Pages

Sunday 7 July 2024

Addiction Of Love The Real Owner Season 2 By Gul Writes Complete Romantic Story Novel

Addiction Of Love The Real Owner Season 2 By Gul Writes Complete Romantic Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Addiction Of Love The Real Owner Season 2 Complete Romantic Novel 


Novel Name:Addiction Of Love The Real Owner Season 2

Writer Name:  Gul Writes

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے 

جاناں ۔۔۔ جان۔۔۔ ایزل پورے شاہ مینشن میں اسے ڈھونڈ چکی تھی جو اپنے ازلی کام میں مصروف تھی اور ہماری جاناں کا فیورٹ کام تھا دوسروں کا جینا حرام کرنا

مجال ہے جو یہ لڑکی ماں کی ایک آواز پر دوڑی چلی آئی ۔۔مگر میری ڈھیٹ اولاد ۔۔ایزل نے شائزہ سے کہا جو مسکرا رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جاناں میڈم باہر گلی میں بیٹ بال کھیل رہی تھی

کیا ہوگیا ہے ایز ۔۔۔۔ کبھی تو معصوم سی بچی کو بخش دیا کرو ہر وقت اسکے پیچھے پڑی ریتی ہو۔۔۔ امنہ نے اسے پرسکون رہنے کا کہا وہ ہر وقت ہی جاناں کے پیچھے لگی رہتی تھی کہ کان یہاں مت جانا یہ مت کرو بلا بلا بلا

بیٹی ہے میری یار کیسے اسکو اکیلا چھوڑ دو جاناں کو اکیلا چھوڑنے کا نتیجہ میں دیکھ چکی ہوں مگر اپنی بچی کو کھونے کا حوصلہ نہیں مجھ میں ۔۔۔۔ ایزل نے کہا

جاناں کو یاد کرتے انکی آنکھیں نم ہوئی تھی

ریلیکس یار جانی اپ اداس نا ہوا کرے ورنہ مجھے اپنا اپ یہاں بےمول لگتا ہے ۔۔۔۔ سیم نے ایزل کو اپنے ساتھ لگائے پیار سے کہا تو وہ مسکرا دی کہ اتنے میں جاناں گھر میں انٹر ہوئی وائٹ شرٹ بلیک جینز کے ساتھ ایک ہاتھ میں بینڈز اور دوسرے ہاتھ میں بیٹ اٹھائے وہ اندر آرہی تھی انجان تھی کہ اسکی ماں اسے خشمگیں نظروں سے گھور رہی تھی

کہاں تھی تم ؟؟؟ ایزل نے اس سے پوچھا جو شائزہ کو ناسمجھی سے دیکھ رہی تھی جو اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کررہی تھی مگر ہماری آفت جیسی جاناں ناسمجھتی است دیکھے جارہی تھی جیسے جاننا چاہ رہی ہو کہ وہ اسے اشاروں اشاروں میں کیا کہنا چاہ رہی ہے مگر ایزل کی غصے سے بھری اواز سن اسے ساری سمجھ لگ گئی

آاااا ایزل بہن میں تو ولی کے ساتھ باہر گئی تھی کھیلنے کیوں کیا ہوا ۔۔۔ بیٹ سیم کی طرف پھینکتی وہ ایزل کے گلے جالگی اسے معلوم تھا اسکے گلے لگنے پر اسکی ماں کا غصہ جھاگ کی طرح بہہ جائے گا

میری جان ماما کو بتا کر جایا کرو ۔۔۔ایزل نے اسکے بال سہلاتے پیار سے کہا امنہ اور شائزہ نے سراہتی نظروں سے اسے دیکھا جو کمال مہارت سے اسکا غصہ ہوا کی طرح اڑا چکی تھی

اچھا میں بتا تو دوں ؟؟ مگر یہاں میری ماما ہے کون۔۔۔؟؟ وہ ایزل سے دور ہٹتے شرارت بھری نظروں سے اردگرد دیکھتی سوال گو ہوئی تو ایزل کو تپ چڑھی جبکہ وہ تینوں مسکراہٹ دبا گئے

کیونکہ بقول جاناں کے ایزل تو اسکی بہن تھی جب سے اس نے جاناں انی کا سنا تھا وہ تب سے ہی اسے ایزل بہن یا کچھ اور کہہ کر بلاتی تھی

میں ماں ہوں تمھاری خبردار جو آئندہ بہن کہا زبان کھینچ لونگی ۔۔۔. ایزل نے وارن کیا مگر اس ڈھیٹ پر کہاں اثر پڑنا تھا سر نفی میں ہلاتی وہ اندر اتے امن کے ساتھ جالگی

ارے جانی آپ کیون اس افت کی زبان کو مزید کھینچ کر لمبا کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ ولی نے جاناں کے بالوں کی لٹ کھینچ کر کہا جو اسے زبان نکال کر دیکھا رہی تھی

تم دونوں جاؤ اور جاکر تیاری کرو آج مایون ہے تمھاری بہن کی مگر مجال ہے جو تم لوگوں کو زرا سی بھی پرواہ ہو ۔۔۔۔امنہ نے سیم اور ولی سے کہا ابھی تین بج چکے تھے مائزہ اور حاوز دونوں پارلر جاچکے تھے

انی ہم نے کونسا لیپا توپی کرنی ہے لڑکیوں کی طرح ؟؟ہم منہ دھو کر نکل آئیں تو بھی لوگ ہم سے جلنے لگے گے کیوں بھائی لوگ۔۔۔۔ ؟؟ جاناں نے شرٹ کے کالر اوپر کرتے کہا تو دونوں نے جھٹ سے سر ہلایا

تم نے آج لڑکیوں کی طرح ہی ریڈی ہونا ہے سمجھی تم ۔۔۔۔۔ شازو سمجھا لو اپنی اس چہتی کو ورنہ پٹے گی مجھ سے ۔۔۔۔ ایزل اسے وارن کرتی اندر کق بڑھی شادی کا گھر تھا بہت کام انہیں نبھٹانے تھے ...

یار اب انکو کون سمجھایے کہ جاناں جاناں ہے کوئی کپروں کا سٹینڈ نہیں جو یہ ہر وقت اس پر کپڑے لادنے کے لئے تیار ہوتی ہیں۔۔۔۔ جاناں نے سر پر ہاتھ مارتے کہا کیونکہ وہ شروع سے ہی جینز شرٹ کی عادی تھی ایزل کے لاکھ کوششیوں کے بعد بھی جاناں نے جینز شرٹ پہننا نا چھوڑی

💔💔💔💔💔💔💔

وہ معصوم ہے میں جانتا ہوں

وہ میرا عشق ہے میں جانتا ہوں

میری ایک کی ہی دیوانگی کافی ہے

وہ مجھے چاہئے ہر وقت مانگتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے کیبن میں بیٹھا تھا کہ کوئی اسکے کیبن میں آیا انے والی ہستی کون ہے وہ جانتا تھا اسی لیے مصروف ہی رہا

کیا حال ہے لالے کی جان ؟؟؟ دھپ سے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھتے وہ مسکرا کر بولا

جب حال پتہ ہے تو پوچھتا کیوں ہے ؟؟؟ آنکھیں بند کرکے کرسی سے ٹیک لگاتے وہ لمبی سانس بھرتے بولا

بہت چاہتا ہے اسے ۔۔۔۔"

انہیں۔۔۔۔۔ یکدم آنکھیں کھولتے وہ سختی سے بولا تو سامنے والا گڑبڑایا

اووہ سوری انہیں۔۔۔۔ اس نے اپنا جملہ درست کیا

مراد لغاری کبھی اپنے خوابوں کی اس حسین ملکہ کی تزلیل برداشت نہیں کرسکتا تھا

بتا نہ ؟؟؟بہت چاہتا ہے انہیں؟؟؟ اسے خاموش دیکھ وہ سوال گو ہوا

نہیں۔۔۔۔ آنکھیں بند کرتے وہ اپنی سابقہ حالت میں چلا گیا

محبت کرتا ہے ؟؟؟ آسکے پوچھنے پر اس بار بھی گردن نفی میں ہلائی گئی

تو پھر؟؟؟ اسکے لہجے میں تجسجسس تھا وہ بچپن سے اس اندیکھی پرنسسز کو سنتے أیا تھا

عشق ۔۔جزبات سے بھرپور لہجے میں جواب آیا

میرا عشق ہے وہ ۔۔۔ایک ایک لفظ میں عشق سموئے وہ گویا ہوا دلفریب سی مسکراہٹ اسکے لبوں پت رقصاں تھی

.

مجھے سمجھ نہیں اتا یار مراد تجھ جیسا لڑکا جسکے پیچھے انگلینڈ کی ساری لڑکیاں پاگل ہیں اور جو کسی کو ایک نظر دیکھتا بھی نہیں ہے وہ کیسے کسی کے لئے اتنا دیوانہ ہوسکتا ہے ۔۔۔ کیسے ؟؟؟۔۔۔۔ سمیر حیرانی سے بولا مگر مقابل کے وجہیہ چہرے پر اب بھی دل موہ لینے والی مسکان تھی جب جب اسکے محبوب کا زکر اتا تھا وہ تب تب کھل اٹھتا تھا

اگر وہ کسی اور کی ہوگئی تو۔۔؟؟؟ کسی اندیشے کے تحت سمیر نے پوچھا اسکا پورا دھیان اسکے فیس ایکسپریشنز پر تھا جو بلکل نارمل تھے

وہ میری تھی ، میری ہے اور جب تک جسم میں جان ہے ۔۔دل کی دھڑکن ہے ۔۔۔۔اور خون کا ایک بھی قطرہ ہے ۔۔وہ میری ہے ۔۔۔ اسے بنایا ہی میرے لیے گیا ہے ۔۔۔۔۔ اسکا لہجہ ایکدم پرسکون تھا اسے اعتماد تھا اپنی عشق پر وہ شروع سے ہی مطمئن تھا کہ وہ اسی کی ہوگی ۔۔سمیر حیران پر حیران ہوئے جارہا تھا

چل بھئی چھوڑ سب کچھ اٹھ زرا ٹائم دیکھ بارہ بجنے والے ہیں اور تو ہے کہ آفس میں گھسا بیٹھا ہے۔۔۔۔ سمیر نے اسکا دھیان بھٹکانا چاہا تو وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے موبائل اٹھا کر باہر نکل گیا سمیر بھی گاڑی کی کی لیتے اسکے پیچھے بھاگا

مراد لغاری ۔۔.لغاری فیملی کا اکلوتا چشم و چراغ ۔۔۔ اسکی نیلی آنکھیں جو ہمیشہ سرد رہتی تھی بظاہر تو وہ اپنے ماں باپ کا سلجھا ہوا بیٹا تھا مگر اسکی سچائی تو کچھ اور ہی تھی

اپنی بہن کی آنکھوں کا تارا تھا وہ اور ماں باپ اس پر الگ جان چھڑکتے تھے

وہ ہمیشہ اپنی ایک حد میں رہنا پسند کرتا تھا اسکا دنیا میں ضرف ایک ہی دوست تھا سمیر علی جو اسکا ہمراز تھا اسکا جگری یار

اسکے پاس سب کچھ تھا مگر پھر بھی اسکی نیلی انکھوں میں ایک ادھورا پن تھا کسی کی تلاش تھی

💔💔💔💔💔💔

مہندی اور مایوں کی رسم ہوچکی تھی مائزہ کے سسرال والے رسم کرکے جاچکے تھے حاوز کی رسم بھی ہوچکی تھی رات کے تین بج رہے تھے اور وہ ساری ینگ جنریشن وہاں بیٹھی گپوں میں مصروف تھی سارے بڑے اپنے روم میں سونے جاچکے تھے

مزہ نہیں ایا یار یہ کیسی شادی ہے نا ڈھول نا دھماکہ ۔۔۔سیم نے حاوز سے شکوہ کیا جو خود اداس تھا کہ اسکی شادی اتنی سادگی سے ہورہی تھی مگر کیا کرتے جہاں انکی شادی تھی وہ لوگ نفاست پسند تھے

کوئی بات نہیں میری شادی پہ خوب دھوم مچانا تم لوگ انفیکٹ میں بھی اس میں تمہارا پورا پورا ساتھ دونگی ۔۔۔۔ جاناں نے انگڑائی لیتے کہا مائزہ تو پہلے ہی سونے جاچکی تھی بسس وہ چار ہی جنوں کی طرح جاگ رہے تھے

ہوں تمھاری شادی پر انجوائے کرنا ہم نے ۔۔۔۔ حاوز نے سر ہلاتے کہا

ہم بھی خوب دھمال کرینگے ۔۔ولی اور سیم یک زبان ہوکر بولے تو جاناں نے مسکرا کہ انہیں دیکھا

دور کھڑی قسمت نے اداسی بھری نظروں سے اسے دیکھا کیا واقع وہ لوگ اسکی شادی میں شریک ہونگے؟؟؟ یہ تو وقت نے ہی بتانا تھا

💔💔💔💔💔💔

* انی چائے پینے کا بہت دل کررہا ہے بنا دیں ۔۔۔۔

جاناں کچن میں داخل ہوئی تو امنہ سے کہا جو سبزیاں کاٹ رہی تھی تیزی سے سبزیاں کاٹتی وہ اسکی طرف مڑی

کیوں سر پر گھر اٹھا رکھا ہے ؟؟؟ ابھی سب بزی ہیں بعد میں بنا دونگی ۔۔۔ امنہ نے اسے دیکھتے کہا اور پھر سے مصروف ہوگئی

.

جان خود بنانا سیکھو کل کو اپنے شوہر کو تو ایک کپ چائے ہی پلا سکو ۔۔۔۔۔ ولی نے شرارتاً کہا تو ایزل نے اسے گھورا وہ جاناں کو سارے کام کروا سکتی تھی مگر اسکا ڈل کبھی اسے اس چیز کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ اسکی نازک سی جاناں کچن کا کام کرے

نہیں میں کیون کرو اور ویسے بھی میں تو اس لڑکے سے شادی کرونگی جو مجھ سے کام نا کروائے ۔۔۔۔

اور ایسا انسان تمھیں اس دنیا میں تو نہیں ملے گا ۔۔۔۔ مائزہ نے فریج سے پانی کی بوٹل نکالی

ایوے نہیں ملے گا میرے خوابون کا شہزادہ ایک نا ایک دن تو ضرور ہی ملے گا ۔۔۔۔ جاناں نے شرارتی آنکھیں مٹکا مٹکا کر کہا تو سب نے مسکراہٹ دبائی انہیں اسکی باتیں ایویں لگ رہی تھی

مگر یہ تو قسمت ہی جانتی تھی کہ اسکا شہزادہ خود اسکی تلاش میں ہے ۔۔ لیکن اسکی یہ تلاش کب ختم ہوگی یہ تو وقت کے گزرتے پتہ چلنا تھا

💖💖💖💖💖💖💖

أج شائزہ اور حازم کے ی بچوں کی برات تھی مائزہ دلہن بنی بیٹھی روم میں بیٹھی تھی جہاں ایزل جاناں کو لہنگا پہننے کا کہہ رہی تھی

جاں میں نے دو تھپڑ لگانے ہیں ۔۔۔ پہنو یہ لہنگا ۔۔۔۔ ایزل نے ہاتھ اٹھاتے اسے غصے سے گھورا جو ڈھیٹ بنی ہوئی تھی بقول اسکے وہ سب کرسکتی ہے سوائے اس ٹینٹ کو پہننے کے

ارے ایزل بہن خدا کا کچھ خوف کرے آج تک میں نے لڑکیوں والے جوتے تک نہیں پہنے۔ اور یہ ٹینٹ کیسے سنبھالو گی ؟ ارام سے جینز شرٹ پہنتی ہوں ۔۔۔۔ جاناں نے ایزل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھاتے ہوئے کہا جیسے وہ کوئی بہت ہی سمجھدار اماں ہو

خبردار جو تم نے کوئی بندروں والی کوئی حرکت کی ٹانگیں توڑ دونگی ۔۔۔۔ ایزل نے اسے بازو سے واپس کھینچتے بیڈ پر پھٹکا تو جاناں نے حیران ہونے کی ایکٹینگ کی

ایک تم ہو اور دوسری مائزہ دیکھو ماشاءاللہ کتنی حسین لگ رہی ہے ۔۔۔ ایزل نے مائزہ کی نظر اتارتے کہا

ہوں بلکل ایسا لگتا ہے جیسے کوئی چھوٹا ہاتھی پاگل ہوگیا ہو ۔۔۔ مائزہ کی تعریف سن وہ اسکے بونا ہونے پر ہنسنے لگی

بکواس بند کرو اور لہنگا پہن کر بہن کو لے کر آؤ۔۔۔۔ایزل نے غصے سے اسے گھورا اور بڑبڑاتی نکل گئی

اماں حضور پہلے کبھی اپکی مانی ہے ؟؟؟ جو أج اپکو لگتا ہے کہ جاناں اپکی مانے گی ؟؟؟؟ شرارت سے کہتے وہ خود پر ہی ہنسی

💔💔💔💔💔💔💔💔

\#گل رائٹس

وہ ابھی ابھی شاور لے کر نکلا تھا بلیک ٹراؤزر میں ٹاول سے بالوں کو خشک کرتے وہ اپنی ازلی شاہانہ چال چلتے صوفے پر بیٹھا اور آنکھیں بند کرتے سر صوفے پر ٹکا لیا

تھکن اتارنے کے لئے شاور لیا تھا تھکن تو اتر جاتی مگر اس تھکن کا کیا جو سالوں کی تھی وہ سال جسے گزرتے صدیاں لگی تھی ۔۔۔

وہ مریض عشق تھا جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شدید ہورہی تھی

عشق میں ازیت کیا ہوتی ہے کوئی اس سے پوچھتا ۔۔۔۔

عشق میں صبر کیا ہوتا ہے کوئی اس سے پوچھتا ۔۔۔۔۔۔۔

عشق میں خالی ہاتھ ہونا کیا ہے کوئی اس سے پوچھتا ۔۔۔۔ ہوں اس نے عشق کی انتہا پر پہنچ کر خود کو تنہا پایا تھا ۔۔

کھوں کی بھیڑ میں تنہا ہونا کیا ہوتا ہے کوئی اس سے پوچھتا۔۔۔۔

مگر کوئی اس سے کیوں پوچھتا لوگوں نے تو اسے کامیاب ترین انسان پایا تھا جس پر خدا بہت مہربان تھا

تو کوئی کیسے ایسا سوچ سکتا تھا کہ کامیابی صرف اسکے وقت گزاری کا طریقہ تھی اسکی لگن اسکی چاہت تو کچھ اور تھی ۔۔۔۔

کچھ سوچتے اس نے موبائل اٹھایا اور کسی کو کال ملائی

یار لالے کہاں پھنسا دیا ہے. مجھ معصوم کو ؟؟؟ کال اوکے کرتے ہی سمیر نے معصومیت بھرے لہجے میں دہائی دی

ایڈریس سینڈ کردیا ہے یہاں پہنچ جاؤ ۔۔۔۔ اسکی کسی بھی بات کو خاطر میں نا لاتے وہ کہتے کال کاٹ کر موبائل سائیڈ پر پھینکا اور وہی صوفے پر ہی لیٹ گیا

# ابتدائے الفت ہے اسے بیکار نا کہو

# انتہاؤں میں جاکر ابھی برباد ہونا ہے

آنکھیں بند کرتے ہی وہ دھندلا سا عکس اسکی آنکھ کے پردے پر نمودار ہوا وہی عکس جو بچپن سے اسکے زہن پر نقش تھا

وہی عکس جس نے اسے بےچینی انتہاؤں میں جاکر ابھی برباد ہونا ہے

آنکھیں بند کرتے ہی وہ دھندلا سا عکس اسکی آنکھ کے پردے پر نمودار ہوا وہی عکس جو بچپن سے اسکے زہن پر نقش تھا

وہی عکس جس نے اسے بےچینیوں کی بیڑیوں میں جکڑ رکھا تھا

جسکی تلاش اسے ڈنڈ بدر کیے ہوئے تھی جس سے اسکا تعلق روح کا تھا

کہان ہو تم ۔۔کیوں میری تلاش ناکام ہے ۔۔۔کیوں تمھارا عکس میری آنکھوں اوجھل ہوکر بھی میری آنکھوں میں بسا ہے ۔۔. یہ تشنگی مجھے مار رہی ہے ۔۔۔۔ مجھے مکمل کردو ۔۔میرا وجود تمھاری تلاش کی نظر اور میری روح تمھاری روح کے حصول کی منتظر ہے ۔۔۔کوئی تو وسیلہ ہوگا جو ہمھیں جوڑے گا ۔۔۔.کیا تقدیر کی لکھی ہوئی دوریاں میرے جسم کے روح سے جدا ہونے پر ختم ہونگی ؟؟؟

وہ گم نام اواز میں تھکے تھکے انداز میں زیر لب بڑبڑا رہا تھا کہ شاید اسکی پکار سن لی جائے گی

کہان پناہ ڈھونڈو میں مجبور انسان

مرشد

آنکھیں کھولو تو خیال اسکا بند کرو تو عکس

💔💔💔💔💔💔💔💔

حاوز بھائی بسس کردیں کیوں اپ نے خود کو بھائی سے بہن میں کنورٹ کرنا ہے ؟؟؟ ولی نے حاوز کو میک اپ کرتا دیکھ ہانک لگائی تو پانی پیتے سیم کو اچھو لگا

ولی بکواس نہیں کرو آج بھائی ریڈی نا ہوئے تو رامیہ بھابی نے نکاح سے ہی منع کردینا ہے ۔۔۔۔ سیم نے سنجیدگی سے کہا جو ولی نے ناسمجھی سے اسے دیکھا حاوز نے بھی مڑ کر انہیں دیکھا

.

بھئی ظاہر سی بات ہے بھلا کون لڑکی چاہیے گی کہ اسکا گھر والا زکوٹا جن ہو ۔۔۔ سیم نے کہا اور دونوں ہی وہاں سے کھسکے ۔.

سیم میں تمھاری زبان کھینچ لونگا۔۔۔۔ حاوز چیخا

کیوں اور لمبی کرنی ہے ؟؟؟ بنا اسکے چیخنے کو نوٹس کیے وہ کان میں انگلی ڈالتے بولا تو ولی ہنسا جبکہ حاوز بچارا سر جھٹکتے اندر بڑھا

💔💔💔💔💔💔💔💔

ولی سیم جاؤ اپنی بہن کو لے آؤ ۔۔۔۔ امنہ نے شائزہ کے اشارے پر ان دونوں سے کہا تو وہ سر ہلاتے اوپر کو بڑھے

ارے اپی اپکے سسرالی ٹپک پڑے ہیں ۔۔۔۔۔ ولی کمرے میں ایا تو مائزہ کو ریڈی کھڑے پایا

اوہہ یار آپی منہ تو دھو لیتی قسمے جان نکال دی ۔۔.سیم نے دل پر ہاتھ رکھتے نوٹنکی کی

ہائے تمھاری جان نکل جائے ایسے اپنے نصیب کہاں؟؟؟ جاناں نے مرر اٹیبل پر بیٹھ کر ٹھنڈی اہ بھری

ہائے جان۔۔۔ کدھر ہو یار آؤ نا زرا باہر ہوسکتا ہے اس محفل میں کوئی لڑکا تم جیسی چڑیل کو اپنے ساتھ چمٹانے کا بدترین ارادہ کرلے ؟؟؟ ولی کی زبان چلی تو جاناں نے اثبات میں ہلاتے اسے گھورا

وہ کرے نا کرے میری جان مگر تمھارا جنازہ ضرور اسی محفل میں ائے گا اگر مزید کوئی بکواس کی ۔۔۔۔ جاناں وارن کرتی نظروں سے اسے دیکھتے بولی تو ولی نے اسے زبان چڑائی

چلو بکواس نہیں چنری پکڑو ۔۔۔ سیم نے انہیں چنری کا کونا پکڑنے کا اشارہ کیا تاکہ وہ ایزل کو باہر لے جا سکیں۔۔۔۔

💔💔💔💔💔💔💔💔

کبھی آسکے در کبھی اُسکے در

پھرتا ہوں میں یوں ہی دربدر

نہاں کہاں ہے تیری تلاش میں کہ

سکون نہیں بنا اسکے دل کو کسی قدر

💔💔💔💔💔💔💔💔

وہ تیرا وہم ہے ت اسے بھول جا اسے ایک خواب سمجھ کر ۔۔ یہ سمجھ لے کہ وہ کبھی تیری تھی ہی نہیں ۔۔۔ بھول جا مراد یوں سمجھ لے کہ وہ کبھی تیری زندگی میں آئی ہی نہیں صرف خیال ہے اور خیال حقیقت نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔ سرک پر چلتے سمیر نے بات کا اغاز کیا وہ دیکھ رہا تھا اسکی دیوانوں جیسی حالت

کیا مطلب ۔۔یکدم وہ رکا جھکی نظروں کو اٹھا کر اسے دیکھنے لگا سرخ رنگ کے ڈورھے اسکی أنکھوں میں واضح تھے وہ دھاڑا تو سمیر اچھلا

و۔وہ م۔۔م۔۔م۔۔۔می۔۔میں۔۔،وہ جانتا تھا اسکے غصے کو جو دنیا کو أگ لگانے کے قابل تھا وہ خدا کی وہ ّ مخلوق تھا جسے خوبصورتی ، وجاہت اور زہانت بےشمار ملی تھی وہ کامیابی کے ہر میدان میں کامیاب ترین تھا مگر جب کوئی بات اسکے زوق کے خلاف ہوجاتی تو وہ غصے میں اجاتا اور پھر مخالف کی زندگی اخیرن کردیتا

کیا میں ہاں۔.؟؟؟ میرے خواب ایک دن حقیقت ہونگے اور وہی میری پرنسسز بنے گی ۔۔کیونکہ مراد لغاری اپنی ہر مراد پوری کرنے کی طاقت رکھتا ہے پوری دنیا کے زرے زرے کو بھی چھاننا پڑا تو مراد لغاری وہ بھی کرگزرے گا مگر اسے میں ہر حالت میں اپنے پاس لاؤں۔گا۔۔ وہ سختی سے دھاڑ رہا تھا جیسے کوئی بھپرا ہوا شیر اور اسکے اسی روپ سے سب ڈرتے تھے مراد لغاری کو غصہ دلانا یعنی موت کو دعوت دینا

مگر سمیر کے چہرے کے اڑتے رنگ دیکھ وہ خاموش ہوا کیونکہ سامنے کھڑا وجود اسکا ہم راز تھا اسکا واحد دوست جو اسے جانتا تھا پہنچانتا تھا جس نے زندگی کے ہر مرحلے میں اسکی مدد کی تھی اور یہی اس نے اپنے جنوں کو قابو کرلیا

سمیر آج کہہ دیا آئیندہ مت کہنا اینڈ دس از فور لاسٹ ٹائم ائی ایم سپیرنگ یو۔.شہادت کی انگلی اٹھائے اس نے سختی سے کہا تو سمیر کی جان میں جان آئی

تو پاکستان چلا جا ہوسکتا ہے وہ وہاں ہو۔۔۔؟؟ سمیر نے آہستہ سے کہا وہ جانتا تھا اسکا یار کس قرب سے گزر رہا تھا

نہیں جاسکتا ۔۔۔آج اسکے لہجے میں ضد نہیں تھی مراد شاہ پاکستان نہیں جانا چاہتا تھا

کیوں۔۔۔ جانتے ہوئے بھی سمیر انجان بنا تھا

ڈرتا ہوں یار ۔۔۔ آج وہ اپنے خول میں نہیں تھا اخر کار اس نے کہہ ہی دیا تھا کہ مراد لغاری ڈرتا تھا

کس سے ؟؟؟ سمیر نے حیرانی سے پوچھا وہ انسان جسکے غصے سے سب ڈرتے تھے جسکی بات کو ٹوکنا اسکے غصے کو دعوت دینا ہوتا تھا وہ اقرار کررہا تھا اپنے ڈر کا ؟؟

اسے کھونے سے ڈرتا ہو۔۔۔ "

میں ڈرتا ہوں سمیر کہ اگر وہ میرے سامنے آگئی تو میں اسے اپنا بنا لونگا اور مجھے ایسا کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی وہ خود بھی نہیں۔۔۔۔ وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں اسے اپنے دل کا حال سنا گیا

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

مہندی رچے گی تیرے ہاتھ

ڈھولک بج گی ساری رات

جاکر تم ساجن کے ساتھ

بھول جا جانا یہ دن رات ۔۔۔۔

جاناں ولی اور سیم لہک لہک کر گا رہے تھے مطلب پاگل پن ہی کررہے تھے لوگ مہندی میں گانا گاتے تھے مگر وہ تو جاناں خان تھی وہ بھلا کیسے کسی اور کو کاپی کرسکتی تھی

بچے لوگ مہندی پر گانا گایا کرتے ہیں ۔۔۔۔ ایک خواتین نے جاناں سے کہا جو وہی اور سیم کے ساتھ ڈانس کررہی تھی

انٹی وہ تو پھر لوگ ہیں نا ہم تو ہم ہیں ہمارے اپنے کچھ اصول ہیں۔۔۔. ناز سے ناک چڑھا کر وہ شاہانہ انداز میں بولی امنہ نے مسکرا کر اسے دیکھا

بسس لہجے کا ہی تو فرق تھا ورنہ وہ تو پوری کی پوری اپنی انی جاناں جیسی تھی

ارے جان بسس کرو تمھاری خوفناک آوازیں سن سن کر میرے کان بیچارے دکھ رہیں ہیں ۔۔.۔.حاوز نے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی

حاوز بھائی اگر ہماری اوازیں اتنی بری ہیں تو آپ ہی اپنی سریلی آواز میں کچھ سنا دیں۔۔۔۔ ولی نے حاوز کو جھٹ سے کہا سارے مہمان انکا شغل میلا دیکھ رہے تھے

ہاں ہوں ابھی سناتا ہوں کالج میں لڑکیاں مرتی تھی مجھ پر۔۔۔ حاوز فخر سے سینا چوڑا کیے سٹیج سے اتر کر انکے پاس أیا

ہاہاہا وہ اپ کی اواز پر نہیں اپکی بدبو پر مرتی ہونگی جو مہینہ مہنیہ نا نہانے کی وجہ سے اتی ہے ۔۔ہی ہی ہہ ہی۔۔۔ جاناں نے کہتے ہی آنکھ دباتے ایزل کو دیکھا جو غصے سے اسے گھورنے میں مصروف تھی

زرا ڈھولک بجاو گوریوں ۔۔۔

بسسسسسسسس بسسس بھئی ایک لفظ اور نہیں ورنہ میری سننے کی صلاحیت ختم ہوجائے گی ۔۔۔۔ سیم ایک دم زمین پر لیٹتے اسکے پاؤں پڑا سبکو تو یہی لگا مگر ایزل نے دیکھا تھا کہ جاناں نے اسے دھکا دیا تھا

میصم اپنی بیٹی کو دیکھ لو ۔۔۔۔ ایزل نے دانت پیستے کہا

.ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے ۔۔۔. میصم نے دل ہی دل میں قہقہہ دباتے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا تو ایزل کا مانو خون ہی جل گیا

آسکے کرتوت دیکھو میاں جی ۔۔۔۔ ایزل کی بات پر میصم کا دبا قہقہہ گونجا تو جاناں بھاگ کر اس سے اچمٹی

💔💔💔💔💔💔

انی ۔۔۔ آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔ آپکو تو خوش ہونا چاہیے اور اپنی بیٹی کے اچھے مستقبل کے لئے دعا کرنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔ اللہ کا شکر ادا کرے کہ خیر و عافیت سے بجا کی شادی ہوگئی ۔۔۔۔ مائزہ کو رخصت کرتے وقت شائزہ رونے لگی تھی تو جاناں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے پیار سے کہا تو ایزل اور امنہ نے نم نظروں سے اسے دیکھا

اگر خان ہوتی تو وہ بھی ایسے ہی کہتی نہ امن۔۔۔۔ آمنہ نے امن کے ساتھ لگے بھیگی اواز میں پوچھا

میری جان اسے یاد کرتے رویا مت کرو۔۔۔۔ وہ اسکے انسو صاف کرتے گویا ہوا

میری بچی ۔۔۔۔شائزہ نے جاناں کا ماتھا چوما تو ولی اور سیم کا منہ بنا

کبھی ہمھیں تو ایسے محبت نہیں کری ۔۔۔ سیم نے کن آنکھیوں سے انہیں دیکھتے کہا تو وہ مسکرائی

آؤ شیطانوں تم بھی اجاو۔۔۔ شائزی نے انہیں اپنے پاس بلایا تو وہ بندروں کی طرح اچھلتے کودتے وہاں پہنچے ۔۔۔۔

💔💔💔💔💔💔

پاکستان ۔۔۔۔ اسلام وعلیکم بابا ۔۔۔۔ کرنل کے سامنے سر جھکائے وہ محبت سے بولا آرمی یونیفارم میں وہ مسکراتے ہوئے اتنا ہینڈسم لگ رہا تھا کہ اگر کوئی لڑکی اسے اس طرح ہنستا مسکراتا دیکھ لیتی تو فدا ہی ہوجاتی

وعلیکم اسلام میرا شیر ۔۔۔۔ کرنل صاحب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا اور اسکی پیشانی چومی وہ ریٹائر ہوچکے تھے مگر انکا جوان شیر بیٹا سکندر شاہ وہ آرمی میں کیپٹن تھا

بابا اس بار لمبی چھٹی لے کر حاضر ہوا ہوں۔۔۔ وہ انکے ساتھ صوفے پر براجمان ہوا تو وہ مسکرائے

کیوں۔۔۔ کرنل صاحب نے مسکرا کہ پوچھا سکندر حیران نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ جب بھی أتا تو کرنل صاحب کا پہلا سوال ہی یہی ہوتا کہ کتنی چھٹی لی ہے کیونکہ انہیں اپنے وطن سے بہت محبت تھی

بابا کو مشن ہم نے مکمل کیا وہ بہت ڈینجرس تھا اور اس خطرناک گینگ کی لیڈر بھی لڑکیاں تھا وہ بھی تین ۔۔۔ پہلے تو صرف لڑکے جرم کرتے تھے مگر اب تو لڑکیاں بھی کسی سے کم نہیں ۔۔۔۔سکندر آور بھی بہت کچھ بول رہا تھا مگر کرنل صاحب تو کسی اور ہی سوچ میں مبتلا ہوچکے تھے

انہوں نے بھی تو مافیا گرلز کو پکڑا تھا یا شاید دھوکا دیا تھا انہیں ڈبل کراس کیا تھا مگر جو بھی تھا وہ مشن کمپلیٹ کرہی چکے تھے

لیکن جاناں کی آخری دھمکی کو وہ کبھی نہیں بھول پائے تھے وہ چاہ کر بھی بھول نہیں سکتے تھے اور انہوں نے ہر ممکن کوشش کی ایزل وغیرہ کا پتہ لگانے کی ہر جگہ تلاش جاری تھی لیکن انکا کہی تو نام و نشان ہی نہیں تھا

کچھ سال انکی تلاش جاری رہی انکے ناملنے پر انکو مرا ہوا کرار دے دیا گیا تھا اور کیس بند ہوچکا تھا

بابا.. ۔۔۔ انہیں سوچ میں ڈوبا دیکھ سکندر نے انہیں بلایا تو اچانک ہوش میں آئے

ہوں ہاں؟؟؟

کیا ہوا بابا۔۔۔۔۔ سکندر اب کہ پریشان ہوا

کچھ نہیں میں سوچ رہا ہوں اب تم آہی گئے ہو تو تمھارے لیے لڑکی دیکھ لیتے ہیں پھر جب آؤ گے تو شادی کردینگے ۔۔۔کرنل صاحب نے بات چینج کی تو سکندر نے ایک ہاتھ اپنی گردن پر پھیرا پھر کچھ ہچکچاتے ہوئے بولا

بابا ابھی مجھے شادی نہیں کرنی پلیز نیکسٹ ٹائم ہم دیکھ لینگے لڑکی ۔۔۔۔ سکندر نے کہا تو کرنل صاحب نے سوچتے سر ہلایا

💔💔💔💔💔💔💔

💔💔💔💔💔💔💔

شادی کو کئی دن گزر چکے تھے حاوز اپنی بیوی ابہیا کے ساتھ ہنی مون پر پاکستان جارہے تھے انکا کہنا تھا کہ انکی پیدائش لندن میں ہوئی 

ہے جسکا چپہ چپہ انہیں یاد ہے تو انہوں نے پاکستان جانے کا سوچا

میصم اور حازم نے کافی منع کیا مگر جاناں کے اصرار کرنے پر میصم نے اجازت دے ہی دی تھی اور ابھی وہ سب سے مل کر ائرپورٹ جارہے تھے جاناں سیم اور ولی بھی انکے ساتھ ہی تھے سب بڑے گھر میں ہی رکے تھے

چلؤ یار بھابی اب جلدی سے ہمھیں ایک ننھا مننا بےبی لادینا بسس ۔۔۔ اور خیال رکھنا دونوں اپنا اوکے جانی ۔۔. اسکے گال پر کس کرتے وہ انکھ دباتے بولی تو وہ شرما گئی

چلؤ اب زیادہ نوٹنکی نہ کرو مجھے معلوم ہے میرے جانے سے سب سے زیادہ تم ہی خوش ہوگی چڑیل ۔۔۔۔ حاوز نے اسکے بال بکھیرے تو وہ دانت دیکھاتی ہنسنے لگی

چلؤ اللہ کی امان ۔۔۔۔کال کرتے رہنا ہوسکا تو ہم بھی آئیں گے ۔۔۔۔ سیم اور ولی ان دونون سے ملتے بولے تو جاناں نے بھی اثبات میں سر ہلایا کہ لوگ ائرپورٹ کے اندر کی طرف بڑھے

یار بھائی وغیرہ تو چلے گئے اب انکی واپسی تو یقیناً ایک سال بعد ننھے منے شہزادے کے ساتھ ہی ہوگی ۔۔۔ جاناں نے شرارت سے کہتے سیم کو آنکھ ماری تو وہ تینوں معنی خیز سا مسکرائے

اچھا چلؤ اب اہی گئے ہیں تو کچھ مستی ہوجائے ؟؟؟ ولی نے شوخ نظروں سے دونوں کو دیکھا جو سر ہلاتے گاڑی میں بیٹھے اور کچھ الگ ہی مستی کرنے چلے تھے

💔💔💔💔💔

اہہہ۔۔. وہ جو اپنا آرڈر لے کر اپنی ٹیبل پر جارہی تھی کہ کسی نے اسکے پاؤں کے آگے پاؤں مارا تو وہ ہلکی سی چیخ کے ساتھ اسکے ہاتھ سے ٹرے گری کالی آنکھیں میچتے وہ یونے والی تکلیف کو سوچ رہی تھی جو اسے گرنے کے بعد ہونی تھی

لیکن اسے کوئی درد محسوس نا ہوا اور ایک بھینی بھینی سی خوشبو اسکے نتھوں سے ہوتے اندر تک اترنے لگی آہستہ آہستہ کالی آنکھوں سے پردہ ہٹا تو جاناں نے کالی أنکھوں کو مزید بڑا کیے اسے دیکھا۔. وہ زمین پر نہیں بلکہ کسی کے مضبوط حصار میں تھے وہ مراد لغاری تھا وہ مراد لغاری کی باہوں کی قید میں تھی جس نے اسے گرنے نہیں دیا تھا

حس نے اسے اس طرح تھاما تھا جیسے پھول کی کلی کو ہتھیلی پر احتیاط سے رکھا جائے ۔۔۔۔۔

     ❣معصوم  چہرہ  انکھوں  میں  شرارت...

     ❣کیسے ممکن کوئی دیکھے اور فدا نہ ہو....

💔💔💔💔

اپنی بانہوں میں تجھے کیوں نہ مقید کر لوں


ا میرے لمس کے احساس کی زنجیر میں


** #پہلا_لمس**


ابھی مصروف عمل ہے

چلو مصروف رہنے دو

ہم نے کشوں کو جام میں

مدہوش رہنے دو

یہ مدہوشی ہی جانم

اکثر ہمھیں لباتی ہے

مجھے لگتا ہے کہ یہاں

ایسے ہی اتی جاتی ہے

اسے مجسوس کرنے دو.

مجھے کافر ہی رہنے دو

صنم کو پوچھ لیتا ہوں

مجھے ارام ملنے دو

مجھے منصور بننا ہے

زہر کا خام پینے دو

عبادت ہے میری یہ بھی

مجھے دیدار کرنے دو

مل جائے جو مجھے ساجن

مجھے اقرار کرنے دو

مجھے حاصل ہیں کچھ پل

مجھے تم پیار کرنے دو

وہ مل جائے وصیلے سے

مجھے ہر چال کرنے دو

وہ ملتا ہی مدہوشی میں ہے

مجھے تم اور جام بھرنے دو


مراد کا ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد تھا دوسرا اسکے بازو پر تھا کتنی احتیاط تھی اسکی پکڑ میں مراد کی نیلی آنکھیں غصے سے سرخ ہوئی اسکی کالی آنکھوں میں پپوست تھی


دونوں کی دل کی ڈھڑکنیں بےقابو ہوئی تھی دونوں کا دل الگ ہی لے پر ڈھڑک اٹھا تھا یہ ڈھڑکنوں کا شور اس نے پہلے کبھی نا سنا تھا


اسکی کلون کی خوشبو وہ خود میں اترتی محسوس کررہی تھی کیا سحر تھا جس سے وہ نکلنے میں ناکام ہورہی تھی وہ ایک پختہ عمر کا آدمی تھا مگر اسکی نیلی پرکشش آنکھوں میں کچھ خالی پن سا تھا کیا تھا وہ ۔۔۔۔


آر یو آ بلائنڈ پرسن۔۔؟؟؟ کانٹ سی آہیڈ ؟؟؟ ناؤ لیو۔۔۔ مراد نے آہستہ سے اسے سیدھا کیا اور غصے سے اسے دیکھا


آج پہلی دفع جاناں کو معلوم ہوا تھا کہ ڈمپل صرف ہنسنے پر ہی نہیں پڑتے کیونکہ مراد وہ پہلا مرد تھا جسکے بولتے وقت بھی اسکے دونوں ڈمپل نمایا ہورہے تھے جاناں کے دل نے گواہی دی تھی کہ وجاہت اور خوبصورتی کا زکر جو کیا جاتا ہے کہ دونوں میں اکھٹے دنیا میں موجود ایک مرد میں اتی ہے اسکا حقیقی مجسمہ اس نے خود اپنی أنکھوں سے دیکھ لیا تھا اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر مراد نے جھرجھری لی


مگر دونوں ہی انجان تھے قسمت کی جھرجھری نے انہیں کہاں پہنچانا تھا


اوو ہیلو مسٹر تمیز سے ایویں سنا کیوں رہے ہو میرے ہاتھوں میں ٹرے تھی مگر تم تو دیکھ سکتے تھے نہ کہ نہیں ۔۔۔۔ جاناں نے جیسی اسکی گفتگو سنو اور پھر نیچے گرے برگر اور سینڈوچز کو دیکھا تو اسکا خون کھول اٹھا اسے گھور کر دیکھا جسکی خونخوار نظروں کا مرکز وہ ہی تھی


لیو ۔۔غصے سے پھنکارتے وہ جانے لگا مگر اس سے پہلے ہی جاناں نے غصے سے اسے دیکھا اور اسے ہی کٹ مارتے جانے لگی اسے جاتے دیکھ مراد کا چہرہ بھی غصے سے سرخ ہونے لگا ہوا کے باعث اسکے بال گردن پر سے ہٹے تو وہاں کسی چھوٹ کا نشان دیکھ وہ ہلنے کے قابل ہی نا رہا


آنکھوں کے سامنے وہ دھندلا سا عکس ایا جسکی بھی گردن پر ایسا ہی کوئی مارک تھا بچپن سے ہی اس نے اپنے خوابوں کے ڈزیعے اسے بچے سے بڑے ہوتے دیکھا تھا


تباہی ہی تباہی ہے

نا اب کوئی سانس آئی ہے

ہوں میں اقرار کرتا ہقں

خطائے عشق کر بیٹھا ہوں۔۔۔

💔💔💔💔💔💔

عزت ماب کہاں ہیں آپ ؟؟؟ ولی نے کال کرتے تپے ہوئے لہجے میں پوچھا جاناں نے مسکراہٹ دبائی


واشروم میں ہوں۔۔۔ اس نے لب دبائے کہا تو ولی کا مانو خون ہی خشک ہوگیا بےزاریت سے ادھر ادھر سر مارتے وہ اپنی ٹیبل پر ایا


ہوں وہ میں نے پوچھنا یہ تھا کہ واشروم کا آکیٹیکچر کیسا ہے کہیں ریسوٹونٹ والوں نے غلط نا بنا لیا ہو ۔۔۔۔ ولی نے سنجیدگی سے سوال پوچھا وہ دونوں پورے ریسٹورنٹ میں اسے ڈھونڈتے خوار ہوچکے تھے مگر اسکے واشروم ہونے کا سن کر دونوں کو آگ ہی لگی تھی


کیا مطلب ۔۔.جاناں جان کر انجان بنتی معصومیت سے پوچھنے لگی


میرا مطلب ہے کہ میری ماں تم واشروم میں گھر بنانے گئی ہو ۔۔؟؟؟ سیم کی طنزیہ اواز سپیکر سے ابھری اسے معلوم ہوا کہ اسکے غائب ہونے پر وہ دونوں تنقید کررہے ہیں


اوو بی بی اپنے چرنوں کو لے کر ادھر ٹپکو ورنہ تمھاری ماں نے پوری بارات کے ساتھ تمھیں وہی ریسو کرنے آجانا ہے ۔۔۔۔ ولی نے جلدی سے کہا کیونکہ گھر سے کتنی کالز آچکی تھی


آہ اچھا ارہی ہوں تم لوگ گاڑی میں ویٹ کرو ۔۔۔۔ اس نے کہا اور کال کٹ کرتے شیشے میں خود کو دیکھا وائٹ شرٹ بلیک پینٹ میں بلیک میں کھلے بالوں کے ساتھ وہ بہت حسین لگ رہی تھی


جاں چلیں۔۔۔ سیم نے اس سے پوچھا جو پہلے ہی اس بدتمیز اکڑو مراد کی وجہ سے سرخ ہورہی تھی


نہیں یہاں آئفل ٹاور تعمیر کرکے پھر چلتے ہے کیا کیا خیال ہے ۔۔۔؟؟؟ ابکی بار وہ طنز بھرے لہجے میں بولی تو سیم نے اسے دیکھتے نفی میں سر ہلایا


💔💔💔💔💔💔

وہ سب اس وقت ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے تھے جہاں فریحہ لغاری (مراد لغاری کی والدہ) اور فیصل لغاری ( مراد لغاری کے والد) حور اور مراد لغاری موجود تھے


بھائی اب اپ بھی شادی کرلیں۔۔. مجھے بھی بھابی چاہیے ۔۔۔ حور نے مراد لغاری کو دیکھتے کہا جو محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا


آپ دعا کرو جو میری چاہ ہے وہ مجھے مل جائے پھر جیسا آپ چاہیں ویسا ہی ہوگا ۔۔۔مراد نے سوچ کر جواب دیا تو ذریعہ بیگم نے اسے دیکھا


مراد بیٹا کب تک ان خوابوں پر یقین کرو گے میری جان ۔۔۔ ہوسکتا ہے وہ بسس خواب ہی ہوں۔۔ انہون نے کئی سال پہلے کی باتوں کو نظرانداز کرتے کہا تھا


ماما پلیززز ۔۔۔ وہ آنکھون میں التجا لیے انہیں دیکھتا کچھ بھی اور کہنے سے منع کرگیا تھا


برخودار! ہمھیں شدت سے انتظار ہے تمھاری چاہت کا۔۔۔جلدی سے ہماری بہو ڈھونڈو کیونکہ مرنے سے پہلے میں اپنے پوتوں کو اپنے ہاتھوں میں کھیلانا چاہتا ہوں۔۔۔۔ فیصل لغاری نے کہا تو وہ سر جھکائے ہی بیٹھا رہا کہتا بھی کیا وہ اسکا عکس تھی اسکے خوابون کی ملکہ مگر اسکا چہرہ وہ کبھی دیکھ ہی نہیں پایا تھا


وہ کیسے ڈھونڈتا اسے. وہ کیسے پہنچانے گا اسے ؟؟؟


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


کچھ دوائیں فارمیسی سے نہیں ملتیں ..

کسی کے قرب میں،

کسی کے لمس میں ،

کسی کا کندھا میسر ہونے میں،

کسی کی اغوش میں،

کسی کے پہلو میں سمٹ جانے سے،

کسی کی باہوں میں چھپ جانے میں

کسی کے چند میٹھے جملوں میں ،

کسی کی آنکھوں کی محبت بھری چمک میں ،

تو کسی کے دست شفقت میں،

کسی کی پوروں سے اشک چننے میں تو کبھی

کسی کے اٹھے ہوئے ہاتھوں میں مل جاتی ہیں ،،،

مگر، سب دوائیں

فاررمیسی سے نہیں ملتیں۔۔،

💔💔💔💔💔💔


ہاہاہا ویسے یار جان کیا سین ہوگا جب وہ لڑکا تجھے غصے سے سنا ریا تھا ۔۔۔. حاوز نے قہقہہ لگاتے کہا وہ لوگ پاکستان پہنچ چکے تھے ابھی وہ لوگ جاناں سے بات کررہے تھے کہ جاناں نے انہیں صبح کے حادثے کا بتایا تو وہ ہنسنے لگا


بکواس نہیں کرو اچھا میں نے اچھا خاصا دھویا تھا اسکو ۔۔۔۔ جانان نے منہ بناتے کہا بھلا کوئی اس پر ہنسے اور وہ طپ چپ کرجائے ناممکن


.اچھا جاناں میں نے سنا ہے جو لوگ اپس میں لڑتے ہیں نہ انکی شادی ہوجاتی ہے مطلب تم اور وہ ریسٹورنٹ والا دونوں کی شا۔۔۔... ولی نے ویڈیو کال کے اندر گھستے ہی الٹی سیدھی ہانکنی شروع کری کہ جاناں کی خونخوار تاثرات دیکھ اپنی زبان کو بمشکل ہی وہ جوہر دکھانے سے روک پایا


اففففف اکیس توپوں کی لعنت ہو تجھ پہ دفع ہوجا ۔۔۔۔ جاناں نے اس اینگری مین کو غصے سے سوچا


حرج ہی کیا ہے وہ بندہ بہت ڈیشنگ ہے یہ تمھارے ہی الفاظ ہیں ۔۔۔۔ابہیا نے بھی گفتگو میں حصہ لیا تو جاناں نے اثبات میں سر ہلایا


مگر اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں اس پر فدا ہوگئی ۔۔۔۔۔ اگر وہ شہزادہ گلفام ہے تو میں اپنی ریاست کی شہزادی ہوں۔۔۔۔ جاناں نے بال اک ادا سے جھٹکے


ماما سے بات خراب میری ۔۔۔ حاوز نے کہا تو ولی موبائل لیتا کمرے سے نکل گیا اور جاناں اس اینگری مین کو سوچنے لگی


اس شخص کا تھام ایسے تھی جیسے پھولوں کا شیدائی ہو اور غصہ ایسا کہ دنیا کو جلا ڈالے اسے سوچتے سوچتے ہی اسکی آنکھ لگ گئی

💔💔💔💔💔


وہ گاڑی دوڑاتے شہر سے کافی دور اچکا تھا کہ اسکا دھیان تو ان کالی أنکھوں والی میں اٹکا تھا وہ نشان کیا اسکی منزل قریب تھی کیا وہی اسکی خوبصورت حسینہ تھی جس پر وہ خود کو بھی قربان کردینا چاہتا تھا

بائیں سائیڈ جنگلوں کو دیکھتے اس نے سامنے دیکھا تو جلدی سے بریک لگائی کیونکہ اچانک کوئی اسکے گاڑی کے سامنے آگیا تھا شاید ٹکر بھی ہوگی تھی مراد فکرمند ہوا کیونکہ وہ ادمی ادھیڑ عمر کا تھا اور زمین بوس تھا


اپ ٹھیک ہیں ؟؟؟؟ انکی طرف ہاتھ بڑھاتے مراد نے انکا حال دریافت کیا


تھیک رکھنے والے نے ٹھیک رکھا ہے ۔۔۔۔ ٹھیک ہوں میں ۔۔۔وہ اڈھیڑ عمر کا شخص مسکراتے لہجے میں بولا تو مراد حیران ہوا کیونکہ اس شخص کو رگڑیں بھی لگیں تھی مگر وہ پھر بھی مسکرا رہا تھآ ١


اپکو تو رگڑیں لگی ہیں میری وجہ سے ۔۔۔. چلیں میں أپکو ہوسپیٹل لے جاتا ہوں ۔۔۔مراد کو لگا شاید انکی نظر ان رگڑون پر نہیں پڑی تو وہ مزید بولا


ارے بچے یہ رگڑیں تو لگنی تھی اسکا وصیلہ تم بنے ہو فکر مت کرو۔۔۔. وہ ادمی اپنے کپڑے جھاڑتے بول رہا تھا مراد کی نظر ابھی اس شخص کے چہرے پر نہیں پڑی تھی کیونکہ کافی اندھیرا تھا اور دوسرا وہ شخص اس سے فاصلے پر کھڑا تھا


آئیں اپکو اپکی منزل تک چھوڑ آؤ۔۔مراد نے قدرے قریب ہوکر آس شخص کی آنکھون میں دیکھ کر کہا مگر اتنی پرنور آنکھیں دیکھ نظرین جھکا گیا


لمحے بھر کو اس شخص نے مراد کی أنکھوں میں دیکھا پھر مسکرا کر أگے بڑھنے لگا


سر میں نے کچھ کہا ہے اپ سے ۔۔اسے جاتے دیکھ مراد نے کہا تو وہ شخص رک کر اسکی جانب مڑا


میاں تم تو خود ہی کسی منزل کے مسافر ہو۔۔مجھے کیا منزل تک پہنچاؤ گے ۔۔؟؟؟ وہ شخص مسکرا کر بولا تو مراد ٹھٹھک گیا کون تھا وہ شخص جس اسکی أنکھوں کی تحریر پڑھ چکا تھا


کونسا سفر کس منزل کا مسافر ہوں. میں ؟؟؟ مراد نے حیران لہجے میں پوچھا


اس نے چنا ہے تمھیں میاں جب سے جب تمھارا وجود بھی اس دنیا میں نہیں ایا تھا ۔۔تم عشق کے سفر کے مسافر ہوں۔۔۔. وہ شخص نرم لہجے میں بولا مراد تو جھٹکے پر جھٹکے کھا رہا تھا وہ شخص سب جانتا تھا کیسے کون تھا وہ


سنیے۔۔۔۔۔ مراد نے پھر سے روکا


راستہ کیسے ملے گا.. .۔۔۔۔مراد کو لگا اس شخص کے پاس اسکے ہر سوال کا جواب ہوگا


راستہ ملنے کا آغاز تو ہوگیا ہے بسس تجھے اسکو پہنچانا ہے ۔۔۔ باقی جو ہوتا ہے ہوکر ہی رہتا ہے ۔۔راستہ دیکھانا اسکا کام ہے اور وہ دیکھاتا ہے ۔۔اور بسس تجھے پہنچاننا ہے اور تو پہنچان۔۔۔۔۔ اس شخص کی آواز میں کچھ اثر تھا مراد اس اثر کے زیر اثر تھا کہ اسکا موبائل بجنے لگا اس نے ایک نظر اپنے موبائل کو دیکھا پھر اس شخص کو


لیکن وہاں تو کسی کا نام و نشان تک نا تھا وہ شخص کہاں غائب ہوا تھا مراد نے ایک نظر اس سنسنان راستے پر سرک پر ڈالی جہاں کچھ دیر پہلے وہ شخص کھڑا وہی شخص حق ہوا کی طرح اکر چلا گیا تھا


مگر اسکی مسکراہٹ میں کچھ عجیب تھا دور کھڑی قسمت اسے دیکھ کر مسکرائی تو کیا منزل کی طرف کا سفر شروع ہوچکا تھا ؟؟؟ قسمت نے کونسا راستہ چنا تھا اسکے لیے کون تھا وہ انسان جسکی باتیں اسکے کانوں میں ابھی تک گونج رہی تھی


اس راہی کو کیا کہتے ہیں

جو راحت کی ر بھلاتے ہیں

منزل کا م دیکھا کر

یقین کا ی چراتے ہیں ۔۔۔۔


💔💔💔💔💔


نم پلکیں ہیں تیری اے موج ہوا رات کے ساتھ۔


کیا تجھے بھی کوئ یاد آتا ہے برسات کے ساتھ۔


-------------------------------------------

سکندر ۔۔۔۔ وہ جو اپنے بابا کی سٹڈی ٹیبل پر پڑی فائل اٹھا کر ریڈ کرنے لگا تھا کہ کسی نسوانی آواز پر بےزاریت سے مڑا


ہمممم۔۔۔۔ سامنے مہرو تھی اسکی خالہ زاد ۔۔۔۔ جو شاید اس سے محبت کرتی تھی ایسا سکندر کو لگتا تھا اسکا دیکھنے کا انداز اسکی معنی خیز باتیں اسے غصہ دلاتی تھی اسی لیے وہ مرحا سے دور ہی رہتا تھا مگر وہ فالتو میں اس سے چپک جاتی تھی


آؤ نا چلیں باہر پاکستان گھومتے ہیں ۔۔۔. مہرو نے چہکتے ہوئے اسکا بازو پکڑنا چاہا جو سکندر پہلے ہی پیچھے کرچکا تھا اسکی اس حرکت پر مہرو نے لب بھینچتے اپنے ہاتھ پیچھے کیے


سوری مہرو میں ایک فائل سٹڈی کرلو ۔۔۔۔ سکندر نے سرد لہجے میں کہا تو مرحا نے نم نظروں سے اسے دیکھا کیا تھا اگر وہ مان جاتا پلکیں جھبکتے وہ واپس جانے کے لئے مڑی


ماہ۔۔۔۔ شام کو ڈنر پر چلیں گے ہم تم سارم اور اپنے فرینڈز کو بھی انوائٹ کرلو ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ وہ لمبی سانس بھر کر خود کو ریلیکس کرتے وہ نرمی سے گویا ہوا تو مہرو چہکتی چڑیا کی طرح اڑتی ہوئی باہر کو بھاگی


اسکے لیے تو یہ ہی بہت تھا کہ وہ مان چکا تھا چاہے زبردستی ہی سہی مگر مانا تو صحیح


💔💔💔💔💔


کبھی دیکھا ہے محبت میں درد تونے ؟؟؟

نینوں میں انسو ہوں تو ، تو رو نہیں سکتا

خوابوں میں کوئی ہو تو ، تو سو نہیں سکتا

باتوں میں کوئی ہو تو ، تو بول نہیں سکتا

دل میں چھپے درد کو تو کھول نہیں سکتا

بس پھر تو خود کو فقط رول ہی ہے سکتا

کبھی دیکھا ہے محبت میں درد تو نے؟؟؟

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


پرنسسز ۔.میری پرنسسز ۔۔.اندھیرے کمرے میں اندھیرا کیے وہ وجود بیڈ کے درمیان میں لیٹا تڑپ رہا تھا


پرنسسز.. اسے پکارنے والے کی آواز میں وہ کرب اسے تڑپا رہا تھا جو رو رہا تھا زارو قطار رو رہا تھا اور بھی وہ کچھ کہہ رہا تھا مگر وہ بیاباں تھا کالے شلوار کمیض میں وہ شہزادہ اسے پکار رہا تھا اسکی آواز میں صدیوں کی تھکن تھی جیسے وہ شخص اب خود کو ہارنے والا تھا اسے اس کی ضرورت تھی


اہہہہہہہہہہہہہہ.. ۔ کہ اسے دردناک چیخ سنائی دی وہ چیخ کسی لڑکی کی تھی بہت اونچی اور کانوں کو چیرتی آواز تھی اس نے دیکھا وہ لڑکا وہ لڑکا بھاگ رہا تھا جیسے سالوں کے پیاس کو پانی کی خبر مل گئی ہو


پھر پھر منظر بدلا وہ لڑکا زمین پر الٹا لیٹا ہوا تھا اسکی گردن اور ہاتھ کھائی میں لٹک رہے تھے اس نے غور کیا تو وہ شخص کسی کو بچا رہا تھا اسکا ارادہ ایسا تھا کہ میں تمھیں بچا کر رہو گا گرنے نہیں دونگا ا خود بھی کھائی میں گر جاؤ گا


وی شخص وہ بول نہیں رہا تھا مگر اسے دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے وہ شخص آخری سانسوں پر ہو ۔۔۔۔ جیسے اسکا حوصلہ اسکا صبر اور اسکی جان دونوں ہی ختم ہونے والی ہیں


.منظر پھر سے بدل جاتا ہے پھر وہ شخص وہی شخص نظر اتا ہے مگر وہ شخص کسی کے دعاؤں والے ہاتھ منہ پر پھیر ریا تھا اسکے چہرے پر سکون ہی سکون تھا


اہ ماما.. .۔۔۔ وہ ایک چیخ کے ساتھ آٹھ بیٹھی اسکا نازک سا وجود شدت سے کانپ رہا تھا ماتھے پر آیت پسینے کو صاف کرتے وہ لمبی سانسیں بھرتے اردگرد دیکھنے لگی اسے اس اندھیرے سے ہی خوف محسوس ہوا جلدی سے سائیڈ لیمپ جلاتے وہی تکیہ پر ڈھے سی گئی


یہ کیسا خواب تھا میرے مالک ۔۔۔۔ أنکھیں بند کرتے اس کے نازک سے لبون سے سرگوشی نکلی جھٹ سے نیلی أنکھیں اسکی انکھ کے پردے پر لہراتی تو اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تو سامنے دیوار میں نصب شیشے میں اسکی نظر پڑی پھر وہ نیلی أنکھوں والا گلفام اسے یاد آیا جب پھر اسی کا خیال تھا


کیا ہورہا تھا اسے اس انجان شخص کا لمس اسے بھول ہی نہیں رہا تھا اسکی سوچ اسکا لمس اسکی جان نہیں چھوڑ رہا تھا اور پھر وہ خواب. ۔.


ایسا خواب اسے پہلے تو کبھی نہیں ایا تھا ۔.وہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی مگر اس وقت وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔ وہ بےبس تھی اپنے ہر احساس کے معاملے میں اسکی سوچ اسے بےچین کیے ہوئے تھی ۔۔۔


اپنی زات میں بےبس ہونا کتنی عزاب دہ چیز ہے خود پر اپنی سوچون پر بےکابو ہونا کتنا بےچین کردیتا ہے ۔۔۔ کہ خود کو سمجھانے کے لئے اکثر الفاظ کی قلت پڑ جاتی ہے ۔۔۔۔


میں عادت ہو اس کی وہ

ضرورت ہے میری

میں فرمائش ہو اس کی

وہ زندگی ہے میری

اتنی آسانی سے کیسے نکالوں

اس اپنی زندگی سے

میں خواب ہو اس کا وہ

وہ حقیقت ہے میری

💔💔💔💔💔💔💔💔


سر کیا سوچا آپ نے ۔۔؟؟؟ کیا اب تک ۔.بھی ہم اسکا انتظار کریں جبکہ کرنل نے خود یہ کہا تھا کہ مافیا کوئین مرچکی ہے پھر کس چیز کا انتظار ہے ۔۔۔ کیا اب بھی اس کرسی پر کسی کا حق نہیں ؟؟؟ کیا آج بھی یہ کرسی آپکے لیے اسی کی طرح خاص ہے ؟؟؟ سرر پلیز کسی نا کسی کی ضرورت ہے ہمھیں کیا ہم حکومت یا اس سولڈ پولیس سے ڈر کر غریب لوگوں کی مدد نہیں کرینگے گے ؟؟؟ وہ انکے سامنے کھڑی سراپا سوال تھی جو جاناں کی اس کرسی پر نظریں جمائے ہوئے تھے جانے کب سے انہون نے اسے سنبھال کر رکھا تھا


دنیا کی نظر میں مافیا ایک گینگ ہے ڈینجرس گینگ ۔۔۔۔ اس شخص کا لہجہ سرد تھا اسکی أنکھوں میں جیسے خون اترا تھا


ضروری تو نہیں نا سر کہ مافیا ہمیشہ غلط ہی ہو ؟؟؟ ہم نے یا مافیا کوئین نے کیا غلط کیا اور غلط کیا ہی کب ؟؟؟ اس نے اپنے باپ کی غلطیوں کو سدھارا کیا یہ تھا انکا گناہ ؟؟؟ بتائیں نا سر اسکا گناہ کیا تھا ؟؟؟ آسکا ضبط ٹوٹا تو وہ دبی دبی آواز میں چیخی تو سامنے والا شخص مڑا بلیک پینٹ کورٹ میں اڈھیر عمر کا وہ شخص جانے کون تھا


اسکی غلطی تھی کہ اس نے آرمی کے اس کرنل پر یقین کیا۔۔۔ اسکی غلطی تھی جب اس نے اپنی بہنوں کا سوچا ۔۔وہ خودغرض نہیں تھی یہ تھی اسکی غلطی ۔۔۔۔ وہ شخص زودار آواز میں دھاڑا تو رباب کی أنکھیں حیرت سے پھیل گئی


مگر سر کرنل نے کیا کیا ؟؟؟ آرمی تو محافظ ہوتی ہے نا؟؟؟؟ اس نے ڈر کر پوچھا اسکا بھائی بھی تو کپٹن تھا اسکا دل ایک دم زوروں سے ڈھڑکا


۔۔.ضروری نہیں رباب کہ ہر آرمی والا حب الوطنی ہو ؟؟؟ کچھ محافظ کے روپ میں لٹیرے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔ اس کرنل نے ناصرف جاناں کو ڈبل کراس کیا بلکہ اسکی کمزوری اسکی فیملی کو بھی اپنا نشانہ بنایا اگر ایک بار ایک بار وہ کرنل میرے ہاتھ لگ جائے تو میں اسکی بوٹی بوٹی کرکے کتون کے آگے ڈال دو ۔۔۔. وہ شخص غصے سے مٹھیاں بھینچتے بولا


سر ایک بات پوچھو ؟؟؟؟ رباب نے آہستہ سے کہا


.ہمممم؟؟؟


جاناں اپکی کیا لگتی تھی ۔۔۔ کیا اپ نے اسکی وجہ سے شادی نا کی؟؟؟؟ رباب کا سوال اس شخص ہو سن کرگیا وہ ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگا یہ سوال تو کبھی اس نے اپنے اپ سے نا پوچھا تھا کہ وہ اسکی کیا لگتی تھی


وہ میری ۔۔۔. وہ کچھ پل خاموش رہا


وہ میری کچھ بھی نہیں لگتی تھی اسکے کام دیکھ کر ایک اپنائیت سی ہوگئی تھی ۔۔۔ اسکے علاوہ کچھ نہیں ۔۔۔۔ اس شخص نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا تو رباب کہ چونک کر اسکی مسکراہٹ کو دیکھا


اور شادی ؟؟؟ شاید وہ آج انہیں بخشنے کے موڈ میں نہیں تھی اس نے سوچ لیا تھا اسکا ماضی کریدنے کا


وہ نہیں ملی تو شادی کس سے کرتا ؟؟؟؟ اوہ کہتے ہی وہ خود پر طنزیہ ہنسا کہ اسکی قسمت کہ کبھی محبت تھی ہی نہیں ۔۔


سر۔۔۔۔


رباب مجھے لگتا ہے تمھیں جانا چاہیے کوئی تمھارا منتظر ہے ۔۔. اس شخص نے کہا تو وہ سمجھتے سر ہلاتے وہاں سے نکلی اور وہ شخص دیوار میں نصب اسکی پکچر کو دیکھ کر رہ گیا

💔💔💔💔💔💔💔


یہ عجب جدائی تھی تجھے الوداع بھی نہ کہہ سکے

تیرے پاس رہنے کا سوچا تھا تیرے شہر میں بھی نہ رہ سکے


دور ہونے کا درد کیسا ہوتا ہےکوئی ہم سے پوچھے

تنہا راتوں میں رونا کیسا ہوتا ہے کوئی ہم پوچھے

💔💔💖

ولی جو ابھی گاڑی سے نکلا تھا کہ اچانک کوئی سخت چیز اسکے سر پر آبجی بال اتنے زور سے لگی کہ وہ پورا کا پورا ہل گیا اور وہ وہی ہی گر سا گیا


ہائے بھئی آپ ٹھیک تو ہیں نا ؟؟؟ ارے سیدھے تو ہو کہیں کمر تو نہیں ٹوٹ گئی ۔۔. سیم مجھے لگتا ہے یہ بندہ مرگیا منحوس اہستہ بال نہیں کروا سکتا تھا تو ۔۔۔۔ جاناں نے سیم کو گھورا


تم اہستہ شارٹ مال لیتی ۔۔۔ سیم نے بھی اسے گھورا


چل چل زیادہ زبان نہیں چلا اسکو سیدھا کر شکل تو دیکھے ۔۔۔۔ ویسے میں سوچ رہی ہو اگر یہ مرگیا تو ہم اسے کہیں سکیڑٹ جگہ گھاڑ دینگے جیسے فلم میں ہوتا ہے۔۔۔۔ جاناں نے تالی مارتے پرجوش ہوکر کہا


بسس تم نا ہر وقت مجھے مارنے پر تلی رہتی ہو ۔۔۔۔

اس نے سر پر ہاتھ رکھتے اس سخت بال کو دیکھتے جاناں کو گھورا


کیوں بھئی تمھیں کس نے کہا تھا میری بال کے سامنے آؤ۔۔۔ جانان نے کہاں اپنی غلطی ماننی تھی ولی نے اسکا ہاتھ پکڑا


چلؤ اندر جانی کو کہتا ہوں ۔۔۔۔


چل اوئے جا کہہ دے اور چھوڑ ہاتھ مجھے کھیلنا ہے ۔۔اسکا ہاتھ جھٹکتے وہ لاپرواہی سے بولی تو ولی اسے وارن کرتی نظروں سے دیکھتے اندر کق بڑھا


وہ اندر گیا تو سب ہی شام کی کی چائے پی رہے تھے


جانی جان کہاں ہے ؟؟؟ ولی نے ایزل سے پوچھا جو میصم سے باتین کرری تھی


بچے وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہے ۔۔۔طبعیت خراب ہے اسکی ۔۔۔۔ جواب امنہ نے دیا تھا اور اسے آنکھین بھی دیکھائی تھی وہ جانتی تھی اپنی اولاد کو وہ یقیناً کوئی شرارت کرنے ہی ایا تھا ۔۔۔۔


اووہ اچھا دراصل باہر کوئی لڑکی کھیل رہی تھی مجھے لگا جان ہے چلیں خیر میرا وہم ہوگا۔۔۔ ولی نے کہتے بات ادھوری چھوڑی


نہیں نہیں یہ وہی جاناں نالائق ہی ہوگی ۔.دیکھ لیں میصم میں نے اسکی ٹانگیں توڑ دینی ہیں ۔۔ ایزل نے میصم کو کہا جو مسکرا رہا تھآ اسکے دیکھنے پر سیدھا ہوا


جاؤ ولی اس نالائق کو لے آو۔۔۔ ایزل نے ولی کو کہا جو مسکراہٹٹ دباتے جاناں کی درگت بننے کا سوچ رہا تھآ


آرے بھابی کیوں کرتی ہیں غصہ ابھی کھیل کر آجائے گی ۔۔حازم نے ایزل سے کہا جو سر جھٹک گئی


اپ سب کے پیار نے ہی اسے بگاڑ رکھا ہے ۔۔نہیں کل کو شادی کرنی ہے اسکی ۔۔۔بھلا کون کرے گا ایسی لاپرواہ لڑکی کم لڑکے سے شادی ۔۔۔۔ ایزل نے سبکو ناراضگی بھری نظروں سے دیکھا


ارے ایڑ ہماری بیٹی بہت پیاری ہے ۔۔۔ خوش قسمت ہوگا وہ شخص جسکی دلہن ہماری جان بنے گی ۔۔۔ شائزہ نے جاناں کی سائیڈ لی


خوش قسمت کا پتہ نہیں پھوٹے قسمت ضرور ہوگا ۔۔۔ولی دل ہی دل میں بڑبڑایا


💔💔💔💔💔💔💔💔


مراد۔۔۔۔ فیصل لغاری نے اسکے کمرے میں داخل ہوتے کہا جو بالکونی میں کھڑا تھا اپنے بابا کی اواز پر وہ روم میں ایا


جی ۔۔. آہستہ سے کہتے وہ اسے دیکھتے بیڈ پر بیٹھ گئے اسے اپنے پاس انے کا اشارہ کیا جو وہ آہستہ سے انکے پاس ٹک گیا


اپکی ماما چاہتی ہیں ہن پاکستان شفٹ ہوجائیں۔۔۔. وہ چاہتی ہیں کہ حور کی شادی وہی کسی پاکستانی سے ہو ۔۔۔۔ انہون نے مراد کی نیلی آنکھیں دیکھتے کہا جنہیں وہ جھکائے بیٹھا تھا


میں جانتا ہوں میرا پرنسس اپنی پرنسسز کو ڈھونڈ رہا ہے ۔۔۔۔ مگر میری جان ہوسکتا ہے نا کہ جسے تم یہاں ڈھونڈ رہے ہو وہ پاک میں ہو ۔۔۔۔ فیصل صاحب نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پیار سے کہا تو مراد نے سر ہلایا مگر نظریں اب بھی اسکی جھکی ہوئی تھی


مراد ۔۔۔۔ اسے کچھ نا بولتے دیکھ فیصل صاحب نے دوبارہ سے اسے بلایا


جی بابا ۔۔۔۔ وہ نیلی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگا اسکی آنکھیں اس وقت سرخ ہورہی تھی پہلی بار دیکھنے پر گمان ہوتا کہ اسکی أنکھوں میں خون اتر ایا ہے ۔۔۔


میری جان ۔۔۔میرا پرنس بہت بریو ہے ۔۔۔ وہ عشق کے سفر کا مسافر تھا اسکی تکلیف پر فیصل لغاری نے ہونٹ بھینچے انکے دل کٹ رہا تھا اپنے لختِ جگر کئ ایسی حالت دیکھ کر


اپ تیاری کریں پھر کل پاک چلنے کی ویسے بھی میں اپنا بزنس وہی سیٹ اپ کرلونگا یہاں سمیر دیکھ لے گا ۔۔۔انکے گلے لگتے وہ بولا تو فیصل لغاری نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھا


ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک بوڑھے_🌹

اور

ضعیف باپ کی قیمتی جوانی ہوتی ہے_❤️

💔💔💔💔💔💔💔💔

جانان گھر میں داخل ہوئی تو سب باتون میں مصروف تھے ولی وہاں نظر نہیں آرہا تھا مطلب وہ اپنے روم میں تھا ابھی جاناں دبے پاؤں اپنے کمرے میں جارہی تھی کہ ایزل کی نظر اس پر پڑی ۔۔۔


اوو میری نالائق اولاد ۔۔۔۔ ایزل کی اواز پر سب نے جانان کو دیکھا


اففف۔۔۔۔۔ ایزل بہن ۔۔۔۔ جاناں نے خود کے پکڑے جانے پر اونچی اواز میں کہا


جان کتنی بار کہا ہے میں ماں ہوں تمھاری مجھے ماما بلایا کرو لیکن میری نالائق اولاد نے میری بات مانی ہی کب ہے ۔۔۔ایزل نے اسے گھورا جو دانت دیکھا رہی تھی


اوکے میں سمجھ گئی اب میں جاؤ اپنے روم میں ایزل بہن۔۔.۔۔۔ جاناں کی بات پوری ہوئی کہ ایزل کا جوتا اڑتا ہوا ایا جو جاناں نے کیچ کرلیا ۔۔۔


ہوووو ایزل بہن اپ آوٹ ہوگئی ۔۔۔ جاناں خوشی سے چیخی جیسے اس نے کوئی جنگ سر کرلی ہو


ادھر انا میری نالائق اولاد ۔۔۔۔ ایزل نے اسے پیار سے اپنے پاس بلایا


نہیں میں پاگل نہیں ہوں جو اپکے پاس اجاؤ تاکہ اپ اپنے ہاتھوں کی گرمی مجھ نازک سی جان پر نکالیں۔۔.جاناں نے ڈرنے کی ایکٹینگ کرتے کہا تو سب ہنسنے لگے


دیکھ لیں یہ اپ سب کی لاڈلی کے کام ۔.کتنی بگڑ گئی ہے ۔۔۔ ایزل نے سبکو دیکھا تو سب نے ی مسکراہٹ روکی


بھابی اسی کی وجہ سے ہی تو ہمارا گھر گھر لگتا ہے ۔۔یہ نظر نہ آئے تو مجھے یہ گھر ہی کاٹنے کو دوڑتا ہے ۔۔۔. حازم نے جاناں کو اپنے ساتھ لگاتے کہا


ہوں یار ایز چھوڑو معصوم سی بچی کے پیچھے ہی پڑ جاتی ہو ۔۔. امنہ نے کہا تو جاناں نے امنہ کا گال ہی چوم لیا


ہائے میری انی ائی لائو میں نے اپکو کبھی نہیں چھوڑنا میری جوان انی ۔۔۔. جاناں نے انکھ دباتے کہا


ہٹ شریر۔۔۔۔ امنہ شرما ہی گئی


ارے میری بلو رانی کو شمیا ارہی ہے کیوں میری جان نکالنی ہے جانِ جاناں۔۔۔ جانان نے اسے مزید تنگ کیا


اووو افت میرے سامنے میری سامنے میری گھر والی کے ساتھ فلرٹ نہیں کرو۔۔.امن نے جاناں کو امنہ سے پیچھے کیا


اوو اپ مجھے ڈانٹ رہین ہیں. ۔میں سبکو بتاتی ہوں کہ رات کو انی نے اپ ۔۔۔.۔. جاناں کی بات سن امن چونک گیا


ارے جان میری پرنسسز ادھر اؤ۔۔۔۔ امن نے جانان کو اپنے پاس بلایا اور اسے منانے لگے کہ پلیز کسی کو وہ بات نا بتائے


محبت کرتے ہو تو آداب وفا بھی سیکھو

فارغ وقت کی بےقراری کو محبت نہیں کہتے نالائق


💔💔💔💔💔💔💔💔

‏اس سے پوچھو عذاب رستوں کا

جس کا ساتھی سفر میں بچھڑا ہے

💔💔💔💔💔💔💔💔


رات کا پہر تھا اسمان پر چاند پورے اب و تاب سے چمک رہا تھا ہر طرف چاندنی پھیلی تھی کہ اسی ثنا میں ایک وجود تیزی سے بھاگتے جنگل کی طرف بڑھ رہا تھا


وہ کوئی لڑکی تھی سفید شلوار کمیض میں وہ چاندنی کا ہی حصہ معلوم ہورہی تھی مگر اسکے کپڑوں پر موجود خون کے دھبے اسے چاند سے الگ بنا رہے تھے ۔۔۔


اسکے نازک روئی جیسے پاؤں بھاگنے کی وجہ پر زمین پر موجود کانٹے اور کنکر چبنے سے زخمی تھے اور ان سے خون رس رہا تھا


بھاگنے سے اسکے سیاہ بال کبھی ادھر تو کبھی ادھر جھول رہے تھے جس سے اسکی گردن کا نشان کبھی چھپ جاتا تو کبھی نظر اتا


پرنسسز ۔۔۔. وہ چیختے اسے بچانے بھاگا تھا جانے کیوں اسکی پرنسسز ڈری ہوئی تھی کہ اس پکار پر اس لڑکی نے أیک اس سے پیچھے مڑ کر دیکھا


تو وہ ہل کر رہ گیا روئی روئی سی کالی سرخ آنکھوں کے پپوٹے رونے کے باعث سوجے ہوئے تھے گلابی نازک سے لب اسے دیکھ کر ہلے ایک کرب زدہ مسکان نے اسکے ہونٹوں پر بسیرا کیا


تم نے انہیں نہیں بچایا مراد ۔۔۔۔ ایک شکوہ اسکے لبوں سے پھسلا اور وہ اس اندھیرے جنگل میں کھوتی چلی گئی


نہیں پرنسسز اس بار تمھاری جدائی سے میری موت واقع ہوگی پرنسسز پلیز واپس آجاؤ میں بچا لونگا سبکو ۔۔۔۔ وہ چخا اور اسکی انکھ کھل گئی جلدی سے اٹھتے وہ وائٹ شلوار کمیض پہنے وہ وجہیہ شخص باہر بھاگا وہ لڑکی وہ جو اس سے ریسٹورنٹ میں ملی تھی وہ اسکی ۔.ہاں وہی اسکی پرنسسز تھی اور وہ دور جارہی تھی


اسے اپنی پرنسسز کے پاس جانا تھا اسکے دور جانے سے پہلے ۔۔۔۔


یہ عجب جدائی تھی


تجھے الوداع بھی نہ کہہ سکے


تیرے پاس رہنے کا سوچا تھا


تیرے شہر میں بھی نہ رہ سکے


دور ہونے کا درد کیسا ہوتا ہے


کوئی ہم سے پوچھے


تنہا راتوں میں رونا کیسا ہوتا ہے


کوئی ہم پوچھے

💔💔💔💔💔💔💔


رات کا تقریباً دو بجے کا ٹائم تھا کہ شاہ مینشن میں ہلچل سی مچ گئی جیسے کوئی طوفان آگیا ہو ولی جاناں کے روم کا دروازہ ناک کرتے چیخ رہا تھا


جان۔۔.

جان۔۔۔۔

جاناں۔۔۔ وہ جو رات کو بارہ بجے ہی سوئی تھی کسی کی پکار پر آنکھیں ملتے واچ کی طرح دیکھا دو بج رہے تھے پھر یہ شور کیسا ؟؟؟


کیا ہوا ولی ۔۔۔۔۔ اسے گھبرایا ہوا دیکھ جاناں حیران لہجے میں پوچھنے لگی تو ولی نے ماتھے پر ایا پسنہ صاف کیا


جاں ۔۔۔ وہ مائ۔مائزہ آپی ۔۔۔۔ م۔ماما۔۔۔۔۔ وہ گھبراہٹ کے مارے کچھ بول ہی نہیں پارہا تھا جاناں اسے اپنے ساتھ لیتی نیچے آئی جہاں سب پریشان کھڑے تھے


حازم جو بھی کرو مجھے میری بیٹی صحیح سلامت چاہئے ۔۔۔۔ شائزہ حازم کو دیکھتے دبی آواز میں چیخی تو جاناں نے حیرانی سے یہ منظر دیکھا بیٹی مطلب مائزہ مگر اسے ہوا کیا


کیا ہوا ماما ۔۔۔انی کیوں رو رہی ہیں ؟؟؟ جاناں نے ناسمجھی سے ایزل کے قریب اتے پوچھا جو خود بھی پریشان تھی


بچے مائزہ کا کڈنیپ ہوگیا ہے اور خبر ملی ہے کہ وہ لوگ اسے پاکستان لے کر جارہے ہیں۔۔۔۔ امن نے جاناں سے کہا جو یہ سن کر اب پریشان ہوچکی تھی


کیا مطلب کڈنیپ ہوگیا ؟؟؟ کن لوگوں نے کیا کڈنیپ ۔۔.ہماری تو کسی سے دشمنی بھی نہیں پھر یہ ۔۔.کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ جاناں نے سوچتے ہوئے ان سبکی طرف دیکھا جو دشمن لفظ سن کر ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے تھے


ہاں صحیح کہا جان نے اور جب کڈنیپ ہوا تو اپی کے سسرال والے کہاں ؟؟تھے ۔۔۔۔ ولی بھی سوالیہ انداز میں بولا اتنے میں انہیں سیم اتا دیکھائی دیا


ماما ہیلی ریڈی ہے اور باقی سبکی میں نے ٹکٹ بکس کروا دی ہے کچھ دیر میں فلائٹ ہے ۔۔۔سیم نے اتے ہہ اطلاع دی تو ایزل اور امنہ نے شائزہ کو سبکے ساتھ انے کا کہا اور خود امن اور میصم کے ساتھ چل دی


میری جان ریلیکس رہو کچھ نہیں ہوگا ہماری بچی کو ۔۔۔۔ حازم نے شائزہ کو اپنے ساتھ لگائے حوصلہ دیا جو روئے جارہی تھی


جاناں نے ان دونوں کو اشارہ کرتے سائیڈ پر بلایا پلر کے پاس جاکر وہ تینوں گروپ میں کھڑے ہوئے


جان ہمارے دشمن ہیں۔۔۔ماما بابا نے جواب نہیں دیا نا ؟؟؟ ولی نے اہستہ سے کہا جو جاناں نے بھی سر ہلایا


کچھ تو ہے جو چھپا ہے اور ایک بار میں نے بابا کو ایزل بہن پر غصہ ہوتے بھی دیکھا تھا ۔۔جب انہوں نے پاک جانے کی ضد کری تھی ۔۔۔۔ جاناں نے یاد کرتے کہا پھر کچھ سوچ کر ٹھٹھکی سیم نے بھی پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا


کہیں جاناں انی ۔۔۔ وہی ہی تو نہیں ۔۔۔ وہ آہستہ سے بولی پھر حازم کے بلانے پر انکے ائیرپورٹ روانہ ہوئے

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

سر اپ یہاں ؟؟؟ مراد کے وہان پہنچتے ہی ہوٹل مینجر وہاں اسکے پاس ایا


مجھے اس ریسٹورنٹ کی سی سی ٹی وی دیکھنا ہے ۔۔۔. مراد نے سنجیدگی سے کہا تو مینجر سر ہلاتے اسے سسٹم والے روم میں لے گیا


سی سی ٹی وی کی ویڈیو دیکھتے وہ جاناں کو دیکھتے پوز کرنے کا بولا


سر یہ تو مسس جاناں ہیں یہی پاس میں رہتی ہیں وہ ہر دن اسی ریسٹورنٹ میں اتی ہیں ۔۔۔۔ سیکیورٹی گارڈ نے اس سے کہا تو مراد اسکی جانب مڑا


اسکا گھر.. گھر دیکھاؤ مجھے ۔۔.۔ وہ جلدی سے بسس اسکے پاس پہنچنا چاہ رہا تھا اس گارڈ نے اسے شاہ مینشن تک تو پہنچا دیا مگر یہ کیا شاہ مینشن کو تو تالا لگا تھا ۔۔.مطلب اسکی پرنسسز اسے چھوڑ کر چلی گئی


کسس سے ملنا ہے اپکو ۔۔۔۔۔ سیکورٹی گارڈ اسکے پاس اتے بولا مراد کو دیکھ وہ اسکے پاس چلا ایا تھا


ی۔۔یہاں میری پرنسسز ۔۔۔وہ کہاں گئی ۔۔۔.؟؟؟ وہ سوالیہ نظروں سے اس سیکورٹی گارڈ کو دیکھنے لگا


سر یہاں کے لوگ تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ہی پاکستان روانہ ہوئے ہیں ۔۔۔اس آدمی نے کہا تو مراد جیسے ڈھ سا گیا شاہ مینشن کے سامنے وہ اس گھر کو دیکھنے لگا اچانک اسکے دماغ میں جھماکہ سا ہوا


مجھے اندر جانا ہے ۔. گیٹ کھولو ۔۔۔۔ وہ حکمیہ انداز میں اس شخص سے بولا سیکیورٹی گارڈ نے حیرانی سے اسے دیکھا


جناب اپ پاگل ہیں یہ میرے مالک کا گھر ہے میں کیسے انکی غیر موجودگی میں أپکو اندر جانے کی اجازت دے دو۔۔۔۔۔ وہ اسے جانتا تھا بےشک مراد لغاری بزنس ٹائیکون تھا مگر وہ ایک ایک ایماندار شخص تھا


پلیز ۔۔.میرا اندر جانا بہت ضروری ہے ۔۔۔۔ مراد نے اس سے التجا کی اسکی نیلی أنکھوں میں جانے ایسا کیا تھا کہ سیکورٹی گارڈ نے اسے اندر جانے کی اجازت دے ہی دی


ان میں سے میری پرنسسز کا روم کونسا ہوگا ۔۔.وہ اندر جاتے مینشن کی لائیٹس اون کرتے بولا جہان کچھ دیر پہلے اندھیرا تھا وہی اب اجالا ہوچکا تھا


سارے کمروں کے آگے سے گزرتے وہ ایک کمرے کے سامنے رکا جسکے دروازے پر ایک شعر لکھا تھا


بگڑ گئی تو افت جیسی


ورنہ بہت شریف ہوں میں


شعر پڑھتے وہ مسکرا کر دروازہ کھولتے اندر گھسا براؤن اور بلیک کابینیشن سے بنا وہ کمرہ جس میں جگہ جگہ اسکی خوبصورت سی پکچرز لگی تھی بیڈ کے اوپر تو بہت بڑی پکچر لگی تھی جس وہ لائٹ سے میک اپ میں رو رہی تھی اسکی کالی آنکھیں سرخ تھے اور انسو اسکے گالوں پر بہہ رہے تھے اور چند قطرے اسکی پلکوں سے گرنے لگے تھے اسکی ہونٹ جنہیں وہ سرخ گلاب بنا چکی تھی بلڈ ریڈ لپسٹک لگا کر نچلے ہونٹ کا ایک کونا دانتوں تلے دبائے اسے لگا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی


پرنسسز اپ تو میری سوچ سے زیادہ خوبصورت ہیں۔۔۔ وہ اسے دیکھ کر اپنے دل پر ہاتھ رکھتے بولا جسکی ڈھرکنیں بھی اسکی خوبصورتی کو دیکھ مدہوش ہوکر جھومنے لگی تھی پھر اس نے ہر طرف اپنی مطلوبہ چیز ڈھونڈنے لگا ۔۔۔۔ ہر طرف دیکھنے کے بعد بھی اسے اہسا کچھ نا ملا جس سے معلوم ہوتا کہ وہ پاکستان کے کونسے شہر میں ہیں


ڈائری ۔۔. اسکی نظر سٹڈی ٹیبل پر پڑی وہاں ڈائری کو دیکھ وہ اسے اٹھا کر چیک کرنے لگا اور آخری پیج پر اسکی نیلی أنکھیں چمکی آخر کار اسے انکا ایڈریس مل ہی گیا تھا وہ جانے کو مڑا مگر پلٹ کر واپس ایا اسکی ایک پکچرز وال سے اتارتے وہ وہاں سے چلا گیا اسے جانا تھا اپنی پرنسسز کے پاس جو اسکا عشق تھی


بھٹکے ہوئے مسافر کا بسیرا بن گیا،،،،

میری اندھیری راتوں کا تو سویرا بن گیا،،،،


میری زندگی میں آیا ہے،،،،تو کچھ اس طرح،،،،

میری زندگی میں آیا ہے،،،،تو کچھ اس طرح،،،


جیسے قبر میں پڑی،،، لاش کو سانسوں کا سہارا مل گیا،،،💞💞 ♥️♥️♥️♥️


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


پاکستان میں انکا اپنا ایک بنگلو تھا جہاں حاوز اور ابہیا موجود تھے وہ سیدھا وہی گئے تھے مگر انہیں حیرت کا شدید جھٹکا تب لگا جب اندر صوفے پر مائزہ حاوز اور ابیہا چائے پی رہے تھے


ت۔تم ٹھیک ہو ؟؟؟ میصم نے مائزہ کو گلے سے لگاتے پوچھا تمھیں ہ اتنی سی دیر میں کتنا پریشان ہوچکا تھا اسے مائزی بھی اپنی بیٹی جیسی پیاری تھی


یہ کیا مزاق تھا مائزہ ۔.اور حاوز تم بھی اسکے ساتھ ملے ہوئے ہو.. تم دونوں جانتے ہو تمھاری مان کا کیا حال ہے ۔۔.


بڑے بابا اپکو پاک لانے کے لئے یہ سب کیا ۔..کسی کی بولنے کی ہمت نا ہوئی تو ابیہا نے ہمت کرکے کہا کیونکہ کسی نا کسی کو تو بولنا تھا جو سچ تھا


کیا ۔۔۔۔۔ میصم نے نارضگی سے انہیں دیکھا اور پھر سبکو نظرانداز کرتے اوپر کی طرف بڑھ گیا


سوری یار ۔۔۔. مائزہ نے امن سے کہا جو وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے اسکو دیکھتے میصم کے پیچھے ہولیا جبکہ ایزل اور امنہ تو پاکستان کی خوشبو اسکی ہوا میں سانس لے کر پرانی یادوں میں کھو چکی تھی


💔💔💔💔💔💔💔💔💔


وہ سب صبح ہی کی فلائٹ سے پاکستان پہنچ چکے تھے اور مراد کے کہنے پر فیصل لغاری کراچی آئے تھے کیونکہ مراد کا کہنا تھا کہ وہ کراچی میں ہی ہر چیز ارینج کرچکا ہے


مراد نے عین جاناں کے گھر کے سامنے والا مینشن لیا تھا حیرانی کہ بات تھی کہ کچھ گھنٹوں میں وہ ایسا کیسے کرسکتا تھا مگر وہ مراد لغاری تھا اسکے لیے یہ کام بہت ہی اسان تھا


ہائے میں تھک گئی بابا ۔۔۔۔ کتنا بورنگ تھا نہ ۔۔. اس سے اچھا بندہ بائیک پر اجاتا ۔۔۔ حور نے منہ بناتے کہا


.


بیٹا جی اگر بائیک پر اتے تو ہمھیں پہنچنے میں ہی تقریباً دو سال لگ جاتے۔۔۔۔ فریحہ بیگم نے ہنس کر کہا تو وہ مسکرائی


.


.چھوڑیں ۔۔اپکو پتہ ہے میری دوست بھی کل ہی پاکستان آئئ ہے وہان لندن میں بھی میں اس سے مل نہیں سکی مگر میرا پورا ارادہ ہے اس سے پاک میں ملنے کا ۔۔۔۔ حور نے اپنی فیس بک پر بنی فرینڈ کا زکر کیا تو سب نے اسے دیکھا کیونکہ وہ فرینڈز نہیں بناتی تھی


اپکی فرینڈ اپ کب سے فرینڈ بنانے لگی ہیں ؟؟؟ فیصل صاحب نے مسکرا کہ پوچھا


ہممم میں فرینڈز نہیں بناتی مگر بابا اسس میں کچھ تو یونیک ہے کہ میں نے خود ہی اسے فرینڈشیپ کی أفر کی ۔۔۔۔ حور نے اسے سوچ کر مسکراتے کہا تو مراد نے ہنس کر اسکے بال بکھیرے اور اپنے روم کی طرف بڑھا


ماما ۔۔یہ بھائی ہی تھے نا؟؟؟؟ پہلے تو اسکا مسکرانا پھر اسکا حور کے بال بکھیرنا وہ تینوں غش کھاتے کھاتے بچے تھے


ہاں میری جان یہ تمھارا بھائی ہی تھا لگتا ہے اسکی تلاش پوری ہوچکی ہے ۔۔.فیصل صاحب نے مسکراتے لہجے میں کہا اور دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا جس نے اسکے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کا موقع دیا تھا


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


لو جی ۔۔. اگر تم لوگ ڈرامہ کرہی رہے تھے تو کم از کم مجھے ہی بتا دیتے میں نے کونسا ڈانگا سوٹیاں لے کر اجانا تھا ؟؟؟ کہ نا جی یہ کام نہیں ہوسکتا ۔۔۔ جب سے جانان کو انکے پلین کی خبر ہوئی تھی وہ غصے سے تہی بیٹھی تھی مائزہ کے پوچھنے پر وہ پھٹ ہی پڑی


کیا ہوگیا ہے بی بی صبر کو ہاتھ مارو زرا ۔۔۔ مائزہ نے اسے گھورا جو منہ پھلائے بیٹھی تھی


.کس چیز کا غم لگا ہوا ہے ۔۔۔سیم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا اسے معلوم تھا کوئی نا کوئی بات تو ہے ۔۔ورنہ جاناں اور غصہ امپوسبل


یار میری ڈریسسز یہاں نہیں ہے اور اب میں کیا پہنو۔۔۔؟؟؟ جاناں نے منہ بناتے کہا


تو اس میں پریشانی والی کیا بات ہے میری ڈریسسز لے لو ۔۔مائزہ نے کھلے دل سے کہا تو جاناں نے اسے جن نظروں سے دیکھا مائزہ نے شرما کر نظریں جھکائی ۔۔۔۔


میں اور تم ڈائنوں کے کپڑے ہرگز نہیں ۔۔ جاناں نے منہ بگاڑتے کہا اور اٹھ کر سیڑھیوں پر چڑھنے لگی


.تو چلو پھر مال چلتے ہیں ۔۔ولی نے ائیڈیا دینے کے ساتھ اسے افر بھی کری تو وہ خوشی خوشی اسکے ساتھ اٹھ کر چل پڑی


💔💔💔💔💔💔💔💔💔


بھائی بڑا افس شوفس جا لیا اب مجھے شاپنگ پر لے چلؤ ۔۔۔۔ حور ریسٹ کرنے کے بعد مراد کے سر پر کھڑی تھی کہ اسے شاپنگ پر لے جائے


شونا میں ۔۔.


١


کوئی نہیں میں شونا ٹونا میں کہہ رہی ہوں چلو تو چلو ۔۔۔۔ پہلی بار اسکے چہرے کے ساتھ اسکے لہجے میں بھی نرمی آئی تھی جسکا وہ پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی


.


یار چلو نا کیا پتہ وہاں اپکی پرنسسز بھی مل جائے ۔۔۔ حور نے کہا تو مراد اسکے زکر پر ہی مسکرا اٹھا


چلو چلیں ۔.اسکے جھٹ سے ماننے پر حور نے کالر جھاڑتے خود کا کندھا تھپتپایا


💔💔💔💔💔💔💔💔💔


تیری آنکھیں

بڑی گہری بہت ہی خوبصورت ہیں

اجازت ہو تو میں کچھ دیر ان میں جھانک کر دیکھوں

کہ مجھکو چاند کی مانند

جھیلوں میں اترنا

لطف دیتا ہے،،❤


وہ اس وقت شاپنگ مال میں تھی ولی اور سیم دونوں اپنی ڈریسسز لینے گئے تھے جبکہ جاناں کی نظریں تو ایک گھڑی والی شاپ پر رکی اور وہ اسے دیکھتے ہی اسے اپنا مان چکی تھی


ایکسکیوز می مجھے یہ واچ پیک کردیں ۔۔۔۔ اس نے شاپ میں جاتے فوراً دکاندار سے کہا


سوری میم یہ آلریڈی خرید لی گئی ہے ۔۔۔ دکاندار نے معازرت کی لیکن جاناں کی نظریں تو اسی واچ پر تھی


ابھی تو یہاں موجود ہے نا کاؤنٹر پر ۔۔۔


جی مگر۔۔ دکاندار کو اسکے سوال کی سمجھ نا آئی


بل پے کردیا ہے ؟؟؟ جاناں نے سوال کیا


میم وہ سر اور چیزین پسند کررہے ہیں ایک ساتھ ہی بل پے کردینگے ۔۔۔ دکاندار نے اسکے پیچھے کھڑے شخص کی طرف اشارہ کیا


تو میں پے کردیتی ہوں نا۔۔.جاناں نے کریڈٹ کارڈ بڑھایا


سوری میم یہ پوسیبل نہیں اپ انہی سے پوچھ لیں۔۔۔۔ وہ دوکاندار ابھی بھی مسکرا رہا تھا اور جاناں کو اسکی مسکراہٹ زہر سے بھی زیادہ بری لگ رہی تھی


اپکے ٹوتھ پیسٹ میں نمک ہے ۔۔۔؟؟؟جانان نے سوالیہ انداز میں پوچھا


کی مطلب؟؟؟ دوکاندار نے حیرت سے اسے دیکھا


اپ مسلسل دانتوں کی نمائش کررہے ہیں نا اسی لیے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔ جانان نے طنزیہ انداز میں کہا تو دوکاندار کے دانت فوراً منہ میں چلے گئے پیچھے کھرے شخص نے مسکرا کر اس افت کی پشت کو دیکھا


کون ہے وہ جس نے میری چیز کو پسند کیا ؟؟؟ ابکی بار وہ تھوڑا سنجیدگی سے بولی تو دکاندار نے اسکے پیچھے اشارہ کیا


ہیے مسٹر ۔۔۔۔ اس نے اس شخص کو مخاطب کیا


یسسس؟؟؟ جاناں نے اسے دیکھا جو اپنی پوری وجاہت کے ساتھ اسکے سامنے کھڑا تھا


مجھے وہ واچ پسند ہے تم کوئی اور لے لو ۔۔.جاناں نے لٹھ مار انداز میں کہا جو سکندر نے آئبرو اٹھا کر اسکی کالی چمکتی أنکھوں کو دیکھا


اگر مجھے وہی چاہیے ہو تو ؟؟؟؟ سکندر نے اسکا پورا جائزہ لیتے کہا جو وائٹ جینز جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور اسکے ساتھ ریڈ شارٹ شرٹ پہنے وہاں موجود ہر انسان کی نظروں کا مرکز تھی


تو بھی کوئی اور پسند کرنی پڑے گی ۔۔۔وہ مغرورانہ انداز میں بولی


کیوں. ؟؟؟ سکندر نے آئبرو اٹھا کر اسے دیکھا


کیونکہ جاناں شاہ نے کہا ہے ۔۔۔۔ اس نے شاہانہ انداز میں کہا جو سکندر کے لبوں کو خوبصورت مسکراہٹ نے چھوا مگر وہی کوئی اس نام پر ٹھٹھکا اس شخص کی نظریں جاناں کے چہرے پر تھی وہی آنکھیں وہی ہونٹ وہی چہرہ بسسس اسکا لب و لہجہ الگ تھا باقی وہ ویسی ہی تو تھی


اوکے اپ لیں لو۔۔سکندر نے کہا تو بےساختہ ہی جاناں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی جسے دیکھ کر ہی سکندر ساکن ہوا تھا وہ مسکراتی ہوئی کتنی حسین لگتی تھی


تھیکنس ۔۔.جاناں نے ہنس کر کہا تو وہ ہوش میں اتے مسکرایا اور سر ہلاتے اپنی چیزیں پیک کروانے لگا کہ ساتھ کھڑی رباب کو پتھر بنا دیکھ اسکی طرف ایا


آب۔۔۔. سکندر نے اسے ہلایا جو اسکی طرف دیکھتی پھر جاناں کو ڈھونڈنے لگی جو شاپ سے باہر جارہی تھی


بھائی اس لڑکی کو جانتے ہیں اپ ؟؟؟ اس نے سوالیہ نظروں سے سکندر کو دیکھا ۔


نہیں ابھی ملاقات ہوئی بسس۔.اچھا تم چلو مرحا وہٹ کررہی ہوگی نا ہمارا ۔۔۔۔ سکندر نے اسکا دھیان مرحا کی جانب کروایا مگر اسکا دماغ تو جاناں پر آٹکا تھا اسے جلد از جلد سر کو بتانا تھا کہ جاناں زندہ ہے


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


لاکھوں ملیں گے پیار کا دعویٰ کرنے والے تجھے 💞

اے بنتِ حوّا.....!!!❤️✨

مگر انتخاب اسی کا کرنا جو تمہاری چادر کا خیال کرے....!!!🍂


مراد کی نظریں حور پر تھی جو اپنے لیے ڈریس لے رہی تھی یا یوں کہہ لو کہ سارا مال سمیٹ رہی تھی اس نے ایک نظر ایسے ہی غیر ارادی طور پر پورے مال میں گھمائی مگر اسکی نظریں ایک جگہ ٹھہر سی گئی مسکراہٹٹ نے اسکے چہرے پر بسیرا کیا مگر کچھ لمحے بعد ہی اسکی مسکراہٹ سمٹی


جاناں کو اپنے لیے جنیز شرٹ دیکھ رہی تھی کہ اسکی نظر ایک تلے کے کام والے جوڑے پر پڑی دیکھنے میں اسے وہ بہت اچھا لگا ریک سے نکال کر اپنے ساتھ لگاتے وہ شیشے میں خود کو دیکھنے لگی


اس سے بےنیاز کہ اس جوڑے کو اپنے ساتھ لگائے وہ اس کے حسن کو مزید بڑھا گئی تھی ہر شخص کی نظروں کا مرکز تھی وہ ۔۔۔ وہ اسکی جان لیوا مسکراہٹ اسکا وہ حسن ہی ایسا تھا کہ ہر ایک کو اسکا گرویدہ کردے


سبکی نظریں اس پر تھی مگر وہ تو خود میں مصروف تھی وہ اردگرد دیکھتی تو ہی تو اسے کچھ معلوم ہوتا ۔۔۔ نظرین تو کسی اور کی بھی رکی تھی مگر ہوش میں انا وہ خوب جانتا تھا اردگرد نظر ڈال کر وہ اسکے پیچھے ایسا کھڑا ہوگیا کہ جاناں بلکل چھپ سی گئی اس نے ایک کہر آلودہ نظر اردگرد ڈالی


جانان تو کچھ لمحے کے لئے ساکت ہوگئی یہ خوشبو اس نے پہلے بھی محسوس کی تھی شیشے میں نظر اٹھا کر دیکھا تو یقین کرنا مشکل ہوگیا اسے لگا جیسے اسکی آنکھیں پتھر ہوگئی ہیں اس شخص کا لمس جو وہ بھول نہیں سکتی تھی ووہ شخص پھر سے روبرو کھڑا تھا


وہ مراد لغاری تھا جسکی نیلی آنکھوں میں اگ تھی ۔۔اور جلا دینے والا غصہ ۔۔مراد نے اسکے ہاتھ سے جوڑا لیا اور ہاتھ پکڑ کر دکان سے باہر لے ایا دوسرا لمس بھی ملا تو اس انسان کا ۔جاناں کے جسم میں کرنٹ کی لہر دوڑ گئی مگر وہ حرکت نا کرسکی


اس نے غصے سے اسکا ہاتھ تھاما ہوا تھا یہ جاناں نے بھی محسوس کیا مراد اسکو وہی چھوڑتے واپس دکان میں گیا تھوڑی دیر بعد ایا اسکے ہاتھ میں بیگ تھا اس نے وہ بیگ جاناں کو دیا اور اسے دیکھے بنا وہاں سے چل دیا


مگر اسکی نظروں میں جلال تھا ۔۔۔ جاناں اسے جاتا دیکھ رہی تھی اس شخص نے اسے مڑ کر نہیں دیکھا تھا آج بھی وہی ہوا تھا وہی شخص وہی لمس مگر اج کچھ اور بھی تھا


آج حفاظت تھی اج وہ محافظ لگا تھا اسکی پکڑ میں کوئی غلط احساس نہیں تھا سخت پکڑ مگر تحفظ والی تھی اور پھر وہ شخص اسے اپنی سوچوں میں ڈال کر غائب ہو گیا...........


یوں تیرے لمس کا احساس رچا ہے مجھ میں❤️


اپنے ہی بدن سے آ جاتی ہے تیری خوشبو...

شاہ کی طرح باظرف نہیں ،

کہ ہر کسی پر عیاں کریں

کوئی سوچے بھی اسکو

ہمھیں یہ منظور نہیں۔۔۔۔۔۔

💔💔💔💔💔

کیا ہوگیا لالے کیوں اگ بگولہ ہورہا ہے۔۔۔۔ افس کے امپلوئز سے مراد کے غصہ ہونے کی خبر سن وہ جھٹ سے اسکے پاس پہنچا تھا


مجھے وہ چاہیے سمیر۔۔.کچھ بھی کرکے مجھے اسکو اپنے پاس لانا ہے ۔۔۔۔اسکی معصومیت اسے مجھ


سے دور نا کردے ۔۔۔. میرے کچھ سنگین قدم اٹھانے سے پہلے ہی اسے میرا ہونا ہوگا ۔۔۔۔۔مراد نے سنجیدگی سے کہا تو سمیر حیران ہوا وہ کس کی بات کررہا تھا


کس کی بات کررہا ہے لالے ۔۔۔۔ ؟؟؟ سمیر کی حیرانی کسی طور کم نہیں ہورہی تھی


پرنسسز۔۔.مجھے پرنسسز کق حاصل کرنا ہی ہوگا ۔۔آب اس سے جدائی ناممکن ہے سمیر ۔۔۔۔ وہ ایک کرسی سے اٹھتے اشتعال امیز لہجے میں ڈھاڑا تو سمیر اچھلا ڈر سے اسکا رنگ سفید ہونے لگا تھا


تو اس پر غصہ ہے ۔۔۔ مراد وہ تیری پرنسسز ہیں ۔۔۔۔۔. سمیر نے آہستہ اواز میں کہا مگر مراد سن کہا رہا تھا اسے تو بسس اپنی پرنسسز پر گڑھی سبکی غلیظ نظریں یاد آرہی تھی سمیر کی بات پر وہ ٹیبل پر ہاتھ رکھتے اسکی طرف جھکا


میں غصہ ہوں.۔۔. اپنی پرنسسز پر نہیں ۔۔۔ میں غصہ ان لوگوں پر ہوں کیسے۔۔.کیسے وہ میری ۔۔. مراد لغاری کی پرنسسز کو دیکھ رہے تھے ۔۔.اسکو دیکھنے والے کی آنکھیں تک نوچ لونگا میں ۔۔۔۔۔ وہ شدت پسندی سے بولا کم ڈھارا زیادہ تھا تو سمیر کا حلق خشک ہوا


مراد تم غصے میں ہو ۔.اس لیے ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔۔۔۔۔ سمیر نے منمنا کر کہا


میرے عشق کا اصول ہے سمیر ۔۔.میرے عشق کی طرف اٹھتی ہر نظر میں عزتِ احترام ہو ۔۔۔۔ کوئی بھی اسے میلی آنکھ سے دیکھے تو پھر لعنت ہے مراد لغاری پر ۔۔۔۔ کہتے ہی وہ وہاں سے نکلا اسے کچھ ٹائم اکیلے رہنا تھا ورنہ ضرور وہ کچھ غلط کر بیٹھتا کچھ بہت زیادہ غلط


نہیں ھوں قائل کسی_______ کی بھی بات کا


میرا اپنا اصول، _، اپنا مزاج، اپنا انداز

💔💔💔💔


اندھیری راتیں تھی مگر آسمان پر تارے ٹمٹما رہے تھے رات کے بارہ بجے وہ محتاط سی گھر کے پچھلے دروازے سے نکلی اور بھاگنے کے انداز میں مینشن کی دیوار پھلانگ گئی اور دیوار کے اس پار کھڑی بائیک پر بیٹھتی اسے زن سے بھگا لے گئی رات کے سناٹے میں اسکی بائک زگ زیگ زو کی طرح بھاگ رہی تھی وہ جیسے ہی مطلوبہ جگہ پہنچی بھاگنے کے انداز میں چلنے لگی کمرے میں گھستے وہ اردگرد دیکھنے لگی کہاں تھا وہ شخص


سر سر وہ زندہ ہے میں نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے زندہ سلامت ۔۔۔۔۔ رباب نے اونچی اواز میں کہا تو اس گھر کے ہر طرف اسکی آواز گونجی رولنگ چئیر پر بیٹھا شخص جھٹکے سے اٹھا


کون ۔۔۔۔ اس نے تجسس سے پوچھا جو رباب نے گہری سانس لی بھاگنے کی وجہ سے اسکا سانس پھول گیا تھا


جاناں ۔۔۔۔۔ رباب کے اس جملے نے جیسے اس آدمی کو شاک کردیا ۔۔۔ وہ تیزی سے اسکے پاس ایا


کہا دیکھا تم نے اسے اب۔۔۔ کیا وہ واقع جاناں ہی تھی ۔۔۔ اس نے بےتابی سے پوچھا تو رباب نے اثبات میں سر ہلایا اور اسے پکچر دیکھائی جو اس نے مال میں کھینچی تھی اس شخص نے غور سے اس تصویر میں موجود لڑکی کو دیکھا اسکی أنکھوں کی چمک. ۔جاناں وہ جاناں تو نہیں تھی پھر وہ کون تھی


یہ جاناں نہیں ہے اسکی آنکھیں ویران تھی ایک دم پتھر جیسی ۔۔۔ اور اسکی آنکھوں میں جو چمک ہے وہ خوشیو کی ہے اور جاناں کبھی خوش نہیں ہوئی اسکے غم کبھی اسے خوش ہونے کی نہیں دیتے تھے ۔۔۔۔۔

وہ ادمی اداسی سے کہتے اسکی طرف مڑا رباب نے حیرانی سے اسے دیکھا ایک نظر دیکھ کر ہی وہ شخص کیسے اس لڑکی کو پہچان گیا تھا


رباب تم اس کی دوست بننے کی کوشش کرو ۔۔.لافی معصوم اور چنچل سی لڑکی ہے پیار سے بات کروگی تو وہ تمھاری دوست بن جائے گی. ۔. اور اس سبکے درمیان تم اسکے بارے میں پتہ کرو کون ہے ۔۔۔یہ۔۔اور اسکی فیملی ۔۔۔۔۔۔ اس شخص نے کہا تو رباب نے اوکے کہتے باہر کی طرف قدم بڑھائے مگر اسکے قدم تھمے


سر وہ واپس آئی ہے تو اسکے دشمنوں کی بھی تو واپسی ہوگی ۔۔۔۔ کیا وہ نازک سی جان ان لوگوں سے نبٹ سکے گی ۔۔۔۔۔ رباب نے سوالیہ انداز میں ائبرو اچکا کر پوچھا تو وہ شخص کچھ سوچ کر مسکرایا


وہ نہیں مگر اسکا محافظ اسکی حفاظت کرے گا اور اسے کرنی ہی پڑے گی ۔۔۔۔۔۔


کون محافظ سر ؟؟؟ رباب نے ناسمجھی سے پوچھا تو اس شخص نے اسے جانے کا کہا اور خود بھی رولنگ چئیر پر بیٹھتے آنکھیں موند لی رباب سوچتی ہوئی وہاں سے نکلی

💖💔💔💔💔💔💔💔

ہائے رات ہوگئی اور ہم لوگ ابھی تک باہر ہیں ایزل بہن نے کتوں والی کرنی ہے ۔۔۔۔۔ جاناں نے سر پر ہاتھ مارتے کہا اور گاڑی میں بیٹھی کار ڈرائیو کرنے لگی


ہوں جانی کتوں والی ہو یا گدھوں والی ہمھیں کیا فرق پڑنا ہے ۔۔۔ ولی نے کہا جبکہ سیم تو کار میں ہی خراٹے لے رہا تھا


ہاہا ویسے کہا تع صحیح ہے ہم شاہ لوگ زرا ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں ۔۔۔ جاناں نے قہقہہ لگاتے کہا جس میں ولی نے اسکا بھرپور ساتھ دیا


جاناں سامنے دیکھتی ڈرائیو کررہی تھی کہ اچانک اسکی نظر ایک شخص پر پڑی بڑا ہی کوئی پراسرار سا شخص تھا کالی شال میں خود کو لپیٹے وہ پورا کا پورا چھپا ہوا تھا اسکی نظریں جاناں کے خوبصورت چہرے پر ٹکی تھی جاناں کو اپنی طرف دیکھتے دیکھ اس شخص کی کالی أنکھیں مسکرائی


یہ کون ہے ۔۔۔. جاناں نے بڑبڑاتے اسے دیکھا جاناں کو ایسا لگا جیسے اس شخص کی کالی آنکھیں اسے اپنے پاس بلا رہی ہے اس نے ایکدم گاڑی کو بریک لگایا


ارے ارام سے کیا ہوگیا کیوں کنوارہ مروانا چاہتی ہو۔۔۔۔ ولی کا سر ڈیش بورڈ میں لگا تو وہ بولا جاناں کار سے نکلتی اس شخص کی طرف چل دی


جاناں رکو۔۔۔۔ ولی چلایا مگر وہ ان سنی کرتے اگے بڑھی


اپ کو ہیں اور یہاں کیوں ۔۔۔۔ ؟؟؟ جانان نے ادھر ادھر دیکھتے نرم سے لہجے میں پوچھا اس شخص نے عجیب سے انداز میں اسے دیکھا


تمھیں اتنا نازک ہونا نہیں چاہیے تھا ۔۔۔۔ اس نازکی کی تمھیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔۔ وہ شخص پرسرار سا اسکے نازک ہاتھوں کو دیکھتے بولا تو جاناں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا


کیا مطلب ۔۔۔۔ اسکا لہجہ جاناں کی سمجھ میں نا ایا


تجھے یہاں نہیں انا چاہیے تھا تیرے دشمن تجھ سے چھین لینگے ۔۔۔. پھر تو بھی اس جیسی بلکل اسی جیسی بن جائے گی بے حس ۔۔۔۔ وہ شخص کھوئے کھوئے لہجے میں بولا


کیا ۔۔۔چھین لینگے۔۔۔۔۔ جاناں نے حیرانی سے پوچھا دشمن لفظ پر وہ ٹھٹھکی تھی کیا واقع میں انکے دشمن تھے اگر تھے تع تھے کون ؟؟؟ اور سامنے کیوں نہیں تھے


تیری آنکھوں کی یہ چمک ۔۔تیری حسین لبوں کی مسکراہٹ ۔۔.تجھے بےجان کردینگے ۔۔تو چلی جا یہاں سے چلی جا ۔۔۔ اس شخص نے اسے جانے کا اشارہ کیا اور خود اگے کی طرف بڑھ گیا


اور کس جیسی بن جاؤں گی میں ۔۔۔۔۔ جاناں نے وہی کھڑے ہوکر پاس شخص کی پشت دیکھتے سوال کیا تو اس شخص کے قدم رکے مگر وہ مڑا نہیں


آس جیسی جسکے جیسا تیرا یہ چہرہ ہے ۔۔۔۔ تیری یہ خوبصورت آنکھیں ۔۔۔۔ تجھے معلوم ہوجائے گا ۔۔۔ وہ شخص کہتے پھر سے چلنے لگا جاناں وہی اسکی پشت دیکھتی رہ گئی


جاناں اجاؤ۔۔۔۔ ولی نے وہی سے اواز لگائی جاناں نے واپسی کو قدم بڑھائے مگر اسکا زہن تو اس شخص کی باتوں میں الجھ چکا تھا


💕تجھ سے عشق ہو گیا اب خسارہ کیسا

دریائے عشق میں جو اتر گئے اب کنارہ کیسا


اک بار تیرے ہو گئے تو بس ہو گئے

روز #کرنا_________نیا استخارہ کیسا

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

اب کہاں تھی اپ ۔۔.کرنل صاحب نے مسکرا کر رباب سے پوچھا جو صبح ہی گھر ایی تھی انکے پوچھنے پر رباب نے گہری سانس لی


کچھ کام تھا ۔۔۔۔۔ سکندر کو دیکھتے وہ نرمی سے بولی اور کرنل کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے


کیا کام بھئی ۔۔.سکندر نے پوچھا و رباب نے تمسخر بھری نظروں سے کرنل کو دیکھا


کچھ دشمن کھڑے ہوئے ہیں بھائی انہی دشمنوں کا سر پاؤں تلے کچلنے کا ارادہ رکھتی ہوں میں ۔۔۔۔ رباب کی نظریں کرنل پر تھی جو کھانے پت جھکے تھے اسکی بات پر اسے دیکھنے لگے


کچھ نہیں یار مزاق کررہی ہوں۔۔وہ ہنس کر بولی تو وہ دونوں مسکرائے اسے اسی طرح خوش دیکھنا چاہتے تھے وہ لوگ


اچھا بھائی وہ لڑکی کتنی پیاری تھی جو اپ سے مال میں ملی تھی ۔۔۔۔ رباب نے جان بوجھ کر جاناں کا زکر چھیڑا لڑکی سن جہاں اندر اتے مرحا کے قدم رکے وہی کرنل نے کھانا چھوڑتے سکندر کو دیکھا جو اچانک اسکے زکر پر گڑبڑا گیا


ہ۔ہاں پیاری تو واقع بیت تھی اسکا نام بھی اتنا ہی پیارا تھآ ۔۔۔۔ سکندر نے مسکرا کر کہا اسکی آنکھون میں اسکا عکس لہرایا


کیا نام تھا اسکا ؟؟؟ مرحا نے اندر اتے مسکرا کر پوچھا تو سکندر نے اسے دیکھا


جاناں نام تھا اسکا اچھا مجھے محسوس ہوا جیسے میں نے اسے پہلے بھی دیکھا ہے ۔۔. سکندر نے کہا جاناں نام پر کرنل کی آنکھیں حیرت سے پھیلی انکے تاثرات رباب نے خوب انجوائے کیے


ہاں میں نے پکچر دیکھی تھی گھر میں ۔۔۔۔ رباب نے بھی سر ہلاتے کہا


میں غلط نہین تھی کرنل مگر تو نے غلط کیا. ۔۔ آب جو


میرا بدلہ لے گا تجھ سے وہ ہرگز غلط نا ہوگا ۔۔۔۔اپنون کا پیار مجھے نصیب نا ہوا مگر دیکھنا کرنل تیرے اپنے ہی تجھے چیل کووں کی طرح نوچ کھائے گے ۔۔۔۔۔ کسی کی ڈرد بھری سرگوشیاں اسکی سماعت ہوئی تو وہ بےچینی سے سینا مسلتے اٹھ کھڑے ہوئے


کیا ہوا بابا۔۔۔۔ سکندر نے انہیں اٹھتے دیکھ پوچھا


میرا ہوگیا بچوں تم لوگ انجوائے کرو ۔۔۔۔کرنل نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھے


ابھی تو بدلے ہیں

مرشد

بدلہ ابھی باقی ہے

💖💔💖💔💔💔💔💔💔💔💖💔💖💖

اوو نالائق ڈھیرھ رات تک گھر سے باہر رہنے کا کیا نموز بنا رکھا ہے تم نے ؟؟؟ آن تینوں ڈھیٹوں کو چھپکے سے نکلتے دیکھ ایزل نے ان تینوں کو گھورا جو وہ تینوں ہی دانت نکالتے کھڑے ہوئے


ایزل بہن میں نے کچھ نہیں کیا ان دونوں کمینوں کی وجہ سے لیٹ ہوئی ہے ۔۔۔۔ جاناں نے معصومیت بھرے انداز میں کہتے پاس کھڑی مائزہ کے گلے میں بازو ڈالے


تمیز ہے بات کرو جان۔۔وہ بڑے ہیں تم سے ۔۔۔۔ ایزل نے سختی سے کہا مگر وہاں تو بسس لاپرواہی ہی لاپرواہی تھی


یار بڑے ہیں تو کیا سر پر بیٹھا لو ۔۔۔۔ جاناں نے مائزہ کے کندھے پر تھوڑی ٹکائی ایزل نے جوتا اتارتے اسکی طرف پھینکا جو اس نے پھر سے کھینچ کرلیا


جانی ۔۔۔ جاناں کی بات سن سیم اور ولی تو روہانسنے ہوتے ایزل کے گلے لگے


جاناں خبردار جو تم نے میرے بیٹوں کو کچھ کہا ۔۔۔ایزل نے اسے گھورا جو بےشرموں کی طرح ہنس رہی تھی


یار اگر یہ اپکے ہیں تو میں کس کی ہوں پھر ایزل بہن۔۔۔۔۔ ؟؟؟ جاناں نے کمر پر ہاتھ ٹکاتے آنکھیں مٹکائی


ماں کو یار کہتی ہو رکو تم ۔۔۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔۔۔۔


جاناں کیا جانے وہ کیا ہوتی ہے ۔۔۔ ایزل کی لائن جاناں نے گردن اکڑا کے کری تو مائزہ کی ہنسی چھوٹی


جان سوری بولو بھائیوں کو۔۔۔۔ ایزل نے سنجیدگی سے کہا


ان کوجوں کو سوری بولے میری جوتی ۔۔۔۔ جاناں نے کہتے مائزہ کو کھینچتے اوپر کی طرف جانے لگی کہ ایزل کا دوسرا جوتا اسکی کمر سنیک گیا


ہان ظالم مار ڈالا ۔۔۔۔ جھک کر دوسرا جوتا ہاتھوں میں أٹھاتے اس نے کمر سہلائی


جوتا دو مجھے ۔۔۔۔ ایزل نے جوتا مانگا


پہلے جوتوں کے پیسے دیں ورنہ بھول جائے صبح پتیسے والے کو بیچ کر پتیسا کھاؤنگی ۔۔۔۔ جاناں نے منہ بناتے اپنا پلان بتایا تو ایزل نے غصے سے مٹھیاں بھینچی مائزہ مسکراتے وہاں سے جاچکی تھی ولی اور سیم بھی ایزل کو غصہ دیکھ کھسک لیے تھے


ماں کا جوتا بیچون گی شرم نہیں آئے گی ۔۔۔۔ ایزل نے اسے شرم دلانی چاہی مگر وہ ٹھہری ازل سے بےشرم


جب ماں نے مارا تو مجھے شرم نہیں ائی۔.پھر جوتا بیچتے کیسے آئے گی ۔۔۔۔.۔..جاناں نے انکھیں مٹکاتے پوچھا تو ایزل پیر پٹکتے وہاں سے چل دی اور کربھی کیا سکتی تھی بیچاری


وہ زینے چڑھتے روم میں جانے لگی کہ امن کو آج پھر باہر دیکھ اسکی آنکھیں چمکی دھیرے دھیرے سے قدم اٹھاتے وہ عین امن کے پیچھے ارکی


بومممممم۔۔۔۔ وہ اسکے کان کے پاس چیخی تو امن کا مانو دل ہی ہل کر رہ گیا لیکن اس آفت کو دیکھ وہ پچھتایا اسے یہاں کھڑے ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی


دیکھیں من صاحب میں اپکی معصوم اور شریف ۔۔زہین اور ایماندار بھتیجی ہوں ہے نا؟؟؟؟ جاناں نے کہتے اسکی طرف دیکھا جو بھاگنے کے پر تول رہا تھا اسکے دیکھنے پر گڑبڑایا


ہاں بہت اور میری دعا ہے اللہ ایسی بیٹی کسی کو نا دے۔۔۔۔ امن نے آہستہ سے کہا جو جاناں مسکرائی


چلیں بھئی اب پھر سیدھا سیدھا بتائیں اپ ۔۔.اپ کمرے کے باہر کیوں ہے ۔۔۔۔۔؟ ایسا کیا کرتے ہیں کہ انی اپکو روم سے باہر نکال کھڑا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ جاناں نے آنکھ دباتے کہا غور سے سنتا امن اسکی معنی خیز بات پر بوکھلا گیا ۔۔۔۔


جان۔۔۔ رکو میں بتاتا ہوں تمھیں ۔۔۔۔ امن نے اسے گھورتے کہا اور اسے پکڑنے لگا جو قہقہہ لگاتی اپنے کمرے میں بند ہوچکی تھی


#بند کر کے مِری #آنکھیں وہ #شرارت سے ھنسے_

بُوجھے جانے کا ,# میں ھر #روز تماشہ #دیکھوں


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


نہیں نہیں وہ کیسے واپس اسکتی ہے انہی ہاتھوں سے میں نے اسے مارا تھا ۔۔۔ کرنل نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے کہا وہ یقین نہیں کر پارہا تھا کہ جاناں زندہ ہے اور اگر وہ زندہ تھی تو اسکے دن اس دنیا میں کم تھے


نہیں اگر وہ واقع میں زندہ ہوئی تو میں مجھے جانا ہوگا کہیں ۔۔. ہوں اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے میرے پاس ۔۔.اگر اس نے مجھے ڈھونڈ لیا تو میرے خون کا ایک قطرہ تک جلا ڈالے گی وہ ۔۔.بوکھلاہٹ سے وہ کبھی یہاں گھومتے کبھی وہاں انکا بسس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود کو کسی اندھیری دنیا میں بند کرلیتا جہاں جاناں کی پہنچ نا پہنچ پاتی.


جب انسان کسی کے ساتھ برا کرتا ہے تو وہ خود کبھی بھی خوش نہیں رہ پاتا بےچینی اور بےسکونی اسکا مقدر بن جاتی ہے کرنل کا بھی یہی حال تھا


💔💔💔💔💔💔💔💔


سورج کی کرنیں گلاس وال سے ٹکراتی اسکے خوبصورت چہرے پر پڑی تو وہ کسمسائی اور کروٹ بدلنے لگی کہ اچانک کچھ یاد اتے جھٹکے سے کالی أنکھیں کھولی اور الماری سے کپڑے لیتے جھٹ سے واشروم میں گھسی


جلدی سے ریڈی ہوتے وہ نیچے آئی جہاں سارے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے اسے دیکھ سبکے چہرے کھلے تھے


اٹھ گئی مہرانی صاحبہ ۔۔۔۔ ولی نے طنز کیا تو جاناں نے ایزل کے گال چومے اور اسکے ساتھ آبیٹھی


نہیں جانی راستے میں ہوں۔۔۔۔ دل جلاتی مسکان ولی کو پاس کرتے وہ گویا ہوئی تو ولی نے دانت پیستے اسے گھورا


انی ۔۔. آج نا مائزہ اپی اور میں باہر مطلب پارک میں واک پر جانے لگے ہیں ۔۔۔۔ سیم کے اشارے پر وہ شائزہ اور امنہ سے مخاطب ہوئی


ں. نہیں مجھے نہیں جانا ۔.تم جاو ۔۔۔۔ مائزہ نے جلدی سے منع کیا اسکے ہسبینڈ اسے لینے آرہے تھے تو وہ پیکنگ کرتی یا اسکے ساتھ جاتی


آئے ہائے بنو رانی اپکے تو سیاں جی انے لگے ہیں اب کہاں فرصت ہونی اپکو۔۔۔۔۔ جاناں نے ایزل کو آنکھ مارتے مائزہ کو چھیڑا تو وہ جھینپ سی گئی


شرم کرو جان۔۔ماں کا نہیں تو باپ کا لحاظ کرلو ۔۔۔. ایزل نے اسے گھورا جو بےشرموں کی طرح فالتو کی باتیں کررہی تھی


یار یہ لحاظ کیا ہوتا ہے کیا کبھی اپ نے بابا کے ساتھ رومانچک ٹائم نہیں سپینڈ کیا ؟؟؟ جاناں نے کہا اور وہاں سے باہر کو دوڑ لگادی کیونکہ ایزل اپنا جوتا پھر سے اٹھا چکی تھی اسکے بھاگنے پر سب ہنسے


دیکھا ہے میصم یہ کتنی کھل گئی ہے ۔۔۔. ایزل نے خفگی سے میصم کو دیکھا جو ہنسی روکنے کے چکر میں سرخ ہورہا تھا ۔۔۔۔


بھابی بچی ہے ۔۔اپ اسے روکا نا کرے ۔۔.یہی دن ہے اسکی شرارتیں دیکھنے کے پھر زندگی کا کیا پتہ کب دغا کرجائے ۔۔.حازم نے ہنس کر کہا اسکی بات پہ سبکا چہرہ اداس ہوا


💔💔💔💔💔💔


اہ۔۔.شٹ۔۔۔۔ وہ دونوں سڑک پر ہی کرکٹ کھیلنے لگے اور انکو دیکھتے اردگرد کے بچے بھی انکے ساتھ کھیلنے آدھمکے تھے بچے کے بال کروانے پر جاناں نے شاٹ مارا جو آفریدی مینشن سے نکلتی بلیک چمکتی مرسیڈ کے شیشے پر جابجی


واٹ دا ہیل ۔۔۔۔ غصے سے کار سے نکلتے وہ اتنی شدت سے ڈھاڑا کہ جاناں کی ریڈھ کی ہڈی میں سنسنی ہوئی اب غلطی کری تھی تو بھگتنا تو تھا نا اور پھر بال بئ تو چاہیے تھے


ایکسکیوز می ۔۔۔ جاناں نے معصومیت اور میٹھی آواز میں کہا مراد غصے سے اسکی طرف مڑا کل سے ہی اسکا غصہ آسمان پر جاچکا تھا مگر اسکی پیار بھری آواز پر اس نے آئبرو اِچکا کر اسے دیکھا


یس پرنسسز۔۔.نرمی سے بولتے وہ اسکے ہاتھ میں موجود بیٹ اور پیچھے موجود لڑکوں کو دیکھنے لگا نئے سرے سے غصہ پروان چڑھا تھا


اووو مسٹر گلفام اپ یہاں۔۔۔۔۔ جاناں نے جیسے اسے اب دیکھنے کی اداکاری کری اور حیرانی کے تاثرات چہرے پر سجائے مراد اسکے مصنوعی تاثرات کو دیکھنے لگا


ہممم ۔۔مراد نے سنجیدگی سے کہا اور گاڑی میں موجود بال اٹھاتے اسکی طرف مڑا


دیکھیں پرنسسز ۔۔۔. اپ لندن میں نہیں پاکستان میں ہیں ۔۔اپکو پتہ ہے یہاں کے لوگ لڑکیوں کو یوں ان ڈریسسز میں اور اس طرح باہر سڑکوں پر کھیلتے دیکھ بہت غلط مطلب سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔ یہاں کے لوگ خود پر کم اور دوسروں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں ۔۔۔۔ مراد نے لمبی سانس بھرتے اسکے کپڑون کی طرف اشارہ کیا جو اس وقت شارٹ گھنٹوں تک اتی وائٹ پینٹ اور ریڈ شرٹ میں تھے جس سے اسکے کندھے برہنہ تھے جاناں ناسمجھی سے اسکی تقریر سن رہی تھی


میری ایک صلاح مانے تو کسی ایسی جگہ پر کھیلیں جہاں ان لوگوں کی نظر اپ پر نا پڑے ۔۔۔۔۔۔اور اس ڈریس میں کھیلیں جس میں آپکی باڈی پارٹس نظر نا آئی ۔۔۔۔ لباس عورتیں جسم کو ڈھاپنے کے لئے پہنتی ہیں. ۔۔۔. تو لباس بھی پھر لباس لگے ۔۔۔۔. مراد لغاری نے اپنے انداز میں ہی اپنی بات کہہ دی اور اس انداز میں کہی کہ جاناں کو اپنی ڈریسسز ڈریسنگ پر شرمندگی سی فیل ہوئی نظر اٹھا کر اردگرد دیکھا تو کئی لوگوں کی ہوس بھری نظریں اس پر تھی


گھر میں ایزل بہن کھیلنے نہیں دیتی پھر ہم غریب کہاں جائیں۔۔۔۔؟؟؟ جاناں نے اپنی شرمندگی کو مٹانے کے لئے بولی تو مراد نے مسکراہٹٹ دبا کر اسکے شرمندہ شرمندہ سے سرخ چہرے کو دیکھا


میرے گھر کھیل لیا کریں یہی ہے اپکے سامنے ۔۔۔میری ماما میری سسٹر بھی اپکو کمپنی دے دیا کرینگی ۔۔۔۔. مراد نے جیسے کہا تو جاناں نے کچھ دیر اسے دیکھا پھر اسکے گھر کو اور سوچنے لگی اگر ایزل بہن نے دیکھ لیا تو جوتیاں پڑے گی ۔۔۔۔


مراد تو اسکے چہرے کے بدلتے تاثرات کو دیکھتے مبہوت ہوا تھا کتنی انمول تھی وہ کتنی حسین ۔۔ اسے ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ وہ مراد لغاری کی پرنسسز تھی۔۔۔۔


اوکے ٹھیک ہے ٹھیک ہے اگر تم اتنا فورس کررہے ہو تو میں تمھاری ممی اور اپی کو کمپنی دے دونگی مگر کہیں ایسا نا ہو کہ میں تمھارے گھر جاؤ اور وہ مجھے دیکھتے ہی بول پڑے کہ بھئی نا جان نا پہچان تو میری بنی کیوں مہمان ۔۔۔۔۔.


جاناں نے ہاتھ نچا نچا کر کہا تو مراد نے قہقہہ لگایا اور ابکی بار جاناں کی نظریں اسس پر ٹکی تھی وہ شہزادہ گلفام پہلے کم حسین تھا جو ہنس کر مزہد لوگوں کو اپنا دیوانہ کرنا چاہتا تھا


دیکھیں گلفام بےشک تم بہت اچھے لگتے ہو ہنستے ہوئے مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہنستے ہی رہو زرا سیریس ہو اور میری سوالوں کا جواب دو۔۔۔۔. جاناں نے اسکی تعریف کرتے کہا تو مراد نے نچلے ہونٹ کا کونا دانتوں میں دبایا اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا


م۔میں ۔۔۔جاناں نے حیرانی سے پوچھا اسکے سر ہلانے پر کچھ جھجھک کر وہ اسکے ساتھ اندر بڑھی پیچھے سیم اسے کسی اور کے گھر جاتے دیکھ اندر بھاگا


یہ لفظوں کی #شرارت ہے

😊ذرا #سنبھل کر رہنا تم

#محبت لفظ ہے لیکن یہ اکثر ہو بھی جاتی ہے

......................................................................

#زمانه کیسےکرے #گا ہمیں #نظر انداز


گلی گلی ہمارے #دشمن گلی گلی #ہمارے یار

...................................................


سر ۔۔۔. رباب اج پھر وہاں موجود تھی مگر ابکی بار وہ اکیلی نہیں تھی اسکے ساتھ اسکے بہت سے سوال بھی تھے


رباب کی اواز پر وہ اسکی طرف مڑا ان آنکھوں میں نمی دیکھ وہ چونکی تھی


سر اتنے سال ہوگئے ہمھیں ساتھ کیا اپ مجھے اپنے بارے میں نہیں بتا سکتے ۔۔؟؟ کیا میں قابلِ اعتبار نہیں ہوں؟؟؟ رباب نے اداسی سے کہا جو وہ شخص آہستہ سے اٹھتے اسکے پاس سے گزرتے اسے ساتھ انے کا اشارہ کیا رباب ناسمجھی سے اسے دیکھتی اسکے پیچھے چل دی


اس نے ایک کمرے میں داخل ہوتے لائیٹس اون کری تو ایک دم سارا کمرہ روشنی سے نہا گیا رباب نے دیکھا وہاں ہر طرف پکچرز تھی جس میں ایک ینگ سا لڑکا جاناں کے ساتھ شرارتیں کررہا تھا کہیں اس لڑکے نے جاناں کو دیکھ منہ بنایا تھا تو کہیں وہ کان پکڑے بڑے ہی معصومیت سے اسے سوری کررہا تھا اور جاناں اسے گھورے جارہی تھی


یہ لڑکا۔۔۔.


میں ہوں۔۔۔ میرا نام ارسل ہے ۔۔۔۔ رباب کی نظروں میں سوال دیکھ ارسل نے کہا تو رباب کی نظروں میں حیرت در آئی


ا۔ارسل۔۔۔ اس نے زیرِ لب نام بڑبڑایا اور ایک قدم پیچھے ہوئی کیا یہ وہی ارسل تھا جس نے کرنل کی پاؤں کی انگلیاں کاٹی تھی حیرت سے اسکی آنکھیں بڑی ہوئی تھی ارسل نے مڑ کر اسے دیکھا


ہوں وہی ارسل جس نے کرنل کو معزور کیا ہے ۔۔.پتہ ہے میں نے اسکی جان کیوں نہیں لی ۔۔۔۔ اسے حیران پریشان دیکھ وہ طنزیہ مسکراہٹ اس پر اچھلاتا بولا تو رباب نے جھٹ سے سر نفی میں ہلایا


کیونکہ ابھی اسکو تڑپنا ہے اسکے ایک ایک انسو کا حساب دینا ہے ۔۔۔۔ اور اسکی موت ۔۔۔ ارسل کی أنکھون میں کرب اٹھا


اسکے بدلے میں اسکی جان بھی لے لوں تو بھی کم ہے ۔۔۔۔ وہ شدت سے دروازے پر ہاتھ مارتے غررایا رباب ڈر کر اچھلی اور خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی


بچے تم کیوں گھبرا رہی ہو ۔۔۔ابکی بار وہ اسی نرم لہجے میں بولا تو رباب نے نفی میں سر ہلایا تو وہ اسے اپنے ساتھ لیتے باہر کی طرف بڑھا


وہ ارسل تھا وہی ارسل جو مافیا گرل کا نمونہ تھا ۔.مگر وہ نمونہ اس قدر سگندل کیسے ہوگیا تھا اگر ارسل تھا تو ارسلان نے بھی ہونا تھا ۔۔۔ ارسل کو جیسے ہی جاناں کے مرنے کی خبر ہوئی اسے اپنی زندگی ویران لگی تھی وہ اس جاناں کے سفر میں ۔.جاناں اسکے لیے بہت خاص ہوچکی تھی ۔۔۔۔ اچانک اسکی موت انکو ہلا کر رکھ گئی تھی


اسے جیسے ہی کرنل کی غداری کا معلوم ہوا تو وہ سیدھا اسکے افس پہنچا تھا اور جب تک اسکا غصہ نا اترا وہ کرنل کی ہڈیاں اور پاؤں کی انگلیاں بھی کاٹ چکا تھا مگر اسکا دل پھر بھی بےچین تھا اسے چھوڑتے وہ اسی روم میں ایا تھا جہاں جانان اور وہ سب مسخری کرتے تھے بےشک جاناں سنجیدہ رہتی تھی مگر اسکی نظریں ہی انکے لیے کافی تھی


#درد کا کیا ہے جاناں سہہ کر مسکرا دیں گے

ڈولتی سانسوں کی کشتی کو ہم پار لگا دیں گے💓


#منتظر ہیں ایک مدت سے تیری دید کے ہم

تم آؤ تو محبت کے____ہم دیپ جلادیں گے💙


#سانسوں میں بسا لیں گے خوشبو کو تمھارے ہم

ہونٹوں سے جام عشق ہم تم کو پلادیں گے💜


#بیٹھو گے گھڑی بھر کو جو تم پاس ہمارے

ہم اپنی محبت کا تمھیں دیوانہ بنا دیں گے💚


#آنکھوں سے ہی پڑھ لو گے تم افسانہ محبت کا

ہم خود کو محبت کا______ آئینہ بنا دیں گے🧡


#لگ جاؤ گے جو سینے تو دھڑکن کو قرار آئے

دو پل کی سنگت میں ہم صدیاں بتا دیں گے💖

💔💔💔💔💔💔💔💔💔

ماما ۔۔.حور۔۔۔۔ مراد جیسے ہی ہال میں داخل ہوا تو فریحہ بیگم اور حور کو اواز دی تو وہ دونوں ہال میں ائی مراد کے ساتھ کھڑی انجانی لڑکی کو دیکھ وہ حیران ہوئی اور ہونا بنتا بھی تو تھا نا مراد لغاری لڑکیوں سے دور دور ہی رہتا تھا جبکہ حور تو حیرانی سے اسے اپنے سامنے دیکھ رہی تھی ہوش میں اتی اسکی طرف لپکی


ماما یہ پرن۔۔۔۔


ارے جانم ۔۔۔ تم یہاں کیسے .۔میرے گھر کا راستہ اگیا تمھیں ۔۔۔. ورنہ تو سو سو بہانہ کرکے تم مجھے ٹالتی ریتی ہو ۔۔۔۔ مراد کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی حور صاحبہ جاناں کے گلے لگتے پرجوشی سے بولی تھی


بسس میں نے سوچا غریب لوگون کو دیدار بخش ہی دیتی ہوں۔۔۔ جانان نے ایک ادا سے کہا مراد تو اسکے انداز پر ہی فدا ہوا تھا جبکہ حور کا حال بھی مراد سے مختلف نا تھا


ہائے میں صدقے جاؤں ۔۔۔ میری جان تمھاری یہ ادائیں مجھے پاگل کردینگی ۔۔۔۔ حور نے ایک انکھ ونک کرتے دل پر ہاتھ رکھ کر خالص لوفرانہ انداز میں کہا


ماما یہ جاناں ہے میری فیس بک فرینڈ ۔۔۔میں نے اپ سے کہا تھا نا کہ جاناں بہت خوبصورت ہے ۔۔۔۔ حور نے فریحہ بیگم سے کہا فریحہ لغاری جاناں کو دیکھتے مراد کی طرف دیکھنے لگی جسکے ہونٹوں پہ دلکش مسکراہٹ رقص کررہی تھی گالوں پر پڑتے ڈمپل اسکی ہنسی کو مزید دلکش بنا رہے تھے


ماشاءاللہ ۔۔بہت پیاری بچی ہے ۔۔۔۔ مراد کی آنکھوں میں چمک دیکھ وہ خوشی سے نہال ہوتی جاناں کو گلے سے لگا گئی اسکی پیشانی چومتے وہ پیار سے بولی وہ انکے بیٹے کی چاہ تھی مطلب وہ ان سبکی چاہ تھی


آؤ بیٹھو بیٹا. ۔۔۔۔ جاناں کو صوفے پر بیٹھاتے وہ اسکے ساتھ بیٹھی


مما آج سے پرنسسز یہی کرکٹ کھیلے گی ۔۔۔۔ مراد نے فریحہ لغاری کو مخاطب کیا تو انہون نے اثبات میں سر ہلایا حور بھی جاناں کے ساتھ باتون میں مصروف ہوچکی تھی


اوکے میں چلتا ہوں۔۔۔ مراد نے گلاسس لگاتے کہا اور قدم واپس سے گھر سے باہر کو بڑھائے


ارے سنو شہزادے گلفام۔۔۔ وہ جا ہی رہا تھا کہ اسے جاناں کی آواز سنائی دی وہ رکتے پیچھے مڑا کہ جاناں کو تیز رفتار سے بھاگتی اسکے پاس ارہی تھی اسکے مڑنے پر اچانک لڑکھڑائی اس سے پہلے وہ گرتی کہ مراد نے اسکی کلائی تھامتے اپنی طرف کھینچا


کالی آنکھوں کو بند کرتی وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائے جارہی تھی مراد نے پہلے حیران ہوکر اسے دیکھا پھر سر جھٹکتے مسکرا دیا


انکھیں کھول لیں. ۔.۔۔ پرنسسز ۔۔۔۔ اہستہ سے اسے کھڑا کرکے اسکی کمر پر سے ہاتھ ہٹاتے وہ سرگوشی میں بولا


اہ شکر ۔۔۔۔ اچھا خیر میں کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔ ہوں سوری میری وجہ سے تمھاری گاڑی کا کانچ ٹوٹ گیا ۔۔۔ جاناں نے مسکرا کر کہا اسکے چہرے پر شرمندگی کی تو کوئئ جھلک تک نہیں تھی ۔۔


سوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے میری چیزیں بھی اپکی ہی تو ہیں ۔۔۔ مراد نے اسے دیکھتے آخری بات منہ میں بڑبڑائی تو جاناں نے اوکے کہتے واپس بھاگی


پگلی پرنسسز ۔۔۔۔ اسکے ہر انداز اسے اپنے دل کے قریب لگ رہا تھا وہ فدا ہوئے جاریا تھا اسکا جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ جاناں ہی اسکی پرنسسز ہے وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کررہا تھا


بس اسے اپنا عشق حاصل کرنا تھا جلد از جلد کیونکہ وقت جب ہاتھ میں ہوتا ہے تو بادشاہ بنا دیتا ہے اور جب وہی وقت ہاتھ سے ریت کی مانند پھسل جائے تو وہی بادشاہ گدھا بن جاتا ہے

💔💔💔💔💔💔💔


کیا ابھی جو ہم نے دیکھا وہ سب سچ تھا جاناں خان زندہ ہے ۔۔۔. اگر وہ زندہ تھی تو چھپی کیوں رہی ۔۔.؟؟؟ گاڑی میں بیٹھے آدمی نے ساتھ بیٹھے ادمی سے کہا بلیک پینٹ شرٹ پہنے وہ دونوں کسی گینگ کے بندے لگ رہے تھے جاناں کو کھیلتے دہکھ کر ہونق بنے


ہوسکتا ہے نا کہ اسے واپس سے وہی سیٹ حاصل کرنی ہو۔۔۔۔ ؟؟ دوسرے آدمی جسکا نام جون تھا وہ سوچتے ہوئے بولا کیونکہ اسکی نظر میں سبکو صرف پیسوں کی حوس ہے


تو باس کو بتا دے ۔۔۔ میں ان کی ڈیٹیل نکلواتا ہوں۔۔۔۔ پہلے آدمی نے کہا اور وہی گاڑی سے اتر گیا جبکہ جون گاڑی سٹارٹ کرتے اگے بڑھا چکا تھا


باس آج ایک لڑکی کو دیکھا جسکا نام بھی جاناں ہے اور وہ مافیا کوئین جیسی ہی دکھتی ہے ہوبہو۔۔۔۔ جون نے سر اٹھاتے اپنے باس کی چوڑی پشت کو دیکھا پھر سر جھکا گیا

کیا۔۔۔۔ وہ شخص حیران ہوتے اسکی جانب مڑا اور اپنی بھوری أنکھون سے جون کو دیکھنے لگا جو نظریں جھکا کر ہاتھ باندھے کھڑا تھا اسکے ہاتھ میں ایک فائل بھی تھی اس نے نظریں جھکائے ہی وہ فائل اسکی طرف بڑھائی


وائٹ پینٹ میں بلیک بنیان پہنے اسکی چوڑی جسامت پرکشش لگ رہی تھی بھوری آنکھوں اس نے فائل پر ٹکائی مضبوط ہاتھ اگے کرتے اس نے فائل پکڑی


جیسے جیسے وہ شخص فائل پڑھتا گیا اسکی مسکراہٹ گہری سے گہری ہوتی گئی جب اس نے پیج پلٹا تو سامنے جاناں کی خوبصورت سی پکچر تھی جس میں وہ ہونٹوں کا پاؤٹ بنائے ایک انکھ بند کیے سیلفی لے رہی تھی ۔۔دیکھنے میں ہی وہ اتنی نازک لگتی کہ ہاتھ لگانے سے میلی ہوجائے گی


حیدر کی آنکھوں میں دلچسپی ابھری اور اسکے ہاتھ جاناں کی تصویر پر آئے جون کو جانے کا اشارہ کرتے وہ پکچر الگ کرکے فائل سائیڈ پر پھینک چکا تھا


میرا دشمن تو بہت ہی خوبصورت ہے ۔۔۔۔۔کہ دیکھتے ہی بندے کا دل بےایمان ہوجائے ۔۔۔. حیدر شاہ نے جاناں کی تصویر کو غور سے دیکھتے دلکشی سے کہا اور موبائل اٹھاتے کسی کو کال ملانے لگا


ہمممم روکی ۔۔۔۔ ایک لڑکی کی پکچر بھیج رہا ہوں اس پر نظر رکھنی ہے ۔۔۔۔ حیدر کے کب ہلے تو سامنے موجود شخص نے کچھ کہا تو وہ سر ہلاتے کال کٹ کرگیا


ہائے جانِ دشمن ۔۔۔۔ وہ پکچر دیکھتے بڑے ہی دلکش انداز میں بولا

💔💔💔💔💔💔💔💔


سیم خبردار جو تم نے ایز کو کچھ بتایا ۔۔۔جوتے لگاؤں گی ۔۔۔۔ امنہ نے سیم کی بات سنتے اسے گھورا جو گھر بھر میں ڈھنڈورا پیٹنے لگا تھا ولی میصم کے ساتھ افس میں پس رہا تھا


کیوں مما وہ ہر وقت سبکو شکایت لگاتی ہے ۔۔آج تو موقع ملا ہے میں اسکی شکایت لگاؤں گا جانی کو ۔۔۔۔ مگر وہ ہیں کہاں۔۔۔۔؟؟؟ سیم نے نفی میں سر ہلایا اور ضدی انداز میں کہا جو امنہ نے واس اٹھا کر اسے گھورا جیسے انکھوں سے بتا رہی ہو کہ اگر بتایا تو تمھارا سر پھوڑ دونگی ۔۔۔۔


اپ میری ماما ہیں یا انکی ؟؟؟ سیم نے توبہ کرتے کانوں کو ہاتھ لگایا امنہ نے واس واپس رکھا


سیم تم میرے بیٹے ضرور ہو ۔۔۔ مجھے بہت عزیز بھی ہو ۔۔۔ مگر جاناں اسکا ناک اور وہ میرے دل کے بہت قریب ہے اتنا قریب کہ اگر مجھے اسکے یا اپنے میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو میں جاناں کو چنو گئ ۔۔۔۔ کہتے کہتے امنہ کی آنکھیں نم ہوگئی اسے وہ منظر یاد ایا جب جاناں انہیں بچا کر خود موت کو قبول کیا تھا


مما سوری میں نہیں کرتا شکایت ۔۔۔ اپ روئیں تو نا ۔۔۔ اسکے انسو پونچھتے وہ جلدی سے بولا تو امنہ نے مسکرا کر اسے دیکھا


💔💔💔💔💔💔💔💔💔


وہ ابھی افریدی مینشن سے نکل رہی تھی کہ اچانک ایک وین اسکے قریب آتے رکی اور کچھ لوگ ماسک لگائے باہر نکلے جاناں نے حیرانی سے انہیں دیکھا اس نے وہاں سے جانا چاہا مگر وہ لوگ اسے زبردستی وین میں بیٹھانے لگے


چھوڑو مجھے ۔۔.چھوڑو ۔۔۔. اپنے ہاتھ چھڑواتی وہ زور سے چلائی کہ اچانک ایک ادمی نے اسکے منہ پر کچھ سپرے کرتے اسے وین میں دھکا مارا


چھوڑو۔۔ م۔مجھے ۔۔م۔۔میں۔۔۔ ا۔ا۔ایز۔ل۔ بہ۔ن۔۔ کہتے کہتے اسکے مزاحمت کرتے ہاتھوں کی حرکت مدھم پڑنے لگی اسکی کالی آنسو بھری آنکھیں دھندلانے لگی اور اہستہ اہستہ اسکی أنکھیں بند ہوگئی اسکا دماغ ایک دم پرسکون ہوگیا


باس کام ہوگیا ہے. ۔۔۔۔۔ ایک ادمی نے کال کرتے حیدر سے کہا تو وہ قہقہہ لگا اٹھا


لے آؤ اسے یہی گھر پر ۔۔۔ دھیان سے لانا اسکو ایک خراش تک نہ آئے سمجھے ۔۔۔۔ ہنس کر کہتے وہ آخر میں سرد لہجے میں گویا ہوا تو گارڈز نے پریشانی سے جانان کو دیکھا پھر کال کٹ ہوتے ہی وہ نہایت نرمی سے اسے لیٹاتے وین بھگا لے گئے


#پلکیں گری تو #انکھ میں #انسو بھی آگئے۔۔۔۔


#بارش کا اس کی #یاد سے #رشتہ ضرور ھے۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


مائزہ بچے اپنا خیال رکھنا اور ہمھاری چھوٹی سی جان کا بھی ۔۔۔۔ ایزل نے مائزہ کو دیکھتے پیار سے کہا أج ہی کی خبر تھی کہ مائزہ کی طرف سے گڈ نیوز ہے سبکی خوشی دیدنی تھی اور اج ہی کی فلائٹ سے وہ اور ولید اسکا شوہر لندن واپس جارہے تھے


ماما جانان کہاں ہے مجھے اس سے ملنا ہے ۔۔۔۔ مائزہ جانے سے پہلے جاناں سے ملنا چاہتی تھی مگر وہاں تو اسکا نام و نشان نہیں تھا


ہوں کہاں ہے وہ صبح سے دکھی ہی نہیں ۔۔۔ رات کے آٹھ بج رہیں ہیں ۔۔۔۔حازم نے بھی گھر میں خاموشی محسوس کرتے کہا تو سیم نے امنہ کو دیکھا جو نفی میں سر ہلا رہی تھی


دوست کے یہاں گئی تھی وہی ہوگی جاؤ سیم اپنی بہن کو لے آؤ۔۔۔۔ امنہ نے سیم کو اشارہ کیا تو وہ سر ہلاتے باہر کی طرف بڑھا


مائزہ تم جاؤ ہم جلد تم سے ملنے ائے گے فلائٹ لیٹ ہورہی ہے ۔۔۔میصم نے اسکی پیشانی چومتے کہا تو وہ سب سے ملتے باہر نکل گئی


تم نے اسے کیوں جانے دیا ۔۔۔۔ یہ پاکستان ہے.. اور یہاں تم جانتی ہو۔. اپنے کتنے دشم۔۔۔۔


جانی جان وہاں نہیں ہے انکا کہنا ہے کہ وہ تو صبح ہی انکے گھر سے نکل ائی تھی ۔۔.سیم بھاگتے ہوئے واپس ایا پھولی سانسوں کے درمیان اس نے سب پر بم پھاڑا


ایزل کی تو مانو جان ہی نکل گئی کچھ سال پہلے کے خیالات اسکی انکھون کے سامنے چلنے لگے


ایزل بہن اپکو پتہ ہے جب جب میں پاکستان جانے کی بات کرتی ہوں تو میرے ساتھ کچھ نا کچھ غلط ہوجاتا ہے ۔۔۔ میں سوچ رہی ہوں جس دن میں پاکستان گئی اس دن تو پھر قیامت بھرپا ہوجائے گی ۔۔۔۔ جاناں کی چہکتی اواز اسکے کانوں پڑی تو وہ جھٹ سے کھڑی ہوئی


میصم مجھے جانا ہوگا میری بیٹی کو ڈھونڈنا ہوگا ۔.ورنہ وہ بھی کھو جائے گی ۔۔۔ اسے جیسے ہی کوئی خیال ایا تو وہ جھٹ سے اٹھتی باہر نکلی اسکے پیچھے ہی وہ سب نکلے تھے ابھی وہ لوگ سرک پر ہی پہنچے تھے کہ


بممممممممممم۔۔۔۔ کی زور دار اواز کے ساتھ وہ سارے دور جاگرے ۔۔۔ میصم نے ایزل کؤ خود سے لگائے شاہ مینشن کو دیکھا جو اب زمین بوس ہوا تھا دھماکے کی اواز پر سب ہی اپنے گھروں سے نکلے تھے مراد نے جیسے ہی انہیں دیکھا وہ اسکے پاس ایا


سبکو کھڑا کرتے اس نے ایک نظر مینشن کی طرف دیکھا جو بکھر چکا تھا پھر اس نے سبکے چہرے دیکھے ولی اور سیم کے علاوہ سب ہی بغیر کسی تاثر کے جلتے ہوئے گھر کو دیکھ رہے تھے


اس کی متلاشی نگاہوں نے جاناں کی تلاش کی مگر وہ وہاں ہوتی تو نا وہ تو پہلے ہی کسی کی قید میں جاچکی تھی مراد کو شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا


سیم ۔۔. اس نے خوفزدہ کھڑے سیم اور ولی کو مخاطب کرا وہ دونوں ڈر کر اسے دیکھنے لگے


ریلیکس ۔۔.جاناں کہاں ہے ۔۔۔ اس نے اپنی سوچ پر لعنت بھیجتے ان سے پوچھا تو وہ ہوش میں ائے


.حازم بھئی میری بچی ۔۔ ۔۔ امنہ کہتے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی مراد کو کچھ کچھ سمجھ ایا تھا اسے ٹھنڈے دماغ سے کام لینا تھا


اسی لیے اسی لیے میں نے کہا تھا کہ اپکو میرے پاس لانا پڑے گا مگر میرے کچھ کرنے سے پہلے ہی لوگوں نے اوقات دیکھانا شروع کردی اور میری پرنسسز کو غائب کردیا مگر میں کبھی ایسا ہونے نہیں دونگا ۔۔۔وہ صرف میری ہے صرف میری ۔۔۔۔ اسٹیرنگ پر ہاتھ مارتے وہ شدت سے غررایا تیزی سے ڈرائیونگ کرتے وہ موبائل بھی چلا رہا تھا جیسے ہی واٹس اپ پر میسج موصول ہوا اس نے ویڈیو پلے کری جس میں اسکی پرنسسز کو وین میں دکھیلا جارہا تھا


یہ ۔۔تو ۔وہ لوگ ہیں ۔۔۔۔ انہیں تو میں چھوڑونگا نہیں ۔۔انکی قبریں اج ایک ساتھ ہی کھود دونگا ۔۔۔. موبائل دوسری سیٹ پر پٹختے وہ تیزی سے ڈرائیونگ کرنے لگا اسکا دل شدت سے دعا گو تھا کہ اسکی پرنسسز کو اس سے الگ نا کیا جائے ۔۔.اسکی پرنسسز اسکی ہر اتی جاتی سانس کا جواز تھی ۔۔۔


پرنسسز تھوڑی سی ہمت میں اپکے پاس ہونگا ۔۔۔ اسکا بس چلتا تو وہ اڑ کر وہاں پہنچ جاتا اور جس جس نے اسے چھوا تھا انکے ہاتھ کے ٹکڑے ٹکڑے کردے


غصہ سے اسکی دماغ کی نسیں پھٹنے کے قریب تھی بالوں پر ہاتھ پھیرتے وہ اپنا غصہ کنٹرول کردہا تھا تاکہ وہ جوش سے نہیں ہوش سے کام لے سکے


زندہ رہنے کو بھی لازم ہے سہارا کوئی

کاش مل جائے غمِ ہجر کا مارا کوئی


ہے تیری ذات سے مجھ کو وہی نسبت جیسے

چاند کے ساتھ چمکتا ہوا ستارہ کوئی


کیسے جانو گے کہ راتوں کا تڑپنا کیا ہے

تم سے بچھڑا جو نہیں جان سے پیارا کوئی


ہم محبت میں بھی قائل رہے یکتائی کے

ہم نے رکھا ہی نہیں دل میں دوبارہ کوئی


سوچتی ہوں کہ تیرے پہلو میں جو بیٹھا ہوگا

کیسا ہو گا وہ پری وش وہ تمہارا کوئی


کون بانٹے گا مرے ساتھ مری تنہائی

ڈھونڈ کے لا دو مجھے زیست سے ہارا کوئی


💖💖💔💔💔💔💔💔💔


اس نے کروٹ بدلی کہ اسکا ہاتھ کسی نازک سی چیز پر جالگا کسمسا کر آنکھیں کھولتے وہ دھندلائی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کررہی تھی پھر آنکھیں موندتے وہ کچھ دیر پڑی رہی اچانک اسکے دماغ میں جھماکہ ہوا وہ تو افریدی مینشن سے نکل رہی تھی پھر کچھ لوگوں نے اسے کڈنیپ کرلیا۔۔۔۔


جھٹکے سے آنکھیں کھولتے وہ اردگرد دیکھنے لگی کہ اسکی أنکھوں میں حیرت در ائی اسے لگا وہ کسی کھنڈر یا سٹور روم میں ہوگی مگر یہاں تو ایک عالیشان کمرہ تھا جسکو پنک اور وائٹ کامبینیشن سے تیار کیا گیا تھا


جہازی سائز بیڈ کے سامنے ہی ایک شیشہ دیوار میں نصب تھا جسکے اوپر خوبصورت سے سفید پھول لگے ہوئے تھے بیڈ کے دائیں سائیڈ پر ایک ماسٹر صوفہ پڑا تھا جسکے اگے کانچ کا ٹیبل موجود تھا اس ٹیبل پر خوبصورت سے واس میں ہر رنگ کے پھول موجود تھے


وہ حیرانی سے اردگرد دیکھ رہی تھی اسکی کالی چمکتی آنکھیں اتنی حسین لگ رہی تھی کہ دیکھنا والا حیدر شاہ دل تھام کررہ گیا تھا


یہاں دروازہ نہیں ہے ۔۔میں باہر کیسے جاؤں گی ۔۔۔۔ اوہ اگر دروازہ ہی نہیں ہے تو میں اندر کیسے آئی۔۔۔؟؟؟ یااللہ کہیں کوئی جن بھوت تو نہیں ۔۔۔۔۔ وہ خوفزدہ نظروں سے اردگرد دیکھتی واپس سے بیڈ پر چڑھ گئی


اگر کوئی ہے تو اللہ کا واسطہ ہے صبح سے بھوکی ہوں میں جادو کرکے ایک عدد پزا ایک عدد برگر اور دو شوارما لادو ۔۔۔. آب مجھے یہاں لے آئے ہو تو میری کوئی زمیداری بنتی ہے نا تم پر ۔۔۔۔ چلو شاباش میرے اگے دسترخواں بچھا کر جادو کرکے سب فٹافٹ لادو ہاں مگر سن کچھ فریش ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ ورنہ شوارمے کی طرح تمھارا رول بنا کر کھا جاؤنگی ۔۔۔۔۔ جاناں نے یہاں وہاں دیکھتے کہا اور ساتھ ہی ساتھ دھمکی بھی لگادی جیسے واقع اسے کوئی بھوت اٹھا لایا ہو


حیدر اسکی باتیں سن کر قہقے پہ قہقہہ لگا رہا تھا زندگی میں پہلی باد وہ اتنا ہنسا تھا صرف اس دشمن کی وجہ سے کال کرتے وہ کھانا اورڈر کرچکا تھا


بڑے ہی کوئی ڈھیٹ ہو ۔۔۔۔۔ جاناں نے خاموشی محسوس کرتے کہا کیونکہ اسے اس تنہائی سے خوف انے لگا تھا سبکے ساتھ ہنستی کھلکھلاتی گڑیا ایک دم اچانک پڑی تو اسے ڈر نے آگھیرا تھا


حیدر کو اسکا ڈرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا مگر اسکے فیس ایکسپریشنز اسے مزہ دے رہے تھے جاناں نے ڈر سے آنکھیں بند کی


ہائے دشمن۔۔ جاں۔۔۔ ایک دم دیوار ایک سائیڈ پر ہوگئی اور اندر داخل ہوتے حیدر نے اسکا حال دریافت کیا جاناں نے پہلے اس اجنبی پھر اسکے پیچھے موجود دیوار کو کھسکتا دیکھ حیران ہوئی


مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے مسٹر ۔۔۔۔ جاناں نے سنجیدگی سے پوچھا مگر جانے کیوں اسکی ہنسی نکل رہی تھی ظاہر سء بات تھی اسکے ساتھ ایک فلمی سین ہوگیا تھا


مجھے تمھیں دیکھنا تھا ۔۔۔ حیدر شاہ نے ارام سے اسے بتایا جاناں نے اسے غصے سے گھور کر دیکضا


میں کوئی ڈیکوریشن پیس ہوں جو مجھے دیکھنا تھا ۔۔۔۔؟؟؟؟ جاناں نے حیرانی سے أنکھیں بڑی کیے اسے گھورا اسکے ہوں کرنے پر وہ ہلکا سا اس پر جحھکا کہ جاناں نے سانس روکے اپنا چہرہ پیچھے کیا


تمھاری خوبصورتی ڈیکوریشن پیس سے کئی گناہ بڑھ کر ہے میرے لیے ۔۔۔۔۔ سرگوشی میں کہتے وہ ہلکا سا مسکرایا تو جاناں نے اسے گھورا


مسٹر لمٹ میں رہو اوکے۔۔۔ گھر والے پریشان ہونگے میرے ۔۔۔جانے دو مجھے ۔۔۔۔۔۔ جاناں نے بیڈ سے اترتے کہا اور جانے لگی مگر وہاں پھر سے ایک دیوار اچکی تھی جاناں نے مڑ کر اسے دیکھا


تمھارے گھر والے زندہ ہونگے تو تمھارا انتظار کرینگے نا۔۔۔ وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا


ہاہاہاہا۔۔ہاہاہاہا۔۔۔. اسکے یوں دیکھنے پر وہ زوردار قہقہہ لگا اٹھا جاناں کا من کیا اس خوبصورت سے لڑکے کی ہنسی نوچ کر بلی کو ڈال دی مگر ہائے رے قسمت وہاں تو کوئی بلی بھی نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔


تم ۔.جاہل انس۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔ جاناں جو اسے سو سلواتیں سنانے لگی تھی کہ حیدر نے اسکی کلائی کو موڑ کر کمر سے لگایا تو جاناں کی سسکی نکلی


مجھ سے تمیز سے بات کرو ۔۔۔ مجھے تم پسند ہو اسی لیے تو میری دشمنِ اول ہوں۔۔۔مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تم کچھ بھی کہو گی اور میں برداشت کرلونگا ۔۔۔۔۔۔ اسکی کلائی کو زور سے جھٹکا دے کر چھوڑتے وہ سرد لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا


تکلیف کے مارے جاناں کی آنکھوں میں انسو اگئے ۔۔۔۔ اس نے اپنی کلائی دیکھی جہاں سرخ نشان پڑ چکے تھے اور اب وہ درد کررہے تھے حیدر کی نظریں اسکی کلائی پت تھی


وہ حد سے زیادہ ہی نازک تھی اس کی ہلکی سی پکڑ پر وہ جگہ سرخ ہوچکی تھی مزید اگر وہ دو منٹ پکڑتا تو یقیناً اسکی کلائی سے خون رسنا شروع ہوجاتا


بیٹھو ۔۔۔ اسے روتے دیکھ وہ اسے بیڈ پر بیٹھاتے وہ سائیڈ ٹیبل سے فرسٹ ایڈ باکس اٹھاتے اس پر پٹی کرنے لگا جبکہ جاناں اب بھی رونے میں مصرف تھی


اسے تو ایزل نے بھی کبھی اس ظالمانہ طریقے سے نا پکڑا تھا ۔۔۔ انسو بھل بھل کرتے اسکی گلابی گالوں کو سرخ کررہے تھے جاناں کو اسکا منہ جھلستا ہوا محسوس ہورہا تھا


اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں

طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ


اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ

چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ


ایک تو خواب لئیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں

اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ


شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئیے گا

ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ


ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں

لوگ معمار کو چن بدیتے ہیں دیوار کے ساتھ


جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فرازؔ

سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ


💔💔💔💔💔💔💔💔💔


وہ اندھیرے میں ڈوبے اس گھر میں قدم رکھ چکا تھی ۔۔. اہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ اندر بڑھ رہی تھی اسکے پیچھے دو وجود اور بھی تھے


اتنی دیر کردی انے میں ؟؟؟ ۔۔۔۔ وہ تینوں جانی پینچانی آواز پر ٹھٹھکی پیچھے مڑ کر دیکھا مگر اندھیرے میں بھی کبھی کچھ نظر اتا ہے بھلا ؟؟؟ ایک دم لائیٹس ان ہوئی وہ تینوں شاک کھڑی رہ گئی


ارسل ۔۔۔ایزل بڑبڑائی ارسل کی آنکھیں نم ہورہی تھی وہ تینوں اسے دیکھتے اس سے جالگی تھی وہ نمونہ چھوٹے بھائی جیسا ہی تو تھا


بھائی کو چھوڑ کر جاتے تمھیں زرا میرا خیال نا ایا ۔۔۔. وہ نم نظروں سے ان تینوں کو دیکھتے شکوہ کرنے لگا تھا


سوری ۔۔۔وہ تینوں پھر سے اس سے لگی ۔۔۔۔


کیا ہوا اچانک ۔۔۔۔ ارسل نے انہیں دور کرتے سوالیہ نظروں سے دیکھا


وہ جاناں ۔.اسے کسی نے کڈنیپ کرلیا ہے ارسل ۔۔۔ میری بچی مجھے چاہیے ۔۔۔. ایزل نے کہا تو ارسل نے سر ہلایا اتنے سارے دشمن تھے جاناں کس کے پاس ہونی تھی


تمھیں اسے یہاں لے کر نہیں انا چاہیے تھا ایز۔۔. تم جانتی ہو اسے گینگز کے علاوہ ارمی سے بھی خطرہ ہے۔۔۔۔ ارسل نے نفی میں سر ہلاتے کہا تو ایزل کی انسوؤں میں روانی ائی


اچھا ریلیکس کرو میں دیکھتا ہوں ۔۔۔۔ اسے اپنے ساتھ لگاتے وہ پیار سے بولا وہ تینوں حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی اتنے سالوں میں انکا یہ نمونہ سنجیدہ ہوگیا تھا


وہ تینوں یہاں تھی اور دوسری طرف میصم حازم اور امن ہر جگہ جاناں کو تلاش رہے تھے مگر اسکا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا.......


‏بے چینیاں تمام ہی میں اس کی اوڑھ لوں

شامل مجھے کرے وہ کبھی اپنے حال میں

میصم آج دوسرا دن ہے اور میری بیٹی نہیں ملی ۔۔۔۔ ایزل نے ویران انکھوں سے اسے دیکھا تھا جو خود بہت پریشان تھا


ولی سیم تم اپنی ماما کے پاس رکو ہم اتے ہیں ۔..حازم نے ان دونوں کو گلے لگاتے کہا مگر شائزہ اٹھ کھڑی ہوئی


نہیں حازم اس بار نہیں ۔.جان میری بھی بیٹی ہے وہ ہم مل کر ڈھونڈے گے اسکو ۔۔۔شائزہ نے کہا اور وہ چھ لوگ گھر سے نکلتے گاڑی میں بیٹھے ۔۔میصم نے نیا گھر خریدا تھا شاہ مینشن سے وہ گھر چھوٹا تھا مگر جلدی میں انہیں اسی میں گزارا کرنا تھا


سر وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ چکے ہیں ۔۔۔دور کھڑے گارڈ نے حیدر کق بتایا تو اس نے بٹن دبانے کا کہا اسکے کہے پر عمل کرتے گارڈ نے جلدی سے بٹن پریس کیا اور وہاں سے بھاگ نکلا


ولی یار ہم بھی چلتے ہیں ہم کیا کرینگے یہاں۔۔۔ سیم نے کہا تو وہ دونوں ہی باہر کو بڑھے جیسے ہی وہ گھر سے نکلے کے بننا کی اواز سے ہوا میں اڑتی زمین پر گری گاڑی میں سے شعلے نکلتے اس پوری گاڑی کو اپنی لپیٹ میں لے گئے....


ماما بابا۔۔۔ولی چیختے بھاگ کر گاڑی کے پاس جانے لگا مگر سیم نے اسے قابو کیا کیونکہ گاڑی پوری طرح جل چکی تھی اسی وقت گاڑی کے اندر ایک اور بلاسٹ ہوا تھا منہ پت ہاتھ رکھتے وہ پیچھے ہوئے


بابا۔۔

ماما۔۔۔۔


جانی۔۔۔۔

سیم ہم یتم ہوگئے سیم ۔۔۔۔ ۔۔۔ ولی چیخ چیخ روتے گھٹنوں کے بل زمین پر گرا تھا سیم سرخ انسو بھری نظروں سے اس گاڑی کی حالت دیکھ رہا تھا اسکی نظریں ولی کی بات پر اسکی طرف گئی تھی


ہماری جان ۔۔۔ وہ بھی یتیم۔۔۔۔


نہیں نہیں ولی وہ یتیم نہیں ہے ہ۔ہم ہیں نہ ۔۔۔ اسکے ہم ہیں وہ جان ہے ہماری عوام ہ کبھی یتیم نہین ہوگی ولی کبھی نہیں ۔۔۔۔ سیم نے اسے گھورتے زور سے کہا تو ولی اسکے گلے سے لگا تھا دونوں ہی اپنے سامنے اپنے ماں باپ اور عزیز تر رشتوں کی موت پر ماتم کرنے لگے تھے

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

اسے یہاں آئے دو دن گزر چکے تھے ایک ہی جگہ رہ رہ کر وہ پاگل ہونے پر تھی اسکی کالی أنکھوں کی چمک مانند پڑنے لگی تھی ابھی بھی وہ بیڈ پر بیٹھی گھنٹوں میں منہ چھپائے رو رہی تھی کہ اہٹ پر سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جو فاتح نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا


کیا ہوا ڈول ۔۔۔حیدر نے اسکی کالی کانچ سی آنکھوں میں انسو دیکھ پیار سے پوچھا تو جاناں نے ناگواری سے چہرہ واپس سے گھٹنوں میں دیا


حیدر نے محسوس کیا تھا اسکی أنکھوں میں سرد مہری سی چھانے لگی تھی جو آنکھیں ہر وقت چمکتی تھی اج ان آنکھوں میں عجیب سی وحشت ناچ رہی تھی


پرنسسز ۔۔۔بیڈ پر اسکے قریب بیٹھتے حیدر نے محبت پاش لہجے میں اسے پکارا جانے کیوں اسکی آنکھیں اسے اچھی نہیں لگی تھی


پرنسسز ۔۔۔ایک اور دلکش سی اواز اسکے کانوں میں گونجنے لگی جسے سنتے اسکے آنکھوں سے انسو مزید تیز رفتار سے بہنے لگے ۔۔۔۔


اچھا جان۔۔تمیں ایک بریکنگ نیوز دوں۔۔۔۔ قہ عجیب سے لہجے میں بولا تو جاناں نے جھٹکے سے سر اٹھائے اسے دیکھا اسکے جھٹکے سے سر اٹھانے پر وہ ہنسا


ک۔کیا۔۔۔. جانان کو اپنی آواز کسی کھائی سے اپنی محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔ اسے لگا وہ ضرور کچھ ایسا بولے گا جس سے وہ اپنے دل کو سنبھال نہیں پائے گی اسے کل سے ہی بہت رونا ارہا تھا وہ گھبرا سی گئی تھی


تمھارے ماما بابا آنی اور انکے شوہر اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں ۔۔۔ اسکے کان کے پاس جھکتے وہ سرگوشی میں بولا تو جاناں کو لگا لفظوں کی آڑ میں اسکے کانوں میں سیسہ انڈھیلا گیا ہے سرخ أنکھوں سمیت اس نے اس شخص کو دیکھا جو اس کی حالت پر ہنس رہا تھا ایک درد بھری مسکراہٹ اور اسکی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں اسے وہی ڈھیر کرگئے


ہیے پرنسسز ۔۔۔. حیدر اسکے گال تھپتھپاتے اسے ہوش میں لانا چاہ رہا تھا جو بےسدھ پڑی تھی وہ ابھی اس پر جھکا ہوا ہی تھا کہ کسی نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے کھینچا اور ایک کے بعد ایک مکہ اسکے منہ پر مارنے لگا


تیری ہمت کیسے ہوئی میری پرنسسز کو ہاتھ لگانے کی ۔۔۔۔ اسے مارتے وہ ڈھاڑا تو حیدر اسکا ہاتھ ایک ہاتھ میں پکڑتے اسے روکا اور غور سے اس چہرے کو دیکھنے لگا


تو کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا ۔۔۔۔ میری کزن ہے وہ ۔۔۔.حیدر حیران تھا اتنی سیکیورٹی کے بعد اخر وہ اندر کیسے ایا ؟ وہ ابھی جانتا نہیں تھا مراد لغاری کو۔۔.اگر حیدر شاہ توپ تھا تو پھر مراد لغاری ایک مزائل تھا


میری جان ہے وہ ۔۔۔.مراد نے شدتِ سے کہتے ایک مکہ اسکی ناک پر مارا تو حیدر ناک پر ہاتھ رکھتے پیچھے ہوا جس سے خون بہہ رہا تھا


پرنسسز پرنسسز کم ان گیٹ اپ ۔۔۔۔پرنسسز۔۔۔ اسے جھنجھوڑتے وہ اسے اٹھانے لگا مگر وہ بےسدھ پڑی تھی اسے گود میں اٹھائے وہ اس محل سے نکلا تھا


پچھلے دو دن سے وہ خوار ہورہا تھا ہر طرف وہ جاناں کو ڈھونڈ چکا تھا مگر وہ کہیں نہیں تھی دو دن سے وہ پاگلوں کی طرح یہاں وہاں مارا مارا پھر رہا تھا


آج جیسے ہی اسے حیدر شاہ کا معلوم ہوا اسی گارڈ سے جس نے جاناں کو کڈنیپ کیا تب وہ وہاں سے سیدھا اس مینشن میں انٹر ہوا تھا اسکے ہی پیچھے اسکے گارڈز تھے بےچینی سے ہر کمرے میں دیکھتے وہ ایک ماسٹر روم کے آگے رکا ۔۔۔۔


ہر طرف دیکھتے وہ ایک باز کے پاس اکر رکا اسکی چونچ کو اس نے اندر کی طرف پش کیا تو اس روم کا دروازہ کھلا اور سامنے موجود دیوار سرکی


وہ جیسے ہی اندر گیا تو حیدر کو اس پر جھکے اسکا گال تھپتھپاتے پایا اسکی پرنسسز کو کوئی اور ہاتھ لگائے وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا غصے سے اسکی نیلی رگیں بازوں پر ابھرنے لگی نیلی أنکھوں میں لہو اترنے لگا تھا

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

میں نے اک خواب دیکھا تھا

وہاں تم ساتھ میرے تھے

تمھارا ہاتھ تھام کر

میں رقصاں تھی ہواؤں پر

نرم چادر تھی پھولوں کی

ہر سو تلے میرے پاؤں کے

تھے تم بھی مسکرا رہے

پرندے تھے چہچہا رہے

تھی نرگس عام وہاں پر

اور لالہ بھی بہت مہربان

شفاش جھیل بھی تھی

کنارون پر وہاں رواں

تھا موسم بھی بہت دلکش

یعنی فردوس میں تھے.ہم

مگر اب تھا وہم میرا

ہواؤں نے جو رخ بدل

تو تم نے ہاتھ چھوڑ دیا

میں جو رونے لگی

تم نے بھی رخ موڑ لیا

اچانک دور ہوئے تم

اور ہوتے ہی چلے گئے

میں تمھیں پکارتی رہی

اور تم چپ سادھ گئے

فراق ایک دم ہوا حاضر

میرے اباد گلشن میں

میں تنہا رہ گئی وہاں

جسے فردوس سمجھا تھا

یہ قسمت کی لکیروں نے

ہمھیں کہان پر کیا جدا۔۔؟؟


ماما پلیز ماما میرے پاس رکے بابا۔۔.اپ مجھے چھوڑ کر کیسے جاسکتے ہو.. ؟؟ اپکو پتہ ہے نا میں مرجاؤنگی اپکے بنا ۔۔۔۔۔ اندھیرے میں آنکھ پیچھے بھاگ رہی تھی مگر وہ رخ موڑے وہاں سے جارہے تھے


آسکے ماما لفظ پر وہ ایزل کے قدم تھمے وہ اسکی طرف مڑی تھی جو اسکی طرف انا چاہ رہی تھی مگر راستہ میں ایک نادیدہ دیوار اسے انکی جانے نہیں دے رہی تھی


میری جان میں نے اس لمحے کا بہت انتظار کیا ہے ۔۔ماما پکارو میری جان ۔۔۔۔ وہ اسے دیکھتے پیار سے بولی تو جاناں نے تر چہرے سے اسے دیکھا


ماما۔۔۔۔۔ وہ نم اواز میں بولی اور دونون ہاتھ وا کیے مگر ایزل مسکراتے نفی میں سر ہلاتی الٹے قدم اگے جارہی تھی جاناں نے آنکھیں تحیر سے بڑے کیے اسے دیکھا


مام کہاں جارہی ہیں ۔۔۔بتائیں ۔۔باببا۔۔۔ اسکے دونوں ہاتھ بےجان ہوتے پہلو میں گرے تھے اسکی سرخ آنکھیں رو رو کر سوک چکی تھی


بابا۔۔۔جانی۔۔۔ وہ چیختی ایک ہاتھ انکی طرف کیے اپنے پاس بلا رہی تھی مگر وہ سفاکی سے اگے بڑھتے جارہے تھے اور اچانک غائب ہوگئے اور جاناں سسکتی ناجانے کی بھیک مانگتی رہ گئی


زہرہ کے اجڑے گلشن کا واسطہ تجھے

اے خدا

میری ماں کو مجھ سے جدا نا کر.....


م۔۔ما۔ما۔۔۔م۔میں.۔۔مندی آنکھوں سے بہتی جھیل اسکے کرب کی داستان سنا رہی تھی آہستہ آہستہ اسے ہوش انے لگا تھا آنکھیں ہلکی ہلکی وا ہوئی تو اردگرد کا منظر اسے عجیب لگا وہ ہوسپیٹل جیسے روم میں بیڈ پر پڑی تھی


پرنسسز اپ ٹھیک ہیں ۔۔۔اسے ہوش میں اتے دیکھ مراد اسکے پاس ایا جاناں نے انجان نظروں سے اسے دیکھا پھر جیسے اسے کچھ یاد ایا ہو


م۔ماما۔۔م۔میری۔۔م۔ماما ؟؟؟ اردگرد دیکھتے اس نے مراد سے سوال کیا تو اسکے سوال پر وہ لب بھینچتے پیچھے ہوا بھلا وہ کیسے اسے درد سے سکتا تھا


او جان۔۔۔ ولی اندر اتے بولا اسکی اواز کا بھاری پن جاناں نے محسوس کیا تھا اس نے غور سے ولی کا سرخ چہرہ دیکھا جو اسکا ہاتھ تھامے اسے کھڑا کرتے اندر لے جارہا تھا


ولی کہان جارہے ہیں ؟؟؟۔۔۔ جاناں حیدر کی باتوں کو بھول ہی چکی تھی یا یاد نہیں کرنا چاہتی تھی


ماما بابا کے پاس ۔۔۔. ولی نے اہستہ سے کہا اور اس روم سے نکل کر گھر کی طرف بڑھا اسکی بات پر جاناں کی آنکھیں چمکی


اچھا اج میں ماما کو ماما ہی کہو گی پھر وہ خوش ہوجائنگی گی دیکھنا ۔۔۔جاناں نے خوشی سے سرخ ہوتے چہرے سے کہا تو سیم نے جاناں کے معصوم چہرے پر پھوٹتی خوشی دیکھ اپنے انسو چھپا گیا

۔۔۔۔

💔💔💔💔💔💔💔💔💔

\#درد کا کیا ہے جاناں سہہ کر مسکرا دیں گے

ڈولتی سانسوں کی کشتی کو ہم پار لگا دیں گے💓


\#منتظر ہیں ایک مدت سے تیری دید کے ہم

تم آؤ تو محبت کے\_\_\_\_ہم دیپ جلادیں گے💙


\#سانسوں میں بسا لیں گے خوشبو کو تمھارے ہم

ہونٹوں سے جام عشق ہم تم کو پلادیں گے💜


\#بیٹھو گے گھڑی بھر کو جو تم پاس ہمارے

ہم اپنی محبت کا تمھیں دیوانہ بنا دیں گے💚


\#آنکھوں سے ہی پڑھ لو گے تم افسانہ محبت کا

ہم خود کو محبت کا\_\_\_\_\_\_ آئینہ بنا دیں گے🧡


\#لگ جاؤ گے جو سینے تو دھڑکن کو قرار آئے

دو پل کی سنگت میں ہم صدیاں بتا دیں گے


........................


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

کسی کی آنکھ میں خود کو تلاش کرنا ھے

پھر اس کے بعد ہمیں آئینوں سے ڈرنا ھے


جو زندگی تھی میری جاں تیرے ساتھ گئ

بس اب تو عمر کے نقشے میں وقت بھرنا ھے


۔...............................۔۔۔۔۔

شڑاپ ۔۔۔۔


شڑاپ ۔۔۔۔


اندھیرے کمرے میں وہ شخص بار بار زمین پر بیلٹ مارتے اپنا غصہ اتار رہا تھا کہ اگلا وار اس نے کرسی پر بندھے شخص کی کمر پر دے مارا


ااااہہہہ۔۔۔۔ سامنے والی کی دلخراش چیخ اس ویرانے میں گونجی مگر وہاں سننے والا کون تھا کوئی نہیں


شڑاپ ۔۔۔. ایک اور بار اس کی پیٹھ پر کاری ضرب لگائی گئی تھی اس بار اس شخص کی چیخیں اور بلند ہوئی اور اسکے گلے میں خراشیں پڑ گئی تھی انسو اسکے گالوں پر متواتر بہہ رہے تھے


کیا ہوا زیادہ زور کی لگی کیا ؟؟؟ بیلٹ نیچے پھینکتے وہ معصومیت سے سر کندھے کی طرف گرائے پوچھنے لگا سامنے والی شخص نے سر اثبات میں ہلایا تو پیچھے کھڑے سمیر نے تاسف سے سر ہلایا


اوو ہوو۔۔۔لیکن تمھاری چیخیں سن کر مجھے ہرگز مزہ نہیں ارہا ۔۔.مارنے والا شہزادہ اب اسکے بال نوچتے اسکا سر اوپر کرتے اسکے منہ پر دھاڑا


میں نے کیا کیا ہے ۔۔۔۔ وہ شخص روتے ہوئے بولا


میری پرنسسز کو ہاتھ لگا کر پوچھتے ہو تم نے کیا کیا ۔۔۔.اسکی تکلیف کی وجہ ہو تم.مممم۔۔۔۔ بیلٹ اٹھاتے ایک بار پھر اس پر وار کیا گیا وہ شخص خود کو ہلا کر بچنے کی کوشش میں تھا مگر ہائے رے قسمت وہ کرسی سے بندھا بیٹھا تھا


لاتعداد اسے بیلٹ مارنے کے باوجود اسکا دل ہلکا نہیں ہوا تھا اسکا ظلم برداشت نا کرتے وہ شخص بےہوش ہوچکا تھا اسے بےہوش دیکھ وہ رکا ۔۔۔ماحول یکدم خاموش ہوا تھا


بیپ ۔۔..

بیپ۔۔۔.


خاموشی کے اس عالم کو میسج کی اواز نے توڑا سمیر کو اشارہ کرتے وہ وہاں سے نکلا

اسے جانا تھا اپنی پرنسسز کے پاس جو جانے کس حال میں ہوگی

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

کہاں آکے رکنے تھے راستے ،

کہاں موڑ تھا ، اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ ،

جو نہیں ملا اسے بھول جا


وہ ترے نصیب کی بارشیں

کسی اور چھت پہ برس گئیں

دلِ بے خبر مری بات سن

اسے بھول جا ، اسے بھول جا


میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ،

ترِی آس ، تیرے گمان میں

صبا کہہ گئی مرے کان میں ،

میرے ساتھ آ ، اسے بھول جا


کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ،

ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم

تجھے زندگی نے بھلا دیا ،

تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا


کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں ،

کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا ،

اسے بھول جا


کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں ،

غمِ زندگی کے فشار میں

وہ جو درد تھا ترے بخت میں ،

سو وہ ہو گیا ، اسے بھول جا


نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، ،

نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا

دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا

، اسے بھول جا


یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ،

اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر

نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ ، اسے بھول جا


جو بساطِ جاں ہی الٹ گی


وہ جو راستے سے پلٹ گیا


اسے روکنے سے حصول کیا ،


اسے مت بلا ، اسے بھول جا


تو یہ کس لئے شبِ ہجر کے اسے


ہر ستارے میں دیکھنا


وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم


، کوئی اور تھا ، اسے بھول جا


تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ،


ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو


وہ تھا اک دریا وصال کا ،


سو اتر گیا اسے بھول جا.


جاناں سیم کے سہارے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اندر ائی تو اسے عجیب سا لگا گھر میں چہل پہل تھی مگر وہاں خوشی کسی کے چہرے پر کوئی خوشی نہیں تھی


بھائی کہاں ہیں سب۔۔۔.؟؟؟ جاناں نے سیم کا ہاتھ تھامے سوال کیا مگر اج سیم کی پکڑ میں مضبوطی تھی جیسے اسے گرنے سے بچانا ہو


او میں لے چلتی ہوں۔۔۔۔ انٹرس پر سیم کے اشارے پر حور نے جاناں کو تھامتے لاؤنج کی طرف قدم بڑھائے


حور وہ۔۔۔۔ جاناں مزید بھی کچھ بولتی مگر لاؤنج میں پڑے تابوت پڑے تھے مائزہ انکے ساتھ سر لگائے رو رہی تھی اور انکے گرد عورتوں کو موجود دیکھ اسکے لفظ خلا میں ہی کہیں گم ہوگئے اسکے قدم ڈگمگائے اور کالی أنکھوں میں بےیقینی ابھری


دور کھڑے مراد نے شدتِ ضبط سے لب بھینچ رکھے تھے وہ کیسے دیکھ سکتا تھا اپنی پرنسسز کی تکلیف


جاناں پتہ ہے یہ کون ہے ۔۔۔حور نے اہستہ سے اسکا کندھا جھجھوڑ کر اسے ہوش دلایا


سبکو ایک نظر دیکھ جاناں نے ڈوبتے دل کے ساتھ نفی میں سر ہلایا


اپکی فیملی ۔۔۔۔حور نے نم اواز میں کہا اور اسکے گلے لگ کر رونے لگی جبکہ حور حو اس توقع میں تھی کہ جاناں روئے گی ماتم کرے گی مگر وہ تو خاموش تھی بلکل خاموش ساکت مجسمے کی طرح ہر حرکت سے پاک


جان کچھ تو بولو۔۔۔اسے ساکت دیکھ حور نے اسے جھنجھوڑتے کہا جو یک ٹک اسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی


حور ی۔۔یہ۔۔۔۔ای۔ایزل۔۔۔۔ب۔بہن۔۔۔۔۔ہیں۔۔۔ سفید کپڑے میں ڈھکی ہوئی میت کو نظروں میں لیتے وہ حور سے پوچھنے لگی اسکی بات پر وہ سب اور زور سے رونے لگے تھے


ہوں میری جان یہ تمھارے ماں بابا۔تمھارے تایا اور انیاں ہیں ۔۔۔۔ ایک عورت نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا


اوہ اچھا ۔۔۔ جاناں نے غائب دماغی سے سر ہلا دیا وہ ہر قسم کی سوچ صلاحیت رکھنے سے مفلوج نظر ارہی تھی


گڑیا خدا کے لئے رو لو ورنہ یہ انسو دل کو پتھر کردینگے ۔۔۔حور اسے ساتھ لگاتے پرنم اواز میں بولی تھی


انسان تو مٹی کا ہوتا ہے نا تو پتھر کیسے بن سکتا ہے کچھ بھی کہتی ہق تم حور ۔۔۔یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی عجیب سی کھنک تھی اسکی ہنسی میں جو حور کی زبان کو قفل لگا گئی کیا جوان دیتی وہ اسکی قسمت نے اسے گلشن سے گھسیٹ کر صحرا میں لا پٹکا تھا اور صحرا۔۔۔۔


۔۔صحرا بھی کبھی اباد ہوا ہے بھلا ؟؟؟ جاناں ہنس رہی تھی زور شور سے ہنس رہی تھی اتنا ہنس رہی تھی کہ ایک انسو خود ہی ٹوٹ کر اسکی زرد گال پر پھسل گیا


یہ دیکھو حور میری بےمعنی ہنسی سے یہ انسو خود ہی اگرا ہے اب بھی کہو گی کہ جاناں رو لو ۔۔۔یہ کہتے جاناں نے حور کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو حور کی آنکھیں زارو قطار برس پڑی


اچھا حور رو رو نہیں نا ۔.اب بتاؤ مجھے بھی رونا ہے ۔۔۔کیا کچھ نہیں تھا ان لمحوں میں ۔۔کرب ازیت پاگل پن بےبسی لاچاری شاید آج لفظوں کا ساتھ ختم ہوچکا تھا اج وہ دماغی طور پر مفلوج ہوچکی تھی


مجھے بھی رونا ہے ؟؟؟؟ جاناں نے سبکو ناسمجھی سے دیکھ کر شہادت کی انگلی اپنی جانب کرتے اس سوالیہ انداز میں پوچھا جیسے بچہ اپنی ماں سے پوچھتا ہے کہ یہ کام کرو یا نہیں ۔۔۔آج قیامت اتر ائی تھی اس گھر کی دیواریں ان پر گررہی تھی


مراد کی ہمت جواب دے گئی تھی نم انکھوں سے اپنی پرنسسز کو دیکھتے وہ وہاں سے باہر نکل گیا اسکی برداشت اتنی ہی تھی اس سے مزید وہ کچھ دیکھتا یا سنتا تو یقیناً اج اسکی موت ہوجاتی


ماما بابا چلے گئے میری جان۔۔۔ مائزہ اسکے گلے لگتے بلند اواز میں رونے لگی


نہیں یار بابا ایزل بہن یہاں ہیں دیکھو۔۔ایک تو سمجھ نہیں اتی مجھے تمھاری ۔۔خود ہی کہتے ہو بابا اور انی یہ رہے اور اب کہہ رہی وہ چلے گئے ۔۔۔جاناں میت کی طرف اشارہ کرتی سر تاسف سے ہلا کر بولی جیسے انکی عقل پر ماتم زدہ ہو


میری بات غور سے سنو جاناں۔۔انکل آنٹی مر گئے ۔۔۔۔حور نے اب سختی سے اپنے لفظوں پر زور دیتے بڑی ہی سفاکی سے کہا اور جاناں کو میت کے قریب کرکے چہرے سے پردہ ہٹانے کا کہا


جاناں رو آسکے لفظ سن کر ہی سن ہوچکی تھی کپکپاتے ہاتھوں سے سفید چادر میں چھپے چہرے پر سے ہلکی سی چادر سرکائی تو وہی ٹک گئی


کیا یہ مرگئے؟؟؟ سفید ہوتے چہرے مگر لرزتے لہجے میں اس نے بہت ہی سادگی سے پوچھا حور نے زور سے سر جنبش دی جاناں کو لگا سب کچھ جامد ہوگیا


وہ غائب دماغی سے میصم کا چہرہ دیکھنے لگی ۔۔۔ اسکے لبوں پر ہلکی سی مسکان تھی ۔۔۔


میری گڑیا تو بابا کی جان ہے ۔۔۔۔۔


ایزل کچھ نا کہا کرو میری گڑیا کو ۔۔۔۔


گڑیا رو نازک سی ہوتی ہے بلکل میری جاناں جیسی ۔۔۔۔


جان مجھے ماما بلایا کرو ۔۔۔۔


جان کیوں زلیل کرتی ہو ماں کو ۔۔۔۔


ارے بھابی یہ چڑیا نا چہکے تو گھر سونا لگتا ہے ہمھیں۔۔۔


ایزی اسے میری بیٹی بنا دو تم ۔۔۔۔


میری گڑیا رو جان ہے ہم سبکی ۔۔۔۔۔


جان دن بدن شرارتی ہوتی جارہی ہو ۔۔۔۔۔


یہ آفت ہے مگر ہے تو ہماری جان نا۔۔۔۔


اہک کے بعد ایک جملے اسکے کانوں میں گونجنے لگے اس نے میصم کے چہرے سینے پر سر رکھا


بابا جانی۔۔۔ ایک انسو ٹوٹ کر اسکی چادر میں جزب ہوا اسکی ایک پکار پر جھٹ سے جواب دینے والا اسکا باپ اج جواب نہیں دے رہا تھا ۔۔


ناراض ہیں اپنی گڑیا سے ۔۔۔اپکو پتہ ہے نا میں پاگل ہوں ۔۔کچھ بھی بول دہتی ہوں ۔۔مگر اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ اپ سب جواب بھی نہیں دینگے کتنے دن ہوگئے اپکے منہ سے میری گڑیا نہیں سنا ۔۔۔ بلائیں نا مجھے میری گڑیا رو میری جان ہے ۔. بابا بولیں نا ۔۔. ایک ہاتھ سے میصم کی گال ہلاتے وہ بولے جارہی تھی سب اسکی دیوانوں جیسی حالت دیکھ کر رو رہے تھے جس اب ایزل اور امنہ کی میت کے پاس بیٹھی تھی


ای۔ز ماما آپ تو بولو کچھ ۔۔بےشک ڈانٹ لو ۔۔ مگر کچھ بولو ماما میرا دل پھٹ جائے گا ۔.انی اپ بولو نا ماما کو ۔۔بولیں ۔۔. پکا میں اپکے جوتے بھی واپس کردونگی تنگ بھی نہیں کرونگی پرومس۔۔۔ ماما بولو نا ماما۔۔۔۔ وہ زور سے چیخی اسکی درد بھری چیخ اندر اتے مراد نے سنی اسکی آنکضیں بند ہوتی کھلی نیلے نین سرخ ہورہے تھے ماتھے کی نسیں ابھر رہی تھی کاش اسکا بسس چلتا تو وہ خدا سے بھیک میں ہی اسکے ماں باپ لا کر اسکو خوشیاں دے دیتا مگر وہ بےبس تھا


گڑیا سبکے جانے کا وقت ہوگیا ہے ۔۔۔ فیصل لغاری نے میت کے ساتھ اجڑی حالت میں لگی نازکی لڑکی کو دیکھ کر کہا سمیر اس لڑکی کی قسمت پر حیران تھا جو کسی کا پاکیزہ عشق تھی تو کسی کی خاموش محبت مگر اسکا دامن خالی تھا اسکی آنکھیں ویران تھی اور ہونٹ خاموش ۔۔۔


مراد۔۔۔۔ جاناں نے ایک امید سے مراد کی طرف دیکھا اسکے پکارنے پر مراد کا تو پورا وجود کان بن چکا تھا


اگر میں اپکی شکایت بابا سے نا کرو تو اپ میرے بابا کو نہیں لے جائیں گے ۔۔۔؟؟؟جاناں نے سہمے بچے کی طرح تابوت کو پکڑا جیسے زرا سی نرمی اور یہ بن روح کا وجود بھی دور ہوجائے گا


میری پرنسسز میں ایسا لاکھ چاہنے کے باوجود بھی نہیں کرسکتا ۔۔۔ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ کر وہ جاناں کے انسو صاف کرتے بولا


جاناں نے بےییقنی سے اسے دیکھا جیسے اس پر مان کھو دیا ہو جیسے اسے یقین ہو کہ وہ اسے انکار نہیں کرے گا


نہیں ولی نہیں۔.میں نہیں جانے دونگی ۔. مراد مت لے کر جائیں ۔۔یہ ہیں تو جاناں کے وجود میں جان ہے ورنہ میرا وجود بےجان ہوجائے گا ۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑ کر انکے سامنے التجائیں کررہی تھی.۔ ایک دم ہی اسے احساس ہوا تھا اچانک ہی تو۔۔ کسی کے فراق کی سوچ نے اسے اندر تک ہلا دیا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی


جانی ۔.جانی ۔.میری جانی کو مت لے جائیں مراد ۔.ماما بابا۔۔.مت جائیں جاناں بےجان ہوجائے گی ۔۔۔. اسکی دلخراش چیخوں نے اس گارڈ کی در و دیوار ہلا دی تھی کہ میت اٹھانے والے بھی خون کے انسو روئے تھے


زخم دُکھتے نہیں ابھی لیکن


ٹھنڈے ہوں گے تو درد نکلے گا


طیش اترے گا وقت کا جب بھی


چہرہ اندر سے زرد نکلے گا....

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

اے ضبط دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو

دل میں ہزار درد اُٹھے

، آنکھ تر نہ ہو


مدت میں شام وصل ہوئی ہے مجھے نصیب

دو چار سو برس تو ،

الہٰی سحر نہ ہو


سکندر اپنی ڈیوٹی واپس جوائن کرچکا تھا کرنل صاحب جانے کہاں غائب ہوئے تھے کہ رباب چاہ کر بھی انہیں ڈھونڈ نہیں پارہی تھی ۔۔۔۔


رباب ارسل کو بتایا تو اس نے اسے فلحال تو چپ رہنے کا ہی کہہ دیا ان دنوں اس نے جاناں سے دوستی کرنے کی کوشش جاری رکھی تھی جو کچھ حد تک کامیاب بھی ہوگئی تھی..


مگر کمبخت حور اسے جیسے دیکھتی اسے اگ لگ جاتی تھی حور کا ڈھیرہ ہی اجکل جاناں کے پاس تھا وہ رباب کو جاناں کے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیتی تھی


اس کمینی عورت کو تو میں چھوڑو گی نہیں چڑیل کہین کی ۔۔۔۔۔ رباب بڑبڑاتے گھر میں داخل ہوئی وہ ابھی جاناں سے ملنے گئی تھی مگر بدقسمتی سے وہان جاناں نہیں وہ چڑیل مطلب حور اسے مل گئی تھی ۔۔.


کیا ہوگیا ہے آب کیوں غصہ کررہی ہو ۔۔۔۔ اسے بڑبڑاتے دیکھ سکندر نے حیرانی سے پوچھا وہ کبھی اس طرح نہیں کرتی تھی سکندر کی اواز پر رباب شاکڈ ہوئی


بھائی۔۔اپ کب ائے اپ نے تو کل انا تھا نا۔۔۔۔۔ اسکے گلے لگتے وہ خوشی سے چیخی تو سکندر نے مسکراتے اسے دیکھا


مجھے لگا اپنی پیاری اآب کو سرپرائز دے دو۔۔۔۔۔ وہ اسکے سر پر ہونٹ رکھتے پیار سے کہنے لگا تو رباب مسکرائی مسکراہٹ تو کسی اور کی بھی گہری ہوئی تھی


اسلام علیکم ۔۔۔۔ مرحا وہاں آئی تھی ... سکندر نے اسے دیکھا تو اندر ہی اندر جل بھن گیا سر ہلا کر جواب دیتے وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیا


رباب ماما تمھیں بلا رہی ہیں ۔۔۔آج ہم بابا کی بہن کے گھر جارہے ہیں ۔۔۔ تو انکا حکم ہے کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلو ۔۔۔مرحا نے اسے کہا تو رباب نے گہری سانس لی


میں کیسے ۔۔۔ ؟؟؟؟


میں ہونگی نا وہاں۔۔۔. مرحا نے اسے اپنے ساتھ کھینچا تو رباب نے اسے گھورا


اچھا رکو چینج کرکے اتی ہوں ۔۔۔۔ رباب اسے رکنے کا کہتی اوپر کی طرف بھاگی۔۔ مرحا نے سر ہلاتے اسے دیکھا


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے

اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے


تنہا میں جل رہا تھا تو خوش ہو رہے تھے لوگ

ان تک گئی جو آگ، بجھانے لگے مجھے


💔💔💔💔💔💔💔


آج سات مہینے ہوچکے تھے اسکے اپنوں کو گزرے ۔۔۔حس ماں نے اسے دنیا کے رنج و غم سے دور رکھا تھا وہ تنہایوں تکلیفوں کے زرد رنگ میں خود کو لپیٹ چکی تھی وہ ہنستی بھی تھی مگر اسکی آنکھیں وہ بے فیض رفاقت میں ثمر کِس کے لئے تھا

جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کِس کے لئے تھا


ان ساتھ مہینوں میں ولی اور سیم نے ہر طرح سے اسکا دھیان رکھا تھا مراد حور اور فریحہ بیگم بھی یہاں اتی جاتی تھی حور تو اکثر اسکے پاس رہتی تھی اج بھی وہ دونوں یہی تھی جبکہ ولی اور سیم دونوں افس جاچکے تھے


جانم۔۔۔۔ حور نے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی جاناں کے گال چومتے بلایا تو جاناں نے مسکرا کر اسے دیکھا


جی جانی ۔۔۔۔ جاناں نے اپنے لہجے میں وہی شوخی لانے کی کوشش کی مگر بےکار ۔۔۔۔ تب کی جاناں اور ابکی جاناں میں ہزار گنا فرق تھا جاناں نے مراد کو دیکھا جو اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا یا شاید اسکے اندر کیا چل رہا ہے وہ جاننے کی کوشش کررہا تھا جاناں نے نظریں چرائی


مراد ۔۔۔۔۔ اپ۔۔۔۔


ارے مسس پرنسسز اپ مجھے وہی کہیں نا جو پہلے کہتی تھی ۔۔۔ مراد نے شوخ نظروں سے اسے دیکھتے اسے کرسی پر بیٹھاتے ساتھ بیٹھا


اچھا مطلب اپکو عزت راس نہیں ہے ۔۔۔۔ جاناں نے کمر پر ہاتھ رکھتے اسے ائبرو اچکا کر دیکھا تو مراد نے ہنس کر اسے دیکھا


جب سے اپ ائی ہیں تب سے بندے ناچیز کو عزت اور بےعزتی دونوں ہی راس آگئی ہیں ۔۔۔۔ مراد نے منہ بناتے کہا تو حور اور جاناں کا قہقہہ گونجا اندر اتے ولی نے جاناں کی دیکھا تو محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے وہی ایا


میری جان کتنی کیوٹ لگ رہی ہے ۔۔۔۔ ولی نے اسکے سر پر بوسہ دیتے کہا تو جاناں اسکے گلے لگی وہ کزنز تو شروع سے ہی نہیں تھے وہ تو بھائی بہن تھے جاناں کے پیدا ہونے پر جب ایزل کی حالت خراب تھی جسکی وجہ سے امنہ نے ہی تو اسے فیڈ کرایا تھا


ہوں بسس تم نظر نا لگاؤ تو واقع میں بہت کیوٹ ہوں۔۔۔۔ جاناں نے اپنے گال پر ہاتھ رکھتے کہا تو وہ ہنسا مراد جاناں کو ہنستے دیکھ رہا تھا مگر اسکی انکھوں تک اسکی ہنسی نہیں پہنچ رہی تھی


بھائی ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ۔۔۔. حور کو اچانک یاد ایا جاناں کے ڈاکٹر سے مراد بات کرنے گیا تھا اسکی بات پر جاناں اور ولی نے بھی اسے دیکھا


کیا کہنا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اب پرنسسز کو بہت خوش رکھے ہوسکے تو انکے بھائیوں کی شادی کردیں تاکہ انکے گھر میں چہل پہل ہو ۔۔۔۔۔ مراد نے کچھ باتیں بتائی تو جاناں نے ولی کو دیکھا.


کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔. ولی نے کوٹ سیدھے کرتے پوچھا اسے شرم ارہی تھی, شادی والی بات پر


دیکھ رہی ہو تم شادی کے قابل ہو۔ یا ایویں ای شوخیاں ہیں ۔۔۔ جاناں نے شرارت سے کہا تو ولی نے اسے گھورا


آلحمداللہ تم شادی تو کراؤ دیکھنا ایک سال بعد اس گھر میں بچے کی کلکاریاں گونجے گی ۔۔۔۔ ولی نے شوخ لہجے میں کہتے حور کو دیکھا جو معصومیت سے اسے گھور رہی تھی اسکی بات پر جاناں ہنسی


مراد اپ اسکے لیے کوئی لائق فائق بچی ڈھونڈ کر لائے ۔۔۔۔ جاناں نے مراد کو کہتے اپنے ہاتھ اوپر کرے بھئی اس سے وہ کام نہیں ہوتے


میرے بابا کی دوست کی بیٹی ہے کل چلتے ہے ملنے اوکے ۔۔.مراد نے کہا تو وہ سب سر ہلا گئے ولی کا تو منہ ہی اتر گیا تھا اسے لگا شاید حور کی بات کرے گا 😔


چلو اب ہم چلتے ہیں پھر ملاقات ہوگی ۔۔ مراد نے کہا اور جاناں کو دیکھتے باہر کو بڑھا


...................

بے فیض رفاقت میں ثمر کِس کے لئے تھا

جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کِس کے لئے تھا


پردیس میں سونا تھا تو چھت کِس لئے ڈالی

باہر ہی نکلنا تھا تو گھر کِس کے لئے تھا


جس خاک سے پُھوٹا ہے اُسی خاک کی خوشبو

پہچان نہ پایا تو ہُنر کِس کے لیے تھا


اے مادر گِیتی! تیری حیرت بھی بجا ہے

تیرے ہی نہ کام آیا تو سر کِس کے لئے تھا


یُوں شام کی دہشت سرِ دشتِ ارادہ

رُکنا تھا، تو پھر سارا سفر کِس کے لئے تھا....!


پروین شاکر

💔💔💔💔💔💔💔💔

اہ اج میرے لالے کی آنکھیں کیوں اگ اگل رہی ہیں ۔۔۔۔ سمیر افس میں انٹر ہوا تو پوچھے بغیر نا رہ سکے مراد نے سر اٹھاتے اسے دیکھا


کیا ہوا لالے ۔۔۔ مراد کے گلے لگتے وہ اسکے چہرے پر درد دیکھ چکا تھا


ڈاکٹر نے کچھ کہا ہے ؟؟؟؟اسکی اس حالت کی وجہ وہ جان گیا تھا یہی تو رشتہ تھا دونوں کا ایک تکلیف میں ہوتا تو دوسرا پہنچا لیتا تھا


ڈاکٹر کا کہنا ہے وہ برم کے زیرِ اثر ہورہی ہے ۔۔سمیر تو تو جانتا ہے نا بچپن سے ہی میں نے اسے پہلی بار اپنے خواب میں دیکھا تھا تب وہ چھوٹی سی گول مٹول سی گڑیا تھی پھر آہستہ اہستہ میں نے خوابوں میں ہی اسے بڑے ہوتے دیکھا اب جب وہ حقیقت میں میرے سامنے ہے تب میں بےبسی کی انتہاؤں پر ہوں۔۔میں کچھ نہیں کر پارہا سمیر ۔۔۔۔ وہ بےخودی میں بولے جارہا تھا اسکے لہجے میں دنیا جہاں کا کرب تھا


سمیر نے دکھ سے اسکی یہ حالت دیکھی تھی جب مراد کو اسکی تلاش تھی وہ سب بھی ایسے ہی تڑپتا تھا اج جب وہ اسکے سامنے تھی اسکے قریب تھی وہ تب بھی تڑپ رہا تھا


لالے وہ زندہ نہیں رہے۔۔۔۔۔سمیر کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی مراد کی دھاڑ پورا افس ہلا گئی کم از کم سیمیر کو تو یہی لگا


سمیر کو وہ مراد یاد ایا جو تصور میں ہی جاناں کو کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا وہی شدت پسند مراد لغاری جو کسی کی بھی جان نکالنے میں مہارت رکھتا تھا


لالے وہ۔۔۔وہ گھبرا کر کچھ کہتا کہ مراد کی أنکھوں کے گوشے نم دیکھ رک گیا زندگی میں پہلی بار اسے اتنا ٹوٹا دیکھا تھا سیمیر نے اسکی ایک بات اسکا دل چیر گئی تھی


سمیر جس دن اسے کچھ ہوا نا۔۔ سمیر ۔۔جنازہ ایک نہیں دو جنازے اٹھیں گے ۔۔۔۔مراد کی بات پر سمیر تڑپ ہی تو اٹھا تھا


کیا اول فول بک رہا ہے ۔۔تجھے اندازہ بھی ہے ۔۔۔۔افس میں سمیر کی غصے سے لبریز اواز گونجی


سمیر اگر میرے ہوتے ہوئے موت اسے چھو گئی تو میرا عشق ناکام ہوجائے گا کیا تو چاہتا ہے اتنی دور اکر تیرا لالہ پسپسا جائے ؟؟؟ مراد نے دھیمے لہجے میں پوچھا تو سمیر نے شدتِ ضبط سے سر نا میں ہلایا


میں تجھے ہارتا نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔سمیر کہتے اسکے گلے لگا


کسی نے کیا خوب کہا ہے عشق حاصل ہوجائے تو امتحان بن جاتا ہے ۔۔۔۔


ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے

کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے


عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا

اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے


ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ھم نام ترا

کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے


دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے

جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے


ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر

جا، خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے


یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز

ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


ہیلو جان کہاں ہو تم۔۔ سیم آفس سے ہی اسے کال کی تھی انکی روٹین بن چکی تھی ہر پانچ منٹ میں اسے کال کرنا جاناں نے اردگرد دیکھا وہ اس وقت ایک مال میں تھی


مال میں ہوں ۔۔۔۔۔ جاناں نے سر میں ہوتے درد کو نظرانداز کیا تھا جو بڑھتا جارہا تھا


کس کے ساتھ ؟؟؟؟ گارڈز ہیں تمہارے ساتھ ؟؟؟ سیم کرسی سے کھڑا ہوتا فکرمندی سے پوچھنے لگا


اللہ وہ بھی ہیں اب تم یہاں مت آجانا وہی کام کرو کچھ چیزیں لے کر اتی ہوں گھر وہی ملتے ہیں ہم ۔۔۔جاناں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا تو سیم نے ہنکار بھرا جناب نے کال ڈسکنٹ کرتے اوپری مالے کی طرف قدم بڑھائے اس سے انجان کہ پیچھے کوئی شخص اسکی تاک میں ہے


ڈریسسز دیکھتے وہ جیٹس وارڈ میں گھسی جہاں جینٹس ٹی شرٹ تھی اس نے کافی ساری جینز ٹی شرٹ لی پھر وہ لیڈیز بوتیک میں پہنچی بلیک شرٹ تھی جسکے اوپر وائٹ ریٹے کا کام ہوا تھا وہ شرٹ اپنے ساتھ لگا کر اس نے ائینے میں اپنا عکس دیکھا اس پر وہ ڈریس بہت اچھا لگ رہا تھا


یہ۔۔۔ جاناں کی نظریں شیشے سے خود کو دیکھتے حیدر پر پڑی اسے دیکھتے ہی اسے تیش ایا تھا کالی أنکھوں میں نفرت ابھری شرٹ پر گرفت مضبوط کرتے وہ پیچھے مڑی شرٹ پیک کرواتی وہ جلدی سے مال سے نکلنے لگی بیچ ہی بیچ وہ کسی کو میسج کررہی تھی ۔۔۔۔


حیدر اسکے پیچھے ہی تھا مال سے نکلتی وہ گاڑی میں بیٹھتی ریش ڈرائیونگ کرتے وہاں سے نکلی تھی اسکے چہرے پر ڈر نہیں تھا نفرت تھی وہ نفرت جو حیدر شاہ کو جلانے والی تھی


اسکی گاڑی کسی سنسنان سی جگہ پر رکی تھی جہاں ہر طرح مٹی ہی مٹی تھی بہت پہلے یہاں ایک بار کلب تھا مگر اب وہاں کچھ نا تھا یہ وہی جگہ تھی جہاں امنہ نے اپنے دشمنوں کو ختم کیا تھا اور اج جاناں وہاں اپنے دشمن کو ختم کرنے کی ضد کررہی تھی


اسکی گاڑی کو رکتے دیکھ حیدر گاڑی روکتے اسکے پاس جانے لگا کہ جاناں کار کا دروازہ کھولتے باہر نکلی وائٹ جینز شرٹ پر براؤن ماسک اسکی خوبصورت سی آنکھیں مزید خوبصورت لگ رہی تھی


ا ہائے کزن تم تو دور ہی بھاگ رہی ہو۔۔۔ اس دن میں نے اتنا بھی کچھ نہیں کیا تھا ۔۔۔جو تم مجھ سے ناراض ہی ہوگئی ۔۔۔۔ حیدر نے کوٹ اتار کر گاڑی کے بونٹ پر رکھا ہوائیں تیز ہوئی تھی بادلوں نے سورج کو اپنے گھیرے میں لیا تھا


تمھیں کیوں لگا حیدر کہ میں تم سے ناراض ہوں۔۔۔۔۔؟؟؟ جاناں نے سینے پر ہاتھ باندھتے پرسکون مسکراہٹ سے اسے دیکھا ماسک کی وجہ سے حیدر اسکی مسکراہٹ تو دیکھ نا سکا ہوں مگر اسکی انکھوں سے اسے لگا جیسے وہ اس پر طنز کررہی ہو


تمھارے ہونٹوں سے اپنا نام سن ۔۔۔ م۔۔۔۔ وہ ابھی اپنی بات ململ مکمل کرتا کہ جاناں نے پینٹ میں اڑھسی گن نکالتے اسکے ڈل کا نشانہ باندھتے فائر کیا


حیدر کا وجود اچھل کر پیچھے گرا اس نے حیرانی سے جاناں کی طرف دیکھا جسکی گن سے نکلا شعلا اسکے دل میں پپوست ہوا تھا مغرورانہ چال چلتے وہ اسکی پاس ائی اور ایک گھٹنے کے بل بیٹھی


سنا ہے تمھارے باپ کو بھی میری انی نے ایسے ہی مارا تھا ۔۔۔۔ اسی لیے میں نے سوچا باپ بیٹے کو ایک سی موت نصیب ہو ۔۔۔ ویسے میرا ارادہ تمھیں مارنے کا نہیں تھا وہ بھی اج۔۔۔. مگر مجبوری تھی اب برتھ ڈے گرل کیک تو کاٹے گی نا بےشک وہ کیک کسی انسان کا دل ہو یا کریم سے بنا کیک ۔۔۔۔ ریوالور اسکے دل پر بنے سوراخ کے اوپر رکھ کر دباؤ بڑھاتی وہ اہستہ آہستہ بول رہی تھی


آہ۔۔۔ اہ۔۔۔ ت۔تم ۔۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ پیچھے جھٹکے لگا مگر جاناں نے سرد نظروں سے اسے دیکھا اور ایک ہی دم دباؤ بڑھاتے وہ ادھی ریوالور اسکے اندر گھسا چکی تھی حیدر کے منہ سے اب خون نکلنے لگا تھا کھانستے کھانستے اسکا وجود ایک دم ساکت ہوا


اللہ تمھارے گناہ معاف کرے ۔۔۔۔ جاناں نے گن نکال کر اسکے کپڑوں سے صاف کی اور اس پر کوئی سپرے کرتے وہ اٹھی اسکے جو انگلیوں کے نشانات تھے وہ اس سپرے سے ختم ہوچکے تھے


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


اسلام وعلیکم ۔۔.ارسل اور ارسلان نے شاہ ہاوس میں انٹر ہوتے سلام کیا تو صوفے پر بیٹھے وہ تینوں کھڑے ہوئے سیم اور ولی حیرانی سے انہیں تکنے لگے جبکہ جاناں کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا


سر ہلا کر جواب دیتی وہ انکے قریب گئی ارسل نے نم انکھوں کو بند کرتے آنسوؤں کو اندر دکھیلا وہ بلکل جاناں سی تھی اسکی انکھیں تب کھلی جب جاناں نے انہیں پکارا


ماموں۔۔۔۔کیسے ہیں اپ ۔۔۔اتنے دن ہوگئے اپ ائے ہی نہیں میں نے بہت ویٹ کیا اپکا ۔۔۔وہ ارسل کے ساتھ لگے ناراضگی سے بولی تو ارسل نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا


مجھے معلوم ہوتا کہ میری گڑیا مجھے یاد کررہی ہے تو میں ضرور اجاتا ۔۔۔۔۔ ارسل نے آہستہ سے کہا تھا جاناں کا ماموں کہنا اسے بہت اچھا لگا تھا


بھئی ہم بھی ہیں یہاں اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے ۔۔۔۔ ارسلان نے جاناں کو اپنی طرف توجہ دلائی تو وہ مسکراتے انکے ساتھ لگی پھر ارسلان کی بیوی سے ملتے وہ حیران پریشان کھڑی رباب کی طرف آئی


ارے اب تم میری کزن ہو او مائی گوڈ ۔۔۔۔۔ وہ رباب کے گلے لگی تھی پیچھے سے اتی مرحا نے جاناں کو بیک ہگ کی تو جاناں جھٹ سے پیچھے گھومی


او ایم جی ماموں اپکے کتنے بچے ہیں ۔۔۔۔ اس نے حیرانی سے ارسلان کو دیکھا جو ہاتھون سے پانچ کا اشارہ کررہا تھا جاناں کی آنکھیں کھلی


ارے نہیں کزن صرف میں اک لوتی معصوم تمھاری کزن ہوں ہہ میری فرینڈ ہے ۔۔رباب۔۔۔.مرحا نے رباب کی طرف اشارہ کرتے کہا تو جاناں نے ہونٹ گول کیے


گڑیا یہاں آئیں میرے پاس.۔۔۔۔ ارسل نے صوفے پر بیٹھتے جاناں کو اپنے پاس بلایا ملازمہ لوازمات ٹیبل پر رکھ کر جاچکی تھی


یہ لیں ۔۔۔۔۔ ارسل نے ایک بڑا سارا گفٹ باکس اسے دیا جو اتنا بھاری تھا کہ جاناں نے وہی صوفے پر ہی رکھا ۔۔


اللہ کیا بھرا ہے اس میں ۔۔جو اٹھائے نہیں اٹھ رہا ۔۔۔۔ اس نے ارسل کو گھورا جو ہنس رہا تھا کبھی کبھی تو وہ بلکل ہی جاناں جیسی ہی لگتی تھی


پیار ٹھرا ہے میری شہزادی ۔۔ارسلان نے اسکے بال بکھیرتے ہنس کر کہا تو وہ ہنسنے لگی


یعنی اپکا پیار بھی بہت بھاری پڑے گا ۔۔۔۔ ولی نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا جبکہ سیم کی نظریں تو رباب پر تھی اسے مسلسل رباب کو گھورتا دیکھ ولی نے اسے کہنی ماری ۔۔


اللہ کو مان میرے بھائی کیوں لڑکی سے پٹوانا چاہتا ہے ۔۔۔ولی نے سیم کو گھوری سے نوازتے سنائی جو ہنہہ کرتے پھر رباب کو دیکھنے لگا


میں پانی پی پی کر اتی ہوں۔۔۔َ۔. رباب اٹھ کر کچن کی طرف بڑھی سیم بھی چپکے سے وہان سے کھسکا تھا جاناں اور ولی ان سے باتوں میں لگے تھے


اوو ہیلو مسٹر ۔۔۔دوبارہ ان نظروں سے مجھے گھورا نا تو تمھاری انکھیں نکال کر کنچے کھیلوں گی سمجھے ۔۔۔.وہ ابھی کچن میں گھسا تھا کہ رباب نے اسے پیچھے والی دیوار سے لگاتے اسکے قریب ہوتے اسکی گردن پر چاقو رکھا اور اہستہ اواز میں غرارئی


کیا کررہی ہو مسس۔۔۔. سیم نے اسے پیچھے کرنا چاہا مگر رباب ٹس سے مس نا ہوئی بلکہ اسکی گردن پر چاقو سے مزید دباؤ بڑھایا


پہلے بولو اب نہیں دیکھو گے ویسے ۔۔۔. رباب نے اسے گھورا سیم نے ایک ہی جھٹکے میں اسکے چاقو والے ہاتھ کی کلائی پکڑ کر اسے گھمایا اور بلکل اپنے قریب کرتے اسکے کان پر جھکا


اگر میں بولو میں ساری زندگی تمھیں ایسے ہی دیکھنا چاہتا ہوں تو۔۔۔سرگوشی میں کہتے اسکے لب اسکے کان کو چھونے لگے تو رباب کے جسم میں سنسناہٹٹ ہوئی سرخ چہرہ اسکی طرف موڑتے اس نے سیم کو گھورا مگر کچھ بول نا سکی


جواب دو۔۔۔میں منتظر ہوں ۔۔اسکے چہرے کے قریب تر چہرہ کرتے وہ سوال گو ہوا تو رباب نے بےبسی سے اسے دیکھا اگر وہ بولتی تو اسکے لب سیم کے لبوں سے مس ہوجاتے اگر سر نفی میں ہلاتی تو اسکے لب سیم کے گال کو چھو جانے تھے


اوو میری جان ۔۔۔۔ اسے بےبس دیکھ سیم مسکرا کر بولنے لگا کہ اسکے نازک سے لبوں سے اسکے لب مس ہوئے تو وہ ساکت ہوا رباب نے زور سے اسے پیچھے دکھیلا اور وہاں سے بھاگی


اففف۔۔۔۔ اسکا سحر مدہوش کن ہے ۔۔۔۔۔سیم نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اپنے ہونٹوں کو چھوا اور مسکراتے پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتے باہر نکلا جہاں سب جانے کے لئے تیار تھے


آج اپ لوگ رک جاتے تو کیا ہوجاتا. ۔۔۔۔ ولی نے کہا تو وہ سب مسکرائے


بچے میں تو کہتی ہوں کہ اپ لوگ ہمارے ساتھ اپنے گھر چلو ۔۔ ارسلان کی بیوی نے جاناں کو گلے لگاتے کہا کچھ ہی دیر میں وہ لڑکی انکا دل جیت گئی تھی


ابھی تو بہت کام ہے ویسے بھی اب ہم سیم اور ولی کی شادی کررہیں ہیں ماموں اپ لوگ اکر یہی رہنا اور شادی کی تیاریاں کرنا میں بتا رہی ہوں میں کچھ نہیں کرونگی ۔۔۔جاناں نے ساری زمیداری آن پر ڈالی


بھئی شادی سے پہلے ہی بتا دینا ہم لوگ یہی ڈھیرہ ڈال لینگے ۔۔۔مرحا نے چھٹکی بجاتے کہا تو جاناں ہنسی اور سر ہلایا ولی اور سیم کی نظریں تو اپنی جان پر تھی وہ ہنس رہی تھی یہی کافی تھا انکے لیے


اوکے تو کل صبح تمھین میں پک کرلونگی ریڈی رہنا ۔۔۔جاناں نے رباب اور مرحا کے گال کھینچتے کہا تو وہ دونوں اسکے گلے لگی ۔۔۔


ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا


ہائے وہ وقت ، وہ باتیں ، وہ زمانہ دل کا


نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا


زندگی گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا


کچھ نئی بات نہیں حُسن پہ آنا دل کا


مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا


وہ محبت کی شروعات ، وہ بے تہاشہ خوشی


دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا


دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے


روگ دشمن کو بھی یارب ! نہ لگانا دل کا


ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے


اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا


میرے پہلو میں نہیں ، آپ کی مٹھی میں نہیں


بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ،ٹھکانا دل کا


وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے


ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا


خوب ہیں آپ بہت خوب ، مگر یاد رہے


زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا


بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں


آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا


نقش بر آب نہیں ، وہم نہیں ، خواب نہیں


آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا


حسرتیں خاک ہوئیں، مٹ گئے ارماں سارے


لٹ گیا کوچہء جاناں میں خزانا دل کا


لے چلا ہے مرے پہلو سے بصد شوق کوئی


اب تو ممکن نہیں لوٹ کے آنا دل کا


ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم


دیکھتے رہ گئے ہم ، ہاتھ سے جانا دل کا۔۔۔

سنا ہے محبت کے بعد محبت ہو ہی جاتی ہے

پر تیرے بعد مجھے کسی کی ضرورت نہیں رہی

پوچھا گیا تمہارے اپنے اب ساتھ نہیں رہے

میں نے کہا انکو میری ضرورت نہیں رہی


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


پرنسسز ۔۔۔۔ وہ رات کے وقت بالکونی میں موجود جھولے پر بیٹھی جانے کیا سوچ رہی تھی کہ اپنے قریب ایک دلفریب سی سرگوشی اور کلون کی خوشبو اسے اپنے قریب تر محسوس ہوئی


ہلکا سا سر گھما کر اس نے اپنے پاس دیکھا جہاں مراد اسی کو نہارتے مسکرا رہا تھآ جاناں کے دھڑکتے دل نے گواہی دی تھی کہ اس شخص کی مسکراہٹ کسی کا بھی قتلِ عام کرسکتی تھی


تم یہاں۔۔وہ بھی اس وقت ۔۔۔۔جاناں نے حیرانی سے أنکھیں بڑی کیے پوچھا تو مراد نے کندھے اچکائے نا وہ خود نا ایا ہو کوئی اسے زبردستی لے کر ایا ہو اپنی بیک سے گفٹ نکالتے اس نے جاناں کو پکڑایا اور کھولنے کا اشارہ کیا


تھینکس ۔۔۔گفٹ کھولتے جاناں نے کہا اور گفٹ ریپ اتارے اسے دیکھنے لگی جس میں ایک پینٹنگ تھی ایک بچی کی پینٹنگ


ی۔یہ ۔۔جاناں کو سمجھ نا ایا وہ کیا بولے یہ پینٹنگ وہ اکثر خوابوں میں دیکھتی تھی


اپکو یہ کیسے ملی ۔۔۔۔۔۔جاناں نے پینٹنگ کو وہی رکھتے پوچھا تو مراد مسکرایا


خوابوں سے ۔۔۔. مراد نے دلکشی سے کہا جو جاناں نے اسے دیکھا وہ کن خوابوں کی بات کررہا تھا کیا اسے بھی خواب اتے تھے کیا وہ بھی خوابوں میں کسی کو دیکھتا تھا


یہ کس نے بنائی ہے ؟؟؟؟ سر جھٹکتے وہ پھر سے سوال گو ہوئی مراد نے کندھے اچکائے اپنی طرف آشارہ کیا تو جاناں نے حیرت سے اسے دیکھا


کب؟؟؟ جاناں نے حیرانی سے پوچھا


اٹھ سال کا تھا تب۔۔۔۔ مراد نے اطمینان سے جواب دیا تھا جبکہ اسکے جواب پر جاناں ہل تک نا سکی


اپ مجھے جانتے تھے مجھے دیکھتے تھے ؟؟؟؟


میں اپنے خوابوں سے تم سے کنٹیکٹڈ تھا میرے خوابوں میں دیکھا کرتا تھا میں تمھیں ۔۔۔ مراد نے سیدھا سیدھا بتا ہی دیا اب چھپانے کا فائدہ کیا تھا جاناں نے حیرت سے اسے دیکھا پھر ایک دم کھلکھلا کر ہنس دی


ویسے بتانا نہیں چاہیے مگر میں نے بھی کسی کو دیکھا تھا خواب میں ۔۔۔۔جاناں نے ہنستے ہوئے کہا تو مراد کو دیکھ چونکی جو اسے ہی دیکھے جارہا تھا


کیا دیکھ رہے ہو گلفام۔۔۔۔ جاناں نے ائبرو اچکا کر پوچھا تو وہ مسکرایا


پرنسسز ۔.۔۔کیا اپ مجھ پر اعتبار کرتی ہیں ۔۔۔۔مراد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جاناں ایکدم اس سوال پر کچھ پریشان ہوئی تھی


اگر تم پر اعتبار نا ہوتا تو اس وقت تم یہاں نہیں اپنے کمرے میں موجود ہوتے ۔۔۔۔۔۔ جاناں نے سنجیدگی سے جواب دیا تو مراد مسکرایا


آج میں یہاں تم سے کچھ پوچھنے ایا ہوں اور کچھ بتانے بھی ۔۔۔کیا تم مجھ پر یقین کروگی ۔۔۔ مراد بھی ابکی بار سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھتے گویا ہوا


ہممممم۔۔.جاناں نے ہنکار بھرا تو مراد نے لمبی سانس بھرتے بولا اور جب وہ بولا تو جاناں نے حیرانی سے اسے دیکھا


مجھے یقین ہیں اپ مجھے منع نہیں کرییں گی ۔۔۔. مگر اپکے جواب کا منتظر رہوں گا ۔۔۔۔ اسکا ہاتھ تھامتے وہ اس کو اپنے دل کی بات بتا چکا تھا ۔۔۔. اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ وہ وہاں سے چل دیا ۔۔۔۔۔

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

عجیب بندہ ہے ناجان نا پہچان تم میری بن گئی جان۔۔۔۔ کوئی شرم حیا نہیں ہے اس انسان میں ۔۔۔۔ پہلی بار میں ہی کس کردی م اگلی بار ملوں گی تو جانے کیا کرے گا ۔۔۔۔ وہ اسمان پر چمچماتے تاروں کو دیکھتی بڑبڑا رہی تھی اور جانے کتنی بار وہ سیم کو کوستے اپنا ہونٹوں کو دانتوں تلے دبائے جارہی تھی اب تو اسکے ہونٹ زخمی ہوچکے تھے


آب کیا کررہی ہوں یہاں ؟؟؟؟ ۔۔۔۔ رات کے وقت اسے لان میں بینچ پر بیٹھا دیکھ سکندر کچھ حیران ہوا اور وہی ایا تھا اسکی خیریت دریافت کرنے


کچھ نہیں بسسس کل کی پارٹی کا سوچ رہی ہوں۔۔.۔ رباب نے نفی میں سر ہلاتے کہا مگر اسکا دھیان تو سیم کی حرکت میں اٹکا تھا


کونسی پارٹی ۔۔۔۔۔ آاب۔۔۔.اسے نا بولتے دیکھ وہ اسکے بال سہلاتے پوچھنے لگا


جاناں کی برتھ ڈے پارٹی ہے کل آفریدی مینشن میں. ۔۔بھائی میں نے سوچا تھا اسکی برتھ ڈے پر تو میں اس سے مل سکوں گی مگر نہیں وہ چڑیل اس پر ناگ بن کر قبضہ کی بیٹھی ہے ۔۔۔۔۔ رباب نے ناک چڑھاتے کہا اسے جیلسی ہوتی تھی حور سے


کیا ہوگیا ہے آب۔.۔. جیلسی وہ بھی ایک لڑکی سے ۔۔۔۔۔سکندر ہنسا تھا اسکی ناک کو سرخ ہوتا دیکھ


نہیں یار بھائی وہ لڑکی جاناں پر ایسے حق جتاتی ہے جیسے وہ اسکا شوہر ہوں اور میں کوئی پرایا مرد جس نے اسے دیکھ بھی لیا تو حور ہمارا جینا حرام کردیگی. ۔۔۔ رباب نے جلتے ہوئے کہا تو سکندر ہنس ہنس کر پاگل ہورہا تھا اسے یقین نہیں ارہا تھا اسکی بہن ایک لڑکی کے لئے اتنی ٹچی ہورہی ہے


بس اب میں نے سوچ لیا ہے جاناں اپکی بیوی بنے گی پھر میں اس چڑیل کو اس گھر میں بھی نہیں انے دونگی ۔۔۔۔۔ رباب نے کہا تو سکندر نے کچھ ٹھہر کر اسے دیکھا


جاناں ۔۔یہ وہی لڑکی ہے نا جو اس دن مال میں ملی تھی ۔۔.۔اسکا عکس آنکھوں کے پردے پر لہرایا تو وہ سوال گو ہوا رباب نے سر اثبات میں ہلایا


اسکی خوبصورت آنکھیں وہ خوبصورت چہرہ سکندر کا سکون لوٹ چکا تھا اس سے شادی سے پہلے تو وہ کبھی سوچتا ہی نا ۔۔۔جھٹ سے ہاں کرتے اسی وقت نکاح پڑھوا لیتا


ہمممم۔۔۔ کافی کیوٹ تھی ۔۔۔۔. اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے مسکرا کر کہا تو رباب چیختی اسکے گلے لگی


لو یو سو مچ بھائی ۔۔۔۔۔ ہم بابا کو کہیں گے کہ رشتہ لینے چلیں جان کا ۔۔۔۔. وہ اپنی ہی پلانگ میں مصروف ہوچکی تھی کیا واقع اسکی پلاننگ کامیاب ہوگی ہا فر کی دھری رہ جائے گی ۔۔۔۔.؟؟؟ یا مراد کا عشق لاحاصل رہ جائے گا کیا ہونا تھا انکی زندگی میں کیا اس بار بھی جاناں کی قسمت میں دکھ تھے یا اس بار اسکے عشق کی کہانی مکمل ہوگی ۔۔.کیا ہونا تھا یہ تو صرف خدا جانتا تھا

.......................................


میں اس کا ہو نہیں سکتا بتا نہ دینا اسے

لکیریں ہاتھ کی اپنی وہ سب جلا لے گا


ہزار توڑ کے آ جاؤں اس سے رشتہ وسیمؔ

میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا بلا لے گا


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


میرے بھائی کو مار دیا اس نے. ۔۔۔ اپ تو کہتے تھے وہ مس معصوم ہے ایسی بھی کونسی ممعصومیت اگئی کہ ایک قتل ہی کر ڈالا بسسس بہت ہوگیا اب وہ چوہیا بچے گی نہیں مجھ سے سالوں پہلے اس نے اپنے باپ کے کزن جو مار ڈالا صرف ایک رات کی قیمت ہی تو لگائی تھی میرے باپ نے ۔۔۔۔ اس میں کوئی اتنی بڑی بات تو نا تھی جو اس جاناں نے میرے بابا کو مار ڈالا ا اب اسکی بھانجی نے آتے ہی میرے بھائی کو مار ڈالا ۔.... چھوڑو گا نہیں اس لڑکی کو۔۔۔۔۔ وہ اپنے بھائی کی میت کق دفن کرنے کے بعد وہی کھڑا کرنل پر چلا رہا تھا


دیکھو اویس ہوسکتا ہے کسی اور کا کام ہو میں نے دیکھا ہے وہ لڑکی معصوم ہے اپنے گھر والون کی موت پر تم اسکا حال دیکھتے ہر انسان کی آنکھیں نم تھی ۔۔۔۔ وہ نہیں کرسکتی ۔.....کرنل نے اٹل لہجے میں کہا تو اویس اسکی جانب دیکھنے لگا


اگر اس نے نہیں مارا تو بڈھے تو نے مارا ہے ۔۔۔۔ کرنل کا گلا دبوچتے وہ غراریا اور جھٹکے سے اسے پیچھے پھٹکا


بہت دکھی ہے نا وہ اسکو مار کر اسکے سارے دکھ ہی مٹادونگا ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے کہتے اپنی جیپ میں بیٹھتے وہاں سے نکلا اسکے پیچھے اسکے گارڈ بھی گاڑیوں میں بیٹھتے اسکے پیچھے ہولیے

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


تم بول نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔ حور نے شاہ ہاوس میں قدم رکھے تو ولی اسے اپنے کمرے میں کھینچتے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔حور نے حیرانی سے اسے دیکھا


کس بارے میں بات کررہے ہو ۔۔۔۔ جان کر بھی انجان بنتے وہ معصوم بنی ۔۔۔تو ولی نے اسکی اداکاری پر اسے گھورا


میں شادی کی بات کررہا ہوں بی بی حور۔۔۔۔۔ ابکی بار وہ کچھ غصے سے بولا تو حور نے آنکھیں پٹپٹاتے اسے دیکھا


.تمھاری منہ میں دہی جمی تھی جو تم نا بول سکے ۔۔۔۔ حور نے بازو اوپر چڑھاتے کہا جیسے ابھی وہ اسکی دھلائی کردے گی ولی حیران ہوتے اسکی زبان دیکھی..


تمھاری زبان بہت چلتی ہے ۔۔۔۔ ولی نے اسے گھور کر کہا تو حور نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا پھر مسکرا دی


اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑانا بند کرو ڈیئر ۔۔. کیونکہ میری زبان کہیں نہیں جاتی بسسس بولنے میں میری مدد کرتی ہے ۔۔۔۔ مگر تمھارے دماغ کے گھوڑے پتہ نہیں کہاں کہاں دوڑتے ہیں ۔۔۔. حور نے اسے پیچھے کرتے لاپرواہی سے کہا جو ولی نے شوخ نظروں سے اسے دیکھتے اسے دیوار سے پن کرتے اسکے قریب ہوا


تم چاہو تو میں تمھیں بتا سکتا ہوں کہ میں ابھی کیا سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔بوجھل لہجے میں سرگوشی کرتے وہ دونوں ہاتھ دیوار پر رکھے اسے اپنی قید میں لیتے اس پر جھکا اسے اچانک ہی بدلتے دیکھ حور کا رنگ اڑا


نن۔نہیں۔۔۔۔تم۔۔. پپ۔پیچھے۔۔۔ہو. ۔۔۔۔ اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے حور نے اسے پیچھے دھکیلا چاہا مگر کہاں وہ ہٹا کٹا مرد 😁😂 اور وہ نازک سی کلی 🌷


نہیں ابھی تو تمھیں جاننا تھا نا میرے دماغ کے بارے میں ۔۔۔. ولی نے سرگوشی کرتے اسکے ماتھے پر ائے پسینے کو رومال سے صاف کیا حور سانس روک کر نظریں جھکائے دیوار سے چپکی کھڑی تھی اسکی حالت پر ولی کو ہنسی ائی


آئی لو یو حور ۔۔۔۔ ولی نے اہستہ سے کہتے اسکے ماتھے کو لبوں سے چھوا تو حور کے رہے سہے حواس بھی گم ہونے لگے سرخ ٹماٹر ہوتے چہرے سے اس نے ایک ہاتھ اپنے دل پر رکھتے تیز ہوتی سانسوں کو نارمل کرنا چاہا


ابھی سے یہ حال ہے حور جانی ۔۔۔ ولی نے شوخ لہجے میں کہتے اسکے سرخ گال کو چھوا تو حور نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا


ہاہہاہاہا۔۔۔۔ اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر ولی نے قہقہہ لگایا کہ باہر سے کسی کے قدموں کی اہٹ سن حور پردے کے پیچھے چھپی


جلدی جلدی میں حور کے لب ولی کے گال پر مس ہوئے مگر ولی انے والے کی طرف متوجہ تھا


ولی دماغ ٹھیک ہے تیرا اکیلے اکیلے قہقے لگا رہا ہے ۔۔۔۔سیم نے اندر اتے پوچھا مگر اسے دیکھ چونکا


نہیں موبائل پر جوک پڑھ رہا تھا ۔۔۔۔ ولی نے اسے اپنی طرف متوجہ پاتے جلدی سے کہا اور موبائل پاکٹ میں ڈالا ۔۔.مبادا وہ چیک ہی نا کرلے مگر سیم کا دھیان تو ولی کی گال پر تھا


یہ کیا ہے ولی۔۔۔؟؟؟ اسے شیشے کے سامنے کرتے سیم نے اسکے گال کی طرف اشارہ کیا ولی کی نظر جیسے ہی گال پر موجود پنک ہونٹوں کے نشانوں پر پڑی تو وہ مسکرایا اسکی مسکراہٹ پر حور نے اپنا ماتھا پیٹا


کمینہ منہ اٹھا کر ہنسنے لگا ہے یہ نہیں کہ کوئی بہانہ بنا لے بددماغ لڑکا ۔۔۔۔ سر پر ہاتھ مارتے حور تصور میں ولی کے بال نوچ رہی تھی


اوو بھئی کونسی صدی میں جابسے ہو ۔۔کیا ہے یہ اور کہاں سے ایا ۔۔۔۔ ابکی بار سیم نے زرا غصے سے پوچھا جو ولی سر جھٹکتے اسکی طرح مڑا


پینٹنگ بنانے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔ اپنی ہتھیلی پر دکھاتے وہ منہ بگاڑتے بولا حور کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اسکے ہتھیلی پر لپسٹک لگ گئی جسے وہ کلر بتا رہا تھا


پکا یہی بات ہے نا ولی ۔۔۔۔ سیم نے ایک بار کنفرم کیا ۔۔۔۔تو ولی نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔تو سیم سر ہلاتے باہر نکل گیا


ہو ہی کوئی کھسکے ہوئے تم ۔۔۔۔ اسکے بال کھینچتے وہ وہاں سے بھاگ نکلی پیچھے ولی ٹشو سے گال صاف کرتے ہنسنے لگا


چڑیل ۔۔۔۔۔۔ وہ بڑبڑایا اور ہنستے ہوئے اپنے گال کو دیکھنے لگا اور وہاں سے کمرے سے نکلا

.......................................................

‏دفعتاً چھیڑ کے خود تارِ ربابِ الفت

میرے اندر کوئی جاتا ہے مچل یعنی تُو


ڈُھونڈ کر لاﺅں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر

ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی تُو۔۔۔۔۔

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

آج اسکے پاس کوئی نا تھا کہ اکیلی روم میں بیٹھی ارسل کا دیا گفٹ کھول رہی تھی جس میں ایک فوٹو ایلبم تھا گفٹ کے اندر بھی دق گفٹس تھے ایلبم سائیڈ پر رکھتے اس نے وہ گفٹ کھولا جس میں کافی ساری کیسٹ تھی اور ایک ڈائری بھی موجود تھی جاناں نے دائری کھولی مگر وہ خالی تھی لیکن اسکے پہلے پیج پر بڑی ہی خوبصورتی سے جاناں خان لکھا گیا تھا


جاناں شازم خان ۔۔۔؟؟؟ مگر میں تو جاناں میصم شاہ ہوں۔۔۔۔ وہ الجھی کالی أنکھوں میں الجھن در آئی ڈائری رکھتے اس نے دوسرا گفٹ کھولا جس میں ایک خوبصورت سا باربی گاؤں تھا


واؤ ۔۔۔اسے دیکھ اسکی انکھوں میں ستائش ابھری خود سے لگاتے وہ مرر میں خود کو تکنے لگی وہ گاؤں اس پر بہت کچ رہا تھا جاناں مڑتی کہ گاؤن لگنے سے ڈائری زمین پر گری اور اس سے کئی پکچرز نکلتی کالین پر بکھر گئی جاناں نے حیرانی سے ان پکچرز کو دیکھا جنکے پیچھے بھی جاناں خان لکھا تھا


نیچے جھکتے اس نے پکچرز اٹھا کر دیکھی تو دنگ رہ گئی کیونکہ یہ تو اسی کی پکچرز تھی مگر پھر نام کیوں چینج تھا


یہ ڈریسسز میں نے کبھی نہیں پہنی ۔۔۔۔ وہ جاناں کی نکاح والی پکچرز تھی جس میں جاناں نے وائٹ لہنگا پہنا ہوا تھا جو اسکی خوبصورتی کو مزید نکھار رہا تھا


ایلبم کھولتے وہ پکچرز دیکھنے لگی پہلے تو بچپن کی پکچر تھی سبکی پھر جیسے ہی اسکی نظریں ایک پکچر پر رکی حس میں جاناں ریڈ صوفے پر گن لیے بیٹھی تھی امنہ صوفے کے پیچھے کھڑی پوز بنا رہی تھی جبکہ جاناں کے ایک سائڈ پر ایزل اور دوسری سائیڈ پر شائزہ گن اٹھائے کھڑی تھی



یہ مما انی اور یہ میری جیسی جاناں خان ۔۔۔۔وہ بڑبڑائی اسے یاد ایا جب ایک بار ایزل اسے ریڈی کرررہی تھی تو جاناں نے اس سے اپنے نانو کا نام پوچھا تھا


شازم خان نام تھا اپکے نانو کا ۔۔تمھیں پتہ ہے جان ۔۔تم تو اپنے نام کے ساتھ اپنے بابا جا نام کم لیتی ہو مگر جاناں کو تھی جب کوئی اس سے پوچھتا وہ کون ہے۔۔ وہ کہتی وہ جاناں شازم خان ہے ۔۔۔ اسکا انداز ایسا ہوتا تھا کہ سامنے والا ایک بار پریشان ہوجاتا تھا


ایزل بہن یہ جاناں کون ہے ۔۔۔۔ جاناں نے ایزل کی طرف مڑتے پوچھا ایزل نے اسکا رخ واپس سے مرر کی طرف کیا


وہ اپسرا تھی خوبصورتی اسکے انگ انگ سے پھوٹتی تھی اسکے سرخ ہونٹ سوفٹ سے گال اور اسکی خوبصورت انکھیں ۔۔۔۔ ایزل کہتے رکی


کیا آنکھیں ۔۔۔.؟؟اسے رکتے دیکھ جاناں نے پوچھا


اسکی انکھوں میں ایک خلش سی تھی جو کبھی پوری نہیں ہوئی ۔۔۔۔ اسکی زندگی میں شہزادے بھی ائے تھے مگر اسکامی تقدیر آسکی طرح خوبصورت نا تھی یا یوں کہہ لو کہ اسے خوشیاں راس نا تھی ۔۔۔۔۔ ایزل نے کھوئے ہوئے کہا ایزل نے نم انکھوں سے اسے دیکھا پھر سر جھٹکتے وہ مسکرائی


.......


ہوں جاناں یہ وہی جاناں ہے جس کی باتین مما کرتی تھی کہ ایزل بہن کی اصل والی بہن ہے ۔۔۔اوو ایم جی ۔۔.مگر میں اس جیسی کیوں ہوں۔۔۔ اور کیا وہ کہانی سچ تھی جو امن چاچو نے سنائی تھی۔۔۔اگر وہ کہانی سچ تھی تو وہ کرنل کہاں ہے کیا اسے کسی نے مار دیا ؟؟؟ اگر ماما ایک مافیا گرل تھی تو ماما بھاگی کیوں۔۔۔. ۔۔اففف کیا ہورہا ہے یہ ۔۔۔ اسکے پاس سوال بہت تھے مگر جواب دینے والا کوئی نہیں ۔۔ اسے ان سوالوں کے جواب بھی خود ڈھونڈنے تھے۔۔۔


💔💔💔💔💔💔💔

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا

وہ مِرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا


آپ کی بزم میں سب کچھ ھے مگر داغ نہیں

ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

کیا تم میرے پاس آؤ گی۔۔۔۔ میں مزید کسی کو کھونے کی سکت نہیں رکھتی ۔۔تم اجاؤ۔۔ مجھے ضرورت ہے تمھاری .۔۔۔۔۔ وہ صوفے پر بیٹھا شخص کسی سے موبائل پر رابطے میں تھا اسکے کہنے پر سامنے سے کھنکتی اواز میں کچھ کہا گیا


ہوں بسس جلدی ہی تم لوگ میرے پاس پہنچو ۔۔. میں نہیں چاہتی اسے کچھ ہو ۔۔۔۔۔ ان سے دور تھی انکی خوشی کے لئے مگر پھر انکی خوشیوں کی کسی کی نظر لگ گئی ۔۔۔۔۔۔ وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی اسکی انکھوں میں اچانک طیش ایا تھا


سامنے کوئی اسے سمجھارہا تھا پھر جلدی انے کا کہہ کر کال بند کرچکا تھا اور وہ سامنے لگی وال پر کرنل کی پکچر پر کراس لگاتے پرسرار سے لہجے میں بولی


امید نہیں تھی کہ پھر سے ملاقات ہوگی ۔۔۔مگر تمھاری حرکتیں ہی ایسی ہیں کہ ناچاہتے ہوئے بھی مجھے تمھیں سدھارنا ہی پڑے گا ۔۔۔۔ عجیب نظروں سے اسکی پکچر کو دیکھتی وہ ساتھ والی پکچر کو دیکھتے ہنسی


اویس شاہ ۔۔۔۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولتی واپس سے صوفے پر آبیٹھی اسکی خطرناک نظریں کرنل کی پکچر پر جمی تھی ۔۔۔.


میں بس لکھنے کی حد تک وحشت زدہ ہوں۔۔۔

مجھ سے مسلسل گفتگو آپ کو بیزار کرے گی😊

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

پارٹی ختم ہوتے وہ لوگ مینشن واپس اچکے تھے وہ صبح سے تھکی اب نیند ہی وادیوں میں کھوئی تھی کہ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اسکے قریب ان بیٹھا ہو ایک خوبصورت سی خوشبو ۔اسکے نتھوں سے ٹکڑائی ۔۔.


تمھیں کھونا نہیں ہے ۔۔۔۔ ہوشیار رہا کرو تمھارا چہرہ کوئی عام چہرہ نہیں ایک غم زادی کا چہرہ ہے ۔۔۔. پتہ نہیں کیا سوچ کر قدرت نے تمھیں مجھ جیسا بنایا ہے ۔۔.خدا کرے تمھارا نصیب مجھ سے جدا ہو ۔۔۔۔ مجھ سے الگ ۔۔بہت الگ ۔۔۔


اسکے پاس بیٹھی وہ اسکے چہرے کو انگلی سے چھو رہی تھی یہ احساس اسکے لیے نیا تھا اسکی بہن کے وجود کا وہ حصہ تھی ۔۔۔اسے چھوتے اسکی انکھوں میں نفرت کے شرارے پھوٹنے لگے تھے


جس بہن کے وجود کا وہ حصہ تھی اسکی وہ بہن زمین تلے جا سوئی تھی وہ رونا چاہتی تھی مگر وہ رو نہیں پارہی تھی اسکے انسو جیسے ختم ہوچکے تھے


کاششش۔۔۔. تم پاکستان نا اتی ۔۔۔ تو آج وہ زندہ ہوتیں اور مجھے سامنے نا انا پڑتا ۔۔۔۔ اسکے بال سنوارتے وہ دھمیے مگر سرد لہجے میں بول رہی تھی


اب تم اکیلی نہیں ہو ۔۔۔تمھارے ساتھ جاناں شازم خان ہے ۔۔۔.تم پر انے سے پہلے ہر مشکل کو مجھ سے ہوکر گزرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔ ہلکا سا مسکراتے اس نے ایک گفٹ اسکے تکیے کے ساتھ رکھا اور اسکی پیشانی چومتے وہ وہان سے جاچکی تھی نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اس نے ادھر ادھر دیکھا مگر وہاں کوئی نا تھا آنکھیں بند کرتے وہ پھر سے نیند کی وادیوں میں اتر گئی


وحشت نے زندگی کی روانی اُجاڑ دی ۔

ایک وقعہ نے ساری کہانی اُجاڑ دی ۔

کمسن بدن پر بوجھ ہے بوڑھے دِماغ کا ۔

سنجیدگی نے میری جوانی اُجاڑ دی

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

آج وہ سب باہر لنچ کرنے ایے تھے انکے ساتھ مرحا رباب سکندر اور سمیر بھی موجود تھے وہ سب ایک بڑی ٹیبل کے اردگرد بیٹھے گپے ہانک رہے تھے


ویسے جانا۔۔۔سکندر جاناں کو مخاطب کرنے لگا کہ مراد اور حور کی سرد نظروں سے اسکو چپی لگی


جی ۔۔.جانان نے حور کی حرکت پر اسے گھورا پھر سکندر کو دیکھا جو اسے دیکھ رہا تھا مراد کا تو بسس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جھٹ سے سکندر کو کہیں غائب کردے


کیا کرتی ہیں اپ ۔۔۔.سکندر نے نرم مسکراہٹ سے اسے دیکھتے پوچھا حور کا دل کیا اسکی وہ نرم مسکراہٹ اسکے ہونٹوں سے نوچ لے


یہ کچھ نہیں کرتی بسس میرے ساتھ ریتی ہے ویلی کہہ سکتے ہو ۔۔۔۔ حور نے دانت پیستے جواب دیا اسکے یوں جواب دینے پر جاناں نے آنکھیں دکھاتے اسکے پاؤں پہ پاؤں مارا


بھائی نے جان سے بات کی ہے تم سے تو نہیں؟ ؟؟ رباب سکندر کی انسلٹ فیل کرتے حور کو گھورنے لگی جو دل جلی مسکراہٹٹ سے اسے دیکھ رہی تھی اسے رباب کی ساری حرکتیں معلوم ہورہی تھی


وہی تو اس کو میری جانی سے بات کرنے کی کیا ضرورت؟؟؟ حور نے تڑخ کر جواب دیا تو رباب نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور کر دیکھا موبائل پر کال اتے دیکھ سکندر وہاں سے اٹھ جر جاچکا تھا اور وہاں حور اور رباب کی ختن نا ہونے والی جنگ شروع ہوچکی تھی


حور رباب اب اواز نا آئے دونوں کی ۔۔۔۔ جاناں نے غصے سے کہا جو وہ دونوں چپ ہوئی جبکہ ولی اور سیم تو اپنا فیوچر میں اپنی بیویوں کو ایک دوسرے کے بال نوچتے تصور کررہے تھے جاناں کی آواز پر ہوش میں اٹپکے


اچھا چھوڑو کل حور کی انگیجمنٹ سیرمنی ہے تو میں تم لوگوں کو انوائٹ کررہا ہوں اجانا ۔۔۔. مراد نے موبائل پر دیکھتے مصروف انداز میں کہا تو ولی اور حور کا دل ڈوب کے ابھرا


کک۔۔کیا؟؟؟ ولی کو اسکے گلے میں کانٹے چپتے محسوس ہوئے اسکی اواز تو گلے بامشکل نکلی تھی مراد نے ائبرو اچکا کہ اسے دیکھا


انگیجمنٹ سیرمنی ہے کل شام میں ۔۔۔۔مراد نے بات دوبارہ دہرائی تو حور کی مسکراہٹ بمشکل ہونٹوں تک پہنچی ۔۔۔۔ آنکھیں بند کرکے کھولتے وہ خود کو کمپوز کرچکی تھی


میں اتا ہوں۔۔.ولی آہستہ سے کہتے ریسوٹونٹ سے باہر نکل کر سانس لینے لگا جاناں کال کا بہانہ کرتی اسکے پیچھے ائی تھی اسے معلوم تھا کہ ولی اس وقت کیا فیل کررہا ہوگا وہ اسکے پیچھے گیراج میں ائی تھی


ول۔۔۔.وہ ابھی اسے پکارتی کے کسی نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے اسے اپنی جانب پیچھے کھینچنا شروع کردیا مراد کے کہنے پر وہ سب بھی وہی ائے تھے کسی انجان شخص کو جاناں کو دبوچے دیکھ مراد اور سکندر اگے بڑھے تھے


ابے چھوڑ ۔۔۔سمیر نے کہا مراد نے اسکی کالر سے پکڑ کر اسے پیچھے کھینچا اور ایک زور دار مکہ اسکو مارنا چاہا کہ جاناں ایک جھٹکے سے اس شخص کے گلے لگی مراد نے غصے سے اسے دیکھا باقی سبکا بھی یہی حال تھا


رکو۔.پاگل ہو یہ کیا کررہے ہو ۔۔یہ بھائی ہیں ہمارے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیم حاوز کے گلے لگتے بولا مگر سیم کے گلے ملتے حاوز کے چہرے پر ناگواری ائی جسے جاناں نے محسوس کیا ان کچھ مہنوں میں وہ لوگوں کو جاننے لگی تھی


میری افت کا برتھ ڈے پھر بھی مس ہوگیا مجھ سے.... حاوز نے جاناں کی پیشانی پر بوسہ دیتے کہا مراد نے جلتی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا اور حور کو اشارہ کرتے وہاں سے نکل گیا کسی اور کی نظریں بھی حاوز کے چہرے پر موجود تاثرات کو دیکھتے الجھی تھی


دشتِ وحشت میں سرابوں کی اذیت کے سوا


اِک محبت تھی مرے پاس

رہی وہ بھی نہیں .

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

رابطـــے بھلــے نـــہ ھـــوں،

چـــاہتیـــں تـــو رہتـــی ہیـــں


درد کـــــے توســط ســـے،

نسبتیـــں تـــو رہتـــی ہیـــں


چھـــوڑ جـــانـــے والـــوں کـــو،

روکـــــــ تـــو نہیـــں سکتـــے


مُـــدتـــوں مگـــر اُنکـــی

عـــادتیـــں تــــو رہتـــی ہیـــں


وہ ایک کھنڈر میں کھڑا خود کو انے والی مصیبت کے لئے تیار کررہا تھا جانتا تھا اب شاید ہی وہ زندہ بچے کالی چادر اتارتے وہ پڑے بڑے پتھر پر بیٹھ گیا اسی ثنا میں اسے ایک گاڑی دھول اڑاتی تیزی سے اسکی جانب اتے دیکھائی دی اس شخص کے خوف سے پسینے چھوِٹنے لگے تھے


گاڑی اسکے پاس رکنے کی بجائے اسکے گرد گول گول گھوم رہی تھی شاید اسے اسکی کچھ ہی دیر میں ہونے والی حالت کا ہنٹ دے رہی تھی یا شاید اسے اپنے شدید غصے میں ہونے کا پتہ دے رہی تھی


گاڑی کی رفتار ایک دم ہلکی ہوئی اور


بلیک جینز پر ریڈ شرٹ اور بلیک ہی ہڈی پہنے وہ حسینہ چہرے پر ماسک لگائے گاڑی کے برکس پر پاؤں رکھتے جھٹکے سے گاڑی کا دروازہ کھولتی اس شخص کو گریبان سے دبوچ کر زمین پر پٹھک گئی گاڑی ایکدم رکی تھی


میں نے تمھیں کہا تھا وہ لوگ پاک نہیں انے چاہئے ۔۔۔۔وہ غصے سے اسکی گردن دبوچے زمین کے ساتھ لگائے سرد نظروں سے اسے گھورتی ڈھاڑی


م۔میں ں. نے ہر مم. ممکن. کوش۔۔کوشش ک۔ی ت۔تھی۔۔۔۔ وہ شخص تڑپتے اسکے نازک روئی جیسے گلابی ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش میں ہلکان ہوتے بمشکل بولا اسکی سانسیں رکنے لگی تھی


کوشش۔۔. ہنہہہ میں تمھیں کوششوں کے پیسے دیتی ہو ڈیم اٹ ۔۔۔۔. ایک زور دار مکہ اسکے پیٹ میں مارتے وہ اسکی گردن چھوڑتی اٹھ کھڑی ہوئی ہڈی سے نکلتے اسکے بال ہوا کے باعث اسکے منہ پر انے لگے تھے وہ شخص کھانسا گہری سانسیں بھر رہا تھا ورنہ اس ظالم نے زرا کسر نا چھوڑی تھی اسے مارنے کی


میم۔۔۔۔. وہ ابھی بولنے لگا تھا کہ وہ ایڑیوں کے بل مڑی اور ایک زور دار کرارہ تھپڑ اسکے گال کی زینت ہوا وہ شخص گال پر ہاتھ رکھتے زرا لڑکھڑایا پھر سر جھکائے کھڑا ہوگیا کسی مجرم کی طرح


اگر وہ اہی گئے تھے تو اطلاع کس نے دینی تھی مجھے ۔۔۔۔۔وہ اتنے زور سے دھاڑی کہ ہر طرف اسکی خوبصورت سی اواز گونجنے لگی جبکہ وہ آدمی اب اسکے غصے سے پناہ مانگنے لگا تھا


اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور مجھے معلوم تک نہیں ۔۔۔۔ تمھیں پتہ ہے میرا دل کیا چاہ رہا ہے ۔۔۔۔۔ اسے سلگتی نگاہوں کے حصار میں لیتے وہ اسکے قریب اتے پوچھنے لگی تو وہ شخص نفی میں سر ہلاتا پیچھے ہوا


میرا دل چاہ رہا ہے کہ ابھی اسی وقت تمھاری ان چلتی سانسوں کو بند کرکے تمھیں اسی مٹی میں دفن کردوں۔۔۔. اسکی گردن کے پیچھے ہاتھ رکھ کر اسے جھکاتی وہ اسکی آنکھوں میں کالی وحشت سے بھرپور آنکھیں گاڑھتے غرارئی آسکی آنکھوں میں ناچتی وحشت دیکھ وہ شخص جھرجھری لے کر رہ گیا


ایم سوری۔۔۔۔۔ وہ شخص ہاتھ جوڑتے گڑگڑایا وہ ایک قہر زدہ نظر اس پر ڈال کر کار کی طرف بڑھی اس شخص نے شکر کا سانس بھرا مگر اسے کار سے گن نکالتے دیکھ اسکی ہوائیں اڑی


م۔میم۔۔۔۔ وہ بھاگنے لگا کہ اس نے گن لوڈ کرتے ایک فائر اسکے گھٹنے پر کیا وہ شخص لڑکھڑاتے پھر بھی بھاگنے کی کوششوں میں تھا اسے رکتے نا دیکھ رہا اس نے دوسرا فائر کیا اور گولی اسکی دوسری ٹانگ پر گھٹنے کے جوڑ میں لگی


مجھے ڈبل کراس کرنے کی ہمت کیسے ہوئی تمھاری ہاں۔۔۔ کیا تم جانتے نہیں کون ہوں میں ۔۔۔.مجھ سے پنگا لے کر اپنی موت کو خود دعوت دی ہے تم نے ۔۔۔.اسکے بال نوچ کر اسکے سر کو زور سے گول گول گھماتے اس نے ایک فائز اسکی شہہ رگ پر گن رکھتے کیا اور وہ شخص جس چیخ رہا تھا ایک دم بےجان ہوتے گرا


مجھے غداروں سے نفرت ہے ۔۔۔.وہ زمین پر شوٹ کرتی ڈھاری اور اسے وہی پھینکتی وہ گاڑی میں بیٹھتی یہ جا وہ جا ہوئی


یہ دشتِ ہجر یہ وحشت یہ شام کے ساۓ

خدا یہ وقت تری آنکھ کو نہ دکھلاۓ

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

یہ تو تم ہو کہ ہم پہ حاوی ہو ورنہ


ہم تووہ ہیں جن سے وحشت بھی خوف کھاتی ہے!


سپیشل افندیز ۔۔۔۔


وہ سمندر پر کھڑی چاند کو تکتے حاوز کے مطلق سوچ رہی تھی اج اسکے ٹچ سے اسے کراہیت سی محسوس ہوئی حیران کن بات یہ تھی کہ جس دن جاناں کو حیدر نے کڈنیپ کیا تھا اس دن سے حاوز اور اسکی بیوی دونوں غائب تھے اتنے مہینے بعد وہ لوٹا تو وہ بھی اکیلا حاوز کی آنکھیں بھوری تھی ۔.۔جاناں نے غور سے اسکی انکھوں میں دیکھا تو اسے لگا جیسے ان آنکھوں میں گرے أنکھیں چھپی ہیں جیسے اس نے لینز لگائی ہوئی تھی مگر حاوز کو لینز کی کیا ضرورت اسے تو یہ دکھاوا کرنا زرا پسند نا تھا


یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ ۔۔۔.اللہ جی پلیز کچھ کلو مل جائے جو مجھے لگ رہا ہے اگر وہ سچ نکلا تو ؟؟؟ ۔۔۔۔ جانان اسمان کو دیکھتے منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھی کہ کوئی ساتھ ان کھڑا ہوا جاناں نے نظریں گھما کر دیکھا تو معلوم ہوا وہ کوئی لڑکی تھی


پریشان ہو. ۔۔وہ مسکرا کر پوچھنے لگی ۔اسکا انداز جاناں کو بہت بھایا جاناں نے اہستہ سے سر ہلایا


اوہو کوئی بات نہیں جہاں بیرہ افندی ہو وہاں پریشانی ۔۔۔امپوسبل ۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولی تو جاناں نے حیران ہوتے اسے دیکھا


بیرہ.. یو مین بیری ؟؟؟ اپ او ایم جی۔۔. مجھے یقین نہیں ہورہا اپ یہان کیسے ۔۔۔ اسکے ہاتھ چھوتے وہ خوشی سے اچھلی کالی أنکھوں میں چمک ابھری اپنی پسندیدہ ہیرؤن کو وہان دیکھ جبکہ اسکی خوشی سے کوئی اور بھی ہلکا سا مسکرایا تھا


ہمم ہوں ایکچلی رائیٹر نے ہمھیں بوڑھا کرنے کی ناکام کوشش کی تھی مگر میں بھی بیرہ ہوں۔۔اتنی جلدی کیسے بوڑھی ہوجاتی اسی لیے تمھاری کہانی میں گھسنا پڑا ۔.یقین کرو وہاں وہ لوگ مجھے ڈھونڈ رہیں ہونگے اور یہاں میں تمھادے ساتھ تمھاری شاد۔۔۔ بیرہ کی زبان کو بریک لگی ہنسی دباتے وہ شریر نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو اسکے چپ ہونے پر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی


ائی مین تمھارے گھر میں شادی ہے اور تم جانتی تو ہو ہمھیں ڈانس اور شغل میلا ہمارا کام ہے جب تک کریں نا دل کو سکون نہین پڑتا ۔۔فر فر بولتے وہ جاناں کے ہنسنے کا سبب بنی


تو کب تک ہیں اپ یہاں۔۔۔.جاناں نے مسکرا کر پوچھا اسے بیرہ سچ میں بہت پسند ائی وائٹ جینز پر براؤن ہڈی شرٹ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی سمندر پر کھڑی لڑکیاں اسے ہی دیکھ رہی تھی جیسے اسے پہنچاننے کی کوشش کررہی ہوں


پہلے تو مجھے اپ کہنا بند کرو۔۔. اور جب تک تمھیں ہماری ضرورت ہے تب تک ۔۔۔۔ بیرہ نے بال کو کان کے پیچھے کرتے گرے انکھوں کو گھما کر کہا تو جاناں ہنسی


اوکے جناب تو اب اپ میرے گھر رہیں گی نا۔.پلیز ۔۔۔۔جانان نے منت کی کہیں وہ منع نہ کردے


بیبی فکر نہیں کرو تم نا بھی کہتی تو ہم نے تمھارے گھر ہی ڈیرہ ڈالنا تھا ۔.بےشک بہت پیسے ہیں میرے پاس مگر اب ایویں تھوڑی اڑاتی پھروں گی ۔۔۔۔ بیرہ نے کہتے ہی منہ بنایا اسکی ایک گال کھینچتے جاناں ہنسنے لگی بیرہ نے پیچھے مڑ کر کسی کو انکھ ونک کی اسکا مقصد پورا ہوا تھا جاناں کو اسکی پریشانی بھلا کر ہنسانے کا.......

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

موسم موسم آنکھوں کو ایک سپنا یاد رہا..

صدیاں جس میں سمٹ گیئں وہ لمحہ یاد رہا..

قوس و قزح کے سارے رنگ تھے جس کے لہجے میں..

ساری محفل بھول گیئی وہ چہرہ یاد رہا.. ۔

.......................


وہ دونوں اس وقت سڑک پر پیدل چل رہے تھے ۔۔سڑک بلکل خالی تھی ۔۔جگہ جگہ اسٹریٹ لائٹس لگے ہوئے تھے وہ تو سکون کی تلاش میں یہاں ایا تھا اور سمیر اسکا ہمدرد اسکے دل کا حال سننے کے لئے اسکے ساتھ تھا


پتہ ہے سمیر ۔۔۔! میں نے اج تک لڑکیوں کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔۔لیکن اج دیکھ جسے میں نے چاہا بچپن سے وہ ُ مجھے کس طرح اپنی اہمیت باور کروا رہی ہے ۔۔۔ وہ زخمی سا ہنسا تھا اسکی انکھون کے سامنے سے وہ منظر ہی نہیں جارہا تھا جس میں جاناں حاوز کے گلے لگی تھی


مراد لغاری ایک لڑکی کے لئے اتنی تکلیف برداشت کررہا ہے ۔۔.سیریسلی ۔۔.؟؟؟ سمیر خود حیران تھا


وہ لڑکی نہیں ہے سمیر وہ میری زندگی ہے میری جان ہے وہ ۔۔۔ میں عشق کی انتہاؤں میں کھڑا ہوں اگر وہ مجھے نا ملی تو مراد لغاری اپنی زندگی ہار جائے گا ۔۔وہ کرب سے مسکرایا سمیر نے اسے دیکھا جسکی آنکھوں میں درد کے سواء کچھ نا تھا


یار تیری تکلیف مجھ سے برادشت نہیں ہورہی. ۔تو بول تو کسی بابا سے تعویز لکھوا دوں. ۔؟؟ محبوب سیدھا قدموں میں ۔۔. وہ بہت سنجیدگی سے بولا مگر آنکھوں میں واضح شرارت ناچ رہی تھی


بابا سچ میں ایسا کرسکتے ہیں ۔۔.مراد نے بظاہر بےتابی دیکھائی


تو کیا اتنے سیریس موقع پر میں جھوٹ بولونگا ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا جیسے اس سے بڑا صادق کوئی نا ہو


نمبر بول ۔۔. مراد نے پاکٹ سے موبائل نکال لیا سمیر حیرانی سے اسے تکے گیا


تو سچ میں اس بابا سے ملنا چاہتا ہے ۔۔.؟؟؟ اسکی حیرانی کم ہو ہی نہیں رہی تھی


تو کیا میں اتنے سیریس موقع پر جھوٹ بولونگا ۔۔۔ مراد نے اسکا جملہ اسی کو لوٹایا


لیکن یار وہ بابا عمل بہت خطرناک بتاتا ہے ۔۔سمیر افسوس کرتے بولا مراد نے ائبرو اچکایا


جیسے کہ ۔۔۔.؟؟؟


جیسے کہ صبح تین بجے تجھے اٹھنا پڑے گا ۔۔پھر سمندر کے پاس لیموں پھیکنا پڑے گا ۔۔پھر اگلے دن تین بجے اٹھ کر تجھے نہانا پڑے گا ۔۔۔ وہ مگن انداز میں اسے بتائے جارہا تھا


ااستغفراللہ ۔۔.کمینے تجھے اتنا سب کیسے معلوم ۔۔۔کہیں تو نے تو کچھ۔۔۔وہ بول ہی رہا تھا کہ سمیر بول پڑا


میری ہونے والی بیوی کی قسم ۔۔۔کچھ نہیں کرایا میں نے ۔۔۔وہ جلدی سے گلے پر ہاتھ رکھتے بولا تو مراد نے قہقہہ لگایا سمیر بھی اسکے ساتھ ہنسنے لگا


تن مجھے ازما رہے تھے اور میں تمھیں ازما رہا تھا


یعنی تو کسی بابا کا نمبر نہیں چاہتا ؟؟؟ سمیر نے پھر سے شرارت کری


عشق حاصل کرینگے تو اپنے بل بوتے پر۔۔۔۔وہ شان سے بولا تو سمیر نے تفخر سے اسے دیکھا


میرے شیر میں تو مزاق کررہا تھا تاکہ تو اداس نا رہے ۔۔۔۔ خیر چل اب کافی دور اگئے ہیں گاڑی بھی پیچھے رہ گئی ۔۔۔سمیر نے کہا تو وہ سر ہلاتے واپس کو چل دیے


محبت تو بہت چھوٹا لفظ ہے

میری تو جان بستی ہے میری دوست میں


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔

وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح بالکونی میں بیٹھا تھا اسکا دم یہ سوچ کر ہی گھٹ رہا تھا کہ اسکی زندگی کسی اور کی ہونے جارہی ہے وہ کوشش کرنے سے پہلے ہی ہار مان چکا تھا


ہیے برو۔۔۔۔ دانی اور نومی کی انٹری ہوئی وہ دروازے سے انے کی بجائے سیدھا بالکونی میں کودے تھے


ویسے دانی یہاں سے شوٹ کٹ نہیں پڑگیا ۔۔۔نومی نے بالکونی سے نیچے دیکھتے ساتھ کھڑے دانی سے کہا تو وہ سر ہلاتے ولی کے گلے سے چمٹا ہا یوں کہہ لو کہ اسکے گلے میں جھول ہی گیا ولی جو حیرانی سے ان دو نمونوں کو دیکھ رہا تھا دانی کے یوں خود سے ساتھ لٹکنے پر اسے دور کرتا پیچھے ہوا


اپ کون۔۔۔۔ ولی نے ان دونوں سے پوچھا اسکا سوال سن ان دونوں کا منہ بگڑا مطلب جن لوگوں کی دنیا دیوانی تھی اور ولی صاحب ان سے کون ہیں پوچھ رہا تھا


نہیں بھئی کون تو ائسکریم والے کے پاس ہوگی ۔۔۔۔۔ دانی نے اسکی بات کا مزاق اڑاتے مستی میں کہتے اسکی چئیر پر بیٹھا دانی کی بات پر نومی نے قہقہہ لگایا


چھوڑو یار تم بتاؤ پریشان کیوں ہو ۔۔۔نومی نے اسکے گلے میں بازوں ڈالتے دوستوں والے انداز میں پوچھا تو ولی پھر سے اداس ہوا


اسکی انگیجمنٹ ہورہی ہے ۔۔۔۔ ولی نے اداسی سے کہا ان دونوں کو اسکی اداسی زرا پسند نا آئی


انگیجمنٹ ہی تو ہے شادی تھؤڑی نا ہے ۔۔۔۔ نومی نے جھٹ سے کہا مگر ولی سر نفی میں ہلاتے چئیر پر بیٹھا


لیکن وہ کسی کی تو ہوجائے گی نا۔۔۔۔ وہ نجانے کیا سوچ رہا تھا


اوو کاکے پھر تو صبر کر اس سے اچھی کوئی اور مل جائے گی ۔۔.نومی دانی کو آنکھ مارتے بولا جسے سمجھتے دانی نے سر ہلایا


تیرے کہنے کا کیا مطلب ہے اسکے والی اچھی نہیں ہے کیا ؟؟؟؟ دانی نے اسے مصنوعی سنجیدگی سے گھورا اسکی بات پر ولی نے بھی ائبرو اچکاتے اسے دیکھا


اچھی ہے مگر وہ تو انگیجمنٹ کررہی ہے نا ۔۔.نومی نے مایوس ہونے کی ناکام سی کوشش کی


اس نے تو نہیں کہا کہ اسکی انگیجمنٹ ہورہی ہے ۔.بات تو اسکے بھائی نے کی تھی نا ۔۔۔۔ دانی نے ولی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا تو ولی کا ماتھا ٹھنکا ہوں مراد کی بات کے بعد اسے حور نظر ہہ نہیں ائی تھی


یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں.... ولی جھٹکے سے اٹھتے بولا تو ان دونوں نے نفی میں سر ہلاتے اسے دیکھا


عقل ہوتی تو سوچتے نا ؟؟؟؟دانی نے نومی کے کان میں سرگوشی کی تو وہ ہنسا


اچھا خیر چلو اسکے گھر چلے جاؤ ملنے رات بھی ہے اور موقع بھی ۔۔.دانی نے بھونگی ماری تو نومی نے اسے کہنی ماری


موقع بھی ہے اور دستور بھی ہوتا ہے ۔۔کیوں عزت کا بھاجی پالا کرنے کے چکروں میں لگا ہے تو ۔۔۔.نومی نے اسے جھڑکا


چلو بھائی مجھے کافی بھوک بھی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ دانی نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے کہا


تو؟؟؟؟؟ نومی نے ہونٹوں کو گول کرتے پوچھا


تو یہ کہ بھاجی بنا لونگا تو روٹی کا بندوبست کر ۔۔۔دانی نے رازداری سے کہا مبادہ کوئی انکی بھاجی چرا ہی نا لے ۔۔۔۔


بکواس نا کر دانی ۔.چل گڑیا کے پاس چلیں۔۔۔. اسے کھینچتے وہ نیچے کی طرف بڑھے

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


زﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻟﺠﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ اﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ..


یہاﮞ ﺣﺪ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﺑﮭﻰ ﻣﺎر ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ


...................

رات کا وقت تھا وہ دونوں باتیں کرتی ڈرائیو کررہی تھی کہ انکی گاڑی کسی سنسنان سی سڑک پر سے گزری اور کئی نقاب پوشوں نے انہیں گھیر لیا جاناں نے بریک پر پاؤں رکھتے ان سبکو دیکھا


ہینڈز اپ۔۔۔۔جاناں کیا طرف گم کرتے وہ اسے باہر نکلنے کا کہنے لگے جاناں چپ چاپ باہر نکلی دوسرے نقاب پوش نے بیرہ کو گاًڑی سے نکلنے کا کہا


دیکھ بھئی اگر میں یہاں سے ہلی نا تو تم لوگوں نے بھاگ جانا ہے ۔۔بیرہ نے پرسکون انداز میں کہتے جاناں کو دیکھا جو اسکے جواب پر گھبرا رہی تھی


افف یہ ادائیں۔۔۔ ایک ادمی جاناں کو دیکھتے کمینگی سے بولا بیرہ اسی وقت گاڑی سے نکلی تھی اور جاناں کے ساتھ ان کھڑی ہوئی


ادائیں تو تیری بہنوں کے پاس بھی ہونگی نا۔۔۔۔ بیری نے ڈل جلی مسکراہٹٹ سے اسے اگ لگائی تو ادمی گالی دیتے اسے مارنے کے لئے اسکی طرف بڑھا


بیرہ نے ایک پاؤں اسکے گن والے ہاتھ پر مارتے گھوم کر ایک پاؤں اسکی شہہ رگ پر مارا اور ہاتھ کا مکہ بناتے اسکی گال پر اتنی زور سے مارا کہ وہ شخص بغیر کسی حرکت کہ زمین پر گرا جاناں نے جھک کر گن اٹھائی اور ایک پر فائر کیا ایک, ادمی نے بیرہ پر گولی چلائی مگر بیرہ جھک کر اسکی گولی کو بےکار کردیا ۔۔۔ ایک کہ بعد ایک مکہ اسکے منہ پر جڑتے اسے نیچے گرانے میں کامیاب ہوگئی


بیری ۔۔.وہ جاناں کی اواز پر مڑی جسکے دونوں ہاتھ ادمیوں نے پکڑ رکھے تھے اور وہ رونے لگی تھی بیری اگے بڑھتی کہ آدمیوں نے اسکے ہاتھ بھی جکڑ لیے


جان۔۔رو مت اور مجھے دیکھو۔. بیرہ نے جاناں کو روتے دیکھ مسکرا کر کہا جاناں کے دیکھنے پر اس نے اپنی پلکیں جھپکانی شرور کردی ۔۔۔۔ جانان نے حیرانی سے اسکی پلکوں کو دیکھا


جانان نے سمجھتے سر ہلایا اور زور سے آنکھیں بند کرتے اپنے ہاتھ کھینچے اور دونوں ادمیون کو دھکا دیتے گاڑی میں گھستے لاک کردی ۔۔۔.کیونکہ گاڑی بلٹ پروف تھی ونڈو بند کرتے وہ سکون سے آنکھیں بند کرگئی


اب بتاتی ہوں تجھے ایڈیٹ ۔۔۔بیرہ نے کہتے اپنی طرف اتے دونوں آدمیوں کے سہارے پاؤں انکے سینے پر مارے اور ان دونوں آدمیوں کو گھماتے انکی ریڑھ کی ہڈی پر وار کرتی وہ انہیں ڈھیر کرگئی


جاناں نے دیکھا کوئی اور بھی بیرہ کے ساتھ ہے وہ حیرانی سے اسکی ہڈی میں چھپی ہستی کو دیکھ رہی تھی سبکو مار گراتے جاناں بیرہ سے ملی


تھیکنس فار کمنگ ۔۔۔۔ جاناں نے کہا تو وہ کھلکھلاتی اسکے گال چوم گئی


دیکھ جانی اپنا دوستی سے بڑھ کر رشتہ ہے اب تو بلاتی اور میں نا اتی ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔وہ ایک ہاتھ اسکے کندھے کی گرد جماتی بولی جاناں گاڑی سے نکلتی انکے پاس ائی تھی


.خیر یہ لوگ ڈاکو نہیں تھے کسی کے ادمی تھے اسی لیے تو سانس رہنے تک لڑتے رہے ۔۔۔۔ جانان کی نظروں کا مطلب سمجھ وہ اسے بتانے لگی جبکہ جاناں ہڈی میں چھپی لڑکی کو دیکھنے لگی اسکی انکھوں میں جاناں شازم خان کی تصویر لہرائی


انی ۔۔۔۔وہ جیسے کنفرم کرنے کے لیے بولی تو جاناں نے چونک کر اسے دیکھا چونکی تو بیرہ بھی تھی مگر پھر مسکرا دی


جتنا مرضی دور ہو خون کی کشش انسان کو اپنے اپنوں کے قریب کھینچ لاتی ہے ۔۔۔۔۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی گاڑی کی طرف بڑھی اس میں سے کین نکالتے وہ کھول کر ہونٹوں سے لگا گئی


اپ جانان شازم خان ہیں نا ۔۔۔۔وہ جانے لگی تو جاناں نے اسکے ہاتھ پکڑتے روک کر پوچھا


اپ کہاں چلی گئی تھی اپکو پتہ ہے ماما اپکو کتنا یاد کرتی تھی ۔۔۔۔ جانی تو رونے لگ جاتی تھی ۔۔۔۔ جانان نے اسکے گلے لگتے نم اواز میں کہا تو جاناں نے ایک ہاتھ سے اسکے بال سہلائے


ہممم ۔۔۔۔۔ وہ بسس ہممم ہی کرکے رہ گئی


اپ اپ چلیں گی نا ہمارے ساتھ ۔۔۔ہمارے گھر ۔۔۔۔ پلیز چلیں ولی اور سیم بہت خوش ہونگے اپ سے مل کر ۔۔۔۔ جاناں کے ملنے کی خوشی میں وہ یہ بات بھول ہی چکی تھی کہ جاناں مرچکی تھی پھر وہ زندہ کیسے ہے ۔۔۔؟؟؟


ابھی تم جاؤ مجھے کچھ کام ہے ۔۔۔۔ جاناں نے اہستہ سے کہا اور بیرہ کو اشارہ کیا اسے لے جانے کا


چلو جاناں چلیں۔۔۔. بیرہ نے گاڑی میں بیٹھتے کہا تو جاناں مڑی مگر ایک بار رکی


جانی اپ ائینگی نا ۔۔۔۔ وہ کہتے اسکی طرف امید سے دیکھنے لگی اسکے جانی کہنے پر وہ ساکت ہوئی پھر آہستہ سے سر ہلایا تو جاناں نے خوش ہوتے گاڑی کی جانب قدم بڑھائے


انکے جاتے ہی جاناں اپنی بائک لیتی وہاں سے نکلی اسکا ارادہ آج اویش شاہ سے ملنے کا تھا جو یقیناً پورا ہونا تھا


مجھے وحشت ہے رونق سے

مجھے ویران رہنے دو.........


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


وہ اپنے بیڈ روم میں صوفے پر بیٹھا لیپ ٹوپ پہ کام کررہا تھآ کہ اچانک لائٹس آف ہوئی پہلے تو و چونکا پھر کچھ سوچتے مسکرایا صوفے کے سامنے پڑی ٹیبل پر پاؤں رکھتے وہ لیپ ٹوپ بند کرچکا تھا


او او تمھارا ہی انتظار تھا ۔۔۔کتنی دیر لگا دی انے میں ۔۔۔۔ ہیل کی ٹک ٹک کرتی اواز پر وہ ہلکا سا مسکرایا اور نظریں دروازے سے اتی روشنی کی طرف کی جہاں سے وہ اندر ارہی تھی


اویس ۔۔۔ایک پرسوز اواز گونجی اویس نے تھوڑا سا جھکتے اسے سلام کیا اور سیدھا ہوا


فرمائے حضور ۔۔۔۔ وہ مسکراتے لہجے میں بولا تو جاناں نے اسے گھورا


تم نے یہ سب جان کر کیا ہے ۔۔۔ لائٹس ان ہوئی تو وہ اسکے وجہیہ چہرے کو گھورتے بولی نقاب سے دو کالی آنکھیں نظر ارہی تھی


ہوں کیا تو جان کر ہی تھا تاکہ تم سامنے اجاؤ مگر تم تو سامنے اکر بھی سامنے نہیں ہو ۔۔۔۔. اویس نے اسکے ماسک کو دیکھتے کہا تو جاناں طنزیہ ہنسی


اپنے بھائی کے قتل کی وجہ بھی تم ہی ہو اویس ۔۔۔۔ وہ سرد لہجے میں بولی تو اویس نے قہقہہ لگایا


بھائی کونسا بھائی ۔۔۔تم بھول گئی کہ اپنے والد حضور کا اکلوتا چشم و چراغ ہوں میں ۔۔۔.وہ گلے میں موجود لاکٹ کو ہاتھ سے گھامتے بولا تو جاناں نے اثبات میں سر ہلایا


اب کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔۔ جاناں سب کچھ بھلائے بات پر آئی تو اویس کی آنکھوں میں چمک ابھری تھوڑا اگے جھکتے وہ کھنکتے لہجے میں بولا


جاناں شاہ ۔۔۔۔۔ وہ دلکش سی مسکراہٹ سے بولا جانان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا


کیوں ۔۔۔۔۔ ؟؟؟


کیونکہ مجھے تمھاری وہ بھانجی دل کے قریب لگنے لگی ہے پہلی نظر کا عشق سمجھ لو۔۔۔۔ وہ ایک آنکھ ونک کرتے بولا جو جانان نے اسے دیکھا


کیا گیرنٹی ہے کہ تم اسے میرے خلاف یوز نہیں کروگے ۔۔۔۔۔ جانان نے ائبرو اچکا کر اسے دیکھا


میری تمھاری کوئی دشمنی نہیں ہے جاناں ۔۔۔ وہ نظریں اسکی انکھوں میں گاڑتے بولا


تم جانتے ہو تمھارے باپ کو ہم نے نہیں تمھارے ہی ساتھی نے مارا تھا ۔۔۔۔ اس کرنل نے پھر بھی تم ہم سے دشمنی مول لے رہے ہو ۔۔۔۔ وجہ جان سکتی ہوں۔۔۔۔ جاناں نے اسے گھورا تو وہ سیدھا ہوا


پہلی بات یہ کہ تم جانتی ہو میں اپنے قول کا کتنا پکا ہوں ۔۔.اور دوسری بات دشمنی نہیں کررہا میں ۔۔۔. میں چاہتا ہوں ہم ساتھ ہوجائیں پھر اس کرنل سے نپٹ لونگا میں ۔۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا


اس کرنل سے میں خود ہی نپٹ لونگی ۔۔۔بس تم اس سے دور رہو ۔۔۔وہ تمھیں نہیں جانتی ۔۔۔تم کیوں خود کا امیج خراب کرنے پر تلے ہو ۔۔۔۔. جاناں نے صوفے پر بیٹھتے اسے گھورا


ہائے ایسے بات مت کرو دل کو کچھ کچھ ہوتا ہے ۔۔۔۔ وہ مجھے برا سمجھے یا اچھا ہونا تو وہی ہے جو اویس شاہ چاہے ۔۔۔۔ وہ مسکراہٹ دباتے بولا جاناں نے اسے گھورا مگر وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہنسنے لگا


میں جسٹ بات کرونگی اگر اس نے منع کردیا تو تم بھول جانا اسکو ۔۔.جاناں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا بظاہر تو اس نے سر ہلایا مگر اندر ہی اندر وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا


................


بدمعاشی میں پڑھو گے تو صفحہ اول میں ملوں گا


اور شرافت کی کتاب کا پہلا باب ہوں میں.


................


اسے چھوڑنا یعنی زندگی ہار جانا۔۔۔۔ اویس کی آنکھوں کی چمک دیکھ جاناں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہورہی تھی ۔۔۔۔


اویس شاہ مرتضی شاہ کا بیٹا تھا جو جاناں شازم خان کا کافی مدد گار بھی تھا کرنل نے ان دونوں کو ہی ڈبل کراس کیا تھا جاناں کو مرا ہوا سمجھ کر کرنل پرجوش ہوا تھا وہی اس نے اپنے پلین کے تحت مرتضی شاہ اور انکی بیوی کو بھی مار ڈالا مگر اسکے بیٹے کو نہ مار سکے ۔۔۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


جاناں کہان ہے ۔۔.حاوز نے سیم سے پوچھا جو ابھی ٹیبل پر آبیٹھا تھا اسکے منہ سے جاناں سن سیم نے حیرانی سے اسے دیکھا


وہ لوگ کبھی بھی جاناں کو نام سے نہیں بلاتے تھے بسس جان ہی کہا کرتے تھے بچپن سے ہی۔۔ان سبکی عادت تھی ۔۔۔.


وہ باہر گئی ہے شاید کچھ کام تھا اسکو۔۔۔.سیم نے چاول پلیٹ میں ڈالتے سرسری سے انداز میں کہا اور نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو پلیٹ کو گھورتے کچھ بڑبڑا رہا تھا سیم حیران ہوا


بھئ کیا ہوا؟؟؟ سیم نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلاتے وہاں سے اٹھا مگر ہال میں جاناں کو انٹر ہوتے دیکھ رکا بمشکل ہونٹوں کو کو پھیلاتے مسکرایا مگر اسکے ساتھ بیرہ کو دیکھ اسکی مسکراہٹ سمٹی


ہائے ۔۔۔۔بیرہ نے حاوز کو ہائے کیا اور چیئر کھینچ کر اس پر بیٹھی سر ہلاتے وہ بھی ٹیبل پر بیٹھا


آہاں آج و جان کا چہرہ گلاب جیسے کھل رہا ہے ۔۔خیریت ہو۔۔۔ سیم نے مسکراتے اسے دیکھا جو ہنس رہی تھی


ہوں پہلے تو تم ان سے ملو یہ ہیں بیرہ آفندی جانی کی دوست ۔۔۔۔ اب ہمارے ساتھ رہیں گی ۔۔۔. اور ایک بات کہ جا۔۔۔.


سرپرائز ہے وہ کل شام کو پارٹی میں پتا چلے گا تم سبکو ۔۔. سیم سے کہتے وہ حاوز کے چہرے کے اڑتے رنگ دیکھ کر مسکرا رہی تھی


آج بسس اپنے ہی ہونگے مراد حور رباب مرحا اور ۔۔۔۔


اچھا بابا پہلے ڈنر کرلو ۔۔حاوز نے اپنی اکتاہٹ چھپاتے کہا تو جاناں کھانا کھانے لگی بیرہ بسس جوس پی کر حاوز کا جائزہ لے رہی تھی


بلیک جینز پر ریڈ شرٹ آوارہ لڑکوں کی طرح بالوں کو ڈائی کرے وہ ایک جوکر لگ رہا تھا


لوفر ہے یہ تو۔۔.میری انفارمیشن کے مطابق حاوز بہت سیدھا سادھا کیوٹ بوائے ہے ۔۔۔مگر اسے دیکھ کر تو نہیں لگتا ۔۔۔۔ بیرہ نے دل ہی دل میں کہا اور سیم کو دیکھا جو ڈیسنٹ سا لگ رہا تھا


ہائے ۔۔۔۔ سیڑھیاں اترتے وہ بولے اور بیرہ کے ساتھ لگے اسکے گال چومتے وہ دونوں چئیرز پر بیٹھے تھے حاوز نے ناگواری سے انہیں دیکھا سیم پہلے ہی ان سے مل چکا تھا جاناں بھی مسکرائی بیرہ اسے ان دونوں کے بارے میں بتا چکی تھی


اکیلے اکیلے ٹھونسے جارہے ہو یہ نہیں ہوا کہ ایک بار پوچھ لو ہم سے ۔۔۔۔ نومی نے سیم کے ساتھ بیٹھتے کہا تو وہ مسکرایا


مجھے لگا تم لوگ تھک گئے ہو تو ریسٹ کررہے ہوگے ۔۔۔۔.


اوو نہیں ہم نہیں تھکتے ۔۔۔. دانی نے دانت دیکھاتے کہا تو وہ سب ہنسے سوائے حاوز کے


اور بھی کوئی ہے ۔۔۔ جس نے انا ہو ۔۔۔۔ حاوز اکتاہٹ سے بولا تو جاناں اور سیم نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا سیم کچھ بولتا کہ جاناں نے اسے انکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے کا اشارہ کیا


ضرورت پڑی تو بلا لیں گے ۔۔.اگر کہو تو ابھی بلا لیتے ہیں ۔۔۔۔ بھلا وہ کبھی برا مان سکتے تھے مسکرا کر بولے تو حاوز نے گھور کر اسے دیکھا

***


ماسک لگائے وہ وجود ۔۔۔ ایک کمرے کی طرف دبے قدموں سے بڑھ رہا تھا ۔۔. سرخ ہوتی نیلی آنکھوں میں عجیب سا جنون تھا ہاتھوں میں گن پکڑے وہ بہت محتاط انداز میں اردگرد دیکھتے آگے بڑھ رہا تھا دروازے کے پاس پہنچتے اس نے ہلکا سا دروازہ کھولا اور بجلی سی تیزی سے اندر گھسا


پ۔پلیز...ک. کچھ..اا.اسے...مم۔مت...وہ وجود زخموں سے چور تھا یہاں تک کہ اسکی اواز میں بھی کرب تھا کہ نیلی أنکھوں میں شعلے سے بھڑک اٹھے


موبائل کی لائٹ ان کرتے اس نے اس شخص کی طرف کئ تو دیکھا وہ خوبصورت نوجوان کسی بےہوش لڑکی کو اپنے حصار میں لئے بیٹھا اس لڑکی کی وجود کافی بھرا بھرا تھا


شششش۔۔۔۔بھاری سرگوشی کرتے اس نے ایک عجیب سی چیز نکالتے ان زنجیروں پر ماری کہ ایکدم زنجیریں ٹوٹ کر زمین پر گری اس شخص نے اس لڑکے کو اٹھانا چاہا مگر وہ اپنے ساتھ موجود لڑکی کو چھوڑ ہی نہیں رہا تھآ جو اب ہلکی سی آنکھیں وا کرتی اسے دیکھ رہی تھی


اس نے موبائل پر میسج کیا تو دو لیڈیز اور ایک لڑکا اندر ائے انہیں لیتے وہ وہاں سے نکلے اور وہ شخص وہاں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ اخر کیا تھی اس شاہ فیملی کی حقیقت


یقیناً اب وہ ماضی سامنے لانا والا تھا کہ اخر کیسے جاناں خان زندہ بچ گئی اگر زندہ تھی تو پوشیدہ کیوں تھی


***


روشنیوں سے جگمگاتے اس کمرے میں وہ ڈرنک پر ڈرنک کرے جارہا تھا اور سامنے والا شخص اسے ہی دیکھ رہا تھآ


وہ لڑکی ہمارے بہت کام کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ چاہیے مجھے کرنل ۔۔۔۔۔ ڈرنک کرتے آدمی نے کہا جاناں کا چہرہ انکے لیے کسی لاٹری سے کم نا تھا کیونکہ صرف جاناں ہی تھی جو فیض بھائی (انڈر ورلڈ ڈون) سے ہیرے لے سکتی تھی اسکے علاوہ بھی بہت کام تھے انکے پاس


میں اسے اٹھانے کا پورا پلین بنا چکا ہوں بسسس مجھے ایک رات کے لئے وہ چاہیے ۔۔۔۔۔ کرنل نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے کہا تو اس ادمی نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا پھر کچھ سوچتے مسکرایا


ہممم۔۔۔۔ مگر سننے میں ایا ہے کہ اسکے ساتھ آفندیز کی بہن بھی ہے ۔۔۔۔اور تم کیا سبکو یہ بات معلوم ہے کہ آفندیز اپنی بہن کے معاملے میں کیا سے کیا کرجاتے ہیں ۔۔۔۔ کچھ نا ہو کر بھی وہ لوگ بہت کچھ ہیں ۔۔۔۔۔اس ادمی نے پرسوچ نظریں کرنل پر ٹکائی جسکے چہرے پر پرسرار سی مسکراہٹ تھی


وہ کچھ نہیں کرسکے گی ۔۔۔۔ اسکے غائب ہونے کے بعد ہی سب کو اسکے غائب ہونے کا معلوم ہوگا ۔۔۔۔ ایسا پتہ پھینکا ہے کہ کسی کو بھی شک نہیں ہوگا ۔۔۔۔کرنل نے شاطرانہ انداز میں کہا تو اس شخص نے اوکے کا اشارہ کیا ا


یہ بات یاد رکھنا کرنل کہ ۔۔۔مٹھو کا کام پورا نا ہونے پر سامنے والا کا انجام کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔مٹھو اسے اپنے بارے میں باور کروانے لگا کرنل نے سر ہلایا اور اٹھتے وہاں سے چل دیا


اس سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے جانے نہیں دونگا کرنل ۔۔۔۔ تو خود کو بہت شانہ سمجھتا ہے تیری ساری شان پتی نکالوں گا میں ۔۔۔۔مٹھو اس جگہ کو گھورتے بولا جس جگہ پر پہلے کرنل بیٹھا تھا


***


جاناں چھوٹی جاناں کو کراٹے سکھا رہی تھی اور بیرہ وہی بیٹھے تالیاں پیٹ رہی تھی ولی اور سیم بھی جم میں موجود تھے اور جاناں کو دیکھ رہے تھے پہلے تو وہ جاناں انی کو دیکھ حیران ہوئے تھے پھر کچھ سمجھتے سر ہلا گئے


ویسے سیم اگر کوئی تمھارے سامنے تمھاری جان کو مارنے کی کوشش کرے ۔۔۔اور وہ شخص بھی تمھارے بہت قریب ہو۔۔.تو تم اپنی جان کو بچاؤ گے یا اس شخص کا ؟؟؟؟ بیٹھے بیٹھے بیرہ نے سوال کیا


افکورس اپنی جان کو سیف کرینگے ۔۔.سب بہت قریب ہیں ہمارے مگر اس سے زیادہ قریب اور کوئی نہیں ۔۔۔۔ ولی نے فٹ سے جواب دیا تو بیرہ ہنسی اسکے بھائی بھی تو ایسے ہی اس سے محبت کرتے تھے


آہاں گریٹ ۔۔۔۔۔۔ ویسے ولی ۔۔۔ تمھاری انگیجمنٹ ہے کوئی تیاری شیاری نہیں ۔۔۔۔ بیری نے حیرانی سے اسے دیکھا تو ولی کا منہ کھلا


نہیں میری نہیں ہے حور کی ہے بیرہ ۔۔۔۔ولی نے اداسی سے کہا تو بیرہ نے نفی میں سر ہلایا کہ ان لوگون کے سرپرائز کا ستیاناس کرچکی تھی


یہ لوگ تمھیں پاگل بنا رہیں ہیں ۔۔.تم خوش ہوجاؤ تمھاری شادی شروع ہے کل سے ۔۔۔۔۔۔ ناچو گاؤ عیش کرو یار ۔۔۔۔. بیرہ نے کہا تو ولی تو وپی خوشی سے مارنے ناچنے لگا ان دونوں نے رک کر اسے دہکھا


کیوں اتنا مٹک رہے ہو۔۔۔۔ ؟؟؟ جانان نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا جو وہ چپ ہوتے افسردہ ہوا


حور کی شادی ہے نا تو بسس دل تو پاگل ہورہا ہے. ۔۔۔۔ وہ افسردگی کا ناٹک کرنے لگا مگر کب تک جان کی تیز نظروں نے اسکے اور بیرہ کے تاثرات دیکھ کر سمجھ چکی تھی کہ معاملہ کیا ہے


***


وہ دونوں اس وقت ٹیرس پر بیٹھے تھے اور طلوع ہوتے سورج کو دہکھ رہے تھے اس سورج کے طلوع ہونے کے بعد جانے انکے ساتھ کیا ہونا تھا


یار مسئلہ کیا ہے اس کرنل کے بچے کو ۔۔.قبر میں ٹانگیں ہیں مگر شیطانی کاموں سے فرصت نہیں مل رہی اسے ۔۔۔۔۔۔ نومی نے اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلتے کہا


اوو بھئی شیطان ہے تو شیطانی کام کررہا ہے.. اور شیطان کبھی بھی نہیں سدرھتا ۔۔۔.کہو تو آج کچھ ہاتھوں کی گرمی نکال ائیں ۔۔۔۔ دانی نے سوچتے پوچھا اسکی انکھوں میں وہ چمک کسی نئے ٹوسٹ کے انے کا انتظار تھا


ہائے میری جان اگر تو یہ کام کردے تو قسم سے تیرا منہ چوم لونگا میں ۔۔۔۔ خوشی کی شدت سے وہ کچھ الٹا ہی بول گیا دانی نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا


دیکھ بھئی تو مجھے ویسا لڑکا نہیں سمجھنا ۔۔۔. مجھے میری عزت بہت عزیز ہے ۔۔۔۔ میری بیوی کو معلوم ہوگیا نا تو اس نے مجھے گھر سے نکال دینا ہے..... دانی نے اسمان پر موجود بادلوں کو دیکھتے کہا نومی اسکے ساتھ بیٹھا تھا ہنسنے لگا


نا یار تو میرا بھائی ہے تجھے میں کبھی بھی غلط نظر سے نہیں دیکھ سکتا..... وہ دونوں ہنستے ٹیرس پر کھڑے ہی جھومنے لگے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالتے وہ یوں جھوم رہے تھے جیسے ہسبینڈ وائف ہوں


ویسے آج پارٹی ہے.. میرا دل کررہا ہے کہ اج کچھ دھماکہ کرو ۔۔تو بتا کیا خیال ہے کریں کچھ۔۔۔۔. دانی نے نومی کے ساتھ ڈانس کرتے پوچھا جو کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا


اوئے ۔۔۔۔کچھ دماغ میں اتے وہ اسے لیے نیچے کی طرف بھاگا دانی نے حیرانی سے اسکے ساتھ بھاگا وہ دونوں ایک کمرے کے سامنے رکے دانی نے اشارے سے پوچھا کہ کیا کررہا ہے


کل یہ ہمھیں دیکھ کہ جل رہا تھا نا ۔۔۔آج اسکو اصل میں نا جلا دیا تو میرا نام بھی نومی افندی نہیں ۔۔. شیطانی دماغ میں ایک شیطانی کھچڑی تیار ہوچکی تھی جسکو دم پر لگانے وہ لوگ جارہے تھے چپکے سے وہ دونوں کمرے میں گھسے دیکھا تو وہ کمرے کو رومانوی بنائے خواب کی سیر پر نکلا تھا


میری جان سو لے جتنا تیرا دل چاہے پھر تو دیکھ اٹھتے تیری بوتھی کا نقشہ ۔۔۔۔ دانی کو اسکے منہ کی طرف کچھ اشارہ کرتے وہ واشروم کی طرف بڑھا کچھ ہی دیر میں وہ دونوں اپنی اپنی کارگردگی دیکھ خود کو سراہے بغیر نا رہ سکے


بھئی کھچڑی دم پر ہے تھوڑی دیر میں اٹھ کر کھائیں گے ۔۔۔۔ وہ دونوں کمرے سے نکلتے ہنسے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر تالی بجاتے ہال کی طرف بڑھے


***


حاوز اٹھتے کپڑے لیتے واشروم کی طرف بڑھا ۔۔۔کچھ دیر بعد وہ نہا کر ایا اور مرر میں خود کو دیکھنے لگا آئنے میں خود کو دیکھتے اسکی چیخ نکلی


ی۔یہ کون ہے ۔۔.او۔او مائی گوڈ یہ۔کیا۔ہوگیا۔۔اپنے چہرے کو ہاتھ لگاتے وہ بولا کہ اسکے ہاتھ اسکے چہرے سے چپکنے لگے تو وہ جلدی سے واشروم بھاگا بار بار چہرہ دھوتے اس نے پھر مرر میں دیکھا اسکے ماتھے پر کالا بڑا سا ٹیکا لگایا گیا تھا اسکے آنکھوں کے نیچے لال کلر کے سرکل بنائے گئے تھے اسکی ناک کو عجیب لمبا چوڑا بنایا گیا تھا وہ بھی سبز کلر سے ۔۔۔. اسکی گالوں پہ نیلے کلر لگائے گئے تھے


اہہہہہ۔......اپنی عجیب و غریب شکل دیکھ اسکی چیخیں نکل رہی تھی ٹاول اٹھائے اس نے اپنا چہرہ صاف کرنا چاہا مگر ٹاول پر لگی مرچی اسکے آنکھوں کے ساتھ اسکے چہرے کو بھی جھلسانے لگی باہر کھڑے وہ دونوں اسکی چیخ و پکار سن کر ہنستے گھر سے ہی نکل گئے نیا پھڈا ڈالنے کی تیاری بھی تو کرنی تھی نا


آن آفندیز کو چھوڑوں گا نہیں میں ۔۔۔.وہ چیختے باہر دیوار کے سہارے باہر نکلا اور نیچے کی طرف جانے لگا


***


سیم یار وہ پھول اتار دینا ۔۔۔۔رباب نے پارٹی کی تیاریوں میں مصروف سیم سے کہا


کیوں تمھارا ہاتھ نہیں جارہا ۔۔.؟؟؟ سیم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا پھر ہنس دیا اسکا قد درمیانہ تھا اسی لیے اسکا ہاتھ وہان تک نا پہنچ سکا


نہیں جارہا تو نہیں جارہا اتار دو۔۔.ہاتھ نہیں جارہا میرا ۔۔۔وہ لٹھ مار انداز میں بولی ۔رباب نے اسکی اس حرکت کے بعد سے ہی اس سے کم بول چال رکھا تھا


تو میری جان رولیکس کے ڈبے میں چلانگ مار لینی تھی کوئی افاقہ ہوسکتا ہے ۔۔۔سیم مسکراہٹٹ دباتے بولا


ہنہہ مجھے چھوڑو تمھارا قد ضرورت سے زیادہ لمبا ہے ۔۔۔. اپنے پاؤں یا گردن کٹوا کر چھوٹا کرلو ۔۔۔۔ رباب نے جل کر کہا تو سیم نے قہقہہ لگایا


آہاں جانیا. ۔۔۔۔ ایسا کیسے چلے گا ۔۔۔ایک کام کرو تم جم کیا کرو تاکہ تھوڑی لمبی ہوجاؤ ۔۔۔۔۔ ورنہ ایک اور طریقہ بھی ہے میرے پاس ۔۔۔. وہ پھول اتار کر اسے دیتے زومعنیت سے بولا اور اسکے کان کے قریب ہوتے جو بولا تو رباب کو لگا اسکا چہرہ جھلس رہا ہے


بڑے ہی کوئی بےہودہ انسان ہو سیم ۔۔.بتاتی ہوں تمھاری بہن کو ۔۔۔۔۔ اسے دھکا دے کر پیچھے کرتی وہ دھمکی لگاتی وہاں سے چلی گئی اسے اپنے پیچھے اسکا زار دار قہقہہ سنائی دیا تو سر جھٹکتے مسکرائی


***


ہائے حور تیرا معصوم دیوانہ وہاں دیوانہ ہوا پڑا ہوگا چپراسی نا ہو تو ۔۔۔۔۔ وہ سوچتے بیڈ پر گری مگر سامنے کاؤچ پر نظر پڑتے ہی جھٹکے سے اٹھی


وائٹ جینز شرٹ ۔۔۔پہنے دائیں ہاتھ میں قیمتی گھڑی پہنے ۔.پیشانی پر گرے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے وہ سرخ نظریں اسکے وجود پر گاڑھے ہوئے تھا اسکو دیکھتے ولی نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی


کیا سوچ کر تم کسی اور کی ہونے پر امادہ ہوئی ؟؟؟؟؟ولی نے اپنی اواز کے تھوڑا بھاری کرتے سخت لہجے میں پوچھا جبکہ سرخ آنکھوں میں جنون تھا


ک۔کیا مطلب ۔۔۔۔حور کی زبان لڑکھڑائی تھی اسکی اواز آسکی نظریں اسے عجیب سی وحشت میں مبتلا کررہی تھی ولی اسے گھورتے کاؤچ سے اٹھا اسکی طرف بڑھنے لگا


تم میری ہو حور ۔۔۔۔ مجھے بیماری لگ گئی ہے اب۔۔۔ جسکا علاج صرف تم ہو حور صرف تم ۔۔۔اسکے بازوؤں کو دبوچے وہ اسے اپنے قریب کرتے اسکی پیشانی سے پیشانی ٹکائے بولا


ک۔کونسی..بی۔..بیماری؟؟؟؟ اسکی تیز ہوتی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرتے وہ منتشر ہوتی دھرکنوں سے پوچھنے لگی تو ولی نے سرخ خمار بھری آنکھیں کھولی نظروں کا تبادلہ ہوا تو حور نے ڈھڑکتے دل سے نظریں چرائی


ایڈیکیشن اف لو ۔۔۔ 😍😍😍😍😍


عشق کی لت لگ گئی ہے مجھے حور ۔۔۔۔اور اسکا علاج صرف تم ہو ۔۔۔۔ حور میں ادھورا ہوں تمھارے بغیر تمھارے بغیر ولی کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔ مجھ سے شادی کرلو حور ۔۔۔ مجھے مکمل کردو ۔۔۔ حور ۔۔۔۔۔ جزبات سے لبریز اواز اسکے کانوں میں رس گھولنے لگی


اسکے سامنے وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا ایک ہاتھ اسکے سامنے پھیلاتے اس نے محبت پاش نظروں سے اسکے گرد ایک سحر سا باندھ دیا تھا


حور ول یو میری می۔۔۔؟؟ جزبات سے چور لہجے میں پوچھا گیا کسی سحر کے تحت اس نے جھٹ سے سر ہلاتے اسکے ہاتھوں میں ہاتھ دیا


سا من کا سر ہلانے سے بہتر تھا منہ سے کچھ پھوٹ لیتی ۔۔۔پھوہڑ عورت چلو اب شام کے لئے تیار ہو۔۔۔۔. اسے تپانے کے لئے آچھا خاصہ سناتے اس نے اینڈ میں عورت لفظ پر خاصہ زور دیا اور کھڑکی سے کود گیا


ولی ۔.تم ضائع ہوجاؤ گے میرے ہاتھوں ۔۔.کھڑکی میں اتی وہ زور سے چیخی تو ولی نے اسے زبان دیکھاتے قہقہہ لگایا...

میری زندگی کی کتاب کا، ہے ورق ورق یوں سجا ہوا

سرِ ابتدا سرِ انتہا، تیرا نام دل پہ لکھا ہوا


یہ چمک دمک تو فریب ہے، مجھے دیکھ گہری نگاہ سے

ہے لباس میرا سجا ہوا، میرا دل مگر ہے بجھا ہوا


میری آنکھ تیری تلاش میں، یوں بھٹکتی رہتی ہے رات دن

جیسے جنگلوں میں ہرن کوئی ہو شکاریوں میں گھِرا ہوا


تیری دوریاں تیری قربتیں تیرا لمس تیری رفاقتیں

مجھے اب بھی وجہ سکوں تو ہے، تو ہے دور مجھ سے تو کیا ہوا


یہ گلے کی بات تو ہے مگر، مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں

جو اُجڑ گیا میرا گھر تو کیا، ہے تمہارا گھر تو بچا ہوا


میں نسیم خط کو پڑھوں بھی کیا کہ حصار آب ہی آب ہے

تیرے آنسوؤں سے لکھا ہوا، میرے آنسوؤں سے مٹا ہوا​

***


افف جلدی سے دیدیں ۔۔۔بھوک لگ رہی ہے ۔۔۔. وہ کچن میں گھستے ہی چپس کی بڑی ڈش اٹھاتی باہر ائی اور صوفے پر بیٹھ کر چپس کھاتے گھر کی سجاوٹ دیکھنے لگی ہر طرف روشنی ہی روشنی مطلب کہ فیری لائٹس لگائی ہوئی تھی


اوئے سیم کے بچے بات سن۔۔۔۔. وہی پرانہ لاپرواہ انداز سیم تو دل و جان سے قربان ہوتا وہاں ایا مگر اسے اتنا بڑی ڈش اکیلے چٹ کرتےدیکھ حیران ہوا


اوو موٹی پھول کے غبارہ بن جاؤگی چلو رکھو ۔۔.کام کرتی نہیں ہو ٹھونسنے کی لگی رہتی ہے ۔۔.. سیم نے اسکے ہاتھ سے ڈش کھینچنی چاہی مگر جاناں نے دونوں ہاتھوں سے ڈش کو پکڑا


دیکھ سیم تیرے سے کوئی واسطہ نہیں مجھے تو میری ڈش چھوڑ... چھوڑ کمینے ۔۔۔.وہ ڈش کھینچتے زور سے چیخی اندر اتے مراد اسکی چیخ سنتے بےچینی سے اندر ایا مگر سامنے کا سین دیکھ اس نے مسکراہٹٹ دبائی


وہ دونوں چوہے بلی کی طرح چپس کے لئے لڑ رہے تھے. ۔۔۔ سیم نے اپنا پورا زور لگاتے ڈش کھینچنی عین اسی وقت جاناں نے بھی چھوڑ دی سیم پیچھے ہوتے مراد کے اندر جا بجا چپس ہوا میں اڑتے ان دونوں کے اوپر پھولوں کی طرح برسے


اب سین یہ تھا کہ مراد نیچے زمین پر تھا اور سیم امن شاہ اسکے اوپر پڑا تھا ان دونوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ہسبینڈ وائف رومینس کررہے ہو. ۔.۔۔ سیڑھیاں اترتی بیرہ ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگی جاناں کا حال بھی کچھ الگ نا تھا....


مراد ہاہاہاہا.. ۔اپ م۔۔ہاہاہا ۔... جانان بولنے لگی مگر انکی حالت پہ اسکی ہنسی نہیں رک رہی تھی وہ صوفے پر ڈھیر ہوتی ہنسنے لگی وہ دونوں جلدی سے کھڑے ہوئے


ہنسنا بند کرو چڑیل.. ۔۔ورنہ ۔۔.


ورنہ کیا جانی کیا کرلوگے ۔..۔۔. جانان نے چیلنجنگ انداز میں ائبرو اچکایا تو وہ ڈش میں موجود ائل ہاتھوں میں لگاتے اسکی طرف بھاگا اسکے خطرناک ارادے جان جاناں وہان سے بھاگتی صوفے کے پیچھے ہوئی


سیم نہیں کرو لگ جائے گی۔۔۔۔ وہ ادھر ادھر بھاگتی چیخی مراد تو اسکی کھلکھلاتی اواز پر ہی دل سنبھال رہا تھا اسکی ہنسی اسے مزید خوبصورت بنا دیتی تھی


مراد ہیلپ ۔۔۔. مراد کے پیچھے اکر چھپتی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ بولی تو مراد ہوش میں ایا


بسس کرو سیم ۔۔۔۔۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا وہ نفی میں سر ہلاتے جانان کی طرف بڑھنے لگا


یہ کس نے کیا ہے ۔۔.۔. جاہل انسانوں تمیز نہیں ہے کیا یہاں کسی کو ۔۔۔۔۔۔ آن سبکا دھیان سیڑھوں پہ ریلنگ پکڑ کر اترتے بھوت مطلب حاوز پر گیا اسکی اتنی خوفناک شکل دیکھ ان سبکے قہقہے گونجے


واہ میرے اپسراؤں کیا مزہ چکھایا ہے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ۔۔۔۔. بیرہ نے تصور میں ہی دانی اور نومی کو پھولوں کی مالا پہنائی


یہ کیا ہوا ہے بھئی ۔۔۔۔. مراد کے پیچھے سے نکلتے جانان نے کمر پر ہاتھ ٹکاتے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا ہنسی ضبط کرنا اسکے لیے مشکل تھا


یہ ان آفتوں نے کیا ہے ۔۔.تمیز نہیں ہے تمھیں ۔.بچی ہو جو ایسی حرکتیں کررہی ہو۔۔۔۔۔ وہ سیڑھوں سے اترتے بیرہ کی طرف طیش سے بڑھا


اوو مسٹر لفنگے ۔۔.اگر میں کچھ کرتی تو تم ابھی یہاں زندہ سلامت نا کھڑے ہوتے بلکہ کتے تمھیں ہضم کرکے ڈکار بھی مار چکے ہوتے ۔۔۔۔۔ بیرہ نے آنکھیں گھماتے لاپرواہی سے کہا اسکے انداز پر ان تینوں نے مسکراہٹ دبائی اسکی بات پر حاوز تو تلملا ہی گیا


یو ایڈیٹ ۔۔۔۔ طیش میں بڑھتے وہ اس کا ہاتھ بیرہ کی گال پر پڑتا کہ بیرہ نے اسکے ہاتھ کو پکڑتے جھٹکا دیتے موڑ کر اسکی کمر سے لگایا اور ایک کے بعد ایک مکے اسکی پسلیوں میں دے مارے


بیرہ پلیز. ۔.میرا بھائی ہے وہ ۔۔۔۔۔ وہ سب حیرانی سے منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے جو دو منٹوں میں ہی اسکی حالت قابلِ رحم بنا چکی تھی جاناں ہوش میں اتی اگے بڑھی تو بیرہ نے اسے اگے کی جانب دکھیلا


یہ صرف مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی سزا ہے ۔..اگر میرے بھائیوں کو معلوم ہوا نا تو تم سیدھا جان سے جاؤ گے سمجھے ۔۔۔ حاوز کا سر سیڑھیوں سے لگا تو اسکے ماتھے سے خون بہنے لگا گھٹنے کے بل اسکے پاس بیٹھی وہ اسے وارن کرنے لگی


ریلیکس جان۔۔.تمھارا بھائی بلکل ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ بیرہ نے عجیب سے انداز میں کہا جاناں نے حیرانی سے اسے دیکھا پھر سر جھٹکتے حاوز کی طرف بڑھی جو بےسدھ لیٹا تھا


.............................................

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

تم جارہے ہو ۔۔۔۔کرنل نے اسکے کمرے میں انٹر ہوتے پوچھا بلیک پینٹ کورٹ پر وائٹ شرٹ پہنے وہ ایک نظر اسے دیکھتے واپس مڑا اور اسکے ہاتھ میں موجود کافی کے کپ کو دیکھا جو یقیناً وہ اسکے لیے لایا تھا ایک نظر اسے دیکھ وہ اپنے بالوں کو ہاتھوں سے صحیح کرتے وہ اسکی طرف مڑا اور شاہانہ چال چلتے وہاں موجود صوفے پر بیٹھ گیا


او کرنل ۔۔۔۔ لہجہ نرم مگر اسکی نظروں میں سرد مہری دیکھ کرنل گڑبڑایا اور جلدی سے اسکے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے اسے سامنے کافی رکھی


یہ تمھارے لیے بنا کر لاہا ہوں میں ۔۔۔۔۔۔ کرنل نے شیریں لہجے میں کہا تو اویس نے اسکے ماتھے پر ائے پسینے کو دیکھ مسکراتے ہوئے کافی کا مگ اٹھا لیا تو کرنل دل ہی دل میں خوش ہوا


کرنل تم گھبرا کیوں رہے ہو ہممم۔۔۔۔۔ کافی کا ایک سپ لیتے وہ مزے سے پوچھنے لگا کرنل جو دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا اسکے پوچھنے پر بوکھلایا


ن۔نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ رومال سے ماتھے پر ایا پسنہ صاف کرتے وہ مسکرا کر بولا اویس کافی ختم کرتے مگ ٹیبل پر رکھتے اٹھا اور وہاں سے چل دیا


اب یہ سب میرا ۔۔۔مجھے کوئی نہیں مار سکتا کوئی نہیں سالوں پہلے بھی اج بھی کرنل اباد ہے اور رہے گا ۔۔۔. وہ صوفے پر پھیل کر بیٹھا کہ کسی کی سانسیں اپنے پیچھے محسوس ہوئی ۔۔۔۔


ک۔کو۔ن۔۔۔ وہ اہستہ سے سر گھما کر بولا مگر کالی سرد نظروں کو دیکھ اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔


تت۔۔تم۔۔۔۔۔ کرنل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی وہ کیسے نا پہنچاتا اسے مارنے کے لئے اس نے جو گندی سازشیں کی تھی وہ اسکے آنکھوں کے سامنے سے فلم کی مانند گزرنے لگی


ہممم۔۔۔۔ تمھاری کوششیں بےکار گئی کرنل ۔۔۔۔ دیکھو میں اج بھی زندہ ہوں۔۔۔۔ تمھارے سامنے ۔۔۔۔۔ سرد نظروں سے اسے دیکھتے وہ تھوڑا اسکے قریب ہوئی تو کرنل بدک کر آٹھ کھڑا ہوا اسکی بےجان آنکھوں کو دیکھتے کرنل کا وجود لرزنے لگا تھا


ک۔کیسے۔۔۔تت۔تم.۔زز۔زندہ۔۔۔۔خوف اور گھبراہٹ کے مارے اس سے کچھ بولا بھی نہیں جارہا تھا اسکی حالت دیکھ جاناں کا قہقہہ بلند ہوا بےجان سا قہقہ


تمھاری بوڑھی ہڈیوں میں جان نہیں رہی ۔.۔کرنل ۔۔۔۔ اسکو لرزنا جاناں کی نظروں نا چھپپ پایا قہقہے پر قہقہہ لگاتے وہ ایک دم چپ ہوئی کرنل کو اسکے قہقہے سے ہی وحشت ہورہی تھی اسکی خاموشی پر کرنل کی ٹانگیں اسکا ساتھ چھوڑ گئی اور وہ وہی ّ زمین پر گرا


آج تمھارے سارے سوالوں کا جواب دینے ائی ہوں۔۔۔کرنل ۔.تیری قبر یہی کھودنے ائی ہوں۔۔۔بہت شوق ہے تجھے ہے نا تجھے چال چلنے کا ۔۔۔.اج تیری چال کو تجھ پر الٹنے ائی ہوں ۔۔.جس موت کا گندا کھیل تو دوسروں کے ساتھ کھیلتا ہے اسی کھیل کا اختتام کرنے ائی ہوں۔۔۔ ۔۔ ہنستے ہنستے اسکی انکھوں میں نمی ائی تھی جسے اندر دھکیلتے وہ اٹھی ایک ہی جست میں اس تک پہنچی اسکی گردن نازک ہاتھوں میں دبوچے اتنے زور سے دھاڑی کہ کرنل کو لگا اسکے کان کے پردے پھٹ جائیں گے۔۔۔۔۔ خوف سے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتے وہ بےہوش ہونے کے در پر تھا


کہ جاناں نے چٹکی بجائی تو اویس کافی کا مگ لیے وہاں ایا وہی کافی کا مگ جس میں کرنل نے زہر ملایا تھا جب وہ زیر ملا رہا تھا اور چمچ اٹھانے گیا تو جاناں نے جلدی سے مگ چینج کردیا اور انتظار کرنے لگی کہ اخر اب یہ کرنل کس کی زندگی کا دشمن بن بیٹھا ہے


تھیکنس یار ۔۔۔۔ اویس نے جاناں کو مشکور نظروں سے دیکھا تو جاناں نے کرنل سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا


تمہارے والد کا احسان تھا مجھ پر ۔۔۔۔اب حساب برابر ۔۔۔۔جاناں نے کہا اور مگ اسکے ہاتھ سے لیتے کرنل کے جبڑے کو بھینچ کر اسکے منہ میں وہ زہریلی کافی انڈھیلنے لگی ۔۔

(ماضی)

ہر طرف تباہی کا عالم تھا اور شازم خان کے وجود پر جاناں ساکت پڑی تھی کہ وہ شخص جلدی سے اگے بڑھا اور اسے سیدھا کرتے اسکے گال تھتھپائے


جاناں جاناں اٹھیں بچے ۔۔۔۔؟؟ اسکے گال تھتھپائے اسے اٹھانے کی کوشش کررہا تھا مگر وہ بےجان پڑی تھی


نن۔نہیں یہ کہانی ایسے ختم نہیں ہوگی ۔۔. ایسا نہیں ہوسکتا جانان بچے اٹھو ۔..ہمت کرو جاناں .۔۔۔مرتضی اسکے اسکے ڈل کے مقام پر دونوں ہاتھوں سے پریس کرتے اسے بلا رہا تھا کہ ایکدم جاناں کی آنکھیں کھلی اور وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی


اٹھو بچے ہمھیں نکلنا ہے ۔۔.اسے سہارا دے کر کھڑا کرتے وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے لگی جاناں نے مڑ کر نم نظروں سے شازم کو دیکھا اور وہ مرزا کے ساتھ ہی وہاں سے جانے لگی مگر ہیلی میں بیٹھتے ہی وہ بےہوش ہوچکی تھی


جلدی چلو ۔۔۔۔۔ مرتضی چیخا اور انکا ہیلی اڑان بھرتے وہ وہاں سے نکل گئے


کچھ دن بعد...


میں ایزل کو فون کرکے بتاتا ہوں تمھارا تم ۔۔۔۔۔


نہیں مرتضی تم کسی کو کچھ نہیں بتاؤ گے وہ میرے بغیر رہیں گی تو محفوظ رہے گی ۔۔۔۔ جاناں نے بےتاثر لہجے میں کہا اٹھنے کے بعد وہ نا روئی نا شور مچایا تھا بسس بے جان وجود کی طرح ایک ہی جگہ کو دیکھے جارہی تھی زندگی نے اسے واپس وہی لاپٹکا تھا جہاں سے وہ بھاگ جانا چاہتی تھی شاید یہی اسکا نصیب تھا


مگر۔۔۔۔


پلیز ۔۔۔۔ اس نے ڈرپ لگے ہاتھ اٹھائے کہا تو مرتضی شاہ وہاں سے چلے گئے کچھ دن بعد اسے خبر ہوئی کہ مرتضی شاہ کا قتل ہوچکا تھا تب ہی وہ پانچ سالہ اویس کو امریکہ بھیج کر خود ہوسپٹل سے چل دی تھی اور اسکے بعد کسی کو نامعلوم کہ جاناں شازم کہاں ہے سبکو بسس اتنا معلوم تھا کہ شازم کے ساتھ ہی جاناں مرچکی ہے


حال..............


کرنل کے تڑپتے وجود کو دیکھ جاناں نے اویس کی طرف دیکھا جو ایک انجیکشن بھرتے اسکے بازو میں انجیکٹ کرچکا تھا کچھ ہی دیر میں کرنل کا وجود جھٹکے کھاتے ساکت ہوا لیکن وہ زندہ تھا


اتنی اسانی سے نہیں پہلے تمھارے پیادوں کو پکڑنا ہے کرنل صاحب۔۔۔۔۔ اویس نے اسے کالر سے پکڑ کر اٹھاتے گارڈ کی طرف پھینکا اور اسے لے جانے کا اشارہ کیا

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


بھائی اپ کب آئیں گے ۔۔۔۔ اور اپکے بابا بھی نہیں ہیں یہاں۔۔۔ رشتہ مانگتے ھیں اچھی لگوں گی کیا ؟؟؟؟ رباب جاناں کے روم میں کھڑی سکندر سے بات کررہی تھی جو کسی اہم کان کی وجہ سے واپس جا چکا تھا

.

آب اپ کو اتنی جلدی کیا ہے ابھی مجھے کافی مہینے لگ جائیں گے جب تک اپ ریلیکس رہیں ۔۔وہ کہیں نہیں بھاگی جارہی ۔۔۔۔ سکندر نے اسے سمجھانا چاہا اندر اتی حور کے قدم تو انکی باتوں پر ساکت ہوچکے تھے


ٹھیک ہے مگر اپ جتنا جلدی ہو اجائیں پلیز ۔۔۔۔۔ رباب نے کہتے ساتھ کال کٹ کی اور باہر جانے کو بڑھی مگر سامنے حور کو دیکھ وہ رکی


جان کہاں ہیں ؟؟؟ حور نے اسکی پتلی ہوتی حالت دیکھ کر پوچھا تو رباب نے گہری سانس بھرتے اسے دیکھا


وہ ریڈی ہوکر باہر جاچکی ہے اجاؤ ہم بھی چلیں ۔۔۔رباب نے مسکراتے ہوئے کہا ویسے بھی اسے یقین تھا کہ جاناں اسکی ہی بھابی بنے گی


ہممم۔۔۔تم چلو میں اتی ہوں۔۔۔۔ حور نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تو رباب سر ہلاتے باہر کو بڑھی اسکے جاتے ہی حور نے پرسوچ انداز میں اردگرد ٹہلنا شروع کردیا

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ ایک خوبصورت سے عالیشان کمرے کا منظر تھا جہاں وہ نازک سی شہزادی آنکھیں موندے بیڈ کے درمیان میں سورہی تھی مگر اسکے چہرے پر سوتے ہوئے بھی گھبراہٹ تھی اسکے ماتھے پر ننھی ننھی پسینے کی بوندے چمک رہی تھی گلابی لبوں کو حرکت دیتی وہ اہستہ آہستہ سر ادھر ادھر نرم تکیہ پر ماتے کچھ بڑبڑا رہی تھی


چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔ اسے لگا اسکے ہاتھ جھلس رہیں ہیں ۔۔۔ کسی وحشی نگ اسکے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور وہ مسسلسل چلا رہی تھی کہ دروازہ کھولتے مراد اندر ایا وہ تو ولی کو دیکھنے ایا تھا مگر جاناں کو دیکھ اسکی طرف بڑھا


پرنسسز ۔۔.پرنسسز کیا ہوا۔۔۔۔۔ اسکے نازک سے گال تھپتھپاتے وہ اسے جگانے کی کوشش کردہا تھا مگر وہ ادھر ادھر سر مارتے بس چلائے جارہی تھی


پرنسسز اٹھیں دیکھیں میں مراد ۔۔۔۔اسکے بازؤوں کو مضبوطی سے تھامتے وہ اس پر جھکا زور سے بولا تو جاناں ایکدم آنکھیں کھولتے اس سے چپکی


م..مراد... وو..وہ..وہ..مم۔۔مجھے۔۔.لل۔لے۔.جائے ۔۔۔گا۔۔۔۔وو۔۔.وہ۔۔۔ لڑکھڑاتے لہجے میں کہتے وہ اسکے سینے سے لگی تھی


ششششش۔۔۔میں ہوں یہاں اپکے پاس ۔۔۔۔مراد نے ایک ہاتھ اسکے بالوں پر رکھتے اسکے بالوں کو سہلایا جبکہ دوسرے ہاتھ سے موبائل اٹھاتے وہ کسی کو میسج کررہا تھا


کچھ دیر بعد وہ نارمل ہوئی تو اپنی پوزیشن پر سرخ ہوتی جھجھک کر پیچھے ہوئی مراد کو اسکا دور جانا جانے کیوں مگر برا لگا


پاس اکر دور نہیں جایا کرتے ۔۔۔۔ اسکے قریب ہوتے وہ سرگوشی میں بولا تو جاناں نے حیرانی سے کالی آنکھیں اٹھائے اسے دیکھا۔۔۔


اپ ریڈی ہوجائیں آج اپ نے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہے ۔۔۔۔ مراد نے کہتے جیسے اس پر نیا انکشاف کیا جاناں گرتے گرتے بچی


اور یہ خوش فہمیاں کیون ہیں اپکو ؟؟؟ جاناں نے سینے پر ہاتھ باندھتے اطمینان سے ائبرو اچکا کہ پوچھا اسکے انداز پہ مراد نے دانتوں تلے لب دبائے


کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اپنی محبت پر۔۔۔۔۔مراد نے آہستہ سے کہا وہ اسے یہ نا کہہ سکا کہ اسے اب ان دونوں میں مزید دوریاں برداشت نہیں ہورہی


کچھ زیادہ فری نہیں ہورہے اپ مسٹر ۔۔۔۔۔ جاناں نے اس حسن کے دیوتا کو دیکھا بلیک جینز پر براؤن شرٹ پہنے وہ رف سے حلیے میں اسکے سامنے کھڑا تھا


اب اتنا حق تو ہے نا اپ پر ۔۔۔۔ مراد نے آنکھیں اس پر ٹکائی تو جاناں بنا کچھ کہے ہی ڈریس لیتی واشروم میں گھسی پیچھے وہ مسکراتا ہوا روم سے نکلا

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

پارٹی شروع ہوچکی تھی سارے گیسٹ شاہ مینشن انے لگے تھے ان میں سے سب سے زیادہ گیسٹ تو فیصل لغاری کے ہی تھے بڑے سے بڑا بزنس وہاں موجود تھا ان میں اویس شاہ اول پر تھا


اور وہ بےصبری سے جانان کا انتظار کررہا تھا بیرہ سے سب خوشی سے مل رہے تھے حور بھی وہی کھڑی انکے ساتھ گپے ہانک رہی تھی


تم لوگوں نے چپایا تو بہت مگر ہمارے ہوئے کوئی راز کیسے راز رہ سکتا ہے ۔۔.بیرہ نے مراد اور حور کو دیکھتے کہا حور حو کب سے ولی کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانے کی کوشش کررہی تھی مگر وہ اسے مضبوطی سے اپنے ساتھ لگائے کھڑا تھا


یار سارے سرپرائز کا بیڑہ غرق کردیا تم نے ۔۔۔۔۔ حور نے منہ بناتے کہا تو وہ ہنسی اسکی ہنسی پر سبکی نظریں اس پر گئی نازک سی لڑکی بلیک پینٹ شرٹ پر ریڈ کورٹ پہنے ۔۔۔ٹیل میں باندھے بالوں کو نازک ہاتھوں سے جھلاتی ہنس رہی تھی


میری عادت ہے تمھیں پتہ ہے جب میرے بھائی مجھے سرپرائز دہنے کی کوشش کرتے تھے تو میں پہلے سے ہی جان جاتی تھی اور وہ بچارے اپنا سر پیٹ کررہ جاتے تھے ۔۔.بیرہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ ولی اور سیم نے اسکے گال کھینچے


اپ ہماری بھی بہن جیسی ہیں۔۔۔۔۔ ان دونوں ایک اواز میں کہا تو بیرہ ہنسی مگر اسکی ہنسی کسی کو سخت زہر لگ رہی تھی اسکا بسس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بیری کو کہیں غائب کردے


کیا ضرورت ہے سبکے سامنے ہنسنے کی ۔۔۔۔ وہ شخص غصے سے بڑبڑایا کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس پر جاں نثار کردیتا مگر یوں سبکی نظریں اس پر محسوس کر اسکی جل رہی تھی


زیادہ سالہ پنتی دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے عزت سے ائے ہو عزت سے جاؤ۔۔۔۔ساتھ کھڑے شخص نے اسکے کندھے پر بازو رکھتے کہا


تم تو چپ ہی کرو مجال ہے جو اسے زرا سا ٹوک دو ۔۔۔۔۔ دیکھو یار میں کچھ ایسی ویسی کرکے ان سبکی آنکھیں نکال پھینکو گا۔۔۔۔۔ پھر مجھے بھی نہیں روکنا تم ۔۔۔۔۔۔ وہ شخص غصے سے بولا تو سامنے والے نے ہلکہ سا قہقہہ لگایا جیسے اس شخص کی جیلسی اسے مزہ دے رہی ہو


سالے صاحب زبان کو لگام دو کیونکہ اب تم مجھے بور کررہے ہو۔۔۔۔۔ وہ شخص ہنسی چپاتے بےزار لہجے میں بولا تو اس شخص نے غصے بھری نظر اس پر ڈالی اور وہاں سے واک آؤٹ کرگیا


اچانک ہی حال میں سناٹا چھا گیا جیسے وہاں کوئی موجود ہی نا ہو اسی ثناء میں سیڑھیوں سے اترتی ان اپسراؤں پر سبکی نظریں ٹکی


بلیک سیلولیس فراک پہنے جو صرف اسکی بیک پر موجود ڈوریوں پر ٹکا تھا اسکے ساتھ ہائی ہیل پہنے بالوں کو انگلیوں میں گھماتے دوسرے ہاتھ سے جاناں شازم کے ہاتھ کو تھامے وہ کالی چمکتی أنکھوں میں مراد کو بسائے قدم با قدم مراد کے قریب ارہی تھی


وہی دوسری طرف مراد لغاری یک ٹھک اسے دیکھے جارہا تھا اسے اپنے سامنے دیکھ کبھی اسے سب خواب لگتا تھا ۔.لیکن کیا اتنا اسان تھا انکا ملنا ؟؟؟ کیا عشق نے اسے اتنی ہی اسانی سے مل جانا تھا ؟؟


جاناں شازم کو دیکھ ارسل کی ڈھڑکنیں شور کرنے لگی مگر اسکے سرخ ہونٹوں کو بھینچے اور کالی انکھوں میں سرد مہری دیکھ اسکے دل کو کچھ ہوا


جاناں کی نظریں ارسل پر پڑی جو نم نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جاناں کے دیکھنے پر ایک زخمی مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں پہ ڈھیرہ جمایا جاناں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے انکھیں بند کرتے جیسے کچھ اشارہ کیا ارسل اسکے اس نئے انداز پر بمشکل اپنے دل کو سنبھالنے لگا


جان سے ہاتھ چھڑواتی وہ ارسلان کی طرف بڑھی ارسلان نے ارسل کی حالت دیکھ کر مسکراہٹ دبائی


وہی حاوز سب سے الگ کھڑے جاناں کو حیرانی سے دیکھتے یا یوں کہوں کہ اسے دیکھتے اسکی چیخ نکلتے نکلتے رکی تھی


کیسی ہیں ۔۔۔ارسلان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے کہا تو اس نے سر ہلایا وہی ارسل ایکدم سے اگے بڑھتے اسے خود میں بھینچ گیا ینگ جنریشن نے چونک کر انہیں دیکھا جبکہ حاوز وہاں سے کلٹی مار چکا تھا


جاناں نے حیرانی سے اسے دیکھا اسکی گرفت اتنی مضبوط تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اسے چھوڑے تو وہ پھر غائب ہوجائے گی


تم۔۔۔ اب مت جانا۔۔.پلیز ۔۔۔۔. جاناں کے چہرے کو ہاتھوں میں لیتے شدت سے کہا تو جاناں نے ٹھٹھک کر اسکی أنکھوں میں دیکھا پھر جھجھک کر اس سے زرا دور ہوئی


سلو پلیز ۔۔۔۔جانان نے اسکے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتے اہستہ سے کہا مگر وہ بضد تھا اسے چھوڑنا نہیں چاہ رہا تھا


اسکا ہاتھ پکڑے وہ اسے اپنے ساتھ ہی کھڑا کرچکا تھا جاناں حیرانی سے اسکی شدت پسندی دیکھ رہی تھی کیا وہ اتنا حساس ہوگیا تھا اسکے جانے کے بعد .۔۔ کیا وہ اپنے ایک فیصلے کی وجہ سے کسی کو اپنی زندگی سے دور کرگئی تھی ۔۔۔۔


💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


تم لوگوں کو تو چھوڑو گا نہیں میں ۔۔۔۔ آن دونوں افتوں کو دیکھ حاوز نے غصے سے مٹھیاں بھینچتے کہا وہ دونوں شیطانی مسکراہٹ سے اسے دیکھنے لگے


تو میری جان تمھیں کس نے کہا ہے ہمھیں چھوڑو ۔۔.کہو تو ہم تمھیں پکڑ لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ دانی نے اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے کہا تو حاوز نے نخوت سے اسے دیکھا دور کھڑی جاناں شازم کی نظریں اسکا جائزہ لے رہی تھی


دور رہا مجھ سے ۔۔۔.ایک تو ہمارے گھر اٹپکے ہو اور دوسرا۔۔۔۔.


یہ تمھارا گھر نہیں ہے مسٹر. ۔۔.نومی نے اسکی بات بیچ میں اچکتے کہا حاوز نے چونک کر اسے دیکھا


کیا مطلب ہے تمھاری بکواس کا ؟؟؟حاوز نے غصے سے ان دونون کو گھورا جو عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے اسکے پوچھنے پر وہ دونوں اسکے اردگرد منڈارنے لگے ۔۔۔


ہم آفندیز ہیں ۔۔۔۔ آفندیز مطلب جانتے ہو ۔.تم۔۔۔. دانی نے سنجیدگی سے کہا انکا انداز ایسا تھا کہ حاوز کے پسینے چھوٹے


ہم ایک نظر میں سامنے والی کی کھلا چٹا پڑھ لیتے ہیں ۔۔.اور تم ہمھیں ممی بنانے پر تلے ہو۔۔۔ اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے نومی نے منہ بگاڑتے کہا اسکے لفظ.ممی پر دانی نے ناسمجھی سے اسے دیکھا حاوز نے بھی اس عجیب سے نمونے کو دیکھا


دیکھ نومی اگر تجھے ممی بننا ہے تو تجھے لڑکی بننا پڑے گا ۔۔.مگر اب تو وہ بن نہیں سکتا ۔۔۔۔ اب کوشش بھی بیکار ہے ۔۔۔ابھی تک ایسی کوئی تکنیک نہیں ائی مرد کق ممی بنا دے ۔۔۔۔دانی نے سوچتے ہوئے کہا حاوز کو چھوڑ وہ نومی کو سمجھانے لگا حاوز نے عجیب سے انداز میں انہیں دیکھا


ارے ممی مطلب پاگل گدھے ۔۔۔۔ وہ اسے کچھ غلط سمجھتے دیکھ بولا تو دانی نے اثبات میں سر ہلایا اور حاوز کی طرف متوجہ ہوا۔


تم حاوز نہیں ہو یہ ہم جانتے ہیں ۔۔۔۔ اور تمھارے اس نقاب کے پیچھے چھپے چہرے کو بھی مسٹر سیف ۔۔۔۔ نومی نے دل جلاتی مسکراہٹٹ سے اسکے قریب اتے کہا تو حاوز کے چہرے کے رنگ اڑے


لو جی اسے تو زنگ لگ گیا ۔۔۔۔دانی نے منہ پر ہاتھ رکھ کر لڑکیوں کی طرح ہنستے ہوئے کہا تو نومی کی بھی ہنسی


تمھیں تمیز نہیں ہے ۔۔۔.غصے سے اس سے کچھ اور نا بولا گیا تو وہ چیخا


تمھیں چاہیے کیا ؟ دانی نے آئبرو اچکا کر دوبدو سوال کیا تو وہ غصے سے بڑبڑاتے وہاں سے واک آؤٹ کرگیا


ویسے اگر وہ مانگ لیتا تو ہم اسے کہاں سے لادیتے۔۔۔۔۔؟؟ دانی نے سوالیہ نظروں سے نومی کو دیکھا جو ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا


کیا؟؟؟؟


ارے بھئی تمیز ۔۔۔۔ دانی نے ماتھا پیٹتے کہا تو نومی بھی سوچ میں پڑا عجیب و غریب لوگ ہیں اس بات پر اب کون سوچتا ہے. ۔ہائے مگر وہ لوگ تھوڑی نا ہیں وہ تو آفندیز ہیں


ہم کیوں دیں اسے تمیز ہمارا کونسا باپ لگتا ہے ۔۔.۔ اسکی ایسی قُرمش کرنی ہے کہ اسکے اندر کی تمیز اور غیرت دونوں جاگ جائیں گی ۔۔۔۔ کافی دہر بعد نومی کی طرف سے جواب ایا تو دانی نے بھی سر ہلایا ۔۔۔۔ ویلے لوگ تھے بچارے اب یہ نا کرتے تو اور کیا کرتے ۔۔۔۔۔


💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


تعریف کرو ۔۔۔میرے حسن کی ۔۔۔۔ رباب نے اونچی اواز میں کہا تو نومی اور دانی نے اسے دیکھا اور مسکراہٹ دبا گئے


او کل کے لئے اٹا بچا ہے ۔۔۔. دانی نے سوالیہ نظروں سے اسکے چہرے پر موجود میک اپ کو دیکھا رباب نے حیرانی سے اسے دیکھا


ہوں بتاؤ کل کے لئے اٹا بچا رکھا ہے یا سارا صفا چٹ کر گئی ۔۔۔. اسے بولتے دیکھ نومی نے جلدی سے پوچھا بیرہ نے نفی میں سر ہلاتے ان دونوں کو دیکھا جو اب اسے آگ لگانے میں مصروف تھے


کیوں تم نے کیا کرنا ہے۔۔۔ وہ ناسمجھی سے پوچھنے لگی


تم اٹے میں منہ جو دے کر ارہی ہو ۔۔۔۔اسی لیے پوچھ رہا ہوں ۔۔۔کل کے لئے آٹا بچا ہے ؟؟؟؟ نومی نے کہ کت ایکدم قہقہہ لگایا تو انن سبکی بھی دبی دبی مسکراہٹٹ دیکھی.


بےشرم انسانوں تم۔۔۔۔۔ رباب نے کچھ کہنا چاہا


کچھ نیا بتاؤ یار ایک ہی بات سن سن کر میرے کانوں سے لہو بہنے لگا ہے۔۔۔۔ نومی نے بےزاریت سے کہا تو انکا منہ کھلا


نیا کیسے بؤلے گئ یہ تو اولڈ وومین ہے ۔۔۔۔ حور نے جلتی پت تیل والا کام کرتے دل جلاتی مسکراہٹٹ رباب کی طرف اچھالی


تم کیوں چاہتی ہو کہ سبکے سامنے میں تمھارے بال نوچ کر تمھارے ہاتھوں میں پکڑا دوں۔۔۔۔؟؟؟ رباب نے دانت پیستے کہا تو حور ہنسی


کوئی نئی ٹرینڈ بن جائے گا ۔۔۔۔ ویسے بھی حسن تو حسن ہوتا ہے جیسا بھی ہو۔۔۔۔۔۔ حور نے ایک ہاتھ سے مراد اور دوسرے سے جاناں کا ہاتھ پکڑ کر کہا دانی اور نومی نے چونک کر اسکا انداز دیکھا وہ شاید رباب پر کچھ واضح کررہی تھی یا کرنے کی کوشش کررہی تھی


ولی اور سیم ہال سے انٹر ہوئے آج تو انکا لک ہی چینج تھا ولی نے بلؤ ڈریس پینٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ جسکے کف اس نے فولڈ کیے ہوئے تھے ہاتھوں میں کوٹ پکڑے وہ حور کو دیکھ رہا تھا جو یک ٹھک اسے گھور رہی تھی پیار بھری نظروں سے


سیم نے بلیک پینٹ وائٹ شرٹ پر بلیک ہی کوٹ پہنا ہوا تھا وہ دونوں ہی مغرورانہ چال چلتے انکے پاس ائے تھے اور جاناں کے سر پر پیار کرتے وہ بیرہ سے ملے اور ولی تو حور کے ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا


یہ رات کو تم بہن بھائی کونسا شہد کھا رہے ہو کہ دن با دن تم تینوں خوبصورت ہوتے جارہے ہو ۔۔۔۔ رباب نے آن تینوں کے حسن کے دیکھتے کہا تو وہ سب ہنسنے لگے


یہ راز ہے. ۔۔جاناں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ منہ بنا گئی.....


💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


سب کچھ ریڈی ہے بسس تم اس لڑکی کو اٹھا لو ۔۔۔۔ وہ شخص دھیمے سے کسی سے بات کررہا تھا سامنے والے نے سر ہلایا اور کچھ دھیمے سے کہا تو وہ سمجھتے اگے بڑھ گیا جبکہ حاوز اندر کی طرف بڑھا مگر گراس پر اویس شاہ کو گھٹنے کے بل بیٹھا دیکھ وہ رکا اسکے سامنے ہی جاناں کھڑی تھی وہ حیرانی سے انہیں دیکھ رہا تھآ


.................................

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


جانان جاناں جاناں۔۔۔۔تم اتنی خوبصورت کیوں ہوں کیوں ہو ہاں۔۔.کیوں ۔۔۔.کیوں وہ تمھارے پیچھے پاگل ہوا جارہا ہے کیوں۔۔۔۔. سکندر کے کمرے میں کھڑی وہ اسکے سٹڈی ٹیبل پر پڑی جاناں کی پکچر کو دیکھ پہلے تو وہ حیران ہوئی پھر جیسے جیسے وہ اسکی ڈائری پڑھتی گئی اسکی انکھوں میں نمی کے ساتھ غصہ پھر غصہ بھی نفرت میں بدل گیا


میں چ۔چھوًڑونگی تمھیں ۔۔.نہیں چھوڑونگی ۔.۔۔ اس ڈائری کو پھااڑ کر ً ڈسٹبن میں پھینکتے وہ کچن سے ماچس لے آئی اور ان محبت بھرے صفوں کو اگ کی لپیٹ میں دے دیا


وہ صرف میرا ہے اسکے خیال اسکی سوچ اسکی چاہت اسکی محبت صرف میں ہوں صرف میں۔۔۔.تم۔۔.جاناں تم تو میری بہن ہو تم میرے ساتھ ایسا نہیں کروگی ہاں نہیں کروگی۔۔۔۔ وہ آپنے بالوں کو مٹھیوں میں بھرتے وہی زمین پر بیٹھتی چلی گئی انسو بھل بھل کرتے اسکے گلابی گالوں پر پھسلنے لگے درد سے اسکا دل درد کی شدت سے پھٹ رہا تھا اسکا عشق کسی اور کو چاہتا ہے ۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سو گائز اجکی پارٹی کا مقصد تھا ہمارے دو نمونوں کی انگیجمنٹ تو سٹیج پر تشریف لے آئیں مسٹر ولی اینڈ مسس حور لغاری ۔۔۔ اویس نے انکا نام لیا تو وہ دونوں جھٹ سے آوپر پہنچے


افف اللہ کا نام مانو ۔۔۔اتنی جلدی بھء کیا جلدی ہے تم لوگوں کو ۔۔۔۔نومی نے ہنس کر پیچھے سے ہانک لگائی تو ولی نے اسے گھورا

بھئی جب کرنا ہی ہے تو جلدی کیا دیر کیا ۔۔۔ولی نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے تو حور نے بھی ولی کے باوز پر چٹکی کاٹی


انسان بنو۔۔۔۔ حور نے اہستہ اواز میں کہا تو وہ ہنسا جاناں اور مراد رنگ لے ائے ان دونون کو رنگز تھمائی


چلو حور نخرے نہیں کرو اور ہاتھ دو تاکہ تمھیں یہ پہناؤ۔۔۔۔ ولی نے شوخ لہجے میں کہا نظریں اسکے حسین چہرے پر تھی لائٹ پنک کلر کے گاؤن میں موجود تھی


حور نے اہستہ سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں رکھا ولی نے جلدی سے اسکے رنگ فگر میں پہنائی تو سب نے ہونٹنگ شروع کردی حور نے بھی اسکا ہاتھ پکڑا اور احسان کرنے والے انداز میں رنگ پہنائی

________________________________________________

کوئی موسم قرینے کا نہ آیا

ہواؤں کے سخن نا معتبر ہیں


تری قربت کے لمحے پھول جیسے

مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں


پڑے ہیں قربتوں میں فاصلے وہ

کہ جو نزدیک تر تھے دُور تر ہیں


شبِ افسوس کے بُجھتے چراغو

ذرا ٹھہرو کہ ہم بھی رات بھر ہیں

________________________________________________


آہ ۔۔۔. سب زور و شور سے تالیاں پیٹ رہے تھے کہ بیرہ کو کسی نے منہ پر ہاتھ رکھتے کھینچا ہلکی سی سسکی اسکے ہونٹوں سے برامد ہوئی سیڑھیوں سے لے جاتے کسی نے اسے دیوار سے پن کیا


ت۔تم۔۔۔.یار بندہ زرا تمیز و شرم کرلیتا ہے ابھی مجھے ہارٹ اٹیک ہوجاتا پھر تم رنڈوا بن جاتے ۔۔۔۔۔۔ حیرانی سے گرے أنکھیں بڑی کیے سامنے والے کو اپنے اوپر جھکا دیکھ خفگی سے اسے گھورنے لگی


تمھیں اتنی جلدی کچھ نہیں ہوتا بڑی ڈھیٹ ہڈی ہے تم لوگوں کی ۔۔۔۔۔ اسکے بال کان کے پیچھے اڑھستے وہ ہلکا سا مسکرایا تو اسکی نیلی أنکھیں بھی مسکرائی بیرہ نے گھور کر اسے دیکھا پھر اسکے ہاتھوں کو جو اس نے دونوں دیوار پر رکھےاسکا راستہ روکا ہوا تھا


تعریف کا شکریہ ۔۔۔۔. مگر اپ یہاں کس خوشی میں تشریف لائے ہیں ۔۔۔۔۔ ؟؟؟ اسکے مضبوط بازؤوں پر ہاتھ رکھتے بیرہ نے انہیں ہٹانہ چاہا سامنے کھڑے شخص نے اسکے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں الجھاتے دیوار کے ساتھ لگائی اور تھوڑا سا اس پر مزید جھکا


جہاں تم وہاں ہم ۔۔۔۔صنم ۔۔۔۔ تمھاری چاہ ہمھیں یہاں کھینچ لائی ۔۔۔۔۔اسکے نازک سے گال پر لب رکھتے وہ اہستگی سے خمار بھری نظروں میں اسے بسائے بولا تو بیرہ نے نفی میں سر ہلاتے اس ڈرامے کو دیکھا


صنم ۔۔۔۔اپ بھول رہیں ہیں ہم ہنی مون پر نہیں ائے ۔۔۔۔میری دوست کا گھر ہے یہ ۔۔۔۔۔ بیرہ نے اپنا چہرہ پیچھے کرتے کہا اسکی مسکراتی نظریں بیرہ کو سرخ ہونے پر مجبور کررہی تھی اسکا پیچھے ہونا محسوس کر بیر نے ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈال کر اسے اپنے قریب کیا اور دوسرے ہاتھ اسکے بالوں میں الجھاتے وہ اسکے سرخ ہونٹوں پہ شدت سے جھکا


اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھتے بیرہ نے انکھیں میچتے آن قربت کے لمحوں کو محسوس کیا تھا ۔۔۔۔۔خود کو سیراب کرتے وہ نرمی سے پیچھے ہوا تو بیرہ اسکے گرد حصار باندھتے اسکی گردن میں منہ چھپاتے لمبی سانسیں بھرتے اپنی ڈھڑکنوں اور اتھل پتھل ہوتی سانسوں کو ہموار کررہی تھی


تمھاری دوست کا گھر ہو یا کسی بادشاہ کا دربار تمھارے قریب انے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا ۔۔۔۔. بوجھل سی سرگوشی کرتے وہ اسکا چہرہ سامنے کرتے اسکے سرخ گالوں پر جھکا تھا


کچھ زیادہ بےباک نہیں ہوگئے تم۔۔۔۔۔ اسکے بھیگے ہونٹ اپنے گالوں پر محسوس کرتے وہ سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگی کہ کہیں کوئی ا ہی نا جائے


تمھاری محبت نے مجھ حیسے شریف انسان کو بےباک بنادیا ہے ۔۔۔ورنہ مجھے تو اس سبکے بارے میں کچھ پتہ ہی نہ تھا ۔۔۔۔ اسکے کان کی لو پر لب رکھتے بیر نے ہلکی سی مسکراہٹ سے سرگوشی کی تو بیرہ نے سیڑھوں سے نظریں ہٹا کر اسے گھورا


تم معصوم ہو ۔۔.؟؟؟ رئیلی کس اینگل سے ؟؟؟ بتانا زرا۔۔۔۔ بیرہ نے اسکی انکھوں میں خمار کی سرخیاں دیکھ ائبرو اچکا کہ پوچھا


ہر اینگل سے صنم۔۔۔۔۔ تم چاہو تو۔۔۔۔اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا کہ دانی کے گلا کھنکھارنے پر دانت پیستے اس سے دور ہوا اسے دیکھا جو دانت نکوستے کھڑا تھا


ہائے جیجا جی ۔۔۔ ادھر بھی ٹپک پڑے ۔۔۔ دانی نے مسکراہٹ روکتے پوچھا بیرہ نے نفی میں سر ہلاتے ان دونوں کو دیکھا پھر پیچھے سے ہی کھسک گئی


تم نہ بھی اتے تو چل جاتا مگر میرے نا انے سے اس کہانی میں جان نا اتی ۔۔۔۔اسی لیے مجھے رائیٹر نے خاص انویٹشن بھیجا تھا ۔۔۔ بیر نے دل جلاتی مسکراہٹٹ ہونٹوں پہ سجاتے دانی کو دیکھا جو خاص انویٹیشن سن کر ہی بھنویں چڑھاتے اسے دیکھ کم گھور رہا تھا


آہاں ۔۔۔. صحیح کہا رائیٹر ہماری ہمھیں انہوں نے ایک بار کہا تو ہم اگئے کیونکہ ہم زرا فرمابردار بچے ہیں ۔۔۔۔اور انہیں پتہ تھا کہ تم جیسے لکڑ بھگے کہاں مانتے ہیں ایک بار کہنے سے۔۔۔۔ اسی لیے انہون نے تمھیں جوتوں والا انویٹیشن بھیجا ہے ۔۔.خیر ہے کوئی بات نہیں تم ڈیزرو کرتے ہو یہ ۔۔۔۔ دل جلاتی مسکراہٹٹ سے دانی نے کیا جواب بیر کے منہ پر تھپڑ کی طرح مارا کہ بیر کے مسکراتے لب سکڑے اور وہ اسے گھورنے لگا


تم جیسا بےشرم بدتمیز گدھا انسان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔۔۔۔ بیر نے غصے سے مٹھیاں بھینچتے کہا


کیوں اجکل ائنے میں خود کو نہیں دیکھتے کیا ۔۔۔؟؟ دانی نے سوالیہ انداز میں پوچھا جبکہ آنکھوں میں ناچتی شرارت بیر کو مزید سلگا گئی تھی


مرو ۔۔۔۔۔ بیر غصے سے کہتے باہر کو چلا گیا اسے اپنے پیچھے دانی کا بلند قہقہہ سنائی دیا تھا...

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

آج تو غضب ڈھا رہی ہیں ۔۔۔۔ رباب کو اکیلا دیکھ وہ وہی ایا تھا رباب نے اسے دیکھتے اگنور کیا


کیا ہوا ہے رباب۔۔۔۔۔ سیم نے اسکا رخ اپنی جانب کرتے پوچھا تو رباب نے نم نظروں سے اسے دیکھا


سیم میرے بابا نہیں مل رہے پہلے وہ کچھ دنوں کے لئے جاتے تھے مگر اب مہینے ہونے کو ائیں ہیں وہ گھر نہیں ائے ۔۔۔۔ نم انکھوں سے کہتی وہ رو دی بےشک وہ لاکھ ان سے نفرت کرتی تھی مگر تھا تو وہ اسکا باپ ۔۔۔ اچھا برا مگر باپ تو تھا نا


ریلیکس رباب ہوسکتا ہے اس بار وہ بہت زیادہ مصروف ہوں۔۔۔ ایویں تم رو رہی ہو ۔۔۔ اگر انہیں پتہ چلا تمھارے رونے کا تو انہیں بھی تو تکلیف ہوگی نا کہ انکی بیٹی انکی وجہ سے رو رہی ہے ۔۔۔.اسکے انسو صاف کرکے خود سے لگائے وہ اسکے بال سہلانے لگا اسکے پرفیوم کی مہک رباب کے نتھوں سے ٹکڑائی تو وہ جھٹکے سے اس سے دور ہوئی


بہت ہی کوئی مین انسان ہو۔۔۔موقع دیکھ کر فائدہ اٹھا رہے ہو ۔۔۔۔نم پلکوں کو اٹھائے وہ سیم کو گھورنے لگی وہ اتنی کیوٹ لگ رہی تھی کہ سیم بےاختیار اس کی آنکھوں پر جھکتے لب رکھ گیا رباب نے آنکھیں بند کرتے اسکے نرم لبوں کا لمس اپنی انکھوں پر محسوس کیا تو مسکرائی


فائدہ اٹھانے والوں میں سے نہیں ہوں ۔۔میں اپنا بناے والوں میں سے ہوں ۔۔۔ اور رباب تم میری ہو ۔۔۔۔ سیم نے اسکی تھوڑی پر لب رکھتے کہا تو رباب نے اسے گھور کر پیچھے کیا تو سیم مسکرایا


لو یو۔۔۔شہادت کی انگلی سے اسکی گلابی ناک کو چھوتے وہ اہستہ سے بولا تو رباب کی ڈھرکنیں جیسے رقص کرنے لگی کہ اسکی پشت کو دیکھتی سر جھٹک گئی

--------------------------------------------

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے


ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں

آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے


بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری

جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے


ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

میم اپکو کوئی باہر بلا رہا ہے ۔۔۔۔ ایک ویٹر جاناں کے پاس اتے بولا تو جاناں نے سر ہلایا اور حور کو کچھ کہتے باہر کو بڑھی


مسس جاناں۔۔۔۔ اس گاڑدن میں قدم رکھا تو اسے اپنے پیچھے کسی کی اواز سنائی دی پیچھے مڑتے اس نے سوالیہ نظروں سے کھڑے اویس کو دیکھا


مجھے یہاں اپ نے بلایا ہے ۔۔۔۔ جاناں نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو اویس نے سر ہاں میں ہلایا اور اسکے قریب اتے ایک گھٹنہ زمین پر رکھتے اسکی طرف دیکھنے لگا


وجہ جان سکتی ہوں۔۔۔ اسکی حرکت پر جاناں پیچھے ہوتے سخت لہجے میں پوچھنے لگی


آب سارے حق آپ ہی رکھتی ہیں ۔۔۔۔ مسس جاناں۔۔۔ وہ چاشنی بکھیرتے لہجے میں میں کہنے لگا جاناں نے نظروں ہی نظروں میں اسے وارن کیا مگر وہ تو جیسے ہر چیز فراموش کرے جارہا تھا


کیا مطلب ہے اپکی اس بات کا۔۔۔۔ جاناں کو اسکی بات کھٹکی اویس نے پاکٹ میں سے ایک مخملی ڈبی نکال کر اسکے سامنے کی


جاناں جب سے تمھیں دیکھا ہے میرا دل میرے بسس میں نہیں ہے ۔۔۔۔ میں چاہنے کے باوجود بئ تمھیں بھلا نہیں پارہا ۔۔۔.میں محبت پر یقین نہیں رکھتا تھا مگر جب سے تمھیں دیکھا ہے میں اپنا سب کچھ تم پر ہار گیا ہوں۔۔۔ وہ مخمور لہجے میں بولے جارہا تھا جاناں دم بخود سی اسے دیکھ رہی تھی یہ کیا کہہ رہا تھا وہ وہ تو مراد کو پسند کرتی تھی ۔۔۔۔۔


جانان کو نا پاکر مراد ولی حور بھی وہی ائے تھے انکے پیچھے بیرہ اور نومی بھی تھا وہ سب بھی حیرانی سے اسے سن رہے تھے


ایک بار جاناں ایک بار مجھ پر اعتبار کرلو۔۔میں اپنا عشق تم پر تمام کردونگا ۔۔۔.میرا پہلا اور اخری عشق ہو تم ۔۔۔۔.تمہارے بغیر اویس شاہ زیرو ہے ۔۔۔۔تم ہو تو میں ہو ۔۔۔۔


*Miss Janaa misam shah will you marry me??? ..*


*اسکا اندا*ز اتنا خوبصورت تھا کہ اگر جاناں مراد کو پسند نا کرتی تو یقیناً اس پر فدا ہوا جاتی


*بلیک شرٹ بلو پینٹ تیکھے نین نقوش اور صاف رنگت والا وہ مرد اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ اسکے سامنے بیٹھا محبت کا اعتراف کررہا تھا ۔۔۔جاناں پیچھے ہوتی کہ اسکی نظر مراد پر گئی جو نیلی أنکھوں سے اسکی طرف دیکھتے اسکے جواب کا منتظر تھا*


نو ۔۔۔۔۔ یک لفظی جواب دے کر وہ جانے لگی مگر اویس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا اور وہ اسکے سامنے گھاس پر اگری


وجہ ۔۔۔۔۔ سرد لہجے میں پوچھا گیا سوال جاناں نے حیرانی سے اسکے بدلے انداز کو دیکھا ابھی اسکا لہجہ شہد تھآ اور کچھ سیکنڈ میں اگ جیسا


مراد جہاں اسکے جواب پر خوش تھا وہی اویس کی حرکت پر اسے طیش ایا اسکی طرف بڑھتے وہ اسے اپنی اوپر کھینچتے اس پر بل پڑا اویس بھی کہاں کم تھا دونوں ہی بلیک بیلٹ تھے ایک دوسرے کو اٹھا اٹھا کر پٹکتے وہ دونوں خونم خون ہوچکے تھے مگر جی یہاں فرق کسے پڑتا ہے ۔.۔۔۔


ویسے گڑیا اگر یہاں پاپ کارن مل جاتا تو مزہ اجاتا ۔۔۔۔نومی اور بیرہ تو ریلیکس کھڑے تھے تبھی نومی نے بیرہ کے کان میں سرگوشی کی تو وہ بھی سر ہلاتے مسکرائی اور دونوں انہیں دیکھنے لگے جہاں اب جاناں ان دونوں کو چھڑوا چکی تھی


کیا پاگل ہوگئے ہو تم ؟؟؟ جاناں شازم نے غصے سے دونوں سے پوچھا جو ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھے جارہے تھے جاناں رو ولی کے ساتھ چپکی سسک رہی تھی انہیں دیکھ کر ہی اسکا سانس بند ہونے لگا تھا


اسے سمجھا لیں جاناں۔۔ اویس شاہ کام میں مداخلت کرنے والے لوگوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔۔۔اویس نے مراد کو گھورتے کہا جس نے تمسخرانہ مسکراہٹ سے اسے دیکھا جو اگر وہ اسے جانتا تو یہ بات کہنے پر اپنے ہی منہ پر لعنتیں دیتا


اویس کول ڈاؤن اندر پارٹی چل رہی ہے اور تم لوگ یہ لڑائیوں میں پڑے ہو چلو اندر ۔۔۔۔ جانان شازم نے مراد کو اشارہ کرتے اویس سے کہا جو مراد سر جھٹکتے جاناں کی طرف بڑھا لیکن انکے درمیان واپس سے اویس حائل ہوچکا تھا


جو چیز مجھے پسند اجاتی ہے پھر وہ ہمیشہ کے لیے ہی میری ہوجاتی ہے ۔۔بہتر ہوگا کہ میرے معاملوں میں نا پڑو تم ۔۔۔۔۔ جاناں کے سامنے کھڑے ہوتے وہ سرخ بھوری انکھوں سے اسے سالم نگل جانے کے در پر تھا ہونٹوں کے کنارے سے نکلتا خون صاف کرتے وہ مراد کی نیلی أنکھوں میں آنکھیں گاڑھے کھڑا تھا


کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھنے ہیں تو شوق سے دیکھو ۔۔۔اسکے قریب میں جاؤ گا کیونکہ ۔۔مراد لغاری کسی کے باپ سے بھی نہیں ڈرتا سمجھے۔۔ اسے ایک ہاتھ سے سائیڈ پر کرتے مراد نے اتنے استحاق سے اسکی نازک کلائی کو اپنی مضبوط گرفت میں لیا اور اندر کی طرف بڑھ گیا


آسکی تو میں۔۔۔۔۔ اویس اسکے پیچھے جاتا کہ جاناں نے اسکا ہاتھ پکڑے پیچھے کیا اور اسے جانے کا اشارہ کیا غصے سے بھنبھناتا وہ وہاں سے اتش فشاں بنا نکلا یہ اتش فشاں آب کرنل پر ہی جاکر پھٹنا تھا اتنا تو وہ جانتی تھی مگر معاملہ گمبھیر تھا


تم لوگ کیوں دانت نکال رہے ہو ۔۔۔.بیرہ اور نومی کو ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے دیکھ وہ ائبرو اچکا کر پوچھنے لگی تو ان دونوں کی ہنسی تھمی اور وہ دونوں ہی چلتے اس کی طرف ائے باقی سب اندر جاچکے تھے


تمھیں لگتا ہے یہ جو ابھی یہاں ہوا وہ ختم ہوگیا ؟؟؟ ۔۔.بیرہ نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا تو جاناں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا


.دیکھیں مسس اپ نے مراد کا ٹھنڈا ریسپونس دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ جہاں تک میری انفارمیشن ہے وہ غصے کا بہت تیز ہے تو کیا وہ اپنے عشق پر ایک خراش بھی برداشت کرپائے گا ۔۔۔۔ ابھی جو ہوا یہ سب اتنی جلدی ختم نہیں ہونا ۔۔.دونوں میں سے کسی ایک کو جھکنا ہی ہوگا ۔۔۔کیونکہ معاملہ عشق کا ہے ۔۔۔۔۔ نومی سنجیدگی سے کہتے کہتے رکا تو جاناں نے پرسوچ انداز میں سر ہلایا بیرہ بھی اسکے کندھے تھپتپاتے اندر کو چل دی ابھی تو ہلا گلا کرنا تھا


💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


ریلیکس میں ہوں نا ۔۔.اسے مسلسل روتے دیکھ مراد نے سبکے سامنے ہی اسے گلے لگایا تو جاناں اسکے گرد حصار بناتی مزید رونے لگی ان کچھ مہینوں میں وہ بہت حساس ہوگئی تھی اپنے رشتوں کو لے کر ۔۔ اسے اویس کا پرپوز کرنا پھر انکا لڑنا بہت بری طرح ہرٹ کرگیا تھا


ششش۔۔۔پرنسسز ۔۔۔ اپکا مراد ہے یہاں وہ کچھ نہیں کرسکتا ۔۔۔۔ اسکے بال سہلاتے وہ اپنے سینے سے لگی جاناں کو دیکھ رہا تھا جو آنکھیں میچی بسس روئے جارہی تھی رونے سے اسکی رنگت سرخ ہورہی تھی اسکے بالوں میں ہاتھ ڈال کر اسکا چہرہ اپنے سامنے کرتے وہ اسکے انسو اپنے ہونٹوں سے چننے لگا اپنے چہرے پر ہونٹوں کا تپش زدہ لمس محسوس کر اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا


اسکی آنکھیں کھولنے پر ایک انسو اسکی انکھ سے بہتے اسکے گلابی ہونٹوں کے کنارے پر اکر رکا تو مراد نے جھک کر اسکے لبوں پر لب رکھے اسکے نرم گرم سا لمس اسے بہکا رہا تھا تھا اردگرد سے بےنیاز وہ اس پر جھکا اس کو اپنے لمس سے اشنا کروا رہا تھا


ی۔یہ۔۔. انکو یوں ایک دوسرے میں گم دیکھ رباب کی زبان حلق سے جالگی اس نے ایک نظر حور کو دیکھا جو اسے ہی تمسخرانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ولی اور سیم اس وقت وہاں تھے ہی نہیں۔۔وہ آیک بزنس مین سے ڈیل کرنے میں مصروف تھے


انکو دیکھتے ینگ جنریشن نے ہونٹنگ کی تو مراد نرمی سے اس سے دور ہوا سر پر ہاتھ پھیرتے وہ گہری مسکراہٹ سے جاناں کے بھیگے ہوئے خون چھلکاتے لبوں کو دیکھ رہا تھا

...........-------------------------......................"»



اب مرے پاس تم آئی ھو ، تو کیا آئی ھو


میں نے مانا کہ تُم ، اک پیکر رعنائی ھو

چمن دہر میں ، روح چمن آرائی ھو

طلعت مہر ھو ، فردوس کی برنائی ھو

بنت مہتاب ھو ، گردوں سے اُتر آئی ھو


مجھ سے ملنے میں اب ، اندیشۂ رسوائی ھے

میں نے خود اپنے کیے کی یہ سزا پائی ھے


خاک میں آہ ملائی ھے جوانی میں نے

شعلہ زاروں میں جلائی ھے جوانی میں نے

شہر خوباں میں گنوائی ھے جوانی میں نے

خواب گاہوں میں جگائی ھے جوانی میں نے


حسن نے جب بھی عنایت کی نظر ڈالی ھے

میرے پیمان محبت نے سپر ڈالی ھے


ان دنوں مجھ پہ قیامت کا جنوں طاری تھا

سر پہ سرشارئ عشرت کا جنوں طاری تھا

ماہ پاروں سے محبت کا جنوں طاری تھا

شہریاروں سے رقابت کا جنوں طاری تھا


بستر مخمل و سنجاب تھی دنیا میری

ایک رنگین و حسیں خواب تھی دنیا میری


جنت شوق تھی بیگانہ آفات سموم

درد جب درد نہ ھو کاوش درماں معلوم

خاک تھے دیدۂ بیباک میں گردوں کے نجوم

بزم پرویں تھی نگاھوں میں کنیزوں کا ہجوم


لیلیٰ ناز برافگندہ نقاب آتی تھی

اپنی آنکھوں میں لیے دعوت خواب آتی تھی


سنگ کو گوھر نایاب و گراں جانا تھا

دشت پر خار کو فردوس جواں جانا تھا

ریگ کو سلسلۂ آب رواں جانا تھا

آہ یہ راز ابھی میں نے کہاں جانا تھا


میری ھر فتح میں ھے ایک ہزیمت پنہاں

ھر مسرت میں ھے رازِ غم و حسرت پنہاں


کیا سنو گی مری مجروح جوانی کی پکار

میری فریاد جگر دوز مرا نالۂ زار

شدت کرب میں ڈوبی ہوئی میری گفتار

میں کہ خود اپنے مذاق طرب آگیں کا شکار


وہ گداز دل مرحوم کہاں سے لاؤں

اب میں وہ جذبۂ معصوم کہاں سے لاؤں


میرے سائے سے ڈرو ، تم مری قربت سے ڈرو

اپنی جرأت کی قسم ، اب میری جرأت سے ڈرو

تم لطافت ھو اگر ، میری لطافت سے ڈرو

میرے وعدوں سے ڈرو ، میری محبت سے ڈرو


اب میں الطاف و عنایت کا سزا وار نہیں

میں وفادار نہیں ، ہاں میں وفادار نہیں


اب مرے پاس تم آئی ھو ، تو کیا آئی ھو


💖💖💖💖💖

پارٹی ختم ہوئی تو سب تھکے ہوئے اپنے روم میں گھسے جاناں کو فریش ہوکر لیٹے ابھی کچھ منٹس ہی ہوئے تھے کہ اسے اپنے قریب کسی کی اہٹ سنائی دی پہلے تو اس نے اگنور کیا کچھ دیر بعد کسی تیز سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے وہ جھٹکے سے اٹھی اس شخص کو دھکا مارتے پیچھے کیا


اس کے ہاتھ پکڑ کر بالوں کو مٹھی میں دبوچتے وہ اسکے قریب ہونے لگا ہلکی سی روشنی میں اسکا چہرہ واضح ہوا تو جاناں کی آنکھیں تحریر سے پھیلی


ح۔۔.حاوز۔۔بھائی ۔۔۔۔ اسکے منہ سے ایک اہ نکلی حاوز نے زہر خند مسکراہٹ سے اسے دیکھا بلیک شلوار کمیض پہنے وہ ایک کھلا ہوا پھول ہی لگ رہی تھی


آج تجھے چھوڑونگا نہیں ۔۔۔اسکے کان کے پاس چہرہ لاتے وہ بولا اسکے منہ سے اتی شراب کی بو جاناں کو ابکائی سی ائی حاوز اس پر جھکنے لگا کہ جاناں نے نا آؤ دیکھا نا تاؤ دروازے کے پاس پڑے ٹیبل پر رکھے واس کو اسکے سر میں دے مارا کہ حاوز سر پر ہاتھ رکھتے لڑکھڑا کر پیچھے ہوا


جاناں ڈر کے مارے رقم سے نکلتی پچھلے دروازے سے باہر بھاگی بھاگتے بھاگتے اس نے پیچھے دیکھا جہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا حاوز کے ڈر سے وہ کانپتی وہی پڑے بڑے سے پتھر پر بیٹھ گئی


یااللہ ۔۔۔م۔میرا بھائی ہی میرے ساتھ ۔۔۔۔ سوچ کر ہی اسکی آنکھیں نم ہوئی وہ لمحے یاد کرکے اسکی انکھوں سے انسو بہنا شروع ہوگئے ۔۔۔۔۔وہ ابھی رو ہی رہی تھی کہ ایک گاڑی اسے اپنی جانب اتی دیکھائی دی

...............

ٹھیک ہے تم دیکھو سب۔۔.اور مجھے جلدی ہی اس شخص کا پتہ چاہیے ۔۔۔.جاناں کو اس بارے میں کچھ مت بتانا ۔۔۔. اویس ڈرائیونگ کرتا کان میں لگے آلے سے کسی ادمی سے بات کررہا تھا اسکا دھیان سامنے کی طرف تھا ابھی وہ کام ختم کرکے گھر ہی جارہا تھا کہ اسے پتھر پر جانان بیٹھی دیکھائی دی پہلے تو اس نے سر جھٹکا اسے لگا شاید وہ اسکے حواسوں پر سوار ہورہی ہے مگر دوبارہ پتھر پر دیکھا جو روئے جادہی تھی


جاناں۔.۔۔ گاڑی ایک جھٹکے سے روکتے وہ گاڑی سے اترا جھٹ سے اسکے پاس پہنچا


جان ۔۔۔کیا ہوا یہاں کیوں ہو وہ بھی اس وقت ۔.رو کیوں رہی ہو۔۔۔ بولو بھی کسی نے کچھ کہا ہے کیا ؟؟؟ وہ اسکا چہرہ اپنی جانب کرتا وہ سرد لہجے میں پوچھنے لگا مگر جاناں رو بس رونے میں مصروف تھی سر اٹھا کر اسے دیکھا تو اویس کا دل دکھ سے رہ گیا


روئی روئی سی سرخ کالی آنکھیں۔۔۔ بری طرح لرزتے سرخ لب ۔۔۔ بکھرے بال اسے دیکھ کر اس نے مٹھیاں بھینچی


کیا ہوا ہے ۔۔۔ بتاؤ نا ۔۔۔ اسکے نازک گالوں سے انسو صاف کرتے وہ نرمی سے پوچھنے لگا جاناں نے نفی میں سر ہلایا


م۔مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔۔ وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی تو اویس نے پرسوچ نظریں اس پر جمائی


اچھا آؤ چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔ اسے جاتے دیکھ اویس نے کہا تو جاناں نے سر ہلایا اب اتنے سنسان راستوں پر اکیلے اسے ڈر لگتا تھا


یہاں کیسے ائی تھی تم ۔۔۔اویس نے تفتیشی نظروں سے اسے دیکھا جاناں اب تک خود کو سنبھال چکی تھی


گھومنے ائی تھی سوچا بھوتوں سے گفتگو کرلو۔۔۔۔۔ انسو ٹشو سے صاف کرتے وہ چبا چبا کر بولی تو اویس نے مسکراہٹ دبائی


پھر ہوگئی ملاقات ؟؟؟


نہیں تم جیسے جن کو دیکھ ساری بھوت پارٹی بھاگ گئی ۔۔۔۔ جاناں نے دانت پیستے جواب دیا


اچھا تو انکی جدائی میں انسو بہا رہی تھی تم ۔۔۔۔ اویس نے اسکے رونے کی طرف اشارہ کرتے پوچھا تو جاناں نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا


اوکے اوکے سوری بابا۔۔۔۔ اسے گھورتے دیکھ اویس نے ایک ہاتھ اسٹیرنگ سے اٹھاتے کہا تو جاناں نے پھر سے ونڈو کی طرف منہ کیا

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💞💞


رات کا جانے کونسا پہر تھا لیکن دو وجود بےچینی سے وہ رات کاٹ رہے تھے کہ جھولتی ہوئی کرسی پر بیٹھتے وہ کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھا اسکی نیلی أنکھیں خطرناک حد تک سرخ ہورہی تھی کمرے کے چاروں اور اندھیرا پھیلا تھا اے سی کی کولنگ کمرے میں پھیلی تھی لیکن اسکے اندر کی اگ بجھائے نہیں بجھ رہی تھی وہ جھولتی کرسی سے سر ٹکائے بےسکون تھا


میرا پہلا اور اخری عشق ہو تم۔۔..یہ جملہ بار بار اسکے کانوں میں گونج رہا تھآ کہ ایک جملہ نہیں پگھلا ہوا سیسہ تھا جو اسے تکلیف پہنچا رہا تھا


تمھارے اس اظہار کو تمھاری زندگی کا سب سے بھیانک لمحہ نا بنا دیا تو کہنا ۔۔۔۔ وہ استہزائہ انداز میں ہنستے بولا اسکی ہنسی سے بھی وحشت ٹپک رہی تھی


خیر تمھارے لیے تو میں پوری دنیا سے لڑ جاؤں۔۔۔یہ تو پھر بھی دو کوڑی کا اویس شاہ ہے۔۔۔تمسخر سے اویس کو سوچتے وہ مسکرایا اور اگے کا سوچتے وہ آنکھیں کھول گیا

💞💞

بات سنو ہم کچھ اور نا سہی کزنز تو ہیں نا ؟؟؟؟ تو اسی کے واسطے ہی کچھ لحاظ کرلو تم سے بڑا ہوں میں ۔۔۔۔۔ اویس نے اسکو شاہ میشن کے گیٹ کے سامنے گاڑی روکتے کہا


جی بلکل اپ مجھ سے 80 سال بڑے ہیں لیکن لحاظ نامی چڑیا سے ابھی تک میرا پالہ نہیں پڑا سو پلیز ۔۔۔۔۔ جاناں نے اسے دیکھتے کہا تو اویس نے دانتوں تلے ہونٹ دبائے اسے دیکھا


اتنا بڑا بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔ تمھیں کہاں سے میرے دانت ٹوٹے ہوئے لگتے ؟؟؟ اور لحاظ نام کی چڑیا ہوگی تو تمھارا پالا پڑے گا نا۔۔۔۔


مسٹر اپکو نہیں پتہ کیا کہ جنکی عمر سو سال سے بڑھ جائے انکے دانت پھر سے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں 😒😒 ۔۔۔۔ اور لحاظ اور اسکی چڑیا جائیں بھاڑ میں ۔۔۔۔. جانان نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا تو اویس کا ہلکہ سا قہقہہ گونجا


دانت اندر کرو ورنہ ان دانتوں پہ مکہ مار کر توڑ دونگی سمجھے ۔۔۔ جاناں آگ بگولہ ہوتے چیخی تو اویس نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی


آب چلو بھی یہاں کیا تمھاری معشوقہ کو لینے کے لئے رکے ہو ۔۔۔۔۔ جاناں اسے گاڑی کو رکے دیکھ بولی اویس نے اسے دیکھا پھر شاہ مینشن کو


میری معشوق میرے ساتھ ہے ۔۔۔اور اگر تمھیں میرے ساتھ میرے گھر چلنا ہے تو چلتے ہیں ۔۔۔۔ اویس نے گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی جاناں نے سر گھماتے شاہ مینشن کو دیکھا تو جلدی سے دروازہ کھولتی اتر گئی


تمھارے ساتھ تو میں جہنم میں بھی نا جاؤ۔۔۔۔آئے بڑے ۔۔۔۔۔ میلی معشوق. ۔۔۔. جانان نے منہ بگاڑتے اسکی ڈبنگ کی تو غصہ ہونے کی بجائے وہ ہنس دیا


ڈھیٹ انسان .....اسے ہنستے دیکھ وہ اونچی اواز میں کہتی اندر کو چل دی


ضروری تو نہیں کہ جس سے محبت ہو وہ شخص حاصل بھی ہوجائے۔۔۔۔سچی محبتیں اکثر ادھوری رہ جاتی ہیں ۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

کیا ہوا صنم۔۔۔۔ بیر کو صوفے پر منہ پھلا کر بیٹھے دیکھ وہ اسکی گود میں بیٹھتے بیرہ نے اسکے گال چومتے پوچھا


تمھارے بھائیوں نے اس ناول میں بھی میری بےعزتی خراب کردی ۔۔۔۔ ابھی آئے ہوئے گھنٹہ نہیں ہوا تھا اور تمہارے اس چلغوزے بھائی نے بےعزتی کردی ۔۔۔۔ اسکی کمر کے گرد بازو ہائل کرتے وہ پھولے ہوئے چہرے سے بولا تو بیرہ ہنسنے لگی


مگر اس میں ناراض ہونے والی کونسی بات ہے ۔۔۔۔۔ ؟؟ پہلی بار تھوڑی ایسا ہوا ہے ۔۔۔۔ اسکے بالوں کو انگلیوں سے اوپر کی طرف کرتے بیرہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا اپنی ہنسی کو وہ کنٹرول کرچکی تھی


یار مسئلہ ہے نا وہ جو ماہی ہے وہ مجھ پر ہنس رہی تھی کہتی ہے رائٹر نے واقع بیر کو جوتوں والا ہار بھیجا ہے ۔۔۔۔۔ نہیں بتاؤ آب وہ بھی ایسا بولنے لگی ہے ۔۔۔۔ اور وہ سلطانہ ۔۔۔۔ اسکو تو میں دکھتا ہی نہیں ۔۔۔بسس ساتھ والی پڑوسن حور کی تعریف کرتی ہے ۔۔۔۔. بیر نے منہ بسورتے کہا


اسکا نام سلطانہ نہیں ہے تحریم سلطان ہے ۔۔۔۔ بیرہ نے اسکو بتایا مگر وہ منہ بنائے بیٹھا رہا اسکے ایکسپریشن بیرہ کو قہقہہ لگانے پر مجبور کررہے تھے


صنم ایک بات بتاؤ. ۔۔یہ ماہی کے ہنسنے پر تم کیوں جل رہے ہو ۔۔۔.اچانک یاد اتے بیرہ نے اسے گھورا تو بیر نے ایکدم اسے دیکھا


(اگر اسے بتا دیا کہ میں اس پر کریش کر گیا ہوں تو یقیناً اس نے اور اسکے اندر بھائیوں نے مجھے گنجا لنگڑا کردینا ہے ۔۔۔.) بیرہ کو دیکھتے وہ دل ہی دل میں خود سے باتیں کرنے لگا بیرہ تو بس اسے گھورے جارہی تھی


بیر میں تمھاری سیفٹی کے لئے کہہ رہی ہوں کہ اس سے دور رہنا ۔۔۔.بیرہ نے آہستہ سے اسکے کان کے قریب لب لاتے سرگوشی کی تو بیر دراک ملک نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا


اسکے گھر والوں نے تمھیں پہلے تو اچھے سے ہینڈنا (مارنا) ہے پھر جب تمھاری ہڈی ہڈء ٹوٹ جائے گی تو وہ تمھارے ٹوٹے پھوٹے جسم کو اٹھا کر کچرے کے ڈبے میں پھینک دینا ہے ہوسکتا ہے اسکے بعد تم مرجاؤ اگر بائے چانس تمھیں کوئی ہوسپیٹل لے جائے اور تم بچ جاؤ تو جب تم بلکل فٹ ہوجاو گے تو پھر سے وہ لوگ تمھادے پاس ائے گے اور تمھاری گردن توڑ کر تمھیں اوپر پہنچا دینگے ۔۔۔۔.۔بیرہ نے ماہی کے خلاف اتنی لمبی چوڑی پھینکی کہ بیر کو جھرجھری ائی


اللہ معاف کرے ۔۔بیری اللہ توبہ میں تو تم سے محبت کرتا ہوں .۔اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور بیرہ کے گرد حصار مضبوط کیا جانے انجانے ہی مگر اسے ماہی سے ڈر لگا تھا اسکو دیکھ بیرہ کا زوردار قہقہہ بلند ہوا

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


جان اجاؤ یار ۔۔۔۔ ولی نے جاناں کو بلایا جو جم میں کھڑی گن چلا رہی تھی جانے کیوں مگر اج اسکے انداز میں کچھ چینج تھا ولی نے پہلے تو اگنور کیا مگر اسے ہلتے نا دیکھ اس نے فیملی گروپ میں میسج کیا جو جاناں کے پاس بھی گیا مگر وہ تو شوٹ پر شوٹ کررہی تھی اسی لیے اسکا دھیان نا گیا


گڑیا ۔.۔..حاوز نکھرا نکھرا سا جلدی سے وہاں ایا وائٹ جینز شرٹ پر وائٹ کوٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا اسکی اواز سن جاناں نے گن اس پر تانی اور فائر کردیا یہ تو بروقت جاناں شازم نے حاوز کو پیچھے کھینچا جس سے بلٹ گلاس وال میں لگی اور چھانک کی اواز گلاس ٹوٹ کر ٹکڑوں میں بٹتے زمین بوس ہوا


جاں یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔.بھائی کو مارو گی ۔۔۔۔۔ جاناں نے سرد نظروں سے جاناں کو گھورتے اس سے گن چھینی


بھائی ۔.بھائی نہیں ہے یہ شخص میرا ۔۔۔کوئی اور ہی بہروپیا ہے میرا بھائی ایسا گھٹیا نہیں تھا ۔۔۔بول کمینے کون ہے تو ورنہ یہی دفن کرونگی ۔۔۔ حاوز کے گریبان کو پکڑ کر اسے جھنجھوڑتے وہ غررائی تو حاوز نے بنا کچھ کہے ہی اسے خود سے لگایا وہی باپ جیسی شفقت وہی تفظ دیتا حصار


میری جان اپنے بھائی سے کیوں. ناراض ہے .۔.۔ وہ نرم لہجے میں پوچھنے لگا اسکا ہاتھ جانان کے بالوں کو سہلا رہے تھے جاناں ساکت کھڑی رہ گئی پھر اسکے گرد ہاتھ باندھتے پھوٹ پھوٹ کر رودی


بھائی اپ کہاں تھے ۔۔۔۔ اپکو پتہ ہے میں نے کتنا مسس کیا أپکو ۔۔۔. وہ کیسے نا پہنچانتی اسے بچپن سے ہی اسکے رویے اسکی باتیں اسکا انداز اسے حفظ تھا


حاوز کا جانان سے پیار دیکھ اکثر لوگ انہیں باپ بیٹی سمجھتے تھے


میں اپنی جان کی ننھے شہزادے کے پاس تھا ۔۔۔۔۔ حاوز نے اسکو خود سے الگ کرتے اسکے انسو صاف کیے اور سیم کی طرف اشارہ کیا جو بچے کو اٹھائے کھڑا تھا


یہ کون ہے ۔۔..شہزادہ لفظ پر وہ چونکی تھی اسے یاد ایا حاوز کی شادی سے پہلے وہ ایک نقلی گڑیا کو حاوز کی بیٹی بنا کر اسے شہزادی بولاتی تھی اسکا کہنا تھا کہ اگر بیٹا ہوا تو وہ جانان کا شہزادہ لڑکی ہوئی تو شہزادہ


تمھارا شہزادہ ۔۔۔۔ابیہا آہستہ آہستہ حور کے سہارے چلتی وہاں ائی اور مسکرا کر بولی تو جاناں پہلے تو زدہ رنگت میں ڈھلئ ابیہا کو دیکھ رہی تھی پھر اس ننھی سی جان کو


بھائی م۔میں اسے آٹھاوں کیسے یہ تو گرجائے گا ۔۔۔۔۔ جانان نے اہستہ سے پوچھا پھر آہستہ آہستہ سیم تک گئی اس بچے کو ہاتھوں میں لیتے وہ غور سے دیکھنے لگی گول مٹول سا روئی جیسا بےبی گرے آنکھیں کو پورا کھولے اسے دیکھ رہا تھا جاناں اسے دیکھ کر ہی اندازہ لگا چکی تھی کہ بےبی ایک منتھ کا ہے


اسکے بھرے بھرے پنک ہونٹ اہستہ اہستہ باہر کو لٹک رہے تھے چھوٹی سی ناک پھولنے لگی تھی جیسے ابھی وہ رو دیگا


ہائے میرا شہزادہ میرا شونا مونا ۔۔۔.اسے گلے لگاتے وہ جھومنے لگی اور وہ بےبی اسکو شاید جاناں کا انداز پسند ایا تھا جاناں کی ہنسی کے ساتھ اسکی کھلکھلاہٹیں بھی اس جم میں گونجنے لگی بچے کی اواز سن بیرہ بیر نومی دانی وہی ائے تھے


یہ کسکا بےبی ہے ۔۔۔۔. نومی نے منہ کھولتے حیرانی سے پوچھا دانی کا بھی وہی حال تھا جبکہ بیرہ حاوز اور ابیہا کو وہاں دیکھ سمجھ گئی تھی


یہ میرا بےبی ہے. ۔۔جاناں دھیرے سے گول گول گھومتے چہکی تو ان دونوں کے منہ پورے کھلے


شادی سے پہلے ہی بچہ ۔۔۔۔ بڑی فاسٹ نکلا یار مراد۔۔۔۔۔ دانی نے پہلے جاناں کو دیکھ پھر اخر میں نومی کو اہستہ سے بولنے لگا


ارے نہین رے کم عقل ۔۔۔. نو کل رات کو ایک کس ہوگئی تو بچہ نہیں ہوجاتا ۔۔.کسی اور کا بچہ ہے ۔۔۔۔ نومی نے سمجھداری سے کہا تو دانی نے بھی سر ہلایا


ہوگئی بحث تو سنو یہ میرے بھائی کا شہزادہ ہے ۔۔۔۔ جانان نے ناک چڑھاتے کہا تو حاوز نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے اسکے بال بکھیرے وہ سب اب لاؤنج میں اچکے تھے


ویسے اسکا نام کیا رکھا ہے۔۔..؟؟ بیرہ نے سوالیہ نظروں سے حاوز کو دیکھا


جو جان کہے گی وہ نام ہی ہونا ہے اسکا ۔۔۔ابیہا نے صوفے پر بیٹھی جاناں کی طرف اشارہ کیا جاناں شازم ارسل کے بلاوے پر اس سے ملنے گئی تھی


عیان اسکا نام عیان ہوگا ۔۔.خدا کا تحفہ ۔۔۔۔ جاناں نے چہکتی اواز میں کہتی اسکے گال چوم لیے اس سب میں وہ یہ بھول چکی تھی کہ حاوز کا وہ بہروپیا کہاں گیا ؟؟؟ حاوز اور ابہیا سال بھر کہاں غائب تھے ؟؟؟ انکی آمد اچانک کیسے ہوئی ۔..اسکی یہی معصومیت کو سوچتے ان لوگوں نے اسے بچے میں الجھا دیا تھا اور وہ لوگ کامیاب بھی ہوگئے تھے


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


سکندر سالوں پہلے جو کیس بند ہوا تھا اب پھر سے وہی کیس ری اوپن ہورہا ہے ۔۔۔کیونکہ اجکل وہی خبریں پھیل رہی ہیں کہ مافیا گرلز واپس اچکی ہے ۔۔میجر نے سکندر کے سامنے فائل رکھتے کہا


مگر مافیا گرل کو مرچکی تھی ۔۔۔سکندر نے میجر کو دیکھا


ہمارے پاس کوئی پروف نہیں ہے کہ وہ مر چکی ہیں ۔۔۔۔ مگر اس چیز کا ثبوت ہے کہ وہ زندہ ہے اور وہی ہی ہے ۔۔۔میجر نے ایک ادمی کے ٹکڑوں کی پکچر ٹیبل پر رکھی جسے دیکھ سکندر نے نظریں پھر سے میجر پر مرکوز کی


اس بار ہم مافیا گرلز کو پکڑے گے زندہ یا مردہ ۔۔۔۔ میجر نے کچھ اور فائلز ٹیبل پر رکھی جس میں انکی ڈیٹیلز تھی


اس بار انکا بچ کر جانا امپوسبل ہے ۔۔۔۔ سکندر نے پرعزم لہجے میں کہا جو میجر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا


💞💞💞💞💞

سمیر ابھی وہاں نکلا تھا کہ اسے راستے میں ہی جاناں شازم مل گئی جسکے ساتھ ارسل بھی تھا بوکھلاتے ہوئے اس نے سب کچھ جاناں شازم کے گوش گزار کردیا


پاگل ہوگیا ہے وہ ایک مہینے بعد شادی ہے انکی اور اسے یہ ڈرامے کرنے ہیں ۔۔.جانان نے غصے سے کہا اور اندر جانے لگی مگر ارسل نے اسے روکا


تم جاؤ یار میں دیکھتا ہوں بچہ ہے ۔۔۔ ارسل نے اسے گاڑی میں بیٹھاتے کہا اور اندر کی جانب چل دیا


ہوں بھئی کیوں بنی بنائی شادی یا رشتہ خراب کرنے پر تلے ہو۔۔۔۔ ارسل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور ساتھ کھڑے سمیر کو گھورتے وہ صوفے پر سے اٹھا


یہ کیا حرکت ہے لے جاؤ اس شخص کو یہاں سے ۔۔۔۔اس ادمی کی چیخیں سنتے ارسل نے اکتا کر ۔ایک گارڈ سے کہا مراد نے اشارہ کیا تو وہ سیف کو وہاں سے لے گیا


ایک مہینہ صبر نہیں ہورہا تم سے ؟؟؟ ارسل اب پوری طرح اسکی جانب مخاطب ہوا تھا جو دونوں ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھا تھا


نہیں ۔۔۔۔ یک لفظی جواب تھا سر اٹھاتے وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے انہین سیٹ کرنے لگا


کیوں....؟؟ ارسل نے گھور کر اسے دیکھا


کیونکہ میں سبکی بھلائی چاہتا ہوں..... اور اگر اس خبیث نے دوبارہ کوئی اوچھی حرکت کی تو یقین کریں انکل اسکی گردن اسکے دھڑ سے الگ کردونگا اور پھر یقیناً امن سکون باقی نہیں رہے گا ۔۔.سرخ نظریں اپنے ہاتھ پر ٹکی تھی ارسل نے غور سے اسکے بدلے بدلے انداز کو دیکھا


میں کرتا ہوں کچھ مگر کیا گیرنٹی ہے کہ شادی کے بعد وہ کچھ نہیں کرے گا... ؟؟؟ ارسل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا


شادی کے بعد میں دیکھ لونگا ۔۔۔۔ تب وہ میرے پاس ہوگی ۔۔۔اور ابھی وہ مجھ سے دود ہے...خود ہی دیکھ لیں اپ کیونکہ میں اگر اپنی کرنی پر ایا تو مجھے کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا.... . مراد نے صوفے سے اٹھتے کہا اور وہاں سے نکل گیا ارسل پرسوچ انداز میں اسکو جاتا دیکھتا رہا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کہاں جارہے ہو ؟؟؟ جاناں اسکے گھر انٹر ہوئی تو اسے لگیج کے ساتھ باہر جاتے دیکھا


امریکہ. ۔.کچھ میٹنگ پینڈنگ پر ہیں ۔۔.سوچا سارے کام نبھٹا لو ۔۔۔۔ پھر ایک اور کام کو سر انجام دونگا ۔۔۔. اویس نے مسکراتے ہوئے کہا اخری بات پر جاناں نے اسے گھورا


ٹھیک ہے کب انا ہے تم نے واپس .۔۔. جاناں نے جاننا ضروری سمجھا انداز سرسری تھا


ایک دو ہفتوں میں ۔۔۔اویس نے بھی مسکرا کر جواب دیا تو جانان نے کچھ سوچ کر سر ہلایا


چلو پھر ملتے ہیں دو ہفتوں بعد. ۔۔۔اویس نے کہا تو جاناں اور وہ دونوں ہی ایک ساتھ گھر سے نکلے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

دو دن بعد.........


شاہ مینشن میں آج افرہ تفری پھیلی تھی ہر طرف منیجمنٹ والے گھوم رہے تھے بھئی اخر کو گھر بھی تو سجانا ہے نا


میم سب کچھ ریڈی ہے ۔۔۔۔اپنی ٹیم کو سمجھاتے جاناں شازم کو وہاں اتے دیکھ اس لڑکے نے کہا تو وہ سر ہلاتی گیسٹ کا ویلکم کرنے لگی


آج بارات تھی مہندی کا فنگشن ان لوگون نے بسس چھوٹا سا ہی رکھا تھا جاناں کے کہنے پر صرف بارات ہی دھوم دھام سے ہونی تھی جو اج ہورہی تھی


کچھ ہی ہ دیر میں لان چکا چک مہمانوں سے بھر گیا تھا اور دلہے سٹیج پر بیٹھے اپنی دلہنوں کا انتظار کررہے تھے جو نکاح کے بعد ہی سٹیج پر انی تھی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

یار مجھے ٹینشن ہورہی ہے ۔۔۔رباب ہاتھوں کو مسلتے بولی ۔۔.انے والے لمحات کو سوچ کر اسکی ہتھیلیاں نم ہورہی تھی


ہوں جب اسکو شادی کے لئے ہوں کی تب تمھیں ٹیشن نا ہوئی ؟؟؟ حور نے ناک چڑھاتے اس ڈرامے باز عورت کو دیکھا اسے ویسے بھی خار اتی تھی اس لڑکی سے


تم ڈائن۔۔۔ میرے ساتھ بات مت کرو ورنہ ۔۔۔. رباب نے لہنگا ہاتھوں میں اٹھائے اٹھ کھڑی ہوئی


ورنہ کیا کروگی تم ہممم ؟؟؟ چوہیا ۔۔۔۔ حور بھی کہاں کم تھی جھٹ سے اٹھتی غرارئی جاناں نے حیرانی سے دونوں کو دیکھا دلہنیں بنی وہ جنگلی بلییاں لڑنے مرنے پر تیار تھی


شٹ اپ ۔۔.بیٹھو دونوں اپنی جگہ پر ورنہ میں نے تم دونوں کو جوتیوں سے سیکنا ہے سمجھی ۔۔۔۔ جاناں نے غصے سے کہا اتنے میں جاناں اور ابہیا روم میں ائی جاناں کے ہاتھ میں عیان تھا جبکہ ابیہا نے ان تینوں کے سر پر لال ڈوبٹہ اڑھائے جس پر سہرے لفظوں کا انکے دلہوں کے نام لکھے ہوئے تھے


اور کچھ دیر بعد قاضی صاحب ائے اور اسکے ساتھ ارسل حاوز بھی تھے


جاناں میصم ولد میصم شاہ اپکا نکاح مراد لغاری ولد فیصل لغاری سے بعوض پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کروایا جاتا ہے....

کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔۔۔۔ قاضی صاحب نے سوال کیا

....................

جان کی شادی پر تو میں نے اپنے سارے ارمان پورے کرنے ہیں ۔۔۔۔ شائزہ نے جاناں کے گال چومتے کہا


جان تمھاری شادی ہوگی تو تمارے دلہے کے کان کھینچو گی ۔۔۔۔۔۔ امنہ کی شرارت سے گویا ہوئی


ہائے اس افت سے شادی کون کرے گا ۔۔۔کسکو اپنی جان عزیز نہین ہے ۔۔۔۔. امن نے جاناں کے بال بگاڑتے پوچھا تو جاناں نے گھور کر اسے دیکھا


میری گڑیا کو تو شہزادہ لینے آئے گا ۔۔۔۔۔ کہی دور سے میصم کی اواز ابھری

.................

سب اسکے جواب کے منتظر تھے مگر جاناں خاموش تھی حاوز نے اسکے ساتھ بیٹھتے اسکا ہاتھ تھامتے اسکے حوصلہ دیا تو وہ ہوش میں ائی گالوں پر کچھ بھیگا بھیگا محسوس ہوا تو ہاتھ لگا کر دیکھا اسکی انکھوں سے انسو رواں تھے


ق۔قبول...ہے ۔۔۔۔ لزرتی ہوئی اواز میں کہتے وہ حاوز کے ہاتھ کق دونوں ہاتھوں سے تھام گئی انسو انکھوں سے بہتے انکے ہاتھوں پر گررہے تھے


احباب و قبول کے بعد اس نے کانپتے ہاتھوں سے نکاح نامے سائن کیے اور حاوز کے ساتھ لگی

.......

رباب اور حور سے نکاح کا پوچھا گیا رباب نے تو سکندر کو دیکھتے ہلکی سی اواز قبول ہے کہا تھا جبکہ حور رو ہنستے ہوئے قبوپ ہے بول چکی تھی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


یار بھئی امام صاحب اگئے ہیں ۔۔۔۔۔ دانی ہجوم کو چیرتا مراد تک ایا


امام تیرا جنازہ پڑھانے ایا ہے ؟؟؟ ولی اسے مکہ دکھاتے بولا تو دانی نے نفی میں سر ہلاتے اسے دیکھا


تم لوگوں کا نکاح پڑھانے ایا ہے ۔۔۔. نومی نے دانتوں کی نمائش کرتے کہا تو سب سے نے سر پیٹا


نکاح پڑھانے والے کو مولوی کہتے ہیں یار ۔۔۔۔مراد نے اکتا کر کہا جو ان دونوں نے سر ہلایا اتنے میں مولوی انکے پاس براجمان ہوا


اسلام وعلیکم مولوی صاحب ۔۔۔.ہٹے کٹے معلوم ہوتے ہیں ۔۔۔۔ وہ دونوں مولوی کے دائیں بائیں بیٹھ گئے ایک دوسرے کو انکھ مارتے دانی نے سوالیہ نظروں سے مولوی کو دیکھا


واعلیکم اسلام جی بیٹا ہم ٹھیک ہے تم کیسے ہو۔۔۔۔۔ مولوی صاحب نے شفقت بھرے لہجے میں پوچھا اور دلہوں کی طرف مڑے


بیٹا اپنے نام بتاؤ... مولوی صاحب نے پوچھا


چاچونپا ۔۔۔ ولی نے شوخ لہجے میں کہا جو مولوی نے تعجب سے اسے دیکھا جیسے جانے کونسی مخلوق زمین پر اتری ہو


بیٹا میں نے نام پوچھا ہے ۔۔۔۔ مولوی صاحب کو لگا شاید ولی نے سنا نہیں


جی جی مولوی صاحب چاچونپا نام ہے اسکا اور انکا انگار بد لماظ ۔۔۔اور ہہ جو انکے ہم شکل ہیں انکا نام ہے عزیر ننگ خان گنجا ۔۔۔۔ دانی نے مسکراہٹ دباتے مولوی سے سنجیدگی میں بات کی مولوی صاحب حیرانی سے دلہوں کو دیکھ رہے تھے جنکے عجیب غریب سے نام تھے


یہ کیسے نام ہیں ۔۔۔۔. مولوی صاحب نے حیرانی سے عینک درست کرتے پوچھا تو سب کی ہنسی نکلی


مولوی صاحب یہ دوسرے پلانٹ سے ائے ہیں اسی لیے انکے نام بھی الگ ہیں ۔۔۔۔۔ نومی نے دانت دیکھاتے کہا تو مولوی صاحب کے چہرے کے رنگ اڑے


آرے ارے مزاق کررہیں ہیں اپ بیٹھیں ۔۔۔۔ انہیں اٹھتے دیکھ مراد نے ان دونوں کو گھورتے مولوی صاحب کو بیٹھایا حق تصور میں ہی انکی شکلیں ایلین سے ملا چکے تھے

..................


مراد لغاری ولد فیصل لغاری اپکو جاناں میصم ولد میصم شاہ سے بعوض حق مہر پچاس لاکھ کے پڑھوایا جاتا ہے.... کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے...... مولوی صاحب نے نکاح کے بول پڑھے


دل و جاں سے قبول ہے. ۔۔۔


کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔۔۔

قبول ہے....

کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے......

قبول ہے...... مراد نے نکاح نامے پت سائن کرتے ایک وجود کو اپنے نام کرلیا تھا

......................

کچھ ہی دیر میں ان تینوں کے نکاح ہوچکے تھے


وہ دونوں ایک دوسرے پر محرم ہوچکے تھے مراد لغاری کے چہرے پر سے خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی ولی اور سیم تو ویسے ہی سٹیج پر ناچنے لگے تھے خوب ہلا گلا ہوا اور دلہنوں کو اسٹیج پر لایا گیا


گولڈن لہنگے میں جس پر گولڈن نفیس سی کڑاھی کے ساتھ نگ لگے ہوئے تھے ریڈ بھاری ڈوبٹہ جسکے بارڈر پر گولڈن کڑآھی ہورکھی تھی ریڈ ڈوبٹہ چہرے پرگرائے اس سرخ جالی دار ڈوبٹے سے اسکی جان لیوا کالی آنکھیں ہی نظر آرہی تھی جو اتنی خوبصورت تھی کہ مراد چاروں شانے چت ہوچکا تھا


رباب نے ڈیپ ریڈ لہنگا پہنا ہوا تھا جس پر گولڈن کام کیا گیا تھا ڈوبٹے کو اچھے سے سیٹ کیے اس نے ایک جالی دار سرخ ڈوبٹے سے چہرے ڈھانپ رکھا تھا اسکی بھوری آنکھیں لاج شرم سے جھکی ہوئی تھی جبکہ جاناں مراد کو دیکھتے ہی نظریں جھکا چکی تھی


حور کا تو کوئی جواب ہہ تھآ ریڈ اور وائٹ لہنگا پہنے وہ بیک گراؤنڈ میں لگے گانے پر تھرکتی ہوئی ارہی تھی ولی اور سیم تو جاناں کے پاس جھٹ سے پہنچے اسکا یوں دیکھ انکی آنکھیں نم ہوئی تھی


خدا تمھیں خوش رکھے جان۔۔۔۔اسکے سر پر لب رکھتے سیم نے مسکرا کر اسے دیکھا جو انکے دیکھنے پر ہنسنے لگی


کم ان یار میں نہیں چاہتی کہ میرے بھائی اپنی بارات پہ رونہ دھونا ڈال لیں ۔۔۔تمھاری دلہنیں کیا سوچیں گی ہاں۔۔۔جاناں نے ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے کہا تو سیم نے ایک ہاتھ اسکا پکڑا جبکہ دوسرا رباب کا ولی نے بھی حور کا ہاتھ پکڑتے جاناں کا ہاتھ پکڑا


اب منظر کچھ یوں تھا کہ ان چاروں کے درمیان چلتی وہ جاں کسی ریاست کی ملکہ لگ رہی تھی


دھیان رکھیے گا ۔۔۔ اسکا ہاتھ مراد کے ہاتھ میں پکڑاتے وہ دونوں بولے اور اپنی دلہنوں کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھ گئے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

یار حور آج تو تم بسمہ معروف سے بئ زیادہ حسین لگ رہی ہو۔۔۔ ولی نے اس پر ایک بھرپور نظر ڈالی جو حور نے بےیقینی سے اسے دیکھا.


کون بسمہ ٹسمہ ۔۔۔حور نے غصے سے پوچھا. ۔۔


تم نہیں جانتی.... ؟؟؟ ولی نے شاخ کی کیفیت میں پوچھا


نہین جانتی.... وہ لٹھ مار انداز میں بولی... تم پھوٹو کون ہے یہ واہیات لڑکی.....


ارے یار پاکستانی ٹیم کی کپٹن ہے کیا لگ رہی تھی وہ اپنی مہندی ۔۔۔.ولی بولتے ہوئے اسے دیکھنے لگا مگر اسکے تاثرات دیکھ چپ کر گیا


پتہ ہے ولی میرا دل کررہا ہے کہ تمھیں دھکے مار کر ادھر سے نکال باہر کرو .....حور نے ولی کو گھورتے اسے ہلکا سا دھکا مارا تو ولی جو پہلے ہی صوفے کی نوکر پر بیٹھا تھا ڈھڑام سے زمین پر گرا سب نے حیرانی سے اسے دیکھا


ہاہاہاہا ۔۔۔اپنی بہن کے تاثرات دیکھ مراد سن سمجھتے قہقہہ لگا اٹھا جاناں نے مسکرا کر اسکے ڈمپلز کو دیکھا


کیا ہوگیا ہے یار ۔۔۔ ابھی سے بیوی کے قدموں میں ۔۔۔. نومی نے اسے أٹھاتے شرارت سے کہا جو ولی نے پھیکا سا مسکراتے اسے دیکھا


سوری نا ۔۔.اسے دوسری طرف دیکھتا پاکر حور نے اسکا ہاتھ پکڑتے کہا تو ولی نے اسے دیکھا پھر وہی ہی اسکو گلے سے لگا لیا


باخدا اتنی حسین لگ رہی ہو کہ اگر میرا بس چلتا تو تمھیں یہاں سے چھپا کر بھاگا لے جاتا اپنی دنیا میں اپنے سنگ ۔۔۔۔ تھوڑا اسکی طرف جھکتے وہ سرگوشی میں بولا تو حور نے حیا سے سرخ ہوتے اسے دیکھا پھر نظریں جھکا گئی

.....................

آب۔۔۔ سیم نے رباب کی کمر پر ہاتھ رکھتے اسے پکارا جو اسکے ہاتھ رکھنے پر اسے گھورنے لگی انداز ایسا تھا کہ ہاتھ ہٹاؤ


بہت خوبصورت لگ رہی ہو کتنا اٹا لگایا ہے ۔۔۔۔۔ اپنی تعریف پر جہاں وہ لاج سے سمٹی اسکی پوری بات سنتے بھوری آنکھوں سے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگی پاؤں اٹھآ کر اسکے پاؤں پر مارا مگر اسے فرق نا پڑا


کیوں تمھارا بل ارہا ہے ۔۔۔دیکھ تو ایسے رہے ہو جیسے کھا جا2 گے ۔..بھوکے ۔۔۔۔ رباب نے اسے گھورا اور اسکے رس گلے کھانے پر چوٹ کی تو سیم کا منہ تک جاتا ہاتھ رکا


شرم حیا ہے تم میں شوہر سے ایسے بات کرتے ہیں ۔۔۔. بھوکی عورت ۔۔۔. ہلکا سا گھونگھنٹ آٹھا کر اسکے منہ میں رس گلا ٹھونستے وہ دال پیستے شریر لہجے میں بول تو رباب نے گھور کر اسے منوس ڈھیٹ کو دیکھا


کمینے منہوس تم ہوگے عورت تمھاری بیوی عورت ۔۔۔۔ وہ غصے سے دبا دنا چیخی


اہ۔.اوکے ۔۔۔.ویسے تمھیں پتہ ہے تم ہی میری بیوی ہو ۔۔۔.سیم نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھا تو رباب نے اسکے ہاتھ پر ناخن گاڑھے


اس سب میں اپنی انرجی ویسٹ مت کرو تھک جاؤ گی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ سیم کی زو معنی لہجے پر وہ ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگی رباب کے دیکھنے پر سیم نے انکھ ونک کی تو رباب خون چھلکاتے چہرے سے سر جھکا گئی


بےشرم انسان۔۔.وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی رہ گئی


........................


مبارک ہو ۔۔۔۔ اسے اسٹیج پر پڑے صوفوں پر بیٹھاتے وہ جھک کر اسکے ماتھے پر لب رکھتے سرگوشی میں بولا جہاں اسکی اس حرکت پر جاناں نے سر جھکایا وہی ینگ جنریشن نے ہونٹنگ شروع کردی


ویلکم ٹو مائی لائف مسسز جاناں مراد لغاری ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے مہندی لگے ہاتھوں کو تھامتے وہ اسکے ساتھ بیٹھا تھا کہ ان دونوں میں سے ہوا تک کہ گزرنے کی جگہ نا تھی ہوا چلنے کے باوجود بھی جاناں کے ہاتھ پاؤں پسینے سے بھیگ رہے تھے


مراد س...سب دیکھ رہے ہیں ۔۔۔. جاناں نے بھاری پلکون کو اٹھا کر اردگرد لوگوں کو دیکھا مگر مراد لغاری کب ان چیزوں کی پرواہ کرتا تھا


لوگ تو ہوتے ہی دیکھنے کے لئے ہیں ۔۔.انکے ڈر سے اب بندہ اپنی پرسنل بیوی سے رومینس بھی نا کرے... ۔ اسکی طرف جھکتے وہ شرارت سے بولا اج تو اسکا انداز ہی نرالا تھا


پرسنل ۔۔.تو کیا کوئی اور بیوی بھی ہے اپکی . ۔۔.جانان نے چبا چبا کر پوچھا تو مراد نے مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھا


ابھی فلحال تو ایک ہی ہے ۔۔۔۔۔


آگے بأ ایک ہی ہوگی صحیح ہے زیادہ اوور نا ہو ۔۔گلفام۔۔۔۔۔۔.ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جاناں نے انگلی اٹھائے اسے وارن کیا مراد نے اسکی انگلی کو کو اپنی انگلی سے پکڑا اور ائبرو اچکایا جیسے کہنا چاہ رہا ہو ورنہ کیا بیگم


ورنہ یہ کہ۔۔۔۔۔ وہ ابھی بولنے ہی لگی تھی کہ میوزک ان ہوا تھا


لاوے لارے اتے لارا سوہنیا


لاوے لارے اتے لارا سوہنیا


پھل کے جے ہور تک لئی


تینوں مار دو کنوارہ سوہنیا ۔۔۔۔


یہ لیرکس سن لو مار ڈالوں گی تمھیں ۔۔۔ اسے انکھیں دکھاتے وہ منہ پھلا گئی تو مراد ہنسنے لگا


بیگم صاحبہ اپکے علاوہ اس ناچیز کو کوئی بھا ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔ گھونگھنٹ سے ہی اسکی ناک کھینچتے وہ مسکرایا تو جاناں نے اسکے ہاتھ کو پیچھے کیا


رسموں کے بعد رخصتی کا شور اٹھا اب سب پہلے رباب کو سکندر نے رخصت کیا پھر مراد حور کو اپنے ساتھ لگائے اسے نا رونے کی تلقین کررہا تھا جو ہنس ہنس کر سن رہی تھی


جب جاناں کا وقت ایا تو اسکی انکھوں کے سامنے کچھ منظر لہرائے ۔۔۔


میری شادی کرواؤ


میری شادی کرواؤ


میں کنواری کب تک بیٹھو


بینڈ میرا بنواؤ میری شادی کرواؤ ۔۔۔۔


اہہہ ایزل بہن کچھ خدا کا خوف کرلیں ۔۔جب دیکھو جوان جہاں بیٹی کو مارتی رہتی ہیں ۔۔۔ لہرا لہرا کر گاتی جاناں کے کمر پر جوتا لگا تو وہ کمر سہلاتی منہ بگاڑتے بولی


کچھ شرم حیا ہے تمھارے اندر نالائق ۔۔۔۔ اٹکی بار وہ اسکا کان مروڑتے بولی


نہیں جب اللہ جی شرم بانٹ رہے تھے تب بھی اپ مجھے جوتے مار رہی تھی اس لیے میں شرم حاصل کرنے کے شرف سے محروم رہ گئی ۔۔۔۔ وہ کان چھڑوا کر کان مسلتی بانچھیں پھیلاتے بولی ایزل نے سر پیٹا


آپنی شادی کی باتیں خود نہیں کرتے جان۔۔۔. ایزل نے غصے سے اسے دیکھا جو وہ سر ہلاتی اوپر بھاگی مگر اسکا گانا پھر سے شروع ہوچکا تھا


......................


ایک انسو پلکوں کی جھالر سے گالوں سے ہوتے اسکی گود میں گرتے بےمول ہوگیا مراد نے ایک ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا تو جاناں نے کچھ سکینڈ بعد ہہ اسکا ہاتھ تھام لیا ہمیشہ ہمشیہ کے لئے اسے رخصت کرتے سبکی آنکھیں نم تھی جاناں شازم بھی اس سے ملتی اپنے گھر کو نکلی تھی


گاڑی آفریدی مینشن کے سامنے رکی جاناں نے نظر اٹھا کر مینشن کو دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی پورا مینشن لائٹوں سے جگمگا رہا تھا رات میں بھی دن کا گماں ہورہا تھا دروازہ کھولتے مراد نے اسکا مہندی اور چوڑیوں سے بھرا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لیے اندر بڑھا لان میں انٹر ہوئے تو اردگرد سبز گراس اور اسکے درمیان میں سرخ کالین بچھائی گئی تھی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ اردگرد دیکھ رہی تھی وہاں ہر طرح کے پھول موجود تھے کچھ لڑکیاں دائیں بائیں کھڑے ان پر پھول برسا رہی تھی لان کے اگے ایک بڑا سا فوارہ لفا تھا جس پر بھی فیری لائٹس لگی تھی اسکا پانی پل میں سرخ نیلا ہرا ہورہا تھا کتنا خوبصورت منظر تھا


اسکا ہاتھ تھامے آن دونوں نے ایک ساتھ گھر کی دہلیز لانگی ۔۔۔ کہ ایک دم ان پر سرخ پھولوں کی برسات ہونے لگی جاناں رو بسس مبہوت سے سب کچھ دیکھ رہی تھی تھوڑا اگے جاتے لیفٹ سائیڈ پر سیڑھیاں تھی جو سیدھا چھت پر جاتی تھی اور اسکے اگے ہی بڑا سا حال ۔۔۔ حس کے درمیان میں صوفے پڑے تھے اسکے اگے کرکے ہی لمبی چوڑی سیڑھیاں موجود تھی جس پر ریڈ کارپٹ بچھا ہوا تھا سیڑھوں کی ریلنگ پر بھی لائیٹس اور پھولوں کی لڑیاں لگی تھی


مراد رسمیں کرنی ہیں کدھر جارہے ہو ۔۔۔مسسز لغاری نے اسے روکا جو جاناں کو لیے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا انکے مخاطب کرنے پر رکا


ماما کل کرلیجئے گا ابھی مجھے اپنی پرنسسز کے ساتھ کچھ ٹائم سپینڈ کرنا ہے ۔۔۔۔جاناں کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتے وہ اوپر کی طرف بڑھتے بولا پیچھے ان سبکی تیاریاں درھی کی درھی رہ گئی


اوپر کوئی بھی موجود نا تھا مراد نے ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد پھیلایا اور دوسرے سے اسکا بھاری لہنگا اٹھایا اسکی اس حرکت پر جاناں نے پیچھے ہونے کی کوشش کی شرم سے آنکھیں میچی


میں کوئی غیر تھوڑی ہوں۔۔۔جو یوں ڈر رہی ہیں ۔۔۔۔ مراد نے اسکے گھونگھنٹ کے اندر چھپی پیشانی پر لب رکھتے کہا اور ڈور انکال کرتے روم میں قدم رکھا تو ہر طرف پھولوں کی خوشبوں پھیلی تھی سر اٹھا کر اس نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی ہال نما کمرہ پھولوں سے سجا ہوا تھا ہر طرف پھول ہی پھول تھے دروازے کی دائیں سائیڈ پہ ایک دروازہ تھا .۔کچھ اگے جاؤ تو بائیں جانب دو صوفے پڑے تھے انکے سامنے ہی کانچ کی ٹیبل جس پر کینڈلز جل رہی تھی اور ان کینڈلز کے اردگرد پھول پڑے تھے


مراد اسے لیے اگے بڑھا تین سیڑھیاں چڑھتے وہ جہازی سائز بیڈ کے سامنے پڑے کاؤچ پر بیٹھ گئی بھاری لہنگا پورے دن کی تھکاوٹ سے اسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھی


مراد۔۔۔۔۔ مجھے چینج کرنا ہے ڈریسنگ روم کدھر ہے ۔۔۔۔جاناں نے تھکن سے چور ہوتی اواز میں پوچھا


ابھی کہاں ۔۔.ابھی تو میں نے تمھیں دیکھا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ مراد نے کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا اور اسے کو بیڈ پر بیٹھنے کا کہتے سائیڈ ٹیبل سے گجرے اٹھاتے اسے پہنائے


اسکے گجرے میں مقید ہاتھوں پر بوسہ دیتے وہ اسکی طرف دیکھنے لگا گھونگھنٹ سے جھانکتی کالی انکھیں اسے اپنا اسیر کرچکی تھی پھولوں کی خوشبو اور سامنے بیڈ پر براجمان اسکا عشق اسکا محرم اسکا اپنے جزبات پر بندھ باندھنا کآفی مشکل ہوچکا تھا


بوجھل سی سانس خارج کرتے اس نے اپنی شرٹ کے دو بٹن کھولے ۔۔۔۔آب برداشت جواب دے رہی تھی


اجازت ہے ۔۔.کہ میں تمھارا چاند سا چہرہ دیکھ سکوں ۔۔۔۔ اسکے گھونگھنٹ کو دونوں ہاتھوں سے تھامتے وہ بوجھل سے لہجے میں بولا نیلی روشن آنکھیں جاں نثار کرنے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جاناں نے سر ہلایا


اہستہ سے وہ اسکا گھونگھنٹ اٹھانے لگا نظر اسکی گردن پر پڑی. ۔.صراحی دار گردن میں موجود گلو بند ۔۔۔ بیوٹی بون پر موجود وہ کالا تل ۔۔۔۔ مراد کو اپنی سانس رکتی محسوس ہوئی تھوڑا گھونگھنٹ اور اٹھایا تو بلڈ ریڈ لپسٹک سے سجے سرخ ہونٹ اور ان پر ٹہرے سرخ موتی دیکھتے اسے شدت سے اپنے گلے میں کانٹے اگتے ہوئے محسوس ہوئے جب سے ان شوگر فری لبوں کو چکھا تھا تب سے مراد کو مزید طلب ہوئی تھی انکی گھونگھنٹ مزید سرکا تو گلابی ناک میں پہنی نتھ بےساختہ ہی وہ انگلی سے اسکی ناک کو چھو گیا


جاناں میچی انکھوں کے ساتھ ڈھڑکتے دل کے ساتھ اسکی نظروں کی تپش محسوس کررہی تھی آنکھیں کھولتے اسے دیکھا مگر آسے نظر کچھ نا ایا عین اسی وقت مراد نے گھونگھنٹ ہٹاتے اسکے سر پر سے پیچھے گرایا سرخ ڈوبٹہ جھٹ سے بیڈ پر گرا نیلی أنکھیں کالی انکھوں سے ٹکرائی


نیلی انکھوں میں عشق کی روشنی دیکھ نظریں جھکا گئی مراد تو بسس یک ٹک اسکے معصوم سے خوبصورت چہرے کو دیکھ رہا تھآ نیلی أنکھیں جزبات کی شدت سے سرخ ہورہی تھی جاناں کو آنکھیں جھکاتے دیکھ وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے گہرا مسکرایا


اسکی ڈمپل پوری آب و تاب سے چمکے تو جاناں کی نظریں ان پر ٹکی پہلی بار ہی ان ڈمپلز کو چھونے کی خواہش جاگی تھی اسکا دل زورو سے دھڑکا تھا


م۔میں کیا ہوں اپکے لیے۔۔۔جانے اسے کیا سوجھی کہ وہ پوچھ بیٹھی مراد تو اسکی اواز پر ہوش میں ایا تھا اسے یہ سب ایک خواب سا لگ رہا تھا ایک خوبصورت خواب جاناں کی گھبراہٹ محسوس کر وہ مسکراہٹ روکنے لگا دل تو اسکا بھی ڈھرک رہا تھا


مگر اپ لوگ ہی جانتے ہیں لڑکے بڑے بےشرم ہوتے ہیں ۔۔۔۔ شرم تو صرف لڑکیوں کو اتی ہے....جیسے یہ سین لکھتے مجھے ارہی ہے 🙉🙊🙈


متاعِ جان تم انمول ہو سیپ میں چھپے اس موتی کی طرح صاف شفاف اور قیمتی ۔۔۔۔جو خدا نے مجھے عطا کیا ہے ۔۔۔۔ اسکی نتھ کو گھور کر وہ جاناں کی جھکی پلکوں کو دیکھنے لگا ایک پل میں اسے لگا اسکا دل ان پلکوں میں ڈھرک رہا ہے


خوش قسمتی تُو یہ ہے،جب..


محبوب محرم بن جائے😘❤


"Nikkah_Mubark ..


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


رباب کو سیم کے کمرے میں ابیہا چھوڑ کر جاچکی تھی اور رباب میڈم بستر پر پوری پھیل کر لیٹ گئی صبح کی تھکی ہوئی تھی اب ارام نا کرتی تو کیا کرتی


رباب۔.۔. سیم کمرے میں ایا اسے سوتے دیکھ وہ حیران ہوا اسے جھنجھوڑتے وہ اسے بلانے لگا


کیا ہے ارام کرنے دو ۔۔۔۔. اسکا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کرتے وہ کروٹ بدلتی سو گئی اسکے کروٹ بدلنے پر اسکی بیک لیس کرتی سے نظر اتی اسکی نازک سی کمر سیم نے نظروں چرائی


یار تم اتنے دن تک ّّّ مایوں میں بیٹھی تھی تب آرام کرلیتی نا۔۔۔.ہماری گولڈن نائٹ کو ارام کی نظر نہیں ہونے دینا میں نے... چلو اٹھو شاباش ۔۔۔.اسے بازو سے پکڑ کر بیٹھاتے وہ اسکے سامنے بیٹھا رباب نے ہلکی سی آنکھیں وا کرتے اسے دیکھا اسکے گلے میں بازو ڈالتے وہ اسے اپنے اوپر کھینچتی واپس سے سو چکی تھی


سیم نے سر پیٹتے اسے دیکھا بیڈ پر ہاتھ رکھتے اٹھنے کی کوشش کی مگر رباب نے نیند میں ہی اسے مزید اپنے قریب کیا


سیم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اپنی حالت کو رباب بیڈ پر تھی جبکہ سیم بیڈ پر ہاتھ رکھے اس پر جھکا ہوا تھا اسکی بھاری سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر وہ بہک رہا تھا


رباب اٹھو۔۔.اس نے بامشکل کہا اسکی مہکتی سانسیں اسے اپنی سانسوں میں بستی محسوس ہوئی بےخودی کا عالم تھا وہ دھیرے سے اسکے ادھ کھلے ہونٹوں پر جھکا شدت سے اسکی سانسیں خود میں انڈھیلتے وہ اسکی کمر کو دونوں ہاتھوں سے دبوچ گیا


وہ ابھی ہی تو سوئی تھی کہ اسے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی جھٹکے سے انکھیں کھولتے اس نے اپنے اوپر جھکے سیم کو دیکھا اسکے کندھے پر ہاتھ دھرتے وہ اسے پیچھے کرنا چاہ رہی تھی مگر اسکی گرفت مضبوط ہوتی محسوس کر وہ آنکھیں میچ گئی بند أنکھوں سے انسو نکلتا تکیہ بھگو گیا اسے اپنی سانس بند پوتی محسوس ہورہی تھی


اسکی دھیمی پڑتی سانسوں کو محسوس کر وہ اہستہ سے پیچھے ہوا مسکراتے ہوئے اسے دیکھا جو گہرے گہرے سانس بھرتے نم انکھوں میں شکوہ لیے اسے دیکھ رہی تھی


سوری ۔.مگر تمھیں جگانے کا اس سے بہتر طریقہ مجھے کوئی اور نہیں ملا ۔۔۔. اس پر سے اٹھتے وہ شریر نظروں سے اسکے یونٹوں کر دیکھتے بولا جس پر اب لپسسٹک ہٹ چکی تھی


تمیز نہیں ہے ۔..بندہ تمیز سے جگا دیتا ہے ۔۔.. سانسیں نارمل ہوئی تو وہ اسے تکیہ مارتے چیخی


میری جان ابھی میں نے بدتمیزی کی ہی کہاں ہے..... تکیہ کیچ کرتے وہ اسے انکھ ونک کرتے بولآ


ویسے تمھیں میرا شکر گزار ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ تمھاری مددد ہوگئی ہے اس سب میں ۔۔۔۔۔ سیم نے سنجیدگی سے کہا جو رباب نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا


کیسی مدد ۔۔۔۔


تمھیں لپسٹک اتارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔۔۔.شرارت سے کہتے وہ واشروم میں بند ہوا رباب باہر بسس چیختی رہ گئی


جب ہم ۔۔ محرم ۔۔۔۔۔۔۔ بن کر ملیں گے⁦❤️⁩🔥

تب محبت نہیں محبتیں نچھاور ہوں گی 🙈🥰


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


دوسری جانب حور میڈم دروازہ کا لاک پکڑ کر کھڑی تھی انکا کہنا تھا کہ پہلے اسے پیسے دو تو ہی وہ دروازے سے ہٹتے اندر جائیں گی


یہ کیسی رسم ہے یار۔۔۔. بیرہ نے حیرانی سے پوچھا بیر واپس جاچکا تھا اور کل ان سب نے بھی چلے جانا تھا


یہ رسم ہمارے یہان ہوتی ہے اسے کنڈا پکڑائی کی رسم کہتے ہیں ۔۔۔۔ حور نے مزے سے جواب دیا


بی بی اس گھر کنڈے ہی نہیں ہیں تو کیسی رسم چلو شاباش اندر چلو ۔۔۔۔. دانی نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے کہا تو ولی کی بانچھیں پھیلی حاوز نے سر جھٹکتے پانچ پانچ ہزار کے کئی نوٹ اسکے ہاتھ میں رکھے تو وہ مسکراتی دروازہ کھولتی اندر گئی


💞💞💞💞💞💞

انکی شادی کو کئی دن گزر چکے تھے ان دنوں وہ سب تو شاید اویس کو بھول ہی چکے تھے مگر ایک شخص تھا جو سوچوں میں الجھا تھا وہ جانتا تھا کہ یہ خوشیاں عارضی ہیں کبھی بھی غم انہیں اپنے گھیرے میں لے سکتے ہیں اویس کا کام میں مزید الجھے رہنا کچھ پل کے لیے ہی سہی مگر اسے پرسکون کرگیا تھا

حور یار بات تو سنو۔۔۔۔ ولی اسکے پیچھے پیچھے آیا جو روٹھی ہوئی محبوبہ بنی گھوم رہی تھی اسکے بلانے پر حور نے مڑ کر اسے گھورا

یہ تم چیز کیا ہو ہاں ۔۔۔شادی کے کچھ دنوں بعد ہی اصلیت دکھا دی۔۔۔۔ ہال میں آکر وہ اونچی آواز میں بولی تو جاناں اور ابیہا نے ناسمجھی سے ان دونوں کو دیکھا

کیا ہوا حور۔۔۔۔ جاناں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ولی کو دیکھ جاناں نے اسے گھورا جو معصومیت سے ان سبکو دیکھ رہا تھا

ماما اس بدتمیز لڑکے نے مجھے صبح ہی صبح ڈانٹ دیا ۔۔۔ جاناں کے گلے لگتی وہ روہانسی ہوئی تو جاناں نے ولی کو گھورا

ولی یہ کیا بدتمیزی ہے کوئی ایسے پیش آتا ہے اپنی چند دن کی بیوی کے ساتھ ۔۔۔۔ جاناں کی جگہ ابیہا نے ولی کے کان مڑورتے پوچھا جو انکے کان پکڑنے پر ہی کراہ اٹھا

یار بھابی یہ حور کی بچی جھوٹ بول رہی ہے ۔۔۔۔ ولی نے کان چھڑوانے کی سعی کرتے حور کو دل ہی دل میں بھلا برا کہہ لیا جو اب مزے سے آنکھیں مٹکاتے اسے گھور رہی تھی

ولی انسان کے بچے بنو ۔۔۔۔۔ جاناں نے سنجیدگی سے کہا اور ان سبکو بیٹھنے کا اشارہ کرتی وہ اپنی جگہ پر بیٹھی اتنے میں انہیں سیڑھیوں سے رباب اور سیم اترتے دیکھائی دئے

زندگی میں کبھی کبھی بندر بن جانا چاہیے کیوں سیم ۔۔۔۔ ولی نے جاناں کو آنکھ ونک کرتے سیم سے پوچھا جو خود عیان سے ملتے کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تھا رباب بھی اسی کے ساتھ والی کرسی پر ٹک گئی

بندر 🐒 والی حرکت صرف تم پر ہی سوٹ کرتی ہے جانی۔۔۔۔ حور نے اسکے کان کھینچ کر کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گیا رباب نے آنکھیں گھماتے حور کو دیکھا شادی کے بعد بھی ان دونوں کی زرا نہیں بنتی تھی

بندریا ۔۔۔ رباب بڑںرائی تو حور نے اسے گھورا ۔۔۔ وہ ابھی اور بھی کچھ کہتی کہ ابیہا نے ان دونون کا دھیان اپنی جانب کھینچا

حور۔رباب ۔۔۔ آپ دونوں ریڈیو ہوجائیں آج ہم لوگوں نے اوٹنگ پر جانا ہے ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی تو حور اور رباب نے آنکھیں مٹکائی جیسے انہیں یہ بات بہت اچھی لگی ہو

💝💝💝

مراد مجھے جانا ہے ۔۔ آپ چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔ وہ اسکے قریب آتے پوچھنے لگی جو اب سرخ نگاہوں سے اسے تک رہا تھا شادی کے کچھ دنون میں ہی وہ اسے اتنی عزیز ہوچکی تھی۔۔۔۔ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ وہ اسکی پوری دنیا تھی ۔۔۔ اسکی متاعِ حیات اسکی زندگی ۔۔۔۔۔

جان آج میں تھوڑا سا بزی ہوں ہم کل شاپنگ پر جائین گے نا ۔۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے نزدیک کرتے وہ اسکی گال پر لب رکھ گیا جاناں نے منہ بناتے اسے دیکھا

تو مراد آپ جائیں نا آفس میں اکیلی چلی جاؤں گی۔۔۔۔ پلیززز مجھے جانا ہے ۔۔۔ وہ پلکیں جھپکاتے اتنی معصوم سا منہ بناتے بولی کہ مراد ناچاہتے بھی حامی بھر گیا وہ اسے اداس دیکھ ہی کہاں سکتا تھا

ٹھیک ہے مگر گارڈذ اپکے ساتھ جائینگے اور میٹنگ کے ختم ہوتے ہی میں آپکے پاس آجاؤں گا۔۔۔تب تک آپ نے اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہے ۔۔۔ اسکی گال کو لبوں سے چھوتے وہ اسکے ہونٹوں پر پھیلی جان لیوا مسکراہٹ کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا گلے میں جیسے کانٹے سے بچنے لگے

مراد تم بہتتتت اچھے ہو۔۔۔۔ بچوں کی طرح خوش ہوتے وہ ایکدم اچھلی کہ مراد نے اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر اسکی سانسوں کو اپنی دسترس میں لیا جاناں نے آنکھیں پھیلائے اسے دیوانہ وار خود پر جھکے دیکھا ۔۔۔وہ نہایت نرمی سے اسے چھو رہا تھا سانسیں تنگ ہوئی تو وہ اسے پیچھے کرنے لگی مراد نے بےساختہ اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرتے اسے خود میں بھینچا نرمی سے اسکے لبوں کو رہائی بخشتے وہ اسکے سرخیاں بکھیرتے چہرے کر نظروں سے دل میں اتارنے لگا

جاناں نے شرم و حیا سے گلنار ہوتے چہرے کو اسکے سینے میں چھپایا ۔۔ دھڑکنیں تو اسکے لمس پر ہی شور مچانے لگی تھی اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں بھینچے وہ اس سے ایکدم چپک ہی گئی تھی

جان۔۔ خمار سے بھری سرگوشی انکے کان کے قریب سے ابھری گرم سانسیں اسکی گردن کو جھلساتی اسے بےبس کررہی تھی ۔۔۔وہ جو اپنی سانسوں کو نارمل کرنے کی کوشش میں تھی کہ اسکی حرکتیں اسکا لمس اسکی سانسوں کو مزید بکھیر رہا تھا 

‏میں تیرے قُرب سے صرف اِس

لیئے گُریزاں ہُوں

کہ  تُجـھ کو  یاد  رہُوں حرفِ

داستاں بَن کر...!

نن۔نہیں کک کرو ۔۔۔مم۔مراد۔۔۔۔ اسکی گردن میں منہ چھپاتے وہ لرزتی اواز میں بولی اسکی زرا سی قربت نے اسے بےحال کردیا تھا ان کچھ ہی دنوں میں مراد لغاری نے جاناں لغاری کو اپنا اسیر کرلیا تھا اسکی زرا سی دوری پہ جہاں اسے بےچینی سے ہونے لگتی تھی وہی اسکی قربت اسے بےحال کردیا تھی

چینج کرلیں۔۔۔ یا میں کرا دو۔۔۔ چینج۔۔ اسے بال سہلاتے وہ معنی خیز لہجے میں بولا سر جھکاتے اسے خود میں چھپتے دیکھ وہ ہنسنے لگا اسے ہنستے دیکھ جاناں نے اندازہ ہاتھ کی مٹھی بنائے اسکی سینے دے ماری

میں خود کرلونگی اپکو زحمت کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ اسے پیچھے کو دھکیلتے وہ اسے گھورتے ہوئے بولی اور جلدی سے ڈریسنگ روم میں گھسی

میری جان اس میں زحمت والی کوئی بات ہی نہیں ہے میں تو مرتے دم تک یہ کام سر انجام دے سکتا ہوں۔۔۔ اسے اندر گھستے دیکھا اس نے پیچھے سے ہانک لگائی تو جاناں نے دروازہ کھولتے واس اسکی طرف پھینکا

ہاہاہا جسے کھینچ کرتے وہ ہنسنے لگا ۔۔۔ جاناں نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا وہ ہنستے ہوئے اتنا حسین لگتا تھا کہ ناچاہتے ہوئے بھی جاناں اسے دیکھتی رہ جاتی تھی ۔۔۔ گالوں پر پڑنے والے گڑھے جانا کو اسکی طرف ایٹریکٹ کرتے تھے وہ اس ن گڑھوں جو چھونا چاہتی تھی مگر ایک جھجھک سی آڑے آجاتی تھی

ہینڈسم ہوں نا؟؟؟ اسے یوں خود کو نہارتے دیکھ وہ شرارتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا جو خیالوں سے نکلتی ہنہہ کرکے دروازہ بند کرگئی

💝💝

Mrs.muraad...Congratulations...

ڈاکٹر نے اپنی نشت سنبھالتے گہری مسکراہٹ سے اسے دیکھا جو ناسمجھی سے انہیں دیکھ رہی تھی

You are pregnant..

اسکے تاثرات دیکھ ڈاکٹر نے ہلکی سی مسکراہٹ سے بتایا جسے سنتے وہ ساکت ہوئی۔۔۔

Are you sure???

وہ پھر بھی کنفرم کرنا چاہ رہی تھی بےیقینی سے بےیقینی تھی جب سوچا تھا کہ اسکے اندر ایک ننھی سی جان بسنے لگی گی ایک دلکش سی مسکان نے خوبصورت لبوں کو چھوا

یس۔۔۔ میں نے ہر طرح سے کنفرم کرلیا ہے ۔۔۔۔ انکے کہنے پر وہ جلدی سے وہاں سے اٹھی اسے جلد از جلد مراد کے پاس جانا تھا وہ اسے یہ نیوز سب سے پہلے دینا چاہتی تھی وہ اسکے چہرے پر وہ خوشی دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔

ہیلو مراد۔۔۔وہ ابھی گاڑی میں بیٹھ رہی تھی کہ اچانک کسی نے اسکے منہ پر کپڑا ڈالے اسے پیچھے آئی وین کی بیک سیٹ پر دھکا دیا وہ جھٹپٹاتی ہاتھ پیر مارنے لگی لیکن اس کپڑے میں موجود کلوروفوم اسکے حواس گم کرنے لگی تھی

سر میڈم کو اٹھا لیا ہے ۔۔۔۔ بےہوش ہونے سے پہلے اس نے یہ بات سنی اسکے بعد اسکا دماغ مکمل طور پر اندھیروں میں ڈوب گیا جانے کیا ہونے والے تھا اسکے ساتھ جانے اب اس جاناں کی زندگی میں کیا طوفان برپا ہونا تھا

🥰🥰🥰🥰🥰

اکیلے اکیلے جوس پیے جارہیں ہیں واہ بھئی واہ ۔۔۔۔ رباب کو ملک شیک پیتے دیکھ حور نے اسکے سامنے ہی ٹیبل پر بیٹھتے بولی رباب نے آنکھیں گھماتے اسے دیکھا

تم بھی پی لو ۔۔۔مجھے کیوں کالی نظر لگا رہی ہو۔۔۔ منہ بناتے اس نے ایک ہی سانس میں سارا شیک حلق میں اتارا تو حور ہنسی کیونکہ جلدی پینے کی وجہ سے اسکے ہونٹوں کے اوپر مونچھیں بن گئی تھی ہنستے ہنستے وہ پاگل سی ہونے لگی

ڈائن مت بن جانا ۔۔۔میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں ؟؟؟ اسے ڈائن کی طرح قہقے لگاتے دیکھ وہ اسے ٹوکتے ہوئے بولی حور نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

واٹ ڈو یو نین بائے دیٹ۔۔۔۔ حور نے حیرانی سے آنکھیں بڑی کیے پوچھا جبکہ رباب زبان اب ہونٹوں تلے دبا چکی تھی

ہیے رباب ۔۔۔ تم پریگننٹ ہو۔۔۔ ؟؟؟ حور خوشی سے اچھل کر ٹیبل سے اتری آنکھیں ایکدم روشن ہوئی خوشی اسکے چہرے سے چھلکنے لگی رباب نے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا وہ اتنی خوش کیوں تھی اسے تو اداس ہونا چاہیے تھا نا ؟؟؟

ہممم۔۔۔لیکن تم اتنی خوش کیوں ہو ؟؟؟ دل میں آیا سوال وہ پوچھ ہی چکی تھی حور نے سنجیدگی سے اسے دیکھا اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے وہ نظریں جھکائے بولی

لاکھ میں بدتمیز ۔۔اور ضدی سہی لیکن میں کبھی کسی سے نفرت نہیں کرتی ۔۔۔ تم سے بھی بسسس ایویں شغل لگاتی ہوں تاکہ گھر میں انٹرٹینمنٹ لگا رہے ۔۔۔ وہ سر جھکائے بول رہی تھی رباب نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھا

واہ بھئی جنگلی شیرنیاں ایک ساتھ ؟؟؟ کچن سے آوازیں سن ابیہا وہاں آئی ان دونوں کو دیکھ وہ شرارتی مسکراہٹ سے دونوں کو دیکھنے لگی جو اسکی بات پر ہی منہ بنا چکی تھی تینوں ہی ایک جیسے سفید فراک اور ریڈ ڈوبٹے میں ملبوس تھی

کبھی کبھار ایک ساتھ ہونا پڑتا ہے تاکہ دشمنوں کو دھول چٹائی جاسکے۔۔۔ رباب کے گرد ہاتھ پھیلاتے وہ ایک ادا سے بال جھٹکتے بولی تو ابیہا نے دل ہی دل میں انکی نظر اتاری

چلو آجاؤ ۔۔۔ چلیں بھائی گاڑی میں ویٹ کررہے ہیں۔۔ماشاءاللہ۔ عیان کو گود میں لیے ولی وہاں ایا تو ان تینوں کو ایک سا تیار دیکھ وہ بےساختہ بول اٹھا

خیال کرنا کہیں قیامت ہی نا آجائیں اتنا حسن۔۔۔ وہ بھی ایک ساتھ۔۔۔۔ وہ تینوں مسکرائی اپنی تعریف پر مگر اسکے اگلی بات پر ان تینوں کے ہاتھ ہی اپنی سینڈل پر گئے

چلو عیان آنکھیں بند کرلو بھوتنیاں دیکھ کر ڈر نا جانا ۔۔۔میعے بچے ۔۔۔۔ بھابھی زرا خیال کرلیں اس قدر حسین نا دکھیں کہ ہمیں ہارٹ اٹیک اجائے ۔۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھتے وہ باہر کو بھاگا کیونکہ ان تینوں کے کھا جانے والی نظریں اسے پہلے ہی محتاط کررہی تھی

❣️❣️❣️❣️❣️❣️❣️

اپنی تصویر کو رکھ کر تیری تصویر کے ساتھ

میں  نے  یہ عُمر  گُزاری  بڑی  تدبیر  کے ساتھ

جس کو میں  اپنا  بنا  لوں  وہ  بٍچھڑ  جاتا  ہے

میری  بنتی    ہی  نہیں   کاتبٍ  تقدیر  کے  ساتھ

بھاری ہوتے سر سے اس نے نیم وا آنکھیں کھولتے سن ہوتے دماغ سے اپنے اردگرد دیکھا سر کو دو تین سے تین بار جھٹکا تو آنکھیں سہی سے کھلی دماغ ٹھکانے پر آیا اسے ایاد آیا کہ وہ تو کلینک سے گھر جارہی تھی کہ کسی نے اسکے منہ پر کچھ چھڑکا اور اسے وین میں پھینک دیا

آنکھیں کھولتے اس نے اپنے اردگرد پھیلے ملگجے سے اندھیرے کو دیکھا جس سے اسے یہ معلوم ہوا کہ کچھ ہی دیر میں رات ہونے والی ہے اچانک دروازہ کھلا اور ایک ہیلوہ اسے اپنی جانب آتا دیکھائی دیا

جان۔۔۔۔ ملگجے سے اندھیرے میں بھاری سرگوشی گونجی جاناں نے آنکھیں کھولتے سامنے والے کو غور سے دیکھا

ا۔اویس۔۔۔۔ وہ ابھی بولتی کہ کمرہ ایکدم جگما اٹھا سامنے اویس کو اپنے سامنے دیکھ وہ حیرت سے گویا ہوئی جو خون آشام نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا کرسی کے دائیں بائیں ہاتھ رکھتے اس پر جھکا یہاں کی اسکی گرم سانسوں کے تھپڑ جاناں کے چہرے پر لگے انکھیں خوف سے پھیلی

اویس۔۔۔تت۔تم پپ۔پلیز ۔۔وہ لرزنے لگی ڈر سے حلق خشک ہورہا تھا

ششششششش۔۔۔۔اواز نا نکلے ورنہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گی ۔۔جاناں میصم شاہ۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے وہ اسکی ڈر و خوف سے پھیلی

تت۔تم نے مجھے چیٹ کیا۔۔۔تم جانتی تھی نا کہ میں محبت کرتا ہوں تم سے ۔۔۔۔ پھر کیوں کی اس گھٹیا انسان سے شادی ہاں۔۔۔۔اسکا بازو دبوچے وہ غصے سے دھاڑا جاناں نے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا اسے لگا اسکا بازو ٹوٹ جائے گا درد سے آنکھوں میں نمی ائی

میں کتنی محبت کرتا تھا تم سے ۔۔۔۔کتنے خواب سجائے تھے میں نے ۔۔۔۔ تم نے پل میں سب چکنا چور کردیا کیوں۔۔۔۔ کیوں جان۔۔۔ ایک بار بول کر دیکھتی کہ تم اس انسان سے محبت کرتی ہو ۔۔۔صرف ایک بار بول کر دیکھتی یار میں خود تمھاری شادی کروا دیتا مگر نہیں تم نے مجھے دھوکا دیا ۔۔۔ اور دھوکے کی سزا موت ہے صرف موت۔۔۔۔ آنکھیں پونچھتے وہ سرخ نگاہوں سے اسکا روتا ہوا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔۔ایک پل کو وہ اسے اس پر رحم آرہا اور دوسری طرف وہی اسے اسکی روتی آنکھوں سے نفرت ہورہی تھی دل پر پتھر رکھتے اس نے گن اٹھائے رخ اسکی جانب کیا

میں تمھیں تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔۔ہمیشہ تمھاری حفاظت کرنا چاہتا تھا مگر ۔۔ جملہ ادھورا چھوڑتے وہ لب بھینچ گیا ٹریگر پر انگلی رکھتے وہ اس دشمن جاں کو سرخ نگاہوں کے حصار میں لیے ہوئے تھا

ٹھااااااااااا۔۔۔۔۔ گولی کی دل چیرتی اواز پر اس ویرانے میں ایک بار پھر سے خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو آنکھیں میچے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے زور سے چیخی تھی

کک۔کیا کہ۔کہا تم نن۔نے ۔۔۔۔۔ اسے لگا اسکا پورا وجود سن پڑ گیا ہے بےجان ہوتے ہاتھوں سے گن زمین پر جاگری۔۔۔انکھیں بےیقینی سے کھلی

م۔میں پپ۔پریگننٹ ہوں ۔۔۔۔ میچی آنکھیں اہستہ سے وا کرتے اس نے لزرتے لبوں سے جواب دیا بھیگی آنکھوں میں خوف ہلکورے لے رہا تھا رو رو کر اسکی سفید رنگت سرخ ہورہی تھی وہ اسے لگا اسکے جسم میں جان نہیں رہی بےجان ہوتے وجود کے ساتھ وہ گھٹنوں کے بل اسکے اسکے سامنے زمین پر گرا سرخ آنکھوں چھلکتے ایک انسو زمین پر گرا

صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا

 اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے

اُس کو گنوا کر محسن اُس کے درد کا قرض چکانا ہے

 ایک اذّیت ماند پڑی ہے اک قربت اور بھی ہے

ج۔جاو۔۔ تیزی سے اسکے ہاتھ کھولتے وہ زمین پر گرتے سر جھکائے بولا جاناں نے حیرانی سے اسکے بدلتے تاثرات کو دیکھا جو اپنے ہی بال نوچتے زمین پر کسی ہاتھ ہوئے جواری کی طرح بیٹھا تھا

ااویس۔۔۔۔

دفع ہوجاو یہاں سے ۔۔۔۔ اسکے بلانے پر وہ حلق کے بل دھاڑا کہ جاناں خوف سے اچھلی تیزی سے وہاں سے نکلی

مجھے رونا نہیں آواز بھی #بھاری نہیں کرنی 

#محبت کی کہانی میں #اداکاری نہیں کرنی 

 #تحمل اے محبت، #ہجر پتھریلا علاقہ ہے 

تجھے اس راستے پر #تیز_رفتاری نہیں کرنی 

ہمارا دل ذرا اُکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر 

یونہی بازار آئے ہیں #خریداری نہیں کرنی 

غزل کو کم نگاہوں کی پہنچ سے دور رکھتا ہوں 

مجھے بنجر دماغوں میں #شجرکاری نہیں کرنی 

وصیت ہے مجھے #قیس کی صحرا کے بارے میں 

یہ میرا گھر ہے اس کی #چار_دیواری نہیں کرنی.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دن بعد

میری بیوی میرا سکون ہے وہ سکون جو اسکے علاوہ میسر نہیں ۔۔۔۔ میں شکر ادا کرتا ہوں اس پاک زات کا جس نے میرے عشق کو میرا ہمسفر بنا دیا ۔۔ اور اتنی بڑی نعمت سے نواز رہا ہے۔۔۔۔ اسکے ہاتھ چومتے وہ محبت پاش نظروں سے اسے تکے جارہا تھا جو سرخ ہوئی بیٹھی تھی ۔۔ جی تو آج شاہ مینشن میں جشن تھا کیونکہ آج رباب کے لیے پارٹی رکھی گئی تھی آج وہ سبھی خوشی سے جھوم رہے تھے

ہمھیں بھی شکریہ ادا کرنے کا موقع دو۔۔۔۔ حورنے ان دونوں کے درمیان بیٹھتے کہا جس پر سیم نے دانت بھینچے

یار پرائویسی نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ سیم نے منہ بناتے کہا من تو کررہا تھا اسے اٹھا کر کہیں پھینک دے پچھلے کتنے دنوں سے وہ ایسے ہی کررہی تھی

پرائیویسی دی تھی اسی لیے تو یہ سب ممکن ہوا ۔۔۔اب اور کتنی پرائیویسی چاہئے جناب کو ۔۔۔چلو نکلو یہاں سے ۔۔۔۔ اسے وہاں سے رفع دفع کرتے وہ رباب کے ساتھ باتوں میں لگی کیوںکہ تھوڑی ہی دیر میں پارٹی شروع ہوجانی تھی

🥰🥰🥰

میری تصویر بنانے کی جو دُھن ہے تم کو

 کیا اُداسی کے خد و خال بنا پاؤ گے ؟؟

تم پرندوں کے درختوں کے مُصوِر ہو میاں

 کِس طرح سبزہ پامال بنا پاؤ گے   ؟؟

سر کی دلدل میں دھنسی آنکھ بنا سکتے ہو 

 آنکھ میں پھیلتے پاتال بنا پاؤ گے ؟؟

جو مقدر نے میری سِمت اچھالا تھا کبھی

 میرے ماتھے پہ وہی جال بنا پاؤ گے ؟؟

مل گئی خاک میں آخر کو سیاہی جن کی

 میرے ہمدم وہ میرے بال بنا پاؤ گے ؟؟

یہ جو چہرے پر خراشوں کی طرح ثبت ہوئے 

یہ اذیت کے مہ و سال بنا پاؤ گے ؟؟

زندگی نے جو میرا حال بنا چھوڑا ہے

 میری تصویر کا وہ حال بنا پاؤ گے

بچہ کیا ہوا۔۔۔۔ اسے تن تنہا کھڑا دیکھ ارسلان وہی آیا تھا اسکے یوں مخاطب کرنے پر وہ بےساختہ مسکرائی جو چند لمحوں میں جھلک دکھائی غائب ہوئی

کچھ نہیں بس اپنی زندگی کو سوچ رہی ۔۔۔۔ کیسے کیسے امتحان لیتی ہے یہ ۔۔۔۔ ایک تنسخرانہ مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں پر بسیرا کیا ارسلان نے خفگی سے اسے دیکھا وہ لوگ اج مرحا اور سلطان کا نکاح کروا کر اپنا فرض ادا کرچکے تھے

گرزی باتیں یاد کرکے تکلیف ملتی ہے جان۔۔۔۔ ارسلان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے اسے سمجھایا تو وہ ہنسی وہ ناسمجھی سے اسے کھوکھلی ہنسی ہنستے دیکھ رہا تھا اسے لگا پہلے والی جاناں لوٹ آئی ہے وہ اپنوں کی ڈسی جاناں۔۔۔۔ اندھیروں کی عادی۔۔۔۔۔

یاد انکو کیا جاتا جو بھول جاتے ۔۔۔۔ یہ چیزیں میں کبھی نہیں بھول سکتی اپنے بسس میں نہیں ہے نا۔۔۔ وہ کرب زدہ لہجے میں بولی کالی آنکھیں شدت ضبط سے سرخ ہورہی تھی

جان۔۔۔ کیوں دوبارہ ان اندھیروں کی واسی بننا چاہتی ہو ہممم۔۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتے پوچھنے لگا جاناں نے اپنی سیاہ آنکھوں سے اسے دیکھا وہی پتھرائی آنکھیں وہی خوبصورت بھینچے لب۔۔۔۔

یہ سیاہی میرا مقدر ہے ارسلان ۔۔۔ میں چاہ کر بھی اس سے دامن نہیں چھڑا سکتی ۔۔۔۔ بھابی سے کہتے وہ بےساختہ قہقہہ لگا اٹھی جیسے اپنی زات کا تماشا بنا رہی ہو ارسلان نے غم زردہ نظروں سے دیکھا جو اب اندر کو بڑھ رہی تھی

عشق میں ہوتا نہيں نفع , خسارا یارا

جھوٹ مت بول مرے ساتھ ,خُدارا یارا

خاک چھانی بھی گئی ,خاک اُڑائی بھی گئی 

خاک سے نکلا نہيں کوئی ستارا , یارا

تجھ سے تشکیلِ خدوخال نہيں ہو سکتی 

لے کے آ جا تُو مرے چاک پہ گارا , یارا

میری دریا سی طبیعت تجھے لے ڈوبے گی 

مجھ سے بہتر ہے کہ تُو کر لے کنارا , یارا

عمر بھر لوگ پکارا کِیے جاناں جاناں 

ہم فقیروں کا وہی نعرہ کہ , یارا یارا

تم ابھی نیند کی وادی میں نئے آئے ہو 

تم پہ کُھل سکتا نہيں خواب ہمارا , یارا

اپنی تنہائی لیے ساتھ مرے آ بیٹھا 

میں نے تنہائی میں جس جس کو پکارا , یارا

اُس نے لوگوں کو دِکھایا کہ محبت کیا ہے 

آج پھر میری طرف کر کے اِشارا , یارا

خود سمندر نے دیا ہے مجھے رستہ, عامی 

میں نے پانی پہ عصا تو نہيں مارا , یارا

🥲🥲🥲🥲

جان۔۔۔ کیا ہوا ہے ۔۔۔ وہ ابھی نہا کر باہر نکلی تھی شیشے میں خود کو دیکھتے وہ اویس کو سوچ رہی تھی اس دن کے بعد وہ اتنا ڈری تھی کہ اب ہر وقت اسے اویس سے ڈر لگتا تھا

ہنہہ۔۔کچھ۔ نہیں ۔۔۔ وہ ہوش میں آتے ہلکی سی مسکراہٹ سے بولی اسے یاد آیا ابھی تک اس نے کسی کو اپنی پریگنینسی کا نہیں بتایا تھا مراد کو دیکھتے وہ ایکدم سرخ ہوئی

جاناں۔۔۔ اسے پھر سے سوچوں میں گم دیکھ وہ اسکی طرف آتے اسکا رخ اپنی جانب کرگیا

کیا ایسا کچھ ہے جو مجھے پتہ ہونا چاہیئے ۔۔۔وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا جو کنفیوژن سے ہونٹ چبا رہی تھی سر ہلاتے جھکا گئی

کیا بات ہے بتائیں جان۔۔۔۔۔ وہ اسکے ہاتھوں پر دباؤ بڑھا کر جیسے اپنے ہونے کا یقین دلا رہا تھا جاناں نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا

I'm pregnant.....🙈🙈🙈

اسکے کان میں جھک سرگوشی کی کرتے وہ اسکی گردن میں چہرہ چھپا گئی جبکہ مراد تو کچھ دیر تک سٹل کھڑا رہا اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ باپ بننے والا ہے ۔۔۔ وہ اسے اپنے سامنے کرتے وہ اسے چمکتی آنکھوں سے دیکھنے لگا

مجھے یقین نہیں ہورہا یار ۔۔کیا واقع میں اس عہدے پر فائز ہونے والا ہوں ۔۔۔ میں بتا نہیں سکتا جان میں کتنا خوش ہوں۔۔۔۔۔ شکریہ میری جان۔۔۔۔۔ اسکی پیشانی چومتے وہ اسکے سرخ چہرے کو محبت پاش نظروں سے اسے دیکھنے لگے جو شرمائی شرمائی سی بہت حسین لگ رہی تھی

آج تو ڈبل سیلیبریشن بنتا ہے ۔۔۔ وہ دونوں ریڈی تھے گاڑی میں بیٹھتے وہ اپنے زندگی کے نئے سفر پر نکلے تھے شرمائی شرمائی سی جاناں پہلے والی جاناں سے بہت مختلف تھی وہ جاناں تو اندھیرے کی ضد میں تھی مگر اس جاناں کی زندگی ۔۔خوشیوں سے بھری پڑی تھی

وہ جاناں لڑنا جانتی تھی جبکہ یہ جاناں بہت معصوم تھی بےشک وہ دونوں ہی خوبصورت ۔۔۔ایک کی یہی خوبصورت اسکی خوشیاں کھا گئی جبکہ وہی دوسری جاناں کی زندگی خوبصورت ہوچکی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

میرے بچوں کی جنت کیسی ہے ۔۔۔۔ وہ ابھی تھکی تھکی سی کمرے میں ائی تھی کہ حاوز نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ باندھتے اسکی پشت کو سینے سے لگاتے محبت پاش لہجے میں پوچھا

ابھی فل حال تو بہت تھکی ہوئی ہے ۔۔۔ خود کو اسکے اسرے پر چھوڑتے وہ سر اسکے کندھے پر ٹکائے تھکن سے چور ہوتے لہجے میں بولی تھی

او بیگم اپکی تھکن اتارتے ہیں ۔۔۔ اسکے باہوں میں بھرتے وہ اسکے نازک سے وجود کو بیڈ پر لیٹاتے خمار بھری سرگوشی میں بولا ابیہا نے آنکھیں بند کرتے رہیے پر سر رکھا وہ جانتی تھی حاوز کیا کرنے والا ہے

پلیززززز۔۔۔ حاوز میں تھک گئی ہوں ۔۔۔ تھکن زدہ گہری سانس بھرتے وہ دھیمی آواز میں بولی تو حاوز نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھا اسکا سر اپنی گود میں رکھتے وہ اسکے بال سہلانے لگا

سو جاؤ جان۔۔۔ وہ اسکی پیشانی پر لب رکھتے محبت سے اسے دیکھا تو وہ سکون سے آنکھیں بند کرتی اپنے مہربان شوہر کی پناہوں میں پرسکون نیند سوگئی

🔥🔥🔥🔥🔥

15۔ سال بعد۔۔۔۔۔۔۔

میں نن۔نہیں کہونگی یہ۔۔۔ عیان بب۔بھائی۔۔مم۔۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔۔۔ وہ شدت ضبط سے غرایا آنکھیں تھی کہ لہو چھلکا رہی تھی لب بھینچتے اس نے خود کو مزید کچھ بھی کہنے سے باز رکھا سرخ چہرے سے اسکے قریب تر چہرے کو دیکھا

اب بھائی بولا تو زبان گدی سے کھینچ لونگا ۔۔۔۔ سمجھی اسکے گردن پر ہاتھ کا دباؤ بڑھاتے وہ اسکے منہ پر ڈھاڑا سرخ نگاہوں کا مرکز وہ نرم نازک وجود تھا جو اسکی قربت اور اسکے غصے سے ہوش کھونے کے در پر تھی

سمجھی۔۔۔ ہاتھ کی پشت اسکی نرم نازک سی گال پر پھیرتے وہ اسکے چہرے کے قریب تر چہرہ کرتے گھمبیر لہجے میں بولا تو ہدی نے سرخ رنگ چہرے سے اسے دیکھا اسکو یوں خود کے اتنے قریب دیکھ وہ آنکھیں میچتے سر جھکا گئی

ج۔جی۔۔۔جھکے سر کے ساتھ لزرتے لبوں سے دھیمی سی سرگوشی نکلی تو عیان نے مبہم مسکراہٹ سے اسے دیکھا تھوڑی تکے ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اوپر اٹھاتے وہ اسکی پیشانی پر جھکا اسکی پیشانی پر نرم گرم سا لمس چھوڑتے وہ پیچھے ہوتے وہاں سے چلا گیا ۔۔۔ سن سی کھڑی ہدی نے آنکھیں کھولتے اسکی پشت کو دیکھا ہونٹ کو کھول کر گہری سانس بھری ۔۔۔۔ دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتے وہ صوفے پر گری اس نئے سے احساس کو محسوس کرتے اسکی ڈھرکنیں منتشر ہورہی تھی

پندرہ سال گزر گئے تھے مراد اور جاناں کی ایک ہی بیٹی تھی جسکا نام انہوں نے ہدی لغاری رکھا تھا حور اور ولی کی کوئی اولاد نا تھی لیکن وہ ہدی عیان اور زویا کو اپنے بچے مانتے تھے ۔۔۔۔۔

🥰🥰🥰

دو داد مرے ظرف پہ اے اہلِ مروت

وہ بار اٹھائے جو اٹھانے کے نہیں تھے!

پلکوں پہ بٹھایا انہیں ہنستے ہوئے میں نے

جو لوگ کہ منہ تک بھی لگانے کے نہیں تھے!

🥰🥰🥰🥰

اہہہ۔۔ اندھے ہو مسٹر ۔۔۔؟؟؟ وہ سرخ بھیگی آنکھوں سے اسے گھورنے لگی جو یونی کے بیک سائیڈ پر کھڑا جانے کیا گل کھلا رہا تھا ایک بار تو ہدی نے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ جھرجھری لی لیکن عیان کا غصہ اب کسی نا کسی پہ تو نکلانا ہی تھا نا

تمھارے پاس تو آنکھیں ہیں ۔۔۔۔تم دیکھ لیتی۔۔۔ وحشت سے سرخ ہوتی آنکھیں اس پر گرائے وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں گویا ہوا اسکے سرد لہجہ ہدی نے گلا تر کرتے اسے دیکھا

بجائے اپنی غلطی ماننے کے تم مجھے سنا رہے ۔۔۔۔ غصے سے چھوٹی سی ناک چڑھاتے کہا تو سامنے کھڑے اس چوڑی جسامت والے شخص نے سرخ آنکھیں پھیرتے اردگرد دیکھا جیسے کسی کو ڈھونڈنا چاہا ہو اسکی بات پر ماہر نے آنکھیں اس پر ٹکائی ایک سرد سی مسکراہٹ ن اسکے بھینچے لبوں پر جھلک دکھلاتی غائب ہوئی

ہیے یو ۔۔سٹینجر ۔۔۔۔ اسے یوں خود کو نظرانداز کرتے جانے پر وہ اسکی پشت کو دیکھتے اسے پکار گئی اسکی پکار پر وہ رکا سرخ آنکھوں میں ایک پل کے لیے نرمی چھائی مگر وہ بسا ایک پل کے تھی مڑ کر سرخیاں بکھرتے اس نازک سے وجود کو دیکھا اسکے دیکھنے پر ہی ہدی کے جسم میں کپکپی سی پیدا ہوئی

سٹینجر۔۔۔ اس کے لب ہولے سے ہلے آنکھیں اس پر ٹکی جو اب بےخوفی سے اسے دیکھ رہی تھی

مجھ سے ڈرو ورنہ یہ سٹینجر ہمیشہ کے لیے تمھیں اپنے قریب کرلیگا ۔۔۔۔۔۔ عجیب سی چمک سرد سی آنکھوں میں لیے وہ وہاں سے چل دیا جبکہ وہ حیران پریشان سی وہی کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔

ایک طرف عیان تھا تو دوسری طرف یہ سٹینجر ۔۔۔۔کیا موڑ لینے والی تھی اسکی زندگی ۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔۔۔۔


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Addiction Of LoveThe Real Owner Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel The Real Owner written by  Gul Writes .The Real Owner by Gul Writes is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment