Pages

Thursday 9 May 2024

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Novel

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Episode  1 to 5 Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Novel

Novel Name: Bewafa  

Writer Name:  Sidra Sheikh

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"ایم سوووو سوری سر۔۔۔۔شٹ شٹ آپ کی شرٹ خراب ہوگئی "

وہ گرم کافی اسکے ہاتھ میں بھی گری تھی

"وٹ دا ہیل۔۔۔تم دیکھ کر نہیں چل سکتی۔۔۔"

"ایم سوو سوری نا پلیز چپ رہیں میں صاف کر رہی ہوں "

اس نے جلدی سے ٹیبل سے ٹشو اٹھائے تھے اور شرٹ صاف کرنا شروع کر دی تھی کب پریشانی میں شرٹ کو صاف کرتے کرتے اسکے ہاتھ بلاج حمدانی کی بلٹ کو چھو گئے اسے پتا نہیں چلا پر بلاج حمدانی کی دھڑکن رک گئی تھی اچانک سے۔۔۔

"پاگل لڑکی کھڑی ہوجاؤ کیا حرکت ہے یہ بریرہ۔۔۔؟؟ دیکھ رہے سب کیا لائیو شو دے رہی ہو بیوقوف لڑکی۔۔۔"

بریرہ کی دوست نے ایک جھٹکے سے بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھا لیا تھا

"عینی دراصل مجھ سے کافی گر گئی انکی شرٹ پر وہ صاٖف کر رہی تھی۔۔۔"

بریرہ نے اپنی آئی گلاسیز ٹھیک کر کے لگائی تھی

"شرٹ پر گری تھی تمہارے ہاتھ  کہاں تک پہنچ گئے تھے تمہیں اندازہ ہے۔۔۔؟؟؟"

اور پھر بریرہ کی نظریں شرٹ سے نیچے گئی تھیں اور پھر اسکا منہ کھل گیا تھا جب پاس ایک کراؤڈ بن گیا تھا اور ہنستے ہوئے ہوٹنگ کرتے ہوئے لوگ وہاں سے چلے گئے تھے

بریرہ نے گلاسیز اتار کر جب دیکھا تو اسکی دھڑکنے رکی تھی ہینڈسم ہنک کو اپنے سامنے دیکھ کر جسے وہ ابھی تک ٹی وی پر دیکھتی آئی تھی

"وہ۔۔۔دراصل میری گلاسیز کی وجہ سے مجھے نظر نہیں آتا۔۔ میں تو شرٹ صاف کر رہی تھی۔۔"

اس نے شرمندگی کے مارے جھوٹ بول دیا 

"او مائی گوڈ۔۔ایم سوووو سوری۔۔۔۔۔۔۔۔"

بریرہ شرم کے مارے اور اونچی بولی تھی بلاج حمدانی نے اب کے اپنی بلیک گلاسیز اتار کر اس لڑکی کی آنکھوں میں دیکھا تھا جس کی ڈریسنگ لڑکیوں جیسی تھی ہی جس نے شرٹ بھی باربی کارٹون والی پہنی ہوئی تھی آنکھوں سے بڑے گلاسیز لگائے ہوئے تھے

"اِٹس اوے کڈ "

"کڈ۔۔۔؟؟ تمہیں میں کڈ لگتی ہوں مسٹر۔۔؟؟"

بریرہ پیچھے سے چلائی تھی جب بلاج نے وہاں سے آگے قدم بڑھائے تھے

"تو کیا نہیں ہو کڈ۔۔؟؟ ورنہ کون ایسے کارٹونز شرٹ اور اتنی گرمی میں ایسے کمبل جیسے کپڑے پہن کر گھومتا ہے۔۔؟؟" 

بریرہ کی دوست کے قہقوں سے بریرہ کا پارا ہائی ہوگیا تھا۔۔۔

"ابھی دیکھاتی ہوں۔۔۔اس نے غصے اباقی کی  کافی نیچے پھینک دی تھی اور اپنا کوٹ اتار کر پھینک دیا تھا جس کے نیچے اسکی ڈریسنگ بہت ایکسپینسو تھی جینز کے نیچے لونگ بوٹ دیکھ کر بلاج کا منہ کھلا رہ گیا تھا پر جب پیچھے سے ہوٹننگ اور سیٹی کی آواز آئی تو بریرہ نے جلدی سے کوٹ پہن لیا تھا اور بلاج کے کچھ پاس گئی تھی۔۔۔

"ایم سوری۔۔۔پر مجھے یہ کڈ لفظ زہر لگتا ہے ہر کسی کو میں کڈ کیوں لگتی ہوں آج یہ ڈریسنگ کرنے کے بعد بھی۔۔۔

عینی میں کہہ رہی تھی نا بیڈ آئیڈیا ہے لک چینج کرنے سے بھی سب نے کڈ ہی کہنا تھا مجھے۔۔۔"

اس نے پہلے بلاج اور پھر اپنی دوست عینی کو بچوں کی طرح شکایت کی تھی۔۔۔

اسے نہیں پتا تھا اسکی معصومیت نے بلاج حمدانی کے کے پتھر دل کی دھڑکنے شروع کردی تھی

"کون تھی یہ بلا۔۔۔؟؟""

 بلاج نے اپنے گارڈ سے پوچھا تھا بریرہ کی طرف دیکھتے ہوئے جو بلکل بچوں کی طرح پاؤں پٹک کر بیٹھ گئی تھی اپنی گاڑی میں عینی کے ساتھ

"دشمن کی بیٹی۔۔۔"

اتنی سی بات پر بلاج کے چہرے سے مسکان چلی گئی تھی اور ایک نفرت چھا گئی تھی ایک شیطانی ہنسی کے ساتھ

"اوووہ تو یہ ہے وہ لاڈلی جسے ان لوگوں نے پاکستان بھیجا ہوا تھا سب کی نظروں سے بچا کر۔۔۔

یہاں تو شکار خود شکاری کے پاس آگیا ۔۔۔۔داد جی اس بار ہمارے خاندان کے سارے حساب ایک ساتھ چکتا کروں گا شاہ خاندان کے ساتھ۔۔۔"

بلاج کی باتوں نے اسکے گارڈز کے چہروں پر بھی ایک خوشی لا دی تھی۔۔۔

یہی چیزتو کوٹ کوٹ کر بھری تھی نفرت اور بدلہ

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"یہ دو مافیا خاندان آج ایک میز پر۔۔۔؟ ہاؤز  اِٹ پوسیبل۔۔۔؟؟"

گرینڈ میٹنگ روم پوش ٹیبل ایریا اور ان کرسیوں پر صرف دو خاندان کے مرد تھے اور پیچھے ان کے گارڈز کسی ایک کی طرف سے ہلکی سی غلطی اور یہ جگہ کو میدان جنگ بننے میں ایک لمحہ نہیں لگے گا پر ٹینشن اس وقت ختم ہوئی تھی جب ان دونو ں کو یہاں دعوت دینے والا شخص خود وہاں داخل ہوا تھا

اس شہر کے ٹاپ بزنس مین ہونے کے باوجود بھی ان کے آنے پر کمرے میں بیٹھا کوئی بھی فرد انکی عزت میں اپنی جگہ سے کھڑا نہیں ہوا تھا۔۔۔الٹا انکی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بلاج حمدانی شیر کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا انہیں

"کم سے کم میری کرسی تو نا چھینو مافیا کے لوگوں۔۔۔؟؟؟"

انہیں نے پھر سے مذاق کیا تھا بلاج کے ایک اشارے پر ایک گارڈ نے کرسی آگے کی تھی

"ہم یہاں تمہارے فضول لطیفے سننے کے لیے نہیں آئے ارشد کیوں بلایا ہمیں وہ بتاؤ۔۔۔"

وجیح شاہ نے بہت آرام سے پوچھا تھا۔۔۔

"وجیح اتنے سالوں کے بعد پرانے دوست سے ایسے ملو گے۔۔۔؟؟ یار گلے نہیں ملے گا۔۔؟؟"

"ایک قدم میرے بابا سائیں کی طرف بڑھاؤ اور یہ قدم سلامت نہیں چھوڑوں گا۔۔۔"

وجیح شاہ کے بڑے بیٹے نے اونچی آواز میں کہا تھا

"ہمت ہے تو ہاتھ لگا کر دکھا ارسل شاہ ہاتھ کاٹ کر رکھ دوں گا۔۔"

"تجھ میں اتنی ہمت ہے تو کاٹ میرے ہاتھ بلاج حمدانی چوڑیاں نہیں پہنی ہمارے خاندان کے مردوں نے۔۔۔"

۔

کچھ منٹ میں دونوں خاندان کے مرد اور ان کے گارڈز کے اسلحے ایک دوسرے کے سامنے تھے

"یہ کوئی حل نہیں ہے وجیح۔۔۔داد جی کیوں نہیں آئے یہاں۔۔؟ میں نے ایک ضروری مسئلے کے لیے بلایا تھا یہاں ۔۔اگر تم دونوں ایسے لڑتے مرتے رہے تو رشئین مافیا کو دیر نہیں لگے گی تم دونوں کا نام و نشان مٹانے میں۔۔۔بدتمیز لوگ۔۔۔جاہل لوگ۔۔۔"

اور وہ جو اسلحہ ایک دوسرے کے سامنے تھا وہ سب نے غصے سے ارشد چوہدری کی کن پٹی پر تان دیا تھا جن کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔۔۔

"یو نو وٹ وجیح   شاہ اینڈ یو زمرد حمدانی گو ٹو ہیل۔۔۔اتنی گندی اولاد لڑو اور مرو۔۔۔

اگر میرے آفس کا فرنیچر خراب کر کے کوئی بھی بنا پیسے دئیے دفعہ ہوا تو دیکھ لوں گا ۔۔"

ارشد صاحب چلے گئے تھے وہاں سے۔۔۔

"ہاہاہاہاہا یہ کبھی نہیں سدھرے گا"

زمرد صاحب کی ہنسی نے وجیح شاہ کو بھی قہقہ لگانے پر مجبور کردیا تھا

"ہاہاہاہاہا ڈرفوک کیسے بھاگ گیا اب۔۔۔چوہا تھا ہمیشہ۔۔۔"

وجیح شاہ نے اور ہنستے ہوئے زمرد کو دیکھا تھا۔۔۔

انکے گارڈز اور ان کے لڑکے حیران تھے۔۔۔اور آہستہ آہستہ دونوں طرف کے نئے نئے جوان مردوں نے غصہ پاس پڑے فرنیچر پر اتارنا شروع کردیا تھا وجیح اور زمرد کے چہرے پیلے جیسے ہوگئے تھے وہی غصہ وہی نفرت اور وہی دشمنی

"جب کوئی میٹنگ ہے ہی نہیں تو کیسا میٹنگ روم۔۔۔؟؟ ٹائم ویسٹ کیا باسٹرڈ۔۔۔"

بلاج نے کرسی کو کک مار کے ونڈو کا شیشہ توڑ دیا تھا اور جاتے جاتے وجیح شاہ کے بڑے بیٹے کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔

"دوبارہ آنکھ اٹھا کر مجھے دیکھا تو وہاں چوٹ دوں گا کہ تو اور تیرا خاندان یاد رکھے گا۔۔۔"

بلاج حمدانی اپنی بلیک گلاسیز لگا کر وہاں سے چلا گیا تھا

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ سال بعد۔۔۔۔"

۔

۔

"مت جاؤ بلاج پلیز۔۔۔"

"میری میٹنگ ہے بہت ضروری بریرہ میری جان جلدی آجاؤ ں گا۔۔۔"

"میرا دل گھبرا رہا ہے مت جاؤ۔۔۔"

بریرہ نے بلاج کا ہاتھ پکڑ کر پھر سے بیڈ پر کھینچ لیا تھا

"تمہیں تو بخار ہورہا ہے۔۔۔تم کیوں آپنی صحت کو لے کر اتنی لاپرواہ ہو ۔۔؟؟"

بلاج نے جیسے ہی بوسہ لینے کے لیے بریرہ کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے تھے اسے اسی وقت پتا چل گیا تھا

"تو اسکا مطلب نہیں جا رہے۔۔؟؟"

نہیں جا رہا۔۔۔"

بلاج نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا تھا اور ٹائی بھی اتار دی تھی۔۔۔

"ناؤ کم ہیئر سر دبا دوں تمہارا پھر ڈاکٹر کے چلیں گے کل چکر بھی آرہے تھے تمہیں۔۔۔"

بریرہ نے بلاج کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔۔

"بریرہ۔۔۔میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔"

"شش۔۔۔میں کچھ باتیں کر رہی ہوں تمہارے دل سے شکایت کر رہی ہوں تمہاری۔۔۔"

بریرہ نے بلاج کے دل پر بوسہ دے کر آنکھیں بند کر لی تھیں

"اب بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔؟ میرے زرا سا دور جانے پر رونا شروع کر دیتی ہو۔۔؟؟"

اسے جب اپنی شرٹ پر نمی محسوس ہوئی تھی اس نے بریرہ کے ماتھے پر بوسہ دے کر اسے اپنے اور پاس کر لیا تھا اور پھر بہت پیار سے پوچھا تھا

"یہ دن ہیں پیار ہیریے۔۔۔جو ساتھ ہم نے جی لیے۔۔۔۔

جانا نہیں منہ موڑ کے۔۔۔۔اکھیوں میں پانی چھوڑ کے۔۔۔"

۔

بریرہ۔۔۔"

"بلاج جس دن تمہیں کچھ ہوا اس سے اگلا سانس بریرہ شاہ نہیں لے گی۔۔۔۔"

بریرہ نے اسکی شرٹ کو بہت مظبوطی سے پکڑ کر کہا تھا

"بریرہ شاہ نہیں بریرہ بلاج حمدانی۔۔بیوی کیوں بھول جاتی ہوتم اب میری شریک حیات ہو۔۔"

بلاج نے اسکا چہرہ اپنے چہرے کے اور قریب تھا

"جی جسے آپ اپنی حیات میں شریک نہیں کر رہے۔۔۔ایک سال شادی کو ہوگیا ہے اور ہم ایسے ہی چھپ چھپ کر مل رہے ہیں بلاج حمدانی۔۔۔"

اس نے بلاج کے سینے سے سر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔

"بہت جلدی میری جان۔۔ایک سرپرائز دوں گا۔۔۔بہت سرپرائیزڈ ہوجاؤ گی اور پھر نوبت بھی نہیں آئے گی کسی کو بتانے کی۔۔۔"

اس نے آنکھ ماری تھی جس پر وہ پیچھے سر کر کے بہت ہنسی تھی

"کہیں سچ میں سرپرائزڈ نا کردیا کیونکہ میں بھی اس بار بہت بڑے سرپرائز کی پلاننگ کر کے بیٹھی ہوں۔۔۔"

بلاج کے ناک پر بوسہ دیتے ہوئے وہ اور ہنسی تھی 

"اچھا۔۔جی ابھی نہیں بتا سکتی کیا۔۔؟؟ میں تو۔۔۔"

وہ بات کرتے کرتے رک گیا تھا جب بریرہ کی انگلیاں بلاج کے ہونٹوں سے ہو کر اسکی آنکھوں تک گئی تھیں۔۔۔

"آپ بولتے بولتے رک کیوں گئے بلاج حمدانی۔۔؟"

اس نے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا تھا

"تم جس طرح سے مجھے سیڈیوس کر رہی ہو نا بریرہ بلاج حمدانی آئی ونٹ بی جینٹل۔۔۔"

"ہاہاہاہا مجھے جینٹل بلاج حمدانی پسند بھی نہیں ہے۔۔۔میرے مافیا ہنک"

بلاج نے اسکے دونوں ہاتھ بیڈ پر پن کردئیے تھے

"سوچ لو بریرہ بلاج۔۔۔"

وہ جتنا اسے ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا وہ اتنا ہی اسے ٹئیز کر رہی تھی

"اب کیسے سوچ سکتی ہوں۔۔؟؟ ایک سال پہلے بتا دینا تھا نا مافیا گینگ کے لیڈر ہو۔۔

اب تو ایک سال لیٹ ہوں سوچنے میں۔۔۔"

اس نے اپنے دونوں ہاتھ بلاج کی گرفت سے چھڑا کر بلاج کہ گردن پر رکھ کر اپنی طرف کھینچا تھا اسے۔۔

"کڈو۔۔۔"

"ڈونٹ۔۔ بلاج۔۔۔کڈ بہیں بولنا۔۔۔"

"ہاہاہاہا کڈ بولوں گا تم کڈ ہو میری نظر میں کڈو۔۔۔"

"اور اس بار اسکے ہاتھ پن کئیے تھے بریرہ نے بیڈ سے بلاج کی ہنسی بھی رک گئی تھی وہ اتنا شوکڈ تھا

"سووو۔۔۔ مسٹر۔۔۔مافیا۔۔۔"

اس نے چہرہ اور پاس کیا تھا بلاج کے 

"تمہیں پتا ہے مجھے بلاج حمدانی تم کب زیادہ پسند آتے ہو۔۔؟؟"

بلاج کی آواز بند سی ہوگئی تھی جب بریرہ نے اس کے ہونٹوں کے بلکل پاس بوسہ دیا تھا اسے

"جب تمہاری دھڑکنے تیز ہوتی ہے اور پھر تھم جاتی ہیں اور پھر چلتی ہیں میرے چھو جانے پر۔۔"

بریرہ نے اپنے ہاتھ اسکے دل پر رکھ کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا اور بلاج کی دل ویسے ہیں چل رہا تھا جیسے وہ بتا رہی تھی کبھی دھڑکن تیز ہورہی تھی اور کبھی تھم رہی تھی

"تمہارے دل سے وعدہ لے رہی تھی کہ میرے لیے دھڑکے گا ایسے ہی تو میں بھی ساتھ نبھانے کا وعدہ کروں گی۔۔۔"

بریرہ کی آنکھوں میں ایک مایوسی چھا گئی تھی بات کرتے کرتے

"تو کیا کہا میرے دل نے۔۔۔؟؟"

اس نے سرگوشی کی

"تمہارا دل کچھ نہیں بولا۔۔۔بہت وفادار ہے تمہارے ساتھ۔۔۔"

"ہاہاہا اسے وقت لگے گا بریرہ جی۔۔۔"

وہ ہنس دیا تھا بہت زیادہ۔۔۔

"وقت ہی تو نہیں ہے بلاج۔۔۔"

اس نے آہستہ سے کہہ کر بلاج کے سینے پر پھر سے سر رکھ دیا تھا۔۔

کل ڈاکٹر کے ساتھ آپائنٹمنٹ سے وہ بہت ڈر گئی تھی

۔

۔

"مس بریرہ اس پریگننسی میں آپ کی جان بھی جا سکتی ہے میں آپ کو وہی آپشن دوں گی آپ ابورٹ۔۔۔"

"پلیز ڈاکٹر۔۔۔۔میں ہمارے پیار ک نشانی کو اس دنیا میں لانا چاہتی ہوں چاہے میری جان چلی جائے میرے شوہر کو میں ایک بار تو سرپرائزڈ کرنا چاہتی ہوں۔۔۔"

۔

۔

"بریرہ۔۔۔۔ میرے دل میں تمہاری حکومت رہے گی اب اداس نہیں ہو نا پلیز۔۔۔"

"وہ تو وقت بتائے گا بلاج حمدانی۔۔۔پر میرے دل پر آپ کا نام نقش کردیا ہے میں۔۔

اور جب تک میرے دل سے یہ نقش نہیں مٹ جاتا تب تک تمہارے دل میں بھی کسی اور کو آنے نہیں دوں گی۔۔۔"

اسکے لہجے میں ایک غصہ سا آگیا تھا

"ہاہاہاہاہا اور میری پوزیسسیو بیوی۔۔۔اگر کوئی آگئی تو۔۔؟؟"

"ہاہاہاہاہا کسی کو لیکر تو آؤ بلاج حمدانی میری ٹکر کی تمہیں مل جائے پر میرے جیسی پیار کرنے والی ڈھونڈتے رہ جاؤ گے۔۔۔وہ تو میرا دل آگیا تم پر بلاج حمدانی۔۔۔؎

ورنہ اپنا آپ تو اپنے ہاتھ پر بھی لے کر گھومتے تب بھی گھاس نا ڈالتی تھی۔۔۔ ہمارے خاندانی دشمن۔۔۔ہاہاہا۔۔۔"

بریرہ بلاج کے شوکڈ چہرے کو دیکھ کر بہت کھلکھلا کر ہنسی تھی

"ہاہاہاہا ابھی بتاتا ہوں۔۔۔"

اس نے پھر موقع نہیں دیا تھا بریرہ کو کچھ بھی بولنے کا۔۔۔"

دونوں کی محبت گونجی تھیہ اس کمرے میں انکا پیار جس کا گوہ تھا یہ انکا چھوٹا سا پارٹمنٹ اور ی بیڈروم۔۔۔

یہ انکی محبت کی آخری یاد تھ۔۔۔یہ آخری لمس تھے وہ جو محسوس کر رہے تھے۔۔۔

بریرہ شاہ۔۔۔

اسے کیا تھا تھا پھر بیووفائیوں کا راج شروع ہوجانا تھا یہاں۔۔۔

اور دنیا نے دیکھنا تھا محبت کو رنگ بدلتے اور معصومیت کو شیطانیت کی سولی چڑھتے 

"بریرہ تم سچ میں آج انکل کو سب بتا دوں گی۔۔؟؟ کاشان بھائی ارسل بھائی مار دیں گے تمہیں"

"ارسل بھائی سے ڈر لگ رہا پر بابا سائی اور کاشان بھیا نووو وے۔۔۔ بہت خوش ہوں گے جب بتاؤں گی کہ وہ نانا بننے والے ہیں۔۔۔"

بریرہ نے آئس کریم جلدی جلدی ختم کر لی تھی

"بریرہ رک جاؤ پلیز۔۔۔اوکے۔۔ایسا کرتے ہیں ہم پہلے بلاج حمدانی سے بات کرتے ہیں ہم۔۔؟ فون کر کے بلا لو انہیں یہاں۔۔۔"

اس کیفے کے شور شرابے میں بھی بریرہ کو صاف سنائی دے رہی تھیں عینی کی باتیں پر وہ اگنور کر کے اٹھ گئی تھی کرسی سے

"بلاج یہاں نہیں ہے آؤٹ آف کنٹری گئے ہوئے ہیں یار سمجھا کرو میں بلاج کو سرپرائزڈ کرنا چاہتی ہوں۔۔کتنا مزہ آئے گا یہ آنےوالی زندگی دو خاندانوں کی سالوں پرانی دشمنی ختم کر دے گی عینی۔۔۔۔"

اسکے لفظوں میں جو خوشی  محسوس ہورہی تھی عینی کو ڈر تھا اس خوشی کے چھن جانے سے

"تم اپنی کوشش کر لو بریرہ کوشش کر لو اور پھر اس کوشش کے ناکام ہونے پر پچھتانا نہیں 

کیونکہ کوشش کرتے وقت خود کو اتنا مظبوط کر لینا چاہیے کہ اس کی ناکامی پر دل نا ٹوٹے بھرم نا ٹوٹے۔۔۔تم نا بکھرو اور تمہارے خواب نا چکنا چور ہوں۔۔۔

تم کوشش کرو اور میں دعا کروں گی تمہاری کامیابی کی۔۔پر جو تم کرنے جا رہی ہو وہ  ہے  

وہ دعوت ہے۔۔۔ایک ایسی دعوت جو جگا دے گی تمہارے خاندان کے تمام مردوں کی غیرت

اور راکھ ہوجاؤ گی تم اور تمہاری خوشیاں۔۔۔"

بریرہ کے چہرے سے رنگ اڑ سے گئے تھے اپنی دوست کی باتوں میں اتنی وحشت محسوس کر کے

"عینی ڈرا رہی ہو یا بھگا رہی ہو۔۔؟؟ ہاہاہا نائس جوک۔۔۔میری فیملی کی جان ہوں میں خاص کر بابا سائیں کی۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"اور آپ نے کمشنر کی بات برداشت کر لی۔۔؟؟ وجیح شاہ کی جرات کیسے ہوئی داد جی۔۔۔

آج اس خاندان کا نام و نشان مٹا دوں گا میں میڈیا سے۔۔۔آپ کی بدنامی کی ان لوگوں نے۔۔۔"

وہ دندناتے ہوئے اس بڑے سے پیلیس سے کچھ خاغذات کے ساتھ چلا گیا تھا

"زمرد۔۔۔زمرد۔۔۔شہاب۔۔۔زاہد۔۔۔"

داد جی نے اپنے تمام بیٹوں کے نام اونچی آواز میں پُکارے تھے اور سب اپنے اپنے کام کاج چھوڑ چھاڑ کر ایسے بھاگتے ہوئے نیچے آئے تھے

"بابا کیا ہوا۔۔؟؟"

"پیچھا کرو بلاج وجیح کے گھر گیا ہر۔۔۔جلدی۔۔۔ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے جلدی۔۔۔"

۔

اور ایک لمبی لائن سیکیوڑتی  کی گاڑیوں کی آگے پیچھے تھی انکے۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ہاہاہاہاہا تمہاری اتنی اوقات ہے بچے۔۔؟؟ کمشنر نے جو کہا بہت کم تھا اگلے الیکشن میں دیکھنا تم اور تمہارے خاندان منہ چھپاتے پھیرو گے۔۔۔"

بلاج نے ایک گارڈ کے  منہ پر ایک زوردار مکا مار کر اسے نیچے گرا دیا تھا اور وجیح حمدانی کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا

وہ جو لڑائی یہاں ڈرا دھمکا کر ختم کرنے آیا تھا اب وہ ہاتھا پائی تک جا پہنچی تھی اسکی طرف سے۔۔

"اس کرسی پر اس پراپرٹی پر میرے داد جی کا حق ہے اگر انکے سامنے گھٹنے نا ٹیکے تو آپ کی لاڈلی بیٹی کی ویڈیو ساری دنیا دیکھے گی وجیح شاہ۔۔۔"

اس محل نما گھر میں اس بدتمیز غرور سے بھرے شخص کی آواز گونج اٹھی تھی

"کیا بکواس کر رہے ہو ۔۔؟ بلاج حمدانی گردن سے پکڑ کر ماروں گا تجھے اگر تو نے میری بیٹی کا نام بھی لیا اپنی گندی زبان سے۔۔۔"

"کیوں یقین نہیں آرہا۔۔؟ دیکھاؤں وہ ثبوت ہمارے پئیشنیٹ لمحات۔۔۔میں اور تمہاری اکلوتی بیٹی کے۔۔؟؟"

"بلاج۔۔۔۔"

ایک آواز نے سرگوشی کی تھی دور دروازے پر کھڑے ہوکر۔۔۔

بلاج حمدانی کچھ پل کو تھم گیا تھا جیسے اسکا غصہ پر بریرہ کی آواز میں اتنا غصہ دیکھ کر وہ پھر سے واپس اسی رؤب میں لوٹ گیا تھا

"بلاج یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔؟ بابا سائیں سے پیچھے ہٹو۔۔۔"

"بریرہ۔۔؟؟ کیا کہا رہا ہے یہ گستاخ۔۔؟ تم تو اس سے نفرت کرتی آئی ہو بیٹا پھر کس ویڈیو کی بات کر رہا ہے۔۔۔"

بریرہ کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا والد کے سوال پر بےساختہ اسکی نظریں بلاج پر گئیں تھیں۔۔۔

"بلاج۔۔۔کونسی ویڈیو۔۔؟؟"

اسکی آواز اب کانپ ری تھی جو کبھی کسی کے سامنے نہیں کانپی تھی۔۔۔

"بابا سائیں یہ بکتا ہے ہماری بریرہ ایسا نہیں کرسکتی مجھے میری بہن پر پورا یقین ہے۔۔"

"ہاہاہاہا جانتا تھا۔۔۔ بریرہ۔۔۔انہیں بتاؤ نا کس طرح سے تم چھپ چھپ کر ملتی رہی ہو ہم سے۔۔۔ وہ راتیں جو میری بانہوں میں گزاری تم نے۔۔۔"

"۔۔۔ یو۔۔ف٭٭ یو۔۔ بلاج یو باسٹرڈ۔۔۔۔"

بریرہ آگے گئی تھی غصے سے اسکا ہاتھ اٹھ گیا تھا بلاج پر جو بلاج نے پکڑ لیا تھا

"یو آلریڈی ڈڈ۔۔۔ڈدنوٹ یو بےبی۔۔۔؟؟؟"

"بلاج نے وہ ہاتھ اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگایا تھا تو وجیح صاحب نے اسے گریبان سے پکڑ کر پیچھے کردیا تھا۔۔۔

بلاج کے ساتھ آئے سارے گن مین کی گنز وجیح صاحب پر تھیں اور انکے گارڈز کی بلاج پر

"اس ویڈیو میں میرا چہرہ تو چھپا ہوا ہے۔۔۔پر آپ کی بیٹی۔۔۔دیکھنا چاہیں گے وہ ویڈیو۔۔؟"

بلاج نے موبائل فون نکالا تھا اور وجیح صاحب کی سامنے کرنے کی کوشش کی تھی جو انہوں نے چھین کر توڑ دیا تھا

"بریرہ۔۔۔کیا بک رہا ہے یہ بے غیرت۔۔؟"

بریرہ نیچے دیکھنے لگی تھی۔۔۔

"بریرہ کیا پوچھ رہے ہیں بابا جواب دو۔۔۔"

بریرہ کی امی جو باقی گھر کی خواتین کے ساتھ پردے میں تھیں انہوں نے للکار کر بیٹی کو سچ بولنے کا حکم دیا تھا۔۔۔

"بریرہ بیٹا بس ایک بار کہہ دو یہ جھوٹا ہے میں اسے زندہ گاڑ دوں گا یہاں۔۔۔"

وجیح صاحب نے التجا کی تھی اپنی اکلوتی لاڈلی بیٹی کو۔۔"

"بریرہ بےبی سچ کیا ہے بتاؤ نا۔۔۔؟؟"

بلاج نے ایک بار پھر بریرہ کے گال پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی تھی

بلاج کی آنکھوں میں اسے آج وہ بلاج نظر نہیں آرہا تھ جو کچھ دن پہلے دیکھا تھا اس نے

"آئی ہیٹ یو بلاج۔۔۔"

اس نے غصے سے کہہ کر اپنے بابا کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔اسے پتا تھا آج سچ بولنے کے بعد واپسی نہیں ہوگی۔۔۔

وہ قصوروار تھی۔۔۔اس نے یقین کیا تھا یہ جانتے ہوئے کہ دونوں خاندانوں میں نسلوں سے دشمنیاں چلتی آرہی تھی۔۔۔پھر اس نے کیسے اتنے بڑے فریبی پر یقین کرلیا۔۔؟

وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں روئی تھی آج اسکی آنکھ بھیگ گئی تھی

"بریرہ۔۔۔"

"بابا سائیں۔۔یہ سچ ہے۔۔پر۔۔۔آئی ایم ہز لیگلی ویڈڈ وائف۔۔۔"

انہوں نے بریرہ کی پوری بات بھی نہیں سنی تھی اور چلا دئیے تھے

"بدزات لڑکی۔۔۔رکھیل بن گئی دشمن کی۔۔۔؟؟ اتنا گندا خون نکلا میرا۔۔۔؟؟"

"بس ایک اور لفظ نہیں وجیح۔۔۔"

بلاج کے داد جی اسکے والد کے ساتھ آگئے تھے۔۔۔ انکی ڈانٹ سے سب لوگ کانپ اٹھے تھے۔۔

"داد جی۔۔۔ آج یہ وجیح شاہ سب کے سامنے آپ سے معافی مانگے گا۔۔۔اور الیکشن میں بھی آپ ہی جیتے گئے۔۔۔آج انکی ہار کے ساتھ یہ دشمنی بھی ختم ہوجائے گی۔۔۔"

بلاج کی بات پر داد جی نے اسے ایک آنکھ گھورا تھا اور وجیح کی جانب بڑھے تھے

"وجیح۔۔۔"

"خبر دار۔۔۔۔اتنا گندا کھیل کھیلا۔۔۔؟ میری اپنی بیٹی کے ساتھ اتنا گندا کھیل کھیلا۔۔؟؟

وہ تو خود کو خاندانی ثابت نا کرپائی آپ تو بڑے تھے نا۔۔۔؟؟"

وجیح شاہ کی آواز میں بے یقینی تھی ایک گلہ تھا داد جی کے لیے۔۔انکی آواز جس طرح ہلکی ہوئی تھی پر وہ لمحے بھی کچھ پل کے تھے جب انہوں نے بلاج کی ویسٹ سے اسکی گن نکال کر بریرہ پر تان دی تھی۔۔۔

"بریرہ بہت غلط کیا تم نے۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔ "

انکی آنکھوں میں ایک دم سے ایک محبت ابھری تھی پر پھر نفرت بھر آئی تھی۔۔۔

"وجیح۔۔۔"

داد جی نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔۔۔

"سیاست میں شکست ہو تو شان جاتی ہے۔۔۔

جنگ میں شکست ہو تو جان جاتی ہے۔۔۔"

انہوں نے گن بریرہ کی جانب کردی تھی

"بابا۔۔۔ڈونٹ۔۔۔آئی ایم پریگننٹ۔۔۔"

بریرہ نے آنکھیں نیچی کرلی تھی

"ناجائز بچہ ۔۔؟؟ کبھی نہیں۔۔۔"

انکی گولی چلنے سے پہلے بریرہ کا بھائی اسکی ڈھال بن کر کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔

"کاشان بھیا۔۔۔"

بریرہ کو نیچے جھکنے کا موقع نہیں ملا تھا جب اسکے والد نے ایک بار پھر سے فائر کی تھی۔۔۔

اور بریرہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ نیچے گر گئی تھی۔۔۔

سب ساکن ہوگیا تھا۔۔۔

چیخ و پکار اس وقت شروع ہوئی تھی جب وجیح صاحب بھی نیچے گر گئے تھے گن پکڑے۔۔۔

افراتفری کا سماء تھا۔۔۔ وجیح صاحب کی فیملی اور گارڈز انہیں اور کاشان کو تو اٹھا کر لے گئے تھے

پر بریرہ وہیں پڑی تھی اسکی فیملی گھر کے لوگوں سے اسکی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔۔

"دونوں کی سانسیں چل رہیں ہیں۔۔۔ وقت پر ہسپتال لے جانے سے بچ جائیں گے ماں جی فکر نا کریں۔۔"

اس کا دل اب سکون میں تھا۔۔ اس نے اپنی اس چلتی بجھتی سانوں میں بھی اپنے رب سے دعا مانگی تھی۔۔

وہ رب جسے وہ بھول بیٹھی تھی۔۔۔

اسکی نظریں جب اس ظالم پر پڑی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے پاس بلایا تھا

جو اپنی جگہ سے ہلا نہیں تھا۔۔۔

"محبت میں شکست ہو تو جان جاتی ہے۔۔۔۔

اس نے بہت آہستہ سے کہا تھا۔۔۔اسکی انگلیوں پر لگا خوں بلاج کے رخصار پر لگ گیا تھا

"بلاج اسے جلدی ہسپتال۔۔۔"

عمر ردسید بزرگ بلاج جے دادا جی نے جیسے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے کسی دوسری دنیا سے باہر نکالا تھا۔۔۔

بلاج کی نظریں کبھی اس لڑکی پر تھی جس کی معصومیت کا فائدہ اٹھایا اس نے اور کبھی اس کے پیٹ پر جہاں۔۔۔

"بلاج اٹھاؤ اسے۔۔۔"

"ڈونٹ ٹچ مئ۔۔۔"

پر بریرہ نے جھٹک دیا تھا داد جی کا ہاتھ۔۔اور اپنے خون سے لت پت ہاتھوں سے بلاج کا کالر پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔

"بلاج حمدانی۔۔۔میں واپس ضرور آؤں گی۔۔۔سود سمیت حساب لوں گی۔۔۔

بریر،،،" اسکا سانس اٹک گیا تھا پر اسکی آنکھوں میں موت نہیں ایک نئی زندگی تھی

"بریرہ شاہ کا وعدہ ہے یہ بلاج حمدانی اس بار یہ دشمنی تمہاری سانسوں پر ختم ہوگی۔۔۔"

اور اسکی آنکھیں بند ہوگئیں تھیں۔۔۔۔۔

۔

"بلاج اٹھاؤ اسے۔۔۔"

بلاج حمدانی آگے جھکا تھا۔۔۔اور اسے نئی نویلی دلہن کی طرح اپنی گود میں اٹھا لیا تھا

خون سے بلاج کی اپنی شرٹ بھی بھر گئی تھی۔۔۔ایمبولنس سائرن پولیس کی وین کا سائرن

اسکے سوچنے سمجھنے کی طاقت کو اور معاؤف کرچکا تھا

جب وہ سر بلاج کے کندھے پر گرا تو اسکی آنکھیں بند ہوئی تھی اور قدم تیز ہوئے تھے گاڑی تک پہنچنے کے لیے۔۔۔

۔

"بلاج جس دن تمہیں کچھ ہوا اس سے اگلا سانس بریرہ شاہ نہیں لے گی۔۔۔۔"

"بریرہ بلاج حمدانی ابھی زندہ ہے بلاج حمدانی تمہیں بھی زندہ رہنا ہے۔۔۔"

اس نے ایک سرگوشی کی تھی اور گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹا دیا تھا بریرہ کو۔۔۔

"بلاج جلدی چلو بیٹا۔۔۔"

زمرد حمدانی نے ڈرائیور کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا کہہ دیا تھا۔۔

"میرا کام یہیں تک تھا آپ اسے لے جائے۔۔۔ہسپتال۔۔۔مر جائے تو نیوز میں دے دیجئیے گا وجیح شاہ کا اب کوئی وارث زندہ نہیں رہا۔۔۔

اور اگر بچ جائے تو کسی یتیم خانے میں بھرتی کروا دینا کیونکہ یہ پراپرٹی اب اس خاندان کی نہیں ہے۔۔

میرے داد جی کی پراپرٹی ہتھیائی تھی اسی طرح واپس بھی آگئی۔۔۔"

اس نے گاڑی سے پیچھے منہ موڑ لیا تھا

"بلاج میں تمہیں آکر دیکھ لوں گا اس بار ساری حدیں توڑ دیں تم نے۔۔۔"

وہ بہت طیش میں کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئے تھے۔۔۔

۔

"بلاج حمدانی جا تسی رہے ہو تے جان ساڈی نکل رہی اے۔۔۔"

"ہاہاہا پنجابی کہاں سے سیکھی۔۔۔؟؟"

بلاج نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی برف کھینچا تھا

"پاکستان میں ہمارا گاؤں ہے گرمیوں کی چھٹیوں میں میں وہاں رہتی تھی بہت مزہ آتا تھا۔۔۔"

"ہممم۔۔۔۔اچھا اب جلدی سے ناشتہ دے دو آفس جانا ہے میڈم۔۔۔"

"وہ۔۔۔جل گیا۔۔۔"

بریرہ نے نہ نیچے کرلیا تھا شرمندگی سے۔۔۔

"آج پھر سے۔۔۔؟؟؟ یا اللہ پھر سے سارا سٹوک لانا پڑے گا۔۔۔ میری بیوی کو کھانا بنانا کب آئے گا۔۔۔"

اور کچھ ہی سیکنڈ میں بریرہ نے رونا شروع کردیا تھا جس سے بلاج بہت شوکڈ ہوگیا تھا

"اوے۔۔۔مذاق کر رہا تھا میری روندلو کڈ۔۔۔"

"بلاج۔۔۔"

اس نے بلاج کے کندھے پر مکا مارنے کی کوشش کی تھی جب نہیں لگا تو بلاج کے پیٹ پر مارنے کی کوشش کی تھی جس پر وہ قہقے لگا کر ہنسنا شروع ہوگیا تھا

"ہاہاہا لگا کوئی نہیں بس ہنسی آئی ہے میڈم۔۔۔چلو آج ساتھ ناشتہ بناتے ہیں۔۔۔"

"پر بلاج۔۔۔"

بلاج نہیں بنا وارننگ دئیے اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا تھا ور کچن کا رُخ کرلیا تھا

"باتیں ہی بچوں والی ہیں وزن دیکھا ہے۔۔؟؟"

وہ جاتے جاتے اسے اور چھیڑ رہا تھا

"بلاج۔۔۔ابھی بتاتی ہوں۔۔"

بریرہ نے پھر سے مکا مارنے کی کوشش کی تھی

"ہاہاہاہاہا۔۔۔کڈو۔۔۔۔"

کچھ ہی دیر  میں وہ دونوں مصروف ہوگئے تھے ناشتہ بنانے میں

"مسٹر ہوٹی۔۔۔ناک پر یہ جو لگا ہوا ہے اسے ہٹا لیں پلیز۔۔۔"

"کہاں۔۔۔؟؟"

بلاج نے باؤل میں تھوڑا اور پانی ڈال کر بریرہ کی طرف دیکھا تھا جو بڑے مزے سے کاؤنٹر پر بیٹھ کر بلاج کا کام کرتے دیکھ رہی تھی اور بار بار تنگ کر رہی تھی۔۔۔

۔

"یہاں۔۔۔یہاں آؤ گے تو بتاؤ گی نا۔۔۔"

کب اس نے زرا سا فلور لیکر بلاج کے گال پر گال صاف کرتے ہوئے لگا دیا اسے پتا نہیں چلا تھا

"جی اب صاف ہوگیا۔۔۔"

اور اس نے اپنا موبائل پکڑ کر چھپکے سے بلاج کی کچھ فوٹوز لے لی تھی اور جب اسے سے اپنی ہنسی نہیں کنٹرول نہیں ہوپائی تو وہ جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھ کے کچن سے باہر جانے لگی تھی اسی وقت بلاج نے اسکا ہاتھ پیچھے سے پکڑ لیا تھا اور اسی کاؤنٹر کے ساتھ اسے پن کردیا تھا

"میری منہ کی ڈیزائینگ کرکے اچھی خاصی فوٹوز لیکر میڈم اب کہاں منہ چھپا کر جا رہی۔۔؟؟"

بلاج دونوں سائیڈ پر کاؤنٹر پر ہاتھ رکھ کر اسکے اور قریب ہوا تھا

"وہ۔۔۔ہاہاہاہا بہت فنی لگ رہے۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔"

اسکی ہنسی تب رکی تھی جب بلاج نے اپنی گال اسکی گال کے ساتھ لگا کر بریرہ کی گال بھی اپنے جیسی کردی تھی۔۔۔

"اب سہی ہے۔۔۔بریرہ جی۔۔۔آپ کی ہنسی کیوں بند ہوگئی۔۔۔"

یہ کہتے ہوئے وہ اور قریب ہوا تھا اسکے۔۔۔جس پر اسکی سانسیں بند ہوئی تھیں

"بلاج۔۔۔"

"بریرہ۔۔۔۔"

اسکی تھوڑی پر اپنی انگلیاں رکھ کر بریرہ کا چہرہ اپنی طرف کیاتھا اس نے۔۔۔

"یہ واحد لمحات ہوتے ہیں جب ٹیں ٹیں کرنے والی بیوی چپ ہوجاتی ہے۔۔۔"

بلاج پیچھے ہوگیا تھا ہنستے ہوئے۔۔۔

"بلاج حمدانی۔۔۔۔"

بریرہ نے بلاج کی ٹائی سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا اور اب وہ کاؤنٹر کے ساتھ پن تھا۔۔۔

"بلاج حمدانی۔۔۔اور یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب اکڑو اور بیزی شوہر بیویوں کے انڈر کنٹرول ہوتے ہیں۔۔۔"

اس نے آنکھ مار کے بلاج کی ٹائی چھوڑ دی تھی

"ہاہاہاہا۔۔۔میں تو ہر وقت انڈر کنٹرول رہنے کو تیار ہوں تم کرنے والی بنو مجھے کنٹرول۔۔۔"

"ہاہاہاہا یہ میرا کنٹرول ہی تو ہے جو ایسے کاؤنٹر کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ابھی بھی میرا کنٹرول نہیں بلاج حمدانی۔۔۔؟؟"

اس نے بلاج کے ہونٹوں کے پاس بوسہ دیا تھا 

"سچ آ  ٹیز۔۔۔"

پر وہ وہاں سے بھاگ گئی تھی۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج حمدانی جا تسی رہے ہو تے جان ساڈی نکل رہی اے۔۔۔کسی دن جا میں رہی ہوں گی اور جان تمہاری نکل رہی ہوگی ۔۔۔"

اس نے واپس مڑ کر ان گاڑیوں کو دیکھا تھ۔۔۔

اس تیز بارش میں اس سڑک پر وہ خون بہہ گیا تھا اسکے کپڑے صاف ہوگئے تھے

"تمہیں میرے لیے اس خون جیسی تھی جسے بہنا تھا بریرہ شاہ۔۔۔

جو بہہ گیا۔۔۔"

۔

وہ وہاں سے چلا گیا تھا بلاج حمدانی بن کر۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

کچھ دن بعد۔۔۔۔

۔

۔

"وہ رکھیل تو بن سکتی تھی پر میری بیوی نہیں داد جی۔۔اس لیے دشمن کی بیٹی وہی بنی جس قابل وہ تھی۔۔۔میری "رکھیل"

داد جی نے اپنے پوتے کے ان الفاظ پر اپنے بیٹوں کی طرف دیکھا تھا

اس کمرے میں ایک بیٹھک لگی ہوئی تھی میر سکندر حمدانی کے نا صرف بیٹے موجود تھے بلکہ بیٹوں کے بیٹے بھی موجود تھےاور تشویش میں پڑ گئے تھے اس خاندان کی نئی نسل کی سوچ اور لفظوں کی اکاسی دیکھ کر حمدانی صاحب۔۔۔

"ہم آخری بار پوچھ رہے ہیں بلاج بریرہ شاہ تمہارے نکاح میں تھی یا نہیں۔۔؟

ہم نے اسکے آخری لفظ سن لئیے تھے۔۔۔اگر وہ نکاح میں تھی تو اس ہسپتال سے یہاں اس حویلی میں بہو کے روپ میں آئے گی۔۔۔"

"ہاہاہا داد جی۔۔۔نکاح۔۔؟ بہو۔۔؟؟ آپ کو کب سے دشمنوں کی عزت ع نفس کا احساس ہونے لگا۔۔؟ بلاج بھائی نہیں ٹھیک کہا۔۔

اور ویسے بھی اسکے باپ نے اسے جس جگہ مارا تھا نا وہاں سے وہ زندہ بچ کر نہیں آسکتی۔۔۔"

ایک اور رعب دار آواز اس کمرے میں گونج اٹھی تھی

جو بلاج کے چچا کے بیٹے کی تھی

"اسکے اس ناجائز بچے کی طرح۔۔۔ہاہا۔۔۔بلاج بھائی آگے سے دھیان رکھنا باہر کے عورتوں کے ساتھ تعلقات میں احتیاط برتنی چاہیے۔۔۔"

ان لوگوں نے ہنسی میں بات اڑا دی تھی بڑوں کی۔۔۔اور ان باتوں سے بلاج اس کرسی سے اٹھ گیا تھا جو داد جی کے تخت نما صوفہ کے سامنے پڑی تھی

"میں چلتا ہوں داد جی۔۔۔"

بلاج صرف دو قدم کے فاصلے پر تھا جب پیچھے سے ایک اور کزن کی آواز اسکے کانوں میں پڑی تھی۔۔

جو اس خاندان کا سب سے زیادہ عیاش اور بدتمیز مرد تھا۔۔۔

"بلاج بھائی وہ ویڈیو ہی شئیر کردیں۔۔ہم بھی تو دیکھیں وہ پردے میں نظرآنے والی دشمن کی بیٹی بستر کی سلوٹوں بھری شیٹ میں کیسے لگتی ہوگی ہم بھی تو نظارے کریں اسکے "

بلاج کی بند مٹھی جس طرح سے ضرب دے گئی تھی اپنے اس کزن کو وہ داد جی کے قدموں میں جا گرا تھا اور ساتھ اسکے منہ سے اسکے ٹوٹے ہوئے تین دانت۔۔۔۔

بلاج نے انگلی کا اشارہ کیا تھا اس کمرے میں موجود ہر اس کزن کی طرف اور جس طرح وہ اشارہ جس کی طرف جا رہا تھا ایک وارننگ کی صورت وہ اسی طرح قدم پیچھے کر گیا تھا اور جب نیچے اس کزن کی طرف نظڑ پڑی جسی کی کھانسی پر بھی منہ خون نکل رہا تھا وہ ڈر کے مارے اٹھ کر داد کی ٹانگ پکڑ کر بیٹھ گیا تھا

"ڈونٹ یو۔۔۔۔۔"

۔

بلاج وہاں سے کمرے کا دروازہ زور سے بند کر کے چلا گیا تھا

"اور یہ بکتا ہے کہ اس کا نکاح نہیں ہوا اس لڑکی سے۔۔۔ بلاج کسی غیر عورت کے لیے تو سب سن سکتا ہے پر گھر کی عورت اور عزت پر نہیں۔۔۔"

۔

داد جی کی بات پر اب سب اور فکر مند ہوگئے تھے وہ دشمن کی بیٹی تھی جس سے کوئی ہمدردی نہیں تھی کسی کو۔۔۔

اس خاندان کی ہر لڑائی باتوں سے شروع ہوکر خون خرابے پر ختم ہوئی تھی ہمیشہ سے۔۔۔اور اب بھی فرق کچھ زیادہ نہیں تھا۔۔۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

یہ نیو ہارک ہسپتال کا ایک پرائیویٹ وارڈ کا پرائیویٹ روم تھا جہاں  کچھ دن میں سیکیورٹی بہت کم سے کم ہوگئی تھی باوجود بلاج حمدانی کے سخت حکم کے یہاں کے گارڈز نے یہاں آنا چھوڑ دیا تھا اندر جو بستر مرگ پر تھی وہ دشمن کی بیٹی تھی بریرہ شاہ۔۔۔

۔

مانیٹر سکرین جیسے جیسے بیپ دینا شروع ہوگئی تھی ہرٹ بیٹ کی پاس سوئی ہوئی نرس بھی اٹھ گئی تھی

۔

"بہت جلدی میری جان۔۔ایک سرپرائز دوں گا۔۔۔بہت سرپرائیزڈ ہوجاؤ گی اور پھر نوبت بھی نہیں آئے گی کسی کو بتانے کی۔۔۔"

۔

"بلاج۔۔۔کونسی ویڈیو۔۔؟؟"

۔

"اس ویڈیو میں میرا چہرہ تو چھپا ہوا ہے۔۔۔پر آپ کی بیٹی۔۔۔دیکھنا چاہیں گے وہ ویڈیو۔۔؟"

"آئی ہیٹ یو بلاج۔۔۔"

اور وہ سکرین اور تیز ہوگئی تھی جب اسکے باپ کی باڈی کو اس نے خون میں لت پت زمین پر گرتے دیکھا تھا

۔

۔

"میم آپ نہیں جا سکتی۔۔۔گارڈ۔۔۔۔"

نرس سے جیسے ہی اس نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو باہر سے بلاج حمدانی کا گارڈ گن تانے اندر آگیا تھا۔۔

"مجھے جانا ہے یہاں سے پلیز۔۔۔"

"گارڈ تم اسکا ہاتھ پکڑو میں اسے انجیکشن لگاتی ہوں۔۔۔"

اسے بے دردی کے ساتھ پکڑا گیا تھا اور وہ بار بار ریکویسٹ کر رہی تھی

"ایک بار بلاج صاحب اجازت دے دیں اسے بھی یہیں مار دوں اور اسی جگہ دفنا دوں جہاں اسکا باپ اور بھائی دفن ہیں۔۔"

اس ایک بات نے اس کے اندر سے جان نکالنے کے بجائے اسکے جسم میں جان ڈال دی تھی۔

اس نے جس طاقت سے اس نرس کو پیچھے دھکا دیا تھا اس جس سپیڈ سے گن چھینی تھی اس گارڈ سے۔۔۔

"یو بچ۔۔۔"

اس گارڈ کے پاؤں پر ایک فائر سے وہ نیچے گرگیا تھا

"تو مجھے مار دیتا تو شاید تو اپنے بے غیرت باس کو بچانے میں کامیاب ہوجاتا "

وہ گارڈ درد سے کراہ رہا تھا کہ نرس کو باہر بھاگنے سے روک دیا تھا تھا اور اسی ایک کپڑۓے سے ہاتھ باندھ دئیے تھے۔۔۔

"اپنے اس باس سے کہنا میں واپس آؤں گی۔۔۔"

۔

جب اسکی چھاتی پر اسے کچھ گیلا گیلا محسوس ہوا تو اسے پتا چل گیا تھا اسکے ٹانکے کھل گئے ہیں نرس کا دوپٹہ اوڑھے اور روئی اپنے سینے پر دبائے کچھ دیر کو خون روکنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور اس ہسپتال سے کچھ دور جا کر کسی راہگیر سے موبائل فون لیکر اس نے ایک کال کی تھی

"ڈینیل۔۔۔نیویارک سٹی ہوسپٹل کی سٹاپ سے ریسیو کر لو مجھے۔۔۔"

"بریرہ۔۔از ڈیٹ یو۔۔؟؟ اوو مائی گاڈ۔۔۔ایم کمنگ۔۔ایم کمنگ۔۔۔"

ایک دیوار کے ساتھ سر لگا کر بیٹھ گئی تھی جس کا موبائل تھا اسے واپس دیکر۔۔۔

رات کی تاریکی اور سر پر جلتی ایک پیلی بتی اسے اسکی آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔۔اسے اتنا یاد تھا مشکل وقت میں جس دوست کو بلایا تھا وہ تو وقت سے پہلے اسکے سامنے تھا۔۔۔اسکی حالت دیکھ کر ہزار طرح کے سوال پوچھ رہا تھا پر اسے ہوش نہیں تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ تم نے یہاں آنے کی ضد کیوں کی گھر چلو۔۔۔"

"یہ کیسا فنکشن چل رہا ہے۔۔۔؟؟"

سڑک کے اس پار گاڑی کا سہارا لئیے وہ کھڑی دیکھ رہی تھی اس عالی شان جگمگاتے محل کو اور دوسری طرف ویران کھنڈڑ بنے اپنے گھر کو جو کبھی آباد تھا

"بلاج حمدانی کی منگنی ہے آج۔۔۔"

"کس سے۔۔۔"

اسکی آواز میں کچھ پل کو اداسی چھائی ضرور تھی

"اسکی چائلڈ ہوڈ محبت مدیحہ شہروز احمد مشہور انڈسٹریل کی بیٹی"

"شکار میں اب اور مزہ آئے گا کہ چوٹ وہاں پہنچاؤں گی جہاں لگے گی بھی اور دُکھے گی بھی"

"مطلب۔۔۔؟؟"

"مطلب یہ اس حویلی اور بلاج حمدانی کی زندگی کی آخری خوشی ہوگی۔۔۔"

۔

"چلو گھر چلیں بریرہ تمہارا بہت خون بہہ چکا ہے۔۔۔"

۔

پر اسے گھر نہیں جانا تھا اسے یہاں رہنا تھا۔۔۔دیکھنا تھا ان  لوگوں کی خوشیوں کو تاکہ اسکا خون خولے اور ابالے اٹھیں بدلہ لینے کے وہ ایک دلدل بنانا چاہتی تھی جس میں اس نے ڈبونا تھا بلاج حمدانی کے خاندان اور انکی خوشیوں کو

۔

کچھ دیر وہاں کھڑی رہنے کے بعد وہ زمین پر تھک کر بیٹھ گئی تھی خون بہنے سے ام کی انرجی جسم سے ختم ہونا شروع ہوگئی تھی

وہ اسی سڑک پر بیٹھ گئی تھی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر۔۔۔

ڈینیل جیسے ہی وہاں بیٹھا تھا بریرہ نے اسکے کندھے پر سر رکھ لیا تھا۔۔۔

۔

"دھوکہ دینے والا دھوکہ کھاجانے والے کو بیوقوف سمجھتا ہے کہ اور خود کو ہوشیار و چلاک

پر اسے نہیں پتا بڑا بیوقوف تو وہ خود بنا بیٹھا ہے۔۔۔

جیسے بلاج حمدانی۔۔۔ اس محل میں ہورہے اس جشن سے پتا چل رہا ہے کتنا خوش ہیں یہ لوگ دشمن کی بیٹی کو بیوقوف بنا کر فریب دی کر حاصل کی گئی جیت پر ایسے خوش ہورہے ہیں

پر انہیں نہیں پتا یہ انکی آخری خوشیاں ہے بس۔۔۔۔

پھر صف ماتم بچھے گی اس محل میں۔۔۔سوگ واروں میں بلاج حمدانی صف اول ہوگا 

بریرہ شاہ کا وعدہ ہے یہ۔۔۔"

"ہینڈ اپ۔۔۔۔"

کچھ گن مین نے جلدی سے بریرہ اور ڈینیل پر گن رکھ دی تھی

"جس کی شروعات آج سے ہوگی۔۔۔"

اس نے ایک گن چھین کر گارڈ سے ڈینیل کی طرف پھینکی تھی اور ایک فائر اس گارڈ کی ٹانگ پر کی تھی

یہ دوسری بار بریرہ شاہ نے کسی کو اپنے ہاتھوں نقصان پہنچایا تھا جو کھانا بناتے وقت ہاتھ جلا لیتی تھی

اب وہ دنیا کے ظالم لوگوں کو جلانے کے لیے نکل چکی تھی۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تم سمجھ نہیں آرہی۔۔؟ ہم پاکستان واپس جا رہے ہیں بریرہ سب ختم ہوگیا ہے یہاں

کوئی سلطنت نہیں رہی اب وجیح شاہ کی تمہاری فیملی کا نام و نشان مٹادیا گیا ہے۔۔"

۔

بریرہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے خاموشی کے ساتھ سن رہی تھی ڈینیل کی وائف کی باتیں جو اسکی بھی بہت اچھی دوست تھی۔۔۔

"کچھ ختم نہیں ہوا۔۔۔میں ختم کروں گی نام و نشان کیسے مٹائے جاتے ہیں میں بتاؤں گی ان لوگوں کو۔۔۔"

"خدا کا نام لو بریرہ۔۔تمہارا یہ دل۔۔۔اس دل سے ایک انچ کے فاصلے پر گولی لگی تھی تمہارا دل محفوظ رہا۔۔۔ ابھی بھی اس جسم پر ٹانکے ہیں زخم ہیں تمہارے دل کو اس جسم کو سکون چاہیے۔۔۔"

بریرہ نے اپنے سینے سے اپنے دل کی جگہ سے کپڑے کا وہ اتنا حصہ پھاڑ دیا تھا۔۔۔

اور زور سے ہاتھ لگایا تھا اس جگہ۔۔۔

"یہ دل اس وقت دھڑکنا بند کرے گا جب بلاج کی سانسیں بند ہوگی۔۔۔میرے جسم میں جب تک خون کا ایک قطرہ بھی ہے میں اپنی جنگ لڑوں گی۔۔۔۔"

بریرہ کی آنکھوں میں درد کی ایک جھلک نہیں تھی اسکے ٹانکوں سے خون نکل رہا تھا پر آنکھوں سے پانی نہیں اسی وقت سونم آگے بڑھی تھی اور بریرہ کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیا تھا

"بریرہ۔۔تھوڑا سا۔۔۔تھوڑا سا رو لو۔۔۔اپنے بچے کے مر جانے پر۔۔۔

اپنے باپ کے مر جانے پر۔۔۔جوان بھائی کے مرجانے پر رو لو بریرہ۔۔۔رو لو تھوڑا سا۔۔

انکی قبروں پر جاؤ۔۔۔وہاں جا کر ایک بار انکے سامنے رو لو تمہیں سکون مل جائے گا۔۔۔"

۔

بریرہ کی آنکھیں پر نم ہوگئیں تھیں اور اگلے ہی لمحے وہ پیچھ ہوگئی تھی سونم سے۔۔۔

"نہیں جاؤں گی کسی کی بھی قبر پر۔۔۔جب تک اس قبرستان میں ان قبروں کے ساتھ انکے دشمن زمین بوس نہیں ہوجاتے کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔

کسی کی قبر پر نہیں جاؤں گی۔۔۔"

اس کمرے کی ہر چیز توڑ دی تھی ہر ایک بات کرتے ہوئے۔۔۔

وہ کمری اسی طرح لگ رہا تھا جیسے وہ تھی بریرہ شاہ ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی۔۔۔

"سکون ہی تو نہیں چاہتی۔۔۔سکون مل گیا تو بدلے کی آگ ٹھنڈی ہوجائے گی۔۔اور میں جو اسے اپنے خون سے بھڑکا رہی ہوں اپنے سکون سے کیسے سہلا دوں۔۔

بلاج حمدانی اور اسکا خاندان۔۔۔ظلم کیا ہوتا ہے اور کسے ظالم کہتے ہیں یہ میں انہیں بتاؤں گی۔۔۔

بریرہ شاہ بتائے گی۔۔۔میرے آنسو تب تک نہیں انکی قبروں پر گریں گے جب تک دشمن نہیں گر جاتے ۔۔۔

پھر جی بھر کے رو لوں گی باپ کو بھی بھائی کو بھی۔۔۔

ابھی خود کو رونا ہے سونم۔۔۔

ایک بیٹی ایک غلطی کردے تو سات نسلیں خراب ہوجاتی ہیں جو کہ میں نے اپنی ایک غلطی سے کردی ہیں۔۔۔اس لیے ابھی خود کو رونا ہے پھر گھر والوں کو۔۔۔۔"

۔

"محبت اب انتقام لے گی۔۔۔۔بلاج حمدانی"

"بھول جانے کا ہنر،،، مجھ کو سیکھاتے جاؤ

جارہے ہو تو سبھی نقش مٹاتے جاؤ"

۔

بریرہ نے ٹیبل پر پڑے میگزین کو پکڑ کر چہرہ چھپا لیا تھا اپنا اور کچھ گارڈز کے پہرے میں بلاج حمدانی اپنی منگیتر کے ساتھ اسکے ٹیبل کے پاس سے گزر گیا تھا اور سامنے والی ٹیبل پر بیٹھ گیا تھا۔۔

پر بیٹھنے سے پہلے مدیحہ کے لیے کرسی پیچھے کھینچ کر اسے بیٹھایا تھا اس نے بہت پیار سے

"بلاج حمدانی۔۔۔"

اسکے آنسو اس کے سامنے پڑی اسکی کافی کے کپ میں گر رہے تھے

۔

"چلو،،،،  رسمن ہی سہی،،،مڑ کے مجھے دیکھ تو لو۔۔۔

توڑتے توڑتے تعلق کو،،،نبھاتے جاؤ۔۔۔"

۔

اس نے وہ کافی اٹھا کر پی لی تھی اور اپنی بلیک گلاسیز لگا کر اپنا چہرہ اس طرح سے جھکایا تھا کہ اسکے بالوں سے اسکا منہ کور ہوگیا تھا۔۔۔

وہ نظر رکھے ہوئے تھی اس جوڑے پر خاص کر اس شخص پر جس نے اسی کیفے میں اس سے اپنی چاہت کا اظہار کیا تھا۔۔۔

اور آج وہ اپنی پریگننٹ منگیتر کے ساتھ اپنی  محبت کے گیت گنگنارہا تھا آج یہاں۔۔۔

۔

۔

"اگر جان کی امان پاؤں تو میں یہاں بیٹھنے کی گستاخی کر سکتا ہوں مس بریرہ شاہ۔۔؟؟"

۔

ایک جانی پہچانی آواز سے بریرہ کی کافی اسکے منہ سے باہر آگئی تھی جو سیدھا اس شخص کی وائٹ شرٹ پر گری تھی۔۔۔

"وٹ دا اگئین۔۔۔؟؟؟"

بلاج کے لہجے میں ایک شرارت تھی

"پتا نہیں ہے کچھ ضروری پڑھ رہی تھی اب ایک دم تھے انجان جگہ پر میرا کوئی نام ایسے لے گا تو یہی ری ایکٹ ہوگا نا۔۔۔؟؟ مسٹر۔۔۔۔"

بریرہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے اسکی شرٹ صاف کرنا شروع کر دی تھی

۔

"انجان۔۔۔؟؟ تمہارے بابا سائیں کا علاقہ ہے سب تم سے ڈرنے والے اور تم ایسے ری ایکٹ کر رہی مس بریرہ شاہ۔۔۔"

بریرہ کے ہاتھ پکڑ لئے تھے بلاج نے۔۔۔اور تب اسے احساس ہوا تھا وہ کتنا قریب تھی اس کے

"تو آپ کونسا کم ہیں۔۔؟؟  میں نے سنا ہے بہت سالوں سے ناکام کوشش کر رہے ہیں آپ میرے بابا سائیں کی جگہ لینے کی یہاں۔۔۔؟؟؟"

بریرہ کے طنز پر بلاج کی گرفت اور مظبوط ہوئی تھی اس کے ہاتھ پر۔۔۔

"تو بھیگی بلی کی زبان بھی ہے۔۔؟؟"

"ہاتھ چھوڑو پھر بتاتی ہوں اس بھیگی بلی کی جنگلی سائیڈ۔۔۔۔"

اور اس نے ہاتھ چھڑا لیا تھا بلاج حمدانی کو شوکڈ چھوڑ کر وہ واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گئی تھی اور اپنی کافی پینے لگی تھی۔۔۔

"بریرہ۔۔۔"

پر بریرہ نے وہ پیپر منہ کے آگے رکھ لیا تھا

"میں یہاں لڑائی کرنے نہیں آیا تھا کڈو۔۔"

"وٹ دا۔۔۔؟؟ اگر پھر کڈو کہا آئی سویر میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔۔۔"

وہ جس طرح سے اٹھی تھی وہ کافی پورے ٹیبل پر گر گئی تھی اور بلاج غصے سے اٹھ گیا تھا

"میں یہی چاہتا ہوں بریرہ شاہ۔۔۔کہ تم مجھے مت چھوڑو۔۔۔ اس دن کے بعد سے 

صرف  تمہیں ہی سوچ رہا ہوں۔۔۔اور آج یہاں تمہیں اس لیے فالو کیا کہ کچھ بات کرنی تھی مجھ سے۔۔۔"

بریرہ کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر بلاج نے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔

"کی۔۔۔کیا بات کرنی ہے سر۔۔۔؟؟"

"ہاہاہا جھانسی کی رانی اب آواز کو کیا ہوا۔۔۔؟؟؟"

پر بریرہ کی آنکھوں میں ایک ڈر بیٹھ گیا تھا بلاج کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر وہ ایسی ہی تھی ڈڑی ہوئی سہمی ہوئی لڑکی

بلاج خود بھی حیران تھا

"ڈیٹ پر چلو گی۔۔۔؟؟"

بریرہ کی آنکھوں میں دیکھ کر اس نے جیسے ہی سرگوشی کی بریرہ نے آنکھیں بند کر لی تھی جیسے بلاج کا چہرہ اور پاس ہوا تھا

"سر۔۔۔آپ پوچھ رہے ہیں یا بتا رہے ہیں۔۔۔؟؟"

اس کے معصومانہ سوال پر بلاج حمدانی کھلکھلا کر ہنسا تھا اور جو کچھ ویٹر وہاں رک گئے تھے وہ بھی گارڈز کے اشارے سے واپس کچن کی طرف بھاگ گئے تھے

"پوچھ رہا تھا۔۔۔پر اب بتا رہا ہوں۔۔ٹھیک نو بجے پک کرنے آؤں گا تمہیں شاہ ہاؤس میں۔۔۔"

وہ اپنا حکم سنا کر ابھی جانے لگا تھا کہ بریرہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"شاہ ہاؤس آنے کی غلطی مت کیجئیے گا سر،،،آپ آئیں گے اپنے پیروں پر،، پر جائیں گے چار کندھوں پر۔۔۔"

اور بریرہ نے اپنا چشمہ اور اپنا موبائل اٹھا لیا تھا۔۔۔

وہ ایک قدم آگے بڑھی تھ کہ کچھ لمحوں میں بلاج حمدانی کی مظبوط گرفت میں تھی

"بلاج حمدانی کو مارنے کی ہمت نہیں کسی میں بریرہ شاہ۔۔۔ یہ تو تم پر میرا دل آگیا اس لیے تمہیں جاننا چاہتا ہوں۔۔اور خطروں سے الجھنا اور انہیں جڑ سے اکھاڑنا اچھے سے آتا ہے مجھے۔۔۔"

"اوکے۔۔۔آپ کو ڈیٹ پر لے جانا ہے۔۔میں خود آجاؤں گی۔۔پر پلیز گھر مت آئیے گا آپ۔۔۔"

وہ ڈرتے ہوئے کہہ رہی تھی بلاج نے اسکی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اٹھایا تھا

"جھوٹ تو نہیں بول رہی۔۔۔؟؟ دھوکہ تو نہیں دے جاؤ گی۔۔؟؟"

"بریرہ شاہ اپنے الفاظ سے کبھی پیچھے ہٹی نہیں۔۔۔اور دھوکہ ہمارے خون میں شامل نہیں۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔۔اوکے کڈو۔۔۔"

وہ ایک شیطانی ہنسی ہنسا تھا۔۔۔ اور اپنے گارڈز کو اشارہ کر کے وہ باہر گیٹ کی طرف بڑھا تھا

"بلاج۔۔۔۔تمہیں ہاں کہنا کہیں میری زندگی کی غلطیوں میں سے سب سے بڑی غلطی نا بن جائے۔۔؟؟ کیا تم پر یقین کیا جا سکتا ہے۔۔۔؟؟"

اسکی بات پر بلاج رکا ضرور تھا پر مڑا نہیں تھا

"اگر غلطی ہوئی تو سب سے خوبصورت غلطی ہوگی۔۔۔بلاج حمدانی کی اک نظر کو یہاں کی لڑکیاں ترستی ہیں۔۔۔"

وہ مغرور انداز میں بولا تھا

"اور تمہارے دل کو۔۔۔؟؟"

۔

۔

"میم ۔۔۔"

۔

بریرہ کی گلاسیز کی وجہ سے وہ ویٹر اسکی بھیگی آنکھیں دیکھ نہیں پایا تھا۔۔۔بریرہ نے نظر اٹھا کر سامنے ٹیبل کی طرف دیکھا تھا جہاں بلاج مدیحہ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہا تھا

۔

"تیرا ہاتھ کل تک میرے ہاتھ میں تھا،،،تیرا دل دھڑکتا تھا دل میں ہمارے

یہ مخمور آنکھیں جو بدلی ہوئی ہیں،،،،کبھی ہم نے ان کے تھے صدقے اتارے"

۔

"تم میری زندگی کی غلطی بنے پر ایک بدصورت غلطی بنے بلاج۔۔۔ایک داغدار اور ایک یاد گار غلطی جسے میں نے یاد رکھنا ہے۔۔۔اور تمہاری اس خوبصورت غلطی کو بدصورت بنانا ہے۔۔۔"

وہ وہاں سے جلدی سے اٹھ گئی تھی اور باہر چلی گئی تھی جہاں سڑک کے اس پار اس نے کسی کو ہاتھ کے اشارے سے کچھ کہا تھا۔۔۔

۔

"بلاج تم واپس کب آؤ گے۔۔۔؟؟"

"ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا کچھ ہفتے لگ سکتے ہیں مجھے۔۔۔"

اس نے وہ پلیٹ سےایک بائٹ اور کھلا کر وہ پلیٹ سائیڈ پر کردی تھی۔۔۔پر اسکی نظریں اس لڑکی کے چہرے کو مسلسل دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی جس کی نگاہیں اسے خود پر محسوس ہورہی تھیں وہ  بلاج حمدانی تھا اسے اتنا تو پتا چل جاتا تھا کون اسے آبزرو کررہا ہوتا اور کون نہیں۔۔۔

اس لڑکی کے باہر جانے کے بعد اس نے اپنے گارڈ کو دیکھا تھا جو اس لڑکی کو کیفے کے باہر تک فالو کرنے نکلا تھا

"بلاج مت جاؤ نا مجھے پتا نہیں کیوں اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔"

"سیریسلی مدیحہ۔۔۔؟؟ مجھے یہ سب چونچلے پسند نہیں۔۔۔"

اسکو آج وہ الفاظ یاد آگئے تھے اس لڑکی کے جو ایک صبح اسی طرح سے روک رہی تھی۔۔۔

وہ جو گارڈ فالو کررہا تھا جب کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ واپس نہیں آیا تو بلاج نے ڈرائیور کے ساتھ مدیحہ کو گھر بھجوا دیا تھا اور خود اسی جگہ چلنا شروع ہوگیا تھا

۔

"پلان کامیاب ہوا بریرہ میم۔۔۔؟"

"ہمم ان لوگوں کو اپنے پیچھے ہی رکھو۔۔۔جب تک اس ڈرائیور کے ساتھ وہ لڑکی کڈنیپ نہیں ہوجاتی۔۔۔۔"

۔

اور وہ وہیں اپنی گاڑی میں بیٹھی بلاج حمدانی کو اپنے ہی لوگوں کو فالو کرتے دیکھ رہی تھی اور دوسری طرف اسکے لوگ بلاج حمدانی کے ڈرائیور کو گن پوائنٹ پر روک چکے تھے

۔

"کون ہو تم لوگ۔۔؟؟ بلاج حمدانی کو نہیں جانتے کیا۔۔۔؟؟"

مدیحہ نے ڈرتے ہوئے جب بولا تو اسے ایک تھپڑ مارا گیا تھا

"بلاج حمدانی ابھی ہمیں نہیں جانتا۔۔۔چلو گاڑی میں"

مدیحہ کو بازو سے پکڑ کر وہ لے جارہیے تھے کے اس آدمی کے سر پر پیچھے سے کسی نے پسٹل رکھ دیا تھا

"تھینک گاڈ ربیل تم آئے۔۔۔"

بلاج کے کزن کو دیکھ کر سکون کا سانس لیا تھا مدیحہ نے پر کچھ پل کو وہ خود گھبرا گئی تھی جب پیچھے سے ایک پرچھائی نما ایک لڑکی نے ربیل کے سر پر وار کیا تھا اور مدیحہ کو گارڈز نے دوسری گاڑی میں ڈال دیا تھا

"بریرہ میم اسے یہیں چھوڑ دیں۔۔؟؟"

بریرہ نے نفی میں سر ہلا دیا تھا اور ربیل کو اٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا تھا

۔

۔

"وٹ دا ف٭٭۔۔۔۔میری منگیتر پچھے پانچ گھنٹے سے لاپتہ ہے اور آپ لوگ کہہ رہے ہیں صبر کرو۔۔۔"

"مدیحہ مہارے ساتھ تھی ڈیم اٹ تمہاری ڈیوٹی تھی اسے ساتھ واپس لانے کی مدیحہ کے ڈیڈ نے بلاج کا گریبان جیسے ہی پکڑا تو ڈاد سے اٹھ گئے تھے

"بلاج کو اچھی طرح پتا ہے اسکی ڈیوٹی۔۔۔میرے گھر کے ایک مرد کا گریبان پکڑ کر تم اپنی موت کو دعوت نا دو۔۔۔بلاج کو پتا ہے اس نے کیا کرنا ہے۔۔۔"

اور بلاج اپنا گریبان چھڑا کر وہاں سے بہت طیش میں چلا گیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔"

۔

۔

"تم بلاج کو نہیں جانتی وہ تمہارے ٹکڑے کردے گا اگر تم نے مجھے یا بلاج بھائی کی منگیتر کو کوئی نقصان پہنچایا تو۔۔۔۔"

"ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔یہاں ہم اسے جان کر برباد ہوگئے اور یہ صاحب کہتے ہیں میں نہیں جانتی۔۔؟؟

ایک شیطانی قہقہ لگائے وہ اس اندھیرے سے بھرے کمرے میں داخل ہوئی تھی منہ پر بلیک ماسک لگائے بلیو جینز پر بلیک شرٹ اور لیدر کی جیکٹ اور لمبے لیدر کے بوٹ پہنے جب وہ اس کمرے میں آئی تھی اس کمرے کی سرگوشیاں بند ہوگئیں تھی اور ہوا میں خوف پھیل سا گیا تھا جب پلکیں اٹھا کر اس نے کرسی پر بندھے دو لوگوں کو دیکھا تھا

جس میں سے ایک بلاج حمدانی کی منگیتر اور دوسرا بلاج کا کزن تھا

۔

"کیا کہا تم نے۔۔۔؟؟کون ہو تم"

"شی اِز ڈیم ہوٹ بھابھی۔۔اگر تم میری کڈنیپر نا ہوتی تو اپنی سب سے مہنگی گاڑی میں ڈیٹ پر لے جاتا تمہیں سیکسی۔۔"

بریرہ نے سامنے ٹیبل پر پڑے پانی کے جگ کو اس امیچئور شخص پر پھینک دیا تھا

"تم اس موت کے منہ پر ہو مرنے سے پہلے تو کچھ گناہ چھوڑ دیتے باسٹرڈ۔۔۔"

ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر وہ بیٹھ گئی تھی ان دونوں کے سامنے

"تم کون ہو۔۔؟ بلاج ہمیں بچا لے گا۔۔۔"

"اچھا لیٹس سی۔۔۔"

گن نکال کر بریرہ نے اس لڑکی کے سر پر رکھی تھی

"پلیز ڈونٹ۔۔۔۔ایم پریگننٹ۔۔۔۔"

بریرہ کے ہاتھ کچھ پل کو کانپ گئے تھے۔۔۔ماضی یاد آگیا تھا اسے

۔

"تیرے لیے میری عبادتیں وہی ہیں

تو شرم کر تیری عادتیں وہی ہیں۔۔"

۔

"وٹ۔۔؟ بلاج بھائی کی ایک اور ناجائز اولاد۔۔؟ پہلے وہ دشمن کی بیٹی۔۔؟

کنٹرول نہیں کر سکتے وہ باسٹر"

"شٹ اپ ربیل"

"یو شٹ اپ بچ۔۔۔ سارے خاندان کی عزت خاک میں ملا رہے ہیں بلاج "

"اسے کھولو۔۔۔ابھی۔۔۔"

بریرہ نے ربیل کی کرسی کو دیکھ کر حکم دیا تھا اور گارڈز اندر آگئے تھے۔۔۔

"ناجائز کون ہے میں بتاتی ہوں۔۔۔"

گارڈز نے جیسے ہی اسے پکڑا تھا بریرہ نے زور دار تھپڑ مارا تھا اور پھر ایک کے بعد ایک ضرب لگائی تھی اسکے منہ پر

یہ اسکی ٹریننگ کا نتیجہ تھا جو وہ پچھلے سال سے لے رہی تھی

"اسے چھوڑ دو وہ بچہ ہے۔۔۔"

بریرہ نے جیسے ہی گن نکالی تھی تو مدیحہ رونا شروع ہوگئی تھی

"بچہ۔۔؟؟ یہ بچہ پچھلے سال سے کتنی بچیوں کی زندگی برباد کرچکا ہے تمہیں پتا ہے۔۔؟

اس نے کتنوں کی عزتیں خراب کی یہ بچا۔۔؟ "

وہ ابھی بات کر رہی تھی کہ گولیاں چلنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں تھیں

"بلاج حمدانی۔۔"

گارڈ نے آہستہ آواز میں انفارم کیا تھا

"آگیا میرا بھائی اب وہ بتائے گا تجھے کہ حمدانی خاندان کے ساتھ دشمنی کرنے والے کو کیا سزا ملتی ہے۔۔۔تو"

وہ جیسے ہی اٹھا تھا یہ کہتے ہوئے بہت غرور سے بریرہ نے اسکی ٹآنگ پر شوٹ کردیا تھا

اور وہ چیختے ہوئے گر پڑا تھا۔۔۔

"کم آن بریرہ۔۔۔ابھی چلنا ہوگا لوکیشن ٹریس ہوگئی ہے۔۔"

پیچھے سے بریرہ کو کسی نے باہر کھینچ لیا تھا

"بلاج حمدانی سے کہنا اسکی ناجائز اولاد کو اس بار چھوڑ دیا ہے میں نے اسکی منگیتر اور اسکے نکمے کزن کی زندگی کے ساتھ

اور تم بچے ہو ابھی مرد بنو لڑکیوں کی طرح رو رہے ہو۔۔؟

یہ حقیقت ہے تم اور تمہارےخاندان کے سو کالڈ مرد لوگوں کی پیٹھ پیچھے وار کرنا جانتے ہو

میں سامنے سے کر رہی ہوں اور آگے بھی کروں گی وہاں جہاں اسے لگ گا بھی اور دُکھے گا بھی۔۔"

نیچے گرے ہوئے ربیل حمدانی کی آنکھوں میں خوف اتر آیا تھا بریرہ کی آواز میں چھپی نفرت اور لفظوں میں دھمکی محسوس صاف پتا چل رہی تھی

وہ بیک ڈور سے باہر گئے تھے اور بیک ڈور پر ہی بلاج حمدانی اپنے گارڈز کے ساتھ کھڑا تھا

۔

"مدیحہ ۔۔۔ربیل۔۔ شٹ تمہیں تو گولی لگی ہے۔۔۔"

بلاج نے گارڈز کو کہا تھا جنہوں نے ربیل کو اٹھا لیا تھا

یہ وہی کزن تھا جس نے بریرہ کے لیے ویڈیو کا سب کے سانے کہا تھا اور تھوڑی دیر پہلے اپنے ہی کزن کو اتنا کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔

بریرہ ایک کونے میں ایک دیورا کے پیچھے چھپ گئی تھی جب بلاج ان لوگوں کے ساتھ باہر گاڑی تک چلا گیا تھا

"بریرہ ابھی بھی وقت ہے مار دو اسے۔۔۔"

پاس کھڑے ایک شخص نے نفرت سے کہا تھا بریرہ نے اپنی گن اپنی بیک پر لگا کر پاس کھڑے انسان سے چھین لی تھی

جب بلاج کی کمرے پر اسے ایک لال رنگ کا نقتہ سا نظر آیا تھا اسے سمجھ آگئی تھی بلاج کے دل پر ٹارگٹ کر کے کوئی گولی چلانے والا ہے۔۔

بریرہ نے اپنی گن سے بلاج کی ٹانگ پر فائر کردی تھی جس سے بنا چیخے بلاج نیچے گر گیا تھا

جیسے وہ نیچے گرا تھا اسکی گاڑی پر ایک گولی چلی تھی۔۔۔

سب لوگ نیچے بیٹھ گئے تھے۔۔۔

"اپنی گن دو ابھی۔۔۔"

بریرہ نے اپنا ہاتھ باہر نکال کر اس بلڈنگ کی طرف نشانہ لگایا تھا جہاں کھڑا وہ ٹارگٹ کلر ایک اور گولی بلاج پر چلانے والا تھا۔۔۔

بریرہ کا نشانہ اسکے اسی ہاتھ پر لگا تھا جہاں اسنے گن پکڑی ہوئی تھی۔۔۔

بلاج کے گارڈز نے سب کو کور کر لیا تھا۔۔۔

اور اتنے لوگوں میں بلاج کی نظریں اس دیوار کے پیچھے ماسک پہنی لڑکی پر پڑی تھی

اسکی آنکھیں تھیں جن پر پردہ نہیں تھا بلاج حمدانی ماہر تھا آنکھیں دیکھ کر پہچاننے میں اسی لیے بریرہ نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھی اور اس بلڈنگ پر کھڑے کلر پر ایک اور نشانہ لگایا تھا۔۔

ایک آخری بار اس نے بلاج کی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں ایک آگ تھی جس میں جل کر راکھ ہونا تھا بلاج حمدانی نے۔۔۔

۔

"بریرہ وہ رشئین مافیا کے لوگ ہیں۔۔اگر مارتے ہیں تو مارنے دو اس پورے نیو یارک میں بلاج حمدانی کے ہزار دشمن ہیں فار گاڈ سیک

تم نے خود اسے مارا نہیں کسی اور کو مارنے نہیں دیا۔۔۔

کیسے پورا ہوگا بدلا۔۔؟؟"

اپنی گن واپس کھینچ کر وہ چلایا تھا بریرہ واپس اندر چلی گئی تھی خفیہ رستے سے اور گراؤنڈ فلور سے پارکنگ کی طرف

"بریرہ میں تم سے بات کر رہا ہوں۔۔۔"

"بریرہ شاہ اگر اسے موت کے گھاٹ اتارنا چاہتی تو پہلے ہی مار دیتی پر نہیں موت اتنی آسان سزا۔۔؟؟

اور کسی کو کیسے حق دے دوں میرے شکار کو شکار کرنے کا۔۔؟؟

وہ میرا شکار ہے

وہ میرا بےوفا ہے میری محبت کا بےوفا ہے۔۔۔

وہ بےوفا محبت کا مجرم ہے اس کی سزا اور جزا محبت تہہ کرے گی

بریرہ شاہ تہہ کرے گی اسے برباد کرنے کے بعد اسے پوری طرح توڑنے کے بعد۔۔۔

اسے ابھی وہ سب دیکھنا ہوگا جو وہ دوسروں کو دیکھاتا تھا اپنا قہر۔۔۔

اب اسے دیکھنا ہوگا بریرہ شاہ کا قہر۔۔۔

میری نفرت طوفان کی طرح تہس نہس کر دے گی اسکی محبتیں اور خوشیاں۔۔۔

پھر میرا بدلہ توڑے گا اسکے غرور اس کی اکٹر کو۔۔۔۔

وعدہ ہے بریرہ شاہ کا۔۔۔۔"

۔

بریرہ نے اپنی سامنے کھڑی ہیوی بائیک پر سے ہیلمٹ اٹھا کر پہن لیا تھا اور بائیک پر بیٹھ کر اسے سٹارٹ کردیا تھا

"بریرہ دوسرے رستے سے جاؤ بلاج اسے رستے پر سے گئے ہیں"

پر بریرہ نے سپیڈ بڑھا دی تھی

اور سپیڈ کے بعد اسے اس خالی روڈ پر وہ تین گاڑیاں جاتے ہوئے نظر آئی تھی۔۔

بریرہ نے بائیک اس طرف کردی تھی گاڑی کے جس طرف بلاج بیٹھا تھا

اور جب اسکی بائیک بلاج کے پاس سے گزری تھی اس نے اپنے ہاتھ سے لوزر کا سائن بنا کر بلاج کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

اور پھر آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تھی اسکی بائیک۔۔۔"

۔

"بریرہ شاہ۔۔۔۔"

بلاج نے ہلکی آواز میں کہا تھا۔۔۔

۔

۔

"وٹ۔۔۔؟؟ اب دن کے وقت بھی تمہیں وہ نظر آنے لگی۔۔؟؟"

مدیحہ نے نفرت سے بھرے لہجے میں کہا تھا اور دور ہوکر بیٹھ گئی تھی

"سر ہم گاڑی ہسپتال نہیں لے جاسکتے وہاں میڈیا سب کور کر لے گا داد جی نے گھر میں ڈاکٹر بلا لئیے ہیں۔۔۔"

ڈرائیور نے بات شروع کی تھی پر اسے اپنی ٹانگ پر لگی گولی سے درد محسوس نہیں ہورہا تھا۔۔

اسے بار بار وہ سین نظر آرہا تھا 

"وہ کون تھی۔۔؟ مدیحہ کو آغو اس نے ہی کیا تھا اس کا مقصد کیا تھا۔۔؟؟"

وہ سوچوں میں گم تھا کہ مدیحہ نے بلاج کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا

"وہ جو بھی تھی بلاج۔۔۔اس نے کہا تھا وہ سود سمیت حساب لے گی تم سے۔۔"

"بلاج بھیا یہ کوئی بھی ہوسکتی ہے پر آپ کی وہ رکھیل نہیں ہوسکتی بریرہ شاہ وہ اور یہ لڑکی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔"

ربیل نے بھی وہی بات کی تھی پر بلاج مطمئن نہیں ہو پایا تھا کسی کے بھی جواب سے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ڈیڈ۔۔۔۔"

پر مدیحہ کو اسکے والد سے ایک زور دار تھپڑ پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ قدم پیچھے جا کر گرنے لگی تھی جب بلاج نے اسے تھاما تھا

"یہ کیا بکواس ہے انکل۔۔۔؟؟ "

"بکواس۔۔؟؟ ہم ماڈرن لوگ ضرور ہیں پر اتنے بےحیا بےغیرت نہیں۔۔۔شادی سے پہلے پریگننٹ شرم نا آئی تمہیں۔۔۔؟؟ داد جی مجھے اسی مہینے نکاح کروانا ہے ان دونوں کا۔۔۔"

اور مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے وہاں سے کھینچتے ہوئے لے گئے تھے۔۔۔

"بلاج۔۔۔میرے بچے۔۔۔؟؟"

بلاج کی ماں اسکی ٹانگ سے پہتے خون کو دیکھ کر اسکی طرف بڑھی تھی جن کا ہاتھ جھٹک دیا تھا اس نے۔۔

"میرے پاس اس سب ڈرامے کا وقت نہیں ہے۔۔۔"

بلاج نے اپنے روم کی جانب جانے کی کوشش کی تھی جس پر زمرد صاحب اسکے سامنے کھڑے تھے

"تمہیں کچھ احساس ہے۔۔؟؟ پہلے وہ لڑکی بریرہ اب مدیحہ بھی امید سے ہے۔۔؟؟ تمہیں لحاظ ہے یا نہیں۔۔؟؟"

"جب ایسی لڑکیاں خود کو غیر مردوں کے سامنے پیش کریں تو ہم مرد کیا کریں ڈیڈ۔۔۔؟؟"

بلاج کی بات پر اس گھر کے نئی نسل کے مرد بہت قہقے لگا کر ہنسے تھے۔۔۔

"بس بلاج اپنے کمرے میں جاؤ تمہیں گولی لگی ہے اور درد کی ایک شکن نہیں ماتھے پر تمہارے۔۔؟؟

اور ایک بات اسی مہینے تمہاری شادی ہوگی مدیحہ سے۔۔۔تم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی خاندان کا نام بدنام کرنے کی۔۔۔۔

گھر کی عورتوں جو تیاری کرنا چاہتی ہیں کرلیں فنکشن بہت دھوم دھام سے منایا جائے گا۔۔۔"

بلاج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے تھے داد جی پیچھے ششدر چھوڑ کر سب افراد کو۔۔۔

"بلاج بھیا ایک مہینہ۔۔؟؟ اس مہینے تو بہت کام ہیں ہمیں وہ میٹنگ بھی ۔۔۔"

"مجھے یاد ہے سب آپ لوگ ربیل کو گاڑی سے نکال لائیں بے ہوش پڑا ہوا۔۔۔ایک لڑکی سے مار کھا آیا ہے۔۔۔"

وہ اور شوکڈ کرگیا تھا سب کو سب جلدی سے باہر بھاگے تھے اور بلاج کی ماں ڈاکٹر کے ساتھ اسکے کمرے کی طرف

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ہم نے اٹیک اس مافیا بوس پر کرنا ہے یا اسکی ہوٹ گرل فرینڈ پر بلاج سر۔۔؟"

"اسکی گرل فرینڈ کو سیڈیوس کرکے بستر تک لے جانا ہی اس باسٹرڈ کو برباد کردے گا"

بلاج نے ماسک پہن لیا تھا جیسے ہی سب اس پارٹی بال ہال میں پہنچے تھے۔۔

"میں نے اسے پہلے نے دیکھا وکی کے ساتھ جیسے ہی وہ بچ اس پارٹی میں آئے مجھے اشارہ چاہیے۔۔۔"

بلاج نے اپنے کان پر لگی ڈیوائس میں کہا تھا اسکے گارڈ یہاں سے وہاں پھیل گئے تھے اور بلاج اپنے کزن کے ساتھ بار سٹول پر گریس فلی بیٹھ گیا تھا

"جہاں تک میں نے سنا ہے وہ جب اس پارٹی میں آئے گی تو پتا چل جائے گا۔۔

وہ اپنے مافیا بوائے فرینڈ سے زیادہ خطرناک آئٹم ہے بھائی شی از ہوٹ سیکسی اینڈ۔۔۔"

ساتھ بیٹھا کزن کہتے ہوئے رک گیا تھا

"اینڈ۔۔؟؟مجھے پہلیاں پسند نہیں ہیں شہیر۔۔۔"

"بلاج بھائی وہ سیڈیوس ہونے والی گرلز میں سے نہیں اس لیے پچھلے دو سال سے وکی کسی ایک لڑکی کے ساتھ ہے اور سیریس ہے۔۔۔جس پارٹی میں اسے کسی بزنس پارٹنر نے نشے میں صرف ڈانس کا کہا تھا۔۔۔تو۔۔۔"

"تو ۔۔؟؟"

بلاج نے ڈرنک کرتے ہوئے پوچھا تھا

"تو اس نے اس آدمی کو وہاں شوٹ کیا تھا جہاں۔۔۔"

"جہاں۔۔۔؟؟"

"سمجھ جائیں بس۔۔۔"

وہ کزن ایک دم سے خوف زدہ ہوا تھا

"وہ ابھی تک بلاج حمدانی سے نہیں ملی۔۔۔اگلی صبح وہ میرے بستر سے سیدھا بربادی اور تباہی کی طرف جائے گی۔۔۔اور تم جانتے ہو میں باتوں اور وعدوں کا پکا ہوں۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا یس۔۔۔بریرہ شاہ کے انجام پر ہم سب نے دیکھ لیا تھا۔۔۔"

اس ڈیوائس سے ایک آواز آئی تھی بلاج نے ایک گھونٹ میں پورا گلاس پی لیا تھا یہ بات سن کر اور ہال کی دوسری جانب اپنے کزن کو سخت انداز میں دیکھا تھا

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بریرہ یہ ماسک۔۔۔۔"

"پھر سے بریرہ۔۔؟؟ پشمینہ فار گاڈ سیک پشمینہ شیخ۔۔۔"

اس نے یہ کہہ کر اپنا ماسک پہن لیا تھا

"بی کئیر فل۔۔۔"

"سب ریڈی ہے۔۔؟؟ وہ کیمرے رپورٹرز۔۔؟؟ جب تک ان لوگوں کو یہاں الجھائے رکھنا ہے وکی انکے اس گڈام میں سمگلنگ کے ہتھیار چرا کر اسے جلا دے گا پلان سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوگا۔۔"

"پر وکی کہہ رہا تھا اس جگہ کو جلانا ضروری نہیں۔۔۔"

"وکی سے کہنا اگر پلان سے زرا کچھ آگے پیچھے ہوا تو اس گڈام کی جگہ وکی کو راکھ کر دوں گی۔۔۔"

۔

اور وہ ماسک کی نوٹ باندھ کر اندر چلی گئی تھی اور پیچھے عام ڈریسز میں اسکے فی میل گارڈ بھی۔۔۔

"اس طرح کا خطرہ بریرہ شاہ ہی لے سکتی ہے۔۔۔کیوں ی بدلہ خاندانی دشمنی سے آگے کا لگ رہا ہے۔۔؟؟ یہ انتقام خاندانی ہے یا محبت میں بےوفائی کا۔۔۔؟؟"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کیوں دوریاں۔۔۔ہیں درمیان۔۔۔۔

بڑھ جانے دے نزدیکیاں۔۔۔"

۔

لائٹس سب بند ہوگئیں تھی جب ایک لائٹ سٹیج پر ایک ہی فیگر پر تھی۔۔۔جس کے رقص نے سب کو ساکن کردیا تھا۔۔۔

۔

"ہر سانس میں محسوس کر

ان سانسوں کی مدہوشیاں۔۔۔"

۔

وہ ماسک پہنے لہراتی ہوئی بلاج کے پاس سے گزر گئی تھی بنا دیکھے اور بلاج کے کزن کا ہاتھ پکڑ لیا تھا

۔

"میرا نشہ ایسے چڑھے۔۔۔

میرا نشہ ضد پہ اڑے۔۔

میرا نشہ ایسے نا جائے جھوم جھومتا تو جا۔۔۔"

۔

وہ اسے کھینچ کر لے گئی تھی سٹیج پر۔۔۔

"واااووووو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لکی باسٹرڈ۔۔۔۔۔"

بہت سی ہوٹنگ ہوئی تھی۔۔۔جو بلاج حمدانی کو منہ پھیرنے پر مجبور کر چکی تھی جب کسی نے ایک کمینٹ کیا تھا اس ڈیوائس پر

"بلاج بھائی اس نے تو دیکھا بھی نہیں۔۔۔ہاہاہاہا آپ نے سیڈیوس کرنا تھا۔۔؟؟"

اس نے ویٹر سے ایک اور ڈرنک کا گلاس مانگا تھا

"میں بھی تنہا ہوں تو بھی اکیلا۔۔۔

ملنے کا ہونے دے سلسلہ۔۔۔"

۔

"پشمینہ شیخ مجھ ناچیز کے ساتھ ڈانس کر رہی ۔۔۔۔۔"

شہیر نے جیسے ہی اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی تھی بلاج نے اسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے کردیا تھا۔۔۔

"نو ٹ فئیر بھائی۔۔۔۔"

"بیک ٹو ورک۔۔۔"

یہاں بلاج نے شہیر کو غصے سے دیکھا تھا دوسری طرف پشمینہ بیک سٹیج پر جانے لگی تھی کہ بلاج نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کیا تھا ان دونوں کے درمیان زرا سا بھی فاصلہ نہیں رہا تھا

"نوٹ سووو سون مس ۔۔؟؟"

وہ دونوں میوزک پر پھر سے اسی طرح ڈانس کر رہے تھے پشمینہ نے پیچھے کسی کو آنکھ کا اشارہ کیا تھا یہی چاہتی تھی وہ بلاج حمدانی کو بے چین کرنا چاہتی تھی

"وٹس مائی نیم۔۔۔؟؟؟"

اس نے کچھ دور کھڑے کچھ بزنس مینز سے پوچھا تھا میوزک میں تھوڑا چلا کر

"پشمینہ شیخ۔۔۔۔

بی مائی گرل فرینڈ۔۔۔۔"

"بی مائی ڈیٹ پشمینہ۔۔۔۔"

اور بہت سی آوازیں آئی تھی۔۔بلاج نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر ڈانس جاری کردیا تھا گریس فلی۔۔۔

"جس آگ میں یہ بدل جل رہا ہے میرا اے ہمسفر۔۔۔

تو بھی اسی میں جل جائے گا۔۔۔۔"

۔

بلاج کے ہاتھ اسکی کمر سے زرا نیچے جانے لگے تھے اسکی وقت اسکی تھائی پر گن پوائنٹ کردی تھی

"رونگ ٹیراریٹی مسٹر۔۔۔ون رونگ موو۔۔۔اور بوم۔۔۔۔۔"

وہ گن بہت آہستہ سے اوپر تک لائی تھی اور بلاج کے سینے پر رکھ دی تھی انکا ڈانس بھی نہیں رکا تھا اور بلاج کے چہرے پر ڈر بھی نہیں تھا

"ہائے۔۔۔۔قاتل حسینہ۔۔۔تم نہیں جانتی کس قدر کنٹرول کھو رہا ہے یہ بلاج حمدانی تم جیسی خوبصورت لڑکی کے ہاتھ میں گن دیکھ کر۔۔۔

ایم ٹوٹلی ٹرنڈ آن بےبی۔۔۔ڈونٹ ٹیمپٹ مئ۔۔۔۔"

بلاج نے وہ ہاتھ اسکی گردن پر رکھ کر اپنی طرف کیا تھا اسکا منہ اور سرگوشی کی تھی

"اووو سووو مسٹر کنٹرول فریک لوزنگ ہیز کنٹرول ناؤ۔۔۔؟؟ آئی لائک اِٹ۔۔۔بلاج۔۔۔"

اس نے جس طرح نام لیا تھا بلاج حمدانی کے چہرے کے رنگ اڑ گئے تھے یہ لہجہ اسے کہیں لے گیا تھا وہاں جہاں جانے سے وہ بھاگ رہا تھا۔۔۔

"میں نے سنا ہے جب لوگ بہک جاتے ہیں تو برباد کرجاتے ہیں خود کو مسٹر بلاج۔۔۔"

"میں برباد ہونے کو تیار ہوں اگر بدلے میں تم بھی بہک جاؤ اس رات کے نشے میں۔۔۔"

بلاج نے آہستہ آواز میں کہا تھا۔۔۔

کب فلرٹ اور وہ پلان سیڈیوشن میں بدل گیا تھا اسے پتا ہی نہیں چلا تھا۔۔۔

"میں نے بہت پہلے بہکنا چھوڑ دیا ۔۔۔اب میں شکار کرتی ہوں۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا شکاری خود شکار ہو رہا مس۔۔۔کیا خیال ہے۔۔۔؟؟ یور پلیس اور مائن۔۔۔؟؟"

انکے ہونٹوں کے درمیان کچھ فاصلہ تھا۔۔۔

"سوری پر آج کی رات میں کسی اور کے نام کر چکی ہوں۔۔۔اور میں انگیجڈ اور یوزڈ شخص کو ڈیٹ نہیں کرتی پشمینہ شیخ کا سٹینڈرڈ بہت اونچا ہے۔۔۔۔"

وہ جیسے ہی پیچھے ہٹی تھی بہت سی تالیوں کی آواز انکے رقص پر گونج اٹھی تھی

پر بلاج نے اسکا بازو مڑور کر پھر سے کھینچا تھا

"مجھے انکار نہیں پسند۔۔۔تم۔۔۔"

وہ ہیلز کی جوتی کچھ اونچی کر کے بلاج کی طرف اٹھی تھی اسکا ماسک کھول دیا تھا اس نے آگے بڑھ کر بلاج کے گال پر اسکے لبوں سے کچھ فاصلے پر بوسہ دے کر اس نے اپنے ہونٹ بلاج کے رائٹ کان پر رکھ دئیے تھے یہ لمس بلاج کو ماضی میں لے گئے تھے

"انکار پسند نہیں تو اب دوستی کرلیں بلاج حمدانی۔۔۔میرے ہونٹ تمہاری خواہش اور فینٹسی پوری کر دیتے اگر تمہاری انگلی میں یہ رنگ نا ہوتی کسی اور کے نام کی۔۔۔۔"

اس نے جیسے ہی کسی کو آنکھ ماری تھی

انکی تصاویر اس طرح سے لی گئی تھی کہ بلاج کا پورا چہرا نظر آرہا تھا اور پشمینہ کا نہیں۔۔۔"

"یہ انگوٹھی اتر بھی سکتی ہے۔۔۔۔"

"جب اسے اتارنے کی ہمت کرلو تو جگہ اور وقت پشمنہ شیخ تمہیں بتا دے گی۔۔۔

تم خوبصورت ہو۔۔۔پر میرے معیار پر نہیں ہو۔۔۔نیکسٹ ٹائم سہی مسٹر بلاج۔۔۔۔"

۔

اور وہ جب پیچھے ہوئی تھی تو لائٹس اسی طرح بند ہوئی تھی جیسے پہلے اسکے آنے پر۔۔۔

۔

"بریرہ شاہ۔۔۔؟؟؟"

بلاج نے اس جگہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا جہاں وہ ابھی بوسہ دے کر گئی تھی

۔

۔

(ماضی۔۔۔)

۔

۔

"بریرہ۔۔۔ایک ڈآنس۔۔؟ وہ ماسک پارٹی ہے بیگم۔۔۔۔"

"کبھی نہیں مجھے بہت شرم آتی ہے بلاج۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔جس طرح کا آپ ڈریس لے کر آئیں ہیں نا اسے پہن کر تو بلکل نہیں۔۔۔"

"اس ڈریس میں کیا برائی ہے۔۔۔اور کپل ڈانس میں کیسی شرم شوہر ہوں تمہارا۔۔۔"

"تو۔۔؟؟ اتنے لوگوں میں میں اپنا وجود لہرانا نہیں چاہتی۔۔۔مجھ سے نہیں یہ چونچلے ہوتے۔۔۔"

۔

۔

"یہ بریرہ نہیں ہو سکتی۔۔۔"

اور ایک گولی کی آواز آئی تھی۔۔۔

جب بلاج نے الرٹ ہوکر اپنی بیک سے اپنی گن نکالنے کی کوشش کی تو گن نہیں تھی

ڈیم اِٹ۔۔۔۔ہیلو ۔۔۔میری گن نہیں مل رہی شہیر۔۔۔ جارج۔۔۔۔"

۔

"بلاج ڈیم یو یہاں کسی کو بھی گینگ کے لیڈر کو اٹیک کرنے کا پلان نہیں تھا"

ڈیوائس پر غصے سے کسی نے بلاج کو کہا تھا۔۔۔

"میں برداشت نہیں کروں گا تم میرے کزن ہو آواز نیچی کر کے بات کرو تم بلاج حمدانی سے بات کر رہے ہو۔۔۔"

"اوکے۔۔۔سوری۔۔۔شہیر کو شوٹ کیا گیا ہے تم نے جس گینگ لیڈر پر اٹیک کیا ان لوگوں نے دونوں گروپس میں جنگ کا علان کردیا ہے۔۔۔"

"میں نے نہیں مارا کسی کو ڈیم اِٹ میری گن مسنگ ہے۔۔۔وہ میں تو ڈانس۔۔۔۔"

اور بلاج بات کرتے کرتے چپ ہوگیا تھا۔۔۔۔

"بلاج۔۔۔ایک اور بری خبر ہے ہمارے نارتھ سائیڈ والے گڈام کو آگ لگ گئی ہے سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا ہے۔۔۔صرف کچھ منٹوں میں۔۔۔تم اپنی سیڈکشن میں اتنا بیزی تھے۔۔۔"

اس نے طنزیہ بات کر کے فون کاٹ دیا تھا۔۔۔۔

"میں نے سنا ہے جب لوگ بہک جاتے ہیں تو برباد کرجاتے ہیں خود کو مسٹر بلاج۔۔۔"

۔

ویٹر ایک چیٹ بلاج کو پکڑا گیا تھا۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔"

بلاج بےساختہ ہنس دیا تھا۔۔۔اسے سمجھ آگئی تھی وہ شکار ہوگیا تھا اس حسینہ کا۔۔۔۔

۔

"بریرہ شاہ۔۔۔۔۔۔"

۔

۔

بلاج کی ہنسی ایک شیطانی غصے میں بدل گئی تھی۔۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آئی لو یو ٹو پشمینہ۔۔۔"

"نیویارک واپس کب آرہے ہو ۔۔۔؟؟"

بریرہ نے لیپ ٹاپ سکرین کو دوسری طرف کیا تھا جب آپارٹمنٹ کی بیل بجی تھی

۔

"بری۔۔۔"

"ششش۔۔۔۔"

سونم کے منہ پر ہاتھ رکھ کر بریرہ نے لیپ ٹاپ سکرین کی  طرف اشارہ کیا تھا اور سونم بنا کچھ کہے نزدیک سے اس سکرین کو دیکھنے لگی تھی جس میں ایک خوبصورت نوجوان بہت معصومیت سے سونم کو ہاتھ ہلا کر ہیلو کر رہا تھا

"او مائی گاڈ کون ہے یہ ہینڈسم ہنک۔۔۔؟؟ واااوووو "

سونم نے جیسے ہی کہا تھا بریرہ کے چہرے پر مسکان آگئی تھی اور اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ دیا تھا اس نے جب سونم نے لیپ ٹاپ اپنی گود میں رکھ کر ہیلو کہا تھا

"ہی از ہوٹ یار۔۔۔ میری شادی نا ہوئی ہوتی تو میں نے اسے تم سے چرا لینا تھا"

جس پر وہ شخص سکرین کے اس پار کھلکھلا کر ہنسا تھا۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہا شادی شدہ گرلز کے ساتھ ڈیٹ بھی کرسکتا ہوں میں بس پشمینہ اجازت دہ دے۔۔۔"

پشمینہ نام سے سونم سمجھ گئی تھی اور اس نے بریرہ نہیں کہا تھا اسے

"ویسے نام کیا ہے آپ کا۔۔۔؟؟"

سونم نے ہنستے ہوئے پوچھا تھا

"مہتاب۔۔۔مہتاب حمدانی۔۔۔۔"

اور وہ ہنسی سونم کے چہرے سے اڑ گئی تھی اور اس نے بے ساختہ نظریں اٹھا کر بریرہ کی طرف دیکھا تھا جو نظریں چرا رہی تھی اس سے۔۔۔

"آپ کہیں یہاں نیو یارک کے مشہور بلاج حمدانی کے کوئی رشتے دار ہیں کیا۔۔۔؟؟"

سونم نے سانس روک کر پوچھا تھا۔۔۔

"جی۔۔۔بلاج حمدانی میرے بڑے بھائی ہیں۔۔۔زمرد حمدانی میرے ڈیڈ۔۔۔"

اور سونم نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی تھی

"ہممم بر۔۔۔پشمینہ اور آپ دوست ہیں کب سے۔۔۔؟؟"

"دوست۔۔؟؟؟ ہاہاہاہا نہیں پشمینہ اور میری منگنی ہوچکی ہے لاسٹ یئر لندن میں۔۔۔ پشمینہ تم نے بتایا نہیں یہاں اپنی فیملی کو۔۔۔؟؟؟"

مہتاب کی لہجے میں ایک اداسی چھا گئی تھی

"میں ۔۔۔سب کو سرپرائز دینا چاہتی تھی اب تم فون رکھو میں نہیں چاہتی تم میری پٹائی ہوتے دیکھو۔۔۔"

"ہاہاہاہاہاہا۔۔۔اوکے لو یو بائے۔۔۔۔"

۔

وہ ہنستے ہوئے کال کاٹ گیا تھا اور بریرہ لیپ ٹاپ بند کر کے واپس روم میں رکھنے جا رہی تھی کہ سونم نے غصے سے چھین لیا تھا

"یہ سب کب ہوا۔۔۔؟؟ اس خاندان کے ایک مرد نے ایک تجربہ دیا کافی نہیں تھا۔۔۔

اس طرح اپنے باپ اور بھائی کی روح۔۔۔۔"

وہ کہتے کہتے چپ ہوئی تھی اور بریرہ کی پتھر بنی آنکھوں میں دیکھا تھا

"تم مہتاب کو استعمال کرو گی۔۔؟؟ تم میں اور بلاج میں کیا فرق رہ جائے گا بریرہ۔۔؟

اس نے محبت میں تمہیں استعمال کیا اب تم اسکے چھوٹے بھائی کو استعمال کرو گی۔۔؟؟"

۔

"میں نے کہا تھا وہاں چوٹ دوں گی جہاں لگے گی بھی اور دکھے گی بھی سونم۔۔۔

مہتاب اس خاندان کا بہت لاڈلا ہے خاص کر بلاج حمدانی کا۔۔۔

اب اور مزہ آئے گا۔۔۔"

اور اس نے سگار کو سلگایا تھا

"تم نے سموک شروع کردی بریرہ۔۔؟؟ میں کچھ دن پاکستان کیا گئی تم نے کیا کرلیا خود کو۔۔"

"سونم میں نے کچھ نہیں کیا خود کو۔۔۔مجھے وقت نے ایسا کردیا ہے۔۔اور میں خوش ہوں۔۔"

"خوش۔۔۔؟ مر رہی ہو تم۔۔ تم بھول کیوں نہیں جاتی اپنے بدلے کو۔۔؟؟"

"بھول گئی تو جینے کا مقصد نہیں بچے گا سونم۔۔۔مجھے اپنے بچے کے پاس جانا ہے۔۔۔ پر سب کو انجام تک پہنچا کر جاؤں گی۔۔۔"

وہ سگار پکڑے کھلے آسمان کے نیچے ٹیریس پر چلی گئی تھی۔۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ہم اس قبرستان میں کیا کر رہے ہیں داد جی۔۔۔؟؟"

بلاج نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا

"یہ نام پڑھو اس قبر پر۔۔۔۔ صاف لفظوں میں لکھا ہے بریرہ شاہ۔۔۔

اور وہ دوسری قبر وجیح شاہ۔۔۔اور پھر اسکے بھائی کی قبر۔۔۔۔"

داد جی نے بلاج کو بازو سے پکڑ کر آگے دھکیلا تھا جس کا بوٹ اٹک گیا تھا اور وہ بریرہ کی قبر کے پاس گر گیا تھا نظریں اٹھا کر جب اس نے اس نام کی طرف دیکھا تو اسے اس نام کی جگہ اس لڑکی کی شکل نظر آئی تھی جو اسکی دوست بھی تھی۔۔۔اسکی جھوٹی محبت بھی اور اسکی چھپی ہوئی بیوی بھی۔۔۔

۔

۔

"بلاج اٹھ جائیں مجھے یونیورسٹی چھوڑ دیں بابا سائیں کا فون پر فون آرہا ۔۔۔"

وہ شیشے کے سامنے شکایت کرتے ہوئے بال ڈرائیر کرنا شروع ہوگئی تھی

"کیا ہر بیوی شادی کی پہلی صبح ایسے ہی کرتی ہے۔۔؟ میں نے تو سنا تھا شادی کی پہلی صبح بیویاں اپنے شوہر کو اکیلا چھوڑتی ہی نہیں ہیں۔۔۔"

بریرہ شرما گئی تھی ایک دم سے

"اب تم شرما رہی ہو۔۔۔اوپر سے اس ٹاول میں ایسے گھوم رہی ہو تمہیں پتا نہیں میں کیسے قابو کر رہا خود پر۔۔۔"

"ہاہاہاہا بےشرم اٹھ جائیے ناشتہ بنا دیا ہے۔۔۔جلدی سے"

"کیسے اٹھ جاؤں۔۔۔میں سوچ رہا ہوں تمہیں کیسے یہاں اپنی آغوش میں بلاؤں اور تم مجھے کو اٹھا رہی۔۔۔"

بلاج نے ہاتھ آگے بڑھا یا تھا بریرہ نے بلاج کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔

"جب تک گھر والوں کو شادی کا نہیں پتا چل جاتا تب تک ایسے ہی رہے گا سب بلاج۔۔؟؟

ہمارے خاندان کی دشمنی ختم کیوں نہیں ہوجاتی۔۔۔؟؟"

"یہ دشمنی کسی ایک کی موت پر ختم ہوگی ایسے نہیں۔۔۔"

بلاج کی آنکھوں میں ایک نفرت ابھر آئی تھی جو اسکے سینے پر سر رکھے اسکی بیوی کو بھی محسوس نہیں ہوئی تھی

"اگر ایسا ہے تو میری موت کا نذرانہ کیسا رہے گا۔۔۔؟؟"

اس نے مذاق میں کہا تھا جس پر بلاج کے ہاتھ کی گرفت اسکے گلے پر مظبوظ ہوگئی تھی

"خبردار جو مرنے کی بات کی بریرہ بلاج حمدانی جلا کر راکھ کر دوں گا سب کچھ اگر تمہاری سانسیں بند ہوئی تو۔۔۔۔یاد رکھنا۔۔۔۔"

"بلاج کبھی کبھی تم سے ڈر لگتا ہے تمہاری یہ محبت مجھے تمہارے سامنے موت کے گھاٹ نا اتار دے کہیں۔۔۔۔"

اس نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

۔

"بلاج۔۔۔۔"

بلاج کی لال ہوئی آنکھوں سے ایک آنسو اس قبر کی مٹی میں جا ملا تھا

"یہ وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ یہ تمہاری۔۔۔بیوی کے جنازے کی تصاویر۔۔۔اور۔۔۔

اور یہ وہ رپورٹ اس بچے کے مس کیریج کی۔۔۔

یہاں لانے کا مقصد صرف اتنا تھا وہ لڑکی پشمینہ شیخ ہے بریرہ شاہ نہیں۔۔۔

تمہارے اس پارٹی میں کی ہوئی حرکت نے تمہاری امیج پوری طرح میڈیا میں خراب کردی ہے۔۔"

داد جی باقی پیپرز پھینک کر وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔

۔

اور وہ ان تصاویر کو دیکھنے لگا تھا۔۔۔اسے وہ نرس اور وہ سیکیورٹی گارڈ آج تک نہیں ملا تھا۔۔۔وہ جنازہ کب کس نے پڑھا کسی کو خبر نہیں تھی پر ان پیپرز نے بلاج کی زمین کھینچ لی تھی۔۔۔

۔

"میں نے یہ سب بدلہ پہلے دن سے پلان کیا تھا برریرہ شاہ۔۔۔۔

پر۔۔۔۔تمہاری موت نہیں۔۔۔۔ وجیح شاہ نے جاتے جاتے میری سوچ کو مات دہ دی تھی اپنی ہی بیٹی پر گولی چلا کر۔۔۔

تم نے تو کہا تھا تم واپس آؤ گی بدلہ لینے۔۔۔؟؟ تو کہاں گئی۔۔؟؟ مرگئی ڈر گئی بلاج حمدانی سے۔۔؟؟"

بلاج نے اس قبر کی مٹی کو پیچھے کرنے کی کوشش کی تھی اور جب کچھ منٹ وہ اس مٹی میں اپنے ہاتھ اپنے کپڑے بھر بیٹھا تھا اسی وقت اسے پیچھے سے کسی نے پکڑ لیا تھا

"بس بلاج۔۔۔بس۔۔۔"

"بس۔۔۔؟؟ اسے کہو بدلہ لے مجھ سے۔۔۔ بلڈڈی  بچ۔۔۔ جب یہ لوگ کچھ پورا کر نہیں سکتے تو بکواس کیوں کرتے ہیں۔۔۔

داد جی۔۔۔اس نے مجھ سے چھپایا کہ یہ ماں بننے والی تھی۔۔۔

اور وہ وجیح شاہ۔۔۔میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔

اس نے کیسے اپنئ بیٹی پر  گولی چلا دی۔۔؟ ایسے ہوتے ہیں باپ۔۔؟؟"

۔

۔

وہ ایک دم سے چلاتے ہوئے بیٹھ گیا تھا اسی قبر کے پاس۔۔۔ اس اندھیرے میں اسکا بھیگا ہوا بھرا ہوا چہرہ کوئی نہیں دیکھ پایا تھا پر اسکے لہجے سے داد جی سمجھ گئے تھے کہ انکا پوتا روو رہا تھا،،،

۔

"تم بریرہ شاہ۔۔۔بلڈڈی فول۔۔۔۔مجھے محبت نہیں تھی تم سے سنا تم نے کبھی نہیں۔۔۔

اور میں گناہ گار نہیں ہوں تمہاری موت کا۔۔۔ 

میری محبت مدیحہ تھی اور رہے گی سنا تم نے۔۔۔؟؟ سن رہی ہو تم دشمن کی بیٹی۔۔۔"

وہ اپنے ہاتھ جھاڑ کر اپنے بازو سے اپنا چہرہ صاف کر کے واپس مڑ گیا تھا۔۔۔

۔

"نہیں تھی مجھے محبت تم سے۔۔۔۔ تم میری نظر میں بس دشمن کی بیٹی تھی اچھا ہوا وہ بچہ دنیا میں نہیں آیا بریرہ۔۔۔ اس میں تمہارے خاندان کی بھی وراثت آجانی تھی وہ خاندان جس سے نفرت کرتا آیا بلاج حمدانی۔۔۔"

وہ اور چلایا تھا اور چہرہ پھر سے بھیگا تھا اسکا۔۔۔

"بس بلاج۔۔۔گھر چلو۔۔۔"

"آپ نے سہی کہا تھا اسی مہینے ہونی چاہیے شادی میری مدیحہ سے۔۔۔

بریرہ شاہ سنا تم نے اس سے میری شادی ہورہی ہے جس سے میں نے محبت کی۔۔۔اور وہ ماں بننے والی ہے میرے بچے کی۔۔۔

جو جھوٹے وعدے تمہارے ساتھ کرتا آیا تھا اب اسکے ساتھ ہر وعدہ سچ کر کے دیکھاؤں گا۔۔۔

دم ہے تو روک کر دیکھاؤ۔۔۔"

"بلاج۔۔۔وہ مر چکی ہے۔۔۔اب وہ واپس نہیں آئے گی تمہاری آہ پکار سے۔۔۔"

"میں آہ پکار نہیں کر رہا داد جی۔۔۔میں بس اسے۔۔۔"

"اسے کیا۔۔۔؟ وہ یہ سن کر واپس آجائے گی۔۔۔؟؟ اور چلا لو پھر پر وہ واپس نہیں آنے والی۔۔۔

جانے والوں کا احترام کرو بلاج۔۔۔ ہم لوگ دشمن تھے پر تم نے جس حد تک جا کر دشمنی نبھائی ہے۔۔تم نے ہمیں شرمندہ کیا ہے ہماری نظروں میں۔۔۔اب چلو یہاں سے۔۔۔"

۔

۔

وہ بلاج کو کھینچ کر لے جارہے تھے جس کی نظر اس قبر اور اس نام پر تھی۔۔۔

"بریرہ شاہ۔۔۔"

اور آنسو باہر آنے سے پہلے بلاج نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔۔

۔

وہ جیسے ہی وہاں سے چلے گئے تھے وہاں موجود ایک گھنے درخت کے پیچھے سے وہ آگے بڑھی تھی اور ان تین قبروں کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی آج بریرہ شاہ اپنے باپ اور بھائی سے ملنے آئی تھی

"آپ لوگ میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے ہوں گے۔۔؟؟ پر میں بھی ایسے نہیں مناؤں گی۔۔۔بہت جلدی اپنے کام نمٹا کر آپ لوگوں کے پاس آؤں گی ۔۔۔

بابا سائیں اب سمجھ آئی کیوں آپ مجھے پاکستان سے یہاں نہیں آنے دیتے تھے

آپ کو برباد کردیا آپ کی بیٹی نے۔۔۔اور خود کو بھی۔۔۔

اور بھائی آپ۔۔۔؟؟ کیوں میرے حصے کی گولی کھائی آپ نے۔۔؟؟ مرجانے دیتے مجھ جیسے بدزات بیٹی کو۔۔۔جس نے ماں باپ کو رد کر کے محبت کو سونپ دیا سب کچھ اپنی عزت کا سودا کر بیٹھی۔۔۔

پر اب میں وہ سود سمیت واپس لوں گی۔۔۔

بلاج حمدانی تمہاری شادی کے خواب خواب ہی رہ جائیں گے۔۔۔

تم دیکھ لینا تم کیسے ٹوٹنے والے ہوں۔۔۔تمہارا خاندان ایسے برباد ہوگا کہ تم سمیٹ نہیں پاؤ گے۔۔

بہت جلدی بریرہ شاہ حمدانی مینشن میں بہو بن کر آئے گی۔۔۔۔"

"آپ لوگ میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے ہوں گے۔۔؟؟ پر میں بھی ایسے نہیں مناؤں گی۔۔۔بہت جلدی اپنے کام نمٹا کر آپ لوگوں کے پاس آؤں گی ۔۔۔

بابا سائیں اب سمجھ آئی کیوں آپ مجھے پاکستان سے یہاں نہیں آنے دیتے تھے

آپ کو برباد کردیا آپ کی بیٹی نے۔۔۔اور خود کو بھی۔۔۔

اور بھائی آپ۔۔۔؟؟ کیوں میرے حصے کی گولی کھائی آپ نے۔۔؟؟ مرجانے دیتے مجھ جیسے بدزات بیٹی کو۔۔۔جس نے ماں باپ کو رد کر کے محبت کو سونپ دیا سب کچھ اپنی عزت کا سودا کر بیٹھی۔۔۔

پر اب میں وہ سود سمیت واپس لوں گی۔۔۔

بلاج حمدانی تمہاری شادی کے خواب خواب ہی رہ جائیں گے۔۔۔

تم دیکھ لینا تم کیسے ٹوٹنے والے ہوں۔۔۔تمہارا خاندان ایسے برباد ہوگا کہ تم سمیٹ نہیں پاؤ گے۔۔

بہت جلدی بریرہ شاہ حمدانی مینشن میں بہو بن کر آئے گی۔۔۔۔"

۔

"بس بریرہ چلو اب گھر۔۔۔۔اتنی تیز بارش میں تمہارا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے"

سونم اور ڈینیل پیچھے کھڑے تھے پچھلے دس منٹ سے سونم سے رہا نہیں گیا تو اس نے آگے بڑھ کر ایک چھتری بریرہ پر کردی تھی

"کونسا گھر۔۔۔؟کیسا گھر سونم۔۔؟؟ گھر تو وہ ہوتا جہاں لوگ بستے ہیں نا ۔۔؟ دیکھو یہاں بس گے گھر کے سب لوگ سونم۔۔اب گھر گھر نہیں رہا ہوگا۔۔"

تیز طوفانی بارش میں اس اپنے گھٹنوں پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلی تھی

"بریرہ۔ تمہارے باقی گھر والوں کی کوئی خبر نہیں ہے کچھ پتا نہیں وہ لوگ کہاں گئے۔۔ پر۔۔"

ڈینیل کہتے کہتے چپ ہوگیا تھا

"پر کیا اب بری خبر سننے سے ڈر نہیں لگتا مجھے ڈینیل"

"ہم گھر جا کر بات کریں گے ڈینیل بریرہ کو کچھ نہیں بتانا۔۔"

پر سونم کی بات کو رد کر کے ڈینیل نے اپنی جیب سے کچھ تصاویر نکالی تھی اور اس بارش میں وہ بھی وہی اس قبر کے پاس بیٹھ گیا تھا بریرہ کے ساتھ

"ارسل شاہ کا پلین اسی دن کریش ہوا تھا جس دن یہ قیامت گری تم پر۔

اسی دن ارسل شاہ کو بھی مار دیا گیا تھا اور وہ بات دبا دی گئی بریرہ اتنے مہینوں کی تگ ودو کے بعد یہ کچھ ثبوت ملے ہیں

سب کا شک۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رکا تھا

"بلاج حمدانی پر ہے سب کا شک۔۔؟ آخر کار ارسل بھیا ہی آخری کانٹا تھے نا۔۔؟؟؟"

لہجہ سرد ہوگیا تھا آنکھیں پتھرا گئیں تھیں اسکی۔۔۔

بریرہ شاہ آج یہ خبر سن کر پھر سے مری تھی اپنے بڑے بھائی کی موت کی خبر سن کر اس کی آنکھیں اس بارش کے پانی میں پوری طرح بھیگی تھیں

"ڈینیل۔۔۔ کیا خاندانی دشمنی اتنی ضروری ہوتی ہے۔۔؟ کیا بدلہ انسان کو اتنا شیطان بنا دیتا ہے۔؟ کیا ضمیر مر جاتا ہے لوگوں کا۔۔؟"

قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیئے تھے اس نے

"میں کیا کہہ سکتا ہوں بریرہ۔؟ میرے سامنے اب بلاج حمدانی نہیں بریرہ شاہ ہے جو بدلہ لینے نکلی ہے جو کل ایک مکھی مارنے سے ڈرتی تھی آج وہ لوگوں سے بدلہ لینے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔۔۔"

"بس ڈینیل۔۔بریرہ تم گھر چلو۔۔"

سونم نے پھر سے بریرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی تھی 

"ہاہاہاہا۔۔ ابھی کہاں ڈینیل ابھی تو کچھ نہیں دیکھا تم نے

بدلے کی آگ نے میرے اپنوں کی موت نے مجھے وہ بنا دیا ہے جس سے میں نے نفرت کی ایک بے حس ظالم کم ظرف انسان۔۔

شاید انسان بھی نہیں۔۔

میرا قہر بجلی بن کر ٹوٹے گا ان سب پر مہتاب حمدانی کے روپ میں بس دیکھتے جاؤ۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج تم اس وقت یہاں۔۔؟ ڈیڈ ابھی بھی بہت غصہ ہیں وہ میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے"

"تو چھوڑ دو اس گھر کو کم ود مئ۔۔۔"

"تم نے ڈرنک کی ہوئی ہے۔۔؟ چلو میرے روم میں۔۔۔"

بلاج کو سہارا دیتے ہوئے وہ اپنے کمرے تک لے گئی تھی

"بلاج اتنے طوفان میں تم ایسے گھوم رہے ہو۔۔؟ کپڑوں پر اتنے داغ اتنی مٹی۔۔؟ کیا حالت بنا لی ہے روکو میں تمہیں تمہارا کوئی ڈریس دیتی ہوں۔۔۔"

اس نے بلاج کو وہاں بٹھا کر اپنے کپبرڈ تک جانے کی کوشش کی تھی کہ بلاج نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا تھا

"ان ڈریس ناؤ"

"وٹ بلاج۔۔پلیز ابھی تم اپنے ہوش میں نہیں ہو۔۔۔"

"رائٹ ناؤ مدیحہ۔۔۔میں پورے ہوش حواس میں ہوں میری جان۔۔

آئی نیڈ یو ناؤ۔۔۔کم ہئیر۔۔۔"

"پر بلاج۔۔"

"ششش۔۔۔۔لِٹ مئ لوو یو ناؤ۔۔۔"

۔

۔

کڑکتی بجلی نے اس کی آنکھیں کھول دی تھیں۔۔۔ اور جب پوری طرح آنکھیں اس نے روم میں گھمائی تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا

"میں یہاں کیسے آیا۔۔؟؟"

پر پاس سو رہی اسکی منگیتر نے دوسری طرف منہ کر لیا تھا اور گہری نیند میں سو گئی تھی۔۔۔

اپنے کپڑے پہنے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا پر اسکی شرٹ اسے کہیں نظر نہیں آرہی تھی سر درد میں اس نے کھڑکی کھول دی تھی اور پینٹ کی جیب سے اپنا سگار نکال لیا تھا۔۔۔

اس سگار کے دھوئیں اسے ماضی کی ان یادوں میں لے گئے تھے جن سے وہ نفرت کرتے کرتے بہت آگے نکل آیا تھا۔۔

۔

۔

(فلیش بیک۔۔۔۔۔)

۔

۔

"تمہاری ہمت ہوئی کیسے ہمارے آفس میں قدم رکھنے کی بلاج حمدانی"

وہ سب لوگ اس میٹنگ روم میں ایک اہم موضوع پر گفتگو کر رہے تھے جب بلاج نے اندر داخل ہوتے ہی ایک شخص کا گریبان پکڑ کر اسے اندر پھینکا تھا اس پر وجیح شاہ کے ہر سیکیورٹی گارڈ نے گن ساد دی تھی پر وہ نڈر کھڑا تھا ان سب میں

"جیسے تیری اور تیرے باپ کی ہمت ہوئی اس کو میری بہن کی یونیورسٹی تک بھیجنے کی"

بلاج نے زمین پر گرے اس زخمی شخص کو ایک اور ٹھڈا مارا تھا جو ارسل شاہ کے پاس جا گرا تھا

"بلاج۔۔۔"

ارسل نے اپنی گن لوڈ کردی تھی

"مار اگر تو مرد ہے تو مار مجھے۔۔۔ اب گھر کی عورتوں تک پہنچ گئے تم لوگ۔۔؟ مردانگی مجھے دکھا تو"

اس سے پہلے ارسل گن چلاتا وجیح شاہ اپنی کرسی سے اٹھ گئے تھے

"بس بلاج ہم خاموش ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہم ڈرتے ہیں۔۔

اور یہ حرکت تو تمہارے خاندان کی عادت ہے عورتیں استعمال کرنا

تاریخ پڑھو اور اپنے باپ سے پوچھنا اپنی وہ پھوپھو کی کہانیاں جس نے میرے چھوٹے بھائی کو کیسے اپنی محبت"

بس وجیح شاہ۔۔۔"

بلاج کی گن وجیح صاحب پر تھیں اور پیچھے سے جیسے ہی ایک گارڈ نے بلاج کو نشانہ بنایا چاہا بلاج نے شیشے پر دیکھ لیا تھا اسے

"جب دو لوگ بات کررہے ہوں تو ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے ٹوٹ جاتی ہے۔"

بلاج نے اسکی ٹانگ پر طیش سے شوٹ کیا تھا اور اسی وقت میٹنگ روم کا دروازہ کھل گیا تھا

"بابا سائیں وہ ہم نے آپ سے۔۔۔۔"

بریری شاہ کی بولتی بند ہوگئی تھی سب سے پہلے اسکی نظر بلاج حمدانی اور پھر اسکے ہاتھوں میں پکڑی گن پر پڑی تھی اور پھر اسکی نظر نیچے بے ہوش پڑے گارڈ پر پڑی تھیں۔۔۔اور جب اسکی نظریں بلاج کی آنکھوں میں پڑی تھیں ان میں غصہ نفرت اور جنون اس قدر تھا کہ وہ نیچے گر گئی تھی

وہ جیسے ہی نیچے گری تھی اسکی نظر کی عینک دور جا گری تھی اسکا سر جیسے ہی لکڑی کے مظبوط میز کے ساتھ ٹکرایا تھا۔۔۔۔

اسکے ماتھے سے خون کے قطرے نکلتے دیکھ وجیح شاہ اور ارسل شاہ بہت زیادہ گھبرا گئے تھے بنا کچھ کہے وہ بریرہ کو اٹھا کر باہر لے گئے تھے

"بابا سر پر چوٹ آئی ہے سیدھا ہسپتال لے چلتے ہیں۔۔"

"نہیں بیٹا سب میڈیا کو بریرہ کا پتا چل جاۓ گا گھر لے کر چلتے ہیں تم ڈاکٹر کو فون کرو جلدی۔۔۔"

وہ جلدی سے اسے میٹنگ سے باہر لے گئے تھے اور پیچھے پیچھے گارڈز بھی تھے

"بریرہ شاہ۔۔۔۔"

بلاج نے ایک سرگوشی کی تھی اور بریرہ کی ٹوٹی ہوئی گلاسیز اٹھا کر اپنے کوٹ کی جیب میں با حفاظت رکھ لی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔

۔

"سب ٹھیک ہے عروج بس بریرہ پھسل گئی تھی بہو پانی لے آؤ جلدی زرا۔۔"

وجیح شاہ نے اتنی بیٹی کو اسکے روم کے بیڈ پر لٹا دیا تھا اور فکر مندی اسکے ماتھے سے خون صاف کرنا شروع کردیا تھا

"اسے یہاں آنا ہی نہیں چاہئے تھا وجیح صاحب یہ ایک غلط فیصلہ تھا"

"اب تم بتاؤ گی مجھے کیا سہی ہے کیا غلط ہے عروج بیگم۔۔؟ڈاکٹر کے آنے سے پہلے کمرہ خالی کرو جاؤ یہاں سے۔۔۔"

انہوں نے اپنی بیوی کو وہاں سے بھیج دیا تھا جو بریرہ کی چوٹ پر اپنا شفقت کا ہاتھ رکھنے کو ترس رہیں تھیں

"بلاج حمدانی میں جتنا تمہاری گستاخیوں کو درگزر کررہا ہو تم اتنا ہی سر چڑھ رہے ہو میرے"

۔

کچھ دیر میں ڈاکٹر آگئے تھے۔۔۔دونوں بھائی روم کے باہر کسی زخمی شیر کی طرح چکر کاٹ رہے تھے۔۔۔

جب ڈاکٹر نے زخم سٹیچ کرکے بینڈیتھ کر دی تھی اس وقت ان تین مردوں کو سکون آیا تھا۔۔

بریرہ شاہ کو گھر کی خواتین سے زیادہ گھر کے تینوں مرد پیار کرتے تھے

وجیح شاہ

ارسل شاہ اور کاشان شاہ

وہ آنکھوں کا تارا تھی سب کی اسکی حفاظت کے لیے اسے اتنے سال تک پاکستان میں رکھا ہوا تھا وہ لوگ اپنے مافیا بزنس میں اپنی فیملی اور اپنی بیٹی کو اِن وولوو نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

کمرے کی کھلی کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوا سے وہ مخملی مل مل کی شیٹ جو ہلکی ہلکی سرک رہی تھی

اور ایک وجود کے کھڑکی کے اس پار سے اندر آنے پر وہ ہوا تو بند ہوگئی تھی اور بریرہ شاہ کی آنکھیں ہلکی ہلکی کھلنا شروع ہوئی تھی۔۔۔

قدموں کی آہٹ اسے گہری نیند میں بھی سنائی دے رہی تھی

اس کی آنکھیں کھلنے پر اسکا سیدھا ہاتھ بے ساختہ اسکے ماتھے کی طرف گیا تھا۔۔۔

وہ بیڈ ٹیبل کی طرف ہاتھ بڑھائے اپنی گلاسیز ڈھونڈنا شروع ہوئی تھی اسی وقت کسی نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا

"تمہاری خوبصورت آنکھوں کو ان گلاسیز کی ضرورت نہیں ہے کڈو۔۔"

بریرہ کی آنکھیں کھل گئی تھی اس آواز سے جس سے وہ پچھلے ایک ہفتے سے بھاگ رہی تھی

"ب۔۔۔بلاج۔۔۔؟؟"

"تمہیں تو میرا نام یاد ہے میں تو سمجھا کہ بھول گئی ہوگی۔۔۔جیسے ہماری ڈیٹ بھولی تھی۔۔۔؟ آنے کا وعدہ کرکے آئی نہیں بریرہ شاہ۔۔۔"

وہ جیسے ہی بیڈ پر بیٹھا تھا بریرہ ہڑبڑا کر پیچھے ہوئی تھی جس سے اسکا سر بیڈ پر لگا تھا اور درد پھر سے شروع ہوگیا تھا

"کچھ کھا کر دوائی کھا لو پھر ہم چلیں گے ڈیٹ پر۔۔۔"

بلاج نے فروٹ کی ٹرے آگے کی تھی

"وٹ دا ہیل۔۔؟ کیا کر رہے ہو یہاں۔۔۔؟؟ جاؤ یہاں سے وہ مار دیں گے تمہیں۔۔۔"

بیڈ سے اتر کر اس نے بلاج کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور دروازے تک لے آئی تھی جب اس کی نظر بلاج حمدانی پر پوری طرح پڑی تھی جو بنا شرٹ کے تھا

"سیریسلی۔۔۔؟ کیا طریقہ ہے اس طرح کسی کے کمرے میں بنا شرٹ پہنے آنا۔۔؟ شرم کریں اب دفعہ ہوجائیں مجھے بھی مروائیں گے۔۔۔"

وہ بلاج کو کھینچ کر کھڑکی کی طرف لے جا رہی تھی جب بلاج نے اسے کھینچ کر دروازے کے ساتھ پن کردیا تھا

"بہت بولتی ہو تم یار چپ ایک دم"

بلاج نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا جو گھبرا سی گئی تھی اتنی نزدیکی سے بلاج حمدانی کی

"اگر آپ یہاں سے نا گئے تو بولنے کے ساتھ ساتھ کاٹتی بھی ہوں میں۔۔۔"

"ہاہاہاہا کاٹ کر دیکھاؤ۔۔۔"

"اور اسکے منہ پر رکھے بلاج کے اس ہاتھ پر کاٹ لیا تھا بریرہ نے۔۔۔

بلاج حیران ہوا تھا اور قہقہہ لگا دیا تھا اس نے جب بریرہ نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔۔۔

"بریرہ بیٹا۔۔۔"

باہر سے بریرہ کی امی کی آواز نے اسے شوکڈ کردیا تھا

"چپ انکو جواب دو گی تو وہ اندر آجائیں گی۔۔۔اور مجھے تمہیں ایسے اس حالت میں دیکھ کر کیا سوچیں گی۔۔۔؟؟؟"

بلاج نے اسکے کانوں میں سرگوشی کی تھی

"لگتا ہے ابھی تک نیند میں ہے۔۔۔"

یہ کہہ کر بریرہ کی امی وہاں سے چلی گئیں تھیں

"آپ دفعہ ہورہے ہیں یا نہیں۔۔۔؟؟ کچھ شرم نہیں آئی شرٹ کے بغیر آنے میں۔۔۔؟؟"

اور بلاج اسے کھڑکی کے پاس لے گیا تھا

"اتنی اونچائی پر آتے آتے پھٹ گئی شرٹ میری۔۔۔مجھے کوئی شوق نہیں اپنی خوبصورتی کو نظر لگوانے کی۔۔۔"

بریرہ کا منہ کھل گیا تھا بلاج کی بات پر۔۔۔

"ہاہاہاہا خوبصورتی۔۔۔؟؟ کہہ تو ایسے رہے جیسے پہلی بار بنا شرٹ کے گھوم رہے آپ کو بنا شرٹ کے کتنے ہوٹل رومز کے قصے پڑھ چکی ہوں۔۔۔"

اوو تو مجھے پڑھتی بھی ہو مجھے۔۔۔؟؟؟"

بریرہ نے شرما کر منہ نیچے کرلیا تھا

"ونڈو کے شیشے پر لائٹ پڑنے سے پہلے بریرہ نے بلاج کو اور خود کو کھڑکی سے پیچھے کرلیا تھا اور اس بار بلاج کھڑکی کے ساتھ پن تھا

"یہ گارڈز صبح چار بجے تک ایسے ہی پٹرولنگ کرتے رہیں گے یہاں ڈو سم تھنگ۔۔۔۔"

"کوئی بات نہیں میں رک جاتا ہوں ہماری جو پینڈنگ ڈیٹ تھی وہ یہیں پوری ہوجاۓ گی۔۔۔"

"وٹ۔۔۔؟؟؟تم پاگل ہو۔۔۔؟ کہاں پھنس گئی ہوں میں۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر واپس بیڈ پر بیٹھ گئی تھی بلاج حمدانی صرف مسکرا رہا تھا اسکی بچکانا حرکات پر۔۔۔۔

"پاگل تو تم نے بنا دیا ہے بریرہ شاہ۔۔۔اب بھگتو۔۔۔۔اب یہ بتاؤ کینڈلز کہاں ہیں۔۔۔؟؟"

وہ کہتے کہتے خود ہی ڈھونڈنا شروع ہوگیا تھا اور جب کپڑوں والے کپبرڈ کی طرف اس نے ہاتھ بڑھایا تو بریرہ جلدی سے اسی طرف بھاگی تھی

"آپ کو کسی نے سمجھایا نہیں کہ کسی لڑکی کے کپڑوں کی الماری میں تانک جھانک بری بات ہے۔۔۔۔"

"ہاہاہاہا مجھ سے بھی پردہ۔۔۔؟؟ دیکھنے تو دو کینڈلز۔۔۔"

"اس سائیڈ پر تھرڈ ڈراؤر میں پڑی ہے۔۔۔'"

وہ اپنی کپبرڈ سے زرا سا بھی پیچھے نہیں ہٹی تھی۔۔۔۔

"ہاہاہاہا ہٹ جاؤ پیچھے نہیں دیکھتا کچھ بھی"

بلاج نے ان کینڈلز کو اپنی پینٹ میں پڑے لائٹر سے جلا دیا تھا اور وہیں ٹیبل پر رکھ دیں تھیں جہاں وہ فروٹ کی ٹرے پڑی تھی

"آپ کو یہ سب کرکے کیا ملے گا بلاج۔۔۔؟؟"

"راحت۔۔۔سکون ملے گا جو تم نے چھینا ہوا ہے جب سے مجھے اس ریسٹورنٹ میں انتظار پر چھوڑا تم نے۔۔۔"

اس نے بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر بستر پر بٹھا دیا تھا اور کچھ فاصلے پر خود بھی بیٹھ گیا تھا

"میں وہ ڈیٹ کا نہیں ان سب کا مقصد پوچھ رہی ہوں۔۔۔کیا ملے گا۔۔؟ 

آج آفس میں بھی کسی کو مارا آپ نے یہ دشمنی اور دشمن کی بیٹی میں اتنی دلچسپی سے کیا ملے گا آپ کو۔۔۔؟؟؟"

"تم ملو گی ظاہر سی بات ہے کڈو۔۔۔"

وہ ہنسی چھپائے اسے تنگ کر رہا تھا

"اگر ایک بار اور کڈ کہا تو میں خود آپ کو اٹھا کر باہر پھینک دوں گی یہاں سے"

"ہاہاہاہا اوکے ایم سوری کڈ۔۔۔۔میرا مطلب ہے بریرہ شاہ۔۔۔۔"

بریرہ کی لال ناک دیکھ کر اپنی بات بدل دی تھی

۔

اور دو گھنٹے کا وہ وقت باتوں میں کیسے گزرا ان دونوں کو ہی پتا نہیں چلا تھا

"یہاں آیا تو کسی اور مقصد کے لیے تھا پر اب اسے پورا کئیے بغیر جا بھی نہیں سکتا"

اس نے اپنی جیب سے ایک بہت سادہ سی خوبصورت انگوٹھی نکال تھی۔۔

بریرہ کو مہلت ہی نہیں دی تھی اس نے اور اسے وہ انگوٹھی پہنا دی تھی

"بریرہ شاہ میں جب تک زندہ ہوں کوشش کروں گا تمہارے ہاتھ سے یہ انگوٹھی تب نکلے جب تمہارے ان ہاتھوں میں جان باقی نا رہے"

بلاج حمدانی کے لہجے میں ایک جنون تھا ایک شدت تھی جس طرح وہ بریرہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

"بلاج"

"شش جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پھر ڈیٹ پر تمہیں تمہارا منگیتر لیکر جاۓ گا" 

اسکی رنگ فنگر پر وہ بوسہ دے کر وہاں سے چلا گیا تھا

۔

۔

"بریرہ۔۔۔۔"

اس نے نام کسی اور کا لیا تھا اور اسے پیچھے سے کسی اور نے اپنی بانہوں کے حصار میں لیا تھا۔۔۔

"بلاج پلیز اس محبت بھری رات کو اس رکھیل کا نام لیکر خراب نا کرو

ایک بد صورت ماضی کو بھلا دو آنے والے خوبصورت مستقبل کے لیے میری جان۔۔۔۔"

بلاج کے کندھے پر جیسے ہی اسکے ہونٹ محسوس ہوۓ تھے بلاج کو آنکھیں بند کرنے پر چہرہ کسی اور کا نظر آیا تھا۔۔۔

آنکھوں پر بڑی سی ا

گلاسیز لگائی بریرہ شاہ کا چہرہ۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تم یہاں سے کہیں نہیں جارہے میں نے کہہ دیا ہے۔۔۔"

"آپ یہ کہنے والے ہوتے کون ہیں۔۔۔؟؟ ہاتھ کھولیں میرے ابھی"

"چاچا ہوں تمہارا۔۔۔تمہارے باپ کا سگا بھائی ہوں میں پورا حق ہے میرا تمہیں روکنے کا۔۔۔سنا تم نے اب تم پاکستان سے باہر کہیں نہیں جاؤ گے ارسل شاہ۔۔۔"

"آپ مجھے زبردستی روک نہیں سکتے۔۔۔میرے باپ کا قتل ہوگیا میرے بھائی کو مار دیا گیا اور میری بہن میری گڑیا میں اسکا خون معاف نہیں کروں گا بس مجھے کھولیں ڈیم اِٹ۔۔۔"

ارسل کی آواز اسکا چلانا اس وقت بند ہوا جب اسکے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا تھا کسی نے

"امی۔۔۔؟؟ شکر ہے آپ ٹھیک ہیں۔۔پلیز چاچو سے کہیں مجھے کھول دیں مجھے ان لوگوں سے بدلہ لینے جانا ہے امی۔۔۔"

"ان لوگوں نے برباد نہیں کیا ارسل تمہاری بہن کھا گئی میرے بیٹے کو میرے سہاگ کو وہ لوگ قصور وار نہیں ہیں تمہاری اپنی بہن مجرم نکلی

کس سے بدلہ لو گے۔۔؟ وہ دو دشمن تھے ایک سانپ کی مانند پر تمہارا اپنا خون کیوں اتنا گندا نکل آیا ارسل۔۔۔؟؟ بریرہ نے سب کچھ برباد کردیا میرے بچے ہم اب بدلہ نہیں لیں گے اب کچھ باقی نہیں رہا"

انکے رونے پر ارسل شاہ کی آنکھیں بھر آئیں جو کبھی آنسو نہیں بھاتی تھیں آج وہ رو رہا تھا۔۔

"امی بریرہ مجرم نہیں تھی۔۔۔وہ معصوم تھی۔۔۔بابا سہی کہتے تھے ہم نے بریرہ کو وہاں بلا کر غلطی کی۔۔۔اسکی معصومیت کا فائدہ اٹھایا اس باسٹرڈ نے امی"

"اور وہ دودھ پیتی بچی تھی۔۔؟ جو لڑکی گھر کی دہلیز کو پار کر جائے وہ سب کچھ ہوسکتی پر معصوم نہیں ہوسکتی ارسل۔۔

اسے انجام کا کیا نہیں پتا تھا۔۔۔ ؟ اسے سب پتا تھا پھر بھی اس نے یہ سب کیا۔۔وہ میرے لیے مر چکی تھی اسکی موت کی خبر تو ایک مہینے بعد آئی تھی میں بریرہ کو پہلے ہی مار چکی تھی رو چکی تھی"

ارسل کی نگاہیں اور بھاری ہوگئی تھی اسکے آنسوؤں سے اور اسکی امی کے کہے الفاظ اسے اور اذیت پہنچا رہے تھے

"بریرہ شاہ میری کچھ نہیں لگتی اور نا ہی وہ تمہاری کچھ لگتی ہے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں سنا تم نے اب تم کہیں نہیں جاؤ گے اگر تم گئے ارسل تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔اور تم اپنی ماں کو بھی کھو دو گے یاد رکھنا۔۔۔"

انکے کمرے سے جانے کے بعد ارسل بھی کرسی کے ساتھ لگ گیا تھا

"ارسل بیٹا یہ سب تمہارے اپنے بھلے کے لیے کہہ رہے ہیں ہم اب نہیں بھگت سکتے ہم یہ لڑائی جھگڑا اور یہ خاندانی دشمنی"

ارسل نے گہرا سانس لیا تھا

"اوکے چاچا جی مجھے منظور ہے۔۔۔اب تو کھول دیجیئے امی کے پاس جانے دیجیئے۔۔"

چاچا جی نے تو یقین کر کے خوشی خوشی تمام رسیاں کھول دی تھیں۔۔اور ہاتھ کھلتے ساری ارسل نے چاچا جی کو اس کرسی پر دھکیل کر باندھنا شروع کیا تھا

"ارسل یہ کیا بکواس ہے کھولو مجھے۔۔تم یہاں سے نہیں جا سکتے باہر میرے سیکیورٹی گارڈ ڈیوٹی پر ہیں۔۔۔"

"میں دیکھ لوں گا چاچو۔۔۔"ارسل نے پوری طرح سے باندھ دیا تھا انہیں

"ارسل پلیز مت جاؤ بیٹا۔۔تم ایک آخری بچے ہو میرے بھائی کی اولاد میں سے۔۔نا جاؤ بیٹا۔۔۔"

انکے لہجے میں گزارش بھی تھی اور التجا بھی دکھ بھی تھا اور تکلیف بھی

"ہمارا ہنستا کھیلتا خاندان منوں مٹی دفنا دیا گیا اور میں نا مرد ہوں گا جو آخری سانس تک لڑوں گا نہیں۔۔۔

ایم سوری چاچو ماں کا اور میرے بچوں کا خیال رکھنا۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر کھڑکی کی طرف بھاگا تھا

"اور تمہاری بیوی کا کیا ہوگو ارسل اسکے بارے میں کچھ سوچا ہے وہ کیسے گزارا کرے گی۔۔۔؟؟؟"

"جیسے کاشان کی بیوی کر رہی تھی۔۔۔کاشان کو بھی نہیں بخشا ۔۔

سب کو کھائی گئی یہ آپ کی خاندانی دشمنی کبیر چاچو۔۔۔"

اس نے آخری بات طیش میں کہی تھی اور چلا گیا تھا وہاں سے۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

(کچھ ہفتے بعد۔۔۔۔۔۔)

۔

۔

"اندر تو چلو نا بلاج مہتاب کے لیے یہ پارٹی داد جی نے آرگنائز کی ہے کم لیٹس گو۔۔"

بلاج نے ایک نظر باہر دہرائی تھیں جہاں میڈیا کے لوگ اپنے اپنے کیمرے ریڈی کئیے گاڑی کا دروازہ کھلنے کے انتظار میں تھے۔۔۔

بلاج نے گاڑی سے باہر نکل کر اپنے کوٹ کا مڈ بٹن بند کر کے مدیحہ کی سائیڈ کا ڈور اوپن کیا تھا اور ہاتھ آگے بڑھایا تھا جسے خوشی خوشی پکڑ کر مدیحہ نے گاڑی سے باہر اپنے پاؤں نکالے تھے۔۔۔

"مسٹر بلاج۔۔۔مسٹر بلاج کیا آپ نے اب تک شادی کرنے کا فیصلہ نہیں لیا۔۔؟ 

مس مدیحہ کو اور کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔۔؟؟"

بلاج اور مدیحہ بنا ری ایکٹ کئیے جا رہے تھے اندر کی جانب گارڈز اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے تھے میڈیا کو پیچھے رکھنے کی

"مسٹر بلاج کیا مس مدیحہ بھی آپ کے پاسٹ آفئیرز میں شامل ہونے والی ہیں"

بلاج کے قدموں سے قدم ملائے وہ چل رہی تھی

"مسٹر بلاج بریرہ شاہ کے ساتھ آپ کے کیا تعلقات تھے۔۔؟؟"

ایک آواز نے بلاج کو روک دیا تھا جو میڈیا پرسن تھا پر جس طرح سے وہ بلاج حمدانی کو دیکھ رہا تھا اس سے تو کچھ اور ثابت ہورہا تھا

"نو کمینٹس۔۔۔۔"

مدیحہ نے کہہ کر بلاج کے بازو کو پکڑ لیا تھا

"سننے میں آیا ہے کہ جس خاندان کی لڑکی کا کوئی آفئیر کبھی میڈیا پر نہیں آیا تھا اسے آپ نے اپنی مسٹریس بنایا ہوا تھا۔۔؟؟

حالانکہ ایسے آفئیرز تو آپ کے تھے تو ٹائٹل بھی آپ کو ملنا چاہیے تھا نا مین وؤرھ کا۔۔۔؟؟؟؟"

بلاج نے مڑ کر اسے دیکھا تھا جب سب موجود لوگوں نے سرگوشیاں کرنا شروع کردیں تھیں

"بریرہ شاہ مر چکی ہے آئی تھنک اب اس گوسپ کو بھی دفن کردینا چاہیے"

"سیریسلی۔۔۔؟؟ بریرہ شاہ ایک الجھی ہوئی پہیلی تھی کیا پتا انکے مرنے پر سلجھ جائے یہ مسٹری۔۔۔؟؟آپ بھی تو ان کے عاشقوں کی لسٹ میں رہ چکے ہیں نا۔۔؟"

بلاج کی مٹھی جیسے ہی بند ہوئی تھی زمرد صاحب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا

"ایک آخری بات بلاج حمدانی کسی مرے ہوئی کی قبر کی بے حرمتی پھر سے نا کرنا مجھے اگلی بار وہ ویڈیو شوٹ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔۔۔"

اس نے رپورٹر نے یہ بات اردو میں کہی تھی بلاج کو جو وہاں بلاج کے قریب کھڑے زمرد حمدانی اور مدیحہ سن چکے تھے

"مجھے یہ رپورٹر ہر حال میں میری آنکھوں کے سامنے چاہیے اسے میں بتاؤں گا کیا نتیجہ نکلتا ہے جب کوئی بلاج حمدانی کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرے تو"

بلاج کے گارڈ نے ہاں میں سر ہلایا تھا اور اس رپورٹر کو فالو کرنے چل دیا تھا

"اندر چلو بیٹا۔۔۔مہتاب اندر آگیا ہے۔۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"واااووو کون ہے وہ ہمیں بھی بتاؤ مہتاب بھیا" وہاج نے باقی سب کی طرح مہتاب کو چھیڑتے ہوئے پوچھا تھا

"بلاج بھیا۔۔۔"

مہتاب سب کو چھوڑ کر بلاج کی طرف بھاگا تھا جس نے اپنے دونوں بازو اپنے چھوٹے بھائی خ

کے لیے پہلے ہی کھولے ہوئے تھے

"مہتاب۔۔۔۔"

بلاج نے اپنے بھائی کو گرم جوشی سے اپنے گلے لگا کر سرگوشی میں نام لیا تھا

"آپ کیسے ہیں بلاج بھیا۔۔۔؟؟ بہت مس کیا آپ کو میں نے۔۔۔"

بلاج نے مہتاب کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پھر اسے اپنے گلے سے لگایا تھا۔۔۔

اگر اسے اپنی فیملی میں کسی سے بے لوث محبت تھی تو وہ مہتاب تھا

"بھیا بال تو نا خراب کریں وہ آتی ہی ہوگی۔۔۔"

باقی سب لوگ ہنسنے لگے تھے

"پاپا باقی سب کہاں ہے ماں چاچی۔۔؟ "

مہتاب نے نظریں دہرائی تھیں

"ان کا کیا کام ان پارٹیز میں۔۔؟ گھر کی عورتیں گھر ہستی سنبھالتے ہوئے اچھی لگتی۔۔"

بلاج یہ کہہ کر اپنے بزنس پارٹنر سے ملنے چلا گیا تھا

"مدیحہ بھابھی آپ کیسے گزارا کریں گی میرے بورنگ اکڑو بھائی کے ساتھ۔۔؟"

اسکی بات پر اور قہقہے بلند ہوۓ تھے خاص کر داد جی کے

"جیسے اب تک کر رہی ہوں دیور جی۔۔۔ داد جی کی مرضی نے پھنسا دیا اس اکڑو کے ساتھ۔۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔"

"مہتاب اب تو بتا دو بیٹا کس کا انتظار ہو رہا کیک کب کاٹنا ہے۔۔؟؟"

"داد جی بس وہ آتی ہی ہوگی۔۔۔آج آپ سب سے ملوا کر یہیں شادی کے لیے پرپوز کرنا چاہتا ہوں اسے۔۔۔"

مہتاب کی بات سن کر داد نے شوکڈ ہوکر اپنے تینوں بیٹوں کی طرف دیکھا تھا

"وٹ۔۔۔؟ شادی۔۔؟ تم جانتے ہو مہتاب داد جی کی مرضی کے بنا بلاج کی مرضی کے بنا کوئی فیصلہ"

"میں جانتا ہوں ڈیڈ۔۔پر وہ میری پسند ہے۔۔۔آپ کو بہت پسند آۓ گی"

"پر بیٹا۔۔۔بلاج۔۔۔"

"بلاج بھیا راضی ہوجائیں گے "

"سر میڈم کی گاڑی پارکنگ کی طرف آرہی۔۔۔"

"واااووو۔۔۔وہ آگئی داد جی۔۔۔۔"

اپنی کرسی سے اچھلتے ہوئے وہ داد جی کے گال پر بوسہ دے کر وہاں سے چلا گیا تھا

"بابا یہ بلاج کے غصے کو نہیں جانتا شاید۔۔۔"

زمرد صاحب نے اپنے والد کو کہا تھا

اس سے پہلے کوئی جواب ملتا دروازہ کھل گیا تھا اور ہال کی لائٹس آف ہوگئی تھی

ڈم لائٹ چلنا شروع ہوئی تھیں اور گٹار کے ساتھ مہتاب سٹیج پر کھڑا تھا منہ پر مائک اٹیچ کئیے۔۔۔

۔

"ہے دل یہ میرا مجھے ہر دم یہ پوچھتا

کیوں مجھے تجھ سے اتنی وفا۔۔۔"

۔

اس لڑکی کی ہیلز جیسے جیسے اس پولشڈ ماربل پر ٹچ ہو رہی تھیں ویسے ویسے مہتاب کے ہاتھوں میں پکڑے گٹار کی ٹونز بج رہیں تھیں

۔

"کیوں تیری حسرت ہے ہر خواہش سے بڑھ کر مجھے

کیوں نام تیرا ہی لیتی زبان"

۔

"ساتھی تیرا بن جاؤں کیوں ہے یہ جنون۔۔۔

ہر آنسو تیرا پی جاؤں۔۔اور دہ دوں سکون۔۔۔

 ۔

ہر دن تجھ کو چاہوں تیری راہ تکوں۔۔۔۔

اپنی بانہوں میں تجھ کو میں سلامت رکھوں"

۔

وہ سپوٹ لائٹ جب اس لڑکی پر پڑی تھی اس کا چہرہ دیکھنے کے بعد دو لوگوں کی سانسیں ضرور رک گئی تھی۔۔۔

مہتاب حمدانی جو اپنے بھیجے ہوۓ اس ڈریس میں اپنی خوبصورت منگیتر کو دیکھ رہا تھا

اور بلاج حمدانی

جو اس نئی لک اور گیٹ اپ کے باوجود پہچان گیا تھا اسے

"بریرہ"

ایک آہ بھری تھی اس نے اور جب بریرہ بلکل سینٹر میں چلتے چلتے پہنچ گئی تھی مہتاب کو اسکے پاس جاتے دیکھ بلاج کی گرفت اسکے ڈرنک گلاس پر اور مظبوط ہوگئی تھی

۔

"تیرے ہی بارے میں ہے اب ہر ذکر میرا

ہوا ہے کیسا اثر یہ تیرا۔۔۔"

۔

اس نے اپنا گیٹار ایک سرونٹ کو پکڑا دیا تھا اور مائک پہ پہ گنگناتے ہوئے بریرہ کی طرف بڑھا تھا

اس آج سب ماسک کے بغیر دیکھ رہے تھے۔۔اور کوئی بھی اسے نہیں پہچان پایا تھا نا داد جی نا ہی کوئی اور۔۔۔سواۓ بلاج حمدانی کے۔۔۔

مہتاب نے بریرہ کا ہاتھ پکڑ کے اپنے اور پاس کیا تھا۔۔۔

ہال سے بہت ہوٹنگ کی آواز آئی تھی اور فیملی کے مرد بھی بہت خوش ہورہے تھے مہتاب کو اتنا خوش دیکھ کر۔۔۔۔

۔

"کوئی نصیحت۔۔۔نا چاہوں میں کوئی صلاح۔۔۔

جو روح نے میری۔۔۔تجھے چن لیا۔۔۔۔"

۔

۔

بریرہ نے جیسے ہی مسکراتے ہوئے مہتاب کے چہرے پر بہت پیار سے ہاتھ رکھا تھا بلاج حمدانی کو وہ محسوس ہوا تھا جو آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا ہو اسے۔۔۔

ایک جنون ایک جلن ایک درد۔۔۔

جنون اس لڑکی کو پھر سے واپس اپنی آغوش میں بھر لینے کا

جلن اسے کسی اور کی بانہوں میں دیکھ کر شدت اختیار کرگئی تھی

اور درد جب اسے ماضی کی کچھ یادیں یاد آگئی تھیں

 ۔

۔

"فلیش بیک۔۔۔۔"

۔

"ہے دل خام خواہ پریشان بڑا۔۔۔

اس کو کوئی سمجھا دے زرا۔۔۔"

بریرہ کی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا تھا بلاج نے۔۔۔

"بہت رومینٹک ہو رہے ہیں مسٹر بلاج۔۔۔"

بلاج نے بنا کچھ کہے بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر پھر سے اسے گھمایا تھا پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیکر اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ لیا تھا

۔

"عشق میں فنا ہوجانا ہے دستور یہی

جس میں ہو صبر کی فطرت وہ عشق ہی نہیں۔۔۔۔"

۔

"کیا پتا ہم کل کہاں ہوں۔۔بریرہ"

"بریرہ کہیں بھی ہو آنکھیں بند کر کے جب بھی کھولو گے مجھے اپنے سامنے پاؤ گے مسٹر ہبی۔۔۔۔"

بریرہ نے اسکی چہرہ پر ہاتھ رکھ کر اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں آج اسے کچھ اور جذبات بھی نظر آرہے تھے

"میں جلدی واپس آجاؤں گا۔۔۔"

"میں انتظار کروں گی بلاج۔۔۔"

"اگر نا کر پائی میرا انتظار تو۔۔؟ اگر کوئی اور لے گیا تمہیں چرا کر تو۔۔؟؟"

"ہاہاہاہا آزما کر دیکھ لیں بلاج حمدانی بریرہ کی نظروں میں اور دل میں صرف تم ہی تم ہو اور رہو گے ہمیشہ۔۔۔۔"

۔

۔

"میں مہتاب حمدانی پشمینہ شیخ تم سے تمہارا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں ساری زندگی کے لیے ہمیشہ کے لیے۔۔۔

اپنی زندگی تمہارے نام کر کے تم سے تمہیں چرانا چاہتا ہوں کیا تمہیں میں قبول ہوں۔۔؟"

اور بلاج اپنی کھوئی ہوئی دنیا سے واپس آگیا تھا اپنے بھائی پر اور اس لڑکی پر اسکی نظریں پڑی تھیں جس نے ہاں میں سر ہلا کر مہتاب کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔

"سب جھوٹ بولا تم نے بریرہ شاہ۔۔۔"

گلاس ٹوٹ کر ہاتھ میں چبھ گیا تھا اسکے اور وہ بنا پرواہ کئیے اس سٹیج کی طرف بڑھا تھا

"بلاج بھائی۔۔۔پشمینہ شیخ میری منگیتر۔۔۔۔پشمینہ میرے بڑے بھائی بلاج حمدانی۔۔۔"

مہتاب نے بلاج کو بریرہ کے سامنے لاکر کھڑا کردیا تھا جس نے اپنے ہاتھ میں مہتاب کی پہنی ہوئی انگوٹھی کو آگے کیا تھا پورا ہال مبارکباد اور تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔۔۔

پشمینہ شیخ نام سے حمدانی خاندان کی مسکراہٹ تھم گئی تھی پر مہتاب کی خاطر سب نے آگے بڑھ کر پشمینہ کو پیار دیا تھا

"جیٹھ جی۔۔۔آپ مبارکباد نہیں دیں گے ہمیں۔۔۔؟؟"

"وٹ دا ہیل بر"

"بلاج یہاں آؤ بیٹا تمہیں کسی سے ملوانا ہے۔۔"

داد جی بلاج کو وہاں سے لے گئے تھے بریرہ کی نظریں بلاج کے زخمی ہاتھ پر تھیں اور ایک سکون اتر آیا تھا اسکی آنکھوں میں

"بلاج حمدانی یہ شروعات ہے تمہاری ہر تکلیف کی تمہارے ہر دکھ کی

یہ جسم سے نکلنے والا خون مجھے سکون ضرور دے رہا پر میری روح کو اس دن سکون ملے گا جب تمہاری آنکھیں خون روئیں گی۔۔۔۔"

"بلاج بھائی۔۔۔پشمینہ شیخ میری منگیتر۔۔۔۔پشمینہ میرے بڑے بھائی بلاج حمدانی۔۔۔"

مہتاب نے بلاج کو بریرہ کے سامنے لاکر کھڑا کردیا تھا جس نے اپنے ہاتھ میں مہتاب کی پہنی ہوئی انگوٹھی کو آگے کیا تھا پورا ہال مبارکباد اور تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔۔۔

پشمینہ شیخ نام سے حمدانی خاندان کی مسکراہٹ تھم گئی تھی پر مہتاب کی خاطر سب نے آگے بڑھ کر پشمینہ کو پیار دیا تھا

"جیٹھ جی۔۔۔آپ مبارکباد نہیں دیں گے ہمیں۔۔۔؟؟"

"وٹ دا ہیل بر"

"بلاج یہاں آؤ بیٹا تمہیں کسی سے ملوانا ہے۔۔"

داد جی بلاج کو وہاں سے لے گئے تھے بریرہ کی نظریں بلاج کے زخمی ہاتھ پر تھیں اور ایک سکون اتر آیا تھا اسکی آنکھوں میں

"بلاج حمدانی یہ شروعات ہے تمہاری ہر تکلیف کی تمہارے ہر دکھ کی

یہ جسم سے نکلنے والا خون مجھے سکون ضرور دے رہا پر میری روح کو اس دن سکون ملے گا جب تمہاری آنکھیں خون روئیں گی۔۔۔۔"

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"پشمینہ شیخ وٹ آ  بیوٹی فل نیم ہونے والی بھابھی جی۔۔۔"

وہاج نے بہت عزت سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا 

"تھینک یو ہونے والے دیور جی۔۔۔"

وہ جیسے ہی ہاتھ ملانے لگی تھی مہتاب نے اپنا ہاتھ آگے کرلیا تھا

"نوو فلرٹنگ چھوٹے بھائی۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔پر میں تو کروں گا۔۔اتنی سیکسی منگیتر۔۔پر نام سنا ہوا ہے میں نے"

ربیل نے ویٹر سے ڈرنک کا گلاس پکڑ کر سب کی توجہ اپنے اوپر کردی تھی۔۔

"ربیل۔۔۔"

"داد جی یہ تو وکی کی گرلفرینڈ نہیں تھی۔۔؟؟"

ربیل نے جیسے ہی یہ جملے بولے تھے بریرہ نے مہتاب کا ہاتھ اپنے ہاتھ پر محسوس کیا تھا

"وکی دور کا رشتے دار ہے پشینہ کا ربیل بھائی۔۔۔یہ میری منگیتر ہے الفاظ سوچ کر بولیں آپ۔۔"

۔

مہتاب کو غصے میں دکھ کر داد جی نےاپنے چھوٹے بیٹے کو اشارہ کر چکے تھے جنہوں نے ایک نظر ڈالی تھی اور وہ چپ ہوگیا تھا۔۔۔

۔

"داد جی کیسی لگی میری پسند آپ کو۔۔؟؟"

مہتاب جو بہت شرمندہ ہو رہا تھا سب کے ری ایکشن کو لیکر وہ کسی طرح سے پشمینہ کی ملاقات اپنی فیملی کے ساتھ کامیاب بنانا چاہتا تھا

"میں ابھی آیا۔۔"

وہاج نے داد جی کے کان میں جیسے ہی کوئی بات کی داد جی اپنی چھڑی  پکڑے وہاں سے چلے گئے تھے۔۔

پر جس سمت وہ گئے تھے اس جانب بریرہ کی نظریں ان سے پہلے پہنچی تھیں جہاں بلاج نے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ سجائے مدیحہ کو اپنے اور قریب کھینچا تھا۔۔

بلاج کی آنکھیں جیسے ہی بریرہ  پر پڑی تھی اس نے بریرہ کو آنکھ مار کر مدیحہ کے چہرے کے پاس اپنے ہونٹ کئیے تھے۔۔۔ انکے چہروں کے درمیان فاصلہ کم ہونے پر بریرہ نے اپنی نظریں نیچی کر لی تھیں۔۔

"جان کو میری چھین لیا ہے

درد یہ کیسا دل کو دیا ہے۔۔۔"

۔

اسکی آنکھیں دھوکہ دے گئیں تھیں اسکے دل کی طرح اسے

وہ آنسو کا ایک قطرہ آنکھوں کی قید سے نکل کر اسکے رخصار سے ہوتے ہوئے اسکی انگلی پر جا گرا تھا اسکی رنگ کے نیچے  ہوئے زخم پر جب وہ آنسو گرا تھاتو اسکے زخم پر نمک کا کام کرگیا تھا

۔

"جگ جگ پہ، راتوں میں ،،میری طرح آنکھوں میں

ماہی آنسوؤں کے دھاگے تو پیرؤئے گا۔۔۔" 

۔

"آئی تھنک اتنی تذلیل کافی ہے میری مہتاب۔۔تمہاری فیملی نے ظاہر کروا دی ہے اپنی ناپسندیدگی۔۔"

بریرہ یہ کہہ کر جیسے ہی اٹھی تھی داد جی بلاج کا ہاتھ پکڑ اسی طرف لا رہے تھے اسے

"پشمینہ پلیز۔۔۔"

"بائے۔۔۔"

"پر بیٹا۔۔۔"

"ایکسکئیوزمئی۔۔۔"

داد جی کی بات کو وہ اگنور کر گئی تھی اور بلاج حمدانی کے چہرے پر جیت کی خوشی کو بھی

"تو بھی روئے گا ماہی۔۔۔

میری طرح تو بھی اک دن کسی کو کھوئے گا"

وہ وہاں سے سر اٹھا کر چلی گئی تھی جیسے آئی تھی جتنی نظریں اس پر تھیں ابھی بھی ساری پارٹی کی لائم لائٹ اسی پر تھی۔۔

۔

"یہ پسند ہے آپ کی مہتاب جی۔۔؟ داد کی بےعزتی کرگئی وہ۔۔۔"

ربیل جو کب سے یہ سب تماشہ دیکھ رہا تھا اب وہ داد جی کے سامنے مہتاب اور پشمینہ کو نیچے دیکھانے کی کوشش میں تھا

"داد جی آپ کو اس طرح سے نہیں جانا چاہیے تھا پشمینہ کو اور مجھے پیار دے جاتے"

"پر بیٹا۔۔۔"

"بس داد جی ۔۔اور مہتاب چلی گئی ہے تو جانے دو خود ہی واپس بھی آجائے گی۔۔۔"

بلاج یہ کہہ کر وہاں سے باہر کی طرف گیا تھا پر باہر کوئی نہیں تھا

"یہ بریرہ ہی ہے۔۔تم سب کو دھوکہ دے سکتی پر مجھے نہیں بریرہ شاہ۔۔۔"

۔

"بلاج اب تو ہم شادی کرچکے ہیں اب تو بریرہ بلاج حمدانی کہا کرو ۔۔۔"

۔

بلاج کو ماضی کی ایک سرگوشی سنائی دی تھی

۔

"آئی ہیٹ یو بریرہ شاہ۔۔کوئی حق نہیں تمہارا میرے نام پر۔۔۔۔"

اس نے اپنی ہی گاڑی کے شیشے پر ہاتھ مار کر اپنا غصہ نکالا تھا

غصہ کس بات کا تھا اسے۔۔؟

اس کے ہونے کا۔۔؟؟

یا اسکا کسی اور کے ساتھ ہونے کا۔۔۔؟؟

۔

۔

"اچھا میں گاڑی کا روف ٹاپ کھول سکتی ہوں۔۔ سچ میں۔۔؟؟"

"ہاں میری جان۔۔۔"

اور بلاج نے جیسے ہی اوپن کیاتھا گاڑی کے روف میرر کو بریرہ کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔

"وااااوووووو۔۔۔۔"

بلاج نے گاڑی کی سپیڈ آہستہ کردی تھی۔۔۔بریرہ بچو ں کی طرح بارش کے قطریں ہاتھوں میں سمیٹیں بلاج پر ڈال رہی تھی جو اور زیادہ ہنس رہا تھا۔۔۔

۔

"بابا سائیں نے اتنا زیادہ ڈانٹا تھا جب ارسل بھائی کی گاڑی میں ایسے منہ باہر نکالا تھا بلکل ایسے۔۔۔"

جو جس طرح بتا رہی تھی وہ اور اینجوائے کررہا تھا

"ہمیشہ کہتے ہیں یہ خطرناک ہے۔۔کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔وہ میری فکر کرتے ہیں شاید پر تم نے مجھے نہیں روکا بلاج تمہیں میریر فکر نہیں۔۔؟؟"

بریرہ نے جیسے ہی پوچھا تھا بلاج نے اسے اپنی طرف کھینچا تھا اور گاڑی روک دی تھی۔۔۔

"میں بلاج حمدانی ہوں بریرہ شاہ۔۔۔میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔۔

نقصان پہنچانا تو دور کی بات ہے بریرہ وہ تمہیں نقصان پہنچانے کا سوچ بھی جائے تو اسکا سامنا بلاج حمدانی سے ہوگا۔۔۔"

بلاج کی آنکھوں میں اترتے غصے اور باتوں میں جنون نے بریرہ کو ڈرا دیا تھا

"ہمم اوکے۔۔۔"

وہ اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی پر بلاج نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ لیا تھا

"ایم نوٹ کمفرٹیبل بلاج۔۔۔"

اس نے شرما کے سر نیچے کرلیا تھا

"اچھا بیوی اب شرما رہی ہے۔۔؟؟ ہاہاہا۔۔۔"

"بلاج۔۔۔"

۔

پر بلاج نے اسے موقع نہیں دیا تھا پھر کچھ بولنے کا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بابا سائیں۔۔۔بریرہ آئی ہے آپ سے ملنے۔۔۔"

۔

وہ ایک ہاتھ میں ڈرنک کی بوتل پکڑے لڑکھڑاتی ہوئی ان پیلی پٹیوں کو توڑ کر گھر کے اندر داخل ہوئی تھی جن پر کرائم سین لکھا ہوا تھا

۔

پورا گھر خالی تھی پر اس ہر جگہ روشنی نظر آرہی تھی وہ اتنی نشے میں تھی

۔

"ماں۔۔۔میں آئی ہوں آپ کی بیٹی۔۔۔مجھے ویلکم نہیں کریں گی اپنی ممتا کی آغوش میں نہیں لیں گی ماں مجھے۔۔۔؟؟"

دروازہ بند کر کے وہ اسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔۔آنکھیں بند کرلی تھی اس نے

"بریرہ کتنی بھیگ گئی ہو بیٹا۔۔جلدی اٹھو اور کپڑے چینج کرو بچے۔۔۔"

اسکی بھاری آنکھیں کھل گئی تھی 

"ماں۔۔؟؟"

جب دیکھا تو کوئی نہیں تھا

"ماں کہاں ہیں آپ۔۔؟ بہت یاد آرہی ہے آپ کی۔۔۔مجھے سینے سے لگا لیں میرے سینے میں جلتی آگ کے دھویں نے مجھے راکھ بنا دینا ہے ماں۔۔۔"

اپنے دونوں گھٹنوں پر سر رکھ کر وہ رونا شروع ہوگئی تھی

"بابا سائیں مجھے بھی آپ کے پاس آنا ہے بابا آپ جانتے ہیں نا سب کچھ غلطی میں ہوا بابا سائیں

"

وہ اٹھ گئی تھی اس فرش پر وہ نشان اسے صاف دیکھائی دے رہے تھے جو پولیس نے ان باڈیز کی جگہ لگائے تھے۔۔۔ وہ اس جگہ اس سرکل میں کھڑی ہوگئی تھی جہاں اس سے پہلے اسکے کاشان بھائی کی باڈی گری تھی۔۔۔

ایک جیتا جاگتا انسانوں سے رشتوں سے بھرپور گھر اب ایک کرائم سین کا منظر پیش کررہا تھا

۔

"بہت بُری بہن ثابت ہوئی ہوں نا میں کاشان بھیا۔؟؟ آپ کے بچے جب بڑے ہوں گے تو بہت بد دعائیں دیں گے مجھے رامین بھابھی کی طرح۔۔۔میں کیا سے کیا بن گئی میں کس سے گلہ کروں میں نے تو اپنے رب کی عبادت نہیں کی میں تو بھاگتی رہی اس سے۔۔

اب خود سے بھاگ رہی ہوں۔۔کہاں جاؤں۔۔آج اس بےوفا کا چہرہ دیکھا تو پتا چلا وہ کتنا بھیانک چہرہ تھا جو محبت کا لبادہ اوڑھ کر مجھے برباد کرگیا۔۔۔

اور میں معصومیت میں اپنے خاندان کو برباد کرگئی۔۔"

اس فرش پر لیٹ گئی تھی۔۔۔

آنکھیں بند ہورہی تھیں کھل رہیں تھی جب اس نے وہ بوتل دوبارہ اٹھانے کی کوشش کی تو باہر سے ایک ہلکی ہلکی آذان کی  آواز اسکے کانوں میں پڑی تھی

"یا اللہ ۔۔۔"

اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا اور آنکھیں بھر آئیں تھیں اسکی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ۔۔۔۔"

عروج بیگم ایک چیخ سے اٹھی تھیں اور کچھ دیر بعد کمرے کی لائٹس آن ہوئی تھی باہر سے کچھ لوگ اندر داخل ہوئے تھے انکی چیخ کی آواز سن کر۔۔۔

"بھابھی کیا ہوا ہے ۔۔۔؟؟آپ ٹھیک تو ہیں۔۔؟؟"

"بھابھی آپ ٹھیک ہیں۔۔۔"

کبیر صاحب باہر کھڑے تھے جبکہ انکی بیوی اور عروج بیگم کی بہو رامین اندر آگئیں تھیں بھاگتے ہوئے

"امی آپ ٹھیک ہیں۔۔؟؟"

عروج بیگم نے بنا کچھ کہے رونا شروع کردیا تھا

"بریرہ کی یادیں میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ایسا لگتا ہے جیسے وہ زندہ ہے۔۔جیسے وہ مجھے بلا رہی ہے۔۔

جس نے تمہیں بیوہ بنا دیا جس نے میرا سہاگ چھین لیا مجھے اسکی فکر کھائے جا رہی ہے رامین۔۔۔"

رامین آگے بڑھ کر انکے گلے لگ گئی تھی اور وہ بھی رونا شروع ہوگئی تھی

"امی بریرہ معصوم تھی۔۔اسکے ساتھ جو ہوا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کس اذیت سے گزری ہوگی وہ۔۔۔"

انکے ساتھ سب کی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔۔۔

"بابا حوصلہ کیجئیے۔۔"

پیچھے سے جیسے ہی کسی نے کبیر صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا کبیر صاحب مڑ کر اسکے گلے سے لگ گئے تھے

اس عمر میں انہیں جو غم مل چکے تھے انکو اور بوڑھا بنا دیا تھا انہوں نے

"بہرام نہیں دیکھا جاتا اب مجھ سے۔۔۔وہاں ان لوگوں کو مار دیا گیا یہاں جو بچے ہوئے ہیں وہ بھی مر رہے ہیں میری آنکھوں کے سامنے۔۔

ارسل بھی چا گیا کوئی خبر نہیں اسکی میں کیا کروں۔۔۔"

انکے لہجے سے انکے بڑے بیٹے کو پتا چل رہا تھا اسکے والد کا رونا

"ابو آپ فکر نا کریں سوچتا ہوں کچھ۔۔۔"

" کیا سچ میں بیٹا۔۔؟؟"

کبیر صاحب کی آنکھوں میں جیسے امید کی نئی کرن روشن ہوئی تھی

"جی ابو آپ جائیں۔۔ اندر تائی جان کو ہمت دیجئیے انکی طبیعت آگے ہی ٹھیک نہیں۔۔۔"

بہرام نے انکے پیچھے دروازہ بند کردیا تھا اور اپنا والٹ نکالا تھا اپنی پینٹ کی جیب سے۔۔۔

اس پرس کو کھولنے پر اسے ایک ہی تصویر نظر آئی تھی اسکی بیوی کی۔۔۔اوراس نے اس تصویر کے پیچھے سے ایک اور تصویر نکالی تھی

اور اس تصویر میں ہنستی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں بھی ایک درد اتر آیا تھا

"بریرہ شاہ۔۔۔مجھ سے شادی نہیں کرنی تھی تو نا کرتی پر اس طرح جان چھڑا کر تمہیں باہر واپس نہیں جانا چاہیے تھا۔۔۔"

"بابا۔۔۔بابا اندر سب رو رہے ہیں کیوں۔۔؟؟"

ایک چھوٹی سی بچی نے بہرام کی ٹانگوں پر اپنے چھوٹے سے ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا

"ارے میری پری کیوں رو رہے ہیں سب۔۔اندر چل کر پوچھیں۔۔؟؟"

بہرام اسے بہت پیار سے اپنی گود میں اٹھا کر اندر لے گیا تھا

"آپ سب کیوں رو رہے ہیں۔۔؟ مجھے بھی رونے کا دل کر رہا۔۔"

۔

پری کی باتیں سب کو ہنسنے پر مجبور کر رہی تھی۔۔۔بہرام اسے وہاں چھوڑ کر باہر آگیا تھا اور اس نے اپنا موبائل نکال کر ایک ہی کال ملائی تھی

۔

"بہرام شاہ بات کررہا ہوں۔۔۔مجھے بلاج حمدانی اور اسکے خاندان کی ساری انفارمیشن چوبیس گھنٹوں میں چاہیے۔۔۔اگلی فلائٹ سے میں نیویارک آرہا ہوں۔۔۔"

یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔۔"

۔

۔

" تم اس طرح سے اتنی جلدی آگئی داد جی کو اچھا نہیں لگا،، نا تم مجھ سے ملتا چاہتی تھی

سب کو ہی گھر میں بُرا لگا"

"تو۔۔؟؟"

بریرہ نے ایک اور گھونٹ بھرا تھا اپنے جوس کے گلاس سے اسکی نظریں مہتاب پر جمی ہوئی تھیں جو ڈائیننگ ٹیبل پر بلکل سامنے والی کرسی پر بیٹھا تھا

"پشمینہ وہ داد جی ہیں میرے میں نے بتایا تھا نا تمہیں کہ ہماری فیملی بہت کنزرویٹو ہے۔۔"

مہتاب اپنی جگہ سے اٹھ کر بریرہ کے پاس والی کرسی پر بیٹھا تھا

"میں چائے لیکر آتی ہوں۔۔"

سونم ایکسکئیوز کرکے کچن میں چلی گئی تو مہتاب نے ہمت کر کے بریرہ کا ہاتھ پکڑا تھا

"کنزرویٹو مجھے تمہاری فیملی نہیں فیملی کے مرد لگے مہتاب۔۔ جن کی نظریں مجھ سے زیادہ میرے کپڑوں پر تھیں۔۔اور وہ تمہارے بڑے بھیا کیا نام تھا ان کا۔۔؟"

بریرہ نے یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اکٹنگ کی تھی

"بلاج بھیا ۔۔۔"

"ہاں ہاں بلاج حمدانی۔۔۔ کیسے دیکھ رہے تھے مجھے جیسے ابھی کھا جائیں گے۔۔

اور جب تم نے ہمیں انٹروڈیوس کروانا چاہا تو کیسے اپنی منگیتر کو وہاں سے لے گئے تھے"

"پشمینہ پلیز ایسی بات نہیں تھی تم۔۔۔"

"تم مجھے ایسے ڈیگریڈ نہیں کرسکتے مہتاب خاص کر اپنی فیملی کے سامنے۔۔اگر ان کو تمہاری پسند نہیں پسند تو یہ ان کا مسئلہ تھا۔۔پر ایسے شو کروا کر مجھے انسلٹ کیا گیا ہے۔۔

تمہیں پتا ہے میں یہ سب برداشت کرنے کی عادی نہیں ہوں۔۔"

اپنا ہاتھ زبردستی چھڑا کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی

مہتاب کو سمجھ نہیں آرہی تھی اب وہ کیا کرے۔۔وہ خود بھی حیران تھا اپنے بلاج بھیا کے اس رویے سے

پر بریرہ کے پارٹی چھوڑ جانے سے وہ اور زیادہ بریشان ہوا تھا

"پشمینہ سب کچھ نیا ہے ان کے لیے۔۔ خاندان میں اب تک بڑوں کی مرضی سے شادی ہوئی سب کی داد جی کی مرضی ہوتی ہے تب خاندان کے مرد شادی کرتے ہیں اور دادی جان کی مرضی سے خاندان کی بچیوں کی بات پکی کی جاتی ہے۔۔

میں اپنے خاندان کا پہلا مرد ہوں۔۔۔سب کو ایک شوک لگا ہے۔۔پر جس طرح تم وہاں سے چلی گئی انکو لگ رہا ہے تم نے بہت بدتمیزی کردی "

"تو۔۔؟؟ لگتا رہے اور میں اس جگہ کیسے کھڑی ہو سکتی جہاں مجھے حقارت کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہو۔۔؟"

"پر پشمینہ۔۔۔"

"پر کیا مہتاب۔۔؟ مجھے چھوڑ کر جانا چاہتے ہو تو جاؤ۔۔اور کرو اپنے داد جی کی مرضی سے شادی۔۔۔

یہ رہی انگوٹھی تمہاری۔۔"

۔

بریرہ نے وہ انگوٹھی اتار کر ایسی رکھ دی تھی جیسے وہ کوئی معنی نا رکھتی ہو

"تمہارے لیے اتنا آسان تھا پشمینہ۔۔؟ آئی لو یو ڈیم اِٹ بہت چاہتا ہوں تمہیں۔۔

نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر میں کسی صورت نہیں رہ سکتا۔۔۔"

مہتاب نے اسکے کندھے مظبوطی سے پکڑ لیے تھے

"ٹھیک ہے۔۔نہیں رہ سکتے تو پہلے اپنی فیملی کو یہ بات سمجھاؤ۔۔جب اپنی فیملی کو یہاں لے آؤ گے تب بات کرنا مجھ سے۔۔۔اور انہیں مجھ سے معافی مانگنی ہوگی جو انہوں نے بی ہئیویر کیا اسکی۔۔۔"

۔

"پشمینہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔؟ وہ بڑے ہیں یار۔۔۔"

"ہاں تو انہیں رائٹ ہے کسی کی عزت نفس کو ہرٹ کرنے کا۔۔؟

تم واقع وہ مہتاب ہو جو سب کے لیے لڑتا تھا۔۔؟"

بریرہ نے جیسے ہی مہتاب کے گال پر ہاتھ رکھا تھا مہتاب نے اسکی ویسٹ سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا

"میں وہی مہتاب ہوں پشمینہ۔۔۔ تمہارا مہتاب۔۔۔"

اس نے جیسے ہی اپنا چہرہ اور پاس کیا تھا تو بریرہ نے اپنا چہرہ پیچھے کرلیا تھا جس کی وجہ سے مہتاب کے ہونٹ اسکے رخصار کو چھو گئے تھے

"آہممم۔۔۔۔"

سونم کی آواز سے وہ دونوں پیچھے ہوگئے تھے بریرہ نے دس قدم کا فاصلہ بنا لیا تھا اور اوپر روم کی جانب بڑھتے بڑھتے رکی تھی

"مہتاب میں کوئی ہوکر یا بازری لڑکی نہیں اپنے خاندان کے مردوں سے کہنا کہ میں تمہاری ہونے والی بیوی ہوں اگر عزت دیں گے تو رشتہ ہوگا ورنی اپنی انگوٹھی ان کی مرضی کی لڑکی کو پہنا دو۔۔اور پھر میری زندگی میں واپس آنے کا سوچنا بھی مت۔۔۔"

وہ غصے سے کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی

۔

"سونم آپ ہی کچھ سمجھائیں۔۔میرے گھر والوں کو وقت لگے گا پشمینہ کو اپنانے میں۔۔"

سونم جو بریرہ کو منہ کھلے دیکھ رہی تھی مہتاب کی آواز سے اسکی نظریں سامنے کھڑے شخص پر گئیں تھیں جو ہو با ہو بلاج حمدانی کی کاپی تھا خوبصورتی میں

"دیکھیں مہتاب۔۔ب۔۔۔پشمینہ اپنی جگہ بلکل سہی ہے جہاں عزت نہیں وہاں رشتے کرنے سے صرف تکلیف ہوتی ہے

جو باتیں آپ پشمینہ کو سمجھا رہے وہ گھر جا کر اپنی فیملی سے کہیں اگر وہ لوگ آپ سے پیار کرتے ہوں گے تو سمجھ جائیں گے اور آپ کی پسند کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔۔"

۔

یہ کہہ کر سونم برتن لےکر واپس کچن میں چلی گئی تھی۔۔۔ اسکی باتوں نے بریرہ کی باتوں کو اور تقویت دہ دی تھی۔۔اور جلتی آگ میں تیل کا کام کرگےگئیں تھیں سب باتیں۔۔

۔

"گھر والوں کو داد جی کو بلاج بھائی کو میری پسند پیری خواہش کو اپنا ہی ہوگا۔۔پشمینہ نے بلکل ٹھیک کہا کل جو بھی کیا سب نے بہٹ غلط کیا پشمینہ کے ساتھ۔۔۔"

۔

مہتاب یہ سوچ کر وہاں ست چلا گیا تھا اور اسی وقت اوپر بریرہ کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا

۔

"آج لڑائی ہوگی حمدانی فیملی میں۔۔وہ بھی ایک لڑکی کے پیچھے۔۔۔اور جھکنا ہوگا۔۔ان لوگوں کو۔۔

اب کھیل کا اور مزہ آئے گا۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

حمدانی مینشن۔۔۔۔"

۔

۔

"مہتاب مجھے وہ لڑکی پسند نہیں آئی۔۔۔"

بلاج نے بریک فاسٹ شروع کیا تھا باقی سب بھی اپنی اپنی کرسی پر بیٹھ گئے تھے

"ایم سوری بھائی پر میں نے آپ کی اور پشمینہ کے رشتے کی بات نہیں کی۔۔"

مہتاب سیریس تھا بہت پر اسکی بات سے سب نے قہقہ لگایا تھا خاص کر مردوں نے بلاج کا غصے سے بھرا منہ دیکھ کر

"ہاہاہاہا بلاج بھائی۔۔۔"

"شٹ اپ ربیل۔۔۔اینڈ یو مہتاب حمدانی وہ لڑکی بہو نہیں بن سکتی۔۔۔میں نہیں خوش تمہاری پسند سے۔۔"

"ڈیٹس اِٹ بھائی۔۔پہلی بار کچھ مانگ رہا ہوں۔۔داد جی کے ہوتے ہوئے آپ فیصلہ کرنے والے کون ہیں۔۔؟؟آپ۔۔۔۔"

بلاج کے تھپڑ سے مہتاب کا منہ دوسری جانب ہوگیا تھا اور بلاج اٹھ گیا تھا غصے سے۔۔۔

۔

"بس مہتاب ایک اور لفظ نہیں بلاج کا فیصلہ ہی ہم سب کا فیصلہ ہے۔۔"

داد جی بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔گھر کی عورتوں کی طرف تو کوئی دیکھ بھی نہیں رہا تھا اور کسی میں ہمت بھی نہیں تھی کچھ بولنے کی۔۔

۔

"اور پشمینہ میرا فیصلہ میری پسند ہے۔۔۔"

۔

مہتاب کہہ کر گھر سے چلا گیا تھا۔۔

"مہتاب۔۔۔"

بلاج کے بلانے پر بھی نہیں رکا تھا وہ۔۔۔

۔

"یہ سب اس لڑکی کی وجہ سے ہورہا ہے۔۔۔"

وہ بھی بڑبڑا کر باہر چلا گیا تھا۔۔۔

۔

"بلاج سر وہ رپورٹر ہم نے گیسٹ ہاؤس بھیج دیا ہے آپ سے جس نے پارٹی میں وہ سوال کئیے تھے۔۔"

گارڈ نے جاتے ہوئے بلاج کے پیچھے سے آواز دی تھی جس کے قدم اب مہتاب کے پیچھے نہیں اسکی گاڑی کی جانب تھے اور اس نے گیسٹ ہاؤس کے راستے کی جانب گاڑی کردی تھی

۔

"وہ رپورٹر جانتا ہوگا بریرہ شاہ کو۔۔۔آج یہ گیم پلان ختم ہوگا بریرہ شاہ کا۔۔۔۔"

طیش میں اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"سمیر نہیں مل رہا اور تم مجھے اب بتا رہے ہو ڈینیل۔۔میں نے کہا تھا اسے روکنے کو وہ باتیں کرکے بلاج حمدانی کی ہٹ لسٹ آگیا تھا۔۔"

بریرہ ڈینیل کے کیبن میں چکر کاٹنا شروع ہوگئی تھی پریشانی میں

"مجھے ابھی اسکی بیوی نے بتایا بریرہ۔۔وہ بیچاری بہت رو رہی تھی۔۔آخری بار جب اسکی بات ہوئی تو وہ بتا رہی تھی سمیر بہت گھبرایا ہوا تھا۔۔"

۔

"بلاج کو ٹریس کرو۔۔۔ابھی۔۔کسی سے ٹریس کرواؤ۔۔۔یہ گاڑی ٹریس کرواؤ۔۔۔"

بریرہ نے ایک نمبر جلدی جلدی سے لکھ دیا تھا

"پر بریرہ تم کیسے اتنے یقین کے ساتھ کہہ سکتی وہ یہ گاڑی استعمال کر رہا ہوگا۔۔۔"

"تم باقی سوال بعد میں کرنا۔۔۔یہ نمبر ٹریس کر کے بتاؤ گاڑی کس جگہ رکے فورا بتانا۔۔۔"

بریرہ اپنی گلاسیز پہن کر وہاں سے چلی گئی تھی

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تم سب کے سب باسٹرڈ ہو کس نے کہا تھا اسے  اس طرح مارنے کو۔۔؟؟

ہوش میں لاؤ اسے ۔۔۔۔۔"

۔

بلاج اپنے گارڈز کو کہہ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا تھا ایک کال سننے

۔

""تم لوگ گاڑی کے پاس رہو۔۔۔ جب اشارہ کروں تب ہی اندر آنا۔۔۔"

بریرہ نے اپنا ماسک پہن لیا تھا اور بیک ڈور سے اندر چلی گئی تھی

۔

پر جب اسکی نظریں ان گورے گارڈز پر پڑی اور زمین پر پڑے بےہوش سمیر پر پڑی تو بریرہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا سمیر کی زخمی حالت پر۔۔۔

"بلاج حمدانی اس قدر ظالم انسان ہو تم اس قدر ظلم۔۔۔۔"

اور اس نے اپنی گن نکال لی تھی۔۔۔

 ۔

۔

"میں کہاں ہوں کہاں نہیں تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے مدیحہ فون بند کرو مجھے ایک امپورٹنٹ کال آرہی ہے۔۔۔"

"پر بلاج میری۔۔۔"

"باۓ میں گھر آکر کروں گا باقی باتیں۔۔۔۔"

بلاج نے اسکا فون کاٹ کر دوسری کال ریسیو کرلی تھی۔۔۔۔

اور مصروف ہوگیا تھا اسکا دھیان اس وقت ہٹا تھا اس کال سے جب اسے نیچے سے گولی چلنے کی آواز آئی تھی۔۔۔

۔

وہ جب نیچے جلدی سے گیا تو اسکے تمام گارڈز نیچے گرے پڑے تھے۔۔۔

"کس نے کیا۔۔۔؟ کہاں گیا وہ رپورٹر۔۔۔؟ باسٹرڈ۔۔۔۔"

ایک گارڈ نے باہر کی جانب اشارہ کیا تو بلاج نے اپنی گن نکال لی تھی اور باہر جاتے ہی اس نے اس گاڑی میں بیٹھنے والے آخری ماسک پہنے پرسن پر گولی چلائی تھی۔۔۔۔

۔

اسے جلدی سے ہسپتال لے کر جانا ہوگا اور تم۔۔۔۔"

پیچھے سے بریرہ کے کندھے پر لگنے والی گولی نے اسے نیچے گرا دیا تھا

"اسے لیکر جاؤ یہاں سے۔۔۔۔اسکے حکم پر وہ لوگ زخمی سمیر کو تو وہاں سے لے گئے تھے پر بریرہ کی نظریں بلاج حمدانی اور اسکے ہاتھ میں پکڑی پسٹل پر تھی۔۔۔

۔

"بلاج حمدانی کبھی تو میری سوچ سے کچھ الٹا کرتے۔۔۔۔محبت جو مار دی ہے اسے کیوں مارنے آجاتے ہو بار بار۔۔۔۔"

بریرہ کے گر جانے پر بلاج کے ہاتھ سے وہ پسٹل بھی گرگیا تھا۔۔۔

اسے پتا چل گیا تھا وہ ماسک پہنے کوئی لڑکی سڑک پر اپنے خون سے لت پت گری ہوئی تھی۔۔۔

اور وہ یہ بات سوچ کر پہلی بار ڈرا تھا کہیں یہ۔۔۔۔

"بریرہ۔۔۔۔۔"

بلاج آگے بڑھا۔۔۔اسے آگے بڑھتے دیکھ وہ پھر سے اٹھی تھی ہمت کرکے۔۔۔

"بریرہ یہ وقت ہمت ہارنے کا نہیں زخم سہلانے کا نہیں ہے۔۔بلاج حمدانی اگر مجھ تاک پہنچ گیا تو سب کچھ ختم ہوجائے گا"

۔

وہ خود سے یہ کہہ کر اپنے زخمی کندھے کو پکڑ کر کھڑی ہوئی تھی

"بریرہ۔۔میں جانتا ہوں تم ہی ہو۔۔رک جاؤ  ورنہ گولی چلا دوں گا۔۔۔"

بلاج نے اپنی گری ہوئی گن نہیں اٹھائی تھی۔۔وہ وہین زمین پر پڑی تھی

پر وہ یہ کھوکھلی دھمکی دے کر اسکے قدم روکنا چاہتا تھا

"بریرہ۔۔۔"

وہ جتنا چِلا رہا تھا بریرہ کے قدم تیز ہورہے تھے

"بس بریرہ۔۔۔بس میں گولی مار دوں گا۔۔۔"

۔

اس نے اپنی پسٹل نیچے سے اٹھا لی تھی اور اسی وقت بریرہ پیچھے مڑی تھی جسکے چہرے پر ماسک تھا 

بریرہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے گولی چلانے کا کہا تھا۔۔۔اور جب بلاج حمدانی میں ہمت نہیں ہوئی تو بریرہ نے لوزر کا سائن بنا کر واپس پیچھے مڑنا چاہا تھا اور ایک گولی اسکی ٹانگ کے پار ہوگئی تھی۔۔

وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر گئی تھی۔۔

۔

"بلاج حمدانی کو شاید خود نہیں پتا تھا اس نے یہ گولی مار کر ایک بھرم بھی توڑ دیا تھا اس لڑکی کا جس نے ٹوٹ کر محبت کی تھی اس شخص سے۔۔۔"

"اب تو نفرت بھی چھوٹے لفظ ہے بلاج جو تمہارے لیے اب محسوس کر رہی ہوں میں۔۔۔"

۔

"بریرہ۔۔۔ ایم سوری۔۔۔میں گولی۔۔نہیں چلانا چاہتا تھا۔۔۔"

بلاج نے جب اسے خون میں گرا دیکھا تو وہ اسکی جانب بڑھا تھا

اسکے سامنے وہ سب منظر گھوم رہے تھے جو اس نے اس لڑکی کی حفاظت میں گزارے تھے اور آج اسے اپنے ہاتھ سے نقصان پہنچا کر وہ اپنے آپ کو مرد نہیں ایک ناکام انسان جان رہا تھا

"بریرہ۔۔۔"

وہ بنا کوئی حرکت کئیے وہاں بیٹھی تھی۔۔۔

بلاج حمدانی کے پیچھے سے ایک تیز رفتار بائیک گزری تھی اور وہ بریرہ کے پاس جاکر رکی تھی جو بائیک چلا رہا تھا اسکا حلیہ بھی بریرہ جیسا تھا پوری طرح سے کور۔۔۔

فرق اتنا تھا اس نے ماسک کی جگہ ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔

"ہاتھ دو بریرہ۔۔۔۔"

اس نے بائیک روک کر آہستہ آواز میں جیسے ہی کہا تھا بریرہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا جہاں بلاج بھاگتے ہوئے اسکی جانب آرہا تھا۔۔۔

"بریرہ۔۔۔"

بریرہ نے اس اجنبی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اور اسکے سہارے وہ پیچھے بائیک پر بیٹھ گئی تھی

۔

"بریرہ۔۔۔رک جاؤ۔۔۔۔"

"چلو یہاں سے۔۔۔"

۔

اس نے ایک  اپنا سر اس شخص کی بیک پر رکھ کر آنکھیں بند کر لی تھی اسکی جس قدر تکلیف ہورہی تھی اسکی ٹانگ اور کندھے پر۔۔۔

۔

پر یہ تکلیف اسکے دل میں ہورہی تکلیف سے بہت کم تھی۔۔۔

۔

"اگر لڑکیوں کو اپنی بھیانک محبت کا مستقبل نظر آجائے تو وہ کبھی کسے ظالم کی محبت کا نشانہ نا بننے دیں خود کو۔۔۔

وہ محبتیں جو خاندان کی عزتیں تو کھا جاتی ہیں اور جان نکال جاتی ہیں جسموں سے۔۔۔

وہ محبتیں جو برباد کرکے عبرت بنا دیتی ہیں معاشرے میں ہمیں۔۔۔"۔

"آپ کون۔۔۔۔"

 "بہرام۔۔۔شاہ۔۔۔"

جاری ہے  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Bewafa Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Bewafa  written by  Sidra Sheikh. Bewafa  by Sidra  Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment