Pages

Friday 18 August 2023

Sham E Inteqam By Zeenia Sharjeel New Novel Episode 1 to 2

Sham E Inteqam By Zeenia Sharjeel  New Novel Episode 1 to 2

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sham E Inteqam Novel By Zeenia Sharjeel Episode 1 to 2

Novel Name:Sham E Inteqam

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"کتنی بار بولا ہے آپکو، میرا انتظار مت کیا کریں ناشتہ کر لیا کریں"

شاہنواز نے بیزاری سے وجیہہ کو دیکھتے ہوئے کہا اور کرسی گھسیٹ کر ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا وجیہہ وہیل چیئر پر موجود،۔۔۔ ناشتے کی ٹیبل پر اسی کا انتظار کر رہی تھی

"لے دے کر ایک یہی وقت تو ہوتا ہے کہ جب تم بزی نہیں ہوتے اور ہم دونوں ایک ساتھ ناشتے کے بہانے کچھ پل بات کر لیتے ہیں"

وجیہہ نے اپنے شوہر کو دیکھ کر کہا جس کی عمر اس وقت 47 سال کے لگ بھگ ہوتے ہوۓ بھی وہ اپنی عمر سے کم لگتا تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بڑھتی ہوئی عمر نے اس کی پرسنلٹی میں اور زیادہ نکھار پیدا کر دیا تھا  

"وجیہہ آپ مجھے بزی ہونے کے طعنے دیں گیں۔۔۔ جبکہ اس کی ذمہ داری بھی آپ خود ہی ہیں،، نہ آپ اپنے لاڈلے بیٹے کو اپنی تنہائی کا رونا رو کر یہاں پاکستان بلاتی نی وہ صدا کا جذباتی انسان امریکہ میں سیٹل سب کچھ وائنڈاپ کر کے یہاں آتا۔۔۔ نہ مجھے اپنے بزنس کو مزید ٹائم دینا پڑتا" 

شاہنواز اب وجیہہ سے ناراض ہوتا ہوا بولا کیونکہ آزھاد کو پاکستان آئے ہوئے چار ماہ ہو چکے تھے مگر یہاں آ کر اس نے ابھی تک اپنی کمپنی میں  ایک قدم تک نہیں رکھا تھا

"میں اب اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرنے لگی ہوں شاہنواز" 

وجیہہ نے آزھاد کو پاکستان واپس بلانے کی وجہ بتائی مگر وہ یہ شکوہ نہیں کرسکی کہ شاہنواز خود اب وجیہہ کو پہلے کی طرف ٹائم نہیں دیتا تھا، نہ بات کرتا تھا۔۔۔ شادی کے 27 سالوں میں اس نے اپنے آپ کو معذور محسوس نہیں کیا تھا مگر اب وجیہہ کو اپنی معذوری کِھلنے لگی تھی بچپن سے ہی اس کی ایک ٹانگ نقص تھا جو کہ کافی علاج کے باوجود ٹھیک نہیں ہوا تھا 

"تو پھر آپ مجھے بتائیں کیا علاج کروں میں آپ کے اکیلے پن کا،، اتنا پھیلا ہوا بزنس۔۔۔ خود بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کے پاس بیٹھ جاو۔۔۔۔ وجیہہ پلیز اب ہمارے بچے جوان ہو چکے ہیں آپ اپنی عمر دیکھیں اور کچھ میچورٹی کا ثبوت دیں" 

شاہنواز ادھورا ناشتہ چھوڑ کر ٹیبل سے اٹھ گیا جبکہ وجیہہ آنکھوں میں نمی لیے ہلکا سا مسکرائی

ایک وقت وہ تھا جب شاہنواز نے بیس سال کی عمر میں اپنی والدہ کی سخت مخالفت کے باوجود اپنے سے پانچ سال عمر میں بڑی معذور تایا زاد سے شادی کرنے کی ضد کی،، لوگوں کے حیرت کرنے کے باوجود اس نے نہ صرف بردباری سے اپنے اس رشتے کو نبھایا بلکہ وجیہہ کا بہت اچھے طریقے سے خیال بھی رکھا شادی کے ایک سال بعد ہی آزھاد پیدا ہوا اور اس کے پانچ سال بعد کومل 

محبت کرنے والے شوہر کے بعد جب وجیہہ کی زندگی میں اس کے بچے آئے تو وہ خود کو خوش نصیب تصور کرنے لگی وہ معذور ہونے کے باوجود زندگی میں خوش اور مطمئن تھی۔۔۔ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ باپ کی جائیداد کی وہ اکیلی وارث تھی۔۔۔ شاہنواز بھی حیثیت میں اس سے کم تر ہرگز نہیں تھا بلکہ وجیہہ کے ہم پلہ ہی تھا۔۔۔ مزید محنت اور جدوجہد سے ترقی کی مناظل طے کر کے وہ اس مقام پر پہنچا تھا کہ اس نے اپنا آپ منوا لیا تھا۔۔۔  

مگر ایک سال پہلے وجیہہ کی زندگی نے عجیب پلٹا کھایا تھا۔۔۔ اپنی اکلوتی بیٹی کو یوں بے گانوں سی حالت میں دیکھ کر وجیہہ اندر ہی اندر گُھلتی رہتی۔۔۔ کومل کو اس حالت میں دیکھ کر آزھاد نے تب بھی پاکستان آنے کی کوشش کی تھی مگر تب شاہنواز نے اسے سختی سے منع کردیا تھا۔۔۔ کیوکہ امریکہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کرکے وہی ایک ہوٹل کھولنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ مگر 4 ماہ پہلے وجیہہ فون پر آزھاد سے بات کرتی ہوئی کافی روئی۔۔۔ اس کے ایک ہفتے بعد ہی آزھاد شاہنواز کو بتائے بغیر سب کچھ چھوڑ چھاڑ پاکستان واپس آ گیا تھا 

****

"واو واٹ آ پریزنٹ سرپرائز واقعی حنین تم میری برتھ ڈے پارٹی میں آگئی ہو۔۔۔ تمہیں تمہاری سسٹر سے اجازت مل گئی مجھے یقین نہیں آرہا"

بریرہ نے ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے حنین سے کہا کیوکہ حنین بہت کم ہی کالج فرینڈز کے کسی انویٹیشن کو ایکسیپٹ کرتی تھی۔۔ وجہ صرف اور صرف اس کی بہن تھی جو اس کو کہیں آنے جانے کی پرمیشن نہیں دیتی تھی

"اجازت کیسے نہیں ملتی بھوک ہڑتال کرکے خوب رونا ڈالا تھا۔۔۔ منتیں کرنے سے تو آپی بلکل نہیں ماننے والی تھیں" 

حنین بریرہ کو برتھڈے پریزنٹ تھماتے ہوئے بتانے لگی۔۔۔ پارٹی ڈریس ویئر کرنے کی بجائے۔۔۔ وہ کیجول کیپری اور ڈارک پرپل کلر کے ٹاپ میں بریرہ کی برتھ ڈے اٹینڈ کرنے آئی تھی۔۔۔ زیادہ بننا سنورنا اور میک اپ کرنا بھی نوین اسے الاؤ نہیں کرتی تھی۔۔۔ کیوکہ عام حلیہ میں بھی اس کا حسن یہ ہنر رکھتا تھا آرام سے سب کی توجہ اپنی طرف مندمل کر سکے 

"اف تمہاری سسٹر کا بھی سمجھ نہیں آتا یار۔۔۔ آخر اتنی سختی میں کیوں رکھا ہوا ہے انہوں نے تمہیں اور تم بھی تو اپنی سسٹر سے کتنا ڈرتی ہوں"

بریرہ حنین کو داخلی راستے سے اندر کی طرف لے جاتی ہوئی بولی۔۔۔ بریرہ نے اپنی برتھ ڈے ایک مشہور ہوٹل میں ارینج کروائی تھی۔۔۔ پورا ہوٹل تو نہیں ہوٹل کا ایک حصے میں پارٹی ارینج کی گئی تھی

"بریرہ میں ڈرتی نہیں ہوں اپنی بہن سے بلکہ پیار کرتی ہو انہیں اور دیکھا جائے تو ایک طرح سے انہوں نے ہی مجھے پالا ہے مما کے ساتھ گزرا ہوا وقت مجھے یاد بھی نہیں ہے۔۔۔ آپی خود بھی آٹھ سال کی تھی جب مما ہم دونوں کو چھوڑ کر چلی گئی تھی اور رہی بات سختی کرنے کی تو وہ جو بھی کچھ کرتی ہیں آئی تھنیک میرے ہی خیال سے کرتی ہیں۔۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے مگر عادت ہوگئی تو اتنا برا نہیں لگتا" 

حنین بریرہ کو بتاتے ہوئے مسکرانے لگی۔۔ مگر اس کی مسکراہٹ میں بھی اداسی کا عنصر شامل تھا شاید اپنی ماں کے ذکر پر

"افہو اب تم اداس مت ہوجانا پلیز۔۔۔ روما اور شارق کونے والی ٹیبل پر بیٹھے تمہارا ویٹ کر رہے ہیں"

بریرہ نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا

ویسے تو نوین نے حنین کو لڑکوں سے دوستی الاؤ نہیں کی تھی مگر شارق اس کی پوری کلاس میں ایک ایسا اسٹوڈنٹ تھا جو کہ پڑھاکو اور نہایت شریف قسم کا لڑکا تھا۔۔۔ اس لیے وہ نوین کی پرمیشن پر وہ اس سے بات چیت کر لیتی یا پڑھائی میں ہیلپ لے لیتی

****

"میرا نمبر نشوا کو کیوں دیا تم نے فصیح۔۔۔ ویسے ہی اسکی شکل دیکھ کر کوفت ہوتی ہے اور آج صبح سے وہ مجھے کال کر کے بےزار کر رہی ہے"

ہوٹل میں موجود وہ تینوں ٹیبل کے گرد رکھی کرسیوں پر براجمان تھے تبھی آزھاد کے موبائل پر نشوا کی کال آنے لگی جسے کاٹتا ہوا وہ فصیح پوچھنے لگا 

"تو تُو نے کب سے لڑکیوں کا لحاظ کرنا شروع کردیا نشوا کو بھی سنا دے جیسے پچھلے دنوں علینہ کو سنائی تھی"

مُکرم آزھاد کا تپا ہوا چہرہ دیکھ کر اس سے کہنے لگا 

"میں لحاظ اُس نشوا کا نہیں کر رہا بلکہ اِس فصیح کا کر رہا ہوں۔۔۔۔ جس کی وہ فرینڈ ہے۔۔۔ اور علینہ کی تو بات ہی نہیں کر۔۔۔ بلاوجہ اس کا چپکنا زہر لگتا ہے مجھے"

آزھاد سر جھٹکتا ہوا کہنے لگا اور ساتھ ہی ٹیبل پر رکھے سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر اسموکنگ کرنے لگا

"نشوا نے خود مجھ سے تیرا نمبر مانگا تھا وہ تجھ سے فرینڈشپ کرنے میں انٹرسٹڈ لگی تبھی میں نے تیرا نمبر دیا"

فصیح انرجی ڈرینگ پیتا ہوا آزھاد کو بتانے لگا 

"کم از کم مجھ سے تو پوچھنا چاہیے تھا کہ میں انٹرسٹڈ ہو کہ نہیں اس سے فرینڈ شپ کرنے میں"

آزھاد سگریٹ کا دھواں اڑاتا ہوا فصیح کو دیکھ کر کہنے لگا 

"تو تُو لڑکیوں میں انٹرسٹڈ کیوں نہیں ہے میرے بھائی،، کہیں امریکا جا کر تیرا ذائقہ تو نہیں بدل گیا۔۔۔ مطلب،، ماں کا لاڈلا بگڑ گیا"

مُکرم کے ہانکنے پر جہاں فصیح نے قہقہ مار کر ہنسا وہی آزھاد نے بھی ہنستے ہوئے ٹیبل پر رکھی سگریٹ کا ڈبہ کھینچ کر مُکرم کو کھینچ کے مارا

"بکو نہیں زیادہ، تم لوگوں کی طرح کا نیچر نہیں ہے میرا،، جو ہر لڑکی پر بلاوجہ مر مٹو۔۔۔ ایک کیلیبر ہے میرا یوں ہر لڑکی کو لفٹ کروانا مجھے پسند نہیں"

6 فٹ کی ہائٹ پر چہرے کے سنجیدہ نقوش اس کی شخصیت کو منفرد ہی نہیں مغرور بھی بناتے تھے 

"اور تیرا کیلیبر اس لڑکی کے بارے میں کیا کہتا ہے وہاں جو وہاں پرپل کلر کے ٹاپ میں کھڑی ہے" 

مُکرم نے دور کھڑی حنین کی طرف اشارہ کیا جو کہ تیز میوزک کی وجہ سے باہر کی سائڈ آکر نوین کی کال اٹینڈ کر رہی تھی

"ہائیٹ چھوٹی ہے" آزھاد اس کی پانچ فٹ دو انچ ہائٹ کو دیکھ کر، سرسری سی نظر اس پر ڈالتا ہوا بولا اور نظروں کا زاویہ دوسری سمت کر لیا مگر کچھ تھا جو وہ دوبارہ حنین کو دیکھنے پر مجبور ہوا شاید اس کے چہرے کے حسین نقوش، یا پھر اس کی مسکراہٹ جوکہ ایک سیکنڈ کے لئے وہاں دوسری ٹیبل پر موجود دو سالہ بچے کو دیکھ کر آئی تھی یا پھر اس کی آنکھیں۔۔۔ فصیح مُکرم اور آزھاد تینوں ہی حنین کا جائزہ لینے میں مصروف تھے جو کہ اپنے موبائل کو کان پر لگائے نوین سے بات کر رہی تھی

"تیرا کیلیبر تو جو بھی کہے،،، میرا کیلیبر تو یہ کہتا ہے کہ پہلی فرصت میں اس کا سیل نمبر لینے کی ٹرائی کرنا چائیے" 

فصیح حنین کو دیکھتا ہوا اٹھنے لگا

"زیادہ جذباتی نہ بن چپ کر کے بیٹھ جا، پچھلی بار کا وہ مُکّا بھول گیا جو سلمان کی شادی میں کسی حسینہ کو چھیڑنے پر اسکے منگیتر نے تیرے منہ پر رسید کیا تھا"

مُکرم نے فصیح کو ایک ماہ پہلے ہونے والی بےعزتی یاد کروائی جس پر فصیح خاموش ہوکر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ مُکرم اور آزھاد دونوں ہنسنے لگے

"زیادہ دانت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ میں نے کم از کم سلمان کی شادی میں اس حسینہ سے بات کرنے کی ٹرائی تو ماری تھی۔۔۔ اگر تجھ میں ہمت ہے آزھاد اس حسینہ سے تو نمبر لے کر دکھا مان جاو گا" 

فصیح آزھاد کو چیلنج کرتا ہوا بولا

"چھوڑ یار بچی لگ رہی ہے" 

آزھاد دوبارہ حنین کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔ کیوکہ دکھنے میں ہی وہ اسکول یا کالج کی اسٹوڈنٹ لگ رہی تھی

"خیر یہ بچی تو کہیں سے نہیں ہے۔۔۔ یہ بول تجھ میں گڈز نہیں"

فصیح آزھاد کو بولتا ہوا مُکرم کو آنکھ مارنے لگا۔۔۔ فصیح کی بات سن کر آزھاد دونوں آئی برو اونچی کر کے اسے دیکھتا ہوا کرسی سے اٹھا

****

حنین جوکہ نوین سے موبائل پر بات کرکے واپس بریرہ کی برتھڈے والے پورشن میں جارہی تھی تاکہ اسے بائے بول دے کیوکہ نوین راستے میں ہی تھی وہ حنین کو لینے آرہی تھی

"ہیلو" 

حنین کو اپنے پیچھے سے کسی لڑکے کی آواز سنائی دی۔۔۔ بھلا اس یہاں کون پکارے گا یہ سوچ کر حنین بغیر مڑے مزید آگے قدم بڑھانے لگی

"ہنی میں تم سے بات کر رہا ہو" 

آزھاد دوبارہ حنین سے مخاطب ہوا اور حنین اپنے نک نیم پر چونک مڑی اب وہ حیرت سے آزھاد کو دیکھنے لگی 

"کون ہیں آپ میرا نام کیسے جانتے ہیں"

حنین کے لیے یہ چہرہ اجنبی تھا اور اجنبی لوگوں سے وہ بات نہیں کرتی تھی مگر سامنے کھڑے اس اجنبی نے اسے اس کے نام سے پکارا تھا

"تم نے مجھے نہیں پہچانا میں آزھاد" آزھاد نے نام تو کوئی بھی نہیں پھر یہ لڑکی کیسے کہ گئی کہ وہ اسکا نام جانتا تھا۔۔۔ یقیناً اس کے ہنی کہنے پر اس لڑکی نے ایسا کہا ہوگا۔۔ جبھی آزھاد نے اس سے جان پہچان نکالنے کا سوچا

"آزھاد کون،، سوری میں نے آپ کو نہیں پہچانا"

حنین کو واقعی یاد نہیں آیا وہ کون تھا اس لیے وہ جانے کے لیے مڑی 

"ہنی ڈیئر میں تمہاری سسٹر کا فرینڈ ہو آزھاد"

آزھاد اس کو جاتا ہوا دیکھ کر جو منہ میں آیا بول گیا۔۔۔ حنین دوبارہ رکی

"آو آپی کے فرینڈ ہیں آپ" 

حنین اسمائل دے کر بولی یقیناً وہ نوین کے آفس کا کالیک ہوگا جبھی وہ اس کا نام جانتا تھا اور ریفرنس بھی دیا حنین کی مسکراہٹ آزھاد غور سے دیکھنے لگا، وہ اچھی خاصی خوبصورت تھی 

"اب پہچانا مجھے اور سناؤ کیسی ہو اسٹیڈیز کیسی چل رہی ہو"

آزھاد دل ہی دل میں ہنستا ہوا اپنا کونفیڈنس برقرار رکھتا ہوا حنین سے باتیں کرنے لگا

"میں ٹھیک ہوں،، ایگزیمز ابھی ختم ہوئے ہیں آپ یہاں کیسے"

حنین اس کی پہلی بات کا جواب دیے بغیر اس سے مسکرا کر بات کرنے لگی کیوکہ وہ اب بھی نہیں پہچان پا رہی تھی کہ وہ نوین کا کونسا آفس کولیک ہے

"ہاں میں اپنے فرینڈز کے ساتھ آیا تھا۔۔۔ ہنی مجھے تمہارا نمبر چاہیے تھا تم سے کچھ بات کرنا تھی"

آزھاد نے ایک نظر دور بیٹھے فصیح اور مُکرم پر ڈالی اور دوبارہ حنین سے مخاطب ہوا

"میرا نمبر مگر میرا نمبر آپ کو کیوں چاہیے"

حنین تھوڑی حیرت ذدہ ہونے کے ساتھ کنفیوز ہوکر پوچھنے لگی

"بتایا تو ہے ابھی کچھ بات کرنی تھی۔۔ ضروری بات، یوں سمجھ لو کچھ سیکرٹ بتانا ہے تمہیں"

آزھاد اس کو سنجیدگی سے دیکھتا ہوا بولا 

"ضروری بات بتانی تھی، سیکرٹ۔۔۔ مجھے تو آپکی کچھ بات ہی نہیں سمجھ میں آ رہی۔۔۔ ایک منٹ کہیں آپ کو کچھ زنیرہ آپی کے بارے میں تو نہیں بتانا مجھے"

حنین پہلے کنفیوز ہوئی پھر کچھ سوچ کر ایک دم چونک کر بولی

"اف کورس یار اسی کے بارے میں ہی تو شیئر کرنا ہے۔۔۔ اور یہ بہت امپورٹنڈ بات ہے تمہاری بہن کی جس کا تمہیں علم ہونا چاہے"

آزھاد سمجھ گیا تھا کہ زنیرہ اس کی بہن کا نام ہے اور اب وہ آسانی سے نمبر دے دے گی 

"مسٹر آزھاد اگر میری بہن کا نام زنیرہ ہوتا تو میں تب بھی آپ کو اپنا موبائل نمبر نہیں دیتی"

حنین آزھاد کو دیکھتی ہوئی سیریس انداز میں بولی۔۔۔ 

اس کی بات سن کر آزھاد کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔۔۔ مطلب وہ لڑکی اتنی سیدھی بھی نہیں تھی

حنین اپنے سامنے کھڑے اس بدتمیز انسان کو دیکھنے لگی جو اب شرمندہ ہونے کی بجائے مسکرا رہا تھا۔۔۔ حنین واپس جانے کے لیے مڑی

"اوکے نمبر نہیں دو اپنا مگر ایک بات تو سنتی جاؤ"

آزھاد حنین کو جاتا دیکھ کر اچانک اسکا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔ حنین آزھاد کے یوں اچانک ہاتھ پکڑنے پر حیرانگی سے مڑی تھی مگر اس سے پہلے وہ اسے کچھ بولتی

"ہاتھ چھوڑو اس کا"

آزھاد کو ایک نسوانی آواز اپنی پشت سے سنائی دی اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک 26 سالہ لڑکی دونوں ہاتھ باندھے سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ حنین نوین کو دیکھ کر دل ہی دل میں شکر ادا کرنے لگی 

"کیوں تمہیں کیا پرابلم ہو رہی ہے باڈی گارڈ ہو اس کی"

آزھاد اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر پوچھنے لگا

"میں بہن ہوں اس کی اب تم بتاؤ کہ تم کون ہو"

نوین نے آگے بڑھ کر حنین کا ہاتھ آزھاد کے ہاتھ سے آزاد کروایا اب وہ آزھاد کے سامنے کھڑی اس سے پوچھنے لگی

"تمہاری بہن کا بوائے فرینڈ"

صرف ایک لمحے کیلئے وہ چونکا تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی ہنی کی بہن ہے مگر دوسرے ہی لمحے وہ کانفیڈینس سے نوین کو بولا۔۔۔ جبکہ آزھاد کی بات پر حنین آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی

"یہ کیا بول رہے ہو تم، دماغ تو خراب نہیں ہو گیا تمہارا۔۔۔ میں تو جانتی تک نہیں ہوں اسے کون ہے یہ"

حنین فوراً آپ سے تم پر آگئی تھی اور غصے میں آزھاد کی طرف دیکھتی ہوئی بولی یقیناً وہ اپنی بہن سے ڈر گئی تھی جبھی وہ نوین کو دیکھتی اپنی صفائی بھی دے رہی تھی

"ریلیکس ہنی گھبرا کیوں رہی ہو آخر کبھی نہ کبھی تو تمہاری آپی کو معلوم ہونا ہی تھا ہم دونوں کے بارے میں"

حنین نے صدمے سے آزھاد کو دیکھا اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی مگر آنکھوں میں صاف شرارت ناچ رہی تھی۔۔۔ یقیناً وہ کوئی بہت بڑا کمینہ تھا جو نمبر نہ ملنے پر الٹا اسے پھنسا رہا تھا

"ہنی باہر جاکر کار میں بیٹھو"

نوین آزھاد کو دیکھتی ہوئی حنین سے مخاطب ہوئی آزھاد اب بھی بنا خوف کے نوین کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ حنین نوین کی ایک آواز پر وہاں سے چلی گئی 

"آئندہ میری بہن سے بات کرنے کی یا پھر اس سے فری ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ اگر تم مجھے اس کے آس پاس بھی بھٹکتے ہوئے نظر آئے تو"

نوین اسے غصے میں دیکھتی وارن کرنے لگی

"تو؟؟؟۔۔۔"

جتنے غصے میں نوین آزھاد کو دیکھ کر بولی تھی اتنی ہی سنجیدگی سے آزھاد پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ ڈال کر نوین سے پوچھنے لگا

"تو میں تمہارا وہ حشر کروں گی کہ تم خود کو آئینے میں پہچان نہیں پاؤ گے"

نوین اپنے سامنے کھڑے کسی امیر زادے کی بگڑی ہوئی اولاد کو دھمکاتے ہوئے کہا 

"آپی جی آپ کی اس دھمکی کو میں نے چیلنج سمجھ کر ایکسپٹ کیا ہے۔۔۔ اب آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا"

آزھاد مسکراہٹ اچھالتا ہوا نوین کے غصے کو مزید ہوا دے کر وہاں سے چلا گیا 

"بدتمیز"

نوین دل ہی دل میں آزھاد کو بولتی ہوٹل سے باہر نکل گئی

****

"یار کیا ضرورت تھی اس بچاری کو پھسانے کی۔۔۔ دیکھا نہیں اس کی بہن کیسے خونخوار نظروں سے تجھے گھور رہی تھی۔۔۔ اب ناجانے وہ اس حسینہ کا گھر جاکر کیا حال کرے گی"

فصیح اور مُکرم جوکہ نوین کے آنے پر تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوکر ان کی ساری گفتگو سن رہے تھے۔۔۔ فصیح حنین پر ترس کھاتا ہوا بولا جس پر آزھاد ہنسنے لگا 

"بہت اچھا ہوگا جو اس کی بہن گھر جاکر اس کی اچھی سی کلاس لے۔۔۔ زیادہ ہی اسمارٹ بن رہی تھی میرے سامنے"

آزھاد ٹیبل سے اپنا سگریٹ اور لائٹر پاکٹ میں رکھتا ہوا بولا

"بہت ہی ظالم ہے یار تُو تو اور وہ جو تو نے اس کی بہن کا چیلنج ایکسپٹ کیا ہے اس کا کیا کرنا ہے اب" 

اب کی بار مُکرم آزھاد کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس پر آزھاد مسکرایا

"تم دونوں تو کافی سیریس ہوگئے ہو چلو چلتے ہیں"

آزھاد کار کی کیچین اچھالتا ہوا ان دونوں کو کہہ کر باہر نکل گیا 

****

"کون تھا وہ لڑکا اور کب سے جانتی ہوں اسے" 

نوین گھر کے اندر داخل ہونے کے ساتھ حنین سے سختی سے پوچھنے لگی 

"آپی قسم لے لیں میں اس کو نہیں جانتی وہ سب کچھ جھوٹ بول رہا تھا" حنین نوین کے سخت تیور دیکھتی ہوئی اسے اپنی صفائی دینے لگی

"تم اس کو نہیں جانتی اور وہ تمہارا نک نیم بھی جانتا ہے۔۔ سچ سچ بتاؤ ہنی مجھے"

نوین حنین کا ہاتھ سختی سے پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھاتی ہوئی بولی

"آئی سوئیر میں سچ کہہ رہی ہوں اسے میرا نام کیسے پتہ ہے مجھے نہیں معلوم"

نوین کے اس طرح پوچھ گچھ کرنے پر اب حنین کو رونا ہی آنے لگا

"میرے سامنے وہ اپنے آپ کو تمہارا بوائے فرینڈ کہہ رہا ہے۔۔۔ اور تم قسم کھا رہی ہو کہ تمہیں کچھ نہیں معلوم"

نوین کو غصہ آیا تو وہ حنین پر مزید چیختی ہوئی بولی

"ایسا اس نے اس لیے بولا کیوکہ میں نے اپنا سیل نمبر دینے سے انکار کردیا تھا"

حنین نے شوز اتار کر اپنے دونوں پاؤں صوفے پر رکھے اور اب سر گھٹنے پر ٹکا کر رونے لگی

"تو وہاں پر اس سے کھڑے ہوکر باتیں کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔۔ تمہارے اس طرح رونے سے میں نرم ہرگز نہیں پڑنے والی۔۔۔ جانتی نہیں ہو تم آج کل کے لڑکوں کو کتنے بے ہودہ اور بدتمیز ہوتے ہیں۔۔۔ اور اس لڑکے کی آنکھوں میں تو شرم نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔۔۔ آئندہ اگر میں نے تمہیں اس لڑکے کے ساتھ دوبارہ دیکھا تو نہ صرف تمہاری پڑھائی ختم ہوگی۔ ۔۔ بلکہ جلد از جلد کسی سے بھی تمہاری شادی کر دوں گی"

نوین اس کو مزید سناتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی

اور حنین گھٹنوں میں سر رکھ کر رونے لگی۔۔۔ چند مہینے پہلے اس کا انسٹیٹوٹ جانا بھی نوین نے اسلیے بند کیا تھا وہاں سے کوئی لڑکا اسکا پیچھا کرتے گھر آگیا تھا مگر اس لڑکے کی قسمت اچھی نہیں تھی جو وہ نوین کے ہاتھ لگ گیا اور نوین نے اس لڑکے کی جوتوں سے وہ درگت بنائی کہ دوبارہ کبھی وہ انکے فلیٹ کے آس پاس بھی نہیں بھٹکا۔ ۔۔۔ مگر حنین کا انسٹیٹیوٹ جانا بند ہوگیا کیوکہ احتیاط اچھی چیز ہوتی ہے

حنین کے بچپن میں ہی اسکی ماں کی ڈیتھ ہوچکی تھی۔۔۔ نوین خود بھی اس وقت زیادہ بڑی نہیں تھی،،، مگر ننھی سی حنین کو اسی نے پالا تھا۔۔۔ اور چار سال پہلے فیروز مرزا (باپ) کا بھی انتقال ہو چکا تھا اس لیے حنین کے لیے نوین ہی اس کی ماں اور باپ تھے   

****

"لے جاؤ یہ ناشتہ کومی نے ایک بار کہہ دیا ہے وہ صرف ناشتے میں کینڈیز کھائے گی تو بس کینڈیز ہی کھائے گی"

آزھاد جم سے ایکسرسائز کر کے واپس آیا۔۔۔ تبھی برتن ٹوٹنے کی آواز آئی جو یقیناً کومل نے اٹھا کر پھینکے ہوگے آزھاد اپنے کمرے میں جانے کے بجائے کومل کے روم میں چلا آیا جہاں کوثر نیچے گرے ہوئے کانچ کے ٹکڑے چن رہی تھی

"کیا ہوگیا میرے بےبی کو، صبح صبح اتنا سارا غصہ"

آزھاد اپنے سے پانچ سالہ چھوٹی بہن کو بچوں کی طرح بہلاتا ہوا اس سے پوچھنے لگا

"یہ گندی آنٹی ہیں میرے کو جھوٹ بول کر ناشتہ کرواتی ہیں کہ ناشتہ کرنے سے کومی جلد بڑی ہوجائے گی۔۔۔ کومی بڑی ہوچکی ہے بھائی،، یہ دیکھو کومی بیڈ پر بیٹھتی ہو تو اس کے پاوں زمین کو چھوتے ہیں"

کومل اپنے سے ایک سال چھوٹی کوثر کو انٹی کہہ کر اسکی شکایت آزھاد سے کرنے لگی۔۔۔ اب وہ بیڈ سے نیچے پاوں لٹکا کر بیٹھتی آزھاد کو اپنی بات کا یقین دلا رہی تھی کہ وہ بڑی ہوچکی ہے

"میری جان صبح صبح کنڈیز تو گندے بچے کھاتے ہیں اور ابھی ابھی تو کومی نے خود کہا کہ وہ بڑی ہو چکی ہے۔۔۔ اب کومی اپنے بھائی کے ساتھ ناشتہ کرے گی پھر بھائی اور کومی فٹ بال کھیلے گے۔۔۔ کوثر جلدی سے میرا اور کومی کا ناشتہ یہی کومی کے روم میں لے کر آؤ"

ایک سال ہوچکا تھا کومل کے دماغی توازن کو بگڑے ہوئے کبھی کبھی وہ چھوٹی بچی بن کر بچوں کی طرح ری ایکٹ کرتی تو کبھی گھنٹوں خاموش رہتی کبھی کبھی اسے فٹس پڑتے ایسی صورتحال میں وہ زور زور سے چیخنے لگتی تب اس کو سنبھالنا یا قابو کرنا مشکل ہو جاتا۔۔۔ 

آزھاد ہی تھا جو اس کو اس کے موڈ کے حساب سے ہینڈل کرتا سال بھر سے اسکا سائکیٹرس سے علاج چل رہا تھا مختلف تھراپی،کنورزیشن اور دواؤں کے ذریعے اس کا علاج جاری تھا مگر ابھی تک کومل کو اس سے کوئی افاقہ نہیں پہنچا تھا 

"سر کوئی عباس نامی شخص آیا ہے کہہ رہا ہے آپ کا دوست ہے" 

آزھاد کومل کو بہلا کر ناشتہ کروا رہا تھا تب کوثر روم میں آتی ہوئی بولی 

"اس کو بٹھاو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں"

آزھاد کومل کو ناشتہ کرواتا ہوا بولا 

ایک ہفتے پہلے ہی عباس اور آزھاد کی اتفاقیہ ملاقات ہوئی تھی آزھاد کی کار خراب ہونے پر عباس نے اس کو اپنی کار میں لفٹ دی تھی۔۔۔ جس میں بات چیت کے دوران ان دونوں کی اچھی دوستی ہوگئی تھی گفتگو کے دوران ہی آزھاد کو معلوم ہوا تھا کہ کے عباس چند ماہ پہلے بیرون ملک سے پاکستان شفٹ ہوا ہے

****

"تم شاید یقین نہیں کرو میں آج ہی سوچ رہا تھا تمہیں فون کرنے کا"

آزھاد عباس سے بغلگیر ہوتا ہوا کہنے لگا 

"یقین نہ کرنے والی کونسی بات ہے،، اتفاق سے مجھ سے تمہارا نمبر مس ہو گیا تھا مگر گھر کا ایڈریس یاد تو سوچا آج فری ہو تم سے مل لیا جائے" آزھاد نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو عباس صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا 

"ایسا سوچ کر تو تم نے بہت اچھا کیا اور سناؤ گھر مکمل ہوگیا تمہارا"

آزھاد عباس سے پوچھنے لگا۔۔ عباس نے ڈرائیونگ کے دوران آزھاد کو بتایا تھا کہ وہ یہی اپنا ذاتی گھر بنا رہا ہے 

"کنسٹرکشن کا کافی کام باقی ہے آرام سے دو ماہ لگ جائیں گے گھر کو مکمل ہوتے ہوئے" عباس آزھاد کو بتانے لگا 

"مگر تم نے تو لاسٹ ٹائم بتایا تھا آئی تھینک تم جہاں پین گیسٹ ہو اس جگہ کو چھوڑ رہے ہو"

آزھاد آنکھیں سکیڑ کر یاد کرتا ہوا اس سے پوچھنے لگا 

"میں نہیں چھوڑ رہا لینڈ لیڈی کو ایشوز ہیں انہیں لگ رہا ہے کہ اکیلے آدمی کا رکھنا ٹھیک نہیں تو بس آج اپنے ریذیڈنس کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے نکلا تھا سوچا تم سے ملاقات ہو جائے"

عباس اسے ساری بات تفصیل سے بتاتا ہوا بولا 

"حد ہے اگر ایشوز آ رہے تھے تو ایگریمنٹ کیوں کیا خیر یہ بتاؤ پھر تمہارا ریزیڈنس کا مسئلہ حل ہوا"

آزھاد کچھ سوچتا ہوا عباس سے پوچھنے لگا 

"آزھاد میں یہاں پاکستان میں اتنا کسی کو جانتا نہیں ہوں ویسے ایک جاننے والے نے بولا تو ہے وہ رات بتائے گا مجھے اس کی نظر میں کوئی گھر ہے تو"

عباس آزھاد کو تفصیل سے بتانے لگا 

"چلو پھر ایسا ہے کہ تم یہاں ہماری انیکسی میں شفٹ ہو جاؤ۔۔ معلوم نہیں تمہارے جاننے والا اب رات تک کیا جواب دیتا ہے"

آزھاد بیٹھے بیٹھے اب اس کا مسئلہ سولو کرتا ہوا بولا 

"ارے نہیں یار ایسا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، کہیں نہ کہیں تو رہنے کی جگہ مل جائے گی" عباس اس کی پیشکش پر ایک دم بوکھلاتا ہوا بولا 

"ہاں تو جب مل جائے گی جگہ تو وہاں پر شفٹ ہو جانا ابھی یہاں پر رہنے میں تمہیں کیا پرابلم ہے"

آزھاد فرینک انداز میں بولا کیوکہ عباس اسے نیچر وائز شریف اور سیدھا لگا تھا 

"مجھے تو کوئی پرابلم نہیں مگر مناسب نہیں لگ رہا آئی مین تمہاری فیملی کو پرابلم نہ ہو"

عباس ہچکچاتا ہوا بولا 

"اگر میری فیملی میں سے کسی کو پرابلم ہوتی تو میں تمہیں آفر ہی نہیں کرتا۔۔۔ آ جاؤ تمہیں اپنی انیکسی دکھاتا ہوں۔۔۔ کل اپنا سامان لے آجانا جب تک انیکسی کی صفائی بھی ہو جائے گی" 

آزھاد صوفے سے اٹھتا ہوا بولا 

"اوکے مگر میری ایک شرط ہے۔۔ میں یہاں پے کرکے رہو گا"

عباس بھی صوفے سے اٹھتا ہوا ریلیکس ہوا کیوکہ اس کی رہائش واقعی ایک مسئلہ تھا جوکہ حل ہوچکا تھا 

"تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تم سے کرایہ لوں گا"

آزھاد مسکراتا ہوا عباس کو دیکھ کر بولا 

"بغیر پے کیے مجھے یہاں پر رہنا اچھا نہیں لگے گا"

عباس بھی مسکراتا ہوا بولا 

"اوکے یار انیکسی دیکھ لو پھر تمہیں دنیا کی موسٹ بیوٹیفل لیڈی سے ملواتا ہوں" 

آزھاد کی بات سن کر عباس کنفیوز ہو کر اسے دیکھا 

"ارے اپنی مدر کی بات کر رہا ہوں"

آزھاد ہنستا ہوا بتانے لگا تو عباس بھی مسکرا دیا

جاری ہے 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sham E Inteqam Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sham E Inteqam  written by Zeenia Sharjeel .Sham E Inteqam by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment