Pages

Monday 8 July 2024

Anaa Parast By Yusra New Complete Romantic Novel

Anaa Parast By Yusra  New Complete Romantic  Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Anaa Parast By Yusra Compleete Romantic Novel 

Novel Name: Anaa Parast 

Writer Name: Yusra

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

” تمہاری اوقات ہے یہاں بیٹھنے کی؟؟؟ “ وہ اتنی زور سے دھاڑا کہ اسکا دل کانپ اٹھا۔۔۔

ڈیپ ریڈ شرارے میں ملبوس وہ بیڈ پر بیٹھی اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی جس سے کچھ دیر پہلے اسکا نکاح ہوا تھا اسکا دل کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔ وہ ویسے ہی گھبرائی سہمی اسکا انتظار کر رہی تھی کہ اسکا شوہر روم میں داخل ہوا وہ دروازہ کھولتے ہی تیزی سے اسکی طرف لپکا اور جھٹکے سے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔

” چٹاخ “

وہ اسے تھپڑ سے نوازتا زہریلے الفاظ اسکی سماعتوں سے گزار رہا تھا۔۔

” زندگی عذاب کر دونگا تمہاری موت مانگو گی تم “

اس نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچتا ہوا روم سے باہر لے آیا وہ سہمی چڑیا کی طرح اسکے ساتھ کھنچتی چلی جا رہی تھی سیڑھیوں سے اترتے وہ اسے حال میں لے آیا جہاں مہمان گپ شپ میں لگے ہوئے تھے اسکا پورا خاندان اس وقت حال میں موجود تھا۔۔ اس نے گرفت ڈھیلی کر کے تقریباً اسے پھینکتے ہوئے اپنی ماں سے کہا۔

” یہ کیا کر رہی تھی میرے روم میں؟؟؟ اسکی اوقات ہے میری کمرے میں قدم رکھنے کی؟؟ “ اسکی دھاڑ سے اسکی بہن تک کانپ اٹھی جو پہلی بار اپنے بھائی کا ایسا روپ دیکھ رہی تھی۔

” یہ تمہاری ہی پسند تھی مت بھولو “

اسکی ماں نے نخوت سے کہا

” پسند تھی اب نہیں ہے!!!! اینڈ مائنڈ اٹ یہ مجھے اپنے روم میں نظر نہ آئے “ وہ اسےقہر برساتی نظروں سے گھور کر اپنے روم میں چلا گیا دروازہ بند کرنے کی آواز نیچے تک سنائی دی۔۔

دلہن کے روپ میں سجی وہ زمین پر اوندھے منہ گری پڑی تھی اتنے مہمانوں کے سامنے بےعزتی پر پہلی دفعہ اس نے موت کی شدت سے دعا کی۔۔۔۔ اسکی غلطی کیا تھی صرف اتنی کہ خود کو غلیظ نظروں سے بچانے کے لیے وہ پردہ کرتی تھی؟؟؟ اس نے سامنے کھڑی اپنی بیسٹ فرینڈ کو دیکھا جو فتح مند نظروں سے اسے دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کہ رہی تھی

” کیوں اُتڑ گیا پارسائی کا بھوت؟؟ “ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں تو گالوں پر آنسوؤں کا آبشار بہہ نکلا۔۔

” کہا تھا ناں جلتی آگ میں تم نے خود کو جھونکا ہے.... افسوس ہوتا ہے کہ تم میری بیسٹ فرینڈ رہ چکی ہو “ وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے گویا ہوئی...

☆.............☆.............☆

” آپی ابو سے مل کر جانا وہ تمہارا پوچھ رہے تھے “

” ہاں وہیں جا رہی ہوں میری نوٹ بک کہاں ہے کل یہیں تو رکھی تھی “ حجاب بڑبڑاتے ہوے تیزی سے ایک ایک دراز کھول کر چیک کر رہی تھی تبھی مطلوبہ نوٹ بک ملنے پر جلدی سے وہ بیگ اٹھا کر باہر کی طرف دوڑی۔۔۔

” ابو آپ نے بلایا؟؟ “

” ہاں بیٹے آج پوائنٹ سے مت جانا میں خود چھوڑ آؤنگا آج جویریہ بھی نہیں جا رہی “ تاثیر صاحب جو اخبار پڑھ رہے تھے بیٹی کو آتا دیکھ اخبار رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔

” بابا جویریہ کا تو روز کا بہانہ ہے اس ہفتے یہ اسکی تیسری چھٹی ہے جب اٹینڈینس کا اشو ہوگا تب اسکی عقل ٹھکانے آئے گی “ حجاب نقاب پہن کر بائیک پر سنمبھل کر بیٹھی۔۔ ساتھ ہی اس نے جویریہ کی برائی شروع کر دی جسے سن کر تاثیر صاحب بس مسکرائے۔۔۔

“ حجاب بیٹے یہ باتیں جویریہ کے سامنے کہتیں تو بہتر ہوتا اس طرح پیٹھ پیچھے تو برائی ہوئی نا اب تمہارے حصے کی نیکی اسکے اعمال میں ہوگی “ حجاب جب یونی کے گیٹ کے پاس آرکی تو اسکے بابا کہتے ساتھ بائیک آگے بڑھا کر نکل گئے اور حجاب اپنی عقل پر ماتم کرتی کلاس میں چلی آئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ مہوش کے آسرے یونی آئی تھی لیکن اس نے بھی نہ آکر دھوکا دے دیا حجاب کو دونوں پر سخت غصّہ آرہا تھا کیا تھا اگر بتا کر چھٹی کرتیں حجاب دونوں کے بغیر دن بھر بور ہوتی رہی کلاسز ختم ہوتے ہی حجاب نے اپنے بھائی اُسامہ کو کال کر کے لینے کے لیے بلایا۔ گھر آتے ہی وہ کھانا کھا کر سوگئی آج حجاب اور جویریہ کو مہوش کے گھر جانا تھا جہاں مہوش کی دادی نے میلاد کی تقریب رکھی تھی۔

” حجاب تم تیار نہیں ہوئیں۔۔ “

جویریہ آمنہ(حجاب کی امی)سے مل کر فوراً اسکے کمرے میں چلی آئی جہاں حجاب اپنا نقاب پہن رہی تھی۔۔

” اف خدا کی بندی آج تو اس نقاب کا پیچھا چھوڑ دو “

جویریہ نے جھنجھلا کر کہا

” خبردار جو دوبارہ کبھی ایسی بات کی۔۔۔ نقاب تو میری جان ہے۔۔ اسے پہن کر لگتا ہے میں بہت محفوظ ہوں ہر اُس بُری نظر سے جسے اللہ‎ مجھے بچانا چاہتا ہے۔۔ “ حجاب نے نقاب پن اپ کر کے تیز لہجے میں اسے جتایا۔۔

” میں بس کہہ رہی تھی آج نہ پہنو۔۔ تم جانتی ہو ناں مہوش کی فیملی کو وہ دوپٹہ چھوڑو کپڑے ہی پورے پہن لیں بڑی بات ہے اور مہوش خود بھی ایسی ہے ہم آدھا گھنٹہ یا زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ وہاں بیٹھیں گے پھر مہوش کے روم میں چلے جایئں گے۔۔۔“ حجاب نے اسے سخت گھوری سے نوازا لیکن وہ ڈھیٹ بنتی بولتی رہی۔۔۔

” مہوش نے آج کال کی تھی کہہ رہی تھی ایک تو آتے نہیں میرے گھر اب مشکل سے آرہی ہو تو آسانی سے جانے نہیں دونگی لیٹ نائٹ ہم باتیں کرتے رہیں گے ویسے بھی کل تو سنڈے ہے۔۔۔ “ جویریہ نے آخری بات تھوک نگل کر اجازت طلب نظروں سے حجاب کو دیکھتے کہا جس نے پاس پڑی بک ہلکے سے اسکے سر پر ماری۔۔

” ہاے اللہ‎ “ جویریہ نے اپنا سر سہلایا

” میں جب کہوں ناں اٹھو گھر کے لیے نکلنا ہے تب شرافت سے اٹھنا سمجھی اب چلو بھائی انتظار کر رہے ہیں۔۔ “ حجاب کہتے ہی روم سے نکل گئی جویریہ بھی منہ میں بڑبڑاتی اسکے ساتھ چل دی۔۔ آمنہ دونوں کو باہر چھوڑنے آئیں انکے جاتے ہی آمنہ بھی کچن کے کاموں میں مشغول ہوگئیں۔۔۔

” کتنی دیر سے آئی ہو یار میں بور ہو رہی تھی اوپر سے دادی تو آج میری سوتیلی ماں بن بیٹھی ہیں چھوٹی چھوٹی بات پر ٹوک رہی ہیں ۔۔۔ “ مہوش انہیں دیکھتے ہی خوشی سے آکر ان سے لپٹ گئی۔ حجاب سے مل کر وہ جویریہ سے ملی۔۔

” چھمک چھلو پلین یاد ہے نا “ مہوش نے جویریہ سے گلے لگتے کہا۔ جس پر جویریہ نے خون خوار نظروں سے حجاب کو گھورتے کہا

” حجاب کے ہوتے ہوئے کوئی پلین کامیاب ہو سکتا ہے؟؟ ” مہوش بی بی اماں بی آپ کا پوچھ رہی ہیں “ ملازمہ نے آکر مہوش کو اطلاع دی جس پر وہ جلدی سے دونوں کو لے کر دادی کے پاس چلی گئی۔۔

” ڈونٹ وری جویریہ! حجاب مان جائے گی دادی کو بولوں گی اُسے روک لیں۔۔“ دادی کے پاس جاتے ساتھ مہوش نے جویریہ کے کان میں دھیرے سے کہا۔۔ جویریہ نے بس سر ہلایا اسے حجاب سے کوئی اچھی امید نہیں تھی ایک دو دفعہ حجاب یہاں جویریہ کے ساتھ آئی تھی حجاب کا رویہ یہاں نارمل ہی ہوتا، لیکن ایک دن انکا دیر تک رکنے کا پلین بنا تب حجاب نے قسمیں دیکر اس سے گھر چلنے کے لئے کہا وہ اُس دن اتنی ڈری سہمی ہوئی تھی کہ جویریہ اسکی حالت دیکھ کر خود پریشان ہوگئی۔۔ جویریہ نے اس سے بہت بار پوچھا لیکن حجاب نے طبیعت خرابی کا کہہ کر ٹال دیا۔۔۔ اُس دن بھی حجاب یہاں میلاد اٹینڈ کرنے آئی تھی اور وہ پہلی بار ہی تھا جب جویریہ اور حجاب دادو سے ملیں ورنہ ہمیشہ بس مہوش سے انکا سنا تھا کہ نمازی ہیں اور گاؤں کے رہہن سہن کی عادی ہیں تبھی شہر کی آب و ہوا انہیں نہیں لگتی۔۔

” دادو میں اپنی فرینڈز کو رسیو کرنے گئی تھی۔۔۔ “ دادو نے عینک کے پیچھے سے حجاب اور جویریہ کو غور سے دیکھتے ساتھ اپنی پوتی پر افسوس کیا جو انکے ساتھ رہ کر بھی نہ سدھری۔۔

” ماشاللہ کتنی پیاری بچیاں ہیں، نیک سیرت باحیا دیکھو کس طرح دوپٹا لیا ہے کہ سر سے ڈھلک نہ جائے۔۔ “ دادی کی آنکھیں تو حجاب کا اس طرح ڈھکا چھپا سراپا دیکھ کر چمک اٹھیں جویریہ اپنی تعریف سن کر جھٹ سے ان سے گلے ملی جبکہ نقاب میں چھپے حجاب کے ہونٹ مسکرائے یہ خاتون اسے پہلے ہی دن سے بہت اچھی لگی تھیں حجاب انکے سامنے احترامأ جھکی دادی کی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا انہوں نے شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پر پھیرا

” ماشاءالله بچے ماں باپ کی پرورش دِکھ رہی ہے“ دادی نے اسے خود سے لگاتے کہا۔۔ بہت پہلے اکثر لوگ بزرگوں کے سامنے جھکتے انھیں احترامأ عزت دیتے، نجانے آج کل کیوں یہ روایت ختم ہوگئی۔۔۔

” دادو اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟؟ مہوش بتاتی ہے آپ ہارٹ پیشنٹ ہیں “

” یہ پھر شروع ہوگئی دادی اماں “ جویریہ نے مہوش کو دھیرے سے کہتے کوفت سے ان دونوں کو دیکھا جو ایک دوسرے سے بچھڑی بہنوں کی طرح گفتگو کر رہی تھیں۔۔۔۔

” بس بچے عمر کا تقازہ ہے “ دادو نے دُکھ بھری مسکراہٹ سے کہا۔۔

” دادو میلاد والی آگئی چلیں مہمان بھی انتظار کر رہے ہون گے۔۔ وہاں کوئی بڑا ہے بھی نہیں۔۔ “ دادی جو حجاب پر سوالوں کی بوچھاڑ کرنے والی تھیں یہ سن کر چھڑی سنمبھال کر اٹھنے لگیں کہ حجاب نے انہیں سہارا دیا مہوش جویریہ کو لیکر آگے بڑھ گئی جبکے حجاب دادو کو چلنے میں مدد دینے لگی۔۔

” تم کپڑے نہیں بدلو گی کیا؟؟ جینز پہن کر کون میلاد اٹینڈ کرتا ہے“ جویریہ نے اسکے کپڑوں پر چوٹ کی۔۔۔

” بڑا سا دوپٹا اوڑھ کے بیٹھ جاؤنگی شلوار قمیض ہے نہیں اور باقی کپڑے ایسے ہیں کہ دادو نے دیکھتے ہی اللہ‎ کو پیارا ہوجانا۔۔۔ “ مہوش نے آنکھ دباتے ہنستے ہوئے کہا جویریہ افسوس سے اسے دیکھتی رہ گئی۔۔

میلاد کی تقریب گھر کے پچھلے حصے میں ہورہی تھی.۔۔ خوبصورتی سے اسٹیج بنوایا گیا تھا ہر طرف تازہ گلابوں کی مہک تھی حجاب نے اندر آتے ہی نقاب اور عبایا اتار کے رکھ دیا دادو اسے دیکھتی رہ گئیں خوبصورت تو وہ تھی ہی لیکن اسکے تیکھے نفوش نے اسکے حسن کو چار چاند لگا دیے اور کاجل سے بھری آنکھیں اسکے حسن کو نکھار رہی تھیں۔۔

دادو جب پچھلی بار اسے ملیں تھیں تب دیر سے آنے کے باعث حجاب نے ایک پل کو نقاب نہیں اتارا تھا اور کھاۓ پیے بغیر ہی چلی گئی۔۔

دادو نے اسے اسٹیج پر اپنے ساتھ بیٹھایا حجاب کو آج کئی چہرے نظر آئے جو عام دنوں میں گھر رہنا تو دور بلکہ گھر تشریف ہی مہمانوں کی طرح لاتے تھے۔۔ مہوش کی امی تائی اور بھابی نک سج کے مہمانوں کی طرح کونے میں بیٹھیں کوفت سے ہر آتے بندے کو دیکھ رہی تھیں مہوش بھی جویریہ کو لیکر دور جا بیٹھی میلاد شروع ہوتے ہی خاموشی چھاہ گئی بس اس خوبصورت لڑکی کی آواز پورے ہال میں گونج رہی تھی ابھی میلاد شروع ہوئے آدھا گھنٹہ ہی ہوا ہوگا کہ مہوش جویریہ کو لیکر گھر کے اندر داخل ہوگئی آہستہ آہستہ مہوش کی امی اور تائی بھی نکل گئیں۔۔۔ حجاب کو افسوس ہوا کم سے کم دادی کا دل رکھنے کے لئے کچھ دیر اور بیٹھ جاتیں۔۔

” بیٹے ان پر دھیان نہ دو ساری زندگی گزر گئی انکی یہ حرکتیں دیکھ کر “ دادی دکھ بھرے لہجے میں کہہ کر میلاد پڑھنے والیوں کی طرف متوجہ ہوگئیں حجاب بھی سوچ جھٹک کر انکو سنے لگی۔۔۔

دعا کے بعد وہ اندر چلی آئی ایک ایک قدم اسکا بھاری ہو رہا تھا اسکے لب ہل رہے تھے جس کی سوچیں یہاں آتے ہی اسکے دماغ میں گردش کرتیں حجاب دعا کر رہی تھی وہ یہاں نہ ہو۔۔۔

اور اللہ‎ نے اسکی سن لی وہ بخیریت مہوش کے روم کے باہر پہنچی اور بنا وقت ضائع کیے تیر کی تیزی سے اندر داخل ہوئی۔۔

” شرم نام کی چیز ہے؟؟؟ اس طرح دعا کے بغیر اُٹھ آئیں تم دونوں “

وہ آتے ہی ان پر چڑھ دوڑی۔۔۔

” حجاب تم نے سنا نہیں جس نے کی شرم اُسکے پھوٹے کرم “

مہوش نے کہتے ساتھ اسے پکڑ کے سنگل صوفہ پر بٹھایا۔۔۔

” مہوش تمہیں ذرا احساس نہیں سال میں ایک دفعہ دادو میلاد کراتی ہیں اس میں بھی تم ٹک کے بیٹھ نہیں سکتیں “

مہوش اسکی بات ان سنی کرتی دونوں ہاتھ کان پر رکھے کھانا لینے چلی گئی لیکن جویریہ کو پھنسا گئی جو دانت پیستی رہ گئی۔۔

” یار مہوش زبردستی اٹھا کے لے آئی میں کیا کرتی “ حجاب اسے ایک بھر پور گھوری سے نوازنے کے بعد کھڑکی کے قریب آکر کھڑی ہوئی۔ وہ ہوا کے سرد جھونکے کو محسوس کر رہی تھی کہ مہوش کھانا لیکر آگئی تینوں نے خوش گوار ماحول میں باتوں کے ساتھ کھانا کھایا پھر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد حجاب نے گھر جانے کی ر ٙٹ لگا لی مہوش کو ماننا ہی پڑا کیوں کہ وہ اسے آئندہ نہ آنے کی دھمکی دی رہی تھی۔

مہوش منہ پھلائے دادی سے ملانے کے لئے انکے روم میں لے آئی۔۔

” دادو اب اجازت دیں ہم چلتے ہیں بہت دیر ہوگئی ہے “

” ارے بیٹے تھوڑی دیر رُک جاؤ تم سے باتیں کرنے کے لیے تو سب کو چھوڑ کے اندر چلی آئی۔۔ “

” دادو پھر آجائیں گے ابھی نہیں گئی تو امی بہت پریشان ہونگی ابو بھی آج رات گھر پر نہیں ۔۔ “ وہ محبت سے انکے آگے جھکی دادی نے اسکی بے داغ پیشانی چومی۔۔۔

” دادو ڈارلنگ!!! “

وہی وقت تھا جب حجاب نے مردانہ آواز سن کر خوف سے نقاب لگایا جلدبازی میں اسکا ہاتھ لرز رہا تھا لکین دروازہ کھولے وہ شخص اسکی کاروائی دیکھ چکا تھا وہ بنا کسی کی پروا کیے آگے بڑھا اور دادی کو گلے لگایا اس طرح کہ اس شخص کا بازو حجاب کے بازو سے ٹچ ہوا۔۔۔۔ حجاب کو سخت ناگوار گزرا اُسے یقین تھا اِس شخص نے یہ جان بوچھ کر کیا ہوگا۔۔

” منہ کیوں پھلایا ہے اب آتو گیا “ اس شخص نے کہتے ساتھ اپنی دادی کی پیشانی چومی۔ حجاب خاموشی سے کمرے سے نکلی اسکے پیچھے ہی جویریہ بھی۔۔ دادی نے اپنے پوتے کو گھوری سے نوازا اور منہ پھیر لیا۔۔ جبکے وہ شخص حجاب کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوئی۔۔

☆.............☆.............☆

” بچاؤ۔۔۔ مما۔۔مما یہ۔۔۔۔ انکل۔۔۔۔ “

وہ آٹھ سال کی معصوم بچی کچھ بولتی اس سے پہلے ہی اُس شخص نے بچی کے منہ پر ہاتھ رکھ کی اسکی چیخ کا گلا گھونٹا۔۔۔ کمرے میں وحشت ناک خاموشی چھا گئی۔

اسے بُری طرح نوچ کر اب وہ وحشی درندہ خوف سے اس بچی کو دیکھ رہا تھا اگر کسی کو پتا چل گیا تو؟؟ یہ سوچ آتے ہی اسکے ماتھے پر پسینے کے ننھے قطرے نمودار ہوئے باہر سے مسلسل بچیوں کی رونے کی آوازیں آرہی تھیں ایک ہی رٹ لگائے وہ واپس اس درندے کو اُکسا رہی تھیں۔۔۔

” چھوڑو میری دوست کو “

اس شخص نے پل بھر کو سوچا پھر دونوں ہاتھ سے بچی کا گلا گھونٹا وہ اپنے ہاتھ پاؤں مارتی اپنی ماں کو پکارتی رہی۔۔۔۔

” بیڈ انکل۔۔۔۔۔۔۔۔ گندے۔۔۔۔۔۔ گندے۔۔۔ “ باہر سے آتی چیخیوں سے اسکا خوف مزید بڑھایا اور زور لگا کر اس نے پل بھر میں اس بچی کی چلتی سانسیں روک دیں۔۔۔۔۔۔

اسکا پورا وجود پسینے میں شرابور تھا وہ سر کو دائیں بائیں ہلا کر اس چہرے سے دور جا رہی تھی جو اسکے قریب تر آتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ گھنی مونچھوں تلے ہونٹ شیطانیت سے مسکرا رہے تھے۔۔ وہ شخص اِسے بُلا رہا تھا اِسے آوازیں دے رہا تھا۔۔

” حجاب یہاں آؤ میں سمجھاتا ہوں “

وہ شیطان مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔ حجاب چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اس کے پاس جا رہی تھی۔۔ ایک ایک قدم پر خوف مزید بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔

یہ خواب ہے ہاں یہ سچ نہیں ہو سکتا اسکا ذہن جاگ رہا تھا لیکن جسم حرکت کرنے سے قاصر تھا

وہ اٹھنا چاہتی تھی جاگنا چاہتی تھی اس بھیانک خواب سے لیکن کوشش کے باوجود اسکی آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں وہ روکنا چاہتی تھی خود کو آگے بڑھنے سے لیکن اسکا جسم اسکے دماغ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا تبھی کسی نے جھنجھوڑ کر اسے اٹھایا۔۔۔

” حجاب “ جھٹ سے اس نے آنکھیں کھولیں، اسکا ذہن بیدار ہوا پل بھر میں اسکے ذہن نے سامنے موجود اس چہرے کو پہچانا یہ اسکی ماں تھی ہاں یہ حجاب کی امی تھی، ذہن نے آگاہی دی تو جسم نے حرکت کی وہ اپنی ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔۔۔

” بس میری جان کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ میں ہوں ناں کوئی ہاتھ تو لگائے میری گڑیا کو۔۔۔ ہاتھ توڑ دوں اُسکے۔۔۔ “ حجاب کی ماں وہیں بیٹھی حجاب کا سر اپنی گود میں رکھے اسکے بال سہلانے لگیں حجاب نے بھی سختی سے انکا ایک ہاتھ اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔ آج بھی اسکی آنکھوں میں چودہ سال پہلے والا خوف تھا۔۔۔۔

آمنہ نے حجاب کی پیشانی چومی وہ ہر رات اسے دیکھنے آتی ہیں یہ خواب انکے لئے عام ہے لیکن انکی بیٹی کے لئے ہر بار نئی آزمائش آج بھی وقت پر آکر انہوں نے حجاب کو جگا دیا۔۔۔ لیکن یہ صرف خوب تھا انکی دعا ہے یہ خواب خواب ہی رہے لیکن کون جانے زندگی نے آگے کیا کھیل کھیلنا ہے۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” مما مجھے ڈرائیور انکل کے ساتھ نہیں جانا۔۔۔ “

پرنیا کا مرجھایا چہرہ دیکھ کر ایک پل کو اسکے حرکت کرتے ہاتھ رُک گئے خوف کی گہری لہر اسے اپنی بیٹی کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔

” کیوں بیٹا؟؟ انکل نے ڈانٹا ہے “

” نہیں وہ مجھے پیار کرتے ہیں.. اور وہ.. “ اسکے ہاتھ لرز اٹھے ہاتھوں میں تھامی ناشتے کی ٹرے گرتے گرتے بچی۔۔

” میں تو آپ کو پیار کرتا ہوں نہ رانیہ بیٹا “

پرانی یاد نے اسے مزید خوفزدہ کردیا۔۔۔۔۔

“ اور کیا؟؟ “ لال ہوتی غصّے بھری آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوے پوچھا اس وقت اسکا دل کانپ رہا تھا اسکی بیٹی نجانے کیا کہنے والی تھی؟؟ اسنے ناشتے سے بھری ٹرے ٹیبل پر رکھی۔

” مجھے یہاں ہاتھ لگاتے “

پرنیا نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھتے اب کے غصّے سے کہا وہ معصوم ان باتوں سے انجان اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر رہی تھی جیسے ڈرائیور کا عمل اسے اچھا نہیں لگا۔۔۔

” مجھے ان سے ڈر بھی لگتاہے مما۔۔ “ اب کی پرنیا آکر اسکی ٹانگوں سے چپک گئی اسنے پلک چھبکائے بغیر جھک کے اسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔

” یا میرے خدا!!!!! کونسی بھول ہوئی مجھ سے؟؟ میرے کس عمل کے بدلے تو نے مجھے ایسے جہنم میں ڈال دیا۔۔ جیسے مالک ویسے نوکر۔۔۔ اب میں کیا کروں کیسے اپنے بچوں کو ان سے محفوظ رکھوں۔۔۔ کیا مجھے؟؟ ہاں!! ایک یہی راستہ ہے میرے پاس۔۔“ تیز چلتی دھڑکنوں کو سمبنھالتے اسکا دل رو رہا تھا اب ایک ہی راستہ تھا اسکے پاس اس نے جھک کے پرنیا کے گال چومے۔

” آپ بیٹھ کے بھائی کے ساتھ ناشتا کرو میں آتی ہوں۔۔ گھبرانا نہیں مما ہیں نا۔۔ “ وہ اسکا گال تھپک کر تیزی سے اٹھ کے اپنے کمرے میں چلی آئی سامنے ہی اسکا شوہر آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا بلیک سوٹ میں ملبوس وہ خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا۔۔

وہ دھیمے قدم اٹھاتی اسکے پیچھے آن کھڑی ہوئی اسکا شوہر اسکی موجودگی محسوس کرتے حیرت سے پیچھے مڑا۔۔

” کیا ہوا؟؟ “

” مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔ “ نظریں جھکائے ہاتھوں کو آپس میں مسلتے وہ اسے پریشان لگی

” کرو “ بےنیازی سے کہتے وہ مُڑا اور ڈریسنگ پر رکھا فون اور والٹ اٹھایا

” ڈرائیور کو نکال دو اسکی جگہ کوئی۔۔۔ “

” کیوں؟؟ “ جتنی تیزی سے اس نے اپنا حدشہ بیان کیا اُسی تیزی سے اسکا شوہر پیچھے مُڑا

” وہ صحیح آدمی نہیں۔۔ اُسکی نظریں، حرکتیں اس سے پہلے کہ وہ پرنیا ۔۔۔ “ زنانے دار تھپڑ کی آواز خاموش کمرے میں گونجی اسکے شوہر نے سختی سے اسکے بازو کو جھکڑے خود سے قریب کیا اتنا قریب کے اِسکی بیوی اِسکی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی

” تم سمجھتی کیا ہو خود کو؟؟ آسمان سے اُتری پری ہو؟؟ ہر مرد تمہارا دیوانہ ہے؟؟ تمہیں دیکھنے کے علاوہ کسی کو کوئی کام نہیں؟؟۔۔۔ “ غصّے سے کہتے اسنے جھٹکے سے اپنی بیوی کو بیڈ پر پٹخا اور سائیڈ سے پانی کا بھرا گلاس اپنے حلق سے اتارا ۔ اسکی بیوی سنبھل کر بیڈ پر بیٹھ چکی تھی اِسی رویے کی امید تھی اُسے وہ پلک جھپکائے بغیر اسکی ایک ایک کاروائی دیکھ رہی تھی۔۔

اس وقت غصّے سے اسکی دماغ کی رگیں پھٹ رہی تھیں۔۔ خالی گلاس رکھنے کے بجاۓ اِسنے پوری قوت سے دیوار پر دے مارا اور اِسکے ساتھ بیڈ پر اِسکے سامنے آبیٹھا اِسکے بےحد قریب اور ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا

” اپنے بارے میں کیا کہنا ہے تمہارا؟؟ بہت پارسا ہو نا کیا کیا اب تک؟؟ بولو بیوی کے ہوتے ہوئے تمہارا شوہر باہر منہ مارتا پھرتا ہے۔۔ شدید نفرت کرتا ہے تم سے کیا اسکے دل میں جگہ بنا پائی ؟ تم جیسی پارسا لڑکیاں تو دن رات ایک کر کے شوہر کے دل میں گھر بناتی ہیں تم نے اب تک کیا کیا بولو؟؟ یا کسی معجزے کا انتظار تھا؟؟ تمہارا شوہر تمہارے پیروں میں آن گرے گا۔۔۔ “ وہ ہنسا زہر خند ہنسی۔۔۔۔

” میں تمہیں شوہر مانتی ہی نہیں تو انتظار کیسا؟؟ اور نہ ہی کوئی معجزہ ہونا میرا حساب تم سے اللہ‎ لےگا۔۔ “ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے بےخوفی سے بولی۔۔۔ اِسکی انہی باتوں سے اِسکے شوہر کے دل میں اِسکے لیے نفرت مزید بڑھ جاتی آخر اپنا ٹھکرانا کہاں قبول تھا اُسے۔۔۔۔

” تمہیں لگتا ہے تم بہت معصوم ہو؟؟ میں ظالم ہوں ظلم کرتا ہوں؟؟تو ایک بات یاد رکھنا اللہ‎ دلوں کا حال بہتر جانتا ہے اور اللہ‎ کو وہ عورتیں نہیں پسند جو رو رو کر موت مانگتی ہیں۔۔ “ کہتے ساتھ اس نے کسی بیکار شے کی طرح اِسے چھوڑا اور اُٹھ کے جانے لگا ورنہ یقیناً آج وہ اِسے قتل کر دیتا۔۔۔

” تم رسوا ہوگے دیکھنا اللہ‎ تم سے ہر حساب لیگا میرے ایک ایک آنسو کا تم سے حساب لیگا میں دیکھوں گی تمہیں تڑپتا ہوا روتا ہوا خدا کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے لیکن دیکھنا اُسے بھی تم پر رحم نہیں آئے گا۔۔۔ تم خوار ہوگے در در جاکر اسے ڈھونڈو گے معافی مانگو گے تمہیں وہ نہیں ملی گا، کہیں نہیں ملے گا، تم اِس دنیا میں اُسے ڈھونڈتے رہو گے لیکن افسوس وہ نہیں ملےگا۔۔۔ کیونکہ وہ تم جیسے لوگوں کا نہیں ہوتا نہیں ہوتا۔۔ تم قابل بھی نہیں کہ اُس کے سامنے سر اٹھا سکو۔۔۔ تم حرام کھاتے ہو حرام پیتے ہو۔۔ حرام رشتے بناتے ہو حلال تم جیسوں کے لیے نہیں۔۔ “

وہ پیچھے سے روتے ہوے اسے بددعائیں دے رہی تھی لیکن اس کے شوہر کو پروا کہاں تھی اسکی امپورٹنٹ میٹنگ تھی جو یقیناً اسکے لئے بہت اہم تھی....

” ایسے مسلمانوں پر سو توپوں کی سلامی “ حجاب بکس لیکر کلاس سے نکلی تو اسکی نظر سامنے فون پر بات کرتی لڑکی پر پڑی جس نے جینز کے ساتھ شارٹ شرٹ پہنی تھی ساتھ سر پر سلیقے سے حجاب لیا تھا۔۔۔

” حجاب چُپ رہو وہ سن نہ لے “ حجاب کے ساتھ چلتی جویریہ نے دانت پیستے کہا۔حجاب کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہ لڑکی آرام سے سن سکتی تھی۔۔۔

” اگر وہ لڑکی سن لیتی کتنا برا لگتا اُسے؟؟ “

” کاش سن لیتی شاید عقل آجائے پر وہ تو اپنے عاشق سے بات کرنے میں مصروف ہے “ حجاب نے بےنیازی سے کہا۔۔۔

” چُپ حجاب یہاں سے نکل جائیں پھر اپنا لیکچر دیتی رہنا بلکہ جا کر مائیک پر اعلان کرنا “ جویریہ نے بنا لحاظ تیز لہجے میں کہا کیوں کہ ابھی بھی وہ لڑکی پاس کھڑی فون پر بات کر رہی تھی۔ حجاب اسے آنکھیں دکھاتی آگے چل دی جویریہ بھی اسکے ساتھ چلتی گارڈن ایریا میں آگئی۔۔۔

” حجاب کیا مسلہ ہے تمہیں؟؟ انکی مرضی وہ جو کریں تم کون ہوتی ہو کسی کو جج کرنے والی؟؟ ان سے اتنی پرابلم ہے؟؟ مجھے تو پھر پتا نہیں کیا سمجھتی ہوگی میں تو سر پر دوپٹہ تک نہیں لیتی “ دونوں یونیورسٹی کے پاس بنے گارڈن میں آگئیں جویریہ نے حجاب کے بیٹھتے ہی غصّے سے سرخ چہرہ لئے اسے کہا حجاب اتنی تیزی سے چل رہی تھی کہ جویریہ اسکا ساتھ دیتے دیتے ہانپنے لگی ۔۔۔۔

” نہیں تم اس سے بہتر ہو جو پارسائی کا ناٹک نہیں کرتی وہ تو آدھی انگریز آدھی مسلمان بنی پھرتی ہیں۔۔ جان بوجھ کر مردوں کو خود کی طرف اٹریکٹ کرنے کے لئے حجاب لیکر پارسائی کا ڈھونگ کریں گی یا پھر جینز پہن کر سب کی نظروں کا مرکز بنی پھریں گی۔۔۔ “ حجاب نے بھی اسے اسی کے لہجے میں جواب دیا۔۔

” حجاب وہ کوئی پارسائی کا ناٹک نہیں کرتیں کوئی خود کو حجاب میں کمفرٹیبل فیل کرتا تو کوئی نقاب میں ورنہ یہاں تو عبایا کے ساتھ بھی لڑکیاں نقاب سےزیادہ حجاب لیتی، نماز پڑھتیں لڑکوں سے باتیں کرتیں پھر کیا وہ بھی پارسائی کا ڈھونگ کرتی ہیں؟؟؟ “

” لڑکوں سے بات کرنا گناہ نہیں بس ان سے نرم لہجے میں نہ مخاطب ہو کے پیچھے ہی لگ جائیں ورنہ کیا فیمیل ٹیچرز نہیں کرتیں لڑکوں سے باتیں؟؟ “ وہ کہاں اپنی غلطی مانے والی تھی تڑخ کے جواب دیا

” انکے بارے میں کیا کہنا ہے جو نقاب میں یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ بائیک پر جاتی ہیں اور تمہیں کیسے پتا وہ لڑکی اپنے عاشق سے بات کر رہی تھی؟؟ “ جویریہ کے ماتھے کے بل اسکی بات سن کر کچھ اور بڑھ گئے

” اُس لڑکی کو دیکھ کے ہی لگ رہا تھا اپنے عاشق سے بات کر رہی ہوگی ایسی لڑکیاں یہی کام کرتی ہیں۔۔

اور تمہیں ہی ایسی نقاب والیاں ملتی ہیں مجھے تو آج تک کوئی ایسی نہیں دیکھی۔“جویریہ کو اسکی سوچ پر افسوس ہوا اس وقت وہ خود کو غیبت کر کے گنہگار محسوس کر رہی تھی۔۔

” حجاب یہ جو تم سب پر فتویٰ جاری کرتی رہتی ہو یہ غیبت نہیں؟؟ “ جویریہ نے تھک ہار کر کہا اس سے بحث واقعی فضول ہے۔۔

” جب انسان کے پاس جواب نہیں ہوتا تو ایسے ہی سوال بدلتا ہے نو موڑ آرگیومنٹس اب پریزنٹیشن بنائیں لیپ ٹاپ نکالو “ حجاب نے اسکا بیگ لیکر لپ ٹاپ نکالا جویریہ کا موڈ چھٹی تک خراب رہا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ابراز۔۔۔ ابراز “

” دانش۔۔ دانش “

سنسان روڈ پر ہر طرف ان کے نام کی صدائیں گونج رہی تھیں ہوا میں چاروں طرف ان کے نام کا شور تھا ینگسٹر چلا چلا کر نام پکار کر انہیں حوصلہ دے رہے تھے۔۔۔۔

ابراز اور دانش دونوں ہی بائیک اسٹارٹ کر چکے تھے۔۔ جیسے ہی انکے ایک ساتھی(ریفری)نے سیٹی بجائی دونوں زن سے بائیک آگے بڑھا گے۔۔۔ دونوں بلیک جیکٹ میں ملبوس سر کوہیلمٹ سے ڈھانپے ہوئے تھے۔۔۔ ھوا کو چیرتی بائیک اپنی منزل پر رواں تھی دونوں ہی ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے یکدم ابراز نے سپیڈ اور بڑھا دی دانش بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا وہ کچھ ہی منٹوں میں اسکے برابر آن پہنچا۔۔۔ دونوں کی بائیک تیزی سے ایک مخصوص پوائنٹ کی طرف پہنچنے والی تھیں آخری وقت تھا دونوں بس پوائنٹ سے چند قدم کے فاصلے پر تھے سب لڑکے لڑکیاں سانس روکے انہیں دیکھ رہے تھے تبھی ابراز کی بائیک پوائنٹ کو چیرتی آگے رکی۔۔۔ فضا میں ابراز کی جیت کا شور گونجا سب ینگسٹر چلا چلا کر اسکا نام پکار رہے تھے۔۔۔

” ابراز بریلینٹ۔۔۔ “ مہک جو ہجوم کے ساتھ کھڑی تھی آکر اسے گلے ملی۔۔۔

” اسٹاپ اٹ اتنا چپکتی کیوں ہوں سخت زہر لگتی ہیں وہ لڑکیاں جو خود آکر بانہوں میں جھولتی ہیں “ ابراز نے کوفت سے کہتے اسے خود سے دور کیا تو اسکے سب دوست آکر اس سے ملے جبکہ مہک اپنی اس عزت افزائی پر غصّے سے کھولتی ابراز کی کار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔۔۔

” امیزنگ برو۔۔۔ “ ابراز نے دانش کو داد دی

” جیتے تو تم۔۔۔ “ دانش نے نرمی سے مسکرا کر کہا۔۔

” لیکن خوشی نہیں ہوئی اُس دن ہوگی جب زندگی کی کوئی بڑی بازی جیتوں گا “ ابراز نے جیکٹ اتارتے کہا

” ہار کر بھی خوش ہو سکتے ہو دوست۔۔۔ زندگی کے کھیل عجیب ہیں کب پانسا پلٹ جائے خبر بھی نہیں ہوتی “ ابراز کو نجانے کیوں اسکی بات دل کولگی۔۔۔ یہ ریس وہ مہک کے کہنے پر کھیلا تھا انٹرسٹ اسے واقعی نہیں تھا۔۔ لیکن کھیل۔۔۔۔ کبھی کوئی کھیل کیا کر جائے انسان سوچ بھی نہیں سکتا اِس وقت بھی دانش کی باتوں سے ابراز کو لگا اِسکی قسمت بھی اِسکے ساتھ کوئی کھیل کھیلنے والی ہے۔۔۔

” بےبی تم جانتی ہو مجھے منانا نہیں آتا نہ مناؤں گا غصّہ فضول ہے۔۔۔ آجاؤ اندر “ ابراز دانش اور سب لوگوں سے مل کر قریباً پندرہ منٹ بعد آکر کار میں بیٹھا۔۔

” ڈیفنس سینٹرل لائبریری جانا ہے “ مہک جو منہ پھلائے بیٹھی تھی غصّے سے کھولتے تیز لہجے میں بولی

” یہ پڑھنے کا شوق کب سے جاگا “ ابراز نے کان کو انگلی سے مسلا اسے چیخنے چلانے والی عورتوں سے سخت نفرت تھی۔۔۔

” جب سے تم نے اگنور کرنا اسٹارٹ کیا ہے “ مہک نے آگے کی چند لٹوں کو انگلی سے لپیٹا انداز بےنیاز سا تھا

” اب غصّہ چھوڑو ورنہ رکشہ پکڑ کے گھر جاؤ۔۔۔ پیسے ہیں “ کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے ابراز نے کہا مہک مصنوعی مسکرائی۔۔۔ پیسے اسکے پاس واقعی نہیں تھے ابراز نے دل جلانی والی مسکراہٹ سے جتا کر کار اسٹارٹ کی۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

حجاب پریزنٹیشن بنانے کے بعد جویریہ کے ساتھ بکس ایشو کروانے ڈیفنس سینٹرل لائبریری آگئی جو اسکی یونیورسٹی سے بےحد قریب تھی۔۔

” ابرازجسٹ ٹو منٹس بس بکس مل گئیں “ ایک لڑکی کی آواز حجاب کی سماعتوں میں گونجی لیکن جھٹکا اسے مردانہ آواز سن کر ہوا۔۔

“ no more than that ”

حجاب نے پیچھے مُڑکے دیکھا تو وہی تھا یہ شخص کیوں بار بار اسکے سامنے آجاتا وہ چاہ کر بھی اس سے دور نہیں بھاگ سکتی۔ وہ فون پر کوئی میسج ٹائپ کر رہا تھا اسنے حجاب کو نہیں دیکھا حجاب نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نکل جانا چاہا لیکن اسکی قسمت وہ کیسے بھول گئی ایک آفت سامنے ہے تو دوسری وہ اپنے ساتھ لے آئی ہے۔۔

” او ایم جی فائینلی!!!! حجاب دیکھو مجھے مل گئی کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اس بک کو یار کہاں کہاں آرڈر دیکر غلط بک منگوا لی “ جویریہ کے منہ سے حجاب سن کر وہ شخص انکی طرف متوجہ ہوا۔۔ جہاں چہرے پر پہلے بیزاری تھی اب حجاب کو دیکھتے ہی ایک چمک سی نمودار ہوئی، ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ در آئی۔۔۔

حجاب نے بس ایک نظر اسے دیکھا، اس مسکراہٹ کو دیکھ کر اسکا دل کانپ اٹھا یعنی وہ اسکی نظر میں آچکی ہے تیزی سے وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھی نظریں جھکائے اسے دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے وہ آگے بڑھی لیکن وہ شخص اسکی راہ میں حائل ہوگیا۔۔۔

” اتنا سنبھالتی ہو خود کو پھر بھی گر گئیں کیا فائدہ ایسی حفاظت کا جب مقابل کی نظریں زیر کرنے کا فن جانتی ہوں “ الفاظ کے ساتھ نظریں ایسی تھیں کہ حجاب کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی ہوتی محسوس ہوئی وہ اُسےہی دیکھ رہا تھا کاجل سے بھری ان خوبصورت آنکھوں کو۔۔۔۔ اس شخص کے ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو کر گزری جیسے اسکی کیفیت سے لطف اٹھا رہا ہو حجاب کو رونا آرہا تھا وہ اسکی نظروں میں آچکی تھی۔۔۔ اس سے اب ہلا بھی نہیں جا رہا تھا کاش جویریہ اسے گھسیٹ کے یہاں سے لے جائے کچھ ہوجائے کوئی آجائے اسے لینے۔۔۔ خوف کے زیراثر اسکی آنکھیں لباب پانیوں سے بھر گئیں لیکن مقابل نے رحم نہ کیا گری ہوئی بک اٹھا کے اسکے ٹھنڈے پڑتے ہاتھ کو اس شخص نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور دوسرے ہاتھ میں تھامی بک حجاب کے ہاتھوں میں رکھ دی۔۔

” حجاب۔۔اوہ ابراز بھائی آپ۔۔ “

جویریہ دونوں کو ساتھ دیکھ کر چونکی حجاب جو پتھر کا مجسمہ بنی ہوئی تھی جویریہ کی آواز سن کر اپنے ہوش و حواس میں لوٹی بک وہیں پھینکتے ہوئےوہ تیزی سے باہر کی طرف دوڑی۔۔

” اسے کیا ہوا؟؟ “ جویریہ بھی کہتی تیزی سے اسکے پیچھے چلی دی۔۔

حجاب باہر آکر وہیں بینچ پر بیٹھ گئی ہینڈ بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اپنے ہاتھوں کو رگڑ رگڑ کے دھونے لگی۔۔

” حجاب یہ کیا کر رہی ہو؟؟ “ جویریہ اسکی حرکت دیکھ کر چونک اٹھی حجاب کا نقاب تک رونے کی وجہ سے گیلا ہو چکا تھا۔۔

” جویریہ تم نے دیکھا وہ۔۔ وہ گھٹیا شخص وہ گندا ناپاک انسان اس نے مجھے چھوا۔۔۔!!!! اسنے مجھے بھی ناپاک کردیا۔۔۔ اسکی۔۔ اسکی ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔۔۔“ جویریہ حیرت سے بت بنی اسے دیکھ رہی تھی پھر کوئی اور اسکا تماشا دیکھے اس سے پہلے جویریہ اسکا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے آٹو لیکر گھر آگئی۔۔۔

” تمہیں ہوا کیا تھا آر یو میڈ؟؟ کیسی پاگلوں جیسی حرکتیں کر رہی تھی وہاں اور چھوڑو اپنے ہاتھ کو حجاب۔۔۔ “ جویریہ نے غصّے سے اسکا ہاتھ پکڑا جسے وہ بار بار رگڑ کر سرخ کر چکی تھی۔۔

گھر آتے ہی کوئی دس پندرہ بار وہ اپنے ہاتھ کو دھو کر بُری طرح رگڑ چکی تھی جویریہ اسکی ایک ایک کاروائی خاموشی سے دیکھتی رہی لیکن اب مزید اس میں برداشت کرنی کی ہمت نہیں تھی۔۔۔

” ہاں پاگل ہو چکی ہوں۔۔ اس نے.... اس نے جان بوچھ کے یہ حرکت کی تاکہ میں بےسکون رہوں۔۔ “ چیختی چلاتی وہ یکدم خاموش ہوکر پھر رونے لگی۔۔۔

” تم نہیں جانتی جویریہ میں نے خود کو کتنا سنبھال کے رکھا ہے۔۔۔ یہ دنیا جینے نہیں دیتی۔۔۔۔ معصوم بچی جویریہ اُسے تک یہ دنیا نوچ کھاگئی ۔۔۔۔ ج۔۔۔۔جب۔۔۔ ج۔۔۔۔۔جب رانیہ کے ساتھ وہ سب ہوا تو ہر ایک کا کہنا تھا اُس کی بھی غلطی ہوگی آخر سارا دن محلے میں آوارہ گردی جو کرتی پھرتی تھی تم خود بتاؤ آٹھ سال کی۔۔۔۔مع۔۔۔۔۔۔ معصوم بچی آوارگردی؟؟ “ کہتے ساتھ وہ پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔۔ جویریہ نے اسے گلے لگایا

” حجاب۔۔ آئی ایم سوری یار۔۔ بٹ کیا پتا غلطی سے ٹچ کیا ہو؟؟ “ حجاب نے کچھ نہیں کہا وہ اس سے دور ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی اور چادر اپنے اوپر اوڑھ لی صاف اشارہ تھا وہ تنہائی چاہتی ہے۔۔۔جویریہ بھی لائٹس بند کر کے خاموشی سے نکل گئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” ابراز یہ تو میرا گھر ہے ہمیں کلب جانا ہے آج تمہاری جیت کی خوشی میں پارٹی رکھی ہے۔۔ “ مہک لائبریری سے بُک ایشو کرتے ہی اسکے پیچھے دوڑی تھی جو اسے چھوڑ کر اپنی کار میں جا بیٹھا تھا۔ مہک اسے غصّے میں دیکھ کر کچھ بھی پوچھنے کا ارادہ تُرک کر چکی تھی اور چپ چاپ آکر کار میں بیٹھ گئی۔۔۔۔

” ونر وہ ہوتا ہے جو لاحاصل کو حاصل کر سکے۔۔ ایسی فضول جیت کی خوشی منانے میں میرا کوئی انٹرسٹ نہیں کار سے اترو۔۔۔ “ وہ کار کی اسٹئرنگ تھامے سختی سے بولا مہک کا پارہ اسکی بات سن کر ہائی ہوگیا۔۔۔

” کس چیز کا غرور ہے تمہیں؟؟ اس سے زیادہ میں تم جیسے سائیکو بندے کو برداشت نہیں کر سکتی میں تو کیا کوئی بھی لڑکی تمہارے ساتھ رہنے سے موت کو ترجیح دےگی گڈ بائے فور ایور “ وہ پھنکارتی ہوئی کار کا دروازہ دھاڑ سے بند کر کے چلی گئی ابراز نے زور سے مکا اسٹئرنگ پر دے مارا۔۔۔

” حجاب تاثیر۔۔۔۔۔۔تم کیا ہو؟؟؟ کیوں میں تمہیں اتنا سوچتا ہوں؟؟ کیوں تمہارے الفاظ کسی زہریلی ناگن کی طرح ڈستے ہیں مجھے۔۔۔ “ وہ کچھ دیر وہیں اس پہیلی کو سلجھاتا رہا پھر زن سے کار گھر کی طرف بڑھائی۔۔۔۔

” بی اماں کیا خرابی ہے اس میں؟ نام ہے ایک، اسٹیٹس ہے خوبصورت ہے اور کیا چاہیے؟؟ “ فبیحہ نے ایک لڑکی کی تصویر بی اماں کو دکھائی جسے دیکھ کر بی اماں بُرا سا منہ بنا کر رہ گئیں۔۔۔

” کچھ نہیں بس سیرت چاہیے جو اس میں نہیں۔۔۔ وہی ہے نہ جس نے باپ کو کہا تھا اکاؤنٹ میں پیسے ڈالوانا ورنہ رات گھر نہیں آؤنگی یہ اگر میرے رازی کی بیوی بنی تو وہ بیچارہ پورے ملک میں اسے ڈھونڈتا پھرے گا، نہ اخلاق ہے نہ تمیز بس میک اپ کروا لو مدھو بالا بن کر آجائیں گی۔۔۔ “ بی اماں نے باقاعدہ تصویر ٹیبل پر پٹخی۔ فبیحہ نے بمشکل غصّہ ضبط کیا جبکے حیات صاحب اپنے فون میں مصروف رہے ویسے بھی یہ ان کی روز کی چخ چخ تھی جس کی انہیں عادت ہو چکی تھی۔۔۔

” ہائے رازی کہاں ہو نظر ہی نہیں آتے۔۔۔ “ مہوش جو ٹیکسٹ کرنے میں مصروف تھی رازی کو اندر آتا دیکھ وہیں سے چیخی۔۔۔

” اسکو دیکھ بچہ تھکا ہارا گھر آیا ہے پانی دینے کے بجائے ہائے کرنے بیٹھ گئی سلام فرض نہیں کیا تجھ پر چل اٹھ پانی پلا بھائی کو ہمیں دیکھ مجال ہے جو بھائی کے سامنے بغیر دوپٹے کے بھی آئیں۔۔۔۔۔“ دادو نے اسے کندھے پر ایک جھانپڑ رسید کیا مہوش نے آنکھوں کی پتلیاں گھوما کر ماں کو اشارہ کیا۔۔

” ہائے اللہ‎ ہم ایسے آنکھوں کی پتلیاں گھومائیں تو اماں وہیں سے آنکھیں نوچ لیں اور آج کل کی مائیں نہ کام نہ کاج بس آئینے میں خود کو دیکھ دیکھ کر بالائیں لیتی ہیں رہا سہا کام اس موئے موبائل نے کر دیا۔۔۔۔ “ دادی نے مہوش کی یہ حرکت دیکھ دل پر ہاتھ رکھتے کہا ابراز وہیں سے انکی نوک جھوک سن کر آکر بی اماں کے پاس بیٹھ گیا ایسے کے بیچ میں وہ تھیں اور انکے دائیں بائیں طرف ابراز اور مہوش۔۔

” بی اماں آنکھیں جو نوچ لوں تو بچے دیکھیں کیسے؟؟ آپ دے دیں اپنی آنکھیں فوراً سے نوچ کے دکھاؤں گی ایسی نکمی اولاد کی “ فبیحہ تو ویسے ہی برداشت کی آخری حد پر تھی فوراً سے تڑخ کر کہا بی اماں نے جھٹ سے پاس پڑی عینک آنکھوں سے لگائی جیسے ابھی وہ اِنکی آنکھیں نوچ لے گی۔۔۔

” بس زبان لائی ہو میکے سے “ بی اماں نے اونچی آواز میں طنز کیا۔۔

” میں چلا جاتا ہوں، آپ شوق سے ایک دوسرے کے بال نوچیں۔۔۔ “

ابراز اٹھنے ہی لگا تھا کہ دادو نے ہاتھ پکڑ لیا۔۔

” تو بیٹھ جا چُپ چاپ نہیں لڑ رہے۔۔۔ “ دادو نے اسے آنکھیں دِکھائیں

” رازی یہ دیکھو تمہارے لیے میں نے لڑکی پسند کی ہے کیسی ہے۔۔ “

فبیحہ نے اسے تصویر پاس کی وہ پکڑتا اس سے پہلے دادو نے وہ تصویر لیکر مٹھی میں دبا کر اسے پھینکا۔۔۔

” چھوڑ تو۔۔۔ نہ دیکھ۔۔۔۔ کپڑے تو اس نے پہنے نہیں گناہ تجھے ملےگا تو میری سن۔۔۔ میں نے تیرے لئے چاند سے بھی خوبصورت لڑکی ڈھونڈی ہے، چاند میں بھی داغ ہوتا ہے لیکن وہ بےداغ ہے، بااخلاق،نیک سیرت، پاکیزہ اور سب سے بڑی بات زبان تو میکے سے ساتھ لائے گی ہی نہیں۔۔۔ تو نے دیکھا بھی ہوگا اسے مہوش کی دوست ہے۔۔۔ حجاب۔۔۔۔ جیسا نام پاکیزہ ویسی خود پاکیزہ۔۔۔۔۔ “ ابراز کے کان تو حجاب کا نام سنتے ہی کھڑے ہوگئے۔۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کیوں وہ دن رات اُس لڑکی کو اپنی سوچوں کا مرکز بنائے بیٹھا ہے اسے حجاب سے نہ محبت تھی، نہ نفرت بس ضد تھی جسے وہ پورا کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔

” بول میں رشتہ لیکر جاؤں “ دادو نے امید بھری نظروں سے ابراز کو دیکھا جو دھیرے سے مسکرایا

” دادی آج تک آپ کا کہا ٹالا ہے؟؟؟ “ مہوش کا دل جہاں حجاب سن کر خوش ہوا تھا وہیں بھائی کا اقرا سن کر اسکا دل خوشی کے مارے جھوم اٹھا جب کے حیات صاحب اور فبیحہ نے بےاختیار ایک دوسرے کو سکتے کے عالَم میں دیکھا۔۔۔

” دماغ ٹھیک ہے اس نقاب والی سے شادی کروگے؟؟؟ “ ابراز کی بات سن کر فبیحہ تقریباً چیخ اٹھی۔۔۔

” موم میں شادی کرونگا تو اُسی سے۔۔۔ مجھے بیوی چاہیے شوپیس نہیں جسکی نمائش کراتا پھروں۔۔۔ “ بمشکل غصّہ ضبط کرتا وہ نارمل انداز میں بولا لیکن الفاظ کاٹ دار تھے جسے فبیحہ نے طنز کی صورت میں محسوس کیا

” چپ رہو۔۔ میں اسے اپنے سرکل میں برداشت نہیں کر

سکتی “ وہ کسی طور ماننے کو راضی نہ تھی۔۔۔

” اف موم۔۔۔ آپ ہمیں بھی کہاں اپنی لائف میں برداشت کرتیں ہیں۔۔ جب پہلے میری فکر نہیں تھی تو اب کیوں؟؟؟ میری شادی اُسی سے ہوگی۔۔۔ ورنہ اُس شخص کو ماردونگا جو اُس سے نکاح کریگا۔۔۔ “ ابراز کی آخری بات کسی بم کی طرح وہاں بیٹھے ہر نفوس کو لگی تھی۔۔۔ وہ اپنا فیصلہ سنا کر جا چکا تھا جبکہ دادو نے بھی وہیں بیٹھے بیٹھے ایک فیصلہ کیا جسے آج ہی سر انجام دینا تھا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

“ sweet heart i will be there!!! Just few more minutes ”

وہ اپنے بال ٹاول سے رگڑتا اسکے سامنے آکھڑا ہوا جو پرنیا کو سلا رہی تھی ساتھ احتشام کو ڈانٹ رہی تھی جس کا سونے کا ارادہ نہیں تھا۔۔۔

” مس یو ٹو بےبی آج رات تمہارا ہی ہوں “

وہ بغور اسے دیکھتے کہ رہا تھا جو اسکی رات والی بات پر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔۔۔اسکا شوہر اسکے چہرے پر کچھ كهوجنا چاہتا تھا لیکن آج بھی وہ چہرہ بےتاثر تھا۔۔۔

” اٹھو کپڑے نکالو۔۔۔۔ “ وہ فون رکھتے ہی اسکی طرف متوجہ ہوا وہ اٹھ کر اسکے کپڑے نکالنے لگی۔۔ لیکن آج نجانے کیوں اسکا دل رو رہا تھا آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا، اسے کوئی فرق نہیں پڑا، وہ تو خود یہی چاہتی تھی وہ اسکے قریب نہ آئے بھلے کسی اور کے پاس جائے لیکن اس کے آس پاس نہ رہے۔۔۔۔

” ڈیڈ آئی وانٹ اسپورٹس بائیک۔۔ “ احتشام آکر باپ سے لپٹ گیا جو پرنیا کی پیشانی چوم رہا تھا۔۔۔

” اوکے کل گھر واپسی پر تمہاری بائیک تمہارے سامنے

ہوگی۔۔ “

” سچی ڈیڈ آئی لو یو۔۔ “ احتشام نے خوشی سے اپنے باپ کو گلے لگایا۔۔ اسکی نظریں بار بار اپنی بیوی کی طرف اٹھتیں اور مایوس ہوکر واپس لوٹتیں۔ اب وہ موبائل پر احتشام کو کچھ بائیکس کی پکس دکھانے لگا پھر اسکی پسند پر کال کر کے آرڈر کی جو کل احتشام کی اسکول اوف ٹائمنگ میں ڈیلیور ہوگی۔۔۔

” حلیم بنا رہی ہو یا شرٹ پریس کر رہی ہو؟؟ “

وہ کوشش کرتا بچوں کے سامنے لہجہ نارمل رکھے۔۔

” شرٹ جل گئی “

آج پہلی بار اس نے کوئی ایسی حرکت کی تھی۔۔۔ شرٹ جان بوچھ کے جلائی۔۔۔۔ وہ خود نہیں جانتی کیوں؟؟

وہ جو کب سے اسے دیکھ رہا تھا جھٹکے سے اٹھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کے کھنچتے ہوئے اسے ٹیرس پر لے آیا جو انکے روم میں ہی گلاس وال دھکیلتے آجاتی۔ احتشام اسکے فون سے گیم کھیلنے لگ گیا تبھی انکے عمل سے بےخبر رہا کمرہ آخری فلور پر ہونے کی وجہ سے ٹیرس کی اونچائی بہت تھی۔۔۔ اسکے شوہر نے اسے ایک بازو سے پکڑ کے نیچے کی طرف دھکیلا ٹیرس کی اونچائی دیکھ کے بھی اسے ڈر نہ لگا۔ وہ موت کا منظر بخوبی دیکھ سکتی تھی اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد شاید ہی کسی کی سانسیں واپس آئیں۔۔ آج موت یا اسکے شوہر کی شعلہ برساتی آنکھیں بھی اسکی بیوی کو خوف میں مبتلا نہ کر سکیں۔۔ کوئی ڈر و خوف نہیں تھا ڈر تو اسے خود سے لگ رہا تھا آج۔۔ ہاں یہ ڈر ہی تھا جس کی وجہ سے وہ بےچین ہے، جس سے اس نے شدید نفرت کی بدعائیں دیں آج اُسی کے لیے اسکا دل دھڑک رہا ہے۔۔۔ اسے ڈر لگ رہا تھا دل کے اس شور سے اسکا اپنا دل اسے دھوکا دے رہا تھا۔۔۔

” کیا چاہتی ہو؟؟ بولو یہیں سے پھینک دوں تمہیں؟؟ مجھے اور میرے بچوں کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں تو زندہ رہ کر کب تک یہ دن بھر آنسوؤں بہا کر نحوست پھیلا رکھو گی؟؟ ظلم ہوا ہے نہ تمہارے ساتھ؟؟ بےزار ہو نہ اس زندگی سے؟؟ تو آسان حل یہی ہے ہمیں بھی تمہاری ضرورت نہیں گو ٹو ھیل “

شوہر کی سنجیدہ آنکھیں اور آگ برساتا لہجہ بھی اسے خوفزدہ نہ کر سکا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنے شوہر کا بازو پکڑا اور اسکے سینے سے لگی بلک اٹھی۔۔۔۔

” پتا نہیں میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے میں خود نہیں جانتی۔۔۔ مجھے بس سونا ہے ڈھیر سارا سونا ہےاور کبھی نہیں اٹھنا۔۔۔ “

وہ ظالم لڑکی کیا کہہ گئی تھی اسے خود اندازہ نہیں تھا جبکہ اسکا شوہر آخری الفاظ سن کر جی جان سے کانپ اٹھا تھا۔۔۔

” تم کون ہو جینے مرنے کا فیصلہ کرنے والی آئندہ مرنے کا نام لیا تو زبان کاٹ دونگا “ سختی سے اسے خود میں بھینچے وہ اسکی کمر کے گرد گرفت سخت کر چکا تھا۔۔۔

” کیا پریشانی ہے؟؟ کیوں اتنی ڈل ہو رہی ہو؟؟ “ کچھ لمحوں بعد جب رونے کی شدت میں کمی آئی تب اسکے شوہر نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا

” پتا نہیں “ آواز رندھی ہوئی تھی۔۔۔

” کسی نے کچھ کہا؟؟ “ اب کی بار محبت سے دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھاما

” نہیں “ وہ نفی میں سر ہلانے لگی

” پھر؟؟ “ محبت بھرا لہجہ ایک بار پھر وہ اپنی ہی نفرت سے ہار گئی یہ وہ نہیں تھا جو اسے روتا دیکھ کر پُر سکون ہوجاتا یہ تو کوئی اور ہی تھا۔۔۔۔

” دل میں درد ہو رہا “ آنسوؤں کا سیلاب اسکے شوہر کے ہاتھ بھگو گیا۔۔۔ دل کا درد مزید بڑھ گیا

” کیوں؟؟ “ اسکے شوہر کو آج ان آنکھوں میں اپنا عکس صاف دکھائی دیا

” پتا نہیں۔۔ “ وہ نظریں چُراگئی ساتھ شوہر کے دونوں ہاتھ جو اسکے چہرہ تھامے ہوے تھے انھیں جھٹکا۔۔۔آخر کب تک وہ جان بوجھ کر شوہر کی محبت سے انجان رہے گی۔

” کیا پتا ہے؟؟ میری آنکھوں میں دیکھ کر جواب دو “ وہ کہاں اس سے ہارنے والا تھا ایک ہاتھ اسکی کمرکے گرد حائل کیا جبکے دوسرے ہاتھ سے اسکی ٹھوڑی پکڑ کے سر اونچا کیا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ان آنکھوں میں آج نہ نفرت تھی نہ انا بس محبت تھی اپنی بیوی کے لئے۔۔۔ایک بار پھر اسے وہ خط یاد آگیا۔۔۔ وہ اسکی شرٹ دونوں ہاتھوں کی مٹھی میں جکڑے۔۔ اس پر سر رکھے رو دی

” یہی کہ مجھ سے کوئی راضی نہیں۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔ “

” کون نہیں ہے “ وہ نرمی سے اسکی پیٹھ تھپکنے لگا۔ دل ہی دل میں آج وہ بہت خوش تھا اسے یقین ہو چلا تھا محنت رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔

” اللہ‎ “ اسکے شوہر کے حرکت کرتے ہاتھ رُک گئے۔۔ چند لمحے آسمان کو تکتے جیسے وہ سب منظر ذہن میں ریوائنڈ کر رہا تھا پھر اسے دونوں کندھوں سے تھامے جنونی انداز میں اگلا سوال دغا۔۔۔

” اور۔۔ “ وہ خاموش رہی

” پلیز بولو نا؟؟ آج چُپ مت رہو تمہاری چپ میری جان لے لے گی “

” شوہر “ رندھی ہوئی آواز کے ساتھ اسکے حلق سے الفاظ برآمد ہوئی جس نے اسکے شوہر کو زندگی کی نوید سنائی

” مانتی ہو شوہر اُسے؟؟ “ خوشی بےیقینی کیا کیا نہ تھا اسکے شوہر کی آنکھوں میں۔۔۔۔

” ہاں “ وہ جھکا تھا اور اسکی بےداغ پیشانی چومی۔ آج یہ لمس اسے سکون بخش رہا تھا نہ گھن آئی نہ نفرت ہوئی بلکہ محبت بھرا لمس اسکی آنکھیں نم کر گیا یہی تو ہے جو اسے بےچین کیے ہے۔۔۔ یہ محبت ہاں آج وہ ہار گئی اپنے شوہر سے، اس دل سے جہاں وہ بستا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے کمرے میں لے آیا۔۔۔

” بیٹھو “ اسے بیٹھنے کا کہہ کر خود اسکی گود میں سر رکھے لیٹ گیا۔ نم آنکھوں سے وہ اسکا روشن چہرہ دیکھ رہی تھی جو اسے ہمیشہ خوفناک لگتا تھا آج وہ چہرہ اسے خود سے زیادہ خوبصورت اور روشن لگ رہا تھا۔۔

” میرا سر دباؤ “ اگلا حکم جاری کیا لیکن وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔

” تم سے کہہ رہا ہوں۔۔ کہاں ہو “ وہ جو آنکھیں موندھے لیٹا تھا اسے حرکت کرتا نہ دیکھ آنکھیں کھولے تھوڑے سخت لہجے میں بولا۔۔۔ وہ کپکپاتے ہاتھوں سے اسکا سر دبانے لگی آج سے پہلے ایسی کوئی خواہشں اسکے شوہر نے نہیں کی تھی اگر کہتا بھی تھا تو صرف چڑانے کے لئے لیکن آج جہاں وہ بدلی تھی وہیں اسکا شوہر بھی اس میں تبدیلیاں دیکھ چکا تھا شاید تبھی آج اسکے شوہر نے پہل کی۔۔۔

” بس چھوڑو یہاں آکر میرے ساتھ لیٹو “ پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے ہونگے کہ اسکے شوہر نے اگلا حکم سنایا۔ اسنے دھیرے سے اسکا سر اپنی گود سے ہٹا کر سرھانے پررکھا۔۔۔ جھجھکتے ہوئے وہ دوسری بات پر عمل کرنے کے لئے بیڈ پر جھکی تھی اسکا ارادہ بچوں کی سائیڈ پر سونے کا تھا جو بیڈ کی دوسری سائیڈ پر سو رہے تھے۔۔۔

” یہاں سر رکھو۔۔۔ “ اپنا بازو پھیلائے وہ اسے اپنے پاس سونے کی دعوت دے رہا تھا۔۔۔

” اتنا سوچ کیا رہی ہو شرافت سے یہاں آؤمیں اٹھا تو تم جانتی ہو۔۔۔ “ رعب دار لہجے میں وہ اسے دھمکی دے کر پاس آنے پر مجبور کر گیا۔۔ وہ کچھ ججھک کر اسکے پاس آئی اور آنکھیں موند کر اسکے پھیلے بازو پر سر رکھ دیا۔۔۔

” میری طرف دیکھو۔۔۔ “

” پلیز۔۔۔ “ وہ کروٹ شوہر کی سائیڈ لیکر اسکے سینے میں منہ چھپا گئی۔ آنکھیں کھولنے کی اس میں ہمت نہ تھی وہ جو خود کو ہمیشہ اس سے بہتر سمجھتی تھی آج کہیں سے وہ اس باوقار شخص کی ایک انگلی برابر بھی نہ لگ رہی تھی۔۔۔۔اسکے شوہر نے بھی ضد نہ کی بس اسے سختی سے خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔۔

آج پورے تین دن بعد وہ یونی آئی صبح سے بورنگ لیکچرز لیکر اسکا دماغ گھوم گیا تھا۔ وہ جتنا مضبوط ہونے کی کوشش کرتی اُتنا اسے قسمت آزماتی آج تک وہ اس شخص کے خوف سے باہر نہیں آئی۔۔۔۔ تین سال پہلے اُس شخص نے جو اسکے ساتھ کیا آج تک سوچ کر اِسکا دل پہلے دن کی طرح کانپتا۔۔۔۔

شراب کے نشے میں دُھت وہ ایک لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالے گھر کے اندر داخل ہوا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ حجاب اپنا فون لینے گھر کے اندر آئی تھی وہ باہر ہال کی طرف جانے لگی جہاں میلاد ہو رہا تھا تبھی اسکی نظر رازی پر پڑی حجاب انہیں دیکھتے ہی پلر کے پیچھے چھپ گئی۔۔ رازی چلتے چلتے لڑکھڑا کر گرنے لگا تھا کہ ساتھ چلتی لڑکی نے سہارا دے کر اسے سنبھالا۔ رازی نے اس لڑکی کو جھٹکے سے پلر سے لگایا اور خود دونوں ہاتھ دائیں بائیں رکھ کے جانے کے سارے راستے مسترد کر دیے۔۔

” رازی یو آر نوٹ ان یور سینسز!!! روم میں جاؤ تمہارے ڈیدڈ نے دیکھا تو۔۔۔ “

” سو واٹ؟؟ کیا کریگا وہ؟؟ اب میں کمزور نہیں جس کو باپ کا سہارا چاہیے کمزور وہ ہے۔۔۔ گیٹ ڈھیڈ چلو میرے ساتھ بیڈ روم میں۔۔۔ “ ابراز نے اسکا ہاتھ سختی سے پکڑا لیکن اسکا دماغ لمحہ با لمحہ سن ہوتا جارہا تھا گرفت خود بخود ڈھیلی ہوتی گئی۔۔۔وہ پیچھے ہوا تو سامنے ہوا سے لہراتا دوپٹا اسکے دھندلے ہوتے عکس میں واضح ہوا ابریش نے ہاتھ بڑھا کے رازی کا ہاتھ تھامنا چاہا جو رازی نے فوراً جھٹک دیا اور دیوار کے ساتھ لگے وجود کی طرف بڑھا حجاب سہمی سے کھڑی تھی اس کے تو کبھی پشتوں نے بھی شراب تک کا نام نہیں لیا اور یہ شخص پی کر اسکے قریب کھڑا تھا۔۔۔

وہ دو قدم بڑھ کے آگے آیا تبھی اسے نقاب میں ملبوس لڑکی ملی وہ اور آگے آکر سیدھا اسکے سامنے آکھڑا ہوا وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگا۔۔

” رازی۔۔ “ ابریش نے اسے روکنا چاہا تو ابراز نے اپنے ہونٹ پر انگلی رکھ کے اسے چُپ ہونے کا اشارہ کیا۔۔ اسکی آنکھیں ادھ کھلی ادھ بند تھیں وہ نشے میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ باہر سے آتی آوازیں بھی اسے سنائی نہیں دے رہی تھیں۔۔

حجاب نے اپنی آنکھیں سختی سے میچی ہوئی تھیں اسکے تو فرشتے بھی رازی کی آمد سے بےخبر تھے باہر سے آتی شور کی آواز میں اسے ابریش کی آواز تک سنائی نہ دی۔لیکن جب حجاب کو آس پاس ایک گندی بو کا احساس ہوا اس نے فوراً آنکھیں کھولیں۔۔

” آ۔۔۔ آ “ زور دار چیخ ابراز کو ہونش کی دنیا میں لے آئی۔۔ ابراز اسکی خوف سے پھیلی آنکھیں دیکھ کر مسکرایا وہ جتنا ڈر رہی تھی ابراز کو اُتنی ہی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔۔

” رازی چھوڑو اُسے تم پاگل ہوگئے ہو۔۔ “

” شٹ اپ۔۔۔ ڈ۔۔۔۔ڈو۔۔۔ڈو۔۔۔نٹ ی۔۔۔یو ڈیئر ٹو انٹرفیئر ان مائے میٹر “ ابریش اسکی تیز آواز سن کر پیچھے ہوگئی۔۔ حجاب کا دل اسکی دھاڑ سن کر کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ اٹھا۔۔۔

” حجاب۔۔۔۔۔۔۔۔ تم دوست ہو۔۔ نہ مہوش کی۔۔۔ “ حجاب اپنا نام سن کر خوف سے پھیلی بھیگی آنکھوں سے اسے تک رہی تھی۔۔نجانے کیسا نشہ تھا جو ابراز کے دماغ پر سوار تھا۔۔ بےاختیار اسکا ہاتھ حجاب کے نقاب کی طرف گیا۔ وہ نقاب کے لئے لگی پٹ ہٹانے لگا تھا کہ حجاب نے لمحے کے ہزارویں حصے میں پرس سے بلیڈ نکالا اور اسکا ہاتھ زخمی کیا وہ کراہ کر پیچھے ہٹا تو حجاب نے دوڑ لگائی۔۔۔

اسے آج بھی وہ خوفناک دن یاد ہے ابراز اور اسکی پہلی ملاقات اگر وہ بلیڈ اسکے پرس میں نہ ہوتا تو۔۔۔ آج بھی سوچ کر اسکا دل کانپتا۔ اُس دن جویریہ اور وہ دونوں لیٹ آئے تھے اور آتے ہی مہوش انہیں اپنے روم میں لے گئی جہاں وہ اپنا فون بھول کر میلاد کے لئے نیچے آگئی تھی ۔۔ احساس تو اسے تب ہوا جب اسامہ نے فون کر کے اسے ڈانٹا کہ امی کی کال پک کر لے تبھی وہ سب کے ساتھ دعا مانگ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور مہوش کے روم میں جاکر اپنا فون لے آئی لیکن اسے کیا پتا تھا اسکے ساتھ ایسا واقع پیش ہوگا جو اسکا چین و سکون لے جائے گا۔۔۔۔۔

” تمہارے لئے سرپرائز ہے؟؟ “

مہوش حجاب کے کان میں چلاتے ہوے تقریباً اسکے کان کے پردھے پھاڑ چکی تھی۔۔۔

” پاگل ہو مہوش بہرہ کرنا ہے کیا؟؟ “ حجاب نے اپنا کان سہلایا ہمیشہ کی طرح وہ فل نقاب میں تھی۔۔۔ مہوش اور جویریہ کیفےٹیریا لنچ لینے گئی تھیں تبھی حجاب کو رانیہ اور ابراز والا واقعہ یاد آیا۔۔۔۔

” بہری ہوگئی تو میرا ہی نقصان ہے “ مہوش کہتے خود ہی ہنس دی اسے بےصبری سے حجاب کے ریکشن کا انتظار تھا۔

” اچھا وہ کیوں؟؟؟ “ جویریہ نے جوس کا ایک گھونٹ لیکر پوچھا۔۔۔حجاب نے نقاب اوپر کر کے برگر کا ایک بائٹ لیا نظریں مہوش پر تھیں۔۔

” آج شام پتا لگ جائے گا بےبی۔۔۔ “ مہوش نے زور سے جویریہ کا گال کھینچا حجاب اور جویریہ نے ایک دوسرے کو دیکھا وہ اتنی خوش تبھی ہوتی تھی جب خوشی کا مرکز کوئی اور ہوتا۔۔۔

لنچ کے بعد پوانٹ کے آتے ہی حجاب اور جویریہ چلی گئیں۔۔ مہوش بھی اُسی وقت ڈرئیور کو بلا کر گھر چلی گئی۔۔۔

☆.............☆.............☆

” السلام عليكم دادو مجھے یقین نہیں آرہا آپ۔۔۔ “ حجاب نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی سلام کیا اور دادو کے آگے سر جھکا کے دعا لی۔۔۔

” وعلیکم السلام صدا خوش رہو۔۔ ہنستی مسکراتی رہو۔۔۔ “

دادو نے اپنا ہاتھ حجاب کے سر پر رکھ کے دعا دی حجاب جگہ بناتی انکے پاس بیٹھ گئی۔۔۔ وہیں ڈبل صوفہ پر تاثیر صاحب سنجیدگی سے بیٹھے کسی سوچ میں گم تھے جبکی آمنہ کی نظریں زمین پر بیچھے قالین پر اٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔

” کیسی میزبان ہو کوئی خاطر داری ہی نہیں۔۔ “ مہوش کی بات سن کر جہاں حجاب مسکرائی وہیں دادو نے اسے جھانپڑ رسید کیا۔۔۔

” بیٹا تمہاری پسندیدہ ادرک والی چائے بنائی ہے ثنا بس لاتی ہوگی۔۔۔ “ آمنہ دھیما سا مسکرائیں۔ انکے آتے ہی آمنہ مہوش کی پسندیدہ چائے چولہے پر چڑھا کر آئی تھیں اور ساتھ ثنا کو پکوڑے اور کباب تلنے کا کہہ آئیں۔۔۔

” نہیں بیٹا تکلف کی ضرورت نہیں بس جس کام کے لئے آئے ہیں اُسکی رضا مندی دے دیں یہ تو ساری زندگی کھاتی رہے پھر بھی اسکا کنواں (پیٹ) خالی رہنا۔۔۔۔“

” صحیح کہا دادو۔۔۔ “ حجاب نے اُنکی ہاں میں ہاں ملائی۔ تاثیر صاحب نے جواب طلب نظروں سے آمنہ کو دیکھا جو حجاب کی مسکراہٹ دیکھ رہی تھیں آخر کیسے وہ جانتے بوجھتے اپنی بیٹی کو کنویں میں دھکیل دیتیں۔۔۔۔ تبھی لوازمات سے بھری ٹرے لیکر ثنا ڈرائنگ روم میں آئی۔۔۔

” مہوش آپی آپ کی پسندیدہ چائے، آپ آتی ہیں تو مجھے بھی امی کی بنائی چائے مل جاتی ورنہ پھر خود ہی بنانی پڑتی“ ثنا کہتے ساتھ سب کو چائے سرو کرنے لگی تب تک حجاب نے دادو اور مہوش کے لئے کباب پکوڑے اور سینڈ وچ پلیٹ میں نکال کر انکے سامنے رکھے۔۔۔۔۔

” لیں نہ دادو۔۔ “ حجاب کا یہ پیار بھرا اپنائیت سا انداز انکا ارادہ اور پکّا کر رہا تھا لیکن اب انہیں تاثیر صاحب اور آمنہ کی خاموشی سے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔

” آپ نے کیا سوچا بیٹا۔۔ “ دادو نے تاثیر صاحب کی طرف رُخ کیا۔۔ اب کے حجاب ٹھٹکی۔۔۔

” کس بارے میں دادو۔۔ “ ثنا نے مداخلت کی جس پر آمنہ نے آنکھیں دکھائیں بچوں کا بیچ میں بولنا انہیں سخت بُرا لگتا۔۔

” حجاب کو ہمیشہ کے لئے اپنی بیٹی بنانے کا۔۔۔ “ دادو نے محبت پاش نظروں سے حجاب کو دیکھتے ہوے کہا حجاب نے اپنی امی ابو کو دیکھا جن کے سر یہ بات سنتے ہی جھک گئے۔۔

” حجاب میں تمہارے لئے ابراز کا رشتہ لیکر آئی ہوں میں چاہتی ہوں یہ پھول صرف میرے آنگن میں رہے۔۔ تم بتاؤ بچے اگر ماں باپ راضی ہوں تو تمہاری رضامندی کیا ہوگی “ دادی نے دونوں میاں بیوی سے مایوس ہوتے اب کے حجاب کو گھسیٹا انھیں یقین تھا حجاب کا جواب انکے حق میں ہوگا۔۔

” دادو آئی ایم سوری کیا آپ سے کچھ پوچھوں؟؟ “ حجاب نرمی سے گویا ہوئی وہ اپنے ماں باپ کے جھکے سروں کا مطلب جان چکی تھی وہ خود بھی کبھی مر کر بھی اُس شخص سے شادی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ماں باپ کی خاموشی؟؟ وہ جان چکی تھی اس خاتون سے وہ ہچکچا رہے تھے جو بہت امیدیں لیکر انکے در پر آئی ہے۔۔۔

” آپ اپنی بیٹی کسی نشئ کو دینگی؟؟ جو رات کی تاریکی میں، گھر میں جوان بہن کے ہوتے ہوئے دوسری لڑکیوں کو لائے؟؟ جس کے لئے شراب نشہ کرنا عام بات ہو؟؟؟ جو نشے میں جان لیکر صبح انجان بن جائے؟؟ نشہ کرنے والا یہ نہیں دیکھتا دادو باپ ہے یا بھائی۔۔۔ “ حجاب انہیں دیکھتے بہت دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھی۔ دادو کا شرمندگی کے مارے سر جھک گیا انکا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں ۔۔۔ مہوش بھی غصّے، شرمندگی کے باعث مٹھی سختی سے بھینجے سن رہی تھی۔۔۔

” جسکا نہ دین ہے نہ ایمان ایسے انسان کو کون بیٹی دیگا؟؟

میرے ماں باپ خاموش ہیں کیوں کہ۔۔۔۔ “ مہوش سے یہاں بیٹھنا محال ہوگیا وہ اٹھی۔۔ اِسے اٹھتا دیکھ آمنہ بھی اٹھیں لیکن مہوش نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں روکا۔۔۔

” چلیں دادو۔۔ “ مہوش نے دادی کا ہاتھ تھام کے اٹھایا وہ بھی یہاں سے نکلنا چاہتی تھیں جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔

” مہوش۔۔ “ حجاب نے بھی روکنا چاہا لیکن مہوش کے سر پر تو جیسے خون سوار تھا۔۔۔۔

” پلیز حجاب۔۔۔ نوٹ آ سینگل ورڈ۔۔۔ “ وہ دادو کو لیکر وہاں سے نکلتی چلی گئی پیچھے حجاب کی آنکھیں چھلک پڑیں۔۔

” بیٹے “ وہ بابا کی پکار سن کر انکے گلے لگی۔۔۔

” نہیں میرے بچے تم نے کچھ غلط نہیں کیا غلطی ہماری تھی ہم بولتے لیکن وہ خاتون اتنی امیدوں سے آئی تھیں کہ میں کچھ بول ہی نہ سکا۔۔۔ “ تاثیر صاحب نے نرمی سے اپنا ہاتھ حجاب کے سر پر رکھا۔۔

” حجاب ساری زندگی رونے سے اچھا تھا بندہ ہمت کر کے منع کرے میں تو خود انکے آسرے بیٹھی رہی۔۔ “ حجاب کی ماں نے بھی گلے لگا کر اسکی پیشانی چومی۔۔ آمنہ کی بات سن کر تاثیر صاحب نے انہیں آنکھیں دکھائیں۔۔

” آئندہ آپ میرے آسرے نہ بیٹھنا۔۔ آپ جو کہیں گی ٹھیک ہی ہوگا۔۔ “ وہ دھیما سا مسکرا کے بولے ماں سے گلے لگتی حجاب نم آنکھوں سے مسکرائی۔۔ جبکے ثنا انکی نوٹنکی دیکھ کرمسکرائی اور ٹیبل سے سامان اٹھا کر کچن میں رکھنے لگی۔۔۔

☆.............☆.............☆

“ دادو ڈائٹ پر ہیں ؟؟ “

رازی نے فورک کی مدد سے تین چار فرائیڈ پران اپنی پلیٹ میں ڈالے۔۔۔ وہ ابھی نہا کر ڈائننگ ٹیبل پر آیا تھا آمنہ اور حیات صاحب کھانا شروع کر چکے تھے جبکے دادی بس برائے نام کھانا کھا رہی تھیں انہیں حجاب سے ایسے جواب کی امید نہ تھی لیکن سچ تو یہ تھا آج انکی لاڈلے پوتے کی وجہ سے انکا سر جھک گیا۔۔۔

” نہیں آج کی بےعزتی نے پیٹ بھر دیا۔۔ “ مہوش بلیک کافی کا مگ ہاتھ میں لیے رازی کے ساتھ والی کرسی پر آبیٹھی۔۔

” دادی کی؟؟ “

” یس برو۔۔۔ “ مہوش نے مزے سے کافی کا سپ لیا۔ اسے پتا تھا اِس کا اقرار ابراز کے غصّے کو ہوا دے گا۔۔

” واٹ؟؟ پوری بات بتاؤ۔۔۔ “ رازی نے زور سے فورک پلیٹ میں پٹخا اسکے لہجے کی سختی اور سنجیدہ چہرہ دیکھ کر مہوش مسکرائی۔

” ہونا کیا ہے؟ ہم تمہارا رشتہ لیکر حجاب کے یہاں گئے تھے۔۔ انکل آنٹی تو رشتے کا سن کر چپ رہے لیکن حجاب۔۔۔“ حجاب کا نام بولتے بولتے مہوش کے چہرے کے تااثرات سخت ہوئے۔۔ ابراز دانت بھینجے ضبط کی حدوں پر تھا۔

” حجاب نے دادو کی بہت انسلٹ کی اگر میں انھیں لیکر نہ آتی تو ضرور اُنکا ہارٹ فیل ہو جانا تھا۔۔۔ بقول حجاب کے تم جیسے شرابی نشئ کو کوئی بھی شریف انسان اپنی بیٹی نہیں دےگا۔۔۔ “ مہوش اب کے مسکراتی ہوئی کپ پر انگلی پھیرتی ابراز کے اندر جلتی آگ کو بھڑکا گئی۔۔۔۔ آمنہ ساس کی عزت افزائی کا سن کر دل ہی دل میں جھوم اٹھیں ساتھ حجاب نام کا کانٹا بھی نکل گیا جو انکے بیٹے کو ان سے دور کردیتا۔۔ وہ کل تک حیات صاحب کے سمجھانے پر زہر مار کر اس رشتے کے لئے راضی ہوگئی تھیں لیکن یہاں تو قسمت اِن پر خود ہی مہربان ہوگئی۔۔۔

” ماں آپ لوگ وہاں اپنا تماشا بنا کر آگئے؟؟؟ ارے وہ دو ٹکے کے لوگ انکی ہمت ہے ہمارے سامنے کھڑے ہو سکیں؟؟؟ ڈیم اٹ...

صرف ابراز کی وجہ سے میں مانا لیکن اسکی ضد سے زیادہ مجھے اپنی عزت عزیز ہے چھوڑونگا نہیں میں انہیں۔۔۔ “ حیات صاحب جو کب سے خاموش بیٹھے تھے بیٹے کے خلاف ایسے الفاظ اور ماں کی بے عزتی کا سن کر آگ بگولا ہوگئے۔ پلیٹ اٹھا کے زور سے نیچے پھینکی۔۔۔ انکے اس عمل کی امید کسی کو نہ تھی سب ہی سکتے کی عالَم میں بیٹھے رہے جبکے ابراز مٹھیاں بھینچتا پلیٹ دور کھسکا کر ٹیبل سے کار کی چابی اٹھا کر گھر سے نکل گیا۔۔۔

” رازی اسٹاپ۔۔۔ رازی۔۔۔۔ “ اسکا باپ پیچھے سے چلاتا رہا وہ ان سنی کر گیا۔۔۔

” تجھے منہ کھولنے کی ضرورت تھی ؟“ دادی نے ایک غصیلی نظر سے مہوش کو نوازا۔۔۔

” دادو اپنی بے عزتی برداشت کر سکتی ہوں لیکن آپ کا جھکا چہرہ میں نہیں بھولی۔۔۔ “ غصّے، غم کی شدت سے اسکی آواز بھرا گئی۔۔۔ وہ بھی اٹھ کے وہاں سے چلی گئی اسکے جاتے ہی حیات صاحب بھی اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔

” تو کیا یہاں بیٹھ کے کھا رہی ہے سب بھوکے چلے گئے جا جاکر حیات کو دیکھ کوئی اچھی امید نہیں مجھے حیات سے۔۔ وہ عزت دار لوگ ہیں اُسے سمجھا کے کچھ نہ کرے۔۔۔۔ “ دادی بھی اپنا سارا غصّہ آمنہ پر نکال کر چھڑی لیکر اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔

” جیسا بیٹا ویسی ماں بیٹے کے کرتوت پتا لگیں تو یہ کھوکلی عزت مٹی میں مل جائے۔۔ “ آمنہ لہو رنگ آنکھوں سے دادو کو دور جاتا دیکھتی رہیں آنکھوں میں بےتحاشا نفرت تھی۔۔۔

☆.............☆.............☆

وہ صبح نماز کے لئے اٹھی تو اِسکا شوہر کہیں نہیں تھا۔ رات کا منظر یاد آتے ہی اسے خود پر حیرت ہوئی لگ رہا تھا جیسے وہ کسی خواب کی کیفیت سے بیدار ہوئی ہے۔۔۔ وہ اپنی سوچوں کو جھٹک کر بالوں کا جوڑا بنا کر اٹھی وضو کیا اور نماز ادا کی۔۔۔

” وہ کہتا ہے میں بدل گیا ہوں۔۔ اگر بدل گیا ہے تو کہاں ہے؟؟ آج پھر وہ اپنے جیسی عورتوں کے پاس گیا ہے۔۔۔ ایسے انسان کبھی نہیں بدلتے۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ آج مجھے جھکا کر وہ چلا گیا۔۔۔ لیکن میں جھکنے والوں میں سے نہیں وہ مر بھی جائے تب بھی کبھی اقرار نہیں کرونگی یہ راز صرف میرے اندر دفن رہےگا کہ میں ایسے انسان سے محبت کرتی ہوں جو میری محبت کیا؟؟ نفرت کے لائق بھی نہیں۔۔۔ عائشہ کہتی ہے میں نیکی کا تکبر کرتی ہوں نہیں میں نیکی کا تکبر نہیں کرتی لوگوں کو انکا اصل چہرہ دکھاتی ہوں جسے تنہائی میں دیکھنے سے بھی وہ ڈرتے ہیں۔۔۔ میں نہیں کرتی غرور میں سچ کہتی ہوں جو اُنھیں کڑوا لگتا ہے اور وہ کہتی ہے میں خوش نصیب ہوں ایسا شوہر پا کر لیکن مجھ سے برا بدنصیب کون ہوگا؟؟ وہ پاگل انجان ہے اُس نے محبت جگا تو دی میرے دل میں لیکن وہ اُس شخص کے دل میں نہیں جگا سکتی جو صرف خود سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ “ وہ دعا مانگ کر آنسو پونچھ کر اٹھ کھڑی ہوئی جائےنماز رکھتے وہ پیچھے مُڑی تبھی دروازہ کھول کر اس کا شوہر شلوار قمیض میں ملبوس اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔

” تم۔۔۔ تم تو چلے گئے تھے؟؟ “ وہ اسے یکدم سامنے کھڑا دیکھ بوکھلا گئی۔۔

” تو واپس نہیں آسکتا؟؟ “ وہ قدم اٹھاتا اسکے قریب تر آرہا تھا۔۔۔

” تمہیں کیا لگا عیاشی کرنے گیا ہوں “ وہ اس کے اسقدر قریب آگیا کہ اسکی بیوی کا سر اسکے دل سے ٹکرایا۔ اسکا قد بمشکل شوہر کے دل تک آتا۔۔۔ وہ اسکی طرف جھکتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا ہونٹوں پر ایک بےبس سے مسکراہٹ تھی۔۔ اسکی بیوی شرمندگی سے نظریں جھکا گئی

” عرصہ ہوا ہے۔۔ ایک لڑکی نے دل پر قبضہ جمالیا تب سے یہ دل بےبس ہے کہیں اور جانے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔۔ “ خاموش پاکر اسکے شوہر نے محبت سے اسکی پیشانی چومی۔۔۔۔ وہ اسکی سوچ سے کیسے انجان رہ سکتا ہے پل پل تو اِسی کو پڑھتا آیا ہے۔۔۔

” ان چھ سالوں میں ایسی سکون بھری نیند لی تھی؟؟ “ بات بدلنے کو اسنے کل رات والا واقعہ دہرایا

” نہیں “ اپنے دونوں ٹھنڈے ہاتھ اسنے شوہر کے سینے پر رکھ دیے۔۔

” تم کہاں چلے گئے تھے صبح؟؟ “ اب وہ اسکی قمیض کے بٹنوں کو چھیڑ رہی تھی۔۔ اسکا شوہر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا جس سے وہ کنفیوز ہوکر نظریں جھکا گئی۔۔۔۔

” تم نے مس کیا؟؟ “ پل بھر کو اسنے اپنے شوہر کو دیکھا اور واپس نظریں جھکا لیں ہونٹوں پر خوبصورت شرمگیں مسکراہٹ تھی۔۔۔۔

” تم پاس نہیں تھے تو میں گھبرا گئی۔۔۔ “

” ہمیشہ رہونگا اگر اجازت دو تو۔۔۔ “ وہ اسکی طرف جھکتا ہوا معنی خیزی سے بولا۔۔

” آج تک مجھ سے کب اجازت لی ہے۔۔۔ “ اسکی بیوی نے خفگی سے کہتے ہی اسے دور دھکیلا اور بیڈ کی سائیڈ کورنر پہ جاکر بیٹھ گئی۔۔۔

” اگر احتشام اور پرنیا کی بات ہے تو وہ میرا حق ہے، چلو تھرڈ جو آیا تمہاری مرضی سے ہوگا “ دھیرے دھیرے اسکی طرف قدم بڑھاتے وہ اسکے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ رہا، آنکھیں حیا سے جھکی ہوئی تھیں ناک اور گال کچھ شرم اور سردی کی شدت سے سرخ پڑ چکے تھے وہ ایک گھٹنے کے بل ٹھنڈی زمین پر اسکے ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

” آج سے پہلے تم کہاں تھیں؟؟؟ یہ خوبصورت منظر دیکھنے کے لئے جتنا میں تڑپا ہوں تم جان بھی نہیں سکتی ساری دولت لوٹا دوں تب بھی فائدہ نہیں یہ منظر دنیا کی کوئی دولت خرید نہیں سکتی۔۔۔۔ “ وہ خاموش رہی شوہر کی باتیں سن کر ویسے ہی اسکا دل تیز دھڑک رہا تھا اب تو اسنے آنکھیں بھی سختی سے میچ لیں۔۔۔۔۔

” محبت ہے شوہر سے۔۔۔ “ سوال ایسا تھا کے وہ اسے دیکھنے پر مجبور ہوگئی پوری آنکھیں کھولے وہ اسے تک رہی تھی۔۔۔۔

” ایسے دیکھ رہی ہو جیسے موت کی خبر سنا دی۔۔۔ “ دکھ بھرے لہجے میں کہہ کر اس نے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھنے چاہے تو اسکی بیوی نے ارادہ بھانپتے ہی جھٹ سے ہاتھ کھینچے۔۔۔

” سوری “ وہ اپنی بےاختیاری پر جی بھر کے شرمندہ ہوئی۔۔۔

اسکے شوہر کے چہرے پر بل بھر کو مسکراہٹ آکر غائب ہوگئی جیسے اسی جواب کی امید تھی۔۔۔

” میرے لیے دعا کروگی؟؟ “ وہ امید لگائے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے گویا ہوا۔۔۔۔

” جی۔۔ جی “ نجانے کیسا ڈر و خوف تھا جو ابھی تک اسے جکڑے ہوئے تھا شوہر کی کسی بات پر اسکی بیوی کو اعتبار نہ تھا۔۔۔

” دعا کرنا میں ہار جاؤں زندگی کی پہلی بازی ہے جو میں ہارنا چاہتا ہوں آج تک صرف جیتنے کی خوائش کی ہے آج پہلی مرتبہ میں نے اُس سے ہارنے کی خوائش کی۔۔۔ تم بھی بولوگی تو وہ میری دعا ضرور قبول کرےگا۔۔۔ میں جیتنا نہیں چاہتا اگر میں جیتا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھونگا۔۔۔ جو مجھے بہت عزیز ہے بہت۔۔۔ “ وہ اسکا ہاتھ جو گودمیں رکھا تھا نرمی سے سہلاتے ہوے کہہ رہا تھا۔۔ اسکی بیوی کو اسکی آواز رندھی ہوئی لگی۔۔۔۔

” میرے کپڑے نکال دو آٹھ بجے کی فلائٹ ہے، ارجنٹ پہنچنا ہے وہاں میٹنگ اٹینڈ کر کے چار بجے تک لوٹ آؤنگا “ وہ کہتا ہوا اسکا ہاتھ چھوڑ کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” جانی کیا ہوا چل نہ ڈانس کرتے ہیں “ سیم نے جو نشے میں دھت ڈانس میں مشغول تھا آکر ابراز کے کان میں گھس کر کہا جو بار ٹیبل کے پاس بیٹھا شراب کا گلاس ہاتھ میں لیے کسی گہری سوچ میں تھا۔۔۔

” میرے باپ کی شادی ہے جو ناچوں؟؟؟ “ وہ بھڑک اٹھا۔ آج یہ شراب بھی اسکے اندر کی آگ کو بجھا نہ سکی۔۔۔

” انھیں شادی کی ضرورت ہے؟؟؟ “ سیم خباثت سے مسکراتا اسے بہت کچھ جتا گیا۔ ابراز جو پہلے ہی غصّے کی آگ میں جل رہا تھا اٹھا اور بغیر کسی کی پروا کیے لگاتار گھونسے اسکے منہ پر دے مارے۔۔۔

” سر رُکیں۔۔۔ “ ایک ویٹر نے رازی کا ہاتھ پکڑا جس پر رازی نے ہاتھ چھڑوا کے اسے دور دھکیلا اور کلب سے باہر نکل آیا سیم شراب کی وجہ سے بے ہوش ہو چکا تھا۔۔۔

وہ کلب سے باہر نکلتے ہی کار میں آبیٹھا گاڑی گھر کی طرف روانہ تھی جو یہاں سے بمشکل دس منٹ کے فاصلے پر تھا۔۔۔

گھر پہنچتے ہی نہانے کے بعد بھی جب اسکا غصّہ کم نہیں ہوا تو وہ جم میں چلا آیا جو اسکی ضد پر اسکے باپ نے بنوایا تھا وہ اکثر یہاں آکر اپنا غصّہ ٹھنڈا کرتا۔۔۔۔۔ یہاں طرح طرح کی مشینز تھیں جو ابراز نے اپنے مطابق منگوائی تھیں جن میں ٹریڈ مل، کیبل رو، چیسٹ فلائے، شولڈر پریس، بائیسپس کرل بینچ شامل تھیں۔۔۔۔

اندر آتے ہی رازی نے سب سے پہلے پنچنگ گلوس پہنے وہ اس وقت بلیک ٹراؤزر اور بلیک ویسٹ میں ملبوس تھا۔۔ بال بے ترتیبی سے پیشانی پر بکھرے پڑے تھے۔۔۔ اس وقت اسکی آنکھوں میں پنچنگ بیگ دیکھتے ہی خون اُتر آیا عبائے میں ملبوس چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔

” حجاب تاثیر “ بڑبڑاتے ہوے اسنے زور سے ہاتھ کا مکا بنا کر پوری قوت سے پنچنگ بیگ پر دے مارا پھر وہ رکا نہیں تھا دونوں ہاتھوں سے تب تک مارتا رہا جب تک تھک نہیں گیا۔۔۔

ابھی بھی وہ بُری طرح اپنا غصّہ پنچنگ بیگ پر نکال رہا تھا اسکا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا۔۔۔دونوں ہاتھ سے پنچنگ بیگ تھام کر وہ رکا آنکھوں میں نفرت تھی بے انتہا نفرت۔۔

” حجاب تاثیر تمہیں میں نے بےحجاب نہ کیا تو میرا نام ابراز حیات نہیں۔۔۔۔۔ “ پنچنگ بیگ کو ایک آخری پنچ سے نوازتے اس نے گلوس اُتار کے دور پھینکے۔


☆.............☆.............☆


وہ مہوش کو لینے یونی آیااور اسے اپنے ٹیچر سے بھی ملنا تھا جو کل کی فلائٹ سے پاکستان کی سر زمین کو چھوڑ کے ہمیشہ کے لیے کینیڈا شفٹ ہو رہے تھے۔۔ وہ اندر کی طرف جا رہا تھا کہ اسکی نظر ہنستی مسکراتی حجاب پر پڑی جو بہت احتیاط سے نقاب ہلکا سا اوپر کر کے سموسہ کھا رہی تھی تاکہ چہرہ کسی کی نظر میں نہ آئے اور آگے چائے کے دو کپس رکھے تھے۔۔۔ وہ اسے پر سکون دیکھ کر دھندناتا ہوا اسکے سر پر جا کھڑا ہوا۔

” سمجھتی کیا ہو خود کو؟؟ تم نے مجھے؟؟؟؟ مجھے؟؟؟؟ ابراز حیات کو ریجیکٹ کیا؟؟ ہے کیا تم میں؟؟ کس بات کا غرور ہے؟؟ نہ دولت ہے نہ شہرت گلی کا کوئی پالتو جانور تک تمہارے باپ کو نہیں جانتا۔۔۔ “

رات بھر کا جاگا وہ نفرت کی آگ میں جلتا رہا۔۔ اپنے اندر کی نفرت اپنے لفظوں سے اگل رہا تھا۔۔ رازی نے آتے ہی اسکا بازو پکڑ کے نفرت بھرے لہجے میں کہا ساتھ ٹیبل پر رکھے پلاسٹک کے کپس دور اچھالے۔

” عزت دار لوگ جانتے ہیں شریف انسان ہیں میرے ابو گلی کا ہر شریف انسان انھیں جانتا ہے ہاں تم جیسے شرابی، انھیں نہیں جانتے افسوس۔۔۔ کیوںکہ تم لائق نہیں برائی میں رہنے والے نیکی اور نیک لوگوں سے انجان رہتے ہیں۔۔ اور رہی بات غرور کی تو ہاں ہے تم میرے نزدیک ایک چیونٹی کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے، تمہیں جانتا کون ہے؟؟ شہر کے مشہور لوگ؟؟؟ ایک بات بتاؤ اللہ‎ تمہیں جانتا ہے؟؟ کبھی حاضری لگائی ہے اسکی بارگاہ میں؟؟ نہیں نا۔۔ افسوس خدا تم جیسے لوگوں کو اپنے پاس بلاتا بھی نہیں گناہ کی دنیا میں رہنے والے لوگ نیکی کی مہک سے بھی انجان رہتے ہیں۔۔۔۔۔ “ وہ سانس لینے کو رکی اسکی تنفس بڑھ رہا تھا۔۔

” اب تم بتاؤ تمہاری ہمت کیسی ہوئی رشتہ بھیجنے کی؟؟ تم میں ہے کیا؟؟ کوئی ایک اچھی عادت؟؟ کوئی ایک نیکی؟؟ کبھی احترام کیا ہے بزرگوں کا؟؟ نہیں نا؟؟ تم تو اپنے باپ تک کو نہیں پوچھتے اور دنیا کے سامنے انکے بل بوتے پر ہوئی جیت کی فتح مناتے ہو؟؟ تم سے دوغلا منافق کون ہوگا؟؟ جسکا پور پور شراب میں ڈوبا ہوا ہے تم جیسا شخص آبِ حیات سے بھی نہالے تو گندگی کی بو نہیں جائے گی رشتہ تو بہت دور کی بات تم جیسے شخص سے میں بات تک نہ کروں انڈر اسٹینڈ؟؟ دوبارہ میرے راستے میں آئے تو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوگے “ زندگی کے اٹھائیس سال اسکی آنکھوں میں کسی فلم کی طرح چل رہے تھے اسکی آنکھیں آج پہلی بار جھکی تھیں شرم سے نہیں بلک ذلت سے۔۔ نجانے کیوں آج اسکے پاس کوئی جواب نہ تھا۔۔۔ اسکی کسی ایک بات کا جواب تک ابراز حیات کے پاس نہیں تھا۔۔۔۔ اسکا بچپن۔۔۔ اسکی پوری کی گئی ہر ضد۔۔۔ اسکی خوائش۔۔ لوگوں کی آنکھوں میں رشک اسکی اچیویمنٹس۔۔ سب کسی فلم کی طرح اسکی آنکھوں کے آگے گھوم رہا تھا پھر یکدم وہ رات جس نے اسے تین سال بےچین کیا ہاں وہ رات۔۔۔ نفرت ہے اِسے اُس رات سے اِس لڑکی سے۔۔۔ یکدم ابراز حیات نے اپنی آنکھیں کھولیں اسکی آنکھوں میں شرمندگی نہیں بلکہ۔۔ بلکہ جیت تھی وہ سمجھ نہیں پائی لیکن اگلے ہی لمحے اس شخص نے اسے بےنقاب کردیا۔۔۔ایک پل ضائع کیے بغیر وہ پن ہٹا دی جسکی وجہ سے اسکارف کا وہ حصہ ڈھلک گیا اور حجاب کا خوبصورت چہرہ اسکی آنکھوں میں حفظ ہوگیا۔۔۔۔ لیکن اگلے ہے لمحے بھاری تھپڑ کی آواز نے سب کے ہونش اڑا دیے۔۔۔

” تم منافق ہی نہیں کافر بھی ہو۔۔۔۔۔“ حجاب پاگلوں کی طرح چیخی اسکا سانس پھول رہا تھا اس نے تیر کی تیزی سے کپڑا اُسی جگہ کر کے ہاتھ سے نقاب پکڑا۔ آج سے پہلے کبھی اسے رسوائی کا احساس نہیں ہوا، آج پہلی بار کیا کچھ نا محسوس کیا ذلت، شرمندگی، اس پل اس نے موت کی شدت سے دعا کی۔۔ اسے اپنے جسم سے روح نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ آج اس شخص نے اسے بےنقاب کردیا۔۔۔لیکن اسے لگ رہا تھا آج وہ بےحجاب ہوگئی۔۔۔

” اللہ‎ کی لعنت ہو تم جیسے حیوان پر۔۔ “ حجاب نے دوسرے ہاتھ سے اسکی شرٹ کا کالرجکڑا اسکی لہجے سے جھلکتی نفرت اور عمل نے مہوش کو سرتا پا سلگا دیا جو اپنے بھائی کے عمل کو منہ کھولے دیکھ رہی تھی وہ کفےیٹیریا میں آئی تھی تب جب ابراز اسے ڈھونڈتا یہاں آیا تھا۔

” ہاو ڈیر یو تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بھائی پر ہاتھ اٹھانے کی صحیح کہتا ہے وہ کیا حیثیت ہے تمہاری؟؟ “ مہوش نے زور سے اسکا ہاتھ جھٹکا جویریہ جو بت بنی کھڑی تھی فوراً الرٹ ہوئی اسے پتا تھا مزید تماشاہ انہیں یونی سے نکلوا دیگا آخر وہ ان امیروں کی حیثیت سے واقف تھی

” حجاب چلو “ جویریہ نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔۔

” لیو میں جویریہ۔۔“ حجاب نے غصّے سے اسکا ہاتھ جھٹکا

” تو اپنے آوارہ بھائی کو بولو مجھ سے دو رہے ورنہ۔۔“ نفرت و حقارت اسکے لہجے سے چھلک رہی تھی۔۔۔

” چلو حجاب۔۔۔ “ جویریہ منت پر اُتر آئی لیکن حجاب اپنی جگہ سے نہ ہلی۔۔۔۔ جبکہ حجاب کے اس لہجے نے مہوش کے غصّے کو اور بڑھاوا دے دیا

” جلتی آگ میں تم نے خود کو جھونکا اب دیکھنا اپنا حشر میرا بھائی دوستوں کو نہیں چھوڑتا تم تو پھر۔۔۔ تمہاری بربادی کا آغاز ہو چکا ہے حجاب تاثیر۔۔۔ “ مہوش نے اسے انگلی اٹھا کے وارن کیا۔۔جبکے جویریہ اسکا ہاتھ پکڑتی اسے کےفیٹیریا سے باہر لے آئی۔۔۔


☆.............☆.............☆


ابراز نے مہوش کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔ کےفیٹیریا میں بیٹھے سارے لوگ اسی کو دیکھ رہے تھے ان میں سے کچھ وہ چہرے بھی تھے جو ابراز کو ایز آ سینیئر ریسپیکٹ دیتے تھے۔۔ آج ابراز نے صرف اپنے اِس غصّے کی وجہ سے پانچ سال کی بنائی ریپوٹیشن لمحوں میں گنوا دی۔۔۔۔ کوئی اسے نفرت تو کوئی اسے حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

” اتنا دُکھ تھا تو آکر اُسے بچاتے “ پھنکار کر کہتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ مہوش نے فوراً حیات صاحب کو کال ملائی۔۔۔

” آئ ڈونٹ کیئر وہ لڑکی مجھے چاہیے ایک گھنٹے کے اندر جہاں سے چاہے ڈھونڈ کے لاؤ لیکن یاد رکھنا۔۔۔ ایک گھنٹہ۔۔ صرف ایک گھنٹہ۔۔۔ اگر میرے سامنے نہ ہوئی تو دیکھنا تمہارا کیا حشر کرتا ہوں۔۔۔ “ حیات صاحب کے مینیجر کو کال کرنے کے بعد حجاب کی ساری انفارمیشن اس نے ٹیکسٹ کی۔۔۔ غصّے کی شدت سے اسکے بازو تک کی نسیں واضح ہو رہی تھیں۔۔ اسے حجاب نام سے ہی نفرت ہوگئی اگر وہ اس وقت اسکے سامنے ہوتی تو وہ اسے اپنی گاڑی تلے کچل دیتا

” حجاب تاثیر ایک دفعہ میرے ہاتھ آجاؤ وہ حال کرونگا تمہاری نسلیں کانپ اٹھیں گی۔۔۔ “ اسئٹرینگ کو زور سے تھامے اسکے انگ انگ سے نفرت چھلک رہی تھی دل میں خوائش جاگی کاش وہ سامنے ہوتی اور وہ اُسے بری طرح کچل ڈالتا اپنی اس شیطانی سوچ پر اسے خوشی محسوس ہو رہی تھی لیکن انسان کیا جانے قسمت میں کیا لکھا ہے؟؟؟ دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارنے والا کیا جانے کے موت اسے خود اپنی لپیٹ میں لینے کو اس کے سر پر کھڑی ہو۔۔۔۔۔ اور یہی ہوا تھا اگلے لمحے اسکی کار ُبری طرح سامنے آتی کار سے ٹکرا گئی۔۔۔۔

دو گھنٹے سے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ زندگی اور موت کے بیچ جھول رہا تھا۔۔ دوسرے کو جھکانے والا آج خود کسی کے در پر سوالی بنا کھڑا ہے کون جانتا ہے اگلے لمحے کون سا طوفان آئے گا؟؟ انسان بس ایک کٹھ پتلی ہے اس میدان میں زندگی سنوارنے والی تو خدا کی ذات ہے۔۔۔۔

حیات صاحب کاریڈور میں چکر لگاتے اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے دعا گو تھے۔ مہوش انہیں ابراز کے غصّے سے آگاہ کر چکی تھی ساتھ مینیجر کی کال نے انکے پسینے چھڑوا دیے اگر حجاب کو انکا بیٹا کڈنیپ کر لیتا تو سالوں کی بنائی عزت مٹی میں مل جانی تھی سب کا شک ابراز پر ہی جاتا۔۔ وہ اسی کشمکش میں الجھے تھے کہ ایک انجان نمبر سے کال آئی ابراز کے والٹ میں موجود انکے وزیٹنگ کارڈ کو ڈھونڈ کر اُس انجان آدمی نے انہیں ابراز کے ایکسیڈنٹ کی خبر دی وہ اتنے پریشان تھے کہ گھر کال کر کے بھی اطلاع نہیں دی۔۔۔

“ آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ڈاکٹر نے آپ کو اندر بلایا ہے۔۔“

نرس کے اطلاع دینے پر وہ فوراً تیز قدم اٹھاتے اندر چلے آئے۔۔۔۔

” انہیں ہوش آگیا ہے فکر کی کوئی بات نہیں یہ بالکل ٹھیک ہیں آپ انہیں شام تک گھر لے جا سکتے ہیں۔۔ “ ڈاکٹر نے ابراز کے بازو پر انجکشن لگاتےکہا اور ساتھ ہی اسکی کیس فائل لیکر روم سے نکل گئیں۔۔۔

” ابراز۔۔۔۔۔ میرے بچے۔۔۔ “ حیات صاحب جو ایک مضبوط دل کے مالک تھے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ انکی بھی آنکھیں نم ہوگئیں۔۔۔۔

” ڈیڈ۔۔ “ ابراز نے باپ کی آواز سن بمشکل آنکھیں کھولیں۔۔۔۔ آنکھیں کھول کے ارد گرد کا جائزہ لیا تو جیسے ذہن بیدار ہوا۔۔۔

” ہاں بولو میرے بیٹے۔۔۔ “ ابراز نے گردن انکی طرف موڑ کر بےبسی سے اپنے ہونٹ کاٹے۔۔۔ پھر یکدم آنکھیں کھول کر تیز لہجے میں بولا۔۔۔۔

” نہیں میرے سامنے یہ ناٹک نہیں مجھے حجاب تاثیر چاہیے ابھی۔۔۔ “ پٹی میں جکڑا ہاتھ زور سے بیڈ پر مارا تاثیر صاحب سمجھ گئے وہ انکی ایک نہیں سنے گا اور اسکا خود کو نقصان پہنچانا انہیں تکلیف دیتا ہے۔۔۔

” دیکھو اگر اسے کڈنیپ کیا تو پہلا شک تم پر ہی جائے گا تم سمجھ کیوں نہیں رہے میں نہیں چاہتا تمہیں کوئی سزا ہو۔۔ “

وہ بےبسی کی انتہا پر تھے انکا بیٹا اپنی ضد سے انہیں پاگل کر رہا تھا۔۔۔

” سزا سہنے کی عادت ہے بچپن سے سہتا آرہا ہوں۔۔۔ آپ مجھے تاثیر۔۔۔۔ اُس حجاب کے باپ کے پاس لے جائیں ورنہ اس دفعہ بچ گیا اگلی دفعہ نہیں بچوں گا۔۔۔ “ اور ابراز کی دھمکی کام کر گئی۔

” رات تک کا ویٹ کرو میں انتظام کرتا ہوں “ اسکی پیشانی چوم کر حیات صاحب نے نرمی سے کہا ابراز نے انکا ہاتھ جھٹک کر آنکھوں پر بازو رکھا اسکا ایک ہاتھ بری طرح فریکچر تھا اور ماتھے پر پٹی بندھی تھی۔۔۔ صرف ٹانگیں محفوظ تھیں۔۔۔

تاثیر صاحب کا گندم اور چاولوں کا چھوٹا سا کارخانہ تھا جس میں انکے تین بھائیوں کا حصہ تھا سب ساتھ مل کر کاروبار چلاتے تھے۔ وہ رات کے پہر گوداموں میں ایک آخری چکر لگانے آئے تھے کہ کچھ لوگ آکر انکے گوداموں میں گھس گئے۔۔

” ارے کیا کر رہے ہو؟؟؟ کون ہو تم لوگ کس سے پوچھ کے گھس آئے۔۔۔ “ تین اچھے خاصے پہلوانوںکی سی جسامت والے آدمی آکر خاموشی سے کھڑے ہوگے جیسے کسی کے حکم کا انتظار ہو؟؟

” باراتی ہیں اجازت تھوڑی لیں گے؟؟ بس لے اُڑینگے۔۔۔ “ ابراز کی آواز سنتے ہی وہ پیچھے مُڑے تبھی انکی نظر حیات صاحب پر پڑی وہ ابراز کو تو نہیں لیکن حیات صاحب کو اچھی طرح جانتے تھے۔۔۔۔۔ ابراز کے اشارے پر انکے ساتھ آتے تینوں لوگوں نے تین کرسیاں دو آمنے سامنے اور ایک بیچ میں رکھی تینوں کرسیوں کے بیچ چار پانچ قدم کا فاصلہ تھا۔۔۔۔۔

” کون ہو تم؟؟ “ تاثیر صاحب نے ڈائریکٹ ابراز سے پوچھا انکی چھٹی حس پہچان چکی تھی وہ کون ہو سکتا ہے؟؟

” آپ کا ہونے والا داماد۔۔۔۔ “ کہتے ہی وہ چیئر پر آ بیٹھا ساتھ تاثیر صاحب کو بھی اشارہ کیا جنہوں نے نظر انداز کر دیا۔۔۔

” بکواس بند کرو “ وہ دھاڑے تبھی ابراز کے اشارے پر ایک آدمی نے انہیں زبردستی پکڑ کے بٹھایا۔۔۔

” تاثیر صاحب سنا ہے آپ کا بیٹا بہت زہین ہے آپ کی آخری امید ہے۔۔۔۔ بڑھاپے کا سہارا۔۔۔ اگر وہ نہ رہے تو؟؟ ابراز نے ٹانگ پر ٹانگ رکھے کہا ایک ٹانگ میں شدید درد کا احساس ہوا جو اسنے اوپر رکھی تھی۔۔۔۔۔۔

” تم ہوش میں ہو؟؟ “ ایک بار پھر وہ چلا اٹھ کھڑے ہوئے

” یار بیٹھاؤ انہیں پورے بیگم صاحبہ پر گئے ہیں وہ بھی انہی کی طرح جذباتی ہے۔۔۔۔ اپنا نقصان کرنے والی۔۔۔“ مزاحیہ انداز میں کہتے آخر میں وہ سنجیدہ ہوا۔۔۔۔۔۔

آدمی نے پھر تاثیر صاحب کو بٹھایا اور انکے پاس آکھڑا ہوا تاکہ وہ اٹھ نہ پائیں تاثیر صاحب خاموش بیٹھے رہے۔۔ کیوںکہ جانتے تھے عقلمندی اسی میں ہے۔۔۔

” کول ڈاؤن تاثیر صاحب۔۔۔۔ آج تک میرے باپ نے بھی مجھ سے اس لہجے میں بات نہیں کی جس لہجے میں تمہاری بیٹی بکواس کر کے گئی ہے۔۔۔ “ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں وہ گویا ہوا۔۔۔

” جس طرح آپ کا بیٹا آخری امید ہے اسی طرح میں اپنے باپ کی آخری امید ہوں اگر مجھے کچھ ہوا یا میں نےخود کو نقصان پہنچایا تو ڈیڈ لاشیں گرا دیں گے آپ کے خاندان کی۔۔۔ “ ابراز کا ایک ایک لفظ انکے دل میں ہوتا درد مزید بڑھا رہا تھا وہ بےخوفی سے اپنا زہر اگل رہا تھا جو حجاب تاثیر کا تھپڑ اسکے اندر بڑھا گیا۔۔۔

” تو میری بات غور سے سنیں حجاب تاثیر آپ کی بیٹی کل تک اسے راضی کریں مجھ سے نکاح کے لئے۔۔ ورنہ یقین جانیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے راتوں رات غائب ہوجائے گی آپ کی بیٹی۔۔۔۔۔۔ ملی بھی تو پہلے کی طرح۔۔۔۔۔۔۔“ وہ رکا۔۔۔۔اسکی ہنسی تاثیر صاحب کو زہر سے بھی زیادہ زہریلی لگی۔۔حیات صاحب خود اپنے بیٹے پر شرمندگی کے بجاے فخر کر رہے تھے۔۔

” آپ سمجھ گئے ہونگے۔۔ “ کہتے ہی وہ اٹھا اور قدم بڑھاتا انکے سامنے آن کھڑا ہوا

” اور ہاں یہاں سے بھاگنے کا سوچنا بھی مت یہ شہر ڈیڈ کے انڈر کنٹرول ہے اتنی تفصیل کبھی پیپر میں لکھ کر نہیں آیا اب بھی کھوپڑی خالی ہے تو یاد رکھنا بیٹا ہوگا ڈرگز کے کیس میں سلاخوں کے پیچھے، بیٹی۔۔۔۔ “ ابراز نے انکے سر پہ دو انگلیوں سے ٹھونگ لگاتے کہا اور قہقہہ لگا کے ہنسا اور ہنستا چلا گیا تاثیر صاحب کا ایک ہاتھ نیچے ڈھلک گیا بیٹی کا سن کر انکی روح کانپ اٹھی انکی آنکھ سے ایک ننھا سا موتی گال پر پھسلا۔۔۔

” چلیں ڈیڈ “ رازی کے اشارے پر تینوں لوگ الرٹ ہوکر اسکے پیچھے چل دیے حیات صاحب سینا چوڑا کر کے فخر سے بیٹے کے پیچھے چل دیے۔۔

” بابا۔۔۔ “

اسامہ بھاگتا ہوا آیا جیسے ہی اس نے باہر دو گاڑیاں کھڑی دیکھیں وہ فوراً گودام کے اندر باپ کے پاس آیا اور انہیں روتا دیکھ وہ خود نڈھال ہوگیا۔۔۔


☆.............☆.............☆


” گڈ ایوننگ میم۔۔۔ “ وہ بچوں کو ٹیوشن چھوڑ کر گھر کے لیے نکلی تھی۔ ابھی وہ ایک اسٹاپ پر رکی تھی کے اسے اپنے شوہر کے آفس سے کال وصول ہوئی جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔۔۔

” گڈ ایوننگ جی کہیں آج مجھے کیسے یاد کیا؟؟؟ “ فون رسیو کرتے ہی وہ نہایت مؤدب لہجے میں گویا ہوئی

” میم وہ سر امپورٹنٹ میٹنگ میں ہیں انھیں ارجنٹ ایک فائل چاہیے جو انہوں نے آپ کی کار میں رکھی تھی۔۔۔ “ وہ لڑکی ایک ہی سانس میں بولتی اسے حیران و پریشان کر گئی۔۔۔

” میری کار؟؟ آر یو شیور؟؟ ان کی اپنی کار ہے میری کار میں کیوں رکھیں گے؟؟؟ “ سگنل کی گرین لائٹ ہوتے ہی وہ اپنی کار آگے بڑھا گئی۔۔ اسے عجیب سا لگ رہا تھا اسکا شوہر تو کبھی اسکی کار لیکر ہی نہیں گیا پھر فائل کیسے رہ گئی؟؟

” آئ ڈونٹ نو میم آپ سیٹ کور میں چیک کریں سر نے وہیں کا بتایا تھا۔۔۔ “ اپنی سوچوں میں الجھی وہ کوئی پارکنگ ایریا دیکھ کر کار روکنے کا سوچ رہی تھی کے دوسری طرف کی بات سن کر گہرا سانس لیکر رہ گئی۔۔۔

” ویٹ آ منٹ “ ایک شاپ کے باہر اسے خالی جگہ ملی جہاں آس پاس کافی گاڑیاں کھڑیں تھیں اس نے کار ریورس کر کے وہیں کھڑی کی اور خود فون وہیں فرنٹ سیٹ پر رکھ کر کار سے باہر نکل کر پچھلی سیٹ کورز دیکھنے پیچھے والی سائیڈ آگئی۔۔۔ پچھلی سیٹ کوور میں اندر ہی ایک فائل رکھی تھی جسے دیکھ وہ حیرت زدہ رہ گئی اور فائل لیکر فرنٹ سیٹ پر آبیٹھی ساتھ سیٹ پر پڑا فون کان سے لگایا۔۔

” ہاں ہے اوکے میں خود لے آتی ہوں ویسے میٹنگ کب تک ختم ہوگی؟؟؟ “ فائل رکھ کے اسنے فوراً کار اسٹارٹ کی۔۔۔۔

” میم جلد ہی تقریباً دس منٹ میں۔۔۔ آپ کے پاس جو ہے وہ اوریجنل ہے اسکی کاپی ہمارے پاس ہے، وہ میٹنگ کے لئے نہیں ہے بس کلائنٹس کو دینی ہے۔۔۔ “

” اوکے۔۔۔ “ وہ ابھی بھی حیرت کا شکار تھی۔۔۔ فون کاٹ کر وہ آفس کی طرف چل دی۔۔۔

” یہ لیں فائل۔۔ “ تقریباً بیس منٹ کی ڈرایئو کے بعد وہ آفس پہنچی اور آتے ہی سامنے بیٹھی ریسیپشنسٹ کو فائل پکڑا دی۔۔

” تھنک یو میم۔۔ “ مسکراتے ہوئے اس لڑکی نے فائل تھامی وہ جانے ہی لگی تھی کہ اسے شوہر کا خیال آیا کیوں نہ وہ اس سے مل کر جائے؟؟؟ دل کے شور پر وہ خود حیران تھی

” ویسے سر کہاں ہیں؟؟؟ “ جھجھکتے ہوے اس نے پوچھ ہی لیا لیکن اسے سمجھ نہیں آئی وہ شوہر ہے آخر ملنے میں جھجھک کیسی؟؟؟

” میم وہ اپنے کیبن میں ہیں۔۔ “ لڑکی نے رائٹ سائیڈ پر اشارہ کیا۔۔۔

” کو ئی ہے تو نہیں اندر؟؟ “ اس نے جاننا مناسب سمجھا

” میم علیزہ۔۔ “ ایک قدم کیبن کی طرف بڑھایا تھا کہ یہ نام سن کر ٹھٹھک کر رک گئی۔۔

” یہ کون ہے؟؟ آج سے پہلے تو نہیں تھی؟؟ “ وہ خود نہیں جانتی لہجے میں غصّے کی رمق کیسے آئی ؟؟

” س۔۔۔ر۔۔۔۔سر۔۔۔ک۔۔ ک۔۔۔۔کی و۔۔۔۔ا۔۔۔وائف “ وہ لڑکی ڈرتے ڈرتے بمشکل بول پائی ساتھ ایک قدم پیچھے ہوئی کہ کہیں سامنے رکھا کرسٹل ہی سر پر نہ دے مارے۔۔۔

” دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟؟ “ وہ چلا اٹھی۔۔

” سوری ہونے والی۔۔۔۔ نیکسٹ ویک انکی شادی ہے۔۔۔ “ ایک ہی سانس میں بولتے وہ تھوڑا اور پیچھے کھسکی

” کس نے کہا پاگل ہو تم۔۔ “ دانت پیستے وہ گویا ہوئی

” م۔۔۔۔میم۔۔۔ آپ۔۔۔ کی۔۔۔۔ ک۔۔۔کسی س۔۔سے بھی پوچھ لیں صبح سر نے آناونس کیا تھا۔۔۔۔ “ وہ لڑکی کہتے ہی فائل اٹھا کے دوڑی جبکہ وہ ایک ایک قدم اٹھاتی اپنے شوہر کے کیبن کی طرف بڑھی۔۔ سامنے کا منظر صاف نظر آرہا تھا سامنے رکھے لیپ ٹاپ پر وہ دونوں کسی سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہے تھے۔۔۔

وہ ماؤف ذہن کے ساتھ ایک ایک قدم پیچھے بڑھا رہی تھی۔ سامنے نظر آتا منظر پل پل دھندلا رہا تھا۔۔۔ دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے اوردل۔۔۔ دل غم کی شدت سے پھٹ رہا تھا۔۔۔۔

” صرف منہ مارتا ہوں نہ؟؟ ایسا نہ ہو تمہاری یہ بےعتنائی دیکھ کر کسی دن دوسری شادی کر لوں۔۔۔“ وہ چیخ رہا تھا اسکے کانوں میں بار بار یہی جملہ دوڑ رہا تھا اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے۔۔۔ وہ اس آواز سے دور جانا چاہتی تھی اس دوغلے انسان سے دور وہ یکدم بھاگتی ہوئی گلاس وال دھکیل کر باہر آگئی آنسوؤں بےدردی سے رگڑتے اس نے کار اسٹارٹ کی۔۔۔

” کبھی پاس بیٹھ کر محسوس کرنا نہ شراب کی بو آئے گی نہ نشے میں دھت ملےگا “

“ تم بہت خوب صورت ہو پر افسوس خوب سیرت نہیں“

” دین تو کہتا ہے ناچنے والی سے نفرت نہ کرو تم نیک لوگوں میں عیب ڈھونڈتے پھرتے ہو؟؟ “

” تمہیں حق نہیں تم میرے اور اللہ‎ کے درمیان آؤ۔۔۔۔ “

دماغ پر مسلسل ہتھوڑے برس رہے تھے یہ آوازیں اسے جینے نہیں دے رہی تھیں اگر یہ بند نہ ہوئیں تو یقیناً وہ پاگل ہوجائے گی۔۔۔ آج وہ کسی ننھے بچے کی طرح سسک کے رو رہی تھی۔۔

شام کے اس ٹائم جہاں سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم تھا وہ بلا خوف فل اسپیڈ میں گاڑی دوڑائے جا رہی تھی وہ کہیں دور جانا چاہتی تھیں جہاں یہ آوازیں نہ ہو کوئی نہ ہو بس وہ۔۔۔ اکیلی، تنہا کسی ویرانے میں۔۔۔۔۔ جہاں اسے اپنی آواز تک نہ سنائی دے بس خاموشی ہو صرف خاموشی۔۔۔۔۔۔

فل اسپیڈ سے کار آگے بڑھاتے اس نے یو ٹرن لیا۔ ہاتھ کی پشت سے آنکھ کو رگڑا تو سامنے کا منظر کچھ واضح ہوا۔ سگنل کی ریڈ لائٹ دیکھ کر بھی وہ نہ رکی اسے بس ان آوازوں سے دور جانا تھا ابھی وہ اگلا سگنل توڑتی کہ اس سے پہلے اسکا موبائل رنگ ہوا اس نے بنا دیکھے کپکپاتے ہاتھوں سے فون اٹھایا۔۔۔

” ہیلو “

یہ آواز سن کر وہ ہچکیاں لےکر رو دی۔۔۔

” بابا سب ختم ہوگیا سب دھوکےباز ہیں یہاں۔۔۔۔ ہر کسی کو میں مجرم لگتی ہوں عائشہ بھی مجھے غلط کہتی ہے، اور اس دھوکے باز نے بابا دوسری شادی کر لی۔۔۔۔ مجھے برباد کر کے وہ سکون میں ہے اسے نہ کل میری پروا تھی نہ آج ہے۔۔۔ سب جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔ سب۔۔۔۔۔ آپ نے بھی میرے ساتھ غلط کیا۔۔۔ کاش مجھے سے ایسی زندگی کی التجا کرنے سے پہلے مار دیتے۔۔۔۔ اب دیکھیں یہ آوازیں یہ مجھے مار دینگی بابا مجھے مار۔۔۔۔۔۔۔ آ۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔ “ ٹائیرز کی چڑچڑاتی آواز فون کے دوسری سائیڈ سنتے شخص کا دل دہلا گئی۔۔۔۔

” حجاب۔۔۔۔۔ “ وہ چیخے۔۔

” ٹون۔۔۔۔ٹون۔۔۔۔۔ٹون۔۔۔۔ دوسری طرف فون بند ہوچکا تھا۔۔۔


----------------------------------------------------------------------------

” حجاب تاثیر “ لال دوپٹا اوڑھے، آج خود سی بھی خفا تھی۔۔ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا وہ شخص اسکا شوہر بنے گا جس کے پاس آتے ہی وہ نفرت سے منہ پھیر لیتی۔

” کیسا فیل کر رہی ہو اس کافر کی منکوحہ بن کر؟؟ “ عین اسکے سامنے رکھی کرسی پر وہ آبیٹھا۔۔ اٙبراز حیات کی پوسٹ مارٹم کرتی نگاہیں اسکا وجود جلسا رہی تھیں جیسے آنکھوں کے ذریعے نگل لے گا۔۔۔

” بہت بےچین تھا نقاب کے پیچھے چھپے اس چہرے کو دیکھنے کے لئے۔۔۔۔ پہلے اِس سے خوبصورت چہرہ میرے لئے کوئی نہیں تھا۔۔ اب نفرت ہے اس صورت سے۔۔۔۔ “ وہ مسکراتا ہوا اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ حجاب کا دل چاہا رہا تھا اسکا منہ نوچ لےجو اپنی غلیظ نظریں اسکے پاکیزہ وجود پر جمائے ہوئے تھا۔۔۔۔

” ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟ بہت غصّہ آرہا ہے نہ؟؟ “ وہ مسلسل اسکا ضبط آزما رہا تھا۔۔ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھا، وہ اِسے اِس وقت زہر لگا۔۔۔۔

” مجھے بھی آیا تھا جب پانچ سال کی بنائی گی میری عزت کوتم نے دو کوڑی کا کر کے رکھ دیاتھا“ وہ اس پر جھکتے ہوئے ٹھوڑی کو سختی سی انگلیوں کی بیچ دبوچتے ہوئے غرایا۔۔۔

دوسرے ہاتھ سے جیب میں رکھی سگریٹ اور لائٹر نکالی، سگریٹ سلگا کرایک لمبا کش لے کر دھواں اسکے منہ پر چھوڑا۔۔۔۔

” مس حجاب تمہاری آزمائش کا سفر آج سے شروع ہوتا ہے۔۔۔۔“ حجاب بُری طرح کھانسنے لگی اس نے منہ پھیر لیا شراب اور سگریٹ کی بو اسے پاگل کرنے کو تھی۔۔ اُسکا کا اشارہ دھویں کی طرف تھا اب سے وہ بھی اسی طرح اسکی مٹھی میں قید ہوگی۔۔۔

” آج بھی پی کر آیا ہوں اسکے بغیر جشن ادھورا ہے ڈارلنگ “ حجاب نے ہاتھ کو ناک پر رکھے اس بو سی بچنا چاہا اسکی کوشش دیکھ وہ قہقہہ لگا کے ہنسا نظریں ان خوبصورت ہونٹوں پر آرکی اسے زچ کرنے کا موقع بھلا وہ کیسے جانے دے سکتا ہے۔۔۔۔

” کمال ہے مشرقی بیوی شوہر کی آنکھوں میں دیکھ کر شرم سی نظریں جھکا دیتی ہے اور تم ایک پل کو ان آنکھوں سے نظریں نہیں ہٹا رہی کہیں محبت تو نہیں ہوگئی؟؟؟ “

وہ اسکے گلابی ہونٹوں پر شہادت کی انگلی پھیرنے لگا حجاب کے پورے وجود میں انگارے دہکنے لگے اس کا ضبط یہیں تک کا تھا وہ اسکا ہاتھ جھٹک کر بےخوفی سے بولی۔۔۔

” شرم آتی ہے مگر ان آنکھوں کو دیکھ کر نہیں تمہیں اپنا شوہر مانتے ہوئے۔۔۔ اور محبت وہ بھی تم سے؟؟ ساری زندگی محبت کی بھیگ مانگتے رہوگے مجھ سے لیکن یہ پتھر موم نہیں ہوگا۔۔ اور جس دن میں نے خود اقرار کیا تم سے محبت کاسمجھ لینا ہار گئی حجاب تاثیر۔۔۔ “ نفرت و حقارت سے کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔ انگلی کی بیچ دبی سگریٹ اچھال کے وہ اسکے قریب ہوا ایک پل کو حجاب اسکی سرخ آنکھیں دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی لیکن جہاں اگلے لمحے حجاب نے بےخوفی سی اسکی آنکھوں میں دیکھا وہیں اٙبراز نے اسکا منہ دبوچا

” بہت سن لی تمہاری بکواس میرے پاس آؤ تو اپنا مائنڈ سیٹ کر کے آنا اور اپنی یہ لمبی زبان اپنے باپ کے گھر چھوڑ آنا سمجھ آئی ہے؟؟ “ اسکا اشارہ سمجھ کر حجاب چیخ اٹھی

” کافر ہو تم “

” اسی کافر کی بیوی ہو تم جانِ من اور جلد ہی اس کافر کے بچوں کی ماں بنو گی “ اسے غصّے میں دیکھ وہ وہ مسکرایا ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔۔۔

” دوزخ میں جاؤ گئے تم “ وہ چیخی

” تمہیں ساتھ لیکر جاؤنگا جانِ من “ دل جلانے والا انداز تھا۔۔

نظریں اب بھی اسکے ہوش ربا حسن پر تھیں۔۔۔

” سوال ہی پیدا نہیں ہوتا “ حجاب کی سرخ آنکھیں چھلک اٹھیں یہ شخص اسے پاگل کر رہا تھا

” تمہارا غرور تمہیں لے جائے گا حجاب تاثیر۔۔ “ انگارے برساتی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے اس نے حجاب کا جبڑاور سختی سی دبوچا اور سخت لہجے میں گویا ہوا۔۔۔

” انسان سے حیوان تم نے مجھے بنایا اب رخصتی اس ماہ کے بجائے کل ہوگی، انکار کیا یا زبان کھولی تم نے تو یاد رکھنا کل رخصتی سے پہلے تمہیں سب کی نظروں کے سامنے سے اُٹھا لے جاؤنگا اندر اسٹینڈ۔۔۔ “ قہر برساتی نظر اس پر ڈال کر وہ اسکا آج کا سکون بھی لے گیا۔ حجاب کرنٹ کھا کر اس سے دور ہوئی اسے خود سی کراہیت محسوس ہوئی۔۔۔۔

وہ اسکے پیشانی پر جھک کر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑ کے جا چکا تھا وہ جانتا تھا اب ساری رات وہ اپنی پیشانی دھو کر گزارے گی اور یہی ہوا تھا اسکے جانے کے بعد حجاب تاثیر نے رگڑ رگڑ کر اپنی پیشانی صاف کی۔۔۔۔۔۔

ابراز کے جانے بعد وہ واشروم کی طرف دوڑی ایک۔۔۔دو۔۔ تین۔۔۔ چار۔۔۔پانچ۔۔ بار منہ دھویااس نے صابن سے تقریباً رگڑ رگڑ کے پیشانی لال کردی اور منہ پر پانی کے چھینٹے مار کار وہ واشروم سے باہر آگئی۔۔۔۔

ایک ایک قدم اٹھاتی وہ ڈریسنگ کے سامنے آکھڑی ہوئی نوچ کے اپنا لال دوپٹا اتارا نظر اپنے چہرے پر گئی تو پہلی بار اسے اپنا چہرے سے نفرت محسوس ہوئی جسے وہ دیکھنے کے لئے ہر بار اسے ذہنی اذیت دیتا آج یونی میں واقعہ کے بعد وہ کتنا روئی تھی جویریہ اسے گھر تک چھوڑ کے اپنے گھر چلی گئی تھی ساتھ اسکی امی کو آج والا پورا واقعہ سنایا۔۔۔ حجاب تو اس قدر خوفزدہ ہوگئی تھی اِس شخص سے کے پورا دن بخار میں پھنکتی رہی۔۔۔۔ ایک اذیت، عذاب سے وہ گزر رہی تھی کے اسے امی نے آکر موت کی خبر سنا دی۔۔۔۔

” امی۔۔۔ امی “ اسامہ چلا چلا کر اپنی ماں کو پکار رہا تھا ساتھ اپنے باپ کو سہارا دیکر کھڑا تھا۔۔۔

کچن میں کام کرتی آمنہ دوڑتی ہوئی آئیں آکر دروازہ کھولا تو اپنے شوہر کو اس حالت میں دیکھ انکے اوسان خطا ہوگئے۔۔۔ جو اپنے بیٹے کے سہارے بمشکل کھڑے تھے۔۔۔

” اللہ‎ کیا ہوا اسامہ انہیں اندر لے آؤ۔۔۔ “ ایک بازو سے اسامہ نے سہارا دیا جبکے دوسرے سے آمنہ نے۔۔ دونوں سہارا دیکر تاثیر صاحب کو ڈرائنگ روم میں لے آئے انہیں بیٹھا کر آمنہ فوراً پانی لینے چلی گئی۔۔۔

” انہیں کیا ہوا ہے اسامہ “ تاثیر صاحب کے ہونٹوں سے پانی لگاتے آمنہ پریشانی سے گویا ہوئیں تبھی تاثیر صاحب نے پانی کا گلاس ہاتھ سے پیچھے کیا اور دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے بلک بلک کے رونے لگے انکو روتا دیکھ آمنہ کا جسم لرزنے لگا بےجان سا وجود سوال کرنے سے بھی قاصر تھا اسامہ خود انہیں روتا دیکھ ڈر گیا حجاب جو بلینکٹ میں گُھسی آنسوؤں بہا رہی تھی اور اپنا آسانٹمنٹ مکمل کرتی ثنا بھی انکی آواز سن بھاگتی ہوئی آئیں۔۔۔

چاروں اس اونچے چوڑے مرد کو روتا ہوا دیکھ رہے تھے کسی میں ہمت نہ تھی کہ سوال کرے آمنہ، حجاب اور ثنا کی بھی آنکھیں انہیں روتا دیکھ نم ہوگئیں انکے باپ تو انکے لیے آئیڈل تھے جو ہمیشہ انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے خود کہتے ” مایوسی کُفر ہے “ جو حالات کے ساتھ آگے بڑھنے کا کہتے نہ کے اُس بُرے وقت کو روتا ہوا گزارنے کی تلقین کرتے اور آج وہ خود۔۔۔۔۔

” میر۔۔۔۔۔میری ب۔۔۔۔بیٹیاں آمنہ اُس درندے کی نظروں میں آگئیں میں انکی حفاظت نہ کر سکا۔۔۔۔ وہ آیا تھا۔۔۔ کہہ گیا ہے وہ میری بیٹیوں کو۔۔۔اغواہ۔۔۔۔ “ جان تو پہلے ہی جسم میں نہ تھی شوہر کو اس طرح دیکھ کر اب لگتا ہے روح بھی جسم کا ساتھ چھوڑ گئی۔۔۔۔ الفاظ تھے یا موت دھمکی آمنہ جان نہ سکیں۔۔۔۔

” وہ۔۔۔ “ رازی سے ہوئی پوری بات وہ کہتے چلے گے۔۔ ثنا نے خوف سے ماں کو دیکھا اسامہ خود ساری بات سن کر پریشان ہوگیا۔۔ حجاب جو اب تک کمزوری کے باعث بےجان تھی اب نجانے کہاں سے ہمت آئی چیخ اٹھی۔۔۔

” میں اُسے اُس کی اوقات دکھاتی ہوں۔۔۔ ڈرتے ہیں کیا ہم اُس سے ابھی منہ توڑ کے۔۔۔۔۔۔۔

” چٹاخ “

حجاب کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے آمنہ کا ہاتھ اسکے گال پر نشان چھوڑ گیا۔۔۔

” امی۔۔۔ “ وہ بےیقینی سے ماں کو دیکھنے لگی۔۔۔

” زندگی کے تئیس سال میں نے انکے ساتھ گزارے ہیں ایک آنسوؤں تک انکا نہیں نکلا نہ میری وجہ سے نہ کسی اپنے کی وجہ سے اور تم؟؟؟ سب کو انکے اعمال یاد کروانے والی اپنے گریبان میں جھانکا ہے؟؟؟؟ آج تک میرے شوہر نہیں روئے صرف تمہاری وجہ سے آج وہ الفاظ تک مکمل نہیں کر پا رہے۔۔۔۔ تمہیں سمجھایا تھا نہ جب کتا بھونکتا ہے تو اس کے آگے بھونکنے نہیں بلکہ راستہ بدل لیتے ہیں۔۔۔ تمہیں کیا ضرورت تھی اُسے جواب دینے کی؟؟ اُسکے کہنے سے کچھ ہوجاتا؟؟ آگر وہ ہمیں گالی بھی دیتا تو کیا لگ جانی تھی؟؟ کیا ہوجاتا؟؟؟ بولو تمہارے کہنے سے وہ مان جاتا ہم اعلی درجے کے ہیں؟؟؟ اور تم کون ہو اُس کے ایمان کو جج کرنے والی؟؟ حجاب اللہ‎ اپنی حقوق معاف کردیتا ہے لیکن بندوں کے حقوق میں ناانصافی معاف نہیں کرتا گناہ ہے۔۔۔ سخت گناہ ہے۔۔۔ آج دیکھو تمھارے جواب نے کیا کیا اُس کے غصّے کو تم نے ہوا دی اُس نے تمہارا نقاب کھول دیا تم نے تھپڑ مارا تو وہ آکر میرے شوہر کو دھمکا گیا آگر تم وہاں سے چُپ چاپ نکل جاتیں تو تمہاری یہ قینچی سے چلتی زبان جل نہیں جاتی۔۔ ہم چلو اُس خاتون سے جا کر مل آتے معافی مانگ آتے اگر انہیں بُرا لگا ہو تو۔۔۔۔ وہ لڑکا خود پیچھے ہٹ جاتا تم جو ہر بار اس کے غصّے کو ہوا دیتی ہو آج دیکھو ہم کس مقام پر پہنچ گئے۔۔۔۔ “ حجاب چہرے پر ہاتھ رکھے انکی ایک ایک بات سن رہی تھی لیکن اب بھی وہ خود کو غلط نہیں سمجھ رہی اسکی غلطی تھی ہی نہیں اگر تھی تو بس اُس شخص کی۔۔۔۔ تاثیر صاحب خاموش بیٹھے تھے انکی آنکھیں خشک تھیں بیوی کے لفظ لفظ سے جیسے متفق تھے۔۔۔ اسامہ اورثنا بھی خاموش کھڑے تھے۔ اسامہ ابھی خود میٹرک میں تھا اس میں ہمت نہیں تھی کہ ان بڑے لوگوں سے مقابلہ کر سکے۔۔۔

” حجاب یہ زبان ہے نہ اچھے اچھے گھر تباہ کر دیتی ہے اسکے الفاظ تیر کی طرح دل میں جا گھستے ہیں اور اگر وہ شخص اللہ‎ کے سامنے رویا نہ تو حساب تمہارا اللہ‎ کا نہیں رہیگا بلکہ اُس شخص کا اور تمہارا ہوگا جب تک وہ معاف نہ کرے اللہ‎ بھی نہیں کریگا۔۔۔۔۔ “ وہ خاموش کھڑی رہی تبھی آمنہ نے ایک فیصلہ کیا جسکو سوچ کر خود انکا دل رضامندی نہیں دے رہا تھا۔۔۔

” آپ انھیں ہاں کہہ دیں۔۔۔ “ آمنہ کی بات سن کر سب انھیں دیکھنے لگے کسی کو ان سے اس جواب کی امید نہیں تھی۔۔۔

” امی۔۔۔ “ حجاب چلا اٹھی، تاثیر صاحب ثنا اور اسامہ سب حیران تھے اس فیصلے سے۔۔۔۔

” میں نہیں چاہتی اس گھر سے بھی کوئی رانیہ نکلے۔۔۔ “ ماں کے الفاظ حجاب کا دل نچوڑ گئے وہ بھاگتی ہوئی روم میں جا گھسی۔۔۔۔

” حجاب مجھے انکل اچھے نہیں لگتے۔۔ “ آٹھ سالہ حجاب، عائشہ اور رانیہ ٹیوشن پڑھنے اپنے ہی ایک محلے کے پروفیسر کے پاس آتی تھیں جو اپنی بیوی ماں اور بیٹی کے ساتھ وہاں رہتے تھے۔۔۔ آج بھی ٹیوشن جاتے وقت رانیہ اداس تھی وہ اپنی ماں کو بھی کافی دفعہ انکل کی حرکتیں بتا چکی تھی لیکن اسکی ماں یہی کہتی کہ بچوں کو سب پیار کرتے۔۔۔

” مجھے بھی اچھے نہیں لگتے لیکن امی مانتی ہی نہیں کہتی ہیں یہ سب سے کم پیسے لیتے ہیں۔۔۔ “ حجاب نے منہ پھلا کر کہا تو عائشہ بولی۔۔

” اب انکل پاس بیٹھائیں تو کہنا میری طبیعت ٹھیک نہیں گھر جانا ہے۔۔ “ عائشہ کی بات پر دونوں نے سر ہلایا۔ تینوں باتیں کرتے کرتے سر کے دروازے تک پہنچ گئیں۔۔۔

دروازہ انکی بیوی نے کھولا وہ کہیں جا رہیں تھی انکی گود میں انکی چھ ماہ کی بیٹی تھی۔ انکے ساتھ انکی ساس بھی تھیں۔ انکل کی بیوی مسکراتے ہوے تینوں سے ملیں اور انہیں اندر بھیج کر خود ساس کے ساتھ باہر نکل گئیں ساتھ تلقین بھی کی۔۔

” بچوں انکل بس آرہے ہیں تب تک تم لوگ اپنا ہوم ورک کر لو “

تینوں سر ہلاتے اندر جاکر چُپ چاپ اپنی جگہوں پر بیٹھ گئیں۔۔۔

” رانیہ بیٹا کل جو یاد کرنے کے لیے دیا تھا وہ کر کے آئی ہو؟ “

وہ شخص بال ٹاول سے رگڑتا آکر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا۔۔۔وہ نہا کر آیا تھا شرٹ ہلکی گیلی تھی۔۔۔

” نہیں انکل کل دادو آئی تھیں اور میری کزنز بھی تو میں یاد کرنا بھول گئی۔۔۔ “ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی شہد رنگ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوتھے گوری رنگت، ناک رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھی سامنے بیٹھے شخص کی آنکھوں میں لمحوں میں حیوانیت جاگی۔۔۔

” آج جب تک تم کل اور آج والا سبق نہیں سناتیں چھٹی نہیں ملےگی ۔۔۔ “

یہ بات سن کر تینوں نے بےساختہ ایک دوسرے کو دیکھا پھر یہی ہوا تھا حجاب اور عائشہ کا کام ہوتے ہی انکل نے انہیں جانے کے لیے کہا۔۔۔

” انکل رانیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں آنٹی نے کہا تھا جلدی آنا “

” تم لوگ نہیں گے تو تمہاری بھی چھٹی بند اب جاؤ کل بھی یہ یہی کہےگی یاد نہیں کیا۔۔۔ “ وہ شخص دونوں کو دروازے تک چھوڑ آیا اور ٹھاک سے دروازہ بند کردیا حجاب اور عائشہ نے خوف سے ایک دوسرے کو دیکھا اندر بیٹھی رانیہ کی جان نکل گئی دوستوں کو جاتا دیکھ وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

” مجھ۔۔۔۔مجھے مما کے پاس جانا ہے مجھے ممّا کے پاس جانا نہیں پڑھنا۔۔۔۔ نہیں پڑھنا “ وہ روتے ہوے ایک ہی بات دُہرا رہی تھی شہد رنگ آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ شیطان اسکے قریب آیا اور قہقہہ لگا کے ہنسا۔۔۔ کچھ دیر بعد کمرے میں چیخیں گونجیں۔۔۔

” انکل دروازہ کھولیں ہم امی ابو کو بلائیں گے دروازہ کھولیں۔۔۔ “ حجاب اور عائشہ جو رانیہ کے انتظار میں وہیں کھڑی تھیں اسکی چیخیں سن کر دروازہ بجانے لگیں۔۔۔۔

” بچاؤ۔۔۔ مما۔۔مما یہ۔۔۔۔ انکل۔۔۔۔ “

آٹھ سال کی معصوم بچی کچھ بولتی اس سے پہلے ہی اُس شخص نے رانیہ کے منہ پر ہاتھ رکھ کی اسکی چیخ کا گلا گھونٹا۔۔۔ کمرے میں وحشت ناک خاموشی چھا گئی۔

اُسے بُری طرح نوچ کر اب وہ وحشی درندا خوف سے اس بچی کو دیکھ رہا تھا اگر کسی کو پتا چل گیا تو؟؟ یہ سوچ آتے ہی اسکے ماتھے پر پسینے کے ننے قطرے نمودار ہوئے باہر سے مسلسل بچیوں کی رونے کی آوازیں آرہی تھیں ایک ہی رٹ لگائے وہ واپس اس درندے کو اُکسا رہی تھیں۔۔۔

” چھوڑو میری دوست کو “

اس شخص نے پل بھر کو سوچا پھر دونوں ہاتھوں سے بچی کا گلا گھونٹا وہ اپنے ہاتھ پاؤں مارتی اپنی ماں کو پکارتی رہی۔۔۔۔

” بیڈ انکل۔۔۔۔۔۔۔۔ گندے۔۔۔۔۔۔ گندے۔۔۔ “ باہر سے آتی چیخیوں سے اسکا خوف مزید بڑھا اور زور لگا کر اس نے پل بھر میں اس بچی کی چلتی سانسیں روک دیں۔۔۔۔۔۔

حجاب نے اپنے کان بند کر دیے ہر رات یہ چیخیں اسے نیند سے جگا دیتیں وہ گھٹنوں میں سر دئیے بلک بلک کے رونے لگی تبھی سکون برا لمس اسے اپنے سر پر محسوس ہوا۔۔۔۔ اس نے سر اٹھا کہ دیکھا تو سامنے اسکی ماں تھیں وہ انکے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔

” حجاب یہ وہ رشتہ ہے جو بار بار ٹھکرانے کے باوجود ہمارے در پر آیا ہے جب شادی ہونی ہوتی ہے پھر چاہے کچھ بھی ہو وہ ہو کر رہتی ہے۔۔۔ کیا پتہ اس میں کوئی مصلحت ہو؟؟ “

حجاب نے نظریں اٹھا کر ماں کو دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو مجھے برباد کر کے آپ کو کون سا سکون ملے گا؟؟ اسکی ماں نے آج دل پر پتھر رکھا تھا تبھی نظرانداز کر کے اسکی پیشانی چومی۔۔۔۔۔

” سچ بتاؤں تو نشئی کا سن کر۔۔۔۔“ وہ کہہ کر خاموش ہوئیں حجاب جو جواب کا انتظار کر رہی تھی انکے بات بدلنے پر حجاب کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ رینگی

” لیکن میں چاہتی ہوں میری بیٹی برباد نہیں آباد ہوکر وہاں جائے کیا پتا تمہاری آمد اُسے سدھار دے۔۔۔ “

” آپ مجھ سے قربانی مانگ رہی ہیں “ وہ ان سے الگ ہوکر غصّے سے بولی وہ کچھ کہتیں اس سے پہلے تاثیر صاحب دروازہ بند کر کے اندر آئے اور حجاب کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے۔۔۔

” حجاب بیٹے مجھے خود سے زیادہ بیٹیوں کی عزت عزیز ہے۔۔۔۔ “ وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑ رو پڑے حجاب کو آج پہلی بار سب رشتے مفاد پرست لگے۔۔۔

” میں سوچ کر بتاؤنگی۔۔۔ پلیز بابا۔۔۔ “ حجاب نے انکے جڑے ہاتھ پکڑ کے ہونٹوں سے لگائےاسکے جواب پر دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کو دیکھا اور تاثیر صاحب اسے گلے لگا کر بیوی کے ساتھ اسکے روم سے نکل گئے۔۔۔

کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا اب جب برباد ہونا ہی ہے تو اُسے بھی کیوں نہ کروں بابا نے جو بتایا اُسکے مطابق وہ لوگ یہ شہر بھی چھوڑ کر نہیں جا سکتےابراز کے آدمی ضروران پر نظر رکھے ہونگے۔۔

انتقام کی جلتی آگ کو بجھانے کے لئے اس نے مہوش کو میسج کیا۔۔۔

” اپنے بھائی کا نمبر سینڈ کرو۔۔۔ “ ٹائپ کر کے اس نے بےدلی سے سینڈ کیا مہوش اب بات تو دور اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تبھی انہیں چھوڑ وہ دوسرے ممبرز کے ساتھ گروپ بنا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ پانچ منٹ بعد اسے مہوش کا میسج رسیو ہوا۔۔۔

” کیوں اتنی جلدی دل آگیا؟؟ اپنی بات پر قائم تو رہتیں “ میسج کے ساتھ مہوش نے نمبر سینڈ کیا بمعہ ایول ایموجی۔۔۔۔ حجاب خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی مر کر بھی اسے اس شخص سے محبت نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ تین بار آیت الکرسی پڑھنے کے بعد اس نے ابراز کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔

” جی فرمائیں آج اس کافر کی یاد کیسے آگئی۔۔“ چہکتی ہوئی آواز حجاب کا دل چاہا منہ نوچ لے۔۔

” تم جانتے ہو میں حجاب بات۔۔۔۔ “ وہ حیران رہ گئی کیا پہلے سے اسکا نمبر سیو تھا اُسکے پاس

” جسے برباد کرنا ہو یا آباد اس کی پل پل کی خبر رکھتے

ہیں “ وہ جو اپنے کمرے میں بےزار سا بیٹھا اسکی یادوں میں گم تھا فون سکرین پر حجاب نام دیکھتے ہی اسکا موڈ خوش گوار ہوگیا۔۔۔

” مجھے یہ کہنا تھا کے میں شادی کے لئے۔۔۔ “

” کریکشن۔۔۔ شادی نہیں تم سے شادی کے لئے۔۔۔ “ جہاں اسکے فون نے موڈ خوش گوار کیا وہیں حجاب تاثیر کی ہار نے یہ خوشی دُگنی کردی۔۔ اسکا دل چاہ رہا تھا وہ سامنے ہوتی اور ابراز حیات اسکے سامنے اپنے فیوریٹ مشروب سے جشن مناتا۔۔۔ پھر اس خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہ ہوتا۔۔

” بات وہی ہے۔۔۔ مجھے بولنے دو یا خود بول لو۔۔۔ میں بس یہ کہنا چاہتی تھی کہ میری ایک شرط ہے۔۔۔ “ وہ زچ ہوکر بولی اس شخص کے ساتھ رہنا تو دور بات کرنا بھی اسے محال لگ رہا تھا۔۔۔

” پہلی بات یہ کہ بلیک میلنگ مجھے پسند نہیں میں کروں تو بُرا نہیں لگتا لیکن کوئی سامنے سے کرے تو دل چاہتا ہے کھڑے کھڑے اسے گنجا کر دوں۔۔۔ “ حجاب کا ہاتھ بےاختیار اپنے لمبے بالوں پر گیا۔۔

” آہاں بےبی تمہیں نہیں کہہ رہا تمہارے بال تو ابھی دیکھنے ہیں تمہارا وہ حجاب میں خود اپنے ہاتھوں سے اُتارونگا آخر تھپڑ جو کھایا تھا۔۔۔۔ یاد ہے نہ بےبی۔۔۔۔ “ دل جلانے والا انداز تھا حجاب کا پور پور کسی آگ میں جل رہا تھا

” میں تمہارے چچا کی بیٹی نہیں جو بےبی کہہ رہے ہو بھاڑ میں جاؤ، مرو تم، میں بھی دیکھتی ہوں کیسے شادی کرتےہو “ وہ پھنکاری

” شرط کیا ہے؟؟ “ ابراز کو جیسے اس پر رحم آ ہی گیا

” اب نہیں اب پیر بھی پڑو گئے تب بھی شادی نہیں کرونگی “

وہ غصّے سے کہتی فون بند کرنے لگی تھی کہ ابراز کی اگلی بات نے اسکے چھکے چھڑوا دیے۔۔۔

” تمہاری اگلی بات میرے سوال کا جواب نہ ہوا تو یاد رکھنا پندرہ منٹ کے اندر مولوی، گواہ اور نکاح نامہ سب تمہارے سامنے ہونگے اور منہ سے بس قبول ہے نکلے گا۔۔۔ سو بی کیئر فل “ وہ مزے سے کہتا اسے پل پل اذیت سے نواز رہا تھا

” فہیم احمد اُسے برباد کرنا ہے، ایسے کہ کبھی زندگی میں خود اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو سکے۔۔۔ “ حجاب کے لہجے میں نفرت ہی نفرت تھی

” کیا کیا ہے اس نے؟؟؟ “ ابراز جہاں اس نام پر چونکا وہیں حجاب کے دل میں اسکے لئے نفرت اسے تشویش میں مبتلا کر گئی۔۔۔

“ none of your business ”

سکون سے جواب آیا

” بےمقصد اپنے باپ کو سلام نہیں کرتا تمہارا کام کیوں کرونگا؟؟؟ “ وہ بھڑک اٹھا۔۔۔ دماغ بس فہیم احمد پر الجھا تھا۔۔

” ہی ازآ ریپیسٹ “ پل بھر کو دونوں طرف خاموشی چھا گئی

پھر ابراز کا قہقہہ گونجا وہ ہنستا چلا گیا حجاب کو وہ کوئی پاگل لگا۔۔۔۔

” کبھی کبھی دل کرتا ہے مولوی بن جاؤں لیکن تمہاری باتیں یاد آتی ہیں تو احساس ہوتا ہے مسجد میں پیر رکھنے کے قابل بھی نہیں۔۔۔۔۔ گڈ بائے بےبی تمہاری بات سنے بغیر کال کاٹ دونگا کیوں کہ تمہارے منہ سے صرف اقرار اچھا لگتا ہے جو آج تک سنا نہیں انکار سے سخت نفرت ہے خاص کر تمہارے منہ سے کل رات نو بجے کی نیوز ضرور سننا جو تمہاری شرط کے مطابق ہوگی اور ٹھیک اگلے دن تین بجے ہمارا نکاح ہوگا۔۔ “ کہتے ساتھ ابراز نے کال کاٹ دی حجاب کو آج پہلی بار وہ شخص عجیب لگا بہت عجیب۔۔۔۔۔۔

پورا دن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اُس شخص کو سوچ رہی تھی جس سے وہ شرط رکھ بیٹھی۔۔ اگر پوری کردی تو؟؟؟ نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔یونی میں اسکا دن ابراز حیات کی سوچوں کے گرد ہی گھومتا رہا جس بےچینی سے وہ رات کا انتظار کر رہی تھی گھر پہنچ کے بھی اسے سکون نہ ملا وہ پورے گھر میں چکر کاٹتے سوچتی رہی کس طرح اپنی ماں کو اس نئی حرکت کا بتائے۔۔۔ وہ بتانے کا سوچتی بھی تو اسے گال پر پڑا تھپڑ یاد آجاتا۔۔ بےشک وہ ہاں کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن صبح سے اسکی ماں نے اسے تنگ نہ کیا الٹا حجاب کوشش میں رہی کہ وہ اس سے پوچھ لیں اسی کشمکش میں پورا دن گزر گیا لیکن اس نے اپنا کارنامہ نہیں بتایا۔۔۔۔

” جی ناظریں آج ہم آپ کے ساتھ حاضر ہیں کچھ اہم خبروں کے ساتھ سب سے پہلے آج کی اہم خبر مشہور تنظیم کے ممبر فہیم احمد کو آج ایک ہوٹل میں لڑکی کے ساتھ شرمناک حالت میں پایا گیا۔۔۔۔ جو لگ بھگ انکی بیٹی کی ہم عمر ہے اور تحقیقات سے پتا چلا ہے یہ صرف آج کی نہیں بلکے ہر رات کی کہانی ہے روز ایک نئی لڑکی کو انکے ساتھ دیکھا گیا ہے آج یہ بات سورسز کے ذریعے منظرِعام پر آئی جو فہیم احمد کے لیے بہت بڑادھچکا ہے جی ناظرین آپ نے صحیح سنا ابھی ابھی خبر آئی ہےان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے انکی وائف نے خلا کا کیس بھی دائر کیا ہوا ہے۔۔ یہی نہیں ناظرین انکے گھر سے تقریباً نوے لاکھ بلیک منی برآمد ہوا ہے۔۔۔ “ وہ آگے بھی آج کی تازہ خبریں سنا رہی تھی لیکن حجاب کو جو سننا تھا وہ سن چکی تھی وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی کمرے میں آکر سب سے پہلے یہ خوشی اس نے اپنے رب سے شئیر کی دو نفل نماز ادا کر کے آج وہ رو کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کررہی تھی رانیہ اسکے لے کیا تھی خدا بہتر جانتا ہے آج تک وہ اسکی دعاؤں میں رہی ہے۔۔۔۔۔

مجھے بھی یاد رکھنا

جب لکھو تاریخِ وفا غالب


کہ میں نے بھی لٹایا ہے

کسی کی محبت میں سکون اپنا


کئی سالوں بعد وہ اُس دن سکون بھری نیند سوئی تھی۔۔

لیکن اگلا دن اس کے لیے کسی طوفان سے کم نہ تھا وہ اپنا کہا سچ کر گیا۔ حجاب تاثیر کے جملہ حقوق اُس شخص کے نام ہوئے جس سے اس نے اپنی زندگی میں فہیم احمد کے بعد سب سے زیادہ نفرت کی تھی۔۔۔

” ویلکم بےبی “ حجاب ابھی گھر میں داخل ہی ہوئی تھی کہ سامنے وہ شخص اپنی پوری آب و تاب سے بیٹھا اسکا دل دہلا گیا۔۔۔۔

اسکی ماں ساتھ ہی کھڑی تھی اسامہ اور ثنا گھر میں نہیں تھے وہ اکثر اسکے بعد ہی آتے تھے۔ اسکے بابا سر ہاتھوں میں دیے ابراز حیات کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔۔

” حجاب “ اسے دیکھتے ہی اسکی ماں تقریباً دوڑتی ہوئی اسکے پاس آئی۔۔

” اس دن جب پوچھ پوچھ کر بیزار ہوگئی تھی تب جواب کیوں نہیں دیا؟؟ اور اب اس طرح تماشا بنا کر رکھ دیا ہے ہمارا وہ اب پورے باراتی لے آیا ہے بس تمہارا انتظار کر رہاہے۔۔۔“

اسکی ماں نے اسکا بازو دبوچ کر دھیمی آواز میں دانت پیستے کہا۔۔

” ام۔۔۔امی۔۔۔ می۔۔۔میں۔۔۔ نے۔۔۔ کو۔۔۔کوئی۔۔۔ہاں۔۔نہیں۔۔ کی ۔۔۔ یہ جھوٹ بول رہاہے۔۔۔۔ “ حجاب ماں کو غصّے میں دیکھ اپنے بچاؤ کے لئے جھوٹ بول گئی اسکی ماں نے آنکھیں سیکوڑ کے اسے دیکھا جیسے سمجھنا چاہ رہی ہو ابراز بھی اسکی آواز باخوبی سن چکا تھا۔۔۔

” پانچ منٹ میں جو کر سکتی ہیں کریں اگلے پانچ منٹ بعد ہمارا نکاح ہے میں اسی وقت اسکے جھوٹ کا پردہ فاش کر سکتا ہوں لیکن اب یہ میری عزت بنے گی تمیز، احترام، تربیت اب صرف میں ہی اسکی کرونگا۔۔۔ “ وہ نہایت ٹھنڈے لہجے میں کہہ کر اسکا سکون برباد کر گیا۔۔۔

” حجاب بیٹے کیا تم نے کل اسے کوئی امید دلائی تھی “ اپنے بابا کی بات سن کر وہ سر جھکا گئی اور آج پہلی بارحجاب نے دیکھا اسکے بابا کا سر صرف اسکی وجہ سے شرمندگی سے جھکا تھا اور اگلے پانچ منٹ بعد حجاب تاثیر کے ساتھ ابراز حیات کا نام جُڑ گیا گواہ مولوی وہ سب اپنے ساتھ لایا تھا جن کو بابا نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا تھا۔۔۔ نکاح کے بعد اسکی ماں اسے اپنے روم میں چھوڑ گئی اسکی ماں نے نکاح کے لئے اسے صرف لال دوپٹا اُوڑایا تھا نکاح کے بعد وہ اپنی جیت کی خوشی منانے اسکے کمرے میں آیا تھا اور موت سی دل ہلانے والی خبر دے گیا صرف ایک ہفتے میں رخصتی؟؟؟ وہ دوپٹا بےدردی سے اتار کر بیڈ پر لیٹ گئی روتے روتے نجانے کس پہر اسکی آنکھ لگی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” عبایا پہن کر تیار ہوجاؤ ابراز آرہا ہے تمہیں لینے۔۔۔ “

حجاب عصر کی نماز پڑھ کے اٹھی تھی کہ ایک اور دھماکے دارخبراسکی منتظر تھی۔

” کیوں؟؟ اور آپ کیسے مزے سے کہہ رہی ہیں جانتی نہیں کتنا گھٹیا آدمی ہے؟؟ “ حجاب تو سن کر آگ بگولا ہوگئی ابھی شوہر ہونے کا صدمہ نہیں گیا تھا کہ ساتھ جانےکا غم مل گیا۔۔۔۔

” شوپنگ کرنےجانا ہے اورہاں وہ اُن سے بہتر ہی ہے جو چہروں پر نقاب پہن کر رکھتے ہیں وہ جیسا ہے سامنے ہے، جھوٹا، دوغلا، منافق نہیں۔۔۔ “ وہ بھی اسکی ماں تھیں، آنکھوں میں دیکھ کر بہت کچھ جتا گئیں۔۔۔

” امی آپ مجھے؟؟؟ “ حجاب پوری آنکھیں کھولے صدمے کی کیفیت میں انہیں دیکھنے لگی۔۔

” نہیں حجاب تم ہی میری پریشانی نہیں اور بھی ہیں تمہارے چچا لوگ کہہ رہے ہیں دکان بیج کے ہمیں اپنا حصّہ دو اب بتاؤ محنت ساری تمہارے بابا کی چلو حصہ انکا حق ہے پورا لےلیں لیکن اس طرح اچانک؟ اور کہہ رہے ایک ہی مہینے کے اندر ہمیں رقم دے دو۔۔۔اب بتاؤ ایک مہینے میں کیسے ہوگا سب؟؟

” منافق لوگ “ حجاب غصّے سے بڑبڑائی

” حجاب ایک بات یاد رکھنا منافقت منہ کی بدبو کی طرح ہوتی ہے اپنی کا پتا ہی نہیں چلتا، صرف دوسروں کی بُری لگتی ہے “ اسکی ماں نے عام سے انداز میں سمجھایا حجاب کا منہ لٹک گیا صبح اس نے اپنے بابا کو بھی شرمندہ کردیا۔۔۔

” امی میں۔۔۔ “ حجاب انکار کرتی اس سے پہلے آمنہ اسک ارادہ بھانپ گئیں۔۔۔

” حجاب ابراز کا فون آیا تھا اس نے میری اجازت لی تمہیں ساتھ لے جانے کے لئے اب مہربانی کر کے مجھ سے بحث نہ کرنا وہ نیچے آگیا ہوگا تم عبایا پہن کر جلدی جاؤ۔۔۔ “ حجاب آنسو پیتی عبایا پہن کر نقاب کرنے لگی ساتھ ایک نظر بیڈ پر بیٹھی ماں کو دیکھا شاید جانے سے منع کر دیں لیکن وہ پتھر بنی بیٹھی رہیں۔۔۔۔

” مجھے مس کیا جانِ من “ وہ انگلی پر کی چین گھومتا کار سے ٹیک لگائے گہری نظر سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ آٹہری۔۔۔ اسکے ماتھے پر ابھی بھی پٹی لگی ہوئی تھی لیکن ہاتھ اور پاؤں بالکل سلامت تھے۔۔

” دروازہ کھولو۔۔۔ “ وہ اسے قہر برساتی نظروں سے نواز کر غصّے سے بولی۔۔رازی نے پیچھے ہٹ کر کار کا دروازہ کھولا اسکی نظریں حجاب کا پور پور حفظ کر رہی تھیں وہ اسکی نظروں سے گھبرا کر جلدی بیٹھ گئی ” بیویوں والی ادائیں ہیں “ اس پر جھک کر کہتے وہ مسکرایا ابراز کا ایک بازو کار کے دروازے پر رکھا تھا۔۔ دونوں یک ٹک ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے تبھی حجاب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔۔

” اپنی نظریں قابو میں رکھو ورنہ یہ آنکھیں نوچ لونگی “

وہ دانت پیستے بولی۔ابراز نے دوسری سائیڈ آکر ڈرائیونگ سیٹ سنمبھالی۔۔

” دیکھنے کا، سراہنے کا، دیدار کرنے کا حق صرف ان آنکھوں کو ہے۔۔۔ “ کار اسٹارٹ کرکے وہ حجاب کو آنکھ مار کر بولتا اسے آگ لگا گیا۔۔حجاب نے چپ رہنے میں عافیت سمجھی۔۔۔ابراز ڈرائیونگ کرتے ساتھ ایک نظر اسے دیکھتا جو چپ کا فقل لگائے بیٹھی تھی۔۔۔ ابراز کو اس کی خاموشی زہرلگ رہی تھی وہ اِسے بولنے کا کہہ نہیں سکتا لیکن جانتا تھا اسکے میوزک اون کرتے ہی وہ پٹر پٹر اپنا لیکچر شروع کر دیگی۔

” یہ بند کرو بہت گناہ ہے گانا سننا “ گانے شروع بھی نہ ہوا تھا کہ وہ چلا اٹھی۔۔

” شوہر کی نافرمانی بھی گناہ ہے بیگم صاحبہ “ سکون سے کہتا اسکا سکون غارت کر گیا۔۔

” ایسا شوہر ہو تو فرمانبردار بیوی بھی نافرمان بن جائے “ جواب حاضر تھا

” تمہارے جیسی بیوی ہو تو کافر بھی مسلمان بن جائے۔۔۔ “

مزاحیہ انداز میں کہتے وہ اسے تپا گیا۔۔ اسکی بات کا مطلب وہ اچھی طرح جانتی تھی تبھی اپنا حجاب درست کرنے لگی۔

” گھٹیا انسان “

” جیسا بھی ہوں بےبی بس تمہارا ہی ہوں۔۔۔ “ ہلکی بڑبڑاہٹ بھی وہ سن چکا تھا۔۔۔

” ڈرائیونگ پر دھیان دو۔۔۔ “ کاٹ کھانے والا انداز تھا ابراز جی جان سے فدا ہوگیا۔۔۔

” دل نہیں لگ رہا جان۔۔۔ “ حجاب نے گھوری سے نوازا جسے وہ نظرانداز کرتا اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو۔۔ ہے ہمت تو مقابلہ کرو۔

حجاب کو اسکی بےباکی دیکھ نئے سرے سے غصّہ آیا وہ کیوں اسکے ساتھ آئی؟؟؟ وہ اسے باتوں میں لگا کر سنسنان جگہ لے آیا۔۔۔ جہاں کوئی نہ تھا ایک پرندہ تک نہیں۔۔ اور گاڑی ہلکی ہلکی چل کر اب تقریباً رک چکی تھی۔ویرانہ دیکھ کر اسکا پارہ ہائی ہوگیا

” جانِ من بہت حساب ہیں جو تم سے لینے ہیں اب تک صرف تھپڑ کا سوچا تھا لیکن تم نے تو کل انکار کر کے ایک بار پھر میرے اندر کے حیوان کو جگایا۔۔۔ “ وہ جسکے لہجے میں اب تک شوخی تھی یکدم اپنا لہجہ بدل گیا۔۔۔ حجاب جو کچھ کہنے والی تھی خوف سے پیچھے کھسکی ابراز کا جاندار قہقہہ گونجا۔۔۔

” جانِ من یہ بس ہلکا غصّہ نکل آتا ہے۔۔۔ بےعزتی کا بدلا لونگا مگر ایسا کہ چاہ کر بھی نہ بھولو۔۔۔۔ خیر فہیم احمد نے کس کا ریپ کیا “ ابراز کی بات نے جہاں اسکا دل دہلایا وہیں اسے کچھ حوصلہ ہوا شاید اسی بات کے لئے وہ اسے سنسان جگہ لے آیا۔۔۔

” کیوں بتاؤں؟؟ “ اپنی تیز چلتی دھڑکن بحال کر کے بولی۔۔

” نہ مذاق کے موڈ میں ہوں نہ تمہارے نخرے اٹھانے کے موڈ میں۔۔۔ سنسان سڑک دیکھ کر سمجھ چکی ہوگی؟؟ “ عام سے انداز میں کہہ کر بہت کچھ جتا گیا لیکن حجاب نہیں ڈری۔۔۔۔

” ایک بچی کا ریپ کیا اسنے۔۔۔۔ “

” ہم۔۔۔ تمہارے مطابق اسے کیا سزا ملنی چاہیے؟؟ “ عام سا انداز تھا جیسے پہلے سے سب کچھ جان چکا ہو

” زندہ تڑپتے رہنا چاہیے۔۔۔ “ حجاب کے لہجے میں نفرت تھی

” اوکے۔۔۔ “

” تم کل ہنسے کیوں؟؟ اور فہیم احمد کو جانتے ہو نہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا۔۔۔۔ لیکن تم نے جو اسے سزا دی اس سے صرف اسکا کیریئر تباہ ہوگا مال و دولت تو اب بھی اسکے پاس ہے۔۔ “ حجاب بغور اسے دیکھتے کچھ کھوجنے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔

” کچھ نہیں ہے اسکے پاس نہ مال نہ دولت نہ شہرت نہ سکون۔۔۔۔ امیر خاندان کی لڑکی سے شادی کی اس امید میں سے کہ ساری زندگی بیٹھ کر کھائے گا لیکن افسوس بیوی نے پھنسا دیا ویسے بیوی ہے بڑی خطرناک چیز۔۔۔۔“ اسے اپنی نظروں کے حصار میں رکھے ابراز نے سگریٹ سلگایا۔۔۔۔ حجاب نے نظریں پھیر لیں اسکی پوسٹ مارٹم کرتیں نگاہیں حجاب کو زہر لگیں۔۔۔

” بیوی کا کہنا تھا جھونپڑی میں بھی رہ لےگی لیکن عزت سے شوہر کا کمایا کھائے گی، افسوس شوہر ٹیوشنز دینے لگا لیکن فطرت انسان کی نہیں بدلتی لڑکیوں کا شوق پہلے سے تھا اس معصوم بچی کو دیکھ وہ جو شریفوں کا ماسک لگائے بیٹھا تھا حیوان بن گیا۔۔۔۔۔۔ گناہ چھپانے کے لئے بیوی کے ساتھ وہ اُس شہر سے بھاگ گیا وہاں سے اپنے سسرال پہنچا ساری زندگی وہاں رہا سسر کا کھایا ،اسی کی پارٹی جوائن کی سیاست میں آیا۔۔۔۔۔ لیکن کہتے ہیں نہ خدا جسے آباد کرے جسے برباد۔۔۔۔ فہیم احمد کے پاس پیسے بہت تھے لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا ایک بیٹی بچپن میں فوت ہوگئی دوسری ابنارمل ہوئی۔۔۔۔ اور کل رات وہ پوری طرح برباد ہوگیا۔۔۔ اب نہ گھر کا ہے نہ گھاٹ کا بیوی چھوڑ چکی۔۔۔ دوست۔۔ رشتےدار سب نے چھوڑ دیا کوئی منہ نہیں لگارہا “آخر میں وہ ہنسا جان لیوا مسکراہٹ تھی۔۔۔ ایک ہاتھ سے سگریٹ پکڑتے ابراز نے دوسرے ہاتھ سے کار اسٹارٹ کی اور اس دفعہ اسکی سپیڈ کافی تیز تھی حجاب جو غور سے اسے دیکھ رہی تھی اچانک کار اسٹارٹ ہونے پر جیسے ہوش میں آئی۔۔۔

” فہیم احمد تمہارا کون ہے؟؟ “ حجاب کو پوری تفصیل سن کر یقین تھا اسکا یہ جواب رائیگاں نہیں جائے گا۔

” پھوپھا ہے میرا “ جان چھڑانے والا انداز تھا جیسے مزید اس ٹوپک پر بحث نہیں اور حجاب نے بحث کی بھی نہیں خاموشی سے باہر کا منظر دیکھتی رہی ۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ اسے ایک بوتیک میں لے آیا جہاں سے ابراز نے خود اسے شادی اور والیمے کا ڈریس دلایا اور حجاب کا انٹرسٹ نہ دیکھ ابراز کا موڈ خراب ہوگیا وہ ڈریس لیتے ہی اسے گھر چھوڑ کے چلا گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” میں تمہیں لینے آرہا ہوں “ وہ ابھی لیکچر لے کر نکلی تھی کہ ابراز کی کال آگئی جسے دیکھتے ہی اسکا اچھا خاصا موڈ خراب ہوگیا

“ کیوں؟؟ “ پھاڑ کھانے والا انداز تھا

” دادی سے ملانا ہے، انھیں ابھی تک یقین نہیں ہمارا نکاح ہو چکا ہے “ وہ شاید اچھے موڈ میں تھا، فریش سی آواز تھی

” میں اُن سے بعد میں مل لوں گی “ حجاب نے صاف انکار کیا

” مسلہ کیا ہے؟؟ “ ابراز کواس کا انکار ناگوار گزرا

” مسلہ یہ ہے کہ تمہارے ساتھ جا کر میں اپنا تماشا نہیں بنوا سکتی میری ایک ریپوٹیشن ہے یہاں “

” تمہیں میرے ساتھ جانے میں شرم آتی ہے؟؟ “ ابراز کے ماتھے پر شکنیں اُبھریں

” ظاہر ہے سب تمہارے ساتھ مجھے دیکھیں گے تو کیا سوچیں گے؟؟ ویسے بھی میں نے ابھی کسی کو بتایا نہیں نہ بتانے کا ارادہ ہے ابھی یہ کڑوا گھونٹ میں نے ہی ہضم نہیں کیا اور اب فون نہ کرنا اللہ‎ حافظ “ حجاب نے جان چھڑا کر جلدی کال کاٹی ساتھ سیل اوف کردیا۔۔۔ نجانے کیوں اس شخص کی آواز سے بھی حجاب تاثیر کو نفرت ہے۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں دادو کی خوشی کا تو ٹھکانہ نہیں تھا مہوش بھی دل ہی دل میں خوش تھی لیکن آج تک اپنی بےعزتی نہیں بھولی۔۔ حیات صاحب نے فبیحہ کو بہت مشکل سے راضی کیا تھا۔۔۔ ناچارا انھیں فبیحہ کو ایکسیڈنٹ والی بات بھی بتانی پڑی اسکے بعد وہ شادی کی تیاری میں منہ پر فقل لگائے حصہ لے رہی تھیں اور آخر وہ دن بھی آیا جب شادی حال میں رسموں کے بعد حجاب کو ابراز کے سنگ جانا پڑا۔۔ شادی کے یہ پورے دن اسکی ماں اسے سمجھاتی رہی کہ زبان کو کنٹرول رکھنا ، شوہر کے حقوق بھی بتاتی رہیں لیکن حجاب کو تو بس ان قریب آتے دنوں میں ایک ہی بات سمجھ آرہی تھی کہ اسکی شادی ایک شرابی نشئی سے ہو رہی ہے۔

” بہت مس کرتا ہوں تمہیں جانِ من “

وہ باپ کے گلے لگ کر کافی دیر روتی رہی اسکے ساتھ چلتا ابراز کب سے اس فلمی سین سے اکتا چکا تھا۔۔۔ آخر کار جب وہ سب سے مل کر کار میں بیٹھی۔ اسکے ساتھ بیٹھے ابراز نے اسکا ہاتھ پکڑ کے محبت سے کہا۔

” میں تمہاری گرل فرنڈ نہیں جو ایسے الفاظ بولتے ہو“ وہ ہاتھ چھڑا کر تیز لہجے میں بولی۔۔۔ابراز کو اس سے ایسی امید نہ تھی اسے لگا تھا اب تک وہ اس شادی کو قبول کر چکی ہوگی۔

” تمہیں یاد ہے کیفےٹیریا والا سین جہاں تم نے سب کے سامنے میری بےعزتی کی تھی “ ابراز کا لہجہ عجیب تھا جو حجاب کو محسوس ہوا۔۔

” تم اُسی لائق تھے مجھے افسوس نہیں ابراز حیات۔۔۔ تم نے جو میری فیملی کے ساتھ کیا تمہاری وجہ سے میں اپنے بابا کے سامنے شرمندہ ہوں “ حجاب کا لفظ لفظ نفرت میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔

” شٹ آپ۔۔۔۔ حجاب تاثیر آج کا دن تم اپنی پوری زندگی میں بھول نہیں پاؤ گی عزت گوانا کیا ہوتا ہے تمہیں آج پتا لگے گا “ وہ غرایا اور شروعات ہوچکی تھی کیوں کے کار رکتے ہی وہ اسے چھوڑ کے اندر جا چلا گیا۔۔۔ ابراز کی کزنز اسے اندر لے آئیں دادی اور مہوش دوسری کار میں آرہے تھے۔۔۔ ابراز کا اس طرح چھوڑ کے جانا اسے خوف میں مبتلا کر آگیا کافی دیر وہ اکیلی مہمانوں کی بیچ بیٹھی رہی پھر ایک خاتون نے ہی کہا دلہن کو دولہے کے روم میں چھوڑ آؤ۔۔۔ حجاب کو تو بس دادو کا انتظار تھا لیکن آج تو اسکی قسمت بھی اسے دھگا دے گئی۔۔۔ وہ تھر تھر کانپتی ابراز کی کزنس کے ساتھ روم میں پونچی آج پہلی بار شاید اسکا روم روم کانپ رہا تھا ابراز حیات کے نام سے۔۔۔


☆.............☆.............☆


” تمہاری اوقات ہے یہاں بیٹھنے کی؟؟؟ “ ابراز اتنی زور سے دھاڑا کہ اسکا دل کانپ اٹھا۔۔۔

ڈیپ ریڈ شرارے میں ملبوس وہ بیڈ پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ اسکا دل کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔ وہ ویسے ہی گھبرائی سہمی اسکا انتظار کر رہ تھی کہ ابراز روم میں داخل ہوا دروازہ کھولتے ہی تیزی سے اسکی طرف لپکا اور جھٹکے سے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔

” چٹاخ “

وہ اسے تھپڑ سے نوازتا زہریلے الفاظ اسکی سماعتوں سے گزار رہا تھا۔۔

” زندگی عذاب کر دونگا تمہاری موت مانگو گی تم “

اسنے جھٹکے سے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچتا ہوا روم سے باہر لے آیا وہ سہمی چڑیا کی طرح اسکے ساتھ کھچتی چلی جا رہی تھی سیڑھیوں سے اترتے وہ اسے ہال میں لے آیا جہاں مہمان گپ شپ میں لگے ہوے تھے اسکا پورا خاندان اس وقت حال میں موجود تھا۔۔ ابراز نے گرفت ڈھیلی کر کے تقریباً اسے پھینکتے ہوئے اپنی ماں سے کہا۔

” یہ کیا کر رہی تھی میرے روم میں؟؟؟ اسکی اوقات ہے میری کمرے میں قدم رکھنے کی؟؟ “ اسکی دھاڑ سے مہوش تک کانپ اٹھی جو پہلی بار اپنے بھائی کا ایسا روپ دیکھ رہی تھی۔

” یہ تمہاری ہی پسند تھی مت بھولو “

اسکی ماں نے نخوت سے کہا

” پسند تھی اب نہیں ہے!!!! اینڈ مائنڈ اٹ یہ مجھے اپنے روم میں نظر نہ آئے “ وہ اسے قہر برساتی نظروں سے گھور کر اپنے روم میں چلا گیا دروازہ بند کرنے کی آواز نیچے تک سنائی دی۔۔

دلہن کے روپ میں سجی وہ زمین پر اوندھے منہ گری پڑی تھی اتنے مہمانوں کے سامنے بےعزتی پر پہلی دفعہ اسنے موت کی شدت سے دعا کی۔۔۔۔ اسکی غلطی کیا تھی صرف اتنی کہ خود کو غلیظ نظروں سے بچانے کے لیے وہ پردہ کرتی تھی؟؟؟ اس نے سامنے کھڑی مہوش کو دیکھا جو فتح مند ی سے اسے دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہی تھی

” کیوں اُتر گیا پارسائی کا بھوت؟؟ “ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں تو گالوں پر آنسوؤں کا آبشار بہہ نکلا۔۔

” کہا تھا نا ں جلتی آگ میں خود کومت جھونکو.... افسوس ہوتا ہے کہ تم میری بیسٹ فرینڈ رہ چکی ہو “ وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے گویا ہوئی...

” منہ بند رکھو اپنا شرم کرو دوست ہے وہ تمہاری “

دادو کا پارا ہائی ہوگیا ان سب کی چپ دیکھ کر وہ خود اٹھ کے اسکے پاس آئیں...وہاں کھڑے کسی انسان میں انسانیت نہیں تھی تماشا دیکھ کر سب پتھر کی مانند جم کے کھڑے رہے۔

” بچے اٹھ ادھر آمیری دھی “ دادو نے خود جھک کر اسے اٹھایا۔۔

” یہی اوقات ہے اسکی “

مہوش بڑبڑاتی ہوئی اسے ایک تیز نظر سے نوازتی اپنے کمرے میں چلی گئی ساتھ فبیحہ حیات (مہوش کی امی) بھی اپنی فرینڈز کو لےکر ڈرائنگ روم میں چلی گئیں مہمان توسب گیسٹ روم میں آرام کی غرض سے چلے گئے اب بس حال میں دادی تھی اور حجاب۔

” آ بچے “ حجاب کو شدت سے رونا آرہا تھا کیسی عزت افزائی کر گیا تھا وہ اسکی نکاح کر کے کیا اسکا انتقام پورا نہیں ہوا تھا جو اسےاس ذلت میں گڑھ گیا اب وہ کیسے سب سے نظریں ملائے گی اسکی نظر تو دادی کے سامنے بھی جھکی ہوئی تھی بس وہ نظریں جھکائے ان کے ساتھ چل رہی تھی۔۔۔۔۔

” بیٹا میں تم سے بہت شرمندہ ہوں مجھے پتا ہوتا صرف تمہارے انکار سے اُسکا یہ عمل ہوگا تو اس کے کمرے میں بھیجتی ہی نہ۔۔۔ میں جانتی ہوں بہت مشکل ہے تمہارے لئے اسے قبول کرنا ۔۔۔ لیکن بیٹا میرے بیٹے میں لاکھ برائیاں سہی لیکن اسکا دل دشمنوں کے لئے سخت ہے لیکن اپنوں، غریبوں اور مددگاروں کے لئے نرم ہے۔۔۔ میں اسے سمجھاونگی تم پریشان نہ ہونا۔۔۔ “ وہ دادی کے کہنے پر چینج کر کے آچکی تھی اس نے سمپل سا لان کا سوٹ پہنا تھا جو دادی نے ملازمہ سے کہہ کر مہوش سے منگوایا تھا۔۔ اب وہ انکے ساتھ بیڈ پر بیٹھی نظریں جھکائے انکی بات سن رہی تھی لیکن ابراز کی طرفداری اسے ہضم نہیں ہوئی۔۔۔

” بس ایک سوال پوچھوں؟؟ “ نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں بس ہونٹ ہل رہے تھے۔

” ہاں بچے پوچھو؟؟؟ “ دادی نے خوش دلی سے کہا اتنی دیر اسے چپ دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی تھیں۔۔۔

” کیا آپ اپنی سگی بیٹی کی شادی کسی نشئی سےکرینگی؟؟ کیوں اکثر ماں باپ اپنے بیٹوں کی شادی یہ سوچتے کر کرتے ہیں کہ شادی کے بعدوہ سدھر جائے گا ذمہ داریاں آجائیں گی یا بیوی سدھار دے گی۔۔۔۔ جب اتنے سال ماں باپ کی پرورش اولاد کو سدھار نہ سکی تو دو دن کی آئی بیوی اسے کیا سدھارے گی؟؟ “ وہ دادی کو آج اپنی عمر سے بڑھی لگی اسکا کہا ایک ایک لفظ صحیح تھا۔۔

” تم نہیں سمجھو گی بچے میرا بیٹا یہاں پڑھنے آیا تھا لیکن فبیحہ کی محبت میں ایسا کھویا کہ آج تک وہ بیٹا نہیں ملا مجھے۔۔۔۔ میرا بیٹا نشہ کرنا نہیں سیکھا تھا لیکن یہاں آکر سیکھ گیا میں یہ نہیں کہتی قصور صرف فبیحہ کا ہے لیکن سنگت نے تو اسے خراب کیا نا۔۔۔ بس بچے دوست ہوں، یا میاں بیوی سنگت کا اثر ہوتا ہے ابراز کو ہی دیکھ لو باپ کی سنگت کا اثر ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر رشتے احساس کے ہوں تو اچھے اچھوں کو سدھار دیتےہیں۔۔ حیات تو اولاد سے پہلے اللہ‎ معاف کرے نجانے کیا تھا اب دیکھو میرے کہنے سے پہلے ہر کام سر انجام دیتا ہے۔۔۔بےشک تیرے ساتھ بُرا ہوا لیکن بچے اے اللہ‎ کی مصلحت سمجھ کر قبول کر لو“

” آج تک انکل نشہ؟؟ “ آگے حجاب سے بولا نہ گیا اسے تو ایسے لوگوں سے خوف محسوس ہوتا تھا کہاں آکر پھنسی وہ؟؟؟

” ہاں بچے میرا بیٹا ہیرا تھا یہاں آکر بس امیروں کے اشاروں پر ناچنے لگا۔۔۔ “ دادی کی آنکھ سے آنسو بہہ کر گالوں پر پھسلے۔۔۔۔ حجاب تو خود آج ایک قیامت سے گزری تھی وہ انہیں کیا دلاسادیتی؟؟ وہ اٹھ کر وضو کرنے واشروم چلی آئی اسے ابھی عشاء کی نماز بھی پڑھنی تھی۔۔۔


☆.............☆.............☆


کمرے میں ناگوار بو پھیلی تھی وہ اوندھے منہ بیڈ پر لیٹا تھا کہ اچانک موبائل کی بجتی رنگ نے اسکی نیند میں خلل پیدا کیا جسکی وجہ سے اسکی پیشانی پر بل نمایاں ہوئے وہ آنکھیں ملتا بمشکل اٹھا۔۔۔

” ہیلو “ بیزاری سے بولتےہوئے جیسے سننے والے پر احسان کیا ہوا اسکے لہجے سے جھلکتا غصّہ فون کے اس پار بندے کو کچھ پل کے لئے خاموش کر گیا۔۔۔

” واٹ میں ابھی آتا ہوں ڈونٹ وری “

فون پرملنے والی خبر نے اسکی نیند بھک سے اُڑا دی وہ جلدی سے پاس پڑی شرٹ پہننے لگا ساتھ موبائل پر ایک نمبر ڈائل کیا۔

” ہیلو قاسم سنو ڈیڈ کے اکاؤنٹ سے جلدی پچاس لاکھ میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرو ہاں فاسٹ آئ ڈونٹ نیڈ یور بلڈی ایڈوائس ڈو ایز آئی سیڈ “ موبائل پینٹ کی جیب میں رکھتے اس نے والٹ اور کار کی چابی سائیڈ ٹیبل سے اٹھائی اور تقریباً دوڑتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔۔


☆.............☆.............☆


ملازمہ کا دیا سوٹ پہن کر وہ نیچے چلی آئی جہاں سب ڈائننگ ٹیبل پر موجود اسکا انتظار کر رہے تھے۔۔۔

” کیسی ہو؟؟؟ کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی رات؟؟؟ نئی جگہ ہے مشکل ہوئی ہوگی۔۔۔ نیند پوری کی ہے؟؟ “ فبیحہ حیات نے حجاب کے بیٹھتے ہی پوچھا حجاب کو لگا جیسے وہ طنز کر رہی ہیں۔۔۔ جبکے گھر میں کوئی مہمان موجود نہیں تھا فبیحہ حیات اور دادو ہی موجود تھیں مہوش شاید یونی جا چکی تھی۔۔۔

” میں ٹھیک ہوں آنٹی اور نیند آگئی تھی “

” گڈ “ ہلکا سے مسکرا کے وہ جوس گلاس میں انڈیلنے لگی۔۔ دادی نے خود ہی اسکی پلیٹ میں آملیٹ اور پراٹھا رکھا۔۔۔۔

” ہیلو ڈارلنگ وہٹ ہپینڈ منہ کیوں پھلایا ہے؟؟ “ مہوش ڈھیلی شرٹ اور ٹرائوزر میں ملبوس پیچھے سے آکر دادو کے گلے لگی۔۔۔

” پرے ہٹ۔۔ نہیں میں تیری ڈارلنگ شارلنگ دیکھ لی کل کتنی عزت کرتی ہے تو دادی کی۔۔ “ فبیحہ نے آنکھوں کی پتلیوں کو گھمایا جیسے اس سین سے بیزار ہوں جبکہ حجاب بھی لاتعلق بنی بیٹھی رہی۔۔۔

” دادو ڈارلنگ وہ تو ضروری تھا لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ عزت کرنے والا ہی عزت کا حق دار ہوتا ہے اور بےعزت۔۔۔ “ حجاب کی طرف دیکھتے دادی کے گلے میں بانہیں ڈالے وہ کاٹ دار لہجے میں بولی دادی نے بیچ میں ہی اسکی بات کاٹی

” منہ بند رکھ اپنا ناشتہ کرنا ہے کرو ورنہ جا اپنے اسکول۔۔۔ “ دادی نے غصّے سے اسکے بازو جھٹکے۔۔۔

” آپ ہی جائیں اس عمر میں اسکول میں یونیورسٹی جاتی ہوں اسکول نہیں “ وہ انکی پلیٹ سے ٹوسٹ لیکر تن فن کرتی اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔

” حجاب بیٹے چھوڑ بُرا نا ماننا اور ہر کسی کی بات کو طنز نہیں سمجھتے میں نے فبیحہ سے کہا تھا تم حجاب سے کل حال چال پوچھنا۔۔۔ “ حجاب جو اب تک مہوش کے الفاظ ہضم نہ کر پائی تھی دادی کی بات سن کر ایک گہرا سانس خارج کیا۔۔۔۔

” دادو سب کہاں ہیں؟؟ مہمان وغیرہ؟؟

” ابراز کے کام دیکھوصبح صبح اعلان کر دیا ولیمہ ایک ہفتے بعد ہوگا سب مہمان ناشتہ کرتے ہی گھروں کو روانہ ہوگے باقی جو گاؤں سے آئے تھے وہ گیسٹ روم میں ہیں شام کو نکلیں گے۔۔ لیکن اس لڑکے کی سمجھ نہیں آتی مجھے۔۔۔ اللہ‎ اسے ھدایت دے۔۔ “

” آمین “ بےختیار حجاب کے منہ سے نکلا دادی نے اسے ساتھ لگایا۔۔

” ُثم آمین میری بچی جیتی رہو۔۔ “ ناشتہ کرنے کے بعد وہ گارڈن میں آگئی حویلی کا وسیع و عریض گارڈن تقریباً نو کنال پر مشتمل تھا تھوڑے فاصلے پر ایک خوبصورت ہٹ بنا تھا جس میں لکڑی سے بنے خوبصورت بینچیز تھے۔۔۔ہر طرف خوبصورت رنگ برنگے پھول تھے۔۔۔ گارڈن سے آگے ہی ایک خوبصورت سوئمنگ پھول تھا ایک باؤنڈری بنی تھی جس نے گارڈن اور سوئمنگ پول کی سائیڈ کو علیحدہ کیا تھا۔۔۔ کافی دیر وہ گارڈن میں ٹہلتی رہی پھر دادی کے روم میں چلی آئی سارا دن ہی اسکا بورنگ گزرا بس لنچ ٹائم میں کچھ مہمانوں سے ملاقات ہوئی جو گاؤں سے آئے تھے اور خوش دلی سے اس سے ملے۔۔۔ باقی سارا دن وہ دادی کے روم میں رہی۔۔ عشاء کی اذان ہوتی ہی اسنے نماز ادا کی دعا مانگتے وقت اسے شور کی آواز آئی اور یہ آواز وہ ہزاروں میں بھی پہچان سکتی ہے ابراز حیات۔۔ اسکے لب بےآواز ہلے دعا کے لیے اٹھتے ہاتھ نیچے گر گئے وہ جائےنماز تہ کر کے نیچے کی جانب چل دی۔۔۔

” دادو کہیں آوارہ گردی نہیں کرنے گیا ایک ضروری کام تھا وہی کرنے گیا تھا۔۔۔ آپ یہ بتائیں وہ پارسا بی بی کہاں ہے “ ابراز بازو کے کف فولڈ کرتا جھنجھلا کر بولا وہ رف حلیے میں ملبوس تھکا تھکا سا لگ رہا تھا دادی صوفے پر بیٹھی تھیں اور وہ انکے سامنے کھڑا صفائیاں دے رہا تھا۔۔۔

” کیا پارسا بی بی لگا رکھا ہے بیوی ہے تمہاری اور اب کیوں یاد آرہی ہے اُسکی؟؟؟ کل تو سب کے سامنے تماشا بنا کر گئے تھے کمرے تک سے نکال دیا اب کیوں پوچھ رہے ہو اسکا؟؟ “ دادو نے سرد لہجے میں اسے شرم دلانی چاہے جس پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔

” کل کچھ زیادہ ہی پی لی تھی مجھے تو یاد بھی نہیں کیا ہوا تھا آپ ڈیٹیل میں بتا دیں کیا پتا یاد آجائے اور شرم بھی آجائے “ ابراز نے بمشکل مسکراہٹ دباتے کہا اسے پتا ہے دادی آسانی سے چھوڑنے والی نہیں۔۔۔۔

” تجھے بالکل شرم نہیں آرہی اس بچی کے سامنے میں اپنی ہی نظروں سے گر گئی مجھے پتا ہوتا یہ ارادہ ہے تیرا کبھی رشتہ لیکر نہ جاتی “ دادو کہتے کہتے ہانپنے لگیں ابراز جلدی سے انکے پاس آگیا پہلے انکی پیٹھ تھپکی پھر پیار بھرے لہجے میں کہا

” اوہ دادو ڈارلنگ!!!! “

” پرے ہٹ “ دادی نے بُرا سا منہ بنایا اسکے کپڑوں سے شراب کی اٹھتی بو انہیں ناگوار گزری۔۔۔

” کیوں دادو اب کھانسی نہیں آرہی؟؟ ابراز کے سوال پر دادو نے عینک اوپر کی جو کھانستے کھانستے پھسل کر ناک تک چلی آئی۔۔۔

ابراز جانتا تھا وہ ناٹک کر رہی ہیں۔۔۔

” بے شرم ہی رہیگا۔۔ اس بچی کے ساتھ کیوں کیا ایسا؟؟ “

” دادو بس سزا ہے حلال رشتہ جوڑنے گیا تھا حرام پی لی اور نقصان اپنا کر بیٹھا۔۔ اب دیکھنا دادو اسے پریشان نہیں کرونگا۔۔۔ آپ ویسے کب جا رہی ہیں؟؟ “ سارا الزام شراب پر لگا کر اس نے اپنا سوال پوچھا جسے سن کر دادو نے اسے گھوری سے نوازا۔۔۔

” میں کہیں نہیں جانے والی تیری ہر کاروائی پر نظر ہے میری۔۔ “ دادو کی بات سن کر ابراز نے سر کھجایا پھر نظر سیڑھیوں پر پڑی جہاں وہ حسینہ آخری سیڑھی پر کھڑی اس پر بجلیاں گرا رہی تھی۔۔۔ نماز سٹائل میں چہرے کے گرد بندھا دوپٹا اسے اوربھی حسین بنا رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسل رہی تھی جن میں بھر بھر کے مہندی لگی ہوئی تھی۔۔ حجاب کو ابراز کی اپنے وجود پر جمی نظریں غصّہ دلا رہیں تھیں اس سے پہلے کے وہ نیچے اترنے کے لئے قدم بڑھائے

ابراز وقت ضائع کیے بغیر تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اسے کھینچتے ہوے روم میں لے آیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” چھوڑو میرا ہاتھ میں نے کہا چھوڑو “ وہ اسکا ہاتھ پکڑے تقریباً کھینچتے ہوئے اُسی کمرے میں لے آیا جہاں سے کل رات اُسے نکالاتھا۔۔۔

” نہیں چھوڑونگا کیا کروگی؟؟؟ “ کمرے کا دروازہ بند کرتے ابراز نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا وہ اپنا ہاتھ مسلنے لگی یہ حرکت دیکھ ابراز کو لائبریری والا قصہ یاد آگیا۔۔

” شوہر ہوں اب تمہارا!!! تمہارے عشق میں پاگل ہوتا عاشق نہیں جس کے چھونے سے ہاتھ دھونے چلی جاؤ۔۔ “

حجاب ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔ جبکے ابراز مسکراتا ہوئے اسکے کان کے قریب جھکا اسنے حجاب کا ہاتھ پکڑا تھا اسے یقین تھا وہ پیچھے ہٹ جائے گی۔۔۔۔

” سایہ بن کے ہر پل ساتھ رہا ہوں!!! تمہاری ایک ایک غلطی یاد ہے “ بےحد قریب جھکتے ہوئے وہ اسکے کان میں رازداری سے بولا اور دھیرے سے ہاتھ چھوڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا اب اسکی نظریں حجاب پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔

” تم میرے عشق میں پاگل تھے؟؟ “ حجاب کو یقین نہ آیا وہ تو اب تک خود کو اسکا انتقام سمجھ رہی تھی جبکے ابراز کا فلک شگاف قہقہہ نجانے کیوں اسے شرمندہ کر گیا۔۔۔

” عشق اور وہ بھی تم سے؟؟ محبت ہوجائے اتنا ہی کافی ہے ویسے محبت ہوجاتی ہے لیکن بیوی سے کون کرے؟؟ وہ تو اپنی ہی ملکیت ہے “ ابراز ایک ہاتھ سر پر ٹکائے بیڈ سے ٹیک لگا کے بیٹھا تھا جبکہ نظریں اس حسینہ سے ایک پل کو نہیں ہٹی تھیں۔۔۔

” تم جیسا گھٹیا شخص کسی سے محبت تو کیا؟؟ کسی کی عزت تک نہیں کر سکتا چاہے وہ اپنی ہی ماں ہو یا بہن۔۔۔ “ نفرت وحقارت تھی حجاب کی نظروں میں ماں بہن کا سن کر وہ جو مزے سے لیٹا تھا اسکے سر پر آن کھڑا ہوا۔۔۔

” اوہ یو شٹ اپ تم کوئی اتنی اہم نہیں کہ صفائیاں دیتا پھروں۔۔۔ “ اسکا بازو سختی سے پکڑے وہ اس سے بھی تیز آواز میں بولا۔۔

” ہونا بھی نہیں چاہتی تم جیسے شخص سے کوئی رشتہ بھی نہیں رکھنا نہیں چاہتی۔۔۔ جو بھری محفل میں اپنی ہی عزت کا جنازہ نکالے کل تم نے مجھے نہیں خود کو رسوا کیا خود کا تماشا بنایا کیوںکہ بھلے پہلے کوئی رشتہ نہ تھا لیکن اب بیوی ہوں تمہاری۔۔۔ “ ابراز اسے جن نظروں سے دیکھ رہا تھا اسکا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سماں جائے۔۔۔۔اسکی نظریں ایسی تھیں بےاختیار حجاب نے شانوں کے گرد دوپٹا اچھے سے پھیلایا۔۔۔

” مجھ سے بچنے کے سارے حربے آزما رہی؟؟ خیر تمہاری باتوں میں آکر تمہارے پیر تو پکڑنے والا نہیں۔۔ جانِ من رات گئی بات گئی اب آگے کی راتوں کا سوچو۔۔ “ وہ کہتے ہوے اسکے قریب تر آتا جا رہا تھا۔۔۔

” دوڑ ہٹو گھٹیا انسان۔۔ “ حجاب اس کے ایک قدم بڑھاتے ہی دو قدم پیچھے ہٹی۔۔۔

” شوہر ہوں تمہارا بےبی۔۔ “ حجاب کا ڈرنا اسکی مردانہ انا کو تسکین دے رہا تھا۔۔آج تک لڑکیاں خود اسکے پاس چل کر آئیں یا وہ انکی رضامندی سے پاس جاتا تھا لیکن حجاب وہ واحد لڑکی تھی جو صرف اسکے چھونے سے بری طرح رو پڑی تب سے ابراز کو ایک ضد ہو چلی تھی۔۔۔

” اُسی بات کا افسوس ہے۔۔۔ “ حجاب نے زہر خند لہجے میں کہ کر اسے دور دھکیلا اور کمرے سے بھاگتی ہوئی نیچے چلی آئی۔۔۔

” واپس آؤ ورنہ آج تمہاری خیر نہیں۔۔۔ “ وہ اسکی بات ان سنی کرتی ایک پل کو بھی نہ رکی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


پورے دن وہ کمرے میں اکیلے سلگتا رہا لیکن رات ہوتے ہی اسکی برداشت جواب دے گئی اور وہ ڈنر کے بعد اسکی خبر لینے دادی کے روم میں آن پہنچا۔۔۔ لیکن ابراز کی قسمت وہ شاید اسکی آمد سے آگاہ تھی تبھی نماز پڑھنے بیٹھ گئی اور دادو پلنگ پر بیٹھی تسبیح کر رہی تھیں۔

” دادو آپ کو پوتے پوتی کی خوائش نہیں؟؟ “ دادی کے پلنگ پر لیٹے وہ حجاب کو نظروں کے حصار میں لئے گویا ہوا۔۔۔

” ہائے کیوں نہیں ہوگی۔۔۔ میری تو دعا ہے جلد ہی یہ خوشخبری میرے کانوں کو نصیب ہو “ دادی نے آس بھرے لہجے میں کہا

” کہاں سے ہوگی؟؟؟ سارا دن تو یہ آپ سے چپکی ہوئی ہوتی ہے “ ابراز نے بلا خوف و جھجھک حجاب کو دیکھتے کہا

” بےشرم۔۔۔ شرم حیا نہیں ہے تجھ میں اس طرح بات کرتے ہیں دادو سے؟؟ دادو نے اس کے کندھے پر ایک تھپڑ رسید کیا جسکا اس پر کوئی اثر نہ ہوا

” دادو دادا نے کی تھی شرم و حیا “ ابراز نے بھی حساب پورا کیا

” چل بےشرم “ دادی نے عینک درست کر کے منہ دوسری طرف کر لیا ابراز انکی ادائیں دیکھتا رہا

” دادو یہ کب سے نماز پڑھ رہی ہے؟؟ “ ابراز نے بےزار ہوکر پوچھا جو رکوح میں بھی کوئی تین چار منٹ بعد جھکتی

” بیس منٹ ہوگے۔۔۔ “

” بیس منٹ میں تو امام بھی نماز پڑھا کر فارغ کردیتا۔۔۔ یہ کونسی نماز پڑھ رہی ہے؟؟ “ بیس کا سن کر اسے شدید دھچکا لگا وہ جان چکا تھا حجاب میڈم نماز پڑھ کے فارغ ہو چکی ہیں یہ صرف اس سے بچنے کا اک بہانہ ہے۔

” عشاء “ دادی نے دھیمی آواز میں کہا

” مجھے دیکھ کر طویل کردی ہوگی۔۔۔۔ اب یہ فجر کی نماز پڑھ کے اٹھے گی “ وہ غصّہ ضبط کر گیا۔ ورنہ دل تو چاہا رہا تھا دادو کی پروا کے بغیر گودمیں اٹھا لے جائے

” اس سے پہلے تہجد بھی ہے “ دادی کی بات سن کر وہ سر تھام کر رہ گیا

” دادو ان میڈم نے عشاء تہجد سب آج ہی پڑھنا

انفکٹ قضا نمازیں بھی آج کے لیے سوچ بیٹھی ہوگی یہ نہیں اٹھنے والی آج “

اونچی آواز میں وہ اس پر طنز کر گیا۔۔۔ مزید دو منٹ بعد جب وہ سلام کر کے دوبارہ نیت کرنے لگی تو ابراز سے برداشت نہ ہوا۔۔۔۔۔۔

” حجاب تاثیر آپ کے لیے ترس رہے ہیں کچھ تو نظرِکرم کرو اس معصوم پر “ وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتا معصومیت سے بولا۔۔ حجاب جو کب سے اسکی بکواس برداشت کر رہی تھی تپ اٹھی لیکن ان سنا کرتی رہی۔۔۔۔۔

” تنگ نہ کر نماز پڑھنے دے “ دادی نے ٹوکا

” تنگ کرنے کا موقع ہی کہاں دیتی ہے “ حجاب کو اسکی نظریں ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھیں۔ جو اس پر سے نظریں ہٹانا تو جانتا ہی نہیں تھا۔۔۔۔

” دل ہی دل میں گالیاں دے رہی ہوگی “ وہ اسکے لرزتے ہاتھوں کی کیفیت سے محفوظ ہوتا مسکرایا

” تیری طرح نہیں ہے معصوم ہے گالیاں آتی بھی نہیں ہونگی “

دادو نے غصے سے جواب دیا

” معصوم ؟؟ اس سے تو شیطان بھی پناہ مانگے “

ابراز کو پہلی بار اسکا تھپڑ یاد آتے غصّہ نہیں آیا بلکہ خود بخود اسکے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ رینگی۔

” وہ تو تجھ سے بھی مانگتا ہے “ دادی بھی کم نہیں تھیں ابراز کے ہر سوال کا جواب حاضر تھا۔۔ ابراز تو صرف اسے ہی دیکھ رہا تھا دادی نے کیا کہا اسکا دماغ حاضر ہی کہاں تھا وہ تو بس اس دشمن جاں کو تکے جا رہا تھا جسے اسکی کوئی پروا نہیں۔۔۔۔۔

” نماز کا پتا ہے شوہر کے حقوق نہیں پتا؟؟ صحیح کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہےسنا تھا آج دیکھ بھی لیا بیگم صاحبہ سب کو لیکچر دیتی پھرتی ہیں خود کا ٹائم آئے تو اندھی گونگی بہری بن جاتی ہیں۔۔۔ “ ابراز نے آخری تیر نشانے پر لگایا وہ جانتا تھا حجاب تاثیر اپنا نام سن کر بھپری شیرنی بن جائے گی، آخر جواب دیے بنا اور اپنا نقصان کیے بغیر حجاب تاثیر کو نیند ہی کہا آتی ہے۔۔۔

” آرہے ہیں سرکار ہمارے۔۔۔ “ اسے سلام پھیرتا دیکھ وہ با آواز بلند بولا حجاب نے سلام پھیر کر اسے دل ہی دل میں خوب سنائی۔۔۔

” دادو میری نفلی نماز رہتی تھی وہی پڑھ رہی تھی “ حجاب نے ایک تیز نظر سے ابراز کو نوازا

” اب روم میں چلو عبادت کر کے اللہ‎ کو خوش کردیا اب ذرا اپنے مزاجِ خدا کو بھی خوش کرو۔۔۔۔ “ وہ اسے جائےنماز تہ کرتے دیکھ اٹھ چکا تھا اب حجاب کا ہاتھ پکڑے وہ حکمیہ انداز میں بولا

” مجھے کہیں نہیں جانا میں دادی کے پاس سوؤنگی “ حجاب اس کے ہاتھ پکڑنے سے خوفزدہ ہوگئی۔۔۔۔ جبکے ابراز نے اسکا جواب سن کر گرفت سخت کر لی۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتا دادی بولیں۔۔۔

” حجاب بیٹے اس طرح شوہر کے جائز حقوق سے انکار نہیں کرتے۔۔ فرشتے ساری رات بددعائیں دیتے ہیں جانتی ہو اللہ‎ کے نزدیک سب سے پسندیدہ شوہر بیوی کا رشتہ ہے کیوں کہ یہ واحد رشتہ ہے جس میں علیحدگی ہوتی ہے۔۔۔ نہ ماں باپ سے رشتہ ٹوٹتا نہ بہن بھائی سے لیکن میاں بیوی کا جتنا رشتہ نازک ہے اتنا نبھانا مشکل ہے۔۔ جب شوہر بلائے تو حکم ہے بیوی سارے کام چھوڑ کے اسکا کہا پہلے مانے۔۔۔اب آپ کا نکاح ہو چکا ہے اور شوہر کا کمرہ ہی آپ کا اپنا ہے۔۔ اور شوہر کے حقوق آپ پر فرض۔۔۔ “ دادی نے پیار سے حجاب کو سمجھایا اسکی کیفیت سے وہ واقف تھیں۔۔۔۔جبکے حجاب کا جہاں منہ لٹکا وہیں دل میں خوف جگا اور ابراز انکی تفصیل سن کر جی جان سے فدا ہوگیا۔۔۔۔

” دادو روز آپ کے پاس ایک گھنٹہ چھوڑ جاؤنگا اسی طرح بس شوہر کے حقوق بتانا خبردار دادی جو فرائض بتائے ویسے ہی کم دماغ خراب کرتی ہے۔۔۔ اچھا دادو اپنی بیوی کو لے جا رہا ہوں جلد ہی آپ کو گڈ نیوز دونگا۔۔۔ “وہ بلا خوف و شرم دادی سے کہہ کر اسے اپنے ساتھ کھینچتا لے گیا۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


ابراز نے کمرے کا دروازہ لات مار کے بند کیا اور حجاب جسے اس نے قندھے پر اٹھا رکھا تھا بیڈ پر پٹکا۔۔۔۔

” جاہل انسان، بے شرم گھٹیا، کافر۔۔۔ “ وہ دادو کے روم سے نکلتے ہی چیخنے لگی تھی ساتھ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی بھرپور کوشش میں تھی ابراز نے تنگ آکر اسے اپنے قندھے پر اٹھا لیا لیکن کمرے میں آتے ہی وہ پھر سے اپنی زبان سے مسلسل اس پر وار کر رہی تھی۔۔۔

” جتنا بولنا ہے بولو پارسا بی بی انفکٹ گالیاں دینی ہے وہ بھی دو آئ ڈونٹ کیئر۔۔۔۔۔۔ آج تمہارا رونا بلکنا بھی مجھے روک نہیں سکتا۔۔۔۔ دادی کے روم میں جانے کی جو حرکت تم نے کی وہ معافی کے قابل نہیں۔۔۔ “ دونوں ہاتھ دائیں بائیں رکھ کے وہ اس پر جھکتے ہوئے قہر آلودہ نظروں سے نوازتا سخت لہجے میں بولا۔ حجاب کی آنکھیں خوف سے پوری کھل گئیں وہ اسکی بات کا مفہوم صاف سمجھ گئی آج وہ اسکی نہیں سنے والا۔۔۔۔۔

” تم نے مجھے نکالا تھا۔۔۔ اور بےعزت کیا تھا سب کے سامنے “

حجاب اس سے خوفزدہ ہوتی اتنی دھیرے سے بولی کے بمشکل وہ سن پایا لہجے میں بچوں سے معصومیت تھی اور آنکھوں میں ہلکی سے نمی۔۔۔۔

” اور تم نے جو مجھے درس دیا تھا اُسکا کیا؟؟ “

سرد لہجے میں وہ اسے کیفیٹیریا والا واقع یاد دلا گیا

” وہ تم ڈیزو کرتے تھے “ وہ ہلکی آواز میں بڑبڑائی لیکن ابراز کو اسکی بربراہٹ صاف سنائی دی

” حجاب تاثیر۔۔۔۔ تم۔۔۔ تم نے مجھے پاگل کیا تھا۔۔۔۔ پل پل میری اجازت کے بغیر میری سوچوں پر قابض رہیں۔۔۔ تمہارے ساتھ چاہ کر بھی میں کچھ بُرا نہ کر سگا لیکن تم تم نے خود اپنے ساتھ بُرا کیا۔۔ اپنی بربادی کی تم خود زمیدار ہو۔۔۔ مجھے بھی کوئی افسوس نہیں لیکن۔۔۔۔۔ میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔۔۔۔ ساری زندگی کے لئے۔۔۔۔۔ تم دیکھو گی ابراز حیات کیسے اپنی بیوی کو عزت دیتا ہے۔۔۔۔۔ “ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے جہاں اپنے دل کا حال بتا گیا وہیں اُسے اپنی اُس عزت سے نوازا جو ابراز کے غصّے میں وہ سب کی نظروں میں کھو چکی تھی۔۔ حجاب نے کوئی جواب نہ دیا نظریں پھیر لیں۔۔ اسکا دل کسی بلی کے بچے کی طرح کانپ رہا تھا کیوں کے ابراز اس پر جھکا کھڑا تھا جسکی وجہ سے وہ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔ ابراز نے ہاتھ بڑھا کر ہلکا سا اسکا گال چوھا۔۔۔

” نہیں “ حجاب تیر کی تیزی سے پیچھے ہوتی چلائی

” حجاب۔۔۔ تم مجھے روک نہیں سکتیں “ غصّے میں اسکی دماغ کی نظریں تک واضع تھیں۔ ابراز نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ پر رکھا اسکا ہاتھ تھامنا چاہا کے حجاب چلائی۔۔۔

” نفرت ہے تم سے تم آئے نہ قریب میں تمہیں بددعائیں دے دے کر مار دونگی۔۔۔۔ “ ابراز نے ایک نہ سنی پاس بیٹھ کر سختی سے اسکا ہاتھ تھما ” اب باکو۔۔۔ “

” دیکھو پلیز میرے قریب نہیں آنا۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ تم نشئی ہو دور رہو مجھ سے کرائیت آتی ہے تم سے۔۔۔۔ “ وہ اپنے دوسرے ہاتھ سے ابراز کے ہاتھوں پر ناخن سے کھروجتے چیخی۔۔۔۔ ابراز اسکا لمحہ با لمحہ بڑھتا پاگل پن دیکھتا رہا جو مزید اسے غصّہ دلا گیا۔۔

” تم نے کہا تھا نہ حرام رشتے بناتا ہوں آج حلال بناؤں گا۔۔۔ تم حجاب تاثیر میری نہ محبت کے قابل ہو نہ نفرت نجانے کیوں چاہ کر بھی نہ تمہیں ذہن سے نکال سکتا ہوں نہ نفرت کر سکتا۔۔۔۔ لیکن آج اس ہلال کا مزہ ضرور چھکونگا۔۔۔۔۔ آخر تمہارا حق بھی تو دینا ہے۔۔۔ “ وہ سفاکی سے ہنسا، سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے اس نے حجاب کو اپنے حصار میں لیا اور روم کو روشن کرتی لیمپ کی ہلکی روشنی بھی بھجا دی۔۔۔۔۔

وہ بیڈ پر چت لیٹی تھی۔ بکھرے بالوں کی کچھ لٹیں گیلے گالوں سے چپکی ہوئی تھیں۔۔۔۔سرخ ہوتی سوجی آنکھیں کھولے وہ کمرے میں پھیلا اندھیرا دیکھ رہی تھی جو اسکی زندگی میں چھا چکا تھا۔۔۔ دل کا درد پل پل مزید بڑھتا جب اپنی بربادی کا احساس ہوتا۔۔۔ آنسو کسی ندی کی طرح اسکی آنکھوں سے پھسل کر بالوں میں جذب ہورہے تھے ۔۔۔ رات کا منظر یاد آتے ہی اسکا دماغ پھٹنے لگتا کروٹ لیتے اسکی نظر ابراز پر پڑی جو دنیا جہاں سے بےنیاز پر سکون نیند میں تھا حجاب کا دل چاہا اپنے جلتے دل کی طرح وہ اسے بھی جلا کر راکھ کردے وہ اٹھی اسے یکدم کمرے میں وحشت ہونے لگی، سانس لینا دشوار لگا، وہ بھاگتی ہوئی بالکنی میں جا رہی تھی کہ آنکھوں کے سامنے ایک پل کو اندھیرا چھانے سے اسکا پیر بری طرح ٹیبل سے جالگا ہلکی سے چیخ اسکے حلق سے برآمد ہوئی لیکن وہ رکی نہیں بھاگتی ہوئی ٹیرس پر آگئی جہاں نیلا آسمان کالے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا ٹھنڈی ہواؤں اور تیز چلتی بارش نے موسم کو مزید حسین بنا دیا۔۔ لیکن یہ خوش گوار موسم بھی اسکے دل میں جلتی آگ نہ بجھا سکا وہ اپنے بازؤں , چہرے کو ہاتھوں سے بُری طرح رگڑنے لگی ابراز حیات کا لمس اسے دہکتے انگاروں کی مانند اپنے جسم پر چُبھتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔

” پاگل ہوگئی ہو ؟؟؟ “ ابراز جو اسکی چیخ سن کر اٹھا تھا اسے اس طرح بارش میں بھیگتے اور چہرے کو رگڑتا دیکھ آپے سے باہر ہوگیا یہ لڑکی اسے پل پل ضد دلا رہی تھی۔۔۔

” ہاں پاگل ہوگئی ہوں۔۔۔ تم نے مجھے کردیا ہے۔۔۔۔۔ سب ختم ہوگیا۔۔۔۔ سب۔۔۔۔۔۔۔برباد کردیا تم نے مجھے۔۔۔۔ می۔۔۔۔ میں۔۔۔ تو پاک تھی پھر تم جیسا شخص میرا نصیب کیوں بنا کس گناہ کی سزا ملی ہے مجھے؟؟؟ میرا کون سا۔۔۔۔ عمل مجھے برباد کر گیا؟؟؟؟ تم۔۔۔کیوں آئے تم مر کیوں نہیں گئے؟؟ کیوں میرے ساتھ یہ سب کیا۔۔۔۔ کیوں بولو؟؟ “ ابراز کا بڑھتا ہاتھ جھٹک کر وہ اسکی شرٹ پکڑ کے چیخ پڑی۔۔۔

” اسٹاپ اٹ نشئی ہوں آوارہ ہوں بڑے سے بڑا گہنگار ہوں لیکن۔۔۔۔۔“ وہ اسے جھنجھوڑتے ہوئے سرد لہجے میں کہتا یکدم چُپ ہوگیا پھر ایک نظر حجاب پر ڈال کر سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔” تم جیسے لوگوں کے لئے صحیح کہا ہے جس کو ”میں“ کی ہوا لگی اُسے پھر نہ ”دوا“ لگی نہ ”دعا “ اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ اپنے ازلی سرد لہجے میں بولا لیکن حجاب وہ کہاں اپنے ہونش میں تھی اسکے جھنجھوڑنے سے وہ اپنی حواس کھو کر اسکی بانہوں میں جھول گئی ابراز یکدم دنگ رہ گیا پھر سنبھلنے پر تیر کی تیزی سے اسے گود میں اٹھا کر بیڈ تک لایا۔۔ اسے لیٹا کر ابراز نے فوراً نظر ارد گرد دوڑائی اسے ڈریسنگ ٹیبل پر اپنا فون نظر آیا۔ تیزی سے فاصلہ طے کر کے اس نے اپنا فون اٹھایا اور ایک نمبر ڈائل کیا

” سارا آئ نیڈ یور ہیلپ پلیز کم فاسٹ “ سارا کو اسکی آواز سے اسکی بڑھتی پریشانی کا اندازہ ہو رہا تھا

” ہوا کیا ہے؟؟ “

” میری بیوی کو باپ کے ہارٹ اٹیک کا سنتے ہی شاک لگا اب کیا کروں ہوش میں نہیں آرہی “ وہ ایک ہی سانس میں بولتا سارا کو بھی احساس دلا گیا معاملہ پیچیدہ ہے

” اوکے ریلکس اُسے جلدی ہسپتال لے آؤ دیر نہ کرو “ وہ سارا کی بات سن کر فون کاٹتا اسکے ہوش و سے بےگانہ وجود کو لیکر ہسپتال پہنچا وہ خود نہیں جانتا یہ لڑکی کیوں ہر بار اسکے سامنے ایک نیا امتحان بن کر کھڑی ہوتی ہے آج بھی اس نے ابراز حیات کو صبح کی روشنی میں تارے دیکھا دیئے برستی بارش میں وہ کیسے ہسپتال پہنچا تھا وہی جانتا ہے کتنی ہی بار اسکی گاڑی لگتے لگتے بچی تھی۔۔۔ اسکا خود بازو ابھی درد کی شدت سے جل رہا تھا۔۔ ماتھے پر ابھی بھی ایکسیڈنٹ کا ہلکا سا کٹ موجود تھا جسے بھرنے میں ابھی وقت ہے۔۔۔ لیکن حجاب اسے وہ کیسے سنبھالے گا اس شدید طرزِ عمل کی اسے امید نہ تھی۔۔۔

” شی اس فائن اُسے انجکشن دے دیا ہے۔۔باقی دوائی لکھ دیتی ہوں ٹائم سے دیتے رہنا اسے فیور بھی ہے “ سارا نے آکر ابراز کو اطلاع دی جو کب سے پریشان کھڑا ونڈو سے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔۔۔ سارا کی بات سن کر جہاں اسکی جان میں جان آئی وہیں اگلے سوال پر اس کل دل چاہا سارا کا گالا گھونٹ دے۔۔۔۔۔

” ویسے شادی کی بہت بہت مبارک ہو۔۔۔ لیکن یاد آیا تم نے کہا تمہارے سسر کو اٹیک ہوا ہے؟؟ “

” ہاں بس خوشی کنٹرول ہی نہیں ہوئی۔۔۔۔ بلا جو سر سے ٹلی۔۔ “ ابراز نے نارمل سے انداز میں کہا آخر میں وہ بڑبڑاتے ہوے بولا۔۔اسے اس وقت کسی کا بات کرنا سخت کوفت زدہ کر رہا تھا۔۔

” کیا؟؟ “ سارا جو اسکی بربراہٹ نہ سن سکی پوچھا

” کچھ نہیں۔۔ اور ہاں حجاب کو نہیں بتانا ورنہ یہیں ماتم شروع کردیگی۔۔ “ احسان کرنے والے انداز میں جواب دیکر وہ اندر حجاب کے پاس چلا آیا۔۔۔۔

” ابراز کیا ہوا ہے اتنے غصّے میں کیوں ہو؟؟ “ سارا بھی اسکے ساتھ ہی اندر چلی آئی اور حجاب کے ہاتھ میں لگی ڈریپ نکال دی۔۔۔

” بیوی پاس نہیں ہوتی تو موڈ خود بخود بگڑ جاتا ہے “ زبردستی مسکراتے ہوئے اس نے بات ہی ختم کردی۔۔ اسکی گہری نظریں حجاب کے بےخبر وجود پر تھیں یہاں لاتے ہوئے بھی اسکی کوشش تھی حجاب کا چہرہ کوور رہے۔۔۔۔

” یاد آیا تم ڈنر کیے بغیر ہی چلی گئی تھی ؟؟ “ ابراز کو اچانک یاد آیا وہ حجاب پر سے نظریں ہٹا کر بولا اسے یاد تھا وہ شادی ہال میں اسے مبارکباد دیکر جلد ہی نکل گئی تھی۔۔۔

” ہاں وہ ایمرجنسی کیس آگیا تھا “ ابراز کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا سارا نے جو دوائی لکھی تھی وہ اس نے کمپاونڈر سے کہہ کر منگوائی جس کے آتے ہی وہ دوائی لیکر سارا کی ھدایت کے مطابق حجاب کو گھر لے آیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” کیا ہوگیا میری بچی کو تجھے کس نے کہا ہیرو بن کے اسکے ساتھ بارش میں نہا؟؟ “ ابراز نے حجاب کو گھر لاتے ہی ملازمہ کے ذریعے دادو کو بلا کر اسکی طبیعت خرابی کا بتایا کے بارش میں بھیگنے سے اسے بخار ہوگیا ہے۔۔۔۔۔

” دادی آپ کی بہو کا حکم تھا بارش میں نہانا ہے “ ابراز ڈریسنگ کے سامنے کھڑا آفس کے لیے تیار ہو رہا تھا اس نے حیات صاحب سے وعدہ کیا تھا شادی کے بعد وہ خود ہی آفس کا چکر لگایا کرے گا انٹرسٹ اسے خاص ابھی بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔

” کیوں بیگم صاحبہ “ ابراز ہیر برش رکھ کے پیچھے مڑا اور حجاب سے ہامی چاہی۔۔۔۔ حجاب نے نفرت سے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا ابراز مسکراتا ہوا جی جان سے اسکی ادا پر مر مٹا۔۔۔

” دیکھا دادی آنکھوں سے اشارے کر رہی ہے ہر بات دادی کو بتانا ضروری ہے؟؟ دادی آپ کو تو پتا ہے کچھ باتیں میاں بیوی کی پرسنل ہوتی ہیں “ وہ اسکے نفرت کا جواب محبت سے دیتا اسے تپا گیا۔۔۔ نظریں ابھی بھی اسکے زرد چہرے پر تھیں کل سے آج کے مقابلے وہ اسے کافی کمزور لگی۔۔۔

” کیا ہوتیں؟؟ “ دادی نے عینک درست کر کے اپنے پوتے کو دیکھا وہ تو لفظ پرسنل پر اٹک گئیں اس سے پہلے ابراز اپنا سر تھامتا دادی نے اسے سنایا۔۔۔۔۔

” اور تو تیار ہوکر کہاں جا رہا ہے بیوی کی خدمت کر دیکھ نہیں رہا بیچاری کی طبیعت کتنی خراب ہے “ ابراز تو جیسے بیٹھا ہی اسی کام کے لئے تھا۔ دادی کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی پاس بیٹھ کر اسکا ہاتھ تھام کر اپنی سخت گرفت میں قید کرلیا۔۔۔۔ حجاب جو آنکھیں موندھے اسکی نظروں کو نظر انداز کیے لیٹی تھی اس لمس سے سلگ اٹھی۔۔۔۔

” میں تو تیار ہوں آپ اپنی چہتی سے پوچھیں خدمت کا موقع دینگی “ وہ اسکا ہاتھ تھامے دل جلانی والے انداز سے مسکرایا۔۔۔ حجاب نڈھال ہوگئی لیکن اس سخت گرفت سے آزاد نا ہوسکی جبکہ دادی اب حجاب کے پیچھے پر گئیں۔۔۔۔

” کیوں نہیں دیگی؟؟ ہم تو ترس جاتے تھے شوہر ایک گلاس پانی کا بس اٹھا کے دی دے۔۔۔ “ دادی نے حسرت سے کہا جیسے کاش ایک دفعہ پانی پلا کر شوہر جنّتی ہوتے۔۔۔۔

” دادی آپ ان جیسے مردوں کو نہیں جانتیں انکے دیکھانے کے اور کھانے کے اور دانت ہیں یہ کبھی نہیں بدل سکتے خدمت کیا کریں گے؟؟ “ حجاب نے ایک کھٹیلی نظر سے اسے نوازا

” بالکل صحیح کہا دادی ان محترمہ نے مرد کبھی نہیں بدلتے شادی سے پہلے بھی بس شادی کا شوق ہوتا ہے شادی کے بعد بھی بس ایک یہی شوق ہے “ وہ بھی اسکے آنکھوں میں دیکھتا ایک آنکھ دبا کر بولتا حجاب کا رواں رواں جلا گیا۔۔۔۔

” اللہ‎ کرے تم مر جاؤ “ وہ دانت پیستے بڑبڑائی

” قسم کھائی ہے تمہیں ساتھ لیکر مرونگا جاں من۔۔۔۔ “ وہ بھی شیطانی انداز میں بڑبڑایا۔۔۔

” یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو؟؟ “ دادی نے انکے ہلتے ہونٹ دیکھ کر دونوں کو دیکھتے کہا

” دادی میں ایک گھنٹے میں نکل جاؤنگا تب تک موقع دیں بیوی کی خدمت کروں آپ کو دیر نہیں ہو رہی ظہر کی اذان ہوگئی ہے۔۔ “ رازی نے انہیں بھیجنے میں عافیت سمجھی۔۔۔

” تو خیال رکھے گا؟؟ “ دادی اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں ڈوب گئی

” جی دادو اسی میں تو ایکسپرٹ ہوں۔۔۔۔ “ فخریہ انداز سے کہتے اس نے حجاب کا ہاتھ چھوڑ دیا اسکے چھوڑنے کی دیر تھی کے حجاب نے اپنا ہاتھ کمفرٹ کے اندر چھپا لیا۔ اسکی یہی حرکتیں ابراز حیات کو اور پاگل کیے دیتیں اب بھی حجاب تاثیر کی اس حرکت نے ابراز حیات کی آنکھوں میں محبت کی ایک جوت جلائی۔۔۔۔

” کیا؟؟ “ دادو نے ابرو اچکا کے اسے دیکھا

” کچھ نہیں دادو “ حجاب کو خطری کی گھنٹی بجتی نظر آئی اس نے دادو کا ہاتھ پکڑنا چاہا اسی وقت ملازمہ آگئی دادو نماز کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ابراز نے بھی اٹھ کے ملازمہ سے سوپ سے بھرا باؤل لیا جو اسی نے منگوایا تھا۔۔۔

وہ قدم اٹھاتا اسکے بیڈ کے پاس رکھی چیئر پر آبیٹھا جو صبح سے اسے نے رکھوائی تھی۔۔۔ حجاب اٹھ کے بیٹھ گئی اسکا بھوک سے بُرا حال تھا تو یہاں وہ چاہ کر بھی کمپرومائز نہیں کر سکتی۔۔۔ لیکن انا ہے نہ ابراز نے سوپ سے بھرا چھوٹا اسپون اسکے آگے کیا تو حجاب نے منہ پھیر لیا۔۔۔۔

” پی لو بےبی یہ باؤل اور اسپون ڈیٹول سے دھلوا کر لایا ہوں میرے ہاتھ بھی صاف ہیں سیف گارڈ سے دھو کر آیا ہوں پاکستان کا نمبر ون سوپ۔۔۔ “ دلکشی سے مسکراتا وہ اپنی نظروں سے اسکی جان لینے کے در پر تھا۔۔۔

” مجھے گھورا مت کرو کسی دن اندھا کر دونگی “ وہ اسی انگلی سے وارن کرتی کچا چبانے کو تھی۔۔۔۔ابراز نے سپون واپس باؤول میں ڈالا

” چلو اسی بہانے خود سے چھوو گی تو “ مسکراہٹ دباتا وہ مسلسل اسے چھیڑ رہا تھا

” مجھے سکون سے رہنے کیوں نہیں دیتے؟؟ “ وہ رو دینے کو تھی۔۔ لیکن ابراز نے ایک پل کو اس دشمن جہاں سے نظر نہیں ہٹائی۔۔۔

” پھر میرے سکون کا کیا جو تمہیں بے سکون کر کے آتا ہے؟؟ “ دیوانہ وار اسے تکے وہ حجاب تاثیر کو تنگ کر کے مسلسل ضبط آزما رہا تھا۔۔۔۔

” اچھا چلو بس سوپ پی لو میں چلا جاؤنگا “ اسکی آنکھوں میں نمی آتی دیکھ ابراز سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔

” پکّا؟؟ “ وہ بچوں کی معصومیت سی التجا کر رہی تھی۔۔۔۔

” ہاں بٹ میرے ہاتھوں سے یقین مانوکل سے شراب کو۔۔۔۔ “ کہتے کہتے اس نے سپون بڑھایا اس دفعہ حجاب نے چپ کر کے سوپ اسکے ہاتھوں سے پیا۔۔ لیکن ابراز حیات وہ تو خود پر حیران تھا وہ کیوں اسے تفصیل بتا رہا تھا؟؟ کیوں خود کو پرو کر رہا تھا اسے سوپ پلاتے وہ ابھی بھی حیران تھا حجاب جلدی جلدی سوپ ختم کرنے کے چکر میں تھی سامنے بیٹھے شخص کی نظریں اسے اپنے آپ سے نفرت کرنے پر مجبور کر رہی تھیں۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ابراز کے جانے کے بعد وہ سکون بھرا سانس خارج کرتی اٹھ بیٹھی اور بمشکل وضو کر کے نماز ادا کی۔۔ دعا مانگ کر اس نے سب شکوے صرف اللہ‎ سے کیے اور نماز کے بعد وہ کچن میں آگئی اپنے لئے چائے بناتے اس نے غوڑ کیا تھا گھر کا سارا کام نوکر ہی کرتے انفکٹ کھانا تک وہی بناتے اسے بہت حیرت ہوئی اسے یاد نہیں پڑتا برتن کے لئے بھی امی نے کبھی کوئی ماسی رکھی ہو صرف گھر کی صفائی کے لئے ایک تھی باقی سارا کام ثنا اور وہ خود مل کر کرتیں۔۔۔ شام تک وہ دادی کے پاس انکے روم میں رہی عشاء کی نماز بھی اس نے وہیں پڑھی پھر ڈنر کا ٹائم ہوتے ہی وہ دادو کے ساتھ نیچے آگئی جہاں سب ڈنر شروع کر چکے تھے اور حیرت کی بات آج اسکے سسر بھی وہیں انکے ساتھ تھے آج پہلی بار حجاب نے انہیں دیکھا تھا۔۔۔

” السلام عليكم “

وہ سب کو سلام کرتی دادی کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔۔۔

” وعلیکم السلام کیسے ہو بیٹے؟؟ “ حیات صاحب نے خوشدلی سے جواب دیا۔۔ وہ انکی سوچ سے بڑھ کے خوبصورت تھی۔۔۔

” جی ٹھیک ہوں۔۔ “ حجاب نے نارمل سے انداز میں کہہ کر اپنی پلیٹ میں چاول لئے۔۔۔۔ حجاب نے ایک نظر ٹیبل کے گرد بیٹھی ماں بیٹی پر ڈالی فبیحہ ساڑھی پہنے فل میک اپ چہرے پر ملے چھوٹے چھوٹے نوالے لے رہیں تھیں جیسے کھانے کا پروگرام کہیں اور ہو مہوش بھی ہنوز یہی عمل دہرا رہی تھی دل مار کر کھانا کھا رہی تھی۔۔۔

” ہیلو ایوری ون کیا ہو رہا؟؟ “ ابراز نے اپنا کورٹ اتار کر حجاب کی چیر پر لٹکا دیا اور خود آکر اسکے پاس بیٹھ گیا۔ حجاب نا محسوس انداز میں دور کھسکی۔۔۔۔

” بےبی سنبھال کر گر نہ جاؤ۔۔۔ اور شوہر آیا ہے گھور کیا رہی ہو جان کھانا نکال کر دو بہت بھوک لگی ہے “ وہ اسکے کھسکنے پر چوٹ کر گیا ساتھ نیا آرڈر جاری کیا جو حجاب کو تپا گیا مجبوری تھی وہ یہاں اپنا منہ بھی نہیں کھول سکتی۔۔ اس نے صرف ” جی “ کہا اور پلیٹ میں اسکے لئے چاول نکالنے لگی۔۔۔

” اوہ بےبی میں سبزی نہیں کھاتا پرونز بنے ہونگے وہ دو “

ابراز نے سلیوز کے کف فولڈ کیے اس وقت وہ کافی تھکا لگ رہا تھا۔ اور اسکا موڈ بھی کافی خوشگوار تھا جبکے ہجاب اسکی پل پل بڑھتی بےباکی دیکھ کر اپنی قسمت پر ماتم کر رہی تھی۔۔۔

” تیری بیٹی ہے کیا جو بےبی کہہ رہا ہے؟؟ “ دادو کو اسکا بےبی کہنا ناگوار گزرا۔۔۔۔ فبیحہ اور مہوش کوفت سے بیٹھے دل مار کر کھانا کھا رہے تھے انہیں اس بحث میں کوئی دلچسبی نہیں تھی۔۔۔

” وہ بھی جلد آجاےئے گی دادو۔۔۔۔ “ ابراز کی بات سے حجاب کا چہرہ پل بھر میں سرخ ہوگیا اب تو مر کر بھی وہ اسکے لئے پرونز کو ہاتھ نہیں لگائے گی۔۔

” تم لے لو مجھے الرجی ہے “ ابراز اسکا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ بمشکل اپنا قہقہہ روک پایا اسے تنگ کر کے نجانے کیوں وہ پر سکون ہوجاتا۔۔ یہ سچ تھا اسکے آنے سے ابراز کو اپنی زندگی سے محبت ہونے لگی تھی۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ سے پلیٹ لیکر خود نکالنے لگا جب اسکا خوشگوار موڈ مہوش کی بات سے پل بھر میں غارت ہوگیا۔۔۔

” اس نے سرو کرنے کا کہا ہے کھانے کے لئے نہیں کہا اپنے کان کھلے رکھا کرو اور زبان بند “ مہوش کے کاٹ دار الفاظ نے ابراز کی پیشانی پر بل نمایاں کیے۔۔

” تم سے کس نے مشورہ مانگا؟؟؟ ہاو ڈیر یو ٹو ٹوک ہر لائک دس؟؟؟ “ وہ غصّے سے چلایا اسکی آواز سے جہاں حجاب کانپی تھی وہیں حیات صاحب نے سر تھاما تھا۔۔ دادی بھی بدلتے ماحول سے پریشان ہوگئیں

” تم اسکے لئے مجھ سے بحث کر رہے ہو؟؟؟ جانتے نہیں ہو اس نے “ مہوش اپنی جگہ سے اٹھ کر چیخی اسکی آواز اس قدر بلند اور انداز ایسا تھا کہ حجاب کو وہ کوئی سائکو لگی۔۔۔

” شٹ اپ وہ بات ختم ہو چکی ہے سمجھی آئندہ اس لہجے میں میری بیوی سے بات کی تو یاد رکھنا۔۔۔“ ابراز دھارا اسکی دماغ کی نسیں تک واضح ہونے لگیں۔۔۔

” مہوش “ فبیحہ نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا لیکن وہ تو اس وقت جنونی بنی ہوئی تھی۔۔۔

” تو کیا کروگے تم ہاں؟؟؟ بولو اسکے لئے تم مجھ سے لڑ

رہے ہو؟؟ “ وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی۔۔۔

” بیوی ہے۔۔ میری تمیز سے بات کرو۔۔۔ وہ ایک لفظ نہیں کہتی تم سے۔۔۔ تم چڑھ دوڑتی ہو۔۔۔“ ابراز نے تیز لہجے میں کہہ کر آواز نیچی رکھی وہ بمشکل خود کو پر سکون کر رہا تھا پل بھر میں وہ اسکا موڈ کافی اوف کر چکی تھی۔۔۔

” شی از بلڈی۔۔۔ “ وہ دانت پیستے چلائی۔۔۔

” انف۔۔۔۔۔۔۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اسکی بلند آواز سے حجاب کیا مہوش تک کانپی فبیحہ اور دادو نے بھی ایک دوسرے کو دیکھا جھگڑا ہوتا تھا لیکن ایسا نہیں ابراز ہمیشہ بگڑتا ماحول دیکھ بات سنبھال لیتا لیکن آج وہ خود آپے سے باہر ہوگیا۔۔

” ڈیڈ آگر آج رات یہ پارٹی میں گئی تو صبح کی فلائٹ سے میں اپنی بیوی کو لیکر پاکستان چھوڑ دونگا۔۔۔ کوئی میرے پیر بھی پڑے۔۔۔ واپس کبھی نہیں آؤنگا۔۔ ” بلند آواز میں اپنا حکم سناتے اس نے چمچ دور پھینکا جو اسکی عادت تھی اب وہ حجاب کی طرف مڑا۔۔

” تمہارا پیٹ بھر گیا؟؟ “ لہجہ ویسا ہی سرد تھا۔۔

” جی۔۔۔ جی۔۔ “ اسکا رواں رواں کانپ رہا تھا ابراز کو لگا ابھی وہ رو دیگی۔۔۔

” اٹھو “ اسکا ہاتھ پکڑتے وہ اسے کھینچتے ہوئے وہاں سے لے گیا کسی نے اسے نہیں روکا کیونکہ وہاں بیٹھے ہر شخص کو اسکی بات سنتے ہی سانپ سونگ گیا۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

حجاب کو آج سے پہلے ابراز سے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا رات کو اسنے ابراز کے حکم پر کھانا تک کھایا۔۔ ملازمہ سے کہہ کر ابراز نے دونوں کے لئے کھانا منگوایا وہ پوری رات اسکو دیکھتی رہی سوئی بھی ایسے ڈر کے کہیں اسکو نہ سنا دے آج پہلی دفع وہ ابراز سے اتنی خوفزدہ ہوئی تھی یہاں تک کے سوتے وقت بھی وہ جان گیا تھا حجاب اس سے خوفزدہ ہے اسی لئے اسنے حجاب کا ہاتھ پکڑ کے اپنے دل سے لگایا۔۔

” بےبی تمہیں تھوڑی کچھ کہا ہے سو جاؤ میرا موڈ بدلتے دیر نہیں لگتی۔۔۔ “ حجاب میں ہمت نہیں تھی ہاتھ چھڑوائے اسلئے چپ چاپ آنکھیں موند گئی صبح وہ ڈرائیور کے ساتھ یونی آگئی تب ابراز سو رہا تھا لیکن حجاب نے دادو کو جانے سے پہلے بتا دیا تھا۔۔۔۔اب وہ یونی آکر سوچ رہی تھی ابراز اسے بنا بتائے آنے پر ڈانٹ نا دے۔۔۔

” میں تمہیں لینے آرہا ہوں بےبی صبح سے تمہیں دیکھا نہیں دن ہی نہیں گزر رہا “ ابراز کی کال اسے یونی میں رسیو ہوئی جویریہ اسکے ساتھ ہی تھی صبح سے اسنے جو ابراز نامہ اسٹارٹ کیا وہ اب تک ختم نہیں ہوا تھا۔۔۔۔

” اوکے “ حجاب کا اوکے سنتے ہی فون دوسری طرف سے کٹ گیا۔ ابراز کا انتظار کرنے کے بجائے حجاب ڈیفنس سینٹرل لائبریری کی طرف نکل پڑی اسے کچھ بکس چائیں تھیں جسے لینے کے لئے وہ جویریہ کے ساتھ پیدل ہی چل دی۔۔۔۔

” باجی میری مدد کرو یہ مجھے مار رہے ہیں۔۔ “ حجاب اور جویریہ پیدل چل رہیں تھیں کے انکی نظر ایک خواجہ سرا پر پڑی جسے دو لڑکے بُری طرح مار رہے تھے اسے پیر سے ٹھوکر مار کر گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جا رہے تھے۔۔۔۔

” ابے چل بول رہا ہوں چپ چاپ چل نخرے کیا دیکھا رہا ہے؟؟؟؟ تیرے جیسے مفت میں مل جاتے ہیں چل۔۔۔ “ وہ پتلا سا معصوم سا لگا تھا جویریہ کو اس حالت میں اسے دیکھ کر رونا آرہا تھا جبکہ حجاب کا دل خود اس معصوم کے لئے رو رہا تھا لیکن اس وقت وہ سب لوگوں کو پتھر بنا دیکھ خود بھی پتھر بن گئی۔۔۔

” حجاب چلو اسکی ہیلپ کرتے ہیں “ جویریہ نے حجاب کا ہاتھ پکڑا وہ اُس طرف قدم بڑھانے لگی لیکن بڑھا نہیں پائی کیونکے اسکے قدم حجاب کے آگے نہ بڑھنے سے وہیں رک گئے۔۔۔

” پاگل ہو دیکھ نہیں رہی کوئی بھی نہیں جا رہا اسکی ہیلپ کو ہم گئے تو ہمیں بھی نا۔۔۔ “ حجاب نے غصّے سے اسے کہا

” ہم جائیں گے تو باقی سب بھی خود آجائیں گے بس کوئی شروعات کرے “ جویریہ نے اسے ہمت دلائی

” تم پاگل ہو گئی ہو چپ چاپ چلو میرے ساتھ۔۔۔ یہ روز ان کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ان کی مدد کو کوئی نہیں آتا “ حجاب اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنے ساتھ کھینچے جا رہی تھی جویریہ کو آج اسکی سوچ اور عمل پر افسوس ہوا اور بہادر تو وہ بھی نہیں تھی کہ اکیلی چلی جائے اس لئے خاموش رہی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جویریہ جو اسکے ساتھ کھچی چلی جاری تھی اچانک اسکی نظر ایک کار پر پڑی جو اسی خواجہ سرا کے پاس آرکی۔ ایک آدمی اس میں سے نکلا جسکی پیٹھ جویریہ کی طرف تھی اس نے جھک کے خواجہ سارا کو اٹھایا جویریہ کی آنکھوں سے پل پل یہ منظر دور ہوتا جا رہا تھا وہ اسکی نگاہوں سے اتنا دور ہوگی کہ اب وہ لوگ اسے نکتے کی شکل میں واضح ہو رہے تھے۔۔۔

” حجاب ڈیٹس ناٹ فئیر “ لائبریری کی سیڑھیاں چڑھتے وہ اس سے خفگی سے بولی۔۔۔۔ چہرے کے زاویے بگڑے ہوئے تھے

” تم نے ہیلپ کیوں نہیں کی؟؟ یہ نہ کہنا میں گھسیٹ کر تمہیں لے آئی۔۔ میں نے قدم نہیں بڑھایا تو تمہارے قدم بھی خود بخود پیچھے ہوئے تھے سچ تو یہ ہے تمہیں بھی ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ ہمیں نہ لے جائیں۔۔۔ جویریہ انکے ساتھ یہ سب روز ہوتا ہے مجھے بھی انکے لئے برا لگتا ہے لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں؟؟ تم بھی وہاں تھی خود بتاؤ کتنے مرد وہاں سے گزر رہے تھے کسی نے مدد کی؟؟ نہیں نا۔۔ “ وہ کہاں اپنی غلطی مانے والوں میں سے تھی دھڑلے سے کہا۔۔

” کیوں کہ انکی سوچ بھی تمہاری طرح ہے کہ یہ انکے لئے عام بات ہے۔۔۔۔ نہیں حجاب عام نہیں روز ان سے پوچھو جو وہ اذیت سہتے ہیں۔۔۔اسے ” عام “۔۔۔ لوگوں نے اپنی ”چُپ“ سے بنایا ہے۔۔۔ اسکی حالت دیکھتیں کتنا رو رہ رہی تھی وہ تم نے تو نامحرم کے صرف ہاتھ لگانے پہ اتنا ہنگامہ کیا اُنکا سوچو جو روز یہ سب برداشت کرتے ہیں۔۔۔ لوگ اپنی ملکیت سمجھ کر انہیں لیجاتے، ہوس مٹھاتے، بُری طرح مار کر۔۔ کسی کچرے کی طرح کہیں بھی پھینک کر چھوڑ جاتے اور یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو کہتے ہیں عام بات ہے اور کیا کہا ڈر ہاں میں ڈر گئی تھی لیکن یقین مانو تم ساتھ چلتی نا اور ہم ہار بھی جاتے تب بھی زندگی بھر افسوس نہیں ہوتا کیوں کہ ہم مدد کی نیت سے گئے تھے عمل بھی کیا لیکن کمزور تھے کسی مرد کی طاقت نہیں تھی لیکن حجاب تاثیر تم ہمت تو کرتی راستے خود آسان ہوجاتے ہمارے جاتے ہی اور لوگ بھی آتے کیونکہ یہ پاکستانیوں کی خاصیت ہے جب تک کوئی پہل نہیں کرتا دوسرا کوئی قدم نہیں بڑھاتا “ جویریہ نے اسے اچھی خاصی سنائیں لیکن حجاب پر اثر ہی کیا ہونا تھا وہ اپنا غصّہ دکھانے کے لئے تیز قدم اٹھاتی اس سے پہلے اندر چلی گئی۔ جویریہ سر تھام کر رہ گئی حجاب تاثیر وہ پتھر ہے جو صرف ٹھوکر کھانے سے ٹوٹ سکتا ہے.

☆.............☆.............☆

” باہر آؤ “ وہ ابھی بُکس اشو کروا رہی تھی کہ ابراز کی کال آگئی۔۔۔

” ابراز میں لائبریری آئی ہوں بس بُکس اشو کروا کر آتی ہوں “

حجاب نے اسکی کال پک کرتے ہی کہا جویریہ بھی اپنی بک لیکر کاؤنٹر کے پاس ہی کھڑی تھی۔۔۔لیکن اسکا موڈ سخت آف تھا دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔

” اوکے بےبی میں وہیں آرہا ہوں “ ابراز نے کہہ کر کال کاٹ دی وہ شاید اب اچھے موڈ میں تھا۔ لہجے میں غصّے کی کوئی رمق نہ تھی۔۔۔ جویریہ اور حجاب دونوں بُکس لیکر باہر آگئیں ابھی وہ گیٹ سے نکل ہی رہی تھی کہ اُنکے آگے ابراز کی کار آرکی۔۔۔ ابراز نے کار کا شیشہ نیچے کیا تو نقاب میں ملبوس حجاب جویریہ کے ساتھ کھڑی نظر آئی جسے دیکھ کر وہ مسکرایا۔۔۔ حجاب کو اس کے اس طرح جویریہ کے سامنے گھورنے پر شرمندگی نے آن گھیرا۔۔۔۔۔

” السلام عليكم ابراز بھائی کیسے ہیں آپ “ جویریہ نے مسکراتے ہوے سلام کیا۔۔۔۔

” ٹھیک سالی صاحبہ!!!! آؤ بیٹھو تمہیں بھی ڈراپ کردوں “ ابراز نے حجاب سے نظریں ہٹا کر جویریہ سے کہا

” نہیں ابراز بھائی بس یونی تک کر دیں “

” شیور “ جویریہ بیک سیٹ پر آکر بیٹھ گئی اور حجاب نے فرنٹ سیٹ سنبھالی انکے بیٹھتے ہی ابراز نے کار اسٹارٹ کردی۔۔۔

” ابراز بھائی ویسے دکھ ہے آپ کی سنگت کا اثر نہیں ہوا حجاب پر “ جویریہ کے طنز سے جہاں حجاب سلگ اٹھی وہیں ابراز مسکرایا

” یہ کہو مجھ پر اسکی سنگت کا نہیں ہوا “ ابراز نے ایک بھر پور گہری نظر سے حجاب کو نوازتے کہا

” نا ہی ہو۔۔۔۔“ جویریہ کی بڑبڑاہٹ سن کر حجاب صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئی وہ کل یونی میں اسکی عقل ٹھکانے لگائے گی۔۔۔ یہی سوچ کر اس نے جویریہ کو نظرانداز کیا

” بس بھائی یہیں تک۔۔۔ تھنک یو ابراز بھائی “ یونی کا گیٹ آتی ہی جویریہ باہر ہی اتر گئی کیوں کہ باہر ہی پوائنٹس کھڑے تھے۔

” آلویز “ ہلکی سے مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے وہ کار آگے بڑھا گیا

” بہت مسکرا رہے تھے اسکے سامنے تمہارے چچا کی بیٹی لگتی ہے جو اسکے ڈرئیور بن رہے تھے میں کیا آفر نہیں کرتی اُسے؟؟ “ حجاب جو کب سے اپنے غصّے کو کنٹرول کیے بیٹھی تھی پھٹ پڑی۔۔۔ جبکہ ابراز تو اب تک حیران تھا وہ اسکے غصّے سے اتنا ڈر گئی کہ لینے آنے کے لئے منع بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔

” کل تم مجھ سے ڈر گئیں؟؟ “ ڈرائیونگ کرتے وہ اسے اپنے نظروں کو حصار میں لئے ہوئے تھا ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ تھی

” اتنا گھورتے کیوں ہو سامنے دیکھو “ حجاب تو اسکی نظروں سے تپ جاتی جو آس پاس لوگوں کی پرواہ کیے بغیر ڈھٹائی سے اسے گھورتا

” اپنی ملکیت کو کون نہیں گھورتا “ ڈھٹائی سے جواب آیا

” بدتمیز، بےحیا، بےشرم “ حجاب نے منہ دوسری طرف پھیر لیا وہ بھی کہاں سر پھوڑ رہی تھی بےشرم نے بھی کبھی شرم کی ہے بھلا؟؟؟ “

” حیادار زمانے کا میں گنہگار انسان ٹھہرا

پرہیزگاروں سے درخواست ہے، پرہیز کیجئے“

ابراز اسے دیکھتے شیطانیت سے مسکرایا جو اسے اپنی آنکھوں سے گھورتی اسکی جان لینے کے در پر تھی۔۔۔

“ تم کیسے انسان ہو ؟ فلرٹ کرتے ہو؟؟؟ شراب پیتے ہو، دھمکا کر شادی کرتے اور زبردستی کر کے خود کو معصوم سمجھتے ہو؟؟ اور جویریہ کی بچی کو صبح دیکھونگی میری سنگت میں کونسی خرابی ہے؟؟؟ اللہ‎ کا شکر ہے تمہاری طرح کافر نہیں۔۔۔۔ “ وہ جویریہ کا سارا غصّہ اس پر نکال کر غصّے سے چیخی۔۔۔

” ہمارا کیا ہے

ہم تو ویسے ہی بد نام ہیں زمانے میں

فکر تو وہ کریں جن کے گناہ ابھی تک پردے میں ہیں “

مسکراہٹ دبائے سکون سے جواب دیتا وہ اسے بے سکون کر گیا۔۔۔ حجاب اپنے غصّے کو دباتی خاموش بیٹھ گئی اب وہ اسکی منتیں کرے تنگ بھی کرے تب بھی وہ نہیں بولنے والی۔۔۔

” بےبی تم سے جڑے ہر رشتے کی عزت کی ہے میں نے اور کرونگا۔۔ آفر تم کرو یا میں بات ایک ہی ہے وہ بھائی کہہ کر گئی ہے مجھے اندازہ لگا لو اس رشتے کو نبھایا ہے میں نے “

ابراز نے اسکی چُپ محسوس کرتے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔

” مجھے امی کے گھر ڈراپ کردو میں آج وہیں رہونگی “

حجاب نے کچھ دیر بعد منہ کھولا لیکن اسکی فرمائش سن کر ابراز کو وہ چُپ ہی اچھی لگی۔۔۔۔

” پھر میرا کیا ہوگا؟؟؟ “ حجاب اسکا مطلب سمجھ کر آگ بگولا ہوگئی

” ڈوب مرنا “ صاف جواب آیا۔۔۔

” بےبی تم بھول رہی ہو ہم نے قسم کھائی تھی ساتھ جئیں گئے ساتھ مرینگے دوزخ میں بھی ساتھ جائیں گئے یاد ہے نا “ آنکھ دبا کر کہتا وہ حجاب تاثیر کو تن بدن میں آگ لگاگیا۔۔

☆.............☆.............☆

ابراز اور حجاب دونوں اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے انہیں لاؤنچ میں حیات صاحب بیٹھے نظر آئے حجاب انھیں سلام کرنے کے لئے انکی طرف بڑھ رہی تھی ابراز نے اسکا ہاتھ سختی سے پکڑ کے سرد لہجے میں کہا۔۔۔

” زیادہ مسلمان بنے کی ضرورت نہیں چپ چاپ کمرے میں جاؤ میں آرہا ہوں۔۔۔ “

” کیا مطلب سلام نہیں کروں “ حجاب نے ناسمجھی سے ابراز کو دیکھا۔۔۔

” کمرے میں جاؤ۔۔۔ “ اس دفعہ لہجہ چٹانوں کی سی سختی لیے ہوئے تھا۔۔۔ حجاب اسکے بدلتے موڈ کو دیکھ حیرت زدہ رہ گئی پل میں ماشہ پل میں تولا لیکن حجاب نے بحث نہیں کی چپ چاپ اوپر چلی گئی۔۔۔۔۔

حیات صاحب نے حجاب کے جاتے ہی ابراز کی طرف دیکھا جو ان پر سخت نگاہ ڈالے نجانے کب انکے سامنے آبیٹھا آنکھوں کی سختی اسکے اندر کا حال بیان کر رہی تھی ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا، وہ چہرے پر چٹانوں سی سختی لئے ہوئے تھا۔۔۔

” آپ کو شاید یاد نہیں تو یاد دلا دوں موم سے بھی کہا تھا میری بیوی کوئی شوپیس نہیں جسے گھر میں سجانے کے لئے لایا ہوں۔۔۔ اور کل کی میری دھمکی صرف دھمکی نہیں تھی میں اپنی بات پر عمل کرنا جانتا ہوں سو یہ اپنی نظریں قابو میں رکھیں میں حیوان بنتے وقت لحاظ نہیں کرتا سامنے کون ہے۔۔۔ میری بیوی کہتی ہے نشے میں دکھتا نہیں مجھے سامنے باپ ہے یا دشمن۔۔۔ “ سلگتے ہوے انگارے کی مانند سنسناتا لہجہ تھا جس نے حیات صاحب کو پل بھر کے لیے ہلا دیا۔۔۔۔

” پچاس لاکھ کا کیا کیا “ خود کو سنبھالتے وہ نارمل لہجے میں گویا ہوئے ۔۔۔انہیں معلوم تھا انکا غصّہ ابراز کے غصّے کو اور ہوا دیگا جس میں انکا خود کا نقصان ہے وہ اپنی جان سے عزیز بیٹے کو کسی قیمت کھونا نہیں چاہتے۔۔۔جبکے ابراز انکی بات سن کر زخمی سا مسکرایا۔۔۔۔

” آپ بھی کمال کرتے ہیں ڈیڈ۔۔ پچاس لاکھ کا کیا کرنا ہوگا مجھے؟؟؟ اب میں بیوی والا ہوں۔۔۔ کیا مجھے اسکے لئے بھی آپ کو بتانا ہوگا؟؟ یار ڈیڈ آپ بھی ناں سمجھ کر ناسمجھ بنتے ہیں اور “ شرارت سے کہہ کر آخر میں اسکا لہجہ خود ہی کسی پتھر کی طرح سخت ہوگیا۔۔۔۔۔

” جان کر انجان۔۔۔۔ “ آنکھوں سے دہکتے انگارے نکل رہے تھے جو اسکے باپ کا وجود جلسا رہے تھے۔ وہ انہیں اپنی نفرت سے نوازتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

” بیوی کے پیچھے زن مرید بن کر رہ گئے ہو “ اس نے جانے کے لئے قدم بڑھایا اس کا باپ اسکے پیچھے سے چلایا۔۔ انہیں تپتا دیکھ ابراز کے رگ رگ میں سکون کی لہر دوڑی۔۔۔۔

” یہ الزام بھی قبول ہے “ دلکشی سے مسکرا کر کہتا وہ پلٹا نہیں تھا بلکہ سیڑھیاں چڑھتے اپنے روم میں چلا آیا۔۔۔۔

اسکا باپ پیچھے سے دانت پر دانت جمائے غصّہ کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش میں تھا۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

ابراز کمرے میں آیا تو اسے نماز پڑھتا دیکھ سامنے صوفہ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ آج بھی وہ اپنی زندگی، قسمت، پسندیدگی پر حیران ہے۔۔کیسے حجاب تاثیر اسکی پسند بنی؟؟؟ پھر قسمت اور اب۔۔۔۔ ہاں اب۔۔۔ زندگی۔۔ وہ کیسے اسکے دل میں سما گئی وہ خود حیران ہے۔۔ حالانکہ حجاب تاثیر کے الفاظ اسکی روح جنجھوڑ دیتے ہیں لیکن نفرت؟؟؟ اے دل کیوں تو اس سے نفرت نہیں کر پاتا کیوں؟؟؟ وہ تجھے ہر بار ٹھکراتی ہے پھر بھی ذلیل ہونے اسی کے پاس جاتا ہے؟؟؟

ابراز بےخودی کے عالَم میں اسے دیکھے گیا۔۔۔ حجاب کو دیکھ کر اسکا بھی دل چاہتا وہ اسکے ساتھ نماز پڑھے لیکن۔۔۔ اسے ڈر بھی لگتا اپنے گناہوں سے۔۔۔ کیا وہ اس قابل ہے کہ اسکی بارگاہ میں حاضری لگائے؟؟ سوچ سوچ کر اسکا جسم بےجان ہوجاتا۔۔۔

وہ گنہگار ہے۔۔۔ گناہ کی دنیا میں اس نے کب قدم جمائے وہ نہیں جانتا بس اتنا جانتا ہے اُکسایا اسکے ماں باپ نے تھا۔۔۔

آگر کبھی حجاب کو اس کے ماں باپ کی اصلیت پتا لگی تو وہ اس سے طلاق لینے میں لمحہ نہیں لگائے گی۔ یہ سوچ آتے ہی بےاختیار اسکا دل درد کی شدت سے تڑپ اٹھتا۔ حجاب کے آنے سے پہلے اسے نہ زندگی چاہیے تھی نا جینے کی خوائش لیکن اب وہ جینا چاہتا تھا حجاب تاثیر کے ساتھ۔۔۔۔

” اب تم نے مجھے گھورا ناں تو میں دادو کے روم میں چلی جاؤنگی “ حجاب کی آواز نے اسکی سوچوں کا تسلسل توڑا وہ اسے ایک نظر دیکھ کر اٹھا اور وارڈروب سے اپنا سوٹ لیکر نہانے چلا گیا حجاب کی وجہ سے وہ آج جلدی اٹھ تو گیا تھا لیکن آفس نہیں گیا۔۔۔ نجانے کیوں اسے بےچینی تھی اسلئے وہ ڈائریکٹ اسکی یونی اسے لینے چلا گیا۔۔ حجاب اسکے خاموشی سے جانے سے پہلے تو حیران ہوئی پھر اپنی نماز جاری رکھی۔۔۔

☆.............☆.............☆

ابراز آفس جانے سے پہلے دادو کے روم میں گیا۔۔ کل رات اسکی وجہ سے دادو کافی پریشان رہیں اس بات کا اندازہ ابراز بخوبی لگا سکتا ہے اس لئے سب سے پہلے وہ ان کے روم میں گیا انھیں مطمئین کرنے۔ انکے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر وہ آفس کے لئے نکل گیا۔۔۔۔۔

بن تمہارے کبھی نہیں آئی

کیا میری نیند بھی تمہاری ہے

حجاب نے ایک سخت نظر سے نوازا جو اسے آدھے گھنٹے سے تنگ کر رہا تھا۔۔ اب بھی بڑی بےباکی سے اسے دیکھ کر شعر پڑھا۔۔

” کیا ہے؟؟؟ مجھے پڑھنے دو پرسوں یہ بک ریٹرن کرنی ہے “

پھاڑ کھانے والے انداز میں کہہ کر وہ واپس اپنی بک پڑھنے لگی

” مجھے بھی پڑھ لو بہت مزے کا ہوں “

اسکے کندھے پر جھولتے دوپٹے کو ہلکا سا جھٹکا دیکر کہا۔۔ آنکھوں میں بےپناہ چاہت تھی وہ اسکی نظروں سے یکدم بوکھلا گئی ابراز اسے بوکھلاہٹ کا شکار دیکھ جی جان سے مسکرایا۔۔۔

حجاب نے سنبھلتے ہی اسکا ہاتھ دور کر کے تھپڑ لگایا اور اسے ایک گھوری سے نوازا۔۔۔۔۔

” میرے دوست کہتے ہیں “ اپنی بات مکمل کر کے وہ اسکے کندھے سے کندھا ملا کر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ حجاب نے اپنی غیر ہوتی حالت کو بمشکل سنبھالا یہ شخص پل پل قریب آکر اسے نئی اذیت سے نوازتا۔۔۔

” تو انکے پاس جاؤ ناں میرا سر کیوں کھا رہے ہو “ اسے خود سے چپکتے دیکھ وہ دانت پیس کر بولی

” جیلیس۔۔۔۔ او مجھے پتا ہے آج کل تمہیں ٹائم نہیں دے پاتا اس لئے ناراض ہو چلو کوئی نہیں اب سے میرا سارا وقت تمہارا “ وہ اسکے کندھے کے گرد بازو حمائل کر کے اسکے اندر ابھلتے لاوے کو ہوا دے چکا تھا۔۔۔

” سارا دن تو میرے سر پر سوار رہتے ہو سانس تک لینے نہیں دیتے اور کہتے ہو وقت نہیں دے پاتا مائے فُٹ نہیں چاہیے کچھ بھی جان بخش دو میری “ وہ اس سے تھوڑا دور کھسک کے بک پھینک کر اسکے سامنے اپنے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی

” تمہیں بخش دیا تو میرا کیا ہوگا جان من؟؟ “ اسکے بندھے ہاتھوں کو پکڑ کے وہ شیطانی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر اس پر بوسہ دینے لگا تھا کہ حجاب نے جھٹکے سے اپنے ہاتھ پیچھے کیے۔۔۔۔

” مجھے پڑھنے دو پلیز “ وہ کسی بچے کی طرح معصومیت سے بول کر منت کرنے لگی۔۔ اسکی حالت دیکھ ابراز کو ہنسی آگئی اسے تنگ کر کے ایک الگ ہی سکون ملتا تھا ابراز کو۔۔۔

” کیا کروگی پڑھ کے اب شوہر والی ہو۔۔ اور یہ کیا گھٹیا بک اٹھا لائیں؟؟ “ وہ اس بک کو اٹھا کر دیکھنے لگا جو حجاب نے بیڈ پر پٹخی تھی ۔

” کیا مطلب؟؟ “ وہ اس سے بک چھینتی ہوئی چلائی

” بےبی وہ پڑھو جو آگے زندگی میں کام آئے جیسے زوجین کے حقوق۔۔۔ “ ابراز نے حجاب کا چہرہ دیکھ کر قہقہہ لگایا جو غصّے سے سرخ ہو چکا تھا

” شوہر کے سارے حقوق لکھیں ہے یہ بھی کہ نافرمان بیوی کا انجام کیا ہوتا ہے جو مجازی خدا کے حکم کی پیروی نہیں کرتی۔۔۔ “ ابراز نے اسے احساس دلانا چاہا اسے حجاب کی کیا اپنی فکر تھی اسکی بےاعتنائی دیکھ کر ابراز کا نجانے کیوں دل ٹوٹ جاتا۔۔

” گٹر میں پھینک دونگی “ فوراً ہی جواب آیا۔ حجاب کو پروا ہی کہاں تھی؟؟ ابراز حیات سے نافرمانی کا گناہ بھی اِسے منظور تھا لیکن ہارنا نہیں۔۔۔۔

” بیوی مجازی خدا ہوں میری خدمت کرو گی تو جنّت تمہاری ورنہ میرے ساتھ تمہارا بھی دوزخ کا ٹکٹ کٹے گا “ ابراز اسے بک میں واپس الجھتا دیکھ غصّے میں آگیا اپنا غصّہ دبا کر وہ لہجے کی سختی پر قابو پاکر مزاحیہ انداز میں بولا اور اسکی بک چھین کر بیڈ پر پٹخی

” تمہارا تو سالوں پہلے کٹ چکا ہے۔۔ میری فکر نہ کرو۔۔ توبہ کر لونگی اور جا رہی ہوں میں دادو کے روم میں “ وہ بیڈ سے اپنی بک اٹھانے لگی ساتھ بکھرا سامان ابراز کے کان تو ” دادو کے روم “ کا سن کر کھڑے ہوگئے سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں ابراز نے ایک نمبر ملا کے اسے لاؤڈ سپیکر پر لگایا۔۔۔

” السلام عليكم امی کیسی ہیں آپ؟؟ جی میں ٹھیک ہوں۔۔ آپ سے شکایت تھی بیٹی کو تمیز نہیں سیکھائی کہہ رہی ہے ٹنڈے جیسا منہ لیکر نکل جاؤ میرے کمرے سے “

ابراز نے معصومانہ انداز میں کہا حجاب تو اسکی حرکت دیکھ بلبلا اٹھی۔۔۔ اسکا دل چاہا پاس پڑا گلدان پوری قوت سے اسکے سر پر مارے۔۔۔

” بیٹا کیا کروں حجاب کا؟؟ زبان ہے اسکی کے روکتی نہیں میں خود تنگ آجاتی۔۔۔ “ حجاب کو پہلی دفع نجانے کیوں ابراز کے سامنے شرمندگی ہوئی۔۔جبکہ ساس کی بات سن کر ابراز ڈھٹائی سے مسکرایا ساتھ ایک طنزیہ نظر حجاب پر ڈالی۔اسکی ماں انجان تھی ابراز نے فون سپیکر پر رکھا تھا۔۔۔

” یہی نہیں محترمہ سے کہا بریانی بنا دو آگے سے جواب دے رہی ہے شکل دیکھ کر فرمائش کرتے ہیں آپ خود بتائیں امی یہ کہاں کا انصاف ہے؟؟ اسی لئے میرا دل ہی نہیں کرتا گھر آؤں مجھے کہتی ہے ”کافر“ ہو تم مجازی خدا جیسی شکل نہیں تمہاری۔۔۔ یہی نہیں امی جو کہتا ہوں نہ کرو سب سے پہلے وہی کام کرتی ہے اور تھوڑا میں نے آواز تیز کر لی تو محترمہ دادی کے روم میں سونے چلی جاتی ہے۔۔۔۔ “ ابراز نے پورے دل کی بھڑاس آج ہی نکال لی۔۔ اسکی زبان کسی قینچی کی طرح پٹر پٹر چل رہی تھی۔۔ حجاب کو رونا آرہا تھا۔۔۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی بحث کے بعد اسکی ماں کو حجاب کا خیال آیا وہ بھی صرف دماغ درست کرنے کے لئے۔۔

” حجاب تمہیں ذرا تمیز نہیں؟؟ اس طرح شوہر سے بات کرتے ہیں اور یہ کہاں سے سیکھی ہو ٹینڈے جیسا منہ سامنے ہوتی تو تمہارا منہ میں لال کردیتی۔۔۔“ حجاب نے نفرت سے سامنے بیٹھے ابراز کو دیکھا جو آگ لگا کر اب چپس کھا رہا تھا۔۔ حجاب نے موقع اٹھا کر سپیکر سے ہٹانا چاہا لیکن ہائے یہ قسمت فنگر پرنٹ کوڈ حجاب غصّہ پی کر رہ گئی۔۔۔

” میں آخری بار کہہ رہی ہوں حجاب اب تم نے شوہر کی نافرمانی کی وہاں آکر تمہارے شوہر کے سامنے تھپڑ لگاؤں گی سمجھی “ ابراز کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی حجاب سر جھکا کے رہ گئی اسکی ماں نے سارا بھرم ختم کر دیا۔۔۔

” اور ابراز جو کہے وہ کیا کرو شہزادوں جیسا شوہر ہے کیا خرابی ہے؟؟ آنکھیں کھول کر دیکھو گی تو قدر ہوگی اور اب تمہاری شکایت نہ آئے اور بات بات پر کمرہ چھوڑ کر کیوں بھاگتی ہو اس بچے کو بھی پریشان کرتی ہوں آپس کا جھگڑا آپس میں نپٹاؤ اعلان نہ کرو رکھتی ہوں فون کل سیدھا کرونگی تمہیں ۔۔۔ “ کال کاٹ کر اسکی ماں نے اسکی جان میں جان ڈالی حجاب اسے قہر آلود گھوری سے نواز کر پھنکاری۔۔

” ریسپشن سے پہلے تم نے مجھ سے بات بھی کی نا تو قتل کردونگی تمہارا میں۔۔۔ “ وہ بکس سائیڈ پر پٹخ کے چادر تان کر لیٹ گئی ابراز مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے جاگتا رہا پھر اسے نیند میں جاتا دیکھ آہستہ سے اسکے قریب آیا اور اسکا سر احتیاط سے اپنے بازو پر رکھ کے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

آمنہ ثنا اور اسامہ خوشی سے تیار ہو رہے تھے آج کافی دنوں بعد وہ اپنی بہن کو دیکھنے کے لئے بےچین تھے آخر کب اتنے دنوں تک وہ لوگ ایک دوسرے سے دور رہے ہیں؟؟ اور یہی حال وہاں تھا حجاب بےصبری سے سب سے ملنے کا انتظار کر رہی تھی اسکے لاکھ کہنے کے بعد بھی ابراز اسے وہاں لیکر نہیں گیا جبکہ اسکی ماں کا ابراز کے ساتھ بدلتا رویہ دیکھ حجاب حیران بھی تھی اور اداس بھی۔۔ اور اداس وہ دادو

کے گاؤں جانے سے بھی تھی جنہوں نے کل ہی اسے جانے کی نیوز دی تھی اور یہ سب سن کر تو حجاب کا منہ لٹک گیا تھا اب ابراز جانے اسکے ساتھ کیا کریگا؟؟ اسے یہی لگا تھا وہ دادو کی وجہ سے شریف بنتا ہے۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

وائٹ گھیر دار میکسی میں وہ دوپٹا گھونگٹ کی طرح اوڑھے ابراز کے قدم سے قدم ملا کر چلتی اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی ابراز نے اسکا ہاتھ سختی سے تھاما ہوا تھا۔۔ ارد گرد بیٹھے لوگ انہیں حسرت سے دیکھ رہے تھے کچھ حجاب اور ابراز کے یونی فیلوز تھے کچھ رشتےدار انہی میں کچھ بزنس مین اپنی بیویوں کے ساتھ آئے تھے جنہیں دیکھتے ہی ابراز کا خوشگوار موڈ اوف ہوگیا۔۔۔ اب کے اس نے ایک ہاتھ حجاب کی کمر میں حمائل کر کے اسے قریب کیا اور قدم بڑھاتے اسٹیج پر آبیٹھا پہلے اس نے حجاب کو بٹھایا پھر اسکے پاس بیٹھ کر حجاب کا ہاتھ سختی سے اپنی گرفت میں جکڑا۔۔۔۔

” ہاتھ چھوڑو۔۔ “ حجاب نے دھیمی مگر غصیلی آواز میں کہا

” جب تمہاری خوائشوں کا احترام کرتا ہوں تو یہ فرض تم پر بھی لاحق ہوتا ہے۔۔۔ “ سکون سے جواب آیا۔۔۔۔

” کیسے ہو بھائی شادی کے بات بھول ہی گئے ہو “ حیات صاحب کے دوست نے اسٹیج پر آکر ابراز سے کہا اور ایک گہری نظر گھونگٹ میں چھپی حجاب پر ڈالی۔۔۔

” کون سا شادی سے پہلے ہماری جان پہچان تھی؟؟ “ ابراز کا لہجہ خود بخود تلخ ہوگیا اسکا دل چاہا سامنے بیٹھے شخص کو زندہ جلا ڈالے۔۔۔

” مذاق اچھا کرتے ہو “ اُس شخص نے بمشکل خود کی عزت سنبھالی۔۔۔

” ہمارا مذاق کا رشتہ ہے؟؟ “ ابراز کا لہجہ اب بھی سخت تھا آنکھوں میں شیطانی مسکراہٹ جیسے اس شخص کے اندر اُبلتے لاوا سے مزے لے رہا ہو۔۔۔” حیات صاحب سے مل لوں “ وہ شخص مزید عزت افزائی سے بچنے کے لئے نیچے مہمانوں سے ملتے حیات صاحب اور آمنہ کے پاس چلے آئے۔۔۔ حجاب ابرز کو سمجھنے سے ابھی بھی قاصر تھی وہ کوئی عجیب ہی پہیلی تھا جو اسے لگا وہ کبھی سلجھا نہیں پائے گی۔۔۔۔

” بےبی تم پریشان نہ ہو ان جیسوں کی روز میرے ہاتھوں

عزت افزائی ہوتی ہے پھر بھی ڈھٹائی سے منہ اٹھا کے آجاتے ہیں “ ابراز کو حجاب کا خیال آتے ہی لہجے میں خود بخود نرمی اور محبت سمٹ آئی۔۔۔

” تمہاری طرح “ حجاب نے ترکی بہ ترکی کہا۔۔۔

” کمرے میں چلو تمہارا دماغ درست کرتا ہوں “

حجاب کی نفرت کا جواب شوخی سے دے کر وہ دلکشی سے مسکرایا۔۔۔ اس نے حجاب کو تنگ کرنے لئے اُسکی انگلی میں پہنی انگھوٹی کو چھیڑا حجاب اتنے لوگوں کے سامنے بس صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔۔۔

” کیوں میرا تماشا بنا رہے ہو؟؟ “ حیات صاحب نے حجاب کا لحاظ کیے بغیر اپنے ڈھیٹ بیٹے سے کہا جو بڑی بےباکی سے بیوی کی سینڈل میں الجھا شرارہ نکال رہا تھا۔۔۔

” ویٹ آ سیکنڈ ڈیڈ۔۔ “ وہ بیٹھے بیٹھے اسکے سینڈل سے الجھا شرارہ نکال چکا تھا اب باپ کو دیکھ کر دنیا بھر کی بیزاری چہرے پر سجائے احسان کرنے والے انداز میں ماں باپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔۔۔

” میرا تماشا کیوں بنایا “ سرخ آنکھوں سے اسکا باپ دھیمی آواز میں دھاڑا انکا بس نہ چلتا وہ اپنے بیٹے کو کھڑے کھڑے شوٹ کر دیں۔۔۔۔

” بنایا ہوتا تو گردن اکھڑ کے نہیں چلتے “ سرد لہجے میں کہہ کر اس نے اپنی جان چھروائی وہ انہیں اگنور کرتا اُس سے پہلے اسکی ماں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔۔۔۔۔

” ابراز بےہیو یور سیلف “ آمنہ نے ایک سخت گھوری سے اسے نوازا۔۔۔ حیات صاحب کے دوست کے سامنے جو شرمندگی اٹھانی پڑی آمنہ کو وہ نہیں بھولی اور وہ جانتی تھیں یہ حرکت ابراز نے جان بوج کر کی ہے۔۔۔۔

” آئ ڈونٹ نیڈ یور ایڈوائز “ وہ اپنی ماں کا بھی کہاں لحاظ کرتا تھا؟؟ اسے باپ سے زیادہ نفرت تو اپنی ماں سے تھی۔۔۔

” آگر اگلے دس سیکنڈ میں آپ دونوں گئے نہیں تو میں یہاں سے چلا جاؤنگا۔۔ میرے پیچھے جواب دیتے رہنا آپ دونوں“ گرج دار آواز میں کہہ کر وہ اپنی بیوی کے پاس بیٹھ گیا۔۔ حیات صاحب اور فبیحہ ایک سرد نگاہ حجاب پر ڈال کر اسٹیج سے اتر گئے۔۔۔

کچھ ہی دیر میں حجاب کی فیملی اسٹیج پر آگئی۔ ابراز گرم جوشی سے ان سے ملا اسکا انداز حجاب کو حیران کر رہا تھا اپنے پیرنٹس پر حکم اور یہاں عزت دینا احترام کرنا حجاب بس اسے دیکھتی رہی۔۔ آمنہ کے آتے ہی ابراز اسے فیملی کے ساتھ چھوڑ کے اسٹیج سے اتر گیا۔۔۔ آمنہ نے ابراز کے جاتے ہی بےتابی سے بیٹی کو گلے لگایا اور اسکا ماتھا چوما ثنا اور اسامہ بھی خوشی سے اس سے ملے۔۔۔

” آپی یو آر لکی۔۔ “ ثنا نے حجاب سے گلے ملتے کہا۔ اس ریمارکس پر حجاب بس اسکا منہ دیکھتی رہی۔۔

” بابا کہاں ہیں ؟؟ “

حجاب کی بات سن کر ثنا بوکھلاگئی۔۔

” وہ چاچو کے ساتھ حیدرآباد گئے ہیں آج انھیں لوٹنا تھا پر سارے راستے بند ہوگے بس اسی کی وجہ سے آج نہ آسگے “

حجاب جو یہ سمجھ بیٹھی تھی بابا مردوں والی سائیڈ ہونگے انکے نہ آنے کا سن کر اداس ہوگئی۔۔

کافی دیر وہ انکے ساتھ بیٹھی رہی تب تک جویریہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ آگئی پھر حجاب دادو کے پاس چلی آئی ثنا اور جویریہ کے ساتھ۔ دادو نے اسے اپنے گاؤں کے کچھ لوگوں سے ملایا اور اپنے بہوؤں سے بھی جو فبیحہ سے کافی مختلف اور حیادار تھیں۔۔ فنکشن کے اختتام پر ابراز واپس اسکے پاس چلا آیا کسی سائے کی طرح وہ اسکے ساتھ رہا اور حجاب کا ہاتھ پل بھر کے لئے بھی اس نے نہ چھوڑا۔۔۔۔۔

وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے بھاری جھمکے اتار رہی تھی کہ اسے اندازا بھی نہ ہوا کب ابراز اسکے پیچھے آن کھڑا ہوا۔۔۔۔

“ You will never know just how beautiful you are to me ”

بےخودی کے عالَم میں تکتے وہ حجاب کو ان آنکھوں میں بسا چکا تھا۔۔۔ حجاب کا ہاتھ لرز اٹھا وہ سمجھ گئی تھی ابراز کا موڈ بدل چکا ہے اس نے بھاگنے کو ڈریسنگ کی طرف دوڑ لگانی چاہی کہ ابراز نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔

” ظالم حسینہ اب اتنا کیوں تڑپا رہی ہو؟؟ آج تو روپ خوب نکھر کے آیا ہے۔۔ اب کوئی کافر ہی ہوگا جو تم سے اپنی نظر ہٹالے ویسے بھی موقع بھی ہے دستور ہے اور یہ خوبصورت رات بھی ہے کیوں نہ اب تم بھی کچھ ثواب کما لو ورنہ فرشتے تمہیں لعنت اور حوریں ساری رات بددعائیں دیں گی “

حجاب کو خود سے قریب کر کے وہ ان خوبصورت آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرایا۔۔۔ حجاب پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی لفظ ایسے تھے کہ جسم حرکت نہیں کر پا رہا تھا ایک وقت تھا وہ لوگوں کو انکے اعمال یاد دلاتی تھی اور آج یہ وقت ہے اسکا شوہر اسی کا حربہ آزما کر اسے آئینہ دکھا رہا ہے۔۔۔۔۔اور ہوا بھی یہی تھا لاکھ چاہ کر بھی وہ اسے روک نہ سکی اسکی کمر کے گرد ابراز حیات کا گھیرا مزید تنگ ہوگیا۔۔۔

☆.............☆.............☆


صبح وہ اٹھتے ہی تیار ہوکر یونی آگئی۔۔ ابراز کو دل ہی دل میں گالیوں سے نوازتے وہ اپنا غصّہ نکال رہی تھی۔۔ مہوش اپنی کار لیکر نکل چکی تھی حجاب نے سوچا تھا اسے کے ساتھ چلی جائے گی لیکن وہ اس سے پہلے ہی نکل گئی حجاب کو پوانٹ سے آنا پڑا کیوں کہ کار تو گھر میں تھی لیکن ڈرائیور نہیں۔۔۔۔۔

مہوش سے اسکی ملاقات یونی میں اور ڈنر پر ہوتی آج کل اکثر وہ مہوش کو ایک لڑکے کے ساتھ دیکھتی جو یونی میں کافی مشہور تھا ہر لڑکی کے ساتھ اسکا اٹھنا بیٹھنا تھا۔۔ حجاب نے ایک دفعہ مہوش کو سمجھانا چاہا لیکن سمجھنا تو دور وہ تو حجاب سے اتنی بےزار تھی کہ دو گھڑی بات کرنا بھی گنوارہ نہ سمجھا حجاب نے بھی اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔۔

” ہیلو بےبی بڑی ظالم ہو بنا بتائے چلی گئیں “ حجاب پریزنٹیشن تیار کر رہی تھی کہ ابراز کی کال آگئی صرف جویریہ کی وجہ سے اس نے بےدلی سے کال پک کی ورنہ جویریہ اس سے سوال پوچھ پوچھ کر اسکا سر کھا جاتی۔۔۔۔

” لیکچر مس ہوجاتا تبھی “

ضبط کرتے وہ تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کر رہی تھی۔۔

” میں بھی تو تمہیں مس کر رہا ہوں “

ابراز کی بات سن کر حجاب کے گال دہک گئے شرم سے نہیں بلکہ غصّے سے۔۔۔

” میں پریزنٹیشن بنا رہی ہوں کل لاسٹ ڈیٹ ہے “

حجاب نے جویریہ کی وجہ سے خود پر قابو پایا ورنہ اسے اچھا خاصا سناتی۔۔۔

” اوکے بےبی۔۔ سنو مجھے ارجنٹ ایک کام سے جانا ہے دل تو بالکل نہیں کر رہا۔۔۔ لیکن مجبوری پپرز کا مسئلہ ہوگیا ہے “

وہ بےچارگی سے بولا اسکے لہجے سے واضح تھا وہ جانا نہیں چاہ رہا

” اوکے۔۔۔۔ کتنے دن “

حجاب کا دل تو ناچنے کو چاہ رہا تھا

” تقریباً دو ہفتے۔۔۔ کاش تمہارا پاسپورٹ بنا ہوتا تمہیں بھی لےجاتا لیکن مجھے آج ہی نکلنا ہے۔۔۔ “ اب کے لہجے میں غصّہ تھا،بےبسی تھی، لاچارگی لیکن حجاب کو کہاں قدر تھی اسکا تو خوشی کے مارے بُرا حال ہو رہا تھا۔۔۔

” کوئی بات نہیں ٹیک یور ٹائم “ حجاب نے کہہ کر کال کاٹ دی تھوڑی دیر بعد ابراز کا میسج اسے وصول ہوا۔۔۔۔

” تمہارے پر تو میں آکر کاٹوں گا!!!!! اور سنو میری ساس کے گھر جانا وہاں سے خود ہی تمہیں لینے آؤنگا میری غیر موجودگی میں اِس گھر میں قدم تک نہیں رکھنا آئی ہے سمجھ؟؟ یا دماغ ابھی بھی خالی ہے؟؟ “ حجاب اس عجیب و غریب شخص کا میسج پڑھ کے حیرت زدہ رہ گئی پھر اوکے ریپلائے کر کے فون رکھ دیا۔ کیونکہ جویریہ اب اپنے سوال پوچھ کر اسکا دماغ مزید خراب کر رہی تھی۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

پوانٹ سے سڑک پر اتر کر وہ گھر جانے کے راستے پر پیدل چل پڑی اسکی خوشی آج دو گنی ہوگئی ابراز تھا نہ وہ گھر.. آج سے وہ آزاد تھی اپنی پہلی والی دنیا میں۔۔

گھر کے آتے ہی اس نے بےتابی سے ڈور بیل بجائی اسکی ماں آمنہ نے دروازہ کھولا لیکن حجاب کا سارا موڈ اُس وقت خراب ہوا جب اسکی ماں نے خوشی سے اسے گلے لگا کر کہا

” ابراز نے تو کہا تھا جلدی آؤ گی پوائنٹ سے آئی ہو کیا؟؟ “

” ابراز سے پوچھیں نا۔۔ “ بگڑے موڈ کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ آمنہ کو آج افسوس ہو رہا تھا کاش پہلے ہی وہ اسے ایک دو تھپڑ لگا کر سدھار دیتیں تو یہ ضد تو اس میں نہ آتی۔۔۔

گھر آکر حجاب کو بدلتے ماحول کا احساس ہوا اسکے چچا لوگ اپنا حصہ لے چکے تھے لیکن عجیب تو یہ تھا دکان بابا کے پاس ہی تھی بابا نے اپنی ساری زندگی کی کمائی اپنے بھائیوں کو دےدی جسکا جتنا بنتا تھا اُتنا۔۔۔ اسکی ماں جو اسے بتا رہی تھیں حجاب کو وہ آدھا سچ لگا۔۔۔ اسے پوری کہانی میں ہی جھول لگا۔۔۔ حجاب کو ویسے بھی ان سب میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا بس اپنے بابا کو بستر سے لگا دیکھ اسکی حالت خراب ہوگئی وہ پورا دن انہی کے پاس رہتی۔۔ انکا خاص خیال رکھتی گھنٹوں بیٹھ کر انکا سر کھاتی۔۔۔

زندگی یکدم سے بہت خوبصورت لگنے لگی تھی راتوں کو وہی دیر دیر تک جاگنا امی ابو ثنا وہ تینوں باتوں میں ایسے لگتے کہ ٹائم کا پتا ہی نہیں چلتا۔۔۔ اسامہ کے پپرز تھے اسلئے وہ آج کل کمرے کا ہوکر رہ گیا تھا۔۔۔

اسی طرح کافی دن گزر گئے آج ابراز کو گئے بیس دن ہو چکے تھے اس بیچ ابراز نے کوئی دو سو کالز کی ہونگی لیکن حجاب نے بھری ڈھٹائی سے اسے بلاک کردیا۔۔۔ یہاں آئے اسے چوتھا دن تھا جب حجاب فیملی کے ساتھ تین بجے تک بیٹھی باتیں کر رہی تھی اور ابراز کی کال آگئی بمشکل غصّہ قابو کے اس نے کال اٹھائی تو آگے سے ڈھٹائی سے ابراز کے بیہودہ ڈائلاگز شروع ہوگے۔۔

” بہت خوش ہو پندرہویں کال کے بعد فون اٹھا رہی ہو آنے دو مجھے گن گن کے بدلے لونگا “ وہ گھنٹوں حجاب کا سر اسی طرح کھاتا اسلئے حجاب نے بلا خوف و جھجھک اسے بلاک کردیا لیکن اگلے دن سے وہ کبھی بابا کے نمبر پر کال کرتا تو کبھی امی کے نمبر پر اور حجاب چاہ کر بھی فون بند نہیں کر پاتی۔۔۔

” کیا ہوا حجاب صبح سے اتنی ڈل لگ رہی ہو “

آمنہ نے ناشتہ ٹیبل پر رکھتے کہا جسے دیکھ کر حجاب نے بُرا سا منہ بنایا

” امی سر گھوم رہا اور وومیٹینگ “

حجاب کا اتنا کہنا تھا کے آمنہ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔۔

” حجاب تم روکو میں صائمہ کو لیکر آتی ہوں “ آمنہ جلدی سے ساتھ والے گھر سے صائمہ کو لے آئیں جس نے چیک اپ کے بعد جو خبر سنائی اُسے سن کر حجاب کو لگا گھر کی چھت اسکے سر پر آگری ہو ۔۔۔۔۔۔

” حجاب پریگنینٹ ہے۔۔ مبارک ہو آمنہ نانی بنے والی ہو “

حجاب اٹھ کر کمرے میں چلی آئی پیچھے سے اسنے آمنہ کی آواز سنی تھی۔۔۔

” شرما گئی “

حجاب بیڈ پر آکر بیٹھ گئی غصّے سے اسنے بیڈ شیٹ دبوچی۔۔

اسے کانوں میں بار بار ابراز کے الفاظ سنائی دے رہے تھے۔۔۔

” کافر کی بیوی ہو تم جانِ من اور جلد ہی اس کافر کے بچوں کی ماں بنو گی۔۔۔۔۔۔ “ اسے پتا بھی نہیں چلا کب اسکی آنکھیں بھیگ گئیں یہ نئی خوشی جسے سن کر اسے خوش ہونا چاہے اسکا دل کر رہا تھا وہ اس خوشی میں ماتم کرے کیونکہ ابراز حیات کا جیت کی خوشی میں مسکراتا چہرہ بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے گھومتا۔۔۔۔۔

☆.............☆.............☆

” حجاب میری جان۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا میں نانی بنوئنگی نجانے کب تم بڑی ہوگئیں مجھے تو آج تک اپنی وہ چھوٹی حجاب لگتی ہو “ آمنہ نے آکر اسے گلے لگایا پھر کیا ہونا تھا وہ پورا دن اپنے کمرے کی ہوکر رہ گئی۔۔ آمنہ سے طبیعت خرابی کا کہ کر وہ پورا دن بس بستر پر لیٹی رہی نماز کا ٹائم ہوتا تو اٹھ کر پڑتی لیکن دعا۔۔ دعا کے لئے اٹھتے ہاتھ واپس نیچے گر جاتے یہ بےبنیاد نفرت ہی تھی جس نے حجاب تاثیر کو اپنا آپ تک بھلا دیا۔۔۔ وہ یہ نہیں سوچ رہی تھی بہت جلد اسکے پیڑوں تلے بھی جنّت ہوگی بس اسکی سوچ یہ تھی یہ بچا ابراز حیات کا ہے۔۔ جس سے وہ کبھی ہارنا نہیں چاہتی کبھی نہیں۔۔۔

آج یہ نئی خوشی ہی تھی جسکی وجہ سے اسکے بابا نے اپنا بستر چھوڑا وہ خود اٹھ کر اس سے ملنے آئے۔۔ نانا بنی کی خوشی نے انہیں پھر زندگی کی طرف لوٹا دیا۔۔ لیکن حجاب ان سب سے بےخبر اپنی ویرانی کا سوچ رہی تھی جب دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے تو وہ کیسے ساری زندگی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں کیا آنے والے دنوں میں اسکا بچا بھی باپ جیسا ہوگا؟؟ جس سے لوگ نفرت کرتے ہیں جسکی موجودگی سے حجاب تاثیر کو بھی نفرت ہو؟؟؟ آخر ابراز حیات بھی تو باپ جیسا ہے پھر اسکی اولاد بھی؟؟؟۔۔۔۔ یہ سوچیں اسے دن با دن زندگی سے دور کر رہی تھیں وہ خود نہیں جانتی تھی اسکی آمد نے ابراز حیات کو سر تاپا بدل دیا جان پاتی تو اس محبت پر فخر کرتی۔۔۔اس پر ایمان لاتی۔۔۔

پورا دن اسامہ اور ثنا نے اسکا سر کھایا۔۔۔ کبھی امی آکر اسے کچھ کھلاتیں ڈرائے فروٹس تو ہاتھ میں لیکر گھومتیں ایک گھنٹے بعد خود اسکے منہ میں ڈال کے چلی جاتیں حجاب بس منہ بنا کر خاموشی سے بیٹھی رہتی۔۔۔۔۔

” اب تو سدھر جاؤ۔۔۔ ورنہ بچے بھی تمہیں دیکھ کر استغفار پڑھیں گئے۔۔۔ “ حجاب اور جویریہ گارڈن ایریا میں بیٹھیں تھیں کے جویریہ نے اسکے پھولے گال دیکھ کر کہا لیکن حجاب کسی اور ہی سوچ میں گھم تھی۔۔۔

” حجاب “ جویریہ نے اسکا کندھا ہلایا۔۔

” تمہیں پتا ہے کوئی ہر وقت مجھے دیکھتا ہے اب بھی کوئی دیکھ رہا ہے؟؟ “ وہ سامنے یونیورسٹی کی بلڈنگ دیکھتی کھوئے ہوے لہجے میں بولی۔۔۔

” کون ہمارا کوئی کلاس فیلو۔۔۔۔؟؟ “ جویریہ نے آس پاس دیکھا پھر پیچھے مڑی سب لڑکے لڑکیاں اپنے گروپس کے ساتھ بیٹھے سب سے بےنیاز اپنی باتوں میں مشغول تھے۔۔۔۔

” نہیں کوئی لڑکا نہیں کیوں کے یہ نظریں میں ہر وقت محسوس کرتی ہوں انفکٹ گرلز کامن روم میں، نماز پڑھتے وقت یونیورسٹی میں چلتے پھرتے لیکن کلاس روم میں نہیں۔۔۔ پتا نہیں کون ہے میں اسے ڈھونڈے لگتیں تو وہ نظریں پھیر لیتی “ حجاب کے لہجے میں جہاں بےبسی تھی وہیں آنکھوں میں اداسی۔۔۔

” حجاب خھمکھا پریشان ہو رہی ہو کوئی نہیں ہے چھوڑو یہ بتاؤ لڑکا ہوا تو کیا نام رکھوگی اور لڑکی؟؟ اور ایک بات تو بتاؤ ابراز بھائی کو بتایا یا شرم کے مارے بتایا نہیں گیا “ حجاب جو اپنی ہی دنیا میں کھوئی تھی ابراز کا نام سن کر بُرا سا منہ بنایا۔۔۔

” مجھے کیوں شرم آنی چاہیے اُسے آئے جو ایسے کام کرتا پھرتا ہے“ وہ تو نام سن کر آگ بگھولا ہوگئی۔۔۔اپنے الفاظ تک پر غور نہیں کیا۔۔۔

” اف تم تو اس بیچارے کی پیدائشی دشمن ہو کبھی آنکھیں کھولے تو پتا لگے کل ہی اسکے نام کا چیک آیا تھا چیرٹی فنڈ کے لئے جو ہماری یونی سے جا رہا تم نے اور میں نے تو بس ایک ہزار دیا اسے دیکھو پانچ لاکھ دیے ہیں “ جویریہ نے اسکی عقل پر ماتم کرتے کہا حجاب تاثیر وہ ہے جو خود کے بجاۓ دوسروں کا ایمان جج کرتی پھرتی ہے۔۔۔

” ہاں تو کون سا خود کماتا ہے باپ کا پیسا ہے اڑائے گا ہی“

جھٹ سے جواب آیا تھا لہجہ وہی غصّے سے بھرا تھا۔۔ حجاب نے بیگ سے شول نکال کر اپنے گرد اوڑھی سرد حوائیں بار بار اس سے ٹکرا کر اسکے جسم کو برف کی مانند ٹھنڈا کر دیتیں۔۔

” تم کون سا خود کماتی ہو؟؟ “ جویریہ کو غصّے سے آگیا یہ بندی ابراز حیات کے معملے میں واقعی عقل سے پیدل ہے۔۔

” حجاب تمہارا نشئی شوہر نشے میں پیسے اڑا دیتا عیاشی کرتا لکین اس نے اس کام کے لئے پیسے دیے یہ بڑی بات نہیں؟؟ کوئی انسان اللہ‎ کو خوش کرتا تو کوئی اسکے بندوں کو تم وہ ہو جو حقوق اللہ‎ پر عمل کرتی ہو مگر تمہارا شوہر حقوق العباد پر اور ایک بات یاد رکھنا حجاب۔۔۔ ساری زندگی۔۔۔۔

حقوق العباد کے گناہ نمازیں پڑھنے حج کرنے یا روزے رکھ لینے سے بھی معاف نہیں ہوتے!!! یاد رکھو ان گناہوں میں معافی ہی نہیں، تلافی بھی کرنی ہوگی!!!!

اور تمہیں نہیں لگتا تم نے اسکا دل دکھایا ہے تم اسکی مجرم ہو۔۔ “ جویریہ نے اسے احساس دلانا چاہا جو ہر احساس سے عاری تھی اسے صرف اپنا ہی دکھ یاد تھا۔۔۔

” جویریہ تم نے غلط کہا کے میں اسکی مجرم ہوں آگر میں اسکی مجرم ہونا تو اس سے زیادہ وہ میرا مجرم ہے گہنگار ہے میرا “

حجاب کی آواز بھر آگئی۔۔

” اور ہاں بندوں کے حقوق نا؟؟؟ پوچھنا اپنے ابراز بھائی سے اسنے کتنا رلایا مجھے؟؟ میرے ماں باپ کو؟؟ میں نہیں وہ میرا مجرم ہے جسے تاقیامت معاف نہیں کرونگی میں “ وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتی آنکھیں جھپکائے اپنے آنسوں کو روکنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔۔ شادی کا دکھ کم تھا جو اب اولاد بھی نجانے کیوں اسے ہر شخص سے نفرت ہونے لگی تھی اسے اپنی پہلے والے زندگی عزیز تھی جس میں وہ آزاد تھی کسی سے بحث نہیں تھی۔۔کوئی ہر وقت اسے سمجھاتا نہیں تھا بلکے سب اسے سمجھدار کہتے نجانے وہ دن کہاں گئے؟؟ یہ سب ابراز کے آنے کے بعد ہی ہوا ہے جو اسکے ماں باپ بہن بھائی سب اس سے دور ہوگے اسکی دوست تک۔۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


مغرب کی آواز اسکے کانوں میں گونجی تو حجاب نے اپنی آنکھیں کھولیں چھت کو گھوڑتے بےاختیار اسکا ہاتھ اپنے پیٹ پر گیا۔۔۔ دھیرے دھیرے وہ اسے سہلانے لگی اسکے ہونٹوں پر خود با خود ایک خوبصورت مسکراہٹ آن ٹھری اسے خود نہیں پتا تھا وہ کیا کر رہی لیکن اس خوشی کو محسوس کرتے ہی ایک عجیب سا سکون اسے محسوس ہوا۔۔۔ نجانے کتنے پل گزرے تھے کے اسے کسی کی نظروں کی تپش اپنے وجود پر محسوس ہوئی حجاب دھیرے سے اٹھ بیٹھی تبھی اسکی نظر سامنے بیٹھے ابراز حیات پر پڑی جو بےخودی کے عالَم میں مسکراتا ہوا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ حجاب نے بوکھلاتے ہوئے اپنا دوپٹا ڈھونڈا جو اسے تکیے پر ہی پڑا ملا۔ حجاب نے جلدی سے دوپٹا اٹھا کے اپنے گرد پھلایا۔ حجاب کی اس حرکت پر سامنے بیٹھے ابراز کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔۔۔

” یہ تو ظلم ہے دشمن جاں وہاں ہم جدائی میں تڑپتے رہے اور یہاں آپ اپنی نیندیں پوری کر رہی ہیں “

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اسکے پاس چلا آیا نظریں اس دشمن جاں پر تھیں جو ان بیس دنوں کی جدائی میں ہر حسن کو مات دے گئی تھی یا اسکے شوہر کی نظریں تھیں جس نے اسے دنیا کی حسین ترین بیوی بنا دیا۔۔۔ وہ آکر اسکے پاس بیٹھ گیا حجاب فوراً سے دور کھسکی۔۔

” بہت ظالم ہو۔۔ آپ کے دیدار کے لئے کتنا بےچین رہے ہیں آپ کو اندازہ بھی نہیں۔۔۔ “ وہ اسکے دور کھسکنے پر چوٹ کرتا ہوا بولا حجاب نے خونخوار نظروں سے اسے گھوڑا۔۔

” اُف یہ قاتل نگاہیں کسی دن جان سے جائیں گے اور آپ کو خبر بھی نہ ہوگی۔۔۔۔ “

ابراز نے مسکراتے ہوئے ان قاتل نگھائوں کو آنکھوں کے حصار میں لیا۔۔ حجاب نے فوراً نگھائیں پھیر لیں یہ شخص تو آنکھوں کی ذریعے نگلنے کا فن جانتا ہے۔۔۔۔۔

” ابراز بھائی۔۔ امی نے بتایا آپ آئیں ہیں میں تو بھاگا چلا آیا۔ کیسے ہیں آپ؟؟ “ اسامہ اچانک سے دروازہ کھول کر آٹپکا ابراز کا ہلک تک کروا ہوگیا اس طرح کی مداخلت اسے کہاں پسند تھی لیکن سالا تھا اسلئے یہ کڑوا گھونٹ پی لیا۔۔ ویسے ہی ابراز کو حجاب کی فیملی سے اپنائیت تھی نجانے کیسے اجنبی رشتے اسکے دل میں گھر کر گئے۔۔۔

” میں ٹھیک تھا۔۔۔ اب خوش ہوں “ ابراز کی نظر حجاب پر آن ٹھیری جو اب بستر سے اٹھ چکی تھی۔ وہ اسکی بات کا مفہوم خوب جانتی تھی اسے سنانے کے لئے ہی تو کہا گیا تھا۔۔۔وہ اسکی لو دیتی نگھاؤں کو نظر انداز کرتی واشروم کی جانب چل دی اسامہ بھی حجاب کی یے بےرخی محسوس کر چکا تھا لیکن خاموش رہا۔۔۔

” تم سناؤ کیسے ہو؟؟ “ ابراز نے حجاب کے جانے کے بعد اسامہ سے پوچھا اسامہ جواب دیتا اسے باہر تاثیر صاحب کے روم میں لے آیا۔۔ حجاب بھی انکے جاتے ہی واشروم سے باہر آئی اور مغرب کی نماز ادا کی۔۔

حجاب نماز کے بعد کمرے سے باہر آئی تو اسنے ایک شکوہ کناں نظر ماں پر ڈالی جنہوں نے اسے ابراز کے آنے کی خبر تک نہیں دی۔۔۔ وہ چلتی ہوئی کچن میں آئی اسے چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی لیکن اسکا پاڑا تب ہائی ہوا جب اس نے کوئی چار پانچ ڈیشز تیار ہوتے دیکھیں کسی چولے پر چکن بن رہا تو کسی میں پراونس اور فش یہ سب دیکھ کر الٹا اسکا دل خراب ہوگیا۔۔ وہ تاثیر صاحب کے روم میں آگئی جہاں ابراز قہقہ لگاتا اسے زہر لگ رہا تھا وہ آکر تاثیر صاحب سے چپک کر بیٹھ گئی اور یہی اسکی غلطی تھی۔ ابراز ڈھٹائی سے تاثیر صاحب سے بات کرتا ایک گہری نظر سے اسے نوازتا حجاب نے اسکی حرکت دیکھ سر پر اوڑا دوپٹا درست کیا۔۔ وہ بھی ایک نظر اسے ضرور دیکھتی جو ڈھٹائی سے اسے گھور رہا تھا لیکن اسے کیا پتا تھا اس وارننگ کو ابراز کوئی اور ہی رنگ دیگا۔۔۔


” مجھ سے مت پوچھو میرے محبوب کی سادگی کا انداز

نظر بھی مجھ پر تھی اور پردہ بھی مجھ سے تھا “


آمنہ نے دونوں کو ڈنر کے لئے ڈائننگ ٹیبل پر بلایا تب ابراز نے موقع دیکھتے ہی اسکے قریب آکر سر گوشی کی اور حجاب اسے کچھ سناتی اس سے پہلے تیزی سے وہ ڈائننگ ٹیبل تک پہونچ گیا۔۔۔

” اللہ‎ پوچھے تم سے “ وہ رو دینے کو تھی۔ آنسوں پیتی زہر مار کر ایک ایک نوالا ہلک سے اتارا اور وہ انسان مزے سے ایک ایک ڈش ٹیسٹ کر کے اسکی ماں کی تعریف کر کے مزید انہیں اپنی سائیڈ پر کر رہا تھا۔۔ حجاب کو وہاں لگ رہا تھا وہ کوئی مہمان ہے اس سے زیادہ وہ سب ابراز کی خاطرداری کر رہے تھے جیسے پچھلے بڑے خوشگوار تعلقات رہیں ہیں۔۔۔

ڈنر کے بعد وہ اپنے ماں باپ سے ملتی ابراز کے ساتھ کار میں آبیٹھی۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” کبھی مسکرا بھی لیا کرو بےبی۔۔۔ “حجاب نے نظریں کھڑکی سے باہر آتی جاتی گاڑیوں پر جما لیں اسے ابراز کا بولنا دیکھنا ہر چیز سے چڑ ہو رہی تھی اسکے ماں باپ کو ذرا پروا نہیں انہوں نے اسکے ساتھ کیا کیا ہے؟؟ آج سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی سب ابراز کو ایسے عزت دے رہے تھے جیسے کھاتے ہی اسی کے پیسوں کا ہیں تبھی تو یہ شخص سب کو انگلی پر نچاتا ہے ماں باپ ساس سسر حتاکہ اسکے بھائی بہن۔۔۔ اور عزیز دوستیں۔۔۔۔۔۔ سب چھین لیا ابراز نے اس سے اب تو اسکا یونیورسٹی جانے کو دل بھی نہیں کرتا۔۔۔

” حجاب “ ابراز اسے سر سیٹ کی پشت سے لگاتے دیکھ ایک پل کو ڈر گیا کہیں اسکی طبیعت؟؟؟ تبھی اسے پکارا

” خدا کے لئے چپ رہو میرا دماغ پھٹ جائے گا “ ابراز نے آنکھیں سکوڑ کر اسے دیکھا یکدم بدلتا موڈ اسکی سمجھ سے باہر تھا۔۔ اس نے تو آج کچھ کیا بھی نہیں پھر؟؟ اسکی بےرخی دیکھ ابراز نے خاموشی سے ڈرائیونگ جاری رکھی۔۔۔۔

گھر کے آتے ہی اسنے چابی ڈرئیور کو دی اور اسکے ساتھ قدم اٹھاتا کمرے تک آیا۔۔ کمرے میں آکر ابراز نے دروازہ بند کر دیا اور قدم قدم چلتا اسکے پیچھے آن کھڑا ہوا جو فرج سے پانی نکال رہی تھی۔ یہ چھوٹا سائز فرج ابراز نے ہی اپنے روم میں رکھوایا تھا۔۔ حجاب پانی کی بوتل نکال کر پیچھے مڑی تو ابراز سے ٹکراتے بچی ابراز نے اسکے ہاتھ سے بوتل لیکر فرج کی اوپر رکھی اور اپنے سالوں کی خوائش پر عمل کیا۔۔ ہمیشہ سے وہ چاہتا تھا یہ نقاب خود وہ اپنے ہاتھوں سے اُتارے پاکستان آتے ہوے بھی یہی اسکے اندر خوائش جاگی تھی اور اب تو وہ اسکی ملکیت تھی اسکی شریکِ حیات۔۔۔۔پھر کیوں نا وہ دل کی خوائش پر عمل کرتا۔۔۔۔ ابراز نے نقاب کی ہوئی پنز کو احتیاط سے ہٹایا۔۔۔۔

” تمہیں پتا ہے تم دنیا کی خوبصورت ترین بیوی ہو اور اس نئی تبدیلی نے تمہیں بےحد حسین بنا دیا ہے۔۔۔۔“ ابراز محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتا گویا ہوا۔ حجاب کا حسین چہرہ ان آنکھوں میں سموئے وہ بیس دن کی پیاس بھجا رہا تھا۔۔۔

” اور تم دنیا کے بدصورت شوہر ہو۔۔۔ “ حجاب نے نفرت سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔

” آج کے دن پلیز یہ سب چھوڑو تمہیں پتا ہے میں کتنا خوش ہوں؟؟ سوچو حجاب ہماری اولاد۔۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتیں کتنی عزیز ہوگی مجھے۔۔۔ اور مجھے پتا ہے تم بھی بہت خوش ہو وہ حرکت میں بھولا نہیں جب تم ہمارے بچے کو محسوس کر۔۔۔ “ ایک خوبصورت مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر آٹھری وہ ان آنکھوں میں دیکھتا اس نئی خوشی کو محسوس کر رہا تھا کے حجاب نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے اسے خود سے دور دھکیلا

” میرا نہیں تمہارا سب تمہارے ہیں میرا کوئی نہیں تمہیں سکون کہاں ملتا ہے مجھے خوش دیکھ کر ہر رشتہ تو چھین لیا مجھ سے کیا بچایا ہے؟؟ یہ بچا جسکا نام حجاب سے نہیں ابراز سے ہوگا۔۔ نہیں چاہیے تمہاری یہ مہربانی آگ میں جھونکو۔۔۔۔ “ اسکا اندر کا ابلتا لاوا آج پھٹ گیا۔۔ وہ غصّہ جو ناسور کی طرح اسکے رگوں میں دور رہا تھا وہ آج برداشت سے باہر ہوگیا۔۔۔

” شٹ اپ کونسا سوگ مناتی ہو دن رات؟؟ کیا کیا ہے میں نے؟؟ کس کو چھینا میں نے؟؟؟؟ ہر رشتہ موجود ہے تمہارے پاس تم وہ ناشکری بندی ہو جسے زمین و آسمان کی دولت سے بھی نوازا جائے تو ماتم کریگی۔۔ “ ابراز کا پاڑا ہائی ہوگیا اپنے بچے کے بارے میں یہ سب سن کر زندگی میں پہلی بار اسے کوئی اپنی روح سے جڑی خوشی ملی تھا جسے حجاب تاثیر نے پل بھر میں اسکی روح سے جدا کر دیا۔۔۔۔

” کونسی دولت تم جیسا شخص؟؟؟ “ وہ نفرت و حقارت سے چلائی

” کیا خرابی ہے مجھ میں کیا کیا ہے میں نے جو بےبنیاد ماتم بنایا ہے “ وہ اس سے اونچی آواز میں چلایا۔۔۔

” تم۔۔ زندگی برباد کی ہے میری۔۔۔ نفرت ہوگئی ہے آپنے آپ سے تم جیسے نشئی کی بیوی ہوں نفرت ہے تمہارے ان ہاتھوں سے جس سے تم نے مجھے بےنقاب کیا نفرت ہے ان غلیظ نظروں سے جو مجھے اپنے جسم میں چُبتی محسوس ہوتی ہیں۔۔ نفرت ہے تمہارے وجود سے جس نے مجھے میرے ماں باپ کی نظروں میں شرمندگی دیکھنے پر مجبور کیا۔۔۔۔۔۔ کیا کیا ہے میں نے آج تک جو سب مجھے سناتے ہیں تمہاری نظروں سے خود کو بچایا،،، تمہارے لمس سے خود کو محفوظ رکھا۔۔ تمہاری موجودگی سے ڈرتے ہوے اس جگہ پر جانے سے پرہیز کیا لیکن تم نے۔۔۔ تم نے میرے بابا کو بستر سے لگایا، میری زندگی حرام کردی۔۔۔ مجھ سے شادی کی تم خود بتاؤ تم جیسا حرام رشتے بنانے والا مجھ جیسی بیوی ڈیزرو کرتا ہے؟؟ نہیں نا اور میرے ماں باپ کو دیکھو سب خوش ہو رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں میری پسند سے میری شادی کی ہے۔۔۔ “

وہ روتے ہوے زمین پر بیٹھ گئی اسکا دل آج سارا غباڑا نکال کر ہلکا ہوچکا تھا لیکن۔۔ یہ درد یہ درد تو اب بھی تھا۔۔۔۔

” کبھی آئینہ دیکھو تو جانو تم بھی برابر کی زمیدار ہو شرط رکھی تھی تم نے خود، آخر وقت میں اس سے مکر گئیں، ہر غلطی کا ازالا کرنے کی کوشش کی ہے نقاب اتارا تھا تو کسی کو دیکھنے نہیں دیا وہاں میرے علاوہ سب پیچھے تھے کسی نے تمہارا چہرہ نہیں دیکھا تم آگے بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔۔ “ ابراز نے سرد لہجہ میں کہکر قہر آلودہ نگھاؤں سے روتی بالکتی اپنی بیوی کو دیکھا۔۔۔ پھر سر ہاتھوں میں تھام کر اپنا غصّہ کنٹرول کیا یہ لڑکیاں پل بھر میں رو کر غصّہ کسی جھاک کی طرح بیٹھا دیتیں ہیں وہ بھی اپنے آپ کو سو گالیوں سے نوازا اسکے ساتھ نیچے بیٹھا۔۔۔

” حرام رشتے؟؟؟ حجاب خود سے پوچھو تم سے نفرت کے باوجود نفرت نہیں کر پاتا تمہاری موجودگی نے بدلہ ہے مجھے۔۔۔۔ دیکھو تم تمہارے آنے کے بعد میں نے شراب نہیں پی کہیں نہیں گیا صرف تمہاری موجودگی مجھے سکون بخشتی ہے بیس دن میں وہاں پاگل ہوگیا تھا پلیز حجاب کمپرومائز کرلو۔۔ اس طرح ہم دونوں خوش نہیں رہ پائیں گئے۔۔“ ابراز نے محبت سے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر کہا

” میں نہیں تم اور یقین جانو بہت سکون ملیگا مجھے۔۔“

حجاب نے آنسوں بھری آنکھوں سے نفرت سے اسے دیکھا

” محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔ “ وہ بےبسی سے بولا کیا ابراز حیات کی حجاب تاثیر کی نظروں میں کیا کوئی ویلیو نہیں؟؟

” نفرت کی انتہا ہوتی نا تمہیں دیکھاتی لعنت بھیجتی ہوں ایسے محبت پر۔۔۔ “ وہ غرائی۔۔۔ وہ جو اسے زندگی سمجھ بیٹھا تھا اسکی نظروں میں مٹی کی دھول برابر بھی نا تھا؟؟؟ ابراز کے حواس مفلوج ہوگئے اسے لگا آج زندگی اس سے بہت دور چلی گئی بہت دور جسے وہ ہاتھ لگاے گا تو دھول بن کر مٹی میں مل جائے گی۔۔۔۔۔۔نظریں جھکائے وہ ضبط کی انتہاوں پر تھا۔۔ کسی ننے بچے کی طرح اسکا دل رو رہا تھا اپنی ہی بیوی کے ہاتھوں ایسی عزت؟؟؟ کیا گناہ تھا اسکا بیوی سے محبت؟؟ جس راہ پر اس نے قدم رکھے تھے قسمت نے خود بتایا تھا وہ راہ تمہیں گمراہی سے نکالے گی پھر یہذلت کیوں؟؟؟؟ یکدم اسکی آنکھیں خون آلودہ ہوگئیں اسنے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ رو رہی تھی اپنی زندگی پر ماتم کر رہی تھی ابراز نے پوری قوت سے اسکا جبڑا سختی سے دبوچا۔۔۔

” تم حجاب تاثیر ہر بار تم نے مجھے ضد دلائی ہے میں حیوان سے انسان تمہارے لئے بنا تھا لیکن تم اس لائق نہیں۔۔ میری محبت کے لائق نہیں تم۔۔۔۔ آج سے دیکھنا ابراز حیات کون تھا؟؟ کیسا تھا؟؟ اور کیوں تھا ؟؟؟ آج ایک عورت نے دوسری بار مجھے توڑا ہے تم عورتیں بیوی بنے کے قابل ہی نہیں ہو “ لال انگارہ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر حجاب کانپ گئی۔۔۔

اسکے جبڑے کو۔ آزاد کرتا وہ زہر اسکے کانوں میں اگل کر جا چکا تھا اسکے اندر کی آگ کا پتا حجاب کو تب لگا جب اس نے پاس پڑا موبائل پوری قوت سے ڈریسنگ کے شیشے پر مارا جو ابراز کے دل کی طرح چکنا چوڑ ہوگیا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” ذلیل عورت “

ابراز بار ٹیبل کے پاس بیٹھا شراب کے نشے میں دُت تھا جہاں بہت سے لوگ شراب کے نشے میں مست خود سے بیگانہ ہوئے اِدھر اُدھر جھوم رہے تھے۔۔۔۔ اسکا دوست عباس پاس ہی بیٹھا تھا جو اسکی انگارے برساتی نگاہؤں سے بہت کچھ جان چکا تھا۔ بس ایک بار غصّے کی وجہ پوچھی تو ابراز کی دھاڑ کے ساتھ گلاس بھی چکنا چور ہوکر اس کے غصے کی انتہا بیان کر گیا۔۔۔۔اسکا غصّہ سامنے بیٹھے بندے کے ہوش اڑا دیتا اب بھی کوئی تیسرا گلاس اس نے توڑا تھا۔۔۔۔

” رازی“

” نفرت ہے مجھے اُس ذلیل عورت سے پیر بھی پڑے تب بھی۔۔۔۔ “ ابراز نے دانت پیستے کہا لیکن یکدم سر چکرانے سے باقی کے الفاظ اسکے منہ میں ہی رہ گئے عباس نے جھٹ سے اسکا ہاتھ تھاما ابراز کو یکدم ہر منظر دھندھلا نظر آرہا تھا اسکا سر بھاری ہو رہا تھا کیونکہ آج کافی دنوں بعد اس نے پھر سے یہ حرام شے منہ سے لگائی تھی۔۔۔۔۔۔۔

” ابراز تو چل میرے ساتھ۔۔۔ “ عباس نے اسے سہارا دیکر اٹھایا اور قدم قدم چلتا سب کو سائیڈ پے کرتا کلب کی سیڑیاں چڑتا اوپر لے آیا۔۔ اوپر آتے کہیں بار ابراز کے قدم لڑکھڑائے جسے عباس نے سمبھالا۔۔ اوپر آتے ہی عباس نے اپنی جیب سے کی نکالی اکثر ان سب دوستوں کے پاس یہ کی ہوتی جو عام لاکس کو انلاک کرتی۔۔ عباس نے "کی" کی مدد سے لاک کھولا اور ابراز کے ڈگمگاتے قدموں کا سہارا بنتے ہوے اسے بیڈ پر لٹایا۔۔ اسکی حالت دیکھ عباس کو آج عجیب سا لگ رہا تھا عام دنوں سے ہٹ کے وہ کبھی اتنا غصّہ نہیں کرتا تھا آج اس نے غصّے میں پے در پے گلاس توڑے، ویٹر سے بدتمیزی کی عباس کی سمجھ سے باہر تھا آخر ہوا کیا ہے اسکے ساتھ۔۔۔۔۔

عباس نے جلدی سے فون نکالا اور ایک نمبر ڈائل کرتے ہی فون کان سے لگایا۔۔۔۔۔

” ہیلو انکل!!! “

” ہاں عباس؟؟ “ دوسری طرف حیات صاحب کی نیند میں ڈوبی آواز آئی۔۔۔

” انکل وہ رازی نے آج کچھ زیادہ پی لی ہے اور آج عجیب حرکتیں کر رہا ہے نیچے ویٹر سے بھی لڑ کے آیا ہے “ عباس کے لہجے میں حیات صاحب کو پریشانی صاف محسوس ہوئی۔۔ انکے لئے یہ عام بات تھی وہ اسے گھر لانے کا کہنے لگے تھے کے یکدم انکے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ آن ٹھری ایک خیال آتے ہی انکا دل خوشی سے اُچھل پڑا۔۔۔

” عباس ایک کام کرو ابراز کو وہیں چھوڑ کے تم گھر چلے جاؤ میں دیکھ لونگا تم فوراً سے نکلو “ وہ بیڈ سے اٹھ کھڑے ہوے۔ فبیحہ اتنی گہری نیند میں تھی کے انکا اٹھنا محسوس نا کرسکیں۔۔

” لیکن انکل “ عباس کو حیات صاحب کا رویہ پریشان کر رہا تھا رازی کو یہاں اکیلا چھوڑنے میں خطرہ تھا وہ نشے میں کیا کر جاتا ہے اُسے خود اندازہ نہیں اب عباس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔۔۔۔

” ڈو آیز آئ سے “ حیات صاحب کی سرد آواز سن کر وہ بوکھلاتا ہوا سر ہاں میں ہلا گیا۔۔۔۔ ” جی۔۔۔جی۔۔۔ “ عباس فون رکھ کر واشروم میں گھسس گیا اسکی چھٹی حس اسے کچھ غلط ہونے کا امکان دے رہی تھی۔۔۔۔

” مہک “ حیات صاحب نے عبّاس کا فون رکھتے ہی مہک کو کال کی اور بالکونی کا دروازہ کھول کر وہاں آکھڑے ہوے

” کلب میں رازی اکیلا ہے کچھ ایسا کرو اسکی بیوی طلاق لینے میں پل نا لگائے “ حیات صاحب کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ تھی دوسری طرف مہک کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک اُبھری اسی پل کا تو انتظار تھا اُسے۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ گھٹنوں میں سر دیے سسک اٹھی وہ کیسے ایک عیاش کی محبت پر یقین لے آتی جسے خود اس نے لڑکیوں کے ساتھ دیکھا ہے کئی بار یونی میں یہاں تک کے گھر میں وہ مہک کو بیڈروم میں لے جا رہا تھا یہ سب اسکے کانوں نے سنا تھا۔۔ پھر کیسے وہ اس شخص پر اعتبار کرتی جسکا نا دین ہے نا ایمان۔۔

اس وقت حجاب کو دادو کی یاد آرہی تھی جو اسکے جانے سے اگلے دن ہی گاؤں چلیں گئیں کاش وہ یہاں ہوتی اور حجاب انکے سامنے اپنا دکھ بیان کر سکتی اسکے آپنے ماں باپ تک نے اس سے منہ پھیر لیا سب نئی خوشی میں مدحوش اسے بھول چکے تھے۔۔۔ حجاب نے اٹھ کر وضو کر کے نماز ادا کی اور بیڈ پر آکر لیٹ گئی کمرے کی حالت ابھی بھی ویسی ہی تھی جو ابراز حیات اپنے غصّے کی شدت میں بنا گیا تھا۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ کی چین انگلی پہ گھومتا ھوا گھر میں داخل ھوا سامنے ہی حیات صاحب سر تھامے آنکھیں موندے ریلیکسنگ چیئر پہ بیٹھے آہستہ آہستہ جھول رہے تھے، ابراز مسکراتا ہوا دھیمے قدم اٹھاتا انکے قریب آیا اور ایک پاؤں رکھ کہ کرسی کو ہلنے سے روک دیا اسکے اس عمل پہ جہاں حیات صاحب آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہے تھے وہیں ابراز بھی فتح مند نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔ اسکے ہونٹ جیت کی خوشی میں گنگنا رہے تھے۔۔۔۔

ایسے لہرا کہ تو روبرو آگئی

ایسے لہرا کہ تو روبرو آگئی

دھڑکنیں بے تحاشا تڑپنے لگیں

دھڑکنیں بے تحاشا تڑپنے لگیں

تیر ایسا لگا درد ایسا جگا

تیر ایسا لگا درد ایسا جگا

چوٹ دل پہ لگی جو مزہ آگیا!!!!!

حیات صاحب نے مٹھیاں بینچ لیں۔

” یہ حرکت تمہاری تھی نا؟؟ “

” اوف کورس ڈیڈ شیطان کی رگوں میں شیطان کا ہی خون دوڑتا ہے۔۔۔ “ جیت کی خوشی میں چمکتی آنکھیں اور ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ، حیات صاحب یک ٹک بیٹے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے یہ مسکراہٹ اس وقت انہیں زہر لگ رہی تھی۔۔۔۔

” میری عزت کا خیال نہیں آیا؟؟؟ بدنام کرنا چاہتے تھے اپنے باپ کو؟؟ “ ان کے لہجے میں ہارے ہوئے جواری کی سی شکستگی تھی ۔۔۔

” یہ عزت یا شہرت جو عزت بیچ کے کمائی ہے؟؟؟ اور وہ دو ٹکے کی لڑکی اس کمینے کی بیٹی تھی نا؟؟ اب دیکھنا کیسے اس کمینے کا تماشا بناتا ہوں۔۔۔ “ ابراز کا لہجہ چٹان کی طرح سخت تھا چہرے کے تاثرات سخت تھے۔۔۔۔۔

” ابراز کیوں مجھے برباد کرنے پر تلے ہو کیا چاہتے ہو آخر

تم؟؟ “ وہ بےبسی کی انتہا پر تھے ابراز کا ایک قدم انہیں کڑوروں کا نقصان دے سکتا ہے۔۔۔

” جیسے میں آپ کی پرسنل لائف میں دخل اندازی نہیں کرتا ویسے ہی آپ بھی مجھ سے،،، میری لائف سے میری بیوی میری زندگی سے دور رہیں۔۔ ورنہ میں برباد کرنے سے پہلے سوچتا نہیں “ پتھر کو مات دیتا سخت لہجہ انگارے برساتی آنکھیں انکا کھلا منہ بند کر گئیں۔۔ سترہ سال کا تھا انکا بیٹا جب ڈیڈ کرتے کرتے نہیں تھکتا تھا انکے آگے پیچھے گھومتا انکا ہر کہا اپنا فرض سمجھ کے مانگتا اور اب جب وہ اسے اپنی دنیا میں لے آئے تو اب وہ انکا باپ بن بیٹھا ہے۔۔۔۔

” گڈ بائے ڈیڈ آپ کی بہو کو میرے بغیر نیند نہیں آتی “ سخت تاثرات یکدم نرم پڑ گئے وہ مسکراتا ہوا پیر ہٹاتا سامنے رکھی فروٹ بسکٹ کی طرف بڑھا اسکا باپ پیچھے سے اسے دیکھتا رہا جو اب بسکٹ میں سے چھری نکال کر اپنے کمرے کی طرف اوپر بڑھ رہا تھا۔۔۔

” ابراز کیا کر رہے ہو؟؟ “ اسکا باپ چاقو دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا انکا بیٹا انکے جسم سے جان نکالنے کے در پہ تھا اپنی ان حرکتوں سے۔۔

” رہلیکس ڈیڈ خود کشی نہیں کر رہا یہ آپ کی بہو کے لئے ہے بہت بولتی ہے آج تو زبان ہی کاٹ دونگا نہ رہیگی زبان نہ ہوگی چکچک “ ابراز نے سرے سے انہیں نظرانداز کیا حیات صاحب اسکی پشت دیکھتے رہ گئے جو تیزی سے سیڑیاں چڑتا اوپر جا چکا تھا وہ سچ بولتا تھا حیات صاحب جانتے تھے اور اب بھی یہ جان کر پر سکون ہوگے کے کم سے کم خود کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


دروازے کے پاس آکر وہ روکا اسے رات والی اپنی بیوقوفی یاد آئی وہ اسکے سامنے جھکا تھا اظہار کیا تھا اس مغرور لڑکی کے سامنے جس کی رگ رگ سے وہ واقف تھا۔۔۔ سوچتے ہی اسکی دماغ کی نس پھٹنے لگتی آخر وہ ہے کون؟؟؟ ابراز حیات کو ٹکر دینے والی معمولی لڑکی؟؟ جسے خاص اس نے خود اپنے رویہ سے بنایا۔۔ لیکن عام وہ خود اپنے رویہ سے اسکی نظروں میں بن گئی وہ ہینڈل گھماتا اندر داخل ہوا۔۔۔

اسے آج کی بےعزتی کا بدلا لینا ہے ورنہ پل پل وہ خود کو تکلیف دیتے گزارے گا یہ دل کا درد اسے مار دیگا۔۔۔

اندر آتے ہی اسکی نظر بےخبر سوئی اپنی بیوی پر پڑی اسے بے سکون کر کے وہ خود پر سکون نیند سو رہی تھی؟؟ اسے پر سکون دیکھ ابراز کی آنکھوں میں بجلیاں ہی بجلیاں کوندنے لگی تھیں۔ چہرے پر سرد مہری چھا گئی۔ ابراز نے دروازہ پوری طاقت لگا کر بند کیا۔ اس تیز آواز سے حجاب یکدم ڈر کے اٹھ بیٹھی سامنے ابراز کو دیکھ کر اس نے دانت پیسے اس سے پہلے کے وہ اپنے کٹیلے الفاظوں کے تیر اسکے وجود میں پیوست کرے ابراز لڑکھڑاتا ہوا اسکے قریب چلا آیا۔۔۔۔

آج وہ حجاب کو اسی کے ہتھیار سے مار دیگا نشہ۔۔۔؟؟؟

” تم۔۔۔ “ وہ اسے اپنے سامنے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر گئی

” کیا کہا “ وہ بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹی ہوئی تھی۔ ابراز نے جھک کر اسکا چہرہ دبوچا ساتھ دوسرے ہاتھ میں پکڑا چاقو اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا حجاب کے سٹی تو چاقو دیکھتے ہی گم ہوگئی ورنہ اسکی شرٹ سے آتی شراب کی بو سے یقیناً وہ ناک پر ہاتھ رکھ دیتی۔۔۔۔

” تم۔۔۔ تم نے۔۔۔ مجھ۔۔۔ مجھے۔۔۔ڈر۔۔ڈرا دیا وہ۔۔۔دروازہ میں۔۔۔ڈر گئی۔۔“ تھوک نگلتے بامشکل اسکے ہلق سے الفاظ برآمد ہوے۔۔وہ کسی معصوم چڑیا کی طرح کانپ رہی تھی۔۔ ابراز کی آنکھوں میں اس وقت غصّہ، آگ، وحشت، انتقام کیا کچھ نا تھا اس لڑکی نے ہر بار اسے توڑا تھا۔۔۔۔

” شکر کرو قتل نہیں کیا۔۔۔ خیر وہی کرنے آیا ہوں “ اس کا لہجہ آگ کو مات دے رہا تھا۔۔۔۔

” کیا کیا۔۔ت۔۔۔تم۔۔۔ مجھے ما۔۔۔مارو۔۔ گئے؟؟ “ خوف سے اسکے حواس سلب ہو رہے تھے۔۔ وہ تیزی سے اسکا ہاتھ جھٹکتی اٹھ کھڑی ہوے جیسے ابھی وہ اس چاقو سے اسکی گردن کاٹ دیگا ابراز نے ایک پل لگاے بغیر اسکی کمر جکڑی۔۔۔۔

” پھر تم کہا؟؟؟ ۔۔ “ وہ کسی بھوکے شیر کی طرح دھاڑا۔ آج وہ اس سے سارے حساب لینے کے در پر تھا۔۔۔خوف سے پھیلی آنکھیں ان نفرت بھری آنکھوں سے ٹکرائیں تو حجاب کو سہی معنوں میں نانی یاد آگئی۔۔۔۔۔

” آپ بولو “ اسکی دھاڑ سے وہ جی جان سے کانپ اٹھی

” آپ۔۔ آپ۔۔ “ خوف سے پھٹی آنکھوں میں نا چاہتے ہوے بھی ہلکی نمی تیرنے لگی۔۔۔۔

” بہت بولتی ہو تمہاری یہ زبان کاٹوں یا خوبصورت گردن۔۔ “ وہ زبان اور گردن کی طرف آنکھوں سے اشارہ کرکے دانت پیستے ہوے بولا۔۔ چاقو کی نوک اس کی آنکھ کے قریب لا کر وہ اسکی روح فنا کر گیا۔۔

” مج۔۔ مجھے ما۔۔۔مار۔۔ماریں۔۔گئے۔۔ ما۔۔میں۔۔آ۔۔آپ کی۔۔بیوی۔۔ ہوں “ غیر حاضر دماغ کیا بلولا رہا تھا حجاب کو اندازہ نہیں تھا ابراز کا جہاں اسکے لفظوں سے دماغ گھوما وہیں اسکے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ رینگی۔۔۔

” یاد آگیا۔۔۔بیوی۔۔ہو؟؟ پتا ہے ایک دفع نشے میں میں نے اپنے دوست کی انگلی۔۔ کاٹی تھی۔۔۔۔تمہا۔۔۔تمہاری بھی کاٹوں۔۔ “

موت کا منظر پیش کرتے ابراز کا دل جہاں پر سکون ہوا اسے خوف میں دیکھ کر۔۔۔۔ وہیں حجاب کا چہرہ ” انگلی “ سن کر سفید پڑ گیا۔۔۔

” نہیں۔۔۔نہیں پلیز۔۔میں س۔۔سوری کر۔۔کرتی۔۔۔ہوں۔۔میں غصّے میں تھی “ کانپتے ہاتھوں سے اس نے اپنا ٹھنڈا پڑتا ہاتھ ابراز کے کندھے پر رکھا جیسے موت کے دعویدار سے ہی پناہ مانگ رہی ہو آخر یہی تو ہے اسے بچانے والا۔۔۔۔۔

”غصّے۔۔۔میں انسان۔۔سچ۔۔بولتا ہے۔۔چلو اب ذرا۔۔ سزا۔۔

بھگتو۔۔ یہاں بیٹھو۔۔اگر اٹھی نا دور سے چاقو پھنک کر مارونگا۔۔۔ “ ابراز نے سرد لہجے میں کہکر لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھتے جھٹکا دیکر چھوڑا حجاب اس قدر سہمی ہوئی تھی کے بیٹھنا یاد ہی نہیں رہا ابراز نے خود ہی اسے بٹھایا چہرے کے ابھی بھی پتھریلی تاثرات تھے۔ وہ پلٹا اور کمرے کا دروازہ لاک کیا اور اوپر سے کنڈی لگائی تاکے حجاب کے راہ فرار کے تمام راستے بند ہوجائیں۔۔۔۔

” ہاں۔۔اب۔۔اٹھو یہاں مجازی خدا بیٹھے گا۔۔۔ “ وہ قریب آکر اسکا بازو دبوچے اسے اٹھا چکا تھا خود وہیں حجاب کی جگہ پر پُر سکون ہوکر لیٹا تھا جہاں وہ اسے بےسکون کر کے لیٹی تھی۔۔۔

” بہت اچھی لگ رہی چلو مرغی بنو۔۔ “ وہ لیٹا ہوا چاقو ہاتھ میں لئے اسے حکم دے رہا تھا۔۔۔

” مرغی؟؟ و۔۔وہ۔۔تو۔۔ نہیں آتی “ جہاں مرغی سن کر اسکا گلہ خشک ہوا وہیں چاقو دیکھ کر رواں رواں کانپ اٹھا۔۔۔

” بتاؤں تمہیں؟؟ “ وہ اٹھنے لگا کے حجاب کے آنسوں بہ نکلے۔۔

” مجھ۔۔۔مجھے۔۔۔سچ۔۔ما۔۔۔میں نہیں آتا۔۔۔ “ وہ ہچکی لیکر رودی۔۔۔۔وہ اسکے سامنے کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی اور ابراز دل ہی دل میں خود کو پرسکون کرنے کی بےجا کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔

” رو کیوں رہی ہو۔۔۔ چلو اٹھک بھیٹک کرو۔۔ یا۔۔ وہ۔۔۔ بھی محترمہ کو نہیں آتی۔۔ کرو “ سرد لہجے میں کہکر آخر میں وہ دھاڑ اٹھا۔۔۔

” ما۔۔۔میں۔۔ سوری کرتی ہوں پلیز آئ ایم سوری۔۔ “ حجاب نے باقاعدہ ہاتھ جھوڑے ابراز کو یقین نا آیا وہ اس سے اس قدر خوفزدہ ہوگئی کے ہاتھ۔۔۔۔

” کر کیوں نہیں رہیں؟؟ “ وہ بےرحم بنا ہوا تھا آخر اس لڑکی نے کہاں پروا کی تھی اسکے آنسوں کی؟؟؟

” مجھے شرم آرہی۔۔ “ روتے ہوے وہ غصّے سے بولی ناچاہتے ہوے بھی ابراز کے ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو گئی جو پل بھر میں غائب ہوگئی۔۔۔۔

” زبان چلاتے وقت آئی تھی؟؟ “ آنکھیں سکوڑ کر اسے گھورتے وہ پوچھ رہا تھا۔۔۔۔

” میں مرجائونگی۔۔ “ وہ آنسوں پونچھتے اسے وارننگ دے رہی تھی۔۔ کے اس ڈر سے جب بند ہوگا نا دل تو روتے رہنا میرے پیچھے۔۔۔۔۔

” مر تو مجھ جیسے ناپاک انسان سے شادی کرتے وقت گئیں تھیں۔۔۔ چلو۔۔ فرج سے ٹھنڈا پانی لاؤ۔۔۔ “ اسکی غیر ہوتی حالت دیکھ کر وہ کچھ نرم پڑ گیا۔۔ یہ لڑکی واقعی ابراز حیات کی کمزوری بن چکی تھی۔۔۔حجاب جلدی سے شکر کرتی فرج سے پانی لینے چلی گئی لیکن اسکا دل اتنا خوفزدہ تھا کے وہ پل بھر بھی اسکی برداشت سے باہر تھا اس لئے نمو پانی بنا کر وہ اسکے سامنے حاضر ہوئی۔۔۔

” یہ کیا؟؟ پانی کہا تھا نا جاہل ہو؟؟ “ وہ نمو پانی کا ایک گھونٹ بڑھ کے بدمزہ ہوگیا۔۔۔۔۔

” اس سے نشہ اترے گا آپ جلدی سے پی لیں “ اسکی سرد مہری کو ان سنا کرتی وہ جھٹ سے بولی۔۔۔۔۔

” میرے ساتھ دھوکہ اب تو تمہاری آنکھیں نکالوں گا “

” سوری۔۔ سوری پلیز۔۔۔ مجھے نہیں۔۔۔ مارو۔۔۔ مجھے بہت۔۔۔ ڈر لگتا۔۔۔۔ “ وہ اٹھنے لگا تھا کے حجاب پانچ قدم پیچھے ہوئی اسکی تیزی دیکھ وہ قہقہ لگاتے رکا۔۔۔۔۔ اور کہیں واپس اس خوفزدہ چڑیا کے حسن میں کھو گیا۔۔ اسکے منہ سے نکلتے اگلے لفظوں نے حجاب کو آسمان سے زمین پڑ پٹکا۔۔۔۔

” تمہیں پتا ہے تم بہت خوبصورت ہو پر افسوس خوب سیرت نہیں۔۔۔“ پہلی دفع حجاب کو ابراز کے لفظوں نے مارا تھا اور اسکی آنکھوں میں امڈتی نفرت نے۔۔۔

” جاکر اپنی جگہ پر لیٹو اور مجھ سے پہلے سوئی نا تو گلا کاٹ دونگا۔۔۔ “ مزید اس کے جال سے بچنے کے لئے ابراز نے اسے اگلا حکم سنایا جسے سن کر حجاب کو ابراز کے لفظ بھول گئے۔۔ خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی۔۔

” جی۔۔۔ جی “ جھٹ سے دوسری سائیڈ آنے کے لئے قدم بڑھائے کے ابراز کی گرج دار آواز کمرے میں گونجی۔۔۔۔

” بولو جیسے آپ کہیں۔۔ “

” جیسے۔۔۔ آپ۔۔۔۔کہیں۔۔۔ “ اسکے لفظ دہراتے وہ اپنی جگہ پر آکر لیٹی لیکن نیند میں جھولتی وہ سوئی نا تھی خوف ابھی بھی طاری تھا اور جب وہ ستمگر سویا تب حجاب کی جان میں جان آئ اور دھیرے سے اسکے ہاتھ سے چاقو لیکر بیڈ کے نیچے پھینکا اور پر سکون ہوکر لیٹ گئیی


☆.............☆.............☆


صبح وہ ابراز کے اٹھنے سے پہلے ہی تیار ہوکر یونی چلی آئی۔ دن بھر لیکچرز لیکر اسکی طبیعت اچھی خاصی خراب ہوگئی۔ وہ گھر آئی تو ابراز اسے سویا ہوا ملا دن چڑے تک وہ سویا ہوا تھا پہلی بار حجاب کو عجیب لگا لیکن یہ پہلی بار نہیں تھا بلکے یہ مسلسل چلتا گیا وہ شعر و شاعری اور وہ دیوانگی محبت بھرے الفاظ نجانے کہاں جا سوئے تھے؟؟ وہ دن تک سوتا اور راتوں کو غائب رہتا۔۔حجاب کو اب احساس ہو رہا تھا وقت بدلا ہے، وہ وقت جو اسے بدترین لگتا تھا آج سہی معنوں میں اسے خوش گوار لگا اسے محبت نہیں تھی ابراز سے نا اسکی ضرورت بس اسے یہ ابراز عجیب لگتا جو خود میں رہتا نا اسے دیکھتا نا شرارت بھرے جملے اسکی سماعتوں سے گزارتا۔۔ ایک دو بار حیات صاحب تک نے حجاب سے ابراز کی اچانک سے بدلتی حالت کا پوچھا لیکن حجاب چپ رہی اسکے پاس کوئی جواب نہ تھا گزرتے وقت کے ساتھ جہاں اسکا سراپا بھاری ہوا تھا وہاں ابراز حیات اس نئی خوشی کو بھول چکا تھا۔۔۔۔۔۔

آمنہ نے یہ گڈ نیوز فبیحہ کو دی جسکے بعد ہونا کیا تھا نوکرانی کو خاص حجاب کی صحت کا خیال رکھنے کو کہا گیا مہوش بھی اب حجاب سے ڈنر ٹائم پر نورملی بات کرلیتی اس خوش خبری نے پرانی دشمنی بھلا دی۔۔ دادو نے بھی گاؤں سے آکر اسے ڈھیر سارا پیار کیا اور مختلف قسم کی چیزیں بنوا کر بھجوائیں۔۔۔ سب سہی تھا لیکن وہ ہمسفر اب ستمگر بن کے رہ گیا تھا۔۔۔گزرتے وقت کے ساتھ ابراز حیات مکمل اپنی پہچان اسکے سامنے بدل چکا تھا شاید یہ وہی ابراز تھا جو حجاب تاثیر کی آمد سے پہلے تھا۔۔۔

” تم چیک اپ کروانے کیوں نہیں گئیں؟؟ “ آج دوسرا دن تھا جب اسے ہسپتال سے کال آئی کل ہی اسے ڈاکٹر نے بلایا تھا لیکن جان بوجھ کر وہ گئی نہیں۔۔ اور اب ابراز کمرے میں آتے ہی اسکا سر کھا رہا تھا۔۔۔۔ حجاب نے اسکی آواز سنتے ہی سب سے پہلے دوپٹا اٹھا کے پہنا۔۔۔۔۔

” تم سے مطلب؟؟ “ جھٹ سے جواب آیا تھا ویسے ہی کنڈیشن ایسی تھی کے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑتی۔۔۔

” یہ زبان کسی دن کاٹ دونگا۔۔۔ تم کیا سمجھتی ہو انجان ہوں تم سے؟؟ پل پل کی خبر رکھتا ہوں اٹھو چلو میرے ساتھ۔۔۔ “ وہ اسکے قریب آکر سرد لہجہ میں بولا ساتھ بازو پکڑ کے اٹھایا۔۔ حجاب اسکی بات ان سنی کرتی کھڑی رہی ابراز نے الماری سے عبایا نکالا اور اسکے سامنے رکھا۔۔۔

” میرا دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں پہن کر نیچے آؤ میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔ پانچ منٹ میں نا آئی تو خدا کی قسم میرے ہاتھوں سے بچو گی نہیں “ اسے بُرے منہ بناتا دیکھ وہ سختی سے بولا اور کار کی چابی لیکر نیچے چلا گیا۔۔۔ اسکا غصّہ دیکھ ناچار وہ عبایا پہن کر اسکے ساتھ ہسپتال آگئی۔۔۔۔۔۔

ابراز اسے بتائے بغیر نجانے کہاں چلا گیا تھا۔ پہلے چھوٹی چھوٹی بات اسے بتاتا تھا لیکن جب سے حجاب نے اسکی محبت کو ٹھکرایا تھا تب سے اس نے ابراز کو ہنستے ہوے نہیں دیکھا ان گزرتے مہینوں میں دادی بھی ایک دو بار آکر رہ گئیں حجاب صرف ابراز کو تنگ کرنے کے لئے انکے ساتھ سونے لگی لیکن ابراز نے اف تک نہ کی اور یہی بات حجاب کو اپنے خسارے کا احساس دلا گئی۔ آج صبح سے ویسے ہی اسکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور ابراز ان آخری دنوں میں اسے بنا بتائے چلا گیا۔۔۔ صبح سے اسنے ابراز کو گھر میں ہی نہیں دیکھا نجانے کہاں تھا وہ؟؟؟۔۔۔۔

” آ۔۔۔ “ حجاب حیات صاحب مہوش اور فبیحہ کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ڈنر کر رہی تھی کے اچانک اسکی حالت بگڑ گئی درد سے وہ بےحال ہو رہی تھی۔۔

” حجاب کیا ہوا۔۔ ڈرئیور “ سب سے پہلے مہوش کو ہوش آیا ورنہ اسکی چیخ نے انکے حواس اڑا دیے وہ اٹھ کے اسکی بگڑتی حالت سمجھتی اور چیختی ہوی ڈرئیور کو آواز دینے لگی۔ پھر وہ تینوں اسے ہسپتال لے آئے جہاں ڈلیوری کے بعد ڈاکٹر نے جڑواں بچوں کی آمد کی خوش خبری دی فبیحہ تو سنتے ہی مہوش سے لپٹ گئی اور دونوں نے آج پہلی دفع حجاب کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوے دونوں بچوں کی آمد کی خوش خبری دی۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“ حجاب تم سو جاؤ بچے ابھی ایک گھنٹے بعد ملیں گئے۔۔ “

مہوش نے نرمی سے اسکے ڈرپ لگے ہاتھوں پر ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔

” ہمم۔۔۔ “ حجاب ہلکا سا مسکرائی مہوش اسے لاکھ سنائے لیکن حجاب نے کبھی بُرا نہیں مانا وہ اولین دنوں سے جانتی ہے مہوش اپنے بھائی کے لئے کتنی پوزیسیو ہے۔۔۔۔

” پتا ہے حجاب میں اتنی ایکسائیٹیڈ تھی کے بتا نہیں سکتی کب سے مجھے انکا انتظار تھا۔۔۔ “ مہوش اور بھی بہت کچھ بول رہی تھی لیکن حجاب کی پلکیں بھاری ہونے لگیں تھکن کی وجہ سے کب اس پر نیند غالب ہوئی اسے پتا نہ چلا لیکن نیند میں بھی اسے اپنی پیشانی پر دھکتا لمس محسوس ہوا پھر۔۔۔ وہ آواز۔۔۔ہاں وہ آواز جو صبح سے اس نے سنی نہیں تھی۔۔ حجاب نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں تو یہ آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی رُخ موڑ کر دیکھا تو وہ سامنے بچوں کی کاٹ کے پاس جھک کر انہیں پیار کر رہا تھا۔۔۔۔۔

” میری جان آنکھیں کھولو دیکھو آپ کے ڈیڈ آئے ہیں۔۔۔ “

حجاب یک ٹک اسے دیکھے گئی جس نے بس ایک پل کو ایک سرد نگاہ اس پر ڈالی اور اس نگاہ میں کیا کچھ نہ تھا؟؟؟ حجاب کی پوری ہستی تھی بس اس ایک نگاہ میں نفرت، نفرت اور نفرت۔۔۔ وہ کہ رہا تھا۔۔۔

” اتنی محبت دونگا کے ماں کی کمی محسوس بھی نہیں ہوگی۔۔ آخر اسے نفرت جو ہے کافر سے اور اُسکی اولاد سے “

وہ جو اسے دھڑلے سے کافر کہتی تھی آج اسکے منہ سے سن کر نجانے کیوں دل میں ایک درد کی لہر اٹھی۔۔۔ دل چیخ چیخ کے کہ رہا تھا اتنا روے کے سامنے بیٹھا شخص پھر تمہارے پیروں میں آکر گرے آگر محبت نہ ہوتی تو اُس دن اُسکی آنکھوں میں نمی کیوں تھی؟؟؟ اور آگر محبت تھی تو آج تک حرام رشتے کیوں بناتا رہا ہے؟؟؟ حجاب نے رُخ موڑ لیا وہ سب کر سکتی تھی لیکن مر کے بھی کسی کے آگے جھک نہیں سکتی۔۔۔۔

ہسپتال میں اسکے ماں باپ اس سے ملنے آئے بچوں کو پیار کیا اور حجاب کو ساتھ لیجانا چاہا تو فبیحہ نے کہا۔۔

” ہم بھی کچھ دن یہ خوشی محسوس کر لیں پھر آپ بھلے لے جائیں “ بچوں کی آمد نے انکے لہجے میں مٹھاس کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ آمنہ اور تاثیر صاحب نے پھر ضد نہ کی حجاب سے ملکر گھر چلے گئے۔۔۔

بچوں کو حیات صاحب اور مہوش پہلے ہی گھر لے گئے وہ لیٹی ہوئی تھی کے ابراز اسے خود لینے آیا۔۔

” ڈیڈ بچوں کو گھر لے گئے میں تمہیں لینے آیا ہوں دادو بھی گاؤں سے آگئی ہیں “ ابراز نے کہتے ہی اسکی طرف ہاتھ بڑھایا جسے حجاب نے کچھ جھجھک کر تھاما اور اسکے سہارا لیکر گھر آگئی۔۔

دادو کو دیکھ کر اسکا موڈ ہمیشہ سے خوش گوار ہوجاتا اس دفع دادو حجاب اور مہوش کو بات کرتا دیکھ بہت خوش ہوئیں بس ایک اداس چہرہ وہی تھا جسکی نظریں بےخودی کے عالَم میں حجاب پر جمعی ہوئیں تھیں۔۔ حجاب ان نظروں سے بےخبر نہیں تھی بلکے جب بھی وہ ان نظروں کی تعاقب میں دیکھتی اسکی نظریں مایوسی سے واپس لوٹ آتیں

کیوں کے وہ ہمسفر اس سے نظریں پھیر لیتا۔۔۔

دادو نے بچوں کا نام پرنیا اور احتشام رکھا تھا ایک چھوٹی سے تقریب گھر میں رکھی تھی جہاں حجاب کے ماں باپ بہن بھائی دوست سب کو ابراز نے خود انوائیٹ کیا تھا۔۔۔

رات کا وقت تھا حجاب نے ابھی بچوں کو سلایا تھا کے ابراز نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پرنیا کو اٹھایا۔

” اتنی مشکل سے سلایا ہے مت اٹھاؤ اُسے“

حجاب جو ابھی احتشام کو نہلا کر واشروم سے نکلی تھی ابراز کو پرنیا کو اٹھاتا دیکھ چیخ اٹھی لہجے میں غصّے کی کوئی رمک نہیں تھی بس پریشانی تھی۔۔

” میں دیکھ لونگا ویسے ابھی بچوں سے بےزار ہوگئیں آپ؟؟؟ میں نے میڈ رکھنے کا سوچا ہے۔۔۔ “ وہ اسے تپا کر پرنیا کو اٹھا چکا تھا

” ہاتھ لگائے میرے بچوں کو منہ توڑ دونگی۔۔۔ “ غصّے سے اسے گھورتی وہ سرد لہجے میں بولی۔ ابراز کو ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو گئی۔۔۔

ابراز جہاں بچوں کے لئے نرم دل تھا وہیں اسکے لئے سرد اب تو بچوں کو پاکر وہ اسے بھول چکا ہے۔۔ ابراز کی روٹین بچوں کے آنے کے بعد کافی بدل چکی تھی وہ کبھی کبھار آفس چلا جاتا اور راتوں کو اب گھر ہی رہنے لگا تھا کبھی لپ ٹاپ لیکر کوئی کام کرتا تو کبھی بچوں کے ساتھ کھیلتا اور یہی وجہ تھی کے احتشام نے ماں سے پہلے باپ کو پکارنا سیکھا جو ابراز ہی اسے سیکھاتا حجاب احتشام کے منہ سے ڈ۔۔یڈا سن کر غصّہ پی کر رہ گئی یہاں بھی اسے یہی لگا تھا جیسے وہ اسے مات دے گیا۔ حجاب کی روٹین بھی بچوں کے آنے کے بعد کافی بدل چکی تھی اور اس نے ابراز کے کہنے پر میڈ بھی رکھی کیونکہ الریڈی اسکی آٹینڈس کم تھی مزید چھٹی کرنے پر اسے پیپر میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا۔ اسلیے حجاب نے یونیورسٹی جانا شروع کردیا۔۔۔

وہ عام دنوں جیسا ایک دن تھا حجاب آمنہ کے یہاں گئی تھی واپسی پر وہ بابا کے ساتھ بچوں کو لیکر گھر آگئی۔۔ وہ اپنے روم میں تھی کے مہوش کو اسکے آنے کا پتا لگا و دوڑتی ہوئی اسکے بیٹھنے سے پہلے کمرے میں آگئی۔۔

” حجاب تم نے اتنی دیر کیوں کی میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی؟؟ “ بچے کار میں ہی سو چکے تھے وہ انہیں بیڈ پر لیٹا رہی تھی کے مہوش آکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔

” میرا؟؟ کیوں کیا ہوا؟؟ “ مہوش کے لہجے کی بےتابی حجاب کو تشویش میں مبتلا کر رہی تھی۔۔۔۔۔

” رازی کو کال کی تھی میں نے اسنے کہا تم آج آئوگی تو میں تمہارا انتظار کرنے لگی۔۔ “ مہوش کی آواز یکدم بھر آگئی جیسے وہ خوب رونا چاہتی تھی لیکن ضبط کیے بیٹھی تھی۔ حجاب کو یاد آیا کل ابراز نے کال کر کے پوچھا تھا وہ کب آرہی ہے اسے بچوں کی بہت یاد آرہی تھی اور حجاب جو خوش فہمی میں مبتلا تھی کے اسے یاد کر رہا ہوگا غصّے سے بتا کر کال ہی کاٹ دی۔۔۔۔

” خیریت؟؟؟ “ حجاب نے اسکا کندھا ہلایا اور اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔

” تم مجھے معاف کردو؟؟ حجاب می۔۔ میں تمہارے ساتھ رہکر بھی کبھی سمجھ نہ سکی۔۔ جسم کو چھپانا ہمیں کتنی غلیظ نظروں سے بچاتا ہے؟؟ “ وہ یکدم پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی حجاب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اسے اپنی معصوم سی رانیہ یاد آگئی۔۔۔

” تم ٹھیک ہو نہ۔۔۔ تم؟؟ “ حجاب نے دونوں کندھوں سے تھام کر اسے جھنجھوڑا۔۔

” مجھے معاف کردو حجاب کیفیٹیریا والے واقع میں میں نے بھائی کا ساتھ دیا۔۔۔ پلیز مجھے معاف کردو۔۔۔ مجھے بہت خوف آتا ہے جب انسان کی پکڑ ہوتی ہے۔۔۔۔ مجھے کوئی حق نہیں تھا میں تمہیں رخصتی والے دن اتنے سب لوگوں۔۔ کے سامنے۔۔۔۔۔۔“ حجاب نے اسے اپنے ساتھ لگایا وہ ہچکیاں لیکر رو دی حجاب نے اسکی پیٹھ سہلای نجانے کیوں اسکی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی ان دونوں کی دوستی یونی کے اول دنوں سے تھی۔۔

” مہوش بھول جاؤ میں بھی بھلا چکی اب تو یاد بھی نہیں پلیز ادھر دیکھو سچی مجھے یاد بھی نہیں۔۔ “ حجاب کا لہجہ محبت بھرا تھا۔۔۔۔ وہ اس بات کے لئے پریشان تھی؟؟ حجاب تو نجانے کیا کیا سوچ بیٹھی تھی؟؟ وہ خدا کا شکر کر رہی تھی اسکی سوچ غلط ثابت ہوئی ورنہ ایک بار پھر وہ ٹوٹ جاتی۔۔۔۔

” سچی؟؟ “ وہ حجاب سے الگ ہوکر بےیقینی سے بولی۔۔

” مُچی “ حجاب مسکرا دی۔۔۔

” پھر رازی سے بات کیوں نہیں کرتی؟؟ “ وہ بچوں کی سی معصومیت سے آنسوؤں پونچتے گویا ہوئی۔۔۔ لیکن حجاب کی سوالیہ نظر خود پر جمعی دیکھ اپنے پرانے ٹون میں بےخوفی سے بولی۔۔۔

” ہاں میں نے محسوس کیا ہے۔۔ “

” وہ مجھے پسند کبھی نہیں تھا وجہ تم جانتی ہو۔۔ “ حجاب نے ہاتھوں کو آپس میں رگڑا مہوش کے سامنے اسکے بھائی کی بُرائی اسے ہمیشہ مہنگی پڑی ہے۔۔۔حجاب کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں۔۔۔

” کبھی پاس بیٹھ کر محسوس کرنا نہ شراب کی بو آئے گی نہ نشے میں دت ملیگا “ مہوش کی بات سن کر یکدم اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھی خوبصورت مسکراہٹ تھی اسکے ہونٹوں پر وہ غصّہ نفرت کہیں غائب ہوچکی تھی۔۔۔

” تم مجھے بھی معاف کردو دادی اور تم سے میں نے۔۔ “

” اٹس اوکے میری جان۔۔۔ “ حجاب کی بات کاٹ کر مہوش نے بولا حجاب نے اسکے کندھے پر تھپڑ رسید کیا وہ بھی ابراز کی طرح تھی بلا خوف و جھجھک جو دل میں ہوتا وہی منہ پر نجانے کیوں اسکے دل سے دعا نکلی کاش وہی ابراز واپس آجائے؟؟ کمرے میں جہاں پہلے مہوش کے رونے کی آواز تھی اب وہیں دونوں کی ہنسی گونج رہی تھی۔۔۔


☆.............☆.............☆


مہوش کی معافی کے بعد ابراز جو تھوڑے بہت طنز کرتا تھا اب وہ بھی بند ہوگے وہ تقریباً خاموش رہتا اسکی روٹین بھی عجیب ہوچکی صبح سے رات تک آفس۔۔۔اور واپسی نو بجے تک۔۔ کھانا کھا کر وہ دس بجے تک سوجاتا پھر رات کو دو تین بجے اٹھ کر نجانے کہاں جاتا؟؟ حجاب خود فجر پڑھ کے سوجاتی اور آٹھ بجے اٹھتی تب تک ابراز بھی آفس کے لئے تیار ہوکر ناشتہ کرتا وہ اسکے کپڑے رات کو ہی پریس کر کے رکھ دیتی۔۔۔۔ حجاب کو پل پل یہ بدلتا ابراز کاٹنے کو دوڑتا اسکی بےرخی دیکھ اسے خود کے بجائے ابراز پر ہی غصّہ آتا سنڈے کا دن بھی وہ سو کر گزارتا اتنی نیند تو حجاب نے پوری زندگی نہیں کی جتنی وہ کرتا کبھی کبھی اسکا دل چاہتا پانی کی بالٹی بھر کے اسکے سوئے بےخبر وجود پر ڈالے لیکن بڑے لوگوں کے چونچلے اتنے امیر اور گھر میں بالٹی تک نہیں کیا فائدہ ایسے پیسوں کا؟؟ غصّے میں کبھی کبھی اسکا دل چاہتا ابراز حیات کے آفس کو بلاسٹ کر کے اڑا دے۔۔۔

” مما میری بات سنو۔۔۔ “

پانچ سالا پرنیا صبح سے اسے تنگ کر رہی تھی ابراز نے انہیں سر پر چڑایا ہوا تھا۔ دونوں بچوں کو خود کی ایسی عادت لگائی تھی کے اسکول سے آتے ہی حجاب کا سر کھاتے کے ” ڈیڈ کا نمبر ملاؤ “ حجاب نے ایک سخت نگاہ اس پر ڈالی اور چائے کا کپ لیکر باہر گارڈن میں آگئی جہاں حیات صاحب احتشام کے ساتھ بیٹھے لوڈو کھیل رہے تھے دونوں بچوں میں پورے گھر کی جان تھی۔۔ ان پانچ سالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا ثنا کا نکاح ہو چکا تھا اور رخصتی اگلے ماہ تھی۔۔ جویریہ اور مہوش بھی اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں دونوں اکثر اس سے ملنے آتیں دونوں اپنے گھروں میں بےحد خوش تھیں بس ایک ناخوش تھی تو وہ خود۔۔ ابراز نے جہاں دن رات کی محنت سے بزنس کو بلندیوں تک پہنچایا وہیں حجاب کو خود سے بہت دور کردیا تھا ایسے کے وہ اُس سے بات کرنے سے پہلے سو دفع سوچتی ابراز کا لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا نہ وہ شوخی تھی نہ وہ طنز اور یہ بزرگوں والا ابراز اسے زہر لگتا سنجیدہ سا جو زندگی کا ایک ایک پل سوچ کر گزارتا ٹائم کا انتہائی پابند اپنے بزنیس کے آگے اسے کچھ دیکھتا ہی نہیں۔۔۔۔

” ڈیڈ یہ چائے “

حجاب نے حیات صاحب کی طرف چائے کا کپ بڑھایا اب وہ بھی ابراز کی طرح انہیں ڈیڈ اور فبیحہ کو موم کہتی تھی۔۔۔

” تھنک یو بیٹا آپ کیوں اداس ہو مائے ڈول “ حجاب سے کہتے انہوں نے آخر میں پرنیا کا مُرجایا چہرہ دیکھ کر کہا۔۔

” شی از نوٹ لیسنینگ “ اپنی ماں کو دیکھ پرنیا نے خفگی سے کہا

” ڈیڈ فضول کی ضد ہے اسکی روز بس باپ سے بات کرنی ہے جسے انکی فکر ہی نہیں۔۔۔ “ نجانے کیوں آج اسے غصّے آگیا حیات صاحب کا لحاظ کیے بغیر اس نے پرنیا کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لے گئی پیچھے سے پرنیا چلاتی رہی۔۔۔

” آئ وانٹ ٹو ٹاک ٹو یو۔۔۔ “

حجاب نے اندر آتی ہی اسے باپ کا نمبر ملا کر دیا اور خود کچن میں چلی آئی۔۔ اپنا غصّہ پٹک پٹک کے وہ برتنوں پر نکال رہی تھی ملازمہ خاموشی سے اسکی ایک ایک حرکت دیکھ رہی تھی۔۔۔

” یس ڈیڈ “ ابراز نے فون لائوڈ سپیکر پر رکھا اسکی انگلیاں مسلسل کی بورڈ پر حرکت کر رہیں تھیں۔۔۔

” رازی کہاں ہو؟؟ “ حیات صاحب کو حجاب کی بات سن کر بیٹے پر شدید غصّہ آیا انہوں نے فوراً سے اِسے کال ملائی

” دکان پر!!!حلوہ پُری بھیج رہا ہوں پارسل کروں؟؟ “ اسکی غصّے سے بھری آواز نے حیات صاحب کی پیشانی پر بل نمایاں کیے۔۔۔

” اولاد کی فکر کرو جو تمہارے پیچھے روتی رہتی ہے انہیں ٹائم دو “

“ same goes to you!!! Anything else?? ”

ابراز نے مصروف سے انداز میں کہکر جواب نہ پاکر کال کاٹ دی دوسری طرف حیات صاحب کی پیشانی پر پسینے کے ننھے قطرے نمودار ہوے لوگ سہی کہتے ہیں اولاد سے زیادہ اولاد کی اولاد سے محبت ہوتی ہے آج پہلی دفع انہیں گلٹ ہوا تھا اپنے کیے پر۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” ڈیڈ “ پرنیا بھاگتی ہوئی دروازے کے پاس آئی جہاں سے ابھی ابراز داخل ہوا تھا۔۔صبح سے وہ اپنے ڈیڈ کا بےصبری سے انتظار کر رہی تھی۔۔۔

” ڈیڈ کی جان “ بریف کیس صوفہ پر اوچھالتے اس نے پرنیا کو اٹھا کر اسکے گال چومے وہ ہو بہ ہو اسکی کاپی تھی لیکن سفید رنگت حجاب پر گئی تھی۔۔۔

” ڈیڈ مما صبح سے نہیں سن رہی “

” کیا نہیں سن رہی ہمیں بتاؤ آپنے کال کی تھی؟؟ سوری میں میٹنگ میں تھا۔۔ “ اسکی معصوم شکایات پر ابراز کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی وہ اسے کیا بتاتا حجاب اسکی بھی نہیں سنتی۔۔

” آئ ڈونٹ لائک ڈیٹ ڈرائیور “ پرنیا نے منہ بگاڑ کر کہا

” سے آگین “ ابراز کے کان کھڑے ہوگے اسکی چھٹی حس اسے کچھ غلط ہونے کا امکان دی رہے تھی

” آئ ڈونٹ لائک ہم “

” کیوں؟؟ “ پرنیا کا چہرہ ڈرائیور کا نام لیتے مُرجا جاتا یہ ابراز نے اسکے چہرے کے بدلتے زاویے سے اندازہ لگایا وہ خوفزدہ بھی تھی ابراز کے اندر اسکی حالت دیکھ لاوا پھٹ رہا تھا۔۔۔

” ڈیڈ وہ گندے لگتے ہیں شام بھائی نہیں ہوتے نہ تو کہتے ہیں میں آپ کو پیار کرتا ہوں مجھے بہت ڈر لگتا اور یہاں ہاتھ۔۔۔۔ “ ابراز کی اس سے زیادہ سنے کی ہمت نہیں تھی اسکی رگیں تن گیں آنکھوں کی لالی پل پل بھڑتی جا رہی تھی وہ پرنیا کو نیچے اُتار کر جانے لگا کے یکدم اسے باہر سے باسکٹ بال سے کھیلتا احتشام اندر آتا دیکھا۔۔۔

وہ پرنیا کا ہاتھ پکڑتا باہر کی طرف چلنے لگا ساتھ احتشام کو بھی آنے کا اشارہ کیا وہ باسکٹ بال پھینکتا باپ کے پیچھے دوڑا۔۔۔۔

پرنیا کا ہاتھ چھوڑتے ابراز سرونٹ کورٹر کی طرف بڑھا جہاں ڈرائیور اور چوکیدار بیٹھے تھے۔۔ ڈرائیور کو مزے سے چائے پیتا دیکھ ابراز کی پیشانی کے بل مزید بڑھ گئے۔۔۔۔

” حرام زادے تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی کو ہاتھ لگانے کی؟؟؟ کمینے معصوم بچی کو ہوس؟؟؟؟ بھونک کتے چپ کیوں ہے؟؟؟ میری بچی کے سامنے کیسے بھونکا تھا؟؟؟ “ ابراز نے اسے گریبان سے پکڑ کے لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی احتشام اور پرنیا خوف سے باپ کو دیکھ رہے تھے انکے ہلق سے آواز تک نہیں نکل رہی تھی کبھی باپ کو اونچی آواز میں بھی بولتا نہیں دیکھا اور اب۔۔۔

” گٹر کے کیڑے تم جیسوں کی وجہ سے ماں باپ کی گودھ اجڑ جاتی ہے معصوم بچیوں پر وار کرتے ہو؟؟ ذلیل انسان کتے سے بدتر ہے تو بھونک نہ اب “ ابراز نے پے در پے لاتیں اسکے منہ پر دے ماریں آگر چوکیدار بیچ میں نہ آتا تو آج وہ اسکی جان لے لیتا۔۔۔

” بس بیٹا چھوڑدو وہ مر جائے گا “

” بابا اسے پولیس کے حوالے کریں آج کے بعد اسے یہاں دیکھا تو خدا کی قسم یہ زندگی سے ہاتھ دو بیٹھے گا “ وہ سرد لہجے میں دھارا۔ احتشام اور پرنیا خوف سے کانپ اٹھے۔۔

” یہ حشر کرو گئے تم ان لوگوں کا جو تمہاری بہن کو گندی نظر سے دیکھتے ہیں اُسے ہاتھ لگاتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو سمجھے؟؟ “ احتشام کا ہاتھ سختی سے تھامے وہ سرد لہجے میں بولا احتشام نے ہاں میں سر ہلایا وہ بچا نہیں تھا جو ان باتوں کو سمجھ نہ سکے حجاب نے دونوں کو ان چیزوں سے آگاہ کیا ہے کسی اجنبی کے ساتھ نہ جانا کوئی پاس بلائے بیٹھائے تو فوراً ماں کو بتانا۔۔

” پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے؟؟ “ اب وہ پرنیا کے بال سمیٹے نرمی سے بولا۔

” مما کو بتایا تھا وہ نہیں سنتیں “

پرنیا ابراز کے گلے لگ گئی جہاں باپ کو سخت دیکھ کر رونا آرہا تھا وہیں نرمی دیکھ کے اسکے آنسو بہ نکلے۔۔۔

” کل صبح انھیں بتاؤگی اور کہنا مجھے ڈرائیور انکل کے ساتھ اسکول نہیں جانا بات یہاں سے شروع کروگی۔۔۔ اور ڈیڈ سے ڈرتے نہیں وہ ان بُرے لوگوں کے لئے غصّے والے ہیں آپ کے لئے نہیں میری جان “ وہ اسکے گال چومتا نرمی سے بولا وہ جانتا تھا آج اسکا غصّہ پرنیا کو رولا گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مما مجھے ڈرائیور انکل کے ساتھ نہیں جانا۔۔۔ “

پرنیا کا مرجھایا چہرہ دیکھ کر ایک پل کو اسکے حرکت کرتے ہاتھ رُک گئے خوف کی گہری لکیر اسے اپنی بیٹی کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔

” کیوں بیٹا؟؟ انکل نے ڈانٹا ہے “

” نہیں وہ کہہ رہے مجھے پیار کرتے ہیں.. اور وہ.. “ اسکے ہاتھ لرز اٹھے ہاتھوں میں تھامی ناشتے کی ٹرے گرتے گرتے بچی۔۔

” میں تو آپ کو پیار کرتا ہوں نہ رانیہ بیٹا “

پرانی یاد نے اسے مزید خوفزدہ کردیا۔۔۔۔۔

“ اور کیا؟؟ “ لال ہوتی غصّے بھری آنکھوں سے حجاب نے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوے پوچھا اس وقت اسکا دل کانپ رہا تھا اسکی بیٹی نجانے کیا کہنے والی تھی؟؟ اسنے ناشتے سے بھری ٹرے ٹیبل پر رکھی۔

” مجھے یہاں ہاتھ لگاتے “

پرنیا نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھتے اب کے غصّے سے کہا وہ معصوم ان باتوں سے انجان اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر رہی تھی جیسے ڈرائیور کا عمل اسے اچھا نہیں لگا۔۔۔

” مجھے ان سے ڈر بھی لگتا مما۔۔ “ اب کی پرنیا آکر اسکی ٹانگوں سے چپک گئی اسنے پلک چھبکائے بغیر جھک کے اسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔

” یا میرے خدا!!!!! کونسی بھول ہوئی مجھ سے؟؟ میرے کس عمل کے بدلے تو نے مجھے ایسے جہنم میں ڈال دیا۔۔ جیسے مالک ویسے نوکر۔۔۔ اب میں کیا کروں کیسے اپنے بچوں کو ان سے محفوظ رکھوں۔۔۔ کیا مجھے؟؟ ہاں!! ایک یہی راستہ ہے میرے پاس۔۔“ تیز چلتی دھڑکنوں کو سمبنھالتے اسکا دل رو رہا تھا اب ایک ہی راستہ تھا اسکے پاس اس نے جھک کے پرنیا کے گال چومے۔

” آپ بیٹھ کے بھائی کے ساتھ ناشتا کرو میں آتی ہوں۔۔ گھبرانا نہیں مما ہیں نا۔۔ “ وہ اسکا گال تھپک کر تیزی سے اٹھ کے اپنے کمرے میں چلی آئی سامنے ہی ابراز آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا بلیک سوٹ میں ملبوس وہ خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا۔۔

وہ دھیمے قدم اٹھاتی اسکے پیچھے آن کھڑی ہوئی ابراز اسکی موجودگی محسوس کرتے ہی حیرت سے پیچھے مڑا۔۔

” کیا ہوا؟؟ “

” مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔ “ نظریں جھکائے ہاتھوں کو آپس میں مسلے وہ اسے پریشان لگی

” کرو “ بےنیازی سے کہتے وہ مُڑا اور ڈریسنگ پر رکھا فون اور والٹ اٹھایا۔۔ اسے یقین تھا وہ پرنیا کی بات کرنے آئی ہوگی۔۔

” ڈرائیور کو نکال دو اسکی جگہ کوئی۔۔۔ “

” کیوں؟؟ “ جتنی تیزی سے اس نے اپنا خدشہ بیان کیا اُسی تیزی سے ابراز پیچھے مُرا

” وہ سہی آدمی نہیں۔۔ اُسکی نظریں، حرکتیں اس سے پہلے کے وہ پرنیا ۔۔۔ “ زنانے دار تھپڑ کی آواز خاموش کمرے میں گونجی ابراز نے سختی سے اسکے بازو کو جھکڑے خود سے قریب کیا اتنا قریب کے اِسکی بیوی اِسکی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی

” تم سمجھتی کیا ہو خود کو؟؟ آسمان سے اُتری پری ہو؟؟ ہر مرد تمہارا دیوانہ ہے؟؟ تمہیں دیکھنے کے علاوہ کسی کو کوئی کام نہیں؟؟۔۔۔ “ غصّے سے کہتے اسنے جھٹکے سے حجاب کو بیڈ پر پھٹکا اور سائیڈ سے پانی کا بھرا گلاس اپنے ہلق سے اُتارا ۔ حجاب سنمبھل کر بیڈ پر بیٹھ چکی تھی اِسی رویے کی امید تھی اُسے وہ پلک جھپکائے بغیر اسکی ایک ایک کاروائی دیکھ رہی تھی۔۔

اس وقت غصّے سے اسکی دماغ کی رگیں پھٹ رہیں تھیں۔۔ خالی گلاس رکھنے کے بجاۓ اِسنے پوری قوت سے دیوار پر دے مارا اور اِسکے ساتھ بیڈ پر اِسکے سامنے آبیٹھا اِسکے بےحد قریب اور ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا

” اپنے بارے میں کیا کہنا ہے تمہارا؟؟ بہت پارسا ہو نا کیا کیا اب تک؟؟ بولو بیوی کے ہوتے ہوئے تمہارا شوہر باہر منہ مارتا پھرتا ہے۔۔ شدید نفرت کرتا ہے تم سے کیا اسکے دل میں جگہ بنا پائی تم جیسی پارسا لڑکیاں تو دن رات ایک کر کے شوہر کے دل میں گھر بناتیں ہیں تم نے اب تک کیا کیا بولو؟؟ یا کسی معجزے کا انتظار تھا؟؟ تمہارا شوہر تمہارے پیروں میں آن گرے گا۔۔۔ “ وہ ہنسا زہر خند ہنسی۔۔۔۔

” میں تمہیں شوہر مانتی ہی نہیں تو انتظار کیسا؟؟ اور نا ہی کوئی معجزہ ہونا میرا حساب تم سے اللہ‎ لیگا۔۔ “ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے بےخوفی سے بولی۔۔۔ اِسکی انہی باتوں سے ابراز کے دل میں اِسکے لیے نفرت مزید بڑھ جاتی آخر اپنا ٹھکرانا کہاں قبول تھا اُسے۔۔۔۔

” تمہیں لگتا ہے تم بہت معصوم ہو؟؟ میں ظالم ہوں ظلم کرتا ہوں؟؟تو ایک بات یاد رکھنا اللہ‎ دلوں کا حال بہتر جانتا ہے اور اللہ‎ کو وہ عورتیں نہیں پسند جو رو رو کر موت مانگتیں

ہیں۔۔ “ کہتے ساتھ اس نے کسی بیکار شے کی طرح اِسے چھوڑا اور اُٹھ کے جانے لگا ورنہ یقیناً آج وہ اِسے قتل کر دیتا۔۔۔

” تم رسوا ہوگے دیکھنا اللہ‎ تم سے ہر حساب لیگا میرے ایک ایک آنسو کا تم سے حساب لیگا میں دیکھوں گی تمہیں تڑپتا ہوا روتا ہوا خدا کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے لیکن دیکھنا اُسے بھی تم پر رحم نہیں آئے گا۔۔۔ تم خوار ہوگے در در جاکر اسے ڈھونڈوں گئے معافی مانگو گئے تمہیں وہ نہیں ملیگا، کہیں نہیں ملیے گا، تم اِس دنیا میں اُسے ڈھونڈتے رہو گئے لیکن افسوس وہ نہیں ملیگا۔۔۔ کیوں کے وہ تم جیسے لوگوں کا نہیں ہوتا نہیں ہوتا۔۔ تم قابل بھی نہیں کے اُس کے سامنے سر اٹھا سکو۔۔۔ تم حرام کھاتے ہو حرام پیتے ہو۔۔ حرام رشتے بناتے ہو حلال تم جیسوں کے لیے نہیں۔۔ “

وہ پیچھے سے روتے ہوے اسے بددعائیں دے رہی تھی لیکن ابراز کو پروا کہاں تھی اسکی امپورٹنٹ میٹنگ تھی جو یقیناً اسکے لئے بہت اہم تھی۔۔۔۔

حجاب آنسوؤں پوچھتے اٹھ کھڑی ہوئی وہ خود بچوں کو چھوڑ آئے گی یہی سوچ کر وہ بچوں کے پاس آئی تو ملازمہ نے اسے ایک لڑکی کی آمد کی خبر دی۔ حجاب بچوں کو لیکر باہر آگئی اس نے رکشا میں جانے کا سوچا تھا جب اس بےحس کو فکر نہیں تو اسکی دولت پر بھی وہ لعنت بھیجتی ہے۔۔۔

” میم سر نے کہا ہے کچھ دن میں انہیں اسکول ڈراپ کردوں جب تک نیو ڈرائیور نہیں آتا۔۔۔ “ وہ لاؤنچ میں آئی تو ابراز کی ریسپشنیسٹ وہاں موجود تھی وہ ایک دو دفع ابراز کے آفس مہوش اور اسکے ہسبنڈ کے ساتھ گئی تھی۔۔ جو اکثر ان دونوں کے ساتھ ضد کر کے آئوٹینگ کے لئے جاتے وہاں یہ ریسپشننسٹ ہمیشہ اس سے اچھے سے ملتی۔۔۔۔

” ڈرائیور۔۔۔ “ حجاب کی ہلکی سی آواز بامشکل احتشام سن پایا۔۔اس وقت اسکی سوچیں کہیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہیں۔۔

” ڈیڈ نے اسے کل مار کر بھگا دیا “ احتشام نے کہا اور پرنیا کا ہاتھ پکڑ کے اس کے ساتھ چل دیا پیچھے حجاب سوچتی رہ گئی۔۔ کیا وہ ہر چیز سے اس سے پہلے سے باخبر ہے؟؟؟ ایک بار پھر آنکھوں میں تیرتے پانی نے باہر کا راستہ ڈھونڈا اور اسکے گال بھیگو گیا۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


حجاب بےچینی سے پرنیا کا انتظار کرنے لگی اور اسکے آتے ہی ساری بات پوچھی جسے سن کر حجاب نے اسے دیوانہ وار چوما اور اپنی کم عقلی غصّے پر ماتم کیا جو ہر بار اسے پھنساتی۔۔۔

” آج پھر منہ مارنے جا رہے ہو؟؟ “ حجاب کو صبح کا پڑا تھپڑ ابھی بھولا نہیں تھا اوپر سے اسکا اگنور کرنا اب برداشت سے باہر تھا وہ روز رات کو اسی طرح فریش ہوکر کہیں منہ مارنے جاتا اور وہ پیچھے سے ناچاہتے ہوئے بھی سلگتی رہتی۔۔۔

” صرف منہ مارتا ہوں نہ؟؟ ایسا نہ ہو تمہاری یہ بےعتنائی دیکھ کر کسی دن دوسری شادی کر لوں۔۔۔“ وہ مرر میں سے اسے دیکھتا ہوا بولا جو بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے پرنیا کو اپنے سینے سے لگائے اسکی پیٹ تھپک رہی تھی۔۔۔اسکے دیکھتے ہی حجاب نے نظریں پھیر لیں وہ قدم قدم اٹھاتا اسکے پاس آیا جھک کر پرنیا کے گال چومے ابراز کا سر حجاب کی ٹھوڑی سے مس ہوا۔۔۔۔

” ڈونٹ بی جیلیس بےبی ایٹ واز یور چوائس “ وہ طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے سیدھا ہو کر جانے کے لئے پلٹا پیچھے سے وہ شیرنی غصّے سے چلائی۔۔۔

” مرو تم “

” اکیلے مزہ نہیں آئے گا کیوں بھول جاتی ہو جہنم میں ساتھ جائیں گئے تم نافرمان بیوی بن کر میں نافرمان شوہر “ جاتے جاتے وہ اسے اچھا خاصا سلگا چکا تھا۔ پیچھے حجاب اسے بددعائوں سے نوازتی رہی جو اسکی زندگی برباد کر کے پر سکون تھا۔۔۔

صبح بچوں کے جانے کے بعد اسے ایک لیٹر وصول ہوا جس پر بھیجنے والے کا نام دیکھ کر جہاں اسے خوشی ہوئی تھی، بے یقینی تھی، وہیں تحریر پڑھ کے حیرانگی ہوئی۔۔۔

” مجھے یقین ہے یہ خط پڑھ کے میری برسوں پرانی حجاب جو دنیا کی بھیڑ میں کھو چکی ہے مجھے مل جائے گی “


☆.............☆.............☆


” میری پیاری دوست حجاب مجھے پہچانا نہیں نہ میں بھی تمہیں پہچان نہ سکی کیوں کے تم میری حجاب نہ تھیں میری دوست نہیں تھیں وہ دوست تو کسی کی دل آزاری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور یہ حجاب یہ تو کوئی اور ہی ہے جو دل دکھانے کے فن سے واقف ہے۔۔۔ تمہیں یاد ہے ہم تینوں کتنے خوش رہا کرے تھے؟؟ ایک دوسرے کے ساتھ جان بستی تھی ہماری ایک دوسرے میں۔۔ زندگی کتنی خوبصورت تھی نا؟؟؟ نہ کوئی ٹینشن نہ کوئی زندگی کی فکر بس اپنے میں مگن رہتے تھے۔۔۔ نہ جانے کس کی نظر لگی ہم ایسے بچھڑے کے آج ایک دوسرے کو بہچانے تک نہیں۔۔۔۔ ایک روٹھ کر اس دنیا سے چلی گئی باقی ہم دو بچھڑ گئے۔۔۔

تمہیں یاد ہے تم نے ایک دن ایک لڑکی کو دیکھ کر کہا تھا ایسے مسلمانوں پر سو توپوں کی سلامی کیوں؟؟ کیوں کے میں نے جینز پہن کر حجاب لیا تھا؟؟؟ اور تم نے کہا تھا

اپنے عاشق سے بات کرنے میں مصروف ہے حجاب بےشک تم ہو مسلمان لیکن اللہ‎ نے تمہیں حق نہیں دیا کے تم لوگوں پر فتویٰ جاری کرتی پھرو انکا دل دکھاؤ یقین جانو اُس وقت ریمارکس سن کر میں بہت اداس ہوگئی تھی تمھارے ساتھ تمہاری دوست بھی تھی میرا دل چاہ رہا تھا تمہیں اچھا خاصا سناؤں لیکن نجانے کیوں پہلی بار ایسا ہوا کے مجھ میں ہمت نہیں تھی اچھی خاصی بولڈ ہونے کے باوجود میں خاموش رہی لیکن تم میرے ذہن سے نہ ہٹیں اکثر گرلز کومن روم میں۔۔۔ تمہیں میں باقائدگی سے نماز پڑھتے دیکھتی ناچاہتے ہوے بھی تم میری نظروں کا مرکز بنی رہیں پھر کیفیٹیریا ہو یا کومن روم میں تمہیں ڈھونڈتی رہتی ایک دن میں نے تمہاری سی آر سے تمہارا نام پوچھا مجھے یقین نہ ہوا تم اتنی آسانی سے مجھے مل سکتی ہو؟؟؟ میری بچپن کی دوست رانیہ کے جانے کے باد تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا؟؟؟ اور تم میری ہی نظروں کے سامنے تھیں لیکن ایک سوچ پر آکر میں ُرک جاتی کیا تم وہی حجاب ہو میری بچپن کی دوست؟؟؟ اس کشمکش سے میں اُس دن نکلی جب تمہیں انکل کے ساتھ دیکھا وہ تمہیں بائیک پر لینے آئے تھے میں انکل کو کیسے بھول سکتی تھی؟؟ تم میری ہی حجاب تھیں اُس دن میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا میں تم سے کفٹیریا میں ملنے آرہی تھی لیکن اُس دن تمہارا جھگڑا ابراز حیات سے ہوگیا ہے۔۔۔ میں نہیں کہونگی وہ سہی تھا لیکن حجاب تم؟؟ تمہارے الفاظ سن کر میں دھنگ رہ گئی بےشک میں تمہاری طرح دین سے اتنا قریب نہیں لیکن حجاب جب کوئی شخص بھٹکتا ہے تو اُسے راستہ دیکھاتے ہیں نہ کے اُسے خوفزدہ کر کے آگے بڑھنے سے روکتے ہیں حجاب تمہیں نہیں پتا چلتا تمہارے الفاظ کس طرح خنجر بن کر دلوں میں لگتے ہیں اگر تمہیں پتا چل جائے تو تمہیں اپنی اس زبان سے نفرت ہونے لگی گی۔۔ ” کافر “ مطلب جانتی ہو اس لفظ کا؟؟ ہمیں تو کافر کو کافر کہنے کا حق نہیں اور تم نے ایک مسلمان کو بلا خوف و جھجھک کافر کہا؟؟۔۔۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” جو شخص کسی کو کافر کہہ کر پکارے یا خدا کا دشمن کہے اور وہ ایسا نہ ہو تو یہ کلمہ کہنے والے پر لوٹ پڑتا ہے “

یہ حدیث ہے یقیناً تم نے پڑھی ہوگی صرف پڑھنا نہیں عمل کرنا بھی فرض ہے جیسے نماز، روزہ، زکوة فرض ہے اُسی طرح غیبت، بدزبانی سے منع کیا گیا ہے تو جو زبان سے تیر چلاتی ہو اس سے صرف دل آزاری نہیں ہوتی بلکے یہ بدزبانی غیبت ہے اور غیبت کرنا ایسا ہے جیسے اپنے بھائی کا کچا گوشت کھانا ہو۔۔ جانتی ہو انسانی فطرت کیا ہے؟؟ چلو چھوڑو میں تمہیں اپنا بتاتی ہوں پھر انسانی فطرت کا بتاتی ہوں تمہیں پتا ہے رانیہ کے ساتھ ہوے حادثے نے میری زندگی پر ایسا اثر کیا کے میں اپنے ماں باپ سے قریب تر ہوتی گئی چھوٹی سے چھوٹی بات آکر اپنی ماں کو بتاتی۔ کلاس میں ہمیشہ ہر بات میں میں آگئے رہنے لگی ماں باپ سے قریبی سمجھو دنیا فتح کر لی اچھی بُری بات بلا خوف و جھجھک ہر عمل بتاتی پڑھائی میں تو نہیں خیر باقی ہر کمپیٹیشن میں پارٹیسیپیٹ کرتی میرے سپورٹر میرے ماں باپ تھے میرے بابا مولوی ہیں لیکن جانتی ہو اس بولڈ دنیا میں رہ کر میں نے یہاں کا طور طریقہ اپنایا جینز شارٹ شرٹ یہ میں نارملی پہنتی ہوں لیکن حجاب کا ٹرینڈ دیکھ کر میں نے بھی وہ پہننا شروع کردیا اُس دن میرا یونی میں پہلا دن تھا حجاب مائیگریشن کی وجہ سے میرا ایک سال ویسٹ ہوگیا یہی وجہ ہے میں تمہاری جونیئر ہوں اُس دن میں حجاب پہن کر یونی آئی تو تمہارا دیا گیا تعنہ مجھے ضد دلا گیا سب سے پہلے گھر آکر میں نے حجاب اتارا اور سوچ لیا اب نہیں پہنوں گی لیکن پتا ہے حجاب تمہاری الفاظ نے میرے دل پر وار کیا کتنی ہی بولڈ ہوں آزاد خیال دل کمزور ہے چھوٹی بات پر رونے لگتا لیکن اس دن ایسا حادثہ ہوا کے حجاب تو چھوڑو میں نے نقاب کرنے کا سوچا ہاں وہ حادثہ حجاب۔۔۔ اُسی دن امی اور میں بازار گئے امی کی ڈانٹ پر میں نے حجاب کیا۔۔ امی سبزی خرید رہیں تھیں میں وہیں تھی کے اچانک سے ایک گاڑی سامنے آکر رُکی اور گاڑھی میں سے دو شخص نکلے سر سے پیر تک مجھے غلیظ نظروں سے تکتے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کے گاڑی میں لے جانا چاہا جب کے دوسرے شخص نے اپنے ساتھی کو ہاتھ پکڑتا دیکھ جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر کار اسٹارٹ کردی۔۔ میں سر سے پیر تک کانپ رہی تھی لیکن اپنی جگہ سے ہیلی نہیں میری امی اُس شخص سے میرا ہاتھ چھڑوا رہیں تھیں کے اس شخص نے بلیڈ نکال کر انکا ہاتھ زخمی کر دیا میں جو بت بنی کھڑی تھی جسکے حواس مفلوج ہوگے میری چیخ نکل گئی ماں کی یہ حالت دیکھ کر میری چیخ سن کر بینک کے پاس بیٹھا واچ مین الرٹ ہوا اور بھاگتا ہوا آیا آس پاس لوگ بےحس بن کر ماں بیٹی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔۔ واچ مین کو آتا دیکھ اس شخص نے غصّے میں بلیڈ سے میرا گلا کاٹا اور کار میں بیٹھ کر فرار ہوگیا اور حجاب۔۔۔ میرا دل چاہا اُسی وقت سجدے میں گڑ جاؤں میں اُس کی کس کس نعمت کا شکر ادا کروں؟؟؟؟ بلیڈ صرف اس کپڑے کو ہی کاٹ سکا جس سے میں حجاب لیا ھوا تھا۔۔۔۔ مجھے یقین نہ آیا حجاب موت میرے سامنے تھی، بلکل قریب چند انچ کا فاصلہ بھی نہ تھا اور ناجانے کس نیکی نے مجھے زندگی دیدی کہتے ہیں نہ لاکھ بُرا چاہے لیکن ہوتا وہی جو خدا نے نصیب میں لکھا ہو انسان بےبس ہے حجاب اسکے ہاتھ میں کچھ نہیں۔۔ میں جہاں تمہارے طنز سے آکر حجاب چھوڑ رہی تھی وہیں مجھے ایسی راہ ملی جس سے میں سر تا پیر بدل گئی ان غلیظ نظروں سے بچنے کے لئے نقاب کرنے لگی اور حیرت ہے گرلز کومن روم میں میں نقاب کے بغیر ہوتی ہوں پھر بھی تم نے میرے اس عمل پر کومپلیمنٹ نہیں دیا؟؟؟ پتا ہے کیوں حجاب؟؟؟ کیوں کے یہ انسانی فطرت ہے کسی میں ننانوے اچھائیاں دیکھیں اور ایک برائی تو ان ننانوے اچھائیاں کو آگ میں جھونک کر اس ایک برائی کو اچھالتیں ہیں جبکے اسلام کا مزاج ہے کسی میں ننانوے برائیاں دیکھو اور صرف ایک اچھائی دیکھو تو ان ننانوے پر پردہ ڈال کر ایک کے گن گاتے پھرو۔۔۔۔ تم نے وہی کیا حجاب میں نیک نہیں لیکن حجاب میں اتنی بُری بھی نہیں کے تم مجھے یہ کہتی پھرو عاشق سے بات کرتی ہوگی نہیں حجاب میرا نکاح تو میٹرک میں ہی ہوگیا تھا لیکن آج تک میں نے اپنے شوہر سے جائز ہوتے ہوے بات نہیں کی میں نفس کی غلام نہیں حجاب میرا شوہر سامنے رہکر بات کرتا ہے لیکن کالز میسجسز یہ سب اسے پسند نہیں اور آج جانتی ہو تمہیں خط کیوں لکھا؟؟؟ اگلے ہفتے میری رخصتی ہے میں چاہتی ہوں تم شوہر کے ساتھ آؤ لیکن یہ حجاب نہیں مجھے پہلے والی میری حجاب چاہیے جو پاک دل کی مالک تھی جو غیبت بدزبانی نہیں جانتی تم میں جانتی ہو کیا برائیاں ہیں؟؟ ہر انسان میں ہوتی ہیں لیکن حجاب انھیں بہت کم راہ دیکھانے والے ملتے ہیں تمہیں تو ہر راہ میں ملا تمہاری دوست جویریہ اور شوہر کی صورت میں لیکن تم پتھر رہیں حجاب ڈرو اس وقت سے جب تمہاری پکڑ ہوگی دین تو کہتا ہے ناچنے والی سے نفرت نا کرو تم نیک لوگوں میں عیب ڈھونڈتی پھرتی ہو؟؟؟ اپنے اندر جھانکو حجاب اوروں کو نہ دیکھو جو اوروں کو دیکھتا ہے اور اپنے اندر نہیں جھانکتا اسے توبہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔۔۔

اور حجاب جانتی ہو سب سے زیادہ جہنم میں دخل دینے والا عمل بدزبانی ہوگا۔۔۔ بدزبانی غیبت ،تنقید، طنز اور تبصرے کبھی کبھی ہمیں پتا نہیں چلتا ہماری زبان سے نکلے الفاظ ہمارے لئے ہی آزمائش بن جاتے ہیں۔۔۔۔ جیسے تمھارے لئے بنے تمہیں پتا ہے خوفناک گناہ کیا ہے؟؟؟ ایک پیسے کا تکبر ہوتا ہے۔۔۔ ایک نیکی کا تکبر ہوتا ہے۔۔۔ ایک مال کا تکبر ہوتا ہے۔۔۔ ایک علم کا تکبر ہے۔۔۔ ایک دولت کا تکبر ہے ایک اپنے عمل کا تکبر ہے مال کا تکبر یہ چھوٹی چیز ہے لیکن نیکی کا تکبر خوفناک گناہ ہے۔۔۔ ایک واقعہ ہے حجاب غور سے سنو۔۔۔

” حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لے جارہے تھے کہ ڈاکو کی نظر ان پر پڑی ڈاکو چوٹی پر رہتا تھا جب اس نے نورِ نبوت دیکھا کہا یا اللہ میری توبہ اور نیچے اُتر کر حضرت عیسی علیہ السلام کے پیچھے چل دیا۔۔ وہیں حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ ان کے صحابہ کرام بھی تھے جنہیں حوارین رسول کہا گیا ہے اللہ نے انہیں حوارین کا خطاب دیا۔۔۔ یہ صحابہ کرام ڈاکو کو دیکھ کر کہتے ہیں ہم۔۔۔ صرف ہم۔۔۔ کہا انکا مطلب تھا وڈا آیا نیک پاک تو کہاں سے آرہا قاتل ڈاقو بدکار شرابی تو کیا کر رہا ہے؟؟ حجاب انہوں نے کچھ نہ کہا بس ایک لفظ ہم جو اللہ‎ کو پسند نہ آیا کیوں کے یہ تکبر ہے تبھی وہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے کہا یا نبی اللہ میں اللہ‎ کا بھیجا ہوا آیا ہوں آپ کے پیچھے دو آدمی چل رہے ہیں میرے اللہ نے کہا ہے ایک میرا مجرم ہے اسے کہ اللہ تجھے کہہ رہا ہے تو آج سے نئی زندگی شروع کر تیرے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے گئے اور یا نبی اللہ ایک آپ کا حواری چل رہا ہے اسے اس کے لئے اللہ کا پیغام آیا ہے کہ تو بھی نئی زندگی شروع کر میں نے تیری پچھلی ساری نیکیوں کو ضائع کردیا۔۔ تو ٹھیکیدار ہے میرے بندے کا تو کون ہے ہم کرنے والا؟؟؟

حجاب تم بتاؤ کون ہو تم اسکے بندے کو کافر کہنے والی؟؟ ناپاک کہنے والی؟؟ وہ ہے بھی تو اللہ‎ کا گہنگار ہے میں ہوں تو اللہ‎ کی گہنگار ہوں تم کون ہو اللہ‎ اور میرے درمیان آنے والی؟؟؟ تمہیں کوئی حق نہیں تم اللہ‎ اور میری درمیان آئو کوئی حق نہیں کسی کو کافر کہنا خود کو اس سے برتر پرو کرنا تم کیسے جانتی ہو آب حیات سے بھی تمہارا شوہر پاک نہیں ہوگا؟؟؟ حجاب میری پیاری دوست نیکی کا تکبر یہ چھوڑدو۔۔۔چھوڑدو اسے یہ تمہارے نیک اعمال ضائع کر دیگا یہ تکبر تمہیں مٹی میں ملا دیگا۔۔۔۔ توبہ کرلو حجاب آسمان جتنے گناہ بھی توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ توبہ کرلو اس سے پہلے کے توبہ بھی نصیب نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اپنی بدزبانی سے اپنے دین کو آگ لگا رہی ہو تمہاری بدزبانی سے آگر میں بھٹک سکتی ہوں تو تمہارا شوہر کیوں نہیں؟؟؟ حجاب تمہاری آمد نے اسے بدل دیا ہے اچھا انسان وہ پہلے بھی تھا بس حقوق اللہ‎ پر عمل نہیں کرتا تھا یونی میں ہر دفع وہ ڈونیشن دیتا ہے جانتی ہوں کوٹھے سے تین بچوں کو اڈوپٹ کیا تھا اس نے تین سال پہلے۔۔۔۔ انکا خرچہ بھی وہی اٹھاتا ہے اب تو پانچ وقت نمازی ہے اب تو قدر کرلو؟؟ تمہارے لئے میں نے اسے ٹوٹتے دیکھا ہے۔۔۔۔ اپنی آنکھوں کے سامنے رات بھی وہ آیا تھا کہہ رہا تھا انا پرست لڑکی کو دل دیا ہے بابا ہنس رہے تھے کہہ رہے تھے انا مرد کی ہو یا عورت کی برباد ایک خوش گوار گھر ہوتا ہے۔۔۔۔ سچ کہوں تم دونوں انا پرست ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوٹ جاؤ۔۔۔

نیکی کا تکبر چھوڑدو۔۔۔

نافرمان بیوی بننا چھوڑدو۔۔۔۔

بچالو خود کو جہنم کی آگ سے۔۔۔۔۔

تمہاری دوست

عائشہ۔۔۔ فقط اتنا جب لوٹو تو انا پرست لڑکی کا بنا بت توڑ کر آنا۔۔۔

حجاب کے ہاتھوں سے خط چھوٹ کر نیچے جا گڑا آنسوؤں کسی ندی کی طرح اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔۔ آج پہلی بار شاید اللہ‎ کا خوف اسکے دل میں جاگا تھا ورنہ وہ اس حد تک کیسے گر سکتی ہے؟؟ آج اسے لگا تھا اسنے اپنی زندگی کے ماہ و سال ضائع کر دیے اتنی عبادت کا کیا فائدہ؟؟ جب وہ اللہ‎ کے بندوں کا دل دُکھاتی رہی ہے؟؟ اپنی کی نیکی اپنے ہاتھوں سے ضائع کرتی رہی ہے۔۔۔۔ اس جسم میں روح نام کی کوئی چیز نہیں تھی بس یہ آنکھیں پانی بہا رہیں تھیں ورنہ ہاتھ پیر ساکت تھے کوئی حرکت نہیں تھی اسکے وجود میں۔۔۔ نجانے کتنے ہی لمحے یونہی گزر گئے کے اچانک اذان کی آواز نے اسکے جسم میں حرکت پیدا کی وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی اسکا پورا وجود ہچکیاں لیکر رو رہا تھا تبھی اسے عائشہ کی بات یاد آئی۔۔۔۔۔

” توبہ کرلو حجاب آسمان جتنے گناہ بھی فقط توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں۔۔ “ وہ تیر کی تیزی سے اٹھی وضو کیا اور نماز آتا کی کتنے ہی دیر دعا میں رونے کے بعد توبہ کرنے کے بعد اسے احساس ہوا اللہ‎ اُس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے۔۔۔۔ توبہ کرکے جہاں اسے سکون محسوس ہوا وہیں یہ خیال دل میں آیا۔۔۔۔وہ جانماز رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی زبان سے بس بار بار ایک لفظ ادا ہو رہا تھا استغفار۔۔۔۔ وہ آکر بیڈ پر بیٹھی اور سائیڈ سے فون اٹھا کر دھڑکتے دل کے ساتھ ایک نمبر ڈائل کیا آج پہلی بار اسکا دل اتنی تیزی سے دھڑکا ہے۔۔۔

” ہیلو؟؟ “ پہلی ہی رنگ میں دوسری طرف سے کال پک کی گئی۔۔۔ جیسے بیٹھا ہی اسی کی کال کے انتظار میں ہو۔۔

” ا۔۔۔ابر۔۔۔ابراز۔۔ “ آنسوؤں کا پھندا اسکے ہلق میں اٹک گیا۔۔۔دوسری طرف اسکی بھرائی ہوئی آواز سن کر وہ بےچین ہوگیا۔۔۔۔

” حجاب کیا ہوا رو کیوں رہی ہو؟؟ “ اسکے لہجے کی بےقراری حجاب کو مزید شرمندہ کر گئی۔۔۔۔

” م۔۔مجھ۔۔ مجھے امی۔۔ کی یاد آرہی ہے۔۔“ لڑکھڑاتے لہجے میں کہکر حجاب نے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھا۔۔ اسکے گال ناچاہتے ہوے بھی بھیگ گئے۔۔۔۔ وہ اسوقت اس کے سینے سے لگے بچوں کی طرح رونا چاہتی تھی۔۔۔۔

” کبھی میری نہیں آئی؟؟ چھوڑو پھر اُن سے مل آؤ۔۔ “ ابراز کے لہجہ میں بےبسی تھی۔۔۔ حجاب کا دل ٹوٹ پڑا۔۔۔۔

” گاڑ۔۔۔۔گاڑی نہیں۔۔ مجھے تم گاڑی سیکھاؤ ابھی۔۔ “ حجاب نے آنسوؤں پوچھتے بےتابی سے کہا وہ جانتی تھی اسکی ایک پکاڑ پر وہ بھاگا چلا آئے گا۔۔۔بس ایک بار سامنے آجائے وہ۔۔

” ابھی؟؟ اوکے ٹوئنٹی منٹس۔۔ “ کہکر ابراز نے بغیر سنے اسکی کال کاٹ دی۔۔۔۔

” آپ ؟؟ “ حجاب جو گیٹ کے پاس نقاب کیے بےقراری سے ابراز کا انتظار کر رہی تھی اُس کی ریسپشنیسٹ کو دیکھ حیران رہ گئی۔۔۔۔

” جی میم مجھے سر نے بھیجا ہے یہ کار ایک ہفتے تک رینٹ لے ہی جب تک آپ کی اپنی کار نہیں آجاتی “ وہ کسی رٹے رٹائے سبق کی طرح بولتی اسے مایوس کر گئی۔۔ ریسیپشنیسٹ نے اسکی طرف چابی بڑھائی جسے تھامے بغیر حجاب نے کہا

” آپ کے سر کہاں ہیں اس وقت؟؟؟ “ حجاب کو رونا آرہا تھا۔۔۔ اس قدر بےرُخی پر۔۔۔۔

” وہ میم علیزہ کے ساتھ ایک بنگلو دیکھنے گئے ہیں میم آپ بیٹھیں نہ سر نے کہا ہے میں آج کی پروگریس کا انھیں بتاؤں۔۔۔۔ “ حجاب کا دل علیزہ کا نام سن کر رُک گیا کل رات کی بات اسے شدت سے یاد آئی۔۔۔۔

” صرف منہ مارتا ہوں نہ؟؟ ایسا نہ ہو تمہاری یہ بےعتنائی دیکھ کر کسی دن دوسری شادی کر لوں۔۔۔“ کچھ دیر پہلے کا وہ پچھتاوا کہیں اڑن چھو ہوگیا۔۔۔ بس یاد آیا تو اس ستمگر کی بےرخی وہ خاموشی سے آکر کار میں بیٹھ گئی۔۔۔

رانیہ کے جانے بعد عائشہ بھی اسے چھوڑ کے چلی گئی رانیہ کے ماں باپ انصاف کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے لیکن رانیہ کی باڈی نہ ملنے کی صورت میں وہ کیس ہی بند ہوگیا اور ساتھ فہیم احمد بیوی بچی کو لیکر فرار ہوگیا تب سے حجاب کو ہر شخص میں ایک فہیم احمد نظر آتا وہ دن جب ابراز نے شراب کے نشے میں اسے بےنقاب کرنا چاہا جب بھرے مجمعے میں اس نے واقعی بےنقاب کیا وہ گندی نظریں،، حجاب کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک لمحہ گھوما وہ شعر و شاعری۔۔۔ انا پرست حجاب تاثیر؟؟ اور وہ خود انا کا مارا انسان میری روتی آواز میری آمد کو ٹھکرا گیا آج تک کب میں نے اُسے بلایا؟؟ آج سے پہلے اُسے کال کر کے کب خود سے بات کی؟؟؟ حجاب کی انکھیں مسلسل بہ رہیں تھیں اسکا نقاب بھیگ چکا تھا۔۔۔

” میم۔۔۔ “ وہ اپنی سوچوں سے چونکی اور رخ موڑ کر دیکھا وہ سی ویو پہنچ چکے تھے۔۔۔

” ہاں؟؟ “ اسکی آواز ابھی بھی بھاری تھی۔۔۔

” سمجھ آیا؟؟ اب آپ کو دوبارہ ایکسپلین کرتی ہوں “ وہ کہتے ہی کار ریورس کرنے لگی

” تمہارا نام کیا ہے؟؟ “ حجاب نے بمشکل اپنے آنسوؤں کو روکا جسکی وجہ سے اسکی آواز تک بھاری ہو رہی تھی۔۔۔

” منتہا “

” منتہا م۔۔۔مجھے شروع سے سمجھائو “

حجاب نے اپنی سرخ ناک رگڑی منتہا نے اثبات میں سر ہلاتے کار اسٹارٹ کی وہ اب منتہا کی ایک ایک کروائی دیکھ رہی تھی کیوں کے اسے اپنے بچوں کے لئے ڈرائیونگ سیکھنی تھی کسی پر ڈیپینڈ نہیں ہونا تھا۔۔۔۔ لیکن ابراز حیات کی بےرُخی نے آج وہیں وار کیا جہاں حجاب نے چھ سال پہلے اسکے دل پر کیا تھا۔۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


ڈائننگ ٹیبل پر وہ کھا کم رہی تھی بلکے اسکی نظریں بار بار ابراز کی طرف اٹھتیں جو اپنی ماں سے نجانے کس پارٹی میں جانے کے لئے انکار کر رہا تھا۔۔ وہ اس سے بےنیازی برتتے مزے سے کھانا کھاتا رہا کافی تک اس نے ملازمہ سے کہکر بنوائی۔۔۔

وہ آنسوں پیتی بار بار اسے دیکھتی رہی کھانے کے بعد بھی وہ آکر ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھ گیا۔۔ جہاں بچے اپنا فیوریٹ شو M.A.D دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

حجاب نے سوچا وہ بھی جا کر اسکے پاس بیٹھے وہ اس سوچ پر عمل کرنے لگی تھی کے ڈائننگ ٹیبل پر رکھا ابراز کا فون بجا حجاب وہیں کھڑی تھی اس نے فون اٹھا کر نام دیکھا تو علیزہ کا نام دیکھ کر اسکی پیشانی پر بل نمایاں ہوے۔۔ وہ غصّے سے تیز قدم اٹھاتی ابراز کے پاس آئی اور فون اسکی گودھ میں پھینکا۔۔۔

” کال آرہی ہے فون سالینٹ پر مت رکھا کرو کل کو کسی کو اٹیک آجاے تم بےخبر بیٹھے رہو گئے۔۔۔ “ وہ سنجیدگی سے کہتی اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی۔۔۔۔۔

”اتنا غصّہ کیوں آرہا ہے؟؟؟ تمہاری سوتن کا فون ہے کیا؟؟ “

مزے سے کہہ کر ابراز نے کال پک کی جبکے وہ آنسوؤں پیتی دوڑتی ہوئی کمرے میں آگئی۔۔۔۔۔

میں ہی بُری ہوں اور وہ خود کیا ہے؟؟؟ پارسا پانچ وقت نماز پڑھیں گئے اسے تو کلمے بھی نہیں یاد ہونگے عائشہ سب جھوٹ کہتی ہے جھوٹ اس جیسا شخص کبھی نہیں بدل سکتا۔۔۔

وہ تکیے میں منہ دیے رو دی۔۔ دل اور دماغ کی جنگ نے اسے پاگل کر دیا وہ جو عوروں کو دیکھتا ہے مجھے کیوں نہیں دیکھتا؟؟؟ مجھے سے پیار کرتا ہے تو علیزہ سے کیوں بات کر رہا صبح سے اگنور کر رہا مجھے۔۔۔۔ کتنی ہی دیر وہ تکیے میں منہ چھپاتی رو دی ہوش اسے تب آیا جب پرنیا نے اسے اٹھایا۔۔

” مما نیںنی آرہی “ پرنیا نیند میں جھول رہی تھی حجاب نے اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا خود منہ دھونے واشروم میں چلی آئی۔ منہ دھوکر اس نے وضو کیا اور باہر آگئی تب تک احتشام بھی روم میں آچکا تھا۔۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


“ sweet heart i will be there!!! Just few more minutes ”

وہ اپنے بال ٹاول سے رگڑتا اسکے سامنے آکھڑا ہوا جو پرنیا کو سلا رہی تھی ساتھ احتشام کو ڈانٹ رہی تھی جس کا سونے کا ارادہ نہیں تھا۔۔۔

” مس یو ٹو بےبی آج رات تمہارا ہی ہوں “

وہ بغور اسے دیکھتے کہ رہا تھا جو اسکی رات والی بات پر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔۔۔ابراز اسکے چہرے پر کچھ كهوجنا چاہتا تھا لیکن آج بھی وہ چہرا بےتاثر تھا۔۔۔

” اٹھو کپڑے نکالو۔۔۔۔ “ وہ فون رکھتے ہی اسکی طرف متوجہ ہوا وہ اٹھ کر اسکے کپڑے نکالنے لگی۔۔ لیکن آج نجانے کیوں اسکا دل رو رہا تھا آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا، اسے کوئی فرق نہیں پڑا، وہ تو خود یہی چاہتی تھی وہ اسکے قریب نا آئے بھلے کسی اور کے پاس جائے لیکن اس کے آس پاس نا رہے۔۔۔۔

” ڈیڈ آئ وانٹ اسپورٹس بائیک۔۔ “ احتشام آکر باپ سے لپیٹ گیا جو پرنیا کی پیشانی چوم رہا تھا۔۔۔

” اوکے کل گھر واپسی پر تمہاری بائیک تمہارے سامنے

ہوگی۔۔ “

” سچی ڈیڈ آئ لو یو۔۔ “ احتشام نے خوشی سے اپنے باپ کو گلے لگایا۔۔ اسکی نظریں بار بار حجاب کی طرف اٹھتیں اور مایوس ہوکر واپس لوٹتیں۔ اب وہ موبائل پر احتشام کو کچھ بائیکس کی پیکس دیکھانے لگا پھر اسکی پسند پر کال کر کے آرڈر کی جو کل فیکس احتشام کی اسکول اوفف ٹائمنگ میں ڈیلیور ہوگی۔۔۔

” حلیم بنا رہی ہو یا شرٹ پریس کر رہی ہو؟؟ “

وہ کوشش کرتا بچوں کے سامنے لہجہ نارمل رکھے۔۔

” شرٹ جل گئی “

آج پہلی بار اس نے کوئی ایسی حرکت کی تھی۔۔۔ شرٹ جان بوچھ کے جلائی۔۔۔۔ وہ خود نہیں جانتی کیوں؟؟

وہ جو کب سے اسے دیکھ رہا تھا جھٹکے سے اٹھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کے کھنچتے ہوے اسے ٹیرس پر لے آیا جو انکے روم میں ہی گلاس وال دھکیلتے آجاتی۔ احتشام اسکے فون سے گیم کھیلنے لگ گیا تبھی انکے عمل سے بےخبر رہا کمرہ آخری فلور پر ہونے کی وجہ سے ٹیرس کی اونچائی کافی وسیع تھی۔۔۔ ابراز نے اسے ایک بازو سے پکڑ کے نیچے کی طرف دھکیلا ٹیرس کی اونچائی دیکھ کے بھی اسے ڈر نا لگا۔ وہ موت کا منظر باخوبی دیکھ سکتی تھی اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد شاید ہی کسی کی سانسیں واپس آئیں۔۔ آج موت یا ابراز کی شعلہ برساتی آنکھیں بھی حجاب کو خوف میں مبتلا نا کر سگیں۔۔ کوئی ڈر و خوف نہیں تھا ڈر تو اسے خود سے لگ رہا تھا آج۔۔ ہاں یہ ڈر ہی تھا جس کی وجہ سے وہ بےچین ہے، جس سے اس نے شدید نفرت کی بدعائیں دیں آج اُسی کے لیے اسکا دل دھڑک رہا ہے۔۔۔ اسے ڈر لگ رہا تھا دل کے اس شور سے اسکا اپنا دل اسے دھوکا دے رہا تھا۔۔۔

” کیا چاہتی ہو؟؟ بولو یہیں سے پھینک دوں تمہیں؟؟ مجھے اور میرے بچوں کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں تو زندہ رہ کر کب تک یہ دن بھر آنسوؤں بہا کر نہوست پھیلا رکھو گی؟؟ ظلم ہوا ہے نہ تمہارے ساتھ؟؟ بےزار ہو نہ اس زندگی سے؟؟ تو آسان حل یہی ہے ہمیں بھی تمہاری ضرورت نہیں گو ٹو ہیل “

ابراز کی سنجیدہ آنکھیں اور آگ برساتا لہجہ بھی اسے خوفزدہ نہ کر سکا۔ دوسرے ہاتھ سے اسنے ابراز کا بازو پکڑا اور اسکے سینے سے لگی بلک اٹھی۔۔۔۔

” پتا نہیں میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے میں خود نہیں جانتی۔۔۔ مجھے بس سونا ہے ڈھیر سارا سونا اور کبھی نہیں اٹھنا۔۔۔ “

وہ ظالم لڑکی کیا کہہ گئی تھی اسے خود اندازہ نہیں تھا جبکے ابراز اسکے آخری الفاظ سن کر جی جان سے کانپ اٹھا تھا۔۔۔

” تم کون ہو جینے مرنے کا فیصلہ کرنے والی آئندہ مرنے کا نام لیا تو زبان کاٹ دونگا “ سختی سے اسے خود میں بھنچے وہ اسکی کمر کے گرد گرفت سخت کر چکا تھا۔۔۔

” کیا پریشانی ہے؟؟ کیوں اتنی ڈل ہو رہی ہو؟؟ “ کچھ لمحوں بعد جب رونے کی شدت میں کمی آئی تب ابراز نے تھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا

” پتا نہیں “ آواز رندھی ہوئی تھی۔۔۔

” کسی نے کچھ کہا؟؟ “ اب کی بار محبت سے دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھاما

” نہیں “ وہ نفی میں سر ہلانے لگی

” پھر؟؟ “ محبت بھرا لہجہ ایک بار پھر وہ اپنی ہی نفرت سے ہار گئی یہ وہ نہیں تھا جو اسے روتا دیکھ کر پُر سکون ہوجاتا یہ تو کوئی اور ہی تھا۔۔۔۔

” دل میں درد ہو رہا “ آنسوؤں کا سیلاب ابراز کے ہاتھ بھگو گیا۔۔۔ دل کا درد مزید بڑھ گیا

” کیوں؟؟ “ ابراز کو آج ان آنکھوں میں اپنا عکس صاف دیکھائی دیا

” پتا نہیں۔۔ “ وہ نظریں چُراگئی ابراز کے دونوں ہاتھ جو اسکے چہرہ تھامے ہوے تھے انھیں جھٹکا۔۔۔آخر کب تک وہ جان بوچھ کر ابراز کی محبت سے انجان رہے گی۔

” کیا پتا ہے؟؟ میری آنکھوں میں دیکھ کر جواب دو “ وہ کہاں اس سے ہارنے والا تھا ایک ہاتھ اسکی کمرکے گرد حمائل کیا جبکے دوسرے ہاتھ سے اسکی ٹھوڑی پکڑ کے سر اونچا کیا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ان آنکھوں میں آج نا نفرت تھی نا انا بس محبت تھی اپنی بیوی کے لئے۔۔۔ایک بار پھر اسے وہ خط یاد آگیا۔۔۔ وہ اسکی شرٹ دونوں ہاتھوں کی مٹھی میں جکڑے۔۔ اسپر سر رکھے۔۔ رو دی

” یہی کے مجھ سے کوئی راضی نہیں۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔ “

” کون نہیں ہے “ وہ نرمی سے اسکی پیٹھ تھپکنے لگا۔ دل ہی دل میں آج وہ بہت خوش تھا اسے یقین ہو چلا تھا محنت رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔

” اللہ‎ “ ابراز کے حرکت کرتے ہاتھ رُک گئے۔۔ چند لمحے آسمان کو تکتے جیسے وہ سب منظر ذہن میں ریوائنڈ کر رہا تھا پھر اسے دونوں کندھوں سے تھامے جنونی انداز میں اگلا سوال دغا۔۔۔

” اور۔۔ “ وہ خاموش رہی

” پلیز بولو نا؟؟ آج چُپ مت رہو تمہاری چپ میری جان لے لے گی “

” شوہر “ رندھی ہوئی آواز کے ساتھ اسکے ہلک سے الفاظ برآمد ہوئ جس نے اسکے شوہر کو زندگی کی نوید سنائی

” مانتی ہو شوہر اُسے؟؟ “ خوشی بےیقینی کیا کیا نا تھا اسکے شوہر کی آنکھوں میں۔۔۔۔

” ہاں “ وہ جھکا تھا اور اسکی بےداغ پیشانی چومی۔ آج یہ لمس اسے سکون بخش رہا تھا نہ گھن آئی نہ نفرت ہوئی بلکے محبت بھرا لمس اسکی آنکھیں نم کر گیا یہی تو ہے جو اسے بےچین کیے ہے۔۔۔ یہ محبت ہاں آج وہ ہار گئی اپنے شوہر سے، اس دل سے جہاں وہ بستا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے کمرے میں لے آیا۔۔۔

” بیٹھو “ اسے بیٹھنے کا کہ کر خود اسکی گود میں سر رکھے لیٹ گیا۔ نم آنکھوں سے وہ اسکا روشن چہرہ دیکھ رہی تھی جو اسے ہمیشہ خوفناک لگتا تھا آج وہ چہرہ اسے خود سے زیادہ خوبصورت اور روشن لگ رہا تھا۔۔

” میرا سر دباؤ “ اگلا حکم جاری کیا لیکن وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔

” تم سے کہ رہا ہوں۔۔ کہاں ہو “ وہ جو آنکھیں موندھے لیٹا تھا اسے حرکت کرتا نا دیکھ آنکھیں کھولے تھوڑے سخت لہجے میں بولا۔۔۔ وہ کپکپاتے ہاتھوں سے اسکا سر دبانے لگی آج سے پہلی ایسی کوئی خواہشں ابراز نے نہیں کی تھی اگر کہتا بھی تھا تو صرف چڑانے کے لئے لیکن آج جہاں وہ بدلی تھیں وہیں ابراز بھی اس میں تبدیلیاں دیکھ چکا تھا شاید تبھی آج ابراز نے پہل کی۔۔۔

” بس چھوڑو یہاں آکر میرے ساتھ لیٹو “ پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے ہونگے کے ابراز نے اگلا حکم سنایا۔ اسنے دھیرے سے اسکا سر اپنی گود سے ہٹا کر وہاں تکیے پر رکھا۔۔۔ جھجھکتے ہوے وہ دوسری بات پر عمل کرنے کے لئے بیڈ پر جھکی تھی اسکا ارادہ بچوں کی سائیڈ پر سونے کا تھا جو بیڈ کی دوسری سائیڈ پر سو رہے تھے۔۔۔

” یہاں سر رکھو۔۔۔ “ اپنا بازو پھلائے وہ اسے اپنے پاس سونے کی دعوت دے رہا تھا۔۔۔

” اتنا سوچ کیا رہی ہو شرافت سے یہاں آئو میں اٹھا تو تم جانتی ہو۔۔۔ “ رعب دار لہجے میں وہ اسے دھمکی دے کر پاس آنے پر مجبور کر گیا۔۔ وہ کچھ ججھک کر اسکے پاس آئی اور آنکھیں موند کر اسکے پھیلائے بازو پر سر رکھ دیا۔۔۔

” میری طرف دیکھو۔۔۔ “

” پلیز۔۔۔ “ وہ کروٹ ابراز کی سائیڈ لیکر اسکے سینے میں منہ چھپا گئی۔ آنکھیں کھولنے کی اس میں ہمت نا تھی وہ جو خود کو ہمیشہ اس سے بہتر سمجھتی تھی آج کہیں سے وہ اس باوقار شخص کی ایک انگلی برابر بھی نا لگ رہی تھی۔۔۔۔اسکے شوہر نے بھی ضد نہ کی بس اسے سختی سے خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


وہ صبح نماز کے لئے اٹھی تو ابراز کہیں نہیں تھا۔ رات کا منظر یاد آتے ہی اسے خود پر حیرت ہوئی لگ رہا تھا جیسے وہ کسی خواب کی کیفیت سے بیدار ہوئی ہے۔۔۔ وہ اپنی سوچوں کو جھٹک کر بالوں کا جوڑا بنا کر اٹھی وضو کیا اور نماز ادا کی۔۔۔

” وہ کہتا ہے میں بدل گیا ہوں۔۔ اگر بدل گیا ہے تو کہاں ہے؟؟ آج پھر وہ اپنی جیسی عورتوں کے پاس گیا ہے۔۔۔ ایسے انسان کبھی نہیں بدلتے۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ آج مجھے جھکا کر وہ چلا گیا۔۔۔ لیکن میں جھکنے والوں میں سے نہیں وہ مر بھی جائے تب بھی کبھی اقرار نہیں کرونگی یہ راز صرف میرے اندر دفن رہیگا کے میں ایسے انسان سے محبت کرتی ہوں جو میری محبت کیا؟؟ نفرت کے لائق بھی نہیں۔۔۔ عائشہ کہتی ہے میں نیکی کا تکبر کرتی ہوں نہیں میں نیکی کا تکبر نہیں کرتی لوگوں کو انکا اصل چہرہ دیکھاتی ہوں جسے تنہائی میں دیکھنے سے بھی وہ ڈرتے ہیں۔۔۔ میں نہیں کرتی غرور میں سچ کہتی ہوں جو اُنھیں کڑوا لگتا ہے اور وہ کہتی ہے میں خوش نصیب ہوں ایسا شوہر پا کر لیکن مجھ سے برا بدنصیب کون ہوگا؟؟ وہ پاگل انجان ہے اُس نے محبت جاگا تو دی میرے دل میں لیکن وہ اُس شخص کے دل میں نہیں جاگا سکتی جو صرف خود سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ “ وہ دعا مانگ کر آنسوؤں پونچھ کر اٹھ کھڑی ہوئی جانماز رکھتے وہ پیچھے مُڑی تھی تبھی دروازہ کھول کر ابراز شلوار قمیض میں ملبوس اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔

” تم۔۔۔ تم تو چلے گئے تھے؟؟ “ وہ اسے یکدم سامنے کھڑا دیکھ بوکھلا گئی۔۔

” تو واپس نہیں آسکتا؟؟ “ وہ قدم اٹھاتا اسکے قریب تر آرہا تھا۔۔۔

” تمہیں کیا لگا عیاشی کرنے گیا ہوں “ وہ اس کے اسقدر قریب آگیا کے حجاب کا سر اسکے دل سے ٹکرایا۔ اسکا قد بمشکل ابراز کے دل تک آتا۔۔۔ وہ اسکی طرف جھکتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا ہونٹوں پر ایک بےبس سے مسکراہٹ تھی۔۔ حجاب شرمندگی سے نظریں جھکا گئی

” عرصہ ہوا ہے۔۔ ایک لڑکی نے دل پر قبضہ جما لیا تب سے یہ دل بےبس ہے کہیں اور جانے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔۔ “ خاموش پاکر ابراز نے محبت سے اسکی پیشانی چومی۔۔۔۔ وہ اسکی سوچ سے کیسے انجان رہ سکتا ہے پل پل تو اِسی کو پڑتا آیا ہے۔۔۔

” ان چھ سالوں میں ایسی سکون بھری نیند لی تھی؟؟ “ بات بدلنے کو اسنے کل رات والا واقع دوڑایا

” نہیں “ اپنے دونوں ٹھنڈے ہاتھ اسنے ابراز کے سینے پر رکھ دیے۔۔

” تم کہاں چلے گئے تھے صبح؟؟ “ اب وہ اسکی قمیض کے بٹنوں کو چھیر رہی تھی۔۔ ابراز یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا جس سے وہ کنفیوز ہوکر نظریں جھکا گئی۔۔۔۔

” تم نے مس کیا؟؟ “ پل بھر کو اسنے ابراز کو دیکھا اور واپس نظریں جھکا لیں ہونٹوں پر خوبصورت شرمگین مسکراہٹ تھی۔۔۔۔

” تم پاس نہیں تھے تو میں گھبرا گئی۔۔۔ “

” ہمیشہ رہونگا اگر اجازت دو تو۔۔۔ “ وہ اسکی طرف جھکتا ہوا معنی خیزی سے بولا۔۔

” آج تک مجھ سے کب اجازت لی ہے۔۔۔ “ حجاب نے خفگی سے کہتے ہی اسے دور دھکیلا اور بیڈ کی سائیڈ کورنر پہ جاکر بیٹھ گئی۔۔۔

” اگر احتشام اور پرنیا کی بات ہے تو وہ میرا حق ہے، چلو تھرڈ جو آیا تمہاری مرضی سے ہوگا “ دھیرے دھیرے اسکی طرف قدم بڑھاتے وہ اسکے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ رہا، آنکھیں حیا سے جھکی ہوئیں تھیں ناک اور گال کچھ شرم اور سردی کی شدت سے سرخ پر چکے تھے وہ ایک گھٹنے کے بل ٹھنڈی زمین پر اسکے ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

” آج سے پہلے تم کہاں تھیں؟؟؟ یہ خوبصورت منظر دیکھنے کے لئے جتنا میں تڑپا ہوں تم جان بھی نہیں سکتیں ساری دولت لوٹا دوں تب بھی فائدہ نہیں یہ منظر دنیا کی کوئی دولت خرید نہیں سکتی۔۔۔۔ “ وہ خاموش رہی ابراز کی باتیں سن کر ویسے ہی اسکا دل تیز دھڑک رہا تھا اب تو اسنے آنکھیں بھی سختی سے میچ لیں۔۔۔۔۔

” محبت ہے شوہر سے۔۔۔ “ سوال ایسا تھا کے وہ اسے دیکھنے پر مجبور ہوگئی پوری آنکھیں کھولے وہ اسے تک رہی تھی۔۔۔۔

” ایسے دیکھ رہی ہو جیسے موت کی خبر سنا دی۔۔۔ “ دکھ بھرے لہجے میں کہہ کر اس نے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھنے چاہے تو حجاب نے ارادہ بھانپتے ہی جھٹ سے ہاتھ کھنچے۔۔۔

” سوری “ وہ اپنی بےاختیاری پر جی بھر کے شرمندہ ہوئی۔۔۔

حجاب کے چہرے پر بل بھر کو مسکراہٹ آکر غائب ہوگئی جیسے اسی جواب کی امید تھی۔۔۔

” میری لیے دعا کروگی؟؟ “ وہ امید لگائے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے گویا ہوا۔۔۔۔

” جی۔۔ جی “ نجانے کیسا ڈر و خوف تھا جو ابھی تک اسے جکڑے ہوے تھا ابراز کی کسی بات پر حجاب کو اعتبار نہ تھا۔۔۔

” دعا کرنا میں ہار جاؤں زندگی کی پہلی بازی ہے جو میں ہارنا چاہتا ہوں آج تک صرف جیتنے کی خوائش کی ہے آج پہلی مرتبہ میں نے اُس سے ہارنے کی خوائش کی۔۔۔ تم بھی بولوگی تو وہ میری دعا ضرور قبول کریگا۔۔۔ میں جیتنا نہیں چاہتا اگر میں جیتا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھونگا۔۔۔ جو مجھے بہت عزیز ہے بہت۔۔۔ “ وہ اسکا ہاتھ جو گودھ میں رکھا تھا نرمی سے سہلاتے ہوے کہ رہا تھا۔۔ حجاب کو اسکی آواز رندھی ہوئی لگی۔۔۔۔

” میرے کپڑے نکال دو آٹھ بجے کی فلائٹ ہے، ارجنٹ پہنچنا ہے وہاں میٹنگ اٹینڈ کر کے چار بجے تک لوٹ آؤنگا “ وہ کہتا ہوا اسکا ہاتھ چھوڑ کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” میں خود ڈرائیو کرونگی آپ بس دیکھیں “ منتہا نے بےبسی سے اسے دیکھا جو ضد کر کے خود کار چلا رہی تھی ابھی وہ دونوں بچوں کو اسکول چھوڑ آئے تھے منتہا کے منع کرنے کے باوجود ضد کر کے ڈرائیونگ اس نے خود کی۔۔۔۔

” میم آرام سے جلد بازی کیسی؟؟ “ منتہا نے دوسری دفع اسے ٹوکا۔۔

” دیکھتی رہیں بس۔۔ “ حجاب کا آج موڈ بہت اچھا تھا خوشی اسکے چہرے سے جھلک رہی تھی آج بار بار اسے ابراز کی ایک ایک بات یاد آرہی جسے یاد کر کے اس کی خوشی دو گنی ہوجاتی۔۔۔ ابراز کا اظہار اسکی رگ رگ میں سکون کی لہر دوڑا گیا۔۔۔ وہی تو اسکے سامنے جھکا تھا؟؟ اعتراف کیا تھا۔۔ محبت کا دعویدار تھا۔۔۔ دل چاہ رہا تھا اسکے آفس جاکر ایک دیدار کرے لیکن۔۔۔۔ اسے خود نہیں پتا اسکے سامنے دھڑلے سے بولنے والی آج کیوں اس سے شرما رہی ہے۔؟؟


☆.............☆.............☆


بچے کو وہ لاکھ پڑھانے کی کوشش کرتی لیکن وہ ہاتھ ہی نہیں آتے اسلئے حجاب نے انہیں پاس ہی ایک ٹیونشن میں لگایا تھا جو کے ایک فیمل ٹیچر ہیں۔۔۔

” گڈ ایوننگ میم۔۔۔ “ وہ بچوں کو ٹیوشن چھوڑ کر گھر کے لیے نکلی تھی۔ ابھی وہ ایک اسٹاپ پر رکی تھی کے اسے ابراز کے آفس سے کال وصول ہوئی جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔۔۔

” گڈ ایوننگ جی کہیں آج مجھے کیسے یاد کیا؟؟؟ “ فون رسیو کرتے ہی وہ نہایت مؤدب لہجے میں گویا ہوئی

” میم وہ سر امپورٹنٹ میٹنگ میں ہیں انھیں ارجنٹ ایک فائل چاہیے جو انہوں نے آپ کی کار میں رکھی تھی۔۔۔ “ منتہا ایک ہی سانس میں بولتی اسے حیران و پریشان کر گئی۔۔۔

” میری کار؟؟ آر یو شیور؟؟ ان کی اپنی کار ہے میری کار میں کیوں رکھیں گئے؟؟؟ “ سگنل کی گرین لائٹ ہوتے ہی وہ اپنی کار آگے بڑھا گئی۔۔ اسے عجیب سا لگ رہا تھا ابراز تو کبھی اسکی کار لیکر ہی نہیں گیا پھر فائل کیسی رہ گئی؟؟

” آئ ڈونٹ نو میم آپ سیٹ کور میں چیک کریں سر نے وہیں کا بتایا تھا۔۔۔ “ اپنی سوچوں میں الجھی وہ کوئی پارکنگ ایریا دیکھ کر کار روکنے کا سوچ رہی تھی کے دوسری طرف کی بات سن کر گہرا سانس لیکر رہ گئی۔۔۔

” ویٹ آ منٹ “ ایک شاپ کے باہر اسے خالی جگہ ملی جہاں آس پاس کافی گاڑیاں کھڑیں تھیں اس نے کار ریورس کر کے وہیں کھڑی کی اور خود فون وہیں فرنٹ سیٹ پر رکھ کر کار سے باہر نکل کر پچھلی سیٹ کورز دیکھنے پیچھے والی سائیڈ آگئی۔۔۔ پچھلی سیٹ کوور میں اندر ہی ایک فائل رکھی تھی جسے دیکھ وہ حیرت زدہ رہ گئی اور فائل لیکر فرنٹ سیٹ پر آبیٹھی ساتھ سیٹ پر پڑا فون کان سے لگایا۔۔

” ہاں ہے اوکے میں خود لے آتی ہوں ویسے میٹنگ کب تک ختم ہوگی؟؟؟ “ فائل رکھ کے اسنے فوراً کار اسٹارٹ کی۔۔۔۔

” میم جلد ہی تقریباً دس منٹ میں۔۔۔ آپ کے پاس جو ہے وہ اوریجنل ہے اسکی کاپی ہمارے پاس ہے، وہ میٹنگ کے لئے نہیں ہے بس کلائنٹس کو دینی ہے۔۔۔ “

” اوکے۔۔۔ “ وہ ابھی بھی حیرت کا شکار تھی۔۔۔ فون کاٹ کر وہ آفس کی طرف چل دی۔۔۔

” یہ لیں فائل۔۔ “ تقریباً بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ آفس پہنچی اور آتے ہی سامنے بیٹھی منتہا کو فائل پکڑا دی۔۔

” تھنک یو میم۔۔ “ مسکراتے ہوے منتہا نے فائل تھامی وہ جانے ہی لگی تھی کے اسے ابراز کا خیال آیا کیوں نہ وہ اس سے ملکر جائے؟؟؟ دل کے شور پر وہ خود حیران تھی

” ویسے سر کہاں ہیں؟؟؟ “ جھجھکتے ہوے اسنے پوچھ ہی لیا لیکن اسے سمجھ نہیں آئی وہ ابراز ہے اسکا شوہر آخر ملنے میں جھجھک کیسی؟؟؟

” میم وہ اپنے کیبن میں ہیں۔۔ “ لڑکی نے رائٹ سائیڈ پر اشارہ کیا۔۔۔

” کو ئی ہے تو نہیں اندر؟؟ “ اس نے جاننا مناسب سمجھا

” میم علیزہ۔۔ “ ایک قدم کیبن کی طرف بڑھایا تھا کے یہ نام سن کر ٹھٹھک کر رک گئی۔۔

” یہ کون ہے؟؟ آج سے پہلے تو نہیں تھی؟؟ “ وہ خود نہیں جانتی لہجے میں غصّے کی رمک کیسے آئی ؟؟

” س۔۔۔ر۔۔۔۔سر۔۔۔ک۔۔ ک۔۔۔۔کی و۔۔۔۔ا۔۔۔وائف “ منتہا ڈرتے ڈرتے بامشکل بول پائی ساتھ ایک قدم پیچھے ہوئی کے کہیں سامنے رکھا کرسٹل ہی سر پر نہ دے مارے۔۔۔

” دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟؟ “ وہ چلا اٹھی۔۔

” سوری ہونے والی۔۔۔۔ نیکسٹ ویک انکی شادی ہے۔۔۔ “ ایک ہی سانس میں بولتے وہ تھوڑا اور پیچھے کھسکی

” کس نے کہا پاگل ہو تم۔۔ “ دانت پیستے وہ گویا ہوئی

” م۔۔۔۔میںم۔۔۔ آپ۔۔۔ کی۔۔۔۔ ک۔۔۔کسی س۔۔سے بھی پوچھ لیں صبح سر نے آنائونس کیا تھا۔۔۔۔ “ منتہا کہتے ہی فائل اٹھا کے دوڑی جب کے وہ ایک ایک قدم اٹھاتی ابراز کے کیبن کی طرف بڑھی۔۔ سامنے کا منظر صاف نظر آرہا تھا سامنے رکھے لیپ ٹاپ پر وہ دونوں کسی سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہے تھے۔۔۔

وہ ماؤف ذہن کے ساتھ ایک ایک قدم پیچھے بڑھا رہی تھی۔ سامنے نظر آتا منظر پل پل دھندھلا رہا تھا۔۔۔ دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے اور۔۔۔۔۔د۔۔۔۔۔دل۔۔۔ دل غم کی شدت سے پھٹ رہا تھا۔۔۔۔

” صرف منہ مارتا ہوں نہ؟؟ ایسا نہ ہو تمہاری یہ بےعتنائی دیکھ کر کسی دن دوسری شادی کر لوں۔۔۔“ وہ چیخ رہا تھا اسکے کانوں میں بار بار یہی جملا دوڑا رہا تھا اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے۔۔۔ وہ اس آواز سے دور جانا چاہتی تھی اس دوغلے انسان سے دور وہ یکدم بھاگتی ہوئی گلاس وال دھکیل کر باہر آگئی آنسوؤں بےدردی سے رگڑتے اس نے کار اسٹارٹ کی۔۔۔

” کبھی پاس بیٹھ کر محسوس کرنا نہ شراب کی بو آئے گی نہ نشے میں دت ملیگا “

“ تم بہت خوب صورت ہو پر افسوس خوب سیرت نہیں“

” دین تو کہتا ہے ناچنے والی سے نفرت نا کرو تم نیک لوگوں میں عیب ڈھونڈتے پھرتے ہو؟؟ “

” تمہیں حق نہیں تم میرے اور اللہ‎ کے درمیان آؤ۔۔۔۔ “

دماغ پر مسلسل ہتھوڑے پر رہے تھے یہ آوازیں اسے جینے نہیں دے رہیں تھیں اگر یہ بند نہ ہوئی تو یقیناً وہ پاگل ہوجائے گی۔۔۔ آج وہ کسی ننھے بچے کی طرح سسک کے رو رہی تھی۔۔

شام کے اس ٹائم جہاں سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم تھا وہ بلا خوف و جھجھک فل سپیڈ میں گاڑھی دوڑائے جا رہی تھی وہ کہیں دور جانا چاہتی تھیں جہاں یہ آوازیں نہ ہو کوئی نہ ہو بس وہ۔۔۔ اکیلی، تنہا کسی ویرانے میں۔۔۔۔۔ جہاں اسے اپنی آواز تک نہ سنائے دے بس خاموشی ہو صرف خاموشی۔۔۔۔۔۔

فل سپیڈ سے کار آگے بڑھاتے اس نے یو ٹرن لیا۔ ہاتھ کی پشت سے آنکھ کو رگڑا تو سامنے کا منظر کچھ واضع ہوا۔ سگنل کی ریڈ لائٹ دیکھ کر بھی وہ نہ رکی اسے بس ان آوازوں سے دور جانا تھا ابھی وہ اگلا سگنل توڑتی کے اس سے پہلے اسکا موبائل رنگ ہوا اس نے بینا دیکھ کپکپاتے ہاتھوں سے فون اٹھایا۔۔۔

” ہیلو “

یہ آواز سن کر وہ ہچکیاں لیکر رو دی۔۔۔

” بابا سب ختم ہوگیا سب دھوکےباز ہیں یہاں۔۔۔۔ ہر کسی کو میں مجرم لگتی ہوں عائشہ بھی مجھے غلط کہتی ہے، اور اس دھوکے باز نے بابا دوسری شادی کر لی۔۔۔۔ مجھے برباد کر کے وہ سکون میں ہے اسے نہ کل میری پروا تھی نہ آج ہے۔۔۔ سب جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔ سب۔۔۔۔۔ آپ نے بھی میرے ساتھ غلط کیا۔۔۔ کاش مجھے سے ایسی زندگی کی التجا کرنے سے پہلے مار دیتے۔۔۔۔ اب دیکھیں یہ آوازیں یہ مجھے مار دینگی بابا مجھے مار۔۔۔۔۔۔۔ آ۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔ “ ٹائیرز کی چڑچڑاتی آواز فون کے دوسری سائیڈ سنتے شخص کا دل ہلا گئی۔۔۔۔

” حجاب۔۔۔۔۔ “ وہ چیخے۔۔


☆.............☆.............☆



ہوش و حوس کھونے سے پہلے اسے ایک چہرہ دیکھا تھا وہ چہرہ اس نے زندگی میں دوسری بار دیکھا تھا اور وہ چہرہ کیوں دیکھا تھا؟؟؟ اسکا ذہن اس وقت کچھ بھی سوچنے کی صلاحیت میں نہیں تھا اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں لیکن یہ کیا اسے ہر طرف اندھیرا دیکھا اس نے ہاتھ اٹھا کر آنکھ رگڑنی چاہی تو ہاتھ میں لگی کسی شے کی وجہ سے وہ ہاتھ نہ اٹھا سگی۔۔۔۔

” حجاب تمہیں ہوش آگیا میرے بیٹے۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ڈاکٹر۔۔ “ تاثیر صاحب کو ایک کال وصول ہوئی تھی ہسپتال سے جنہوں نے حجاب کی ایکسیڈنٹ کی خبر انہیں دی وہ تو فون پر دھماکے کی آواز سن کر اتنے خوفزدہ ہوگے کے انکا جسم حرکت کرنے سے قاصر تھا اس کال کے آتے ہی انہوں نے بےتابی سے فون اٹھایا انہیں لگاتا تھا حجاب کا فون ہوگا لیکن حجاب کے نمبر سے انہیں جسکی کال وصول ہوئی تھی انکے ہوش اڑا گئی وہ آمنہ اور اسامہ کو لیکر ہسپتال پہنچے۔۔۔۔۔ اور اب کب سے آپریشن ٹھیٹر کے باہر حجاب کے ہوش میں آنے کے انتظار میں تھے۔۔۔

” با۔۔۔بابا۔۔۔ لائٹ۔۔۔ لائٹ جلاؤ “ وہ آنکھیں کھولے دائیں بائیں دیکھتی کسی روشنی کی تلاش میں تھی یہ اندھیرا اسکی جان لے رہا تھا

” لائٹ جلاؤ؟ بیٹے تم۔۔۔ لائٹ تو جل رہی ہے۔۔۔ “ تاثیر صاحب کا دماغ میں یکدم دھماکہ ہوا انہیں لگ رہا تھا وہ پاگل ہو جائیں گئے کیا انکی بیٹی؟؟؟ حجاب؟؟؟ اب وہ نہیں رہی؟؟؟کیا اس قوت سے محروم ہوگئی؟؟؟یہ۔۔ یہ انکا دل بار بار انکے دماغ کی نفی کر رہا تھا

” بابا۔۔۔ مجھے نہیں دیکھ۔۔۔ رہا بابا میں۔۔۔ “ وہ چلا رہی تھی چیخ رہی تھی ڈاکٹرز نے آکر با مشکل اسے قابو کیا نرس نے جلدی سے اسے نیند کا انجکشن دیا جسکی وجہ سے وہ واپس غنودگی میں چلی گئی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ میرے سامنے رو رہی تھی تڑپ رہی تھی اور میری بے بسی کی انتہا نہیں تھی میں اُسکی تڑپ تک محسوس نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ اِسکے چلانے کی آواز سن کر میں روم میں آیا تاثیر صاحب کے پیچھے کھڑا اِسکے دیکھنے کے انتظار میں تھا لیکن؟؟؟ لیکن وہ۔۔۔ اُس نے مجھے نہیں دیکھا نہ اپنے بابا کو۔۔۔ اُسکی نظریں کسی ایک نکتے پر نہیں تھیں وہ نجانے کس کو ڈھونڈ رہی تھی؟؟؟ ایک پل کو میرا دماغ سُن ہوگیا اگلے ہی لمحے اُسکی چیخوں نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔۔۔۔ جیسے پوچھ رہی ہوں کیا ملا یہ سب کر کے؟؟؟ تم اِسکے بندے کو آزمانے چلے تھے؟؟؟ کس نے تمہیں حق دیا ایک انسان کی زندگی کے ساتھ ایسا کھیل کھیلو؟؟ میں جو اپنی ماں باپ کی اصلیت پر نہیں رویا تھا میں جو محبوب کے ٹھکرانے پر نہیں رویا تھا آج پھوٹ پھوٹ کے رو دیا میرے سامنے وہ چیخ رہی تھی چلا رہی تھی اِسے کچھ نظر نہیں آرہا اور میں بزنس ٹائکون جسے ایک دنیا کہتی ہے کہ کوئی جیز ایسی نہیں جو اِس شخص کے پاس نہ ہو یا وہ خرید نہ سکے؟؟ میں اُس وقت کچھ نہ کرسکا نہ اُس درد کو محسوس کر سکا نہ اُس اذیت کو جو وہ سہہ رہی تھی۔۔۔۔ میں گھٹنوں کے بل بیٹھا ہاتھوں میں چہرہ چھپائے بلکنے لگا اور میرے سامنے میری زندگی بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔۔۔ کمرے میں اچانک قدموں کی آواز آئی جس کے کچھ دیر بعد وہ چیخیں آنا بند ہوگئیں کسی مہربان سائے نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں نے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر سرخ سوجی آنکھوں کو اوپر اٹھا کے اُس شخص کو دیکھا جس نے کچھ دیر پہلے مجھے یہاں سے جانے کے لئے کہا تھا۔۔۔۔۔

” اٹھو۔۔۔ “ انکی بھاری آواز سے لگ رہا تھا وہ بھی رونے والے ہیں کس نے کہا مرد رویا نہیں کرتے؟؟! میں یکدم اُٹھا نظر سامنے اپنی بیوی کے بےخبر سوئے وجود پر پڑی پاس ہی نرس اور ڈاکٹرز کھڑے تھے۔۔۔۔ تیزی سے قدم بڑھاتے میں واشروم میں چلا آیا چہرے پر پانی کے چھینٹے مار کر بار بار ان آنسوؤں کو پانی کے ان قطروں میں چھپا کر ثابت کر رہا تھا مرد رویا نہیں کرتے۔۔۔۔ نہیں رویا کرتے۔۔۔۔ لیکن یہ جملا سوچتے ہی آنکھیں پھر بھیگ جاتیں میں کون ہوتا ہوں قسمت کا فیصلہ کرنے والا؟؟ میں نے کیسے اندازہ لگا لیا وہ میرے قدموں میں آکر گرے گی؟؟ حاجی صاحب کے کہے وہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔۔۔


” عورت کوئی بھی ہو

رشتوں میں ملاوٹ پسند نہیں کرتی

وہ جس سے بھی پیار کرے

اس کی حرکات کو نظروں میں رکھتی ہے

لڑتی ہے جگڑتی ہے

اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے

مگر شراکت کبھی برداشت نہیں کرتی “


آج میں ایک بار پھر بکھر گیا اور اس مرتبہ بھی سمبھالنے والا کو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” ابراز حیات “ میرا نام ابراز میرے ڈیڈ نے رکھا جس کے معنی ہیں ” اہم “ ” خاص “ میں سمجھتا تھا میں اپنے ماں باپ اپنے ددیال ننیال میں خاص ہوں اپنے نام کی طرح اپنوں کی زندگی میں میری ایک خاص اہمیت ہے اور یہ سچ بھی تھا میرے نانا رئیس خاندان کے اکلوتے بیٹے کڑوروں کی جائیداد کے مالک تھے لیکن اس جائیداد کو سنبھالنے والا وہ وارث نہ تھا یکے بعد دیگرے تین شادیاں بھی انہیں بیٹا نہ دے سکیں اور انکی تمام تر توجہ کا مرکز انکی بیٹی فبیحہ رہی جو کے اِنکی پہلی شادی سے ہوئی تھی۔۔ نانا نے اپنے لاڈ پیار سے انھیں اس حد تک بگاڑ دیا کے کل وہ انکے سامنے دھڑلے سے ڈیڈ کو لے آئیں اپنی ضد بدتمیزی اور غیر اخلاقی حرکتوں سے انہوں نے نانا کو بلیک میل کر کے آخر ڈیڈ سے شادی کر لی آئے دن موم کے آفیرز اخباروں کی شان ہوتے اور نانا کی بنائی عزت پل بھر میں مٹی میں مل گئی تنگ آکر انہوں نے یہ شادی کروائی نانا کے سرکل میں آج بھی ایسی فمیلیز تھیں جو اس کروڑ پتی باپ کی بیٹی کو اپنے گھر کی عزت بنانا چاہتے تھے لیکن موم پر ڈیڈ کے عشق کا ایسا بھوت چڑا تھا جو آج تک نہ اُتر سکا آج تک موم کے خلاف ڈیڈ ایک لفظ برداشت نہیں کرتے لیکن دادو کے سامنے وہ بھیگی بلی بن جاتے آج تک وہ اپنے کپڑوں سے لیکر جوتے تک موم کی پسند کی گئی برینڈ سے مانگواتے ہیں آخر کیوں نہ منگوائیں عزت دار زندگی چھوڑ کے غلامی جو کر بیٹھے ہیں؟؟؟ لیکن کیا یہ محبت تھی؟؟؟عشق تھا؟؟؟ یا نفس کی غلامی؟؟؟؟ یہ وہ کہانی ہے جو دادی نے پچپن میں سنائی اور میں نے موم کو جنہوں نے جھوٹ قرار دیکر مجھے سمجھایا کبھی ” ساس “ سے ” بہو “ کی نیکی سنی ہے؟؟؟ یہ میری موم کے الفاظ تھے اُس دن کے بعد میں نے کبھی دادو سے موم کا نہیں پوچھا نہ موم سے دادو کا بس ڈیڈ سے سنا جو موم کے لئے کہتے.....

” she is my life ”

” ہماری پسند کی شادی تھی جس سے کوئی راضی نہ تھا “

جب ڈیڈ سے پوچھتا تب وہ یہ کہتے میں نو سال کا تھا بس اپنے ماں باپ کی لو اسٹوری میں انٹرسٹ تھا تو سب سے پوچھتا یہ باتیں وقت رہتے میں بھول گیا ۔۔۔

میں نے جب ہوش سمبھالا خود کو ڈیڈ کے قریب پایا ہی واز مائے آئیڈیل پرفیکٹ بزنس مین جنہوں نے گھر کے ساتھ باہر کی دنیا میں بھی ایک نام بنایا۔۔۔ انہوں نے مہوش اور میری ہر خوائش پوری کی چھوٹی سے چھوٹی چیز لاکر دی سب کچھ دیا ہنسی ہماری ہونٹوں سے جدا تک نہ ہونے دی بس نہ دے پائے تو ٹائم لیکن مجھے ان سے گلا نہیں تھا میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا وہ ہمارے لئے دن رات ایک کر کے محنت کر کے کماتے ہیں تاکے ہماری خوائش پوری کر سکیں ۔۔ موم پورا دن ہمارے ساتھ گزارتی، چھوٹی سی چھوٹی چیز پر توجہ دیتیں ڈانٹتیں پیار کرتیں اپنی نگرانی میں ناشتہ کرواتیں لیکن ڈنر؟؟؟ رات کے ہوتے ہی میرے موم ڈیڈ ایسے بدل جاتے جیسے ہمیں گود لیا ہو۔۔۔ ہم ان پر بوجھ ہیں۔۔۔ ہمیں ملازموں کے حوالے کر کے نجانے کہاں چلے جاتے خیر میں اپنی زندگی میں خوش تھا میرے پیرنٹس لوونگ تھے اور کیا چاہیے تھا ایک پُر سکون زندگی۔۔ ڈیڈ اکثر چھٹیوں میں مجھے اور مہوش کو گاؤں بھیجتے جہاں داد دادی کا پیار میری اہمیت جگاتا۔۔

میرے دادا دادی مجھے ہاتھوں کا چھالا بنا کر رکھتے

مجھے اپنے سامنے دیکھ جہاں دادا دادی خوشی سے بےقابو ہوجاتے وہیں میری چچیاں مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھورتیں کیوں کے میرے کسی چچا کے یہاں بیٹا نہیں ہوا میں اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا یہی وجہ تھی کے مجھ جیسے ” عام “ انسان کو سب نے ” خاص “ بنا دیا چاہے وہ میرے دادا دادی ہوں یا نانا۔۔۔۔۔۔

دادی کی محبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کے بیٹا تو ویسے ہی دادی کے قابو میں نہیں تھا لیکن کہتے ہیں نہ اولاد سے زیادہ اولاد کی اولاد عزیز ہوتی ہے وہی تھا ہمارے وہاں آتے ہی دادی باقی بچوں کو بھول کر صرف ہماری خاطرداری میں لگ جاتیں وہاں گھر میں دادی کی حکومت تھی۔ اور دادا سیاست دان تھے گاؤں کا چھوٹا بڑا آدمی اُنکی عزت کرتا دادا سیاست میں اس حد تک مدغم تھے کے اولاد کو ” نیکی “ اور ” برائی “ کا فرق سمجھانا بھول گئے یہاں تک کے اولاد سے اس قدر غافل ہوگے کے گھر کی عزت کب بِکی انکو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔۔ لیکن میرے معملے میں وہ مجھ پر جان چھڑکتے سب کو بتاتے یہ میرا وارث ہے۔۔۔۔ میرے جگر کا ٹکڑا وہاں سب کی نظریں مجھے احترام سے دیکھتیں جیسے میں انکا مالک ہوں۔۔

وہیں ان دنوں میری اکلوتی پھپھو اچانک سے بیٹی اور شوہر کے ساتھ ہمیشہ کے لئے ماں کے گھر آکر بیٹھ گئیں پھوپھو کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی وہ پانچ وقت نمازی نیک عبادت گزار خاتون تھیں اور انکا شوہر فہیم احمد غلیظ نظروں سے گھر کی عورتوں کو گھورنے والا ایک حوس پرست مرد۔۔ اس وقت میں تیرا سال کا تھا میری ہمت نہیں تھی گھر کے داماد کے خلاف کچھ کہوں یا اُسکی عقل ٹھکانے لگاؤں جب تک اسکے نظریں چچیوں پر تھی میں خاموش رہا لیکن جب اُسکی گندھی نظر مہوش پر پڑی میرا ضبط جواب دے گیا میں نے ڈیڈ کو کال کر کے ڈرائیور کو بلایا اور شہر آگیا اُسکے بعد سے جب موم ڈیڈ نے جانے کا کہا میں نے انکار کردیا اور اِس انکار سے سب سے زیادہ خوشی موم کو ہوتی کیوں کے انھیں دادی سے سخت چڑ تھی جو موم کے کپڑوں، رہن سہن کو ناپسند کرتی تھیں۔۔۔

میں اپنی زندگی میں خوش تھا کیوں کے میں ” خاص “ تھا میرے ٹکر کا کوئی نہیں تھا نہ مجھے ٹھکرانے والا لیکن سب سے پہلے مجھے اس ” خاص “ لفظ سے اُس دن نفرت ہوئی جب میں نے خود کو اکیلا محسوس کیا۔۔ میں بورڈ ایکزیمز کی تیاری کر رہا تھا ڈیڈ کے کچھ دوست اپنی بیویوں کے ساتھ ڈنر کرنے ہمارے یہاں آئے تھے مہوش اپنے روم میں سو رہی تھی میں پڑھائی کر کے بور ہوگیا تھا تو نیچے کا ایک چکر لگایا ڈیڈ کے سب دوستوں سے خوش اسلوبی سے ملا ڈیڈ نے فخر سے وہاں میری ذہانت کی تعریف کی وہ آج بہت خوش تھے اِس خوشی کی وجہ مجھے تو معلوم نہ تھی لیکن دل سے دعا نکلی ایسی خوشیاں انھیں بار بار نصیب ہوں لیکن مجھے پتا ہوتا وہ خوشی میرا وجود مٹا دیگی میں اپنے باپ کی دولت پر لعنت بھیجتا۔۔۔۔کچھ دیر اُنکے ساتھ بیٹھ کر میں وہاں سے اٹھ کر روم میں چلا آیا۔۔۔۔

ناجنے رات کا کونسا پہر تھا کے میں نیند سے بیدار ہوا شاید پڑھتے پڑھتے میری آنکھ لگ گئی میں اٹھا میرے قدم کچن کی طرف رواں تھے کے مجھے موم کی خوبصورت ہنسی سنائی دی میری آنکھوں میں جہاں خوشی سے چمک اُبھری وہیں ہونٹوں پر مسکراہٹ میری موم ماں کم میری دوست زیادہ تھیں میں سمجھ گیا ڈیڈ نے انھیں کوئی سرپرائز دیا ہوگا اکثر ڈیڈ کے یونیک سرپرائزز سے وہ خوش ہوتیں اپنی دوستوں کو دکھاتی پھرتیں۔۔۔

میں خوشی سے اُس ہنسی کے تعاقب میں گیا۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ اپنے آنے پر جہاں مجھے پچھتاوا ہوا وہیں موت کی شدت سے میں نے دعا کی موم بلیک بیکلیس ساڑھی میں ڈیڈ کے دوست کے ساتھ تھیں۔ وہ موم کو کھینچتے ہوے اُس روم میں لے جا رہے تھے جو اکثر مہمانوں کے یوز میں ہوتا اور موم وہ خوش تھیں کمرے کا دروازہ کھولتے ہی وہ اندر گئے اور میری موم کو جھٹکے سے کھنچ کر اندر کیا اور جس طرح ٹھاہ کی آواز سے وہ دروازہ بند ہوا اُسی طرح میرے دل کا دروازہ میری ماں کے لئے ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔۔ میں نے منہ پر ہاتھ رکھا میری حالت خراب ہو رہی تھی میں بالکنی کی طرف دوڑا میری الٹیاں رُکنے کا نام نہیں لے رہیں تھیں میں پاگل ہو رہا تھا میرا دل پھٹ رہا تھا نہ مجھے رونا آرہا تھا نہ مجھے میری ماں سے نفرت ہو رہی تھی میں بےحس ہو چکا تھا میری ماں کی ہنسی نے میرے احساس کو روند ڈالا میں بےحس بن گیا۔۔۔

” را۔۔۔۔۔رازی ک۔۔۔۔کیا ہوا م۔۔۔مائے بوائے “ میری کھانسے کی آواز سن کر ڈیڈ جو کچن کے پاس والے روم میں تھے باہر آئے انکی آنکھیں لال تھیں اور آواز میں لڑکھڑاہٹ۔۔۔۔۔

” ڈی۔۔۔۔ڈیڈ۔۔۔ م۔۔۔ موم “ میں نے خون آلودہ آنکھوں سے انہیں دیکھتے کہا الٹیوں کی وجہ سے میری آنکھوں میں گرم پانی جمع ہو چکا تھا یہ پانی موم کی وجہ سے نہیں بلکے اس حالت کی وجہ سے ہے جس کی وجہ موم تھیں۔۔۔۔۔۔۔

“ come on!!! Chill my boy.. ”

میرے ڈیڈ سب سمجھ گئے انہوں نے عام سے لہجے میں کہا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور اُس دن میرے آئیڈیل کا بنا بت چکنا چوڑ ہوگیا۔۔۔

میرے ڈیڈ کا ” chill my boy “ کہنا مجھے اُن سے نفرت کرا گیا اسکے بعد ہاتھ میں تھامی شراب انہوں نے زبردستی میرے منہ میں انڈھیلی میں سترہ سال کا نوجوان لڑکا اپنے باپ کے ہاتھوں نشے میں مبتلا ہوا۔۔۔ وہ ہنسے زہر میرے کان میں انڈھیلا۔۔۔

” چھ۔۔۔چھوٹ۔۔۔چھوٹی با۔۔۔باتوں۔۔۔ سے پریشان نہیں ہوتے مزہ چھکو اسکا “

وہ شراب کی بوتل میرے ہاتھوں میں تھاما کر چلے گئے اور میں نے انکے جاتے ہی ایک اور لمبی سپ لیا میری رگ رگ میں نشہ سا دوڑنے لگا وہ غم جو تھا اب یاد بھی نہ رہا ” غم “ تھا بھی؟؟؟ کون سا غم؟؟ مجھے یاد نہیں آیا۔۔۔میں لڑکھڑاتے قدموں سے بمشکل اپنے کمرے تک پونچھا اور پوری بوتل خالی کر کے بیڈ پر لیٹ گیا مجھے یاد ہے غنودگی میں جانے سے پہلے میرے ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ تھی جو ثبوت تھا میری اذیت کا کے میں کھوکلا ہو چکا ہوں۔۔۔۔۔

اس واقعے کے بعد میں اپنے موم ڈیڈ سے دور ہوگیا میری موم میرے بال بھی سنوارتیں میں انکا ہاتھ جھٹک کر گھر سے ہی نکل جاتا ڈیڈ سے بھی اب دور رہتا وہ پاس آتے تو ایک زخمی نظر سے انھیں نوازتے کمرے میں بند ہوجاتا۔۔ اُس رات کے بعد میں نے نے ہر چیز پر غور کیا میری ماں ہی نہیں باپ بھی۔۔۔۔ یہ امیر لوگ عزت بھیچ کر وہاں اپنے محل بنواتے ہیں جہاں کھوکلے لوگ رہتے ہیں جنکا دل اندر سے مر چکا ہوتا ہے۔۔۔۔

مجھے ایک بات ہمیشہ عجیب لگتی جس عورت کے پاس تفصیل لینے جاتا وہ ایک دوسرے سے میلوں دور لگتیں۔۔ میرے ماں باپ کی محبت کی داستان سب نے اپنے الفاظوں میں سنائی جسکا میں نے ایک الگ رخ بنا کر اپنے ذہن میں فیڈ کیا جو سچائی سے بلکل مختلف تھی۔ دادو ہو یا موم یا چچیاں سب اپنی زبان بولتیں اصل حقیقت مجھے نانا کے گھر پتا لگی اُن کے ڈاکومنٹس سے۔۔۔۔ ہم دونوں اکثر کیرم کھیلتے ہر سنڈے میں انکے گھر جاتا وہیں دن تھا جب پتا لگا میرے نانا بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھے جس نے بیوی کی عزت بھیج کر یہ دولت کمائی اور ساری زندگی یہ دولت کمانے والا بیٹے کے لئے روتا رہا میں اس وقت ہنسا تھا میری کھوکلی ہنسی اس ویرانے میں گونج رہی تھی جس شخص نے تباہ کیا اتنا پیسا کمایا آج وہ دوسروں کی زندگیاں تباہ کر کے اب پچھتا رہا جب ماں باپ آگے تھے تو بچے کہاں پیچھے رہتے؟؟

نانا کی ایک ایک ڈیلنگ کی پوری خبر تھی اس فائل میں ساتھ اس آدمی کا نام جسکی عزت کا جنازہ نکال کر نانا نے یہ ڈیل فائنل کی۔۔۔ موم کی رپورٹس میرے ہاتھوں لگیں میری پیدائش سے تین سال قبل انکا ابارشن ہوا تھا۔۔۔ میرے اندر احساس تھا کہاں جو رپورٹس دیکھ کر کچھ محسوس ہوتا؟؟ میں بےتاثر چہرے کے ساتھ ایک سے ایک درد ناک راز اپنے دل میں حفظ کر رہا تھا میرے ہاتھ ڈیڈ کے کچھ پپرز لگے ڈیڈ نانا کے ایک عام امپلوائے تھے۔۔۔ یقیناً وہ شادی اُسی راز کو چھپانے کے لئے کروائی گئی تھی محبت؟؟ عشق؟؟ کیا کیا کہانی نہیں سنائی دادو نے اپنوں نے اور نکلا کیا؟؟؟ دولت کے پُجاری۔۔۔ نم آنکھ سے ایک آنسوں ٹوٹ کر اس کاغذ پر گرا جس نے میرے اندر کے حیوان کو جگایا۔۔۔ نانا نے سیونٹی فائیو پرسینٹ پروپارٹی میرے نام کی باقی ڈیڈ کے۔۔۔۔ اب کوئی شک نہ تھا عزت بچانے کے لئے دولت کا سودا کیا فائدہ جب انسان کی اپنی نظروں میں کوئی عزت نہ ہو؟؟؟ میں اس کاغذ پر تھوکتا ہوا اسے پیڑوں تلے روندھتا ہوا وہاں سے نکل آیا۔۔۔۔

میرے ڈیڈ میرا بدلتا رویہ دیکھ پریشان ہوتے تھے میں انھیں دھڑلے سے جواب دیتا اور اُس دن میرے ہاتھوں اُنکی ایک اور کمزوری لگی۔۔۔۔

” رازی کیا حرکت ہے؟؟ دادو کے پاس کیوں نہیں جا رہے مہوش کو بھی لے جاؤ دیکھو وہ دن رات تمہیں یاد کرتی

ہیں “

” سو واٹ؟؟ “ میرا پر سکون جواب انھیں غصّہ دلا گیا ایک ماہ سے وہ میری بےعتنائی دیکھ رہے تھے۔۔۔

” شٹ اپ کل تم جا رہے ہو اینڈ دیٹس فائنل “

انکی گرج دار آواز نے میرا دماغ گرم کردیا میں نے پاس پڑی ڈائننگ ٹیبل پر رکھی چھڑی اٹھا کر کلائی پر رکھی میری یہ حرکت دیکھ ڈیڈ تیر کی تیزی سے الرٹ ہوکر میرے قریب آئے۔۔۔ بس اسکے بعد سے انہوں نے مجھے کسی چیز کے لئے فورس نہ کیا۔۔ میں اپنے آپ میں سلگنے لگا بس دوست تھے میرے جنکے ساتھ بیٹھ کر زندگی پر سکون لگتی لیکن تنہائی میں اکثر رات کو ڈیڈ کے روم سے شراب کی بوٹل لے آتا اور گھنٹوں بیٹھ کر اس سے سکون تلاش کرتا ایک دو بار موم مجھ سے ہمدردی جتانے آئیں میں گھر سے ہی نکل گیا ماں تھیں اسکے بعد سے کبھی مجھ سے کچھ نہ کہا اس ڈر سے کے باہر نہ چلا جاؤں گھر میں ہوں تو انکی نظروں کے سامنے رہتا تو ہوں۔۔۔ اسکے بعد سے گھر میں یہ بےحیائی کا سلسلہ بھی بند ہوگیا لیکن انسان اپنی فطرت سے کب بدلا ہے؟؟ دونوں میاں بیوی اکثر راتوں میں غائب رہتے لیکن اب تو مجھے فرق بھی نہیں پڑتا میں نے انٹرمیڈیٹ کے ریزلٹ کے بعد یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا اس دوران کافی لڑکیوں سے دوستی ہوئی لیکن کسی کو بھی خود سے قریب نہ کیا نہ یونیورسٹی کا ایسا ماحول تھا کے لڑکے لڑکیاں ہاتھوں میں ہاتھ لئے گھومیں اس دوران میں کوشش کرتا مہوش بھی موم ڈیڈ کے اس سچائی سے انجان رہے ہر کسی میں ہمت نہیں ہوتی کے نشان کے ہوتے ہوئے زخم کو چھپائے۔۔۔

میری دوستی ڈیڈ کے سرکل کے کچھ لڑکے لڑکیوں سے جو انکے دوستوں کے بچے تھے ان سے ملاقات گھر کی ہی ایک پارٹی میں ہوئی وہ میری طرح ہی تھے کھوکلے لیکن نہیں وہ خوش تھے شاید حقیقت کو جلد ہے ایکسپیٹ کر گئے تھے اب سمجھ آئی ڈیڈ کی پارٹی رکھنے کی وجہ اپنے جیسوں سے دوستی میری سوچ یقیناً سچ تھی کیوں کے اس دن وہ سب خود میری طرف دوستی کا ہاتھ لئے بڑھے تھے جن میں سے مہک ارسلان اور ابریش بھی ایک تھی۔۔۔۔

زندگی بس گزر رہی تھی جب تک ” وہ “ نہیں تھی۔۔ اسکے آنے سے ہل چل مچی وہ مجھے ” مختلف “ نہیں لگتی تھی میری سوچ نے اسے ” مختلف “ بنایا تھا اُس دن میں نشے میں دت

تھا میری ایک چھوٹی سی غلطی نے اسکے اندر غلط فہمی کا پہاڑ پیدا کردیا۔۔۔

وہ دن مجھے آج تک نہیں بھولا کونوکیشن ڈے جس دن ہم دوستوں نے خوب جشن منایا تھا یونی سے آکر میں کلب چلا آیا جہاں پر ابریش اور ارسلان کے گروپ نے مجھے گھیر لیا

” ٹریٹ دو “۔۔۔۔۔۔ اس ٹریٹ کے چکر میں میری حالت خراب ہوگئی جشن منانے میں اس قدر مدہوش تھا کے کتنی شراب کی بوتلیں ہلق سے اتاریں اندازہ نہ رہا ابریش مجھے گھر تک چھوڑنے آئی لیکن اُس دن نشے نے میرا دماغ ماؤف کردیا نجانے کیسی طلب تھی کے میں ضد کر کے ابریش کو اپنے ساتھ گھر کے اندر لے آیا میرا ارادہ وہی تھا جو ہر ہوس پرست مرد کا ہوتا اور ابریش میری اس طلب سے انجان نہیں تھی وہ شاید میری زندگی کا ” پہلا “ ایسا ” گناہ “ تھا اس سے پہلے یہ سوچ میرے دل میں کبھی نہیں آئی ہوش میں میری عورت سے نفرت مجھے اسکے پاس جانے نہیں دیتی لیکن اُس دن نشے نے مجھے ہرا دیا تھا ہاں وہ نشہ ہی تھا جس نے ہر گناہ و ثواب کا فرق پہچان میرے دماغ سے مٹا دی۔۔ لیکن اندر آتے ہی

میں نے پہلی بار اسے اپنے گھر میں دیکھا تھا نہ اس گھر میں مہوش دوپٹا پہنتی تھی نہ موم۔۔۔میں مدحوشی کے عالَم میں پلر کے پیچھے چھپے وجود کی طرف کھنچتا چلا گیا۔۔۔ میرے دل کو سکون تب ملا قرار تب آیا جب میں نے اُسکی آنکھوں میں اپنے لئے ڈر دیکھا اور وہ میری زبان سے اپنا نام سنے کے بعد رہی سہی جان بھی اُسکی نکل گئی۔۔۔ مجھے نشے میں علم نہیں تھا میں کیا کرگیا نہ میری وہ ہنسی میرے ہوش میں رہنے کی گواہ تھی نہ وہ حرکت میں اُسکا نقاب ہٹانا نہیں چاہتا تھا مجھے اُس وقت خود کا ہوش نہیں تھا اُسے کیا یاد کرتا اگلے دن ابریش کے منہ سے رات کا لفظ لفظ سن کر میں حیران رہ گیا اور اپنی کلائی دیکھی جہاں پر ہلکا سا بلیڈ کا کٹ تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اس دن عجیب بات یہ ہوئی میں اپنی زندگی کا پہلا گناہ کرنے جا رہا تھا حرام رشتہ بنانے جا رہا تھا لیکن اسکی آمد نے مجھے گمراہی میں جانے سے بچا لیا میں خود حیران تھا اُس دن کیسے نفس پر قابو پا لیا؟؟؟؟

اس واقع کے بعد میں حجاب تاثیر کو بھول نہ سکا وہ میرے ذہن پر سوار نہیں تھی لیکن مہوش جو اکثر اپنی دوستوں کا ذکر کرتی اور میں بےدلی سے سنتا اب پورے کان کھول کر حجاب تاثیر سے متعلق ایک ایک بات سنتا۔۔

” رازی اسے پتا نہیں کیا ہوگیا کے اچانک چلی گئی کھانا بھی نہیں کھایا اور بہت ڈری ہوئی تھی “ مہوش نارملی چپس کھاتے کل رات کی بات بتا رہی تھی اور میں ٹریڈ مل پر کھڑا پسینہ سے شرابو ہوتا رننگ میں مگن غور سے اسے سن رہا تھا آخر ذکر جو حجاب تاثیر کا تھا۔۔۔ یہ نام نجانے کیوں اتنا اٹریکٹ کرتا ” حجاب “ میرے لبوں نے بےآواز جنبش کی۔۔۔

” ہمم “ میں نے ٹریڈ مل کو اوف کر کے پاس پڑے ٹاول سے پسینہ پونچھا اس وقت اکثر میں جم میں ہوتا اور مہوش آکر مجھ سے دن بھر کی باتیں اسی وقت کرتی۔۔ مہوش کو میں نے خود سے بےحد قریب کیا تھا میں نہیں چاہتا تھا ایک اور امیر باپ کی بگڑی بیٹی اس گھر سے نکلے کیوں کے ماں باپ کا گہرا اثر اولاد پر پڑتا ہے مثال میرے ساتھ میری موم کی ہی موم کو انکے باپ نے بگاڑا مجھے میرے باپ نے۔۔۔ سکون کا ھل بتا کر اندھیری گلیوں میں بھٹکا دیا جہاں میں آج تک سکون کی تلاش میں بھٹک رہا ہوں۔۔۔۔

” ایم بی اے یہیں سے کر سکتے ہو ضروری نہیں باہر جا کر کرو “ ڈیڈ نے میرے دبئی جانے کا سن کر ہی دانت پیسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں وہ مجھے فورس نہیں کر سکتے۔۔۔

میں اس وقت جانے کی تیاری کر رہا تھا صبح پانچ بجے کی میری فلائٹ تھی۔ ڈیڈ کو جیسے ہی اپنے مینیجر کے ذریعے میرے جانے کا پتا لگا وہ مجھ سے لڑنے میرے کمرے میں چلے آئے۔۔۔

” مشورہ نہیں مانگا بتایا ہے کل جا رہا ہوں “ میں نے سکون سے جواب دیکر انھیں آگ بغولا کر دیا

” تمیز سے بات کرو!! ایسا کیا کیا ہے میں نے جو میرے سر پر سوار رہتے ہو؟؟؟؟ “ ڈیڈ نے اپنی عادت کے مطابق قریب ہی ڈریسنگ پر رکھا پرفیوم غصّے سے دیوار پر دے مارا

” عزت کا جنازہ نکالا ہے ڈیڈ۔۔۔۔ “ میں تھا تو انکا بیٹا ہاتھ میں پکڑی شرٹ جو سوٹ کیس میں ڈالنے لگا تھا غصّے سے پٹکی۔۔۔۔

” آپ نے میری موم کو سدھارنے کے بجائے انھیں سونے کے انڈے دینی والی مرغی بنا دیا؟؟؟؟ ایسی کونسی بھوک ہے جو مٹتی نہیں؟؟ کون سا لالچ ہے جو ختم نہیں ہوتا؟؟ “ میری چیخیں اتنی بلند تھیں کے کمرے کی در و دیوار کانپ اٹھیں

” میں اکیلا نہیں ہوں اُن سے جا کر کیوں نہیں پوچھتے؟؟ اور تمہاری موم کو میں نے سر پر بندوق رکھ کر نہیں کہا وہ خود راضی ہوئی تھی۔۔۔ یہ پیسہ ہے ہی بڑی ذلیل چیز غریب امیر بنے کی لالچ میں کماتا ہے اور امیر سے امیر تر ہونے کی لالچ میں یہ بھوک نہ مٹتی ہے نہ ختم ہوتی ہے اور تمہاری موم بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ ۔۔۔ “ سرد لہجے میں کہہ کر انہوں نے اپنا دفاع کیا

” سلام ہے آپ جیسے شوہر پر۔۔۔ آپ کی تعریف میں یقین جانیں الفاظ نہیں ہیں میرے پاس۔۔۔ ناؤ ڈونٹ یو ڈیر ٹو انٹر فیئر ان مائے میٹر اور نہ مجھے روکنے کی کوشش کرنا “ وہ چلاتے رہے میں ان سنی کرتا پیکنگ کر کے ائیرپورٹ پہنچا۔ میرے کچھ یونی فیلوز بھی وہیں سے ایم بی اے کرنے میرے ساتھ جا رہے تھے جن میں ایک میرا جگری دوست عاصم بھی میرے ساتھ تھا۔۔

میرے باہر آنے کا مقصد صرف گھر سے دور رہنا تھا اُس ماحول سے دور رہنا جہاں کی در و دیوار مجھے وحشت میں مبتلا کرتے ۔ یہاں آنے سے پہلے میں ایک آخری دھمکی اپنے ڈیڈ کو دینا بھولا نہیں تھا۔۔۔

” میری پیچھے اگر میری بہن کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا تو یاد رکھیے گا صرف جنازے اٹھیں گئے اس گھر سے۔۔ “

” اتنا گرا ہوا سمجھتے ہو کے میں اپنی ہی بیٹی؟؟ “

ڈیڈ کو مجھ سے ایسی بات کی امید نہ تھی انکا چہرہ غم و غصّے کی شدت میں سرخ پڑ گیا لیکن اگلے ہی لمحے میرے جواب نے انہیں خاموش کردیا۔۔۔۔

” مرد کی عزت کا پتا اُسکے گھر کی عورت سے چلتا ہے “ ڈیڈ کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا میں انھیں اس عالیشان محل میں تنہا چھوڑ کر امریکا چلا آیا۔ لوگ اپنے گھروں میں سکون ڈھونڈتے ہیں۔۔ میں پرائے ملک میں سکون کی تلاش میں بھٹکتا رہا۔۔۔۔ یہاں تین سالوں میں میں نے صرف تنہائی، اذیت، ڈگری اور لاتعداد دوست پائے۔۔ دوست بھی ایسے جو دل کے حال کھول کر بیٹھ جائیں۔۔۔

میں اُس دن خوش تھا سب نے ملکر میرا برتھ ڈے سیلیبریٹ کیا یہ سرپرائز عاصم کی طرف سے تھا میں بات بات پر ہنس رہا تھا صبح سے ہی موم،ڈیڈ،مہوش اور فرنڈز کی کال وصول کر کے برتھڈے وشیز لے رہا تھا۔۔

میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا حرام سے لطف اندوز ہو رہا تھا ساتھ ہی ایک مسّلم دوست بیٹھا تھا اُسکی نظریں کافی دیر سے مجھ پر ٹکیں تھیں اس نے جھک کر میرے کان میں نہایت دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔

” تمہاری مسکراہٹ کھوکلی ہے “

میری مسکراہٹ کچھ اور گھیری ہوگئی۔۔۔

” میرا وجود بھی کھوکلا ہے “ میں نے ایک اور سپ لیا اور جینی جو کے کب سے مجھے بلا رہی تھی اسکا ہاتھ پکڑ کے ڈانس فلور کی طرف چلا گیا۔۔۔

” اللہ‎ تمہیں سکون دے۔۔ “ اسکی آواز نے میرا دور تک پیچھا کیا۔۔۔

ڈگری مجھے ایم بی اے کے دو سال مکمل ہوتے ہی مل گئی لیکن میں یہاں سے گیا نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا تھا اُس گند میں جاؤں نجانے میں یہاں اور کتنا بھٹکتا کے دادو کی کال نے میرے دل کو ایک عجیب سی امید دلائی۔۔۔

” دادو میں نہیں آسکتا میرا ائیر بیک ہوگیا اب مزید دو سال اور لگیں گئے۔۔ “ میں نے بس جان چھڑانے کے لیے ائیر بیک بولا تھا لیکن مجھے کیا پتا تھا یہ لفظ مجھ پر ہی بھاری پڑ جائے گا۔۔۔

” ہیں یہ موا ائیر بیک کون ہے جس کی وجہ سے تو آنہیں سکتا؟؟ “ دادو بھی کہاں پیچھا چھوڑنے والیں تھیں۔۔

” میرا سسر ہے دادو۔۔ “ میں چڑ گیا انکے سوال پر لیکن مجھے کیا معلوم تھا میں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے ۔۔۔

” تو نے وہاں شادی کر لی نہ؟؟ کون ہے وہ چڑیل؟؟؟ میں ٹانگیں توڑ دوں جو میرے بچے پر حکم چلا رہی ہے؟؟ “ دادو تو آگ بگولا ہوگئیں آخر موم کی صورت میں ایک فرمانبردار بہو جو انہیں ملی ہے تو دوسری کہاں ہضم ہوتی؟؟؟؟

” دادو کوئی نہیں ہے میں مذاق کر رہا تھا اگلے سال پکا آؤنگا اب میں رکھتا ہوں۔۔بائے “ میں بس جان چھڑانا چاہتا تھا

” روک اگلے سال نہیں کل تک آ میں نے میلاد بھی رکھوایا ہے پھر میں گاؤں چلی جائونگی “

نجانے کیوں دادو کی بات سن کر میرا مردہ دل جی اٹھا پچھلی دفع بھی میلاد میں وہ آئی تھی اور اب کی بار بھی؟؟ ہاں وہ آئے گی۔۔ حالانکہ وہ لڑکی مجھے یاد بھی نہیں بس دن میں کبھی اسکا عکس میری آنکھوں کے سامنے لہرا جاتا۔۔

لیکن پھر بھی اسکے ذکر پر ایک عجیب سے کیفیت ہوتی جسے سمجھنے سے میں خود قاصر ہوں اور نجانے کیوں یہ یقین ہیں مجھے اُس پر کے وہ آئے گی۔۔۔۔

میں یہاں آیا سکون کی تلاش میں تھا لیکن لگتا ہے پل پل بےچینی حد سے زیادہ بڑھ رہی ہے اب میں تنگ آچکا تھا ایک سال یہاں رہ کر خود کو اذیت ہی دی ہے اور کیا کیا ہے؟؟

پھر وہ حجاب؟؟ ایک دفع وہاں جانے میں کیا ہے؟؟ دل چاہا تو واپس لوٹ آونگا؟؟؟ مجھے لگ رہا تھا میں روبوٹ بن چکا ہوں دل و دماغ الگ حکم چلا رہے تھے میں نہیں جانتا کیسے بس میں نے کل کی سیٹ کنفرم کروائی اسکے بعد کہی بار میرے دماغ نے اُکسایا نہ جا وہاں کچھ نہیں ہے لیکن دل نفی کرتا رہا وہیں تو سب کچھ ہے دل و دماغ کی کیفیت میں اُلجھتا میں پاکستان کی سر زمین پر آن پہنچا۔۔۔

مجھے پہنچتے پہنچتے کافی دیر ہو چکی تھی میلاد ختم ہو چکا تھا مجھے لگا وہ جا چکی ہے پہلی بار ہوا تھا میں نے کسی چیز کی چاہ کی تھی اور وہ میرے ہاتھوں سے نکل گئی ” چاہ؟؟ “ میں خود اپنی سوچ پر حیران تھا میں بےدلی سے دادو کے روم کی طرف بڑھا لیکن دروازہ کھولتے ہی جہاں میرے منہ سے ” دادو ڈارلنگ “ نکلا وہیں حجاب تاثیر کا ہاتھ میری آواز سن کر لرز اٹھا میں اُسے دیکھ کر ابھی ٹھیک سے حیران بھی نہ ہوا تھا کے اُس نے جلدی سے نقاب لگا لیا۔۔

میں بھی خود کو سنبھالتا دادو کے پاس آیا مہوش اور جویریہ کی موجودگی لمحے میں میرے دماغ نے محسوس کی لیکن دادو کے پاس جاتے یہ کوشش پوری کی کے میرا بازو اُس سے مس ہو سکے لیکن مجھے کیا پتا تھا میری یہ چھوٹی سے حرکتیں میرے لئے ہی آزمائش بن جائیں گی وہ جلد ہی روم سے نکل گئی دادو کی ناراضگی کا علم ہونے کے باوجود میری نظروں نے دور تک اسکا تعاقب کیا دادو تو یہیں تھیں مان جائیں گی لیکن وہ پھر دیکھے نہ دیکھے؟؟؟

میرے آنے کی خوشی میں دادو، میں اور مہوش پوری رات باتیں کرتے رہے اور اسی وجہ سے مہوش اگلے دن یونیورسٹی نہیں جا سکی۔۔۔ موم ڈیڈ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے میں ان سے بغیر ملے روم میں چلا گیا صبح کے پانچ بجے تھے اور یہ میاں بیوی اب آرھے تھے غصّے میں مٹھیاں بھینچے میں باتھ لیکر سو گیا۔۔۔

اگلے دن مہک صبح صبح گھر آٹپکی ناشتہ کرتے وقت اسے گھر میں آتا دیکھ میرا موڈ سخت اوف ہوچکا تھا میں جان گیا تھا یہ ڈیڈ کا ہی کام ہوگا وہ زبردستی ناشتہ کے بعد مجھے اپنے ساتھ لے گئی مجھے خود سے چپکنے والی لڑکیوں سے کوفت ہوتی ہے یہی وجہ ہے میں مہک کو خود سے دور رکھتا ہوں لیکن اُسے خود مردوں کی باہوں میں جھولنے کی عادت ہے اور مجھے ایسی لڑکیوں سے نفرت ہے۔۔۔۔

مہک، ابریش ارسلنا سب میرے یونی فیلوز سے واقف تھے اُس دن مہک نے جلد بازی میں دانش سے شرط لگائی بعد میں مجھے ایک دوست سے پتا لگا دانش نے مہک کو پروپوز کیا تھا اور مہک کو یہ بات غصّہ دلا گئی کے ایک مڈل کلاس لڑکے نے اِس سے شادی کے خواب دیکھے بھی کیسے؟؟؟ مجھے افسوس نہیں تھا کے میں جیت گیا میری خیال سے دانش مہک کو ڈیزرو نہیں کرتا وہ اس سے بہتر لڑکی ڈیزرو کرتا ہے مہک اُس کے لائق نہیں تھی وہ کسی کے جذبات کی قدر نہیں کرتی۔۔ لیکن اُس دن دانش کی باتیں مجھے دل پر لگیں تھیں آخر کھیل ہار کر کون خوش ہو سکتا ہے؟؟؟ اُس نے کہا تھا زندگی کے کھیل عجیب ہیں کبھی بھی پاسا پلٹ سکتا اور واقعی قسمت نے ایک کھیل کھیلا تھا جس میں میں بُری طرح ہار گیا۔۔۔۔

مہک کی عادت تھی چپکنے کی میں اُس سے جتنی دور جانے کی کوشش کرتا وہ اتنا ہی میرے قریب آتی یہی وجہ تھی میں نے اسے ڈانٹ دیا لیکن پھر اسکے کہنے پر میں اُس دن اُسے ڈیفنس سینٹرل لائبریری لے آیا جہاں میری ملاقات حجاب تاثیر سے ہوئی میں نے سنا تھا عورت اپنی طرف اٹھنے والی ہر نگاہ پہچان لیتی ہے اور اسکا چہرہ دیکھ مجھے یقین ہو چلا تھا وہ میری ان نظروں کا مفہوم جان چکی ہے میں بس اسے تنگ کر رہا تھا۔۔۔۔

” اتنا سنمبھالتی ہو خود کو پھر بھی گر گئیں کیا فائدہ ایسی حفاظت کا جب مقابل کی نظریں زیر کرنے کا فن جانتی ہوں “

وہ میرے جملے سے اس قدر خوفزدہ ہوگئی کے اپنی جگہ سے ہل تک نہ پائی نہ میری موجودگی اُسے ہوش میں لا سکی نہ میرا لمس لیکن اپنی دوست کی آواز سنتے ہی وہ تیزی سے باہر نکل گئی ناچاہتے ہوے میں بھی اسکے پیچھے گیا مہک وہیں ابھی تک بک ڈھونڈ رہی تھی اس بےوقوف لڑکی کے ساتھ کون سر کھپاتا جو خود کو میری نظروں میں برتر دیکھانے کے لئے سوفٹویر ایجینیرنگ میں ہوکر بُکس الیکٹریکل ایجینیرنگ کے پورشن میں ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔

” جویریہ تم نے دیکھا وہ۔۔ وہ گھٹیا شخص وہ گندا ناپاک انسان اس نے مجھے چھوا۔۔۔!!!! اسنے مجھے بھی ناپاک کردیا۔۔۔ اسکی۔۔ اسکی ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی “

حجاب کے الفاظ نے جہاں میرے اندر کے حیوان کو جگایا وہیں اسکی حرکت نے مجھے زندگی بھر کا اعتبار دے دیا وہ بار بار اپنا ہاتھ بُری طرح رگڑ رہی تھی جیسے کسی ناپاک شے کو ہاتھ لگا لیا ہو میری حیرت کی انتہا نہیں تھی اس قدر پاگل لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی لیکن اُس وقت مجھے اُسکی حرکت سے زیادہ اُسکے لفظوں نے جنجھوڑ ڈالا میں ناپاک؟؟ مجھے اپنے وجود سے گن آنے لگی آنکھیں بند کیں تو موم کی وہ ہنسی آنکھوں کے سامنے لہرائی ٹھاہ کی آواز سے وہ دروازہ بند ہوا جس کے بعد میری آنکھیں ہمیشہ کے لئے کُھل گئیں لیکن آج تک وہ ابراز مجھے نہیں ملا جو ” اہم “ تھا ” خاص “ تھا۔ میں نے بےاختیار اپنا ہاتھ ناک کے قریب کیا میں اس بدبو کو محسوس کرنا چاہتا تھا جس نے حجاب تاثر کو رلایا لیکن میرے ہاتھوں میں وہ بدبو نہیں تھی یا تھی لیکن میں محسوس نہ کرسکا کیوں کے میں ہوں تو ناپاک اور وہ پاک؟؟

بار بار اسکے لفظ میرے ذہن میں گونج رہے تھے وہ تو چلی گئی لیکن پیچھے اپنا عکس میرے ذہن میں چھوڑ گئی جس کا اثر یہ ہوا سارا غصہ میں نے مہک پر نکالا۔۔۔ جواب میں مہک نے بھی مجھے سنایا پر اِسکے لفظوں نے بھی مجھے اس قدر نہیں جھنجوڑا جتنا حجاب تاثیر کے لفظوں نے جھنجوڑا میں مہک کو چھوڑ کر گھر پہنچا۔۔۔

گھر میں موم اور دادو میرے لئے لڑکیاں ڈھونڈنے کی تیاری میں تھیں میں انہیں کیسے بتاتا مجھے عورت کا وجود تک اپنے پاس برداشت نہیں میں انکے قریب جانے کی کوشش بھی کروں تو دل روتا ہے چیخ کر کہتا ہے آخر ہو نہ حیات عالَم کی اولاد بھلا اس سے منفرد کیسے ہو سکتے ہو؟؟؟ پہلی بار جب کسی عورت کے قریب جانا چاہا تب حجاب تاثیر روکاوٹ بن گئی اُسکے بعد سے نجانے کیوں میں اُنکے پاس جا نہیں پتا مہک اور ابریش بہت بار میرے قریب آئیں لیکن اِنکو قریب آتا دیکھ دل چیخ پڑتا ہے موم کی وہ ہنسی آنکھوں کی سامنے لہراتی ہے۔۔ اور تب مجھے ہر عورت سے نفرت ہوجاتی۔۔۔ جو خود سے میرے قریب آتی۔۔۔۔ لیکن حجاب تاثر وہ پہلی لڑکی تھی جس نے میرے وجود کی نفی کر کے ضد دلائی اور اسی ضد کا نتیجہ تھا میں نے شادی کے لئے ہاں کردی۔۔۔۔۔

موم کی مداخلت مجھے غصّہ دلا گئی انھیں اپنی جیسی لڑکی چاہیے تھی ایک شوپیس جو اس محل کو اور شاندار بنائے لعنت ہو ایسے مرد پر جو بیوی کی نمائش کراتا پھرتا ہے میرا دل چاہا تھا اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال دوں لیکن مہوش اور دادی کی وجہ سے خود پر قابو پا لیا۔۔ میرا کام بس میری ایک دھمکی سے بن چکا تھا پھر بحث کیوں کرتا؟؟؟ اب بس انتظار تھا حجاب تاثیر کے جواب کا۔۔۔۔۔

میرے دل میں خیال آیا تھا شاید حجاب نے جان بوجھ کر مجھے متاثر کرنے کے لئے یہ حرکت کی لیکن یہ بھی سچ تھا اُسے نہیں پتا تھا میں نے اُسکا عمل (ہاتھ دھونا )دیکھا تھا اُسکے الفاظ سنے تھے میری موجودگی کا اُسے علم تک نہ تھا

آج تک زندگی میں خود کو پیش کرنے والی لڑکیوں سے پالا پڑا تھا کبھی کبھی لگتا حجاب بھی ان میں سے ہے جو مجھے اپنی ان حرکتوں سے متاثر کرتی ہے لیکن نہیں دل یہ بات مانتا ہی نہیں۔۔۔۔۔

مجھے لگا تھا مجھ جیسے امیر بندے کو حجاب تاثیر تو کیا کوئی محلوں کی شہزادی تک رد نہیں کر سکتی، انکار نہیں کر سکتی لیکن انکار ہوا تھا، عزت افزائی تک کی تھی میری دادو کی میری بہن کی، وہ پورا دن میں سلگتا رہا ایک آگ سی جل رہی تھی میرے اندر اور اُس دن بھی کلب جاکر میں نے شراب کا سہارا لیا لیکن اُس دن وہ شراب بھی مجھے دغا دے گئی اور پھر سیم کے الفاظ۔۔۔۔ میں لاکھ اپنے ڈیڈ سے نفرت کرتا اُنکے سامنے انھیں بُرا بھلا کہتا لیکن کسی اور کے منہ سے اپنے ڈیڈ کے لئے لفظ تک برداشت نہیں کرتا، اُس نے غلط وقت پر غلط بات کی جسکی سزا اُسے میرا غصّہ دلا گیا میں وہاں سے چلا آیا مجھے سیم کی فکر نہیں تھی میں جانتا ہوں ویٹر انکل کو کال کر کے بتا دیگا کیوں کے سیم بھی اُسی دوزخ سے تعلق رکھتا ہے جہاں میں پیدا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

رات بھر میرا وجود کسی انگارے کی مانند جلستا رہا پوری رات میں ڈرنک کرتا رہا جسکی وجہ سے صبح دیر سے آنکھ کھلی۔۔ نیند سے بیدار ہونے کی وجہ بھی فون کال تھی سر ریاض نے مجھے یونیورسٹی بلایا تھا میرے ساتھ میرے کچھ یونی فیلوز کو بھی انہوں نے بلایا تھا آج وہ کنیڈا جا رہے تھے ہمیشہ کے لئے یہی وجہ تھی آخری بار وہ ہم سب سے ملنا چاہتے تھے میں بےدلی سے تیار ہوکر نیچے چلا آیا۔ ابھی کار میں بیٹھا ہی تھا کے مہوش کی کال آگئی۔۔۔

” رازی مجھے یونی سے پک کرلو ڈرائیور گھر پر نہیں دادو کو انکی کسی دوست کے یہاں چھوڑنے گیا ہے اور میرا کوئی لیکچر بھی نہیں میں بہت بور ہو رہی ہوں “

” اوکے “ مجھے یقین تھا مہوش حجاب سے الگ ہو چکی ہے وہ میرے معاملے میں بہت پوزیسو ہے۔۔ ایک بار پھر میری سوچوں کا مرکز وہ بنی دانت بھنچتے میں ڈرائیونگ کرتا رہا لگ رہا تھا ابھی غصّے کی شدت سے میرا دماغ پھٹنے لگے گا۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کیوں اُسے اتنا سوچتا ہوں تنگ کرتا ہوں؟؟؟ اُسے سوچتے میں بھی اُس جگہ چلا آیا جہاں اُسکا چلتا پھرتا وجود تھا۔۔۔کار سے نکل کر مہوش کی تلاش میں کفٹیریا کی جانب چلا آیا لیکن وہاں حجاب تاثیر کو ہنستا مسکراتا سموسہ کھاتا دیکھ میرا خون گرم ہوگیا۔ لمحوں میں اُسکے سر پر جا پہنچا اور اپنے لفظوں سے اُسے اس کی اوقات یاد دلا دی میں اُسے مسکراتا دیکھ اس قدر پاگل ہوچکا تھا کے لفظوں کے تیر کب اُسکے باپ کا رخ کر گئے مجھے اندازا نہیں ہوا۔۔۔

لیکن اُسکے بعد حجاب تاثیر کے لفظوں نے میرا وجود مٹا دیا میں جو ” خاص “ تھا اُسکی نظر میں گندگی کا ایک ڈھیر تھا، اُسکی ریجیکشن نے مجھے اتنی تکلیف نہیں دی کیوں کے مجھے تکلیف دادی کی انسلٹ سے ہوئی تھی ریجیکشن تو حجاب تاثیر کے لفظوں نے مجھے آج بتائی۔۔ مجھے میری اوقات یاد دلائی کے اُسکی انگلی برابر بھی نہیں ہوں وہ پاک ہے میں ناپاک وہ فرشتہ ہے تو میں شیطان۔۔

وہ مجھے اِس قدر گرا چکی تھی کے مجھ میں نظریں اٹھانے تک کی ہمت نہیں تھی وہاں سب لوگوں کی نظریں مجھ پر تھیں اور میں شرمندگی کے باعث سر نہ اٹھا سکا شرمندگی مجھے اپنی لفظوں پر نہیں بلکے اُسکے لفظوں سے ہو رہی تھی کیوں کے وہ سچ تھا کڑوا سچ لیکن اِس سچ میں حجاب تاثیر کا غرور بھی جھلک رہا تھا اور اسی غرور نے مجھے مجبور کیا شیطان بننے پر میں دوغلا، منافق، گنہگار بقول اُسکے پھر دوبارہ گناہ کرنے میں شرم کیسی؟؟؟ میری نظریں جیت کی خوشی میں اٹھیں اور اگلے ہی لمحے میں نے اُسے بےنقاب کردیا وہ کیفیٹیریا میں فرنٹ چیر پر بیٹھی تھی اِسکا چہرہ میری طرف تھا سب نے اُسے بےنقاب ہوتے دیکھا لیکن کسی نے اُسے بےنقاب نہیں دیکھا میں ابھی اسکا چہرہ حفظ بھی نہ کر پایا تھا کے اُسکے پڑنے والے تھپڑ نے مجھے وحشی درندہ بنا دیا اور میں عزت کا دعویدار لوٹیرا بن بیٹھا اس تھپڑ نے میرے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا میں پاگل ہوگیا تھا

وہاں سے نکلتے ہی ڈیڈ کے مینیجر کو کال کر کے اُسے اغواہ کرنے کا کہا کیوں کے میں اُس کا غرور مٹی میں ملانا چاہتا تھا عزت کا غرور، نیکی کا غرور، اُس عزت دار خاندان کو بےعزت کرنا چاہتا تھا اُسکے لفظوں نے مجھے گھائل کیا اُسکی زبان نے مجھے کافر کہا میں اُسے اُسی کی زبان کے دیے زخم لوٹا رہا تھا اُسی کے لفظوں سے اُسے مات دے رہا تھا۔۔ اُسکا استعمال کر کے اُسے رسوا کرنا چاہتا تھا لیکن کہتے ہیں نا دعا۔۔۔۔ بس دعا کیا کر جائے پتا نہیں چلتا انسان بس اسکی قدرت کے کرشمے دیکھتا رہ جاتا ہے اور دعا سے ہوا وہ معجزہ انسان کو موت کے منہ سے زندہ لے آتا ہے۔۔۔


” نہ جانے کون

میرے حق میں دعائیں کرتا ہے

میں ڈوبتا بھی ہوں تو

سمندر اچھال دیتا ہے “


ماں باپ کی دعائیں تھیں کے عزیزوں کی میں نہیں جانتا لیکن جب بےنقاب کرنا چاہا نہیں ہوئی بےعزت کرنا چاہا نہیں ہوئی۔۔۔ کیا اُسکا نقاب کرنا خدا کو پسند تھا؟؟؟ کیا وہ بہت نیک تھی؟؟ یا اسکا جسم ڈھانپنا اُسے ہر کسی سے محفوظ رکھتا ہے؟؟؟ میں ہر بار اُس سے ہارا تھا اور اُس دن بھی میری گھٹیا سوچ نے مجھے برباد کر دیا اور اُس ایکسیڈنٹ نے مجھے گناہ سے بچا لیا کیوں کے وہ میری محرم بنے والی تھی

میری دھمکی نے ڈیڈ کو نڈھال کردیا وہ تاثیر انکل کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے لیکن میری ضد نے انھیں اِس معاملے سے دور کردیا۔۔۔۔۔

تاثیر انکل کو دھمکی دیکر مجھے یقین تھا کام بنے گا میری ضد تھی اُسے پانا میں حاصل کرنا چاہتا تھا اُسے اور اِس ضد، انتقام نے مجھے اِس قدر اندھا کردیا کے مجھے اُس نیک انسان کا وہ آنسوں سے بھرا چہرہ نہ دکھا میں ہنسا تھا ایک باپ کے سامنے اُسکی بیٹی کو رسوا کرنے کی دھمکی دی تھی میرا دل ایک پل کو نہیں کانپا خوفِ خدا میرے دل سے نکل چکا تھا۔ میں وہاں ُاُنکی حالت دیکھ کر قہقہ لگا رہا تھا بغیر یہ جانے کے اُنکی سسکیاں خدا تک پہنچ رہیں تھیں۔۔۔۔۔

اس نیک شخص کو روتا چھوڑ میں ڈیڈ کے ساتھ گھر آگیا میری پوری کوشش تھی کسی کو ایکسیڈنٹ کا پتا نہ لگے میں کسی سے بھی جھوٹ بول سکتا ہوں اپنا غم چھپا سکتا ہوں لیکن وہ ہستی مہوش نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔

میں اپنے روم میں آکر لیٹا ہی تھا کے مہوش آگئی میرے سر پر پٹی دیکھ وہ رونے لگی میں سر تھام کر رہ گیا ان لڑکیوں کو بس موقع چاہیے۔۔۔۔

” مہوش یار کچھ نہیں ہوا۔۔۔ جتنا تم رو رہی ہو اُتنا میرا سر درد مزید بڑھ رہا ہے۔۔۔ “ مہوش کا رونا میری برداشت سے باہر تھا میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے اُسے ہر تکلیف سے دور رکھوں اور وہ خود رو کر مجھے مزید تکلیف دے رہی تھی۔۔۔

” یہ حجاب کی وجہ سے ہوا ہے نہ؟؟ آئ ویل کل ہر “ وہ کسی بھوکی شیرنی کی طرح چیخی اسکی سرخ روئی روئی آنکھیں دیکھ میرا دل کٹ رہا تھا۔۔۔

” اسٹاپ کرائینگ! !!! میں بلکل ٹھیک ہوں دیکھو ورنہ ایک دن میں ڈسچارج ہوکر یہاں نہ بیٹھا ہوا ہوتا بس ہاتھ میں لگی ہے اور یہ ہلکی سے سر پر۔۔ “

” یہ میرے سوال کا جواب نہیں “ مہوش کی سرخ آنکھیں حجاب کے خون کی پیاسی لگ رہیں تھیں ” اللہ‎ ان عورتوں کی دشمنی سے ہم مردوں کو بچاۓ “ بے ساختہ مہوش کی حالت دیکھ میرے دل سے دعا نکلی۔۔ ہم دونوں کی جان تھی ایک دوسرے میں لیکن اس وقت لگ رہا تھا کوئی تیسری ہمارے بیچ آگئی کیوں کے حجاب کے خلاف میں مہوش سے کچھ غلط نہیں سننا چاہتا نہ بتانا چاہتا ہوں اور ایسا کیوں تھا میں خود انجان تھا۔۔۔۔

اُسکی وجہ سے نہیں ہوا “

” پھر؟؟ “ اب بھی مہوش کا لہجہ سخت تھا نجانے کیوں میں اُس سے نظریں چرا گیا۔۔ اُس وقت مجھے لگا مہوش مجھے مجھ سے زیادہ جانتی ہے۔۔۔

” میری لاپروائی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ کوفی ملےگی سر میں شدید درد ہو رہا ہے “ نجانے کیوں میں بھاگ رہا تھا میں نہیں چاہتا تھا مہوش اُس سے مزید نفرت کرے۔۔۔۔

مہوش مجھے کھا جانے والی نظر سے نوازتی جانی لگی کے میں نے ایک سوچ کے تحت اُسے پکارا۔۔۔۔

” مہوش اپنا فون دینا ایک ارجنٹ کال کرنی ہے میرا فون اُس حادثے میں شہید ہوگیا۔۔ “ مہوش نے کاٹ دار نظر سے مجھے نوازتے اپنا فون احسان جتانے والے انداز میں میری گود میں پھینکا۔۔۔۔ میں نے جلدی سے اسکے فون سے حجاب کا نمبر نکالا

مجھے یقین تھا اگر تاثیر انکل مان بھی گئے تو حجاب بیبی نے کانٹا ضرور بُننا ہے یا زبان سے شہد اگل کر باپ کو بلیک میل کرنا ہے اس لیے میں نے اس محترمہ کا ایک دفع دماغ ٹھیک کرنے کا سوچا تاکے وہ اپنی زبان کچھ دنوں تک بند رکھے میرے نمبر سیو کرنے کے کچھ دیر بعد مہوش آگئی کوفی بیڈ کارنر پر رکھ کے موبائل لیکر چلی گئی۔۔۔

میں ابھی سکون سے لیٹا بھی نہ تھا کے فون رنگ ہوا میں نے بےدلی سے نمبر دیکھا تو حجاب نام دیکھ کر میری آنکھوں کو یقین نہ آیا فون الٹ پلٹ کر دیکھا کہیں مہوش کا فون تو نہیں پھر جلدی سے اپنی بےعقلی پر ماتم کر کے جھٹ سے فون اٹھایا کہیں وہ مغرور حسینہ کاٹ ہی نہ دے۔

وہ مجھ سے ڈیل کر رہی تھی اِسے اس طرح بےبس دیکھ کر میری رگ رگ میں سکون کی لہریں دوڑ اٹھیں لیکن اسکی شرط فہیم احمد کے متعلق سن کر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔۔ وہ ریپسٹ تھا؟؟؟ اور حجاب کو انصاف چاہیے تھا؟؟؟ یہ سن کر میں خدا کے انصاف پر ہنسا تھا ایک انسان اُسے برباد کرنا چاہتا ہے بغیر یہ جانے کے خدا تو پہلے ہی اُس شخص کو اسکے انجام تک پہنچا چکا ہے ۔۔ میرا دل اس پل واقعی چاہا سجدے میں گر جاؤں اپنی یہ خوائش حجاب کو بھی بتائی لیکن یاد آیا میں قابل نہیں کے اُسکے سامنے سر بھی اٹھا سکوں مجھ جیسا شرابی شاید اُسکے پاک گھر (مسجد) میں قدم رکھنے کے بھی لائق نہیں۔۔ کبھی کبھی بہت ڈرتا ہوں اگر موت آجاے تو؟؟ میرا کوئی عمل کوئی نیکی ایسی نہیں جو مجھے جہنم کی آگ سے بچا سکے لیکن یہ بھی سچ ہے خود کو گناہ کی اُس ندی میں سر تک ڈھوبا ہوا پایا ہے کے اب رہ رہ کے میری سانس اٹکنے لگتی ہے لیکن ہمت نہیں کے اسکی بارگاہ میں حاضری لگاؤں ڈر لگتا ہے اُس سے، اپنے اعمال سے، گناہ میں ڈوبے اپنے وجود سے۔۔۔۔

” ایک گھنٹے کے اندر اُسکی پیدائش سے لیکر اب تک کی ساری انفارمیشن کی خبر دو مجھے اور یہ بیویوں کی طرح ہر بات میرے ڈیڈ کو بتانے کی ضرورت نہیں آئی سمجھ؟؟ کام پر

لگو “ ڈیڈ کے مینیجر کو فہیم احمد کی انفارمیشن کلیکٹ کرنے کا کہا جو دو گھنٹے بعد اُس نے مجھے دی۔۔۔

رانیہ کا رپپ فہیم احمد نے کیا تھا اُسکی فیملی انصاف کے لئے آخری وقت تک لڑتی رہی لیکن کسی گوا اور ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے کیس بند کر دیا گیا۔۔

فہیم احمد کی کمزوری عورت ہے ہر بار جاب سے اسے اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے نکالا جاتا عورت ہو یا بچی اُس نے کسی پر رحم نہیں کیا لیکن مجھے حیرانگی اُسکی ہسٹری جان کر نہیں ان بےحس لوگوں پر ہوئی جو اِس شیطان کی رگ رگ سے واقف ہوکر بھی گواہی دینے نہیں آئے اور ان سب میں وہ ہستی بھی شامل تھی جسکی میں نے سب سے زیادہ عزت کی ہے۔۔۔

” کیا زندگی ہے آپ کی پھوپھا جی؟؟ سیم کتوں والی۔۔۔۔ منسٹر کا پالتو کتا بھی آپ جیسی زندگی گزارتا ہے بس بھونکنے پہ دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے “ میں اسی رات گاؤں چلا آیا اس شیطان کو دیکھ کر میرا خون کھول اٹھا کتے سے بدتر موت کا حق دار ہے یہ۔۔۔۔۔میں اسکے سامنے ہی ٹیبل پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا اور وہ سرونٹ کورٹر میں چُھپ کر شراب پی رہا تھا۔۔ بار بار اسکی نظریں دروازے کی طرف اٹھتیں کے کوئی آ ناجائے۔۔۔

” کی۔۔۔۔کیا۔۔۔بک۔۔۔بکواس ہے “ وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے مجھے دیکھتا تیز لہجے میں بولا۔۔

” تمیز سے بات کر حرامی کتے تو جو یہاں بیٹھ کر یہ شراب پی رہا ہے نہ یہ میرے دادا کے پیسوں کی ہے وارث ہوں میں اس خاندان کا میرے سامنے زبان چلائی نہ تو تجھے اُٹھانے والے تیری ہڈیاں ڈھونڈتے رہیں گا “ میری دھاڑ کورٹر کے باہر تک جا رہی تھی کیوں کے چوکیدار اندر آکر مجھے دیکھ کر واپس چلا گیا۔۔

” سن۔۔۔ سنا۔۔۔ہے۔۔ شریف خاندان کے اکلوتے بیٹے ہو “ میری رگوں میں دوڑتا خون کسی لاوا کی طرح اُبلنے لگا اُس شیطان کو ہنستے دیکھ میں آپے سے باہر ہوگیا وہ میرے ماں باپ کا حوالہ دے رہا تھا میرا سر پھٹنے لگا لگ رہا تھا سر پر بندھی پٹی سے خون نکلنے لگے گا۔۔۔ اس پر جھپٹ کر میں اسے لاتوں سے پیٹنے لگا تبھی کسی نے میرے بازو کو تھام کر مجھے روکا۔۔۔

” دور ہٹ وحشی کیا بھیگاڑا ہے انہوں نے جو تم سب پیچھے پر گئے ہو انکے شرم نہیں آتی تجھے؟؟ تو دیکھ صبح ہونے دے ابا جی سے کہکر تیرا یہاں آنا بند کرا دوں گی “ پھوپھو روتے ہوئے مجھے کوس رہیں تھیں ساتھ زمین پر نڈھال شوہر کو اٹھا رہیں تھیں میں اس شیطان پر سو لعنت بھیج کر اپنے کمرے میں آگیا جو دادو نے صرف میرے لئے بنوایا تھا یہاں کسی گھر کے افراد کو سونے کی اجازت نہیں میرے جاتے ہی یہ کمرہ بھی دادو لاک کروا دیتیں۔۔۔۔

صبح سب سے پہلے اٹھ کر میں نے رات کا انتظام کیا پھوپھو کا موڈ اوف تھا لیکن انہوں نے دادا سے کچھ نہ کہا صفدر فہیم احمد کا خاص آدمی تھا جو اسے پل پل کی خبر دیتا اور ہر ہفتے کی رات اسکے لئے خاص احتمام کرواتا اسی موقعے کا فائدہ اٹھا کر میں نے اپنے دوست عباس کو کال کی جس کی ڈیوٹی آج کل اسی گاؤں میں لگی تھی پورا دن بس میں نے رات کی تاریکی کے انتظار میں گزارا اور فہیم احمد کے گھر سے نکلتے ہی عباس کو کال کی۔۔۔۔

کچھ ہی گھنٹوں بعد دادا تایا چچا پپھو سب ہال میں جمع تھے صفدر نے آکر انہیں اطلا دی کے فہیم احمد جیل میں ہے۔۔ دادا کا جلال کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا جب انھیں پتا چلا ایک ہوٹل میں پولیس نے ریڈ ڈالی ہے جہاں سے فہیم احمد ایک لڑکی سمیت برآمد ھوا ہے۔۔۔ تفتیش کہ بعد پتہ چلا کہ اس نے کسیر مقدار میں ڈرگز لی ہیں۔۔۔ اسکے بعد دادا نے اپنی آدمیوں سے اُسکی ایک ایک خبر نکلوائی لیکن زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑی دادا کو میں نے ڈائریکٹ صفدر سے پوچھنے کا کہا اور اس نے بھی جان لیا اب غلام کس کا رہنا ہے؟؟ اور ڈرگز کے دھندھے سے لیکر عیاشی کا ایک ایک کچا چٹھا سب کے سامنے کھول دیا میری نظروں کا مرکز پھپھو تھیں آج شاید انھیں اپنی زندگی کے گزرے ما وسالوں کا افسوس ہو رہا ہوگا جو ایک ایسی انسان کے لئے وقف کر دیے جس نے انکی دی قربانیوں کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔۔۔

دادا نے وہیں اس سالوں کے رشتے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ فہیم احمد کی طرف سے ملا معافی نامہ بغیر پڑھے پھینک دیا۔۔۔ پھپھو کو ابھی مزید شرمندہ ہونا تھا پولیس گھر تک چلی آئی دادا نے انھیں دیکھتے ہی صاف کہا فہیم احمد سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں رات کی اس تاریکی میں دادا کی کوئی سورس بھی کام نہ آسکی اور گھر پر پولیس نے تلاشی شروع کردی وہ سرچ وارنٹ لیکر آئے تھے دادا یقیناً اسی سوچ میں ہونگے کے آخر وہ اتنے بےخبر کیوں رہے؟؟ دادا کو ایک بات معلوم نہیں تھی کہتے ہیں انسان پریشانی میں دماغ سے کام لے تو ہر مشکل آسان لگتی ہے دادا ہو یا میرے چچا کسی نے بھی سرچ وارنٹ پڑھا تک نہیں ورنہ میرا ایئر پولیوشن پر آسانمنٹ دیکھ کر مجھے (اکلوتے وارث ) کو جائیداد سے بےدخل کر دیتے۔۔۔۔ یہ اچانک ہی مجھے اپنے ڈرور سے ملا جو پانچ سال پہلے بنا کر یہیں بھول گیا تھا اور اسی سے مجھے بلیک منی نکلوانے کا آئیڈیا آیا جو بےشک رسکی تھا خیر گھر کی چھان بین سے تو کچھ ہاتھ نہ آیا لیکن پھپھو کے روم سے نوے لاکھ برآمد ہوے جسے دیکھ کر سب کی سوالیہ نظریں پھپھو پر تھیں جو شاید خود انجان تھیں۔۔۔۔

پولیس کی ریڈ کے بعد سب ہی کمروں میں گُم ہوگے کسی نے پھپھو سے کوئی بات نہیں کی بس دادا نے طلاق کا حکم سنایا جسے پھپھو نے تابعداری سے مانا۔۔۔ شکر ہے دادو شہر میں تھیں ورنہ ضرور دادا کو بولتیں ایک اور موقع دو مجھے یقین تھا انکے آنے سے پہلے دادا پپھو کو طلاق دلوا دیں گے۔۔۔

کچھ دیر بعد میں پھپھو کے پاس چلا آیا جو اپنی وہیل چیر پر بیٹھی بیٹی کو پانی پلا رہیں تھیں وہ ایک اسپیشل بچی تھی جو فہیم احمد اور پھپھو کی آنکھوں کا تارہ ہے۔۔۔۔

” پھوپھو ساری زندگی آپ نے خدا سے اپنے شوہر کی بخشش کے لئے دعا کی کاش اسکی ھدایت کے لئے کرتیں یقین جانے کوئی میرے لئے دل سے کرتا اور عمل کرنے کا کہتا ساری زندگی میں اُسے سر پر بیٹھا کر رکھتا لیکن یہ شخص آپ کے قابل نہیں تھا اور سچ بتاؤں گناہ کو چھپا کر آپ نے بھی گناہ کیا ہے میں سمجھتا تھا آپ شروع سے عبادت گزار ہیں لیکن یہ نہیں جانتا تھا شوہر کے گناہ کے بعد آپ خدا کے قریب ہوگئیں لیکن صرف اپنے غرض کے لئے۔۔۔ خیر آپ ایک گہنگار کو سزا دلوا کر دوسری شادی کر سکتیں تھیں آج آپ بھی ایک اچھی زندگی صحت مند بچوں اور شوہر کے ساتھ گزارتیں اللہ‎ سے شکوہ نہ کرنا یہ تنہائی آپ نے خود اپنے مقدر کا حصہ بنائی ہے اور ایک بات کہوں آئ لو یو آلوٹ لیکن اُس دن آپ سے نفرت ہوگئی جب پتا لگا عدالت میں آپ نے اپنے شوہر کو بچانے کے لئے ایک پاک عورت پر تہمت لگائی تھی رانیہ کی ماں کو بدکردار کہا تھا اور اس معصوم بچی کو بدکردار ماں کی بدکردار بیٹی کہا تھا۔۔۔ “

میرے پیچھے وہ سسک سسک کے رو رہیں تھیں مجھ میں ہمت نہیں تھی میں انھیں حوصلہ دوں رانیہ اور اسکی ماں کا سن کر میرا مضبوط دل تک کمزور پڑ گیا انصاف کے لئے کیا کیا الزامات برداشت نہیں کیے انہوں نے؟؟ اور پھپھو عورت ہوکر عورت کو پامال کیا۔۔ کیا فائدہ ایسی عبادتوں کا جس کے بندے کو تم لوگ خون کے آنسوؤں رلاتے ہو؟؟ آج بھی میرے دل سے اس ماں کے لئے دعا نکلتی ہے جس نے رو رو کر انصاف مانگا ہوگا ۔۔۔ اس پورے واقع سے مجھے ایک بات سمجھ آئی امیر عزتیں بیچ کر بھی اس دنیا میں سینہ تان کہ گھوم رہے ہیں اور غریب اپنی ہی عزت بچانے کہ چکر میں مارے مارے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔

اگلے دن میں خوشی خوشی اسکے گھر پورے باراتی لے گیا لیکن حجاب تاثیر کے جھوٹ نے مجھے ایک بات سمجھا دی کتنی ہی نمازی ہو لکین خود پر بات آئی تو جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کریگی۔۔ لیکن مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی اُسکے ماں باپ نے خود ہی ہمارا نکاح کر دیا جسکے بعد میں سینہ تان کر اسکے کمرے میں حق سے آیا تھا آخر میرا بھی تو کمرہ ہے؟؟؟ میں وہاں اسے تپانے گیا تھا احساس دلانے کے اب وہ اب میری بیوی ہے حق رکھتا ہوں اُس پر لکین اسکے لفظوں نے ایک بار پھر میرے زخموں پر نمک چھڑک دی۔۔۔

اُس سے ملنے کے بعد اپنانے کے بعد اُس دن بہت دنوں بعد میں پُر سکون نیند سویا رات بھر یہ احساس مجھے ایک خوبصورت دنیا میں لے گیا کے وہ صرف میری ہے۔۔ میری اندھیری دنیا میں وہ روشنی بن کر آئی ہے اسکا احساس ہر پل میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا اور اس سے اگلے دن سب کے حیران نظریں مجھ پر تھیں آج سے پہلے سویرے اٹھا ہی کہاں ہوں؟؟ موم ڈیڈ اور مہوش تینوں دبئی جا رہے تھے نو بجے کی انکی فلائٹ تھی مجھے اس طرح بار بار مسکراتا اور صبح سویرے اٹھتا دیکھ دادو نے پریشانی کے عالم میں اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھ کے بخار چیک کیا۔۔۔

” ملیریا تو نہیں ہوگیا “ مہوش نے اپنی رائے دی میں خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا۔۔ ساتھ دادو کی گھورتی آنکھوں کو برداشت۔۔

” ملیریا میں انسان مسکراتا ہے “ دادو نے مجھے غور سے دیکھتے مہوش سے پوچھا۔۔ حد ہے بندہ اب ہنسے بھی نہ؟؟ میں انہیں کیا کہتا خاموش بیٹھا رہا

دونوں آپس میں ایک دوسرے کو رائے دیتی رہیں جبکے میری نظریں ایک پل کو سامنے اٹھیں تو موم مجھے ہی دیکھ رہیں تھیں انکے ہونٹوں پر نرم سے خوبصورت مسکراہٹ تھی مجھے لگ رہا تھا جیسے مجھے دعا دے رہیں ہوں ایسے ہی خوش رہو انہیں دیکھ میرا اچھا خاصا موڈ خراب ہوگیا میں سینڈوچ ادھورا چھوڑ کر گھر سے ہی نکل گیا۔۔۔۔

” نہیں ضرورت مجھے اِنکی دعا کی “

دل کی بےچینی بڑھ گئی وہ میری خوشی میں خوش تھیں لیکن میں انھیں خوش دیکھ کر اپنی خوشی بھول گیا کتنا اچھا ہوتا کے میری وہ ماں ہوتیں جنہیں میں اپنا کل کا کیا کارنامہ بھی سناتا۔ آگر وہ میری وہ ماں ہوتیں تو کیا میں ایسا ہوتا؟؟ میں بےخیالی سے ڈرائیو کرتے نجانے کن راستوں پر نکل پڑا میری سوچیں بس موم کے گرد گھوم رہیں تھیں۔ موم کی وہ ہنسی میرا دل بند کر رہی تھی۔۔ کاش میں ذہن کے اُس حصے سے وہ یاد مٹا سکتا وہ لمحہ ان تقدیر کے پنوں سے پھاڑ کے پھنک سکتا۔۔۔۔ یا کاش وہ سب نہ دیکھتا کاش میں انجان رہتا کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا مجرم اور کوئی نہیں بس میری ماں ہے کاش کاش بس ڈیڈ انوِلو ہوتے میری موم نہ ہوتیں میں بڑا ہوکر انکے لئے دنیا کی ہر دولت کماتا دن رات محنت کرتا دنیا انکے قدموں میں لاکر رکھتا لیکن وہ انتظار تو کرتیں۔،۔۔۔۔۔

میں نے ہونٹ بھینچ لئے انکی سوچیں میری آنکھیں نم کر دیتیں میں نے کار ریورس کی کچھ دیر بعد میں ابریش کے گھر کے باہر تھا۔۔

” واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز “ ابریش مجھے دیکھتے ہی خوشی سے گلے لگی۔۔

” اسٹاپ اٹ نفرت ہے مجھے چپکو لڑکیوں سے۔۔ “ میں لاپروائی سے کہتا اسکے بازوں کو جھٹک کر بیڈ پر بیٹھ گیا گھر کا پچھلا دروازہ ڈائریکٹ ابریش کے روم میں کھولتا میں ہمیشہ وہیں سے اندر آتا۔۔۔ روم کی حالت اور ابریش کا سراپا صاف ظاہر کر رہا تھا وہ میری کال کرنے پر اٹھی ہے بیڈ پر ابھی تک تکیہ چادر اور بلنکٹ بےترتیبی سے پھیلے پڑے تھے۔۔

” اچھا کلب میں تو بڑے مزے سے ڈانس کرتے ہو “ ابریش نے مجھے گھوری سے نوازا۔۔۔

” تم خود کو ڈھانپتی کیوں نہیں اتنے چھوٹے کپڑے کیوں پہنتی ہو؟؟ “ اسکی باتیں غیردماغی سے سنتے میں اسکے کپڑوں کو دیکھتے ہوے بولا جو گھٹنوں سے بمشکل نیچے تک آتے وہ ہمیشہ ایسے لباس پہنتی آج اچانک مجھے ایسے ہی اسکے کپڑوں کا خیال آگیا اسے دیکھ حجاب کا خوبصورت سراپا میری آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔۔۔

ابریش جو بالوں کا جوڑا بنا کر اب واشروم کی طرف جا رہی تھی الٹے قدم پیچھے مُڑ کر میری سامنے آکھڑی ہوئی۔۔۔

” میری باپ نے آج تک مجھے اس بات کا طعنہ نہیں دیا اور تم۔۔ خیر یہ مردوں کی سوچ ہے جو اپنے نفس پر قابو نہیں پا سکتے۔۔۔ “ لہجے میں جھلکتا غصّہ اور طنز صاف میری طرف اشارہ کر رہا تھا۔۔ میری آنکھوں میں دیکھتے وہ مسکرا رہی تھی جیسے چلینج کر رہی ہو۔۔۔۔۔ میں اسے افسوس سے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا نجانے کیسے ایسے ماحول میں آج تک سانس لیتا رہا ہوں؟؟؟؟؟ میری بےسکونی کا حل کسی کے پاس نہیں۔۔۔۔۔

” کہاں جا رہے ہو روکو میں فریش ہوکر آؤں پھر ساتھ ناشتہ کرتے ہیں “ ابریش نے میرا بازو پکڑ لیا۔۔۔

” کر کے آیا ہوں گڈ بائے “ میں نے ایک نظر اسے دیکھا پھر نرمی سے اسکا بازو ہٹا کر اسکے گھر سے نکل آیا میرے پیچھے وہ آوازیں دیتی رہی میں ان سنا کر گیا۔۔۔۔۔

گھنٹوں سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے کے بعد میں نے بلاآخر حجاب کے نمبر پر کال کی فون حجاب کی ماں نے اٹھایا

” السلام عليكم بیٹا کیسے ہو دوبارہ آئے ہی نہیں ہمیں خدمت کا موقع بھی نہیں دیا اب تو داماد ہو ہمارے “

انکا محبت بھرا لہجہ مجھے شرمندہ کر گیا۔۔

” بس آنٹی۔۔ اوپس وعلیکم السلام سوری عادت ہی نہیں سلام کی۔۔ آنٹی آپ کی اجازت ہو تو حجاب کو شوپنگ کرانے لے جاؤں “ یہ سچ تھا آج تک باپ سے بھی اجازت نہیں لی بس حکم سنایا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے فون کے اُس پار موجود ہستی قابلِ احترام ہے جو خود اپنی عزت کرانا جانتی ہو۔۔۔

” ہاں بیٹا ضرور وہ آپ کی ہی امانت ہے ہمارے پاس۔۔ بیٹا بُرا نہ مانو تو ایک درخواست ہے حجاب کے پچھلے رویہ کو بھلا دینا وہ زبان کے معاملے میں بیوقوف ہے نہ جانے کہاں سے زبان چلانا سیکھ گئی لیکن بیٹا وہ دل کی بُری نہیں جو دل میں ہے وہی زبان پر ہے وہ سمجھتی ہے سب کو انکا اصلی چہرہ دیکھا رہی ہے لیکن اُسے معلوم نہیں زبان سے نکلے الفاظ کب اس کے لیے امتحان بن جاتے ہیں۔۔۔ بیٹا تم اُسے جانتے ہو سمجھتے ہو میری گزارش ہے ہوسکے تو اُسے سمجھانا بھلے ڈانٹ کر ہی کم سے کم وہ نقصان سے تو بچے گی اور اُسکی باتیں در گزر کر دینا غصّہ میں اُسے خود نہیں پتا وہ کیا بول جاتی ہے “ انکے لہجے سے جھلکتی پریشانی مجھے صاف محسوس ہوئی۔۔

” آنٹی آپ پریشان نہ ہوں وہ میری زمیداری ہے جیسے آپ کے گھر راج کرتی ہے ویسے ہی میرے دل پر حکمرانی کریگی۔۔ آپ اسے بھیج دیں میں ویٹ کر رہا ہوں “ میں نے کہکر فون رکھ دیا میرے الفاظ مجھے خود اجنبی لگے اس دل و دماغ کی جنگ میں ہمیشہ دل جیتا ہے دماغ نے چال چلنی بھی چاہی تو اس دل نے اُس چال کو ناکام بنا دیا۔۔ اور آج اِس دل نے ہی ایک ماں کو پُر سکون کردیا۔۔۔

میں اُسکے گھر کے باہر کار سے ٹیک لگاے کھڑا تھا تبھی وہ مغرور حسینہ میری طرف آتی دیکھائی دی میرا بگڑا موڈ یکدم ٹھیک ہوگیا لیکن میں اُسکے نقاب میں چھپے چہرے سے بھی اُسکی ناگواریت کا اندازہ اچھے سے لگا سکتا تھا باقی اُسکے غصّہ بھرے لفظوں نے یقین کروا دیا۔۔ میں نے فہیم احمد کا پورا قصہ اُسکے گوش گزار کردیا پھر اسے ایک بوتیک میں لے آیا لیکن اِسکی بےزاریت دیکھ میرا اچھا خاصا موڈ خراب ہوگیا میں اُسکے لئے اُسکی پسندیدہ ڈریسسز خریدنا چاہتا تھا لیکن اُسکا منہ بنا دیکھا میں نے خود اپنی پسند کا جوڑا خریدا اور اُسے اُسکے گھر چھوڑ کر چلا آیا۔۔۔۔

ہر بار وہ مجھے ایک نئی اذیت سے نوازتی میں اُسکی ماں سے وعدہ تو کر چکا تھا پر نبھاونگا کیسے؟؟ میں گھر آتے ہی دادو کے روم میں آیا میں جلد از جلد اسے اس گھر میں لانا چاہتا تھا اور میری بیوقوفی ابھی تک دادو کو کچھ نہیں بتایا۔۔۔ میں کافی دیر اُنکے پاس بیٹھا رہا پھر موم ڈیڈ کے آتے ہی رات ڈنر کے وقت سب کو اپنے نکاح کے بارے میں بتایا موم ڈیڈ نے خاص ریکٹ نہیں کیا لیکن مہوش کے چہرے پر جیت کی خوشی دیکھ کر میں نے اگنور کیا میرا ارادہ ضرور تھا اُس سے بدلا لینے کے لئے شادی کرنا لیکن اُسکی ماں کی باتیں سن اور حجاب کا رویہ دیکھ میں سمجھ گیا وہ ایسی ہے نہیں بس فہیم احمد کے واقعہ کے بعد خود کو پتھر بنا لیا ہے۔۔۔۔

اگلے دن دادو میرا سر کھا گئیں کے حجاب کو لے آؤ بس ایک دفع اُس سے ملنا ہے دادو حجاب کے اُس رویہ کے بعد پھر کبھی اُس سے ملی نہیں اور نکاح کی خبر نے تو انہیں پھر سے جوان کردیا انہوں نے صاف میرے منہ پر کہہ دیا حجاب خود سے کہے گی تبھی یقین آئے گا سب سے زیادہ خوشی انھیں ہی تھی انھیں خوش دیکھ میری خوشی بھی دو گنی ہوگئی میں نے فوراً سے حجاب کو کال کی لیکن ایک بار پھر اسنے میرا دل توڑا اُسے میرا ساتھ قبول نہیں؟؟ میں اسکے لئے شرمندگی کا باعث بنتا ہوں؟؟ ہمارا نکاح اسے ایک کڑوا گھونٹ لگتا ہے جسے آج تک وہ ہضم نہیں کر پائی؟؟؟ کون شوہر ہوگا جسے ہر بار اپنی ناقدری قبول ہوگی نجانے کیوں یہ لڑکی میرے دل سے نہیں اتُرتی ہر بار کٹھور رویہ رکھنے کے بعد بھی اسکا مقام آج تک دل میں وہی ہے۔۔۔۔۔ لیکن اب وہ اس مقام سے گر بھی جائے تو مجھے فرق نہیں پڑتا شاید پتھر سے سر پھوڑا ہے میں نے؟؟؟

پہلی دفع اُس دن میں نے دادو کی خوشی کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا میں جو آج تک موم ڈیڈ ٹیچرز کے سامنے دھڑلے سے سچ بولتا رہا ہوں بغیر کسی ڈر و خوف کے آج انکا دل دُھکنے کے ڈر سے جھوٹ بولا کے اب شادی سے پہلے ملنا ممکن نہیں اور یہ آرڈر حجاب کی ماں کی طرف سے ہے۔۔۔

اُسکے بعد دن پر لگاتے اڑھ گئے گاؤں سے پوری فوج ہمارے گھر آگئی دادا نے میری دیدہ دلیری پر ڈانٹنے کے بجاۓ مجھے داد دی مجھے لگا تھا میرے اِس خفیہ نکاح پر ڈانٹ پڑنے والی ہے لیکن یہاں تو شاباشی مل رہی تھی۔۔

پھپھو نہیں آئیں تھیں لیکن باقی تمام افراد آئے اس خوشی میں شریک ہونے آئے تھے۔۔ بعد میں میں نے چچی کی غیر موجودگی محسوس کر کے دادو سے پوچھا تو انہوں نے بتایا وہ وہاں گائوں میں پھپھو کی وجہ سے ٹک گئیں۔ میری شادی میں مجھ سے زیادہ پُر جوش دادا تھے مہندی والے دن باقاعدہ اسٹیج پر آکر انہوں نے ڈانس کیا۔۔ مہوش بھی خوشی سے ہر رسم میں حصہ لے رہی تھی سب خوش تھے میرے علاوہ شاید میں بھی خوش تھا لیکن حجاب کی باتیں رہ رہ کر میرا موڈ خراب کردیتیں بارات والے دن دادا کو ارجنٹ نکلنا تھا دو پارٹیوں کی بیچ سخت لڑائی ہوئی تھی اور فیصلے میں اُنکی شرکت لازمی تھی آخر وہ اِس سال الیکشن جو لڑ رہے تھے۔۔۔۔

انہوں نے میرے اور حجاب کے سر پر ہاتھ رکھ کے دعا دی اور چلے گئے انکے جاتے ہی رخصتی کا شور گونجا تو میں حجاب کا ہاتھ پکڑ کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔

حال کے باہر رُک کر حجاب ہچکیاں لیکر رو رہی تھی کبھی باپ سے گلے ملتی تو کبھی چھوٹے بہن بھائی اور ماں سے میں اسے غور سے دیکھ کر مسکرا رہا تھا حجاب تاثیر وہ لڑکی تھی جس نے پل پل مجھے حیران کیا آج بھی وہ پوری طرح تیار تھی ہر دلہن کی طرح لیکن اسنے حسن کی نمائش نہیں کی عورتوں کی موجودگی میں بھی اپنے شانے کے گرد خوبصورت بھاری دوپٹہ اوڑھا تھا سر پر الگ دوپٹا گونگھٹ کی طرح پہنا تھا وہ اپنے رونے کا مشغلا پورا کر کے میرے ساتھ کار میں آبیٹھی۔۔۔

اسے دیکھتے ہی میں نے اسکا ہاتھ تھام کر محبت بھری سر گوشی کی جو اسے ناگوار گزری وہ خود کو میری گرل فرینڈز سے کمپیر کر رہی تھی جو کبھی دوست سے آگے نہیں گئیں۔۔۔ اسکی ناگواریت دیکھ کر میں نے اسے کیفیٹیریا والا واقع یاد دلایا بس وہ اتنا کہتی نہ کے میں جلد بازی یا اپنی بیوقوفی میں بول گئی میں اُسے اُسی وقت معاف کردیتا لیکن اُس کا کہنا تھا میں اسی بےعزتی کے لائق ہوں آگر میں لائق تھا تو وہ بھی اسی کی مستحق تھی میں ہی تھا جو اسے سر پر بیٹھا رہا تھا اسکی اوقات نہیں تھی میرا مقابلہ بھی کرے اور اس دن میں نے اُسکا کیا عمل اُسے لوٹایا۔۔۔

وہی ہجوم تھا، وہی ہم تھے، بس فرق تھا جگہ کا اور رشتے کا جو ہمارے مابین بنا میں اُسے اُسکی دی اذیت سے نوازتا اپنے کمرے میں چلا گیا مجھے کوئی پچھتاوا نہیں تھا وہ اسی لائق تھی میں نے وہ پوری رات ایک دفعہ پھر ڈرنک کرتے گزاری کتنی عجیب بات ہے وہ پہلا دن تھا جب میں نے ڈرنک نہیں کی ہمارے نکاح والے دن کتنا خوش تھا میں؟؟ اُسکی موجودگی مجھے ہر بُرے عمل سے بچاتی لیکن آج اسی کے لفظوں نے مجھے واپس میری اندھیری دنیا میں لوٹا دیا۔۔۔

ساری رات ڈرنک کرنے بعد صبح میری نیند کو موبائل کی بجتی رنگ ٹون نے توڑا فون اسامہ کا تھا وہ رو رہا تھا تاثیر انکل کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا ڈاکٹرز نے سرجری کا کہا ہے۔۔ وہ بہت ڈرا ہوا تھا الفاظ ہی اسکی زبان سے اٹک اٹک کے ادا ہو رہے تھے شاید وہ اس وقت کوئی بھی بات سمجھنے کی صورت میں نہیں تھا تبھی اِس نے مجھے کال کی میں اِسکی کنڈیشن سمجھ چکا تھا نوالہ منہ میں بنا کر دینے والا باپ ایک دم سے اسکی ایسی حالت ہو تو کوئی بھی انسان اپنے ہوش و حواس گواہ سکتا ہے اسامہ کے ساتھ بھی یہی ہوا میں نے ڈیڈ کے مینیجر کو کال کر کے پیسوں کا انتظام کرنے کا کہا اور خود فوراً سے ہسپتال جانے کے لئے نکلا کل رات کی کوئی بات میرے ذہن میں نہیں تھی۔ ریش ڈرائیونگ کر کے میں وہاں پہنچا تو آنٹی اور ثنا مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے میں انکی حیرانگی کو اگنور کر کے ڈائریکٹ ڈاکٹر سے جا ملا۔۔۔

ڈاکٹرز کا کہنا تھا انہیں دوسری مرتبہ اٹیک ہوا ہے فوراً سرجری کرنے پڑے گی پورا دن میں وہیں رہا رہ رہ کر انکل کا خیال آرہا تھا اور آنٹی کے سوالات اور جوابات نے مجھے شرمندہ کر دیا پہلا اٹیک انھیں پانچ سال پہلے اپنے ماں باپ کے مرنے پڑ ہوا تھا اور دوسرا آج حجاب کی پریشانی اور ساتھ بھائیوں کی لالچ نے انھیں بستر سے لگا دیا رخصتی کے بعد تاثیر انکل کے بھائی اُن سے اپنا حق مانگنے آئے تھے بات اس حد تک پہنچ گئی کے انکا گریبان تک پکڑ لیا۔۔۔۔ یہ سب سناتے انکے آنسوؤں کسی ندی کی طرح بہ رہے تھے پھر انکے اگلے سوال نے مجھے جی بھر کے شرمندہ کیا انہوں نے مجھ سے حجاب کا پوچھا اور ساتھ یہ گزارش بھی کی کے اُسے نہ بتائو وہ جذباتی ہے ان سے لڑنے جا پہنچے گی پورے دن میں پہلی بار مجھے اُسکا خیال آیا کل رات کا رویہ اور تاثیر صاحب کی یہ حالت؟؟؟ ناچاہتے ہوے بھی کل کے رویہ پر مجھے خود پر غصّہ آیا آگر وہ سیر ہے تو میں سوا سیر دونوں ایک دوسرے کو توڑ دیں گے نہ وہ رُکتی ہے نہ میں۔۔۔۔

میں باہر کینٹین سے سب کے لئے جوس سینڈ ویچیز لے آیا۔ میرے اسرار پر انہوں نے تھوڑا بہت کھایا۔۔

تین چار گھنٹوں کے بعد پریشانی سے ٹہلنے کے بعد تاثیر انکل کی سرجری کی کامیابی کا سن کر تینوں سجدوں میں گر گئے انکی آپسی محبت دیکھ ایک ہوک سی میرے دل سے اٹھی۔۔

میں نے آنٹی کو اپنے وکیل سے ملنے کا کہا لیکن وہ تو کیس کا سنتے ہی توبہ کرنے لگیں انکا کہنا تھا ایک فلیٹ ہے جو بہت پہلے تاثیر انکل نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے خریدا ہے وہ بیچ کر انھیں انکا حق دے دیں گئے حالانکہ کافی رقم وہ لوگ اُن سے ہتھیا چکے ہیں۔۔۔۔

مجھے انکی بات ہضم نہیں ہوئی نقصان دونوں طرف سے انکل کا ہی تھا بھلا زندگی بھر کی محنت یوں لمحوں میں ضائع کرنا سہی ہے؟؟؟

رات ہوتے ہی آنٹی نے زبردستی مجھے جانے کا کہا میں اسامہ اور ثنا کو انکے گھر ڈراپ کر کے اپنے گھر چلا آیا آنٹی کا وہیں رُکنے کا ارادہ تھا لاکھ اسرار کرنے پر بھی وہ گھر نہیں گئیں۔۔

گھر پہنچتے ہی پہلی ٹکر دادو سے ہوئی لیکن میرے بےتاب نگاھیں حجاب کو ڈھونڈ رہیں تھیں اور جیسے ہی ان نظروں نے اس تلاشِ گمشدہ کی تلاش مکمل کی ان نگاہوں کو قرار آیا میں اسے لئے کمرے میں آگیا لیکن ہم دونوں کی اس تکرار میں وہ میدان چھوڑ کے بھاگ گئی رات بھر میں سلگتا رہا۔۔۔

لیکن اگلے دن میں نے سوچ لیا تھا اب یہ چوھے بلی کا کھیل ختم میری بیوی بنتے ہی وہ خود سدھر جائے گی میں نے اُسے یقین دلایا تھا اب اُسکی عزت کرونگا لیکن میرے چھونے سے اُسے کراہیت محسوس ہوتی ہے میں اُسکی ہر بات ان سنی کرتا اُسے اپنی روح میں بسا چکا تھا ہاں وہ میری ہو چکی تھی ابراز کی صرف ابراز حیات کی۔۔۔۔۔۔

لیکن اس سب کے بعد حجاب کا ردِ عمل دیکھ کر میں حیران رہ گیا کوئی اس قدر پاگل ہو سکتا ہے؟؟؟ وہ مجھے کہ رہی تھی میں کس گناہ کی سزا میں اُسکی زندگی میں آیا ہوں میں اُسے بتانا چاہتا تھا میں نے زندگی میں کبھی حرام رشتہ نہیں بنایا لیکن اُسے دیکھ کر اُس وقت مجھے بس ایک بات یاد آئی حجاب کی ” میں “ میں نے اُسے احساس بھی دلایا لیکن وہ حوش میں کہاں تھی لہرا کر میری باہوں میں آگری۔۔۔

میں اسکا خیال رکھنے لگا اسے تنگ کرتا لیکن حد سے زیادہ نہیں وہی تو میرے گھر آنے کی خوشی بن چکی تھی میں آفس جانے لگا تھا ایک دم سے روٹین شادی شدہ مردوں والی ہوگئی تھی میں خود حیران بھی تھا خوش بھی۔ کہاں عورتوں سے نفرت کرنے والا اب گھر بسا بیٹھا تھا۔۔۔

اُس دن آفس میں ڈیڈ کی ٹیبل پر ایک کنٹریکٹ کی فائل ملی میں سمجھ تو گیا تھا یہ عام ڈیلنگ نہیں لیکن بات پتا کیسے لگے؟؟؟؟ تب ڈیڈ کے مینیجر کا مجھے خیال آیا اس نے بتایا نکاح والے دن صبح صبح موم اور ڈیڈ مہوش کو لیکر ایک بیسنیس پارٹی اٹینڈ کرنے گئے تھے ایسے کے مجھے کانوں کان خبر نہ ہو مہوش تک نے مجھ سے جھوٹ بولا وہ پاگل نہیں جانتی تھی اُسے ایک ایسی اندھیری کھائی میں دھکیل رہیں ہیں جہاں صرف تنہائی ہے وہاں انسان نہیں حیوان ہیں۔۔۔

ڈیڈ کے مینیجر سے ہی مجھے پتا لگا اُس میٹنگ کا اصلی مقصد مہوش کا تعارف کرانا تھا اور مہوش یقیناً خود اس بات سے انجان تھی اور آج رات بھی ایک ڈنر پارٹی ہونی ہے جہاں وہ لڑکا جنید مہوش کو دیکھ کر آخری جواب دیگا ان دونوں کی ابھی ملاقات نہیں ہوئی بس جنید کے ماں باپ نے مہوش کو دیکھ کر ہاں کی امید دلائی تھی موم ڈیڈ کو۔۔۔

ڈیڈ یقیناً اُسکا بُرا نہیں چاہتے تھے بس ایک امیر خاندان میں اپنی بیٹی دینا چاہتے تھے جہاں وہ ساری زندگی عیش کرتی لیکن یہ گیرینٹی نہیں تھی کے وہ شخص حیات عالَم سے مختلف ہے۔۔۔ وہ حیات عالَم نہیں بنے گا بیوی کی نمائش نہیں کریگا یہ سب ڈیڈ نے نہیں سوچا؟؟ بھلا سوچتے بھی کیسے انکے دماغ میں آتا کب؟؟ تب آتا جب خود دودھ کی طرح دھلے ہوے ہوتے گہنگار بندے کو گناہ دیکھتا کہاں ہے؟؟؟ شراب اُن کے لئے حلال ہے تو اُن کی نظر میں ہر پینے والے کے لئے حلال ہے۔۔

یہ سب سن کر بمشکل غصّہ ضبط کرتے میں گھر پہنچا کسی کو اپنی اندرونی حالت ظاہر نہیں ہونے دی بس رات کی تاریکی کا انتظار تھا ڈیڈ نہیں جانتے تھے جن لوگوں کو پیسا دیکر وہ خریدتے ہیں میں انھیں انہی کی پیسوں سے دوگنی قیمت پر خریدتا ہوں آخر اولاد کو چلنا تو ماں باپ کے نقش قدم پر ہے نہ؟؟؟ جب باپ آگے ہے تو بیٹا کیوں پیچھے رہے؟؟؟ میں گھر آکر سب کے ساتھ ڈنر کرنے لگا کب کا میرا ضبط کیا ہوا غصّہ مہوش نے باہر نکالا اور اس غصّے میں میں نے شاید حد پار کرلی مہوش کو کبھی بھی مجھ سے ایسے رویہ کی امید نہ تھی۔ اُس غصّے نے جہاں نقصان کیا وہاں فائدہ۔۔۔ پارٹی میں کوئی نہیں گیا اور ڈیل بھی کینسل ہوگئی یہ خبر اگلی صبح مجھے مینیجر نے دی یہاں کے لوگ کھوکھلی عزت کے معاملے میں شیر ہیں ڈیڈ کا نہ آنا انھیں اپنی بےعزتی لگا اور ڈیڈ کا جانا یقیناً مجھے اچھا نہیں لگتا اور اس اچھا نہ لگنے کی صورت میں اِس وقت شاید میں دبئی میں ہوتا۔۔۔۔ اُس رات میں سویا نہیں تھا کیوں کے مہوش نہیں سوئی تھی۔۔۔ میں گیا تھا اُسکے کمرے میں وہ اوندھے منہ بیڈ پر لیٹی بےآواز رو رہی تھی۔۔۔۔

” مہوش “ میں نے قریب جاکر اُسکا کندھا ہلایا وہ سیدھی ہوکر چیخ اٹھی۔۔۔۔

” کیوں آئے ہو میری روم میں گیٹ لوسٹ “ وہ دروازے کی طرف اشارہ کر کے مجھے نکل جانے کا کہ رہی تھی میں نرمی سے اُسکے پاس بیٹھا سر ہاتھوں میں گرائے ۔۔۔ میں بےبسی کی انتہا پر تھا۔۔۔

” میں اندھیری گلیوں کا مسافر ہوں مہوش۔۔۔ ایک عرصے سے۔۔ مردہ وجود تھا میرا جو بس بےمقصد جی رہا تھا، نہ سکون تھا نہ جینے کی خوائش۔۔۔ لیکن اُسکے آنے سے میں جی اٹھا ہوں، ہنسا ہوں، پُر سکون رہا ہوں سکون ہے وہ میرا اگر وہ گئی تو میں واپس اُس اندھیری گلی میں کھو جاؤنگا جہاں صرف اندھیرا ہے باہر آنے کا کوئی راستہ نہیں لیکن میں گیا تو لوٹنا بھی نہیں چاہونگا کیوں کے اُس کے بنا مجھے یہ بھاینک دنیا اُس اندھیری دنیا سے زیادہ خوفناک لگتی ہے۔۔۔۔ “ میرے چہرے پر ویرانی اور لہجے میں گلتی نمی اسے پریشان کرنے کے لیے کافی تھی۔۔۔۔ میری بےبسی کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا پا کر بھی دوری کتنی جان لیوا ہوتی ہے کوئی رازی سے پوچھے جو پل پل سلگتا ہے۔۔۔۔

” رازی تم رو رہے ہو؟؟ “ مہوش نے اپنا رونا دھونا بھول کر بےچین ہوکر میرا چہرہ تھاما۔۔۔

” پتا نہیں۔۔۔ آئ ایم سوری مہوش۔۔۔ میں غصّے میں تھا کس سے پوچھ کر تم ان میاں بیوی کے ساتھ گئی تھیں؟؟ “ میں نے اسکے ہاتھوں کو ہٹا کر اب کے غصّے سے کہا تھوری دیر پہلے والی نرمی اڑن چھو ہو چکی تھی۔۔۔

” رازی ڈیڈ نے منع کیا تھا بتانا نہیں تمہارا بھائی آج کل بے وجہ غصّہ کرتا ہے اور موم نے بھی منع کیا تھا میں تو صرف وہاں بس شوپنگ کرنے کے مقصد سے گئی تھی۔۔ “ وہ نظریں جھکائے شرمندگی سے کہ رہی تھی میرا خون کھلنے لگا۔۔۔۔

” آئندہ سوئی بھی چاہیے ہو تو مجھ سے کہو گی سمجھی؟؟ اب انکی بات مانی نہ مہوش تم نے۔۔۔ تو دیکھنا زندگی بھر ترس جائوگی میری شکل دیکھنے کے لئے “ غصّے سے کہتے میں نے نرمی سے اسے گلے لگایا کیوں کے میرے غصّے سے خائف ہوتے وہ پھر رونے لگی۔۔۔۔

اس دن جتنا بُرا ہوا سو ہوا لیکن حجاب کا ڈر دیکھ مجھے ہنسی آرہی تھی پہلی دفع وہ مجھ سے اس قدر خائف تھی کے کہیں بھی بحث نہ کی نہ روم میں نہ یونی سے پک کرتے۔۔۔

لیکن گھر آتے وقت ہمیشہ کی طرح وہی ہلکی سے نوک جھوک ہوئی اسکے لگاے الزاموں کا جواب میں محبت سے دیتا رہا لیکن وہ کان بند کیے بیٹھی رہی۔۔ گھر آتے ی ہماری ملاقات ڈیڈ سے ہوئی وہ جس طرح حجاب کو دیکھتے میری رگوں میں دوڑتا خون گرم ہوجاتا انکی نظریں محسوس کی ہیں میں نے اپنی بیوی کے وجود پر انھیں لگتا ہے میں بھی بےغیرت مردوں میں سے ایک مرد ہوں یہ غلط فہمی میں نے اُسی دن دور کردی۔۔ وہ مجھ سے پچاس لاکھ کا پوچھ رہے تھے انہیں اب کیسے بتاتا بچاس نہیں تقریباً ایک کڑور میں اپنے مہوش اور ڈیڈ کو ملا کر اکاؤنٹس سے نکلوا چکا ہوں۔۔۔ اور ان پیسوں کا غلط استمعال نہیں کیا میں نے۔۔ کچھ رقم تاثیر انکل کی سرجری میں لگی تو کچھ تاثیر انکل کا فلیٹ خریدنے میں۔۔۔۔ 55 لاکھ کا فلیٹ میں نے 60 میں خریدا ایک ڈیلر کے ذریعے۔۔۔ کیوں کے تاثیر انکل کو آگر میرا پتا لگتا تو یقیناً اُس سے بھی کم قیمت پر دیتے۔۔۔ میں بس اس نیک انسان کی مدد کرنا چاہتا تھا جو میں نے کی ڈیڈ کو بغیر کوئی تفصیل دیے میں کمرے میں آگیا۔۔۔

میں کمرے میں آیا تو وہ نماز پڑھ رہی تھی ان دو تین دنوں میں اُسے اتنا جان گیا تھا نماز کے معملے میں وہ سخت ہے ہر نماز پابندی سے اپنے وقت پر ادا کرتی۔ اسے دیکھ جہاں خود پر رشک آیا وہیں آخرت کا خوف۔۔۔ جسے میں جھٹک کر چینج کر کے خاموشی سے بیڈ پر آکر لیٹ گیا۔۔۔۔۔

اگلے دن والیمے میں ڈیڈ کے گھٹیا دوستوں کو دیکھ مجھے ڈیڈ پر سخت غصّہ آیا جانتے بوجھتے انہوں نے ایسے لوگوں کو انوائٹ کیا؟؟؟ میں کافی دیر حجاب کے ساتھ بیٹھا رہا ان سب کی نظریں مجھے اپنی بیوی پڑ اٹھتی محسوس ہوئیں گھونگھٹ کے باوجود حوس پرست لوگ ڈھیٹ بنتے رہے۔۔۔

میں نے آخری لمحے تک اسکا ہاتھ تھام کر ان نظروں سے اسکو بچانے کی کوشش کی لیکن کمرے میں آکر اس حسن کی شہزادی سے نظریں نہ ہٹا سکا اور ایک بار پھر بےخودی کے عالَم میں ان آنکھوں میں ڈوب گیا۔۔۔۔

اگلے دن میرے اٹھنے سے پہلے وہ یونی بھاگ گئی لڑکیاں شرماتی ہیں لیکن حجاب مجھے شرم دلا کر یونی بھاگ جاتی اصل میں وہ مجھ سے بھاگتی ہے نجانے کب محبت لوٹاتے شوہر کے آگے بےبس ہوجاؤں؟؟ میری خوش فہمی ہی مجھے خوش کر سکتی تھی حجاب تاثیر نہیں۔۔۔۔

میں سوچوں کو جھٹک کر آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا کے مجھے عاصم کی کال آگئی میرا اور اسکا ویزہ ایکسپائر ہونے والا ہے جسکے لئے مجھے واپس دبئی جانا پڑیگا۔۔۔۔۔

ہائے سب منظور تھا لیکن حجاب سے دوری جان لیوا تھی۔۔۔۔۔۔

” تم سے دوغلا منافق کون ہوگا؟؟ جسکا پور پور شراب میں ڈوبا ہوا ہے تم جیسا شخص آبِ حیات سے بھی نہالے تو گندگی کی بو نہیں جائے گی۔۔۔۔“ کمرے کی ایک ایک چیز میرے کانوں میں چیخ چیخ کے حجاب کے لفظ دہرا رہی تھی میرا دماغ پھٹنے کے قریب تھا۔۔۔۔۔

” تم منافق ہی نہیں کافر بھی ہو۔۔۔۔ “

” شٹ اپ یو بلیڈی۔۔۔۔ “ میں نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے اس سے پہلے کے میں اِسے کوئی گالی دیتا مہوش میری حالت دیکھ کر مزید گھبرا کر رونے لگی۔۔۔میں نے ایک نظر روتی مہوش کو دیکھا پھر بےبسی سے ہاتھ بالوں میں پھیرا۔۔۔۔۔ کاش میں بھی اسی طرح بلک بلک کے دل کا حال بیان کر پاتا۔۔ میں رونا چاہتا ہوں پھوٹ پھوٹ کے رونا لیکن مرد کہاں روتے ہیں؟؟؟ وہ تو صرف ظلم کرتے ہیں۔۔۔۔

” میں پاگل ہوجاؤنگی۔۔۔۔کیا سب کو پتا ہے؟؟ “ کچھ دیر بعد مہوش کی بھیگی آواز میرے کانوں میں گونجی میں جو نظریں جھکائے بیٹھا تھا یکدم نگائیں اوپر اٹھائیں۔۔ مہوش نے اُمید بھری نظروں سے مجھے دیکھا میں اُسکا اشارہ سمجھ گیا وہ ان فوٹوز کا کہ رہی تھی جو وہاں کھڑے لوگوں نے لیں۔۔

” کسی کو کچھ نہیں پتا تم آرام کرو۔۔۔ “ میں کہکر اٹھ کھڑا ہوا مزید یہاں رُکنا مجھے ذہنی مریض بنا دیگا۔۔۔۔

” رازی “

” مہوش میں آج کمزور دل کا مرد ثابت ہوا ہوں مزید تمہارے الفاظ میرا دل بند کر دیں گئے “ میری آواز بھرا گئی۔ میں نے سنا تھا انسان کو اسکا کیا اسی دنیا میں بھگتنا ہے لیکن اتنی جلدی؟؟ یہ نہیں سنا تھا سب کا انجام دیکھ کر بھی میں اُس کے پاس کیوں نہ گیا؟؟ وہ بار بار مجھے بلاتا رہا میں نہیں گیا۔ ڈرتا رہا؟؟مکافات عمل کا انتظار کرتا رہا؟؟ نہیں بلکے میں لائق نہیں تھا کے اُسکے گھر حاضری لگاؤں۔۔ میں اٹھ کھڑا ہوا ڈاکٹر نینا کو مہوش کا خیال رکھنے کا کہ کر میں ہسپتال سے باہر نکلا۔۔۔۔ سرد موسم کی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میرے وجود سے ٹکرایا میری نظریں بےخیالی میں اُس معصوم بچے کو دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ وہ بچا کھڑا ایک آدمی کے سامنے رو رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بچا ناراض ہوکر آگے چلنے لگا وہ آدمی مسکراتا ہوا اسکے پیچھے چلنے لگا میں بھی اُس شخص کے تعاقب میں پیچھے چلنے لگا مجھے لگا شاید وہ شخص اس بچے کے لئے انجان ہے چلتے چلتے وہ بچا ایک مسجد کے پاس آرکا اور پیچھے مُڑ کے اُس آدمی سے کہا۔۔۔

” ابو میں آپ کی شکایات اللہ‎ تعالیٰ سے کرونگا آپنے آئس کریم نہیں دلائی نہ؟؟ “ وہ منہ بسور کر بولا تو اُسکا باپ مسکراتا ہوا اُسکا ہاتھ تھامے مسجد کے اندر لے گیا۔ میرے دل میں ایک عجیب سے خوائش جاگی کاش وہ بچا میں ہوتا اور کاش میرے ڈیڈ مجھے وہاں لے جاتے لیکن میں نہیں جنتا تھا وہ اِس قدر مہربان ہے کے میرے دل سے نکلی دعا سنے گا وہ دن تھا جب باپ جیسا شفقت بھرا ہاتھ ہمیشہ کے لئے میرے سر پر آن ٹھیرا۔ وہ آزماتا ہے لیکن آزما کر نوازتا بھی بہت ہے وہ باپ بیٹا اندر جا رہے تھے اور میں وہیں کھڑا رہا۔۔۔

ڈر اس قدر تھا کے اندر جانے کے لئے ایک قدم بھی نہ بڑھا سکا ایسا لگ رہا تھا آج میں نے کے جی میں ایڈمشن لیا ہے اور اسکول کا پہلا دن ہے میری موم مجھے کلاس میں بیٹھا کر اکیلا چھوڑ کے چلیں گیں میں اُنکے پیچھے رو رو کر بلکتا رہا۔۔ سسکتا رہا۔۔ لیکن وہ میری سسکیاں سن کر بھی لوٹیں نہیں۔۔۔

” کمبخت شرابی خود تو حرام پی کر آیا ہے اور یہاں رہکر دوسروں کو بھی ناپاک کر رہا ہے پڑے ہٹ “ خوشبو سے مہکتا شلوار قمیض میں ملبوس لمبی داڑی موچوں والا وہ شخص مجھے دیکھ حقارت سے بولا اور کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی میں جو پہلے ہی ڈرا سہما سا کھڑا تھا اُس شخص کے الفاظ سن کر خود کو ایک اندھیری کھائی میں گرا ہوا محسوس کیا۔ میرا دل کسی ننھے بچے کی طرح خوف میں مبتلا تھا ایک سے بڑھ کے ایک پاک صاف آدمی اذان کی آواز سن کر بھاگتا ہوا آرہا تھا مجھے اپنا وجود بےمول لگا نہ میں انکے جیسا تھا نہ انکے ساتھ بیٹھنے کے لائق تھا مجھے بے اختیار حجاب کے وہ الفاظ یاد آئے۔۔۔

”ایک بات بتاؤ اللہ‎ تمہیں جانتا ہے؟؟ کبھی حاضری تک لگائی ہے اُسکی بارگاہ میں؟؟ نہیں نا۔۔ افسوس خدا تم جیسے لوگوں کو اپنے پاس بلاتا بھی نہیں گناہ کی دنیا میں رہنے والے لوگ نیکی کی مہک سے بھی انجان رہتے ہیں۔۔۔۔ “ وہ سہی کہتی تھی۔۔ میرے قدم خود با خود پیچھے بڑھنے لگے تبھی کسی مہربان شخص کی آواز میری سماعتوں میں گونجی۔۔۔

” اُس نے یہاں تک تمہیں بلایا اور تم اُسے ناراض کر کے جا رہے ہو؟؟؟ “ میں یکدم اس آواز پر پیچھے مُڑا سامنے کھڑا شخص مسکرا رہا تھا۔۔۔ میں نے سوالیہ نظروں سے آنکھیں سکوڑ کے انہیں دیکھا۔۔

” پریشان نہ ہو بچے ان لوگوں کو انکے حال پر چھوڑ دو۔۔ تم یہ بتاؤ نہا کر کیوں نہیں آئے اس طرح تو نماز نہیں ہوگی “

میں انکی بات سن کر حیران رہ گیا شاید کافی دیر سے وہ مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔

میں نے نظریں جھکا لیں لوگ آنکھیں پڑھنے کا فن بھی جانتے تھے میں نہیں چاہتا وہ مجھے پڑھیں۔۔۔

” میں نماز پڑھنے نہیں آیا بس وہ۔۔۔ “ میری آواز مجھے خود اجنبی لگی میری نظریں انکی چپل پر تھیں

” آج کیا دل سے یاد کیا تھا اُسے؟؟ “ میں نے یکدم نظریں اوپر اٹھائیں وہ مجھے ہی دیکھ رہے تھے اب بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر سکون تھا۔۔۔

” ہاں۔۔ “ وہ شخص نجانے کیسے میرا چہرہ پڑھ رہا تھا یا شاید مجھے یہاں پہلی بار دیکھ کر اندھیرے میں تیر چلا رہا تھا۔۔

” پھر وہ کام ہوا؟؟ “

” ہاں “ میری کہنے پر اُسکی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔۔

” بس پھر سوچنا کیا شکریہ ادا کرو اُسکا اچھا چلو میرے ساتھ آج لگتا ہے نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھ سکوں گا چلو کوئی بات نہیں آج اُسکے بندے کے ساتھ پڑھوں گا جسکی دلی مراد اُسنے پوری کی ہے۔۔ یقیناً تم خاص ہوگے۔۔ “ خاص لفظ پر میں نے انھیں گہری نظروں سے جانچنا شروع کیا کہیں طنز تو نہیں کر رہے میں اور خاص؟؟؟

” اتنا مت سوچو بس اُسکا شکریہ ادا کرو پھر بھلے اپنی دنیا میں جانا آؤ میرے ساتھ۔۔۔ “ میں وہیں کھڑا رہا یہ شخص یہ ماحول میری سمجھ سے باہر تھا مجھے ہلتا نہ دیکھ وہ پھر مسکرائے

” جس نے زندگی عطا کی، تمہارے نام کی اُسے اپنا آدھا گھنٹا نہیں دے سکتے؟؟؟ “ میں نے انکی بات سن کر اپنے قدم بڑھائے آج بھی میرے دل میں خوف خدا زندہ ہے اور یہ اُس وقت مضبوط ہوا جب فہیم احمد کا انجام دیکھا میں اُنکے پیچھے چلتا رہا وہ مجھے ایک گلی میں لے آئے جہاں کچھ فاصلے پر سینکڑوں گھر بنے ہوئے تھے۔۔ وہ چلتے چلتے ایک گھر کے پاس آرکے جو پردھے سے ڈھکا ہوا تھا انہوں نے پردہ ہٹا کر دروازہ کھٹکھٹایا ساتھ اُس خاتون کو اندر جانے کا کہا جس نے دروازہ کھولا۔۔۔

” آؤ بچے “

وہ مجھے لئے اندر آئے بڑا سا صحن تھا جہاں ٹیبل اور کرسیاں رکھیں ہوئیں تھیں گھر پورا بند تھا گھر کی چھت کو بڑے کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔۔۔

” تم یہیں روکو میں آتا ہوں “ وہ مجھے وہیں چھوڑ سامنے بنے ایک کمرے میں گئے اور فوراً سے کپڑے لئے میرے پاس آئے

” یہ لو اپنا لباس تبدیل کرو تم میں سے شراب کی بو آرہی ہے اس طرح نماز نہیں ہوگی “ انہوں نے نرمی سے کہا چہرے پر نہ غصّہ تھا نہ نفرت پہلا ایسا بندہ ملا تھا جو ہماری دنیا سے نہ ہوکر بھی مجھے عزت دے رہا تھا۔۔۔ نہ وہ حجاب کی طرح تھے نہ اُس آدمی کی طرح جس نے مجھے حقارت بھری نظروں سے دیکھا۔۔ میں نے اُنکے ہاتھ سے شلوار سوٹ لیا اور انکے اشارے پر صحن میں بنے واشروم کی طرف بڑھا۔۔۔

میں جب فرش ہوکر باہر نکلا تو وہ باتھروم کے دروازے کے آگے کرسی رکھ کے بیٹھے ہوئے تھے میں پہلی بار انکی اِس حرکت سے چونکا لیکن میرے چہرے پر سوال پڑھ کر بھی وہ مسکرا کے گویا ہوے۔۔

” اندھیرے میں تو سایا بھی پیچھا چھوڑ دیتا ہے۔۔ پھر بیٹی کے گھر میں ہوتے ہوئے اجنبی پر کیسے بھروسہ کرلوں؟؟ “ یہ پہلی دفعہ تھا جب میں مسکرایا تھا بےشک وہ دل کے سچے تھے اور یقیناً عقل مند بھی۔۔

” آؤ نماز ادا کرتے ہیں تم نے وضو کیا ہے؟؟ “ وہ جاتے جاتے اچانک یاد آنے پر پلٹے

” جی۔۔۔ بچپن میں دادو پڑھایا کرتیں تھیں نماز تو یاد ہے “ میں نے وضاحت دی مجھے لگا تھا کہیں وہ مجھے نالائق نہ سمجھیں کے وضو کرنا بھی نہیں آتا۔۔

” غسل سے کافی فرق پڑا ہے حاضر جواب ہوگے ہو “ انہوں نے مسکراتے ہوے میری پیٹ تھپکی پھر مجھے لئے گھر کے ڈرائنگ روم میں آگئے بےشک گھرانہ عام سے گلی میں تھا لیکن گھر کو سجانے میں محنت کی تھی ڈرائنگ روم خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور دیوار پر بڑے سے فریم میں پہلا قلمہ لکھا ہوا تھا اور اسے دیکھ پہلی دفع میرے ذہن میں آیا کے میں قلمے بھول چکا ہوں۔۔۔۔ انہوں نے مجھے جانماز دی میرے ساتھ جانماز بچا کر خود بھی نماز ادا کی۔ انکے ساتھ نماز پڑھ کے جہاں مجھے سکون ملا وہیں تحفظ کتنا گھبرا رہا تھا میں اور کتنی آسانی سے انہوں نے میری ناممکن سوچ کو بدل دیا۔۔۔۔۔ میں نماز ادا کر کے انہی کے انتظار میں بیٹھا رہا وہ ہاتھ میں تسبیح پڑھنے لگے پھر دعا مانگی جو اچھی خاصی لمبی تھی۔۔۔۔۔

” معاف کرنا بچے یہی تو وقت ہے جہاں خدا سے بےحد قریب ہوتے ہیں۔۔۔ “ وہ اٹھے اپنی جانماز تہ کی میں نے بھی اٹھ کر اپنی والی جانماز تہ کی انہوں نے میرے ہاتھ سے وہ لیکر ٹیبل پر رکھی اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔

” اب بتاؤ اتنا ڈر کیوں رہے تھے؟؟ “ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر کے وہ میرے سامنے رکھے سنگل صوفے پر بیٹھ گئے۔۔

” میں نہیں ڈرتا۔۔۔ بس قابل نہیں سمجھتا کے اسکے گھر

جاؤں “ میرا کمزور لہجہ مجھے نظریں جھکانے پر مجبور کر گیا

” کیوں؟؟ “

” لوگ کہتے ہیں میں کافر ہوں۔۔۔ “ میرا سر جھکا ہوا تھا انکے چہرے کے تااثرات میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔

” پتا ہے انسان بُرا کب بنتا ہے؟؟ جب وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا سمجھے۔۔۔ جس نے بھی کہا اسے کہنا ڈرنا اس وقت سے جب نیکی کا تکبر کرنے والوں میں تم شامل ہوگے کیوں کے ہمیں کافر کو کافر کہنے کا حق بھی نہیں “ انکی باتیں مجھے اپنی جکڑ میں لے رہیں تھیں لیکن میرا دل انکی بات کی نفی کر رہا تھا۔۔۔۔۔

” مجھے لگتا ہے یہ سچ ہے۔۔۔ میں ہوں۔۔۔ میں۔۔۔بہت۔۔۔ گنہگار ہوں۔۔۔ بہت۔۔ “ میں نے انگلی سے آنکھوں میں آتی ہلکی نمی صاف کی۔۔۔

” کونسے گناہ کے ہیں؟؟ “

” شرا۔۔۔ شراب پیتا ہوں۔۔۔ نافرمان ہوں۔۔۔ لڑکیوں کے ساتھ گھومتا ہوں، انھیں اپنا عادی بنایا۔۔ لیکن حرام نہیں۔۔۔ وہ کہتی ہے میں حرام رشتے بناتا ہوں۔۔۔ میں نے کبھی نہیں بنایا۔۔۔ وہ کہتی ہے میں بُرا ہوں، میں نیکی کی مہک سے انجان رہونگا۔۔۔ آبِ حیات سے بھی نہا لوں تب بھی یہ گندی بدبو میرے جسم سے نہیں جائے گی، خدا مجھے اپنے پاس نہیں بلائے گا۔۔۔ وہ مجھ جیسوں کو نہیں بلاتا، میں منافق ہوں۔۔۔ مجھے وہ بھلا چکا ہے۔۔۔۔ “ میری آواز بھر آگئی دل چیخ چیخ کے رو رہا تھا بےاختیار ایک ہچکی نکلی میرا دل مجھے رونا پر اکسا رہا تھا اتنا مضبوط نہیں تھا ہر دکھ جھیل لے۔۔۔

” میری بات غور سے سنو معافی گنہگار ہی مانگتا ہے اور ہر شخص کو نیکی کی طرف لوٹنے کا حکم ہے۔۔ آگر کوئی مسلمان بنے تو کیا اُسے یہ کہتے ہیں کافر ہو تم نکل جاؤ اُس پاک گھر سے؟؟؟ نہیں خدا کے نزدیک وہ شخص اہمیت رکھے گا جس نے نماز کی نیت باندھی نہ کے وہ جو دوسروں کو حقیر سمجھ کر انھیں اسلام سے دور کرے ایک واقع سناتا ہوں وہ رب معاف کرنے والا ہے کہتا ہے بس توبہ کرو تم کرو تو توبہ لوٹو تو میری طرف میں تمہارے گناہ آسمان جتنے بھی ہوں تو معاف کردوں گا بس توبہ کرو اِس سے پہلے کے توبہ کا موقع بھی نہ ملے۔۔۔ ایک آدمی نے ننانوے قتل کئے بنی اسرائیل میں۔۔ ایک عبادت گزار سے پوچھا ننانوے قتل کیے ہیں توبہ ہوگی؟؟؟ اُس نے کہا نہیں ہوگی۔۔ آدمی نے اُسے بھی قتل کر دیا پھر ایک عالم سے پوچھا سو قتل کئے ہیں کیا توبہ ہوگی؟؟؟ اُسنے کہا بیٹا کیوں نہ ہوگی؟؟؟ پر توبہ پکی ہو یہ شہر گندہ ہے وہ شہر نیک لوگوں کا ہے وہاں چلا جا یہ شہر چھوڑ دے۔۔۔ آدمی نے کہا بس معافی مل جائے میں یہ شہر چھوڑ دوں گا بوریا بسترا اٹھایا نیک لوگوں کے شہر میں چلا آیا لیکن راستے میں موت آئی اُسی وقت اللہ نے دو فرشتوں کو بھیجا دوزخ کے فرشتے نے کہا۔۔۔

” ہمارا مجرم ہم لے جائیں گے “

جنت کے فرشتے نے کہا ” ہمارا مہمان ہم لے جائیں گے “

دوزخ کے فرشتے نے کہا ” توبہ نہیں کی ہمارا مجرم ہم لے جائیں گے “

جنت کے فرشتے نے کہا ” ہمارا مہمان توبہ کر چکا ہے گھر سے نکل پڑا ہے ہم لے جائیں گے “

دوزخ کے فرشتے نے کہا ” ابھی اُس بستی میں پہنچا نہیں ہے ہم لے جائیں گے “

جنت کا فرشتہ ” پہنچنا ضروری نہیں ہے نیت ضروری ہے “ اللہ‎ نے تیسرے فرشتے کو بھیجا کے جاؤ بھائی ان میں فیصلہ کرو۔۔۔۔ فیصلہ کرو اس طرح کے بیچ میں میت پڑی ہے سامنے نیک لوگوں کی بستی ہے پیچھے اُس کا گھر ہے ان میں فاصلہ ناپوں اگر میت نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہے تو جنت والے لے جاؤ اگر اپنے گھر کے قریب ہے تو دوزخ والے لے

جاؤ۔۔۔ “

وہ شخص اپنے گھر کے قریب تھا لیکن جب ناپنے کا وقت آیا اللہ نے نیک لوگ والی زمین کو کہا کہ اے زمین تو سِکُڑ جب کہ اُس کے گھر کے قریب والی زمین کو کہا اے زمین تو پھیل جا۔۔ جب فاصلہ ناپا گیا میت نیک لوگوں کی بستی کے قریب تھی تو اللہ نے حکم سنایا کہ جاؤ یہ ہمارا مہمان ہے جنت میں۔۔۔۔ “ میرے آنسوؤں میری آنکھوں سے کسی آبشار کی طرح بہ رہے تھے میں انھیں یک ٹک دیکھ رہا تھا انکی نظریں بھی مجھ پر جمی ہوئیں تھیں۔۔ وہ ایک بار پھر گویا ہوے

” توبہ کرو بچے یہ توبہ تمہارے گناہ ایسے مٹا دیگی جیسے ماں کے پیٹ سے نیا جنما ہوا بچہ لوگوں کو سوچنا چھوڑدو انھیں خوش کرنا چھوڑ دو بس اُسے اپنا بنا لو یہ فانی دنیا تمہارے قدموں میں ہوگی۔ “

میرے گلے میں آنسوؤں کا پھندا اٹک گیا میں خود کو کس قدر گرا چکا تھا بار بار اُسکے پاک گھر میں قدم رکھنے سے ڈرتا رہا یہ نیک انسان مجھے پہلے کیوں نہ ملا؟؟ صرف گمرا کرنے والے ملے اور ملے بھی ایسے کے جن کے آگے میں خود کو بےمول سمجھتا رہا۔۔۔میں سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھ گیا میرے آنسوؤں میرا گریبان بھگو رہے تھے۔۔۔۔ میں بس خاموشی سے انھیں سن رہا تھا دل چاہ رہا تھا یہ آواز ایک پل کو نہ بند ہو۔۔۔

” ایک اور واقع سناتا ہوں۔۔ میں نہیں جانتا کس مصیبت میں تم نے اُسے پکارا لیکن دیکھ لو تم چاہے اُسے بھولو وہ تمہیں نہیں بھولتا۔۔ اُس شخص کو کہنا کے دیکھ ایک دفعہ بس رب کو پکارا اور اُسنے مدد کرنے میں ایک لمحہ نہ لگایا۔۔۔ یہ سنو

اللہ کے نیک بندے جا رہے تھے سفر میں تھے کے انھیں پیاس لگی کسی طرح کنوئیں تک پہنچے دیکھا تو پانی بہت نیچے تھا انہوں نے اپنی پگڑی اُتاری اور جوتے کو اُس کے ساتھ باندھا اور نیچے لٹکایا لیکن پانی تک جوتا پہنچ نا سگا تو پریشان ہو کے وہ بیٹھ گئے اب کیا کروں؟؟؟ تب ایک ہرن آیا اُس نے نیچے کنوئیں میں دیکھا پانی بہت نیچے تھا وہ جا تو نہیں سکتا تھا نیچے اُس نے آسمان کی طرف دیکھا اے پانی والے بے زبان ہوں پانی پلا پانی اُبلتا ہوا اوپر آن پہنچا اور منڈیر کے آ کے برابر لگ گیا ہرن نے پانی پیا ہیرن کی وجہ سے جو انسان کھڑا دیکھ رہا تھا اسنے بھی پانی پیا لیکن جیسے ہی ہرن پیچھے مُڑا پانی واپس نیچے بیٹھ گیا اُس شخص کے منہ سے بے ساختہ نکلا ” میں انسان میرے لیے تو پانی اوپر نہیں آیا اور اس جانور کے لیے آگیا “ ۔۔ تب وہیں آسمان سے آواز آئی

” تو رسی کا سہارا ڈھونٹتا رہا اُس نے مجھے پکارا “

ایک ایک لفظ میرے کانوں کو کسی سُر کی طرح میٹھا لگ رہا تھا انکا کہا لفظ لفظ سچ تھا۔۔۔۔ اللہ‎ نے کہا ہے شراب حرام ہے میں نے پی لیکن حجاب کے ذریعے اُس دن مجھے اُس گناہ سے بچایا ہر بار اُس حرام کو چھوڑنے کا اشارہ کیا میں نے نہیں چھوڑا یہاں تک کے آج مہوش کو بچانے میں دیری بھی ہوئی تو اسی حرام کی وجہ سے جس نے میرا دماغ تک مفلوج کیا اگر آج بھی اُسے یاد نہ کرتا تو شاید خود سے نظریں ملانے کے قابل نہ رہتا۔ زندگی کے ہر راستے میں اُس نے میری مدد کی، دل و دماغ کی جنگ میں دل کو جیت دلائی شیطانی دماغ کی ہر چال ناکام بنائی۔۔ اور دل کیوں نہ جیتاتا آخر اِس دل میں میرا اللہ‎ رہتا ہے تو کیسے ہو سکتا تھا میں اُسکے حکم کے خلاف کچھ کروں وہ ساتھ تھا میرے ہر وقت ہر پل بس میں اُس سے انجان بنا پھڑتا تھا۔۔۔

” منہ دھو لو پھر اچھا سا کھانا کہلاتا ہوں “ وہ اٹھ کے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے مجھ سے ہمکلام تھے۔۔۔۔

” کیا میں آپ سے روز مل سکتا ہوں؟؟ “ میں نے آنسوؤں پونچھ کر انہیں دیکھا میرا لہجہ کسی بچے کی طرح منت بھرا تھا۔۔

” بلکل پانچوں وقت اسی مسجد میں نماز پڑھتا ہوں آجانا بچے ساتھ پڑھیں گئے مجھے بھی خوشی ہوگی۔۔۔ “ وہ بےشک اچھے تھے ہوشیار بھی اور دوسروں کا بھلا سوچنے والے۔۔

” پانچوں وقت پڑتے ہیں؟؟؟ پھر آفس مطلب جاب کیسے کرتے؟؟؟ “ میں نے حیرانگی سے ان سے پوچھا گھر اچھا خاصا تھا ان پانچ وقتوں میں کام میں کوئی مشکل درپیش نہیں آتی تھی انہیں؟؟؟

” وہ منزل کیا منزل ہے جو مل کے چھین جائیں

وہ عزت کیا عزت ہے

وہ دولت کیا دولت ہے

وہ شہرت کیا شہرت ہے

جسے موت مٹا دے “

سمجھے؟؟؟ دنیا فانی ہے یہ دولت بھی یہیں رہنی شہرت بھی بس اعمال لیکر جانے جو آگے فیصلہ کرینگے ہم اس دنیاوی امتحان میں فیل ہوئے یا پاس؟؟؟ میں دونوں کام سر انجام دیتا ہوں اب تو عادت ہے پورے دن میں کیا بس ایک گھنٹا بھی اللہ‎ کے لئے نکال نہیں سکتا؟؟ کتنا وقت لگتا ہے ایک نماز میں جو میں اذان سن کر اُسکی محبت میں بھاگا نہ آؤں؟؟ “ وہ اتنے پر سکون تھے کے مجھے انھیں دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی ہر سوال کا جواب انکے پاس موجود تھا۔۔۔

” آپ کے دن کا روز ایک گھنٹا مل سکتا مجھے؟؟؟ “

” ضرور “ وہ مسکرا اٹھے۔۔۔ کھانے کے بعد میں اُن سے اجازت لیکر نکلا وہ میرے ساتھ مجھے باہر تک چھوڑنے آئے۔۔ میں چلتے چلتے وہیں آکھڑا ہوا جہاں کچھ دیر پہلے اندر جانے سے ڈر رہا تھا میرے قدم خود با خود میرے اللہ‎ کے گھر کی طرف چل پڑے نہ دل میں خوف تھا نہ چال میں لڑکھڑاہٹ اندر آکر میں وہیں بیٹھ گیا جہاں کچھ لوگ تسبیح پڑھ رہے تھے تو کچھ صورتیں پڑھ رہے تھے۔۔۔ میں آج یہاں سکون کی تلاش میں آیا تھا میں نے سنا تھا سجدے میں انسان اللہ‎ کے قریب ہوتا ہے میں نے نفلی نماز ادا کی جب تک تھاکہ نہیں پڑتا گیا اور جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھے تو بس معافی مانگنے کے لئے اٹھے میں نہیں جانتا دل میں کس کس گناہ کا اعتراف کیا بس مجھے لگا وہ سن رہا ہے دلوں کا حال جانتا ہے میں جب اٹھا تو وہ دھندھلا عکس مٹ چکا تھا آنکھیں صاف تھی رویا تو اسکے آگے رویا جسے بندے کے آنسوؤں دیکھتے ہیں نہ انکے آگے رویا جو آنسوؤں دیکھ کر بھی انجان رہتے۔۔۔

میں اُس دن جب لوٹا تو مہوش کو حیران کر گیا اور جب اُسے بتایا آج نماز پڑھی تو وہ عجیب نظروں سے مجھے دیکھنے لگی اُسکے بعد صرف میں نہیں وہ بھی بدلی تھی بار بار مجھ سے حجاب کا پوچھتی میں نے اسکے کہنے پر پہلی بار تنگ آکر حجاب کو کال کی ورنہ میں اُس سے بےنیازی برتے ہوے تھا حجاب کچھ دن پہلے ہی بچوں کو لیکر اپنی امی کے یہاں گئی تھی میں نے کال کر کے اُس سے آنے کا پوچھا اسنے کہا کل تک آجائے گی۔۔ میں نے بھی بغیر کچھ اور پوچھے فون رکھ دیا۔۔۔ اب میں وہ نہیں تھا جو حجاب کے آگے پیچھے گھومتا تھا۔۔۔ جب اُس رات مسجد سے نکلا تھا تب سکون ہی سکون تھا میری روح میں، مجھے لگ رہا تھا آج میں ہر گناہ سے پاک ہوگیا ہوں وہ دن تھا جب میں نے اُسے پکارا تھا اور آج کا دن ہے وہ میری کامیابی کا راز ہے میری دولت شہرت کا وہی راز ہے ذرا برابر دانا بھی بس اُس سے مانگا رویا تو بس اُسکے آگے رویا۔۔۔۔۔ میں نے انسانوں سے امید لگانا چھوڑ دی سب کو بھلا بیٹھا بس اُسکے قریب تر ہوتا گیا۔ میری عبادتیں طویل ہوتی گئیں، اٹھتے بیٹھے استغفار میری زبان پر رہتا دن رات گناہوں کی توبہ کرتا۔۔۔ مجھے یہ رنگین دنیا لے ڈوبی تھی گہرے سمندر میں لیکن اُس نے مجھے ایسے اچھالا کے آج تک میں ایک پل کو نہ لڑکھڑایا آج اپنے پیروں پر کھڑا ہوں میری چال میں ذرا برابر لڑکھڑاہٹ نہیں کیوں کے میں ” گر کے سنمبھلا ہوں۔۔“

مہوش کی شادی میں نے خود اپنی مرضی سے عاصم سے کروائی وہ جیسا بھی تھا لیکن ہوس پرست اور عزت بھیچنے والا نہیں تھا وہ شخص وہ تھا جو ماں بہن بیوی کو ” محبت سے پہلے عزت دینا جانتا تھا “ اور یہ وقت نے بتایا میرا فیصلہ سہی تھا۔ میں نے حجاب پر طنز طعنے کرنا چھوڑ دیے میرا زیادہ تر وقت حاجی صاحب کے ساتھ گزرتا لوگ انھیں حاجی صاحب کہہ کر بلاتے ہیں سنا ہے پچھلے سال حج کر کے آئے ہیں میں بھی سب کی دیکھا دیکھی انھیں حاجی صاحب کہتا ہوں انکی باتیں انکے واقعات مجھے دن با دن دین سے قریب تر کر رہے تھے۔ میری راتیں کلب میں موج کے بجائے مسجد میں عبادت کرتے گزرتی اکثر میرا اداس چہرہ حاجی صاحب پڑھ کے اُسکی وجہ پوچھتے اب انھیں کیا بتاتا ایک انا پرست لڑکی نے انا کی آڑ میں ہماری زندگی کے چھ سال گزار دیے میں ہر بار لوٹا ہوں اُسکی طرف ہر بار اُسکے آگے جھکا ہوں لیکن اب نہیں۔۔۔ اتنا حوصلہ نہیں ہر بار خود کو تڑوا کر سمیٹ لوں اُسکے ساتھ میں بھی اذیت میں رہا ہوں تنہائی جھیلی ہے لکین انتظار بھی کیا ہے اور وہ ہے کے خاموشی کی چادر اوڑھے نجانے کن معجزوں کا انتظار کر رہی ہے؟؟


” خاموشی کی کتنی زبانیں ہیں نا

دکھ،ضد، غصہ،انا،اشکر “


اسکی خاموش نگائیں اکثر مجھے کچھ کہتے کہتے پلٹ جاتیں آج بھی وہ ویسی ہی ہے ” میں “ کو پوجنے والی۔۔ میں بھی اُس کے سامنے اُسکو نظر انداز کرتا بس اپنے بچوں کا ہوکر رہ گیا اُنکے بےحد قریب اور وہ دن میرے لئے حسین ترین تھا جب احتشام نے ڈیڈا کہا میں نے انھیں خود کا اس قدر عادی بنا ڈالا کے اپنی نانی کے گھر جانے سے پہلے اطلاع کرنا نہیں بھولتے تھے کے ہمیں لینے آنا۔۔ اکثر رات کو اُنکے پسندیدہ کارٹونز پروگرام اُنکے ساتھ بیٹھ کر دیکھتا۔۔ میرے اندر کمرے میں جانے کی ہمت نہیں تھی۔۔ وہاں جاکر وہی خاموشی ہم دونوں کے بیچ حائل ہوتی بس اُسی خاموشی سے بچنے کے لئے میں زیادہ تر نیچے ہی رہتا۔۔۔۔ ایک دفعہ کوئی انڈین ڈرامہ چل رہا تھا جہاں کچھ لڑکے ایک لڑکی کو اغوہ کر کے اُسے زیاتی کا نشانہ بنا کر کسی کچرے دان میں لاوارث چھوڑ کر بھاگ گئے ہم چاروں وہیں لاؤنچ میں تھے حجاب کپڑے پریس کر رہی تھی احتشام اپنا بیگ پیک کر رہا تھا ساتھ ٹی وی پر چلتا شو توجہ سے دیکھ رہا تھا جبکے پرنیا یک ٹک سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی بچی ہوکر بھی وہ یہ سمجھ گئی تھی کچھ غلط ہوا ہے۔۔

” ڈیڈ واٹ ہیپنڈ ٹو دیٹ گرل؟؟؟ “

اسکی معصوم نمی میں ڈھوبی آواز نے مجھے جھنجھوڑا میں خاموش رہا میرے پاس الفاظ نہیں تھے وہ مجھے خاموش دیکھ کر رونے لگی حجاب احتشام اپنا کام چھوڑ پرنیا کے پاس آگئے۔۔۔

” میری جان کیا ہوا؟؟ “ حجاب اپنا کام چھوڑ تیزی سے اسکے پاس آئی

” کیا ہوا پری۔۔ “ احتشام حیران پریشان کبھی مجھے دیکھتا کبھی پرنیا کو۔۔۔

” مما بیڈ انکل۔۔۔ “ پرنیا نے ایل اے ڈی کی طرف اشارہ کیا حجاب نے ایل اے ڈی کو دیکھ کر ناسمجھی سے مجھے دیکھا کیوں کے وہاں بریک چل رہا تھا۔۔ جبکے احتشام خاموشی سے اپنی جگہ پر جا بیٹھا یہ حجاب کی باتوں کا ہی اثر تھا اکثر وہ بچوں کو ایسی غلیظ نظروں سے بچنے اور ساتھ انکی غلط حرکتیں بتا کر آغا کرتی کے آگر ایسا ہو تو اپنے بڑوں کو ضرور بتاؤ۔۔

” ایک گینگ نے لڑکی کا ریپ کیا۔۔ “ میں نے اپنی خاموشی توڑی حجاب نے پرنیا کو بےتابی سے گلے لگایا اور پرنیا کو اس طرح خود میں بھینچ لیا جیسے ابھی کوئی اس سے پرنیاں کو چھین کر لے جائے گا۔ ماں اس حال میں بچے کو بہتر سمجھا سکتی ہے حجاب نے اکثر مجھے کہا بھی کے کیبل کٹوا دوں یہ دونوں سارا دن کبھی ریلٹی شوز دیکھتے تو کبھی کارٹونز اور انڈین ڈرامے جس سے حجاب کو سخت چڑ تھی اس واقع کے بعد حجاب نے پرنیا اور احتشام کو کافی الرٹ کیا اور یہی وجہ تھی کے پرنیا نے ڈرائیور کی حرکت سے مجھے آغا کیا لیکن یہاں مجھے غصّہ حجاب پر آیا جو اکثر کبھی رونے کا مشغلہ فرما رہی ہوتی تو کبھی تنگ آکر کہہ دیتی میں ہی مر جاؤں چڑچڑا پن اسکی طبیعت کا حصہ بن چکا تھا اس دن حجاب کی بےنیازی پر میرا ہاتھ اٹھا تھا وہ بیوقوف لڑکی سب پہلے سے جانتی تھی پھر بھی انجان رہی مجھے ایک دفع بھی نہیں بتایا کے ڈرائیور اُسے تک غلیظ نظروں سے گھورتا ہے ہوش اُسے تب آیا جب بات بیٹی پر آئی۔۔ اُس وقت شدید غصّے میں میرا ہاتھ اٹھ گیا وہ کہہ رہی تھی ڈرائیور کی نظریں اسکا دیکھنا۔۔۔ ایک دفع بھی حجاب نے پرنیا کا نام نہیں لیا وہ خود بھی ہر وقت جلتی رہی ساتھ مجھے بھی جلا کر راکھ کردیا۔۔۔ اُس تھپڑ نے حجاب کی خاموشی توڑ دی رات کو جب میں حاجی صاحب سے ملنے مسجد جا رہا تھا تب حجاب کا فقرا میرے تن بدن میں آگ لگا گیا وہ پوچھ رہی تھی آج کہاں جا رہے ہو منہ مارنے میں نے بھی اُسکی زبان میں اُسے جواب دیا۔۔ اُس رات پھر حاجی صاحب میرے چہرے سے اداسی بھانپ گئے اور میں نے تنگ آکر انہیں سب بتا دیا اُس دن تو انہوں نے کچھ نہ کہا لیکن اگلے دن جہاں حجاب کی کال نے مجھے حیران کیا وہیں حجاب کی ڈرائیونگ سیکھنے کی بےتابی دیکھ مجھے لگ رہا تھا وہ سخت برف پگھل رہی ہے لیکن میں اُسکے ساتھ نہیں گیا اب تھوڑا وہ بھی تو ترسے مجھےایک عرصے سے لٹکایا ہوا تھا۔۔۔ اس دن مجھے علیزہ کو گھر بھی دیکھانا تھا جو عباس نے اُسکی پسند سے خریدا تھا نیکسٹ منتھ انکی شادی تھی اور آج کل میرا زیادہ تر وقت اُنکا ہوتا لیکن میں نہیں جانتا تھا میری بےنیازی نے حجاب کے دل میں شک کی جڑیں مضبوط کردیں منتہا نے مجھے بتایا تھا کے حجاب میرا پوچھ رہی تھی اور حجاب کا وہ ریکشن میں آج تک نہیں بھولا جب علیزہ کا فون دیکھ کر وہ غصّے سے لال پیلی ہوتی مجھ پر طنز کرنے پہنچ گئی اور وہی دن تھا جب حجاب تاثیر دل کے ہاتھوں مجبور ہوئی لیکن میری اکسانے پر بھی ایک بار تک نہیں کہا محبت ہے تم سے۔۔۔۔

بس اس دن یہی جانا اسے احساس تھا میرے اقرار کا اُسے پروا تھی میری ناراضگی کی وہ لوٹنا چاہتی تھی میرے پاس لیکن وہی ” انا “ اور اسی انا کو توڑنے کے لئے میں حاجی صاحب کے پاس گیا انھیں بتایا۔۔۔۔۔

” مجھے لگتا ہے انا میرے گھر کو تباہ کر دیگی، اس انا کی وجہ سے میں اپنی بیوی کھو دونگا “ میں سر ہاتھوں میں تھامے بےبس کی تصویر بنا ہوا تھا۔

” تم پہل کرو اس انا کو آگ میں جھونکو “ وہ سکون سے گویا ہوے نجانے کیوں انھیں سب آسان لگتا۔۔۔

” میں ہی کیوں جھکوں وہ کیوں نہیں جھکتی؟؟ “ میرا لہجہ یکدم تیز ہوا اُنکی جانچتی نظریں اُنکے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ بکھر گئی

” پہل تو کرو وہ بھی آئے گی اور یہ آخری دن ہوگا جب تم نے پہل کی دیکھنا شرمندہ ہوکر آیندہ وہ کریگی۔۔۔ “ وہ ایسے کہہ رہے تھے جیسے مجھ سے زیادہ حجاب کو جانتے ہیں۔۔

” وہ کبھی نہیں کریگی اُسے اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز اُسکی انا ہے “ میں دانت پیستے ہوے بولا آج اتنی ٹائم بعد شدید غصّہ آیا ہے وہ کتنے پاس تھی میرے میرا لمس تک اسے سکون بخش گیا۔۔۔

” ٹھیک ہے دیکھتے ہیں تم کرو پہل مجھے یقین ہے میری بات غلط ثابت نہیں ہوگی “ نرمی سے وہ گویا ہوے

” آپ اُسے نہیں جانتے “ میں بےبس تھا شاید اپنی غلطی میں انہیں بھی شریک کرنا چاہتا تھا لیکن وہ ہاتھ پیچھے کیے بیٹھے تھے۔۔ وہ خاموش رہے میں کچھ دیر بعد انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولا

” ٹھیک ہے دیکھتے ہیں ایک گیم کھیلونگا آزمانا چاہتا ہوں اُسے اور مجھے یقین ہے اس آزمائش میں میری جیت ہوگی کیوں کے اقرار وہ کبھی نہیں کریگی دیکھتے ہیں میرا سالوں کا تجربہ جیتتا ہے یا آپ کا یقین “ میرے چپ ہونے کے بعد وہ آپنے ازلی انداز میں مسکرا کر گویا ہوے

” ایک بات یاد کھنا

” عورت کوئی بھی ہو

رشتوں میں ملاوٹ پسند نہیں کرتی

وہ جس سے بھی پیار کرے

اس کی حرکات کو نظروں میں رکھتی ہے

لڑتی ہے جگڑتی ہے

اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے

مگر شراکت کبھی برداشت نہیں کرتی “

” آپ نہیں جانتے انا پرست لڑکی کو دل دیا ہے “ میں نے احتجاج کیا کیوں کے میں یہی کرنے والا تھا بس یہی طریقہ تھا اسے جھکانے کا۔۔ اسکے اقرار کا

” نہیں جانتا بس یہ جانتا ہوں انا مرد کی ہو یا عورت کی تباہ ایک خوشگوار گھر ہوتا ہے “ انکی مسکراہٹ یکدم غائب ہوگئی کاش میں انکی اس مسکراہٹ کا مطلب سمجھتا وہ روکنا چاہتے تھے مجھے۔۔۔ لیکن میری ضد میری غصّے نے آج انھیں وہی شخص دکھایا وہی ابراز حیات دکھایا جو باپ تک کی عزت نہیں کرتا کاش کاش اس دن انکی سن لیتا تو آج یہ ہار میرا مقدر نہ بنتی میں کھیل کھیلنے چلا تھا قسمت نے میرے ساتھ ہی ایک درد ناک کھیل کھیلا میں ہار کر بھی زندگی کی بازی نہ جیتا جس ہار کی دعائیں کیں تھیں آج وہ میرا مقدر بنی لیکن میری حجاب سے وہ خوشی چھین لی۔۔۔۔۔

منتہا نے مجھے کہا بھی تھا اُسے آفس تک ڈرائیو کرنا نہیں آتا میں نے منتہا کی ایک نہ سنی اُسے کال کر کے بلوایا وہ فائل اُسکی کار میں رکھی۔۔ منتہا نے مجھے صاف منع کر دیا وہ حجاب سے جھوٹ نہیں بولےگی وہ حجاب کی نیچر سے واقف بھی تھی اور خوف زدہ بھی لیکن میرے آگے اُسکی ایک نہ چلی اور وہ منظر جو حجاب نے دیکھا علیزہ۔۔۔ علیزہ میرے ساتھ کھڑی عباس سے ویڈیو کال پر بات کر رہی تھی لیکن

اُس وقت حجاب کی آنکھوں نے وہ دیکھا جو میں نے اُسے دیکھانا چاہا لیکن اُسکے بعد وہ ہوا جو میرے وہم وگمان میں نہیں تھا میں حجاب کا ریکشن منتہا سے سن کر جس قدر خوش تھا وہیں تاثیر صاحب کی کال نے میری ہستی مٹا دی مجھے لگا تھا میں اُسے کھو چکا ہوں میں وہیں پاگل ہوجاتا آگر علیزہ مجھے ہسپتال نہ لے آتی یہاں مجھے میری جیتی جاگتی حجاب تو ملی لیکن شاید میں نے اسے پاکر بھی گنوا دیا میرے کھیل نے اُس سے وہ طاقت چھین لی جس سے وہ اس خوبصورت دنیا کو اپنی آنکھوں میں بساتی تھی۔۔۔ میں نے بار بار اپنا چہرہ دھویا لیکن میرے بہتے آنسوؤں نہ روکے میرا دل پھٹ رہا تھا یہ سوچ جان لیوا تھی کے وہ ہوش میں آکر کیا کریگی؟؟

وہ اس سے لمحہ لمحہ دور جا رہی تھی حجاب چاہ کر بھی ایک قدم نہ بڑھا سکی آٹھ سالہ عائشہ حجاب سے روٹھی ایک ایک قدم پیچھے لیتی تو پچیس سالہ حجاب اسکے ایک قدم بڑھانے سے ہمت کر کے اپنا پاؤں آگے کرنے کی کوشش کرتی لیکن چاہ کر بھی اِسکے وجود میں جنبش نہ ہوتی۔۔۔۔

عائشہ اسے ہلتے نہ دیکھا شکوہ کناں نظروں سے دیکھتے روتے ہوے بولی۔۔

” جانتی ہو حجاب تم نے جس نعمت کی قدر نہیں کی نہ آج اُس‎ نے وہ تم سے چھین لی۔۔ جس کی دی ہوئی نعمت سے تم لوگوں کا دل دُکھاتی تھیں آج وہ وجہ ختم ہوگئی۔۔۔ اب تم کبھی لوگوں پر فتوی جاری نہیں کروگی۔۔ تم نہیں جانتیں تم سے زیادہ مجھے تکلیف ہو رہی ہے غصّہ آرہا ہے تم پر کاش تم نے وقت رہتے اُس کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کی ہوتی۔۔ تم نے سب کا دل دکھایا سب سے زیادہ اُس کا جس نے تمہاری جان بچائی۔۔ تم خود سر، مغرور ہو۔۔۔ آج بھی تم ویسی ہو اب تم میرے پاس نہ آنا کیوں کے تم کبھی نہیں بدل سکتیں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔ “

” نہیں “ وہ بیڈ شیٹ کو مٹھی میں جکڑے چیختی ہوئی اٹھ بیٹھی اسکا پورا وجود پسینے سے شرابور تھا پیشانی پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے موجود تھے اسکی سرخ آنکھیں کمرے میں اندھیرا دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوگئیں بند یا کھلی آنکھوں میں اب کوئی فرق نہ تھا۔۔۔

” ام “ اس سے پہلے وہ اپنی ماں کو پُکارتی آمنہ نے اسے خود سے لگایا وہ اسکی چیخ سن کر اٹھی تھیں۔۔۔

” حجاب میری جان کیا ہوا؟؟ “ حجاب کو اس طرح خوفزدہ دیکھ کر آمنہ نے اسے گلے لگایا یہ اب تقریباً روز کا معمول تھا حجاب اسی طرح خوفزدہ ہوجاتی۔۔۔

” امی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے خوف آرہا ہے مجھے ایک بار آپ کو دیکھنا ہے امی۔۔۔ ایک بار روشنی لا دو۔۔۔۔۔۔ میں پاگل ہوجاؤنگی۔۔۔ مجھے کچھ نہیں دِکھتا کچھ بھی نہیں۔۔۔ نہ صبح کا پتا لگتا نہ رات کا۔۔۔ مجھے خود سے نفرت ہوتی ہے بوجھ لگتی ہے یہ زندگی امی۔۔۔ کچھ کرو۔۔۔ میں ایسے۔۔۔نہیں۔۔۔۔رہ سکتی امی۔۔۔۔م۔۔۔۔میں مر جاؤنگی یا مجھے مار دو۔۔۔ اب تو۔۔۔ وہ بھی۔۔۔چھوڑ گیا مجھے۔۔۔ کچھ بھی نہیں میرے پاس۔۔۔ میں کچھ نہیں کرسکتی۔۔۔ مجھے خوف آتا ہے امی کوئی آیے یا جاے مجھے کچھ نظر نہیں آتا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔اب تو چہرے بھی بھول گئی ہوں امی۔۔۔ بس ایک دفع دیکھا دو مجھے۔۔۔امی کچھ بولو نہ اس خاموشی سے ڈر لگتا ہے وحشت ہوتی ہے۔۔۔ “ حجاب کے آنسوؤں، اسکے الفاظ آمنہ کا دل چیر رہے تھے وہ خود بھی رو رہیں تھیں حجاب کو آج یہاں آئے تیسرا دن تھا بچے الگ کمرے میں تاثیر صاحب کے ساتھ سوتے حجاب کی اس حالت کے بعد کوئی بھی اُس سے ملنے نہیں آیا سب نے منہ موڑ لیا چاہے وہ ابراز ہو یا اسکے ماں باپ سب حجاب کو ایسے بُھلا بیٹھے تھے جیسے وہ کبھی انکی زندگی میں آئی ہی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” آپ نے مجھے روکا کیوں نہیں؟؟ “ آج وہ ان کے سامنے کھڑا بےبسی کی انتہا پر تھا۔۔ دو دن سے لگاتار وہ ہسپتال کے چکر لگا کر اپنی ہستی تک بھلا چکا تھا وہ انکے پاس آکر اپنا غم ہلکا کر لیتا لیکن سکون ابھی بھی کسی طور مُیسر نہ ہوا جب تک حجاب کے روبرو کھڑا اُس سے سزا نہیں پوچھ لیتا تب تک کسی طور یہ دل اس غم سے آزاد نہیں ہوگا۔۔۔۔

” انسانی فطرت ہے بچے انسان کو جس کام سے روکو وہی کرتا ہے “ وہ آج بھی پُر سکون تھے چہرے پر وہی خوبصورت مسکراہٹ تھی۔۔

” آپ روکتے تو۔۔۔ “ سارا الزام ان پر ڈال کر وہ کسی ننھے بچے کی طرح شکایات کر رہا تھا حاجی صاحب دھیرے سے ہنس دیے۔ ۔۔۔

” ایک ہفتہ تم سے سر کھپایا احساس دلایا انا دونوں طرف ہے مگر وہ انسان ہی کیا جو اپنی غلطی مانے۔۔۔ “ انہوں نے ایک کا اشارہ کر کے تسبیح رکھ کر اپنی داڑھی کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔۔ پھر اسے غور سے دیکھتے اپنے لب کھولے جس میں رازی کو اپنا آئینہ دیکھاتا عکس شرمندہ کرگیا۔۔۔

” تمہیں جب پہلی بار دیکھا تھا تم ایک معصوم بچے لگے تھے مجھے۔۔۔ لیکن اُس دن تمہیں میں دیکھ کر ڈر گیا انا اور غرور کی جھلک تھی تمہاری آنکھوں میں خود پر اتنا غرور نہ کیا کرو بچے یہ غرور انسان کو ذلت کی گہری کھائی میں اچھال دیتا ہے۔۔۔ “ وہ اللہ‎ کے انہی بندوں میں سے تھے جو اُسکے بندوں کو گناہ کی راہ میں چلتا دیکھ کانپ اٹھتے اب بھی وہ چہرہ بےبسی سے ابراز کو دیکھ رہا تھا، مسکراہٹ یکدم ان ہونٹوں سے غائب ہو چکی تھی۔۔۔

” غرور نہیں تھا حاجی صاحب بس خود پر اعتبار نہیں تھا ایک دنیا کہتی ہے ” خاص “ ہوں میں لیکن اُسکی نظر میں

” عام “ سے بھی ” عام “ ہوں۔۔ “ بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا دل اب تک تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا آنے والا وقت گزرا وقت کیا کھیل کھیل گیا؟؟؟ پتا ہی نہ چلا وہ بس دیکھتا رہا۔۔۔

” تو خاص بناتے خود کو۔۔ جس چیز کی کمی ہے اُسے پورا کرتے اُسے اعتبار دلاتے تو آج پیشیمانی سے یہاں سر جھکائے نہیں بیٹھے ہوتے۔۔ “ وہ نرمی سے گویا ہوا

” وہ خود بھی تو سمجھتی “ ابراز لاچارگی سے گویا ہوا

” عکس یا ایک جھلک تو دیکھاتے کے بدل چکا ہوں بےنیازی اہمیت نہیں جگاتی بلکے اُسے وہ دیکھنا تھا جس کی اول سے خوائش کی تھی اُس نے۔۔ تمہاری بیوی باپردہ خاتون ہے وہ کیوں ایسے شخص کو تصور کریگی جس نے ہر پل احساس دلایا ہو میں کل بھی ویسا تھا آج بھی ویسا ہوں دیکھ لو تمہاری مذاق میں کہی گئی بات تمہیں مہنگی پڑ گئی۔۔ “ انکی باتیں ابراز کو رہ رہ کر اپنے خسارے کا احساس دلا رہیں تھیں

” میں کیا کروں؟؟ “ اسکی آواز یکدم بھرا گئی۔۔۔ دل میں درد کی ایک لہر سی اٹھی۔۔۔

” اعتبار دلاؤ اسلام صرف مرد کے حقوق نہیں بتاتا بلکے فرائض بھی بتاتا ہے شوہر کے حقوق تو اس پڑ واضع کیے اب ذرا فرائض کی جھلک بھی دیکھائو ایسی آزمائش پر چھپو نہیں سامنا کرو یقین دلاؤ احساس دلاؤ اپنے ہونے کا “ انہوں نے ابراز کے کندھے پر ہاتھ رکھے دھیمے لہجے میں اسے سمجھایا

” ہمت نہیں۔۔۔ “ وہ کسی بےبس پرندے کی طرح لگ رہا تھا فرق بس اتنا تھا پرندے کو آزادی چاہے دنیا دیکھنے کے لئے جبکے ابراز کو قید چاہیے اس دنیا سے بچنے کے لئے آخر چھپنا بھی کسی مسلے کا حل ہے؟؟؟

” جنگل میں صبح جب ہرن جاگتا ہے تو سوچتا ہے آج اگر جی جان سے نہیں بھاگا تو مارا جاؤنگا اُسی صبح ایک شیر جاگتا ہے اور سوچتا ہے آج گر جی جان سے نہیں بھاگا تو بھوکا رہ جاؤں گا آپ شیر ہو یا ہرن آپ کو بھاگنا تو پڑے گا۔۔۔ اسی طرح جب غلطی کی ہے تو سامنا تو کرنا ہوگا اعتراف کرنے میں گناہ نہیں جب اُس سے کیا ہے تو اُسکے بندے سے بھی کرو۔۔۔ “ ابراز نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا انکے پاس ابراز کے ہر سوال کا جواب ہوتا لیکن آج انکی یہ بات ابراز کو کسی تیر کی طرح چُبھی تھی وہ سامنا کرنے سے ہی تو ڈرتا ہے۔۔۔

” کاش یہ نہ ہوتا۔۔۔ جیسا میں نے سوچا ویسے کیوں نہ ہوا۔۔۔ میں غلط تھا میں مانتا ہوں لیکن میں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے کسی کا نقصان ہو پھر حجاب کے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟؟ “

” ایک چڑیا نے خدا سے شکایت کی اے اللہ بڑی مشکل سے گھونسلہ بنایا تھا تو نے طوفان بھیج دیا میرا گھونسلا خراب ہوگیا۔۔ تبھی آواز آئی تیری آنکھ لگ گئی تھی اور تیرے گھونسلے میں سانپ چلا آیا تھا تجھے کھانے۔۔ طوفان اسی لئے بھیجا تاکے تو جاگ جائے اور اُڑ جائے۔۔۔ تم نہیں جانتے بچے کبھی کبھی سزا بھی بڑا سبق بنتی ہے اور یقیناً وہ نوازتا ہے تو چھین بھی سکتا ہے اور چھین کر بہترین سے نوازتا ہے۔۔۔اب اٹھو خود سے نہ بھاگو مزید ایک منٹ کی دیری اُسے تم سے مزید بدگمان کردے گی۔۔۔ یاد رکھنا جب فاصلے بڑھتے ہیں تو غلط فہمیاں بھی بڑھ جاتی ہیں پھر وہ بھی سنائی دیتا ہے جو کہا بھی نہ ہو “ آج بھی وہ انکی باتوں سے قائل ہوا تھا ایک بار پھر وہ اسکے لئے امید کی کرن بن کر آئے تھے۔۔۔ گلے میں اٹکا آنسوؤں کا پھندا روکتے ہوے وہ جو نڈھال ہو رہا تھا اٹھ کھڑا ہوا حاجی صاحب کے ہونٹوں کو پر ایک پرسکون مسکراہٹ آن ٹھری۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


حجاب نماز پڑھ کے اٹھ کھڑی ہوئی سائیڈ پر ہوکر وہ جھکی تھی اور جانماز کا کونہ ڈھونڈ رہی تھی تاکے تہ کر سکے تبھی اسے اپنے ہاتھوں کے قریب ایک لمس محسوس ہوا جیسے وہ اسکی مشکل آسان کرنے آیا ہو حجاب ڈر کے پیچھے ہٹی۔ آج کل یہی ہو رہا تھا ہلکی آواز سن کر بھی وہ خوفزدہ ہو جاتی حالانکہ گھر میں گھر والوں کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟؟ لیکن یہ ڈر تھا کے کسی طور اسے پُر سکون ہونے نہیں دیتا۔۔۔

” حجاب۔۔ “ اجنبی آواز سن کر وہ مزید خوفزدہ ہوگئی۔۔

” کو۔۔۔کون؟؟؟ “ وہ قدم بڑھاتی ڈر کے مارے پیچھے ہو رہی تھی۔۔

” حجاب تم ڈر کیوں رہی ہو میں عائشہ ہوں تمہاری دوست۔۔ “

عائشہ نے آگے بڑھ کے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔

” عائشہ “ حجاب کے لب لرز اٹھے وہ بمشکل عائشہ کا نام لے پائی اس سے پہلے عائشہ کچھ کہتی حجاب نے ہاتھ بڑھا کے اسے چھونا چاہا اور قریب آکر اسکے گلے سے لگائے وہ سسک اٹھی۔۔۔ عائشہ جو خود کو مضبوط بنا کر یہاں تک آئی تھی بُری طرح رو دی کیا کیا دکھ نہ تھا؟؟ رانیہ کا دکھ۔۔۔ بچھڑنے کا دکھ۔۔ حجاب کا وہ اجنبیت بھرا لہجہ۔۔۔ اپنی دوست کو پانے کی وہ خوشی۔۔۔ اور حجاب کی محرومی۔۔۔۔ دونوں نجانے کتنی دیر تک روتی رہتیں کے ثنا کے دستک دینے سے دونوں آنسوؤں پونچھتی الگ ہوئیں۔۔۔۔

” ہائے یہاں تو ندی بہہ رہی ہے اور مجھ معصوم کو دیکھیں کب سے پکوڑے تل رہی ہوں اس آس میں کے تعریف ہوگی لیکن آج تو آپی نے بھی آواز دیکر نہیں کہا کے خوشبو سے پیٹ نہیں بھرنا سامنے لاکر رکھو۔۔ ” ثنا نے لوازمات سے بھری ٹرے چائے کے ساتھ بیڈ کورنر پر رکھی۔۔

” تمہاری بہن ہے نہ دیکھو دو دن کی محنت کے بعد ہمت کر کے آئے تھی ساری محنت میری ضائع کردی۔۔ “ عائشہ نے مضبوطی سے حجاب کا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ تک لاکر بٹھایا۔۔۔

” ثنا۔۔ “ ثنا جو کچھ کہنا ہی والی آمنہ کی آواز سن کر جلدی سے کچن میں چلی گئی۔۔

” حجاب۔۔ “ عائشہ نے کچھ کہنا چاہا کے حجاب نے روک لیا۔۔۔

” تمہیں کیسے پتا سب اور اب بھی میرے ایکسیڈنٹ کا۔۔ مجھے ایسے لگتا ہے تم ہر وقت مجھے دیکھتی ہو۔۔۔ “ حجاب کے لہجے کی بےچینی محسوس کر کے عائشہ ہنس دی۔۔۔

” نہیں بس تم سے۔۔ تم سے جڑے ہر بندے پر غور کیا ہے اب تو شادی ہوگئی میری لیکن تقریباً پانچ سال پہلے ابراز بھائی جنہیں فرسٹ ٹائم یونی میں دیکھا تھا انھیں اپنے بابا کے ساتھ دیکھ کر کچھ حیران رہ گئی پھر انکی وہ بات کافر وہ بابا سے کہہ رہے تھے کوئی انھیں کافر کہتا ہے بابا نے نہ پوچھا نہ ابراز بھائی نے بتایا کون ہے وہ؟؟؟ لیکن میں تو جانتی تھی میری سامنے تم دونوں کی لڑائی ہوئی تھی یونی میں خیر بس اُس دن کے بعد سے میں نے جو یونی میں ابراز حیات کو دیکھا تھا اور بابا کے گھر میں جس ابراز کو دیکھا اُن دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔ میں آہستہ آہستہ اُنکی باتیں سننے لگی کبھی سنتی کبھی نہیں مجھے پتا ہے غیر اخلاقی حرکت ہے لیکن پہلی دفع جب سنا اُسی وقت اللہ‎ سے وعدہ کیا تھا حجاب کے علاوہ کسی سے ذکر نہیں کرونگی کیوں کے تمہیں رہنمائی کی ضرورت تھی اور بیوی دنیا کی کوئی بھی ہو شوہر کے منہ سے اپنے لئے تعریف سے ہٹ کر کچھ سنے تو شرمندہ ضرور ہوتی ہے میں نے یہی سوچ کر تم سے بات کرنے کا سوچا اور ایک بات کہوں ابراز بھائی بس دکھ دل میں نہیں رکھتے بابا کو بتاتے ہیں لیکن تم مضبوط ہو۔۔۔ بہت فرق ہے تم دونوں میں۔۔۔ ابراز بھائی کی یونی میں کافی تعریف سنی تھی وہ ڈونیشنز بہت کرتے ہیں۔۔۔ “ عائشہ کی باتیں سن کر حجاب نے ایک گہری سانس لی سمجھ نہیں آتا آخر ابراز حیات کو پہچانے میں اس سے کہاں غلطی ہوئی؟؟ جو عوروں کو دیکھتا ہے مجھے کیوں نہیں دیکھتا؟؟؟ حجاب بنا دیکھے بھی عائشہ کی نظریں خود پر محسوس کر سکتی تھی اسے عائشہ کے ساتھ اپنا رویہ یاد آتے ہی شرمندگی نے آن گھیرا۔۔۔۔

” تمہارا خط پڑھ کے میں جو آسمانوں میں اڑتی تھی بُری طرح زمین پر آگڑی میں نے توبہ کی لیکن جانتی ہو میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟؟ کیوں کے شاید میری توبہ پکی نہیں تھی میں نے اُن لوگوں کو ایک پل کے لئے یاد نہیں کیا جنکا دل دکھایا تھا اُس وقت بس ایک شخص یاد تھا ” ابراز “ مجھے لگا مکافاتِ عمل کی صورت میں وہ میرے سامنے آکھڑا ہوگا لیکن جب تک میں انا کا بت توڑتی تب تک مکافاتِ عمل شروع ہوچکا تھا اور سب سے بھیانک بات بتاؤں؟؟؟ مکافات عمل ابراز کی صورت میں تھا اُس نے میرے سامنے کسی اور کو لاکھڑا کیا میں تو یہی سمجھتی تھی میری جگہ کوئی نہیں لے سکتا لیکن کسی نے لے لی۔۔۔ “ وہ جو ایک نکتے کو تکتے عائشہ کے سامنے اپنا غم ہلکا کر رہی تھی نظریں جھکا گئی ان آنکھوں نے ہر بار دھوکہ دیا ہے اسے آج بھی بن بتائے برس اٹھیں جسے چھپانے کو حجاب نے نظریں جھکا دیں۔۔۔۔

” تمہیں ایک بات کہوں حجاب آج واقعی مجھے لگا غرور تم میں نہیں تمہارا ” یقین “ تمہارا ” اعتبار “ سچا ہے اور یہ ہونا چاہیے کیوں کے اعتبار ہی ایسے کمزور رشتوں کو مضبوط

کرتا ہے تمہارے سامنے ابراز بھائی نے کسی کو نہیں لاکھڑا کیا مجھے یقین ہے اور مجھے تمہارے یقین پر بھی یقین ہے۔۔ لیکن تمہارے ساتھ جو ہوا بس وہ ایک ٹھوکر تھی جسے کھانے کے بعد تمہیں وہ بھی یاد آیا ہوگا جسے تم یاد بھی نہیں کرنا چاہتی ہوگی بولو ایسا ہے نہ؟؟؟ کسی کا دل دکھایا ہے؟؟ “ عائشہ کی کہی ایک عام سے بات حجاب کے دل کے تار ہلا گئی یہ سچ تھا جسے سوچا بھی نہ تھا وہ بھی یاد آیا تھا اور ایسا وار کیا کے حجاب کبھی اُس شخص کے سامنے سر نہیں اٹھا سکے گی۔۔۔۔

” ہاں تبھی تو یہ نعمت مجھ سے چھین لی گئی کیوں کے آنکھوں سے دیکھتے ہوے بھی میں اندھی بنی رہی تمہیں کن الفاظوں کن لفظوں میں یقین دلاؤں اُسکا شکر ادا کرو ایک ایک نعمت کا شکر کرو کیوں کے اُسکی دی نعمت کی کمی اُس سے پوچھو جو اِس سے محروم ہے۔۔۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتیں اس اذیت کا۔۔۔کبھی کبھی دل چاہتا ہے سوں تو اٹھوں نہ۔۔۔۔ “

وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رودی عائشہ کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا مضبوط ہونے کے باوجود یہاں آکر وہ بکھر گئی۔۔۔

” حجاب پلیز سمبھالو خود کو۔۔۔ ادھر میری بات سنو۔۔ “ عائشہ نے اسکے دونوں ہاتھ چہرے سے ہٹائے اور انہیں ایک ہاتھ سے پکڑ کے اسکے آنسوں پونچھے۔۔ عائشہ اسے کسی بچے کی طرح ٹریٹ کر رہی تھی۔۔۔۔۔

” کون کہتا ہے کسی کے پاس کمی نہیں؟؟؟ آسمان کے پاس بھی تو زمین نہیں۔۔محرومی ہر انسان کی زندگی میں ہے نہ امیر خوش ہے نہ غریب لیکن ہاں جو اللہ‎ کو راضی کرتا ہے پھر یہ دنیا اُسکے ہونٹوں سے چاہ کر بھی مسکراہٹ نہیں چھین سکتی۔۔۔ مجھے یقین ہے آج میرا رب کانٹوں پر سے گزار رہا ہے لیکن گلاب تک پہچانے کے لئے۔۔ آنے والے سفر کا تم تصور بھی نہیں کر سکتیں حجاب کیا پتا وہ آج سے بہتر ہو بلکے اس آزمائش کے بعد بہترین ہو “ وہ نرمی سے اسے سمجھا رہی تھی حجاب کو یہ سب جہاں سنے میں اچھا لگ رہا تھا وہیں حقیقت سوچ کر خوف اٹھ رہا تھا وہ اب ہمیشہ اسی محرومی کے ساتھ زندگی گزارے گی۔۔ اور ابراز کیا وہ کبھی اسے پلٹ کر دیکھ گا بھی نہیں؟؟؟

” ہم۔۔۔۔ مجھے اب کسی کا دکھ نہیں بس جسکا انتظار تھا اب وہ دوبارہ آباد ہوچکا ہے اسے میری ضرورت بھی نہیں۔۔۔ “ حجاب خود کو سمبھال چکی تھی اس نے نرمی سے اپنے ہاتھ عائشہ کی گرفت سے آزاد کیے پاکر کھونا کیا ہوتا ہے اسے پل پل محسوس ہوا کاش وہ ابراز کو ٹھکراتی نہ۔۔۔

” ہوسکتا ہے کوئی اور وجہ ہو؟؟؟ “ عائشہ کو وہ ابراز یاد آیا جو اسکی بےنیازی سے تڑپتا تھا اسے کسی توڑ یقین نہ تھا وہ اس حالت میں حجاب کو چھوڑ گیا۔۔۔

” پتا نہیں۔۔۔۔ جانتی ہو یہ غرور کہاں سے آیا۔۔۔ “ نظر نہ آنے کے باوجود حجاب کی نظریں کھڑکی پر تھیں وہ اس کمرے کے کونے کونے سے واقف ہے ایک عرصہ یہاں گزارا ہے۔۔۔

” نہیں۔۔۔ “ عائشہ نے نفی میں سر ہلایا لیکن پھر حجاب کا سوچ کر اسکی گلے سے گھٹی گھٹی آواز برآمد ہوئی۔۔۔

” سب واہ واہ کرتے تھے میں اُنکی واہ واہ سن کر کسی آزاد پرندے کی طرح اڑتی تھی بغیر یہ جانے کے جب یہ پر چھین لئے جائیں گئے تب نہ صرف اڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہونگی بلکے بُری طرح زمین پر آگروں گی اور اس طرح گروں گی کے اٹھنے کے قابل نہ رہ سکوں گی۔۔۔ رانیہ کی موت نے مجھے سرتاپا بدل دیا دوسروں کو الزام دینے سے اچھا یہ ہے میں حجاب کروں کیوں کے غلطی بھلے برباد کرنے والی کی ہو ذلیل و خوار وہ لڑکی ہوتی ہے اور اسکے معصوم ماں باپ۔۔۔ ہم اس ملک کی عوام ہیں عائشہ جہاں آٹھ سال تک کی بچی کو انصاف نہیں ملتا پھر بالغ لڑکی کو تو یہ پتھر کھینچ کھینچ کر ماریں گئے۔۔۔۔ میں نے جب نقاب کیا مجھ سے زیادہ میرے اپنوں کو خوشی ہوئی چچا چچی اپنی بیٹیوں کو میری مثال دیتے انفیکٹ مجھے الگ سے بلا کر کہتے انہیں سمجھاو یہ اس طرح کے کپڑے نہیں پہنے اور تمھاری طرح حجاب کریں یقین کروگی عائشہ جب آپ کے بڑے آپکو سراہائیں تو خود پر آپنے باپ پر کس قدر فخر محسوس ہوتا ہے تم اندازہ نہیں لگا سکتیں میری کزنز مجھ سے چڑنے لگیں میری آتے ہی کہتیں عالمہ آ گی میں ان لوگوں میں سے نہیں تھی جو ڈر کے پیچھے ہٹتیں اب میں اور زیادہ انکے گھر جانے لگی جان بوجھ کر پہلے سے پریپیر ہوکر جاتی تاکے چچی مجھ سے اور امپریس ہوں مجھے اپنے خلاف ایک بھی غلط لفظ برداشت تک نہ ہوتا چاہے کوئی مجھے اپنی غلطی بتائے احساس دلائے غلط بیانی کر رہی ہو مجھے غصّہ آتا بجاۓ غلطی سدھارنے کے میں سمجھتی وہ جلتی ہیں مجھ سے اور نجانے کب یہ غرور میری خون میں شامل ہوگیا نہ یہ وراثت میں ملا نہ پرورش ایسی تھی بس تعریفیں اس انداز سے کی گئیں کے میں مزید سننے کے لئے ان تعریفوں میں ڈوبتی گئی اس قدر ڈوب گئی کہ اپنی انا اور اپنے غرور کی تسکین کے لیے سہی اور غلط کا فرق بھول گئی۔ تکبر تو اللہ‎ کو بھی نہیں پسند اپنے عمل کو اچھا جانا باقیوں کو خود سے کمتر۔۔۔۔ انسان اتنا اندھا ہوجاتا ہے کے سہی اور غلط کا فرق بھول جاتا ہے دیکھ لو یہ حال ہے تکبر کرنے والوں کا۔۔۔۔“

وہ دونوں ہاتھ پھلائے خود کو ایک نظر دیکھتے ہوے بولی۔۔۔ اسکی غم میں ڈوبی بےبس سی مسکراہٹ عائشہ کے رہے سہے اوسان خطا کر گئی وہ کیسے سمجھائے اسے کچھ چیزوں کا حاصل انسان نہیں سمجھتا۔۔۔۔

” تم ابراز بھائی سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہو؟؟ “ عائشہ نے اسکا دھیان ہٹانے کو یہ ذکر بہتر سمجھا۔۔۔

” اسنے میری انا پر وار کیا تھا مجھے شرمندہ کیا تھا غلطی میری تھی لیکن کس نے اقرار کیا ہے اپنی غلطی کا؟؟ امی کا وہ تھپڑ بابا کے سامنے وہ شرمندگی بس مجھے مزید اس سے بدظن کر گئی غلطی میری تھی میں کون ہوتی ہوں اُسے کافر کہنے والی جبکے خود اپنے اعمال کا پتا نہیں۔۔۔۔ میں کوئی نہیں تھی۔۔۔۔۔سب مجھ سے بہتر ہیں اب جب بدگمانی کی پٹی ہٹی ہے تو اُس نے مڑ کر بھی مجھے نہیں دیکھا۔۔۔۔ میں اُسے یاد بھی نہیں عائشہ۔۔۔ وہ رویا بھی تھا میں نے دیکھی تھی اُسکی آنکھوں میں نمی لیکن مجھے اپنی غم کے علاوہ کسی اور کا غم دیکھتا ہی نہیں تھا۔۔۔ اُسکا بھی نہیں دیکھا جسے مجھے شرمندہ کرنے کے لئے بیجھا گیا تھا۔۔۔ “ وہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی جبکے عائشہ کے کان حجاب کی آخری بات پر کھڑے ہوگئے۔۔۔

” کون؟؟ “

” میں نہیں جانتی اُسے بس اتنا جانتی ہو میں نے انسانیت کا ثبوت نہیں دیا تھا اور اُس نے ثبوت دیا کہ ابنِ آدم کی اولاد ہے وہ۔۔۔۔۔۔“ کتنا مشکل ہے اپنے کیے کا اعتراف کرنا وہ بھی وہ غلطی، گناہ جو اللہ‎ آپ کو کسی ذریعے یاد دلائے۔۔۔

” کیسے ڈھونڈو گی اُسے؟؟ “ عائشہ کا سوال اسکے ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ چھوڑ گیا۔۔۔۔

” جب آنکھیں چھین کر بینائی لوٹائی ہے تو ملا بھی دیگا۔۔۔ “

حجاب کی مسکراہٹ گہری ہوگئی جیسے اسے امید تھی وہ اس زندگی میں ضرور اُس سے ملیگی۔۔۔

” حجاب تم بری نہیں ہو بس وقت اور حالات نے تمہیں غلط راستے کا انتخاب کرایا ہے ہم دونوں ایک ہی ندی کے مسافر تھے فرق اتنا ہے میری کشتی میں چھید میں نے وقت رہتے محسوس کر لیا اس لیے ڈوبنے سے بچ گئی لیکن تمہیں اسے ڈھونڈنے میں تھوڑی دیر ہوگئی لیکن ابھی بھی وقت ہاتھوں سے گیا نہیں۔۔۔۔“ حجاب نے ہلکی سی سر کو جنبش دی جیسے کہہ ررہی ہو لفظ لفظ سہی ہے۔۔ کافی دیر وہ اسے سمجھاتی رہی حجاب نے عائشہ سے اپنے کیے کی معافی بھی مانگی۔۔۔


☆.............☆.............☆


تاثیر صاحب اور آمنہ سے ملکر وہ حجاب کے کمرے میں چلا آیا۔ کمرے میں آتے ہی ابراز نے سب سے پہلے نظر کمرے میں دوڑائی بیڈ پر چادر تانے ایک وجود لیٹا ہوا تھا جسکی پشت ابراز کی طرف تھی اور چہرہ دوسری طرف تھا۔۔۔ ابراز نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور قدم قدم چلتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھی چھوٹی سے کرسی کھنچ کر حجاب کی سائیڈ پر رکھ کے وہاں آبیٹھا۔۔۔۔بند آنکھیں لرز رہیں تھیں ابراز اسکے ہاتھ کی کپکپاہٹ بھی محسوس کر چکا تھا۔ وہ جاگی ہوئی تھی اور اسکی آمد سے باخبر تھی۔ صبح آگر ڈاکٹر کال کر کے اسے امید نہ دلاتے وہ آج بھی نہ آتا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے کبھی اس قدر حجاب کے سامنے خود کو بےبس محسوس نہیں کیا جتنا آج وہ خود کو محسوس کر رہا تھا۔۔ الفاظ اسکے پاس ہمیشہ سے تھے لیکن آج تو نہ الفاظ تھے نہ وہ کونفیڈنس۔۔

” کیسی ہو؟؟ “ بات کا آغاز تو کرنا تھا وہ اتنا دھیرے بھول رہا تھا کے اسے اپنی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔۔۔۔

” ویسی نہیں رہی “ وہ سیدھے ہوکر چھت کو گھورنے لگی۔ اب نظرانداز کرنا بیکار تھا وہ جان چکا ہے حجاب جاگ رہی ہے

وہ اسکے کلون کی مہک سے محسوس کر چکی تھی وہی ہے۔۔۔ دیکھنے کو جہاں آنکھیں بےتاب تھیں وہیں آپنے اندر کی کمی اسے رلا رہی تھی۔

” اب۔۔۔۔تم۔۔۔۔ تمہیں فیصلہ کرنے میں مشکل نہیں لگے گی “ حجاب جھٹکے سے اٹھ کے بیٹھ گئی اسکی درد بھری بھرائی آواز ابراز کو جھنجھوڑ رہی تھی اب کیسے وہ اسے یقین دلائے ایسا کچھ نہیں۔۔۔

” ساری زندگی بھی گزار دوں تب بھی ان سوالوں کا جواب میرے پاس نہیں ہوگا جو تمہارے اندر پل رہے ہیں۔۔۔ “ وہ اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامے بولا تھا ڈر تھا کہیں وہ اٹھ کے یہاں سے بھاگ نہ جائے اتنے دنوں بعد یہ لمس محسوس کیا تھا کس قدر خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔

” اتنی دیر کیوں کی؟؟؟ “ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتی غصّے سے بول رہی تھی۔۔۔ گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے وہ ہلکان ہو رہی تھی لیکن اپنی کوشش ترک نہیں کی۔۔۔ ابراز کی آمد پھر اسے بےبس کر رہی تھی وہ ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔

” امید کی کرن ڈھونڈنے گیا تھا۔۔ خالی ہاتھ کیسے آتا؟؟؟ “

وہ پوچھ رہا تھا معافی آسانی سے تھوڑی ملتی ہے زندگی بھر کا نقصان کر کے بھلا کوئی دھڑلے سے کیسے معافی مانگ سکتا ہے؟؟؟

” ملی؟؟ “ حجاب کی آنکھوں میں ایک چمک سی اُبھر آئی۔۔۔ کیا وہ دوبارہ دیکھ سکے گی؟؟؟ جملہ تک کانوں کو کسی سر کی طرح میٹھا لگ رہا تھا۔۔۔

” ہاں!!! لیکن امید بس اللہ‎ سے لگائی ہے۔۔۔ “ وہ اسکا ہاتھ نرمی سے سہلا رہا تھا حجاب نے اب کوشش نہیں کی چھڑوانے کی۔ ابراز کو کس قدر سکون آیا تھا یہاں آکر اسکے قریب آکر لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔۔۔۔۔

” جانتے ہو اذیت کیا ہے؟؟؟؟ “ حجاب اسے دیکھنا چاہتی تھی ایک کاٹ دار نظر سے نوازنا چاہتی تھی لیکن۔۔۔ یہاں اسکے الفاظوں نے یہ کام کر دیا۔۔۔ ابراز دم سادھے اسے دیکھ رہا تھا نجانے کونسے خنجر سے دل پر وار کرنے والی تھی؟؟

” نہیں نہ “ ابراز کا کوئی جواب نہ پاکر وہ خود ہی بولی

” کہنے کو سب کچھ ہونا لیکن خاموش رہنا۔۔۔ “ ابراز نے اٹکی ہوئی سانس بحال کی یہ لڑکی کسی دن اسکی جان لے لیگی۔۔ کن الفاظوں سے وہ اسے راضی کرے؟؟ کیا کرے کے وہ واپس اسکی زندگی میں آئے۔۔

” مجھے تمہارا اعتبار چاہیے حجاب۔۔۔ بہت مضبوط ہوں میں لیکن پھر بھی ٹوٹ جاتا ہوں مجھے اپنوں کا اجنبی لہجہ تکلیف دیتا ہے۔۔۔ “ اسکی لہجے پر چوٹ کرتا وہ اسکی اپنی زندگی میں اہمیت جاتا رہا تھا۔۔۔۔

” مجھے بھی دیتا تھا۔۔۔۔ “ سرد مہری سے وہ گویا ہوئی۔۔۔

” حجاب۔۔ “ ٹوٹا ہوا شکست خور ابراز کا لہجہ... آج حجاب کو بھی تکلیف دے رہا تھا

” کیوں اب کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟؟ میرا احساس کیا تھا؟؟ مجھے کتنا ستایا تنگ کیا۔۔۔ میں ایسا کرتی تو؟؟ کبھی میرا نام تک سنا کسی غیر کے ساتھ؟؟ مجھے بار بار اگنور کیا۔۔۔ جان بوجھ کر میرے سامنے ان چڑیلوں کا نام لیتے ہو اور اب پورے دنیا کے سامنے رو کر اب آرہے ہو؟؟؟ نہیں کرنی مجھے تم سے بات جاؤ یہاں سے بلکے اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔۔۔۔ “ دل جو غم سے پھٹا جا رہا تھا آج وہ ہلکا کر کے ہچکیاں لیکر رو دی۔۔۔

” حجاب ایسا کچھ نہیں۔۔۔“ ابراز نے اسکی حالت دیکھ کر بےچینی سے اسے کندھوں سے تھاما۔۔

” دور ہٹو فریبی شخص۔۔۔ جاؤ یہاں سے اب بھی کیوں آئے ہو چلے جاؤ۔۔۔۔۔ “ ہاتھ جھٹکتی وہ اس سے دور ہوتی غصّے سے چیخ اٹھی دماغ کی نس پھٹنے کو تھی۔۔ کیا جان سکتا ہے وہ بےبسی کی انتہا جب ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی وہ انتظار میں تھی۔۔۔ پرنیا احتشام کتنی بار اس سے ملنے آئے لیکن ماں کا اجنبی، سرد لہجہ انکے قدم باہر کی جانب بڑھا گیا۔۔۔

ابراز حجاب کی چھوڑی ہوئی جگہ پر آبیٹھا وہ اسکی حالت کا واقعی انداز نہیں لگا سکتا لیکن حجاب بھی اس انتہا کو جان نہیں سکتی جس سے وہ گزر رہا تھا۔۔۔ دیکھنے کا حق ہوتے ہوے بھی چھپ کر دیکھنا، اجنبی بن کر آنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے؟؟؟

” میری بات سنو پلیز۔۔۔ پرنیا کی قسم تمہارے علاوہ کوئی چڑیل نہیں ہے میری زندگی میں۔۔۔ “ حجاب جو اسکے قسم کھانے پر اپنا رونا بھول کر کچھ اور امید لگاے بیٹھی تھی چڑیل پر پھر رو دی۔۔۔ابراز نے اسے روتا دیکھ جھٹکے سے بیڈ پر لیٹا کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔

” حجاب یار تمہیں چپ کرانے کے لئے چڑیل کہا تھا سچی پہلے تم روتیں ہوئیں مجھے پُر سکون کر دیتیں تھیں آج روتی ہوئی مجھے تکلیف پہنچا رہی ہو۔۔۔ میں نے کبھی حرام رشتہ نہیں بنایا، نہ علیزہ کوئی میری رشتےدار ہے بس میرے دوست کی ہونے والی بیوی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں تم نے وہ دیکھا جو میں نے دکھانا چاہا لیکن تم نے وہ اقرار نہیں کیا جو میں کروانا چاہتا تھا۔۔۔ “

وہ اسکے چہرے پر جھولتی لٹ کو کان کے پیچھے لیجاتا آس بھرے لہجے میں گویا ہوا۔۔۔

” کیوں کرتی؟؟؟ کوئی احساس ہے تمہیں اتنی زور سے تھپڑ مارا تھا۔۔“ اسکا ہاتھ جھٹک کر وہ سرد لہجے میں بولی۔۔

” تم نے مجھے اس ڈرائیور کی حرکت کیوں نہیں بتائی؟؟ شکر کرو جان سے نہیں مارا تمہیں۔۔۔ “ چٹان کو مات دیتا سرد لہجہ حجاب آگر اسکی پل بھر میں بدلتی سرخ آنکھیں دیکھتی تو جی جان سے کانپ اٹھتی۔ یہ سوچ ہی اسکا خون کھول دیتی کوئی اسکی بیوی کو غلیظ نظروں سے دیکھے۔۔۔۔

” کیوں بتاتی کون لگتے ہو تم میرے “ بچوں کی طرح معصوم ضدی لہجہ۔۔۔

” دوست سمجھ کے شیر کرتیں “ حجاب کی آنکھوں کی نمی اس کے دل کا درد بڑھا رہی تھی۔ سارا الزام خود پر لیکر وہ اسے ہر الزام سے بری کر رہا تھا۔جیسے ظالم وہی تھا حجاب نہیں۔

” تمہاری نہ دوستی اچھی ہے نہ دشمنی دونوں مجھے مہنگی پڑ گئیں۔۔۔ آ “ روتے ہوے حجاب نے زور سے مکا مارا لیکن وہ اسکے کندھے پر لگا نتیجہً حجاب خود درد سے کرائی

” سوری۔۔ زور سے لگا مجھے بتاتیں میں سہی سے نشانا بناتا۔۔ ایک سیکنڈ یہ یہاں۔۔ ہاں اب مارو۔۔ “ ابراز اسے ناکام ہوتا دیکھ خود معزرت کر گیا حجاب کو وہ ہر بار حیران کرتا اب بھی وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے دل کے مقام پر لے گیا اور پھر دور کر کے نشانہ سہی کر کے اسے مارنے کا آرڈر دیا۔۔

” نہیں مارنا۔۔۔ “ حجاب نے ہاتھ نیچے کر لیا ابراز غور سے اسے دیکھتا مسکرانے لگا اتنے دنوں بعد اسکی آواز اسکا چہرہ سب کسی خواب کی طرح خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔ حجاب اسکی نظریں محسوس کرتی تو ضرور کسی لقب سے نوازتی۔۔

” میں تمہیں بہت مس کرتا تھا چلو طنز کے تیر چلاتیں تھیں بولتی تو تھیں۔۔۔ “ وہ اسے دیکھتے محبت سے چور لہجے میں بولا۔۔۔

” خود کا کیا خیال ہے؟؟؟ الفی سے منہ چپکا کے بیٹھے تھے۔ “

وہ بےنیاز سی چہرے پر سنجیدہ تاثرات لیے بولی نظریں جھکی ہوئیں تھیں جیسے خود کو بےنیاز ظاہر کر رہی ہو

” تم کہتیں تو آگ لگا کر بھی الفی ہٹا دیتا۔۔ “ جھٹ جواب آیا۔۔۔ یہی تو حجاب تھی جس نے اسے پاگل کیا تھا آج کتنے عرصے بعد وہ اپنی ٹون میں لوٹی تھی۔۔۔

” اتنے بھی اچھے نہیں میرے لئے خود کو نقصان پہنچائو “

وہ اپنا رخ دوسری طرف موڑ گئی۔۔۔

” بےبی آزما کر دیکھو۔۔ “ اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھے وہ مسکرایا اور حسب توقع وہ بےبی لقب سے چڑ گئی۔ خود ہی رخ بدل کر غصّے سے چلائی۔۔۔

” بےبی کہا تو منہ توڑ دونگی۔۔۔“ حجاب نے شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے وارننگ دی ابراز اسکے انداز پر ہنسا۔۔۔

” میرے ساتھ چلو گی؟؟ کمرے کی در و دیوار چیخ چیخ کر پوچھتی ہیں وہ حسینہ کہاں گئی؟؟؟ “ منت بھرا لہجہ تھا ابراز کا وہ امید بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا حجاب کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا اٹک گیا۔۔۔

” بولتے نہ دوسری آنے والی ہے۔۔۔ “

” حجاب میں کیسے۔۔۔۔ تمہیں۔۔۔یقین دلائوں “ وہ اسکے آنسوؤں پونچھتا بےبسی سے گویا ہوا اپنے جال میں کس قدر الجا تھا وہ۔۔۔۔

” دلانے کی ضرورت بھی نہیں مجھے تم پر اعتبار ہے، تمہیں آگر مجھ جیسی انا پرست منظور نہ ہوتی میری محرومی کے بعد تم واپس نہ لوٹتے۔۔۔ ایک دفع انسانوں کی طرح غصّے سے پوچھتے یا کوئی ایسا اعتبار دلاتے کے میں خود اقرار کرتی تمہیں بھی تو مجھ میں کو ایک انوکھی بات تو دیکھی ہوگی جس نے تمہیں انا توڑنے پر مجبور کی اور تم۔۔۔ ویسے ہی آگر مجھے۔۔۔ پر تم کتنا توڑا مجھے۔۔۔ علیزہ۔۔۔ نجانے کون۔۔ کون۔۔۔

بلکل پاگل بنا دیا مجھے۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔مجھ سے۔۔۔۔۔ پوچھتے تو بتاتی ک۔۔۔کس۔۔۔ قدر مح۔۔۔محبت کی۔۔۔ ہے۔۔۔ “

بےیقینی، حیرت کیا کچھ نہ تھی ابراز کی آنکھوں میں جب اُسے اُس سے مانگا تو ٹھکرا دیا اور جب اللہ‎ سے مانگا تو۔۔۔ وہ خود اِسکے جھکنے سے پہلے اظہار کر گئی۔۔۔۔

” صرف اللہ‎ کو اپنا بنا لو یہ دنیا تمہارے قدموں میں ہوگی۔۔“

حاجی صاحب کے الفاظ اسے جنجھوڑ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔

” غم ہی ایسا ملا کے بعد نماز تک جا پہنچی

فقط ایک سجدہ کیا بات خدا تک جا پہنچی “

ابراز کی آنکھ سے ایک آنسو گڑا تھا جو اسکے داڑھی کے بالوں میں جذب ہوگیا۔۔۔

وہ جھکا تھا اور اس کے پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کی حجاب کے بولتے لب ساکت ہوگے۔۔

” دور ہٹو میرے اندھے ہونے کا فائدہ اٹھا رہے ہو “ ابراز نے آنکھ سے نکلتے آنسوں صاف کیے شکر تھا حجاب کی نظروں سے یہ آنسوؤں پوشیدہ تھے ورنہ ساری زندگی اپنی اہمیت جتا کر طعنہ ضرور دیتی۔۔۔

” یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے “

محظ اُسے چھیڑنے کو وہ بولا تھا۔۔ حجاب اس سے بجلی کی سی تیزی سے دور ہوئی وہ ہنستا چلا گیا۔نم آنکھوں سے ہنستا وہ پل بھر میں حجاب سے ملنے کے بعد ان تین دنوں کی اذیت بھلا چکا تھا۔۔۔

” ڈیڈ وی مسڈ یو۔۔۔ “ پرنیا چیختی ہوئی بیڈ پر چھلانگ مار کر آئی۔ ابراز نے اسے دیکھتے مسکراتے ہوے خود سے لگایا۔۔۔

” آئ مسڈ یو ٹو۔۔ “ ابراز نے اسکے دونوں گالوں پر بوسہ دیا۔۔

” پری۔۔ “ حجاب نے ہاتھ پھیلا کر اسے بلایا جیسے اپنے پاس آنے کی آمدگی دے رہی ہو پرنیا نے منہ موڑ لیا۔۔۔

” جاؤ مما بلا رہی ہیں “

” نو شی بیٹ می ویری ہارڈ “ پرنیا نے گال پر ہاتھ رکھے کہا ابراز نے ایک نظر حجاب کو دیکھتے گہرا سانس خارج کیا جو شرمندہ دیکھائی دے رہی تھی۔۔

” اچھا چلو اپنا بیگ لیکر آؤ اور شام بھائی سے بھی کہو ریڈی رہے ہم گھر جا رہے ہیں۔۔۔ “ ابراز نے اسکی پیشانی پر بکھرتے بالوں کو ہاتھ سے سنوارتے کہا۔۔۔

” ریلی؟؟ میں ابھی بتاتی۔۔۔ ڈونٹ گو اینی ویر “ گھر کا سنتے ہی اسکا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اپنے ڈیڈ کو وہ آخر میں انگلی اٹھا کر تنبیہ کرتی کمرے سے بھاگتی ہوئی گئی۔۔۔۔

” کیوں مارا؟؟؟ “ پرنیا کے جاتے ہی وہ واپس اسکے برابر میں آ لیٹا۔۔۔ سنجیدگی سے آنکھیں سکیڑ کے وہ گویا ہوا۔۔۔

” بار بار تمہارا پوچھ رہی تھی جس طرح تم نے غصّے میں مارا مجھے بھی آگیا۔۔۔ “ حجاب نے ڈھیٹائی سے جواب دیا۔۔ ابراز افسوس سے اسے دیکھتا نفی میں سر ہلاگیا۔۔۔

” فلحال تو گھر چلو یہاں کوئی سکون سے بات کرنے نہیں دیگا۔۔۔ “ ابراز نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا۔۔۔

” میرا موڈ نہیں “ حجاب اٹھ کے بیٹھ گئی ساتھ اپنا ہاتھ بھی اسکی گرفت سے چھڑوایا۔۔۔

” تمہارے موڈ کی ایسی کی تیسی عبایا کہاں ہے؟؟ “ اسے غصّے سے گھورا، پیشانی پر لاتعداد بل نمایاں تھے۔۔۔

” بیچ والے میں۔۔۔ “ سامنے بنی وارڈروب کی طرف اشارہ کرتے کہا اسکا دل تو خود گھر جانے کو بےچین تھا لیکن اوروں کی بےنیازی دیکھ کر اسکا دل دکھا تھا۔۔۔

ابراز نے تقریباً دس منٹ وارڈروب کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد عبایا نکالا اور حجاب کا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا۔۔۔

” یہ عبایا پہنو فرنٹ یہ سائیڈ ہے باقی نقاب میں خود۔۔۔ “ ابراز نے اسکا ہاتھ پکڑ کے عبائے کی فرنٹ سائیڈ پر ہاتھ رکھا حجاب نے جلدی سے عبایا پہنا ساتھ ” اسٹالر دو “ کہا ابراز نے اسے اسٹالر دیا جیسے حجاب نے نماز اسٹائل میں باندھا پھر جو آگے کپڑا چھوڑا تھا اسے نقاب کیا ” ڈریسنگ ٹیبل کی فرسٹ ڈرو میں پینز ہیں وہ دو۔۔۔ “ حجاب کے کہے مطابق وہ پینز لیکر آیا جسے حجاب نے لیتے ہی لگایا۔۔۔۔

” پرفیکٹ۔۔۔ تمہیں پتا ہے تم دنیا کی سب سے خوبصورت بیوی ہو خاص کر کے اس نقاب میں تم۔۔۔ “ وہ گہری نظروں سے اسکا جائزہ لیتے ہوے مخمور لہجے میں بولا

” اب دیر نہیں ہو رہی۔۔۔ “ حجاب نے آنکھیں سکوڑ کے غصّے سے کہا ابراز کی ایسی نظریں خود پر جمی دیکھتی تو ضرور اسے کسی اچھے القبات سے نوازتی۔۔۔۔

” اس کام کے لئے وقت ہی وقت ہے۔۔۔ “ ابراز نے مسکراتے ہوے اسکا ہاتھ تھاما حجاب نے بولنے کے لئے لب کھولے تھے کے پرنیا بھاگتی ہوئی ابراز کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ساتھ ” ڈیڈ شام بھائی اس نوٹ لیسنیگ “ کا مشغلا جاری تھا۔۔۔

” وائے “

” ہی از سلیپنگ “ آنکھیں پٹپٹا کر وہ چہرے پر دنیا بھر کی اداسی لئے گویا ہوئ۔۔۔

” ڈونٹ ویری ابھی اسکی ساری سلیپنگ بھگاتے ہیں آپ مما کا ہاتھ پکڑو انہیں چھوڑنا نہیں۔۔۔ “ آستین کو اوپر کیے وہ مصنوئی خفگی سے بولا۔۔۔۔

” وائے؟؟ “ پرنیا کا سوال جہاں ابراز کو چونکا گیا وہیں حجاب نے آنسوؤں پیتے ابراز کی ان نظروں سے بچنے کے لئے چہرے دوسری طرف موڑ لیا

” انہیں کچھ نہیں پتا میں انہیں اپنے پاس تک نہیں آنے دیتی دروازہ پیٹتے رہتے ہیں میں نہیں کھولتی۔۔۔ “ وہ بےگناہ ہوتے ہوے بھی خود کو بچوں کی گہنگار محسوس کر رہی تھی جیسے سارا قصور اسی کا ہے۔۔ ابراز نے خاموشی سے اسے سننے کے بعد جیب سے کار کی چابی نکال کر پرنیا کو دی۔۔

” سویٹ ہارٹ یہ کار کی چابی ہے اسامہ ماموں کو کہو احتشام کو اٹھا کر کار میں سلائیں آپ بھی جاؤ میں مما کے ساتھ آرہا ہوں۔۔ اینڈ نو کوسنچنگ “ ہلکے سے اسکے معصوم گالوں کو تھپک کر کہا پرنیا سر اثبات میں ہلا کر کار کی چابی لیکر اپنے چھوٹے شولڈر بیگ کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔

” تمہارا کوئی قصور نہیں تم ہر الزام ہر جرم سے بری ہو۔۔ “ وہ اسکی پلکوں کو چھوتا نرمی سے بولا حجاب نے کوئی جواب نہ دیا وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے سب سے ملتا کار میں آبیٹھا۔ حجاب کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر کار کا دروازہ بند کر کے وہ قدم قدم چلتا گیٹ کے پاس کھڑے تاثیر صاحب کے پاس آیا۔۔

” وہ ہمیشہ سے میری زمیداری تھی ہے اور رہیگی یہ آخری بار تھا آئندہ نہ ایسی آزمائش سے گھبرائوں گا، نہ بھاگوں گا،،،،

Words can't describe my happiness. You saved my life

یہ احسان زندگی بھر آپ کا مجھ پر رہیگا۔۔۔۔ “

وہ انکے گلے لگتا انکے کان میں بیٹی کی آئندہ زندگی کی آنے والی خوشیوں سے آغا کر رہا تھا تاثیر صاحب کی رگ و جان میں سکون کی لہر دور گئی۔۔۔

” حجاب کی جان جس نے بچائی میں خود اُسکا احسان مند ہوں وہاں بھیڑ میں انسان نہیں جانور سے بدتر لوگ تھے بس ایک شخص تھا جس نے نیکی کمائی۔۔ یہ اسکا نمبر ہے تمہیں حجاب کے روم میں جاتے دیکھ اس نے کہا بھائی کو کہنا مجھے کال کرے انکی جیکٹ میرے پاس رہ گئی ہے۔۔۔ “ وہ ان سے الگ ہوا تو تاثیر صاحب نے اسے ایک پرچی تھماتے کہا۔۔ ابراز کے ذہن میں یکدم سے دھماکہ ہوا دنیا واقعی گول ہے

” آپ کی کی نیکی آپ کی طرف ہی لوٹتی ہے “ ۔۔۔ وہ ان سے پرچی لیکر کار میں آبیٹھا جیسی بھی ریپوٹیشن تھی انکے سامنے ابراز کو نہیں لگا کے تمہید کی ضرورت ہے وہ اسے جانتے ہیں انکی بیٹی وہ آخری لڑکی ہے جو ابراز کی زندگی میں حیثیت رکھتی ہے۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” مجھے مس کیا تھا۔۔۔ “ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے وہ کار اسٹارٹ کر چکا تھا۔ ڈرائیونگ کرتے مسلسل وہ اسے دیکھ رہا تھا حجاب سب سے بےنیاز آنکھیں موندے سر سیٹ کی پشت سے لگاے نجانے جاگ رہی تھی یا واقعی سو رہی تھی۔۔۔۔

” کس خوشی میں؟؟ “ ترکی با ترکی جواب آیا حجاب اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔۔۔

” بلکل نہیں کیا؟؟؟ پچیس پرسنٹ بھی نہیں؟؟؟ “ ابراز کو یقین نہ ہوا اسکے لہجے کی بےتابی حجاب کے دل کو پرسکون پہنچا رہی تھی۔۔

” نہیں۔۔ “ صاف جواب آیا۔۔

” ظالم لڑکی “ وہ منہ کے زاویے بگاڑتا بڑبڑایا

” تم سے زیادہ نہیں ہوں۔۔ “ حجاب کی کہی عام سے بات زہریلے تیر کی طرح اسکے دل میں چُبی تھی ابراز کو لگا وہ اسکی بےنیازی کا طعنہ دے رہی ہے جبکے حجاب نے بغیر سوچے سمجھے ایک عام سے بات کہی جو وہ ہمیشہ کہتی ہے۔۔ باقی سفر میں خاموشی چھائی رہی۔۔۔۔ پانچ منٹ بھی نہ گزریں ہونگے کے ابراز نے اسکے ہاتھ کی پشت پر انگلی پھیڑی لیکن حجاب کو ٹس سے مس ہوتا نہ دیکھ چڑ گیا۔۔۔

” ایک جھلک دیکھ کر جس شخص کی چاہت ہوجائے اُسے پردے میں بھی پہچان لیا جاتا ہے “ وہ اسکے سونے پر چوٹ کر گیا۔۔۔

” تمہیں ہر بات کیسے پتا چلتی ہے؟؟ “ وہ روہانسی ہوگئی

”میڈم نقاب میں آپ کی آنکھوں کی جنبش ہی دیکھ سکتا ہوں “ وہ اسے دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا جسکی نظریں سامنے ونڈ سکرین پر تھیں۔ تبھی ابراز نے ہارن بجایا جسے سنتے ہی گیٹ کے پاس بیٹھا واچ مین الرٹ ہوا اور گیٹ کھولا۔۔۔

” ہُراااااااااااا “ پرنیا نے گھر دیکھتے ہی چیخ ماری ابراز نے مسکراتے ہوے کار گیٹ کے اندر پارک کی پہلی دفع بچے اس سے اور گھر سے دور رہے تھے زیادہ سے زیادہ ابراز ایک ہی رات انھیں وہاں رہنے کی اجازت دیتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔۔۔

” شام بھائی سی مالی بابا فلاورز کو پانی دے رہیں ہیں چلیں ان سے پائپ لیکر ہم پانی دیتے ہیں “ پرنیا کی نظر گارڈن میں موجود مالی بابا پر پڑی جو پودوں کو پانی دے رہے تھے۔۔

” نو کوئی ضرورت نہیں کپڑے گیلے ہوجائیں گئے “ حجاب کی بات ایک پل کو سننے کے لئے وہ رکی تھی پھر کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی اسکی تلقید میں احتشام بھی نکلا حجاب پیچھے سے پکارتی رہی دونوں ان سنا کر کے جا چکے تھے۔۔۔

” اتنی توجہ مجھے دیتیں آج تمہارا فرمانبردار شوہر ہوتا۔۔۔ “ مسکراہٹ دباتا وہ اسکے غصّے کو نظرانداز کر کے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور حجاب والی سائیڈ پر آکر وہاں کا دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔

” بےبی ہاتھ کہاں چھپایا ہے؟؟؟ “ وہ اسکی طرف جھکتا پوچھ رہا تھا حجاب اسکی حرکت سے بےنیاز خود اٹھنے لگی

” میں خود نکل سکتی ہوں اب ہر جگہ تم ساتھ تھوڑی

ہوگے۔۔۔ “ وہ عام سے انداز میں کہہ کر اٹھی تھی کے عبایا پیر میں دبنے کی وجہ سے واپس بیٹھ گئی ابراز نے اسکے کندھوں کے گرد بازو حمائل کیے اور اسکے قدم سے قدم ملتا گارڈن ایریا میں آگیا۔۔ وہ چلتا ہوا اندر جا رہا تھا کو اسکی جیب میں رکھا فون وائیبریٹ ہوا۔۔

” ہیلو۔۔ دو منٹ جانِ من میں آیا۔۔ ہمدانی صاحب یہ باتیں میں آفس ٹائم میں کرتا ہوں اف یو ڈونٹ مائنڈ ہم کل بات کریں۔۔ “ ابراز کی آواز لمحہ لمحہ اس سے دور جا رہی تھی حجاب وہیں کھڑی رہی بچے اپنے کھیلنے میں مگن تھے ابراز اپنی فون کال پر وہ اکیلی تنہا یہیں رہ گئی کون ہوگا جو ایسی بیوی کے ساتھ ذندگی گزارے کا جو اسکے قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتی؟؟ کب تک وہ برداشت کریگا؟؟؟؟

” مما یور ٹرن۔۔۔ “ پرنیا کی آواز سن کر حجاب کی سوچوں کا تسسل ٹوٹا اسکے دماغ نے منٹوں میں بات پکڑی وہ اسے پانی سے بھیگانے والی تھی حجاب نے ڈر کے مارے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے آنکھیں سختی سے میچ لیں ساتھ ہلکی سے چیخ اسکے ہلق سے برآمد ہوئی لیکن یہ کیا ایک۔۔۔ منٹ۔۔۔ دو منٹ۔۔۔ کچھ بھی نہ ہوا تھا بس ” ڈیڈ موو۔۔ “ کی رٹ لگی ہوئی تھی کوئی سایہ تھا شاید جو اسکے سامنے آکھڑا ہوا حجاب نے دونوں ہاتھ چہرے سے ہٹائے۔۔۔۔۔۔

” ایک منٹ بھی بڑا ہوگا جب میری نظروں نے تمہیں ڈھونڈا ہو جب سے ملی ہو میں نے پلکیں بھی ڈر کے مارے چھپکائی نہیں کے خواب نہ ہو جیسا تم سوچتی ہو ویسا میں نہیں اور جیسا میں ہوں ویسے تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔۔ “ ابراز نے قریب آکر اسکے کانوں میں ‎سرگوشی کرتے ہوئے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے اس کے چہرے پر جھٹکا‎ جس سے پانی کے جھینٹے حجاب کے منہ پر گرے۔۔۔۔پانی کی ننھی ننھی بوندیں اس کے چہرے پر ٹھنڈی پھوار کی طرح برسی بلکل ویسے جیسے اُس کے لفظوں کی ٹھنڈی پھوار اس کی روح تک سرایت کر گئی تھی

” یہ کیا حرکت ہے “ حجاب جو اسکے لفظوں کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی اس حرکت پر یکدم ہوش میں آکر دبے لہجے میں چلائی۔۔

” میں تمہارے چکر میں پورا بھیگ چکا ہوں آخر کچھ سزا کی مستحق تم بھی ہو۔۔۔۔ “ مسکرا کر کہتے ابراز نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ وہ اسکے ساتھ کھنچتی چلی جا رہی تھی آج پہلی بار اسے اندھیرا بُرا نہ لگا نہ کوئی کمی محسوس ہوئی اور نہ ہی اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوا تھا۔۔ ایک انسان غلط ہو سکتا ہے دو غلط ہو سکتے ہیں لیکن ایک سہی اور لاتعداد لوگ غلط نہیں ہو سکتے ایسا ہوا بھی تو بہت کم ہوا ہے۔۔۔ ایک دنیا کہتی ہے آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھی ہوں اور آج جب یہ آنکھیں گئیں تو روشنی خود ہی چلی آئی بند آنکھوں سے انسان کے چہرے واضع ہوے جسے ٹھکرایا جسے بددعائیں دیں وہی تو رگ و جان سے قریب تھا اگر آج بھی وہ واپس نہ آتی تو ساری زندگی اپنی اور اپنے بچوں کی مجرم ٹھرائی جاتی۔۔۔ ائے میرے مولا آنکھیں ہوتے ہوے بھی اسکی آنکھ میں اس وقت نمی کیوں نہ دیکھی اور آج بند آنکھوں سے وہ نمی محسوس ہوئی اسے اپنے ہاتھوں پر وہ نمی محسوس ہوئی تھی جس سے ابراز بےخبر تھا۔۔۔ نجانے کیوں اتنی بےاعتباری تھی؟؟؟ اب بھی یہ محرومی اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی ناجانے یہ ساتھ کب تک رہنا ہے؟؟؟


☆.............☆.............☆


” میری ہر خوشی کا راز تو ہے۔۔۔ “ ابراز کی نظریں کھلے آسمان پر تھیں۔ اپنی خوشی میں وہ اللہ‎ کو کیسے بھلا سکتا ہے جس کی عطا کردہ ہے؟؟ ابھی تک اُسکے کانوں میں وہ الفاظ گونج رہے تھے جو حجاب نے بےخیالی میں بولے تھے ابراز نے اسے طعنہ نہیں دیا نہ اس بات کے لیے چھیڑا وہ جانتا ہے اسکی ایک غلطی پھر وہ الفاظ کوئی خواب ہی بن جائیں گئے اسکے لئے۔۔حجاب اس وقت عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی اور ابراز حاجی صاحب کے ساتھ نماز پڑھ کے کچھ دیر پہلے ہی گھر لوٹا تھا۔

حجاب کے گھر آتے ہی سب سے پہلے فبیحہ اس سے محبت سے ملی کل ہی فبیحہ کو حجاب کے بارے میں حیات صاحب سے پتا چلا تھا وہ کل ہی حجاب سے ملنے جانے والی تھی لیکن ابراز کے منع کرنے پر دونوں میاں بیوی نے خاموشی اختیار کرلی اور آج حجاب اور بچوں کو دیکھ کر فبیحہ کا دل پر سکون ہوگیا۔۔

زندگی ایک بار پھر اپنی رفتار سے دوڑنے لگی تھی۔ ایک ہفتے بعد حجاب کا آپریشن تھا اور یہ ایک ہفتہ ابراز نے صرف اسی کے نام کیا تھا ابراز نے بچوں کو اس بات سے اپنے طریقے سے آغا کیا تھا لیکن باقی گھر والوں کو سختی سے منع کیا تھا کے کوئی دادو کو نہ بتاۓ۔۔۔ وہ اپنا سارا کام فون یا لپ ٹاپ کی ذریعے ہی کرتا حجاب کی زمیداری اس پر تھی ساتھ ایک ملازمہ بھی رکھوائی تھی ابراز دو پل بھی نظروں سے اوجھل ہوتا لیکن وہ ملازمہ نہیں۔۔ وہ اسکے چھوٹے موٹے کاموں میں خود اسکی مدد کرتا اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا۔۔ کبھی کبھی حجاب سے کوئی کام نہ ہوتا تو اپنی بےبسی پر رونے لگتی ایک دفع کپ کچن میں رکھنے گئی تو سڑیوں سے پیر پھسل گیا لیکن حجاب کی قسمت تھی یا دعائیں تھی جس نے اسے سنبھالا اور گرتے گرتے وہ سیڑی پر آبیٹھی ابراز اسے جتنا منع کرتا وہ اتنا خود کو کاموں میں مصروف رکھتی کبھی بیٹھے بیٹھے کپڑے تہ کرتی کبھی اٹھ کے خود پریس کرنے لگتی اور ایک دن تو اسکی لاپروائی اور ضدی طبیعت پر ابراز نے اسے خوب سنایا۔۔

” تمہیں منع کیا ہے نہ؟؟؟ سنتی کیوں نہیں ہو پاگل ہوں جو بھونکتا رہتا ہوں دیکھو اب کتنی جلن ہو رہی ہے۔۔ “ وہ بیٹھے بیٹھے بور ہو رہی تھی ابراز نہانے گیا تھا تبھی اٹھ کے حجاب نے ڈسٹنگ کرتی ملازمہ کو روم سے بھیجا اور خود ٹیبل صاف کرنے لگی۔ وہاں رکھی گرم چائے اسکے وہم و گمان میں بھی نا تھی۔۔۔ ملازمہ نے بتایا بھی تھا لیکن حجاب کے دماغ سے یہ بات نکل چکی تھی تبھی ٹیبل صاف کرتے گرم چائے اسکے ہاتھ پر گری اور ابراز نے اسکے ساتھ ساتھ ملازمہ کی بھی اچھی خاصی کلاس لی بس تب سے ملازمہ بھی خوف سے اسے کوئی کام کرنے نہیں دیتی چاہے وہ اس پر غصّہ کرے ملازمہ کان نہیں دھرتی۔ وہ آگر ڈانٹتا غصّہ کرتا تو اسکے اچھے کے لئے کرتا جسے حجاب جان کر بھی انجان بنتی۔ حجاب اسی زندگی میں خود کو فٹ کرنا چاہتی تھی کیوں کے دور دور تک اسے امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی۔۔۔

ہر شام ابراز اسے پاس بنے پارک میں لے جاتا جہاں وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے زندگی کی خوبصورت منظر کو محسوس کرنے کا کہتا۔۔۔ خلاف معمول آج بھی وہ گھومنے آئے تھے جب ایک عورت کے ریمارکس سن کر حجاب کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔۔۔۔

” بیوٹیفل کپل سی کتنی محبت ہے دونوں میں کے چلتے ہوے بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما ہوا ہے اور تم ہاتھ پکڑنا تو دور چلتے بھی اتنے فاصلے سے ہو جیسے میں تمہارے اوپر گر جاؤنگی۔۔۔ “

آس بھری نظروں سے انہیں دیکھتے اس عورت نے اپنے شوہر سے کہا۔ وہ عورت خود اچھی خاصی پہلوان تھی جبکے اسکے شوہر کی جسمات ایسی تھی جیسے روز گلوکوز کی بوتل چڑتی ہو پتلا دبلا سنوالی رنگت۔۔۔

” ایکچولی میم میری بیوی بہت موٹی ہوگئی ہے، آئ ڈونٹ لائک فیٹ وومنس اسی لیے روز واک کرانے لاتا ہوں اور یہ ہاتھ اس لئے پکڑا ہے کے بھاگ نہ جائے۔۔۔ “ حجاب نے منہ موڑ کر ساتھ کھڑے ابراز کو سخت گھوری سے نوازا جبکے ابراز کے ہونٹوں کی گہری ہوتی مسکراہٹ اس عورت کو زہر لگی آس پاس لوگ نہ ہوتے تو اچھی دُلائی کرتیں اسکی۔ آخر خود کھانے کی شوقین تھیں جبکے شوہر کی صحت انکی بڑھتی صحت دیکھ کم ہو رہی تھی۔۔۔

” پاگل آدمی تمہیں تو جیل مین ڈالنا چاہیے ہماری مرضی جتنا کھائیں۔۔ “ وہ عورت غصّے سے ابراز کو گھورتی ہوئی بولی۔۔ حجاب کا اس بدتمیزی پر پارا ہائی ہوگیا۔۔

” ایکسکیوذ می میرے شوہر نے آپ سے تمیز کے دائرے میں رہکر بات کی ہے اور جہاں تک صحت کا تعلق ہے انکا کنسرن مجھ سے ہے انہوں نے آپ کو کچھ نہیں کہا۔۔ “ حجاب بولنے پر آئی تو سناتی چلی گئی ابراز کا منہ کھلا رہ گیا آج سورج کہاں سے نکلا تھا؟؟ حجاب تاثیر اور اسکی سائیڈ کہیں حجاب کے اندھے غم میں وہ بہرا تو نہیں ہوگیا؟؟؟

” یہ کسکو دیکھ رہی ہے؟؟ “ اس عورت نے حجاب کو دیکھتے کہا جو کہہ تو اسکو رہی تھی نظریں نجانے کہاں تھیں؟؟ حجاب نے اس سوال پر مٹھی بینچ لی۔۔

” میرے کان سہی ہیں مطلب۔۔۔ “ ابراز نے ایک سکون بھرا سانس خارج کیا پھر سچویشن پر غور کرتے مسکراہٹ خود با خود اسکے ہونٹوں کو چھو گی جو حجاب تاثیر کی عنایت سے تھی۔۔۔۔

” دیکھیں میں مزاق کر رہا تھا!!! مجھے تعریف صرف بیوی کے منہ سے اچھی لگتی ہے لوگوں کا کیا ہے آج تعریف کر رہے ہیں کل گالیاں دیں گئے جیسے ابھی بےوجہ آپ نے پوری بات سنے ہمیں سنایا خیر آپ اتنی پیاری تو ہیں دوسروں کی نہ سنا کریں زندگی ہے انجوائے کریں لیکن حد سے زیادہ مقدار ہر چیز کی زہر ہے۔۔ اللہ‎ حافظ چلتا ہوں۔۔۔چلیں بےبی۔۔ “ وہ انہیں حیران پریشان چھوڑ کے حجاب کا ہاتھ پکڑ کے آگے نکل آیا۔۔

” کیا تھا یہ سب؟؟ “ اسکے ساتھ چلتے حجاب نے سرد لہجے میں پوچھا۔۔

” کہا نہ تعریف صرف آپ کے منہ سے دل پر لگتی ہے۔۔ “

وہ اسکی طرف جھکتے ہوے رازداری سے بولا

” یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔۔ “ لہجہ میں ابھی بھی ہلکی سے غصّے کی رمک تھی۔۔۔

” تم اتنی چُپ رہتی ہو کے میں پریشان ہوجاتا ہوں نجانے کیا سوچتی رہتی ہو دن بھر؟؟ میں آج کل چاہ کر بھی پڑھ نہیں پاتا تمہارے ذہن کو۔۔ “ ابراز کا اداس لہجہ حجاب کو شرمندہ کر گیا وہ سر جھکائے بےبسی سے اپنے آنسوؤں کو روکنے میں ہلکان ہو رہی تھی۔۔۔

” ب۔۔۔۔بس مج۔۔۔۔مجھے لگتا تم وقت اور پیسا فضول ضائع کر رہے ہو مجھے امید ک۔۔۔کی کو۔۔۔۔کوئی۔۔۔ک۔۔۔کرن نہیں دیکھتی۔۔ “ آنسوؤں گالوں سے لڑھک پڑے ابراز اسے اپنی طرف کھینچتا پاس رکھے بینچ تک لے آیا جہاں اردگرد موجود خوبصورت پھولوں اور سبزے نے اس جگہ کو چھپا رکھا تھا۔

ابراز نے اسے بینچ پر بیٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل اسکے پاس بیٹھا۔۔۔

” حجاب ڈونٹ۔۔۔ “ اسکے بہتے آبشار کو دیکھ کر وہ خود کو بےبس سا محسوس کرنے لگا۔۔۔

” میں نہیں روتی خود رونا آتا۔۔۔ “ رو کر کہتے مزید وہ ہچکیاں لیکر رودی۔۔ابراز کو اسکی ادا پر ہنسی آرہی تھی یہ اسکی پرانی عادت تھی ہمیشہ سنجیدہ موقوں پر اسے ہنسی آتی۔۔۔

” حجاب مایوسی کفر ہے ناامید بھی تم اُس سے ہو رہی ہو جس نے اُس خطرناک ایکسیڈنٹ سے تمہاری جان بچائی تمہیں حیرانگی نہیں ہوئی حجاب تمھارے جسم پر ایک خراش تک نہیں آئی صرف آنکھیں؟؟؟ ۔۔ “ ابراز کے کہنے پر حجاب کے بہتے آنسوؤں رک گئے یہ سچ تھا اسے ہاتھوں بازوں پر کہیں بھی چوٹ نہیں لگی تھی ہلکا درد تھا شروع شروع میں اب وہ بھی نہیں۔۔ یہ بات کبھی اسکے دماغ میں کیوں نہیں آئی؟؟؟ بےاختیار حجاب کے ہاتھ اپنے جسم پر چوٹ ٹٹولنے میں لگ گئے۔۔۔

” مجھے کوئی خراش کیوں نہیں آئی؟؟ “ اسکے ہونٹوں کی بڑبڑاہٹ سن کر ابراز نے اسکے دونوں ہاتھ تھامے۔۔۔

” شاید وہ تمہیں وہ دکھانا چاہتا تھا جو تم کھلی آنکھوں سے نہ دیکھ سکی۔۔۔ “ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا اسکے کانوں تک وہ سچ پہنچا رہا تھا جس سے وہ انجان نہ تھی۔۔ بس راستہ لمبا تھا تبھی سمجنے میں وقت چلا گیا۔۔۔ اور اس پورے عرصے میں جس انسان کو اس نے توڑا تھا آج وہی اسکی رہنمائی کر رہا تھا کتنا فرق تھا کبھی وہ بھی اسی طرح اسے گائیڈ کر سکتی تھی لیکن غرور کی پٹی نے اس سے سوچنے سمجنھے کی صلائیت چھین لی۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں کو آپس میں رگڑ کر خود میں ہمت جمع کر رہی تھی۔۔۔

” میں بہت بُری ہوں میں۔۔۔ نجانے کیوں میں ایسی بن گئی پانچ سال کی بچی نہ تھی میں پھر میری وہ ضد انا غرور تباہ کر دیا اُس نے مجھے۔۔۔۔۔ تم پلیز مجھے معاف کردو میں نے تمہیں ہر بار غلط راہ کا انتخاب کرایا کاش تمھاری اس نئی راہ کی وجہ میں بنتی۔۔۔۔ پلیز مجھے معاف کردو۔۔“ اور آج سب سے زیادہ تکلیف اس انسان کو ہو رہی تھی جس نے خود سے عہد کیا تھا اب پیر بھی پڑے تو معاف نہیں کرونگا۔۔۔۔

” نہیں نہ تم بری ہو نہ میں تم سے خفا ہوں جو معافی مانگ رہی۔۔ تم اپنی اہمیت میری زندگی میں جان جائوں تو اپنی قسمت پر رشک کرو۔۔۔“ وہ اسکے بہتے آنسووں صاف کرتا محبت بھرے لہجے میں بولا جسکی پلکیں یہ بات سنتے ہی لرزنے لگیں حجاب کی شرم و حیا تو اسے دیوانہ کرتی تھی آخر کہاں اس نے اپنے سرکل میں شرم و حیا دیکھی تھی؟؟؟

” خیر چھوڑو ادھر دیکھو “ ٹھوری سے پکڑ کے ابراز نے اسکا چہرہ اونچا کیا۔۔

” اب تم نہ رو گی نہ فضول سوچو کی بس مجھ سے باتیں کروگی جب کوئی سوچ آئی مجھ سے شیئر کروگی تم کل کو تلاش کرتی پھرتی رہوگی شام ہوجاے گی اور آج کا دن بھی چلا جائے گا اسلئے جو جیسا ہے جیسے چل رہا چلنے دو کیوں کے تمہارا مقدر اُس نے لکھا ہے جو تب بھی تمہارے ساتھ تھا جب تم اس خطرناک ایکسیڈنٹ سے گزریں تھیں۔۔ ہر راہ ہر منزل میں وہ تمہارے ساتھ ہوگا۔۔۔ “

” تم مجھے چھوڑ تو نہیں دوگے آگر اب لوگ کہیں کے تمہاری بیوی۔۔۔ “ ابراز کے الفاظ جہاں اسے سکون بخش رہے تھے وہیں دل میں چھپا ایک چور سا سوال اسے ہزاروں سوچوں کے گرد دفن کررہا تھا۔۔۔۔

” حجاب میں نے لوگوں کا سوچا ہوتا تو آج تم میری بیوی نہ ہوتی وہ تو تب بھی نہ خوش تھے جب ایلیٹ کلاس میں ایک حجابی لڑکی دیکھی تب بھی نہ خوش تھے جب میں نے کلب چھوڑ کر مسجد جانا شروع کیا وہ میرے سگے ہوتے یا میرے ساتھ مخلص ہوتے تو مجھے تب روکتے جب پہلی بار شراب پی تھی۔۔۔ میں نے عرصہ ہوا لوگوں کی پروا کرنا چھوڑدی وہ کسی حال میں خوش نہیں تم انھیں سوچنا چھوڑ دو پھر زندگی آسان لگے گی۔۔اور ایک بات یاد رکھنا اللہ‎ کسی کو اسکی ہمت اور برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا لیکن انسان وہاں سے آزمانا شروع کرتا ہے جہاں ہمت اور برداشت کی حد ہوتی ہے۔۔۔۔ اب روگی تو نہیں؟؟ “ حجاب نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوے نفی میں سر ہلایا۔۔۔

” دیٹس لائک مائے بےبی “ وہ اسکے نقاب میں چھپے گال پر ہلکی سے چٹکی کاٹتے ہوے بولا

” پتا ہے تم روتے ہوے اتنی کیوٹ لگتی ہوکے سمجھ نہیں آتا تمہیں چپ کراوں یا ایک اور لگاؤں “ حجاب جو آنسوؤں پونچھ رہی تھی ابراز کی بات پر اسے مُکا مارا اور اس نے بھی اس دفع ڈھٹائی سے کندھا آگے کرتے ہوے حجاب کو پورا موقع دیا۔۔۔ حجاب اسکی حرکت پر منہ پھیر کے بیٹھ گئی ” بات نہ کرنا اب “ اسے صاف جواب دیکر وہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔۔

” یوں ہم سے بات نہ کر کے جو آپ قہر ڈھا رہے ہو ناراضگی ہے یا اپنی اہمیت بتا رہے ہو؟؟؟ “

حجاب اس سے لفظوں میں کبھی جیت نہیں سکتی اسے لئے جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی لیکن ناراضگی قائم تھی۔۔۔

” ہاتھ تو دو کہیں گھم گئیں تو میرا کیا ہوگا؟؟ “

” چچھوڑے “ حجاب نے ہاتھ آگے کیا جسے ابراز نے مضبوطی سے تھام لیا۔۔

” صرف تمہارے لئے ہوں۔۔۔۔ “ ابراز کی اس دھیرے سے کی گئی سر گوشی پر حجاب کے لب پہلی بار مسکراے۔ زندگی بہت حسین ہے آگر من چاہا ہمسفر ساتھ ہے تو۔۔۔۔۔

” حجاب لیفٹ۔۔ “

” مجھ سے نہیں ہو رہا “ آج مہوش اپنے بچوں کے ساتھ حجاب سے ملنے آئی تھی تبھی ان سب کا باتوں باتوں میں تھرو بال کھیلنے کا پلین بنا حجاب نے صاف منع کیا اور ہونا کیا تھا اسکی نا نے ابراز کو اس کمزوری کا سختی سے احساس دلایا اب ایک گھنٹے سے وہ اسے الگ الگ مویمنٹس بتا کر اسے بال کیچ کرنا سیکھا رہا تھا لیکن حجاب نے ایک کیچ تک نہیں پکڑا۔۔۔

” پلیز ٹرائے کرو ہوگا “ ابراز کا بھروسہ حجاب کو رونے پر مجبور کر رہا تھا۔۔ ایک ٹیم میں پرنیا احتشام اور مہوش تھے جبکے دوسری ٹیم میں حجاب اور ابراز۔۔

” مجھ سے سچ میں نہیں ہوگا “ حجاب نے غصّے سے بال پھینکی جسے مہوش نے کیچ کرلیا اور وہیں سے دوبارہ بال پھنکی تبھی ابراز کی چیخ بلند ہوئی۔۔۔۔

” حجاب ہاتھ پھیلا کر نیچے جھکو “ ابراز کے کہے مطابق ڈر کے مارے حجاب نے ایسا ہی کیا اور۔۔۔ اور زور سے بال آکر اسکے ہاتھوں میں آن ٹھری

” ہرا۔۔۔۔۔۔ “ ابراز چیختا ہوا اٹھا اور بھاگتا ہوا حجاب کے پاس آکر اسے باہوں میں اٹھائے اوپر اوچھالا۔۔۔

” آ “ حجاب جو پہلے ہی کیچ پکڑنے پر حیران تھی اس عمل پر بوکھلا گئی اور اوپر سے مہوش کی موجودگی یاد آتے ہی وہ آنکھیں سختی سے میچ گئی۔۔۔

” بھائی حجاب کا ہارٹ فیل ہوجانا نیچے اتاریں۔۔۔ “

مہوش کی ہنسی پر حجاب نے ابراز کی شرٹ سختی سے دبوچی جیسے یہ ابراز کی گردن ہو۔۔۔

” ظالما خوشی کا اظہار تھا۔۔۔ “ ابراز نے اسکی شرٹ والی حرکت پر چوٹ کرتے کہا

” ڈیڈ ونس مور۔۔ “ احتشام کی آواز نے دونوں کو چونکایا ابراز جہاں اس فرمائش پر مسکرایا وہیں حجاب نے احتشام کو دھمکی دی کیوں کے حجاب کو پتا تھا جس کام سے منع کرو ابراز وہی کرتا۔۔

” مار کھائوگے چپ رہو “ حجاب نے دانت پیستی احتشام کو کہا۔۔

” شیور۔۔۔ “ ابراز ڈھٹائی سے ابھی بھی مسکرا رہا تھا

” نہیں۔۔۔ “ حجاب چیختی رہی لیکن ابراز نے سننا کہاں تھا؟؟ ایک بار پھر اسے اوپر اوچھالا لیکن حجاب اب اسکی موجودگی میں ڈرتی نہیں تھی نہ اس اندھیرے سے خوف آتا نہ سیڑیوں سے گرنے کا خوف ہے نہ گرم چائے لگنے کا خوف اب بن دیکھے وہ احتیاط کرتی تھی ہر چیز چھو کر محسوس کرتی تھی کو ابراز نے اسے سکھایا تھا سمجھایا تھا اور اب تو اسکا سایہ اسکا شوہر ہمیشہ اسکے ساتھ رہتا۔۔ کھانا تک خود نکال کر اسے دیتا۔۔ بچوں کے چھوٹے کام بیگ تیار کرنا یونیفارم پریس کروانا سب وہ خود نگرانی میں کرواتا۔ حجاب کو یقین تھا لمحہ لمحہ اسکا جو ان تین دنوں میں سخت اذیت میں گزرا وہ اب ایک سہارا پاکر آگے کی زندگی کا سفر بہترین کردیگا اسے یقین ہے ابراز حیات کی محبت پر اور اس ایک ہفتے میں یہ یقین کچھ اور مضبوط ہوگیا۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


” اے میرے مہربان تو ہی علاج ہے میری ہر اداسی کا۔۔ مجھے نہیں پتا تھا سب اتنا آسان ہے میں کبھی تیرے پاس اپنے گرز سے نہیں آیا بس ڈر سے آیا۔ اُس دن اُسکے اقرا نے میری روح کو قرار دیا ہے۔ کتنا تڑپا تھا کتنا بےبس تھا اُس وقت۔۔۔ ناقدری ریجیکشن ہر بار صرف اُسے کے ٹھکرانے سے گرا ہوں لیکن تیری ایک ٹھوکر نے ایسا کھڑا کیا ہے کے انسان کوشش کرتا رہا ہے لیکن میں نہیں گرا آخر کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے ؟؟؟ میری قسمت ہی اس نے لکھی ہے جسکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔ میں نے ایک جہاں لاکر اسکے قدموں میں رکھا لیکن وہ پگلی نہیں میں تڑپتا تھا بےبسی کی تصویر بنا پھرتا تھا لیکن فقط ایک سجدہ ایک سجدے نے اُسے میری سوچوں کا مرکز بنا دیا کیا زندگی اتنی آسان ہے تیرے ساتھ؟؟ میں بھٹکتا رہا یہ جانے بغیر کے تو تو اس دل میں رہکر میری رہنمائی کرتا رہا ہے۔۔۔۔۔ آج بھی مجھے بچا لے اب ڈرتا ہوں دل دکھانے سے ایک ایک کا انجام اپنی ان گہنگار آنکھوں سے دیکھا ہے میری ایک غلطی نے تیرے بندے سے وہ بینائی چھین لی اور سچ تو یہ ہے میں۔۔۔ اُسکے بغیر ادھورا ہوں میری دنیا ادھوری ہے میں نے تیری دی راہ پر عمل کیا ہے حلال رشتہ بنایا ہے اپنی بیوی سے پاک محبت کی ہے میں نے۔۔ اُسکے آنے کے بعد ایک گندی نظر تک نہیں اٹھائی وہ بھی راز ہے میری نئی زندگی کا کہیں نہ کہیں اُسکی باتوں نے بھی میرے اندر کے سوئے انسان کو جھنجھوڑا ہے۔۔۔۔ اب فقط ایک غرض ہے۔۔۔۔۔۔ “ لب ساکت ہوگے اور وہ جو خود پر کنٹرول کیے بیٹھا تھا بکھر گیا دعا کے لئے اٹھے ہاتھ گر گئے وہ سجدے میں جا جھکا اور۔۔۔۔۔۔

اور پھر میں نے رو رو کر دعا کی

اسے نواز کر مجھ سے چھین لینا

میری نسل کی امین ہے وہ

میری روح کا حصہ ہے

دنیا کی وہ واحد عورت ہے جس نے اعتبار دیا ہے مجھے۔۔۔۔۔

اُسکے بعد نہ پہلے کسی نے آنا ہے نہ آئے گی۔۔۔۔

سنا ہے سجدے میں انسان اللہ‎ کے قریب ہوتا ہے یہی وجہ ہے میرے سجدے طویل ہوتے گئے “

آج بھی وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا دنیا جہاں سے بےخبر اپنے رب کی بارگاہ میں جھکا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور سرخ آنکھیں لئے مسجد سے باہر آگیا ایک نئی امید کے ساتھ۔۔ بس اعتبار تھا، یقین تھا اپنے اللہ‎ پر۔۔۔۔

ایک سمندر ہے جو میری قابو میں ہے

اور ایک قطرہ ہے جو مجھ سے سنمبھالا نہیں جاتا

ایک وقت تھا جو میں نے اُسکے بغیر گزارا تھا

اک لمحہ ہے جو مجھ سے گزارا نہیں جاتا۔۔

کوریڈور کے چکر لگاتے اُسکی حالت کسی بےبس پھڑپھڑاتے پرندے کی طرح تھی جو پر ہوتے ہوے بھی اڑھ نہیں سکتا تھا۔۔۔ نہ جان تھی نہ راستے کی خبر بس اوڑھنے کے لئے پھڑپھڑا رہا تھا۔۔

وہ بھی کسی بےبس پرندنے کی طرح پھڑپھڑاتا ہوا بےچینی سے یہاں سے وہاں چکر لگاتے اُسے ہی سوچ رہا تھا کتنا ڈری ہوئی تھی وہ صبح سےاندر تک نہیں جا رہی تھی۔۔۔۔

” وہ میری آنکھیں نکالیں گے نہ؟؟ کہیں انجیکشن تو نہیں لگائیں گئے آنکھوں میں۔۔۔ مجھے نہیں جانا پلیز مجھے نہیں کرانا۔۔۔ میں۔۔۔ ایسے۔۔۔سہی ہوں۔۔۔ اب تھو۔۔۔تھوڑا سمجھنے بھی لگی ہوں می۔۔ میں رہ۔۔ لونگی۔۔۔ “ ابراز کے کانوں میں حجاب کے الفاظ گونج رہے تھے۔۔ وہ اسکا ہاتھ سختی سے پکڑے رو رہی تھی اسے باہر جانے نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔

” حجاب مجھے کسی سے امید نہیں ڈاکٹر سے بھی نہیں بس یقین ہے، امید ہے تو اپنے اللہ‎ سے تمہیں ٹھیک ہونا ہے احتشام اور پرنیا کے لئے میرے لئے۔۔ انھیں اپنی ہنسی مسکراتی دنیا سے آشنا کراتی اپنی وہی ممّا چاہیے جو انکی ہر وقت حفاظت کرتی ہے۔۔۔ پلیز حجاب رونا نہیں۔۔۔ تم اپنا نہیں میرا نقصان کر رہی ہو میں ساری زندگی اس گلٹ میں سڑتا رہونگا۔۔۔ “ ابراز نے اسکے آنسوؤں پونچھتے ہوے ہاتھوں کے پیالے میں اسکا چہرہ تھاما اور لب اسکی پیشانی پر رکھے۔۔۔۔ کتنی ہی دیر وہ اسکے کندھے پر سر رکھے روتی رہی۔۔۔

ابھی بھی اسے حجاب کا لمس اپنے کندھے پر محسوس ہوا بےساختہ ہاتھ وہاں آکر ٹھر سا گیا۔۔۔۔ وہ جتنا سمنبھال لے خود کو۔۔ لیکن یہ ڈر اسکے دماغ سے نہیں جا رہا تھا ڈاکٹر کی وہ آخری بات بار بار اسکے ذہن میں ہتھوڑے کی مانند لگا رہی تھی جسے جانتے ہوے بھی ابراز آپریشن سے نہ رکا۔۔۔

” بہت پوسیبلٹیز ہیں جس طرح عام دوائی بھی کوئی نہ کوئی سائیڈ افیکٹ چھوڑتی ہے اُسی طرح یہ آپریشن بھی خطرناک ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے مس حجاب کی آئیسائیڈ ویک ہو سکتی ہے ہوسکتا ہے وہ دیکھنے لگیں لیکن یہ بھی ہے کے میموری لوس ہوجائے۔۔۔ بلرڈ ویچن یعنی دھندلا عکس دکھے لیکن خدا کی مرضی رہی تو ساری زندگی وہ پہلے کی طرح گزار سکتی ہیں۔۔ اور ایک بات مسٹر حیات ہمارا کام ہے مریض کی فیملی کو آگاہ کرنا دماغ آپ کے جسم کا وہ حصہ ہے جو آپ کی پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے اگر۔۔۔ کوئی بھی وین کو دوبارہ خطرہ پہنچا تو مے بی آپ کی بیوی۔۔۔۔ اسٹیبل نہ رہ سکیں۔۔ لیکن یہ بہت کم کیسز میں ہوتا نہ کے برابر کوئی مشکل سے دو پرسنٹ کیسز میں یہ دیکھا گیا ہے۔۔

میرے کرب بےبسی کی انتہا دیکھیں وہ میری شہ رگ سے قریب ہے اور میں اُس کی اذیت کو محسوس تک نہیں کرسکتا جس پر گزری ہے وہی اُس نعمت کی کمی محسوس کر سکتا ہے۔۔۔ اسکو روتا ہوا دیکھا ہے،،، بےبس بنا دیکھا ہے جب وہ سیڑھیوں سے گری ۔۔۔ چلتے چلتے جب کانچ اُسکے پیر میں چُبا۔۔ جب پسندیدہ لوازمات ہوتے ہوے بھی وہ اٹھا نہیں سکتی۔۔۔ اپنا ہاتھ جلاتی گھنٹوں میری موجودگی نہ محسوس کر کے روتی رہتی۔۔۔۔ یہ ضروری تھا۔۔ میں اُسے کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں زندگی کی ہر راہ میں ہر طنز و طعنہ سے بچانا چاہتا ہوں وہ کہتی ہے دنیا کی فکر نہیں لیکن حقیقت میں انہی کی سوچ کو وہ اپنی سوچوں میں آباد کیے ہوے ہے۔۔۔۔ وہ میری طرح نہیں ابھی وقت ہے اُسکی سوچ میری سوچ ایک ہونے میں سب ایک دم سے نہیں ہوتا لیکن۔۔۔ دنیا کی سوچ اُسے نگل لیگی اور یہی سوچ مجھے نگل رہی ہے۔۔۔۔ اے میرے مولا میں فقیر بن کر آیا ہوں تیری دربار میں۔۔ میرے معصوم بچوں کی سن لے اُسے پہلے جیسا کردے۔۔۔۔ بس تو ہی کرسکتا۔۔۔۔تو ہی کرسکتا۔۔۔۔۔ “ دیوار سے ٹیک لگائے وہ کھڑا تھا آتے جاتے لوگ ایک نظر اسے دیکھتے جسکی لبوں کی جنبش کسی اپنے کے لئے دعاگو تھی۔۔۔

” ڈیڈ۔۔۔ “ احتشام کی آواز سنتے ہی اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

” ول مما ایبل ٹو سی آگین؟؟ “

” یس۔۔۔ “ ابراز نے جھک کر سختی سے اسے خود میں بھینچا۔۔

اس سوال کا جواب تو اسکے پاس بھی نہیں تھا بس امید ہی تھی جس پر وہ قائم تھا۔ پرنیا اپنے نانا نانی کے پاس تھی لیکن احتشام کو ابراز اپنے ساتھ دبئی لے آیا کیوں کے احتشام حجاب کی پل بھر کی کمی محسوس کر کے آج کل نجانے کیوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے لگا جاتا اور یہ تب سے تھا جب سے ابراز نے دونوں کو ماں کی کنڈیشن سے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔

” مسٹر حیات۔۔۔ کونگرٹس مین آپریشن کامیاب رہا۔۔۔ “

تیزی سے ڈاکٹر اپنا کوٹ ہاتھ میں لئے باہر آئے اور ابراز کے کانوں میں زندگی کی نوید سنائی۔۔۔

” ڈاکٹر حجاب۔۔۔ وہ کیسی ہے؟؟؟ “ احتشام کو وہیں چھوڑے وہ بےتابی سے ڈاکٹر سے پوچھ کر اندر بڑھنے لگا کے ڈاکٹر کی بات پر اسے رکنا پڑا۔۔

” شی از فائن لیکن ابھی ہی اسکا ٹیسٹ کیا ہے اسے آرام کی ضرورت ہے ایک دو گھنٹے تک ڈسٹرب نہ کریں تو بہتر ہے۔۔ “

ڈاکٹر نے ابراز کی حرکت دیکھتے ہوے کہا جو اندر جانے کے لئے بےتاب تھا۔۔

” تھنک یو ڈاکٹر۔۔۔۔ یو سیوڈ مائے لائف۔۔۔ “ ابراز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا۔۔ ساتھ اندر جانے کا ارادہ بھی ترک کردیا۔۔

” مسٹر حیات۔۔۔ یہ آگے چل کر پتا لگے گا جب آپ دونوں اس کامیاب آپریشن کی قدر کریں گئے۔۔۔ مسز ابراز کو میں خود ھدایت دونگا کس چیز کا استعمال انکی آنکھوں کی بینائی پر واپس افیکٹ کر سکتا ہے۔۔ میری محنت چھ ماہ بعد پتا لگے گی جب آپ واپس انھیں چیک اپ کے لئے لائیں گئے۔۔۔ “ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوے خود کو ہر الزام سے بری کیا ابراز کے ہونٹ پہلی دفع اس سریس کنڈیشن میں مسکراے تھے۔ ابراز ڈاکٹر کے جانے کے بعد احتشام کو لیکر وہیں بینچ پر بیٹھ گیا اور پاکستان کال کر کے سب کو یہ گڈ نیوز دی۔۔۔


☆.............☆.............☆


” کاش وہ کہیں سے میرے سامنے آجائے۔۔ میری یہ بےچینی میرا سکون واپس لوٹا دے۔۔ بس معافی دے دے۔۔ “

لفظ با لفظ سنتا وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اسکے سامنے آن کھڑا ہوا۔ تنہائی کی پیاس ان آنکھوں سے بھجاتا وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا جبکے حجاب ساکت نظروں سے ان سرخ آنکھوں کو دیکھ رہی تھی جو اسکی بےچینی کا لمحہ لمحہ بیان کر رہی تھیں۔۔۔۔

” مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا۔۔ “ ساکت لبوں نے جنبش کی ابراز نے پلک تک نا جھپکائی شاید ابھی بھی اس بینائی کا یقین نہ تھا یقین بے یقینی کے عالَم میں کھویا کھویا سا وہ بولا

” کرلو۔۔ “ یک ٹک اسے دیکھے وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا حجاب کو اسکی نظریں اور لہجہ عجیب سا لگا۔۔

” ابراز۔۔۔ “ حجاب کے لہجہ میں بچوں کی سی معصومیت در آئی ابراز کا آج اسے وہی روپ دکھ رہا تھا جس نے اسکی گردن کو چاقو سی کاٹنا چاہا تھا۔۔۔

” پہلی دفع نام لیا اور ایسے موقعے پر لیا جہاں میں کوئی محبت بھری سر گوشی بھی نہیں کر سکتا۔۔۔“ وہ بیڈ پر دونوں بازو دائیں بائیں رکھ کے اسکی طرف جھکتا ہوا سنجیدگی سے بولا حجاب کو وہ آج پریشان کر رہا تھا۔۔۔ لیکن اس سے زیادہ وہ چہرہ۔۔۔ جو بند آنکھوں اور کُھلنے کے بعد اسکے ذہن پر ایسا اثر کر گیا کے سانس لینا تک گناہ لگ رہا تھا۔۔۔

” میں۔۔۔ میں۔۔بہت ڈر۔۔۔گئی۔۔ تھی۔۔۔ ابراز بہت۔۔۔ مجھے اس شخص کی خاموشی کھا گئی۔۔ میں۔۔۔ نے کبھی انسان کی خاموشی محسوس نہ کی نہ اُسکی کی مجھے نہیں پتا تھا ایک ایسا طوفان آئے گا جو سر تا پا مجھے بدل دیگا مجھے۔۔۔ “

ابراز آنکھیں سکوڑ کی اسے دیکھتا اسکے ذہن کو پڑھنا چاہتا تھا لیکن نہیں۔۔۔ اسے افسوس اِسکا نہیں کسی اور کا تھا کون ہے وہ؟؟؟؟ جبکے حجاب کی نظریں ابراز کی شرٹ پر تھیں وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی اسکے ہلتے لب اب بند ہو چکے تھے اسے جویریہ کی وہ بات یاد آئی ایک دن کہا تھا اسنے۔۔

ڈرو اللہ‎ کی خاموشی سے۔۔۔

جہاں جہاں پر تیری غلطی ہے

ہر ایک غلطی گنوا سکتا ہوں میں

خیر

چپ رہکر بھی

تجھے تیری اوقات دیکھا سکتا ہوں۔۔۔“

اسے یاد ہے جویریہ نے اسے آگاہ کیا تھا ہر انجام بھگتنے کے لئے آگر آج وہ شخص انجام تک نہیں پہنچا رہا تو کل تیری پکڑ ضرور ہوگی نظر ہر بندے پر رکھتا ہے وہ لیکن بس وقت وقت کی بات ہے آج وقت تیری ساتھ ہے کل اُسکے بندے کے ساتھ ہوگا۔۔۔

جویریہ کے الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے۔ نجانے کب اسکی نم آنکھوں نے نظر اٹھا کر ابراز کا دھندھلا عکس محسوس کیا ابھی تو یہ عکس صاف تھا پھر کیوں وہ چہرہ آنکھوں کے سامنے گزرتے ہی آنکھیں نم ہوجاتیں۔۔۔۔

” میں اُسے کیسے ڈھونڈوں کیسے معافی مانگوں؟؟ “

ابراز کو دیکھتی وہ خود سی بڑبڑاہی کیا اُسکی بددعا میں اتنی طاقت تھی کے میرا سکون تک وہ لے گئی۔۔۔۔

” احساس ہوگیا نہ؟؟؟ انا ٹوٹ گئی نہ؟ جانا اُسکے پاس معافی مانگنا۔ اب کوئی طاقت تمہیں تمہارے راستے سے بھٹکا نہیں سکتی۔۔۔ لیکن حجاب تاثیر میرے ایک سوال کا جواب دیتی جانا تمہیں سب کی فکر ہے اُسکی نہیں جس کو توڑ کر آگے بڑھ گئیں؟؟؟؟ “ وہ اسکی ٹھوڑی سختی سے پکڑے سنجیدگی سے بولا حجاب پوری آنکھیں کھولے اسے تک رہی تھی یکدم چھاؤں سے نکل کر وہ تپتی دھوپ میں کیسے آکھڑی ہوئی؟؟ ابراز کی بدلتی کیفیت نے اسے دھوپ میں لاکھڑا کیا۔۔۔

” آخر تھی ہی کب میں ہی پاگل بنا پھرتا ہوں۔۔ “

خود پر ہنستا مذاق اڑاتا لہجہ اسکی ہنسی حجاب کو شدید بُری لگی۔۔۔۔

” ایسا نہیں۔۔۔ “ حجاب تڑپ اٹھی ابراز کا اجنبی لہجہ سن کر وہ کسی خوب سے بیدار ہوئی۔۔۔

” سب سے پہلے تمہارا ہی احساس ہوا تھا۔۔۔ اور اُس دن شدید ہوا تھا جب۔۔ آفس میں۔۔۔ “ حجاب نے اُسکی آنکھوں میں دیکھے نرمی سی کہا ابراز کی سرخ آنکھوں کی سرخی اسکی بات سن کر مزید بڑھ گئی۔۔۔

” بھاڑ میں گیا آفس بھاڑ میں گئی دنیا میرا بتاؤ۔۔ کیوں ریجیکٹ کیا؟؟ “ حجاب نے دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کے اسے خود سی دور دھکیلا جو لمحہ لمحہ اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قریب لاکر اسکے رہے سہے اوسان خطا کر رہا تھا۔۔

” غلطی ہوگئی۔۔۔ “ سہمی ہوئی چڑیا کی طرح وہ اسے خوف سی آنکھیں پھلائے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ساتھ بھاگنے کے جتن بھی جاری تھی۔۔

” ایسی غلطی ہوئی ہی کیوں؟؟ “ وہ چلا اٹھا اسکی دھاڑ سے حجاب پوری جان سی کانپ اٹھی اسے خود سی دور کر کے وہ تیر کی تیزی سی اٹھی اس سے پہلے کے وہ بھاگتی ابراز نے اسکا بازو پکڑ لیا۔۔۔۔

” نو بےبی میرے ساتھ یہ گیم نہیں۔۔ بتاؤ ایسی غلطی کی ہی کیوں؟؟؟ “ جنونی انداز میں اسے دیکھتا وہ حجاب کے اوسان خطا کر چکا تھا۔۔۔۔ اچانک حجاب کو لرزتے دیکھ ابراز کی گرفت ڈھیلی پڑھ گئی۔۔۔۔

” پتا نہیں کیسے ہوئی مجھے خود کچھ نہیں پتا۔۔ “ وہ ڈر سے تھر تھر کانپ رہی تھی ابراز کسی پر بھی غصّہ کر سکتا ہے، اسے تباہ و برباد کر سکتا ہے لیکن وہ حجاب تاثیر نہیں ہوسکتی یہ یقین تھا حجاب کا مگر آج؟؟؟ حجاب ایک ایک قدم پیچھے ہٹاتی اسکی نظروں سی اوجھل ہونا چاہتی تھی جو بےخودی کے عالم میں اسے تکے نجانے کیا کرنے والا تھا؟؟

” کبھی اس آگ میں جلی ہو؟؟؟ “ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا۔۔۔۔

” تم یاد دلاؤ گئے تو میں بات نہیں کرونگی تم سے ایک تو شرمندہ ہوں اوپر سے؟؟ “ وہ بھی غم، غصّے، ڈر سے چلا اٹھی۔۔ کیوں کے ابراز کے بڑھتے قدم اسے اس چار دیواری میں قید کر رہے تھے۔۔ اچانک حجاب کے قدم پیچھے دیوار ہونے کی وجہ سے رک گئے آنسوؤں کا پھندا اسکے گلے میں آلٹکا۔۔۔

” اس وقت کیوں نہیں ہوئی یہ شرمندگی ؟؟ “ دانت پیستے وہ گویا ہوا دائیں بائیں دیوار پر ہاتھ رکھے ایک بار پھر وہ اسے قید کر چکا تھا۔۔۔

” ابراز۔۔۔ “ حجاب نے رحم طلب نظروں سے اسے دیکھتے اس رویہ کی وجہ پوچھنی چاہی۔۔۔۔۔

” میرے سوال کا جواب دو۔۔ “ ابراز نے زور سے ہاتھ دیوار پر دے مارا ” آ “ حجاب کی اچانک چیخ نکلی ڈر کے مارے اس کا چہرہ سفید پڑ گیا اسے بچوں کی طرح ہونٹ باہر نکالتے دیکھ کر ابراز کے غصے پر جیسے کسی نے ٹھنڈی پھوار ڈال دی ہو۔۔۔ مسکراہٹ نجانے کب ہونٹوں کو چھو کر گزر گئی۔۔

” آئ ایم سوری۔۔۔“ اس سے پہلے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی ابراز نے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھاما۔۔

” نہیں رو کر خود پر ظلم نہ کرنا یہ آنکھیں۔۔۔۔ میں پھر سے تڑپنا نہیں چاہتا حجاب۔۔“ ابراز کے لفظوں نے اسکے دماغ میں جھماکہ سا کیا خود کو ضبط کی انتہاؤں پر محسوس کرتی وہ آنسوؤں روکتے روکتے ہلکان ہو رہی تھی۔۔۔ ابراز نے اسکی کوشش دیکھتے ایک گہری سانس لی وہ بولا تو اس کے لہجے میں تھکن واضع محسوس کی جا سکتی تھی۔

” میں نے کہا تھا نہ مجھے اپنوں کا اجنبی لہجہ تکلیف دیتا ہے میں وہاں پاگل بنا پھر رہا ہوں ایک بار بھی مجھے دیکھنے کی خوائش نہیں جاگی؟؟ پل بھر میں بھلا دیا مجھے۔۔۔ ابراز حیات تمہارے لئے کچھ نہیں؟؟ ایک چونٹی برابر اہمیت نہیں میری؟؟؟ ۔۔۔۔ “ ویران آنکھوں سے حجاب کو حفظ کرتا وہ بےچارگی سے بولا کے کاش وہ اسے جھوٹی خوشی بخش دیتی جس میں بس اسکا ذکر ہوتا ہے۔۔

”نہیں حجاب تاثیر میں نے انسانوں کے آگے جھکنا چھوڑ دیا ہے اب اور نہیں۔۔ “ کہتے ہی وہ ایک قدم پیچھے ہٹا لیکن یہ کیا؟؟؟ سکون بھرا لمس اسکے سینے پر موجود۔۔۔۔ اسکی رگ و جان کو سراہیت بخش گیا۔۔۔

” مجھے اس جگہ سے بھی ہوجاتی ہے محبت جہاں بیٹھ کر سوچھ لو تمہیں۔۔۔ کچھ محبتیں اتنی شفاف ہوتی ہیں کے انہیں خود سے ہی چھپانا پڑتا ہے کے کہیں اپنی ہی نظر نہ لگ جائے۔۔۔۔ “

وہ اسکے سینے پر سر رکھے وہ اظہار کر گئی جسکی خوائش وہ ایک عرصے سے دل میں دبائے بیٹھا تھا اور یہ الفاظ؟؟؟ کبھی بےخودی کے عالَم میں حجاب نے اظہار کیا تھا لیکن آج اسکے الفاظ اسکا لمس ابراز حیات کی وہ بچپن کی محرومی تک مٹا گیا۔۔ یہ اقرار سن کر اسکا وجود آج معتبر ہوگیا تھا پیاسی روح آج سیراب ہوگئی۔۔ آج یہ اقرار تھا اُسکا وہ اُسکی زندگی میں بھی خاص تھا وہ ” خاص “ شخص جو اسکا محرم تھا۔۔

” ایک صدی گزار دی اس ایک اقرار میں۔۔ “ کانپتا ہاتھ اسکے سر پر رکھے وہ محبت لہجے میں سموئے بےیقین نظروں سے دیوار کو تکے اسے خود میں چھپانا چاہتا تھا لیکن ان کانپتے ہاتھوں میں ہمت نہ تھی اسے سمبھال سکے۔۔ آج وہ محبت ملی تھی جو بےغرض تھی نہ وارث کا لالچ تھا نہ پیسے کا اور نہ ہی شہرت کا لالچ تھا۔۔ تھا بھی تو بس محبت کا جو ابراز حیات سے بڑھ کر حجاب تاثیر کو کوئی نہیں کر سکتا۔۔۔ کوئی نہیں۔۔ کیوں کے اہمیت وہی جانتا ہے جو اُس سے محروم رہا ہو۔۔۔۔۔

” اب کیوں فری ہو رہے ہو اتنا شرمندہ کر کے سکون نہیں

آیا؟؟ “ وہ اس سے الگ ہوتی سرد لہجے میں بولی۔۔

” بلکل نہیں۔۔ “ ڈھٹائی سے جواب آیا جیسے اپنی کیے پر بلکل بھی افسوس نہ تھا۔۔

” صرف ایک بار آؤ میرے دل میں اپنی محبت دیکھنے اگر پھر لوٹنے کا ارادہ ہو تو ہم خود تمہیں چھوڑ آئیں گئے “ وہ دل پر ہاتھ رکھے ایک آنکھ دباتا حجاب کے غصّے کو مزید ہوا دے گیا وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے شعلہ باز نظروں سے اسے گھورنے لگی۔۔۔۔

” اب گھور کیوں رہی ہو بس دل کی بھڑاس نکالی میرے سامنے کسی اور کا ذکر کروگی تو ایسا ہی برتاؤ کرونگا چاہے وہ احتشام کا ذکر ہو یا پرنیا۔۔۔ “ وہ بھی سرد گھوری سے نوازتا اسے وارننگ دے گیا۔۔۔۔

” اُس دن جب میرا گلا کاٹنے کے خوائش مند تھے تب یہ محبت کہاں تھی؟؟ “ ابرو اچکا کے سوال کیا گیا ہسپتال کی خاموش فضا میں فلک شفاف قہقا گونجا۔۔۔۔

” بےبی غصّہ آئے گا سن کر لیکن اُس وقت میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تھا بس درد ایسا ملا تھا کے اگر غصّہ نہ نکالتا کل صبح میرے ہارٹ اٹیک کی خبر نیوز پپرز کی شان بنی ہوئی ہوتی۔۔۔ “

” جھوٹے مکار دھوکے باز۔۔۔۔۔ “ وہ اسکے سینے پر لاتعداد مُقے برساتی ابھی تک شاک کی کیفیت میں مبتلا تھی ابراز نے اسے بیوقوف بنایا؟؟ ڈرایا دھمکایا عزت افزائی کی مرغی تک بنانے چلا تھا وہ اسے؟؟؟ وہ روتی شکل بنا کر آنسوں پیتی بےبسی کی تصویر بنی کھڑی تھی جبکے ابراز ہنستا ہوا ڈھٹائی سے اسکی حالت سے محفوظ ہوتا یہ پل بھی انجوائے کر رہا تھا۔۔

” اچھا یہ بتاؤ ایسا کیا کیا ہے جو معافی مانگنی ہے؟؟ ۔۔ “ جب وہ تھک کر روٹھی ہوئی ہسپتال کے بیڈ پر آبیٹھی تو ابراز نے پاس بیٹھتے پوچھا۔۔

” نہ پوچھو مجھ سے نفرت ہوجاے گی۔۔ “ سوال ہی ایسا تھا کے وہ غصّہ بھلا کر شرمندہ سی نظریں جھکا گی۔۔۔

” وہ تو کبھی نہیں ہو سکتی۔۔ جہاں میری حد ختم ہوتی ہے وہاں آزمایا ہے تم نے پھر بھی دیکھو تمہارے سامنے ہوں۔۔ “ ابراز نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے کہا جبکے حجاب نے طنز سمجھ کر غصّے سے دانت پیستے اسکا نام پکارا۔۔۔

” ابراز “

” یس بےبی۔۔ “ مسکراتی آنکھیں اور یہ ہونٹوں کی مسکراہٹ اسکے دل کا حال بیان کر رہیں تھیں آج وہ بہت خوش تھا حجاب اپنی بات بھول کر اسے دیکھنے لگی تبھی ابراز نے اسکی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی ” بےبی اتنی محبت نہ کرو ابھی اقرار کے صدمے سے باہر نہیں آیا اور اف یہ ادائیں۔۔ “ اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھے وہ اسے چھیڑ رہا تھا اور حسب تواقع وہ چڑ گئی۔۔۔

” گیٹ لوسٹ۔۔ “ حجاب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے خود سے دور دھکیلا۔۔۔۔

” جو بھی بس تمہارے ساتھ۔۔۔ “ ابراز نے اسکی کوشش پر ہنستے ہوے اسے اپنی باہوں کے حصار میں لیکر اسکی آنکھوں پر لب رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس خوشی کو حجاب کے اقرار سے خاص بنانا چاہتا تھا آج کا دن میرے لئے ہر دن سے بہتر خوبصورت اور پر سکون تھا کیوں کے آج وہ پھر مہربان ہوا مجھ پر ہمیشہ کی طرح۔۔۔ وہ میرا ایمان اتنا پکّا کر چکا ہے کے لگتا ہے موت کے وقت بھی کوئی یاد رہے نہ رہے میرا اللہ‎ مجھے یاد رہے گا۔۔۔۔۔

بند آنکھوں سے ابراز نے دل کی آواز پر لبیک کہا ہونٹوں پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ آن ٹھری۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


ابراز احتشام اور حجاب کے ساتھ گھر لوٹا تو پرنیا کا رو رو کر بُرا حال تھا حجاب کے آپریشن کی وجہ سے کسی نے اسے اطلاع ہی نہیں دی ابراز کو خود پر سخت غصّہ آیا کاش وہ اسے لیجاتا کم سے کم نظروں کے سامنے تو ہوتی اب وہ اس سے ناراض بخار میں پھنک رہی تھی۔۔۔

” مائے ڈول آئ ایم سوری۔۔۔ “ ابراز نے جھک کر اسکے گال پر بوسہ دیا بخار کی وجہ سے پرنیا کا چہرہ بلکل مرجھا سا گیا تھا گال بخار کی شدت سے تپ رہے تھے۔۔ پرنیا ابراز کو دیکھتے ہی چادر تان کر رخ موڑ گئی صاف ناراضگی کا اظہار تھا۔۔۔

” ڈیڈ سے ناراضگی یعنی اب رو کر منانا پڑے گا؟؟ “ ابراز پرنیا کے پاس بیٹھتا اس سے پہلے حجاب عجلت میں تاثیر صاحب اور آمنہ کے ساتھ کمرے میں آئی۔۔۔

” امی آپ نے بتایا کیوں نہیں مجھے۔۔۔ اسکی حالت دیکھیں۔۔ “

حجاب پرنیا کے ساتھ ہی لیٹ گئی اسے خود میں بھینچ کر وہ اس وقت دنیا سے بےنیاز بس پرنیا کی ٹینشن میں گل رہی تھی جہاں حجاب کو اپنی بیٹی کی فکر کھائے جا رہی تھی وہیں آمنہ کو حجاب کی جسے ڈاکٹر نے سختی سے آرام کرنے کو کہا تھا آمنہ حجاب کے پاس بیٹھ کر اسکا سر سہلانے لگیں جو اپنی بیٹی پرنیا کو خود میں بھنچے اسکی کمر تھپک رہی تھی تاثیر صاحب اور ابراز بیک وقت یہ منظر دیکھ کر مسکراے۔۔ اولاد کے غم میں دونوں مائیں فکر مند تھیں بس فرق اتنا تھا ایک دوسرے سے انجان اپنی اپنی فکر میں تھیں۔۔ ابراز حجاب کو آتے ہی یہاں لے آیا جہاں آپریشن کی کامیابی پر سب کی آنکھیں نم ہوگئیں اسامہ تک کو آج ابراز نے پہلی دفع روتے ہوے دیکھا تھا۔ گھر آتے ہی جب ابراز کو پرنیا کا پتا چلا وہ دوڑتا ہوا یہاں آیا تھا لیکن اسکی طرح آمنہ نے حجاب کو بھی بتا دیا اور آج واقعی ایک بات سمجھ آئی باپ کا چاہے کتنا ہی اونچا مقام کیوں نہ ہو لیکن ماں سے مقابلہ نہیں پرنیا اس سے ناراض تھی جب کے حجاب کے ساتھ وہ سارے غم، غصّہ بھلا کر اس سے لپٹ کر سوگی۔۔۔

کیا وہ خود بھی باپ کے نہیں ماں کے غم میں اس دنیا میں تنہا رہ گیا؟؟؟ وہ کافی دیر اس بات پر غور کرتا رہا پھر سوچوں کو جھٹک کر شام کو ہی تینوں کو اپنے ساتھ گھر لے آیا۔ آج جب حجاب سے گلے ملنے کے بعد فبیحہ نے ابراز کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہا تو وہ پیچھے نہ ہٹا نجانے کیوں احترام میں وہ حجاب کی طرح انکے آگے جھکا تھا اور انہیں حیران پریشان چھوڑ کر پرنیا کو اٹھائے اپنے کمرے میں آگیا جو اب کچھ بہتر تھی بخار کی شدت میں کافی حد تک کمی آئی تھی۔۔۔۔

” کیا ہوا میری جان کو “ ابراز واشروم میں فریش ہونے گیا تھا کے فبیحہ احتشام سے پرنیا کا سن کر اوپر چلی آئی۔۔ پرنیا کا سر اپنی گودھ میں رکھے وہ اسکے بال سہلا رہی تھی۔۔۔

” آنٹی آپ آرام سے بیڈ پر بیٹھیں۔۔۔ “ حجاب جو بالکنی میں آکر گارڈن کی طرف نظریں جمائے کھڑی تھی اس نے سنا تھا صبح صبح گرینری دیکھنے سے بھی آنکھوں کی روشنی تیز ہوتی ہے اسلئے وہ بالکنی میں چلی آئی لیکن دروازہ بند ہونے کی آواز پر کمرے میں آئی اور فبیحہ کو دیکھ کر احترام سے اسے پیش کش کی۔۔۔

” نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔ آئ ایم سو ہپی فور یو حجاب ۔۔۔ پتا ہے تم لوگ یہاں نہیں ہوتے تو یہ تنہائی مجھے کاٹتی

ہے۔۔۔ “ خوشی سے کہتے آخر میں وہ غم زدہ ہوگئیں۔۔۔

” آنٹی اب نہیں جائیں گئے انشااللہ بس وہ ایکسیڈنٹ۔۔ “ حجاب کہتے کہتے لب کاٹنے لگی جیسے ساری غلطی اسکی تھی۔۔۔

” تم لوگ کبھی اتنے دن دور نہیں رہے نہ تبھی اور کل تو گھر میں کوئی تھا ہی نہیں بہت یاد آرہی تھی پرنیا اور احتشام کی “ فبیحہ کی آنکھیں رات جگے کا پیغام دے رہی تھیں۔ اس نے جھک کر پرنیا کی پیشانی پر بوسہ دیا تبھی ابراز ٹاول سے بال رگڑتا باہر آیا فبیحہ کو اس طرح دیکھ ابراز کو عجیب سا لگ رہا تھا اسے یاد ہے وہ پہلے پہر پھر بھی اسکے کمرے میں آجاتی تھیں لیکن حجاب کے آنے کا بعد ابراز نے انہیں اوپر آتے تک نہ دیکھا۔۔۔ فبیحہ کو اپنا آپ یہاں عجیب سا لگ رہا تھا وہ اٹھنے لگی کے پرنیا کی آواز نے انہیں رُکنے پر مجبور کردیا۔۔۔

” موم ڈونٹ گو اینی ویر “ ابراز کی دیکھا دیکھی احتشام اور پرنیا بھی فبیحہ کو موم ہی کہتے۔ فبیحہ کا لمس شاید پرنیا کو سکون بخش رہا تھا اپنوں کے پاس ہونے کا احساس دلا رہا تھا تبھی اسکا لہجہ التجا کرتا تھا۔۔۔۔ ابراز خود ہی الماری سے شرٹ نکال کر روم سے نکل گیا فبیحہ وہیں بیٹھی رہی جبکے حجاب ابراز کے پیچھے چل دی۔۔۔۔۔

” تم سو جاؤ۔۔ “ وہ تیزی سے اپنی شرٹ کے بٹن کرتا اسٹڈی روم کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں آج اسے ایک فائل کا مطالع کرنا تھا۔ دوسری کمپنی سے ڈیلنگ کرنے سے پہلے وہ انکی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو اسٹڈی کرنا چاہتا تھا۔۔

” نیند نہیں آرہی “ وہ اسکے ساتھ چلتی اس سے کہہ رہی تھی۔

” نہیں آرہی پھر بھی آنکھیں بند کر کے سونے کی ایکٹنگ کرو تمہارے لئے یہ ضروری ہے۔۔ “ اسٹڈی روم کا دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوا اسکی تقلید میں حجاب بھی اسکے پیچھے آئی۔۔

” ایک بات پوچھوں؟ “ وہ اب کرسی پر بیٹھا سامنے رکھی دونوں فائلز میں سے مطلوبہ فائل چیک کر رہا تھا۔۔۔

” نہیں۔۔ “ وہی عام سا انداز جو صاف بےنیازی ظاہر کر رہا تھا۔۔

” کس سے بھاگ رہے ہو؟؟ “ حجاب نے کھوجتی نگاہوں سے اسے دیکھا جو اب نظریں چُرا رہا تھا سیٹ کی پشت پر سر رکھے وہ اپنے اندر کی جلتی آگ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا جسے آج حجاب ہوا دے رہے تھی۔۔۔

” آج تک بھاگا ہوں۔۔ “ وہ آنکھیں کھولے حجاب کی طرف چہرے کا رخ کیے پوچھ رہا تھا۔۔

” ابراز بس ایک سوال۔۔ “ حجاب کے لہجے میں التجا تھا ابراز اسکے سوالوں سے ہی تو بچنا چاہتا تھا تبھی بےنیاز بنا بیٹھا تھا۔۔۔

” تم جا سکتی ہو۔۔ “ اب کے وہ سرد لہجے میں بولا۔

” تم مجھے جانے کا کہہ رہے ہو؟؟ “ حجاب بےیقینی سے آنکھیں پھلائے اسے دیکھ رہی تھی کہاں امید تھی ابراز کے اس جواب کی؟ لہجے کی؟؟

” ہاں کیوں کے جسکے حق میں تم بولنے والی ہو۔۔۔۔ میں انکے لئے کچھ نہیں سننا چاہتا بہت مشکل سے بےحسی کا لباد اوڑھا ہے تم پل بھر میں ختم نہیں کر سکتیں۔۔ “ وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا۔ سنجیدہ لب و لہجے میں بولکر وہ ایک پل کو حجاب کو ڈرا گیا۔ لکین حجاب اپنی اہمیت جانتے ہوے اب ان سرد لہجوں کی عادی ہو چکی تھی۔۔۔

” کیوں اوڑھا ہے “ آنکھیں سکوڑ کر وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے تشویش زدہ نظروں سے اسے گھورتے پوچھ رہی تھی ابراز کا دل چاہا دو لگاے جب تہہ ہے وہ اسے مر کے بھی بتانے والا نہیں پھر یہ ضد کیوں؟؟ وہ آخری سانسوں تک یہ راز اپنے دل میں دفن کیے جائے گا اس بات کا پکا ارادہ رکھتا ہے وہ۔۔۔

“ Beause i was born as a normal child but this cruel world ruined my innocence my childhood and further they were going to ruin my future too but it was Allah who saved me every single time even Allah saved me from myself because i am my worst enemy just beacause of them ”

وہ اسے دونوں کندھوں سے تھامے چٹان کو مات دیتے سرد لہجے میں بولا آخر میں دروازے کی طرف انگلی کرتے وہ دانت پیستے کے رہ گیا اشارہ دروازہ سے اُس پار اپنے ماں باب پر تھا۔۔۔ بے شک باپ نے نشے کے عالَم میں اسے شراب کی لت لگائی لیکن جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کیوں اسے ترک نہ کیا؟؟ کیا وہ دودھ پیتا بچہ تھا جو خود کو سدھار نہ سکا جوانی میں غلط کاموں کے بجائے سب کچھ جانتے ہوے سب کے انجام دیکھنے کے بعد بھی کیوں اللہ‎ سے بھاگتا رہا؟؟ بار بار وہ اسے بلاتا رہا لیکن جب ” مکافات عمل “ خود پر آیا کیسے دوڑتا ہوا وہ مسجد جا پہنچا۔۔۔

” ابراز دنیا میں ماں باپ ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کے لئے احساس رکھتی ہے تمہاری فکر ماں باپ سے زیادہ کوئی نہیں کر سکتا نہ ان سے بڑھ کے کوئی چاہ سکتا۔۔ کیا تمہیں محبت نہیں دی؟؟ وقت نہیں دیا؟؟ ضرورت کے وقت منہ موڑ گئے؟؟ نہیں نہ آج پھر جب انھیں تمہاری ضرورت ہے تو پیچھے کیوں ہٹ رہے ہو؟ اپنی فرض سے کیوں بھاگ رہے ہو جانتے ہو ماں باپ کی نافرمانی اپنی آخرت خراب کرنا ہے پتا ہے اگر تم ستر سال خانہ کعبہ کا طواف کرکے اُسکی نیکیاں اپنے ماں باپ کو ہدیہ کرتے رہو تب بھی تم اُس آنسو کے ایک قطرے کا بوجھ ہلکا نہیں کر سکتے جو تمہاری بدسلوکی کی وجہ سے تمہارے ماں باپ کی آنکھ سے گرا ہو۔۔ “ وہ اسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھے نرمی سے بولی دونوں یک ٹک ایک دوسرے کو دیکھ رہا تھا ایک ان آنکھوں میں دیکھ لفظوں کو حفظ کر رہا تھا جبکے دوسرا آخرت کا تصور اسکے ذہن میں ڈالنا چاہتا تھا۔۔۔۔

” دولت دی وقت دیا محبت دی سب دیا۔۔۔۔ میرے ماں باپ نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔۔۔ بس۔۔ ایک ناراضگی عمر بھر کا روگ لگا گئی “ ہاں آج اعتراف کیا تھا اس نے اور یہ سچ بھی تھا وقت دیا محبت دی سب کچھ دیا لیکن ایک داغ اسکے دامن پر ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔۔۔

” کہیں لڑکی کا چکر تو نہیں تھا۔۔ “ حجاب کے دماغ میں جھماکہ سا ہوا جبکے ابراز اسکی کوشش پر قہقا لگا کے ہنسا واقعی عورتیں آ آ کر اپنی ہی سوچ پر لوٹتی ہیں۔۔۔

” بےبی تم سے شادی کر کے کیا پرو نہیں دیا کسی میں طاقت نہیں مجھے میرے عمل سے روک سکے اور جب اُسکی مرضی شامل ہو تو وہ ہوکر رہتا ہے۔۔۔ “ وہ اسکی ٹھوری پکڑے مزاحیہ انداز میں کہہ رہا تھا حجاب نے نظروں کا زوایہ بدلا کیوں کے اب وہ یک ٹک اسے دیکھتا اسے تنگ کر رہا تھا۔۔۔

” ابراز؟؟ “ ابراز نے نظریں نہیں ہٹائیں اسے تنگ کر کے ایک الگ ہی مزہ آتا تھا۔ حجاب نے اب کی بار اسکی ہلکی داڑھی کو زور سے کھنچا ابراز چلا اٹھا۔۔۔” آہ۔۔ ظالم ہو ۔۔ “

” پھر ایسی کیا ناراضگی؟؟ “ وہ اسکے جملے کو ان سنا کرتی ایک اور سوال پوچھ کر اسکا صبر آزما رہی تھی۔۔

” آج پوچھا ہے آئندہ نہیں پوچھنا ہمارا جھگڑا کبھی ہوا تو اسی بات پر ہوگا۔۔ “ وہ سنجیدگی سے کہتے کرسی پر آبیٹھا۔۔ خود وہ لاکھ انھیں کچھ کہے لیکن کسی اور کے منہ سے اپنے ماں باپ کا سنکر وہ غصّے میں یہ تک بھول جاتا ہے سامنے دوست ہے یا اپنا عزیز۔۔۔

” کب نہیں ہوتا؟؟ “ حجاب تو اسکے سفید جھوٹ پر اسے دیکھتی رہیگی۔۔

” استغفار میں کب لڑتا ہوں؟؟ تم ہی موڈ خراب کر کے کبھی میکے بھاگتی ہو کبھی دادو کے روم میں۔۔ “ وہ اسکی بات سے تپ ہی تو اٹھا تھا وہ ہر دفع میدان چھوڑ کے بھاگ جاتی آخر رونے کے علاوہ اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا کیا؟؟

” اچھا ہوتا ہے تم یہی ڈیزرو کرتے ہو۔۔ “ وہ اسی کے انداز میں اسے جواب دے گئی۔۔

” بتاؤں تمہیں۔۔ “ وہ مصنوئی گھوری سے اسے نوازتا اٹھنے کی ایکٹینگ کرنے لگا حجاب نے تیزی سے دروازہ کی طرف دوڑ لگائی۔۔

” میری بات پر غور کرنا “ وہ دروازے کے پیچھے چھپی اونچی آواز میں بولی ابراز کی نظروں سے وہ اوجھل نہیں ہوئی تھی

” یہاں آکر کہو سنائی نہیں دیا “ وہ کان کو رگڑتا اسے دیکھتے انجان بن رہا تھا

” اول درجے کے ڈھیٹ اور فلرٹی ہو۔۔ “ حجاب بھی اسکی اداکاری سے واقف تھی وہیں سے غصّے سے بولی۔۔۔

” جیسا بھی ہوں تمہارا ہی ہوں بےبی “ ایک آنکھ دبا کر کہتا وہ اسکا منہ بند کر گیا حجاب پیر پٹکتی وہاں سے چل دی۔۔۔

حجاب اب زیادہ تر سوتی ہی ملتی، اسکا موڈ بھی بات بات پر کمرے میں رہ کر بگڑنے لگا تھا ابراز نے سختی سے اسکی نگرانی کے لئے اُسی ملازمہ کو پیچھے لگایا تھا جو بھوت کی طرح اسکے سر پر سوار رہتی باقی کثر ڈیڈ کے ” چہیتوں احتشام اور پرنیا “ نے پوری کی تھی جو چھوٹی سے چھوٹی بات ابراز کو کال کر کے بتاتے۔ پرنیا عادتوں میں بلکل ابراز کی طرح تھی جو ایک پل غصّہ اگلے ہی پل منانا جانتی تھی ابراز اور حجاب کو بھی زیادہ محنت نہیں لگی بس ایک وعدے سے اُسکی ناراضگی مٹ گئی۔۔۔

ابراز کے قدم بہتر سے بہترین کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔ کچھ جھجک تھی ہچکچاہٹ تھی کے وہ اپنی ہی ماں سے بات تک کرنے سے پہلے لفظوں کو تراشتا تھا اور اسکی یہ جھجھک محسوس کر کے حجاب نے ہی ایک دن بات کا آغاز کیا۔۔۔

” دیکھیں آنٹی ماں اور بیوی کی پروا ہی نہیں دونوں سامنے بیٹھیں ہیں یہ موصوف فون پر لگے ہیں۔۔ “ اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر بچے حجاب ابراز اور فبیحہ ہی موجود تھے۔ حیات صاحب ملک سے باہر تھے۔ ابراز کو ناشتے کے بعد موبائل یوز کرتے دیکھ حجاب نے ٹوکا فبیحہ نے بس مسکراتے ہوے گلاس میں جوس انڈھیلا۔ جبکے ابراز اسکی چلاکی سمجھ کر مسکرایا اور پورے اعتماد سے فبیحہ کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔

” موم آپ کو پتا ہے شوہر سب سے زیادہ خوش کب ہوتا

ہے؟؟ “ فبیحہ جو جوس کا گلاس ہونٹوں سے لگانے والی تھی ابراز کی پکارنے پر حیرت سے آنکھیں پھلائے نفی میں سر ہلانے لگی۔۔

” جب بیوی میکے جاتی ہے “ کہتے ہی وہ خود مسکرایا اور ساتھ فبیحہ کو بھی مسکرانے پر مجبور کیا حجاب نے ابراز کو آنکھیں دیکھائیں۔۔۔

” اور جانتی ہیں پریشان کب ہوتا ہے؟؟ “ وہ حجاب کے آنکھیں دیکھانے پر کچھ اور پھیل گیا۔۔

” جب بیوی واپس آتی ہے۔۔ “ اس بار جواب فبیحہ کی طرف سے تھا دونوں کی ہنسی بےوقت چھوٹی ابراز نے تالی کے لئے ہاتھ آگے کیا جس پر فبیحہ نے ہاتھ مار کر ممتا بھری پیاس اس لمس سے بجائی ابراز تو اسے اپنے پاس تک آنے نہ دیتا تھا اور اب۔۔۔ یہ سب اتنی اچانک ہوا تھا کے دونوں اب تک بےیقین تھے۔۔فبیحہ کی آنکھوں کی چمک ہونٹوں کی مسکراہٹ ہاتھوں کی لرزش حجاب کی سوچ کو اور ہی رخ دے رہی تھی یقیناً کوئی ایسی بات ہے جو کسی کے لئے تو شرمندگی کا بائث ہے تبھی ابراز وہ سچ چھپا رہا ہے۔۔۔ ماحول کو فرش کرنے کے لئے ابکی بار حجاب سوچوں کو جھٹک کر میدان میں اتر آئی۔۔۔

” تو ایک کام کرتے ہیں میں چلی جاتی ہوں تم پورے دن خوش ہوتے رہنا۔۔ “ حجاب نے جل کر کہا جبکے دل ہی دل میں وہ آج بہت خوش تھی اس صلح پر۔۔۔

” ایسی فرمانبردار بیوی اللہ‎ ہر کسی کو دے جو شوہر کی خوشی کا خیال رکھے۔۔ “ ابراز کے جواب پر حجاب کی برداشت جواب دیگی وہ جو اسکے ساتھ ہی بیٹھی تھی زور سے اپنا پیر ابراز کے جوتے پر مارا۔۔۔

” ظالما۔۔ “ وہ سختی سے اپنی چیخ دباتا لگ بگ سرخ ہوچکا تھا۔۔۔

” رازی کیا ہوا؟؟ “ اسکی سرخ پڑتی رنگت دیکھ کر فبیحہ نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔

” نتھنگ موم۔۔ آپ آفس کیوں نہیں آتیں آپ کی بہو تو بیٹھتی ہی وہیں ہے جاسوسی کرنے کے لیے آپ ہی بیٹے کے حق میں چلی آیا کریں۔۔۔“ ابراز نے جوتا نکال کر دوسرے پیر کی مدد سے پاؤں سہلایا ساتھ فبیحہ کو اس موضوع سے ہٹانے کے لئے دوسری بات چھیڑی۔۔

” تم نے کبھی بلایا ہی نہیں “ ابراز کے دل میں ایک درد سی لہر اٹھی کتنا انجان تھا وہ انکی تکلیف سے۔۔ بچے ناشتہ کر کے اب ٹی وی دیکھنے لگے۔۔

” آفس آپکا بیٹا آپکا اجازت کیسی؟؟ آپ کو قدرتی ہر حق حاصل ہے میں آپکا ایمپلوے ہوں مالک تو آپ ہی ہیں میری “

محبت، نرمی، احترام کیا کچھ نہ تھا ابراز کے لہجہ میں فبیحہ کو یقین کرنا مشکل لگ رہا تھا بغیر پلک چبکائے وہ اپنی بیٹے کو دیکھ رہی تھی جو سالوں پہلے نجانے کہاں کھو گیا تھا۔۔۔

” ہاں ضرور آؤنگی “ نم آنکھوں سے مسکراتی وہ ابراز کو پیشیمان کر گئی صرف ایک نرم لہجہ کیسے برسوں پرانی خلش مٹا گیا۔۔ آفس جانے سے پہلے وہ فبیحہ کی پیشانی پر بوسہ دیکر بہت کچھ جتا گیا تھا فبیحہ کتنی ہی دیر وہیں بیٹھی ابراز کے اس رویہ پر غور کرتی رہی پھر تیزی سے اٹھ کے اپنے کمرے میں چلی گئی یہ آنسوں۔۔۔ آج بھی وہ کسی کے سامنے کمزور نہیں پڑھنا چاہتی۔۔۔۔

کب وہ جھکی تھی ماں باپ نے اِسے جھکنا سکھایا ہی کہاں تھا؟؟؟

باپ اپنی عیاشی میں مگن رہتا اور ماں انکے کہے پر عمل کرتی۔۔

ان سب میں فبیحہ کہاں تھی؟؟ کہیں نہیں۔۔ فبیحہ نے تو کبھی اپنے بچوں کے ساتھ اپنے ماں باپ جیسا سلوک نہ کیا پھر ابراز کیوں اتنا بےرحم بن گیا؟؟ اور آج سالوں بعد اسے یاد آئی ہے لیکن آئی بھی ہے تو آج وہ خود کو بےحد خوش نصیب

محسوس کر رہی تھی کیوں کے ابراز اور حجاب کے بعد جو تنہائی نے اسے کاٹا تھا کبھی زندگی میں ایسی تنہائی محسوس نہ ہوئی اسکی فرنڈز اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ ویکیشنز پر گئیں تھیں حیات بھی یہاں نہیں تھا اس لمحے شدت سے فبیحہ کو اپنے خسارے کا احساس ہوا۔۔

وہ آنسوؤں پونچھتی نیچے گارڈن ایریا میں آگئی جہاں احتشام بیٹھا پوٹس سے مٹی نکال کر دوسرے رکھے فلاور پوٹ میں ڈال رہا تھا وہ مسکراتی ہوئی اسکی طرف بڑھی۔۔

” تجھے کیا لگا تو بتائے گا نہیں تو مجھے پتا نہیں چلے گا “ دادو جو پرسوں ہی گاوں سے آئیں تھیں شکوہ کناں نظروں سے ابراز کو گھورتے عینک درست کی یہاں آکر انہیں حجاب کا پتا چلا تھا جسکے جاننے کے بعد وہ ابراز سے سخت خفا تھیں۔۔۔ ابراز نظریں جھکائے انکی ہر شکایات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا۔۔ حجاب اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی آج اسے ابراز سے اچھی خاصی ڈانٹ پڑی تھی کیوں کے آنکھوں میں شدید خارش کی وجہ سے اس نے آنکھیں رَب کی جس سے آنکھوں میں انفیکشن ہوگیا تھا ڈاکٹر نے کہا تھا خارش عام ہے ایسا ہوتا ہے لیکن حجاب کو یہ تکلیف برداشت نہ ہوئی اور آنکھوں کو بار بار رگڑنے سے اب انفیکشن ہو چلا تھا اسلئے اس وقت ڈراپس آنکھوں میں ڈالے وہ پچھلے چھ گھنٹوں سے آرام کر رہی تھی۔۔۔

” دادو میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا “ ابراز جو ہر بات پر انہیں الٹا جواب دیکر تنگ کرتا آج دادا کی موجودگی میں تابعداری سے انکے ہر سوال ہر شکایات پر سر جھکائے جواب دے رہا تھا۔۔۔

” میرا شیر ہے بتاتا نہیں کسی کو خود ڈٹ کے مقابلہ کرتا ہے “ دادا نے موچوں کو تائو دیتے کہا۔۔

” میری طرح دادا ابو۔۔ “ احتشام بھاگتا ہوا آکر انکے سینے پر بیٹھ گیا ابراز کے ہونٹوں پر دھیمی مسکراہٹ آن ٹہری۔۔۔

” میرا لختے جگر۔۔۔ دادا کی جان میرے چھوٹے شیر سے کوئی مقابلہ تو کر کے دیکھائے کھڑے کھڑے زمین میں نہ گاڑھ

دونگا۔۔ “ دادا نے اسکے دونوں گالوں پر بوسہ دیتے محبت سے کہا احتشام اور پرنیا ابھی ٹیوشن سے آئے تھے آج کل دادا دادی کی آمد سے دونوں خوش تھے خاص کر احتشام کیوں کے دادا اسکے ہر لاڈ اٹھا رہے تھے آخر وہ انکے اکلوتے پوتے کا بیٹا ہے جبکے پرنیا کے ساتھ انکا پیار ویسا ہی ہے جیسا اپنے گھر کے بچوں سے ہوتا۔۔۔۔ ابراز نے یہ بات باخوبی نوٹ کی ہے لیکن وہ کیا کر سکتا ہے؟؟ انہیں جتنا سمجھاو جواب ایک ہی آنا ہے بڑوں سے بدتمیزی۔۔۔ ابراز سوچتا ہوا دادو سے باتیں کرنے لگا جو اب حجاب کے ایکسیڈنٹ کا تفصیلی پوچھ رہیں تھیں۔۔۔۔


☆.............☆.............☆

” کون ہو تم؟؟ “ حجاب نے آج غور سے اسے دیکھا تھا سرخ و سفید رنگت پتلی دبلی سی وہ کہیں سی بھی اسے خواجہ سرا نہ لگا۔۔۔۔

” میں۔۔۔ میں حجاب۔۔ وہ۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔۔ “ وہ بااعتیماد لڑکی جس نے دھڑلے سے جویریہ کو انکے بارے میں اتنا کچھ کہا تھا آج وہ کہیں سے اُس لڑکی کا عکس بھی نہ لگ رہی تھی۔۔۔

” آپ مذاق کر رہی ہو اتنی عزت؟؟؟ لوگ تو۔۔۔ تم بھی نہیں تو کہہ کر گھر سے نکالتے ہیں۔۔۔ “ حجاب کو اسکا لہجہ عجیب سا اپنا مذاق اڑاتا لگا

” میں معافی مانگنے آئی ہوں۔۔ “ حجاب نے ہونٹ کا کنارہ سختی سے کاٹا۔۔۔ شرمندگی سی اسکی نظریں جھکی ہوئیں تھیں۔۔۔

” ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ مجھ سے معافی۔۔۔ بی بی لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں گھر جاؤ۔۔ “ خواجہ سرا کا قہقہ پورے گھر میں گونج رہا تھا لیکن حجاب جو اپنے اوپر اٹھی ہر نظر پہچان لیتی ہے آج اس خواجہ سرا کی نظروں کو پہچان نہ سکی۔۔۔آس پاس کھڑے دوسرے خواجہ سرا بھی اسے حیرت و بے یقینی سے دیکھ رہے تھے۔۔

” مجھے معاف کردو۔۔۔ مجھے سکون نہیں آتا۔۔ میں۔۔ میں سمجھتی تھی میں اللہ‎ کی فرمابردار بندی ہوں۔۔ وہ میری سنتا ہے ہر نیک بندے کی سنتا ہے لیکن۔۔۔ لیکن وہ۔۔ گنہگاروں کی نہیں سنتا۔۔ تم جیسوں کی نہیں سنتا۔۔ مجھے غرور تھا خود پر اپنے نیک ہونے پر۔۔۔ لیکن اس نے مجھے آئینہ دیکھا دیا میرا بدصورت چہرہ۔۔۔ جس میں خود دیکھ کر ڈر گئی۔۔ اس انا پرست مغرور لڑکی کا مجسّمہ ٹوٹ گیا۔۔۔ اور جانتے ہیں جب وہ ٹوٹا سب سے پہلا صاف شفاف چہرہ مجھے آپ کا دیکھا۔۔ اگر آپ اللہ‎ کے نزدیک نا ہوتے تو مجھے وہ آپ کا چہرہ نہیں دیکھاتا سچ تو یہ ہے آپ اُس کی نظر میں مجھ سے بہتر ہیں میں نہیں کیوں کے میں یہ بھول گئی اُسے غرور نہیں پسند۔۔۔ نہیں پسند اُسے اور میں نے کیا غرور خود سے بہتر کسی کو نا سمجھا۔۔۔۔۔ اور دیکھیں آج مجھے۔۔۔ مجھے اپنے علاوہ ہر انسان خوبصورت لگتا ہے۔۔۔۔ “ وہ بلک بلک کے رو رہی تھی گھٹنوں کے بل بےدم سی ہوکر وہ زمین پر بیٹھی اس سے مافی مانگ رہی تھی جنکو کبھی وہ حقارت بھری نظروں سے دیکھتی تھی اسلیے کے جو اپنا آپ ہر کسی کو دیکھاتی پھرتی ہیں۔ اب خود حجاب ایک نظر اسے دیکھنے کو ترس گئی تھی۔

حجاب نے ایک ہچکی لیکر بمشکل اپنے ہاتھ جوڑے۔۔۔

” پلیز مجھے معاف کردیں۔۔ میں وہی تھی جس نے آپ کی مدد نہیں کی یہ کہا کے انکے ساتھ یہ عام ہے یہ روز ہی اس طرح کے مرد انہیں لے جاتے۔۔۔۔ میں حقارت بھری نظروں سے آپ لوگ کو دیکھتی تھی کبھی بُرا لگتا آپ لوگ کے لئے لیکن جب آپ کی تیاری دیکھتی سجتے سنورتے دیکھتی تب سوچتی تھی کے آپ یہی ڈیزرو کرتے ہیں۔۔ میں آپ لوگوں کو پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔ ناجانے کیوں میں ایسی تھی یہ کبھی نہیں سوچا کے آپ بھی اُسکی بنائی تخلیق میں سے ایک ہیں۔۔۔۔۔ میں کیسے اسکی کسی مخلوق سے نفرت کر سکتی ہوں جب کے ہمیں تو دشمن سے بھی اچھا سلوک کا کہا گیا ہے پھر آپ تو۔۔۔ “ وہ اپنے جڑے ہاتھوں پر سر رکھے ایک بار پھر رو پڑی۔۔ ایک بوڑھی عورت جو کب سے اسکا رونا بلکنا دیکھ رہی تھی پاس آکر اسے اٹھایا۔۔

” اٹھ جا دھی۔۔ یہ ایسی بنتی ہے غصّے والی اصل میں ہے نہیں۔۔ تم اٹھو یہاں بیٹھو۔۔ “ انہوں نے حجاب کا ہاتھ تھامے اسے اٹھایا تب تک حجاب کی نظروں نے ایک نظر آس پاس کا جائزہ لیا وہاں بہت سے خواجہ سرا تھے ایک پل کو حجاب کے وجود میں خوف سے لرزش طاری ہوگئی۔۔

” ڈرو مت دی یہ کیا بُرا کریں گئے؟ جو خود پل پل ڈرتے ہیں اور یہ چمیلی تو بہت نرم دل کی مالک ہے “ حجاب نے اٹکی سانس بہال کر کے سامنے کھڑے اسی خواجہ سرا کو دیکھا جو عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا حجاب نے نہ چاہتے ہوے بھی وہ سوال پوچھا جو اسے تنگ کر رہا تھا۔۔

” کیا آپ نے مجھ بددعا دی تھی؟؟ “ ڈر ڈر کے اس نے یہ سوال پوچھا تھا اسے شرمندگی بھی ہو رہی تھی لیکن دلی سکون اسی میں تھا اسے کسی کی آہ سے ڈر لگتا تھا۔۔۔

” بددعا؟؟ ہم تو دعا دینے بھی جاتے ہیں تو لوگ حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔۔ ہمارا تو خدا کے علاوہ کوئی نہیں۔۔ ایک دوسرے تک سے بچھڑ جاتے ہیں۔۔۔ یہ سامنے اسکو دیکھو ایک ہفتے پہلے اسے گلی کے آوارہ لڑکے لیکر گئے آج چھوڑ کے گئے ہیں دیکھو اسکی حالت۔۔“ چمیلی کا پارا بددعا سن کر ہائی ہوگیا اُس نے چار پائی پر لیٹی اس لڑکی کی طرف اشارہ کرتے کہا حجاب کی نظر اس پر پڑی تو بےختیار اپنے ہونٹ پر ہاتھ رکھ کے سسکی روکی۔۔۔ بدتر سے بدتر حالت تھی اسکی۔ جسم سے لیکر چہرہ تک بُری طرح زخموں سے گھائل تھا۔۔

” بی بی تم نے سہی کہا یہ روز ہی ہم جیسوں کے ساتھ ہوتا ہے پر ہم ہی کیوں ہمارا کیا قصور ہے اگر پیدا ہوتے ہی ماں باپ ہمیں لاوارثوں کی طرح ہم جیسوں کے پاس چھوڑ جاتے ہیں یا کسی کچرے کے ڈبے میں پھنک دیتے۔۔۔ یہ تک نہیں سوچتے ایک دن کا معصوم بچا کیا کریگا کسی کو کیا تکلیف پہنچائے گا؟؟۔۔۔۔“ حجاب کو چمیلی کی آواز رندھی ہوئی لگی۔ تکلیف کے آثار اسکے چہرے سے نمایاں تھے۔۔۔

” گالیاں کھاتے ہیں روز، لوگ ہنستے ہیں ہم پر، لیکن مجھے کسی سے شکوہ نہیں بس اُس ماں سے ہے پوچھنا ہے جب لاوارث ہی کرنا تھا تو کیوں پیدا کیا مار دیتی تیرا یہ احسان نا بھولتا۔۔۔دس سال کا تھا جب ابا نے گھر سے نکال دیا۔۔ اُس باپ کی بس ایک محبت بھری نظر کے لئے ساری زندگی ترستا رہا۔۔۔۔آج تک وہاں جاتا ہوں یہ امید لیکر کے شاید بس ایک بار محبت سی دیکھ لے۔۔۔۔ لیکن میں تو انسان ہی نہیں تھا کوئی گناہ تھا جسے مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گهر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ بند کردیا جاتا ہے، جس پر ابا روز مار کر اپنا غصّہ اتارتے، دس سال کے بچے کی چمڑی اتار دیتے وہ مارتے مارتے تھک جاتے تھے لیکن میری ماں کی سسکیاں نہ رکتی تھیں۔۔۔ وہ چپل مارتے مارتے ٹوٹ جاتی لیکن ابا کا دل نرم نہ ہوتا۔۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اُس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گهر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔۔ اور وہ لمحے میری زندگی کے خوبصورت ترین لمحات میں سے تھے جب وہ ابا سے چھپ کے میرے پاس آتی۔۔ میرے آنسوؤں پوچھتی مجھے اپنے سینے سے لگا لیتی ایک لفظ نہ نکلتا تھا ہمارے منہ سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے رہتے، وہ میرا ماتھا چومتی میرے ہاتھ چومتی۔۔ آنکھوں میں ممتا بھری پیاس ساری رات مٹاتی میں ایک سوال پوچھتے پوچھتے نیند کی آغوش میں چلا جاتا ایسی کیا خطا ہوئی جو اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح میں ابا کی محبت کا حقدار نہیں؟؟؟ دعا ساری رات میرے ہونٹوں سے نہ جاتی کے کاش یہ رات ختم نہ ہوتی کیوں کے صبح ہوتے ہی میری وہ ماں دنیا کی بھیڑ میں کہیں گھم ہوجاتی اور ابا کی بےحس بیوی خاموش بنی میری بےبسی کا تماشا دیکھتی۔۔۔۔

جس دن ابا نے مجھے گھر سے نکالا میں اُسے پکارتا رہا روتا رہا لیکن وہ دوپٹے سے منہ چھپائے روتی رہی ابا مجھے گھسیٹتے ہوے ایک گرو کے پاس لے آئے جہاں مجھ پر سخت نظر رکھی جاتی ناچ گانا سکھایا جاتا۔۔ جب کبھی موقع ملتا اُسکی یاد میں گرفتار دیوانہ وار اپنے گھر کو بھاگتا وہ کبھی میری بہن بھائیوں کو اسکول بھیج رہی ہوتی تو کبھی گرما گرم روٹی کا نوالہ بنا کر انھیں کہلاتی ہر نوالے کے ساتھ میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔۔ ابا کو روز دفتر جاتے دیکھتا تو یہ خوائش سینے میں ہی دفن ہوکر رہ جاتی کے کاش مجھے ایک دفع اپنے سینے سے لگا لیں۔۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند ‘شرفا’ گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ میں تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کهو بیٹھا تھا۔ پهر اسی بے ہوشی کے عالم میں مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پهر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز ہی اپنی ہی نظروں میں گرتا رہا مرتا رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاه نہ تهی۔

پهر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے کئی بار بھاگا، در در نوکری کی تلاش میں پهرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ ملی۔۔۔۔ یہ دنیا نہ جینے دیتی ہے نہ مرنے نوکری تو کیا ہمیں تو کوئی اپنے سامنے کچھ دیر کے لئے برداشت نہیں کرتا تو کوئی ملازمہ بھی کیوں رکھے گا ہمیں؟؟ لیکن اسی گناہ سے اپنی حوس ضرور مٹائی جاتی ہے۔۔۔ بی بی تم کیوں رو رہی؟؟ نا رو بددعا نہیں دی تمہیں تم سے کوئی گلا نہیں بس اپنی ماں سے ایک التجا ہے سنا ہے قیامت کے روز بچوں کو ماں کےحوالے سے پکارا جائے گا۔ بس اتنی سی التجا ہے کہ اس دن وہ مجھ سے منہ نہ پهیرے۔۔۔۔ جاؤ بی بی مجھ تم سے کوئی شکوہ نہیں اللہ‎ تمہیں خوش رکھے اور نیک اولاد سے نوازے!!!! “ چمیلی خود بھی رو رہی تھی منہ پھیرتے اس نے حجاب سے کہا تھا جس کو چلنا تک محال لگ رہا تھا کوئی اتنا دکھ اتنی تکلیف کیسے برداشت کر سکتا ہے؟؟ اور میرے الفاظ اُسکی مدد کی پکار کیا کچھ یاد نہیں چمیلی کو؟؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟

” تم۔۔ “ اس سے پہلے حجاب کچھ پوچتی چمیلی ابھی تک اسکی موجودگی بھانپتے غم و غصّے سے چلا اٹھی۔۔۔۔

” یہاں سے چلی جاؤ بی بی تم اُسکی بیوی ہو جس نے مجھے عزت دی تھی احسان کیا تھا۔۔۔ “ چمیلی کی بلند آواز نے حجاب کو جھنجھوڑ ڈالا وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آئی۔۔

” تمہیں یاد ہے نہ سب۔۔۔ تم جھوٹ بول رہی ہو تمہیں سب یاد ہے تم نے میری جان بھی بچائی تھی تمہیں سب یاد ہے تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔ “ وہ جو انکو اپنے قریب تک برداشت نہیں کرتی تھی آج خود اسکے قریب آکر جنونی انداز میں بولی۔۔

” کبھی اُسکے ساتھ ظلم نہ کرنا جسکا اللہ‎ کے سوا کوئی

نہیں۔۔ “ چمیلی کی غم میں ڈوبی آواز نے حجاب کے حواس چھین لئے ایک بار پھر وہ شدید گلٹ میں مبتلا ہوگئی۔۔۔ چمیلی نے آنکھیں بند کر لیں اسے سب یاد ہے وہ کی گئی اپنی التجا۔۔۔

” باجی میری مدد کرو یہ مجھے مار رہیں ہیں “ وہ لڑکے اسے گھسیٹتے لاتیں مار رہے تھے وہ درد سے بلبلا رہی تھی چیخ رہی تھی التجا کر رہی تھی لیکن کوئی نہیں آیا اور حجاب اسکا جواب یاد آتے ہی چمیلی کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں۔۔

” یہ روز انکے ساتھ ہوتا ہے لیکن کوئی انکی مدد کو نہیں آتا “

وہ خود تو نہیں آئی اپنی دوست کو بھی روک لیا چمیلی کی امید بھری نظریں حجاب کے جملے سے واپس لوٹ گئیں انہیں جاتا دیکھ چمیلی کو خود پر ترس آیا لیکن بےحس لوگوں کی دنیا میں وہاں کوئی بھی ایک پتا تک حساس نہ تھا سب تماشا دیکھ رہے تھے اور وہ پھٹے کپڑوں میں پٹ رہی تھی۔۔

” پلیز مجھے معاف۔۔۔ “ حجاب کی آواز نے چمیلی کی سوچوں کا تسلسل توڑا۔۔

” جاؤ بی بی میری دعا ہے تمہیں ہم جیسا نہ ہو کیوں کے تم برداشت نہیں کر سکو گی۔۔ اور تم نے میرا احسان چکا دیا یہاں آکر مجھے اہمیت دے کر معافی مانگ کر کیوں کے میں وہ ہوں جس کے منہ پر لوگ تھوکنا تک پسند نہیں کرتے۔۔ “

حجاب آج اپنی ہی نظروں میں گر گئی یہ تھا وہ جسے اس نے سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی تھی ایسی کے وہ صرف خدا کے آگے رویا تھا اُسکی سننے والا مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔۔ ایک ایک مار جو اسے پڑی اس وقت حجاب کو اپنے دل پر لگ رہی تھی کاش وہ ہمت کرتی باقی بھی خود چلے آتے لیکن وہی بزدلی۔۔ یہ بزدلی کاش تب آتی جب زبان سے دوسروں کو وہ لہو لوہان کرتی۔۔۔۔

” حجاب چلو۔۔ “ وہ جو کب سے اسکے انتظار میں باہر کھڑا تھا اندر چلا آیا اور حجاب کو اس طرح روتے دیکھ ابراز کا دل کٹ کے رہ گیا۔

” ابر۔۔۔ابراز۔۔ “ وہ اسکے سینے سے لگی بلک اٹھی چمیلی ایک نظر انہیں دیکھ کر اندر چلی گئی۔ جبکے آس پاس کھڑے وہ لوگ اب ابراز کو دیکھ رہے تھے

ابراز اسے الگ ہوتا اپنے ساتھ کھنچتا باہر لے آیا کار میں بٹھا کر اس نے ریموٹ کنٹرول سے کار لاک کی اور قدم قدم بڑھاتا واپس اسی گھر میں چلا آیا۔۔

چمیلی ہاتھ میں جیکٹ لئے اسی کے انتظار میں کھڑی تھی۔۔

” میں نہیں جانتا نہ جاننا چاہتا ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے زندگی میں جب میری ضرورت ہو بس ایک بار پکارنا میں حاضر ہونگا۔۔۔ “ وہ اس سے جیکٹ لیتا مسکراتا ہوا بولا۔۔

” اسکی ضرورت نہیں ہوگی وہ خود آپکو میری مدد کرنے کے لیے بھیجے گا۔۔۔ “ چمیلی کی مدھم مسکراہٹ نے ابراز کو پُر سکون کیا اسے کبھی بھی یہ لوگ بُرے نہیں لگے بس انکا مانگنا اسے بُرا لگتا تھا جسکا ذکر اس نے چمیلی سے کیا تھا اور اُسکی داستان سننے کے بعد ابراز نے اسے ایک کنٹریکٹ دلایا تھا یتیم بچوں کے لئے اور بوڑھوں کے لئے کھانا بنانے کا جو الگ الگ یتیم خانوں اور اولڈ ایج ہوم میں جاتا جسکی اچھی خاصی قیمت ان سب کو ملتی اورفینیج میں ابراز نے خود تین بچے گود لئے تھے جنکا خرچہ آج تک وہ خود چلاتا ہے چھوٹی ہی عمر میں وہ ان کاموں میں ملوس ہوگیا تھا اسے یاد ہے ایک دفع پوری کلاس سے پچاس روپے ڈونیشن کے لئے مانگے گئے تھے وہ ان سنا کرتا اپنا کام کر رہا تھا صرف وہی نہیں بلکے کافی بچے بے زار سے اپنے کام میں مگن رہے تب جو ٹیچر نے انہیں لیکچر دیا تھا ابراز اب تک نہیں بھولا بلکے ایک ڈر بھی بیٹھایا تھا کے مدد نہ کرنا گناہ ہے بس تب سے وہ جب بھی انکو دیکھتا اپنے ٹیچر کا وہ لیکچر ذہن میں ریوائین کرتا تاکے انسانیت سے ہٹ کے بےحسی کا ثبوت نا دے۔۔۔۔۔

” بےشک “ وہ کہتا ہوا پلٹا اور وہاں سے نکل آیا۔۔۔ آج حجاب کے آپریشن کو ایک ماہ گزر گیا تھا اسے یقین تھا کچھ ایسا ہی ہے جس سے حجاب روے گی بس اسی ڈر سے وہ اسے یہاں لیکر نہیں آنا چاہتا تھا اور آج ایک ماہ بعد جب وہ پوری طرح پروگریس کر رہی تھی ابراز اسے یہاں لے آیا اس امید سے بس آگے کوئی مصلہ نہ ہو اور وہ اس گلٹ سے نکل کر چمیلی کو ہمیشہ کے لئے بھلا دے۔۔

ہم وہ انسان ہے جو نعمت چھینے کے بعد قدر کرتے ہیں ابراز نے دیکھا تھا اُسے شکر کرتے ہوے وہ اُسکی ایک ایک نعمت کا شکر ادا کرتی ہے۔ چاہے وہ رزق ہو صحت ہو بینائی ہو یا قوت گویائی اُسکی بنائی چیز میں کوئی ڈیفکٹ نہیں ہوتا نہ احتیاط کی نوبت آتی ہے یہ سب حجاب کو آپریشن کے بعد پتا لگا جب شروع شروع میں اسے کبھی کبھی دھندلے عکس دیکھتے آنکھوں میں جلن ہوتی، درد ہوتا۔۔ اور اب سختی سے احتیاط لازمی تھا ورنہ قدرتی نعمت میں احتیاط کہاں؟۔۔۔

اے انسان "اور تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے"؟؟؟حجاب کو کم سے کم ایک مہینا لگا تھا ان سب سے نکلنے کے لئے وہ کوشش کرتا اسے کوئی بات یاد نہ آئے لیکن حجاب چاہ کر بھی اُسے بھول نہیں پا رہی تھی لیکن اب حجاب کی دعا میں چمیلی جیسے لوگ بھی شامل ہوگے جو ان سب سے گزر رہے تھے۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


آفٹر ٹو منتھس۔۔۔

عبائے میں ملبوس وہ آفس کی گلاس وال پش کرتی اندر چلی آئی۔ اسکے آتے ہی ریسپشن پر بیٹھی لڑکی (منتہا) نے اسے سلام کیا مسکراتے ہوے حجاب نے جواب دیا نقاب کے باعث مسکراہٹ واضع نا تھی جب کی مسکراتی آنکھیں منتہا دیکھ چکی تھی۔۔۔ جیسے جیسے اسکے قدم اپنے شوہر کے کیبن کی طرف بڑھ رہے تھے آتے جاتے لوگ اسٹاف ممبر اسے اٹھ کر سلام کر رہے تھے وہ جواب دیتی اندر کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔

گلاس وال کے سامنے کھڑا وہ نیچے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتا فون کان سے لگائے کسی امپورٹنٹ میٹنگ کا شیڈیول فکس کر رہا تھا کے یکدم گرم ہاتھوں کے لمس نے اسکی دونوں آنکھیں بند کر دیں اس لمس کو محسوس کر کے ابراز کے ہونٹوں پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ رینگی۔۔۔

” الطاف بعد میں بات کرتا ہوں ابھی بزی ہوں “ وہ عجلت میں کہتا فون رکھنے لگا تھا کے دوسری طرف الطاف کے مزید سوال سے چڑ کر بولا۔۔۔

” کہاں نا بعد میں۔۔۔ اور باہر سب کو بول دینا مجھے ڈسٹرب نا کرے۔۔۔۔ “ سرد لہجے میں اسے حکم دیکر وہ مسکراتے ہوے پیچھے مڑا۔۔۔

” ان اداوں سے کسی دن جان لیے لوگی میری۔۔۔ “ ابراز نے کہتے ہی اسکے نقاب سے پن ہٹائی تو اسکا روشن صاف شفاف چہرہ ابراز کی آنکھوں کو واضع ہوا۔۔ خود اپنے ہاتھوں سے نقاب ہٹانا اسے کس قدر سکون بخشتا تھا حجاب اندازہ لگا لے تو دن رات نقاب کرتی پھرے یہ اس بات کا اقرا کرتا ہے گوائی دیتا ہے کے سامنے کھڑا چہرہ صرف اسکی ملکیت ہے۔۔۔

” جیسے میں نے مان لیا؟؟ نجانے کتنی تو اس دل پر راج کر چکی ہیں۔۔۔ “ اسے تنگ کرنے کو وہ طنزیہ انداز میں بولی

” خدا کی بندی صرف یہ نقاب والی راج کرتی ہے باقی تو ہمیشہ خود آئیں گئیں لیکن یہ نقاب والی حسینہ میں خود سے لایا تھا مگر تمہیں افسوس ہوگا اُسے جانے نہیں دیا اُسے جانے کی چاہ ہو تب بھی نہیں۔۔۔ “ پر اعتماد لہجے میں کہتا آخر میں وہ مسکرایا تھا۔

” آگر جاؤں تو جا سکتی ہوں۔۔۔ “ وہ بھی اسی کے انداز میں جتا گئی کے اپنے مرضی کی مالک ہے۔۔

” جاکر تو دیکھاؤ الٹا نا ٹانگ دیا اس بلڈنگ سے تو میرا نام بھی رازی نہیں نقاب والی حسینہ۔۔ “ وہ اسکے گال پر زور سے چٹکی کاٹتا دھمکی دے گیا۔۔۔

” نیا نام رکھا ہے میرا ؟؟؟ “ حجاب کو نام ہضم نہیں ہوا اپنا گال سہلاتے گھورتے ہوئے ابرو اچکا کے پوچھا۔۔۔

” کیوں حق نہیں؟؟؟ “ آنکھیں سکوڑ کر کچا چبانے والا انداز تھا ۔” مجھے ہی تو سارے حق حاصل ہیں بےبی۔۔ نام رکھنے کا یہ نقاب ہٹانے کا لیکن اور کسی کا نہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو۔۔۔ “ حکمیہ انداز تھا حجاب دیکھتی رہ گئی۔۔

” اگر امی ہٹائیں تو بھی؟ “ شہادت کی انگلی ٹھوڑی پر رکھے وہ پر سوچ نگائوں سے اسے تک رہی تھی ابراز نے ایک گہری سانس خارج کی۔۔

” تو ان سے کہوں گا ساسو ماں بیٹی یہ آپ کے گھر میں ہے۔۔ میری گھر اور آفس میں یہ صرف میری ملکیت ہے جسٹ رازی حیات کی۔۔۔ “ اسے اپنے حصار میں لیتا وہ محبت پاش لہجے میں کہتا حجاب کو نظریں جھکانے پر مجبور کر گیا دھیمی نرم مسکراہٹ حجاب کے ہونٹوں پر چھوڑ گیا۔۔۔۔

” لیکن تم میرے نہیں ہو سارا دن آفس میں رہتے ہو بیوی کی کوئی خبر نہیں ابھی بھی کہاں سے ہوکر آئی تمہیں علم بھی نہیں۔۔۔ “ وہ اسکی لو دیتی نظروں کو نظر انداز کرتی اسکی شرٹ کے بٹنوں سے کھیلتی نظریں جھکائے بولی

” یہ الزام ہے وہ بھی بےتکا آپ جناب ذرا خود پر غور کریں رات شوہر کو تڑپا کر دادو کے پاس سونے چلی گئیں؟؟ “ ٹھوڑی سے پکڑ کے چہرہ اونچا کر کے اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ اس الزام پر تپ اٹھا۔۔۔

” ابراز سال میں ایک ہی بار دادو آتی ہیں اور ویسے بھی جب تم نے مجھے کمرے سے نکالا تھا تب دادو نے ہی اپنا روم شیر کیا تھا۔۔“ وہ یکدم اسکے ہاتھوں کو جھٹکتی تین چار قدم پیچھے ہٹتی بہت کچھ جتا گئی ابراز نے اُس دن پر سو لعنیتیں بھیجیں۔۔۔

” زندگی بھر طعنہ دیتی رہنا اس بات کا۔۔۔ “ معصومیت سے کہتا طنز کا تیر چلا گیا۔۔ حجاب کچھ سوچ کر مسکراتی ہوئی قدم قدم بڑھاتی اسکے قریب چلی آئی۔ اسکے گردن میں بائیں ڈالے اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔

” طعنہ، غیبت، بُرائی صرف تمہاری ہی کرونگی آخر حق رکھتی ہوں۔۔ “ اعتیماد، رعب کیا کچھ نہ تھا لہجے میں ابراز کی دلچسپ نگاہوں نے اس منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کر لیا۔۔۔

” کس سے کروگی۔۔ ساسو ماں یا شوہر کی ماں؟؟ “ وہ بھی اب دلچسپی سے پوچھ رہا تھا

” صرف شوہر سے۔۔۔ “ طعنہ غیبت ان سب سے وہ توبہ کر چکی تھی لیکن دونوں ایک دوسرے کو تنگ کرنے کا موقع نہیں جانے دیتے ابراز جہاں اسے آمنہ سے ڈانٹ پڑواتا وہیں حجاب اسکے سامنے اِسکی بُرائی فبیحہ سے کرتی جس پر فبیحہ ابراز کے کان کھنچتی یہ منظر دونوں بچے دلچسپی سے دیکھتے۔۔۔

” ہممم یہ بھی ٹھیک جب الزام ہی ہم پر ہیں تو شکوہ کسی اور سے کیوں کرنا؟؟ “ حجاب کی نگاہیں ان نظروں کی تپش برداشت نہ کر سکیں اور جھکتی چلی گئیں وہ دونوں بازو اسکی گردن سے ہٹاتی ابراز کی چیر پر آبیٹھی۔۔۔

” بچے آنے والے ہونگے مجھے جلدی نکلنا ہے تم ذرا یہ بتاؤ اتنے لاپروا کیوں ہو؟؟ نہ گھر کی خبر ہے نہ جہان کی؟؟ ذرا بتانا اس منتھ کتنا منافع ہوا؟؟ “ وہ سامنے رکھے لیپ ٹاپ کو کھوجتی نگاہوں سے گھورتی ٹیبلز پر رکھی فائلز دیکھنے لگی

” بچنے کا آسان طریقہ ہے۔۔ خیر یہ لو میڈم اس فائل میں ہر ڈیٹیل موجود ہے آپ ذرا آج کی روا داد سنائیں۔۔۔ “ وہ اسکی چالاکی سے خوب واقف تھا اسکے برابر میں چیر لیکر آ بیٹھا اور لپ ٹاپ اپنے سامنے کرتے اپنا کام کرنے لگا جبکے حجاب اسے آج کے پورے دن کی ڈیٹیل ہمیشہ کی طرح سنانے لگی۔۔

” میں ڈاکٹر سے ملنی گئی تھی تمہیں تو یاد بھی نہیں ہوگا خیر میں بتاتی ہوں ڈاکٹر نے کہا۔۔۔۔ “ وہ بولتی چلی جا رہی تھی ابراز کا دیہان دونوں طرف تھا حجاب کو سخت غصّہ آیا اسکی بےنیازی پر پھر یکایک ایک سوچ کے تحت اس نے اپنی طرف سے بتانا شروع کیا۔۔

” پھر انہوں نے کہا بلڈ کی کمی ہے بلڈ لگے گا۔۔ “ وہ جو بےدھیانی میں اسے سن رہا تھا فل الرٹ ہوگیا دل کی دھڑکن یکدم سے مدھم ہوگئی ایسا تو ڈاکٹر نے کچھ نہیں کہا تھا پھر؟؟؟

” یہ کب کہا؟؟ “ وہ اب پوری طرح حجاب کی طرف متوجہ تھا جو کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہی تھی

” یو چیٹر تمہیں سب پتا ہوتا ہے ناٹک کرتے ہو اب میں بولونگی ہی نہیں۔۔۔ “ وہ دانت پیس کر رہ گئی پھر ابراز کو ناچار اسے بتانا پڑا کے کس طرح اس نے ڈاکٹر کو کال کر کے بس اسکی صحت کا پوچھا تھا لیکن حجاب کی وہاں آواز سن کر ابراز نے ڈاکٹر سے ریکویسٹ کر کے فون رکھنے سے منع کیا اور سب سنتا گیا۔۔ حجاب ایکسپٹ کر رہی تھی اور روٹین چیک اپ کے لئے ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔ لیکن اس سے پہلے ہی ابراز ہر کہیں ٹپک پڑتا نہ گھر میں اسکی حکومت کم ہوتی نہ باہر وہ سوچ کر رہ گئی۔۔۔۔۔

” سکون پتہ ہے کیا ہے ایک پل میں تیری آواز سن کر دن بھر کی تھکن کا اتر جانا۔۔۔ “ اکثر آفس سے آکر جب وہ بیڈ پر گڑتا یہی ایک جملا حجاب کو دیکھتے دہراتا جو بچوں کے یونیفارم پریس کر رہی ہوتی۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کو کسی حالت نہیں بخشتے ابراز چلتے پھرتے اسے تنگ کرتا اپنے پیچھے دوڑاتا سنڈے کو اسکے ساتھ کچن میں کائونٹر پر بیٹھ کر اسے پریشان کرتا حجاب کے تنگ آنے پر کہتا۔۔

” بےبی جتنا مجھے سوچوگی دیکھوگی محبت اتنی بڑھے

گی “ حجاب بس ایک سرد نگاہ اس پر ڈال کر رہ جاتی۔۔۔۔

ایک دفع تو حجاب کو ابراز نے اپنے پیچھے باقاعدہ دوڑایا تھا۔۔۔ وہ کوئی فائل لینے گھر لوٹا تھا حجاب بھی پورے روم کو بکھیرے وہ فائل ڈھونڈ رہی تھی کے ابراز کو الماری میں گھستے دیکھ پوچھا جو کوئی پپرز دیکھ کر مسکراے جا رہا تھا۔۔

” فائل مل گئی؟؟ “ ابراز جو پپرز دیکھ کر مسکرا رہا تھا حجاب کی پکار سن یکدم چونک اٹھا

” نہیں “

” پھر کیا دیکھ کر مسکراے جا رہے ہو۔۔ “ ابراز کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔۔۔

” نکاح نامہ “ وہ ایک نظر حجاب کو دیکھ کر بولا

” تو اتنی غور سے کیا پڑھ رہے ہو؟؟ “ حجاب نے کھوجتی نگاہوں سے اسے دیکھتے پوچھا

” پڑھ نہیں رہا ایکسپائیری ڈیٹ ڈھونڈ رہا ہوں “ وہ ہنستا ہوا نکاح نامہ رکھ کے دوڑا۔۔۔۔

” آئ ول کل یو۔۔۔ “ وہ اسکے پیچھے دوڑتی ہوئی باہر نکلی لیکن وہ ہنستا ہوا نیچے بھاگ گیا کیوں کے اسے اپنی فائل بھی مل چکی تھی جو نکاح نامہ ڈھونڈتے وقت ملی تھی۔۔ وہ اسے اسی طرح تنگ کرتا اکثر جب وہ اسے باتیں کرتی ابراز نظریں جھکائے معصوم بچوں کی طرح تابعداری سے اسے سنتا لیکن جیسے ہی نظریں اوپر اٹھاتا حجاب کی چلتی زبان روک جاتی اور وہ اٹھنے لگتی کیوں کے جس طرح وہ گھورتا حجاب خود میں سمٹ کر رہ جاتی۔۔۔ ہر طرح کے ہتھیار اسکے پاس موجود تھے جس سے وہ حجاب کو تنگ کرتا۔۔

کبھی آمنہ کے سامنے اسکی کلاس لگاتا کے میرے کام نہیں کرتی کبھی اسے باتوں سے تنگ کر کے اپنے پیچھے بھگاتا۔۔

اور اس خوشیوں بھرے سفر میں کچھ عرصے بعد انکی زندگی میں ایک نیا مہمان شامل ہوا ” آیان “ یعنی اللہ‎ کا طرف سے تحفہ جو نفش ونگار میں ہوبا ہو ابراز کی کوپی تھا لیکن کاموں میں اس سے سو ہاتھ آگے تھا۔۔۔ اسکے پیدا ہوتے ہے ابراز نے اسے فبیحہ کو سونپ دیا ایک عرصے سے جو ابراز ان سے ناراض تھا اگر رو رو کر بھی معافی مانگے تب بھی اُس بےچینی،آس، غم کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو اس نے فبیحہ کو دیے تھے۔ یہ کفارہ تھا یا ماں کی محبت بس ابراز اب انہیں خوش دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔

” یہ آج سے آپ کا ہوا آپ کا بیٹا آپ کا رازی “ فبیحہ جو احتشام کو ہوم ورک کرا رہی تھی اچانک سے ابراز کی اس مہربانی پر دیکھتی رہ گی حجاب ایک ہفتے پہلے ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی تھی آج آیان پورے سات دن کا ہوا تھا اور ابراز نے اچانک سے آکر اپنی جان اسکی گود میں رکھ دی۔۔۔ فبیحہ نے کانپتے ہاتھوں سے آیان کو اٹھایا اور لرزتے ہونٹوں سے اسکی پیشانی چوم کر احتشام کے برابر رکھ دیا جو یک ٹک اپنی موم اور ڈیڈ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

” بہت بُرے بیٹے ہو تم رازی بہت بُرے کبھی میرے آنسوؤں کبھی میری بےچینی محسوس نہیں کی؟؟ حجاب مجھے کتنی عزیز ہو چکی تھی اندازہ ہے؟؟ بس تمہاری طرح ضدی تھی ورنہ اُسکے اخلاق احترام نے مجھے کب کا جھکا دیا اور جھکتی بھی کیوں نہ میرے رازی کی پسند تھی وہ لیکن تم؟؟ اتنے سال لگاے لوٹنے میں۔۔۔ ایک سوری تک کہنے میں تمہیں شرم آرہی؟؟ میں جو بات بات پر تم سے بچپن میں سوری کرتی تھی مجھے تو شرم نا آئی۔۔۔ “ ابراز کے سینے سے لگی کتنی دیر وہ روتی چلی گئی ابراز کی سرخ آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر انکے بالوں میں جذب ہوگے۔ آج بھی وہ بلا کی حسین تھیں لگتا نہیں تھا وقت انھیں چھو کر بھی گزرا ہو لیکن اب ساری سرگرمیاں انہوں نے ترک کر دیں تھیں اب گھر سے باہر جاتیں بھی تو بچوں اور حجاب کے ساتھ ڈنر یا لنچ کرنے اور شوپنگ لیکن اپنوں کے ساتھ رہتیں بس پرائیوں کو عرصہ ہوا بھلا چکیں وہ۔۔۔

” سوری موم فور ایوری تھنگ۔۔ “ انکی پیٹ تھپک کر دلاسا دیتے وہ خود سے بھی شرمندہ نظر آرہا تھا فبیحہ نے پنجوں کے بل اونچا ہوکر دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھام کر ابراز کی پیشانی چومی۔ ابرا کی آنکھوں کی چمک کچھ اور بڑھ گئی۔۔

گھر میں بچوں کے جانے کے بعد حجاب اور فبیحہ ہی آیان کے آگے پیچھے گھومتیں اور واقعی وہ ایک سب پر بھاری تھا اکثر حیات صاحب بھی کہتے۔۔

” اس دفع پوتا ٹکر کا ہے “ آیان کی ایک ایک حرکت پر وہ قہقہ لگانے پر مجبور ہوجاتے جو اپنے باپ سے لگتا تھا آیا ہی ماں کا بدلا لینے ہے۔۔۔ ایک دو دفع دودھ سے بھرا فیڈر آیان نے ابراز کی فائل پر گڑا دیا وہ ابھی دو سال کا تھا لیکن حرکتیں چار سال کے بچوں والی تھیں۔ وہ اپنا فیڈر دانت میں دبائے تقریباً منہ سے لگاتا رہتا کسی کو چھونے نا دیتا سوائے حجاب اور فبیحہ کے اور یے استمعال وہاں سہی وقت پر کرتا جہاں سامنے والے کو پریشان کرنا ہو۔۔۔

ابراز ابھی تھکا ہارا آفس سے لوٹا تھا وہ ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کرتا صوفہ پر آکر ڈھ گیا جہاں آیان بیٹھا احتشام یا پرنیا کی کاپی پر الگ کلرس سے لائنیں کھنچ رہا تھا۔۔۔ ساتھ رازی کو دودھو لانے کا حکم دیا جو سامنے ٹیبل پر پڑا تھا۔۔

” لادی۔۔ دھودو۔۔ “ ابراز کا دل چاہا خود کو شوٹ کر لے سامنے پڑا تھا اسکا فیڈر لیکن صاحب کو باپ کو تنگ کے بغیر کچھ بھی ہضم کہاں ہوتا ہے؟؟؟

” پھٹ جائے گا موٹے۔۔ “ ابراز نے اسے گھورتے کہا جسکا وزن اچھا خاصا بڑھ چکا تھا۔۔ اور اسے حکم دیکر وہ واپس اپنی کام میں مشغول ہوگیا آیان اوندھے منہ لیٹا تھا پیٹھ چھت کی طرف تھی۔۔۔۔

” دھندے لادی۔۔۔ “ آیان نے توتلی زبان میں رازی کو گھورتے غصّے سے کہا فبیحہ کی دیکھا دیکھی وہ بھی ابراز کو رازی کہتا ہے۔۔۔۔

” کس پر گیا ہے یہ؟؟ “ ابراز نے معصومیت اور کچھ بیزاریت سے سامنے کافی کے کپس لاتی حجاب سے کہا۔۔۔

” مما کہتی ہیں تم پر گیا ہے۔۔ “ اسکے سامنے کافی کا کپ رکھ کر وہ اپنا کپ لیکر آیان کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔

” استغفرالله میں اسکی انگلی برابر بھی نہیں تھا۔۔ خومحوا کا الزام؟؟ تمہیں تو بس موقع چاہیے پڑوسی کی لڑکی بھاگی ہو تب بھی قصور رازی کا ہے “ حجاب کی ہنسی چھوٹ گئی جبکے آیان آکر رازی کی گود میں چُپ چاپ بیٹھ گیا۔۔

” تب تو کنفرم ہے “ حجاب نے ہنستے ہوے کہا جبکے ابراز کا چہرہ یکدم سخت ہوگیا آیان اب اٹھ کے بھاگتا ہوا حجاب کے پاس آیا۔۔۔۔

” مما لادی۔۔ توتو۔۔۔ “ حجاب نے بےاختیار ابراز کو دیکھا جسکے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت تھی جو لگ رہا تھا ابھی رو دے گا اسکی گھیلی شرٹ دیکھ کر حجاب کا قہقہ چھوٹ گیا۔۔

” تم نے اسے موٹا کہا تھا؟؟ “ حجاب کی چھٹی حس نے اچانک ہی اسے lلرٹ کیا کیوں کے اپنے کام میں مشغول آیان کسی کو تنگ تبھی کرتا ہے جب کوئی اسے چھیڑتا ہے؟؟

” میں تم دونوں ماں بیٹے کو آخری وارننگ دے رہا ہوں دماغ گھوما نا دونوں کو پنکھے سے الٹا لٹکا دونگا “ ابراز کہاں ماننے والا تھا الٹا اسے گھرکا۔۔

” پھر تو ہونا ہی تھا میرے بیٹے کو نظر لگاؤ گئے ایسا ہی

ہوگا “ حجاب پر ذرا برابر اثر نا ہوا الٹا آیان کا ہاتھ پکڑ کے لاڈ سے اسے ساتھ لے گئی ” آئو میلی جان نہلاؤں پھر نینی کرینگے ڈیڈ کو آج یہیں سونے دو ہم روم لاک کرینگے۔۔۔ “ حجاب نے ہنسی دباتے جان بوجھ کر جاتے ہوے بلند آواز میں کہا آیان نے بھی پیچھے مڑ کر ابراز کو زبان نکال کر چڑایا وہ جو پہلے ہی حجاب کے جملے سے تپا ہوا تھا آیان کے چڑانے پر کافی لیکر اٹھ کھڑا ہوا۔۔

” موٹے رک جا دونوں کو اوپر آکر دیکھتا ہوں “ انکے پیچھے جاتے وہ بلند آواز میں بولا جو اب سیڑھیاں چڑ رہے تھے۔۔

ابراز کو یاد ہے جب بھی اسکی کی کوئی اموپورٹینٹ میٹنگ ہوتی وہ آیان کے پاس تک نہ بھٹکتا کیوں کے ابراز کی چاہے امپورٹنٹ میٹنگ ہو کہیں شادی پر جانا ہو یا ڈنر ہو اس سب کا الہام نجانے کہاں سے آٹھ ماہ کے آیان کو ہو جاتے کے ابراز کے گود میں لیتے ہی وہ اپنا کام کردیتا۔ حجاب آیان کی کاروائی دیکھتے ہنستی چلی جاتی جبکے ابراز جھنجھلاتا ہوا ماں بیٹے پر ایک قہر آلودہ نظر ڈالتا ہوا چینج کرنے چلا جاتا لیکن میٹنگ سے گھر آتے ہی انکی کلاس لیتا اور سارا الزام حجاب پر ڈال دیتا۔۔

” تم ہی اسے یہ سب سیکھاتی ہو نہ؟؟ آخر میری اولین دشمن جو ہو “ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا وہ شرٹ کے بٹن کھولتا غصّے سے بولا ابھی وہ آفس سے لوٹا تھا اور آتے ہی صبح والا غصّہ حجاب پر نکال رہا تھا۔۔۔

” مما کہتی ہیں میرے رازی پر گیا ہے۔۔ اب میں کیا کر سکتی ہوں بچپن میں خود سدھرے ہوے ہوتے تو اولاد بھی سدھری ہوئی ملتی “ حجاب لیز کے پیکٹ سے چپس نکال کر کھاتے مزے سے کہ رہی تھی آخر ابراز کی شامت آئی ہو اور وہ خوش نا ہو؟؟؟

” پھر تو پرنیا کا اللہ‎ مالک ہے “ ابراز کے طنز کو ان سنا کرتی

وہ اپنے کھانے میں مشغول رہی۔۔ پھر چپس ختم کر کے خالی پیکٹ ڈسٹبین میں ڈال کر اسکے قریب چلی آئی۔۔

” تم ہو نا سدھار دینا ویسے بھی میرے دونوں بچے سدھرے ہوے معصوم ہیں بس یہ مما کا لاڈلا آیان مما کے پیار نے بگاڑ ڈالا ہے اور کچھ باپ کی سنگت کا اثر ہے “ وہ اسکی شرٹ اور کورٹ اٹھاتے ہوے بولی جسے ابراز نے بیڈ پر پھنکا تھا

” ہاں باپ کی سنگت؟؟ روز اس گال پر تین تھپڑ کھاتا ہوں اتنا بچ کے رہتا ہوں پھر بھی نجانے کیسے اچانک سے ہی چہرہ لال کردیتا ہے باپ کی سنگت۔۔ “ وہ بڑبڑاتا ہوا چینج کرنے چلے گیا ساتھ حجاب کے کیچر میں مقید بال آزاد کر کے وہ بھی کہاں اسے تنگ کرنے سے باز آتا تھا؟؟

” چھچورے “

” تمہارا ہی ہوں ڈارلنگ “ باتھروم کا دروازہ بند ہونے سے پہلے ابراز کی آواز حجاب کی سماعتوں میں پہنچی۔ابراز کے جاتے ہی غصّے سے سرخ چہرہ نرم پڑھ گیا اور حیا کے رنگ اس چہرے پر بکھر گئے لاکھ وہ ابراز پر غصّہ کرتی لیکن محبت تو اسی کی ہے نا دل میں۔۔۔

” مما لادی پھون۔۔۔ “ حجاب کی نظر آیان پر پڑی جو ابراز کا فون زور سے بیڈ کارنر سے پٹک رہا تھا۔ حجاب تیزی سے اسکے پاس آئی اور فون اسکے ہاتھ سے چھینا تقریباً ابراز کے پچھلے دو فونز کو آیان باتھ ٹب میں ڈال چکا ہے یہ اسکا تیسرا فون تھا جسے آیان توڑنے چلا تھا۔۔۔

فون سائیڈ پر رکھ کے حجاب نے اسے گود میں اٹھایا حجاب کو اب تک یاد ہے آیان سے پہلے ایک خوف اسے کس طرح کھاۓ جا رہا تھا جیسے جیسے دن قریب آرھے تھے خوف مزید بڑھ رہا تھا کے کہیں اسکا آنے والا بچا چمیلی جیسوں میں سے نہ ہو۔۔ لیکن آگے جب اسکی سوچ غلط ثابت ہوئی تو وہ بچوں کی طرح بلک کے روی تھی اسے ابراز کی کہی بات یاد آئی تھی ” اللہ‎ بندوں کو اُسکی ہمت سے زیادہ نہیں آزماتا۔۔ انہیں ہی آزمائش دیتا ہے جسکا یقین ہو برداشت کی ہمت رکھتی ہے۔۔۔ “

دن پلک جھپکتے گزر جاتے ان گزرے دنوں میں دونوں ایک خوش حال زندگی ایک دوسرے کے سنگ گزار رہے تھے لیکن حجاب آج بھی ابراز کو سمجھنے سے قاصر تھی ابراز وہ پہیلی تھا جسے حجاب آج تک بجھا نا سکی اور ایسا ہی ایک دن تھا۔۔

حجاب جو مس امبرین کے ساتھ باتوں میں مشغول تھی موبائل پر آتی کال دیکھ کر انھیں اور جویریہ اور مہوش کو الوادی کلمات کہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ حجاب آج مہوش اور جویریہ کے ساتھ یونی آئی تھی صبح سے وہ لوگ گھوم پھر رہے تھے پروگرام رات کو ہی بنا تھا کے تینوں یونی میں آئیں گے پھر ساتھ ہی ناشتہ کرکے مال جائیں گی۔ اب مال سے واپسی کہ بعد انہیں کینٹین میں چائے پیتے مس امبرین ملی تو وہ تینوں وہیں بیٹھ گئیں لیکن اب ابراز کی کال سن کر حجاب اپنا پرس لیتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ کینٹین سے باہر آتے ہی اسکی نظر ابراز پر پڑی جو کار سے ٹیک لگاے کھڑا تھا احتشام اور پرنیا یقیناً اندر بیٹھے تھے آج ابراز ہی انھیں لینے گیا تھا کیوں کے ڈرائیور چھٹی پر تھا۔۔

وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی ابراز کی طرف بڑھ رہی تھی کے اچانک بُری طرح لڑکھڑا کر زمین بوس ہوگئی۔ دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھے وہ نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ گردن موڑ کے پیچھے دیکھا تو تین لڑکے کار سے ٹیک لگاے ایک دوسرے کے ہاتھ پر تالی مار کر ہنس رہے تھے....

” ہم ڈراپ کریں بےبی “ ان میں سے ایک لڑکا خباثت سے مسکرایا اور ہاتھ بڑھا کے اسے اٹھنے میں مدد دی اور ساتھ چلنے کی آفر کی حجاب نے نفرت انگیز نظر سے اس شخص کو نوازا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

” ایسی کیا دیکھ رہی ہی یو بلڈی۔۔۔ “ وہ شخص دانت پیس کر بولا حجاب کی نفرت بھری نگاہ نے جیسےاسکے وجود پر شعلے برسا دیے۔۔

” سیم چھوڑ اسے ہنگامہ نا کر ویسے ہی ایک وارننگ مل چکی ہے “ سیم حجاب کی طرف غصّے سے بڑھ رہا تھا کے اسکے دوست نے ہاتھ پکڑ کے اسے روکا حجاب جو اسے خود کی طرف بڑھتے دیکھ خوفزدہ تھی تیزی سے اٹھ کر قدم بڑھاتی ابراز کی طرف بڑھی جو بےنیازی سے سن گلاسسز لگائے کھڑا تھا۔۔

” واپس جاؤ اور منہ پر رکھ کے تھپڑ مار کے آؤ “ حجاب کو کار کا دروازہ کھولتے دیکھ ابراز نے کہا ضبط کے باوجود اسکا لہجہ نارمل نہ تھا۔ حجاب کو تو غصّہ ابراز پر آرہا ہے جو نا اسکی مدد کو آیا نا اُنکا منہ توڑا۔۔

” نہیں ایسوں کے منہ ہی نہیں لگنا چاہیے چلو “

حجاب کا ٹالنا ابراز کو آگ بگولہ کر گیا غصّے کی شدت سے اسکے گلے کی نسیں تک واضع ہونے لگیں۔۔۔

” زندگی بھر یہاں سے نہیں ہٹوں گا سمجھی۔۔ “ دبے دبے لہجے میں وہ غرایا سن گلاسسز کے پیچھے چھپی ان سرخ آنکھوں میں سرخی کی شدت اگر حجاب دیکھتی تو کانپ اٹھتی جو اسکے غصّے کو بیان کر رہی تھیں۔۔

” میں نہیں جاؤنگی۔۔۔ “ وہ اپنی ضد میں اٹل تھی کہتے ہی وہ رخ موڑ گئی۔ اسے یقین تھا ابراز منائے گا ابراز مناتا کیا الٹا اس وقت وہ حجاب کو قتل کرنے کے در پے تھا جو اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی بغیر انھیں بغیر کسی القبات سے نوازتے خاموشی سے یہاں آگئی۔۔

” یہ زبان صرف میرے سامنے چلتی ہے؟؟ اسکا استعمال وہاں کیوں نہیں کرتی جہاں سوال عزت پر آئے؟؟ تم گری نہیں تھیں اُس ذلیل انسان نے ٹانگ آگے کر کے یہ حرکت کی جاؤ اُسے تھپڑ مار کر آؤ ورنہ آج کیا عمر بھر اس جگہ سے ایک انچ نہیں ہلونگا “ وہ اسکا بازو پکڑ کے رخ اپنی طرف کرتا ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا۔۔ حجاب کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں

” وہ۔۔۔۔ تی۔۔تین لوگ ہیں ابراز تم ایک تھے میں کیسے۔۔۔ “ حجاب کے لہجے کی کپکاہٹ سے وہ سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا۔۔ مٹھی بھنچتے خود پر قابو پاتے وہ اجنبی انداز میں گویا ہوتا اسے دھمکی دے گیا۔

” جائیں آپ ورنہ میرا میٹر گھما تو اُسکی تو خیر نہیں ساتھ تم بھی نہیں بچوگی یہیں چھوڑ جاؤنگا۔۔ “

۔ ” آپ “ کا استعمال وہ تبھی کرتا جب ناراضگی سیریس ہوتی۔۔

” جیسے تم کروگے۔۔۔ “ حجاب کی مسکراہٹ نقاب کے پیچھے چھپی تھی جب کے ان آنکھوں کی چمک مانند نہیں ہوئی تھی۔ وہ جانتی تھی ابراز ایسا کبھی نہیں کریگا لیکن ابراز نے ایک سخت نظر سے نوازتے کار کا دروازہ کھولا اور منٹوں میں کار ریورس کر کے نکل گیا یہ سب اتنی اچانک ہوا تھا کے حجاب اسے روک تک نا پائی بس دیکھتی رہی ہر بار وہ اسی طرح اسی تنگ کرتا لیکن آج نہیں۔۔ بات عزت کی کر گیا خود کیا کیا؟؟ بیوی کو اکیلا چھوڑ کے بھاگ گیا۔۔ حجاب نے بےاختیار دُکھتا سر دبایا آج اتنے مہینوں بعد اِسکی آنکھیں پھر بھیگ گئیں لیکن۔۔ یہ ہنسی۔۔ اس ہنسی نے لمحے میں سارا خوف اڑان چھو کر دیا اس سے پہلے وہ انکی طرف قدم بڑھاتی تینوں خود ہنستے ہوے اسکے پاس آئے۔۔

” چچچ چلا گیا؟؟ بہت افسوس ہوا اور خوشی بھی۔۔ ہاہا۔۔۔چلو چھوڑو اسے میں ڈراپ کر دیتا ہوں “ وہ اسکے گرد گھومتا اسکا مذاق اڑاتے اسکے سامنے آرکا تب حجاب کی نفرت بھری نگاہ نے پھر سے اسکا میٹر گھما دیا۔۔۔

” پارسائی کا ناٹک کرتی ہو میرے سامنے؟؟ تم جیسیوں کو اچھے سے جانتا ہوں نقاب پہن کر بھی یہاں آکر ایسے نا محرموں سے ملتی ہو اور مجھے آنکھیں دیکھا رہی ہو؟؟ وہ کون سا شوہر تھا تمہارا؟؟ “ تیز دھوپ میں آنکھیں سیکوڑتے وہ باقاعدہ دھاڑ اٹھا جیسے حجاب کو کچا چبانے کا ارادہ ہو۔۔

” پڑھنے آتے ہو نا شرم نہیں آتی ایسی حرکتیں کرتے ہوے؟؟ “

حجاب جو کب سے ضبط کیے بیٹھی تھی چیخ اٹھی۔۔۔

سیم اسے غصّے میں دیکھ اپنی پرانی ٹون میں لوٹ آیا۔۔۔

” تم لڑکیاں پڑھ لو کافی ہے ٹاپ کرلو منائو جشن ملنا تو عام سا جمشید ہے کونسا پڑھا لکھا آئے گا تم سے شادی کرنے۔۔ رہا میرا سوال تو باپ کیوں کماتا ہے اس لئے کے میں عیش کروں سویٹ ہارٹ “ وہ اسکی طرف جھکتے آنکھ دباتے ہوے بولا حجاب کا غصّہ کی شدت سے چہرہ سرخ ہوگیا ابراز پر غصّہ تھا سیم پر غصّہ تھا اس تپتی دھوپ کی شدت کا اثر تھا کے حجاب کا ہاتھ اٹھا تو اٹھا تھا اور لگاتار تین چار تھپڑ سیم کے گال پر نشان چھوڑ گئے۔۔۔

” تکبر والی نہیں ” میں “

اعتماد والی ” میں “

کہ میں ” میں “ ہوں

تمہارے ہاتھ کا کھلونا نہیں

You can not define me you can not limit my potential. You cannot limit my dreams

میری جیت بھی میری

میری ہار بھی میری

میں اڑاؤ گی اپنا مذاق تو کون ہوتا ہے میرا مذاق اڑانے والا؟؟

I will make fun of my self do you understand???

شہادت کی انگلی سے وارن کرتی وہ تقریباً چیختے ہوئے بولی اسکی زبان چلی تو ایک پل کو نا رکی سانس ابھی تک پھول رہا تھا۔۔ سیم گال پر ہاتھ رکھے پاگل ہو رہا تھا اسکے باقی دوست منہ کھولے یہ کاروائی دیکھ رہے تھے۔۔۔

” یو۔۔ “ سیم کا اٹھتا ہاتھ ہوا میں رہ گیا اس دفع بھی دونوں دوست وہیں رہے کوئی بھی اسکی مدد کو نہیں بڑھا۔۔۔

” اندر جاؤ “ حکمیہ انداز تھا حجاب اسے دیکھتی گئی تو اس لئے وہ اسے چھوڑ گیا تھا؟؟؟ ابراز نے اسکا ہاتھ جھٹک کر سیم کا گلا دبوچا اس سے پہلے وہ اسے مار ڈالتا حجاب کو ہی ہوش آیا۔۔۔

” ابراز چھوڑ۔۔ “

” سنا نہیں؟؟ “ حجاب کو اسکے غصّے سے خوف آرہا تھا اسنے ایک آخری کوشش کی لیکن ابراز کی دھاڑ سے کانپ اٹھی۔۔

” دیکھنا اب اپنے ہیرو کا تماشا “ سیم نے کہتے ہی مکا مارنا چاہا جسے ابراز نے دوسرے ہاتھ سے بیچ میں ہی روک لیا وہ حجاب کے انتظار میں تھا کے وہ جائے حجاب بھی اب بغیر دیر کیے واپس کینٹین میں چلی گئی ابراز نے اسکا ہاتھ جھٹکا اور کالر سے پکڑتا ہوا گھسیٹتے ہوے اسے گارڈن آئیریا کی طرف بڑھا۔۔۔۔ آتے جاتے لوگ ان دونوں کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔

” ابھے چھوڑ “ وہ چلا رہا تھا لیکن ابراز اسے گھسیٹتے جا رہا تھا گارڈن میں آکر ابراز نے نظر ادھر ادھر دوڑائی اور مطلوبہ چیز ملنے پر وہ اسکی طرف بڑھا اور پوٹ سے بڑھ کے مٹی ہاتھ میں اٹھا کر دوسرے ہاتھ سے اسکا کولر چھوڑا۔۔ زور سے اسکے پیٹ میں مکا مارا جس سے سیم نے چلا کر منہ کھولا ابراز نے وقت ضائع کیے بغیر پوری مٹی اسکے منہ میں ڈالی اور منہ بند کردیا۔۔

” گھر سے جب عورت پڑھنے، جاب کرنے کے کے نکلتی ہے تو پھونک پھونک کے ایک ایک قدم اٹھاتی ہے کے کہیں ایک غلط قدم اسے رسوا نا کردے اور جب وہ لوٹے تو اُسکے پاس

” عزت “ نام کی کوئی چیز ہو۔ اسی طرح جس طرح تو نگلنے سے ڈر رہا کے کہیں یہ غلط قدم سے زندگی نا گنواہ بیٹھے اسی طرح عورت کے لئے اسکی عزت اسکی زندگی ہے جو سر اٹھا کے چلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔۔ تم جیسوں کی وجہ سے وہ نگاہیں جھکا کر چلتی ہے تاکہ اُسکا بھائی نگائیں اٹھا کر چل سکے اور تو دو کوڑی کا حوس پرست عورت کیا معصوم بچی تک کونہیں چھوڑتے۔۔۔۔ خود کی جان عزیز ہے موت سے ڈر لگتا ہے لیکن جب دوسرا رسوائی سے مرے تو تجھے رحم نہیں آتا؟؟؟ بول تیرے باپ کی جاگیر ہے جو تنگ کرتا ہے؟؟ بٙک نا کتے بھونک کیوں نہیں رہا؟؟؟ “ ابراز نے اسکا منہ دبوچا چٹان سے سخت لہجے میں کہا اسکا بس نہیں چل رہا تھا سیم کا سر دیوار میں دے مارے۔۔ ابراز نے رکھ کے زور سے مکا اسکی پیٹ پر مارا جس سے ساری مٹی منہ سے باہر نکل آئی سیم بُری طرح کھانسنے لگا۔۔

” یہ اسے گرانے کے لئے۔۔۔۔۔ “ لگاتار تین چار موکوں سے وہ اسکا جبڑا بُری طرح زخمی کر چکا تھا لوگ سب کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔۔۔ ابراز نے ایک ٹھوکر سے اسے نوازتے وہیں زمین پر پھینکا اور کوٹ کو جھٹکا دیکر کینٹین کی طرف جانے لگا۔۔

” دیکھ لونگا تجھے میرا باپ ڈین ہے یونیورسٹی کا “ سیم زمین پر بیٹھا کڑا رہا تھا ابراز کو جاتے دیکھ وہ اسکے پیچھے سے بولا آخر کو سٹوڈنٹس کے سامنے کچھ عزت تو رکھنی تھی۔۔ ابراز کے قدم وہیں رک گئے وہ چلتا ہوا اسکے قریب آن بیٹھا سیم خوف سے پیچھے ہوے اسکی آنکھوں سے جھلکتا خوف جسم کی کپکپاہٹ نے ابراز کو لطف اندوز کیا۔۔۔

” اول تو میں تیرا سینیر ہوں پاس آئوٹ ہوچکا ہوں دوسرا جانتا ہوں تیری دو کوڑی کی عزت نہیں ورنہ جب میری بیوی نے لگاتار تھپڑ مارے تھے تب تیرے پالتو کتے تک لڑنے نہیں

آئے۔ “ ابراز نے طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر اس پر وار کیا سیم نے نفرت بھری نگاہ سے ابراز اور اپنے ساتھیوں کو دیکھا۔۔۔

” دوسروں کے گھر کی عزت اچھالنے سے پہلے اپنے گھر میں جھانک کہیں محبت میں عزت کا سودا تو نہیں کر آئی؟؟ “ ابراز نے ہاتھ کی مٹھی میں اسکا بال جکڑتے چہرہ اپنے چہرے کے قریب کرتے کہا۔۔۔

” میری بہن ایسی نہیں “ سیم کو کہاں گوارا تھا ایسا الزام۔۔۔

” محبت اب بکنے لگی ہے تو یہاں کسی کو چھیڑ رہا وہاں کوئی اور تیری بہن کو۔۔۔۔ اپنا کیا اپنی طرف ہی لوٹتا ہے چاہے وہ نیکی ہو یا بدی۔۔ میری طرف دیکھ اور حفظ کرلے یہ بات میری کی نیکی میری کی بدی انھیں صورت میرے پاس واپس لوٹ آئیں۔۔ “ ابراز نے ایک جھٹکا دیکر اسے کسی کچرے کی طرح دور پھینکا۔۔ اب اسکے قدم کنٹین کی طرف تھے سب سے مشکل مرحلہ حجاب کو منانا تھا ابراز نے جو کیا بس اسکا مقصد کانفیڈنس دلانا تھا جب حجاب کو اس لڑکے نے گرایا ابراز ضبط کے کس مرحلے پر تھا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اور حجاب اگر وہ اکیلی ہوتی تو ٹھیک ہے لیکن ابراز کی موجودگی نے بھی اسے حوصلہ نا دلایا وہ وہیں بت کی مانند کھڑی رہی۔۔۔ وہ سوچ چکا تھا حجاب کو منائے گا لیکن حیرت انگیز واقع ہوا تھا وہ خود ہنستی ہوئی اسکے گلے آلگی۔۔۔

” بس کچھ باتیں ذہن میں دیر سے بیٹھتیں ہیں “ حجاب کی مسکراہٹ نے اسکی مسکراہٹ گہری کردی۔۔۔۔۔۔


☆.............☆.............☆


زندگی اگر آزمائشوں کا سفر ہے تو مجھے منظور ہے اُسکی آزمائش۔۔۔ جب بھی اُسے لگتا ہے بس تھوڑا سا پیچھے ہٹا ہوں آزمائش بیج کر مجھے خود کے مزید قریب کر دیتا ہے۔۔۔۔

میری کامیابی کا راز میرا اللہ‎ ہے، وہ میرے دل میں رہتا ہے اُس نے کہا بس میرے پاس آجاؤ سارے غم بھول جاؤ گئے اب ہر کام سے پہلے اُس سے ملنے اُسکے گھر جاتا ہوں۔۔ اُس نے نہ لالچ دی نہ وجہ پوچھی کے کونسی غرض تجھے یہاں کھنچ لایا ہے بس پاس بلایا اور دل میں چھپا ہر غم مٹا دیا۔۔۔ میرے دل کو اس فانی دنیا کے غموں سے آزاد کر دیا جب اُسکے پاس جاتا کوئی نہ کوئی شکایت لیکر جاتا۔۔۔ زندگی سے جڑی ہو یا کاروباری سب اُس سے مانگا سب کچھ۔۔۔ میں نے انسانوں کے آگے جُھکنا چھوڑ دیا بس وہ کیا جس سے اللہ‎ خوش ہوتا ہے اور آج بھلے امیر ہوں لیکن اُسکی درگاہ میں فقیر بن کر جاتا ہوں یہ دولت شہرت سب اُسکی ادا کردہ ہے جو موت کے بعد واپس چھین لی جائے گی لیکن اُسکی محبت میرے دل میں ہمیشہ قائم رہے گی۔۔۔

کیا نہیں دیا اُس نے؟؟ بچپن کی محرومی ختم کردی ماں لوٹا دی۔۔ وفا شعور بیوی عطا کی تین صحت مند بچوں سے نوازا۔۔ نام دیا شہرت دی سب سے بڑھ کے عزت دار زندگی دی۔۔۔۔

سب بدلا ہے اِس زندگی سے اُس زندگی میں جو میں نے ایک عرصے تنہائی میں گزاری سوائے ڈیڈ کے وہ آج بھی اُنہی راستوں کے مسافر ہیں لیکن اب فرق اتنا ہے کے میرا لہجہ رویہ سب تبدیل ہو چکا ہے وہ دھمکی دینا وہ تنگ کرنا سب چھوڑ چکا ہوں۔۔۔۔۔

ویسے بھی اب میری اپنی اولاد مجھے نہیں بخشتی ہاں آیان۔۔۔ سانس تک ڈر کے لیتا ہوں کہیں کسی طرف سے آکر دو لگا نا دے۔۔۔ نماز پڑھتے وقت وہ میرے ساتھ اپنی ماں کی دی چھوٹی جاں نماز بچھا کر نماز پڑھتا اور جب میں دعا مانگنے لگتا میرے پیٹھ پر چڑ کر مجھے تنگ کرتا۔۔اُسکی چھوٹی چھوٹی شرارتیں مجھے عزیز ہیں میں اکثر تنگ کرنے کی غرض سے حجاب کو کہتا سب سے مہنگا مجھے آیان ہی پڑا ہے جس نے آج تک لاکھوں کا نقصان کیا ہے ڈیڑھ لاکھ کے دونوں فون ڈبو دیے آگے سے حجاب کا جواب یہی ہوتا کونسا پیسے قبر میں لے جانے ہیں؟؟ موم کا جواب بھی اس سے کچھ کم نا ہوتا میں بس دونوں ساس بہو کو دیکھتا رہ جاتا جو آیان کے خلاف لفظ تک برداشت نا کرتیں خاص کر موم۔۔۔

” آخر کونسا جرم ہوا مجھ سے سے جو اتنا ظلم؟؟؟ “ میں نے دھیرے سے حجاب کے کان میں کہا جو آیان کو سلا رہی تھی۔۔

میرا اشارہ آیان کی طرف تھا جو گھنٹے سے نیند کے بہانے ماں سے چپکا بیٹھا تھا۔۔۔

” مجھے شادی والی رات روم سے نکالا تھا نا اُسی کی سزا ہے “ حجاب نے بھر پور طنز کیا جسے میں نے بامشکل ہضم کیا اور چُپ چاپ لیٹ گیا۔۔۔ آج تک حجاب نا خود وہ شادی والا واقعہ بھولی ہے نا مجھے بھولنے دیا ہے۔۔۔ حالانکہ میں تو توبہ کر چکا ہوں لیکن میڈم نے معاف نہیں کرنا پوری زندگی طنز کی صورت میں ڈوز دیتے رہنا ہے۔۔۔

ایسی ہے میری زندگی جہاں آج میرے گھر میں حجاب اور پرنیا کی ہنسی گونجتی ہے آیان اور احتشام کی شرارتیں دیکھتی ہیں۔۔ موم کی پُر سکون مسکراہٹ میرا سکون برقرار رکھتی ہے میرے رب نے مجھے بےشمار نعمتوں سے نوازا جنکا شکر ادا کرنا میں نہیں بھولتا۔۔

ہم تینوں(احتشام پرنیا اور میں) گارڈن آئیریا میں گھومتے پودوں کو پانی دے رہے تھے تبھی میری نظر اوپر اُس خوبصورت چہرے پر پڑی جسکا دیوانہ میں آج تک ہوں وہ آیان کو گود میں اٹھائے ہم تینوں کو دیکھ رہی تھی میری نظروں کی تپش محسوس کر کے اُس نے میری طرف دیکھا اور شرمگین مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں کا احاطہ کیا وہ آیان کو لیکر بالکنی سے چلی گئی اب میرا دل بھی یہاں کہاں لگنا تھا بہانا ڈھونڈ کر میں نکلنے لگا تھا کے وہ آیان کا ہاتھ تھامے ہمارے قریب چلی آئی میں مسکراتے ہوے اُسے دیکھنے میں مگن تھا اس بات سے بےخبر آیان صاحب میرے ہاتھوں سے پائپ لینے میری طرف آرہے تھے ہوش تو تب آیا جب یکدم سے پانی کی پھوار منہ پر پڑی فضا میں چاروں کی ہنسی گونجی میں نے آیان کو اٹھا کر اوپر اوچھالا۔۔ اُسکی ہنسی ایسی شروع ہوئی کے پل بھر کو بھی نا رکی اسکے آگے کے دو دانت ہنستے ہوے نظر آرھے تھے۔۔ احتشام اور پرنیا کی ہنسی بھی اس ہنسی میں شامل ہوگئی اور میرے روح تک میں سکون کی لہر دوڑ گئی سامنے کھڑی میری زندگی محبت پاش نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی اور کیا چاہیے مجھے؟؟؟؟

یاد رکھیے۔۔۔

جو کھویا ہے، اُس کا غم نہیں

جو پایا ہے، وہ کسی سے کم نہیں

جو نہیں ہے،وہ ایک خواب ہے

اور جو ہے، وہ لاجواب ہے

ختم شد۔۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Anaa Parast Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Anaa Parast written by Yusra. Anaa Parast by Yusra is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment