Pages

Tuesday 22 August 2023

Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 13 to 14

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 13 to 14

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 13 to 14

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

”ماں جی !....وہ پرانا موبائل فون کدھر ہے ۔“

”کیا کرنا ہے ؟“بشریٰ نے باورچی خانے سے آواز دی ۔

”ساتھ لے کر جاﺅں گی ۔“

”تو اپنے والا لے جاﺅ ۔“

”نہیں وہ آپ کے کام آئے گا ۔“

”میرا خیال ہے وہ میرے والے ٹرنک میں پڑا ہو گا۔“

اس کا پرانا موبائل فون کچھ زیادہ ہی پرانا تھا مگر ماں سے رابطہ کرنے کے لیے اس نے ساتھ لے جانا مناسب سمجھا تھا ۔کبیر دادا کو وہ اپنی کسی بھی ضرورت کے متعلق نہیں بتانا چاہتی تھی۔

ماں کے کھانا بنانے سے پہلے ہی وہ اپنا مختصر سا سامان لپیٹ چکی تھی ۔اس کا کتابوں والا بیگ اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہ سامان اس میں سما سکتا مجبوراََ اسے شاپروں ہی میں تمام سامان ڈالنا پڑا ۔اپنی کتابیں بھی اس نے ساتھ رکھ لی تھیں ۔امتحانات قریب تھے داخلے جا چکے تھے ،کبیر دادا سے بات کر کے وہ بارہویں کا امتحان تو دے ہی سکتی تھی ۔

اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ ماں کے پاس باورچی خانے میں گھس کر اس کا ہاتھ بٹانے لگی ۔

کھانا کھا کر وہ جانے کے لیے تیار تھی ۔ڈرائیور کو دیا ہوا وقت بھی پورا ہو گیا تھا ۔ٹھیک تین گھنٹے بعد گھر کے باہر ہارن کی آواز سنائی دی ۔ماں سے الوداعی پیار لے کر وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔ڈرائیور اسے گھر سے برا ٓمد ہوتے دیکھ کر کار سے نکلا اور جلدی سے عقبی دروازہ کھول دیا ۔

٭٭٭

خفیہ اڈے پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے شہاب شاہ قصوری کی کال آگئی تھی ۔وہ اس سے ملاقات کرنا چاہتا تھا ۔کبیردادا نے اڈے میں گھسنے کے بجائے شہاب شاہ سے ملنا ضروری خیال کیا۔اس کے حکم پر ڈرائیور نے گاڑی شہاب شاہ کی کوٹھی کی طرف موڑ دی ۔وہاں وہ اکیلا نہیں تھا۔ اخلاق حسین شاہ ، سپرنٹنڈنٹ پولیس ضمیر حسین اوڈھو ، نوشاد خان آفریدی،بابر حیات اور نقیب اللہ جان وہاں موجود تھے ۔تمام جرم کی دنیا کے بڑے بڑے نام تھے ۔دیکھا جاتا تو کراچی کے اصل مالک یہی تھے ۔انھوں نے اپنے کام کرنے کے علاقے بانٹے ہوئے تھے ۔ہر ایک اپنے علاقے میں خود مختار تھا ۔بھتہ خوری ،منشیات فروشی ،اسلحے کی اسمگلنگ ،اغواءبرائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ ،شراب خانے ،جوئے کے اڈے ،جسم فروشی کے اڈے وغیرہ چلانا اور اس کے علاوہ بھی بے شمار جرائم کی دلدل میں وہ گردن تک دھنسے ہوئے تھے ۔ثواب و گنا ہ ان کی نظر میں فرضی اور خیالی باتیں تھیں ۔وہ اللہ پاک کی ذات پر ایمان رکھتے تھے یا نہیں اس بارے انھوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا ۔

وہ تمام ڈرائینگ روم کے بجائے ملاقات کے کمرے میں ایک لمبی میز کے گرد بیٹھے تھے ۔صدارت کی کرسی پر شہاب شاہ قصوری بیٹھا تھا ۔اس کے دائیں جانب پہلی کرسی کبیر دادا کے لیے خالی پڑی تھی ۔کبیر دادا کی بغل میں ایس پی بیٹھا تھا جبکہ اس کے سامنے نوشاد خان آفریدی اور اس کی بغل میں اخلاق حسین شاہ براجمان تھا ۔کچھ کرسیاں خالی پڑی تھیں یقینا وہاں تمام لوگ حاضر نہیں تھے ۔

”شاید کوئی خاص مسئلہ ہے جو اتنے معززین جمع ہیں ۔“کبیر دادا نے اندر داخل ہوتے ہی مزاحیہ انداز میں کہا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا ۔اس کی بات پر سوائے شہاب کے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ابھری تھی ۔ان کے سامنے دھرے خالی گلاس اس بات کو ظاہر کر رہے تھے کہ وہ بیٹھک کافی دیر سے جاری تھی ۔ایک کونے میں لگی میز پر مختلف رنگوں کی بوتلیں موجود تھیں جن میں سنہری ،کالے ،ارغوانی اور سرخ رنگ کی بوتلیں دھری تھیں ۔جس کسی کو حاجت ہوتی وہ خود ہی اٹھ کر اپنا گلاس بھر لیتا ۔

”تو ....“تمام کو خاموشی پر رضامند پا کر وہ شہاب کی طرف متوجہ ہوا ۔

شہاب نے پوچھا ۔”آپ نہیں جانتے ؟“

کبیر دادا بیزاری سے بولا۔”بلایا ہے تو بات کرنا آپ کا بنتا ہے ۔“

” دو ٹکے کی چھوکری کے لیے ایک معزز شخص کی توہین کی گئی ہے ۔“اس کے سامنے بیٹھے نوشاد خان آفریدی نے غصہ چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔

ایک لمحے کے لیے غصے کی تیز لہر نے کبیردادا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ،مگر پھر اس نے خود پر قابو پا لیا ۔نوشاد آفریدی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے وہ تیکھے لہجے میں بولا ۔ ”سنا ہے تم نے دو دو ٹکے کی دو عورتوں کو گھر میں رکھا ہوا ہے ،اگر ان میں سے کسی ایک کو کوئی معزز پکڑ کر لے جائے تو یقینا خیر سگالی کے طور پر تم دوسری بھی اس کے پاس بھجوا دو گے ۔“

”کبیردادا منھ سنبھال کر بات کرو ۔“ نوشاد آفریدی غصہ کنٹرول نہیں کر سکا تھا ۔”وہ میری بیویاں ہیں ۔“

کبیر دادا نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔”تو میں نے کھوتی پال رکھی ہے ۔“

”وہ ایک رکھیل ہے ،بازاری عورت .... دلاور شیخ پچھلے دو سال سے اسے استعمال کر رہا تھا اور سنا ہے گزشتا رات خاور شیخ بھی مرنے سے پہلے اس سے بہرہ مند ہو چکا تھا ۔“نوشاد کا لہجہ خاصا استہزائیہ تھا ۔

”نغمہ بیگم تین سال تک ماڈل رہی اس دوران درجنوں باہر سے آنے والے سرکاری مہمانوں کو پیش ہوتی رہی اور اب وہ تمھاری نیک پروین بیوی بن گئی ہے ۔“کبیردادا نے اس کی دوسری بیوی کے خفیہ زندگی کے راز آشکارا کیے ۔

”شہاب صاحب !....ہم یہاں بے عزت ہونے کے لیے نہیں آئے ۔“نوشاد آفریدی، شہاب کی طرف متوجہ ہوا ۔

”کبیر دادا!....پلیز ۔“شہاب خان کا لہجہ مفاہمت سے پر تھا ۔

”شہاب صاحب !....نوشاد کی زبان کو بھی لگام دو ....وہ میری منکوحہ ہے اور اس کے بارے اگر یہ بکواس کرے گا تو ایسا سننے کو ملے گا ۔“

”کبیردادا !....آپ خود شہاب شاہ صاحب کے سامنے اعتراف کر چکے ہیں کہ اس لڑکی کو آپ چند دن کے لیے ہی گھر لے کر آئے ہیں ۔جبکہ کسی دوسرے کی بیوی کے متعلق بات کرتے وقت یہ سوچ لیں کہ تمام نے مستقل بنیاد پر شادی کی ہوئی ہے ۔“اس مرتبہ ایس پی ضمیر حسین اسے مخاطب ہوا تھا۔

”ایس پی صاحب !....میں اسے ایک دن اپنے پاس رکھوں یا ہمیشہ ،یہ میرا ذاتی فعل ہے اور کسی سورما کو میں یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ میری عزت پر ہاتھ ڈالے ۔ اخلاق حسین کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے خود اس لڑکی کو ہاتھ نہیں لگایا ورنہ یقینا آج شکایت کے لیے یہاں اس کا جانشین بیٹھا ہوتا ۔“

”کبیردادا ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہنیں ۔“اخلاق حسین شاہ بھڑک اٹھا تھا ۔

کبیردادا نے اطمینان بھرے انداز میں کہا ۔”نہیں پہنیں تو پہنا دوں گا اور پہناﺅں گا بھی دھات کی تاکہ توڑ کر ہاتھوں سے نکالی نہ جا سکیں ۔“

”کبیردادا !....آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپس کا معاہدہ توڑ دیں اور پھر جس کی جتنی طاقت ہے وہ اس کے ساتھ میدان میں آجائے ۔“نقیب اللہ جان نے بھی کبیردادا ہی کو قصوروار ٹھہرایا تھا ۔

”کبیرداداتھوڑا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں ،خواہ مخواہ بات بڑھانے سے کچھ نہیں ملے گا ۔“شہاب نے اسے نرم کرنا چاہا ۔

کبیردادا کو صاف نظر آرہا تھا کہ اس کی آمد سے پہلے اخلاق حسین اپنے لیے میدان ہموار کر چکا تھا ۔

”بابر صاحب !....آپ بھی کچھ بولیں تاکہ میں ایک ساتھ تمام کو جواب دے سکوں۔“کبیردادا نے خاموش بیٹھے بابر حیات کی رائے بھی جاننا چاہی ۔

بابر حیات کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے گویا ہوا ۔”جو کچھ سنا ہے اس کے مطابق تو آپ ہی غلطی نظر آرہے ہیں ،کیونکہ اس سے پہلے بھی ہم ایک دوسرے کی رکھیل اور منظور نظر پر ہاتھ ڈالتے رہے ہیں ،مگر اس کی وجہ سے کبھی کسی گینگ کے سربراہ پر ہاتھ نہیں اٹھایا گیا ۔البتہ کسی کارندے وغیرہ کو مار کر بدلہ لینا عام سی بات ہے ۔ہم تمام تو علاحدہ ہوتے ہوئے بھی ایک ہیں ، غصہ کرنا اور لڑنا جھگڑنا تو عام بات ہے مگر ایسی صورت میں بھی ہم ایک دوسرے پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔“

کبیردادا نے طائرانہ نگاہ تمام کے چہرے پر ڈالی اور کہنے لگا ۔”تمام حضرات اخلاق حسین کی یک طرفہ گفتگو سن کر مجھے غلط گردان ر ہے ہیں ،حالانکہ اس معاملے میں سراسر اخلاق حسین غلطی پرہے ۔کل میرا نکاح تھا اور میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اس لڑکی کو چھیڑنے والادلاور شیخ کس کا آدمی ہے ۔لیکن اس ضمن میں میں نے نہ تو اخلاق حسین کو کچھ کہا اور نہ شہاب صاحب کو کوئی شکایت کی ،البتہ دلاور شیخ سے حساب کتاب کرنا میری مجبوری تھی ۔رات ہی کو اخلاق حسین شکایت کرنے شہاب صاحب کے پاس پہنچ گیا اور اسی وقت میں نے اپنی صفائی پیش کر دی تھی۔ اسے یہ شکایت تھی کہ میں نے اس محلے میں اس کے آدمیوں کا داخلہ کیوں بند کر دیا ۔اب ان پندرہ بیس گھرانوں پر تو اس کی سیاست یا غنڈہ گردی کا انحصار نہیں ہے نا ۔اس کا کہنا تھا کہ کبیردادا نے جو لوگوں کے مجمع میں بیٹھ کر اعلان کیا ہے کہ اب اس محلے میں کوئی غنڈہ نہیں آئے گاتو وہ اعلان بس کہنے کی حد تک ہی رہے ۔جبکہ کبیردادا کبھی زبان دے کر نہیں پھرا یہ بات آپ تمام لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں ۔وہاں سے جناب خفا ہو کرچلے گئے اور مجھے بے عزت کرنے اور نیچا دکھانے کے لیے اپنے آدمی میری منکوحہ کے گھر بھیج دیے جو اسے دھوکے سے خاور شیخ کی کوٹھی پر لے گئے ۔مجھے جب اپنی بیوی کے غائب ہونے کا پتا چلا تو میں سیدھا اس کے پاس پہنچا اور اپنی منکوحہ کے بارے استفسار کیا ۔محترم الٹا مجھ پر طنز و تشینع کے تیر چلانے لگا ۔مجبورا میرا بھی ہاتھ اٹھ گیا ۔ اور اس کی خوش قسمتی کہ خاور شیخ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا ورنہ اس پر میرا قرض باقی تھا ۔اب وہ قرض اس سے کیسے وصول کرتا اس بارے کچھ کہنا فضول ہے کہ وہ بات گزر گئی ہے ۔باقی تمام کا یہ کہنا کہ وہ لڑکی میری رکھیل ہے اور اسے بیوی کے حقوق حاصل نہیں ہیں تو یہ نہایت غلط بات ہے کیونکہ جب میں نے نکاح پڑھا دیا ہے تو اس قسم کے تخمینے ثانوی رہ جاتے ہیں کہ اس نے میرے ساتھ ایک دن رہنا ہے یا ہمیشہ ۔آخر میں یہی کہوں گا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ یہی ختم کر دیا جائے توبہتر رہے گا ۔“

”ویسے ساری غلطی کبیردادا کی بھی نہیں ہے اور اب اس بات کو ختم کیا جانا چاہیے ، کیا خیال ہے شاہ جی ۔“ بابر حیات نے اپنی طرف سے فیصلہ سنا دیا تھا ۔

”اس لڑکی کی وجہ سے میرے دو اہم آدمی قتل ہوئے ہیں وہ خود چل کر میرے پاس معافی مانگنے آئے گی اب میں اسے ایک رات میں معافی دیتا ہوں یا دو راتوں میں اس کا تعین میں اسے ملنے کے بعد ہی کروں گا۔ممکن ہے ایک رات کے لیے میں اسے نوشاد آفریدی کے پاس بھی بھیج دوں۔اگر کبیر دادا کو یہ منظور نہیں تو پھر تیار رہے وہ لڑکی جہاں بھی ہمارے ہتھے چڑھی ہم بدلہ لینے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔“سارے گروپوں کی ہمدردی پا کر اخلاق حسین کمینگی پر اتر آیا تھا ۔

اخلاق کی بات سن کر سوائے شہاب قصوری کے تمام کے چہروں پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی ۔صاف نظر آرہا تھا کہ کبیر دادا کی مخالفت صرف حالیہ مسئلے کی وجہ سے نہیں تھی اور وہ کسی بھی طرح کبیردادا کو نیچا دکھانے کے خواہاں تھے ۔

کبیردادا اطمینان سے بولا ۔”ان اچھی شرائط کو نہ ماننے والا کوئی بے وقوف ہی ہو سکتا ہے ۔دوراتیں کوئی اتنی زیادہ قیمت بھی نہیں ہے کہ مجھے انکار کرنا پڑے اور یقینا پہلی رات جب وہ شاہ صاحب کے ساتھ ہو گی تو اس کی جگہ شاہ صاحب کی بڑی بیٹی فرحانہ میری تنہائی دور کرنے آئے گی اور دوسری رات جب وہ نوشاد آفریدی کے ساتھ ہو گی تو اس کی چھوٹی بیگم نغمہ میری بیوی کی جگہ سنبھالے گی ۔“

”بکواس بند کرو ۔“نوشاد آفریدی غضب ناک ہوتا ہوا اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا تھا ،مگر یہ کھڑا ہونا اسے مہنگا پڑا ....

کبیردادا اپنی نشست سے سپرنگ کی طرح اچھلا ایک پاﺅں درمیانی میز پر رکھتے ہوئے اس نے آگے کی طرف چھلانگ لگائی اور چوڑی میز کو عبور کرتا ہوا نوشاد آفریدی پر جا پڑا ۔ اسے گریبان سے تھامتے ہوئے اس نے ایک لات اخلاق حسین کو بھی رسید کر دی تھی وہ کرسی سمیت فرش پر لمبا ہو گیا تھا،اس کے ساتھ ہی کبیردادا نے ایک ہی ہاتھ سے نوشاد آفریدی کو سر سے بلند کر کے اس کی پیٹھ دیوار سے لگا دی تھی ۔

”اب بتاﺅ بکواس کون کر رہا ہے ۔“ کبیردادا کا سرد لہجہ نوشاد آفریدی کو دہلا گیا تھا ۔

باقی تمام ایک لمحے کے لیے سن ہو گئے تھے ۔ہوش میں آتے ہی وہ بے ساختہ نوشاد خان کو چھڑانے کے لیے کبیردادا کی طرف بڑھے ۔

”کبیردادا ....کبیردادا ....یہ کیا بے وقوفی ہے چھوڑو اسے ....“شہاب اور بابر حیات بیک زبان بولے تھے ۔کبیر دادا کے ہاتھ کے دباﺅ سے نوشاد آفریدی کے گلے رگیں پھول گئی تھیں ۔اسے سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی ۔اس نے خود کو چھڑانے کے لیے حرکت کی کوشش کی مگر کبیردادا کی طاقتور گرفت سے آزاد نہ ہوسکا ۔

دونوں نے کبیر دادا کو دائیں بائیں سے پکڑ لیا تھا ۔کبیردادا نے جھٹکا دے کر نوشاد آفریدی کو قالین پر پھینکا اور دوبارہ اپنی نشست پر جا بیٹھا ۔موبائل جیب سے نکال کر وہ کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا تھا ۔

بابر حیات اور شہاب قصوری نے نوشاد کو کرسی پر بٹھایا اخلاق حسین بھی کرسی کو سیدھا کر کے بیٹھ گیا تھا ، دونوں کے چہرے غصے وخجالت سے سرخ ہو گئے تھے ۔

”ایسا کرو اپنے تمام آدمیوں کو بتا دو کہ آج رات نو بجے کے بعد کوئی حدود بندی اور علاقہ نہیں رہے گا وہ جہاں چاہیں اپنا کاروبار کر سکتے ہیں اور اگر کوئی بھی رکاوٹ ڈالنے یا رخنہ اندازی کی کوشش کرے تو اڑا دینا ۔“ایک لمحہ خاموش رہ کر اس نے مخالف کی بات سنی اور پھر کہا ۔ ”ہاں آج رات نو بجے کے بعد اس سے پہلے نہیں ۔“اس کے رابطہ منقطع کرتے ہی شہاب قصوری تشویش ناک لہجے میں بولا ....

”یہ کیا مذاق ہے کبیر دادا !....“

”مذاق یہ ہے یا وہ جو دونوں خبیث کر رہے ہیں ....آٹھ بجے تک اگر اخلاق حسین نے گھر آکر میری بیوی سے معافی نہ مانگی تو پھر نتائج کے ذمہ دار آپ لوگ خود ہوں گے۔“ یہ کہتے ہی کبیردادا ان کی بات سنے بغیر کرسی سے اٹھ کر لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا ۔

٭٭٭

”ہونہہ!تو بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے ۔“کبیر دادا کے باہر جاتے ہی ایس پی ضمیر نے ہنکارا بھرا ۔

بابر حیات نے کہا ۔”اس کا ذمہ دار اخلاق حسین شاہ ہے ۔“

”اس کی آمد سے پہلے یہی طے ہوا تھا کہ وہ لڑکی مجھ سے معافی مانگنے آئے گی ۔ اب مجھے مطعون کیوں ٹھہرا رہے ہو ۔“

بابر حیات نے تلخی سے کہا ۔”کیونکہ یہ بات شہاب صاحب نے اسے کہنا تھی ۔اور بات لڑکی کے معافی مانگنے کی تھی اس کے ساتھ رات گزارنے کی نہیں ۔“

”اچھا اب آپس میں نہیں لڑ پڑنا ۔“نقیب اللہ جان نے انھیں بحث سے روکا۔

”یہ اچھا نہیں ہوا ،ہمیں کبیردادا کو منانا پڑے گا ۔“شہاب قصوری نے زبان کھولی ۔

”ہم ڈرتے نہیں اس سے اوراکیلا اس کا گینگ تمام کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔“نوشاد آفریدی نے انکار میں سرہلایا ۔

بابر حیات نے صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ۔”بے وقوفوں کی سی بات نہ کرو۔ وہ اکیلا نہیں ہے ۔یہاں پرصرف چھے گینگز کے بڑے موجود ہیں ،پانچ نے آنے کی زحمت ہی نہیں کی ہے ،اگر ان پانچ کو کبیردادا اپنے ساتھ ملا لیتا ہے تو یقینا وہ بھاری پڑیں گے ۔خود کبیردادا کا گینگ بھی سب سے بڑا ہے ۔“

ایس پی نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”اسی لیے تو وہ انڈر گراﺅنڈ حلقوں پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے ۔“

”اور یہ موقع اسے ہم لوگ فراہم کر رہے ہیں ۔“بابر حیات کی گفتگو سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ کبیردادا کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے ۔

نوشاد آفریدی نے تلخی سے کہا ۔”بابر صاحب !آپ اسے کچھ زیادہ ہی اہمیت دے رہے ہیں ۔“

”بابر ٹھیک کہہ رہا ہے ۔“شہاب قصوری نے بابر کی طرف داری کرتے ہوئے کہا ۔ ”آپ لوگوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کبیر دادا کا مقابلا کر سکے ،اس کا گینگ بھی سب سے بڑا ہے ۔اور میرا خیال ہے اس سے پہلے اس نے کبھی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم اس پر شک کر سکیں کہ وہ سب کا بڑا بننا چاہتا ہے ۔“

ایس پی نے شہاب قصوری کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا ۔”شمشیر دادا کے جانے کے بعد اس نے کچھ زیادہ ہی پر پرزے نکالنے شروع کر دیے ہیں ۔اور آپ اس کی طرف داری نہ کریں وہ آپ ہی کی جگہ لینا چاہتا ہے ۔“

شہاب قصوری صاف گوئی سے بولا ۔” میں شمشیردادا کی طرح کا بڑا نہیں ہوں ،میں تو بس آپ تمام کو ایک جگہ اکٹھا کرکے صلح صفائی کرا دیتا ہوں ۔اس سے بڑھ کر غالباََ میری کوئی حیثیت نہیں ہے ،باقی جہاں تک میری جگہ سنبھالنے کا تعلق ہے تو آج تک کبیر دادا نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی ،وہ شمشیر دادا کا شاگرد ہے اور شمشیر دادا ہی نے یہ سربراہی میرے حوالے کی تھی ۔“

”اگر شمشیر دادا کو چند روز کے لیے بلا لیں ۔“نوشاد افریدی نے مشورہ چاہا ۔

بابر حیات بولا ۔”اسے بمبئی کی ہوا راس آگئی ہے ۔یقینا وہ یہاں لوٹنا نہیں چاہے گا۔“

”تو پھر ان حالات سے کیسے نبٹا جائے ۔“خاموش بیٹھے نقیب اللہ جان نے زبان کھولی ۔

”میرا تو خیال ہے فی الحال اخلاق حسین کو مصالحت کی کوشش کرنا چاہیے ،خواہ مخواہ جھگڑا بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔اگر ہم تمام نے مل کر کبیر دادا کے گینگ کا خاتمہ کر بھی دیا تب تک وہ بھی ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہو گا ۔“بابر حیات نے مشورہ دیا ۔

”بابر صاحب صحیح کہہ رہا ہے ۔“نقیب اللہ جان نے بابر کی تائید میں سر ہلایا۔

”آپ کا کیا خیال ہے ۔“شہاب قصوری نے ایس پی سے مشورہ چاہا۔

ایس پی ضمیر اوڈھو گلا کھنکارتے ہوئے بولا ۔”ویسے فی الحال ہم کسی قسم کے جھگڑے کی حالت میں نہیں ہیں اور وہ بے غیرت اس چھوکری کے پیچھے باولا ہوا ہے ۔“

شہاب نے نوشاد آفریدی کی جانب دیکھا ۔

”فی الحال اس کا مطالبہ پورا کر دیتے ہیں ،لیکن میں کوشش کروں گا کہ شمشیر دادا کو چند روز کے لیے بلوا لوں ،جب تک میں کبیردادا مزا نہ چکھا لوں مجھے آرام نہیں آئے گا ۔خاص کر اس کی رکھیل کو تو میں نہیں چھوڑوں گا ۔“

”شاہ جی !....اب سب کچھ آپ پرمنحصر ہے ۔“شہاب قصوری ،اخلاق حسین کی طرف متوجہ ہوا ۔

اخلاق حسین نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔”گویا سب کا یہی فیصلہ ہے کہ میں اس دو ٹکے کی چھوکری سے معافی مانگوں ۔“

”فیصلہ نہیں مشورہ ۔“شہا ب قصوری نے تصحیح کی ۔

”ایک ہی بات ہے ۔“اخلاق حسین نے منھ بنایا ۔

”آپ اپنی بات کریں ۔اگر آپ کی نظر میں کوئی اور تجویز ہے تو بتائیں۔“ شہاب قصوری نے گیند اس کے کورٹ میں پھینکی ۔”اس کے علاوہ تو یہی حل رہ جاتا ہے کہ اپنے اپنے گینگ کو تیاری کا حکم دے دیں کل صبح تک فیصلہ ہو جائے گا کہ کس کا کتنا نقصان ہوا ہے ۔“

”میں اس چھوکری کو چھوڑوں گا تو نہیں ۔“اخلاق حسین نے دانت پیسے ۔

شہاب قصوری بولا ۔”وہ بعد کا مسئلہ ہے ، یوں بھی یہ تب ہی ممکن ہو گا جب آپ کبیردادا سے بڑا گینگ بنا لیں گے ۔البتہ وہ اس لڑکی کو خود سے علاحدہ کر دے تب دوسری بات ہے ۔ اور اس وقت میرا خیال ہے اس کا فائدہ کوئی نہیں ہو گا ۔“

”فائدہ نقصان تو میں نہیں جانتا لیکن میں نے اسے کوٹھے پر نہ بٹھا دیا تو اخلاق حسین نہ کہنا ۔“

بابر حیات نے پوچھا ۔”شاہ جی !.... مستقبل کے منصوبوں کو رہنے دیں فی الحال موجودہ مسئلے کا حل بتائیں ۔“

”میں معذرت کر لوں گا ۔“اخلاق حسین نے ایک لمحہ سوچنے کے بعد فیصلہ سنایا ۔ 

ایک دم تما م کے چہرے پر سکون ہو گئے تھے ۔

شہاب قصوری نے تحسین آمیز لہجے میں کہا ۔”شکریہ شاہ جی !....ہمیں آپ سے اسی دانش مندی اور ظرف کی توقع تھی ۔یہ پسپائی نہیں عارضی طور پر جنگ کو ٹالنے کی سعی ہے ۔“

نوشاد آفریدی دانت پیستے ہوئے بولا ۔” دیکھ لینا جلد ہی کبیر دادا کو اس کا مزا چکھنا پڑے گا ۔اس چھوکری کو اگر بھرے مجمع میں بے لباس نہ کیا توغنڈہ گردی چھوڑ دوں گا ۔“

باقی بھی اخلاق حسین کے فیصلے کو اپنے اپنے انداز میں سراہنے لگے

________

کبیردادا کو دیکھتے ہی عظیم نے جلدی سے دروازہ کھول دیا تھا ۔اس کا چہرہ غصے سے لال بھبکا ہورہا تھا ۔عظیم کو اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ کوئی بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے ۔نامعلوم اسے کیوں اس سب کے پیچھے کبیردادا کی نئی دلھن ہی دکھائی دے رہی تھی ۔

نشست سنبھالتے ہی کبیر دادا نے کہا ۔”گھر چلو ۔“اور ڈرائیور نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی ۔چوکیدار نے کار کو حرکت کرتے دیکھ کر دروازہ کھول دیا تھا ۔

دو تین منٹ کی خاموش کے بعد اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا ....”آپ کا نو بجے والا حکم کارکنوں تک پہنچا دوں ؟“

”فی الحال نہیں ،اگر ایسا کرنا ہوا تو بتا دوں گا ۔“

اس کے بعد گھر آنے تک خاموشی چھا ئی رہی ۔کار کے رکتے ہی عظیم عقبی نشست کا دروازہ کھولنے کے لیے جلدی سے باہر نکلا، مگر کبیردادا نے اس کا انتظار نہیں کیا تھا ۔

”دادا!....آرام کریں گے یا کہیں جانا ہو گا ۔“

”آرام کرو ۔“کہہ کر اس نے اندر کی جانب قدم بڑھا دیے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی متلاشی نگاہیں تناوش کو ڈھونڈنے لگیں ۔شایدوہ سو رہی تھی ورنہ گاڑیوں کے اندر آنے پر وہ لازماََ باہر نکلتی ۔

اسے کمرے میں بھی موجود نہ پا کر کبیردادا کا پارہ ایک دم بلند ہو گیا تھا ۔

گھنٹی بجا کر اس نے کام والی کو بلایا۔

”جی صاحب جی !“راحت خالہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا ۔

”تناوش کہاں ہے ؟“

راحت خالہ نے حیرانی سے جوا ب دیا ۔”گھر تک گئی ہے صاحب جی ۔“اس کی حیرانی بجا بھی تھی کہ اس سے پہلے کبیردادا نے کبھی کسی لڑکی کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا ،چاہے وہ ایک رات گزار کر جانے والیاں ہوں ،چاہے دو تین دن وہاں گزارنے والیاں ہوں ۔

اسے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ صوفے پر بیٹھااور موبائل فون جیب سے نکال کر تناوش کا نمبر ملانے لگا ۔مگر پھر کسی سوچ کے تحت اس نے گھنٹی جانے سے پہلے رابطہ منقطع کرکے دوبارہ کام والی کو بلا نے کے لیے گھنٹی بجا دی ۔

راحت خالہ دوبارہ اندر آئی۔”جی صاحب جی !“

”وہ گھر تک کیسے گئی ہے ؟“

”الٰہی بخش چھوڑ نے گیا تھا صاحب!“

”ٹھیک ہے جاﺅ ۔“اسے جانے کا کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامادو تین منٹ سوچنے کے بعد وہ کسی کا نمبرملانے لگا ۔

”آداب کبیردادا!“دوسری گھنٹی ہی پر کال وصول کر لی گئی تھی ۔

”یار پاشا!....شام کو نو بجے میرے پاس آ سکتے ہو ؟“

”کبیردادا شرمندہ نہ کیا کریں ۔آپ کے حکم سے سرتابی کا میں سوچ بھی کیسے سکتا ہوں ۔“ 

وہ مزید بولا۔”کاشف راجپوت،اسد خان،شیر خان اور فصیح الدین کو بھی ساتھ لے آنا ۔“

پاشا ہنسا ۔”کوئی میٹنگ وغیرہ ہے یا دعوت کر رہے ہیں۔“ 

وہ صاف گوئی سے بولا ”کوئی ضروری بات ہے ۔“

”ویسے اڑتی اڑتی خبریں تو مجھ تک بھی پہنچ گئی ہیں ،سنا ہے شادی وادی کے چکروں میں پڑ گئے ہو ۔“

”باقی کی تفصیل ملنے پر ہو گی ۔“

”ٹھیک ہے دادا !....جلد ہی ملیں گے ۔“پاشا نے رابطہ منقطع کر دیا ۔

اس نے موبائل فون ایک طرف پھینکا اور صوفے کی پشت پر سرٹیکتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔

اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ اس طرف متوجہ ہوا ۔تناوش ہاتھ میں سامان پکڑے اندر داخل ہوئی تھی ۔

”کہاں گئی تھیں تم ۔“ایک جھٹکے سے سیدھا ہوتے ہوئے وہ دھاڑا ۔اسے غصے میں پا کے تناوش ہکا بکا رہ گئی تھی ۔

”میں گھر تک گئی تھی ۔“اس کا غصہ تناوش کی سوچ سے ماورا تھا ۔

”کس سے پوچھ کر اور ایک دن میں تمھیں ماں کی یاد ستانے لگی ۔“

”مجھے پوچھنے کا خیال نہیں رہا ،سوچا تھا آپ کی آمد سے پہلے واپس لوٹ آﺅں گی ، مگر آپ کچھ جلدی لوٹ آئے ہیں ۔“

”تمھیں میری روز مرہ کا کیا پتا ؟“وہ ابھی تک غصے میں تھا ۔

”تو کیا ہوگیا ہے ،گھر تک ہی گئی تھی ۔“بے پروائی سے کہتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑا سامان کرسی پر رکھا اور اس کے قریب آگئی ۔

”یہ بکواس اس لیے کر رہی ہو کہ تمھیں صورت حال کا علم نہیںاور یہ پتا نہیں ہے کہ میرے کتنے دشمن ہیں جو تمھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔“

”افف اللہ جی اتنی فکر مندی ۔“شوخی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے وہ قالین پر بیٹھ کر اس کے بوٹ کھولنے لگی ۔

ایک دم کبیردادا کو لگا کہ اس کا غصہ کرنا اور تشویش کا اظہار واقعی یہ ظاہر کر رہا تھا کہ اسے تناوش کی فکر تھی ۔لیکن اس بات اقرار کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا ۔وہ فوراَغصے کا اظہار کرتے ہوئے بولا ۔

”فکر کرتی ہے میری جوتی ....اور تمھیں کس نے کہا کہ میرے بوٹ اتارو ۔“

وہ اطمینان سے بولی ۔”کیونکہ آپ اس وقت آرام کرتے ہیں ،سات بجے تک لیٹے ہیں ،آٹھ بجے ڈنر کر کے گھر سے نکل جاتے ہیں ،واپسی رات کے ایک دو بجے تک ہوتی ہے ،کبھی کبھی پوری رات نہیں آتے ۔آپ کا کیا خیال ہے آپ مجھے اپنی روزہ مرہ نہیں بتائیں گے تو میں کسی اور سے بھی نہیں پوچھوں گی ۔“یہ کہتے ہی وہ مسکرائی ۔”آج پتا نہیں کیوں جلدی لوٹ آئے ہیں ،شاید نئی نویلی دلھن کی یاد ستانے لگ گئی تھی ،اسی وجہ سے غصہ بھی کر رہے ہیں کہ میں کہاں گئی تھی ہے نا ۔“

اس نے بیزاری بھرے لہجے میں کہا ۔”دماغ خراب نہ کیا کرو ۔“

”اچھا نہیں کرتی دماغ خراب ،اب غصہ تھوکیں اور آرام کریں ۔آج کے بعد پوچھے بغیر خواب گاہ سے بھی قدم باہر نہیں نکالوں گی ۔“جوتے اتار کر وہ اس کی ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرنے لگی ۔

”مجھے تمھارے مشورے کی ضرورت نہیں ہے ۔“اسے ایک طرف ہٹا کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔مگر وہ اس کی بیزاری کو خاطر میں لائے بغیر اس کے ساتھ ہی چل پڑی ۔

”میرا خیال ہے میں بچہ نہیں ہوں ،اپنے لباس تبدیل کر لوں گا ۔“اسے اپنے ساتھ ڈریسنگ روم میں گھستے دیکھ کر وہ جھلا گیا تھا ۔

وہ شوخی سے بولی ۔”ہاں بچے تو نہیں ہیں ،مگر اتنے بڑے بھی نہیں ہوئے کہ میں آپ پر دھیان دینا چھوڑ دوں ۔“

”دوں گا ایک ۔“کبیردادا نے اسے ڈرانے کے لیے تھپڑ تولا ۔

”سچ میں ۔“الماری سے سلپنگ سوٹ نکال کر اسے تھماتے ہوئے اس نے شوخی سے آنکھیں مٹکائیں ۔

کبیردادا اسے گھور کر رہ گیا تھا ۔

”گھورنا بند کریں اور بنیان بھی اتار لینا ،اس دن آپ کو ملنے آئی تھی اسی بنیان میں جناب آرام فرما رہے تھے ۔“بڑی ماں کی طرح ایک اور نصیحت جھاڑتے ہوئے وہ باہر نکل گئی ۔ کبیر دادا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے اس کی ہر بات برداشت کر رہا ہے ۔

ڈریسنگ روم سے نکل کر اس نے اپنا سامان اٹھایا اور دوبارہ اندر گھس آئی ۔الماری میں لٹکے خالی ہینگرز کے ساتھ وہ اپنے کپڑے لٹکانے لگی ۔کبیر دادا لباس تبدیل کر کے بیڈ کی طرف بڑھ گیا تھا ۔

وہ بھی اپنے کپڑے اور جوتے وغیرہ سنبھال کر بیڈ کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے ساتھ پڑے تکیے پر کہنی سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔

”آج جلدی کیوں آئے ۔“تناوش کا لہجہ بالکل کسی خیال رکھنے والی بیوی کا سا تھا ۔

”تمھیں اس سے کیا کہ میں کس وقت لوٹتا ہوں ۔بتایا ہے نا جو چند دن یہاں گزارنے ہیں اپنے کام سے کام رکھا کرو۔“یہ کہتے ہی اس نے تناوش کاہاتھ سر سے دور دھکیلا ۔ ”سونے دو مجھے ۔“

”سلا ہی رہی ہوں نا ۔“منھ بناتے ہوئے وہ دوبارہ اس کے سر میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔

وہ جھلاتے ہوئے بولا ۔”لیکن میں اس کا عادی نہیں ہوں ۔مجھے اس طرح نیند نہیں آئے گی ۔“

وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی۔”تو جب تک میں یہاں ہوں ،عادت ڈال لیں ۔“

وہ بپھرتے ہوے بولا ۔”میرا خیال ہے تمھیں آج ہی واپس بھیجنا پڑے گا ۔“

اس نے شوخی بھرے لہجے میں پوچھا ۔”کیا تنگ نہیں کروں گی تو واپس نہیں بھیجیں گے ۔“اپنا ہاتھ اس نے پیچھے نہیں ہٹایا تھا ۔

وہ لہجے میں تلخی سموتے ہوئے بولا ۔”کم از کم آج تو نہیں بھیجوں گا ۔“

”دھمکیاں نہ دیں ۔یہ لیں ،نہیں کرتی تنگ ۔“منھ بسورتے ہوئے وہ پیچھے ہو کر گھٹنوں میں سر دے کے بیٹھ گئی ۔

کبیردادانے آنکھیں کھول کر اس کی طرف سر گھمایا ۔وہ چھوٹی سی بچی کی طرح گھنٹوں پر سر ٹیکے منھ بنائے بیٹھی تھی ۔کبیردادا کے ہونٹوں پر ہنسی نمودار ہوئی ۔وہ اس کی حالت دیکھ کر محظوظ ہوتا ہوا بولا۔

” تمھارے روٹھنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔“

گہری سیاہ آنکھوں میں اداسی بھرے وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔”کسی کی بے بسی کا مذاق نہیں اڑاتے۔“

کبیردادا کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا ۔”اچھا جو کرنا ہے کرو ....ٹسوے بہانے کی ضرورت نہیں ۔باقی آج نہیں تو کل تمھیں جانا تو پڑے گا ۔“

”کل کی کل دیکھی جائے گی ۔“خوشی سے چہکتے ہوئے اس نے دوبارہ تکیے پر کہنی ٹیکی اور اس کی ملائم انگلیاں کبیردادا کے بالوں میں سرسرانے لگیں ۔

کس وقت جگاﺅں ۔“

اس مرتبہ ناک بھوں چڑھائے بغیر کبیردادا نے جواب دیا ۔”ساڑھے سات تک جاگ جاتا ہوں ۔“

”ٹھیک ہے ۔“کہہ کر وہ اپنے کام میں لگی رہی ۔تھوڑی دیر بعد ہی کبیر دادا کے سانس بھاری ہوئے اور وہ نیند میں ڈوب گیا ۔عصر کی آذان سن کر وہ وضو کرنے غسل خانے میں گھس گئی۔ وضو کر کے اس نے ایک خالی کمرے میں جائے نماز بچھائی جہاں کوئی تصویر وغیرہ ٹنگی ہوئی نہیں تھی ۔ورنہ تو ہر جگہ جنگل کے بادشاہ کی تصاویر لگی تھیں ۔جائے نماز وہ گھر سے اٹھا لائی تھی ۔

نماز پڑھ کر باورچی خانے میں گھستے ہوئے وہ راحت خالہ کا ہاتھ بٹانے لگی ۔ ساتھ ساتھ وہ کبیردادا کی پسند ونا پسند وغیرہ کے بارے بھی راحت خالہ کو کریدتی رہی ۔

باتوں ہی باتوں میں راحت خالہ کہنے لگی ۔”بی بی جی، سچ کہوں تو آپ کے ساتھ صاحب جی کا رویہ عجیب سا ہے ۔اس سے پہلے اس نے کبھی کسی خاتون کے بارے مجھ سے کچھ دریافت نہیں کیا ۔آج تو حقیقت میں اتنا غصے میں تھے کہ میں ڈر ہی گئی تھی ۔“

”کیا پوچھ رہے تھے ؟“تناوش کو راحت خالہ کی بات سن کر خوشی محسوس ہوئی تھی ۔

”یہی کہ کہاں اور کس کے ساتھ گئی ہے ۔پریشان سے نظر آرہے تھے ۔“

”خالہ آپ جانتی تو ہیں انھیں اپنے دشمنوں کی وجہ سے پریشانی رہتی ہے ۔“

راحت خالہ معنی خیز لہجے میں بولی ۔”دشمن انھیں کیا کہہ سکتے ہیں۔وہ تو بس آپ کی وجہ سے پریشان تھے ۔“

وہ خوشی سے چہکی ۔”تو بیوی کے لیے شوہر کو پریشان ہونا پڑتا ہے نا خالہ !“

”بی بی جی خفا نہ ہوں تو ایک بات بولوں ۔“

”کہو خالہ ۔“وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔

”صاحب جی !....عورتوں کے معاملے میں مستقل مزاج نہیں ہیں ۔“

”خالہ !....جانتی ہیں آج تک آپ کے صاحب کو بیوی ملی ہی نہیں ہے ۔بازاری عورتیں کسی مرد کی جسمانی خواہشات کو تو وقتی طور پر پورا کر دیتی ہیں مگر وہ بیوی کی جگہ نہیں سنبھال سکتیں ۔ ایک مرد کو صرف بستر کے ساتھی ضرورت نہیں ہوتی اس کی اور کئی ضروریات بھی ہوتی ہیں جنھیں ایک محبت کرنے والی بیوی ہی پورا کر سکتی ہے ۔ بازاری اور ہر مرد کے بستر کی زینت بننے والی عورتوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ مرد کے ناز نخرے برداشت کر سکیں ۔“

”گویا آپ کو لگتا ہے کہ آپ صاحب کو اپنے ہاتھ میں کر لیں گی ۔“راحت خالہ کے لہجے میں بے یقینی تھی ۔

”میں انھیں بیوی اور کرائے کی عورت کے فرق سے آگاہ کروں گی ،باقی یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔“تناوش کے لہجے میں اداسی در آئی تھی ۔

”اللہ پاک آپ کو کامیاب کرے بی بی جی ۔“

وہ ممنونیت سے بولی ۔”ایسی دعائیں تو کسی اپنے کے لیے کی جاتی ہیں خالہ ۔“

”آپ میرے لیے اپنوں کی طرح ہی ہیں بی بی جی ۔“راحت خالہ نے خلوص بھرے لہجے میں کہا ۔

”اگر اپنا سمجھتیں توبی بی جی نہ کہتیں ،بیٹی کہہ کر بلاتیں ۔“

”اپنی حیثیت جانتی ہوں نا ۔“

تناوش نے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔”حیثیت کا تعین پیشے سے نہیں کردار سے ہوتا ہے خالہ جان ۔“

”اللہ پاک آپ کو خوش رکھے بیٹی ۔“راحت خالہ جذباتی ہو گئی تھی ۔

”شکریہ خالہ جان ۔اور معذرت خواہ ہوں کہ آج صبح میں نے آپ کو خواہ مخواہ ڈانٹ دیا ۔بس یونھی غصہ آگیا تھا ۔“

”نہیں بیٹی !....آپ کی بات بالکل ٹھیک تھی ۔مجھے برتن دھو کر رکھنے چاہیے تھے ، مگر جب کوئی نگران نہیں ہوتا تو ملازم کام چور ہو جاتے ہیں ۔“

”اچھا اب فکر نہ کریں ،میں آگئی ہوں نا آپ کا ہاتھ بٹا دیا کروں گی ،بلکہ کل سے باورچی خانے کی طرف سے آپ بالکل آزاد ہیں ۔“

”نہیں بیٹی آپ تنگ پڑ جائیں گی ۔“راحت خالہ محجوب سی ہو گئی تھی ۔

وہ شرماتے ہوئے بولی ۔”ان کے کاموں کی وجہ سے میں تنگ نہیں پڑتی خالہ جان ۔“

”اللہ پاک آپ کے رشتے کو خوشیوں بھری طوالت دے ۔“راحت خالہ نے خلوص دل سے دعا کی ۔

”آمین۔“تناوش کے ہونٹوں سے بے ساختہ پھسلا ۔راحت خالہ معنی خیز اندازمیں مسکرا دی تھی ۔تناوش بھی خفیف انداز میں ہنس دی ۔

شام کی آذان سن کر وہ نماز پڑھنے چل دی ۔نماز پڑھ کر وہ خواب گاہ میں داخل ہوئی ۔ کبیردادا اب تک بے خبر پڑا تھا ۔غسل خانے میں گھس اس نے غسل کیا اور نئے کپڑے پہن کرسنگھار میز کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔میک کا سامان تو وہاں موجود نہیں تھا کہ وہ سجتی سنورتی ۔ بس بالوں کو کنگھی کر کے اس نے خوشبو لگائی اور کبیردادا کو اٹھانے بیڈ کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے ساتھ نیم دراز ہوتے ہوئے وہ اس کے بالوںمیں انگلیاں پھیر نے لگی ۔آنکھیں کھلتے ہی کبیردادا کی نظریں دیوار سے ٹنگی گھڑی کی طرف اٹھیں ۔وقت دیکھتے ہی اس نے منھ بناتے ہوئے بیزاری بھرے لہجے میں کہا ۔

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment