمہارا دوست ہے؟"۔ دل میں آیا سوال انہوں نے من و عن دہرا دیا۔

جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے شاہی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور چند قدم چل کر بند کھڑکی کے پاس آ ٹھہرا۔

اور وہاں سے نظر آتے باغ کے سبز رنگوں کو اپنی سیاہ آنکھوں میں قید کرنے لگا۔

"غلط۔۔میں اس سے نفرت کرتا ہوں، شدید نفرت!" دور خلاؤں میں دیکھتا وہ اپنی ہی رو میں کہہ رہا تھا۔

"پہلیاں کیوں بجھوا رہے ہو؟ جو بھی بات ہے صاف اور واضح بتاؤ"۔ محمودہ بیگم سخت جھنجھلائی۔

"بہت بخت آور ہے غازی اردشیر۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا، پھر بچپن سے لے کر آج تک ہر ایک کی محبتیں اس نے سمیٹیں۔ صرف میں جانتا ہوں وریشہ اس کیلئے کیا تھی۔ مگر جب وہ اس کو چھوڑ کر بھاگ گئی تو ایک پل کو شیرو کی حالت دیکھ کر میرا بھی دل پگھلا۔ پھر اس کے بعد مریم جیسی مخلص اور با وفا بیوی اسے ملی مگر اس نے قدر نہ کی۔ اور اب مہرماہ"۔ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا وہ جانے کب کا دبایا ہوا زہر اگل رہا تھا۔

"غاصب ہے وہ، میری خوشی، میرے حق پر شب خون مارا ہے اس نے۔ کہنے کو تو وہ میرا بھائی ہے مگر سوتیلا اور قابل نفرت"۔ اسکا لہجہ آگ اگل رہا تھا۔

تو آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔

جبکہ اس نئے انکشاف پر تو محمودہ بیگم جہاں کی تہاں رہ گئیں۔

صد شکر کے اس وقت گھر میں کوئی اور نہ تھا۔


"یہ۔۔۔کیا بکواس ہے؟"۔ انہوں نے بے یقینی سے کہا۔

اثبات پر وہ ایک جھٹکے سے ان کی جانب مڑا۔

"یہ حقیقت ہے، عثمان غازی میرا سگا باپ ہے۔ اور میں ان کا جائز خون"۔ شاہی کے لب و لہجے میں تلخی اتر آئی۔

"تم کیا سمجھتے ہو کے کوئی بھی راہ چلتا آ کر یہ کہے کے وہ عثمان غازی کی اولاد ہے اور میں اس بات پر آنکھ بند کرکے یقین بھی کر لوں گی؟ اتنا بے وقوف سمجھا ہے کیا مجھے؟"۔ محمودہ بیگم بھنا گئیں اس کی بات سن کر۔

کچھ بھی تھا پر وہ کم از کم اس بات پر اعتبار ہرگز نہیں کر سکتی تھیں کے عثمان غازی نگہت کو دھوکا دے سکتا تھا۔

"آپ کے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت بدل نہیں جاتی، یہ بات خود عثمان غازی بھی جانتا ہے کے اس کی پہلی بیوی سے اس کا ایک اور بیٹا بھی ہے۔ یعنی میں شہزاد عمر۔ جس کا حق مارا ہے اس کے اپنے باپ نے وہ بھی صرف اس اردشیر کیلئے"۔ اس کا لہجہ قہر بار ہو چکا تھا۔

ہمیشہ جس شخص کی سطح ٹھنڈی ٹھار رہتی تھی آج وہ آتش فشاں بن کر پھٹا تھا۔

"یہ سب تمہاری غلط فہمی بھی تو ہو سکتی ہے۔ اور اگر جو تم نے کہا وہ سچ ہے تو مجھے ثبوت لا کر دو، اپنی بات ثابت کرو"۔ محمودہ بیگم نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے پرسکون لہجے میں کہا۔

تھوڑی دیر پہلے جو برہان سے متعلق بات سن کر وہ پریشان تھیں تو اب ایک دم سے ہی وہ اپنی بات بھول کر اس نئی الجھن میں مبتلا ہو چکی تھیں۔

"ثبوت چاہیے آپ کو۔۔۔ یہ دیکھیئے"۔ شرٹ کے اندر لٹکتا ہوا لاکٹ اس نے کھینچ کر باہر نکالا۔

چاندی رنگ کا گول لاکٹ جب کھلا تو اس کے ایک جانب عثمان غازی کے جوانی کی تصویر ایک عورت کے ساتھ تھی (جو یقینا شاہی کی ماں تھی)۔

جبکہ لاکٹ کے دوسری جانب تھا خود شاہی۔

محمودہ بیگم نے لاکٹ تھام کر بغور اس کے اندر موجود تصاویر دیکھیں اور منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔

"یہ۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اتنا بڑا دھوکہ۔۔۔وہ بھی نگہت آپا کے ساتھ"۔ انہیں اب صحیح معنوں میں دھچکا لگا تھا۔

شاہی نے ان کے ہاتھ سے لاکٹ کھینچ کر بند کر دیا اور پھر سے شرٹ کے اندر ڈال دیا۔

"دھوکہ میری ماں کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ پہلی بیوی تھیں عثمان غازی کی۔ میری ماں تو نہیں رہی اور باپ کے بغیر جینا میں نے سیکھ لیا۔ لیکن اب زرا سا دکھ غازی خاندان بھی تو جھیل لے۔

وریشہ کو بھگانے والا میں تھا۔ وہ میرے ہی دوست کے جال میں پھنسی تھی۔ محض اس لیئے تاکہ عثمان غازی کی بدنامی ہو۔

میں وہی موجود تھا جب انہوں نے اپنی ساکھ بچانے کیلئے اردشیر کو مریم سے شادی کرنے پر راضی کیا۔

تب مجھے لگا کے دنیا میں ان سے زیادہ خود غرض اور مطلبی باپ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ جن کے سامنے اردشیر کے ٹوٹے دل کی نہیں اپنی جھوٹی شان کی اہمیت تھی۔

تب مجھے اردشیر پر رحم آیا تھا مگر اس نے جو چپ چاپ مریم سے نکاح کر لیا تو اس پر مجھے طیش بھی آیا۔

لہٰذا میں نے ہی مریم تک جانے سے قبل اس کا راستہ روکا، اس سے کہا کے جب ایک بہن ایسی مکار اور بد کردار نکلی ہے تو دوسری اس سے بھی زیادہ گئی گزری ہوگی۔

مریم کے خلاف اسے کرنے والا میں تھا۔ اور تو اور اسے اس کے کاغذات اور ٹکٹ میں نے ہی لا کر دیئے تاکہ وہ اسی وقت دبئی چلا جائے۔

میری توقع کے عین مطابق وہ بنا کسی کو خاطر میں لائے چلا گیا۔

اور پیچھے جو بدنامی ہوئی وہ بھی عین میری خواہش کے مطابق تھی۔


مجھے جب پتہ لگا کے کس طرح مہک نے چوری چھپے بلال سے شادی کر لی ہے تو میں نے اسی وقت نکاح نامے کی کاپی حاصل کرکے عثمان غازی کو بھجوا دی۔

تاکہ اولاد کا دکھ کیا ہوتا ہے اسے بھی پتہ چلے۔ میں چاہتا تھا کے بد نامی کا داغ میرے باپ کی نیک نامی پر بھی لگے۔ مگر انہوں نے چپ چاپ بیٹی کو رخصت کرکے اپنی اوور بڑھتے اس طوفان کا رخ ہی موڑ لیا۔

قسمت نے ہمیشہ میرے باپ کا ساتھ دیا ہے۔ لیکن اس بار وہ صرف میرا ساتھ دے گی۔

نہ تو غازی اردشیر کا، نہ اس کے باپ کا۔۔۔ صرف اور صرف میرا۔

بہت شوق سے میرا بھائی اب اپنے خوابوں کا تاج محل بنا رہا ہے نا، میرے رہتے یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔

بس مجھے آپ کا ساتھ چاہیے میرے کام میں"۔ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد خاموش ہوا اب وہ ان کی جانب متوجہ تھا۔


جبکہ محمودہ بیگم کسی گہری سوچ میں منہمک نظر آتی تھیں۔


"اور تمہیں یہ کیوں لگتا ہے کے میں تمہاری مدد کروں گی؟ آخر کار تم جسے برباد کرنا چاہ رہے ہو وہ میرا ہی تو خاندان ہے"۔ انہوں نے اندھیرے میں تیر چلا کر گویا یہ جاننا چاہا کے شاہی ان کے عزائم سے کتنا با خبر ہے۔


جبکہ ان کی اثبات پر اس کا ایک بے ہنگم قہقہہ پڑا تھا۔

اور مسلسل یونہی ہنستے رہنے کے بعد پھر وہ گویا ہوا تو اسکی آواز اور لہجے میں طنز کا عنصر نمایا تھا۔

"پیاری مامی جی، میں اچھی طرح جانتا ہوں کے آپ نے غازی خاندان کو لے کر برہان اور کائنات کیلئے کتنے خواب سجائے تھے۔ مگر وہ خوابوں کا تاج محل ایک ہی پل میں زمین بوس ہو گیا۔ اب ظاہری بات ہے کے آپ کے دل میں تو آگ ہی لگی ہوگی اس خواب کے ٹوٹنے پر۔ اور اس آگ کو شانت کرنے کیلئے یقینا آپ نے کوئی لائحہ عمل تو سوچ ہی رکھا ہوگا نا؟"۔ ان کے چہرے کو گویا پڑھتے ہوئے آخر میں ان سے ہی تائید چاہی۔

ایک پل کو تو اس کے اتنے صحیح تکے پر وہ بھی گڑبڑا گئیں۔ مگر پھر جلد ہی خود کو سنبھال کر گویا ہوئیں۔

"اور۔۔اگر تمہارا یہ اندازہ صرف اندازہ ہی ہو تو؟"۔

"آپ اس قدر معصوم بھی نہیں ہیں اب۔ اب بھلا وہ کیا کہتے ہیں کے میں جس شیطانی فطرت کا ہوں نا، اپنے جیسے لوگوں کو کئی کوس دور سے ہی پہچان لیتا ہوں۔ لہٰذا آپ کو کم از کم میرے سامنے اس دکھاوے کی ضرورت نہیں۔ سو بی یور سیلف"۔

شاہی نے ان کی تسلی کرادی۔

اور اس کی بات پر وہ بھی کسی قدر متفق نظر آتی تھیں۔

"تو کیا خیال ہے؟ کچھ سوچا ہے آپ نے؟"۔ چند لمحے توقف کے بعد شاہی نے پوچھا۔

"فلحال تو کچھ نہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے تمہارا پلان کام کرے گا"۔ وہ مطمئن نظر آرہی تھیں۔

جبکہ شاہی اب انہیں اپنے پلان سے متعلق مزید آگاہی دے رہا تھا۔

_________________________________

صبح طلوع ہونے میں ابھی وقت باقی تھا۔

آہستگی سے اس نے بند پلکیں اٹھائیں تو ایک پل کو اسے سمجھنے میں دقت ہوئی کے وہ آخر کہاں ہے؟۔

حواس تھوڑے بحال ہوئے تو تازہ گلابوں اور ایئر فریشنر کی ملی جلی خوشبو نے اسے جھنجھوڑ ڈالا۔

مہرماہ بستر پر لیٹے سے اٹھ بیٹھی۔

اور جو نظارہ اس نے دیکھا تو ایک پل کو وہ پلکیں جھپکنا بھول گئی۔

سارے کمرے کو سرخ مخملی گلاب کی تازہ پتیوں سے سجایا گیا تھا۔

بیڈ کے سائیڈ ٹیبلز گلاب کے پھولوں سے ڈھکے تھے۔

اور ان کے ساتھ ہی موم بتیاں بھی روشن تھیں۔

عین اسی وقت مہکتی سرخ پتیوں کی بارش سی ہونے لگی۔ مہرماہ کے بھورے بال سرخ پتیوں سے بھر گئے تھے۔

وہ شدید حیران تھی۔

لحاف پھینک کر اطراف میں دیکھتے ہوئے اس نے زمین پر سرخ و سپید پاؤں دھرے تو کوئی نرم سی شے پیروں کو بھی محسوس ہونے لگی۔

نگاہیں جھکائیں تو اس کے پیروں تلے گلاب کی پتیاں تھیں۔

جن سے ایک روش بنایا گیا تھا۔

گلابوں سے بنی وہ روش کمرے سے ملحقہ بالکونی تک جاتی تھی۔

تجسس زدہ ہو کر مہرماہ اپنی جگہ سے اٹھی اور آہستگی سے گلاب کی روش پر چلتی ہوئی وہ بالکونی کے بند دروازے تک آئی۔

ناب پر ہاتھ رکھ کر آہستگی سے دروازے کو کھولا تو جو منظر اس نے دیکھا اس پر دل نے ایک بیٹ مس کیا۔

سفید ماربل پر سرخ گلابوں سے خوبصورت دل شیپ بنایا گیا تھا۔

اور اس دل کے عین وسط میں لکھا تھا

"I Love You Mehrmah".

وہ بے جان گلاب کسی کے دل کا حال بیان کر رہے تھے۔

اس دل پر سے ہوتی ہوئی مہرماہ کی نگاہیں اوپر اٹھیں تو بھوری آنکھوں کے سامنے اپنی تمام تر جاہ و جلال سمیت سینے پر ہاتھ باندھے وہ عین اس کی نگاہوں کے سامنے تھا۔

اس کے وجیہہ چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

خاکی جینز پر سیاہ شرٹ اور سیاہ لیدر جیکٹ پہنے، چاکلیٹی براؤن بالوں کو اسٹائل سے ماتھے پر بکھیرے وہ قدم قدم چلتا ہوا اس کے پاس آ رہا تھا۔

اور مہرماہ کیلئے تو یہ احساس ہی انوکھا تھا۔

اس کا دل بھلا کب پہلے یوں اپنے اعتدال سے ہٹ کر دھڑکا تھا۔


غازی اردشیر اب اس کے پاس، اس کے عین قریب پہنچ چکا تھا۔

اس کے احمریں لب ہنوز مسکرا رہے تھے۔


جبکہ گلابی سلیپنگ گاؤن میں ملبوس مہرماہ کے چہرے کا رنگ بھی گویا لہو ٹپکا رہا تھا۔


وہ اس کے قریب جھکا اور دائیں جانب کے گھنگھریالے بھورے بال ایک طرف کو کرکے اس کے کان کے قریب سرگوشی میں گویا ہوا۔


نہ میں الفاظ کا ماہر

نہ میں اظہار کا ماہر

نہ مجھ میں فکر افلاطون

نہ مجھ میں ہے فلسفہ کوئ

بہت چھوٹی سی حسرت ہے

بہت پاکیزہ چاہت ہے

تمھارے روبرو آکر

میری جاں باوضو ہو کر

گواہ کر کے ستاروں کو

گگن کے سب کناروں کو

فقط اتنا سا کہنا ہے

مجھے تم سےمحبت ہے

مجھے تم سے محبت ہے!


اس کا ہر لفظ حقیقی تھا۔

اور اس کے دل میں پنپتے جذبے کا عکاس تھا۔

وہ اسے اپنا اظہار سونپ رہا تھا۔

اپنا دل اسے سونپ رہا تھا۔

اور وہ۔۔۔

اس کا اپنا دل تو بے ہنگم انداز میں بس دھڑک رہا تھا۔

گویا باغی ہو گیا تھا۔

مہرماہ کا وجود سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا۔

اردشیر نے آہستگی سے فاصلہ بڑھایا۔

جیب سے ایک سرخ مخملی ڈبیا نکالی۔

پھر گھٹنوں پر آ گیا۔

مہرماہ بالکل خاموش تھی۔

اس کے الفاظ کہیں گم ہو گئے تھے۔

دھڑکنوں کے اس قدر شور میں بھی اس کا رواں رواں کان بنا اردشیر کا ہر لفظ جذب کر رہا تھا۔

اس نے مہرماہ کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔

"محبت ایک سمندر ہے مہرماہ۔ جس میں اترنے سے قبل محبوب سے ایک سودا کیا جاتا ہے۔ دل کے بدلے اس کا عکس مانگا جاتا ہے۔ ایک بار اگر محبوب اس گہرے سمندر میں اتر جاتا ہے نا مہرماہ، تو اس کا وہ عکس تا عمر اس سمندر کی گہرائیوں میں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔

میں اگر محبت کو چاند سے تشبیہ دیتا تو اس کائنات میں اس جیسے کروڑوں تھے۔

ستاروں سے دیتا تو وہ ناپائیدار ہوتے ہیں۔ ٹوٹ جاتے!

آگ سے دیتا تو وہ جنون کہلاتا۔

مٹی سے دیتا تو اسے دھول بنا کر اڑا دیا جاتا۔

میں نے اسے سمندر سے تشبیہ دی ہے مہرماہ پتہ ہے کیوں؟"۔

وہ خاموش تھی بالکل ایک بت کی طرح۔

بس اس بلند و بالا مرد کو اپنے قدموں میں بیٹھے دیکھ رہی تھی۔

اور اسے بہت توجہ سے سن رہی تھی۔

وہ مہرماہ جسے صرف کہنا آتا تھا۔۔۔سننا نہیں۔

وہ آج پوری توجہ سے اسے سن رہی تھی جو اسکے پورے دل پر قابض تھا۔

جس کا عکس اس کے دل کے سمندر میں جانے کب اترا تھا کے اسے خود کو بھی احساس نہ ہو سکا۔

وہ جو بلند قامت تھا۔۔

آج محبت نے اسے عاجزی سکھا دی تھی۔

اور اس مغرور اور خود پسند شخص کو گھٹنوں کے بل لے آئی تھی۔

ہاں، محبت کچھ بھی کر سکتی تھی!

محبت سب کچھ کروا سکتی تھی۔

"اس لیے مہرماہ، کیونکہ ایک پانی ہی وہ واحد شے ہے جو عیب نہیں دیکھتی۔

جس کے اندر اترو تو وہ تمہیں تمہارے ہر خاص و عام کے ساتھ قبول کر لیتی ہے۔

محبت بھی تو ایسی ہی ہوتی ہے نا!

میں نے تم سے محبت کی نہیں ہے مہرماہ۔۔۔

مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے!

اور کہتے ہیں کے کی جانے والی محبت کو یک بارگی ہم بدل بھی دیں مگر۔۔۔

ہو جانے والی محبت کو کوئی نہیں بدل سکتا۔

مہرماہ، کیا تم میری تمام تر کوتاہیوں اور زیادتیوں کے باوجود بھی میرے جذبوں کی پذیرائی کرو گی؟"۔ وہ کتنے آس اور کتنے امید سے سوال کر رہا تھا۔

مہرماہ کی آنکھوں میں روشنیاں بکھر گئیں۔

ان کی چمک دو چند ہو گئی تھی۔

مگر لب ہنوز خاموش تھے۔


"میں جانتا ہوں مہرماہ کے میں تمہارے ساتھ بہت برا پیش آیا۔

دوسروں کے کیئے کی سزا تمہیں دی جبکہ تم سرے سے انجان اور معصوم تھی۔

تمہارے اور میرے درمیان جو شرعی رشتہ موجود ہے اس کی دہائی دے کر میں تمہارے ساتھ ایک بار پھر زیادتی نہیں کروں گا۔

تمہاری مرضی کو ہی مقدم جانوں گا۔

تمہاری 'ہاں' ہی اس رشتے کو آگے بڑھائے گی۔

اور تمہاری 'ناں' اس زبردستی کے رشتے کو ختم کر دے گی (یہ کہتے ہوئے غازی اردشیر کا دل ہی نہیں سانس بھی رک گیا)

بولو مہرماہ، تم کیا چاہتی ہو؟"۔


اور مہرماہ اس شخص کی شفاف آنکھوں سے جھانکتے اندیشے بخوبی پڑھ سکتی تھی۔

اسے ڈر تھا کے شاید وہ اس کے دل کی نفی کرے گی؟

اسے خوف تھا کے وہ اسے ٹھکرا دے گی؟

مگر اس سب کے باوجود بھی آخری فاصلہ اس نے اس کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔

وہ اب بھی گھٹنوں کے بل جھکا اس کے دونوں ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔

نگاہیں ہنوز مہرماہ کے چہرے کو بغور دیکھ رہیں تھی۔

جیسے وہ آنکھوں کے راستے اس کا ہر نقش اپنے دل میں اتار رہا ہو!


اور تب وہ آہستگی سے اسی کے سے انداز میں گھٹنوں کے بل۔۔۔اس کے برابر بیٹھ گئی۔


"میں نہیں جانتی محبت کیسی ہوتی ہے غازی اردشیر، میں بس اتنا جانتی ہوں کے آپ کو دیکھے بغیر میرا کوئی لمحہ بھی مجھے مکمل نہیں لگتا۔

آپ کا مجھے مخاطب کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔

آپ کی زبان سے اپنا نام مجھے بہت خاص لگتا ہے۔

مجھے بس یہ پتہ ہے کے میری دھڑکنوں کو منتشر کرنے کی تاب رکھتے ہیں آپ۔۔

پہلے کیا تھا کیا نہیں یہ میں نہیں جانتی۔

ابھی کا اگر آپ پوچھیں تو پوری زندگی تو بہت دور کی بات ہے میں ایک لمحہ بھی آپ کے بغیر تصور نہیں کر سکتی۔

سچ کہوں تو اب آپ کے چیخنے اور چلانے کی مجھے اتنی عادت ہو گئی ہے کے اب اس سب کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔

اگر کسی کیلئے تڑپنا، اس کے غصے کو بھی ترجیح دینا، اسے ہمیشہ اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی خواہش کرنا محبت ہے۔

تو غازی اردشیر ہاں، مہرماہ غازی کو صرف اور صرف آپ سے محبت ہے!"۔ مہرماہ کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ تھی۔۔۔ایک سچی مسکان!

اس کی آنکھیں گواہی دے رہی تھیں کے اس کا ہر لفظ کتنا سچا ہے۔

اور غازی اردشیر پر تو جیسے دنیا کی ہر نعمت مکمل کر دی گئی تھی اس وقت۔

اس کا دل خوشی سے معمور ہو کر بارگاہ الٰہی میں جھکا جا رہا تھا۔

اگر اس وقت مہرماہ انکار کر دیتی تو یقینا اس کی زندگی اس کیلئے عذاب بن جاتی۔

اس نے ہاتھ میں پکڑی مخملی ڈبیہ کھولی۔

جس کے اندر مرون زرقون اپنی بہار دکھا رہا تھا۔

وہ اتنا حسین تھا کے دیکھنے والا اس پر رشک کرتا۔

ہر دوسرے اینگل سے دیکھنے پر اس کا رنگ بدل جاتا تھا۔

اور مہرماہ اس کی خوبصورتی دیکھ کر ہی نہال تھی۔

"یہ تمہیں حاسدوں کی بری نگاہ سے بچائے گا"۔ اردشیر نے اس کی سرخ و سپید ہاتھ کی انگلی میں وہ انگوٹھی سجاتے ہوئے کہا۔

"آپ جب میرے ساتھ ہوں گے تو کوئی میرا کیا بگاڑ سکتا"۔ مہرماہ نے مسکرا کر اس کے انے پر سر رکھ دیا۔

"چلو یار اب اٹھو، گھٹنے چھل گئے میرے یوں بیٹھے بیٹھے اور اوپر سے یہ سردی"۔ اردشیر نے اسے بازوؤں میں اٹھا لیا۔

"اووفف کتنی بھاری ہو گئی ہو تم مہرماہ، موٹی عورت"۔ مسکراہٹ دبائے اس نے گہری سانس لے کر اسے چڑایا۔

"اللہ توبہ، زرا سی تو ہوں میں اور وہ بھی نہیں اٹھائی جا رہی آپ سے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو بہت محبت کے دعوے کر رہے تھے آپ۔۔ہونہہ"۔ اس نے بھی ناک چڑھائی۔

جبکہ وہ اسے اٹھائے گلاب کی روش پر چلتا جا رہا تھا۔

"کرنا پڑتا ہے یار، ورنہ تم بیویاں اتنی آسانی سے کہاں مانتی ہو"۔

کمرے میں ان کی آواز اب دھیرے دھیرے مدھم ہو گئی تھی۔

جبکہ باہر فروری کی ایک نئی اور اجلی صبح طلوع ہو چکی تھی۔

بالکل ان دونوں کے رشتے کی طرح!

فروری کا وسط چل رہا تھا۔

جس سے کے کینیڈا کے شدید موسم میں آج کل مزید شدت آئی ہوئی تھی۔

برفباری کا نہ تھمنے والا سلسلہ اب بھی جاری تھا۔


شام کے سات بج رہے تھے۔

بلال ابھی ابھی آفس سے لوٹ رہا تھا۔

لانگ نیک میں ملبوس اس کے اوپر جیکٹ اور اوور کوٹ پہننے کے باوجود بھی سردی جسم میں گھستی محسوس ہو رہی تھی۔

گھر کے مین دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے چابی کی ہول میں ڈال کر گھمائی مگر یہ کیا؟

دروازہ شاید اندر سے بند تھا۔

جس کی وجہ سے مسلسل کوشش کے باوجود بھی کھل کے نہیں دے رہا تھا۔


"مہک؟ دروازہ کھولو"۔ غصے کی انتہا پر پہنچ کر اس نے دروازہ پیٹ ڈالا مگر دوسری جانب اس نے جیسے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔

اس قدر بے حسی پر بلال کا خون مزید کھول اٹھا۔

جیب سے موبائل نکال کر اس نے گھر کا لینڈ لائن نمبر ملایا۔

چند لمحوں بعد ہی دوسری جانب سے کال موصول ہوئی۔


"کیا ہے؟" رکھائی سے پوچھا۔


"یہ تم نے دروازہ کیوں لاک کر رکھا ہے اندر سے۔۔۔کھولو اسے۔۔رائٹ ناؤ"۔ تحکم بھرے لہجے میں کہا۔


جبکہ اس کی بات پر دوسری جانب اس کا قہقہہ پڑا تھا۔

جو بلال جہانزیب کی جان مزید جلا گیا۔


"روز تم مجھے لاک کر کے جاتے تھے۔ آج تم خود باہر پڑے سڑتے رہو"۔ وہ اس کی حالت سے حظ اٹھاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔


"یہ کیا بکواس ہے؟ کیا مطلب ہے اس بچکانی حرکت کا؟"۔ وہ تپ ہی تو گیا تھا اس کی بات پر۔


"ویری سمپل، آج رات تم گھر سے باہر گزارو گے۔ وہ بھی منفی 13 درجہ حرارت میں"۔ پرسکون لہجے میں جواب دیا۔

جس پر بلال کے وجود میں آگ لگ گئی۔


"دیکھو مہک، دروازہ کھولو۔۔۔ہم مل بیٹھ کر بات چیت سے اس معاملے کو حل کر سکتے ہیں"۔ بہت ضبط کے بعد اس نے کہا۔


"نہیں، مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ جتنی اذیتیں تم نے مجھے دی ہیں نا اس کے آگے یہ سزا بہت معمولی ہے مسٹر بلال"۔ کہہ کر ٹھک سے مہک نے ریسیور کریڈل پر پٹخ دیا۔


اور بلال وہی سر پکڑ کر گھر کے دروازے پر بیٹھ گیا۔

اب وہ کر ہی کیا سکتا تھا سوائے انتظار کے۔

جیب میں بھی اتنے پیسے نہ تھے کے وہ رات کسی ہوٹل کے کمرے میں بسر کر لیتا۔

کیونکہ گھر سے آفس وہ کمپنی کی گاڑی میں آتا جاتا تھا۔

شام گہری ہونے کے ساتھ ہی سردی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

کچھ سوچ کر وہ واپس گاڑی میں آ بیٹھا اور ہیٹر آن کر لیا۔

جس سے سردی کچھ کم محسوس ہوئی۔

"چھوڑوں گا نہیں تمہیں مسز مہک"۔ وہ زہرخند ہوا۔

جبکہ گھر کی کھڑکی کا ایک پٹ کھولے وہ کھڑی اس کی حالت سے حظ اٹھا رہی تھی۔

"کہا تھا میں نے تم سے کے مجھ سے پنگا نہ لو۔۔۔ہونہہ"۔ تلخی سے مسکرا کر اس نے کھڑکی بند کردی۔

ابھی تو ساڑھے سات ہی بج رہے تھے۔

ابھی تو پوری رات باقی تھی۔

______________________________

شہر کے ایک معروف ترین ریسٹورنٹ میں قدرے کونے والی میز پر وہ اس وقت تنہا بیٹھا مکمل طور پر اپنے موبائل میں گم تھا۔

سیاہ ہڈی کے ساتھ اس کا آدھے سے زیادہ چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔

ہاتھوں میں پہنے کئی ایک سیاہ رنگ کے بینڈز شہزاد عمر کی مخصوص پہچان تھے۔

انداز سے لگتا تھا کے کسی کا انتظار کر رہا ہے۔

گاہے بگاہے موبائل سے نگاہ اٹھا کر داخلی دروازے پر ایک نظر ڈالتا اور پھر سے موبائل میں مصروف ہو جاتا۔

ساتویں بار اس نے سیاہ آنکھیں اٹھائیں تو وہ مخصوص شخص ریسٹورنٹ کے داخلی دروازے سے اندر آتا دکھائی دیا۔

اسے دیکھ کر شاہی کے بے تاثر چہرے پر ایک طنز بھری مسکراہٹ رینگ گئی۔


مطلوبہ شخص اب اطراف میں نگاہیں دوڑاتا شاید کسی کو تلاش کر رہا تھا۔


شاہی کی انگلیاں نہایت برق رفتاری سے موبائل پر میسج ٹائپ کر رہی تھیں۔


"اب جہاں تم کھڑے ہو وہی سے جنوب کی سمت میں بارہ قدم بالکل سیدھا چل کر آؤ۔ یعنی کے ٹیبل نمبر سات کی جانب"۔


عین اسی وقت اس شخص کے موبائل پر میسج ٹون بجی۔

اس نے شاہی کا پیغام پڑا اور سختی سے لب بھینچ لیئے۔

پھر اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے وہ بارہ قدم ناک کی سیدھ میں چلتا ہوا آیا۔

اور ٹیبل نمبر سات کے قریب رک گیا۔

جہاں ایک شخص ہڈی پہنے سر جھکائے اپنے موبائل پر مصروف تھا۔


تبھی شاہی نے گردن اٹھائی تو وہ شخص عین اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔

وہ بیٹھے سے اٹھ کھڑا ہوا۔

جس سے کے اس کا چہرہ کسی قدر اب واضح نظر آنے لگا۔


تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے مقابل سے مصافحہ کرنے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔

چارو نا چار جینز شرٹ میں ملبوس اس خوش شکل نوجوان نے بھی اس کا ہاتھ تھام لیا۔


"میں ہوں شہزاد عمر شاہ، میں نے ہی آپ کو بلایا تھا"۔ اس عرصے میں پہلی بار شاہی نے اسے مخاطب کیا۔

احد نے بھی اس سے مصافحہ کیا اور اس کے سامنے والی کرسی سنبھال لی۔


"بتائیے آپ نے مجھے کیوں بلوایا ہے یہاں؟ جبکہ میں تو آپ کو جانتا تک نہیں"۔ احد نے رکھائی سے کہا۔

اسے اجنبیوں سے گھلنے ملنے میں خاصا وقت لگتا تھا۔


"معذرت چاہتا ہوں آپ کو اس طرح بلانے کیلئے پر کچھ باتیں ایسی ہیں جو میری نظر میں آپ کیلئے جاننا بے حد اہم ہے"۔ شاہی نے بات کا آغاز کیا۔


جبکہ اس کا بغور جائزہ لیتا احد اثبات پر آگے کو ہو بیٹھا۔


"مہرماہ کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے؟"۔ اس نے عام سے انداز میں پوچھا۔


اس کی بات سن کر پہلے تو احد کو جھٹکا لگا مگر پھر اس کی آنکھوں میں غیض و غضب اتر آیا۔

ایک جھٹکے سے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔


"کیا یہی وہ بات تھی جس کیلئے آپ نے مجھے فون کر کے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی؟"۔ ضبط کرتے ہوئے اس نے زور سے میز پر ہاتھ مارا اور دھیمے لہجے میں غرایا۔


مگر دوسری جانب شاہی پھر بھی پرسکون رہا۔

"بات یہاں صرف مہرماہ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ خود آپ کے بارے میں بھی ہے۔ پلیز بیٹھ جائیے اور تحمل کا مظاہرہ کیجئے"۔


اب کی بار اس کی بات سن کر احد سوچ میں پڑ گیا۔

مگر پھر کچھ پس و پیش کے بعد وہ پھر سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم پھنسائے وہ اب اس کی جانب متوجہ تھا۔


"جی کہئیے، میں سن رہا ہوں"۔ اس نے بہت ضبط کے بعد کہا۔

اس لڑکی کے وجود سے بھی اسے نفرت تھی۔

پھر اس کا ذکر کیا جانا اسے کیونکر اچھا لگ سکتا تھا؟


"بہت شکریہ، کہنے کو تو میں غازی اردشیر کا دوست ہوں مگر جو حرکت اس نے آپ کی شادی والے دن کی وہ واقعی قابل مزحمت ہے۔ مگر احد صاحب، اکثر حقیقت وہ نہیں ہوا کرتی جو ہمیں نظر آتی ہے۔ لہٰذا ہمیں حقیقت کو دیکھنے اور سمجھنے کیلئے پہلے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے"۔ کھیل شروع ہو چکا تھا۔

جس کے تحت اب احد بغور اسے سن اور سمجھ رہا تھا۔


"آپ کے کیس میں بھی آپ کو یہی کرنا تھا مگر آپ نے آنکھوں دیکھے کو ہی سچ مانا۔ کیا ایک بار بھی آپ نے یا آپ کے گھر والوں نے مہرماہ سے حقیقت جاننے کی کوشش کی؟ نہیں نا؟ بس اسے مجرم گردان کر سزا سنا دی گئی۔ حالانکہ اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو اردشیر کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیتا اس کے اس اقدام پر"۔ چیل سی نظریں اب بھی احد کے چہرے کو پڑھنے کی سعی کر رہی تھیں۔

جہاں اب غصے کی جگہ سوچ نے لے لی تھی۔


"مگر اب ان سب باتوں کا کیا مطلب ہے آخر؟ اور کیا فائدہ پرانی باتیں کریدنے کا؟"۔ اس نے شرمندگی چھپانے کو جھنجھلاہٹ اپنے چہرے پر طاری کر لی۔

شاہی تلخی سے مسکرا دیا۔


"زندگی میں بہت سے کام ہم فائدے کیلئے نہیں کرتے، بلکہ بہت سی باتیں اور ڈسکشنز ہم اس کیلئے کرتے ہیں تاکہ ہمارے ذہن اور دل پرسکون ہو سکیں۔ ادھورے کام اور ان کہی باتیں اکثر ہمیں بے سکون رکھتی ہیں احد صاحب، اس لیئے اگر ہمیں کبھی دوبارہ موقع ملے تو ان ادھورے کاموں کو پورا کرنا اور ان کہی باتوں کو کہہ لینا چاہئیے۔ اس سے دل میں جو تشنگی سی ہوتی ہے اسے کچھ سکون ملتا ہے"۔

احد نے محض سر ہلا کر اس کی تائید کی۔

جس پر وہ مزید گویا ہوا۔

"مہرماہ ایک صاف دل اور پاک دامن لڑکی تھی احد، آپ کی خاموشی نے اسکے پاک دامن کو بھری دنیا کے سامنے داغدار کر دیا تھا۔ اور وہ آپ کی اس خاموشی کا خمیازہ آج تک بھگت رہی ہے۔ میں خود دیکھ کر آ رہا ہوں وہ بالکل خوش نہیں ہے اپنے حالات سے۔ مگر اب وہ بیچاری کر بھی کیا سکتی ہے سوائے صبر کے۔

اگر بالفرض وہ اردشیر سے طلاق لے بھی لیتی ہے تو جائے کہاں؟ گھر والے تو اسے پہلے ہی ٹھکرا چکے ہیں۔

اور اس آدمی کا ساتھ اس کے دل و روح کو ہر پل زخمی ہی کرتا رہتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے اسے، وہ بے حد تکلیف میں ہے مگر آفرین ہے اس لڑکی پر کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلتا اردشیر کے خلاف۔ لیکن اس شخص کو تو اس با وفا لڑکی کی زرا بھی قدر نہیں ہے۔

وہ آوارہ مزاج ہر جگہ منہ مارتا رہتا ہے مگر اپنی بیوی کا اسے رتی بھر احساس نہیں۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو الٹا مجھ پہ ہی کیچڑ اچھالنے لگا کے میرا مہرماہ کے ساتھ کوئی تعلق۔۔۔۔بس اس سے آگے مجھ میں سننے کی سکت نہ رہی اور میں اس بد کردار شخص پر اور اس کی دوستی پر دو حرف بھیج کر اس کے گھر سے نکل آیا"۔

اس نے چہرے پر افسوس طاری کرتے ہوئے کسی قدر دکھ سے کہا۔

دوسری جانب احد کو وہ نازک سی گڑیا جیسی مہرماہ یاد آئی تو اس کا دل اس کے دکھ سے بھر گیا۔

اس نے تو تصور بھی نہیں کیا تھا کے وہ اتنی اذیتوں میں گھری ہوگی۔

وہ تو اب تک یہی سمجھتا رہا کے شاید مہرماہ بھی اردشیر کے ساتھ کسی رشتے میں تھی۔

"تو۔۔۔۔یہ سب آپ اس کی فیملی کو کیوں نہیں بتاتے۔۔۔میں کیا کر سکتا ہوں اس سب میں؟"۔ دل میں سر اٹھاتے نرم جذبات کو نظر انداز کرکے احد نے بظاہر رکھائی سے کہا۔

اس کی یہ بات سن کر شاہی کا دل چاہا کے اپناسر پیٹ لے۔

"وائے رے مہرماہ کی قسمت۔ کیسا بے وقوف شخص ہے یہ؟ اووففف، اگر یہ میرے پلان کا اہم حصہ نہ ہوتا تو اس پر دو حرف ابھی بھیج کر یہاں سے اٹھ کر جا چکا ہوتا"۔ دل ہی دل میں وہ اس کی کم عقلی پر ماتم کرتا اسے گالیوں سے نواز رہا تھا۔

"دیکھو احد، میں جانتا ہوں تم اب بھی مہرماہ کیلئے جذبات رکھتے ہو۔ لہٰذا میں بس اتنا چاہتا ہوں کے تم اسے اس دوزخ سے نکال لو اور اسے یقین دلاؤ کے تم اس کے ساتھ ہو۔ وہ زمانے کے سرد و گرم سہنے کیلئے تنہا نہیں ہے۔ تم اس کا سہارا بنو گے۔ اس کی مدد کرو گے۔

یقین جانو تم سے بہتر طریقے سے یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔

تم ہی اسے اردشیر سے طلاق پر راضی کرکے اسے آزاد کروا سکتے ہو"۔ شاہی ہنوز اسے سمجھا رہا تھا۔

"اور آپ کو یہ کیوں لگ رہا ہے کے میں اسے آزاد کروا کر ایک سیکنڈ ہینڈ کو اپنی بیوی کے عہدے پر فائز کروں گا؟"۔ اپنے دل کی آواز کو دبا کر احد نے کسی قدر سفاکی سے کہا۔

اس کی یہ بات سن کر شاہی نے زور سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

اس کا چہرہ غیض و غضب کی تصویر بن گیا۔

اور اتنی زور سے جبڑے بھینچے کے کنپٹی کی رگیں تک تن گئی۔

مگر کمال ضبط تھا کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔

اور پھر بہت دیر یونہی خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوا تو لہجہ نارمل تھا۔

"بے شک آپ اس سے شادی نہ کریں مگر اسے سمجھا تو سکتے ہیں نا؟ آخر کو انسانیت کے ناتے ہی سہی۔ اور زندگی گزارنے کیلئے آزادی درکار ہوتی ہے۔۔۔شادی نہیں"۔

اثبات پر احد نے گہری سانس کھینچی پھر چند لمحوں بعد گویا ہوا۔

"یہ کام تو آپ بھی کر سکتے ہیں نا؟"۔

اور اس سوال پر صحیح معنوں میں شاہی کے چھکے چھوٹ گئے۔

"میں یہ کر سکتا ہوتا تو آپ سے کیوں کہتا؟ آپ ٹھہرے اردشیر کے برابری والے اور میں ایک معمولی سے فرم کا ملازم۔ غازی خاندان سے ٹکر لینے کی ہمت صرف آپ کے پاس ہے اور وجہ بھی!

میں تو تھرڈ پرسن ہوں۔ میری بات کو اہمیت نہ تو اردشیر دے گا اور نہ خود مہرماہ"۔

شہزاد نے کچھ اس انداز سے یہ بات کہی کے احد پھر سے سوچ میں مبتلا ہو گیا۔

چند لمحے یونہی خاموشی کی نظر ہو گئے۔

اب شاہی نے بھی مزید کچھ کہنا ضروری نہ سمجھا۔

اور بالآخر فیصلہ ہو گیا۔

"ٹھیک ہے۔ میں مہرماہ سے بات کروں گا۔ پچھلی بار تو اس پر یقین نہ کر کے پچھتایا تھا مگر اب کی بار میں غازی اردشیر کو جیتنے نہیں دوں گا۔ میں مہرماہ کے ساتھ ہوں"۔ احد نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر پورے یقین اور اعتماد سے یبات کہی۔

تو شاہی نے بے اختیار گہری سانس لی۔

"دیٹس گریٹ، اور اگر آپ کو میری کوئی بھی مدد چاہیے ہو میں آپ کے ساتھ ہوں مسٹر احد"۔

احد کے اٹھتے ساتھ ہی شاہی بھی اٹھ کھڑا ہوا اور اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

اس کی بات پر اس عرصے میں پہلی بار احد مسکرایا۔

اور اثبات میں سر ہلا کر اسے الوداعی کلمات کہہ کر رخصت لی۔

اس کے جاتے ہی شاہی ایک مرتبہ پھر کرسی پر ڈھ گیا۔

اور پر سکون سانس کھینچی۔

بلاشبہ ایک مشکل مرحلہ طے ہوا تھا۔

اب آگے کا کھیل تو بہت آسان تھا۔

"تم پہلے مہرماہ کو اردشیر سے چھین تو لو احد، پھر اس کا کیا کرنا ہے یہ شہزاد عمر تم سے بہتر جانتا ہے"۔ دونوں ہاتھ سر کے پشت پر ٹکا کر اس نے دل ہی دل میں اسے مخاطب کیا۔

اور ساتھ ہی اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔


کچھ تھا اس کی سیاہ آنکھوں میں جو عام دنوں سے مختلف تھا۔

اس کا ارادہ اٹل تھا۔

اس کا عظم بلند تھا۔


"مہرماہ۔۔۔کیا ہو تم؟"۔ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے چشم تصور میں اس حسیں پیکر کو مخاطب کیا۔

_________________________________


ایک روشن صبح ٹورنٹو میں طلوع ہو چکی تھی۔

برفباری تو رک چکی تھی البتہ سردی اب بھی برقرار تھی۔

سڑک اور اس کے اطراف میں بنے گھروں کی چھت پر سفید برف کے گالے پڑے تھے۔


سڑک سے برف ہٹانے کا کام البتہ جاری تھا۔


اس کی آنکھ کھلی تو درد کی شدید لہر اسے پشت اور گردن میں اٹھتی محسوس ہوئی۔


رات بھر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھنے سے گردن اکڑ گئی تھی۔

اسے محسوس ہوا جیسے اس کا جسم کسی نے جلتی ہوئی بھٹی میں جھونک دیا ہو۔

جسم میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کے وہ اٹھ کر چند قدم کے فاصلے پر بنے اپنے گھر ہی چلا جاتا۔


اس نے دروازہ کھولا تو وہ اسے گاڑی میں بیٹھا نظر آیا۔

لانگ بوٹس اور اوور کوٹ میں ملبوس وہ برف میں سہج سہج قدم رکھتی ہوئی اس کی گاڑی کی جانب آئی۔

پھر کچھ سوچ کر گاڑی کے شیشے پر انگلی سے دستک دی۔

بلال نے بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا۔

شیشے کے اس پار وہ سنگدل حسینہ کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

اسے دیکھتے ہی بلال کی آنکھوں میں جلن اور چہرے پر غصہ نمودار ہوا۔

مگر پھر بھی گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔

"تم ٹھیک ہو؟"۔ مہک نے یخ بستہ ہاتھ اس کی تپتی ہوئی پیشانی پر رکھا تو وہ آگ کی طرح جل رہا تھا۔

بلال چاہ کر بھی اس کا ہاتھ نہ جھٹک سکا۔

"او نو، تمہیں تو بخار ہے" وہ فکرمندی سے گویا ہوئی۔

اور بلال جہانزیب کو جہاں اس کی یہ فکر حیرت میں مبتلا کر رہی تھی وہی اسے اچھا بھی لگ رہا تھا۔

"ساری رات ایک گاڑی میں بھوکے پیاسے گزار دینے کے بعد کوئی کیسا ہو سکتا ہے مہک بی بی"۔ نقاہت زدہ آواز میں اس نے طنزیہ کہا۔

مہک کو جہاں اس کا یہ طنز برا لگا تھا تو وہی شرمندگی نے بھی آن گھیرا۔

"چلو اٹھو، گھر چل کر میڈیسن لو اب اس حال میں تم آفس تو جانے سے رہے"۔ مہک نے اسے سہارا دے کر اٹھانا چاہا۔

بلال نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا مگر پھر کچھ پس و پیش کے بعد وہ اس کے سہارا دینے پر گاڑی سے نکل آیا۔

اس کا پورا وجود مہک کے نازک سراپے پر چھایا ہوا تھا۔

دو قدم چل کر ہی وہ تھکنے لگی۔

مگر اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری۔

"جیسے کو تیسا"۔ زیر لب بڑبڑانے سے وہ بعض نہیں رہا۔

مگر مہک نے اس کی یہ بڑبڑاہٹ سن لی تھی۔

جس پر ایک گھوری سے بھی نوازا۔

"اب اگر تم چپ نہیں ہوئے نا تو میں یہی چھوڑ کر چلی جاؤں گی تمہیں"۔ ہانپتے ہوئے اس نے کہا۔

تو بلال اب کے واقعی خاموش ہو گیا۔

مبادا وہ اپنے کئے پر عمل ہی نہ کردے۔


جیسے تیسے کرکے تو وہ اسے گھر کے اندر لے آئی اور بیڈ پر بٹھا دیا۔


"تم لیٹ جاؤ میں تمہارے لیئے کچھ ہلکا بریک فاسٹ لاتی ہوں پھر میڈیسن لے لینا"۔ فکرمندی سے کہتے ہوئے اس نے بلینکٹ اسے اوڑھا دیا۔

پھر خود کچن میں چلی گئی۔


"بدلے بدلے سے میرے یار لگتے ہیں"۔ بلال نے اس کی پشت تکتے ہوئے زیر لب کہا پھر تکان زدہ ہو کر سرخ انگارہ ہوتی آنکھیں موند لیں۔

مہک کے ٹھنڈے ہاتھوں کا لمس اب بھی اسے اپنی پیشانی پر محسوس ہو رہا تھا۔

وہ اس کے بدلتے رویے پر جہاں حیران تھا وہی رب کے حضور شاکر بھی۔

_________________________________

عثمان غازی اس وقت بیڈ پر لیپ ٹاپ کھولے بیٹھے تھے۔

ان کے اطراف میں کئی ایک فائلز بے ترتیب سے پڑے تھے۔

آج کل آفس کا کام کافی حد تک بڑھ گیا تھا۔

اسی پل نگہت بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔

ایک نظر انہوں نے مصروف شوہر پر ڈالی اور پھر الماری کا پٹ کھول کر کچھ ھونڈنے لگیں۔

"جب سے اردشیر گیا ہے مانو جیسے ایک دم سے ہی بہت سارا بوجھ آ پڑا ہو مجھ پر"۔ عثمان صاحب نے بیٹے کی کمی محسوس کر کے کہا۔

تو نگہت بیگم ان کی بات پر مسکرا دیں۔

"آپ نے تو ہمیشہ سے اپنا کام خود ہی سنبھالا ہے۔ اسے یہاں آئے اور آپ کا کام سنبھالے ابھی سال بھر بھی نہیں ہوا اور آپ تھکنے لگے"۔ وہ کشن کورز اٹھائے صوفے پر آ بیٹھیں اور انہیں چینج کرنے لگیں۔

عثمان صاحب نے ان کی جانب دیکھا۔

"بات تو آپ نے بالکل صحیح کہی ہے نگہت بیگم، مگر بہت کم وقت میں اس نے میرا سارا بوجھ سنبھال لیا تھا۔ یہ اولاد کا سکھ کوئی چاہے کتنی دولت بھی خرچ کر لے مگر خرید نہیں سکتا"۔ انہوں نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔

نگہت بیگم نے بغور انہیں دیکھا۔

"لگتا ہے آج آپ کو اپنے بیٹے کی یاد آ رہی ہے۔ آپ اس سے بات بھی تو کر سکتے ہیں"۔ انہوں نے مشورہ دیا۔

جس پر عثمان غازی نے بغور ان کی جانب دیکھا۔

"ہاں، کل میری بات ہوئی تھی اس سے۔ آ رہا ہے چند دنوں میں"۔ انہوں نے اطلاع دی۔

"کب؟ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟"۔ نگہت بیگم نے فکرمندی سے کہا۔

"آپ اپنی سہیلی کے گھر گئی ہوئی تھیں شاید۔ تب ہی کال کی تھی اس نے پوچھ رہا تھا آپ سب کا بھی"۔

"اچھا اور مہرماہ کیسی ہے؟"۔ انہوں نے مزید پوچھا۔

"ہوں۔ ٹھیک ہے وہ بھی، بلکہ خوش ہے"۔ عثمان صاحب نے مطمئن لہجے میں کہا۔

"سچ، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ یہ سب برہان اور اس بچی زرش کا کمال ہے۔ انہی کا آئیڈیا تھا"۔ انہوں نے خوش ہو کر بتایا۔

"ان دونوں کی واپسی پر ہم ولیمے کی رسم بھی پوری کر دیں گے"۔ انہوں نے ایک نیا نکتہ اٹھایا۔

نگہت بیگم نے سر ہلا کر ان کی تائید کی۔


چند لمحے خاموشی چھا گئی۔

جسے نگہت بیگم کی آواز نے توڑا۔


"کب تک ہے وہ یہاں؟"۔ آخری کشن کا کور چڑھا کر انہوں نے سرسری سے انداز میں پوچھا۔


"ہوں، کون؟"۔ انہوں نے نا سمجھی سے کہا۔


نگہت بیگم نے گہری سانس لی۔

"میں شہزاد کی بات کر رہی ہوں۔ کب جا رہا ہے وہ واپس؟"۔


عثمان صاحب نے چونک کر انہیں دیکھا۔


"تم تو جانتی ہو وہ مجھ سے کس قدر نالاں ہے۔ تمہارے ساتھ تو پھر بھی اس کا رویہ ٹھیک ہے۔ لہٰذا تم اس سے یہ بات پوچھو"۔ انہوں نے شکت خوردہ لہجے میں کہا۔

انداز سے کافی تھکے ہوئے لگتے تھے۔

"میں نہیں چاہتی کے اردشیر یا مہک اس کے اصل سے واقف ہوں۔ لہٰذا اس کا جانا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے"۔ نگہت بیگم نے پریشان ہو کر کہا۔

عثمان صاحب نے بیڈ کراؤن سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔

"میں جانتا ہوں آپ کو بچوں کی فکر ہے نگہت بیگم، مجھے فخر ہے آپ پر کے سوتیلا ہونے کے باوجود شاہی کی ذمہ داری اٹھانے سے آپ نے مجھے نہیں روکا۔ یہ آپ کا ظرف ہی ہے کے وہ یہاں آتا جاتا ہے۔ اگر کوئی اور عورت ہوتی تو شاید اپنی سوکن کی اولاد کو کبھی برداشت نہیں کرتی۔ یو آر گریٹ"۔ پہلے کئی بار کا کیا اعتراف انہوں نے آج پھر کیا۔

"میں بس ایک ماں ہوں عثمان، جو اپنے بچوں کا دل نہیں توڑ سکتی۔ بہت چاہتا ہے اردشیر اپنے دوست کو، میں نہیں چاہتی کے سچ جان کر وہ اس سے نفرت کرنے لگے۔ اس سے شاہی کا دل بھی ٹوٹ جائے گا"۔ انہوں نے اپنے دل میں چھپا خدشہ بیان کیا۔

"آپ پریشان نہ ہوں، شہزاد مجھے چاہے جیسے بھی ٹریٹ کرے مگر وہ اپنے بھائی کا کبھی برا نہیں چاہے گا۔ بہت محبت کرتا ہے وہ بہن بھائیوں سے"۔ عثمان صاحب نے مسکرا کر کہا۔

"آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں شاید خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہوں۔ جہاں اس نے اتنے سال مہک اور اردشیر کو کچھ نہیں بتایا تو اب کیوں ایسا کرے گا"۔ انہوں نے دل میں آئے خیال کی خود ہی نفی کی۔

جبکہ عثمان صاحب ہنوز کسی گہری سوچ میں تھے۔

________________________________

وہ ڈریسنگ میز کے سامنے کھڑی بال سنوار رہی تھی۔

جب کسی نے نرمی کے ساتھ اس کے نازک وجود کے گرد باہوں کا مضبوط حصار کھینچ دیا۔

آئینے میں جگمگاتے مہرماہ کے عکس کے ساتھ ہی غازی اردشیر کا عکس بھی جھلملا رہا تھا۔

مہرماہ کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئی۔

"کتنی ظالم ہیں میرے محبوب کی ادائیں،

میں یہاں ہوں اور اس کا دھیان کہیں اور ہے"۔

اس کے شانے پر ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے اس نے شکوہ کیا۔

مہرماہنے گھور کر اسے دیکھا۔

"میں ظالم ہوں؟ اور آپ معصوم؟"۔ منہ بنا کر پوچھا۔

اردشیر نے بے چارگی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"اچھا تو یہ بھی بتائیں کے کون سے ظلم ڈھائے ہیں آپ پر؟"۔ اس کا حصار توڑ کر وہ کھلی کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔

ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر وہ پھر اس کے پیچھے گیا۔

"اب یہ ظلم کیا کم ہے کے میری ظالم بیوی مجھے اپنے پیچھے بھگا رہی ہے۔ تم سے اچھی تو کائنات ہے کم از کم میرے قریب تو آتی ہے۔ ہاں وہ الگ بات ہے کے میں اس بیچاری کو لفٹ نہیں کرواتا۔ لیکن اب سوچتا ہوں کے۔۔۔" لہجے کو سنجیدہ بنا کر اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

آنکھوں میں واضح شرارت تھی۔

مہرماہ ایک جھٹکے سے اس کی جانب مڑی۔

اور اس کا کالر پکڑ لیا۔

"سوچنا بھی مت، ورنہ وہ بیچاری تو جان سے جائے گی ہی مگر آپ کی بھی جان لے لوں گی"۔ خونخوار نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ارادے بتائے۔

اردشیر نے مسکراہٹ ضبط کرکے نرمی سے اس کے ہاتھ تھام لیے۔

"دل تو لے چکی، اور جان تو تم ہو میری۔ پھر۔۔۔۔سوچ لو اب"۔ گمبھیر لب و لہجے میں دلچسپی سے کہا۔

اور مہرماہ کیلئے ان گہری آنکھوں میں مزید دیکھنا دشوار تھا۔

بے اختیار ہو کر اس کی نگاہیں جھکتی چلی گئیں۔

اس پل غازی اردشیر کو وہ کوئی موم کی گڑیا ہی لگی۔

احمریں لب اس نے اس کی پلکوں پر رکھ دیئے۔

"جانتی ہو تمہاری خاص بات کیا ہے مہرماہ؟"۔ اردشیر نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی۔

مہرماہ نے آہستگ سے نفی میں سر ہلا دیا۔

"تم میں جھوٹی انا نہیں ہے مہرماہ، جہاں جھکنا ہے تم وہاں اکڑتی نہیں بس جھک جاتی ہو۔ اس لیئے مجھے تم سے محبت نہیں عقیدت ہے"۔ کہتے ساتھ ہی اس نے اس کی دمکتی پیشانی پر لب رکھ دیئے۔

مہرماہ نے سرخ پڑتا چہرہ اس کے کشادہ سینے میں چھپا لیا۔

"اردشیر"۔ بہت دیر بعد مہرماہ نے دھیمے لہجے میں اسے پکارا۔

"ہوں"۔ آنکھیں موندے جواب دیا۔

"آپ کو نہیں لگتا ہمیں جنہوں نے ملوایا ہے انہیں بھی ملوا دیا جائے؟"۔ مہرماہ کی آنکھیں کسی خیال کے تحت چمک اٹھیں۔

اردشیر نے چونک کر پلکیں وا کیں۔

"کیا مطلب؟"۔ نا سمجھی سے پوچھا۔

"اوہو، میں زرش اور برہان بھائی کی بات کر رہی ہوں"۔ اس سے الگ ہوتے ہوئے مہرماہ نے وضاحت دی۔

"اوہ، یہ آئیڈیا پہلے مجھے کیوں نہیں آیا"۔ اردشیر نے خود کو ہی ایک چپت رسید کی۔

مہرماہ اس کے انداز پر ہنس دی۔

"کیونکہ میں آپ سے زیادہ عقلمند ہوں"۔ اس نے فرضی کالر کڑائے۔

اردشیر نے مسکرا کر سر تسلیم خم کیا۔

"اچھا تو بتائیے مس عقلمند، کیا سوچا پھر؟"۔ ایک آنکھ دبا کر اس نے شرارت سے کہا۔

"بس آپ دیکھتے جائیں اپنی بیگم کا کمال"۔ اس نے چٹکی بجا کر کہا۔

چشم تصور میں وہ زرش کو دلہناپے میں دیکھ کر ہی نہال ہو گئی۔

غازی ولا میں گھر کے سبھی افراد اس وقت کھانے کی میز کے گرد براجمان تھے۔

کھانے کے ساتھ ہی خوش گپیاں بھی جاری تھیں۔

اسی وقت دروازے پر ہونے والی بیل نے ان سب کو متوجہ کیا۔

"پروین، دیکھو زرا کون ہے؟"۔ نگہت بیگم نے کچن میں کھڑی ملازمہ کو آواز دی۔

"جی بی بی جی"۔ وہ بھی بوتل کے جن کی مانند حاضر ہوئی اور فورا سے پیشتر دروازہ کھول دیا۔

"کون ہے بھئی؟"۔ عثمان غازی کے پوچھنے پر ملازمہ دروازے سے ہٹی تو نووارد گھر میں داخل ہوئے۔

جنہیں دیکھ کر وہ سب خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئے۔

"مہرماہ، اردشیر میرے بچے"۔ نگہت بیگم خوشی سے معمور لہجے میں کہتی ہوئی ان کی جانب آ گئیں۔

اور دونوں کو ساتھ لگا لیا۔

"کیسی ہیں امی آپ؟"۔ اردشیر نے ان سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا۔

"اب بالکل ٹھیک ہوں"۔ نم آنکھوں سمیت مسکراتے ہوئے انہوں نے بیٹے کی پیشنی چوم لی۔

مہرماہ کو ان دونوں ماں بیٹے کی محبت دیکھ کر اپنی فیملی یاد آنے لگی۔

اسے لگا جیسے کئی زمانے بیت گئے ہوں ان سے ملے ہوئے۔۔۔

بات کیئے ہوئے!

پھر وہ مہرماہ کی جانب متوجہ ہوئیں اور اسکی پیشانی پر بوسہ ثبت کیا۔

"کیسی ہو تم؟"۔ اس کے رخسار پر ہاتھ رکھے انہوں نے محبت سے پوچھا۔

"بالکل ٹھیک"۔ مہرماہ نے ان کا ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگا لیا۔

اس پل نگہت میں سے اسے اپنی ماں کی خوشبو آ رہی تھی۔

"ارے بھئی، ہم بھی انتظار میں ہیں اپنے بچوں سے ملنے کیلئے"۔ زرا فاصلے پر کھڑی بے جی نے ٹوکا۔

تو نگہت بیگم کو ہوش آیا۔

اردشیر کے ساتھ ہی مہرماہ بھی بے جی کے پاس چلی آئی اور ان سے ملنے کے بعد وہ لوگ عثمان غازی کے پاس پہنچے۔

"کیسے ہیں آپ ڈیڈ؟"۔ ان سے بغلگیر ہوتے ہوئے اردشیر نے پوچھا۔

جبکہ عثمان غازی اپنی آنکھوں کی نمی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے مسکرا دیئے۔


آج سالوں بعد جا کر دونوں باپ بیٹے کے رشتے پر جمی برف کی تہہ پگھلی تھی۔

آج بہت وقت بعد دونوں کے درمیان چھائی سرد مہری اختتام پذیر ہوئی تھی۔

عثمان غازی کا دل اپنے بیٹے کیلئے بالآخر پگھل گیا تھا۔


"تم دونوں تھک گئے ہو گے، جاؤ جا کر فریش ہو جاؤ۔ باقی باتیں ہم فرصت سے بیٹھ کر کریں گے"۔ عثمان صاحب نے اردشیر کے مضبوط شانے کو تھپکتے ہوئے کہا۔


تو اس نے بھی اثبات پر تائیدی انداز میں سر ہلا دیا۔

اور زینے طے کر کے اوپر تلے کمرے میں چلا گیا۔

پیچھے پیچھے مہرماہ بھی اس کے ساتھ ہو لی۔


بالآخر سب کچھ ٹھیک ہو رہا تھا۔

رشتے اپنے اعتدال پر آ رہے تھے۔


مگر کوئی تھا۔

جس کی بری نظر اب بھی اس گھر کی خوشیوں پر گڑی تھیں۔

________________________________


ایپرن پہنے کھڑی وہ پچھلے ایک گھنٹے سے کھانا بنانے کیلئے سبزیاں کاٹ رہی تھی۔

یہ کتنا مشقت طلب کام ہوتا ہے اسے آج پتہ چل رہا تھا۔

ساتھ ہی کاؤنٹر پر رکھے موبائل پر وڈیو چل رہی تھی۔

جس میں کھانا بنانے کی ترکیب بتائی جا رہی تھی۔

مہک کچھ پل رک کر غور سے وڈیو میں ہدایات دیتے شیف کو سنتی اور اسے پیاز کاٹتے ہوئے دیکھتی۔

پھر سر جھکا کر ویسا ہی کرنے لگتی۔

"اووفف، او گاڈ، یہ کتنا مشکل ہے"۔ آستین سے وہ اپنی آنکھیں پوچھتی سخت جھنجھلائی ہوئی تھی۔

پیاز کاٹنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں بار بار پانی آ رہا تھا۔

وہ مہک جس نے کبھی ایک گلاس پانی بھی خود سے نہیں لیا تھا وہ آج کسی کیلئے کچن میں گھسی کھانا بنا رہی تھی۔

اتنی مشقت کر رہی تھی۔

جبکہ بلال دوائی لے کر سو رہا تھا۔

اس کیلئے مہک کا یہ روپ بہت انوکھا اور دلفریب تھا۔

جیسے تیسے کر کے وہ فارغ ہوئی۔

اور ایک سادہ سی کھچڑی اور سوپ بنانے میں ہی اس کی حالت خراب ہو گئی۔

"کبھی سوچا بھی نہیں تھا کے اس مسٹر مینجر کیلئے مجھے یہ سب کرنا پڑے گا"۔ وہ منہ بنا کر بڑبڑائی۔

"پر خیر، انسانیت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے"۔ وہ سخت جھنجھلائی ہوئی کبھی خود کو ڈانٹنے لگتی تو کبھی خود پسندی کا دورہ اتنا پڑتا کے دل چاہتا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس گھر سے بلکہ اس ملک سے ہی بھاگ نکلے۔

حالانکہ اب تو بلال مکمل طور پر اس کے رحم و کرم پر تھا۔

وہ چاہتی تو اسے مرنے کیلئے چھوڑ کر خود چلی جاتی پاکستان۔

مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔

نا جانے اس سنگدل انسان کیلئے اس کے دل میں نرم گوشہ کیسے پیدا ہو گیا تھا؟

باؤل، پانی کا گلاس اور سوپ کا کٹورا ٹرے میں سجا کر وہ کمرے میں داخل ہوئی۔

بلال ہنوز اسی پوزیشن میں لیٹا ہوا تھا جیسا صبح وہ اسے چھوڑ کر گئی تھی۔

"بلال، اٹھو اور کچھ کھا لو"۔ ٹرے سائیڈ میز پر رکھ کر وہ اب اس کے سر پر آ کھڑی ہوئی۔

مگر بلال کی پوزیشن میں رتی بھر فرق نہ آیا۔


"بلال گیٹ اپ"۔ اب کے اس نے جھنجھوڑنے کی غرض سے اس کے رخسار کو چھوا تو اسے محسوس ہوا کے اس کا بخار اب بھی کم نہ ہوا تھا۔


"او گاڈ، اسے تو اب بھی بہت تیز بخار ہے۔ اب ایک غلطی کی سزا نہ جانے یہ مجھے کب تک دے گا"۔ رہ رہ کر اسے بلال پر غصہ آ رہا تھا اور اس سے بھی زیادہ خود پر۔


"بلال پلیز اٹھو"۔ اب کی بار اس نے اسے جھنجھوڑا۔

بمشکل اس نے آنکھ کھولی۔

جو سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔

وہ اجنبی نظروں سے مہک کی جانب دیکھنے لگا۔

شاید ایک پل کو اسے وہ پہچان نہیں پایا تھا۔


"بلال، چلو یہی قریب ہی کسی کلینک چلتے ہیں۔ تمہاری طبیعت میں کوئی سدھار نہیں ہے"۔ وہ پریشانی کے عالم میں بولی۔


"نہیں۔۔۔آئم اوکے"۔ اتنا کہہ کر اس نے پھر سے آنکھیں موند لیں۔

مہک کو اس پل شدید غصہ آیا اس پر۔

"اووفف، کتنے ضدی ہو تم؟"۔ وہ سخت جھنجھلائی ہوئی تھی۔

بمشکل خود کو کمپوز کرکے پھر گویا ہوئی۔

"اچھا چلو، اٹھ کر کھانا تو کھا لو"۔ اس نے نرمی سے پھر مخاطب کیا۔

ناچار اس نے پھر سے اپنی آنکھیں کھول لیں اور خفگی سے اسے گھورا۔

مہک نے پرواہ کیئے بغیر اسے سہارا دے کر اٹھایا اور تکیہ اس کی کمر کے گرد سیٹ کیا۔

"تم کب سے اتنی خدمتگار اور فرمانبردار بیوی بنی؟"۔ وہ طنز سے بعض نہ آیا۔

مہک نے کوئی جواب نہ دیا۔

اس کے طنز کو صبر سے نظرانداز کر کے وہ اسے سوپ پلانے لگی۔

بلال نے بھی بنا کسی حیل و حجت کے سوپ پی لیا۔

اس کی نظریں ہنوز مہک کے سنہرے چہرے پر جمی تھیں۔

جہاں اس کیلئے فکر تھی۔۔۔پریشانی تھی۔

ہاں وہ اس کیلئے فکرمند تھی۔۔۔مگر یہ کب ہوا؟

بلال کا ذہن اس کے رویے پر الجھ رہا تھا۔

مہک کوئی ایسی لڑکی تو ہرگز نہ تھی جو مجبوری یا دباؤ میں آ کر ایسا کرتی۔

"تو کیا وہ بھی مجھ سے۔۔۔۔"۔ بلال کے دل میں ایک خوش کن خیال نے سر اٹھایا۔

"نہیں یہ صرف میری خوش فہمی ہے۔ وہ صرف انسانیت کے ناتے میرا خیال رکھ رہی ہے۔اسے مجھ سے یا میری ذات سے کوئی دلچسپی نہیں"۔

اس کے دل نے ابھی ٹھیک سے یہ خوشی محسوس بھی نہیں کی تھی کے دماغ میں زہریلی سوچ نے ڈنک ماری۔

جس سے کے اس کے پورے وجود میں خون کی جگہ زہر دوڑنے لگا۔

اچانک ہی اس نے زوردار ہاتھ مارا۔

جس سے سوپ کا پیالہ الٹ کر دور جا گرا اور ایک چھناکے سے ٹوٹ کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔

"آہ"۔ گرم گرم سوپ مہک کے ہاتھ پر گرا۔

درد سے وہ بلبلا اٹھی۔

اور بے اختیار اس کے منہ سے کراہ نکلی۔

جبکہ بلال کو اس سے متعلق پرواہ نہ تھی۔

اس کا غصہ انتہا پر تھا۔

"تمہاری جرت بھی کیسے ہوئی یہ کرنے کی؟ رحم کھا رہی ہو مجھ پر۔۔۔ہوں؟ ایک بیمار شخص پر ترس کھا کر اس کی خدمت کر کے احسان کر رہی ہو تم؟ یہ سب کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم؟ کے بہت بڑا دل ہے تمہارا۔ میرے جذبات، میری محبت کا مذاق اڑانے کی تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی؟"۔ وہ آتش فشاں بن کر پھٹا تھا۔

اور مہک اپنے ہاتھ کی تکلیف بھول کر حیرت زدہ سی اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس شخص کا دماغ چل گیا ہو۔

کہاں تو وہ اتنا کمزور اور بیمار تھا۔

اور اب نا جانے اس میں یہ نئی توانائی کہاں سے آ گئی تھی۔

"دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے، تمہاری شکل سے بھی نفرت ہے مجھے سنا تم نے؟ ایک پل بھی تمہارے وجود کو اپنے آس پاس برداشت نہیں کر سکتا میں۔ جسٹ گیٹ لاسٹ"۔ وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا۔

دو آنسو مہک کی آنکھوں سے ٹوٹ کر رخسار پر پھسل گئے۔

وہ ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔

پیچھے وہ گہرے گہرے سانس لیتا اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

_________________________________

گھر کا مین دروازہ کھولتے ہی جس ہستی کا چہرہ زرش کے سامنے آیا اسے دیکھ کر وہ پہلے تو شاکڈ ہوئی اور پھر بے اختیار چیختے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔

"یا اللہ مہرووو، میری جان تم آ گئی"۔ اس کی آنکھیں شدت جذبات سے خود بخود بھیگنے لگی تھیں۔

"جی زری صاحبہ میں آ گئی"۔ مہرماہ کے چہرے پر اس وقت دنیا جہاں کی خوشی آن ٹھہری تھی۔

شہد رنگ آنکھوں کی چمک دو چند ہو گئی تھی اپنی عزیز از جان بہن کم سہیلی کو سامنے پا کر۔

شنگرفی لب کتنی ہی دیر مسکراتے رہے تھے۔

وہ چونکی تو تب جب زرش بے تحاشہ رونے لگی تھی۔

"زری۔۔کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو؟"۔ زرش کے رونے میں شدت آتے دیکھ کر مہرماہ ایک دم ہی بوکھلا گئی۔

اس سے الگ ہو کر وہ کبھی اس کے آنسو پوچھتی تو کبھی پھر خود سے لگا لیتی۔

"کیا ہوا زری جانو، بتاؤ تو سہی۔ اتنا کیوں رو رہی ہو؟"۔ مہرماہ کی اپنی آنکھیں بھی بھیگنے لگی تھیں۔

مگر زرش نے بنا ایک لفظ کہے اپنا شغل جاری رکھا۔

"دیکھو، اب اگر تم خاموش نہ ہوئی تو میں بھی رو دوں گی"۔ اس نے دھمکی دی۔

جس کا خاطر خواہ اثر ہوا تھا۔

اور وہ خاموش ہو گئی۔

مہرماہ نے اسے صوفے پر بٹھا دیا اور خود اس کیلئے پانی کا گلاس بھر کر لے آئی۔

نہ تو یہ گھر اس کیلئے ان جان تھا اور نہ ہی اس گھر کے مکین۔

زرش اب اپنے آنسو پوچھ رہی تھی۔

جبکہ مہرماہ اس کے برابر بیٹھی اسے پانی پلانے لگی۔

"دیکھو ذرا، اتنی دور سے میں تم سے ملنے آئی ہوں اور یہاں تم مجھ سے ہی خدمتیں کروا رہی ہو"۔ اس کا دھیان بٹانے کو اس نے مصنوعی خفگی سے کہتے ہوئے اسے گھورا۔

تو زرش نا چاہتے ہوئے بھی اس کی بات پر مسکرا دی۔

"تم بالکل نہیں بدلی مہرو، ویسی کی ویسی ہی جھلی ہو"۔ زرش نے اسے ایک چپت رسید کی۔

"اچھا بتاؤ، اتنا کیوں رو رہی تھی۔ خوشی کے آنسو تو سنے تھے پر یہ گلا پھاڑ پھاڑ کر رونا آج پہلی بار دیکھا ہے۔ بتا کیا بات ہے؟"۔ اس نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔

"بس تمہیں اتنے دنوں بعد یہاں، اپنے گھر میں دیکھ کر مجھے پرانے دن یاد آ گئے۔ سچ کہوں تو مجھے امید ہی نہیں تھی کے تم کبھی یہاں آؤ گی۔ لیکن اب جب تمہیں سامنے دیکھا تو دل بھر آیا"۔ ہمیشہ کی طرح دل کی بات اس نے من و عن دہرا دی۔

وہ دونوں کب ایک دوسرے سے کچھ چھپاتی تھیں۔

"مجھے بھی یہاں آ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے وقت پیچھے چلا گیا ہو۔ یہ تین ماہ جیسے بیچ میں آئے ہی نہ ہوں"۔ وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہہ رہی تھی۔

"اچھا یہ بتاؤ سفیان انکل کیسے ہیں؟"۔

"بالکل ٹھیک"۔ زرش نے جواب دیا۔

دونوں کے درمیان چند لمحے کی خاموشی چھا گئی۔

اور مہرماہ کی خاموشی کو زرش سے بہتر کوئی اور نہیں پڑھ سکتا تھا۔

"بابا (جہانزیب) اور افشاں امی بھی بالکل ٹھیک ہیں۔ بے جی بھی ٹھیک ہیں۔ بس تمہیں بہت یاد کرتے ہیں"۔ وہ جس سوال سے جھجھک رہی تھی۔

زرش نے اس کا جواب بے پوچھے دے دیا تھا۔

مہرماہ اپنے آنسو چھپانے کو اس کے گلے لگ گئی۔

"جو زبان کوئی اور نہیں سمجھ سکتا، وہ بہترین دوست کتنی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں زری"۔ آنسو پونچھ کر وہ اس سے الگ ہوئی۔

"اور۔۔۔بلال بھائی کیسے ہیں؟"۔ نگاہیں جھکائے اس نے پوچھا۔

ایسا لگتا تھا جیسے ایک زمانے سے اس نے اپنے جان سے پیارے بھائی کو نہیں دیکھا تھا۔

وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی۔

وہ اسے سننا چاہتی تھی۔

اور اپنی کہنا چاہتی تھی۔

وہ ہر دکھ اس کے شانے سے لگ کر بہا دینا چاہتی تھی۔

اس بھائی کے۔۔۔جو اپنی مہرو کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

"وہ بھی خیریت سے ہیں۔"۔ زرش نے جواب دیا۔

"وہ۔۔۔ناراض ہیں نا مجھ سے؟"۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پھر پوچھا۔

زرش کو اس پر ترس آیا۔

"نہیں مہرو، وہ بلال بھائی ہیں۔ ان کی لغت میں لفظ ناراضگی مہرماہ کیلئے موجود ہی نہیں ہے۔ اور یہ بات مجھ سے بہتر تم جانتی ہو"۔

"ہاں، مگر سب بدل گیا ہے نا۔ انہوں نے مجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی۔ وہ جو میری آنکھوں میں دکھ کے آنسو نہیں دیکھ پاتے تھے۔ ان کٹھن حالات میں وہ مجھے تنہا کیوں چھوڑ گئے زرش؟ کیا یہی تھی ان کی اپنی بہن کیلئے وہ محبت؟"۔ وہ بد گمان ہو رہی تھی۔ یا شاید اپنے دل کا غبار نکال رہی تھی۔

"یہ خود ترسی کی انتہا ہے مہرو، وہ آج بھی اپنی بہن کو یاد کرتے ہیں۔ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس بات کی گواہ میں خود ہوں۔ وہ ہر روز مجھے فون کرکے تمہارا پوچھتے تھے۔ کیونکہ تم نے خود ہی تو ان سے منہ پھیر لیا تھا۔ اور تم شاید یہ بات نہ جانتی ہو مگر مہرو سچ یہ ہے کے اردشیر بھائی نے جتنی اذیتیں تمہیں دی ہیں نا اس سے کئی زیادہ سختی بلال بھائی نے مہک بھابھی سے روا رکھی ہوئی ہے۔

وہ تمہارا بدلہ ان سے لے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ محبت کرتے ہیں ان سے۔ ہمیشہ سے"۔ زرش ایک ایک کر کے سارے حقائق سے اسے آگاہ کر رہی تھی۔

اور مہرماہ کا وجود جیسے پتھر بن گیا تھا۔

"یہ تم کیا کہہ رہی ہو زرش، مجھے کال ملا کر دو۔۔۔میں ابھی ان سے بات کرتی ہوں۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں اپنی بیوی کے ساتھ"۔ وہ واقعی پریشان ہو گئی تھی۔

"نہیں مہرماہ، تم ان سے ابھی بات نہیں کرو گی۔ اب یہ معاملہ دونوں میاں بیوی کے بیچ ہے۔ وہ خود ہینڈل کریں گے۔ آخر تم اور اردشیر بھائی بھی تو ایک ہو گئے نا، تو انشاءاللہ ان دونوں میں بھی محبت ہو جائے گی۔ اور یہ نکاح کے مقدس رشتے کی ہی تو طاقت ہے نا جس نے تمہیں ایک ان چاہے شخص سے محبت کرنے پر مجبور کر دیا۔

میں نے بلال بھائی سے بھی یہی کہا کے وہ تم پہ اعتماد کریں اور تمہیں حالات سے ڈیل کرنے دیں۔ کیونکہ میاں بیوی کے بیچ کسی تیسرے کے عمل دخل سے رشتہ اور بھی خراب ہوتا ہے"۔ زرش سمجھداری سے اسے معاملے سے آگاہ کر رہی تھی۔

اور اس کے سادہ سے الفاظ مہرماہ کے دل پر چھائے غبار کو دھو گئے تھے۔

اس کا دل اب سب کی طرف سے صاف ہو چکا تھا۔

"امی بالکل صحیح کہتی ہیں تمہارے متعلق زری، تم واقعی بہت سمجھدار اور معاملہ فہم ہو۔ میرا دل بہت پرسکون ہو گیا ہے تم سے بات کر کے۔۔۔ہمیشہ کی طرح"۔ مہرماہ نے مسکرا کر کہا۔

"اچھا اب چلو باقی گھر والوں سے بھی مل لو"۔ زرش کہتے ساتھ ہی فورا سے پیشتر اٹھ کھڑی ہوئی۔

اور ساتھ ہی مہرماہ کو بھی اپنے ساتھ کھینچنے لگی۔

"مگر۔۔۔زری۔۔۔میں"۔

"اگر مگر کچھ نہیں۔ تم چل رہی ہو مطلب چل رہی ہو بس"۔ وہ اس کی سنی ان سنی کرکے اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ سامنے والے گھر لے گئی۔

__________________________________

وہ اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا۔

آتے ساتھ ہی اس نے اپنی ذمہ داریاں پھر سے سنبھال لی تھیں۔

اس کی غیر موجودگی میں کیا کیا کام ہوا؟

ان سب کی ڈیٹیلز اور فائلز اس کے ارد گرد بکھری پڑی تھی۔

اور وہ انہیں ایک ایک کر کے اسٹڈی کر رہا تھا۔

جب دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے متوجہ کیا۔

"آ جاؤ"۔ مصروف سے انداز میں اس نے جواب دیا۔

ملازموں کا سربراہ جمال اب کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔

"صاحب وہ بڑے صاحب نے آپ کو باغیچے میں بلوایا ہے"۔ مؤدب سا کھڑا وہ بزرگ ملازم اطلاع دے رہا تھا۔

اردشیر چونکا۔

پھر گھڑی دیکھی جہاں شام کے پانچ بج رہے تھے۔

"پاپا اتنی جلدی آفس سے آ گئے"۔ اس نے دل میں سوچا۔

پھر ملازم کی جانب متوجہ ہوا۔

"اچھا، آپ جائیں میں دیکھتا ہوں"۔ اس کے جواب پر ملازم نے اثبات میں سر ہلایا اور واپس پلٹ گیا۔

"شاید کوئی اہم بات ہوگی، ورنہ وہ مجھے روم میں بھی بلوا سکتے تھے"۔

وہ سوچتا ہوا باغیچے کی جانب چلا گیا۔

عثمان صاحب باغیچے میں ادھر سے اُدھر ٹہلتے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔

جب اردشیر کے کھنکھارنے پر متوجہ ہوئے۔

"کیا ہوا ڈیڈ، سب ٹھیک ہے؟"۔ وہ تشویش زدہ ہوا۔

عثمان صاحب نے بغور اسے دیکھا۔

سیاہ جینز پر مرون شرٹ پہنے بھورے بال ماتھے پر بکھیرے، جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ ان کی جانب متوجہ تھا۔

عثمان صاحب نے گہری سانس کھینچی۔

اور جیسے الفاظ ترتیب دینے لگے۔

اردشیر ان کے چہرے کو پڑھنے کی سعی کررہا تھا۔

مگر ان کا چہرہ سپاٹ رہا۔

"ان پودوں کو دیکھ رہے ہو اردشیر"۔ انہوں نے چمیلی کے پھول کو نرمی سے تھام کر کہا۔ جس کی کونپلیں ابھی ابھی پھوٹی تھیں۔

جو ابھی ٹھیک سے پھول بن کر نہیں کھلی تھی۔

اردشیر ان کی بات پر چونکا مگر پھر بھی خاموش رہ کر ان کے مزید بولنے کا انتظار کرنے لگا۔

"یہ ابھی کچی کلی ہیں۔ ان کو اگر ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا دیا جائے اور صحیح نشوونما نہ کی جائے تو یہ کھلنے سے قبل مرجھا جاتے ہیں"۔ ان کی بات گہری تھی۔

اردشیر کے گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔

وہ اتنا نا سمجھ بھی نہیں تھا۔

اسے اب کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کے عثمان غازی اس سے کیا کہنے جا رہے ہیں۔

"لڑکیاں بھی ان کلیوں کی مانند ہوتی ہیں بیٹا، ان کو بھی اپنے اصل سے اکھاڑ کر دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ جہاں اگر ان کی نا قدری کی جائے یا انہیں ان کا مقام نہ ملے تو وہ بھی اندر ہی اندر مرجھانے لگتی ہیں۔

مہرماہ کے ساتھ تمہاری صلح ہوگئی۔ یقین جانو مجھ سے زیادہ خوشی اس بات کی کسی اور کو ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک باپ کیا چاہتا ہے؟ بس اتنا ہی کے اس کے بیٹے کا گھر بس جائے۔ اس کے بچے اپنی زندگی میں خوش رہیں"۔ وہ خاموش ہوئے اس کے چہرے کو جانچنے لگے۔

گویا اندازہ لگانا چاہ رہے ہوں کے وہ کس حد تک ان کی بات سمجھ چکا ہے۔

مگر اسے خاموش پا کر پھر سلسلہ کلام وہی سے جوڑا۔

"زندگی کبھی بھی تمہارے ساتھ فیئر نہیں رہی اردشیر، اس بات کا تم سے زیادہ مجھے رنج ہے، دکھ ہے۔ مگر بیٹا جو ہم نے، اور تم نے کیا اس معصوم لڑکی کے ساتھ تو کیا وہ صحیح تھا؟

کیا مریم یہ ڈیزرو کرتی تھی؟

مانتا ہوں کے اسے ہم نے تم پر تھوپنے کی کوشش کی، اس لیئے نہیں کے وہ زمانے کے سامنے ہماری عزت بچائے گی بلکہ اس لیے کے وہ تمہارے ٹوٹے دل کو جوڑے گی۔

وریشہ میرے ابا کی پسند تھی تمہارے لیے بیٹا، ان کی نظر شاید اپنوں کی محبت نے اس قدر دھندلا دی تھی کے وہ اس لڑکی کے اندر پل رہی بغاوت کو پہچان نہ پائے اور غلط فیصلہ کر بیٹھے۔

اور میں تو کہتا ہوں کے اچھا ہوا اس کا اصل رنگ شادی سے قبل سامنے آگیا تھا ہمارے، ورنہ اگر شادی کے بعد وہ ایسی نکلتی تو۔۔۔۔"

"ڈیڈ"۔ اس سے قبل کے وہ مزید کچھ کہتے اردشیر نے انہیں ٹوک دیا۔

عثمان صاحب نے نگاہیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تو ان کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔

شدت جذبات سے غازی اردشیر کا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا۔

زور سے اس نے مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔

بھوری آنکھوں میں پڑتے سرخ ڈورے اس کے ضبط کے گواہ تھے۔

اس کی تکلیف اور اذیت کو دیکھ کر ایک پل کو عثمان صاحب کا دل کیا کے وہ اس سے مزید کچھ نہ کہے۔

مگر اب زندگی ایک ایسے موڑ پر آ رکی تھی کے جہاں غازی اردشیر کو طوعا یا کرہا اپنے ماضی کا سامنا کرنا ہی تھا۔

"میں جانتا ہوں تم اس وقت کن اذیتوں سے گزر رہے ہو۔ مگر اردشیر آج تم اپنے ماضی سے نہیں بھاگو گے۔ آج تمہیں اپنے ماضی کا سامنا کرنا ہے بیٹا، تم میرے بہادر بیٹے ہو، اپنے ماضی کو خود کو یوں کنٹرول کرنے نہیں دے سکتے"۔ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کے انہوں نے دباؤ بڑھایا۔

اردشیر نے ان کی بات پر لب بھینچ لیئے۔

ایک پل کو اس نے آنکھیں بند کر لیں۔

چھن سے مہرماہ کا ہنستا مسکراتا چہرہ اس کی آنکھوں میں آ سمایا۔

اور اس پل وہ اپنی ہر تکلیف بھول گیا۔

چند لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔

اب نہ تو غصہ تھا اور نہ کوئی تکلیف۔

"ٹھیک ہے ڈیڈ، اگر ایسا ہے تو ایسا ہی سہی"۔ پر اعتماد لہجے میں کہا۔

عثمان غازی نے اس کا شانہ تھپکا۔

"مریم کو اپنا لو، فیصلہ کر لو اردشیر ابھی اسی پل۔۔۔کیونکہ دو گھنٹے بعد وہ یہاں پہنچنے والی ہے۔ اور میں اس سے انصاف کرنے کا وعدہ کر چکا ہوں"۔

انہوں نے ایک دھماکہ کیا تھا۔

اور اس دھماکے نے غازی اردشیر کے وجود کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔

ایک بار پھر ماضی اس کا امتحان لینے آ رہی تھی۔

اس کا وجود بھربھری مٹی کی مانند ڈھے گیا تھا۔

________________________________

وہ گھٹنوں پر سر رکھے، بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے بے آواز رو رہی تھی۔

اس کا وجود ہچکیوں کی زد میں تھا۔

دایاں ہاتھ جلنے کی وجہ سے بے تحاشا سرخ پڑ رہا تھا۔

جس پر کوئی دوا لگانے کا اسے ہوش ہی نہ رہا۔


جب تکلیف اندرونی ہو اور چوٹ دل پر لگی ہو تو بیرونی اور بظاہر چوٹیں اتنی اذیت نہیں دیتیں۔


اپنی اب تک کی زندگی میں شاید ہی کبھی وہ اتنا روئی ہوگی پہلے۔


آہستگی سے چلتا ہوا وہ کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آ کھڑا ہوا۔

جہاں وہ صوفے پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔

بلال کو اس پل شدت سے غصہ آ رہا تھا اپنے آپ پر۔

کچھ سوچ کر وہ چلتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا۔


آہٹ پر مہک نے سر اٹھایا۔

مسلسل رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سوج گئیں تھیں۔

ناک اور گال سرخ پڑ رہے تھے۔


بلال کے دل کو کچھ ہوا تھا۔

اسے سخت شرمندگی نے آن گھیرا۔


"دیکھو، تم۔۔۔۔"


"ایک لفظ اور نہیں بلال جہانزیب، انف از انف"۔ اس کی بات قطع کرکے وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے مقابل آ گئی۔


بلال نے لب بھینچ کر بے بسی سے اسے دیکھا۔


"اب بھی تمہیں کچھ کہنا ہے؟ اب بھی کچھ رہ گیا ہے؟

کوئی انسلٹ؟ کوئی طنز؟ کوئی تحقیر باقی رہ گئی ہے تو وہ بھی نکال دو۔ فائنلی تمہیں موقع ملا ہے"۔

اس طنزیہ انداز نے بلال کو مزید شرمندہ کردیا۔


"ایک لڑکی جو اپنوں سے دور، تمہارے ساتھ یہاں دیار غیر میں ہے تو کیا تمہیں سرٹیفیکیٹ مل گیا ہے اسے ستانے کا؟ اسے ہر پل ٹارچر کرنے کا؟ ہر طرح کی اذیت دینے کا؟۔

آخر کیا ہوں میں تمہاری نظر میں؟

کیا اہمیت ہے، حیثیت کیا ہے میری؟"۔ غصے کے باوجود بھی اس کی آنکھیں مسلسل برس رہی تھیں۔

وہ بار بار بے دردی سے اپنے آنسو رگڑتی اور آنکھیں پھر بہنے لگتیں۔


"کیا اسے اتنی تکلیف پہنچی ہے؟"۔ بلال کے دل نے پھر سوال اٹھایا۔

جبکہ وہ مزید گویا ہوئی۔

"تمہارے جیسا خود غرض اور بد لحاظ انسان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا، کیا سمجھتے ہو خود کو تم؟ اور کیا سوچ کر مجھے تم نے اتنی باتیں سنائیں۔ جبکہ غلطی میری بس اتنی ہی تھی نا کے میں تمہارا خیال رکھ رہی تھی۔

یو نو واٹ، تم یہ سب ڈیزرو ہی نہیں کرتے۔ میری کیئر تم ڈیزرو نہیں کرتے۔

میرا کنسرن تم ڈیزرو نہیں کرتے۔

میری محبت کے تم لائق ہی نہیں ہو"۔

وہ بلا ارادہ ہی سب بولتی چلی گئی اور اسے احساس بھی نہیں ہو رہا تھا کے وہ کیا کہہ گئی ہے اور کس کے سامنے کہہ گئی ہے۔

"غلطی میری بس اتنی ہی تھی کے میں نے تم سے شادی کر لی بلال جہانزیب۔

اور اس غلطی کا جو خمیازہ تم نے مجھے بھگتنے پر مجبور کیا اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کے تم سے شادی کا فیصلہ، جذباتیت میں ہی سہی، مگر میری زندگی کا سب سے برا اور بے تکا فیصلہ تھا۔

تم میری سب سے بڑی اور ناقابل تلافی غلطی ہو بلال۔

جسے افسوس کے ساتھ مگر اب میں ری سائیکل نہیں کر سکتی"۔ ایک ایک کر کے اس کا ہر لفظ بلال کے دل میں تیر کی طرح چبھا تھا۔

اس کا چہرہ مارے ضبط کے سرخ پڑ گیا تھا۔

جبکہ مہک اپنے آنسو رگڑتی ہوئی تیزی سے اس کے سائیڈ نکل کر کمرہ بند ہو گئی تھی۔

"محبت کا اظہار کیا بھی تو کیسے مہک بی بی، الفاظ کی مار سے۔ میں بہت جلد تم پر یہ ثابت کر دوں گا کے میں تمہاری غلطی نہ تھا اور نہ ہوں۔ میں تمہیں منا لوں گا"۔ دل میں اٹھتے درد اور اذیت کے باوجود بھی وہ مسکرا رہا تھا۔

ہاں اب بھی کچھ نہیں بگڑا تھا۔

اب بھی سب کچھ ٹھیک ہو سکتا تھا ان کے بیچ۔

بلال کو یقین تھا!

اور اس کا یقین کچھ اتنا غلط بھی نہ تھا۔

___________________________________

وہ افشاں بیگم کی گود میں سر رکھے آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی۔

لگ رہا تھا جیسے کئی سالوں بعد اب جا کر اسے یہ سکون پھر نصیب ہوا ہے۔

ماں کی ممتا، باپ کی شفقت اور بہن کا پیار۔

آج صحیح معنوں میں مہرماہ کو لگا کے وہ مکمل ہو گئی ہے۔


"پتہ ہے امی، میں نے آپ سب کو بہت مس کیا"۔ وہ کوئی پانچویں بار یہ بات دہرا رہی تھی۔


اور افشاں بیگم جو نرمی سے اس کے بال سہلا رہی تھیں۔

اثبات پر وہ مسکرا اٹھیں۔


"اچھا اب تم آ گئی ہو تو کم از کم ایک ماہ یہی رک جاؤ۔ اپنے سسرال فون کر کے بتا دو"۔ افشاں بیگم نے محبت سے کہا۔

جس پر مہرماہ نے پٹ سے آنکھیں کھول لیں۔


جبکہ کچن میں چائے بناتی زرش ان کی بات پر ہنس دی۔


"اب ان کا پیا کے بغیر دل کہاں لگے گا ہمارے پاس میری پیاری اور بھولی امی جان"۔ اس کا انداز صاف چڑانے والا تھا۔

اور مہرماہ چڑ بھی گئی۔

وہ ایک جھٹکے سے اٹھی۔

"کیا کیا کیا؟ رک تو زرا میں ابھی تیرا بھی بندوبست کرکے چلتا کرتی ہوں تجھے اس گھر سے"۔ آستینیں چڑاتے ہوئے اپنی جھینپ مٹانے کو وہ اس پر چڑھ دوڑی۔

افشاں بیگم مسکراتی ہوئی دونوں کو ہی دیکھ رہی تھیں۔

زرش نے اسے گھوری سے نوازا۔

"میں اتنی جلدی کہیں نہیں جانے والی۔ ارے ابھی تو میں خالہ بھی نہیں بنی"۔ ایک اور حملہ کیا۔

اثبات پر مہرماہ کا چہرہ شرم سے سرخ پڑ گیا۔

"امی جی، دیکھیں نا اسے"۔ سرخ چہرہ اس نے افشاں بیگم کے آنچل میںچھپا لیا۔

جبکہ اس کی بات اور انداز پر دونوں ہی ہنس پڑیں۔

ٹرے میں چائے کا کپ سجائے زرش لاؤنج میں آگئی۔

"دیکھیے تو امی، ہماری مہرو شرمانہ بھی سیکھ گئی ہے۔ ہمیں پتہ ہوتا کے اردشیر بھائی تمہیں یہ آداب اتنی جلدی سکھا دیں گے تو ہم پہلے ہی تمہیں ان کے حوالے کر دیتے"۔

اردشیر کا نام سن کر اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔

"زرش بعض آ جاااا"۔

پاس پڑا کشن اٹھا کر اس نے زرش کو کھینچ مارا۔

جبکہ اس نے بروقت سر جھکا لیا اور کشن اس کے سر کے اوپر سے نکل کر مین دروازے سے اندر آتی ہستی کے ہاتھوں میں آن ٹھہرا۔

"یہ کیا ڈبلیو-ڈبلیو-ایف چل رہا ہے یہاں؟"۔ برہان کشن تھامے ان کی جانب چلا آیا۔

"ارے برہان بیٹا تم، آؤ نا یہ لڑکیاں بھی بس"۔ افشاں بیگم نے برہان کو مخاطب کرتے ساتھ ہی مہرو اور زرش کو ایک عاد گھوری بھی دی۔

"اب یقین ہو گیا ہے کے یہ میری پرانی والی ماں ہی ہیں"۔ مہرماہ زرش کے کان میں منمنائی تو زرش نے منہ پر ہاتھ رکھ کے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا۔

"ارے واہ چائے کا دور چل رہا ہے"۔ حسب عادت وہ بلا تکلف کے زرش کے ساتھ والے سنگل صوفے پر ٹک گیا اور اس کے سامنے رکھا چائے کا کپ اچک کر ایک گھونٹ بھرا۔

زرش نے دانت پیس کر اسے گھورا۔

مگر مقابل بھی برہان تھا۔

"آہاں، امیزنگ۔ بھئی یہ چائے کس نے بنائی ہے دل چاہتا ہے اس ہستی کو اٹھا کر گھر ہی لے جاؤں۔ تاکہ روز میرے لیئے ایسی کڑک چائے بنایا کرے"۔ اس کا اشارہ صاف زرش کی جانب تھا۔


"ہے نا، بھئی ہماری زرش کے ہاتھ کسی بھی کھانے کو لگ جائیں تو وہ اتنا ہی ذائقہ دار ہو جاتا ہے"۔ افشاں بیگم بنا اس کی بات کی گہرائی جانچے زرش کی تعریف میں رطب السان تھیں۔


ان کی بات پر زرش نے جھینپ کر چہرہ جھکا لیا۔


"ہاں ہاں، لے جائیں برہان بھائی اسے، ہماری طرف سے اجازت ہے"۔ مہرماہ نے بدلہ چکایا۔

زرش اسے گھور کر رہ گئی۔

جبکہ برہان نے دلچسپی سے زرش کو دیکھا۔


"ہم تو تیار بیٹھے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے"۔ برہان نے زیر لب آہستگی سے کہا۔

مگر زرش اور مہرماہ تک اس کی آواز بخوبی پہنچ گئی۔


"آہم آہم"۔ مہرماہ نے گلا کھنکھار کر انہیں متوجہ کیا۔


"اا۔۔۔اب ہاں میں وہ۔۔۔بھابھی سے ملنے آیا تھا"۔ برہان نے گڑبڑا کر اپنے آنے کی وجہ بتائی۔


"کوئی خاص بات؟"۔ مہرماہ نے سنجیدہ ہونے کی ناکام کوشش کی۔


"اب بھئی شیرو نے خاص ہدایت کی تھی کے میں بذات خود آ کر آپ کو اس کا پیغام دوں"۔ برہان نے تینوں خواتین کی جانب دیکھتے ہوئے بتایا۔

جبکہ زرش کو نا ختم ہونے والی کھانسی کا دورہ پڑ گیا یہ بات سن کر۔

مہرماہ نے اسے گھورا۔


"کون سا پیغام بیٹا؟"۔ افشاں بیگم نے پوچھا۔


"یہی کے مہرماہ بھابھی اگر چاہیں تو کچھ دن یہاں آپ لوگوں کے ساتھ گزار سکتیں ہیں۔ آخر کو بہت دنوں بعد ملی ہیں اپنے گھر والوں سے، اور کافی یاد بھی کرتی رہی ہیں آپ سب کو"۔ برہان نے ایک اچھے دوست کا فرض نبھاتے ہوئے اردشیر کی طرف بڑھتے طوفان کا رخ کچھ دنوں کیلئے موڑ دیا تھا۔


کیونکہ وہ جانتا تھا کے اگر مہرماہ اور مریم آمنے سامنے آ گئے تو اردشیر کو متوقع نقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔

یہ آئیڈیا بھی اسی نے اردشیر کو دیا تھا کے وہ مہرماہ کو چند دن کیلئے اس کے ماں باپ کے گھر رہنے دے تاکہ اس طرح مریم کے ساتھ در پیش معاملات کو ہینڈل کیا جا سکے۔


"ہوں، کسی کو کسی کا بہت خیال ہے"۔ زرش نے مہرماہ کو ایک ٹہوکا مار کر شرارت سے کہا۔

تو وہ جھینپ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔

جبکہ افشاں بیگم کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔


"سچ، اسے واقعی بہت خیال ہے مہرو کا۔ جہانزیب صاحب اور باقی گھر والے بھی یہی چاہتے تھے کے مہرماہ کچھ دن یہی ٹھہر جائے۔ ابھی تو اسے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں ہم نے"۔ انہوں نے محبت سے مہرو کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔

تو بے اختیار برہان نے شکر کا سانس لیا کے سب بہت آسانی سے ہو گیا تھا۔


"یہ بات وہ کال کر کے بھی کہہ سکتے تھے"۔ مہرماہ نے خفگی سے کہا۔

وہ یہاں نہیں تھا مگر مہرماہ کا دل اسے دیکھنے، اس سے بات کرنے کو مچل رہا تھا۔

اور وہ ٹھہرا صدا کا بے نیاز اور اکھڑ۔

یہ مہرماہ کا ہی اس کے متعلق خیال تھا۔


اور اس سے قبل کے برہان مزید سوالوں میں گھرتا عین اسی پل مہرماہ کا موبائل بج اٹھا۔

اسکرین پر جگمگاتا نام دیکھ کر اس کے چہرے پر قوس و قزح کے رنگ بکھر گئے۔


"معذرت کے ساتھ۔۔۔میں زرا کال سن لوں"۔ ان سے معذرت کر کے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔


اور پیچھے وہ سب جانتے تھے یہ "خاص کال" کس شخصیت کی تھی۔

جبھی اس کی بات پر مسکرا کر رہ گئے۔

"لو جی، اب باقی سوال جواب آپ لوگ اپنے داماد سے کر لیجیے گا میں چلا آفس"۔ چائے کا کپ خالی کر کے رکھتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"اور جہانزیب انکل کہاں ہیں؟ نظر نہیں آئے؟"۔ اس نے اٹھتے ہوئے ارد گرد نگاہیں دوڑائی تو جہانزیب صاحب کی کمی محسوس کر کے پوچھا۔

"وہ ابھی کچھ دیر قبل اپنے دوست کی عیادت کو گئے ہیں"۔ افشاں بیگم نے جواب دیا۔

"اچھا چلیں، ان کو میرا سلام کہیے گا اور اب تو آنا جانا لگا ہی رہے گا"۔ کوٹ درست کرتے ہوئے اس نے زرش کی جانب دیکھ کر ذو معنی بات کہی۔

تو وہ جو میز سے کپ سمیٹ رہی تھی اثبات پر اسے بس گھور کر رہ گئی۔

"ضرور بیٹا، کیوں نہیں آتے جاتے رہا کرو اچھا لگتا ہے"۔ افشاں بیگم کو یہ سعادت مند سا نوجوان بے حد بھایا تھا۔

وہ ان سب کو اللہ حافظ کہہ کر نکل گیا۔

جبکہ زرش اس کی باتوں کو سوچ کر آپ ہی آپ مسکراتی رہی۔

________________________________

شام کے سائے ہر سو پھیل رہے تھے۔

شہر کراچی میں اب بھی موسم سرما کی یخ بستہ ہواؤں کا راج تھا۔

البتہ دن کے وقت سردی اب نا ہونے کے برابر تھی۔

سفید شلوار قمیض میں ملبوس آستینوں کا کف موڑے وہ اس وقت شل سے وجود کے ساتھ اپنے کمرے سے ملحقہ بالکونی میں راکنگ چیئر پر براجمان سگریٹ پھونک رہا تھا۔

تین ماہ قبل بھی وہ اسی جگہ، اسی وقت موجود سگریٹ پی رہا تھا جب وہ شناسا سی اجنبی لڑکی اس کے دماغ میں کلک ہوئی تھی۔

اور اگلے دن وہ اسے اسی کی شادی سے اٹھا لے گیا۔

وقت جیسے تین ماہ پیچھے چلا گیا تھا۔

آج بھی وہی جگہ تھی۔

وقت وہی تھا۔

وہ ویسے ہی پریشان حال سا سگریٹ پھونک رہا تھا۔

نگاہوں کے سامنے اسی جل پری کی شبیہہ تھی۔

اور بائیں کان کے ساتھ لگائے موبائل پر وہ تھی۔


"نہیں بیگم صاحبہ ایسی کوئی بات نہیں، بس کام تھوڑا زیادہ ہو گیا تھا۔ آنا چاہتا تھا مگر آ نہیں سکا اس لیے برہان کو وہاں بھیج دیا"۔ کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موندے وہ اسے اپنے نہ آنے کی وجہ سمجھا رہا تھا۔

اب وہ اسے کیسے بتاتا کے حالات نے اسے جکڑ کر کیسے بے بس کر دیا تھا۔

لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ اس وقت اس سے مل نہیں سکتا تھا۔ اسے ایک نظر دیکھ نہیں سکتا تھا۔

کیونکہ اگر اسے دیکھتا تو اس کیلئے غازی اردشیر کو اپنا آپ بھی اسے دکھانا پڑتا۔


اور اس وقت جو اس کی حالت تھی وہ نہیں چاہتا تھا کے مہرماہ اسے اس کنڈیشن میں دیکھ کر پریشان ہو جائے۔


چند لمحوں کیلئے دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی۔

اردشیر آنکھیں موندے بس اس کی خاموشی کو سن رہا تھا۔

اس پل اس کا دل کیا کے وقت یہی رک جائے۔

"اردشیر"۔ مہرماہ کی بے چین آواز ابھری۔

"ہوں"۔ آنکھیں موند کر وہ مسلسل راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا۔

"آئی مس یو"۔ مہرماہ کا لہجہ اس کے الفاظ کا عکاس تھا۔

اردشیر ٹھہر گیا۔

"تو آخر وہ دن آ گیا جب مسز مہرماہ نے یہ اعتراف کیا"۔ ایک دم ہی جیسے اس کے ارد گرد سے اندھیرے چھٹ گئے تھے۔

اور وہ اپنی پریشانی کو چند لمحوں کیلئے بھول گیا۔

"کر لیجیے طنز، اجازت ہے آپ کو"۔ منہ بنا کر کہا۔

اس کی بات پر وہ ہنستا چلا گیا۔

"ہماری ایسی مجال ہے جو ہم یہ گستاخی کریں"۔ اس کا دل ایک دم ہی پر سکون اور شانت ہو گیا تھا۔

"تمہیں پتہ ہے مہرماہ، جادو کی چھڑی ہو تم۔۔۔دی میجک اسٹک"۔ احمریں لبوں پر دلچسپ مسکراہٹ رقصاں تھی۔

"اچھا، اور وہ کیسے؟"۔ اس نے بھی بے تکا سوا پوچھا۔

"وہ ایسے کے تم میجک اسٹک کی طرح گھومتی ہو اور مقابل کا موڈ بدل سکتی ہو۔ رونے والے کو ہنسا سکتی ہو۔ غصے کو غائب کر دیتی ہو، پریشانی سے آزاد کر سکتی ہو"۔ اس کے بے کار سوالوں کے بھی وہ بہت دلچسپی اور توجہ سے جواب دیتا تھا۔

"بس بس بس، اتنی تعریف کریں گے تو میرا یہاں ٹھہرنا مشکل ہو جائے گا"۔ اس نے غصے سے ٹوک دیا۔

"ہوں، پھر تو اور زیادہ تعریف کرنی پڑے گی، تاکہ تم میرے پاس بھاگی چلی آؤ"۔ اس کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا۔

"یاد آ رہی میری؟"۔ وہ فخریہ پوچھ بیٹھی۔

"کوئی حساب ہے؟"۔ وہ الٹا اسی سے پوچھ رہا تھا۔

"جھوٹ، اگر اتنی ہی یاد آتی تو آپ مجھے لینے آتے یا کم از کم ملنے ہی آ سکتے تھے۔ پر نہیں، اب لفاظی محبت جتا کر میرا دل جیتنے کی کوشش کر رہے۔۔۔ہونہہ"۔ اس کی سوئی پھر وہی اٹکی۔

اردشیر نے سرد آہ بھری۔

"تم ہی تو کہہ رہی تھی کے میں نے تمہیں تمہاری فیملی سے دور کر دیا، ان کی یاد آ رہی ہے۔ اب جب کہہ رہا ہوں کے چند دن ان کے ساتھ رہو تو پھر بھی ناراض۔۔یار تم بیویاں اتنی مشکل کیوں ہوتی ہو؟"۔ بے چارگی سے کہا۔

"کوئی مشکل نہیں ہوتیں، آپ شوہر حضرات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے"۔ دوبدو جواب دیا۔

"مہرماہ، بیٹا آؤ کھانا کھا لو"۔ اسی لمحے پیچھے سے افشاں بیگم کی آواز پڑی۔


اردشیر خاموشی سے سنتا رہا۔


"نہیں کھانا مجھے"۔ تڑخ کر جواب دیتے ہوئے دانستہ اسے سنایا اور بنا مزید اس کی سنے کال بند کر دیا۔


اردشیر نے بے بسی سے موبائل اسکرین کو دیکھا۔

خالی اسکرین اس کا منہ چڑا رہی تھی۔


"آہ۔۔۔کیسے سمجھاؤں تمہیں مہرماہ؟۔۔۔۔کیسے؟"۔ تھک کر اس نے پھر کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا۔

________________________________

بیڈ پر ارد گرد اس کے کپڑے اور دیگر سامان بکھرے پڑے تھے۔

جنہیں وہ نفاست سے بیگ میں سیٹ کر رہی تھی۔

آہٹ ہوئی پر اس نے پھر بھی سر نہیں اٹھایا۔

کیونکہ بن دیکھے بھی آنے والے کو اس کی آہٹ سے وہ پہچان سکتی تھی۔

وہ آہستگی سے چلتا ہوا بیڈ کی جانب آیا۔

اور پشت مریم کی جانب کرکے وہ بستر پر ٹک گیا۔

اب صورتحال یہ تھی کے مریم کو نہ تو اس کا چہرہ نظر آ رہا تھا اور نہ اس پر لکھا درد۔

"جا رہی ہو؟"۔ تھکے تھکے سے لہجے میں پوچھا۔

مریم نے ہاتھ روک کر اس کی پشت کو دیکھا۔

"جی"۔ تصدیق کرکے وہ پھر مصروف ہو گئی۔

"کیوں؟ جبکہ جانتی بھی ہو کے وہاں تمہارا کیا مقام ہوگا؟"۔ اس کے لہجے میں کرب تھا۔

اپنے لیئے نہیں۔۔۔۔مریم کیلئے!

کیونکہ وہ جانتا تھا کے وہاں جا کر بھی اسے اذیت ہی ملے گی۔

"میں اپنے رب سے نا امید نہیں ہوں۔ اور اب وقت وہ نہیں رہا۔ نہ تو میں اٹھارہ برس کی لڑکی ہوں اور نہ ہی وہ اکیس سالہ نوجوان۔ مجھے یقین ہے اس کے دل میں محبت نہیں تو کم از کم احساس ذمہ داری پیدا ہو گئی ہے"۔ نہ جانے وہ اسے تسلی دے رہی تھی یا اپنے آپ کو۔

وجاہت تلخی سے مسکرا دیا۔

"آئی وش کے وہ بدل گیا ہو، تمہاری قدر پہچان گیا ہو"۔ حسرت آمیز لہجے میں اس نے کہا۔

مریم چند لمحے کچھ بول ہی نہ سکی۔

"مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا، میں وہاں جا رہی ہوں تو محض اس لیے کیونکہ یہ میری ماں کی خواہش تھی۔ آپ جانتے ہیں نا انہوں نے میری ڈائری میں کیا لکھا تھا؟

وہ یہی چاہتی تھیں کے میں ماموں جان سے رابطہ کروں اور اپنے 'اصل گھر' چلی جاؤں۔

شاید انہیں پتہ چل گیا تھا وجاہت کے ان کا وقت عنقریب ہے"۔ ماں کے ذکر پر اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔

وہ اندر ہی اندر ڈھے رہی تھی مگر اسے یہ کرنا تھا۔

"اسی لیئے تو تمہیں نہیں روک رہا مریم، کیونکہ یہ تمہاری ماں کی خواہش تھی کے تم اپنے گھر کی ہو جاؤ۔

اور صحیح بھی ہے نا، تمہارا اصل گھر اور اصل رشتے تو وہی لوگ ہیں"۔ اس کے لہجے میں دکھ کا عنصر نمایاں تھا۔

وہ چاہ کر بھی خود کو مضبوط نہیں ظاہر کر پا رہا تھا۔

مریم کیلئے خاصا مشکل امر تھا۔

اس جیسے مضبوط انسان کو یوں بکھرتے دیکھنا۔

"خیر، تم جب تیار ہو جاؤ تو مجھے آواز دے دینا۔ میں انتظار کروں گا"۔ اتنا کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

اور بنا اس کی جانب دیکھے یا نظریں ملائے وہ اٹھ کر چلا گیا۔

مریم بے بسی سے اسکی پشت تکتی رہ گئی۔

یہ خاموش محبت بھی زہر ہلاہل سے کم نہیں۔

مارتی تو ہے مگر۔۔۔۔۔تل تل کر کے!

________________________________

وہ بستر پر لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی۔

کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔

اس کے پیٹ میں چوہے، بلی کرکٹ کھیل رہے تھے۔


"اووفف، کس سے دل لگا لیا مہرو تو نے۔۔۔اب بھگت"۔ وہ خود کو کوسنے دیتی خود اذیتی کی انتہا پر تھی۔


بھوک اس کی کمزوری تھی۔

وہ ہر چیز کے بغیر رہتی تھی مگر کھانے پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی تھی۔


اور اب اس بے نیاز، بے پراہ اور بد لحاظ شخص کیلئے وہ بنا کھائے ہی سونے کیلئے لیٹ گئی تھی۔


"کتنا کہا سب نے، مگر میں نے ایک نہیں سنی"۔ رہ رہ کر اسے خود پر غصہ آ رہا تھا۔


تبھی اچانک اس نے کسی کے قدموں کی آہٹ سنی جو کمرے سے ملحقہ بالکونی سے آ رہی تھی۔

مہرماہ حواس باختہ ہو کر جھٹکے سے بستر پر اٹھ بیٹھی۔

"یہ کیا تھا؟ کیا۔۔۔کوئی چور؟"۔ تھوک نگل کر اس نے اندھیرے میں اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں۔

اور بستر سے اتر آئی۔

بنا سلیپرز پہنے وہ ٹھنڈے ٹھار فرش پر بے آواز چلتی ہوئی بالکونی کے دروازے کی اوور بڑھنے لگی۔

مگر اس سے قبل ڈریسنگ میز سے اندازے کے مطابق جو بھی چیز پہلے ہاتھ میں آئی وہ تھام لیا۔

ایک جھٹکے سے اس نے بالکونی کا دروازہ کھولا۔

اور اندھیرے میں سیاہ ہیولے کو دیکھ کر ابھی چیخنے ہی والی تھی کے اس شخص نے اس کے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھ کر دبایا۔

مہرماہ سکتہ زدہ سی رہ گئی۔

وہ مکمل طور پر کسی کی فولادی گرفت میں تھی۔

"میرے خیال سے آج اپنے شوہر کو مار کر آپ نے بیوہ ہونے کا من بنا ہی لیا تھا۔۔۔مگر دیکھو، اپنے خدا کو میں کتنا عزیز ہوں"۔ آواز جانی پہچانی سی تھی۔

"چیخنا مت ہاتھ ہٹا رہا ہوں"۔ کہتے ہوئے اس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے منہ پر سے ہٹایا۔

تب مہرماہ کو ہوش آیا اور ایک جھٹکے سے مڑی۔

بنا ایک لمحہ ضائع کیئے ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے گال پر رسید کر دیا۔

اردشیر کو اس حرکت کی توقع ہی کب تھی۔

وہ گنگ رہ گیا۔

اسٹریٹ پولز کی سنہری روشنی میں وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔

مہرماہ بری طرح ہانپتی ہوئے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔

"اب آ رہے ہیں آپ؟ اب آئی ہے میری یاد؟"۔ درشتی سے کہتے اس نے اس کا گریبان پکڑ لیا۔

اردشیر نے اس وقت کو کوسا جب اسے یہاں اس طرح آنے کا آئیڈیا آیا تھا۔

___________________________________

اردشیر نے گہری سانس کھینچی۔

پھر اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھام لیا۔


"کیا ہو گیا ہے مہرماہ؟ آخر ایسا بھی کیا ہو گیا جس پر تم اتنا شدید رد عمل ظاہر کر رہی ہو؟"۔ وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا۔


اور بس۔۔۔؟؟

ایک لمحہ لگا تھا مہرماہ کو پگھلنے میں۔

آہستگی سے اس نے اس کا گریبان چھوڑ دیا۔

پھر کچھ ڈھیلی پڑی۔


"آئم سوری، پر آپ۔۔۔۔ایک تو آپ رات کے اس پہر یہاں اس طرح آئے تو میں ڈر گئی۔ اور اوپر سے مجھے بھوک الگ ستا رہی ہے۔"۔ اس نے جھنجھلا کر کہتے ہوئے اپنی پریشانی بتائی۔


تو اس کی اثبات پر اردشیر کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔


"اچھا چلو ابھی چلتے ہیں کسی ریسٹورنٹ"۔ اس نے فیصلہ کیا۔


مہرماہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"ابھی؟۔۔۔۔ابھی تو بارہ بج رہے ہیں۔ اس وقت تک تو بند ہو جاتی ہیں ساری ریسٹورنٹس"۔ وہ مایوس ہونے لگی۔

مارے بے بسی کے رونا آ رہا تھا۔


"اوہو، یہ کوئی سنڈریلا کی کہانی تھوڑی ہے کے بارہ بجتے ہی پارٹی اوور، یہ کراچی ہے اور یہاں دن ابھی شروع ہوا ہے۔ چلو"۔ اردشیر نے اس کے خیالات رد کیے اور اس کا ہاتھ تھامے کمرے میں کھینچ لایا۔


"اوکے، ہم ابھی چلتے ہیں"۔ وہ فورا رضامند ہوئی۔


تو اردشیر نے اثبات میں سر ہلا کر کمرے کا دروازہ کھول دیا۔


"لیکن، ان کپڑوں میں؟"۔ اس نے منہ بنا کر پنک ٹراؤزر اور ٹی-شرٹ کی جانب اشارہ کیا۔

اردشیر نے انگلی گال تلے رکھ کے بغور اس کا جائزہ لیا۔

بھورے لمبے بال الجھے اور بے ترتیب سے بکھرے پڑے تھے۔

چہرے پر کوفت اور بے زاری چھائی تھی۔


وہ زیر لب مسکرا دیا۔

"کچھ نہیں ہوتا، میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔ اور میری بیگم ہر ڈریس میں کمال لگتی ہے"۔ انگشت شہادت سے اس کا رخسار چھو کر کہا۔

تو مہرماہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔


پھر سیاہ رنگ کی لیڈیز شال اپنے گرد اچھی طرح لپیٹی اور بال سنوار کر وہ جانے کیلئے تیار تھی۔


وہ دونوں ہاتھ تھامے بنا کوئی چاپ یا آہٹ پیدا کیے گھر سے باہر نکل آئے۔

______________________________


کچن سے مسلسل برتنوں کے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔

کوفت زدہ ہو کر مہک نے پلکیں وا کیں تو سر بے حد بھاری ہوتا محسوس ہوا۔

رات بھر وہ روتی رہی تھی۔

اور پھر روتے روتے جانے کب یونہی سو گئی تھی۔


وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی اور سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

تبھی قدموں کی چاپ پر اس نے سر اٹھایا۔


کھانے کی ٹرے تھامے وہ اس کی جانب چلا آیا۔

سیاہ ٹراؤزر اور سفید شرٹ کے ساتھ وہ رف سے حلیے میں تھا۔


"گڈ مارننگ، اوہ بلکہ نہیں گڈ نون مادام"۔ ہلکے پھلکے انداز میں کہتا ہوا وہ بستر پر اس کے سامنے ٹک گیا۔


مہک نے کوفت سے اسے دیکھا اور بے رخی سے منہ پھیر لیا۔


بلال کے دل کو دھچکا لگا مگر وہ سنبھل گیا۔


"جاؤ منہ ہاتھ دھو کر فریش ہو آؤ پھر کھانا کھاتے ہیں۔ تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا"۔ وہ فکرمندی سے گویا ہوا۔


مہک نے نگاہیں موڑ کر تیکھے چتونوں سے اسے گھورا۔

"میں آپ کی ملازمہ نہیں ہوں جو آپ کا حکم بجا لاؤں"۔ وہ چڑچڑی ہوئی۔


بلال برا مانے بغیر مسکرا دیا۔


"بے شک، تم میری بیوی ہو اور میں اپنی بیوی سے محبت جتا رہا ہوں، حکم نہیں سنا رہا"۔ وہ اسی نرمی سے مخاطب ہوا۔


مہک کا دل اس کے طرز تخاطب پر زور سے دھڑکا۔

مگر چہرے پر ہنوز اس نے بیزاریت طاری کر رکھی۔


"تمہیں کیا لگتا ہے کے ایسے چند الفاظ بول کر تم میرا دل اپنے لیے صاف کر لو گے؟ ہرگز نہیں، تمہیں تو نفرت ہے نا مجھ سے؟ میرے وجود سے بھی؟ تو اب یہ دکھاوا کیوں؟"۔ وہ تلخ ہوئی۔

بلال نے افسوس سے سر جھٹکا۔


"پلیز مہک، پرانی باتیں دہرانے سے رشتے صرف مزید خراب ہوتے ہیں، بہتر نہیں ہوتے۔ کیوں نا ہم نئی شروعات کریں۔

جب قسمت نے ہمیں ملوایا ہے تو کیوں نا اس کے لکھے کو دل سے قبول کر لیا جائے؟"۔ اس نے سمجھانا چاہا۔


"ہرگز نہیں، میری قسمت اتنی بری ہو سکتی ہے میں یہ کبھی نہیں مان سکتی۔ تم نے مجھے دیا ہی کیا ہے سوائے بے عزتی، حقارت اور ذلت کے؟

ہم دونوں میں کبھی کچھ بہتر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ میں اور تم دو الگ قسم کے لوگ ہیں۔

ہمارے خیالات، ہماری سوچ کچھ بھی ایک جیسا نہیں۔ تو ہم ایک کیسے ہوئے؟ ایک ہونے کیلئے کچھ مماثلت ہونا لازمی ہے دو فریقین میں۔ کیونکہ وہی مماثلت پھر ان دونوں کے رشتے کیلئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

جبکہ ہم دونوں میں کچھ بھی ایک جیسا نہیں ہے"۔ مہک نے بے رحمی سے کہہ کر منہ پھیر لیا۔


بلال نے لب بھینچ کر ضبط کے کڑے مراحل طے کیئے۔

پھر کچھ لمحے بعد گویا ہوا۔


"اچھا یہ سب باتیں بعد میں بھی ہم ڈسکس کر سکتے ہیں، ابھی تم کھانا کھاؤ"۔ اس نے نوالہ بنا کر اس کی جانب بڑھایا۔

مہک بنا کھائے اس کی جانب دیکھتی رہی۔


"پلیز"۔ وہ التجا کرنے لگا۔


بھوک تو خود مہک کو لگ ہی رہی تھی۔

اور ابھی اس نے نوالہ لینے کیلئے منہ کھولنا ہی چاہا تھا کے اس کا جی متلایا۔

اگلے ہی پل وہ اٹھ کر واش روم کی طرف بھاگی۔


بلال قدرے پریشان ہو گیا۔


پانچ منٹ بعد تولیے سے چہرہ پونچھتی ہوئی وہ نڈھال سی برآمد ہوئی۔


"کیا ہوا؟ تم ٹھیک تو ہو نا؟۔" پریشانی اس کے لہجے سے عیاں تھی۔


"ٹھیک ہوں میں۔ کیا ہونا ہے مجھے اتنی آسانی سے مر نہیں جاؤں گی۔ بہت سخت جان ہوں میں"۔ وہ آگ بگولہ ہو گئی۔


بلال نے آہ بھر کر بے بسی سے اسے دیکھا۔


"تمہیں مجھ سے جو شکایت ہے اس کی سزا مجھے دے دینا پھر کبھی، مگر فلحال چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ تم ٹھیک نہیں لگ رہی ہو"۔ اس کا زرد چہرہ دیکھ کر بلال نے نرمی سے اسے سمجھایا۔


"نہیں جانا ہے مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس۔ ٹھیک ہوں میں، کسی کی ضرورت نہیں مجھے"۔ وہ ایک دم بے گانہ ہو گئی۔


"تم چاہے کچھ بھی کہہ لو، مگر تمہیں اپنی صحت کے ساتھ میں کھلواڑ نہیں کرنے دوں گا۔ ہم جا رہے ہیں ڈاکٹر کے پاس، اینڈ دیٹ از اٹ"۔ اس نے بات ہی ختم کر دی۔


غصے سے اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔

کہا کچھ نہیں۔


"اپنا حلیہ درست کرو اور ڈریسڈ اپ ہو جاؤ، ہم ابھی چل رہے ہیں۔ میں بھی چینج کر کے آتا ہوں"۔ وہ اپنی کہہ کر بنا اس کی سنے ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔


پیچھے وہ غصے سے بل کھاتی رہ گئی۔

_________________________________


وہ دونوں اس وقت ایک کم درجے کے ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔

میز پر تین چار ڈشز ابھی کچھ لمحے قبل چن دی گئیں تھی۔


اور کم درجہ یہ اردشیر کے لحاظ سے تھا۔

البتہ مہرماہ جس بے صبری سے کھانا کھا رہی تھی یہ اس کیلئے غنیمت ہی تھا۔


ان دونوں کے علاوہ وہاں اکا دکا فرد بیٹھے نظر آتے تھے۔


وہ مٹھی گال تلے رکھے دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

جبکہ وہ ارد گرد سے بے نیاز مسلسل ٹھونستی جا رہی تھی۔


نظروں کی تپش تھی کے اس نے نگاہیں کھانے سے اٹھائیں تو اردشیر کو دیکھتے ہوئے اس کے سامنے دھری پلیٹ پر نظر گئی جو ابھی تک صاف چمچما رہی تھی۔


"آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟ گھور گھور کر مجھے نظر لگا رہے کیا؟"۔ نوالہ چبا کر اس نے ٹوکا۔


اردشیر اثبات پر مسکرا دیا۔


"مجھے بھوک نہیں، تم کھاؤ۔ اور کچھ چاہیئے؟"۔


"یہ اتنااا سب ابھی ویسا کا ویسا ہی پڑا ہے۔ اور آپ پوچھ رہے اور کھانا ہے کیا؟ آپ چاہتے میں موٹی ہو جاؤں؟ تاکہ آپ کو دوسری خواتین کے پاس جانے کا جواز مل جائے"۔ وہ اب خالص بیویوں والے سوال جواب پر اتر آئی۔


اردشیر کے چہرے پر تاریکی چھا گئی۔

"اگر مہرماہ کو مریم سے متعلق پتہ چل جائے"۔ اور اس سے آگے وہ اچھی طرح جانتا تھا کے مہرماہ کیا کرتی۔

وہ پہلی فرصت میں ہی اسے چھوڑ کر چلی جاتی اور "چھوڑ جانے کا" دکھ غازی اردشیر ایک مرتبہ بڑی مشکل سے جھیل پایا تھا۔

اب وہ خود کو اتنا مضبوط نہیں پاتا تھا کے مہرماہ کی جدائی بھی برداشت کر لیتا۔


"میں آپ سے مخاطب ہوں؟"۔ مہرماہ نے اس کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔


"ہاں۔۔۔کیا ہوا تم کیا کہہ رہی تھی"۔ انگشت شہادت سے کنپٹی سہلاتے ہوئے اس نے پوچھا۔

میگرین پھر شروع ہو چکا تھا۔


اب کے مہرماہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔


"اردشیر۔۔۔آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ کیا ہوا؟"۔ اس کے چہرے پر فکرمندی تھی۔


اور اگر وہ حقیقت سے آگاہ ہو جاتی تو کیا اسے تب بھی اردشیر کی اتنی ہی فکر ہوتی؟


وہ خود سے سوال کر رہا تھا۔

مگر جواب میں صرف خاموشی آئی۔


"آ۔۔ہاں میں ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے"۔ فورا سے پیشتر سنبھل کر اس نے جواب دیا۔


مہرماہ نے اثبات کا یقین کیا تھا یا نہیں مگر خاموش ہو گئی تھی۔


دس منٹ بعد ہی بل پے کر کے وہ دونوں ریسٹورنٹ سے باہر آ گئے۔


ریسٹورنٹ کے احاطے میں موجود چھوٹے سے باغیچے میں وہ دونوں اب ٹہلنے کے سے انداز میں ہم قدم تھے اور اپنی اپنی جگہ سوچوں میں گرفتار۔


"اردشیر"۔ خاموشی محسوس کر کے ہی مہرماہ نے اسے مخاطب کیا۔


"جی مادام سن رہا ہوں"۔ اس کا ہاتھ تھام کر چلتے ہوئے اس نے جواب دیا۔


"آپ کو کیسے پتہ کے میں کچھ کہنے والی ہوں؟"۔


"بھلے ہی ہمیں اور ہمارے ساتھ کو بہت زیادہ وقت نہ گزرا ہو مگر میں تمہاری ہر دھڑکن سے واقف ہوں مہرماہ۔ اور جب بھی تمہیں کوئی اہم بات کرنی ہوتی ہے تو یونہی تم بے چینی سے مجھے پکارتی ہو۔۔۔ہے کے نہیں؟"۔ گمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے آخر میں تائید چاہی۔


تو اس کی بات پر وہ مسکرا دی۔

"بالکل، اور میں بہت خوش نصیب ہوں کے مجھے آپ جیسا شوہر کم دوست ملا"۔ اس نے دل سے اعتراف کیا۔


"کچھ وقت پہلے تک تو میں جلاد، ظالم اور ولن تھا آپ کیلئے۔ پھر اب اتنا خاص کیسے ہو گیا؟"۔ اس نے دلچسپی سے سوال کیا۔


"اب۔۔۔ہو گیا نا، وہ پرانی بات تھی۔ تب آپ اور میں اجنبی تھے۔ یا شاید شناسا بھی تھے جو ایک دوسرے سے چڑتے تھے۔ مگر کون جانتا ہے اگلا پل کیا لے کر آئے انسان کی زندگی میں"۔


"ہوں۔ واقعی اگلے پل کا کسی کو علم نہیں ہو سکتا"۔ کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔


"اچھا، مجھے یہ کہنا تھا کے میں برہان بھائی اور زرش سے متعلق بات چلانے والی ہوں گھر میں مگر اس سے پہلے آپ کو برہان بھائی کے گھر والوں سے یعنی اپنے ماموں اور ممانی سے بات کرنی پڑے گی"۔ وہ اب سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔


"ہاں، سوچ تو یہی رہا ہوں میں بھی۔ کل ہی بات کرتا ہوں ان سے"۔ وہ فورا نتیجے پر پہنچا۔


"تھینک یو سو مچ"۔ خوشی سے چہکتے ہوئے وہ اس کے گلے کا ہار بن گئی۔


جبکہ اردشیر پہلے تو سکتہ زدہ سا رہ گیا مگر پھر مسکرا کر اس کے گرد حصار کھینچ دیا۔


گرفت محسوس کر کے ہی مہرماہ کو آس پاس کے ماحول کا خیال آیا تو وہ جلدی سے الگ ہو گئی۔


"حد کرتے ہیں آپ بھی، ہم اس وقت کھلے آسمان تلے کھڑے ہیں جہاں اور لوگ بھی ہیں"۔ خجالت مٹانے کو وہ اس پر الٹ پڑی۔


"ہاں تو ہونے دو، بیوی ہو تم میری کوئی غیر تو نہیں"۔ اس نے بھی بلا تامل کہا۔


مہرماہ نے گھبرا کر ارد گرد نگاہیں دوڑائیں۔

چند ایک لوگ آ جا رہے تھے جو ان کی جانب فلحال تو متوجہ نہ تھے مگر ہو سکتے تھے۔


"چلیے اب گھر چلتے ہیں۔ مجھے نیند آ رہی ہے"۔


"کچھ دیر تو رکو یار، میں نے تمہیں دیکھا بھی نہیں ابھی ٹھیک سے"۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔


"صبح دیکھ لیجیے گا میرے گھر آ کر، ابھی چلیے"۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کھینچتی ہوئی گاڑی میں آ بیٹھی۔


"کون جانتا ہے کے اگلے پل کیا ہو گا"۔ اردشیر نے دل میں اسے مخاطب کیا جو مطمئن سی مسکرا رہی تھی۔


دل ہی دل میں اس نے اس مسکراہٹ کے دائمی ہونے کی دعا کی۔

________________________________


چائے کے دو کپ ٹرے میں رکھے وہ ٹرے اٹھائے لاؤنج میں سفیان قریشی کے برابر آ بیٹھی جو آج بہت اچھے موڈ میں لگتے تھے۔


"کیا ہوا بابا؟ آج بہت خوش لگ رہے ہیں آپ؟"۔ زرش پوچھے بنا نہ رہ سکی۔


انہوں نے مسکرا کر چائے کا کپ اٹھا لیا۔


"خوش کیوں نہ ہوں، خوشی کی ہی تو بات ہے"۔ انہوں نے تسلی بخش جواب نہ دیا۔


زرش سوچ میں پڑ گئی۔


"السلام و علیکم!"۔ اسی وقت ایک چہکتی ہوئی آواز نے ان دونوں کو متوجہ کیا۔


کھلے دروازے سے وہ چلی آ رہی تھی۔


"وعلیکم السلام، آؤ میرا بچہ تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا"۔ سفیان قریشی نے خوش دلی سے کہا۔


"اور دیکھیے میں آ بھی گئی"۔ وہ ان کے برابر والے سنگل صوفے پر ٹک گئی۔


زرش کو آج وہ زیادہ ہی خوش لگ رہی تھی۔


"اب تم کیوں اتنی خوش ہو؟"۔ اس نے تھوڑی دیر پہلے کا سوال اب مہرماہ کے سامنے دہرایا۔


"کیوں؟ کوئی اور بھی خوش ہے کیا یہاں؟"۔ اس نے بھی سوال کیا۔


"ہاں جی، ان ہی سے پوچھ لیجیے"۔ زرش نے باپ کی جانب اشارہ کیا۔


"اچھا میں پوچھتی ہوں۔ اب تم جاؤ شاباش میرے لیے چائے لاؤ"۔ سمجھداری سے مہرماہ نے اسے پہلے وہاں سے ہٹایا۔


تو زرش کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی۔


پھر مہرماہ سفیان قریشی کی جانب متوجہ ہوئی۔

"زرش کو تو نہیں بتایا مگر اب بتائیے کے آپ کی خوشی کا راز کیا ہے؟"۔ نظریں مشکوک نظروں سے انہیں دیکھ رہیں تھی۔

تو لہجہ متجسس تھا۔


"اب بھئی ہماری کیا مجال جو ہم اپنے بگڑے بچے سے کچھ چھپائیں"۔ انہوں نے ہتھیار ڈالنے کے سے انداز میں کہتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے۔


"دراصل زرش کیلئے ایک اچھا رشتہ ملا ہے۔ شام کو لڑکا اپنے گھر والوں سمیت یہاں آئے گا زرش کو دیکھنے، تو میں چاہتا ہوں کے بیٹا تم اس کے ساتھ رہو۔

افشاں بھابھی سے بھی بات کرنی ہے اب۔ آخر کو زرش کی زندگی میں ان کا بھی ایک اہم مقام ہے۔ میں چاہتا ہوں ان کی بھی رائے شامل ہو اس رشتے میں"۔ وہ گویا سب طے کیئے بیٹھے تھے۔


"اچھا، اور اگر میں کچھ کہوں آپ سے یا مانگوں تو؟"۔ مہرماہ نے ایک تصویر ان کے سامنے کردی اور امید بھرے لہجے میں یہ بات کہی۔


سفیان صاحب نے چونک کر اس کے ہاتھ میں موجود تصویر دیکھی۔

سیاہ شرٹ اور سرمئی کوٹ میں ملبوس مسکراتی ہوئی تصویر میں وہ برہان یوسف تھا۔


سفیان صاحب نے پہلے اس تصویر کو بغور دیکھا پھر اس سے نگاہیں اٹھا کر مہرماہ کے چہرے کو۔

ان کی آنکھوں میں استعجاب تھا۔


"کیا واقعی؟"۔ انہوں نے تائید چاہی۔


"جی انکل، یہ برہان بھائی ہیں۔ اردشیر کے ماموں زاد اور بہترین دوست۔ میں چاہتی ہوں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل آپ ایک بار ان کی فیملی سے مل لیں۔ آج شام کو ہی"۔ مہرماہ نے آہستگی سے بات جاری کی۔ مبادا انہیں برا نہ لگ جائے۔


"دیکھو بیٹا، مانتا ہوں کے یہ لڑکا بے حد قابل اور ہونہار ہے۔ مگر ہماری اور ان کی کلاس، رہن سہن بالکل الگ ہیں۔ تم اس کی بہن ہو اور اس کی خیر خواہ بھی مگر میں نہیں چاہتا کے کل کو میری بچی اپنے سے اونچے گھرانے میں بیاہ کر جائے تو وہاں خود کو کمتر محسوس کرے۔ ہم متوسط طبقے کے لوگ ضرور ہیں مگر عزت نفس کی کمی نہیں ہے ہم میں"۔ سفیان صاحب نے صاف گوئی سے کہا۔


مہرماہ ان کے خیالات سے آگاہ تھی۔

اور وہ یہ بھی جانتی تھی کے ان کی طرف سے یہی کچھ جواب سننے کو ملے گا۔

مگر اس نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری۔

کیونکہ یہاں آنے سے کچھ دیر قبل ہی اسے اردشیر کا فون آیا تھا کے اس نے اپنے گھر والوں کو راضی کر لیا ہے۔

اب مہرماہ کی باری ہے۔

لہٰذا اب آگے کا کام اسے ہی کرنا تھا۔


"آپ کی پریشانی اپنی جگہ ٹھیک ہے انکل، آپ کو زرش کی فکر ہے ہر اچھے باپ کی طرح۔ مگر کیا آپ نے ایک بار اس سے پوچھا کے وہ کیا سوچتی ہے؟ کیا چاہتی ہے؟

بلا شبہ آپ نے پوچھا بھی ہوگا تب بھی ہر اچھی مشرقی لڑکی کی طرح اس نے یہ فیصلہ آپ کے اوپر ہی چھوڑ دیا ہوگا۔

کل کو کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا۔ مگر انکل آپ کو نہیں لگتا کے زرش پر آپ کو اعتبار کرنا چاہئے؟

وہ آپ کی تربیت ہے۔ اس میں صبر ہے، سمجھدار اور معاملہ فہم بھی ہے اور دھیمے مزاج کی بھی۔

جب میرے جیسی لڑکی حالات سے ڈیل کر کے اپنا گھر بسا سکتی ہے تو زرش کیوں نہیں؟ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کے وہ جس گھر جائے گی اسے اپنے سلیقے اور تربیت کی بنا پر روشن کر دے گی۔

آپ اسے کم ہانک کر زیادتی کریں گے۔

لہٰذا آپ ایک بار برہان بھائی کی فیملی سے مل لیں۔ پھر آخری فیصلہ آپ کا ہی ہوگا"۔ مہرماہ نے ایک اچھی بہن کی طرح زرش کا کیس ان کے سامنے رکھ دیا۔


اور خود زرش کچن میں کھڑی با آسانی ان دونوں کے مابین ہو رہی گفتگو سن رہی تھی۔

وہ حیران تھی اور مہرماہ کی مشکور بھی۔

جس نے بن کہے بھی اس کا من جان لیا تھا۔

اور اب گھر والوں کو منانے کی جی توڑ کوشش بھی کر رہی تھی۔


"ٹھیک ہے۔ میں ان سے ملنے کو تیار ہوں"۔ سفیان صاحب نے سوچتے ہوئے رضامندی دی تو مہرماہ کی خوشی دیدنی تھی۔

جبکہ زرش کا دل آنے والے وقت کا سوچ کر بری طرح دھڑک رہا تھا۔

جانے کیا ہونے والا تھا؟

_______________________________


بستر سے سیاہ کوٹ اٹھا کر وہ پہن رہا تھا جب دروازے پر ہلکے سے دستک کے ساتھ ہی وہ بے دھڑک اندر داخل ہو گئی۔

اردشیر نے اپنے پیچھے شیشے میں نظر آتا اس کا عکس دیکھا تو اس کے چہرے پر سختی در آئی۔


وہ ایک جھٹکے سے اسکی جانب مڑا تھا۔


"تم یہاں کیوں آئی ہو؟ میں نے تمہیں نہیں بلایا۔ اور بلا اجازت میرے کمرے میں داخل ہونے کی جرت بھی کیسے ہوئی تمہاری؟"۔ نفرت سے پھنکارتے ہوئے اس پر گویا اس کی حیثیت واضح کی۔


مریم تلخی سے مسکرا دی۔


"ماموں جان نے آپ کو نیچے بلایا ہے۔ میں نے دروازے پر اندر آنے سے پہلے ناک کیا تھا۔ اور رہی بات بلا اجازت کمرے میں آنے کی تو یہ جرت مجھے آپ کے اور میرے درمیان موجود اس رشتے نے دی ہے جسے شاید آپ بھول چکے ہیں۔ یا پھر یاد کرنا نہیں چاہتے"۔ نہ تو اس کے لہجے میں کوئی سختی تھی اور نہ ہی کوئی سرد مہری۔


سادہ سے لہجے میں وہ اسی سادگی سے کہہ رہی تھی جس طرح وہ اپنے اسکول کے بگڑے بچوں کو نرم خوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا سبق یاد کرواتی تھی۔


"ٹھیک کہا تم نے۔ میں اس رشتے کو نہیں مانتا یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو۔ لیکن اسکے باوجود بھی تم یہاں آئی ہو تو بے شک آؤ یہ تمہارے ماموں جان کا گھر ہے۔ لیکن خود کو میری بیوی سمجھنے کی غلطی تم مت کرنا کیونکہ یہ مقام صرف اور صرف مہرماہ کا ہے۔

تم صرف مجھ پر مسلط کی گئی ہو۔ طوق ہو میرے گلے کا جسے مجھے مجبورا لٹکا کر گھومنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا مجھے کچھ جتانے یا سکھانے کی غلطی کبھی مت کرنا۔

کیونکہ جس دن میری برداشت کا تم نے امتحان لیا اس دن میں یہ طوق اپنے گلے سے اتار پھینکوں گا۔ اور تب۔۔۔نہ تو عثمان غازی مجھے روک پائیں گے اور نہ ہی وکیل کے پاس پڑے وہ دستاویزات۔۔۔۔انڈرسٹوڈ؟"۔


ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا ہوا وہ مریم کو برف کی سل بنا گیا تھا۔


اس کے سامنے آتے ہی وہ وہی اردشیر بن جاتا تھا جس کے سامنے عثمان غازی کی بھی نہیں چلتی تھی۔

________________________________

ڈرائینگ روم میں اس وقت برہان اپنے گھر والوں سمیت موجود تھا۔

جبکہ دوسری جانب سفیان قریشی، جہانزیب صاحب، افشاں بیگم اور مہرماہ موجود تھے۔


محمودہ بیگم قدرے نخوت اور تکبر بھری نظروں سے اس نفاست سے سجے کمرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔

کس دل سے وہ یہاں آنے کیلئے راضی ہوئیں تھی یہ تو وہی جانتی تھیں۔

برہان ہنوز سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا۔

اس کے دل میں امید کا دیا روشن تھا۔


"تو پھر سفیان صاحب کیا سوچا ہے آپ نے؟ ہم آپ کے پاس بہت امید لے کر آئے ہیں۔ اور ہمیں یقین ہے کے آپ ہمیں مایوس نہیں لوٹائیں گے"۔ یوسف صاحب نے مسکراتے ہوئے بہت آس سے یہ بات کہی۔

واحد وہی تھے جو اس رشتے کے ہو جانے کے حق میں تھے۔


"بہت شکریہ یوسف صاحب آپ نے ہماری عزت افزائی کی۔ سچ پوچھیے تو آپ لوگوں سے ملنے سے قبل میں کافی پریشان تھا مگر اب لگتا ہے کے میری پریشانی بے جا تھی"۔ سفیان صاحب کے چہرے پر مطمئن مسکراہٹ تھی۔


سب دم سادھے ان کے جواب کے منتظر تھے۔


آدھ گھنٹہ بعد وہ سب رخصت ہو گئے۔

زرش کی گھبراہٹ مزید بڑھ گئی۔


تب مہرماہ کچن میں داخل ہوئی۔

اس کا چہرہ بے حد سنجیدہ تھا۔

لب بھینچ رکھے تھے۔


زرش ٹھٹھک گئی۔

مہرماہ قدم قدم چلتی ہوئی اس کے سامنے آئی اور آہستگی سے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھا۔


وہ بے بسی سے اس کے انداز دیکھ کر دوپٹے کا کونہ مروڑ رہی تھی۔


اور ایک دم سے جیسے بہار آ گئی تھی۔

وہ کھلکھلا کر ہنستی ہوئی اس کے گلے لگ گئی۔


"او مائی گاڈ، فائنلی تم سے جان چھوٹ رہی ہے زری۔ کل تمہاری انگیجمنٹ ہے اور پھر اگلے پندرہ دنوں میں شادی۔۔۔۔ہرررےےےے"۔ وہ خوشی سے اچھل رہی تھی۔


اور زرش کا دل اثبات پر زور سے دھڑکا تھا۔


ایک چپت اس نے مہرماہ کے کندھے پر رسید کی۔


"شرم نہیں آتی، خواہ مخواہ کا سسپنس پھیلا رکھا تھا۔۔۔اور ادھر میری حالت خراب ہو گئی"۔ اس نے گہری سانس کھینچی۔


"ہائے اللہ، جاؤ زرا آئینے میں دیکھو خود کو، یہ خبر سنتے ہی کیسے سرخ اناری ہو گیا ہے ہماری بنو کا چہرہ"۔ اس کے دونوں گالوں پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔


زرش اسے ٹھیک سے گھور بھی نہ سکی۔


اسی لمحے افشاں بیگم بھی وہاں آن پہنچی۔


"بہت بہت مبارک ہو بیٹا، ماشاءاللہ سے بہت خوبصورت جوڑی رہے گی تم دونوں کی۔ بالکل چاند سورج جیسی"۔ انہوں نے اس کا منہ میٹھا کرواتے ہوئے اسے خود سے لگا لیا۔


"میں اردشیر کو جا کر یہ خوشخبری سناتی ہوں، آخر کو یہ سب کیا دھرا انہی کا تو ہے"۔ مہرماہ نے مسکراتے ہوئے موبائل پر اس کا نمبر ڈائل کیا۔

__________________________________


"مجھے یقین نہیں ہوتا کے آپ خود۔۔۔اپنے ہاتھوں سے جا کر برہان کا رشتہ طے کر آئی ہیں۔ جبکہ وہ لڑکی آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی"۔ شہزاد ان کے سامنے بیٹھا افسوس ظاہر کر رہا تھا۔

محمودہ بیگم نے تیز نظروں سے اسے گھورا۔


"تم کیا نمک چھڑک رہے ہو میرے زخموں پر؟ وہاں بیٹھے بیٹھے سارا معاملہ خاموشی کے ساتھ طے پا جانا، اور تو اور مجھے جبری مسکراہٹ بھی چہرے پر طاری کرنا پڑا۔

میرے کلیجے پہ کتنے سانپ لوٹ رہے تھے یہ کوئی نہیں جان سکتا"۔ وہ سخت غضبناک ہوئیں۔


"تو پھر ایسی بھی کیا مجبوری آن پڑی تھی جو آپ نے یہ قدم اٹھایا؟"۔ اس نے سوال داغا۔


"تم نہیں جانتے، صبح کے نو بجے اردشیر یہاں آن پہنچا تھا۔ اور اس نے اللہ جانے یوسف کو کیا گھول کر پلا دیا کے وہ ٹھنڈے مزاج کا آدمی جو میرے سامنے چوں بھی نہیں کرتا تھا۔

اس رشتے سے متعلق میری انکار سن کر ہی مجھ پر چڑھ دوڑا۔

اور تو اور اس کی مت اتنی ماری گئی کے مجھے اس بڑھاپے میں طلاق کی دھمکی بھی دے ڈالی۔

حالانکہ اس سے قبل اس نے کبھی مجھ سے اس لہجے میں بات تک نہیں کی تھی۔

اب بڑھاپے میں ان کے اندر کا مرد جاگ گیا"۔ وہ زہر خند ہوئیں اپنے شوہر کی کم عقلی پر ماتم کناں تھیں۔


"اب ان بیچارے کی قسمت، جو آپ جیسی خاتون کو اتنے سالوں تک جھیلتے آ رہے ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو چوٹی سے پکڑ کر، دھکے دے کر ایسی عورت کو گھر سے باہر کر دیتا"۔ ان کے سامنے تو نہیں پر دل ہی دل میں شاہی ان کی شان میں قصیدے ضرور پڑھ رہا تھا۔


مگر بظاہر پھر بھی چہرہ کو سنجیدہ بنائے رکھا۔


"اس لیے کہتا ہوں کے ہمیں جلد از جلد اپنے پلان کو عمل میں لانا چاہئے"۔ اس نے گویا بپھرے ہوئے بیل کو سرخ جھنڈی دکھائی۔


"ٹھیک کہہ رہے ہو، اب واقعی چپ بیٹھنے کا نہیں کچھ کرنے کا وقت ہے۔

تم اس دن ملے تھے نا اس لڑکے سے؟ کیا نام تھا بھلا۔۔۔۔" وہ سوچ میں پڑ گئیں۔


"احد۔ مہرماہ کا ماضی"۔ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ شاہی نے انہیں یاد دلایا۔


"ہاں، وہی احد۔ کیا لگتا ہے وہ کسی کام آئے گا بھی یا نہیں؟"۔ انہوں نے قدرے خشک لہجے میں پوچھا۔


"ضرور، کیونکہ بیچارے کا دل ٹوٹے ابھی وقت ہی کتنا گزرا ہے۔ مہرماہ کیلئے نہ سہی، پر کم از کم اردشیر سے بدلہ لینے کیلئے تو وہ کوئی نہ کوئی بے وقوفی کرے گا ہی۔ اور اس کی اسی بے وقوفی کا ہم فائدہ اٹھائیں گے"۔ شاہی نے منصوبہ بتایا۔


"بالکل ٹھیک، پھر دیر کس بات کی ہے؟ اس شادی سے بڑھ کر کوئی اور موقع نہیں ہو سکتا ہے اپنے پلان کو انجام دینے کا"۔ محمودہ بیگم آنکھیں چھوٹی کیئے پر سوچ انداز میں کہا۔


جس پر شاہی نے ان کی تائید کی۔

________________________________


"آپ کی وائف دو ماہ سے حاملہ ہیں۔ ان کا بے حد خیال رکھیے یہ کافی کمزور ہیں"۔


تھوڑی دیر پہلے وہ دونوں ہسپتال سے ہو آئے تھے۔

اور مہک کو جو اب تک صرف شک ہی تھا وہ اب ایک خوبصورت حقیقت بن کر آشکار بھی ہو چکا تھا۔

لیڈی ڈاکٹر کا کہا یہ جملہ ہتھوڑے کی مانند اس کے دماغ پر برس رہا تھا۔


وہ خوشی محسوس نہیں کر رہی تھی تو دکھی بھی نہیں تھی۔

اسے لگنے لگا تھا جیسے اس کے محسوسات منجمد ہو گئے ہیں۔

بہت دنوں سے اس نے کچھ بھی محسوس کرنا چھوڑ رکھا تھا۔

اور اب بھی وہ بے حس بنی بستر پر گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی تھی۔


اس کی نظریں مسلسل دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ٹہلتے بلال پر تھیں۔

جو موبائل کان سے لگائے محو گفتگو تھا۔

مسکراہٹ تھی کے اس کے لبوں سے جدا نہ ہو رہی تھی۔


مہک بت بنی بیٹھی بس خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"امی امی امی، سانس تو لے لیں آپ۔۔۔جی میں خیال رکھ رہا ہوں اس کا"۔ چور نگاہ اس نے مہک پر ڈال کر ماں کو وضاحت دی۔

جو یقینا خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھیں۔


"کیا؟ زرش کا رشتہ برہان سے؟ اور آپ لوگ یہ مجھے اب بتا رہے ہیں۔ دیٹس ناٹ فیئر امی مجھے پتہ ہونا چاہیے تھا۔ آخر کو اکلوتا بھائی ہوں اس کا۔ آپ اسے فون دیں ذرا"۔ بلال نے افسوس سے کہا۔


جبکہ مہک نے رشتے والی بات پر چونک کر اسے دیکھا۔


"کیسی ہو میری گڑیا؟ بہت بہت مبارک ہو"۔ یقینا وہ زرش سے مخاطب تھا۔


کچھ دیر وہ یونہی سب سے بات کرتا رہا پھر آدھ گھنٹہ بعد اسے موبائل سے فراغت ملی تو وہ مسکرا کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔


"تم تیاری کرو، ہم چند دنوں میں واپس پاکستان جا رہے ہیں۔ دو،دو خوشی ایک دن میں مل گئی ہے۔ میں جلد از جلد اپنے وطن پہنچ کر اپنوں سے یہ خوشی بانٹنا چاہتا ہوں"۔ اس کے چہرے کی چمک قدرے بڑھ گئی تھی۔

باپ بننے کی خوشی لہجے سے عیاں تھی۔


اور اس عرصے میں پہلی بار مہک کے سرد وجود میں جنبش ہوئی۔

اور اس کی آنکھیں بے آواز آنسو بہانے لگیں۔


بلال نے جب اپنے خیال سے چونک کر اسے دیکھا تو ٹھٹھک گیا۔


"کیا ہوا؟ تم رو کیوں رہی ہو؟"۔ وہ ایک دم بوکھلا گیا تھا۔

چند قدم کا فاصلہ طے کر کے وہ اس تک آیا، اور اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھام لیا۔


مگر وہ کوئی جواب دیئے بنا روتی رہی۔


"مہک، کیا ہوا ہے؟ بتاؤ تو سہی"۔ وہ اب صحیح معنوں میں پریشان ہو گیا تھا۔


پہلے جب وہ اسے رلاتا تھا تو بات اور تھی۔

تب وہ اتنی پرواہ نہیں کیا کرتا تھا۔

مگر جب سے اس نے وہ خبر سنی تھی اس کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔

اور اب اپنی اولاد کا سن کر ہی وہ اس کا رونا نہیں دیکھ پا رہا تھا۔

باپ واقعی بہت خودغرض ہوتا ہے اپنی اولاد کو لے کر!


"مجھے، گھر والوں کی یاد آ رہی ہے"۔ بہت دیر بعد جب وہ کسی حد تک سنبھلی تو جواب دیا۔


بلال نے اثبات پر گہری سانس لی۔


"بس اتنی سی بات؟ اس میں رونے والی کیا بات تھی یار، ابھی گھر والوں سے بات کر لو اور ویسے بھی اب ہم کچھ ہی دنوں میں واپس جا رہے ہیں"۔ اس نے یقین دہانی کروائی۔


تو مہک بھیگی آنکھوں سمیت بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔

_________________________________


وہ پرسکون سی اس وقت بے جی کی گود میں سر رکھے، آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی

ان کا پر شفقت لمس وہ اپنے بالوں پر محسوس کر سکتی تھی۔

اسے بے اختیار فاطمہ بیگم یاد آ گئیں۔


"میری بچی، مجھے معاف کر دینا کے میں تمہاری ماں اور تمہارے حق کیلئے لڑ بھی نہ سکی۔ یہ بیٹے جب بڑے ہو جاتے ہیں نا، قد کاٹھ میں ماں سے کچھ اونچے ہو جاتے ہیں تو ان کے سامنے ماں کمزور پڑ جاتی ہے۔

بچپن میں غلطی ہو جانے پر جس طرح ڈانٹ دیا کرتی تھی، یا کبھی کبھی مار بھی دیا کرتی تھی، بڑے ہو جانے پر یہ سب وہ نہیں سہتے پھر۔

فائزہ (شاہی کی ماں) کے وقت بھی میں عثمان غازی کو روک نہ پائی تھی۔

بڑا ہو گیا تھا نا، ماں سے زیادہ طاقت ور۔

وہ بد قسمت تو اس کی یہ بے وفائی اپنے سینے میں دفن کیئے منوں مٹی تلے جا سوئی"۔ بے جی آج بہت دنوں بعد پھر پرانی باتیں دہرا رہی تھیں۔

شاید وہ مریم اور اس کی ماں سے شرمندہ تھیں۔

کیونکہ وہ ان دونوں کیلئے کچھ نہ کر سکی تھیں۔


مریم ہنوز آنکھیں موندے سن رہی تھی۔

یہ سب باتیں وہ جانتی تھی۔

کیونکہ فاطمہ بیگم کیلئے دوست اور ہم راز دونوں مریم ہی تھی۔ جس سے وہ اپنا اور اپنوں کا ماضی بیان کرتی تھیں۔


"پھر جب تمہاری باری آئی تو تب بھی میں اردشیر کو نہ روک سکی۔

تب میری بوڑھی ہڈیاں بھی کمزور ہو چکی تھیں۔

یوں میرے بچوں کی نظر میں میرا مقام تو اونچا رہا مگر وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہو گئے۔

یہ مرد ذات بھی اجب بنائی ہے خدا نے، ایک عورت کو اگر یہ چاہتا ہے تو اتنی شدت سے چاہتا ہے کے پھر اس کیلئے دوسری عورت کو بھی ترک کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔

اس طرح وہ عورت کو اگر نہ چاہے تب بھی عورت برباد ہوتی ہے۔

اور اگر چاہ لے تب بھی دوسری جانب عورت ہی کا دل ٹوٹتا ہے۔

مگر خدا نے ہمیں بہت بڑے ظرف اور صبر سے نوازا ہے میری بچی۔ اس لیے ہم کبھی بد دعائیں نہیں دیتیں"۔ بے جی کا جھریوں زدہ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

وہ اپنی بیٹی کو آخری بار دیکھ بھی نہ پائی تھیں۔


شاید اسی بات کا غم تھا انہیں۔


مریم نے اٹھ کر ان کے ہاتھ تھام لیئے۔


"یہ سب نصیب کا کھیل ہے نانو، انسان کی قسمت آگے جا کر کس جانب کروٹ لے گی یہ ہم کبھی نہیں جان سکتے۔

اگر جان لیتے تو دنیا میں ہر طرف افراتفری کا عالم ہوتا۔

جو کچھ بھی ہوا اس میں آپ کا قصور نہیں تھا۔ قصوروار تھی تو وہ جس کے ایک غلط قدم نے کئی زندگیاں اجاڑ کر رکھ دیں۔

مجھے آپ میں سے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے"۔ وہ مضبوط لہجے میں کتنے ظرف کا مظاہرہ کر رہی تھی۔


بے جی نے آنسو بہاتے ہوئے اسے خود سے لگا لیا۔


بے شک مریم کا نقصان سب سے بڑا تھا۔

اور ساتھ ہی اس کا ظرف بھی!

______________________________


دو گھروں کے فریقین کی موجودگی میں منگنی کی رسم ادا کر دی گئی تھی۔

اب زرش سفیان پر باقاعدہ برہان یوسف کی مہر لگ چکی تھی۔


خوشی ایک چھوٹا لفظ تھا ان دونوں کے احساسات کو بیان کرنے کیلئے۔


بہت کم ایسے خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جو اگر کسی کو چاہ لیں، تو اسے پا بھی لیتے ہیں۔

برہان اور زرش بھی انہی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔


مہمان سارے ہی رخصت ہو چکے تھے۔

اب صرف گھر کے افراد ہی موجود تھے۔


پیچ اور وائٹ کلر کے امتزاج والے لہنگے میں ملبوس، سیاہ بال گھنگھریالے کر کے شانے پر ڈالے، نفاست سے کئے میک اپ کے ساتھ زرش سفیان کی چھب ہی نرالی تھی۔

آج سے پہلے وہ ایسے بھرپور طریقے سے تیار بھی تو نہ ہوئی تھی۔


وہ تھکی تھکی سی گول میز کی ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔

ساتھ ہی مہرماہ بھی اس کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔


"مہرو یار ایک گلاس پانی تو لا دے"۔ زرش نے تھکے تھکے سے انداز میں کہا۔


مہرماہ جو خود بھی تھکی ہوئی سی تھی گھور کر اسے دیکھا۔


"اوہو، دلہن رانی کے نخرے بھی بڑھ گئے۔ دیکھو زرش بی بی اب اپنے یہ لاڈ تم برہان بھائی سے اٹھوانا۔ بھئی ہم تھک گئے تمہارے نخرے اٹھا اٹھا کر"۔ ہاتھ ٹھوڑی تلے جمائے اس نے بے زاریت سے کہا۔

تو زرش نے منہ کھول کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"اللہ، کیسے گز بھر لمبی زبان ہے اس لڑکی کی"۔ زرش نے افشاں بیگم کا مہرو کیلئے کہا گیا جملہ دہرایا۔


"یہ تم امی کے اسٹائل میں مجھے باتیں سنانا بند کرو، لاتی ہوں تمہارے لیئے پانی۔۔۔کہو تو برہان بھائی کو بھی لے آتی ہوں"۔ اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے اس نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا۔


اور اس سے قبل کے وہ اٹھ کر اسے ایک تھپڑ رسید کرتی مہرماہ اٹھ کر بھاگ گئی۔


اور بھاگتے ہوئے سامنے سے آتی کسی دھان پان سے وجود سے ٹکرا گئی۔


"آؤچ"۔


ایک پل کو آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔


"آئم سوری، آپ ٹھیک تو ہیں؟"۔ نسوانی آواز میں اس کیلئے فکرمندی تھی۔

اندھیرا چھٹا تو سامنے ہی گلابی فراک میں ملبوس سیاہ بالوں اور سیاہ بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی کا چہرہ نظر آیا۔


وہ فکرمندی سے مہرماہ کو دیکھ رہی تھی۔

"میں معذرت چاہتی ہوں آپ اچانک سے سامنے آ گئیں تو میں نے دیکھا نہیں۔ آپ ٹھیک ہیں؟"۔


"جی، میں ٹھیک ہوں؟ آپ کون ہیں؟"۔ بلا ارادہ ہی مہرماہ نے پوچھ لیا۔


تو اس کے چہرے پر نرم سا تاثر ابھرا۔


"جی میں مریم ہوں"۔ مریم نے اپنا نام بتایا۔


جبکہ مہرماہ مزید الجھ گئی۔


"اور آپ؟"۔ مہرو کے کچھ پوچھنے سے قبل ہی مریم نے سوال پوچھا۔


"میں مہرماہ ہوں، دلہا میرے دیور ہیں اور دلہن میری بہن"۔ اس نے فخریہ جواب دیا۔


مریم کے چہرے پر تاریکی چھا گئی۔


"مگر آپ کون؟ معذرت چاہتی ہوں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں؟"۔ وہ ہنوز الجھی ہوئی تھی۔


مریم البتہ سنبھل کر پھر سے مسکرا دی۔


"میں عثمان غازی کی بھانجی ہوں۔ اور آپ کے دلہا بھائی میرے دور کے کزن ہیں"۔ وہ مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں بتا رہی تھی۔


مہرماہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔


"مائی گاڈ، یعنی آپ میرے شوہر مطلب اردشیر کی کزن ہیں۔ اور دیکھیے زرا آپ سے اب ملنا ہو رہا ہے۔ اس طرح۔ مگر اردشیر نے آپ کے بارے میں بتایا نہیں؟"۔ وہ ایک دم پر جوش نظر آنے لگی۔

مگر اچانک ہی کچھ یاد آنے پر پھر الجھ گئی۔


"وہ۔۔۔دراصل میں۔۔"


"مہرماہ"۔

اس سے قبل کے مریم اسے کوئی وضاحت دیتی پیچھے سے ایک بھاری مردانہ آواز میں پکارا گیا۔


جس پر وہ دونوں ہی اس جانب متوجہ ہوئیں۔


سیاہ ڈنر سوٹ میں ملبوس غازی اردشیر سخت برہمی سے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے منظر سمجھنے کی سعی کر رہا تھا۔


"آپ۔۔۔۔آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں کے آپ کی کوئی کزن بھی ہے"۔ چند قدم کا فاصلہ طے کرکے مہرماہ اس کے مقابل پہنچی اور خفگی سے سوال کیا۔


اردشیر نے زور سے مٹھیاں بھینچ کر اپنا غصہ ضبط کیا۔


"جاؤ تم، زرش بلا رہی ہے تمہیں"۔ اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔


"او ہاں، میں تو بھول ہی گئی اسے۔ میں ابھی آتی ہوں"۔ مہرماہ نے سب کچھ پرے ڈالا اور فلحال پانی لینے چلی گئی۔


مریم نے افسوس سے غازی اردشیر کو دیکھا۔

جو اب اس کی جانب چلا آیا تھا۔


"تم۔۔۔تمہیں میں نے منع کیا تھا نا کے جب تک میں نہ کہوں مہرماہ کے سامنے مت آنا۔۔۔اس کے باوجود بھی تم۔۔۔" وہ دھیمی آواز میں غرایا۔

بھوری آنکھوں میں صرف غصہ تھا۔


"میں نہیں آئی اس کے سامنے۔ وہ تو بس سامنے سے آ رہی تھی تو مجھ سے ٹکرا گئی"۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس کو صفائی دینی پڑی۔


"کیا بتا رہی تھی اسے تم؟"۔ وہ کڑے تیوروں سے پوچھ رہا تھا۔


مریم نے دکھ سے اسے دیکھا۔

"اگر بتانا ہوتا کچھ تو بہت پہلے ہی بتا چکی ہوتی"۔ اتنا کہہ کر وہ رکی نہیں۔

اس کے سائیڈ سے ہو کر نکل گئی۔


جبکہ غازی اردشیر کے چہرے پر اب پریشانی واضح تھی۔

آخر کب تک وہ چھپا سکتا تھا مہرماہ سے یہ حقیقت؟

کب تک؟


"ڈیم اٹ"۔ مضبوط مٹھی اس نے زور سے ٹیبل پر دے ماری۔

بے بسی سی بے بسی تھی۔


اس سے عین فاصلے پر جینز کی جیبوں میں ہاٹھ ڈالے مطمئن سا کھڑا شہزاد اس کی حالت سے حظ اٹھا رہا تھا۔


"چچ۔۔۔چچ۔۔۔چچ یہ دو بیویوں والے آدمی کی زندگی بھی دھوبی کے کتے جیسی ہوتی ہے۔

نہ گھر کے۔۔۔اور نہ گھاٹ کے"۔ وہ دل ہی دل میں کہتا اپنی بات پر خود ہی ہنس دیا۔


"ڈونٹ وری مائی فرینڈ، وقت آنے پر اس راز کو بھی میں اپنے حق میں استعمال کرنے سے بالکل نہیں چوکوں گا۔ آخر کو تمہاری تکلیف ہی تو میرا سکون ہے"۔

کمینگی سے مسکراتے ہوئے وہ دل ہی دل میں اردشیر سے مخاطب تھا۔


جبکہ اردشیر اپنی ہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔


"ٹھیک کہا تھا ڈیڈ آپ نے، مجھے فرار نہیں حالات کا سامنا کرنا ہے۔۔۔اگر ایسا ہے تو ایسا ہی صحیح"۔

کچھ سوچ کر وہ کسی نتیجے پر پہنچا تھا۔

_________________________________

شادی والا گھر تھا۔

اس لحاظ سے مصروفیات بھی عروج پر تھیں۔

ہر دن بازار کے چکر لگ رہے تھے۔

کیونکہ شادی کی رسمیں جلد شروع ہونے کو تھیں۔

سب کو انتظار تھا تو بس مہک اور بلال کی آمد کا۔


دروازے پر بیل بجنے کے چند لمحوں بعد ہی مہرماہ نے دروازہ کھول دیا۔

اور تیار شیار کھڑی مسکراتی ہوئی محمودہ بیگم کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔

مگر پھر سنبھل کر انہیں سلام کیا اور گھر کے اندر لے آئی۔


"امی دیکھیں تو کون آیا ہے"۔ اس نے وہی کھڑے کھڑے افشاں بیگم کو آواز دی۔

تو وہ کچن میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لاؤنج میں چلی آئیں۔


"ارے بہن جی آپ"۔ انہوں نے خوشگوار حیرت سے انہیں دیکھا۔

سلام دعا اور حال چال دریافت کرنے کے بعد وہ ان کے ساتھ بیٹھ گئیں۔


"دراصل میں زرش کیلئے برائڈل ڈریس پسند کرنا چاہ رہی تھی۔ اب۔۔۔آپ تو جانتی ہیں نا کے برہان کی ضد پر شادی جلد ہو رہی ہے۔

اور تیاریوں کا سوچ کر ہی میرے تو ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں"۔ میک اپ سے اٹا چہرہ متفکر نظر آ رہا تھا۔


"جی جی، آپ کی پریشانی بالکل بجا ہے۔ اور اکلوتے بیٹے کی شادی ہے۔ بہت سے ارمان ہوں گے۔

آپ بے شک زرش کو لے جائیں۔ آخر کو آپ ہی کی امانت ہے وہ"۔ انہوں نے خوشدلی سے اجازت دے دی۔


"بہت شکریہ، آ۔۔۔اور مہرماہ کو بھی اس کے ساتھ کر دیجئے گا۔ ہو سکتا ہے وہ اکیلی جھجھک کا شکار ہو۔ بہن ساتھ ہوگی تو وہ ریلیکس محسوس کرے گی"۔ ہوشیاری سے انہوں نے پتا پھینکا۔


"ارے۔۔۔جی۔۔کیوں نہیں، مہرماہ ضرور جائے گی"۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے ازلی سادگی کا مظاہرہ کیا۔


جس پر محمودہ بیگم ان کی مشکور نظر آنے لگیں۔

جبکہ انہوں نے کچن میں کھڑی مہرماہ کو بلا بھیجا۔

تو وہ ان کے پاس چلی آئی۔


"میں زرش کو لے کر آتی ہوں۔ مہرو، بیٹا جاؤ تم بھی تیار ہو جاؤ۔ زرش کے ساتھ جا کر اس کی شاپنگ میں مدد کرواؤ"۔


"جی امی"۔ مہرماہ نے بلا تامل جواب دیا۔


"اب۔۔۔معذرت کے ساتھ، آپ کہیں تو میں زرش کو۔۔۔"


"جی کیوں نہیں، آپ اسے لے آئیں۔ میں انتظار کر لیتی ہوں"۔ انہوں نے مسکرا کر کہتے ہوئے ان کی مشکل آسان کی۔

جس پر ان کا شکریہ ادا کرتی ہوئی افشاں بیگم زرش کو بلانے چلی گئیں۔


"بے وقوف لوگ، اتنی آسانی سے مان گئے۔ مجھے تو لگا تھا کے بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔

خیر، شاید قسمت بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہے"۔ اپنی ایئررنگ پر انگلی پھیرتے ہوئے وہ من ہی من مطمئن تھیں۔

کیونکہ سب کچھ ان کی من مرضی کے مطابق چل رہا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں وہ تینوں مال روانہ ہو گئیں۔

________________________________


"اردشیر"۔ سیاہ جینز میں ملبوس سفید شرٹ کے اوپر سیاہ لیدر جیکٹ پہنے، عادتا دونوں ہاتھوں کو کئی سیاہ بینڈز سے مزین کیئے، اور بالوں کو پیچ دار ہیئر بینڈ سے پیچھے کیئے وہ اپنے ازلی حلیے میں تھا۔

اس کے سفید بے داغ شرٹ پر آگے کی طرف سے کئی ایک چہرے بنے ہوئے تھے۔

جو بالکل اس کی شخصیت کا عکاس نظر آتی تھی۔

وہ جان بوجھ کر ایسا حلیہ بنایا کرتا تھا۔

کیونکہ عثمان صاحب کو اس کے حلیے پر خاصا اعتراض ہوتا تھا۔


اور وہ شہزاد ہی کیا جو عثمان غازی کی جان نہ جلائے؟


وہ اس وقت اردشیر کے ساتھ پول ایئریا میں بیٹھا ہوا تھا۔

جبکہ خود اردشیر ہمیشہ کی طرح اپنے لیپ ٹاپ پر کام میں مصروف تھا۔


"ہوں"۔ مصروف سے انداز میں ہنکار بھرا۔


شاہی نے چور نظروں سے اس کے چہرے کا جائزہ لیا۔

مگر وہ مکمل طور پر اپنے کام میں منہمک نظر آتا تھا۔


"یار، میں سوچ رہا ہوں کے آج مال چلا جاؤں، اپنے لیے شاپنگ کرنے"۔ وہ عام سے انداز میں کہہ رہا تھا۔


"تو جاؤ، بلکہ میرے لیئے بھی شاپنگ کرتے آنا۔ تمہیں میری پسند بھی پتہ ہے"۔ سر اٹھائے بنا اس نے جواب دیتے ہوئے شاہی کے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔


وہ خون کے گھونٹ بھر کے رہ گیا۔


"کم آن یار، اور ویسے بھی، میں نے ابھی ابھی پتہ لگایا ہے کے برہان کی مام زرش کو شاپنگ کروانے لے گئی ہیں"۔ اس پر نگاہیں جمائے وہ کہہ رہا تھا۔


جبکہ اردشیر سر اٹھائے بنا اس کی بات سن رہا تھا۔


"اور۔۔۔مسز مہرماہ بھی ان کے ساتھ گئی ہیں"۔

اب کے اردشیر نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"رئیلی، تو بیگم صاحبہ ہمیں بتائے بغیر شاپنگ کرنے نکل پڑی ہیں"۔ اب کے اس نے دلچسپی سے تبصرہ کیا۔


شہزاد نے سر اثبات میں ہلایا۔


"چلو، ابھی مال چلتے ہیں۔ میں اسے سرپرائز دینا چاہتا ہوں"۔ اس کی بھوری آنکھیں یکدم چمک اٹھیں تھیں۔


اندھا کیا چاہتا۔۔۔دو آنکھیں؟


"ہاں، اب تو سمجھا ہے نا میری بات"۔ اس نے فخریہ کہتے ہوئے اس کے شانے پر ایک مکا رسید کیا۔


پھر کچھ ہی دیر میں دونوں مال جانے کیلئے تیار تھے۔

نکلنے سے قبل شاہی اپنے موبائل پر ایک اہم پیغام لکھنا نہیں بھولا تھا۔

جو محمودہ بیگم کے نام تھا۔

________________________________

"ایکسکیوز می"۔

وہ اپنے ہی دھن میں موتیوں سے مزین اس سلور اور سیاہ رنگ کے کنٹراسٹ والے فراک کو دیکھنے میں محو تھی کے اسے احساس ہی نہ ہوا کب زرش اور محمودہ بیگم آگے چلی گئیں۔

چونکی تو تب جب کسی مردانہ آواز نے اسے مخاطب کیا۔


مہرماہ چونک کر مڑی۔

اور اس کی آنکھیں اچنبھے سے مقابل کو دیکھنے لگیں۔


مرون شرٹ پر سیاہ کوٹ اور نیلی جینز میں ملبوس وہ بلا شبہ احد ہی تھا۔


"کیسی ہو مہرماہ؟"۔ وہ دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھ رہا تھا۔


مہرماہ متضاد کیفیات کا شکار ہو گئی۔


"جیسی بھی ہوں، مگر شکر ہے کم از کم مردم شناس ضرور ہوں"۔ اس کا لہجہ از خود طنزیہ ہو گیا۔


"دیکھو، جو کچھ بھی ہوا اس وقت وہ سب تمہارے سامنے تھا مہرماہ۔ میں جانتا ہوں کے تم پہ اعتبار نہ کرکے میں نے اپنی زندگی کی کتنی سنگین غلطی کی ہے۔

جس کا ازالہ شاید ممکن نہ ہو مگر میں بس تم سے معذرت کرنا چاہتا ہوں"۔ وہ شرمندہ تھا۔


مہرماہ اس کے لہجے اور الفاظ پر کشمکش میں مبتلا ہو گئی۔


"مجھے بس ایک بار میری صفائی کا موقع دو، تاکہ تم سے معذرت کرکے میرے دل پر پڑا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے"۔


اس کے لہجے میں بے پناہ اصرار تھا۔ عاجزی تھی۔

مہرماہ چاہ کر بھی انکار نہ کر پائی۔


"ٹھیک ہے"۔ ناچار اس نے جواب دیا۔


احد کا چہرہ یک دم کھل اٹھا۔

"تھینک یو سو مچ، یہاں تھرڈ فلور پر سٹنگ ایریا ہے۔ اگر تم مائنڈ نہ کرو تو ایک،ایک کپ چائے ہو جائے؟"۔


اس نئی فرمائش پر تو مہرماہ صحیح معنوں میں گڑبڑا گئی۔


"پلیز مہرماہ، مجھے لگے گا تم نے میری معذرت قبول کر لی۔"۔ وہ بہت آس اور امید سے کہہ رہا تھا۔


"ٹھیک ہے، چلیئے"۔ خود کو کمپوز کرنے کے بعد اس نے جواب دیا۔


بنا یہ جانے کے کیسا طوفان اس کا منتظر تھا۔

________________________________


وہ دونوں ابھی ابھی مال میں داخل ہوئے تھے۔


اردشیر اپنے موبائل پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔

جبکہ شاہی ارد گرد محتاط نگاہیں دوڑا رہا تھا۔


"یار، اوپر والے فلور پر چلتے ہیں۔ مجھے کچھ پرفیومز اور جینز دیکھنی ہیں اپنے لئیے"۔ اس نے چور نگاہ اردشیر پر ڈالی۔


"ہاں، ٹھیک ہے چلو"۔ وہ فورا راضی ہوا۔


اوپر والے فلور پر وہ پہنچے۔


شاہی نے ایک نظر اردشیر کو دیکھا پھر نگاہیں موڑ کر بائیں جانب سٹنگ ایریا میں رکھے میز کے گرد بیٹھے احد اور مہرماہ کو دیکھا۔

وہ دونوں ہی ان کی جانب متوجہ نہیں تھے۔


"اردشیر، مجھے لگتا ہے ہمیں واپس سیکنڈ فلور پر جانا چاہئے"۔ وہ نگاہیں چراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔


اردشیر نے قدرے چونک کر اس کے انداز کو دیکھا۔


"کیوں؟ یہاں کیا پرابلم ہے؟"۔ اس کے چہرے کو فوکس میں رکھے اردشیر نے پوچھا۔


شاہی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

بلکہ حتی الامکان اس کی کوشش تھی کے وہ بائیں جانب نہ دیکھے۔


مگر اردشیر نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔

اور اس پل اس کی نگاہوں کے گرد زمین و آسمان گھوم گئے۔


وہ اس پل پچھتایا تھا جب اس کی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا۔

کچھ ٹوٹا تھا اس کے اندر۔

جس کی کرچیاں اسے اندر تک زخمی کر گئیں تھی۔


اس کے چہرے پر اس وقت ناقابل بیان تاثرات تھے۔


مہرماہ اس سے بے نیاز اب احد سے کچھ کہہ رہی تھی۔

وہ اس کی جانب متوجہ نہ تھی۔


اردشیر کیلئے وقت ساڑھے تین ماہ پیچھے چلا گیا۔

جب اسی طرح وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے۔


اور گلاس وال کے پار کھڑا وہ ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

مگر تب اسے اتنا دکھ نہیں ہوا تھا۔

تب اسے غصہ بھی نہیں آیا تھا۔

کیونکہ تب وہ اس کیلئے کچھ بھی نہ تھی۔


مگر اب۔۔۔

اب وہ اس کی بیوی، اس کی محبت تھی۔

جو کسی غیر مرد کے ساتھ یوں اس طرح ارد گرد سے بے نیاز بیٹھی تھی۔

اور مرد بھی وہ جس سے اس کی شادی ہونے جا رہی تھی۔


اردشیر کو اس وقت وہ وہی مہرماہ لگی تھی۔

اس سے بالکل دور۔۔۔

اس سے بے نیاز!


اس کیلئے وقت وہی ٹھہر گیا تھا۔


شاہی کیا کہہ رہا تھا اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

اس کی نگاہوں کا مرکز صرف مہرماہ تھی۔


ایک دم غصے میں بپھرا ہوا وہ آگے بڑھنے کو تھا۔

جب شاہی نے سرایت سے اس کا راستہ روک لیا۔


"چھوڑو میرا راستہ شاہی، یہ میری برداشت سے باہر ہے"۔ وہ زخمی شیر کی مانند اس کے مضبوط ہاتھوں سے نکلنے کو بے تاب تھا۔


"کیا کر رہے ہو اردشیر، کیوں یہاں بھرے مجمعے میں تماشا لگانا چاہتے ہو"۔ شاہی بمشکل اسے کھینچ کر لفٹ میں سوار ہو گیا۔


اردشیر نے اسے زور سے پرے دھکیلا۔

شاہی اس ردعمل کیلئے پہلے ہی تیار تھا۔

لہٰذا فورا سنبھل گیا۔


"میری بیوی۔۔۔وہ میری بیوی تھی جو کسی دوسرے مرد کے ساتھ یوں آرام سے بیٹھی تھی کے اسے میرے آس پاس ہونے کا احساس تک نہ ہوا۔ اور تم۔۔۔تمہاری جرت بھی کیسے ہوئی کے تم مجھے اس کے پاس جانے سے روک دو؟"۔ اس نے شاہی کا گریبان پکڑ کر ایک بار پھر اسے پرے دھکیلا۔


لفٹ اپنے مخصوص رفتار سے بیچے جا رہی تھی۔


اردشیر کی سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔

دل پر پڑنے والی چوٹ کچھ ایسی گہری تھی کے اس کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو گیا۔

بھوری آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں۔


ایک پل کو شاہی کو بھی اس سے خوف آیا تھا۔

کیونکہ غازی اردشیر کے غصے کی تاب لانا کوئی آسان بات نہ تھی۔


"ڈیم اٹ۔۔۔ڈیم اٹ"۔ لوہے کے دروازے پر وہ بری طرح مکے برسا رہا تھا۔


"میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اسے مجھے جواب دینا ہوگا اس عمل کا۔

غازی اردشیر کے دل و جذبات سے کھیلنے کی سزا اسے میں دے کر رہوں گا"۔ وہ اپنے عزائم بتا رہا تھا۔

اس کا تنفس تیز سے تیز تر ہو چلا تھا۔


لفٹ کا دروازہ کھلا۔

وہ بنا ارد گرد دیکھے ایک جھٹکے سے باہر نکل گیا۔


پیچھے شاہی نے سینے پر ہاتھ رکھ کر پرسکون سانس کھینچی۔


"شکر ہے اس طوفان کا رخ تو مڑ گیا"۔ حواس بحال ہوئے تو اس نے "کام ہو گیا" کا پیغام لکھ کر بھیج دیا۔

________________________________


"میں جانتا ہوں تمہاری شادی کن حالات میں ہوئی مہرماہ، اور یقین جانو تم پر بھروسہ نہ کر کے میں بہت پچھتایا ہوں۔

جبکہ مجھے چاہیئے تھا کے میں تم پر اعتبار کرتا۔ مگر میں بھی کیا کرتا۔۔۔اردشیر نے کچھ ایسا گمراہ کیا ہمیں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی منجمد ہو گئی ہماری"۔ اس کے لہجے میں چبھن تھی۔


مہرماہ نے چونک کر سر اٹھایا۔


"ایکسکیوز می؟ آپ شاید بھول رہے ہیں کے آپ میرے شوہر سے متعلق بات کر رہے ہیں۔ وہ شوہر جو میری پہلی اور آخری محبت ہے۔

جو میری زندگی ہے۔ میں ان کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں۔

وہ نہ تو آپ کی طرح کم ظرف ہیں اور نہ ہی کم اعتبار"۔ بنا کوئی لگی لپٹی رکھے وہ بولتی چلی گئی۔


احد نے اس کی بات پر اپنی جگہ پہلو بدلا۔


"وہ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں۔ لوگوں کی سنی سنائی باتوں پر وہ کان نہیں دھر لیتے۔

اور جتنی محبت وہ مجھ سے کرتے ہیں، شاید ہی کوئی شوہر اپنی بیوی سے کرتا ہوگا۔

اور سب سے بڑی بات۔۔۔وہ مجھ سے مخلص ہیں"۔ وہ پر اعتماد تھی۔


اس کے لہجے میں اردشیر کی محبت بول رہی تھی۔


"دیکھو میں جانتا ہوں تم اس وقت کن حالات سے دو چار ہو۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کے وہ ظالم شخص تمہیں کس طرح ٹارچر کرتا ہے۔

تم بس سمجھوتا کرنا چاہ رہی ہو اس سے مہرماہ۔

کیونکہ یہ بات تم بھی جانتی ہو کے تمہاری زندگی میں آنے والا پہلا شخص میں تھا۔

اور میں ہی رہتا۔۔۔اگر وہ غازی ہمارے بیچ نہ آ جاتا"۔ احد کو اس وقت سخت غصہ آیا۔


"بس، بہت کہہ لیا آپ نے اور بہت سن لیا میں نے۔ اب اور نہیں"۔ وہ ایک دم اپنی نشست سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

اور ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارا۔


"کیا کہا آپ نے؟ میرے شوہر مجھ پر ظلم کرتے ہیں؟ اور میری محبت آپ کو سمجھوتا لگ رہی ہے؟۔

تو دھیان سے سن لیجیے مسٹر احد کے میں یعنی مہرماہ اردشیر غازی نے اگر کسی کو چاہا ہے، دیوانگی کی حد تک کسی سے محبت کی ہے تو وہ ہے میرا شوہر غازی اردشیر۔

آپ میری زندگی میں آنے والے پہلے شخص ہو سکتے تھے۔ وہ بھی صرف اس لیئے کیونکہ میرے گھر والے آپ کو میرا ہمسفر چن چکے تھے۔

لیکن میں اپنے رب کی شکر گزار ہوں کے جس نے مجھے آپ جیسے بزدل، تنگ نظر اور کم اعتماد انسان کے ساتھ سے بچا لیا۔

اور غازی اردشیر جیسے بہادر اور خود سر انسان کو میری زندگی میں بھیج دیا۔۔۔پتہ ہے کیوں؟"۔ وہ ایک لمحہ رکی۔

اس کی شہد رنگ آنکھوں میں اپنی محبت کا یقین تھا۔


"کیونکہ وہ اتنا بہادر تھا کے جب اس پر آشکار ہوا کے وہ جس لڑکی سے محبت کرتا ہے۔ وہ لڑکی یعنی کے 'میں' کسی اور کی ہونے جا رہی ہوں تو وہ بھری محفل میں آ گئے۔

اور ڈنکے کی چوٹ پر مجھے اپنی بیوی کہہ کر لے گئے۔

پھر بعد ازاں مجھ سے ناصرف نکاح کیا، بلکہ اپنی بے تحاشا محبت کا یقین بھی دلایا۔

اردشیر بیچ میں نہیں آئے۔ بلکہ آپ کو میرے اور اپنے درمیان سے نکال پھینکا۔

کیونکہ میرے خدا کو ان کا اور میرا ساتھ منظور تھا۔

اور خدا کی مرضی کے آگے ہم چاہیں یا نہ چاہیں، بہرحال سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے"۔

وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی۔


اس وقت وہ احد کو ایک دیوانی ہی لگ رہی تھی۔

جو شوہر کی بے پناہ محبت کے آگے بے بس تھی۔


"لہٰذا بہتر یہی ہوگا کے آپ بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کر لیں۔

میں یہاں آپ سے ملنے پر رضامند اس لیے ہوئی کیونکہ مجھے بھی کچھ جواب چاہیے تھے۔

مگر اب آپ کی میری زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس لیے اب آئندہ آپ میری راہ میں آنے کی کوشش بھی مت کیجئے گا۔ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا"۔ دھمکی آمیز لہجے میں کہتی ہوئی وہ اس کو ہکا بکا چھوڑ کر وہاں سے نکلتی چلی گئی۔


یہ جانے بغیر کے کوئی تھا وہاں۔۔۔

جس کی سماعتوں نے اس کے ہر لفظ کو محفوظ کر لیا تھا!

__________________________________


کل مایوں تھی۔

اور بالآخر آج مایوں کا دن بھی آن پہنچا تھا۔

گھر کے سبھی افراد اپنی اپنی جگہ مصروف تھے۔


مہک اور بلال بھی کل ہی کینیڈا سے واپس آئے تھے۔

ان کے آنے سے تو جیسے رونق ہی بڑھ گئی تھی۔

ہر کوئی بے حد خوش تھا۔

آخر کو اتنے وقت اور دقتوں کے بعد اب جا کر تو دونوں گھروں میں خوشیاں آئی تھی۔


مہک کو اس کی فرمائش پر کچھ دنوں کیلئے اس کے میکے بھیج دیا گیا۔

اس کی خوشی کے پیش نظر گھر والوں نے بھی حامی بھر لی۔

بلال کو البتہ اس کی بے حد فکر تھی۔

مگر اس کے سکون کے پیش نظر وہ خاموش ہو گیا۔


مہندی کی تقریب ایک ہوٹل میں منعقد تھی۔

بلال اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں رہنے دے رہا تھا۔


وہ پہلے بھی مصروف تھا۔

مگر اب واپس آ کر اس کی مصروفیات مزید بڑھ گئی تھی۔

ایک اچھے بھائی کی طرح وہ ہر کام میں پیش پیش تھا۔


(دوسری جانب شاہی اور محمودہ بیگم مطمئن تھے۔ کیونکہ اردشیر نے مہرماہ سے بات چیت بند کر رکھی تھی۔ بلکہ وہ سرے سے ہی غائب تھا۔)


ڈل گولڈن اور گہرے سبز رنگ کے امتزاج والے غرارے میں ملبوس، ہلکی پھلکی جیولری اور میک اپ کے ساتھ زرش غضب ڈھا رہی تھی۔


اس کے اندر کی خوشی اس کے چمکتے چہرے سے چھلکتی تھی۔

جس سے سفیان صاحب کے ساتھ ساتھ گھر کے باقی افراد بھی مطمئن اور خوش تھے۔


(اس سارے فنکشن میں اکلوتی مہرماہ تھی جس کا چہرہ سیاہ اور گولڈن رنگ کے انارکلی فراک میں مرجھایا ہوا سا تھا۔ وہ مسلسل دو دن سے اردشیر سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔ مگر دوسری جانب سے کوئی جواب ہی نہیں آ رہا تھا۔)


ڈھولک کی تھاپ پر چھوٹی بڑی لڑکیاں محو رقص تھیں۔

مہندی کے فنکشن کی مناسبت سے گانے بھی چل رہے تھے۔


(وہ ابھی ابھی گھر پہنچا تھا۔ نہا دھو کر تازہ دم ہوا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے جو شخصیت موجود تھی اسے دیکھ کر وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوا۔)


مریم نے چونک کر مہرماہ کو دیکھا۔

جس کے چہرے پر پریشانی واضح تھی۔


وہ اس کی جانب چلی آئی۔


"کیا ہوا مہرماہ؟ تم ٹھیک ہو؟"۔ وہ متفکر سی پوچھ رہی تھی۔

مہرماہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔


"ہاں وہ، اردشیر پتہ نہیں کیوں میرا فون نہیں اٹھا رہے۔ اور کل سے کہیں نظر بھی نہیں آئے مجھے، پتہ نہیں وہ کہاں ہوں گے"۔ بغیر جمع تفریق کے اس نے من و عن اپنے دل میں چل رہی بات اس کے سامنے دہرا دی۔


مریم نے اس لڑکی کو حیرت سے دیکھا۔

اسے اس سے جلن نہیں ہوتی تھی۔

وہ اسے بہت معصوم اور بے ضرر سی لگی تھی۔

اردشیر سے اس کی اتنی محبت نے مریم کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔


"تم پریشان مت ہو، وہ یہی کہیں ہوں گے۔ شادی والا گھر ہے نا، سو کام ہوتے ہیں۔ اس لیئے شاید مصروفیت کے باعث تمہاری کال نہیں دیکھی ہو انہوں نے"۔ مریم نے اسے تسلی سے نوازا۔


"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں ہی شاید زیادہ سوچ رہی ہوں۔ اتنی عادت ہے ان کی کے اگر ایک دن انہیں نہ دیکھوں تو جیسے میری دھڑکن رک جاتی ہے، دن وہی ٹھہر جاتا ہے"۔ وہ کھوئی کھوئی سی اپنی ہی رو میں کہے جا رہی تھی۔


بنا یہ جانے کے مقابل اس کے شوہر کی پہلی بیوی اور اس کی سوکن تھی۔


مریم نے کچھ نہیں کہا۔

بس خاموشی سے اسے سنتی رہی۔

وہ اچھی طرح جانتی تھی کے اپنی محبت سے دور رہنا کتنا کٹھن ہوتا ہے۔

__________________________________


فنکشن ابھی ابھی اختتام کو پہنچا تھا۔

مہمان رخصت ہو چکے تھے۔


غازی ولا کے مکین تھکن سے چور اس وقت اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تھے۔


اردشیر کا اب بھی پتہ نہیں تھا۔


جبکہ مہرماہ اپنے میکے میں تھی۔


رات کے قریبا گیارہ بجنے کا عمل تھا۔


عثمان صاحب اسٹڈی روم میں بیٹھے کسی کتاب کے مطالعے میں مگن تھے۔

ان کے ہاتھ میں ان کی پسندیدہ کافی کا مگ تھا۔


ایسے میں دروازے پر ہلکی سی دستک نے انہیں چونکا دیا۔


"کم ان"۔ انہوں نے اجازت دی۔


چند لمحوں بعد ہی مریم کی صورت نظر آئی۔


"ارے، مریم بیٹا آپ سوئی نہیں؟"۔ انہوں نے فکرمندی سے پوچھا۔


مریم تذبذب کا شکار ان کے سامنے والی چیئر پر بیٹھ گئی۔


"نہیں مجھے نیند نہیں آ رہی تھی"۔ نگاہیں چراتے ہوئے اس نے کہا۔


عثمان صاحب کی زیرک نگاہوں سے اس کی بے چینی چھپی نہ رہی۔


"کوئی بات ہے کیا؟ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کے تم کوئی اہم بات کرنے آئی ہو؟"۔ انہوں نے بغور اس کے چہرے کو پڑھتے ہوئے پوچھا۔


تو مریم ان کے اس قدر صحیح اندازے پر ایک پل کو گڑبڑا گئی۔


"جی۔۔۔وہ۔۔۔بات واقعی بہت اہم ہے"۔ خود کو کمپوز کرتے ہوئے اس نے کہنا شروع کیا۔


"بے جھجھک بتاؤ بیٹا، کیا بات ہے؟"۔ عثمان صاحب نے نرمی سے کہتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی۔


"ماموں اب جو میں کہنے جا رہی ہوں، ممکن ہے اس سے آپ کا دل دکھے، آپ کو تکلیف ہوگی پر مجھے یقین ہے کے پھر اس کے بعد سب اعتدال پر آ جائے گا۔

اگر دیکھا جائے تو یہ فیصلہ بہت پہلے ہی ہو جانا چاہیئے تھا مگر تب میں خود کو اتنا مضبوط نہیں پاتی تھی۔

اب بہت مشکل سے میں یہ فیصلہ کر پائی ہوں، اس امید پر کے آپ میری اس میں حمایت کریں گے"۔ وہ پر امید نظروں سے محتاط الفاظ میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہیں دیکھ رہی تھی۔


عثمان صاحب کے چہرے پر پتھریلے تاثرات چھا گئے۔

شاید وہ سمجھ چکے تھے کے وہ آگے کیا کہنے جا رہی تھی۔


"میں۔۔۔اپنی مکمل رضامندی اور اپنے پورے ہوش و حواس میں اردشیر سے خلاء کا مطالبہ کرتی ہوں۔ کیونکہ طلاق کا حق کاغذات کی صورت میرے پاس محفوظ ہے تو میں۔۔۔۔"


"بس، ایک اور لفظ آگے مت کہنا"۔ اس کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی عثمان صاحب غضبناک ہو چکے تھے۔

انہوں نے اسے بری طرح ٹوک دیا۔


مریم کا دل کانپ اٹھا۔

مگر پھر بھی وہ کمزور نہ پڑی۔


"یہ میری اپنی مرضی ہے ماموں، یہ میرا فیصلہ ہے۔ اور میں اپنے فیصلے میں آزاد ہوں۔

یہ رشتہ صرف کاغذی ہے، ایک مجبوری ہے جس میں ہم دونوں نے بندھے رہ کر پہلے ہی اپنی زندگی کے کئی سال برباد کر دیئے ہیں مگر اب اور نہیں۔۔۔۔میں اردشیر کو اس مجبوری بھرے رشتے کیلئے مجبور نہیں کر سکتی۔

اتنی مشکل سے انہیں زندگی نے دوسرا موقع دیا ہے۔

انہیں ان کی محبت ملی ہے۔

اور میں ان دونوں کے بیچ دیوار بن کر ان کی بد دعائیں نہیں سمیٹنا چاہتی"۔ وہ زچ ہوئی تھی۔


"تم جانتی ہو نا کے فائزہ سے اس قدر چڑ ہونے کے باوجود بھی میں نے پوری کوشش کی اس سے رشتہ نبھانے کی۔

حالانکہ مجھے اس سے محبت نہیں تھی، مگر پھر بھی میں نے اسے طلاق نہیں دی۔ کیونکہ اس سے میرا رشتہ صرف میرے والدین کی مرضی تھی۔

تو اب اردشیر کو بھی میں یہ اجازت نہیں دے سکتا"۔ وہ ضدی ہوئے۔


"اور اس کا نتیجہ بھی آپ نے دیکھ ہی لیا ہوگا۔ شہزاد عمر کا کیا قصور تھا جو وہ باپ کی شفقت اور توجہ سے محروم رہ گیا؟"۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس نے وہ ذکر چھیڑ دیا۔


عثمان صاحب اب کے کچھ بول ہی نہ سکے۔


"اردشیر آپ کے دباؤ میں آ کر اس رشتے کو مزید گھسیٹنے کیلئے راضی بھی ہو جائے گا۔

مگر پھر؟ اسکے بعد کیا ہوگا؟"۔ اس نے سوال کیا۔


"میں بتاتی ہوں اس کے بعد کیا ہوگا۔ اس ضد کے نتیجے میں بالآخر مہرماہ اس رشتے کی حقیقت جان جائے گی اور اب تک جتنا میں اس کو جان پائی ہوں۔ وہ قطعی اپنے شوہر کے گرد دوسری عورت کا سایا برداشت نہیں کرے گی۔

اور بالآخر اسے چھوڑ کر چلی جائے گی۔

ایک بار پھر اردشیر کا دل ٹوٹے گا۔ ایک بار پھر وہ اپنی محبت سے محروم رہ جائے گا۔

تین تین زندگیاں برباد ہو جائیں گی صرف اس ایک غلط فیصلے کے نتیجے میں"۔

وہ مستقبل کا نقشہ ان کے سامنے کھینچ رہی تھی۔

جو خاصا بھیانک تھا۔


"تم دونوں صورتوں میں برباد ہو جاؤ گی مریم؟ میں اپنی مرحوم بہن کو روز محشر کیا منہ دکھاؤں گا؟"۔ اب کے وہ بولے تو ان کے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی سی کرچیاں بکھری تھیں۔


مریم نے سرد آہ بھری۔

اور تلخی سے مسکرا دی۔


"میں نے یہاں آ کر ان کی آخری خواہش پوری کر دی ہے۔ ایک عرصہ ہم غائب رہے۔

آپ نے تب اپنی بہن کو ڈھونڈنے کی سعی نہ کی۔

مگر میں جانتی ہوں کے وہ تب بھی آپ کو اتنا ہی چاہتی تھیں"۔ اس کا اپنا لہجہ بھیگنے لگا۔


"تم مجھے یوں ایموشنل کر کے اپنے ساتھ یہ ظلم نہیں کروا سکتی میری بچی"۔ انہوں نے اسے کندھوں سے تھام کر جھنجھوڑ ڈالا۔


"بیٹی کہا ہے نا آپ نے، تو اس ناطے آج پہلی بار کچھ مانگا ہے آپ سے۔ اور میں انکار نہیں سنوں گی ماموں"۔ سیاہ آنکھوں میں ستارے جھلملا رہے تھے۔

وہ بہت مان سے کہہ رہی تھی۔


اور عثمان صاحب ہار کر کرسی پر ڈھے گئے۔

کسی نے جیسے ان کے ہاتھ باندھ دیئے تھے۔


ایک بار پھر وہ خود کو مجرم سمجھنے لگے تھے۔

_________________________________


وہ اپنے چہرے پر سے آنسو صاف کرتی ہوئی اسٹڈی روم سے باہر نکلی تو اردشیر کے کمرے میں جلتی روشنی کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی۔


اس نے ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر اسٹڈی روم سے زرا فاصلے پر اردشیر کے کمرے کا رخ کیا۔


اسی وقت کمرے کی روشنی بجھی تھی۔

اور کوئی کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔


"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟"۔ مریم نے اچنبھے سے کہا۔


اس آواز پر محمودہ بیگم اسپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اچھل پڑیں۔


مریم نے اس قدر کم روشی کے باوجود بھی ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑتے دیکھ لیا تھا۔


"میں نے پوچھا کے آپ اردشیر کے کمرے میں کیا کر رہی تھیں؟"۔ اب کے اس کے لہجے میں زرا سختی در آئی۔


"اا۔۔۔۔اب۔۔۔وہ میں۔۔۔۔بس اردشیر کو ہی ڈھونڈ رہی تھی"۔ انہوں نے گڑبڑا کر بات بنائی۔


مریم نے مشکوک نظروں سے انہیں دیکھا۔


"شاید آپ کو پتہ نہیں، وہ گھر میں نہیں ہیں"۔ اس نے اپنے تئیں اطلاع دی۔


"اچھا، تو پھر میں بھی چلتی ہوں"۔ وہ اتنا کہہ کر وہاں سے فورا کھسک گئیں۔


مریم ابھی تک مشکوک نظروں سے ان کی پشت تک رہی تھی۔

________________________________


آج بارات تھی۔

اس لحاظ سے مصروفیات بھی عروج پر تھیں۔


صبح سے شام ہونے کو آئی تھی۔

افشاں بیگم نے مہرماہ کے مشورے پر پارلر والی کو گھر بلوا لیا تھا۔


جو اب زرش کو تیار کر رہی تھی۔


مہک بھی آج وہی موجود تھی۔

وہ بھی ہر تقریب میں بھرپور حصہ لے رہی تھی۔


اور اب زرش کو تیار کروانے میں وہ ساتھ ساتھ مدد کروا رہی تھی۔


"میڈم، آپ کو تو میک اپ کا کافی سینس ہے۔ ہمیں تو ویسے ہی بلوانے کی تکلف کر لی آپ نے"۔ لڑکی نے جانے طنز کیا تھا یا تعریف وہ سمجھ نہ پائی۔


"وہ اس لیے رخسار کیونکہ ہماری بھابھی کا فیش سینس ماشاءاللہ سے بہت اچھا ہے۔ اور تمہیں اس لیے بلوا لیا تاکہ تم بھی ان سے کچھ ٹپس لے سکو"۔ وہ مہرماہ ہی کیا جو خاموش رہ جاتی۔


اثبات پر زرش اور مہرو ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستی چلی گئیں۔

بے چاری لڑکی شرمندہ سی ہو گئی۔


"ارے بھئی جلدی کرو لڑکیوں، بارات شادی ہال پہنچتی ہوگی۔ اور تم لوگوں کی تیاریاں نہیں ختم ہوئیں"۔ افشاں بیگم نے پریشانی سے کہا۔


"ارے امی، کرنے دیں نا جی بھر کر تیاری۔ اور زرا ہمارے دلہا بھائی کو بھی انتظار کا مزا لینے دیں"۔ مہرماہ نے بے فکری سے کہا۔


"ابھی ایک تھپڑ لگاؤں گی نا تو ہوش ٹھکانے پر آ جائیں گے۔ جلدی کرو تم لوگ" وہ کہتی ہوئی ہڑبڑاہٹ میں کمرے سے باہر نکل گئیں۔


"دیکھا تم لوگوں نے، میری اماں مجھے ابھی تک تین سال کی مہرماہ کی طرح ٹریٹ کرتی ہیں"۔ اس نے ناک چڑائی۔


تو باقی لڑکیاں اس کے انداز پر ہنس پڑیں۔

________________________________


گولڈن اور سفید رنگ کی شروانی میں ملبوس دلہا بنا برہان اس وقت اسٹیج پر براجمان تھا۔

اس کے چہرے پر دنیا جہاں کی خوشی اور آسودگی دیکھنے والوں کی نظریں اس کے چہرے پر ٹکنے نہ دے رہی تھیں۔


تھوڑی ہی دیر میں شادی ہال مہمانوں سے بھر گیا۔

یوسف صاحب اور برہان کے جاننے والوں کے علاوہ عثمان صاحب اور اردشیر کے حلقہ احباب کے لوگ بھی وہاں موجود تھے۔

ان کے بزنس ایسوسیئٹس، خاندان کے لوگ اور کئی دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔


جن میں سے ایک ڈی-ایس-پی وجاہت آفریدی تھا۔


سفید شلوار قمیض میں ملبوس، سیاہ ویسٹ کوٹ پہنے وہ سنجیدہ سنجیدہ سا اس شادی میں شریک تھا۔

عجب سوگ کی سی کیفیت تھی اس پر۔

بہت بار کوشش کی کے وہ دشمن جاں کہیں سے تو سہی بس اس کی ایک جھلک ہی دیکھنے مل جائے۔

مگر بے سود۔


اسی وقت شادی ہال میں دلہن کی آمد کا شور مچ گیا۔


ہال کے داخلی دروازے سے لے کر اسٹیج تک بچھی سرخ مخملی قالین پر قدم دھرتی ہوئی گہرے سرخ رنگ کے شرارہ میں ملبوس، زیورات اور میک اپ سے سجی سنوری وہ یقینا آج وہاں موجود ہر حسینہ سے زیادہ حسین تھی۔


کمال صرف ظاہری روپ کا بھی نہ تھا۔

اس کے اندر خوشی ہی ایسی تھی جو اس کے وجود سے روشنیوں کی مانند پھوٹتی اسے مزید نکھار رہی تھی۔

خوشی محبوب کے مل جانے کی!

خوشی اپنی پہلی اور آخری محبت کو پا لینے کی!


نگاہیں جھکائے مہرماہ اور مہک کے ساتھ ساتھ کئی دیگر لڑکیاں اسے تھامے اسٹیج کی اوور لے جانے لگیں۔


برہان کی نظریں اس پر ٹھہر نہ پا رہی تھیں۔

وہ بلا تامل اپنی دلہن کے استقبال کیلئے کھڑا ہو گیا۔


کئی منچلوں نے سیٹیاں بجائیں۔

کئی نے نعرے بلند کیئے۔


اور بالآخر زرش سفیان اسٹیج کے قریب پہنچی۔


"لیں برہان بھائی، اب سنبھالیں اپنی امانت کو"۔ مہرماہ نے مسکراہٹ دبا کر اسے اس کے دلہا کے حوالے کر دیا۔


"شوق سے"۔ اس نے آگے بڑھ کر احتیاط سے زرش کا ہاتھ تھام لیا اور اسے اپنے برابر والی نشست تک لے گیا۔


"تشریف رکھیے شہزادی صاحبہ"۔ اس نے نشست پیش کی۔

تو زرش چاہ کر بھی اپنی مسکراہٹ ضبط نہ کر پائی۔

پھر جب اس نے نشست سنبھال لیا تو برہان بھی اس کے برابر بیٹھ گیا۔

_________________________________


"اردشیر کہاں ہیں بھئی، نظر نہیں آئے"۔ یہ سوال ہر ایک کی زبان پر تھا۔


سارے گھر والے شاکی تھے۔

اپنے عزیز دوست اور کزن کی شادی میں وہ ہی شریک نہ تھا۔

یہ بات ہضم ہونے والی بھی نہ تھی۔


مگر اس سے قبل کے وہ سب مزید کسی سوال جواب کا سامنا کرتے۔


وہ سوٹڈ بوٹڈ سا شادی ہال کے داخلی دروازے سے آتا دکھائی دیا۔


اس کے چہرے پر دنیا جہاں کی سنجیدگی تھی۔

اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔


وہ آ کر فردا فردا سب مہمانوں سے ملنے لگا۔


"بھئی ہم سب آپ کا ہی پوچھ رہے تھے۔ کہاں رہ گئے تھے اردشیر صاحب آپ؟"۔ ایک بزرگ صاحب نے خوش دلی سے مصافحہ کرتے ہوئے پوچھا۔


"بس کچھ کام پینڈنگ پڑا تھا۔ اسے ہی پورا کرنے گیا تھا"۔

گلابی رنگ کے لہنگے میں ملبوس دور کھڑی مہرماہ کو دیکھ کر اس نے جواب دیا۔


کچھ ہی دیر میں ایجاب و قبول کے مراحل بھی طے پا گئے۔

نکاح نامے پر دستخط کرتے زرش کی آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی۔


اس مقام پر آ کر ہر لڑکی کی طرح اسے بھی اپنے گھر والوں سے بچھڑنے کا خیال تکلیف دے رہا تھا۔

شادی کی تقریب رات گئے تک جاری رہی۔


کچھ ہی وقت بعد رخصتی کا شور بلند ہوا۔


روتی دھوتی زرش اپنے گھر والوں سے وداع لیتی برہان کے ساتھ گاڑی میں آ بیٹھی۔


"یہ آخری بار ہے جو میں تمہیں رونے دے رہا ہوں۔ لہٰذا دل کھول کے رو لو، پھر اس کے بعد مجھے یہ آنسو نظر نہیں آنے چاہیے"۔ برہان نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بہت مان اور استحقاق سے کہا۔

تو زرش نے مسکرا کر بھیگی آنکھوں سمیت اثبات میں سر ہلا دیا۔


جہانزیب صاحب بلال کی ہدایت پر افشاں بیگم اور مہک کو لے کر گھر چلے گئے۔


جبکہ خود بلال غازی ولا جانے کیلئے تیار تھا۔


چار گاڑیاں آگے پیچھے ایک ہی راستے پر رواں تھیں۔

جو راستہ غازی ولا جا رہا تھا۔

"ڈرائیور، یہ تم ہمیں غازی ولا کیوں لے جا رہے ہو؟"۔ سب کے ہونٹوں پر یہی سوال تھا۔

"اردشیر صاحب کی سخت ہدایت ہے کے سارے گھر والوں کو غازی ولا میں جمع کیا جائے"۔ چاروں ڈرائیور کا ایک ہی جواب تھا۔

گھر والے حیران تھے۔

مگر خاموش رہے۔

جو بھی تھا بالآخر غازی ولا جا کر کھل ہی جانا تھا۔

اردشیر، مہرماہ اور شاہی ایک ہی گاڑی میں تھے۔

کچھ تھا جو اس رات میں اور اس فضاء میں بے حد بھاری تھا۔

اردشیر خاموشی سے باہر کے مناظر دیکھ رہا تھا۔

اور مہرماہ اسے۔

جبکہ شاہی اگلی نشست پر بیٹھا آئینے میں ان دونوں کو۔

تھوڑی ہی دیر بعد وہ لوگ غازی ولا پہنچے۔

سارے گھر والے لاؤنج میں جمع تھے۔

جن میں یوسف صاحب، محمودہ بیگم، کائنات، برہان، زرش، شاہی اور اردشیر کے والدین کے علاوہ مریم، مہرماہ اور اردشیر موجود تھے۔

"سب کو حیرت ہوگی نا کے میں نے یوں اس طرح کیوں بلوایا ہے؟"۔ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا وہ سب کے چہرے دیکھ رہا تھا۔

شاہی اور محمودہ بیگم جانتے تھے اب کیا تماشا ہونے جا رہا تھا۔

لہٰذا وہ دونوں سب سے زیادہ مطمئن تھے۔

اسی لمحے اردشیر نے جیب سے ایک تصویر نکالی اور اسکی سفید پشت سب کو دکھائی۔

"اس پر لکھا ہے میری پہلی اور آخری محبت۔۔۔احد"۔ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے تصویر پر لکھی عبارت پڑھ کر سنائی اور تصویر کا دوسرا رخ ان لوگوں کے سامنے کر دیا۔

جسے دیکھ کر ان لوگوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔

مہرماہ پتھر کی بت بن گئی۔a

تصویر میں وہ مسکراتے ہوئے احد کے شانے سے لگی تھی۔

اور احد نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔


"میرے خدایا، ہمارے خاندان کی عزت خاک میں ملوا کر تم یہ گل کھلا رہی ہو لڑکی"۔ محمودہ بیگم نے غضبناک ہو کر مہرماہ سے کہا۔


اس نے سانس تک روک لی تھی۔

سب دم سادھے نفرت اور غصے سے مہرماہ کو دیکھ رہے تھے۔

ایک تصویر نے ان سب کو اس سے بدگمان کر دیا تھا۔

محض ایک تصویر نے!


جبکہ مہرماہ خاموشی اور بے بسی سے بس اردشیر کو ہی دیکھ رہی تھی۔

اور وہ اسے!


"نہیں یہ جھوٹ ہے۔ مہرو ایسی نہیں ہے"۔ دلہن بنی زرش نے پہلی بار مداخلت کی۔


"تم چپ رہو لڑکی، یہ میاں بیوی کا معاملہ ہے"۔ محمودہ بیگم نے اسے گھرکا۔

تب وہ زہر کے گھونٹ بھر کے رہ گئی۔


"تو۔۔۔۔مسز مہرماہ"۔ وہ قدم قدم چلتا ہوا اس کے مقابل آ گیا۔


اس کے چہرے پر استہزاء تھا۔

اس کا لہجہ بے رحم تھا۔


مہرماہ کا خون خشک ہوا۔

کیا وہ پھر سے مجرم ٹھہرائی جانے والی تھی؟


"یہ سچ نہیں ہے"۔ کہا بھی تو بس اتنا۔

حلق میں آنسوؤں کا گولہ سا اٹک گیا تھا۔

جو اسے بولنے نہیں دے رہا تھا۔


"یہ۔۔۔سچ نہیں ہے؟"۔ اردشیر ایک قدم آگے بڑھا۔


مہرماہ خوف سے پیچھے ہٹی۔

منظر سے سب غائب ہوگئے تھے۔


اگر کوئی تھا تو بس وہ دونوں۔

سب دم سادھے کھڑے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔


"نہیں"۔ وہ اب باقاعدہ رو رہی تھی۔


"نہیں ہاں؟"۔ اس کی آنکھوں سے شعلے لپک کر مہرماہ کے وجود کو خاکستر کر رہے تھے۔


وہ پھر ایک قدم پیچھے ہٹی۔

اردشیر نے جھپٹ کر تمام تر فاصلہ مٹایا اور بے دردی سے اسے اپنے مقابل کھینچ لیا۔


"میرا یقین کریں یہ سچ نہیں ہے میں بے گناہ ہوں"۔ اپنی صفائی میں اس کے پاس واحد ایک یہی جملہ تھا۔

وہ اس شدت سے رو رہی تھی کے اس کا وجود ہچکیوں کی زد میں تھا، مگر مقابل کو پھر بھی اس پر رحم نہ آ رہا تھا۔


"ابھی اسی وقت دور ہو جاؤ میری نظروں سے"۔ اس نے ایک جھٹکے سے اسے خود سے پرے کیا۔


"پلیز میرا یقین کریں"۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔


"میں نے کہا ابھی اسی وقت دور ہو جاؤ میری نظروں سے، اس سے قبل کے میں کچھ کر بیٹھوں دفع ہو جاؤ یہاں سے۔

مجھ سے دور۔۔۔میری زندگی سے دور۔ تمہارے سائے سے بھی نفرت ہے مجھے"۔ غصے سے دھاڑتا ہوا مہرماہ کو وہ اس وقت وہی غازی اردشیر لگ رہا تھا جس سے اسے خوف آتا تھا۔

_____________________________

شاہی اور محمودہ بیگم نے ایک نظر نیچے بیٹھی بلکتی ہوئی مہرماہ کو دیکھا پھر اس کی جانب پشت کیئے کھڑے اردشیر کو۔

اور فاتحانہ نظروں کا تبادلہ کیا۔


"چٹاخ" ایک لمحے سے بھی کم وقفے میں وہ مڑا تھا اور ایک بھرپور تماچہ شاہی کے گال پر جڑ دیا۔


اور اتنی زور سے جڑا تھا کے شاہی کا ہونٹ کنارے سے پھٹ گیا اور اس سے خون رسنے لگا۔


"ہو گیا پلان کامیاب۔ ہو گیا اردشیر مہرماہ سے بدگمان، یہی چاہتے تھے نا تم؟" وہ اب باقاعدہ دھاڑ رہا تھا۔

اور اتنی زور سے دھاڑ رہا تھا کے غازی ولا کے در و دیوار تک ہل گئے تھے۔


مہرماہ کے آنسو رک چکے تھے۔

اب اس کی آنکھوں میں حیرت کا سمندر موجزن تھا۔


ایک مرتبہ پھر سب کو زوردار جھٹکا لگا تھا۔

شاہی اور محمودہ بیگم کو تو گویا سانپ سونگ گیا تھا۔

ان سب میں اگر کوئی پرسکون تھا تو وہ مریم تھی۔

جو اردشیر کی پشت پر کھڑی تھی۔

وہ آگے بڑھا اور مہرماہ کو شانوں سے تھام کر زمین سے اٹھا لیا۔

"تمہارے ایک ایک آنسو کا حساب دینا ہوگا ان جلادوں کو، مجھے تم پر یقین ہے مہرماہ۔۔۔ہر چیز سے زیادہ۔۔۔زندگی سے زیادہ"۔ وہ احتیاط سے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے نرمی سے مخاطب تھا۔

اس کے لہجے میں وہ سختی اب مفقود تھی جو شاہی سے بات کرتے ہوئے در آئی تھی۔

یہی تو اس شخص کی خاص ات تھی۔

وہ لمحوں میں روپ بدل لیتا تھا۔

کچھ دیر قبل وہ جلاد تھا۔

اور اب اس کیلئے کیسے ابر رحمت بنا تھا!

مہرماہ کو ایک طرف کر کے وہ اب ایک بار پھر مڑا۔

اب وہ تھا اور شاہی۔

کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے یہ ہو کیا رہا ہے۔

"تم نے احد کو مہرماہ کے پیچھے لگایا"۔ آگے بڑھ کر اس نے اسے زور سے دھکا دیا۔

اور پہلی بار۔۔۔۔

زندگی میں پہلی بار شہزاد کو اس سے خوف آ رہا تھا۔

اسے کالج کے زمانے کا وہ وقت یاد آیا جب اردشیر نے ایک لڑکے کو پیٹا تھا۔

جو پورا ایک ہفتہ بستر سے اٹھ نہ پایا تھا۔

"تم نے میری محبت کو چھیننا چاہا"۔ بیک وقت کئی زوردار ضربیں اس نے اس کے چہرے پر رسید کیں۔

"مجھے۔۔۔معاف کردو"۔ اس کے ناک سے خون آ رہا تھا۔

جسے دیکھ کر وہ بہت خوفزدہ ہوا۔

مگر لفظ رحم غازی اردشیر کی لغت میں تھا ہی کب؟

وہ اسے پیٹتا گیا اور اس کا ہر دھوکا، ہر وار اسے یاد دلاتا گیا۔

مگر شاہی جوابی کاروائی نہ کر سکا۔

کیونکہ وقت کا تقاضا یہی تھا کے اپنی شکست تسلیم کر لی جاتی۔

"بس کرو اردشیر"۔ بالآخر عثمان صاحب کو ہی بیچ بچاؤ کرنا پڑا۔

"میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس نے میری جذباتیت کا فائدہ اٹھا کر مجھے مہرماہ کے خلاف گمراہ کرنا چاہا۔ وہ تو اچھا ہوا کے وقت رہتے مجھے اس کی سازش کا علم ہو گیا۔ ورنہ نا جانے آج میں کیا کر بیٹھتا"۔ وہ سانسیں درست کرتے ہوئے اب حقیقت سے پردہ اٹھانے لگا۔

اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔

ملازم کے دروازہ کھولنے کے بعد پولیس کی وردی میں ملبوس وہ نوجوان افسر ان کی جانب چلا آیا تھا۔

"ڈی-ایس-پی وجاہت آفریدی۔ ہمیں خبر ملی ہے کے ڈرگ مافیا گینگ کا سربراہ یہاں موجود ہے۔ ہم اسے گرفتار کرنے آئے ہیں"۔ اس کے پیچھے پیچھے چار، پانچ افسران اور بھی تھے۔

"اپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے آفیسر اور کس کی اجازت سے آپ اپنے افسران کے ساتھ یہاں میرے گھر میں داخل ہوئے"۔ عثمان صاحب بھڑک اٹھے۔

"انہیں یہاں میں نے بلوایا ہے۔ آفیسر، گرفتار کر لیجیے اس ڈرگ ڈیلر کو"۔ اس نے زمین پر گرے شاہی کی جانب اشارہ کیا۔

"شوق سے"۔ وجاہت آگے بڑھا اور اس کی کلائی میں ہتھکڑی پہنا دی۔

_________________________________

اس دن جب وہ لفٹ سے نکلا تھا تو ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی جذباتیت پر کنٹرول نہ رکھ سکا۔

اور ایک مرتبہ پھر وہ اس فلور پر پہنچا جہاں مہرماہ اور احد بیٹھے تھے۔


ان کی جانب بڑھا تو وہ اس ارادے سے ہی تھا کے ان دونوں کو ہی شوٹ کر دے گا۔

مگر مہرماہ کے الفاظ نے اس کے قدم وہی روک دیئے تھے۔


وہ اپنی وفا اور محبت کا اظہار اس کیلئے کر رہی تھی۔

وہ احد کو اس کیلئے دھتکار رہی تھی اور وہ کیا کرنے جا رہا تھا؟


اس دن ان جانے میں ہی مہرماہ نے اپنی محبت کی سچائی اور اپنی وفا پر مہر ثبت کر دیا تھا۔


اب اس سے باز پرس کرنے کا جواز ہی کب بنتا تھا۔


لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں تھا کے وہ احد سے کچھ نہ پوچھتا۔

اس دن تو وہ وہاں سے چپ چاپ مگر سرشار سا چلا گیا۔


مگر اگلے دن وہ احد کے سر پر پہنچا تھا۔

اور بنا کوئی لگی لپٹی رکھے اس نے اس سے باز پرس کیا۔

لیکن اس بار قدرے تحمل اور عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔


احد کو بھی بھلا کیا ضرورت تھی کچھ چھپانے کی۔

اس نے بھی من و عن وہ سب باتیں دہرا دیں جو شاہی نے اس کے دماغ میں بھری تھیں۔


اردشیر کیلئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا کے اس کا اتنا عزیز دوست ہی اس کی محبت کا دشمن بنا تھا۔


فلحال وہ خاموش رہا۔

اور اپنے تئیں مزید تحقیق کرکے اسے ایک اور جھٹکا تب لگا جب اسے پتہ چلا کے محمودہ بیگم بھی اس سب میں برابر کی شریک تھیں۔


یہ تو طے تھا کے وہ اتنی آسانی سے ان دونوں کو معاف نہیں کرے گا۔


لہٰذا اس نے انہیں سزا دینے کی ٹھان لی۔

اردشیر کے پاس شاہی کی کمزور کڑی تھی۔


اس کے وہ کالے کارنامے جو وہ کالج کے زمانے سے کرتا آیا تھا۔

مگر ایک اچھے دوست کی طرح اس نے وہ سب پردے میں رکھا۔


جو صلہ اس نے دیا تھا، اب وقت آگیا تھا کے وہ اسے سود سمیت لوٹا دیا جاتا۔


اسے تلاش تھی تو ایک ایسے شخص کی جس کو شاہی کے اس راز میں دلچسپی ہوتی۔


بالآخر اسے وجاہت کا پتہ مل گیا۔

اس طرح اس نے اسے تمام ثبوت اس کے ہاتھ سونپ دیئے۔

اور آج شاہی کا یوم حساب تھا۔

_________________________________

عثمان صاحب تھک کر صوفے پر گر سے گئے۔

نگہت بیگم ان کی پریشانی بخوبی سمجھتی تھیں۔

"عثمان صاحب، آپ ٹھیک تو ہیں؟"۔ وہ فورا ان تک پہنچیں۔

تو انہوں نے اثبات میں محض سر ہلا دیا۔

"تھینک یو سو مچ اردشیر صاحب، آپ نے پولیس کی بہت مدد کی ہے۔ آپ نہیں جانتے میں کتنے وقت سے اس ڈرگ مافیا کے لیڈر کو ڈھونڈ رہا جو کالجز، ہاسٹلز اور یونیورسٹیوں میں منشیات کا بازار سرگرم رکھے ہوئے تھا۔

آج آپ کی وجہ سے یہ مجرم ہمارے ہاتھ لگا ہے۔ بہت شکریہ"۔ وہ اردشیر سے مصافحہ کرکے اب افسران کی جانب متوجہ ہوا۔

"لے چلو اسے"۔ اس نے حکم دیا۔

افسران آگے بڑھے اور زخمی شہزاد کو اپنے ساتھ لے گئے۔

اس کی آنکھوں سے آج عرصے بعد وہ غرور مفقود تھا۔

آج وہ واقعی اپنے کیے پر شرمندہ تھا۔

مگر اب سزا جزا کا تعین ہو چکا تھا۔

معافی تلافی کا وقت گزر چکا تھا۔

"میں نے جو کیا وہ صرف اپنے باپ کو سبق سکھانے کیلئے کیا۔ تاکہ آئندہ لوگوں کیلئے سبق ہو کے وہ میرے جیسی اولاد پیدا نہ کریں، یا اگر کریں تو ان کو اپنی محبت اور توجہ سے نوازیں"۔ شکست خوردہ لہجے میں اس نے وہ بات بلند آواز سے بطور خاص عثمان غازی کو ہی سنائی تھی۔

انہوں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔

وہاں موجود کوئی بھی اس کی بات کی گہرائی نہیں جانتا تھا۔

سوائے عثمان صاحب اور نگہت بیگم کے۔

"چھپا لیا آپ کا راز، رکھ لیا آپ کا بھرم۔۔

سمجھ لیجیے گا میرے خرچے اٹھا کر جو احسان آپ نے مجھ پر کیئے اس کا بدلہ میں نے چکا دیا"۔ اس نے عثمان صاحب کو ایک نظر دیکھ کر دل ہی دل میں انہیں مخاطب کیا۔

اور پھر بنا مزید کسی سے کچھ کہے وہ وجاہت آفریدی کے ساتھ چل دیا۔

ایک اور راز بھی اس نے اپنے سینے میں دفن کر لیا تھا۔

مہرماہ سے اپنی بے پناہ محبت وہ چھپا گیا تھا۔

"اووفف یار، اتنا سارا سیاپا میری ہی شادی کے دن ہونا تھا"۔ برہان نے زچ ہو کر پہلی بار مداخلت کی۔

"سوری یار، مگر اب جو بات میں کہوں گا اس سے شاید تجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچے"۔ اردشیر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔

محمودہ بیگم کا ماتھا ٹھنکا۔


"کیوں مامی جی؟ آپ کی کیا رائے ہے؟"۔ وہ اب براہ راست ان سے مخاطب تھا۔


وہ ایک دم ہی گڑبڑا گئیں۔


"اا۔۔۔اب۔۔۔کک۔۔۔کیا کہہ رہے ہو بیٹا۔۔۔۔میں کچھ سمجھی نہیں"۔ وہ انجان بن گئیں۔


"کہہ دیجئے کے آپ بھی شاہی کی اس سازش میں برابر کی شریک نہیں تھیں؟ کے آپ نے کوئی چال چلنے میں کسر باقی نہیں رکھی؟"۔ وہ غرایا۔


برہان نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا۔


وہ ایک دم ہی ہاتھ جوڑ کر بلک اٹھیں۔


"مجھے معاف کر دو بیٹا، اپنے لالچ میں اس قدر اندھی ہو گئی تھی میں کے تمہاری ہستی بستی زندگی اجاڑنا چاہی۔

میں معافی کی حقدار تو نہیں ہوں پر خدارا مجھے معاف کر دو اردشیر بیٹا"۔ وہ شدت سے رو رہی تھیں۔


"ممی آپ بھی؟ مجھے یقین نہیں ہوتا کے آپ اس حد تک گر جائیں گی"۔ برہان کے لہجے میں دکھ کا عنصر نمایاں تھا۔


"میں معاف کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور جہاں تک

سزا کی بات ہے تو آپ کیلئے یہ سزا کافی ہے کے آپ تمام عمر اپنے ہی خاندان سے نگاہیں چراتی پھریں گی"۔ اردشیر نے قدرے روکھے لہجے میں کہا۔


"تم شاید اس سزا کو کافی سمجھو شیرو، مگر جو انہوں نے تمہارے اور مہرماہ بھابھی کے ساتھ کیا وہ معافی کے قابل ہرگز نہیں ہے۔

میں جا رہا ہوں اپنی بیوی کو لے کر، دعا کیجئے گا کے اللہ مجھے آپ کو معاف کرنے کا حوصلہ عطا کر دے"۔ برہان نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور زرش کا ہاتھ تھامے وہاں سے تن فن کرتا ہوا نکل گیا۔


جبکہ محمودہ بیگم اسے روکتی ہی رہ گئیں۔


"دیکھا تم نے، تمام عمر دوسروں کی خوشیوں سے جلنے کا نتیجہ۔ آج تمہارا اپنا بیٹا ہی تمہیں دھتکار گیا۔ نہ تو تم ایک اچھی بیوی بن سکی اور نہ ایک اچھی ماں"۔ یوسف صاحب نے طنز کے نشتر چلائے۔


تو وہ مزید شرمندہ ہو گئیں۔


"چلو کائنات"۔ انہوں نے بیٹی سے کہا تو وہ بھی سر جھکائے ان کے پیچھے چلی گئی۔

"رک جائیں۔۔۔۔مجھے معاف کر دیں خدا کیلئے"۔ ان کے رونے میں مزید شدت آ گئی۔

وہ ایسی بدنصیب ماں تھیں جنہوں نے دوسروں کا نصیب اپنے بچوں کیلئے چرانا چاہا۔

جس کے نتیجے میں آج ان کے اپنے بچے ہی ان سے بدظن ہو گئے۔

اور وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہاتھ ملتی رہ گئیں۔

__________________________________

عثمان صاحب کی سخت تاکید پر سب نے اپنے منہ پر قفل لگا لیا۔

اور اردشیر و مریم کے سابقہ رشتے کو مہرماہ سے پوشیدہ رکھنے کا عہد کر لیا۔

کیونکہ ان کا رشتہ تھا ہی کاغذی۔

جو کے اب باہمی رضامندی سے توڑ دیا گیا تھا۔

پھر اب ایسے میں مہرماہ کو کچھ بتانے کا جواز بھی کوئی نہ تھا۔

اردشیر اور مہرماہ کی محبت پہلے سے بڑھ کر گہری ہوگئی تھی۔

جس میں اب اعتماد اور بھروسے کی آمیزش بھی شامل تھی۔

زرش اور برہان علیحدہ گھر میں رہ رہے تھے۔

برہان کسی طور بھی محمودہ بیگم کو معاف کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔

پر کہتے ہیں کے وقت ہر زخم کا اپنے آپ مرہم بن جاتا ہے۔

شاید کبھی اس کے دل پر لگے زخم بھی بھر جائیں اور وہ واپس اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جائے۔

مہک کی زندگی میں سبتین بہار بن کر آ گیا تھا۔

اور اب وہ ننھا سا وجود سارے گھر والوں کی محبت اور توجہ کا مرکز تھا۔

جس نے اس دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنے والدین کے رشتے کو نا صرف جوڑا تھا بلکہ اور بھی مضبوط بنا دیا تھا۔


زندگی ان سب کیلئے دیر سے ہی سہی مگر اعتدال پر آ گئی تھی۔

_______________________________


"ارے یار جلدی کرو، ایک تو تم عورتوں کی تیاریاں نہیں ختم ہوتیں۔

اسی اسپیڈ سے تیار ہوتی رہی تو ہم شادی پر کل ہی پہنچ پائیں گے"۔ بلال نے بے زاریت سے گھڑی دیکھ کر کوئی تیسری بار یہ بات کہی۔


"اوہو، آتی ہوں۔ بس ہو گئی تیار"۔ گہرے سبز رنگ کے لہنگے میں ملبوس، سنہرے بالوں کا جوڑا بنائے وہ تیار شیار سی دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئی۔

بلال نے سر تا پیر گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔


"ٹھیک لگ رہی ہوں نا میں؟"۔ اس نے تائید چاہی۔


"آج تو آپ بجلیاں گرا رہی ہیں۔ لگ ہی نہیں رہا کے میڈم ایک عدد بچے کی ماں ہیں"۔ بلال نے اس کے آگے کی طرف سے نکلی لٹوں کو چھیڑتے ہوئے کہا۔


مہک نے اس کے ہاتھ پر ایک تھپڑ رسید کیا۔

"اب چلنے کی کریں آپ"۔

"چلتا ہوں یار، اور وہ ہمارے شہزادے کہاں ہیں بھئی؟"۔ بلال نے بیٹے سے متعلق پوچھا۔

"وہ امی (افشاں بیگم) کے پاس ہے"۔ اس نے اطلاع دی۔

"ہوں یہ ٹھیک ہے۔ اب چلو میرج ہال تک بھی پہنچنے میں ابھی آدھا گھنٹہ لگے گا"۔ اس نے پھر گھڑی دیکھی۔

اور گھر لاک کرنے کے بعد وہ دونوں آگے پیچھے لفٹ میں داخل ہوئے۔

_________________________________

سرخ انارکلی فراک میں ملبوس وہ تتلی کی طرح اِدھر سے اُدھر دوڑتی بھاگتی پھر رہی تھی۔

"مہرماہ بیٹا ذرا یہاں آنا"۔ نگہت بیگم نے اسے پکارا۔

"جی امی آتی ہوں"۔ وہ تیز تیز چلتی ہوئی ان تک جا ہی رہی تھی کے درمیان میں کسی کے مضبوط وجود سے ٹکرا گئی۔

مقابل نے بروقت اسے تھام لیا۔


"کیا کر رہی ہو یار گر جاؤ گی، کتنی بار کہا ہے کے اپنی کیئر کیا کرو"۔ اردشیر نے فکرمندی سے اسے دیکھا۔

جس کو تخلیق کے عمل سے گزرنے میں ابھی چند ہی دن رہ گئے تھے۔

مگر وہ خود بچوں کی طرح بھاگتی پھر رہی تھی۔

"میں ٹھیک ہوں"۔ وہ مسکرا کر اس کے شانے سے لگ گئی۔

اسٹیج پر براجمان سیاہ اور سنہرے رنگ کی کنٹراسٹ والی شیروانی میں ملبوس وہ اس وقت خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان اگر تصور کر رہا تھا تو اس میں کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔

کیونکہ اس کے برابر میں جو ہستی بیٹھی تھی وہ اس کی کل کائنات تھی۔

اس کی محبت۔۔۔

اس کی زندگی کااہم حصہ۔۔۔مریم!

ہاں۔۔۔آج وہ اسے مل گئی تھی۔

جس کیلئے وہ اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کرتا کم تھا۔

ورنہ اتنا آسان کب ہوتا ہے اس دنیا میں ہر کسی کو اس کی محبت مل جانا؟

ڈیپ ریڈ اور سبز رنگ کے شرارہ میں ملبوس پور پور سجی آج پہلی بار وہ پورے دل سے مسکرا رہی تھی۔

زندگی نے ہمیشہ اس سے صرف چھینا ہی تھا۔

مگر اب جو دیا تھا تو اس کی جھولی بھر دی تھی۔

وجاہت نے اس کا ہاتھ نرمی سے تھام لیا۔

مریم نے آہستگی سے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

اسی وقت برہان نے یہ لمحہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔

"ماشاءاللہ سے کتنے مکمل لگتے ہیں نا دونوں؟"۔ زرش اس کے برابر آ ٹھہری۔

"بے شک، مگر ہم دونوں سے تھوڑا کم"۔ اس نے مسکراتے ہوئے اس کے گرد مضبوط حصار کھینچ دیا۔

تو زرش اثبات پر ہنستی چلی گئی۔

بالآخر خوشیوں نے ان کے دروازے پر دستک دی تھی۔

اور ان کے دلوں کو ایک دوسرے کی محبت سے معمور کر دیا تھا۔

♡ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Jaane Pehchane Se Ajnabi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Jaane Pehchane se Ajnabi written by Sawera Ahmad. Tumhe Jaane Pehchane Se Ajnabi  by Sawera Ahmad  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages