Pages

Saturday 11 May 2024

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Episode 6 to 10 Novel

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Episode  6 to 10 Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Novel

Novel Name: Bewafa  

Writer Name:  Sidra Sheikh

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"اگر لڑکیوں کو اپنی بھیانک محبت کا مستقبل نظر آجائے تو وہ کبھی کسے ظالم کی محبت کا نشانہ نا بننے دیں خود کو۔۔۔

وہ محبتیں جو خاندان کی عزتیں تو کھا جاتی ہیں اور جان نکال جاتی ہیں جسموں سے۔۔۔

وہ محبتیں جو برباد کرکے عبرت بنا دیتی ہیں معاشرے میں ہمیں۔۔۔"

۔

"آپ کون۔۔۔۔"

"بہرام۔۔۔شاہ۔۔۔"

۔

۔

"بریرہ۔۔۔"

بہرام کی آواز پر جب کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے بریرہ کے ہاتھ کو زور سے پکڑ کر بائیک کی سپیڈ تیز کر دی تھی اسے آوازیں آرہی تھی پیچھے گاڑی کی جو انہیں فالو کر رہی تھی

بہرام نے ایک نظر پیچھے کر کے بلاج حمدانی جو دیکھا تھا اور اپنی بائیک کو نیو یارک کی انجان گلیوں میں کہیں گم کردیا تھا اس طرح کے وہاں کے ڈان بلاج حمدانی کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی

۔

"اس ایڈریس پر لے جاؤ۔۔"

"پر ہم ہسپتال آگئے ہیں بریرہ۔۔۔"

اپنے نام کو کسی انجان کے منہ سے سن کر بریرہ اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہی تھی پر ناکام ہوگئی تھی درد نے اسکی آنکھیں بھیگا دی تھیں

"ہم کسی پبلک یا پرائیویٹ ہسپتال نہیں جا رہیے آپ جو کوئی بھی ہیں مجھے اس ایڈریس پر چھوڑ دیں"

"تم نے مجھے پہچانا نہیں۔۔؟؟"

اس نے بائیک روک دی تھی اچانک سے

"نہیں۔۔کون ہیں آپ۔؟؟"

پر بہرام نے بائیک پھر سے سٹارٹ کردی تھی

۔

کچھ دیر اور بائیک چلانے کے بعد بریرہ کے بتائے ہوئے ایڈریس پر جب اس نے بائیک روکی تو وہ ایک سننان بس سٹاپ تھا جہاں بائیک رکنے کے بعد بریرہ زخمی ہاتھ اور زخمی ٹانگ سے لڑکھڑا کر اس بس سٹاپ کے پاس جا کر زمین پر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئی تھی۔۔

"آپ کا فون مل سکتا ہے۔۔؟ جو احسان آپ نے کیا ہے آپ کو سود سمیت انعام دوں گی۔۔"

اس نے لالچ دی تھی بہرام نے بنا کچھ کہے اپنا موبائل نکال کر بریرہ کو پکڑا دیا تھا

"ڈینیل۔۔۔سٹی ہسپٹل کی بیک سائیڈ سے کچھ فاصلے پر جو بس سٹاپ ہے مجھے وہاں سے آکر لے جاؤ۔۔"

بریرہ نے بات کرتے ہوئے ہنسنے کی کوشش کی تھی جب ڈینیل نے اسے وہی رات یاد دلائی تھی ٹھیک اسی طرح وہ لینے آیا تھا

"ڈینیل مجھے کچھ ہونے مت دینا اگر میں بےہوش ہوجاؤں مجھے مرنے نہیں دینا خون بہت بہہ گیا ہے۔۔پر مجھے زندہ رہنا ہے۔۔جب ڈاکٹر جواب دہ دیں تو مجھے بہت سارے الیکٹرک شاکس لگوانا بس زندہ رکھنا مجھے ابھی بدلہ لینا ہے۔۔۔"

وہ گنودگی کی حالت میں تھی۔۔۔اور بائیک پر بیٹھے بہرام شاہ نے اسکی باتیں سن کر اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا تھا وہ شخص جو آج تک کبھی رویا نہیں تھا آج اسکی آنکھیں بھر آئیں تھی اس نے چہرے سے ہیلمٹ اتار کر منہ صاف کیا تھا اپنا۔۔۔

"جو لڑکی ماربل کے فرش پر بیٹھنا اپنی توہین سمجھتی تھی آج اس مٹی سے بھری زمین پر ایسے بیٹھی ہے۔۔

بریرہ کیا ہوگئی ہو تم کیا تھی۔۔۔"

وہ اٹھا تھا غصہ سے اور بریرہ کو اٹھا لیا تھا وہاں سے جو بےہوش تھی اس نے بریرہ کو بٹھا کر پھر بائیک چلا دی تھی اس بار اسے آگے بٹھایا تھا

اس طرح کے کوئی بھی دیکھنے والا یہ نا سمجھے کہ وہ بےہوش ہے۔۔

۔

بہرام نے بائیک چلا دی تھی۔۔اور وہاں بریرہ کو لے گیا تھا جو اپارٹمنٹ اس نے کچھ گھنٹے پہلے ہی خریدا تھا

۔

"اب نہیں ہو تم اکیلی بریرہ شاہ۔۔۔۔میں آگیا ہوں۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کرو تمہیں ابھی زندہ رہنا ہے۔۔۔تمہارا انتظار کر رہے ہیں سب پاکستان میں۔۔۔۔"

بریرہ کو اپنی جیکٹ پہنا کر بہرام اس طرح سے اپنے اپارٹمنٹ میں لیکر آیا تھا کہ کسی کو شک نہیں ہوا پر ایک بلیک سوٹ بوٹ پہنے گارڈ کو انکا پیچھا کرتے دیکھ لیا تھا اس نے۔۔۔اور وہ بریرہ کو جلدی سے اپارٹمنٹ میں چھوڑ کر بلڈنگ سے باہر آگیا تھا ڈاکٹر کو لانے کے لیے۔۔۔پر اس کی نظریں اس گارڈ پر تھیں جو ایک پلر کے پیچھے چھپ کر کال ملانا شروع ہوگیا تھا

"بلاج سر۔۔۔"

اور پیچھے سے اسکے سر پر وار کیا تھا بہرام نے

"بلاج حمدانی اتنی جلدی نہیں پہنچنے دوں گا کسی کو بھی اسکے پاس۔۔"

بہرام نے اس بے ہوش گارڈ کو گھسیٹتے ہوۓ ایک کمرے میں بند کردیا تھا وہ پھر سے باہر بھاگا تھا کہ اسکا موبائل بجنا شروع ہوگیا تھا

"پشمینہ ۔۔۔پشمینہ۔۔۔"

دوسری طرف سے آواز سن کر وہ حیران ہوا تھا

"آپ کون۔۔؟ اس نمبر پر تو بریرہ نے بات کی تھی۔۔۔"

"دوسری طرف خاموشی چھا گئی تھی بہرام کی بات سن کر"

"کہاں ہو تم لوگ۔۔؟؟ بریرہ کو ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے میرے ساتھ ڈاکٹر ہیں مجھے ابھی ایڈریس دو۔۔۔"

بہرام اب چپ ہوا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیسے یقین کرلے

"میں کیسے یقین کر لوں۔۔؟؟ بریرہ کی سیفٹی میری پہلی زمہ داری ہے۔۔"

"اسکی زندگی سے بھی زیادہ۔۔۔؟؟ مجھے ایڈریس بتا دو پلیز۔۔۔"

اور اسکی آواز میں درد محسوس کرتے ہوئے اسے ایڈریس بتا دیا تھا

"میں بس پہنچ رہا ہوں تم اسکے پاس رہو اور باہر مت نکلنا بلاج حمدانی کے لوگ پاگل کتوں کی طرح ہر جگہ کھوج رہے ہیں۔۔۔"

اس نے کہہ کر فون بند کیا تو بہرام بھی واپس اپارٹمنٹ میں چلا گیا تھا

۔

"بس بریرہ ڈاکٹر آتے ہی ہوں گے۔۔۔"

بہرام نے اسے سہی طرح سے بیڈ پر لٹا کر اسکا ماسک اور اسکی جیکٹ اتار دی تھی۔۔۔کندھے پر لگی گولی سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا اس نے اس جگہ سے شرٹ کا وہ کپڑا پھاڑ دیا تھا اور پانی والا کپڑا لیکر خون صاف کرنا شروع کیا تھا۔۔۔

وہ ٹھنڈا کپڑا جیسے اسکے زخم پر لگا تھا اسکی آہ سے بہرام کے ہاتھ رک گئے تھے۔۔۔

"ایم سوو سوری بریرہ ایم سوو سوری۔۔۔۔"

وہ بار بار یہ کہتے ہوئے زخم صاف کر رہا تھا اسکے۔۔۔حلانکہ اسکی کوئی غلطی تھی بھی نہیں۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"یا اللہ۔۔۔۔بریرہ۔۔۔"

بہرام نے دروازہ کھول کر جیسے ہی ان لوگوں کو بیڈ روم کا راستہ دیکھایا تھا سونم روتے ہوئے بریرہ کے بیڈ پر جا گری تھی۔۔

"سونم ڈاکٹرز کو انکا کام کرنے دو رونے کا وقت نہیں ہے یہ۔۔۔"

"ڈینیل یہ ہوش میں نہیں آرہی کیا ہوگیا صبح تک بلکل ٹھیک تھا سب۔۔"

ڈینیل اسے کھینچ کر باہر لے آیا تھا اور کچھ لیڈی ڈاکٹرز اندر جا کر دروازہ بند کرچکی تھیں

"ڈینیل وہ ٹھیک تو ہوجاۓ گی نا۔۔۔۔"

"دعا کیجیئے اللہ اسے سلامت رکھے۔۔۔"

بہرام یہ کہہ کر اسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا اس کمرے کے باہر۔۔

اس کی آواز سننے کے بعد سونم اور ڈینیل کی نظریں اس پر پڑی تھیں

۔

"تم کون ہو۔۔؟ بریرہ کو کیسے جانتے ہو۔۔؟ تم یہ سب کسی کو نہیں بتاؤ گے میں منہ مانگی رقم دوں گا تمہیں۔۔"

۔

ڈینیل نے سونم کو صوفہ پر بٹھا دیا تھا اور اپنی گن نکال لی تھی اسے سامنے کھڑا شخص بہت مشکوک لگ رہا تھا

۔

"مجھ سے بریرہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے سر۔۔۔اسکی رگوں میں بھی وہی خون ہے جو مجھ میں۔۔۔کزن ہے وہ میری۔۔۔"

بہرام نے آنکھیں کھول کر جواب دیا تھا

"پر۔۔۔بریرہ کی فیملی نے۔۔انہوں نے انکار کردیا تھا کوئی بھی رشتہ رکھنے سے جب میں نے بات کی تھی پاکستان۔۔۔"

سونم کی آنکھیں اور چھلک گئیں تھیں یہ سب بتاتے ہوئے

"اس وقت سب غصے میں تھے شاید اس لیے۔۔۔"

"ہاں اب یہ ہمدردی کہاں سے جاگ گئی پھر۔۔؟ بریرہ کو کسی کی ضرورت نہیں ہے ہم لوگ اسکی فیملی ہیں اب۔۔"

ڈینیل نے غصے سے کہا تو بہرام بھی اٹھ کھڑا ہوا تھا

"وہ اب میری ذمہ داری ہے مسٹر تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔وہ میرے ساتھ واپس جاۓ گی پاکستان زندہ سہی سلامت۔۔۔

لیکن اسکو ایسے نہیں جانا بدلہ لینا ہے اور میں ساتھ دوں گا اسکا۔۔۔

اور تم۔۔۔مجھے روک نہیں سکتے کوئی مجھے روک نہیں سکتا۔۔۔

بلاج حمدانی کو اسکے ہر ایک ظلم کا حساب دینا ہوگا۔۔۔"

۔

وہ ہر ایک قدم کے ساتھ اپنی بات پوری کرتے ہوئے ڈینیل کے سامنے کھڑا ہوا تھا جو کچھ قدم پیچھے ہوگیا تھا بہرام کی آنکھوں میں غصے کی انتہا دیکھ کر

۔

"بریرہ آپ کو شامل نہیں ہونے دے گی وہ اپنی فیملی کے کسی فرد کو بھی اس لڑائی کا حصہ نہیں بننے دے گی۔۔"

سونم نے بہت ہلکی آواز میں کہا تھا

۔

"وہ تو تب ہوگا جب اسے پتا چلے گا۔۔۔میں ایک انجان بزنس پارٹنر کی طرح سامنے آؤں گا اسکے۔۔۔جیسے ابھی ایک انجان راہ گیر کی طرح بچایا اسے۔۔۔"

"مطلب۔۔؟ آپ نے تو کہا آپ اس کے کزن ہیں۔۔۔۔"

"ہاں کزن ہوں۔۔وہ کزن جس کا سامنا نہیں ہوا تھا کبھی بریرہ سے۔۔

وہ کزن جس سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا بریرہ نے۔۔۔۔"

سونم کا منہ تو کھل گیا تھا بہرام کی باتیں سن کر پر ڈینیل بھی شاکڈ ہوکر بیٹھ گیا تھا۔۔

"انکار کیوں کیا تھا۔۔؟ آپ تو فل پیکج ہو۔۔۔آئی مین ہینڈسم بھی ہو ٹال بھی۔۔۔"

"سونم۔۔۔"

ڈینیل نے اسے غصے سے چپ کرایا تھا۔۔۔

"پر عمر میں بڑا بھی تو ہوں۔۔۔ اور اس وقت پروفیسر بھی تھا۔۔۔تو وہ مجھے چالیس سال کا ایک عمر رسید شخص سمجھ کر ٹھکرا آئی تھی۔۔"

"کیا چالیس سال عمر ہے آپ کی۔۔۔؟؟ لگتے نہیں ہو تیس پینتیس کے لگ رہے۔۔ ڈینیل سے تو ذیادہ ینگ لگ رہے۔۔۔"

سونم بڑبڑائے جا رہی تھی اپنی آنکھیں بھی صاف کر رہی تھی بار بار۔۔۔

"ہاہاہا نہیں میں عمر میں بریرہ سے صرف آٹھ سال بڑا ہوں۔۔۔"

"وہ بھی کم نہیں ہیں مسٹر۔۔۔"

ڈینیل نے کہا تو سونم نے اسے بازو مار کر چپ کرایا تھا۔۔۔

۔

"پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے وہ آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہیں مسٹر ڈینیل"

۔

بہرام کے پاؤں رک گئے تھے اسے ایک دم سے تکلیف ہوئی تھی پر وہ پھر سے اسی جگہ بیٹھ گیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ شاہ مجھے ہر حال میں چاہیے یو باسٹرڈ ایک لڑکی کو فالو نہیں کرسکے تم۔۔"

اس نے اپنے ہی گارڈ کو مارنا شروع کردیا تھا وہ پاگل ہورہا تھا 

آج وہ اپنی گن کا بہت استعمال کرچکا تھا۔۔آج وہ اس ایک انسان پر گولی چلا کر جیسے تھک گیا تھا وہ اپنے اسی ہاتھ کا استعمال کررہا تھا جس سے اس نے بریرہ پر گولی چلائی تھی

"وہ بریرہ ہی ہے۔۔۔وہ زندہ ہے۔۔ ۔۔"

وہ کہتے کہتے رک گیا تھا جب اس کے سب گارڈز اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے

"سر آپ کے ہاتھ سے خون نکل رہا ہے۔۔؟؟"

بلاج نے اپنا ہاتھ اٹھا کر دیکھا تھا اور پھر اپنے اپارٹمنٹ کو جو اس نےپوری طرح سے برباد کردیا تھا۔۔

وہ اپارٹمنٹ جو اس نے کسی کے ساتھ مل کر سجایا تھا

۔

۔

"بریرہ سیریسلی۔۔؟ اس اپارٹمنٹ پر میں دو کڑور لگا چکا ہوں اور تمہیں ابھی بھی یہ پسند نہیں آیا۔؟"

نووووووپ۔۔۔۔۔"

بریرہ نے پھر سے وہ پینٹ برش اٹھا لیا تھا

"وٹ دا ہیل۔۔؟ پاگل لڑکی۔۔"

"اچھا آپ جو اتنے آنسٹائن بنے ہوئے ہیں ابھی بتاتی ہوں۔۔"

وہ برش اتنی جلدی بلاج کی گال کے ساتھ ٹچ کیا تھا اس نے کہ اسکے چہرے پر لال رنگ لگ گیا تھا

"بریرہ کی بچی۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا ابھی تو میں خود بچی ہوں۔۔۔"

"نہیں تم ابھی بچی ہوئی ہو مجھ سے۔۔"

بلاج نے وہ  پینٹ برش اٹھا بریرہ کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کی تھی

"ہاہاہاہا۔۔۔بلاج۔۔۔"

بلاج نے اپنے پینٹ سے بھرے ہوئے ہاتھ بریرہ کے چہرے پر لگا دئیے تھے اور اسے ویسٹ سے پکڑ کر اٹھا لیا تھا ہنستے ہوئے

"ہاہاہاہاہا ہاں جی تو کیا کہہ رہی تھی بریرہ میڈم۔۔؟؟ میری شرٹ میں کچھ زیادہ ہی ہوٹ نہیں لگ رہی ۔۔؟؟"

اس نے آنکھ مارتے ہوئے شرٹ کے بٹن تک اپنے ہاتھ بڑھائے تھے

"نہیں ہم اب اس بیڈروم میں تب تک نہیں جائیں گے جب تک وہاں سے گرے اور بلیک کلر چینج نہیں کردیتی میں۔۔"

"ہم ابھی جا رہے ہیں ہمارے بیڈروم میں وائفی روک سکو تو روک لو۔۔"

بلاج اسے اپنی گود میں اٹھائے اوپر سیڑھیاں چڑھنا شروع ہوگیا تھا

"تمہیں میری زرا فکر نہیں ہے نا بلاج۔۔؟ میری پسند نا پسند۔۔؟ اس لیے یہ پورا اپارٹمنٹ بے جان پڑا ہوا ہے ان رنگوں سے میری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے۔۔۔"

بلاج کے کالر پر اپنے ہاتھ ڈالے بریرہ نے جیسے ہی رونے والی شکل بنائی تھی بلاج کے قدم رک گئے تھے

"بریرہ شاہ تمہیں اپنی ویلیو دیکھنی ہے۔۔؟آؤ میں تمہیں دیکھاتا ہوں۔۔"

بلاج نے اسے وہیں اتار دیا تھا اور اوپر بیڈروم میں چلا گیا تھا تیز قدموں سے۔۔

"ہاہاہا بلاج حمدانی میری بات تو منوا کر رہوں گی نہیں مجھے پسند یہ روکھے سوکھے سے رنگ۔۔"

وہ اپنی جیت پر ابھی خوش ہو ہی رہی تھی کہ اسے اندر بیڈروم سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تھی

"بلاج یہ کیا ٹوٹنے کی آواز۔۔۔"

اندر تو پورا کمرا کچرا بن گیا تھا ہر چیز توڑ دی تھی بلاج حمدانی نہیں

بلاج نے جب اس ایک شیشے کو توڑنے کی کوشش کی تو بریرہ بھاگتے ہوئے اسکے قریب گئی تھی اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا تھا

"بس بلاج پلیز۔۔۔بس کرجاؤ۔۔۔"

"بریرہ بلاج حمدانی اس اپارٹمنٹ کی ہر ایک چیز ہر ایک کنٹری سے منگوائی تھی کہ تمہیں پسند آئیں گی اور تم ویلیو کی بات کرتی ہو۔۔؟"

بلاج نے پیچھے مڑ کر بریرہ کا چہرہ اپنی طرف کیا تھا

"بلاج میرا وہ مطلب نہیں تھا"

"بلاج حمدانی ایک تمہیں ہی تو اہمیت دے رہا ہے بریرہ۔۔دوبارہ ویلیو کی بات نا کرنا۔۔تمہیں جو اس اپارٹمنٹ کے ساتھ کرنا ہے تم کرسکتی ہو میری جان۔۔میری محبت ان سے کے آگے کچھ بھی نہیں"

بریرہ اسکے سینے سے لگ گئی تھی بنا کچھ کہے۔۔

"کبھی کبھی تمہاری محبت سے ڈر لگتا ہے کبھی اور کبھی تمہاری محبت سے بہت محبت ہوجاتی ہے۔۔

سمجھ نہیں آتی مجھے محبت تمہاری مجھ سے محبت سے ہے یا اس محبت میں تمہارے اس جنون سے ہے۔۔؟؟"

یہ کہتے ہوئے اسکی انگلیا ں بلاج کی شرٹ کے بٹن پر تھیں

"اب مجھے نہیں جانا بیڈ روم میں۔۔"

بلاج اسکے ہاتھوں سے کالر چھڑا کر روم سے باہر آگیا تھا۔۔

۔

"آپ جو اس طرح سے تڑپائیں گے۔۔۔

ایسے عالم میں پاگل ہوجائیں گے۔۔۔"

۔

"ابھی بھی نہیں مسٹر مافیا۔۔؟؟"

اور اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کردئیے تھے بلاج حمدانی کی دھڑکنے اور تیز ہونا شروع ہوگئیں تھیں بریرہ کے اس بولڈ موو پر۔۔۔

۔

"جسم سے روح میں ہم اترنے لگے۔۔۔

اس قدر آپ سے ہم کو محبت ہوئی۔۔۔"

۔

"بریرہ۔۔۔"

"سو مائی مافیا مین آپ کے ہوش اڑ گئے ہیں اب۔۔؟ آرہے ہیں یا بیڈروم دوڑ بند کردوں۔۔؟"

اس نے آنکھ مار کر واپس دروازہ بند کرنے کی کوشش کی تھی

"تم مجھے کسی دن ضرور مار دو گی بریرہ اپنی اس ٹیزنگ سے۔۔۔"

۔

"ہم صنم حد سے آگے گزرنے لگے۔۔۔

آپ کے پیار میں ہم سنورنے لگے۔۔"

۔

۔

"بلاج۔۔۔"

"بریرہ۔۔۔"

۔

بلاج کے رخصار پر جیسے ہی اسے  کسی کے ہونٹوں کا لمس محسوس ہوا تھا اس نے آنکھیں کھول کر ایک ہی نام لیا تھا

"بریرہ۔۔؟ سیریسلی بلاج۔۔؟؟ وہ رکھیل مر کر بھی یہیں ہے نا۔۔؟؟"

مدیحہ نے غصے سے کہا تھا

"اپنی آواز نیچی کرو مدیحہ باہر گارڈز کھڑے ہیں میرے۔۔مجھے پسند نہیں کوئی اس طرح مجھ سے بات کرے۔۔"

وہ یہ کہہ کر  اٹھ گیا تھا۔۔

ماضی کی وہ یاد جو اسے بہت رومینٹک راتوں میں لے گئی تھی بلاج نے نظریں اٹھا کر اس بیڈروم کی طرف دیکھا تھا۔۔

"کیوں تم اسکے سامنے اتنے کمزور ہو بلاج۔۔؟ تمہیں اس سے محبت ہوگئی تھی نا۔؟ وہ لڑکی رکھیل سے کچھ زیادہ بن گئی تھی نا اور نوبت اسکی پریگننسی تک پہنچ گئی تھی۔۔؟"

مدیحہ نے بلاج کا ہاتھ کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کیا تھا اسے

"مدیحہ اننف اس اننف گھر جاؤ۔۔"

"ہاں گھر جاؤ تاکہ تم اس کے بیڈروم میں اسکی یادوں کے ساتھ سو سکو۔۔؟ تم اسے ہرا کر بھی نہیں ہرا پائے بلاج حمدانی۔۔آج مجھے اور اپنے ہونے والے بچے کو اگنور کر رہے ہو اس رکھیل کے لیے اس دشمن کی بیٹی کے پیچھے۔؟"

مدیحہ اپنی آواز پر بلکل بھی قابو نہیں کر پائی تھی دوسری طرف بلاج اپنے غصے پر کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا

"تمہیں کتنی بار کہوں کہ نفرت کرتا ہوں میں بریرہ شاہ سے۔۔ہمیشہ سے نفرت کی میں نے اس سے اسکی اوقات کچھ نہیں تھی میرے سامنے۔۔۔"

بلاج نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا

"اچھا پروو اِٹ۔۔ثابت کرو اسکی کوئی اوقات نہیں۔۔"

"وٹ۔۔؟ کیسے۔۔۔؟؟"

۔

"مئیک لو ٹو مئ۔۔اسی بیڈروم میں جو تم اسکے ساتھ شئیر کرتے تھے۔۔۔اسی بیڈ پر جہاں اسکی یادیں تھی۔۔؟"

"مدیحہ۔۔۔"

بلاج نے ایک سرگوشی میں کہا تھا

"کیا ہوا بلاج وائلٹ نہیں کرنا چاہتے اسکی اپنی یادیں۔۔؟کیا تم۔۔"

"بلاج نے اسے اٹھا لیا تھا اور اسی بیڈروم کی جانب بڑھ رہا تھا

"تم آج میری بریرہ شاہ کے لیے نفرت اور تمہارے لیے محبت دیکھو گی مدیحہ۔۔۔"

اور اس نے وہی ثابت کیا تھا اس بیڈروم میں ایک اور عورت کو لے جاکر اس نے اپنی نفرت ثابت کردی تھی بریرہ شاہ کی لیے۔۔۔جو اسی شہر میں ایک اپاٹمنٹ میں درد سے تڑپ رہی تھی۔۔

اور بلاج حمدانی یہاں ایک اور عورت کو اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا۔۔۔

۔

"نہیں ہے مجھے اس سے محبت۔۔۔نہیں ہے محبت۔۔۔بس نفرت ہے دشمن کی بیٹی سے۔۔"

۔

وہ جتنی بار مدیحہ کے قریب جا رہا تھا اتنی بار یہی بات دہرا رہا تھا۔۔۔

۔

۔

"پر آج اس نے اس کمرے میں موجود ہر اس چیز کو رسوا ضرور کردیا تھا آج اس نے خود کو رسوا کردیا تھا اپنی دشمنی میں۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ڈینیل۔۔وکی کو فون کرو۔۔اسے کہو وہ تصاویر اپ اپنے انسٹاگرام پروفائل پر اپلوڈ کردے۔۔"

بریرہ نے اپنا آکسیجن ماسک اتار دیا تھا

"بریرہ ماسک نا اتارو پاگل لڑکی۔۔"

سونم نے پھر سے ماسک لگا دیا تھا وہ جھک گئی تھی بریرہ کے پاس  اسکے کندھے پر سر رکھ کر وہ رونا شروع ہوگئی تھی

۔

"بریرہ یہ سب کیسے ہوا ہے۔۔؟ کس نے کیا نام بتاؤ۔۔"

بریرہ نے آنکھیں بند کرلی تھیں بلاج کے ہاتھ وہ وہ پسٹل اور اس گن سے چلنے والی گولی اسکی روح تک کو چھلنی کرگئی تھی۔۔بریرہ کی خاموشی پر  بہرام نے اندر دیکھنے کی کوشش کی تھی اس میں ہمت نہیں تھی اسکی حالت دیکھ کر اسکے سامنے آنے کی۔۔وہ کبھی منہ چھپا رہا تھا کبھی ڈینیل کے پیچھے سے دیکھ رہا تھا کچھ قدموں کا فاصلہ طہ نہیں کرپارہا تھا وہ۔۔

۔

"ڈینیل وکی کو کال ملاؤ جو کہا ہے وہ کرو پلیز وقت بہت کم ہے۔۔"

اسکی آواز ہلکی ہونا شروع ہوگئی تھی اور مانیٹر کی ٹون تیز۔۔

"آپ سب باہر جائیں پلیز۔۔پلیز سونم سنبھالو خود کو۔۔"

لیڈی ڈاکٹر جو دوست بھی تھیں سونم کی انہوں نے سونم کو باہر جانے کا کہا تھا

"پلیز دعا اسے کچھ مت ہونے دینا پلیز۔۔"

"ڈینیل سونم کو باہر لے جاؤ۔۔"

اور وہ سب چلے گئے تھے باہر۔۔۔

"بلاج۔۔۔"

بریرہ نے ایک سرگوشی کی تھی اور اسکی آنکھیں بند ہوگئیں تھیں۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج۔۔۔"

"بریرہ۔۔۔"

وہ اٹھ گیا تھا۔۔۔ماتھے سے پسینہ صاف کر کے اٹھنے کی کوشش کی تھی پر اٹھ نہیں پایا تھا جب چہرہ دوسری طرف کیا تو مدیحہ پر اسکی نظر پڑی اور پھر اس کمرے پر۔۔

"بےوفا۔۔۔۔"

۔

اسے یہ لفظ سنائی دینا شروع ہوگیا تھا جیسے اس کمرے کی ہر چیز اسکی بےوفائی کی گواہی دے رہی ہو۔۔

"بےوفا۔۔"

"بریرہ۔۔"

"بلاج اس کمرے کے ہر کونے میں ہماری محبت کی سرگوشیاں ہیں ہماری یادیں۔۔

جب کبھی میں بابا سائیں کے گھر رہنے جایا کروں گی تو یہ کمرہ تمہیں میری کمی محسوس نہیں ہونے دے گا۔۔

بلاج اپنے کپڑے پہن کر کھڑا ہوگیا تھا

"بلاج اتنی صبح کہاں جا رہے۔۔؟"

مدیحہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"بےوفا۔۔"

اسکے دماغ میں یہ ایک ہی لفظ سنائی دے رہا تھا اسے۔۔

"کپڑے پہنو ہم گھر جا رہے مہتاب سے کچھ ضروری بات کرنی ہے مجھے۔۔"

"پر بلاج۔۔"

"میں نے کہا کپڑے پہنو۔۔۔"

۔

اسکی آواز میں شدید غصہ تھا کہ مدیحہ جلدی سے اٹھ گئی تھی۔۔بلاج کو آج اس کمرے میں ایک پل اور رہنے سے گھٹن محسوس ہونا شروع ہوگئی تھی اور وہ وہا ں سے باہر چلا گیا تھا

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"پانی۔۔۔"

بریرہ نے ماسک اتار کر اٹھنے کی کوشش کی تھی کمرے میں ایک ڈم لائٹ ہی آن تھی ہر طرف اندھیرا سا تھا۔۔

ٹیبل پر پانی کے گلاس تک ہاتھ بڑھاتے ہوئے اسکا ہاتھ پھسل گیا تھا۔۔وہ اپنے بیڈ سے نیچے گرتی اسے کسی نے پیچھے سے سہارا دیا تھا۔۔۔بریرہ کا چھپ گیا تھا اس سہارے دینے والے کے کندھے میں۔۔

"میں دیتا ہوں۔۔"

بہرام نے اسے آہستہ سے لٹا دیا تھا اور پانی کا گلاس اسکے منہ تک لے گیا تھا جس کی آنکھیں کھل رہی تھی بند ہورہی تھی

"آپ۔۔کون۔۔؟"

بلاج کے ہاتھ رک گئے تھے بریرہ نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر وہ پانی کا گلاس اپنے ہونٹوں کو لگایا تھا دو گھونٹ پینے کے بعد وہ پھر سے گر گئی تھی بیڈ پر۔۔

۔

"میں جانتی ہوں آپ کو۔۔؟؟"

"نہیں۔۔۔"

بہرام بھی وہیں پاس بیٹھ گیا تھا اسکی نظریں نہیں ہٹ پارہیں تھیں بریرہ کے معصوم چہرے سے

"آپ کی آواز سنی ہوئی لگ رہی۔۔"

"میں پہلی بار ملا ہوں تم سے پشمینہ۔۔تمہیں اس سڑک پر زخمی دیکھا تو اپنے ساتھ یہیں لے آیا۔۔

باہر تمہارے دوست ہیں۔۔میں چلتا ہوں۔۔"

وہ اٹھ کر جانے لگا تھا اس سے اب اور نہیں دیکھا جا رہا تھا بریرہ کو درد میں کراہتے ہوئے

"سٹے۔۔۔مجھے کچھ ہونے نہیں دینا۔۔میں نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔۔"

وہ بڑبڑاتے ہوئے پھر سے سو گئی تھی بہرام کا ہاتھ مظبوط گرفت میں پکڑے۔۔

"بریرہ۔۔۔"

اسکی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر بریرہ اور اسکے بندھے ہاتھ پر جا گرا تھا۔۔

وہ بہرام شاہ تھا۔۔وہ کمزور نہیں تھ پھر کیوں یہ لڑکی اسے کمزور کررہی تھی جو پاکستان میں سب کے سامنے اسے ٹھکرا آئی تھی۔۔کیوں اسے درد ہورہا تھا بریرہ کے درد سے۔۔۔؟؟

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"میں تمہیں کہہ رہا ہوں فون کرو پشمینہ شیخ کو اور پتا کرو کہاں ہے وہ۔۔؟"

"بلاج بھائی ہوکیا گیا ہے آپ کو۔۔؟ میں کہہ رہا ہوں وہ میرا فون نہیں اٹھائے گی۔۔"

"کیوں ڈمپ کردیا تمہیں۔۔؟ اتنی جلدی۔۔؟"

بلاج اندر ہی اندر خوش بھی ہوا تھا اور پریشانی سے پاگل بھی ہورہا تھا اسے کوئی خبر نہیں تھی چوبیس گھنٹے ہونے کو تھے

"اگر کر بھی دیا تو آپ کو کیا بلاج بھائی۔؟ خوش ہوجائیں آپ لوگ۔داد جی آپ ڈیڈ ریبل سب لوگ جشن منائیں۔۔کیونکہ پشمینہ نے میرے منہ پر مار دی ہے یہ انگوٹھی۔۔"

مہتاب جتنے غصے سے اٹھا تھا اسکی کرسی نیچے گر گئی تھی۔۔لیونگ روم کا ماحول ایک بار پھر سے خراب ہوا تھا۔۔

"مہتاب بیٹا آرام سے بات کرو۔۔"

"آپ کو کسی نے کہا ہے درمیان میں بولنے کو۔۔؟ گھر کے مرد بات کر رہے ہیں۔"

بلاج نے انتہائی بدتمیزی سے اپنی ماں کو چپ کرا دیا تھا

"اچھا اسکا ایڈریس دو مجھے۔۔میں پوچھ کر آؤں کہ یہ تماشا کیا لگا رکھا ہے۔۔فون نمبر دو۔۔"

"نہیں ہے وہ گھر میں۔۔بند ہے لاک ہے اسکا اپارٹمنٹ وہ اپنے کزن اپنی فیملی کے ساتھ پیرس چلی گئی ہے کچھ دن کے لیے۔۔۔"

اور بلاج ہنسنا شروع ہوگیا تھا۔۔

"اچھا جھوٹ بول لیتی ہے وہ۔۔اسے میں نے کل دیکھا تھا اسکے کسی یہیں نیویارک تم بکتے ہو وہ نہیں ہے یہاں۔۔"

مہتاب نے غصے سے اپنا موبائل نکالا تھا اور اسے وہ تصاویر اور ٹائم دیکھایا تھا

"وہ پشمینہ شیخ ہے بھیا وہ اپنی بے عزتی نہیں بھولے گی جب تک آپ لوگ معافی نہیں مانگے گے اور وہ واپس بھی نہیں آئے گی۔۔پر میں تو مر جاؤں گا اسکے بغیر۔۔پلیز مجھے وہ چاہیے۔۔۔پلیز بلاج بھائی ورنہ میں کچھ کرگزروں گا۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگا تھا۔۔

"مہتاب۔۔۔مہتاب۔۔۔"

باقی گھر والے بھی اسکے پیچھے بھاگے تھے سوائے بلاج کے اسکے ہاتھ میں ابھی بھی وہ موبائل تھا۔۔

پشمینہ کی تصویر وہ بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔۔

۔

۔

"بہت بڑی گیم کھیل رہی ہو تم بریرہ شاہ۔۔۔اس بار بھی شکست تمہیں ہوگی یاد رکھنا

بلاج حمدانی نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا۔۔۔"

۔

پر اسے کیا معلوم تھا اسکے ہارنے کے دن تو کب سے شروع ہوگئے تھے۔۔وہ گولی اس نے دشمن کی بیٹی پر نہیں اپنی بیوی پر چلائی تھیں۔۔۔۔

اور آنے والے وقت میں وہ خوں روئے گا اپنے ہر ظلم پر۔۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"اسے ہوش آنے والا ہے میں اب چلتا ہوں یہاں سے۔۔۔میں ایسے بریرہ کے سامنے نہیں آؤں گا۔۔ایک پلاننگ کے ساتھ سب ہوگا آپ دونوں بھی پلان کے مطابق چلئیے گا۔۔"

بہرام اٹھنے لگا تھا پر بریرہ کی گرفت اور مظبوط ہوگئی تھی۔۔سونم اور ڈینیل کی نظروں میں بہت حیرانگی تھی

"پلیز۔۔۔سٹے۔۔۔"

۔

بہرام واپس وہیں بیٹھ گیا تھا 

"میں واپس آنے کے لیے جارہا ہوں بریرہ۔۔میرا وعدہ ہے۔۔"

اس نے بریرہ کے ماتھے سے اسکے بال پیچھے کئیے تھے جسے دیکھ کر سونم کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھی

۔

"تیرا بنے گا وہ ،،،جو تیرا نہیں ہے۔۔۔

اے دل بتا ،،،کیوں تجھ کو اتنا یقین ہے۔۔۔"

۔

"تب تک اپنا خیال رکھنا بریرہ شاہ۔۔تم میں شاہ فیملی کا خون ہے وہ خون جو انتقام لئیے بغیر ٹھنڈا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔اسکے بعد ہم دونوں ساتھ پاکستان واپس جائیں گے۔۔۔پری سے بھی ملوانا ہے تمہیں۔۔"

اسکی آواز اسکے جذبات نے بھاری کردی تھی۔۔۔وہ آگے بڑھ کر بریرہ کے ماتھے پر بوسہ لینا چاہتا تھا۔۔۔پر اپنی مٹھی بند کر کے وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

"یا اللہ یہ سب ہوکیا رہا ہے۔۔؟ ڈینیل دیکھا تم نے۔۔؟ مہتاب اور بلاج نہیں

بلاج اور بہرام کی لڑائی ہوگی بریرہ کو لیکر دیکھ لینا۔۔۔سیریسلی۔۔۔"

سونم کا چہرہ پوری طرح سے شاکڈ تھا۔اور ڈینیل وہ تو جیسے چپ ہوگیا تھا اپنی بیوی کی بات سن کر۔۔

۔

"کچھ بھی اچھا نہیں ہونے والا سونم۔۔مجھے وہ طوفان آتا ہوا نظر آرہا ہے جو سب بہا لے جائے گا ۔۔۔سب کچھ۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

پاکستان۔۔۔

۔

"بہرام کا فون آیا تھا بھابھی۔۔ابھی تک ارسل کا کچھ پتا نہیں چلا پر جلدی ہی پتا چل جائے گا آپ فکر نہیں کریں۔۔"

۔

"دادو مجھے بھی بابا کے ساتھ جانا تھا۔۔"

پری اپنی غریا اٹھائے  کبیر صاحب کی گود میں آکر بیٹھ گئی تھی۔۔۔

"آلے میری گڑیا آپ کے بابا جلدی جلدی آجائیں گے آپ کے پاس ہم سب ہیں نا۔۔"

"کیا سچ میں بابا میرے لیے نئی ماما لیکر آئیں گے۔۔؟؟"

کبیر صاحب کے چہرے کی ہنسی تو اڑی تھی باقی سب بھی خاموش ہوگئے تھے

"آپ کو کس نے کہا بیٹا۔۔۔بابا تو ایک ضروری کام کے لیے گئے ہیں۔۔"

"پر تھوڑی دیر پہلے بابا نے فون پر کہا تھا نئی ماما ساتھ لیکر آئیں گے۔۔۔"

کبیر صاحب جو چائے کا گھونٹ لگا چکے تھے وہ انکے منہ سے باہر آگئی تھی کھانسی کرتے ہوئے۔۔

"ہاہاہاہاہا کبیر صاحب آپ اتنا کیوں شرما رہے۔۔؟ "

انکی بیگم اور عروج بیگم نے ہنسنا شروع کردیا تھا حیران سب تھے پر سب نے پری کا جوک سمجھ کر اس بات پر اتنا دھیان نہیں دیا۔۔۔

"ایک منٹ بیٹا میرا فون بج رہا۔۔"

کبیر صاحب نے اپنی گلاسیز لگا کر موبائل ٹیبل سے اٹھایا تھا

"پرائیویٹ نمبر۔۔؟؟ ہیلو۔۔۔"

۔

انہوں نے کال پک کر لی تھی۔۔

"ہیلو۔۔ہیلو۔۔۔؟"

پر دوسری طرف سے کوئی بول نہیں رہا تھا

"ہیلو۔۔۔"

۔

"کبیر۔۔۔میں وجیح۔۔۔شاہ۔۔۔"

"وجیح۔۔۔بھائی۔۔؟ ہیلو۔۔۔"

"ہیلو۔۔کبیر۔۔مجھے تمہاری مدد۔۔۔"

"ہیلو۔۔۔"

اور دوسری طرف سے لائن ڈیڈ ہوگئی تھی۔۔

کبیر صاحب اٹھ گئے تھے اور فون پر چلانا شروع ہوگئے تھے

"ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔"

"کبیر بھائی صاحب۔۔۔وجیح۔۔؟؟"

"ہاں بھابھی وجیح بھائی کی آواز تھی۔۔۔جیسے وہ کسی جلدی میں تھی۔۔مدد کا کہہ رہے تھے۔۔

یا اللہ میرا دل کہتا تھا وہ زندہ ہیں بھابھی۔۔کسی نے انکو قید کیا ہوا۔۔۔میں ابھی بہرام کو فون کرتا ہوں۔۔میں خود نیویارک جاؤں گا۔۔۔"

"بریرہ کی حالت ابھی سٹیبل ہے ڈینیل پر ہمیں اسے ہسپتال لیکر جانا ہوگا اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے ڈینیل۔۔"

وہ دونوں اس کمرے کے سامنے ہی بیٹھے تھے پوری رات گزر گئی تھی بریرہ کو کبھی ہوش آرہا تھا کبھی نہیں

اتنے میں اسکے ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور بہرام شاہ تھری پیس سوٹ پہنے باہر نکلا تھا

وہ  اور ڈینیل دونوں کے منہ کھلے رہ گئے تھے

"مجھے اگر پتا ہوتا بریرہ کا کزن اتنا ڈیشنگ اتنا خوبصورت ہے تو میں نے پانچ سال پہلے ہی پاکستان بھاگ جانا تھا اس سے شادی کرنے کے لیے۔۔"

سونم بات تو خود سے کر رہی تھی پر سنائی سب کو دے گیا تھا۔۔بہرام کے چہرے پر مسکان آتے آتے رہ گئی تھی جب اسکی نظر بریرہ کے کمرے پر پڑی تھی

"بریرہ کا خیال رکھئیے گا میں بس آتا ہوں کچھ دیر تک۔"

کان پر بلوتوتھ ڈیوائس لگا کر بہرام انکے پاس سے گزر گیا تھا

"پر کہاں جا رہے ہیں آپ۔۔؟؟"

سونم نے سوال پوچھا تھا

"بلاج حمدانی سے ایک ملاقات کرنے جا رہا ہوں اسے جو آج ایک تحفہ بھیجا ہے اسکے بعد وہ مجھ سے ملنا ضرور چاہے گا۔۔"

"وٹ۔۔کیا۔۔؟ تم سارا پلان خراب کردو گے مسٹر بہرام تم نے کس سے پوچھ کر بریرہ کے معاملات میں دخل اندازی کی ہے۔۔؟؟"

"ڈینیل۔۔"

پر ڈینیل نے سونم کا ہاتھ جھٹک دیا تھا

"بریرہ کا کوئی بھی کام اب خراب نہیں ہوگا۔ پر بلاج حمدانی کو یہ بتانا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ بریرہ اکیلی نہیں ہے۔۔میں ہوں اسکے ساتھ۔۔آخری دم تک۔۔"

۔

اسکی آنکھوں میں ایک الگ ہی آگ تھی جب وہ بلاج کا نام لے رہا تھا وہ تیز قدموں سے وہاں سے چلا گیا تھا

"اسکی آنکھیں دیکھی تم نے۔؟"

سونم کی نظریں ابھی بھی دروازے پر تھیں

"سونم اننف فلرٹ کرنا بند کرو ڈیم اِٹ میری بیوی ہو تم"

"شٹ اپ ڈینیل۔۔اسکی آنکھیں دیکھی مطلب بلاج کا نام لیتے ہوئے کیسا غصہ آتا ہے ان میں۔؟

ٹھیک ایسا ہی غصہ بریرہ کی آنکھوں میں دیکھا تھا میں نے۔۔"

"مجھے نہیں سمجھ آرہی کچھ بھی۔۔یہ کوئی نا کوئی کام خراب کرے گا میں کسی کو پیچھے بھیجتا ہوں جو اس پر نظر رکھ سکے۔۔"

۔

"افف اللہ بس کرجاؤ۔۔وہ مجھے کوئی بیوقوف نہیں لگ رہا۔۔ایسا لگا جیسے وہ بلاج حمدانی کی ٹکڑ کا ہے۔۔چارپ مائنڈڈ گڈ لوکنگ لائک مافیا مین۔۔"

سونم نے جیسے ہی ڈینیل کے چہرے پر غصہ دیکھا تھا وہ ہنس دی تھی۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بابا سائیں اچانک سے آپ مجھے بلا رہے کل تک تو آپ نے منع کردیا تھا۔۔"

"کیونکہ کل تک مجھے پتا نہیں تھا یہ لوگ تمہاری شادی کا سوچ رہے"

"وٹ میری شادی۔؟ کس سے۔۔؟"

بریرہ نے وجیح شاہ کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تھا

"تمہارے چچا کے بیٹےبہرام سے۔۔۔تم اپنا سامان پیک کرلو ہم شام کی فلائٹ سے جا رہے ہیں"

"بہرام بھائی۔؟ کبھی نہیں اتنی عمر کے ہیں وہ۔۔اس لیے سب مجھے آپ کے پاس جانے سے روک رہے تھے۔۔؟؟"

بریرہ نے بہت اونچی آواز میں کہا تھا۔۔وجیح شاہ کا غصہ بھی کم ہوا تھا کچھ بیٹی کی مرضی سن کر۔

"اب تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں بیٹا تم اب پاکستان واپس نہیں آؤ گی۔۔میں کبھی اس خاندان میں تمہاری شادی نہیں ہونے دوں گا۔۔ان کا سٹیٹس نہیں ہے ہمارے قابل۔۔"

۔

"پر بابا سائیں یہ سب آپ کے اپنے ہیں۔۔"

"ہاہاہا ہاں اپنے وہ اپنے جنہوں نے چھوڑ دیا تھا مجھے میرے بُرے وقت میں۔۔میں تمہیں کبھی واپس نہیں آنے دوں گا بریرہ۔۔میرے دوست کے بیٹے کے ساتھ شادی ہوگی تمہاری"

۔

۔

"بریرہ۔۔۔بریرہ۔۔۔"

اس پر جیسے ہی پانی کا جگ پھینکا تھا اسکی آنکھ کھل گئی تھی

"بلاج۔۔۔کیا ہے سونے بھی نہیں دیتے۔۔"

وہ منہ بنا کر اٹھ گئی تھی

"ہاہاہاہا رات سے سو ہی رہی ہو میڈم۔۔"

"جھوٹے کب سونے دیا پوری رات۔؟ اب بھی اٹھا دیا "

اسکی معصومیت پر بلاج پھر سے ہنس دیا تھا

"ضروری تھا کیونکہ تمہارا موبائل پچھلے پندرا منٹ سے بج رہا تھا تمہارے بابا سائیں کا فون آرہا تھا"

اسکی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ وہ بیڈ سے اٹھ گئی تھی اور کپبرڈ کی طرف بھاگی تھی

"بریرہ بلاج حمدانی ڈونٹ ٹیمپٹ مئ۔۔کہیں ایسا نا ہو میں اپنا ارادہ بدل لوں اور۔۔"

بلاج اسکے پاس آکر کھڑا ہوگیا تھا۔۔

"وٹ اب میں نے کیا کیا بلاج۔۔؟ پیچھے ہٹ جاؤ لیٹ ہورہی۔۔"

پر بلاج نے اسے اسی کپبرڈ کے ساتھ پن کر دیا تھا

"میری شرٹ میں اس طرح میرے بیڈروم میں گھوم رہی ہو اب اتنی معصومیت سے پوچھ رہی میں نے کیا کیا۔۔؟ کیا نہیں کیا بریرہ تم نے میرے ساتھ۔؟"

اس نے جیسے ہی بریرہ کے کان میں سرگوشی کی تھی بریرہ کا سر شرم سے جھک گیا تھا

"اب بولو گی نہیں۔۔؟ کل تو بہت بول رہی تھی ہمارے نکاح والے دن۔۔؟؟"

اور بریرہ نے نظریں اٹھا کر بلاج کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"کل اس لیے بول رہی تھی کہ خود کو یقین ہوجائے کہ کل کا دن کوئی خواب نہیں اک حقیقت ہے بلاج۔۔کیونکہ تم سے نکاح کا میں خواب ہی دیکھتی آئی ہوں۔۔؟

اسکا لہجہ بھاری ہوگیا تھا جب اسے نے بلاج کے سینے پر اپنا سر رکھا تھا

"بریرہ۔۔"

"شش بلاج۔۔میں نے بابا سائیں کے فیصلوں کو رد کیا فیملی سے جھوٹ بولا تمہاری محبت میں

اب تم میری محبت میں مجھ سے کوئی ایسا جھوٹ نا بولنا کہ دنیا مجھے یہ کہہ دے کہ جیسا میں نے کیا وہسا ہی میرے ساتھ ہوا۔۔

کیونکہ یہ لفظ کہنے میں جتنے چھوٹے ہیں انکے بوجھ پہاڑ جتنے بڑے ہوتے ہیں"

بلاج کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیکر اس نے بلاج کی آنکھوں میں دیکھ کر یہ بات کی تھی جن آنکھوں میں نرمی چھا گئی تھی

"کبھی نہیں کروں گا تمہیں رسوا کبھی نہیں کروں گا بریرہ۔۔"

۔

اور فون پھر سے بج گیا تھا

۔

۔

"بریرہ کو ہوش آرہا ہے۔۔ڈینیل ڈاکٹرز کو بلاؤ جلدی۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج یہ سب کیا بکواس ہے تم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہو۔۔؟"

بلاج کے آفس کا کیبن ڈور مدیحہ نے اتنی زور سے کھولا تھا کہ وہ کھل کر دیوار کے ساتھ جا لگا تھا

"وٹ دا ہیل بھائی۔؟ یہ طریقہ ہے آفس آنے کا اور بات کرنے کا۔؟"

شہیر اپنی کرسی سے اٹھ گیا تھا جو بلاج کے چھوٹے چچا کا بیٹا تھا

وہ سب کزنز ایک ضروری میٹنگ کے بعد یہاں اکٹھے ہوئے تھے کچھ ضروری بات چیت کے لیے۔۔

"ہاہاہا شہیر چپ ہوجاؤ بیٹا۔۔بلاج بھائی کو عادت ہوگئی ہے عورتوں سے بےعزتی کروانے کی۔

قسم سے اگر میری منگیتر ایسی حرکت کرتی نا تو دو لگاتا اسے۔۔"

"بس ربیل دفعہ ہوجاؤ۔۔"

بلاج نے غصے سے کہا تھا اور سب دروازہ بند کر کے چلے گئے تھے بلاج اسی غصے سے مدیحہ کو دیکھ رہا تھا

"مدیحہ آئی سوئیر اگر تمہاری بات بنا مقصد ہوئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا تم پریگننٹ ہو اس لیے لحاظ کر رہا ہوں۔۔"

"اچھا لحاظ نا کرو مار دو مجھے بھی بریرہ کی طرح اور مار دو اس بچے کو بھی جیسے بریرہ کے بچے کو مارا۔۔"

بلاج نے اسکی بات پر دو قدموں کا فاصلہ طہ کیا تھا اور اسکے کندھوں کو مظبوطی سے پکڑ لیا تھا

"ایک اور لفظ نہیں مدیحہ۔۔کس لیے آئی ہو یہاں۔۔۔"

"یہ پراپرٹی تم نے مجھے گفٹ کی تھی جس پر میرا بوتیک بننا تھا آج اس پر کوئی اور قبضہ کرکے بیٹھ گیا ہے۔۔میرے بوتیک کی کنسٹرکشن روک دی اور توڑ دیا ہے سب کچھ۔

اگر تم میں اوقات نہیں تھی اسے خریدنے کی تو بتا دیتے مجھے میں اپنے ڈیڈ سے کہہ دیتی۔۔

ڈسگسٹنگ بلاج۔۔"

وہ جانے لگی تھی کہ بلاج نے اسکا ہاتھ بہت زور سے پکڑا تھا جس پر اسے بہت تکلیف ہونا شروع ہوگئی تھی

"کس نے قبضہ کیا۔؟ کب ہوا یہ سب۔۔؟؟"

بلاج کی طیش سے بھری آواز سے وہ ڈر کر پیچھے ہوئی تھی اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کچھ پیپرز بلاج کے ہاتھ میں تھما دئیے تھے

"بہرام شاہ۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"سو۔۔۔سونم۔۔۔"

بریرہ نے ہلکی آواز میں کہنے کی کوشش کی تھی

"بریرہ پلیز چپ رہو۔۔ایمبولینس آتی ہی ہوگی ڈاکٹر نے ہسپتال لےجانے کا کہا ہے تمہیں"

پر بریرہ نے ناں میں سر ہلا دیا تھا وہ بےچین ہوگئی تھی۔۔

"ہم کہیں نہیں۔۔۔جا رہے۔۔بلاج۔۔۔حمدانی کو نہیں پتا چلنا چاہیے کچھ بھی"

"یہ ایسے نہیں مانے گی دعا آپ اسے بےہوشی کا انجیکشن لگا دیں"

بریرہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی پر دوسری طرف سے ڈاکٹر دعا نے اسے انجیکٹ کردیا تھا

"ایمبولینس آگئی ہے جلدی کریں سب۔۔۔"

ڈاکٹر دعا نے کچھ نرسز کو روم میں آنے کو کہا تھا اور سٹریچر پر جیسے ہی بےہوش بریرہ کو لٹایا گیا تھا اسکے منہ سے ایک ہی نام نکل رہا تھا

"بلاج۔۔"

جب وہ لوگ ایمبولینس میں بریرہ کو ڈال رہے تھے سونم کی نظریں صرف خون پر تھیں جو وہیں گر رہا تھا۔۔

"بریرہ اس بدلے کا انجام بہت بھیانک ہے بہت زیادہ۔۔۔اس تکلیف میں بھی تم اس تکلیف دینے والے کو نہیں بھولی۔۔کیوں لگ رہا ہے اس بدلے میں جانے والی جان صرف بلاج کی ہی نہیں ہوگی۔۔"

اسکی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔۔۔وہ باہر بھاگی تھی ایمبولینس میں ساتھ جانے کے لیے۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

بہرام شاہ۔۔یار میں تو تمہیں یہاں دیکھ کر ہی شاکڈ تھا تم نے ایک اور دھماکہ دہ دیا اس جگہ پر لاکر۔۔بلاج حمدانی سے دشمنی لے رہے ہو تم جانتے ہو۔۔؟"

بہرام اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر اس کھنڈر بنی جگہ کو دیکھ رہا تھا جو کچھ گھٹنے پہلے اتنی سجی سنوری تھی

"یہ جگہ کونسا اسکے باپ کی تھی یہ جگہ وجیح تایا کی تھی جو انہوں نے بریرہ کے نام کردی تھی۔"

ورکرز اب اس کھنڈر سے ملبہ اٹھا کر گاڑیوں میں بھر رہے تھے بہرام ایک بھی نشانی یہاں نہیں دیکھنا چاہتا تھا اس نے سختی سے آرڈر دہ دیا تھا سب کو اور اپنے اس قریبی دوست کو فون بھی کر کے بلا لیا تھا تاکہ شک نا ہو کسی کو بھی

"پر یہ پراپرٹی بریرہ نے مرنے سے پہلے بلاج کے نام کردی تھی یہ کاغذات نہیں دیکھے سائن ہیں۔۔میں نے سنا ہے بریرہ نے اور بہت کچھ نچھاور کردیا تھا اس۔۔۔۔"

بہرام نے اسکے گریبان سے اسے پکڑ لیا تھا۔۔۔

"جیمی ایک اور لفظ نہیں۔۔میں۔۔۔"

ابھی وہ بات کر رہا تھا کہ تیز سپیڈ کی تین گاڑیوں نے بریک لگا دی تھی انکے سامنے اور گارڈز نے گاڑیوں سے نکل کر اپنی اپنی گنز نکال لی تھی درمیان والی گاڑی سے بلاج حمدانی باہر نکلا تھا۔۔جس نے اس پراپرٹی کو اس حالت میں دیکھ کر اپنی گلاسز اتار دی تھی اور ایک گارڈ کے اشارہ کرنے پر وہ بہرام کی طرف بڑھا تھا

۔

"بلاج حمدانی کی پراپرٹی پر اس طرح سے کلیم کرنے پر نتائج کا اندازہ نہیں تھا شاید تم دونوں کو۔۔؟؟"

بہرام کے ہاتھ جیمی کے کالر سے کب کے ہٹ چلے تھے وہ اپنے کوٹ کی سلوٹیں ٹھیک کرکے بلاج کی جانب بڑھا تھا اور بلکل سامنے کھڑا ہوگیا تھا اسکے

"اگر پراپرٹی آپ کی ہوتی تو کوئی کیسے کلیم کر سکتا ہے مسٹر بلاج۔۔؟

کلیم ان چیزوں کا ہوتا ہے جن کے اصل مالک کا پتا نہیں ہو۔۔۔

اور یہ پراپرٹی۔۔۔"

بلاج نے ہاتھ کے اشارے سے بہرام کو روک دیا تھا اور اپنے گارڈ کو جیسے ہی دیکھا تھا وہ ایک فائل لیکر آگیا تھا

"یہ پراپرٹی میری منگیتر کے نام ہے مدیحہ ۔۔"

اس بار بہرام نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا تھا اور اپنی گاڑی پر پڑی فائل اٹھا کر بلاج کے سامنے کی تھی

"بریرہ شاہ کی پراپرٹی ہے یہ۔۔؟ اگر اس نے خیرات میں کچھ دہ ہی دیا تھا تو سنبھال لیتے۔۔آگے دینے کی کیا ضرورت تھی۔۔؟؟"

بہرام جو اس طرح بات نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے کردی تھی۔۔

بلاج کے منہ سے منگیتر لفظ سن کر وہ غمزدہ ضرور ہوا تھا وہ سمجھ رہا تھا بریرہ جس ٹروما سے گزر رہی تھی

"ہاؤ دیڑھ یو۔۔۔۔"

بلاج نے بہرام کا کالر پکڑا تھا

"یہ بریرہ شاہ کا ڈریم تھا اس جگہ گھر بنانا۔۔۔اور۔۔۔بریرہ کے ساتھ شادی کے بعد یہ گھر مجھے ہی ملنا تھا کیونکہ وہ میری منگیتر تھی بلاج حمدانی۔۔۔اب وہ نہیں رہی تو یہ پراپرٹی میری ہوئی۔۔۔"

بلاج کے ہاتھ جھٹک دئیے تھے بہرام نے۔۔

"بریرہ شاہ کی یہ پراپرٹی وجیح شاہ کی پراپرٹی کے ساتھ لنک نہیں رکھتی تو آپ کے داد جی کو اور خیرات نہیں مل سکتی خاص کر بریرہ کا یہ گھر۔۔۔"

اس نے وہ کاغذ تھما دئیے تھے بلاج کے ہاتھ میں جو بہرام کی سب باتوں سے انتہائی شاکڈ تھا۔۔۔

"وٹ۔۔۔بریرہ منگنی۔۔؟ تمہارے ساتھ۔۔؟ وٹ دا ہیل۔۔۔"

"آپ شاکڈ کیوں ہو رہے ہیں سر میں نے سچ کہا آپ کو۔۔۔ وجیح شاہ کے وراثتی چاہیں مر گئے ہوں پر بریرہ کے زندہ ہیں۔۔

ابھی آپ کی منگیتر کا ڈریم پراجیکٹ کھنڈر بنا دیا میں نے جیسے آپ نے میری منگیتر کے ڈریم ہاؤس کے ساتھ کیا۔۔۔

نوو ہارڈ فیلگز پلیز۔۔۔میں یہاں بزنس کے سلسلے میں آیا ہوں امید ہے ملاقات ہوتی رہے گی۔۔۔"

وہ بلاج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلا گیا تھا جیمی کو ساتھ لیکر۔۔جو بلاج کے غصے سے گھبرایا ہوا تھا۔۔۔

۔

"بریرہ۔۔۔۔"

بلاج حمدانی کو پہلی بار ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اسے چیٹ کیا گیا ہو۔۔اس نے وہ فائل دیکھی اور آج اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسکا بریرہ کے ساتھ رشتہ کاغذوں میں تو تھا ہی نہیں۔۔۔۔

اس نے ایک نظر اس جگہ کو دیکھا اور پھر بہرام کی جاتی ہوئی گاڑی کو۔۔۔

"اس گاڑی کا پیچھا کرو پتا کرو کون ہے وہ اسکا بیک گراؤنڈ اب کہاں جا رہا وہ سب کچھ۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ربیل میں بس اتنا کہہ رہی ہوں میری کزن کی شادی ہے بس کچھ دن کی بات۔۔"

"بس میں نے کہہ دیا نہیں جارہی تم کہیں کونسی بیوی ہے جو اپنے ہسبنڈ کو چھوڑ کر مائکے رہنے جاتی ہے وہ بھی مہینے بھر کو۔۔"

"پر ربیل میں۔۔"

اور ایک تھپڑ سے عبیرہ کی آواز بند ہوگئی تھی

"ربیل۔۔"

"اب تائی جان آپ لیکچر دینا شروع ہوجائیں گی۔۔"

ربیل ایک نظر اپنی بیوی کو غصے سے دیکھ کر اپنے کمرے سے باہر چلا گیا تھا

"تائی جان مجھے ایک بات پاکستان جانے دیں میں وہاں سے کبھی واپس نہیں آؤں گی اس جہنم میں پلیز میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔۔"

وہ رونے لگی تھیں گڑگڑانے لگی تھی 

"بس چپ کر جاؤ عبیرہ کسی مرد نے تمہیں روتے دیکھ لیا تو اور سر پر اٹھا لیں گے۔۔"

انہوں نے اس سہمی ہوئی بچی کو اپنے گلے سے لگانے کی کوشش کی تھی کہ انہیں بھی باہر سے آواز آگئی تھی

"رابیعہ رابیعہ کہاں ہے میری بلیک فائل۔۔؟ کتنی بار کہا ہے میری چیزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نا کیا کرو۔۔۔ بےوقوف عورت۔۔۔"

زمرد صاحب نے بہت اونچی آواز میں کہا تھا جس سے ملازمین کام کرتے کرتے رک گئے تھے گھر کے

۔

"جائیں آپ کو بلا رہے ہیں۔۔میں بھی کتنی پاگل ہوں آنٹی۔۔ اس گھر میں آپ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے میری طرح۔۔ہم عورتوں کو یہاں وہ عزت کبھی مل بھی پاۓ گی۔۔۔؟"

عبیرہ اپنا چہرہ صاف کرکے اٹھ گئی تھی وہاں سے۔۔۔

"اب یہی زندگی ہے عبیرہ بیٹا۔۔اس گھر کے مرد کبھی سدھر نہیں سکتے یہ مافیا کے لوگ ہیں انکے خون میں شامل ہے پاور پیسے کا نشہ جو انکو ظالم و جابر بنا چکا ہے۔۔ اب یہاں اسی جہنم جیسی زندگی میں جینا ہے ہمیں۔۔۔"

عبیرہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ وہاں سے جانے لگی تھی اسی وقت عبیرہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"آنٹی مجھ سے ربیل کی اور مار پیٹ برداشت نہیں ہوتی۔۔ اگر وہ باہر کی عورتوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں تو مجھے اس قید سے رہا کردیں خدا کے لیے مجھے بچا لیجیئے میرا دم گھٹنے لگا ہے۔۔۔"

وہ روتے ہوۓ رابیعہ بیگم کے قدموں میں گر گئی تھی۔۔

"تم نماز پڑھا کرو دعا کیا کرو اللہ ان سب کو نیکی کی ہدایت دے بیٹا۔۔ میں بات کرتی ہوں داد جی سے وہ کچھ کرسکیں گے تم فکر نا کرو ربیل اب سے ہاتھ نہیں اٹھاۓ گا۔۔۔"

۔

وہ وہاں سے وعدہ دے کر تو آگئی تھیں پر وہ بھی جانتی تھی انکی بات کو ان سنا کردیا جاے گا ہمیشہ کی طرح۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

کچھ دن بعد۔۔۔۔"

۔

"آپ یہیں روکیں میں دوائیاں لے آتا ہوں۔۔"

بہرام وہاں سے چلا گیا تھا

اور سونم واپس بیٹھنے لگی تھی جب اس نے بہت سے گارڈز کو وہاں آتے دیکھا تھا

"بلاج حمدانی۔۔؟ میں نے تو مہتاب کو فون کیا تھا۔۔اسے پشمینہ کے ایکسیڈنٹ کا بتانے کے لیے۔۔"

اس نے اپنی گھبراہٹ چھپا لی تھی اس نے تو کسی کو فون کیا ہی نہیں تھا پر وہ یہ بات کسی پر ظاہر بھی نہیں کرنا چاہتی تھی وہ جان گئی تھی بلاج حمدانی نے اپنی پاور کے زور پر انہیں ڈھونڈا ہے

۔

"مہتاب سے پہلے میں تو کنفرم کرلوں۔۔یہ پشمینہ شیخ ہیں بھی یا کوئی فراڈ۔۔۔"

بلاج کے گارڈز نے سونم کا راستہ روک لیا تھا اور بلاج اندر آئی سی یو میں داخل ہوا تھا۔۔

اسکی سب سے پہلے نظر اس چہرے پر پڑی تھی اور پھر ٹیبل پر پڑی رپورٹس پر

"ان رپورٹس میں تو سچ ہی لکھا ہوگا تمہاری یہ حالت گولیوں سے ہوئی ایکسیڈنٹ سے نہیں داد جی جو مہتاب کے لیے تمہارا ہاتھ مانگنے والے ہیں انکو بھی سچ پتا چلے۔۔۔"

اس نے خود سے بات کرکے وہ فائل کھولی تھی تو اسکی حیرانگی کی انتہا نہیں تھی جب اس نے سب انفارمیشن پڑھی

اور سب ایکسیڈنٹ کی تفصیل پڑھ کر وہ فائل وہیں پٹک کر رکھ چکا تھا۔۔ اور جب بریرہ کے چہرے پر اسے حرکت ہوتی نظر آئی اس نے چہرہ پاس کرلیا تھا بہت۔۔۔

۔

"تم بریرہ شاہ اگر واپس آ ہی گئی ہو تو یاد رکھنا میں تمہیں ماروں گا نہیں تمہاری زندگی کو کبھی نا ختم ہونے والے سزا کی آگ میں جھونک دوں گا"

بلاج نے ایک ہاتھ میں اسکا آکسیجن ماسک پکڑا ہوا تھا تو دوسرا ہاتھ میں اس نے بریرہ کا چہرہ مظبوط گرفت میں پکڑ لیا تھا وہ خاموش تھی اسکی ہرٹ بیٹ جو وہ مانیٹر مشین سنائے جا رہی تھی اس کمرے میں اب قدرے کمی آگئی تھی بلاج نے اپنا چہرہ بہت قریب کرلیا تھا۔۔۔

وہ ہسپتال کے بیڈ پر پڑی ہوش میں آنے کے بعد بلاج حمدانی کو دیکھنے کی امید میں نہیں تھی۔۔ آج وہ اپنی اصل حالت میں تھی آج اس نے کنٹینٹ لینز بھی نہیں لگاۓ تھے آج ممکن تھا کہ بلاج حمدانی اس سے سچ منوا لے وہ جس طرح اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جیسے وہ ان کے رستے اسکی روح تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں ہو۔۔۔۔

۔

"یہ آنکھیں جتنی ٹھنڈک جتنا سکون مجھے ان میں نظر آتا تھا میرے بدلے کی آگ اور زیادہ سلگ جاتی تھی بریرہ شاہ۔۔

یہ آنکھیں جن سے تم مجھے ایسے دیکھ رہی ہو جیسے مجھے زندہ زیر زمین دفن کردو گی ان آنکھوں سے۔۔

ان آنکھوں سے تم میرے چھوٹے بھائی کو تو دیوانہ بنا سکتی ہو پر مجھے بلاج حمدانی کو پاگل نہیں بنا سکتی ان آنکھوں کے فریب میں نہیں آنے والا میں۔۔۔۔"

بات کرتے کرتے اسکی ہاتھ کی گرفت اور مظبوط ہوئی تھی بریرہ کے کندھے سے لیکر پورے جسم کے آخری حصے تک درد تھا جو اسے پچھلے کچھ دن سے ہسپتال میں رکھا جا رہا تھا۔۔۔

پر آج اپنے سامنے اپنے اور اپنی محبت کے دشمن کو کھڑا دیکھ اسکا درد کہاں کونے میں چھپ گیا تھا شاید۔۔۔۔

جب اس نے بند آنکھوں کو پھر سے کھول کر بلاج کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"تم پھر سہی گمراہی میں پڑ چکے ہو بلاج حمدانی۔۔۔دیکھو میری آنکھوں میں اور بتاؤ تمہیں ان میں کوئی ٹھنڈک نظر آرہی ہے۔۔؟

میری آنکھوں میں دیکھو اور غور سے دیکھو آگ سے ذیادہ تپتی ہوئی راکھ کی گرمائش ہے ان میں جو جلا کر راکھ بنا دیں گی ان کو جو انکی خوشیاں چھیننے کا سبب بنیں گے۔

یہ میری آنکھیں ہیں پشمینہ شیخ کی جو جلانے پر آئی تو جلا ڈالیں گی اور دفن کرنے کے لیے راکھ بھی نہیں چھوڑیں گی بلاج حمدانی

میں مہتاب کو تو دیوانگی کی آخری حدوں تک لے جاؤں گی جہاں مجھے پانے کے لیے اسکے پاس صرف بغاوت ہوگی۔۔

وہ میرا ہوچکا تھا جب اس نے میرے ہاتھ میں انگوٹھی پہنائی تھی

ان آنکھوں کے نشے نے ڈبو دیا ہے تمہارے چھوٹے بھائی کو میری محبت میں مسٹر بلاج۔۔۔اب پاگل بن کر ہماری شادی کروا دو یا اسکی بغاوت کے لیے تیاری پکڑ لو۔۔۔"

بڑی آکسیجن ماسک کے بغیر اتنا بولنے سے تھک گئی تھی پر جو سکون اسے بلاج کے چہرے پر غصہ دیکھ کر مل رہا تھا اسکی کوئی حد نہیں تھی

"میں تمہیں کسی کا نہیں ہونے دوں گا بریرہ شاہ میں تمہیں کسی کا بننے نہیں دوں گا۔۔۔یہ پشمینہ شیخ کا ماسک تمہارا اتروا کر رکھ دوں گا جیسے تمہاری فیملی کو ایکسپوز کیا تھا۔۔۔"

وہ اپنی باتوں سے اسے ری ایکٹ کرنے پر مجبور کررہا تھا اور وہ کامیاب بھی ہورہا تھا۔۔وہ بس اسکے منہ سے سننا چاہتا تھا اسکا نام۔۔۔وہ اندھیرے میں تیر تو چلا چکا تھا

۔

"بریرہ شاہ چاہے تمہاری رکھیل رہ چکی ہو پر میں پشمینہ شیخ ہوں بلاج حمدانی تم جیسے لوگ مجھے پانے کا خواب دیکھ سکتے ہیں حاصل کرنے کی اوقات نہیں رکھ سکتے۔۔۔"

بلاج کو حیران کردیا تھا آج اسکے جواب نے وہ پھر اسی کشمکش میں تھا

"تم میری تھی بریرہ شاہ۔۔میری ہو اور رہو۔۔۔"

۔

"ایک سیکنڈ کے لیے یہ ہاتھ اگر پشمینہ کے چہرہ سے پیچھے نا ہوا تو پھر کبھی یہ تمہاری کندھے کے ساتھ بھی نہیں جڑے گا۔۔۔۔"

ایک انجانی آواز جیسے ہی بلاج کے کان میں پڑی تھی بلاج کو آگے دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی جب بہرام بلاج کی طرح بریرہ کی جانب جھک گیا تھا اور اپنا ہاتھ اس نے بلاج کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا جو بریرہ کے منہ پر تھا۔۔۔

بہرام نے بلاج کا ہاتھ جس طاقت سے اٹھانے کی کوشش کی تھی اب وہ دونوں مرد آمنے سامنے تھے۔۔۔

بہرام نے اپنی انگلی اسکی طرف کی تھی اسے وارننگ دی تھی اس نے۔۔

 جب مانیٹر کی آواز اسکے کانوں تک گئی اور اس نے جھٹک دیا تھا بلاج کے ہاتھ کو اور جلدی سے وہ آکسیجن ماسک بریرہ کے منہ پر لگا دیا تھا

"شش میں آگیا ہوں یہاں تمہیں ہائیپر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"

بہرام بریرہ کو سمجھا کر لٹانے کی کوشش کر رہا تھا اور جب مانیٹر پر اسکی ہرٹ بیٹ تیز ہونا شروع ہوئی تو تو بلاج نے دو قدم دروازے کی طرف بڑھائے تھے۔۔پر اسکی نظریں جیسے ہی پیچھے مڑی تھی جو وہ دیکھ رہا تھا اسکی اپنی سانسیں اسکا سانس گھوٹنا شروع ہوگئیں تھیں

جب اس نے بریرہ کی آنکھیں بہرام کے چہرے پر جمی دیکھی تھی اور اس نے جیسے ہی آنکھیں بند کر کے بہرام کے کندھے پر سر رکھا تھا۔۔

بلاج حمدانی اس ہسپتال کے روم میں دیوار کے ساتھ لگ گیا تھا ایک جھٹکے سے جو جو اب محسوس ہورہا تھا وہ یہ تھا

چاہے یہ لڑکی بریرہ ہو یا پشمینہ وہ اس لڑکی کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر ایک لمحہ بھی برداشت نہیں پائے گا۔۔۔

"بریرہ شاہ یا پشمینہ شیخ میری وارننگ یاد رکھنا میرے بھائی سے دور رہو۔۔۔"

بریرہ کی آنکھیں کھل گئی تھی کبھی وہ اپنی زخمی حالت کو دیکھ رہی تھی کبھی اس ظالم کو جو اسکی حالت کی بھی پروا نہیں کر رہا تھا جو کبھی اسکی چھوٹی سی چوٹ آنے پر وہ پورا اپارٹمنٹ سر پر اٹھا لیتا تھا

۔

"تیرے عشق میں سُدھ بُدھ کھو بیٹھی،،،

میں پاگل پاگل ہو بیٹھی۔۔۔۔۔"

۔

"میں ہوں یہاں۔۔۔"

بہرام نے ہلکی سی آواز میں سرگوشی کی تھی اور بریرہ نے پہلو میں کھڑے اس اجنبی شخص کو دیکھا تھا جسے وہ پچھلے دنوں سے ہی وہاں موجود دیکھ رہی تھی

اور جب بریرہ نے بہرام کی نظروں میں دیکھا جو اسے واپس بیڈ پر لٹا چکا تھا اور ماسک اسکے چہرے پر ٹھیک کرکے لگا دیا تھا۔۔

اسی وقت ایک زور دار آواز سنائی دی تھی۔۔۔بلاج حمدانی نے اس شیشے کے دروازے کو مکا مار کر توڑ دیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ڈاکٹرز اور نرسز آگئیں تھیں وہاں۔۔۔

"تم صرف میری ہو بریرہ شاہ۔۔۔۔بلاج حمدانی کی۔۔۔"

۔

وہ للکار کر اونچی آواز میں یہ کہہ کر چلا گیا تھا وہاں سے۔۔ 

۔

۔

"تم آرام کرو میں یہیں ہوں۔۔۔"

بہرام اسے لٹا کر سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔۔بریرہ کی نظریں ابھی بھی دروازے پر تھیں بلاج حمدانی کا غصہ اسے آج سمجھ سے بالاتر لگ رہا تھا

لیکن اسکے ارادے جھکنے والے نہیں تھے اب۔۔۔اب وہ آگے بڑھے گی

اب اس نے وہ سب کام سرانجام دینے ہیں جو اس نے دشمن کی گولی کھانے سے پہلے سوچے تھے

۔

۔

"سر آپ ٹھیک ہیں۔۔؟"

بلاج ہسپتال سے سیدھا پارکنگ میں آیا تھا اپنی گاڑی پر اس نے جیسے ہی سر رکھ کر اپنی آنکھیں بند کی تھیں اسے وہ تصویر بار بار نظر آرہی تھی جو اس نے اندر دیکھی تھی بریرہ شاہ کو کسی اور کے اتنا قریب دیکھ کر۔۔۔

"سر آپ۔۔"

اس گارڈ نے جیسے ہی ہاتھ بلاج کے کندھے پر رکھا تھا بلاج نے طیش میں آکر اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا

"بلڈڈی باسٹرڈ اوقات میں رہو دوبارہ ایسی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو ہاتھ اتار کر رکھ دوں گا۔۔۔"

۔

وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا تھا اور اپنے سارے گارڈز کو منع کردیا تھا اسے فالو کرنے سے۔۔۔۔

۔

۔

"بہرام شاہ۔۔۔"

چوبیس گھنٹے میں تیسری بار یہ نام اس نے لیا تھا اب وہ جانتا تھا اسکا اگلا ٹارگٹ کون ہوگا۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

کچھ ہفتے بعد۔۔۔۔"

۔

"سسٹر یہاں اس روم میں بر۔۔پشمینہ شیخ ایڈمٹ تھیں۔۔ اب کہاں ہیں وہ۔۔؟؟"

"وہ آج صبح ہی ڈسچارج ہو کر چلی گئی ہیں۔۔"

نرس یہ کہہ کر جاچکی تھی وہاں سے۔۔۔۔

"چلی گئی کہاں چلی گئی۔۔؟ میں ابھی فون کرتا ہوں۔۔۔"

جب جیب سے موبائل نکالا تب بہرام ہو ہوش آیا کہ اسکے پاس تو کسی کا نمبر نہیں ہے۔۔

"میری غلطی ہے نا نمبر لیا نا کچھ آتا پتا۔۔ارسل بھائی کو ڈھونڈنے میں اتنا مگن ہوگیا تھا میں۔۔اب تو وہ بریرہ کا جو گارڈ ہے ڈینیل مجھے بریرہ تک پہنچنے ہی نہیں دے گا۔۔"

بہرام وہیں سامنے بینچ پر بیٹھ کر سوچ میں گم تھا اسکی نگاہیں سامنے کمرے میں جارہی تھی جو اب خالی تھا

"بریرہ شاہ۔۔۔"

جانے کتنی بار بہرام شاہ نے یہ نام دہرایا تھا اسکا مقصد صرف بریرہ کی حفاظت ہی نہیں تھا۔۔۔

اسکے مقاصد بہت سے تھے جو وہ ابھی کسی کو بھی بتانا نہیں چاہتا

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

حمدانی مینشن۔۔"

۔

۔

بلاج ہم نے فیصلہ کرلیا ہے اسی ہفتے تمہارا اور مدیحہ بیٹی کا نکاح ہوگا۔۔اور اسی ہفتے ہم پشمینہ کو اپنی ہونے والی بہو کے روپ میں سب سے ملوائیں گے"

بلاج نے اپنی فائل چھوڑ دی تھی اور سامنے کھڑے گھر کے تین مردوں کو دیکھا تھا

"پر داد جی۔۔"

"بلاج میرے اس فیصلہ سے انکار ہے تمہیں۔؟؟"

بلاج بے ساختہ اٹھ کھڑا ہوا تھا

"نہیں داد جی چاہے آپ آج نکاح کروا دیں مدیحہ سے میرا مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔"

۔

"بےوفا۔۔۔۔۔"

اسے پھر سے یہی آواز سنائی دی تھی

بلاج واپس اپنی جگہ پر بیٹھا تھا پر وہ لوگ ابھی بھی وہیں کھڑے تھے۔

"کیا ہوا آپ لوگ جا نہیں رہے۔۔؟ تیاری نہیں کرنی میری شادی کی۔۔؟ تیاری ایسی ہونی چاہیے کہ سب لوگ یاد رکھیں۔۔"

بلاج نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا تھا اسکے بعد اسکا چہرہ پھر ویسے ہی سخت ہوگیا تھا

"تمہیں داد جی کے فیصلے سے سچ میں کوئی اعتراض نہیں بیٹا۔؟"

زمرد صاحب جو ابھی تک خاموش تھے انہوں نے بلاج کی آنکھوں میں دیکھ کر یہ سوال پوچھا تھا ان کو اب بھی یقین نہیں آرہا بلاج کی ہاں پر

"اس میں اتنی حیرانگی کی کیا بات ہے بابا۔۔؟ مدیحہ میری محبت ہے پرفیکٹ ہے میرے لیے داد جی کی پسند اور فیصلے سے میں متفق ہوں"

بلاج نے نیچے فائل کی طرف نگاہیں جما لی تھیں

"دیکھا زمرد میں نے کہا تھا نا وہ دشمن کی بیٹی ایک کلوز چیپٹر ہے

ہمارا بلاج اسے دھوکہ دے رہا تھا محبت نہیں۔۔"

چھوٹے چچا کی بات پر اس کی آنکھوں بند ہوئی تھیں۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ تم میری بات سنو گی۔۔؟؟ رکھ دو اسے یہاں"

سونم نے اس کے ہاتھ سے برش لیکر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا تھا

"آج میرے ہونے والے جیٹھ کی شادی ہے اور میں اپنے ہونے والے سسرال والوں کی فرمائش کیسے رد کردوں۔۔۔۔؟"

بریرہ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو شیشے میں دیکھا تھا

"ابھی تم ٹھیک نہیں ہوئی ہو لڑکی۔۔ اپنے شوہر کا نکاح کسی اور کے ساتھ ہوتے دیکھ کر تم اور برباد ہوجاؤ گی بریرہ رک جاؤ مت جاؤ وہاں۔۔"

"یہی تو میں چاہتی ہوں۔۔" بریرہ نے سونم کے کان کے پاس اپنا منہ کیا تھا

"یہی تو میں چاہتی ہوں برباد ہونا پوری طرح سے۔۔۔وہ وار پر وار کرے گا اور بریرہ شاہ برداشت کرے گی۔۔۔اور پھر میرا ایک وار اسے برباد نہیں تباہ کرے گا۔۔۔"

بریرہ نے ڈینیل کو دیکھ کر اسکی طرف اشارہ کیا تھا اندر آنے کا

"ڈینیل کیسی لگ رہی ہوں میں۔۔؟ ہوٹ یا سیکسی۔۔؟"

اس نے آنکھ ماری تھی

"بریرہ میں چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔۔یہ پہن لو۔۔۔"

بریرہ کی سلیولیس بازو دیکھ کر ڈینیل نے اپنا کوٹ اتار کر دیا 

"سیریسلی ڈینی۔۔۔؟ میں مہتاب کے ساتھ جا رہی ہوں۔۔۔ٹیک کئیر"

وہ اس کوٹ کو بیڈ پر پھینک گئی تھی باہر

 ۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج بیٹا تمہارے داد جی نے یہ شیروانی بھیجی تھی۔۔۔"

بلاج کی والدہ ڈرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔۔انکے اندر آنے کے بعد باقی خواتین اور کزنز بھی اندر آئیں تھیں

"بلاج بھیا آپ پھر سے اپنے آفس سوٹ میں۔۔؟؟"

سب ہی الگ الگ شکایت کر رہی تھیں اسی وقت بلاج نے بیڈ سے ٹائی اٹھا کر اپنی والدہ کو پکڑا دی تھی

"یہ ٹائی پہنا دیں گی مجھے آپ۔۔؟؟"

اسکا اتنا کہنا تھا کہ وہ بلاج کی جانب بڑھی تھیں وہ شیروانی بیڈ پر پھینک کر

۔

"بلاج میرے سرخ لہنگے کے ساتھ میچ ہونی چاہیے تمہاری شیروانی۔۔"

"تو بریرہ میڈم سب ڈیسائیڈ بھی کرلیا ہے آپ نے۔۔؟؟"

"جی مسٹر بلاج حمدانی شادی تو آپ سے ہی ہوگی وہ بھی بہت دھوم دھام سے۔۔"

۔

"ہوگیا بیٹا۔۔۔"

بلاج جلدی سے خود کو پیچھے کرلیا تھا اور کمرے سے باہر آگیا تھا

"بلاج بھائی سب مہمان آگئے ہیں۔۔۔سپیشل گیسٹ بھی آئی ہیں پشمینہ شیخ جلدی آجائیں داد نے کہا ہے مولوی صاحب کو زیادہ انتظار کروانا اچھی بات نہیں۔۔۔"

وہ کزن جلدی سے بول کر چلا گیا تھا۔۔بلاج کے پیچھے پیچھے اسکی والدہ اور سب کزنز آرہی تھیں اور وہ سیڑھیوں کی رئیلنگ پر ہاتھ رکھے نیچے اتر رہا تھا

۔

۔

"پشمینہ کہاں کھو گئی۔۔؟ گھر کی سجاوٹ اتنی اچھی لگی ہے۔۔؟ سب بلاج بھائی نے کروائی ہے سجاوٹ وہ چاہتے تھے گھر دلہن کی طرح سجایا جاۓ۔۔"

پھولوں اور جلتی بتیوں کے درمیان سے گاڑی گزارتے ہوئے  مہتاب نے کہا تھا۔۔۔

بریرہ نے گاڑی سے اتر کر جب نگاہیں دہرائی یہاں وہاں اسے وہ ایک ہی لفظ ان شہنائیوں میں سنائی دیا تھا

"بے وفا۔۔۔"

۔

"بریرہ شاہ۔۔۔ تمہیں بلاج حمدانی کی محبت پر یقین نہیں ہے۔۔؟

بس کچھ انتظار کرلو اور ہم لوگ دنیا کے سامنے ایک ہوں گے۔۔۔

دلہن کے سرخ جوڑے میں جب تم حمدانی مینشن میں میرا ہاتھ پکڑے داخل ہوگی۔۔۔"

۔

بریرہ پرانی یادوں کے سمندر سے اس وقت باہر آئی تھی جب مہتاب نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔۔۔بریرہ نے وہ ضبط کا گھونٹ پی لیا تھا اور اپنا ہاتھ مہتاب کے ہاتھوں پر رکھ دیا تھا آہستہ سے۔۔۔

اور دونوں اندر کی جانب بڑھیں تھے۔۔۔۔۔

۔

"تمہارا ہاتھ پکڑ کر ساری دنیا کے سامنے تم سے شادی کرے گا تمہارا بلاج سارے وعدے وفا کروں گا۔۔۔نا تمہیں خود سے اب جدا کروں گا

اس گھر کی بڑی بہو بن کر تمہیں سب عزتیں ملیں گی بریرہ۔۔۔"

۔

"تم دلہن کے روپ میں میرے ساتھ کھڑی ہوگی اور سب میڈیا والے تصاویر لے رہے ہوں گے

داد جی اس طرح سے تمہیں پیار دیں گے۔۔۔میں بہت فخر سے تمہارا ہاتھ تھاموں گا بریرہ شاہ کیونکہ بلاج حمدانی صرف تمہارا ہے اور کسی کا نہیں۔۔۔"

۔

"مہتاب بھائی آپ آگئے۔۔وقت پر پہنچ گئے بس نکاح کی رسم ہونے کو ہے۔۔۔"

اور بریرہ اور مہتاب کچھ قدم اور آگے بڑھے تھے اس سٹیج پر جہاں مولوی صاحب نے مدیحہ سے پوچھا تھا۔۔۔۔جس کا جواب ہاں میں تھا۔۔۔

بلاج حمدانی کی نظروں نے اس ہال میں موجود ہزار لوگوں میں بھی ان نظروں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

جہاں وہ کھڑی تھی جس نے بلاج حمدانی کو بےچین کردیا تھا۔۔۔

وہ جو آج اسکے چھوٹے بھائی کی منگیتر بھی تھی۔۔۔

۔

"قبول ہے۔۔۔"

۔

بلاج نے جیسے ہی دور کھڑی لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے یہ لفظ بولے تھے بریرہ کا ہاتھ چھوٹ گیا تھا مہتاب کے ہاتھ سے۔۔۔

"تمہاری مجھے دی گئی آخری تکلیف بلاج۔۔۔۔"

وہ لفظ دہرائے وہاں سے چلی گئی تھی باہر

"اب نیویلی ویڈڈ کپل کا ایک کپل ڈانس ہوجائے ایک رومینٹک نمبر پر۔۔؟؟"

بریرہ کے قدم دروازے سے باہر تھے جب مہتاب کی آواز اسکے کانوں میں پڑی ابھی وہ باہر جانے ہی لگی تھی کہ ایک ہاتھ بریرہ کے سامنے تھا

"مئے آئی۔۔؟؟"

"مجھے زرا جلدی۔۔۔"

"کم آن آپ کی جان بچانے والے کے لیے ایک ڈانس نہیں۔۔؟"

بریرہ کے قدم رک گئے تھے اور پھر اس نے بہرام کو ٹھیک سے دیکھا تھا

"آپ کون ہیں۔۔؟"

"ڈانس فلور پر چلیں پھر بتاتا ہوں۔۔ویسے بھی میرا فیورٹ سونگ ہے یہ۔۔"

بہرام نے جیسے ہی ہاتھ آگے بڑھایا تھا بریرہ کی نظریں ڈانس فلور پر تھیں جہاں بلاج بہت خوشگوار موڈ میں مدیحہ کے ساتھ ڈانس کرنا شروع ہوگیا تھا۔۔بریرہ نے ایک قدم آگے بڑھا کر بہرام کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا

۔

"تم بن جاؤں کہاں،،کہ دنیا میں آکے،،،

کچھ نا پھر چاہا صنم،،،تم کو چاہ کے۔۔۔"

۔

 بہرام کے ہاتھ بریرہ کی ویسٹ پر جیسے ہی لگے تھے بریرہ کی نظریں بلاج حمدانی سے ہٹ گئیں تھیں جو اب اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ ڈانس تو کررہا تھا پر اسکی نظریں بہرام کو دیکھ رہی تھیں غصے سے

۔

۔

۔

"ان آنکھوں میں بلا کی نفرت ہے تو محبت کی انتہا کیا ہوگی۔۔؟"

وہ ڈانس کرتے کرتے رک گئے تھے جب بہرام نے یہ بات کہی تھی

"میں سمجھی نہیں۔۔۔"

بریرہ کو جب خود پر بہت سی نظریں محسوس ہوئی تو اس نے خود کو بہرام سے تھوڑا دور کرنے کی کوشش کی تھی

"میں سب سمجھا دوں گا کوئی جلدی نہیں مجھے بریرہ شاہ تم"

"ایکسکئیوزمی مئ آئی۔۔۔؟"

بلاج حمدانی نے بریرہ کے سامنے اپنا ہاتھ جیسے ہی رکھا تھا وہ کبھی حیرانگی سے اسکا ہاتھ دیکھ رہی تھی تو کبھی بلاج کی بیوی کی طرف جو اب کسی اور کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی

"یا شئور مسٹر بلاج۔۔۔مس پشمینہ آئی ہوپ آپ ہمارے کل کے پروگرام کو اگنور نہیں کریں گی۔۔۔"

بہرام ایک پہیلی کہہ گیا تھا جو بریرہ کو بھی سمجھ میں نہیں آئی تھی

"ماننا پڑے گا آپ کی بہادری کو اس طرح سے اپنی پوری فیملی کے سامنے کسی اور کے ساتھ ڈانس کر رہے ہیں مسٹر بلاج۔۔۔"

بریرہ نے یہ کہتے ہی بلاج کے کندھے پر پر اسکی گردن پر اپنے دونوں ہاتھ ڈال دئیے تھے

"ماننا تو تو آپ کو بھی پڑے گا مس پشمینہ اپنے منگیتر اور چاہنے والے کے سامنے کسی اجنبی کے ساتھ اس طرح سے آپ بھی نزدیکی بڑھا رہی۔۔۔۔"

بریرہ ہنس دی تھی اور شرارتی انداز میں بلاج کو آنکھ ماری تھی

"کیا اب بھی مسٹر بلاج۔۔۔؟"

اسکی ہیلز جیسے ہی بلاج کے شوز پر آئی تھی دونوں کے درمیان فاصلہ اور کم ہوا تھا جہاں مہتاب کے چہرے کی ہنسی چلی گئی تھی۔۔۔وہیں بہرام نے اپنی نظریں موڑ لی تھی ڈانس فلور سے۔۔۔

بلاج اور بریرہ کا انٹیمیٹ ڈانس سب کی اٹریکشن حاصل کرچکا تھا پوری طرح سے

۔

"ہاہاہاہاہا سیریسلی۔۔۔؟؟؟"

بلاج بے ساختہ ہنس دیا تھا بریرہ کی ٹئیزنگ پر۔۔اب یہ سمجھ سے باہر تھا کہ کون کس کا شکار کر رہا تھا اس پل میں

"بلڈڈی ہیل۔۔دیکھ رہی ہو کس طرح سے ہنس رہا ہے کسی اور عورت کے ساتھ اپنی شادی کے دن"

مدیحہ کے والد اس چئیر سے اٹھ کر ہال سے باہر چلے گئے تھے

"رہ بھی سکو گے تم کیسے ہوکے مجھ سے جُدا،،،

پھٹ جائیں گی دیواریں سن کے میری صدا"

۔

بریرہ جو بلاج کی ہنسی میں کھو گئی تھی اسکی نظریں سونگ کے ایک شعر پر اس کمرے میں گھومی تھی اور بہرام پر پڑی تھیں جس نے اپنے ہاتھ پکڑے جوس کے گلاس کو اسکی طرف دینے کا اشارہ کیا تھا جس پر بریرہ کے چہرے پر مسکان آگئی تھی

"کون ہے وہ۔۔؟"

"کون۔۔؟"

بریرہ کی نظریں ابھی بھی بہرام پر تھیں

"وہ جسے دیکھ کر تم مسکرا رہی ہو۔۔"

اور بلاج کی گرفت مظبوط ہوگئی تھی بریرہ کی ویسٹ پر

"مسٹر بلاج کیوں اس پارٹی میں موجود لوگوں کو رؤنگ امپریشن دے رہے ہیں آپ۔۔؟"

"مجھے کوئی پرواہ نہیں۔۔مس پشمینہ۔۔میں نے جو پوچھا اس کا جواب دو۔۔کون ہے وہ۔؟"

بلاج کی آنکھوں میں ایک اتر آیا تھا کچھ سیکنڈز کے لیے۔۔

"ہے کوئی اپنا ۔۔آپ کو میری پرسنل لائف میں انٹرفئیر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں "

بریرہ کے لیجے میں ایک غصہ تھا

"کیسے نا کروں۔؟ بات میرے چھوٹے بھائی کی ہے مس پشمینہ۔۔"

"مجھے تو آپ کے لہجے  سےمعاملات کچھ اور ہی لگ رہے۔۔۔کیا آپ جیلس ہو رہے ہیں۔۔؟ جس کے ساتھ آپ نے اس کلب میں نزدیکیاں بڑھانے کی کوشش کی اس نے آپ کے بھائی کو چنا۔۔؟؟"

بریرہ نے جیسے ہی بلاج کے کان میں سرگوشی کی  اسکے ہونٹ بلاج حمدانی کے ہوش و ہواس اڑا لے گئے تھے

بریرہ کہہ کر واپس جانے لگی تھی بلاج نے پھر سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا

"اس سونگ پر ایک ڈانس ہوجائے۔۔؟ آج میں اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ کسی کی محبت کو پوری طرح سے رسوا کرنا چاہتا ہوں۔۔"

اس سونگ پر بریرہ کے قدم رک گئے تھے اور بلاج حمدانی تھوڑا تھوڑا کامیاب ہوگیا تھا اپنی گیم میں

"مطلب۔۔؟؟ "

اب کے بریرہ نے بلاج کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا

"مطلب۔۔؟؟"

پر بلاج خاموش ہوگیا تھا اس کا دھیان تو کہیں اور چلا گیا تھا بڑا سا چشمہ لگائے اور جھلی لڑکی پر جو دشمن کی بیٹی تھی

۔

۔

"میں نہیں جا رہی۔۔اور کالگ میں کیا کر رہے ہو تم۔۔؟"

"پڑھائی کرنے تو اب آ نہیں سکتا نا میں بریرہ جی۔؟ لڑکیاں تم چھیڑنے نہیں دیتی تو ظاہر ہے ایک تم ہی رہ گئی ہو میرے لیے۔۔ ہائے بیوٹیفل۔۔۔"

بلاج نے کہتے کہتے دور کھڑی لڑکی کو اشارہ کیا تھا جس پر بریرہ نے اسکے کندھے پر تھپڑ مارا تھا

"مر جاؤ گے کسی کے  ہاتھوں سے۔۔ باہر گارڈز کھڑے ہیں"

"مجھے کوئی نہیں مار سکتا بریرہ شاہ۔۔۔تمہاری آنکھیں پہلے ہی قتل کرچکی ہیں میرا۔۔"

بلاج نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا وہ سچ میں پہچانا نہیں جا رہا تھا سر پر کیپ اور نقلی مونچھیں لگائے

"پر میرا کمپٹیشن  ہے بلاج اندر۔۔"

"اس لیے آیا ہوں۔۔میرے ہوتے ہوئے تم اس چشمش کے ساتھ ڈانس کرو گی۔؟ "

"وٹ دا ہیل۔۔کس نے بتایا تمہیں۔۔؟"

"تمہیں تو میں بعد میں بتاؤں گا جو مجھ سے اتنی باتیں چھپانے لگی ہو۔۔چلو اب اندر۔۔"

بلاج اسکا ہاتھ پکڑے اندر لے گیا تھا

۔

"کس کی محبت کو رسوا کرنا چاہتے ہیں آپ۔۔؟؟"

بلاج اس کھوئی ہوئی دنیا سے باہر آیا تھا

"بس تھی ایک دشمن کی بیٹی۔۔اسے لگتا تھا میں اسے یہاں سب کے سامنے اپنی فیملی کے خلاف جا کر اپنا نام دوں گا۔۔"

بلاج کا تلخ لہجہ اور سخت لفظوں نے بریرہ کی سانسیں کچھ پل کو روکیں تھیں

پر انکا وہ سلوو ڈانس نہیں روکا تھا۔۔چاہے باقی سب رک گئے تھے جن کی نظریں مسلسل ان دونوں پر تھیں

۔

"دل میں بےتابیاں،،،نیند اڑنے لگی۔۔

تیرے خیالوں سے ہی آنکھ جُڑنے لگی۔۔۔"

۔

"میں تو سمجھی تھی آپ لوگوں کے مجرم ہیں پر آپ تو محبت کے مجرم نکلے۔۔

لوگ تو بھول جاتے ہیں پر محبت محبت کے مجرم کو نہیں بھولتی آپ کسی کو رسوا کرنے میں کتنا کامیاب ہوئے یہ تو آپ جانتے ہوں گے۔

پر محبت جب رسوا کرنے پر آئے گی تو لوگ جانیں گے انجام آپ کی رسوائی کا۔۔"

بریرہ نے سرگوشی کی تھی اور ڈانس کرتے کرتے ایک لمحہ ایسا آیا تھا جب اس نے بلاج کے کندھے پر اپنا سر رکھ لیا تھا

"تم مجھے میرے شادی والے دن ہی ڈائیورس کروانا چاہتی ہو کیا۔۔؟"

اسکی آواز بھی اتنی ہی ہلکی تھی بریرہ کی باتوں نے شاید اسکے پاس کچھ چھوڑا نہیں تھا بولنے کو

"کیوں اتنا آسان ہے شادی کرکے ڈائیورس دینا خاس کر جب وہ پریگننٹ ہے۔۔؟؟

ویسے مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی۔۔"

بلاج کو ایسا محسوس ہوا تھا جیسے بریرہ نے اسکے کندھے پر بوسہ دیا ہو پر بریرہ کی بات پر وہ رک گیا تھا

"کیا سمجھ نہیں آئی۔۔؟ "

"یہی کہ ایک ناجائز بچے کو بلاج حمدانی نے اپنا لیا پر ایک جائز بچے کے مر جانے کی خبر تک میڈیا کو ہونے نہیں دی۔۔؟ سننے میں آیا کہ وہ آپ کے نکاح میں تھی کیا نام تھا اس بیوقوف کا۔۔؟ 

ہاں "بریرہ شاہ" مجے سوچنے پر حیرانگی ہوتی ہے مسٹر بلاج۔۔۔لوگوں کو تباہ کرنے والے کیسے آباد رہ لیتے ہیں۔۔؟"

۔

بریرہ یہ کہہ کر وہاں سے فائننلی چلی گئی تھی باہر کی طرف۔۔

"بلاج یہ کیا تھا سب۔؟ وہ تمہارے بھائی کی منگیتر ہے جسے تم سیڈیوس کرنے کی کوشش کر رہے تھے"

داد جی کی آواز پر بلاج اپنی شاکڈ سٹیٹ سے باہر آیا تھا اسکی مٹھی بند ہوگئی تھی بریرہ کی کہی ہر بات سے وہ اتنے غصے میں تھا

"بلاج  میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔"

"ابھی نہیں داد جی۔۔"

وہ بھی اسی طرف غصے سے گیا تھا جہاں بریرہ گئی تھی۔۔۔

"بیک یارڈ میں وہ رک گئی تھی اسکی آنکھیں بھر آئیں تھیں اسکی خود کی باتوں سے۔۔

جیسے ہی اسکا بازو پکڑ کر کسی نے اسے اپنی طرف کھینچا تھا اسکے سارے آنسو چھلک گئے تھے

"بریرہ۔۔۔"

"مسٹر بلاج۔۔"

بلاج نے اسے موقع نہیں دیا تھا جتنےی زور سے اس نے بریرہ کو اس دیوار کے ساتھ پن کیا تھا

اسکے ہونٹوں نے بریرہ کو پھر کچھ بھی بولنے کا موقع نہیں دیا تھا۔۔

بریرہ اسے پیچھے دھکا دینے کی کوشش کی تھی پر اسکے دل میں اب بھی کہیں وہ بیوی تھی جسے اتنے سالوں کے بعد بلاج کے اس لمس میں وہی محبت محسوس ہوئی تھی

وہ جو ہاتھ بلاج کو پیچھے دھکیل رہے تھے اب وہی ہاتھ بلاج کی گردن پر تھے۔۔

۔

اور اسی وقت بہرام شاہ وہاں سے چلا گیا تھا تھا جو بلاج کو  مارنے کے لیے وہاں بڑھا تھا

۔

وقت وہیں تھم گیا تھا جیسے۔۔وہ اپنا غصہ بھی ظاہر کر رہا تھا اپنا جنون بھی۔۔۔

"ابھی ابھی تو ملے ہو۔۔ابھی نا چھوٹنے کی بات۔۔۔

ابھی ابھی زندگی شروع ہے،،،ابھی ابھی تھم جانے کی بات"

۔

"بریرہ۔۔۔"

بلاج جب کوئی حرکت محسوس نہیں کی تو کچھ پیچھے ہوا تھا 

"بریرہ۔۔۔"

اس نے ایک زور دار تھپڑ مار دیا تھا بلاج حمدانی کو۔۔

"ہاؤ ڈئیرھ یو بلاج۔۔اتنی گھٹیا حرکت کی امید تم جیسے مافیا ڈون سے ہی کی جاسکتی ہے "

بریرہ نے جس طرح سے اپنا چہرہ صاف کیا تھا اسکی آنکھوں میں صرف حقارت تھی

بلاج نے اپنے گال پر ہاتھ رکھ دیا تھا اسے پہلی بار زندگی میں تھپڑ پڑا تھا اس نے بریرہ کا گلہ پکڑ لیا تھا غصے سے

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی بریرہ۔۔آج ایسے رہ ایکٹ کر رہی میرے چھو جانے پر مرتی تھی تم اور آج۔۔"

"اننف۔۔۔از اننف۔۔۔وہ جو تم جیسے کے چھو جانے پر مرتی تھی وہ مر چکی ہے۔۔

پشمنیہ شیخ ہوں میں۔۔تم اتنا ہی انٹیمیسی کے لیے ترسے ہوئے ہو تو اپنے کسی کلب جاؤ اپنی بیوی کے پاس جاؤ جگہ جگہ منہ ماری کرنا بند کردو۔۔

اندر تمہاری بیوی ہے اور تم یہاں۔۔شرم آرہی مجھے کہ میں نے اس خاندان میں آنا ہے شادی کے بعد۔۔ایک ہی نام بریرہ بریرہ۔۔یا تو اسے مرنے نا دیتے۔۔یا اسکے ساتھ مرجاتے اگر اتنی ہی محبتیں قابو میں نہیں تھیں تمہارے۔۔۔"

۔

بریرہ نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے دھکیل دیا تھا

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"دیکھ لیا تم نے اپنے ہسبنڈ کی کرتوتیں۔؟ اور تم یہ پریگننسی کا ڈرامہ بند کرنے کا سوچ رہی تھی مدیحہ۔۔"

"آہستہ بولو تم کوئی سن لے گا۔۔"

مدیحہ نے اپنی دوست کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا

"مدیحہ بیٹا یہ سب کیا ہے۔؟"

"موم ایسا کچھ نہیں ہے جیسا لگ رہا ہے۔۔بلاج تو اس لڑکی کو جانتے بھی نہیں۔۔"

مدیحہ کی والدہ اور والد دونوں ہی شدید غصے میں تھے جتنے رشتے دار آئے تھے سب نے باتیں کرنا شروع کردی تھی بلاج کے کردار پر۔۔

"آنٹی قصور تو اس لڑکی کا ہے جو اپنے منگیتر کو چھوڑ کر کسی اور کے ہسبنڈ کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی"

"بس کریں آپ۔۔مدیحہ بھابھی بھی تو اپنے کزن کے ساتھ ڈانس کر رہی تھیں کیا کسی کو مسئلہ تھا۔۔؟ بلاج بھائی اور پشمینہ میں اگر انڈرسٹینڈنگ ہو رہی ہے تو میں نے ریکوسٹ کی تھی ان دونوں سے۔۔ورنہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے پر بھی رضامند نہیں تھے۔۔"

مہتاب نے ساری بات کو کور تو کرلیا تھا پر اسکے دل میں جو اتنے سوال اٹھ رہے تھے وہ اسے بار بار دروازے کی جانب دیکھنے پر مجبور کر رہے تھے

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تم بریرہ ہی ہو۔۔"

"رئیلی۔۔؟؟ ثابت کرو۔۔ تمہیں ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی ۔۔؟ "

"نہیں آرہی۔۔تم کیا سمجھتی ہو مہتاب سے شادی کرکے تم مجھے ہرا دو گی۔؟ میں تمہاری شادی اس سے کبھی ہونے نہیں دوں گا تم میرے نکاح میں ہو۔۔تم صرف میری ہو۔۔"

"سیریسلی تم اب مجھے مافیا مین نہیں کوئی سائیکو لگ رہے ہو۔۔کونسا نکاح کون بریرہ۔۔؟

یو ڈسگسٹ مئ بلاج حمدانی۔۔تمہاری ہونے سے پہلے میں مرنا پسند کروں گی۔۔"

بلاج نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا تھا

"تم جو بھی ہو چاہے بریرہ چاہے پشمینہ۔۔اب تم ضد ہو بلاج حمدانی کی 

وہ ضد جو میرا جنون بن گئی ہے خاص کر اس کس کے بعد اب میں بھی دیکھتا ہوں کیسے کرتی ہو شادی مہتاب کے ساتھ تم۔۔اتنا جنون تو دشمن کی بیٹی کے لیے بھی نہیں تھا جتنی شدت تمہیں حاصل کرنے کی ہورہی۔۔۔"

دشمن کی بیٹی پر بریرہ کی آنکھوں میں نرمی آگئی تھی

"اچھا ہوا وہ لڑکی مر گئی اور اسکا بچہ بھی۔۔ورنہ کیسے برداشت کرتے تم جیسے شخص کو۔۔؟

وہ ٹھہری بیوقوف لڑکی تم جیسے مرد کی باتوں میں آگئی۔۔پر مجھے اتنی عقل ہے بلاج۔۔

مجھے ون نائٹ سٹینڈ نہیں چاہیے۔۔۔مجھے مہتاب حمدانی کی بن کر زندگی گزارنی ہے۔۔"

۔

بریرہ نے آخری بات اس طرح سے کی تھی جیسے اسے سچ میں عشق ہو مہتاب سے۔۔پر اسکی بات نے بلاج کو غصہ ضرور دلا دیا تھا۔۔۔

۔

"تم سمجھتی ہو۔۔۔"

"مس پشمینہ اب گھر چلیں۔؟ آپ کی دوست نے مجھ پر ذمہ داری چھوڑی ہے آپ کو واپس لے جانے کی۔۔۔۔"

پیچھے بہرام کی آواز آئی تھی جو اپنے دونوں ہاتھ پیچھے باندھے کھڑا تھا۔۔بریرہ کی نظریں جھکی تھیں اور اس نے بلاج کو پیچھے کردیا تھا۔۔

۔

"بریرہ شاہ۔۔۔تم جا کر بھی نہیں جارہی یا تم کبھی گئی ہی نہیں تھی۔۔؟ یہ انجان لڑکی مجھے وہی بلاج بنا رہی ہے جو دشمن کی بیٹی نے بنا دیا تھا۔۔۔۔

"بےوفا۔۔۔تب اس سے بےوفائی کر رہا تھا اب اپنوں سے کررہا۔۔۔"

۔

۔

بلاج وہیں رہا تھا جب تک انکی گاڑی وہاں سے چلی نہیں گئی تھی

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"پشمینہ کہاں گئی۔۔؟"

مہتاب نے بلاج کو دیکھ کر پوچھا تھا

"مجھے کیا پتا اسے پوچھو فون کرو۔۔میرا راستہ چھوڑو۔۔۔۔"

بلاج اسی ٹیبل پر چلا گیا تھا جہاں اسکی ساری فیملی تھی

"بلاج تم کہاں تھے۔۔"

"کہاں تھے مطلب مدیحہ۔؟؟ پارٹی چل رہی اتنے ملنے والے روک رہے تھے بس ایک بزنس پارٹنر کے ساتھ کچھ ڈسکشن میں مصروف ہوگیا تھا۔۔کھانا شروع کریں آپ سب۔۔۔"

بلاج نے کھانا شروع کردیا تھا۔۔اور کسی کی ہمت نے تھی اگلا سوال پوچھنے کی

"پشمینہ تو چلی گئی ہے۔۔۔ میں نے تو ابھی اسے سب سے ملوانا تھا داد جی نے شادی کی بات کرنی تھی۔۔"

مہتاب بڑبڑاتے ہوئے بلاج کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔۔

"اچھا ہوا چلی گئی۔۔۔"

"کچھ کہا آپ نے بلاج بھائی۔۔؟؟"

"نہیں کہا ربیل کھانا کھاؤ ۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"سمجھ نہیں آرہی کیا کروں۔۔ایسا لگ رہا ہے جیسے بریرہ زندہ ہے اور کسی کونے میں بیٹھ کر خوب روو رہی ہوگی سجل وہ ان معاملات میں بہت سینسٹو تھی۔۔آج وہ زندہ ہوتی تو کیا کرتی۔۔؟

جب اسے پتا چلتا وہ بےوفا کسی اور کو قہ مقام دے رہا ہے جو اسکا تھا۔۔۔۔۔؟؟"

اس بریج پر ایک تنہا گاڑی کھڑی تھی جس میں دو لوگ موجود تھے۔۔یہاں سے بھی حمدانی مینشن کی روشنیاں صاف نظر آرہی تھیں۔۔۔

"ارسل سنبھالو خود کو۔۔۔"

"میں بہت سختی کرتا تھا اس پر وہ جب سے پاکستان سے واپس آئی تھی۔۔وہ اتنی معصوم تھی کہ مجھے ڈر لگا رہتا تھا۔۔کاشان اور بابا سائیں نے اسے بہت کھلی چھٹی دی ہوئی تھی۔۔پر میرا آدھا دن اسکی  ٹینشن لئیے گزر جاتا تھا۔۔اب حیران ہوتا ہوں کہاں کس دن میں نے اپنی بہن کو درگزر کردیا کہ دشمنوں کو موقع مل گیا ہمیں برباد کرنے کا۔۔"

ارسل شاہ کا پورا چہرہ بھیگ چکا تھا اسکے آنسوؤں سے

"ارسل یہ وقت رونے کا نہیں ہے۔۔۔"

"سہی کہا تم نے یہ رونے کا وقت نہیں ہے۔۔"

ارسل نے اپنا چہرہ صاف کرلیا تھا اور ایک نفرت بھری نظر واپس ڈالی تھی اسی مینشن میں جہاں جشن ہورہا تھا

"یہ وقت ہے دشمن کو رلانے کا۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"آپ نے وہاں جھوٹ کیوں بولا۔۔؟ میں نے سونم سے پوچھا اس نے تو آپ کو نہیں بھیجا۔۔"

بہرام نے گاڑی کی سپیڈ تیز کردی تھی۔۔۔اسے پتا نہیں کیوں غصہ تھا کیوں اس سے برداشت نہیں رہی تھی بریرہ کی نزدیکیاں بلاج کے ساتھ

"میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے۔۔۔کون ہیں آپ۔۔؟؟ میری جان بچانے کے پیچھے کیا مقصد ہے آپ کا۔۔؟؟"

اس نے ایک اور سوال پوچھا تھا

"بہرام شاہ۔۔۔"

"بہرام نے ایک دم سے بریک لگا دی تھی اور وہ بتا دیا تھا جو وہ نہیں بتانا چاہتا تھا بریرہ کو۔۔"

"وٹ۔۔۔بہرام بھا۔۔۔"

"بہرام ٹھیک ہے لڑکی خبردار جو بھائی کہا مجھے۔۔۔"

بہرام گاڑی کو ایک کونے پر لگا کر باہر نکل گیا تھا

"کون بہرام شاہ۔۔؟؟"

"پلیز بریرہ سٹاپ اِٹ۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا تھا بریرہ کو گھر چھوڑنے سے پہلے وہ بہت سے باتیں واضح کرنا چاہتا تھا اس پر

"آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔۔واپس چلے جائیں۔۔"

وہ یہ کہہ کر واپس گاڑی میں بیٹھنے لگی تھی جب بہرام نے اسکا ہاتھ پیچھے سے پکڑا تھا

"تمہیں چھوڑ کر واپس چلا جاؤں بریرہ۔۔؟ ایم سوری تمہیں  عادت ہوگی اپنو کو چھوڑ کر چلے جانے کی پر مجھے نہیں ہے۔۔تمہیں بدلہ لینا ہے لو اپنا بدلہ میں یہیں ہوں تمہارے ساتھ۔۔ جب دل بھر جائے جب سکون مل جائے تب سہی۔۔پر واپس تم میرے ساتھ پاکستان جاؤ گی۔۔"

بریرہ نے قہقہ لگایا تھا اور بہت ہنسی تھی

"واپس کہاں جاؤں۔۔؟کس کے پاس۔۔؟ میرے جیسی لڑکیاں کو کچی عمر میں خاندان کی عزتیں اور زندگیاں برباد کرچکی ہوں کیا انکے لیے بھی کوئی گھر رہ جاتا ہے واپس جانے کے لیے۔۔؟"

۔

بہرام خاموش ہوگیا تھا اسکی آواز میں درد محسوس کرکے

"بریرہ تم جانتی ہو تمہاری امی تمہاری دونوں بھابھیاں انکے بچے سب پاکستان میں ہیں۔۔

وہ راہ تک رہے ہیں تمہاری۔۔"

بہرام کا ہاتھ جیسے اسکے کندھےپر محسوس ہوا تھا اسے وہ چند قدم پیچھے مڑ گئی تھی

"وہ راہ کیوں تک رہی ہیں۔۔؟ انہیں تو مجھے کوسنا چاہیے میں نے انکے گھر اجاڑ دئیے۔۔

سب کے سہاگ کھا گئی میری بےوفا محبت۔۔وہ کیوں راہ تک رہی کیا انکو پتا ہے میں زندہ ہوں۔۔؟؟"

وہ کہتے کہتے رکی تھی

"نہیں پر میں آج بتا۔۔"

"آپ کچھ نہیں بتائیں گے۔۔آپ کو بھابھی کی قسم ہے۔۔"

"وہ نہیں رہی اس دنیا میں بریرہ۔۔۔ہاں جانے سے پہلے ایک جینے کا مقصد ضرور دے گئی تھی مجھے۔۔"

بہرام نے بریرہ کو اپنے موبائل کی سکرین دیکھائی تھی جہاں پانچ سال کی ایک معصوم سی پری کا چہرہ دیکھ کر بریرہ کی آنکھوں سے بےساختہ آنسو نکل آئے تھے۔۔۔

"شئ از سو کیوٹ۔۔کیا نام ہے۔۔؟؟"

اس نے سکرین پر اپنی انگلیا لگاتے ہوئے پوچھا تھا

"پری کہتے ہیں سب پیار سے اسے۔۔بہت شرارتی ہے۔۔امی کبھی کبھی کہتی ہیں یہ پوری بریرہ پر گئی ہے شرراتوں میں۔۔ابو کی عینک لگا کر آخبار پڑھ  ابو کو سناتی بھی ہے اور انکی کاپی بھی کرتی ہے جیسے۔۔"

۔

"جیسے میں کرتی تھی چاچو کے ساتھ۔۔۔"

بریرہ بنا کچھ کہے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔

"تمہیں وقت لگے گا بریرہ۔۔۔میں ساری زندگی انتظار کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج کہاں جا رہے ہو۔۔؟ آج ہماری شادی کی پہلی رات ہے۔۔"

"میرا راستہ چھوڑو مدیحہ مجھے ابھی جانا ہے۔۔۔"

"پر بلاج کہاں جا رہے ہو۔۔؟"

"میں کہاں جا رہا ہوں کہاں نہیں تمہیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اب تم میری بیوی ہو۔۔ گھر کی باقی عورتوں کے طور طریقے اپنانے ہوں گے اب تمہیں۔۔"

بلاج نے اپنے کپڑے بیڈ پر پھینک دئیے تھے اور شرٹ بٹن بند کر کے چلا گیا تھا اپنے بیڈروم سے باہر

۔

وہ اپنی گاڑی لیکر اسی جگہ گیا تھا جہاں وہ اکثر اوقات جاتا تھا کسی کی یادوں کو جلانے کسی کی محبت کو تڑپانے۔۔۔

اپنے اس اپارٹمنٹ میں 

۔

"تم لوگ جا سکتے ہو اب۔۔"

"پر سر ہم۔۔"

"گیٹ آؤٹ۔۔۔"

بلاج نے زور سے دروازہ بند کیا تھا اپارٹمنٹ کیا

۔

"بریرہ دیکھو میں کیا لیکر آیا ہوں۔۔ نکاح نامہ میری اور مدیحہ کی شادی کا نکاح نامہ

اور آج مجھے لگ رہا ہے میں نے تمہیں پوری طرح سے برباد کردیا۔۔

جیسے تمہارے خاندان نے مجھے اور ہمارے پورے خاندان کو برباد کیا تھا۔۔

آج میرا بدلہ پورا ہوگیا نا بریرہ۔۔؟ 

میں نے کہا تھا میں وہاں وار کروں گا جہاں درد ہوگا۔۔۔

میری شادی کی گونج پاکستان تک گئی ہوگی۔۔۔ تمہارے اپنوں تک بریرہ شاہ کہتے ہوں گے وجیح شاہ شاہ کا خون کیسا نکلا۔۔۔جگ ہسائی کروادی تم نے تو بریرہ۔۔۔

لفظوں کے وار برداشت نہیں ہوتے ہاتھوں کے ہوجاتے ہیں۔۔"

۔

"بلاج۔۔۔"

بلاج نے نگاہیں گھمائی تھی جب اسے ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی تھی

"بلاج آج بہت جلدی آگئے تمہارے داد نے آج کیسے آنے دیا۔۔؟؟ جلدی سے کچھ میں آجاؤ میں نے بریانی کی ریسیپی فائننلی سیکھ ہی لی۔۔۔"

۔

لائٹس آن کرکے وہ بہت ہلکے قدموں سے کچن کی جانب بڑھا تھا

۔

جہاں کتنے سالوں سے وہ نہیں آیا تھا۔۔سب کچھ ویسے ہی تھا جیسے اس نے چھوڑا تھا

۔

"میں چاہتی ہوں کہ جلدی سے کھانا پکانا سیکھ لوں پھر نئی نئی ڈیشز بنا بنا کرکھلایا کروں گی تمہیں۔۔

مجھے اچھا نہیں لگتا ہم باہر کا آرڈر کرتے ہیں۔۔۔"

وہ جیسے جیسے قدم بڑھا رہا تھا اسے فلیش بیک نظر آرہے تھے

۔

"اچھا ہوا وہ لڑکی مر گئی اور اسکا بچہ بھی۔۔ورنہ کیسے برداشت کرتے تم جیسے شخص کو۔۔؟"

۔

ایک اور تلخ  آواز نے اسے دوسری جانب دیکھنے پر مجبور کردیا تھا جہاں کوئی نہیں تھا

۔

"بلاج جب سے تم میری زندگی میں آئے ہو۔۔یہ ایک زندگی بہت کم لگنے لگی ہے۔۔دل کرتا ہے میں ہمیشہ یونہی تمہارے سینے پر سر رکھ کر سکون کی نیند لیٹی رہوں۔۔"

۔

"بریرہ شاہ مر چکی ہے۔۔اور مر گیا اسکا بچہ بھی یہ ہیں وہ ثبوت۔۔یہ قبریں ہیں ثبوت۔۔"

۔

بلاج کچن سے باہر آگیا تھا۔۔آج اس اپارٹمنٹ میں اسکا دم گھٹنے لگا تھا جہاں اسے کبھی سکون ملتا تھا

۔

"ایک ہی نام بریرہ بریرہ۔۔یا تو اسے مرنے نا دیتے۔۔یا اسکے ساتھ مرجاتے اگر اتنی ہی محبتیں قابو میں نہیں تھیں تمہارے۔۔۔"

منہ جیسے ہی جھکایا تھا اسکی لفٹ آئی سے ایک پانی کا قطرہ اسکے ہاتھ پر جا گرا تھا۔۔۔

"میں بےوفا نہیں ہوں۔۔بےوفا وہ ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی وفائیں کی ہوں میں نے تو بس جفائیں کی تھیں بریرہ۔۔۔ میں نے کبھی محبت نہیں کی تھی تم سے کبھی نہیں۔۔۔"

وہ گاڑی میں واپس آکر بیٹھ گئی تھی اس کی نظریں اس موبائل پر تھیں وہ اس معصوم بچی میں اپنے بچے کو دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔ بہرام ابھی بھی باہر کھڑا تھا اسے اندازہ تھا  بریرہ کو وقت چاہیے۔۔وہ اور بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا اس پر۔۔

آج جو بھی ہوا اسے علم تھا یہ ٹوٹی ہوئی بیوی اور ٹوٹ گئی تھی اپنے بےوفا شوہر کی بےوفائی سے۔۔

وہ تیار تھا انتظار کرنے کو 

"کیا ساری رات یہی رہنا ہے سر آپ نے۔۔؟؟"

بہرام نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔۔جو اب وہ ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی بریرہ لگ ہی نہیں رہی تھی جو کچھ دیر پہلے تھے

ونڈو سے باہر منہ نکالے جب اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا ہوا میں لہراتے بریرہ کے بال بہرام شاہ کو گھائل کرچکے تھے

گہرا سانس لئیے وہ واپس گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا

۔

"یہ آپ کا موبائل مجھے ابھی گھر نہیں جانا ایک جگہ بتادیتی ہوں وہاں مجھے ڈراپ کردیجئے۔۔"

بریرہ نے یہ کہہ کر منہ باہر کی طرف کرلیا تھا بہرام نے کچھ فاصلے تک گاڑی چلائی اور بریرہ کے کہنے پر روک بھی دی تھی

"بریرہ اس وقت یہاں کس کے اپارٹمنٹ میں جانا ہے۔۔؟"

پر وہ گاڑی سے اتر گئی تھی

"پہلی بات بریرہ نہیں پشمینہ۔۔میں یہاں اس مقام پر بہت محنت سے پہنچی ہوں سر

اسے خراب مت کیجئیے۔۔واپس چلے جائیں پاکستان آپ کی مہربانی ہوگی سر۔۔"

وہ اندر کی جانب مڑنی لگی تھی پر بہرام نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"کیا میرے آنے سے تم بلکل بھی خوش نہیں ہو بریرہ۔۔؟"

"بریرہ مت کہیں سر مجھے۔۔۔"

تو پھر تم مجھے سر مت کہو بریرہ۔۔"

وہ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی پر بہرام نہیں چھوڑ رہا تھا

"آپ نے بھائی کہنے سے منع کیا ہے بہرام بھائی تو سر ہی کہوں گی نا۔۔؟"

اس نے تلخ لہجے میں کہا تھا

"بھائی کہنے سے منع کیا ہے بہرام نہیں۔۔مجھے میرے نام سے پکارو۔۔"

بہرام نے بہت آہستہ آواز میں کہا تھا

"نہیں پکار سکتی نام لیکر۔۔آپ جائیں اب یہاں سے اور اس ملک سے بھی۔۔۔میری زندگی میں اور بوجھ نا ڈالیں۔۔"

۔

وہ اندر چلی گئی تھی  اس نے وہ ایک کوڈ لگایا تھا اس لاکڈ ڈوڑ پر جواسے یاد تھا ابھی تک۔۔

اسے پتا تھا یہاں کوئی نہیں ہوگا یہ جنت تو صرف اسکی تھا۔۔یہ اپارٹمنٹ اسکی دوسری محبت تھا

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ہائے ایم پشمینہ ایم سوری پر آپ کو پہلے یہاں دیکھا نہیں۔۔"

"ہائے ایم مہتاب حمدانی۔۔میں نے ریسنٹلی جوائن کی ہیں کلاسز"

۔

"ول۔۔ول یو بی مائی گرلفرینڈ پشمینہ۔۔۔"

"وٹ۔۔؟؟ ایک سال لگا تمہیں سیریسلی مہتاب۔۔؟؟"

۔

۔

"ابھی ابھی بھولے بھی نا تھے تمہیں،،خیال بن کہ پھر تم آگئے،،

احساس جو تھے دل میں کئی ان کہیں،،لفظوں پہ وہ پھریوں  آگئے۔۔"

۔

(""پشمینہ میں تمہارے ساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتا ہوں ہمارے اس رشتے کو عزت والا نام دینا چاہتا ہوں۔۔۔شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے۔۔"

"مہتاب یہ سب بہت جلدی نہیں ہے۔۔؟ آئی مین اتنی جلدی یہ سب"

"جلدی کچھ بھی نہیں ہے دو سال ہوگئے ہمیں۔۔اور اس لونگ ڈسٹنس ریلیشنشپ سے اب ڈر لگتا ہے۔۔"

"مہتاب تمہیں ڈرنے کہ ضرورت نہیں ہے،،میں ہوں تمہارے ساتھ"")

۔

 "سانسوں کی سرزمیں پر،،برسات لاگئے،،،

ایک جھپکی میں تیرے سووو خواب آگئے۔۔۔"

۔

۔

"مہتاب۔۔مہتاب بیٹا۔۔"

دروازہ کھلنے سے ہلکی سی روشنی اندر داخل ہوئی تھی اس اندھیرے سے بھرے کمرے میں

جہاں ایک کارنر پر مہتاب اپنے گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھا ہوا تھا

"مہتاب۔۔۔"

"امی لائٹ آن مت کیجئیے گا پلیز۔۔"

رابیعہ بیگم کی انگلیاں رک گئی تھی اس بٹن پر۔۔وہ جلدی سے اپنے بیٹے کی جانب بڑھیں تھیں

"کیا ہوا ہے مہتاب بیٹا تم اس وقت سے کمرے میں بیٹھے ہو سب خیریت ہے میرے بچے۔۔؟"

"خیریت ہی نہیں ہے امی۔۔۔بلاج بھائی کو پشمینہ کو جس طرح نیچے سب کے سامنے ڈیفینڈ کرکے آیا ہوں میرا اپنا یقین ڈگمگا رہا ہے۔۔۔پتا نہیں کیوں مجھے ایک پل کو بھی ان دونوں کا اتنا قریب ہونا اچھا نہیں لگا امی۔۔"

مہتاب نے جیسے ہی چہرہ اوپر کیا تھا رابیعہ نے بےساختہ مہتاب کے چہرے پر ہاتھ رکھے تھے اپنے 

ان کے ہاتھ کی انگلیاں بھی بھیگ چکی تھی مہتاب کے آنسوؤں سے۔۔

"مہتاب تم۔۔۔بس بچے رونا بند کرو،،، تم تو میرے بہادر بیٹے ہو"

وہ بھی رو دی تھیں اپنے بیٹے کو اس طرح کمزور دیکھ کر

"امی میں آپ کا بیٹا ہی تو نہیں بن پایا،،ہمیشہ کوشش کی داد جی کے بتائے راستے پر چلنے کی بلاج بھائی کو فالو کرنے کی۔۔آپ کی ہر بات رد کرتا آیا ہوں میں۔۔"

مہتاب کے پاس جیسے ہیں وہ فلور پر بیٹھیں تھیں مہتاب نے انکی گود پہ سر رکھ دیا تھا۔۔

"مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ہے مہتاب بھلا ماں کو کبھی اپنی اولاد سے کوئی شکایت بھی ہوئی ہے۔۔؟"

"امی بہت بُرا لگا مجھے ان دو لوگوں کے کردار پر    جس طرح سب انگلیاں اٹھا رہے تھے۔۔

میں ان دونوں کو بہت پیار کرتا ہوں۔۔بلاج بھائی اور پشمینہ دونوں میری زندگی ہیں۔۔"

۔

رابیعہ بیگم چپ ہوگئیں تھیں۔۔وہ کیسے اپنے بیٹے کو بتاتی کہ جو نیچے ہوا وہ انہیں بلکل بھی پسند نہیں آیا انہیں بلاج پر غصہ تھا انہیں ان سب میں بلاج ہی قصوروار نظر آرہا تھا ۔۔

۔

"مہتاب کیا تمہیں یقین نہیں ہے ان دونوں پر۔۔؟ ایک طرف تمہارا خون کا رشتہ ہے تو دوسری طرف تمہاری محبت۔۔"

"امی میرا یقین ہی تو ڈگمگا رہا ہے آج۔۔پتا نہیں کیوں۔۔میں پشمینہ کو کھونا نہیں چاہتا کبھی نہیں امی۔۔کتنا بھلانے کی کوشش کر رہا ہوں جو بھی آج میری آنکھوں نے اس ڈانس فلور میں دیکھا۔۔پر بھول نہیں پا رہاامی۔۔"

۔

وہ آج کے صرف اس ڈانس کو دیکھ کر ڈر گیا تھا۔۔اسے کیا پتا تھا یہ آغاز تھا اسکی اذیتوں کا۔۔

۔

۔

                                     "کوئی شیشہ اگر ٹوٹے،،،بڑی آوا زہوتی ہے۔۔۔

                                  مگر دل ٹوٹ جانے کی صدا کوئی،،،،نہیں سنتا۔۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔ 

"وہ آج یہاں آئی تھی اسے یاد تھا وہ دن جو اس نے کچھ سال پہلے سوچا تھا بلاج حمدانی کو سرپرائز دینے گا۔۔

پر جب اس نے لائٹ آن کی اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سجا سنورا چھوٹا سا گھر نہیں تھا۔۔

ہر طرف ہر ایک چیز بکھری ہوئی تھی وہ دروازے کے ساتھ لگ گئی تھی۔۔

زاروقطار آنسو بہنا شروع ہوئے تھے اس نصیباں ماری بیوی کے۔۔ان بکھرے چیزوں کو پاؤں تلے رؤندے بغیر وہ بلکل سینٹر میں کھڑی ہوگئی تھی۔۔وہاں ایک ٹیبل تھا جسے اس نے ایک خوبصورت کارڈ سے سجایا تھا خود ڈیزائن کرکے۔۔

اس ٹیبل کے ڈراؤر کھولنے کے بعد اس نے اندر سے وہ چیزیں نکالی تھیں جو بہت سال پہلے اس نے اس دراز میں رکھی تھیں۔۔۔ان کاغذات میں ایک کاغذ ایسا بھی تھا جو اسکی پریگننسی رپورٹ کا تھا۔۔

اس نے اپنے ہسبنڈ کو سرپرائز دینا تھا۔۔اور پھر اپنے ہسبنڈ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بابا سائیں سے ملوانا تھا۔۔

اس نے اس ایک دن یہ سب کرنا تھا۔۔

پر اس دن اس نے کیا کیا۔۔؟ اس نے اپنے بابا سائیں کی خون سے بھری باڈی دیکھی۔۔

اپنے بھائی کو زندگی سے ہارتے ہوئے دیکھا۔۔

اس نے اس دن اپنے شوہر کا وہ رنگ دیکھا جو لوگ اسے بتاتے آئے پر وہ یقین نہیں کرتی تھی

اس نے ایک "بےوفا " دیکھا تھا 

۔

"بلاج حمدانی کیسے سمجھ نہیں پائی تمہیں۔۔؟"

گزرے یادیں جو اسکا حاصل تھی آج اسے اسکی غلطیاں بن گئیں تھیں۔۔

وہ ماضی کی ان آوازوں کے پیچھے پیچھے اس کمرے میں جا رہی تھی جہاں وہ سکون پاتی تھی ہمیشہ۔۔

۔

۔

"اوے سنو۔۔۔"

"اب کیا ہوا بریرہ۔۔"

"ہوا کچھ نہیں پر ہو ضرور جائے گا۔۔کیا خیال ہے۔۔؟؟"

بریرہ نے اپنی انگلیاں بلاج کے سنیے پر رکھ کر آنکھ ماری تھی

"ہاہاہا نہیں میری میٹنگ ہے۔۔"

"مجھ سے زیادہ ضروری ہے مسٹر حمدانی۔۔؟"

اس نے آہستہ سے بلاج کی شرٹ کے بٹم بند کرنا شروع کردئیے تھے

"تم سے زیادہ ضروری کچھ نہیں ہے بریرہ۔۔کچھ بھی نہیں۔۔"

بلاج نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا تھا

۔

۔

                                 "جس کے آنے سے مکمل ہوگئی تھی زندگی ،،

                               دستکیں خوشیوں نے دی تھی مٹ گئی تھی ہر کمی۔۔۔

                                         کیوں بےوجہ دی یہ سزا،،

                                        کیوں خواب دے کہ وہ لے گیا۔۔۔"

۔

۔

بریرہ نے جیسے ہی وہ روم کا دروازہ کھولا تھا اندر جو تھا وہ بریرہ شاہ کو ایک آخری تحفہ تھا بلاھ حمدانی کی بےوفائی۔۔

وہ کمرہ تو بکھرا ہوا تھا اسکی حالت کی طرح۔۔پر اس بیڈ پر بلاج کے سینے پہ سر رکھ کہ سو رہی مدیحہ نے بریرہ شاہ کی اس بکھری محبت کو ایسے ہوا میں اڑا دیا تھا جیسے پت جھڑ میں خشک پتے ہوں۔۔۔

۔

"بلاج۔۔۔"

وہ دروازہ بند کر کے باہر ہی دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی تھی۔۔

"تو اس نے کوئی ایک موقع نہیں چھوڑا نا میری محبت کو ذلیل کرنے کا۔۔

وہ جانتا تھا اس گھر کے لیے میری محبت۔۔وہ جانتا تھا اس کمرے میں سب کچھ میرا تھا میری یادیں میری باتیں۔۔

اوووو بےوفا انسان بےوفائی تو کرلی کرتے کرتے محبت کا زرا سا مان رکھ لیتے۔۔۔"

۔

                          "اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کو سنبھالوں کیسے۔۔

                            خود کو دنیا کی نگاہوں سے چھپالوں کیسے۔۔۔

                            اپنے ہاتھوں سے دیا دل کا بجھا لوں کیسے۔۔۔"

۔

۔

وہ کتنی ہی دیر وہاں بیٹھی رہی تھی اب اسے سمجھ آئی تھی کہ کیوں یہاں سب برباد کردیا گیا تھا۔۔

وہ آج آخری بار اپنی محبت کو یہاں رونے آئی تھی پر بلاج حمدانی نے وہ محبتیں بھی نہیں چھوڑی تھی

وہ ہمت کر کے واپس گئی تھی۔۔ اب کے بلینکٹ سرک گئی تھی مدیحہ کے وجود سے بریرہ نے آنکھیں بند کرلی تھی۔۔اور اس شیشے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔

کچھ دیر تک وہ وہیں موجود تھیں۔۔

اگر وہ بریرہ ہوتی۔۔۔ایک بیوی۔۔۔ تو وہ بلاج حمدانی کو گریبان سے پکڑ جگاتی اسے اٹھاتی۔روتی جی بھر کر اپنے شوہر کو اس طرح کسی اور کے ساتھ دیکھ کر۔۔۔پر اب وہ پشمینہ شیخ تھی۔۔۔

۔

اسی نام نے اسکی آنکھیں بھر دی تھیں۔۔۔

وہ واپس باہر آگئی تھی اور وہاں سے باہر چلی گئی تھی۔۔۔اس سنسان سڑک پر اس نے چلنا شروع کردیا تھا۔۔

یہ دیکھے بغیر کے اسے بہرام شاہ کی گاڑی نے فالو کرنا شروع کردیا تھا جو اس وقت سے یہیں کھڑا تھا

بریرہ کے انتظار میں

۔

۔

وہ چلتے چلتے اس قبرستان کے پاس آگئی تھی دونوں بازو اس طرح سے اس نے لٹکائے ہوئے تھے جیسے وہ آج پوری طرح سے اجڑ گئی ہو۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بابا سائیں۔۔۔آپ کو پتا ہےجس بےوفا کے لیے میں آپ کو دھوکہ دیتی آئی۔۔اس نے مجھے دھوکہ دے دیا۔۔

جس سے سب دنیا کے سامنے میں شادی کرنا چاہتی تھی آج اس نے وہ عزت کسی اور کو دہ دی۔۔

میں تو اس سے نکاح کرکے اپنے خاندان کی بربادی لکھ چکی تھی آج اسے اتنا خوش اتنا آباد دیکھ کر میں پھر سے برباد ہوگئی ہوں بابا سائیں۔۔۔

۔

مجھے سہی سزا ملی ہے نا بابا سائیں۔۔؟؟ کہ جو بیٹیاں باپ کی پگڑی اچھال دیتی ہے انہیں کیسے عزت مل سکتی ہے کسی بھی رشتے سے۔۔؟

جو بہنیں بھائیوں کو رسوا کروا دیتی ہیں معاشرے میں انہیں کیسے کسی غیر مرد سے حفاظت مل سکتی ہے۔۔؟

دھوکہ تو دیتی تھی میں۔۔کبھی آپ کو تو کبھی بھائی کو۔۔

کبھی امی کو جھوٹ بول دیتی تھی تو کبھی ارسل بھائی سے۔۔

بہت جھوٹ بولتی  تھی میں۔۔۔۔

اور میرے ساتھ بھی جھوٹ بولا جاتا رہا۔۔۔سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہی تو میں کاٹ رہی تھی جو میں نے بویا تھا۔۔

۔

جو لڑکیاں ماں باپ کو دھوکہ دے کر نامحرم رشتے پروان چڑھاتی ہیں وہ کیسے وفاؤں کی امید لگا لیتی ہیں۔۔؟؟  آج احساس ہو رہا ہے آپ لوگ کیوں واقف تھے بلاج حمدانی سے اور میں نہیں۔۔

آج پتا چلا کہ میرا زہن کتنا بچگانہ اور ڈرامائی دنیا سے بھرا پڑا تھا۔۔

میں نے سہی معنوں میں آج اس بےوفا کو جانا ہے۔۔۔

۔

اس قاتل کو۔۔اس ظالم کو۔۔۔اس بےوفا کو۔۔۔

۔

آج دل میں بوجھ تھا کاشان بھیا۔۔آپ دونوں کو غصہ آرہا ہوگا۔۔پر آج میں اس عورت کا دکھ بتانا چاہتی تھی جو ایک بیوی تھی اس بےوفا کی۔۔

ا س نے وہاں چوٹ دی ہے جہاں درد ہوا ہے مجھے۔۔۔بہت درد ہوا ہے۔۔۔"

۔

وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی تھی اور اس درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں بند کرلی تھی جیسے صدیوں سے جاگی ہوئی تھی آنکھیں بند کرتے ہی وہ نیند کی دنیا میں کھو گئی تھی۔۔۔

۔

۔

"بریرہ شاہ۔۔۔اتنا درد لئیے بیٹھی ہو دل میں اتنا درد۔۔۔"

بہرام نے جھک کر بریرہ کو بہت آرام سے اٹھا لیا تھا اور غاڑی تک لے گیا تھا۔۔۔

۔

۔

                       "محبت کے ہاتھوں میں کھنجر تو دیکھو۔۔۔کھنجر تو دیکھو۔۔۔

                        بےوفائی کا یہ بھی منظر تو دیکھو،،،منظر تو دیکھو۔۔۔

                                   پیار کی یہ دعا۔۔۔بن گئی بد دعا۔۔۔۔

                                        میں جیتے جیتے مرگیا۔۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"سورج کی کرنیں جیسے جیسے کمرے میں آنا شروع ہوئیں تھیں بریرہ کی آنکھیں آہستہ آہستہ کھل رہی تھیں

جب اس نے اپنی آنکھوں میں ہاتھ رکھا اس وقت اس وقت روم کا دروازہ کھلا تھا

"میڈم اٹھ جائیں۔۔اور ناشتہ کر لیجئے مجھے اور بہت کام ہیں۔۔"

سونم ناشتہ کی ٹرے رکھ کر واپس روم سے باہر چلی گئی تھی

"میں یہاں کیسے آئی۔۔؟ میں تو رات کو قبرستان۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رکی تھی

"بہرام شاہ۔۔۔۔سیریسلی۔۔۔؟؟؟"

اس نے پھر سے کمبل میں منہ چھپا لیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"گڈ مارننگ ہنی۔۔۔"

بلاج کے بالوں پہ انگلیاں پھیرتے ہوۓ  مدیحہ نےکہا تھا بلاج ایک جھٹکے سے اٹھ گیا تھا

"وٹ دا ہیل مدیحہ کیسے آئی تم یہاں۔۔؟ کہیں تو سکون کا سانس لینے دو مجھے۔۔۔"

بلاج کہہ کر اٹھ گیا تھا۔۔ 

"بلاج ہماری شادی کی رات کیسے دور رہ سکتی تھی تم سے۔۔؟ شادی کے بعد میں تمہیں خود سے دور نہیں کرسکتی۔۔"

بلاج کے کندھے پر جیسے ہی اس نے اپنے ہونٹ رکھے بلاج نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی۔۔۔

"مدیحہ میں بہت سخت مزاج ہوں اپنی پرائیوسی کو لیکر مجھے پرسنل سپیس چاہیے۔۔۔پلیز جاؤ یہاں سے۔۔۔"

وہ جیسے ہی اٹھا تھا اسکی نظریں سامنے لگے شیشے پر پڑی تھی

جس پر سرخ لپسٹک سے ایک لفظ بہت بڑے لفظوں میں لکھا ہوا تھا

۔

"بےوفا"

۔

بلاج نے پریشان ہوکر پیچھے دیکھا تھا مدیحہ کی طرف اور پھر اس کمرے کی طرف جیسے وہ ڈر گیا تھا۔۔۔

اسکے ماتھے سے پسینے چھوٹ گئے تھے وہ اس قدر گھبرا گیا تھا۔۔۔

"اس نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا مدیحہ کے ساتھ۔۔۔۔۔"

جلدی سے اپنی شرٹ پہن کر وہ روم سے باہر گیا تھا اور ہر کمرے میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی پر اس اپارٹمنٹ میں کوئی نہیں تھا۔۔۔

۔

پر اسکی نظریں اس ٹیبل رکھے ان کاغذات پر پڑی تھیں۔۔

جن میں خوبصورت ایک تصویر پئینٹ کی گئی تھی جس میں لکھا گئے تھے تین لفظ

۔

ماں

ارشمان

بابا

اور ساتھ تھی پریگننسی رپورٹ۔۔

"بلاج تم کیوں آگئے ہو اتنی جلدی میں ایم سوری۔۔پر ناراض تو نا ہو۔۔"

مدیحہ نے پیچھے سے جیسے ہی اسکے گلے لگی تھی بلاج نے وہ تمام  کاغذ جلدی سے اپنی کوٹ پاکٹ میں رکھ لئیے تھے۔۔۔

۔

"مدیحہ پلیز۔۔میری ضروری میٹنگ ہے۔۔ڈرائیور آرہا ہے تمہیں گھر چھوڑ دے گا۔۔"

۔

۔

وہ جلدی سے چلا گیا تھا وہاں سے۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ۔۔۔وہ رپورٹر کی دیتھ ہوگئی ہے۔۔؟"

ڈینیل بھاگتے ہوئے کچن کی جانب آیا تھا

بریرہ کے ہاتھ رک گئے تھے اس نے وہ چاۓ کا کپ وہیں کاؤنٹر پر رکھا تھا

"اور بلاج حمدانی نے رشئین مافیا کے ساتھ ڈیل سائن کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی ہے۔۔۔وہ لوگ آج اس میٹنگ میں وجیح شاہ کے گھر کو توڑ کر وہاں ایک اور کلب اوپن کرنا چاہتے ہیں۔۔۔

اور بلاج حمدانی اس ڈیل پر سائن کرکے۔۔"

"اننف۔۔۔ڈینیل اتنا بولو جتنا برداشت کرنے کی ہمت رکھتی ہوں میں۔۔

بلاج حمدانی نے بہت بڑی غلطی کردی ہے بہت بڑی ۔۔کیونکہ میں کمزور پڑ گئی تھی۔۔

تم مجھ پر غصہ تھی ناراض تھی سونم۔۔۔

"میرے دل سے بلاج کے لیے محبت تب تک زندہ رہے گی جب تک اس بےوفا کی سانسیں چلتی رہیں گی۔۔۔

میری محبت مر گئی تو بدلہ لینے میں کیسا مزہ آئے گا۔۔؟ اب اسی محبت سے شکار کروں گی اس بےوفا کا۔۔

اسے میری محبت راس نہیں آئی۔۔۔میں اسے اس کی بےوفائی راس آنے نہیں دوں گی۔۔۔"

۔

۔

وہ یہ کہہ کر اوپر کمرے میں چلی گئی تھی۔۔اور جب وہ کپڑے چینج کرکے نیچے آئی تھی تب وہ ایک سادہ سی بریرہ شاہ نہیں۔۔۔

پشمینہ شیخ تھی۔۔اس نے ایک پسٹل اپنے پرس میں رکھ لیا تھا اور بہت جلدی وہاں سے چلی گئی تھی

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ڈینیل تمہیں ہر جگہ مجھے کمپنی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"

"کیسے نہیں ہے۔؟ اگر میں وقت پی نا پہنچتا تو تمہیں اندر آنے کیسے دیتے بنا پاس کے۔۔؟"

وہ دونوں  باتیں کرتے ہوئے اندر داخل ہوگئے تھے۔۔ہر طرف شور تھا ڈانس تھا 

سموک اور شراب کی سمیل بریرہ کو اور غصہ دلا رہی تھی

"یہ تماشا وہ لگانا چاہتا ہے وجیح شاہ کی زمین پر۔۔؟ کبھی نہیں ڈینیل۔۔"

"شکار وہ رہا۔۔۔شٹ وہ سائن کر چکے ہیں۔۔"

بریرہ کی نظریں جیسے ہی  'وی آئی پی' سیکشن پر پڑی تھی بلاج کسی سے ہاتھ ملا رہا تھا۔۔

دونوں میں کچھ گفتگو ہوئی تھی

"وہ کہاں جا رہا ہے ۔۔؟؟"

بریرہ نے اس رشئین مین کو کسی روم میں داخل ہوتے دیکھ کر ڈینیل سے پوچھا تھا جو خاموش ہوگیا تھا

"ان مافیا ورلڈ۔۔یہاں ڈیل سائن ہونے کے بعد ان لوگوں کو انٹرٹئینمنٹ کے لیے "

۔

"میں سمجھ گئی ہوں اسکو آج میں انٹرٹئنمنٹ کرواتی ہوں۔۔۔"

"بریرہ وہاں خطرہ ہے۔۔"

"میں خطرناک ہوں ۔۔۔آج میں اسے چوٹ پہنچائے بغیر نہیں جاؤں گی ڈینیل۔۔۔"

۔

وہ اس رش میں سے ہوتی ہوئی اس کمرے تک پہنچی تھی جہاں ایک گارڈ پہرہ دے رہا تھا۔۔

۔

"ہیے یو کانٹ۔۔۔"

اس نے اس گورے کی کمر پر اپنی گن رکھ دی تھی جو  اپنی گن نکالنے میں دیر کرچکا تھا۔۔۔

"ٹرائی اگین۔۔"

وہ گن اس نے  جیسے ہی اسکے سر پر ماری تھی وہ وہاں بےہوش ہوگیا تھا۔۔۔

"ہیلپ مئی۔۔پلیز۔۔۔"

۔

بریرہ کے ہاتھ رک گئے تھے جب کمرے کے اندر سے آوازیں آنا شروع ہوئی تھیں اسے۔۔

اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا تھا اندر جس طرح وہ آدمی دو کم عمر لڑکیوں کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔انکے کپڑے جو کندھے سے پھٹ چکے تھے

"ہو دا ہیل یو۔۔۔"

اس آدمی نے جلدی سے اٹھ کر پیچھے دیکھا تھا جہاں وہ دونوں لڑکیاں بھاگی تھی۔۔جو بریرہ کے پیچھے چھپ گئیں تھی

"یو بچ۔۔۔پٹ دا گن ڈاؤن۔۔"

وہ اپنی گن اٹھانے لگا تھا بریرہ نے ایک فائر کی تھی جو اسکے ہاتھ کو زخمی کرگئی تھی

"یو۔۔"

پر بریرہ نے اسے کچھ بولنے کا موقع نہیں دیا تھا جب اس نے اپنی گن کا رخ اسکے سر سے اسکی ٹانگوں کی طرف کیا تھا۔۔۔

"آج کے بعد یہ دوبارہ کسی لڑکی کی عزت چاہ کر بھی خراب نہیں کر پائے گا۔۔"

۔

ان گرلز نے جیسے ہی انگلش میں بریرہ کو شکریہ ادا کیا تھا۔۔۔بریرہ نے انہیں جواب میں ایک بات بہت اونچی آواز میں کہی تھی۔۔

"تھینکس ٹو بلاج حمدانی آئی ورک فور ہم۔۔۔"

۔

وہ زخمی گرا ہوا آدمی ابھی ہوش میں تھا۔۔بریرہ کی بات سن کر اس نے ایک میسج ٹائپ کردیا تھا اپنے مافیا باس کو۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج حمدانی ابھی شروعات ہے ہر شروعات کی۔۔۔بےوفا ہونا کسے کہتے ہیں یہ اب بریرہ شاہ بتائے گی تمہیں۔۔۔"

"ان دونوں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ ڈینیل میں۔۔"

"بلاج پر کسی نے نشانہ رکھا ہوا ہے۔۔؟

ڈینیل نے خود سے کہا تھا پر بریرہ نے سن لیا تھا وہ جو گن اس نے اپنی جیکٹ میں رکھنے کی کوشش کی تھی اس نے وہ نکال کر کلب کی فرسٹ فلور کی طرف دیکھا تھا بلاج کو جو اپنے لوگوں سے بات چیت میں اتنا مصروف ہوگیا تھا کہ اس یا کسی کو پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ لال رنگ کی لائٹ اس کے سینے پر ٹھیک اسکے دل پر پڑ رہی تھی۔۔

بریرہ نے جب اس کی سمت دیکھی تو تھرڈ فلور پر بلیک ہڈ میں اپنا چہرہ چھپائے کوئی گن بلاج کی طرف کر کے کھڑا تھا۔۔

۔

"ڈینیل۔۔اسکے ہاتھ پر فائر کرو میں اوپر جا رہی ہوں اسکی گولی نہیں لگنی چاہیے بلاج کو۔۔۔"

وہ جلدی سے اس طرف بھاگی تھی

اور اس آدمی کی انگلی جیسے ہی ٹرگر پر لگی تھی ڈینیل نے فائر کر دی تھی۔۔

جو اسکے ہاتھ کو زخمی کر گئی تھی پر اس نے اپنے ہاتھ پر لگی گولی کی پرواہ کئیے بضیر پھر سے گن کا نشانہ لگایا تھا بلاج حمدانی پر آج وہ اپنا کام مکمل کرکے جانا چاہتا تھا یہاں سے

دوسری بار ٹرگکر پر انگلی رکھتے ہی اسے پیچھے سے کسی نے دھکا دیا تھا بہت زور سے۔۔۔اسکی گن سے نکلی گولی سے نشانہ چوک گیا تھا اور وہ گولی ہال کے درمیان میں لگے چنڈلر پر جا لگی تھی جس کے کانچ ڈانس فلور پر گرے تھے۔۔اور اسکے بعد بلاج کے گارڈز نے فائرنگ شروع کردی تھی بلاج کو پوری طرح سے کور کرلیا تھا ان لوگوں نے۔۔

۔

 وہ جیسے ہی گرا تھا بریرہ اسکے ساتھ ہی پیچھے گر گئی تھی۔۔۔

"ہو آر یو۔۔۔"

اسکی ساری باتیں دم توڑ گئی تھی وہاں جب اس آدمی نے اپنے چہرے سے ماسک اتارا تھا۔۔۔۔

"ارسل۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رک گئی تھی۔۔اور ارسل شاہ وہ تو جیسے کسی شاکڈ میں چلا گیا تھا۔۔۔وہ پہچان گیا تھا سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر

"بریرہ۔۔۔"

بریرہ جلدی سے کھڑی ہوگئی تھی اور جیسے ہی ارسل کھڑا ہوا تھا ان جانب بلاج کے گارڈز نے فائرنگ کرنا شروع کردی تھی۔۔

"جاؤ یہاں سے۔۔۔"

ارسل بریرہ کے سامنے کھڑا ہوا تھا اسکی بیک ان گارڈز کی طرف تھی۔۔اسکی کمر پر کچھ گولیاں لگیں تھی۔۔

"بر۔۔۔پشمینہ۔۔۔"

"ارسل۔۔۔۔"

اس طرف سے ڈینیل نے بریرہ کو پیچھے کھینچا تھا تو دوسری طرف سے سجل نے۔۔۔

"بریرہ۔۔۔اسے مجھے دو سجل کے ساتھ جاؤ یہاں سے۔۔۔"

ارسل نے جلدی سے اسے کہا تھا۔۔۔پر بریرہ ارسل کا ہاتھ پکڑ کر اسے اسی کمرے میں لے گئی تھی جہاں وہ رشئین مین پڑا ہوا تھا

۔

ارسل نے آگے بڑھ کر اپنی بہن کو اپنے گلے سے لگایا تھا۔۔۔

"یا اللہ تیرا شکر ہے میرا اپنا کوئی تو زندہ ہے۔۔"

ارسل کی بھیگی آنکھوں اور اللہ کا نام لیتے ہوئے لبوں نے آخر کار اپنے رب کو یاد کیا تھا اتنے گناہوں کے بعد۔۔۔

۔وہ تو اپنی چھوٹی بہن کو اپنے گلے سے لگاۓ تھا پر بریرہ کے دونوں بازو اسکی سائیڈ پر تھی اسکی طرف سے کوئی حرکت نہیں تھی۔۔۔

۔

"وٹ دا ہیل بریرہ۔۔۔"

"کون بریرہ۔۔؟ ایم پشمینہ شیخ مسٹر ہو آر یو۔۔؟؟"

اس نے غصے سے پوچھا تھا۔۔

"وٹ۔۔۔؟؟ تم بریرہ ہو میری بہن تم"

پر بریرہ نے ارسل کے ہاتھ جھٹک دئیے تھے۔۔۔

"کونسی بہن میں کسی کی بہن نہیں۔۔۔"

ارسل کا ہاتھ اٹھ گیا تھا اس بہن پر جس پر آج تک کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا

"کونسی بہن۔۔؟ وہ بہن جسکے لیے ہم سب برباد ہوگئے بریرہ شاہ۔۔"

بریرہ کا چہرہ دوسری طرف تھا اسکا ہاتھ اسکے لیفٹ گال پر تھا بالوں نے اسکا منہ کور کردیا تھا ڈینیل نے بریرہ کے کندھے پر جیسے ہی ہاتھ رکھا تھا بریرہ نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی۔۔۔

۔

"کونسی بریرہ۔۔؟میں بریرہ نہیں ہوں۔۔۔سنا آپ نے جائیے یہاں سے"

اس نے غصے سے اپنی گن ارسل کے سامنے کی تھی جو ڈرا نہیں تھا پر حیرت میں پڑ گیا تھا۔۔۔

"اوو شٹ کیا کردیا اسے تم نے۔۔۔؟ ایسی جگہ پر بھی کوئی مارتا ہے گولی۔۔؟؟"

ڈینیل نے اس انداز میں کہا تھا کہ سب کی نظریں اس رشئین مین پر تھیں۔۔۔

"بریرہ تم نے کب سے ہتھیار اٹھا لیا۔۔؟"

ارسل نے بہت ہلکی آواز میں کہا تھا

"جب سے کانچ کی سرخ چوڑیوں نے کلائیاں زخمی کی تب سے۔۔۔"

"بریرہ۔۔۔"

"بس چلئیے یہاں سے۔۔۔وہ لوگ یہاں تک آتے ہی ہوں گے۔۔۔"

بریرہ جس رستے سے گئی تھی ان تین لوگوں نے اسے فالو کیا تھا نیچے پارکنگ تک۔۔۔ 

"میں اسے مارے بغیر نہیں جاؤں گا یہاں سے۔۔۔"

"وہ میرا شکار ہے۔۔۔اسے مجھ سے پہلے کوئی نہیں مار سکتا۔۔۔۔"

۔

وہ جیسے ہی ایک کارنر میں کھڑی ایک بائیک کے پاس گئی تھی۔۔

یہ ایک اور سائیڈ تھی ارسل کے لیے جو اپنی بہن کو ایک اتنی ہیوی بائیک کو سٹارٹ کرتے دیکھ رہا تھا

"ڈینیل یہاں سے لے جاؤ انہیں گھر۔۔۔"

"ارسل کو کندھے پر گولی لگی ہے اور ہاتھ پر بھی ہم سیدھا ہسپتال جائیں گے۔۔۔"

بریرہ نے بائیک سٹارٹ کردی تھی اور اپنے بھائی کے سامنے رکی تھی جس کی آنکھوں میں بہت گلے شکوے تھے اپنی بہن کے لیے جو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

"میں اب ایک بیٹی ایک بہن نہیں رہی میں باغی بن گئی ہوں اب۔۔

جو بغاوت کرچکی تھی اس دن جب کسی اور کو چنا تھا آپ سب کی محبتوں کو ٹھکرا کر۔۔۔

میں اب بیٹی نہیں رہی ہوں۔۔ اور جو بیٹیاں عزتیں رؤند دیتی ہیں نامحرم محبت کے لیے انہیں کوئی حق نہیں رہتا ان رشتوں پر۔۔۔"

۔

۔

"میں رسموں کی زنجیروں سے باغی ۔۔۔

اور سپنوں کی تعبیروں سے جاگی ہوں۔۔

کیوں اپنوں سے بیگانی میں لاگی ہوں۔۔۔"

۔

وہ ہیلمٹ پہن چکی تھی اور اس نے اپنے بھائی کے ہاتھ سے بہتے خون کو دیکھ کر اس گاڑی کو فالو کیا تھا جس میں بیٹھا شخص ان سب کا ذمہ دار تھا۔۔۔۔

۔

۔

بریرہ نے جس سپیڈ میں بائیک چلائی تھی اور جس طرح وہ بلاج کی گاڑی کو کٹ مار کر نکلی تھی ارسل کے ساتھ کھڑے وہ لوگ بھی ڈر گئے تھے

"موت نا سہی پر چوٹی چوٹی سزائیں تو برداشت کرسکتے ہو نا بلاج حمدانی۔۔۔؟؟؟"

اسکی بائیک جیسے ہی سڑک کے درمیان میں کھڑی ہوئی تھی بلاج کے ڈرائیور نے سپیڈ کم کی تھی بلاج فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔۔

اسے اتنی دور سے بائیک پر بیٹھے ہوئے انسان کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا

پر وہ بھی خطروں کا کھلاڑی تھا۔۔

اس نے اپنی گن نکال لی تھی اور اپنے گارڈ کو سپیڈ تیز کرنے کا کہا تھا۔۔۔

"بہت دشمن ہوگئے ہیں ہماری ناک کے نیچے کچل دو اسے۔۔۔"

۔

بلاج نے گارڈ کو حکم دے دیا تھا۔۔۔

۔

"بلاج حمدانی اب تکلیف برداشت کرنے کی باری تمہاری ہے۔۔۔"

بائیک کو پھر سے ریس دیکر اس نے سپیڈ تیز کی تھی اور اس گاڑی کی طرف فاصلہ تہہ کیا تھا۔۔۔

پر اسکا نشانہ بلاج یا اسکے گارڈز پر نہیں۔۔۔اسکا نشانہ بلاج حمدانی کی گاڑی پر تھا۔۔۔اس نے جیسے ہی فرنٹ کے ٹائرز پر فائر کیا تھا وہ گاڑی کچھ سیکنڈ میں الٹ گئی تھی وہاں۔۔۔۔ ایک سکون ہوا تھا اتنے شور کے بعد۔۔۔۔

"کچھ دن کے لیے سکون میں رہو تب تک تمہاری ڈیلز میں برباد کر دوں گی۔۔۔۔"

۔

وہ ہیلمٹ پہن کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔۔اس گاڑی میں سے دھواں نکلنا شروع ہوا تھا۔۔۔اور ایک بلاسٹ ہوا تھا وہاں۔۔۔۔۔

۔

۔

                                        "مِٹی دا توں،،،مِٹی ہونا،،،کاہدی بلے بلے،،،،

                                           اج مِٹی دے اُتے بدیا،،، کل مِٹی دے تھلے،،،،"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"جس دن میرا بدلہ پورا ہوجائے گا میرے بےوفا ،،اس دن تمہاری محبت کو اپنی نفرت کے ساتھ دفن کروں گی اپنے ہاتھوں سے،،،، "

۔

اسکی بائیک کو دور تک وہ بلاسٹ سنائی دیا تھا۔۔اسکے دل میں کسی ایک کونے میں ایک خلش اٹھی تھی۔۔اسکا دل چاہتا تھا وہ پیچھے مڑ کر دیکھے۔۔کہ وہ زندہ رہا ہے یا نہیں۔پر بریرہ کے دماغ نے اسکے قدم مڑنے نہیں دئیے تھے واپس۔۔۔

وہ اب کمزور نہیں بننا چاہتی تھی۔۔۔

۔

اسکی بائیک کا رخ اس نے اپنے گھر کی طرف کرلیا تھا وہ گھر جہاں کبھی اسکی چھوٹی سی فیملی بہت خوش تھی۔۔

۔

آج اسے پکڑے جانے کا ڈر نہیں تھا وہ جیسے ہی بائیک سے نیچے اتر کر اندر کی جانب بڑھی تھی اس پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی۔۔

"ہئے یو۔۔"

اس گارڈ نے گن بریرہ کے سر پر رکھ دی تھی وہ اپنا چہرہ نہیں دیکھانا چاہتی تھی۔۔

اسے جو بہتر لگا وہ اس نے کیا۔۔اس نے اپنی گن نکال کر اس گارڈ کی ٹانگ پر فائر کردی تھی۔۔۔وہ جیسے ہی تکلیف سے نیچے گرا تھا بریرہ نے غصے سے اسے کک ماری تھی۔۔

"باسٹرڈ میرا گھر ہے یہ۔۔کوئی نہیں روک سکتا مجھے اندر جانے سے۔۔"

اس نے اور ٹھڈے مارے تھے اسے سب پر غصہ آرہا تھا۔۔سب سے زیادہ بلاج حمدانی پر۔۔۔

۔

"وہ کیا سمجھتا ہے وہ اس گھر کو توڑ کر کلب بنائے گا۔؟ اسکی قبر نا بنا دوں گی میں یہاں اس کلب سے پہلے۔۔۔"

اس نے تب تک اسے مارنا نہیں چھوڑا تھا جب تک وہ بےہوش نہیں ہوا تھا۔۔

۔

وہ پھر سے اندر جانے لگی تھی پر ایک سائرن ہوا تھا اور وہاں بلاج حمدانی کے اور گارڈز آگئے تھے۔۔۔ بریرہ نے پھر سے بائیک سٹارٹ کی تھی اور حسرت بھری نظروں سے اس گھر کو دیکھا تھا اور وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج سر کو جلدی سے باہر نکالو۔۔۔گاڑی کو آگ لگ گئی ہے پٹرول پھیل چکا ہے جلدی۔۔۔"

بہت سے گارڈز نے گاری سے بلاج اور دوسرے زخمی گارڈز کو باہر نکال لیا تھا۔۔

۔

"بلاج سر۔۔۔"

"بریرہ۔۔۔"

۔

بلاج کی نظریں اس بائیک پر تھیں۔۔اور اسکی زبان پر نام ایک ہی تھا۔۔۔

"سر یہاں سے چلیں جلدی کیجئیے۔۔۔"

"میں نے داد جی کو فون کردیا ہے۔۔۔" بلاج کی آنکھیں بند ہورہیں تھی جب اسے جلدی سے گاڑی کی بیک سیٹ پر بہت آہستہ سے لٹایا گیا تھا

۔

۔

"بلاج حمدانی تمہاری سانسوں پر میرا حق ہے۔۔مرنے کی باتیں نا کیا کرو مائیکے چلی جاؤں گی۔۔"

"ہاہاہاہا اچھا چلی جانا،،،پر میرے جنازے پر وقت سے آجانا۔۔ آخری وقت میں میرا دیدار کر لینا میری اکلوتی بیوی۔۔"

بلاج نے زبردستی اسے اپنے سینے سے لگایا تھا جب وہ پاؤں پٹک کر روم سے باہر جانے والی تھی

۔

"ایک تو وائفی تم ناراض بہت جلدی ہوجاتی ہو۔۔مذاق بھی نہیں کرسکتا۔۔؟؟"

"موت کا مذاق کون کرتا ہے بلاج۔؟یا تو میری زندگی میں اس طرح سے شامل نہیں ہونا تھا کہ تمہارے جانے سے باقی کچھ نا رہے،،،اور شامل ہوگئے ہو تو اس طرح سے شامل رہو کے موت بھی آئے تو ایک ساتھ آئے ہم دونوں کو۔۔"

۔

"ساتھ کیوں بریرہ۔۔؟ میں تمہیں ہمیشہ خوش سہی سلامت۔۔۔اور زندہ دیکھنا چاہتا ہوں۔۔"

بلاج نے بریرہ کے ماتھے پر بوسہ دے کر اپنی آنکھیں بند کرلی تھی

"ساتھ جینے نہیں دی گی یہ دشمنی ہمیں بلاج۔۔پر ساتھ موت ضرور مل جائے گی۔۔۔ایسا مجھے لگتا ہے۔۔۔"

۔

"بریر۔۔۔"

بلاج کو جیسے ہی ہسپتال لایا گیا تھا سب فیملی ممبرز پہلے سے ہسپتال میں موجود تھے۔۔۔

"بلاج میرے بچے۔۔"

داد جی کی آنکھیں بھیگ گئی تھی بلاج کے جسم کو خون سے بھرے دیکھ کر اس خاندان کے مرد پہلی بار اتنے کمزور نظر آئے تھے گھر کی عورتوں کو۔۔

"داد جی کچھ نہیں ہوگا بلاج کو آپ بیٹھیں زمرد آپ بھی بیٹھے۔۔"

رابیعہ بیگم نے اپنے سسر اور شوہر کو بہت ہمت دی تھی

"جس باسٹرڈ نے بھی یہ کیا ہے اسے ہم چھوڑیں گے نہیں داد جی۔۔"

۔

نوجوان نسل خاندان کی دندناتے ہوئے ہسپتال سے چلی گئی تھی۔۔

مہتاب ابھی بھی صدمے میں تھا۔۔ایک طرف پشمینہ اس سے بات نہیں کر رہی تھی دوسری طرف اپنے باپ جیسے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر وہ ڈر گیا تھا۔۔

۔

سب میں غم و غصہ تھا۔۔

"یہ کون نیا دشمن پیدا ہوگیا ہے ہمارا زمرد۔۔پتا کرو۔۔اور جب پتا چل جائے تو ختم کر دینا۔۔"

داد جی کی آواز نے للکار کر کہا تھا۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ارسل بھائی۔۔۔"

"بس بہرام شاہ وہیں رک جاؤ۔۔"

بریرہ جو واپس سونم اور ڈینیل کے اپارٹمنٹ میں داخل ہونے لگی تھی اپنے بھائی اور کزن کی اونچی آواز سے وہیں رک گئی تھی۔۔

۔

"سیریسلی سونم۔۔؟ تم ان دونوں کو یہاں لے آئی ہو،،"

اس نے آگ برساتی نگاہوں سے سونم کو دیکھا تھا جو ایک دم سے ڈینیل کے پیچھے چھپ گئی تھی

"اس نے جو کیا سہی کیا کم سے کم تمہاری طرح پاگل کوئی نہیں بریرہ وہ مر بھی سکتا تھا۔۔اگر اسکے گارڈز اسے عین ٹائم پر گاڑی سے نا نکالتے تو۔۔"

ڈینیل نے آواز اونچی کردی تھی اپنی۔۔

"کون مر سکتا تھا۔۔؟ اور کون بریرہ یو ڈفر۔۔ایڈیٹ۔۔"

وہ ڈینیل کی طرف بھاگی تھی جو اب سونم کے پیچھے چھپ گیا تھا۔۔

"بس بریرہ شاہ۔۔تمہیں کچھ بھی ہوسکتا تھا تمہیں جب میں نے کہا تھا میں آگیا ہوں۔۔"

بہرام نے اسکے بازو سے جیسے ہی اسے پکڑ کر اپنی طرف کیا تھا ارسل شاہ کو شدید غصہ آیا تھا۔۔

"اچھا اب میں سمجھا ہوں یہ کیوں آیا ہے یہاں۔؟ میری بہن کے لیے تمہاری محبت ابھی بھی مری نہیں ہے۔؟ اپنی بیوی کو تو تم نے مار دیا ہے بہرام شاہ اب میں تمہیں اپنی بہن کے پاس بھی نہیں رہنے دوں گا۔۔"

۔

ارسل کی بات جتنی تلخ سننے میں تھی اتنے ہی گہرے زخم کردئیے تھے اس بات نے بہرام کے دل پہ وہ اتنے حیران تھا ارسل کی بات سن کر اور بریرہ کی نظریں بےساختہ اٹھی تھی بہرام کی نظروں میں نظریں ڈالی تھی۔۔

اسے پتا نہیں تھا بہرام بھا۔۔۔بہرام اس  سے محبت کرتا تھا۔۔اسے کبھی محسوس ہی نہیں ہوا۔۔

"ارسل بھائی۔۔"

بہرام نے سرگوشی کی تھی۔۔

"ارسل بھائی کیا۔؟ دفعہ ہوجاؤ یہاں سے تم نے اپنی عمر دیکھی ہے ۔۔؟ کیا سوچ کر تم نے یہاں آنے کی کوشش کی۔۔"

"ارسل بھائی عمر کی بات کہاں سے آگئی ہے۔۔؟"

سونم نے سختی سے بات کی تھی ان سے۔۔

"سونم تم درمیان میں نا بولو۔۔تم نہیں جانتی ان لوگوں کو انکی اوقات نہیں ہے ہمارا مقابلہ کریں یہ تو ہنس رہے ہوں گے کہ وجیح شاہ اور اسکی اولاد برباد ہوگئی۔۔

یہ بریرہ کو اسی جال میں پھنسانہ چاہتا ہے جہاں سے وہ ابھی ابھی نکلی ہے۔۔۔محبت کے گھنونے جال سے۔۔نکلو یہاں سے۔۔"

بریرہ اپنی جگہ اسے ہل نہیں پائی تھی اپنے بڑے بھائی کی اتنی کڑوی باتیں سن کر نا اسکی نظریں ہٹ پائی تھی بہرام شاہ سے

ارسل نے بہرام کا ہاتھ پکڑ کر اسے دروازے کی طرف دھکا دیا تھا۔۔

بہرام جو صحت اور قد  میں ارسل سے اونچا تھا کسی میں ہمت نہیں ہوئی تھی بہرام شاہ کو ہاتھ لگانے کی پر بہرام ارسل کی عزت میں کچھ نہیں کہہ رہا تھا وہ اتنا شاکڈ تھا اپنے کزن کے لگائے الزامات سے۔۔

"ارسل بھائی اننف۔۔"

ڈینیل نے ارسل کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی تھی پر ارسل نے بہرام کے کندھے کو باہر دھکیلنے کی کوشش کی تھی

"بس ارسل بس۔۔میں عزت کر رہا ہوں آپ کی۔۔"

ابھی بہرام بات کررہا تھا کہ ارسل نے ایک زور دار مکا مارا تھا بہرام کے منہ پر۔۔

"یااللہ۔۔۔بریرہ روکوانہیں۔۔۔"

بریرہ کے کانوں میں جیسے ہی سونم کی آواز پڑی تھی اس نے اپنے بھائی کو پیچھے دھکیلا تھا بہرام سے۔۔جسے ایک اور مکا مارا تھا ارسل نے۔۔

"ارسل بھائی بس کرجائیں۔۔۔اننف از اننف۔۔۔"

ارسل جہاں اپنی چھوٹی بہن کے منہ سے بھائی لفظ سن کر خوش ہورہا تھا وہاں وہ طیش میں بھی آیا تھا جب بریرہ نے بہرام کا ہاتھ پکڑا تھا

"آپ چلیں میرے ساتھ۔۔۔"

بریرہ بہرام کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے روم میں لے گئی تھ۔۔۔

۔

"یہاں بیٹھے میں فرسٹ ایڈ۔۔۔"

"میں نے اپنی بیوی کو نہیں مارا بریرہ۔۔ میں۔۔میں تو اسے چاہنے لگا تھا۔۔۔

جس دن اس سے میں نے اپنی نئی نئی محبت کا اظہار کرنا تھا اس دن اس نے منہ پھیر لیا تھا آنکھیں بند کر لی تھی یہ کہہ کہ "آپ نے بہت دیر کردی بہرام"۔۔"

۔

اس نے بریرہ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا پیچھے سے جب بہرام کی بات مکمل ہوئی بریرہ نے بہت آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا بہرام کے پاتھ سے

"آپ یہیں بیٹھے میں فرسٹ ایڈ لے آؤں۔۔"

بہرام بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔۔اسے فکر نہیں تھی اسکے منہ سے خون نکل رہا تھا اسکی آنکھ پر زخم آیا تھا۔۔

اس اس چیز کا بھی دکھ نہیں تھا اسے اسکی عمر کا طعنہ دیا گیا تھا اس دکھ تھا تو اس بات کا کہ اس پر الزام لگا یا گیا تھا وہ کیسے اپنی بیوی کو مار سکتا تھا جس بیوی نے اسے پیار دیا تھا اعتماد دیا تھا۔۔جب وہ بریرہ کے ہاتھوں ٹھکرائے جانے پر پوری طرح ٹوٹ گیا تھا

۔

۔

"بیٹی ہوئی ہے بہرام۔۔بہت بہت مبارک ہو بیٹا۔۔۔"

"ابو سچ میں۔۔ ماہین کیسی ہے ابو۔۔؟"

بہرام آفس سے سیدھا ہسپتال آیا تھا بھاگتے ہوئے جیسے ہی اسے گھر سے فون گیا تھا۔۔

"بیٹا ماہین کو ابھی کچھ دن یہیں رہنا ہوگا ڈاکٹر کچھ دن انڈر آبزرویشن رکھے گے۔"

"میں مل سکتا ہوں اسے۔۔۔"

"ہاں اندر جاؤ۔۔۔اسے ہوش آگیا تھا۔۔"

بہرام اندر روم میں گیا تھا۔۔جہاں اسکی سانسیں رک گئی تھی۔۔۔ اپنی کو اپنی بیوی کی آغوش میں لیٹے دیکھ کر۔۔"

"بہرام۔۔۔"

بہرام نے ماہین کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا اور جب ماہین نے انکی بیٹی کو آہستہ سے اپنے شوہر کی طرف کیا تھا اسے نے ڈرتے ہوئے اپنی بیٹی کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔۔

۔

۔

"ماہی پچھلے دو دن سے جب دیکھتا ہوں تم ایسے ہی پری کے چہرے کو دیکھتی رہتی ہو گھنٹوں۔۔۔"

"میں پری کے چہرے سے زیادہ پری کی آنکھوں میں دیکھتی ہوں بہرام۔۔۔"

"کیوں۔۔؟؟؟"

بہرام نے کرسی کو انکے بیڈ کے پاس کرلیا تھا بہت زیادہ۔۔

"کیونکہ پری  کی آنکھیں آپ جیسی ہیں۔۔اور میری پہلی محبت آپ کی آنکھوں سے ہوئی تھی مجھے پر آپ نے کبھی میری آنکھوں میں دیکھا اور نا مجھے دیکھنے دیا آپکو کبھی ۔۔اب مجھے لگتا ہے میں آپ کی آنکھوں میں دیکھ رہی ہوں۔۔"

بہرام نے سر جھکا لیا تھا۔۔

"ماہی میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔"

"بہت دیر ہوگئی ہے بہرام۔۔"

بہرا نے ماہین کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا

"کیا مطلب۔۔؟؟ دیر نہیں ہوئی ماہی۔۔۔"

ماہین کی بن آنسو کے روتی آنکھیں اور ہنستے ہوئے چہرے نے بہت کچھ کہا دیا تھا بہرام شاہ سے۔۔

اور کچھ دیکنڈز کے بعد اس ہسپتال کے روم میں صرف اس مشین کی بیپ سنائی دے رہی تھی۔۔

ڈاکٹر روم میں آئے تھے بہرام تھا کہ باہر نہیں جا رہا تھا تھا۔۔جب اپنی روتی ہوئی بچی کو اس نے اپنے سینے سے لگا کر چپ کروایا اسی وقت وہ مانیٹر بھی خاموش ہوا تھا جو ماہین کی ہرٹ بیٹ کی موجودگی کا بتارہا تھا کچھ وقت پہلے۔۔۔

"ماہین۔۔۔"

۔

۔

"تھوڑا سا درد ہوگا۔۔۔"

بریرہ کی آواز سن کر بہرام نے آنکھیں کھولی تھی جو بہرام کے زخم صاف کرنا شروع ہوئی تھی

"ایم سوری نیچے جو بھی ہوا ۔۔"

اس نے بہرام کے ہونٹ کے پاس گہرے زخم کو دیکھ کر اظہار کیا تھا۔۔

"کوئی بات نہیں۔۔اس سفر میں یہ سب اور زیادہ ہوگا آگے چل کر ۔۔۔"

بہرام کی آنکھوں میں درد کی اتنی شدت تھی کی بریرہ کے ہاتھ رک گئے تھے۔۔

"ایم سووو سوری۔۔"

اس بار اس نے بہرام کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا

"میں نے ارسل بھائی کے "

"میں اس بار اس لیے معافی مانگ رہی ہوں کیونکہ آپ کی اس حالت کی وجہ میں بھی ہوں۔۔ہمارے نکاح والے دن میں چلی آئی تھی سب کچھ چھوڑ کر۔۔۔

اس وقت مجھے بھی یہی لگتا تھا آپ عمر میں بہت بڑے ہیں۔۔میں خوش نہیں رہوں گی۔۔۔آپ کے ساتھ۔۔۔ مجھے تو پتا بھی نہیں تھا آپ مجھ سے پیار کرتے تھے بہرام۔۔۔"

اس نے بہرام کا نام لے دیا تھا اور بہرام کے زخم صاف کرکے اس نے کریم لگا دی تھی۔۔۔اپنی بات ادھوری چھوڑ کر وہ اٹھ گئی تھی

"اگر میری محبت کا تمہیں پتا چلا جاتا تو کیا شادی کرلیتی اس وقت مجھ سے۔۔؟؟"

بہرام نے اب کی بار بہت آہستہ سے ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔

۔

"اس مچھلی نے پتھر چاٹ کر واپس آنا تھا۔۔۔میں نے شاید تب بھی انکار کرنا تھا۔۔اور مذاق اڑا دینا تھا آپ کی محبت کا۔۔میں یہی کرتی آئی ہوں۔۔اس لیے محبت نے میرا مذاق بنا دیا۔۔

میں نے رشتوں کی عزتیں پامال کی میری محبت نے میرا وجود پامال کردیا اب مجھے 

"اک لفظ محبت سے شدت کی نفرت ہے کہ نفرت لفظ چھوٹا لگتا ہے وہ جو نفرت مجھے محبت سے ہے۔۔۔"

۔

۔

                                             "شدتِ عشق خیر ہو تیری،،،،

                                              کیسے عالم میں لاکے چھوڑ دیا،،،"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"۔۔۔پاکستان۔۔۔"

۔

۔

"کبیر آپ یہاں ہیں میں نے سارے گھر میں ڈھونڈ لیا آپ کو۔۔"

وہ کہتے ہوئے اندر آئیں تھیں کیبر شاہ کی نظریں سامنے دیوار پر لگے ان فیملی فوٹو فریمز پر تھیں۔۔

"کنزہ سمجھ نہیں آرہا کیا کروں ایک طرف بھائی نے آواز دی ہے تو دوسری طرف باپ کی قسم۔۔بہرام کا نمبر نہیں مل رہا گھر میں کس سے شئیر کروں۔۔؟

وجیح بھائی کا نام سن کر سب نیویارک بھاگیں گے خاص وجاہت بھائی کے بیٹے۔۔

وہ تو اپنے باپ کی موت کو ابھی تک نہیں بھولے پر ان سب کو روکا ہواہے میں نے۔۔آج میرا ایک غلط قدم بدلے کے بجھی ہوئی آگ کو ہوا دہ دے گا۔۔"

ان کے لہجے میں بہت درد تھا جب انکی نظریں اپنے دو جوان بھائیوں کی فوٹو پر پڑی تھی۔۔۔

"بابا سائیں نے ان دونوں کے قتل کے بعد اس بدلے کو یہیں دفن کرنے کا کہہ دیا تھا۔۔پر وجیح بھائی صاحب۔۔خاندانی دشمنی میں اپنا گھر بھی لٹا بیٹھے۔۔۔"

۔

"کبیر اللہ پر یقین رکھیں آپ بہرام سے بات کریں۔۔بہرام سب ٹھیک کردے گا۔۔"

"بہرام کے پاس کسی کو تو بھیجنا ہوگا ارسل کو یہ پیغام لازمی دینا ہوگا وجیح بھائی کا کنزہ۔۔بہرام کو شاید تم بھی نہیں جانتی وہ ایسے نہیں لوٹے گا وہاں سے۔۔"

۔

۔

                              "وقت کا ستم تو دیکھئیے حضور،،،،

                                خود گزر گیا ہمیں وہیں چھوڑ کر،،،"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ۔۔بلاج کی حالت بہت کریٹیکل ہے۔۔سب نیوز چینل یہی خبر دے رہے نیو پارک کے۔۔"

بریرہ کھانا کھاتے ہوئے رکی تھی اس پر تو پہلے ہی سب کی نظریں تھیں بہرام شاہ ارسل شاہ اور ڈینیل تینوں ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کوئی قیامت آگئی ہو۔۔

"آپ لوگ تو ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے کوئی ری ایکشن ملے گا مجھ سے۔۔؟

کھانا کھائیں ٹھنڈا ہورہا ہے۔۔"

اس نے ہنستے ہوئے کھانا شروع کیا تھا۔۔

۔

۔

"مدیحہ۔۔بلاج کو ہوش آجائے گا بیٹا رونا بند کرو۔۔"

رابیعہ ابیگم مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اندر بلاج کے ہسپتال کے روم میں لے گئی تھ جسے تھوڑی دیر پہلے ہی شفٹ کیا گیا تھا۔۔

۔

"بلاج میری جان۔۔"

بلاج کے چہرے پر بہت پیار سے کسی نے ہاتھ رکھا تھا

"بر۔۔۔بریرہ۔۔"

اس کمرے میں اتنے لوگوں میں ہر ایک نے یہ نا سن لیا تھا بلاج کی زبان سے نکلے ہوئے اس نام نے

"بریرہ کون ہے۔۔؟"

مہتاب نے حیرانگی سے پوچھا تھا۔۔

"مہتاب بیٹا تم مدیحہ کو گھر لے جاؤ رابیعہ آپ بھی جائیں۔۔مدیحہ کا اس حالت میں پریشان ہونا ٹھیک نہیں ہے۔۔"

زمرد صاحب نے بات کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی مدیحہ کے چہرہ پر تکلیف صاف عیاں ہورہی تھی

۔

"پر بابا بلاج بھائی نے کسی اور لڑکی کا نام۔۔"

"مہتاب۔۔گھر جاؤ۔۔"

داد جی نے اس بار غصے سے کہا تھا۔۔

وہ تینوں چلے گئے تھے وہاں رہ گئے تھے بس داد جی اور زمرد حمدانی۔۔۔

۔

"بلاج ٹھیک ہوجائے تو میں خود بات کروں گا اس سے۔۔۔آپ فکر نا کیجئیے۔۔"

زمرد صاحب نے اپنے والد کے کندھے پر ہاتھ کر کر کہا تھا

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔"

۔

"پشمینہ۔۔۔میں بہت خوش ہوں تم نے مجھے دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان بنا دیا ہے جب گھر والوں نے شادی کی تاریخ کا کہا تھا سب ہی یہ کہہ رہے تھے تم اتنی جلدی ہاں نہیں کرو گی۔۔پر تم نے تو مجھے بہت خوشی دہ دی اسی مہینے شادی واووووو۔۔۔"

مہتاب نے بریرہ کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے بہت قریب کیا تھا سونم نے سر نیچے کرلیا تھا اسے پتا تھا اینڈ میں سب سے زیادہ دل مہتاب کا ٹوٹے گا

۔

"بس اب جلدی سے تیار ہوکر آجاؤ۔۔ آج کا ڈنر سب کے ساتھ کریں گے سونم آپ بھی ڈینیل کے ساتھ ضرور جوائن کیجئیے گا۔۔آج بہت بڑے فیصلے ہوں ۔۔"

مہتاب نے بریرہ کے ہاتھوں پر بوسہ دیا تھا وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔۔بریرہ کی ہاں نے اسکے سب شک ختم کردئیے تھے

۔

"اچھا بابا بس اب جاؤ۔۔میں سونم کے ساتھ آجاؤں گی۔۔پکا۔۔"

مہتاب کچھ دیر میں وہاں سے چلا گیا تھا۔۔

"بریرہ سیریسلی۔۔؟؟ کم سے کم بہرام کا انتظار تو کرلو۔۔۔"

"کیوں بہرام نے شادی کی ڈیٹ دینی ہے سونم۔۔؟"

"بریرہ۔۔یہ سب ایک بڑا بلنڈر ہوجائے گا ۔۔"

"تو بڑا بلنڈر ہی تو کرنے جا رہی ہے بریرہ شاہ۔۔۔"

"بلاج حمدانی زخمی شیر ہے بریرہ۔۔۔"

"شیر۔۔؟؟ وہ گیدر ہے میری نظر میں۔۔گیدر بھی نہیں محبت کا عورت کا استعمال کرکے دشمن کو شکست دینے والا شیر۔۔؟"

۔

"بریرہ۔۔"

"تیار ہوجانا آج شام کو حمدانی میشن میں ڈنر کریں گے۔۔ بلاج حمدانی کے بھی دیکھ لوں گی اسی بہانے۔۔اور دیکھوں گی میرے دئیے ہوئے زخموں نے کس قدر گھائل کیا اس شیر کو۔۔۔"

۔

"کیا ہونے جا رہا ہے یہ یا اللہ اس لڑکی کو اس بار تباہ ہونے سے پہلے نیکی کی ہدایت عطا فرما دے میرے رب۔۔۔"

۔

وہ آبدیدہ ہوگئی تھی۔۔ اسے آنے والے بھیانک دن نظر آرہے تھے۔۔اور اسے پتا تھا جتنا نقصان بلاج کا ہوگا اتنا بریرہ کا بھی ہوگا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"حمدانی مینشن۔۔۔"

بلاج مہمان آتے ہی ہوں گے یہ سٹک۔۔"

"وٹ دا ہیل۔۔ مجھے چلنے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"

بلاج نے اپنا کوٹ پہننا شروع کردیا تھا

"بلاج ڈاکٹر نے کہا تھا زخم تکلیف دیں گے۔۔"

اس نے پھر سے وہ سٹک آگے کی تھی اور اس بار بلاج نے وہ سٹک کو غصے سے پکڑ کر موڑ دیا تھا۔۔۔

"یہ لوہے کی سٹک تم اسے دو جسے ضرورت ہے مدیحہ۔۔"

"اففو۔۔۔ چلتے چلتے درد ہوگی اور اگر گر گئے تو۔؟ مہتاب کی منگیتر بھی آرہی ہے اسکی فیملی بھی سب کے سامنے شرمندہ ہونے سے اچھا ہے۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔۔دفعہ ہوجاؤ۔۔۔"

۔

مدیحہ بھی غصے سے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔

"پشمینہ شیخ۔۔فائننلی اپنے بل سے باہر آنے والی ہو۔۔"

بلاج نے خود کو شیشے میں دیکھ کر کہا تھااسکے چہرے پر ایک الگ ہنسی تھی 

ایک شیطانی ہنسی۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"موسٹ ویلکم پشمینہ بیٹی۔۔اندر آؤ  بچوں۔۔"

داد جی نے پشمینہ کو بہت عزت سے ویلکم کیا تھا ور ساتھ سارے فیملی کے ممبرز موجود تھے۔۔

"اتنی عزت دے رہے کاٹنے تو نہیں لگے ہمیں کہیں۔۔؟"

ڈینیل کے سونم کے کان میں کہا تھا 

"ہاہاہاہا۔۔۔" پشمینہ ہنسی تھی 

"اسلام علیکم آنٹی۔۔آپ مہتاب کی مدر ہیں۔۔؟"

رابیعہ بیگم نے جیسے ہیں سلام کا جواب دے کر جواب دیا اسکی بات کا پشمینہ انکے گلے لگی تھی آگے بڑھ کہ۔۔

"مہتاب نے بہت باتیں کی آپ کی۔۔مجھے کب اپنے ہاتھ کی بریانی اور قورمہ کھلا رہی ہیں۔۔؟؟"

بریرہ نے سب کو بہت اچھے سے اگنور کردیا تھا خاص کر مردوں کو۔۔اور سب اٹینشن گھر کی عورتوں پر تھی اسکی۔۔

"بیٹا اندر چلو۔۔شادی کے بعد تم جب کہو گی میں بنا کر کھلاؤں گی۔۔"

رابیعہ بیگم نے مسکرا کر جواب دیا تھا وہ خوش ہوئی تھی اس لڑکی کے لہجے میں عزت اور احترام دیکھ کر

۔

۔

"ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا لگ چکا تھا لیونگ روم میں اس وقت سے قہقوں کی آوازیں گونج رہیں تھیں جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی بلاج جان بوجھ کر لیٹ آیا تھا نیچے۔۔اور نیچے آتے ہی وہ ڈائیننگ ٹیبل پر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا تھا

"جیٹھ جی۔۔۔اب کیسے ہیں آپ۔۔؟؟"

بریرہ کی آواز پر بلاج نے نگاہ اٹھائی تھی بریرہ سامنے والی کرسی پر بیٹھی تھی جو بلاج کے بلکل سامنے ہی پڑی تھی آج اسے پشمینہ شیخ کے لہجے میں ایک شرارت ایک خوشی ایک جیت کی جھلک نظر آرہی تھی۔۔

جو بلاج کو اس طرح آہستہ آہستہ چلتے درد میں ٹیبل کا سہارا لیتے دیکھ کر سچ میں بہت خوش ہوئی تھی

۔

"اووو ہائے پشمینہ کیسی ہو۔۔؟؟ بلاج بھی ٹھیک ہیں"

مدیحہ نے بلاج کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا

"بلاج حمدانی ایکسیڈنٹ میں زبان پر بھی چوٹ آئی ہے جو بولا نہیں جا رہا آپ سے۔۔؟؟"

"چوٹ تو بہت گہری آئی تھی مس شیخ۔۔اب آپ نے اپنا دیدار کرا دیا ہے مریض کو آرام آجائے گا۔۔"

بہت سے قہقے لگے تھے۔۔پشمینہ کی آنکھوں میں بھی ہنسی کی چمک آئی تھی مدیحہ کا اترا چہرا دیکھ کر۔۔ شکار تو وہ کر رہی تھی اپنی آنکھوں سے بلاج حمدانی کا۔۔

۔

ابھی وہ بلاج کی طرف دیکھ رہی تھی کہ اسے اسکے پاؤں پر کسی کا پاؤں محسوس ہوا تھا۔۔

اس نے مہتاب کی طرف دیکھا جو ڈینیل کے ساتھ ہنستے ہوئے کچھ بات کر رہا تھا اور پھر اسے وہی حرکت محسوس ہوئی۔۔

"کیا ہوا مس پشمینہ۔۔کچھ چاہیے۔۔؟؟"

"سب کچھ تو ہے یہاں۔۔۔ ضرورت ہوگی تو بتا دوں گی۔۔"

وہ پھر سے کھانا شروع ہوئی تھی تبھی داد جی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا

"پشمینہ بیٹا۔۔یہ باتیں تو گھر کے بڑوں کے ساتھ کرنی چاہیے پر تمہارے والدین نہیں ہیں سو میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا مرضہ ہے تمہاری اور مہتاب کی۔۔"

"داد جی میرے لیے سونم اور ڈینیل میری فیملی ہیں جو یہ فائنل کریں گے ڈیٹ وہ فکس کردیجئیے گا ہمارے نکاح کے لیے۔۔"

آخری لفظ اس نے بلاج کی آنکھوں میں دیکھ کر بولے تھے جو غصے میں کھانے کی پلیٹ پیچھے کرچکا تھا

"ہمم۔۔میں اور ڈینیل چاہتے ہیں اسی مہینے کے آخر میں شادی ہو جانی چاہیے داد جی۔۔مہتاب اور پشمینہ کو بہت جلدی ہے۔۔"

پشمینہ نے بلش کرتے ہوئے سر جھکا لیا تھ۔۔اور سب ہنس دئیے تھے

"تو بس فائنل کرتے ہیں تاریخ نکاح کی۔۔۔تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں بلاج۔۔؟"

"جب آپ لوگوں نے سب فائنل کرلیا ہے تو کیسا پوچھنا مجھ سے۔۔؟؟"

بلاج نے اپنے غصے کا کھل کر اظہار کیا تھا

"بلاج تم ہسپتال میں تھے بیٹا۔۔"

زمرد صاحب نے بہت آہستہ سے کہا تھا۔۔

"یا رائٹ۔۔"

بلاج ابھی بھی غصے میں تھا جب مدیحہ نے کھانے کا سپون بلاج کے ہونٹوں کے پاس کیا تھا۔۔

"تھوڑا سا کھا لو۔۔۔"

"اووووو لووو برڈز۔۔۔۔" ہوٹنگ کی کزنوں نے وہاں بیٹھے بیٹھے۔۔۔

"آئی لووو یو۔۔۔"

بلاج نے جان کر اونچی آواز میں کہا تھا مدیحہ کو۔۔

ابھی اس نے مدیحہ کا ہاتھ پکڑا ہی تھا کہ اسے اپنی ٹانگ پر کچھ حرکت محسوس ہوئی تھی۔۔اور وہ ہیل آہستہ سے جیسے جیسے بلاج کی ٹانگ سے اوپر جا رہی تھی بلاج کی سانسیں رکی تھی اسکی نظریں بےساختہ پشمینہ پر پڑی تھی۔۔جس نے بلاج کو آنکھ ماری تھی اور اپنی ڈرنک کا گلاس پینا شروع کیا تھا

"وٹ دا۔۔۔"

بریرہ کی آنکھ مارنے پر وہ اتنا شاکڈ ہوا تھا جیسے ہی وہ اٹھا تھا پانی کا گلاس اسکے کپڑوں پر گر گیا تھا

"کیا ہوا جیٹھ جی۔۔؟؟"

بریرہ کا لہجہ شرارت سے بھرا ہوا تھا

"کیا ہوا بیٹا۔۔"

کچھ نہیں۔۔میں آیا ابھی۔۔۔"

وہ وہاں سے اپنے روم میں چلا گیا تھا۔۔

۔

"ایکسکئیوزمئ میں واش روم یوز کرسکتی ہوں۔؟"

بریرہ نے پوچھا تھا۔۔

"میں دیکھاتا ہوں۔۔"

مہتاب اپنی جگہ سے اٹھنے لگا تھا جب بریرہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کیا تھا

"بس مجھے ڈائرکشن بتا دو مہتاب کھانا پیٹ بھر کے کھاؤ بہت مزے کا بنا ہے۔۔"

مدیحہ نے اسے ڈائیرکشن بتائی تھی۔۔

اور بریرہ شاہ اس کے بلکل برعکس گئی تھی۔۔۔وہ اسی جگہ گئی تھی جہاں بلاج حمدانی گیا تھا۔۔

جب اس نے بلاج کے بیڈروم کا دروازہ کھولا تھا تو اس دونوں کی شادی کی تصویر نے بریرہ کے دل پر تکلیف ضرور دی تھی

"مدیحہ اگر تم مجھے لے جانے آئی ہو تو میں نہیں آرہا داد جی سے کہنا۔۔"

وہ کہتے کہتے رک گیا تھا شرٹ کے بٹن پوری طرح سے اوپن تھے بلاج کے۔۔

"واوووااا۔۔۔مجھے پتا ہوتا ان کپڑوں کے اندر اتنی ہوٹ باڈی ہے میں شاید تمہاری آفر نا ٹھکراتی بلاج حمدانی۔۔۔"

بریرہ کی آواز بھی اب بلاج کو سیڈیوس کر رہی تھی 

"مس پشمینہ۔۔۔"

"شش۔۔۔پشمینہ کہو بس۔۔"

وہ بلاج کے سامنے کھڑی تھی

"تمہیں ہوا کیا اس دن تو بہت لیکچر دے رہی تھی میں ون نائٹ سٹینڈ نہیں کرتی۔۔۔"

وہ کہتے کہتے چپ ہوا تھا جب اسکی انگلیا بلاج کی بلٹ سے ہوتے ہوئے اسکے سینے پر تھی۔۔۔ اس نے گہرا سانس لیا تھا۔۔

"تم سچ میں مجھے مارنا چاہتی ہو۔۔؟؟"

اسکا ہاتھ پشمینہ کے ہاتھ پر تھا جو بلاج کے دل پر رکھا ہوا تھا اس نے۔۔

"میرا ارادہ تمہیں مارنے کا ہی ہے مسٹڑ بلاج۔۔"

اسکے ہونٹ جیسے ہی بلاج کے ہونٹوں کے قریب گئے تھے بلاج نے اسے گھما دیا تھا۔۔اب اسکے بیک بلاج کے سامنے تھی۔۔

بلاج نے پیچھے سے اسکی ویسٹ پر اپنا ہاتھ رکھ کہ اسکی گردن سے بال پیچھے کئیے تھے۔۔

"جانےمن پھر تو مجھے مارنے کی خواہش خواہش رہ جائے گی تمہاری۔۔۔"

اسکے ہونٹ جیسے ہی بریرہ کو اپنی گردن پر محسوس ہوئے تھے اس کی سانسیں بند ہوئیں تھیں اب۔۔۔

۔

"میری خواہشیں میری ضد ہیں بلاج حمدانی۔۔اور ضد پوری کرکے رہتی ہے پشمینہ شیخ۔۔"

وہ ایک جھٹکے سے مڑی تھی وہ دونوں اتنے قریب تھے بلاج کا چہرہ اسکی طرف جھکا تھا۔۔۔

پر جیسے ہی بلاج نے اپنی آنکھیں بند کی تھی بریرہ کی ہنسی گونجی تھی پورے کمرے میں۔۔

"تم نے کہا تھا تم اس شادی کو ہونے نہیں دو گے۔۔میں نے کہا تھا یہ شادی ہوگی۔۔اب بتاؤ تم اپنی زبان کے پکے ہو یا میں۔۔؟

تم نے نیچے اپنی بیوی کو کہا تم اس سے محبت کرتے ہو۔۔۔اور یہاں تم میرے ایک لمس کے لیے تڑپ رہے ہو۔۔تمہارے تیز دھڑکنے بلاج حمدانی۔۔۔"

بلاج کی آنکھوں میں ایک غصہ آیا تھا اچانک سے اس نے بریرہ کو اپنی طرف کھینچا تھا۔۔

"یہ شادی تو پھر بھی نہیں ہوگی۔۔۔اور تمہاری موجود میں میری دھڑکنے کب تیز نہیں ہوئی بریرہ بلاج حمدانی۔۔؟؟"

بلاج کی بات پر بریرہ کی آنکھیں اسکی آنکھوں میں تھیں۔۔

"ہاں تڑپ رہا ہوں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں کوئی گناہ ہے کیا اپنی بیوی کو اپنی بانہوں میں بھرنا اسے پیار کرنا۔۔؟"

بلاج نےاپنا چہرہ اور قریب کیا تھا اور بریرہ کی شاکڈ سٹیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اسکے ہونٹوں پر بوسہ لیا تھا

"کیا ہوا بریرہ بلاج حمدانی۔۔۔"

"تم پھر سے وہی غلطی کر رہے ہو۔۔۔ابھی ابھی اپنی بیوی کے ساتھ تم نے بےوفائی کی۔۔۔اور اب مجھے بریرہ کہہ کر خود کو جسٹیفائی کر رہے ہو۔۔

تمہاری حقیقت میں نہیں ہوں بلاج حمدانی یہ تصویر ہے۔۔ اپنی بیوی کے سامنے جانے سے پہلے یہ لپسٹک کے نشان صاف ضرور کرلینا۔۔۔"۔


وہ وہاں سے چلی گئی تھی باہر اور دیوار کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔

"یا وہ اپارٹمنٹ کا بیڈروم ہو یا یہ کمرہ بلاج۔۔تم تو ہر جگہ ہر محبت کرنے والے کے ساتھ بےوفا نکلے ہو۔۔۔نا بھرم یہاں رکھا تم نے۔۔کہ جو پریگننٹ ہے اور زندہ ہے۔۔۔تمہاری بیوی مدیحہ۔۔۔

نا مان تم نے اس عورت کا رکھا جس کے بیڈروم میں تم نے کسی اور کو لے جا کر ذلیل کردیا اسکی یادوں کو۔۔ تم سچ میں بےوفا ہو۔۔۔بہت بڑے بےوفا ہو۔۔"

۔

                                  "بےوفائی کہ سب کتابوں میں

                                     تیرے جیسی کوئی مثال نہیں۔۔۔۔"

جاری ہے  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Bewafa Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Bewafa  written by  Sidra Sheikh. Bewafa  by Sidra  Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment