Pages

Tuesday 22 August 2023

Sham E Inteqam By Zeenia Sharjeel New Novel Episode 5 to 6

Sham E Inteqam By Zeenia Sharjeel  New Novel Episode 5 to 6

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sham E Inteqam Novel By Zeenia Sharjeel Episode 5 to 6

Novel Name:Sham E Inteqam

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

حنین کو ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھی وہ گھبرائی ہوئی آنے والے وقت ڈرنے لگی اسے لگا اگر وہ یہاں سے نہیں گئی تو اس کے ساتھ بہت بھیانک کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔ فصیح اور مُکرم نے اس کی طرف قدم بڑھائے تو حنین نے تیز رفتار میں بھاگنا شروع کردیا

"تیز بھاگ پکڑ سالی کو"

فصیح مُکرم سے کہتا ہوا خود بھی حنین کے پیچھے بھاگنے لگا۔۔۔ حنین تیزی سے فارم ہاؤس کے مین گیٹ کی طرف بھاگی جو کہ کسی کار کی آمد کی وجہ سے گارڈ نے کھولا تھا 

"اے جلدی دروازہ بند کر"

فصیح نے حنین کو گیٹ پار کرتا ہوا دیکھ کر بھاگنے کے ساتھ گارڈ کو چیخ کر کہا تب تک حنین تیزی سے گیٹ عبور کر گئی تھی لیکن اس کی شال کہیں مین گیٹ کے گرل میں پھنس گئی 

"بیٹی اسے چھوڑو جلدی نکل جاؤ یہاں سے"

حنین اپنی شال نکالنے لگی تو وہ بوڑھا گارڈ بولا حنین نے اس گارڈ پر ایک نظر ڈالی اپنی شال وہی چھوڑ کر بھاگنے لگی

"سالے بڈھے تجھے تو آ کر بتاؤں گا،، مُکرم جلدی سے بائک پر بیٹھ"

فصیح کو اس گارڈ پر شدید غصہ آیا تھا جس نے حنین کو پکڑنے کی بجائے وہاں سے بھگا دیا مگر فصیح نہیں چاہتا تھا حنین وہاں سے نکلنے جبھی اس نے بائیک سنبھالی اور جیب میں ٹٹول کر جلدی سے چابی نکال کر بائیک اسٹارٹ کری 

حنین حواس باختہ بھاگتی چلی گئی اس کا دماغ اس وقت کام نہیں کر رہا تھا بس اسے اپنی عزت بچانے تھی بائیک کی آواز سن کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ کردیا 

رات کے اندھیرے میں دھنلی آنکھوں کے ساتھ سنسان سڑک کو لے کر آنکھوں سے آنسو صاف کرکے وہ تیزی سے بھاگتی جارہی تھی اب اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مزید بھاگتی اس کے پاؤں بری طرح دکھ رہے تھے اور سانس بھی بری طرح پھول رہا تھا دائیں ہاتھ پر موجود گھنی جھاڑیوں میں جائے پناہ کی تلاش میں اس راستے پر چل دی

"روک بائیک یہی اندر گئی ہے"  

مُکرم نے فصیح سے کہا تو فصیح نے بائیک روکی

"اللہ پاک پلیز مجھے بچالے" 

حنین بڑے سے پتھر کے پیچھے بیٹھتی ہوئی اپنے لیے دعا مانگنے لگی اسے قدموں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی اپنے ہی ہاتھوں سے حنین نے اپنا منہ بند کر لیا

"چل یار واپس چلتے ہیں زیادہ دیر رکنا یہاں پر خطرے سے خالی نہیں ہے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں" 

سنسان جگہ اور رات کے پھیلے سناٹے کو دیکھتا ہوا مُکرم فصیع سے بولا فصیح نے اس کی بات کی تائید کی جب دور کہیں سے حنین کو بائیک اسٹارٹ کرنے کی آواز آئی تو اس نے خدا کا شکر کیا کھڑے ہوکر دیکھا تو وہ دونوں وہاں موجود نہیں تھے اب وہ اپنی کانپتی ہوئی ٹانگوں کو ساتھ پتھر سے ٹیک لگا کر واپس بیٹھ گئی 

حنین کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ واپس کیسے جائے سیل فون تو وہ اپنا نوین سے بات کرکے وہی چھوڑ کر آگئی تھی اگر وہ واپس جاتی اور وہی لڑکے اسے پھر مل جاتے اس سے آگے حنین سے کچھ سوچا ہی نہیں گیا۔۔۔۔ مگر وہ ساری رات اس سنسان جگہ پر بھی کیسے گزار سکتی تھی رات کے اس پہر سردی کافی بڑھ رہی تھی کوئی گرم کپڑا یا چادر بھی اس کے پاس موجود نہیں تھی حنین اپنے دونوں پاؤں کو دباتے ہوئے یہی سوچ رہی تھی مشکل سے اسے دس منٹ گزرے تھے جب اسے غُرانے کی آواز آنے لگی حنین نے سر اٹھا کر دیکھا اس کا دل بری طرح دہل کر رہ گیا مشکل سے دس قدم کے فاصلے پر ایک بڑا سا کالے رنگ کا کُتا زبان باہر نکالے اسی کو دیکھ رہا تھا حنین ڈرتی ہوئی آئستہ سے دوبارہ کھڑی ہوئی۔۔۔ اسے دوبارہ رونا آنے لگا،، کتا اب بھی لمبی زبان باہر نکالے اسی کو دیکھ رہا تھا حنین نے کلمہ پڑھ کر ایک بار پھر دوڑ لگانا شروع کر دی کُتا بھی بھونکتا ہوا اس کے پیچھے بھاگنے لگا پندرہ سے بیس منٹ تک وہ سڑک پر بھاگتی رہی اور کُتا اس کے پیچھے بھونکتا ہوا بھاگتا رہا 

اب حنین کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا مگر تھوڑی ہی دور اس سڑک پر ایک کار کھڑی نظر آئی کوئی شخص اپنی کار سے باہر نکلا سیل فون کان سے لگائے ٹہل رہا تھا 

"پلیز ہیلپ می" حنین چیختی ہوئی اس آدمی کی طرف بڑھی آزھاد کو ایک سیکنڈ لگا تھا ساری سچویشن سمجھنے میں، کسی لڑکی کے پیچھے کُتا لگا تھا اور وہ بھاگتی ہوئی اسکی جانب آرہی تھی اس سے پہلے وہ کُتا چھلانگ لگا کر اس لڑکی پر حملہ کرتا آزھاد نے اپنے ہاتھ میں موجود سیل فون کھینچ کر اس کُتے کو مارا جس پر وہ ڈر کر وہاں سے بھاگ گیا۔۔ حنین پھولی ہوئی سانس کے ساتھ اپنے سامنے کھڑے آزھاد کو دیکھنے لگی 

"ہنی"

آزھاد اپنے سامنے کھڑی حنین کو فوراً ہی پہچان گیا بے ساختہ اس کے منہ سے اس کا نام ادا ہوا،،، حنین اپنی پھولی ہوئی سانس کو بحال کرتی آزھاد کے قریب آئی اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی جیکٹ کو مضبوطی سے پکڑا اور آنکھیں بند کئے اس سے پہلے وہ چکرا کر نیچے گرتی آزھاد نے اسکے بےہوش وجود کو تھام کر نیچے زمین پر آئستہ سے لٹایا

"ہنی آنکھیں کھولو کیا ہوا تمہیں" 

وہ حنین کا سر اپنے گھٹنے پر ٹکائے اس کا گال تھپتھپاتا ہوا پوچھنے لگا۔۔ آزھاد نے ایک نظر سنسان روڈ پر ڈال کر دوبارہ حنین کے بےہوش وجود کو دیکھا،،، پھر اسے اٹھا کر اپنی کار کے پاس لے آیا اور اسے کار کی پچھلی سیٹ پر لٹایا۔۔۔ 

آزھاد کو حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی رات گئے سنسان جگہ پر وہ اکیلی کیا کر رہی تھی۔۔۔ کار میں لٹانے کے بعد وہ سڑک پر جاکر اپنا موبائل اٹھانے لگا جس کی اسکرین چکنا چور ہو گئی تھی نفی میں سر ہلاتا ہوا وہ کار کی طرف واپس آیا

اس کے ساتھ آج بیٹ لک یہ ہوئی تھی کہ وہ مُکرم اور فصیح کے پاس سے واپس گھر جانے کے لیے نکلا تو ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اس کی کار خراب ہوگئی تھی اتنی رات گئے سخت سردی میں وہ اپنی کار سے نکل کر فصیح اور مُکرم کے موبائل پر پچھلے آدھے گھنٹے سے کال ملا رہا تھا دونوں ہی اس کی کال ریسیو نہیں کر رہے تھے پھر یوں اچانک حنین اس کے سامنے چلی آئی

آزھاد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا گردن موڑ کر وہ حنین کو دیکھنے لگا اس وقت سردی میں وہ پتلے سے ٹاپ میں موجود تھی کسی احساس کے تحت آزھاد نے اپنی جیکٹ اتار کر حنین کے اوپر ڈالی،، اب وہ اپنی برابر والی سیٹ پر سے پانی کی بوتل اٹھا کر بوتل سے منہ لگا کر پانی پیتا ہوا حنین کو دیکھنت لگا، ہتھیلی میں پانی بھر کر اس نے حنین کے منہ پر چھڑکا 

****

"ہنی"

نوین ایک دم حنین کا نام پکار کر بیڈ سے اٹھی اس کے برابر میں لیٹا ہوا شاہنواز نوین کے جاگنے سے خود بھی بیدار ہوگیا اور لیمپ ان کیا 

"کیا ہوا تمہیں،، نوین تم ٹھیک ہو" شاہنواز نوین کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا 

"جی، بس ویسے ہی ہنی کو خواب میں دیکھا وہ رو رہی تھی تو میں ڈر گئی"

نوین اپنے آپ کو نارمل کرتی ہوئی شاہنواز کو بتانے لگی پھر سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا اپنا فون اٹھا کر کو کال کرنے لگی 

"کیا کر رہی ہو نوین ٹائم دیکھا ہے تم نے اس وقت رات کے 3 بج رہے ہیں کیوں اس کو نیند سے ڈسٹرب کر رہی ہو وہ سو رہی ہوگی اس وقت"

شاہنواز نوین کا فون اسکے ہاتھ سے لیتا ہوا بولا 

"اس کی آواز سن لی تھی تو مجھے تسلی ہوجاتی"

نوین شاہنواز کو دیکھتی ہوئی بولی

"نوین میں مانتا ہوں تمہیں حنین سے محبت ہے مگر اسے خود سے اتنا اٹیچ بھی مت کرو کہ بعد میں وہ تمہارے بغیر رہ ہی نہ سکے،، وہ ساری زندگی تو تمہارے ساتھ نہیں رہے گی کل کو اس کی بھی شادی ہونی ہے یوں ہر آدھے گھنٹے بعد فون کرکے اس کی خبر گیری کرنا ایک ایک پل کی اس سے اپڈیٹ لینا اس طرح یا تو وہ خود تم سے دور ہو جائے گی یا پھر اتنا اٹیچ کے وہ کسی دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ ہی نہیں ہو پائے گی"

شاہنواز نوین کا ہاتھ تھام کر اسے سمجھانے لگا

"بہن ہے وہ میری شانواز مجھ سے کبھی بھی دور نہیں ہو سکتی نہ کوئی دوسرا اسے مجھ سے دور کر سکتا ہے"

نوین شاہنواز کو دیکھتی ہوئی بولی 

"اور کل کو اگر اس کی شادی ایک ایسے انسان کے ساتھ ہو جاتی ہے جسے تمہاری اس سے اٹیچ منٹ اریٹیٹ کرے تو"

شاہنواز نوین کو دیکھ کر پوچھنے لگا اسے معلوم تھا نوین کی کمزوری اس کی بہن ہے مگر ہر رشتے کو نارمل رکھ کر چلنا چاہیے وہ یہ بات نوین کو نہیں سمجھا پاتا تھا 

"تو ظاہری بات ہے کسی کی اریٹیشن ختم کرنے کے لیے میں اپنی بہن سے اپنا تعلق ختم نہیں کرسکتی اس لئے میں اس انسان کو ہی اپنی بہن کی زندگی سے نکال دور پھینکو گی"

نوین کندھے اچکا کر شاہنواز کو آسان سا حل بتانے لگی جس پر شاہنواز نے مسکرا کر اس کی بات کو مذاق میں لیا 

"کیا اتنی ہی محبت تم مجھ سے بھی کرتی ہو"

شاہنواز نوین کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر اس سے پوچھنے لگا 

"اب کیا آپ مجھ سے اپنی محبت کا امتحان لیں گے" 

نوین شاہنواز کے کندھے سے سر ٹکائے اسے دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی 

"امتحان تو تم دے چکی ہوں اور اس میں پاس بھی ہو چکی ہوں"

شاہنواز نے تکیہ پر اپنا سر رکھتے ہوئے نوین کا سر اپنے سینے پر رکھا اور لیمپ آف کر دیا

*****

نیند میں عباس کو کسی کی چیخوں کی آوازیں سنائی دیں جیسے دور سے کہیں کوئی زور زور سے چیخ رہا تھا

"دیا" 

عباس نیند میں بڑبڑایا پھر اسے دروازے کی دستک سنائی دی تو عباس کی آنکھ کھلی۔۔۔ وہ آوازیں دیا کی نہیں تھی سچ مچ کوئی چیخ رہا تھا وہ بیڈ سے اٹھ کر اپنے کمرے سے باہر نکلا

"سر کومل بےبی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے،، آج شاہنواز سر اور آزھاد سر دونوں ہی گھر پر موجود نہیں ہیں۔۔۔۔ میم اور میں انھیں نہیں سنبھال سکتے آپ پلیز کومل بےبی کو آکر دیکھ لیں"

عباس کے دروازہ کھولتے ہیں کوثر پریشان ہو کر بولنے لگی عباس ساری صورتحال کو سمجھتا ہوا کوثر کے ساتھ چل دیا 

****

"کومل بیٹا نہیں خدارا اسے چھوڑ دو پلیز، میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں"

کوثر کے پیچھے عباس پہنچے تو اسے وجیہہ کی آواز سنائی دی وہ کچن کے دروازے پر وہیل چیئر پر بیٹھی رو رہی تھی 

"عباس بیٹا دیکھیں کومل کو سمجھائے میرا دل بیٹھا جا رہا ہے یہ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا دے کہیں" 

عباس کو آتا دیکھ کر وجیہہ بے بسی سے روتی ہوئی بولی 

"آنٹی آپ پریشان مت ہو،، کوثر آپ آنٹی کو لے جائیں یہاں سے"

عباس وجیہہ کو تسلی دیتا ہوا کوثر سے بولا وہ سر ہلا کر وہیل چیئر چلاتی ہوئی وہاں سے وجیہہ کو لے گئی 

عباس نے جیسے ہی کچن میں قدم رکھا فوراً ہی نیچے بیٹھ گیا اگر وہ نیچے نہ بیٹھتا تو کومل کا وار خالی نہیں جاتا کانچ کا جگ فرش پر گر کر چھناکے سے ٹوٹا عباس نے سر اٹھا کر کومل کو دیکھا وہ ہاتھ میں بڑی سی چھری لیے گھڑی تھی 

"لاؤ کومل یہ چھری مجھے دے دو" عباس اٹھ کر کومل کے قریب آئستہ قدم بڑھاتا ہوا بولا 

"دور رہو تم مجھ سے ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گی"

کومل نے شیلف سے گلاس اٹھا کر دوبارہ عباس کا نشانہ لیا وہ ایکدم سائڈ پر ہوا کانچ کا گلاس کرچیوں کی صورت فرش پر بکھر گیا۔۔۔ کل شام کی طرح وہ عباس کو کوئی بچی نہیں لگ رہی تھی، نہ ہی وہ اس وقت چھوٹے بچوں کی طرح ری ایکٹ کر رہی تھی بلکہ پنک کلر کے نائٹ ڈریس، شرٹ اور ٹراؤزر میں کھلے بالوں کے ساتھ وہ اب بالکل ایک ڈری سہمی لڑکی لگ رہی تھی 

"کومل دیکھو یہ چھری مجھے دے دو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا پرامس" 

عباس مزید قدم بڑھاتا ہوا اس کے قریب آیا 

"میں نے کہا نہ، دور رہو مجھ سے"

کومل نے عباس کو اپنے قریب آتا دیکھ کر اپنا ہاتھ بلند کرکے خود پر وار کرنا چاہا مگر اب کومل کا چھری والا ہاتھ وہ مضبوطی سے پکڑ چکا تھا 

"میں کہتی ہو چھوڑ دو مجھے ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گی"

کومل چیختی ہوئی عباس کو دیکھ کر بولی اب وہ پوری طاقت لگا کر چھری سے عباس کی طرف وار کرنا چاہ رہی تھی اس کی آنکھیں بے خوف تھی اور چہرے پر عجیب وحشت طاری تھی 

عباس نے بہت ممکن کوشش کی تھی کہ کومل اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا سکے لیکن جب اس نے دوسرے ہاتھ سے اس سے چھری پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اپنے آپ کو نہیں بچا سکا چھری سے اس کی کلائی پر کٹ لگا مگر وہ کومل کے ہاتھ سے چھری نیچے گرانے میں کامیاب ہوگیا تھا 

"چھوڑو مجھے میں کہتی ہو چھوڑو"

اب کومل پر ایک جنون طاری تھا وہ زور زور سے دونوں ہاتھ چلاتی ہوئی دیوانہ وار چیختی ہوئی عباس کو مارنے لگی عباس نے اس کے دونوں ہاتھوں کو قابو کیا  

"خاموشی سے چلو اپنے کمرے میں" عباس اب غصے میں کومل کو دیکھ کر بولا پھر اس کو مضبوطی سے پکڑ کر کچن سے باہر نکالنے لگا

"چھوڑو مجھے" 

اب کومل نیچے فرش پر بیٹھ کر پاوں زمین سے رگڑتی ہوئی زور زور سے اپنے ہاتھ عباس کو مارنے لگی

"ایسے نہیں مانو گی تم" 

عباس نے کومل کو فرش سے اٹھا کر کھڑا کیا اور اپنے کندھے پر ڈالا 

"کون سا روم ہے ان کا" 

وہ اب بھی زور زور اپنے ہاتھ عباس کی کمر پر مارتی ہوئی چیخ رہی تھی،، جس کا عباس نے نوٹس لیے بغیر کوثر سے پوچھا۔ ۔۔ 

کوثر نے کومل کے کمرے کا دروازہ کھولا عباس اسکو اس کے روم میں لے کر آیا اور اس کو بیڈ پر لٹانے لگا 

وجیہہ روتی ہوئی کبھی آزھاد کا نمبر ملا رہی تھی تو کبھی شاہنواز کا۔۔  

مگر آزھاد کا سیل آف تھا اور شاہنواز کے موبائل پر مسلسل بیلز جارہی تھی 

عباس کومل کو مضبوطی سے پکڑنے کے باوجود،، وہ مسلسل چیخیں مار کر بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی اور زور زور سے اپنے پاؤں چلا رہی تھی تب کوثر نے جلدی سے سرنج نکالی اور کومل کے بازو میں انجیکٹ کی۔۔۔ جس سے کومل ہوش و خروش سے بیگانہ ہوگئی تب عباس نے اس کے دونوں بازو چھوڑے 

"سر آپ کے تو زخم آیا ہے"

کوثر نے عباس کی کلائی کو دیکھتے ہوئے کہا وجیہہ بھی فکرمندی سے اسے دیکھنے لگی 

عباس کے ہاتھ سے نکلتا ہوا خون کومل کے ہاتھ اور آستین پر بھی لگا ہوا تھا مگر اب وہ بے ہوش تھی 

"اٹس اوکے زخم زیادہ گہرا نہیں ہے" عباس وجیہہ کو پریشان دیکھتا ہوا مسکرا کر کہنے لگا 

"زخم۔ تو زخم ہوتا ہے کوثر جاو فرسٹ ایڈ باکس لے کر آؤ" وجیہہ آنسو صاف کرتی ہوئی کوثر سے بولی 

"آنٹی آپ پریشان مت ہوں میں ٹھیک ہوں"

عباس وجیہہ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا بیٹا 

"آپ یہاں بیٹھ جاؤ آپ نے میری بیٹی کی جان بچاتے ہوئے اپنے آپ کو زخمی کر لیا" 

عباس کرسی پر بیٹھا تو وجیہہ اس کے ہاتھ کا جائزہ لیتی ہوئی بولی 

"آنٹی مجھے واقعی پین نہیں ہو رہا مگر آپ اس طرح پریشان ہوگی تو مجھے اچھا نہیں لگے گا"

وجیہہ عباس کو پریشان دیکھ کر بولا وجیہہ کوثر کی لائے فرسٹ ایڈ باکس سے عباس کی بینڈیج کرنے لگی

حنین کو ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھی وہ گھبرائی ہوئی آنے والے وقت ڈرنے لگی اسے لگا اگر وہ یہاں سے نہیں گئی تو اس کے ساتھ بہت بھیانک کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔ فصیح اور مُکرم نے اس کی طرف قدم بڑھائے تو حنین نے تیز رفتار میں بھاگنا شروع کردیا

"تیز بھاگ پکڑ سالی کو"

فصیح مُکرم سے کہتا ہوا خود بھی حنین کے پیچھے بھاگنے لگا۔۔۔ حنین تیزی سے فارم ہاؤس کے مین گیٹ کی طرف بھاگی جو کہ کسی کار کی آمد کی وجہ سے گارڈ نے کھولا تھا 

"اے جلدی دروازہ بند کر"

فصیح نے حنین کو گیٹ پار کرتا ہوا دیکھ کر بھاگنے کے ساتھ گارڈ کو چیخ کر کہا تب تک حنین تیزی سے گیٹ عبور کر گئی تھی لیکن اس کی شال کہیں مین گیٹ کے گرل میں پھنس گئی 

"بیٹی اسے چھوڑو جلدی نکل جاؤ یہاں سے"

حنین اپنی شال نکالنے لگی تو وہ بوڑھا گارڈ بولا حنین نے اس گارڈ پر ایک نظر ڈالی اپنی شال وہی چھوڑ کر بھاگنے لگی

"سالے بڈھے تجھے تو آ کر بتاؤں گا،، مُکرم جلدی سے بائک پر بیٹھ"

فصیح کو اس گارڈ پر شدید غصہ آیا تھا جس نے حنین کو پکڑنے کی بجائے وہاں سے بھگا دیا مگر فصیح نہیں چاہتا تھا حنین وہاں سے نکلنے جبھی اس نے بائیک سنبھالی اور جیب میں ٹٹول کر جلدی سے چابی نکال کر بائیک اسٹارٹ کری 

حنین حواس باختہ بھاگتی چلی گئی اس کا دماغ اس وقت کام نہیں کر رہا تھا بس اسے اپنی عزت بچانے تھی بائیک کی آواز سن کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ کردیا 

رات کے اندھیرے میں دھنلی آنکھوں کے ساتھ سنسان سڑک کو لے کر آنکھوں سے آنسو صاف کرکے وہ تیزی سے بھاگتی جارہی تھی اب اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مزید بھاگتی اس کے پاؤں بری طرح دکھ رہے تھے اور سانس بھی بری طرح پھول رہا تھا دائیں ہاتھ پر موجود گھنی جھاڑیوں میں جائے پناہ کی تلاش میں اس راستے پر چل دی

"روک بائیک یہی اندر گئی ہے"  

مُکرم نے فصیح سے کہا تو فصیح نے بائیک روکی

"اللہ پاک پلیز مجھے بچالے" 

حنین بڑے سے پتھر کے پیچھے بیٹھتی ہوئی اپنے لیے دعا مانگنے لگی اسے قدموں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی اپنے ہی ہاتھوں سے حنین نے اپنا منہ بند کر لیا

"چل یار واپس چلتے ہیں زیادہ دیر رکنا یہاں پر خطرے سے خالی نہیں ہے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں" 

سنسان جگہ اور رات کے پھیلے سناٹے کو دیکھتا ہوا مُکرم فصیع سے بولا فصیح نے اس کی بات کی تائید کی جب دور کہیں سے حنین کو بائیک اسٹارٹ کرنے کی آواز آئی تو اس نے خدا کا شکر کیا کھڑے ہوکر دیکھا تو وہ دونوں وہاں موجود نہیں تھے اب وہ اپنی کانپتی ہوئی ٹانگوں کو ساتھ پتھر سے ٹیک لگا کر واپس بیٹھ گئی 

حنین کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ واپس کیسے جائے سیل فون تو وہ اپنا نوین سے بات کرکے وہی چھوڑ کر آگئی تھی اگر وہ واپس جاتی اور وہی لڑکے اسے پھر مل جاتے اس سے آگے حنین سے کچھ سوچا ہی نہیں گیا۔۔۔۔ مگر وہ ساری رات اس سنسان جگہ پر بھی کیسے گزار سکتی تھی رات کے اس پہر سردی کافی بڑھ رہی تھی کوئی گرم کپڑا یا چادر بھی اس کے پاس موجود نہیں تھی حنین اپنے دونوں پاؤں کو دباتے ہوئے یہی سوچ رہی تھی مشکل سے اسے دس منٹ گزرے تھے جب اسے غُرانے کی آواز آنے لگی حنین نے سر اٹھا کر دیکھا اس کا دل بری طرح دہل کر رہ گیا مشکل سے دس قدم کے فاصلے پر ایک بڑا سا کالے رنگ کا کُتا زبان باہر نکالے اسی کو دیکھ رہا تھا حنین ڈرتی ہوئی آئستہ سے دوبارہ کھڑی ہوئی۔۔۔ اسے دوبارہ رونا آنے لگا،، کتا اب بھی لمبی زبان باہر نکالے اسی کو دیکھ رہا تھا حنین نے کلمہ پڑھ کر ایک بار پھر دوڑ لگانا شروع کر دی کُتا بھی بھونکتا ہوا اس کے پیچھے بھاگنے لگا پندرہ سے بیس منٹ تک وہ سڑک پر بھاگتی رہی اور کُتا اس کے پیچھے بھونکتا ہوا بھاگتا رہا 

اب حنین کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا مگر تھوڑی ہی دور اس سڑک پر ایک کار کھڑی نظر آئی کوئی شخص اپنی کار سے باہر نکلا سیل فون کان سے لگائے ٹہل رہا تھا 

"پلیز ہیلپ می" حنین چیختی ہوئی اس آدمی کی طرف بڑھی آزھاد کو ایک سیکنڈ لگا تھا ساری سچویشن سمجھنے میں، کسی لڑکی کے پیچھے کُتا لگا تھا اور وہ بھاگتی ہوئی اسکی جانب آرہی تھی اس سے پہلے وہ کُتا چھلانگ لگا کر اس لڑکی پر حملہ کرتا آزھاد نے اپنے ہاتھ میں موجود سیل فون کھینچ کر اس کُتے کو مارا جس پر وہ ڈر کر وہاں سے بھاگ گیا۔۔ حنین پھولی ہوئی سانس کے ساتھ اپنے سامنے کھڑے آزھاد کو دیکھنے لگی 

"ہنی"

آزھاد اپنے سامنے کھڑی حنین کو فوراً ہی پہچان گیا بے ساختہ اس کے منہ سے اس کا نام ادا ہوا،،، حنین اپنی پھولی ہوئی سانس کو بحال کرتی آزھاد کے قریب آئی اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی جیکٹ کو مضبوطی سے پکڑا اور آنکھیں بند کئے اس سے پہلے وہ چکرا کر نیچے گرتی آزھاد نے اسکے بےہوش وجود کو تھام کر نیچے زمین پر آئستہ سے لٹایا

"ہنی آنکھیں کھولو کیا ہوا تمہیں" 

وہ حنین کا سر اپنے گھٹنے پر ٹکائے اس کا گال تھپتھپاتا ہوا پوچھنے لگا۔۔ آزھاد نے ایک نظر سنسان روڈ پر ڈال کر دوبارہ حنین کے بےہوش وجود کو دیکھا،،، پھر اسے اٹھا کر اپنی کار کے پاس لے آیا اور اسے کار کی پچھلی سیٹ پر لٹایا۔۔۔ 

آزھاد کو حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی رات گئے سنسان جگہ پر وہ اکیلی کیا کر رہی تھی۔۔۔ کار میں لٹانے کے بعد وہ سڑک پر جاکر اپنا موبائل اٹھانے لگا جس کی اسکرین چکنا چور ہو گئی تھی نفی میں سر ہلاتا ہوا وہ کار کی طرف واپس آیا

اس کے ساتھ آج بیٹ لک یہ ہوئی تھی کہ وہ مُکرم اور فصیح کے پاس سے واپس گھر جانے کے لیے نکلا تو ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اس کی کار خراب ہوگئی تھی اتنی رات گئے سخت سردی میں وہ اپنی کار سے نکل کر فصیح اور مُکرم کے موبائل پر پچھلے آدھے گھنٹے سے کال ملا رہا تھا دونوں ہی اس کی کال ریسیو نہیں کر رہے تھے پھر یوں اچانک حنین اس کے سامنے چلی آئی

آزھاد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا گردن موڑ کر وہ حنین کو دیکھنے لگا اس وقت سردی میں وہ پتلے سے ٹاپ میں موجود تھی کسی احساس کے تحت آزھاد نے اپنی جیکٹ اتار کر حنین کے اوپر ڈالی،، اب وہ اپنی برابر والی سیٹ پر سے پانی کی بوتل اٹھا کر بوتل سے منہ لگا کر پانی پیتا ہوا حنین کو دیکھنت لگا، ہتھیلی میں پانی بھر کر اس نے حنین کے منہ پر چھڑکا 

****

"ہنی"

نوین ایک دم حنین کا نام پکار کر بیڈ سے اٹھی اس کے برابر میں لیٹا ہوا شاہنواز نوین کے جاگنے سے خود بھی بیدار ہوگیا اور لیمپ ان کیا 

"کیا ہوا تمہیں،، نوین تم ٹھیک ہو" شاہنواز نوین کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا 

"جی، بس ویسے ہی ہنی کو خواب میں دیکھا وہ رو رہی تھی تو میں ڈر گئی"

نوین اپنے آپ کو نارمل کرتی ہوئی شاہنواز کو بتانے لگی پھر سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا اپنا فون اٹھا کر کو کال کرنے لگی 

"کیا کر رہی ہو نوین ٹائم دیکھا ہے تم نے اس وقت رات کے 3 بج رہے ہیں کیوں اس کو نیند سے ڈسٹرب کر رہی ہو وہ سو رہی ہوگی اس وقت"

شاہنواز نوین کا فون اسکے ہاتھ سے لیتا ہوا بولا 

"اس کی آواز سن لی تھی تو مجھے تسلی ہوجاتی"

نوین شاہنواز کو دیکھتی ہوئی بولی

"نوین میں مانتا ہوں تمہیں حنین سے محبت ہے مگر اسے خود سے اتنا اٹیچ بھی مت کرو کہ بعد میں وہ تمہارے بغیر رہ ہی نہ سکے،، وہ ساری زندگی تو تمہارے ساتھ نہیں رہے گی کل کو اس کی بھی شادی ہونی ہے یوں ہر آدھے گھنٹے بعد فون کرکے اس کی خبر گیری کرنا ایک ایک پل کی اس سے اپڈیٹ لینا اس طرح یا تو وہ خود تم سے دور ہو جائے گی یا پھر اتنا اٹیچ کے وہ کسی دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ ہی نہیں ہو پائے گی"

شاہنواز نوین کا ہاتھ تھام کر اسے سمجھانے لگا

"بہن ہے وہ میری شانواز مجھ سے کبھی بھی دور نہیں ہو سکتی نہ کوئی دوسرا اسے مجھ سے دور کر سکتا ہے"

نوین شاہنواز کو دیکھتی ہوئی بولی 

"اور کل کو اگر اس کی شادی ایک ایسے انسان کے ساتھ ہو جاتی ہے جسے تمہاری اس سے اٹیچ منٹ اریٹیٹ کرے تو"

شاہنواز نوین کو دیکھ کر پوچھنے لگا اسے معلوم تھا نوین کی کمزوری اس کی بہن ہے مگر ہر رشتے کو نارمل رکھ کر چلنا چاہیے وہ یہ بات نوین کو نہیں سمجھا پاتا تھا 

"تو ظاہری بات ہے کسی کی اریٹیشن ختم کرنے کے لیے میں اپنی بہن سے اپنا تعلق ختم نہیں کرسکتی اس لئے میں اس انسان کو ہی اپنی بہن کی زندگی سے نکال دور پھینکو گی"

نوین کندھے اچکا کر شاہنواز کو آسان سا حل بتانے لگی جس پر شاہنواز نے مسکرا کر اس کی بات کو مذاق میں لیا 

"کیا اتنی ہی محبت تم مجھ سے بھی کرتی ہو"

شاہنواز نوین کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر اس سے پوچھنے لگا 

"اب کیا آپ مجھ سے اپنی محبت کا امتحان لیں گے" 

نوین شاہنواز کے کندھے سے سر ٹکائے اسے دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی 

"امتحان تو تم دے چکی ہوں اور اس میں پاس بھی ہو چکی ہوں"

شاہنواز نے تکیہ پر اپنا سر رکھتے ہوئے نوین کا سر اپنے سینے پر رکھا اور لیمپ آف کر دیا

*****

نیند میں عباس کو کسی کی چیخوں کی آوازیں سنائی دیں جیسے دور سے کہیں کوئی زور زور سے چیخ رہا تھا

"دیا" 

عباس نیند میں بڑبڑایا پھر اسے دروازے کی دستک سنائی دی تو عباس کی آنکھ کھلی۔۔۔ وہ آوازیں دیا کی نہیں تھی سچ مچ کوئی چیخ رہا تھا وہ بیڈ سے اٹھ کر اپنے کمرے سے باہر نکلا

"سر کومل بےبی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے،، آج شاہنواز سر اور آزھاد سر دونوں ہی گھر پر موجود نہیں ہیں۔۔۔۔ میم اور میں انھیں نہیں سنبھال سکتے آپ پلیز کومل بےبی کو آکر دیکھ لیں"

عباس کے دروازہ کھولتے ہیں کوثر پریشان ہو کر بولنے لگی عباس ساری صورتحال کو سمجھتا ہوا کوثر کے ساتھ چل دیا 

****

"کومل بیٹا نہیں خدارا اسے چھوڑ دو پلیز، میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں"

کوثر کے پیچھے عباس پہنچے تو اسے وجیہہ کی آواز سنائی دی وہ کچن کے دروازے پر وہیل چیئر پر بیٹھی رو رہی تھی 

"عباس بیٹا دیکھیں کومل کو سمجھائے میرا دل بیٹھا جا رہا ہے یہ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا دے کہیں" 

عباس کو آتا دیکھ کر وجیہہ بے بسی سے روتی ہوئی بولی 

"آنٹی آپ پریشان مت ہو،، کوثر آپ آنٹی کو لے جائیں یہاں سے"

عباس وجیہہ کو تسلی دیتا ہوا کوثر سے بولا وہ سر ہلا کر وہیل چیئر چلاتی ہوئی وہاں سے وجیہہ کو لے گئی 

عباس نے جیسے ہی کچن میں قدم رکھا فوراً ہی نیچے بیٹھ گیا اگر وہ نیچے نہ بیٹھتا تو کومل کا وار خالی نہیں جاتا کانچ کا جگ فرش پر گر کر چھناکے سے ٹوٹا عباس نے سر اٹھا کر کومل کو دیکھا وہ ہاتھ میں بڑی سی چھری لیے گھڑی تھی 

"لاؤ کومل یہ چھری مجھے دے دو" عباس اٹھ کر کومل کے قریب آئستہ قدم بڑھاتا ہوا بولا 

"دور رہو تم مجھ سے ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گی"

کومل نے شیلف سے گلاس اٹھا کر دوبارہ عباس کا نشانہ لیا وہ ایکدم سائڈ پر ہوا کانچ کا گلاس کرچیوں کی صورت فرش پر بکھر گیا۔۔۔ کل شام کی طرح وہ عباس کو کوئی بچی نہیں لگ رہی تھی، نہ ہی وہ اس وقت چھوٹے بچوں کی طرح ری ایکٹ کر رہی تھی بلکہ پنک کلر کے نائٹ ڈریس، شرٹ اور ٹراؤزر میں کھلے بالوں کے ساتھ وہ اب بالکل ایک ڈری سہمی لڑکی لگ رہی تھی 

"کومل دیکھو یہ چھری مجھے دے دو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا پرامس" 

عباس مزید قدم بڑھاتا ہوا اس کے قریب آیا 

"میں نے کہا نہ، دور رہو مجھ سے"

کومل نے عباس کو اپنے قریب آتا دیکھ کر اپنا ہاتھ بلند کرکے خود پر وار کرنا چاہا مگر اب کومل کا چھری والا ہاتھ وہ مضبوطی سے پکڑ چکا تھا 

"میں کہتی ہو چھوڑ دو مجھے ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گی"

کومل چیختی ہوئی عباس کو دیکھ کر بولی اب وہ پوری طاقت لگا کر چھری سے عباس کی طرف وار کرنا چاہ رہی تھی اس کی آنکھیں بے خوف تھی اور چہرے پر عجیب وحشت طاری تھی 

عباس نے بہت ممکن کوشش کی تھی کہ کومل اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا سکے لیکن جب اس نے دوسرے ہاتھ سے اس سے چھری پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اپنے آپ کو نہیں بچا سکا چھری سے اس کی کلائی پر کٹ لگا مگر وہ کومل کے ہاتھ سے چھری نیچے گرانے میں کامیاب ہوگیا تھا 

"چھوڑو مجھے میں کہتی ہو چھوڑو"

اب کومل پر ایک جنون طاری تھا وہ زور زور سے دونوں ہاتھ چلاتی ہوئی دیوانہ وار چیختی ہوئی عباس کو مارنے لگی عباس نے اس کے دونوں ہاتھوں کو قابو کیا  

"خاموشی سے چلو اپنے کمرے میں" عباس اب غصے میں کومل کو دیکھ کر بولا پھر اس کو مضبوطی سے پکڑ کر کچن سے باہر نکالنے لگا

"چھوڑو مجھے" 

اب کومل نیچے فرش پر بیٹھ کر پاوں زمین سے رگڑتی ہوئی زور زور سے اپنے ہاتھ عباس کو مارنے لگی

"ایسے نہیں مانو گی تم" 

عباس نے کومل کو فرش سے اٹھا کر کھڑا کیا اور اپنے کندھے پر ڈالا 

"کون سا روم ہے ان کا" 

وہ اب بھی زور زور اپنے ہاتھ عباس کی کمر پر مارتی ہوئی چیخ رہی تھی،، جس کا عباس نے نوٹس لیے بغیر کوثر سے پوچھا۔ ۔۔ 

کوثر نے کومل کے کمرے کا دروازہ کھولا عباس اسکو اس کے روم میں لے کر آیا اور اس کو بیڈ پر لٹانے لگا 

وجیہہ روتی ہوئی کبھی آزھاد کا نمبر ملا رہی تھی تو کبھی شاہنواز کا۔۔  

مگر آزھاد کا سیل آف تھا اور شاہنواز کے موبائل پر مسلسل بیلز جارہی تھی 

عباس کومل کو مضبوطی سے پکڑنے کے باوجود،، وہ مسلسل چیخیں مار کر بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی اور زور زور سے اپنے پاؤں چلا رہی تھی تب کوثر نے جلدی سے سرنج نکالی اور کومل کے بازو میں انجیکٹ کی۔۔۔ جس سے کومل ہوش و خروش سے بیگانہ ہوگئی تب عباس نے اس کے دونوں بازو چھوڑے 

"سر آپ کے تو زخم آیا ہے"

کوثر نے عباس کی کلائی کو دیکھتے ہوئے کہا وجیہہ بھی فکرمندی سے اسے دیکھنے لگی 

عباس کے ہاتھ سے نکلتا ہوا خون کومل کے ہاتھ اور آستین پر بھی لگا ہوا تھا مگر اب وہ بے ہوش تھی 

"اٹس اوکے زخم زیادہ گہرا نہیں ہے" عباس وجیہہ کو پریشان دیکھتا ہوا مسکرا کر کہنے لگا 

"زخم۔ تو زخم ہوتا ہے کوثر جاو فرسٹ ایڈ باکس لے کر آؤ" وجیہہ آنسو صاف کرتی ہوئی کوثر سے بولی 

"آنٹی آپ پریشان مت ہوں میں ٹھیک ہوں"

عباس وجیہہ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا بیٹا 

"آپ یہاں بیٹھ جاؤ آپ نے میری بیٹی کی جان بچاتے ہوئے اپنے آپ کو زخمی کر لیا" 

عباس کرسی پر بیٹھا تو وجیہہ اس کے ہاتھ کا جائزہ لیتی ہوئی بولی 

"آنٹی مجھے واقعی پین نہیں ہو رہا مگر آپ اس طرح پریشان ہوگی تو مجھے اچھا نہیں لگے گا"

وجیہہ عباس کو پریشان دیکھ کر بولا وجیہہ کوثر کی لائے فرسٹ ایڈ باکس سے عباس کی بینڈیج کرنے لگی

جاری ہے 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sham E Inteqam Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sham E Inteqam  written by Zeenia Sharjeel .Sham E Inteqam by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment