Pages

Saturday 13 July 2024

Ghag By Mahwish Urooj Complete New Novel

Ghag By Mahwish Urooj Complete New Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ghag By Mahwish Urooj Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ghag

Writer NameMahwish Urooj

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

باتور خان پسٹل ہاتھ میں لیے تیز تیز قدم اٹھاتا رحم دین کے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سرخ آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔ تیور ایسے تھے جیسے ہر چیز کو آگ لگا ڈالے گا۔ رشید اور اقبال اس کے ساتھ تھے۔وہ دونوں مسلسل اس کے غصے کو بڑھاوا دے رہے تھے اور راستے میں ملنے والے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ذبردستی گھسیٹ رہے تھے۔ باتور خان کے رعب و دبدبے سے پورا گاوں تھر تھر کانپتا تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کے سامنے کسی بات سے انکار کرے۔ وہ جو چاہتا دھڑلے سے کرتا پھرتا۔ وہ میر سربلند خان کا خاص آدمی تھا۔ جن کی مرضی کے بغیر گاوں میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔

گاوں کے لوگ جانتے تھے کہ اس کی منزل کون سی ہے اور اسکا مقصد کیا ہے۔کچھ دن پہلے بھی وہ رحم دین کے گھر کے باہر ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا جس پہ رحم دین اس کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کروانے گیا تھا۔ لیکن آج اس کے قدموں کی دھمک ہی ان کے دل لرزا رہی تھی۔ رحم دین جانتا تک نہیں تھا کہ کون سی قیامت لمحہ بہ لمحہ اس کے گھر کے قریب آتی جا رہی ہے۔ تنگ پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اس کی نظر تھوڑی ہی دور نظر آتے رحم دین کے کچے مکان پر تھی۔ وہاں بھی کچھ لوگ کھڑے تھے شاید انھیں بھی خبر ہو چکی تھی۔ بس ایک رحم دین ہی آنے والی قیامت سے بےخبر تھا۔ پہنچتے ہی اس نے گھر کے دروازے پہ اپنے بھاری جوتے کے نشان چھوڑے اور سامنے جا کھڑا ہوا۔ رحم دین گھر سے باہر آیا تو گھر کے باہر موجود لوگوں دیکھ کر حیران ہوا۔

اچانک فضاء میں چار فائر ہوئے۔۔ گاوں میں دہشت ناک آواز گونج گئی۔

"آج سے مسکا صرف میری ہے۔۔اگر کوئی بھی اس سے شادی کے خواب دیکھ رہا ہے تو وہ میرا دشمن ہے اور تم سب گاوں والے جانتے ہو کہ اپنے دشمن کو سوائے موت کے میں کچھ نہیں دیتا۔"

یہ کہہ کر اس نے رحم دین کو دیکھا۔۔ ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھال کر پسٹل جیب میں رکھا اور اپنے ساتھیوں کو اشارہ کرتا ، دھول اڑاتا واپس ہو لیا۔وہاں موجود سبھی لوگوں کی ترحم بھری نظریں اس شخص پر تھیں جو دروازہ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔

بوڑھے رحم دین کے قدموں میں جان نہ رہی تھی اور فضاء میں سیاہ پرندے کا شور بڑھتا جا رہا تھا۔۔🍃

وہ سامنے ہی کھڑی تھی جب رحم دین تھکے ہارے قدموں سے گھر میں داخل ہوا۔ جھکا سر ، ڈھلکتے کندھے اور بےجان قدم۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ وہ ایک ہی پل میں اتنے بوڑھے کیوں لگنے لگے ہیں۔۔اس کے بہادر بابا کیوں ڈھلتے سورج جیسے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ان کے قدم کچی مٹی پہ اپنی چھاپ کیوں نہیں بنا رہے ہیں۔ اس کے چاند کی ٹھنڈی روشنی جیسے بابا۔۔اسے لگا جیسے اسکا دل کسی نے مٹھی میں دبا لیا ہو اور اس پہ اپنی گرفت کستا ہی جا رہا ہو۔۔

لیکن اس نے خود کو گرنے سے بچانا تھا۔۔خود کو مضبوط بنانا تھا۔ اپنے بابا کی طاقت بننا تھا۔ اس رسم کے خلاف ایک جنگ لڑنی تھی بلکہ اس جنگ کو جیتنا بھی تھا۔

رحم دین نے جھکا سر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ان کی عمر بھر کی پونجی زمین پہ مضبوط قدم جمائے کھڑی تھی۔ اس کی سیاہ گھور آنکھوں میں چمکتے خواب روشن تھے۔ سیاہ چادر کے ہالے میں پر نور چہرہ امید کی گلابیاں لئے ان کے سامنے تھا۔ اس کے بالکل پیچھے ایک اور وجود بھی چادر کا پلو منہ میں دبائے کھڑا تھا۔ شاید وہ اپنی تکلیف کو آواز نہیں دینا چاہتی تھیں مگر ان کے چہرے پہ چھایا کرب ایک تکلیف دہ کہانی بیان کر رہا تھا جسکے آخر میں خوشی کی کوئی امید ہی نہیں تھی۔

ان کے ٹانگوں کی لرزش میں اضافہ ہوا۔

"بابا۔۔۔۔۔!!"

اس سے پہلے کہ وہ گرتے مسکاء نے تیزی سے آگے بڑھ کر ان کے لڑکھڑاتے وجود کو سنبھالا دیا۔ ذہرہ بی بی بھی فورا آگے آئیں۔ دونوں نے مل کر انھیں سہارا دیا اور انھیں کمرے میں لے آئیں۔ 

" مسکاء! جاو بیٹا پانی لاو اپنے بابا کے لئے۔"

وہ انھیں چارپائی پہ بٹھاتے ہوئے بولیں تو وہ فورا صحن میں رکھے مٹی کے گھڑوں کی طرف آئی اور مٹی کا پیالہ پانی سے بھر کر واپس کمرے میں آ گئی۔ذہرہ بی بی نے پیالہ اس کے ہاتھ سے لے کر ان کے منہ سے لگایا۔ ان کی سرخی مائل گندمی رنگت پھیکی پڑ چکی تھی۔

"آپ سنبھالیں خود کو۔۔اگر آپ ہی اسطرح سے ہاتھ پاوں چھوڑ دیں گے تو ہم کیسے ان لوہے کی دیواروں سے اپنی بیٹی کو نکالیں گے۔ اس کے بہتر مستقبل کے لئے ہمیں خود کو مضبوط کرنا ہے۔ اس کی معصومیت کو ہم نے اس بھیانک رسم کے ہتھے نہیں چڑھنے دینا ہے۔"

ذہرہ بی بی اور مسکاء کے پریشان چہرے کو دیکھ کر انھوں نے خود کو سنبھالا۔ انھوں نے مسکاء کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ وہ قریب آ کر بیٹھ گئی۔ وہ اپنے ساتھ ہو جانے والی زیادتی کے لئے پریشان نہیں تھی بلکہ وہ ان کو کمزور پڑتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔

"مسکاء! تم میری طاقت ہو جو مجھے کبھی کمزور پڑنے نہیں دے گی۔ تمھیں دیکھ کر مجھے اپنے اندر دوڑتے خون کا احساس ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بیٹوں سے باپ کو قوت ملتی ہے مگر تمھارے ہوتے ہوئے مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں اس طاقت سے محروم ہوں۔"

انھوں نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔ ذہرہ بی بی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے جنھیں وہ بار بار اپنی چادر سے پونچھ رہی تھیں۔

"بابا آپ بھی میری طاقت ہیں۔۔ میری ڈھال ہیں۔" وہ ان کے سینے سے لگی تو انھوں نے اسے بانہوں میں سمیٹ لیا۔ اسکے آنسو ان کے دل پہ گرنے لگے۔ انھوں نے ذہرہ بی بی کو اشارہ کیا کہ وہ اسے اس کے کمرے میں چھوڑ آئیں۔ انھوں نے اسے ان سے الگ کیا اور کمرے سے باہر لے آئیں۔

اور وہ خود آنے والے کڑے وقت کے لیے خود کو تیار کرنے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ اس لڑائی میں وہ اکیلے ہیں کوئی بھی ان کا ساتھ نہیں دے گا۔۔۔ان کا اپنا بھائی بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی انھوں نے سوچ لیا تھا وہ ایک مرتبہ اور کرم دین سے ملیں گے تا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکے۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے جلتی آگ میں نہیں جھونک سکتے تھے۔ ان کا دل پتے کی مانند لرز رہا تھا۔

پانچ مہینے پہلے کا واقعہ انھیں یاد آیا۔ ایک معصوم چہرہ ان کی نگاہوں میں گھوم گیا۔ یہ چہرہ گلالئی کا تھا۔ پھر اس معصوم چہرے کی جگہ خون سے لت پت چہرے نے لی۔ وہ دن وہ کیسے بھلا سکتے تھے۔ وہ کیا گاوں کا کوئی بھی شخص وہ خون آشام شام نہیں بھلا سکتا تھا۔ گلالئی۔۔۔۔۔جسے اسی کے چچا کے بیٹے نے رسم "غگ" کے ذریعے اپنا پابند کر دیا تھا کیونکہ انھوں نے اسکی بری شہرت کی وجہ سے رشتہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

بعد میں اس نے خود بھی اس سے شادی نہ کی اور نہ ہی کسی کو کرنے دی۔ گلالئی کے گھر والوں نے ان سے چھپ کر اسکا نکاح کرنا چاہا لیکن نجانے اسے کیسے معلوم ہو گیا اور نکاح کے روز ہی اسے قتل کر دیا گیا۔ 

آج بھی ان کے گھر ماتم کا سا سماں ہوتا۔۔۔ غفور گل اپنی لاڈلی بیٹی کے بہیمانہ قتل سے چلتی پھرتی لاش بن گیا تھا۔

رحم دین گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ ساتھ ہی چارپائی پہ لیٹی ذہرہ بی بی اٹھ کر ان کے پاس آ گئیں۔

"کیا ہوا مسکاء کے بابا۔۔کوئی برا خواب دیکھ لیا کیا؟؟"

ذہرہ بی بی نے انھیں پانی کا گلاس تھمایا۔ 

"نیند ہی نہیں ہے آنکھوں میں۔۔۔" انھوں نے گلاس انھیں دے کر شہادت کی انگلی سے کنپٹی کو دبایا۔

"صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔۔مسکاء کے لئے تو میں بھی بہت پریشان ہوں۔ ہماری بچی موت کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ باتور خان نے کب سے ہمارا پیچھا لیا ہوا ہے۔ آپ صبح کرم دین بھائی کے پاس جائیں۔ آخر بھائی ہے آپ کا۔۔اتنا تو ساتھ دے گا آپکا کہ بیٹے کو سمجھائے۔۔بھلا میری پھولوں سی بچی اور اسکا کیا جوڑ۔۔ پورے پندرہ برس بڑا ہے مسکاء سے۔ چلو عمر کو چھوڑو کم از کم ایک خوبی بھی ہوتی تو ہم انکار نہ کرتے۔" 

وہ جھر جھر بہتے آنسو چادر سے پونچھتے بولیں۔

"ہاں جاوں گا صبح۔۔اللہ کرے کوئی سبیل نکل آئے۔" وہ چت لیٹے چھت کو دیکھنے لگے پھر اس امید پر انھوں نے آنکھیں موند لیں کہ کرم دین۔۔۔ان کا ماں جایا۔۔۔ان کی بات ضرور سنے گا۔🍃

"یہ وقت مناسب نہیں ہے یہاں آنے کا۔۔تمھاری جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ کام میں کر لوں گا۔ تم جاو اس وقت یہاں سے۔ میں ڈھونڈ لوں گا۔"

وہ اسے الماری میں پڑی چیزوں کو الٹ پلٹ کرتے دیکھ کر فورا بولے تھے۔ انھیں ڈر تھا کہ کوئی آ نہ جائے۔ اگر کسی نے دیکھا لیا تو۔۔۔انھیں صرف اسکی فکر تھی۔ مگر وہ سن ہی نہیں رہا تھا۔ اسکی سانس دھوکنی کی مانند چل رہی تھی۔ ہاتھوں کی تیزی سے لگ رہا تھا جیسے ان میں کسی نے بجلی بھر دی ہو۔ وہ وہاں موجود ہر چیز کو الٹ پلٹ کر دینا چاہتا تھا۔ اسکا جی چاہ رہا تھا کہ وہاں موجود ہر چیز کو آگ لگا دے۔ وہی آگ جو اس کے اندر جل رہی تھی۔ جس کے شعلے اسکے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھے۔

اس نے الماری کو اسی طرح کھلا چھوڑ کر سائیڈ پہ رکھی کرسی کو ٹھوکر مار کر گرایا۔ زمان بابا نے آگے بڑھ کر کرسی کو ٹھیک کیا اور اسے بازو سے پکڑ کر اسے بٹھایا۔۔

"بابا! سب ختم ہو گیا ہے۔۔ مجھے نہیں لگتا میں اس زندان میں کچھ ڈھونڈ پاوں گا۔۔کچھ نہیں ہے یہاں۔" وہ بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے بولا۔

"حوصلہ کرو بیٹا! ایسے ہمت نہیں ہارتے۔۔تم جاو میں دیکھ لوں گا۔ اگر کچھ ضروری مل گیا تو تمھیں بتا دوں گا۔۔بڑے خان نے دیکھ لیا تو انھیں تم پہ شک ہو جائے گا اور میں نہیں چاہتا کہ تم کسی مصیبت میں پھنسو۔"

وہ اسے دلاسا دیتے ہوئے بولے۔۔

"ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔۔آپ اپنا خیال رکھیے گا اور ہاں آپ اپنی جان خطرے میں مت ڈالیے گا۔ میں آپ کو نہیں کھو سکتا۔ میرے پاس آپ کے سوا ہے ہی کون۔۔۔میں آ جاوں شہر سے پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔"

وہ انھیں سینے سے لگا کر باہر نکل گیا۔ انھوں نے اپنی آنکھیں بند کر اپنے آنسوؤں کو روکا اور الماری کیطرف آئے۔۔ہر چیز دوبارہ ترتیب سے رکھی اور کمرے سے باہر آ گئے۔۔ ابھی لاونج میں قدم رکھا ہی تھا کہ ماہ گل کچن سے نکل کر ان کے پاس آئی۔

"زمان بابا۔۔آپ کو بڑا خان حجرے میں بلا رہا ہے۔ خان بہت غصے میں تھا۔"

ماہ گل نے انھیں بتایا تو بنا کچھ کہے حجرے کیطرف چل دئیے۔ حجرے میں داخل ہوئے تو وہاں گاوں کے کچھ بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی بات پہ بحث چل رہی تھی لیکن جیسے ہی سب کی نظر ان پر پڑی تو خاموش ہوگئے۔

"خان جی! خیریت ہے آپ بہت غصے میں لگ رہے ہیں۔" میر سربلند خان صوفے پہ بیٹھے اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔

"زمان خان ! میں نے تمھیں ایک کام کا کہا تھا وہ بھی تم سے نہ ہو سکا۔۔ رحم دین کسطرح کا ملگرے(دوست) ہے تمھارا کہ ایک بات نہیں مان سکتا تمھاری۔۔ او ہمارا نام نہیں لیا تھا تم نے۔۔اسے بتاتے کہ ہم نے بھیجا تھا تمھیں۔ اب دیکھو! یہ جو گاوں میں خون خرابا ہو گا اس کا زمہ دار کون ہو گا۔"

ان کی کڑک دار آواز پورے حجرے میں گونج رہی تھی۔ زمان خان سمجھ گئے کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ان کے قریب آئے۔ 

"خان جی میں نے تو اسے آپ کا پیغام دے دیا تھا لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ اسکی بیٹی اور باتور خان کی عمر میں بہت فرق ہے اور وہ ابھی اسکی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اب میں ذبردستی تو کر نہیں سکتا تھا۔اسے حق ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے جو بھی فیصلہ کرے آخر وہ باپ ہے اسکا۔"

وہ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ نظریں جھکی ہوئیں تھیں۔ 

"یہ جھوٹ بول رہا ہے خان جی۔"

باتور خان نے حجرے میں قدم رکھا تو سبھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ زمان بابا نے بھی مڑ کر دیکھا۔ سفید کڑک دار شلوار سوٹ پہ کالی مردانہ چادر کندھوں پہ ڈالے وہ میر سربلند خان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔وہ زمان بابا کو گھورتے ہوئے مونچھوں کو سنوارنا نہ بھولا۔ 

"اوئے باتور خاناں۔۔۔زمان جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ اگر کہہ رہا ہے کہ اس نے بات کی ہے تو کی ہو گی۔"

وہ کھڑے ہوئے اور باتور خان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"خان جی۔۔ اگر اس نے بات کی ہوتی تو اسکی مجال تھی کہ آپ کا نام سن کر بھی مجھے انکار کرتا۔۔لیکن خیر میں تو قصہ ہی ختم کر آیا ہوں۔ اب رکھے اپنی بیٹی کو اپنے پاس۔ایسا سبق دیا ہے کہ ساری زندگی اپنی بیٹی کو پڑھاتا رہے گا۔"

اس نے چادر کو جھٹکا دے کر کندھے پر ڈالا اور زمان بابا پہ ایک گہری نظر ڈال کر ہنسا۔ 

"کیا مطلب میرے شیر؟؟" 

انھوں نے اسے اسطرح ہنستے دیکھ کر پوچھا۔

"وہی جو ہر نخرے کرنے والے لڑکی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔"

وہ چارپائی پہ بیٹھ کر تکیے سے ٹیک لگا گیا۔ میر سربلند خان اس کی بات کی تہہ تک پہنچ کر ہنس دیئے۔

"واہ۔۔۔اسی لئے تو میں تجھے شیر کہتا ہوں۔ اب تو ہوش ٹھکانے آ گئے ہوں گے رحم دین کے۔"

"بالکل ۔۔۔۔میں تو وہاں سے آ گیا تھا۔۔ہاں لیکن اس کی کانپتی ٹانگیں میں نے ضرور دیکھی تھیں۔"

اسکی بات پر وہاں موجود سبھی لوگ ہنس دئیے سوائے زمان خان کے۔۔

وہ سست روی سے چلتے حجرے سے باہر آ گئے۔۔ پیچھے سے آتیں قہقہوں کی آوازیں بلند ہوتی جا رہی تھیں اور ان کے دل کی رفتار مدھم۔۔۔🍃

" مسکاء! آ کے دروازہ ٹھیک سے بند کر لو میں تمھارے چاچا کیطرف جا رہا ہوں۔"

وہ دروازے کیطرف جاتے ہوئے بولے۔

"تم بیٹھو۔۔۔میں جاتی ہوں۔" وہ اٹھنے لگی تو ذہرہ بی بی نے اسے منع کر دیا۔ وہ واپس بیٹھ کر ناشتے کیطرف متوجہ ہوگئی۔ دل تو وہیں بابا کے پاس اٹکا تھا کہ نجانے کرم دین چاچا ان کے ساتھ کیا سلوک کریں۔

"آرام سے بات کرنا آپ۔۔اور جلدی آئیے گا۔"

وہ دروازہ کھولنے لگے تو پیچھے سے ذہرہ بی بی بولیں۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آنکھوں میں امید کے آنسو لئے وہ انھیں ہی دیکھ رہیں تھیں۔ انھوں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئے۔

پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے ان کی نظر زمان خان پر پڑی جو وہہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ چہرے سے عیاں ہوتی پریشانی ان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ ان کے قریب آئے اور ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے وہہیں ان کے پاس بیٹھ گیا۔ زمان خان نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا۔

"میں جو سن کے آ رہا ہوں کیا وہ سچ ہے؟؟" دکھ ان کے چہرے پہ بول رہا تھا۔ وہی دکھ جو رحم دین کے چہرے پہ تھا۔

"ہاں۔۔سچ ہے۔۔ کل باتور خان نے گھر کے قریب آ کر اعلان کیا ہے کہ مسکاء اسکی ہے اور جو کوئی بھی اس سے شادی کی خواہش کرے گا وہ اسے اپنا دشمن تصور کرے گا۔"

ان کی نظریں دور آسمان پر گول چکر لگاتے پرندوں پر تھیں۔

"یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ تمھیں اسے روکنا چاہیئے تھا۔ وہ اتنی بڑی زیادتی کیسے کر سکتا ہے۔ کسی کو تو روکنا چاہیئے تھا اسے۔۔پتہ نہیں کیا ہو گیا گاوں والوں کو۔"

انھوں نے ان کی نظروں کی تعاقب میں دیکھا۔

"بس جب بدنصیبی تعاقب میں ہو تو ہر کوئی راستہ سے ہٹ جاتا ہے۔ سبھی راستہ دے دیتے ہیں کوئی رکاوٹ نہیں بنتا۔"

انھوں نے زمان خان کیطرف دیکھا۔

"میر آ گیا شہر سے۔۔؟؟" وہ کھڑے ہوئے۔

"نہیں۔۔ایک دو دن تک شاید آ جائے۔۔فون کیا تھا اس نے۔۔۔خیر خیریت سے ہے۔۔پوچھ رہا تھا تمھارا۔"

اس کے ذکر سے ایک دھیمی مسکراہٹ ان کے لبوں پر چھا گئی۔

"اس مرتبہ کافی دن لگا دئیے ورنہ تو ہفتے کے ہفتے آ جاتا تھا۔۔میرا خیال ہے تیسرا ہفتہ ہونے کو آیا ہے۔" رحم دین نے ان کی طرف دیکھا۔

"ہاں۔۔اس ہفتے آئے گا تم کہیں جا رہے ہو؟"

زمان خان نے انھیں کپڑے جھاڑتے دیکھ کر کہا۔ 

"میں ذرا کرم دین لالا کی طرف جا رہا ہوں تا کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے۔ میں اپنی بیٹی کو اس رسم کی بھینٹ نہیں چڑھنے دے سکتا۔"

وہ ان کیطرف پر عزم نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔

"چلو میں بھی ساتھ چلتا ہوں تمھارے۔"

وہ انھیں ساتھ لئے کرم دین کے گھر کی طرف چل دیئے۔

راستے بھر وہ سوچتے رہے کہ کسطرح انھیں منائیں گے۔۔جیسے جیسے گھر قریب آ رہا تھا ان کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔ مسکاء کے رشتے سے انکار کرنے کے بعد سے کرم دین نے ان سے بات کرنا بھی بند کر رکھا تھا۔ راستے میں ملتے بھی تو منہ پھیر کر آگے بڑھ جاتے۔ ویسے بھی جب سے باتور خان بڑے خان کے بندوں میں شامل ہوا تھا ان کے دن بدل گئے تھے۔ رشتہ مانگنے سے پہلے بھی وہ ملتے جلتے نہیں تھے مگر رشتے کے انکار کے بعد سے تو جیسے سب ختم ہو گیا تھا۔

"کیا سوچ رہے ہو؟؟۔۔پریشان مت ہو۔۔مسکاء میری بھی بیٹی ہے۔ ہم اس کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں ہونے دیں۔ اگر کرم دین نے کچھ مثبت جواب نہ دیا تو کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیں گے۔"

وہ انھیں دلاسا دیتے ہوئے بولے۔

"جیسے حالات ہو گئے ہیں مجھے امید تو نہیں ہے لیکن پھر بھی۔۔بات کر لوں تو اچھا ہے۔"

وہ دروازے پہ دستک دیتے ہوئے بولے۔۔ کچھ عرصہ پہلے یہ لکڑی کا ایک بوسیدہ دروازہ تھا جسے کھٹکٹانے کی ضرورت انھوں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی مگر آج لوہے کے بڑے گیٹ سے اندر جانے کی ہمت ان میں نہیں تھی۔

تیسری دستک پہ قریب آتے قدموں کی آواز نے انھیں متوجہ کیا اور کھٹ سے دروازہ کھلا۔۔ دروازے کے پیچھے سے کرم دین کا چہرہ نمودار ہوا۔ رحم دین کو دیکھ کر اس نے تیوری چڑھائی۔۔

"السلام و علیکم!"

رحم دین نے سلام کیا۔۔زمان خان نے بھی سر کے اشارے سے سلام کیا۔ 

"وعلیکم السلام! کس لئے آئے ہو یہاں۔۔اگر میری مدد چاہیئے تو میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا اور باتور خان بھی گھر میں نہیں۔ وہ آ جائے تو پھر آ جانا۔"

کرم دین نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ دروازے کو پکڑے کھڑا تھا۔ جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ انھیں اندر آنے سے روکنا چاہتا ہے۔

"تم ایک بار ہماری بات تو سن لو۔ پھر آگے تمھاری مرضی۔ ہم صلح صفائی سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔"

زمان خان آگے آیا۔ 

"مگر میں نے کہا نا کہ باتور خان آ جائے تو پھر آ جانا۔" وہ دروازہ بند کرنے لگے۔

"بات سن لینے میں کیا حرج ہے۔ ہمیں اندر تو آنے دو۔" زمان خان نے اسے دروازہ بند کرتے دیکھ کر کہا۔

"ٹھیک ہے آ جاو خیر اندر آ جاو۔" 

زمان خان نے صلح صفائی کی بات کی تو کرم دین کو لگا شاید وہ مان گئے ہیں اور شادی کی بات کرنے آئے ہیں۔ اس لئے وہ چاہتا تھا کہ باتور خان کے سامنے ہی بات ہو لیکن پھر اسی رخ پہ سوچتے ہوئے اس نے انھیں۔ اندر بلا لیا۔

کرم دین نے ان کو بیٹھک میں بٹھایا اور باہر آ کر بیوی سے چائے تیار کرنے کا کہہ کر واپس بیٹھک میں آیا۔

"ہاں کہو کیا بات ہے۔۔۔ہوش ٹھکانے آ گئے تمھارے یا نہیں۔"

کرم دین ان کے سامنے چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔ آواز میں طنز نمایاں تھا۔

"ہم دراصل کل کے واقعہ کے متعلق بات کرنے آئے ہیں۔ باتور خان نے جو طریقہ اپنایا ہے وہ ٹھیک نہیں۔ اس رسم کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی کی بیٹی کو یوں سب کے سامنے اپنا پابند کرنا جرم ہے۔ باتور خان سے کہو کہ اپنے الفاظ واپس لے اور مسکاء کو اس پابندی سے آزاد کرے۔اگر وہ نہ مانا تو ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"زمان خان یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔ تم رحم دین کے ساتھ آئے ہو اس لئے تمھیں اندر بلا لیا۔ ورنہ ہمارے خاندانی معاملے میں تمھارا کیا کام۔۔۔تم اپنی رائے اور اپنی دھمکی اپنے پاس رکھو۔ نہ تو ہمیں تمھاری رائے غورطلب لگ رہی ہے اور نہ ہی ہم تمھاری اس دھمکی سے ڈرنے والے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ تم خاموش رہو۔"

کرم دین نے زمان خان کو بیچ میں ہی ٹوک دیا۔ رحم دین کو ان کی پسند نہیں آئی۔ لیکن وہ بات بگاڑنا نہی چاہتے تھے اس لئے انھوں نے آنکھ کے اشارے سے زمان خان کو روک دیا۔

"میرا بھی یہی خیال ہے کہ آپ اور باتور خان اپنے فیصلے پر غور کریں۔ مسکاء تمھاری بھی بیٹی ہے اور اسکے تایا ہونے کی حیثیت سے آپ کو میرا ساتھ دینا چاہئے نہ کہ ایک غلط کام میں اپنے بیٹے کا ساتھ۔ میں آپ کے پاس بڑی امید لے کر آیا ہوں۔"

رحم دین نے ان کیطرف دیکھا جن کے چہرے کے تاثرات ان کی امید چھین رہے تھے۔

"تایا ہونے کی حیثیت سے تو میں اپنے بیٹے کا رشتہ بھی لے کر آیا تھا۔ تم نے اس وقت کیوں نہ سوچا کہ میں اسکا تایا ہوں اور اب جب پانی سر سے اوپر ہوچکا ہے تو تایا یاد آ گیا۔ واہ بھئی واہ کیا کہنے۔۔۔"

کرم دین کی چبھتی نظریں رحم دین کو اپنے جسم میں چھید کرتی محسوس ہوئیں۔ 

"اس وقت تو بڑی بڑی باتیں کر رہے تھے کہ مسکاء کو تعلیم دلواوں گا اور اس کی شادی کسی پڑھے لکھے لڑکے سے کراوں گا۔ اب لے آو پڑھا لکھا انسان اور کرو اس کی شادی۔۔ہم بھی تو دیکھیں۔"

کرم دین کی زبان شعلے اگل رہی تھی۔۔زمان خان کو ان کا انداز پسند نہ آیا تو کچھ کہنے ہی لگے تھے مگر رحم دین نے روک دیا۔

"بھائی میں صرف آپ کے پاس یہ درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں کہ اللہ کے لئے مجھ پر اور میری بیٹی پر رحم کیجئے۔ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔"

وہ منتوں پر اتر آئے تھے مگر سامنے والا بھی باتور خان کا باپ تھا جو کسی کی نہیں سنتا۔

"میرا بیٹا بھی گاوں کا سب سے کڑیل جوان ہے۔ اس جیسا نہیں ملنا تھا تمھیں لیکن تم نے خود اس کے لئے ایندھن خریدا ہے اب جلتے رہو اس آگ میں اور اسے بھی جلاو۔ ساری غلطی تمھاری ہے اب بھگتو۔ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔"

کرم دین انھیں چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا۔ رحم دین سر جھکا گیا اور ان کی آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا۔

زمان خان نے رحم دین کے جھکے سر کو دیکھا اور انھیں سہارا دیئے لے آیا۔

"سچ کہتے ہیں لوگ اب خون کی تاثیر نہیں رہی۔" گھر سے باہر نکلتے ہوئے رحم دین کو پلٹتے دیکھ کر زمان خان بولے۔

"سفید جو ہو گیا ہے۔"

ان کے لہجے میں دکھ بول رہا تھا۔🍃

ٹیکسی ڈرائیور نے اسے ہاسٹل سے کچھ ہی دور اتار دیا کیونکہ آگے کنسٹرکشن کا کام چل رہا تھا۔ اس نے ڈرائیور کو پیسے پکڑائے اور بیگ اٹھا کر کندھے پر

لٹکایا۔ چہرے پہ سنجیدگی کا پہرا تھا۔ منہ اتنا سختی سے بند کر رکھا تھا کہ کنپٹی کی رگ ابھر آئی تھی۔ وہ شروع سے ہی ایسا تھا۔ اپنی ذات تک محدود رہنے والا۔ اسکے ظاہری رویے کو دیکھتے ہوئے کسی میں بھی اس کے قریب آنے کی ہمت نہیں تھی مگر پرسنیلیٹی ایسی تھی کہ ہر کوئی کھنچا چلا آتا۔۔اپنے ڈیپارٹمنٹ میں وہ اپنے روڈ رویے اور ذہانت کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ یونیورسٹی میں صرف ٹیچرز ہی تھے جن سے وہ بات کرتا یا پھر ارحم سے۔۔۔ارحم شاہ۔۔۔اسکا جگری دوست۔۔ یہ دوستی بھی ارحم ہی کی پیداوار تھی۔۔ وہی اس کے سخت رویے کے باوجود اس کے قریب اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہا تھا۔ 

اور آج وہ اس کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا تھا۔ ہر جگہ دونوں ساتھ ساتھ پائے جاتے۔ دونوں کی دوستی کے چرچے پوری یونیورسٹی میں تھے۔

وہ ہاسٹل کے چوکیدار سے ملا تو کچھ ہی دور ارحم کھڑا دکھائی دیا۔ اپنے آنے کی اطلاع وہ اسے فون پر ہی دے چکا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ اور لڑکے بھی کھڑے تھے۔ ارحم بھی اسے دیکھ چکا تھا اس لئے ان سے ہاتھ ملاتا اسکی طرف بڑھا۔

"کب سے انتظار کر رہا ہوں میں۔۔ صبح بتایا تھا تم نے کہ بس نکل رہا ہوں۔۔ ٹائم دیکھا ہے تم نے۔۔"

ارحم اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے بولا

"یار بس ایک کام میں پھنس گیا تھا۔ آج موقع بھی ملا تھا لیکن کچھ ہاتھ نہ آ سکا۔"

اس کے لہجے کی بجھتی آنچ ارحم کو اپنے اردگرد محسوس ہوئی۔

"یار سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ تم ویسے ہی اتنے پریشان ہوتے ہو۔ اللہ مدد کرنے والا ہے۔ وہ جب چاہے گا سب کچھ تمھارے سامنے آ جائے گا اور پھر تم کیوں غم کرتے ہو میں اور بابا ہیں نہ تیرے پاس۔"

وہ اسے کب تکلیف میں دیکھ سکتا تھا۔ ہمیشہ اسکا حوصلہ بڑھاتا رہتا ورنہ وہ تو اس ایک بات کو لے کر اتنا سینسیٹو ہو جاتا تھا کہ زندگی سے دور ہوتا جاتا۔ اگر بابا اور ارحم اس کی زندگی میں نہ ہوتے وہ کب کا بکھر چکا ہوتا۔ ان دونوں نے ہی اسے سنبھال رکھا تھا۔

"تمھاری اور بابا کی ہی دی ہوئی طاقت ہی تو ہے کہ میں آج یہاں کھڑا ہوں ورنہ تو کب کا بے سراغ ہو گیا ہوتا ان کی طرح جن کا سراغ مجھے نہیں مل رہا۔"

وہ اس کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔

"سب ٹھیک ہو جائے گا ضیغم اور بہت جلد تو صرف ضیغم نہیں رہے گا۔"

وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

ارحم کا مسکراتا چہرہ اسے بھی مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔

"چل یار بہت بھوک لگی ہے۔ صبح سے تیرے انتظار میں بھوکا بیٹھا ہوں۔۔ کچھ پیٹ پوجا ہو جائے۔"

ضیغم نے سر ہلاتے ہوئے لاک کھولا اور دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ارحم تو سنگل پلنگ پہ بیٹھ گیا جبکہ وہ منہ ہاتھ دھونے واش روم میں چلا گیا۔

فریش ہونے کے بعد وہ دونوں لاک لگا کر ہاسٹل سے نکل آئے۔

"بابا کیسے ہیں؟"

کھانے کا آرڈر دے کر ارحم نے اسکی طرف دیکھا۔ جو حسب معمول سیاہ شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ ایک مرتبہ ارحم نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا کالا رنگ اس کا پسندیدہ ہے تو اس کا جواب بہت عجیب تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس رنگ کو وہ بہت پسند ہے۔ 

"بابا بالکل ٹھیک ہیں۔ تمھارا پوچھ رہے تھے کہہ رہے تھے کہ اس بار آوں تو تمھیں ساتھ لے کر آوں لیکن میں نے کہا کہ تم بہت مصروف رہتے ہو اور تمھارے پاس ان سے ملنے کا ٹائم نہیں ہے۔"

ضیغم مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔

"میں مان ہی نہیں سکتا کہ ضیغم خان میرے متعلق ایسا کہہ سکتا ہے۔"

وہ کھانا کھاتے ہوئے بولا۔ اس کے اتنے اعتماد سے کہنے پر وہ مسکرا دیا۔

"ارے ہاں یاد آیا۔۔ وہ جو نئے پروفیسر آئے ہیں۔ کیا نام ہے ان کا۔۔ہاں پروفیسر محمد عقیل۔۔۔ وہ تمھارا بار بار پوچھ رہے تھے۔۔ کل صبح ہی ان سے مل لینا۔" 

ضیغم ٹشو سے ہاتھ صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا تو ارحم نے بھی اس کی تقلید کی۔

"ٹھیک ہے۔۔ کل مل لوں گا ان سے۔"

وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔۔ دونوں ہوٹل سے باہر آ گئے۔ ارحم اسے ہاسٹل ڈراپ کر کے چلا گیا تھا۔ وہ دھیمی رفتار سے چلتا اپنے کمرے کی طرف آ گیا۔ لاک کھول کر اندر داخل ہوا۔ ہاسٹل میں خاموشی کا راج تھا۔ وہ ایک گہری سانس خارج کرتا۔۔ہر خیال جھٹکتا ٹیبل پہ رکھی بکس کیطرف آ گیا۔۔ ٹیبل لیمپ آن کر کے کرسی گھسیٹی۔۔ہاتھ بڑھا کر بکس کھولیں اور اردگرد سے بیگانہ ہو گیا۔

اسے اپنی منزل تک پہنچنا تھا۔۔اپنی پہچان بنانی تھی۔۔ اپنا نام مکمل کرنا تھا۔۔

تھکاوٹ سے چور ہونے کے باوجود وہ کام میں لگے تھے۔۔چلچلاتی دھوپ نے ان کی رہی سہی طاقت بھی چھین لی تھی۔ حالات نے جو رخ اختیار کیا تھا وہ سنبھال نہیں پا رہے تھے۔ کیا کیا سوچا تھا انھوں نے اپنی لاڈلی بیٹی کے لئے۔۔سوچا تھا کہ اسکی تعلیم مکمل کروائیں گے اور پھر کسی اچھے اور پڑھے لکھے لڑکے سے اس کی شادی کروائیں گے۔۔ لیکن اب۔۔۔۔اب پڑھانا تو دور اس کی شادی کے خواب بھی مٹی میں ملتے دکھائی دے رہے تھے۔ بس لمحہ بہ لمحہ ان کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ گاوں میں کچھ لوگوں سے اس کی شادی کی بات بھی کی مگر سبھی باتور خان سے اس قدر حراساں تھے کہ کوئی بھی آگے نہیں آ رہا تھا۔

کل تو بڑے خان نے بھی بلا کر کہہ دیا تھا کہ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی باتور خان سے کر دے ورنہ ساری زندگی اس کو بٹھانا پڑے گا۔ غگ ہو جانے کی وجہ سے گاوں کا کوئی بھی لڑکا اس سے شادی نہیں کرے گا اور اگر کوئی تیار ہو بھی گیا تو باتور خان کو وہ روک نہیں پائیں گے۔ 

ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مسکاء کو کہیں غائب کر دیں جہاں اس تک باتور خان تو کیا کوئی بھی نہ پہنچ سکے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کسطرح اس معاملے کو حل کریں۔ زمان خان نے انھیں بتایا تھا کہ قانونی طور پہ' غگ' ایک جرم ہے۔ حکومت نے سزا مقرر کر رکھی ہے اور جرمانا بھی۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے ایک قانون منظور کیا تھا۔ جس کے تحت رسم 'غگ' کے مرتکب کو تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے اور عدالت نے ایک فیصلے میں 'غگ' کی رسم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ 'غگ' کی بنیاد پر کسی خاتون کو کسی دوسری جگہ شادی سے روک دے۔۔اب وہ دور ختم ہو گیا کہ لوگ چپ چاپ یہ ظلم سہتے تھے۔ اب وہ وہ قانون کی مدد لے سکتے ہیں تا کہ وہ اس رسم یا اس جیسی دوسری رسموں کا بائیکاٹ کر سکیں اور اپنی بیٹیوں کو اس ظلم سے بچا سکیں۔ زمان خان ان سے کئی بار تھانے جا کر رپورٹ کروانے کا کہہ چکا تھا لیکن رحم دین جانتا تھا کہ قانون بھی ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ یہاں کا ایس ایچ او تو خود میر سربلند خان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے۔ وہ تو وہی کرے گا جو بڑے خان اسے کہیں گے اور بڑے خان باتور خان کے خلاف کبھی نہیں جائیں گے۔ اس سوچ نے تو ان کی کمر توڑ دی تھی۔ آخر کہاں جا کر وہ انصاف کا دروازہ کھٹکٹائیں۔

تھکاوٹ سے ان کا برا حال ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر سستانے کے لئے وہ وہہیں بیٹھ گئے۔ پسینے سے سارا جسم شرابور ہو رہا تھا۔ بھیگے کپڑوں سے گرم ہوا ٹکرا کر ٹھنڈی ٹھنڈی لگ رہی تھی۔ اچانک انھیں احساس ہوا کہ ان کے ٹھیک پیچھے کوئی بیٹھا ہے۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو باتور خان مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا اور ان کی طرف بڑھا۔

"سلام چاچا! کیا حال چال ہے تیرا۔"

وہ داڑھی کھجاتا ان کے قریب آیا۔ جواب میں وہ خاموش ہی رہے۔ 

"بس اب اتنا کام مت کیا کر۔۔اب میں ہوں نا گھر بیٹھ کے کھا اور موج کر۔۔اس عمر میں اتنا کام تیری طبیعت خراب کر دے گا۔"

رحم دین کے ماتھے سے اس نے پسینہ پونچھا۔دھوپ کی تمازت سے سرخ ہوتے چہرے پہ ناگواری جھلکنے لگی۔ انھوں نے اس کے ہاتھ سے اپنا رومال لیا اور اپنا چہرہ صاف کر کے رومال کندھے پہ ڈالا۔ بنا کچھ بولے وہ قدم بڑھانے ہی والے تھے کہ باتور خان نے ان کا ہاتھ تھام کر انہیں روکا۔

"چاچا۔۔۔اتنی اکڑ کس بات کی دکھا رہا ہے۔ باتور خان کا احسان مان کہ اس نے اپنی بےعزتی بھلا دی ورنہ تیرے بار بار انکار کرنے کے بعد تو تجھے اور تیری بیٹی کو اب تک اوپر پہنچا چکا ہوتا۔"

اس نے جھٹکے سے ان کا ہاتھ چھوڑا۔

"باتور خان اللہ سے ڈرو۔۔اتنا ظلم مت کرو۔۔اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔"

وہ شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے بولے۔

"ہاہاہا۔۔۔اوہ چاچا۔۔" وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر ہنسے جا رہا تھا۔

"مسکاء میری پابند ہے۔۔مجھ سے شادی نہیں کروائے گا تو اٹھا کر لے جاوں گا اور پھر ساری عمر اسے دیکھ نہیں پائے گا۔۔۔ اب آگے تیری مرضی۔۔اچھا خاصا سمجھدار لگتا ہے مجھے۔۔"

وہ ہنسی روک کر بولا۔۔

"باتور خان! آئیندہ اگر میری بیٹی کا نام تمھاری زبان پر آیا تو زبان گدی سے کھینچ لوں گا۔"

وہ دھاڑے۔۔۔اس کی بات نے ان کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔

"واہ چاچا واہ۔۔۔کیا بات ہے۔۔مزا آ گیا۔"

وہ ایک بار پھر ہنسنے لگا۔۔ آس پاس کام کرتے لوگ بھی ان کے اردگرد جمع ہونے لگے۔

"تیار رہنا بہت جلد اپنی بیوی کو لینے آوں گا اور ہاں خرچے کی فکر مت کرنا۔ سب کچھ میں خود کروں گا۔ چلتا ہوں خدائے پہ امان۔۔"

اس نے بھیڑ جمع ہوتے دیکھی تو کندھے پہ پڑی چادر جھاڑتا ، ہاتھ ہلاتا آگے بڑھ گیا۔ رحم دین وہہیں کھڑے اسے جاتا دیکھتے رہے۔ قادر علی نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انھیں تسلی دی۔ آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹنے لگی لیکن ان کے دل میں جو دکھ اور تکلیف کی بھیڑ جمع ہونے لگی تھی وہ کیسے چھٹے گی وہ نہیں جانتے تھے۔

کام سے جی اچاٹ ہو چکا تھا۔

وہ دھیرے قدم اٹھاتے گھر کی طرف چل دئیے۔ *************************

"مسکاء بیٹا! امتحان کب سے شروع ہو رہے ہیں تمھارے۔"

وہ کتاب میں سر دئیے بیٹھی تھی جب ذہرہ بی بی اس کے پاس آ کر بیٹھیں تھیں۔ اس نے کتاب ایک طرف رکھی اور ان کے ہاتھ سے چائے کا کپ لے لیا۔ ہاتھ میں پکڑے کپ کے کنارے پہ شہادت کی انگلی پھیرتے ہوئے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ ذہرہ بی بی بغور اسی کیطرف دیکھ رہی تھیں۔ زیادہ بولنے کی عادت تو پہلے بھی اسکی نہیں تھی مگر اس واقعے کے بعد سے تو جیسے اسے چپ ہی لگ گئی تھی۔

دودھیا رنگت ماند پڑ گئی تھی۔۔اداس آنکھیں گھنٹوں ایک ہی نقطے پر مرکوز رہتیں۔۔ شہد رنگ بال اپنی بکھری حالت پہ نوحہ کناں دکھائی دیتے۔۔ہاتھوں میں پڑی کانچ کی کالی چوڑیاں خاموش تھیں۔۔دو دن سے وہ اس کالے لباس میں تھی۔ کالا رنگ اسے بہت پسند تھا۔ جو بھی لباس پہنتی تھی یا تو کالا ہوتا یا پھر اس میں کالا رنگ نمایاں ہوتا۔

ان کا دل بیٹھنے لگا۔

"مسکاء۔۔۔" انھوں نے پیار سے اس کے بال سنوارے۔

"اگلے مہینے۔۔" ان کے دوبارہ پکارنے پر وہ اپنے کام میں مگن بولی۔

"میں تو کہتی ہوں کہ تم شہر چلی جاو۔۔وہاں ہاسٹل میں یکسوئی سے پڑھ تو سکو گی۔ یہاں رہو گی تو پریشان رہو گی۔ وہاں سہیلیوں کے بیچ دل بہلا رہے گا۔ "

وہ نرمی سے اس کے کھلے بالوں کی چٹیا بناتے ہوئے بولیں۔۔اس نے چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔

"اماں۔۔! آپکو گلالئی یاد ہے۔" 

ان کے چٹیا بناتے ہاتھ تھم گئے۔۔

"ہاں۔۔۔یاد ہے۔۔بہت پیاری بچی تھی۔" انھوں نے ایک سرد سانس خارج کی۔

"اماں آپ بابا سے کہیں کہ میں باتور خان سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ اور بابا میری وجہ سے باتور خان سے دشمنی مول نہ لیں۔ کہیں نا کہیں تو کرنی ہی ہے شادی۔۔۔تو باتور خان سے ہی سہی۔۔"

وہ خالی کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے ان کی طرف مڑی جو اس کے بال سمیٹنے کے لئے اس کے پیچھے آ کھڑی ہوئیں تھیں۔

"یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔غلطی سے بھی اپنے بابا کے سامنے یہ بات مت کہہ دینا۔ وہ بہت خفا ہوں گے۔ تم جانتی ہی کیا ہو باتور خان کے بارے میں۔۔وہ تمھارے لئے مناسب نہیں ہے۔۔اگر وہ اچھا انسان ہوتا تو ہم کیوں انکار کرتے۔"

وہ اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے بولیں۔

"مگر اماں۔۔۔میں۔۔۔"

"بس چپ۔۔مجھے کچھ نہیں سننا۔۔ تم پریشان نہ ہو ہم دیکھ لیں گے سب۔۔خاموشی سے اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔"

انھوں نے اسے ٹوک دیا اور اسے پڑھنے کی ہدایت کرتی کمرے سے باہر آ گئیں۔

ان کے جاتے ہی وہ تکیے پہ سر رکھتی لیٹ گئی۔۔اب وہ انھیں کیسے بتاتی کہ باتور خان کہیں بار اسے راستے میں گھیر کر اسے دھمکیاں دیتا رہا ہے کہ اگر اس نے اس سے شادی نہ کی تو وہ اس کے ماں باپ کو زندہ نہیں چھوڑے گا یا پھر اسے اغواء کر لے گا۔ وہ اس سے چھپ کر بھی نکلتی مگر وہ نجانے کہاں سے آ ٹپکتا۔۔ تب سے اس نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا۔

اس کی چبھتی نظریں ہر وقت اسے اپنا پیچھا کرتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔

"مسکاء!"

رحم دین کی آواز پہ وہ خیالوں سے باہر آئی۔وہ باہر آئی تو وہ صحن میں چارپائی پہ بیٹھے تھے۔ ذہرہ بی بی بھی پانی کا گلاس ہاتھ میں لئے ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے پاس آئی۔

"جی بابا۔۔" 

اس نے ان کے سرخ چہرے پہ نظر ڈالی۔

"بیٹا۔۔! ہاسٹل کب جانا ہے؟"

انھوں نے گلاس واپس ذہرہ بی بی کو تھمایا۔

"اگلے مہینے۔"

وہ ان کیطرف دیکھتے ہوئے بولی۔

"اپنا سامان تیار کھو۔ ہم فجر کے بعد نکلنے کی کوشش کریں گے۔۔ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔"

وہ اٹھتے ہوئے بولے۔

"میں بھی اسے یہی کہہ رہی تھی کہ ہاسٹل چلی جائے حالانکہ ابھی کافی دن ہیں مگر۔۔۔اس کا یہاں رہنا اب خطرے سے خالی نہیں۔" ذہرہ بی بی نے ان کی بات سے اتفاق کیا جبکہ مسکاء نے خاموشی سے سر اثبات میں ہلایا۔

"یہاں حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ زمان خان نے کہا ہے کہ اگر میر آ جائے تو اس کے ساتھ چلے جائیں۔اسطرح کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔ اسے بحفاظت چھوڑ آوں تو پھر میں اور زمان خان تھانے جائیں گے۔ اس کا اب مزید یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔"

وہ مسکاء کے سر پر ہاتھ رکھتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ میر آج ہی آ جائے تو اچھا ہوگا کیونکہ وہ مزید ایک بھی دن ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔

"جاو بیٹا تم تیاری کرو میں زرا تمھارے بابا کو کھانا دے دوں۔" 

ذہرہ بی بی کچن کی طرف بڑھ گئیں تو وہ صحن میں لگے نل سے منہ ہاتھ دھونے لگی۔ ٹھنڈے پانی میں آنسووں کی گرمائش بھی شامل ہو رہی تھی۔

اس سے پہلے کہ اسکی ماں متوجہ ہوتی وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔ تیاری کیا کرنی تھی ۔الماری سے بیگ نکال کر اس نے اپنے گنتی کے چند جوڑے رکھے۔ زپ بند کر کے بیگ الماری میں رکھا اور الماری کے پٹ بند کر دئیے۔

ذہرہ بی بی کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ کتاب ہاتھ میں لئے خالی الزہہن چارپائی پر بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے سے اندازہ لگانا آسان تھا کہ وہ روتی رہی ہے۔ اس نے نظر اٹھا کر انھیں دیکھا۔

"اماں ۔۔۔میں آپ اور بابا کو اسطرح اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ میرے جانے کے بعد حالات اور خراب ہو جائیں گے۔ وہ آپ لوگوں کے ساتھ نجانے کیا سلوک کریں۔"

وہ ان کے سینے سے لگی تو انھوں نے اسے بانہوں میں سمیٹ لیا۔

"بیٹا تمھارے بابا کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے۔ تمھارا یہاں نہ ہونا ہی صحیح ہے کیوں کہ تمھارے بابا کے تھانے جانے کے بعد حالات نجانے کیا رخ اختیار کریں اور پھر باتور خان کا کیا بھروسہ۔۔کہیں اوچھے ہتکنڈوں پہ نہ اتر آئے۔ تم منظر سے غائب ہو جاو گی تو کم از کم تمھاری طرف سے تو ہم پرسکون رہیں گے۔"

وہ اسے سینے سے لگائے سمجھا رہی تھیں۔

"مگر اماں۔۔۔"

"بس کوئی اگر مگر نہیں۔۔تم پریشان نہ ہو۔۔ہم ہیں نا۔ اب تم آرام کرو صبح جلدی جانا ہے۔"

وہ اسے آرام کرنے کی ہدایت کرتی کمرے سے نکل آئیں۔ ان کے جانے کے بعد اس نے نماز ادا کی۔ نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر پھر بھی وہ آرام کی غرض سے لیٹ گئی۔۔

وہ جانتی تھی کہ آج کی رات تو کروٹ بدلتے ہی گزرے گی۔۔*************************

زمان خان حجرے میں داخل ہوا تو میر سربلند خان نے اسے آتے دیکھ کر منشی کو اشارہ کیا۔ زمان خان نے منشی کو دیکھا جو بڑے خان کے کان میں کچھ کہہ رہا تھا۔

"زمان خان میر آ گیا ہے یا نہیں؟؟" میر سربلند خان نے زمان خان سے پوچھا۔ 

"آج آ جائے گا خان۔۔"

وہ دھیرے سے بولے۔

"جب آ جائے تو اس سے کہو کہ ہم سے ملے۔ ہمیں نہ اسکے آنے کی خبر ہوتی ہے اور نہ جانے کی۔ تھوڑا پڑھ لکھ کیا گیا ہے اوقات بھول گیا ہے اپنی۔۔اگر ہم نے اسے آسمان کے نیچے کھڑا رہنا سکھایا ہے تو ہم اس کے سر سے یہ آسمان کھینچ بھی سکتے ہیں۔۔۔نمک حرام۔۔۔۔"

وہ زمان خان کو کڑی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان کی بات انھیں کسی تازیانے کیطرح لگی۔ وہ سر جھکائے کھڑے تھے۔ اب وہ ان سے کیا کہتے کہ کسطرح وہ یہاں تک پہنچا ہے۔ ان کا بس چلتا تو وہ اسے پڑھنے ہی نہ دیتے۔ وہ ساری زندگی ان کی خدمت گزاری بھی کرتا تو تب بھی اسے یہی پکارا جاتا۔۔۔نمک حرام۔۔۔

"جی خان۔۔۔وہ جیسے ہی پہنچے گا میں آپ کے پاس بھیج دوں گا۔"

وہ سر جھکائے بولے۔

"زمان خان۔۔۔۔۔" باتور خان حجرے میں داخل ہوا اور جیسے ہی اس نے زمان خان کو دیکھا تو تقریبا بھاگتے ہوئے آ کر اسکا گریبان پکڑ لیا۔ اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ بھی اٹھ کر ان کے پاس آ گئے تھے اور زمان خان کو چھڑانے لگے۔

"باتور خان۔۔ یہ کیا کر رہے ہو۔۔چھوڑو۔۔۔" مولوی صاحب نے اسے ٹوکا۔۔۔وہ مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں میر سر بلند خان سے بات کرنے کی غرض سے آئے۔ یہ نظارہ ان کے لئے نیا نہیں تھا مگر آج زمان خان کے ساتھ باتور خان کا رویہ انھیں ایک آنکھ نہ بھایا۔

"تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں داخل ہونے کی۔ تم ہوتے کون ہو ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑانے دینے والے۔"

باتور خان نہایت بدتمیزی سے انھیں گریبان سے پکڑ کر جھنجوڑ رہا تھا۔۔

"باتور خان۔۔۔۔۔چھوڑ دو زمان خان کو۔"

میر سربلند خان اس تماشے سے اچھے خاصے لطف اندوز ہونے کے بعد کھڑے ہوئے اور باتور خان کو زمان خان کو چھوڑ دینے کو کہا۔۔جب تک میر ان کی زندگی میں نہیں تھا زمان خان کی ایک الگ جگہ تھی لیکن جب سے انھوں نے میر سربلند خان کے منع کرنے کے باوجود میر کو سنبھالنا شروع کیا تو بڑے خان نے بھی انھیں ہر چیز سے الگ کر دیا۔ انھیں کچھ اور چاہیئے بھی نہیں تھا سوائے میر کے۔۔انھوں نے اپنی اولاد کی طرح پالا تھا اسے۔۔حالانکہ میر کو بڑے خان نے ہی ان کے حوالے کیا تھا۔وہ چاہتے تھے کہ میر کی تربیت اس خطوط پہ کی جائے کہ آگے جا کہ وہ ان کے کام آ سکے مگر زمان خان نے اسے ہتھیلی کا چھالا بنا ڈالا تھا۔بہانے بہانے سے اسے تعلیم دلوا رہے تھے اور پھر موقع دیکھ کر اسے شہر بھی بھیج دیا تاکہ وہ اپنا خواب پورا کر سکے۔ جو وہ بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا۔

"چھوڑ دے باتور۔۔۔"

وہ دوبارہ بولے۔۔جس پہ باتور خان نے انھیں جھٹکا دے کر دروازے کی جانب پھینکا۔ 

وہ گرتے گرتے بچے تھے۔۔۔وہ کسی کے مضبوط بازو تھے جنھوں نے انھیں تھام کر انھیں گرنے سے بچایا تھا۔ انھوں نے سر اوپر اٹھا کر تھامنے والے کو دیکھا۔ 

"میر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ آنکھوں میں بیک وقت قہر اور نرمی لئے انھیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے انھیں کھڑا ہونے میں مدد دی اور انھیں ایک طرف کر کے ان کے پھٹے ہوئے گریبان کو درست کیا۔۔ وہ اس وقت بھی کالے رنگ کا سادہ شلوار سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ وہاں موجود سبھی لوگوں کی نظریں اسی پہ ٹکی تھیں۔ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد۔۔گندمی رنگت میں سرخی لئے وہ باتور خان کی جانب مضبوط قدموں سے بڑھا۔۔ بلاشبہ وہ مردانہ وجاہہت لئے ایک بھرپور مرد تھا۔

"تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے بابا کو ہاتھ لگانے کی۔"

اس نے باتور خان کو گریبان سے پکڑا۔ اس کا دایاں ہاتھ اٹھا اور باتور خان کے چہرے پہ اپنی مکمل چھاپ چھوڑ گیا۔ باتور خان میر سربلند خان کے قدموں میں جا گرا۔ تھپڑ اتنا زوردار تھا کہ باتور خان کو اپنا چہرہ سن ہوتا محسوس ہوا اور کانوں میں اس تھپڑ کی گونج اپنا اثر چھوڑ گئی۔ میر سربلند خان کے ساتھ ساتھ وہاں موجود سبھی لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ حیران نظروں سے میر کو دیکھ رہے تھے۔ انھیں لگا جیسے ان کے سامنے میر نہیں میر دراب خان کھڑا ہے۔ وہ میر دراب خان جو دکھتا کڑیل اور اندر سے نرم دل تھا۔

انھیں لگا جیسے ان کا جسم بھربھری مٹی کیطرح ڈھے جائے گا۔ انھوں نے دیکھا کہ میر دراب خان ان کے قریب آتا جا رہا ہے وہ گھبرا کر پیچھے ہوئے۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر میر کو روکتا۔ زمان خان بھی حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔

"بتا۔۔۔نہیں تو وہ حشر کروں گا کہ پوری زندگی اپنے قدموں پہ کھڑا نہیں ہو پائے گا۔"

میر نے باتور خان کو ان کے قدموں سے اٹھایا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے کہے ہوئے پر عمل کرتا زمان خان نے اس کی طرف بڑھ کر اسے روکا۔

"بس میر۔۔۔بڑے خان موجود ہیں یہاں۔۔۔بس کرو۔" انھوں نے باتور خان کا گریبان اس کے ہاتھوں سے چھڑایا اور اسے پیچھے کیا۔

"زمان خان اپنے بیٹے کو تمیز سکھا۔ تیرا بیٹا ہے اس لئے چھوڑ رہا ہوں ورنہ اس بدتمیزی کا انجام اچھا نہ ہوتا۔ ہماری بندوق کی ایک گولی ہی کافی تھی۔ ہمارے بندے پہ ہاتھ اٹھانا اسے بہت مہنگا پڑ سکتا تھا اگر تم نہ ہوتے۔"

میر سربلند خان کے خود کو سنبھالا۔۔

"آئندہ مجھ سے پچاس گز دور رہنا ورنہ اس سے بھی برا حال کر دوں گا۔"

وہ ان کی بات پر کان دھرے بنا باتور خان کو وارن کرتا زمان خان کو لئے حجرے سے نکل آیا۔

"رک جاو باتور خان۔۔۔اب پیٹھ پیچھے سے وار کرنے کا کیا فائدہ۔"

باتور خان اس کے پیچھے جانے لگا تو میر سربلند خان بولے۔ انکی بات نے باتور خان کو آگ لگا دی اور قدم وہہیں جم کر رہ گئے مگر دل میں تہیہ کر چکا تھا کہ میر سے اپنی بےعزتی کا بدلہ ضرور لے گا۔

"بابا۔۔! آپ ٹھیک ہیں؟؟" 

وہ ان کے کپڑوں پہ لگی مٹی جھاڑے لگا۔۔

"میں ٹھیک ہوں لیکن تمھیں باتور خان سے منہ ماری نہیں کرنی چاہیے تھی۔ وہ اب آرام سے بیٹھنے والا نہیں ہے۔"

وہ پریشان نگاہوں سے حجرے کے دروازے کیطرف دیکھ رہے تھے جہاں سے ابھی باتور خان بہت غصے میں نکل کر گیا تھا۔

"وہ کچھ نہیں کر سکتا بابا۔۔"

اسں نے ان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔*************************

میر سربلندخان کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ میر دراب خان سے اس قدر مماثلت رکھتا ہو گا۔ اس کی ایک نظر سے ان کے اندر ایک جنگ سی چھڑ گئی تھی۔ انھیں کب امید تھی کہ ایک دن وہ اسطرح سے ان کے سامنے آ کھڑے ہوں گے۔ حجرے میں وہ مزید رک نہیں سکے تھے اس لئے فورا وہاں سے نکل آئے تھے یہ جانے بغیر کہ ان کی پریشان صورت دیکھ کر وہاں موجود لوگ حیران تھے۔ سبھی نے ہمیشہ ان کا رعب و دبدبہ دیکھا تھا۔

گھر میں گونجتی خاموشی پر ان کے اندر کا شور غالب آ گیا۔ دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے پیشانی مسلتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوئے۔ واسکٹ اتار کر ایک طرف پھینکی اور بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ بند آنکھوں کے پیچھے کچھ دیر پہلے کا دیکھا چہرہ پھر نمودار ہوا۔ پٹ سے آنکھیں کھول کر وہ اٹھ بیٹھے۔ وہی ناک نقشہ ، قد کاٹھ ، روشن پیشانی ، کھڑی ناک ۔۔۔۔۔۔سب کچھ تو ویسا ہی تھا جیسا پچیس سال پہلے تھا۔ ان کی آنکھوں کے آگے وہی منظر ایک بار پھر ابھرا تھا۔۔۔میر دراب خان کے بالکل سامنے وہ کھڑے تھے۔۔۔وہ۔۔۔۔میر سربلند خان۔۔۔جس نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا تھا۔۔ جو صرف اور صرف ہرانا جانتا تھا اور ہرانا بھی چاہتا بھی۔۔جو اپنے باپ کے سامنے بھی ڈٹ جاتے تو کوئی آندھی طوفان بھی ان کے قدم اکھاڑ نہیں سکتی تھی۔ تو پھر اپنے بھائی سے کیسے ہار تسلیم کر سکتے تھے اور بھائی بھی سوتیلا۔۔۔بہادر تو میر دراب خان بھی تھے مگر دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔ وہ ایک مضبوط تناور درخت کیطرح تھے جس کی جڑیں زمیں میں دور تک پھیلی ہوئیں تھیں اور جسکا سایہ وسیع تھا۔ گاوں کے لوگ اس کے سائے میں سستانے آتے تو وہ انھیں سمیٹ لیتا۔ پھر پریشانیوں کی دھوپ میں جھلستا آدمی کیکر کے پاس تھوڑی نہ جاتا ہے وہ تو اس شجر کی چھاوں میں آتا ہے جو اسے موسم کی تمازت سے بچائے اور ٹھنڈک مہیا کرے۔۔پھر جہاں سوتیلے ہونےکی وجہ سے کڑواہٹ ہو وہاں خون کی گرمائش بھی کام نہیں آتی۔۔میر دراب خان کی سلجھی طبیعت ان کی ایک ایسی خوبی تھی جس سے وہ ہر دلعزیز تھے مگر اپنے بھائی کے دل میں چبھا ایک ایسا کانٹا تھے جس کی چبھن ہر پل محسوس ہوتی ہے۔ وہ اس کانٹے کو نکال دینا چاہتے تھے۔ جسکا موقع انھیں جلد ہی مل گیا تھا۔

دروازے پہ ہوئی دستک نے ان کو خیالوں سے نکالا۔ ملازمہ اجازت طلب کرتی اندر داخل ہوئی اور ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔۔ گھر میں ملازموں اور ان کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ آج ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا گھر والے سب سیروتفریح کے لئے گئے تھے۔اس لئے وہ زیادہ تر وقت حجرے میں گزارتے تھے۔ شہنیلا کے کالج کی چھٹیاں تھیں اس لئے ہاسٹل سے آتے ہی اسکی ایک ہی رٹ تھی کہ اسے مری جانا ہے۔ میر سربلندخان اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی کی کب کوئی بات ٹالتے تھے۔ اس لئے اگلے دن ہی تمام انتظام مکمل کر کے انھیں بھیج دیا۔ 

سر جھٹک کر انھوں نے شاہ زیب کا نمبر ملا کر فون کان سے لگایا۔

اتنے میں ملازمہ چائے رکھ کر جا چکی تھی۔

تیسری بیل پر کال ریسیو کر لی گئی۔

"ہیلو بابا جان۔۔! کیا حال چال ہیں آپ کے۔۔"

دوسری جانب سے شہنیلا کی چہکتی آواز سنائی دی۔

"بابا کی جان۔۔! میں ٹھیک ہوں۔ تم سب کیسے ہو۔۔ اور کب تک واپسی ہو گی؟"

اسکی آواز سن کر وہ سب بھول گئے۔

"بس بابا جان ۔۔۔ہم سب ٹھیک ہیں اور یہاں سب کچھ اتنا اچھا ہے کہ واپس آنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا۔لیکن محض دو دن اور۔۔۔۔۔۔پھر ہم آپ کے پاس ہونگے۔۔"

خوشی اس کے لہجے سے چھلک رہی تھی۔

"شاہ زیب اور عالمزیب کہاں ہیں؟" 

انہوں نے بیٹوں کے متعلق پوچھا۔

"شاہ زیب لالا اور عالمزیب لالا بچوں کو لے کر نکلے ہیں۔ میں اور مما یہیں ہیں روم میں ۔۔۔مما سو رہی ہیں۔آپ کہیں تو جگا دوں؟؟"

وہ مسکرائی تھی۔ 

"نہیں۔۔جب اٹھ جائیں تو پھر سب سے میری بات کروانا۔اپنا خیال رکھو۔۔اللہ حافظ۔"

"جی۔۔آپ بھی اپنا خیال رکھیں۔۔۔۔اللہ حافظ۔"

انہوں نے موبائل فون سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر چائے کا کپ اٹھا لیا۔ ایک مرتبہ پھر سے ان کی سوچ کا محور میر دراب خان تھے۔۔۔

میر تھا۔۔

                                                        ***************

وہ تولیے سے بالوں کو رگڑتا واش روم سے نکلا تو زمان خان نے کھانے کی ٹرے چھوٹی سی ٹیبل پہ رکھی۔ کمرہ نہ بہت کشادہ تھا نہ بہت چھوٹا۔۔کمرے کے وسط میں ایک پلنگ تھا جس پہ گلابی پھولدار چادر بچھائی گئی تھی۔ پلنگ کے ایک طرف دو کرسیاں اور ایک چھوٹی ٹیبل رکھی تھی۔ دوسری طرف لکڑی کی الماری رکھی تھی۔ 

وہ تولیہ بیڈ پر گراتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ زمان خان نے دائیں بائیں سر ہلا کر اسے پیار بھری گھوری سے نوازا۔ جس پہ وہ کندھے اچکاتا مسکرا دیا۔ میر تھوڑا سا لاابالی تھا۔ چیزیں ادھر سے ادھر کر دیتا اور پھر ڈھونڈتا رہتا۔ یہ زمان خان ہی تھے جو اسکی ہر چیز سنبھال کر رکھتے تھے۔ بےترتیبی انھیں بالکل پسند نہیں تھی اس لئے اٹھے۔۔تولیے کو اسکی جگہ پہ رکھا اور واپس آ کر چئیر پہ بیٹھ گئے۔ ان کے آنے تک وہ کھانا اسٹارٹ کر چکا تھا۔ انھوں نے تھوڑا سا سالن اپنی پلیٹ میں نکالا اور کھانے لگے۔ گاہے بہ گاہے میر پہ بھی نظر ڈال دیتے۔ 

"بابا۔۔آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔۔جب سے گھر آئے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بےچین اور کچھ پریشان سے ہیں۔۔کیا بات ہے۔۔کیا خان جی نے کچھ کہا ہے آپ سے یا پھر حجرے میں ہوئے واقعے کو لے کر پریشان ہیں۔"

اس نے ان کی بےچینی دیکھ کر کھانے سے ہاتھ روک دیا۔

"نہیں بیٹا میں تو رحم دین کے لئے پریشان ہوں۔" وہ اپنی پلیٹ ایک طرف کرتے ہوئے بولے۔۔پریشانی ان کے چہرے سے ہویدا تھی۔

"کیوں کیا ہوا رحم دین چاچا کو۔۔؟؟"

اس نے کرسی کو ٹیبل سے مزید قریب کیا۔ اس کے پوچھنے پر انہوں نے ساری بات اسے بتائی جسے سن کر اس نے افسوس سے سر ہلایا۔ اسے کچھ مہینے پہلے کا واقعہ یاد آیا جب گلالئی نامی لڑکی کو رشتہ نہ دینے پر اس کی شادی والے دن ہی اس لڑکے نے اسے قتل کر دیا تھا۔ تب سے گاوں میں اسکا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس ظلمت کدے میں زبان بند کیے رہنا اس کے لئے بہت مشکل تھا اور زمان خان اسے کسی کے معاملے میں بولنے نہیں دیتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ میرسربلند خان کی نظروں میں آئے لیکن وہ اپنے گاوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا اس لئے وہ بہت محنت کر رہا تھا تاکہ اپنا مقصد پا سکے اور ان ظالموں کو سبق سکھا سکے جنھوں نے اس گاوں کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا تھا اور جو جی میں آتا تھا بے دھڑک کرتے پھرتے تھے۔

"تھانے جا کر رپورٹ کرتے باتور خان کے خلاف۔"

وہ سر جھٹک کر دوبارہ کھانے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔

"یہاں کا ایس۔ایچ۔او بھی اس سے ڈرتا ہے۔ بڑے خان کی سرپرستی کی وجہ سے اس کا دل جو کہتا ہے وہ وہی کرتا ہے اور کسی میں ہمت نہیں کہ اسے کچھ کہہ سکے بلکہ پچھلے مہینے کی بات ہے کہ اس کے ایک آدمی نے سکول جانے والی ایک لڑکی کے ساتھ چھیڑا چھاڑی کی۔ اس کے باپ نے تھانے جا کر اس کے خلاف رپورٹ درج کروا دی۔ پولیس اسکے پیچھے آئی تو اس نے ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ باتور خان کو معلوم ہوا تو اس نے اس لڑکی کے باپ کو بھی مارا اور جس نے رپورٹ درج کی اسے بھی اتنا مارا کہ وہ بیچارا کہیں دن تک بستر سے نہیں اٹھ سکا تھا۔"

اسے افسوس ہوا کہ کاش وہ یہاں ہوتا تو وہ اس باتور خان کو وہ سبق سکھاتا کہ اس کی آئیندہ نسلیں یاد کرتیں۔

"اچھا مجھے تم سے کام تھا۔ تم رہو گے یا واپس جانا ہے؟"

انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"میرے کچھ ضروری ڈاکومنٹس یہاں رہ گئے تھے وہی لینے آیا تھا۔ صبح سویرے واپس جاوں گا۔"

وہ ان کیطرف دیکھ رہا تھا جو پھر سے بےچین دکھائی دے رہے تھے۔

"بابا۔۔آپ کو جو کہنا ہے کھل کر کہیں۔"

اس نے انھیں شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر کہا۔

"وہ دراصل رحم دین چاہتا ہے کہ کسی طرح اپنی بیٹی کو بحفاظت شہر پہنچا دے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ گاوں میں کسی کو پتہ نہ چلے۔ اس بارے میں وہ بہت پریشان تھا اس لئے میں نے اسے کہا کہ تمھارے آنے تک رک جائے۔ تمھارے ساتھ جائیں گے تو وہ محفوظ رہیں گے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور نہ ہی کسی کو شک ہو گا۔"

وہ پر سوچ نظروں سے انھیں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ان کی بات ختم ہونے پر وہ گہری سانس خارج کرتا کرسی سے پشت لگا گیا۔

"ٹھیک ہے بابا۔۔۔میں فجر کے بعد روانہ ہوں گا آپ رحم دین چاچا کو بتا دیجیئے کہ وہ تیار رہیں اور ان سے کہیے گا کہ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

یہ کہہ کر اس نے ہاتھ سے گھڑی اتار کر ٹیبل پہ رکھی اور پلنگ پہ لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔

زمان خان بھی خاموشی سے کمرے سے باہر آ گئے۔ وہ رحم دین کو بتانے اس کے گھر کی طرف چل دئیے۔

باتور خان سرخ چہرے کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ دھڑام سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تو زبیدہ خانم کچن سے باہر آئیں تھیں۔۔ ابھری ہوئی کنپٹی ، سختی سے بھینچی ہوئی مٹھیاں اسکے شدید غصے میں ہونے کی غماز تھیں۔ غصہ میں کیوں نہ ہوتا آج سے پہلے کبھی کسی نے اس پہ ہاتھ اٹھایا ہی کب تھا۔ 

وہ طیش میں آ کر راستے میں پڑی ہر چیز کو ٹھوکر پہ رکھتا اندر کیطرف بڑھا۔

اسے اتنے غصے میں دیکھ کر انھوں نے اپنا کلیجہ تھام لیا۔۔

"باتور۔۔۔۔۔سہ چل شوے دے( کیا ہوا ہے)؟؟"

وہ اس کی طرف بڑھیں تو وہ ان کے قریب سے گزر کر آگے بڑھ گیا۔ وہ جب غصے میں ہوتا تو کوئی بھی اس کے قریب جانے سے کتراتا تھا۔ غصے میں وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا تھا۔۔۔ماں باپ کا بھی نہیں۔

مگر وہ ماں تھی اسے اس حالت میں دیکھ کر وہ اس کے پیچھے کمرے میں آئیں۔

"باتور۔۔۔"

وہ اندر آئیں تو وہ بیڈ پہ آڑا ترچھا لیٹا تھا۔ وہ اس کے قریب آئیں اور بیڈ پہ بیٹھ کر اسے پکارنے لگیں۔ اس نے اپنا چہرہ بازوں میں چھپا رکھا تھا۔ 

"باتور خاناں۔۔۔کیا طبیعت خراب ہے؟"

ان کے بار بار پوچھنے پر تنگ آ کر اس نے سر اٹھایا۔ سرخ آنکھیں۔۔سفید چہرے پر پانچ انگلیوں کی چھاپ۔۔وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ سرخ آنکھیں انہی پہ گڑیں تھیں۔

"کسی سے لڑ کر آئے ہو۔۔کمبخت نے کتنا مارا ہے۔۔کون بدبخت تھا جس نے تمھاری یہ حالت کر دی۔"

انھوں نے اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر پوچھا۔

"اماں جاو یہاں سے ۔۔۔ہر وقت سر پر سوار رہتی ہو۔"

وہ ان کے ہاتھ کو اپنے چہرے سے ہٹاتے ہوئے دھاڑا تھا۔

"اس پہ کیوں غصہ ہو رہے ہو۔۔خود میں ہمت ہوتی تو وہہیں اسکا منہ توڑ دیتے۔ خاموشی سے مار کھا کر آ گئے ہو اور اب عورتوں کی طرح چھپ کر رو رہے ہو۔"

وہ باہر نکلنے ہی والی تھیں کہ کرم دین کمرے میں داخل ہوا۔ انھیں حجرے میں ہونے والے واقعہ کے بارے میں پتہ چل گیا تھا وہاں سب میر کی تعریف میں رطب السان تھے۔ اس کی بہادری کے گن گا رہے تھے کہ کیسے اس نے ایک ہی جھٹکے میں باتور کو چاروں شانے چت کیا۔ حجرے سے ہوتی ہوئی خبر گاوں میں پھیل گئی تھی۔ کیونکہ پہلی بار کوئی باتور خان کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہوا تھا۔

"میں اسی وقت اسکو باتور خان سے پنگا لینے کا انجام بتا دیتا مگر خان جی نے روک دیا ورنہ آج تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو باتور خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ میر کی تو ایسی کی تیسی۔ ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں نہ دے دیں تو میرا نام باتور خان نہیں۔

انکی بات نے تو گویا باتور خان کو آگ لگا دی۔ وہ ایک دم سے اٹھ کر ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"تمھارے منہ پہ اسکی انگلیوں کے نشان تمھاری بہادری کا ثبوت ہی تو ہیں۔"

وہ استہزایہ ہنسے تھے۔ باتور خان مٹھیاں بھینچے کمرے سے باہر نکل گیا۔

"آپ نے اسے روکا کیوں نہیں۔۔خود کو کہیں کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔"

زبیدہ خانم ان کے پیچھے آ کھڑی ہوئیں۔

"تم نے اگر لوگوں کی طنزیہ نظریں دیکھی ہوتی تو دیکھتا کہ تم کیا کرتی۔ کل تک جو لوگ مجھ سے بات کرتے ہوئے گھبراتے تھے آج مجھ پہ ہنس رہے تھے۔ "

وہ ان کیطرف مڑے۔

"لیکن اس طرح اسے بھیجنا ٹھیک نہیں۔ اب وہاں جا کر نجانے کیا کرے۔"

وہ اس کے اس قدر غصے میں گھر سے جانے پر پریشان ہو رہی تھیں۔

"ہاہا۔۔۔۔ارے کچھ نہیں ہوتا۔۔ ذرا زمان خان کو بھی تو پتہ چلے کہ باتور خان کیا چیز ہے۔ جاوں ذرا زمان خان کی بےعزتی کا تماشا تو دیکھوں۔"

وہ ہنستے ہوئے باہر نکل گئے۔ وہ انھیں خواہش ہونے کے باوجود روک نہیں سکیں تھیں۔

وہ گھر سے باہر آئے تو انھیں اقبال اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔

"کاکا جی۔۔۔وہاں زمان خان کے گھر کے باہر باتور خان نے تباہی مچا رکھی ہے۔ گاوں کے سارے لوگ وہاں جمع ہیں۔ بڑے خان جی تک بھی کسی نے بات پہنچا دی ہے۔ رشید بھی وہہیں ہے۔"

وہ ہانپتا ہوا ان کے قریب آ کر بولا۔

"باتور خان میرا بیٹا ہے۔۔۔شیر ہے وہ شیر۔۔اسے کوئی نہیں روک سکتا سوائے میرے۔۔۔اور میں نے خود تو بھیجا ہے اسے میر کا دماغ ٹھکانے لگانے۔"

وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے بولے اور آگے بڑھ گئے۔

"کاکا جی۔۔۔آپ کو نہیں پتہ کہ میر نے بڑے خان جی کے حجرے میں باتور خان کا کیا حال کیا تھا۔"

وہ پیچھے سے اونچی آواز میں بولا۔ کرم دین کے قدم وہہیں جم گئے۔ تیزی سے واپس آئے اور اسے گردن سے دبوچ لیا۔

"شیر کو آج تک کون پچھاڑ سکا ہے۔ چلو تم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔"

وہ اسے گدی سے پکڑے آگے بڑھے۔

تیز تیز قدم اٹھاتے وہ زمان خان کے گھر کے پاس پہنچے تو وہاں کافی لوگ موجود تھے۔ کچھ لوگ باتور خان کو سمجھا رہے اور کچھ تماشا دیکھ رہے تھے۔ باتور خان ہاتھ میں پسٹل لئے بےحد غصے میں دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو سمجھ رہے تھے کہ اب تک تو وہ میر کا قصہ تمام کر چکا ہوگا مگر میر اور زمان خان انھیں کہیں نظر نہیں آئے۔

"باہر نکل میر۔۔۔۔اب بل میں چھپ کر بیٹھ گیا ہے۔ اس وقت تو بڑا ہیرو بن رہا تھا۔ وہاں بڑے خان جی کی وجہ سے تو تو بچ گیا تھا۔ اب آ باہر تا کہ میں تیری طاقت دیکھوں۔"

باتور خان زمان خان کے گھر کے دروازے پہ لات مارتا بولا۔

"باتور خان۔۔ لگتا ہے زمان خان اور اسکا بیٹا ڈر گئے ہیں۔ چل آ جا۔۔کبھی تو اس بل سے نکل ہی آئیں گے۔ کب تک گھر میں چھپے رہیں گے۔ ہم اپنے دشمن کو یونہی نہیں جانے دیتے۔"

کرم دین نے میر سربلند خان کو آتے دیکھ کر باتور خان کو روکا۔ باتور خان نے بھی انھیں دیکھ لیا۔ اس لئے رک گیا۔ بڑے خان جی کو دیکھ کر وہاں موجود سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں کا رخ کرنے لگے تھے۔

وہ تیزی سے اس کی طرف آئے۔

"باتور خان۔۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔تمھیں میں نے اس وقت بھی کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے منع کیا تھا۔ الیکشن سر پر ہیں۔ اس وقت ہم کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔"

وہ بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے گئے۔

"مگر خان جی۔۔۔میرے دل و دماغ میں جو آگ لگی ہے اسکا کیا کروں۔"

وہ پھولتی سانسوں کو اعتدال پہ لاتے ہوئے بولا۔

"الیکشن ہو جائیں تو پھر۔۔۔۔۔الیکشن کے بعد جو جی میں آئے کرنا۔۔۔۔ابھی نہیں۔"

وہ اشارہ دیتے ہوئے بولے اور اسے ساتھ لئے آگے بڑھ گئے۔ کرم دین طنزیہ نظروں رحم دین کی طرف دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے چل دیا۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ تم بھی سنبھل جاو۔۔

ان کے جانے کے بعد رحم دین نے دروازے پہ دستک دی اور بلند آواز میں زمان خان کو پکارا۔۔۔

                                                             *************

وہ دونوں کمرے میں بیٹھے آنے والے وقت کے متعلق سوچ رہے تھے۔ 

"بابا آپ نے مجھے کیوں روکا تھا۔ آپ نے جانے نہیں دیا ورنہ اس کا دماغ ٹھکانے لگانا میرے لئے مشکل نہیں تھا۔ باتور خان جیسے معاشرے کے ناسوروں کو کیسے ٹھیک کیا جاتا ہے میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔یہی تو میرا مقصد حیات ہے۔"

وہ مٹھیاں بھینچےغصے میں کمرے میں دائیں سے بائیں چکر لگا رہا تھا۔ باتور خان جسطرح گھر کے باہر شور مچا کر گیا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا نکل کر اس کے ہوش ٹھکانے لگا دے مگر زمان خان اسے جانے نہیں دے رہے تھے۔

"میر ۔۔۔یہ وقت مناسب نہیں تھا۔ وہ کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچتا تھوڑی ہے اگر تمھیں کچھ ہو جاتا تو۔۔۔"

وہ اسے تب سے سمجھا رہے تھے مگر اس کے غصے کا گراف نیچے نہیں آ رہا تھا۔ 

"تمھارے بابا بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں بیٹا۔۔یہ لوگ کسی کو لڑنے کا موقع ہی کب دیتے ہیں اور ذرا سا مزاج کے خلاف بات ہو جائے تو بندہ مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ گاوں کے حالات تو تمھارے سامنے ہیں کب کوئی بچ سکا ان سے۔ تم ہی ہماری آخری امید ہو۔ تمھیں نہیں کھو سکتے ہم۔"

رحم دین اٹھ کر اس کے پاس آئے اور اسے بیٹھ جانے کو کہا جبکہ زمان خان پر سوچ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہے۔ 

"اور ہاں اب تمھارا یہاں رکنا بھی مناسب نہیں ہے۔ کل صبح سویرے ہی نکل جانا۔ تم بھی جا رہے ہو نہ کل؟؟"

انھوں نے اس سے بات کرتے کرتے رحم دین سے پوچھا۔ جس کے جواب میں انھوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

"مسکاء کے لئے شہر جانا ہی مناسب ہے وہ یہاں نہیں ہو گی تو ہی ہم کچھ کر سکیں گے۔ اس کے یہاں موجود رہنے سے حالات خطرناک صورت اختیار نہ کر لیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے خان جی بھی اسی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ اسکو یہ ظلم کرنے سے روکیں وہ اسے اور بڑھاوا دے رہیں۔ کوئی بھی مدد کے لئے تیار نہیں ہے۔ سب یہی کہہ رہے ہیں کہ باتور کو رشتہ دینے میں ہی عافیت ہے۔ اب تم ہی بتاو کہ میں کیسے اپنی بیٹی کو کنویں میں دھکیل دوں۔"

وہ میر کیطرف دیکھ رہے تھے جو زمین پہ نظریں گاڑھے نجانے کیا سوچ رہا تھا۔

" میر بیٹا۔۔۔تمھیں تکلیف تو نہیں ہو گی۔اگر ہم تمھارے ساتھ چلیں۔"

ان کے پوچھنے پر وہ خیالات سے چونکا۔

"ارے نہیں چاچا۔۔۔میں آپ کے ساتھ ہوں لیکن ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ اسے وہاں چھوڑ کے آ جائیں گے تو وہ رہے گی کس کے ساتھ۔۔ کیا وہاں آپ کا کوئی رشتے دار وغیرہ ہیں؟"

میر نے ان کا ہاتھ تھام کر انھیں اپنے ساتھ کا احساس دے کر پوچھا۔

"نہیں بیٹا رشتہ دار تو کوئی نہیں ہے۔"

وہ حیرت سے زمان خان کی طرف دیکھنے لگا۔

"وہاں ہاسٹل میں رہے گی۔"

زمان خان اس کی حیرت بھانپ کر بولے۔

"کون سے ہاسٹل؟؟؟ چاچا آجکل ویمنز ہاسٹلز کی ریپوٹیشن بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔ ایسے میں اسے وہاں اکیلا چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔"

اس نے باری باری دونوں پہ حیرت بھری نظریں ڈالیں۔

"ارے بھئی وہ وہاں کالج میں پڑھ رہی ہے اور کالج کے ہی گرلز ہاسٹل میں رہتی ہے۔ آجکل ماں باپ سے ملنے آئی تھی کہ یہ مسئلہ ہو گیا۔"

انھوں نے اس کی پریشانی دور کی۔

"ٹھیک ہے فجر کے بعد نکلیں گے انشاءاللہ۔"

وہ اٹھتے ہوئے بولا۔

"ٹھیک ہے ہم فجر کے بعد یہیں آ جائیں گے۔۔تم اب آرام کرو۔ میں چلتا ہوں۔"

رحم دین اور زمان خان اٹھ کر روم سے باہر آ گئے۔

"ویسے میں ایک بات سوچ رہا تھا"

زمان خان پرسوچ انداز میں بولا تو رحم دین نے پلٹ کر انھیں دیکھا۔

"تم مسکاء کے ساتھ مت جاو۔۔میر اسے بحفاظت ہاسٹل چھوڑ دے گا۔ کل گاوں میں تمھاری غیر موجودگی انھیں شک میں مبتلا کر سکتی ہے۔"

زمان خان کی بات ان کے دل کو لگی۔ 

"مگر۔۔۔۔"

"کل ہم تھانے جا کر باتور خان کے خلاف رپورٹ درج کرانے کی کوشش کریں۔اس طرح ان کا دھیان بھی بٹا رہے گا اور تھانے جا کر ہمیں بھی حالات کا اندازہ ہو جائے گا۔"

زمان خان نے انھیں سمجھایا تو انھوں نے سر ہلا کر ان کی بات سے اتفاق کیا اور بیرونی دروازے سے باہر نکل گئے۔_________________________

فجر کی نماز ادا کرنے کے فورا بعد رحم دین مسکاء کو لئے زماں خان کے گھر آیا۔ زمان خان نے گھر آنے کے بعد دروازہ بھی بند نہیں کیا تاکہ رحم دین کو دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت محسوس نہ ہو اور خود صحن میں ہی ان کا انتظار کرنے لگے۔ ان کے بتانے پر کہ رحم دین ان دونوں کے ساتھ نہیں جا رہا اور اسے رحم دین کی بیٹی کو خود ہاسٹل لے کر جانا ہے تو ناپسندیدگی کے باوجود وہ مان گیا۔

وہ اندر روم میں اپنی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔ زمان خان کو چاہنے کے باوجود وہ انکار نہیں کر سکا تھا۔ اب سارا غصہ بیچارے کپڑوں اور ضرورت کی دوسری چیزوں پہ نکل رہا تھا جن کو وہ اپنے سفری بیگ میں تقریبا پٹخ رہا تھا۔ لڑکیوں سے وہ شروع سے ہی الرجک تھا۔ یونیورسٹی میں بھی کسی لڑکی سے بات نہیں کرتا تھا۔

ساری چیزیں سمیٹنے کے بعد وہ ناشتہ کرنے لگا جو زمان خان اس کے لئے رکھ گئے تھے۔ 

باہر سے آنے والی آوازوں سے لگ رہا تھا کہ وہ لوگ آ گئے ہیں۔ اسکے ہاتھوں نے تیزی پکڑی۔ ابھی ناشتہ ختم کیا ہی تھا کہ وہ اسے بلانے آ گئے۔

"میر! گلزم خان آ گیا ہے ٹیکسی لے کر۔۔وقت پہ نکلو اور ہاں بچی کو ہاسٹل تک پہنچانا ہے یہ نہ ہو کہ باہر ہی اتار کر خود چلتے بنو۔"

وہ بات کرتے ہوئے بغور اسے دیکھ رہے تھے جو بیڈ پہ پڑا اپنا سفری بیگ اٹھانے کے لئے پلٹا تھا۔

"سن لیا ہے بابا۔۔۔ہاسٹل تک نہیں بلکہ روم تک لے جاوں گا اور اگر آپ کہیں تو رات بھی وہہیں گزار لوں گا۔۔کیا خیال ہے آپکا؟؟"

وہ شرارت سے انھیں دیکھ رہا تھا۔

"اچھا اچھا ٹھیک ہے۔۔بس ہاسٹل تک ہی کافی ہے۔ چلو نکلو اب۔۔دیر ہو رہی ہے۔ سفر بھی لمبا ہے وقت پر نکلو تا کہ وقت پہ پہنچ جاو۔"

وہ اسے لیے باہر آ گئے۔ رحم دین اور مسکاء باہر ان کا انتظار کر رہے تھے۔ انھیں آتا دیکھ کر وہ مسکاء کو اشارہ کرتے اٹھ کھڑے ہوئے۔

میر نے ان کے ساتھ کھڑے سیاہ چادر میں گٹھلی بنے وجود کو دیکھا۔ وہ سیاہ شلوار اور سیاہ قمیص جس پہ گلابی پھول تھے۔۔۔ پہنے ہوئے تھی۔ چہرہ چادر سے اسطرح ڈھانپ رکھا تھا کہ رحم دین آگے بڑھ کر اس سے بغلگیر ہوئے۔ اس سے ملتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تیرتے دکھائی دیا۔ اس نے ان کے کندھے پہ بازو پھیلا کر انھیں تسلی دی۔ باپ کو روتے دیکھ کر مسکاء کی آنکھیں بھی پانیوں سے بھر گئیں۔

"مسکاء بیٹا روتے نہیں ہیں اللہ سب بہتر کرے گا۔ تم پریشان نہ ہو۔"

انھوں نے آگے بڑھ کر اس کے آنسو پونچھے۔

"چاچا۔۔۔یہاں بابا بالکل اکیلے ہیں۔ وہ لوگ اچھے نہیں ہیں۔"

آنسو ایک بار پھر گالوں پہ ڈھلک آئے تھے۔ میر نے آواز کی سمت نظر اٹھائی۔ زمان خان کے اس کے سر پر ہاتھ رکھنے سے اسکی چادر تھوڑی سرک گئی تھی۔ میر کو لگا وہ وہاں سے کبھی ہل نہیں پائے گا۔ سیاہ چادر کے ہالے میں چہرہ چاند کی مانند چمک رہا تھا اور اس پہ ٹھہرے آنسو سفید موتیوں کی طرح لگ رہے تھے۔سیاہ آنکھیں بار بار پانیوں سے بھر جاتیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہے یا اسے لگ رہی ہے۔ اس کی نظر نے واپس پلٹنے سے انکار کر دیا۔

"تم پریشان نہ ہو وہ کچھ نہیں کر پائے گا۔ ہم اسے پتہ نہیں لگنے دیں گے کہ تم گاوں میں نہیں ہو۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔"

بیٹی کو اسطرح روتا دیکھ کر رحم دین نے اسے بانہوں میں سمیٹا۔ مسکاء ان کے پیچھے چھپ گئی تھی۔ وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔

"چلیں۔۔۔" چہرے پہ ایک مرتبہ پھر سے سختی کا راج تھا۔ وہ زمان خان سے مل کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔

زمان خان مسکاء کو لئے اس کے پیچھے ہو لئے۔ رحم دین بھی مسکاء کا بیگ تھامے ان کے پیچھے تھا۔ وہ باہر آئے تو میر آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ چکا تھا۔ بار بار اسکی نظر ہاتھ پہ بندھی گھڑی کی جانب اٹھ رہی تھی۔ 

زمان خان نے چاروں جانب نظر دوڑائی اور اس کے لئے پچھلا دروازہ کھولا۔ رحم دین کے ہاتھ سے اس کا بیگ لے کر سیٹ پر رکھا جہاں میر کا بیگ بھی رکھا تھا۔ مسکاء کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس نے بیٹھنے سے پہلے باپ کی جانب دیکھا اور دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے ان کے سینے سے آ لگی۔۔ ان کے بے آواز آنسو اس کے سیاہ چادر میں جذب ہو کر اپنی رنگت کھو رہے تھے۔

میر نے اکتا کر ایک بار پھر زمان خان کو اشارہ کیا۔

"بابا دیر ہو رہی۔۔"

وہ اجالا ہونے سے پہلے وہاں سے نکلنا چاہتا تھا اور تھوڑی دیر میں ہی گاوں میں چہل پہل شروع ہو جانی تھی۔

"بابا اپنا اور اماں کا خیال رکھیے گا۔ "

مسکاء باپ سے الگ ہوئی اور بنا کسی جانب دیکھے گاڑی میں جا بیٹھی۔ گھر سے نکلنے سے پہلے وہ چہرے کو پہلے کیطرح ڈھانپ چکی تھی۔

"خیال رکھنا اپنا۔۔اور جب تک میں نہ کہوں گاوں مت آنا۔ اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔۔خدائے پہ امان۔"

گاڑی کا دروازہ بند کر کے وہ پیچھے ہوئے۔ گلزم خان کو اشارہ ملنے کی دیر تھی تھوڑا آگے ہو کر گاڑی کی سپیڈ بڑھا لی۔۔۔

پچھلی سیٹ پہ بیٹھی مسکاء آنسو بہاتی آنے والے وقت کے متعلق سوچ رہی تھی۔ اسے لگا جیسے وہ اپنی ذات کا ایک حصہ وہہیں چھوڑے جا رہی ہے اور وہ ایک ایسے کمرے میں بند ہے جہاں نہ کوئی روزن ہے اور نہ ہی کوئی روشن امید۔۔۔

اس کا دم گھٹنے لگا اور سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔

اس نے چہرے سے چادر کو تھوڑا سا سرکایا اور سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔۔

گاڑی کچے راستے سے گزرتی دھول اڑاتی تیزی سے آگے بڑھتی جا رہی تھی۔

اسے لگا کوئی پکار رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔

لیکن کون۔۔۔۔۔؟؟؟

آواز انجان۔۔۔

لہجہ انجان۔۔۔۔۔

"بابا۔۔۔۔۔۔۔" اس کے ہونٹوں میں جنبش ہوئی تھی۔

"ہیلو۔۔۔۔اٹھو۔۔۔کیا مصیبت ہے۔۔ایسے سوئی ہے جیسے شاہی بستر پر استراہت فرما رہی ہو۔۔"

اکتاہٹ سے بھرپور بھاری مردانہ آواز۔۔۔۔۔۔ اس نے جھٹکے سے آنکھ کھولی۔۔۔

کمر پہ ہاتھ رکھے ، آنکھوں میں غصہ اور اکتاہٹ کے ملے جلے تاثرات لئے وہ اسے گھور رہا تھا۔ وہ فورا سیدھی ہوئی۔۔۔

"میڈم۔۔۔اگر نیند پوری ہو گئی ہو تو گاڑی سے باہر قدم مبارک رنجا فرمائیے۔ آپ کا ہاسٹل۔۔۔۔"

اس نے گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ چادر درست کرتی گاڑی سے نکلی۔۔

آنکھوں میں نیند کا خمار گھلا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اپنا بیگ اٹھاتی اسکا شکریہ ادا کرتی تیزی سے چلتی ہاسٹل کا گیٹ پار کر گئی۔۔۔۔

وہ وہہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔

اور پھر وہ سیاہ نقطہ بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

"میر بیٹا۔۔۔چلیں؟؟"

گلزم خان گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اسے پکارا۔ وہ سر ہلا کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔****************************

وہ صحن میں لگے نل سے منہ ہاتھ دھو رہے تھے جب دروازے پہ دستک ہوئی۔ وہ تولیے سے ہاتھ منہ پونچھتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھے۔ بےدھیانی میں دروازہ کھولا۔ کرم دین اور زبیدہ خانم کھڑے تھے۔ انھیں دیکھ کر وہ گھبرا گئے۔ گھر میں مسکاء نہیں ہے اگر اس بارے میں انھیں پتہ چل گیا تو ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ 

"کیا ہوا رحم دین۔۔۔ ہمیں دیکھ کر تیرا رنگ کیوں اڑ گیا۔۔ کہیں بھاگ رہا تھا کیا۔ دیکھ ہم تیری طرف آئے ہیں صلح صفائی سے یہ مسئلہ حل کرنے۔ آخر کو تو میرا چھوٹا بھائی ہے اور وہ تیرا بھتیجا۔۔۔تیرا خون ہے۔۔۔"

ان کی نظروں نے کرم دین کی نظروں کا تعاقب کیا۔

باتور خان سامنے دیوار پہ پیر ٹکائے کھڑا تھا۔ لبوں پہ جاندار مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ان کے قریب آیا۔

"سلام چاچا۔۔۔"

ہلکے نسواری رنگ کی شلوار قمیص پہ کالی واسکٹ پہنے اور کالی چادر کندھوں پہ ڈالے وہ انہی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس نے رحم دین کو سلام کیا۔

"واعلیکم السلام۔۔!" 

رحم دین نے سلام کا جواب دے کر انھیں اندر آنے کا راستہ دیا۔ ذہرہ بی بی انھیں اس ٹائم آتا دیکھ کر گھبرا گئ تھیں مگر رحم دین کے اشارہ کرنے پہ خود کو سنبھالتی ، مسکراتی ہوئی زبیدہ خانم سے ملیں۔ وہ انھیں لئے اندر کمرے کی طرف بڑھیں۔

"بیٹھیں۔۔۔"

انھوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ انھیں بیٹھنے کو کہا۔ باتور خان چارپائی پہ بیٹھ کر اردگرد کا جائزہ لے رہا۔ اس کی نظریں کمرے میں کم اور باہر کی جانب زیادہ چکر لگا رہی تھیں۔

آج صبح اٹھتے ہی اسکا دل اس دشمن جاں کو دیکھنے کو مچلنے لگا۔ حالات کی وجہ سے مسکاء نے گھر سے نکلنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ گھر وہ جاتا نہیں تھا اس لئے آج اسے دیکھنے کی خاطر وہ ان دونوں کو بھی وہ اپنے ساتھ گھسیٹ لایا تھا۔ سبھی خاموش تھے۔ جب ہر جانب سے نظر مایوس لوٹ آئی تو اس نے ماں کو اشارہ کیا۔

"مسکاء بیٹی نظر نہیں آ رہی۔"

زبیدہ خانم نے ذہرہ بی بی کی جانب دیکھا جن کا سانس اٹک گیا تھا۔ 

"وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہے۔ رات دیر تک پڑھائی کرتی رہتی ہے تو اس ٹائم تھوڑا آرام کر لیتی ہے۔"

رحم دین فورا بولے۔

"جہ۔۔۔جی۔۔۔ابھی میں گئی ناشتے کا پوچھنے تو سو رہی تھی اور دروازہ بھی اندر سے بند کر رکھا ہے۔ آپ لوگ کہتے ہیں تو اٹھا دیتی ہوں۔"

وہ اٹھنے لگیں۔

"ارے نہیں نہیں۔۔۔سونے دو میری بہو کو۔۔کسی معاملے میں منع نہ کیا کرو۔ پڑھائی کر لے۔۔آگے پڑھنا چاہے گی تو شادی کے بعد پڑھائیں گے۔ بس آج تو ہم نکاح کی تاریخ لینے آئے ہیں۔ ابھی تو چھٹیاں ہیں نہ تو میں نے سوچا ہے نکاح کر دیتے ہیں اور پھر رخصتی امتحان کے بعد ہو جائے گی۔"

رحم دین کو لگا جیسے ان کے جسم سے جان نکل رہی ہو۔ ذہرہ بی بی بھی گھبرا گئیں۔ 

"اگلے مہینے کی پندرہ تاریخ رکھ لیتے ہیں۔ کیا خیال ہے۔"

کرم دین اپنی ہی کہے جا رہے تھے۔ ان کی بات سن کر تو باتور خان کا جی چاہا اپنے باپ کا منہ چوم لے۔ اسے تو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اسطرح کی بات کریں گے۔ کیونکہ ابھی وہ یہاں آنے کے لئے راضی نہیں تھے اور اب ایک دم سے یہ فیصلہ۔۔۔

"کرم دین لالا۔۔وہ تو آپکی ٹھیک ہے۔ میں ذرا زمان خان سے اس بارے میں مشورہ کر لوں پھر آپ کو بتا دوں گا۔ "

وہ انھیں کسی بھی طرح کا شک ہونے نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس لیے ایک چھوٹا سا بہانا گڑھا۔۔

"چاچا۔۔۔اس کا ہمارے معاملے میں کیا کام۔۔ اسے تو آپ اس معاملے سے دور ہی رکھیں۔"

باتور خان ان کی بات سن کر بھڑک اٹھا۔ ان باپ بیٹے کا ذکر تو آجکل ویسے بھی اس کے اندر لگے آگ کے شعلوں کو بھڑکا دیتا تھا۔

"ہاں رحم دین۔۔۔زمان خان کو دور ہی رکھو۔۔ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ شخص اور پھر اس کے بیٹے نے کیا حال کیا تھا باتور خان کا۔۔میرا بس چلے تو دونوں کو گولی سے اڑا دوں۔"

دونوں باپ بیٹا ان کا ذکر بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔

"بابا۔۔۔وہ بھگوڑا۔۔۔ڈرپوک کہیں کا۔۔آج صبح ہی بھاگ گیا شہر۔۔۔خیر۔۔۔۔۔ بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ جیسے ہی ہاتھ آئی کاٹ ڈالوں گا۔"

باتور خان کی بات سن کر رحم دین کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔

"کیا میر چلا گیا۔۔۔اس نے تو کل جانا تھا۔"

ان کی نظریں زمین پر تھیں۔

"میرے ایک بندے نے اسے آج ہی گلزم خان کی گاڑی میں گاوں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ مجھے تو لگتا ہے سارا سامان لے کر گیا ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر کافی سامان رکھا ہوا تھا۔ اتنی ہی اکڑ تھی تو بھاگا کیوں۔۔یہاں گاوں میں رہ کر مقابلہ کرتا۔"

وہ طنزیہ انداز میں رحم دین کی جانب دیکھ رہا تھا جبکہ کرم دین بھی بیٹے کی بات پر مسکرا دیا۔ زبیدہ خانم بھی بیٹے کی بلائیں لینے لگی تھی۔ 

رحم دین نے سکون بھری سانس خارج کی اور دل ہی دل میں دونوں میاں بیوی بے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کا ساتھ دیا اور باتور خان کے آدمی نے پیچھے بیٹھی ہوئی مسکاء کو سامان سمجھا۔

"بس تو پھر پندرہ تاریخ رکھ لیتے ہیں نکاح کے لیے۔"

وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔ زبیدہ خانم نے بھی ان کی تقلید کی۔ جبکہ باتور خان مسکاء کو دیکھے بنا وہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا لیکن باپ کے اشارہ کرنے پر اٹھ کھڑا ہوا۔

"کرم دین لالا مسکاء کا امتحان ہو جاتا تو۔۔۔۔۔۔۔تب تک رک جاتے ہیں۔"

ان کے لہجے میں التجاء تھی مگر سامنے پتھر کھڑے تھے۔۔جن سے ٹکرا کر سب کچھ پاش پاش ہو جاتا ہے۔

"بس۔۔۔میں نے کہہ دیا۔۔تیاری پکڑ۔۔پندرہ تاریخ کو آئیں گے۔ اللہ حافظ۔"

یہ کہہ کر انھوں ان دونوں کو بھی چلنے کا اشارہ کیا اور خود بھی کمرے سے باہر نکل گئے۔۔

رحم دین اور ذہرہ بی بی وہہیں کھڑے رہ گئے۔ ذہرہ بی بی نے دیکھا کہ بیرونی دروازے سے نکلتے ہوئے باتور خان نے پلٹ کر مسکاء کے کمرے کی طرف دیکھا تھا اور پھر مونچھوں کو بل دیتا ، مسکراتا باہر نکل گیا۔۔۔

ان کی آنکھوں سے چشمہ پھوٹ پڑا تھا۔۔**********************

"میں یہ ظلم ہونے نہیں دوں گا۔۔۔اس رسم کے خلاف میں کھڑا ہوں گا۔ جب تک میں زندہ ہوں میں گاوں ہونے والی کسی بھی غیر شرعی اور غیر قانونی رسم میں آپ سب کا ساتھ نہیں دوں گا۔ مجھے یقین ہے اگر بابا بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی اس بےبنیاد رسم کے خلاف میرے ساتھ کھڑے ہوتے۔ آپ سب کو شرم آنی چاہیئے ایک معصوم لڑکی جو کہ بالکل بےگناہ ہے۔۔۔اسے اس فضول رسم کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔"

حجرے میں سب کے بیچ کھڑے وہ بلند آواز میں قہر آلود نظروں سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے جو اس سب کا ذمہ دار تھا۔

جرگے میں موجود لوگ۔۔۔جو ان کی بات سے اتفاق رکھتے تھے۔۔انھیں نرم نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور جو اس گھٹیا رسم کے حامی تھے ان کی باتیں انھیں غصہ دلا رہی تھیں۔۔

وہ جانتے تھے یہاں موجود بہت سے لوگ ان کے مخالف ہیں مگر وہ جیتے جی یہ ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ 

"تم بیٹھ جاو میر دراب خان۔۔۔جرگے کہ بڑے ہیں یہاں وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ٹھیک ہی کریں گے۔تم ابھی چھوٹے ہو ان سب باتوں کی نازکی کو نہیں سمجھتے ہو۔"

میر سربلند خان نے اپنے غصے پہ قابو پایا۔ میر دراب خان جب سے گاوں آیا تھا۔ انھیں حلق میں کانٹے کیطرح چبھنے لگا تھا۔ ہر معاملے میں بولنا۔۔ہر کام میں ہاتھ ڈالنا۔۔انھوں نے جیسے اپنا معمول بنا لیا تھا۔ سب سے بڑھ کر گاوں کا ہر بندہ انھیں پسند کرتا تھا۔ جو بھی مسئلہ ہوتا لوگ ان کے پاس بھاگے آتے تھے۔ میر سربلند خان کو تو جیسے لوگ بھولتے جا رہے تھے۔پہلے بھی ان کے خشک رویے کی بنا پر لوگ انھیں کچھ ذیادہ پسند نہیں کرتے تھے اور اب تو جیسے ہر ایک کی زبان پہ میر دراب خان کا نام تھا۔۔

"لالا۔۔۔آپ کیسے خاموش بیٹھ سکتے ہیں۔۔یہ ظلم ہے اور ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی کہلاتا ہے۔ ہمارے مذہہب نے عورت جو مان و مرتبہ دیا ہے آپ لوگ اس کے خلاف جا رہے ہیں۔۔اپنے دین کو بھول رہیں ہیں۔ لیکن معاف کیجئے گا میں اس سب میں آپ لوگوں کا ساتھ نہیں دوں گا۔"

ان کے لہجے کی کڑک وہاں موجود کچھ لوگوں کو متاثر کرنے لگی۔

"اب تو اس معاملے کا ایک ہی حل ہے کہ قادر خان اور نور خان کی بیٹی کی شادی کر دی جائے۔ کیونکہ اب غگ کر دی گئی ہے اس لئے یہ شادی ہو گی اور اگر اب بھی نور خان کو اعتراض ہے تو بے شک ساری زندگی بیٹی کو گھر بٹھائے رکھے۔ جرگے کا یہی فیصلہ ہے۔ اور برخوردار تم شہر سے آئے ہو۔۔ان سب کو نہیں سمجھتے ہو۔۔یہ ہمارا گاوں ہے اور یہاں وہی فیصلہ مانا جائے گا جو جرگے کے بڑے کریں گے۔ کیوں نور خان تمھیں کوئی اعتراض ہے؟؟"

آخر میں اکرم خان نے نور خان کی طرف دیکھا جس کے ڈھلکتے کندھے میر دراب خان کا دل چیر رہے تھے۔ اس نے جھکا سر اٹھایا اور دراب خان کی طرف دیکھا۔ انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کے ساتھ ہونے کا اشارہ دیا تو ان میں تھوڑی ہمت آئی۔

"میں اس شادی کے لئے راضی نہیں ہوں۔"

ان کی بات میر دراب خان کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر گئی۔ جرگے میں سرگوشیاں بلند ہونے لگیں۔۔ سبھی سوچ رہے تھے کہ اب آگے کیا ہو گا۔

"پاگل مت بنو نور خان۔۔۔۔کیا ساری عمر بیٹی کو بٹھائے رکھو گے۔"

میر سربلند خان نے نور خان کو قہر آلود نظروں سے گھورا۔

"نہیں میں اس کی شادی وہہیں کروں گا جہاں میری رضا ہو گی۔" وہ اٹھتے ہوئے بولا۔

"ہاہاہا۔۔۔۔کون کرے گا تیری بیٹی سے شادی۔۔کون مائی کا لال ہے جو میرے سامنے کھڑا ہو گا۔"

قادر خان استہزایہ ہنسا اور اٹھ کر نور خان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"میں کروں گا یہ شادی۔"

میر دراب خان کی بارعب آواز حجرے کی دیواروں سے ٹکرائی تھی۔ سبھی لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

"میں کروں گا نور خان چاچا کی بیٹی سے شادی۔۔اگر کوئی میرا کچھ بگاڑ سکتا ہے تو آئے۔ میں بھی دیکھوں کہ میرے سامنے کھڑے ہونے کا دم کس میں ہے۔"

وہ قادر خان کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کرتے ہوئے بولے۔

" نہیں خان ۔۔۔۔ہم کہاں اور آپ کہاں۔۔"

نور خان اداسی سے بولا۔

"میں اس فرق کو نہیں مانتا۔۔۔ نکاح اسی ہفتے کو ہو گا اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ نکاح میں شامل نہ ہو۔"

وہ نور خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انھیں ساتھ لئے حجرے سے باہر آ گئے۔

میر سربلند خان کو تو جیسے چپ لگ گئی۔ وہ بھی خاموشی سے وہاں سے اٹھ گئے لیکن وہ جاتے جاتے قادر خان کو اشارہ کرنا نہیں بھولے تھے۔

اب انھیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا تھا۔۔۔۔

میر دراب خان کو اپنے راستے سے ہٹانا تھا۔۔۔*********************

"تم کب آئے۔۔۔؟؟"

وہ لائبریری میں اپنے سامنے بکس کھولے مگن تھا جب ارحم اسکے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔ اس پہ ایک نظر ڈالی اور ایک بار پھر سر جھکا لیا۔

"اوئے مسٹر۔۔۔۔میں تمھارے ساتھ ہوں۔ تم تو پرسوں آنے والے تھے نا۔"

وہ ٹیبل بجا کر بیٹھ گیا۔

"اس میں کون سی اتنی بڑی بات ہو گئی اگر میں ایک دن پہلے آ گیا ہوں۔"

وہ مصروف رہتے ہوئے بولا۔

"اچھا۔۔۔یہ بتاو تمھارا معاملہ کہاں تک پہنچا۔۔کوئی پروگریس ہوئی یا وہی دھاک کے تین پاٹ۔۔۔؟؟"

وہ مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ اگر میں تمھارے دانت توڑ دوں تو تم بنا دانتوں کے کیسے لگو گے۔ لڑکیاں تو پہلے ہی تمھیں لفٹ نہیں کرواتیں۔۔بنا دانتوں والے کو کیا پوچھیں گی۔"

وہ کتاب بند کرتے ہوئے بولا۔ لبوں پہ شرارت بھری مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

"ہاں بھئ ٹھیک ہے۔۔۔اب تو تم یہی کہو گے۔ لیکن مجھ جیسا دوست چراغ لے کر بھی ڈھونڈو گے نا تو نہیں ملنے والا۔"

وہ ناراضگی شو کرتا اٹھا تھا۔ ضیغم نے فورا اس کا ہاتھ تھام کر اسے روکا اور اسکے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"تمھارے جیسا دوست تو نصیب والوں کو ملتا ہے اور وہ خوش نصیب۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسکراہٹ روکتے ہوئے بولا۔جب کہ ارحم اپنی تعریف سننے کے لئے ہمتن گوش تھا۔

"وہ خوش نصیب میں نہیں تم ہو۔"

وہ بکس اٹھاتے ہوئے بولا۔

"ضیغم تم میرے ہاتھوں قتل ہو جاو گے۔"

ارحم نے اسے ہنستے ہوئے مکا دکھایا۔ جسے ضیغم نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔ دونوں ہنستے ہوئے لائبریری سے باہر آگیا۔

"یاد آیا۔۔۔۔ تم پروفیسر محمد عقیل سے ملنے گئے تھے یا نہیں۔۔یار وہ بار بار کسی نہ کسی سے تمھارا پوچھتے ہیں۔ پتہ نہیں کیا بات کرنی ہے ان کو۔"

وہ بکس اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے بولا۔

"نہیں ۔۔۔۔یار وقت ہی نہیں ملتا اور نہ ہی یاد رہتا ہے۔کل مل لوں گا۔ چلو کچھ کھلاو بہت بھوک لگ رہی ہے۔"

پروفیسر محمد عقیل کے بارے بات کرتے وہ دونوں ڈپارٹمنٹ سے باہر آ گئے۔۔

وہ سوچ رہا تھا کہ کل سب سے پہلے وہ انہی سے ملے گا۔*******************

"رکو ضیغم۔۔۔بات سنو۔۔"

وہ پروفیسر محمد عقیل کے آفس کی طرف جا رہا تھا جب پیچھے سے احمد کے پکارنے پہ رک گیا۔ وہ بھاگتا ہوا اسی کی طرف آ رہا تھا۔

"مجھے کچھ ہیلپ چاہئیے تھی تم سے۔۔۔کہاں جا رہے ہو؟"

اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور ہاتھ میں پکڑے نوٹس اسے واپس کئے۔

"کہیں نہیں۔۔۔پروفیسر محمد عقیل نے بلایا ہے۔ وہہیں جا رہا ہوں۔ تم بتاو کیا ہیلپ چاہئیے؟"

اس نے نوٹس لے کر اس سے پوچھا۔

"یار وہ مجھے اسٹڈی میں تمھاری مدد چاہیئے تھوڑی سی۔"

وہ سر کھجاتے ہوئے بولا تو ضیغم مسکرا دیا۔

"ٹھیک ہے فارغ ہو کر لائبریری میں ملتا ہوں۔ تم وہہیں آ جانا تھوڑی دیر تک۔۔"

اس کے سر اثبات میں ہلانے پر وہ پروفیسر محمد عقیل کے آفس آ گیا۔ وہ آفس سے نکل ہی رہے تھے۔ ضیغم کو آتے دیکھ کر واپس اندر چلے گئے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ کوئی بہت ضروری بات ہے۔ان سے اجازت طلب کرتے ہوئے وہ اندر داخل ہوا۔ وہ اپنی چئیر کی بجائے سائیڈ پہ موجود ٹرپل سیٹر صوفے پہ براجمان تھے۔ انھوں نے سر ہلا کر اسے اندر آنے کی اجازت دی اور اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔

ان کے آفس پہ ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ اس سے انھیں ایسی کیا بات کرنی ہے۔ پہلے تو وہ سوچ رہا تھا کہ اسٹڈی کے متعلق ہی پوچھنا ہوگا لیکن بار بار کسی نہ کسی کے ذریعے وہ اس تک پیغام بھجواتے کہ وہ ان سے آ کر ملے۔ ایگزامز قریب تھے۔ سبھی اسٹوڈنٹس اپنی اسٹڈیز میں بزی تھے۔ وہ بھی لائبریری سے ہو کر ہاسٹل آ جاتا اور پھر ٹیوشن سینٹر۔۔۔۔۔نئی جاب تھی وہ چھٹی نہیں کر سکتا تھا اس لئے وہ ان سے ملنے نہیں جا پایا تھا اور پروفیسر محمد عقیل کو بھی ابھی یونیورسٹی میں بمشکل تین ہفتے ہی ہوئے تھے۔ آج ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہوئے اس نے انھیں گاڑی پارک کرتے ہوئے دیکھا تو اسے یاد آیا۔

ضیغم کو ان کی آنکھوں میں اپنے لئے ایک عجیب سی چمک محسوس ہوئی۔ وہ بغور اسے دیکھ رہے تھے۔ بلیک شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس یہ لڑکا انھیں کسی بہت اپنے کی یاد دلاتا تھا۔۔وہ اپنا جو کہیں کھو گیا تھا۔۔۔جو انھیں بہت عزیز تھا۔۔وہی ناک ، وہی روشن پیشانی ،چمکتی آنکھیں۔۔کچھ بھی تو مختلف نہیں تھا۔

"سر آپ نے مجھے بلایا تھا۔"

وہ اسطرح خود کا مطالعہ ہوتے دیکھ کر دھیمے سے بولا۔

"برخوردار کافی دنوں سے میں آپ سے ملنے کی کوشش میں ہوں لیکن آپ ہیں کہ آپ کے پاس ٹائم ہی نہیں۔ یقینا زمانہ بہت بدل گیا ہے اب ایک استاد کو محترم طالب علم سے ملنے کے لئے اتنا انتظار کرنا پڑتا ہے۔"

وہ اس کے پوچھنے پر مسکراتے ہوئے بولے۔ ان کی بات سن کر ضیغم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا۔

"میرا مقصد تمھیں شرمندہ کرنا نہیں تھا۔"

وہ اسے شرمندہ دیکھ کر بولے۔

"آئی ایم ایکسٹریملی سوری سر۔ دئیر از سم ریزنز بہائینڈ اٹ۔۔"

شرمندگی اس کے ہر انداز سے جھلک رہی تھی۔

"اٹس او کے ینگ مین۔۔۔ہوتا ہے۔"

وہ اپنا فون پاکٹ سے نکال کر ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولے۔ 

"سر آپ نے بتایا نہیں کیا بات کرنی تھی آپ کو؟؟"

اس نے ان کے انداز کو نظروں میں رکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں میں تمھارے بارے میں کچھ جاننا چاہتا تھا۔حالانکہ تمھارا پورا نام جان کر تو میری ساری امیدیں ہی دم توڑ گئی تھیں لیکن میں نے سوچا کیا پتہ تم اس بارے میں میری کچھ مدد کر پاو۔"

وہ اسے نگاہوں کی ذد میں رکھتے ہوئے بولے۔ 

"شیور سر۔۔کہیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ انفیکٹ میں آپ کے کسی کام آوں یہ بات میرے لئے خوشی کا باعث ہوگی۔"

وہ بہت اعتماد سے ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ نجانے کیوں ان کا دل گواہی دے رہا تھا کہ وہی ان کی مدد کر سکتا ہے۔

" ایکچولی تمھیں یہ تصویر دکھانی تھی۔ کیا تم انھیں جانتے ہو؟؟"

انھوں نے اپنی ڈائری میں سے ایک تصویر نکال کر اس کے سامنے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔ اس نے وہ تصویر اٹھا لی۔ اسے جھٹکا لگا تصویر میں موجود شخص کافی حد تک اس سے مماثلت رکھتا تھا بلکہ ایک پل تو اسے لگا کہ وہ اسی کی تصویر ہے۔ ایک اور شخص بھی اس تصویر سے مماثلت رکھتا تھا اور وہ تھا۔۔۔میرسربلند خان۔۔۔جوانی میں وہ بھی ایسے ہی دکھتے ہوں گے۔ وہ حیرانی سے کبھی تصویر اور کبھی سامنے موجود شخص کو دیکھ رہا تھا جو آنکھوں میں امید کے روشن دئیے لئے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

"کون ہے یہ شخص؟؟"

اسے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔

"یہ میرا دوست ہے۔۔۔جگری دوست۔۔۔میر دراب خان۔۔لڑکپن سے لے کر جوانی تک کا وقت ہم نے ساتھ میں گزارا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد تک تو ٹیلی فونک رابطہ رہا لیکن پھر معلوم ہوا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو گئے ہیں اس کے بعد سے کچھ اتا پتہ نہیں ہے ان کا۔۔۔۔۔۔حالانکہ ہماری دوستی ایسی نہیں تھی کہ وہ امریکہ جا کر مجھ سے رابطہ نہ کرتا۔ان کا تعلق تمھارے ہی گاوں سے ہے۔تمھاری شکل و صورت ، قد کاٹھ ان سے بہت ملتا جلتا ہے۔ پہلی نظر میں تو مجھے لگا کہ تم ان کے بیٹے میر ضیغم خان ہو لیکن تمھارے فادر کا نام جان کر میں خاموش ہو گیا۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ تمھارا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے تو بس میں تم سے ان کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ ضیغم ڈیڑھ سال کا تھا جب میں نے آخری بار اسے دیکھا تھا۔ آر یو او کے ضیغم؟؟"

وہ اس کے چہرے پہ زلزلے کے آثار نمایاں ہوتے دیکھ کر اس کے پاس آئے تھے اور اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"جی سر! آئی ایم فائن۔۔"

اس نے ان کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر پیا۔۔ اگلے ہی پل وہ خود پہ قابو پا چکا تھا۔ چہرے پہ اب سنجیدگی دکھائی دینے لگی تھی۔ 

"سر میں چلتا ہوں۔۔احمد لائبریری میں میرا انتظار کر رہا ہو گا۔"

وہ ان کی طرف دیکھے بنا آگے بڑھ گیا لیکن دروازے تک پہنچ کر رک گیا۔ جی میں نجانے کیا آیا کہ واپس ان کی طرف آیا۔ 

"سر ۔۔۔۔اگر آپ اجازت دیں تو کیا میں یہ تصویر رکھ سکتا ہوں؟"

تصویر پہ نظریں جمائے وہ ان سے پوچھ رہا تھا۔ انھوں نے تصویر ٹیبل سے اٹھا کر اس کی طرف بڑھائی۔ جسے اس نے فورا تھام لیا۔ 

"تھینک یو سر۔۔۔اللہ حافظ۔"

ایک نظر تصویر کو دیکھ کر اپنی بک میں رکھی اور انھیں سلام کرتا ان کے آفس سے باہر آ گیا۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ڈپارٹمنٹ سے اور پھر یونیورسٹی سے بھی نکلتا چلا گیا یہ دیکھے بنا کہ احمد اسے پکارتا اس کے پیچھے آ رہا تھا۔

باہر کی آوازوں پہ اس کے اندر کا شور غالب تھا۔۔۔

وہ نماز ادا کر کے کھڑکی کے قریب چلی آئی۔ موسم صبح ہی سے ابر آلود تھا۔ آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ وقفے وقفے سے بارش اپنی جھلک دکھا رہی تھی۔ گرمیوں میں بھی ایسے موسم میں اسکے ہاتھ ٹھنڈے رہتے تھے۔ ابھی بھی اس نے یخ ہاتھوں کو گرمائش دینے کے لئے چادر میں چھپا رکھا تھا۔ ہاسٹل میں گہری خاموشی تھی۔ سبھی لڑکیاں اپنے گھروں کو لوٹ گئی تھیں۔ چند ایک ہی ہاسٹل میں موجود تھیں۔ اس کی روم میٹ بھی گھر گئی ہوئی تھی۔ امتحانات قریب تھے لیکن پڑھنے میں دھیان نہیں لگ رہا تھا۔ کتاب اٹھاتی تو دھیان نہیں لگا پاتی۔ جب سے واپس ہاسٹل آئی تھی سارا دھیان اماں بابا کی طرف تھا۔ وہ ان کے لئے پریشان تھی۔ یہی سوچتی رہتی تھی کہ کاش وہ گاوں نہ گئی ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ وہ صرف باتور خان کے نام سے ہی واقف تھی۔ جب وہ پانچویں کلاس میں تھی تب ایک شادی میں وہ اپنے تایا کرم دین کی فیملی سے ملی تھی۔ اس سے پہلے نہ وہ کبھی اماں بابا کے ساتھ ان کے گھر گئی اور نہ کبھی وہ لوگ آئے۔ تایا کے تین بچے تھے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔۔۔باتور خان۔۔۔ رحم دین اور کرم دین کے والد نور دین نے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا چھوڑا تھا جو انھوں نے مرنے سے پہلے دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم کر دیا تھا۔ اپنا حصہ لینے کے بعد بھی کرم دین کی نظر چھوٹے بھائی کے حصے پر بھی تھی۔ اس لئے جب گھر کی تعمیر کے لئے انھوں نے پیسے مانگنے چاہے تو کرم دین نے انھیں ان کا حصہ فروخت کر دینے کو کہا۔ رحم دین نے سوچا کہ کچھ پیسے وہ مسکاء کے لئے بھی بچا لے گا اس لئے انھوں نے بڑے بھائی کی بات مان لی اور کرم دین نے چالاکی سے معمولی داموں زمین کا دوسرا حصہ بھی خرید لیا۔ زمین کے ساتھ روزگار بھی گیا۔ کرم دین نے بھائی پہ احسان کرتے ہوئے انھیں اسی زمین پہ کام کرنے کو کہا۔ رحم دین صبح سے لے کر شام تک کام کرتے اور اجرت نہ ہونے کے برابر ملتی۔ لیکن وہ صبر و شکر سے اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ دونوں بھائیوں میں مالک اور ملازم کا تعلق رہ گیا تھا۔ رحم دین بھی بڑے بھائی کی بے نیازی دیکھ کر ایک طرف ہوگیا اور کرم دین نے بھی بھائی سے ملنا جلنا تقریبا ترک کر دیا۔ پھر جب باتور خان میر سربلند خان کی سرپرستی میں آیا تو کرم دین نے مزید آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیں۔ 

رحم دین نے اس کے لئے نہ دن دیکھا نہ رات اور اسے ہر سرد و گرم سے بچائے رکھا۔ لوگوں کی مخالفت کے باوجود اسے دسویں تک پڑھایا۔ آگے پڑھنے کے لئے دل پہ پتھر رکھ کر اسے خود سے دور شہر بھیجا۔ باپ کی محنت اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں تھی اس لئے وہ بھی کامیابی کی منزلیں طے کرتی گئی۔ 

لیکن اب جو باتور خان نامی طوفان اس کی زندگی میں آیا تھا۔ وہ سنبھل نہیں پا رہی تھی۔ ہر صبح وہ خود کو مضبوط کرتی کہ اسے اس کٹھن موڑ پہ اپنے بابا کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ خود کو درپیش ان حالات کا سامنا کرنا ہے مگر ہر شام حالات کی سنگینی اسے کمزور کرنے لگتی۔

ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا اسکے وجود سے ٹکرایا تو ایک جھرجھری لے کر اس نے کھڑکی بند کر دی۔

"لالئی۔۔۔۔۔"

اسکی بچپن کی سکھی۔۔۔۔

وہ آتی بہاروں۔۔۔۔گلابی پھولوں جیسی لڑکی۔۔کیسے سرخ رنگ میں نہلا دی گئی تھی۔

مسکراتا زندگی سے بھرپور چہرہ کیسے منوں مٹی تلے پہنچا دیا گیا تھا۔

کوئی پرسان حال نہیں تھا۔۔

کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔۔۔

دونوں نے اکٹھے میٹرک کیا تھا۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے گلالئی آگے نہ پڑھ سکی۔ گلالئی نے شہر آتے وقت اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اس کی جگہ کسی کو نہیں دے گی اور آج بھی وہ اپنے وعدے پہ قائم تھی۔۔

وہ دھیرے قدم اٹھاتی ٹیبل کی جانب آئی تھی۔ نیلی جلد والی ڈائری اسکی نگاہوں کا مرکز تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ڈائری اٹھا کر کھولی۔۔ یہ اسکی اور گلالئی کی تصویر تھی۔ وہ دونوں سکول یونیفارم میں تھیں۔ یہ تصویر زمان چاچا نے ان دونوں کو دی تھی۔۔

"آہ۔۔ لالئی تم ایک زخم بن گئی ہو جو شاید کبھی مندمل نہ ہو پائے۔۔۔۔۔کاش میں تمھیں ایک نظر دیکھ پاتی۔۔"

اس نے تصویر میں دکھتے اس کے عکس پہ ہاتھ پھیرا۔ایک آنسو پلکوں کی باڑ پار کرتا تصویر پہ گرا تھا جسے اس نے اپنی چادر میں جذب کیا۔ تصویر ڈائری میں رکھ کر ڈائری بند کر دی۔

دروازے پہ ہوئی دستک نے اسکا دھیان اپنی طرف کھینچا۔ آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے گل باجی کھڑی تھیں۔ اس نے آگے بڑھ کر انھیں سلام کیا۔

"مسکاء بیٹا طاہرہ بی بی بلا رہی ہیں تمھیں۔"

انھوں نے سلام کا جواب دینے کے بعد وارڈن کا پیغام دیا اور پلٹ گئیں۔

وہ چادر درست کرتی روم سے باہر آ گئی۔ بارش کی وجہ سے پھول پودے نکھرے نکھرے لگ رہے۔ رنگ برنگے پھولوں سے بھرا لان موسم کی دلکشی کو اپنے اندر سموئے اسے اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔ اس کا جی چاہا تھوڑی دیر لان کی پرنم گھاس کو اپنے پیروں سے محسوس کرے مگر وہ ایسا صرف سوچ ہی سکتی تھی۔ بارش تو کیا کسی بھی موسم میں لان میں قدم رکھنے پر پابندی تھی۔طاہرہ میم کی اجازت کے بنا کوئی بھی لڑکی لان میں نہیں جا سکتی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکیاں پھول توڑیں گی یا پھر ان کا لان خراب کر دیں گی اور اگر کوئی اجازت لینے جاتا پھر بھی اجازت نہ ملتی۔ وہ خود ہی کبھی کبھار لان میں ٹہلتی یا پھر مطالعہ کرتی دکھائی دیتیں۔ لان کے اندر بنی کیاریوں میں مختلف اقسام اور رنگوں کے پھول تھے۔ طاہرہ میم خود ان کا بہت خیال رکھتی۔ اگر کوئی لڑکی بنا اجازت داخل ہوجاتی تو اسے سزا ملتی۔ لڑکیاں انھیں اس معاملے میں جلاد کا خطاب دیتی تھیں۔

گل باجی بنا پیچھے دیکھے آگے بڑھ گئی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ لان کے گرد بنے سفید اور لال پینٹ ہوئے جنگلے کی طرف بڑھی۔ بارش میں بھیگنے کی پرواہ کیے بنا وہ آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ قریب آتے ہی اس نے بارش سے بھیگے جنگلے پہ ہاتھ رکھے۔ جنگلے کی ٹھنڈک اس کے ٹھنڈے ہاتھوں کو مزید یخ کر گئی۔ آنکھیں بند کر کے وہ تازہ ہوا اپنے اندر اتارنے لگی۔ گل باجی نے اس کی غیر موجودگی محسوس کی تو پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ انھیں لان کے قریب دکھائی دی۔ 

"مسکاء۔۔۔!"

ان کے پکارنے پہ اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور سر جھٹکتی وہاں سے ہٹ گئی۔ انھوں نے اسے آتا دیکھ کر قدم بڑھا دئیے۔ برآمدے سے ہوتے ہوئے وہ وارڈن کے آفس آئی۔ دروازہ بند تھا۔ وہ دستک دیتی دروازہ کھول کر اندر جھانکنے لگی۔ طاہرہ میم نے اسے دیکھ کر اندر آنے کی اجازت دی۔ 

"جی میم۔۔آپ نے بلایا تھا؟"

وہ ٹیبل کے قریب آ کھڑی ہوئی۔ انھوں نے سر کے اشارے سے اسے بیٹھنے کو کہا۔ وہ منتظر نظروں سے انھیں دیکھ رہی تھی۔ انھوں اپنے سامنے رکھی نیلے رنگ کی فائل کو بند کیا۔۔چشمہ اتار کر فائل پہ رکھا اور پر سوچ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔

"تم کل کس لڑکے کے ساتھ آئیں تھیں۔ پہلے تو اپنے بابا کے ساتھ آتی تھیں۔ کون تھا وہ لڑکا۔۔کیا رشتہ ہے تمھارا اس کے ساتھ؟؟"

ان کے اسطرح پوچھنے پہ وہ بوکھلا گئی جبکہ انھوں نے اس کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھ کر اسے کڑی نظروں سے دیکھا۔

"دیکھو لڑکی تمھیں یہاں کے رولز کا پتہ ہے۔ تمھارے پچھلے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے میں تم پہ شک تو نہیں کر رہی مگر تمھارے گارڈین میں بھی تمھارے والد اور گلزم خان کے علاوہ کسی کا ذکر نہیں۔۔تو پھر وہ کون تھا جس کے ساتھ تم آئی تھی۔"

وہ رجسٹر کھولے اس سے پوچھ رہی تھیں۔

"وہ میم۔۔گلزم خان چاچا بھی ساتھ تھے اور وہ لڑکا میرے چچا کا بیٹا ہے۔ گلزم خان چاچا ہی ہمیں لے کے آئے تھے۔ پہلے مجھے ہاسٹل ڈراپ کیا پھر انھیں۔"

وہ نظریں جھکائے چادر کا کونہ انگلی پہ لپیٹتے ہوئے بولی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس پہ شک کرتیں اس نے انھیں حقیقت بتائی۔

"ہیم۔۔۔۔کیا وہ دوبارہ بھی آئے گا؟؟"

انھوں نے مزید جراح کی۔

"نہیں۔۔"

اس نے مختصرا جواب دیا۔

"اور تم نے تو کہا تھا کہ اب امتحانات کے لئے ہی آو گی لیکن تم تو محض ایک ویک میں ہی واپس آ گئی ہو۔"

انھوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔

"وہ بابا نے کہا کہ میں ہاسٹل میں زیادہ یکسوئی کے ساتھ تیاری کر سکتی ہوں اسی لئے۔۔۔۔۔۔"

وہ نظریں جھکا گئی۔ 

"ٹھیک ہے جاو تم۔۔۔"

انھوں نے فائل دوبارہ کھول لی۔ اجازت ملتے ہی وہ فورا اٹھی اور دروازے کیطرف بڑھ گئی۔

"اور سنو۔۔۔آئیندہ احتیاط کرنا۔"

اس سے پہلے کے وہ دروازہ کھول کر باہر نکلتی ان کی بارعب آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ وہ اثبات میں سر ہلا کر آفس سے باہر نکل آئی۔

تیز قدموں سے اپنے روم کیطرف بڑھتے ہوئے اسے اسکا روکھا رویہ اور الفاظ یاد آئے۔

"بدتمیز کہیں کا۔"

وہ دل ہی دل میں اسے کوستی اپنے روم میں آ گئی۔کمرے کا دروازہ بند کرتی وہ اسٹڈی ٹیبل پہ رکھی بکس کی طرف بڑھ گئی۔۔**************************

"وہ اپنے کمرے میں کسی کتاب کے مطالعے میں مگن تھے جب میر سربلند خان نہایت غصے سے دروازہ کھول کے کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ کتاب تکیے کے قریب رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔لہو رنگ آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔ چہرے پہ شدید غصے کے باعث سرخی بڑھ گئی تھی۔ 

"لالا۔۔۔خیریت؟؟ آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟"

انھوں نے آگے بڑھ کر انھیں بازوں سے تھامنا چاہا۔ 

"کیا تم نہیں جانتے کہ تم نے کیا کیا ہے۔ تمھیں پتہ ہے کہ تم نے یہ فیصلہ کر کے ہمیں کتنا دکھ پہنچایا ہے۔ ہم سے پوچھنا تک نہیں گوارا کیا۔ اب تم ہمارے پیروں کی خاک ہمارے سروں پر ملو گے۔"

میر سربلند خان نے ان کے ہاتھ جھٹک دیئے۔ وہ جان گئے کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ 

"لالا۔۔۔۔اگر میں ایک معصوم و بےقصور لڑکی کی مدد کر رہا ہوں تو اس میں کیا برا ہے اور اگر آپ کو میرا فیصلہ اتنا دکھ دے رہا تھا تو آپ اس غیر شرعی اور گھٹیا رسم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ جرگہ بلائیں اور قادر خان سے کہیں کہ وہ سب کے سامنے اپنے الفاظ واپس لے اور نور خان کو جرگے کے بزرگ حضرات اجازت دیں کہ وہ جہاں چاہے اپنی بیٹی کی شادی کر دے قادر خان انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا تو میں بھی اپنا فیصلہ بدلنے کو تیار ہوں۔"

وہ تحمل سے اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگئے۔

"تمھارا ان کے ساتھ کیا غرض واسطہ۔۔ یہاں جرگے کے بڑے ہیں فیصلہ کرنے کے لئے۔۔ تم شہری بندے ہو ان معاملوں کو نہیں سمجھتے۔ تمھاری جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ قادر خان کو تم جانتے نہیں ہو وہ بھوکے شیر کی طرح گھوم رہا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں تمھیں نقصان نہ پہنچا دے۔ بابا ہوتے تو تمھیں یہ سب نہ کرنے دیتے۔ وہ کبھی تمھیں ایک ملازم کی ان پڑھ بیٹی سے شادی کرنے نہ دیتے۔ یہ کام کر کے تم ان کی روح کو تکلیف پہنچا رہے ہو۔"

وہ انھیں کندھوں سے تھام کر بولے۔

"لالا۔۔۔۔جہاں تک میرا خیال ہے اگر بابا زندہ ہوتے تو وہ اس رسم کے خلاف ضرور کھڑے ہوتے۔ میرے فیصلے سے ان کے شانے چوڑے ہو جاتے۔ میں اپنے فیصلے کو درست قرار دیتا ہوں اور اگر میری بات جرگہ مانتا ہے تو میں بھی اپنا فیصلہ بدلنے کو تیار ہوں۔"

وہ مضبوط لہجے میں بولے۔

"تم جانتے ہو کہ اگر جرگے کو تمھاری بات نامنظور ہوئی تو قادر خان تمھیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔"

وہ ان کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔

"میں جانتا ہوں لالا۔۔۔میں موت سے نہیں ڈرتا۔"

ان کی آنکھوں میں انھیں ان کے فیصلے کی مضبوطی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ بناء کچھ کہے کمرے سے نکل گئے۔ اگلے دن دراب کو جرگے کے بارے میں بتائے بناء انھوں نے میر دراب خان کا فیصلہ جرگے کو بتا دیا لیکن ان کی شرط نہیں بتائی۔ ان کی بات سن کر قادر خان فورا اٹھا اور نور خان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جو جرگے کے سامنے یوں سر جھکائے کھڑے تھے جیسے انھوں نے کوئی جرم کیا ہو۔ 

"نور خان چاچا کب سے تیری بیٹی کا چکر چل رہا ہے میر دراب خان سے۔"

قادر خان کی بات سن کر نور خان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔

"اب حیران کیوں ہو رہا ہے۔ کیا میر دراب خان پہ بیچ دیا ہے تو نے بیٹی کو۔۔ کتنے پیسے دیے ہیں تجھے دراب خان نے۔"

اتنے رقیق الزامات نے نور خان کی گویائی سلب کر لی۔ اس نے بیچارگی سے جرگے کا فیصلہ کرنے والے معزز لوگوں کو دیکھا جو اسکی عزت کا جنازہ نکلتے دیکھ کر بھی خاموش تھے۔

"یہ تم کیا کہہ رہے ہو قادر خان۔"

جرگے میں شامل صناب خان نے پوچھا۔ وہاں موجود سبھی لوگ حیرانی سے کبھی قادر خان کو دیکھتے اور کبھی نور خان کو۔

"یہ جھوٹ ہے۔۔۔مجھ پہ اور میری بیٹی پہ بےبنیاد الزام ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے خان۔۔۔۔ میر دراب خان تو فرشتہ صفت بندہ ہے انھوں نے مجھے اور میری بیٹی کو اس ظلم سے بچانے کے لئے ایسا فیصلہ کیا ہے۔"

نور خان کی بات پر میر سر بلند خان نے پہلو بدلا۔

"میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں خان ۔۔۔اگر یہ بات نہیں تو پھر اس نے اور اسکی بیٹی نے دراب خان کو پھنسایا ہے۔ ورنہ اسے کیا ضرورت ہے پیروں کی جوتی سر پہ رکھنے کی۔"

نور خان کو لگا جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ ان کے کانوں میں ڈال دیا ہو۔

"نہیں خان یہ جھوٹ ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔" نور خان کی برداشت جواب دے گئی۔ وہ رو رو کر جرگے کو اپنی بات کا یقین دلا رہے تھے۔ مگر قادر خان کوئی کچی گولیاں کھیلنے والا بندہ نہیں تھا۔ اس نے جرگے کو اپنی گھٹیا باتوں سے گمراہ کر دیا۔ سبھی اس کی بات کا یقین کر رہے تھے۔ کوئی بھی نور خان کے ساتھ نہیں تھا۔

"میں اب نور خان کی بیٹی سے شادی نہیں کروں۔" قادر خان اپنی بات کہہ کر میر سربلند خان کے پاس جا کھڑا ہوا۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیا۔

"اب جیسا کہ قادر خان نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے تو اس ضمن میں جرگے کا فیصلہ ہے کہ غگ ہونے کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص بھی نور خان کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتا اور نہ نور خان کی بیٹی کسی دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے۔ اگر قادر خان اپنا فیصلہ بدل دے تو ٹھیک ہے۔۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔"

ان کے فیصلہ سناتے ہی کچھ لوگ نور خان کو ترحم بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے مگر ان میں سے کسی میں ہمت نہیں تھی کہ نور خان کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ وہ سب ان کی تکلیف کو محسوس کر رہے تھے لیکن درد تو وہیں ہوتا ہے جہاں زخم ہو۔۔ وہ خاموشی سے سب کو جاتا ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا قادر خان میر سربلند خان کے ساتھ بات کر رہا تھا لیکن طنزیہ نظریں اس نے نور خان پر فوکس کر رکھی تھیں۔دونوں کے چہروں پہ خوشی و اطمینان کے آثار تھے۔ ایک تو انھوں نے میر دراب خان کو اطلاع کیے بنا جرگہ کروایا تھا تاکہ وہ کسی بھی طرح کے فیصلے میں رکاوٹ نہ بنیں اور اگر بعد میں وہ جرگے کے فیصلے کے خلاف گئے تو سزا کے مستحق ٹھہریں گے اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ میر دراب خان اپنے فیصلے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

نور خان کچھ سوچتے ہوئے میر سربلند خان کی طرف بڑھا لیکن پھر ان کے لبوں پہ چھائی طنزیہ مسکراہٹ نے انھیں روک دیا۔کوئی بھی تو نہیں تھا ان کی مدد کے لئے۔ ایک میر دراب خان تھے جو ان کی مدد کے لئے آگے آئے تھے اور آج وہ بھی جرگے میں موجود نہیں تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ شاید انھوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہوگا ورنہ وہ آج اس فیصلہ کن جرگے میں ضرور شامل ہوتے۔ اس سوچ نے انکی رہی سہی امید بھی ختم کر دی۔ وہ سست قدموں سے گھر کی جانب ہو لئے۔

وہاں ایک اور شخص بھی تھا جو افسوس سے یہ سب دیکھ رہا تھا اس کا دل نور خان کی حالت اور اسکی گریہ و زاری دیکھ کر خون کے آنسو رو رہا تھا۔ یہ شخص تھا زمان خان۔۔۔

نور خان کو سست قدموں سے جاتے دیکھ کر اسے ایک خیال آیا۔ وہ میر سربلند خان سے نظریں بچا کر حویلی آیا اور ملازمہ سے پوچھا کہ دراب خان کہاں ہیں۔ ملازمہ کے بتانے پر کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ زمان خان کو یقین آ گیا کہ میر دراب خان کو جرگے کے متعلق پتہ نہیں ہے کیونکہ میر سر بلند خان نے جرگے میں بتایا تھا کہ وہ رات کو ہی شہر چلے گئے ہیں۔

یہ معلوم ہونے کے بعد کہ دراب خان حویلی میں ہی ہے تو انکا یقین اور بھی پختہ ہو گیا۔

وہ فورا ان کے روم میں گیا۔ وہ جاگ رہے تھے زمان خان کو دیکھ کر حیران ہوئے۔ زمان خان نے ڈرتے ڈرتے پھولی سانسوں میں انھیں سب کچھ بتا دیا۔۔جرگے کا فیصلہ بھی۔۔ 

وہ حیران تھے کہ انھیں جرگے کے متعلق نہیں بتایا گیا۔

وہ دل میں ایک فیصلہ کرنے کے بعد آرام سے آگے کے لئے لائحہ عمل طے کرنے لگے۔۔____________________________

تین دن سے وہ اپنے روم میں بند تھا۔ جب سے پروفیسر محمد عقیل سے مل کے آیا تھا وہ مزید اپنے خول میں بند ہو کر رہ گیا تھا۔ کتنی بار ارحم اس سے ملنے آیا مگر وہ کسی نہ کسی سے کہلوا دیتا کہ وہ ہاسٹل میں نہیں ہے۔ ابھی بھی وہ ہاتھ میں پکڑی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔ جن سے ملنے کی اتنی جلدی تھی وہ ملے بھی تو کیسے۔۔اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ بابا اس کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔ بابا اس کے ساتھ جھوٹ بول سکتے ہیں اسے دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔ وہ کتنا بےچین تھا اپنے وجود سے ملنے کے لئے۔۔۔ بابا سب جانتے تھے وہ اسے گمراہ کرتے رہے تاکہ وہ اپنا سایا نہ پا سکے۔ کیوں۔۔۔آخر کیوں بابا اس کے ساتھ جھوٹ بولتے رہے۔ وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کیسے پاگلوں کی طرح اپنی فیملی کو ڈھونڈ رہا ہے۔ ان سے ملنے کو ترس رہا ہے۔ بابا اسے جو کچھ بھی بتاتے وہ ایک ایک نقطے پر غور کرتا۔ ان کا سراغ حاصل کرنے کے لئے وہ خود کو بھول گیا تھا۔ نہ دن دیکھتا نہ رات۔۔اپنا ہر لمحہ اس نے انھیں ڈھونڈنے میں لگا دیا تھا۔ وہ اس کے اتنے قریب تھے اور وہ کہاں کہاں ان کی کھوج میں گیا تھا۔ 

اس نے ایک بار پھر تصویر کو غور سے دیکھا۔

"میر دراب خان"

اس کے لبوں نے بے آواز حرکت کی۔ کتنے سوال تھے اس کے ذہہن میں۔۔ بابا نے اسے جو کچھ بھی اس کے متعلق بتایا تھا سب جھوٹ تھا۔ آخر وہ کیوں نہیں چاہتے تھے کہ وہ اپنوں سے دور رہے۔

"ضیغم یار۔۔۔۔دروازہ کھولو۔۔"

دروازے کے پار سے آتی ارحم کی آواز نے اسے گہری سوچوں سے نکالا۔۔وہ کیوں بھاگ رہا تھا ان سے۔۔۔نہیں وہ ان سے نہیں وہ خود سے بھاگ رہا تھا۔

"ضیغم۔۔۔۔"

ارحم اسے پکارنے کے ساتھ ساتھ بند دروازے پہ مسلسل دستک بھی دئیے جا رہا تھا۔ اس نے ایک گہری سانس خارج کی۔۔تصویر ڈائری میں رکھی اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔

ارحم فورا اندر داخل ہوا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اسے باہر سے ہی نہ ٹرخا دے۔ اس نے ایک نظر اس پہ ڈالی تو حیران رہ گیا۔۔بے ترتیب حلیہ۔۔بکھرے بال۔۔ وہ بظاہر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار دکھائی دے رہا تھا۔

"ضیغم۔۔۔یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے۔کچھ ہوا ہے کیا؟؟"

ارحم اس کا جواب سننے کے لئے خاموش ہوا مگر وہ تو جیسے لب سیے کھڑا تھا۔ یوں جیسے وہ اپنی قوت گویائی کھو بیٹھا ہو۔ ارحم اس کے قریب آیا۔ 

"کیا بات ہے؟؟"

پہلے تو وہ چپ رہا لیکن پھر اس کے بار بار پوچھنے پر اس نے ساری بات اسے بتا دی۔ اسکی بات سن کر وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ 

"تمھارا مطلب ہے کہ آج تک بابا تمھیں گمراہ کرتے رہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ تم اپنوں سے ملو۔۔۔۔"

وہ اس پہ نظریں ٹکائے پوچھ رہا تھا۔

"ہاں۔۔۔لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ بابا ایسا کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ۔ جبکہ وہ میری شدت سے اچھی طرح واقف ہیں۔"

وہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے بولا۔

"شاید اس لئے کہ تمھیں کھونا نہیں چاہتے اور تمھیں خود سے دور جاتا نہیں دیکھ سکتے۔"

وہ اسے بغور دیکھ رہا تھا۔

"میں اس منطق کو نہیں مانتا۔ اگر وہ ایسا چاہتے تو کبھی مجھے نہ بتاتے کہ میں ان کا بیٹا نہیں ہوں۔"

وہ اس کے پوائنٹ کو رد کرتے ہوئے بولا۔

"وہ تصویر کہاں ہے؟"

ارحم نے اس سے پوچھا تو اپنی ڈائری سے تصویر نکال کر اس نے ارحم کو پکڑائی۔ تصویر دیکھ کر تو وہ حیران رہ گیا۔

"کافی حد تک تم سے مشابہت رکھتے ہیں یہ تو۔ کیا نام بتایا تھا تم نے؟؟"

ارحم نے تصویر کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"میر دراب خان"

اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ ارحم بمشکل سن پایا۔

"اس بارے میں بابا سے بات کی۔۔ان سے پوچھا؟"

ارحم نے گہری سانس خارج کی اور کرسی کے ساتھ پشت ٹکاتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔

"نہیں۔۔۔"

وہ مختصرا بولا۔

"تو تمھیں اس بارے میں جتنی جلدی ہو سکے ان سے بات کرنی چاہیئے۔ یونہی بےکار میں خود کو پریشان نہ کرو۔ تم ان سے پوچھو گے تو وہ تمھیں سچ بتا دیں گے اور یہ بھی کہ وہ اب تک تم سے کیوں چھپاتے رہے جبکہ وہ تمھارے بابا کو جانتے ہیں۔"

ارحم نے ہاتھ میں پکڑی تصویر اسے واپس کی۔ جو اس نے ڈائری میں رکھ کر ڈائری ٹیبل پہ رکھ دی۔

"میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ یہ گتھی وہی سلجھا سکتے ہیں۔ کل ہی جاوں گا ان سے بات کرنے۔"

وہ بولا تو ارحم سر ہلاتے ہوئے کھڑا ہوا۔ 

"چلو یہ اپنا حلیہ درست کرو۔۔کہیں باہر چلتے ہیں۔"

وہ اسے باتھ روم کی طرف دھکیل کے بولا تو ضیغم بھی خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ آخر اس کی تلاش جو ختم ہوئی تھی اور ارحم سے بات کر لینے سے دل پہ دھرا بابا کے خلاف غلط فہمیوں کا بوجھ بھی اتر گیا تھا۔

وہ الماری سے کپڑے لیتا واش روم کیطرف بڑھ گیا۔ جبکہ ارحم اسٹڈی ٹیبل کے پاس آ کر بکس کی ترتیب بدلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ تولیے سے بال رگڑتا واش روم سے باہر آیا۔ 

"ویسے بابا سے ملنے سے پہلے تمھیں ایک بار پروفیسر محمد عقیل سے بھی مل کر تفصیلی بات کرنی چاہیئے۔"

وہ اسے بال برش کرتے دیکھ کر بولا۔

"نہیں مجھے لگتا ہے کہ پہلے بابا سے تفصیل جان لوں پھر ان سے ملوں گا۔ وہ بھی اپنے دوست سے ملنے کے لئے بہت بےچین ہیں مگر میری تڑپ کا کوئی حساب نہیں۔"

وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہتا اس کے پاس آیا۔ ارحم نے اسے پہلے کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا۔ مسکراہٹ اس لبوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں اس کی مسکراہٹ کے دائمی ہونے کی دعا کی۔

"چل جیسی تیری مرضی۔۔۔ویسے ایک ویک رہ گیا ہے ایگزیمز میں۔۔۔تیاری کہاں تک پہنچی؟"

وہ دونوں کمرے سے باہر آئے۔ ضیغم نے دروازہ لاک کیا۔

"یار تین دن سے جو کچھ پڑھا ہو سوائے اس تصویر کے۔۔ ایک ایک نقش کو یاد کر رہا تھا۔ تم نے دیکھا میری اور ان نوز بالکل ایک جیسی ہے۔"

وہ ہنستے ہوئے بولا۔ آس پاس سے گزرتے لڑکے ضیغم کو حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ مسکرانے کے لئے بھی دس بار سوچنے والا ضیغم آج اتنے ڈانٹ کیوں نکال رہا ہے۔

"ہاں۔۔۔ تم اپنے بابا سے کافی مشابہت رکھتے ہو۔"

ارحم نے اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔

"تم گاوں چلو گے میرے ساتھ۔۔ایگزام کے بعد؟؟"

ضیغم نے رک کر اس سے پوچھا۔

"ہاں ضرور۔۔۔۔بشرطیکہ یہ لنچ تمھاری جانب سے ہو۔"

وہ ہنستے ہوئے بولا۔

"میں غریب بندہ ہوں۔۔لیکن خیر کیا یاد کرو گے کہ کس سخی سے پالا پڑا ہے۔"

وہ اس کے کندھے پہ بازو پھیلا کر آگے بڑھتے ہوئے بولا تو ارحم بھی ہنس دیا۔۔________________________________

آج ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لئے صبح سے گھر میں ہی تھے۔ اپنے لئے چائے کا ایک کپ تیار کیا اور کمرے میں آ گئے۔ کپ ٹیبل پہ رکھا اور پانی کے ساتھ سر درد کی گولی لی اور دھیرے دھیرے چائے کی چسکیاں بھرنے لگے۔ جب سے میر گیا تھا وہ ٹھیک سے سو نہیں پائے تھے۔ باتور خان نے جسطرح گھر کے دروازے پہ آ کے شور مچایا تھا وہ بہت پریشان تھے۔ میر انھیں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا۔ حالانکہ وہ یہاں سے بحفاظت جا چکا تھا مگر پھر بھی انھیں کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ باتور خان بڑے خان کے ساتھ کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں شہر جاتا تھا۔ کتنے لوگوں نے ان سے کہا تھا کہ باتور خان لوگوں کو کہتا پھرتا ہے کہ وہ میر کو کسی صورت نہیں چھوڑے گا اور اس سے بدلہ ضرور لے گا۔ اس بات کو لے کر وہ بہت پریشان تھے۔

بڑے خان نے بھی جب سے میر کو دیکھا تھا۔ انھوں نے انھیں بلا کر خوب لعنت ملامت کیا کہ وہ میر کو ان کے خلاف تیار کر رہا ہے۔ پڑھا لکھا کر وہ اسے ان کے برابر کھڑا کرنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ انھوں نے کیوں میر سے متعلق انھیں ہر بات سے بے خبر رکھا۔ مزید انھوں نے زمان خان کو خبردار کیا کہ اگر میر کو اس کی حقیقت کا پتہ چل گیا تو وہ میر کا اس دنیا میں آخری دن ہو گا۔ تب سے تو جیسے ان کی جان لبوں تک آ گئی تھی۔ 

اب وہ انھیں کیا بتاتا کہ میر کسطرح اپنی جڑیں کھود کر خود تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اپنے نام سے جڑے ناموں تک پہنچنا چاہتا ہے۔ وہ اسے روک نہیں سکتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ جلد ہی وہ خود کو پا لے گا۔ وہ اسے کبھی بھی اس بات کی ہوا تک نہ لگنے دیتے کہ وہ ان کی سگی اولاد نہیں ہے اگر وہ گاوں کے ایک دو بزرگوں کو اس بارے میں بات کرتے نہ سن لیتا۔ 

گھر آ کر اس نے بہت واویلا کیا تو وہ جھوٹ نہ بول سکے اور اسے سچ بتا دیا کہ میر سربلند خان نے ہی اسے ان کی جھولی میں ڈالا تھا یہ کہہ کر آج سے وہ ان کا بیٹا ہے۔ وہ اور ان کی بیوی کب سے اولاد جیسی نعمت کے لئے ترس رہے تھے۔ میر کو گود لے کر اپنے سارے دکھ بھول گئے۔

اور کبھی اسے بھنک بھی نہیں پڑنے دی کہ وہ ان کی سگی اولاد نہیں ہے۔

پھر جب اسے معلوم ہو گیا تو اس کے سوالات ختم ہونے میں ہی نہ آتے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ کون ہے۔۔کس کی اولاد ہے۔۔کسکا خون ہے۔۔۔لیکن وہ اپنے وعدے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور وہ خون بھی انھیں عزیز تھا جو میر کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ وہ کیسے اس خون کو ضائع ہونے دے سکتے تھے۔

اسی لئے اسے گمراہ کرتے رہے۔۔

اس کے پوچھے گئے ہر سوال کا جواب غلط دیتے گئے۔۔کیونکہ وہ اسے کھونا نہیں چاہتے تھے۔ میر ان کی زندگی تھا۔

وہ جو کچھ بھی اپنے متعلق پوچھتا تو وہ اسے ٹھیک سے کچھ بھی نہ بتاتے۔۔

لیکن اب انھیں ڈر تھا کہ جسطرح وہ اپنے پیچھے لگ چکا ہے جلد ہی خود کو ڈھونڈ نکالے گا اور اگر اسے معلوم ہو گیا کہ وہ اسے گمراہ کرتے رہے ہیں تو وہ کہیں خود کو ان سے دور نہ کر لے۔۔

وہ سوچوں کے سمندر میں ایسے غرق تھے کہ بیرونی دروازے پہ ہونے والی دستک ان کے کانوں سے دور تھی۔ ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ لبوں سے لگایا تو ٹھنڈی چائے انھیں ماضی سے حال میں لے آئی۔ وہ کپ ہاتھ میں پکڑے کچن میں چلے آئے۔ اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئی۔ وہ کپ وہیں کچن میں رکھ کر دروازے کی طرف بڑھے۔

چٹخنی اتار کر دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے رحم دین کو دیکھ کر حیران ہوئے۔ شاید وہ کام سے سیدھے وہیں آئے تھے۔ پسینے سے سارا جسم شرابور ہو رہا تھا۔ 

"کب سے دروازہ کٹھکٹا رہا ہوں سو رہے تھے کیا؟" 

ان کے پوچھنے پر زمان خان نے انھیں اندر آنے کا راستہ دیا۔ وہ شانے پہ پڑے رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ زمان خان نے چٹخنی واپس چڑھائی اور انھیں لئے اپنے کمرے میں آ گئے۔ وہ بیٹھ گئے تو پنکھا چلا کر ان کے قریب رکھا اور خود ان کے پانی لینے چلے گئے۔

پانی لے کر آئے تو رحم دین نے مٹی سے بنا کٹورا ان کے ہاتھ سے لے لیا۔ کٹورا لبالب پانی سے بھرا تھا۔ انھیں اپنی پیاس کی شدت کا احساس ہوا۔ دھیرے دھیرے پانی پی کر خالی کٹورا انھیں واپس کیا۔

"خیریت اتنے خاموش کیوں ہو؟"

رحم دین نے انھیں خاموش دیکھ کر پوچھا۔

"نہیں بس۔۔۔میر کے لئے پریشان ہوں۔ باتور گاوں میں الم غلم بول کر اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈال رہا ہے۔ تم نے نہیں دیکھا تھا حجرے میں کیسے میر نے اسے ایک ہی وار میں گرایا تھا کہ وہ دوبارہ اٹھ نہ پایا۔ میرا میر۔۔۔۔میرا ببر شیر۔۔۔"

زمان خان کے چہرے پہ میر کے لئے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھائی دے رہا تھا اور لہجے میں اس کے لئے فخر بول رہا تھا۔

"میر سے بات ہوئی یا نہیں۔"

انھوں نے رشک سے زمان خان کو دیکھا۔

"نہیں۔۔۔لیکن گلزار شہر گیا تھا تو اس سے ملا تھا اسی نے بتایا کہ ٹھیک ہے۔۔پڑھائی میں مصروف ہے۔ تم بتاو حالات کیسے ہیں۔ باتور خان کو مسکاء کی یہاں غیر موجودگی کا پتہ تو نہیں چلا؟"

زمان خان نے رحم دین کے چہرے سے پریشانی بھانپ لی تھی اس لئے پوچھا۔

"وہی تو بتانے آیا ہوں۔۔وہ لوگ گھر آئے تھے نکاح کی تاریخ لینے۔"

رحم دین نے ان کے پوچھنے پر انھیں اپنی پریشانی بتائی۔

"کیا۔۔۔؟؟ تو پھر تم نے کیا کہا؟"

وہ پریشانی سے بولے۔

"میں نے کیا کہنا تھا۔ انھوں نے خود ہی نکاح کی بات کی اور پھر نکاح کی تاریخ بھی خود ہی رکھ لی۔ وہ تو مسکاء سے بھی ملنا چاہتے تھے مگر ہم نے بات سنبھال لی۔"

انھوں نے مزید بتایا۔

"تو تمھیں انھیں گھر میں گھسنے ہی نہیں دینا چاہئیے تھا۔ غضب خدا کا حالات کو کس رخ پہ لے گئے۔ سارے گاوں میں تماشا بنا کر رکھ دیا اور اب اتنے آرام سے آ کر نکاح کی تاریخ رکھ گئے جیسے اس رشتے میں تمھاری رضامندی بھی شامل ہے۔۔حد ہوگئی۔۔"

ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسطرح اپنی بھڑاس نکالیں۔۔ 

"چلو یہ بھی اچھا ہوا کہ مسکاء کی غیر موجودگی کا انھیں علم نہیں ہوا۔ اب آگے کیا سوچا ہے؟"

زمان خان نے ان کے پر سوچ چہرے پہ نگاہ ڈالی۔

"تھانے چلتے ہیں۔۔باتور کے خلاف حراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کی رپورٹ درج کرواتے ہیں۔تم کیا کہتے ہو؟"

رحم دین نے ان سے بھی رائے لینا مناسب سمجھا۔

"میں تو تمھیں کب سے تھانے جانے کا کہہ رہا ہوں۔ غگ اب قانونی طور پہ جرم ہے اور جرم کرنے والا مجرم۔۔۔۔۔"

انھوں نے ان کے فیصلے کو سراہا۔۔

دونوں تھانے جانے کے لئے گھر سے نکل آئے۔ ______________________________

"ہاں بھئی رحم دین کیا بات ہے۔ آج یہاں کا راستہ کیسے بھلا دیا۔ خیر تو ہے نا۔"

زمان خان اور رحم دین ایس۔ایچ۔او کے سامنے بیٹھے تھے۔ رحم دین وہاں آ تو گیا تھا مگر اب انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کسطرح بات شروع کریں۔ کافی دیر سے بیٹھے دل ہی دل میں الفاظ ترتیب دے رہے تھے۔ وہ چاہتے تو وہ یہ معاملہ جرگے کے سامنے بھی رکھ سکتے تھے مگر انھیں معلوم تھا کہ جرگے کا فیصلہ کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو ایسی غیر قانونی اور غیر شرعی رسموں کی جڑوں کو پانی دے رہے ہیں۔ قانون کا نفاذ تو یہاں موجود ہی نہیں۔ یہ پولیس اسٹیشن کی عمارت تو اس گاوں میں صرف ایک عمارت سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ اگر قانون لاگوں بھی تھا تو صرف اور صرف غریبوں پر۔۔۔

"رحم دین چاچا۔۔۔۔کچھ پوچھ رہا ہوں تجھ سے۔ اب یہاں آ گیا ہے تو آنے کا مقصد تو بتاو یوں گونگے بنے کیوں بیٹھے ہو۔"

ایس۔ایچ۔او رحم دین کو شش وپنج میں مبتلا دیکھ کر کڑک دار آواز میں بولا۔

"او جی ہم یہاں ایک رپورٹ درج کروانے آئے ہیں۔"

رحم دین کی بجائے زمان خان نے مدعا بیان کیا۔

"رپورٹ۔۔۔۔۔کیسی رپورٹ اور کس کے خلاف؟؟"

ایس۔ایچ۔او نے ہاتھ میں پکڑا قلم میز پہ رکھا۔۔

"باتور خان کے خلاف۔۔۔وہ رحم دین اور اسکے گھر والوں کو حراساں کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دھمکیاں بھی دیتا ہے۔"

زمان خان نے جان بوجھ کر مسکاء کا نام نہیں لیا۔

"کیسی دھمکیاں؟؟"

ایس۔ایچ۔او صاحب ان کی طرف جھکے۔۔ سرخ آنکھیں رحم دین پہ گڑیں تھیں۔

"وہ رحم دین کو بیٹی کا رشتہ دینے کے لئے مجبور کر رہا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ رحم دین کو حراساں کرتا ہے۔باتور خان اور کرم دین گھر آ کر ذبردستی نکاح کی تاریخ بھی رکھ گیے ہیں۔ ہمیں اس سے قانونی تحفظ چاہیئے۔"

زمان خان نے تفصیل بتائی۔

"کوئی گواہ؟؟"

ایس۔ایچ۔او اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"میں ہوں گواہ۔"

زمان خان نے اسکی بوسیدہ شرٹ میں بمشکل قید اس کے پیٹ کو ناپسندیدگی سے دیکھا۔ گاوں کے کچھ لوگوں کو انھوں نے ساتھ چلنے کو کہا تھا لیکن کوئی بھی باتور خان سے پنگا نہیں لینے چاہتا تھا۔اس لیے کوئی بھی گواہ بننے کے لئے راضی نہ ہوا۔ ان کے خیال میں ان کے گھر میں بیٹیاں موجود ہیں۔ وہ باتور خان کے خلاف جا کر اپنے لئے مصیبت نہیں خرید سکتے تھے۔اس لئے گواہ کے طور پر وہ خود ہی آگے آئے۔

"ہاہاہاہا۔۔۔۔۔یہ تو وہ بات ہوئی کہ مدعی سست اور گواہ چست۔۔۔ہاہاہا۔۔"

ایس۔ایچ۔او میز پہ دائیں بائیں بازو پھیلائے نہایت ہی بھونڈے طریقے سے ہنسے جا رہا تھا۔ رحم دین نے زمان خان کو دیکھا۔

"ارے بھئی۔۔۔جسکی بیٹی ہے وہ خاموش بیٹھا ہے اور تم بولے جا رہے ہو۔۔باتور خان تو تمھارا بھتیجا ہے نا۔۔کیوں رحم دین۔۔اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ تمھیں حراساں کرنے کی۔ اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے باتور خان غگ کر چکا ہے مجھے اس واقعے کی اطلاع مل گئی تھی۔ میری مانو تو اپنی خوش نصیبی کو مت ٹھکراو اور آرام سے اس معاملے کو حل کر لو۔ ساری عمر بیٹی کو اپنے پاس تھوڑی نہ بٹھائے رکھو گے اور غگ ہونے کی وجہ سے کوئی اور تو تمھاری بیٹی سے شادی کرنے سے رہا اس لئے باتور خان سے صلح صفائی کر لو۔"

وہ انھیں سمجھانے کے انداز میں بولا۔

"ہم تم سے مشورہ مانگنے نہیں آئے ہیں۔ ہماری رپورٹ درج کرو۔"

زمان خان کو اس کی بات سن کر بہت غصہ آیا۔

"او چاچا۔۔۔زبان کو کنٹرول میں رکھ نہیں تو ایس۔ایچ۔او کے ساتھ بدتمیزی کرنے پہ حوالات کی سیر کروا دوں گا۔ سمجھا دے چاچا اسے۔۔ میں باتور خان کے خلاف رپورٹ درج نہیں کروں گا اور تجھے میری بات نہیں ماننی تو جرگے میں جا کر یہ مسئلہ حل کرو۔۔دوبارہ یہاں مت آنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔رستم خان۔۔۔۔او رستم خان۔" اس نے رجسٹر کھول کر رستم خان کو آواز دی۔

"جی سر۔"

رستم خان شرٹ کو پینٹ میں اڑستا اندر آیا۔

"او ان کو باہر کا راستہ دکھا۔"

وہ رحم دین اور زمان خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رستم خان سے بولا۔۔ رستم خان ان کے پاس آیا تو وہ دونوں خاموشی سے چلتے باہر آ گئے۔

"ایک چھوٹی سی امید تھی وہ بھی اپنے انجام کو پہنچی۔"

رحم دین تھانے سے باہر کچی زمین پہ بیٹھ گیا۔ گرمی کی شدت اور حالات کی ستم ظریفی نے رحم دین کو جیسے مفلوج کر دیا۔ درد آنکھوں سے آنسووں کی صورت جاری تھا۔ زمان خان ان کی حالت دیکھ کر خود بھی جیسے ڈھے گئے تھے۔ پھر بھی وہ رحم دین کو سہارا دیئے آگے بڑھے۔ گھر کے قریب پہنچ کر انھوں نے دروازے پہ دستک دی۔ رحم دین کا لاغر ہوتا وجود ان کے کمزور ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتا جا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ انھیں سنبھال نہ پاتے ذہرہ بی بی نے دروازہ کھول دیا۔رحم دین کو اس حالت میں دیکھ کر وہ پریشان ہو گئیں۔

پھر زمان خان کے ساتھ رحم دین کو سہارا دیئے وہ کمرے میں لے آئے۔ انھیں چارپائی پر لٹایا۔ بھاگ کر پانی کا گلاس لائیں۔ زمان خان نے ان کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر کچھ چھینٹے ان کے پیلے ہوتے چہرے پہ پھینکے اور پھر انھیں پانی پلایا۔ ذہرہ بی بی نے پنکھا چلا کر ان کے قریب رکھا۔ تھوڑی دیر بعد ان کی رنگت کچھ بحال ہوئی تو دونوں کی جان میں جان آئی۔

زہرہ بی بی کے پوچھنے پہ زمان خان نے تمام بات انھیں بتا دی تو وہ چادر منہ پہ رکھے رو دیں۔ رحم دین نے انھیں اشارے سے رونے سے منع کیا۔

"بھابی آپ پریشان نہ ہوں اللہ سب بہتر کرے گا اور رحم دین تم بھی سنبھالو خود کو ایک در بند ہوتا ہے تو دس کھل جاتے ہیں۔ اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہو۔ وہ ظالموں کی رسی زیادہ دراز نہیں کرتا۔"

زمان خان رحم دین کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔ رحم دین نے کندھے پہ رکھے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔

"اب میں چلتا ہوں ۔۔بھابی آپ رحم دین کا خیال رکھیں۔ اسے کچھ کھانے کو دیں اور باہر مت جانے دیجیئے گا۔۔خدائے پہ امان۔۔"

وہ انھیں اللہ کی امان میں دیتے باہر آگئے۔ ان کے نکلتے ہی ذہرہ بی بی نے بیرونی دروازے کی کنڈی چڑھائی اور رحم دین کے کھانا گرم کرنے لگیں۔

"یا اللہ! ہر حال میں تیرا شکر ہے۔ تو نے بدتر سے بہتر رکھا ہے۔ تو ہی کارساز ہے۔۔۔مشکل کشا ہے۔ ہمیں اس کڑے وقت میں ہمت دے۔۔بے شک تو ہی ہمت دینے والا ہے۔"

ان کا رواں رواں اپنے رب کی بارگاہ میں دعا گو تھا۔

وہ ناامید نہیں تھیں کیونکہ ناامیدی کفر ہے اور مسلمان کفر سے پاک۔۔۔_________________________________________

جرگے کا فیصلہ معلوم ہو جانے کے بعد انھوں نے کچھ دن تو خاموشی سے گزار دیئے۔ حویلی میں کسی کو پتہ نہیں لگنے دیا کہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں بناء بتائے جرگے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ زمان خان کو کچھ ہدایات دے کر انھوں نے نور خان کے لیے پیغام بھجوا دیا تھا کہ وہ اسی جمعہ کو نکاح کی رسم کریں گے۔ شہر سے انھوں نے اپنے جگری دوست کو بھی گاوں آنے کو کہہ دیا تھا۔ ان سے تمام حالات جان کر عقیل حیران رہ گئے تھے۔ وہ سرے سے اس رسم سے تو کیااس رسم کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ انھوں نے دراب کو بہت سراہا تھا کہ وہ اس رسم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے دراب سے اجازت چاہی کہ وہ اپنے ساتھ اپنے ایک صحافی دوست کو بھی لانا چاہتے ہیں تاکہ اس رسم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ میر دراب خان نے انھیں اجازت دے دی تاکہ اگر لوگ اس رسم کے بارے میں نہیں جانتے ہیں تو جان لیں اور ذمر میں کچھ کریں اور ساتھ ہی ساتھ اس طرف حکومت کی توجہ دلائیں۔

نور خان تو بہت پریشان تھے کیونکہ وہ جانتے تھے اگر اس شادی کا کسی کو پتہ لگ گیا خاص طور پر قادر خان کو تو کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا لے اور میر دراب خان کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے لیکن دراب خان نے ان سے مل کر انھیں تسلی دی کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔

میر دراب خان سمجھ رہے تھے کہ میر سربلند خان ان کی ان سرگرمیوں سے ناواقف ہیں مگر وہ تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے تھے۔ سیاست کرنے کے تمام گروں سے واقف تھے وہ۔ انھوں نے اپنا ایک بندہ ان کے پیچھے لگا رکھا تھا۔ جو کسی نہ کسی طرح دراب خان کے سامنے یہ ثابت کر چکا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہے اور اس فضول رسم کے خلاف ہے۔ 

وہ میر سربلند خان کو ان کے ایک ایک پل کی خبر دے رہا تھا۔ وہ تو خوش تھے کہ ان کے راستے کا کانٹا خود کو خود ہی ان کے راستے سے ہٹانے میں لگا ہوا ہے تو وہ کیوں اسے منع کرتے۔ قادر خان بھی ہر ایک بات سے واقف تھا اور میر سربلند خان کے ساتھ اس منصوبہ بندی میں شامل تھا۔

وہ پوری پلیننگ کر چکے تھے۔ بس مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے۔

لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ نکاح میں کوئی سینئر صحافی محمد شکیب خان بھی شامل ہیں تو ان کو اپنے پلین میں تھوڑی تبدیلی کرنی پڑی۔ 

اس تبدیلی کے مطابق وہ میر دراب خان کے روم میں آئے اور انھیں یقین دلایا کہ وہ جرگے کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور دراب خان جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ان کے ساتھ ہیں۔ میر دراب خان بھائی کو اپنی سمت مڑتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انھیں اس کایا پلٹ کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔

میر سربلند خان کے کہنے پر انھوں نے نکاح کی رسم حویلی میں رکھی۔

نکاح سے ایک روز پہلے شہر سے محمد عقیل اور ان کے صحافی دوست بھی آ گئے۔ میر سربلند خان نے ان کو یقین دلایا کہ وہ بھی اس بےبنیاد رسم کے خلاف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا گاوں اس فرسودہ رواج سے پاک ہو جائے۔

جب میر سربلند خان ان کے ساتھ تھے تو پھر ڈر کیسا تھا۔ بہت خاموشی سے نکاح کی رسم ادا کر دی گئی۔ نور خان تو اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہا تھا کہ اس نے ان کی بیٹی کے نصیب میں میر دراب خان کا ساتھ لکھ دیا تھا۔

"لالا۔۔۔۔میں بہت خوش ہوں کہ آپ نے میرا ساتھ دیا۔آپ کی سپورٹ کے بنا یہ کام اتنی خوش اسلوبی کے ساتھ ہونا ناممکن تھا۔ انشاءاللہ جلد ہی گاوں آوں گا۔"

نکاح کی رسم کے بعد میر دراب خان میر سربلند خان کے پاس آئے۔ 

"جلد آوں گا سے مطلب؟؟؟"

ان کا ماتھا ٹھنکا۔

"لالا۔۔۔نکاح کے بعد خزیمن کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے میں خزیمن کے ساتھ شہر میں رہوں۔ جب حالات تھوڑے کنٹرول ہو جائیں گے تو ہم حویلی واپس آ جائیں گے اور ویسے بھی ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے اس رسم کے خلاف ہم کھڑے رہیں گے اور اب تو آپ بھی میرے ساتھ ہیں۔۔لالا۔۔! آپ ہیں نا میرے ساتھ؟؟"

وہ ان سے پوچھ رہے تھے۔

"آں۔۔۔۔۔ہاں ، ہاں میں تمھارے ساتھ ہوں۔"

میر دراب خان کا یہ فیصلہ ان کے منصوبے پہ پانی پھیر گیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ آج رات ہی وہ قادر خان کو کہہ کر یہ قصہ ہی ختم کر دیں گے۔

"لالا۔۔۔۔اجازت ہے؟؟"

وہ ان سے اجازت مانگ رہے تھے اور بالکل ٹھیک ان کے پیچھے سیاہ چادر میں لپٹا وجود بھی اجازت طلب نظروں سے انھیں ہی دیکھ رہا تھا۔ ان کے سر اثبات میں ہلانے پر وہ گالوں پہ ہلکی سرخی لیے ان کے قریب آئی تھی۔ انھوں نے اس کے جھکے سر پہ ہاتھ رکھا تھا۔

"اللہ حافظ لالا۔"

میر دراب خان بھائی کے گلے لگا۔ انھوں نے سر ہلا کر اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ اس معاملے کو نمٹانے کے لئے انھوں نے بیوی بچوں کو شہر بھیج دیا تھا تاکہ کسی کو بھنک بھی نہ پڑے لیکن وہ بھول گئے تھے کہ ایک ذات وہ بھی ہے کہ جب وہ ' کن' کہہ دے تو وہ ہو جاتی ہے۔۔

ان کے جانے کے بعد میر دراب خان نور خان سے ملے اور انھیں بھی ساتھ چلنے کو کہا مگر نور خان نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ 

شام کے قریب وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ حویلی سے شہر کے لئے روانہ ہوئے۔۔

جانے سے پہلے وہ زمان خان کے پاس آئے تھے۔

"زمان خان۔۔۔تمھارا بہت شکریہ کہ تم نے میرا اتنا ساتھ دیا۔ "

وہ ان سے بغلگیر ہوتے ہوئے بولے۔

"خان جی۔۔شکریہ تو ہمیں آپ کا ادا کرنا چاہیئے کہ آپ نے ہمارے لئے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔"

زمان خان نے ان کا ہاتھ بڑی عقیدت سے تھام کر آنکھوں سے لگایا۔

"میں نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔۔بس آپ لوگوں کے لئے آغاز کیا ہے اب اسے تکمیل تک آپ لوگوں نے پہنچانا ہے۔۔ایک مرتبہ امام زین العابدین نے کہا تھا۔۔۔"مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پہ ہوئی۔۔۔۔۔

کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ ایک خاموش امت کا نام ہے۔ جہاں پر بھی ظلم ہو اور امت خاموش رہے وہ جگہ کوفہ اور وہاں کے لوگ کوفی ہیں۔۔۔۔یاد رکھو ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانے والا بھی ظالم ہی کہلاتا ہے۔۔۔اس بات کو خود بھی سمجھو اور دوسروں کو بھی سمجھاو۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔۔۔

خدائے پہ امان۔"

زمان خان کتنی ہی دیر وہیں کھڑا سیاہ گاڑی کو خود سے دور جاتے دیکھتا رہا۔۔

وہ کام سے فارغ ہو کر رحم دین کو دیکھنے ان کے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ ابھی وہ کچھ ہی دور تھے کہ رحم دین کے گھر کے باہر انھیں کافی ہجوم نظر آیا۔ کل جیسی ان کی حالت تھی وہ گھبرا گئے تھے۔ دل میں عجیب عجیب وسوسے آ رہے تھے۔ وہ تقریبا بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ انھیں باتور کے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ قریب پہنچ کر وہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اردگرد کھڑے لوگوں نے انھیں دیکھ کر راستہ دیا۔ 

"نکل باہر چاچا۔۔۔۔تیری یہ مجال کہ تو میرے خلاف رپورٹ درج کروائے گا۔"

باتور خان بلند آواز میں رحم دین کو بلا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ دروازے پہ بھاری جوتوں کی ضرب بھی لگاتا جا رہا تھا۔ لکڑی کا بند دروازہ مسلسل لگنے والی ضربوں سے اپنے انجام کو پہنچنے والا تھا۔

"ارے بےغیرت باہر نکل۔۔۔ہم تجھے عزت دے رہے تھے لیکن تم اس قابل ہی نہیں ہو۔ بھائی ہو کر کیسا دھوکہ دیا ہے مجھے۔ بیٹی کا نام تھانے میں لکھواتے وقت شرم نہیں آئی تمھیں۔ اب گھر میں چھپ کہ بیٹھ گئے ہو۔"

انھیں جب سے پتہ چلا تھا کہ رحم دین باتور خان کے خلاف رپورٹ درج کروانے تھانے گیا تھا تو دونوں باپ بیٹا آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ 

"یہ کیا کر رہے ہو تم دونوں۔۔ہٹو۔"

زمان خان نے باتور خان کو بازو سے پکڑ کر پیچھے کیا جو ایک بار پھر دروازے کیطرف بڑھ رہا تھا۔ ان کے اس اقدام پر باتور خان بپھر کر ان پر جھپٹا اور انھیں دھکا دیا۔ زمان خان سنبھل نہ سکے اور کچھ فاصلے پہ کھڑے لوگوں سے ٹکرا کر گرے۔ کندھے پہ پڑا سفید رومال دور جا گرا۔کچھ لوگ انھیں اٹھانے ان کی طرف بڑھے۔ وہ سب افسوس سے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے مگر کوئی بھی آگے بڑھنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ باتور خان غصے سے ان کی طرف بڑھا۔

"تم یہ سب بہت غلط کر رہے ہو۔ تمھاری انہی حرکتوں نے ہمیں مجبور کیا ہے تھانے جانے پر۔"زمان خان بلند آواز میں بولتے ہوئے زمین پہ ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ باتور خان ان کی بات سن کر آپے سے باہر ہو گیا۔ 

"رک جاو باتور خان۔" 

کرم دین جو بیٹے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے اس کی طرف بڑھ رہے تھے رحم دین کی آواز پہ مڑے تھے۔ باتور خان کے زمان خان کی طرف بڑھتے ہاتھ رک گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو رحم دین دروازے کے بیچوں بیچ کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ زمان خان کو چھوڑ کر ان کی طرف بڑھا۔ 

"میں رپورٹ درج کروانے گیا تھا۔ تم دونوں باپ بیٹے نے مجھے بےکار میں پریشان کر رکھا ہے۔ میں اپنی بیٹی کا رشتہ اپنی مرضی سے جہاں جی چاہے گا کروں گا۔ تم دونوں کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے۔"

رحم دین آنکھوں میں غصہ لئے باتور خان کو دیکھ رہے تھے۔ جن لوگوں نے کبھی رحم دین کو اونچی آواز میں بولتے نہیں سنا تھا انھیں اس طرح سے اپنے حق کے لئے لڑتے دیکھ کر حیران تھے۔

"چلو یہاں سے اور آئندہ میرے گھر کے آس پاس بھی نظر نہ آو۔"

زمان خان کو دیکھ کر ان میں مزید ہمت آئی تھی۔ باتور خان ان کے قریب آیا۔

"واہ چاچا۔۔۔۔کیا بات ہے۔ کلیجے میں ٹھنڈک بھر دی تو نے۔"

وہ ہاتھ ان کے کندھے پہ رکھتے ہوئے بولا۔

"جاو باتور خان۔۔۔۔تھانے میں رپورٹ تو میں درج نہیں کر سکا تمھارے خلاف کیونکہ وہاں بھی تمھارے خیر خواہ بیٹھے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں اپنی بیٹی کا رشتہ تمھیں نہیں دوں گا۔"

رحم دین نے اپنے کندھے سے اس کا ہاتھ ہٹایا اور زمان خان کی طرف بڑھے۔ 

"تم ٹھیک ہو زمان۔۔۔کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔" رحم دین نے ان کے مٹی سے اٹے کپڑے جھاڑتے ہوئے پوچھا۔

"میں تو ٹھیک ہوں مگر تم سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ تمھاری طبیعت کیسی ہے کیونکہ آج میں جس رحم دین کو دیکھ رہا ہوں وہ کل والے رحم دین سے بہت مختلف لگ رہا ہے۔"

زمان خان انھیں بازوں سے تھامتے ہوئے بولے۔

"چاچا۔۔۔۔یہ انداز تمھیں بہت مہنگا پڑنے والا ہے۔"

وہ بلند آواز میں بولا۔ جس پر رحم دین نے دیکھا کہ وہ دراوزے کی چوکھٹ تھامے کھڑا ہے۔ رحم دین کو اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا۔ وہ اور زمان خان فورا اسے روکنے کے لئے بھاگے مگر وہ گھر کے اندر قدم رکھ چکا تھا کرم دین نے بیٹے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں شاباش دی۔۔ رحم دین جیسے ہی قریب پہنچے باتور خان دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا چکا تھا۔

"باتور خان باہر نکلو۔۔۔۔یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے۔ کرم دین لالا! باتور خان کو کہیں کہ فورا باہر آئے۔" وہ کرم دین سے کہہ کر پاگلوں کی طرح دروازہ بجانے لگے۔ زمان خان نے بھی ان کا ساتھ دیا۔

"یہ دروازہ تو اب نہیں کھلے گا چاچا۔۔ تم نے میری غیرت کو للکارہ ہے اب تو بھی دیکھے گا اور یہ سارا گاوں بھی کہ باتور خان کیا کرتا ہے۔ بابا۔۔۔۔۔۔مولوی صاحب کو لے آو اور ساتھ ہی ساتھ بڑے خان کو بھی۔ آج یہ سب یہیں انجام کو پہنچائے گا باتور خان۔"

وہ اندر سے باآواز بلند بولا۔

"لالا۔۔۔باتور خان یہ ٹھیک نہیں کر رہا۔ آپ اسے روکیں اور باہر آنے کو کہیں۔"

وہ ہاتھ جوڑے بھائی کے سامنے کھڑے تھے۔

انھیں مسکاء کو شہر بھیجنے کا اپنا فیصلہ بالکل درست لگا۔ اب اگر مسکاء یہاں ہوتی تو وہ کیسے یہ سب روک پاتے لیکن انھیں ڈر تھا کہ اگر انھیں معلوم ہوگیا کہ مسکاء گھر میں موجود نہیں ہے تو یہ بات جرگے می اٹھائی جائے گی اور جرگے میں جو فیصلہ ہو گا وہ اس سے اچھی طرح واقف تھے۔۔جبکہ یہاں ان کا ساتھ دینے والا صرف ایک زمان خان تھا۔

وہ خاموشی سے زمان خان کو دیکھنے لگے۔ 

"یہ صحیح طریقہ نہیں ہے باتور خان۔۔۔ہم تمھاری بات مان لیں گے۔تم دروازہ کھول دو اور ہمیں اندر آنے دو۔" زمان خان نے مصالحت سے کام لیا۔

"بابا۔۔۔۔۔آپ گئے نہیں اب تک؟؟"

باتور خان نے زمان خان کو ان سنا کر دیا۔

"جا رہا ہوں بیٹا۔"

رحم دین دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کیے لبوں سے لگائے انھیں دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں التجاء تھی جبکہ وہ ان پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر آگے بڑھ گئے۔

ذہرہ بی بی باتور خان کو دیکھ کر کچن سے نکلیں۔ کتنی دیر سے اس نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا رحم دین کو وہ باہر جانے نہیں دے رہی تھی اور اب وہ گھر کے اندر آ گیا تھا۔

"باتور خان۔۔۔"

وہ اس کے پاس آئیں۔ آنے والے وقت کا سوچ کر ان کا دل پتے کی مانند لرز رہا تھا۔ان کی پکار پہ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ سرخ و سفید رنگت۔۔ گرے شلوار سوٹ پہ کالی واسکٹ پہنے۔۔۔چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد۔۔۔چوڑے شانے اور ہاتھ میں پسٹل لئے وہ ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ وہ ایک کڑیل جوان تھا۔ چہرے سے غصہ چھلک رہا تھا۔ کالی سیاہ آنکھیں حد سے گزر جانے کا عزم لئے ان پہ مرکوز تھیں۔

اگر اس میں تھوڑے بھی سدھار کی گنجائش ہوتی تو وہ کبھی اس رشتے سے انکار نہ کرتیں مگر بظاہر دیکھنے والا یہ سرخ و سفید شخص دل سے سیاہ اور ظالم تھا۔

"بیٹا۔۔۔یہ تم کیا کر رہے ہو۔۔ یہ مسئلہ صلح صفائی سے بھی حل کیا جا سکتا ہے۔"

وہ ڈرتے ڈرتے اس کے قریب آئیں تھیں۔

"چاچی۔۔۔۔اب صلح صفائی کا وقت گیا۔ جا کر مسکاء کو تیار کرو۔ آج میں نکاح کر کے ہی یہاں سے جاوں گا۔"

وہ ان کے پاس سے گزر کر کمرے میں چلا گیا۔ وہ گھبرا کر اس کے پیچھے آئیں۔

"مگر بیٹا اس طرح نکاح کرنا مناسب نہیں۔ گاوں کے لوگ کیا کہیں گے۔"

ذہرہ بی بی نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ وہ چارپائی پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ دایاں پاوں مسلسل متحرک تھا۔ جس سے اسکی دلی کیفیت واضح تھی۔ یہ خیال ہی اس کے لئے بہت خوش کن تھا کہ کچھ ہی دیر میں وہ اسکی ہو جائے گی جسکی خواہش وہ دو مہینے سے دل میں لئے گھوم رہا تھا۔

"ذہرہ چاچی۔۔۔جا کر مسکاء کو تیار کرو۔"

وہ حیران تھا کہ اتنا شور شرابا سن کر بھی وہ کمرے سے باہر نہیں آئی تھی۔ مگر اگلا خیال اسے مطمئن کر رہا تھا کہ ڈر کے مارے رحم دین چاچا نے کمرے میں بند کر دیا گیا ہوگا۔ اس نے خاموش بیٹھی ذہرہ بی بی کی طرف دیکھا تو وہ خاموشی کمرے سے باہر نکل آئیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ اگلا پل انھیں کیا دکھانے والا تھا۔ وہ دوپٹہ درست کرتی مسکاء کے کمرے کی چوکھٹ پہ بیٹھ گئیں۔۔

انھوں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ مسکاء یہاں نہیں تھی۔ مگر پھر بھی دل کی دھڑکن بڑھتی ہی جا رہی تھی کیونکہ ان ظالموں سے انھیں اچھائی کی کوئی توقع نہیں تھی۔۔بہتے آنسووں کو وہ دوپٹے میں جذب کر رہی تھیں۔ باہر سے مسلسل آتیں رحم دین اور زمان خان کی آوازیں انھیں کمزور کر رہی تھیں۔ رحم دین کبھی باتور خان کو آواز دیتے تو کبھی ذہرہ بی بی کو پکارتے مگر وہ باتور خان کے ڈر سے دروازے تک جا نہیں پا رہیں تھیں۔________________________________

عقیل احمد انھیں اپنے گھر لے گئے تھے حالانکہ دراب خان نے انھیں منع بھی کیا تھا لیکن وہ بضد تھے رات کا کھانا وہ ان کے ساتھ کھائیں گے۔ رحمہ بھابی نے فون کر کے گھر آنے کی تاکید کی تھی۔ اس لئے وہ مان گئے اور خزیمن کو لئے وہ عقیل احمد کی طرف آ گئے۔ عقیل احمد کی فیملی نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ وہ سب بہت خوش دلی سے خزیمن سے ملے۔ اسے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ آج پہلی بار ان سے ملی ہے۔ دراب خان تو عقیل احمد کے ساتھ آتے رہتے تھے۔ عقیل احمد کی والدہ انھیں اپنے بیٹوں کیطرح چاہتی تھی۔ اس لئے ان کے استقبال میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ کچھ رسمیں بھی کیں اور ان کے لئے ایک پر لطف ڈنر کا اہتمام بھی کیا۔ 

نازک اندام سی دلہن انھیں بہت پسند آئیں حالانکہ وہ دلہنوں والے روایتی لباس میں نہیں تھی۔ ہلکا پھلکا سا سرخ جوڑا۔۔جس کے دامن اور گلے پہ نفیس سی کڑھائی ہوئی تھی۔ یہ جوڑا اماں نے اسکی شادی کے لئے ہی تیار کروا کر رکھا تھا۔ میک اپ سے مبرا چہرہ قدرتی رنگوں سے سجا تھا۔ کانوں میں سونے کی نازک سی بالیاں ، دوپٹہ نفاست سے سر پہ دھرے وہ بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی۔ سبھی اسے اسپیشل پروٹوکول دے رہے تھے۔ عقیل احمد کی والدہ اس سے اس کی فیملی کے متعلق پوچھ رہی تھیں جن کا وہ مسکراتے ہوئے مختصر جواب دے رہی تھی۔ خود پہ مرکوز سب کی نظریں اسے کنفیوز بھی کر رہی تھیں مگر ان کا پیار اسے پراعتماد بھی بنا رہا تھا۔ خزیمن ان ملنسار اور اتنی محبت کرنے والے لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوئی تھی۔ نکاح کے بعد تک تو وہ یہ سوچ کر پریشان تھی کہ میر دراب خان نجانے کس طبیعت کے مالک ہونگے مگر گاڑی میں جسطرح انھوں نے اس کا خیال رکھا وہ خود پہ رشک کرنے لگی تھی اور اب اسے یہاں ان سب کے بیچ خود پہ گزرنے والے حالات جیسے بھول سے گئے تھے۔ رحمہ بھابی نے اسے بہت اپنائیت کا احساس دلایا تھا۔

میر دراب خان بھی وقفے وقفے سے اس کے من موہنے روپ کو نظروں میں قید کرتے۔ نہ کوئی گلال ، نہ کوئی غاذہ۔۔۔اتنی سادگی میں بھی وہ ان کے ہوش اڑائے دے رہی تھی۔ کہیں کوئی متوجہ نہ ہو جائے اس لئے انھوں نے اپنی نظروں پہ قابو پایا اور عقیل کے ساتھ ادھر ادھر کی باتوں میں مگن ہو گئے۔

"بہت شکریہ یار ۔۔۔تم نے بہت ساتھ دیا۔ اب اجازت دو"

کھانے کے بعد دراب خان نے ان سے جانے کی اجازت کی چاہی۔ 

"نہیں بیٹا۔۔ایسے کیسے بھلا۔۔ نئی نویلی دلہن کو لے کر اس وقت کہاں جاو گے۔ تم تو اتنا عرصہ ہاسٹل میں رہے۔ اب جب تک گھر کا بندوبست نہیں ہو جاتا تم یہیں رہو ہمارے پاس۔"

صالحہ بیگم نے انھیں روکا۔

"ارے نہیں آنٹی۔۔آپکی اتنی محبت کا بہت شکریہ۔ جب تک پراپر بندوبست نہیں ہوتا ہم کسی ہوٹل میں رہ لیں گے۔"

انھوں نے سہولت سے انکار کیا۔

"یار۔۔۔امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اس وقت تمھارا بھابھی کے ساتھ کسی ہوٹل میں رکنا مناسب نہیں ہے۔ تم یہیں رہو ہمارے ساتھ۔"

رحمہ نے بھی عقیل احمد کا ساتھ دیا۔ سب کے اتنے اسرار پہ انھوں نے خزیمن کی طرف دیکھا جو انھیں ہی دیکھ رہی تھی۔ ان کے دیکھنے پر وہ نظریں جھکا گئی۔ انھیں عقیل کی بات مناسب لگی۔

" ٹھیک ہے جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔"

مسکراتے ہوئے انھوں نے حامی بھری۔

"یہ ہوئی نا بھائیوں والی بات۔"

عقیل احمد خوشی سے ان سے بغلگیر ہوئے۔ صالحہ بیگم نے مسکرا کر ان کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ 

"رحمہ بیٹا دلہن کو اس کے کمرے میں لے جاو۔ تھک گئی ہوگی۔ تھوڑا آرام کر لے اور بیٹا تمھیں کچھ بھی چاہیئے ہو رحمہ سے کہہ دینا شرمانا نہیں۔ اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔"

وہ خزیمن کے پاس آئیں۔ رحمہ اسے لئے کمرے میں آ گئی۔ کمرا بہت صاف ستھرا تھا۔ ملازم اس کا اور دراب خان کا سامان ان کے کمرے میں رکھ گیا تھا۔

رحمہ اسے لئے بیڈ کی طرف بڑھیں۔ 

"تمھیں کچھ بھی چاہیئے ہو تو بلا جھجک مجھے بتانا۔"

اس نے اس کی کمر کے پیچھے تکیہ درست کرتے ہوئے کہا۔

"ایک گلاس پانی چاہیئے بھابھی۔"

وہ رحمہ کے پلٹنے سے پہلے بولی۔ وہ مسکرا کر سر ہلاتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔ تھوڑی دیر میں وہ پانی کا جگ اور گلاس لئے کمرے میں داخل ہوئی۔ پانی کا گلاس رحمہ نے اس کی طرف بڑھایا۔

"بھابھی آپ کھڑی کیوں ہیں۔۔بیٹھئیے نا۔"

پانی پی کر گلاس سائیڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے وہ قریب ہی کھڑی رحمہ سے بولی تھی۔

"نہیں تم آرام کرو۔ اتنا لمبا سفر بھی اور پھر یہاں ہم نے بھی تمھیں بہت تنگ کیا۔"

رحمہ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"ارے نہیں بھابھی۔۔۔ آپ سب کی محبت نے تو مجھے تازہ دم کر دیا ہے۔"

اس نے محبت سے رحمہ کا ہاتھ تھاما تو وہ مسکرا دی۔

"تم پریشان مت ہونا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ عقیل مجھے اور امی کو تمھیں اور دراب بھائی کو درپیش حالات کے متعلق بتا چکے ہیں۔ دراب بھائی بہت اچھے اور خیال رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ تمھیں بہت خوش رکھیں گے۔"

رحمہ نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا۔

"انشاء اللہ!" 

وہ مسکراتے ہوئے نظریں جھکا گئی تھی۔ رحمہ پیار سے اسکا چہرہ تھپتھپاتی کمرے سے نکل آئی۔ اس نے بیڈ سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔۔_____________________________________

دروازہ بجاتے بجاتے ان کے ہاتھ شل ہو گئے تھے۔ سانس پھولنے لگی تھی اوپر سے گرمی کی شدت۔۔۔ان کے اعصاب جواب دینے لگے۔ زمان خان نے ان کے ذرد چہرے کو دیکھا تو انھیں بیٹھ جانے کو کہا۔ وہ چوکھٹ کے ساتھ کمر ٹکا کر زمین پر بیٹھ گئے۔ پسینے سے تر ہوتے کپڑے ان کی ابتر حالت کی گواہی دے رہے تھے۔ لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کی حالت دیکھ کر زمان خان کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔

"باتور ۔۔۔۔دروازہ کھولو۔"

انھوں نے بلند آواز سے اسے پکارا۔ جسے اس نے سن کر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ مایوسی سے ساتھ کھڑے گل رحیم کو دیکھ رہے۔ 

"بڑے خان۔"

زمان خان گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رحم دین کو دیکھ رہے تھے کہ گل رحیم نے میر سربلند خان کو آتے دیکھ کر انھیں بتایا۔ زمان خان اور رحم دین نے گل رحیم کے متوجہ کروانے پہ سامنے دیکھا۔ بڑے خان کے ساتھ کرم دین اور مولوی صاحب بھی تھے۔ زمان خان اٹھ کھڑے ہوئے۔ رحم دین نے مولوی صاحب کو دیکھ کر سر جھکا دیا۔

"رحم دین۔۔۔۔یہ کیا بیوقوفی کر رہے ہو۔ خاندان کا مسئلہ تھا تھانے جانے کی ضرورت کیا تھی۔ پورے گاوں میں خود کو شرما کر رکھ دیا ہے۔ تم سے ہم نے کہا تھا کہ یہ رشتہ دے دو۔ اپنے لئے مسائل اس نہج پہ تم نے خود پہنچائے ہیں۔ اب سنبھال نہیں پا رہے ہو تو زمین بوس ہوئے کیوں بیٹھے ہو؟؟"

میر سربلند خان کی گرجدار آواز رحم دین کو قریب سے سنائی دی تو اس نے گھٹنوں میں دیا سر اٹھایا۔

"خان جی۔۔۔باتور خان سے کہیے کے دروازہ کھول دے۔ میں اپنی بیٹی کا ایک بال بھی اسے نہ دوں رشتہ تو دور کی بات ہے۔"

رحم دین دروازے کے سہارے کھڑے ہوئے۔ یہ سن کر کرم دین اور میر سربلند خان کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا۔

"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔خان جی کی بات کو رد کرتے ہوئے تمھیں ذرا شرم نہ آئی۔۔۔ساری زندگی جن کی چاکری کرتے رہے ہو۔۔جن کے سامنے سر جھکائے ، ہاتھ باندھے کھڑے رہے ہو۔۔۔آج ان کے سامنے اونچی آواز میں بولتے ہوئے زبان نہیں کانپی تمھاری۔۔۔ہاں ہاں تمھیں کیوں شرم آئے گی۔ تم نے تو شرم بیچ دی ہے۔"

کرم دین کا بس چل نہیں رہا تھا کہ کسطرح بھائی کا منہ بند کر دیں۔ لیکن ان کی بات کا رحم دین پہ کوئی اثر نہ ہوا۔ انھوں نے پلٹ کر دروازہ بجایا۔

"باتور خان۔۔۔"

میر سربلند خان نے باتور خان کو پکارا۔ ان کے پکارنے کی دیر تھی کہ باتور خان نے دروازہ کھول دیا۔ وہ دروازے کے دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر اندر آنے کا راستہ روکے کھڑا تھا۔ رحم دین نے دیکھا ذہرہ بی بی مسکاء کے دروازے کے باہر نیچے زمین پر بیٹھی ہیں۔ وہ فورا باتور خان کو ہٹا کر ان کے پاس گئے۔ ان کے پیچھے زمان خان اور میر سربلند خان نے بھی اندر قدم رکھا۔ انھوں نے مولوی صاحب اور کرم دین کو اندر آنے کا راستہ دیا۔ ان کے اندر آنے کے بعد میر سربلند خان کے اشارہ کرنے پر کرم دین نے اقبال اور راشد کو بھی اندر بلایا اور دروازہ بند کر دیا۔ باہر کھڑے سبھی لوگ خاموشی سے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ 

"خان جی یہ سب اسطرح مناسب نہیں ہے۔ آپ ہی سمجھائیے ان کو۔"

وہ ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ انھیں مسکاء کی غیر موجودگی کا علم ہو۔ اگر انھیں معلوم ہو جاتا کہ وہ شہر جا چکی ہے تو اس مسئلے کو جرگے میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا اور جرگے نے بھی باتور خان کا ہی ساتھ دینا ہے۔ ایک تو گاوں میں کوئی اور آگے نہیں بڑھے گا مسکاء سے شادی کے لئے کیونکہ باتور خان نے رسم 'غگ' کا ارتکاب کر کے مسکاء کو اپنا پابند کر دیا اور باتور خان کے خلاف جانے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔

"زمان خان یہ تمھارا معاملہ نہیں ہے۔اس لئے بہتر ہو گا کہ تم اس میں مت بولو۔" 

انھوں نے زمان خان کو اپنے سامنے سے ہٹایا اور رحم دین کے پاس آئے۔ رحم دین جو ذہرہ بی بی کو دلاسہ دے رہے تھے انھیں دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

"خان جی۔۔۔ابھی میری گھر والی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ نکاح پھر کسی دن کر لیں گے۔"

رحم دین نے ان سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی۔

"رحم دین نکاح نامے پہ سائن تمھاری گھر والی نہیں بلکہ تمھاری بیٹی نے کرنے ہیں۔ اسے لے کر آو۔۔نکاح آج ہی ہو گا۔ چلیے مولوی صاحب ہم کمرے میں چلتے ہیں۔ رحم دین تم لڑکی کو لے آو۔"

وہ رحم دین سے کہہ کر کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ باقی سب بھی ان کے پیچھے کمرے میں چلے گئے۔ زمان خان اور وہ دونوں میاں بیوی صحن میں تنہا ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔ رحم دین اور ذہرہ بی بی کے تو ہاتھ پاوں پھول گئے تھے۔ زمان خان نے رحم دین کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی اور انھیں لئے کمرے میں آ گئے۔

"مسکاء کو نہیں لائے رحم دین؟؟"

ان کے اندر داخل ہونے پہ کرم دین نے پوچھا۔

"خان جی۔۔۔۔۔وہ۔۔۔مسکاء۔۔۔"

"میں خود لے کر آتا ہوں اسے خان جی۔"

باتور خان ان کی بات کاٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ رحم دین اس کے پیچھے بھاگے۔ ذہرہ بی بی اسے آتے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"رکو باتور۔۔۔۔"

وہ دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ رحم دین نے اسے بازو سے تھام کر روکنے کی کوشش کی۔

"چھوڑو چاچا۔۔۔تم اور تمھاری بیٹی ایسے نہیں مانو گے۔"

اس نے ناگواری سے ان کا ہاتھ جھٹکا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ صاف ستھرا کمرا اپنے مکین کی غیر موجودگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ وہ غصے سے باہر نکلا اور رحم دین کو گریبان سے پکڑ کر جھٹکا۔

"مسکاء کہاں ہے چاچا؟؟"

باتور خان کی گرجدار آواز سن کو وہ سب بھی کمرے سے باہر آ گئے۔ذہرہ بی بی اور زمان خان رحم دین کو اس کے چنگل سے چھڑانے کے لئے پورا زور لگا رہے تھے مگر اس کی گرفت مزید سخت ہوتی جا رہی تھی۔

"چاچا کہاں ہے مسکاء۔۔۔جواب دے۔۔"

اس نے انھیں جھٹکا دے کر چھوڑا۔ وہ خود کو سنبھال نہ سکے۔ اپنے نڈھال ہوتے وجود کو سنبھال کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔ زمان خان نے انھیں سہارا دے کر اٹھایا۔

"باتور خان رکو۔"

اسے ان کی طرف بڑھتا دیکھ کر میرسربلند خان نے باتور خان کو روکا۔

"خان جی۔۔۔انھوں نے مسکاء کو بھگا دیا ہے یہاں سے۔۔بول جواب دے۔۔کہاں چھپایا ہے اسے۔۔تم کسی بھول میں مت رہنا چاچا۔۔پاتال سے بھی ڈھونڈ لاوں گا اسے۔۔ مجھ سے زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی۔"

وہ رحم دین کو قہر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ان سے بولا۔

"او۔۔۔حوصلہ کر۔۔۔ٹھنڈا ہو۔۔لڑکی نے کہاں جانا ہے۔۔او یہیں ہو گی گاوں میں کسی سہیلی کے گھر گئی ہوگی۔۔بتا رحم دین کہاں ہے مسکاء؟"

انھوں نے رحم دین کی طرف پرسوچ نظروں سے دیکھا۔

"خان جی۔۔۔میں اسے ہاسٹل چھوڑ آیا ہوں۔ اس کے امتحان شروع ہیں۔۔واپس آ جائے گی۔"

آخر رحم دین بتانا ہی پڑا۔

"جھوٹ بول رہا ہے خان جی۔۔۔اس نے کہا تھا کہ اگلے مہینے ہے امتحان۔ اس نے چالاکی سے اسے یہاں سے نکالا ہے۔ ورنہ ہمیں پتہ کیوں نہیں چلتا اور یہ طریقہ بھی اسے زمان خان نے بتایا ہوگا۔"

کرم دین انھیں جھڑک کر بولا۔ میر سربلند خان نے رحم دین کی طرف دیکھا۔

"خان جی۔۔۔رحم۔"

وہ آنکھوں میں درخواست لئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔

"اب اس کا فیصلہ جرگہ کرے گا۔ دو دن ہیں تمھارے پاس رحم دین۔۔اسے شہر سے لے کر آو۔"

یہ کہہ کر وہ رکے نہیں اور باقی سب کو بھی اشارہ کرتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ باتور خان نے ایک طنزیہ مسکراہٹ رحم دین اور زمان خان کی طرف اچھالی اور مونچھوں کو تاو دیتا دروازے کی چوکھٹ پار کر گیا۔۔

رحم دین اپنے نڈھال وجود کے ساتھ وہیں ڈھے گئے۔ ذہرہ بی بی آنکھوں میں آنسو لئے دیوار کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ان کی نظریں دروازے کی چوکھٹ پہ جیسے جم سی گئیں تھیں۔۔________________________________

وہ بنا آہٹ کمرے میں داخل ہوئے۔ سامنے دیکھے بنا پلٹ کر دروازہ بند کیا۔ پھر دھیمی چال چلتے بیڈ کے قریب آئے۔ وہ تکیے سے ٹیک لگائے سو رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے تک نفاست سے سر پہ سجا دوپٹہ کھسک گیا تھا۔ سنہری مائل بھورے بال گردن اور چہرے پہ بکھرے تھے۔ مخروطی ہاتھ گود میں دھرے تھے۔ میک اپ سے بےنیاز چہرے کی معصومیت انھیں اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ گھنی پلکیں گلابی عارضوں پہ جھکی دھوپ میں سائے کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ان کا جی چاہا کہ وہ اس کے رخسار پہ بکھرے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے ہٹائیں۔ 

یہ خواہش دل میں لئے وہ قریب آ گئے۔ سانسوں کا ردھم اس کی گہری نیند کو ظاہر کر رہا تھا۔ انھوں نے ہاتھ بڑھا کر واپس کھینچ لیا۔

دماغ انھیں روک رہا تھا جبکہ دل شرارت پہ آمادہ تھا۔ دل و دماغ کی جنگ میں آخر دل کی جیت ہوئی۔ وہ بیڈ کے کراون پہ ہاتھ ٹکا کر اسکے چہرے پہ جھکے تھے۔ ان کی پرتپش سانسیں اس کے چہرے سے ٹکرانے لگی تھیں۔ وہ تھوڑا سا کسمسائی تو ان کا دل جیسے سینے سے باہر آنے کو بےتاب ہونے لگا۔

شرارتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے انھوں نے اس کے چہرے پہ پھونک مار کر چہرے سے بال ہٹانے کی کوشش کی۔۔۔بال تو چہرے سے کیا ہٹنے تھے خزیمن کی آنکھیں نیند سے ہٹ گئیں۔ اس نے انھیں خود پہ اس طرح جھکے دیکھا تو ہڑ بڑا کر سیدھی ہوئی۔ وہ چونکہ اس کے چہرے کے پرکیف نظارے میں ایسے محو تھے کہ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں۔ نتیجتا خزیمن کے اچانک اٹھنے کی وجہ سے اس کا سر ان کے کشادہ سینے سے ہلکے سے ٹکرایا۔

"وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انھیں خود پہ جھکے دیکھ رہی تھی جبکہ وہ اس کے چہرے میں کھوئے اردگرد سے بیگانہ تھے۔ ان کے اسطرح دیکھنے پر وہ خود میں سمٹ کر نظریں جھکا گئی۔ اچانک ان کا ہاتھ اس کے ماتھے اور گردن پہ بکھرے بال سمیٹنے لگا۔ لب خاموش تھے لیکن ان کے بیچ کی پرکیف خاموشی بول رہی تھی۔ وہ اس کے چہرے پہ جھکے تھے۔ خزیمن نے ان کے اس اقدام کو روکنے کے لئے جلدی سے کشن سے اپنا چہرہ ڈھکا۔ 

میر دراب خان مسکرا دئیے اور اس کے ہاتھ سے کشن لئے سیدھے ہوئے۔ خزیمن نے جلدی سے پاوں سمیٹے اور دوپٹہ درست کیا۔ وہ وہیں اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئے اور گود میں رکھا اس کا نرم و نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔

اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ وہ اپنے ہاتھوں کی گرمی سے ذائل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کے انداز اس کے ہوش اڑائے دے رہے تھے۔ 

"خزیمن میں آپ سے لمبے چوڑے وعدے تو نہیں کروں گا مگر اپنی پوری کوشش کروں گا کہ آپ کو کبھی کوئی تکلیف نہ ہو۔ آپ میری زندگی میں بہار کی مانند آئی ہیں اور اپنی بہار کو میں کبھی خزاں میں بدلنے نہیں دوں گا۔"

انھوں نے اس کے سفید ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا۔ خزیمن نے اپنا ہاتھ ان کی گرفت سے چھڑانا چاہا مگر وہ گرفت اور بھی مضبوط کر گئے۔

"یہ ہاتھ میں نے کبھی نہ چھوڑنے کے لئے تھاما ہے اس لئے آپ یہ بیکار سی کوشش مت کیجیے۔"

ان کے انداز پہ اس کے چہرے پہ گلال بکھر گیا۔ اپنی بات کے جواب میں اس کے چہرے پہ کئی رنگ بکھرتے دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ انھوں نے اپنے ہاتھ کی پشت اس کے گلابی رخسار پہ پھیری۔ انھیں لگا جیسے یہ رنگ ان کی ہتھیلی پہ بھی بکھر گئے ہوں۔

"آپ بےحد خوبصورت ہیں خزیمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں۔۔میں بہت عام سا شخص۔"

وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولے۔

"نہیں تو۔۔۔۔۔۔آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ آپ بھی بہت اچھے ہیں۔"

وہ دھیرے دھیرے بولتی انھیں اپنے دل کے بےحد قریب لگی مگر دل شرارت پہ آمادہ تھا۔ 

"صرف اچھا۔۔۔۔"

وہ شوخ ہوئے۔

"نہیں۔۔۔میرا مطلب ہے کہ بہت اچھے ہیں۔" اس نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔ دراب نے اپنی مسکراہٹ کو قید ہی رکھا۔

"اچھا۔۔۔کتنا اچھا ہوں میں؟؟" وہ مزید قریب ہو کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگے۔ وہ ان کی شرارت کو بھانپ کر نظریں جھکا گئی مگر لبوں پہ کھیلتی مسکراہٹ کو روک نہ سکی۔ اس کے گلابی لبوں کی مسکان دیکھ کر وہ خود کو روک نہ سکے اور اسکے چہرے پہ جھکے تھے۔

"خزیمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

ان کے لب گنگنائے تھے۔۔۔۔۔_________________________________

دو دن بعد انھوں عقیل احمد کے ساتھ جا کے ایک چھوٹا سا فلیٹ خریدا۔ فلیٹ انھیں بےحد پسند آیا تھا کیونکہ تھوڑا بہت پہلے سے فرنشڈ تھا۔ اچھا خاصا کشادہ فلیٹ تھا۔ جو تھوڑا بہت ضرورت کا سامان کم تھا انھوں نے سوچا بعد میں لے لیں گے۔ کچھ تھوڑی بہت شاپنگ انھوں نے خزیمن کے لئے بھی کی اور عقیل کی فیملی کے لئے بھی تحفے خریدے۔

ان کا ارادہ تھا کہ آج ہی وہ شفٹ ہو جائیں گے کیونکہ وہ عقیل پہ مزید بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے۔ آج صبح انھوں میر سربلند خان سے بھی بات کی تھی۔ انھوں نے اسے منع کیا تھا کہ شہر میں مستقل رہائش نہ کریں مگر وہ جانتے تھے کہ فلحال ان کا گاوں سے دور رہنا ہی ٹھیک ہے۔ اس لئے انھوں نے ان کو سہولت سے منع کر دیا اور وعدہ کیا کہ کچھ وقت بعد وہ گاوں واپس آ جائیں گے۔

گھر آنے کے بعد انھوں اپنے لائے ہوئے تحفے سب کو دئیے۔ رحمہ اور صالحہ بیگم کے لئے انھوں نے ڈریس خریدے تھے جو انھیں بےحد پسند آئے۔ خزیمن انھیں بہت محبت سے دیکھ رہیں تھیں۔ اس کی نرم نظریں وہ خود پہ محسوس کر رہے تھے۔ سب نے ایک خوشگوار ماحول میں چائے پی۔

چائے کے بعد وہ صالحہ بیگم کے پاس آئے اور انھیں فلیٹ کے متعلق بتایا۔ صالحہ بیگم بہت ناراض ہوئیں۔

"آنٹی اس میں اتنا ناراض ہونے والی کیا بات ہے اور پھر ہم کون سا اتنا دور ہیں آتے جاتے رہیں گے بلکہ آپ لوگ اب ہماری طرف آئیے گا تاکہ ہمیں بھی خدمت کا کوئی موقع ملے۔"

انھوں نے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے محبت سے ان کیطرف دیکھا۔

"بیٹا خزیمن اکیلے سب کیسے کرے گی۔ ابھی تو اس کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اتری۔"

انھوں نے خزیمن کی طرف دیکھا۔ دو ہی دن میں وہ انھیں بےحد عزیز ہو گئی تھی۔

"ارے آنٹی۔۔۔خزیمن اکیلی کب ہے میں ہوں نا اس کے ساتھ۔۔۔اور اتنا کام نہیں ہے گھر میں کافی سے زیادہ فرنشڈ خریدا ہے میں نے۔۔بس جو تھوڑا بہت ہے وہ ضرورت کے مطابق لیتے رہیں گے۔"

دراب نے انھیں تسلی دی۔

وہ آج ہی شفٹ ہونا چاہتے تھے اپنے گھر میں۔۔لیکن صالحہ بیگم نے انھیں کھانے تک روک لیا۔ کھانا کھا کر انھوں نے ان سے اجازت چاہی۔ ان کی ضد پہ صالحہ بیگم نے اپنی دعاوں میں انھیں رخصت کیا۔ جب وہ لوگ پہنچے تو دس بجے کا وقت تھا۔

خزیمن کو بھی فلیٹ بہت پسند آیا تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ میر دراب خان کا ساتھ۔۔۔ان کی سنگت۔۔ان کا پیار۔۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اللہ کا شکر ادا کرتی۔

انھوں نے اسے فلیٹ دکھایا۔۔کچن ، ڈرائنگ روم۔۔ہر چیز خزیمن کی پسند کے مطابق تھی۔

"دراب۔۔۔۔۔۔یہ سب کتنا خوبصورت ہے۔۔سچ مجھے بہت پسند آیا۔"

خوشی اس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی اور دراب خان یہی خوشی اس کے چہرے اور آنکھوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ آخر میں وہ اسے لے کے بیڈ روم اپنے اور اسکے مشترکہ بیڈ روم میں آئے۔ یہ کمرا باقی کمروں سے تھوڑا بڑا تھا اور بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ نرم گداز قالین۔۔گرے رنگ کے خوبصورت پردے۔۔کمرے میں سامان بہت مختصر تھا اس لئے کمرہ کافی کشادہ لگ رہا تھا۔ 

"پسند آیا۔۔؟؟"

انھوں نے پیچھے سے اس کے گرد اپنے مضبوط بازوں کا حصار باندھا اور اس کے بالوں کو لبوں سے چھوا۔

"بہت۔۔۔۔"

خزیمن نے ان کی مضبوط ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھے۔اس کے ہاتھوں کی نرمی دراب کو اپنے ہاتھوں میں گھلتی محسوس ہوئی۔ انھوں نے اپنی گرفت کو مزید مضبوط کیا۔

"دراب۔۔۔۔"

خزیمن نے انھیں پکارا تھا۔ وہ آنکھیں موندیں اس کی مہک کو اپنی ذات کے قلعے میں محسور کر رہے تھے۔

"ہیم۔۔۔۔۔"

ان کا سر اس کے کندھے پہ ٹک گیا تھا۔

"آپ۔۔۔۔۔آپ بہت اچھے ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ خاموش ہوئی۔

"اور۔۔۔۔۔۔۔۔"

بند آنکھوں کے پیچھے وہی انھیں دکھ رہی تھی۔

"اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں آپ سے بےحد محبت کرتی ہوں۔"

انھوں نے مسکرا کر اس کی گردن پہ لب رکھے۔۔ان کی محبت اس کے دل کی رفتار کو بڑھا رہی تھی۔

"میں بھی۔۔۔۔۔۔۔"

ان کی مدھم اور گھمبیر آواز اسے اپنے دل میں گونجتی محسوس ہوئی۔ 

سورج کی آنکھ مچولی گھنے بادلوں کے ساتھ جاری تھی۔

وہ جاڑے کا سورج۔۔۔۔

اور۔۔۔

وہ یخ بستہ پرچھائی۔۔۔۔_______________________________

حجرے میں سبھی موجود تھے۔

اردگرد چارپائیاں بچھی تھیں۔ گاو تکیوں سے ٹیک لگائے معزز افراد ایک لاچار شخص کو گھیرے کھڑے تھے۔ کچھ لوگ تو باتور خان کو شاباش دے رہے تھے اس اقدام پہ۔۔۔مگر کچھ اس کی بےحسی کو دیکھ دیکھ کر کڑ رہے۔

رحم دین سر جھکائے کھڑے تھے۔

ہر طرف سے انھیں مختلف جملے سننے کو مل رہے تھے۔ زمان خان بھی وہیں موجود تھا۔ 

میر سربلند خان چونکہ گاوں کے جرگے کا ایک اہم رکن تھے اس لئے ان کے کہنے پر ہی یہ جرگہ بلایا گیا تھا۔ 

"ہاں رحم دین۔۔ بولو۔۔۔تمھیں کچھ کہنا ہے؟"

میر سر بلند خان کی آواز گونجی تو سبھی لوگوں کے ہونٹ جیسے سل سے گئے تھے۔۔ باتور خان کی استہزایہ نظریں رحم دین پہ گڑی تھیں۔

"خان جی۔۔۔۔میں اپنی بیٹی کی شادی باتور خان سے نہیں کروں گا۔"

رحم دین نے وہی الفاظ دہرائے جو وہ کب سے کہے جا رہا تھا۔

"غگ ہو جانے کے باوجود۔۔۔؟؟"

انھوں نے مزید پوچھا۔

"جی۔۔۔خان جی۔۔۔۔میں ایسی کیسی رسم کو نہیں مانتا۔"

باتور خان نے مٹھیاں بھینچیں۔

"لیکن ہم یہ بےغیرتی اس گاوں میں برداشت نہیں کر سکتے۔ تم تو لگتا ہے شرم لحاظ ہر چیز بھول گئے ہو۔ کوئی بھی تمھاری بیٹی سے شادی نہیں کرے گا سوائے باتور خان کے۔۔اس لئے بہتر ہو گا کہ تم اس رشتے کے لئے آرام سے مان جاو۔۔ورنہ ہمیں اور بھی طریقے آتے ہیں۔"

وہ تھوڑی دیر کو خاموش ہوئے۔

"جرگے نے تمام حالات کے پیش نظر ایک فیصلہ کیا ہے کہ تم کل شہر جا کر مسکاء کو لے آو تاکہ اس مسئلے کو کوئی حل دیا جا سکے۔"

ان کی بات پہ سبھی معزز افراد نے سر اثبات میں ہلایا۔ وہ دیکھ رہے تھے یہاں کوئی بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ وہ سر جھکائے بیرونی دروازے کی طرف بڑھے۔ کندھے ایسے ڈھلکے ہوئے تھے جیسے ان پر کوئی بھاری بوجھ لدا ہو۔ زمان خان ان کے پیچھے لپکے۔۔

باتور خان نے مسکرا کر مونچھوں کو تاو دیا اور میر سربلند خان کی طرف دیکھا جو اسی کی طرف دیکھ رہے۔ آہستہ آہستہ لوگ وہاں سے جانے لگے تھے۔۔

سب لوگ جا چکے تھے صرف وہی تھے۔۔

جو یہی تو چاہتے تھے کہ گاوں میں وہی ہو جو وہ چاہتے ہیں۔۔

اور۔۔۔۔

وہی ہونے جا رہا تھا جو وہ چاہتے تھے تو وہ خوش کیوں نہ ہوتے۔ سب کو اپنی انگلیوں پہ نچانے والے یہ بھول گئے تھے کہ ان کی دراز رسی کو کھینچنے والی ذات کبھی بھی انھیں منہ کے بل گرا سکتی ہے۔ بس وقت آنے کی دیر ہے۔۔۔

"باتور۔۔۔۔۔۔"

انھوں نے اسے پکارا۔

"جی۔۔۔۔۔خان جی۔"

وہ ان کے قریب آیا۔

"ہم نے کوشش کی ہے کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکل آئے۔ لیکن اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنے میں دیر نہیں ہونی چاہئیے۔"

وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔

"خان جی۔۔۔۔۔۔آپ بالکل فکر ہی نہ کریں۔۔"

اس کا جواب سن کر وہ اسکے مزید قریب آئے۔

"اور ہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ میر۔۔۔۔۔حلق کا کانٹا بن گیا ہے۔ اسے نکالنا تمھارا کام ہے۔"

وہ اسے اشارہ کر کے آگے بڑھ گئے جبکہ وہ داڑھی کھجاتا وہیں چارپائی پر بیٹھ گیا۔

میر کا نام سن کر اسے اپنی بےعزتی یاد آ گئی۔ وہ تو کب کا منتظر تھا کہ خان اسے کہیں اور وہ اس سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لے۔

اور آج اجازت مل گئی تھی۔۔

"میر۔۔۔۔۔میں شدت سے منتظر ہوں تمھارا۔ اب کی بار تمھیں شہر تو کیا ایسی جگہ بھیجوں گا جہاں کبھی واپس نہیں آ سکو گے۔

وہ خود سے کہتا ہنس دیا تھا۔۔۔______________________________

"اسلام و علیکم گلزم خان چاچا۔" مسکراتی آواز پہ انھوں نے پلٹ کر دیکھا تھا۔ نیلی جینز پہ سفید شرٹ پہنے وہ قد آور شخص انھیں کسی کی یاد دلا گیا۔ مسکراتے لب اور مسکراتی آنکھیں۔۔۔انھوں نے ایک پل کو آنکھیں موند لیں۔

"ارے چاچا۔۔۔نیند میں ہو کیا۔" اس نے انھیں آنکھیں بند کرتے دیکھ کر ان کا شانہ ہلایا۔

"کچھ نہیں بیٹا۔۔۔بس یونہی۔۔آو نہ چلیں۔۔تمھارے بابا کو بہت انتظار ہے تمھارا۔ آتے وقت مجھے بار بار تاکید کرتے رہے کہ تمھیں لے کر جلدی پہنچوں۔"

وہ اس کے لئے فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے بولے۔

"تو آپ بتائیے نا کیا وجہ کہ بابا نے بلایا ہے مجھے۔۔میرا تو ابھی ارادہ نہیں تھا جانے کا۔۔کچھ ہی دن میں ایگزامز اسٹارٹ ہو جائیں گے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ ایگزام کے بعد ہی آوں گا۔ مگر انھوں نے فون کر کے کہا کہ آپ کے ساتھ آ جاوں۔ بہت ضروری بات کرنی ہے۔گاوں میں تو سب خیر ہے نا چاچا؟؟"

اس نے بیگ پچھلی سیٹ پہ پھینکا اور ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا۔ زمان خان نے اسے رات کو فون کر آنے کو کہا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید انھیں کچھ ایسا مل گیا جو وہ اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اسے بھیجتے وقت انھوں نے اس سے کہا تھا کہ اگر انھیں کچھ بھی معلوم ہوا تو وہ اسے گاوں بلوا لیں گے۔

"ہر بار گاوں جاتے وقت تو اتنے خوش نہیں ہوتے جتنے آج لگ رہے ہو۔۔"

انھوں نے اس کے مسکراتے چہرے سے نظر چرائی۔

"ہے ایک بہت ہی بڑا سیکرٹ جو آج ڈسکلوز ہونے جا رہا ہے۔"

وہ خود سے بولا۔ اس سوچ نے اسکے چہرے کی چمک کو بڑھا دیا تھا۔ گلزم خان نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی۔ 

"ویسے چاچا۔۔۔۔بات کیا ہے آپ بہت خاموش لگ رہے ہیں۔ گھر میں تو سب خیریت ہے نا؟"

اس نے انھیں خاموش دیکھ کر پوچھا۔

"کچھ نہیں بیٹا۔۔۔۔بس گاوں کے خانان سے تو تم واقف ہو۔ کسی زندہ کے پیچھے پڑ جائیں تو اسے قبر میں پہنچا کر دم لیتے ہیں۔"

وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے افسوس سے بولے۔

"کیوں چاچا۔۔۔کیا ہوا؟"

اس کے پوچھنے پر انھوں نے رحم دین کے ساتھ پیش آنے والے حالات کہہ سنائے۔ اسے سب سن کر بہت افسوس ہوا۔ اسے وہ چھوٹی سی لڑکی یاد آئی۔

"بہت افسوس کی بات ہے چاچا۔۔۔دنیا چاند پہ پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی بھی پستیوں میں پڑے ہیں۔ نیچے سے چمکتے چاند کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے لیکن پاس جانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ بس کچھ ہی وقت ہے چاچا۔۔۔۔ان سب کا علاج جلد ہی کروں گا۔"

وہ ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

"اللہ تمھیں زندگی دے بیٹا۔۔وہ تمھارا محافظ ہو۔۔"

انھوں نے اسے دعا دی۔

"آمین!" وہ بولا۔

"یہاں کیوں رک گئے چاچا؟" انھیں گرلز کالج کے پاس رکتے دیکھ کر اس نے پوچھا۔

"وہ مسکاء بیٹی کو بھی لے کر جانا ہے ساتھ۔۔ جرگے کا فیصلہ ہے کہ مسکاء کو گاوں لایا جائے۔"

وہ گاڑی سے نکلتے ہوئے بولے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے ان کے ساتھ آتی دکھائی دی۔ بڑی سی چادر میں اپنا نازک سا وجود ڈھانپے وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی قریب آتی جا رہی تھی۔۔

آج وہ سفید لباس زیب تن کئے ہوئے تھی۔دودھیا پاوں میں سمپل سے بلیک کھسے پہنے وہ بہت اچھی لگ رہی تھی یا شاید اسے لگ رہی تھی وہ اندازہ نہیں لگا پایا۔

اسے اسکی سیاہ گھور آنکھیں یاد آئیں۔ اسے اپنی بےخودی پہ بہت غصہ تھا۔ گھر میں کسطرح وہ اسے دیکھ کر ہوش گنوا بیٹھا تھا۔ لیکن جلد ہی خود پہ قابو پا لیا تھا۔ اس کے خیال سے اس کے پاس ان بیکار کے کاموں کے لئے وقت نہیں تھا۔

وہ اپنی سوچوں میں اتنا مگن تھا کہ جب گاڑی اسٹارٹ ہوئی تو اسے ہوش آیا۔

سر جھٹک کر اس نے گہری سانس لی۔ گاڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔

پتہ نہیں کیوں اس کے دل میں ایک ہی خواہش ابھر رہی تھی کہ کاش یہ سفر کبھی نہ ختم ہو۔

اور وہ ذات اپنے بندے کے دل کے سارے راز جانتی ہے جو وہ کبھی کبھار خود سے بھی چھپاتا ہے۔

یقینا یہ سفر طویل ہونے والا تھا۔

دن سے رات تک۔۔۔

رات سے دن تک۔۔۔۔۔۔

یقینا۔۔۔۔

زندگی سے موت تک۔۔۔۔___________________________

اسے کہنا۔۔!

سدا موسم

بہاروں کے نہیں رہتے

سبھی پتے بکھرتے ہیں

ہوا جب رقص کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

"سارے حالات تمھارے سامنے ہیں بیٹا۔ رحم دین بہت پریشان ہے۔ گاوں میں کوئی ایسا ہے بھی نہیں جس کے حوالے ہم مسکاء کو کریں اور نا ہی باتور خان کے ڈر سے کوئی آگے بڑھتا ہے۔ اوپر سے جرگہ تو اس رسم کو ختم کرنے کو تیار ہی نہیں۔۔ انھوں نے تو باتور خان کے حق میں فیصلہ دے دینا ہے۔"

زمان خان نے اس کے سامنے پانی کا جگ رکھا۔ وہ تو کچھ اور سمجھ رہا تھا جبکہ یہاں تو کچھ اور ہی معاملہ تھا۔

"کیا سوچ رہے ہو بیٹا؟؟"

انھوں نے اسے گہری سوچ میں دیکھ کر پوچھا۔

"کچھ نہیں بابا۔۔۔"

اس نے گلاس میں پانی انڈیلا۔

"جب یہ معاملہ نہیں تھا تب بھی میں مسکاء کو تمھارے حوالے سے ہی دیکھتا تھا۔"

ان کی بات پر اس نے انھیں حیرانی سے دیکھا۔

"ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔کیا میں ایسا نہیں سوچ سکتا۔۔میں جانتا ہوں کہ تمھارا سگا باپ نہیں ہوں لیکن اتنا حق تو رکھتا ہوں نا کہ تمھارے لئے ایک اچھا فیصلہ کر سکوں۔"

انھوں نے اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا۔

"بابا۔۔۔آپ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ کے لئے تو میری جان بھی حاضر ہے۔ آپ حکم کریں۔"

وہ جو انکار کرنے کا سوچ رہا تھا ان کا مان رکھنے کے لئے مان گیا۔ انھوں نے اٹھ کر اسے سینے سے لگایا۔ خوشی ان کے چہرے سے چھلکی پڑ رہی تھی جبکہ اس کے چہرے پہ کسی قسم کی خوشی یا غمی کے تاثرات نہیں تھے۔

"میں جا کر رحم دین کو بتاتا ہوں۔ وہ کتنا خوش ہو گا یہ سن کر۔"

ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اڑ کر رحم دین کے پاس پہنچ جائیں۔

"لیکن میری ایک شرط ہے۔"

ابھی وہ کمرے سے نکلے نہیں تھے کہ اس کی بات پر پلٹ کر اسکو دیکھا۔ وہ چہرے پہ نا سمجھی کے تاثرات لئے اسے دیکھ رہے تھے۔

"کیسی شرط؟؟"

وہ دھیرے قدم اٹھاتے اس کے قریب آئے۔

"بابا۔۔۔۔میر دراب خان کون تھے؟"

اس نے اپنے اور ان کے بیچ موجود فاصلے کو مزید کم کیا۔ انھیں اس سے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی۔ وہ خاموشی سے اسکا منہ تک رہے تھے جبکہ وہ منتظر نظروں سے انھیں دیکھ رہا تھا۔

"کون میر دراب خان بیٹا؟"

ان کی بات پر اس نے سر جھٹک کر پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔

"یہ۔۔۔۔۔۔۔۔میر دراب خان۔"

اس نے تصویر ان کی آنکھوں کے سامنے رکھی۔ تصویر دیکھ کر وہ اپنی حیرت نہ چھپا سکے۔ انھوں نے اس کے ہاتھ سے تصویر لے لی۔ ان کی آنکھوں میں پہچان کی جھلک واضح تھی مگر وہ اس پہ اپنی حیرت آشکارا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ 

"میں نہیں جانتا بیٹا۔۔۔کون ہے یہ؟؟"

انھوں نے تصویر اسے واپس کرتے ہوئے پوچھا۔ان کے چہرے کے آتے جاتے رنگ میر سے چھپے ہوئے نہیں تھے۔ 

"بابا۔۔۔۔یہ کہاں رہتے ہیں آپ مجھے بتا دیں تو میں آپکی بات ماننے کو تیار ہوں۔ ورنہ میرے نزدیک شادی اتنی اہم نہیں جتنا کہ اپنا کریئر بنانا اہم ہے۔"

وہ پلٹ کر جانے لگے تھے۔

"بابا۔۔۔۔۔۔"

اس نے انھیں پکارا۔ تصویر ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھی۔

"ضیغم میں کچھ نہیں جانتا۔" وہ کھلے دروازے سے باہر نکل گئے۔ وہ ان کے پیچھے لپکا۔

"مجھے عقیل احمد ملے تھے۔ یہ تصویر انھوں نے ہی مجھے دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ میں میر دراب خان کا بیٹا ہوں۔ بابا پلیز آپ مجھ سے حقیقت کیوں چھپا رہے ہیں۔میں سچ جاننا چاہتا ہوں۔ میں کون ہوں۔۔۔کیا ہوں؟؟"

اس سے پہلے کہ وہ بیرونی دروازہ پار کرتے وہ بلند آواز میں بولا۔ تصویر ابھی بھی اسکے ہاتھ میں تھی۔ زمان خان نے دروازے کی کنڈی واپس چڑھائی اور پلٹ کر اس کے پاس آئے۔ اس کی آنکھوں کی بجھی جوت کو وہ بجھانا نہیں چاہتے تھے۔ وہ کیا کرتے وہ مجبور تھے اسے کھو نہیں سکتے مگر وہ ان کے سامنے مضبوط قدم جمائے کھڑا تھا۔وہ ٹلنے والوں میں سے نہیں تھا۔۔

"تم میر ضیغم خان ہو۔۔

میر دراب خان کے بیٹے۔۔

میر ابدار خان کے پوتے۔۔۔

میر سربلند خان کے بھتیجے۔۔ میر ضیغم خان ہو تم۔" ان کی سانس پھولنے لگی تھی جیسے میلوں کا سفر طے کر آئیں ہوں۔ اسے لگا جیسے وہ اب کبھی بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں پائے گا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ اپنے سامنے انھیں زمین بوس ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اسکا باپ اسی مٹی کا تھا جسکی خوشبو اسے خود آتی ہے۔ وہی خوشبو جس کی کشش اسے یہاں سے جانے نہیں دیتی تھی۔ جہاں سے اسکی محبت پل پل بڑھی تھی۔

"تم میرے بیٹے ہو۔۔۔میرے میر ہو۔"

ان کی دھیمی آواز اسے حواسوں میں کھینچ لائی۔ وہ بھاگتے ہوئے ان کے پاس آیا اور ان کے ڈھلتے وجود کو اپنی مضبوط پناہوں میں لیا- اس کی قمیص ان کے آنسووں سے تر ہوتی جا رہی تھی۔

"میں آپ کا بیٹا ہوں بابا۔۔۔صرف آپکا۔"

اس نے ان کے آنسو پونچھتے ہوئے ان کی آنکھوں میں دیکھا۔

"میر۔۔۔۔بس اب مجھ سے مزید کچھ مت پوچھنا۔ میں تمھیں کھونے کی ہمت نہیں رکھتا۔ میں تمھیں کچھ نہیں بتا سکتا۔"

وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے بولے۔

"بابا میں میر دراب خان سے ایک بار ملنا چاہتا ہوں۔ ایک بار انھیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ صرف ایک جھلک اپنی ماں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔"

اس کے لہجے میں باپ سے ملنے کی تڑپ ان کا کلیجہ چیر گئی۔ وہ خاموشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے انداز پہ اسکا دل ایک پل کو دھڑکنا بھول گیا۔ اس نے انھیں بیرونی دروازے سے باہر جاتے دیکھا۔ وہ بھی ان کے پیچھے آیا۔ وہ کس سمت میں جا رہے تھے وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا بس ان کی تقلید میں آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ جب ہوش آیا تو وہ حویلی سے منسلک حجرے کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔ کڑی دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ کی تپش جسم کو جھلسائے دے رہی تھی۔ اس لئے اس وقت باہر کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ حجرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ وہ ان کے پیچھے تھا۔ دل عجیب لے پہ دھڑک رہا تھا۔

وہ صحن سے گزرتے ہوئے برآمدے میں آئے۔ ادھر ادھر نظر ڈال کر مطمئن ہوئے اور پھر آگے بڑھے۔ دائیں طرف ایک تنگ سا راستہ تھا۔ جس کے دہانے پر بنی کیاری میں بوگن ویلیا اگائی گئی تھی جو اس قدر گھنی اور پھیلی ہوئی تھی کہ یہاں موجود اس تنگ و تاریک راستے کا علم شاید حویلی کے مکینوں کو بھی ہو۔ وہ ایک پل کو رکے، ایک نظر سامنے ڈالی اور پھر پلٹ کر اسے دیکھا جو ان سے کچھ ہی فاصلے پہ کھڑا تھا۔ وہ ایک گہری سانس خارج کرتے آگے بڑھے تھے۔ ہاتھ سے بوگن ویلیا کی ناذک ڈالیوں کو پرے ہٹاتے راستہ واضح کرتے جا رہے تھے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد وہ حجرے کی پچھلی طرف پہنچے۔ میر نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو واپس جانے کا راستہ غائب ہو چکا تھا۔ 

"میر۔۔۔"

ان کی پکار پر وہ آگے بڑھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی جنگل میں آ گئے ہوں۔ بلند اور برگ و بار درخت ایک عجیب سا منظر پیش کر رہے تھے۔ پیروں تلے پتوں کی چرچراہٹ اور مختلف پرندوں کی آوازیں اردگرد کے سونے اور بےجان ماحول میں زندگی کا احساس جگا رہی تھیں۔ وہ حیران تھا کہ حویلی کی تزئین و آرائش یہاں سے بالکل مختلف تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے صدیوں سے یہاں کسی نے قدم تک نہ رکھا ہو۔ زمان خان خاموشی سے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ کچھ دور چلنے کے بعد اسے ایک کمرا سا نظر آیا جسکے دروازے پہ زنگ آلود تالا لگا ہوا تھا۔ اندر کی طرف کھلنے والی ایک کھڑکی بھی تھی جسکے آگے لوہے کی تنگ تنگ سلاخیں لگائی گئی تھیں۔وہ دروازے کی طرف بڑھا لیکن زمان خان نے اسے وہاں جانے سے روک دیا۔ انھوں نے اسے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ کمرے کے بائیں جانب سے ہوتے ہوئے وہ اسکے پچھلی جانب پہنچے۔ سامنے دکھائی دیتی دیوار حجرے کی آخری حد تھی۔ دیوار کافی بلند اور مضبوط تھی اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ حجرہ اس قدر وسیع و عریض رقبے پہ پھیلا ہوا ہو گا۔ یہاں دیوار کے ساتھ موجود درختوں نے دن کی روشنی کو بھی کم کر دیا تھا۔ دور آسمان میں گول گول چکر لگاتے پرندوں کی آوازیں اس خاموشی میں واضح سنائی دے رہی تھیں۔ پیروں کے نیچے زمین کچی تھی۔ اس نے اپنے جوتوں پہ نظر ڈالی۔ جوتوں میں مقید پیر گرد سے اٹ چکے تھے اور چہرہ پسینے سے تر تھا۔ 

"بابا۔۔۔۔یہ آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں؟"

اس نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔

"کیوں اپنے بابا سے نہیں ملو گے؟"

وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولے۔

"بابا۔۔۔۔"کہاں ہیں وہ۔" اس کی آواز میں بےچینی واضح تھی۔

"وہ۔۔۔"

انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔ اس نے ان کی ہاتھ کی سیدھ میں دیکھا۔ دو قبریں ایک دوسرے سے کچھ ہی فاصلے بنی تھیں۔

ویران اور خاموش۔۔۔اپنے مکینوں کی طرح۔۔۔۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا قریب آیا تھا۔ قبر کے سرہانے لگے کتبے پہ نظر پڑی۔۔۔۔۔"میر دراب خان۔۔" اسکے خاموش لب ہلے تھے۔ وہ وہیں زمین پہ بیٹھ گیا۔

"ماں سے بھی مل لو میر ضیغم خان۔۔۔۔یہاں دوبارہ آنا تمھارے لئے خطرے سے خالی نہیں۔"

انھوں نے قبر کے پیروں کی جانب اسے سر جھکائے بیٹھے دیکھ کر اس کے کندھے پر تسلی بھرا ہاتھ رکھا۔

اس نے کچھ فاصلے پہ بنی دوسری قبر کے کتبے پہ نظر ڈالی۔ "ذوجہ میر دراب خان" اسے لگا اس کا دل پھٹ جائے گا۔ یہاں کی ویرانی اس کے اندر بھی ڈیرا ڈال رہی تھی۔ 

کتنی شدت تھی اسکے اندر ان منوں مٹی تلے خاموش سوئے ہوئے اشخاص سے ملنے کی۔ وہ ملے بھی تو کیسے۔۔۔۔

اسے وحشت ہونے لگی تھی۔

وہ ایک دم اٹھا اور دونوں قبروں پر گرے پتے ہٹانے لگا۔ قبروں کو صاف کرنے بعد سامنے لگے نل کے نیچے رکھی لوہے کی زنگ آلود بالٹی کو کھنگال کر پانی بھرا اور پھر دونوں قبروں پہ چھڑکاؤ کیا۔ پھر نل کے پانی سے ہاتھ دھوئے اور فاتحہ کے ہاتھ اٹھائے۔ زمان خان نے بھی اس کی تقلید کی۔ فاتحہ کے بعد زمان خان نے اسے چلنے کے لئے کہا اور جس راستے سے دونوں گئے تھے اسی سے واپس چلے آئے۔۔

جن کے ملنے کی تمنا میں گزاری تھی حیات

سامنے ہی سے وہ گزرے تو بلایا نہ گیا۔۔۔_____________________________

"بابا۔۔۔"

وہ چارپائی پہ لیٹے نجانے کیا سوچ رہے تھے کہ وہ ان کے پاوں تھامتی وہیں پیروں کیطرف بیٹھ گئی۔ اپنے پاوں پہ ایک نرم لمس محسوس کر کہ وہ سوچوں کے بھنور سے نکلے تھے۔ مسکاء کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھے۔

"مسکاء بیٹا کیا بات ہے؟"

وہ سر جھکائے ان کے پیروں کو دبانے لگی تھی۔ ان کے پوچھنے پر بھی کچھ نہ بولی۔

"ادھر آو میرے پاس۔"

انھوں نے اپنے پیروں پہ رکھا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھایا۔

"ماں کہاں ہے تمھاری؟"

انھوں نے ذہرہ بی بی کے متعلق پوچھا۔

"وہ باہر ہیں بابا۔" انھوں نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ جنھیں وہ اب گود میں دھرے بیٹھی تھی۔ چہرے پہ تذبذب کے آثار نمایاں تھے۔

"بابا۔۔۔۔میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ آپ جرگے کی بات مان لیجیئے گا۔ میں اپنی وجہ سے آپکو پریشان نہیں دے سکتی۔ اماں نے مجھے سب بتا دیا ہے کہ کسطرح وہ لوگ گھر آ گئے اور آپ کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" 

اس نے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا تھا۔ وہ رو رہی تھی۔ ان کا دل تکلیف کی شدت سے بھر گیا تھا۔ وہ ان کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ اس کی آنکھ کا ایک آنسو بھی انھیں اپنے دل پہ گرتا محسوس ہوتا تھا اور آج کل جو مسائل انھیں درپیش تھے وہ پل پل مر رہے تھے۔ کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی جس پہ چل کر وہ اپنی متاع حیات کو ان درندوں سے بچا سکتے۔ 

انھوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے اس کے ہاتھ چہرے سے ہٹائے۔ آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھ کر ان کا دل ڈوب کر ابھرا تھا۔ انھوں نے اسے سینے میں چھپا لیا۔ اسکی ہچکیاں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔ 

"کچھ نہیں ہوگا۔۔اگر جرگہ میری بات نہیں مانے گا۔۔میں بھی نہیں مانوں گا۔ میں تمھیں پورا تحفظ دوں گا چاہے اس کے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔"

وہ اسکے آنسو پونچھتے ہوئے بولے۔

"مگر بابا ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ آپکی جان میرے نزدیک زیادہ اہم ہے نہ کہ میری شادی۔ بابا شادی کسی نہ کسی سے تو کرنی ہی ہے تو باتور خان سے سہی۔"

اس نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی مگر وہ سر نفی میں ہلانے لگے۔ 

انھوں نے مسکراتے ہوئے اس کے بال سمیٹے۔

"میں اپنی بیٹی کا ایک بال تک نہ دوں بیٹی تو دور کی بات ہے۔ اگر جرگے کا فیصلہ ہمارے خلاف بھی ہوا تو میں تمھیں یہاں سے بحفاظت بھجوا دوں گا۔ شہر میں یہ لوگ ایسی کوئی حرکت کرتے ہوئے بھی دس بار سوچیں گے۔ وہاں اتنا آسان نہیں ہے یہ سب کرنا۔"

انھوں نے اسے تسلی دی۔

"تو پھر بابا میں، آپ اور اماں۔۔۔ہم شہر چلے جاتے ہیں۔"

اس کی بات پہ وہ مسکرا دئیے۔

"نہیں بیٹا۔۔۔اپنا گھر بھلا کون چھوڑ سکتا ہے۔ اس مٹی سے مجھے میرے اپنوں کی خوشبو آتی ہے۔ میں یہاں سے نہیں جا سکتا۔"

وہ اسے اپنے ساتھ لئے کمرے سے باہر آ گئے۔ ذہرہ بی بی کچے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کر رہی تھیں۔ صحن میں تین چارپائیاں بچھی تھیں۔ رات کو وہ باہر ہی سویا کرتے تھے۔ وہ اسے ساتھ لئے چارپائی پہ بیٹھ گئے اور نظریں آسمان پہ لگا دیں۔ 

"مسکاء ! تمھیں پتہ ہے مجھے آسمان کیوں اتنا پسند ہے۔"

ان کی نظریں پرندوں کی قطار پہ تھی۔ ذہرہ بی بی اب پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔ میکی(miki) ان کے پیچھے پیچھے پھر رہی تھی۔ وہ اسے جھڑک بھی رہی تھیں کیونکہ وہ ادھر ادھر گھومتی پھر واپس آ کر ان کے پیروں میں لوٹنے لگتی۔ وہ مسکرا کر میکی کو دیکھتی ان کی طرف متوجہ ہوئی۔

" نہیں بابا۔۔۔۔کیوں اتنا پسند ہے؟"

اس کی نظریں بھی دور ہوتے پرندوں پہ تھیں۔

"اس لئے کہ اس میں بہت وسعت ہے۔ میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں اس کی وسعتیں مجھے خود میں سماتی محسوس ہوتی ہیں۔ اسکی نیلاہٹ مجھے طاقت دیتی ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے یہ اسی طرح ہمارے سروں پر تنا ہوا ہے۔ جب تک مشیئت ایزدی ہے یہ یونہی تا قیامت تنا رہے گا۔ میں بھی اللہ کے حکم اور اسکی دی ہوئی طاقت کے بل بوتے پر اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔"

انھوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔

میکی اب ان کی چارپائی کے نیچے پڑے ان کے جوتوں کو اپنی منہ سے دکھیل کر دیوار کے قریب لے جا رہی تھی۔ اب ان دونوں کی نظریں میکی پر تھیں۔ میکی نے جوتے اکٹھے کیے اور ان پہ بیٹھ گئی۔ دونوں باپ بیٹی مسکرا دئیے۔

"لو یہ دیکھو زرا۔۔۔پتہ نہیں کہاں سے یہ ڈرامے سیکھے ہیں اس نے۔۔۔اچھا جوتوں پہ بیٹھنے کی کیا تک ہے۔" وہ اب میکی کی طرف آئیں تھیں۔

"مسکاء ۔۔۔بند کرو اسے اسکے ڈربے میں۔"

انھوں نے میکی کو ہٹایا۔

"اماں رہنے دیں نا۔ وہ بیچاری کیا کہہ رہی ہے۔" اس نے میکی کو گود میں اٹھا لیا تھا اور اسے لے کر ڈربے کی طرف بڑھی۔ اس نے ڈربے کا دروازہ کھول کر میکی کو اندر ڈالا لیکن وہ واپس باہر آنے کے لئے مچلنے لگی تھی۔ اس نے اسے دوبارہ اندر دھکیل کر جلدی سے دروازہ بند کر دیا۔ مسجد سے مغرب کی اذان بلند ہو رہی تھی۔ رحم دین اٹھ کر وضو بنانے چل دئیے جبکہ اس نے ایک بار پھر آسمان کی جانب نظر کی۔ نیلے رنگ میں گھلی گلابی رنگ کی آمیزش آنکھوں کو بہت بھلی اور دل کو ٹھنڈک دے رہی تھی۔ 

"سچ بابا۔۔۔ اس میں کتنی وسعت و گہرائی ہے اور دل میں کھب جانے والی ٹھنڈک ہے۔"

دل ہی دل میں کلمے اور درود کا ورد کرتی وہ نماز کے لئے اٹھ گئی۔ ذہرہ بی بی صحن میں رکھے تخت پہ کھڑی نیت باندھ چکی تھیں۔ وہ گہری سانس خارج کر کے وضو بنانے چل دی۔

پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کا رخ کر رہے تھے۔ شام کی سرخی آہستہ آہستہ سیاہی میں بدل رہی تھی۔ اس نے دور افق پہ چمکتے اکلوتے ستارے پہ نظر ڈال کر نیت باندھ لی۔۔_____________________________

جب سے وہ وہاں سے واپس آئے تھے وہ اپنے کمرے میں بند تھا۔ وہ مسلسل اسے آواز دے رہے تھے مگر نہ تو وہ دروازہ کھول رہا تھا اور نہ ہی کوئی آواز دے رہا تھا۔ جب سے وہ اندر بند تھا وہ باہر اسکے کمرے کے دروازے سے لگے کھڑے تھے۔ 

"میر۔۔۔۔بیٹا دروازہ کھولو۔ تمھارے بابا بہت بہادر انسان تھے۔ وہ بہت ملیح طبیعت اور بہت نرم دل تھے۔ تم ان کا خون ہو۔۔۔انہی کی طرح بہادر ہو۔ جو کام وہ پورا نہ کر سکے تم کر کے دکھاو گے۔ ان کے خواب کو تعبیر تم دو گے۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو آج اس گاوں میں جو رہا ہے کبھی نہ ہوتا۔ خدا گواہ ہے میں نے تمھاری تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ میں بھی تمھیں اسی مقام پہ دیکھنا چاہتا ہوں جس پہ وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ دروازہ کھول دو میر۔۔۔۔۔تمھارے اندر اسی میر خاندان کا خون دوڑ رہا ہے۔ جس کی گرمائش آج بھی ہمارے دلوں کو گرماتی ہے۔ تم ہی اس گاوں کے سایہ دار شجر ہو جس کی چھاؤں میں سستانے کی خواہش ہم گاوں والے اپنے دلوں میں دبائے بیٹھے ہیں۔۔ میں نے تمھیں یہ سب اس لئے نہیں بتایا کہ تم منہ چھپا کر بیٹھ جاو بلکہ اس لئے بتایا ہے تاکہ تم اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاو۔ ان کا پوشیدہ جرم سب کے سامنے لاو۔ جنھوں نے تمھارے سر سے ماں باپ کا سایہ چھینتے وقت ایک پل کو نہیں سوچا۔"

وہ دروازے سے لگے اسے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے آخری الفاظ اس کے سینے پہ کسی برچھی کیطرح لگے۔ تکیے منہ سے ہٹا کر وہ دروازے کی طرف بڑھا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز پہ وہ آگے بڑھے تھے۔ سامنے ہی وہ سرخ آنکھوں میں وحشت لئے انھیں دیکھ کر واپس کمرے میں پلٹ گیا۔

"میر۔۔۔۔تمھارے تایا میر سربلند خان نے ہی سازش کر کے تمھارے بابا کو اپنے راستے سے ہٹایا تھا۔ آج وہی سب ایک بار پھر سے دہرایا جا رہا ہے۔ لیکن ایک بار پھر سے وہ سب نہیں ہوگا۔ ہم وہ سب پھر سے نہیں دہرائیں گے۔ ہم لڑیں گے ان ظالموں سے اپنی آخری سانس تک۔۔۔میر۔۔۔۔! تمھاری ماں بہت نیک عورت تھیں۔ وہ بھی اس قیبح رسم کی بھینٹ چڑھنے والی تھیں لیکن میر دراب خان نے آگے بڑھ کر انھیں سہارا دیا۔ اپنی عزت بنایا لیکن یہ لوگ آستین میں چھپے سانپ سے بھی بڑھ کر ہیں۔ دوست نما دشمن ہیں۔ وہ دونوں معصوم تھے۔۔سادہ لوح تھے۔۔انھیں گلے لگا کر ان کے پیٹھ میں خنجر گھونپنے والا اور کوئی نہیں تمھارا اپنا تایا میر سربلند خان ہے۔" آنسو تواتر کے ساتھ ان کی آنکھوں سے جاری تھے۔

"لیکن کیوں۔۔۔؟ ایک بھائی اپنے بھائی سے اس حد تک کیسے نفرت کر سکتا ہے کہ اسکے لئے اپنے گھر میں ہی ایسی گمنام گور بنا دی ہے۔" 

وہ ان کی بات کاٹ کر بولا۔ اسے لگا اسکے دل سے خون رسنے لگا ہے۔

"سگا بھائی شاید نہ کرے ایسا مگر سوتیلے سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ جائیداد کے لالچ میں وہ اس قدر اندھے ہو گئے تھے کہ انھیں تمھاری معصوم جان پر بھی رحم نہ آیا کہ کہیں کل کو تم اس میں حصے دار نہ بن جاو۔ میں نے اس وعدے پہ انھیں روک دیا کہ میں تمھیں اپنی اولاد بنا کر پالوں گا۔ تمھیں کیا کسی کو بھی پتہ نہیں لگنے دوں گا کہ تم میر دراب خان کے بیٹے ہو مگر شومئی قسمت کہ تمھیں معلوم ہو گیا لیکن گاوں میں سوائے میرے اور میر سربلند خان کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا کہ تم میر دراب خان کے بیٹے ہو۔ جب میر دراب خان کا بیٹا اپنے کندھے پہ ستارے سجائے اس گاوں کے تھانے میں قدم رکھے گا تو پھر میں دیکھوں گا کہ یہ وقت کے خدا کیسے یہ ظلم جاری رکھتے ہیں۔"

وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔ جن میں کرب کی سرخی آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔

"ابھی تو فلحال ہم نے مسکاء کو اس ظلم سے بچانا ہے۔ کیا تم اس میں ہماری مدد کرو گے؟"

انھوں نے پرامید نظروں سے اسے دیکھا تھا۔

"میں تیار ہوں بابا۔"

اس کے جواب پہ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔

"میں جا کر یہ خوشخبری رحم دین کو سناتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہو گا۔"

انھوں نے اسے گلے سے لگایا اور اسکی پیٹھ تھپتھپا کر کمرے سے چلے گئے۔ مغرب کا وقت تھا وہ گہری سانس خارج کرتا وضو بنانے چل دیا۔ جہاں تھوڑی دیر پہلے خوشیوں کا ڈیرا تھا اب وہاں سناٹے گونج رہے تھے۔اپنوں کو کھو دینے کا سناٹا۔۔

میر ضیغم خان کے دل میں اب ایک ہی غم تھا۔۔

دائمی جدائی کا غم۔۔

اپنے ماں باپ کی دائمی جدائی کا غم۔۔

میر دراب خان 

اور

خزیمن دراب خان کی جدائی کا غم۔۔_________________________________

رحم دین نماز پڑھ کر ابھی گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنے ہی والے تھے کہ زمان خان نے آگے بڑھ کر انھیں روکا۔ رحم دین انھیں دیکھ کر حیران ہوئے وہ کچھ بولنے ہی والے تھے کہ زمان خان نے اپنے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اندر داخل ہو کر چٹخنی چڑھائی۔

"زمان خان کیا بات ہے؟"

انھوں نے پوچھا۔ ذہرہ بی بی بھی کچن سے نکل کر ان کے قریب آئیں تھیں۔ زمان خان کو اسطرح اندر آتے دیکھ کر وہ گھبرا گئی تھیں۔

"اندر آو۔۔۔بتاتا ہوں۔"

وہ انھیں ساتھ لئے اندر کی طرف بڑھے۔ مسکاء نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے مسکرا کر اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ وہ رحم دین کو لئے کمرے میں آئے۔ رحم دین نے ان کے لئے کرسی آگے کی اور خود چارپائی پہ بیٹھ گئے۔ ذہرہ بی بی چارپائی کی پائنتی پہ ٹک گئیں۔جبکہ مسکاء دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی تھی۔ وہ تینوں منتظر نظروں سے زمان خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔

"مسکاء بیٹا ذرا پانی تو پلاو۔" 

انھوں نے مسکاء کا وہاں کھڑا ہونا مناسب نہ جان کر اسے پانی لانے بھیجا۔ وہ چلی گئی تو وہ رحم دین کی طرف متوجہ ہوئے۔

"رحم دین میں اپنے بیٹے میر ضیغم خان کے لئے تمھاری بیٹی مسکاء کا ہاتھ مانگتا ہوں۔ کیا تم میرے بیٹے کو اپنی فرزندگی میں قبول کرو گے۔۔ابھی پڑھ رہا ہے اور انشاءاللہ بہت جلد برسر روزگار بھی ہو جائے گا۔"

انھوں نے مسکراتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔ ان کی بات سے رحم دین پر شادئ مرگ کی کیفیت چھا گئی۔ انھیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دیں۔ قوت گویائی جیسے کسی نے سلب کر لی تھی۔ مسکاء جو پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑے اندر آنے والی تھی ان کی بات سن کر وہیں سے پلٹ گئی۔

"بولو نا۔۔۔رشتہ منظور ہے تمھیں۔"

انھوں نے ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھا تو وہ رونے لگے۔

"اس میں رونے والی کون سی بات ہے؟"

وہ ان کے رونے پہ حیران ہوئے تھے۔

"زمان خان تم نے تو ایک جھٹکے میں مجھے ہر فکر سے آزاد کر دیا ہے۔ ہر بار میرا غم بانٹ لیتے ہو۔ تمھارے جیسا دوست تو اللہ کی طرف سے میرے لئے تحفہ ہے۔ میں کس طرح تمھارا یہ احسان اتاروں گا۔۔میرے پاس تو شکریہ کے الفاظ تک نہیں ہیں۔"

وہ ان کے ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولے۔ ذہرہ بی بی بھی انھیں تشکر بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔

"مسکاء میری بھی بیٹی ہے اور پھر شروع ہی سے میرے اندر یہ خواہش پل رہی تھی کہ مسکاء میرے میر کی دلہن بن جائے۔ میں تو اس کی تعلیم مکمل ہو جانے کی غرض سے رکا ہوا تھا مگر اب حالات ہمیں انتظار کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لئے میر کے لئے میں مسکاء کا رشتہ لایا ہوں۔ تم اب اپنا فیصلہ بتاو۔"

انھوں نے اپنے دل کی خواہش سے انھیں آگاہ کیا۔

"لیکن تم نے کہیں میر پہ ذبردستی تو نہیں کی؟"

رحم دین نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔ اگر مسکاء ان کی لاڈلی بیٹی تھی تو میر بھی انھیں بہت عزیز تھا اس لئے وہ میر کے ساتھ ذبردستی کے خواہاں نہیں تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی اس کے لئے بوجھ بنے۔

"وہ راضی ہے۔ تم اس بات کو لے کر پریشان مت ہو اور خوشی خوشی بسم اللہ کرو۔ وہ ساتھ لے کر جائے گا مسکاء کو۔۔یہاں مناسب نہیں ہے رہنا۔ بعد میں جرگے سے ہم نمٹ لیں گے۔"

زمان خان نے انھیں مطمئن کیا۔

"اگر تم ہاں کرو تو آج ہی نکاح پڑھوا کر دونوں کو گلزم خان کے ساتھ شہر بھیج دیں گے۔ باقی اللہ مالک ہے۔"

زمان خان انھیں خاموش دیکھ کر بولا تھا۔ رحم دین نے ذہرہ بی بی کی طرف دیکھا تو ذہرہ بی بی نے سر اثبات میں ہلا کر اپنی رضامندی دی۔

"ہاں تو کر دوں لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں ہم اپنے بچوں کو کھو نہ دیں۔ جرگے کے خلاف جا کر تو ہم ان کی جانوں کو خطرے میں ڈال ہی رہے ہیں۔"

وہ پیشانی مسلتے ہوئے بولے۔ دل میں انھیں کھو دینے کا ڈر بیٹھ گیا تھا۔ آج تک کوئی بھی ان ظالموں کا مقابلہ نہ کر سکا تھا۔ اپنا خون بہا کر بھی ان سے چھٹکارا نہیں پا سکا تھا۔

"رحم دین اللہ ہماری مدد کرے گا وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔"

انھوں نے رحم دین کا ہاتھ تھاما۔

"تو پھر بھلا مجھے کیا اعتراض۔۔۔میرے لئے تو یہ بہت خوشی کی بات ہے۔"

ان کی آنکھوں سے تشکر کے آنسو جاری تھے۔ زمان خان کا چہرہ ان کی ہاں سنتے ہی خوشی سے کھل اٹھا۔

"میں تیاری کرتا ہوں۔۔نکاح آج ہی ہو گا۔۔انشاءاللہ! اب تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب مسکاء میری بیٹی ہے۔"

وہ رحم دین سے بغلگیر ہوئے اور باہر نکل گئے۔ دروازے کے پاس ہی مسکاء پانی کا گلاس لئے کھڑی تھی۔ وہ خود کےرنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر گھبرا گئی۔ انھوں نے اس کے جھکے سر پہ ہاتھ رکھا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ ابھی انھیں بہت سے کام نپٹانے تھے۔

"دیکھا ذہرہ۔۔۔اللہ نے ہمارے تاریک راستے کیسے روشن کر دیئے ہیں۔"

وہ شہادت کی انگلی اوپر اٹھاتے ہوئے بولے۔ لہجے میں خوشی اور آنکھوں میں آنسو لئے وہ انھیں دیکھ رہے تھے۔

"بےشک۔۔۔وہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔"

ذہرہ بی بی کی آنکھیں بھی پانیوں سے بھر گئیں تھیں۔۔۔______________________________________

سنو۔۔!!

مجھے وہ خواب مت دینا

حقیقت جس کی وحشت ہو

مجھے وہ درد مت دینا

کہ جس میں بس اذیت ہو

مجھے وہ نام مت دینا

جسے لینا قیامت ہو

مجھے وہ نیند مت دینا

جسے اڑنے کی عادت ہو

میرے بارے میں جب سوچو

توجہ خاص رکھنا تم

مجھے تم سے محبت ہے

بس اسکا پاس رکھنا تم۔۔۔۔!!

اسے اندازہ نہیں کہ زندگی دراب خان کی سنگت میں اتنی حسین ہو جائے گی۔ دراب خان اسکا بےحد خیال رکھتے تھے۔ یہ چھوٹا سا گھر ان کی جنت تھا جو انھیں اپنی جان سے زیادہ تھی۔ وہ سارا دن اسے سجاتی سنوارتی۔ دراب خان کو ایک بہت اچھی جگہ جاب بھی مل گئی تھی۔ حالانکہ میر سربلند خان نے انھیں یہ جاب کرنے سے روکا تھا وہ چاہتے تھے کہ وہ گاوں آ کر اپنی زمینیں سنبھالے مگر وہ ابھی کچھ وقت اور شہر میں رہنا چاہتے تھے کیونکہ خزیمن ابھی واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ 

دونوں اپنی زندگی میں مگن تھے۔ وہ بہت خوش تھی اور واپس گاوں جانا نہیں چاہتی تھی۔ بابا سے بھی بات ہوئی تھی اسکی تو انھوں نے اسے بتایا تھا کہ گاوں میں سب ٹھیک ہے لیکن وہ چاہتے تھے کہ خزیمن اور دراب خان ابھی گاوں نہ آئیں کیونکہ یہ خاموشی ان کے دل میں کئی طرح کے وسوسے اور ڈر ڈال رہی تھی۔ سب کچھ اسطرح آرام ہو جانا ان کے لئے پریشانی کا باعث تھا۔ سب بڑھ کر حیرانی کی بات یہ تھی کہ جو لوگ اس شادی کے سراسر خلاف تھے ایک دم سے راضی کیسے ہو گئے ہیں۔ دراب خان تو بڑے بھائی کی محبت اور توجہ پا کر بہت خوش تھے۔ لیکن نور خان کو اس خون کی خوشبو میں فرق لگ رہا تھا جو سگے رشتوں سے آتی ہے۔ اس لئے بیٹی کو ایک نظر دیکھ لینے کی خواہش دل میں دبائے بیٹھے تھے۔ ان کی باتوں سے اس کے دل میں بھی ڈر بیٹھ گیا تھا۔ اس لئے دراب کے کہیں بار کہنے کے باوجود وہ گاوں جانے کے لئے خود کو تیار نہ کر سکی۔ دراب نے اسے بتایا تھا کہ خان لالا بہت بار گاوں آنے کا کہہ چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی حویلی میں ان کے ساتھ رہیں۔ میر دراب خان کی بھابی ایک بار بچوں کے ساتھ ان سے ملنے آ چکی تھی۔ ان سے مل کر تو وہ بہت خوش ہوئی تھی مگر اپنی چھٹی حس کا کیا کرتی جو اسے بار بار خبردار کر رہی تھی اور کسی انہونی کا احساس دلا رہی تھی۔ 

لیکن دراب خان کی بےپناہ چاہت اسے خوشیوں کی دستک پہ متوجہ کرتی۔ محبت ان کے بیچ پنپ کر تناور درخت بن چکی تھی اور اب وہ اس تناور درخت پہ کھلنے والے پھول کا انتظار کر رہے تھے جسکی کونپل پھوٹ چکی تھی۔

آج بھی وہ حسب معمول دراب خان کے آفس جانے کے بعد اپنے کاموں میں مشغول تھی کہ دروازے پہ ہونے والی دستک نے اسے متوجہ کیا۔ اس وقت کوئی نہیں آتا تھا اور دراب خان بھی شام تک آیا کرتے تھے۔ اس نے چکن کو اسی طرح باسکٹ میں رہنے دیا اور ہاتھ دھو کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھی۔

"آپ۔۔۔۔۔"

میر سربلند خان کو اپنے دو باڈی گارڈز کے ساتھ کھڑے دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔

"ہاں بھئی میں۔۔۔کیا میں نہیں آ سکتا تھا یہاں۔"

انھوں نے اپنی چندی چندی آنکھیں خزیمن پہ گاڑتے ہوئے کہا۔

"کیوں نہیں خان لالا۔۔۔آپ کا اپنا گھر ہے۔ آئیے اندر آئیے۔"

وہ انھیں لئے ڈرائنگ روم میں آئی۔ انھوں نے اپنے دونوں باڈی گارڈز کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور خود اس کی تقلید میں اندر داخل ہوئے۔ وہ اردگرد طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے صوفے پہ براجمان ہوئے۔

"آپ کیا لیں گے چائے یا ٹھنڈا؟؟"

خزیمن نے دوپٹے کو سر پہ جماتے ہوئے پوچھا۔

"دراب نہیں ہے گھر پہ کیا؟؟"

"نہیں وہ آفس گئے ہیں۔" وہ نظریں نیچے کیے بولی۔

"آفس۔۔۔اسے کیا ضرورت ہے معمولی نوکریوں کی۔ اسے سمجھاو کہ آ کر اپنی زمینیں سنبھالے۔ میں نے تو کتنی بار کہا ہے مگر ضدی ہے وہی کرتا ہے جو جی میں آتا ہے۔تمھاری وجہ سے وہ یہاں اتنے سے گھر میں رہ رہا ہے اور لوگوں کی چاکریاں کر رہا ہے ۔ اسے سمجھاو کہ گاوں آئے۔ وہاں آ کر رہے ہمارے ساتھ۔۔یہ بھی کوئی جگہ ہے رہنے کی۔"

انھوں نے نخوت سے کہا۔

"جی۔۔۔آپ کے لئے کچھ لاوں؟" اس نے ہچکچاتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔

"ہاں۔۔۔۔ایک گلاس پانی لے آو۔"

وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے ہوئے بولے تھے۔ وہ کچن سے پانی لے آئی۔ پانی پیتے ہوئے ان کی نظر اس کی بے ڈول سراپے پہ پڑی تو ان کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔ انھوں نے گلاس ٹیبل پہ رکھا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ایک مصیبت سے جان چھوٹی نہیں یہ دوسری بھی میرے سر پہ لا رہے ہیں۔"

منہ ہی منہ بدبداتے ہوئے وہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ ان کی پیشانی کے بلوں میں اضافہ ہوا تھا۔

"آپ رکیں نا۔۔۔دراب آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہونگے۔"

وہ انھیں جاتے دیکھ ان کے پیچھے آئی تھی۔

"نہیں۔۔۔چلتا ہوں اور دراب سے کہنا کہ کبھی گاوں آ کر ہمیں بھی خوش کر جائے۔"

وہ بنا مڑے باہر نکل گئے۔ جبکہ وہ ان کی بات پہ غور کرتی کچن میں آ گئی۔ ابھی کھانا بھی بنانا تھا اس لئے وہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔۔۔____________________________

زمان خان نے جلدی جلدی تمام انتظامات کیے اور گلزم خان کے ذریعے رحم دین کو جواب بھجوایا کہ وہ مسکاء اور ذہرہ بی بی کو لے کر ان کی طرف آئے۔ نکاح کی رسم وہیں ان کے گھر میں ہوگی اور مسکاء کا سامان بھی ساتھ لائیں تاکہ وہ اور میر فورا یہاں سے نکل سکیں۔

رات کے دس بجے کے بعد رحم دین خاموشی سے ذہرہ بی بی اور مسکاء کو لئے زمان خان کے گھر آیا۔ زمان خان باہر صحن میں کھڑے انہی کا انتظار کر رہے تھے جب وہ وہاں پہنچے۔

ماہ گل جو حویلی کی پرانی ملازمہ تھیں اور ذہرہ بی بی مسکاء کو دوسرے کمرے میں لے گئیں۔ جبکہ رحم دین زمان خان کے ساتھ دوسرے کمرے میں آ گئے جہاں میر ، مولوی صاحب، گلزم خان اور گاوں کے ایک دو بزرگ اور بھی موجود تھے۔ رحم دین نے اپنی تسلی کے لئے میر سے خود پوچھا کہ کیا وہ اس نکاح کے لئے تیار ہے۔ اس کے ہاں کرنے پر انھوں نے اسے گلے سے لگایا۔ اس کے چہرے کی خاموشی انھیں شک میں ڈال رہی تھی۔ انھوں نے زمان خان کے سامنے اپنا خدشہ ظاہر کیا مگر انھوں نے حقیقت ان پہ واضح کی کہ وہ میر کو سب بتا چکے ہیں۔

وہ بالکل خاموش تھا۔ نگاہیں ایک ہی نقطے پہ مرکوز تھیں۔ 

"میر بیٹا یہاں دستخط کر دو۔"

مولوی صاحب کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں لائی۔ اس نے زمان خان کی طرف دیکھا۔ انھوں نے سر ہلایا۔ اس نے مولوی صاحب کے ہاتھ سے قلم لیا۔

"یہاں۔۔۔" مولوی صاحب نے انگلی رکھ اسے بتایا۔ اس نے دستخط کر دئیے۔ 

مسکاء کو ذہرہ بی بی اور ماہ گل نے نکاح کی مناسبت سے تیار کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد مولوی صاحب زمان خان اور رحم دین کے ساتھ کمرے میں آئے۔ مسکاء کے اعجاب و قبول کے بعد مسکاء نے نکاح نامے پہ دستخط کر دئیے۔

انھوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اور باہر نکل گئے۔ ذہرہ بی بی نے اسے سینے سے لگایا تو وہ ان کے سینے سے لگی رو دی۔۔ماہ گل نے دونوں ماں بیٹی کو الگ کیا۔

"بیٹا۔۔۔مت رو۔۔اللہ تم دونوں کو خوش رکھے اور زمانے کے سرد و گرم سے بچائے۔"

انھوں نے اسکا ماتھا چوم کر اسے دعا دی۔ کچھ دیر بعد رحم دین اور زمان خان اسے لینے آئے۔

رحم دین نے اپنی متاع حیات کو سمیٹ لیا۔ ذہرہ بی بی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ زمان خان نے مسکاء کو الگ کیا۔

"بس بس میری بیٹی کو اور مت رلاو۔"

انھوں نے مسکاء کے آنسو پونچھتے ہوئے اسے گلے لگایا۔ ان کے انداز پہ ماہ گل سمیت سبھی مسکرا دئیے۔ وہ سب اسے لئے باہر تک آئے تھے۔ کمرے سے نکلنے سے پہلے اسکا دوپٹہ ماتھے تک لے آئیں تھیں۔

میر۔۔گلزم خان کے ساتھ باہر ہی کھڑا تھا۔ 

"میر۔۔۔۔میں نے اپنی بیٹی تمھارے حوالے کی۔ تم اسکا خیال رکھنا اور اپنا بھی۔ تم دونوں کے ساتھ ہماری سانسیں بندھی ہیں۔"

رحم دین میر کے قریب آئے۔

"چاچا۔۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا اور آپ مسکاء کی فکر مت کیجئے وہ اب سیف ہے۔"

اس نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ایک نظر مسکاء پہ ڈالی۔ جو سرخ اور کالے رنگ کے لباس میں ملبوس تھی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ نہیں پایا تھا۔

"چلو بیٹا۔۔دیر ہو رہی ہے۔"

گلزم خان نے اسے متوجہ کیا تو رحم دین مسکاء کو لئے بیرونی دروازے سے باہر نکل گئے۔ وہ سر ہلا کر باری باری سب سے ملا جب ذہرہ بی بی کے پاس آیا تو انھوں نے بہت پیار سے اسکا چہرہ تھام کر اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔

"ذہرہ خالہ۔۔آپ پریشان نہ ہوں میں بہت جلد واپس آوں گا۔"

وہ اس کے کشادہ سینے سے لگی پھپک پھپک کر رو دیں۔ اس نے انھیں بازوں کے حصار میں لے لیا۔ پھر انھیں خود سے الگ کر کہ ان کے آنسو پونچھے اور انھیں تسلی دے کر باہر نکل آیا۔ مسکاء گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔۔

"بابا۔۔"

آخر میں وہ زمان خان کے پاس آیا تو انھوں نے اسے سینے سے لگایا۔

"خیال رکھنا اپنا۔۔۔اور مسکاء بہت اچھی لڑکی۔ مجھے یقین ہے تم اسکے ساتھ بہت خوش رہو گے۔ یہ تمھاری امانت ہے۔آج تم اسے سنبھالنے کے قابل ہو گئے ہو۔۔اس لئے تمھارے حوالے کر رہا ہوں۔"

انھوں نے ایک کالے رنگ کی فائل اسکے حوالے کی۔ وہ اسکی حیرانی سمجھ رہے تھے۔

"بابا۔۔۔۔وہ ماں کی کوئی تصویر۔۔۔" 

وہ ان سے فائل لیتے ہوئے بولا۔

"اس فائل میں ہے۔۔۔ اور ایک جیتی جاگتی خزیمن تمھارے ساتھ بھیج تو رہا ہوں۔"

ان کی بات پہ وہ حیران ہوا۔ 

"مسکاء تمھاری خالہ کی بیٹی ہے۔ ذہرہ بھابی تمھاری خالہ ہیں۔ خزیمن بھابی کی چھوٹی بہن۔۔اور مسکاء بالکل اپنی خالہ کی طرح ہے۔۔تمھاری ماں کی طرح۔۔"

ان کی بات پہ وہ فورا گھر کے اندر آیا۔ ماہ گل اور ذہرہ بی بی صحن میں رکھی چارپائی پہ بیٹھی تھیں۔ 

"خالہ۔۔۔۔" اس نے انھیں پکارا۔ ذہرہ بی بی نے دیکھا تو ان کا دل دھڑک اٹھا۔ اس کی آنکھوں میں محبت و عقیدت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا۔ وہ تیز قدموں سے ان کی طرف آیا تھا۔

وہ اسکا ماتھا چوم رہی تھیں۔

انھوں نے اس کی آنکھوں کا راز پا لیا تھا۔۔_____________________________

رات کی خاموشی میں گاڑی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ لوگ شہر کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ خاموشی اس قدر گہری تھی کہ اسے وحشت ہونے لگی تھی۔ گلزم خان گاڑی چلاتے ہوئے وقفے وقفے سے اباسیاں بھی لے رہے تھے۔ مسکاء بھی اس خاموشی سے تھک کر سو چکی تھی۔ حالانکہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس نے خود سے نا سونے کا عہد کیا تھا کیونکہ پچھلی بار کی باتیں ابھی تک اس کے ذہہن سے محو نہیں ہوئی تھیں مگر ایک تو ذہنی تھکاوٹ اور اوپر سے رات کی خاموشی۔۔وہ زیادہ دیر نیند سے آنکھیں نہیں چرا سکی تھی۔

میر گود میں فائل دھرے بیٹھا تھا آنکھیں ایک ہی نقطے پہ مرکوز تھیں۔ بہت خواہش ہونے کے باوجود وہ فائل کھول کر نہ دیکھ سکا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس فائل میں کیا ہے۔ آتے وقت وہ ان سے پوچھ بھی نہیں پایا تھا۔

ذہہن و دل تو وہیں حجرے کی پچھلی طرف ہی چھوڑ آیا تھا۔ آنکھوں کے آگے کتبوں پہ لکھے نام گھوم رہے تھے۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے اس نے دل میں کئی بار خود سے عہد کیا تھا کہ اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ دنیا کے سامنے میرسربلند خان کا مکروہ چہرہ لائے گا۔

"خاموش کیوں ہو میر؟"

ان کے پوچھنے وہ خیالات کی دنیا سے باہر آیا۔ تھوڑی دیر کے لئے تو وہ بھول ہی گیا تھا کہ وہ کہاں ہے۔

"کچھ نہیں چاچا۔۔۔میں نے کیا سوچنا ہے۔" اس نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے ان کی طرف رخ کیا۔

"چاچا۔۔۔کیا آپ نے میرے بابا کو دیکھا تھا؟"

اس کے سوال پہ وہ چونک گئے۔

"کیا زمان خان تمھیں سب بتا چکا ہے؟" انھوں نے اپنی تسلی کے لئے پوچھا۔

"جی۔۔۔"

مختصر جواب دے کر وہ پھر سے سیدھا ہو بیٹھا۔ روشنیوں سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ شہر کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔

"دیکھا ہی نہیں ملا بھی ہوں۔ تمھاری اٹھان بالکل اپنے باپ جیسی ہے۔ ہم میں سے کوئی اس بات سے واقف نہیں تھا کہ تم میر دراب خان کے بیٹے ہو۔ ہم تو تمھارے بچپن سے اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ تم زمان خان کے لے پالک بیٹے ہو۔ یہ تو آج تمھارے نکاح سے پہلے اس نے ہم پہ یہ راز کھولا اور یہ جان کر ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ تم اس گاوں کے محسن کے بیٹے ہو۔ تمھارے بابا اور دادا بہت عظیم لوگ تھے۔ دوسروں کی چھوٹی سی چھوٹی تکلیف پہ پہاڑ کی طرح کھڑے ہو جانے والے۔۔دوسروں کے لئے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنے والے۔ تمھارے بابا تو ہر مشکل کے آگے تن کر کھڑے ہو جانے والوں میں سے تھے۔"

وہ میر دراب خان کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گئے تھے۔

"تو پھر اتنے اچھے شخص کے ساتھ اتنا برا کیسے ہونے دیا آپ لوگوں نے؟"

اس نے تاحد نظر پھیلے ہوئے سیاہ چمکتے ستاروں کو دیکھا۔ اس کی بات پہ انھوں نے ایک گہرا سانس خارج کیا۔ خاموشی ایک بار پھر ان کے اطراف گھومنے لگی تھی۔ وہ منتظر نظروں سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ اس خاموشی میں مسکاء کی سانس کی آواز اس کے کانوں تک پہنچی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ ایک پل کو پیچھے مڑ کر دیکھے مگر دل پہ جبر کرنا آج ہی تو اس نے سیکھا تھا۔۔۔

"چاچا؟؟؟"

اس نے انھیں متوجہ کیا۔

"ہمیں تو اندازہ نہیں تھا کہ قادر خان اسطرح ان سے بدلہ لے گا۔ ہمیں تو لگا تھا کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ لیکن اگلی صبح ہمیں ان کے قتل کی خبر ملی۔ سارا گاوں اس واقعے پر آبدیدہ تھا۔ اس پہ ظلم یہ کہ کسی کو ان کا آخری دیدار بھی نہیں کرنے دیا گیا۔ یہاں تک کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ انھیں کہاں دفن کیا گیا۔ ہمیں صرف یہ پتہ تھا کہ میرسربلند خان انھیں شہر لے گئے تھے۔"

"اور قادر خان۔۔۔۔؟؟"

میر نے ان سے پوچھا۔

"قادر خان کو تو اس واقعے کے بعد سے کسی نے دیکھا ہی نہیں۔"

گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔ اس نے دھیان دیا تو وہ لوگ ہاسٹل کے گیٹ کے پاس تھے۔

"ابھی تو مجھے مسکاء کو یہاں چھوڑنے کا کہا ہے لیکن تم جلد ہی کوئی انتظام کر لو پھر مسکاء کو یہاں سے آ کر لے جانا۔ اس کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔۔۔۔مسکاء بیٹا۔۔۔اٹھ جاو۔"

انھوں نے مسکاء کو پکارا۔ وہ کسمسا کر اٹھ بیٹھی۔ مندی مندی آنکھوں سے اس نے اپنے اطراف دیکھا۔ گلزم چاچا دوسری طرف کا دروازہ کھولے اسکا سامان اتار رہے تھے۔ اسے جاگتے دیکھ کر انھوں نے شفقت بھری مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔ میر کو آگے بیٹھے دیکھ کر وہ فورا گاڑی سے اتری۔

"کافی رات ہو گئی ہے۔ میں مسکاء بیٹی کو اندر چھوڑ کر آتا ہوں اور وارڈن سے بات بھی کر لوں گا۔"

وہ گاڑی میں بیٹھے میر سے بولے۔ اس کے سر ہلانے پہ وہ مسکاء کو لے کر آگے بڑھے۔ وہ خاموشی سے ان کو جاتے دیکھتا رہا۔

تھوڑی دیر بعد گلزم چاچا واپس آتے دکھائی دئیے۔

"میں نے ان کو کہہ دیا ہے کہ مسکاء سے کوئی بھی ملنے آئے تو نہ ملنے دیا جائے اور نا ہی کسی کو بتایا جائے کہ وہ یہاں ہے۔"

انھوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اسے دیکھا تھا اور پھر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ کچھ دیر بعد وہ اسے بھی ہاسٹل چھوڑ گئے اور ایک ذہہنی تھکاوٹ بھرے دن کا اختتام ہوا۔

روم میں آ کر اس نے اپنا سفری بیگ وہیں دروازے کے قریب پھینک دیا۔ روم خالی تھا۔ ہاتھ میں پکڑی فائل اس نے اسٹڈی ٹیبل پہ رکھ دی اور خود واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔____________________________________________

"آج خان لالا آئے تھے۔"

دراب خان کا پانی کے جگ کی طرف بڑھتا ہاتھ وہیں رک گیا۔ انھوں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ جو اب ان کے لیے گلاس میں پانی انڈیل رہی تھی۔ 

"اتنے حیران کیوں ہو رہے ہیں آپ۔۔کیا وہ یہاں نہیں آ سکتے۔"

وہ گلاس انھیں پکڑاتے ہوئے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔ پیاس کا احساس ہوا تو انھوں نے گلاس منہ سے لگایا۔

"کس وقت۔۔۔اور تم نے مجھے بتایا تک نہیں۔ ایک فون کر دیتی میں فورا آ جاتا یا میرے آنے تک ہی روک لیتی۔"

وہ پانی کا گلاس ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولے۔

"میں نے بہت کہا کہ آپ کے آنے تک رک جائیں مگر شاید انھیں کوئی کام تھا اس لئے چلے گئے۔ وہ آپکی جاب کو لے کر خفا ہیں کیا؟"

اس نے ان کی پلیٹ میں چاول ڈالتے ہوئے پوچھا۔ کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو ان کے نتھنوں سے ٹکرائی تو وہ اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہوئے۔

"ہاں ناراض ہیں تھوڑے سے لیکن تم فکر مت کرو۔ وہ میرے بڑے بھائی ہیں کب تک ناراض رہ سکتے ہیں مجھ سے۔۔ ویسے کھانا تو لاجواب بنا ہے۔ آج کوئی اسپیشل ڈے ہے جو اتنی اچھی خوشبو آ رہی ہے۔ روز تو اتنی اچھی خوشبو نہیں آتی۔۔لگتا ہے کہیں باہر سے منگوایا ہے۔"

انھوں نے اس کے پریشان چہرے کو دیکھ کر کہا اور حسب معمول اس نے نتھنے پھلا کر ان کی طرف دیکھا۔ اسکا یہ بچوں جیسا انداز انھیں بہت بھاتا تھا۔ جان بوجھ کر کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیتے جس سے اسکے چہرے کے امپریشنز چینج ہو جاتے۔

ان کے چہرے کی مسکراہٹ اس کے دل میں گدگدی کرنے لگی مگر پھر بھی اس نے اپنی تیکھی سی ناک پھلا کر ان کے آگے سے پلیٹ اٹھا لی۔

"ارے ارے۔۔۔۔۔یہ کیوں؟"

انھوں نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے پلیٹ کو دوسری جانب سے پکڑا۔

"خودی پکائیں اور خودی کھائیں۔"

خزیمن نے پلیٹ کو اپنی جانب کھینچا۔ دراب خان ہنس دئیے۔ انھوں نے پلیٹ اس کے ہاتھ سے لے کر اپنے سامنے رکھی اور اسے کھینچ کر اپنی گود میں بٹھا لیا۔

"اب کہیں۔۔۔۔کیا کہہ رہی تھیں آپ؟"

انھوں نے اسکے گرد اپنے بازوں کا گھیراو تنگ کر کے اس کے اٹھنے کی ساری راہیں مسدود کر دیں۔ 

"دراب ۔۔۔۔کیا کر رہے ہیں۔ چھوڑیں مجھے۔" شرم سے اس کے چہرے پہ گلال بکھر گیا۔ وہ اس کے چہرے پہ بکھرتے رنگوں کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے جبکہ وہ لجا کر ان سے چہرہ چھپا رہی تھی۔

"میں آپ سے کیا کہہ رہی ہوں اور آپ کیا کر رہے ہیں۔" وہ ان کے بازوں کا حصار توڑنے کو کوشش کرتے ہوئے بولی۔

"کیا کر رہا ہوں؟"

انھوں نے اسکی کمر پہ اپنی پیشانی ٹکاتے ہوئے پوچھا۔

"چھوڑیں نا دراب پلیز۔۔۔"

وہ ان کی طرف رخ موڑ کر بولی۔ 

"ایک شرط پہ کہ آپ اپنے ہاتھ سے مجھے کھانا کھلائیں گی۔"

انھوں نے اس کی ہاتھ کی پشت پہ اپنے ہونٹ رکھے۔ 

"اور اگر نہ کھلاوں تو۔۔۔۔؟؟" وہ شرارتی ہوئی۔

"تو بیٹھی رہیے یونہی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔" خزیمن نے چمچ والا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا جس پہ وہ مسکرا دئیے۔ وہ ان کی گود سے اٹھی اور کرسی ان کی کرسی کے قریب گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔ 

"وہ کہہ کر گئے ہیں کہ گاوں آ کر ہمیں بھی آ کر خوش کر جاو۔"

خزیمن نے محبت سے ان کے کان کھینچے۔

"ہاں جائیں گے۔۔لیکن فلحال تمھارے لئے سفر مناسب نہیں۔ ہم خیر سے تین ہو جائیں تب جائیں گے۔"

انھوں نے اسے آنکھ ماری۔ جس پہ خزیمن نتھنے پھلا کر اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی۔

"ہاہاہا۔۔۔۔۔۔"دراب خان کے قہقہے بلند ہونے لگے۔ وہ اٹھ کر اسکے پیچھے گئے تھے۔ 

"ہم نہ ہوں گے تو بھلا کون منائے گا تمھیں

یہ بری بات ہے ہر بات پہ روٹھا نہ کرو"

دراب خان نے اسکی گردن کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے کہا جبکہ وہ رخ موڑے یونہی نروٹھے انداز میں برتن الٹ پلٹ کرتی رہی۔ انھوں نے اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر اسکی پیشانی چومی۔

"جائیے میں نہیں بولتی آپ سے۔"

وہ نروٹھے لہجے میں بول کر ان سے رخ موڑنے لگی لیکن انھوں نے اسے رخ موڑنے نہیں دیا اور اسکی کمر کے گرد بازو حمائل کر کے انھوں نے اسے خود سے قریب کیا۔ وہ اسکے چہرے پہ جھکے تھے۔ 

خزیمن کے چہرے پہ گلال بکھرا اور یہ گلال ان کی پیش قدمیوں کو بڑھا رہا تھا۔_________________________________

مسکاء کو رخصت کر کے وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔ اب انھیں کسی بھی پرواہ نہیں تھی۔ ذہرہ بی بی بھی بہت خوش تھیں۔ سب سے بڑھ کر خوشی انھیں اس بات کی تھی کہ میر ان کا بھانجا تھا۔ جب زمان خان نے اس بارے میں انھیں بتایا تھا تو انھیں یقین ہی نہیں آیا تھا۔

وہ ابھی دوپہر کا کھانا کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ دروازے پہ ہونے والی دستک نے انھیں متوجہ کیا۔ ذہرہ بی بی اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھنے لگیں تو انھوں نے روک دیا اور خود نل سے ہاتھ دھو کر دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ 

"کون ہے؟؟"

چٹخنی اتارنے سے پہلے انھوں نے پوچھا۔

"میں ہوں چاچا رحم دین۔۔ رشید۔"

رشید کی آواز پہ ان کا دل دھڑکا تھا۔ 

"کیوں رشید۔۔۔خیر ہے؟"

انھوں نے خود کو تسلی دیتے ہوئے اس سے پوچھا۔ دروازہ انھوں نے بند ہی رہنے دیا تھا۔

"ہاں چاچا۔۔۔۔خان جی نے جرگے میں بلایا ہے۔ سبھی موجود ہیں۔ تمھارا انتظار ہو رہا ہے۔ تم جلدی آو۔۔میں جا رہا ہوں۔"

انھوں نے بنا کوئی جواب دئیے دروازہ کھول کر دیکھا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا صرف رشید انھیں جاتا دکھائی دیا۔ دروازہ بند کر کے وہ واپس جھکے کندھوں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ ذہرہ بی بی نے ان کے چہرے پہ پریشانی دیکھی تو وہ سیدھی ان کے پیچھے کمرے میں آئی تھیں۔

"کیا ہوا مسکاء کے بابا۔۔کہاں جا رہے ہیں؟"

انھوں نے پوچھا۔

"جرگے سے پیغام آیا ہے۔ وہیں جا رہا ہوں۔ بڑے خان جی نے بلایا ہے۔"

ذہرہ بی بی دل تھام کے رہ گئیں۔ 

"اب کیا ہوگا۔۔جرگے میں نکاح کا مت بتائیے گا۔" وہ انھیں جاتے دیکھ کر بولیں۔

"نکاح کا بتانا ضروری ہے اگر نہیں بتایا تو مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہم پہلے کون سے سکھی ہیں۔"

وہ رومال کندھے پہ رکھتے ہوئے بولے۔

"لیکن بتا دیا تو وہ انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ باتور خان کا پتہ ہے نا آپ کو۔۔۔اوپر سے بڑے خان بھی اسی کا ساتھ دیں گے۔ نکاح کا بتا دیا تو میرے بچوں کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔"

وہ پریشان چہرہ لئے ان کے سامنے کھڑی تھیں۔

"کچھ نہیں ہوتا۔ میں صرف یہ بتاوں گا کہ میں نے اسکی شادی شہر میں کر دی ہے۔ میر کا نام ہم نہیں لیں گے۔تم پریشان مت ہو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا اور مسکاء تک پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ بس تم دعا کرو کہ اللہ سب بہتر کرے۔"

وہ انھیں تسلی دے کے آگے بڑھ گئے۔

"آمین۔۔!"

وہ ان کے پیچھے دروازہ بند کرنے آئیں تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اللہ کے حضور خشوع و خضوع سے دعا کرنے لگیں۔ انھوں نے اپنے بچوں اللہ کی امان میں دیا تھا۔ اب وہی ان کا حامی و ناصر تھا۔ انھیں امید تھی کہ اللہ سب بہتر کرے گا۔______________________________________________

مسکاء کو رخصت کر کے وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔ اب انھیں کسی بھی پرواہ نہیں تھی۔ ذہرہ بی بی بھی بہت خوش تھیں۔ سب سے بڑھ کر خوشی انھیں اس بات کی تھی کہ میر ان کا بھانجا تھا۔ جب زمان خان نے اس بارے میں انھیں بتایا تھا تو انھیں یقین ہی نہیں آیا تھا۔

وہ ابھی دوپہر کا کھانا کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ دروازے پہ ہونے والی دستک نے انھیں متوجہ کیا۔ ذہرہ بی بی اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھنے لگیں تو انھوں نے روک دیا اور خود نل سے ہاتھ دھو کر دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ 

"کون ہے؟؟"

چٹخنی اتارنے سے پہلے انھوں نے پوچھا۔

"میں ہوں چاچا رحم دین۔۔ رشید۔"

رشید کی آواز پہ ان کا دل دھڑکا تھا۔ 

"کیوں رشید۔۔۔خیر ہے؟"

انھوں نے خود کو تسلی دیتے ہوئے اس سے پوچھا۔ دروازہ انھوں نے بند ہی رہنے دیا تھا۔

"ہاں چاچا۔۔۔۔خان جی نے جرگے میں بلایا ہے۔ سبھی موجود ہیں۔ تمھارا انتظار ہو رہا ہے۔ تم جلدی آو۔۔میں جا رہا ہوں۔"

انھوں نے بنا کوئی جواب دئیے دروازہ کھول کر دیکھا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا صرف رشید انھیں جاتا دکھائی دیا۔ دروازہ بند کر کے وہ واپس جھکے کندھوں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ ذہرہ بی بی نے ان کے چہرے پہ پریشانی دیکھی تو وہ سیدھی ان کے پیچھے کمرے میں آئی تھیں۔

"کیا ہوا مسکاء کے بابا۔۔کہاں جا رہے ہیں؟"

انھوں نے پوچھا۔

"جرگے سے پیغام آیا ہے۔ وہیں جا رہا ہوں۔ بڑے خان جی نے بلایا ہے۔"

ذہرہ بی بی دل تھام کے رہ گئیں۔ 

"اب کیا ہوگا۔۔جرگے میں نکاح کا مت بتائیے گا۔" وہ انھیں جاتے دیکھ کر بولیں۔

"نکاح کا بتانا ضروری ہے اگر نہیں بتایا تو مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہم پہلے کون سے سکھی ہیں۔"

وہ رومال کندھے پہ رکھتے ہوئے بولے۔

"لیکن بتا دیا تو وہ انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ باتور خان کا پتہ ہے نا آپ کو۔۔۔اوپر سے بڑے خان بھی اسی کا ساتھ دیں گے۔ نکاح کا بتا دیا تو میرے بچوں کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔"

وہ پریشان چہرہ لئے ان کے سامنے کھڑی تھیں۔

"کچھ نہیں ہوتا۔ میں صرف یہ بتاوں گا کہ میں نے اسکی شادی شہر میں کر دی ہے۔ میر کا نام ہم نہیں لیں گے۔تم پریشان مت ہو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا اور مسکاء تک پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ بس تم دعا کرو کہ اللہ سب بہتر کرے۔"

وہ انھیں تسلی دے کے آگے بڑھ گئے۔

"آمین۔۔!"

وہ ان کے پیچھے دروازہ بند کرنے آئیں تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اللہ کے حضور خشوع و خضوع سے دعا کرنے لگیں۔ انھوں نے اپنے بچوں اللہ کی امان میں دیا تھا۔ اب وہی ان کا حامی و ناصر تھا۔ انھیں امید تھی کہ اللہ سب بہتر کرے گا۔______________________________________________

وہ اس چھ منزلہ عمارت کے سامنے کھڑا تھا۔ یہاں تک تو آ گیا تھا مگر آگے جانے ہمت نہیں تھی اس میں۔۔مگر اسے ماضی کے ساتھ نہیں رہنا تھا بلکہ آگے بڑھنا تھا۔ ایک گہری سانس خارج کرتا وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ دوسری منزل پہ پہنچ کر اس نے آمنے سامنے بنے دونوں فلیٹس کے دروازوں پہ نظر ڈالی۔ نمبر چیک کر کے وہ آگے بڑھا۔ چابیوں کا گچھا اس کے دائیں ہاتھ میں تھا جس پہ اسکی گرفت بڑھتی جا رہی تھی۔ تیسری منزل پہ اسے اسکا مطلوبہ حدف مل گیا۔ فلیٹ پہ چسپاں نمبر اس نے زیر لب دہرایا۔ یہ نمبر اسے اچھی طرح ازبر ہو گیا تھا۔دروازے کا کی ہول زنگ آلود ہو چکا تھا۔ اس نے کی رنگ میں موجود چار چابیوں میں سے ایک کو کی ہول میں ڈال کر گھمایا۔۔کی ہول زنگ آلود ہونے کی وجہ سے جام ہو گیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر چابی کو بھرپور زور دے کر لاک کھولنے کی کوشش کی۔ اس بار لاک کھل گیا۔ دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔ یہ دو کمروں اور لاؤنج پر مشتمل ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ ہر چیز گرد سے اٹی ہوئی تھی۔ لاؤنج میں ایک ٹرپل سیٹر صوفہ رکھا تھا اور صوفے کے سامنے ٹیبل رکھی ہوئی تھی۔ دونوں چیزیں گرد سے اٹی ہوئیں تھیں۔ اس کے دل کی حالت عجیب سی ہونے لگی۔ وہ ایک چابی سلیکٹ کرتا ایک دروازے کی طرف بڑھا۔ تھوڑا سا زور لگانے پر لاک کھل گیا۔ اس نے دروازے کی ناب کھول کر اندر جھانکا۔۔یہ ایک چھوٹا سا کچن تھا۔ وہ اندر آ گیا۔ برنر کے پیچھے ایک کھڑکی تھی جو کھلی ہوئی تھی۔ اس نے کھڑکی سے جھانکا تو روشن دن آنکھوں میں چبھنے لگا۔ وہ پلٹا۔۔ کچن میں ایک چھوٹی گول ٹیبل بھی رکھی تھی جس کے گرد چار کرسیاں سجی تھیں۔ کچن میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ وہ باہر آ گیا۔ اب اس کے قدم باقی دو کمروں کی جانب بڑھے۔ اس نے باری باری دونوں دروازوں کو کھولا۔ 

دونوں بیڈ رومز تھے۔ ایک میں کنگ سائز بیڈ تھا۔۔بیڈ کے دونوں اطراف سائیڈ ٹیبلز تھیں۔ بیڈ کی ایک جانب ٹرپل سیٹر صوفہ رکھا تھا۔ کھڑکیوں پہ موجود دبیز پردوں نے کمرے میں ہلکی سی تاریکی پھیلا رکھی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی تو ہر چیز واضح دکھنے لگی تھی۔

وہ ایک طرف دیوار کے ساتھ رکھی الماری کی جانب آیا۔ یہ خوبصورت نقش و نگار سے سجی لکڑی کی الماری تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دونوں پٹ کھول دیئے۔ الماری میں ایک جانب پرانے ڈیزائینز کے لیڈیز ڈریسز اتنی نفاست سے رکھے تھے کہ لگتا تھا جیسے ابھی کوئی ترتیب دے کر گیا ہے۔ دوسرے حصے میں مردانہ کپڑے تھے۔ ایک دو شلوار سوٹ اور باقی پینٹس شرٹس اور ٹائز تھیں۔ الماری کے نیچے کچھ ڈراورز بھی تھے۔ اس نے انھیں کھولا۔ دو ڈراورز تو خالی تھے جبکہ ایک میں کچھ چھوٹی موٹی استعمال کی چیزیں تھیں۔ اس میں ایک ایلبم بھی رکھا تھا۔ میر نے البم نکال کر دراز بند کر دی۔ وہ البم ہاتھ میں لئے وہیں زمین پہ بیٹھ گیا۔ البم میں کل سات پکچرز تھیں۔ 

وہ ایک ایک تصویر کو بغور دیکھ رہا تھا۔ یہ اسکی ماں باپ کی تصاویر تھیں۔ ان کے روشن چہروں پہ خوشی و اطمینان رقصاں تھے۔ پرنور چہروں پہ ایک دوسرے کی محبت کی چاندنی سجی تھی۔

آخری تصویر شاید شادی کے دن کی تھی۔ یہ ایک گروپ فوٹو تھا۔ان میں سے کسی چہرے بھی وہ واقف نہیں تھا سوائے اپنے ماں باپ اور اپنے باپ کے ساتھ کھڑے ایک اور شخص کے۔۔

وہ شخص اس کے باپ کے کندھے پہ ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ سبھی چہروں پہ مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔

یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد عقیل تھے۔۔

اس نے تمام تصویروں کو ایک بار پھر سے دیکھا۔ بےدھیانی میں اسکی گود میں البم سے ایک تصویر گری۔ جو شاید لگائی نہیں گئی تھی۔ 

اس نے الٹ کر دیکھا۔۔۔

اس تصویر میں اس کی ماں کی گود میں ایک سال کا بچہ تھا۔ وہ دونوں اس بچے کا منہ چوم رہے تھے۔

یہ بچہ کوئی اور نہیں میر تھا۔۔

میر ضیغم خان۔۔۔

اب وہ تصویر کو سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔۔

یہ دکھ بہت بڑا تھا جو اسے ساری زندگی جھیلنا تھا۔۔______________________________

اگلے دن ارحم اپنے گھر میں کام کرنے والی زیتون اور اسکی بیٹی کو لے آیا۔ دونوں نے اپنی موجودگی میں صفائی کروائی۔ پھر کام ختم ہونے کے بعد وہ دونوں چائے اور کچھ کھانے پینے کا سامان لے آئے۔ اس نے ارحم کو نکاح کے متعلق بتا دیا تھا۔ پہلے تو وہ اس سے بہت ناراض ہوا مگر پھر بعد میں تمام حالات جاننے کے بعد ناراضگی ختم کر دی۔ ارحم نے ہی اسے فلیٹ میں رہنے کی صلاح دی تھی۔ پہلے تو وہ نہیں مان رہا تھا مگر پھر حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ماننا پڑا۔ ارحم تو اسے مسکاء کو بھی یہیں لانے کا کہہ رہا تھا مگر وہ اس بات پہ بالکل راضی نہ ہوا۔ 

وہ دونوں لاونج می بیٹھے اپنی باتوں میں مگن تھے جب زیتون ان کے لئے چائے بنا کر لے آئی۔ 

"صاحب یہ کچن کے لئے کچھ ضرورت کے سامان کی لسٹ ہے۔ اگر ابھی لے آتے ہیں تو میں کل تک کے لئے کھانا بنا دیتی ہوں۔"

زیتون نے لسٹ ارحم کو پکڑائی۔ 

"نہیں بس ٹھیک ہے۔ ہم خود دیکھ لیں گے۔ تم جانتی نہیں ہو میرا یار بہت اچھا کھانا بنا لیتا ہے۔ ہم خودی کچھ کر لیں گے۔"

ارحم نے لسٹ پینٹ کی پاکٹ میں اڑستے ہوئے کہا۔ 

"ہاں بس بہت شکریہ تمھارا۔۔یہ لو کچھ پیسے رکھ لو۔"

ضیغم نے کچھ پیسے اس کی طرف بڑھائے۔

"شکریہ صاب جی۔۔اب میں چلتی ہوں۔ اگر آپ کہیں تو میں دو دن بعد آ کر صفائی کر جایا کروں گی۔"

وہ پیسے اپنے دوپٹے کے کنارے میں لپیٹ کر باندھتے ہوئے بولی۔

"نہیں زیتون تم اب گھر جاو۔۔صاب کی بیوی ہے وہ آ کر سب کچھ سنبھال لے گی۔"

ارحم نے ضیغم کو شرارتی نظروں سے دیکھا۔ ضیغم نے اسے صرف گھورنے پہ اکتفا کیا مگر ارحم پر اسکی گھوریوں کا اثر کم ہی ہوتا تھا جبکہ زیتون دونوں کو دیکھ کر کھی کھی کرنے لگی۔ اب کی بار ضیغم کی گھوریوں کا رخ اسکی جانب ہو گیا۔

"ٹھیک ہے صاب جی۔۔ اللہ حافظ۔"

وہ گھبرا کر بیٹی کو لئے چلی گئی۔ ارحم نے اٹھ کر دروازہ بند کیا۔ اب دونوں خاموشی سے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ 

"اب کیا کرنا ہے؟" ارحم نے چائے کا خالی کپ ٹیبل پہ رکھا۔

"کس کے بارے میں؟" ضیغم نے بھی اسکی تقلید کرتے ہوئے کپ ٹیبل پہ رکھ کر اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"مسکاء بھابھی کے بارے میں۔۔۔اور کس کے بارے میں۔"

ارحم نے اسکی طرف رخ موڑا۔

"مسکاء۔۔۔۔۔۔۔۔"

ضیغم کے لبوں نے بےآواز حرکت کی۔ اسکی نگاہوں میں کالی چادر میں لپٹا نازک سراپا آن سمایا۔"میں تمھارے ساتھ ایک جیتی جاگتی خزیمن کو بھیج تو رہا ہوں۔" اسے بابا کے الفاظ یاد آئے جو انھوں نے اس سے تب کہے تھے جب اس نے ماں کی تصویر ان سے مانگی تھی۔ " مسکاء بنی بنائی خزیمن ہے۔" اس کے کانوں میں ان کا ایک اور جملہ گونجا۔

"میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔" ارحم نے اسکا کندھا ہلایا۔

"ابھی نہیں یار۔۔۔۔ابھی وہ وہیں رہے۔ ایگزامز ہو جائیں پھر سوچوں گا اس بارے میں۔ فلحال میرا اسے یہاں لانے کا کوئی موڈ نہیں۔"

اس نے دل کی رضامندی پہ دماغ کا پتھر رکھا۔۔دل نے تو ارحم کی بات پہ لبیک کہا تھا مگر ابھی وہ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اسے یہاں لاتا۔

"چلو ٹھیک ہے تمھاری مرضی۔۔میں نے تمھارے لئے ہی کہا تھا۔ کم از کم تمھیں اس اکیلے پن سے تو نجات ملے گی اور پھر اس گھر کو بھی تو اسکی ضرورت ہے۔"

ارحم نے اٹھتے ہوئے کہا۔

"کہاں جا رہے ہو؟" ضیغم نے اسے اٹھتے دیکھ کر اس سے پوچھا۔

"یہ سامان لے آتا ہوں۔ تم بھی چلو ساتھ۔"

اس کی بات پہ ضیغم بھی سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے دونوں کپ ٹیبل سے اٹھا کر کچن میں جا کر رکھے اور اپنی چابیاں چیک کرتا اس کے پیچھے آ گیا۔ خریداری کے بعد ضیغم اسے ہاسٹل لے آیا۔ ارحم باہر گاڑی میں ہی اسکا ویٹ کرنے لگا۔ وہاں سے اس نے اپنا کچھ سامان جو رہ گیا تھا۔۔لیا اور دوستوں سے ملتا واپس آگیا۔۔

"کل کسی اچھے وکیل سے مل کر یہ کاغذات بھی دکھا دیں گے۔"

گھر واپس آ کر اس نے ارحم کو وہ فائل دی جو اسے بابا نے گاوں سے آتے وقت دی تھی۔ جس میں اس فلیٹ کے کاغذات تھے جو اسکی ماں کے نام پہ تھے۔ جبکہ فائل میں کچھ اکاونٹس کی ڈیٹیلز بھی تھی اور کچھ دوسرے پیپرز بھی تھے۔

"ہاں۔۔! میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔"

ضیغم نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔۔ اب دونوں فائل کھولے بیٹھے تھے اور کل وکیل سے مل کر یہ پیپرز دکھانے کا سوچ رہے تھے۔ امتحانات شروع ہونے سے پہلے وہ یہ معاملات سیٹل کرنا چاہتا تھا۔_______________________________

اللہ نے انھیں چاند سے بیٹے سے نوازہ تھا۔ دراب خان اور خزیمن بہت خوش تھے۔ انھوں نے یہ خبر سب پہلے میرسربلند خان کو فون کر کے سنائی تھی۔ بظاہر خوش ہونے والے میرسربلند خان کو پریشانیوں نے آ گھیرا۔ وہ تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھے تھے لیکن ہوا ان کی مخالف سمت میں چل رہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں پریشان ہوتے چھوٹے بھائی کو مبارکباد دے رہے تھے۔

انھوں نے ایک بار پھر دراب خان کو گاوں آ کر رہنے کو کہا تھا۔ دراب نے ان سے وعدہ کیا کہ جیسے ہی خزیمن تھوڑی بہتر ہوں گی وہ ہمیشہ کے لئے گاوں آ جائیں گے۔۔ مگر ایک تو خزیمن بار بار انکار کر دیتی تھی اور پھر وہ جاب بھی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ حالانکہ انھیں اس جاب کی ضرورت نہیں تھی۔

لیکن اب انھوں نے خان لالا سے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ جلد ہی واپس گاوں آ جائیں گے۔

اب تو ضیغم بھی سال کا ہو گیا تھا مگر خزیمن گاوں جانے کے لئے راضی نہیں تھی لیکن آخرکار انھوں نے خزیمن کو تیار کر ہی لیا تھا۔ آج انھوں نے نکلنا تھا گاوں کے لئے۔۔۔دراب نے اس سے کہا تھا کہ وہ آفس سے جلدی چھٹی لے کے آ جائیں گے۔ انھوں نے اسے ضرورت کا تقریبا سارا سامان رکھنے کو کہا تھا مگر اس نے ضرورت کا کچھ سامان ہی لیا تھا۔ ہاں البتہ ضیغم کا تقریبا سارا سامان تھا۔ خزیمن کا وہاں ایک دو دن سے زیادہ رکنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ حویلی میں ایک دن گزار کر باقی کے دن اپنے ماں باپ کے ساتھ گزارے گی۔ وہ میرسربلند خان کی نظریں اور انداز تخاطب نہیں بھولی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ دل سے اس شادی کے لئے خوش نہیں ہیں بس اوپر اوپر سے شو کرتے ہیں کہ وہ اس شادی سے خوش ہیں۔ اس نے اس بات کا ذکر دراب خان سے بھی کیا تھا مگر وہ یہ کہہ کر اس بات کو ٹال گئے کہ ان کا انداز ہی ایسا ہے مگر پھر بھی اسکا دل نہیں مان رہا تھا۔ آج انھوں نے گاوں جانا تھا تو دل میں عجیب عجیب سے وسوسے گھر کر گئے تھے۔ اس کا دل گھبرا رہا تھا لیکن وہ دراب خان کی خوشی کے آگے خاموش تھی۔ وہ اسے بتاتے رہتے تھے کہ وہ گاوں کے لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے خاص کر تعلیم کو لے کر ان کے عزائم بہت بلند تھے اور اس خواب کو پورا کرنے کے لئے ان کا گاوں جانا بہت ضروری تھا۔

وہ ایک سفری بیگ تیار کیے دراب خان کا انتظار کر رہی تھی۔ صبح کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ ضیغم سو چکا تھا اور دراب ابھی تک آئے نہیں تھے۔ وہ جلے پیر کی بلی کی طرح گھر میں گھوم رہی تھی۔ کبھی کچن میں جاتی تو کبھی کمروں میں۔ اس گھر سے اسے بہت انس تھا۔ وہ لاونج میں بیٹھی تھیں جب ڈور بیل بجی۔ پیپ ہول سے جھانکا تو اسے دراب خان کا چہرہ دکھائی دیا۔ اس نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔

"السلام و علیکم! تم تیار ہو۔ میں ٹیکسی لے آیا ہوں۔ ضیغم کہاں ہے؟"

وہ چہرے پہ اپنوں سے ملنے کی خوشی لیے اندر داخل ہوئے۔۔پلٹ کر دروازہ بند کیا اور اسے ساتھ لگائے بیٹے کے متعلق پوچھا جو آس پاس دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

"کیوں ہماری گاڑی کو کیا ہوا؟" اس نے پوچھا۔

"وہ میں عقیل کو دے آیا ہوں۔ ویسے بھی گاوں میں ہے میری گاڑی۔۔ضیغم سو رہا ہے کیا؟"

انھوں نے گاڑی کے متعلق بتایا۔

"جی۔۔" وہ بجھے دل سے بول کر ان سے الگ ہوئی۔

"خزیمن تم خواہ مخواہ دل میں وہم پال رہی ہو۔ گاوں میں سب ٹھیک ہے اور پھر ہمیں کیا غم جب خان لالا ہمارے ساتھ ہیں۔ تم بالکل بھی پریشان نہ ہو۔میں ہوں نہ تمھارے ساتھ۔"

انھوں نے اس کے اترے چہرے کو دیکھتے ہوئے اسے ساتھ لگا کر تسلی دی۔ جس پہ وہ سر ہلاتی ضیغم کو لینے چلی گئی۔ وہ بھی اسکے پیچھے کمرے میں آ گئے۔ الماری کھول کر اس میں سے ایک فائل نکالی۔

"یہ کیا ہے؟"

خزیمن نے ضیغم کو سینے سے لگائے پوچھا۔ 

"کچھ ضروری کاغذات ہیں۔" وہ بیگ اٹھاتے باہر نکل گئے۔ وہ بھی ایک نظر کمرے پہ ڈال کر باہر آ گئی۔

"تم چل کر نیچے گاڑی میں بیٹھو میں لاک لگا کر آتا ہوں۔"

ان کے کہنے پر اس نے ضیغم کو صوفے پہ لٹایا۔ چادر اوڑھ کر ضیغم کو اٹھایا اور گھر سے باہر آ گئی۔ ضیغم کو کسی قیمتی اثاثے کی طرح سینے سے لگائے وہ سیڑھیاں اترنے لگی مگر ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں بھولی تھی۔

ٹیکسی میں بیٹھ کر وہ دراب خان کا انتظار کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں وہ اسے آتے دکھائی دئیے۔ خزیمن کے ساتھ پیچھے بیٹھ کر انھوں نے ٹیکسی والے کو چلنے کے لئے کہا۔ راستہ لمبا تھا اس لئے اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگالی۔ ضیغم اس کی گود میں تھا۔ دراب خان اپنے ساتھ لائی فائل میں گم تھے۔ ضیغم کے نام انھوں نے اکاونٹ کھلوایا تھا۔جس کی ڈیٹیل وہ عقیل احمد کے پاس چھوڑ آئے تھے۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔

خزیمن خاموشی سے تیزی سے دوڑتے گزرتے مناظر میں گم تھی۔ نجانے کس وقت اسکی آنکھ لگ گئی۔ بیدار ہوئیں تو شام کے سائے پھیل چکے تھے۔ گاڑی حویلی کے دروازے سے اندر داخل ہو رہی تھی۔ اس نے ساتھ بیٹھے دراب خان کو دیکھا جو ضیغم کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ ضیغم بھی باپ بھی ان سے اپنی زبان میں بات کر رہا تھا۔

مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا۔ 

"چلو جی میرے بیٹے کا گھر آ گیا۔" انھوں نے اسے اٹھتے دیکھ کر اشارہ کرتے ہوئے ضیغم کو لئے گاڑی سے اترے۔ زمان خان جو گھر کی جانب لوٹ رہا تھا۔۔ بھاگتا ہوا ان کی جانب آیا۔ انھوں نے ضیغم کو خزیمن کے حوالے کیا اور اس سے بغلگیر ہوئے۔۔اس سے خیر خیریت پوچھی۔۔۔خزیمن نے بھی زمان خان کو سلام کیا اور سب کی خیریت دریافت کی۔ 

"زمان خان میرے بیٹے میرضیغم خان سے ملو۔ دیکھو بالکل میرے جیسا ہے نا؟؟"

دراب خان نے ضیغم کو خزیمن سے لے کر زمان خان کو دیا۔ زمان خان نے سر اثبات میں ہلا کر بچے کو چوما اور دعا دی۔ 

"خان لالا کہاں ہیں؟" دراب خان نے خزیمن کی سنگت میں حویلی کے داخلی دروازے سے اندر جاتے ہوئے پوچھا۔ زمان خان نے ان کے پوچھنے پر انھیں بتایا کہ وہ اندر ہی ہیں اور بےچینی سے ان کے منتظر ہیں۔

جب وہ لاونج میں داخل ہوئے تو میرسربلند خان انھیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے ان کی طرف بڑھے۔ بڑے پرجوش انداز میں وہ دراب خان سے ملے۔ دراب خان بھی ان کے سینے سے لگ گئے۔ انھیں ان سے باپ کی خوشبو آتی تھی۔ سوتیلے ہونے کے باوجود وہ انھیں بہت عزیز تھے۔ آج وہ ان سے اسطرح ملے تو انھیں بےحد خوشی ہوئی۔

خزیمن نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ان کے رویے میں اتنی تبدیلی دیکھ کر خزیمن بہت حیران ہوئی۔ انھوں نے آگے بڑھ کر ضیغم کو زمان خان سے لیا۔

"ارے ہمارا چھوٹا شیر تو بالکل ہمارے بڑے شیر جیسا ہے لیکن ناک ہم پر گئی ہے۔" وہ ضیغم کو پیار کرتے ہوئے بولے تو دراب خان مسکرا دئیے۔ خزیمن نے بھی ان کا انداز دیکھ کر اپنے دل میں گونجتے وہموں سے جان چھڑائی۔

"تم لوگ تھک گئے ہو گے۔ فریش ہو جاو اور تھوڑا آرام کر لو تو پھر مل کر رات کا کھانا کھائیں گے۔۔زمان خان اپنے چھوٹے خان جی کو ان کے کمرے تک لے جاو۔"

انھوں نے زمان خان سے کہا اور ضیغم کو خزیمن کے حوالے کیا۔ 

"خان لالا۔۔۔بھابھی اور بچے دکھائی نہیں دے رہے۔ وہ لوگ گھر پہ نہیں ہیں کیا؟" دراب خان نے چاروں جانب نظریں دوڑائیں۔

"نہیں۔۔۔تمھاری بھابھی بچوں کو لے کر میکے گئی ہوئی ہے دو دن سے۔ میں نے فون کر کے تمھاری آمد کا بتا دیا ہے کل تک آ جائیں گے وہ لوگ۔ تم لوگ آرام کرو۔"

انھوں نے دراب خان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ 

"ٹھیک ہے تو پھر ڈنر پہ ملاقات ہوتی ہے۔" دراب خان ان سے کہتے ہوئے زمان خان کے پیچھے چل دئیے۔ جو ان کا سامان پکڑے ان سے آگے تھا۔

"اس دن کا تو ہمیں شدت سے انتظار تھا میردراب خان۔۔ڈنر تو تمھارے شایان شان ہی کرنا پڑے گا آخر کو تم میر ابدار خان کے بیٹے ہو۔"

میرسربلند خان کے مسکراتے لب سکڑ گئے اور چہرے پہ نرمی کی جگہ سختی نے لے لی۔۔___________________________

اچھے ماحول میں پر لطف ڈنر کرنے بعد اب وہ اپنے کمرے میں موجود تھے۔ یہ انہی کا کمرہ تھا۔ کمرے میں قالین سے لے کر کرٹنز تک ہر چیز نئی اور قیمتی تھی۔ انھوں نے بھابھی کی چوائس کو سراہا تھا۔ضیغم بےبی کاٹ میں لیٹا کاٹ میں لٹکے چمکتے چاند ستاروں کر پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسکی حرکتوں کو وہ مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔خزیمن واش روم میں تھی۔ انھوں نے سامنے دیوار پہ لگے وال کلاک پہ نظر ڈالی۔ گھڑی کی سوئیاں گیارہ کا ہندسہ پار کر گئ تھیں۔ ٹائم دیکھ کر انھیں تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ وہ بستر پہ آگئے۔ نرم و گداز بستر پہ لیٹتے ہی وہ نیند میں کھو چکے تھے۔ خزیمن جب واش روم سے نکلی تو وہ سو چکے تھے مگر ضیغم کی غوں غاں جاری تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے ضیغم کی طرف بڑھی۔ نائٹ بلب آن کیا اور ٹیوب لائٹ آف کر کے وہ اسے لئے بیڈ پہ آ گئ۔ دراب خان پیٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ اس نے ان کے ماتھے پہ بکھرے بال سمیٹے اور ضیغم کو سلانے لگیں۔ کمرے میں پھیلی خواب آنگیز روشنی نے اگلے کچھ لمحوں میں انھیں غافل کر دیا۔

رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب پیاس کے احساس سے ان کی آنکھ کھلی۔ خزیمن اور ضیغم گہری نیند میں تھے۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے ضیغم کے پھولے رخساروں پہ اپنے لب رکھے اور پانی کے لئے کمرے میں نظر دوڑائی۔ پانی نہ پا کر وہ بنا جوتوں کے ہی روم سے باہر آگئے۔ حویلی میں مکمل خاموشی کا راج تھا۔ کچن کی طرف بڑھتے ہوئے ان کی نظر خان لالا کے کمرے سے آتی روشنی پر پڑی۔ وہ حیران ہوتے ہوئے ان کے کمرے کی جانب بڑھے۔ کمرے سے ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔ یعنی ان کے کمرے میں کوئی اور بھی موجود تھا۔ وہ بہت دھیمی آواز میں بات کر رہے۔ قریب جا کر انھیں معلوم ہوا کہ دروازہ ٹھیک سے بند نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر داخل ہوتے اپنا نام سن کر چونک گئے۔

"قادر خان۔۔!"

قادر خان کا نام سن کر دراب خان کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ وہ دروازے سے مزید قریب ہوئے۔

"آج یہ قصہ ختم ہو جانا چاہئے قادر خان۔۔میں کسی کو بھی یہ پتہ نہیں لگنے دینا چاہتا کہ دراب کا کوئی بیٹا بھی ہے۔ تینوں کو ختم کرنے کا یہ موقع پھر نہیں ملے گا۔ کل تک پورے گاوں کو پتہ چل جائے گا ان کے بارے میں اور میں ایسا بالکل بھی نہیں چاہتا۔ وہ لوگ اپنے کمرے میں ہیں۔ کام کر کے تم کہیں غائب ہو جانا۔ ویسے بھی سب کو پتہ ہے کہ تم سے دشمنی مول لے کر دراب خان نے خزیمن سے شادی کی تھی۔ تم ان کی تاک میں تھے کہ وہ کب گاوں آئیں اور تم اپنی بےعزتی کا بدلہ لو اور آج یہ موقع پا کر تم نے ان سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لے لیا۔ ہمارا بھی کام ہو جائے گا اور تمھارا بھی نام ہو جائے گا۔"

یہ آواز ان کے بھائی کی تھی۔ انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ ان سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ ان کی جان لینے کے درپے ہیں۔

"اور آئیندہ کوئی بھی جرگے کے خلاف جانے سے پہلے دس بار سوچے گا۔ خان میں تو یہ کام اسی رات کرنے کا سوچ رہا تھا مگر آپ نے ہی روک دیا تھا۔ لیکن آج میں ان کے خون سے اپنی بےعزتی کا بدلہ ضرور لوں گا۔ آپ بےفکر رہیئے میں انھیں اگلا سانس لینے نہیں دوں گا۔ یہ تین گولیاں ان کے سینے میں اتار کر ہی میرے سینے میں جلتی بدلے کی آگ بجھے گی۔"

قادر خان کی کرخت آواز کمرے میں گونجی۔ دراب خان اپنے کمرے کی طرف دوڑے۔ اس سے پہلے کہ انھیں پتہ چلے وہ یہاں سے نکل جانا چاہتے تھے۔ لیکن شومئی قسمت ان کی بدحواسی میں دوڑنے کی وجہ سے سائیڈ پہ رکھا سٹیل کا گلدان گر گیا۔ رات کی خاموشی میں گلدان کی آواز نے ارتعاش پیدا کیا۔ کمرے میں موجود دونوں لوگ آواز سن کر باہر آئے۔ قادر خان آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ میرسربلند خان نے اسے اندر کی جانب واپس کھینچ کر دروازہ بند کر لیا۔انھوں نے لاؤنج میں صوفے کے پیچھے چھپے دراب خان کو دیکھ لیا تھا۔

"چھوڑو کہ کمرے تک چلا جائے۔ پسٹل تو ہے نا تمھارے پاس؟" انھوں نے قادر خان سے پوچھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

یہ جان کر کہ انھیں معلوم نہیں ہوا۔ دراب خان سکون کا سانس لیتے ہوئے خاموش قدموں سے کمرے کی جانب بڑھے۔ انھوں نے خزیمن کو آواز دی اور ضیغم کو اٹھایا۔ خزیمن ہڑبڑا کر اٹھی۔ انھوں نے منہ پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کو کہا۔ خزیمن ان کے چہرے پہ گھبراہٹ کے آثار دیکھ کر فورا بیڈ سے اتری۔ وہ انھیں اور ضیغم کو لیے کمرے سے باہر آئے۔ ان کا رخ باہر کی جانب تھا۔ نیم بند دروازے سے میرسربلند خان اور قادر خان انھیں باہر کی جانب جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ وہ دونوں بھی خاموشی سے ان کے پیچھے آئے تھے۔ 

دراب خان گیراج میں کھڑی گاڑیوں کی جانب آئے تھے۔ خزیمن نے ان سے کچھ بھی نہ پوچھا۔ وہ جان گئی تھی کہ سانپ انھیں ڈسنے کے لئے اپنے بل سے باہر آ گیا ہے۔ یہاں ان کی گاڑی موجود نہیں تھی اور باقی دونوں گاڑیاں لاکڈ تھیں۔ وہ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے حجرے کا رخ کیا۔ وہ جانتے نہیں تھے کہ ان کے دشمن دبے پیر ان کے پیچھے ہی ہیں۔ وہ حجرے کی پچھلی جانب آئے تھے۔ انھیں یاد تھا کہ اس طرف باہر کی جانب کھلتا ایک دروازہ تھا۔ انھوں نے سوچا کہ شہر کی طرف جاتی سڑک وہاں سے قریب ہے۔ وہ کسی سے بھی لفٹ لے لیں گے۔ پچھلی جانب آ تو گئے تھے مگر دروازہ انھیں کہیں بھی نظر نہ آیا۔ حجرے میں سوئے ہوئے زمان خان کی نیند قدموں کی آواز سے کھل گئی۔ وہ ویسے بھی بیدار نیند سوتا تھا۔ اس کی بیوی میکے گئی ہوئی تھی۔ گھر میں کوئی اور تھا نہیں اس لئے گھر جانے کی بجائے وہ وہیں سو گیا تھا۔ اس نے بڑے خان جی اور قادر خان کو ہاتھ میں پسٹل پکڑے حجرے کی پچھلی جانب دوڑتے ہوئے دیکھا۔ وہ فورا چارپائی سے اترا اور ان کے پیچھے گیا۔ قادر خان کو دیکھ کر اسے میردراب خان کا خیال آیا۔

"یہاں سے تو باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے دراب۔۔اب کیا کریں؟" خزیمن نے سوئے ہوئے ضیغم کو سینے سے لگائے بھیگی آنکھوں سے ان کی جانب دیکھا۔ 

"چلو۔۔۔" وہ واپس پلٹے مگر سامنے ہی قادر خان کو پسٹل کا رخ ان کی جانب کیے کھڑے دیکھ کر ان کا دل دھڑکا۔ انھوں نے خزیمن کو اپنے پیچھے کیا۔ قادر خان کے بالکل پیچھے کچھ فاصلے پر میرسربلند خان کھڑے تھے۔ لبوں پہ طنزیہ مسکراہٹ لئے وہ دراب خان کو دیکھ رہے تھے۔

"خان لالا۔۔۔یہ سب کیا ہے۔۔کیا آپکی وہ محبت ڈھکوسلا تھی۔ آخر کیوں کر رہے ہیں آپ یہ سب میرے ساتھ۔۔کیا بگاڑا ہے میں نے آپکا؟"

میرسربلند خان ان کی بات پر ہنسے۔

"تم سے تو مجھے شدید نفرت ہے دارب خان۔ میری زندگی میں تم صرف اور صرف میری ہر چیز پہ قبضہ کرنے آئے ہو۔ یہ سب کچھ میرا ہے جس میں تم حصے دار بننے آ گئے ہو اور وہ محبت تو اپنے شکار کو جال میں پھنسانے کے لیے تھی اور دیکھو شکار جال میں پھنس بھی گیا ہے۔ قادر خان تمھیں کس بات کا انتظار ہے۔" ان کی زبان ذہر اگل رہی تھی۔ دراب خان کو اپنی سماعتوں پہ یقین نہ آیا۔ 

"اگر آپ کو یہ جائیداد اور دولت چاہئیے تھی تو مجھے کہتے میں سب کچھ آپ کو دے دیتا اور اب بھی دینے کو تیار ہوں بس مجھے اپنی بیوی بچے سمیت یہاں سے جانے دیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو اپنی شکل بھی نہیں دکھاوں گا۔"

"تمھیں اپنی نظروں سے دور کرنے کا انتظام میں خود کر چکا ہوں۔ قادر خان۔۔۔"

انھوں نے بلند آواز میں قادر خان کو پکارا۔ قادر خان نے یکے بعد دیگرے دو فائر کیے۔ فائر کی آواز سن کر زمان خان دوڑتے ہوئے گلی کے اختتام پہ پہنچا۔ سامنے کا منظر دیکھ کر اسکے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ دراب خان اور خزیمن خون میں لت پت زمین پہ گرے ہوئے تھے۔ خزیمن نے ضیغم کو سینے سے ابھی تک لگائے رکھا تھا جو اب رو رہا تھا۔ اب قادر خان کا نشانہ ضیغم تھا۔

"خان جی۔۔۔یہ کیا کیا آپ نے؟" زمان خان دوڑتے ہوئے میرسربلند خان کے پاس آیا۔ قادر خان اور میر سربلند خان اسے دیکھ کر گھبرا گئے۔۔ زمان خان دراب خان اور خزیمن کی جانب آئے۔۔دراب خان میں ابھی سانس باقی تھی۔ انھوں نے زمان خان کا دامن تھام لیا۔ 

"زمان خان۔۔ضیغ۔۔۔ضیغم۔۔۔مم۔۔۔میرے کمرے میں ایک نیلی فائل۔۔"

ان کا سر ڈھلک چکا تھا۔ خون آلود ہاتھ زمان خان کے دامن پہ اپنی چھاپ چھوڑ گیا۔ اپنی سفاک موت کا نشان چھوڑ گیا تھا۔۔وہ دونوں خاموش ہو چکے تھے۔ اس کا دل غم سے پھٹا جا رہا تھا۔ اپنے اتنے پیارے خان کو یوں بےحس و حرکت دیکھ کر اس کا دل خون کے آنسو رونے لگا۔

"زمان خان آگے سے ہٹ جاو اور بچے کو وہیں رہنے دو۔ یہ بھلا اکیلا ماں باپ کے بنا کیسے رہے گا۔ اسے بھی ان کے ساتھ ہی بھیج دینا چاہئیے۔"

انھوں نے اسے ضیغم کو اٹھاتے دیکھ کر کہا۔

"خان جی۔۔۔اتنا ظلم مت کریں۔ یہ معصوم جان ہے۔ اسے چھوڑ دیں خان۔۔۔میں آپکے پیر پڑتا ہوں۔"

وہ بچے کو گود میں لیے ان کی طرف بڑھا اور ان کے پیر تھام لئے۔ انھوں نے نخوت سے اپنے پیر چھڑائے۔

"ٹھیک ہے۔۔۔لیکن اس کے لئے میری کچھ شرائط ہیں اگر منظور ہے تو بولو۔"

ایک خیال ان کے ذہہن میں آیا۔

"میں ہر شرط ماننے کو تیار ہوں خان۔"

وہ ضیغم کو سینے سے لگا کر روتے ہوئے بولے۔۔میرسربلند خان قادر خان کو اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔

جبکہ وہ ضیغم کو سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے۔۔ انھیں ضیغم کر بچانا تھا۔ چاہے اس کے لئے انھیں کچھ بھی کرنا پڑے۔۔___________________________________

اس کو نہ پا سکے تھے جب 

دل کا عجیب حال تھا

اب جو پلٹ کے دیکھتے

بات تھی کچھ محال بھی۔۔

آخری پیپر دے کر جب وہ ہاسٹل پہنچی تو گل باجی نے اسے وارڈن کا پیغام دیا۔ انھوں نے اسے بتایا کہ انھوں نے اسے فورا بلایا ہے اس لئے وہ جو بیگ روم میں رکھ کر آنے کا سوچ رہی تھی اپنا ارادہ ملتوی کرتی سیدھی ان کے آفس آ گئی۔ 

وہ دروازے پہ دستک دیتی سوچ رہی تھی کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔ وہ بہت کم کسی کو آفس بلاتی تھیں۔ کسی کو کوئی بھی پیغام دینا ہوتا یا کچھ کہنا ہوتا تو وہ گل باجی سے کہہ دیتی تھیں۔ لڑکیاں ان کے اس لیے دئیے رہنے والے روئیے کی وجہ انکا ان میرڈ ہونا قرار دیتی تھیں۔ بس صرف گل باجی سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی۔

اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہوئی۔ دل عجب لے پہ دھڑک رہا تھا۔ کل سے تو وہ اس بات کو لے کر پریشان تھی کہ یہ جائے پناہ بھی اس سے چھننے والی ہے۔ اب یہ سوچ سوچ کر مزید ہلکان ہو رہی تھی کہ کہیں وہ اسے رخت سفر باندھنے کو نہ کہہ دیں۔

"بیٹھو۔۔۔" انھوں نے اپنے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔

"مجھے گلزم خان نے تمھارے حالات کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان فضول رسموں کا ارتکاب کر کے معصوم اور غریب لوگوں حق خودارادیت بھی چھین رہے ہیں۔ میری ہمدردی تمھارے ساتھ ہے مگر میں تمھاری وجہ سے باقی لڑکیوں کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔"

انھوں نے تمہید باندھی۔

"میں کچھ سمجھی نہیں۔۔آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟"

اسکا دل دھڑکا اور کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔

"دیکھو مسکاء بیٹا۔۔۔میں کبھی بھی تمھیں یہاں سے جانے کا نہ کہتی مگر حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ میں بہت مجبور ہوں یہ کہنے پر کہ تمھیں اب اپنا کہیں اور بندوبست کر لینا چاہئیے۔" انھوں نے صاف بات کرنا مناسب سمجھا۔

"مگر۔۔۔آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟ یہ منتھ تو مجھے یہیں رہنا ہے۔ گلزم چاچا نے بتایا تھا نا آپکو۔۔اس وقت تو آپ مان گئیں تھیں۔" ان کی بات نے اسے پریشان کر دیا۔

"کیا تم کسی باتور خان نامی شخص کو جانتی ہو؟"

ان کی بات سن کر اسکا سانس اٹک گیا۔

"باتور خان۔۔۔۔۔"

اس کے لب کپکپائے تھے۔

"ہاں۔۔۔تین دن سے مسلسل وہ شخص یہاں تمھارے بارے میں پوچھ تاچھ کے آتا ہے کہ مسکاء رحم دین نام کی لڑکی یہاں ہاسٹل میں رہتی ہے۔ اگر ہے تو اسے اس سے ملنا ہے اور یہ بھی کہ وہ اسکا کزن ہے اور جلد ان کی شادی ہونے والی ہے۔ اگر گلزم خان مجھے اس رات تمھارے نکاح کے بارے میں نہ بتا دیتے ورنہ میں تو اسے تمھارا شوہر سمجھ رہی تھی۔ یہ تو میں اسکا نام سن کر تھوڑی شش و پنج میں پڑ گئی تھی ورنہ بڑا مسئلہ ہو جاتا۔ وہ نہایت ہی اجڈ اور بدتمیز شخص ہے۔ ہم نے اسے قابومیں کرنے کی بہت کوشش کی ہے مگر وہ اب دھمکیوں پہ اتر آیا ہے۔ اسطرح باقی لڑکیوں کی زندگی بھی خطرے میں پڑ رہی ہے اور میں نہیں چاہتی کہ تمھارے سمیت کسی کو بھی کوئی نقصان ہو۔اس لیے تمھارا یہاں ہاسٹل میں رہنا مناسب نہیں۔"

انھیں اسکے چہرے کی اڑتی رنگت تکلیف دے رہی تھی۔

"مگر میم میں کہاں جاوں گی۔ میں تو یہاں کے راستوں سے بھی ٹھیک سے واقف نہیں ہوں۔"

سیاہ آنکھوں میں آنسو ٹھہر گئے تھے۔ وہ اسے کبھی بھی نہ بھیجتیں مگر حالات ہی ایسے ہو گئے تھے کہ انھیں مجبورا یہ فیصلہ کرنا پڑا تھا۔

"میں کب کہہ رہی ہوں کہ تم ابھی چلی جاو۔۔میں نے پولیس کو انفارم کر دیا ہے۔ اگر اب وہ آیا تو پولیس نپٹ لے گی اس سے۔۔لیکن تمھارا بھی یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ ایسے لوگ تو تاک میں رہتے ہیں۔ بس تم اپنا کوئی سکیور بندوبست کرو تاکہ مجھے تمھاری طرف سے بھی سکون ہو۔"

وہ اسے روتا دیکھ کر کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس آئیں تھیں اور اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دیا تھا۔

"لیکن میم۔۔۔بات تو وہی ہے کہ میں کہاں جاوں گی۔ میں یہاں کسی کو نہیں جانتی اور گاوں بھی میں گلزم چاچا کے چاچا کے ساتھ ہی جاتی ہوں۔"

وہ ہاتھ میں پکڑے ٹشو میں اپنے بھل بھل بہتے آنسوؤں کو سموتے ہوئے بولی۔

"کیوں وہ جو تمھارا شوہر ہے۔۔ اس نے تمھاری زمہ داری لی ہے تو اب اٹھائے بھی اور حیرانی تو مجھے اس بات کی ہے کہ ایک بار بھی اس نے پلٹ کر تمھاری خیر خبر نہیں لی۔ یہ کس سے بیاہ دیا تمھارے باپ نے تمھیں۔"

وہ اسکے قریب بیٹھتے ہوئے بولیں۔

"مگر۔۔۔وہ کیوں میری ذمہ داری لیں گے۔"

وہ معصومیت سے بولی۔

"ائے بی بی۔۔۔تمھارے بھول پن کو تو میرا سلام ہے۔۔ ارے وہ شوہر ہے تمھارا۔۔اسکا فرض ہے تمھارا خیال رکھنا اور پھر تمھاری زندگی جو اتنے گھمبیر مسئلے کی دھول سے اٹی پڑی ہے تو اسکی زمہ داری تو اور بھی بڑھ جاتی ہے۔۔لگاو اسے فون کہ آ کر تمھیں لے جائے۔"

وہ ٹیلیفون کی طرف اشارہ کر کے واپس اپنی کرسی پہ جا بیٹھیں جبکہ وہ پریشان ہو گئی۔ 

"اب مجھے گھورنا بند کرو اور اسے فون کرو۔"

وہ اپنا چشمہ پہنتے ہوئے بولیں۔

"مم۔۔مم۔۔میم۔۔میرے پاس ان کا نمبر نہیں ہے۔"

بےچارگی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسووں کی صورت جاری ہوگئی تھی۔ انھوں نے اپنا چشمہ اتار کر ٹیبل پہ رکھا۔ کچھ پل تو وہ اسے یونہی گھورتی رہیں پھر ڈراء میں سے فون ڈائری نکال کر نمبر ڈھونڈنے لگیں۔

"کیا نام ہے تمھارے شوہر کا؟"

چشمہ ایک بار پھر ان کی چھوٹی سے ناک پہ سج گیا۔

"میر۔۔"

وہ دھیرے سے بولی۔۔نجانے کیوں اسے منہ میں مٹھاس گھلتی محسوس ہوئی۔

"میر ضیغم خان۔۔؟؟؟" ان کے پوچھنے پہ اس کے کانوں میں مولوی صاحب کے الفاظ گونجے۔۔"میر ضیغم خان۔۔" اس نے سر ہلایا۔

نام ڈھونڈ کر انھوں نے نمبر ایک پیپر پہ لکھ کر اسکی طرف بڑھایا۔

"لو۔۔۔یہ نمبر مجھے گلزم خان دے گیا تھا۔"

ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے اس نے پیپر تھام لیا۔ وہ چاہتی تھی کہ میم طاہرہ خود ان سے بات کر کے ساری سچویشن بتا دیں مگر مزید باتیں سننے کا اس میں یارا نہیں تھا۔ اس لئے پرچی ہاتھ میں لئے فون اسٹینڈ کی طرف آ گئی۔ دل کی دھڑکن اپنے سر تال سے ہٹ گئی تھی۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ واضح تھی۔ ماتھے پہ پسینے کے قطرے چمکنے لگے تھے۔ 

اس نے ایک نظر پلٹ کر میم طاہرہ کو دیکھا جو اپنے کام میں مگن تھیں۔ اس نے نمبر والا پیپر آنکھوں کے سامنے پکڑا اور پھر اسے اسٹینڈ پہ رکھ دیا۔ ریسور اٹھا کر کان سے لگایا اور نمبر پش کرنے لگی۔ نمبر ملانے کے بعد ایک بار پھر اس نے پلٹ کر وارڈن کو دیکھا۔ ان کا دھیان اسکی طرف نہیں تھا۔ دوسری طرف بیل جا رہی تھی لیکن کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ ٹون بند ہوئی تو اس نے شکر کیا۔ اس نے ریسور واپس رکھ دیا اور پلٹ کر جانے لگی۔

"کیا ہوا۔۔ نمبر بند جا رہا ہے کیا؟"

اسکا اسطرح بھاگنا ان کی نظروں سے مخفی نہ رہ سکا۔

"وہ کال ریسیو نہیں کر رہے۔"

وہ منمنائی۔

"دوبارہ کرو۔۔" وہ مختصرا کہہ کر رجسٹر پہ جھک گئیں۔ مسکاء واپس فون کے پاس آئی اور دوبارہ نمبر ملایا۔ وہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ وہ کال ریسیو نہ کرے مگر قسمت کے اپنے ہی داؤ ہوتے ہیں۔ تیسری بیل پہ کال ریسیو کر لی گئی۔

"ہیلو۔۔۔۔۔"

بھاری مردانہ آواز سن کر اسکا دل ڈوب کے ابھرا۔ قوت گویائی جیسے کسی نے سلب کر لی تھی۔ ہونٹ خشک ہو گئے۔

"ہیلو۔۔۔۔" آواز دوبارہ گونجی۔

"میں۔۔۔۔۔" اس نے خشک لبوں پہ زبان پھیری۔

"میں کون؟؟" دوسری طرف سے حیرانی سے پوچھا گیا۔ ضیغم نے موبائل کان سے ہٹا کر اسکرین پہ دکھتے نمبر کو دیکھا۔ یہ نمبر اس کے لئے غیر شناسا تھا۔

"مم۔۔میں۔۔۔۔" اسے پھر سے رونا آنے لگا۔

"مسکاء۔۔۔۔۔۔"

نجانے اس کے دل میں کیا آیا کہ اس نے فورا پکارا۔ 

"جی۔۔۔" آنسو پلکوں کی باڑ پار کر گئے۔

"کیا بات ہے۔۔۔خیریت تو ہے نا؟؟" اس کے لہجے میں پریشانی جھلک رہی تھی۔ مسکاء کو تھوڑا حوصلہ ہوا۔

"وہ یہاں حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ باتور خان یہاں ہاسٹل آیا تھا۔ وارڈن کہہ رہی ہیں کہ آپ آ کر مجھے لے جائیں۔"

مسکاء آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔

"کیا۔۔۔۔۔؟؟ کب آیا تھا اور تم مجھے اب بتا رہی ہو۔" وہ غصے سے جیسے پھٹ پڑا۔

"مجھے بھی ابھی وارڈن نے بتایا ہے۔" وہ اس کے غصے سے گھبرا کر بولی۔ ریسور اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا تھا۔

"ٹھیک ہے۔۔اپنی وارڈن سے میری بات کرواو۔" وہ نوٹس سمیٹتے ہوئے بولا۔ مسکاء نے انھیں بلایا۔ ان کے ریسور تھامنے کے بعد وہ وہیں قریبی صوفے پہ بیٹھ گئی۔ طاہرہ میم نے ساری تفصیل بتائی اور پھر ریسور رکھ دیا۔

"تم اپنی تیاری کر لو۔۔۔وہ کل آئے گا تمھیں لینے۔" وہ اپنی سیٹھ کی طرف جاتے ہوئے بولیں جبکہ وہ سر اثبات میں ہلا کر آفس سے باہر آگئ۔ وہ جیسے ہی باہر آئی اریبہ بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئی۔ اریبہ اسکی روم میٹ تھی۔

"کیا ہوا۔۔۔کیوں بلایا تھا وارڈن نے؟؟"

اریبہ نے اس کے سرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا

"کچھ نہیں۔۔۔"

وہ بنا کچھ کہے آگے بڑھ گئی۔۔اسکا رخ اپنے کمرے کی جانب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔_________________________________________

وہ اپنے کمرے میں تھے جب انھیں لاؤنج میں بلند ہوتے شور کی آواز آئی۔ وہ اس آواز کو بہت اچھے سے پہچانتے تھے۔ وہ فورا بیڈ سے اتر کر کمرے سے باہر آئے۔ ان کا رخ لاونج کی جانب تھا۔ تیز رفتاری سے چلتے ہوئے وہ لاونج میں آئے تھے۔ وہاں کا منظر دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہو گیا۔ ان کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ شہنیلا صوفے پہ پیر پسارے بیٹھی تھی۔ اسکے ساتھ ہی صوفیہ بیگم بیٹھی تھیں جبکہ شاہ زیب اور عالمزیب دوسرے صوفے پہ براجمان تھے۔

"بابا جان۔۔۔۔"

شہنیلا انھیں آتے دیکھ کر ان کی طرف دوڑی۔ 

"بابا کی جان۔۔۔۔اتنے دن لگا دئیے۔۔۔ یاد ہے مجھے تم نے کہا تھا کہ محض دو دن بعد تم لوگ یہاں ہو گے۔"

انھوں نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ شاہ زیب اور عالمزیب نے بھی باپ کو سلام کیا۔ وہ بھی باری باری دونوں سے بغلگیر ہوئے۔ عالمزیب تو بالکل ان پر گیا تھا۔ یہاں تک کہ مزاج بھی باپ کی طرح گرم تھا۔ اسے بھی باپ کی طرح سیاست سے دلچسپی تھی۔ گاوں کے ہر مسئلے کو دیکھنا اور پھر اسے اپنی من مرضی کے مطابق حل کرنا اس نے باپ سے ہی سیکھا تھا۔ اپنے سامنے وہ کسی کو بولنے تک نہ دیتا تھا۔ گاوں میں اسکا بڑا رعب تھا۔ یورنیورسٹی میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہونے کے بعد اس سے شادی کر لی۔ لیکن وہ لڑکی زیادہ دن اسکے طور طریقے برداشت نہ کر سکی اور شہر واپس چلی گئی۔ بعد عالمزیب نے اسے طلاق بھیج دی۔آئے دن نت نئی لڑکیوں سے افئیر چلانا اس کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا تھا۔ اس بار میر سربلند خان کا ساتھ والے گاوں کے ملک ساجد خان کی بیٹی سے اسکی شادی کرنے کا ارادہ تھا۔ بالا ہی بالا وہ ان سے بات بھی کر چکے تھے مگر عالمزیب کو ابھی اس بات سے بےخبر رکھا گیا تھا۔ اس کے برعکس شاہ زیب تھوڑا مختلف مزاج کا تھا۔ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتا۔ باپ اور بھائی گاوں میں کیا کرتے پھرتے ہیں اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ زیادہ تر وقت وہ ماں اور شہنیلا کے ساتھ شہر میں گزارتا۔ اس کے بعد شہنیلا تھی۔ نہایت ہی چلبلی اور گھومنے پھرنے کی شوقین۔۔۔صوفیہ بیگم کا تعلق بھی شہر سے تھا اس لئے وہ بھی کم ہی گاوں میں رکتی تھیں۔ ہفتے میں ایک آدھ بار ماں بیٹی چکر لگا لیتی تھیں یا پھر پڑھائی کا بہانا بنا کر شہر میں ہی رہتی تھیں۔

"بابا جان۔۔۔مما تو آج بھی یہاں آنے کے لئے رضامند نہیں تھیں۔"

اس نے باپ کے سینے سے لگے لگے ماں کی طرف دیکھا۔ میر سربلند خان نے ان کی جانب دیکھا جبکہ وہ پہلو بدل کر رہ گئیں۔

"ہاں تو اور کیا۔۔ یہاں ہے ہی کیا۔۔ میں تو یہاں نہیں رہ سکتی۔ شہر میں تو بہت کام ہوتے ہیں مجھے۔ یہاں تو بس دیواروں کو گھورتے رہو یا گاوں کی عورتوں کے بےکار سے مسئلے مسائل سنتے رہو۔"

وہ نخوت سے بولیں تو میر سربلند خان ان کے انداز پہ ہنس دئیے۔ یہ انہی کی شہ اور انداز تھا جو صوفیہ بیگم نے اپنا رکھا تھا۔ شہر میں سوشل ورک کرنے والی اور مختلف پارٹیز میں بڑی بڑی تقریروں کا پرچار کرنے والی صوفیہ بیگم گاوں کی غریب ، نادار اور لاچار عورتوں سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتی تھی تو ان کے جملہ مسائل کیا حل کرے گی۔ ان سب مسائل کے لئے میرسربلند خان تھے نا۔۔۔۔جو ہر فیصلہ نہایت ہی بےرحمی سے کرتے تھے۔ جو صرف حیثیت دیکھ کر کیے جاتے تھے اور اس میں گاوں کے حیثیت رکھنے والے ان کا بھرپور ساتھ دیتے۔

"بابا آپ چھوڑیں یہ سب۔۔یہ بتائیں گاوں میں سب ٹھیک چل رہا ہے۔ باتور نظر نہیں آیا باہر ورنہ تو ادھر ادھر آوارہ گردی کرتا دکھائی دیتا ہے۔"

عالمزیب ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا۔ وہ باتور خان سے متعلق ساری بات اسے بتانے لگے۔ باقی تین لوگوں کو گاوں یا گاوں سے ریلیٹڈ باتوں سے کوئی سروکار نہیں تھا اس لئے انھوں نے اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا۔ جبکہ وہ دونوں باپ بیٹا سر جوڑے ان حالات کو ڈسکس کرنے لگے۔ 

"بابا یہ گاوں کے لوگوں کی لگامیں کسنی پڑیں گی۔آپ کی بات نہ ماننا انھوں نے اپنا شیوا بنا لیا ہے۔ کچھ مہینے پہلے وہ گلالئی کا واقعہ اور اب باتور خان۔۔ ان لوگوں کو روکنا ہو گا ورنہ آج رحم دین جرگے کے فیصلے کے خلاف کھڑا ہوا ہے کل کو اس کی دیکھا دیکھی کوئی اور اٹھ کھڑا ہوگا۔ خیر اب میں آ گیا ہوں نا دیکھ لوں گا سب کو۔"

وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔ 

"خان جی۔۔!!"

میرسربلند خان نے اپنے قریب کھڑے زمان خان کو دیکھا۔ انھوں نے تیوری چڑھائی۔ زمان خان نے عالمزیب خان کو سلام کیا۔

"واعلیکم السلام چاچا۔۔۔کیا حال چال ہیں تمھارے۔"

عالمزیب نے ان سے خیر خیریت دریافت کی۔

"ٹھیک ہوں بیٹا۔۔۔خان جی آپ نے بلایا تھا؟"

زمان نے میر سر بلند خان سے پوچھا۔

"زمان خان۔۔۔۔حجرے کی پچھلی طرف کون گیا تھا؟" انھوں نے زمان خان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے ان کی آنکھوں میں دیکھا۔ ان کا لہجہ تلخ تھا۔ 

"وہ خان جی۔۔۔۔میں گیا تھا۔"

زمان خان نے سر جھکایا۔

"کس لئے؟؟" انھوں نے مزید پوچھا۔

"وہ جی۔۔۔۔صفائی کی غرض سے گیا تھا۔" انھوں نے بناء سر اٹھائے جواب دیا۔

"اس ویران کھنڈر کو صفائی کی کوئی ضرورت نہیں زمان خان۔۔۔دوبارہ وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ اب جاسکتے ہو۔"

انھوں نے بیٹھتے ہوئے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر کہا۔ چہرے سے سنجیدگی چھلک رہی تھی۔زمان خان سر اثبات میں ہلاتے ہوئے چلے گئے تھے۔ وہ ہر دو دن بعد وہاں دعا کے لئے جایا کرتے تھے لیکن بہت خواہش کے باوجود قبروں کی صفائی نہیں کرتے تھے تاکہ میر سربلند خان کو پتہ نہ چلے کہ کوئی وہاں جاتا ہے۔ لیکن جب وہ میر کو وہاں لے گئے تھے تو اس نے وہاں قبروں کی صفائی کی تھی اور انھوں نے اسے روکا بھی نہیں تھا۔ وہ دھیمے قدموں سے چلتے ہوئے حویلی کی دہلیز پار کر گئے۔ ان کے جاتے ہی وہ دونوں باپ بیٹا ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔۔______________________________

باتور خان جب سے جرگے سے ہو کر آیا تھا گھر میں بند تھا۔ کرم دین اسے باہر نکلنے نہیں دے رہے تھے۔ یہ حکم میرسربلند خان کا تھا کہ اسے کوئی بھی انتہائی قدم نہ اٹھانے دیا جائے۔ انھوں نے اسے بڑی مشکل سے گھر میں روکے رکھا تھا۔ اس کی دونوں بہنیں بھی آئیں ہوئی تھیں اور بول بول کہ اس کے غصے کو اور بڑھاوا دے رہی تھیں۔

ابھی بھی شہربانو اس کے سر پہ کھڑی اسے لتاڑنے کا کام بھرپور انداز میں کر رہی تھی۔

"تم تو ایسے چارپائی پر لیٹے ہو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔" وہ ہاتھ نچا نچا کر بول رہی تھی جبکہ باتور خان آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹا تھا۔

"ارے میری بہن چھوڑو اسے۔۔اس نے تو بےغیرتی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ اب منہ چھپا کر یہاں لیٹا ہے۔"

گل بانو بھی کہاں پیچھے ہٹنے والی تھی۔ 

"ائے ہائے۔۔۔تم دونوں کیا ہاتھ دھو کر میرے بچے کے پیچھے پڑ گئی ہو۔ شرم تو نہیں آتی تم دونوں کو بھائی کو بےغیرتی کا طعنہ دیتے ہوئے۔ چلو پرے ہٹو یہاں سے۔"

زبیدہ خانم ان دونوں کو پرے ہٹاتی باتور خان کے پاس بیٹھ گئیں۔ 

"اماں تم نے ہی اسے سر چڑھا رکھا ہے۔ آس پڑوس کی عورتیں ہمیں طنزیہ نظروں سے دیکھتی ہیں۔ ہمارا مذاق اڑاتی ہیں اور تم لوگ گھر میں چھپ کر بیٹھے ہو۔"

شہربانو کو ماں کا انداز پسند نہ آیا اس لئے اپنی توپوں کا رخ ماں کی جانب کر دیا۔

"کیا مصیبت ہے۔۔۔۔تم سب میرے سر پہ کیوں چڑھ رہی ہو۔ بابا اور خان جی نے منع کیا ہے مجھے ورنہ رحم دین چاچا کی کا آج سوئم ہوتا۔ اور اس مسکاء کو تو ایسا سبق سکھاوں گا کہ گاوں کی آئیندہ نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔"

وہ ایک دم چارپائی سے اٹھ بیٹھا۔ وہ دونوں تو اسے غصے میں دیکھ کر گھبرا گئیں۔

"باتور خاناں۔۔۔دفع کرو اس مسکاء کو۔۔میں اپنے بیٹے کے لئے اس سے بھی خائستہ(خوبصورت) لڑکی بیاہ کر لاوں گی۔"

انھوں نے اسے پرسکون کرنا چاہا۔

"مورے(ماں)۔۔۔وہ میری نہ ہوئی تو کسی اور کی بھی نہیں ہونے دوں گا۔ باتور خان کوئی بےغیرت نہیں ہے۔ میں ان سب کا وہ انجام کروں گا کہ تم بھی دیکھو گی۔۔تمھاری بیٹیاں بھی اور یہ سارا گاوں بھی۔"

وہ پیروں میں چپل پہنتا اندر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"ہونہہ۔۔۔دیکھ لیں گے ہم بھی۔"

مہربانو کی آواز نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔

"تم دونوں خیر سے کیوں آ جاتی ہو۔۔اپنے گھر آرام سے رہو اور ہمیں بھی سکون سے رہنے دو۔"

وہ اس کے جانے کے بعد ان دونوں پر برسیں مگر وہ بھی انہی کی بیٹیاں تھیں۔ ناک پہ مکھی تک بیٹھنے نہیں دیتی تھیں۔

"ہائے اماں۔۔۔۔یہ ہمارا بھی گھر ہے۔ ہم یہاں نہیں آئیں گے تو کہاں جائیں گے اور پھر ہم جھوٹ تھوڑی نا کہہ رہی ہیں۔ جا ذرا دیکھو گاوں والے کیسی کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ رحم دین چاچا کو شاباش دے رہے ہیں۔ ان کے اس اقدام سے باقی لوگ بھی انہی کے نقش قدم پر چلنے کا سوچ رہے ہیں۔ آج رحم دین کی آنکھوں میں خوف نہیں کل کو کسی بھی آنکھوں میں نہیں رہے گا۔"

مہربانو ان کے پاس آ بیٹھی۔ وہ خاموشی سے انھیں دیکھ کر رہ گئیں۔

"اور نہیں تو کیا اماں۔۔کل تک جو لوگ بھائی اور بابا کی وجہ سے ہم سے نظریں نیچے کر کے بات کرتے تھے آج آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہیں۔"

گل بانو بھی ان کے سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گئی۔

"جو ہو دیکھا جائے گا۔"

انھوں نے ناک سے مکھی اڑائی۔

"مگر اماں بابا کو کچھ تو کرنا چاہئیے۔ ایسے کیسے ہم آرام سے بیٹھ جائیں۔"

شہربانو کو ان کی لاپروائی اچھی نہ لگی۔

"تمھارے بابا بتا رہے تھے کہ خان جی نے انھیں کہا ہے کہ ابھی باتور خان کو سنبھال لیں اور کوئی انتہائی قدم نہ اٹھانے دیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ پہلے معلومات کروائیں گے کہ آیا واقعی رحم دین نے بیٹی کی شادی کر دی ہے یا پھر اس نے بیٹی کو بچانے کے لئے یہ جھوٹ گڑا ہے۔ اس کے بعد ہی کچھ کریں گے۔ اوپر سے اسے اتنی مشکل سے روک رکھا تھا۔ بڑے خان سے چھپ کر تین بار شہر جا چکا ہے مسکاء کے پیچھے۔۔۔اس بار گیا تھا تو کہہ رہا تھا کہ مسکاء کو ساتھ لے کر آئے گا مگر آ کر بتا رہا تھا کہ کالج والوں نے وہاں پولیس کھڑی کر دی ہے۔ اب تمھارے بابا نے اسے قسم دے کر روکا ہے کہ کہیں شہر میں کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہوجائے۔"

انھوں نے رازداری برتتے ہوئے کہا۔

"مگر رحم دین چاچا دروغ گوئی سے کام کیوں لے گا۔"

گل بانو نے آنکھیں گھمائیں۔

"ویسے بات میں دم ہے۔۔اتنی جلدی کیسے اتنا اچھا رشتہ مل گیا۔ضرور چاچا جھوٹ بول رہا ہے اور زمان خان کو بھی ساتھ ملا رکھا ہے۔"

مہربانو نے ماں کے سر سے سر جوڑا۔

"نام مت لو اسکا۔۔۔ساری شہ ہی اسکی دی ہوئی ہے۔اسی نے بھڑکایا ہے رحم دین کو ورنہ وہ تو ایسا نہیں تھا۔تیرے بابا بتا رہے تھے کہ جرگے میں رحم دین تو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہی رحم دین ہے جو ہمیشہ نظریں جھکا کر بات کرتا تھا۔"

وہ چارپائی سے اٹھتے ہوئے بولیں۔ وہ دونوں بھی حیرانی سے ماں کو دیکھ رہی تھیں۔ زبیدہ خانم کچن کی طرف بڑھ گئیں۔ اتنے میں کرم دین گھر میں داخل ہوئے۔ ان دونوں نے انھیں سلام کیا اور ان کے ہاتھ سے سبزی کا تھیلا لے لیا۔

"باتور خان کہاں ہے۔۔باہر تو نہیں چلا گیا کہیں؟"

انھوں نے مہربانو سے پوچھا۔ 

"نہیں بابا۔۔۔وہ اپنے کمرے میں ہے۔" مہربانو نے بتایا۔

"اچھا ٹھیک ہے میں بھی وہیں جا رہا ہوں تم ایک گلاس پانی لے آو۔"

وہ آگے بڑھتے ہوئے بولے جبکہ مہربانو ان کے لئے پانی لینے کچن میں آ گئی۔ شہربانو بھی اسکے پیچھے ہی تھی۔____________________________

چوکیدار ابھی اسے آفس چھوڑ کر گیا تھا۔ دس منٹ اسے یہاں بیٹھے ہوئے ہو گئے تھے۔آفس چھوٹا اور سادہ سا تھا۔ ضرورت کے مطابق تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ سامنے رکھی ٹیبل کے پیچھے رکھی کرسی خالی تھی۔

اس نے انتظار سے اکتا کر ٹیبل پہ رکھا نیوز پیپر اٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ اس نے نیوز پیپر واپس ٹیبل پہ رکھا اور منتظر نگاہوں سے دروازے کو دیکھنے لگا۔ وہ جیسے ہی آفس میں داخل ہوئیں ضیغم کھڑا ہوا۔ 

"السلام و علیکم!"

"واعلیکم السلام! " انھوں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی وہیں صوفے پہ بیٹھ گئیں۔

"میں یہاں مسکاء کو لینے آیا ہوں۔آپ پلیز اسے بلوا دیجیئے۔"

وہ سیدھے مدعے پہ آیا۔

"ہیم۔۔۔کیا میں آپ کا آئی ڈی کارڈ دیکھ سکتی ہوں؟"انھوں نے ہاتھ بڑھایا۔

"جی ضرور۔"

اس نے والٹ سے آئی۔ڈی۔کارڈ نکال کر ان کے ہاتھ میں دیا اور نکاح نامہ بھی ان کے سامنے ٹیبل پہ رکھ دیا۔ دونوں چیزیں دیکھنے کے بعد انھوں نے گل باجی کو مسکاء کو بلانے کا کہا۔ اس دوران وہ اس سے باقی کی تفصیل لینے لگیں۔ کچھ دیر بعد مسکاء اندر داخل ہوئی۔ اسکے آتے ہی وہ ٹیبل سے نکاح نامہ اور کارڈ اٹھاتا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے ایک نظر اس پر ڈالی۔

اس نے خود کو کالی چادر میں اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ ان سے اجازت طلب کرتا آگے بڑھ گیا۔ وہ بھی طاہرہ میم سے مل کر اس کے پیچھے آئی تھی۔ وہ اس کا سامان اٹھائے تیز تیز قدم اٹھاتا گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا جبکہ اسے اس تک پہنچنے کے لئے تقریبا بھاگنا پڑ رہا تھا۔ وہ گیٹ کے قریب کھڑی گاڑی کے قریب پہنچا تو پیچھے مڑ کر کوفت سے اسے دیکھا۔ اس کے قریب پہنچنے پر اس نے بیگ پچھلی سیٹ پہ رکھا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتا گاڑی میں بیٹھ کر اس کے لئے فرنٹ ڈور کھول دیا۔ 

وہ کچھ ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گئی۔ اس کے بیٹھتے ہی میر نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔

"اکڑو خان۔۔" اس نے اس کی اٹھی ہوئی گردن کو دیکھ کر سوچا۔ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔ تقریبا تیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک پانچ منزلہ عمارت کے قریب رکی۔ مسکاء نے سر اٹھا کر اس کافی پرانی بلڈنگ کی جانب دیکھا۔ جسکا پینٹ جگہ جگہ سے اکھڑ گیا تھا۔ وہ اسے اترنے کا کہتا پچھلی سیٹ سے سامان اٹھانے لگا۔ عمارت کے بلکل سامنے ایک چھوٹا سا گارڈن تھا جس میں کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ ان کی اچھل کود سے یہاں موجود زندگی کا احساس ہو رہا تھا۔ قریب کی مسجد سے عصر کی اذان بلند ہو رہی تھی۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے میں اس قدر مگن تھی کہ اسے احساس تک نہ ہوا کہ اس کا بیگ تھامے آگے بڑھ گیا ہے۔ جب احساس ہوا تو فورا آگے بڑھی۔ 

تیسری منزل پہ پہنچ کر وہ ایک براون دروازے کے سامنے کھڑا ہوا۔ پینٹ کی جیب سے چابی نکال کر دروازہ کھولا اور اسکا بیگ اندر رکھا۔

"آپ اندر چلیں میں ذرا گاڑی واپس کر کے آتا ہوں۔"

وہ اسکی طرف پلٹا جو کچھ فاصلے پہ کھڑی اس کی جانب ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کچھ سنا ہی نا ہو۔

"مسکاء۔۔! میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔"

اس نے لہجے کو سخت ہونے سے روکا۔

"جی۔۔۔۔" وہ دھیرے سے کہتی اندر داخل ہوئی جبکہ وہ باہر ہی کھڑا تھا۔

"میں آتا ہوں۔۔ کچھ چاہئیے تو نہیں؟"

وہ جاتے جاتے پلٹا۔ پھر اس کے نفی میں سر ہلانے پہ اس کے پیچھے دروازہ بند کرتا سیڑھیاں اتر گیا۔

اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی تو گہری سانس خارج کی اور اپنا بیگ اٹھا کر لاونج میں پڑی ٹیبل کے قریب رکھ دیا۔

اب اس کی نظریں فلیٹ کا جائزہ لینے لگی۔ وہاں موجود ہر چیز سے سادگی ٹپک رہی تھی۔ اس کے قدم ایک کھلے دروازے کی جانب بڑھے۔ یہ کچن تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور گلاس کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ اس نے ڈائننگ ٹیبل پہ پڑا گلاس اٹھا کر پانی پیا اور بوتل واپس فریج میں رکھ دی۔

اردگرد کا جائزہ لیتی وہ کچن سے باہر آ گئی۔ باقی دو دروازے ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پہ تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک دروازہ کھول دیا۔ کمرے میں پڑی چیزوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہاں کون رہتا ہو گا۔ اس نے ایک نظر لاونج سے دکھائی دیتے بیرونی دروازے پہ ڈالی اور پھر اندر داخل ہوئی۔ اندر داخل ہونے کی وجہ وہ تصویر تھی جو سامنے دیوار پہ لگی تھی۔ تصویر کو دیکھ کر اسے اندازہ لگانا آسان تھا یہ کون تھے۔ وہ دونوں بےحد خوبصورت تھے۔ اسے لڑکی کی تصویر میں اپنی ماں کی جھلک دکھی۔ 

وہ آنسو صاف کرتی روم سے باہر آ گئی۔ دوسرے کمرا شاید اس کے لئے سیٹ کیا گیا تھا۔ وہ باہر سے اپنا سفری بیگ اٹھا لائی۔ اس میں سے ایک لباس منتخب کیا اور وضو بنانے چل دی۔ 

عصر پڑھ کر اسے چائے کی طلب ہوئی۔ کچن میں آ کر اپنے لئے ایک کپ چائے بنائی اور وہیں لاونج میں بیٹھ کر پینے لگی۔ ابھی چائے ختم ہوئی ہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میر ہاتھ میں شاپرز پکڑے اندر داخل ہوا۔ اس نے سیدھے کچن کا رخ کیا۔ شاپرز ٹیبل پہ رکھے اور باہر آیا۔ وہ صوفے پہ ایسے ٹکی تھی جیسے ابھی دوڑ پڑے گی۔ 

"ایک کپ چائے ملے گی؟" وہ اس سے مخاطب ہوا۔ وہ سر ہلا کچن میں آ گئی۔

"یار کل تم فری ہو جاو تو ساتھ چلیں گے۔ سر دو بار مجھے کال کرچکے ہیں۔ کل دس بجے تک تم یہاں ہو ورنہ مجھے جانتے ہو نا۔"

وہ چائے کا کپ لئے لاونج میں آئی تو وہ کسی سے فون پہ بات کر رہا تھا۔ اس نے کپ ٹیبل پہ اسکے سامنے رکھا اور واپس پلٹ کر کمرے میں آگئی۔ کتنی دیر سے اسکی خواہش تھی سونے کی لیکن یہ سوچ کر کہ وہ کیا سوچے گا سو نہ سکی۔ اب نیند پھر سے تنگ کرنے لگی تھی۔ اب وہ آ گیا تھا تو وہ سکون سے سو سکتی تھی لہذا بیڈ پہ لیٹ کر آنکھیں موند گئی۔کچھ ہی پل میں وہ اردگرد سے غافل ہوگئی۔

رات کے آٹھ بجے اسے بھوک کا احساس ہوا تو بکس سائیڈ پہ کر کے اٹھ گیا۔ فریج کھول کر دیکھا تو کل کی پڑی آلو کی سبزی دیکھ کر اسکا موڈ خراب ہوا۔ اتنے دنوں سے آلو ہی کھا رہا تھا کہ اسے یہی ایک سبزی بنانے آتی تھی۔ اسے مسکاء کا خیال آیا۔ کام میں اسقدر مگن تھا کہ وہ اسے بھول ہی گیا تھا۔ اب یاد آنے پر وہ فریج بند کر کے اس کے روم کی جانب آیا۔دروازے پہ دستک دی۔ کوئی جواب نہ پا کر وہ دروازہ کھول کر کمرے میں آ گیا۔ سامنے بیڈ پہ نظر گئی تو بناء آہٹ قریب آیا تھا۔ وہ گہری نیند میں تھی۔ سادہ سے گلابی لباس میں وہ اسکی دھڑکن بڑھا رہ تھی۔۔ چہرے پہ بلا کی معصومیت تھی۔ اسکا جی چاہا کہ وہ اس کے اجلے روپ کو اپنی پوروں میں سمو لے مگر۔۔۔۔۔۔۔

کچھ پل وہاں رک کر وہ روم سے باہر آ گیا۔ اسکے قدم کچن کی جانب تھے۔۔ _____________________________________________

نیم تاریک کمرے میں موبائل بجنے کی آواز نے اسے بیدار کیا۔ بند آنکھوں سے اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا۔ نیم وا آنکھوں سے موبائل اسکرین کو دیکھا اور پھر کال ریسیو کی۔

"ہیلو۔۔" بھاری لہجہ نیند کی وجہ اور بھی بھاری ہو گیا تھا۔

"تو اب تک سو رہا ہے؟؟ ابھی کل ہی تو بھابی نے گھر میں قدم رنجا فرمائے ہیں اور پھر تیرے حالات و واقعات بدل بھی گئے۔ کیا بات ہے۔ کل تک تو تو انھیں یہاں لانے کو تیار ہی نہیں تھا اور آج جناب کی نیند ہی پوری نہیں ہو رہی۔ واہ واہ کیا کہنے۔۔۔"

ارحم کی تیز آواز اسکے کان کے پردے پھاڑ رہی تھی۔

"ہو گیا تیرا؟؟؟"

وہ اس کے خاموش ہونے پر بولا۔

"ایک تو لیٹ ہو گیا ہے تو۔۔ اوپر سے نخرے بھی مجھے ہی دکھا رہا ہے۔ بیٹا جی دس بج چکے ہیں بستر سے نیچے قدم مبارک اتارئیے۔ میں بیس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔بس اتنا ہی ٹائم ہے تیرے پاس۔"

اس کے کہنے پہ اس نے وال کلاک پہ نظر ڈالی جہاں واقعی دس بج رہے تھے۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھا۔پتہ نہیں کیسے آج اسے اتنی گہری نیند آئی تھی۔فجر بھی رہ گئی تھی اس سے۔۔وہ افسوس سے سر ہلاتا بیڈ سے نیچے اترا۔ الماری سے کپڑے لیتا وہ واش روم میں گھس گیا جبکہ دوسری طرف ارحم نے چیخ چیخ کر خود ہی فون بند کر دیا۔

دس منٹ بعد وہ تولیے سے بال خشک کرتا واش روم سے نکلا۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے بال برش کیے۔ سائیڈ ٹیبل سے والٹ اور موبائل اٹھایا۔۔پھر الماری سے فائل نکالی اور روم سے باہر آ گیا۔ فریش ہونے کے بعد اسے ناشتے کی طلب ہوئی لیکن اس وقت ناشتہ بنانے کا سوچ کر اسے کوفت ہونے لگی۔ بیس منٹ ختم ہونے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ وہ کچن میں آیا تو ٹیبل پہ نظر پڑی۔ ٹیبل پہ آملیٹ اور پراٹھے کو دیکھ کر اسکی بھوک چمک اٹھی۔ یقینا اس کے کمرے سے آتی کھٹ پٹ کی آواز سن کر اس نے ناشتہ تیار کر دیا ہوگا۔ پانی پینے کے لئے اس نے فریج کھولا تو ملک شیک کا جگ نکال لیا۔ اس نے جگ ناشتے کی ٹیبل پہ رکھا اور ناشتہ کرنے لگا۔ ملک شیک کے دو گلاس چڑھا کر وہ کچن سے باہر آ گیا۔ اتنے میں موبائل کی رنگ ٹون بجی۔ اس نے کمرے کی طرف بڑھتے بڑھتے کال ریسیو کی۔

"آ رہا ہوں یار۔۔۔"

وہ مسکاء کے روم کے دروازے پہ دستک دیتا بولا۔

"جلدی میں نیچے ویٹ کر رہا ہوں۔"

ارحم کی بات سن کر اس نے کال کاٹ دی۔ اتنے میں دروازہ بھی کھل چکا تھا۔ دروازے میں اسے ایستادہ دیکھ کر مسکاء کی سٹی گم ہو گئی۔ 

"تم نے ناشتہ کر لیا؟؟" اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو یہی پوچھ لیا۔ 

"جی۔۔۔آپکو کچھ چاہئیے تھا؟" مسکاء نے اس سے پوچھا۔

"آ۔۔۔نہیں۔۔میں چلتا ہوں۔ آپ دروازہ بند کر لیجیئے اور مجھے تھوڑی دیر ہو جائے گی۔"

وہ کہہ کر پلٹ گیا۔ مسکاء اس کے پیچھے ہی آئی تھی۔ 

"دروازے اچھے سے لاک کر لیں اور کسی کو دروازہ نہیں کھولنا۔"

وہ اسے ہدایت دیتا دروازے کے قریب کھڑا ہوا۔ مسکاء نے صرف سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔

"بائے دا وے۔۔۔۔ناشتے کا بہت شکریہ۔"

وہ جاتے جاتے ایک دم سے پلٹا تھا۔ وہ جو اپنی ہی جون میں آ رہی تھی اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ وہ اسے باذوں سے تھام گیا تھا۔ وہ رات والے لباس میں ہی تھی۔ ضیغم کو اسکی آنکھوں میں اپنا عکس نظر آیا۔ مسکاء کی گہری سیاہ آنکھیں اسے اپنے دل پہ محسوس ہوئی اور وہ پلکیں اٹھاتی گراتی اپنے بازوں پہ اسکے مضبوط ہاتھوں کی تپش محسوس کر رہی تھی۔ ضیغم کی نظر آنکھوں سے ہوتی ہوئی یاقوتی لبوں پہ ٹھہر گئیں۔ اس نے اسے قریب کیا اور اس سے پہلے کہ وہ سب کچھ بھول جاتا موبائل کی بجتی رنگ ٹون اسے حواسوں میں لے آئی۔

وہ پلٹ کر باہر نکل گیا۔۔۔

اس کے باہر نکلتے ہی مسکاء نے دروازہ بند کیا اور دھڑکتے دل اور کانپتی ٹانگوں سے کچن میں آئی۔ فریج سے بوتل نکال کر منہ کو لگائی۔ اس کے رخسار دھہک رہے تھے۔ کرسی کھینچ کر وہ وہیں بیٹھ گئی۔ دوپٹے سے اپنا چہرہ صاف کیا دھوکنی کی طرح چلتی سانسوں کو اعتدال پہ لانے لگی۔۔_____________________________

وہ دونوں اس وقت پروفیسر محمد عقیل کے آفس میں بیٹھے تھے۔ وہ شاید اپنی کلاس میں بزی تھے اس لئے ابھی تک ان سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی۔ انھیں یہاں آئے پندرہ منٹ سے زیادہ ہو گئے تھے۔ ضیغم ان سے پہلی ملاقات کے بعد آج مل رہا تھا۔ حالانکہ اس کا بہت جی چاہ رہا تھا کہ وہ ان سے ملے مگر حالات اس نہج پہ تھے کہ وہ چاہنے کے باوجود ان سے مل نہیں پایا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں اندر داخل ہوئے تو دونوں اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے ان سے بیٹھنے کو کہا اور خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔

"کیا لیں گے برخوردار۔۔!"

انھوں نے مسکراتے ہوئے دونوں کی طرف دیکھا۔

"کچھ نہیں سر۔۔۔ہم تو آپ سے میر دراب خان کے بارے میں کچھ بات کرنے آئے ہیں۔"

ارحم کے بولنے پر ضیغم سر جھکا گیا۔ وہ یہاں آ تو گیا تھا مگر اب اپنے زخم کریدنے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔ اس لئے ارحم نے بات شروع کی۔

"دراب میرا جگری دوست تھا۔ ہم دونوں اسکول کے وقت سے ساتھ تھے۔ وہ بہت خاموش طبع تھا۔ ہر کسی کی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا۔"

وہ کہیں خلاوں میں گھورنے لگے۔ آنکھوں میں نمی چمکنے لگی تھی۔ 

"وہ ایسا نہیں تھا کہ مجھ سے بالکل ہی قطع تعلق کر لیتا۔ پتہ نہیں وہ کیوں مجھ سے اتنا دور ہو گیا تھا۔ خزیمن بھابھی کی وجہ سے وہ گاوں بھی نہیں جاتا تھا ورنہ اسے اپنے گاوں ، اپنی مٹی سے عشق تھا۔ گاوں جانے سے پہلے مجھ سے ملنے آیا تھا اور کہا تھا کہ بس چند روز کے لئے جا رہا ہوں پھر لوٹ کر اپنا بزنس اسٹارٹ کروں گا۔ مگر اس کے گاوں جانے کے بعد اسکا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ کچھ دن تو میں سمجھتا رہا کہ ادھر ادھر کے بکھیڑوں میں پڑ گیا ہو گا مگر پھر یہ احساس بہت جلد ہو گیا کہ ایک بار بھی اس نے مجھ سے بات نہیں کی۔ یہ میرے لئے بہت حیرانی کی بات تھی کہ مجھ سے ہر بات ڈسکس کرنے والا ۔۔اب مجھے فون تک نہیں کر رہا۔ ان کی شادی کو لے کر گاوں میں حالات شاید ٹھیک نہ ہوں یہ سوچ کر میں نے اسے کال کی مگر اسکا فون مسلسل بند ملتا۔ پھر میں نے حویلی کے نمبر پہ ٹرائی کیا۔ کچھ دن تو بات نہ ہو سکی۔ پھر ایک دن میر سربلند خان جو کہ اسکے بڑے بھائی تھے بات ہوئی۔"

وہ دونوں خاموشی سے انھیں سن رہے تھے۔

"ان کے بتانے پہ کہ وہ خزیمن بھابھی اور ضیغم کے ساتھ ابراڈ شفٹ ہو گیا ہے۔ میں بہت حیران ہوا کیونکہ اس نے کبھی بھی مجھ پہ اپنا ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا۔ میں نے ان سے کانٹیکٹ اور اڈریس مانگا تو انھوں نے کہا وہ بھیجے گا تو بتا دیں گے۔تب سے لے کر آج کا دن ہے میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔۔کیسا ہے۔۔کس حال میں ہے۔"

ضیغم نے میرسربلند خان کے ذکر پہ مٹھیاں بھینچ لیں تھیں۔ چہرے پہ سرخی کے تاثرات نمایاں ہو گئے۔

"اماں اسے ، خزیمن اور ضیغم کو بہت یاد کرتی تھیں۔"

ان کی آواز میں نمی گھل گئی تھی ماں کے ذکر پہ۔

"کیا آپ اس دراب خان کی بات کر رہے ہیں؟"

ضیغم نے ہاتھ میں پکڑی نیلی فائل میں ایک سے تصویر نکال کر ان کی طرف بڑھائی۔ یہ وہی شادی کے دن کی تصویر تھی۔ جس میں وہ سبھی موجود تھے۔ وہ خود بھی دراب کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں پہ لرزش طاری تھی۔ دل جیسے کسی نے مٹھی میں قید کر لیا تھا۔

"ہاں۔۔۔۔"

انھوں نے تصویر میں دکھتے میر دراب خان کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔

"دراب۔۔۔۔۔۔" ان کے لبوں نے حرکت کی تھی۔ ایک خاموش آنسو ان کی آنکھ سے نکل کر تصویر پہ گرا تھا۔

ضیغم کا دل غم سے پھٹا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اپنے ماں باپ سے پہلی ملاقات کا منظر گھوم رہا تھا۔ وہ کتبے ان قبروں کی طرح اس کے دل میں بھی گڑ گئے تھے۔

"کہاں ہے وہ؟؟ تم ملے ہو اس سے ضیغم۔۔مجھے بھی وہاں لے چلو۔۔میں خود اس سے پوچھ لوں گا کہ آخر وہ ایسا کیوں ہو گیا۔۔مجھے انتظار کی سولی پہ لٹکا کر خود کہاں کھو گیا۔"

ان کی آنکھوں میں اپنے دوست سے ملنے کی تڑپ تھی۔ وہی تڑپ جو اسے اپنی آنکھوں میں دکھتی تھی۔ 

"وہ وہاں ہیں سر۔۔۔۔جہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آتا۔ وہ ایسے سناٹوں میں رہ رہے ہیں جن کی موت کی سی خاموشی اب میرے دل میں گونجنے لگی ہے۔ وہ بہت دور کب کے ابدی نیند سو چکے ہیں۔ وہ دونوں مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ظالم موت انھیں اپنی آغوش میں لے چکی ہے۔"

دکھ اس کی آواز میں سنائی دے رہا تھا۔

"کیا۔۔۔۔۔۔؟؟ یہ تم۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ دراب۔۔۔۔۔"

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ تصویر ان کے ہاتھ سے ٹیبل پہ جا گری تھی۔ 

"وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔"

اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اس کرب کو وہ باہر نہیں نکالنا چاہتا تھا۔ وہ اسے اپنے اندر رکھ کر ظالم کو بھی موت کا نظارہ کروانا چاہتا تھا جو اس نے اسکے جان سے پیارے ماں باپ کو دی تھی۔ وہی بےبسی کی تکلیف دینا چاہتا تھا۔ جس سے اس کے ماں باپ گزرے۔۔جس سے زمان خان گزرے اور جس سے وہ گزر رہا ہے۔

اس کی بات سن کر عقیل احمد کھڑے کے کھڑے رہ گئے تھے۔ انھیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ دراب انھیں یوں تنہا کر کے جا چکا ہے۔

"کب ؟؟" ان کی آواز بھیگ گئی تھی۔

"جس دن وہ گاوں گئے تھے اسی رات۔" وہ مضبوط لہجے میں بولا۔

"سر۔۔۔۔میں نے آپ سے اس فائل کا ذکر کیا تھا۔" ارحم نے ان دونوں کو اس تکلیف سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے وہ فائل ارحم کے ہاتھ سے لے لی۔ اب وہ اسے کھول کر دیکھ رہے تھے۔

"اس بارے میں تو کسی اچھے وکیل سے مشورہ کرنا ہوگا۔ لیکن میرے پاس تمھاری ایک امانت ہے جو میں تمھارے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔ کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چلو گے؟" 

انھوں نے فائل ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"جی ضرور۔۔۔۔"

وہ فائل اٹھاتے ہوئے بولا۔

"ٹھیک ہے تو پھر چلو۔۔۔" وہ اٹھے۔ وہ بھی فائل اٹھا کر اٹھ کھڑا ہوا۔

وہ تینوں پارکنگ کی طرف آئے جہاں عقیل احمد اور ارحم کی گاڑی کھڑی تھی۔ 

"تم دونوں میرے ساتھ چلو۔" انھوں نے انھیں دوسری گاڑی کی طرف بڑھتے دیکھ کر کہا۔ ان کے اسرار پہ ارحم نے ڈرائیور کو فون کر کے گاڑی لے جانے کو کہا اور خود وہ دونوں ان کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ راستے بھر وہ ضیغم سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ اس کے بتانے پہ کہ وہ بابا کے فلیٹ میں رہ رہا ہے وہ بہت خوش ہوئے اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ ضرور اس سے ملنے وہاں آئیں گے۔ 

باتوں کے دوران راستہ کٹ گیا۔ عقیل احمد نے جب اسکا تعارف اپنی فیملی سے کروایا تو وہ سب بہت حیران اور خوش ہوئے۔ سبھی اس سے بہت محبت سے ملے خاص طور پر عقیل احمد کی بیوی رحمہ آنٹی۔ وہ رحمہ کو چائے کا کہہ کر انھیں لئے اپنی اسٹڈی میں آ گئے۔ وہاں انھوں نے ایک اور فائل ضیغم کے حوالے کی۔

"تمھارے بابا نے گاوں جانے سے کچھ دن پہلے تمھارے اور تمھاری ماں کے نام پہ ایک اکاونٹ کھولا تھا۔ اس فائل میں اسی کی ڈیٹیلز ہیں۔"

چائے کے دوران انھوں نے اسے بتایا۔

"آج کے دور کے حساب سے یہ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں مگر دور حاضر میں تمھارے کام آ سکتی ہے۔" 

انھوں نے بہت محبت سے اسکی طرف دیکھا۔

"تمھیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے دراب میرے سامنے بیٹھا ہے۔"

ان کی آواز ایک بار پھر بھیگی گئی تھی۔ پھر انھوں نے اسکے کیرئیر کے متعلق پوچھا۔ اس کے بتانے پر کہ اس نے ابھی سی ایس ایس کے ایگزامز دئیے ہیں اور یہ جان کر وہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جانے کا سوچ رہا یے تو وہ بہت خوش ہوئے۔

"ہمارے ملک کو تم جیسے نوجوانوں کی بہت ضرورت ہے۔ اللہ تمھیں کامیاب کرے۔"

انھوں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ 

"برخوردار تم کیوں اتنے خاموش ہو۔ خیر تو ہے نا۔۔" وہ کب سے خاموش بیٹھے ارحم کی طرف متوجہ ہوئے۔

"آپ دونوں نے مجھے دودھ میں سے مکھی کی طرح باہر نکال دیا ہے تو میں کیا بولوں۔"

اس نے بیچاری صورت بنا کر انھیں دیکھا جس پہ وہ ضیغم ہنس دئیے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے ان سے اجازت چاہی تو وہ ان کے ساتھ آئے۔ وہ انھیں لئے گیراج میں کھڑی گاڑی کی جانب آئے تھے۔ یہ اولڈ فیشن کی ایک بلیک سوزوکی مہران تھی۔ انھوں نے جیب سے چابی نکال کر ضیغم کو دی۔ 

"یہ تمھارے بابا کی گاڑی ہے۔ انھوں نے صرف ایک مہینہ ہی استعمال کی تھی۔ یہ تمھاری امانت ہے۔ وقفے وقفے سے میں اسکی سروس کرواتا رہا ہوں۔ اب یہ تمھاری ہے۔"

انھوں نے چابیاں اس کے ہاتھ پہ رکھی۔ وہ گاڑی کی طرف بڑھا۔ کچھ لمحے اسے دیکھنے کے بعد وہ گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گیا۔ ایک ٹھنڈی سانس خارج کرنے کے بعد اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ گاڑی ریورس کر کے وہ گیراج سے باہر لے آیا۔ وہ گاڑی سے نکل کر ان کے پاس آیا۔ 

"ٹھیک ہے سر اب ہم چلتے ہیں۔ آپ کی محبت کا بہت شکریہ۔" ان کے سر ہلانے پہ وہ ارحم کو اشارہ کرتا گاڑی میں بیٹھنے لگا۔

"ضیغم۔۔۔۔۔۔۔" ان کی پکار پہ وہ مڑا۔ وہ اس کے لئے بازو وا کیے کھڑے تھے۔ چہرے پہ پھیلی چمکیلی مسکان دیکھ کر وہ ان کے قریب آیا اور پھر ان سے بغلگیر ہوا۔ وہ اسے کافی دیر اسے سینے سے لگائے کھڑے رہے۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ رو رہے ہیں۔ وہ ان سے الگ ہوا تو انھوں اپنی بھیگی آنکھیں صاف کیں۔ وہ اسکا چہرہ تھام کر مسکرا دئیے۔ 

"میں بہت خوش ہوں تمھیں دیکھ کر۔۔۔لیکن میں اپنے یار سے ملنے کے لئے بھی بہت بےچین ہوں ۔ انتظار کروں گا کہ کب تم مجھے لینے آتے ہو۔"

انھوں نے ایک بار پھر اسے سینے سے لگایا۔ 

"میں بہت جلد آپکو لینے آوں گا۔۔۔انشاءاللہ۔۔!

وہ ان سے الگ ہوتے ہوئے بولا۔

"انشاءاللہ۔۔!

ان کے سر ہلانے پہ وہ گاڑی میں آ بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ وہ ارحم کو گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔ راستے میں بہت سے لوگوں نے اس پرانے ماڈل کو سڑک پہ دوڑتے ہوئے بڑی دلچسپی سے دیکھا تھا۔______________________________

اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی پیش قدمی کرتا مسکاء نے اسے نرمی سے خود سے دور کیا اور کمرے کی جانب دوڑی مگر دوپٹے کا کونہ ضیغم کے نیچے ہی اٹک گیا تھا اس لئے وہ ٹیبل سے آگے ہی جا سکی۔ پیچھے مڑ کر ضیغم کو دیکھا تو وہ مسکراہٹ دبا کر مذید پھیل کر بیٹھ گیا۔ وہ وہیں کھڑے کھڑے دوپٹے کو کھینچنے لگی مگر دوپٹہ بھی اسکی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ضیغم موبائل میں بزی ہو گیا۔ وہ خود کو لاپرواہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ پتہ نہیں کیوں مسکاء کو تنگ کر کے اسے مزا آنے لگا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایٹ لیسٹ وہ ری ایکٹ تو کرے۔ مگر ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی زبان کہیں رکھ کر بھول گئی ہے۔

"چھوڑیں نا پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔"

کافی دیر کوشش کرنے کے بعد جب وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا تو بالآخر وہ بولی۔ 

"کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟"

اس نے حیرانی سے پوچھ کر موبائل ٹیبل پہ رکھا۔ 

"میرا دوپٹہ۔۔۔۔"

وہ اس کے لاپرواہ انداز پہ منہ بنا کر بولی جبکہ اس بار اس نے ہنسی کو ضبط کی قید سے آزاد کر دیا اور دوپٹہ اپنے نیچے سے نکلا مگر چھوڑا نہیں۔

"چھوڑ دیں نا۔۔۔"

مسکاء ایک بار پھر منمنائی۔

"چھوڑنے کے لئے تھوڑی نا پکڑا ہے۔"

وہ گہری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔انداز میں شرارت نمایاں تھی۔ وہ رخ موڑ گئی مبادہ کہیں کچھ اور ہی نہ کہہ دے اور رخ موڑے موڑے ہی دوپٹہ کھینچ رہی تھی مگر ضیغم کی گرفت مضبوط تھی وہ پورا ذور لگانے کے باوجود دوپٹہ اسکی گرفت سے چھڑا نہیں پا رہی تھی۔ چار و ناچار وہ قریب آئی تھی جبکہ ضیغم نے اسے قریب آتے دیکھ کر ٹیبل پہ پیر پسار دئیے اور دوپٹہ دوبارہ اپنے نیچے اڑس دیا۔

"اٹھیں۔۔۔۔" وہ اسکے قریب آئی تھی۔

"کیوں۔۔۔؟؟"

اس کے انداز نے شریفوں کو بھی مات دی۔ 

"آپکے نیچے میرا دوپٹہ پھنسا ہے۔"

اس نے ایک بار پھر دوپٹہ کھینچا۔

"تو۔۔۔۔۔۔؟؟"

لاپرواہی کی حد تھی۔

"تو آپ اٹھیے تاکہ میں اپنا دوپٹہ لے سکوں۔"

ضیغم کا انداز اسے غصہ دلانے لگا۔

"اور اگر نہ اٹھوں تو۔۔۔۔۔؟"

اب وہ ڈھیٹوں کو بھی مات دینے کے تیار ہوا۔

"تو۔۔۔۔۔۔۔"

مسکاء نے ہاتھ میں پکڑا دوپٹہ اس کے چہرے پہ پھینکا اور کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس سے پہلے کے وہ دروازہ کھول کمرے میں داخل ہوتی ضیغم نے اس سے پہلے پہنچ کر بند دروازے پہ دونوں ہاتھ رکھ کر اسے گھیر لیا۔

"یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔"

وہ نروٹھے پن میں بولی۔

"کیا کر رہا ہوں؟"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔ اس کے انداز پہ مسکاء کی سٹی گم ہو گئی۔ وہ دروازے سے بالکل جڑی کھڑی تھی جبکہ ضیغم نے دونوں اطراف سے اسے گھیر رکھا تھا۔ دونوں کے بیچ فاصلہ نہ ہو ہونے کے برابر تھا۔ مسکاء کو اندازہ ہوا کہ وہ بناء دوپٹے کے کھڑی ہے تو اپنی حالت کے پیش نظر نظریں جھکا گئی۔ گال دہک اٹھے اور ماتھے پہ پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ مسکاء کی لرزتی پلکیں اسے کوئی اور ہی کہانی سنا رہی تھیں۔ ضیغم کو لگا جیسے وہ اس منظر میں کہیں کھو جائے گا۔ 

"جانے دیں نا پلیز۔۔۔"

اسکی باریک آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ 

"کبھی کہتی ہو چھوڑیں نا۔۔۔کبھی کہتی ہو جانے دیں۔۔۔میں کروں تو کیا کروں۔۔؟؟"

ضیغم نے ہاتھ اسکی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر نرمی سے اسکا چہرہ اپنے مقابل کیا۔ 

"ابھی جانے دیں پلیز۔۔"

مسکاء نے پہلی بار اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ اسے ضیغم کی آنکھوں میں محبت پنپتی دکھائی دی۔ وہ حیران ہوئی تھی محبت کے اس بیکراں سمندر کو دیکھ کر۔

"تو پھر کب پکڑوں۔۔؟؟ 

وہ شریر ہوا۔۔ مسکاء نے دوپٹے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جو وہیں صوفے پہ پڑا تھا۔ ضیغم نے بھی اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے دیکھا۔ 

"بتاو نا۔۔۔۔۔پھر کب پکڑوں؟" اس نے اسکے چہرے کے اطراف بکھرے بال سمیٹے۔ مسکاء نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گلاب کی پنکھڑی جیسے لبوں کی کپکپاہٹ اسکی نظروں کی قید میں تھی۔ 

"بس کچھ وقت اور ۔۔۔۔۔۔۔پھر وہی جو میں چاہوں گا۔"

اس نے دھیرے سے اسکے لبوں کی کپکپاہٹ چرا لی تھی۔۔_______________________________________

"ہاں شکور۔۔۔۔کیا خبر ہے۔"

وہ اخبار کی ورق گردانی کرتے ہوئے شکور سے بولے۔ ناشتے کے دوران چوکیدار نے انھیں شکور کے آنے کا بتایا تو انھوں نے اسے یہیں بلوا لیا ورنہ وہ لوگوں سے زیادہ تر حجرے میں ہی ملتے تھے۔ حویلی میں لوگوں کا آنا جانا انھیں زیادہ پسند نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے خاص آدمیوں کے لئے بھی ایک حد مقرر کر رکھی تھی۔ شکور بھی ان کے خاص آدمیوں میں سے ایک تھا جو ان کے لئے جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ جب سے انھیں میر پہ شک ہوا تھا انھوں نے شکور کو اس کے شب و روز کی خبر لینے کے لئے شہر بھیج دیا تھا۔ زمان خان کو تو وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ زمان خان نے اس معاملے میں رحم دین کی مدد ضرور کی ہو گی۔ وہ چاہتے تو زمان خان سے سچ اگلوا سکتے تھے مگر ایک تو الیکشن قریب تھے اس لئے وہ کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے تھے جن کی وجہ سے انھیں بعد میں کسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ اس لئے وہ بہت محتاط تھے۔ ایک لحاظ سے وہ زمان خان پہ بہت اعتبار بھی کرتے تھے کیونکہ انھوں نے سالوں پہلے جو وعدہ ان سے کیا تھا وہ اسے نبھا رہے تھے۔ حلانکہ حقیقت حال اب قدر مختلف تھی۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ میر سب کچھ جان چکا ہے۔ اس لئے انھوں نے اس بات کو لے کر کہ کہیں زمان خان اور رحم دین نے میر اور مسکاء کا نکاح نہ کر دیا ہو۔۔۔ شکور کو اس معاملے کی چھان بین کے لئے شہر بھیج دیا تھا۔

آج وہ شاید کوئی ضروری معلومات لے کر آیا تھا۔ انھوں نے ضیغم کو زمان خان کے حوالے کر تو دیا تھا مگر جب سے انھوں نے ضیغم کو دیکھا تھا انھیں ہر پل یہ خوف ستاتا کہ کہیں زمان خان ضیغم کو ان کے خلاف استعمال نہ کرے یا پھر وہ کہیں اسے سچ نا بتا دے۔ لہذا وہ جلد سے جلد اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے تھے تاکہ وقت پر اسکا کوئی سدباب کر سکیں۔

بظاہر تو وہ اخبار کی سرخیوں میں گم تھے مگر ذہہن شکور کی طرف اٹکا ہوا تھا کہ نجانے وہ کیا معلومات لایا ہو گا۔

"سلام خان جی۔۔۔!" شکور ان کے دائیں طرف ہاتھ باندھے کھڑا ہوا۔ انھوں نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔

"کہو۔۔۔۔کیا خبر ہے؟"

وہ بنا تامل مدعے پہ آئے۔

"خان جی۔۔۔نکاح کے بارے میں تو کوئی کچھ نہیں جانتا۔ میں کسی بہانے سے میر کے دوست ارحم سے ملا تھا۔ مگر اس نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ میر ابھی بھی ہاسٹل میں ہی رہتا ہے۔ مسکاء کے ہاسٹل سے بھی پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ اسے اس کا شوہر وہاں سے لے جا چکا ہے اور اس کے علاوہ وہ مسکاء کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔"

شکور نے رازداری برتتے ہوئے کہا۔ 

"ہیم۔۔۔۔اور میر۔۔۔۔"

وہ پرسوچ انداز میں اسکی طرف دیکھ رہے تھے۔

"خان جی۔۔۔میر کی وہی پہلے والی روٹین ہے۔ پہلے تو یونیورسٹی اور پھر اکیڈمی جاتا تھا اور اب امتحان ختم ہونے کے بعد صبح سے شام تک دو اکیڈمیز میں نوکری کر رہا ہے۔ چھ بجے تک وہاں سے فارغ ہو کر ایک دو گھروں میں ٹیوشنز دینے جاتا ہے۔ دیر تک وہاں سے فارغ ہوتا ہے تو ہاسٹل چلا جاتا ہے۔ پورے ایک ہفتے سے اسکی یہی روٹین ہے۔ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا جس سے یہ بات ثابت ہو کہ اس کی شادی ہوئی ہے۔"

اس نے ان کے پوچھنے پر میر کی روٹین بتائی۔ جس سے انھیں یہی اندازہ ہوا کہ یہ بات محض ایک خیال ثابت ہوئی۔ انھوں نے سر کے اشارے سے اسے جانے کو کہا۔ 

"ٹھہرو۔۔۔۔" انھوں نے شکور کو پیچھے سے آواز دی تو وہ جاتے جاتے رک گیا۔

"شہر جاو اور میر کو میرا پیغام دو کہ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں اور اگر یونیورسٹی سے فارغ ہو گیا ہے تو گاوں آ جائے یہاں اس کے لئے بہتر نوکری ہے۔کم از کم ہماری نظروں کے سامنے تو رہے گا۔ وہاں شہر میں کیا ہے۔ بس بہت پڑھ لیا اب گاوں واپس آ جائے۔"

وہ اخبار تہہ کر کے رکھتے ہوئے بولے۔

"جی خان جی۔۔۔میں آج ہی اسے آپ کا پیغام دیتا ہوں۔"

ان کے سر ہلانے پر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ وہ ناشتہ کرنے لگے۔ اب وہ کچھ مطمئن سے دکھائی دے رہے تھے۔ ناشتے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آ گئے۔صوفیہ بیگم فون پہ کسی سے بات کر رہی تھیں۔ انھیں آتا دیکھ انھوں نے الوداعی کلمات کہے اور موبائل ایک طرف رکھ دیا۔ 

"ہم آج ہی شہر واپس جا رہے ہیں۔ شہنیلا اور شاہ زیب بھی میرے ساتھ جائیں گے۔ لنچ کے بعد ہمیں نکلنا ہے۔ میں تو کہتی ہوں آپ بھی چلیے ہمارے ساتھ۔ کچھ دن وہاں گزار کر واپس آ جائیے گا۔"

صوفیہ بیگم نے شہر کے نام پہ ان کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات دیکھ کر انھیں بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ 

"کچھ ہی دن تو ہوئے ہیں تم لوگوں کو اور پھر جانے کی رٹ لگا دی ہے۔ تم نے میرے بچوں کو مجھ سے دور کر دیا ہے۔ چلو پہلے تو ان کی پڑھائی کا بہانا تھا مگر اب کیا ضرورت ہے شہر جانے کی۔ تم نے ان کو بھی اپنی طرح کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب یہیں رہو۔ شہر آتے جاتے رہنا۔ میں یہاں بالکل اکیلا ہو جاتا ہوں۔"

وہ اپنی ناگواری نہ چھپا سکے۔ ان کی بات سن کر صوفیہ بیگم نے پریشانی سے انھیں دیکھا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ اگر وہ اپنی پہ آ گئے تو انھیں بالکل جانے نہیں دیں گے۔ 

"یہاں آپ کے پاس عالمزیب ہے تو سہی اور پھر آپ اس کی شادی کی بات بھی کر رہے تھے۔ ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ آپ جانتے تو ہیں شاہ زیب کو وہ تو رکے گا نہیں اور شہنیلا کی فرینڈز بھی اسے شہر آنے کے لئے کہہ رہی ہیں۔"

وہ ان کے قریب آئیں تھیں۔ بچوں کا تو بہانا تھا درحقیقت وہ خود بھی شہری زندگی کی دلدادہ تھیں۔

"بچوں کو کہہ دو۔۔ بس اب عالمزیب کی شادی کے بعد ہی جانا۔" 

وہ دو ٹوک انداز میں کہتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھ گئے۔ وہ خاموشی سے انھیں جاتا دیکھتی رہیں۔ ان کے جانے کے بعد انھوں نے فون کر کے گل رخ بیگم سے کل شام کی دعوت کے لیے معذرت کی اور انھیں بتایا کہ وہ عالمزیب کی شادی کے بعد شہر آئیں گی۔ دل تو ان کا نہیں چاہ رہا تھا مگر میر سربلند خان کے مزاج سے وہ اچھی طرح واقف تھیں۔ اب شہر جانے کا پروگرام تو ٹل گیا تھا تو وہ شادی کے متعلق سوچنے لگیں۔ انھوں نے ملازمہ سے کہہ کر شہنیلا کو بلوایا۔ انھوں نے جب اسے عالمزیب کی شادی کا بتایا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ میر سربلند خان جب واش روم سے نکلے تو وہ اور شہنیلا سر جوڑے شادی کی پلیننگ میں مصروف تھیں۔ وہ پرسکون ہو گئے۔

"شادی کی پلیننگ تو ہوتی رہے گی۔ پہلے ہم نے باقاعدہ رشتہ لینے جانا ہے پھر آگے کی تیاری کرنی ہے۔" وہ شہنیلا کے پاس بیٹھتے ہوئے بولے۔

"لیکن بابا آپ نے تو کہا تھا کہ آپ نے ان سے بات کر لی ہے اور وہ اس رشتے کے لئے راضی بھی ہیں۔"

شہنیلا نے انھیں ان کی بات یاد دلائی۔

"ہاں بالکل کہا تھا لیکن آپ اور آپ کی ماما کا بھی میرے ساتھ باقاعدہ رشتہ لے کر جانا ضروری ہے۔ اس لئے ہم کل ہی جائیں گے ان کی طرف۔"

انھوں نے پیار سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

" او۔کے بابا۔۔۔۔ہم کل ہی جائیں گے کیوں ماما ٹھیک ہے نا؟"

اس نے صوفیہ بیگم سے تائید چاہی۔ انھوں نے بھی مسکرا کر سر ہلایا۔ اب وہ ایک بار پھر سے کل کے لئے پلیننگ کرنے لگیں۔ میر سربلند خان خالص زنانہ گفتگو سے اکتا کر روم سے باہر آ گئے۔_____________________________________

"میر۔۔۔۔" وہ ابھی اکیڈیمی سے نکل کر پارکنگ میں کھڑی گاڑی کی جانب بڑھ ہی رہا تھا کہ اپنے نام کی پکار پر پارکنگ کی طرف بڑھتے اس کے قدم رک گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو قریب آتے شکور کو دیکھ کر وہ اس کی طرف آیا۔ وہ جانتا تھا کہ شکور میر سربلند خان کا خاص ملازم تھا اور اکثر ان کے کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں شہر آتا رہتا تھا۔

"میر۔۔۔! خان جی نے تمھارے لئے پیغام دیا ہے۔"

وہ اس کا مصافحہ کے لئے بڑھا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔

"کیسا پیغام۔۔؟" وہ اس کی بات سن کر حیران ہوا۔

"انھوں نے تمھیں گاوں بلوایا ہے۔ شاید انھیں کوئی ضروری کام ہے تم سے۔"

شکور اس کی اٹھان کو رشک سے دیکھتے ہوئے بولا۔

"مگر ایسا کیا کام ہے کہ انھیں تمھیں بھیجنا پڑا۔ پہلے تو مجھ سے انھیں کوئی کام نہیں پڑا۔"

وہ اردگرد نظر ڈالتے ہوئے بولا۔

"مجھے اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں پتہ شاید انھوں نے تمھارے لئے گاوں میں ہی کسی ملازمت کا بندوبست کیا ہے۔"

اس کی بات سن کر ضیغم کے لبوں کو ہنسی نے چھوا۔ 

"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ مجھ پہ اتنی مہربانی کیوں؟؟"

اس کے چہرے سے ناپسندیدگی چھلکنے لگی لیکن پھر بھی اس نے تحمل کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ شکور نے اس کے تفتیشی انداز پہ کندھے اچکائے۔

"تم تو ایسے تفتیش کر رہے ہو جیسے پولیس کے محکمے میں کسی اعلی عہدے پر فائز ہو گئے ہو۔ زیادہ اکڑو مت تمھیں تو ایک دن انہی کی چاکری کرنی ہے پھر اتنا غرور کس بات کا۔"

اس کی بات پر ضیغم کا قہقہہ بلند ہوا پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

"ٹھیک ہے ان سے کہہ دینا کہ کسی دن گاوں کا چکر لگاوں گا۔ ابھی فلحال تو میں فارغ نہیں ہوں۔ ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے جانا ہے۔"

اس نے الوداعی نظروں سے اسے دیکھا۔ شکور بھی سر ہلاتے ہوئے مڑ گیا لیکن نجانے کیا سوچ کر مڑتے ہوئے بولا۔

"یہ گاڑی کب لی تم نے۔۔؟" 

اس کے سوال پہ ضیغم نے اسکی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اسے گاڑی میں آتے ہوئے دیکھ چکا ہے۔ 

"کسی دوست کی ہے۔ وہ شہر میں نہیں ہے اس لئے کچھ دن کے لئے میرے حوالے کر گیا ہے۔" اسے بروقت بہانا سوجھا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے مڑ گیا۔

"شکور۔۔۔۔۔کیا پچھلے دو ہفتوں سے تم میری حرکات پہ نظر رکھے ہوئے تھے۔"

شکور کے انداز پر اسے شک گزرا۔ وہ پلٹ کر اس کے پاس آیا۔

"کیا تمہی میرے بارے میں لوگوں سے پوچھ تاچھ کر رہے ہو؟"

اس نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

"ہاں۔۔۔"

نہایت مختصر جواب آیا۔

"کیا میں اس حرکت کے پیچھے چھپی وجہ جان سکتا ہوں کہ آخر تمھیں ایسی کیا ضرورت آن پڑی۔ کیا تم مجھے جانتے نہیں ہو جو میرے بارے میں معلومات کرتے پھر رہے ہو۔"

ایک ہفتہ پہلے ارحم نے اسے بتایا کہ کوئی شخص یونیورسٹی میں اس کے متعلق پوچھ تاچھ کر رہا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے۔۔کس کے ساتھ رہتا ہے اور خاص طور پر شادی کے متعلق پوچھتا ہے کہ کہیں شادی تو نہیں کی۔ اسے اندازہ تو ہو گیا تھا کہ یہ سب کون کر سکتا ہے اور اس کے پیچھے کیا وجہ کارفرما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے وہ رات کو ہاسٹل چلا جاتا تھا اور پھر کافی وقت وہاں گزار کر گھر جاتا تھا تاکہ وہ جو کوئی بھی ہے کم از کم گھر تک نہ پہنچ پائے۔ کل تک وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید باتور خان آتا ہو کیونکہ وہ دو تین بار مسکاء کے ہاسٹل جا چکا تھا۔ مگر آج پتہ چلا تھا کہ میرسربلند خان نے اس کے پیچھے شکور کو لگا رکھا تھا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ ان کو شک ہو گیا تھا کہ مسکاء کا نکاح اس سے کروایا گیا ہے۔ نکاح کی بات کو لے کر وہ پرسکون تھا کیونکہ یونیورسٹی میں اسکے نکاح کا کسی کو بھی علم نہیں تھا سوائے ارحم کے۔

"میں تمھیں ڈوھونڈ رہا تھا تاکہ تم تک ان کا پیغام پہنچا دوں۔ ویسے کیا تمھیں پتہ ہے کہ رحم دین نے اپنی بیٹی کا نکاح کس سے کیا ہے۔ تم تو موجود ہو گے نا نکاح کے وقت۔۔زمان خان نے کچھ تو بتایا ہوگا تمھیں۔"

وہ اکیڈیمی کے گیٹ سے نکلتے لڑکوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے بولا۔

"اچھا۔۔؟؟ ویسے بڑی حیرانی کی بات ہے کہ تمھیں مجھے پیغام دینے میں دو ہفتے لگ گئے۔۔ خان جی سے کہہ دینا میں ایک دو دن میں چکر لگاوں گا۔ دیکھوں تو سہی کہ تمھارے خان جی نے میرے لئے کون سی نوکری ڈھونڈی ہے۔ رہا تمھارا دوسرا سوال تو اسکا جواب میں دینا ضروری نہیں سمجھتا۔"

ضیغم کے دوٹوک انداز پہ شکور نے پہلو بدلہ جبکہ وہ ایک نظر اس پہ ڈالتا پلٹ گیا۔

"تمھاری اکڑ تو خان جی ہی نکالیں گے میر۔۔دو جماعتیں کیا پڑھ لیں خود کو طرم خان سمجھنے لگ گیا ہے۔ خان جی کے مقابلے میں آنا چاہ رہا ہے۔ چیونٹی کی طرح مسل دیں گے وہ تمھیں۔"

شکور نے اونچی آواز میں کہا۔ 

"مجھے مسلنے کے خواب ضرور دیکھو مگر یاد رکھو کہ خوابوں کی تعبیر الٹ ہوتی ہے۔۔۔اللہ حافظ۔"

یہ کہہ کر وہ رکا نہیں۔ شکور وہیں کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس بات کا جواب تو وہ اسے دے دیتا مگر اسے میر کے ہاتھوں بنی باتور خان کی درگت اچھی طرح یاد تھی۔ اس لئے اس نے خاموشی سے وہاں سے چلے جانا مناسب سمجھا۔

ضیغم اسکے جانے تک وہیں رکا رہا۔ جب وہ جا چکا تو اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔اب اسے اس پریشانی نے آ گھیرا کہ کہیں وہ لوگ اپنی اصلیت پہ نہ اتر آئیں اور بابا کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ اب اس کے لئے گاوں جانا ناگزیر ہو گیا تھا۔ راستے بھر وہ اسی بارے میں سوچتا رہا۔___________________________________

"زمان خاناں۔۔۔!" 

وہ حجرے میں پودوں کو پانی دے رہے تھے جب ماہ گل نے انھیں پکارا۔ وہ حویلی کی طرف کھلنے والے دروازے کے پیچھے کھڑی تھیں۔ اس وقت حجرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ دن کا وقت تھا اس لئے سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ ان کا انداز ایسا تھا جیسے کسی کی نظروں میں نہ آنا چاہتی ہوں۔ کل سے وہ ان سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھیں مگر موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔ آج موقع ملا تو وہ انھیں ڈھونڈتی ہوئیں حجرے کی طرف آئیں تھیں۔ان کے رازدارانہ انداز پہ زمان خان نے فورا پائپ کیاری میں پھینکا اور ہاتھ صافے سے پونچھتے دروازے کے قریب آئے تھے۔

"کیا بات ہے بی بی گل۔۔خیریت تو ہے نا؟"

اتنا سا فاصلہ بھی طے کرنے سے ان کی سانس پھول گئی تھی۔

"میر کی کوئی خیر خبر ہے یا نہیں۔"

انھوں اردگرد نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔

"اللہ کا شکر ہے بی بی گل۔۔سب خیریت ہے۔ کچھ دن پہلے ہی بات ہوئی تھی میری۔۔بلکہ مسکاء سے بھی بات ہوئی تھی۔ ٹھیک ٹھاک ہیں دونوں۔۔تم کچھ پریشان لگ رہی ہو خیر تو ہے نا؟"

انھوں نے ان کے چہرے پہ چھائی پریشانی بھانپ لی تھی۔

"اللہ ہمارے بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ پریشانیوں نے تو جیسے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے۔ جتنا دور بھاگتے ہیں اتنا ہی پیچھے آتی ہیں۔ کہاں جائیں سمجھ نہیں آتا۔ یہ لوگ خود تو چین سے جی رہیں ہیں مگر ہم غریبوں پہ زندگی تنگ کر رکھی ہے۔ اب تو اللہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے ان ظالموں سے۔"

ماہ گل نے چادر سے اپنی آنکھیں رگڑ ڈالیں۔

"آخر بات کیا ہوئی ہے؟"

ماہ گل کے انداز نے انھیں بھی پریشان کر ڈالا۔

"خان جی کو شک ہو گیا ہے کہ مسکاء کا نکاح میر سے ہوا ہے۔ انھوں نے شکور کو پتہ کروانے کے لئے شہر بھیجا تھا۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اسے کچھ بھی معلوم نہ ہو سکا۔"

ماہ گل ماتھا پیٹتی ہوئی بولیں۔ ان کی بات سن کر زمان خان کا دل سکڑ کر پھیلا تھا۔ ایک پل کے لئے تو جیسے ان کی گویائی سلب کر لی گئی ہو۔ بدن سے جیسے پسینہ پھوٹ نکلا تھا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ میرسربلند خان کا دھیان اس طرف اتنی جلدی چلا جائے گا۔ وہ زمین پہ بیٹھتے چلے گئے۔ ماہ گل ان کی پیلی رنگت دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔

"زمان خان۔۔۔سنبھالو خود کو۔۔ کچھ نہیں پتہ چلا ہے ان کو۔ شکور نے آ کر ان کے خیال کی تردید کر دی ہے۔ تم نے تو ایسے ہاتھ پیر چھوڑ دئیے جیسے میں نے خدانخواستہ کچھ اور کہہ دیا ہو۔ میرے منہ میں خاک جو ایسا کچھ کہوں۔ ٹھہرو میں تمھارے لئے پانی لاتی ہوں۔"

وہ صحن میں دھرے پانی کے کولر سے ان کے لئے پانی لے آئیں اور سہارا دے کر انھیں پانی پلایا۔ تھوڑی دیر بعد ان کی رنگت کچھ بحال ہوئی۔

"میں نے کہا کہ شکور کو کچھ بھی معلوم نہیں ہوا۔ اس نے آکر میر سربلند خان کو کہہ دیا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ وہ پورا ایک ہفتہ میر کے پیچھے رہا لیکن اس نے ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا۔ اوپر سے مسکاء ہاسٹل میں بھی نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے مسکاء کے کالج اور ہاسٹل کی کسی لڑکی کو پیسے دے کر اس سے بھی معلومات لینے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے صرف اتنا ہی بتایا کہ مسکاء کو اسکا شوہر آ کر لے گیا ہے۔"

ماہ گل نے تفصیل بتائی تو ان کی جان میں جان آئی۔

"پھر خان جی نے کہا؟"

انھوں نے پانی کا کٹورا زمین پہ رکھا۔

"ان کے چہرے سے تو یہی اندازہ لگایا میں نے کہ انھیں یقین ہو گیا ہے۔ ویسے بھی شکور ان کا خاص آدمی ہے۔ لیکن انھوں نے شکور سے کہا ہے کہ واپس شہر جا کر میر سے کہے کہ میرسربلند خان جتنی جلدی ہو سکے اس سے ملنا چاہتے ہیں۔ شہر کی نوکری چھوڑے اور گاوں آ کر رہے۔ انھوں نے اس کے لئے کام دیکھ رکھا ہے اور پہلی فرصت میں وہ آ کر ان سے ملے۔"

ماہ گل نے مزید بتایا۔

"ٹھیک ہے میں میر سے کہتا ہوں کہ کوئی ضرورت نہیں یہاں آنے کی۔"

وہ دیوار کا سہارا لیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ہاں ۔۔۔۔میر کو منع کر دو۔ ویسے بھی اگر وہ یہاں آیا تو مسکاء اکیلی ہو جائے گی۔"

ماہ گل بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"میں چلتی ہوں کہیں کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ بن جائے گا۔"

یہ کہہ کر وہ جھپاک سے اندر چلی گئیں اور دروازہ بند کر دیا۔ ان کے جاتے ہی زمان خان نے جھک کر زمین سے کٹورا اٹھایا اور واپس صحن میں رکھے کولر پہ رکھ دیا۔ کیاری کی پاس آ کر انھوں نے پائپ اٹھا لیا اور جامن کے ننھے سے پودے کی طرف بڑھے۔ اس کی نازک سی شاخوں پہ تازہ پتے نکلے تھے۔ انھوں نے پائپ اس کی طرف کیا پھر آس پاس کے پودوں کو بھی پانی دیا۔

"تمھارا دھیان کہاں ہے زمان خان۔"

میر سربلند خان کی آواز پہ وہ چونک گئے۔ 

"خان جی کہیں نہیں۔۔ بس ذرا میر سے ملنے کو جی چاہ رہا ہے۔ مہینہ ہونے کو آیا ہے اس نے مڑ کر چکر ہی نہیں لگایا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کے پاس سے ہو آوں۔"

انھوں پائپ ایک بار پھر کیاری میں ڈال دیا۔ پانی تیزی سے کچی مٹی کو بھگونے لگا۔ 

"تیرا رنگ تو ذرد پڑا ہوا ہے؟"

انھوں نے ان کی ذرد رنگت کی طرف اشارہ کیا۔

"بس خان جی۔۔ناتواں جسم ہے۔ بوڑھا ہو گیا ہوں۔ آپ کہیں تو چلا جاوں؟"

انھوں نے دوبارہ پوچھا۔

"ہاں ٹھیک ہے چلے جاو۔۔ لیکن واپسی پہ اسے ساتھ لے آنا۔ یہاں بہت کام ہیں۔ اب تم تو سنبھال نہیں پاو گے تو تمھاری جگہ وہی سب دیکھ لے گا۔"

میرسربلند خان نے کہا تو انھوں نے سر ہلا کر رضامندی دے دی۔

"میں حویلی میں ہوں کوئی آئے تو جواب کر دینا۔"

ایک نظر ان پہ ڈال کر وہ حجرے کا بیرونی دروازہ پار کر گئے۔ انھوں نے سوچا کہ میر کو لے ہی آئیں گے ساتھ تاکہ اگر تھوڑی بہت شک کی کیل ہو ان کے دماغ میں تو وہ بھی نکل جائے۔ انھوں نے نل بند کیا اور گلزم خان کے گھر کی طرف چل دئیے۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ رحم دین اور ذہرہ بی بی کو بھی ساتھ لے چلیں لیکن ابھی یہ مناسب نہیں تھا۔

گلزم تو تیار تھا۔ آج اس نے کسی کام سے شہر جانا بھی تھا۔ اس لئے شام سے پہلے نکلنے کا عندیہ لے کر وہ رحم دین کی طرف آ گئے۔ رحم دین کو معلوم ہوا تو ان کا بھی مسکاء سے ملنے کو جی چاہا مگر زمان خان کے سمجھانے پر خاموش ہو گئے۔ ذہرہ بی بی نے مسکاء کے کچھ کپڑے اور ضرورت کی چیزیں بھی انھیں دیں۔ زمان خان نے اپنا چھوٹا سے موبائل فون رحم دین کو دے دیا تاکہ وہ ان سے رابطے میں رہ سکیں۔

وہاں سے وہ فورا چلے آئے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔

رحم دین کے گھر ہی میں انھوں نے میر کو اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔ 

ان کے آنے کا سن کر وہ بہت خوش تھا۔ اسکا رزلٹ بھی آ گیا تھا۔ یہ خوشخبری وہ ان کے آنے پر ہی انھیں دینا چاہتا تھا۔

گھر آ کر انھوں نے اپنا چھوٹا سا سفری بیگ تیار کیا۔ عصر میں ابھی بہت ٹائم تھا اور یہ وقت ان سے کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ ایک بار پھر حویلی جا کر میر سر بلند خان کو اپنے جانے کا کہہ آئے اور ساتھ ہی ساتھ ماہ گل کو بھی اپنے جانے کی اطلاع دے دیں گے۔ وہ حویلی آ گئے۔ ماہ گل سے پوچھ کر وہ ان کے کمرے میں آئے تھے۔

"تم نے تو آج ہی تخت سفر باندھ لیا۔ ایک دو دن ٹھہر کر چلے جاتے۔"

انھیں ہاتھ میں پکڑی فائل ٹیبل پر رکھی۔

"خان جی۔۔۔پھر واپس آ کر شادی کے انتظامات بھی تو دیکھنے ہیں۔"

زمان خان نے سر جھکائے جھکائے جواب دیا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔ کیسے جاو گے؟"

انھوں نے ٹیبل سے چائے کا کپ اٹھایا۔

"وہ جی۔۔۔گلزم خان جا رہا ہے آج کسی کام سے شہر۔۔اسے ہاسٹل کا پتہ بھی معلوم ہے تو اسی کے ساتھ جاوں گا۔"

زمان خان نے انھیں بتایا۔ میرسربلند خان نے سر ہلا کر اجازت دی تو وہ ان کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے نکل آئے۔ وہاں سے وہ سیدھے کچن میں آئے جہاں انھوں نے ماہ گل کو اپنے شہر جانے کا بتایا۔ وہ ان کے جانے کا سن کر بہت خوش ہوئیں تھیں۔ اتنی دیر میں عصر کی اذان کی آواز سنائی دی تو وہ ماہ گل کو خدا حافظ کہہ کر حویلی سے نکل آئے۔ اب ان کے قدم گاوں کی اکلوتی مسجد کی جانب گامزن تھے۔________________________________________

گلزم خان کو معلوم نہیں تھا کہ میر اب ہاسٹل میں نہیں رہتا اس لئے وہ زمان خان کو ہاسٹل لے آیا۔ میر گیٹ کے پاس ہی کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ میر کو انتظار کرتا دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ جی چاہتا تھا فورا گاڑی سے نکل کر اسے سینے سے لگا لیں۔ گلزم خان نے گاڑی ایک طرف روکی تو انھوں فورا اپنے دل کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا۔ کتنے پل وہ اسے یونہی سینے سے لگائے کھڑے رہے۔ باپ بیٹے کے ملاپ پہ گلزم خان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ 

"آج میری باری بھی آئے گی یا کل تک انتظار کرنا پڑے گا۔"

گلزم خان ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔ ان کی بات پر دونوں باپ بیٹا مسکراتے ہوئے الگ ہوئے۔ ان سے سلام دعا کے بعد گلزم خان نے اپنی راہ لی۔ ان کے جانے کے بعد ضیغم انھیں گاڑی کی جانب لے آیا۔ 

"ارحم کی گاڑی کافی پرانا ماڈل نہیں۔ اسے کب سے شوق ہونے لگا پرانی گاڑیوں کا۔"

انھوں نے گاڑی کے بونٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔ ضیغم مسکرا دیا۔

"یہ میری گاڑی ہے بابا۔۔۔آپ کی گاڑی ہے۔"

وہ گاڑی میں بیٹھا اور ان کے لئے بھی فرنٹ ڈور کھول دیا۔

"تم نے بتایا ہی نہیں۔۔کب خریدی گاڑی۔"

زمان خان نے بیٹھتے ہوئے اسے گھورا۔

"او۔ہو بابا۔۔۔کہا تو ہے ہماری گاڑی ہے۔"

ان کی گھوری کا بھی اس پہ کوئی اثر نہ ہوا۔

"میر۔۔۔۔"

وہ تنبیہی انداز میں بولے تو وہ ہنس دیا۔

"کیا بات ہے بڑے خوش دکھائی دے رہے ہو۔۔لگتا ہے مسکاء بہت خیال رکھتی ہے میرے بیٹے کا۔"

انھوں نے اسکی مسکراہٹ کو محبت بھری نظروں سے دیکھا۔

"مسکاء۔۔۔۔اور خیال۔۔۔بابا وہ بہت تنگ کرتی ہے مجھے۔"

"چلو اب جھوٹ مت بولو۔۔مسکاء ایسی نہیں ہے۔۔بہت خیال رکھنے والی بچی ہے۔ تبھی تو تمھاری بتیسی اندر نہیں ہو رہی۔"

اسے خوش دیکھ کر وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔

"ارے بابا کہاں خیال رکھنے والی بچی ہے۔۔صرف تنگ کرتی ہے اور جہاں تک بتیسی کی بات ہے تو وہ آپکی آمد کی خوشی ہے۔ ورنہ تو اسے جس وقت دیکھتا اسی وقت تنگ ہونا شروع ہو جاتا ہوں۔"

وہ معنی خیزی سے بولا۔

"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔؟؟"

انھوں نے پوچھا۔

"کچھ نہیں بابا۔۔۔یہ گاڑی بابا کی ہے۔ گاوں آتے وقت انھوں نے پروفیسر محمد عقیل کے حوالے کی۔ یہ میری امانت تھی ان کے پاس۔۔انھوں نے مجھے لوٹا دی۔"

وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا۔ یہ بات بتاتے وقت جو کرب اس کی آنکھوں میں تھا اسے صرف وہی محسوس کر سکتے تھے۔ 

"اللہ انھیں اسکا اجر دے۔۔۔کہاں ملتے ہیں آجکل کے زمانے میں ایسے لوگ۔۔اس وقت بھی انھوں نے تمھارے بابا کا بہت ساتھ دیا تھا۔۔میں اس فرشتہ صفت انسان سے ضرور ملنا چاہوں گا۔۔لے کر جاو گے نا مجھے ان کے پاس؟"

انھوں نے اس سے پوچھا۔

"جی بابا میں لے چلوں گا آپ کو۔"

اس کے کہنے پر انھوں نے سر ہلایا اور بھاگتے دوڑتے منظر میں کھو گئے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ گاڑی ایک نسبتا پرانی عمارت کے سامنے جا رکی ہے۔ انھوں نے جھک کر کھڑکی سے بلند عمارت کو دیکھا۔ آس پاس لوگوں کی کافی چہل پہل تھی۔ اس نے عمارت کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی اور انھیں گاڑی سے نکلنے کا عندیہ دے کر خود بھی گاڑی سے نکل آیا۔ گاڑی لاک کی اور پھر زمان خان کے کندھے پہ بازو پھیلا کر انھیں ساتھ لئے بلڈنگ کی سیڑھیاں طے کر کے فلیٹ کے پاس آن رکا۔ چابی نکال کر لاک کھولا اور انھیں ساتھ لئے اندر داخل ہوا۔ باہر کی بہ نسبت اندر کی حالت کافی اچھی تھی۔ مختصر سامان اور صاف ستھرا لاونج دیکھ کر انکی طبیعت خوش ہو گئی۔کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ 

"آپ بیٹھیں بابا۔۔۔میں ذرا آپ کی لاڈلی کو دیکھ لوں۔"

وہ انھیں وہیں صوفے پہ بیٹھنے کا اشارہ کرتا کچن کی طرف آ گیا۔ جہاں مسکاء کھانے کی تیاری میں مگن تھی۔

"بابا آگئے ہیں۔"

اس نے فریج میں سے ٹھنڈے پانی کی باٹل نکالی اور اسے انفارم کر کے کچن سے نکل گیا۔ مسکاء نے جلدی سے ہاتھ دھوئے اور تولیے سے ہاتھ پونچھتی باہر آئی تھی۔ زمان خان اسے آتا دیکھ خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسکاء بھی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتی ان کے قریب آئی۔

"السلام و علیکم چاچا۔۔!"

اس نے سلام کیا۔ ضیغم اس کیطرف بغور دیکھ رہا تھا۔ شاکنگ پنک پھولدار قمیص پہ شاکنگ پنک سادہ دوپٹہ اور بلیک سادہ سے ٹراؤزر میں ملبوس وہ اور دنوں سے بہت مختلف لگ رہی تھی۔ اس سے پہلے اس نے یہ لباس اسے پہنتے نہیں دیکھا تھا۔ گلابی رنگت خوشی سے دمک رہی تھی۔ وہ زمان خان سے سب کے متعلق پوچھ رہی تھی۔ وہ اسے ساری باتیں بتا رہے تھے جو ذہرہ بی بی نے انھیں اس سے کہنے کے لئے کہی تھیں۔ کانوں میں چھوٹی چھوٹی گولڈ کی بالیاں تھیں۔ سلیقے سے بنائے گئے بال اب لاپرواہی سے چہرے کے اطراف لٹوں کی صورت بکھرے ہوئے تھے۔ وہ لبوں پہ مسکراہٹ سجائے نہایت محویت سے اسے تک رہا تھا اور جانتا تھا کہ اس کی نظروں کی تپش اس تک بھی پہنچ رہی ہے لیکن وہ اس کی طرف دیکھنے سے گریز برت رہی تھی۔ 

"میں آپکے لئے چائے لے کر آتی ہوں۔"

وہ اس کی نگاہوں کے ہٹیلے پن سے گھبرا کر اٹھ کر کچن میں چلی آئی۔ مسکاء کے جانے پر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ 

"تم روز اسی طرح اسے گھورتے ہو یا یہ موقع آج ملا ہے تمھیں؟"

انھوں نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا۔ 

"میں تو اس لئے گھور رہا تھا کہ آتے ہی آپکو باتوں پہ لگا دیا۔ نہ چائے نہ ٹھنڈا۔۔۔کچھ نہیں آتا اس لڑکی کو۔"

وہ اپنی چوری پکڑے جانے پر خفت سے مسکراتے ہوئے بولا۔ انھوں نے اس کی بات پہ سر ہلایا۔

"یہ اسی طرح مجھے تنگ کرتی ہے۔"

وہ مزید بولا۔ 

"چائے۔۔۔" 

مسکاء نے ٹرے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔ اس کی نظروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اسکی بات سن چکی ہے۔

"شکریہ بیٹا۔۔ " 

انھوں نے کپ اٹھا لیا۔ چائے وہ بہت شوق سے پیتے تھے لیکن ضیغم کا معاملہ بلکل الٹ تھا۔ وہ چائے کا شوقین نہیں تھا۔ جب کبھی موڈ ہوتا تو بنانے کو کہہ دیتا۔ 

"میرے لئے نہیں لائی۔"

وہ واپس جانے لگی تو وہ اسے روکنے کی غرض سے بولا۔

"تم تو اس ٹائم چائے نہیں پیتے نا۔" زمان خان پلیٹ سے بسکٹ اٹھاتے ہوئے اسکی جانب دیکھا۔

"کبھی کبھی پی لیتا ہوں۔"

وہ ان کی کڑی نظروں سے جزبز ہوتے ہوئے بولا۔

"میں دیکھ رہا ہوں تمھیں۔۔۔سدھر جاو۔"

انھوں نے ایک بار پھر اسے تنبیہی نگاہوں سے گھورا جبکہ وہ میں نے کیا کیا کی عملی تصویر بنے انھیں دیکھ رہا تھا۔ مسکاء پلٹ کر جا چکی تھی اور وہ اسے میرسربلند خان کے متعلق بتانے لگے۔

مسکاء نے لاونج میں ہی ان کے لئے کھانا چن دیا۔ کھانے کے دوران ضیغم نے انھیں اپنی شاندار کامیابی کے متعلق بتایا اور یہ بھی کہ وہ بہت جلد اپنے سینے پہ ستارے سجائے گاوں آئے گا۔ وہ اتنے خوش ہوئے کہ اٹھ کر اسے سینے سے لگایا۔ آخر کو انکا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔ 

بہت رغبت سے کھانا کھانے کے بعد مسکاء نے ان کے لئے قہوہ بنایا اور خود بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ضیغم کی نظریں ایک بار پھر اسی کا طواف کرنے لگیں۔قہوہ پینے کے دوران انھوں نے ایک بیگ مسکاء کو دیا جو ذہرہ بی بی نے اس کے لئے دیا تھا۔ وہ بیگ لیے کمرے میں آ گئی۔ کھول کر دیکھا تو اس میں اس کے کپڑے، جوتے اور ضرورت کی دوسری چیزیں بھی موجود تھیں۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ آنسو پونچھ کر بیگ الماری میں رکھا۔ ابھی الماری کے پٹ بند کرنے ہی والی تھی کہ ضیغم کمرے میں داخل ہوا۔ 

"یہ کمرا بابا کے لئے ٹھیک ہے۔ وہ یہیں سو جائیں گے۔ تم ایسا کرو کہ میرے روم میں آ جاو۔"

وہ کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔ اس کی بات سن کر تو مسکاء کے قدم وہیں جم گئے اور دل کی رفتار بڑھ گئی۔ ویسے بھی وہ آس پاس ہوتا تو اس کی جان نکل جاتی تھی حالانکہ اس دن کے بعد سے اس نے پھر کوئی کارستانی نہیں کی تھی مگر پھر بھی اسکے ساتھ ایک ہی روم میں۔۔۔یہ سوچ کر ہی اسے اختلاج ہونے لگا تھا۔۔

"کیا سوچ رہی ہو؟"

وہ اس کے چہرے پہ ہوائیاں اڑتے دیکھ چکا تھا۔۔ ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولا۔

"میں یہاں ٹھیک ہوں۔۔آپ اور زمان چاچا وہاں سو جائیں نا۔"

وہ معصومیت سے بولی۔

"واہ واہ کیا کہنے آپکے۔۔۔میری بیوی تم ہو نا کہ وہ۔۔تھوڑی دیر میں آجانا۔"

وہ دو ٹوک انداز میں کہتا پلٹ کر جانے لگا۔

"مگر میں تو پہلے بھی یہیں سوتی تھی۔"

وہ کسی بھی طرح اسے ٹالنا چاہتی تھی۔ وہ سر جھٹک کر اسکے پاس آیا۔ 

"پہلے کی بات اور تھی۔ ہمارا یوں الگ رہنا انھیں پریشان کرے گا۔ جب وہ چلے جائیں تو تم واپس یہاں شفٹ ہوجانا۔۔۔ہیم۔۔؟"

اس نے اسے سمجھانے کے بعد تائید چاہی تو اسے نا چاہتے ہوئے بھی سر اثبات میں ہلانا پڑا۔

"چلو شاباش۔۔۔کمرہ درست کر کے آ جاو اور ہاں بابا کے لئے پانی رکھ جانا تاکہ انھیں کوئی تکلیف نہ ہو۔" وہ تو کہہ کر روم سے نکل گیا مگر اسکی جان پہ بن آئی۔ وہ تو ایک پل اس کے سامنے ٹک نہیں پاتی کجا کہ ساری رات اسی کے روم میں گزارنا۔ یہی سوچ سوچ کر نروس ہو رہی تھی کہ زمان خان کمرے میں داخل ہوئے۔

"ارے تم ابھی یہیں ہو۔۔ضیغم تو چلا گیا ہے کمرے میں۔۔جاو تم بھی آرام کرو۔"

انھوں نے اسے وہیں کھڑے دیکھ کر پوچھا۔

"جی بس جا رہی ہوں۔۔ آپ کو کچھ چاہیئے تو نہیں۔"

اس نے الماری میں سے اپنے کپڑے لئے اور کمرے سے جانے لگی کہ ان کے پکارنے پر پلٹی۔

"تمھارے کپڑے یہاں کیوں ہیں۔۔ضیغم ٹھیک تو ہے نا تمھارے ساتھ۔"

انھوں نے اسے بغور دیکھا۔ وہ جب سے آئے تھے نوٹ کر رہے تھے کہ دونوں میں نارمل میاں بیوی جیسی بول چال نہیں ہے۔

"جی۔۔۔۔جی سب ٹھیک ہے۔۔وہ دراصل ہمارے روم کی الماری چھوٹی ہے اس لئے میں اپنے کچھ کپڑے یہاں رکھتی ہوں۔"

اسے بروقت بہانا سوجھا۔ 

"ٹھیک ہے جاو اب آرام کرو۔" انھوں بیڈ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

"آپ کے پانی لے آوں پھر جاتی ہوں۔"

یہ کہہ کر وہ روم سے باہر جانے لگی۔

"میں خود لے لوں گا بیٹا۔۔ تم جاو سو جاو۔۔تھک گئی ہوگی۔"

ان کے کہنے پہ وہ روم سے باہر آ گئی۔ لاونج کی لائٹ آف کر کے وہ ضیغم کے روم میں آئی۔ کمرے میں نائٹ بلب کی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ضیغم بیڈ پہ سو رہا تھا۔ سو رہا تھا یا سونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا وہ سمجھ نہ سکی۔پورے کمرے پہ ایک طائرانہ نظر ڈالتی بیڈ کے قریب آئی۔ پھر آہستہ سے دائیں طرف کروٹ لے کر لیٹ گئی اور نیند آنے کی دعا کرنے لگی۔ اس کے اتنی خاموشی سے لیٹ جانے پہ ضیغم کے لبوں پہ مسکراہٹ چھا گئ۔ __________________________________

رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ کھلی تو وہ اٹھ بیٹھی۔ آس پاس نظر دوڑائی تو جگہ کی تبدیلی نے اس کے سوئے حواس بیدار کیے۔ حلق سوکھ کے کانٹا ہو رہا تھا۔ پانی کی طلب میں اس نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھی بوتل اٹھائی۔ گلاس موجود نہیں تھا اسی لئے بوتل سے ہی منہ لگا کر پانی پیا۔ پانی پی کر بوتل واپس ٹیبل پہ رکھی اور مڑ کر اپنے ساتھ سوئے ہوئے وجود پہ نظر ڈالی۔ ضیغم اسی کی جانب کروٹ لئے سو رہا تھا۔ ڈارک براون سلکی بال ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے۔ چہرے پہ بلا کا سکون تھا۔۔۔سب کچھ پا لینے کا سکون۔۔۔ ہلکی ہلکی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ مضبوط بازو تکیے کے گرد حصار کیے ہوئے تھے۔ تیز چلتی سانسوں کی آواز اس تک آ رہی تھی۔ وہ سر بیڈ کروان سے ٹکا کر اسے دیکھنے لگی۔ 

اس نے زیادہ تر اسے سیاہ لباس میں ہی دیکھا تھا۔ کوئی اور رنگ کم ہی پہنتا تھا۔ یقینا کالا رنگ اسکا پسندیدہ تھا۔ اس وقت بھی وہ بلیک ٹی شرٹ اور بلیک ٹراوزر پہنے ہوئے تھا۔ آدھی آستین سے کسرتی بازو جھانک رہے تھے۔ اپنے اندر کھلے محبت کے شگوفوں پہ اس نے کبھی نظر نہیں ڈالی تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نکاح کے بعد سے وہ اسکے لئے اپنے دل میں نرم گرم جذبے محسوس کرنے لگی تھی۔ اسکے چھوٹے چھوٹے جملے اس کے دل میں کہانیوں کے جال بننے لگے تھے۔ وہ اس ننھے پودے جیسے تھی جس پہ بہار کی آمد ہو چکی تھی۔ اب صرف اپنے ہونے کا اعتراف باقی تھا۔۔محبت کا اعتراف باقی تھا۔

کب سے وہ اسی میں کھوئی اسکا ایک ایک نقش اذبر کر رہی تھی۔ جیسے کوئی اپنی پسندیدہ کتاب پڑھ کر اذبر کرنے کی کوشش کرے لیکن پھر بھی تشنگی باقی رہ جائے۔۔ خوبصورت چہرہ ، خم دار پلکیں ، گھنی مونچھوں تلے ایک دوسرے میں پیوست عنابی لب ، مغرور کھڑی ناک۔۔۔ اس کی نظر اسکی کھڑی ناک پہ ٹہر گئی تھی۔۔اسے لگا جیسے اس چہرے کی ساری خوبصورتی اس ایک جگہ آ کر رک گئی ہے۔ ماتھے پہ بکھرے بال۔۔۔اسکا جی چاہا کہ ہاتھ بڑھا کر انھیں سمیٹ لے۔ اس نے اپنی خواہش پہ پہرے نہیں باندھے اور نرمی سے اسکے ماتھے سے بال ہٹائے۔ 

نرم مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا تھا وہ اور بھی محو ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی۔ اسے لگا جیسے اب کھبی وہ سو نہیں پائے گی۔ اسکی آنکھوں سے نیند چرا کر خود وہ گہری نیند سو رہا تھا۔

وہ گال کے نیچے ہاتھ رکھے بنا پلکیں جھپکے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ جاگ رہا ہوتا تو کیا وہ اسطرح اسے دیکھ پاتی یا اگر اسے معلوم ہو جائے کہ وہ رات کو اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔

مگر اسے کیسے معلوم ہو گا وہ تو سو رہا۔۔اس لیے چوری پکڑی جانے کے تو دور دور تک کوئی آثار ہی نہیں تھے۔ مسکراہٹ نے ایک بار پھر اسکے ہونٹوں پر اپنا پہرا جمایا تھا۔ اچانک غیر محسوس انداز میں ضیغم نے اپنا بائیاں بازو آنکھوں پہ رکھ لیا۔ اسکی پلکوں کی ہلکی سی جنبش نے مسکاء کو الرٹ کیا تو آہستگی سے کھسک کر لیٹ گئی اور آنکھیں موند لیں۔ کچھ پل خاموشی سے گزر گئے۔ مسکاء نے آنکھیں کھول کر ایک بار پھر اسے دیکھا۔ نجانے کیوں اسے لگا کہ وہ جاگ رہا ہے بس یونہی آنکھیں بند کیے سونے کی ایکٹنگ کر رہا ہے لیکن پھر اپنا وہم جان کر ریلیکس ہو گئی۔ حرکت کرنے سے بال ایک بار پھر سے اس کے ماتھے پہ سج گئے تھے۔۔

مسکاء نے پھر ہاتھ بڑھایا۔ ضیغم نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا۔ 

"یہ کیا ہو رہا تھا؟"

ضیغم نے اسکا ہاتھ کھینچا۔ مسکاء نے چوری پکڑے جانے پر شرمندہ ہوتے ہوئے اسکی جانب پشت کرنی چاہی مگر ضیغم نے ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا تھا۔ 

"یہ کیا حرکت تھی؟"

ضیغم نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے پوچھا کیونکہ مسکاء نے اپنی آنکھیں سختی سے میچ رکھی تھیں۔ 

"اوکھلی میں سر دیا ہے تو اب موصلوں سے کیا ڈر۔"

ضیغم نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود سے مزید قریب کیا۔ وہ اسکے سینے سے آ لگی تھی۔ آنکھیں اب بھی سختی سے بند تھیں۔ وہ کیسے اس سے نظریں ملائے گی یہ سوچ سوچ کر وہ ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔

"ارے مسکاء کاکروچ۔۔۔"

وہ دھیمی آواز میں چلایا تھا لیکن اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی تھی کہ کہیں وہ دوڑ ہی نہ لگا دے۔

"کہاں۔۔۔کہاں ہے۔۔۔؟؟"

اس نے فورا آنکھیں کھولیں اور اٹھنے لگی مگر ضیغم کی گرفت مضبوط تھی وہ اس کے حصار سے نکل نہیں پائی۔

"کہیں نہیں ہے۔۔"

وہ گھمبیر لہجے میں بولا۔ مسکاء کا دم ہوا ہونے لگا۔ 

"چھوڑیں۔۔۔۔"

وہ اسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"چھوڑ دوں گا۔۔۔پہلے یہ بتاو کہ تم مجھے اتنی دیر سے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہی تھی اور وہ بھی میری مرضی کے بغیر۔"

وہ اسے خود سے لپٹائے پوچھ رہا تھا۔ آنکھوں میں کچی نیند کی سرخی پھیلی تھی۔

"نہیں تو۔۔۔میں تو سو رہی تھی۔"

وہ نظریں اسکے کشادہ سینے پہ جمائے بولی۔

"یار کوئی بات نہیں۔۔اب مجھے نہیں دیکھو گی تو کسے دیکھو گی۔ اجازت نامہ تو ہے تمھارے پاس مجھے دیکھنے کا لیکن چھپ چھپ کے نہیں۔۔کھلے عام دیکھا کرو۔"

ضیغم نے اسکا چہرہ اونچا کیا۔ 

"ٹھیک ہے کل سے کھلے عام دیکھوں گی۔ ابھی چھوڑیں۔"

اس نے ضیغم کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے اسے خود سے دور کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس کی بات پر وہ ہنس دیا۔ 

"پکا۔۔۔؟؟"

اس نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ وہ اس کی نظروں سے نروس ہونے لگی تو نظریں جھکا گئی۔

"مسکاء۔۔۔۔۔"

مسکاء کو اپنا نام کبھی اتنا خوبصورت نہیں لگا جتنا آج لگا تھا۔ اس نے ضیغم کیطرف دیکھا۔ وہ آنکھوں میں محبت کا جہان لئے اسے ہی تک رہا تھا۔ اسکے گرد بندھا حصار کھل چکا تھا۔ مگر وہ اپنی جگہ سے ہل تک نہ سکی۔ یہی محبت تھی جو ان کے دولوں پہ اپنے قدم جما چکی تھی۔ نگاہوں کے اس تصادم نے چھپے ہوئے جذبے ایک دوسرے پہ افشاں کر دئیے۔ اب کون تھا جو محبت کی اس کھلی کتاب کو پڑھنے سے انکار کرتا۔ وہ دونوں بھی نہیں کر سکتے تھے۔

مسکاء کا جی چاہا کہ وہ اسے یونہی پکارتا رہے اور وہ سنتی رہے۔ یہ آواز تاحیات اس کے کانوں میں رس گھولتی رہے۔۔۔ یہ چہرہ کبھی اسکی نظروں سے دور نہ ہو اور وہ کھلی آنکھوں سے اسکی بانہوں میں رہنے کا خواب دیکھتی رہے۔ 

اس ایک لمحے نے اس کے دل کا ڈر ، خوف کہیں دور پھینک دیا تھا۔ اب تو صرف محبت رہ گئی تھی اور محبت تو ہمیشہ سے نڈر رہی ہے۔ محبت نے اسے بھی نڈر کر دیا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اسکے بال پیچھے کیے۔ ضیغم مسکرا دیا اور اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر لبوں سے لگایا۔ 

"تم میرے لئے بہت اہم ہو۔۔۔بالکل ویسے ہی جیسے جسم کے لئے روح۔۔

سیاہ آسمان کے لئے چاند۔۔۔

بنجر زمین کے لئے بارش۔۔۔۔

جیسے۔۔۔۔۔۔

ضیغم کے لئے مسکاء۔۔۔۔۔"

ضیغم کی آواز اسکی سماعتوں میں رس گھول رہی تھی۔ مسکاء کے لئے پہلے نظریں اٹھانا مشکل تھا اب نظریں جھکانا۔۔۔وہ یک ٹک اسکی آنکھوں میں دیکھتی جا رہی تھی۔

"تم کچھ نہیں کہو گی؟"

ضیغم نے اسکے چہرے کو اپنے ہاتھ کی پشت سے چھوا۔

"کیا۔۔۔۔؟"

مسکاء نے سر پٹ دوڑتی دھڑکنوں پہ قابو پایا۔

"جو میں سننا چاہتا ہوں۔"

وہ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا۔

"آپ۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ ایک پل کو رکی۔۔۔۔۔

"میں۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔؟؟"

ضیغم سے صبر کرنا محال ہوا۔

"آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔ جیسے۔۔۔۔۔۔"

وہ بولتے بولتے خاموش ہوئی اور ایک بھرپور نظر ضیغم پہ ڈالی۔ 

"جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔"

اسکی سماعتیں آگے سننے کو بےتاب ہوئیں۔

"جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاف گھانس پہ سانپ رینگتا۔۔۔

صاف پانی میں مینڈک۔۔۔"

وہ شرارت سے بولی۔

"ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟"

ضیغم کے چہرے کے ٹیڑھے میڑھے زاویے دیکھ کر وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

"کیا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟"

اس نے اسے ایک بار پھر بانہوں کے گھیرے میں لیا۔ چہرے کے نقوش اپنی ایسی تعریف پہ تن گئے تھے۔

"جیسے۔۔۔۔۔

جنگل میں شیر۔۔۔"

وہ اس کے سینے میں چہرہ چھپا گئی جبکہ وہ اپنی ایسی تعریف سن کر عش عش کر اٹھا۔۔________________________________

"تم چل رہے ہو نا میرے ساتھ؟"

ناشتے کے دوران زمان خان نے اس سے پوچھا۔ آج انھوں نے واپس جانا تھا۔ اس لئے وہ چاہتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ ہی چلے۔ 

"نہیں بابا میں ابھی نہیں جا سکتا۔ آپکو بتایا تھا نا کہ میری ٹریننگ اسٹارٹ ہونے والی ہے۔ ٹریننگ کے دوران بھی مسکاء یہاں اکیلی ہو گی تو میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کسی دن خاموشی سے آپکی طرف چھوڑ جاوں گا اور آپکے بڑے خان جی سے بھی مل لوں گا۔"

وہ آملیٹ کا سفایا کرتے ہوئے بولا۔

"لیکن اگر تم میرے ساتھ چلتے تو اچھا ہوتا ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمھیں ساتھ لے کر آوں۔ اب تم نہیں جاو گے تو مجھے ڈر ہے کہ انھیں ایک بار پھر سے شک نہ ہو جائے اور جہاں تک مسکاء کے اکیلے رہنے کا مسئلہ ہے تو اسے بھی ساتھ لئے چلتے ہیں۔"

انھوں نے اپنی طرف سے حل پیش کیا۔ دراصل وہ میرسربلند خان کا دھیان اسکی طرف سے ہٹانا چاہتے تھے۔ اگر انھیں اس بات کی ذرا سی بھی بھنک پڑ گئی تو وہ اس مسئلہ کو جرگے میں ایک بار پھر اٹھانے کے لئے ایک پل نہیں لگائیں گے اور وہ حالات کو اس نہج پہ نہیں لانا چاہتے تھے۔

"بابا میں نے کہا نا میں اسی ہفتے میں آ جاوں گا بلکہ آپ میرے پاس رہیں ہم اکٹھے اسی ہفتے کو چلے جائیں گے۔"

وہ مسکاء کی طرف بغور دیکھتے ہوئے بولا جو خاموشی سے ناشتہ کر رہی تھی۔ 

"کیوں بیٹا۔۔! تم کیا کہتی ہو؟"

انھوں نے مسکاء کی رائے جاننا ضروری سمجھا۔ 

"ضیغم ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ کل ہی تو آئے ہیں کچھ دن اور رکتے ہمارے پاس۔"

اسکا جی تو انہی کے ساتھ جانے کو چاہ رہا تھا مگر ضیغم کی آنکھوں کے اشارے اسے کچھ اور سمجھا رہے تھے۔

"نہیں بیٹا۔۔۔میں مزید نہیں رک سکتا۔ وہاں جا کر خان جی کو مطمئین بھی کرنا ہے ورنہ انھیں شک ہو جائے گا۔ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہم نے اس مسئلے کو دبایا ہے۔"

انھوں نے مسکاء کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ ان کا ارادہ آج سہ پہر میں ہی جانے کا تھا۔

"ہو جانے دیں انھیں شک۔۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نا ہی میں ڈرتا ہوں کسی سے۔۔ دیکھ لوں گا ایک ایک کو۔۔اور آپ کو بھی ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ موت تو برحق ہے اور اس حقیقت سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا۔ بس اللہ پہ توکل رکھیں۔ اس کی مرضی کے خلاف تو پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔۔ میرسربلند خان کیا چیز ہے۔ اس موت کا ذائقہ کا اس نے بھی چکھنا ہے۔"

اس نے ان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔ انھوں نے اسکی بات سمجھتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔

"اب اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو میں جاوں۔"

وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا۔

"ہاں جاو۔۔۔خدائے پہ امان۔۔۔! لیکن جلدی آ جانا۔ عصر تک گلزم خان آ جائے گا۔ تم مجھے ہاسٹل تک چھوڑ آنا۔"

وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔

"پھر وہی بات۔۔۔۔بابا رک جائیں نا۔۔ دیکھیں آپ ہیں نا تو مسکاء مجھے تنگ بھی نہیں کر رہی۔ آپ چلے جائیں گے تو پھر سے اس نے مجھے تنگ کرنا شروع کر دینا ہے۔"

وہ ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے شرارت سے بولا۔ مسکاء اس کے انداز پہ جزبز ہوئی تھی جبکہ وہ اس کے انداز پہ ہنس دئیے۔ 

"سن رہی ہو مسکاء بیٹی۔۔۔یہ کیا کہہ رہا ہے۔"

انھوں نے مسکاء کو متوجہ کیا۔

"جی۔۔۔سن رہی ہوں۔"

اس نے چہرے پہ سنجیدگی سجائے پہلے انھیں اور پھر ضیغم کو دیکھا۔

"بابا۔۔۔آپ یہاں رہیں تو آپکو پتہ چلے کہ کس قدر ظلم ہو رہا ہے مجھ پہ۔"

وہ چہرے پہ مسکینی اور ہونٹوں پہ کمینی مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ جبکہ زمان خان اس کی پیٹھ پہ ایک چپت رسید کرتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

اس کے انداز تو وہ سمجھ رہی تھی اس لئے جیسے ہی وہ کمرے میں گئے مسکاء نے بھی اپنے اور ضیغم کے مشترکہ کمرے کی جانب دوڑ لگائی۔ اسکا اندازہ درست تھا وہ اس کے پیچھے دوڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ دروازہ بند کرتی ضیغم نے پاوں رکھ کر دروازے کو بند نہیں ہونے دیا۔

"میں آپکو تنگ کرتی ہوں یا آپ مجھے۔"

مسکاء نے بھرپور زور لگایا۔

"تم۔۔۔۔۔ابھی بھی دیکھو۔۔۔مجھے میرے ہی کمرے میں داخل ہونے نہیں دے رہی ہو اور اگر میں تنگ کرتا بھی ہوں تو میرے پاس تمھیں تنگ کرنے پرمٹ ہے۔"

ضیغم نے اسکی ناک پکڑنی چاہی مگر مسکاء نے بروقت چہرہ پیچھے کر کے اپنی ناک کو شکار ہونے سے بچایا۔

"ضیغم ۔۔۔۔انسان بنیے۔۔"

مسکاء کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے ابھی رو دے گی۔

"فار یور کائینڈ انفارمیشن میم۔۔۔میں انسان ہی ہوں۔۔چلو اندر آنے دو۔۔مجھے کچھ ضروری ڈاکومینٹس لینے ہیں۔۔ چلو شاباش مجھے اندر آنے دو۔"

اس نے اسے پچکارا۔

"کون سی فائل ہے۔۔؟ میں دیتی ہوں آپکو۔۔ آپ پیچھے ہوں۔"

مسکاء نے دروازے کو بند کرنا چاہا مگر ضیغم کا جوتے میں مقید پاوں ٹس سے مس نہ ہوا۔

"اچھا۔۔۔گلابی رنگ کی خوبصورت سی فائل ہے جس پہ کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے پھول بنے ہیں۔"

وہ اسکے گلابی کپڑوں کو بغور دیکھتے ہوئے بولا۔ آنکھوں میں شرارت چمک رہی تھی۔ 

"ضیغم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ دبی دبی آواز میں رونی صورت بنا کر بولی۔ ضیغم کو اس کے بچوں جیسے انداز پہ اپنی ہنسی روکنی محال ہو گئی۔

"اچھا جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"

وہ دروازے میں سے پاوں نکال کر جانے کو مڑا۔ مسکاء نے فورا دروازہ بند کر کے سکون کا سانس لیا۔

"اتنی ٹھنڈی آہیں مت بھرو۔ اگر کہتی ہو تو نہیں جاتا۔"

وہ چہرہ دروازے کے قریب لے جا کر بولا۔

"ضیغم۔۔۔۔۔"

اندر سے پھر مسکاء کی آواز آئی۔

"ٹھیک ہے۔۔ٹھیک ہے جا رہا ہوں لیکن وہ فائل تو دے دو نا۔"

اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔

"مسکاء۔۔۔۔۔۔میں جا رہا ہوں آ کے دروازہ بند کر لو۔"

جب مسکاء کی آواز نہیں آئی تو وہ بولا۔۔ کچھ دیر بعد بیرونی دروازے کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ مسکاء نے معمولی سا دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ لاونج خالی تھا۔ ٹیبل پر سے موبائل اور چابیاں بھی غائب تھیں۔ اس نے ایک بار پھر لاونج کے طول و عرض پہ نظر ڈالی اور جب ضیغم کے چلے جانے کی تصدیق ہو گئی تو دروازہ کھول کر باہر آگئی۔ آجکل جو اسکی حرکتیں تھیں وہ بالکل بھی اس پہ اعتبار نہیں کر سکتی تھی اس لئے لاونج میں صوفے کے پیچھے جھانکا اور پھر کچن کی جانب آئی۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے ناشتے کے برتن اٹھا کر کچن کی صفائی میں لگ گئی۔___________________________________

"دیکھو ذرا اس لڑکے کو کہا بھی تھا کہ جلدی آ جائے۔ اب دیکھو وقت نکلا جا رہا ہے۔ گلزم خان کہیں پہنچ ہی نہ گیا ہو۔"

وہ استری شدہ کپڑے الماری میں لٹکا رہی تھی کہ زمان خان کمرے میں داخل ہوئے۔ 

"چاچا کچھ دن اور رہ جاتے ہمارے پاس۔۔ کل ہی تو آئے ہیں۔ اتنی جلدی کیوں جا رہے ہیں۔"

اس نے الماری بند کرتے ہوئے کہا۔

"بیٹا۔۔ وہاں بہت کام ہے اور پھر چھوٹے خان کی شادی بھی ہے۔ اس لئے جانا ضروری ہے۔ نہیں تو بڑے خان جی کا پتہ ہے نا کسی نا کسی کو میرے پیچھے بھیج دیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ یہاں سے کوئی بھی واقف ہو۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے ہمیں۔ بس تم دونوں یہاں خوش رہو ہمارے لئے یہی کافی ہے۔ بس میر ایک بار گاوں کا چکر لگا لے اور خان جی سے بھی مل لے تو دل کو تھوڑی ڈھارس ملے ورنہ تو ہر لمحے جان سولی پہ لٹکی رہتی ہے۔"

وہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولے۔

"چاچا۔۔۔اللہ نے ہمارا کتنا ساتھ دیا ہے انشاءاللہ آگے بھی ہم پر اپنا کرم بنائے رکھے گا۔"

وہ دروازہ کھلنے کی آواز پہ باہر کی جانب آتے ہوئے بولی۔

"لگتا ہے میر آ گیا ہے؟"

وہ روم سے باہر نکل گئے۔ مسکاء بھی ایک نظر کمرے پہ ڈال کر باہر آ گئی تھی۔

"چلیں بابا۔۔۔۔گلزم چاچا دو بار فون کر چکے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں آپکو اپنے ساتھ اکیڈمی لے کر آیا ہوں۔ وہ وہاں انتظار کر رہے ہیں۔"

وہ سلام کے بعد ان کی طرف بڑھا۔

"ہاں بس میں تیار ہوں چلو۔۔۔۔"

وہ تیار تھے جانے کے لئے۔

"آپ رک جاتے تو اچھا تھا۔ میں نے آپ کو پروفیسر محمد عقیل سے بھی ملوانا تھا۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ ملیں گے ان سے مگر آپ تو جیسے ہوا کے گھوڑے پہ سوار ہیں۔"

وہ اپنی ناراضگی نہیں چھپا سکا۔

"ہاں۔۔۔سوچا تو تھا کہ ان سے ضرور ملوں گا مگر چلو پھر کبھی سہی۔۔ ذرا یہ حالات معمول پہ آ جائیں تو ان سے بھی مل لیں گے۔"

انھوں نے اس کے کندھے پہ بازو پھیلاتے ہوئے اس کی جانب دیکھا جو بہت اداس لگ رہا تھا۔ 

"ٹریننگ کب سے شروع ہے تمھاری؟" انھوں نے پوچھا۔

"پیر سے۔۔۔اسلام آباد جانا ہے مجھے۔۔ مسکاء کو آپکے پاس چھوڑ جاوں گا اور ٹریننگ کے بعد مجھے میرا منتخب کردہ علاقہ ہے دیا جائے گا پھر سیدھا گاوں آوں گا۔"

اس کے چہرے پہ سکون و اطمینان رقصاں تھا۔

"میں اس دن کا انتظار کروں گا جب تم میرا مان بڑھاو گے۔ قیامت کے دن میں میر دراب خان کے سامنے سر اٹھا کر کھڑا ہوں۔ تم میرا فخر ہو۔۔ اللہ تمھیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔"

انھوں نے اسے سینے سے لگا لیا یوں جیسے کوئی اپنی متاع حیات کو سینے سے لگاتا ہو۔ 

"مسکاء۔۔"

انھوں نے ضیغم سے الگ ہو کر مسکاء کو بلایا۔ وہ قریب آئی تو انھوں نے شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔

"اللہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے اور اپنی امان میں رکھے۔ آمین!"

انھوں نے دعا دی اور ضیغم کے ساتھ بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گئے۔ ان کے جانے کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے اور باقی ماندہ کام نپٹانے لگی۔

ڈنر تیار کیا اور ضیغم کا انتظار کرنے لگی۔ گھنٹہ ہونے کو آیا تھا لیکن وہ اب تک آیا نہیں تھا۔ لاونج میں یونہی خالی بیٹھے بیٹھے اسے نیند آنے لگی تھی۔ عشاء کا وقت ہونے والا تھا اس لئے وہ نماز کے لئے اپنے کمرے میں آ گئی۔

نماز ادا کی ہی تھی کہ کھٹکے کی آواز پہ کھلے دروازے سے جھانکا۔ ضیغم ہاتھ میں کچھ شاپرز لئے اندر داخل ہوا تھا۔ وہ بھی جائے نماز تہہ کر کے کچن میں آ گئی۔ کھانا گرم کیا اور باہر لاونج میں ٹیبل پہ لگا دیا۔ ضیغم اپنے کمرے میں تھا۔ شاپرز صوفے پہ رکھے تھے۔ اسے تجسس ہوا۔ شاپرز کھول کر دیکھے تو کچھ لیڈیز ڈریسز تھے۔ ایک فینسی اور دو سمپل۔۔ ساتھ ایک جیولری بکس بھی تھا۔ دوسرے شاپر میں شو بکس تھا۔اس نے نکال کر دیکھنا مناسب نہ سمجھا اور شاپرز ایک طرف رکھ دئیے۔

کچھ دیر وہیں بیٹھ کر اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی۔ جب وہ باہر نہ آیا تو وہ کمرے جانب آئی۔ اس نے دروازے پہ ناک کیا مگر اندر سے کوئی ریسپونس نہیں آیا تو اس نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ وہ سامنے ہی چھوٹی سی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے براون ٹی شرٹ اور بلیک ٹروازر میں کھڑا بال برش کر رہا تھا۔ 

"کھانا یہیں لے آوں؟"

مسکاء نے وہیں سے کھڑے کھڑے پوچھا۔

"نہیں آ رہا ہوں۔۔"

مختصر جواب آیا۔

الماری میں صبح تک پڑے ڈریسز جو اس نے یہاں لا کر رکھ دئیے تھے۔ اب وہاں موجود نہیں تھے۔ جسکا مطلب تھا کہ وہ واپس اپنے کمرے میں شفٹ ہو گئی ہے۔ یہ دیکھ کر اسکا موڈ خراب ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان کی شادی نارمل شادیوں سے قدرے مختلف تھی۔ یہ بھی صحیح تھا کہ اگر باتور خان اسکے ہاسٹل تک نہ پہنچا ہوتا تو سیٹل ہونے تک وہ اسے یہاں نہ لے کر آتا لیکن جب آ ہی گئی تھی تو وہ ایک نارمل لائف گزارنا چاہتا تھا مگر اسکی جھجک دیکھ کر چپ تھا۔ لیکن اب اسکے رویے کو لے کر وہ حیرانی کا شکار تھا۔ 

مسکاء پلٹ کر جا چکی تھی۔ اس نے برش ڈریسنگ ٹیبل پہ تقریبا پٹخ دیا اور لائٹ آف کر کے روم سے باہر آ گیا۔ 

باہر وہ لاونج میں صوفے پہ بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی۔ دونوں کھانا بالکل خاموشی سے کھا رہے تھے۔ مسکاء نے اسکی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے کئ بار اس کی جانب دیکھا مگر وہ یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے اس کے علاوہ وہاں اور کوئی موجود نہ ہو۔ اگر اسکا معمول یہی خاموشی ہوتی تو وہ اتنی حیرت کا شکار نہ ہوتی کیونکہ روز ڈنر کے دوران وہ اس سے سارے دن کے مطلق کچھ نہ کچھ پوچھتا رہتا لیکن آج معمول جیسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کچھ بولنے کی۔ اس لئے وہ بھی خاموشی سے کھانے کی جانب متوجہ ہو گئی۔ 

"کل ہم نے پروفیسر محمد عقیل کی طرف جانا ہے۔ انھوں نے ڈنر پہ انوائیٹ کیا ہے۔ میں کچھ ڈریسز لایا ہوں ، شوز اور جیولری بھی ساتھ ہے۔ کل سات بجے تک تیار ہو جانا۔"

کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے روم میں جاتے ہوئے بولا۔ یہ کہہ کر وہ رکا نہیں۔

"جی۔۔" 

مسکاء نے اس کے برف لہجے کی ٹھنڈک کو اپنے دل پہ جمتے محسوس کیا۔ صبح تک تو ٹھیک تھا۔ اکیڈمی جاتے وقت جو اسکا رویہ تھا اسکے خیال سے شاید وہ اس بات پہ خفا تھا۔ اس نے خاموشی سے برتن اٹھا کر کچن میں رکھے۔ ساتھ ہی قہوے بنایا اور کپ لیے اس کے روم میں آئی۔ وہ کھڑکی کھولے نجانے کیا تلاش کر رہا تھا۔ 

"قہوہ۔۔۔"

قریب آ کر اس نے کپ اسکے سامنے کیا۔

"وہاں ٹیبل پہ رکھ دو۔"

وہ بناء اس کی جانب دیکھے بولا تھا۔ اب تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ کسی بات کو لے کر اس سے ناراض ہے۔ مسکاء نے کپ ٹیبل پہ رکھ دیا اور واپس اس کی جانب آئی۔

"کیا دیکھ رہے ہیں؟"

کہنے کو کچھ نہ بن پڑا تو اس نے بھی کھڑکی میں جھانکا۔

"جو مجھے دکھ رہا ہے وہ تم نہیں دیکھ پاو گی۔"

وہ معنی خیز لہجے میں کہتا اس کی جانب مڑا۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔ 

"ایسا کیا ہے جو میں نہیں دیکھ سکتی؟" مسکاء نے کھڑکی سے نیم اندھیرے میں جھانکا۔

"جو میں محسوس کر رہا ہوں۔"

ضیغم نے اس پر سے نظر نہ ہٹائی۔

"کیا۔۔۔؟؟"

وہ مختصرا بولی تھی۔

"تمھارا میری حدود سے نکلنا تمھیں کیسے دکھائی دے سکتا ہے۔ بھاگنے والا بھی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے کیا۔۔"

ضیغم نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے مقابل کیا۔

"میں آپ سے کہاں بھاگ سکتی ہوں۔"

محبت ایک بار پھر نڈر ہو گئی۔

"بھاگنا اور کیسا ہوتا ہے۔ تم ایک بار پھر سے اپنے روم میں شفٹ ہو گئی ہو۔ میرے اعتبار دلانے کے باوجود۔۔ویل۔۔۔اس بے اعتباری کا شکریہ۔"

وہ ایک نظر اس پہ ڈالتا بیڈ کی جانب آیا۔ تکیہ درست کیا اور کپ اٹھا کر گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔

"میں۔۔۔۔۔۔"

"جاتے وقت یہ لائٹ آف کر جانا۔"

وہ اسکی بات کاٹ کر دو ٹوک انداز میں کہتا رخ موڑ گیا۔ جسکا مطلب تھا کہ اب تم جا سکتی ہو۔ مسکاء کو اپنے رویے کی بدصورتی کا احساس ہوا۔ حالانکہ کل رات ضیغم نے اسے جو مان اور بھروسہ دیا تھا اس کے بعد تو بے اعتباری کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی تھی۔ مگر اب کیا۔۔۔۔۔وہ خاموشی سے لائٹ آف کرتی روم سے باہر آ گئی۔

دل ہر چیز سے اچاٹ ہونے لگا تھا۔ کچن میں آ کر اس نے برتن دھوئے اور تمام لائٹس آف کرتی روم میں آ گئی۔ نائٹ بلب کی خوابناک روشنی میں ایک پل تو اسے کچھ بھی سجھائی نہیں دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب آنکھیں مدھم روشنی سے مانوس ہوئیں تو وہ بیڈ کی جانب آئی تھی۔ تکیہ درست کر کے وہ دائیں جانب کروٹ لے کر لیٹ گئی۔ آنکھیں موندنے سے پہلے اس ایک بار پیچھے مڑ کر بےخبر سوئے ہوئے ضیغم پہ نظر ڈالی۔ مسکراہٹ نے ایک پل کو اسکے لبوں کو چھوا اور پھر واپس مڑ کر آنکھیں موند لیں۔ فجر کی اذان کی آواز سے ضیغم کی آنکھ کھلی تو اپنے قریب سوئی ہوئی مسکاء کو حیرت سے دیکھا۔ اسے لگا جیسے وہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ قریب کھسک کر اسے بغور دیکھنے لگا۔ سانسوں کی مدھم رفتار اسے یقین دلا رہی تھی کہ یہ خواب نہیں ہے۔

اس نے مسکاء کے چہرے کو چھوا تو مسکراہٹ آپ ہی آپ اسکے لبوں کا حصہ بنی تھی۔ وہ دھیرے سے اٹھ کر وضو کی غرض سے واش روم کیطرف بڑھا۔________________________________

وہ گاوں آ تو گئے تھے مگر ابھی تک حویلی کا چکر نہیں لگایا تھا۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ اور رحم دین وہیں مولانا صاحب کے پاس ہی بیٹھے رہے۔ گاوں کے ایک دو بزرگ اور بھی وہیں بیٹھے تھے۔ جب وہ دونوں بزرگ بھی اٹھ کر چلے گئے تو مولانا صاحب نے زمان خان کی جانب دیکھا جو بہت خاموش لگ رہے تھے۔ 

"کیسے ہو زمان خان۔۔۔۔کچھ پریشان لگ رہے ہو۔۔ سنا ہے تم میر سے ملنے شہر گئے تھے۔ خیریت سے ہے وہ۔۔ کافی وقت ہو گیا اس نے چکر نہیں لگایا۔"

مولانا صاحب نے زمان خان کے پریشان چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔ رحم دین بھی زمان خان کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ کس لئے پریشان ہیں۔ 

"مولانا صاحب بس آپ دعا کیا کریں کہ اللہ ہمیں اس آزمائش میں سرخرو کرے۔ میں تو تھکتا جا رہا ہوں۔ ان ظالموں کے ظلم و بربریت سے تو میں واقف ہوں۔ آپ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بچوں کو ان سے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ مجھے تو رہ رہ کر یہ پریشانی کھائی جا رہی ہے کہ جب خان جی مجھ سے میر کا پوچھیں گے تو میں کیا کہوں گا۔ سب کچھ تو آپ کے سامنے ہے۔"

"کہہ دینا کہ آ جائے گا۔۔ ویسے بھی تم بتا رہے تھے کہ وہ آنے کا کہہ رہا تھا۔ ویسے بھی وہ شادی میں مگن ہیں۔ اس طرف دھیان کم ہی جائے گا۔ 

رحم دین نے ان کی پریشانی دیکھ کر کہا۔

"رحم دین ٹھیک کہہ رہا ہے۔ کب آ رہا ہے میر؟"

مولانا صاحب نے پوچھا۔

"کل آنے کو کہا ہے۔ میں تو ساتھ ہی لانا چاہ رہا تھا مگر وہ بضد تھا کہ کل آئے گا۔ کہہ رہا تھا کہ مسکاء کو بھی یہیں چھوڑ کر جائے گا۔ اس کی ٹریننگ شروع ہو رہی ہے۔ پیر کو اسلام آباد روانہ ہو گا۔"

زمان خان نے باری باری دونوں کو دیکھا۔ مسکاء کے یہاں آنے پر رحم دین اور مولانا صاحب کے چہروں سے پریشانی چھلکنے لگی۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو مسکاء یہاں کیسے آ سکتی ہے۔ یہاں حالات ٹھیک نہیں اور وہ مسکاء کو یہاں چھوڑنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ جرگے کا آخری فیصلہ کیا تھا پھر بھی تم نے سمجھایا نہیں۔"

رحم دین کو پپریشانی نے آ گھیرا۔

"کہا تھا مگر مسکاء کا وہاں اکیلے رہنا بھی مناسب نہیں۔ آس پڑوس سے بھی کوئی شناسائی نہیں ہے۔"

وہ بھی اس پہلو پہ سوچ سوچ کر پریشان ہوئے جا رہے تھے۔

"یہ بات بھی درست ہے۔ مسکاء بیٹی کا اکیلے رہنا بھی مناسب نہیں وہ بھی اتنا عرصہ۔"

مولانا صاحب نے بھی پرسوچ نگاہوں سے دونوں کی طرف دیکھا۔

"واپس ہاسٹل چھوڑ آئے اسے مگر یہاں نہ لائے۔ یہاں اسکی جان کو خطرہ ہے۔ باتور خان کو پتہ چل گیا تو وہ ہماری دنیا اندھیر کر دے گا۔"

رحم دین نے سجھاؤ دیا۔

"ہاسٹل والوں سے بات کی تھی مگر وارڈن نے بھی معذرت کر لی یہ کہہ کر کہ وہ باقی لڑکیوں کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتیں۔"

ان کی بات سن کر رحم دین نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔

"تو اب۔۔۔۔۔؟؟"

مولانا صاحب نے زمان خان کو دیکھا۔

"وہ کہہ رہا تھا کہ مسکاء کو وہ خاموشی سے لے آئے گا۔ گلزم خان کو کہہ دیا ہے وہ جائے گا انھیں لینے۔ لیکن مسکاء میرے پاس رہے گی۔ میری طرف کوئی آتا جاتا نہیں ہے اس لئے کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ باقی اللہ حفاظت کرنے والا ہے۔ انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

انھوں نے رحم دین کو تسلی دی۔ ان کی بات سے وہ مطمئن تو نہیں ہوئے تھے مگر پھر بھی یہ سجھاو برا نہیں تھا۔ زمان خان کا گھر مناسب حل تھا۔ اس لئے دل کو تھوڑی ڈھارس ملی تھی۔

"آمین!!"

مولانا صاحب بھی بولتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ دونوں بھی ان کے پیچھے مسجد سے نکل آئے۔ زمان خان انھیں خدا حافظ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ان کا ارادہ حویلی جا کر ماہ گل سے ملنے کا تھا۔

سارے مسئلے مسائل ایک طرف مگر بیٹی سے ملنے کو رحم دین بیتاب دکھائی دینے لگے۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتے گھر کی طرف جا رہے تاکہ ذہرہ بی بی کو بھی مسکاء کے آنے کی اطلاع دے دیں۔ گھر پہنچ کر انھوں نے اس بارے میں فورا ذہرہ بی بی کو بتایا۔ پہلے تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ مگر پھر آگے کا سوچ کر پریشانی ان کے چہرے سے ہویدا تھی۔

"میری بچی آ تو جائے گی مگر یہاں تو حالات اچھے نہیں ہیں مسکاء کے بابا۔ ہم کیسے اتنا عرصہ اسے گاوں والوں کی نظروں سے چھپائیں گے۔ اگر کسی کو خبر ہو گئی تو۔۔۔"

میرسربلند خان اور باتور خان کا خوف ناذوں پلی بیٹی سے ملنے کی خوشی کو نگل گیا تھا۔ اتنا وقت گزر گیا انھوں نے اس خواہش کو تھپک تھپک کر سلا دیا تھا۔ مگر آج اس کے آنے کی جہاں خوشی تھی وہاں اسے ہمیشہ کے لئے کھو دینے کا ڈر بھی تھا۔

"ہاں لیکن وہ زمان خان کے پاس رہے گی۔ اس کی طرف ہمارے اور ماہ گل کے علاوہ کوئی اور جاتا بھی نہیں ہے۔ دن میں تالا لگا رہے گا تو کسی کو شک نہیں ہو گا۔ بس اللہ سے دعا کرو کہ یہ کٹھن وقت گزر جائے۔ پھر میر نے بھی یہیں آ جانا ہے۔"

"اللہ ہم پہ اپنا رحم کرے۔ ہم نے یہ معاملہ اللہ کے سپرد کیا۔ وہی ہمارے بچوں کا حامی و ناصر ہو۔"

ان کی بات کے اختتام پہ وہ بولیں تھیں۔

"آمین!! ناشتہ تیار ہے یا انتظار کرنا پڑے گا۔" 

انھوں نے پوچھ کر آسمان کی جانب نظر کی۔ جاڑے کی آمد سے موسم اچھا ہونے لگا تھا۔ کہیں کہیں سیاہ بادل اپنا پہرہ جمائے دکھائی دے رہے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ وہ باہر چارپائی پہ ہی بیٹھ گئے ذہرہ بی بی باورچی خانے کی جانب آ گئیں۔ ان کے لئے ناشتہ تیار کیا اور ٹرے لئے باہر آ گئیں۔ ٹرے انھوں نے چارپائیوں کے درمیان رکھی چھوٹی سی ٹپائی پہ رکھ دی اور دونوں ہلکی پھلکی باتوں کے دوران ناشتہ کرنے لگے۔ 

ناشتے کے بعد ذہرہ بی بی تو برتن اٹھا کر کچن میں چلی گئیں جبکہ وہ کام پہ جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ان کے جانے کے بعد ذہرہ بی بی مکی کے ڈربے کی جانب آئیں۔ نیچے جھک کر انھوں نے ڈربے کا دروازہ کھول دیا۔ ڈربے کی مالکن کمال کی پھرتی سے باہر آئی تھی اور پورے صحن میں چکرانے لگی۔ سفید بطخ اپنے جوہر دکھانے سے باز نہ آئی تھی اور صحن میں رکھی چیزوں کو منہ سے دھکیل دھکیل کر دیوار کے قریب لے جانے لگی۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور کام میں جت گئیں۔ __________________________________ 

ضیغم نے اسے شام سات بجے تک ریڈی رہنے کو کہا تھا۔ لنچ وہ اکیڈمی میں ہی کرتا تھا۔ آج اکیڈمی میں اسکا لاسٹ ڈے بھی تھا۔ اس لئے وہ کہہ کر گیا تھا کہ وہ چھ بجے تک گھر آ جائے گا۔ اس نے جلدی جلدی ادھر ادھر بکھری چیزیں سنبھالیں۔ اپنے لئے لنچ پہ وہ کوئی خاص انتظام نہیں کرتی تھی۔ اس لئے کچن صاف کیا اور پھر اپنے اور ضیغم کے کپڑے پریس کیے۔ ابھی ٹائم بہت تھا اس لئے کچھ دیر آرام کی غرض سے روم میں آ گئی۔

نیند اسے بہت جلد آ جایا کرتی تھی۔ تھوڑی دیر آرام کی غرض سے اگر لیٹتی بھی تو اچھی خاصی نیند کر کے ہی اٹھتی تھی۔ ذہرہ بی بی کو اسکی وقت بے وقت سونے کی عادت بالکل پسند نہیں تھی۔ ابھی بھی بیڈ پہ لیٹتے ہی وہ نیند کے وادیوں میں کھو گئی تھی۔ ظہر کے قریب قریب اس کی آنکھ کھلی۔ اٹھ کر نماز ادا کی۔ بھوک کا احساس بیدار ہوا تو کچن میں آ گئی۔ فریج سے رات کی بچی ہوئی سبزی نکال کر گرم کی ایک روٹی بنا کر وہیں کچن میں ہی کھا کر لاونج میں آ گئی۔ گھر میں اتنا کام ہوتا نہیں تھا اس لئے جلدی فارغ ہو کر بور ہوتی رہتی تھی۔ آگے پڑھنے کو جی بھی چاہتا تھا مگر فلحال حالات اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس نے ایک دو بار ضیغم سے یونیورسٹی میں ایڈمیشن کا ذکر بھی کیا مگر حالات کے پیش نظر وہ اسکے گھر سے زیادہ باہر نکلنے کے حق میں نہیں تھا۔ اس لیے پھر اس نے دوبارہ ذکر نہیں کیا۔ 

ابھی بھی کافی وقت پڑا تھا اس لئے وہ ایک بار پھر سے لیٹ گئی۔ صوفے پہ لیٹ کر چھت کو گھورتے ہوئے وہ اب تک کے حالات کے متعلق سوچنے لگی۔ خوشی اسے اس بات کی بھی تھی کہ وہ گاوں جا رہی ہے مگر اس گھر کی عادت اور گھر والے سے اس قدر انسنیت ہو گئی تھی کہ الگ ہونے کے خیال سے ہی دل میں ہول اٹھ رہے تھے۔ 

ادھر ادھر کے خیالوں میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ عصر پڑھنے کے بعد کچھ دیر تلاوت کی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے اپنی تیاری شروع کی۔ فریش ہونے کے بعد کپڑے تبدیل کیے۔ شاکنگ پنک کلر کا ڈریس اس نے اپنے لئے منتخب کیا۔ کلر بہت ڈارک تھا اس لئے اس کی انکی رنگت دمکنے لگی تھی۔ خوبصورت کا نازک سا کندن کا سیٹ جس میں شاکنگ پنک کلر کے ہی چھوٹے بڑے نگ جڑے تھے اس کی صراحی دار گردن پہ سج گیا تھا۔ میک اپ کے نام پہ آئی لائنر لگایا۔ جو اماں نے سامان میں بھیجا تھا۔ایک کاجل بھی تھا مگر اس نے رہنے دیا۔ سلکی بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھ کر کیچر لگا دیا۔ اس نے اتنا ڈارک کلر کبھی نہیں پہنا تھا اس لئے یہ ڈریس بہت اوور لگ رہا تھا حالانکہ شرٹ پہ کام اتنا زیادہ نہیں تھا۔ ایک آخری نظر آئینے میں دکھتے اپنے وجود پہ ڈالی۔۔ وہ تقریبا تیار تھی۔ ساڑھے چھ بج چکے تھے مگر ضیغم ابھی تک نہیں آیا تھا۔ وہ اپنے روم میں آگئی۔ الماری کھول کر یونہی بے وجہ چیزوں کو ادھر ادھر کرنے لگی۔ اتنے میں اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو الماری کے پٹ بند کر کے کمرے سے باہر آ گئی۔ ضیغم دروازہ بند کر رہا تھا۔ 

"آپ نے تو کہا تھا کہ چھ بجے تک آوں گا۔۔ٹائم دیکھا ہے آپ نے پونے سات ہو گئے ہیں۔"

وہ بات کرتے کرتے قریب آئی تھی۔ ضیغم نے پلٹ کر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔ چہرے پہ نہ کوئی گلال نہ غازہ۔۔۔ مگر چہرے کی چمک آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی تھی۔ چہرے کے اطراف بکھری لٹیں اپنے ہی ذعم میں تھیں۔ دونوں کے درمیان رہا سہا فاصلہ بھی ضیغم نے پھرتی سے مٹا دیا۔ 

"آپ تیار ہو جائیں۔"

وہ اس کی نظروں کی تپش سے گھبرا کر پلٹنے لگی۔

"میں بھی تیار ہو جاوں گا پہلے آپکی تیاری کو تو نمبر دے دوں۔"

اس نے مسکاء کی کمر کے گرد بازو حمائل کر اسے خود سے لگایا۔ مسکاء اس کے انداز پہ گھبرا کر چہرہ جھکا گئی۔

"تم ہر روز میرے کیے گئے وعدے میں دراڑ ڈالنے کا سامان کر دیتی ہو اور پھر گلہ بھی مجھ سے کرتی ہو کہ بلاوجہ تمھیں تنگ کرتا ہوں۔"

ضیغم نے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اس کے بال کیچر کی قید سے آزاد کیے جبکہ مسکاء نظریں جھکا گئی۔

"اب نظریں جھکانے کا کیا فائدہ جو کرنا چاہتی تھی وہ تو کر ہی دیا ہے تم نے۔"

ضیغم نے اس کے چہرے کے اطراف آوارہ لٹوں کو پیچھے کیا۔

"کیا کیا ہے میں نے؟"

وہ اسے مزید سننا چاہتی تھی۔

"مجھ پہ جادو۔"

اس نے اس کے گرد حصار تنگ کیا۔

"ضیغم کیا کر رہے ہیں۔۔میرے کپڑے خراب ہو جائیں گے۔" وہ اس کا حصار سے نکلی اور اس کے ہاتھ سے کیچر لے بال دوبارہ جوڑے کی شکل میں باندھ دئیے۔

"ہو جائیں خراب۔۔۔ میرا موڈ تو جانے کا نہیں رہا اب۔"

اس نے اسے بازو سے پکڑنے کی کوشش کی مگر مسکاء نے اس کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ ضیغم بھی ایک ٹھنڈی سانس خارج کرتا اپنے کمرے میں آیا۔

تیار ہو کر باہر آیا تو مسکاء کو باہر لاونج میں اپنا انتظار کرتے پایا۔ مسکرا کر اسکی طرف بڑھا۔ بلیک شلوار سوٹ اور ڈراک گرے کلر واسکٹ میں وہ اسکے دل کی رفتار بڑھا گیا تھا۔ وہ بےدھیانی میں اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے اسطرح خود کو بغور دیکھنے پر ضیغم کے دل میں پھول کھل گئے تھے۔ 

"کیا خیال ہے۔۔ میں اور تم آج کہیں نہیں جاتے۔ ایک دوسرے کو دیکھنے کی رسم پوری کر لیتے ہیں۔"

وہ اس کے پاس بیٹھ کر اس کے کندھے سے کندھا ٹکرا کر بولا۔

"جی نہیں چلیں۔۔۔۔۔"

وہ فورا اٹھی مبادہ وہ اسے پھر سے نہ پکڑ لے۔ وہ بھی ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

پروفیسر محمد عقیل اور ان کی فیملی ان کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ سب مسکاء سے بہت محبت سے ملے۔ 

"ضیغم۔۔! یہ ہماری بیٹی تو ہو بہو خزیمن بھابی ہیں۔ لگتا ہے وہ ایک بار پھر سے ہمارے سامنے آ گئیں ہوں۔"

رحمہ بیگم مسکاء کو ساتھ لگاتے ہوئے بولیں۔ ضیغم دھیرے سے مسکرا دیا جبکہ مسکاء ان کی بات سن کر بہت حیران ہوئی۔ وہ سب لاونج میں آگئے تھے۔ سبھی اس خوبصورت کپل کو بہت رشک سے دیکھ رہے تھے۔ خاص طور پہ پروفیسر محمد عقیل کی بڑے بیٹے کی چھوٹی صاحبزادی اسی ادھیڑ بن میں لگی تھی کہ دلہا زیادہ پیارا ہے یا دلہن۔ مسکاء نے اس کی محویت نوٹ کرتے ہوئے اسے اپنے پاس بلایا۔ وہ بھی بھاگ کر اس کے پاس آئی تھی۔ اس نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔

"آنٹی میں نے انھیں دیکھا نہیں مگر بابا بھی کہتے ہیں کہ مسکاء بالکل میری ماں جیسی ہے۔"

وہ بھی اسی کو دیکھ رہا تھا۔

"تمھارے بابا بالکل ٹھیک کہتے ہیں لیکن اتنی مماثلت کی وجہ کیا ہے؟"

انھوں نے حیرانی سے پوچھا۔

"ایکچولی۔۔۔مسکاء میری خالہ زاد ہیں۔ میری مدر ان کی خالہ لگتی ہیں۔"

ضیغم کے بتانے پہ سبھی کو بہت خوشی ہوئی جبکہ مسکاء اس حقیقت سے ناواقف تھی اس لئے اپنی حیرانی نہ چھپا سکی۔ ضیغم نے اس کی حیرانی محسوس کر کے مسکرا کر اسے اشارہ کیا۔

"ماشاء اللہ۔۔۔۔اللہ جوڑی سلامت رکھے۔"

رحمہ بیگم نے دل سے دعا دی۔ وہاں موجود سبھی لوگوں نے آمین کہا۔

"ارے بھئی بیگم کیا صرف باتوں پہ ہی ٹرخائیں گی کیا۔"

ان کی بات پر وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ضیغم اور پروفیسر محمد عقیل باتوں میں مگن ہوگئے جبکہ مسکاء فاطمہ کی معصومانہ سوالوں کے جواب دینے لگی۔

ایک پر لطف ڈنر کے بعد ضیغم نے جانے کی اجازت چاہی۔ مسکاء نے بھی اس کی تقلید کی۔ انھوں نے بہت روکنا چاہا مگر ٹائم کافی ہو گیا تھا۔ ضیغم نے انھیں اپنی ٹریننگ کا بتا دیا تھا۔ حمنہ بیگم نے اسے مسکاء کو یہیں چھوڑ کر جانے کو کہا مگر اس نے سہولت سے انکار کر دیا۔ 

رحمہ بیگم نے دونوں کو تحائف دئیے۔ جسکا انھوں نے شکریہ ادا کیا اور اجازت طلب کی۔ ضیغم سبھی سے ملتا ہوا گاڑی میں جا بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔ مسکاء بھی سب سے مل کر اسکے برابر آ بیٹھی۔ راستہ خاموشی سے کٹا۔ مسکاء پہ تو نیند غالب ہونے لگی تھی۔

گھر پہنچ کر مسکاء نے فورا چینج کیا اور بستر میں گھس گئی۔ ضیغم نجانے کچن میں کیا کر رہا تھا اس نے دھیان نہیں دیا۔ وہ قہوہ کے دو کپ ہاتھ میں لئے جب کمرے می داخل ہوا تو وہ سو چکی تھی۔ دونوں کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر وہ بیڈ پہ اس کے قریب لیٹ گیا۔ 

"سلیپنگ بیوٹی۔" 

چہرہ دھیرے سے اس کے چہرے کے قریب لے جا کر اس نے اسکی مہکتی سانسوں کو اپنے اندر اتارا۔ اسکی لرزتی پلکوں سے اندازہ لگانا آسان تھا کہ وہ سونے کی بھرپور ایکٹنگ کر رہی ہے۔

"ڈرامہ کوئیںن۔"

ایک اور لقب سے نواز کر اس نے مسکراتے ہوئے کپ لبوں سے لگا لیا۔ ___________________________________________

آج کی صبح بھی معمول کے مطابق تھی۔ نماز پڑھی اور پھر تلاوت کرنے کے بعد وہ کچن میں آ گئی تھی۔ ضیغم بھی نماز پڑھ کر دوبارہ سو چکا تھا۔ صبح سے ہی طبیعت کچھ بوجھل سی تھی۔ دل اداس تھا۔ آج انھوں نے گاوں جانا تھا۔ جہاں ماں باپ سے ملنے کی خوشی تھی وہاں ضیغم سے دوری بھی اسکی جان کھائے دی رہی تھی۔ حالانکہ وہ اپنے کسی بھی عمل سے اسے یہ باور نہیں ہونے دے رہی تھی کہ اتنے ماہ کی دوری اسکا دل بوجھل کر رہی ہے۔ خاموشی سے ناشتے کی تیاری کرتی رہی۔ بہت سے کام بھی کرنے تھے۔ اپنی اور ضیغم کی پیکنگ بھی کرنی تھی۔ ضیغم تو لیٹ اٹھے گا اس لئے اس نے صرف ایک کپ چائے ہی بنائی اور کمرے میں آ گئی۔ الماری سے اپنی ضرورت کا سارا سامان اور کپڑے سب اس نے ایک بیگ میں رکھ دئیے۔ یہاں سے جانے کا من تو نہیں تھا مگر یہاں اکیلے رہ بھی نہیں سکتی تھی۔ ذہہن مختلف سوچوں میں گھرا ہوا تھا۔ آگے نجانے کسطرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے۔ پتہ نہیں وہ پھر دوبارہ اس گھر میں آ بھی پائے گی یا نہیں۔ یہی سوچ سوچ کر اسکا دل ڈوبا جا رہا تھا۔۔ گاوں کے حالات اس سے پوشیدہ نہیں تھے اس لئے ذہہن و دل مختلف منفی خیالات کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ بوجھل دل سے اس نے اپنا تمام سامان پیک کیا۔ اس دوران چائے بھی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔

"مسکاء۔۔۔۔۔!!"

وہ چائے کے کپ پہ نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ جب ضیغم اسے پکارتا ہوا کمرے میں آیا۔

"جی۔۔۔"

وہ کھڑی ہو گئی۔

"یار بھوک لگی ہے۔۔۔ ناشتہ نہیں ملے گا کیا۔"

وہ قریب آیا۔

"جی۔۔ بس آئی۔" 

وہ چائے کا کپ اٹھا کر باہر آ گئی۔ وہ بھی اسکے پیچھے آیا تھا۔ وہ ناشتہ تیار کرنے لگی جبکہ وہ اس کے مطالعے میں مصروف ہو گیا۔ اسکے چہرے کی اداسی اور خاموشی اسے صاف محسوس ہو رہی تھی۔ حالانکہ وہ بولتی بہت کم تھی اور ضیغم سے تو خود سے بات بھی نہیں کرتی تھی مگر چہرے کی اداسی اس سے چھپ نہیں سکی تھی۔

پراٹھا اور آملیٹ بنا کر اس نے ضیغم کے سامنے رکھا جو بغور اس کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

"کیا بات ہے۔۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمھاری؟"

مسکاء نے فریج سے اورنج جوس کا جگ نکال کر اسکے سامنے رکھا تو اس نے پوچھا۔

"جی۔۔۔ٹھیک ہوں۔"

مسکاء نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا لیا۔ 

"تم آج معمول سے زیادہ خاموش ہو یا مجھے ایسا لگ رہا ہے۔"

وہ ناشتہ شروع کرتے ہوئے بولا۔ مسکاء کا بریڈ پہ ماجرین لگاتا ہاتھ رک گیا۔ اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ آملیٹ کے ساتھ بھرپور انصاف کرنے میں بزی تھا۔ 

"نہیں تو ایسا تو کچھ نہیں ہے۔"

وہ دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گئی۔

"تمھارے چہرے پہ تو کچھ اور ہی لکھا ہے۔" وہ مزید بولا۔

"کیا۔۔؟؟"

وہ بےخیالی میں بولی۔

"یہی کہ تم کسی بات کو لے کر پریشان ہو۔ گاوں جانے کی وجہ سے پریشان ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بابا ہیں وہاں اور پھر رحم دین چاچا بھی ہیں۔ کچھ وقت کی بات ہے پھر میں بھی آ جاوں گا۔ تم یونہی ٹینشن لے رہی ہو۔" وہ سمجھا کہ وہ گاوں جانے کے خیال سے پریشان ہے۔

"نہیں میں پریشان نہیں ہوں۔ بس نجانے کیوں دل گھبرا رہا ہے۔"

وہ اس کے خیال کی تردید کرتے ہوئے بولی ورنہ دل تو کوئی اور ہی بولی بول رہا تھا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔ پیکنگ کر لی تم نے اپنی؟"

وہ ناشتہ ختم کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔

"جی۔۔" مختصر جواب آیا۔

"ٹھیک ہے تو کیا میری پیکنگ میں ہیلپ نہیں کرو گی؟" اس نے ٹیبل پہ جھک کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔

"آپ چلیں میں آتی ہوں۔"

وہ ٹیبل سے برتن اٹھانے لگی۔ 

"رائٹ میم۔۔۔۔ذرا جلدی آئیے گا۔"

وہ اس کا دوپٹہ کھینچ کر ساتھ لے جاتے ہوئے بولا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوپٹہ اپنے ساتھ لے جاتا مسکاء نے دوپٹے پہ اپنی گرفت کسی۔ ضیغم ہنستے ہوئے دوپٹہ اس پہ اچھال گیا۔ اس کے جانے کے بعد اس نے آنکھوں میں ایک دم سے آنے والی نمی کو اندر دھکیلا اور نل کھول دیا۔

برتن دھو کر وہ روم میں آئی تو ضیغم بیڈ پہ سوٹ کیس کھول کر خود سیل فون میں مگن تھا۔ سوٹ کیس بالکل خالی تھا۔ 

"الماری سے سارے کپڑے نکالنے ہیں۔"

وہ کمرے میں آئی تو بنا اس کی جانب دیکھے جلدی سے بولا۔ نظریں ہنوز موبائل پہ مرکوز تھیں۔ آج وہ اسکی توجہ چاہتی تھی جبکہ وہاں نو لفٹ کا سائن بورڈ لگا تھا۔ وہ الماری کی جانب آئی۔ الماری کھول کر ایک ایک ڈریس ترتیب سے سوٹ کیس میں رکھنے لگی۔ اسکا سارا دھیان اب پیکنگ پہ تھا اس لئے وہ جان نہ سکی کہ وہ اس کی ہر موومینٹ کو اپنے موبائل میں کیپچر کرتا جا رہا ہے۔ ہر چیز رکھ کر سوٹ کیس اس نے بیڈ سے نیچے اتارا اور لے جا کر دیوار کے ساتھ رکھ دیا۔ ایک ڈریس اس نے الماری میں رہنے دیا تھا۔

"میں نے پیکنگ کر دی ہے۔ آپ جانے سے پہلے ایک بار چیک کر لیجیے گا۔"

وہ اسکی طرف دیکھ رہی تھی اور وہ تو موبائل میں ایسا گم تھا جیسا اس کے علاوہ کمرے میں کوئی اور موجود ہی نہ ہو۔ مسکاء کا دل اچاٹ ہونے لگا۔

"بہت شکریہ جناب۔" 

وہ موبائل بیڈ پہ رکھ کر واش روم کی جانب بڑھ گیا تو مسکاء روم سے باہر آ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ضیغم نے اسے گلزم چاچا کے آنے کا بتایا اور اس کے بیگ کا پوچھا۔ اس کے روم کی طرف اشارہ کرنے پہ وہ کمرے سے اسکا بیگ لے آیا اور اسے اشارہ کرتا بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ مسکاء نے خود کو اس سے بہت پیچھے رہ جاتے دیکھا۔ 

"مسکاء ہری اپ۔۔۔ دیر ہو رہی ہے۔" ضیغم نے اسے یونہی ساکت بیٹھے دیکھ کر آواز دی۔ وہ آنسو پیتی ، گھر پہ ایک آخری نظر ڈالتی اس کے پیچھے آئی۔ کالی چادر سے اس نے خود کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا۔ ضیغم نے سامان گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ رکھا اور اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے گلزم خان کو سلام کیا۔ انھوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اور اس سے حال احوال پوچھنے لگے۔ وہ ان کے لمبے سوالوں کے مختصر جواب دے رہی تھی۔

ضیغم بیٹھ گیا تو انھوں نے مزید باتوں کا سلسلہ موقوف کر کے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ 

وہ خاموشی سے کھڑکی سے باہر دوڑتے منظر دیکھنے لگی۔ 

"مسکاء بیٹا۔۔! گاوں کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی نیچے جھک جانا۔"

گلزم خان نے مسکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ 

"ارے چاچا آپ فکر نہ کریں۔ انھوں نے تھوڑی دیر میں ہی سو جانا ہے۔"

اس نے ہنستے ہوئے اس کی جانب دیکھا جو اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں گم تھی۔ اسکی غائب دماغی محسوس کرتے ہوئے اس کے مسکراتے لب سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ گئے۔ اسکے چہرے کی اداسی اس کے دل پہ چھانے لگی۔ وہ رخ پلٹ گیا تھا۔_______________________________________

گاڑی جب گاوں کی حدود میں داخل ہوئی تو ضیغم نے گلزم چاچا کو حویلی کی جانب جانے کو کہا۔ وہ اسکی بات سن کر بہت حیران بلکہ پریشان ہو گئے۔ اس نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انھیں تسلی دی۔ انھوں نے گاڑی کا رخ حویلی کی جانب کر دیا۔ پیچھے مڑ کر مسکاء کو دیکھا تو وہ گھٹنوں پہ سر رکھے نیچے جھکی ہوئی تھی۔ وہ اس کے انداز پہ مسکرا دیا۔ 

گلزم خان کو اس نے مسکاء کو گھر لے جانے کو کہا اور خود حویلی کے قریب اتر گیا۔ گلزم خان تیزی سے زمان خان کی طرف آئے تھے۔ ظہر کا وقت تھا اس لئے آس پاس بالکل خاموشی تھی۔ انھوں نے جیب سے چابی نکال کر دروازہ کھولا اور پھر پچھلا دروازہ کھول کر آس پاس نظر دوڑائی۔ جب مطمئن ہو کر انھوں نے مسکاء کو آواز دی اور اسکا سوٹ کیس اتارا۔ مسکاء چادر سنبھالتی گاڑی سے اتری اور ادھر ادھر دیکھے بغیر گھر کے کھلے دروازے سے اندر چلی گئی۔ انھوں سوٹ کیس اندر رکھا اور بجلی کی سی پھرتی سے دروازے کو بند کر کے تالا لگایا۔ 

اس کے بعد گاڑی مسجد کی جانب موڑ دی جہاں رحم دین اور زمان خان ان کا انتظار کر رہے تھے۔ 

مسکاء نے سوٹ کیس اندر لا کر برآمدے میں رکھا اور کولر کی جانب آئی۔ پانی پی کر باہر صحن میں رکھی چارپائی پہ ہی بیٹھ کر اس نے خود کو نارمل کیا۔ تقریبا آدھے گھنٹے بعد دروازہ کھلنے کی آواز پہ وہ اٹھ بیٹھی اور اٹھ کر پلر کے پیچھے چھپ گئی لیکن جب اس نے دروازے سے اندر داخل ہوتے رحم دین کو دیکھا تو بھاگتے ہوئے آ کر ان کے سینے سے لگ گئی۔ انھوں نے بھی اسے اپنے ناتواں بازوں میں سمیٹ لیا۔ اس کی آنکھوں سے بھل بھل بہتے آنسو اس کے سینے میں اٹھتا درد بیان کر رہے تھے۔ وہ اسکی پیٹھ سہلاتے ہوئے خود بھی رو رہے تھے۔ زمان خان بھی اپنے آنسووں پہ قابو نہ رکھ سکے تھے۔ 

"بس کرو بھئی۔۔۔اللہ کا شکر ہے کہ بچی خیر خیریت سے پہنچ گئی ہے ورنہ تو سچ پوچھو میرا تو دم اٹکا ہوا تھا۔"

انھوں نے رحم دین کو متوجہ کیا تو انھوں نے مسکاء کو خود سے الگ کیا اور پھر اسکا آنسووں سے تر چہرہ صاف کیا۔ 

"بابا۔۔۔اماں کیسی ہیں؟"

زمان خان نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور انھیں لے کر کمرے میں آ گئے۔

"اماں بالکل ٹھیک ہیں اور تم سے ملنے کے لئے بےچین۔۔وہ تو ابھی آ رہی تھی لیکن میں نے ہی روک دیا۔ ماہ گل بی بی کے ساتھ آ رہی ہے۔"

انھوں نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔ 

دوسری طرف ضیغم حویلی میں داخل ہوا تو شکور باہر ہی مل گیا۔ ضیغم نے اس سے مل کر میرسربلند خان کو اطلاع دینے کا کہا۔ وہ اسے لاونج میں کھڑا چھوڑ کر وہ میر سربلند خان کو بتانے ان کے روم میں آ گیا۔

انھوں نے اسے اپنے کمرے میں ہی بلوا لیا۔ 

"اسلام و علیکم!"

وہ کمرے میں داخل ہوا تو میرسربلند خان یک دم کھڑے ہو گئے۔ انھیں لگا وہ ایک بار پھر کہیں سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ ان کے سامنے دراب خان کھڑا ہے۔ وہی قد کاٹھ ، وہی ذہین آنکھیں ، سرخ و سفید رنگت۔۔۔ 

"واعلیکم السلام!" 

انھوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اسے بیٹھنے کو کہا۔ 

"آپ نے مجھے بلایا تھا؟"

انھیں دیکھ کر اسکا خون کھولنے لگا تھا۔ اسکے سامنے کوئی اور نہیں اسکے ماں باپ کا قاتل بیٹھا تھا۔ انھیں گمنام موت دینے والا ظالم انسان اسکی پہنچ کے بہت قریب تھا مگر اس نے خود کو سنبھال لیا کیونکہ وہ انھیں گمنام موت نہیں مارنا چاہتا تھا۔ وہ انھیں آنے والوں کے لئے عبرت بنانا چاہتا تھا۔ ان کے منہ سے اعتراف کروانا چاہتا تھا۔ 

"ہاں۔۔۔۔میں نے بلوایا تھا۔ عالمزیب کو تمھاری ضرورت ہے۔ وہ کب سے تمھیں بلوانے کا کہہ رہا تھا۔ میں نے کہیں بار تمھارے باپ سے کہا کہ تمھیں یونہی شہر بھجوا دیا۔ پڑھائی وڑھائی کا یونہی جھنجھٹ پال رکھا ہے تم نے۔ یہاں کون سی کمی ہے نوکریوں کی۔"

انھوں نے اس کے بیٹھنے کے انداز کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ان کے سامنے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے یوں براجمان تھا جیسے انھوں نے اسے نہیں بلکہ اس نے انھیں بلایا ہو۔ 

انھوں نے اسکے پہناوے کے انداز کو دل ہی دل میں سراہا۔ بےخوف آنکھیں ان پہ گڑھی تھیں۔ سب کچھ کر گزرنے کا عزم لئے آنکھیں انھیں بہت کچھ سمجھا رہی تھیں۔

"بہت شکریہ آپکا۔۔۔میں اپنی مدد آپ کا قائل ہوں۔ تعلیم مکمل ہو گئی ہے۔ جہاں تک میری نوکری کا سوال ہے تو بہت جلد وہ بھی مل جائے گی۔"

اس نے اردگرد نظر دوڑائی۔

"نوکری ملنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ آجکل نوجوان ڈگری ہاتھ میں لئے خوار ہوتے رہتے ہیں تو تم کیا تیر مار لو گے۔ ہمارا منشی اب بوڑھا ہو گیا ہے۔ یہ حساب کتاب کا کام اب اس سے نہیں ہوتا۔ تمھاری پڑھائی ہمارے بھی کسی کام آئے۔"

انھوں نے طنزیہ انداز میں اس کی جانب دیکھا۔ ان کی بات پہ اس نے اپنے اندر امنڈنے والے غصے کو دبایا۔

"میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مجھے ضرورت نہیں ہے۔ میں بہت جلد اپنے پیروں پہ کھڑا ہو جاوں گا بلکہ دیکھیے اب بھی کھڑا ہوں۔"

وہ ان کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہو گیا اور اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتے وہ کمرے سے نکل گیا۔ 

اس کا اسطرح سے چلے جانا ان کا خون کھولا گیا۔ ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ انھوں نے سامنے دیوار پہ دے مارا۔ کپ دیوار سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔

"تمھارا بھی یہی حال کروں گا میں۔۔۔۔۔میر ضیغم خان۔"

وہ قہر بھری سے نظروں سے دروازے کو دیکھ رہے تھے جہاں سے وہ ابھی گیا تھا۔_______________________________

اماں سے مل کر وہ بہت خوش تھی۔ کتنی دیر انھوں نے اسے اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ زمان خان اور رحم دین بس اب یہی دعا کر رہے تھے کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ مسکاء گاوں میں ہے۔ ورنہ بنا ضیغم کے یہاں حالات سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ انھوں نے تہیہ کیا کہ وہ اس بات کو صیغہ راز میں رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔ خاص طور پر وہ مسکاء سے ملنے میں بہت احتیاط برتیں گے۔ 

مسکاء ماہ گل اور ذہرہ بی بی کے ہمراہ کچن میں دوپہر کے کھانے کا انتظام کر رہی تھیں۔ ضیغم ابھی تک حویلی سے واپس نہیں آیا تھا۔ زمان خان باہر صحن میں اسی کے انتظار میں بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ رحم دین بھی پریشان تھے کہ نجانے وہاں کیا بات ہوئی ہو۔ میرسربلند خان کے مزاج سے تو وہ اچھی طرح واقف تھے۔ ضیغم بھی تو انہی کا خون تھا۔

"ارے بھئی آ جائے گا بچہ۔۔۔آپ دونوں تو اپنے انداز و اطوار سے ہمیں بھی ہولائے دے رہے ہو۔"

ماہ گل انھیں اس طرح صحن میں چکر لگاتے ہوئے دیکھ کر ان کے قریب آئی تھیں۔ کافی دیر ہو گئی تھی اسے گئے ہوئے اس لئے مسکاء بھی اب پریشان ہو رہی تھی۔ وہ کچن کے دروازے میں بیرونی دروازے پہ نظریں جمائے کھڑی تھی۔ دل ہی دل میں قرآنی آیات کا ورد جاری تھا۔ 

"میں خود جا کر دیکھتا ہوں۔ نجانے اب تک کیوں نہیں آیا۔"

زمان خان دروازے کی جانب بڑھے۔ 

"ٹھہرو۔۔۔میں بھی چلتا ہوں تمھارے ساتھ۔" رحم دین بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابھی وہ دروازے کے قریب پہنچے ہی تھے کہ دروازے پہ ہوئی دستک پہ زمان خان نے فورا ہاتھ بڑھا کر چٹخنی اتار کر دروازہ کھول دیا۔ سامنے ہی وہ لبوں پہ مسکان سجائے انھیں دیکھ رہا تھا۔ 

"مجھے پہلے ہی پتہ تھا بابا کہ آپ پریشان ہوں گے۔"

وہ ان کے گلے لگ گیا۔ سبھی نے اس کے خیریت سے آجانے پہ سکون کا سانس لیا تھا۔ ماہ گل اور ذہرہ بی بی اس سے ملنے کے لئے آگے بڑھیں جبکہ مسکاء باورچی خانے میں گھس گئی۔ ذہرہ بی بی اس کے سینے سے لگی آنسو بہائے جا رہی تھیں۔ 

"خالہ بس کریں کیا ہو گیا ہے آپ کو۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے نقصان پہنچانے سے پہلے میرسربلند خان کو ہزار بار سوچنا پڑے گا اور جب وہ ہزارویں بار پہ پہنچے گا میں اسے کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑوں گا۔"

اس نے مسکراتے ہوئے ان کے آنسو پونچھے۔ 

"اللہ تمھیں کبھی کچھ نہ کرے ضیغم۔۔میری عمر بھی تمھیں لگ جائے۔"

وہ محبت سے اسکا چہرہ تھامتے ہوئے بولیں۔ وہ اتنی محبت پر مسکرا دیا۔ 

"نیک بخت۔۔۔۔ہماری باری آئے گی یا نہیں۔" 

رحم دین نے ذہرہ بی بی سے کہا جو ضیغم کو گھیرے کھڑی تھیں۔ سبھی ان کی بات پر ہنس دئیے۔ ذہرہ بی بی بھی ایک طرف ہو گئیں۔ضیغم آگے بڑھ کر ان سے ملا۔

"کیا بات ہوئی خان جی سے؟" زمان خان اس کے قریب آئے۔

"کچھ نہیں بابا۔۔۔۔مجھے بھی اپنے رعب میں لانے کی کوشش کر رہے تھے مگر میں بھی انھیں اچھی طرح باور کروا آیا ہوں کہ وہ مجھے باتور خان نہ سمجھیں۔"

وہ انھیں ساتھ لگائے کمرے میں آیا تھا اور ساری بات ان کے گوش گزار کر دی۔

"تمھیں اسطرح دو ٹوک انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔"

زمان خان اس کی بات سن کر پریشانی سے بولے۔ رحم دین نے بھی ان کی تائید کی۔

"بابا۔۔۔۔وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ میں کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں ہوں۔ میں ان سب سے لڑنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ میں انھیں کب کا سبق سکھا چکا ہوتا لیکن میں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا۔ میں انھیں ایسی مار مارنا چاہتا ہوں کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو اور پھر کوئی دوسرا میرسربلند خان اس گاوں میں لوگوں کی زندگیوں اور عزتوں سے نہ کھیل سکے۔"

وہ مضبوط لہجے میں بولا تو ذہرہ بی بی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی نظر اتاری۔

"اللہ تمھیں کامیاب کرے بیٹا۔۔ تم ہماری آخری امید ہو۔"

رحم دین کی بات پر وہاں موجود سبھی لوگوں نے آمین بولا۔

"ماہ گل کھانے کی کیا صورتحال ہے۔"

زمان خان نے ماہ گل سے پوچھا تو وہ سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ذہرہ بی بی بھی ان کے ساتھ ہولیں۔ 

انھوں نے کمرے میں ہی نیچے دسترخوان بچھا کر اس پہ کھانا چن دیا پھر سب نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد ماہ گل نے قہوہ بنایا۔ قہوہ پینے کے بعد ماہ گل تو حویلی چلی گئیں اور ان کے تھوڑی دیر بعد رحم دین اور ذہرہ بی بی بھی جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ 

"اماں تھوڑی دیر اور رک جائیں نہ۔۔ ابھی تو آئیں ہیں آپ۔"

مسکاء نے انھیں کھڑے ہوتے دیکھ کر کہا۔

"نہیں بیٹا ہم پھر آئیں گے اور تم بھی زمان چاچا سے ہماری طرف آنے کی ضد نہیں کرنا۔ تم نے گھر سے باہر قدم نہیں نکالنا۔ بس یہ کچھ وقت کی سختی ہے پھر انشاءاللہ۔۔اللہ نے چاہا تو ہم سکھ کے دن بھی دیکھیں گے۔"

رحم دین نے بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھا۔

"انشاءاللہ۔۔! تم فکر مت کرو۔۔میری بیٹی بہت سمجھدار ہے۔"

انھوں نے محبت سے اس کے چہرے کے بگڑے زاویوں کو دیکھا۔ ضیغم بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ نظریں ملیں تو ضیغم کی آنکھوں میں جلتے چراغوں کی لو اس تک بھی پہنچنے لگی۔۔ اگلے ہی پل وہ نظریں جھکا گئی۔

"بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں چاچا۔۔۔مسکاء بہت سمجھدار ہے۔"

ضیغم نے اس پہ نظریں جمائے کہا۔

"میں آتی رہوں گی تم سے ملنے۔۔اپنا اور زمان چاچا کا خیال رکھنا۔ ہم چلتے ہیں اب۔۔ یہاں زیادہ دیر رکنا مناسب نہیں۔"

ذہرہ بی بی مسکاء کو گلے لگایا اور پھر دونوں زمان خان اور اور ضیغم کی سنگت میں دروازے کی جانب بڑھ گئے۔ ان کے جانے کے بعد زمان خان آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ضیغم نے سامان کمرے میں لا کر رکھا اور کمرے میں موجود واحد پلنگ پہ لیٹ گیا۔ مسکاء بکس کھول کر اپنے کپڑے الماری میں ترتیب سے رکھنے لگی۔ ضیغم خاموشی سے اسے کام کرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ ضیغم کے ایک دو ڈریس الماری میں پہلے سے موجود تھے۔ موبائل ایک طرف رکھ کر وہ اٹھ کر اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ مسکاء اپنے کام میں مگن رہی۔

"کیا تم میرے جانے سے اداس ہو۔"

وہ اسکی لمبی چٹیا ہاتھ پہ لپیٹتے ہوئے بولا۔ اسکے کام کرتے ہاتھ رک گئے۔

"نہیں تو۔۔۔۔۔"

اس نے اپنی چوٹی اس کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے کہا۔

"اچھا۔۔۔۔تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں ورنہ مجھے تو لگتا ہے کہ تم بہت اداس ہو میرے جانے سے۔"

وہ اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ مسکاء نے کوئی جواب نہیں دیا تو اس نے مسکراتے ہوئے اسے پیچھے سے بانہوں کے گھیرے میں لیتے ہوئے اس کے بالوں پہ ہونٹ رکھ دئیے اس کے بعد وہ کمرے سے نکل گیا۔ کچھ دیر بعد مسکاء کو دروازے کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔

آنسو روانی سے اسکے گال بھگونے لگے تھے۔__________________________________

وہ جسطرح یہاں سے گیا تھا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسطرح اسکے چہرے کا سکون اپنے پیروں تلے روند ڈالیں۔ وہ جسطرح ان کے سامنے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا ان کی برداشت سے باہر تھا۔وہ اس وقت حجرے میں موجود تھے۔ 

باتور خان حجرے میں داخل ہوا تو انھوں نے قہر بھری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔

"تم تو چوڑیاں پہن کر گھر ہی بیٹھ گئے ہو۔ ایک ذرا سی لڑکی تمھاری ناک کے نیچے سے غائب ہو گئی ہے اور تم کچھ نہیں کر پائے۔ لعنت ہے تمھاری مردانگی پہ۔"

وہ نہایت غصے میں اس پہ برس رہے تھے۔ وہ حیران تھا کہ خان جی نے اس کے ساتھ پہلے کبھی اسطرح کا رویہ نہیں اپنایا۔ وہ ان کے انداز سے خائف ہو کر خاموش ہی رہا۔

"اور وہ میر۔۔۔۔میرے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے میرا۔ اسے دیکھتا ہوں تو خون کھولنے لگتا ہے میرا۔۔کوئی بندوبست کر اسکا ورنہ میں تیرا بندوبست کر دوں گا۔"

میر کے نام سن کر تو اسکا بھی خون کھول اٹھتا تھا۔ اسکی وجہ سے جو بےعزتی اس نے برداشت کی اس کے لئے وہ اسے معاف کرنے والا نہیں تھا۔ اپنے سینے میں جلتی آگ تو وہ اسی دن بجھا لینا چاہتا تھا مگر خان جی کے منع کرنے پہ ہی وہ رک گیا تھا۔ گاوں کے لوگوں نے تو اس واقعے کو خوب اچھالا تھا۔ بچے، بوڑھے، جوان سبھی میر کی تعریف میں رطب السان رہتے تھے۔ کتنے لوگوں سے تو ہاتھا پائی بھی ہو گئی تھی اسکی۔

"خان جی آپ حکم کریں۔۔۔زندہ زمین میں گاڑ دوں گا۔"

وہ ان کے قریب آتے ہوئے بولا۔

"وہ آ چکا ہے گاوں۔"

"جی خان جی۔۔" وہ جانے کو مڑا۔

"اور ہاں ۔۔۔۔۔۔بس صرف ٹریلر دکھاو۔ باقی کا کام میں اپنے ہاتھوں سے کروں گا۔"

وہ مختصرا کہہ کر حویلی اور حجرے سے ملحق دروازے سے حویلی چلے گئے جبکہ باتور خان حجرے سے باہر نکل گیا۔ حجرے سے باہر اس کے انتظار میں کھڑے اقبال اور رشید کو اس نے مختصرا بتایا۔ وہ دونوں بھی اسکی بات سن کر خباثت سے مسکرانے لگے۔ 

"خان۔۔۔میں نے ابھی اسے گاوں کے بڑے میدان کیطرف جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ رحیم داد بھی ساتھ تھا۔"

اقبال نے باتور خان کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔ پھر ایک لمحہ ضائع کیے بنا وہ میدان کی طرف بڑھ گئے۔ میدان میں اس وقت کافی لڑکے جمع تھے۔ ۔میدان کے ارد گرد کافی تعداد میں درخت تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا نے موسم کو خوشگوار کر دیا تھا۔ عصر کا وقت شروع ہونے والا تھا۔ ضیغم اور رحیم داد وہاں موجود لڑکوں کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

"میر۔۔۔۔باتور خان۔۔"

رحیم داد نے اسے متوجہ کیا۔ ضیغم باتور خان کو دیکھ کر اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔ باتور خان تقریبا بھاگتے ہوئے اس کے سر پہ پہنچا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ ضیغم کے گریبان میں ہاتھ ڈالتا ضیغم نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے اور جھٹکا دے کر چھوڑا۔ وہ سنبھل نہ سکا اور کچھ دور جا گرا۔ اقبال اور رشید اسے فورا اٹھانے آگے بڑھے لیکن اس نے انھیں جھٹک دیا۔ آس پاس موجود لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ باتور خان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ ضیغم کی برداشت سے باہر تھے۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا مگر رحیم داد نے اسے روکا۔

"چھوڑو یار۔۔۔۔"

اس نے ضیغم کا بازو کس کر پکڑا۔

"وہ اسی لئے آیا ہے۔"

ضیغم اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑانے لگا۔ اسی دوران باتور خان آگے بڑھا۔ ضیغم نے فورا اپنا ہاتھ کھینچا۔ باقی سب لوگ بھی ان کے گرد کھڑے ہو گئے۔ 

"باتور خان۔۔۔میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا۔ اس لئے یہاں سے چلتے پھرتے نظر آو۔"

ضیغم نے اسے آگے بڑھنے سے روکا۔ 

"آج تم مجھ سے بچ نہیں سکتے۔" اس نے قریب آتے ہوئے ضیغم پہ وار کیا۔ وہ اپنے بچاو کے لئے فورا پیچھے ہوا مگر پھر بھی اسکا ہاتھ ضیغم کے چہرے سے ٹکرایا۔ انگلی میں پہنی انگوٹھی کی وجہ سے اسکا ہونٹ ذخمی ہو گیا۔ اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس کر کے ضیغم بپھر گیا اور سیکنڈز میں وہ دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔ ضیغم باتور خان کے مقابلے میں کئی زیادہ مضبوط جسامت کا مالک تھا اس لئے چند لمحوں میں اس نے باتور خان کو ڈھیر کر دیا۔ اقبال اور رشید تو ڈر کے مارے قریب ہی نہیں آئے۔ 

اس کے کپڑے مٹی سے اٹ چکے تھے۔ سارے لوگ ضیغم کو سراہنے لگے۔ پہلی بار گاوں والوں نے باتور خان کو پچھاڑنے والے شخص کو دیکھا تھا۔ وہ مزید اس کی درگت بناتا مگر رحیم داد نے آگے بڑھ کر اسے روک دیا۔

"آئیندہ میرے راستے میں آیا تو اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔"

اس نے باتور خان کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور پھر جھٹکے سے چھوڑتے ہوئے کہا۔باتور خان نے ریوالور نکالنے کے لئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا مگر اسے یاد آیا کہ آتے وقت میرسربلند خان نے اسے سمجھاتے ہوئے ریوالور اسکی جیب سے نکال لیا تھا تا کہ وہ کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا سکے۔ میر سربلند خان کے اس عمل نے اس کے غصے کو بڑھایا تھا۔

"آئیندہ میرے سامنے آنے سے گریز کرنا۔"

ضیغم نے شہادت کی انگلی اسکی جانب اٹھا کراسے اشارہ کیا۔

"تجھے تو میں۔۔۔۔۔۔" اس سے پہلے کہ باتور خان اس پہ دوبارہ حملہ کرتا کچھ لڑکوں نے مل کر اسے روکا۔ اس نے خود کو چھڑایا اور وہاں سے مغالضات بکتا چلا گیا۔ اسکی ٹانگ کی لنگڑاہٹ وہاں موجود لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹ لے آئی تھی۔ 

ضیغم بھی وہاں سے نکل آیا تھا۔ عصر کی اذان شروع ہوئی تو وہ گھر جانے کی بجائے مسجد آ گیا۔ وضو بنا کر نماز ادا کی۔ نماز پڑھ کر اٹھا ہی تھا کہ زمان خان کو اپنے بالکل پیچھے کھڑے پایا۔ 

"تمھیں کیا ضرورت تھی اس سے لڑنے کی۔ تمھیں پتہ ہے نا وہ پسٹل اپنی جیب میں لئے پھرتا ہے۔ اگر تمھیں کچھ ہو جاتا تو۔۔۔؟؟"

زمان خان بہت غصے میں تھے۔ رحیم داد نے انھیں مسجد آتے ہوئے میدان میں ہوئے واقعے کے بارے میں بتا دیا تھا۔ وہ نماز پڑھ کر ضیغم کو مسجد میں ڈھونڈ رہے تھے کہ وہ انھیں ایک طرف نماز پڑھتا دکھائی دیا۔ وہ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اسکے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

"بابا۔۔۔۔وہ خود ہی اسی نیت سے میری طرف بڑھا تھا۔ پہلے کی درگت بھول گیا تھا اپنی۔۔ اب آج والی یاد رکھے گا۔"

وہ ہنستے ہوئے بولا تو ان کی نظر اس کے نچلے ہونٹ پہ پڑی۔

"یہ کیا ہوا؟؟" 

وہ اس کے قریب آ کر بغور دیکھنے لگے۔

"کچھ نہیں اسکی انگوٹھی لگ گئی تھی ورنہ باتور خان میں تو اتنا دم خم نہیں کہ زمان خان کے ببر شیر کو پچھاڑ سکے۔"

وہ ان کے کندھے پہ بازو پھیلاتے ہوئے بول کر ان کے ساتھ مسجد سے نکل آیا۔

"پھر بھی میر۔۔۔۔۔احتیاط کرنی چاہیئے۔ یہ باتور خان تو بندوق چلانے میں بالکل احتراز نہیں برتتا۔ مجھ میں تمھیں کھونے کی ہمت نہیں ہے۔"

وہ اس کے زخم پہ نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔ وہ سر ہلا کر مسکرا دیا۔ 

"گھر چلیں۔۔ آپکی بہو مجھے تنگ کرنے لئے بیتاب ہو گی۔"

وہ شرارت سے بولا تو وہ اسکی طرف تنبیہی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ہنس دئیے۔___________________________________

مسکاء کب سے صحن میں موجود املتاس کے پیڑ پہ نظریں جمائے ان کا انتظار کر رہی تھی۔ ذرد مہکتے ٹہنیوں سے لٹکتے گچھے کے گچھے پھولوں کی نازک پنکھڑیاں ہلکی ہوا کے ٹکرانے سے روئی کے گالوں کی طرح کچے وسیع و عریض صحن پہ بکھری ہوئیں تھیں۔ یہ خوبصورت منظر دل و دماغ کو اور بھی مسخر کیے دے رہا تھا۔ پورے صحن میں اس کے پھولوں کی مسحور کن مہک پھیلی ہوئی تھی۔ دیوار کے ساتھ بنی کیاریوں میں پیلے پھول بکھرے ہوئے تھے۔ کتھئی رنگ کی پھلیاں جو ایک سے دو فٹ تک لمبی تھیں۔۔ درخت سے لٹک رہی تھیں۔ ہوا کا جھونکا جب ان سخت خول والی پھلیوں سے ٹکراتا تو ایک مدھر دھن سی بجنے لگتی۔۔ درخت سے ہوتی ہوئی اسکی نظر تا حد نظر پھیلے نیلے آسمان پہ ٹھہر گئی۔ سفید بادلوں کو ہوا اپنے ساتھ لئے جا رہی تھی۔ اچانک اس کی نظر سفید کبوتروں کے ٹولے پہ پڑی جو جھنڈ کی شکل میں اس کے اوپر سے گزر کر چلے گئے تھے۔ ایک معصوم مسکراہٹ اسکے لبوں پہ سج گئی تھی۔ وہ پھر سے ان کے انتظار میں آسمان پہ نظر جمائے ہوئی تھی کہ دروازے کی آواز پہ اس کی محویت ٹوٹی۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ضیغم اور زمان خان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ جاتے وقت زمان خان اسے کنڈی لگانے سے منع کر گئے تھے۔ 

"السلام و علیکم!" 

مسکاء کے سلام جواب دے کر زمان خان اسے چائے کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ وہ چائے بنانے کے لئے کچن میں آ گئی۔ ضیغم بھی صحن میں لگے نل سے چہرہ دھو کر اس کے پیچھے کچن میں آ گیا۔ وہ چائے کا پانی چولھے پہ چڑھائے پانی ابلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ سیمنٹ سے بنے سیلب سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ 

"میرے لئے بھی ایک کپ۔"

اس کی آواز پہ مسکاء نے اسکی جانب دیکھا لیکن کہا کچھ نہیں۔ چائے بنا کر ایک کپ ضیغم کو پکڑایا اور دوسرا کپ زمان خان کو ان کے کمرے میں دے آئی۔ ضیغم ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔ اس نے خاموشی سے اپنا کپ اٹھایا اور کچن سے باہر آ کر برآمدے میں رکھی کرسی پہ بیٹھ کر دھیرے دھیرے چائے کے سپ لینے لگی۔ ضیغم بھی دوسری کرسی کھینچ کر اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔

"آپ آج جائیں گے؟" 

مسکاء نے اسکی جانب دیکھنے سے گریز کیا۔

"یہ بات تم میری جانب دیکھ کر بھی پوچھ سکتی ہو۔"

ضیغم کی نظر اس کے سفید نرم و گداز ہاتھوں پہ تھی۔ 

"اتنے عرصے میں ایک بار بھی تم نے مہندی نہیں لگائی۔"

مسکاء نے اسکی طرف دیکھا جو اسکے ہاتھوں پہ نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ چائے کا خالی کپ اس نے ساتھ ہی پڑی ٹپائی پہ رکھ دیا۔ ضیغم نے بھی کپ وہیں رکھ دیا۔ 

"تمھارے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں مسکاء۔"

وہ اسکا دائیاں ہاتھ ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولا۔ 

"ٹریننگ کب ختم ہو گی۔"

ضیغم نے خوشگوار حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔۔ تو اسکا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہ اسکے جانے سے اداس تھی۔ 

"تم کہتی ہو تو نہیں جاتا۔"

اس نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ جہاں اسکا عکس جھلملانے لگا تھا۔ اسے لگا جیسے اسکا دل کسی نے مٹھی میں دبا کر چھوڑ دیا ہو۔ وہ زیادہ دیر اسکی آنکھوں میں نہ دیکھ سکا اور اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لئے ہوئے وہ کرسی سے پشت ٹکا گیا۔ مسکاء نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ خاموشی ان کے اردگرد گھومنے لگی اور ضیغم سوچ رہا تھا کہ وہ کتنی جلدی اس کے دل پہ قابض ہو گئی تھی۔ اسے کبھی نہیں لگا کہ وہ مسکاء سے ایسی محبت کرے گا جو قریب ہو تو آس پاس کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ یہ سب اسکے لئے بہت انوکھا اور نیا تھا۔ اس نے اسکا ہاتھ اپنے سینے پہ رکھ کر آنکھیں بند کر لیں تھیں۔

مسکاء بھی شاید اسی کیفیت سے گزر رہی تھی جس سے وہ گزر رہا تھا۔ کتنا ہی وقت یونہی بیت گیا۔ مسکاء نے اسکی جانب دیکھا۔ اس کی نظر ضیغم کے نچلے ہونٹ کے قریب زخم پر پڑی۔ اس نے جھک کر بغور دیکھا۔ 

"یہ کیا ہوا؟" 

اس نے زخم کو چھوا تھا۔ ضیغم نے آنکھیں کھول دیں۔ 

"کچھ نہیں۔"

وہ اسکا ہاتھ تھام کر بولا۔ مسکاء نے ہاتھ کھینچ کر اسے گھورا۔

"ارے بھئی۔۔ انگوٹھی سے زخمی ہو گیا۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑنے کے لئے آگے ہوا۔۔ مسکاء فورا کھڑی ہوئی۔

"لیکن آپ نے تو انگوٹھی نہیں پہنی ہوئی۔"

وہ تفتیشی انداز میں اسے گھورنے لگی۔

"باتور خان ملا تھا۔ اسی سے مڈبھیڑ ہو گئی تھی۔ لیکن تم فکر نہ کرو اچھی خاصی ٹھکائی کر کے آیا ہوں۔"

اسکے بتانے پہ وہ پریشان ہوئی۔

"کہیں اور بھی چوٹ آئی ہے؟"

مسکاء نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں اور یہ معمولی زخم ہے ٹھیک ہو جائے گا۔"

وہ اسے پکڑنے کے لئے آگے بڑھا۔ وہ پیچھے ہوئی۔

"میں آئنٹمنٹ لے کر آتی ہوں۔"

وہ کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

"ارے بھئی میں ٹھیک ہوں تم اپنے سوالوں کے جواب تو لیتی جاو۔"

وہ اس کے پیچھے آیا۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ ٹیوب ہاتھ میں لئے باہر آ رہی تھی۔

"یہ لیں۔۔۔لگا لیں۔"

اس نے ٹیوب ضیغم کی طرف بڑھائی۔

"تم اپنے ہاتھ کا مرہم رکھ تو ٹھیک ہو جاوں گا۔"

اس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔ وہ

ٹیوب کا ڈھکن کھولنے لگی۔ ضیغم دروازہ بند کر کے مزید قریب ہوا۔ وہ کریم انگلی پہ نکال کر زخم پہ لگانے لگی تو ضیغم نے اسکی کمر میں بازو حمائل کر کے فاصلہ مٹا دیا۔ 

"کل میں نے چلے جانا ہے۔ پرسوں سے ٹریننگ اسٹارٹ ہو گی۔"

وہ اسے بانہوں کے گھیرے میں لئے محبت چھلکاتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے ہوئے بتا رہا تھا۔ 

"کتنے ماہ کی ٹریننگ ہے؟"

اس نے دوا لگاتے ہوئے پوچھا۔

"نو ماہ کی۔"

وہ بولا تو اسکا ہاتھ وہیں رک گیا۔۔اتنا عرصہ۔۔۔۔وہ تو سمجھ رہی تھی زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی ہو گی اور یہ تین ماہ بھی اسے بنا دیکھے گزارنا اسے کٹھن ترین کام لگ رہا تھا۔ 

"نو مہینے تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ میں کیسے۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے کہ ہم۔۔۔۔۔۔" 

وہ اپنے دل کی حالت اس سے مخفی نہ رکھ سکی تو رخ موڑ گئی۔ اس کی بات سے ضیغم کے دل میں پھول کھلنے لگے۔ 

"تم مجھے مس کرو گی؟"

ضیغم نے اسکے کندھے پہ ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں تو۔۔۔۔۔بابا ہیں نا یہاں۔"

اس کے جواب پہ وہ مسکرا دیا۔

"مسکاء۔۔۔۔!!"

وہ خاموش رہی۔۔۔صرف اپنے اردگرد اسکی خوشبو کو محسوس کرنے لگی۔

"تم مجھے بہت یاد آو گی۔۔"

اس نے گہری سانس کھینچتے ہوئے اسکی مہک کو اپنے اندر اتارا تھا۔ 

"مجھے بھی۔۔۔"

وہ بھی دھیرے سے اعتراف کر گئی۔

"ظالم نے کس بے دردی سے مارا ہے۔ تجھے کیا ضرورت تھی

 اس کے منہ لگنے کی۔ ایک بار پہلے بھی پٹ چکا ہے اس کے ہاتھوں مگر پھر بھی تجھے چین نہیں آتا۔ کس لئے گیا تھا اس کے پیچھے۔"

وہ باہر چارپائی پہ لیٹا تھا جب وہ دوا ہاتھ میں لئے اس کے سر پر کھڑیں ہاتھ نچا نچا کر بول رہی تھیں جبکہ باتور خان ان کے بلند آواز میں بولنے پہ غصے سے انھیں گھور رہا تھا۔

"اب مجھے کیوں گھور رہے ہو۔۔میں نے کہا تھا اس سے بھڑنے کو۔"

وہ مزید چراغ پا ہوئیں۔

"اماں۔۔۔۔تو تھوڑی دیر کے لئے اپنا منہ بند رکھے نا تو بہت اچھا ہو گا۔ تین دن ہو گئے ہیں تجھے یہ سب بلند و بانگ سناتے ہوئے۔ جنھیں نہیں بھی پتہ ان کے سامنے بھی میرا اشتہار لگا دیا ہے تو نے۔ اب اگر ایک لفظ بھی کہا تو تجھے کمرے میں بند کر دوں گا۔"

ایک تو ٹانگ کا درد کم نہیں ہو رہا تھا اور اوپر سے وہ اماں کی صلواتیں بھی برداشت نہیں ہو رہی تھیں۔

"صحیح تو کہہ رہی ہے تمھاری ماں۔۔اور تجھے پتہ ہے نا کہ بڑے خان جی نے تجھے منع کیا تھا پھر بھی تو اس سے لڑنے پہنچ گیا۔"

کرم دین کمرے سے نکل کر اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔

"بابا مجھے بڑے خان جی نے ہی کہا تھا۔"

اس کی بات پہ انھوں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ انھیں یقین نہیں آیا تھا۔

"جھوٹ مت بول۔۔۔مجھ سے انھوں نے کئی بار تمھیں منع کرنے کو کہا ہے۔ اب تم اپنی حرکت پہ ان کے نام کا پردہ مت ڈالو۔"

انھوں نے اسے لتاڑا۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔جب میں حجرے میں داخل ہوا تو وہ بہت غصے میں تھے۔ انھوں نے ہی مجھ سے کہا کہ اسے تھوڑا سبق سکھاوں۔"

باتور خان ٹانگ پہ ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔

"تو ختم کر کے آتا قصہ۔۔۔۔۔مگر تم تو خود سبق سیکھ کر آ گئے ہو۔"

انھوں نے اس کی ٹانگ کی جانب اشارہ کیا۔

"قصہ ختم کر ہی دیتا اگر خان جی نے مجھے منع نہ کیا ہوتا۔"

وہ کہہ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"مگر کیوں۔۔۔۔۔۔؟؟"

وہ اٹھ کر اس کے پیچھے آئے تھے۔

"یہ آپ انہی سے جا کر پوچھیں۔۔ جب میں وہاں سے جانے لگا تھا تو انھوں نے مجھ سے پسٹل یہ کہہ کر لے لی تھی کہ باقی کا کام وہ اپنے ہاتھوں سے کریں گے۔"

وہ لنگڑاتے ہوئے کمرے میں چلا گیا۔ کرم دین کی نظر اسکی لنگڑاتی ٹانگ پہ تھی مگر سوچ کا ذاویہ کہیں اور تھا۔ 

"خان جی نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔۔۔"

زبیدہ خانم پرسوچ انداز میں خود سے بولیں۔ 

"دفع دور ہوں سب۔۔۔۔"

جب کسی نتیجے پہ نہ پہنچیں تو ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑیں ہوئیں۔ ابھی انھیں کھانے کی تیاری بھی کرنی تھی۔

زبیدہ خانم کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ مڑ کر ان کے پاس آئے تھے۔

"تم اپنی زبان کو تالا لگاو۔۔۔۔بہت چر چر کرنے لگی ہو۔ خان جی کی مرضی وہ جو چاہیں کریں۔ تمھیں کچھ سمجھ آتی ہے نہیں اور بولنے میں سب سے آگے رہتی ہو اور اگر تم نے اپنی زبان کو تالا نہیں لگایا تو میں لگا دوں گا۔"

کرم دین نے انھیں غصیلی نگاہوں سے گھورا تو وہ خاموشی سے کچن میں چلی گئیں۔ 

کرم دین باتور خان کے کمرے کی جانب جا رہے تھے کہ دروازے پہ دستک نے ان کے قدم بیرونی دروازے کی جانب موڑ دئیے۔ 

"تم۔۔۔۔۔۔۔یہاں کیوں آئے ہو؟"

زمان خان کو دیکھ کر ان کے چہرے کا زاویہ بگڑا۔

"ہاں میں۔۔۔ باتور خان کو باہر نکالو۔۔اب گھر میں کیوں چھپ کر بیٹھا ہے۔"

غصہ تو انھیں بہت تھا مگر ضبط کر گئے۔

"وہ نہیں ہے گھر پہ۔"

وہ ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے بولے۔ 

"تم کیسے باپ ہو۔۔۔۔تم ہر بار اپنے بیٹے کو پٹنے کے لئے بھیج دیتے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ وہ گھر میں چھپا بیٹھا ہے۔ پورے گاوں نے اسے میر سے پٹتے ہوئے دیکھا ہے۔"

زمان خان کی آنکھوں کی مسکراہٹ نے ان کے تن بدن میں آگ لگا دی۔

"مجھ سے باز پرس کرنے سے بہتر ہے کہ تم جا کر خان جی سے پوچھ لو۔ وہ تمھیں تمھارے سوال کا جواب مجھ سے بہتر دیں گے۔"

کرم دین نے طنز سے بھرپور نظروں سے زمان خان کی جانب دیکھا۔

"تم جھوٹ بول رہے۔۔۔خان جی ایسا کیوں کریں گے۔"

انھیں کرم دین کی بات کا یقین نہیں آیا۔

"تو تم خود جا کر کیوں نہیں پوچھ لیتے۔"

یہ کہہ کر وہ رکے نہیں۔۔۔

دروازہ بند ہو چکا تھا مگر زمان خان حیران و پریشان سے ابھی تک وہیں کھڑے تھے۔ 

وہ وہاں سے سیدھے حجرے آئے تھے۔ میر سربلند خان اس وقت حجرے میں موجود تھے۔ منشی ان کے سامنے بیٹھا حساب کتاب کرنے میں مگن تھا۔ میر سربلند خان نے انھیں حجرے میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔ اس لئے منشی کو جانے کا اشارہ کیا۔ 

"خان جی مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔"

وہ خشک لہجے میں بولے تھے۔ آج ان کے لہجے میں وہ تکریم مفقود تھی جو ان سے بات کرتے وقت ان کے لہجے میں محسوس ہوتی تھی۔ میر سربلند خان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"یہ کسطرح بات کر رہے ہو تم مجھ سے۔۔۔۔تم شاید بھول گئے ہو کہ تمھارے سامنے کون کھڑا ہے۔"

وہ واپس بیٹھتے ہوئے بولے۔

"میں نہیں خان جی۔۔۔۔۔آپ اپنا وعدہ بھول گئے ہیں۔"

وہ بنا پلکیں جھپکے ان کے لاپرواہ انداز کو دیکھ رہے تھے۔

"کون سا وعدہ زمان خان؟؟؟"

انھوں نے پوچھا۔

"میر ضیغم خان کو ذرا سی کھرونچ بھی نہ پہنچانے کا وعدہ۔"

وہ بنا کسی ہچکچاہٹ کے ان کی جانب دیکھتے ہوئے بولے۔ 

"وہ اس خاندان کا حصہ ہے۔۔۔آپ کے بھائی کی اولاد ہے۔۔۔ آپ کا خون ہے وہ۔"

انھیں خاموش دیکھ کر زمان خان کا حوصلہ بڑھا۔

"میرا خون۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔"

ان کا بلند قہقہہ حجرے کی خاموش دیواروں سے ٹکرایا تھا۔

"کس بھائی کی اولاد۔۔۔۔۔جسے میں نے آج تک اپنا بھائی نہیں مانا۔۔۔اس کی اولاد کو کیسے اپنا خون مان لوں اور تم ہوتے کون ہو مجھ سے یہ سب کہنے والے۔ اپنی اوقات مت بھولو۔۔ ہمارے ٹکڑوں پہ پلنے والے ایک معمولی ملازم ہو۔۔۔۔"

وہ غضب ناک نگاہوں سے زمان خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔

"کچھ بھی ہو خان جی۔۔۔۔۔اگر اس کے بعد ضیغم کو ذرا سی بھی کھرونچ آئی تو میں بھول جاوں گا کہ آپ کون ہیں اور میں کون ہوں۔"

اس کے بعد وہ وہاں رکے نہیں تھے۔

"اور ہاں۔۔۔۔۔آپ نے جس کو اس کے پیچھے بھیجا تھا وہ تو منہ چھپا کر گھر میں بیٹھا ہے۔"

انھوں نے جاتے جاتے پلٹ کر کہا اور پھر حجرے کی دہلیز پار کر گئے۔

ان کے انداز نے میر سربلند خان کے لئے جلتی پہ تیل کا کام کیا۔ وہ بھی طیش کے عالم میں کرسی کو ٹھوکر مارتے ہوئے حویلی کی طرف بڑھ گئے۔ اب جو بھی کرنا تھا بہت جلد کرنا تھا۔__________________________________________

ضیغم جا چکا تھا۔ خاموشی پورے گھر پہ چھائی ہوئی تھی۔ دو بندوں کا کام ہی کتنا ہوتا تھا جلد نپٹا کر گھر میں بولائی بولائی پھرتی۔ بابا صبح ناشتہ کر کے چلے جاتے۔ پھر ظہر کے وقت آتے اور کھانا کر واپس چلے جاتے۔ اس دوران ماہ گل ایک بار آ چکی تھیں مگر ذہرہ بی بی اور رحم دین دوبارہ نہیں آئے تھے۔ ضیغم جاتے وقت اسے ایک موبائل فون دے گیا تھا۔ پل پل بعد اسکا جی چاہتا کہ ضیغم سے بات کرے مگر وہ جب سے گیا تھا پلٹ کر کانٹیکٹ نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی بھی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ دن میں کتنی بار موبائل ہاتھ میں لیتی لیکن پھر فورا واپس رکھ دیتی۔ موسم کافی بدل چکا تھا۔ دن گرم اور رات ٹھنڈی ہوتی۔ جب سے وہ یہاں آئی تھی زمان خان باہر صحن میں ہی سوتے تھے۔

آج موسم صبح ہی سے ابرآلود تھا۔ وقفے وقفے سے کن من بارش اپنی جھلک دکھا رہی تھی۔ زمان خان کے چلے جانے کے بعد وہ کام ختم کر کے صحن میں رکھی کرسی کے جانب آ گئی۔ بارش تھم چکی تھی۔ گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نے پورے صحن کو معطر کر دیا تھا۔ آسمان پہ کالے بادلوں کا بسیرا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ ذرد پھولوں کی مہک ہوا میں رچی تھی۔ بیٹھے بیٹھے اچانک اس نے بائیں جانب پڑی خالی کرسی کی جانب دیکھا۔

"تم مجھے بےحد یاد آو گی۔" 

کوئی اس کے بےحد پاس گنگنایا تھا۔ ہلکی سی مسکان اس کے لبوں پہ چھائی تھی۔ اسکے الفاظ اسکی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگے تھے۔ چہرے پہ شرمیلی مسکان آئی تو وہ رخ پھیر گئی جیسے ضیغم واقعی وہاں موجود ہو۔ پھر دل میں نجانے کیا خیال آیا کہ اٹھ کر کمرے میں آ گئی۔ الماری کھول کر دراز میں سے موبائل فون نکالا اور باہر آ گئی۔چیک کیا تو موبائل بند تھا۔ موبائل سوئچ آف دیکھ کر اسے خود پہ بہت غصہ آیا۔ ضیغم نے اگر کانٹیکٹ کیا بھی ہو گا تو موبائل سوئچ آف ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پایا ہو گا۔ 

"وہ یہی سوچتے ہوں گے کہ میں بات نہیں کرنا چاہ رہی اس لئے موبائل سوئچ آن ہی نہیں کیا۔۔اب کیا کروں۔۔"

اس نے موبائل کو بغور دیکھتے ہوئے سوچا۔ اس کا ارادہ تو کال کرنے کا تھا مگر اب ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ کچھ دیر وہ یونہی موبائل ہاتھ میں لئے بیٹھی املتاس کے درخت کو گھورتی رہی جیسے سارا قصور اسی کا ہو پھر کچھ سوچ کر موبائل آن کیا۔ کانٹیکٹ لسٹ چیک کی تو اس میں ایک ہی نمبر ضیغم کے نام سے فیڈ تھا۔ اس نے کال ملا کر موبائل کان سے لگایا۔ بیل جا رہی تو اور بیل کے ساتھ ساتھ اس کی دھڑکن بھی بڑھ رہی تھی۔

"ہیلو۔۔۔!"

ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا اس سے ٹکرایا تھا۔ وہ کچھ بھی بول نہیں پائی۔

"مسکاء۔۔۔!" 

وہی بھاری لب و لہجہ۔۔۔۔۔۔۔

"مسکاء تم ٹھیک ہو۔۔۔میں نے کتنی بار کال کی مگر نمبر بند تھا۔ پوچھ سکتا ہوں کیوں۔۔"

اس نے پوچھا۔

"مجھے پتہ نہیں چلا کہ فون آف ہے۔ ابھی آپ کو کال کرنے کی غرض سے الماری سے نکالا تو معلوم ہوا۔۔۔ ابھی آن کر کے آپ کو کال کی۔۔۔۔سوری۔۔۔"

وہ آہستہ آواز میں بولی۔

"میں نے یہ فون آپکو الماری میں رکھنے کے لئے دیا تھا کہ آپ اسے ایک طرف رکھ کر بھول جائیں۔"

آواز سے سنجیدگی چھلک رہی تھی۔ 

"سوری بول تو رہی ہوں۔۔اب مجھے کیا پتہ تھا کہ فون بند ہو گا۔ آپ آن کر کے دیتے نا۔"

اس کے جواب پہ اسے ہنسی تو بہت آئی مگر ضبط کر گیا۔ وہ جب سے یہاں آیا تھا ایک پل کے لئے بھی اسکا خیال اس سے دور نہیں ہوا تھا۔ فارغ ہوتے ہی وہ اسے کال کرنے کی کوشش کرتا مگر سوئچ آف کی گردان اسکا منہ چڑا رہی ہوتی۔ اس دوران وہ تھوڑا چڑچڑا بھی ہو گیا تھا۔ حالانکہ بابا کو کال کر کے ان سے اس کی خیریت دریافت کر لی تھی۔ لیکن دل کی بےچینی اس کی آواز سن کر ہی دور ہونی تھی۔

"واہ واہ۔۔۔۔کیا کہنے آپ کے۔۔ میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ اتنی ذہانت کہاں سے پائی ہے۔ ہمیں بھی بتائیے تاکہ ہم بھی تھوڑی سی ہم بھی لے آئیں اپنے لئے۔"

الفاظ تو طنزیہ تھے مگر انداز شرارت لئے ہوئے تھا۔

"سوری بول تو رہی ہوں۔۔۔اب کیا جان لیں گے میری۔"

وہ اس کے انداز پہ نروٹھے پن سے بولی۔

"جی تو یہی چاہتا ہے کہ اب آپ کی جان لے ہی لیں۔۔ کیا خیال ہے آپ کا۔۔۔لے لیں۔۔؟؟"

وہ اس کے من موہنے چہرے کو تصور میں لاتے ہوئے بولا۔

"لے تو لی ہے۔۔۔۔۔"

وہ اتنی آہستہ آواز میں بولی کہ وہ بمشکل سن پایا۔

"کہاں لی ہے۔۔۔پہلے آپ چھپتی پھرتی تھیں ہم سے اور اب حالات سبب بن گئے ہیں۔"

اسکا گھمبیر لہجہ مسکاء کے دل کے تار چھیڑ گیا۔ 

"مسکاء۔۔۔۔!!"

طویل ہوتی خاموشی کو ضیغم کی آواز نے توڑا۔

"جی۔۔۔۔۔"

ہمیشہ کی طرح مختصر جواب آیا۔

"تمھارے نام کا مطلب "مسکراہٹ" ہے مگر تم مسکرانے میں کنجوسی کرتی ہو۔۔۔وجہ؟؟"

وہ اسے سننا چاہتا تھا۔

"مجھ پہ "ضیغم" نام کا اثر ہو گیا ہے اس لئے۔"

وہ اسے لاجواب کر گئی تھی۔

"لگتا تو نہیں کہ تم پہ میرا کچھ اثر ہوا ہو۔۔ میں تو ایسا نہیں ہوں۔"

اس نے اسے مزید بولنے پر اکسانا چاہا۔

"آپ نے شاید ٹھیک سے سنا نہیں میں نے کہا کہ مجھ پہ آپکے نام کا اثر ہوا ہے آپ کا نہیں۔"

وہ بارش کے قطروں کو ہتھیلی میں سموتے ہوئے بولی۔ لبوں پہ دھیمی مسکان برقرار تھی اور چہرے پہ پیلے پھولوں کا عکس جھلملانے لگا تھا۔

"ہاہاہا۔۔۔۔اچھا تو میرا اثر کب ہو گا؟"

اس نے دلچسپی سے پوچھا۔

"جب آپ واپس آئیں گے۔"

اس نے کہہ کر کھٹاک سے فون بند کر کے ساتھ والی چئیر پہ رکھ دیا۔ اتنی بڑی بات کہہ تو دی تھی مگر اب سر پکڑ کر بیٹھی تھی۔ دل کی بات اسطرح زبان پہ آ جائے گی وہ بھی اتنے واشگاف الفاظ میں اسے اندازہ نہیں تھا۔ موبائل دوبارہ بجنے لگا تھا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا اور کال ڈسکنیکٹ کر کے موبائل گود میں رکھ دیا۔ اب اس میں ہمت نہیں تھی مزید بات کرنے کی۔ میسج ٹون پہ اس نے موبائل اٹھا کر میسج اوپن کیا۔

"مسکاء۔۔۔۔۔۔میں دوبارہ سننا چاہتا ہوں۔ پلیز کال پک کرو۔"

میسج پڑھ کر اسکے گال دہک اٹھے۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے میسج ٹائپ کیا۔

"کیا سننا چاہتے ہیں؟؟"

وہ مسکرائی۔۔۔

"جو ابھی کہا تھا۔۔۔کال پک کرو۔ ورنہ میں آج ہی آ جاوں گا۔"

اس نے دھمکی دی۔

"تو آ جائیں۔۔۔"

مسکاء ڈھیٹ بنی۔

"مسکاء۔۔۔۔۔۔۔۔میں آ گیا تو تمھاری خیر نہیں۔" 

اس نے غصہ دکھایا۔

وہ اسکا میسج پڑھ کر ہنسی تھی۔ بارش تیز ہو چکی تھی۔ اس نے کرسی کو برآمدے میں رکھا اور خود پلر سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔

"اچھا۔۔۔۔۔۔"

اس نے میسج ٹائپ کر کے آسمان کی جانب نظر کی۔ رنگ ٹون ایک بار پھر سے بجنے لگی تھی۔ اسکرین پہ بلنک ہوتا نام اسکی دھڑکن بن گیا تھا۔ وہ کیا تھی اور کیا بن گئی اس ایک نام کی بدولت۔۔۔یہ نام اسکے لئے ایک مضبوط پناہ گاہ تھا۔۔کال مسلسل آ رہی تھی۔ اسکا دل نرم ہوا۔ اگلے ہی لمحے اس نے کال پک کی تھی۔

"جی۔۔۔۔۔"

اس نے آواز دھیمی رکھی۔ 

"میں سننا چاہتا ہوں تمھیں۔"

گھمبیر لہجہ اس کے دل میں ہلچل مچا گیا۔

"کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟"

وہ انجان بنی۔

"مسکاء۔۔۔!"

اس نے تنبیہی انداز اپنایا۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔ ضیغم نے اسے پہلی بار اسطرح ہنستے ہوئے سنا تھا۔

"آپ کب آئیں گے؟"

اس نے اسکا دھیان کسی اور سمت لے جانا چاہا۔

"جو میں پوچھ رہا ہوں وہ بتاو۔"

وہ جلدی میں لگ رہا تھا۔

"کیا پوچھ رہے تھے؟"

مسکاء نے چھیڑا۔۔۔ 

"فائن۔۔۔۔۔۔اللہ حافظ۔"

یہ کہتے ساتھ ہی اس نے کال کاٹ دی۔ یہ سب اس نے اتنی تیزی میں کیا کہ وہ پکار بھی نہ سکی۔ فون کیا بند ہوا اسے اپنے دل کی دھڑکن بھی رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے فورا کال کا بٹن پریس کیا مگر فون سوئچ آف تھا۔

اس نے نچلا لب دانتوں تلے کچل ڈالا۔_______________________________

وہ ابھی ابھی روم میں آیا ہی تھا کہ موبائل کی رنگ ٹون بجی۔ ہاتھ میں پکڑا بیگ اس نے بیڈ پہ پھینکا اور پاکٹ سے موبائل نکالا۔ ارحم کالنگ پہ نظر پڑی تو وہ مسکرا دیا۔

"کہاں ہے تو خبیث۔۔۔۔؟"

ارحم کی آواز سن کر اس کے تھکے ماندے اعصاب پرسکون ہوئے۔ وہ بزنس کے سلسلے میں آوٹ آف کنٹری تھا اس لئے اسلام آباد آتے وقت وہ ارحم سے مل نہیں پایا تھا اور نہ ہی اسے اسکی ٹریننگ اسٹارٹ ہونے کا پتہ تھا۔

"یار ۔۔۔۔۔بس ہر وقت لڑتے ہی رہنا۔ کبھی پیار سے بھی بات کر لیا کرو۔ بندہ کچھ حال چال پوچھتا ہے۔"

وہ ہنستے ہوئے بولا۔

"ہاں ہاں پوچھتا ہوں تیرا حال۔۔۔۔پہلے تو یہ بتا کہ کہاں ہے اس وقت ۔۔۔مجھے ابھی ملنا ہے۔"

ارحم نے اس سے پوچھا۔

"میں تو اس وقت اسلام آباد میں ہوں۔۔۔ٹریننگ اسٹارٹ ہو چکی ہے۔"

وہ بیڈ پہ دراز ہوتے ہوئے بولا۔

"ٹریننگ شروع ہو گئی اور تو نے مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔"

وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا۔

"تو میری بیوی ہے کیا کہ تجھے بتانا ضروری ہے۔"

وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔

"اچھا۔۔۔۔۔تو بیوی کی یاد ستا رہی جناب کو۔۔۔۔"

ارحم نے اسے کلین بولڈ کیا۔ مسکاء کا چہرہ اسکی نگاہوں میں آن بسا۔۔۔وہ اسے دن میں کتنی کتنی بار کال کرتی۔۔۔اسے میسجزز کرتی مگر وہ نہ تو کال پک کرتا اور نہ ہی میسجزز کا جواب دیتا۔ بس اس کے ٹیکسٹ کے انداز کو انجوائے کرتا رہتا۔

"بکواس نہ کر۔۔۔۔۔"

وہ سر جھٹکتے ہوئے بولا۔

"اچھا یہ بتاو۔۔کب آ رہے ہو؟"

ارحم نے پوچھا۔

"فلحال تو مشکل ہے۔۔۔نیکسٹ سنڈے تم آ جاو۔"

وہ بولا تو ارحم نے او-کے کہہ کر فون بند کر دیا۔ اسکرین پہ اس کی نظر پڑی تو مسکراہٹ اور بھی گہری ہو گئی۔ 

اس نے مسکراتے ہوئے میسج اوپن کیا۔

"ضیغم۔۔۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔پلیز۔۔۔۔"

ہر روز وہ اسے سوری کے ڈھیروں میسجزز کرتی تھی۔ ادھر ادھر کی ڈھیروں باتیں۔۔۔۔گاوں کی باتیں۔۔۔بابا کی باتیں۔۔۔وہ خود کو بمشکل جواب دینے سے روکتا۔ 

اس نے ہنستے ہوئے کال ملائی اور فون کان سے لگایا۔ میسج ابھی آیا تھا اس لئے جلد ہی کال ریسیو کر لی گئی۔

"کیا بات ہے۔۔۔۔کیوں تنگ کر رہی ہو؟"

وہ آواز کو بارعب بناتے ہوئے بولا۔

"ضیغم۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔"

وہ دھیرے سے بولی تھی۔

"آپ کا مقصد میں اچھی طرح سے جان گیا ہوں اور جب میں آوں گا تو اس بارے میں بات کریں گے۔۔۔اور کچھ کہنا ہے؟؟"

اس نے اپنا سنجیدہ انداز برقرار رکھا۔

"جی۔۔۔کہنا ہے۔"

وہ روم میں آئی۔

"کہو۔۔۔۔سن رہا ہوں۔"

شاہانہ انداز میں اجازت دی گئی۔

"وہ۔۔۔۔۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رکی۔

"وہ۔۔۔۔۔۔۔کیا؟؟"

اسکی سماعتیں بےقرار ہوئیں مگر اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔

"جب آپ آئیں گے تب بتاوں گی۔"

اسکا جواب سنے بغیر اس نے کال ڈسکنیکٹ کر دی۔________________________________

"اوئے شکور۔۔۔۔کہاں مر گیا ہے؟"

وہ حجرے سے حویلی کے مین گیٹ کی جانب آئے تھے۔ شکور اس وقت چوکیدار سے بات کر رہا تھا۔

"جی خان جی!"

ان کے پکارنے پہ وہ بھاگتا ہوا ان کے پاس آیا تھا۔ 

"باتور خان کو بلا کر لاو۔۔۔بلکہ اسے اپنے ساٹھ ہی لے کر آنا۔"

وہ تیز تیز بولتے ہوئے حجرے کی طرف بڑھ گئے۔

"خان جی وہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔"

ان کی غصیلی نظروں نے اسے خاموش کیا۔

"جی خان۔۔۔۔ابھی جاتا ہوں۔"

وہ بھاگتا ہوا وہاں سے چلا گیا جبکہ وہ تن فن کرتے حجرے میں چلے آئے۔

کچھ دیر بعد باتور خان اور کرم دین حجرے میں داخل ہوتے دکھائی دئیے۔ شکور بھی ان کے ساتھ تھا۔ باتور خان باپ کا سہارا لئے بہت دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہا تھا۔ انھوں نے اسے قہر بھری نگاہوں سے دیکھا۔ ان کی آنکھوں سے پھوٹتے شعلوں نے باتور خان کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ وہ نظریں جھکا گیا۔

"تو اب تک زندہ ہے۔۔۔تجھے تو شرم سے ڈوب مرنا چاہئیے تھا۔ پہلے تیری ناک کے نیچے سے ایک چھٹانک بھر کی لڑکی غائب ہو گئی اور اب تو ٹکے ٹکے کے لوگوں سے مار کھاتا پھر رہا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو وہ وقت دور نہیں جب گاوں کا بچہ بھی تجھے پتھر مار کر وہیں کھڑا تجھ پہ ہنسا کرے گا۔ اگر تو چھپ کے گھر بیٹھ گیا تھا تو چوڑیاں بھی پہن لیتا۔"

انھوں نے اس پہ طنزیہ جملوں کی بوچھاڑ کر دی۔ باتور خان نے اپنے غصے پہ قابو پایا لیکن ان کے الفاظ اس کے گرد جلتی آگ کے شعلے بڑھانے کے لیے کافی تھے۔

"خان جی۔۔۔۔۔میرا بیٹا اتنا کمزور نہیں۔۔ یہ وہاں اکیلا تھا۔ وہاں موجود گاوں کے لڑکوں نے میر کے ساتھ مل کر اسے مارا ہے۔ اس کے ساتھ تو صرف وہ چغد ہی تھے۔ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے۔"

کرم دین نے بیٹے کی کمزوری پہ پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔

"ہونہہ۔۔۔۔۔سارا گاوں تم لوگوں پہ تھو تھو کرتا پھر رہا ہے۔ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ میر سے مار کھا کر یہ گھر میں منہ چھپائے بیٹھا ہے اور یہ زمان خان کو کس نے کہا ہے کہ میں نے باتور خان سے یہ سب کرنے کے لئے کہا تھا؟"

وہ باتور خان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔ باتور خان نے ان کی بات پہ نفی میں سر ہلایا جبکہ کرم دین نے ان کے سوال پہ نظروں کا ذاویہ بدلا۔ 

"تو پھر اسے کیسے پتہ چلا کہ میں نے تجھے بھیجا تھا۔

انھوں نے اسے بغور دیکھ کر سچ کا پتہ لگانا چاہا۔ باتور خان نے باپ کی جانب دیکھا جو خود کو لاپرواہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔

"بابا کیا تم نے بتایا ہے زمان خان کو۔۔۔۔؟؟"

اس نے باپ کی طرف دیکھا۔

" میں کیوں بتاوں گا انھیں۔"

کرم دین نظریں ملائے بغیر بولا۔

"سچ بولو کرم دین۔۔۔۔۔"

میرسربلند خان دھاڑے۔۔۔

"وہ خان جی۔۔۔۔مم۔۔۔میں۔۔۔۔۔میرے منہ سے نکل گیا تھا۔"

کرم دین انھیں اس قدر غصے میں دیکھ کر گھبرا گیا۔

"جی تو چاہتا ہے کہ تجھے اس نمک حرامی کا مطلب بتا دوں۔۔"

میرسربلند خان نے کرم دین کو گریبان سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔ وہ سنبھل نہ سکا اور پیچھے کھڑے شکور سے ٹکرایا۔

"خان جی معاف کر دیں۔ میرے منہ سے غلطی سے نکل گیا تھا۔"

کرم دین نے ہاتھ جوڑے۔

"دفع ہو جاو میری نظروں کے سامنے سے۔۔"

وہ رخ پھیر کر بولے۔ 

کرم دین نے باتور خان کی طرف دیکھا۔ اس نے بھی جانے کا اشارہ کیا۔ غصہ تو کرم دین کے اندر بھی بھر گیا تھا مگر وہ ضبط کر گیا اور بنا کسی کی جانب دیکھے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے حجرے کی دہلیز پار کر گیا۔

"خان جی۔۔۔۔میرے لئے کیا حکم ہے؟"

باتور خان میر سر بلند خان کے قریب آیا۔

"تم بھی اپنی شکل گم کرو۔۔۔اب جو بھی کرنا ہو گا میں خود کروں گا۔ ضرورت نہیں ہے مجھے تم جیسے نامردوں کی۔ میں اکیلا ہی کافی ہوں اس میر کے لئے۔۔۔ شکور۔۔!!"

انھوں نے رخ پھیرے پھیرے شکور کو پکارا۔

"جی خان جی!"

شکور ہاتھ باندھے ان کے سامنے آیا۔

"پتہ کرو میر کہاں ہے اور اپنے بندے بھیج کر زرا اسکا دماغ درست کرو۔۔اسے بھی تو پتہ چلے کہ میرسربلند خان کے سامنے سے یوں اٹھ کر جانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ایک دو جگہ سے اگر ہڈی ٹوٹ بھی گئی تو خیر ہے جڑ جائے گی۔"

وہ شکور کی طرف دیکھ کر ہنسے تھے۔ ان کے الفاظ سے ان کی نفرت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ لیکن میر کے لئے ان کے نفرت آمیز الفاظ کی وجہ ان دونوں کی سمجھ سے باہر تھی۔ شکور سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔ میرسربلند خان نے باتور خان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا اور وہاں سے چلے گئے۔ باتور خان کا وجود شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔ کل تک جو جگہ اسکی تھی آج وہاں شکور کا راج تھا۔ اس کا جی چاہا کہ یہاں موجود ہر چیز کو تہس نہس کر دے۔۔

"اپنی بےعزتی کا بدلہ تو میں تم سے لے کر رہوں گا میر۔"

وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا حجرے کی دہلیز پار کر گیا۔_________________________________________

گرمیاں انجام بخیر ہو چکی تھیں اور جاڑا آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلا کر ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔دن بہت سستی سے گزر رہے تھے۔موسم کی تبدیلی نے اسے احساس دلایا کہ سردیوں کے کپڑے اس کے پاس نہ ہونے کے برابر تھے۔ ابھی سردیوں کی شروعات ہی تھی۔ دن میں دھوپ ہوتی تھی اس لئے اتنی پرواہ نہیں ہوتی تھی مگر رات کو سردی اپنے ہونے کا پتہ دیتی تھی۔اسکا سارا دن یونہی گزر جاتا۔ گھر سے باہر بھی نہیں جا سکتی تھی اور نہ ہی کوئی اس سے ملنے آتا تھا۔ ذہرہ بی بی اور رحم دین بھی کم ہی اس سے ملنے آتے تھے۔ اسکا بہت جی چاہتا تھا کہ گھر جائے مگر اسے درپیش حالات اجازت نہیں دیتے تھے۔ضیغم سے بھی کبھی کبھار بات ہو پاتی تھی۔ دن میں ضیغم کی مصروفیت کی وجہ سے بات نہیں ہو پاتی تھی اور رات کو اس پہ نیند حاوی ہوتی۔ اب تو ضیغم نے اس کی نیند کے خیال سے اسے کال کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اکثر صبح کو آنکھ کھلتی تو موبائل کی اسکرین پہ اس کی مسڈ کالز دیکھ کر اسکا دل بوجھل ہو جاتا۔ پھر سارا دن اسی بوجھل پن میں گزار دیتی۔ خود پہ غصہ بھی آتا اور خود سے عہد بھی کرتی کہ نیند کو خود پہ حاوی نہیں ہونے دے گی مگر جیسے ہی تکیے پہ سر رکھتی دنیا و مافیا سے غافل ہو جاتی۔ اب تو اس نے کمرے میں جانا ہی چھوڑ دیا تھا۔کافی دیر تک ادھر ادھر کے کاموں میں خود کو بزی رکھتی تاکہ نیند کے ہاتھ نہ لگ سکے۔اب تو جب سے موسم تبدیل ہوا تھا زمان خان کمرے میں سونے لگے تھے تو وہ صحن میں ہی چارپائی پہ لیٹ کر تاروں بھرے آسمان پہ نظریں ٹکائے اسکی کال کا انتظار کرتی رہتی مگر اب وہ اسکی روٹین سے واقف ہو گیا تھا اس لئے کال کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔

آج اس نے سوچا تھا کہ وہ خود ہی کال کرے گی۔ اس لئے صبح ہی سے اسے رات کا انتظار تھا۔ زمان خان ناشتہ کر کے جا چکے تھے۔ ان کے جانے کے بعد اس نے ان کا کمرہ صاف کیا اور پھر اپنے کمرے کی صفائی کی۔ اس کے بعد کچے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کر کے جھاڑو لگایا۔اسے اس کام سے فارغ ہوتے ہوتے دس بج چکے تھے۔سرما کے سورج کی سنہری دھوپ املتاس کے پیڑ کے پیچھے سے چھن کر آتی کچے صحن میں پھیلتی جا رہی تھی۔ املتاس کے پھول دھوپ میں چمک رہے تھے۔ کام ختم کر کے برآمدے میں رکھی کرسی کو وہ صحن میں لے آئی اور کچھ دیر دھوپ میں بیٹھ گئی۔ وہ دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑ کر گرمائش پہنچانے لگی۔آہستہ آہستہ یخ بستہ ہاتھ دھوپ کی تمازت سے گرم ہونے لگے۔ 

"تمھارے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں مسکاء۔" کوئی بہت پاس آیا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں کو بغور دیکھنے لگی۔

کالج میں بھی اسکی کلاس فیلوز اسکے ہاتھوں کی تعریف کیا کرتی تھیں لیکن اس نے کبھی دھیان نہیں دیا۔صرف اس کی باتوں پر مسکرا دیتی۔

"تم نے ایک بار بھی مہندی نہیں لگائی۔"ایک جملہ اس کے کانوں میں گونجا۔

وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھنے لگی۔ سرخ و سفید شفاف ہتھیلی پہ ننھا سا سیاہ تل جگمگا رہا تھا۔ نرم سی مسکراہٹ نے اسکے گلابی لبوں کو چھوا تھا۔ ضیغم کے ساتھ گزارے پل ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے سے کسی فلم کی طرح گزرنے لگے۔ دھوپ اچھی خاصی تیز ہو چکی تھی۔ نرم مسکراہٹ لبوں پہ سجائے وہ باورچی خانے میں آ گئی۔زمان خان جاتے جاتے اسے پالک کا ساگ بنانے کا کہہ گئے تھے۔ وہ چھری اور پالک لئے اپنی جگہ پہ واپس آئی۔ پالک کی ٹوکری اور چھری اس نے کرسی پہ رکھی اور برآمدے سے ٹیبل اٹھا لائی اور وہیں بیٹھ کر ساگ صاف کرنے لگی۔ ساگ صاف کرنے کے بعد اس نے چولھے پہ چڑھایا اور آٹا گوندھنے لگی۔ اس دوران ساگ بوائل ہو چکا تھا۔ اس نے ترکاری بنائی۔۔ساتھ میں لسی بھی بنا لی۔کچن کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد وہ فریش ہونے کے لئے کمرے میں آ گئی۔ الماری سے اپنا ایک نسبتا گرم سوٹ نکالا۔۔ یہ سوٹ ذہرہ بی بی نے اس کے جہیز کے لیے بنایا تھا۔ جب زمان خان شہر آ رہے تو انھوں نے مسکاء کے لئے دیا تھا۔ جسے وہ سامان کے ساتھ واپس لے آئی تھی۔ کالے رنگ کی قمیص جس کے گلے پہ سرخ دھاگے سے ذہرہ بی بی نے خود اپنے ہاتھ سے بیل بوٹے کاڑھے تھے۔ ساتھ میں گھیردار شلوار تھی جو مسکاء کی ہی منشاء پہ انھوں نے سلوا کر دی تھی اور سرخ دوپٹے سے جوڑے کی چھب ہی نرالی تھی۔وہ فریش ہو کر نکلی تو ظہر کا وقت ہو رہا تھا۔ بالوں میں کنگھا کر کے گیلے بالوں کا جوڑا بنایا۔ کمرے میں سردی لگ رہی تھی اس لئے وہ جائے نماز اٹھا کر باہر برآمدے میں آ گئی۔ دھوپ میں جائے نماز بچھا کر نماز کے لئے نیت باندھ لی۔ جس وقت وہ نوافل ادا کر رہی تھی اسی وقت زمان خان اور رحم دین گھر میں داخل ہوئے۔ ذہرہ بی بی بھی ساتھ تھیں۔ وہ صحن میں چارپائی پہ بیٹھ گئے جبکہ ذہرہ بی بی کرسی پہ ٹک گئیں۔ مسکاء نے سلام پھیر کر دعا کی اور جائے نماز طے کر کے وہیں ٹیبل پہ رکھ دی۔ زمان خان کے ساتھ انھیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی۔ 

"مسکاء!! کھانا تیار ہے۔بہت بھوک لگی ہے۔"

زمان خان نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"جی بابا۔۔۔۔سب تیار ہے۔ بس روٹی ڈالنی ہے۔ وہ بھی بس تیار ہی سمجھیں۔ آپ لوگ ہاتھ منہ دھو لیں۔ میں کھانا لگاتی ہوں آپ لوگوں کے لئے۔"

وہ انھیں کہہ کر باورچی خانے میں آ گئی۔ ذہرہ بی بی بھی اسکے پیچھے آئیں۔

"میں تمھارے لئے گرم کپڑے لائی ہوں۔ موسم بدل گیا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ تمھارے پاس سردیوں کے کپڑے نہیں ہیں۔"

ذہرہ بی بی اسکے تیزی سے روٹی بیلتے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں۔ "

"شکریہ اماں۔۔۔۔میں سوچ ہی رہی تھی کہ بابا کے ذریعے آپ کو پیغام بھجواوں گی کہ میرے لئے ایک دو گرم جوڑے ہی بھجوا دیں۔"

مسکاء نے انھیں تشکر آمیز نظروں سے دیکھا۔ 

"ایک دو دن بعد زمان بابا کے ہاتھ میرے ایک دو پرانے گرم کپڑے بھجوا دیجیئے گا۔"

وہ روٹی توے پہ ڈالتے ہوئے بولی۔

"چلو اچھا کیا کہ تم نے کہہ دیا۔ میں نے آج تمھارے سردیوں کے کپڑوں کو دھوپ لگائی تھی۔ میرا ارادہ تھا کہ پلوشے کو دے دوں گی۔اسکی ماں نے کئی بار مجھ سے کہا ہے۔ اب ایک دو اسے دے دوں گی اور باقی گھر جا کر تمھارے بابا کو دے دوں گی۔"

انھوں نے چولھا آہستہ کیا۔

"کوئی بات نہیں کل بھجوا دیجیئے گا آپ۔۔بابا کو آرام کرنے دیجیئے گا۔"

اس نے روٹی کو توے پہ سیک کر چنگیر میں رکھا اور دوسری روٹی توے پہ ڈالی۔ ذہرہ بی بی اسکی پھرتی دیکھ کر مسکرائیں۔

"میری بیٹی کتنی سمجھدار لگ رہی ہے۔"

وہ پیار بھری نظروں سے اسکا جائزہ لے رہی تھیں۔ان کی بات پہ وہ ہنس دی۔ 

"کیا میر آ رہا ہے آج؟؟"

ذہرہ بی بی نے اسکی تیاری کو دیکھ کر اندازہ لگایا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔آپ کو ایسا کیوں لگا؟"

میر کے نام پر اسکے روٹی بیٹے ہاتھ رکے تھے۔

"تمھاری تیاری دیکھ کر تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔ حالانکہ زمان بھائی نے تو کوئی ذکر نہیں کیا۔"

انھوں نے دسترخوان اٹھاتے ہوئے کہا۔

"پچھلی بار آپ ہی نے تو کہا تھا کہ اتنی سادی مت رہا کرو گھر میں۔"

مسکاء نے منہ بنایا۔

"وہ تو میں نے تمھیں میر کے سامنے اسطرح سر جھاڑ منہ پھاڑ پھرتے دیکھ کر کہا تھا تاکہ تمھیں کچھ عقل ہو۔"

وہ ٹھوڑی پہ انگلی جماتے ہوئے بولیں۔

"اچھا اماں۔۔۔چھوڑو یہ باتیں۔۔یہ برتن باہر ٹیبل پہ لگا دو۔ بھوک لگ رہی ہوگی انھیں۔"

اس نے پلیٹیں ان کے ہاتھ میں دیں اور خود ایک برتن میں ترکاری نکالنے لگی۔ ذہرہ بی بی نے ان کے لئے چارپائی کے درمیان رکھی چھوٹی سی ٹیبل پہ کھانا چن دیا۔ انھوں نے کھانا شروع کیا تو مسکاء ان کے لئے لسی لے آئی۔ پھر دونوں ماں، بیٹی نے کچن میں ہی دسترخوان بچھا کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد وہ قہوہ بنانے کے اٹھ گئی تو ذہرہ بی بی نے جلدی جلدی برتن دھو دئیے۔ برتن دھو کر ذہرہ بی بی اس کے اور ضیغم کے مشترکہ کمرے میں آ گئیں۔ مسکاء بھی قہوہ لئے وہیں آ گئی تھی۔ 

"اماں۔۔!! ایک بات پوچھوں؟"

وہ ان کے سامنے ٹرے رکھتے ہوئے بولی۔

"ہاں پوچھو۔۔۔"

ذہرہ بی بی نے قہوے کی پیالی اٹھاتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پہ تذبذب کے آثار تھے۔

"اماں۔۔۔آپ نے کبھی مجھے بتایا ہی نہیں کہ ضیغم میرے خالہ زاد ہیں۔"

اس نے قہوے کی پیالی کے کنارے پہ انگلی پھیری۔

"مجھے تو خود نکاح والے دن پتہ چلا تھا بلکہ تیرے بابا کو بھی تبھی معلوم ہوا تھا۔اگر پہلے معلوم ہوتا تو اپنے کلیجے سے لگا کر رکھتی اپنی ماں جائی کی نشانی کو۔"

ان کی آنکھوں دکھ ہلکورے لینے لگا۔

"اماں میرا مقصد آپ کو دکھی کرنا نہیں تھا۔ میں تو بس سچ جاننا چاہتی تھی۔"

اس نے ذہرہ بی بی کے چہرے پہ ڈھلک آنے والے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ انھوں نے اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا اور اپنے دل کے ذخم مسکاء کے سامنے عیاں کرنے لگیں۔۔____________________________________________

میر سربلند خان بیٹے کی شادی میں مگن تھے۔ اس لئے شکور سے بات کرنے کا ٹائم ہی نہیں ملا۔ 

اس وقت وہ حجرے میں موجود تھے جب شکور حجرے کے دروازے سے انھیں آتا دکھائی دیا۔ اس وقت حجرے میں کچھ اور لوگ بھی تھے اس لئے انھوں نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔ وہ ان کا اشارہ سمجھ کر خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا۔عالمزیب کی شادی اختتام پزیر ہو چکی تھی اس لئے کچھ لوگ اس وقت اس سے ملنے آئے تھے۔عالمزیب تو سب سے مل کر جا چکا تھا۔ اب باقی سب لوگ بھی آہستہ آہستہ اٹھنے لگے تھے۔ باتور خان شادی میں شرکت نہیں کر سکا تھا۔ کرم دین نے انھیں بتایا تھا کہ وہ شہر گیا ہوا ہے۔وہ جانتے تھے کہ وہ کس مقصد سے شہر گیا ہے اس لئے زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کی۔ زمان خان بھی بجھے دل سے شادی کی تیاریوں میں شامل ہوئے تھے۔ 

جب سب لوگ چلے گئے تو شکور ان کے قریب آیا تھا۔

"ہاں شکور۔۔۔کیا خبر ہے؟"

انھوں نے نظر دروازے پہ ہی رکھی۔

"خان جی۔۔۔۔میر شہر میں نہیں ہے۔ میرے آدمیوں نے اسے بہت تلاش کیا۔ ہم نے یونیورسٹی ، اکیڈیمی۔۔۔ہر جگہ تلاش کیا مگر اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔"

شکور نے پیڑھی ان کے قریب کھسکائی اور اس پہ بیٹھتے ہوئے دھیرے سے بولا۔

"اوئے جانا کہاں ہے اس نے۔۔وہیں کہیں ہو گا۔"

انھوں نے ٹانگ اس کے آ گے کی جسے وہ ہلکے ہاتھوں سے دبانے لگا۔

"او جی۔۔۔ہم نے ہر جگہ دیکھا اسے۔۔وہاں لوگوں سے بھی پوچھ تاچھ کی لیکن ان میں سے بھی کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔ اکیڈیمی والے بھی کہہ رہے ہیں کہ اس نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا ہے اور جی وہ بتا رہے تھے کہ اسکی کوئی پکی والی نوکری لگ گئی ہے اس لئے اس نے یہ نوکری چھوڑ دی۔اس کے علاوہ وہ مزید کچھ نہیں جانتے۔"

شکور نے اپنی چندھی چندھی سی آنکھیں کھول کھول کر انھیں بتایا۔

"پکی والی نوکری۔۔۔۔۔۔"

میرسربلند خان سوچ میں پڑ گئے۔ 

"سرکاری ماسٹر بن گیا ہو گا۔"

انھوں نے اپنی محدود سوچ کو زبان دی۔

"میرے آدمیوں کو شک ہے کہ وہ شہر سے باہر ہے۔"

شکور نے مزید بتایا۔

"زہ خیر دے مونگ به انتظار اوکو(چلو خیر ہے ہم انتظار کر لیں گے)۔

میرسربلند خان نے سیگریٹ سلگائی۔ 

"اسکا باپ ہم سے بچ نہ سکا تو وہ کیا شے ہے۔ جہاں جانا چاہتا ہے چلا جائے۔اپنے سارے ارمان پورے کر لے۔اسکے باپ کو بھی ہم نے اس دنیا سے ارمانی نہیں بھیجا تو اسے بھی ایسے تھوڑی نا بھیج دیں گے۔"

انھوں نے دل میں سوچا پھر مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے شکور کو دیکھا۔ وہ بھی انھیں دیکھ کر مسکرا دیا۔

"اور خان جی۔۔۔میرے آدمیوں نے باتور خان کو بھی وہاں دیکھا تھا۔ مجھے لگتا ہے وہ بھی اسی کام سے گیا تھا۔"

شکور کے ہاتھوں میں تیزی آئی۔

"ہاہاہا۔۔۔۔اسے بھی ارمان پورا کر لینے دے۔ دونوں صورت میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔"

ان کا قہقہہ حجرے کی خاموش دیواروں سے ٹکرایا۔

"مگر خان جی۔۔۔"

شکور نے کچھ کہنا چاہا مگر انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔

"اوئے تو فکر نہ کر۔۔۔اب باتور سونے کا بھی بن کر آ جائے تو شکور نہیں بن سکتا۔"

ان کی بات پر خوشی کے مارے شکور کی باچھیں کھل گئیں۔ یہ اسکے لیے بڑی خوشی والی بات تھی کہ میرسربلند خان کی نظریں کرم اس پہ آ ٹھہریں تھیں۔ اب تو اسکے لئے اس کام کو پایا تکمیل تک پہنچانا بہت ضروری ہو گیا تھا۔

"مہربانی خان۔۔۔۔۔آپ کے لئے تو جان بھی حاضر ہے۔"

شکور کے ہاتھوں کا دباو ان کی ٹانگ پہ بڑھ گیا۔ 

"چل بس کر۔۔۔۔۔"

وہ ٹانگ کھینچ کر کھڑے ہو گئے۔

"میں حویلی جا رہا ہوں تو ذرا زمان خان سے جا کر کہہ کہ حویلی آ کر مجھ سے ملے۔"

وہ حویلی میں کھلنے والے دروازے کی جانب بڑھے۔

"جی خان۔۔۔۔ابھی جاتا ہوں۔"

شکور نے اٹھ کر پیڑھی چارپائی کی نیچے دھکیلی۔

"اور ہاں۔۔۔۔۔باتور خان پہ بھی نظر رکھ۔"

انھوں نے کہا تو وہ سر ہلاتا حجرے کے گیٹ کے جانب بڑھا لیکن کچھ سوچ کر رک گیا۔

"خان جی۔۔۔مجھے ایک اور بات بھی آپکو بتانی تھی۔"

وہ بھاگتا ہوا ان کے پاس آیا جو اسکی بات سن کر دروازے کے پاس ہی رک گئے اور نظروں ہی نظروں میں استفسار کیا۔

"وہ جی آجکل رحم دین اور اسکی گھروالی زمان خان کے گھر کے چکر پہ چکر لگا رہے ہیں۔"

شکور آہستہ آواز میں بولا۔

"تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔وہ ایک دوسرے کی طرف آتے جاتے رہتے ہیں۔"

انھیں اسکی حیرانی کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔

"تاسو نه قربان شم خان جی(میں آپکے قربان جاوں خان جی) اسکی گھر والی کا کیا کام ہے جی۔ اتنے عرصے میں میں نے کبھی اسے زمان خان کے گھر جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔صرف ماہ گل ہی جاتی ہے۔ رحم دین کی گھر والی کا کیا کام۔"

وہ اپنی تئیں دور کی کوڑی لایا تھا۔

"ہیم۔۔۔۔۔۔بات تو تیری غور طلب ہے۔"

وہ پرسوچ انداز میں بولے۔

"اور جی۔۔۔۔گھر میں پورا راشن ڈلوایا ہے اس نے۔۔۔گوشت، دودھ، انڈے، سبزیاں۔۔۔۔۔اب ایک اکیلا بندہ ہے اور اتنا سب کچھ۔۔پہلے تو میر کے جانے کے بعد فرید گل کے ہوٹل سے ہی کچھ نہ کچھ کھا لیتا تھا مگر اب تو ظہر پڑھ کر گھر چلا جاتا ہے۔اور تو اور رحم دین اور مولوی صاحب کے علاوہ کسی سے بات تک نہیں کرتا۔مجھے تو دال میں کچھ کالا لگتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں نے رحم دین اور اسکی گھروالی کو زمان خان کے گھر جاتے دیکھا۔ زمان خان بھی ساتھ ہی تھا۔رحم دین کا انداز ایسا تھا جیسے وہ اس بات کو کسی کے علم میں نہ لانا چاہتا ہو کہ وہ اور اسکی بی بی زمان خان کے گھر جاتے ہیں۔"

"تو تو پتہ لگا اس بات کا کہ آخر وہ دونوں اس طرح چھپ چھپ کر زمان خان کے گھر کیوں جاتے ہیں۔"

اب تو میرسربلند خان کو بھی شک ہو رہا تھا۔

"اور خان جی۔۔۔۔رحم دین کی گھروالی نے ہاتھ میں گٹھڑی بھی اٹھا رکھی تھی۔مجھے تجسس ہوا کہ گٹھڑی میں کیا ہے اس لئے میں وہیں درخت کی آڑ میں ہو کر ان کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔"

وہ مزید رازداری سے بولا۔

"پھر۔۔۔۔؟"

انھوں نے آگے جاننا چاہا۔

"پھر کیا جی۔۔۔۔۔ساری دوپہر گزر گئی۔ پھر عصر کے وقت دونوں میاں بیوی اسی رازداری سے باہر آئے ساتھ میں زمان خان بھی تھا۔ زمان خان نے اردگرد نظر دوڑائی اور پھر دروازے کو تالا لگا دیا۔ رحم دین اور اسکی گھروالی تو اپنے راستے ہو لئے مگر جی۔۔۔۔"

وہ خاموش ہوا۔

"اوئے مگر مگر نہ کر۔۔۔جلدی بک۔۔"

میرسربلند خان کا صبر جواب دے گیا۔

"خان جی۔۔۔زمان خان دروازے کی جانب ایسے جھکا تھا جیسے کسی سے بات کر رہا ہو۔"

اس نے اپنی باتوں کی پٹاری میں سے آخری بات نکالی۔

ان کے چہرے سے تفکر جھلکنے لگا۔

"میرا خیال ہے جی میر آپ کے خوف سے گھر میں چھپا بیٹھا ہے یا پھر زمان خان نے ہی اسے باہر نکلنے سے منع کیا ہو۔"

شکور نے ہنستے ہوئے کہا مگر ان کے چہرے پہ سوچ کی پرچھائیاں اپنا ڈیرہ جما چکی تھیں۔

"نہیں شکور۔۔۔۔میر جس انداز سے میرے سامنے آیا تھا اس سے تو یہ نہیں لگتا کہ وہ ڈرنے والا ہے۔وہ بڑا دلیر لگتا ہے اور دوسری بات بھی ممکن نہیں کیونکہ رشید نے خود میر کو گلزم خان کے ساتھ شہر جاتے ہوئے دیکھا تھا اور اگر وہ واپس بھی آیا ہوا ہے تو اتنا عرصہ گھر میں بند رہنا۔۔۔۔۔۔یہ بات ماننی مشکل ہے۔ تم ایسا کرو کہ زمان خان پہ اپنی پوری نظر رکھو۔ مجھے اسکے پل پل کی خبر چاہیئے۔"

وہ یہ کہہ کر رکے نہیں اور پچھلے دروازے سے حویلی میں داخل ہو گئے جبکہ شکور خود کو شاباش دیتا ہوا حجرے کی دہلیز پار کر گیا۔____________________________________

"بہت جلدی نہیں آ گئے تم۔۔۔"

ضیغم ارحم سے گلے ملتے ہوئے بولا۔ ارحم نے اس کی بات پہ مسکراتے ہوئے سر کھجایا اور پھر سر سے پیر تک ضیغم کو دیکھا۔ وہ اس وقت مکمل یونیفارم میں تھا۔اسکی ٹریننگ مکمل ہو چکی تھی اور آج اس آخری تقریب میں انھوں نے حلف اٹھانا تھا۔ ضیغم بہت خوش تھا۔آج کے دن کا اسے برسوں سے انتظار تھا۔آج اسے اسکے خواب کی تعبیر ملنے والی تھی۔ وہ خواب جو اس نے اور زمان خان نے مل کر دیکھا تھا۔ وہ جلد سے جلد ان کے سامنے جانا چاہتا تھا۔ جنھوں اسے اس مقام تک پہنچایا تھا۔ جنھوں نے اسکی آنکھوں میں یہ خواب سجایا تھا۔ اسکی تو خواہش تھی کہ وہ بھی یہاں آ کر یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے مگر حالات کی ہوا ابھی ان کی مخالف سمت میں چل رہی تھی۔لیکن وہ ارحم کو انوائیٹ کرنا نہیں بھولا تھا۔ وہ اپنے لئے علاقہ منتخب کر چکا تھا۔ اسے وہیں جانا تھا جس مٹی میں اسکے بابا دفن ہیں۔ جہاں اسکی ماں کی خوشبو ہے۔ جہاں داخل ہوتے اسے ایسا محسوس ہونے لگتا جیسے وہاں کی ہوا نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا ہو اور جہاں کی مٹی اسکے پیروں سے لپٹ لپٹ کر اپنا حق مانگ رہی ہو۔اسے یہ حق لوٹانا تھا۔تقریب کے بعد اس کا ارادہ تھا کہ وہ ارحم کے ساتھ ہی واپس پشاور جائے گا اور پھر وہاں سے گاوں۔۔۔۔

"کیا بات ہے میرے یار کی۔۔۔۔دل خوش ہو گیا تمھیں اسطرح دیکھ کر۔۔۔آخر تم نے اپنے خواب کو اپنی مٹھی میں کر ہی لیا۔میں بہت خوش ہوں تمھارے لیے۔"

ارحم آنکھوں میں محبت اور خوشی کے ملے جلے جذبات لئے اسے تک رہا تھا۔ اسکی بات پر وہ ہنس دیا۔

"ہاں۔۔۔۔۔مجھے بھی شدت سے انتظار تھا آج کے دن کا اور اب مزید انتظار ہے کہ میں یہی خوشی جو تمھاری آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں بابا کی آنکھوں میں بھی دیکھنے کے لئے بےچین ہوں۔"

ضیغم نے سن گلاسز پہنیں اور اسے ساتھ لئے آگے بڑھنے لگا۔

"ارے یار رکو تو سہی۔۔۔میرے پاس تمھارے لئے ایک سرپرائز ہے۔"

ارحم نے اسے روکا تو ضیغم نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا اور مڑ کر گیٹ کی جانب اشارہ کیا جہاں سے پروفیسر محمد عقیل اندر داخل ہو رہے تھے۔ ضیغم مسکراتے ہوئے ان کی جانب بڑھا۔ انھوں نے اسے سینے سے لگایا۔ کتنی ہی دیر وہ اسے سینے سے لگائے یونہی کھڑے رہے۔ 

"ارے بھئی۔۔۔۔۔۔تقریب ختم ہو جائے گی۔"

ارحم ان کے پاس آیا۔ وہ ہنس کر ان سے الگ ہوا۔ 

"سر مجھے بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر۔اس نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ آپ بھی ساتھ ہیں۔"

ضیغم نے ارحم کی طرف دیکھا۔

"آج میرے بیٹے کی زندگی کا اتنا بڑا دن ہے اور میں نہ آتا۔۔۔یہ کیسے ممکن تھا۔ مجھے تو کب سے انتظار تھا کہ کب میں تمھیں اس یونیفارم میں دیکھوں گا۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ دن دکھایا۔ارحم نے مجھے بتایا تو مجھ سے بالکل رہا نہیں گیا اور میں نے اسے کہا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر جائے۔"

وہ اسے کندھوں سے تھامتے ہوئے بولے۔ ان کی آنکھوں کی نمی ضیغم کو بےچین کر گئی تھی۔وہ آگے بڑھ کر ایک بار پھر ان کے سینے سے لگ گیا۔

"آج تمھارے بابا حیات ہوتے تو وہ تمھیں اسطرح دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ انھیں تم پر فخر ہوتا۔"

وہ اسے سینے سے لگائے بولے۔

"چلیں آڈیٹوریم میں چلتے ہیں۔تقریب کا آغاز ہونے ہی والا ہے۔"

ارحم نے گھڑی کی جانب دیکھا اور وہ دونوں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھے۔آڈیٹوریم میں داخل ہو کر ضیغم نے پروفیسر محمد عقیل اور ارحم کو اپنے کولیگز سے ملوایا۔ پھر وہ انھیں سیکنڈ رو کی جانب لے آیا اور انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد کچھ آفیسرز نے باری باری تقریر کی اور نوجوانوں کی بہادری و ہمت کو سراہا۔ ان کی ولولہ انگیز تقریر نے وہاں موجود سبھی لوگوں کے دلوں میں وطن سے محبت کا جذبہ بیدار کیا۔۔اس کے بعد پریڈ پیش کی گئی جس کی قیادت ضیغم کر رہا تھا۔ پریڈ کے بعد تمام نوجوانوں کی حلف برداری ہوئی اور پھر مکمل اعزاز کے ساتھ ان کے شولڈرز پہ ستارے سجائے۔ارحم نے ان تمام قیمتی لمحات کو اپنے کیمرے میں مقید کیا۔

محمد عقیل کی نگاہوں میں اسکے لئے شفقت و محبت تھی۔ انھیں لگ رہا تھا جیسے میر دراب خان ان کے سامنے موجود ہو۔ وہ اپنے باپ کا پرتو تھا۔ وہی چال، وہی انداز، وہی لہجہ، حتی کے چہرے کے نقوش۔۔۔کچھ ایسا نہیں تھا جو اسے میر دراب خان سے الگ کرتا۔۔۔وہ انھی کا حصہ تھا۔

"میر دراب خان۔۔۔کاش!! آج تم بھی ہمارے درمیان موجود ہوتے۔"

ان کی آنکھوں کی نمی بڑھتی جا رہی تھی۔ جب وہ ان پاس آیا تو ان کی آنکھیں چھلک پڑیں مگر ان کے چہرے پہ مسکان سجی تھی۔انھوں نے اپنے آنسوؤں کو ہاتھ میں پکڑے رومال میں جذب کیا۔

"اب آگے کیا ارادہ ہے؟"

چائے کے دوران انھوں نے ضیغم سے پوچھا۔

"میں اپنا علاقہ منتخب کر چکا ہوں اور آپ میرے انتخاب سے اچھی طرح واقف ہیں۔"

اس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کیے اور ان کی جانب دیکھا۔

"مجھے خوشی ہوئی جان کر کہ تم اپنے گاوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہو۔تمھارا فیصلہ بالکل درست ہے۔ گاوں کے لوگوں کی بہتری کے لیے تم ہی کچھ کر سکتے ہو۔تمھارے بابا کو بھی اپنے لوگوں سے بہت محبت تھی۔وہ ہمیشہ مجھ سے گاوں کے لوگوں کے مسائل ڈسکس کرتا رہتا ہے۔ تمھارے دادا بھی بہت اچھے اور شفیق انسان تھے۔"

ضیغم باپ اور دادا کے ذکر پہ وہ مغموم دکھائی دینے لگا۔

"تم ابھی ہمارے ساتھ ہی واپس چلو گے؟"

ارحم نے اسے اس کیفیت سے نکالنے کی کوشش کی۔

"ہاں۔۔۔۔ساتھ ہی چلیں گے۔۔کل مجھے ارائیول دینا ہے اس لئے آج رات گزار کر صبح گاوں چلا جاوں گا۔" 

اس کی آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا تھا۔

"اللہ تمھیں کامیاب کرے اور تمھیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔۔آمین!!"

پروفیسر محمد عقیل نے اس کی جانب فخر سے دیکھا۔

"کاش میں تمھارے ساتھ جا کر میرسربلند خان کے چہرے کے تاثرات دیکھ سکتا۔"

ارحم نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ 

"میں خود بھی یہ نظارہ دیکھنے کے لئے بیتاب ہوں۔ تم فکر نہ کرو میں تمھیں ان کے حالات ڈیٹیلز کے ساتھ بتاوں گا۔"

وہ ہنستے ہوئے بولا تو وہ بھی ہنس دئیے۔ وہ آڈیٹوریم سے باہر آ گئے تھے۔ضیغم سب سے ملکر اپنا سامان لینے چلا گیا جبکہ ارحم اور پروفیسر محمد عقیل پارکنگ کی جانب بڑھ گئے۔گاڑی روڈ کی ایک جانب کھڑی کیے وہ اسکا انتظار کرنے لگے۔تقریبا پندرہ منٹ بعد وہ انھیں آتا دکھائی دیا اس وقت وہ سادہ لباس میں ملبوس تھا۔دونوں ہاتھوں میں سفری بیگ تھامے وہ بہت تیز قدموں سے گاڑی کی جانب آ رہا تھا۔ قریب پہنچ کر اس نے بیگز گاڑی کی ڈگی میں رکھے اور خود ارحم کے ساتھ آگے بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی ارحم نے گاڑی اسٹارٹ کی۔دو گھنٹے کی مسافت طے کر کے وہ پشاور کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ ارحم نے پہلے پروفیسر محمد عقیل کو ان کے گھر اتارا۔

"تم میرے گھر چلو گے میرے ساتھ۔"

وہ اسے فیصلہ کن نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔

"نہیں یار۔۔پھر کبھی سہی۔۔ویسے بھی میں نے صبح سویرے نکلنا ہے۔"

اس نے انکار کیا تو اس نے خاموشی سے گاڑی کا رخ فلیٹس کی طرف موڑ دیا۔

"بس یہیں روک دو۔"

ضیغم نے اسے گاڑی پارکنگ کی طرف لے جانے سے روکا۔ ارحم نے بنا کچھ کہے گاڑی اسکی بتائی ہوئی جگہ پہ روک دی۔ضیغم اس کی خاموشی محسوس کر رہا تھا۔ اس لئے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر گاڑی سے نکل گیا۔ڈگی سے اپنا سامان نکالا اور اس کی طرف آیا۔ 

"اللہ حافظ۔۔!! گاوں پہنچ کر تمھیں کال کروں گا۔"

ضیغم اس کی جانب جھک کر بولا۔

"ہیممم۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔ میں انتظار کروں گا تمھاری کال کا۔۔اللہ حافظ!"

ارحم نے کہا اور اس کے ہٹتے ہی گاڑی آگے بڑھا گیا۔وہ خاموشی سے بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ فلیٹس کے قریب پہنچ کر اس نے تالا کھولا اور اندر داخل ہوا۔بیگز اس نے نیچے رکھ کر لائٹس آن کیں اور خود کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مسکاء کی یاد نے اسے اپنے حصار میں لیا تو لبوں پہ مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی۔ الماری سے کپڑے لئے اور واش روم چلا گیا۔شاور لینے کے بعد اس نائٹ بلب آن کر کےٹیوب لائٹ آف کردی۔

"مسکاء۔۔۔!!

ضیغم نے گہرا سانس لے کر اسکی خوشبو کو محسوس کیا پھر مسکراتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔______________________________________

"ماہ گل۔۔!!"

وہ کچن میں برتن دھو رہی تھیں جب زمان خان نے انھیں پکارا۔انھوں نے مڑ کر دیکھا تو وہ کچن کے دروازے میں کھڑے تھے۔ ماہ گل نے دوپٹے سے ہاتھ پونچھے۔ زمان خان نے ایک نظر پیچھے مڑ کر دیکھا اور اندر آ گئے۔

"کیا بات ہے زمان خاناں؟"

انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں ان سے پوچھا۔چہرے کی سلوٹوں میں سبز خال چھپ گیا تھا۔اپنے قد بد کی وجہ سے وہ پورے گاوں میں مشہور تھیں۔ خاص طور پہ ان کے چہرے کے سبز خال۔۔گاوں کی عورتیں انھیں کوچئی کہہ کر بلاتی تھیں۔ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو کام کے سلسلے میں کابل میں رہتا تھا جبکہ بیوی اور بچے یہیں ماہ گل کے پاس ہی رہتے تھے۔چھٹی پہ احمد گل آتا تو افغانی کمبل اور دوسری چیزیں لایا کرتا تھا جو ماہ گل گاوں میں قسطوں پہ بیچا کرتی تھیں۔گاوں کی عورتیں ان کے گھر آ کر خریداری کرتی تھیں۔اس لئے اچھی خاصی گزر بسر ہو رہی تھی۔

"خان جی اپنے کمرے میں ہیں؟"

زمان خان نے ان سے پوچھا۔

"آؤ اخپل کمرہ کی دی۔۔خیر خو دے کنه زمان خاناں؟(ہاں اپنے کمرے میں ہیں۔خیر تو ہے نا زمان خان)۔

ماہ گل ان کے اسطرح آس پاس نظر دوڑانے پہ پریشان ہوئیں۔

"ہاں سب خیر ہے۔۔۔باقی گھر والے کہاں ہے؟"

گھر کی خاموشی کو دیکھ کر زمان خان نے ان سے پوچھا۔

"کل رات شہر چلے گئے سب۔"

وہ ناک چڑھا کر بولیں۔زمان خان ان کے انداز پہ مسکرا دئیے۔

"ٹھیک ہے میں جا کر مل لوں خان جی سے۔۔۔دیکھوں کس لئے بلایا ہے۔"

وہ پلٹ گئے جبکہ ماہ گل انھیں جاتا دیکھتی رہیں۔کمرے میں داخل ہونے سے پہلے انھوں نے دروازے پہ دستک دی۔اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہوئے۔میرسربلند خان اپنے سامنے کچھ فائلز کھولے بیٹھے تھے۔

"ارے آو آو زمان خان۔۔۔۔کیا حال چال ہیں تمھارے۔۔ہم سے ناراض ہو کیا؟؟ ناراض ہی لگتے ہو تبھی تو دیکھو اب ہمیں تمھیں بلانا پڑتا ہے۔پہلے خود آتے تھے ہمارے پاس۔۔"

انھوں نے زمان خان کو اندر آتے دیکھ کر اپنے پاس بلایا۔زمان خان ان کے سامنے ٹیبل پہ پڑی فائلز کے ڈھیر کو دیکھ رہے تھے۔

"خان جی۔۔۔۔آپ مصروف دکھائی دے رہیں ہیں۔میں پھر آ جاوں گا۔۔میں کل ہی آ جاتا مگر کھیتوں پہ کام بہت تھا اس لئے کل نہ سکا۔"

زمان خان آگے آئے تھے۔

"کوئی بات نہیں۔۔۔یہ بھی بہت ہے کہ تم ہمارے بلانے پہ آ تو گئے۔۔خیر چھوڑو۔۔۔یہ دیکھو یہ ہماری زمینوں کی فائلز ہیں۔تمھیں پتہ ہے نا کہ تمھاری زمین کے ساتھ ملحق قطعہ ہمارا ہے۔ہم وہ زمین تمھیں دینا چاہتے ہیں۔تم نے کافی عرصہ ہماری خدمت کی ہے۔اب ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ تمھارا خیال رکھیں۔۔لیکن اگر تمھیں یہ حصہ نہیں پسند تو ہم تمھاری پسند کو مدنظر رکھیں گے۔"

وہ ایک کالی فائل ان کی جانب بڑھاتے ہوئے بولے جبکہ وہ ان کی طرف حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ان کا چہرہ ہر طرح کے تاثرات سے عاری تھا۔وہ سمجھ نہیں پائے کہ آخر اس سب کا مقصد کیا ہے کیونکہ وہ اپنے سامنے بیٹھے اس شخص کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ایک ایسا شخص جو زمین و جائیداد کے لئے اپنے بھائی تک کو اس بےرحمی سے موت کے گھاٹ اتار دے کہ اسکا کوئی نشان تک باقی نہ رہے۔وہ کیسے اتنا بڑا قطعہ ان کے نام کر سکتا ہے۔

"مگر خان۔۔۔؟؟"

انھوں نے فائل کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔

"ارے پریشان کیوں ہوتے ہو۔۔۔۔یہ تو ایک چھوٹا سا تحفہ ہے تمھارے لئے ہماری جانب سے۔تم نے ایک عرصہ اس خاندان کے چراغ کو اپنے گھر کے تیل سے روشن رکھا۔اسے اس قابل بنایا کہ وہ اپنے پیروں پہ کھڑا ہو سکے۔بہت بڑا کام ہے کسی کی اولاد کو اپنے سینے سے لگا کر پالنا۔"

وہ اٹھ کر زمان خان کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔

"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟"

وہ ان کے چہرے پہ کچھ ایسا تلاش کر رہے تھے جس سے وہ اس عنایت کی وجہ جان سکیں مگر وہ ناکام رہے۔

"تم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکے زمان خان۔۔۔ہمیں ہمارا بیٹا واپس کر دو۔ ہمارا خون ہمیں لوٹا دو۔ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ ہم غلط تھے۔ اب ہم اپنے بھائی کی اولاد کو ہر پل اپنی نظروں کے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔اسے دیکھ کر جو محبت ہمارے دل میں بیدار ہوتی ہے تم اسکا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ہم اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔"

انھوں نے زمان خان کو کندھوں سے تھاما۔

"مگر خان۔۔۔اب یہ کسطرح ممکن ہے؟"

وہ جانتے تھے کہ اس کے پیچھے بھی میرسربلند خان کی کوئی غرض چھپی ہے مگر پھر بھی پوچھ بیٹھے۔

"بہت آسان ہے۔۔۔۔تم میر سے کہو گے کہ تم نے اپنی اولاد کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے اسے اغواء کیا تھا۔ میر دراب خان اس وقت شہر میں تھے۔ چونکہ خاندان اس شادی کے خلاف تھا اس لئے ہمیں بھی پتہ نہ چل سکا کہ میر دراب خان کی کوئی اولاد بھی ہے اور اب تم اپنے ضمیر کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتے اس لئے تم نے اسے حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔"

وہ پہلے سے سب ترتیب دئیے بیٹھے تھے اس لئے بنا رکے بولے۔دوسری طرف زمان خان ان کی بنائی گئی کہانی پہ حیران و پریشان کھڑا تھا۔

"ہم اس معاملے کو جرگے میں لے جا کر تمھیں معاف کر دیں گے اسطرح میرضیغم خان ہمیں مل جائے گا۔ اس کے بدلے تم جو مانگو گے ہم تمھیں دینے کے لئے تیار ہیں۔"

وہ ان کی خاموشی کو نیم رضامندی سمجھ کر بولے۔

"خان جی۔۔۔ میر میری اولاد ہے۔۔میرا بیٹا ہے۔۔میں اپنی اولاد کا سودا کرنے سے پہلے موت کو گلے لگانا پسند کروں گا۔میں میر کو کسی بھی قیمت پر آپ کے حوالے نہیں کروں گا۔"

ان کی آنکھوں کی سرخی بڑھتی جا رہی تھی۔

"تو یہ تمھارا آخری فیصلہ ہے؟؟"

ان کے چہرے کی کرختگی ان کی آنکھوں میں سمٹ آئی۔

"جی خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے اجازت دیجئیے۔"

اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتے زمان خان دروازے کی طرف بڑھے۔ابھی انھوں نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ تھانے کا ایس۔ایچ۔او اندر کمرے میں داخل ہوا۔اس کے چہرے سے پریشانی چھلک رہی تھی۔

"خان جی۔۔۔۔۔۔نیا اے۔ایس۔پی آ رہا ہے۔ ابھی ابھی مجھے کال آئی ہے۔"

ایس۔ایچ۔او زمان خان کو نظرانداز کرتا تیزی سے میرسربلند خان کی طرف آیا۔ انھیں اس کی مداخلت ذرا پسند نہیں آئی مگر خود پہ قابو پا کر اسکی طرف متوجہ ہوئے۔

"تو تیرے طوطے کیوں اڑے جا رہے ہیں۔اے۔ایس۔پی ہی آ رہا ہے نا تیری موت تھوڑی نا آرہی ہے۔"

انھوں نے اپنا غصہ ایس۔ایچ۔او پہ نکالا۔

"خان جی۔۔۔۔بس آپ سنبھال لینا۔"

ایس۔ایچ۔او زمان خان کو موجود پا کر آہستگی سے بولا۔

"تو فکر نہ کر۔۔۔۔آج تک کوئی اے۔ایس۔پی یہاں ٹکا ہے جو یہ ٹکے گا۔ آنے دے اسے ہم بھی تو دیکھیں کس کا اتنا جگرا ہے۔"

انھوں نے زمان خان کی طرف دیکھتے ہوئے ان دیکھی مکھی اڑائی۔زمان خان کمرے سے باہر نکل گئے۔ان کے جانے کے بعد وہ ایس۔ایچ۔او کی طرف دیکھنے لگے۔جس کے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔اس کی حالت دیکھ کر انھیں ہنسی آنے لگی۔

"او کہا نا۔۔۔۔فکر نہ کر۔۔۔۔۔۔ہم ہیں نا۔"

انھوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔ وہ سر ہلا کر وہیں بیٹھ گیا۔

"کب آ رہا ہے؟"

انھوں نے سیگریٹ سلگائی۔

"کل آ رہا ہے۔"

وہ رومال سے چہرہ پونچھتے ہوئے بولا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔جیسے ہی آئے اسے کہنا کہ حجرے میں آ کر ہم سے ملے۔"

وہ پرسوچ نگاہیں اس پہ گاڑھتے ہوئے بولے۔

"جی خان جی۔۔۔۔۔۔اب میں چلتا ہوں۔بہت کام ہے تھانے میں۔ میں چاہتا ہوں کہ باتور خان کے کہنے پہ جو لوگ حوالات میں بند ہیں انھیں چھوڑ دوں۔کوئی کیس تو ہے نہیں ان پہ۔"

وہ کھڑا ہوتے ہو بولا۔

"ہاں ٹھیک ہے۔"

وہ ان کی اجازت ملتے ہی سلام کرتا کمرے سے نکل آیا۔میرسربلند خان اب نئے اے۔ایس۔پی کے متعلق سوچنے لگے۔انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے موبائل پہ ایک نمبر ملایا اور کال ریسیو ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

"یہ نیا اے۔ایس۔پی کون ہے۔"

انھوں نے سلام کا جواب دئیے بنا پوچھا۔

"میرسربلند خان صاحب۔۔۔۔نئی تقرریاں ہیں۔نیا بندہ ہے۔۔بہت سمجھدار۔۔آپ یقینا مل کر بہت خوش ہوں۔آپ ہی کے گاوں کا ہے۔اس نے اپنا علاقہ ہی منتخب کیا ہے۔"

دوسری جانب سے تفصیل بتائی گئی۔

"یہ کہانی بعد میں سنانا۔۔۔۔نام بتاو۔"

وہ بلند آواز میں بولے۔

"اے۔ایس۔پی میر ضیغم خان۔" 

نام بتایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرسربلند خان کو لگا جیسے ان کے پیروں تلے سے کسی نے زمین کھینچ لی ہو۔وہ خاموش بیٹھے رہ گئے۔۔

"میر ضیغم خان۔۔"

انھیں لگا جیسے ہر طرف اس نام کی پکار ہو رہی ہو اور کمرے کی دیواریں ان پہ ہنس رہی ہوں۔انھوں نے موبائل دیوار پہ دے مارا۔___________________________________

"عمر خان!! تم یہ سامان جیپ میں رکھ دو میں آ رہا ہوں۔"

اس نے شوز پہنتے ہوئے با ادب کھڑے عمر خان سے کہا۔ عمر خان فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اور سامان کی طرف بڑھا۔ اس کے جانے کے بعد وہ خود بھی کھڑا ہوا اور ایک نظر پورے لاؤنج پہ ڈال کر کچن کی طرف آ گیا۔ پانی کی بوتل اٹھائی اور لائٹ آف کر کے باہر آ گیا۔ دیوار پہ لگے قدآور آئینے میں خود کو دیکھا۔ اس وقت وہ مکمل یونیفارم میں تھا۔ ہاتھ بڑھا کر اپنی کیپ درست کی اور مسکراتے ہوئے فلیٹ سے نکل آیا۔ فلیٹ کی چابیاں جیب میں رکھی اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ عمر خان جیپ میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے آتا دیکھ کر اس نے جیپ اسٹارٹ کی۔ ضیغم کے بیٹھتے ہی جیپ سڑک پہ دوڑنے لگی۔

"سر۔۔! بہت خوش لگ رہے ہیں آپ۔"

عمر خان کی نظر اسکے مسکراتے چہرے پہ ٹھہری۔

"ہاں عمر خان بہت خوش ہوں۔اتنے عرصے بعد گاوں جو جا رہا ہوں اس لئے۔"

اس نے نظریں سامنے سڑک پہ مرکوز کرتے ہوئے کہا۔عمر خان بھی سر ہلا کر سامنے دیکھنے لگا۔ بھاگتے دوڑتے منظر نظروں کی قید میں آئے بنا گزرنے لگے۔دس بجے کا وقت تھا جب وہ گاوں کی حدود میں داخل ہوئے۔ اسکا ارادہ پہلے تھانے جا کر ارائیول دینا تھا۔ اس لئے عمر خان نے جیپ کا رخ تھانے جانے والے راستے کی طرف کر دیا۔ سڑک کے دونوں جانب گھنے پیڑ تھے اور کھیت تھے۔

"سر۔۔! جب سے ہم گاوں کی حدود میں داخل ہوئے ہیں ایک گاڑی ہمارے تعاقب میں ہے۔"

وہ جو ریلیکس انداز میں بیٹھا ہوا تھا ایک دم سے سیدھا ہوا۔ رئیر ویو مرر میں چیک کیا تو اسے پیچھے آتی گاڑی دکھائی دی۔

"رفتار بڑھاو عمر خان۔۔۔"

اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ گاڑی واقعی ان کا پیچھا کر رہی ہے۔۔۔عمر خان سے کہا۔ عمر خان نے فورا جیپ کی رفتار بڑھائی۔ضیغم کی نظر ابھی بھی پیچھے دیکھنے والے شیشے پہ ہی ٹکی تھی۔ جیسے ہی رفتار بڑھی پیچھے آتی گاڑی کی رفتار بھی بڑھ گئی۔وہ لوگ تھانے سے کچھ ہی دور تھے۔ضیغم نے پہچاننے کے لئے تھوڑا سا سر باہر نکال کر دیکھا تو پچھلی گاڑی سے فائر کیا گیا وہ فورا پیچھے ہوا۔مگر وہ فائر کرنے والے شخص کو پہچان چکا تھا۔ اسے یہ سمجھنے میں بالکل دیر نہیں لگی کہ یہ حرکت کس کی ہو سکتی ہے۔اس پہ حملہ میرسربلند خان کے علاوہ کون کروا سکتا ہے۔

"سر۔۔!"

عمر خان نے ایک ہاتھ جیب میں ڈال کر پستول نکال لیا اور فائر کرنے لئے پیچھے دیکھا۔

"عمر خان فائر مت کرنا۔۔گاڑی کی رفتار بڑھاؤ اور تھانے سے تھوڑی دور گاڑی روک دینا۔"

اس نے عمر خان سے کہا اور خود سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر تقریبا نیچے ہو کر بیٹھ گیا۔ عمر خان نے پسٹل سامنے رکھی اور گاڑی کی رفتار مزید بڑھائی۔یہ علاقہ نسبتا سنسان تھا۔ایک بار پھر فائر کیا گیا مگر عمر خان نے گاڑی نہیں روکی۔ غصے سے ضیغم کے ضبط کی طنابیں ٹوٹ گئیں تھیں مگر اس نے ایک بار بھی فائر نہیں کیا۔وہ جانتا تھا کہ شکور میں اتنا دم نہیں کہ اسکا مقابلہ کر سکے اس لئے اگر اس نے فائر کھول دیا تو وہ بھاگ جائے گا اور وہ اسے بھاگنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ 

"وہ سامنے درختوں کے قریب گاڑی روک دو اور تم گاڑی سے نکل کر کسی درخت کی آڑ میں ہو جانا اور جب تک میں اشارہ نہ دوں فائر نہیں کرنا۔اسے اسی طرح قابو کرنا ہے۔"

اس نے عمر خان کو سمجھایا۔عمر خان نے گاڑی درختوں کی جانب موڑی۔ اسکی توقع کی عین مطابق ہوا۔شکور نے بھی گاڑی کا رخ موڑا۔ عمر خان نے جیپ ایک گھنے درخت کے پاس روک دی اور پسٹل اٹھا کر جیپ سے نکل گیا۔ اس سے پہلے کے پچھلی گاڑی ان کے قریب پہنچتی ضیغم نے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی۔ وہ دونوں اپنی اپنی پوزیشن سنبھال چکے تھے۔شکور نے جیپ کو رکتا دیکھ گاڑی کچھ فاصلے پہ رکوا دی اور فورا گاڑی سے نکلا۔دور سے ہی جائزہ لے کر پسٹل ہاتھ میں لئے وہ آہستہ آہستہ جیپ کی جانب آ رہا تھا۔جیپ کے قریب پہنچ کر اس نے اندر جھانکا۔ اسی دوران ضیغم نے عمر خان کو اشارہ کیا۔ عمر خان درختوں کی آڑ سے ہوتا ہوا پچھلی گاڑی کے قریب پہنچا۔ ڈرائیور ابھی تک گاڑی میں ہی بیٹھا تھا۔ شکور جیپ کا چکر لگا کر درختوں کی جانب بڑھا۔ ضیغم اسے اپنی طرف آتا دیکھ الرٹ ہو گیا تھا۔شکور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسی درخت کے قریب پہنچ گیا جس کی آڑ میں ضیغم تھا۔ ضیغم نے فورا بناء آہٹ پیدا کیے اپنی جگہ تبدیل کی۔ شکور جیسے ہی تھوڑا آگے ہوا ضیغم نے پیچھے سے اسکی گردن دبوچ لی۔ اسی لمحے شکور نے پسٹل والے ہاتھ کو حرکت دی۔ ضیغم نے اس کی ٹانگ میں ٹانگ اڑا کر اسے چاروں شانے چت کیا۔پسٹل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر کچھ دور جا گرا۔شکور بالکل بے بس ہو چکا تھا۔

"مجھ پہ حملہ کرنے سے پہلے ایک بار تو سوچ لیتے۔"

ضیغم نے اس کی کنپٹی پہ پسٹل رکھی۔

یوں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر شکور کی سٹی گم ہو چکی تھی۔

"میر مجھے چھوڑ دو۔تمھیں نہیں پتہ اگر خان جی کو پتہ چل گیا تو تمھیں ایسی جگہ پھینکیں گے کہ تم خود کو بھی ڈھونڈ نہیں پاؤ گے۔"

"ہاہاہا۔۔۔۔یہ تو وقت ہی بتائے گا۔تمھارے خان جی اپنے گناہوں سے بھرے گڑھے میں گر چکے ہیں۔بس اب میرے مٹی ڈالنے کی دیر ہے۔"

ضیغم نے اس کے دونوں بازو پیچھے اسکی کمر پہ باندھے۔

"تمھاری بھول ہے۔۔۔۔"

شکور ہنسا تھا۔

"یہ وردی پہن کر اپنی اوقات بھول گئے ہو تم۔"

"دیکھیں گے۔۔۔۔۔"

ضیغم نے اسے جھٹکا دے کر آگے کیا مگر اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا۔

"سر۔۔۔آپ ٹھیک ہیں؟"

عمر خان کی آواز آئی۔

"ہاں عمر خان میں ٹھیک ہوں۔وہ ڈرائیور بھاگ تو نہیں گیا کہیں۔۔؟"

ضیغم شکور کو لئے درخت کے پیچھے سے سامنے آیا۔"

"نہیں سر۔۔۔۔"

عمر خان نے اس شخص کو ضیغم کے سامنے دھکیلا۔ضیغم نے دیکھا کہ وہ ایک اونچا لمبا اور کرخت چہرے والا شخص تھا۔گھنی مونچھیں ، سرخ آنکھیں اور چہرے کی بائیں جانب گہرے زخم کا نشان اسے ایک جرائم پیشہ افراد کی صف میں کھڑا کر رہا تھا۔ 

"صاحب۔۔مجھے چھوڑ دو۔۔مجھے تو یہ شکور جھوٹ بول کر لایا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ۔۔۔۔۔۔"

"اوئے۔۔ چپ کر۔۔۔اندھا ہے کیا پولیس کی جیپ نظر نہیں آئی تجھے۔۔جب حوالات میں تیری چھترول ہو گی نا تب تجھے پتہ چلے گا کہ ایک اے۔ایس۔پی حملہ کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔"

ضیغم کو دیکھ کر وہ ہاتھ جوڑ کر بولا مگر عمر خان نے اسے بیچ میں ہی اسکی گردن دبوچی تھی۔

"نہیں صاحب۔۔۔میرا کوئی قصور نہیں۔۔یہ مجھے ذبردستی ساتھ لایا تھا۔"

اس نے شکور کی جانب اشارہ کیا جو اسے ہی گھور رہا تھا۔

"چلو عمر خان۔۔"

ضیغم شکور کو عمر خان کی جانب دھکیلتے ہوئے بولا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔عمر خان نے دونوں کو جیپ میں دھکیلا اور خود بھی پیچھے ہی بیٹھ گیا۔ان کے بیٹھتے ہی ضیغم نے جیپ اسٹارٹ کی اور جیپ کا رخ تھانے کی جانب موڑ کر ضیغم نے ایکسیلیٹر پہ پیر کا دباو بڑھایا تھا۔

      ______________________________________

"خان جی۔۔۔۔۔۔"

وہ اس وقت حجرے میں بیٹھے تھے جب رشید تیز قدموں سے چلتا ہوا حجرے میں داخل ہوا۔اس کے ہوائیاں اڑے چہرے کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔منشی جو ان کے قریب ہی نیچے زمین پہ بیٹھا تھا وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"کیا مصیبت آن پڑی ہے جو یوں بھاگے چلے آ رہے ہو؟"

انھوں نے سخت نظروں سے رشید کو دیکھا۔

"وہ جی خان جی۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔"

رشید پھولتی سانسوں کے درمیان بولا۔

"بول بھی۔۔۔کیا آفت آگئی ہے۔"

وہ منشی کو پرے ہٹاتے ہوئے رشید کے قریب آئے۔منشی بھی حیران نظروں سے رشید کو دیکھ رہا تھا۔ 

"وہ خان جی۔۔۔شکور تھانے میں ہے۔نیا اے۔ایس۔پی آیا ہے۔مجھے اقبال نے بتایا۔اسی نے کسی پولیس والے کو شکور کو تھانے لے جاتے دیکھا ہے۔"

رشید نے ہانپتے ہوئے بتایا۔

"تو میں کیا کروں جو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔کیا کیا ہے اس نے جو نوبت یہاں تک آ گئی۔"

وہ چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے بولے۔

خان جی آپ چل کر ذرا اس نئے اے۔ایس۔پی کی خبر تو لیں۔آج شکور کو پکڑا ہے کل ہم میں سے کسی کو پکڑ لیا تو۔۔۔۔۔۔"

پریشانی رشید کے چہرے سے ہویدا تھی۔

"شکور نے ایسا کیا کیا ہے جو اسے پولیس پکڑ کر لے گئی ہے؟"

اس بار سوال منشی کی جانب سے آیا۔

"پتہ نہیں منشی جی۔۔۔"

رشید نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

"منشی گلاب خان سے کہو گاڑی نکالے۔۔۔۔۔"

میرسربلند خان تیزی سے حجرے کے دروازے سے باہر نکل گئے۔منشی اور رشید بھی ان کے پیچھے آئے تھے۔منشی بھاگ کر گلاب خان کو لے آیا۔گلاب خان گیراج کی طرف بڑھا۔

"گلاب خان تھانے چلو۔۔۔۔"

میرسربلندخان تیزی سے گاڑی میں بیٹھے۔

"تم یہیں رکو منشی اور رشید تم چلو ہمارے ساتھ۔"

ان کے کہنے کی دیر تھی کہ رشید فورا گاڑی میں بیٹھا۔ان کے بیٹھتے ہی گلاب خان نے گاڑی اسٹارٹ کی۔

"گلاب خان تھانے چلو۔"

گلاب خان نے اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی تھانے جانے والے راستے پہ ڈال دی۔ 

"ہاں بتاو۔۔۔۔حامد کو کس جرم میں اندر کیا ہے۔۔۔؟کیس کی فائل لے کر آو۔"

میرسربلند خان جب تھانے میں داخل ہوئے تو وہ سامنے ہی کرسی سنبھالے ایس۔ایچ۔او طارق خان سے باز پرس کر رہا تھا جبکہ ایس۔ایچ۔او طارق الرٹ کھڑا بغلیں جھانک رہا تھا۔لیکن جب اس نے میرسربلند خان کو آتے دیکھا تو ایک دم ریلیکس ہو کر کھڑا ہو گیا۔ضیغم کسی فائل کے مطالعے میں مصروف تھا۔اس لئے ایس۔ایچ۔او کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ نہیں پایا تھا۔

"خان جی آپ۔۔۔۔آئیے آئیے بیٹھیے۔"

ایس۔ایچ۔او کی آواز پہ ضیغم نے سامنے دیکھا تو وہاں میرسربلند خان کھڑے تھے۔ وہ فائل ٹیبل پہ رکھ کر کرسی سے پشت ٹکا گیا۔عمر خان اس کے اس قدر ریلیکس انداز پہ مسکراہٹ لبوں میں دبا گیا۔ میرسربلند خان کچھ فاصلے پہ کھڑے ہو گئے۔ ضیغم اٹھ کر ان کے پاس آیا۔

"اسلام و علیکم۔۔! میرا نام میر ضیغم خان۔۔یہاں کا نیا اے۔ایس۔پی۔"

ضیغم نے مصافحے کے لئے ہاتھ ان کی طرف بڑھایا تھا۔جسے میرسربلند خان نے تھامنا ضروری نہیں سمجھا۔

"شکور کو کس جرم میں اندر کیا ہے؟"

میرسربلند خان کی بارعب آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

"ایک اے۔ایس۔پی پہ قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں۔"

اس نے بڑے ریلیکس انداز میں پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ گھسائے اور ان کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔میر سربلند خان نے اسے بغور دیکھا۔مکمل یونیفارم میں ملبوس اسکی باوقار اور نڈر شخصیت کی روشنی ان کی آنکھیں چندھیائے دے رہی تھی۔انھیں ایک بار پھر سے یوں لگا جیسے میردراب خان ان کے سامنے کھڑا ہو۔ضیغم کو وہ جب جب دیکھتے اس کی آنکھوں سے انھیں آگ کی لپٹیں نکل کر اپنا گھیراو کرتی محسوس ہوتیں۔انھیں نجانے کیوں اس بات کا گمان ہونے لگتا کہ وہ سب جانتا ہے۔اس وقت بھی اسکی بےخوف نگاہیں انھیں اپنے آر پار ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔عمرخان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ضیغم کے نڈر انداز کو سراہا جبکہ ایس۔ایچ۔او اسکا انداز دیکھ کر حیران ہوا تھا۔وہ تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا لیکن اپنی سوچ کے برعکس ہوتا دیکھ کر اسے پھر سے اپنی نوکری خطرے میں لگنے لگی تھی۔ کتنے لوگوں کو اس نے بنا کسی کیس کے حوالات میں بند کر رکھا تھا اور تھانے میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔

"کوئی گواہ۔۔۔؟"

انھوں نے اردگرد نظر دوڑائی۔۔۔وہاں اس وقت تھانے کا پورا عملہ موجود تھا اور سبھی انہی کی جانب دیکھ رہے تھے۔وہ سبھی ضیغم سے واقف تھے لیکن وہ اس طرح ان کے سامنے آئے گا یہ ان میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا۔سوچا تو میرسربلند خان نے بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ اسطرح ان کے سامنے قدم مضبوطی سے جمائے کھڑا ہو گا۔

"عمرخان۔۔!!"

ضیغم نے عمر خان کی جانب دیکھا۔

"میں ہوں گواہ۔۔۔"

ضیغم کے پکارنے پر عمر خان آگے آیا۔

"تم ابھی مجھے جانتے نہیں ہو۔۔۔۔۔"

میرسربلند خان اس کے قریب آ کر دھیرے سے بولے تھے مگر ان کے لہجے کی کاٹ کو اس نے واضح طور پر محسوس کیا تھا۔

"مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے تمھیں میرسربلند خان۔۔۔"

ضیغم نے ان کا انداز انھیں لوٹایا تھا۔

"میں تم سے بحث کرنے نہیں آیا۔۔۔شکور کو چھوڑ دو۔تم لوگوں کو یقینا کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ وہ شکار کی غرض سے آیا ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ تمھاری گاڑی ایک غلط نشانے کی زد میں آ گئی ہو۔تم یونہی اس معاملے کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہو۔۔۔اوئے ۔۔۔۔جا کر شکور کو لے کر آ۔۔"

ضیغم سے کہہ کر وہ سامنے کھڑے ایک سپاہی سے بولے اور خود کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی جبکہ وہ سپاہی ضیغم کی طرف دیکھنے لگا۔

"اوئے سنا نہیں تم نے۔۔۔۔۔"

وہ اسے اپنی جگہ پہ کھڑے دیکھ کر دھاڑے۔

"یہ میرا تھانہ ہے۔۔آپ کی حویلی نہیں جہاں آپ یوں چلائیں گے۔اب اگر یہاں کوئی آئے گا بھی تو میری مرضی سے اور جائے گا بھی تو میری مرضی سے۔اس سے پہلے کہ میں آپکو بھی شکور کے پاس پہنچا دوں آپ یہاں سے تشریف لے جائیے۔"

وہ ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کر ان کی طرف جھکتے ہوئے بولا۔اس کی بات ان کے اندر لگی آگ کے شعلے بھڑکا گئی۔وہ ایک پل ضائع کیے بغیر اٹھے۔

"اور ہاں۔۔۔۔۔شکور کو بھول جائیے اسے تو اب میرا باپ بھی یہاں سے نہیں لے جا سکتا آپ تو ان کے بھائی ہیں۔"

میرسربلند خان نے فورا پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔ان کی نظروں میں حیرانی دیکھ کر وہ ہنسا تھا۔ ضیغم کی بات ان کے پیروں تلے سے زمین کھینچنے کے لئے کافی تھی۔

وہ ایک پل بھی رکے بغیر تیزی سے وہاں سے نکلتے چلے گئے۔۔۔رشید بھی ان کے پیچھے بھاگا تھا۔

"چلو بھئ۔۔۔شو ختم۔۔ناؤ گیٹ بیک ٹو یور ورک۔۔۔"

وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے اپنے آفس کیطرف بڑھا۔

"مسٹر ایس۔ایچ۔او۔۔!! کیا آپ اس تھانے کے تمام کیسز کی فائلز مجھے دکھائیں گے۔"

اسے آفس کی طرف بڑھتا دیکھ ایس۔ایچ۔او نے سکون کا سانس لیا تھا مگر اگلے ہی پل ضیغم نے پھر اسے وہیں سے پکڑا جہاں سے چھوڑا تھا۔

"یس سر۔۔۔!"

اس نے دھیرے سے کہتے ہوئے عمر خان کی جانب دیکھا۔ عمر خان نے کندھے اچکائے اور آفس کی طرف بڑھ گیا۔

      ________________________________________

"آ رہا ہوں۔۔۔۔۔"

وہ مسکاء کو اندر جانے کا اشارہ کرتے دروازے کی طرف بڑھے۔وہ فورا ہی کچن کے دروازے کے پیچھے ہوگئی تھی۔

"کون ہے۔۔۔؟"

زمان خان نے دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھا۔

"زمان چاچا میں ہوں رشید۔۔۔۔"

رشید کی آواز انھیں حیرت میں مبتلا کر گئی۔انھوں نے پیچھے پلٹ کر مسکاء کے وہاں موجود نہ ہونے کی تصدیق کی اور دروازہ کھول دیا۔

"کیا بات ہے رشید۔۔۔۔؟؟"

انہوں نے باہر آ کر دروازہ بند کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"زمان چاچا۔۔۔۔۔کیا حال چال ہیں؟"

رشید نے خوشامدی انداز اپنایا۔

"ٹھیک ہوں۔۔۔۔یہ آج تمھیں میری طبیعت کا خیال کیسے آ گیا۔۔خیر تو ہے نا۔۔؟"

زمان خان نے سر سے پیر تک اسکا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

"میر صاحب گھر آ گئے ہیں کیا؟"

رشید نے بند دروازے کو گھورا۔

"میر۔۔؟ صاحب۔۔۔؟؟"

زمان خان نے اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔

"ہاں نا چاچا۔۔۔لگتا ہے وہ تھانے سے ابھی آئے نہیں ہیں۔ تبھی تو تم مجھے ایسے حیرانی سے دیکھ رہے ہو۔ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔۔۔"

رشید کی نظر دور سے آتی پولیس جیپ پر پڑی تو وہ وہاں سے کھسک گیا۔ زمان خان نے بھی پولیس جیپ کو آتے دیکھ لیا تھا۔

"یا اللہ خیر۔۔۔پولیس۔۔"

تھانے کے ایس۔ایچ۔او سے وہ اچھی طرح واقف تھے اس لئے جیپ کو اس طرف آتے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئے تھے۔جیپ ان سے کچھ فاصلے پہ آ کر رک گئی۔بائیں طرف سے رحم دین نکل کر ان کے قریب آیا تھا۔ان کے چہرے پہ ایک جاندار مسکراہٹ تھی۔

"خیر تو ہے نا پولیس کی گاڑی میں کیوں آئے ہو؟"

زمان خان کی تان ابھی تک پولیس پہ ہی اٹکی ہوئی تھی۔

"اپنے بیٹے کے ساتھ آیا ہوں۔"

رحم دین مسکراتے ہوئے ان سے بغلگیر ہوئے تھے۔انھوں نے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب دیکھا لیکن ڈرائیونگ سیٹ پہ جو بھی بیٹھا تھا اس نے جیپ کا سن وائزر نیچے کر رکھا تھا اس لئے وہ چہرہ دیکھ نہیں پائے تھے۔

"کیوں پہیلیاں بھجوا رہے ہو رحم دین۔۔۔صاف صاف بتاو کس کے ساتھ آئے ہو؟"

زمان خان جھلا گئے۔

"میر۔۔۔!"

رحم دین نے پکارا۔

"میر۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟"

زمان خان کے لب ہلے۔۔۔انہوں نے میر کو جیپ کی دائیں جانب سے نکلتے اور پھر اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔وہ ان کے سامنے تھا اسی روپ میں جس میں وہ اسے دیکھنا چاہتے تھے۔وہ اتنی ہی اونچائی پہ قدم جمائے کھڑا تھا جتنی بلندی میں وہ اسے دیکھنا چاہتے تھے۔وہ دھیرے دھیرے چلتا ان کے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔زمان خان کو لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔انھوں نے سختی سے آنکھیں میچ کے دوبارہ کھولیں۔ 

"بابا۔۔۔۔۔"

ضیغم نے ان کے بازو تھام لیے۔

"میر۔۔۔۔یہ تم ہو۔۔۔۔۔؟؟"

انھوں نے اسکے کشادہ سینے پہ ہاتھ رکھے۔انھیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ان کے بے یقین انداز پہ وہ کھل کر مسکرا دیا۔انھیں لگا جیسے میردراب خان مسکرا رہے ہوں۔انھوں نے اسے سینے سے لگایا تھا اور بےطرح رو دئیے تھے۔وہ ان کی حالت سے واقف تھا اس لئے انھیں رونے دیا۔رحم دین کی آنکھیں بھی بھر آئیں تھیں۔انھوں نے آنسو پونچھتے ہوئے زمان خان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"زمان خان یہ تو خوشی کا موقع ہے اور تم رو رہے ہو۔"

زمان خان ضیغم سے الگ ہوئے۔

"یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔"

ان کی بات پہ وہ تینوں مسکرا دئیے تھے۔

"تم نے بتایا نہیں۔۔۔۔اور۔۔۔۔"

زمان خان نے اسے سر سے پیر تک دیکھا اور پھر اسکے سینے پہ لگے اس کے نام پہ نرمی سے ہاتھ پھیرا۔

"میں آپکو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔"

اس نے ان کے کندھے پہ بازو پھیلایا اور ان کے ساتھ قدم بڑھائے۔

"تبھی تو میں کہوں یہ رشید تمھیں صاحب کیوں کہہ رہا تھا۔اس نے تمھیں شاید دیکھ لیا تھا۔"

زمان خان نے کہا۔

"ہاں وہ تھانے آیا تھا۔"

اس نے پوری بات بتانے سے گریز کیا۔

"اچھا۔۔۔۔"

زمان خان نے باہر والی کنڈی اتاری اور دروازہ کھول دیا۔وہ تینوں اندر داخل ہوئے۔ مسکاء کچن میں ہی تھی۔کھٹکے کی آواز پہ باہر آئی۔ ضیغم کو دیکھ کر اسکے قدم وہیں جم گئے۔

"مسکاء دیکھو تو کون آیا ہے۔"

انھوں نے مسکاء کو پکارا۔

"السلام و علیکم!"

وہ مسکراتے ہوئے ان کے قریب آئی تھی۔

"واعلیکم السلام۔۔! کیسی ہو تم؟"

ضیغم نے اسکے چہرے کو نظروں میں سموتے ہوئے پوچھا۔کتنی شدت سے انتظار تھا اسے اس پل کا جب وہ اسکی نظروں کے سامنے ہو گی۔ایک پل ایسا نہیں جب وہ اسے یاد نہ آئی ہو۔

"جی ٹھیک ہوں۔۔آپ کیسے ہیں؟"

مسکاء نے اس کی نظروں کی تپش محسوس کر کے نظریں جھکائیں۔

"آ جاو بیٹا اندر چلیں۔۔" زمان خان نے اندر کی طرف قدم بڑھائے۔

"یہیں بیٹھتے ہیں بابا۔۔ذرا سردیوں کی دھوپ لے لیں۔"

وہ وہیں صحن میں رکھی کرسی پہ بیٹھ گیا۔رحم دین اور زمان خان بھی چارپائی پہ بیٹھ گئے۔ مسکاء انھیں باتوں میں مصروف میں دیکھ کر کچن کی طرف آ گئی۔ قہوے کے لئے پانی رکھا۔کچن میں بنی واحد کھڑکی جو برآمدے میں کھلتی تھی جہاں سے صحن میں وہ باتیں کرتے باآسانی دکھائی دے رہے تھے۔لبوں پہ دھیمی مسکان سجائے وہ وہیں سے ضیغم کے مطالعے میں مصروف تھی۔کھلتی رنگت دھوپ کی تمازت سے سرخی مائل ہو رہی تھی۔گہرے براؤن بال سلیقے سے بنائے گئے تھے۔وہ جس وقت سے آیا تھا مسکراہٹ ایک پل کو بھی اس کے لبوں سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ اسے وہ دن یاد آیا جب اس نے پہلی بار ضیغم کو دیکھا تھا۔ماتھے پہ سلوٹیں،سنجیدہ چہرہ،خاموش نگاہیں اور سختی سے بھینچے ہوئے لب۔۔۔۔۔وہ اس ضیغم سے قطعی مختلف لگا۔اچانک ضیغم نے بھی اسکی جانب دیکھا تو وہ گھبرا کر رخ پلٹ گئی۔ 

"تمھیں کیا ہوا ہے مسکاء جو ایسے آنکھیں پھاڑے پھاڑے انھیں دیکھ رہی تھی۔"

کھولتے پانی میں چینی ڈالتے ہوئے اس نے اپنی اس حرکت پر خود کو کوسا۔

"اب بار بار مجھے جتائیں گے کہ میں انھیں چھپ چھپ کر دیکھ رہی تھی۔"

اسے اگلی پریشانی نے گھیرا۔

"کہیں گے تو میں بھی کہہ دوں گی کہ میں اپنے بابا کو دیکھ رہی تھی۔"

اس نے ٹرے میں کپ رکھتے ہوئے جواب سوچا اور پھر ٹرے اٹھائے باہر آ گئی۔

"مسکاء کہاں جا رہی ہو بیٹا۔۔۔۔یہیں بیٹھ جاو۔"

ٹرے اس نے ٹیبل پہ رکھی اور خود واپس کچن میں جانے لگی تو زمان خان نے اسے ضیغم کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھنے کو کہا۔

وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔

"کھانے کی فکر مت کرو۔۔کھانا تمھاری ماں بنا کر لا رہی ہے۔"

رحم دین نے اسے پریشان دیکھ کر کہا حالانکہ پریشان تو وہ ضیغم کی نظروں سے ہو رہی تھی اور وہ جو کنکھیوں سے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا نظریں پھیر گیا۔۔

         _______________________________________

انھوں نے کمرے کی ہر چیز اٹھا کر دیوار پہ دے ماری تھی۔ ماہ گل اور باقی ملازم سبھی ان کو اس قدر غصے میں دیکھ کر ادھر ادھر ہو گئے تھے۔کمرے میں موجود ہر چیز ان کے غصے کی نظر ہو چکی تھی۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہر چیز کو آگ لگا دیں۔ کسی میں بھی ہمت نہیں تھی ان کے غصے کا سامنا کرنے کی۔ وہ دائیں سے بائیں چکر لگا رہے تھے۔سب کچھ تہس نہس کر کے بھی ان کے غصے کا گراف نیچے نہیں آ رہا تھا۔

"گلاب خان کیا ہوا ہے؟"

ماہ گل بھاگتی بھاگتی گلاب خان کے پاس آئی تھیں۔

"پتہ نہیں بی بی۔۔۔۔ہم کو کہا تھانے لے چلو۔۔ہم تھانے لے گیا۔۔وہاں سے ایسا ہی آگ کا گولا بن کر آیا ہے۔۔اللہ ہی جانتا ہے کہ وہاں کیا ہوا۔"

گلاب خان رومال کندھے پہ ڈالتے ہوئے بولا۔

"اچھا تو ذرا کمرے میں جا کر دیکھو کہیں خان خود کو نقصان نہ پہنچا لے۔"

ماہ گل پریشانی سے بولیں۔

"ماہ گل بی بی۔۔۔آپ پریشان مت ہوں۔خان جی کچھ بھی نہیں کرے گا خود کو۔۔۔نقصان تو وہ ان کو پہنچائے گا جنھوں نے اسے اس حال میں پہنچایا ہے۔"

رشید ان کے بیچ آ کھڑا ہوا۔

"ہاں اس سے پوچھو۔۔۔یہ گیا تھا تھانے کے اندر۔۔"

گلاب خان نے رشید کو دیکھ کر کہا۔

ماہ گل نے رشید کی طرف دیکھا۔رشید خباثت سے مسکرانے لگا۔

"توبہ خدایا۔۔۔کیسا گندا دانت ہے تمھارا۔۔اندر کرو اسے"

گلاب خان نے اسکے پیلے دانتوں کو دیکھ کر کہا۔

"گلاب خان تم نے اپنے ٹیڑھے میڑھے دانت نہیں دیکھے کیا۔"

رشید کو اپنے دانتوں کی شان میں گستاخی پسند نہیں آئی۔

"اوئے جاؤ جاؤ۔۔۔۔۔دہ نسوار بچے(نسوار کا بچہ)۔۔۔ہمارا تو ایک دم سپا سترا دانت ہے(صاف ستھرا)۔۔یہ دیکو۔۔۔"

گلاب خان نے فورا بتیسی نکالی۔

"یا اللہ توبہ۔۔۔خدایا توبہ۔"

رشید نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔

"او خدا تم دونوں کو پوچھے۔۔۔جا کر خان جی کی خبر لو۔۔اپنے دانتوں کا فکر لگ گیا ہے۔۔مجھ سے پوچھو۔۔!! تم دونوں کا دانت بہت گندا ہے۔"

ماہ گل نے اپنی ہنسی روکی۔

"ہاں چلو ماہ گل ہم جاتا ہے تمھارے ساتھ۔"

گلاب خان ماہ گل کے ساتھ آگے بڑھا۔

"اوئے سن تو لو کہ آخر ہوا کیا ہے اور میری مانو تو ابھی مت جاو۔۔ورنہ ماہ گل تو بچ جائے گی مگر تمھارے یہ ٹیڑھے میڑھے دانت خان جی توڑ دیں گے۔اب کمرے میں یہی رہ گئے ہونگے توڑنے کے لئے۔"

رشید ان کے پیچھے آیا۔

"تم خاموش ہوتا ہے کہ نہیں۔۔۔ورنہ ہم تمھارا یہ ذرد دانت ادھر ہی توڑ دے گا۔"

گلاب خان نے رشید کو مکا دکھایا۔۔جسے دیکھ کر رشید فورا پیچھے ہٹا۔

"خدا کو مانو گلاب خان۔۔۔اپنا سفید داڑھی کو دیکھو۔"

ماہ گل نے گلاب خان کا بازو نیچے کیا۔

"ہاں رشید تم بتاو تھانے میں کیا ہوا تھا کہ خان جی اتنے غصہ میں ہے۔"

ماہ گل نے رشید کی طرف دیکھا۔ان کے پوچھنے پر رشید نے الف تا یے سارا واقعہ کہہ سنایا۔

"اوئے اپنا میر۔۔۔۔وہ زمان خان کا بچہ میر؟؟"

گلاب خان نے حیرانی سے پوچھا۔

"ہاں گلاب خان وہی۔"

رشید نے کہا جبکہ ماہ گل تو خوشی کے مارے کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی۔ 

"یہ تو بہت خوشی کا بات ہے۔"

گلاب خان نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے یہاں؟"

وہ آپس میں سر جوڑے مزید بھی کچھ کہہ رہے تھے کہ باتور خان کی آواز پہ پلٹے۔وہ انہی کی طرف آ رہا تھا۔رشید اسے دیکھ کر تیزی سے اس کے پاس آیا تھا۔

"خان وہ خان جی بہت غصے میں ہیں۔ اور تو کسی میں اتنا دم خم نہیں ہے آپ ہی جا کر ذرا دیکھو۔"

رشید باتور خان مکھن لگانا نہیں بھولا تھا جس سے اسکی گردن مزید تن گئی۔

"چلو۔۔۔۔۔اور ہاں تم دونوں اپنا اپنا کام کرو۔۔یہاں باتیں بنانے کے پیسے نہیں ملتے۔"

باتور خان نے جاتے جاتے ماہ گل اور گلاب خان کو پلٹ کر دیکھا اور پھر رشید کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔

"ہونہہ۔۔! بڑا آیا۔۔اب انکا شامت آئے گا۔"

گلاب خان نے ماہ گل کی طرف دیکھ کر کہا اور گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔

باتور خان اور رشید کمرے کے باہر کھڑے ہو گئے۔ باتور خان نے دروازے سے کان لگایا مگر کچھ نہ سنائی دیا۔

"لگتا ہے میرسربلند خان یخ ہو گیا ہے۔"

رشید نے دھیرے سے کہا۔باتور خان نے اسے گھور کر دیکھا۔ 

"وہ میرا مطلب ہے کہ خان جی کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔"

رشید پیچھے ہوا۔

"خان جی۔۔۔۔آپ ٹھیک ہیں؟"

باتور خان بلند آواز میں بولا۔

"باتور خان اندر آ جاو۔۔"

میر سربلند خان کی آواز سن کر وہ اندر داخل ہوا۔کمرے کی ابتر حالت دیکھ کر اس نے انھیں حجرے میں چلنے کے لئے کہا۔وہ خاموشی سے اس کے ساتھ ہو لیے۔انھیں لئے وہ نیچے آیا۔ماہ گل نیچے ہی کھڑیں تھیں۔باتور خان نے ان سے چائے تیار کر کے رشید کے ہاتھ حجرے میں بھیجنے کو کہا تھا۔میرسربلند خان رکے بنا حجرے کی طرف جا چکے تھے۔ باتور خان بھی ان کے پیچھے آیا تھا۔وہ جب حجرے میں پہنچا تو وہ چارپائی پہ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔وہ آ کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔

"خان جی۔۔۔۔۔۔"

"اسکا کچھ پکا انتظام کرنا پڑے گا۔میں اسے اب ایک پل بھی برداشت نہیں کر سکتا۔"

میرسربلند خان بنا اس کی جانب دیکھے بولے۔

"خان جی اگر اس دن آپ نے مجھ سے پسٹل نہ لیا ہوتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا مگر خیر اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔۔۔۔۔۔آپ ایک اشارہ کریں تو چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دوں گا۔"

باتور خان کے چہرے کی کرختگی لہجے میں بھی در آئی تھی۔ 

"مجھے شک ہے کہ رحم دین کی بیٹی کا نکاح میر سے ہی ہوا ہے۔لڑکی اب بھی زمان خان کے گھر میں موجود ہے۔لڑکی کو کسی طرح اپنے قبضے میں کرو۔میں اسے اتنی آسان موت نہیں مارنا چاہتا۔میں چاہتا ہوں کہ وہ گھٹنے ٹیک کر یہاں میرے سامنے بیٹھا ہو اور مجھ سے اپنی عزت کی بھیک مانگے۔تب ہی کہیں جا کر میرے دل کو سکون ملے گا۔"

میرسربلند خان کے اندر کا جانور باہر آ چکا تھا۔

"ویسا ہی ہو گا خان جی۔۔۔۔جیسا آپ چاہتے ہیں۔" وہ داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔

"تو پھر کسی عورت کو اس کام پہ لگاو۔۔۔کسی طرح وہ لڑکی گھر سے باہر آ جائے۔باقی کام آسان ہو جائے گا۔"

وہ کھڑے ہوئے۔

"خان جی۔۔۔۔صبح کے ٹائم تو گھر میں اکیلی ہی ہو گی وہ۔۔۔۔"

وہ مکاری سے ہنسا تھا اور ان کی ہنسی میں میرسربلند خان کی ہنسی بھی شامل ہو گئی تھی۔

          ________________________________________

"اماں آج رہ جاو نہ میرے پاس۔۔اتنے دنوں بعد تو آئی ہو۔"

ذہرہ بی بی اس کے ساتھ رات کے کھانے کے برتن دھو رہی تھیں۔جب وہ ان سے رکنے کے لئے کہنے لگی۔

"ہائے باؤلی ہوئی ہو کیا۔۔میں کیسے رہ سکتی ہوں یہاں۔"

ذہرہ بی بی نے اسے حیرانی سے دیکھا۔

"اچھا ایسے تو مت دیکھو۔"

مسکاء نروٹھے پن سے بولی۔

"چل خفا نہ ہو۔۔۔کل پھر آ جاوں گی نا۔"

ذہرہ بی بی نے اسے سینے سے لگایا۔

"وعدہ۔۔؟؟"

مسکاء نے دایاں ہاتھ آگے کیا تھا۔ذہرہ بی بی نے مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام لیا۔

"مسکاء کی ماں۔۔!! گھر نہیں جانا ہے کیا؟"

رحم دین کچن کے دروازے میں آ کر کھڑے ہوگئے۔

"جی بس آ رہی ہوں۔"

ذہرہ بی بی نے مسکاء کا ماتھا چوما اور اسے ساتھ لئے باہر آ گئیں۔

"میں ذرا ضیغم سے مل لوں۔"

وہ ضیغم کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔رحم دین اور زمان خان نے دروازے کی طرف قدم بڑھائے تھے۔تھوڑی دیر بعد ذہرہ بی بی بھی آتی دکھائی دیں۔وہ مسکاء سے دوبارہ ملیں اور رحم دین کے ساتھ ہو لیں۔ان کے جانے کے بعد زمان خان نے دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔مسکاء نے کچن میں آ کر ایک آخری نظر کچن پہ دوڑائی اور لائٹ آف کر دی۔باہر آ کر صحن میں رکھی کرسیاں اٹھا کر برآمدے میں رکھیں اور برآمدے کی لائٹ بند کر کے روم میں آ گئی۔کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی بیڈ کے دائیں جانب آئی تھی۔جھک کر ضیغم کو دیکھا۔

"میں جاگ رہا ہوں۔"

وہ اسے سوتے دیکھ کر شکر کرنے کے انداز میں ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ وہ پلٹ کر بولا۔اس نے فورا ہاتھ نیچے کیے۔

"یہ کیا ہو رہا تھا؟"

ضیغم کی دائیں ابرو کمان کی طرح تنی ہوئی تھی۔

"کچھ نہیں۔۔۔۔"

وہ ہاتھ پیچھے باندھ کر مسکرائی تھی۔

"یہ شکر کس بات کا ادا کر رہی تھی۔"

وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

"نہیں تو۔۔۔۔۔"

مسکاء نے نفی میں گردن ہلائی۔

"میرے آنے کا شکر ادا کر رہی تھی۔"

وہ مسکرایا تھا جبکہ وہ خاموش رہی۔

"ادھر آو۔۔۔"

ضیغم نے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تھا۔مسکاء نے ہاتھ اسکے ہاتھ میں دے دیا تو اس نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔

"تم نے مجھ سے کہا تھا کہ جب میں آوں گا تو مجھے بتاو گی۔"

ضیغم نے اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانکا۔

"میں نے۔۔۔۔۔؟؟ کب۔۔؟"

اس نے سیاہ آنکھوں کو مزید کھولا۔

"میں یاد دلاوں۔۔۔۔؟؟"

اس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا۔

"نہیں۔۔۔۔۔"

وہ پیچھے ہوئی۔

"نہیں مجھے طریقہ آتا ہے یاد دلانے کا۔۔۔اتنے مہینے مجھے وہاں یہی تو سکھایا گیا ہے۔"

وہ اٹھنے لگی تو ضیغم نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔اس بار وہ اس کے سینے سے آ لگی۔اس نے جلدی اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لیا۔

"یہ کیا کر رہے ہیں؟؟"

وہ خود کو چھڑانے لگی۔

"میں تمھیں یاد دلاتا ہوں نا کہ تم نے مجھ سے کیا کہا تھا۔"

وہ اسکی مہکتی ذلفوں میں چہرہ چھپا کر بولا تھا۔

"ضیغم۔۔۔۔!!"

وہ کسمسائی تھی اور اس کی جانب سے رخ پھیر گئی۔

"پہلے تم مجھے بتاو گی کہ تم نے مجھے مس کیا تھا یا نہیں۔"

وہ اس کے شانے پہ چہرہ ٹکاتے ہوئے بولا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔بالکل بھی نہیں۔"

وہ شرمیلی مسکراہٹ لبوں میں دبا کر بولی۔

"اچھا۔۔۔۔؟؟"

وہ پیچھے ہٹھا تھا۔

"جی۔۔۔۔"

وہ رخ پھیرے پھیرے بولی۔

"تو پھر اس کی سزا ملے گی۔۔۔۔"

اس نے اسکا رخ اپنی جانب کرتے ہوئے اسے شرارتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔اس کی نگاہوں کا مفہوم سمجھ کر وہ اٹھنے لگی تھی۔ 

"ضیغم۔۔۔پلیز چھوڑیں۔۔۔"

مسکاء نے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اسے آگے بڑھنے سے روکا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔آج تو سزا پکی ہے۔۔"

وہ اسے اپنی جانب کھینچ کر اس کے چہرے پہ جھکا تھا۔

"ضیغم۔۔۔۔۔!!"

مسکاء نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسے روکا تھا۔

"ضیغم کی جان۔۔۔!!"

اس نے اسکے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا تھا۔   _______________________________________ج

چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس نے حوالات میں بند ایسے نوجوان جنھوں نے باتور خان کے خلاف یا میرسربلند کے خلاف اٹھنے کی کوشش کی تھی اور جنھیں بنا کسی کیس کے اندر کیا گیا تھا۔ان سب کو رہا کیا تھا۔یہ لوگ کئی کئی مہینوں سے ان جیلوں میں بند تھے۔

قانون کا یہاں صرف نام ہی تھا جبکہ راج تو میرسربلند خان اور اسکے ٹٹ پونجیوں کا چلتا تھا۔ایس۔ایچ او بھی انہی کا کھاتا تھا اسی لئے انہی کی زبان اس کے لئے قانون کا درجہ رکھتی تھی۔اسے یہاں پر تمام مراعات مہیا تھیں جو اسے اور کہیں جانے نہیں دیتی تھیں اور اگر کہیں ٹرانسفر ہو بھی جاتا تو میرسربلند خان سے کہلوا کر رکوا دیا جاتا تھا۔وہ بھی کب چاہتے تھے کہ وہ یہاں سے جائے اس لئے بغیر کسی ٹال مٹول کے تبادلہ رکوا دیتے تھے۔ اب اگر کوئی نیا بندہ آتا تو اسے بھی اپنے راستے پہ لانا پڑتا اور یہ ترلے ان سے بار بار نہیں ہوتے تھے۔

اس وقت بھی وہ اپنے آفس میں گلالئی کیس کی فائل دیکھ رہا تھا جب اسے آئی۔جی صاحب کی کال موصول ہوئی تھی۔انھوں نے اسے بہت ڈانٹا تھا اور واضح طور پر خبردار کیا کہ وہ میرسربلند خان جو کہ ایک سیاسی شخصیت تھے۔۔ان کے خلاف کھڑا ہو کر اپنے اور ان کے لئے مسائل نہ پیدا کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اسے شکور اور اسکے ساتھی کہ فورا چھوڑ دینے کو کہا تھا۔اس کے تفصیل بتانے کے باوجود وہ اسکی بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھے اور اسے آرڈر دیا تھا کہ فورا سے پیشتر شکور کو رہا کرے اور جا کر میرسربلند خان سے اپنے رویے کی معافی بھی مانگے۔تب سے وہ بپھرا ہوا بیٹھا تھا اور ساتھ ہی پورے عملے کی بھی شامت لائی ہوئی تھی۔وہ بھڑکتے ہوئے شکور کے پاس آیا تھا۔شکور کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں تھا وہ بڑے آرام سے بیٹھا اسکے لال بھبوکا چہرے کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

"اگر تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں ان سب سے ڈر کر تمھیں چھوڑ دوں گا تو یہ تمھاری بھول ہے۔"

وہ اس کے سر پہ کھڑا اسے کڑے تیوروں سے گھور رہا تھا۔

"میر۔۔! میری فکر چھوڑ دو۔۔۔اپنے گھر کی فکر کرو۔۔جہاں تم نے رحم دین کی بیٹی کو چھپا کر رکھا ہے۔تم کیا سمجھتے ہو ہمیں پتہ نہیں چلے گا۔خان جی کو میں بتا چکا ہوں کہ تم ہی ہو جس نے رحم دین کی بیٹی سے شادی کی ہے۔"

شکور ہنسا تھا۔

"کیا بکواس کر رہے ہو۔۔کیا ثبوت ہے تمھارے پاس۔۔؟؟"

ضیغم نے اسے گریبان سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کر کے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔اسکے چہرے کے تاثرات اسکے غصے کو بھڑکانے کے لئے کافی تھے۔

"بکواس نہیں ہے۔۔تم ہی ہو جس نے رحم دین کی بیٹی سے نکاح کیا ہے۔جس لڑکی پہ باتور خان نے غگ کیا تھا۔"

وہ اپنا گریبان اس کے ہاتھوں سے چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔وہ خود کو چھڑا نہیں پایا تھا۔

"تم جانتے ہو نا کہ غگ ہوئی لڑکی سے نکاح کا کیا مطلب ہوتا ہے اور اگر تمھیں نہیں معلوم تو بہت جلد اس کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔تم جانتے نہیں ہو خان جی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلے تو وہ تمھاری بیوی کو اپنے قبضے میں کر کے باتور خان کے حوالے کریں گے اور پھر تمھاری ایک گمنام قبر بنائیں گے۔"

شکور کے دھیمی آواز میں کہے گئے الفاظ اس کے اندر آگ لگا گئے۔اس نے اسے جھٹکے سے نیچے گرایا اور پھر آو دیکھا نہ تاؤ اس پہ لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ عمر خان شکور کی آواز سن کر تیزی سے اسکی جانب آیا تھا۔ضیغم کے لب سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔ماتھے پہ ابھرتی سبز لکیر اسکے شدید غصے میں ہونے کی غماز تھی۔

"سر چھوڑ دیں اسے۔۔۔۔۔۔" عمر خان نے ضیغم کو روکنا چاہا مگر اس نے اسے بھی پیچھے دھکیل دیا تھا۔شکور ادھ مرا سے آڑھا ترچھا زمین پہ پڑا تھا۔عمر خان نے آگے بڑھ کر اسکی سانس چیک کی۔

"یہ ڈھیٹ ہڈی ہے اتنی جلدی نہیں مرنے والا۔" ضیغم عمر خان کو شکور کو چیک کرتے دیکھ کر ہانپتے ہوئے بولا۔

"سر۔۔۔۔۔!"

عمر خان نے اس کی جانب حیرانی سے دیکھا۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس قدر جنونی بھی ہو سکتا ہے۔اگر وہ آ کر نہ روکتا تو شکور کی موت یقینی تھی۔ضیغم ماتھے پہ چمکتا پسینہ پونچھ کر وہاں سے چلا گیا۔عمر خان اسے جاتے دیکھتا رہتا اگر شکور کے کراہنے کی آواز نہ آئی ہوتی۔ اس نے کانسٹیبل کو بلایا جو جیل سے باہر کچھ فاصلے پہ کھڑا تھا۔ مگر وہ بھی جان نہیں پایا تھا کہ شکور نے ایسا کیا کہا تھا جس پہ اے۔ایس۔پی صاحب نے اسکی یہ حالت کر دی تھی۔وہ بس وہیں کھڑا اسکی درگت بنتے دیکھ رہا تھا۔

"ٹھیک ہے تم اسے پانی پلاو اور فلحال کسی کو بھی اس سے ملنے مت دینا۔"

عمر خان شکور کو کانسٹیبل کے حوالے کیا اور خود ضیغم کے آفس کی جانب آ گیا۔

"سر۔۔! کیا سوچ رہے ہیں؟"

وہ فائل کھولے بیٹھا تھا جب عمر خان اس کے آفس میں داخل ہوا تھا۔نظریں فائل پہ تھیں مگر سوچ کا محور کچھ اور تھا۔اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ کافی حد تک خود پہ قابو پا چکا تھا۔

"ہاں عمر خان۔۔آو بیٹھو۔"

عمر خان کی آواز نے اسے گہری سوچ سے نکالا تھا۔

"سر آپ نے شکور اور اسکے ساتھی کے متعلق کیا سوچا۔۔۔انھیں چھوڑ دوں؟؟"

اپنی بات کے اختتام پہ عمر خان نے اسکے پرسوچ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔۔شکور کو تو کسی صورت نہیں چھوڑنا۔اس پہ کڑی نظر رکھو۔کون کون اس سے ملنے آتا ہے۔۔میری موجودگی میں اور میری غیر موجودگی میں۔۔وہ میرسربلند خان کا خاص آدمی ہے۔۔بہت کام آ سکتا ہے ہمارے۔۔۔"

وہ عمر خان کی طرف بغور دیکھتے ہوئے بولا۔

"یس سر۔۔!"

عمر خان اٹھ کر جانے لگا۔

"تمھارے لئے ایک اور کام ہے۔" وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

"یس سر۔۔!"

عمر خان پلٹا تو ضیغم دھیمی رفتار سے چلتا اس کے پاس آیا۔

"علاقے کا دورہ کرو اور جبار خان کو گرفتار کرو۔گلالئی قتل کیس کی فائل تیار کرو۔میں اسے حوالات کے پیچھے دیکھنا چاہتا ہوں۔گواہ اور ثبوت مل جائیں گے۔ہر ایک شخص کو شامل تفتیش کرو اور ایس۔ایچ۔او صاحب کو بھی ساتھ لے کر جاو اور انھیں اپنے ساتھ ہی رکھنا۔"

وہ کیپ پہنتے ہوئے بولا تھا۔

"ٹھیک ہے سر۔۔۔!! لیکن آپ کہیں جا رہے ہیں کیا؟"

عمر خان نے اسے والٹ اور موبائل اٹھاتے دیکھ پوچھا۔

"ہاں میں ڈی۔آئی۔جی صاحب سے ملنے شہر جا رہا ہوں۔واپسی رات تک ہو گی۔اب چونکہ آئی۔جی صاحب میرے فرض کے راستے میں آ رہے ہیں تو اس معاملے کو میں ڈی۔آئی۔جی صاحب سے مخفی رکھنا مزید روکاوٹ بنے گا۔اس لئے یہاں کے تمام مسائل میں ان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔۔آج ہی تم جبار خان کو گرفتار کرو اور اسکا بیان ریکارڈ کرواو اور اگر اکڑ دکھائے تو ساری اکڑ اپنے ہاتھوں سے دھو ڈالنا۔میں اسے جلد سے جلد تختہ دار پہ دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے بعد مزید کوئی بھی اس گھٹیا رسم کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے۔"

عمر خان کو چند اور ضروری ہدایات دے کر وہ آفس سے نکل آیا۔ باہر آ کر اس نے وہی ہدایات ایس۔ایچ۔او طارق خان کو دی اور ساتھ ہی ساتھ اسے وارن بھی کیا کہ اگر اس نے اس کیس کے ساتھ جڑے کسی بھی مجرم کی پشت پناہی کی یا پھر انھیں ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی تو نتائج کا زمہ دار وہ خود ہو گا۔ایس۔ایچ۔او نے اسے یقین دلایا کہ وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرے گا۔ ضیغم عمر خان کو اشارہ کرتے ہوئے تھانے سے نکل گیا۔اس کے جانے کے بعد عمر خان اور ایس۔او۔طارق بھی نکلنے کی تیاری کرنے لگے۔

وہاں سے نکلنے کے بعد ضیغم سیدھا گھر آیا تھا۔راستے میں آتے ہوئے اس نے ڈی۔آئی۔جی صاحب سے میٹنگ فکس کر لی تھی۔زمان خان اس وقت گھر میں ہی تھے جب وہ گھر میں داخل ہوا۔وہ باہر صحن میں ہی دھوپ میں بیٹھے تھے جبکہ مسکاء ادھر ادھر کے کاموں میں مگن تھی۔اس نے زمان خان کو اپنے شہر جانے کے متعلق بتایا اور شکور کی کہی ہوئی تمام باتیں بھی ان کے گوش گزار کر دیں۔اس کی بات سن کر وہ بہت پریشان ہو گئے تھے۔ 

"اب کیا ہو گا میر۔۔۔!! تم شہر جا رہے ہو اور اگر اس دوران خان جی نے کچھ الٹا سیدھا کر دیا تو۔۔میں کیسے سنبھالوں گا اکیلے۔۔۔تم مسکاء کو بھی ساتھ لے جاو۔۔اسطرح کم از کم وہ محفوظ تو رہے گی نا۔"

وہ پریشانی سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔

"بابا۔۔۔کچھ نہیں ہو گا۔۔میں ایک کانسٹیبل عبدالرحمن کو ساتھ لایا ہوں۔وہ یہاں پہرہ دے گا۔آپ پریشان نہ ہوں اور پھر میں شام تک واپس آنے کی پوری کوشش کروں گا۔بس آپ تھوڑی ہمت رکھیں۔"

ضیغم نے مسکاء کیطرف دیکھا جو وہیں کھڑی تھی۔اس کے چہرے پہ خوف کے سائے دکھنے لگے تھے۔ 

"بابا۔۔۔اگر آپ ہی ہمت چھوڑ دیں گے تو کیسے ہو گا سب۔۔میں اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں ہی جا رہا ہوں۔آپ اسطرح کیجیئے کہ مقتدر خان سے بات کیجیئے وہ جرگے کے بڑے ہیں۔اب مسکاء میری عزت ہے۔ ہم نے مل کر اپنی بقاء کی جنگ لڑنی ہے اور اپنے گاوں اور آس پاس کے علاقے کو اس ناسور سے پاک کرنا ہے تاکہ ہمارے لوگ کھل کر سانس لے سکیں۔آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔"

وہ ان کی آنکھوں میں بغور دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔انھوں نے سر اثبات میں ہلایا۔

"لیکن میرے وہاں جانے کے دوران مسکاء اکیلی ہو جائے گی۔"

"مسکاء کو میں لے جاوں گی اپنے ساتھ۔۔جب تک میر نہیں آ جاتا وہ میرے پاس رہے گی۔"

انھوں نے آواز کی سمت دیکھا۔۔ماہ گل آہستگی سے کہتی ضیغم کے پاس رکھی کرسی ان کے قریب گھسیٹ کر بیٹھ گئیں۔

"مسکاء۔۔! ایک گلاس پانی تو لاو۔"

ماہ گل نے مسکاء سے کہا تو وہ کچن میں چلی گئی۔

"مگر تم کیسے لے کر جاو گی بی بی گل؟"

زمان خان نے پوچھا۔

"میرے پاس کچھ برقعے ہیں گاوں کی عورتوں کو دکھانے لے گئی تھی۔ان میں سے ایک پہن لے مسکاء۔میری بہو بھی ایسا ہی برقع پہنتی ہے۔کسی کو شک نہیں ہو گا۔"

وہ تھیلے میں سے ایک برقع نکال کر بولیں۔ وہ کالے رنگ کا افغانی اسٹائل کا شٹل کاک تھا۔

"بی بی گل پانی۔۔۔۔۔۔۔"

مسکاء نے ہاتھ میں پکڑا گلاس ماہ گل کی جانب بڑھایا مگر نظریں چارپائی پہ پڑے شٹل کاک پہ تھیں۔وہ ان کی بات سن چکی تھی۔

"ارے واہ۔۔۔بی بی گل یہ تو ذبردست آئیڈیا ہے۔"

ضیغم نے لبوں پہ ڈر آنے والی ہنسی کو روکا۔۔ماہ گل نے داد طلب نظروں سے مسکاء کی طرف دیکھا۔

"بی بی گل۔۔میں نے یہ کبھی نہیں پہنا۔۔میں گر جاوں گی۔"

وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔

"دہ لا اوگورہ۔۔۔۔ٹول خزے اچی او دہ وئی( لو اور سنو۔۔۔ساری عورتیں پہنتی ہیں اور یہ کہہ رہی ہے)"میں گر جاوں گی۔"

ماہ گل بھی اسی کیطرح منہ بنا کر بولیں۔زمان خان اور ضیغم ان کا انداز دیکھ کر مسکرا دئیے تھے۔

"اور نہیں تو کیا۔۔۔۔۔مسکاء ذرا پہن کے دکھاو۔"

ضیغم نے اپنی ہنسی بمشکل روک کر برقع مسکاء کی جانب بڑھایا۔

"ہاں بیٹا۔۔۔لے لو۔۔اور تم بی بی گل کے ساتھ چلی جاو۔۔میں ذرا مقتدر خان سے مل آوں۔۔بی بی گل تم لے جاو گی نا مسکاء کو۔۔۔"

زمان خان نے ماہ گل سے پوچھا۔

"ہاں ہاں۔۔۔زمان خان۔۔میں لے جاوں گی اسے تم بے فکر ہو کر جاو۔"

ماہ گل نے انھیں یقین دلایا۔

"لو۔۔۔۔۔۔"

ضیغم نے ایک بار پھر بلیک شٹل کاک مسکاء کی جانب بڑھایا تھا۔اس نے ضیغم کو غصیلی نگاہوں سے گھورتے ہوئے اسکے ہاتھ سے برقع لے لیا۔۔

"اچھا تو ہم چلتے ہیں۔"

ماہ گل گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"ایسے کیسے بی بی گل۔۔۔تھکی ہوئی آئی ہیں کچھ دیر تو بیٹھیں۔۔چائے پی کر جائیں۔۔مسکاء بی بی گل کے لئے چائے بنا کر لاو۔"

ضیغم نے مسکاء کو متوجہ کیا جو برقع کے نشیب و فراز کا جائزہ لینے میں مگن تھی۔وہ برقع وہیں چارپائی پہ رکھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔ماہ گل بھی چائے کا سن کر واپس بیٹھ گئیں تھیں۔وہ چائے لے کر آئی تو ضیغم روم میں جا چکا تھا۔اس نے کپ ٹیبل پہ رکھ دیا۔

"بی بی گل۔۔! دوسرا والا برقع ہے آپ کے پاس۔۔یہ میں نے کبھی پہنا نہیں۔"

مسکاء نے ایک بار پھر برقع اٹھا لیا۔

"تو تم نے کونسا ساری عمر کے لئے پہننا ہے۔۔یہ میرے گھر تک تو جانا ہے اور نہیں گرو گی تم۔۔میرا ہاتھ پکڑ لینا۔"

وہ خالی کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اسے بھی چلنے کا اشارہ کیا۔

"میر۔۔۔۔ہم جا رہے ہیں۔"

ماہ گل روم کی جانب چلی گئیں جبکہ مسکاء برقع ہاتھ میں لئے ان کے باہر آنے کا ویٹ کرنے لگی۔تھوڑی دیر بعد ماہ گل اور ضیغم باہر نکلتے دکھائی دئیے۔ماہ گل دروازے کی طرف بڑھنے لگیں تو مسکاء نے بھی ان کے ساتھ قدم بڑھائے۔

"برقع تو پہنو نا۔۔۔۔۔" 

ماہ گل نے اسکی جانب دیکھا جو برقع ہاتھ میں پکڑے ان کے ساتھ چل رہی تھی۔مسکاء نے رک کر ضیغم کی طرف دیکھا جو ہنسی دبائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔گھر آنے سے پہلے وہ کس قدر غصے میں تھا لگتا تھا اسکے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی مگر مسکاء کو دیکھ کر اسکا سارا غصہ جیسے اڑن چھو ہو گیا تھا۔وہ چاہتی تھی کہ ضیغم ان سے پہلے نکلے مگر وہ بھی اس کی جھجک سمجھ چکا تھا اس لئے ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں گھسائے دروازے کی پاس کھڑا تھا۔ماہ گل نے ایک بار پھر اسکا دھیان برقعے کی جانب دلایا تو ناچار اسے پہننا پڑا۔اس کی ہونق شکل دیکھ کر ضیغم سے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو گیا۔آ نے چہرہ دروازے کی جانب کر دیا لیکن مسکاء اسے ہنستے دیکھ چکی تھی۔

"اچھا بیٹا خیر سے جاو اور خیر سے آو۔" ماہ گل نے ضیغم کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور بیرونی دروازہ پار کر گئیں۔مسکاء بھی برقعے کا اگلا حصہ گرا چکی تھی۔وہ برقعے کی جالی میں سے ضیغم کو گھورتے ہوئے گزری۔

"آہ۔۔۔۔!!"

مسکاء اسے چٹکی کاٹ کر گئی تھی۔اپنے پیچھے اس کی آواز پہ وہ ہنسی تھی۔اس نے پلٹ کر برقعے کا پلو اٹھا کر سر پہ رکھا۔۔۔ہاتھ جھاڑتے ہوئے اسے دیکھا اور واپس پلٹ کر پلو گرا کر آگے بڑھ گئی جبکہ ضیغم اس کی شرارت پہ مسکرا دیا۔ ______________________________________________

جرگے میں اس وقت گاوں کے بزرگ موجود تھے۔ابھی تک کسی کو بھی معلوم نہ ہو سکا تھا کہ ان سب کو وہاں کیوں بلایا گیا ہے۔میرسربلند خان بےچینی سے ادھر سے ادھر چکر لگا رہے تھے۔انھیں خود بھی نہیں معلوم تھا کہ مقتدر خان نے ان سے جرگہ بلانے کو کیوں کہا ہے جبکہ گاوں میں ایسی کوئی بات بھی نہیں ہوئی تھی جس کی بناء پہ جرگہ بلایا جائے۔اس لئے وہ بے قراری سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ مقتدر خان ہی اب جرگے کے بڑے تھے۔ بہت سے معاملات میں ان کے فیصلے کو مقدم مانا جاتا تھا۔سبھی ان کے انتظار میں تھے اور آپس میں چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔زیادہ تر لوگ ضیغم کے متعلق بات کر رہے تھے۔اسے سراہ رہے تھے۔انھیں امید تھی کہ ان کے گاوں سے اب یہ کالے بادل چھٹنے والے ہیں۔صبح کا انتظار اب ختم ہونے والا ہے۔

"منشی ذرا جا کر دیکھو۔۔یہ مقتدر خان کہاں رہ گیا۔آدھے گھنٹے سے ہم یہاں انتظار کر رہے ہیں۔ہمیں تو چھ بجے کا وقت دیا تھا اور خود اب تک نہیں آیا۔"

میرسربلند خان منشی سے بولے۔جو فورا اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا تھا۔ابھی وہ دروازے تک پہنچا نہیں تھا کہ مقتدر خان حجرے میں داخل ہوئے۔انھیں دیکھ کر میرسربلند خان گہرا سانس خارج کر کے چارپائی پہ گاو تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے مگر جب ان کی نظر ان کے پیچھے آتے زمان خان پر پڑی تو ان کا غصہ عود کر سامنے آیا تھا۔

"وہیں رک جاو زمان خان۔۔۔"

میرسربلند خان کی گرجدار آواز سن کر زمان خان کے قدم وہیں جم کر رہ گئے۔مقتدر خان نے پہلے میرسربلند خان کی جانب دیکھا۔غصے کی شدت سے ان کے چہرے کی سرخی بڑھ گئی تھی۔پھر انھوں نے پلٹ کر زمان خان سے اندر آنے کو کہا تو وہ نپےتلے قدموں سے اندر آئے تھے۔زمان خان کے چہرے پہ خوف نہیں بلکہ ایک عزم تھا جو میرسربلند خان کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔

"میں نے آپ سب کو یہاں اس لئے بلوایا ہے تاکہ آپ سب کی موجودگی میں اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔بات بہت بڑھ گئی ہے اور اس سے پہلے کہ اس کے نتیجے میں کوئی خون خرابا ہو۔۔۔ہمیں اس بات کو آج یہیں ختم کر دینا چاہئیے۔

مقتدر خان چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے بولے۔زمان خان کے لئے انھوں نے اپنے قریب ہی جگہ بنائی تھی۔

"اگر آپ سب میرے فیصلے سے متفق ہوں تو یہ مسئلہ یہیں ختم ہو سکتا ہے۔"

مقتدر خان نظریں میرسربلند خان پہ مرکوز کیے جرگے کے سرداروں سے بولے۔وہ یہ نہیں جان پا رہے تھے کہ مقتدر خان کس بارے میں بات کر رہے تھے۔

"مقتدر خان پہیلیاں مت بھجواو۔۔مدعے پہ آو۔"

میرسربلند خان نے زمان خان پہ اپنی نظریں گاڑھتے ہوئے مقتدر خان سے کہا۔

"ہاں مقتدر خان تم کس بارے میں بات کر رہے ہو ہم سمجھ نہیں پا رہے۔"

فراز خان مقتدر خان کی باتوں کا پس منظر جاننے کے خواہاں تھے۔

"میں باتور خان والے معاملے کی بات کر رہا ہوں۔رحم دین کی بیٹی کہیں غائب نہیں ہوئی بلکہ وہ زمان خان کی بہو کی حیثیت سے اس کے گھر میں موجود ہے۔اب وہ میر کی بیوی ہے۔"

یہ کہنے کی دیر تھی کہ میرسربلند خان تیزی سے زمان خان کی طرف آئے تھے۔اس سے پہلے کہ مقتدر خان انھیں روکتے انھوں نے زمان خان کو گریبان سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔

"تمھاری ہمت کیسے ہوئی اتنا بڑا قدم اٹھانے کی اور جرگے کے خلاف جانے کی۔"

"خان جی۔۔۔ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ایک پاک اور شرعی قدم اٹھایا ہے۔وہ ہماری عزت ہے اور ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ اپنی عزت کی طرف اٹھنے والی ہر نظر کو نیست و نابود کر سکیں۔"

زمان خان نے جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑایا۔

"میری جرگے سے درخواست ہے کہ اس مسئلے کو یہیں ختم کر دیں ورنہ ضیغم اسے اسی طریقے سے ختم کر دے گا جو طریقہ آپ لوگوں کا ہے۔"

زمان خان نے بلند آواز میں کہتے ہوئے باتور خان کو دیکھا جو مٹھیاں بھینچے انھیں دیکھ رہا تھا۔

"غگ ہوئی لڑکی سے نکاح کرنے کا انجام صرف موت ہے اور جرگہ اپنے اس فیصلے کو نہیں بدلے گا۔"

باتور خان کے الفاظ انھیں کسی تیر کی طرح لگے تھے۔

"تم آرام سے بیٹھ جاو باتور خان۔۔یہ فیصلہ کرنے کے لئے ابھی جرگے کے بڑے موجود ہیں اور اس جرگے کے بڑے ہونے کی حیثیت سے میرا فیصلہ ہے کہ اے۔ایس۔پی میر ضیغم خان اور رحم دین کی بیٹی کی شادی کو قبول کر لیا جائے اور انھیں وہی عزت اور احترام دیا جائے جو یہاں باقی شادی شدہ جوڑے کو دیا جاتا ہے اور اگر آپ میں سے کسی کو بھی میرے فیصلے پہ اعتراض ہے تو اس کے خلاف بھی ایک جرگہ بلایا جائے گا۔"

اپنی بات کے اختتام پہ مقتدر خان نے فراز خان اور باقی سب کی طرف دیکھا۔ان کی بات سن کر فراز خان اور باقی سب آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے۔اس دوران زمان خان کا رواں رواں دعا میں مشغول تھا۔

"ہم تمھارے فیصلے سے متفق ہیں مقتدر خان۔۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔"

فراز خان نے بلند آواز میں کہا تھا۔ان کے فیصلے سے پورے جرگے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔وہ سبھی اب اس سلسلے کو ختم کرنا چاہتے تھے۔زمان خان نے بےپناہ خوشی سے مقتدر خان کا ہاتھ تھام لیا۔ان کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو جھلملا رہے تھے۔

"مگر مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"باتور خان۔۔۔۔!"

میرسربلند خان نے تنبیہی نگاہوں سے باتور خان کی جانب دیکھا اور اسے مزید کچھ بھی کہنے سے روکا۔باتور خان خاموش ہو گیا۔

"ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔لیکن میری ایک شرط ہے کہ زمان خان میرا بھتیجا میرے حوالے کر دے۔۔"

میرسربلند خان کی شرط سن کر زمان خان کا سارا خون چہرے پہ سمٹ آیا۔

"تمھارا بھتیجا۔۔۔۔ہم سمجھے نہیں۔"

مقتدر خان اور باقی سب نے میرسربلند خان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"ہاں میرا بھتیجا۔۔۔۔میرضیغم خان۔۔میرا بھتیجا ہے۔۔۔میرے بھائی میر دراب خان کا بیٹا۔۔جسے زمان خان نے اس ڈر سے ایک عرصے تک ہم سے چھپائے رکھا کہ کہیں قادر خان اسے بھی اپنے بدلے کی بھینٹ نہ چڑھا دے۔"

میرسربلند خان نے اپنی ذہریلی پٹاری میں سے ایک آخری سانپ نکالا تھا اور اب یہ سانپ پھن پھیلائے زمان خان کو جکڑ رہا تھا۔۔ان کا چہرہ ذرد پڑا تھا۔

"زمان خان۔۔۔کیا یہ سچ ہے؟؟"

مقتدر خان نے گم سم کھڑے زمان خان سے پوچھا۔

"میری بات کتنی سچ سے اس کا اندازہ آپ سب زمان خان کے چہرے سے لگا سکتے ہیں۔مجھے تو کچھ دن پہلے ہی پتہ چلا ورنہ وہ کیوں اس طرح لاوارثوں کی طرح پلتا۔حالانکہ اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ تب سے لے کر اب تک قادر خان کا کچھ پتہ نہیں کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان۔۔۔مگر پھر بھی زمان خان نے ہمارے خون کو ہم سے دور رکھا۔کچھ دن پہلے اس نے خود ہمارے سامنے اس راز سے پردہ اٹھایا کیونکہ یہ اپنے ضمیر کی عدالت میں مزید کھڑا نہیں ہو سکتا۔میر دراب خان نے میر ضیغم خان کو اس لئے اس کے حوالے کیا تھا کہ یہ اسے ہمارے حوالے کر دے مگر یہ اپنی بےاولادی کے سامنے ہار گیا اور ضیغم کو ہم سے پوشیدہ رکھا۔ہم نے اس بات کے لئے اسے معاف کیا۔۔۔۔۔"

میرسربلند خان نے آخری کیل ٹھونکی۔ان کا سانس بند ہونے لگا۔مقتدر خان نے ان کے بےحد ذرد چہرے کو دیکھ کر ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انھیں چارپائی پہ بٹھایا اور پانی لانے کو کہا۔میرسربلند خان کا مکروہ قہقہہ حجرے کی خاموش دیواروں سے ٹکرایا تھا۔سب لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔باتور خان اور کرم دین بھی حیران و پریشان میرسربلند خان کو دیکھ رہے تھے۔

"تم ٹھیک ہو زمان خان۔۔۔۔؟؟"

مقتدر خان نے انھیں پانی پلایا۔پانی پی کر انھیں کچھ بہتر محسوس ہوا مگر وہ اس جال سے نکل نہیں پا رہے تھے جو میرسربلند خان نے ان پہ پھینکا تھا۔

"ہاں یہ سچ ہے۔۔۔لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔۔" وہ کھڑے ہوئے اور آہستگی سے چلتے ہوئے میرسربلند خان کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔اس بار میرسربلند خان کی رنگت بدلی تھی۔

"گھبرائیں نہیں خان جی۔۔۔میں وہ سچ نہیں بتا رہا جو سب کی نظروں سے مخفی ہے۔"

زمان خان دھیرے سے بولے تھے۔

"زمان خان۔۔۔۔حقیقت سے پردہ اٹھاو۔۔ہم سچ جاننا چاہتے ہیں۔"

فراز خان کی آواز گونجی۔

"خان۔۔۔میر ضیغم خان کوئی بچہ نہیں ہے کہ میں اسے خان جی کے حوالے کر دوں۔وہ سمجھدار ہے اگر وہ ان کے پاس جانا چاہے تو میں کیوں روکوں گا۔اگر یہ خان جی کی شرط ہے تو مجھے یہ شرط منظور ہے۔"

یہ کہہ کر وہ وہاں رکے نہیں اور تیز تیز قدم اٹھاتے بیرونی دروازہ پار کر گئے۔میرسربلند خان مسکرا دئیے۔وہ جانتے تھے کہ اب آگے انھوں نے کیا کرنا ہے۔۔

       _________________________________________

"یہ تو سراسر ظلم ہے۔"

تمام بات سن کر ڈی۔آئی۔جی جبران خان بولے۔ضیغم نے انھیں تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔یہ سب ان کے لئے حیرانی کا باعث تھا۔

"یہ تو بہت افسوس کی بات ہے کہ اس کے خلاف قانون بن جانے کے باوجود لوگ ابھی تک اس سے لاعلم ہیں اور جو علم رکھتے ہیں انھوں نے اندھیر مچا رکھی ہے۔اس طرح کے جرگے قبائلی ثقافت کے لئے خطرہ ہیں۔پشتون برادری کی ثقافت اس سے بہت متاثر ہو گی۔انہی لوگوں کی وجہ سے پشتون تہذیب ختم ہوتی جا رہی ہے۔قتل و غارت، اجاراداری، انتقام اور معصوم بچیوں کے ساتھ ایسا ظلم۔۔۔یہی سب رہ گیا ہے تہذیب نشان تو مٹتے جا رہے ہیں۔"

وہ افسوس سے بولے۔

"یس سر۔۔! میں یہی چاہتا ہوں کہ لوگ اس سے باخبر ہوں اور وہ مزید میرسربلند خان کے ناحق ظلم کا شکار نہ بنیں۔ورنہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور ہم اس کے خلاف جنگ کو اختتام نہیں دے پائیں گے۔مجھے اس سلسلے میں آپکی مدد کی ضرورت ہے۔میں اس کی شروعات کرنا چاہتا ہوں۔مگر کچھ لوگ میرے راستے کی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ایسی پابندیوں میں، میں کچھ نہیں کر پاوں گا۔یہی مسئلہ لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔"

پھر اس نے آئی۔جی صفدر عالم سے ہوئی ساری باتیں من و عن بتا دیں۔ڈی۔آئی۔جی جبران خان نے اسکی تمام بات سن کر اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے ساتھ ہیں اور وہ جس طرح چاہے قانون کے دائرے میں رہ کر اس مسئلے کو ہینڈل کر سکتا ہے۔ ان کی اجازت پا کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"مگر ینگ مین۔۔۔میرسربلندخان جیسے لوگ اس معاشرے کا ایسا ناسور ہیں جو اندر ہی اندر ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔اپنے ذاتی مفاد اور اپنے بےنام جذبوں کی تسکین کے لئے معصوم جانوں کا ضیاع کر رہے ہیں۔ایسے لوگ چھپ کر وار کرتے ہیں۔تمھیں بہت احتیاط سے ہینڈل کرنا ہو گا سب کچھ۔مجھے پوری امید ہے کہ تم اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہو گے۔میرے خیال میں اگر میڈیا کو اس سلسلے میں بریف کر دیا جائے تو ان لوگوں کے ہاتھ اپنی ہی پشت پہ بندھ جائیں گے۔"

وہ اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے بولے۔

"جی سر میرا بھی یہی خیال ہے۔اس معاملے میں، میں ہر حد تک جاوں گا۔"

وہ ان کی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا۔وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"سب سے بڑھ کر خوشی مجھے اس بات کی ہوئی ہے کہ اس جنگ کا آغاز تم نے اپنی ذات سے کیا ہے۔مجھے فخر ہے کہ تم جیسے جوان ہماری پولیس فورس میں ہیں۔جہاں تم جیسے جوان ہوں وہاں ظلم کو مٹنے سے کون روک سکتا ہے۔مجھے پوری امید ہے کہ تم بہت جلد سب کور کر لو گے لیکن میرسربلند خان بہت گھاک آدمی ہے۔وہ آرام سے بیٹھنے والا نہیں۔تمھیں بہت محتاط رہنا ہو گا۔"

انھوں نے اسکا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔

"سر مجھے صرف آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔میرسربلندخان جیسے لوگ باہر سے شیر اور اندر سے بھیگی بلی جیسے ہوتے ہیں۔ایک جھٹکا ہی کافی ہوتا ہے انھیں ڈھیر کرنے کے لئے بشرطیکہ انھیں کسی کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔"

وہ ان کے ساتھ چلتا ان کے آفس سے باہر آ گیا۔

"تم فکر مت کرو میں تمھارے ساتھ ہوں۔"

وہ اسکا مطلب سمجھ گئے تھے۔

"ٹھیک ہے سر اب میں چلتا ہوں۔گلالئی کیس کو میں ری۔اوپن کر رہا ہوں۔اسی کیس کے ذریعے میرے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچیں گے۔"

ضیغم نے انھیں سلیوٹ کیا۔

"ٹھیک ہے ینگ مین تم شروعات کرو۔۔"

وہ اسکی طرف فائل بڑھاتے ہوئے بولے تھے۔جسے آگے بڑھ کر اس نے تھام لیا اور وہیں سے پلٹ گیا۔

وہ وہیں کھڑے اسے جاتا دیکھتے رہے۔اس کے جانے کے بعد انھوں نے کچھ ضروری کالز کیں اور آفس سے باہر آ گئے۔

     _________________________________________

"عمر خان۔۔!! یہ گھر ہے۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے وہاں موجود گھروں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا۔وہ اس وقت جبار خان کو گرفتار کرنے آئے تھے۔پولیس کو دیکھ کر کچھ لوگ وہیں ان سے کچھ فاصلے پہ کھڑے ہو گئے۔عمر خان نے کانسٹبل عبداللہ کو دستک دینے کا اشارہ کیا۔وہ آگے بڑھا اور دروازے پہ دستک دی۔

"کون ہے؟"

کچھ دیر بعد نسوانی آواز سنائی دی۔

"بی بی۔۔۔جبار خان ہے گھر میں تو باہر بھیجو اسے۔"

کانسٹیبل عبداللہ نے کہا۔

"تم کون ہو؟"

بند دروازے کے پیچھے سے آواز آئی۔

"اسے کہو پولیس آئی ہے۔۔۔باہر آئے۔"

کانسٹیبل عبداللہ نے کہا۔

"اوئے اماں۔۔۔ہٹو۔۔دروازے سے چپک ہی گئی ہو۔" جبار خان دروازہ کھول کر باہر آیا۔

"سلام ایس۔ایچ۔او صاحب۔۔!"

وہ مسکراتے ہوئے ایس۔ایچ۔او طارق کی طرف بڑھا۔

"واسلام۔۔۔!!"

ایس۔ایچ۔او طارق نے کنکھیوں سے عمر خان کی جانب دیکھا جو کڑے تیور لئے جبار خان کو دیکھ رہا تھا۔

"ہم تمھیں گرفتار کرنے آئے ہیں جبار خان۔۔"

عمر خان نے اس آنکھوں کے سامنے ہتھکڑی لہرائی۔

"ہاہاہاہا۔۔۔۔مگر کس خوشی میں؟"

جبار خان نے عمر خان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔عمر خان نے پہلے اسے غصیلی نگاہوں سے گھورا اور پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ہتھکڑی پہنائی اور اسے کھینچتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

"یہ کیا طریقہ ہے انسپیکٹر صاحب۔۔۔ہم شریف لوگ ہیں۔اس گاوں میں ہماری بھی کوئی عزت ہے۔مجھے میرا جرم تو بتائیں۔"

جبار خان کو معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا تو رک کر بولا۔

"ہاہاہا۔۔۔۔اچھا قاتل کی بھی عزت ہوتی ہے۔تیرے جیسے عزت داروں کو ہم پھانسی کے تختے پہ چڑھا کر عزت دیتے ہیں۔تجھے بھی وہی عزت دیں گے جو ہم قاتلوں کو دیتے ہیں۔"

انسپکٹر عمر خان ہنستے ہوئے بولا اور قدم بڑھا دئیے۔

"لگتا ہے تمھارا دماغ ٹھکانے پہ نہیں ہے۔۔میں نے کوئی قتل نہیں کیا۔"

جبار خان نے جانے سے انکار کیا۔

" اوئے خاموشی سے چل۔۔۔۔بہت چخ چخ نہ کر۔۔گلالئی قتل کیس میں تمھاری گرفتاری کے وارنٹ ہیں ہمارے پاس۔"

ایس۔ایچ۔او طارق اسکی گردن دبوچ کر بولا۔

"میں نے گلالئی کو قتل نہیں کیا۔اسکے اپنے باپ نے اسے مارا تھا۔میرا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں۔"

جبار خان نے خود کو اسکی گرفت سے چھڑایا۔

عمر خان نے اسے گھورا اور پھر اسے بازو سے پکڑا کر پولیس وین پہ چڑھایا اور باقی سب کو بھی اشارہ کرتا گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو چلنے کے لئے کہا۔

"تم لوگ مجھے جانتے نہیں ہو۔میں چھوڑوں گا نہیں تم سب کو۔۔اتنا آسان نہیں مجھے جیل میں بند کرنا۔ایک ایک دیکھ لوں گا۔"

وہاں موجود سبھی لوگوں نے جبار خان کو سنا تھا اور ان کے جانے کے بعد سبھی اپنے اپنے راستے ہو لئے مگر ایک شخص ہر چیز سے بیگانہ مٹی کو مٹھی میں بھر کر مٹھی کھول دیتا۔ہوا مٹی کو اپنے ساتھ لے اڑتی۔کتنی ہی دیر وہ اس عمل کو دہراتا رہا۔اچانک اس نے مٹھی بھر کر مٹی جبار خان کے گھر کے دروازے پہ پھینک دی اور وہیں گرنے کے انداز میں بیٹھ کر مٹھی میں مٹی بڑھتا اور دروازے پہ پھینک دیتا۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتنی دیر تک وہ یہ عمل دہراتا رہے گا۔

شاید تا عمر۔۔۔۔۔۔

اسکے لبوں پہ ایک ہی نغمہ تھا۔وہی نغمہ جو اسکی بیٹی گنگناتی تھی۔

اسکی گلالئی گنگناتی تھی۔۔۔

سنگہ بہ خا وا چی دا شپہ لنڈا وے سنگہ بہ خا و ا چہ د ا زر تیرے دے 

(کتنا اچھا ہوتا اگر یہ رات چھوٹی ہوتی کتنا اچھا ہوتا اگر یہ جلدی گزرتی)

ثمرہ بہ خا وی کا زر سبا شی تیارہ شی لرے ، سحر زر لاڑہ شی 

(کتنا اچھا ہو کہ جلد کل ہو جائے، اندھیرا ختم ہو جائے، اور روشنی ہو جائے)

دا شپی یریگم بیدار اوسم ٹولہ بگنے گم ، نہ کرارا اوسم 

(رات کو ڈرتی ہوں بے چین رہتی ہوں)

دا تیرے دو شپو غم میں واخلئے، دا تورو شپو نہ رانہ خوب اوتختی۔۔

(رات کو غم آدبوچتے ہیں مجھے کالی راتوں کے باعث نیند اڑ جاتی ہے)

چپا چپا میں بے آرامہ کی اوکڑی شی، ورک خوبونہ ہم ادا شی 

(رات کی چپ بہت بے آرام کر دیتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے کچھ سنا ئی نہ دے اور خواب بھی جیسے سو جائیں)

شپہ چی پخہ شی، پہ ما لندے نورا گرانا شی تیارا خوار شی بخت زما ادا شی

(رات جب ہو جاتی ہے تو میرے لئے اور مشکل ہو جاتی ہے اندھیرے کا پھیلنا اور میری قسمت سو جاتی ہے۔)

خوب رانا لاڑ شی ، زہ بیدار اُسم بیا ٹولہ شپہ زہ نا کرارا اُسم 

(نیند مجھے نہیں آتی اور میں جاگتی رہتی ہوں اور پھر ساری رات بے چین رہتی ہوں)

        _________________________________________

شہر سے واپسی پہ اسے زمان خان نے جرگے کے متعلق بتا دیا تھا۔غصہ تو اسے بہت آیا جی چاہا تھا کہ ابھی حویلی جا کر میرسربلند خان کا دماغ ٹھکانے پہ لگا دے مگر زمان خان نے اسے جانے نہیں دیا۔وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس سب کے پیچھے بھی میر سربلند خان کی کوئی چال ہو گی۔اچانک اسطرح سے جرگے میں سب کے سامنے اتنے بڑے راز سے پردہ اٹھانا معمولی بات نہیں تھی۔حالانکہ میرسربلند خان اچھی طرح جانتے تھے اسطرح سب کے سامنے اس راز سے پردہ اٹھنے سے ضیغم کی پوزیشن اور بھی مضبوط ہو جائے گی۔انھوں نے کچھ سوچ کر ہی اس راز سے پردہ اٹھایا تھا ورنہ تو میرسربلند خان تو اس رسی جیسا تھا جسکے جل جانے کے بعد بھی اسکا بل نہیں جاتا۔

"بابا۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں۔میں خود اس سے نپٹ لوں گا۔"

ضیغم پوری بات سننے کے بعد انھیں تسلی دیتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔لیکن زمان خان بہت پریشان تھے۔۔۔اچھی طرح جانتے تھے کہ میرسربلندخان اتنی جلدی پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔اس نے ضرور اپنے ذہہن میں کوئی نہ کوئی منصوبہ بنا رکھا ہو گا۔

"میر تم نہیں جانتے وہ نہایت ہی خطرناک آدمی ہے۔اب وہ تمھیں مجھ سے چھین کر نجانے کیا ثابت کرنا چاہتا ہے۔بس میں نے کہہ دیا تم حویلی نہیں جاو گے۔تم اس سے دور ہی رہو۔"

وہ چٹخنی اتار کر باہر نکلنے ہی والا تھا کہ انھوں نے اس کے سامنے آ کر اسے روکا۔انھوں نے اسکے بازو پہ گرفت مضبوط کی۔

"بابا۔۔۔کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔آپ مجھے بات تو کرنے دیں نا۔۔آپ خواہ مخواہ ہی پریشان ہو رہے ہیں۔وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔آپ مجھے ایک بار اس سے مل کر بات کر لینے دیں۔میں اگلے جرگے کی نوبت ہی نہیں آنے دوں گا۔"

ضیغم نے اپنے بازو پہ رکھے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔

"نہیں بس اس وقت تم نہیں جاو گے۔صبح میں بھی چلوں گا تمھارے ساتھ۔۔تم ابھی جا کر مسکاء کو لے کر آو۔جب سے گئی ہے کوئی خیر خبر نہیں ہے اسکی۔ایسے حالات میں اسکا زیادہ دیر ادھر رہنا درست نہیں ہے۔"

انھوں نے اسکا دھیان مسکاء کی طرف دلایا تو وہ گہری سانس خارج کرتا باہر نکل گیا۔کانسٹیبل فہیم کو تو اس نے آتے ہی واپس بھیج دیا تھا۔وہ خاموشی سے جیپ تک آیا۔زمان خان وہیں دروازے کے پاس کھڑے اسے جاتا دیکھتے رہے۔جیپ کے پاس پہنچ کر ایک پل کو پیچھے مڑ کر دیکھا۔زمان خان ابھی تک دروازے میں کھڑے تھے۔اس نے انھیں اندر جانے کا اشارہ کیا اور ڈرائیونگ سیٹ پہ آ کر جیپ ماہ گل کے گھر کے راستے پہ ڈال دی۔مسکاء کے نام پہ اسکی آنکھوں کے آگے صبح کا منظر گھوم گیا تو مسکراہٹ اسکے چہرے کا حصہ بن گئی۔اسی کے بارے میں سوچتا وہ پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ گلی کے قریب پہنچا۔گھر تک جانے والا راستہ کچا اور تنگ تھا۔اس نے جیپ ایک جانب کھڑی کی اور خود ماہ گل کے گھر تک کا راستہ پیدل طے کرنے لگا۔اچانک اسے یوں لگا جیسے کوئی اسکا پیچھا کر رہا ہو۔اس نے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔اپنا وہم جان کر وہ آگے بڑھا۔تھوڑی دیر بعد وہ ماہ گل کے گھر کے دروازے پہ دستک دے رہا تھا۔

"کون ہے۔۔۔؟؟"

دروازے کے قریب سے ماہ گل کی آواز آئی۔

"میں ہوں بی بی گل۔۔۔میر۔۔"

وہ آس پاس گہری نظر ڈالتے ہوئے بولا۔ایک بار پھر اسے وہاں کسی اور کی موجودگی بھی محسوس ہوئی۔

"بی بی گل ابھی دروازہ مت کھولیں۔"

وہ انھیں منع کرتا۔۔دروازے پہ باہر سے کنڈی لگاتا گھر کے پچھلی جانب آیا تھا مگر وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔نیم تاریک ماحول میں کچھ خاص دکھائی نہیں دے رہا تھا۔وہ پلٹ آیا۔۔۔۔

"میر۔۔۔۔!!سب ٹھیک تو ہے نا؟" ماہ گل کی آواز پہ وہ دروازے کے قریب آیا۔

"بی بی گل دروازہ کھول دیں۔"

میر نے دروازے کے قریب جا کر دھیمی آواز میں کہا تو انھوں نے کھٹ سے دروازہ کھول دیا اور اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔

"خیر تو ہے نا میر۔۔۔؟؟"

انھوں نے اس کے اندر آنے کے بعد دروازے سے سر نکال کر باہر جھانکا تھا۔

"پتہ نہیں بی بی گل۔۔۔۔میں سمجھا شاید کوئی میرے پیچھے آ رہا ہے لیکن یہ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے۔"

وہ اردگرد نظر ڈالتے ہوئے بولا۔

"کیا تم نے کسی کو دیکھا تھا؟"

وہ دروازہ بند کر کے اس کے پاس آئیں تھیں۔

"نہیں دیکھا تو نہیں بس مجھے لگا تھا۔آپ ذرا مسکاء کو بلوا دیجیئے۔کافی ٹائم ہو گیا ہے اور بابا بھی گھر میں اکیلے ہیں۔"

وہ واپس پلٹتے ہوئے بولا۔

"ابھی تو آئے ہو۔۔۔قہوہ پی کر چلے جانا۔"

ماہ گل نے اسے باہر کی جانب قدم بڑھاتے دیکھ کر کہا۔

"نہیں بی بی گل بس چلتے ہیں۔۔پھر کبھی سہی۔۔آپ مسکاء کو بھیج دیں۔میں باہر انتظار کر رہا ہوں۔"

وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔پینٹ کی جیب پہ ہاتھ رکھ کر اس نے تسلی کی اور آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔

"چلیں۔۔۔"

اس نے پلٹ کر دیکھا تو مسکاء وہیں دروازے کے قریب کھڑی تھی۔اس نے خود کو سیاہ چادر میں اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا۔ماہ گل بھی اسی کے ساتھ کھڑی تھیں۔

"ہاں چلو۔۔۔۔بی بی گل آپ دروازہ بند کر لیں۔"

مسکاء کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ ماہ گل سے بولا۔ماہ گل نے سر ہلا کر دروازہ بند کر لیا۔

"کیا بات ہے۔۔؟؟آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔" 

وہ اسکے سنجیدہ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے بولی۔وہ محتاط انداز میں چلتا اس کی طرف آیا تھا۔

"کچھ نہیں۔۔"ضیغم نے پاس آ کر اسکا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیا اور اسے لئے تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھنے لگا۔مسکاء کو اس کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لئے تقریبا بھاگنا پڑ رہا تھا۔

"آرام سے چلیں نا۔۔۔میں اتنا تیز نہیں چل پا رہی۔"

وہ گرتے گرتے بچی تھی جبکہ ضیغم اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں جکڑے اسی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔گلی کے اختتام پہ اس نے مسکاء کو اپنے پیچھے کیا اور آس پاس نظر دوڑائی۔مسکاء کو اسکے انداز سے خطرے کا احساس ہوا تو وہ بھی خاموشی سے تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ ضیغم اسے لئے تیزی سے جیپ کی جانب آیا۔اس نے مسکاء کا ہاتھ چھوڑ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔اچانک گاڑی پہ فائر کیا گیا اس کا اندازہ درست تھا۔وہاں ان کے علاوہ کوئی اور بھی موجود تھا۔وہاں اندھیرا اس قدر تھا کہ وہ اندازہ نہیں لگا پایا کہ گولی کس جانب سے چلائی گئی ہے۔اس نے اگنیشن میں چابی گھمائی اور نہایت پھرتی سے وہاں سے گاڑی کو نکالا۔ایک کے بعد دوسرا فائر نہیں کیا گیا تھا مطلب وہ جو کوئی بھی تھا صرف اسے ڈرانا چاہتا تھا۔اکیلا ہوتا تو جوابی کاروائی کرتا مگر اس وقت مسکاء اس کے ساتھ تھی اسی لئے اس نے وہاں سے نکلنا ہی مناسب سمجھا اور گاڑی کی رفتار بڑھائی۔

"یااللہ خیر۔۔۔" فائر کی آواز سن کر مسکاء بھی گھبرا گئی تھی۔

"تم نیچے جھک جاو۔" ضیغم نے اسے جھکنے کو کہا کیونکہ پیچھے آتی گاڑی اسکی نظروں سے اوجھل نہیں تھی۔وہ فورا جھک گئی۔سڑک کی دونوں جانب گھنے درخت تھے۔کچے راستے پہ جیپ ہچکولے کھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔خاموشی محسوس کر کے ضیغم نے جیپ کی رفتار آہستہ کر دی اور اسی دوران پیچھے والی گاڑی تیزی سے ان کے قریب سے گزر گئی۔گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں اس نے گاڑی کا نمبر ذہہن نشین کیا۔چونکہ ضیغم نے گاڑی کی رفتار کم کر دی تھی اس وجہ سے کچھ ہی سیکنڈز میں وہ گاڑی اسکی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔آج چونکہ جرگے میں مسکاء اور اسکی شادی کی بات بھی کھل گئی تھی اسلیئے اسکے لئے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ کام کس کا ہو سکتا ہے۔زمان خان نے اسے بتایا تھا کہ جرگے میں سبھی موجود تھے۔۔۔۔باتور خان بھی۔۔

"مسکاء۔۔۔۔"

مسکاء جو اپنے گھٹنوں پہ جھکی ہوئی تھی۔۔اس کے پکارنے پہ سر اٹھایا اور پھر ٹھیک سے بیٹھ گئی۔۔ضیغم نے گاڑی سڑک کے کنارے روک دی تھی۔

"کون تھا یہ۔۔۔۔۔" مسکاء کے چہرے پہ خوف کے سائے منڈلا رہے تھے۔

"تم ٹھیک ہو۔۔۔؟"

ضیغم نے اسکے سوال کو نظرانداز کر کے اس سے پوچھا۔

"جی میں ٹھیک ہوں۔۔۔کون تھا یہ۔۔؟" 

مسکاء نے چادر درست کرتے ہوئے اپنا سوال دہرایا۔

"تھوڑے دشمن تو نہیں ہیں یہاں۔۔۔۔۔۔"

وہ جیپ اسٹارٹ کرتے ہوئے بولا۔مسکاء خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔

"نجانے کب ہم اس بھنور سے نکلیں گے۔"

وہ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر گم سم لہجے میں بولی۔

"انشاءاللہ۔۔! بہت جلد۔۔۔۔"

وہ اسکا یخ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بولا۔

"انشاءاللہ۔۔!

وہ بھی دھیرے سے بولی تھی۔۔ضیغم نے اسکا ہاتھ ہاتھ میں دبائے جیپ کی رفتار بڑھائی۔

وہ گھر سے کچھ ہی فاصلے پہ تھے۔۔۔۔

       _________________________________________

ضیغم نے راستے میں ہی مسکاء کو منع کر دیا تھا کہ وہ زمان خان سے اس بارے میں کوئی بات نہ کرے۔اس لئے مسکاء گھر پہنچ کر اس بات کا ذکر نہیں کیا لیکن وہ ضیغم کے لئے بہت پریشان تھی۔ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو جاتی جو اسکے خوف میں اضافہ کرتی جا رہی تھی۔باتور خان سے کچھ بعید نہیں تھا۔وہ تو چھپ کر وار کرنے والوں میں سے تھا۔مسکاء کو یقین تھا کہ رات کو جس شخص نے ان پر حملہ کیا تھا وہ باتور خان ہی تھا۔وہ چاہتی تھی کہ وہ سب اور ضیغم گاوں چھوڑ کر شہر چلے جائیں۔یہاں تو ہر قدم پہ خطرہ تھا۔صبح تو ضیغم آفس چلا جاتا اور پھر رات گئے لوٹتا اور وہ سارا دن گھر میں پریشان اور بولائی بولائی پھرتی۔وہ آجکل اس قدر مصروف تھا کہ بات تک کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔صبح جلدی تیار ہو کر تھانے چلا جاتا اور پھر رات کو جب آتا تو وہ سو رہی ہوتی۔ایک کانسٹیبل ہر وقت گھر کے دروازے کے باہر رہتا۔ذہرہ بی بی اور رحم دین اب باقاعدگی سے اس سے ملنے آتے تھے۔ذہرہ بی بی ہی تھیں جن سے وہ اپنے دل کا حال کہہ لیتی تھی ورنہ ضیغم کے پاس تو آجکل اس کے لئے وقت ہی نہیں تھا۔ذہرہ بی بی کے سمجھانے کے باوجود اسے ہر پل کچھ ہو جانے کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔اس لئے آج اس نے سوچ لیا تھا کہ اس بارے میں ضیغم سے بات ضرور کرے گے۔اس وقت وہ اسکے لئے ناشتہ بنا رہی تھی۔ناشتہ بنا کر وہ ٹرے لئے کمرے میں آئی تو وہ بالکل تیار تھا۔اسے ناشتہ لاتا دیکھ کر وہ تیزی سے اسکی جانب آیا۔

"آج بہت ضروری کام ہے۔آج ہو سکتا ہے میں تھوڑا لیٹ ہو جاوں۔"

وہ کرسی پہ بیٹھتا، ٹرے اپنی جانب کھینچتا اس سے بولا تھا۔وہ روزانہ ناشتہ شروع کرنے سے پہلے اس سے یہی جملے بولتا تھا۔ناشتے کے دوران وہ وہاں نہیں بیٹھتی تھی مگر آج وہ خاموشی سے سر ہلاتی اسکے سامنے بیٹھ گئی۔وہ ناشتہ شروع کر چکا تھا۔مسکاء دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے اسے ناشتہ کرتے دیکھ رہی تھی۔اس نے اسے خاموشی سے ناشتہ کر لینے دیا۔ناشتے سے فارغ ہو کر وہ فورا اٹھا تھا۔

"مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔"

اس سے پہلے کہ وہ تیزی سے باہر نکلتا وہ تیزی سے بولی تھی۔اسے خاموشی سے اپنی جانب تکتے پا کر وہ اٹھ کر اس کے قریب آئی تھی۔

"بولیے جناب۔۔!!"

وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔

"وہ۔۔۔۔میں کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ۔۔۔۔۔۔"

وہ اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر بولی تھی کہ وہ فورا بولا۔

"بس کچھ دن کی بات ہے۔۔۔پھر میرا سارا وقت تمھارا۔"

ضیغم نے اسکے سنجیدہ چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر کہا تھا۔

"نہیں یہ بات نہیں ہے۔۔میں یہ کہہ رہی تھی کہ آپ۔۔۔ہم شہر چلے جاتے ہیں نا۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا ہے جہاں ہر دستک موت کی دستک جیسی لگتی ہے۔آپ چھوڑ دیں یہ سب۔۔ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں۔"

وہ اسکے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔

"کیا مطلب۔۔۔؟؟ کیا میرے جانے کے بعد۔۔۔ٹھہرو میں فہیم سے پوچھتا ہوں۔وہ یہاں کھڑا کیا کرتا رہتا ہے۔"

ضیغم باہر کی جانب بڑھا مگر مسکاء نے ہاتھ تھام کر روک دیا۔

"یہ بات نہیں ہے۔۔۔گھر میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔"

مسکاء نے کہا تو وہ پلٹ آیا۔

"تو پھر۔۔۔۔یہ سب۔۔"

ضیغم نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"آپ کے لئے پریشان رہتی ہوں۔"

وہ نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے بولی تو وہ مسکرا دیا تھا۔

"تم کیا چاہتی ہو میں بھاگ جاوں ان سب سے۔۔اور ہونے دوں وہ سب جو یہاں ہوتا آ رہا۔۔تم یہ چاہتی ہو کہ گاوں کی ہر دوسری لڑکی ان حالات سے گزرے جن سے تم گزر رہی ہو۔۔یا پھر ہر لڑکی کا انجام گلالئی جیسا ہو۔۔یا پھر ان جیسا جو اس رسم کی وجہ سے اپنی زندگی کے قیمتی سال کھو چکی ہیں اور بے رنگ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔انہی لوگوں کی وجہ سے جن کو میں ان کے انجام تک پہنچانا چاہتا ہوں۔تم ان کے قدم اور بھی مضبوط کرنا چاہتی ہو تاکہ وہ جیسے چاہیں، جسے چاہیں ایسی زندگی گزارنے پہ مجبور کر دیں۔۔۔بولو کیا ایسا چاہتی ہو تم۔۔؟"

اس کے سوال پہ وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی۔

"میں ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی۔۔۔بس میں آپکو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔وہ ہر لمحہ آپکو نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتے ہیں اور میں یہ سب نہیں دیکھ سکتی ہوں۔"

وہ اپنے گداز بازو اسکے گرد باندھتے ہوئے بولی۔مسکاء کے اس محبت بھرے انداز نے اسکے اندر طمانیت اور سرشاری بھر دی۔

"تو بس پھر تم دعا کیا کرو کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہروں۔"

وہ اسکے ماتھے پہ بکھرے بال سمیٹتے ہوئے بولا۔

"وہ تو میں روز ہی کرتی ہوں۔"

وہ معصومیت سے بولی۔

"اچھا۔۔۔۔۔کیا دعا کرتی ہیں آپ۔۔ذرا مجھے بھی تو پتہ چلے۔"

وہ اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانکنے لگا۔

"آپ کو کیوں بتاوں۔۔"

وہ شرما کر رخ پھیر گئی۔

"ارے بھئی۔۔۔یہ کیا بات ہوئی۔۔اب میرے لئے کی گئی دعا مجھ سے ہی چھپائی جا رہی ہے۔۔ناٹ فئیر۔۔"

وہ اسکا رخ اپنی جانب موڑتا مسکراتے ہوئے بولا۔

"آپ کا فون بج رہا ہے۔"

مسکاء نے اسکی پاکٹ میں بجتے موبائل فون کی جانب اسکی توجہ دلائی۔

"چھوڑو یار۔۔۔۔ابھی تم ہی تو کہہ رہی تھی کہ یہ سب چھوڑ دیں۔"

وہ شرارتی انداز میں اسے گھیرتے ہوئے بولا۔

"میں نے یہ کب کہا۔۔۔آپ جائیں آپکو دیر ہو رہی ہے۔"

وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش میں تھی۔

"ابھی کچھ دیر پہلے خود ہی تو کہا تھا تم نے کہ میں تمھیں وقت نہیں دیتا۔"

وہ اسکا دوپٹہ ہاتھ پہ لپیٹتے ہوئے بولا۔

"میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔"

وہ اپنے دوپٹے کے بل اس کے ہاتھ سے کھولنے لگی۔

"تو کیا کہہ رہی تھیں آپ۔۔"

ضیغم اسکے سرخ پڑتے چہرے کو نظروں میں سموتے ہوئے بولا۔موبائل فون بج بج کر خاموش ہو گیا تھا۔

"آپ کو کیا ہو گیا ہے۔۔جائیں نا۔"

وہ اس وقت کو کوسنے لگی جب اسے جانے سے روکا تھا۔

"کہاں جاوں۔۔۔؟"

وہ اس کے بھورے ریشمی بالوں میں چہرہ چھپانے لگا۔ضیغم کا بے باک انداز اسکے حواس سلب کرنے لگا تھا۔وہ اپنی بانہوں کا گھیرا اس کے گرد تنگ کرنے لگا۔

"ضیغم۔۔۔۔۔آپ کو بابا بلا رہے ہیں۔"

وہ اسکے شوریدہ جذبوں پہ بند باندھتے ہوئے بولی۔

"اچھا آو چلیں۔"

ضیغم نے اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔۔

"یہ کیا کر رہے ہیں۔۔"

وہ اسے اٹھائے دروازے کی جانب بڑھا تو وہ دھیمی آواز میں چلائی۔

"بابا بلا رہے ہیں اور تم بھی مجھے مس کر رہی ہو تو دونوں کام ساتھ میں ہی نپٹا لوں۔"

وہ مسکراہٹ لبوں میں دبائے اسے دیکھ رہا تھا۔

"اتاریں مجھے نیچے۔۔اتاریں فورا۔۔"

مسکاء نے اپنے دوپٹے کا ایک کونہ گول مول کر کے اسکے چہرے پہ پھینکا۔۔۔

"بالکل بھی نہیں۔۔۔"

وہ دائیں بائیں سر ہلانے لگا۔

"ضیغم پلیز۔۔۔۔۔اتاریں نا۔۔"

وہ مسکین سی شکل بنا کر بولی۔

"ٹھیک ہے پہلے وعدہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟"

وہ رکا۔

"کیا۔۔۔۔؟"

اس نے دوپٹہ پھر سے اسکے چہرے پہ مارا۔۔

"میں رات کو آوں تو تم سوئی ہوئی نہ ملو۔۔۔۔۔موٹی۔"

وہ آخری لفظ دھیرے سے بولا۔

"ٹھیک ہے وعدہ۔۔۔۔۔"

اس نے سن تو لیا تھا مگر بحث میں پڑنے کی بجائے جلدی سے بولی۔

"تو ہم یہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چھوڑا ہے۔"

وہ اسے نیچے اتارتا ہوا بولا۔

"ہونہہ۔۔۔۔۔"

وہ اس کے چہرے پہ دوپٹہ ایک بار پھر مار کر باہر بھاگ گئی اور ضیغم کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔

     _________________________________________

"یہ جو تم کرتے پھر رہے ہو اسکا خمیازہ بھی تمھیں بھگتنا پڑے گا۔"

وہ اپنے آفس میں عمر خان کے ساتھ گلالئی قتل کی فائل کھولے بیٹھا تھا کہ میرسربلند خان بے دھڑک اس کے آفس میں داخل ہوئے تھے۔ضیغم کو ان کا انداز پسند نہیں آیا تھا مگر وہ خاموشی سے عمر خان کو دیکھ کے بولا۔

"ٹھیک ہے عمر خان۔۔تم یہ فائل لے جاو اور ڈی۔آئی۔جی صاحب کو کال کر کے ہمارے تمام پوائنٹس ڈسکس کرو۔"

ضیغم نے عمر خان کو فائل پکڑائی۔وہ اسکا اشارہ سمجھ کر فائل لے کر آفس سے نکل گیا۔

"یہ سب ختم کرو ورنہ اچھا نہیں ہوگا تمھارے لئے۔۔تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ سب کر کے تم مجھے نیچا دکھانے میں کامیاب ہو جاو گے تو یہ تمھاری بھول ہے۔روک لو خود کو ورنہ پچھتاو گے۔"

وہ چئیر ایک طرف کرتے ہوئے بولے۔۔چہرے پہ تاثرات ایسے تھے جیسے ہر چیز کو آگ لگا دیں گے۔

"اور اگر میں یہ سب نہ روکوں تو۔۔۔۔۔؟"

وہ اٹھ کر ان کے سامنے آ گیا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے بولا۔ 

"تو اسکا انجام بہت بھیانک ہو گا۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ شروع تم نے کیا ہے مگر ختم میں کروں گا۔"

وہ اپنے سینے پہ انگلی رکھتے ہوئے بولے۔

"بالکل اسی طرح ختم کریں گے جسطرح آپ نے میردراب خان اور خزیمن دراب خان کو ختم کیا تھا۔"

اسکی آنکھوں کی سرخی بڑھنے لگی۔اسکی بات نے ان کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی مگر اس پہ ظاہر کیے بناء ہنسنے لگے اور پھر اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولے۔۔

"ہاں۔۔۔بالکل اسی طرح۔۔۔تم دیکھتے جاو کہ میں تمھارے ساتھ کیا کرتا ہوں۔"

وہ اسے وارن کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔

"تمھارا قصہ تو میں ختم کروں گا میر سربلند خان۔۔کہانی بہت لمبی ہو گئی ہے تمھاری۔۔۔"

میرسربلند خان کے اتنے کھلے اعتراف پہ اسے لگا جیسے اسکے زخموں سے خون رسنے لگا ہو۔اب جو کچھ بھی کرنا تھا جلدی کرنا تھا۔وہ جانتا تھا کہ وہ اسے روکنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

     _________________________________________

پھر اس نے اس طریقے سے اپنے پلان کو انجام تک پہنچایا کہ سب دیکھتے رہ گئے۔جبار خان کے خلاف تو ٹھوس ثبوت پہلے ہی وہ جمع کر چکا تھا۔سب سے اہم کام جس نے میرسربلند خان کے ہاتھ ان کی پشت پہ ہی باندھ دئیے تھے وہ تھا میڈیا کے سامنے جبار خان کو لانا۔شروعات میں تو انھوں نے بہت کوشش کی کہ وہ اس بات کو میڈیا کے سامنے نہ آنے دیں مگر ضیغم نے انھیں موقع ہی نہیں دیا اور ساری حقیقت کھل گئی۔اب انھیں پیچھے ہٹنا ہی تھا کیونکہ اس کے خلاف کھڑے ہونے سے نا صرف ان کی سیاسی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ تھا بلکہ گاوں میں جو ان کی اجارہ داری قائم تھی وہ بھی ختم ہو جاتی۔لہذا خود کو بچانے کے لئے انھوں نے میڈیا کے سامنے خود کو اس معاملے سے لاعلم ظاہر کیا اور اس بات پہ یقین دلایا کہ اگر انھیں معلوم ہوتا تو بہت پہلے ہی وہ اسے قانون کے سامنے لا چکے ہوتے۔ضیغم اخبارات میں ان کے ڈپلومیٹک بیانات پڑھ پڑھ کر ہنستا رہتا۔

پھر میرسربلند خان بھی جبار خان کو سزا دلوانے میں پیش پیش رہے۔

جبار خان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔اس نے جب دیکھا کہ سب ہی پیچھے ہٹ گئے ہیں تو اس نے بھی عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا اور اسطرح یہ کیس اپنے انجام کو پہنچا۔ضیغم کی اتنی بڑی کامیابی پہ لوگ زمان خان کو مبارک باد دے رہے تھے۔اخبارات میں اس کے اس قدم کو سراہا جا رہا تھا۔

جسطرح اس نے اتنی مشکلات کا سامنا کر کے اس نے معاملے کو ہینڈل کیا تھا وہ قابل تحسین تھا۔

"ویل ڈن ینگ مین۔۔"

ڈی۔آئی۔جی صاحب نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔وہ اس وقت اسکے آفس میں موجود تھے۔

"تھینک یو سر۔۔! لیکن میری اس کامیابی کا سہرا آپ کو جاتا ہے۔آپ نے جسطرح میرا ساتھ دیا ہے۔میں اکیلا تو کچھ بھی نہیں کر پاتا۔آپ کی دی ہوئی ہمت اور حوصلے نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں اس موذی رسم کو اپنے گاوں سے دور پھینکنے میں کامیاب ہوا۔میں بہت خوش ہوں کہ میں ایسا کر پایا۔اگر میں یہ سب نہ کر پاتا تو زندگی میں کبھی بھی خود سے نظریں نہ ملا سکتا۔"

ضیغم کے چہرے پہ بیک وقت خوشی اور دکھ کے ملے جلے تاثرات تھے۔

"مجھے فخر ہے تم پہ۔۔۔اللہ تمھیں مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔اب میں چلتا ہوں۔امید ہے کہ آئیندہ اسطرح کے مسائل یہاں پیدا نہ ہوں گے۔"

وہ اٹھتے ہوئے بولے۔

"انشاءاللہ۔۔۔!!"

وہ ان سے مصافحہ کرتے ہوئے بولا۔

     _________________________________________

"خان جی اب پانی سر سے بہت اونچا ہو گیا ہے۔وہ تو ہم سے کہیں زیادہ چالاک نکلا۔۔آپ اور میں کچھ بھی نہیں کر پائے اور اس نے ساری بساط ہی الٹ دی۔"

باتور خان ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھا جبکہ وہ اسکی بات پہ پہلو بدل کر رہ گئے۔

"اب تو لوگوں کی نگاہیں مجھے میرا تمسخر اڑاتی محسوس ہوتی ہیں۔"

باتور خان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسطرح سے وہ تمام حالات دوبارہ سے اپنے لئے ہموار کر لے۔میں نے تو اسے ڈرانے کی بھی کوشش کی مگر نجانے کس کا خون ہے کسی سے ڈرتا ہی نہیں۔"

اپنی بات کے اختتام پہ اس نے میرسربلند خان کی جانب دیکھا تھا۔ان کے لبوں پہ اسے مغرورانہ مسکراہٹ کھیلتی نظر آئی۔

"ہمارا خون ہے۔۔۔۔ہمارا۔۔۔اس نے ثابت کر دیا کہ اس کی رگوں میں ہمارا خون دوڑ رہا ہے۔۔۔کسی سے نہ ڈرنے والا۔۔۔آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا۔۔اسے دیکھتا ہوں تو اپنے خون پہ فخر ہونے لگتا ہے۔"

ان کے لہجے میں جھلکتا فخر باتور خان کو ایک آنکھ نہ بھایا۔

"خان جی۔۔۔لگتا ہے آپ دشمن کو دوست بنانا چاہتے ہیں۔"

باتور خان اپنی گھنی مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے بولا۔

"ہاہاہا۔۔۔۔باتور خاناں۔۔! اگر میں ایسا چاہتا بھی ہوں تو کیا مضائقہ ہے۔آخر کو خون ہے میرا۔۔۔۔جوش تو مارے گا ہی۔۔۔اور ویسے بھی جب دشمن آپ سے زیادہ طاقتور ہو تو اسے دوست بنا لینا چاہیئے۔۔انسان فائدے میں رہتا ہے۔"

وہ باتور خان کے لال بھبوکا چہرے کو دیکھتے ہوئے بولے۔اس کے دل میں جلی حسد و جلن کی آگ انھیں مزا دینے لگی۔

"خان جی۔۔۔دشمن کو دوست وہ بنائیں جو کاہل ہوں۔میں کاہل نہیں ہوں۔۔۔آپ اسے دوست بنائیں میں تو اس سے نسلی در نسل دشمنی نبھانے والا ہوں۔"

وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔

"میں تمھیں اس قابل چھوڑوں گا تو تم دشمنی نبھاو گے۔میں تو سوچ رہا ہوں کہ اس دشمنی کواسی نسل میں اس کے انجام تک پہنچا دوں۔"

ضیغم کی آواز نے دونوں کو بیک وقت چونکنے پہ مجبور کیا۔دونوں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ مکمل یونیفارم میں اپنے سینے پہ ستارے سجائے پورے قد سے ان کے سامنے کھڑا تھا۔

"لگتا ہے آنے والے وقت کو سوچ کر ہی تمھارے باپ نے تمھارا نام رکھا تھا بلکہ ہمیں تو لگتا ہے کہ تم ہم پر گئے ہو۔۔بے دھڑک ہر جگہ گھس جانے والے۔"

میرسربلندخان بانہیں پھیلائے اسکی طرف بڑھتے ہوئے بولے۔ضیغم نے ہاتھ بڑھا کر انھیں خود سے کچھ فاصلے پہ روک دیا۔

"میں دشمنوں کو اتنا سر چھڑانے کا عادی نہیں ہوں۔میرے نزدیک دشمن کو اسکی حد میں رکھنا بہتر ہوتا ہے ورنہ وہ منہ تک آنے میں ایک پل نہیں لگاتا۔"

وہ مضبوط قدم اٹھاتا باتور خان کے عین سامنے جا کھڑا ہوا۔

"ایک تیر نشانے پہ لگ جانے سے تم خود کو تیس مار خان سمجھنے لگے ہو۔"

باتور خان دو قدم مزید آگے آیا۔

"باتور خان۔۔۔میر ہمارا بھتیجا ہے۔آج سے یہ تمھارے لئے اتنا ہی اہم اور قابل عزت ہونا چاہیئے جتنا کہ ہم۔"

میرسربلندخان نے باتور خان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جبکہ ان کی بات نے ضیغم کو مسکرانے پہ مجبور کیا تھا۔باتور خان کو اسکی ہنسی اپنا تمسخر اڑاتی محسوس ہوئی۔

"میں چلتا ہوں خان جی۔۔۔آپ کو آپ کا بھتیجا مبارک ہو۔"

وہ یہ کہہ کر وہاں رکا نہیں اور تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔

"کیوں ٹھیک کہا نا ہم نے۔۔؟"

باتور خان کے جانے کے بعد انھوں نے اس سے اپنی بات کی تصدیق چاہی۔

"مجھے یہ سب نہیں چاہئیے۔"

وہ اپنے کندھے سے ان کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولا۔

"تو پھر کیا چاہئیے۔۔؟"

وہ پلٹ کر صوفے پہ جا بیٹھے۔

"قادر خان۔۔۔۔۔مجھے قادر خان چاہئیے۔"

وہ پرسکون انداز میں چلتا ان کے سامنے آ بیٹھا۔

"کون قادر خان۔۔۔۔؟" وہ انجان بنے۔

"وہی قادر خان جس کے کندھے پہ بندوق رکھ کر آپ نے میرے ماں باپ کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تھا۔"

وہ اسکی نگاہوں کی ذد میں تھے۔

"اچھا۔۔۔۔وہ قادر خان۔۔۔دراب خان نے اسکی غگ کی ہوئی لڑکی سے شادی کر لی تھی تو قادر خان نے اپنا بدلہ لیا۔سب جانتے ہیں چاہو تو گاوں میں کسی سے پوچھ لو۔۔میں اس شادی سے لاعلم تھا۔ورنہ اسے ضرور بچا لیتا۔۔۔وہ تمھاری ماں کو لے کر شہر چلا گیا تھا۔۔وہیں قادر خان نے انھیں قتل کیا اور پھر اسکے بعد اسکا کچھ پتہ نہ چل سکا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ہم نے اسے پھر نہیں دیکھا بلکہ ہم نے تو اسے ڈھونڈنے کی بھی بہت کوششں کی مگر وہ نجانے کہاں غائب ہو گیا۔۔۔ہم تو تمھارے وجود سے بھی ناواقف تھے۔۔ورنہ تمھیں اسطرح لاوارثوں کی طرح پلنے دیتے۔"

وہ اپنی آنکھیں مسلنے لگے۔

"میں سچ جانتا ہوں لہذا آپ مجھے گمراہ کرنے کی کوشش ترک کر دیں۔"

اس نے ان کی بات کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہ دی۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔"

وہ اسکے پاس آتے ہوئے بولے۔

"مجھے بابا سب بتا چکے ہیں۔میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس نے یہ آپ ہی کہ شے پہ کیا تھا اور آپ نے ہی اسے پناہ دے رکھی ہے لیکن خیر۔۔۔ وہ زیادہ دیر تک مجھ سے چھپ نہیں سکے گا۔میں اسے بہت جلد سامنے لے آوں گا۔"

ضیغم نے دروازے کی جانب قدم بڑھائے۔

"میر ضیغم خان۔۔۔۔اب بھی وقت ہے تمھارے پاس۔۔ہمارے پاس لوٹ آو۔۔ہم تمھیں اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ تم ہمارا خون ہو۔۔"

ان کی بات پہ اسکے بڑھتے قدم رک گئے مگر پھر بناء کچھ کہے کمرے سے نکل گیا۔

اسکے جانے کے بعد انہوں نے اپنا موبائل نکالا۔

"ہاں۔۔۔تم وہیں رہو۔۔۔دراب خان کا بیٹا تمھاری تلاش میں ہے۔اگر تم اسکے ہاتھ لگ گئے تو ہم دونوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونگے۔اس لئے تمھارے لئے یہی مناسب ہے کہ تم ابھی مت آو۔۔۔۔"

مختصرا کہہ کر انھوں نے موبائل سائیڈ پہ رکھ دیا۔ان کی پرسوچ نظریں کسی ایک نقطے پہ رکی ہوئی تھیں۔

       _________________________________________

قادر خان کا ضیغم کے ہاتھ لگ جانا سب کچھ ختم ہونے کے مترادف تھا۔اس سے پہلے کہ وہ ہر اس چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتے جو ان کی دسترس میں تھی۔۔انھیں کچھ ایسا کرنا چاہیئے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔پہلے تو انھوں نے سوچا تھا کہ ضیغم کو اپنا لیں مگر اب جبکہ وہ ماضی میں ہوئی ہر بات سے واقف تھا اسے اپنے دام میں کرنا بہت مشکل تھا۔قادر خان کا نام اور اسکے بارے میں اتنی انفارمیشن۔۔۔۔۔۔۔یقینا زمان خان نے ہی اس راز سے پردہ اٹھایا ہوگا۔۔

ان کا ارادہ قادر خان کو منظر عام سے ہٹانا نہیں تھا مگر دراب خان اور خزیمن کے نکاح کے وقت دراب خان کا دوست شہر سے کسی میڈیا کے بندے کو بھی ساتھ لایا تھا۔اس لئے انھیں ڈر تھا کہ کہیں پروفیسر محمد عقیل ان کی بات کا یقین نہ کرے اور خود ان سے ملنے کے لئے گاوں آجائے تو وہ اس معاملے کو سنبھال نہ سکیں گے۔کیونکہ اگر قادر خان پکڑا گیا تو اس بات کے چھپنے کے چانسز ایک پرسنٹ بھی نہیں ہیں کہ وہ حقیقت پولیس سے چھپائے گا کیونکہ گاوں والے اس بات سے واقف تھے کہ یہ قتل قادر خان نے ہی اپنا بدلہ لینے کے لئے کیا تھا۔لہذا انھوں نے قادر خان کا منظر سے ہٹ جانا ہی بہتر سمجھا۔اپنی طرف سے تو انھوں نے بہت محتاط طریقے سے یہ جوا کھیلا تھا اور زمان خان کے وعدے پہ بھی انھیں مکمل بھروسہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے زمان خان کبھی بھی ضیغم کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالے گا۔اس لئے وہ اسکی جانب سے بےخوف تھے۔مگر اب حالات پھر سے انھیں اسی سمت لے آئے تھے جہاں سے بھاگنے میں انھوں اپنی پوری قوت صرف کر دی تھی۔

اب اس نہج پہ انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ انھوں نے زمان خان کی بات مان کر اپنے پیر پہ خود کلہاڑی ماری ہے۔اسی وقت ضیغم سے بھی جان چھڑا لیتے تو آج انھیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ان کے اندر بار بار یہ احساس بیدار ہو رہا تھا کہ وہ اکیلے پڑتے جا رہے ہیں۔ان کے بچے اپنی خوشیوں میں مگن ہیں۔بیوی کو ان کی پرواہ نہیں اور ضیغم کا خوف ان دل و دماغ پہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔انھیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔وہ اس دوراہے پہ کھڑے تھے جہاں سے نہ آگے جایا جا سکتا تھا اور نہ پیچھے۔۔۔

قادر خان ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔انھوں نے اسے بہت محفوظ مقام پہ رکھا تھا مگر اب وہ جگہ بھی اب انھیں محفوظ نہیں لگ رہی تھی۔ضیغم کے انداز سے انھیں لگ رہا تھا کہ وہ بہت جلد اس تک پہنچ جائے گا۔اب انھیں پہلی فرصت میں قادر خان کو کسی کے بھی علم میں لائے بغیر وہاں سے نکال کر کہیں اور پہنچانا ہو گا۔اس جگہ کا بھی شکور کے علاوہ کسی کو علم نہیں تھا اور شکور کو ضیغم نے بند کر رکھا تھا۔اگر اسے شک ہو گیا کہ شکور اس بارے میں جانتا ہے تو ضیغم کا قادر خان تک پہنچنا اور بھی آسان ہو جائے گا۔

"اتنی آسانی سے تو میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں میر ضیغم خان۔۔۔بےشک تم میرا ہی خون ہو مگر تم اس باپ کے بیٹے ہو جسے میں نے ایک ہی جھٹکے میں مار گرایا تھا۔تم نے اگر یہ جنگ شروع کر ہی دی ہے تو میں بھی پیچھے نہیں رہوں گا۔اب میں تم سے اپنے طریقے سے لڑوں گا اور میرے طریقے میں چٹ بھی میری اور پٹ بھی میری ہی ہوتی ہے۔"

وہ چہرے پہ گہری سوچ کی پرچھائیاں لئے ہوئے خود سے بولے تھے۔

تھوڑی دیر بعد انھوں نے گلاب خان کو بلا کر کہا کہ وہ ابھی اسی وقت زمان خان کو بلا کر لائے۔گلاب خان کے جانے کے بعد انھوں موبائل نکال کر ایک کال ملائی اور فون کان سے لگا لیا۔کچھ دیر بات کرنے کے بعد انھوں نے فون بند کر دیا۔اب وہ اپنا آخری داو کھیلنے جا رہے تھے جس کا انھیں پورا یقین تھا کہ جیت انہی کی ہو گی۔

"خان جی۔۔! گلاب خان زمان خان کو بلا لایا ہے۔وہ دونوں اس وقت حجرے میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔گلاب خان آپ کو حجرے میں بلا رہا ہے۔"

ماہ گل دروازے پہ ناک کرتی کمرے میں آئیں تھیں۔

"ٹھیک ہے۔۔۔تم جاو۔۔"

وہ سر ہلا کر چلی گئیں۔ان کے جانے کے بعد وہ اپنے گرد گرم چادر اچھی طرح لپیٹ کر کمرے سے باہر آ گئے۔ان کا ذہہن اس وقت مختلف ذہریلی سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔جب وہ حجرے میں داخل ہوئے تو زمان خان ان کا انتظار کر رہے تھے۔انھیں آتا دیکھ کر زمان خان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔میرسربلند خان نے گلاب خان کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا جو ابھی تک وہیں موجود تھا۔وہ ان کا اشارہ سمجھ کر وہاں سے چلا گیا۔

"خان جی۔۔۔۔آپ نے مجھے بلایا تھا۔"

زمان خان نے انھیں سپاٹ چہرے کے ساتھ چارپائی پہ براجمان ہوتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔زمان خان اب تک کھڑے تھے۔

"ہاں۔۔۔بیٹھو۔۔"

وہ گاو تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے بولے۔زمان خان ان کے بالکل سامنے بیٹھ گئے۔کچھ پل یونہی گزر گئے۔میرسربلند خان کی نظریں فرش پہ ٹکی تھیں۔کچھ دیر پہلے سپاٹ دکھنے والے چہرے پہ اب گہری سوچوں کا سایہ لہراتا دکھائی دے رہا تھا۔زمان خان نے ان کی غیرمعمولی خاموشی کو محسوس کیا۔وہ دل ہی دل میں گھبراہٹ کا شکار تھے۔بظاہر تو سب کچھ ٹھیک ہوتا دکھائی دے رہا تھا مگر اب بھی وہ پوری طرح مطمئن نہیں تھے۔انھیں اس بات کا یقین تھا کہ میرسربلند خان ہاتھ میں آئی لگامیں چھوڑنے والوں میں سے نہیں تھے۔دوسری جانب گاوں کے کچھ لوگ باتور خان کو اکسا رہے تھے۔اسے بےغیرتی کا طعنہ دینے لگے تھے۔جس کی وجہ سے وہ دہکی ہوئی آگ کیطرح سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے کر جلا کر خاکستر کرنا چاہتا تھا۔یہ لوگ ایسا ناسور تھے جو علاج کے باوجود مندمل نہیں ہوتا اور پھیلتا ہی جاتا ہے۔

"خان جی۔۔۔میں سمجھ نہیں پا رہا کہ آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے۔"

زمان خان نے فضول خیالات کو جھٹک کر ان سے پوچھا۔

"زمان خان تم نے ہم سے کیا ہوا وعدہ توڑ دیا ہے۔اب ہم بھی اپنے وعدے سے آزاد ہیں۔"

میرسربلند خان نے زمان خان کی طرف دیکھا۔ان کی بےتحاشا سرخ آنکھیں زمان خان کو کسی انہونی کا احساس دلانے لگیں تھیں۔

"کون سا وعدہ۔۔؟"

زمان خان نے اپنے لہجے کو پرسکون رکھا۔

"وہی وعدہ جو تم نے ہمارے ساتھ اس حجرے کے پچھلی جانب کیا تھا۔۔۔مجھے حیرانی ہے کہ اتنی جلدی تم بھول کیسے گئے۔تم تو اس احسان کو بھی بھول گئے جو ہم نے ضیغم کو تمھارے حوالے کر کے کیا تھا۔مگر اب جبکہ تم اپنا وعدہ بھول گئے اور ضیغم کے سامنے ساری حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ہے تو ہم بھی وہی کریں گے جو ہم نے کہا تھا۔"

میرسربلند خان کا بےلچک لہجہ زمان خان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا گیا۔۔۔

      _________________________________________

وہ ابھی تھانے میں داخل ہوا تھا۔انسپیکٹر عمر خان اسے دیکھ کر اس کے پاس آیا تھا۔

"سر۔۔! عمر خان نے سلیوٹ کیا۔

"سب ٹھیک ہے؟"

"جی سر سب ٹھیک ہے۔۔۔لیکن۔۔"

انسپیکٹر عمر خان نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ضیغم کی نظر ایس۔ایچ۔او طارق پہ ٹکی ہوئیں تھیں جو اس وقت اپنے سامنے کوئی فائل کھولے اردگرد سے بےخبر اسکے مطالعے میں غرق تھا۔صاف ظاہر تھا کہ خود کو بےخبر ظاہر کرنے کی بھرپور ایکٹنگ ہو رہی تھی۔ضیغم نے مسکراہٹ دباتے ہوئے ایس۔ایچ۔او طارق کی جانب اشارہ کیا۔

"یہ صاحب ٹھیک ہیں نا۔۔۔کوئی بہتری؟"

ضیغم نے انسپیکٹر عمر خان سے پوچھا۔آواز اس نے دھیمی رکھی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایس۔ایچ۔او طارق خان کے کان یہیں لگے ہونگے۔

"یس سر۔۔۔۔میرے ہوتے ہوئے آپ اس سے بےفکر رہیئے۔"

عمر خان نے آفس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ضیغم سر ہلاتے ہوئے آفس کی طرف بڑھ گیا۔عمر خان اسکے پیچھے ہی تھا۔

"میں نے آج ایک ضروری کام سے جانا تھا۔تم نے آج ہی ملنے کو کہا تو آنا پڑا۔۔بولو کیا بات ہے؟"

ضیغم نے کیپ اتار کے ٹیبل پہ رکھی اور اسے بھی اشارہ کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔

"سر۔۔! شکور کا کیا کرنا ہے۔آپ کے کہنے پہ میں کوئی ایف۔آئی۔آر بھی درج نہیں کی۔میں زیادہ دن اسے حوالات میں نہیں رکھ سکتا بنا کسی کیس کے۔آپ کہیں تو۔۔۔۔۔"

انسپیکٹر عمر خان نے اسے تھانے بلانے کا مقصد بتایا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔مجھے اس سے کچھ پوچھنا ہے اگر تسلی بخش جواب دے دیا تو پھر بتاوں گا کہ اسکا کیا کرنا ہے۔"

ضیغم اٹھ کر باہر نکل گیا۔

"لگتا ہے بہت دل لگ گیا ہے تمھارا یہاں۔۔کوئی واویلا نہیں۔۔کوئی شور نہیں۔۔"

ضیغم حوالات میں بند شکور کو بغور دیکھ رہا تھا۔وہ سر گھٹنوں میں دئیے بیٹھا تھا۔اسکے بلانے پہ بھی شکور کے ساکت وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔

"کھولو۔۔۔"

ضیغم نے پاس کھڑے سپاہی سے تالا کھولنے کو کہا۔اس کے کہنے پہ الرٹ کھڑے سپاہی نے تالا کھول دیا۔سپاہی نے اسے اندر جانے کا راستہ دیا اور خود ایک جانب کھڑا ہو گیا۔شکور نے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں کی۔وہ ایک پیر پہ دباو ڈال کر شکور کے قریب بیٹھ گیا۔

"میں تم سے مخاطب ہوں۔۔۔مر گئے ہو کیا؟"

ضیغم نے ہاتھ سے معمولی سا دباو ڈال کر اسے دھکیلا۔جس سے وہ اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکا اور ایک طرف لڑھک گیا۔

"کیا مسئلہ ہے۔۔اب یہاں تو سکون سے رہنے دو۔"

شکور واپس سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔

"یہ تھانہ ہے۔۔تمھارے خان جی کا حجرا نہیں جہاں تم یہ ایکٹنگ کرو گے۔سیدھی طرح جواب دو جو پوچھوں گا۔"

ضیغم نے اسے بازو سے پکڑ اپنی جانب کھینچا۔

"کیا پوچھنا چاہتے ہو؟"

شکور نے اپنا بازو اس کی گرفت سے آزاد کرانا چاہا مگر ضیغم کی گرفت مضبوط تھی۔

"اگر تم مجھے سچ سچ بتا دو تو میں تمھیں چھوڑ دوں گا۔"

ضیغم کی بات پہ شکور نے اسکی جانب دیکھا۔

"ایسا کیا پوچھنا چاہتے ہو۔۔۔"

شکور کے چہرے پہ حیرانی تھی۔

"قادر خان کہاں ہے؟"

ضیغم نے اسکے چہرے پہ نظریں گاڑھیں۔ضیغم نے غور کیا کہ قادر خان کا نام سن کر اسکے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔اس نے اپنا تیر نشانے پہ لگنے پہ خود کو شاباش دی۔اس نے اب تک اسی وجہ سے اسے پکڑ رکھا تھا کہ وہ میرسربلند خان کا خاص آدمی تھا اور بیرونی کاموں میں آگے آگے رہتا تھا۔اسکا شہر میں بھی آنا جانا رہتا تھا۔ضیغم کو شک تھا کہ قادر خان شہر میں کہیں روپوش ہے۔اس لئے شکور اسکے لئے آخری کنجی تھا جس یہ وہ یہ تالا کھول سکتا تھا۔

"میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم نے اور تمھارے خان جی نے اسے ایک عرصے سے شہر میں ہی کہیں چھپا رکھا ہے۔تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔۔۔اگر آرام سے بتا دو گے تو تمھارے حق میں بہتر ہو گا ورنہ اپنا حدف پورا کرنے کے میرے پاس اور بھی بہت سے طریقے ہیں اور تم تو اگلے چند منٹوں میں سب کچھ اگل دو گے۔"

ضیغم نے شرٹ کی آستینیں فولڈ کیں۔

"کون قادر خان۔۔۔۔۔؟؟"

اب اسکے چہرے پہ قادر خان سے شناسائی کی ایک بھی رمق باقی نہیں تھی۔۔وہ خود کو سنبھال چکا تھا۔

"عارف خان۔۔۔!!"

ضیغم نے حوالات سے باہر کچھ فاصلے پہ کھڑے عارف خان کو بلند آواز میں پکارا۔

"جی سر۔۔۔!"

وہ تیزی سے اندر آیا۔

"یہ دو مجھے اور تم جاو۔"

اس نے اسکے ہاتھ میں پکڑے موٹے سے ڈنڈے کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔عارف خان نے ڈنڈا اسکے ہاتھ میں دیا اور خود باہر آ گیا۔ڈنڈا دیکھ کر شکور کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

"سیدھی طرح بتا رہے ہو یا۔۔۔۔۔"

اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

"میں نے کہا نا کہ میں کسی قادر خان کو نہیں جانتا۔"

شکور نے صاف انکار کیا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔"

ضیغم نے کھڑے ہو کر ڈنڈے پہ گرفت مضبوط کی اور ہاتھ ہوا میں بلند کیا۔

"بتاتا ہوں۔۔۔بتاتا ہوں۔۔"

اس سے پہلے کہ ڈنڈا اسکی پیٹھ پہ بجتا شکور اٹھ کھڑا ہوا اور اس سے کچھ فاصلے پہ جا کر کھڑا ہو گیا۔ ضیغم نے ہاتھ نیچے کیا اور اسکی جانب بڑھا۔

"بولو۔۔۔۔"

ضیغم نے آستینیں سیدھی کیں۔

"وہ شہر میں ہے۔۔۔۔۔"

شکور کی نظر اسکے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے پہ تھیں۔

"وہ شہر میں ہے۔۔۔یہ تو میں بھی جانتا ہوں۔تم یہ بتاو کہ اسے شہر میں کہاں چھپا رکھا ہے۔"

ضیغم نے اس سے پوچھا۔

"مجھے صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ وہ شہر میں ہے۔اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا۔"

شکور نے اسے یقین دلایا مگر ضیغم اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔

"مجھے جھوٹ سخت ناپسند ہے۔"

ضیغم نے اسے گریبان سے پکڑ کر دیوار کی جانب دھکیلا۔شکور توازن برقرار نہ رکھ سکا اور دیوار سے ٹکرا کر نیچے گرگیا۔ضیغم ایک بار پھر ڈنڈا اٹھا کر اسکی جانب بڑھا تھا۔شکور ابھی سنبھل نہ پایا تھا کہ ضیغم کے ایک ہی وار سے دہرا ہو گیا۔اس سے پہلے کہ وہ اس پہ مزید اپنا غصہ نکالتا شکور بول پڑا۔

"خان جی کی شہر والی حویلی میں۔۔۔"

شکور اپنی پیٹھ ملنے لگا تھا۔

"عارف خان اس پہ کڑی نظر رکھنا۔۔کوئی بھی اس سے ملنے نہ پائے۔"

ضیغم بلند آواز میں کہتا حوالات سے باہر نکلا۔

"تم نے کہا تھا کہ تم مجھے چھوڑ دو گے۔۔تم ایسے نہیں جا سکتے۔۔۔میر۔۔۔۔"

شکور اسکی بات سن کر چیخنے لگا تھا جبکہ ضیغم نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔

"اوئے۔۔۔۔چپ کر کے بیٹھ جا۔۔۔اب آواز نہ آئے تیری۔"

عارف خان نے ڈنڈا جیل کی سلاخوں پہ مار کر اسے دیکھا۔شکور اسکی سرخ آنکھیں دیکھ کر خاموش ہو گیا۔اب یہاں سے نکلے گا تو میرسربلند خان اسے نہیں چھوڑے گا۔اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔لیکن اب کیا ہو سکتا تھا سوائے سر پکڑ کر بیٹھنے کے اور اس نے یہی کیا تھا۔

      _________________________________________

وہ بنا کسی کو بتائے پشاور آ گیا تھا۔ڈی۔آئی۔جی صاحب سے مل کر اس نے تمام تفصیل بتائی۔وہ ان سے اجازت چاہتا تھا مگر تمام تفصیل سننے کے بعد انھوں نے اسے ابھی ایسا کرنے سے منع کیا کیونکہ اس کیس کی کوئی ایف۔آئی۔آر درج نہیں تھی۔

"یہ اتنا آسان نہیں ہے جبکہ تمھارے بقول وہاں کے تھانے میں اسکا کوئی ریکارڈ بھی نہیں۔ہم اس کیس کو ری۔اوپن بھی نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی کیس ہی نہیں ہے۔اوپر سے تم الزام بھی کس پہ لگا رہے ہو جو کہ ایک سیاسی شخصیت ہے اور تمھارے تایا بھی ہیں۔

ڈی۔آئی۔جی صفدر اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔

"مگر سر میں اپنے والدین کے قاتلوں کو اسطرح نہیں چھوڑ سکتا۔ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔انھیں اس رسم کی بھینٹ چڑھایا گیا تھا۔یہ سب برداشت کرنا میرے لئے بہت مشکل ہے۔"

ضیغم کے چہرے پہ تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔

"میں تمھاری فیلنگز سمجھتا ہوں مگر اس مسئلے کو ہم اس طرح ہینڈل نہیں کر سکتے۔"

انھوں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔وہ ان کی جانب خاموشی سے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔

وہاں سے نکلتے ہوئے وہ یہ سوچ چکا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔اس نے یہ کام اکیلے ہی کرنا تھا۔ارحم سے ملنے کا پلان کینسل کرتا وہ میرسربلند خان کی رہائش گاہ آیا۔دروازے پہ ایک بڑا سا تالا لگایا گیا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کافی عرصے سے یہاں کوئی نہیں آیا ہو۔۔میرسربلندخان کی شہر میں دو رہائش گاہیں تھیں۔ایک ڈیفینس میں اور دوسری یہ جو ایسے علاقے میں تھی جہاں اتنی آبادی نہیں تھی۔ اس نے بنگلے کا چاروں جانب سے جائزہ لیا۔بنگلے کی پچھلی جانب بھی ایک چھوٹا سا داخلی دروازہ تھا۔دروازہ اندر سے بند تھا جس کا مطلب تھا کہ جو کوئی بھی یہاں رہتا ہے وہ آنے جانے کے لئے یہ دروازہ استعمال کرتا ہے۔آس پاس کافی خاموشی تھی۔وہ اردگرد کا اچھے سے جائزہ لینے کے بعد وہ وہاں سے پروفیسر محمد عقیل کے گھر آیا تھا۔وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور گلالئی کیس میں کامیابی حاصل کیلئے انھوں نے اسے مبارکباد دی۔۔کچھ وقت ان کے پاس گزار کر وہ فلیٹ آ گیا تھا۔اسے رات کو یہاں سے نکلنا تھا۔انسپیکٹر عمر خان کو وہ اپنے اگلے پلان کے بارے میں بتا چکا تھا۔اس نے اسکی ہمت بڑھائی۔اسے تمام تفصیل سے آگاہ کرنے کے بعد وہ تیاری کرنے لگا۔رات نو بجے کا انتظار اسکے لئے بہت کٹھن ثابت ہو رہا تھا۔

وہ سستی سے بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا۔اسکا ارادہ تو تھوڑی سی نیند لینے کا تھا مگر وہ سو نہیں پا رہا تھا۔جیب سے موبائل نکال کر وہ ان تصویروں کو بغور دیکھنے لگا جو میرسربلندخان کے بنگلے کی تھیں۔ہر اینگل سے اس نے کافی پکچرز بنائی تھیں۔موبائل کی اسکرین کو ٹچ کرتے ہوئے وہ کچھ دیر تصویر کو غور سے دیکھتا اور پھر اگلی تصویر کی جانب بڑھتا۔گھر کی تصویریں ختم ہو گئیں اور مسکاء کی پکچرز جو اس نے ٹریننگ پہ جانے سے پہلے اسی روم میں کھینچی تھیں دیکھنے لگا۔جس سے اسکا دھیان بٹ گیا۔وہ ہر تصویر پہ رک کر اسے زوم کرتا اسکے ایک ایک نقش کو دل میں اتار رہا تھا۔اس کا دل شدت سے اس سے بات کرنے کو چاہنے لگا۔اس نے مسکاء کا نمبر ملا کر موبائل کان سے لگایا۔

"ہیلو۔۔! آپ کہاں ہیں ضیغم۔۔؟

پہلی ہی بیل پہ فون اٹھا لیا گیا۔۔مسکاء کی آواز سن کر اس کے جلتے دل پہ سکون کی پھوار برسنے لگی۔

"میں آپ کے دل میں۔۔۔۔"

وہ تکیے سے ٹیک لگاتا ریلیکس ہو کر لیٹ گیا۔

"ضیغم میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔آپ کہاں ہیں اس وقت۔۔۔۔۔؟"

مسکاء کی سنجیدہ آواز سنائی دی۔

"میں بھی مذاق نہیں کر رہا۔۔"

ضیغم نے لہجے میں سنجیدگی سمو کر کہا۔

"آپ ٹھیک سے بات نہیں کر سکتے تو میں فون بند کر رہی ہوں۔"

وہ دھمکی دینے لگی۔

"کیا یار۔۔۔۔تمھیں تھوڑی سی لفٹ کیا کرائی تم تو بیوی جیسا بی ہیو کرنے لگی ہو۔۔زیادہ سر پہ نہ ہی چڑھاتا تو اچھا تھا۔"

وہ اسے چھیڑنے سے باز نہ آیا۔

"کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔؟"

مسکاء نے اسکے کان کا پردہ پھاڑنے کی کوشش کی۔ضیغم نے موبائل کو کان سے کچھ فاصلے پہ کیا۔

"میں آپکے دل، گردے، پھیپھڑے، دماغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ اسے ایک ایک حصہ گنوانے لگا۔۔۔۔آگے بھی بولتا مگر وہ کال کاٹ چکی تھی۔اس نے ہنستے ہوئے دوبار کال کی۔

"کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟"

مسکاء پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولی تھی۔

"ارے واہ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کہنے۔۔ہماری بلی اور ہم ہی کو میاوں میاوں۔۔۔"

وہ لبوں پہ پھیلتی مسکراہٹ کو نہ روک سکا جبکہ وہ خاموش رہی۔

"مسکاء۔۔۔۔۔!"

ضیغم نے اسکی خاموشی محسوس کرتے ہوئے اسے پکارا تھا۔

"میں شہر آیا ہوا ہوں کسی کام کے سلسلے میں۔۔رات تک آ جاوں گا۔"

وہ خاموش رہی تو وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا۔

"کم از کم آپ بتا کر تو جاتے نا۔۔میں اور بابا یہاں کتنے پریشان ہیں۔۔آپ کو کچھ احساس ہے۔۔"

اسکے لہجے میں پریشانی محسوس کر کے وہ شرمندہ ہوا۔اسے انھیں بتا کر آنا چاہئیے تھا۔

"اور اتنی رات کیوں ہے واپسی۔۔۔۔؟"

مسکاء نے اس کے اتنی رات کو آنے پہ اعتراض کیا۔

"کچھ کام ہے نا۔۔۔بتایا تو ہے۔"

ضیغم اس کے انداز پہ مسکرا دیا۔

"ٹھیک ہے۔۔اپنا خیال رکھیں۔۔اللہ حافظ۔"

اسے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتی وہ بولی۔

"اچھا بھئی۔۔۔۔لیکن یہ اللہ حافظ کس خوشی میں۔۔ابھی تو ٹھیک سے بات بھی نہیں ہوئی۔۔"

وہ پھر پٹری سے اترنے لگا۔

"اب آپکو کام نہیں ہے۔۔۔؟"

مسکاء نے مسکراہٹ دبائی۔

"آپ بھی تو ایک کام ہیں۔۔۔۔"

وہ اسے بھڑکانے والے لہجے میں بولا تھا اور وہ بھڑک بھی گئی۔

"کیا۔۔۔۔کیا۔۔؟؟میں کام ہوں۔۔۔۔۔۔؟"

اس نے اونچی آواز میں پوچھا۔

"کچھ عشق کیا کچھ کام کیا۔۔۔۔

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے

جو عشق کو کام سمجھتے تھے 

یا کام سے عاشقی کرتے تھے 

ہم جیتے جی مصروف رہے 

کچھ عشق کیا کچھ کام کیا 

کام عشق کے آڑے آتا رہا 

اور عشق سے کام الجھتا رہا 

پھر آخر تنگ آ کر ہم نے 

دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔۔۔۔"

ضیغم کا بھاری لہجہ اسکے دل تک راستہ بنانے لگا۔ایک مدھر سی مسکراہٹ مسکاء کے گداز لبوں پہ ٹھہر گئی۔۔

"عشق فیض احمد فیض نے چھوڑا ہے۔۔میں نہیں چھوڑنے والا۔۔۔نہ تمھیں نہ تمھارے عشق کو۔۔"

اسکی بات سن کر مسکاء ہنس دی۔۔

"میرا بھی یہی ارادہ ہے۔۔"

مسکاء کی کھنکتی ہنسی اسکے کانوں رس گھولنے لگی۔۔

"سنو اے ہم سفر میری

مجھے تم سے یہ کہنا ہے

مجھے تم سے محبت تھی

مجھے تم سے محبت ہے

میرے دن رات میں تم ہو

میری ہر بات میں تم ہو

خوشی کے جتنے موسم بھی

تمہارے ساتھ دیکھے ہیں

میرے جیون کا حاصل ہیں

تمہارے نام کے جگنو،

تمہارے لمس کی خوشبو،

تمہارے پیار کا جادو

میری رگ رگ میں شامل ہیں۔۔

میں اپنی ذات کے چاہے کسی موسم میں رہتا ہوں۔۔

ہر اک موسم تمہارا ہے

تمہارا ساتھ پیارا ہے

میرے ہر پل میں رہتی ہو

جو میرا دل ہے پاگل سا

اسی پاگل میں رہتی ہو

سنو! تم سے یہ کہنا ہے

کہ تم میری محبت سے کبھی مت بدگماں ہونا

کہ میری زندگانی کے سبھی رستے جو سچ پوچھو

تمہاری سمت آتے ہیں۔۔

میں تم سے دور رہ پاؤں یہ اب ممکن نہیں جاناں۔۔!!

سنو۔۔!

عہد محبت کی مجھے تجدید کرنی ہے

پرانی بات ہے لیکن مجھے پھر بھی یہ کہنی ہے

مجھے تم سے محبت تھی، مجھے تم سے محبت ہے

ہر اک موسم تمہارا ہے

تمہارا ساتھ پیار ہے

سنو اے ہمسفر میری۔۔۔!!"

ضیغم کی محبت خوشبو کی مانند اسکے اردگرد ٹھہرنے لگی تھی۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے آنکھیں موند گئی۔۔۔

       _________________________________________

اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں اس نے گاڑی کو سڑک کی ایک جانب کھڑا کیا۔یہ بنگلے کی پچھلی جانب تھی۔سامنے سے جانا اس نے مناسب نہیں سمجھا۔اس وقت یہ علاقہ نسبتا خاموش اور سنسان سا لگ رہا تھا۔وہاں موجود اکا دکا گھروں میں بھی موت کی سی خاموشی تھی۔وہ ٹارچ اور پسٹل جیب میں رکھتا آگے بڑھا۔آس پاس گہری نظر رکھتا وہ آگے بڑھ رہا تھا۔بنگلے کے قریب پہنچ کر وہ دیوار پہ چڑھنے لگا۔دیوار پہ لگے جنگلے کی مدد سے وہ باآسانی دیوار پہ چڑھ گیا۔اس نے ایک بار پھر پیچھے دیکھا اور نیچے چھلانگ لگا دی۔اس جانب بھی ایک چھوٹا سا لان تھا۔دیوار کے ساتھ درخت بھی اگائے گئے تھے۔بالکل اندھیرا ہونے کے باعث اسے ٹھیک سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔صرف کچھ ہی فاصلے پہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں بلب کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔وہ دھیرے سے آگے بڑھا تھا۔یہ کمرا باقی گھر سے بالکل الگ بنا ہوا تھا۔وہ دروازے کے قریب پہنچ گیا۔دروازہ اندر سے بند تھا۔اس نے دروازے پہ ناک کیا۔

"خاور۔۔۔۔کیا بات ہے؟"

اندر سے آواز آئی۔۔۔

"قادر خان۔۔۔میں ہوں۔۔۔شکور۔۔۔خان جی آئے ہیں تم سے ملنے۔"

ضیغم نے آواز کو کسی حد تک تبدیل کیا۔

"کیا۔۔۔؟؟خان جی آئے ہیں؟"

قادر خان نے فورا دروازہ کھول دیا۔اس سے پہلے کہ وہ حقیقت سے واقف ہوتا ضیغم اسے دھکیلتا اندر داخل ہو گیا۔قادر خان سمجھ نہیں پایا تھا اور حیرانی سے آنے والے کو دیکھنے لگا تھا۔ضیغم نے دیکھا وہ ایک سانولی رنگت اور درمیانے قد کا شخص تھا۔عمر پچاس سے پچپن کے لگ بھگ تھی۔صحت بھی کچھ خاص نہیں تھی۔

"کون ہو تم۔۔۔۔؟"

وہ ضیغم کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔اچانک اسکے ذہہن میں جھماکا ہوا۔

"تم۔۔۔۔دراب خان کے بیٹے؟"

قادر خان کا اتنا کہنا تھا کہ ضیغم نے ہاتھ میں پکڑا رومال اسکے ناک پہ رکھا۔کچھ ہی پلوں میں اس نے ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دیئے۔اب اس میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ ضیغم کا مقابلہ کرسکتا۔ضیغم نے اسکے بےہوش وجود کو اٹھایا اور باہر کی جانب لپکا۔گاڑی کے قریب پہنچ کر اس نے اسے گاڑی میں لٹا دیا اور خود پھرتی سے ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا۔

کچھ دیر میں گاڑی گاوں جانے والی سڑک پہ تیزی سے گامزن تھی۔۔

عمر خان کو اس نے بتا دیا تھا۔وہ اسکا انتظار کر رہا تھا۔قادر خان اب تک بے ہوش تھا۔رات بارہ بجے کے قریب وہ گاوں میں داخل ہوا۔گاڑی کا رخ تھانے کی جانب تھا۔تھانے پہنچ کر اس نے قادر خان کو انسپیکٹر عمر خان کے حوالے کیا۔ایس۔ایچ۔او طارق خان کے چہرے پہ حیرانی تھی۔

"سر۔۔۔!! یہ کون ہے؟"

ضیغم اور عمر خان نیم بے ہوش قادر خان کو اندر لے کر آئے۔

"عمر خان کے ساتھ مل کر اسے اندر لے جاو اور شکور کے ساتھ حوالات میں بند کر دو۔۔باقی باتیں صبح ہوں گی۔"

ضیغم ایس۔ایچ۔او طارق خان کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے بولا۔وہ اسکے کہنے پر سر ہلاتا آگے بڑھا۔وہ دونوں قادر خان کو لے آگے بڑھے۔ضیغم ان کے پیچھے ہی تھا۔عارف خان نے انھیں آتے دیکھ کر تالا کھولا۔دونوں نے مل کر قادر خان کو اندر لٹا دیا۔شور سن کر سوئے ہوئے شکور کی آنکھ کھل گئی۔وہ آنکھیں ملتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"شکور۔۔۔۔تمھارے ساتھی کو لے آیا ہوں میں۔"

ضیغم نے قادر خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شکور سے کہا۔شکور نے مدھم لائٹ کی روشنی میں نیچے لیٹے ہوئے شخص کو غور سے دیکھا۔قادر خان کو دیکھ کر اسکی ادھ کھلی آنکھیں پوری کھل گئیں۔وہ حیرانی سے ضیغم کو دیکھنے لگا۔

"یہ۔۔۔یہ تو قادر خان ہے۔"

وہ پریشان چہرہ لئے قادر خان کو دیکھ رہا تھا جو بےسد نیچے زمین پہ پڑا ہوا تھا۔

"ہاں۔۔۔قادر خان۔۔۔تم اسکے بغیر خود کو ادھورا محسوس کر رہے ہو گے تو میں نے سوچا تمھاری تنہائی دور کر دوں۔"

ضیغم اس پہ ایک طنزیہ ہنسی اچھال کر وہاں سے چلا گیا۔باہر وہ دونوں اسکے منتظر تھے۔

"ابھی یہ بات باہر نہیں نکلنی چاہئیے جب تک میں نہ کہوں۔"

وہ دونوں سے کہتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔وہ دونوں کافی دیر تک وہیں کھڑے رہے جبکہ تھانے میں اب خاموشی کا راج تھا۔

    _________________________________________

"خان جی۔۔۔"

زمان خان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ایک عجیب سے احساس نے ان کا گھیراؤ کیا۔

"باتور خان۔۔۔۔!!"

میرسربلند خان بھی کھڑے ہو گئے اور حجرے کے داخلی دروازے کی جانب دیکھا۔ان کے چہرے پہ چھائی عجیب سی مسکراہٹ زمان خان کو خوف میں مبتلا کیے دے رہی تھی۔انھوں نے بھی دروازے کی جانب دیکھا۔جہاں سے باتور خان اندر داخل ہوا۔ان کا ذہہن اچانک مسکاء کی جانب گیا۔وہ گھر میں اکیلی تھی۔باتور خان ان کی جانب آ رہا تھا۔وہ نہیں جانتے تھے کہ اگلے پل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

"ضیغم قادر خان کو ڈھونڈ رہا ہے۔کیونکہ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ اسکے ماں باپ کو قادر خان نے قتل کیا ہے اور وہ بھی میرے کہنے پہ۔۔"

میرسربلند خان دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے زمان خان کے قریب آئے۔

"خان جی۔۔۔۔مجھے اس بارے میں کچھ۔۔۔۔"

"سارا گاوں جانتا ہے کہ اس کے باپ کو قادر خان نے اپنے بدلے کی آگ بجھانے کے لئے قتل کیا تھا مگر تم یہ بات بھول گئے شاید۔"

میرسربلند خان اور باتور خان زمان خان کو گھیرے کھڑے تھے۔ان کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ 

"ڈرو مت زمان خان۔۔۔۔وہ کیا ہے کہ بڑی مچھلی کو پکڑنے کے لئے چھوٹی مچھلی کو چارہ بنانا ہی پڑتا ہے۔"

میرسربلند خان ان کے پریشان چہرے کو دیکھ کر ہنستے ہوئے بولے۔

"خان جی۔۔۔۔میں سمجھاوں گا اسے۔۔"

زمان خان پلٹ کر جانے لگے۔

"ارے چاچا۔۔۔کہاں بھاگ رہے ہو۔۔"

باتور خان نے زمان خان کو بازو سے پکڑ کر روکا۔

"خان جی۔۔۔"

زمان خان نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے میرسربلند خان کی جانب دیکھا۔

"باتور خان۔۔۔۔زمان خان اب ہمارا مہمان ہے۔۔اس کی خوب اچھے سے خاطر تواضع کرنا تمھارا کام ہے۔مجھے کوئی شکایت نہ ملے۔۔"

میرسربلند خان نے مسکرا کر باتور خان کی جانب دیکھا اور وہیں سے پلٹ گئے۔ان کا رخ حویلی کی جانب تھا۔

"خان جی آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔چھوڑو باتور خان۔"

زمان خان نے میرسربلند خان کو جاتے دیکھکر باتور خان سے کہا۔

"زیادہ اچھل کود مت کرو چاچا۔۔۔تمھارا لاغر وجود اس قابل نہیں کہ میرا وار جھیل سکے۔اس لئے سیدھے سیدھے چلو۔۔جہاں میں لے جاوں۔"

باتور خان نے زمان خان کو آگے کی جانب دھکیلا۔۔وہ گرتے گرتے بچے تھے۔

"زمان خان تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔۔نمک حرامی کی۔۔میں نے تم پہ احسان کیا اور تم نے وہ احسان میرے منہ پہ دے مارا۔۔اب بھگتو۔۔۔تم باپ بیٹے کو ایسی سزا دوں گا کہ سارا گاوں یاد کرے گا۔۔۔لے جاو اسے باتور خان۔۔۔۔۔اسکا بیٹا خود ہی دوڑتا ہوا آئے گا۔"

میرسربلند خان نے پلٹ کر کہا۔۔۔ان کے لہجے کی سختی اب چہرے سے بھی جھلکنے لگی تھی۔

"خان جی۔۔۔۔آ۔۔۔آپ جانتے نہیں ہیں میرے بیٹے کو۔۔وہ نہ تو بزدل ہے اور نہ بیوقوف۔۔اسے پالا میں نے ہے مگر اسکی رگوں میں دوڑتا خون میردراب خان کا ہے۔۔۔آپ کا ہے۔۔جو اپنے اور اپنے دشمن کے درمیان فاصلہ رکھنا نہیں جانتا۔۔وہ ضرور اس کام کو پورا کرے گا جسکا اس نے ارادہ کیا ہے۔۔اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اسے کمزور کر دیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے۔۔۔وہ شیر ہے۔۔اس چوٹ سے بپھر تو سکتا ہے مگر ڈر نہیں سکتا۔"

وہ بلند آواز میں کہہ رہے تھے جبکہ باتور خان انھیں اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے پچھلی گلی کی جانب بڑھ رہا تھا۔

"ایک بار آ تو لینے دو اسے۔۔میں اسے بھی اسی جہان کی سیر کراوں گا جسکی اسکے ماں باپ کو کروائی تھی اور تم فکر مت کرو۔۔۔۔جو بھی ہو گا تمھاری آنکھوں کے سامنے ہوگا۔"

وہ یہ کہہ کر رکے نہیں اور تیزی سے حویلی کے اندر کھلنے والے دروازے سے حویلی میں چلے گئے۔

"تم کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہے ہو باتور خان۔۔جانے دو مجھے۔۔۔"

وہ باتور خان کی گرفت سے اپنا بازو چھڑانے لگے۔

"چاچا۔۔۔۔بس بہت ہو گیا۔"

یہ کہہ کر باتور خان نے انھیں دیوار کی جانب دھکا دیا۔ان کا سر دیوار سے جا ٹکرایا۔۔ان کی پیشانی سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا۔۔اگلے ہی پل وہ حواس کھو بیٹھے تھے۔۔باتور خان نے انھیں اٹھا کر اپنے کندھے پہ ڈالا اور حجرے کی پچھلی جانب آ گیا۔جب اس میں انھیں مزید سنبھالنے کا یارا نہ رہا تو اس نے انہیں کندھے سے اتارا۔وہ ابھی تک حواس سے بیگانہ تھے۔ادھر ادھر دیکھنے پہ باتور خان کو سامنے ایک کمرہ سا دکھائی دیا۔اس نے ایک بار پھر ان کے بے ہوش وجود کو اٹھایا اور کمرے کی جانب بڑھا۔

اس نے کمرے کے دروازے کو ٹھوکر مار کر کھولا۔اندر دھول مٹی کا ایک غبار تھا جو اس کے نتھنوں سے ٹکرایا۔کمرے کے وسط میں ایک چارپائی پڑی تھی۔اس نے انھیں چارپائی پہ ڈالا اور تیزی سے وہاں سے باہر آ گیا۔اس نے دروازے پہ باہر سے کنڈی لگائی۔وہاں دروازے سے کچھ ہی فاصلے پہ اسے زنگ آلود تالا پڑا ہوا دکھائی دیا۔اس نے تالا اٹھا کر دروازے پہ لگانا چاہا مگر زنگ آلود ہونے کی وجہ سے تالا بند نہیں ہو رہا تھا۔وہ تالے کو بند کیے بغیر وہاں سے نکل آیا۔

حجرے کی اگلی جانب آ کر اس نے ایک طرف لگے نل سے ہاتھ منہ دھویا اور حویلی آ گیا۔جہاں میرسربلند خان اسکا انتظار کر رہے تھے۔

      _________________________________________

"پتہ نہیں بابا کہاں چلے گئے ہیں اماں۔۔۔مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔مغرب کی نماز پڑھ کر آئے ہی تھے کہ دروازے پہ دستک ہوئی تھی۔میں کچن میں تھی اس وقت۔۔۔چائے بنا رہی تھی ان کے لئے۔۔خاموشی پہ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو وہ دروازہ سے باہر کھڑے کسی سے بات کر رہے تھے۔کچھ دیر بعد دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔میں کچن سے باہر آئی تو گھر میں نہیں تھے۔میں نے سوچا کسی کام سے گئے ہونگے کچھ دیر میں آ جائیں گے۔مگر اب تک نہیں لوٹے۔"

بہتے آنسووں کے درمیان وہ انھیں بتا رہی تھی۔

"پریشان مت ہو۔۔۔تمھارے بابا دیکھنے گئے ہیں نا۔۔یہیں کہیں ہونگے۔۔ضیغم کہاں ہے۔۔؟؟"

اس کی بات سن کر تو ذہرہ بی بی بھی پریشان ہو گئی تھیں کیونکہ زمان خان اتنے لاپرواہ نہیں تھے اور اب جبکہ انھیں پتہ تھا کہ مسکاء بھی اکیلی ہوتی ہے گھر میں۔۔۔

آج صبح سے ہی مسکاء انھیں بہت یاد آ رہی تھی۔رحم دین گھر آئے تو وہ انھیں ساتھ لئے مسکاء سے ملنے چلی آئیں۔لیکن یہاں آ کر معلوم ہوا کہ زمان خان کافی ٹائم سے کہیں گئے ہوئے ہیں۔۔۔وہ بھی بنا بتائے اور اب تک نہیں لوٹے ہیں۔۔مسکاء کا تو رو رو کر برا حال ہو رہا تھا۔

"ضیغم کہاں ہے مسکاء۔۔؟؟"

انھوں نے اس سے دوبارہ پوچھا۔

"وہ کل شہر گئے تھے۔۔۔میری بات ہوئی تھی کہہ رہے تھے رات تک آ جائیں گے۔"

مسکاء نے آنسو پونچتے ہوئے انھیں بتایا۔

"اسے بتایا تو نہیں۔۔۔۔؟"

وہ اس سے ضیغم کی بابت پوچھ رہی تھیں کہ دروازہ کھلنے کی آواز پہ انھوں نے پلٹ کر دیکھا۔رحم دین اندر داخل ہو رہے تھے۔

"بابا۔۔۔۔۔ملے زمان بابا۔۔؟ ساتھ نہیں لائے انھیں آپ؟"

مسکاء تیزی سے اٹھ کر ان کے پاس آئی تھی۔ذہرہ بی بی بھی ان کے پیچھے آئی تھیں۔انھوں نے ذہرہ بی بی کی جانب دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔

"ہر جگہ دیکھ لیا۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔کسی نے بھی اسے مغرب کے بعد سے نہیں دیکھا۔جس جس سے پوچھا یہی کہہ رہا تھا کہ مسجد میں ہی دیکھا تھا۔"

رحم دین تھکے ہارے قدموں چلتے ہوئے انھیں وہیں کھڑا چھوڑ کر چارپائی پہ آ بیٹھے جبکہ مسکاء تو خاموشی سی وہیں کھڑی رہ گئی۔

"ڈسپینسری میں دیکھا۔۔؟ کیا پتہ طبیعت خراب ہو تو وہاں چلے گئے ہوں۔"

ذہرہ بی بی مسکاء کو تھامے ان کے پاس آئیں۔

"وہاں بھی گیا تھا۔۔۔نہیں ہے وہاں بھی۔"

وہ کندھے پہ پڑے رومال کو سر کے گرد لپیٹتے ہوئے بولے۔

"بابا۔۔۔حویلی۔۔۔وہ حویلی گئے ہونگے۔۔آپ بی بی گل سے پوچھ آتے۔"

مسکاء نے انھیں پرامید نظروں سے دیکھا کہ شاید وہ وہاں نہ گئے ہوں۔

"وہاں سے ہو آیا ہوں۔۔۔بی بی گل سے تو کسی نے ملنے ہی نہیں دیا اور نہ ہی کسی نے زمان خان کو دیکھا ہے۔۔تم ضیغم سے بات کرو۔"

رحم دین نے مسکاء کی جانب نظر کی۔۔رونے سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔اس نے اندر آ کر موبائل اٹھایا۔۔رحم دین اور ذہرہ بی بی کے آنے سے پہلے بھی وہ ضیغم کو کئی بار کال کر چکی تھی مگر اس کا فون مسلسل بند جا رہا تھا۔۔ایک بار پھر اس نے نمبر ڈائل کیا مگر نمبر بند تھا۔

وہ ہاتھ سے پیشانی مسلتی باہر آگئی۔

"بابا ان کا نمبر بند جا رہا ہے۔۔"

وہ کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولی۔

"مجھے تو لگتا ہے جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

رحم دین کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئے۔۔

"اللہ نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو۔۔۔۔آپ کی بات سے تو میرے دل میں ہول اٹھ رہے ہیں۔۔اللہ خیر کرے۔"

ان کی بات سن کر ذہرہ بی بی دل تھام کر بولیں۔جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

"مسکاء۔۔۔ادھر آو۔۔۔"

مسکاء کے چہرے کی اڑتی رنگت دیکھ کر ذہرہ بی بی نے اس کے لئے اپنے قریب جگہ بنائی۔۔وہ ان کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔۔ذہرہ بی بی کے سینے سے سر ٹکا کر دل ہی دل میں وہ ان دونوں کے لئے دعاگو تھی۔۔

گھڑی کی سوئیاں ایک بجے کا وقت بتا رہی تھیں جب دروازے پہ دستک ہوئی۔وہ صحن میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔دستک کی آواز پہ رحم دین فورا اٹھے اور دروازے کی طرف بڑھے۔

"پوچھ کے کھولیے گا دروازہ۔۔۔۔"

اپنے پیچھے ذہرہ بی بی کی آواز پہ ان کے قدم پل بھر کو تھم گئے تھے۔۔پلٹ کر ان کی جانب دیکھا اور پھر سر ہلا کر آگے بڑھ گئے۔

"کون۔۔۔۔۔؟"

دروازے کے قریب پہنچ کر انھوں نے آہستگی سے پوچھا۔۔

"میں ہوں چاچا۔۔۔ضیغم۔۔۔"

وہ رحم دین کی آواز سن کر حیران ہوا تھا۔رحم دین نے فورا دروازہ کھول دیا۔ضیغم اندر داخل ہوا۔

"السلام و علیکم چاچا۔۔۔۔آپ یہاں اس وقت۔۔۔سب خیریت تو ہے نا۔۔مسکاء۔۔۔۔۔۔۔"

اس نے ان کے بالکل پیچھے دیکھا۔۔مسکاء کو دیکھ کر اس نے سکون کی سانس لی لیکن اگلے ہی پل اس کے آنسووں سے دھلے سرخ چہرے پہ نظر پڑی تو پریشانی سے اس کی طرف بڑھا۔

"مسکاء۔۔۔کیا بات ہے تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟"

ضیغم نے اسے بازوں سے پکڑ کر بغور سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا۔

"ضیغم۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔"

ضیغم کو ماحول میں کسی کمی کا احساس ہوا۔

"بابا۔۔۔۔۔؟ کہاں ہیں بابا؟"

وہ چاروں طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔زمان خان کے کمرے کی لائٹ بھی بند تھی۔

"تم بیٹھو۔۔۔۔"

رحم دین نے اسے کرسی پہ بٹھایا اور خود اس کے سامنے بیٹھ گئے۔انہوں نے اسے ساری بات بتائی۔

"میں جانتا ہوں کہ یہ کام کس کا ہے اور میں چھوڑوں گا نہیں اسے۔۔"

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور باہر کی جانب لپکا۔

"بیٹا یہ وقت وہاں جانے کا نہیں۔۔۔اور اگر انھوں نے کیا ہے تو وہ تمھیں بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔میں گیا تھا۔کسی نے کچھ بھی نہیں بتایا۔وہاں بھی سب نے خود کو لاعلم ظاہر کیا ہے۔"

رحم دین نے اسے روکا۔

"چاچا۔۔۔وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا اور جو طریقہ اس نے اپنایا ہے یہ اسے بہت مہنگا پڑے گا۔اگر بابا کو کچھ بھی ہو گیا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"

وہ اپنا ہاتھ چھڑاتا تیزی سے باہر نکل گیا۔

"ضیغم۔۔۔بیٹا رکو۔۔"

رحم دین اس کے پیچھے دوڑے تھے۔مسکاء اور ذہرہ بی بی بھی ان کے پیچھے باہر آئیں تھیں مگر وہ رکا نہیں۔کچھ دیر تو رحم دین وہیں کھڑے اسے جاتا دیکھتے رہے پھر سست قدموں سے واپس لوٹ آئے۔

      _________________________________________

"اب آپ دیکھیئے گا خان جی شکار کیسے خود ہمارے جال میں پھنستا ہے۔اس بار ایسا سبق سکھاوں گا کہ سب بھول جائے گا۔"

وہ داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔میرسربلند خان بھی اسکی بات سن کر مسکرا دئیے۔

"پھنستا ہے نہیں۔۔سمجھو پھنس گیا۔۔جیسے ہی اسے معلوم ہوگا وہ اسے بازیاب کروانے ضرور آئے گا۔کب سے انتظار تھا مجھے اس وقت کا۔۔میں اس کے چہرے پہ وہی بےچارگی دیکھنا چاہتا ہوں جو اس باپ کے چہرے پہ دیکھی تھی۔۔میں چاہتا ہوں کہ وہ گڑگڑا کر مجھ سے معافی مانگے اور میں اسے دھتکار دوں۔"

میرسربلندخان کی گردن غرور سے تن گئی تھی۔۔لہجے میں طاقت کا نشہ بول رہا تھا۔

"خان جی۔۔۔زمان خان کا کیا کرنا ہے؟"

باتور خان نے پوچھا۔

"اسے وہیں پڑا رہنے دو۔۔۔لیکن دیکھو خیال رکھنا کہیں مر ور نہ جائے۔۔کھانا پینا دیتے رہنا۔"

وہ اپنے گرد چادر اچھی طرح لپیٹتے ہوئے بولے۔

"لیکن خان جی۔۔۔اگر میر سب کچھ جانتا ہے تو وہ اپنے ماں باپ کی قبروں سے بھی واقف ہو گا اور اگر وہاں سے واقف ہے تو زمان خان کو وہاں رکھنا ٹھیک نہیں۔اسے کہیں اور پہنچانا ہو گا۔وہاں تو وہ آسانی سے پہنچ جائے گا۔"

باتور خان نے اپنی سرخ آنکھیں ان پہ مرکوز کرتے ہوئے کہا۔

"بات تو تمھاری ٹھیک ہے۔۔۔میں اتنی آسانی سے بازی پلٹنے نہیں دے سکتا۔تم ایسا کرو کہ کل رات کے وقت زمان خان کو شہر والے بنگلے میں پہنچا دو لیکن احتیاط کرو کہ قادر خان سے اسکا سامنا نہ ہو۔ایک دو دن بعد اسکا پکا بندوبست کر لیں گے۔بہت ستا لیا ان دونوں نے ہمیں۔۔اب ہماری باری ہے۔۔ناکوں چنے نہ چبوا دئیے تو میرا نام بھی میرسربلند خان نہیں۔"

وہ مٹھیاں بھینچ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ٹھیک ہے میں ابھی لے جاتا ہوں۔۔کل تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔"

باتور خان دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ابھی وہ دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ گلاب خان تیزی سے اندر داخل ہوا۔

"کیا بلا پڑ گئی ہے جو ایسے بھاگے چلے آ رہے ہو؟"

باتور خان نے اسے وہیں روک دیا۔

"خان جی باہر کوئی بندہ آیا ہے آپ سے ملنے کے واسطے۔۔۔کہہ رہا ہے کہ اسے ایس۔ایچ۔او طارق خان نے بھیجا ہے۔کوئی پیغام دینا ہے آپکو۔"

گلاب خان نے باتور خان کی جانب دیکھے بغیر میرسربلند خان سے کہا۔

"بھیج دو اسے یہیں۔۔"

ان کے کہنے پہ وہ واپس پلٹ گیا۔

"ضرور کو ضروری پیغام ہو گا جو اس نے اس وقت کسی کو بھیجا ہے۔"

باتور خان واپس اپنی جگہ پر آ بیٹھا۔

"ہیم۔۔۔۔۔دیکھتے ہیں۔"

ان کی پرسوچ نظریں دروازے پہ ٹکی ہوئیں تھیں۔پیشانی پہ شکنوں کا جال ایک بار پھر ابھر آیا تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ شخص اندر داخل ہوا۔سادہ سے لباس میں ملبوس اس شخص کو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔باتور خان بھی بغور اس غیر شناسا شخص کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔اس نے بھی اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

"ہاں بولو۔۔۔کیا پیغام دیا ہے طارق نے؟"

وہ اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔

"طارق نے کہا ہے کہ اے۔ایس۔پی میر ضیغم خان ابھی کچھ دیر پہلے کسی قادر خان کو پکڑ کر لایا ہے۔وہ اس وقت حوالات میں ہے بےہوشی کی حالت میں۔۔انسپیکٹر عمر خان کو اس پہ کڑی نظر رکھنے کو کہا ہے اور سختی سے منع کیا ہے کہ کسی کو بھی شکور اور قادر خان سے ملنے نہ دیا جائے۔"

اس بار رنگ اڑنے کی باری ان دونوں کی تھی۔میرسربلندخان تو ایسے کھڑے رہ گئے جیسے کسی نے ان سے قوت گویائی چھین لی ہو۔باتور خان بھی حیران پریشان کھڑا تھا۔

"یہ کیسے ممکن ہے؟؟ وہ قادر خان تک کیسے پہنچ گیا۔وہاں کے بارے میں اسے کس نے بتایا؟"

انھوں نے غصے سے اپنے گرد لپٹی چادر اتار کر دور پھینک دی۔

"مجھے نہیں پتہ۔۔۔بس مجھے اتنا کہا گیا ہے کہ یہ خبر میں آپ تک پہنچا دوں۔اب میں چلتا ہوں۔"

یہ کہہ کر وہ شخص پلٹ گیا۔

"میں اس کمینے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔وہاں تک کیسے پہنچا وہ اور کس کی مدد سے۔۔۔"

ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسطرح اس تنگ ہوتی گلی سے نکلیں۔۔وہ جتنا بھاگنے کی کوشش میں تھے وہ اتنا ہی ان کے گرد گھیرا تنگ کرتا جا رہا تھا۔

"مجھے تو لگتا ہے اس سلسلے میں شکور نے اس کی مدد کی ہو گی۔۔ہو سکتا ہے اس نے سختی سے کام لے کر اس سے قادر خان کے بارے میں اگلوا لیا ہو۔۔ایک دو تھپڑ سے ہی سچ بول دیا ہو گا اس نے۔۔آپ ایس۔ایچ۔او سے بات کریں اور دونوں کا قصہ اندر ہی تمام کر دیں۔ان دونوں نے مزید کوئی گل افشانی کر دی تو ہم تو اور پھنس جائیں گے۔ہمارے خلاف تگڑے ثبوت اس کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔"

باتور خان نے مزید ان کے پیروں تلے سے زمین کھینچی۔

"بکواس بند کرو۔۔۔تم لوگ نمک حرام ہو۔۔۔کسی کام کے نہیں ہو۔۔تم لوگوں کی وجہ سے آج میں اس ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہوں۔تمھارے کہنے پہ میں نے اب تک قادر خان کا قصہ ختم نہیں کیا کیونکہ تم کہتے رہے وہ بات تو کب کی ختم ہو چکی اسکے زندہ رہنے سے ہمیں کوئی نقصان نہیں۔۔۔اب دیکھ لو۔۔۔۔۔۔"

انھوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔

"خان جی۔۔۔۔مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اس تک پہنچ جائے گا اور پھر سارا قصور تو اس ڈرپوک شکور کا ہے۔مر جاتا پر آپ کے خلاف زبان نہ کھولتا۔"

اس کی بات پہ انھوں نے اسے غضبناک انداز میں گھورا۔

"دفع ہو جاو یہاں سے۔۔۔۔ابھی اور اسی وقت زمان خان کو کسی محفوظ مقام پہ پہنچاو اور اس بار اگر غلطی ہوئی تو سب سے پہلے تمھیں ختم کروں گا۔اب دور ہو جاو میری نظروں کے سامنے سے۔"

میرسربلند خان نے اس کی جانب سے رخ پلٹ کر کہا۔وہ کچھ پل تو خاموشی سے کھڑا رہا مگر پھر تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔اتنی بےعزتی پہ اسکا خون کھول رہا تھا۔اب اس سے پہلے کے قانون کے ہاتھ اس تک پہنچتے اس کے لئے شکور اور قادر خان کو انجام تک پہنچانا بہت ضروری ہو گیا تھا۔

جبکہ دوسری طرف میرسربلند خان ضیغم کے ایسے وار پہ غصے سے پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔پہلے تو وہ سوچ رہے تھے کہ زمان خان کو مہرہ بنا کر ضیغم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے مگر اب قادر خان اس کے ہاتھ لگ چکا تھا۔اگر قادر خان نے اس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تو سب ملیا میٹ ہو جائے گا۔اب انھیں اس بات پر پردہ رکھنا ہو گا کہ زمان خان ان کے قبضے میں ہے۔اگر ضیغم قادر خان کو ختم کر دے تو ان کی بلا سے۔۔۔لیکن اگر ضیغم نے قادر خان کو ان کے خلاف استعمال کیا تو خود کو بچانا ان کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ساتھ ہی ساتھ ایک بات ان کے حق میں جا رہی تھی کہ دراب خان اور خزیمن کے قتل کی کوئی ایف۔آئی۔آر درج نہیں کی گئی تھی۔ان کے علاوہ کون تھا جو ایسا کرتا۔۔انھوں نے اس وقت بھی اس معاملے کو جرگے کے ذریعے ختم کر دیا تھا کہ وہ مزید خون خرابا نہیں چاہتے اور قادر خان چونکہ فرار ہے تو جب وہ مل جائے گا وہ اسکا فیصلہ بھی کر دیں گے۔اس طرح بڑی چالاکی سے انھوں نے دراب خان اور خزیمن کیطرح ان کے دہرے قتل کو بھی زمین میں دفنا دیا تھا۔لیکن اب گڑھے مردے پھر سے ان کے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔

"ضیغم تم تو ہمارے بھی باپ نکلے۔۔۔۔۔۔لیکن خیر شیر کا شکار کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔تم آسمان پہ چاہے جتنا بھی اونچا اڑ لو۔۔میں تمھیں زمین میں دھنسا کر چھوڑوں گا۔"

انھوں نے ایس۔ایچ۔او طارق کا نمبر ملا کر فون کان سے لگایا۔دوسری جانب بیل جا رہی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔انھوں نے موبائل ایک طرف ڈال دیا اور خود کمرے سے باہر نکل گئے۔

      _________________________________________

سر میں اٹھتی درد کی ٹیسیں انھیں ہوش میں لے آئیں۔نیم وا آنکھوں سے انھوں نے اپنے اردگرد کے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کی۔اندھیرا ہونے کی وجہ سے انھیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔وجود اس قدر نڈھال تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پا رہے تھے۔انھوں نے ہاتھ پھیر کر اپنے اردگرد پڑی چیزوں کو محسوس کرنا چاہا۔ہمت کر کے انھوں نے اٹھنے کی کوشش کی۔ان کے ہلنے سے خستہ حال چارپائی کی آواز خاموش ماحول میں سنائی دی۔

"مسکاء۔۔۔۔۔ضیغم۔۔!!"

انھوں نے نحیف آواز میں مسکاء اور ضیغم کو پکارا۔کچھ دیر انتظار کے بعد بھی جواب نہ پا کر انھوں نے ایک بار پھر دونوں کو پکارا۔اس بار آواز تھوڑی بلند تھی۔مگر وہ ان کے قریب ہوتے تو آواز دیتے۔۔وہ تھک کر واپس لیٹ گئے۔اندھیرے میں چھت کو گھورنے لگے۔انھیں اپنے ہاتھ گرد سے اٹے ہوئے محسوس ہوئے۔ان کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔انھیں یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس قدر بیمار کب ہوئے تھے اور نا سمجھ پا رہے تھے کہ درد کی شدت کس حصے میں زیادہ ہے۔اچانک انھوں نے اپنا ہاتھ ماتھے پہ رکھا تو درد کی ایک شدید لہر ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔۔انھیں یاد آیا کہ باتور خان نے انھیں دھکا دیا تھا۔ان کے ماتھے پہ کچھ جما ہوا تھا۔وہ ایک بار پھر اٹھ کر بیٹھ گئے۔ہوش میں آ جانے سے اب انھیں سردی کا احساس ہونے لگا تھا۔ان کی سانس پھولی ہوئی تھی جیسے میلوں کا سفر طے کر کے آئے ہوں۔

"باتور خان۔۔۔۔۔۔۔۔"

دھیرے دھیرے سوچ کی گرہیں کھلنے لگیں تو انھیں سب یاد آنے لگا۔۔مگر ابھی بھی وہ جان نہ سکے تھے کہ وہ کہاں ہیں۔درد کی شدت میں اضافہ ہوا تو وہ ایک بار پھر لیٹ گئے۔۔تقریبا بیس منٹ بعد انھیں کسی کے قدموں کی آواز آئی۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔آنے والے نے ٹھوکر مار کر دروازہ کھولا اور ٹارچ کی روشنی ان پہ ڈالی۔چندھیا دینے والی روشنی نے انھیں آنکھیں بند کر لینے پر مجبور کیا۔

"چل اٹھ۔۔۔۔۔"

کسی نے انھیں بازو سے پکڑ کر کھڑا کرنا چاہا۔وہ باتور خان کی آواز پہچان گئے تھے۔

"باتور خان ۔۔۔مجھے جانے دو۔۔میرے بیٹے کو جیسے ہی معلوم ہوگا۔وہ تم لوگوں تک پہنچنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگائے گا۔"

وہ سنبھل کر چارپائی سے اترے۔

"ابھی تک تیری اکڑ نہیں ختم ہوئی۔۔۔تیرے بیٹے کو تو ہم نے کب کا اوپر پہنچا دیا۔اب تیری باری ہے۔"

باتور خان نے انھیں دروازے کی جانب دھکیل کر ہنستے ہوئے کہا۔

"جھوٹ بول رہے ہو تم۔۔۔۔تم میں اتنی ہمت نہیں کہ میرے شیر تک پہنچ سکو۔وہ تم لوگوں کو جہنم واصل کرے گا۔۔۔دیکھ لینا۔"

انھوں نے مضبوطی سے دروازے کو پکڑ کر خود کو گرنے سے بچایا۔

"خاموشی سے چلو۔۔۔۔"

باتور خان نے انھیں دھکا دیا تو وہ سنبھل نہ سکے اور دروازے سے باہر جا گرے۔باتور خان نے آگے بڑھ کر انھیں اٹھایا۔ان کی آنکھوں پہ پٹی باندھی اور انھیں اپنے ساتھ تقریبا گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھا۔ انھیں راستے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔وہ انھیں لئے تیز تیز قدم اٹھاتا حجرے سے باہر لے آیا۔اس نے انھیں گاڑی میں دھکیلا اور خود تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ پہ آ گیا۔

"کہاں لے جا رہے ہو مجھے۔۔۔۔؟"

انھوں نے سیدھے ہوتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"تیرے بیٹے کو تو پہنچا دیا ہے۔اب تیری باری ہے۔لیکن تو فکر نہ کر میں تجھے میر کی لاش دیکھے بنا نہیں ماروں گا۔آخر اتنا تو تیرا حق بنتا ہے کہ اپنے منہ بولے بیٹے کی لاش سے لپٹ کر ماتم کرے۔"

باتور خان نے انھیں ذہنی طور پر ٹارچر کرنا چاہا۔

"جھوٹ ہے یہ۔۔۔۔"

زمان خان تڑپ کر بولے۔

"ہاہاہا۔۔۔۔۔کیوں وہ شہر نہیں گیا ہوا۔۔۔وہیں مارا ہے اسے ہم نے۔اب تجھے بھی وہیں لے جانا ہے تاکہ تو بھی اس کی آخری رسومات میں حصہ لے سکے۔۔اب ہم اتنے بھی سنگ دل نہیں کہ تجھے اس کا آخری دیدار بھی نہ کرنے دیں۔"

باتور خان کا قہقہہ اور اس کے الفاظ ان کا سینہ چیر گئے۔

"ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔"

ان کی آنکھوں سے سیل رواں بہہ کر ان کے چہرے اور آنکھوں پہ بندھی پٹی کو بھگوتا جا رہا تھا۔

"چہ۔۔چہ۔۔چہ۔۔۔افسوس۔۔! چاچا ہم تو تجھے تیرے بیٹے سے ملوا رہے ہیں اور تو رو رہا ہے۔۔دیکھ رو نہیں۔۔اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔سب کا مقصد پورا ہو جائے گا۔۔خان جی کو دو اور قبریں بنانے کی چاہ ہے وہ پوری ہو جائے گی۔۔میری چاہ مسکاء ہے۔۔مجھے مل جائے گی۔۔ہائے مسکاء۔۔۔۔۔۔۔"

اس نے آوارہ لہجے میں مسکاء کا نام لیا۔

"چپ کرو غلیض انسان۔۔۔تمھاری تو غیرت کو آگ لگ گئی ہے۔میری پاکیزہ بیٹی کا نام بھی اپنی گندی زبان پہ نہ لانا ورنہ زبان گدی سے کھینچ لوں گا۔"

انھوں نے کھڑے ہو کر آواز کی سمت دونوں ہاتھ بڑھا کر اسکے بال مٹھیوں میں جکڑ کر کھینچے۔"

باتور خان بلبلا اٹھا۔

"ذلیل کمینے۔۔۔"

وہ اب اس پہ مکے برسائے جا رہے تھے۔وہ اس وقت فل سپیڈ میں گاڑی دوڑا رہا تھا۔اس سچویشن میں اسے گاڑی چلانا دشوار ہو رہا تھا۔

"پیچھے ہو۔۔۔"

باتور خان نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں پیچھے دھکا دیا۔وہ سیٹ سے ٹکرائے تھے۔آنسو تواتر سے ان کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔باتور خان نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔اس کے لب سختی سے بھینچ گئے تھے۔

          _____________________________________

گاڑی نہایت تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔زمان خان خاموشی سے بیٹھے تھے۔زبان خاموش تھی مگر آنکھوں سے لگاتار آنسو بہے جا رہے تھے۔اس لمحے وہ خود کو بہت بےبس محسوس کر رہے تھے۔ایک ایسا بےبس شخص جو اپنی متاع حیات کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتے دیکھ رہا ہو مگر اسے بچانے کی طاقت خود میں نہ پاتا ہو۔ان کا دل گواہی دے رہا تھا کہ ضیغم ٹھیک ہو گا مگر جن لوگوں کے نرغے میں وہ پھنس چکے تھے ان کا ہر حد سے گزر جانا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ضیغم کا بنا بتائے شہر جانا اور گاوں نہ لوٹنا۔۔۔۔باتور خان کی باتوں سے ڈر اور خوف انھیں اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔انھیں اپنے دل کی رفتار کم ہوتی محسوس ہو رہی تھی مگر وہ کیا کر سکتے تھے سوائے اللہ پہ توکل کرنے کے۔۔۔دل ہی دل میں وہ وہ اپنے اللہ کے حضور دعا میں مشغول تھے۔وہی ان کی آخری امید تھا۔۔آخری سہارا تھا۔۔۔دنیا میں خود کو خدا سمجھنے والوں نے انھیں اس حال تک پہنچا دیا تھا مگر وہ آسمانوں کا بنانے والا۔۔۔۔سب دیکھ رہا تھا وہی انصاف کرے گا۔

گاڑی گاوں کی حدود سے نکل کر شہر کی حدود میں داخل ہو گئی تھی۔وہ کبھی شہر آتے نہیں تھے اس لئے راستوں سے ناواقف تھے۔ان کا گاوں ہی ان کے لئے پوری دنیا تھا۔اسی لئے انھیں معلوم نہیں تھا کہ اس وقت وہ کہاں ہیں اور یہ جگہ کون سی ہے۔جس علاقے سے وہ گزر رہے تھے تقریبا سنسان تھا۔اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں رات کے اس سناٹے کو چیرتی ہوئی اکا دکا گاڑی ان کے پاس سے تیزی سے گزر جاتی۔سڑک کے کنارے گھنے درختوں کی بہتات تھی۔وہ نظریں راستے پہ جمائے ہوئے تھے۔

"ہم کہاں جا رہے ہیں؟"

وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے۔باتور خان نے ری ویو مرر میں انھیں اپنی سرخ آنکھوں سے گھورا۔

"جتنی بک بک کرنی تھی کر چکے۔اب صرف ہم کہیں گے اور تم سنو گے۔۔خاموشی سے بیٹھے رہو۔جہاں بھی جا رہے ہیں اب تمھیں وہیں رہنا ہے اور کسی خوش فہمی میں مت رہنا کہ تمھیں چھوڑ دیں گے اور نہ ہی کسی بھول میں کہ تمھیں یہاں سے کوئی چھڑا لے جائے گا۔"

باتور خان بےلچک لہجے میں بولا۔

"میں تمھارے ساتھ کہیں بھی جانے کو تیار ہوں باتور خان۔۔مگر تم لوگ ضیغم کو چھوڑ دو۔ساری غلطی میری ہے۔۔دھوکہ میں نے دیا ہے۔۔اسے حقیقت سے روشناس میں نے کروایا ہے۔بدلہ لینا ہے تو مجھ سے لو۔۔میری جان لے لو میں اف تک نہیں کروں گا۔"

وہ بہتی آنکھوں کے ساتھ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے۔

"ہاہاہا۔۔۔۔واہ کیا ڈائلاگ ہے چاچا۔۔۔لیکن میرے سامنے یہ ڈرامے نہ کر۔۔میں تمھیں بھی جانتا ہوں اور تمھارے اس منہ بولے بیٹے میر کو بھی۔۔اور تو فکر نہ کر ہم تجھے جہاں پہنچائیں گے وہاں اسکا ٹھکانہ بھی بنا دیں گے۔تم دونوں تا قیامت ساتھ ساتھ رہو گے۔"

باتور خان کا احساس سے عاری قہقہہ گاڑی میں گونجا۔

زمان خان منہ پہ ہاتھ رکھے خاموشی سے بیٹھ گئے۔گاڑی کی رفتار اب کسی حد تک آہستہ ہو چکی تھی۔سڑک کی دائیں جانب گاڑی ڈھلوان سے نیچے اتر گئی۔اونچے نیچے راستے سے گاڑی ہچکولے کھاتی گزر رہی تھی۔جس سے راستے کی خستہ حالی کا اندازہ ہو رہا تھا۔بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک گھر کے سامنے رک گئی۔یہاں کافی اندھیرا تھا۔باتور خان نے گاڑی سے نکل کر ان کی جانب کا دروازہ کھولا اور انھیں بازو سے پکڑ کر باہر نکالا۔ایک ہاتھ سے زمان خان کو پکڑے وہ دوسرے ہاتھ سے موبائل نکال کر کال ملانے لگا۔

"ہاں جہانگیرخان میں آ گیا ہوں۔۔دروازہ کھولو۔۔"فون پہ دروازہ کھولنے کا کہہ کر اس نے موبائل جیب میں رکھا تھا۔زمان خان کا بازو ابھی تک اس نے سختی سے اپنے ہاتھ میں جکڑ رکھا تھا۔تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور اونچا لمبا اور بےتحاشا سفید رنگت والا ایک شخص برآمد ہوا۔

"لو پکڑو اسے۔۔۔اور دیکھو خان جی کا حکم ہے کہ کوئی غلطی نہ ہو ورنہ وہ ہم میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔سمجھ گئے نا۔۔؟"

اس شخص کے اثبات میں سر ہلانے پر باتور خان پلٹ گیا جبکہ وہ شخص زمان خان کو مضبوطی سے پکڑ کر اندر کی جانب بڑھا اور اپنے پیچھے تیزی سے دروازہ بند کرتا انھیں ایک کمرے کی طرف لے آیا۔لائٹ جلا کر اس نے انھیں کمرے میں رکھی واحد چارپائی پہ اشارے سے بیٹھنے کو کہا اور واپس مڑ گیا۔اپنے پیچھے انھیں دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تو وہ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے چارپائی پہ بیٹھ گئے۔کمرے میں پھیلی ذرد روشنی میں انھوں نے اردگرد کا جائزہ لیا۔کمرے میں اس چارپائی کے علاوہ دوسرا کوئی فرنیچر اور سامان نہیں تھا جس پہ وہ براجمان تھے۔صرف چارپائی کی دوسری جانب ایک چھوٹا سا پانی کا کولر رکھا تھا۔کولر دیکھ کر انھیں پیاس کا احساس ہوا۔لڑکھڑاتے قدموں سے وہ کولر کی جانب آئے تھے۔آس پاس نظر دوڑا کر گلاس تلاش کرنا چاہا مگر کوئی بھی برتن وہاں موجود نہیں تھا۔انھوں نے کولر کا ڈھکن اتار کر پانی پیا پھر ڈھکن واپس لگایا اور واپس چارپائی پہ جا بیٹھے۔

متعدد سوچیں انھیں اپنے گھیرے میں لئے ہوئی تھیں۔انھیں اپنی پرواہ نہیں تھی غم صرف ضیغم اور مسکاء کا تھا۔ان کا رواں رواں اپنے رب کی بارگاہ میں دعاگو تھا۔منفی سوچوں کو وہ خود پہ حاوی نہیں ہونے دینا چاہتے تھے مگر باتور خان کی باتوں نے انھیں پریشان کر دیا تھا۔

"یااللہ۔۔! میرے بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔تو ہی ہمارا مددگار ہے۔میں نے اپنے بچے تیرے حوالے کیے تو ہی ان کا حامی و ناصر ہو۔"

وہ دعا میں اٹھے اپنے ہاتھوں پہ نظریں جمائے ہوئے تھے۔ان کے لب دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔

      _________________________________________

"میر۔۔۔تم یہاں۔۔اس وقت کس کام سے آیا ہے؟"

گلاب خان نے میر کو جیپ سے اترتے دیکھا تو بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔

"چاچا۔۔ بابا کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔۔کیا آپ نے ان کو دیکھا تھا آج؟"

ضیغم نے پیشانی مسلتے ہوئے گلاب خان کی طرف دیکھا۔گلاب خان بھی اس کی پریشان صورت دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔

"ہاں آیا تھا یہاں۔۔۔خان جی نے بلایا تھا اس کو۔۔۔میں خود لینے گیا تھا۔مگر وہ تو کافی دیر پہلے چلا گیا ہوگا۔تم تو ابھی تھانے سے آیا ہوگا۔گھر جا کر دیکھو۔۔وہیں ہوگا اور کدھر جانا ہے اس نے۔"

گلاب خان نے نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ضیغم کو یونیفارم میں دیکھ کر اسں نے اندازہ لگایا تھا۔ان کی بات سن کر اسے یقین ہو گیا کہ زمان خان اس وقت میرسربلند خان کے پاس ہی ہونگے۔مگر اتنی لاپرواہی انھوں نے کبھی کی نہیں تھی۔اگر وہ ان کے پاس کسی کام کے سلسلے میں رکے بھی تھے تو بتائے بناء کبھی نہیں رکتے۔

"آپ نے انھیں واپس جاتے ہوئے دیکھا تھا؟"

ضیغم نے ان سے پوچھا۔

"نہ۔۔۔۔جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا۔۔۔ہم یہاں تھا اور وہ وہاں حجرے میں تھا خان جی کے ساتھ۔"

گلاب خان نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بتایا۔

"چاچا میں گھر سے ہی آ رہا ہوں۔وہ واپس گھر نہیں پہنچے۔ رحم دین چاچا نے ساری جگہ دیکھ لیا۔مگر وہ کہیں بھی نہیں ہیں۔ذرا معلوم کرو یہاں حویلی میں تو نہیں ہیں۔"

ضیغم نے آس پاس نظر دوڑائی۔

"او بچے۔۔۔میں کہہ تو رہا ہوں۔۔وہ یہاں نہیں آیا۔۔حویلی میں نہیں ہے وہ۔اگر وہ یہاں ہوتا تو میں تم کو بتاتا نا۔چھوٹا سا سوئی تو نہیں ہے زمان خان جو مجھکو نظر نہیں آئے گا۔"

وہ گلاب خان کے ساتھ قدم بڑھاتا ہوا گیٹ کے قریب آ کھڑا ہوا۔

"اچھا آپ ذرا خان جی کو بتائیں میں ان سے ملنا چاہتا ہوں ابھی اسی وقت۔۔"

وہ حویلی پہ نظر ڈالتے ہوئے بولا۔

"ٹھیک ہے میں پوچھتا ہوں۔"

گلاب خان جیب سے موبائل نکال کر ضیغم سے کچھ فاصلے پہ جا کھڑا ہوا۔تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد وہ واپس ضیغم کی طرف آیا۔

"آ جاو۔۔۔خان جی بلا رہا ہے۔"

گلاب خان نے گیٹ کھول کر اسے اندر آنے کو کہا۔ضیغم اندر داخل ہوا۔طویل راہداری سے ہوتے ہوئے وہ گلاب خان کے ساتھ اندر آیا۔رات کے اس پہر حویلی میں خاموشی کا راج تھا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا گلاب خان کے ہمراہ میرسربلند خان کے کمرے پاس آ رکا۔گلاب خان دستک دے کر اندر داخل ہوا اور اسے بھی اندر آنے کا اشارہ کیا۔ذہہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔اگر زمان خان ان کے پاس تھے تو اسے بہت احتیاط سے بات کرنی تھی۔ان پر بپھر کر وہ اس مسئلے کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔

"خان جی میر آ گیا ہے۔"

گلاب خان نے انھیں بتایا۔وہ اس وقت سینے تک کمبل اوڑھے نیم دراز تھے۔آنکھیں بند تھیں۔گلاب خان کے بتانے پہ وہ آنکھیں کھول کر سیدھے ہو بیٹھے۔وہ ان کے سپاٹ دکھتے چہرے سے کوئی اندازہ نہیں لگا پایا تھا۔

"تم جاو گلاب خان۔"

انھوں نے میر کو طرف دیکھتے ہوئے گلاب خان کو جانے کو کہا تھا۔وہ مزید کچھ بولے بناء کمرے سے نکل گیا۔

"بابا کہاں ہیں؟"

ضیغم ان کے پیروں کی طرف آ کھڑا ہوا۔نظریں ان کے چہرے پہ فوکس کیے ہوئے اس نے ان سے پوچھا تھا۔

"وہ تو گھر چلا گیا تھا۔ہم نے اسے کام سے بلایا تھا۔"

انھوں نے چہرے پہ حیرانگی سجاتے ہوئے کہا۔

"میں جانتا ہوں کہ وہ یہاں آئے تھے مگر وہ یہاں سے واپس گھر نہیں پہنچے۔"

ضیغم نے آواز کو دھیما رکھا۔

"میں کب انکار کر رہا ہوں کہ وہ یہاں نہیں آیا۔۔آیا تھا پھر واپس چلا گیا اور ہم وہاں سے حویلی آ گئے۔اس کے بعد ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں گیا۔کیا حویلی میں تمھیں دکھائی دیا۔اسکا کام حجرے تک ہے۔وہیں ہماری بات ہوئی اور پھر وہ چلا گیا۔جا کر حجرے میں دیکھ لو۔۔شاید وہیں ہو۔"

یہ کہہ کر وہ لیٹ گئے۔

"اگر بابا کو کچھ بھی ہوا تو میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔اگلا سانس نہیں لینے دوں گا۔"

ان کے لاپرواہ انداز پہ وہ کھول کر رہ گیا اور وہ اپنے غصے پہ قابو نہ رکھ سکا۔

"تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم نے اسے اغواء کیا ہے۔۔۔تم پاگل ہو کیا۔۔۔تمھارے خلاف کچھ بھی ہو جائے تم سارا ملبہ ہم پہ ڈال دیتے ہو۔۔ہماری طرف آ جاتے ہو۔اب ہم اتنے بھی فارغ نہیں ہیں۔ایک عرصہ زمان خان نے ہماری اور ہمارے خاندان کی خدمت کی ہے۔ہم اسے اغواء کیوں کریں گے۔کبھی ایک الزام لگاتے ہو تو کبھی دوسرا۔۔جاو کہیں اور تلاش کرو اور اگر پھر بھی تمھیں ہماری بات کا بھروسہ نہیں تو حویلی کی جا کر تلاشی لے لو۔۔اگر مل جائے تو ساتھ لے جانا۔اب جاو یہاں سے۔۔یہ ہمارے آرام کا وقت ہے۔تم اے۔ایس۔پی بن گئے ہو تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ کسی بھی شریف آدمی کے گھر گھس آو اور بناء کسی ثبوت کے اس پہ الزام لگاو۔"

میرسربلندخان اس کے تپے ہوئے چہرے کو بغور دیکھ رہے تھے۔اسے اسطرح بےبس دیکھنے کی خواہش آج پوری ہوئی تھی۔وہ اسکی بےترتیب حالت سے لطف اٹھا رہے تھے۔اسکی پریشان صورت دیکھ کر انھیں مزا آرہا تھا۔وہ اسے اپنے سامنے گڑگڑاتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے مگر قادر خان کو وہ گرفتار کر چکا تھا۔اس لئے وہ اس پہ ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتے تھے کہ زمان خان ان کے قبضے میں ہے۔انھیں یقین تھا کہ وہ اتنی جلدی اب ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔

"میں جانتا ہوں کہ یہ حرکت تمھاری ہی ہے میرسربلندخان۔۔لیکن یاد رکھنا میرے بابا کو ذرا سی بھی کھرونچ آئی تو میں تمھاری دنیا تہہ و بالا کر دوں گا۔"

وہ انھیں وارن کرتا وہاں سے چلا گیا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ انہی کا کام ہے۔۔۔وہ ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا بغیر کسی ثبوت کے۔

"میر۔۔۔۔!!"

وہ گیٹ کے پاس پہنچا ہی تھا کہ پیچھے آتی گلاب خان کی پکار پہ وہ پلٹا تھا۔

"کچھ پتہ چلا۔۔۔؟"

گلاب خان اس کے قریب آیا۔

"نہیں چاچا۔۔۔۔لیکن میں جلد ہی پتہ کروا لوں گا۔"

وہ مڑ کر جانے لگا تھا کہ وہ جلدی سے بولے۔

"حجرے میں میرے جانے کے بعد باتور خان بھی آیا تھا۔اس کے بعد سے میں نے اسے بھی نہیں دیکھا۔اسکا باپ بھی آیا تھا یہاں۔کہیں یہ باتور خان کا کام تو نہیں۔"

گلاب خان نے اسے بتایا۔

"میں دیکھ لوں گا اسے بھی۔۔چاچا ذرا یہاں کی خبر دیتے رہنا۔اگر کوئی غیرمعمولی حرکت دیکھو تو مجھے بتانا۔"

گلاب خان نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ گیٹ پار کر گیا۔سست روی سے چلتا وہ جیپ تک آیا تھا۔گاڑی میں بیٹھ کر کچھ دیر اس نے ذہہن کو پرسکون ہونے دیا۔اب اگلا قدم اس نے کیا اٹھانا تھا اسی بارے میں سوچ کر اس نے جیپ اسٹارٹ کی۔ایک پل کو اس نے سوچا کہ تھانے چلا جائے مگر پھر مسکاء کے خیال سے جیپ کا رخ گھر کی جانب کر دیا۔

راستے میں اس نے انسپیکٹر عمر خان کو کال کی۔اسے اس نئی صورت حال سے آگاہ کیا۔اس سے قادر خان کے بارے میں پوچھا۔انسپیکٹر عمر خان نے اس سلسلے میں اسے بےفکر رہنے کو کہا تھا۔انسپیکٹر عمر خان نے بھی اپنا شبہ میرسربلند خان پہ ہی ظاہر کیا تھا۔اس کے مطابق بھی ان کے علاوہ کوئی اور ایسی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ضیغم بھی جانتا تھا اس لئے وہ دونوں فون پہ ہی اگلا لائحہ عمل ترتیب دینے لگے۔

   _________________________________________

وہ تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوا۔مسکاء اسے دیکھ کر اس کی جانب دوڑی چلی آئی تھی۔اس کی سوالیہ نظروں کے جواب میں وہ چہرہ جھکا گیا تھا۔

"کچھ پتہ چلا بیٹا۔۔؟"

رحم دین اور ذہرہ بی بی بھی اٹھ کر اسکی جانب آئے تھے۔اس کا اترا چہرہ دیکھ کر تو وہ اسکا جواب جان گئے تھے مگر پھر بھی ایک موہوم سی امید کے سہارے انھوں نے اس سے پوچھا۔مسکاء کی آنکھوں سے جھر جھر آنسو بہنے لگے تھے۔رو رو کر اس نے آنکھیں سوج گئی تھیں۔اس کی سوجی آنکھیں دیکھ کر ضیغم اسکی جانب دیکھنے سے گریز برت رہا تھا۔

"آپ لوگ پریشان مت ہوں۔۔جس کسی نے بھی یہ حرکت کی ہے میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے گمراہ کر دیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ان کے علاوہ کون ہے ایسی حرکت کرنے والا۔۔آپ لوگ فکر نہ کریں مل جائیں گے بابا۔"

وہ ذہرہ بی بی اور رحم دین کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔وہ جانتا تھا کہ اس کی کھوکھلی تسلی سے ان کے دل مطمئن نہیں ہونگے۔یہی تسلی وہ خود کو بھی دے رہا تھا۔

"اللہ اپنا رحم کرے گا انشاءاللہ۔"

ذہرہ بی بی نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا۔وہ ایک نظر مسکاء کو دیکھ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"مسکاء۔۔۔۔! جاو بیٹا۔۔ایک کپ چائے بنا کر لے جاو اور کھانے کا بھی پوچھ لینا۔۔"

ذہرہ بی بی کی بات سن کر وہ کچن میں آ گئی۔چائے کا پانی رکھا اور جلدی سے چائے بنا کر پہلے رحم دین اور ذہرہ بی بی کو دی اور انھیں زمان خان کے کمرے میں آرام کرنے کا کہہ کر واپس کچن میں آ گئی۔اپنی آنکھوں کو انگلیوں سے دبایا اور پھر چائے کا کپ لئے اپنے کمرے میں آ گئی۔ضیغم اس وقت فون پہ بات کر رہا تھا۔اس نے خاموشی سے کپ ٹیبل پہ رکھا۔

"یہ جو ایڈریس میں نے دیا ہے فورا اس جانب کسی کو بھیجو اور مجھے تمام ڈیٹیلز دو۔میں انتظار کر رہا ہوں تمھارے فون کا۔"

کسی کو ایڈریس بتا کر اس نے موبائل وہیں ٹیبل پر رکھا اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

"کھانا لاوں۔۔۔۔؟"

مسکاء نے چائے کا کپ اسے پکڑاتے ہوئے پوچھا۔ضیغم نے اس کے ہاتھ سے کپ لیتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

"تم نے کھانا کھایا۔"

ضیغم نے اس کے سرخ چہرے پہ نظر ٹکائی تھی۔مسکاء نے بھی نفی میں سر ہلایا تھا۔وہ یونیفارم تبدیل کر کے اس وقت سادہ سا لباس پہنے ہوئے تھا۔اس کے چہرے پہ بچھا تفکرات کا جال مسکاء کو اسے تسلی دینے پہ مجبور کر رہا تھا مگر الفاط ساتھ نہیں دے رہے تھے اور نا ہی وہ خود میں ہمت پا رہی تھی۔

"مسکاء یہاں آو۔۔۔"

ضیغم نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے سامنے کرسی پہ بٹھایا۔

"تم پریشان مت ہو۔۔۔بابا کل یہیں ہونگے ہمارے درمیان۔"

اس نے اپنے ہاتھ میں موجود مسکاء کے ہاتھ کو نرمی سے دبایا۔مسکاء نے جھکی پلکیں اٹھائیں تو اسکی آنکھوں میں پھیلتا پانی پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پہ پھیلتا چلا گیا۔ضیغم نے قریب ہو کر اسکے آنسو پونچھے۔

"بس اب رونا نہیں ہے۔۔مانا کہ تم روتے ہوئے مزید پیاری لگ رہی ہو لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں تمھیں رونے دوں۔"

وہ اسکا ہاتھ تھام کر بیڈ کی طرف لے آیا۔اس نے اسے لیٹنے کا کہہ کر وہ خود بھی موبائل ہاتھ میں لئے بیڈ کی دوسری جانب آیا۔مسکاء لیٹ چکی تھی مگر نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔وہ پلکیں جھپک جھپک کر آنسووں کو اندر دھکیلنے لگی۔ضیغم فون میں مگن ہو گیا۔دونوں کا ذہہن اپنی اپنی سوچوں کے مدار میں گھوم رہا تھا۔آدھے گھنٹے کے کٹھن انتظار کے بعد اسکے موبائل کی گھنٹی بجی۔

"ہیلو۔۔۔۔۔ہاں کیا بنا؟"

فون پک کرتے ہی پوچھا تھا۔

"سر۔۔۔! وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔یہ علاقہ تو ایسی کاروائیوں کے لئے مشہور ہے مگر ایسی کوئی بھی غیر معمولی حرکت وہاں ہمیں دکھائی نہیں دی اور نہ ہی وہاں سے ہمیں کچھ ملا ہے۔۔"

اسکی بات سن کر ضیغم کی پریشانی بڑھ گئی۔

"تم لوگ اسی ایڈریس پہ گئے تھے نا؟"

اس نے ایک موہوم سی امید کے سہارے پوچھا۔

"جی سر یہی ایڈریس ہے۔۔۔ہم ابھی بھی یہی موجود ہیں۔"

"ٹھیک ہے۔۔"

وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

"اب ہمارے لئے کیا حکم ہے سر۔۔؟"

دوسری جانب سے آواز آئی۔

"تم لوگ وہاں نظر رکھو اور اگر کوئی بھی ایسی ویسی حرکت دیکھو تو فورا مجھے انفارم کرو۔" ضیغم نے اسے چند ضروری ہدایت دے کر فون بند کر دیا۔

"اگر بابا وہاں نہیں ہیں تو کہاں ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ دوسری کون سی جگہ ہو سکتی ہے جہاں میرسربلند خان بابا کو رکھ سکتا ہے۔حویلی میں تو نہیں رکھ سکتے تو کہاں۔۔۔۔۔۔۔"

اچانک اس کے ذہہن میں جھماکا سا ہوا۔وہ موبائل وہیں چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔مسکاء چونکہ جاگ رہی تھی اس لئے وہ بھی اس کے پیچھے باہر آئی۔

"اس وقت کہاں جا رہے ہیں؟"

مسکاء کی آواز پہ اس نے پلٹ کر دیکھا تھا۔

"آتا ہوں ابھی۔۔۔تم آ کر دروازہ بند کر لو۔"

وہ چٹخنی اتار کر باہر نکل گیا۔اس کے جانے کے بعد مسکاء نے دروازہ بند کیا اور وہیں صحن میں ضیغم کا انتظار کرنے لگی۔

ضیغم وہاں سے سیدھا حجرے آیا تھا۔حجرے کا گیٹ کھلا دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی۔اندر کوئی بھی موجود ہو سکتا ہے اس لئے وہ تھوڑا محتاط ہوا۔قدموں کی آہٹ پیدا کیے بناء وہ اندر آیا۔برآمدے میں لگے زیروپاور بلب کی روشنی صحن تک پھیلی ہوئی تھی۔اس نے اردگرد نظر دوڑائی۔کسی کو بھی موجود نہ پا کر اس نے اپنے پیچھے آہستگی سے گیٹ بند کیا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا صحن کے وسط میں آ کر کھڑا ہو گیا۔دائیں طرف بنی وہ تنگ و تاریک گلی بوگن ویلیاء کی گھنی شاخوں کے جال میں چھپی کسی بھی نئے آنے والے کی نظروں سے پوشیدہ رہ سکتی تھی مگر اس کی نظروں سے نہیں۔۔ایک بار پہلے بھی وہ اپنے باپ کی تلاش میں یہاں آیا اور آج ایک بار پھر وہ اپنے باپ کو ڈھونڈنے آیا تھا۔ٹارچ کی روشنی میں اس نے احتیاط سے شاخوں کو پرے ہٹایا اور گلی میں آ کر رک گیا۔ٹارچ کی روشنی دیوار پہ پڑی تو اسکی نظریں خون کے جمے ہوئے نشان پہ پڑی تو اسکے دل کی دھڑکن میں اضافہ ہوا ۔وہ دھیرے سے آگے بڑھا۔اس کے مضبوط قدموں تلے خشک پتوں کی آواز رات کی خاموشی کو چیر رہی تھی۔پچھلی جانب پہنچ کر اس نے آس پاس نظر دوڑائی۔کچھ ہی فاصلے پہ بنے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔وہ تیزی سے اس جانب آیا۔ٹارچ کی روشنی اس نے کمرے پہ ڈالی۔چارپائی پہ پڑے سفید کپڑے پہ اس کی نظر پڑی۔اس نے تیزی سے ہاتھ بڑھا کر اٹھا لیتا تھا۔

یہ زمان خان کا رومال تھا جو ہمیشہ ان کے کندھے پہ رہتا تھا۔اس نے رومال کو ناک کے قریب لے جا کر ان کی خوشبو کو محسوس کیا۔

"میرسربلند خان۔۔۔تمھیں اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔"

وہ رومال ہاتھ میں لئے وہاں سے نکل آیا تھا۔

    _________________________________________

وہ فریش ہو کر باہر آیا تو رحم دین اور ذہرہ بی بی وہیں صحن میں چارپائی پہ بیٹھے تھے۔مسکاء کچن میں تھی۔وہ انھیں سلام کرتا کرسی پہ بیٹھ گیا۔مسکاء نے باورچی خانے کی کھڑکی سے اسے دیکھ لیا تھا۔اس نے جلدی سے چائے کے کپ ٹرے میں رکھے اور ناشتہ لئے باہر آ گئی۔سردی کی شدت میں اضافہ ہوا تھا۔دھوپ کی ہلکی سی تمازت دماغ پہ اچھا اثر ڈال رہی تھی۔املتاس کا پیڑ اپنے سارے پتے گرا چکا تھا۔جسکی وجہ سے دھوپ کو پورے صحن میں اپنی بہار دکھانے کا موقع مل گیا تھا لیکن املتاس کے پیڑ کی اداسی اور خاموشی روح میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔شفاف نیلا آسمان سورج کی کرنوں سے روشن تھا۔

وہ بھی ان کے قریب ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔

"بابا کا رومال مجھے وہاں ملا ہے۔جس سے ایک بات تو واضح ہے کہ بابا انہی کے قبضے میں ہیں۔شکور تو لاک اپ میں ہے تو یہ کام اس بار باتور خان نے کیا ہے۔گلاب خان نے بھی کہا ہے وہ جب بابا کو چھوڑ کر باہر آئے تھے تو وہاں باتور خان آیا تھا۔"

وہ رحم دین کو بتا رہا تھا۔مسکاء نے ٹرے ان کے درمیان میں پڑی چھوٹی سی ٹیبل پہ رکھی اور کپ 

اٹھا کر ضیغم کی طرف بڑھایا۔

"تو تمھیں ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنی چاہئیے۔زمان خان کا زیادہ دیر ان کے قبضے میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔وہ اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔"

رحم دین بولے تو پریشانی ان کے لہجے سے ظاہر تھی۔ذہرہ بی بی بھی اسکی ساری بات سن کر پریشان ہو گئی تھیں۔

"اسی سلسلے میں تھانے جا رہا ہوں اور ہو سکتا ہے وہاں سے شہر چلا جاوں۔اس لئے آپ لوگ یہیں مسکاء کے پاس رہیں۔میں فون کے ذریعے رابطے میں رہوں گا۔"

وہ چائے کا خالی کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔رحم دین نے اس کی بات پہ اثبات میں سر ہلایا۔

"تم فکر نہ کرو بیٹا۔۔۔ہم یہیں ہیں۔"

ذہرہ بی بی نے ضیغم کو مطمئن کیا۔

"مسکاء کوئی بھی پریشانی والی بات ہو تو مجھے فون کر دینا۔عبداللہ یہیں ہو گا۔"

ضیغم نے اسکی جانب بغور دیکھا اور وہاں سے نکل آیا۔وہ سیدھا تھانے آیا۔تھانے میں کافی ہلچل محسوس ہو رہی تھی۔وہ جیپ ایک جانب پارک کر کے اندر آیا۔

"کیا بات ہے آپ سب اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں۔"

انسپیکٹر عمر خان کو سر پکڑے بیٹھے دیکھ کر وہ اس کے پاس آیا۔

"سر وہ۔۔۔۔۔۔"

انسپیکٹر عمر خان اٹھ کھڑا ہوا۔ایس۔ایچ۔او طارق خان اور باقی عملہ بھی وہیں موجود تھا۔

"کیا وہ۔۔۔۔۔ کیا ہوا ہے؟ کیا بابا کے بارے میں کوئی انفارمیشن ملی ہے؟"

ضیغم نے انسپیکٹر عمر خان کی جھکے سر کو دیکھ کر پوچھا۔وہ کسی طرح کی بھی خبر کے لئے خود کو تیار کر رہا تھا۔

"نہیں سر۔۔۔۔مگر وہ۔۔۔قادر خان۔۔۔"

انسپیکٹر عمر خان نے جھکے سر کو اٹھایا۔ضیغم نے ایک گہری سانس خارج کی۔

"کیا ہوا قادر خان کو۔۔۔۔اسےڈاکٹر کو دکھانا تھا اگر طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسکی۔۔تم جانتے ہو نا کہ وہ کتنا اہم گواہ ہے۔"

اس کی بات سن کر انسپیکٹر عمر خان نے ایس۔ایچ۔او طارق خان کی طرف دیکھا۔اس کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔

"کوئی مجھے حقیقت بتائے گا بھی یا یونہی ایک دوسرے کو دیکھتے رہو گے۔"

اس نے ایس۔ایچ۔او کی جانب دیکھا۔

"سر قادر خان از نو مور۔۔"

انسپیکٹر عمر خان نے ضیغم کو قادر خان کے متعلق بتایا۔جسے سن کر وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔یہ خبر اس کے لئے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھی۔

"کل تک تو ٹھیک تھا۔"

وہ پریشان سا لاک اپ کی جانب آیا۔جہاں قادر خان کا بےجان وجود لاک اپ کے باہر اسٹریچر پہ پڑا تھا۔اس کے منہ سے نکلتی جھاگ دیکھ کر وہ حیران ہوا۔

"یہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟"

وہ فورا مڑا۔

"ناشتے میں کسی نے ذہر ملایا تھا سر۔۔۔جسے کھاتے ہی اچانک اس کی حالت بگڑ گئی۔ہم نے ڈاکٹر کو بلایا تھا مگر ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی یہ دم توڑ گیا۔"

اس نے تفصیل بتائی۔

"ناشتہ کون لے کر آیا تھا۔"

وہ گرجا۔

"سر حوالدار فاروق ہی لے کر آیا تھا۔اسے بھی معلوم نہیں چلا کہ یہ سب کب اور کیسے ہوا۔"

اس کی بات سن کر وہ مٹھیاں بھینچے وہاں سے باہر آیا اور حوالدار فاروق کو آواز دی۔وہ اندر آیا تو اس کے چہرے کا رنگ بھی اڑا ہوا تھا۔

"بتاو کس کے کہنے پہ تم نے ناشتے میں ذہر ملایا تھا۔اپنے پیشے اور ملک سے غداری کرتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آئی۔بتاو کس کے کہنے پہ کیا یہ سب۔"

اس نے حوالدار فاروق سے پوچھا۔

"سر مجھے نہیں پتہ کہ یہ سب کیسے ہوا۔میرا اس میں کوئی ہاتھ نہیں سر۔۔آپ میرا یقین کریں۔"

حوالدار فاروق نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی۔

"سر حوالدار فاروق ایک محب الوطن اور فرض شناس سپاہی ہے اور مجھے یقین ہے یہ حرکت اسکی نہیں ہو سکتی۔اس میں کسی اور کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔"

انسپیکٹر عمر خان ضیغم کے قریب آیا۔

"اس معاملے کی چھان بین کرو۔۔مجھے وہ بندہ شام تک چاہئیے۔"

ضیغم نے ایس۔ایچ۔او طارق خان کو دیکھا۔جو اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر نظریں پھیر گیا۔

"جو کوئی بھی اس میں ملوث ہے ڈھونڈ نکالو اسے۔"

انسپیکٹر عمر خان نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور پھر ضیغم کو دیکھا۔

"میں جا رہا ہوں۔۔۔تم یہاں سنبھال لینا۔اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قادر خان کو ختم کر کے انھوں نے جیت اپنے نام کر لی ہے تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔مکمل چھان بین کرو اور ہر ایک کو شامل تفتیش کرو۔۔"

وہ عمر خان کی طرف دیکھتا باہر نکل گیا۔اس کے جاتے ہی ایس۔ایچ۔او طارق خان نے اپنے ماتھے کا نادیدہ پسینہ پونچھتے ہوئے دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے ابھی وہ باہر نکلا تھا۔

    _________________________________________

"کیا بنا۔۔۔۔۔؟؟"

انھوں نے مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے فون کان سے لگایا۔

"کام ہو گیا ہے خان جی۔۔۔۔اب چت بھی ہماری اور پٹ بھی ہماری۔۔ایسی جگہ زخم لگایا ہے کہ بلبلا اٹھے گا۔"

باتور خان کی بات سن کر انھوں نے گہرا سانس لیا۔

"ہاہاہا۔۔۔شاباش!! اور زمان خان کا کیا حال ہے؟"

انھوں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

"بہت آرام سے ہے وہ۔۔۔۔۔آپ اسکی فکر نہ کریں ایسی قبر میں چھپایا ہے کہ ضیغم تو کیا اسکا باپ بھی وہاں نہیں پہنچ سکتا۔ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہو جائے گا مگر اب قیامت کے دن ہی ملے گا اپنے منہ بولے باپ سے۔"

وہ مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔

"واہ۔۔۔۔لیکن ہم بہت ظلم نہیں کر رہے ہیں۔پہلے اسکے اصلی باپ کو آخری آرام گاہ پہنچا دیا تھا اور اب نقلی باپ کی تیاری میں ہیں۔باتور خان۔۔۔۔بڑے ظالم ہیں ہم تو۔۔۔ہمیں تو ہم سے بھی چھپ کر رہنا چاہئیے۔"

انھوں نے بھی باتور خان کا ساتھ دیا۔

"راستے میں آیا ہے تو اب بھگتے۔۔۔۔۔لیکن خان جی۔۔میں یہاں صبر نہیں کروں گا۔۔مجھے مسکاء چاہئیے۔۔اسے حاصل کیے بناء میں آرام سے نہیں بیٹھوں گا۔"

باتور خان کے لہجے میں غرور بول رہا تھا۔

"چھوڑ اسے۔۔۔۔اسکا کا کرنا ہے۔اب وہ ضیغم کی بیوی ہے۔گاوں میں لڑکیوں کا کال پڑ گیا ہے کیا۔۔؟"

انھوں نے کمرے میں داخل ہوتی ماہ گل کو دیکھا۔ماہ گل ان کے لئے ناشتہ لے کر آئی تھی۔

"ماہ گل گلاب خان سے کہو کہ گاڑی تیار کرے۔ہم شہر جائیں گے بچوں سے ملنے۔"

انھوں نے ماہ گل کو ناشتے کی ٹرے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔وہ سر ہلاتے ہوئے واپس چلی گئیں۔وہ بیڈ سے اٹھ کر صوفے پہ آ بیٹھے اور ٹرے اپنی جانب کھینچ کر ناشتہ کرنے لگے۔فون ابھی بھی ان کے کان سے لگا ہوا تھا۔

"ہاں بول باتور خان۔۔"

انھوں نے چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔

"خان جی۔۔۔۔جب تک مسکاء کو اپنے ہاتھوں سے ختم نہ کر لوں۔۔میری غیرت کو سکون نہیں آئے گا۔اپنے ہاتھوں سے اسکا گلا دباوں گا تو ہی مجھے قرار آئے گا۔بس آپ کی اجازت درکار ہے۔ضیغم بھی گاوں میں موجود نہیں ہے اچھا موقع ہے۔وہ دونوں بوڑھے میرا مقابلہ تو کرنے سے رہے۔"

باتور خان نے ان سے اجازت چاہی۔

"نہیں باتور خان۔۔۔۔ابھی نہیں۔۔۔اتنی جلدی ضیغم کو دوسرا دھچکا نہیں دینا۔ضیغم کو پتہ ہے کہ اسکا باپ گاوں میں نہیں ہے اس لئے وہ اتنی جلدی واپس نہیں آئے گا۔اس لئے لوہے کو تھوڑا اور گرم ہونے دو۔گرم لوہے پہ چوٹ دینے کا مزا زیادہ آئے گا۔اس لئے تھوڑا صبر کرو۔میں آج شہر جا رہا ہوں اور تم بھی کچھ دن گھر میں رہو۔۔میں واپس آ جاوں تو اگلا قدم ہم مل کر اٹھائیں گے۔"

میرسربلند خان نے لہجہ آہستہ رکھا۔

"ٹھیک ہے خان جی۔۔۔جیسے آپ کا حکم۔۔لیکن میں زیادہ انتظار نہیں کروں گا۔"

باتور خان بےصبری سے بولا۔

"او ٹھیک ہے۔۔۔ٹھیک ہے۔۔کر لینا جو کرنا ہو۔۔۔"

انھوں نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہوگئے۔

وہ اس وقت تھانے میں انسپیکٹر عمر خان کے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے۔یہاں آنا تو نہیں چاہتے تھے لیکن ضیغم نے ان سے کہا تھا کہ اس کام میں دیر نہیں ہونی چاہئیے۔باتور خان کے ڈر سے وہ یہ قدم اٹھانے سے بھی گھبرا رہے تھے۔جب سے ضیغم اور زمان خان گھر میں نہیں تھے وہ اور ذہرہ بی بی مسکاء کے پاس ہی تھے۔حالانکہ ضیغم کانسٹیبل عبداللہ کو ان کی حفاظت پہ مامور کر گیا تھا۔ضیغم کے ہی کہنے پہ وہ باتور خان کے خلاف ایف۔آئی۔آر لکھوانے آئے تھے۔جسمانی طور پر تو وہ یہاں موجود تھے مگر ذہہن گھر کی جانب لگا ہوا تھا۔زمان خان کا اب تک کچھ پتہ نہ چل سکا تھا۔ضیغم اپنی پوری کوشش کر رہا تھا۔اسے شک تھا کہ زمان خان کو شہر میں ہی رکھا گیا ہے۔انسپیکٹر عمر خان نے بھی اسے بتا دیا تھا کہ زمان خان گاوں میں موجود نہیں ہیں۔وہ کچھ نفری لے کر میرسربلندخان کی حویلی گیا تھا۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ تو صبح سویرے ہی شہر جا چکے ہیں لیکن باتور خان گاوں میں ہی موجود ہے۔انسپیکٹرعمر خان اور ضیغم کو یقین تھا کہ میرسربلند خان نے یہ کام باتور خان کے ذریعے کروایا ہے۔انسپیکٹر عمر خان نے پہلے حویلی اور پھر حجرے کی تلاشی لی۔جہاں سے کوئی سراغ نہ مل سکا لیکن پھر ضیغم نے اسے حجرے کی دائیں طرف بنی تنگ و تاریک گلی کے متعلق بتایا جسے سب کی نظروں سے چھپانے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی اور اسے یہ بھی بتایا کہ وہاں اسے زمان خان کا رومال بھی ملا تھا جو وہ ہمیشہ اپنے کندھے پہ لئے رکھتے تھے۔جو کہ میرسربلند خان اور باتور خان کے خلاف ایک مضبوط ثبوت تھا اور زمان خان کو اغواء کرنے کے بعد وہیں رکھا گیا تھا۔مزید ثبوت ملنے کی صورت میں ضیغم نے انسپیکٹر عمر خان کو وہاں دوبارہ سرچ آپریشن کرنے کو تھا۔جہاں سے انھیں جوتے ملے تھے جو کہ ان کے خیال میں زمان خان کے ہو سکتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انھیں کچھ اور شواہد بھی ملے تھے۔

"السلام و علیکم۔۔!!" رحم دین انسپیکٹرعمر خان کے آفس میں بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آفس میں داخل ہوا۔

"واعلیکم السلام۔۔!!" وہ اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔

"بیٹھئیے۔۔" 

وہ کرسی سنبھالتے ہوئے بولا۔اپنی کیپ اتار کر اس نے ٹیبل کے دائیں جانب رکھ دی اور ان کی طرف متوجہ ہوا۔رحم دین بھی بیٹھ چکے تھے۔ان کے متوجہ ہوتے ہی انسپیکٹر عمر خان نے ایک ٹرانسپیرنٹ تھیلا ان کے سامنے ٹیبل پر رکھا۔جس میں سے جوتوں کی ایک جوڑی دکھائی دے رہی تھی۔

"مجھے سرچ آپریشن کے دوران وہاں سے یہ جوتوں کی جوڑی ملی تھی اور ہمیں شک ہے کہ یہ زمان خان کے ہیں۔"

انسپیکٹر عمر خان نے تھیلے کی طرف ہاتھ میں پکڑے پین سے اشارہ کرتے ہوئے انھیں دیکھا۔رحم دین نے ہاتھ بڑھا کر تھیلا اٹھا لیا۔

"ہاں۔۔۔یہ اسی کے ہیں۔"

انھیں یاد آیا کہ وہ یہی جوتے پہنتے تھے۔انھوں نے تھیلا اس کی جانب بڑھایا۔

"ٹھیک ہے۔۔"

انسپیکٹر عمر خان نے شاپر ان کے ہاتھ سے لے لیا تھا اور نیچے رکھ دیا پھر انٹرکام پہ ایس۔ایچ۔طارق خان کو بلایا۔ایس۔ایچ۔او طارق خان آفس میں داخل ہوئے اور سلیوٹ کیا۔

"طارق خان۔۔رحم دین صاحب کو لے جاو اور ان کی ایف۔آئی۔آر درج کرو اور اس کے ساتھ ہی تھوڑی دیر بعد ہی مجھے اس ایف۔آئی۔آر پہ عمل در آمد بھی چاہئیے۔"

انسپیکٹر عمر خان نے ایس۔ایچ۔او طارق خان کی جانب دیکھا۔

"یس سر۔۔۔!"

طارق خان نے ایک بار پھر سلیوٹ کیا اور واپس مڑنے لگا۔

"آپ جائیے رحم دین چاچا۔۔۔اور بناء ڈرے اور ہچکچائے اپنی شکایت لکھوایئے۔۔۔اور تم بھی ایک ایک تفصیل لکھو۔"

اس نے پہلے رحم دین اور ایس۔ایچ۔او طارق خان کو دیکھا۔

"میں پہلے بھی کئی بار اس سلسلے میں یہاں آ چکا ہوں مگر کسی نے بھی میری بات کو سنجیدہ نہیں لیا بلکہ میرا مذاق اڑایا گیا۔آپ ایس۔ایچ۔او صاحب سے پوچھ لیں۔میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ اس سلسلے میں مجھ غریب کی مدد کریں مگر افسوس کہ انھوں نے میری بات پر توجہ نہ دی۔اگر یہ اس وقت میری بات پہ سنجیدگی سے عمل کر لیتے تو آج مجھے یہ حالات نہ دیکھنے پڑتے۔۔ڈر ڈر کر زندگی نہیں گزارنی پڑتی۔۔۔۔۔مگر افسوس۔۔۔!!"

انھوں نے ایک گہری سانس خارج کی اور کھڑے ہو گئے۔ان کی آنکھوں کی نمی انسپیکٹر عمر خان کو سر جھکانے پر مجبور کر گئی تھی۔ان کی آواز میں درد ہلکورے لے رہا تھا۔۔وہ درد۔۔۔وہ تکلیف۔۔جو انھوں نے اس سارے عرصے میں جھیلی تھی۔

"میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں اور اپنے عملے کی جانب سے آپ سے معافی کا خواستگار ہوں۔"

انسپیکٹر عمر خان اٹھتے ہوئے بولا اور پھر کڑی نظروں سے ایس۔ایچ۔او طارق خان کی طرف دیکھا۔طارق خان اس کی کڑی نظروں کی تاب نہ لا کر چہرہ جھکا گیا۔عمر خان کو اس کے چہرے پر شرمندگی کا شائبہ تک دکھائی نہ دیا تو وہ افسوس سے سر ہلا کر رہ گیا تھا۔

"چاچا۔۔۔اب ایسا نہیں ہو گا۔۔۔آپ جائیے اور باتور خان کے خلاف غگ کرنے اور آپ کی فیملی کو اس تمام عرصے میں تکلیف سے دوچار کرنے پہ پرچہ کٹوائیے اور بھروسہ رکھیے اس بار آپ کو انصاف ضرور ملے گا۔۔میرا وعدہ ہے آپ سے کہ اب ظالم کو وہیں پہنچاوں گا جہاں اسے ہونا چاہئیے۔"

انسپیکٹر عمر خان نے رحم دین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر انھیں تحفظ کا احساس دلایا۔

"طارق خان مجھے اپنی بات دہرانے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئیے۔"

انسپیکٹر عمر خان نے ایس۔ایچ۔او طارق خان کو طنزیہ نظروں سے دیکھا۔

"نن۔۔۔نہیں سر۔۔۔چلو چاچا۔۔۔"

وہ رحم دین کو اشارہ کرتا باہر چلا گیا۔

"آپ بےفکر ہو کر جائیں۔"

اس نے ایک بار پھر انھیں پریقین نگاہوں سے دیکھا۔اس کے یقین دلانے پر رحم دین سر ہلا کر دروازے کی طرف بڑھ گئے۔

"لیکن انسپیکٹر صاحب۔۔۔باتور خان کہیں کوئی اور قدم نہ اٹھا لے۔۔آپ جانتے نہیں ہیں اسے۔۔زمان خان ان کے قبضے میں ہے۔کہیں میرے اس قدم سے وہ انھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ہمارے اس عمل سے کرم دین خاموش نہیں بیٹھے گا۔وہ فورا میرسربلند خان سے رابطہ کرے گا اور زمان خان کو۔۔۔۔۔۔خدانخواستہ۔۔۔"

رحم دین کچھ سوچتے ہوئے پلٹے تھے۔

"میں اسے کچھ کرنے کا موقع ہی نہیں دوں گا۔۔آپ بےفکر رہئیے۔آپ کو اور آپکے خاندان کو پورا پورا تحفظ دیا جائے گا۔۔۔مجھ پہ بھروسہ رکھئیے۔"

وہ مزید بولا تو رحم دین گہری سانس خارج کرتے ہوئے باہر نکل گئے۔انسپیکٹر عمرخان کی پرسوچ نگاہیں انھیں جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔۔۔

ان کے جانے کے بعد وہ فائل کھول کر ایک ایک پوائنٹس نوٹ کرنے لگا۔وہ بھی سوچ سوچ کر تھک گیا تھا کہ انھوں نے زمان خان کو کہاں چھپایا ہوگا۔اچانک اس کے ذہہن میں جھماکا ہوا وہ فورا اٹھا اور لاک اپ کی جانب بڑھا جہاں شکور تھا۔وہ اسے میرسربلند خان کے شہر میں موجود خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں بتا سکتا تھا۔یہی سوچ اسے شکور کے پاس لے آئی۔

       _________________________________________

ایف۔آئی۔آر درج ہونے کے بعد انسپیکٹر عمر خان نے ایس۔ایچ۔او طارق خان کو باتور خان کو گرفتار کرنے کو کہا۔۔ایس۔ایچ۔او طارق خان کچھ سپاہیوں کو لے کر باتور خان کے گھر پہنچا۔انھیں ادھر ادھر سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ باتور خان گھر پہ ہی ہے اس لئے وہ سیدھے اس کے گھر آئے تھے۔ایس۔ایچ۔او جانتا تھا کہ دونوں باپ بیٹے نے خوب شور مچانا تھا اب وہ اپنے کرئیر کو لے کسی قسم کی بھی غلطی نہیں کر سکتا تھا۔اس لئے وہ ہر طرح کے ردعمل کے لئے خود کو تیار کر چکا تھا۔اب اسے اپنی نوکری بچانی تھی نہ کہ ان مجرموں کو۔

"گھر پہنچنے پہ اس نے عبداللہ کو دستک دینے کو کہا۔

تھوڑی دیر بعد کرم دین نے دروازہ کھولا۔ایس۔ایچ۔او کو دیکھ کر اسکی باچھیں چر گئیں۔

"ارے آج تو بڑے بڑے لوگ ہمارے غریب خانے پہ آئے ہیں۔۔۔ٹھہرو میں بیٹھک کھولتا ہوں۔"

اس نے ایس۔ایچ۔او کو اندر آنے کا راستہ دیا اور خود واپس مڑ گیا۔ان کا رویہ ایسا تھا جیسے ایس۔ایچ۔او صاحب پہلے بھی یہاں آتے رہے ہوں۔

"ہم اندر آنے کے لئے نہیں آئے ہیں کرم دین۔۔۔۔باتور خان کو بلوا دو۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔کرم دین پہلے تو حیران ہوا پھر مسکراتے ہوئے بولا۔

"ایس۔ایچ۔او صاحب۔۔۔آپ کچھ ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔۔ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا۔۔اندر چلیے ساری ناراضگی دور کر دیں گے۔"

کرم دین خوشامدی لہجے میں بولا۔

"کرم دین تم باتور خان کو بلا رہے ہو یا میں خود اندر چلا جاوں۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی نے کرم دین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔

"میں بلاتا ہوں۔"

وہ انھیں وہیں چھوڑ کر اندر کیطرف مڑ گیا۔تھوڑی دیر بعد باتور خان باہر آیا۔کھدر کا نسواری شلوار سوٹ زیب تن کیے۔۔مونچھوں کو تاو دیتا،بارعب انداز میں ایس۔ایچ۔او کیطرف بڑھا۔اس نے طارق خان سے بغلگیر ہونے کے لئے ہاتھ پھیلائے مگر طارق خان نے ہاتھ بڑھا کر اسے روک دیا۔

"کیا بات ہے ایس۔ایچ۔او صاحب۔۔۔۔کیا اے۔ایس۔پی صاحب نے معطل کر دیا ہے نوکری سے یا پھر آپ کے پوشیدہ کارہائے نمایاں ان پر ظاہر ہو گئے ہیں۔آپ کو غصے میں پہلی بار دیکھا۔۔وہ بھی ہم پر۔۔۔"

باتور خان نے مسکراتے ہوئے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا۔

"باتور خان میں تمھیں گرفتار کرنے آیا ہوں۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے دونوں باپ بیٹے کے سر پہ بم پھوڑا۔

"کس جرم میں۔۔۔"

باتور خان کے مسکراتے لب سکڑ گئے۔کرم دین کے چہرے سے بھی مسکراہٹ غائب ہوئی۔

"رحم دین نے تمھارے خلاف رپورٹ درج کروائی ہے کہ تم نے ان کی بیٹی پہ ناحق غگ کر کے اسے کہیں بھی شادی سے روکے رکھا اور انھیں تنگ کرتے رہے۔اس کام میں تمھارا باپ بھی تمھارے ساتھ شامل تھا۔اوپر سے سختی سے آرڈر ہے کہ غگ ایک غیرشرعی اور غیرقانونی عمل ہے لہذا اس کا ارتکاب کرنے والے پہ سخت سے سخت کاروائی کرنے کا آرڈر آیا ہے۔قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی لڑکی کو اسکی مرضی کے بناء شادی کے لئے مجبور کیا جائے یا پھر اسے اپنا پابند کیا جائے۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے اسکے سامنے ہتھکڑی لہرائی۔

"تم شاید بھول گئے ہو کہ میں کون ہوں۔"

باتور خان نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی۔

"تم جیسے مجرموں کو قانون کبھی نہیں بھولتا باتور خان۔۔۔۔تم بھی کسی بھول میں مت رہنا۔تمھارے جرائم پر بھی فل اسٹاپ لگانے کا وقت آ گیا ہے۔"

ایس۔ایچ۔او نے باتور خان کا انداز اسے لوٹایا۔

"بھول تو تم گئے ہو اپنی اوقات۔۔۔ہمارے ٹکڑوں پہ پلنے والے۔۔۔"

باتور خان اس کی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بولا۔اسکا غرور و تکبر میں لپٹا لہجہ ایس۔ایچ۔او طارق خان کو غصہ دلا گیا۔

"سیدھی طرح چلو۔۔۔زیادہ اکڑ دکھائی نہ تو توڑ کے ہاتھ میں دے دوں گا۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔اس انداز پہ کرم دین بھڑک کر سامنے آیا۔

"تمھارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ سب باتور خان نے کیا اور وارنٹ ہے تمھارے پاس یا کسی کے کہنے پر یونہی منہ اٹھائے چلے آئے ہو۔"

"ہاہاہا۔۔۔۔۔۔یہ رہے وارنٹ تیرے ہونہار سپوت کی گرفتاری کے۔۔۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے قہقہہ لگایا۔اس کے انداز دیکھ کر باقی پولیس والے بھی حیرانی سے کھڑے رہ گئے۔ایسا پہلی بار ہوا تھا ورنہ تو وہ آج تک ان کی ہاں میں ہاں ملاتا آیا تھا۔لیکن اب وہ اس کایا پلٹ پہ خوش بھی تھے اور حیران بھی۔

"تم اسطرح میرے بیٹے کو نہیں لے جا سکتے۔۔رحم دین تو بےغیرت ہے بیٹی کا نام تھانے میں لکھوانے پہنچ گیا اور کیا تم جانتے نہیں ہو کہ رحم دین نے اپنی بیٹی کو زمان خان کے بیٹے کے ساتھ بھگا دیا تھا۔سب سے چھپا کر اسکا نکاح کروایا تھا۔اب اس سب میں میرے بیٹے کا کیا قصور۔۔۔"

کرم دین کی زبان ذہر اگلنے لگی تھی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایس۔ایچ۔او طارق خان کو اٹھا کر کہیں دور پھینک آتا۔

"اپنا منہ بند رکھو ورنہ تمھیں بھی تمھارے بیٹے کے ساتھ ہی بند کر دوں۔۔۔عبداللہ کرم دین کو بھی لے چلو۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے کانسٹیبل عبداللہ سے کہا۔عبداللہ جو بالکل الرٹ کھڑا تھا فورا آگے بڑھا۔

"نہیں۔۔۔بابا تم پیچھے ہٹو۔"

باتور خان نے کرم دین کو پیچھے کیا اور ہاتھ ایس۔ایچ۔او کے آگے کر دئیے۔ایس۔ایچ۔او طارق خان نے ہتھکڑی باندھی۔

"مگر باتور خان۔۔۔۔۔"

کرم دین اسے روکنے کے لئے آگے بڑھے۔

"بابا۔۔۔تم خان جی کو بتا دو۔۔وہ خود ہی ان سے نپٹ لیں گے اور شام تک میں گھر میں ہوں گا۔"

وہ مڑ کر کرم دین سے کہنے لگا اور پھر کرم دین کے چہرے کے قریب آ کر اسکے کان میں کچھ کہا تھا۔

"چلو۔۔۔یہ باقی باتیں جب جیل آئے گا تمھارا باپ۔۔تب اس سے کر لینا۔"

ایس۔ایچ۔او صاحب نے باتور خان کو گاڑی کی جانب دھکیلا۔باتور خان نے قہر بھری نظروں سے اسکی طرف دیکھا اور پھر تیزی سے آگے بڑھ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔کرم دین بھی اسکے گاڑی میں بیٹھتے ہی اندر کی جانب لپکا۔یقینا اسے یہ بات جلد سے جلد میرسربلند خان تک پہنچانی تھی۔باتور خان کے بیٹھتے ہی وہ سب بھی گاڑی کیطرف بڑھے۔

"کیوں۔۔۔۔کیسا لگا میرا انداز۔۔۔۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے باقی سب کیطرف دیکھ کر اپنی مونچھوں کو سنوارا۔

"ذبردست سر۔۔۔۔۔"

عبداللہ نے ہنستے ہوئے اسے داد دی تو اس کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی اور باقی سب بھی ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ان سب کے قہقہے باتور خان کو آگ لگا گئے۔

"اوئے نیچی کر آنکھیں۔۔۔ورنہ تیری آنکھیں نکال دوں گا۔"

عبداللہ نے بھی اپنی دھاک بٹھانی ضروری سمجھی۔

"چلو۔۔۔۔"

ایس۔ایچ۔او طارق خان نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور کو چلنے کے لئے کہا۔ڈرائیور نے گاڑی کا رخ تھانے کی جانب کر دیا۔

            ________________________________________

"ہاں کیا خبر ہے عمر خان۔۔؟"

ابھی وہ ایک اہم میٹنگ سے فارغ ہو کر اپنے آفس آیا تھا کہ موبائل کی رنگ ٹون بجنے پر اس نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکالا۔موبائل کی اسکرین پہ انسپیکٹر عمر خان کا نام بلنک ہوتا دیکھ کر اس نے فورا کال ریسیو کی۔

"سر۔۔۔!! میرسربلند خان تو آج صبح ہی شہر چلے گئے۔جب میں وہاں سرچ وارنٹ لے کر پہنچا تو وہ گھر پہ موجود نہیں تھے۔ان کے چوکیدار گلاب خان نے ہی ان کے شہر چلے جانے کے متعلق بتایا اور یہ بھی کہ کچھ دن وہ شہر میں ہی رہیں گے۔فیملی بھی کافی ٹائم سے شہر میں ہی ہے۔تلاشی لینے پہ ہمیں وہاں کوئی بھی قابل گرفت چیز نہیں ملی۔۔دوسرا ملازموں کے علاوہ وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ہم نے ملازموں سے بھی پوچھ تاچھ کی۔۔۔انھیں بھی کچھ نہیں معلوم اس بارے میں۔۔۔پھر ہم نے پورے حجرے کو بھی چھان مارا۔وہاں ملنے والے شواہد اس بات کی طرف اشارہ دلا رہے تھے کہ زمان خان کو وہیں رکھا گیا تھا اور وہاں سے ہمیں ان کے جوتے بھی ملے ہیں۔رحم دین نے ان کی تصدیق کر دی ہے کہ زمان خان کے ہی جوتے ہیں۔۔دیوار پہ لگے خون کے سیمپلز بھی ہم نے اٹھا کر لیباٹری بھجوا دیئے ہیں۔رپورٹ جلد ہی مل جائے گی۔"

انسپیکٹر عمر خان اسے ساری تفصیل سے آگاہ کر رہا تھا اور وہ خاموشی سے سن رہا تھا۔

"اور باتور خان۔۔۔۔۔اسکا کیا بنایا؟؟"

ضیغم نے پوچھا۔

"سر وہ تو لاک اپ میں ہے۔۔اسکی تو آپ فکر ہی مت کیجئیے۔ایسا تگڑا کیس بناوں گا کہ جیل سے چھوٹنا تو دور کی بات بیل بھی نہیں ہو پائے گی۔ہمیں شک ہے کہ اسی نے قادر خان کو مروایا ہے تاکہ وہ قانون کے ہاتھوں بچ سکے۔ہنگامہ تو اس کے باپ نے بہت مچایا ہوا ہے لیکن میں ان دونوں کیسسز کی چارج شیٹ اسی کے خلاف فائل کروں گا۔"

انسپیکٹر عمر خان نے ایس۔ایچ۔او طارق خان کی طرف دیکھا جو وہیں ٹیبل کی دوسری جانب بیٹھا تھا۔وہ کافی دیر سے بیٹھا اسی کیس پہ انسپیکٹر عمر خان کے ساتھ ڈسکشن کے لئے آیا تھا لیکن عمر خان اسے موقع نہیں دے رہا تھا۔

"لیکن ایک بات ہے۔۔اگر میرسربلند خان کے کہنے پر کوئی آرڈر آ گئے تو پھر ہم کیا کریں گے۔۔مجبورا ہمیں۔۔۔۔"

وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہوا۔

"اسے کسی صورت نہیں چھوڑنا ہے عمر خان۔۔ایسا کرو کہ عبداللہ کو بلوا لو۔۔مزید اب اسکی ضرورت نہیں ہے۔سب سے بڑا مسئلہ باتور خان کا تھا۔مجھے ڈر تھا کہ بابا کے بعد ان کا اگلا قدم میرے گھر کی جانب اٹھ سکتا ہے۔اب باتور خان جیل میں ہے تو اس جانب سے اب مجھے سکون ہے۔تم بس باتور خان کے خلاف کیس جلدی عدالت میں پیش کرو۔۔۔بلکہ ایسا کرو کہ میڈیا کو انوالو کرو۔۔۔میڈیا کے بیچ میں آنے سے میرسربلندخان کوئی بھی قدم اٹھانے سے قاصر ہو جائے گا۔تب ہم آرام سے اس کیس کو ہینڈل کر سکتے ہیں۔ایک بار چیف جسٹس صاحب اس کیس کا نوٹس لے لیں تو اس کیس کی لگامیں خود بخود ہمارے ہاتھ میں آ جائیں گی۔میں یہاں تھا اس لئے رحم دین چاچا سے رپورٹ لکھوانے کو کہا تھا۔باتور خان کے خلاف تمھیں بہت سے گواہ مل جائیں گے۔انفیکٹ سارا گاوں ہی اس سے تنگ ہے۔وہ اس کے خلاف بڑھ چڑھ گواہی دیں گے۔اب اس کے سر پہ کوئی کھڑا نہیں ہوگا اور نہ میں ایسا ہونے دوں گا۔"غگ" کا ارتکاب کرنے اور اسے گاوں میں فروغ دینے کی وجہ سے وہ کسی بھی طرح کی نرمی کا مستحق نہیں ہے۔اس سلسلے کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اسے کڑی سے کڑی سزا دے کر ہی "غگ" جیسی بیماری کا خاتمہ کر سکتے ہیں تاکہ آئندہ کسی میں بھی غگ یا اس جیسی دوسری کسی بھی قبیح رسم کا ارتکاب کرنے کی جرآت نہ ہو۔"

اس کے لہجے میں عزم بول رہا تھا۔

"انشاء اللہ سر۔۔۔!! ایسا ہی ہو گا۔۔باتور خان اور میرسربلندخان جیسے لوگ اس ملک کا ناسور ہیں اور انھیں اور ان جیسے لوگوں کو ہم ضرور ان کے انجام تک پہنچائیں گے۔"

انسپیکٹر عمر خان کا پرجوش انداز دیکھ کر ایس۔ایچ۔او طارق خان نے پہلو بدلا۔

"انشاءاللہ۔۔۔!!"

ضیغم نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

"وہاں کیا امپرومینٹ ہے۔۔کچھ پتہ چلا۔۔۔کوئی سراغ۔۔؟؟"

عمر خان نے اس سے زمان خان کے متعلق پوچھا۔

"نہیں ابھی تک کچھ خاص کامیابی نہیں ہو سکی۔ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں انھیں بازیاب کروانے کی۔"

ضیغم نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔زمان خان کے ذکر پہ اس دل و دماغ میں اضطراب ہلکورے لینے لگتا تھا۔اب بھی ایسا ہی ہوا۔بہت کوشش کرنے کے باوجود کوئی بھی کامیابی نہیں ہو پا رہی تھی۔نہ دن دیکھتا نہ رات۔۔۔۔ہر پل اسے زمان خان کی جانب سے پریشانی لگی رہتی۔۔دل کو دھڑکا سا لگا رہتا۔

"باتور خان سے کچھ اگلوانے کی کوشش کرو۔۔۔وہ بہت کچھ بتا سکتا ہے۔"

ضیغم نے اسکی توجہ اس جانب دلائی۔

"سر وہ بہت ڈھیٹ ہڈی ہے۔۔۔کچھ بھی نہیں بولتا۔۔اپنے کیس کو لے کر بھی وہ کوئی پازیٹیو رسپانس نہیں دے رہا۔کچھ بھی پوچھو خاموش رہتا ہے۔میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں۔"

انسپیکٹر عمر خان نے اسے باتور خان کے متعلق بتایا جو ایک ہی "نہ" پہ اڑا ہوا تھا کہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔جہاں تک غگ کا تعلق ہے تو اس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے بھی پیچھے ہٹ چکا ہے اور اسے بنا کسی کیس کے یہاں بند کر رکھا ہے۔سارا دن چیخ چیخ کر دہائیاں دیتا رہتا تھا کہ وہ بےگناہ ہے۔

"تم اس کا کیس جلد سے جلد عدالت میں پیش کرو اور اسکا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔وہ اتنے آرام سے تھوڑی نہ اپنی زبان کھولے گا۔ایک دو ہاتھ لگیں گے تب ہی تو کچھ بولے گا۔پریس میں معاملہ آنے کے بعد میرسربلند خان بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔"

ضیغم نے اسے مزید صلاح دی۔

"آپ فکر نہ کریں سر۔۔۔اس معاملے کو پریس کے سامنے بریف کرنے کے بعد اس کا یہاں سے بچ نکلنا ناممکن ہو جانے والا ہے۔جہاں تک میرسربلند خان کی بات ہے تو وہ اپنی بچی کچی ساکھ گنوانا نہیں چاہے گا۔"

وہ سامنے پڑی فائل کھولتے ہوئے بولا۔

"بہت اچھے۔۔۔۔مجھے تم سے یہی امید ہے اور جب تم جیسے آفیسر پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ہیں ہمیں کوئی بھی مات نہیں دے سکتا۔اب میں فون رکھتا ہوں انشاء اللہ جلد ملاقات ہو گی۔"

یہ کہہ کر ضیغم نے کال ڈسکنکٹ کر دی۔دوسری جانب وہ بھی فون ٹیبل پر رکھ چکا تھا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔یہ فائل لے جاو۔"

عمر خان نے فائل اچھی طرح دیکھ کر ایس۔ایچ۔او طارق خان کے حوالے کر دی۔وہ فائل اٹھا کر جانے لگا۔

"اور ہاں۔۔۔۔اس بار کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئیے۔۔اور ایک اور بات جو بھی کھانا قیدیوں کے لیے آئے گا سب سے پہلے تھانے کا عملہ چیک کرے گا اور پھر دیا جائے گا۔اگر اس بار کوئی بھی اونچ نیچ ہوئی تو تم سب کو ان کی جگہ پہچانے میں مجھے چند پل لگیں گے۔۔۔۔اب جاو۔۔"

اسکی کہی بات کا مطلب وہ اچھی طرح سے سمجھ چکا تھا۔اس لئے خاموشی سے فائل اٹھائی اور باہر نکل گیا۔

    _________________________________________

وہ اس وقت فلیٹ میں کچن میں کھڑا اپنے لئے قہوہ بنا رہا تھا۔وہ اس وقت گھر کے ہی ہلکے پھلکے کپڑوں میں ملبوس تھا۔قہوہ کپ میں ڈال کر وہ کپ لیے لاؤنج میں آ گیا۔کپ اس نے ٹیبل پر رکھا اور خود صوفے پہ ریلیکس انداز میں بیٹھ گیا۔ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا اور نیوز چینل لگا کر دھیرے دھیرے قہوہ پینے لگا۔آج کی میٹنگ بہت اہم تھی۔ڈی۔آئی۔جی صاحب نے اسے ہمت دلائی تھی کہ وہ جسطرح چاہے اس معاملے کو ہینڈل کرے۔اس لئے اب وہ ریلیکس ہو کر اس معاملے پہ سوچنا چاہتا تھا۔

ٹی۔وی پہ ہیڈلائنز چل رہی تھیں۔ٹی۔وی پہ چلتی خبر پہ وہ سیدھا ہو بیٹھا۔اسکرین پہ دکھائی دیتا شخص انسپیکٹر عمر خان تھا۔اس نے فورا والیوم بڑھایا۔وہ باتور خان کیس کے متعلق میڈیا کو آگاہ کر رہا تھا۔

"ویری گڈ۔۔۔"

ضیغم نے ہاتھ میں پکڑا کپ ٹیبل پہ رکھ دیا۔انسپیکٹر عمر خان نے مسکاء کا نام ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔وہ بڑے بولڈ انداز میں انھیں تمام تفصیل سے آگاہ کر رہا تھا۔اس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ باتور خان اس وقت پولیس کی حراست میں ہے اور اسے ایک بااثر شخص کی پشت پناہی حاصل ہے۔ایک رپورٹر کے اس بااثر شخصیت کا نام پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وقت آنے پہ وہ اس نام کو ضرور ان کے سامنے رکھے گا۔اس کے بعد اگلی خبر چیف جسٹس کے اس کیس کا نوٹس لینے کی تھی۔جو کہ ایک اور خوشی کی خبر تھی۔چیف جسٹس نے اس معاملے کی ٹھیک سے چھان بین کرنے آرڈر دیا تھا اور اس کے پیچھے جو جو شامل ہیں ان کے خلاف بھی کاروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

خبر کے ختم ہوتے ہی اس نے انسپیکٹر عمر خان کو کال کر کے اسے اس کامیابی پہ مبارکباد دی۔عمر خان نے بھی اسکا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اس پہ اعتماد ظاہر کر کے یہ کیس اس کے حوالے کیا تھا۔عمر خان نے اسے بتایا کہ اس نے باتور خان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے اور جلد ہی اس سے سب اگلوا لے گا کہ اس نے زمان خان کو کہاں رکھا ہے۔کچھ ادھر ادھر کی باتیں کر کے ضیغم نے الوداعی کلمات کہہ کر فون بند کر دیا اور دوبارہ سے ٹیبل پہ پڑا کپ اٹھا لیا۔قہوہ ٹھنڈا ہو چکا تھا مگر پھر بھی اس نے ٹیڑھے میڑھے منہ بنا کر پی لیا۔

خالی کپ رکھ کر وہ چینل سرچنگ میں مصروف ہو گیا۔ابھی کچھ ہی ٹائم گزرا تھا کہ دروازے پہ دستک نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔وہ ریموٹ رکھ کر دروازے کیطرف بڑھ گیا۔

"ارے چاچا آپ۔۔۔۔"

رحم دین کو دیکھ کر اس نے خوشی کا اظہار کیا۔وہ اکیلے ہی دکھائی دے رہے تھے۔

"ارے برخوردار لوگ۔۔۔مصافحہ کرتے ہیں۔۔بغلگیر ہوتے ہیں۔۔سلامتی بھیجتے ہیں۔مگر یہاں تو حیرانی استقبال کر رہی ہے۔"

انھوں نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے ہوئے کہا۔مگر اسکی نظر پھر بھی کہیں اور ہی اٹکی ہوئی تھی۔

"کیا بات ہے۔۔۔میرے آنے کی خوشی نہیں ہوئی تمھیں۔"

انھوں نے اس کے انداز پہ ہنسی کو لبوں میں قید ہی رکھا۔

"آپ اکیلے آئے ہیں۔۔۔ذہرہ خالہ کو بھی لے آتے۔"

اس نے انھیں اندر آنے کا راستہ دیا۔

"ارے بھئی اسکا کیا کام۔۔۔۔وہاں مسکاء اکیلی تھی۔اسے ساتھ لاتا تو مسکاء کے پاس کون رہتا۔۔۔ذرا پانی تو پلاو۔"

انھوں نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔

"جی۔۔۔"

وہ دروازہ بند کر کے کچن کی جانب بڑھ گیا۔ابھی اس نے پانی کا گلاس انھیں پکڑایا ہی تھا کہ دروازے پہ ایک بار پھر دستک ہوئی۔

"تم رکو۔۔میں دیکھتا ہوں۔"

رحم دین گلاس رکھ کر دروازے کی جانب بڑھ گئے۔

"یہ کیا طریقہ تھا۔آپ ہمیں نیچے چھوڑ کر خود یہاں پہنچ گئے۔۔واہ بھئی۔۔۔۔یہ حال ہے۔۔"

ذہرہ بی بی انھیں پرے ہٹاتی۔۔اندر آئیں اور آخری جملہ انھوں نے ضیغم کی طرف دیکھ کر کہا۔وہ ہنستے ہوئے ان کی طرف بڑھا۔انھوں نے اسکے سر پہ پیار دیا اور کچھ دیر اس کے سینے سے لگی رہیں۔

"خالہ۔۔۔مسکاء۔۔۔۔۔"

اس نے ان سے مسکاء کے متعلق پوچھا۔

"السلام وعلیکم۔۔!!"

ضیغم نے فورا آواز کی سمت دیکھا۔بلیک شال اپنے گرد لپیٹے سرخ چہرہ لئے وہ اندر آئی تھی۔سردی کی شدت سے سرخ ہوتی ناک ضیغم کے چہرے پہ مسکراہٹ لے آئی۔

"واعلیکم السلام۔۔۔"

اس نے اسے نظروں کی گرفت میں لیتے ہوئے جواب دیا۔مسکاء بھی نظروں کا ذاویہ بدلتی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی صوفے کی جانب آئی۔

"بابا۔۔۔۔۔وہ سامان کون لے کر آئے گا اوپر۔۔۔کیا خود چل کر آئے گا۔۔آپ نے اسے ٹریننگ دی ہوئی ہے کیا۔۔؟"

رحم دین اس کی بات پہ وہ مسکرا دئیے۔۔

"ارے بھئی۔۔۔یہ جوان ہے نا۔"

انھوں نے ضیغم کی طرف اشارہ کیا۔وہ ہنستے ہوئے دروازے کیطرف بڑھ گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ بیگ ہاتھ میں لئے اندر داخل ہوا۔

"مسکاء ایک کپ چائے تو بنا دو بیٹا۔۔سر میں درد ہو رہا ہے۔"

ذہرہ بی بی صوفے پہ بیٹھتے ہوئے بولیں۔مسکاء سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔رحم دین نے ضیغم سے زمان خان کے متعلق پوچھا۔اس نے انھیں تسلی دی کہ زمان خان جلد ہی ان کے بیچ ہونگے۔گاوں کے متعلق پوچھنے پر رحم دین نے اسے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔وہ بہت خوش تھے۔انھوں نے اسے بتایا کہ انسپیکٹر عمر خان نے ان کا بہت ساتھ دیا۔

"ضیغم ۔۔۔۔تم گاوں میں ہوتے تو دیکھتے کہ کسطرح گاوں کے لوگوں نے باتور خان کے خلاف گواہی دی تھی۔"

وہ خوشی خوشی اسے بتا رہے تھے۔وہ بھی مسکراتے ہوئے ان کے خوشی سے چمکتے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

"بس کرم دین نے بہت تنگ کر رکھا تھا اس لئے میں انھیں لے کر یہاں آ گیا۔"

رحم دین نے یہاں آنے کی وجہ بتائی۔

"بہت اچھا کیا آپ نے۔۔۔۔ویسے بھی میں بھی یہاں ہوں اور بابا بھی انشاءاللہ جلد ہمارے بیچ ہونگے۔"

وہ مسکاء کی جانب دیکھتے ہوئے بولا جو ٹرے ٹیبل پہ رکھ رہی تھی۔

"انشاءاللہ۔۔۔میرا دل گواہی دے رہا ہے زمان بھائی جلد ہی مل جائیں گے۔"

ذہرہ بی بی نے مسکاء کے ہاتھ سے کپ لیتے ہوئے کہا۔

"میں آپ لوگوں کے لیے کھانے کا بندوبست کروں۔"

ضیغم اٹھنے لگا تو ذہرہ بی بی نے ہاتھ پکڑ کر اسے روک دیا کہ گھر میں بنا لیں گے۔کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مسکاء اور ذہرہ بی بی نے کچن کا رخ کیا۔دونوں نے مل کر کھانا تیار کیا۔رات کا کھانا کھانے کے بعد ذہرہ بی بی اور رحم دین آرام کی غرض سے کمرے میں چلے گئے جبکہ مسکاء کچن میں آ گئی۔وہ برتن دھو کر باہر آئی تو ضیغم لاونج میں ہی بیٹھا تھا۔وہ صوفے کی بیک سے سر ٹکائے آنکھیں موندے ہوئے تھا۔کچھ لمحے تو وہ اسے دیکھتی رہی پھر خاموش قدموں سے چلتی اس کے قریب آ بیٹھی۔اس کے پاس بیٹھنے سے ضیغم نے آنکھیں کھول دیں۔اسے اپنے قریب پا کر وہ مسکرا دیا تھا۔مسکاء نے کپ اس کی جانب بڑھایا۔۔

"بابا کا کچھ پتہ چلا۔۔؟"

مسکاء نے اس سے پوچھا۔

"میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں۔"

وہ سیدھا ہو کر بیٹھا ہی تھا کہ ٹیبل پر پڑا موبائل بجنے لگا۔اس نے تیزی سے موبائل اٹھا کر کان سے لگایا۔

انسپیکٹر وجدان کی کال تھی۔

"ہاں وجدان کیا خبر ہے۔۔؟"

دوسری جانب نجانے اس نے کیا کہا کہ وہ فورا کمرے کیطرف بھاگا۔

"کیا بات ہے۔۔۔۔خیر تو ہے نا۔۔؟؟"

مسکاء کمرے میں آئی تو وہ الماری سے یونیفارم نکال رہا تھا۔

"سب ٹھیک ہے۔۔۔تھانے جا رہا ہوں۔" وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا۔مسکاء وہیں بیڈ پہ بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ یونیفارم پہنے واش روم سے برآمد ہوا۔

"میں جا رہا ہوں۔۔۔تم آ کر دروازہ بند کر لو۔" وہ فائل اٹھا کر روم سے باہر نکل گیا۔مسکاء دروازہ بند کرنے کے لئے اس کے پیچھے آئی تھی۔

"اپنا خیال رکھیے گا۔"

مسکاء کی بات پہ دروازے کیطرف بڑھتا اسکا ہاتھ تھم گیا۔

"میں کال کرتا رہوں گا۔"

ضیغم نے پلٹ کر اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔اس کے جانے کے بعد مسکاء نے دروازہ بند کیا۔اس نے نرمی سے اپنے ماتھے کو چھوا جہاں ضیغم اپنی محبت کا ستارہ جگمگاتا چھوڑ گیا تھا جس کی نرم گرم روشنی اسے اپنے وجود کا ہالہ کرتی محسوس ہوئی۔اس کے گلابی لبوں پہ مسکراہٹ سجنے لگی تھی۔

"مجھے بلایا تھا۔۔۔خیر تھی مجھ سے کیا کام پڑ گیا؟"

جیل میں رہنے کے باوجود اس کے انداز و اطوار میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی تھی۔انسپیکٹر عمر خان وہاں جا کر بھی بات کر سکتا تھا مگر اس نے اسے یہاں بلا کر بات کرنا مناسب سمجھا۔

"بیٹھو۔۔۔!"

انسپیکٹر عمر خان نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔کچھ پل شکور اسے حیرانی سے اسے دیکھتا رہا پھر کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔وہ جان گیا تھا کہ کوئی ضروری بات تھی اس لئے اس نے اسے آفس میں بلایا تھا ورنہ وہ لاک اپ میں آ کر بھی بات کر سکتا تھا۔باتور خان کل رات اس کے ساتھ ہی تھا۔آج صبح ہی اسے وہاں سے تبدیل کیا تھا۔اس نے ساری رات اسے تیار کیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ میرسربلند خان کے خلاف کچھ بھی نہیں بتائے گا۔باتور خان جانتا تھا کہ وہ پیٹ کا ہلکا ہے۔پہلے بھی اس نے ایک دو ہاتھ کھانے کے بعد ہی قادر خان کے بارے میں بتا دیا تھا۔اس لئے باتور خان نے اسے اچھی طرح باور کرا دیا تھا کہ اگر اس نے زبان کھولی تو وہ اسے جیل کے اندر ہی جہنم کی سیر کروا دے گا۔اس لئے اس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ اپنی زبان بند رکھے۔اب جب وہ انسپیکٹر عمر خان کے سامنے بیٹھا تھا تو اسے باتور خان کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔وہ خود بھی پہلے جیسی غلطی دہرانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ قادر خان کا انجام وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ قادر خان کو ذہر باتور خان نے ہی دیا ہے۔اس پہ کوئی شدید نوعیت کا کیس نہیں تھا اس لئے اس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔

"کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔۔پوچھو گے نہیں کہ میں نے تمھیں یہاں کیوں بلایا ہے؟"

انسپیکٹر عمر خان نے اسکی اٹھی ہوئی گردن کو ناگواری سے دیکھا۔وہ اس کے سامنے اسطرح کھڑا تھا جیسے اسے دعوت پہ بلایا گیا ہو۔

"بیٹھو۔۔۔"

عمر خان نے اسکے انداز کو اگنور کیا تھا اور اسے بیٹھنے کو کہا۔شکور نے کچھ پل تو انسپیکٹر عمر خان کی طرف حیرانی سے دیکھا اور پھر بیٹھ گیا۔

"دیکھو شکور۔۔۔۔تمھاری سزا میں کمی ہو سکتی ہے اگر تم زمان خان کے اغواء کے کیس کے سلسلے میں ہماری مدد کر دو تو۔"

انسپیکٹر عمر خان مدعے پہ آیا۔

"میں کیا مدد کر سکتا ہوں جبکہ میرا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

شکور کا انداز لاپرواہ تھا۔

"تم ہمیں میرسربلند خان کے شہر میں موجود خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں آگاہ کر سکتے ہو۔تم اس کے کام سے شہر میں ہی رہائش پزیر رہتے تھے۔"

اپنی بات کے اختتام میں انسپیکٹر عمر خان نے شکور کے چہرے کے بگڑتے زاویے دیکھے تھے۔

"میں نہیں جانتا۔۔۔۔میں صرف شہر میں موجود ان کی رہائش کے متعلق جانتا ہوں۔جہاں میں کبھی کبھار رہا کرتا تھا۔جہاں تک میرا اندازہ ہے ان کا کوئی پوشیدہ ٹھکانا نہیں۔۔کیونکہ وہ شہر جاتے ہی نہیں تھے نا ہی رہتے تھے۔۔سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے آبائی گھر میں رہنا پسند کرتے تھے۔"

شکور نے بات ہی ختم کر دی مگر انسپیکٹر عمر خان کا جانتا تھا کہ وہ اپنا دامن بچانا چاہ رہا ہے۔میرسربلند خان کے قریبی آدمیوں میں سے شکور وہ واحد شخص تھا جو شہر میں رہتا تھا اور وہاں کی تمام تفصیلات سے انھیں آگاہ کیا کرتا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ناواقف ہو۔قادر خان کے بارے میں بھی اسی سے اگلوایا تھا جو کہ صحیح نکلا تھا۔

"اگر تم ہماری مدد کرو تو تمھاری سزا میں کمی کروا سکتا ہوں۔ورنہ جسطرح تم میرسربلندخان کے ساتھ ساتھ رہے ہو تم پر تو بڑا کیس بنتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ غگ جیسی بری رسم کے ارتکاب اور لوگوں کو غگ کی صلاح دینے جیسے جرم میں تم اور باتور خان پیش پیش رہے ہو۔یہاں تک کے جرگے کو غلط فیصلوں میں اکسانے میں بھی تم دونوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ میرسربلندخان اے۔ایس۔پی میرضیغم خان کے فیملی کے قتل کا اعتراف بار بار تمھارے سامنے کر چکا ہو گا۔۔یہ بات ایک ذرائع سے مجھے معلوم ہوئی ہے۔"

انسپیکٹرعمر خان نے اسکے گرد گھیرا تنگ کیا۔

"میں نہیں جانتا۔۔۔ویسے بھی مجھے نہیں لگتا کہ زمان خان کے اغواء میں خان جی کا ہاتھ ہے۔۔یہ صرف باتور خان کی کارستانی ہو سکتی ہے کیونکہ سب سے بڑی دشمنی تو اسکی ہے۔اس نے اسے اپنی غیرت کا مسئلہ بنا رکھا ہے اور باتور خان جیسا پٹھان اپنی غیرت پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتا۔اس سے پوچھیں۔۔یہ اسی کا کام ہے۔"

شکور نے بات کے ساتھ ساتھ نگاہوں کا رخ بھی بدلہ تھا۔

"یہ تو میں جانتا ہوں کہ اس کام میں باتور خان شامل ہے مگر اسے پشت پناہی تو میرسربلند خان کی ہی حاصل ہے ورنہ زمان خان ایک عرصے تک میرسربلند خان کے قریبی لوگوں میں سے رہا ہے یہ اور بات کہ وہ اسطرح کے غیرقانونی کاموں میں شامل نہیں تھا۔باتور خان تمھارے خان جی کی رضا کے بغیر زمان خان پہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا اور تم فکر مت کرو اس سے بھی جلد ہی پوچھ تاچھ کی جائے گی۔چند ہی لمحوں میں وہ سب پھوٹ دے گا۔لیکن میں تم سے جاننا چاہتا ہوں کہ اگر تم ہماری راہنمائی کرو تو یم فورا کوئی ایکشن لے سکیں تاکہ زمان خان کو بروقت ان کے چنگل سے نکالا جا سکے۔"

انسپیکٹر عمر خان اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا اور اسکے کندھوں پہ ہاتھ رکھ دئیے۔دباو محسوس کر کے شکور نے اٹھنا چاہا مگر انسپیکٹر عمر خان نے دباو بڑھا کر اسے دوبارہ بٹھا دیا۔

"تم شرافت سے بتا دو تو تمھارے لئے بہتر ہو گا ورنہ مجھے اور بھی بہت سے طریقے آتے ہیں۔ہم پولیس والوں کو اسی بات کی تو ٹریننگ دی جاتی ہے کہ اگر مجرم زبان نہ کھولے تو کسطرح اسکی زبان کھلوائی جا سکتی ہے۔"

شکور کو عمر خان کی انگلیاں اپنے کندھوں میں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں۔انسپیکٹر عمر خان نے شکور کے بولنے کا انتظار کیا مگر وہ خاموش رہا۔عمر خان نے اس کے کندھوں سے ہاتھ ہٹا لئے اور کانسٹیبل عبداللہ کو آواز دی جو باہر ہی کھڑا انتظار کر رہا تھا۔

"اسے لے جاو۔۔۔۔"

انسپیکٹر عمر خان نے شکور کو لے جانے کا کہا۔شکور نے اتنی آسانی سے چھوٹ جانے پر سکھ کا سانس لیا اور اسکے ساتھ باہر آ گیا۔

"ارے۔۔ارے۔۔کہاں جا رہے ہو؟"

کانسٹیبل نے اسکا رخ لاک اپ کی جانب دیکھ کر اسے روکا۔شکور نے اسے حیرانی سے دیکھا مگر کچھ پوچھا نہیں۔

"وہاں نہیں یہاں۔۔۔"

کانسٹیبل عبداللہ نے مخالف سمت اشارہ کیا۔وہ اسے بازو سے پکڑے ایک الگ تھلگ بنے کمرے کی جانب لے آیا۔کمرے میں بالکل اندھیرا تھا۔شکور سمجھا شاید اسکی جیل تبدیل کر رہے ہیں۔اس نے شکر کیا کہ اسے باتور خان سے مزید دور کر دیا گیا ہے۔مگر جب کانسٹیبل عبداللہ نے لائٹ جلائی تو کمرے کی ٹھنڈک اور خاموشی اسے اپنے وجود کے آر پار ہوتی محسوس ہوئی۔کمرے کے وسط میں دو کرسیاں جن کے درمیان ایک لکڑی کی ٹیبل تھی۔ٹیبل کے بالکل پیچھے برف کی سیلیں پڑی تھیں ساتھ میں ایک ٹب بھی پڑا تھا۔بجلی کی لمبی تار سے لٹکتا بلب ٹیبل کے بالکل اوپر لگا ہوا تھا۔ٹیبل پہ کچھ اوزار رکھے ہوئے تھے۔جنھیں دیکھ کر وہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہ کس چیز کے لئے استعمال کیے جاتے ہونگے۔کرسی کے ایک جانب اچھی خاصی موٹی رسی پڑی ہوئی تھی جس پہ کہیں کہیں خون کے خشک دھبے واضح دکھائی دے رہے تھے۔چاروں جانب جائزہ لینے کے بعد وہ پریشانی سے ساتھ کھڑے شخص کو دیکھنے لگا جس کے چہرے کی مسکراہٹ اسے یہ کہتی محسوس ہو رہی تھی کہ"اب بولو۔۔۔"

"یہ تم مجھے کہاں لے آئے ہو؟"

شکور کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔

"جہاں تمھیں بہت پہلے آ جانا چاہئیے تھا۔"

اس نے پلٹ کر دیکھا۔انسپیکٹر عمر خان دروازے میں کھڑا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس کی نظروں کا تاثر بھی کانسٹیبل عبداللہ کی نظروں سے مختلف نہیں تھا۔

"عبداللہ۔۔! سب تیار ہے؟"

اس نے عبداللہ سے پوچھا۔

"جی سر۔۔۔! سب ریڈی ہے۔"

وہ الرٹ کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔

"ٹھیک تم جاو۔۔۔۔۔"

انسپیکٹر عمر خان آگے بڑھ کر کرسی پر آ بیٹھا۔کانسٹیبل عبداللہ ایک نظر شکور کو دیکھ کر وہاں سے چلا گیا۔دروازہ باہر سے بند ہونے کی آواز آئی تھی۔

شکور کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔انسپیکٹر عمر خان اس کے چہرے پر پھیلتے خوف کو محسوس کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔شکور کی اس کی جانب پیٹھ تھی۔پانی سے آدھی بھری لوہے کی بالٹی اس نے اٹھا کر ایک سیکنڈ بھی رکے بنا شکور پر پھینک دی۔شکور فورا پلٹا۔پانی اس قدر ٹھنڈا تھا کہ اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔انسپیکٹر عمر خان نے اسے پکڑ کر کرسی پر بٹھایا۔

"اب بھی تم انکار کرو گے؟؟"

انسپیکٹر عمر خان نے شکور کو دیکھا اور سامنے پڑا ڈنڈا اٹھا لیا۔اس سے پہلے کہ ڈنڈا اسکی کمر پہ بجتا شکور بول اٹھا۔

"بتاتا ہوں۔۔۔۔بتاتا ہوں۔۔"

"بولو۔۔۔۔۔"

انسپیکٹر عمر خان نے ہوا میں بلند ہاتھ نیچے کیا۔

_______________________________________________

وہ ریش ڈرائیونگ کر کے تھانے پہنچا تھا۔انسپیکٹر وجدان نے خبر ہی ایسی دی تھی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر تھانے پہنچ جاتا۔جب وہ تھانے پہنچا تھانے کے باہر نفری بالکل تیار کھڑی تھی۔وہ اندر کیطرف بڑھا تو انسپیکٹر وجدان باہر کیطرف آ رہا تھا۔ضیغم کو آتے دیکھ کر اس نے سیلیوٹ کیا۔

"ہاں وجدان سب تیار ہے؟"

ضیغم نے سر ہلاتے ہوئے پوچھا۔

"جی سر۔۔۔بالکل ریڈی ہیں ہم۔۔"

انسپیکٹر وجدان نے اسکا مصافحہ کے لئے بڑھا ہاتھ تھام لیا۔

"اطلاع کس نے دی ہے؟"

ضیغم نے اس کے ساتھ باہر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے پوچھا تھا۔

"سر ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی انسپیکٹر عمر خان کا فون آیا تھا۔شکور سے پوچھ گچھ کرنے پر اس جگہ کا بتایا ہے بلکہ اس نے شکور سے اگلوایا ہے۔وہ بتا رہا تھا کہ بہت ڈھیٹ ہڈی ہے۔ہر بات سے انکار کر رہا تھا۔مگر پھر انسپیکٹر عمر خان نے اپنا طریقہ آزمایا پھر کہیں جا کر اس نے منہ کھولا۔زمان خان کے وہاں موجود ہونے کے چانسز زیادہ ہیں۔"

انسپیکٹر عمر خان گاڑی کے پاس کھڑا ہو گیا۔

"لیکن اسے تھرڈ ڈگری کا استمعال نہیں کرنا چاہئیے تھا۔اس پہ کوئی قتل کا کیس نہیں ہے اور نا ہی وہ کسی سنگین جرم میں ملوث ہے۔"

ضیغم نے سامنے کھڑے سپاہیوں کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اس کا اشارہ ملتے ہی وہ سبھی اس کی جیپ کے پیچھے کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئے۔

"نہیں اس نے بتایا کہ زیادہ ڈیپ جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اسے۔۔ٹھنڈے پانی اور ٹارچر سیل میں لے جانے ہی کام بن گیا تھا۔"

انسپیکٹر وجدان آہستگی سے کہہ کر گاڑی کیطرف بڑھا۔

"وجدان میرا خیال ہے تم یہیں رہو۔۔میں خود جاوں گا۔"

ضیغم نے کچھ سوچتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔

"ٹھیک ہے سر۔۔آپ مجھے اطلاع دیتے رہیئے گا۔"

انسپیکٹر وجدان نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ضیغم سر ہلا کر آگے بڑھ گیا۔گاڑی میں سوار ہوتے ہی اس نے چلنے کا اشارہ کیا۔انسپیکٹر وجدان نے اس کے آنے سے پہلے میٹنگ کر کے سب کو سمجھا دیا تھا۔اس کے کہنے پر ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی اور میں روڈ پہ آتے ہی گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔

"جانا کہاں ہے؟"

ضیغم نے ڈرائیور سے پوچھا۔

"سر۔۔۔کچی آبادی کی طرف کچھ ہی آگے گنجان آباد علاقے کی جانب ایک راستہ گیا ہے اسی کی نشاندہی کی ہے انسپیکٹر عمر خان نے۔۔میں بہت اچھے سے جانتا ہوں اس علاقے کو۔۔قوی امکان ہے کہ مغوی کو وہیں رکھا گیا ہے۔"

لطیف خان نے اسے تفصیل سے آگاہ گیا تھا۔

"اور کتنی دور جانا ہے۔"

پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ ضیغم نے کلائی پہ بندھی گھڑی کو بےچینی سے دیکھا۔

"بس یہاں سے ڈھلوان کیطرف اترنا ہے۔"

اس نے سڑک کی دائیں جانب اشارہ کیا۔گاڑی اب دائیں طرف ڈھلوان سے نیچے اتر رہی تھی۔ڈھلوان سے نیچے گاڑی اونچے نیچے راستے پہ ہچکولے کھاتی گزر رہی تھی۔

"وہ سامنے گھر ہے۔"

آدھے گھنٹے کی ریش ڈرائیونگ کے بعد وہ مطلوبہ جگہ پہنچے تو ایک انڈر کنسٹرکشن گھر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اس شہر میں یہ یہی واحد جگہ جہاں ان کے ہونے کی چانسز ہیں۔باقی سب جگہیں ہم دیکھ چکے ہیں۔"

اس نے گاڑی ایک جانب روکی اور کچھ دور ایک تاریکی میں لپٹے گھر کی طرف اشارہ کیا۔ضیغم گھر پر نظر ڈالتے ہوئے فورا گاڑی سے نکلا۔پچھلی گاڑی سے بھی باقی پولیس اہلکار نکل آئے تھے۔وہ سب ضیغم کے اردگرد کھڑے ہو گئے۔

"تم یہیں گاڑی میں ہی رکو لطیف خان۔۔جب ہم سگنل دیں تو گاڑی قریب لے آنا اور آس پاس نظر رکھنا۔ویسے تو کسی کے یہاں آنے کے چانسز تو نہیں ہیں مگر پھر بھی تم نظر رکھنا۔کسی کو بھی دیکھو تو سنبھال لینا۔"

اس نے لطیف خان کو گاڑی سے اترنے سے روکا۔لطیف خان گاڑی میں واپس بیٹھ گیا۔ضیغم نے ساتھیوں کو اشارہ کرتے ہوئے قدم بڑھائے۔لطیف خان الرٹ انداز میں انھیں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔گھر کے قریب پہنچ کر ضیغم کے اشارہ کرنے پر پولیس اہلکاروں نے گھر کو گھیرے میں لے لیا۔ہر سو تاریکی اور خاموشی کا راج تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے گھر میں کوئی بھی موجود نہیں۔دل ہی دل میں ضیغم زمان خان کے وہاں موجود ہونے کی دعا کرتے ہوئے آگے بڑھا۔گیٹ اندر سے بند تھا۔وہ جھٹکے سے دروازہ کھول کر اندر گھسا۔دو اہلکاروں کو اس نے باہر رکنے کا کہا اور باقی چار کو اس نے ساتھ آنے کے لئے کہا۔چاند کی روشنی میں انھیں صحن کے آگے برآمدہ اور برآمدے میں بنے تین کمرے دکھائی دئیے۔اگر کمروں میں کوئی موجود تھا بھی تو بہت گہری نیند میں تھا ورنہ دروازے کی آواز جسطرح اس سناٹے میں گونجی تھی کوئی پھرتیلا بندہ ہوتا تو ب تک باہر آ چکا ہوتا یا الرٹ ہو جاتا۔وہاں اس قدر تاریکی اور خاموشی میں اسے لگا تھا جیسے یہاں کوئی موجود ہی نہیں ہے اور شکور نے ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اگر وہاں کوئی موجود ہے بھی تو ایک سے زیادہ نہیں ہونگے۔وہ الرٹ انداز میں سامنے بنے کمروں میں سے ایک کی جانب بڑھا۔یہ کمرہ دونوں کمروں کے بیچ تھا۔دروازہ لاکڈ نہیں تھا صرف سختی سے بند کیا گیا تھا۔اس نے پیر سے ٹھوکر ماری۔دروازہ پہلی ہی ٹھوکر سے کھل گیا۔وہ نہایت ہی پھرتی سے اندر داخل ہوا۔کمرے میں اندھیرا تھا۔اس نے ہاتھ سے سوئچ بورڈ ٹٹولا مگر شاید بجلی نہیں تھی۔اس نے خلیل خان کو ٹارچ آن کرنے کو کہا۔ٹارچ کی روشنی میں دیکھا تو کمرہ بالکل خالی تھا۔وہ باہر نکلا اور دوسرے کمرے کی جانب بڑھا۔اس کا دروازہ باہر سے بند تھا۔دروازے کے باہر تالا لگا ہوا تھا۔دروازے کے پاس ہی ایک بڑا اور موٹا سا ڈنڈا پڑا ہوا تھا۔اس نے اٹھا کر تالے پہ مار کر تالا توڑا۔زوردار آواز ایک بار پھر سے سناٹے میں گونجی۔

"کون ہے۔۔۔؟؟"

تیسرے کمرے سے کوئی باہر آیا تھا۔اس نے ٹارچ پہلے سے ہی آف کر دیا تھا۔گھنے درختوں کی موجودگی سے یہاں چاند کی روشنی نہیں پہنچ پا رہی تھی۔اس لئے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر ضیغم دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور باقی چار بھی پلرز کے پیچھے ہو گئے۔

"کون ہے یہاں۔۔۔جواب کیوں نہیں دیتے۔"

اس نے دوبارہ پوچھا تھا لیکن جب کوئی جواب نہ ملا تو وہ فورا واپس گیا۔ضیغم اس کے پیچھے آیا تھا اور دروازے کی آڑ میں ہو گیا۔کچھ سیکنڈز بعد وہ ہاتھ میں ٹارچ لئے کمرے سے برآمد ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ ٹارچ آن کرتا ضیغم اس پر جھپٹ پڑا۔

"کون ہے۔۔۔؟"

وہ شخص ایک مرتبہ پھر چلایا اور خود کو چھڑانے لگا۔مضبوط جسامت اور قد کاٹھ کی وجہ سے ضیغم کو اسے قابو کرنے میں وقت لگا۔

"خلیل ٹارچ آن کرو۔"

ضیغم نے کچھ فاصلے پہ کھڑے ساتھی پولیس اہلکار کو کہا۔خلیل نے تیزی سے آگے بڑھ کر ٹارچ روشن کی۔ٹارچ روشن ہونے سے پہلے وہ شخص ضیغم کی گرفت میں جھٹپٹا رہا تھا اور خود کو چھڑانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ضیغم نے بھی اس پہ قابو پانے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کر دی تھی۔جیسے ہی ٹارچ روشن ہوئی۔۔ٹارچ کی روشنی میں خود کو پولیس کے نرغے میں دیکھ کر حرکت کرنا بند کر دی اور حیرانی سے انھیں دیکھنے لگا۔

"صاب کیا بات ہے۔۔۔کیا جرم کیا ہے میں نے جو تم نے مجھے پکڑ رکھا ہے۔"

اس نے پلٹ کر خود پہ قابو پانے والے کو دیکھنے کی کوشش کی۔

"زمان خان کہاں ہیں؟"

ضیغم نے اس کی کمر میں ایک مکا رسید کیا جس سے وہ دہرا ہو گیا۔

"کون زمان خان۔۔۔۔۔ہم کسی زمان خان کو نہیں جانتا۔۔۔صاب ہم ایک شریف آدمی ہے۔۔یہ ہمارا گھر ہے۔ہمارا زنانی اپنی اماں کے گھر گیا ہے بچوں کے ساتھ۔۔ادھر کوئی نہیں ہے۔"

وہ آگے کو جھکتے ہوئے بولا۔ضیغم نے اسکے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف کس کر پکڑ رکھے تھے۔پھر ضیغم نے خلیل کو اشارہ کیا۔وہ ڈنڈا اٹھا کر دوبارہ تالا لگے دروازے کی طرف گیا اور ایک ہی وار سے تالا توڑ دیا۔وہ تیزی سے اندر داخل ہوا۔

"صاب یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔یہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ہمارا یقین کرو۔ہم کسی زمان۔۔۔۔۔۔۔"

"خاموش۔۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ آگے بولتا ضیغم نے اسے جھٹکا دیا۔خلیل نے اندر داخل ہوتے ہی ٹارچ کی روشنی پورے کمرے پر ڈالی۔کمرے میں کوئی سامان نہیں تھا۔پہلی نظر سامنے ہی دیوار کے ساتھ رکھے پانی کے کولر پر پڑی۔جس پہ مٹی کا پیالہ پڑا ہوا تھا۔کمرے کے دائیں جانب چارپائی پڑی تھی۔جس پہ کوئی بےسد پڑا ہوا تھا۔وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔اس کی کلائی تھام کر نبض ٹٹولی۔نبض بہت دھیمی چل رہی تھی۔اس نے ایک گہرا سانس خارج کیا۔

"سر۔۔۔!!"

اس نے لیٹے ہوئے شخص کے گال تھپتھپاتے ہوئے ضیغم کو آواز دی۔ضیغم نے اس شخص کو باقی ساتھیوں کے حوالے کیا اور اسے باہر لے جانے کا حکم دے کر خود تیزی سے اندر آیا۔خلیل خان چارپائی کے قریب ہی کھڑا تھا۔ضیغم قریب آیا۔

"بابا۔۔۔۔۔"

وہ اس کمزور اور نحیف وجود کو ٹارچ کی روشنی میں پہچان گیا تھا۔انھیں اس حالت میں دیکھ کر اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔ساتھ ساتھ ہی غصے کی ایک شدید لہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ان کی سانس کی رفتار خطرناک حد تک سست تھی۔وہ بےہوش تھے۔اس نے ایک پل بھی ضائع کیے بغیر ان کے لاغر وجود کو بانہوں میں اٹھایا اور باہر کی جانب دوڑ لگائی۔خلیل اس کے پیچھے ہی تھا۔

جب وہ دونوں باہر آئے لطیف خان گاڑی گھر کے قریب لا چکا تھا۔اس نے انھیں گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ لٹایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گیا۔لطیف خان گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔باقی اہلکار لطیف خان کے کہنے پر اس کے شخص کو لے کر جا چکے تھے۔اب ان کی منزل ہاسپٹل تھی۔گاڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔

ضیغم نے انھیں پانی پلایا اور انھیں ہوش میں لانے کے پورے جتن کرنے لگا۔کمزوری اور نقاہہت کے باعث وہ اپنی ساری توانائی کھو چکے تھے۔اس نے ان کے چہرے پہ ایک بار پھر پانی کے چھینٹے ڈالے مگر اسکی کوئی بھی کوشش کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی۔وہ انھیں مسلسل پکار رہا تھا۔

تیس منٹ کا راستہ بیس منٹ میں طے کر کے وہ ہاسپٹل پہنچے۔ڈاکٹرز نے زمان خان کو فوری ٹریٹمنٹ دیا۔ضیغم باہر ہاسپٹل کے کوریڈور میں انتظار کی سولی پہ لٹکا ہوا تھا۔

ڈاکٹرز نے ان کی حالت کے پیش نظر ضیغم کو ان کی سیریس کنڈیشن کے متعلق بتا دیا تھا۔ڈاکٹر نے بتایا کہ پراپر خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوئی ہے اور اگر اسی حالت میں ایک دن اور گزر جاتا تو وہ جانبر نہ ہو سکتے تھے۔اب بھی ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی۔ان کا ہوش میں آنا بہت ضروری تھا۔

ضیغم نے لطیف خان کو گھر سے مسکاء ،ذہرہ بی بی اور رحم دین کو لانے بھیج دیا۔کچھ ہی دیر میں وہ بھی ہاسپٹل میں تھے۔سبھی زمان خان کے لیے دعاگو تھے۔مسکاء کی آنکھیں تو بار بار نمکین پانیوں سے بھر جاتیں۔وہ اس سب کا قصور وار خود کو گردان رہی تھی۔

"بیٹا چپ ہو جاو۔۔۔رونے سے کیا حاصل۔۔اللہ سے دعا کرو کہ وہ زمان بھائی کو تندرستی عطا کرے۔"

ذہرہ بی بی نے اس کے آنسو پونچھے۔

"اماں۔۔۔یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔میں نہ ہوتی تو یہ سب نہ ہوتا۔۔بابا بالکل ٹھیک ہوتے۔۔میری ہی منحوسیت ہے جو آپ سب کی زندگی کو اپنی لپٹ میں لئے ہوئے ہے۔"

مسکاء ان کے سینے سے لگ گئی۔

"نہ بیٹا ایسے کفریہ جملے نہیں بولتے۔۔توبہ کرو اللہ سے۔۔نجانے اسے کب ہماری کون سی بات بری لگ جائے جو ہماری پکڑ کا سبب بنے۔دعا کرو اللہ سے۔۔۔وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔اپنے بندے پہ اسکی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔"

وہ دھیرے دھیرے اس کا سر تھپک رہی تھیں۔

_____________________________________________

ایک طویل رات کے جان لیوا انتظار کے بعد ڈاکٹر نے انھیں زمان خان کی حالت خطرے سے باہر ہونے کی اطلاع دی تو ان کی جان میں جان آئی۔ذہرہ بی بی اور مسکاء تو شکرانے کے نوافل پڑھنے کے لئے اٹھ گئیں۔جبکہ ضیغم اور رحم دین ڈاکٹر سے مزید ان کی حالت کے متعلق پوچھنے لگے تھے۔ڈاکٹر کے کہنے کی مطابق اب وہ زمان خان سے مل سکتے تھے مگر بات کرنے سے منع کیا تھا۔اجازت ملتے ہی وہ سبھی باری باری ان کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔زمان خان دواوں کے زیر اثر سو رہے تھے۔

ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اتنے دن انھیں بہت ہی کم مقدار میں خوراک مہیا کی گئی تھی۔وہ زیادہ تر پانی پی کر گزارا کر رہے تھے۔نقاہہت اور بخار کی وجہ سے وہ مسلسل کھدری چارپائی پہ پڑے رہے جس سے انھیں بیڈ سور ہو گیا ہے تھا۔ہوش میں آنے کے بعد بہتر خوراک انھیں رکور کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ابھی بھی دواوں کے ذریعے انھیں خوراک دی جا رہی تھی۔

وہ بیڈ کے قریب آیا۔۔وہ بے حد کمزور لگ رہے تھے۔چہرے کی سرخی کہیں دور جا کھوئی تھی۔ہونٹ پانی کی طلب میں پپڑی زدہ ہو گئے تھے۔ذرد چہرہ میرسربلند خان جیسے درندے کے ظلم کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

ضیغم نے ان کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے ان کے سر کا بوسہ لیا۔ایک باپ کا سایہ تو چھین ہی لیا تھا اس سے اب دوسرے سائے کو بھی چھیننے کے درپے ہو گیا تھا میرسربلند خان۔۔۔۔

اس نے سختی سے لب بھینچ لیے۔

"مسکاء آپ لوگ یہیں رہیں بابا کے پاس۔۔میں تھانے جا رہا ہوں۔"

اس نے مسکاء کے قریب جا کر اسے بتایا اور اسکے سر ہلانے پر لمبے لمبے ڈاگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد مسکاء خاموشی سے ذہرہ بی بی کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔

"ضیغم کہاں گیا ہے بیٹا۔۔؟"

رحم دین بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئے تھے۔

"تھانے گئے ہیں۔"

وہ دھیرے سے بولی۔رحم دین سر ہلا کر زمان خان کو دیکھنے لگے۔تینوں کی نظریں بیڈ پہ بےسد پڑے زمان خان پہ تھیں۔

____________________________________________

وہ اس وقت ڈی۔آئی۔جی صاحب کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔اس نے تمام حالات انھیں بتا دیئے تھے۔ضیغم نے انھیں بتایا کہ جس شخص کو انھوں نے وہاں سے پکڑا ہے جہاں زمان خان کو رکھا گیا تھا۔اس نے بتایا کہ زمان خان کو باتور خان ہی اغواء کر کے لایا تھا۔وہ میرسربلند خان کا پرانا آدمی ہے اور ان کی فیکٹری میں ملازمت کرتا ہے۔وہ گھر اسے میرسربلند خان نے ہی بنوا کر دے رہا ہے۔

"سر۔۔۔!! اس کے علاوہ اس نے بتایا ہے کہ زمان خان کو خوراک نہ دینے کا فیصلہ بھی میرسربلند خان کا ہی تھا۔تمام ثبوت میرسربلند خان کے خلاف جا رہے ہیں۔اب ان کے خلاف کاروائی کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔حالانکہ وہ یہ تمام کام خود کو پس پردہ رکھ کر کرتے رہے ہیں مگر ماسٹر مائنڈ تو وہی ہیں۔"

ضیغم نے ان کے سامنے فائل رکھی۔انھوں ہاتھ بڑھا کر فائل اپنے قریب کی۔

"میں ان کے خلاف میرے فادر کو حبس بےجا میں رکھنے پر رپورٹ درج کروا چکا ہوں۔یہاں میں آپکو یہی بتانے حاضر ہوا ہوں۔میں چاہتا تو آپکو بناء بتائے بھی کاروائی کر سکتا تھا مگر میں ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا۔مجھے آپ کا ساتھ اور اجازت درکار ہے تاکہ میں اس پر پکا ہاتھ ڈال سکوں۔"

اس کا چہرہ جذبات کی سرخی لئے ہوئے تھا۔

"تم ٹھیک کہہ رہے ہو اب مزید اسے سپیس دینا ٹھیک نہیں ہو گا۔"

انھوں نے فائل کے صفحے پلٹتے ہوئے کہا۔

"جی سر۔۔۔وہ جتنی دیر باہر رہے گا۔۔میرے اور میری فیملی کے لئے مزید خطرہ بنتا جائے گا۔اسے اور چھوٹ دینا ہمارے ڈپارٹمنٹ کی توہین ہے جو میں کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔"

وہ خاموش ہو کر ان کے بولنے کا انتظار کرنے لگا جو فائل پہ نظریں جمائے ہوئے تھے۔

"تمھارا قدم بالکل ٹھیک ہے ضیغم۔۔۔میری اجازت ہے تمھیں۔۔تم اپنی کاروائی کرو باقی میں سنبھال لوں گا اور ہاں میڈیا کو بریف کرنا مت بھولنا۔اوپر تک اپروچ ہو بھی تو کچھ کر نہیں پائے گا میرسربلند خان۔"

انھوں نے فائل اس کے حوالے کی۔فائل ان کے ہاتھ سے لے کر وہ کھڑا ہو گیا۔

"بیسٹ آف لک۔۔!"

ڈی۔آئی۔جی صاحب بھی کھڑے ہو گئے اور اسکی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔

"تھینک یو ویری مچ سر۔۔۔!!"

ضیغم نے بھی مسکراتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام لیا اور الوداعی کلمات کہہ کر وہاں سے نکل آیا۔ابھی وہ جیپ تک پہنچا ہی تھا کہ اس کا موبائل بجنے لگا۔گاڑی میں بیٹھ کر اس نے فائل ساتھ والی سیٹ پہ رکھی اور پینٹ کی جیب سے فون نکالا۔مسکاء کا نام دیکھ کر اس نے فورا کال ریسیو کی۔کام کی زیادتی کی وجہ سے وہ ہاسپٹل نہیں جا سکا تھا۔

"ہیلو۔۔۔!!"

وہ بےچینی سے بولا۔

"السلام و علیکم۔۔۔! ضیغم بابا کو ہوش آ گیا ہے۔وہ آپکو یاد کر رہے ہیں۔اگر آپ فارغ ہیں تو تھوڑی دیر کے لئے یہاں آ جائیں۔"

مسکاء کے اس قدر لگاوٹ سے بولنے پر اس کے چہرے پہ مسکراہٹ چھا گئی۔زمان خان کے ہوش میں آنے کا سن کر اسے لگا جیسے اس کے دل پر سے کوئی بھاری سل ہٹ گئی ہو۔ وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا تھا۔اس لئے اس کا انداز اسے مسکرانے پر مجبور کر گیا۔

"بابا بلا رہے ہیں یا تمھارا جی چاہ رہا ہے۔"

وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔وہ اپنی جون میں واپس آیا تھا۔

"بہت زیادہ خوش فہمی نہیں ہو رہی جناب کو۔"

مسکاء نے بھی اسے آسمان سے زمین پر اتارنے کی جلدی کی۔

"جناب یہ خوشفہمی مجھے تمھاری آنکھوں نے دی ہے۔پہلے تو خود ہی کارنامہ کرتی ہو اور پھر خود ہی مکر بھی جاتی ہو۔"

ضیغم نے موبائل خان سے لگائے لگائے اگنیشن میں چابی گھمائی۔

"اچھا اب زیادہ فری ہونے کی کوشش نہ کریں اور اگر فارغ ہیں تو ہاسپٹل آ جائیں۔"

مسکاء نے باقاعدہ حکم دینے والے انداز میں کہا۔۔جس پر وہ ہنسنے لگا۔اس کے ہنسنے پہ مسکاء کے گالوں پہ لالی پھیلنے لگی۔

"آپ کا حکم سر آنکھوں پر جناب۔۔مگر کیا ہے ابھی تو تھانے جا رہا ہوں۔۔بہت ضروری کام ہے۔۔وہ کر کے فورا آپ کا حکم بجا لاوں گا۔تب تک آپ باقی سب کو دیکھ کر گزارا کریں۔"

وہ پھر ہنسنے لگا۔

"نجانے خود کو کیا سمجھتے ہیں۔"

وہ اس کے ہنسنے پہ تپ گئی۔

"وہی جو آپ سمجھتی ہیں۔"

مسکاء کے دھیرے بولنے کے باوجود وہ سن چکا تھا۔مسکاء نے فورا کال ڈسکنکٹ کر دی۔ضیغم نے موبائل فون کو کان سے ہٹا کر دیکھا۔۔۔جہاں اسکرین پہ مسکاء کی تصویر جگمگا رہی تھی۔اسکی نگاہوں کے انداز پہ ایک بار پھر اسکے لب دھیرے سے کھل گئے۔

_____________________________________________

"تم ٹھیک نہیں کر رہے ہو۔۔۔اس کا بھگتان بھگتنے کے لئے بھی تیار رہنا تم۔۔میں تمھارے باپ جیسا نہیں جو اپنا دفاع تک نہیں کر سکا تھا۔"

وہ اریسٹ وارنٹ دکھانے کے بعد انھیں ہتھکڑی باندھ رہا تھا۔اس کی زبان خاموش تھی مگر ہاتھوں کی سختی اسکے بھرپور غصے کو بیان کر رہی تھی۔میرسربلند خان مسلسل چیخ چیخ کر اپنا غصہ اتار رہے تھے۔وہ پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا۔اس لئے وہ اس وقت کچھ بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ضیغم کے لئے لہجے میں جھلکتی دکھاوے کی نرمی اور لگاوٹ سب ہوا گئی تھی۔وہاں موجود سبھی لوگ حیران و پریشان کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ان کا جرم سن کر تو ایک پل کو چپ ہی رہ گئے تھے۔اتنے سنگین جرائم کا الزام تھا ان پر۔۔۔وہ سب یقین نہیں کر پا رہے تھے۔ میرعالمزیب تو ضیغم کو دیکھ کر یقین ہی نہیں کر پا رہا تھا کہ یہ وہی میر ہے جو زمان خان کا منہ بولا بیٹا تھا۔وہ اسکی پرسنیلیٹی اور دبدبہ دیکھ کر کچھ پل تو رعب میں آ گیا تھا مگر پھر باپ کی حالت اور ان کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کو دیکھ کر اسکا بھی خون کھولنے لگا تھا۔انھیں کب برداشت تھا کہ ان کے ٹکڑوں پہ پلنے والا ایک معمولی میر آج اس طرح ان کے خلاف کھڑا ہو گیا تھا۔

"بابا۔۔۔آپ فکر مت کریں۔۔میں ابھی وکیل سے بات کر کے آپکی بیل کروانے کا انتظام کرتا ہوں۔"

عالمزیب نے باپ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔جنھیں ضیغم ہتھکڑی پہنا چکا تھا جبکہ میرسربلند خان غصے سے پیچ و تاب کھا رہے تھے۔

"ہاہاہا۔۔۔۔عالمزیب صاحب جلدی کروا لیجیئے۔۔۔کہیں وقت آپکے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔"

ضیغم نے طنز سے بھرپور نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔وہ اپنے باپ سے مختلف تھوڑی تھا۔فورا فون کی جانب بڑھا۔

"چلئیے محترم میرسربلندخان صاحب۔۔! ہمارا اسپیشل پروٹوکال آپ کے ساتھ ہے۔"

ضیغم نے باقی پولیس اہلکاروں کی طرف اشارہ کیا۔میرسربلندخان نے اسکی جانب چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھا۔

"بہت خوش رکھیں گے ہم آپکو۔۔"

یہ کہہ کر ضیغم تیز تیز قدم اٹھاتا لاؤنج سے باہر نکل گیا۔میرسربلندخان بھی تن فن کرتے اس کے پیچھے آئے تھے۔عالمزیب ان کے نکلتے ہی اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔اپنی بیوی کی چبھتی ہوئیں نظریں اسے اپنے پیچھے آتی محسوس ہوئیں جبکہ دوسری طرف میرسربلندخان کی بیگم، بہو کے سامنے اتنی بےعزتی پہ بغلیں جھانکنے لگیں۔انھیں تو اپنی عزت خاک میں ملتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔انھیں یہ فکر لاحق تھی کہ کسطرح سے اپنی ساتھی بیگمات کی طنزیہ نظروں کا سامنا کریں گی اور جو ان سے جلتی ہیں وہ تو اس خبر کو خوب مرچ مسالا لگا کر دوسروں کے سامنے پیش کریں گی۔ان کی ہنسی اڑائیں گی۔

"مما جی۔۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"

ان کی بہو نے انھیں دل ہی دل میں ناپ تول کرتے محسوس کر لیا تھا۔

"کچھ نہیں بیٹا۔۔۔۔یہ سب ان چھوٹے لوگوں کی چال ہے۔۔بھلا وہ اپنے پرانے ملازم زمان خان کو کیوں اغواء کروائیں گے۔جھوٹ ہے یہ سب۔۔۔تھوڑے دشمن تو نہیں ہیں ہمارے جو ہماری ریپوٹیشن سے جلتے ہیں۔۔ہماری جائیداد پہ نظر ہے ان کی۔۔تم دیکھنا کل تک تمھارے بابا واپس آ جائیں گے۔"

وہ اس سے نظریں چراتے ہوئے بولیں اور پلٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

____________________________________________

ضیغم کو دیکھ کر جو مسکان ان کے لبوں پر چھائی تھی وہ وہاں موجود کسی بھی شخص سے مخفی نہیں تھی۔کتنی ہی دیر وہ اسکے کشادہ سینے سے لگے رہے۔وہ ان کی کل کائنات تھا۔ان کی جمع پونجی تھا۔اسے کھو دینے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔باتور خان نے انھیں کس قدر ڈرا دیا تھا۔اتنے دن انھوں نے جس تکلیف میں گزارے تھے وہ ان کے لئے بیان سے باہر تھے۔ایک ایک پل انھوں نے اسکی زندگی کی دعا مانگی تھی۔اب وہ اسے خود سے لگائے اپنی ساری یاسیت توڑ دینا چاہتے تھے۔

ڈاکٹرز نے انھیں مکمل طور پر صحت مند قرار دے دیا تھا اس لئے آج انھیں ہاسپٹل سے فارغ کیا جا رہا تھا۔ارحم اور پروفیسر محمد عقیل بھی ان کی مزاج پرسی کے لئے آئے ہوئے تھے۔ارحم اب مستقل پاکستان آ گیا تھا۔زمان خان پروفیسر محمد عقیل سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔

"بابا۔۔۔۔آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں۔ابھی آپ نے بہت سے اہم کام کرنے ہیں۔میرسربلندخان کے خلاف آپ مضبوط گواہ ہیں۔حالانکہ ان کے خلاف ہمیں کافی ثبوت مل گئے ہیں۔باتور خان نے بھی آخر ہار مان لی ہے۔مگر سب سے بڑھ کر آپ بابا اور امی کے قتل کے چشم دید گواہ ہیں۔آپکی گواہی اس کیس میں بہت کارگر ثابت ہو گی۔اس سلسلے میں ، میں آپ کا بیان قلم بند کروانا چاہتا ہوں۔انھیں اب ان کے کیے کی سزا ضرور ملنی چاہئیے۔"

وہ انھیں ساتھ لگائے بول رہا تھا۔وہاں موجود سبھی نے اس کی بات کی تائید کی کیونکہ وہ اس کیس کے واحد گواہ تھے۔اسکا ارادہ انھیں اس کیس میں شامل کرنے کا نہیں تھا کیونکہ اس وقت اس کے پاس قادر خان تھا مگر اب حالات مختلف تھے۔قادر خان حیات نہیں تھا تو وہی اس قتل کے اکیلے گواہ رہ گئے تھے۔

"میں ضرور گواہی دوں گا بیٹا۔"

زمان خان نے اسکے کشادہ سینے سے سر اٹھا کر کہا اور پھر اسکے سینے پہ لگے اسکے نام پہ ہاتھ پھیرا۔

"اور ہاں بابا۔۔۔۔اس کے بعد آپ نے میری شادی کی تیاریاں بھی کروانیں ہیں۔"

ارحم صوفے سے اٹھ کر ان کے قریب آ کر ان کے آگے جھکا تھا۔

"کیوں نہیں بیٹا۔۔۔۔ویسے تمھیں مبارک ہو۔"

زمان خان نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور اسے مبارک باد دی۔وہ ان کے قریب ہی بیٹھ گیا۔

"تو پھر میں کب آوں آپکو لینے۔۔۔۔کیونکہ یہ خڑوس تو آپکو لے کر نہیں آئے گا۔"

ارحم نے پیار سے ان کے شانے پہ اپنا بازو دھرا۔

"بابا ابھی مکمل ریسٹ پہ ہیں۔۔اس لئے یہ کام تم اکیلے ہی کرو۔"

ضیغم نے اسکا بازو ان کے کندھے سے ہٹانے کی کوشش کی۔

"ضیغم۔۔۔!! ارحم بیٹا تمھارا جب جی چاہے مجھے لینے آ جانا۔"

زمان خان نے پہلے ضیغم کو تنبیہی نگاہوں دے گھورا پھر ارحم سے بولے جو انھیں ہی دیکھ رہا تھا۔

"ابھی چلیے آپ میرے ساتھ۔۔۔بہت رہ لئے اس لمبو کے پاس۔۔۔اب میری باری ہے۔۔مجھے بھی تو خدمت کا موقع دیجئیے۔"

ارحم کے لمبو کہنے پر سبھی ہنس دئیے تھے لیکن ضیغم نے صرف آنکھیں دکھانے پہ اکتفاء کیا۔

پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد پروفیسر صاحب اور ارحم جانے کے لئے اٹھ گئے۔ان کے جانے کے بعد وہ لوگ زمان خان کو گھر لے آئے۔

_____________________________________________

پروفیسر محمد عقیل نے ضیغم کو بتایا کہ جب میردراب خان کا پتہ نہ چلا تو انھوں نے علاقے کے قریبی تھانے میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔حالانکہ تھانے والے رپورٹ یہ کہہ کر درج نہیں کر رہے تھے کہ یہ علاقہ ان کے تھانے کی حدود میں نہیں آتا مگر پھر ان کے بتانے پر کہ وہ یہیں رہتے ہیں مگر جب سے گاوں گئے ہیں ان کا کچھ پتہ نہیں اور گاوں سے بھی کوئی مثبت ریسپونس نہیں آ رہا۔۔تب کہیں جا کر انھوں رپورٹ درج کی۔رپورٹ بھی انھوں نے اس لئے لکھوائی کیونکہ میرسربلندخان انھیں ٹھیک سے بتا نہیں رہے تھے کہ وہ دونوں کہاں ہیں۔کبھی کہتے ملک سے باہر چلے گئے لیکن ان کے معلومات کروانے پہ پتہ چلا کہ وہ دونوں ملک سے تو کیا شہر سے باہر بھی نہیں گئے۔اس کے بعد انھوں نے دوبارہ میرسربلند خان سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ گاوں چھوڑ کر چلے گئے ہیں کیونکہ یہاں اسے قادر خان کا ڈر تھا۔اس نے جرگے میں قسم کھائی تھی کہ وہ اپنی بےعزتی کا بدلہ ضرور لے گا اور جب سے دراب خان اور خزیمن کا پتہ نہیں چل رہا تب سے ہی قادر خان بھی غائب تھا۔اس بات نے انھیں پریشان کر دیا تھا اس لئے انھوں نے رپورٹ درج کروانا ضروری سمجھا تھا لیکن جب حالات جوں کے توں رہے تو انھوں بھی تھک ہار کر ہمت چھوڑ دی تھی۔ضیغم نے ان کے ساتھ جا کر وہاں سے معلومات لیں۔کیس میں کوئی امپرومینٹ نہ ہونے پر انھوں فائل بند کر دی تھی اور فائل میں مینشن کر دیا گیا تھا کہ میردراب خان اور ان کی بیوی خود ہی کہیں چلے گئے ہیں۔

ضیغم نے کیس ری۔اوپن کروایا اور میرسربلند خان کے خلاف ایک مضبوط کیس بنا ڈالا۔عالمزیب نے بہت کوشش کی کہ ان کی بیل ہو جائے مگر اخبارات اور ٹی وی میڈیا کی کوریج نے اس کیس کو حکام بالا تک پہنچا دیا۔جس کی وجہ سے کیس اور مضبوط ہو گیا۔اسطرح اس غیر شرعی اور قانونی رسم کو ختم کرنے اور معصوم لڑکیوں کو اس ظلم سے بچانے کے لئے لوگ سرگرم عمل ہو گئے۔میرسربلند خان چونکہ سیاست کا حصہ بھی رہے اس لئے ان کے مخالفوں نے بھی ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔غرضیکہ وہ اس معاملے میں پابند سلاسل کر دیئے گئے اور وہ کچھ نہیں کر پائے۔اسطرح جو باقی ماندہ نیک نامی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ان کا سیاسی کرئیر تباہ ہو کر رہ گیا تھا اوپر سے زمان خان کے بیان نے آخری کیل کا سا کام کیا اور ان کا سزا کے بغیر بچ نکلنا ناممکن ہو گیا۔

"یقینا آپ اس وقت کو رو رہے ہوں گے جب آپ نے مجھے زندہ چھوڑ دیا تھا۔پچھتا رہے ہونگے کہ کاش مجھے بھی ان کے ساتھ ہی مار دیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔"

انسپیکٹر وجدان کے بتانے پر کہ انھوں نے جیل میں ہنگامہ مچا رکھا ہے وہ ان سے بات کرنے آیا تھا۔اس کی بات پر انھوں نے گھٹنوں میں دیا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔بےتحاشا سرخ آنکھیں رت جگے کی غماز تھیں۔انھوں نے اسے ایک نظر دیکھ کر نظروں کا رخ پھیر دیا۔ضیغم ان کے نروٹھے انداز کو قابل گرفت نظروں سے دیکھ کر ان کے قریب آیا۔

"یہ سب آپ کا اپنا بویا ہوا ہے اور جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا نا تایا جی۔۔۔"

آج پہلی بار اس نے انھیں تایا کہہ کر بلایا تھا۔

"میں تمھیں تمھارا حق دینے کو تیار ہوں۔کیا ہم یہ سب بھول کر ایک نہیں ہو سکتے۔میں وعدہ کرتا ہوں تم سے کبھی بھی کوئی اختلاف نہیں کروں گا۔تم جیسا کہو گے ویسا کر لوں گا۔"

میرسربلندخان کھڑے ہو گئے۔

"ہاہاہا۔۔۔۔۔سنا تھا اور پڑھا بھی تھا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا ہے۔۔آج دیکھ بھی لیا۔"

ضیغم ہنستے ہوئے ان سے رخ پھیر گیا تھا۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں ضیغم۔۔۔میں کوئی غلط کام نہیں کروں گا۔صرف ایک بار مجھے معاف کر دو۔تمھاری جگہ اگر دراب خان ہوتا تو ایک پل نہ لگاتا مجھے معاف کرنے میں۔"

ان کی بات پر وہ جھٹکے سے پلٹا۔

"اپنی گندی زبان پہ میرے باپ کا نام مت لانا۔۔ورنہ میں بھول جاوں گا کہ تم کون ہو۔"

ضیغم نے انھیں گریبان سے پکڑ کر اپنے قریب کھڑا کیا اور وہیں سے واپس پلٹ گیا۔

"وجدان بیان قلمبند کروایا ہے کہ نہیں؟"

وہ وہاں سے سیدھا انسپیکٹر وجدان کے آفس آیا تھا۔اس نے فورا کھڑے ہو کر اسے سلیوٹ کیا۔

"کیا پروگریس ہے؟؟"

وہ کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔

"سر وہ کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔۔بس ایک ہی جملہ جیسے رٹ لیا ہے انھوں نے کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔قتل قادر خان نے کیا اور زمان خان کو اغواء باتور خان نے کیا ہے۔"

انسپیکٹر وجدان بھی بیٹھتے ہوئے بولا۔

"تو پھر اپنا طریقہ آزماو اور مجھے کل تک ساری تفصیل بھیج دینا۔"

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"یس سر۔۔۔"

انسپیکٹر وجدان کے کہنے پر وہ آفس سے نکل آیا۔ابھی اس کی ڈی۔آئی۔جی صاحب کے ساتھ میٹنگ تھی۔انھیں اس کیس کے حوالے سے ساری ڈیٹیلز بتانی تھیں۔

_____________________________________________

"اماں۔۔۔رات کے لئے کیا بناوں؟"

وہ کچن میں بیٹھی لہسن صاف کر رہی تھیں کہ مسکاء کچن میں داخل ہوئی اور دوسری کرسی کھینچ کر ان کے قریب ہی بیٹھ گئی۔

"کچھ بھی بنا لو۔۔۔ضیغم سے پوچھ لیتی۔۔ہم تو سادے لوگ ہیں جو بناو گی کھا لیں گے۔"

وہ لہسن کا ایک جوا اٹھا کر صاف کرنے لگیں۔لہسن پانی میں تیر رہے تھے۔وہ ہمیشہ اسی طرح لہسن کو پانی میں ڈال کر صاف کیا کرتی تھیں۔

"وہ تو بتا کر گئے تھے کہ آج لیٹ آئیں گے یا شاید آ ہی نہ پائیں۔"

مسکاء نے بھی باول میں ہاتھ ڈال کر ایک جوا نکال کر صاف کرنے لگی۔

"بابا کہاں ہیں تمھارے۔۔میں نے کہا کہ اب تو زمان بھائی بھی اللہ کے کرم سے صحت یاب ہو رہے ہیں آج شام ہی ہم گاوں چلے جائیں۔ہمارے اتنے دن لگا دینے پر ماہ گل بھی پریشان ہو رہی ہو گی۔۔۔آتے وقت بھی اس نے کتنا کہا تھا کہ ہم پہنچتے ہی اسے ضرور زمان خان کے متعلق بتائیں۔۔ابھی تک اسے کچھ بھی نہیں معلوم۔۔"

انھوں نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

"اماں۔۔۔کہاں اتنے دن ہوئے ہیں۔گل بی بی کو فون کر کے بتا دیں گے آج۔۔۔ابھی کچھ دن اور رہیے نا آپ لوگ۔۔چلے جانا کچھ دن اور ٹھہر کر۔"

مسکاء نے ان کے ہاتھ سے لہسن لے کر پانی میں ڈالا اور ان کا ہاتھ تھام کر بولی۔

"کس کو فون کریں ہم۔۔۔خود ہی جا کر خوشخبری دیں گے۔۔"

ماہ گل کے خوشی سے بھرپور چہرے کو سوچ کر وہ مسکرا دیں۔

"اماں۔۔۔ارحم بھائی کی شادی ہو جائے پھر چلے جائیے گا نا۔"

مسکاء نے ان کو دیکھ کر نروٹھے لہجے میں کہا تو وہ مسکرا دیں۔

"تمھاری ماں ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔میں بھی ابھی یہی بات کہنے آ رہا تھا کہ کل ویسے میں گلزم خان آئے گا تو اسی کے ساتھ چلے جائیں گے۔۔۔کیا خیال ہے نیک بخت؟"

رحم دین کچن میں آئے اور ذہرہ بی بی سے مخاطب ہو کر پوچھا۔

"جی۔۔۔میں بھی یہی کہہ رہی ہوں آپکی بیٹی سے۔"

ذہرہ بی بی نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔

"بابا۔۔۔۔۔۔"

مسکاء اٹھ کر ان کے پاس آئی اور ان کے سینے سے سر ٹکا لیا۔

"نہیں بچے۔۔۔اللہ تمھیں، اپنے گھر میں سکھی رکھے۔۔ویسے بھی تم۔لوگ گاوں تو آو گے ہی نا۔۔اتنے دن رہ لیے اب وہاں کی بھی خبر لینی چاہئیے نا۔"

رحم دین نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔یہ بتائیں آپ کے لئے کیا بناوں۔۔"

اس نے ان کے سینے سے سر اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

"جو میری بیٹی کا دل چاہے بنا لے۔۔۔میری بیٹی تو کچھ بھی بنائے مجھے تو مرغ مسلم ہی لگتا ہے۔"

وہ ہنس دئیے۔۔۔۔ذہرہ بی بی بھی ان کی بات پہ ہنستے ہوئے سر اثبات میں ہلایا جبکہ مسکاء مسکراتے ہوئے فریج کی طرف بڑھ گئی۔

"ارے رحم دین۔۔۔۔جلدی آو۔۔۔"

زمان کی آواز پہ وہ سبھی متوجہ ہوئے۔۔زمان خان نے ٹیلی ویژن کی آواز بھی اونچی کر دی تھی۔کسی نیوز کاسٹر کی آواز تھی۔وہ سبھی کچن سے لاونج میں آئے تھے۔ٹی وی پہ چلتی نیوز سن کر انھیں جیسے خوشی کے مارے سکتہ گیا۔زمان خان صوفے پر ریموٹ ہاتھ میں لئے بیٹھے تھے جبکہ وہ تینوں کچھ کچھ فاصلے پہ ایسے کھڑے ٹی وی کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ان پر کسی نے جادو کر دیا ہو۔

"آو۔۔۔رحم دین۔۔۔دیکھو آج میردراب خان کو انصاف مل گیا۔۔۔آج ان کی روح کو سکون مل گیا ہو گا اور اللہ کا کرم دیکھو یہ سکون انھیں ان کے جگرگوشے کے ہاتھوں میسر آیا۔۔میرے شیر کے ہاتھوں۔۔یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے مجھے سرخرو کیا۔"

زمان خان کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔رحم دین دھیرے دھیرے چلتے ہوئے صوفے پہ آ بیٹھے۔ذہرہ بی بی اور مسکاء بھی قریب آئیں تھیں۔ذہرہ بی بی کی آنکھوں سے بھی تشکر کے آنسو رواں تھے۔مسکاء کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔

میرسربلند خان اور باتور خان پہ فرد جرم عائد ہو گئی تھی۔باتور خان نے تو اقرار بھی کر لیا تھا مگر میرسربلند خان ابھی بھی انا اور تکبر کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے تھے جس کے بوجھ سے وہ زمین میں دھنستے ہی جا رہے تھے مگر جرم ثابت ہونے کے باوجود وہ ماننے سے انکاری تھے مگر پھر ان سے بھی حقیقت اگلوا لی گئی۔عدالت میں انھوں نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا کہ انھوں نے اپنے بھائی اور بھاوج کو جائیداد اور شدید نفرت کے باعث قتل کروایا۔قتل انھوں نے قادر خان کے ہاتھوں کروایا کیونکہ وہ اس قتل کو غیرت کے نام پہ قتل کا رخ دینا چاہتے تھے۔ انھوں نے اقرار کیا تھا کہ قتل کے وقت وہ وہاں موجود تھے۔ان کے بتائے ہوئے جائے وقوعہ پر قبریں موجود تھیں۔انھوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ میر ضیغم خان ان کے بھائی میردراب خان کی اولاد ہے جسے انھوں زمان خان کے کہنے پر ان کے حوالے کر دیا تھا ورنہ وہ تو اسے بھی ان کے ساتھ ہی ختم کر ڈالنا چاہتے تھے مگر زمان خان نے انھیں روک دیا تھا۔

عدالت نے میرسربلند خان کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی اور رسم غگ کے مرتکب باتور خان کو تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ان کے وکیل نے سرتوڑ کوشش کی تھی انھیں سزائے موت سے بچانے کی مگر تمام ثبوت ان کے خلاف تھے۔

نیوز کاسٹر اب اے۔ایس۔پی میرضیغم خان اور ان کی پوری ٹیم کو سراہ رہے تھے۔

"یااللہ تیرا شکر ہے۔۔"

زمان خان نے ایک بار پھر ہاتھ دعا کی صورت اٹھا لئے تھے۔

"ارے تم سب ایسے کیوں کھڑے ہو۔۔خوشی کا موقع ہے میرے بیٹے کو اتنی بڑی کامیابی ملی ہے۔پورے ملک میں اسکی واہ واہ ہو رہی ہے۔۔"

زمان خان بہت خوش تھے۔۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اڑ کر ضیغم کے پاس پہنچ جائیں اور اسے اپنے سینے سے لگا لیں۔

"ہاں بالکل خوشی کا موقع ہے۔۔"

رحم دین ان کے کندھے پہ بازو پھیلاتے ہوئے بولے۔اب وہ سبھی ٹی وی اسکرین پہ دکھتے ضیغم کو دیکھ رہے تھے جو اب رپورٹرز کے مختلف سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔

خوشی اس کی سنہری رنگت سے چھلک رہی تھی۔وہ مسکاء کو سنہری پھولوں جیسا لگا جو اس کے دل کے آنگن کو سنہرا اور معطر کر رہے تھے۔

وہ دل ہی دل میں اسکی نظر اتارتی کچن میں آ گئی۔ابھی اسے رات کے کھانے کی تیاری کرنی تھی۔اسے معلوم تھا کہ وہ کچھ دیر بعد ان کے بیچ موجود ہو گا۔

      _____________________________________________

آج ارحم کی بارات تھی۔وہ سبھی صبح سے تیاری میں مگن تھے۔ضیغم اب تک گھر نہیں آیا تھا۔ذہرہ بی بی تو ارحم کی دلہن کو دینے والے تحفے کے لئے پریشان تھیں۔رحم دین اور ذہرہ بی بی تو عدالت کے فیصلے کے اگلے دن ہی گاوں واپس جانا چاہتے تھے مگر زمان خان اور ضیغم نے انھیں روک لیا۔زمان خان نے یہ کہہ کر روک لیا کہ ارحم کی شادی کے بعد وہ بھی ان کے ساتھ ہی گاوں چلیں گے۔اس لئے گلزم خان کو اکیلے ہی واپس گاوں جانا پڑا۔مغرب کا وقت قریب آتا جا رہا تھا۔مسکاء نے ضیغم کے پہنے کے لئے ڈریس ریڈی کر دیا تھا مگر اب تک اپنے لئے کچھ بھی ڈسائیڈ نہیں کر پائی تھی۔اس وقت بھی الماری کھولے کھڑی تھی۔اس کے پاس شادی کے چند ہی جوڑے تھے جس میں سے ایک بھی اس کے مزاج پہ پورا نہیں اتر رہا تھا۔رہ رہ کر اسے ضیغم پہ غصہ بھی آ رہا تھا کہ اس نے بھی اب تک اسے کچھ خاص شاپنگ نہیں کروائی تھی۔

جب الماری سے کچھ بھی جادوئی نہ نکلنے کا یقین ہو گیا تو الماری بند کر کے بیڈ پہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔

موبائل پر نظر پڑی تو موبائل کو گھورنے لگی۔ایک پل کو خیال آیا کہ ضیغم کو بتا دے مگر پھر یہ سوچ کر موبائل واپس رکھ دیا کہ جب انھیں ہی خیال نہیں تو میں کیوں فکر کروں۔

"مسکاء۔۔۔۔تم نے اپنے کپڑے استری کر لئے ہوں تو ذرا میرے کپڑوں پر بھی استری پھیر دو۔"

ذہرہ بی بی ہاتھ سفید اور گلابی امتزاج کا سوٹ ہاتھ میں لئے کمرے میں داخل ہوئیں۔اسے منہ پھلائے بیڈ پہ بیٹھے دیکھا تو اس کے پاس آئیں۔

"کیا ہوا۔۔۔منہ کیوں پھلا رکھا ہے میری شہزادی نے۔"

ذہرہ بی بی نے پیار سے اس کے چہرے کو چھوا۔

"اماں میں شادی پہ کیا پہن کے جاوں گی۔۔آپ کے لاڈ صاحب نے تو اپنے لئے الماری میں ہی کپڑوں کی پوری فیکٹری کھول رکھی ہے مگر میری ذرا پرواہ نہیں۔"

مسکاء ناک سکیڑتے ہوئے بولی۔

"تو کیوں اب تمھارے پاس ایک بھی ڈھنگ کا جوڑا نہیں ہے جو اتنا غصہ کر رہی ہو میرے بیٹے پر۔"

وہ ہنستے ہوئے اس کے پاس بیٹھ گئیں۔

"نہیں۔۔۔۔"

مزید منہ پھلایا گیا۔

"چلو خیر ہے نا۔۔۔۔آج گزارا کر لو۔۔پھر جا کر لے لینا۔"

انھوں نے اسے بہلایا۔۔۔آج اتنے عرصے بعد انھیں اس کا یہ نروٹھا روپ دیکھنے کو ملا تھا ورنہ تو اسکی ہنسی، نخرے، لاڈ سب کہیں کھو سے گئے تھے۔

"آپ خود ہی اپنی پسند کا نکال دیں۔"

اس نے ان کے کندھے سے سر ٹکایا۔

"اچھا۔۔"

وہ گھٹنے پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔الماری کھول کر ایک ایک جوڑے کو دیکھنے لگی۔ابھی وہ دیکھ ہی رہی تھیں کہ مین ڈور کی بیل نے انھیں متوجہ کیا۔باہر لاونج میں رحم دین اور زمان خان موجود تھے اس لئے وہ سر جھٹک کر واپس اپنے کام میں مشغول ہو گئیں۔تھوڑی دیر بعد رحم دین ایک پیکٹ لئے کمرے میں داخل ہوئے۔

"مسکاء۔۔۔! بیٹا یہ پیکٹ ضیغم نے بھجوایا ہے تمھارے لئے۔"

انھوں نے گلابی رنگ کا پیکٹ اس کے حوالے کیا اور چلے گئے۔۔پیکٹ اچھا خاصا بڑا تھا۔مسکاء نے ذہرہ بی بی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دیں۔

"دیکھو۔۔!! تم ایسے ہی میرے بیٹے کے پیچھے پڑی تھیں۔اب دیکھ لو کتنا سمجھدار ہے میرا بیٹا۔۔"

ان کے لہجے میں ضیغم کے لئے پیار اور فخر تھا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔بڑا ہی اچھا ہے آپ کا بیٹا۔۔ذیادہ سر مت چڑھا لیجیئے گا اپنے بیٹے کو۔"

مسکاء نے اپنے آنکھوں کی مسکراہٹ ان سے چھپا کر پیکٹ کھولا۔۔یہ ایک آسمانی رنگ کا بےحد خوبصورت فراک تھا۔جس کے گلے پہ سنہری پھول تھے۔

"ارے واہ۔۔۔۔یہ تو بہت خوبصورت ہے اور میری بیٹی تو بالکل پری لگے گی اس میں۔"

زہرہ بی بی جوڑا اسکے ساتھ لگاتے ہوئے بولیں۔

"ہاں بس ٹھیک ہی ہے۔۔"

مسکاء نے بےدلی ظاہر کی۔۔۔اب ماں کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہ رہی ورنہ وہ پھر سے ضیغم کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملانا شروع ہو جاتیں۔اس کے انداز پہ ذہرہ بی بی مسکرا دی۔پیکٹ میں میچنگ جیولری اور گولڈن سینڈلز بھی تھے۔

"چلو اب مغرب کے بعد جلدی جلدی تیاری پکڑو۔۔"

وہ اسکے گالوں کو تھپتھپا کر کمرے سے چلی گئیں۔اس نے پہلے ذہرہ بی بی کے کپڑے پریس کیے، پھر اپنے اور واش روم میں گھس گئی۔مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں جب وہ واش روم سے برآمد ہوئی۔بال سلجھا کر اس نے نماز ادا کی اور پھر ذہرہ بی بی کے کپڑے لئے باہر آ گئی۔

          _______________________________________ 

رات نو بجے کے قریب وہ گھر میں داخل ہوا۔رحم دین اور زمان خان تیار بیٹھے ہوئے تھے۔ذہرہ بی بی بھی تیار کمرے میں سے برآمد ہوئیں۔

"السلام و علیکم۔۔!"

وہ دروازہ بند کر کے ان کے پاس آیا۔

"واعلیکم السلام بیٹا۔۔"

ذہرہ بی بی نے بلند آواز میں جواب دیا۔

"آپ لوگ تو تیار بیٹھیں ہیں۔"

وہ ہنستے ہوئے زمان خان کے ساتھ بیٹھا۔۔

"تو اور کیا۔۔۔۔تم بھی تیار ہو جاو۔۔۔ارحم کتنی بار کال کر چکا ہے۔۔تم اسکا فون کیوں نہیں اٹھا رہے۔"

زمان خان نے اس کی جانب فخریہ نظروں سے دیکھا۔

"بزی تھا تھوڑا۔۔۔آپ لوگ بھی ریڈی رہیں۔۔میں ذرا چینج کر لوں پھر چلتے ہیں۔"

وہ اٹھتے ہوئے بولا۔

"ہم تو ریڈی ہیں بیٹا۔۔۔بس تمھارا ہی انتظار تھا۔"

رحم دین اسے اٹھتے دیکھ کر بولے۔۔۔

ضیغم مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر آئینے کے سامنے کھڑے وجود پر پڑی۔اپنے بھیجے ہوئے لباس میں وہ جگر جگر کرتی آنکھوں سے اسی کیطرف دیکھ رہی تھی۔

"السلام و علیکم۔۔۔!"

وہ اس کی پرتپش نگاہوں سے رخ پھیر گئی۔ضیغم نے کیپ اتار کر ٹیبل پہ رکھی اور سنجیدہ چہرے کے ساتھ اس کی جانب آیا۔

"کچھ خاص جچ نہیں رہا یہ ڈریس تم پر۔۔"

اس نے مسکاء کو تھام کر اسکا کا رخ اپنی جانب کیا۔وہ بھی خاموش نظروں سے اس کی دیکھنے لگی تھی۔

"بوتیک میں ڈمی نے پہن رکھا تھا۔۔اتنا خوبصورت لگ رہا تھا۔۔میں نے فورا خرید لیا۔۔سمجھا تم پر بہت سوٹ کرے گا۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ سر کو دائیں بائیں نفی میں ہلا رہا تھا۔

"میں چینج کر لیتی ہوں۔"

مہین سی آواز ضیغم کے کانوں سے ٹکرائی۔اس نے امڈتی ہنسی کو بڑی مشکل سے ضبط کیا تھا۔اپنی بات پر ضیغم نے اس کے چہرے پہ پھیلتی اداسی کو دیکھا تھا۔دل تو چاہ رہا کہ اپنا دل کھول کر اس کے سامنے رکھ دے مگر مسکاء کو چھیڑنے کا موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔

"چلو خیر ہے۔۔۔۔۔۔کوئی بات نہیں۔۔اب پہن لیا ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔ٹائم نہیں ہے مزید۔۔میں بھی چینج کر لوں۔حالانکہ اس یونیفارم میں بھی میں بہت ہینڈسم لگ رہا ہوں۔"

وہ اپنی شرٹ کا کالر اٹھاتے ہوئے بولا۔

"جی۔۔۔۔بہت۔۔"

مسکاء نے ناک چڑھا کر آنکھیں پھیر لیں۔ضیغم نے اس کے انداز کو پسندیدگی سے دیکھا اور واش روم کی طرف بڑھ گیا۔اس کے منظر سے غائب ہونے کے بعد مسکاء نے آئینے میں اپنی تیاری پہ ایک بھرپور نظر ڈالی۔

"میری بیٹی تو پری لگے گی یہ پہن کر۔۔" ذہرہ بی بی کا کچھ گھنٹے پہلے بولا جانے والا جملہ اس کی سماعت سے ٹکرایا۔

"ہونہہ۔۔۔!! بڑے آئے ہینڈسم۔۔۔"

اس نے ہونٹوں پہ پنک لپ اسٹک کا ایک اور ٹچ دیا۔اتنے دل سے وہ اسکے لئے تیا ہوئی تھی مگر ضیغم کے "تعریفی"جملوں نے اس کا دل برا کر دیا لیکن اس نے پھر بھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔تھوڑی دیر بعد وہ وہ واش روم سے نکلا۔

"ذرا ہٹو۔۔۔"

اس نے مسکاء کو بازو سے پکڑ کر آئینے کے سامنے سے ہٹایا۔وہ وہاں سے ہٹ گئی اور بیڈ پہ جا کر بیٹھ گئی۔ضیغم نے اپنے مخصوص انداز میں بال سنوارے اور خود پہ آدھی پرفیوم کی باٹل ختم کی۔وہ تیکھی نظروں سے اسکی ساری تیاری دیکھ رہی تھی۔اس کا کچھ دیر پہلے اپنے بارے میں کہا گیا جملہ مسکاء کو سچ ہی لگا۔وہ چاہ کر بھی اس پر سے اپنی نگاہیں نہیں ہٹا پا رہی تھی۔

"میں تو پہلے ہی کہا تھا کہ تم میرے حسن کی تاب سہہ نہیں پاو گی۔۔"

ضیغم نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔

"بڑا زعم ہے آپ کو خود پر۔۔"

مسکاء نے اسکے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹائے۔

"یہ زعم مجھے آپکی ان سرمگیں اور شرمگیں آنکھوں نے دیا ہے۔"

وہ اسکا رخ موڑ کر پیچھے سے اسے اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔

"چھوڑیں۔۔۔۔۔میں تو اچھی نہیں لگ رہی ہوں نا۔۔"

مسکاء نے اسکا حصار توڑنا چاہا۔

"کس نے کہا ایسا۔۔۔۔"

ضیغم نے چہرہ اسکے قریب کر کے ایک گہری سانس لی۔

"ابھی تھوڑی دیر پہلے کیا فرمایا تھا۔۔"

مسکاء نے اس سے دور ہونا چاہا۔

"میں نے۔۔۔۔۔؟؟ میں نے تو ہمیشہ کہا ہے اور کہتا رہوں گا۔۔۔۔"

ضیغم نے چہرہ اس کے کندھے پہ ٹکایا۔

"کیا۔۔۔۔"

وہ دھیرے سے بولی۔۔

"ﮐﮩﺎ ﻧﺎﮞ ، ﭘﯿﺎﺭ ﮬﮯ ﺗﻢ سے

ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺿﺪ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮬﮯ

ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﻮﮞ ﺗﻢ ﺳﮯ

ﯾﮩﯽ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮬﻮ ﻟﺐ ﭘﮧ

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮬﮯ

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮬﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ

ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮬﮯ

ﯾﮧ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﮭﺘﯽ ﮬﮯ

ﺣﺴﯿﮟ ﺳﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ

ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍ ﺗﺎ۔۔۔

ﺑﮩﺖ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﺟﺬﺑﮧ ﮬﮯ

ﺩﺑﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﮨﯽ ﭼﻠﺘﺎ ﮬﮯ۔۔۔۔

ﻣﮕﺮ ﺟﻮ ﻧﻘﺶ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ

ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﮔﮩﺮﮮ ﮬﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍ ﺗﺎ

ﻣﮕﺮ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ

ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ

ﮐﺒﮭﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﻮﺧﯽ ﺳﮯ

ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺿﺪ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮬﮯ

ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﻮﮞ ﺗﻢ ﺳﮯ

ﯾﮩﯽ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮬﻮ ﻟﺐ ﭘﮧ

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮬﮯ

ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮬﻮ ﻧﺎﮞ

ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ۔۔!!

ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﻝ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ

ﭼﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮬﻮﮞ

میں یہ اقرار کرتا ہوں۔۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮬﮯ۔۔۔۔"❤

اس کا بھاری لہجہ اس کے دل کے تار چھیڑنے لگا تھا۔۔وہ اس کے اظہار پہ مسکرا دی۔مسکاء نے دھیرے سے اس کے کندھے سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں اور کھڑکی سے دکھتا

چاند بھی مسکرا دیا تھا۔۔

ختم شد۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ghag Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ghag written by Mahwish Urooj . Ghag by Mahwish Urooj is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment