Khaata By Mahi Sheikh Complete Short Story Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Readin...
Khaata By Mahi Sheikh Complete Short Story |
Novel Name:Khaata
Writer Name: Mahi Sheikh
Category: Complete Novel
مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔
ستارے گر بتا دیتے،سفر کتنا کٹھن ہو گا"
"پیالے شہد کے پیتے تلغ ایام سے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس ہوسٹل میں آۓ اسے دو سال ہو گۓ تھے۔
گھر سے ھوسٹل تک کا یہ سفر بہت ہی اذیت ناک تھا اس کے لیے۔۔۔۔
وہ یعنی باصفا رحمان اپنے مما پاپا کی بے حد لاڈلی بیٹی تھی۔
ماضی کی یادیں ہی اس کا واحد سرمایہ تھیں۔۔۔
آج بھی اپنے ماضی کو سوچتے اسکی شہد رنگ آنکھوں میں
کانچ کی سی چبھن تھی۔۔۔
بچپن کے وہ حسین دن کسی خواب کی لگتے۔
باصفا اور ھمزہ دو ھی بہن بھائی تھے۔
شگفتہ اور رحمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔
چونکہ اسکے والدین کی پسند کی شادی تھی
اسلۓ ان کے گھر والوں نے انھیں گھر سے نکال دیا تھا۔
اپنے دھدیال کے بارے میں وہ بس اتنا ہی جانتی تھی کہ اسکے بابا کے ایک
بھائی اور ایک بہن تھی۔
چونکہ والدین کا انتقال انکے بچپن میں ہی ہو گیا تھا
اس لیے بھابی اور بھائی نے ہی انھیں پالا تھا۔۔۔
وہ لوگ کون تھے کدھر رہتے تھے اسے کچھ علم نہیں تھا
اور نا ہی گھر والوں نے کبھی اسکے سامنے انکا ذکر کیا تھا۔۔۔۔
اور ننھیال میں امی چونکہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں اور والد کا انتقال
ہو چکا تھا۔ اس لیے آنی نے انھیں معاف کر دیا تھا۔
آنی ان کے ساتھ ہی رہتی تھیں پھر انکا بھی انتقال ہو گیا
تو ان کی زندگی میں کسی تیسرے کی کوئی گنجائش نا رہی۔۔۔
وہ چونکہ ھمزہ سے بارہ سال چھوٹی تھی
اس لیۓ اپنی مما اور بابا دونوں کی آنکھوں کا تارہ تھی۔
ھمزہ چونکہ اپنے والدین کی توجہ کا عادی تھا
اس لیے اسے یہ تبدیلی پسند نہیں آئی۔
اسے اس بات سے چڑ ہوتی کہ اسکے والدین اس کی چھوٹی بہن کو کیوں پیار کرتے ہیں۔۔۔
اسے یہ توجہ بٹنا پسند نا آیا ایسے اُسے باصفا سے بھی چڑ ہو گئی۔
لیکن شگفتہ اور رحمان نے اس بات پہ زیادہ توجہ نا دی کہ وقت کے ساتھ
ساتھ سنبھل جاۓ گا۔۔۔
مگر باصفا کے دل میں اپنے بڑے بھائی کے لۓ بہت پیاراور عزت تھی۔
وہ اسکی توجہ حاصل کرنے کی بیت کوشش کرتی مگر سب بے سد۔
جب وہ چھوٹی تھی تب اسے سمجھ نہیں آتا تھا مگر جب وہ بڑی ہوئی بھائی کا رویہ
بہت کچھ باور کرا گیا۔یوں وہ ہمیشہ اس سے فاصلے پر ہی رہی۔۔۔
جب وہ اپنی سہیلیوں سے اپنے بھائیوں کے قصے سنتی تو اسکا بھی
دل چاہتا اسکا بھائی بھی اسے آئس کریم کھلانے لے کے جاۓ۔۔
اس کے لیے چاکلیٹ لاۓ مگر خیر وقت کے ساتھ وہ سنبھل گئی۔
اور اس میں زیادہ ہاتھ اس کے بابا کا تھا۔
جنھوں نے بھائی کی کمی کو پورا کیا تھا۔
وہ اسکے دوست،بھائی بابا سب کچھ تھے۔۔۔
World's best baba...
وہ اپنے دل کی ہر بات اپنے بابا سے کرتی تھی۔
اسی طرح وقت گزرتا گیا اور وہ بھی بڑی ہو گئی۔۔۔۔۔
بھائی نے بھی اسٹدی کمپلیٹ کر کے بابا بزنس جوائن کر لیا۔
رحمان صاحب کی لیدر کی فیکٹری تھی۔
جو انہوں نے اپنی انتھک محنت سے بنائی تھی۔
گھر سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے بہت سی مشقلات کا سامنا کیا تھا۔
پھر انہوں نے نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا۔
چونکہ پڑھے لکھے تھے لہٰزا کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر کاروبار کیا جس میں آللہ نے انہیں خوب ترقی دی۔
اور آج بلا شرکت غیر پوری فیکٹری کے مالک تھے
وہ سب اپنی زندگی بہت خوش اور متمئن تھے۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔
مگر پھر اچانک اسکی زندگی میں جو طوفان آیا وہ اسکی سارے خوشیاں اپنے ساتھ بہا لے گیا
وہ دن اسے آج بھی یاد تھا۔ وہ چھٹی کا دن تھا جب مما اور بابا گروسری کا سامان لینے گۓ تھےمگر واپسی پے انکا اس قدر شدید ایکسیڈنٹ ہوا کہ وہ دونو ں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔۔۔۔
وہ دونوں کیا اس دنیا سے گئے یوں لگا اسکا سب کچھ ہی چھن گیا ہو
اسکی خوشیاں بھی اسی ہی رخصت ہو گئیں تھیں۔
اسکی دنیا میں اسکے مما بابا کے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں۔
وہ تو اسکی کل کائنات تھے۔اور اب وہ بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی.بلکل تنہا۔
دنیا والوں کے وار سہنے کے لئے۔ اسے انکی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔
وہ سکول سے آنے کے بعد اپنی کمرے میں ہی رہتی. اور انہیں یاد کرکے روتی رہتی۔
سکول میں بھی اسکی کسی سے خاص دوستی نہ تھی۔
بھائی اپنے ہی کاموں میں مصروف رہتے۔
گھر میں بھی ملازم تھے تو اس پہ کوئی ذمہ داری نہ تھی۔
خیر وقت کا کام ہوتا ہے گزرنا وہ چاہے جیسا بھی ہو اچھا یا برا گزر ہی جاتا ہے۔
اس نے اپنا میٹرک کمپلیٹ کیا اور کالج میں داخلہ لے لیا۔
وہ بہت ذہین اسٹوڈنٹ تھی میٹرک اسنے سائینس کے ساتھ کیا۔
اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا۔ مگر مما بابا کے جانے کے بعد اسنے سائنس چھوڑی اور آرٹس رکھ لی۔
وہ شروع سے ہی تنہا رہنے والی لڑکی تھی اور بہت جلد گھبرا جاتی تھی۔
کتنے ہی ماہ لگے اسے ایڈجسٹ ہونے میں۔ یہاں بھی وہ تنہا اور الگ الگ ہی رہتی تھی۔۔۔
چھ ماہ ہونے کو آۓ تھے اسے کالج آتے ہوئے مگر ابھی تک اس کی کسی سے کوئی خاص دوستی نہیں ہوئی تھی۔
وہ سادہ طبیعت تنہا رہنے والی لڑکی تھی اور نہ ہی اسے لوگوں کی پہچان تھی۔
اتنا بڑا کالج مختلف لڑکیاں اور باتیں۔ ایسے میں حیا تھی جس نے اسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
شروع میں تو وہ اس سے بھی فاصلے سے ہی ملتی۔ اگر کبھی بات چیت ہوئی بھی تو صرف پڑھائی پر ہی۔
مگر حیا اسکے رویے سے بیزار ہو کر دور نہیں ہٹی۔اور یوں انکی دوستی گہری ہو گئی۔
وہ ایک بہت ریچ فیملی سے تھی اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔
مگر بہت بولڈ اور کانفیڈنٹ تھی۔ حیا اس سے بلکل مختلف تھی۔ اسکا اسٹائل،اسکی باتیں،اسکا انداز باصفا سے بلکل مختلف تھا۔
اور جو بات باصفا کیلئے زیادہ حیرت کا باعث تھی وہ تھی اسکی لڑکوں سے دوستی۔
وہ اپنے کزنز سے بھی بہت فرینک تھی۔ جبکہ باصفا تو لڑکیوں سے بات کرتے ہوئے اکثر گھبرا جاتی تھی۔۔۔
لڑکوں سے بے شک اسکی دوستی تھی لیکن اک حد تک ہی تھی۔
اس نے کبھی اپنی لمیٹس کراس نہیں کی تھی۔
وہ بہت ہی باتونی لڑکی تھی ۔ اس کے پاس گھوسیپس کا انبار تھا۔
ہر وقت بولتی رہتی کبھی کبھی تو باسفا چڑھ جاتی " اللہ حیا کام بولا کرو "۔
لو بھلا اللہ نے زُبان بولنے کے لیے ہی تو دی ہے اب بندہ نا بول کر کفرانِ نعمت کیوں کرے " وہ آگے سے ہنس کر کہتی۔"
مگر جو بھی تھا باسفا کو اس کا زندگی سے بھرپور انداز بہت اچھا لگتا ۔ وہ ایک زندہ دل لڑکی تھی۔
باسفا
ہاں
یار اب تم بھی اپنا سیل فون لے لو نا۔
حیا بھائی نہیں لے کر دیں گے۔ وہ دونوں فری پیریڈ کے وقت گرؤنڈ میں بیٹھی تھیں۔
اُففف تم ایک دفعہ بات تو کر کے دیکھو ۔ آج کل تو سب کے پاس اپنا سیل فون ہے اک تم پتہ نہیں کس دنیا میں رہتی ہو۔
تمیں پتہ ہے ہم نے واٹس ایپ پہ گروپ بنایا ہوا ہے خوب چٹ چیٹ ہوتی ہے بہت مزا آتا ہے۔
اور پتہ ہے صبا ایسی ایسی فنی ویڈیوز سینڈ کرتی ہے اتنا شوغل لگتا ہے ۔۔۔ تم بھی لو نا پھر ہم مل کے انجوئے کریں گے۔۔۔
اچھا نا ٹھیک ہے میں کروں گی بھائی سے بات ۔
ہممم ٹھیک ہے چلو کینٹین چلتے ہیں۔
جی نہیں ہم پیریڈ اٹینڈ کرنے چل رہے ہیں ۔ چلو اٹھو ۔۔۔۔
او کے میم ۔۔۔۔۔
اور وہ ہنستی ہوئی کلاس کی طرف بڑھ گئیں۔
------------
باصفا میں نے کوئی بہانا نہیں سننا تم شام کو میری برتھ ڈے پارٹی میں آ رہی ہو اینڈ ڈیٹس فائنل۔
حیا دو ٹوک لہجے میں بولی۔
حیا تمہں پتہ ہے بھائی نہیں آنے دیں گے ۔ ارے ڈفرانہیں بتائے گا کون۔
وسے بھی اگر تم انہیں اپنے باری میں مطلع نا کرو تو انہوں نے کونسا کبھی تمھاری خبر رکھی ہے ۔
نہیں حیا مما کہتی تھیں لڑکیاں بغیر بتائے گھر سے نہیں نکلتیں۔ اُف اوووو باسفا میں تمیں شام میں پک کرنے آ رہی ہوں بسس ۔
لیکن حیا
لیکن ویکین کچھ نہیں تم شام میں تیار رہنا . اور باسفا کو ناچار ماننا پڑا ۔
بوا سنیں
جی بٹیا
بوا وہ آج میری فرینڈ کی سالگرہ ہے اور میں وہاں جا رئی ہوں آنے ماں دیر بھی ہو سکتی ہے ویسے تو بھائی پوچھیں گے نہیں اگر پوچھیں تو اُنہیں کہیے گا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو میڈیسن کھا کر سو رئی ہوں ۔
جی بٹیا ٹھیک ہے۔
وہ شام کو مقررہ وقت پہ تیار ہو گئی تھی۔
لانگ کلیوں والی فیروزی کلر کی فراک جس پہ فیروزی اور پنک کام تھا ساتھ چوڑی دار پجامہ اور پنک ہی دوپٹہ جسے اچھے سے پن اپ کیا ہوا تھا ۔ مچنج جیولری ہائی ہیلز اور ہلکے سے پنک میک اپ میں وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ اسے میک اپ کا بہت شوق تھا ۔
آج جانے وہ کتنے دنوں بعد دل سے تیار ہوئی تھی ۔
اتنے میں حیا کی کال آنے لگی اور وہ احتیاطََ بوا کو ضروری ہدایت کر کے گئی تھی۔
ویسے تو وہ جانتی تھی بھائی اسکے بارے میں نہیں پوچھیں گے ان کے لیے اس کا ہونا نا ہونا برابر تھا ۔۔۔
جب تک مما بابا حیات تھے اسکے باہر جانے پر کوئی روک ٹوک نا تھی
مگر انکے جانے کے بعد بھائی نے صاف کہ دیا تھا کہ نہیں لڑکیوں کا یوں آوارہ پھرنا پسند نہیں۔
اِس لیے اب وہ اسکول کے علاوہ کہیں نہیں جائے گی ۔۔۔ انکے الفاظ ہی ایسے تھے کے مزید بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔
وہ جانتی تھی وہ اگر باہر جائے گی بھی تو بھائی کو پتہ نہیں چلے گا مگر وہ انکی نافرمانی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ حیا نے اسے دیکھتے ہی لڑکوں کے سے انداز میں سیٹی بجای۔۔۔
واؤؤ سویٹی یو آر لوکینگ گورجئس۔
اُف سریسلی باسفا اگر میں لڑکا ہوتی نا تو ابھی کے ابھی تمہیں پرپوز کر دیتی۔
وہ ڈرائیور کے سامنے اسکی اِس طرح کی گفتگو پہ جھینمپ گئی ۔
شرم کرو حیا۔ ڈرائیور کا ہی لحاظ کر لو۔
اوو ہووو تم تو یوں شرما رہی ہو جسے میں واقعی لڑکا ہوں۔
میرے سامنے یہ حال ہے اگر کبھی کسی لڑکے نے تمہیں پرپوز کیا تمہیں تو اٹیک آ جانا ہے۔
اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔ اتنے میں گاڑی کسی کلب کے باہر رکی
حیا یہ تو کلب ہے۔
اُووہ پلیز ان یہ مت کہنا " میں کلب میں نہیں جاؤں گی اگر بھائی کو پتہ چل گیا تو " ۔۔۔۔
حیا نے اسکی نقل اتارتے کہا اور پھر دونوں کا قہقہ بے اختیار تھا۔
------------
زاویار جو کے حیا کا فرینڈ تھا اپنی گاڑی پارک کرکے اندر جانے ہی والا تھا کے
حیا کے ساتھ کیسی بہت خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر وہیں چلا آیا
زاویار بہت ہی خوبصورت اور امیر لڑکا تھا ۔ اللہ نے حُسن کے ساتھ بے شمار دولت سے بھی نوازا تھا
جسکی وجہ سے وہ لڑکیوں میں خاصا مقبول تھا۔
حُسن اور وجاہت کا شاہکار ۔ اوپر سے اسکی نیلی آنکھیں ۔
سمندر کی طرح گہری اور طلاطم برپا کرتی آنکھیں ۔ جس کو نظر بھر کے دیکھ لے اپنا دیوانہ بنا دے ۔
اوپر سے اتراتا انداز جیسے سامنے والا جوتی کی نوک پہ ہو ۔
وہ بہت ہی فلرٹی نیچر کا تھا آج اِس کے ساتھ تو کل اُس کے ساتھ ۔۔۔
اسکی خوبصوتی اور ٹھاٹ دیکھ کر لڑکیاں خود ہی اسے اپنا آپ سونپ دیتیں۔
اور اسکا تو کام ہی لڑکیوں کے جسموں سے کھیلنا تھا ۔
ہیلو گرلز۔۔۔
ہائے زوئی کیسے ہو۔۔۔
میں ٹھیک تم سناؤ اور یہ حور کون ہے تمہارے ساتھ۔
یہ میری بیسٹ فرینڈ باسفا ہے ۔
اوہ تو یہ ہے باسفا آج کل جس کا نام ہر وقت تمھاری زبان پہ ہوتا ہے۔
جی بالکل یہ ہی ہے۔ اور باسفا یہ زاویارہے موم اینڈ ڈیڈ کے فرینڈ کا بیٹا اور یوں ہماری بھی بچپن سے دوستی ہے۔
اسلام علیکم ۔۔۔۔ باسفا نے اسے سلام کیا ۔
ہیلو نائس تو میٹ یو۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ باسفا کے آگے کیا۔
جسے باسفا نے نظر انداز کر دیا مگر پھر حیا کے بار بار کوہنی مارنے پہ اسے تھامنا ہی پڑا ۔
اسکا نازک ہاتھ زاویار کے مضبوط ہاتھوں میں تھا جسے اسنے ہلکا سا دبایا ۔
باسفا نے پہلی بار کیسی غیر مرد سے ہاتھ ملا تھا۔
اُس کے ہاتھوں کی حدت سے باسفا کا دل بے اختیار دھڑکا ۔ چند لمحے وہ دونوں اک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔۔۔
نیلی آنکھیں شہد رنگ آنکھوں میں ڈوبی تھیں ۔۔۔۔اور شہد رنگ آنکھیں نیلی آنکھوں میں ڈوبی تھیں ۔۔۔
چلو گائیز اندر چلتے ہیں۔۔۔ حیا کی آواز ان دونوں کو حواسوں میں لائی اور باسفا نے جلدی سے اپنا ہاتھ زاویار کے ہاتھ سے نکالا ۔۔
وہاں پر حیا کے اور بھی بہت سے دوست اور کزنز تھے۔
وہ سب تو بولڈنس میں حیا سے بھی چار ہاتھ آگے تھے۔
ٹائیٹس اور شورٹ شرٹس میں اپنے حلیے سے بے پرواہ آتی جاتی لڑکیاں۔
اور تو اور حیا بھی ایسی ہی ڈریسنگ میں تھی۔ وہ خود کو وہاں
بہت مس فٹ محسوس کر رھی تھی۔ لیکن حیا کی خوشی کیکیے خاموش رہی۔
خیر کھانے پینے سے فارغ ہو کر وہ لوگ ڈانس فلور کی جانب بڑھے۔
وہاں بہت سے لوگ میوزک کی تھاپ پہ تھرک رہے تھے۔وہ بس اب وہاں سے اس
ماحول سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔
رات کے 8 بج رہے تھے جب باصفا نے حیا سے گھر جانے ڈراپ کرنے کا کہا۔
"حیا ڈرائیور سے کہو مجھے گھر چھوڑ دے اب کافی ٹائم ہو گیا ہے۔"
اووہ کم آن سوئیٹی ابھی تو 8 بجے ہیں اتنی جلدی میں نہیں جانے دوں گی۔۔۔آؤ ڈانس کرتے ہیں۔۔۔
تمہیں پتہ ہے حیا مجھے یہ سب نہیں آتا تم پلیز مجھے گھر ڈراپ
کروا دو۔۔۔ اچھا نہ چلی جانا ابھی انجواۓ کرو۔
وہ اسے کہتی خود ڈانس فلور پہ چلی گئی مگر باصفا وہیں سائیڈ پہ کھڑی
ہو گئی اور سب کو چیکھنے لگی۔۔۔
"Will u dance with me"...
زاویار اسکے قریب کھڑا پوچھ رہا تھا۔
سوری مجھے یہ سب نہیں آتا۔۔۔
اووہ کم آن کوئی مشکل نہیں ہے۔ آؤ میں سکھاتا ہوں۔
لیکن۔۔۔۔
"Come on babby... Lets do"
اتنے میں کپلز فلور پہ آئے اور زاویار بھی اسے لئے ڈانس فلور پہ آ گیا۔
اسنے باصفا کے بائیں ہاتھ کواپنے دائیں کاندھے پے رکھا جبکہ اپنا دائیاں ہاتھ اسکی کمر کے گرد حمائل کیا۔
اور اسکا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ڈانس کرنے لگا۔۔۔۔۔
وہ باصفا کے بے حد نزدیک تھا۔۔۔ اور وہ اسکے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اسکی سانسوں کی گرمی سے باصفا کو اپنا جسم جھلستا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔جبکہ ڈھرکنوں کی رفتار حد سے سوا تھی۔۔۔
اسے زندگی میں پہلی بار کسی نامحرم نے چھوا تھا۔ اک انوکھا سا احساس تھا جو رگ و پے میں سرائیت کرنے لگا۔۔۔۔۔
وہ خود کو جیسے کسی اور ہی دنیا میں محسوس کر رہی تھی۔
اسکی جھیل سی نیلی آنکھیں جن میں وہ پور پور ڈوب گئی تھی اور اسکے کلون کی دھیمی دھیمی سی مہک وہ تو جیسے خود میں ہی نہیں رہی تھی۔۔۔
جانے کتنے ہی لمحے اسکی باہوں میں بیتے اسے ہوش ہی کہاں تھا۔
جیسے ہی وہ ہواسوں میں لوٹی اُس نے فوراً ہی خود کو زاویار کی گرفت سے نکالا اور وہاں سے نیچے اتر گئی۔
نیچے آ کر اسنے چند گہرے سانس لیے اور خود کو نارمل کرنے لگی۔۔۔
یہ مجھے کیا ہو گیا تھا۔ مما ہمیشہ کہتی تھیں کبھی بھی نامحرم مرد کو چھونے کی اجازت نہ دو اور میں۔۔۔۔ میں ایک نامحرم کے ساتھ دانس کر رہی تھی۔۔۔
نہیں نہیں آئیندہ کبھی کسی کو خود کو ہاتھ نہیں لگانے دوں گی۔۔۔۔
وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتی حیا کی طرف بڑھی۔
حیا اب تو بہت ٹائم ہو گیا ہے اب تو پلیذ مجھے گھر ڈراپ کروا دو۔
اچھا ٹھیک ہے میں ڈرائیور کو کال کرتی ہوں۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟؟
یار ڈرائیور فون نہیں اٹھا رہا۔۔۔
اووہ نو حیا اب میں کیسے جاؤں گی۔۔ باصفا گھبرا گئی۔۔
تم پریشان نہیں ہو میں کرتی ہوں کچھ۔
اتنے میں زاویار انکے پاس آآ گیا۔
"Whaat happand Haya... Is there any problm???"
باصفا کو ڈرائیور کے ساتھ جانا تھا گھر۔ وہ کمبخت پتہ نہیں کدھر ہے فون ہی نہیں اٹھا رہا۔۔۔
اوووہ۔۔۔
ہممم زوئی ،کیا تم باصفا کو ڈراپ کر دو گے پلیز۔۔۔۔
ٹھیک ہے اگر تمہاری فرینڈ کو کوئی پروبلم نہ ہو تو میں ڈراپ کر دیتا ہوں۔۔۔
ںہیں حیا انہیں پریشانی ہو گی۔۔ میں اپنے ڈرائیور کو کال کر کے بلا لیتی ہوں۔۔۔
پاگل مت بنو باصفا ڈرائیور کو بلاؤ گی تو تمھارے بھائی کو بھی پتا چل جائے گا۔۔۔
ڈونٹ وری یار زاویار میرے بھائی کی طرح ہے۔ مجھے اس پہ پورا بھروسہ ہے۔ حیا سمجھ گئی تھی کہ باصفا زاویار کے ساتھ جاتے ہوۓ گھبرا رھی ہے۔
گھبراؤ نہیں تم اسکے ساتھ چلی جاؤ۔
وہ دونوں آھستہ آواز میں بولتیں زاویار کے پیچھے پیچھے چل رہیں تھیں۔
اور باصفا کو مرتا کیا نہ کرتا کے مترادف زاویار کے ساتھ جانا پڑا۔۔۔
زاویار نے اس کے لیئے فرنٹ ڈور کھولا مگر وہ نظر انداز کرتی بیک سیٹ پے بیٹھ گئی۔۔
وہ اسکی جکڑ لینے والی شخصیت سے بھاگ رہی تھی۔ مگر وہ نہیں جانتی کہ وہ اسکے حصار میں جکڑی جا چکی ہے۔۔۔
زاویار کو اسکی اس حرکت پہ غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا۔۔۔
وہ زاویار جسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھنے کو لڑکیاں اپنا اعزاز سمجھتی تھیں اسے ایک معمولی سی لڑکی نے نظر انداز کیا تھا تو پھر غصہ تو آنا ہی تھا نہ۔۔۔
خیر اسکا بدلہ تو وہ بعد میں بہت اچھے سے لے سکتا تھا۔۔
ابھی وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا اور خاموشی سے ڈراؤ کرنے لگا۔اور اسی خاموشی سے اسے اسکے گھر ڈراپ کر دیا۔
باصفا جتنا اُسے نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی اتنا ہی اسے سوچے جا رہی تھی۔
گھر آ کر بھی وہ اسکے حصار سے نکل نہیں پائی۔آج یوں لگ رہا تھا جیسے نیند آنکھوں سے روٹھ گئی ہو وہ ساری رات زاویار کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔۔۔
جب کافی دیر کروٹیں بدلنے کے بعد بھی نیند نا آئی تو خود پے ہی غصہ آنے لگا۔۔۔
"اف یہ مجھے کیا ہو گیا ہے مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی اور میں اسے اتنا کیوں سوچ رہی ہوں"
مگر کوئی جواز سمجھ میں نہ آیا۔
خیر خود سے لڑتے جھگڑتے آخر نیندآ ہی گئی۔
رات چونکہ وہ دیر سے سوئی تھی اس لئے صبح دiر سے اٹھی۔ حیا نے بھی آج نہیں آنا تھا تو اسنے بھی چھٹی کر لی۔۔۔
بوا۔۔۔
جی بٹیا۔۔
بوا رات کو بھائی نے میرا پوچھا تو نہیں؟؟؟
جب وہ ناشتہ کرنے نیچے آئی تو سب سے پہلے بوا سے بھائی کا پوچھا۔۔
نہیں حمزہ بیٹا تو خود رات کو دیر سے آیا تھا اور آتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا کھانا بھی نہیں کھایا۔۔۔۔
یہ سن کہ باصفا نے سکون کا سانس لیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے اگلے روز جب وہ کالج گئی حیا ملتے ہی بولی۔۔۔
"اففف لڑکی تم نے جانے زوئی پہ کیا جادو کیا ہے اس نے تمہارا پوچھ پوچھ کر میرا دماغ کھا لیا ہے"۔۔۔
باصفا فوراً گھبرا کر بولی۔۔۔ "نہیں تو میں نے تو کچھ نہیں کیا"۔۔۔
ہائے صدقے جاؤں اس معصومیت پہ۔۔ وہ اسکے رخصار کو چھوتے ہوئے بولی۔۔۔
ایویں ہی تو نہیں میرا بھائی تمہارے عشق میں دیوانہ ہوا جا رہا۔۔۔
شرم کرو حیا کیا بکواس کیے جا رہی ہو۔۔
باصفا اسکی باتوں پہ جھینپتے ہوئے بولی۔۔۔
بکواس نہیں میری جان یہ سچ ہے۔۔۔
حیا۔۔۔ باصفا نے اُسے گھورا۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔
ویسے وہ تمہارا نمبر مانگ رہا تھا۔۔۔ میں نے کہا تمھارے پاس تو سیل ہی نہیں ہے۔ تو کہ رہا تھا کہ اگر تمہیں برا نہ لگے تو وہ لا دے گا۔۔۔
مھر حیا انہوں نے ایسا کیوں کہا۔۔۔
اگر میرے پاس سیل ہوتا بھی تو میں انہیں اپنا نمبر ہر گر نہیں دیتی۔۔۔ بتا دینا انہیں میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔۔۔تمہارا کیا مطلب ہے وہ تم سے فلرٹ کر رہا ہے نہیں باصفا تم غلط سمجھ رہی ہو زوئی ایسا لڑکا نہیں ہے۔۔
ایسے مت تڑپاؤ میرے بھائی کو۔۔۔ تم نے حمزہ بھائی سے فون کا نہیں کہنا مت کہو میں زوئی سے کہوں گی تمہیں فون لا دے۔۔
نہیں حیا تم ان سے ایسا کچھ نہیں کہو گی۔
نہیں کہتی اگر تم وعدہ کرو تم حمزہ بھائی سے بات کرو گی۔۔۔
اچھا بابا ٹھیک ہے میں آج ہی کرتی ہوں بات۔۔۔
یہ ہوئی نہ بات۔۔۔ گڈ گرل۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو جب بھائی گھر آئے تو وہ ڈرتے ڈرتے انکے روم میں گئی۔۔
وہ ناک کرتی اندر آئی۔۔
وہ اپنے
laptop
پہ کام کر رہے تھے۔۔۔
بھائی وہ۔۔۔ وہ مجھے کچھ بات کرنی تھی۔۔۔
ہوں بولو۔۔۔ مصروف سا جواب آیا۔۔۔
وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ بھائی وہ۔۔
کچھ بولو گی یا وہ وہ ہی کرتی رہو گی۔۔
وہ انکے انداز پہ گڑبڑا گئی اور جلدی سے بولی۔۔۔
وہ آپ مجھے موبائل فون لے دیں گے۔۔۔
وہ کچھ لمحے خاموشی سے اُسے دیکھتے رہے۔۔ وہ سر جھکائے کھڑی رہی۔۔۔
باصفا کو یہ ہی لگا کہ وہ انکار کر دیں گے مگر اسکی توقع کے خلاف ہوا۔۔۔
ٹھیک ہے میں لا دوں گا۔۔۔
"Thank you bhai"...
وہ دلی خوشی کو چھپاتی شکریہ کہتی باہر آ گئی۔۔۔۔
اگلے دن اسنے حیا کو بتایا کہ بھائی مان گئے تو وہ بھی بہت حیران ہوئی۔۔۔
حیرت ہے ویسے یہ تمیارا کھڑوس بھائی مان کیسے گیا۔۔۔
اے خبردار جو میرے بھائی کو کچھ بولا تو۔۔۔ بھائی جیسا بھی تھا اسے بہت عزیز تھا۔۔۔
اچھا اچھا آئی بڑی میرے بھائی کو کچھ مت بولو۔۔حیا اسکی نکل اتارتے بولی۔۔۔ ویسے تم آم کھاؤ نا گٹلیاں کیوں گنتی ہو۔۔ ہاں یہ بھی ہے۔۔ اور وہ ہاتھ پہ ہاتھ مارتی ہنس دیں۔۔۔
باصفا۔۔۔۔
ہوں۔۔۔
وہ زاویار تم سے بات کرنے کو بڑا بے چین ہے۔۔ اسنے مجھے کہا تھا کہ میں ایک دفعہ اپنے فون سے تمہاری بات کروا دوں۔۔۔
مگر حیا انہیں مجھ سے کیا بات کرنی ہے۔۔
یہ تم اسی سے پوچھنا۔۔۔
لیکن مجھے انسے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔
اففف ہو ایک دفعہ اسکی بات سن لینے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔۔
مگر یہاں کیسے بات ہو گی اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟؟؟۔ وہ حیا کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔ مگر لگتا تھا آج وہ بھی اسکے ہر اعتراض کا حل ڈھوند کر ہی آئی ہو۔۔۔
تم اس کی فکر نہ کرو۔ آؤ میرے ساتھ۔۔۔
وہ اسے لئے واش رومز کی بیک سائیڈ پے آ گئی جو ذرا ہٹ کے بنے ہوئے تھے۔۔۔ اور وہاں ٹیچرز کا آنا ناممکن تھا۔۔۔
وہاں پہ اور بھی لڑکیاں تھی جو فون پہ محوِ گفتگو تھیں۔۔ اسے ایسے لڑکیاں بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھیں مگر آج وہ خود ایسی لڑکیوں میں شامل ہونے جا رہی تھی۔۔۔
وہ نہں جانتی تھی اب سے وہ ایسے کام کرے گی جسے کرنے کا اسنے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔۔
حیا بھی وہیں اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھی تھی۔۔۔ اُس نے حیا کو دھیان رکھنے کا بولا تھا کے کہیں کوئی آ نہ جائے۔۔۔
وہ ایسا پہلی بار کر رہی تھی اس لیے بہت ڈری ہوئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم۔۔۔۔
وَعلیکم السلام۔۔۔ کیسی ہو پیاری لڑکی۔۔۔
میں۔۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔۔ آ۔۔۔۔آپ کیسے ہیں۔۔۔
ہاۓ۔۔۔۔ ہم سے نہ پوچھیے حال ہمارا کہ ہجر میں آپکے تڑپ رہے ہیں۔۔۔
وہ پہلے ہی اتنا کنفیوز ہو رہی تھی۔۔ اوپر اُسکی باتیں اففففف۔۔۔۔
جانے کیا جادو کیا ہے لڑکی ہر طرف تم ہی تم نظر آ رہی ہو۔۔۔
اسکی ہنوز خاموشی پہ وہ بولا۔۔۔ اب کچھ بولو بھی۔۔۔
ج۔۔ جی میں۔۔۔ میں کیا بولوں۔۔۔
لو جی اب یہ بھی میں بتاؤں۔۔ اچھا بتاؤ فون بھیجوں تمہارے لئے۔۔
جی نہیں میں نے بولا تھا بھائی سے وہ لا دیں گے۔۔۔
آہاں۔۔۔
Thats great...
ٹھیک ہے پھر تم حیا سے میرا نمبر لے لینا اور فون ملتے ہی مجھ سے کونٹیکٹ کرنا۔۔ ٹھیک ہے۔۔
جی۔۔
چلو پھر اب تمھارے نمبر پے بات ہو گی۔۔۔ زیادہ انتظار مت کروانا اپنی حسین آواز سنانے میں۔۔۔
جی۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔ لگتا مجھے بس جی جی ہی سننے کو ملے گا۔۔۔
جی نہیں اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔۔
اچھا جی پھر کیسی بات ہے۔۔
مہ۔۔۔۔ میں اب فون رکھتی ہوں۔۔۔
اللہ حفظ۔۔۔۔
ٹھیک ہے پیاری لڑکی اپنا خیال رکھناامید ہے جلد دوبارہ بات ہو گی۔۔۔
باۓ۔۔۔
وہ فون بند کر کے حیا کی طرف بڑھی۔۔۔
ہو گئی بات۔۔۔ہاں ہو گئی۔۔
ارے ایسا کیا کہ دیا زوۓ نے جو تم یوں لال ٹماٹر ہو رہی ہو۔۔۔ آہاں لگتا ہے بڑی رومینٹک قسم کی گفتگو ہو رہی تھی۔۔۔
بکو مت۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔
چلو اب چلیں یہاں سے۔۔۔ وہ بات پلٹنے کو اسے وہاں سے لے گئی۔۔
باصفا نے حیا سے زاویار کا نمبر لے لیا تھا۔۔۔
اور فون ملتے ہی اس سے کونٹیکٹ کیا۔۔
اب تو بس باصفا ہوتی اور اسکا فون ۔۔۔ اس پہ کونسا کوئی نظر رکھنے والا تھا۔۔۔اسکا جب دل کرتا زاویار سے بات کرتی۔۔۔
"میں کیا کہوں کہ کیا ہو تم۔۔۔
جو پوری ہو سکے وہ دعا ہو تم۔۔۔
دعاسے مانگا تو لگا ایسے۔۔۔
جیسے رب کی میرے لئے رضا ہو تم۔۔۔"
زاویار جیسے مرد کیلیے باصفا جیسی لڑکی کو شیشے میں اتارنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اسے لگا تھا باصفا اتنی آسانی سے اسکے قابو میں نہیں آئے گی۔۔۔ مگر وہ تو زاویار کی سوچ سے کہیں زیادہ بے وقوف نکلی۔۔۔
وہ اسے جتنی اتھری گھوڑی لگی تھی وہ اتنی ہی آسان حدف ثابت ہوئی تھی جواسکی دو چار باتوں سے ہی زیر ہو گئی تھی۔۔۔۔
باصفا کو زاویار بہت اچھا لگا تھا۔۔ جتنی تعریفیں حیا اسکی کرتی تھی وہ باسفا کو اس سے کئی گناہ زیادہ اچھا لگا۔اس کیلیے یہ سب بالکل نیا تھا۔۔ مما بابا کے بعد وہ ایک واحد شخص تھا جو باصفا کو اتنی توجہ دیتا تھا۔۔ وہ اگر روٹھتی تو اسکی جان پہ بن جاتی۔۔
وہ اس سے اپنی ہر بات شیئر کرنے لگی تھی۔۔۔ وہ بابا کی طرح اس پہ بھی بھروسہ کرنے لگی تھی۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ ہر کسی پہ بھروسہ نہیں کر لیتے ۔۔ ہر کوئی باپ کی طرح مخلص نہیں ہوتا۔۔۔
اور جب بھروسہ ٹوٹتا ہے تب اپکے پاس کچھ نہیں رہتا۔۔۔ نا پیروں تلے زمیں نہ چھت پہ آسماں۔۔۔ مگر اسے کون بتاتا ۔۔۔ اگر کوئی اسے سمجھانے والا ہوتا تو شائد وہ بھٹکتی ہی نہیں۔۔۔
مگر کہتے ہیں نہ وقت بہت بڑا استاد ہے وہ انسان کو سب کچھ سکھا دیتا ہے۔۔۔۔ اور اس معصوم سی لڑکی پہ بھی بہت جلد وہ وقت آنے والا تھا۔۔۔
زاویار کے سنگ دنیا کسی فیری ٹیل کی طرح لگ رہی تھی۔۔۔ایسے ہی وقت گزرتا گیا۔۔۔ اب وہ صرف بات ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ایک دو بار مل بھی چکے تھے۔۔۔
زاویار تو اکثر ہی باصفا سے ملنے کی ضد کرتا مگر وہ ہی ٹال جاتی اور پھر اسکے بے حد اصرار پہ اسے ملنا ہی پڑتا۔۔۔
وہ گھر سے کالج جاتی اور وہاں سے زاویار اسے پک کر لیتا۔۔۔ باصفا کو وقت وہ لمحے اس قدر حسیں لگتے کہ اسکا بس چلتا تو وہ وقت کو وہیں روک لیتی۔۔۔ زاویار کا آنچ دیتا لہجہ اسے لگتا وہ دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہے جسے زاویار جیسا ہینڈسم ایجوکیٹڈ لڑکا ملا۔۔۔۔
وقت بہت اچھا گزر رہا تھا اور پھر اسکی زندگی میں اک اور وجود کا اضافہ ہوا۔۔۔
وہ تھی اسکی بھابی ۔۔۔ حرم۔۔۔
بھائی نے اپنی سیکٹری سے شادی کر لی تھی۔۔۔
بھائی نے اس سے پوچھنا تو دور بتانا بھی پسند نہیں کیا تھا۔۔۔ اور حرم کو اسکے سامنے لا کھڑا کیا کہ یہ تمہاری بھابی ہے۔۔ خیر اسے کیا اعتراض ہونا تھا۔۔۔ وہ تو حرم کے آنے سے بہت خوش ہوئی تھی کہ چلو گھر کے خاموش ماحول میں اک خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ وہ اور بھابی بہنوں کی طرح رہیں گی۔۔۔مگر یہ سب اسکی خام خیالی ہی رہی۔۔۔حرم نے چند دنوں میں ہی اسے باور کروا دیا کہ وہ اس سے اور اسکے معاملات سے دور رہے۔۔۔
ظاہر ہے جب بھائی کا سلوک ہی ایسا تھا تو بھابی کا بھی تو ایسا ہی ہونا تھا نا۔۔۔
باصفا اکثر نوٹ کرتی حرم کو اس گھر میں اسکا وجود برداشت نہیں ہوتا وہ اُسے عجیب نظروں سے دیکھتی۔۔۔ حرم کے آنے سے وہ اور زیادہ خود میں محدود ہو گئی۔۔۔
اب وہ کالج سے آتے ساتھ ہی اپنے کمرے میں چلی جاتی۔۔۔ خیر اسکی روٹین میں زیادہ کوئی فرق نہیں آیا تھا پہلے وہ زیادہ تر لان مین ہی رہتی تھی کمرے میں اسکا دل گھبراتا تھا مگر اب وہ اپنے کمرے میں ہی رہتی۔۔۔
زاویار سے اب بھی اسکی بات ویسے ہی ہوتی تھی۔
اسکے روم میں کونسا کوئی آتا تھا جو کوئی مسئلہ ہوتا۔
مگر پھر آہستہ آہستہ بھائی کا رویہ بھی تبدیل ہونے لگا۔ پہلے تو انہیں کبھی کوئی پرواہ نہیں ہوئی کہ وہ کیا کرتی ہے کیا نہیں۔
مگر اب وہ بات بے بات ٹوکنے لگے تھے۔
"سارا دن اپنے کمرے کیوں رہتی ہو۔ حرم کو کمپنی دیا کرو۔ وہ سارا دن اکیلے کام کرتی ہے اسکا ہاتھ بٹایا کرو۔ہر وقت موبائل پہ مت لگی رہا کرو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔"
وہ انکی باتوں پہ بہت حیران ہوتی۔ لو بھلا کام تھا ہی کیا جو حرم بھابی کرتیں تھیں۔ ہر کام کیلیے تو ملازم تھے۔
اور اسنے کیا انکو کنمپنی دینی تھی جو اسکی طرف دیکھتی بھی نہیں تھیں۔ اور موبائل تو پہلے بھی یوز کرتی رہی تب تو انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ پھر اکثر ہی اسطرح ہونے لگا۔ اکثر تو اسے ان باتوں پہ ڈانٹ پڑھتی جو اس نے کیا ہی نہیں ہوتا تھا۔۔۔
تب اسے سمجھ آئی کہ یہ سب بھائی سے کون کہتا ہے۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر حرم بھابی کو اس سے مسئلہ کیا ہے۔ وہ جب انکی کسی بات میں نہیں بولتی تو پھر بھی اسکا وجود انھیں کیوں کھٹکٹا ہے۔
وہ شائد کسی بھی طرح اسے یہاں سے نکالنا چاہتی تھیں اوراسکا بیسٹ سولیوشن اسکی شادی تھی۔۔۔ وہ شائد اکیلے اس گھر پہ راج کرنا چاہتی تھیں اس لیے اسے جلد از جلد یہاں سے نکالنا چاہتی تھیں۔ حالانکہ بیٹیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں آج نہیں تو کل انھیں جانا ہی ہوتا ہے۔
بھابی نے اپنے رشتہ دار میں کوئی رشتہ بتایا تھا بھائی کو اور انہوں نے بھی بغیر کوئی چھان بین کیے ہاں کہ دی تھی۔ اسکے اگزیمز کے بعد شادی کی تاریخ بھی رکھ دی گئی۔ اور جسکی شادی تھی اس سے کسی نے پوچھنا بھی پسند نہیں کیا تھا۔۔۔
باصفا کو جب شادی کا پتہ چلا تو بہت پریشان ہو گئی۔۔ وہ زوئی کے علاوہ کسی اور سے شادی کیسے کرتی۔
اور زاویارسے بھی کیا کہتی اب کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی۔۔۔
آخر بات کیا ہے باصفا تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو۔۔ کیوں پریشان ہو۔۔۔ زاویار کئی بار باصفا سے پوچھ چکا تھا مگر وہ ہر بار ٹال دیتی۔۔
آخر اسکے بےحد اصرار پہ اسے بتانا ہی پڑا۔۔۔
زاویار بھائی اگزیمز کے بعد میری شادی کر رہے ہیں۔۔
What??????
کب ہوا یہ سب۔۔۔ اور تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟؟؟؟؟
باصفا نے ساری تفصیل زاویار کو بتا دی جسے سن کر وہ بھی پریشان ہو گیا۔۔۔پلیز زوئی کچھ کرو میں تمھارے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کروں گی۔
دیکھوں تم پریشان نہیں ہو میں ممی سے بات کرتا ہوں انھیں بھیجتا ہوں تمہارے گھر۔۔۔
زاوےار سچ میں پریشان ہو گےا تھا آکر کو اتنا وقت برباد کیا تھا اُس نے اس کڑکی پہ اور ابھی تک اپنا مقصد پورا نہ کر سکا تھا۔۔۔ وہ تو اپنے دوستوں کو بھی باصفا کا بتا چکا تھا۔۔۔
تم سمجھ نہیں رہے ہو زوئی وہ بھابی کے ریلیٹوز ہیں بھائی انہیں کبھی انکار نہیں کریں گے۔ ٹھیک ہے پھر اس سب کا ایک ہی حل ہے ہم کوٹ میرج کر لیتے ہیں۔۔۔زاویار کو اب اپنا مقصد پورا ہوتا نظر آ رہا تھا۔۔۔
یہ آپ کیا کہ رہے ہیں زاویار۔۔۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔
اچھا تو ٹھیک ہے پھر جس سے تمھارا بھائی کہ رہا ہے اسی سے چپ چاپ شادی کر لو۔۔
زاویار۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو اسکے علاوہ ہے کوئی اور آپشن تمہارے پاس۔۔۔۔
دیکھوں ہم بعد میں منا لیں گے نہ انہیں تم پریشان کیوں ہوتی ہو۔۔ بھائی ہے وہ تمہارا معاف کر دے گا تمہیں۔۔۔
لیکن زاویار۔۔۔
لیکن ویکن کو چھوڑو تم میری ہو اور میں تمہیں ہر گز کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا سمجھیں۔۔۔
چلو اب ٹینشن چھوڑو اور سمائل کر کے دکھاؤ۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔
وہ آپ کو کیسے نظر آئے گی؟؟؟؟
وہ میں کل جب تم سے ملوں گا تب دیکھوں گا۔۔۔
جی نہیں ہم کوئی نہیں مل رہے کل۔۔۔
باصفا یہ غلط بات ہے۔۔ میں جب بھی ملنے کا کہتا ہوں تم یوں ہی کرتی ہو۔۔ اب میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا ہم کل مل رہے ہیں اینڈ دیٹس فائینل۔
سنو تمہیں سلوہ(چھوٹی بہن) سے ملنے کا بہت شوق ہے نہ تو کل میں تمہیں اس سے ملواؤں گا۔۔۔
سچی؟؟؟؟
جی ہاں بالکل۔۔۔ تو ٹھیک ہے پھر کل میں تمہیں کالج سے پک کر لوں گا۔۔۔
ایکوئلی زوئی کل بہت امپورٹنٹ لیکچر ہے جو میں مس نہیں کر سکتی۔۔۔
باصفا میں کوئی بھی بہانہ نہیں سنوں گا۔۔۔
زاویار آپ جانتے تو شکریہ۔۔ اگزییمز ہونے والے ہیں۔۔۔
I said no excuse...
اچھا پھر ایسا کرتے ہیں میں 12-12:30 تک فارغ ہو کر وہیں آ جاؤں گی۔۔۔
میڈم ہم ہوٹل میں نہیں میرے فلیٹ میں مل رہے ہیں۔۔۔
فلیٹ میں کیوں۔۔
اووہ کم آن باصفا اب میں سلوہ کو کہاں ہوٹلوں میں لے کر آؤں گا۔۔۔
لیکن زاویار میں فلیٹ میں کیسے۔۔۔۔
باصفا سلوہ ہو گی نہ یار ہمارے ساتھ۔۔۔
زاویار کو اب غصہ آ رہا تھا باصفا پہ۔۔۔ کسی بات میں آ ہی نہیں رہی تھی وہ۔۔۔
ٹھیک ہے اگر تمہیں مجھ پہ یقین نہیں ہے تو مت آؤ۔۔۔ اوکے باۓ۔۔
ارے زاویار۔۔۔ سنیں تو۔۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔
بس تم رہنے دو۔۔۔ میں سمجھ گیا ہوں تمہارا جو بھی مطلب تھا۔۔۔
تم نے ایسا سوچ کر مجھے میری ہی نظروں سے گرا دیا ہے۔۔۔
زاویار پلیز ناراض تو مت ہوں ۔۔۔۔ میں آ جاؤں گی نہ آپ مجھے ایڈریس بتا دیں۔۔۔
نہیں رہنے دو اب تم۔۔
زوئی آئم سوری پلیز معاف کر دیں نہ۔۔۔
تم جانتی ہو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں اسی لی آزماتی ہو تم مجھے۔۔۔
جی بالکل۔۔۔۔۔ اور مجھے آپ پہ اور اپکی محبت پہ پورا بروسہ ہے۔۔۔
چلو اب میں رکھتا ہوں اپنا خیال رکھنا۔۔ اللہ حافظ۔۔
اللہ حافظ۔۔
زاویار اپنی کامیابی پہ سرشار سا مسکرا دیا۔۔۔آخر اتنی محنت کے بعد وہ آج ہاتھ آ ہی گئی تھی۔۔۔
آج وہ بہت ایکسائیٹڈ بھی تھی اور نروس بھی۔زاویار کے حوالے سے آج وہ پہلی دفعہ کسی سے ملنے والی تھی۔ جانے وہ سلوہ کو پسند آتی بھی ہے کہ نہیں۔ انہیں سوچوں میں وہ کالج پہنچی۔۔
چند ضروری لیکچرز اٹینڈ کرکے وہ لا؛ج سے نکل آئی۔ پہلے اس نے سوچا زاویار کو میسج کر کے بتا دے کہ وہ آ رہی ہے مگر پھر سوچا ایسے ہی جا کر اسے سرپرائیز کرتی ہے۔۔۔ اتنے میں زاویار کی کال آنے لگی۔ باصفا نے مسکراتے ہوئے فون سائیلنٹ پہ کیا اور بیگ میں رکھ دیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ مقررہ جگہ پہ پہنچ گئی۔۔۔
یہاں آ کر اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔ کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ دل چاہ رہا تھا واپس چلی جائے۔۔ مگر پھر خود کو تسلی دی۔۔ زاویار کی بہن بھی تو گی نہ اور میں کونسا اس سے پہلی دفعہ مل رہی ہوں۔۔۔
خود کو تسلی دیتی اس نے اندر کی جانب قدم بڑھائے۔ مگر دل تھا کہ بے قابو ہو رہا تھا۔ اک عجیب سا احساس تھا جسے وہ اس وقت سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔
کوئی اندر بہت اندر آگے جانے سے روک رہا تھا مگر وہ دل کی سب آوازیں دباتی آگے بڑھتی گئی۔
اپارٹمنت کے سامنے جا کر اس نے بیل کیلیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ کھلا ملا۔ وہ ابھی آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ اسے اندر سے کسی کی آواز آئی۔۔۔
یار زوئی کب آئے گی وہ تتلی اب مزید انتظار نہیں ہو رہا۔۔۔ آ جائے گی یار ابھی تو 12 نہیں بجے، جہاں اتنا انتظار کیا ہے وہاں کچھ اور سہی۔۔۔
ہاں بھئی پہلی باری تیری جو ہے اسی لیے ایسا کہ رہا ہے ہمیں تو ابھی بہت انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔ ارسل ٹھنڈی آہ بھرتے بولا۔۔۔ اؤے ڈرامے باز بس کر روز تو تُو رنگ بھرنگی تتلیوں کے ساتھ ہوتا ہے ندیدے تیرا دل نہیں بھرنا کبھی۔۔۔
ارے یار ہم بہت کھلے دل کے بندے ہیں ہمارا دل نہیں بھرنا کبھی۔۔
ارسل کی بات پہ ایک جاندار قہقہ گونجہ۔۔۔
کیا ہوا فون نہیں اُٹھا رہی کیا؟؟؟؟ آئے گی بھی یا ہم بس اسکی راہ ہی تکتے رہیں گے۔۔۔
آ جائے گی یار کلاس میں ہو گی اس لئے فون نہیں اٹینڈ کر رہی۔۔۔
پریشان تو زاویار بھی ہو رہا تھا اگر باصفا نہ آئی تو اسکی کیا عزت رہ جائے گی سب میں۔۔مگر بظاہر وہ ریلیکس رہا۔۔۔
باصفا کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے اسے جیسے سب آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں۔۔۔
کچھ ٹوٹا تھا بہت زوردار آواز تھی جو صرف باصفا کو ہی سنائی دے رہی تھی۔۔۔
بھلا دل ٹوٹنے کی،مان ٹوٹنے کی آواز کسی دوسرے کو کبھی سنائی دی ہے۔۔۔
یہ تو جس تن پہ بیتتی ہے ویہ جانتا ہے۔۔۔
وہاں اندر وہ نفس کے پجاری کسی کی عزت کا جنازہ نکالنے کو تیار بیھٹے تھے۔۔۔ اور باہر کھڑی اپنی عزت بچنے پہ اس رب کی شکر گزار تھی۔۔۔
اندر بے صبری تھی تو باہر شکر ہی شکر تھا۔ اس پاک ذات کا جس نے اُسے ان درندوں کی حوس کا نشانہ بننے سے بچا لیا تھا۔۔۔ آج اگر وہ اُنکے ہاتھ لگ جاتی تو۔۔۔۔۔یہ سوچ کر اسکی روح تک کانپ گئی تھی۔۔۔۔
اج اسکی محبت کا تاج محل ٹوٹ کر چکنا چرر ہو گیا تھا۔۔۔
اک اور حوا کی محبت کا انجام حوس پہ ہی ختم ہوا تھا۔۔۔۔
"تیرے اردگرد تھے گھومتے میری زندگی کے معاملے۔۔۔
تجھے ڈھونڈ لینے کے شوق میں ،میں نے اپنا آپ گنوا دیا۔۔۔"
باصفا سے اب مزید وہاں رکنا دو بھر ہو گےا۔ وہ گھر کیسے پہنچی یہ بس وہ ہی جانتی تھی۔ اتنا بڑا دھوکا۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ زاویار ایسا ہو سکتا ہے۔
پانی سر سے گزرنے کے بعد اسے احساس ہوا تھا کہ وہ کیا کر بیٹھی ہے۔
وہ تو اس عمر میں تھی جہاں ماں باپ خاص کر ماں کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کے سر پر تو کسی کا بھی
ہاتھ نہ تھا۔ جس سے وہ بہک گئی۔ اسکا قدم بہت بری طرح پھسل گیا۔۔۔
اور وہ بڑی زور سے منہ کے بل گری تھی۔۔۔۔
نیوز میں آئے دن ایسی خبریں شائع ہوتی ہیں جن پہ اب تو ہم غور بھی نہیں کرتے۔۔۔ مگر جب خود پہ بیتتی ہے تب پتا چلتا
تھا۔۔۔ باصفا نے بھی ایسے بہت سی خبریں اگنور کیں تھیں مگر آج اسے ان کے درد کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔
یہ شاید اسکی ماں کی دعاؤں کا ہی اثر تھا جو آج وہ دنرندوں سے بچ گئی تھی۔۔۔
مگر غلطی تو اس سے ہوئی تھی۔ اپنا دامن تو وہ اپنے ہاتھوں ہی داغدار کر چکی تھی۔
گھر آ کر سب سے پہلا کام جو اس نے کیا وہ تھا شکرانے کے نوافل۔۔۔ گھر اتے ساتھ ہی اس نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔۔۔
اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی تھی۔۔۔ اور ایک نا محرم شخص سے رابطہ میں رہی تھی۔۔۔ اگر وہ اپنے رب کی نافرمانی نہ کرتی تو آج اسکے ساتھ یہ سب نہ ہوتا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
12 سے اب تو 4 بج گئے تھے باصفا نہ تو آئی تھی اور نہ ہی فون اُٹھا رہی تھی۔۔زاویار کے تو وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ وہ سب سن چکی ہے۔۔۔
غصہ سے اسکا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ اب جبکہ اسکو اسکی محنت کا پھل ملنے والا تھا تو وہ غائب تھی۔
سب کے سامنے جو سبکی ہوئی وہ الگ۔۔۔
مجھے لگتا ہے اب ہمیں چلنا چاہیے وہ نہیں آنے والی۔۔۔۔ کیا یار زاویار اتنا انتظار بھی کروایا اور کچھ حاصل بھی نہ ہوا۔۔۔
وہ سب وہاں سے چلے گئے۔۔۔
وہ زاویار مصطفی جس کے سامنے لڑکیاں بچھ بچھ جایا کرتی تھیں آج ایک دوکوڑی کی کڑکی نے اسکی بےعزتی کروا دی تھی۔ جن دوستوں کے سامنے اسکی گردن تنی رہتی تھی آج باصفا کی وجہ سے جھک گئی تھی۔ وہ غصہ سے پیچ و تاب کھاتا مسلسل باصفا کا نمبر ملا رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
باصفا اپنے آنسو صاف کرتی جائے نماز سے اٹھی اور بیگ سے اپنا موبائل فون نکالا۔۔۔۔
زاویار کی ڈھیروں مسڈ کالز تھیں۔۔۔ فون ایک دفعی پھر آنے لگا۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔
کہاں ہو تم میں کب سے انتظار کر رہا ہوں۔ اور فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہو میرا۔۔۔۔ زاویار غصے کو قابو میں کرتا بظاہر نارمل لہجے میں بولا۔۔۔
میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی زاویار آپ انتے گرے ہوئے انسان ہیں۔۔ بلکہ آپ تو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔۔۔ اتنا بڑا دھوکا دیا آپ نے مجھے۔۔۔ آپ نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ۔۔ بولیں ۔۔۔
یہ۔۔۔۔ یہ تم کیا کہ رہی ہو باصفا۔۔ میں نے کونسا دھوکا دیا ہے تمہیں۔۔۔
بس کریں زاویار مصطفیٰ اب یہ شرافت کا چولہ اتار پھینکیں۔۔۔ میں آپکی اور آپکے ان گھٹیا دوستوں کی ساری باتیں سن چکی ہوں۔۔۔
تم، ۔۔۔۔ تم آئی تھی یہاں؟؟؟؟
ہاں آئی تھی مگر شکر ہے اس پاک پروردگار کا جس نے مجھے آپ جیسے شیطانوں کے شر سے محفوظ رکھا۔۔۔
کسی کے گھر کی عزت سے کھیلنے سے پہلے کبھی اپنی عزت کے بارے میں سوچا۔۔۔ تمہاری بھی بہن ہے زاویار مصطفیٰ کل کوئی اسکے ساتھ۔۔۔۔۔
شت اپ جسٹ شٹ اپ۔۔۔ خبر دار جو میری بہن کا نام بھی لیا تو۔۔۔
کیوں اب کیا ہوا زاویار مصطفیٰ اپنی بہن پہ بات آئی تو کیسے تڑپے ہو۔۔ میں بھی کسی بہن ہوں زاویار مصطفیٰ۔۔۔۔ کسی کی عزت ہوں۔۔۔
ہونہہ بڑی دیکھی ہیں تم جیسی عزت و غیرت کا ڈنڈورا پیٹنے والی۔۔۔ اچھے جانتا ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کو۔۔۔ لڑکون سے باتیں کرتے۔۔۔ ان کے ساتھ ہوٹلنگ کرتے کہاں جاتی ہے یہ تمہاری نا نہاد غیرت؟؟؟؟اب بڑی غیرت جاگ رہی ہے۔۔۔۔
ہونہہ عزت مائی فوٹ۔۔۔
مت بھولو زاویار مصطفیٰ ہمیں ورغلانے والے بھی تم شیطان ہی ہوتے ہو۔۔۔
او بی بی اپنے جذبات تو تم سے سنبھالے جا نہیں رہے ہوتے بعد میں بلیم دوسروں کو کرتی ہو۔۔۔
خیر اب اگر تم میری اصلیت جان ہی گئی ہو تو کل شرافت سے آ جانا۔۔۔ورنہ دیکھنا یہ شیطان تمہارے سر سے آسمان کیسے چھینتا ہے ۔۔۔
میں ہر گز نہیں آؤں گی۔۔۔ تمہیں جو کرنا ہے کرو۔۔۔
باصفا مجھے انڈر ایسٹیمیٹ مت کرو تمہاری وجہ سے آج میری جو انسلٹ ہوئی ہے اسکا خمیازہ تو تمہیں بھگتنا ہی پڑے گا۔۔۔
تم کمینے گھٹیا انسان۔۔۔ مہ ۔۔۔ میں ہر گز نہیں آؤں گی ۔۔۔۔اب باصفا کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔۔۔ وہ بہت بری طرح پھنسی تھی۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔ زاویار کا مقروہ قہقہ گونجا۔۔۔
باصفا جسے زاویار کی ہنسی بہت اچھی لگتی تھی اس وقت زہر لگی۔۔۔
تو سویٹ ہارٹ میں تمہارا انتظار کروں گا۔۔۔ بائے
لباس تن سے اُتار دینا،
کسی کو بانہوں کے ہار دینا،
پِھر اس کے جذبوں کو مار دینا،
اگر یہی محبت ہے جانا ؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . . .
گناہ کرنے کا سوچ لینا،
حَسِین پریاں دبوچ لینا،
پِھر اسکی آنکھیں ہی نوچ لینا،
اگر یہی محبت ہے جانا؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . . .
کسی کو لفظوں کے جال دینا،
کسی کو جذبوں کی ڈھال دینا،
پِھر اسکی عزت اُچھل دینا،
اگر یہی محبت ہے جانا ؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . . .
نگری میں چلتے جانا ،
حَسِین کلیاں مَسلتے جانا ،
اور اپنی فطرت پہ مسکرانا ،
اگر یہی محبت ہے جانا ؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . . .
سجا رہا ہے ہر اک دیوانہ ،
خیال حسن جمال جانا ،
خیال کیا ہیں ہوس کا تنا ،
اگر یہی محبت ہے جانا ؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . .
باصفا کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اسے اب اندازہ ہو رہا تھا وہ بہت غلط کر بیٹھی ہے۔ مگر اب وہ اس سے مل کر غلطی پہ غلطی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ مگر اس کے نہ جانے سے بھی معاملہ اب ٹلنے والا نہیں تھا۔۔۔ وہ جانتی تھی زاویار چپ کر کے بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ اسکے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اب اسکی عزت کسی حال میں محفوظ نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔ اور وہ کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔
اب واحد سہارا خدا کی ذات ہی تھی۔۔۔
"یا اللہ مری خطا معاف کر دے مولا مجھے اس شیطان سے بچا لے میرے مالک۔۔۔"
زاویار پھر تو نے کیا سوچا اس لڑکی کو ایسے ہی چھوڑ دو گے کیا؟؟؟؟
ارسل جو باصفا کے لیے بے قرار ہو رہا تھا زاویار سے پوچھ رہا تھا۔۔
اس دن کے بعد آج سب لنچ کرنے اکھٹے ہوئے تھے۔۔۔
ارے کیا کہ رہے ہو ارسل بھلا شیر نے بھی کبھی شکار کو چھوڑا ہے۔۔۔۔ عاصم بولا۔۔ وہ سب زاویار کو اکسا رہے تھے ۔۔ تاکہ انکا کام بھی بن جائے۔۔
پھر کب اٹھا رہے ہو اسکو۔۔ دیکھو ہمیں بھولنا مت۔۔۔عمر ایک دبا کر بولا۔۔ فکر مت کرو جلد ہی گرینڈ پارٹی کریں گے۔۔۔ زاویار بولا۔۔
زاویار کا باصفا کو کالج سے اٹھوانے کا ارادہ تھا۔۔۔۔ اور یہ اسکے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔۔
وہ اب باصفا کو ایسے ہی جانے نہیں دے سکتا تھا۔۔ اسکا ارادہ پرسوں ہی اسے اٹھوانے کا تھا۔۔۔ اوراس کام کیلیے اس کے دوست ہی کافی تھے۔
باصفا کا اب گھر سے نکلنے کو بالکل بھی دل نہیں چاہتا تھا مگر جانا اسکی مجبوری تھی۔۔۔ وہ اپنے نہ جانے کا بھائی کو کیا جواز دیتی۔ اس کے اگزیمز ہونے والے تھے ان دنوں اسکا جانا بھی ضروری تھا۔۔۔ اب تو ہر ہر آہت پہ اسکا دل پتے کی مانند کانپ جاتا تھا کچھ بہت غلط ہونے کا احساس کنڈلی مارے دل میں بیٹھا تھا
زاویار کو اپنے پلین پہ عمل کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔۔ اس نے ہائر اسٹڈیز کیلیے امیریکہ کی یونیورسٹی میں اپلائے کیا ہوا تھا۔۔ جہاں سے اسکو میل آ گئی تھی اور اسے جلد ہی ڈاکومنٹس سبمٹ کروا کر وہاں جانا تھا۔۔۔ مگر جانے سے پہلے وہ باصفا کے سر سے واقعی آسمان چھین لے گیا تھا۔۔۔ اس نے اپنا کہا پورا کر کے دکھایا تھا۔
آج زاویار کی فلائٹٹ تھی اور وہ جانے سے پہلے اپنا بدلہ چکا کر ہی گیا تھا۔۔۔ مرد کی انا پہ جب چوٹ لگتی ہے تو وہ بلبلا اٹھتا ہے اور پھر کس کا کتنا نقصان ہوتا ہے اس سے اُسے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ اپنے آفس میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ انہیں ایک انویلپ ملا۔۔۔ انویلپ پہ بیجھنے والے کا کوئی اتا پتہ نہ تھا۔۔۔
انہوں انویلپ کھولا تو اندر سے تصویریں نکلیں۔۔۔ جیسے جیسے وہ تصویریں دیکھتے جا رہے تھے۔ انکا چہرا غصے سے لال ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ وہ آندھی طوفان کی طرح گھر پہنچے۔۔
آج پھر اتوار کا دن تھا۔۔۔
اس اتوار کے دن نے ناجانے باصفا کو اور کیا کیا کچھ دکھانا تھا۔۔۔
باصفا۔۔۔۔ باصفا۔۔۔۔
حمزہ گھر آتے ہی غصے سے چیخے نہیں بلکہ دھاڈے تھے۔۔۔باصفا کا دل اتنی زور سے دھڑکا مانو ابھی پسلیاں توڑ کے باہر آ جائے گا۔۔۔ یقیناً بہت کچھ غلط ہو گیا تھا۔۔۔ وہ مرے قدموں سے نیچے آئی۔۔۔۔
جہ۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ بھائی ۔۔۔آپ نے۔۔۔۔ بلایا۔۔۔۔
خشک ہونٹوں کو تر کرتی بمشکل بولی۔۔۔
حمزہ بھوکے شیر کی طرح آگے بڑھے اور اس کے منہ پہ تھپڑوں کی برسات کر دی۔۔ بے غیرت، بے حیا تجھے ذرا شرم نہ آئی یہ سب کرتے ہوئے۔۔۔
ارے تجھ جیسی بے غیرتوں کو پیدا ہوتے ہی مار دینا چاہیے۔۔۔ مما، بابا یہ دن دیکھانے کیلیے تجھے میرے پاس چھوڑ کر گئے تھے۔۔ ارے اچھا ہوتا اس دن ان کے ساتھ تو بھی مر جاتی۔۔۔۔
تو نے تو کہیں ہمیں منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔۔۔ اتنے سالوں کی عزت خاق میں ملا دی۔۔۔
ارے حمزہ ہوا کیا ہے۔۔۔ آخر کچھ مجھے بھی تو بتائیں۔۔ حرم بولی۔۔۔
کیا بتاؤں یہ دیکھو۔۔۔ حمزہ نے وہ تصویریں حرم کو دکھائیں۔۔۔
وہ باصفا اور زاویار کی سیلفیز تھیں۔۔۔ جو انہوں نے مختلف جگہوں پہ لیں تھیں۔۔۔ سیلفی ہونے وجہ سے وہ بے حد قریب تھے۔۔۔ اس وقت تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا یہ تصوریں جو وہ اتنے شوق سے بنوا رہی ہے وہ ہی تصویریں اسکی زندگی برباد کر دیں گی۔۔۔
ہائے اللہ۔۔۔ توبہ توبہ ۔۔۔۔اتنی بے غیرتی۔۔۔۔ دیکھا حمزہ اسی لیے میں کہتی تھی جلد از جلد جان چھڑواؤ اس سے۔۔۔ ارے مجھے تو پہلے ہی شک تھا یہ لڑکی کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلائے گی۔۔۔ہائے۔۔۔حمزہ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں رہے۔۔۔ حرم بھی سینہ کوہی کرتی حمزہ کے غصے کو مزید بڑھا رہی تھی۔۔۔۔
اور وہ روتی بلکتی اپنی عزت کا جنازہ اٹھتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
نہ کر سکے ھم سوداگروں سے دل کا سودا۔۔۔۔
لوگ ہمیں لوٹ گئے وفا کا دلاسہ دے کر۔۔۔
حرم اس سے کہو نکل جائے یہاں سے میں اب اسکی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔۔۔
اس نے ہمارے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچائی ہے اس کے بعد یہ یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔
یہ یہاں رہی تو جانے اسکی وجہ سے اور کیا کیا کچھ دیکھنا پڑے گا۔۔۔
وہ جو تب سے خاموش بیٹھی تھی جیسے ہوش میں آئی۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ بھائی آپ کیا کہ رہے ہیں۔۔۔ بھائی مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔۔۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔ پلیز بھائی۔۔۔
اے لڑکی ڈرامے بازی بند کر اور چل سامان اٹھا اپنا اور نکل یہاں سے۔۔۔ حرم اس موقع کو کیسے ہاتھ سے جانے دیتی۔۔۔۔
بھابی میں کہاں جاؤں گی۔۔۔ بھابی معاف کر دیں مجھے پلیز بھابی۔۔۔ آپ۔۔ آپ جو کہیں گی میں کروں گی۔۔۔۔ بھائی مجھے یہاں سے مت نکالیں۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑے دونوں سے التجا کر رہی تھی۔۔۔
یہ سب تو ہماری عزت مٹی میں ملانے سے پہلے سوچنا تھا نہ۔۔۔ تب تو تجھے بھائی کی عزت کا خیال نہ آیا۔ اب یہ ٹسوے بہا کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔۔۔ جا اسی کے پاس ہی جس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے۔
اور پھر اسکی لاکھ منتوں پر بھی بھابی نے اسکا سامان اسکے منہ پہ مار کے اسے نکال باہر کیا۔۔۔
سر سے چھت کے چھین جانے سے کیسا لگتا ہے یہ کوئی اس وقت تپتی دھوپ میں کھڑی باصفا رحمان سے پوچھے۔۔۔۔
مگر آخر وہ گلا کرتی بھی تو کس سے کہ سب اسکے اپنے کا نتیجہ تھا جو اسے اکیلی کو بھگتنا تھا۔۔۔۔
کیونکہ ہر گناہ کی سزا تو حوا کو ہی اکیلے ہی بھگتی پڑتی ہے۔۔۔
دامن تو عورت کا داغدار ہوتا ہے۔۔ اور مرد برابر کا قصور وار ہونے کے باوجود پاک صاف ہی رہتا ہے۔۔۔
"گھنے پیڑوں میں بھی سایہ ہمیں نصیب نہیں۔۔۔
میرے سورج کی بھی سبھی سمتیں تمہاری ہیں۔۔۔"
وہ انسانوں سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ بھلا انسان کبھی رحم کرتا ہے۔ وہ واحد خدا کی ذات ہے جو ہماری اتنی غلطیوں اور کوتاہیوں پہ بھی ہمیں معاف کر دیتا ہے۔۔۔مگر بےحس انسان کو رحم نہیں آتا۔۔۔اور اسکی بھابی اور بھائی کو بھی اس پہ رحم نہیں آیا۔۔۔
چلچلاتی دھوپ میں گھر کے باہر کھڑی سوچ رہی تھی کہ کہاں جائے۔۔۔
اس گھر کے علاوہ کوئی اور سائیباں بھی تو نہیں تھا۔۔۔
حیا۔۔۔!!
ایسے میں بس حیا ہی تھی جس کے پاس وہ جا سکتی تھی۔۔۔
وہ وہاں سے سیدھا حیا کے گھر آئی۔۔۔
حیا کے ممی ڈیڈی اس وقت گھر پہ نہیں تھے۔۔۔ وہ اکیلی ہی تھی۔۔۔
"باصفا تم اس وقت یہاں۔۔ اور یہ بیگ۔۔۔ از ایوری تھینگ اوکے؟؟؟؟
حیا اسے ایسی حالت مین دیکھ کر بہت پریشان ہو گئی۔۔۔
باصفا اسکے گلے لگ کر سسکنے لگی۔۔۔
OHHH MY GOD...
اچھا تم آؤ اندر۔۔۔ وہ اسے لیے ڈرائینگ روم میں آئی اور ملازمہ کو پانی لانے کا بولا۔۔۔۔
لو پانی پیو۔۔ اس نے باصفا کو پانی پلایا۔۔۔ پھر تھوڑی دیر خاموشی رہی جسے باصفا کی آواز نے توڑا۔۔۔
باصفا نےٍاسے ساری بات بتا دی۔۔
اللہ باصفا یہ تم۔۔۔ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ زاویار ایسا نہیں ہے میں اسے بچپن سے جانتی ہوں۔۔۔
اور وہ تو کل صبح ہی امریکہ کیلیے روانہ ہو گیا ہے۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے حیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔۔۔۔میں خود اپنے کانوں سے انکی باتیں سنی تھیں۔۔۔ اس نے کہا تھا مجھے ۔۔۔ وہ بدلہ ضرور لے گا۔۔۔
اففف میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی زاویار تمہارے ساتھ ایسا کرے گا۔۔۔میں تو سمجھی وہ تمہارے ساتھ فئر ہے۔۔۔
لگتا تو مجھے بھی ایساہی تھا مگر۔۔۔
ائم سو سوری باصفا یہ سب میری وجہ سے ہی ہوا ہے۔۔ نہ میں تمہیں زاویار سے ملواتی نہ یہ سب ہوتا تمہارے ساتھ۔۔۔
نہیں حیا اس میں تمہارا کیا قصور۔۔۔ غلطی تو میری ہی ہے۔۔۔
حیا کیا تم مجھے ایک فیور کر دو گی۔۔۔۔ کافی دیر بعد وہ بولی۔۔۔
ہاں ہاں بولو۔۔۔
حیا کیا میں اگزیمز تک یہاں رک سکتی ہوں۔۔ آئی پرومس اگزیمز ہوتے ہی میں چلی جاؤں گی۔۔۔ میں بھائی سے بات کروں گی۔۔ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو گا تو وہ میری بات ضرور سنیں گے۔۔۔ ابھی انہوں نے مجھے غصہ میں نکالا ہے۔۔۔ وہ بھلا کیسے مجھے یوں چھوڑ سکتے ہیں۔۔۔ میں ان سے معافی مانگوں گی تو وہ ضرور مجھے معاف کر دیں گے۔۔۔ وہ جیسے ابھی تک شارکڈ تھی۔۔ جیسے اسے حمزہ سے اس حد تک کی امید نہیں تھی۔۔
حیا جانتی تھی حمزہ اسکی بات نہیں سنے گا۔۔ مگر وہ یہ کہ کر باصفا کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
کیسی غیروں جیسی باتیں کر رہی ہو باصفا۔۔۔ تم جب تک چاہو رہ سکتی ہو۔۔۔
حیا آنٹی کو میرے یہاں رکنے سے کوئی پروبلم تو نہیں ہو گی۔۔۔
تم ان کی فکر نہ کرو۔۔۔ میں خود ہی سب مینیج کر لوں گی۔۔۔
تم بے فکر ہو کر رہو۔۔۔
"OHHH THANK YOU HAYA.... THANK YOU SOO MUCH..."
میں تمھارا یہ احسان کبھی نہیں بھولو گی۔۔۔ پھر وہی بات۔۔۔ اب اگر تم نے ایسا کچھ کہا نہ تو پھر دیکھنا۔۔۔
اتنے میں آنٹی بھی آ گئیں۔۔۔
حیا یہ کون ہے؟؟؟
ممی یہ باصفا ہے ۔۔۔ اووہ تو یہ ہے باصفا۔۔۔ تم سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔۔ حیا تمھارا ذکر بہت کرتی ہے مجھ سے۔۔۔
حیا یہ بیگ کسکا ہے؟؟؟؟ انہوں نے باصفا کے پاس پڑے بیگ کو دیکھ استفسار کیا۔۔۔
ممی وہ ایکوئیلی باصفا لوگوں کا کافی عرصے سے عمرہ پہ جانے کا پلین بن رہا تھا۔۔۔ مگر وہ کچھ پروبلمز کی وجہ سے پہلے جا نہیں سکے۔۔۔ اب جانا ہوا تو باصفا کو اگزیمز کی وجہ سے رکنا پڑا۔۔۔ اسکا یہاں کوئی ریلیٹو نہیں ہے تو میں نے اسے یہیں بلوا لیا۔۔۔ اور پھر مل کراگزیمز کی تیاری بھی ٹھیک سے ہو جائے گی۔۔۔
اوووہ ٹھیک ہے بیٹا تم اسے اپنے روم میں لے جاؤ۔۔ باصفا بیٹے اسے اپنا ہی گھر سمجھنا۔۔۔
جی شکریہ آنٹی۔۔۔چلو تم لوگ باتیں کرو میں تھک گئی ہوں تھوڑا ریسٹ کر لوں۔۔۔
حیا تم نے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا۔۔۔۔ تو باصفا میں انھیں تمہارے یہاں آنے کی وجہ کیا بتاتی۔۔۔ ایک بار اگزیمز ہو جائیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔۔۔
تم آؤ تھوڑا ریسٹ کر لو۔۔۔
15 دن بعد انکے انٹر کے فائینل اگزیمز تھے۔۔۔ اگزیمز سے پہلے وہ دو بار اپنے گھر گئی مگر دونوں بار ہی بھائی سے اسکے ملاقات نہ ہوئی۔۔۔
حیا بھی اسکے ساتھ گئی اور بھابی کو ساری بات بتائی۔۔۔
پلیز بھابی بھائی کو سمجھائیں نہ ان سے کہیں کہ وہ مجھے بس ایک دفعہ معاف کر دیں۔۔۔
ٹھیک ہے باصفا میں بات کروں گی۔۔ تم پریشان نہ ہو۔۔۔
دونوں بار ہی بھابی نے کافی امید دلائی جس سے وہ کچھ مطمئن ہو گئی۔۔۔اُسے امید تھی کہ بھائی بھابی کے کہنے پہ اسے معاف کر دیں گے۔۔
مگر حرم بیوقوف تھوڑی نہ تھی جو مصیبت سے جان چھوٹنے پہ پھر سے اپنے سر پہ مصلت لر لیتی۔۔۔اس نے تو اس موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہ اگزیمز میں ایسا مصروف ہوئی کہ گھر جانا نہ ہوا۔۔ اگزیمز سے فارغ ہوتے ہی وہ گھر گئی۔۔ مگر گھر پہ لگے تالے کو دیکھ کر وہ نامراد واپس لوٹ گئی۔۔۔
اس نے سوچا شاید بھابی اپنے میکے گئی ہوئی ہے اس لیے تالا لگا ہے۔۔ کل پھر آنے کا سوچ کر وہ واپس چلی گئی۔۔
مگر اگلے دن کیا مسلسل ایک ہفتے دروازے پہ لگا تالا اس کا منہ چڑاتا رہا۔۔ اب اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔۔۔ آخر اس نے ساتھ والے گھر سے معلوم کیا۔۔
"سعدیہ باجی بھابی کی دوست ہیں یقیناً انہیں پتہ ہو گا۔"
۔ یہی سوچ کر وہ انکے گھر گئی۔۔۔ تو اسے معلوم ہوا کہ حمزہ کو یو-کے سے ایک بہت اچھی جاب آفر ہوئی ہے اور وہ سب لوگ ایک ہفتہ ہوا یہاں سے جا چکے ہیں۔۔۔ اب باصفا کا سر صحیح معنوں میں چکرایا تھا۔۔۔ اس نے تو سوچا تھا اب تک بھابی نے بھائی کو منا لیا ہو گا۔۔ مگر وہ کیا جانتی تھی تقدیر اس کے ساتھ مزید کیا کھیل کھیلنے والی ہے۔۔۔
وہ تو کافی حد تک مطمئین تھی۔۔۔ مگر اب کیا ہو وہ کہاں جائے گی۔۔۔بھائی اسکے ساتھ ایسا بھی کر سکتے ہیں اسنے سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔۔
اب باصفا کہاں جائے گی۔۔۔ اسکی زندگی میں مزید کتنی آزمائیشیں ہیں۔۔ ایک خطا کی اسے کتنی سزا ملے گی ۔
وہ تو شکر تھا کہ وہ نقاب میں تھی۔اس لیے سعدیہ باجی اسے پہچان نہ سکیں۔۔ ورنہ وہ انکے سوالوں کے کیا جواب دیتی۔۔۔
وہ مرے قدموں سے وہاں سے واپس لوٹ آئی۔۔۔
زاویار یہ کیا کِیا تم نے۔۔ مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔۔ میری زمین میرا آسمان سب چھین لے گئے۔۔۔ میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔ اللہ کرے تمہیں کسی پل سکون نصیب نہ ہو۔۔۔ سارے راستے وہ زاویار کو کوستی رہی۔۔۔ مگر اس سب سے جو مصیبت اس کے سر تھی وہ تو نہیں ٹل سکتی تھی نہ۔۔۔
اب سب سے بڑا مسئلہ اس کے رہنے کا تھا۔۔۔ اب تو اگزیمز ختم ہوئے بھی ہفتہ گزر گیا تھا۔۔ وہ اب مزید یہاں کیسے رہ سکتی تھی۔۔۔
آخر اس نے حیا کی مدد سے ایک ہوسٹل میں کمرہ لیا۔۔۔ جس میں وہ چار لڑکیاں روم شئر کر رہی تھیں۔۔۔ساتھ میں اس نے حیا کے ہی کسی جاننے والوں کے اسکول میں جاب اسٹارٹ کر دی۔۔۔چونکہ اس کی ایجوکیشن کم تھی مگر پرنسپل چونکہ حیا کی جاننے والی تھیں تو اسے جاب پہ رکھ ہی لیا گیا۔۔۔
اس مشکل گھڑی میں جب اس کا اپنا بھائی اسے تن تنہا چھڑ گیا تھا۔۔ ایسے میں حیا نے اسکا بہت ساتھ دیا تھا۔۔ وہ اس کی بہت مشکور تھی۔۔۔
انٹر کا رزلٹ آنے کے بعد حیا ہائیر اسٹدیز کیلیے ابروڈ چلی گئی۔۔۔ اور باصفا پھر ایک دفعہ تنہا رہ گئی۔۔ مگر اب تو شائد تنہائی ہی اسکے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔۔۔ خیر زندگی پھر رواں دواں ہو گئی۔۔ کسی کے چھوڑ جانے سے زندگی رک تھوڑی نہ جاتی ہے۔۔ وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ جیسے کیسے گزر ہی جاتا ہے۔۔۔
اس نے بھی خود کو جاب اور اسٹدی میں بے حد مصروف کر لیا۔۔۔
اب اس نے انٹر کے بعد پرائیویٹ بی،بی،اے بھی کر لیا تھا۔۔
ان اڑھائی سالوں میں باصفا نے وقت سے بہت کچھ سیکھا تھا۔۔۔ ابھی تو صرف اس واقعے کو اڑھائی سال ہی گزرے تھے۔۔۔ مگر یوں لگ رہا تھا جانے کتنی صدیاں بیت گئی ہوں۔۔۔ اعتبار سے بے اعتباری کا یہ سفر بہت لمبا تھا۔۔ جس میں اس نے اپنا سب کچھ ہی کھو دیا تھا۔۔۔
کچھ بھی تو نہیں تھا اب اس کے پاس۔۔ وہ خالی ہاتھ رہ گئی تھی۔۔۔ تنہا اس فریبی دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے۔۔۔
وقت نے جہاں اس سے سب کچھ چینا تھا وہیں اسکی شخصیت بھی بدل کر رکھ دی تھی۔۔۔
کبھی دامن، کبھی پلکیں بھگونہ کس کو کہتے ہیں۔۔۔
کسی مظلوم سے پوچھو کہ رونا ،کس کو کہتے ہیں۔۔۔
کبھی میری جگہ خود کو رکھو، تو جان جاؤ گے۔۔۔
کہ دنیا بھر کے دُکھ دل میں سمونہ، کس کو کہتے ہیں۔۔۔
میری آنکھیں، میرے چہرے کو، اک دن غور سے دیکھو۔۔۔
مگر مت پوچھنا، ویران ہونا کس کو کہتے ہیں۔۔۔
تمہارا دل کبھی پگھلے اگر غم کی حرارت سے۔۔۔
تمہیں معلوم ہو جائے گا رونا ،کس کو کہتے ہیں۔۔۔"
برینڈڈ جوتے اور کپڑے پہننے والی باصفا اب سادہ سے کپڑوں میں بدل گئی تھی۔ بے تحاشہ شاپنگ کرنے والی کو بازار کے نام سے ہی چڑھ ہو گئی تھی۔۔۔
جس باصفا کے کھانا کھانے میں اتنے نخرے ہوا کرتے تھے۔
بھنڈی،بینگن، کدو،کریلے،ٹینڈے۔۔ اسے ان سبزیوں سے سخت چڑ تھی۔گھر میں اگر یہ سبزی پکتی تو اس کے لیے علیحدہ سے کھانا بنتا۔ اور دالیں تو اس نے کبھی کھائیں ہی نہیں تھی۔ وہ چکن کی دلدادہ اب ہوسٹل کے روکھے پھیکے کھانے کھاتی تھی۔۔ جو سبزیاں اور دالیں اس نے کبھی چکھے بھی نہ تھے یہاں اسے وہ سب کھانا پڑھتا تھا۔۔۔اففف انسان کو صرف موت کا انتطار کرنے کے لیے ساری زندگی سفر کرنا پڑھتا ہے۔۔۔ چاہے وہ سفر کتنا ہی کانٹوں سے کیوں نہ بھرا ہو۔۔۔ اسے طے کرتے کرتے ہم کتنے ہی لہو لہان کیوں نہ ہو۔۔۔ مگر ہر شخص کو اپنا سفر طے کرنا ہی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیمک زدہ کتاب تھی یادوں کی زندگی۔۔۔!!
ہر ورک کھولنے کی خواہش میں پھٹ گیا۔۔۔!!
۔۔۔۔۔۔
باصفا۔۔۔ باصفا۔۔۔
ثناء کی آواز پہ وہ چونکی۔۔۔
"نہ لفظوں کا لہو نکلتا ہے، نہ کتابیں بول پاتیں ہیں۔۔۔
میرے درد کے دو گواہ تھے، دونوں بے زباں نکلے۔۔۔"
اس کی شہد رنگ آنکھوں میں ٹوٹے کانچ کی سی چبھن تھی۔۔۔ ماضی سے حال تک کا یہ سفر ہمیشہ اسکے لیے تکلیف دہ ہوتا تھا۔۔۔ ان اڑھائی سالوں میں جانے اس نے یہ سفر کتنی دفعہ طے کیا تھا۔۔۔ اور ہر دفعہ اُنتی ہی تکلیف ہوتی تھی۔۔۔ مگر وہ کیا کرتی وہ اذیت ناک لمحے بھولانے والے بھی تو نہیں تھے۔۔۔
بھائی جو کہ مما، بابا کے بعد اسکا سب کچھ تھا۔۔ اسی نے ہی اسے تنہا دنیا کے رحم و کرم پہ چھڑ دیا تھا۔۔۔ ایک دفعہ بھی نہیں سوچا وہ اکیلی کہاں جائے گی۔۔ کیا کرے گی۔۔۔ اسے حرم سے شکایت نہیں تھی۔۔ شکوہ تھا تو اپنے بھائی سے۔۔ وہ تو غیر تھی اسکی۔ مگر حمزہ وہ تو اسکا بھائی تھا ۔خون کا رشتہ تھا انکا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثناء جو 6 ماہ سے اسکی روم میٹ تھی۔۔ اب اس روم میں وہ اور ثناء ہی رہتیں تھیں۔۔۔
وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتی اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
ہاں بولو۔۔
ایک تو تم پتہ نہیں ہر وقت کس دنیا میں گم ہوتی ہو۔۔ دس آوازیں دو تو جواب ملتا ہے۔۔۔ "ہاں کیا ہوا"۔۔۔
باصفا اسکے انداز پہ مسکرا دی۔۔۔
میں نے کوئی جوک نہیں سنایا۔۔آ جاؤ کھانے کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔
اور وہ کھانا کھانے چل دی۔۔۔
"شاید خوشی کا دور بھی آئے گا اک دن۔۔۔
غم بھی تو مل گئے تھے تمنا کئے بغیر۔۔۔۔"
اذیت کا یہ مقام بھی در پیش ہے اب"
سہنا بھی درد ہے اور کہنا بھی نہیں ہے۔۔۔"
وہ اپنی ریزروڈ نیچر کے باعث یہاں بھی خاموش ہی رہتی تھی۔۔۔ سب کو اس کے مطعلق اتنا ہی معلوم تھا کہ اسکا بھائی ابروڈ چلا گیا ہے۔ اور وہ اپنی اسٹڈیز کیلیے یہاں ہے۔
ثناء کافی دفعہ اسکے متلعق اس سے پوچھتی مگر ہر بار وہ ٹال جاتی۔۔۔
اسے اپنے کیے پہ بہت پچھتاوا تھا۔۔ وہ اکثر سوچتی جانے بھابی کے ریلیٹوز نے کیسا ریکشن کیا ہو گا۔۔ بھابی نے اسکے متلعق جانے کیا کیا کہا ہو گا۔۔۔
اب تو بس سوچیں تھیں یہ پچھتاوا تھا۔۔
جو ہو گیا تھا اسے اب کوئی بدل نہیں سکتا تھا۔۔۔ اب تو یہ ہی اسکی زندگی تھی۔۔۔ اسے اب یہیں اسی ہوسٹل میں رہنا تھا۔۔۔
مگروہ اس بات سے بے خبر تھی کہ اسکی زندگی میں مزید طوفان آنے والا ہے جو ایک دفعہ پھر اسکی زندگی ہلا کر رکھ دے گا۔۔
وہ نہیں جانتی تھی اسکی قسمت اسے کہاں سے کہاں لے جانے والی ہے۔۔۔
آج بھی اتوار کا ہی دن تھا۔۔۔ ثناء نے اسے ساتھ مارکیٹ چلنے کو کہا۔۔ پہلے تو اس نے انکار کر دیا۔۔ مگر پھر یاد آیا کہ اسے بھی کچھ چیزیں لینی ہیں تو اس نے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ثناء یہ رکشے والا ہمیں کہیں اور لےشکریہ۔رہا ہے۔۔ یہ تو مارکیٹ کا راستہ نہیں ہے۔۔۔ روکو اسے۔۔۔
رکشے کو انجان راستوں پہ جاتے دیکھ وہ گھبرا کر ثناء سے بولی۔۔۔
یس سویٹی یہ واقعی مارکیٹ کا راستہ نہیں ہے۔۔ کیونکہ ہم مارکیٹ جا ہی نہیں رہے۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔ مارکیٹ نہیں جا رہے تو پھر کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔ بولو۔۔۔تہ۔۔۔ تم مجھے کہاں لے کر جا رہی ہو۔۔ مارے خوف کے اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا ہو کیا رہا ہے اسکے ساتھ۔۔اور ثناء کیا کہ رہی ہے۔۔۔۔
وہ تو تمہیں بہت جلد پتہ چل جائے گا۔۔
اب اسکے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔۔۔ مارے خوف سے اسکا چہرہ سفید پڑھ گیا۔۔۔ جیسے ہی اسے کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا اسنے رکشے سے چھلانگ لگانا چاہی کہ ثناء نے اسے اندر گھسیٹا اور ایک رومال اسکی ناک کے قریب کیا۔۔۔ اسکے بعد کیا ہوا اسے کچھ یاد نہیں۔۔۔
اسے جب ہوش آیا تو خود کو بند کمرے میں پایا۔۔ وہ ایک چھوٹا سا حبس زدہ کمرہ تھا جس میں کوئی کھڑکی کچھ نہیں تھا۔۔۔ زمین پہ ایک چٹائی تھی۔ جس پہ اسے لا کر پھینکا گیا تھا۔۔۔
کتنے ہی لمحے اسے یہ سوچنے میں لگے کہ وہ ہے کہاں۔۔ پھر اسے یاد آیا وہ اور ثناء مارکیٹ جا رہیں تھیں۔۔ اور پھر ثناء کا انداز اور اسکی باتیں یاد آئیں۔۔ اسکا سر چکرا گیا۔۔۔ اوووہ میرے اللہ۔۔ اب مزید کسی آزمائیش میں مت ڈالنا میرے مالا۔۔۔
وہ اپنے چکراتے سر کو تھامتی دروازے تک آئی اور اسے پیٹنے لگی۔۔ کوئی ہے۔۔ کھولو اسے۔۔۔ وہ کافی دیر چلاتے رہی مگر بے سود۔۔
آخر تھک کر وہ کمرے کا جائیزہ لینے لگی۔۔۔ تو اسے ایک اور دروازہ نظر آیا وہ فوراً اسکی طرف بھاگی مگر پھر مایوسی ہوئی۔۔ وہ واشروم تھا۔۔۔ وہاں موجود روشن دان اسے اندازہ ہوا کہ وہ رات کا پہر تھا۔۔۔
اسکا سر بہت بھاری ہو رہا تھا جیسے اسے کافی ڈوز دے کر بےہوش کیا گیا ہو۔۔ اور پیاس کی شدت سے ہلک میں بھی کانٹے اگ رہے تھے۔۔۔ جب کچھ نہ سمجھ آیا تو واپس چٹائی پہ آ کہ بیٹھ گئی۔۔۔
اچنک اے احساس ہوی کہ وہ بغیر دوپٹے کے ہے۔۔۔ بازار جاتے وقت جو عبایا اس نے پہنا تھا وہ اس وقت غائب تھا۔۔ وہ بغیر دوپٹے کے ہے یہ سوچتے ہی اسے گھٹن ہونے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک ہٹہ کٹا بندہ اندر داخل ہوا جو دیکھنے میں ہی بدمعاش لگ رہا تھا۔۔۔ باصفا خود میں مزید سمٹ گئی۔۔۔
اسکے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی۔۔ جو اس نے باصفا کے سامنے رکھی اور خود باہر کی جانب چل دیا۔۔سنو۔۔ کون ہو تم لوگ اور مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہو۔۔۔وہ ڈری ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔
مگر وہ آگے سے کچھ نہیں بولا اور خآموشی سے باہر چلا گیا۔۔۔
وہ جس گندی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ باصفا کو حوصلہ ہی نہیں ہوا تھا مزید کچھ بولنے کا۔۔ اس نے تو اسکے وہاں سے جانے پہ شکر کیا تھا۔۔۔۔
اسے شدید بھوک اور پیاس لگ رہی تھی۔۔ مگر پانی کے چند گھونٹ ہی پی سکی۔۔۔
اتنا تو اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اسکو یہاں کسی غلط مقصد کیلیے ہی لائے ہیں۔۔ مگر وہ اکیلی اس بند کمرے کیسے نکل سکتی تھی۔۔ اوپر سے وہ صدا کی ڈرپوک اور بزدل کڑکی تھی۔۔۔
جب دل زیادہ گھبرانے لگا تو اس نے وضو کیا اور نوافل ادا کرنے لگی۔۔۔ اسے وقت کا اندازہ نہیں تھا تو نہیں جانتی تھی کہ کونسی نماز کا وقت ہوا ہے اس لیے اس نے دل کے سکون کیلیے نوافل کی نیت کی اور وہیں چٹائی پہ ہی نوافل ادا کرنے لگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اشعر بادشاہ خان والے کیس کا کیا بنا۔۔ پتہ لگا کچھ انکے ٹھکانوں کا۔۔۔اشعر اور ولی آفس میں بیٹھے کیس ڈسکس کر رہے تھے جب حیدر جہانگیر انکے پاس آئے۔۔
ابو ابھی تک تو زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوئی۔۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں انشااللہ جلد ہی ثبوت اکھٹے کر لیں گے۔۔۔
اے ایس پی اشعرحیدر، حیدر جہانگیر سے بولے۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا جو کرنا احتیاط سے کرنا۔۔۔
جی۔۔۔ ابو آپ پریشان نہ ہوں۔۔ انشا اللہ ۔۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔
ان شااللہ۔۔۔ ٹھیک ہے مجھے انفورم کرتے رہنا۔۔۔ جی اچھا۔۔
۔۔۔۔۔
تین دن ہو گئے تھے اسے یہان آئے ہوئے۔۔ اور وہی شخص ہی آکر اسے دو وقت کا کھانا دے جاتا۔۔ آخر وہ کب تک بھوکی رہتی چپ چاپ کھانے لگی۔۔۔ اس کے علاوہ اندر کوئی اور شخص نہیں آیا تھا۔۔۔ اب باصفا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی اسے یہاں کیوں لے کر آئے ہیں۔۔ ایک دو بار اس نے اس غلیض شحص سے پوچھا بھی مگر وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔۔
اففف اسکی غلطی کی جانے اسے اور کتنی سزا ملنی تھی۔۔ جانے اسکی یہاں سے رہائی ممکن تھی بھی کہ نہیں۔۔۔
اب آگے کیا ہونے والا تھا یہ سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔ بلآخر وہ سب کچھ اپنے اللہ پہ چھوڑ کے پر سکون ہو گئی۔۔۔ جو ہو گا اسکی رضا سے ہی ہو گا۔۔ اب اسکی عزت کا محافظ اسکا رب ہی تھا۔۔۔ اب اسنے بالکل سوچنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔
بادشاہ خان کا فون ہے۔۔۔ وہ اس وقت بادشاہ خان کے فون کا ہی انتظار کر رہے تھے۔۔۔
ہیلو۔۔ اے-ایس-پی اشعر سپیکنگ۔۔۔ اشعر اپنی مخصوص بھاری آواز میں بولا۔۔۔۔
ہاں بھئی اے-ایس-پی کیا سوچا ہے پھر میری آفر کے بارے میں۔۔۔۔
ٹھیک ہے بادشاہ خان مجھے آفر منظور ہے۔۔ ۔ پرسوں لڑکی کے ہاتھ فائیل بھیج دینا سائین ہو جائے گی۔۔۔
ہاہاہاہا یہ ہوئی نہ بات۔۔۔ وقت اور جگہ طے کر کے وہ اب اپنے اگلے پلین تو ترتیب دینے لگے۔
ہمیں سب کام ہوشیاری سے کرنا ہوگا۔۔۔بادشاہ خان یقیناً اپنی کسی ماہر لڑکی کو ہی اس کام کیلیے بھیجے گا۔۔۔ بس ایک بار وہ لڑکی قابو آ جاۓ پھر اس سے سب اگلوانہ کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔۔۔
بس اس بات کا خیال رہے لڑکی قابو آنے تک کام ہوشیاری سے ہو بادشاہ خان کو اس بات کی بھنک بھی نہ پڑے۔۔۔
Dont worry sir..
اس کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہو گی۔۔
گڈ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو لڑکی اٹھو۔۔۔
کہ، کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے۔۔۔ باصفا پریشان سی بولی۔۔۔
مگر وہ جواب دینے کی بجائے اس کے ہاتھ پیچھے لیجا کر باندھنے لگے۔۔۔
چھوڑو مجھے۔۔۔ تم لوگ مجھے کہاں لے جا رہے ہو کچھ بولتے کیوں نہیں ہو۔۔۔
مگر وہ اپنا کام خاموشی سے کرتے رہے۔۔
ہاتھ باندھ کر اسکے منہ پے ٹیپ لگائی اور آنکھوں پہ پٹی باندھ دی۔۔۔
وہ لوگ اسے لیے ایک کشادہ سے کمرے میں آئے جہاں ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی جدید تراش خراش کے ساتھ مغربی لباس پہنے پہلے سے وہاں موجود تھی۔۔۔
ہمممم لڑکی تو بہت ہی پیاری ہے۔۔۔ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔۔۔ ویسے ماننا پڑے گا ثناء کو لڑکی تو ایک سے بڑھ کر ایک چنتی ہے۔۔۔ وہ باصفا کے رخصاروں کو چھوتے ہوئے بولی۔۔۔۔
چلو لڑکی یہ سوٹ پکڑو اور جلدی سے شاور لے کے آؤ۔۔۔
باصفا نے اس ساڑھی کو دیکھا۔۔۔ جسکا بلاؤز انتہائی چھوٹا اور آستینیں غائب تھیں۔۔۔
ڈریس دیکھ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بہت غلط جگہ پھنس گئی ہے۔۔۔جس عزت کو بچاتے وہ یہاں تک پہنچی تھی وہ عزت تو اب بھی محفوظ نہیں تھی۔۔۔
میں یہ کیوں پہنوں۔۔ تم لوگ کرنے کیا والے ہو میرے ساتھ۔۔۔
دیکھو مجھے تمہیں تیار کرنا ہے ٹائم کم ہے جلدی کرو۔
میں ہر گز یہ بے ہودہ لباس نہیں پہنوں گی۔۔۔
دیکھو لڑکی اگر تم یہاں سے چھٹکارا چاہتی ہو تو جیسا ہم کہ رہے ہیں ویسا کرو۔۔تمہیں بس ایک فائیل سائین کروانی ہے اس کے بعد تم آزاد ہو۔۔۔ اگر زیادہ بک بک کرو گی تو نقصان تمہارا اپنا ہے۔۔۔
باصفا جان گئی تھی کہ اسے ہر حال میں انکی بات ماننا ہی پڑے گی۔۔۔ اس لیے خاموشی سے جو وہ کہتے گئے کرتی گئی۔۔۔
کبھی کبھی ہم کتنے مجبور و بے بس ہو جاتے وہ سب بھی کرنا پڑتا ہے جسکا کبھی تصور بھی نہ کیا ہو۔۔۔ ایسا لباس جسے بازار میں دیکھ کر وہ نفرت سے منہ موڑ لیا کرتی تھی آج اسے اسی قسم کا لباس زیب تن کرنا تھا اپنی رہائی کیلیے۔۔۔ جانے رہائی پھر بھی
نصیب ہونی تھی کہ نہیں مگر وہ ناامید ہونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔
وہ بت بنی اسکے سامنے بیٹھی تھی اور وہ جانے اسکے منہ پہ کیا کیا لگا رہی تھی۔۔۔بیوٹیشن کے ہاتھوں نے ایسا کمال کیا کہ چند لمحے تو باصفا بھی خود کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔
گولڈن بلاؤز کے ساتھ بلیک ساڑھی پہنے وہ کسی کے بھی ہوش اڑانے کی طاقت رکھتی تھی۔۔۔
ساتھ میں متناسب میک آپ اور جیولری نے اسے اور ہوش ربا بنا دیا تھا۔۔۔۔
اتنے میں ایک درمیانی عمر کا شخص کمرے میں داخل ہوا۔۔ جس کی آنکھیں باصفا کے جسم میں ہی گڑ گئیں تھیں۔۔ جسے وہ نیٹ کی ساڈھی سے ڈھانپنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
اللہ نے مسلمان عورت کو پردے کا حکم کیوں دیا ہے یہ بات اس وقت باصفا کو اس ہوس زدہ نظروں سے باخوبی سمجھ آ گئی۔۔ اور اسے اپنے رب پہ بے انتہا پیار آیا جس نے ایک خبصورت موتی کو سیپ میں بند کر اسکی قیمت واضح کر دی۔۔۔
ماننا پڑے گا ثانیہ تمہارے ہاتھوں میں تو جادو ہے۔۔۔
دیکھتے ہیں اے-ایس-پی تم کیسے اس دیوی سے بچتے ہو۔۔۔بادشاہ نے دل میں سوچا۔۔۔
تھینک یو سر۔۔۔ وہ پروفیشنل انداز میں بولی۔۔۔
فصی ٹائم ہو گیا ہے لے جاؤ اسے۔۔۔
اور فصی آگے بڑھ کر اسکی آنکھوں پہ پٹی باندھنے لگا۔۔۔
ارے یہ تم کیا کر رہے ہو اس سے اسکا میک آپ خراب ہو جائے گا۔۔۔
فصی نے اپنے باس کی طرف دیکھا۔۔۔ جس نے اسے ایسے ہی لیجانے کا اشارہ کیا۔۔۔
وہ جگہ رہائیش سے تھوڑا دور تھی جیسے ہی گاڑی رہائیشی علاقہ میں آئی باصفا کو وہ جگہ انجان لگی۔۔ رات کا وقت تھا اس لیے بھی اسے جگہ پہچاننے میں مشکل ہو رہی تھی۔۔۔وہ جو راستوں کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی اسے شدید جھٹکا لگا۔۔۔ وہ اس وقت ملتان میں نہیں اسلام آباد میں تھی۔۔۔
اففف۔۔۔ یعنی وہ لوگ اسے اسلام آباد لے آئے تھے۔ وہ تو اس شہر سے بالکل ناواقف تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تو سب لوگ تیار ہو نہ۔۔ اشعر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔۔۔
جی سر۔۔۔
ولی تم لوگوں کی گاڑی میرے پہنچنے سے آدھے گھنٹے بعد وہاں آئے۔۔ میں وہاں ٹائم سے پہلے پہنچوں گا۔۔۔ دیکھو سب کام ہوشیاری سے ہو ان لوگوں کو ذرا بھی شک نہ ہونے پائے۔۔۔۔
متخب کردہ جگہ بادشاہ خان کی ہی ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ انکی گاڈی کو بھی فوکس میں رکھنا۔۔۔اور جیسے ہی میں بولوں فوراً انہیں اریسٹ کر لینا۔۔۔
اوکے سر۔۔۔ چلو پھر
Move to your positions And best of luck...
اللہ ہمارا ہامی و ناصر۔۔۔وہ انہیں تھمز اپ کرتا اپنی منزل کی جانب چل دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباًب آدھے گھنٹے بعد گاڑی ایک ہوٹل کے آگے رکی۔۔۔
اسے فائیل تھما کر فصی روم سے چلا گیا۔۔۔
اندر کا خوابناک ماحول دیکھ کر باصفا کا دل زور سے دھڑکا۔۔۔
کمرے کی سجاوٹ اور اسکا ماحول اپنی کہانی آپ سنا رہے تھے۔۔۔
کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔ کمرے کے درمیان میں جہازی سایئز بیڈ پڑا تھا جس پہ سرخ مخملی چادر پہ درمیان میں سفید گلاب کی پتیوں سے ہارٹ بنا تھا۔۔۔ سائیڈ ٹیبلز پہ بھی پھولوں کے خوبصورت بکے تھے۔۔۔ داہنی طرف سفید صوفہ سیٹ تھا جس کے آگے پڑی میز پہ پھولوں کی پتیاں اور کینڈلز جلائی گئی تھیں جس میں سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔۔۔ کھڑکیوں پہ سفید اور سرخ ہی پردے پڑے تھے۔۔۔ اس طرح کے ماحول میں تو کوئی بھی اپنے ۃحواس کھو بیٹھتا۔۔۔
وہ فوراً گھبرا کر پلٹی اور دروازہ کھولنا چاہا۔۔ مگر دروازہ تو لاکڈ تھا۔۔۔ اب اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔۔۔ یا اللہ میری عزت کی حفاطت جیسے پہلے کی تھی اب بھی کرنا۔۔۔ سب آپ کے ہاتھ میں ہے اللہ۔۔۔ مجھ سے میرا وقار مت چھیننا۔۔۔۔ وہ زاروقطار آنسو بہاتی اللہ سے مدد مانگ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔
اتنے میں دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا۔۔۔ اور قدم قدم چلتا اسکے قریب آیا۔ باصفا کا سانس اٹکنے لگا حلق میں آواز جیسے پھنس گئی۔۔۔
وہ قدم قدم آگے بڑھتا جا رہا تھا اور باصفا بے اختیار سی قدم قدم پیچھے ہٹتی جا رہی تھی۔۔۔ مگر پھر اسکے قدم رکے پیچھے دیوار تھی۔۔۔ اشعر نے اپنے دونوں ہاتھ اسکے دائیں بائیں رکھے اور اس پہ جھکا۔۔۔ وہ اسے پیچھے دھکیلنا چاہتی تھی مگر اسکا جسم مارے خوف کے حرکت کرنے سے انکاری ہو گیا۔۔۔ آخر جب کچھ سمجھ نہ آیا تو آنکھیں زور سے میچ لیں جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں میچ لیتا ہے۔۔۔۔
لیکن آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت تھوڑی نہ بدل جاتی ہے۔۔۔
مگر یہ کیا وہ چند لمحوں بعد دور ہٹ گیا۔۔۔ باصفا نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو وہ دور کھڑا اسکا جائیزہ لے رہا تھا۔۔۔
ہونہہ۔۔ مال تو بادشاہ خان نے کمال بھیجا ہے مگر وہ جانتا نہیں اس کا پالا اشعر حیدرسے پڑا ہے۔۔۔ اس جیسے کسی حیوان سے نہیں۔۔۔۔
وہ ششدر سی کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
یعنی اسکے رب نے ایک مرتبہ پھر اسکی عزت کی حفاظت کی تھی۔۔۔
اتنے میں کچھ لیڈیز کانسٹیبل اندر آئیں۔۔لے چلو اسے تھانے۔۔ باصفا کو جیسے ۃہوش آیا دماغ نے کچھ کام کیا۔۔۔
میں نے کچھ نہیں کیا آپ لوگ مجھے کیوں لیجا رہے ہیں۔۔ میں تو یہاں یہ فائیل سائین کروانے آئی تھی۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ وہ اپنی صفائی پیش کرنے لگی۔۔۔
اوو بی بی ڈرامے بند کرو اپنے۔۔ اور تم لوگ سنا نہیں لے کر چلو اسے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
کیمروں کی مدد سے ادھر کا سارا منظر دیکھتا بادشاہ خان مسکرا رہا تھا اس نے اشعر کے مطعلق بہت سن رکھا تھا مگر پھر بھی بادشاہ خان کو لگا اس مرتبہ وہ نہیں بچے گا۔۔ کیونکہ جس ہیرے کو انھوں نے بھیجا تھا وہ کسی بھی مضبوط بندے کو جھکا سکتا تھا۔۔ مگر اشعر واقعی نہیں ڈگمگایا۔۔۔
اس نے تو اسے چھوا تک نہیں تھا۔ اس نے کیمرے اسی لیے نصب کیے تھے کہ وہ اسکی ویڈیو بنا کر اسے بلیک میل کریں گے۔۔ مگر اسکا پلان فلاپ ہو گیا تھا اب اسے جلد ہی کوئی اور پلان ترتیب دینا ہو گا۔۔۔ باصفا کے اریسٹ ہونے کی اسے کوئی فکر نہیں تھی۔۔۔ وہ تو خود اس سب سے بے خبر تھی اس نے انھیں کیا بتانا تھا۔۔۔ اور وہ دونوں بندے بھی نئے تھے۔۔۔بادشاہ خان بھی ایک ماہر کھلاڑی تھا۔۔۔ْ
۔۔۔۔۔۔۔
میں کتنی دفعہ کہوں میں نہیں جانتی وہ لوگ کون تھے۔۔۔ مجھے نہیں پتہ نہیں پتہ۔۔۔ وہ ہزیاتی انداز میں چیخی۔۔۔ وہ جب سے یہاں آئی تھی ایک ہی بات کہ کہ کے تھک گئی تھی۔۔ مگر انہیں اسکی کسی بات کا بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔
اسکی چیخ کا گلا منہ پہ پڑنے والے زوردار تھپڑ نے دبایا تھا۔۔۔
افففف۔۔۔ ایک جہنم سے نکل کر دوسرے جہنم میں پھنس گئی تھی۔۔۔
دیکھو لڑکی میں آخری دفعہ پوچھ رہی ہوں شرافت سے بتا دو ورنہ ہمیں اگلوانہ آتا ہے۔۔۔
تمہیں جو کرنا ہے کر لو جو سچ تھا میں بتا چکی ہوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
بادشاہ خان بارودی مواد کی اسمگلنگ کرتا تھا۔۔۔ اور یہ کام وہ سبزیوں کے ٹرکوں کے ذریعے کرتا تھا۔۔۔ اپنا مخصوص ٹرک بغیر کسی رکاوٹ کزارنے کیلیے اسے اشعر کے سائن کی ضرورت تھی۔۔ اشعر کے انکار کرنے پہ بادشاہ خان نے اسے بہت سی آفرز دیں جس پہ بلآخر اس نے حامی بھر لی۔۔۔ مگر اشعر نے یہ حامی کسی اور نیت سے بھری تھی۔۔ اسے بادشاہ خآن کے خلاف ثبوت چاہیے تھا۔۔۔ جسکے لیے اس نے لڑکی کیلیے حامی بھری تھی۔۔ مگر پلان ناکام رہا۔۔۔
بادشاہ خان اس بار بھی بچ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اب ان لوگوں کا تشدد شدید ہو گیا۔۔ جسے سہنا باصفا جیسی لڑکی کے بس سے باہر تھا۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ایسا کیا کہے جس سے اسکے بےگناہی ثابت ہو جائے۔۔۔
کتنی اذیت دیتی ہے وہ سزا جب آپ بےقصور ہوں اور پھر بھی آپ سزا کے مستحق ٹھریں۔۔۔
حیدر جہانگیر جو کہ کمیشنر تھے اور یہ انکا آخری کیس تھا جس کے بعد انہوں نے ریٹائر ہو جانا تھا۔۔ انہوں نے خود باصفا کے پاس جا کر بات کرنے کا سوچا۔۔۔ جانے کیوں انہیں یہ لڑکی نے قصور لگی تھی۔۔ اور کچھ وہ دل کے بھی بہت نرم تھے سو معاملہ آرام سے ہی حل کرنا چاہا۔۔۔ ورنہ پولیس والوں کے تششد سے کون ناواقف ہے۔۔۔ وہ تو شاید یہ بھول جاتے ہیں اگلا بندہ انسان ہے۔۔۔
دیکھو بیٹا آپ کو اُن لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ ہمیں سچ بتائیں ہم آپکو حفاظت کی گارنٹی دیتے ہیں۔۔۔
سر میں نے جو انہیں بتایا ہے وہ بالکل سچ ہے اب میں آپ لوگوں کو کیسے یقین دلاؤں۔۔۔
آپ مجھے ساری بات دوبارہ بتائیں۔۔ باصفا نے روتے ہوئے انہیں ہوسٹل سے لیکر اب تک کی ساری بات دوبارہ بتائی اس امید سے کہ کسی کو تو یقہن آئے۔۔۔
کچھ مار کا اثر تھا کچھ ذینی اذیت تھی کہ وہ روتے روتے بےہوش ہو گئی۔۔۔
اس کی حالت اسکے بےقصور ہونے کی گواہ تھی مگر وہ اس وقت کسی اور جگہ نہیں جیل میں تھی جہاں ثبوت زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔۔۔
ڈرائیور اور فصی کا بھی یہ ہی حال تھا۔۔۔ دونوں مار کھا کھا کر بےحال تھے۔۔ مگر جاننتے وہ بھی کچھ نہ تھے۔۔
۔۔۔۔۔
اشعر نے ان تینوں کے متعلق معلومات اکھٹی نکر لیں تھیں۔۔۔
فصی چھوٹے موٹے جرائم میں ملوس تھا۔۔ مگر بحرحال بادشاہ سے ان تینوں کا کوئی تعلق نہیں نکلتا تھا۔۔۔ اور اس بات کی تصدیق بادشاہ خان کی فون کال نے بھی کر دی تھی۔۔۔
وہ اور ولی بیٹھے ان کوگوں کی ہسٹری فائیل ہی دیکھ رہے تھے کہ بادشاہ خان کی کال آئی۔۔۔
ہیلو۔۔۔
ہاں بھئی شہزادے کتنی معلومات دی ان لوگوں نے میرے متعلق۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔ بادشاہ خان کو دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ہے اشعر حیدر۔۔ ویسے یار مان گئے تمہیں اتنی قیامت چیز بھیجی تھی مگر تم۔۔۔۔
کیا تم نے یہی سب بکواس کرنے کیلیے فون کیا ہے۔۔۔
ہاہاہا یہ بکواس تھوڑی ہے۔۔۔ ویسے ابھی تک اس آفت کی پڑیا کو اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے۔۔ کب چھڑ رہے ہو اسے۔۔۔ تم نہیں تو ہم ہی کچھ۔۔۔۔
اشعر اس کی بات کاٹ کر بولا۔۔۔ بکواس بند کرو اپنی مجھے تمہاری اس گھٹیا گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اس لیے فون رکھ رہا ہوں۔۔۔ آئیندہ اگر کوئی کام کی بات ہو تو ہی فون کرنا۔۔ اللہ حافظ۔۔۔۔
بادشاہ خان کی اس قسم کی گھٹیا گفتگو پہ اس کا خون کھول اٹھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
دو دن بعد باصفا کو ہوش آیا تھا۔۔۔
تشدد کے نشان ابھی بھی اسکے جسم پہ موجود تھے۔۔۔
پیاس کی شدت سے گلا خشک ہو رہا تھا۔ اپنے چکراتے سر کو تھامتے اٹھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔۔۔ اتنے میں نرس اندر آئی جس نے اٹھنے میں مدد دی۔ اور پانی پلایا۔۔ اور ڈاکٹر کو بلانے چل دی۔۔۔
Hows you feeling now???
fine..
وہ دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔
اتنے میں حیدر جہانگیر اندر آئے۔۔۔ انہیں دیکھتے ہی باصفا کی رنگت پیلی پڑ گئی۔۔۔۔
کیا اب یہ دوبارہ مجھے ساتھ لے جائیں گے۔۔۔ وہ تشدد یاد آتے ہی وہ ہواس باختہ سی بولی۔۔۔
میں دوبارہ جیل نہیں جاؤں گی۔۔میں سچ میں نہیں جانتی وہ لوگ کون ہیں۔میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔آپ پلیز میرا یقین کریں۔۔مجھے جیل نہیں جانا۔۔۔
ریلیکس بیٹا میں آپ کو جیل لیجانے نہیں آیا۔۔۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔
ہاں میں جان گیا ہوں آپ بے گناہ ہو۔۔ سو اب آپ ریلیکس ہو جاؤ۔۔۔جیسے ہی آپ ٹھیک ہو جاؤ گی آپ جا سکتی ہو۔۔۔
باصفا نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔
میں چلتا ہوں اب آپ ریسٹ کرو۔۔۔
انکے جانے کچھ دیر بعد وہ بھی نیند کی وادی میں چلی گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔
حیدر صاحب کو اب اسکے ٹھیک ہونے کا انتظار تھا۔۔ وہ جلد از جلد اسے اسکے گھر والوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔۔۔ اتنے دن سے وہ لاپتہ تھی جانے اسکے گھر والے اسے کہاں کہاں تلاش کر رہے ہوں گے۔۔۔ اور پھر بادشاہ خان کی گھٹیا گفتگو بھی اشعر انہیں بتا چکا تھا جس کی وجہ سے وہ مزید پریشان ہو گئے تھے۔۔۔
جانے باصفا انہیں اپنی اپنی سی کیوں لگی تھی۔۔ وہ ایک نرم دل انسان ضرور تھے مگر اس لڑکی کیلیے وہ کچھ زیادہ ہی پوزیسو ہو رہے تھے اسکی شہد رنگ آنکھیں انہیں کسی بہت اپنے کی لگی تھیں۔۔ پھر وہ خود ہی اپنے خیالات کوجھٹکتے بولے۔۔۔اللہ نہ کرے یہ وہی ہو۔۔
میں بھی بھلا کیا سوچے جا رہا ہوں وہ یہاں کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔ وہ جہاں بھی ہوں اللہ انہیں اپنے حفظ و امن میں رکھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دوبارہ جب اسکی آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی۔۔۔ اب باصفا کو آگے کی فکر ہو رہی تھی۔۔ وہ تو بالکل خالی ہاتھ تھی۔۔ اب وہ یہاں سے کہاں جائے گی۔۔۔ انجانہ شہر تھا۔۔ اگر وہ پھر بادشاہ خان کے ہاتھ لگ گئی تو؟؟؟؟
کتنے ہی سوالیہ نشان تھے جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔
وہ اپنی انہیں سوچوں مین گم تھی کہ حیدر جہانگیر روم میں داخل ہوئے۔۔۔
اس نے چونک کر آنے والے کو دیکھا۔۔۔
کیسی طبیعت ہے بیٹا اب آپ کی۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ میں اب ٹھیک ہوں۔۔۔۔
ہمممم گڈ۔۔۔ تو اب آپ گھر جانے کے قابل ہیں۔۔۔
کہ، کیا میں رات یہاں رک سکتی ہوں پلیز۔۔ میں صبح ہوتے ہی چلی جاؤں گی۔۔۔ وہ جانے کے نام پہ گھبرا گئی۔۔۔۔
ٹھیک ہے آپ رات یہاں رک سکتی ہیں۔۔۔۔۔ لیکن مجھے اپنے گھر والوں کا ایڈریس دیں تاکہ میں انہیں مطلع کر سکوں۔۔۔
گھر والے، ایڈریس۔۔۔وہ عجیب سے انداز میں بولی۔۔۔
لگتا ہے یہ ابھی بھی شاک میں ہی ہے۔۔۔حیدر صاحب کو اسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگی۔۔۔
انہوں نے اسے اپنے گھر لیجانے کا فیصلہ کیا۔ تا کہ اسکی حالت سنبھلنے پہ اسے اسکے گھر والوں کے حوالے کریں۔۔۔ ابھی وہ ایسی حآلت میں نہیں تھی۔۔۔
لڑکی کا معاملہ تھا اس حالت میں اسکے گھر والے کیا سمجھتے۔۔ وہ اسے مزید سنبھلنے کا موقع دینا چاہتے تھے۔۔۔
وہ وہاں سے اٹھ کر باہر آئے اور اپنے گھر فون کرکے شائستہ بیگم کو ساری صورتِ حال سمجھائی اور انہیں کپڑے لیکر ہوسپٹل آنے کو کہا۔۔۔
وہ حیرت سے اپنے سامنے کھڑی اس نفیس سی خاتون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
بیٹا یہ میری مسز ہیں ہم آپکو اپنے ساتھ اپنے گھر لے کر جانا چاہتے ہیں اگر آپکو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔۔۔
جی۔۔۔ آپ کے گھر مگر میں آپکے گھرکیسے جا سکتی ہوں۔۔۔ وہ گھبرا کر بولی۔۔۔
بیٹآ گھبراؤ نہیں۔۔۔ مجھے اپنے ابو کی طرح ہی سمجھو۔۔ تم ہمارے گھر بالکل محفوظ ہو۔۔۔
حیدر صاحب اسکی گھبراہٹ سمجھ سکتے تھے۔۔۔
شائستہ بیگم نے بھی اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر نرمی سے سمجھایا۔۔۔ باصفا کے پاس اور کوئی آپشن بھی تو نہیں تھا۔۔ وہ اس وقت پوری طرح سے انکے رحم و کرم پہ تھی۔۔۔
ویسے بھی اس حالت میں وہ اور جاتی بھی تو کہاں۔۔۔ سو وہ انکے ساتھ انکے گھر
چلی آئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جانے اور کیا کیا دیکھنا باقی ہے۔۔۔ اسکی ایک چھوٹی سی خطا اسے کہاں سے کہاں لے آئی تھی۔۔ اب جانے یہاں سے کہاں جانا تھا۔۔۔
اے قسمت تیری مہربانی کہ ہم کہاں سے کہاں چلے آئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھیں گھر پہنچتے رات ہو گئی تھی۔ وہ جھجکتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئی جہاں سب لوگ انہیں کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
وہ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر گھبرا گئی۔۔۔۔
ارے گھبراؤ نہیں آؤ میں سب سے تمہارا تعارف کرواتی ہوں۔۔۔
حیدار صاحب کے تین بیٹے تھے۔۔۔ بڑآ کاشان جو کہ بزنس میں تھا، اس سے چھوٹا اشعر جو پولیس میں تھا۔ اور سب سے چھوٹا زید جو کہ ڈاکٹر تھا۔۔۔
اس کے علاوہ انوشے جو کہ کاشان کی بیوی تھی۔۔اور انکا دو سالہ بیٹا عدن۔۔۔
سب ہی اس سے بہت محبت سے ملے۔۔۔ وہ ان سادہ دل لوگوں کی دل سے معترف تھی جو اتنے بڑے عہدوں پہ فائز ہونے کے باوجود کتنے سادہ اور اچھے تھے۔۔۔ ان سے پہلی دفعہ ملنے پہ بھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سب ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہوں۔۔۔ اتنے ملنسار لوگ اس نے پہلی دفعہ دیکھے تھے۔۔۔
کھانا بہت ہی خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔۔ سوائے اشعر کے اسکی ملاوقات باقی سب سے ہو گئی تھی۔۔۔
صبح حسبِ معمول اسکی آنکھ فجر کی آذان پہ کھل گئی تھی۔۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ باہر آ کر گھر کا جائزہ لینے لگی۔۔۔
حیدر ولا بہت ہی خوبصورت تھا۔۔۔ کسی محل جیسا۔۔۔ سب سے خبصورت حصہ اسے لان کا لگا تھا جہاں رنگ بھرنگے پھولوں میں جیسمین کی حسین کلیاں بھی تھے۔۔۔۔ اسے جیسمین کی خوشبو بے حد پسند تھی۔۔۔۔ لان کے ایک حصے میں بہت ہی خوبصورت فاؤنٹین بھی تھا۔۔۔ جسکا پانی صاف شفاف تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
انوشے بہت ہی فرینڈلی نیچر کی تھی جلد ہی باصفا کی اس سے دوستی ہو گئی۔۔۔ سارا دن بہت اچھا گزر گیا۔۔۔ اتنے اچھے ماحول میں اسکی حالت بھی جلد سنبھل گئی۔۔۔رات کھانے کے بعد اسے نیند نہیں آ رہی تھی تو وہ لان میں آ گئی اورنرم گھاس پہ چہل قدمی کرتے آگے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔
اسے سب لوگ بہت اچھے لگے تھے یہاں اس کی عزت بھی محفوظ تھی۔۔۔ آنٹی اتنی اچھے دل کی ہیں اگر میں انہیں سچ بتا کر یہاں رہنے کی درخواست کروں تو کیا وہ مجھے یہاں رکھ لیں گی۔۔۔ ماشااللہ سے اتنا بڑا گھر ہے کام والی بنا کر ہی رکھ لیں۔۔۔ اگر ان لوگوں نے نہ رکھا تو؟؟؟؟
وہ اپنے ہی خیالوں میں گم مڑی تھی کہ کسی سے بہت بری طرح سے ٹکرا گئی۔۔۔
اشعر جو کہ ابھی ابھی گھر آیا تھا اس وقت کسی کو گھاس پہ ٹہلتے دیکھ سیدھا ادھر ہی آ گیا کیونکہ ان کے گھر میں اس وقت تو کوئی بھی باہر نہیں آتا تھا تو پھر یہ کون تھا۔۔۔
وہ ابھی قریب پہنچا ہی تھا کہ سامنے والا وجود یک دم مڑا اور اس سے ٹکرا گیا۔۔۔ اس سے پہلے کہ باصفا گرتی اشعر نے بروقت اس تھام کر گرنے سے بچایا۔۔۔
مڑنے سے اسکے چہرے پہ لایٹ پڑی جس سے اسکا چہرہ واضح ہوا۔۔۔
وہ جو اس افتاد پہ بوکھلا گئی تھی ٹکرانے والے کو دیکھ اور بھی ہواس باختہ ہو گئی۔۔۔
آ۔۔۔آپ۔۔۔۔
تم۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟ وہ اسے خشنگیںن نظروں سے گھر رہا تھا۔۔۔
جہ۔۔۔جہ۔۔۔جی۔۔۔ میں۔۔۔ میں وہ۔۔۔۔ گھبراہٹ کے مارے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کیا بولے۔۔۔ اس نے تو کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا دوبارہ اس شخص سے سامنا ہو گا۔۔۔ اس دن کا سارا واقعہ پھر سے آنکھوں کے سامنے آ گیا۔۔۔ اور جو اسکا حلیہ تھا۔۔۔
صاف، صاف بتاؤ اب یہاں کس مقصد سے آئی ہو۔۔۔؟؟؟
مہ۔۔ میں۔۔۔میں۔۔۔ خود نہیں آئی۔۔ وہ۔۔ وہ سر لے کر آئے تھے۔۔۔ قسم سے میں تو جانتی بھی نہیں یہ۔۔۔ یہ آپ کا گھر ہے۔۔۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنی بات ختم کی۔۔۔ جن نظروں وہ اسے دیکھ رہا تھا اچھے بھلے بندے کا اعتماد ہوا ہو جائے وہ تو پھر پہلے سے ہی گھبرائی ہوئی تھی۔۔۔
اشعر کا تو یہ سن کر پارہ ہائی ہو گیا۔۔ ابو ایسے کیسے کسی کو بھی اٹھا کر گھر لا سکتے ہیں۔۔ اس کے ساتھ نرمی کرنا اور بات تھی کجا اسکو گھر لا بیٹھایا حد ہو گئی۔۔۔ وہ غصے سے کھولتا سیدھا حیدار صاحب کے پاس گیا۔۔۔
ابو آپ اس تھرڈ کلاس لڑکی کو کیسے گھر لا سکتے ہیں۔۔ جانے اب یہاں کس نیت سے آئی ہے۔۔۔ آپ سب جانتے ہیں پھر بھی۔۔۔
اشعر یہ بات کرنے کا کونسا طریقہ ہے۔۔۔اور میں سب جانتا ہوں اسی لیے ہی لایا ہوں اسے۔۔۔
بیٹھو۔۔۔ انہوں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور پیار سے سمجھانے لگے۔۔۔
دیکھو بیٹا وہ اس وقت ایسی حالت میں نہیں تھی کہ ہم اسے تنہا چھوڈ دیتے۔۔۔ تم نے خود ہی تو ساری معلومات اکھٹی کی تھیں۔۔ وہ اس شہر کی نہیں ہے تو اکیلے کہاں جاتی۔۔ اور پھر وہ بادشاہ خان اللہ نہ کرے اگر پھر سے اس کے ہاتھ لگ جاتی تو۔۔۔ لڑکی ذات ہے اور پھر اتنے عرصے سے لاپتہ ہے ایسے میں گھر والے جانے کیسا سلوک کریں ہم ا سے مل کے انہیں خود ساری بات بتائیں گے تو یہ اس لڑکی کیلیے بھی بہتر ہو گا تم سمجھ رہے ہو نہ میری بات۔۔۔۔
جی ابو۔۔۔
ہر کام جوش سے کرنے والا نہیں ہوتا اشعر۔۔۔ کتنی دفعہ سمجھاؤں تمہیں۔۔۔
میں کیا کروں ابو خود ہی غصہ آ جاتا ہے۔۔۔
اور حیدر صاحب اس کے انداز پہ بے اختیار مسکرا دیے۔۔۔ اور پھر اس سے اس کیس کے متعلق پوچھنے لگے جس سلسلے میں وہ شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔۔۔
پہلے تو اس نے سوچا تھا آنٹی کو سب سچ بتا کر ان سے ان کے ہاں رہنے کی بھیک مانگ لے گی۔۔ مگر اشعر کو دیکھنے کے بعد اس نے اپنا ارادہ بدل لیا۔۔۔۔
" صبح انکل کے جانے کے بعد میں بھی یہاں سے چلی جاؤں گی۔۔۔ اس سے پہلے وہ مجھ سے دوبارہ سے گھر والوں کے مطعلق پوچھیں مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔۔۔۔ مگر میں جاؤں گی کہاں۔۔۔ کہیں بھی جاؤں مگر یہاں نہیں رہوں گی۔۔اففف کیسے گھور رہا تھا مجھے جانے کیا سوچ رہا ہو گا میرے بارے میں۔۔۔" خود سے باتیں کرنے کی عادت تو بہت پرانی ہو چکی تھی۔۔۔ باصفا کے خیال کے مطابق خود سے بہتر اور کوئی سامع ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔
خود سے اچھی طرح باتیں کر لینے کے بعد وہ عشاء کی نماز ادا کرنے اٹھ گئی۔۔۔ اور اپنے رب سے مدد طلب کی۔۔۔ بے شک وہ سب سے بڑا مددگار ہے۔۔
اگلی صبح سب کے جانے کے بعد وہ بھی جانے کی اجازت لینے شائستہ بیگم کے پاس آئی۔۔۔
آنٹی اب میں پہلے سے کافی بہتر ہوں۔۔ تو میں جانے کی اجازت چاہوں گی۔۔۔ آپ سب نے مشکل وقت میں میرا بہت ساتھ دیا۔۔۔ میں جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے۔۔۔ میں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہوں گی۔۔۔
پہلی بات بیٹا ہم نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔اس لیے ایسا کہ کر ہمیں شرمندہ مت کرو۔۔۔ ارے نہیں نہیں آنٹی میرا وہ مطلب نہیں تھا میں تو۔۔۔ وہ اور بھی کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔۔۔۔ اور دوسری بات میں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دوں گی۔۔۔ رات کو تمہارے انکل آئیں گے انھی سے پوچھنا۔۔۔ لیکن آنٹی میں۔۔۔۔ بس کہ دیا نہ تم ابھی کہیں نہیں جا رہی۔۔۔ ان کے مان بھرے انداز پہ اسے رکنا پڑا۔۔۔
مگر اب اسے انکل کے پوچھے جانے والے سوالوں سے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے بارے میں انہیں کیا بتائے گی۔۔۔
اللہ جی ہلیز ہیلپ می۔۔۔ وہ اپنے ہونٹ کاٹ کر رہ گئی۔۔۔
رات کھانے کے بعد انکل نے اسے اسٹدی میں بلایا۔۔۔
وہ ناک کر کے اندر آئی۔۔۔
انکل آپ نے مجھے بلایا۔۔۔
وہ جانتی تو تھی ہی انہوں نے کیوں بلایا ہے۔۔
ہاں بیٹا آؤ بیٹھو۔۔۔ انہوں نے اسے پاس پڑی چئیر پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔۔۔۔
بیٹا آپ کی آنٹی بتا رہی تھیں کہ آپ جانا چاہتی ہو۔۔۔ انہوں نے بات کا آغاز کیا۔۔۔
جی وہ اب میں کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں تو اب جانے کی اجازت چاہتی ہوں۔۔۔
ہاں ماشااللہ سے اب تو ہماری بیٹی پہلے سے ٹھیک لگ رہی ہے۔۔۔ تو بیٹا آپ مجھے کسی ریلیٹو کا کوئی کونٹیکٹ نمبر دیں میں ان سے بات کر کے آپ کو خود انکے حوالے کروں گا۔۔۔
وہ چند لمحے خاموش رہی پھر ہمت کر کے بولی۔۔۔
میرا کوئی ریلیٹو نہیں ہے۔۔۔
کیا مطلب کوئی تو ہو گا اپ کے فادر یا مدر کے کوئی بہن بھائی کزن کوئی تو ہو گا۔۔۔
وہ پھر خاموشی سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔ نروسنس اسکے ہر ہر انداز سے ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔ جسے حیدر صاحب نے بھی نوٹ کیا تھا
کیا بات ہے باصفا آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں۔۔۔ جو بات ہے کھل کر کہیں۔۔۔۔ اس کے انداز پہ اب حیدا صاحب بھی پریشان ہو گئے تھے۔۔۔
اب باصفا کے پاس سچ بولنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔ وہ اپنے خشک ہونٹوں کو تر کرتی بولی۔۔۔۔
وہ۔۔ دراصل انکل میرے پاپا نے مما سے لو میرج کی تھی۔۔ جسکی وجہ سے ان کے گھر والوں نے انہیں گھر سے نکال دیا تھا اور پھر کبھی ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔۔۔ ان کی ڈیتھ کے بعد میں اور بھائی ہی تھے۔۔ حمزہ بھائی کو یو-کے میں بہت اچھی جاب آفر ہوئی وہ وہاں چلے گئے اور میں ہوسٹل میں۔۔۔ اس لیے اب میرا یہاں کوئی نہیں ہے۔۔۔ وہ ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔۔۔
تمہارے فادر کا پورا نام کیا ہے۔۔۔ وہ بمشکل بول پا رہے تھے۔۔۔۔ دل انجانے خوف سے لرزا۔۔۔
رحمان جہانگیر۔۔۔
اور مدر شگفتہ حسن۔۔۔ حیدر صاحب نے استفسار کیا۔۔۔
جی۔۔۔
اور حمزہ۔۔۔ میرا حمزہ۔۔۔ جانتی وہ چار سال کا تھا جب میں نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تھا اور آخری دفعہ بھی۔۔۔ وہ شاکڈ سی انکی باتیں سن رہی تھی۔۔۔
تمھاری آنکھیں بالکل رحمان جیسی ہیں۔۔۔ میں جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا مجھے تب ہی لگا تھا مگر پھر میں نے اپنے خیال کو جھٹلا دیا کہ تم بھلا کیسے ہو سکتی ہو۔۔۔ مگر مجھے ٹھیک لگا تھا یہ تم ہی تھی میرے رحمان کی بیٹی۔۔ میری بیٹی۔۔۔ وہ بے ربط سا بول رہے تھے۔۔۔
آپ کیا کہ رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔ وہ حیرت زدہ ہی بولی۔۔۔
بیٹا میں تمھارا تایا ہوں رحمان کا بھائی۔۔۔ رحمان مجھے بالکل اپنے بیٹوں کی طرح ہی تھا۔۔۔
رحمان صاحب کی بات بچپن سے ہی شائستہ کی بہن سے طے تھی۔۔۔ مگر انہوں نے اپنی کلاس کی لڑکی شگفتہ سے شادی کر لی تھی۔۔۔ حیدر صاحب نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔۔ان کے لیے اپنی زبان سے مکرنہ بہت شرمندگی کی بات تھی۔۔۔ اس لیے غصہ میں آ کر رحما صاحب کو گھر سے نکال دیا اور ان سے تمام تعلق توڑ دیے۔۔۔
وہ کافی دفعہ آتے رہے بھائی سے معافی مانگنے مگر انہوں نے معاف نہ کیا۔۔۔۔ شائستہ کا دل بھی بہت تڑپتا تھا آخر بیٹا سمجھتی تھی انہیں مگر حیدر صاحب نے کسی کی نہ سنی۔۔۔۔ آخری بار رحمان چار سالہ حمزہ کو بھی ساتھ لائے کہ بھائی کا دل پگھل جائے مگر ناکام ہی لوٹ گئے۔۔۔پھر اس کے بعد انہوں نے دوبارہ ادھر کا رخ نہ کیا۔۔۔ اور زندگی کی مشکلات میں گم ہو گئے۔۔۔
پچھلے چار سال سے حیدر صاحب کسی کو بھی بتائے بغیر رحمان کو ڈھونڈ رہے تھے مگر وہ انہیں کہیں نہ ملے۔۔۔۔
میرارڑحمان مجھ سے ملے بغیر ہی اس دنیا سے چلا گیا۔۔۔ کتنا بد بخت ہوں نہ میں اپنے بھائی کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔۔۔ وہ مجھ سے روٹھا ہی اس دنیا سے چلا گیا۔۔۔ مجھے معاف کر دو بیٹی میں۔۔۔انہوں نے آگے بڑھ کر باصفا کو سینے سے لگانا چاہا مگر وہ انکے ہاتھ جھٹکی انکی بات کاٹتے بولی۔۔۔
آپ نے ہمارے ساتھ بہت غلط کیا میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔ آپ نے بابا کو تو سزا دی ہمیں بھی اپنوں سے، انکی محبت سے دور رکھا۔۔۔ کیا پسند کی شادی کرنا اتنا بڑا گناہ تھا جسکی آپ نے انہیں اتنی بڑی سزا دی۔۔۔ آپ ہم سب کے گنہگار ہیں جس کے لیے میں اپکو معاف نہیں کروں گی۔۔۔ وہ روتے ہوئے وہاں سے جانے کیلیے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔ مگر دروازہ کھولتے ہی سامنے کاشان بھائی کو کھڑے پایا۔۔۔
کیا ہوا باصفا تم اس طرح کیوں رو رہی ہو۔۔۔ کاشان جو کہ حیدر صآحب سے بات کرنے آئے تھے وہ اسے اس طرح روتا دیکھ پریشان ہو گئے۔۔۔ مگر وہ کوئی جواب دیے بنا وہاں سے چلی گئی۔۔۔ وہ حیران سے اندر کی جانب بڑھے مگر اندر کا منظر اور بھی جان لیوہ تھا۔۔۔حیدر صاحب اپنے بائیں جانب دل پہ ہاتھ رکھے ڈھے سے گئے تھے۔۔۔ کاشان فوراً انکی طرف لپکا۔۔۔
ابو، ابو کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔ ابو۔۔۔
مگر جواب ندارد۔۔ وہ انکی خراب حالت دیکھ کر فوراً انہیں لیے ہوسپٹل دوڑے۔۔۔حیدر صاحب کو اٹیک ہوا تھا۔۔۔۔ مگر اٹیک زیادہ سوئر نہیں تھا۔۔۔ دو دن بعد انہیں ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔۔۔ باصفا نے انکا بہت خیال رکھا وہ اس سب کے لیے خود کو قصور وار سمجھ رہی تھی۔۔۔ اسے ان سے اس طریقے سے بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔۔۔ بعد میں اس نے اپنے رویے کی معافی بھی مانگی تھی۔۔۔
وہ ان کے لیے سوپ بنا کر لائی تھی۔۔۔ جب انہوں نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔ باصفا مجھے حمزہ کا نمبر دو میں ذرا اس کے کان کھینچوں اتنا لا پرواہ ہو گیا کہ اکیلی بہن کو چھوڑ کے پردیس چلا گیا۔۔۔
جی۔۔۔ جی حمزہ بھائی کا نمبر۔۔۔۔ اسے اس سب کی توقع نہیں تھی اس لیے گھبرا گئی۔۔۔ اور سوچنے لگی کیا جواب دے۔۔۔
ہاں اس کا نمبر تو ہو گا ہی نہ تمہارے پاس جس سے وہ بات کرتا تھا۔۔۔
آں۔۔۔ ہاں۔۔۔ جی فون کرتے تھے نا بھائی۔۔۔ مگر نمبر تو میرے فون میں تھا اور وہ تو گم ہو گیا۔۔۔ اب انتا لبما نمبر تھا زبانی یاد نہیں ہے۔۔۔ جھوٹ بولتے جیسے بچوں کی زبان لڑکھڑاتی ہے ویسے اسکی بھی لڑکھڑائی تھی۔۔ مگر وہ بچی نہیں تھی نہ سو قابو پا گئی۔۔۔
جیسے ہی انکی حالت سنبھلی اس نے جانے کی اجازت مانگی۔۔۔ اب وہ ہمیشہ کے لیے تھوڑی نہ یہاں رہ سکتی تھی۔۔۔
مگر اسکی بات سنتے ہی حیدر صاحب غصے سے بولے۔۔۔۔ کہیں نہیں جا رہی تم میں ہر گز تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔۔۔ اور ہوسٹل تو بالکل بھی نہیں۔۔ پہلے نتیجہ بھگت چکے ہیں۔۔ اللہ نہ کرے اگر کچھ ہو جاتا تو۔۔۔ میرے پاس اس حمزہ کا نمبر نہیں ہے ورنہ اسکی ایسی خبر لیتا کہ ساری عمر یاد رکھتا۔۔۔ لو بھلا اکیلی لڑکی کو چھوڑ گیا یہاں۔۔۔ نہیں تایا ابو وہ تو لیجانہ چاہتے تھے مگر میں نے ہی انکار کر دیا۔۔ مجھے اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کرنی تھی۔۔۔
ارے تم تو بچی ہو وہ کوئی بچہ تھوڑی ہے۔۔۔ جو تمہاری بات مان کر چھوڑ گیا اکیلی۔۔۔ اسے کیا پتہ نہیں ہے یہاں کے ہوسٹلز کا۔۔انکا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔ اس وقت وہاں شائستہ، انوشے، باصفا اور حیدر صاحب ہی تھے۔۔۔
اور خبر دار جو دوبارا جانے کا نام لیا تو۔۔۔
اگر تایا ابو کو پتہ چل جائے میں ہوسٹل کیسے پہنچی تو کیا سوچیں گے میرے بارے میں۔۔۔ انہوں نے تو ابو کو نکال دیا تھا تو کیا مجھ جیسی لڑکی کو رکھیں گے؟؟؟ یقیناً یہ لوگ بھی بھائی کی طرح مجھے نکال باہر کریں گے۔۔۔۔
یا اللہ میرا بھرم رکھنا۔۔۔ مجھے یہ چھت دے کر مجھ سے چھیننیے گا مت اللہ پلیز۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اسے یہاں آئے دو ماہ ہو گئے تھے۔۔۔ وہ سب کے ساتھ بہت گھل مل گئی تھی۔۔۔ سب اسکا بہت خیال رکھتے۔۔۔ اس نے بھی خود کو جلد ہی ایڈجسٹ کر لیا تھا۔۔۔ اسے کھانا بنانا نہیں آتا تھاا۔۔۔ تائی آمی اتنا مزے کا کھانا بناتی تھیں تو اس نےان سے فرمائیش کی کہ اسے بھی سکھا دیں۔۔۔ یہ شاید خود کو فضول سوچوں سے بچانے کی لاشعوری کوشش تھی۔۔۔
وہ اس کام بالکل اناڑی تھی اس لیے اسے بہت مشکل ہوئی مگر آہستہ آہستہ بناتےاب وہ کافی بہتر ہو گئی تھی۔۔۔اس کی مما کے ہاتھوں میں بہت ذائقہ تھا جو کہ اسکے ہاتھوں میں بھی تھا۔۔۔ چانکہ اس نے پہلے کبھی کچھ بنایا ہی نہیں تھا تو اسے اندازہ نہین تھا وہ اتنا اچھا کھانا بنا سکتی ہے۔۔۔۔
کچن کا کام انوشے اور شائستہ بیگم ہی سنبھالتی تھیں جب سے باصفا نے کوکنگ سیکھی تھی اس نے شایستہ کی ذمہ داری اپنے سر لی لی تھی انہوں نے بھت احتجاج کیا مگر ان دونوں نے انکی ایک نہ سنی آخر انہیں مانتے ہی بنی۔۔۔
آج بھی وہ کچن میں کھانا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔ انوشے چونکہ اپنے میکے گئی ہوئی تھی تو سب باصفا کو اکیلے ہی کرنا تھا۔۔۔
باصفا۔۔
جی تائی آمی۔۔۔
بیٹا یہ کپڑے ذرا اشعر کی الماری میں تو رکھ آؤ۔۔ ابھی آتا ہی ہو گا۔۔ اس نے جانا ہے کہیں اگر الماری میں کپڑے نہ ملے تو سارا گھر سر پہ اٹا لے گا۔۔۔
جی تائی آمی میں؟؟؟؟ اس نے انگلی اپنی طرف کر کے پوچھا۔۔۔
بیٹا انوشے ہے نہیں اور میرے گھٹنوں میں درد ہے سیڑھیاں نہیں چڑھا جائے گا۔۔۔
تائی آمی آپ کسی مازم سے کہ دیں نہ۔۔۔ اگر انہوں نے مجھے اپنے روم میں دیکھ لیا تو بہت غصہ کریں گے۔۔۔مجھے بہت ڈر لگتا ہے ان سے۔۔۔ اتنے عرصے میں اس کے غصے سے تو وہ واقف ہو ہی گئی تھی۔۔۔
اس کی بات سنتے شائستہ بیگم ہنس دیں۔۔۔ ارے بیٹا کچھ نہیں ہوتا ابھی وہ کونسا گھر پہ ہے۔۔۔۔ کسی اور کو بھیجا اگر کوئی چیز ادھر اُدھر ہو گئی تو پھر چلائے گا۔۔۔۔ تم ذرا احتیاط سے رکھ آؤ گی۔۔۔
دیکھ لیں تائی آمی۔۔۔ پکا نہ کچھ نہیں ہو گا نہ۔۔۔ وہ ابھی بھی مطمئن نہیں ہوئی تھی۔۔۔
ہاں نہ کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔
اور وہ کپڑے لیے اوپر آ گئی۔۔۔ کپڑے رکھ کر ابھی وہ مڑی ہی تھی کہ اپنے بالکل پیچھے کھڑے اشعر کو دیکھ کر گھبرا گئی۔۔۔ جس بات سے ڈر رہی تھی وہ ہی ہوا تھا۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔ وہ اپنی بھاری رعبدار آواز میں بولا۔۔۔ اسکی آواز میں ایسا رعب ہوتا سامنے والا تو ویسے ہی گھبرا جاتا۔۔۔
میں۔۔ میں اپکے کپڑے رکھنے آئی تھی۔۔۔
مگر وہ اپنی شکی نظریں اس پہ گاڑے بولا۔۔۔ کیا تم اپنی آمد کا اصل مقصد بتاؤ گی۔۔۔
کیا مطلب ہے آپکا میں آپکے روم میں چوری کرنے آئی ہوں۔۔۔ وہ چڑ کر بولی۔۔۔
ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم یہاں کسی پلین کے تحت آئی ہو۔۔۔
مطلب وہ ابھی تک اسے مشقوق ہی سمجھ رہا تھا۔۔۔
اففف ایک تو یہ پولیس والے۔۔۔۔
آپ کو میری بات پہ یقین نہیں ہے تو آپ تائی آمی سے پوچھ لیں انہوں نے ہی بھیجا ہے مجھے۔۔
آئیندہ مجھے تم یہاں نظر نہ آؤ سمجھی وہ انگلی اُٹھائے اسے اسے وارن کر رہا تھا۔۔۔ اب کھڑی کیا ہو نکلو یہاں سے۔۔
اور باصفا تو موقع ملتے ہی وہاں سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوئی۔۔
ہونہہ سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔ جب بھی بولے گا منہ سے آگ ہی برسائے گا۔۔۔ ڈریگن نہ ہو تو۔۔۔
۔۔۔۔۔
ہیلو لیڈیز کیا ہو رہا ہے۔۔۔ وہ ابھی نائٹ شفٹ دے کر گھر آیا تھا۔۔۔ اور کچن میں پانی پینے آیا تھا۔۔۔
لگتا ہے ڈاکٹر صاحب کو کچھ زیادہ ہی نیند آ رہی ہے جو سامنے کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔ اب اس وقت کچن میں ناشتہ ہی بنا رہی ہوں گی نہ۔۔۔ انوشے بولی۔۔۔
ہائے بھابی نیند کی مت پوچھیں بہت نیند آئی وی ہے۔۔۔
زید تم تو آج کل نظر ہی نہیں آتے کہاں گم ہو؟؟؟
باصفا نے پوچھا۔۔۔ زید کے ساتھ اسکی کافئ فرینکنس ہو گئی تھی۔۔۔
بس یار آجکل ہوسپٹل میں ایمرجنسی ہے۔۔ پچھلے دنوں جو بلاسٹ ہوا تھا اسی سلسلے میں۔۔۔ اوووہ اچھا۔۔
وہ تم فارغ کب ہوں گے؟؟؟؟
کیا بات ہے سویٹ سسٹر کوئی کام ہے؟؟؟؟
ہاں۔۔ وہ مجھے ہوسٹل لے چلو گے۔۔ مجھے وہاں سے اپنا کچھ سامان لینا ہے۔۔۔
کیا۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا۔۔۔؟؟؟؟ میں ہر گز ملتان نہیں جانے والا۔۔۔ زید میرے پیارے بھائی نہیں۔۔۔
ہر گز نہیں۔۔۔ آپ مجھے مسکے نہ ہی لگائیں۔۔۔ جو چاہیے مجھے بتاؤ میں لا دوں گا۔۔۔۔ایسا بھی کونسا سامان ہے جسے لینے تمہیں ملتان جانا ہے۔۔
ہاں باصفا زید ٹھیک کہ رہا ہے۔۔ تمہیں جو چاہیے یہیں سے لے لو۔۔۔
وہ انوشے باجی۔۔۔ میرے سامان میں مما، پاپا کی تصویریں ہیں مجھے وہ چاہیے۔۔۔ مجھے انکی بہت یاد آ رہی ہے۔۔۔ بہت ضبط کے باوجود بھی آنسو آنکھوں سے بہ نکلے۔۔۔
انوشے نے فوراً آگے بڑھ کر اسے تسلی دی۔۔۔
اچھا چڑیل لے چلوں گا اب خوش۔۔۔ اس نے اسکا موڈ ٹھیک کرنے کو شرارتی لہجے میں بولا۔۔۔اؤؤؤے یہ چڑیل کسکو بولا؟؟؟
تمہیں اور کسکو۔۔۔ وہ اطمنان سے بولا۔۔۔
تم نے مجھے چڑیل بولا رکو ذرا ابھی بتاتی ہوں تمہیں۔۔۔
اس نے پراٹھے بنانے کیلیے نکالے آٹے میں سے دونوں مٹیوں میں آٹآ بھرا اور زید کی طرف بڑھی۔۔۔
ارے ارے کڑکی یہ کیا کر رہی ہو۔۔ وہ اس کے خطرناک ارادے بھانپ کر فوراً باہر کی طرف بھاگا۔۔۔ اور باصفا بھی اسکے پیچھے دوڑی۔۔۔ اب بھاگ کہاں رہے ہو۔۔۔ مجھے چڑیل کہ رہے تھے نہ اب اس چڑیل نے تمہیں بھوت نہ بنایا تو کہنا۔۔۔ وہ آگے آگے دوڑ رہا تھا اور باصفا اس کے پیچھے۔۔۔
اچھا اچھا سوری معاف کر دو اب نہیں کہتا۔۔۔۔
باصفا نے آٹا زید کے اوپر پھینکا مگر یہ کیا آٹا آفس جانے کیلیے نک سک سے تیار کاشان بھائی پہ گرا۔۔۔ زید چونکہ برقرفتاری سے پیچھے ہٹ گیا اور سارا آٹا کاشان پہ جا گرا۔۔ جو اس آفتاد پہ بوکھلا گئے۔۔۔ انوشے اور شائستہ بیگم بھی وہاں آ گئیں اور نک سک سے تیار کاشان کو آٹے میں لیتو پیتو دیکھ سب کا مشترکہ قہقہ گونجا۔۔۔
جبکہ باصفا منہ پہ ہاتھ رکھے شاکڈ سی کھڑی تھی۔۔۔
یہ تم نے کیا کیا لڑکی۔۔۔
آئم سوری۔۔ آئم سو سوری کاشان بھائی میں تو زید پہ۔۔۔ باصفا کو لگا اب اسکی خیر نہیں۔۔۔
اوووہ نو یہ کیا ہو گیا مجھ سے۔۔۔
مگر یہ کیا کاشان بھائی بجائے غصہ کرنے کے مسکرا رہے تھے۔۔۔۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی جو اسے ڈانٹنے کی بجائے خود بھی سب کے ساتھ مل کر ہنس رہے تھے۔۔۔ اگر انکی جگہ حمزہ بھائی ہوتے تو اس حرکت پہ ایک آدھ تو لگا ہی دیتے۔۔۔ اسےوہ دن یاد آیا جب حمزہ بھائی کو چائے پکڑاتے ہوئے غلطی سے تھوڑی سی چائے ان کے کپڑوں پہ گر گئی تھی اور انہوں نے کتنا ڈانٹا تھا۔۔۔ جانے کس احساس کے تحت اسکی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔
بعض دفعہ ہم ایسے چوراہے پہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔۔ مگر اللہ ااسی اندھی راہ میں سے ایسی روشن راہ ہموار کرتا ہے جو ہمیں سیدھا ہماری منزل تک لے جاتی ہے۔۔۔ جہاں اس کے پروردگار نے اسے رہنے کو محفوظ ٹھکانہ دیا تھا وہیں اتنے سارے لوگوں کا پیار بھی ملا تھا۔۔۔ وہ اپنے رب کی جتنی شکرگزار ہوتی کم تھا۔۔۔
ارے ارے باصفا پلیز رؤ مت میں جانتا ہوں تم نے جان کے نہیں کیا۔۔۔ ریلیکس چندہ۔۔۔ ۔ کاشان بھاائی شفقت سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔۔۔
تھینک یو بھائی۔۔۔
اچھا ویسے یہ تو بتاؤ یہ جنگ ہو کیوں رہی تھی؟؟؟؟
دیکھیں نہ بھائی زید نے مجھے چڑیل بولا۔۔۔ وہ بھی مان بھرے لہجے میں اترا کے بولی۔۔۔ اب اسکا بھی بھائی تھا جو اس کے لئے بازپرس کرتا۔۔۔
انسان بھی جانے کس مٹی سے بنا ہے۔۔ جو چیز اسکے پاس نہ ہو اسے اسی کی حرس ہرتی ہے۔۔۔ کسی کو دولت کی کسی کو شہرت کی اس سب کے لیے انسان اپنے بہترین رشتوں کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔۔۔ اور جس کے پاس یہ سب ہو اسے پیار کی کمی رہتی ہے۔۔۔
کیا۔۔۔۔ چڑیل؟؟؟؟ کاشان اسکی بات پہ قہقہ لگا کہ ہنسا۔۔۔
او ہو ہنسنا نہیں ہے اس سے پوچھیں اس نے ایسا کیوں بولا مجھے۔۔۔ وہ معصومیت بھرے انداز سے بولی۔۔۔
اس کے اتنے معصومیت بھرے انداز پہ شائستہ کو بےاختیار اس پہ پیار آیا۔۔۔ وہ اسے اپنی بازؤں کے حصار میں لیتی بولیں۔۔۔
خبردار جو آئندہ کسی نے میری بیٹی کو تنگ کیا تو۔۔۔
اؤؤے ڈاکٹر لگتا ہے تیری آئی سائیڈ ویک ہو گئی ہے جا پہلے جا کر اپنا چیک آپ کروا۔۔ کاشان نے بھی اسے ڈانٹا۔۔۔
دس از ناٹ فئر آپ سب اس چڑیل کی سائیڈ لے رہے ہو۔۔ زید نے جیسے دہائی دی۔۔۔
ہاں تو تم اتنی خوبصورت لڑکی کو جو چڑیل بولو گے تو تمہاری سائیڈ کوئی کیوں لے گا۔۔
ویسے باصفا یقین جانو کام تمہارے چڑیلوں والے ہی ہیں۔۔۔ آخر میں کاشان اپنی طرف اشارہ کرتے شرارت سے بولا۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔ ویسے یقین جانیں بڑے ہی ہینڈسم لگ رہے ہیں ایسے ہی آفس جائیں سب دیکھتے رہ جائیں گے۔۔۔ وہ بھی جواباً شرارت سے بولی۔۔۔
زید بالکل ٹھیک کہتا ہے تم واقعی چڑیل ہو۔۔ وہ جل کر بولے۔۔
چلو اب بس کرو یہ سب۔۔۔ جاؤ کاشان جلدی سے چینج کر کے آؤ تمہیں دیر وہ رہی ہے۔۔۔ اور تم لوگ بھی جاؤ ناشتہ لگاؤ ٹیبل پہ۔۔۔
انکی یہ محفل شائستہ بیگم نے ہی برخواست کروائی۔۔
زید فارغ ہوتے ہی اسے ہوسٹل لے گیا۔۔۔ وہ اس وقت وارڈن کے روم میں تھی جو اس سے مختلف قسم کے سوال کر رہی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی اس کے اسطرح غائب ہونے سے بہت سے سوال اٹھیں گے۔۔۔ اگر اسے تصویریں اور ڈائری نہ لینی ہوتی تو وہ دوبارہ کبھی یہاں نہ آتی۔۔۔ مگر آنا مجبوری تھی۔۔۔
اووہ باصفا آپ۔۔ آپ تو بازار کا کہ کر گئیں تھیں اور پھر وہیں سے کسی کے ساتھ چلیں گئیں۔۔۔ آپ کو ہوسٹل کے رولز نہیں معلوم کیا۔۔۔ وہ تو ثناء نے بتایا تھا کہ آپ وہاں سے کسی لڑکے کے ساتھ چلی گئیں ہیں۔۔۔وہ تو آپ کا اتنے سالوں کا صاف کیرئیر دیکھ کے ہم نے پولیس کو انوالو نہیں کیا۔۔۔ ورنہ آپ جانتی ہیں ان معاملات کوہینڈل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔
جی میم وہ میں۔۔۔
یہ میرے ساتھ ہی گئی تھیں۔۔۔سوری ہم کافی ایمرجنسی میں گئے تھے تو بتا نہ سکے۔۔ آپ کا بہت شکریہ آپ نے تعاون کیا
جی آپ؟؟؟؟
میں انکا تایا زاد ہوں۔۔۔ اور یہ آجکل ہمارے ساتھ ہی ہیں۔۔۔
باصفا نے تشکر بھری نظروں سے زید کو دیکھا جس نے بر وقت بات سنبھال لی۔۔۔
اووہ اچھا۔۔ لیکن پھر بھی آپ کو ایک فون کال کر کے انفارم کر دینا چاہیے تھا۔۔۔ ایکچوئلی میم میرا فون مس پلیس ہو گیا ہے۔۔ اور سب نمبرز اسی میں سیو تھے۔۔۔ اس لیے انفارم نہیں کر پائی۔۔۔
اوکے۔۔۔۔
میم وہ میرا سامان۔۔۔
ہم کافی دن آپ کا انتظار کرتے رہے پھر جب آپ نہ لوٹیں تو سامان اسٹور روم میں رکھوا دیا۔۔۔ آپ نجمہ کے ساتھ چلی جاؤ اور اپنا سامان اسٹور روم سے لے لو۔۔۔ میں اسے کہ دیتی ہوں۔۔۔
جی شکریہ۔۔۔
اس نے اپنا مختصر سا سامان لیا اور واپسی کے لیے چل دیے۔۔۔
وہ ڈائیری ہی اسکا کل اساسہ تھی۔۔۔ جس میں اسکے گزرے ماہ و سال کا ایک ایک اذیت ناک لمحہ درج تھا۔۔۔ اور اسی میں ہی اسکی فیملی کی تصویریں بھی تھیں جن کو اس نے فون میں سے ڈیولپ کروایا تھا۔۔۔
What????
شادی۔۔۔ اور وہ بھی باصفا سے۔۔ نو نیور۔۔۔ میں اس سے ہر گز شادی نہیں کروں گا۔۔۔
کیوں؟؟؟؟ مسلئہ کیا ہے اس سے شادی کرنے میں؟؟؟
جب شائستہ بیگم اور حیدر صاحب نے اس سے شادی کی بات کی تو وہ تو ہتھے سے ہی اکھڑ گیا۔۔۔ اسکا تو دماغ ہی آؤٹ ہو گیا اس بات پہ۔۔۔
پتہ نہیں کون ہے۔۔۔ کن کن لوگوں سے اس کے تعلقات ہیں ۔۔۔ اور آپ چاہتے ہیں میں ایسی لڑکی سے شادی کر لوں۔۔۔ جسکا کریکٹر ہی میری نظروں میں مشقوق ہے۔۔۔
اشعر اب تم حد سے بڑھ رہے ہو۔۔۔تم باصفا کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر رہے مت بھولو وہ تمہارے چچا کی بیٹی ہے۔۔۔ ہمارے گھر کی عزت ہے وہ۔۔۔ آئیندہ اس کے بارے میں کچھ بھی الٹا بولنے سے پہلے یہ سوچ لینا۔۔۔
جو بھی ہے میں اس سے شادی نہیں کروں گا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر تم بھی سن لو تمہاری شادی ہو گی تو صرف باصفا سے ہی ہو گی۔۔۔۔ حیدر صاحب ضد کرتے نہیں تھے مگر جس بات پہ اڑ جاتے تو پھر انہیں اس بات سے پھیرنا نا ممکن ہو جاتا۔۔۔
شائستہ بیگم کو یوں لگ رہا تھا جیسے چند سال پہلے والا واقعہ پھر سے دہرایہ جا رہا ہو۔۔۔ اب بھی وہ اپنی بات پہ اڑ گئے تھے۔۔۔ اگر اشعر نے انکی بات نہ مانی تو۔۔۔۔ ایک بار پھر عورت کا ہی امتحان تھا۔۔۔ ہر ماں کی طرح انکا بھی یہی دل تھا انکا بیٹا ہنستی مسکراتی زندگی گزارے۔۔۔ مگر یہ جو زبردستی کے رششتے ہوتے ہیں بعض دفعہ انہیں نبھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔
آپ بھی پھر سن لیں میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا۔۔۔ وہ یہ کہ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔
مگر پھر شائستہ بیگم اور حیدر صاحب کی مسلسل ناراضگی پہ اسے ہاں کرتے ہی بنی۔۔۔
آمی آپ جانتی ہیں میں آپ دونوں کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتا اسی لیے آپ لوگ ایسا کر رہے ہیں میرے ساتھ۔۔۔
تو تمہارے ابو جو کہ رہے ہیں تم مان لو نہ انکی بات۔۔ باصفا بہت اچھی ہے۔۔۔ تم دیکھنا تم اس کے ساتھ بہت خوش رہو گے۔۔۔۔
اوکے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ بتا دیں اپنے دبنگ ہسبنڈ کو میں راضی ہوں۔۔۔ مگر میری بھی ایک شرط ہے۔۔۔
اب وہ کیا؟؟؟
ابھی صرف نکاح ہو گا وہ بھی سادگی سے۔۔۔۔
لو بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔ میں تو بڑی دھوم دھام سے اپنے بیٹے کی شادی کروں گی۔۔۔
آمی ابھی میں بہت مصروف ہوں۔۔۔ ابھی یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا اگر آپ کو میری شرط منظور ہے تو ٹیھک ہے ورنہ۔۔۔۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے یہ رعب تم کسی اور کو جا کے دکھاؤ آفسر ہو گے اپنے تھانے میں۔۔۔۔ ماں کو دھمکیاں دیتے شرم نہیں آتی تمہیں۔۔۔ وہ مصنوعی خفگی سے بولیں۔۔۔
ارے میری پیاری آمی خفہ کیوں ہوتی ہیں۔۔۔ وہ لاڈ سے انکے کاندھوں کے گرد بازو ہمائل کرتا بولا۔۔۔۔ اچھا اب بتائیں ناراضگی ختم نہ۔۔۔
لو بھلا میں تم سے ناراض ہو سکتی ہوں۔۔۔ وہ ممتا بھرے لہجہ میں بولیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تائی آمی تایا ابو آپ۔۔۔ کوئی کام تھا تو مجھے بلوا لیتے۔۔۔۔
ہم اپنی بیٹی کے پاس نہیں آ سکتے کیا؟؟؟
کیوں نہیں آپ کا جب دل چاہے آ سکتے ہیں۔۔۔
اللہ میری بیٹی کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔
باصفا۔۔۔
جی تائی آمی۔۔۔
بیٹا ہم یک ارضی لے کر آئے ہیں تمہارے پاس۔۔۔
تائی آمی آپ حکم کریں۔۔۔وہ انکے انداز پہ ٹھٹکی تھی۔۔۔ یا اللہ اب مزید آزمائش میں مت ڈالنا۔۔۔۔
بیٹا ہماری چھوٹی سی خواہش تھی کہ تمہارا اور اشعر کا نکاح ہو جائے۔۔۔
کیا؟؟؟؟ نکاح۔۔۔شادی کا سن کر تو وہ چکرا گئی۔۔۔ شادی کا لفظ تو وہ ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے نکال چکی تھی۔۔۔
مگر اب۔۔۔۔ کیا وہ انہیں انکار کر دے۔۔۔ جنہوں نے اسے اتنا پیار دیا۔۔۔ مان دی عزت دی۔۔۔
اسکی خاموشی پہ حیدر صاحب بولے۔۔۔ بیٹا ہم زبردستی نہیں کریں گے۔۔ اگر تمہیں ہمارا فیصلہ منظور نہیں ہے تو تم انکار کر سکتی ہو۔۔۔ دیکھو بیٹا ہم ہی اب تمہارے بڑے ہیں اس لیے اب تمہارے مستقبل کا فیصلہ ہمیں ہی تو کرنا ہے۔۔۔ بس میری یہ خوہش تھی کہ رحمان کی نشانی کو ہمیشہ کیلیے اپنے پاس رکھ لوں۔۔۔
آپ میرے بڑے ہیں جو بھی فیصلہ کریں گے میری بہتری کے لیے ہی کریں گے ۔۔۔۔
سدا خوش رہو۔۔۔ اللہ تم دونوں کی جوڑی سلامت رکھے ۔۔۔۔
وہ اسے پیار کرتی اور ڈھیروں دعائیں دیتے چلے گئے۔۔۔ اور اسے پھر سے سوچوں میں ڈال گئے۔۔۔
اب باصفا کو لگ رہا تھا اس نے اپنے بارے میں نہ بتا کر غلط کیا ہے۔۔۔ اسے وہ سب بتا دینا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن اگر وہ بتا دیتی اور وہ اسے نکال دیتے تو۔۔۔ مگر وہ جھوٹ کی بنیاد پہ ایک نیا رشتہ کیسے قائم کر سکتی تھی۔۔۔ ایسے تو وہ اشعر کو دھوکہ دے گی۔۔۔ اور کیا اشعر وہ ایسی لڑکی کو اپنی بیوی بنائے گا۔۔۔۔مگر میں انہیں سچ کیسے بتاؤں مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے۔۔۔۔ میں پھر سے در بدر ہو جاؤں گی۔۔۔
یا اللہ ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری آ جاتی ہے۔۔۔ آخر میری زندگی میں سکون کب آئے گا۔۔۔۔ اب وہ اللہ سے گلے شکوے کرنے لگی۔۔۔
اور وہ ڈریگن ہونہہ ویسے تو اس سے اسکے کمرے میں اس دن برداشت نہیں ہوئی تو ساری زندگی کیسے کرے گا۔۔۔ وہ تو منہ سے آگ اگل اگل کے ہی راکھ کر دے گا مجھے۔۔۔ وہ خود سے ہی بیٹھی الجھتی رہی۔۔۔
اور پھر جمعہ کو سادگی سے انکا نکاح ہو گیا۔۔۔
نکاح کے بعد بھی اشعر کا رویہ پہلے جیسا ہی تھا۔۔۔۔ وہ نہ تو اسے پہلے مخاطب کرتا تھا اور نہ ہی اب۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ معمول کے مطابق فجر کی نماز پڑھ کے لان میں آ گئی۔۔۔ موسم تبدیل ہو رہا تھا۔۔۔ سردیوں کی آمد تھی۔۔۔ اور ایسے موسم میں اسے لازمی بخار ہو جاتا تھا۔۔۔
آج بھی اسے اپنی طبیعت بوجھل سی لگ رہی تھی سر بھی بھاری ہو رہا تھا۔۔۔ اس لیے وہ گھاس پہ چلنے کی بجائے کرسی پہ ہی آنکھیں موند کر بیٹھ گئی۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشعر جو کہ باصفا سے بات کرنے آیا تھا کتنے ہی پل اس معصوم چہرے کو دیکھتا رہا۔۔ دل میں ایک عجیب سا احساس جاگا جسے فی الوقت وہ کوئی نام نہ دے سکا۔۔۔ آج سے پہلے تو ایسا نہیں ہوا تھا پھر آج اسے دیکھ کر ایسی فیلنگ کیوں ہو رہی تھی۔۔۔ کیا یہ اس پاکیزہ رشتے کی وجہ سے تھا۔۔۔۔
سفید ڈوپٹے کے حالے میں اسکا دمکتہ چہرا کتنا پر نور لگ رہا تھا۔۔۔۔
اپنی سوچوں سے گھبرا کر اس نے باصفا کو آواز دی۔۔۔۔
سنو۔۔۔۔
باصفا نے کسی کے بلانے پہ آنکھیں کھولیں اور اشعر کو سامنے دیکھ فوراً کھڑی ہوئی۔۔۔۔
جی؟؟؟؟
وہ آج شام کو میرے کچھ دوستوں نے ہمارے نکاح کی پاڑتی رکھی ہے تو شام کو تیار رہنا۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔۔
اسکا بخار مزید تیز ہو گیا۔۔۔۔ جس پہ تائی آمی نے زبردستی دوا کھلا دی۔۔۔۔
تائی آمی مجھے شام کو جانا بھی ہے اگر دوا کھا لی تو میں سو جاؤں گی۔۔۔ اور پھر آنکھ نہیں کھلے گی۔۔۔۔
اس نے بہت احتجاج کیا۔۔۔ مگر تائی آمی نے اسے وقت پہ جگانے کا کہ کر دوا کھلا کر ہی دم لیا۔۔۔۔
وہ ڈر رہی تھی اگر وہ تیار نہ ہوئی تو اشعر سے یقیناً ڈانٹ پڑے گی۔۔۔۔
اور پھر ہوا وہی وہ دوا کھا کر سو گئی۔۔ کچھ رات بھی ٹھیک سے نہیں سوئی تھی تو جلد ہی گہری نیند میں چلی گئی۔۔۔
اسکی آنکھ کسی کے جھنجھوڑنے پہ کھلی۔۔۔ اس نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر سامنے کھڑے اشعر کو دیکھا۔۔۔ جو قہر برساتی نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔۔ تمہیں سونے کے علاوہ بھی کوئی کام آتا ہے۔۔ صبح کیا کہ کر گیا تھا میں۔۔۔۔
اشعر جو کہ اسے لیجانے آیا تھا۔۔۔ مگر باصفا کو یوں سوتا دیکھ کر اس پہ چڑھ دوڑا۔۔۔ پہلے ہی دیر ہو رہی ہے اور یہ محترمہ بڑے مزے سے سو رہی ہیں۔۔۔
تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں اگر تم دس منٹ میں باہر نہ آئی نہ تو پھر دیکھنا۔۔۔
اور باصفا پورے دس منٹ بعد اشعر سے سامنے تھی۔۔۔۔
اشعر بلیک شلوار قمیض جس کے گلے پہ نفیس سا سلور تلے کا کام تھا۔۔۔ اور ساتھ میں بلیک ہی ویسکٹ پہنے بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔
جبکہ باصفا بھی بلیک ڈریس جس پہ وایٹ نگینوں کا کام تھا۔۔۔ اسکے ساتھ ڈایمنڈ جیولری پہنے ہلکے سے میک آپ میں بھی بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔۔
بخار کی وجہ سے آنکھوں میں سرخ ڈورے اسکے حسن کو اور بھی دوآتشہ بنا رہے تھے۔۔۔ اشعر دم بخود سا کتنے ہی لمحے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ جانے کنبخت دل کو بھی کیا ہو گیا تھا۔۔۔ اسے دیکھ کر عجیب انداز میں دھڑکنے لگتا۔۔۔ باصفا اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر کافی کنفیوز ہو رہی تھی۔۔۔ آخر جب وہ یوں ہی تکتا رہا تو مجبوراً با صفا کو ہی بولنا پڑا۔۔۔
چلیں؟؟؟؟
اور پھر وہ دونوں اجازت لینے شائستہ بیگم کے پاس گئے۔۔۔ آمی ہم جا رہے ہیں۔۔۔۔
شائستہ بیگم نے اپنے دونوں بچوں کی نظر اتاری جو ایک ساتھ کتنے پیارے لگ رہے تھے۔۔۔
اللہ تم دونوں کی جوڈی سلامت رکھے۔۔۔۔
اور وہ ان سے دعایئں لیتے جانے کے لیے باہر آئے۔۔۔ باصفا نے جھٹ نقب کیا جو اس نے گھر سے نکالے جانے کے بعد ہی کرنا شروع کیا تھا اور پورچ کی طرف بڑھی جہاں اشعر اس کے لیے فرنٹ ڈور کھوکے کھڑا تھا۔۔۔
وہ اسے اسطرح نقاب میں دیکھ کر کافی حیران ہوا۔۔۔ اسے باصفا کا خود کو ڈھانپنا بہت اچھا لگا۔۔۔۔
پارٹی چونکہ انکے نکاح کے آنر میں تھی تو مین فوکس وہ دونوں ہی تھے۔۔۔۔
وہاں بہت سے لوگ موجود تھے باصفا اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر کافی کنفیوز ہو رہی تھی۔۔۔ اس واقعے کے بعد تو اس میں جو تھوڑا بہت اعتماد تھا وہ بھی ختم ہو چکا تھا۔۔ جانے کتنے عرصے بعد وہ اس طرح کی کسی گیدرنگ میں آئی تھی۔۔۔ گو کہ اس نے ڈوپٹے سے اچھی طرح خود کو ڈھانپ رکھا تھا مگر اسے پھر بھی لگ رہا تھا جیسے وہ ننگے سر سب کے بھیچ کھڑی ہے۔۔۔ اور یہاں موجود ہر شخص اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا ہو۔۔۔۔
وہ کوشش کر رہی تھی اشعر کے ساتھ ساتھ رہے مگر کب تک۔۔۔ آخر اشعر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا اور وہ فریحہ(ولی کی فیانسی) کے ساتھ کورنر والی ٹیبل پہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
فریحہ بہت ہی باتونی لڑکی تھی۔۔ یا باصفا کم بولتی تھی اس لیے اسے ہر کوئی ہی باتونی لگتا تھا۔۔۔ وہ ہی بول رہی تھی اور وہ بس ہوں ہاں میں ہی جواب دے رہی تھی۔۔۔ اب وہ پچھتا رہی تھی کہ کیوں اس لڑکی کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔ جس کے سوال و جواب ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔
اللہ اللہ کر کے کھانا لگا اور باصفا نے شکر کیا کہ کچھ دیر ہی سہی اس لڑکی سے جان تو چھوٹے گی۔۔۔ مگر وہ کھانا ڈال کر پھر سے اسکے پاس آ گئی۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
باصفا کو سر ڈھانپے دیکھ اشعر کو بہت خوشی ہو رہی تھی۔۔۔ وہ جگہ جگہ پھرنے والا مرد تھا اسے مورڈنیزم کے نام پہ جسموں کی نمائش کرتی کڑکیاں بہت بری لگتی تھیں۔۔۔ اس نے اپنی شریکِ حیات کے لیے ایسی لڑکی ہی چاہی تھی۔۔۔ اسکا ماننا تھا عورت کی اصل خوبصورتی پردے میں ہی ہے۔۔۔ مگر آجکل کی جنریشن عریاں لباس پہن کہ مردوں کی داد وصول کرنے کو خوبصورتی گردانتی ہے۔۔۔۔ وہاں موجود مردوں کی نظروں میں اسکی بیوی کے لیے عزت تھی ہوس نہیں۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آہم۔۔۔۔ آہم۔۔۔۔۔ یقین جانو آج تو پورے مجنوں لگ رہے ہو بس لیلیٰ لیلیٰ پکارنے کی کسر باقی ہے۔۔۔ ولی جو کب سے اشعر کو نوٹ کر رہا تھا جس کی نظریں باصفا کا ہی طواف کر رہی تھیں آخر اسے چھیڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔ وہ دونوں بھی کھانا ڈال کے سب سے الگ کھڑے تھے۔۔۔
بکواس نہیں کر۔۔۔ وہ تو بس باصفا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو میں دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔ بات کرتے کرتے اسنے باصفا کی جانب دیکھا مگر اسکی زرد رنگت دیکھ کر بات منہ میں ہی رہ گئی۔۔۔
اشعر نے فوراً باصفا کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں انسپکٹر دانیال کھڑا کسی سے فون پہ بات کر رہا تھا۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ باصفا انسپکٹر دانیال کو دیکھ کر یوں زرد کیوں پڑھ گئی ہے۔۔۔
وہ فوراً باصفا کی جانب آیا جسکے ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے۔۔۔
باصفا۔۔، باصفا۔۔ کیا ہوا تم ٹھیک ہو۔۔۔
باصفا اشعر کو دیکھ کر فوراً اسکے سینے میں چھپ گئی۔۔۔
اش۔ اشعر۔۔۔۔ اشعر مجھے بچا لیں ۔۔ وہ۔۔۔ وہ مجھے پھر سے لے جائیں گے۔۔۔۔ پلیز اشعر مجھے بچا لیں۔۔۔
کون کہاں لے جائے گا ہوا کیا ہے؟؟؟ آخر کچھ پتہ بھی تو چلے۔۔۔۔
وہ۔۔۔ اس نے اس جگہ اشارہ کیا جہاں کچھ دیر پہلے دانیال کھڑا تھا۔۔
وہ وہ وہاں تھا میں نے خود دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ جانے بے ربط سا کیا بولے جو رہی تھی اشعر سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔
اب سب لوگ انکی جانب متوجہ ہونے لگے تھے۔۔۔۔
اشعر تم انہیں لے کر گاڑی میں جاؤ اور وہاں اطمینان سے پوچھو۔۔۔۔۔
ولی نے سب کی توجہ ان کی جانب دیکھ کر اشعر سے کہا۔۔۔
وہ اسے لیے گاڑی میں آ گیا۔۔۔
ہاں اب بولو تم دانیال کو کیسے جانتی ہو اور اسے دیکھ کر گھبرا کیوں گئی۔۔۔۔
اشعر وہ جنہوں نے مجھے کڈنیپ کیا تھا وہاں یہ بھی تھا۔۔۔ میں نے خود دیکھا تھا اسے وہاں۔۔۔۔
اب اشعر کو ساری بات سمجھ میں آ گئی تھی۔۔۔۔
اشعر۔۔۔ اشعر۔۔۔ انہوں نے مجھے آپ کے ساتھ دیکھ لیا ہے یہ لوگ مجھے پھر سے لے جائیں گے۔۔۔ پلیز مجھے ان سے بچا لیں۔۔۔ وہ کسی خوفزدہ بچے کی طرح اسکے سینے میں چھپی ہوئی تھی۔۔۔۔
باصفا۔۔۔ ریلیکس۔۔۔ جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔۔۔ سو گھبراؤ نہیں۔۔۔
تم یہں رکو میں آتا ہوں۔۔۔ آ۔۔۔ آپ کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ پلیز مجھے چھوڑ کر مت جائیں۔۔۔۔
اشعر جو کہ ولی کے پاس جا رہا تھا باصفا کی کنڈیشن دیکھ کر جانے کا ارادہ ترک کرکے اسے کال کر کے اپنے پاس ہی بلا لیا۔۔۔
ولی ہم جا رہے ہیں تم یہاں سب ہینڈل کر لینا۔۔۔ اوکے۔۔۔۔
تم فکر نہ کرو بھابی کو لے کر جاؤ گھر۔۔ میں سب ہینڈل کر لوں گا۔۔۔۔
باصفا کی کنڈیشن کو دیکھتے ہوئے اشعر نے اسے نیند کی گولی کھلا دی تھی اور پھر کافی دیر تک اسکے پاس بیٹھا رہا۔۔۔۔ وہ نیند میں بھی کافی مضطرب لگ رہی تھی۔۔۔ وہ اسکی حالت سمجھ سکتا تھا۔۔۔۔
وہ اس وقت اتنے ذہنی دباؤ میں تھی کہ اسے چینج کرنے کا بھی ہوش نہیں تھا۔۔۔۔۔
اشعر نے اسکی جیولری اتری کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھی پھر اسکی نظر باصفا کی نگینوں سے بھری شرٹ پہ پڑی۔۔۔ وہ بغیر کچھ سوچے اٹھا
صفا کی وارڈروب سے سادہ شرٹ نکالی لائٹ آف کر کے نائٹ بلب جلایا اور اسے پہنا دی۔۔۔۔ پھر اس پہ جھکا اور اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
وہ نہیں جانتا تھا نکاح کے دو بول میں اتنی طاقت ہوتی ہے۔۔۔۔ جو دو اجنبیوں کو ایک دوسرے کے اتنا قریب لے آتی ہے۔۔۔
صبح جب باصفا کی آنکھ کھلی تو اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ پڑی اپنی جیولری دیکھی۔۔۔۔ جہاں تک اسے یاد تھا وہ تو ایسے ہی سو گئی تھی۔۔۔ اس نے اپنی شرٹ دیکھی وہ بھی چینجڈ تھی۔۔ تو کیا اشعر نے۔۔۔ یہ سوچ ہی اسے شرم سے پانی پانی کر گئی۔۔۔۔ اف میں بھی نہ۔۔۔۔
وہ واشروم سے باہر آئی تو اشعر کو اپنا منتظر پایا۔۔۔
اسلامُ علیکم۔۔۔ اس سے آہستہ آواز میں سلام کیا۔۔
وَعلیکم السلام۔۔۔ کیسی طبیعت ہے اب؟؟؟؟
جی ٹھیک۔۔۔۔ اسکی نظریں مسلسل نیچی ہی تھیں۔۔۔ مارے شرمندگی کے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔۔۔
البتہ اشعر اسکی حالت سے کافی محفوظ ہو رہا تھا۔۔۔۔
آپ پلیز بیٹھ جائیں مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔
جی۔۔۔
دیکھیں آپ مجھے کڈنیپنگ سے لے کر ساری تفصیل دوبارہ سے بتائیں۔۔۔
اور باصفا نے اسے شروع سے سب بتا دیا۔۔۔۔
رستہ یاد ہے آپ کو؟؟؟
نہیں رستہ تو مجھے نہیں یاد کیوں کہ میں اس شہر سے ناواقف ہوں۔۔۔
ہوں۔۔۔ کوئی نشانی وغیرہ۔۔ یا بل بورڈ یا ایسی کوئی اور نشانی۔۔۔ اور پھر جو جو نشانی اسے یاد تھی اس نے وہ سب اشعر کو بتا دی۔۔۔۔
چونکہ تب اسکی آنکھوں پہ پٹی نہیں بندھی تھی۔۔ اور وہ جگہ کو پہچاننے کی کوشش بھی کر رہی تھی تو اس نے وہاں موجود چیزوں کو کافی غور سے دیکھا تھا۔۔۔۔
اور جو اس نے بتایا تھا اشعر کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔۔۔۔
اب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ریڈ کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔ اس ریڈ میں اسنے صرف ان لوگوں کو ہی شامل کیا تھا جس پہ اسے پورا بھروسہ تھا۔۔۔۔
وہ پچھلے چند دن سے بہت مصروف تھا تو دوبارہ باصفا کی خیریت معلوم نہ کر سکا۔۔۔ آج دوپہر میں ہی گھر آ گیا تھا تو سوچا پہلے باصفا سے مل لے اس نے ادھر اُدھر دیکھا مگر وہ نظر نہ آئی تو کچن میں چلا آیا۔۔۔ بھابی وہ باصفا کدھر ہے۔۔۔۔
ہائے میرے کان تو نہیں بج رہے کہیں۔۔۔ اشعر اور باصفا کا پوچھ رہا ہے۔۔۔
ہاں تو بیوی ہے میری اسکا نہیں پوچھوں گا تو کس کا پوچھوں گا۔۔۔۔
وہ بھی ڈھٹائی سے بولا۔۔۔
خیر ہے جناب۔۔۔ یہ اینگری ینگ مین لوّر مین کب سے بن گیا۔۔۔ اوہوووو بھابی آپ رہنے دیں میں خود ہی دیکھ لیتا ہوں۔۔۔۔
اچھا اچھا میرے سڑیل دیور روم میں اپنے وہ۔۔۔
شکریہ پیاری بھابی جی۔۔۔۔۔ وہ جل کر بولا۔۔۔۔
وہ ناک کر کے اندر آیا تو دیکھا باصفا بیڈ کراؤن سے ہی ٹیک لگائے سو رہی تھی۔۔۔
وہ واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا اس کی نظر نیچے گری ڈائری پہ پڑی۔۔۔ جو یقیناً باصفا کے ہاتھ سے ہی گری تھی۔۔۔۔
اسنے آگے بڑھ کے جیسے ہی ڈائری اٹھائی اس میں سے چند تصویریں نیچھے گریں۔۔۔ اشعر وہ تصویریں اٹھا کر دیکھنے لگا۔۔۔ جس میں موجود باصفا اب کی باصفا سے بالکل مختلف لگ رہی تھی۔۔۔۔ وہ تو کوئی اور ہی شوخ و چنچل سی لڑکی لگ رہی تھی۔۔۔ اس کے ساتھ یقیناً چچا ، چچی تھے۔۔۔ جب سے باصفا یہاں آئی تھی اسے نہیں یاد پڑتا اس نے باصفا کو بے فکری سے قہقہ لگا کر ہنستے دیکھا ہو۔۔۔ جیسا کہ اس عمر میں اکثر لڑکیاں ہوتی ہیں باصفا ویسی ہر گز نہیں تھی۔۔۔وہ بہت سنجیدہ اور کچھ خوفزدہ سی تھی۔۔۔ اس نے اسے مسکراتے بھی کم ہی دیکھا تھا۔۔۔۔
اپنی بیوی کو جاننے کے تجسس میں اس نے وہ ڈائری پڑھنی شروع کر دی۔۔۔۔ چونکہ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت تھی جو کہ اشعر زندگی میں پہلی دفعہ کر رہا تھا۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا یہ حرکت اسے بہت مہنگی پڑنے والی ہے۔۔۔۔
شروع کے چند صفحات میں شعرو شائری تھی۔۔۔ مگر آگے باصفا کی زندگی کی کہانی تھی۔۔۔
جیسے جیسے اشعر ڈائری پڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ اسکا چہرہ غصے سے لال ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔
آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا
کُچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھریوں ہُوا کہ خُود مِرا چہرا بدل گیا
جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا
قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا
کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا!
اِک سر خوشی کی موج نے کیسا کیا کمال!
وہ بے نیاز، سارے کا سارا بدل گیا
اٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا تو سارا تماشا بدل گیا
حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا
کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا، مکان کو نقشہ بدل گیا
شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آکے جو رستہ بدل گیا
قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
تعبیرکھو گئی، کبھی سَپنا بدل گیا
منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا
اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہوگئی!
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا
آنکھوں میں جتنے اشک تھے جگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا اور مری دُنیا بدل گیا
اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھو نڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
باصفا کی آنکھ کھلی تو اپنے سامنے کھڑے اشعر کو دیکھ کر حیران ہوتی اٹھی مگر اسکے ہاتھ میں موجود ڈائیری دیکھ کر وہیں ساکت ہو گئی۔۔۔۔ باصفا کو اسکی سرخ انگارہ آنکھوں سے بے انتہا خوف آیا۔۔۔۔۔ اس کے اندر کی کیفیت اسکے چہرے سے صاف عیاں تھی۔۔۔۔
آآآآہ تو نزاع کا وقت آن پہنچا تھا۔۔۔ ابھی چند لمحوں میں اسکی دنیا پھر سے تہہ و بالا ہونے والی تھی۔۔۔۔
وہ اپنے خشک ہلک کو تر کرتی بولی۔۔۔۔
اش۔۔ اشعر۔۔۔۔ وہ۔۔۔ الفاظوں نے بھی ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔۔۔
What the hell is this????
وہ اسکی ڈائیری دور اچھالتے ہوئے بولا۔۔۔۔
کیا ہے یہ؟؟؟؟
بولو۔۔۔۔ جواب دو۔۔۔
وہ اسے دونوں بازؤں سے پکڑے جھنجوڑ رہا تھا جبکہ گرفت اتنی سخت تھی کہ باصفا کو اسکی انگلیاں اپنے جسم میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔
اشعر۔۔۔ بے اختیار اسکے منہ سے کراہ نکلی۔۔۔
مگر اس پہ کسی بھی چیز کا کوئی اثر نہیں تھا۔۔۔ اس لمحے وہ یہ بھی بھلا بیٹھا تھا کہ یہ وہ ہی لڑکی ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔۔۔ یا اسے اس سب سے اتنی تکلیف ہی اس لیے ہوئی تھی کہ وہ ایک بد کردار لڑکی سے محبت کر بیٹھا تھا۔۔۔
اتنا بڑا دھوکہ۔۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس پردے کے پیچھے اتنا مکروہ چہرہ چھپا ہو گا۔۔۔
اشعر میری بات تو سنیں۔۔ اسنے اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہا مگر وہ تو جیسے کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔
کیا سنوں ہاں؟؟؟ بے غیرت مرد کی طرح یہاں بیٹھ کر اپنی بیوی کے معشوقی کے قصے سنوں۔۔۔ نہیں باصفا بی بی اتنا بے غیرت نہیں ہوں میں۔۔۔۔
جانے کس کس کے ساتھ منہ کالا کیا ہو گا۔۔۔
اور باصفا کو لگا جیسے دھڑام سے پوری عمارت اسکے سر پہ آن گری ہو۔۔۔ الفاظ تھے یا چابک جو وہ پے در پے مار رہا تھا۔۔۔۔ اور وہ درد کی شدت سے بلبلا بھی نہ سکی۔۔ کیوں کہ یہ چابک اسکے جسم کو نہیں بلکہ روح کو گھایل کر رہے تھے۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ میں تمہیں دھکے دے کر یہاں سے نکالوں بہتر ہو گا خود ہی یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔
کنتا اذیت ناک ہوتا ہے نہ وہ لمحہ جب آپکو صفائی کا موقع دیے بغیر ہی سزا سنا دی جاتی ہے۔۔۔۔
اور باصفا کی زندگی میں یہ لمحہ دوسری دفعہ آیا تھا۔۔۔۔
وہ اس کی ذات کے پرخچے اڑا کر جا چکا تھا۔۔۔ اور وہ وہیں بیٹھی سوچ رہی تھی کیا اسکی خطا اتنی بڑی تھی۔۔۔
مرد ہر طرح کی عیاشی کر سکتا ہے مگر عورت کا ایک غلط قدم اسکی ساری زندگی تہہ و بالا کر دیتا ہے۔۔۔ عورت کو اس مقام پہ لانے والا بھی ایک مرد ہی تھا۔۔۔ اوراسے طعنہ دے کر چھوڑ جانے والا بھی مرد ہی تھا۔۔۔۔
اچانک باصفا کو اس کمرے سے اس گھر سے گھٹن ہونے لگی۔۔۔ اور وہ بغیر سوچے سمجھے اُس کمرے سے اور پھر اُس گھر سے بھی نکل آئی۔۔۔ اس وقت اسے نہ اپنے حلیے کا ہوش تھا اور نہ ہی بادشاہ خان کا۔۔۔ گھر سے نکل کر وہ قریبی پارک میں آ گئی۔۔۔ اور قدرے سنسان گوشے میں جا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔
کچھ دیر خوب رو لینے کے بعد اب اسے آگے کی فکر ہونے لگی۔۔۔۔
اففف۔۔۔ اب کیا ہو گا۔۔۔ میں کہاں جاؤں گی۔۔۔؟؟؟؟ وہ ہی دو سوال جنکے جواب ڈھوڈتے جانے کتنا عرصہ ہو گیا تھا مگر جواب نہ مل سکا۔۔۔ اس سے پہلے کہ اشعر سب کے سامنے ذلیل کر کے نکالے مجھے خود ہی یہاں سے چلے جانا چاہیے۔۔۔ سب کے ہوتے ہوئے بھی اس بھری دنیا میں بالکل تنہا ہو گئی ہوں۔۔۔ ایک کے بعد ایک آزمائش اور ہر آزمائش پہلے سے بھی زیادہ کڑی۔۔۔ اب تو دل چاہ رہا ہے خود کو ہی ختم کر ڈالوں ایک ہی دفعہ جان چھوٹے۔۔۔۔
اففف یہ میں کیا سوچے جا رہی ہوں خود کشی کرنا اللہ کو کتنا نا پسندیدہ عمل ہے اور میں اس بارے میں سوچ بھی کیسے سکتی ہوں میں کیسے اپنے خالق کو ناراض کر سکتی ہوں۔۔۔۔
نہیں نہیں۔۔۔ اللہ جی پلیز معاف کر دیں میں نے ایسا سوچا بھی۔۔ سوری آئندہ کبھی ایسا سوچوں گی بھی نہیں۔۔۔۔
وہ خود سے ہی بیٹھی الجھ رہی تھی۔۔۔ وہاں کیا ہو رہا ہے اس سے بے خبراپنے ہی سوچوں کے گرداب میں پھنسی تھی۔۔۔
کیسے وہ میرے کردار کے پرخچے اڑا گیا اور میں کھڑی سنتی رہی منہ کیوں نہ توڑ دیا میں نے اس ڈریگن کا۔۔۔ جسے آگ اگلنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔۔۔ اب اسے خود پہ ہی غصہ آ رہا تھا۔۔۔
نہیں رکھتا تو نہ رکھے جس اللہ نے اب تک میری مدد کی ہے آگے بھی کرے گا۔۔۔۔ تم مرد جانے خود کو سمجھتے کیا ہو اب مجھے بھی کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں اب مزید کسی کو خود کو ایکسپلوئٹ کرنے کا موقع نہیں دوں گی۔۔۔ اس مردوں کے معاشرے میں خوش و خرم جی کر دکھاؤں گی۔۔۔۔ وہ مسمم ارادہ کر چکی تھی۔۔۔
وہ جس وقت یہاں آئی تھی دوپہر ڈھل رہی تھی۔۔۔ سردیوں کے دن تھے تو شام کے سائے بھی جلد ہی ہر سوں پھیل رہے تھے۔۔۔
ٹھنڈ لگنے سے اسے احساس ہوا کہ کتنا وقت ہو گیا ہے یہاں بیٹھے۔۔۔ رات کے سائے ہر سو پھیل چکے تھے اور پارک بھی تقریباً خالی ہو گیا تھا۔۔۔۔ جیسے ہی وہ جانے کے ارادے سے اٹھنے لگی کسی نے پیچھے سے اسکی ناک کے قریب رومال کیا۔۔۔ اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشعر نے غصے میں باصفا کو اتنا کچھ کہ تو دیا تھا۔۔۔ مگر اب اسے اپنے الفاظ کے سخت ہونے کا اندازہ ہو رہا تھا۔۔۔۔ اسے باصفا کو اپنی صفائی میں بولنے کا ایک موقع تو دینا چاہیے تھا نہ۔۔۔ اب جب اس نے ٹھنڈے دماغ سے ڈائیری میں لکھے باتوں پہ غور کیا تو اسے باصفا بے قصور ہی لگ رہی تھی۔۔۔ وہ اب اسکی بیوی تھی اسکی عزت۔۔۔۔ کیسے اسنے اسے جانے کا کہ دیا اگر وہ سچ میں چلی گئی تو؟؟؟؟
نہیں وہ اس وقت کہاں جائے گی یہں ہی ہو گی۔۔۔
اپنی سوچوں کو جھٹکتے توجہ کیس کی جانب کی۔۔۔۔ اور اٹھ کر میٹنگ روم کی طرف بڑھا۔۔۔ انہوں نے دو دن بعد ریڈ کرنی تھی اور اس وقت کیس پہ توجہ دینا زیادہ ضروری تھا۔۔۔
وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ڈسکشن کر رہا تھا جب پیون نے اسے اطلاع دی کہ حیدر صاحب نے اپنے پاس بلایا ہے۔۔ وہ حیران تو بہت ہوا جانے ایسی کون سی ضروری بات تھی جو ابو نے اس وقت بلایا وہ جانتے بھی ہیں ہم ڈسکشن کر رہے ہیں پھر بھی۔۔۔ وہ یہ سب سوچتا حیدر صاحب کے پاس گیا۔۔۔
جی ابو آپ نے بلایا۔۔۔ سب خیریت تو ہے نہ۔۔۔۔
وہ انہیں پریشان دیکھ کر ٹھٹکا۔۔۔
اشعر وہ تمہاری آمی کا فون آیا تھا باصفا گھرپہ نہیں ہے۔۔۔ دوپہر کو ملازمہ نے اسے باہر جاتے دیکھا اس کے بعد وہ گھر نہیں آئی۔۔۔
کیا؟؟؟؟
مطلب وہ سچ میں چلی گئی۔۔۔ اووہ گاڈ۔۔۔ بے وقوف لڑکی یہ کیا کِیا۔۔۔
ابو اسے کسی نے باہر جانے ہی کیوں دیا۔۔۔
بیٹا یہ سب چھوڑو رات ہو گئی ہے پتہ کرواؤ اسکا وہ تو یہاں کے رستوں سے بھی ناواقف ہے جانے کہاں ہو گی۔۔۔
ابو آپ پریشان نہ ہوں میں کرتا ہوں کچھ۔۔۔
اشعر واپس میٹنگ روم کی طرف بڑھا اور اشعر کو باہر بلایا۔۔۔
کیا ہوا اشعر سب خیریت تو ہے نہ پریشان لگ رہے ہو۔۔۔۔
ہاں ولی وہ باصفا۔۔۔ باصفا پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے۔۔۔
اتنے میں اشعر کا سیل وائیبریٹ ہوا۔۔۔ دیکھا تو بادشاہ خان کا فون تھا۔۔۔ وہ اس وقت باصفا کو لے کر پہلے ہی پریشان تھا۔۔۔۔ اوپر سے بادشاہ خان کا فون۔۔۔۔ اشعر نے اگنور کر دیا اس وقت اسکے پاس بادشاہ خان کی بکواس سننے کا وقت نہیں تھا۔۔۔۔
مگر پھر اشعر کے دماغ میں کچھ کلک ہوا اس نے فوراً کال پک کی۔۔۔
ہاں بھئی شہزادے کیسے ہو۔۔۔ ارے شہزادہ ٹھیک کیسے ہو گا شہزادے کی شہزادی تو ہمارے پاس ہے۔۔۔۔ بادشاہ خان مقرہ ہنسی ہنستے بولا۔۔۔
بادشاہ خان مرد بنو مرد۔۔ کیوں ہجڑوں والی حرکتیں کر کے اپنی مردانگی کو مشقوق کرتے ہو۔۔۔ اشعر دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔ بادشاہ خان سے اس قسم کی حرکت کی توقع کی جا سکتی تھی۔۔۔
بکواس مت کرو اشعر۔۔ کچھ بھی کہنے سے پہلے سوچ لینا تمہاری بیوی میرے پاس ہے۔۔۔ اپنی مردانگی کا ایسا ثبوت دوں گا نہ کہ ساری زندگی یاد کرو گے۔۔۔
بادشاہ خان اگر کسی نے اسے غلط نگاہ سے دیکھا بھی نہ تو اشعر حیدر اسکی آنکھیں نوچ لے گا۔۔۔۔ وہ دھاڑا تھا۔۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا بادشاہ خان کا منہ نوچ لے۔۔۔
آواز نیچی رکھو۔۔۔ میں نے صرف یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا اگر اپنی بیوی صحیح سلامت واپس چاہتے ہو تو کل فائل بھجواؤں گا سائن کر دینا۔۔۔ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔۔۔۔
ولی جو پاس کھڑا ساری گفتگو سن رہا تھا اندازہ تو اسے بھی ہو گیا تھا کہ بادشاہ خآن کیا کہ رہا ہے۔۔۔
اشعر اب کیا کرنا ہے؟؟؟؟
ہم آج رات ہی ریڈ کریں گے تیاری کرو۔۔۔
لیکن اشعر۔۔۔۔
ولی ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔۔۔ اگر باصفا کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔
اچھا اچھا ریلیکس تم ایک دفعہ انکل سے بھی مشورہ کر لو۔۔۔
ہوں ٹھیک ہے۔۔۔
حیدر صاحب نے بھی سب سن کے اشعر کے فیصلے کو درست کہا تھا۔۔۔۔
اب انہوں نے رات کے اس پہر ان کافروں پہ حملہ کرنا تھا جس پہر وہ بے خبری کی نیند میں ہوتے ہیں۔۔۔۔
بے شک ہمارے نبی نے ہمارے لیے بہت سے کام آسان بنا دیے ہیں۔۔۔ اگر ہم سنتِ نبوی پہ عمل کریں تو دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ٹھہریں۔۔۔
انہوں نے رینجرز کی بھاری نفری کو اپنے ساتھ لیا جو سب اپنے کام میں ماہر تھے۔۔۔ اور پھر سب کام باآسانی ہو گیا۔۔۔ بادشاہ خان اور اس کے ساتھی پکڑے گئے اور ساتھ میں ان سے اسلحہ بھی برامد کیا جا چکا تھا۔۔۔
باصفا بھی ایک کمرے میں کرسی کے ساتھ بندھی مل گئی تھی۔۔ مگر وہ شاید خوف کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی۔۔۔ اشعر اسے لیے فوراً ہوسپٹل کی جانب دوڑا۔۔۔
باصفا کو جب ہوش آیا تو سب اسکے پاس موجود تھے جس میں اس کا بھائی بھی تھا۔۔۔۔
حمزہ کو دیکھ کر اسے کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔۔۔۔ اذیت کا ہر وہ لمحہ۔۔۔۔
کیسی ہو باصفا۔۔۔۔
کیا بتاؤں بھائی آپ کی بہن کیسی ہے۔۔۔ جو بظاہر تو بالکل ٹھیک ہے مگر کبھی اس کے اندر جھانکنے کی کوشش کریں تو آپ شاید یہ پوچھنے کا حوصلہ ہی نہ کر سکیں کہ "کیسی ہو باصفا۔۔۔۔"
اگر آپ نے ہی میری روح چھلنی نہ کی ہوتی تو آج شاید میں سچ میں ٹھیک ہوتی۔۔۔ مگر قصور آپ کا بھی نہیں تھا۔۔۔ غلطی تو میری تھی جس کی سزا بھگتنی تھی۔۔۔۔
مگر بولی تو بس اتنا "ٹھیک ہوں۔۔۔۔"
اشعر اسکی آنکھوں میں موجود اذیت کو محسوس کر سکتا تھا۔۔اسے اندازہ تھا باصفا بے قصور ہے اور حمزہ کی زبانی ساری روداد سن کر اب اسے اپنے الفاظ پہ بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔۔ کیا کچھ نہیں کہ دیا تھا اس نے باصفا کو۔۔۔ آخر اس میں اور حمزہ میں کیا فرق ہوا۔۔۔ وہ بھی اسکی حفاظت نہیں کر سکا۔۔۔ جانے اس نازک سی لڑکی نے اکیلے اتنا سب کیسے سہا ہو گا۔۔ اور وہ بجائے اس کی دیوار بننے کے اسکے سر سے چھت چھین رہا تھا ۔۔۔۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر باصفا کی طبیعت کے پیشِ نظر ابھی خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔۔۔ مگو وہ نہیں جانتا تھا یہ خاموشی اسے مہنگی پڑنے والی تھی۔۔ اور وہ اسے منانے کا موقع دیے بغیر ہی چھوڑ کر جانے والی ہے۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلے دن اسے ڈسچارج کر دیا تھا۔۔۔ حمزہ نے بھی اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی تھی۔۔۔۔
انہیں یہ سب حیا سے ہی معلوم ہوا تھا۔۔۔ حیا سے ان کی ملاقات یوکے میں ہی ہوئی تھی۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حمزہ ہاتھ جوڑے باصفا کے سامنے موجود تھے۔۔ مجھے معاف کر دو باصفا میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا۔۔ مجھے تم پہ بھروسہ کرنا چاہیے تھا۔۔۔ مگر میں نے حرم کی باتوں میں آکر تمہارے ساتھ بہت زیادتی کر دی۔۔۔ وہ اس واقعے سے پہلے بھی مجھے تمہارے بارے میں ہر وقت کچھ نہ کچھ غلط کہتی رہتی اور میں بجائے اس کا منہ توڑنے کے بےغیرت بنا سب سنتا رہا۔۔۔
اس دن میں نے غصہ میں تمہیں گھر سے نکل جانے کو کہا ضرور تھا۔۔ مگر پھر مجھے اپنی غلطی کا جو احساس ہوا اسے بھی حرم کی باتوں نے اپنے آپ مار دیا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
حرم مجھے باصفا کو اس طرح نہیں نکالنا چاہیے تھا۔۔۔
ارے بالکل ٹھیک کیا آپ نے۔۔۔ آج ایک کے ساتھ سامنے آئی ہے کل نہ جانے اور کون کون اسکا
عاشق نکلے گا۔۔۔
حرم میری بہن ایسی ہر گز نہیں ہے۔۔۔
اپنی آنکھوں سے سب دیکھ کر بھی آپ یہ کہ رہے ہیں۔۔۔ ارے جب سب کو اس کے کرتوت پتہ چلیں گے تب سوچیں کیا ہو گا۔۔۔ ہماری عزت تو مل گئی نہ خاک میں۔۔۔
ارے میں تو سوچ رہی ہوں خالہ کو کیا جواب دوں گی۔۔۔
تم ان سے باصفا کے متعلق کچھ نہیں کہوں گی بس کہ دینا باصفا کو ابھی آگے پڑھنا ہے۔۔۔
نہ وہ یہ نا کہیں گے پہلے باصفا کو نہیں پڑھنا تھا۔۔۔ چلو انہیں تو میں سنبھال لوں گی۔۔ جو باقی پڑوس والے ہیں انہیں کیا جواب دیں گے۔۔۔
میں تو کہتی ہوں اپنے دوست کی آفر قبول کریں اور نکلیں یہاں سے۔۔۔
مگر حرم میں باصفا کو یہاں اکیلے چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں۔۔۔
ارے وہ تو چلی گئی ہمارے منہ پہ کالک مل کے اس نے سوچا ہمارا جو آپ کو بہن سے زیادہ ہمدردی ہو رہی ہے۔۔۔۔
اور پھر ایسے ہی باتیں کر کر کے بلآخر اس نے حمزہ کو منا ہی لیا۔۔۔ اور اسے فوراً ہی یوکے جانا پڑا۔۔۔ کہ اگر وہ اب نہ جاتا تو یہ موقع اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یقین جانو باصفا اگر مجھے پتہ چل جاتا تم بعد میں بھی آئی تھی تو میں تمہیں کبھی واپس نہ جانے دیتا۔۔۔ آمی ابو تمہاری ذمہ داری مجھے سونپ کر گئے تھے اور میں اپنی ذمہ داری نہ نبھا سکا۔۔۔۔ ان کو کیا جواب دوں گا میں باصفا۔۔۔
جب سے انہوں سے اشعر کی زبانی باصفا کے ساتھ گھر سے نکالے جانے کے بعد کی روداد سنی تھی انہیں مزید پپچھتاؤں نے گھیر لیا تھا۔۔۔
بھائی جو کچھ ہوا اس میں آپ کا کیا قصور میری قسمت میں سب ہونا لکھا تھا۔۔۔ لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔۔۔
تم نے مجھے معاف کیا نہ باصفا۔۔۔
بھائی میں نے آپ کے لیے اپنے دل میں کبھی کوئی میل نہیں رکھا۔۔ پھر بھی آپ کی تسلی کے لیے کہتی ہوں میں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔
بہت شکریہ۔۔۔۔ اور انہوں نے اسے گلے لگا کر خوب پیار کیا۔۔۔
باصفا ایک ریکویسٹ کروں تم سے مانو گی؟؟؟
میں وعدہ نہیں کر سکتی اگر میرے بس میں ہوا تو ضرور۔۔۔
باصفا میں ایک دفعہ پھر خود غرض بن رہا ہوں مگر کیا کروں مجبور ہوں۔۔۔
وہ سوالیہ نظروں سے حمزہ کی طرف دیکھ رہی تھی جو اتنی بات کہ کر باقی بات کہنے کی ہمت مجتمہ کر رہا تھا۔۔۔
باصفا میں حرم کی طرف سے بھی تم سے معافی مانگتا ہوں ہو سکے تو اسے بھی معاف کر دینا۔۔
باصفا اسے بھی احساس ہوگیا ہے اس نے تمہارے ساتھ غلط کیا ہے۔۔۔ وہ اس حالت میں ہے کہ اتنا لمبا سفر نہیں کر سکتی۔۔۔ اور جب سے اسے پتہ چلا ہے کہ بیٹی ہے۔۔۔ وہ اپنے کیے پہ بہت پچھتاتی ہے باصفا۔۔۔ میں اگر آج یہاں ہوں تو اسکی وجہ سے ہی ورنہ شاید میں تمہارا سامنا کرنے کا حوصلہ کبھی نہ کر پاتا۔۔۔ پلیز باصفا اسے معاف کر دو۔۔۔۔
انسان کتنا خودغرض ہوتا ہے نہ۔۔۔۔ دوسرے کی بہن بیٹی کے ساتھ کچھ کرتے ذرا رحم نہیں آتا۔۔۔ مگر جب بات خود کی بہن بیٹی کی آئے تو کیسے تڑپتا ہے۔۔۔۔
بھائی میں نے انہیں بھی معاف کیا۔۔۔۔ مجھے آپ دونوں سے کوئی گلہ نہیں ہے۔۔۔۔
وہ اسے ڈھیر ساری دعائیں دیتے چلے گئے۔۔۔
بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا۔۔۔
اچھا لگتا ہے اسی دھن میں بکھرتے رہنا۔۔۔
ہجر والوں سے بڑی دیر سے سیکھا ہم نے۔۔۔۔
زندہ رہنے کے کیے جاں سے گزرتے رہنا۔۔۔۔
کیا کہوں کیوں میری نیندوں میں خلل ڈالتا ہے۔۔۔۔
چاند کے عکس کا پانی میں اترتے رہنا۔۔۔۔
میں اگر ٹوٹ بھی جاؤں تو پھر آئینہ ہوں۔۔۔۔
تم میرے بعد ہر تور سنورتے رہنا۔۔۔
گھر میں رہنا ہے تو بکھرتے ہوئے سائے چن کر۔۔۔۔
زخم دیوار و دروبام کے بھرتے رہنا۔۔۔۔۔
شام کو ڈوبتے سارج کی عادت ہے محسن۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی میرے ساتھ ابھرتے رہنا۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
باصفا کو لاہور آئے 9 ماہ 20 دن ہو گئے تھے۔۔۔ آج وہ اپنے پیروں پہ کھڑی تھی۔۔۔ چند ماہ قبل پارک میں جو اس نے فیصلہ کیا تھا اس پہ عمل بھی کر کے دکھایا تھا۔۔۔۔ جن مردوں نے اسے ٹھکرایا تھا اسے دھتکارا تھا۔۔ اس نے بھی ان مردوں کو ٹھکرا کر ایک نئی دنیا بنا لی تھی۔۔۔ حمزہ کے جانے کے بعد رات وہ بھی اشعر کے نام خط چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اشعر اور اسکے شہر کو چھوڑ کر آ گئی تھی۔۔۔
"میرے ہاتھوں کی لکیروں میں یہ عیب ہے محسن
میں جس شخص کو چھو لوں وہ میرا نہیں رہتا"
جانے اس کی قسمت بھی اس کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی تھی کہ خوشیاں پاس آنے سے پہلے ہی منہ موڑ جاتی تھیں۔۔۔ ابھی تو اس نے ٹھیک سے اس رشتہ کو محسوس بھی نہ کیا تھا کہ وہ ٹوٹنے کے دھانے پہ آن کھڑا تھا۔۔۔ ابھی تو اشعر کے دل میں اس کے لیے محبت جاگی ہی تھی کہ وہ محبت اس سے چھین گئی۔۔۔۔
ماں باپ بہن بھائی کا پیار ملا ہی تھا کہ سب پھر سے ختم ہو گیا تھا۔۔۔۔
. . . . . . . . . . . . .
وہ تو شکر تھا کہ وہ ہوسٹل سے اپنا سامان لے آئی تھی۔۔ ورنہ اسے دوبارہ ڈگری کی ضرورت بھی پڑھ سکتی ہے اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔
چونکہ اس نے بی۔بی۔اے کیا تھا تو یہاں آکر آفس میں جاب سٹارٹ کر لی تھی۔۔۔ جو کہ اس کافی مشکلوں سے ملی تھی کیونکہ نہ تو اسکی ایجوکیشن زیادہ تھی اور نہ ہی کوئی ایکسپیرینس تھا۔۔۔ مگر اس نے بھی ہمت نہ ہاری اور بلآخر جاب مل ہی گئی۔۔۔
اس دنیا میں اگر عورت سے زیادہ کمزور کوئی نہیں ہے تو اس سے زیادہ مضبوط بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ جب خود کو منوانے پہ آتی ہے تو اچھے اچھوں کے کس بل نکال دے۔۔۔ مگر کون سمجھائے ان انا پرست مردوں کو کہ عورت کو اپنے پیروں پہ چلنا آتا ہے مگر انہیں مروں کے سہارے چلنا اچھا لگتا ہے ان کے ہمراہ اس سے ایک قدم پیچھے رہ کر دنیا کا نظاہر کرنا زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔۔۔۔
اب وہ کمپنی کی طرف سے ملے اپارٹمنٹ میں ہی رہ رہی تھی۔۔۔ جس میں اسکے ساتھ ایک اور لڑکی عائشہ تھی۔۔۔۔ جو اسکی کولیگ ہی تھی۔۔۔
"ضبط نے اب تو پتھر کر دیا ورنہ ،فراز
دیکھتا کوئی کہ جب دل کے زخم انکھوں میں تھے"
آفس میں اسکی بات چیت بس کام کی حد تک ہی تھی جس سے لوگ اسے پراؤڈی سمجھتے تھے۔۔۔۔ مگر اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کون اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشعر سائیڈ ٹیبل پہ پڑے طے شدہ کو دیکھ کر حیران ہوا۔۔۔
یہ یہاں کس نے رکھا؟؟؟ اس نے یہ سوچتے کاغذ کھولا تو وہ باصفا کی ہینڈ رایٹنگ تھی اشعر نے جلدی سے پڑھنا شروع کیا۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . .
اے ابنِ آدم سنو۔۔۔۔ سنو اور جان لو۔۔۔۔
کہ عورت کیا ہے۔۔۔ میں آئینہ ہوں تمہارا۔۔۔
اس میں وہ سب دیکھتے ہو جو تم مجھے دیتے ہو۔۔۔۔
محبت۔۔۔ پیار۔۔۔ عزت۔۔۔ شفقت۔۔۔ الفت۔۔۔ اعتماد۔۔۔ اعتبار۔۔۔ قربت۔۔۔ حسنِ سلوک۔۔۔۔ وفا۔۔۔ سوچ۔۔۔ دیانت۔۔۔ شراکت۔۔۔ نفرت۔۔۔ ذلت۔۔۔ گھٹن۔۔۔ شک۔۔۔ بداعتمادی۔۔۔۔ بدسلوکی۔۔۔
میں تمہارے رویے کی آئینہ دار ہوں۔۔۔ میں وہ کورا کاغذ ہوں جس پر تم وہی پڑھتے ہو۔۔۔۔ جو تم خود اپنے قلم سے تحریر کرتے ہو۔۔۔۔ تمہارے ثبت کیے بوسے۔۔۔ تمہارے ثبت کیے تمانچے۔۔۔۔ تمہارے اعتماد کا سکون۔۔۔ تمہارے شک کی لکیریں۔۔۔ میرا فخر اور اعتماد سے اٹھا سر تمہارے اعتبار کی نشان دہی کرتا ہے۔۔۔۔ میرے چہرے پہ بکھرا سکون تمہاری محبت کی غمازی کرتا ہے۔۔۔۔ میرے چہرے پہ موجود فکر اور پریشانی تمہارے لیے ہے۔۔۔۔ میری آنکھوں سے بہتے آنسو تمہارے لیے ہیں یا تمہاری دین ہیں۔۔۔ میرے اٹھتے قدم کی سمت کا تعین تمہارے لہجوں سے ہوتا ہے۔۔۔ تمہاری تعریف میرا حوصلہ بڑھاتی ہے۔۔۔ اور تمہاری تنقید مجھے کھڑے قد سے زمین بوس کر دیتی ہے۔۔۔ میں عورت کہلاتی ہوں مگر درحقیقت میں ذات کے آئینہ میں نظر آتا مرد ہوں۔۔ مجھے دیکھنے والے جان جاتے ہیں کہ اس حوا کا آدم کیسا انسان ہے۔۔۔ یہ تم جانو آدم کہ تم اس قرتاس پہ کیا تحریر کرنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔!!!!!
. . . . . . . . .
السلامُ علیکم۔۔۔!
میں جانتی ہوں اشعر خط دیکھ کر آپ حیران ہوں گے۔۔ مگر مجھے اپنے الفاظ آپ تک پہنچانے کا حل یہ خط ہی لگا۔۔۔ کیونکہ آپ کے روبرو یہ سب کہنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔۔۔
میں جانتی تھی اشعر آپ بھی مجھے ہی غلط سمجھیں گے حمزہ بھائی کی طرح۔۔۔ اس لیے سچائی بتانے کا حوصلہ نہیں کر پائی۔۔۔ کیونکہ اس وقت میرا واحد ٹھکانہ وہ گھر ہی تھا۔۔۔۔ میں بادشاہ خان سے بہت ڈر گئی تھی کہ کہیں پھر سے وہ مجھے۔۔۔۔ اس لیے سچائی چھپانی پڑی۔۔۔ میں آپ کو دھوکہ دینا نہیں چاہتی تھی مگر بہت بے بس اور مجبور تھی۔۔۔۔
میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی تھی میں بھٹک گئی تھی مگر کیا اس میں صرف میرا اکیلی کا ہی قصور تھا۔۔۔۔ مجھے اس موڑ تک پہنچانے والے کیا قصور وار نہیں تھے۔
حمزہ بھائی جنہوں نے اگر میرے سر پہ کبھی ہاتھ رکھا ہوتا مجھے زمانے کے سرد و گرم سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید یہ سب نہ ہوتا۔۔۔۔
اور زاویار جس نے اپنی ہوس کے لیے میرا استعمال کرنا چاہا۔۔۔۔
مرد خطا کرے تو معاف کیوں کہ وہ مرد ہے عورت خطا کرے تو اسے سنگسار کر دو یہ کہاں کا انصاف ہے۔۔۔ ہمیشہ عزت، غیرت کے نام پہ عورت کو ہی سزا کیوں دی جاتی ہے۔۔۔۔
غیرت کے نام پہ عورت کا قتل کر دینا اسے رسوا کرنا کیا یہ مردانگی ہے؟؟؟ اللہ نے مرد کو عورت محافظ بنا کے بھیجا ہے اسکا سائیبان بنایا ہے۔۔۔ کیا سائیبان ایسے ہوتے ہیں؟؟؟؟
آپ نے تو ساری زندگی میرا ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا نہ تو کیا ہوا اس وعدے کا۔۔۔ آپ تو پہلے موڑ پہ ہی ساتھ چھوڑ گئے ساری عمر کیا ساتھ نبھائیں گے۔۔۔۔
خیر آپ اپنی زندگی میں آزاد ہیں اپنے لیے جو چاہیں بہتر فیصلہ کریں۔۔۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں آپ مجھ جیسی بد کردار لڑکی کو ڈیزرو نہیں کرتے۔۔۔اس لیے میں جا رہی ہوں ہمیشہ کے لیے۔۔۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔ آمین۔۔۔
آپکی بد کردار بیوی باصفا رحمان۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سردوں کا موسم پھر سے شروع ہو رہا تھا۔۔۔ اور باصفا کا بخار بھی پھر سے جاگ اٹھا تھا۔۔۔ آج بھی اتوار کا دن تھا۔۔۔ آفس سے چھٹی تھی سو وہ قسلمندی سے بستر میں ہی گھسی وی تھی۔۔۔ جبکہ عائشہ صبح ہی صبح جانے کہاں چلی گئی تھی۔۔۔۔ وہ جانے اور کب تک ایسے ہی پڑی رہتی کہ دروازے پہ ہونے والی مسلسل بیل نے اسے اٹھنے پہ مجبور کر دیا۔۔۔ پہلے تو وہ نظر انداز کیے لیٹی رہی مگر جب مقابل بیل پہ ہاتھ رکھ کر ہٹانا بھول گیا تو وہ جھلاتی ہوئی دروازہ کھولنے اٹھی۔۔۔ افففف ہو کیا مصیبت آن پڑی ہے جو۔۔۔۔۔ مگر آگے کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔۔۔۔ کیونکہ مقابل جو شخص کھڑا تھا اس کے تو وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اس وقت یہ یہاں ہو سکتا ہے۔۔۔ اشعر۔۔۔ آپ۔۔۔۔
جی ہاں محترمہ میں ہی ہوں۔۔ اور تمہاری یہ گدھے گھوڈے بیچ سونے والی عادت کب جائے گی۔۔۔۔ کب سے بیل بجا رہا ہوں۔۔۔ اب ہٹو بھی سامنے سے۔۔۔ باصفا کو سٹل دروازے میں ایتسادہ دیکھ کر بولا۔۔۔
وہ تو یوں بول رہا تھا جیسے دونوں کے درمیان کتنے خوشگوار تعلقات ہوں۔۔۔ وہ حیران سی دروازہ بند کرتی پلٹی۔۔۔
جبکہ اشعر بڑے مزے سے صوفے پہ براجمان ہو چکا تھا۔۔۔
تمہارے ہاں مہمان کی خاطر تواضح کا کوئی رواج ہے؟؟؟؟
ناشتہ ہی بنا دو ظالم لڑکی۔۔۔ صبح کا بغیر ناشتہ کیے نکلا ہوا ہوں اب تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔۔
اور وہ خاموشی سے ناشتہ بنانے لگی۔۔۔ ساتھ ساتھ سوچ کے گھوڑے بھی دوڑا رہی تھی۔۔۔
اب یہ یہاں کیوں آیا ہے۔۔۔ اففف لگتا ہے میری زندگی میں کبھی سکون آ نا ہی نہیں ہے۔۔۔ جب بھی ذرا سیٹل ہونے لگتی ہوں کچھ نہ کچھ ضرور ایسا ہو جاتا ہے جو میری پوری ہستی ہی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔۔۔۔ جانے مجھے اپنے حصے کی خوشیاں کب نصیب ہوں گی۔۔۔
باصفا نے ناشتہ بنا کر سامنے پڑی ٹیبل پہ لگا دیا۔۔ اور خود اپنا چائے کا مگ اٹھا کر سامنے صوفے پہ جانے لگی کہ اشعر نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنے پاس ہی بیٹھا لیا۔۔۔
آؤ نہ تم بھی کھاؤ۔۔۔ آفر کی گئی۔۔۔
باصفا نے نفی میں گردن ہلائی اور وہ کندھے اچکاتا کھانے لگا۔۔۔
باصفا تو اس کے انداز دیکھ کہ حیرت میں تھی۔۔۔ یہ اسے کیا ہو گیا۔۔۔
اور وہ اسکی حالت سے محفوظ ہو رہا تھا۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ بڑے تحمل سے بولا۔۔۔۔ ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس پیکنگ کر لو۔۔۔ اگر کچھ رہ گیا تو میں بعد میں لے کر آنے والا نہیں۔۔۔۔
پیکنگ کیوں۔۔۔ باصفا کو سمجھ نہیں آیا وہ ایسا کیوں کہ رہا ہے۔۔۔
کیوں کہ تم میرے ساتھ واپس جا رہی ہو۔۔۔ اطمنان سے بولا گیا۔۔۔
میں کہیں نہیں جا رہی۔۔۔ صاف جواب آیا۔۔۔
باصفا میں یہاں بحث کرنے نہیں آیا۔۔۔ جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔
میں نے کہ دیا میں نہیں جا رہی تو نہیں جا رہی۔۔ اس کا انداز بے لچک تھا۔۔۔
یور ٹئم سٹاٹس ناؤ۔۔۔
آخر مسلئہ کیا ہے آپکا۔۔۔ جب دل کیا نکال باہر کیا۔۔ اور اب اتنے مہینوں بعد یاد آ گیا ایک عدد بیوی بھی ہے۔۔۔۔ وہ غصے سے بولی۔۔۔
اووہ تو اس بات کا غصہ ہے کہ دیر سے کیوں آیا۔۔یعنی پہلے آ جاتا تو آپ باآسانی مان جاتی۔۔۔ وہ مسکرا کر بولا
اس کے مسکرانے پہ گویا باصفا سلگ اٹھی۔۔۔
آپ کے لیے مزاق ہے یہ سب۔۔۔ میں بھی انسان ہوں اشعر مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔ وہ اپنے آنسؤں کو کیسے پیے ہوئے تھی یہ صرف باصفا ہی جانتی تھی۔۔۔ وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ بس بہت ہو گیا تھا۔۔۔ اب وہ مزید کسی کی باتوں میں نہیں آنا چاہتی تھی۔۔۔
میں اب یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔ اگر آپ یہاں مجھے لیجانے آئے ہیں تو سن لیں اشعر حیدر میری زندگی میں اب کسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔۔۔ کتنا سفاک لہجہ تھا۔۔۔۔
اور اشعر اس کے انداز دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔ وہ تو اسکے سامنے بولتی تک نہ تھی اور کہاں آج نڈر ہو کے بول رہی تھی۔۔۔
باصفا۔۔۔۔ کتنا درد تھا اشعر کے لہجے میں۔۔۔
دیکھو باصفا میں جانتا ہوں میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا ہے۔۔۔ اس دن نا جانے میں کیا کیا بول گیا۔۔۔ تمہیں صفائی کا اک موقع بھی نہ دیا اور فیصلہ سنا دیا۔۔۔ تم پہلے ہی جس قرب سے گزر کے یہاں تک آئی تھی میں نے بھی وہ ہی درد دیے تمہیں۔۔۔ مجھ میں اور حمزہ میں کوئی فرق نہ رہا۔۔۔ لیکن باصفا کیا تم مجھے اپنی غلطی سدھارنے کا ایک موقع نہیں دے سکتی۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں تم سے آئیندہ میری ذات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی تمہیں۔۔۔ پلیز ایک موقع۔۔۔۔
اور بس باصفا کا ضبط ٹوٹا تھا۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے زار و قطار رو دی۔۔۔ اس مٹھاس بھرے لہجے کے لیے تو وہ ترس گئی تھی۔۔۔ وہ ترس گئی تھی کسی اپنے کو۔۔ کوئی ایسا جو اسکی پلکوں سے اس سے سارے آنسو چن لے۔۔ کوئی تو ہو جو کہے باصفا حالات چاہے کیسے ہوں میں ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔
عورت چاہے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، کتنا ہی ضبط کرنا جانتی ہو اسکو ایک ایسی نگاہ کی طلب ضرور ہوتی ہے جو دیکھتے ہی آنکھوں میں چھپے درد پہچان لے۔۔۔۔
اشعر نے اپنی قیمتی متاع کو خود میں سمو لیا۔۔۔
کافی سارا رونے کے بعد اس نے خود کو اشعر کے حصار سے نکالا۔۔۔۔
بس رو لیا۔۔۔۔ اشعر نے پاس پڑا ٹشو باکس اسکی جانب بڑھایا۔۔۔۔
باصفا نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔
اتنی دیر کیوں کی آنے میں؟؟؟ محبت بھرا شکوہ آیا۔۔۔
میں چاہتا تھا تمہیں منانے سے پہلے تمہارے گناہ گار کو اس کے انجام تک پہنچا کر آؤں جس کی وجہ سے میری نازک سی پری نے اتنی تکلیفیں جھیلیں۔۔۔۔ اور پھر مجھے اندازہ نہیں تھا کوئی میرا اس قدر بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔۔۔ بات کے آخر میں وہ شرارت سے بولا۔۔۔
خوش فہمی ہے آپ کی۔۔۔
وہ تو دیکھ ہی رہا ہے محترمہ۔۔۔
چلو اب اٹھو۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔ میں عائشہ کو کال کر کے بتا دوں تب تک وہ بھی آ جائے گی۔۔۔
کیا؟؟؟؟ عائشہ۔۔۔ آپ اسے کیسے جانتے ہیں۔۔۔
کہیں آپ نے ہی تو اسے۔۔۔۔
مجھے اپنی عزت کی حفاظت کرنا آتا ہے۔۔۔۔ وہ کندھے اچکا کر بولا۔۔۔
تو یہ جاب بھی۔۔۔۔
اچھا اب باقی کی انکوائری گھر جا کے کر لینا۔۔۔ ابھی چلو مجھے واپس جا کر ضروری کام بھی کرنا ہے۔۔۔۔
آپ جا کر کریں اپنے ضروری کام۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔ وہ منہ پھلا کر بولی۔۔۔
اففف۔۔۔ تم ایسے ہی چلو۔۔۔ وہ اسے اپنے بازؤں پہ اٹھاتا بولا۔۔۔
کیا کر رہے ہیں میں گر جاؤں گی۔۔۔
میں ہوں نہ تمہیں گرنے نہیں دوں گا۔۔۔۔ یقین دلایا گیا۔۔۔
اور پھر وہ باصفا کے سنگ واپس حیدر ویلاز آ گیا۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زاویار نے امریکہ میں کسی امیرو قبیر خاندان کی لڑکی سے نشے میں دھت زیادتی کی تھی۔۔۔ جس کے والدین نے اس پہ کیس کر دیا تھا۔۔۔ جس کے نتیجے میں اس کے باقی کے کیس بھی کھلے۔۔۔۔۔
جب اشعر کو معلوم ہوا تو اس نے اپنے پورے اسرو رسوخ لگا دے۔۔۔ اور بلآخر زاویار کو سزا دلوا کر ہی چھوڑی۔۔۔ آج وہ امریکہ میں سلاخوں کے پیچھے تھا۔۔۔۔ اب وہ اتنی جلدی باہر آنے والا نہیں تھا۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس تاریخ کو انکا نکاح ہوا تھا آج ایک سال بعد اسی تاریخ کو اسکی رخصتی ہوئی تھی۔۔۔
آج وہ سرخرو ہو گئی تھی۔۔۔ اسکے بھائی نے بڑے مان سے اسے اسکے اپنے گھر سے رخصت کیا تھا۔۔۔ جہاں نے کبھی اسے نکالا گیا تھا۔۔۔
لال عروسی جوڑے میں وہ اشعر کے دل میں اسکی زندگی پہ راج کرنے کو سب ہتھیاروں سے لیس اسکے سامنے موجود تھی۔۔۔ اور وہ بس مبہوت سا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
باصفا کیا یہ حقیقت ہے۔۔۔ تم سچ میں میرے سامنے ہو۔۔۔۔ وہ گھمبگھیر لہجہ میں اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
باصفا نے بڑی محنت سے اسکا ہاتھ تھاما اور۔۔۔ اور پھر اسکی ہاتھ کی پشت پہ ذوردار چٹکی کاٹی۔۔۔
اففف یہ کیا کر رہی ہو ظام لڑکی۔۔۔۔
آپ کو خواب سے جگا رہی ہوں۔۔۔ باصفا ذوردار قہقہ لگاتی بولی۔۔۔
اشعر نے اپنی جیب سے ڈایمنڈ رنگ نکالی اور باصفا کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنا کہ اسکا ہاتھ لبوں سے لگایا۔۔۔ اور پھر اسنے ایک اور رنگ نکالی اور اسکی دائیں ہاتھ کی انکلی میں پہنا کہ اسے بھی لبوں سے لگاتا بولا۔۔۔
"Happy Marriage Aniversery My Life"
اور پھر وہ اسکی محبت کی بارش میں بھیگتی چلی گئی۔۔۔۔
بلآخر اس کے رب نے اسکی خطا معاف کر دی تھی اور بدلے میں اسے اشعر جیسا مضبوط سائیبان دیا تھا۔۔۔۔
وہ اپنے رب کا جتنا شکر کرتی کم تھا۔۔۔ بے شک جب وہ نوازنے پہ آتا ہے تو انسان کی اوقات نہیں دیکھتا۔۔۔۔
ختم شد۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Khaata Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Khaata written by Mahi Sheikh . Khaata by Mahi Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment