Pages

Tuesday 7 February 2023

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 5 to 6

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 5 to 6

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Episode 5'6

Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

بڑی بہن سے کوئی ایسے بات کرتا ہے " دلاور صاحب کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھآ۔

شزرا باقاعدہ رونا شروع ہو چکی تھی۔

" چاچو رہنے دیں اس کی طبیعت خراب ہے ابھی" آزر اٹھ کے شزرا کے پاس آئے۔

" طبیعت خراب ہے تو کیا سب سے بدتمیزی کرو گی" دلاور صاحب نے کہا۔

شزرا نے ایک نظر آزر کی طرف دیکھا اور پلٹ کے روتے ہوئے اپنے روم میں چلی گئی۔

"میں دیکھتا ہوں" آزر وہاں سے شزرا کے روم کی طرف چلے گئے۔

آزر روم میں داخل ہوئے تو سامنے ہی شزرا بیڈ پہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی رو رہی تھی۔

"شزرا کیوں رو رہی ہو" آزر نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پیار سے پوچھا مگر وہ ہنوز روتی رہی۔

"تم ایسے اپنی طبیعت اور خراب کر لو گی" آزر نے اس کامرمریں ہاتھ پکڑتے ہوئے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا آنکھیں رونے کے باعث سرخ ہو چکی تھیں آنکھوں میں لال ڈورے تیر رہے تھے۔

"دیکھو کیا حالت کر لی ہے تم نے رو رو کے" آزر نے اسکے آنسو اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے کہا۔

"میں ٹھیک ہوں" شزرا نے آنکھوں سے بہتے آنسو ہاتھ کی پشت سے بیدردی سے رگڑ دیئے۔

"بتاؤ مجھے کیا مسئلہ ہے کیوں ایسے بی ہیو کر رہی ہو" آزر نے اسے نرمی سے اپنے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا مضبوط بازوؤں کا سہارا ملتے ہی وہ مزید رو دی آزر نے اب کی بار اسے رونے دیا۔

اب وہ آزر کو کیسے بتاتی وہ انہیں کھونے کے ڈر سے گزر رہی ہے اس کی بہن ہی اس سے اس کی خوشیاں چھین رہی ہے اس نے اپنے درد کو اپنے آنسوؤں میں بہہ جانے دیا کچھ دیر بعد وہ قدرے سنبھلی تو آزر نے اسی نرمی سے خود سے اسے الگ کیا۔

"اب بتاؤ کیا ہوا کیوں رو رہی ہو" آزر نے بغور اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"کچھ نہیں بس طبیعت خراب ہے" شزرا نے جھکے سر کے ساتھ جواب دیا۔

"پہلے بھی ہوتی تھی لیکن تم ایسے بی ہیو تو نہیں کرتی تھیں" آزر جیسے کچھ کھوجنا چاہتے تھے۔

"میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں" شزرا نے ان سوالوں سے زچ آکے جواب دیا۔

"ٹھیک ہے تم آرام کرو اور کوئی ٹینشن نہیں لو" آزر نے اسے آہستگی سے لٹاتے ہوئے کہا اور روم سے باہر چلے گئے ان کے جانے کے بعد شزرا کے رکے آنسو ایک بات پھر بہنے لگے سوچ سوچ کے اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔

صبح سے رات ہو گئی منال دوبارہ اس کے روم میں نہیں آئی۔

دروازے پہ ہلکا سا ناک ہوا وہ سیدھی ہو کے بیٹھ گئی دلاور صاحب آہستگی سے چلتے ہوئے آ کے اس کے برابر میں بیٹھ گئے.

" کیسی طبیعت ہے اب؟" وہ اس کے پاس بیٹھے پیار سے پوچھ رہے تھے وہ انہیں دیکھ کے اٹھ کے بیٹھ گئی۔

"ٹھیک ہوں" اس نے دو لفظی جواب دیا۔

"آپ کو پتا ہے شزرا جب آپ پیدا ہوئی تھیں آپ کی مما ہمیں چھوڑ کے چلی گئیں" دلاور صاحب نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بات کا آغاز کیا اسے ان کی آواز جیسے بھرائی ہوئی سی لگی شزرا نے ناسمجھی سے ان کی طرف دیکھا وہ ابھی یہ بات کیوں کر رہے تھے مگر وہ خاموش رہی۔

"آپ بلکل چھوٹی سی تھیں آپ کو پتا بھی نہیں تھا اس وقت کچھ لیکن منال دو سال کی تھی اسے پتا تھا کہ اس کی مما اسے چھوڑ کے چلی گئیں ہیں مگر پتا ہے اس نے پہلا سوال کیا کیا مجھ سے۔۔۔۔۔" دلاور صاحب نے تھوڑا رک کے شزرا کی طرف دیکھا وہ اب بھی ناسمجھی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

"پتا ہے کیا سوال کیا کہ اب اس چھوٹی سی بے بی کا کیا ہوگا؟" بولتے بولتے ان کی آواز بھر آئی۔

"وہ آپ کو پا کے اپنی ماں کا غم تک بھول گئی تھی وہ دن رات آپ میں مصروف رہتی وہ اپنی ماں کے مرنے پہ کبھی ہمارے سامنے نہیں روئی مگر میں جانتا ہوں وہ اکیلے میں بہت روتی تھی مگر آپ کو اس نے کبھی رونے نہیں دیا آپ میں جان بستی ہے اس کی" شزرا ان کے کندھے پہ سر رکھے سب سن رہی تھی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔

"پھر آپ دونوں بڑی ہوتی گئیں اور آپ کے لئے منال کا پیار دن بہ دن بڑھتا گیا اور منال خود کو نظر انداز کئے آپ کی ذات میں مصروف رہی اسے ہر وقت یہی فکر ستاتی رہتی شزرا نے کچھ کھایا یا نہیں اسے کچھ چاہیے یا نہیں اس کی زندگی تو بس آپ کے گرد ہی گھوم رہی ہے نہ اور کون ہے اس کی زندگی میں آپ کے سوا" وہ سانس لینے کے لئے کچھ پل رکے تھے شزرا جیسے گم سم سی بیٹھی تھی وہ سچ ہی تو بول رہے تھے منال کی زندگی میں کیا تھا شزرا کے سوا۔۔۔۔!!!!

"اب آپ بتاؤ کیا یہ صحیح ہے جو آپ نے منال آ پی سے ایسے بات کی" وہ نرمی سے اس کی طرف دیکھ کے پوچھ رہے تھے وہ ندامت سے سر جھکا گئی۔

"آئی ایم سوری بابا" وہ سر جھکائے بول رہی تھی۔

"کوئی بات نہیں بیٹا آپ آپی سے بات کرلو اسے برا نہیں لگا ہوگا" انہوں نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

"جی بابا" اس نے آنسو پیتے ہوئے کہا۔

اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کرنے جا رہی تھی وہ کیسے منال کے ساتھ ایسا بی ہیو کر سکتی تھی اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا وہ آزر کی وجہ سے کیوں منال سے دور ہو رہی تھی وہ اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔

کچھ دیر بعد وہ اٹھ کے منال کے روم کی طرف بڑھی اس نے ہلکے سے دروازہ کھولا تو دروازہ کھلتا چلا گیا منال دروازے کی طرف پشت کئے رائٹنگ ٹیبل کے گرد بیٹھی تھی وہ اسی ڈائری پہ جھکی کچھ لکھ رہی تھی شزرا کے دماغ میں ایک بات پھر جھکڑ سے چلنے لگے اس کے قدم اٹھنے سے انکاری ہو گئے آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھری تھیں جو کسی بھی لمحے چھلکنے کو بیتاب تھیں اس کے چہرے پہ کچھ کھونے کا ڈر واضح طور پہ دیکھ رہا تھا وہ الٹے قدموں وہاں سے واپس آئی اور بیڈ پہ گر کے ایک بار پھر رو دی۔

وہ نہیں جانتی تھی زندگی کبھی ایسا موڑ بھی لے گی کہ اسے زندگی ہی بھاری لگنے لگے گی وہ بس روئے جا رہی تھی۔

منال یا آزر میں سے وہ کسے چنے یہی سوچ سوچ کے وہ پاگل ہونے لگی سر کا درد بڑھتا ہی جا رہا تھا اگر اس نے دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑا تو دونوں کی ٹوٹ کے بکھر جاتے دونوں ہی اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھے اور وہ اس کا کیا وہ کیسے رہ سکتی تھی کسی ایک کے بھی بغیر۔۔۔

پوری رات آنکھوں میں بسر ہوئی تھی سوچ جیسے دو لوگوں کے گرد اٹک کے رہ گئی ساری رات وہ کسی غیر مرئی نقطے پہ نظریں جمائے بیٹھی رہی اسے فیصلہ لینا تھا اور جلد ہی لینا تھا۔

صب کاذب کی ہلکی ہلکی سپیدہ نمودار ہوئی تو اس نے نظریں گھما کے کھڑکی کے پار اترتے سورج کو دیکھا جو پوری آب و تاب سے چمکنے کے لئے بے قرار تھا صبح کی انوکھی سی ٹھنڈک ماحول میں رچی ہوئی تھی اس کی آنکھیں ساری رات جاگنے کے باعث سرخ تھیں مگر وہ مطمئن تھی اس کے چہرے پہ ایک فیصلہ کن تحریر رقم تھی۔

__________

آج وہ پورے دو دن بعد آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی آنکھیں اندر کو دھنسی تھیں آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے واضح تھے گلاب سی رنگت پیلی پڑ گئی تھی الجھے بال اور بکھرے حلیئے کے ساتھ وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔

عشق بھی انسان جو کیسے کیسے ناچ نچاتا ہے جو ناچنا نہ چاہیں ان کے کانوں میں پیار کے دو لفظ پھونک کر ان کے پیروں کو تھرکنے پہ مجبور کردیتا ہے۔

وہ مطمئن تھی اس کے چہرے پہ کسی قسم کی پریشانی ڈر یا خوف نہیں تھا وہ جیسے ہر ڈر ہر خوف کو اپنے ندر سے نکال پھینک آئی تھی سب سے بڑی بات وہ اب رو نہیں رہی تھی۔

وہ شاور لینے چلی گئی شاور لے کہ باہر آئی تو اسے اپنا وجود آج ہلکا پھلکا محسوس ہوا اس نے بیڈ پہ پڑا دوپٹہ اٹھا کے کندھے پہ ڈالا گیلے بال پشت پہ بکھرے تھے۔وہ بالکونی کا دروازہ کھول کر وہاں جا کے کھڑی ہو گئی اس کا ذہن ہر قسم کی سوچ سے خالی تھا۔اس دو منزلہ سفید گھر میں دن معمول کے مطابق نکل آیا تھا سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے گیٹ پہ چوکیدار اونگھتے ہوئے پہرہ دے رہا تھا اس کے برابر میں بندھا جرمن شیفرڈ وہ بھی شاید اونگھ رہا تھا۔

کچھ دیر بعد اسے آزر جاگنگ سے واپس آتے دیکھائی دیئے بلیک ٹراؤزر پہ وائٹ رف سی شرٹ پہنے جس میں ان کا کسرتی بدن نمایاں تھا گھنے بال ماتھے پہ بے ترتیبی سے بکھرے تھے۔

 اب وہ جرمن شیفرڈ ان کے قدموں میں لوٹ رہا تھا اور وہ پیار سے اس کی کمر پہ ہاتھ پھیر رہے تھے پھر شاید وہ کسی بات پہ مسکرائے تھے ان کی آنکھوں کی چمک واضح تھی اسے اپنا دل تیزی سے دھڑکتا محسوس ہوا وہ اس لمحے کے سحر میں جکڑ گئی تھی اس کا چاہا کہ وقت یہیں رک جائے اور وہ ایسے ہی کھڑے انہیں دیکھتی رہے۔

نظروں کی تپش محسوس کر کے آزر نے سر اٹھا کر شزرا کے روم کی طرف دیکھا انہیں شزرا بالکونی میں ہی کھڑی نظر آئی وہ بے خودی کے عالم میں انہیں تک رہی تھی ارد گرد سے بے نیاز شاید اس کی نظروں میں ہر منظر دھندلا گیا تھا صرف آزر ہی ہر منظر پہ چھائے تھے دیکھتے ہی دیکھتے آنسو اس کا گال بھگو گئے تھے مگر وہ ہر چیز سے بے پرواہ انہیں اپنی نظروں میں اتار رہی تھی۔

آزر نے اسے دیکھ کے ہاتھ ہلایا شزرا بھی خیالوں کی رو سے باہر آئی اور چونک کے ادھر اُدھر دیکھا آزر سر اٹھائے کھڑے مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہے تھے اس نے بھی مسکرا کے ہاتھ ہلادیا۔فاصلے کی وجہ سے آزر اس کے آنسو نہ دیکھ سکے اور سر جھکا کے پیچھے ہٹ گئی آزر بھی مسکراتے ہوئے اندر چلے گئے۔

_______________

جھلساتا سورج اپنی پوری شان سے آسمان پہ روشن تھا چرند پرند سب اپنے اپنے آشیانوں میں دبکے بیٹھے تھے ہر طرف ایک ہو کا سا عالم تھا ایسے میں شزرا لان میں لگے ایک سایہ دار درخت کے نیچے سر جھکائے بیٹھی کسی گہری سوچ میں غرق تھی ایک ہاتھ گھٹنوں کے گرد بندھا تھا تو دوسرے ہاتھ سے گھاس نوچ نوچ کے پھینک رہی تھی اسی اثناء میں کسی نے اسے پکارا تھا اس نے سر اٹھا کے دیکھا تو منال ہاتھ باندھے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔

"میں یہاں بیٹھ جاؤں؟" وہ کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔

"جی" شزرا نے سنبھل کے اسے جواب دیا وہ کل صبح اپنی کی گئی بدتمیزی کے بعد اب منال کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پہ زرا بھی ناراضگی کا شائبہ نہیں تھا بلکہ دھیمی سی مسکان تھی شزرا اسے دیکھ کے دوبارہ سر جھکا گئی۔

کافی دیر دونوں کے بیچ خاموشی حائل رہی۔

"ہماری دوستی ہو سکتی ہے کیا دوبارہ؟" منال نے اس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا شزرا نے حیرت سے سر اٹھا کے اسے دیکھا جو اپنا ہاتھ آگے کئے اس کے سامنے بیٹھی تھی شزرا بے اختیار اس کے گلے لگ گئی اور بے رو پڑی۔

"گڑیا رو کیوں رہی ہو مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے" منال نے اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

"آئی ایم سوری" وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔

"کوئی بات نہیں بیٹا" منال نے اسے خود سے الگ کر کے اس کے آنسو پونچھے۔

"میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہو سکتی" اس نے شزرا کی تھوڑی اوپر کرتے ہوئے مسکرا کے کہا۔

"تم نے کچھ نہیں کھایا صبح سے یہ بتاؤ بھوک لگی ہے" منال نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"جی" شزرا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"میں کچھ بنادیتی ہوں تمہاری پسند کا" منال نے مسکرا کے کہا اور اندر چلی گئی شزرا خالی خالی نگاہوں سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔

_________________________

وہ شام میں لان میں کھڑی آزر کا انتطار کر رہی تھی کچھ دیر بعد ہی اسے آزر آفس سے آتے دیکھائی دیئے بلیک شرٹ پہنے اور فولڈ کی ہوئی آستینیں جس میں ان کے مضبوط ہاتھ کچھ اور مضبوط لگ رہے تھے وہ سیدھے چلتے ہوئے اسی کی طرف آئے۔

"کیا ہو رہا ہے؟" وہ اس کے سامنے کھڑے خوشگوار موڈ میں اس سے پوچھ رہے تھے۔

"آپ کا انتظار کر رہی تھی" شزرا نے سر جھکائے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا۔

"کیوں؟" آزر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

"وہ آپ کے سوال کا جواب دینا ہے" وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے گھبرانے ہوئے لہجے میں بول رہی تھی۔

"کیا" آزر خوشی کے مارے اچھلے تھے جبکہ وہ ان سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی۔

"وہ میں۔۔۔۔۔۔"شزرا نے کچھ بولنا چاہا۔

" رکو رکو۔۔۔۔۔۔" آزر نے اپنی خوشی ضبط کرتے ہوئے اسے روکا شزرا نے نا سمجھی سے ان کی طرف دیکھا۔

"یہاں نہیں" انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے سرگوشی کی۔

"جہاں محبت کا اظہار ہوا تھا وہیں اقرار ہوگا" انہوں نے اس کی گہری جھیل سی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے شرارت سے کہا۔

"آپ میری بات۔۔۔۔۔۔۔" شزرا نے کچھ بولنا چایا مگر آزر نے اسے روک دیا۔

"اب جو بات ہوگی وہ وہیں جا کے ہوگی" آزر کا دل خوشی سے جھوم اٹھا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے روم کی طرف گئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ان کے پیچھے ہو لی روم میں جا کر انہوں نے اس کا ہاتھ چھوڑا۔

"تم یہیں کھڑے رہو میں پانچ منٹ میں آتا ہوں" وہ اسے وہیں چھوڑ کر تیزی سے اس نے روم سے نکل گئے وہ ناسمجھی کے عالم میں وہیں کھڑی رہی چند منٹ بعد وہ واپس اس کے روم میں آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔

"یہ پہن کے تیار ہو جاؤ" انہوں نے وہ بیگ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔

"کیا ہے اس میں؟" شزرا نے ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جہاں ایک انوکھی ہی خوشی پھیلی تھی۔

"اس میں ڈریس ہے پلیز جلدی سے تیار ہو جاؤ بس تمہارے پاس پانچ منٹ ہیں" انہوں نے جلدی میں کہا۔

"آپ میری بات تو سنیں" شزرا نے ایک بات پھر کچھ کہنا چاہا مگر وہ اس کی بات ان سنی کر گئے۔

"میں گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں جلدی آؤ" وہ بولتے ہوئے باہر کی طرف چلے گئے۔

شزرا نے شاپنگ بیگ سے ڈریس نکالا وہ سیاہ رنگ کا ڈریس تھا اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کے اس ڈریس کی طرف دیکھا اور تیار ہونے چلی گئی۔

وہ تیار ہو کہ نیچے آئی تو گھر میں کوئی نہیں تھا سب لوگ کسی رشتہ دار کی طرف گئے تھے وہ اپنی خراب طبیعت کی وجہ سے نہ جا سکی تھی وہ گھر سے باہر آئی تو آزر گاڑی میں بیٹھے اس کا ویٹ کر رہے تھے وہ انہیں سامنے سے آتی دیکھائی دی۔

سیاہ لباس میں اس کا ملکوتی حسن دمک رہا تھا لمبے سلکی بال کھلے ہوئے پشت پہ بکھرے پڑے تھے وہ چاہ کے بھی اس سے نظریں نہ ہٹا پائے وہ اب گاڑی کا دروازہ کھول کے ان کے برابر میں بیٹھ چکی تھی شزرا نے ان کی طرف دیکھا تو وہ اس کی ذات میں مکمل طور پہ کھوئے ہوئے تھے۔

"آپ پلیز پہلے میری بات سن لیں" شزرا نے التجائیہ لہجے میں کہا۔

"میں نے کہا نہ جو بات ہوگی وہیں جا کے ہوگی" آزر نے اس کے چہرے پہ آئی لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا وہ جھجھک کے پیچھے ہٹی وہ مسکرا کے سیدھے ہو گئے اور کار اسٹارٹ کردی کار تیزی سے منزل کی جانب رواں دواں تھی جبکہ شزرا خاموشی سے بیٹھی شیشے کے پار بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھ رہی تھی دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی شاید یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی یا کسی کی زندگی میں خوشیاں لانے والی تھی۔

گاڑی ساحل کے کنارے رکی تو دونوں نیچے اتر آئے شزرا کا دل ڈوب ڈوب کے ابھر رہا تھا آزر اس نے اس کا نازک سا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا اور اسے لے کہ آگے بڑھے اب اس میں اتنی ہمت بھی نہیں رہی تھی کہ وہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ چھڑا پاتی وہ ان کے پیچھے ان کے قدموں کے نشانوں پہ چلتی چلی گئی اب لہریں ان کے پیروں کو چھو کے جا رہی تھی آزر نے اس کا چھوڑا اور اس کے سامنے کھڑے ہو گئے وہ بند لبوں پہ مٹھی جمائے کھوجتی نگاہوں سے اس کا پریشان چہرہ دیکھ رہے تھے جو اپنی نظریں اٹھانے کی بھی ہمت نہیں کر پارہی تھی۔

"ادھر دیکھو میری طرف" آزر نے دو انگلیوں سے تھوڑی اٹھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا اس نے نظریں اٹھا کے دیکھا آنکھوں میں ایک اور سمندر موجزن تھا۔

آزر دم بخود سے اس کی آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھ رہے تھے۔

"یار محبت کا اقرار ہی تو کرنا ہے اور تم تو ایسے رونے دھونے بیٹھ گئیں جیسے پتہ نہیں کرنا مشکل کام ہے" آزر نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا کے کہا۔

"مجھے آج لگ رہا ہے مجھے تم سے صرف محبت نہیں رہی بلکہ عشق ہو چکا ہے" وہ اس کا ہاتھ پکڑے اپنی ہی دھن میں بولے جا رہے تھے اور وہ بھیگتی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

"آج مجھے لگ رہا ہے میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوں میں نے جسے چاہا وہ مجھے مل گیا" انہوں نے آسمان پہ روشن پورے چاند کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا جس کی چاندنی ان دونوں کے اردگرد پھیلی تھی۔

"میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی" شزرا نے سر جھکائے دھیمی آواز میں کہا آزر ساکت ہوئے تھے انہوں نے نے چاند سے نظریں ہٹا کر شزرا کے چہرے کی طرف پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھا انہیں اپنی سماعت پہ شک گزرا انہیں ایک پل کے لئے لگا ان کی دھڑکنیں ساکت ہوئی ہیں کائنات کی ہر شے جیسے تھم سی گئی تھی چاند اپنی چاندنی لے کہ بدلیوں کے پیچھے جا چھپا تھا اب ہر طرف اندھیرا تھا شور مچاتی بے ہنگم لہریں جیسے سکوت کے عالم میں چلی گئیں تھیں سمندر ایک دم پرسکون ہوگیا۔

"کیا کہا۔۔۔۔؟"آزر نے بمشکل خود کو سنبھال کے پوچھا انہیں اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔

ایک انجانی سی آواز۔۔۔۔۔۔۔!!!

"آپ نے مجھ سے میرا جواب مانگا تھا اور آپ نے کہا تھا کہ میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا اور میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی" وہ انہیں اپنا جواب سنا کر ان کو انہی کے کہے گئے الفاظ کی زنجیر میں باندھ چکی تھی۔

وہ شاید کچھ بولنے کا قابل نہیں رہے تھے بس خالی خالی نگاہوں سے اس حسن کے مجسمے کو دیکھ رہے تھے جو بیدردی سے ان کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھی اور وہ اپنا درد بھی نہیں دیکھا پا رہے تھے انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا وہ چینخیں چلائیں روئیں یا کیا کریں ان کے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں سلب ہو چکی تھیں سانسیں بھی سینے میں اٹک رہی تھیں

"تم مجھ سے پیار کرتی ہو" وہ اسے بتا نہیں رہے تھے خود کو یقین دلا رہے تھے۔

"میں آپ سے پیار نہیں کرتی" شزرا نے ہنوز نظریں جھکائے سرد لہجے میں کہا آزر پہ جیسے جنونیت سوار ہوئی تھی انہوں نے شزرا کے بازو پکڑ کر اسے جھنجھوڑا گرفت اتنی سخت تھی کہ انگلیاں اس کے بازو میں گھسی جا رہی تھیں۔

"تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔۔۔۔" وہ جیسے اپنے آپے میں نہیں رہے تھے۔

"تمہاری آنکھوں میں،میں اپنے لئے محبت صاف دیکھ سکتا ہوں تم جھوٹ بول سکتی ہو لیکن تمہاری آنکھیں نہیں" انہوں نے اس کی نظروں میں نظریں جمائے غرا کے کہا۔

"میں نہیں کرتی آپ سے پیار اب کیا زبردستی کریں گے میرے ساتھ" شزرا نے ان کی بانہوں کی قید سے خود کو آزاد کرواتے ہوئے تلخی سے کہا۔

"مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے مجھے بتاؤ میں معافی مانگنے کے لئے تیار ہوں" آزر ٹوٹے بکھرے سے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے مگر اس کا دل جیسے پتھر کا ہو گیا تھا۔

"مجھے گھر جانا ہے" شزرا نے نظریں پھیرتے ہوئے کہا اور جانے کے لئے پلٹی۔

"یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟" شزرا کے بڑھتے قدموں کو آزر کی آواز نے جکڑ لیا وہ ایک انچ بھی نہیں ہل سکی اس کی پتھرائی آنکھیں بھیگی تھیں

اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے اور پلٹ کے آزر کو دیکھا جو سپاٹ چہرہ لئے اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔

"ہاں" اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اس کا چہرہ خواب ہوا تھا

"کیوں نہیں کرنا چاہتی مجھ سے شادی" وہ کی طرف دیکھ کے آس سے پوچھ رہے تھے ان کی آواز میں ریت تھی جو شاید دونوں کی آنکھوں میں چبھ رہی تھی۔

"میں آپ سے پیار نہیں کرتی" اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی مگر خود کو مضبوط ظاہر کئے وہ کھڑی رہی آزر کے دل کے کئی ٹکڑے ہوئے۔

"کیا کبھی پیار نہیں ہو سکتا؟ میں ساری زندگی انتظار کرنے کو تیار ہوں" ٹوٹتی بکھری حالت میں ایک آخری امید کے سہارے وہ اس سے سوال پوچھ رہے تھے۔

"نہیں۔۔۔۔کبھی نہیں ہو سکتا" اس نے اٹل لہجے میں کہا مگر اس کا لہجہ توڑ پھوڑ کا شکار تھا چند لمحے آزر حسرت و یاس کی تصویر بنے اسے دیکھتے رہے۔

"ٹھیک ہے۔۔۔میں نے وعدہ کیا تھا نہ اگر تمہارا جواب انکار میں ہوگا تو میں کبھی تمہاری مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا  تو آج کے بعد تم مجھے اپنے کسی بھی راستے میں کھڑا نہیں پاؤ گی" آزر نے اس کی طرف بغیر دیکھے کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئے اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی شزرا بت بنی وہیں کھڑی رہ گئی وہ انہیں جاتا دیکھتی رہی اس کی سانسیں دہک اٹھ تھیں اس کا دل کیا وہ بھاگ کے جا کے آزر کے سینے سے لگ جائے اور اپنے دل پہ لگا ایک ایک زخم انہیں دیکھا دے مگر اب۔۔۔۔۔۔!!!!

 دل کا ہر زخم چھپانا تھا

 دل چھلنی ہو تو بھی مسکرانا تھا 

وہ اپنے مضحمل قدم اٹھاتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھی اور دروازہ کھول بیٹھ گئی اس کی بیٹھتے ہی گاڑی ایک جھٹکے سے اسٹارٹ ہوئی کار کی اسپیڈ خطرناک حد تک تیز تھی آزر اسے اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہے تھے بالآخر گاڑی گھر کے پورچ میں جا کے رکی آزر گاڑی سے اتر کر اس کی طرف دیکھے بغیر اندر چلے گئے۔

__________

ساری رات دونوں کی آنکھوں میں کٹی تھی دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے جاگ رہے تھے شزرا نے جو فیصلہ کیا تھا اب وہ اس سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں تھی چاہے وہ سسک سسک کے مر جائے مگر اپنی بہن کو خوشیاں دے کہ ہی رہے گی آج تک منال شزرا کے لئے اپنی چیزیں چھوڑتی آئی تھی مگر شزرا نے آزر کو چھوڑ کے سارا حساب برابر کردیا تھا وہ جانتی تھی یہ کانٹوں کا سفر ہے مگر پھر بھی وہ اسی پہ چلنا چاہتی تھی۔

آزر اپنے ٹوٹے بکھرے سے وجود کو سنبھالے کی کوششوں میں مصروف ہلکان ہو چکے تھے انہوں نے خود شزرا کی آنکھوں میں اپنے لئے پیار دیکھا تو اب وہ کیسے بیگانگی دیکھا سکتی تھی وہ کیسے ان سے منہ موڑ سکتی تھی انہوں نے شزرا کے لئے اپنی آنا تک کو مار ڈا تھا وہ آزر جو ہمیشہ چپ چپ سے رہتے تھے اب بولنے لگے تھے محبت نے اک کی زندگی میں گلاب کھلادیئئے تھے مگر اب وہی گلاب ان کی زندگی سے نوچ کی پھینک دیئے گئے ان کی زندگی ویرانے میں بدل دی گئی اب ان کی آنا انہیں شزرا کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دے رہی تھی وہ واپس اپنے خول میں سمٹ چکے تھے ساری رات انہوں نے ٹوٹتے بکھرتے اور خود کو سمیٹتے ہی گزاری تھی اور صبح تک وہ خود کو مکمل طور پہ سمیٹ چکے تھے کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ رات ان پہ کیا قیامت گزری ہے وہ فریش موڈ کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پہ موجود تھے مگر شزرا وہاں موجود نہیں تھی وہ ابھی آزر کا سامنا نہیں کر سکتی تھی اسے وقت چاہیے تھا وہ اتنی مضبوط نہیں تھی۔

آج ناشتہ کرتے ہوئے آزر کے دل میں شزرا کو دیکھنے کی خواہش نہیں جاگی تھی ان کا دل خود کو ٹھکرائے جانے کے بعد شاید پتھر ہو چکا تھا۔

کئی دن ایسے ہی خاموشی کی نظر ہو گئے پھر ایک رات آزر تھکے ہارے گھر آئے تو سلمہ بیگم انہی کے انتظار میں جاگ رہی تھیں۔

"آزر کتنی بار بولا ہے گھر جلدی آیا کرو" آزر کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر انہوں نے انہیں ڈانٹا جنہوں نے اب گھر دیر سے آنا اپنا معمول بنا لیا تھا وہ اب بارہ بجے سے پہلے گھر نہیں آتے تھے صبح بھی منہ اندھیرے بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکل پڑتے اب وہ مکمل طور پہ اپنی ذات کے خول میں قید ہو کے رہ گئے تھے۔

"امی کام تھا اس لئے لیٹ ہو گیا ہوں" انہوں نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے تھکے ہوئے لہجے میں کہا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔

"تم چلو اپنے روم میں جلدی فریش ہو جاؤ میں کھانا لے کہ آتی ہوں" آزر اثبات میں سر ہلا کے اپنے روم میں چلے گئے۔

سلمہ بیگم کھانے کی ٹرے لے کہ ان کے روم میں گئیں تو وہ آئینے کے سامنے کھڑے تولیے سے گیلے بال پونچھ رہے تھے انہیں دیکھ کے آزر بیڈ پہ آکے بیٹھ گئے وہ خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے جب سلمہ بیگم نے بات کا آغاز کیا۔

"آزر اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے" سلمہ بیگم نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے رسان سے کہا آزر بنا کوئی جواب دیئے سپاٹ چہرے کے ساتھ کھانا کھاتے رہے۔

"تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے تو بتادو" سلمہ بیگم نے ان کا سپاٹ چہرہ دیکھ کے ٹھٹھک کے کہا.

"نہیں میری کوئی پسند نہیں ہے" آزر کے حلق میں نوالہ اٹکا تھا انہوں نے پانی کا گلاس اٹھا کے لبوں سے لگا لیا شزرا کا مٹا مٹا سا نقش ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا مگر اگلے ہی پل وہ خود کو سنبھال چکے تھے۔

"ٹھیک ہے اگر تمہاری کوئی پسند نہیں ہے تو تم ہماری پسند کی لڑکی سے شادی کر لو" سلمہ بیگم نے ان کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا آزر نے اثبات میں سر ہلادیا۔

"منال بہت پیاری بچی ہے وہ تمہیں بہت خوش رکھے گی" سلمہ بیگم انہی ہی دھن میں بولے جا رہی تھیں جبکہ آزر منہ کھولے ان کی طرف دیکھ رہی تھے۔

"منال۔۔۔۔۔۔۔۔" انہوں نے حیرت سے پوچھا۔

"ہاں منال۔۔۔۔تمہیں کوئی اعتراض ہے کیا" سلمہ بیگم نے ان کا حیرت زدہ چہرہ دیکھ کے سوال کیا۔

"لیکن امی منال کے بارے میں میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا" آزر نے ہلکا سا احتجاج کیا۔

"بیٹا ہم سب چاہتے ہیں تمہاری شادی منال سے ہو" سلمہ بیگم نے پیار سے کہا آزر خاموش بیٹھے رہے۔

"ٹھیک ہے پھر آپ لوگوں کی مرضی ہے" آزر نے جواب دیا مگر دور کہیں ان کا دل ایک بار پھر ویران ہوگیا تھا۔

___________________________

اگلی صبح اس گھر میں ڈھیر ساری خوشیاں کے کہ آئی تھی ہر چہرہ کھلا کھلا سا تھا آزر نے اس رشتے کے لئے حامی بھر کے ایک عرصے بعد اس گھر میں خوشیوں کے دیپ روشن کئے تھے۔

آج چھٹی کا دن تھا تو گھر میں سب لوگ موجود تھے شزرا نیچے آئی تو سب لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے وہ ناسمجھی سے سب کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ آزر سپاٹ چہرے کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے وہ ناسمجھی سے سب کی طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھی۔

"آؤ شزرا یہ لو منہ میٹھا کرو" تائی امی نے شزرا کی طرف مٹھائی کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔

"کیوں ؟ کیا ہوا کے؟" شزرا نے مٹھائی اٹھاتے ہوئے پوچھا اور ایک نظر منال کی طرف دیکھا جو شرمائی لجائی سی بیٹھی تھی۔

"آزر اور منال کی اس ہفتے منگنی کی تاریخ رکھ دی گئی ہے" تائی امی نے خوشی سے چہکتے ہوئے بتایا شزرا اپنی جگہ سن سی کھڑی رہ گئی اس پہ سر پہ دھماکہ ہوا تھا ابھی تو وہ خود کو مکمل طور پہ سنبھال بھی نہ پائی تھی اور ایک اور امتحان اس نے کرب سے آنکھیں میچیں  اس نے آزر کی طرف دیکھا ان کے چہرے پہ شاید استہزائیہ مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی تھی وہ خود کو سنبھال کے منال کی طرف بڑھی اور اسے گلے لگا کے مبارکباد دی۔

"ٹائم بہت کم ہے منال شزرا تم دونوں جلدی جلدی اپنی شاپنگ مکمل کرلو" تائی امی نے ان دونوں کو نصیحت کی۔

"آزر کل تم ان لوگوں کو شاپنگ پہ لے جانا" اس بار تائی امی نے آزر کو مخاطب کر کے کہا اور ہر چیز سے بے نیاز بیٹھے تھے۔

"جی امی" ان کا لہجہ ہر قسم کے تاثر سے خالی تھا۔

_________________________

شام میں منال اپنے روم میں کھڑکی کے سامنے کھڑی دور افق پہ ڈوبتے سورج کو دیکھ رہی تھی تبھی دروازے پہ ہلکا سا ناک ہوا۔

"آجائیں" منال نے اجازت دی شزرا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر آئی۔

"تم کب سے دروازہ ناک کر کے آنے لگیں" منال نے اس کے مضحمل چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"میں نے سوچا اب سدھر جانا چاہیے بہت بچپنا ہوگیا" شزرا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔

"مجھے تو شرارتی سی شزرا ہی اچھی لگتی ہے" منال نے محبت سے کہا۔

"آپی آپ خوش ہو نہ؟" شزرا نے اس چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں خوش ہوں" منال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"میری دعا ہے آپ ہمشہ خوش رہیں"شزرا نے منال کے گلے لگتے ہوئے کہا اور نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

_______________________________

آزر اور منال کے رشتے کی بات سن کے آزر کے ماموں مامی ان لوگوں کو مبارکباد دینے ان کے گھر تشریف لائے تھے ساتھ برہان اور سویرا بھی تھے برہان تو ان لوگوں کو چھوڑ کر تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کر کسی ضرور کام سے چلا گیا تھا سب لوگ ہال میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے رات پہ کھانے کے لئے آزر اور برہان کا ہی انتظار ہو رہا تھا کچھ دیر بعد پورچ میں گاڑیوں کے رکنے کی آواز آئی۔

آزر اور برہان ایک وقت پہ گھر پہنچے تھے دونوں گاڑیوں سے اترے تو ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا۔

برہان آزر کی طرف بڑھا اور اس سے ہاتھ ملا کر اس کے رشتے کی مبارکباد دی۔

"بہت بہت مبارک ہو" برہان نے مسکراتے ہوئے کہا 

"بہت شکریہ" آزر نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مبارکباد قبول کی۔

"ویسے میں حیران ہوں تمہارا رشتہ منال سے ہونے پہ" برہان نے لہجے میں حیرت اور افسوس سموئے ہوئے کہا۔

"اس میں حیرانی کی کیا بات" آزر نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا تھا۔

"اس دن تم جس طرح شزرا کو پورے استحقاق کے ساتھ میرے سامنے سے لے کہ گئے تھے مجھے بہت کچھ سمجھنے پہ مجبور کر گئے تھے" برہان نے انہیں یاد دلایا آزر کے لبوں پہ ایک درد بھری مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی۔

"قسمت ہر ایک پہ تو مہربان نہیں ہوتی نہ" آزر نے تلخی سے کہا اور اندر جانے کے لئے قدم بڑھائے۔

"تو کیا میں یہ سمجھوں کہ قسمت مجھ پہ مہربان ہونے والی ہے" برہان نے آواز نے ان کے بڑھتے قدم روکے تھے ان کا دل کسی پرندے کی مانند لرزا ان کا چہرہ تاریک ہوا تھا انہوں نے پلٹ کے خونخوار نظروں سے برہان کی طرف دیکھا اور اگلے ہی پل ان کے ہاتھ اس کے گریبان تک پہنچ گئے۔

"شزرا کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھنا وہ صرف میری ہے" انہوں نے برہان کا گریبان جھنجھوڑتے ہوئے چلا کے کہا۔

"شادی بڑی بہن سے کر رہے ہو اور نظریں چھوٹی بہن پہ" برہان نے ان کے ہاتھ سے اپنا کالر چھڑواتے ہوئے تلخی سے کہا اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتے ہوئے اندر چلا گیا پیچھے آزر کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح کھڑے رہ گئے۔

__________

"شزرا تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں آزر آتا ہی ہوگا" تائی امی نے شزرا کو گھر کے حلئے میں پھرتے دیکھ کے ٹوکا۔

"میں نے آزر کو کال کی ہے وہ آفس سے نکل چکا ہے جاؤ جلدی تیار ہو دیکھو منال تیار بھی ہو گئی" انہوں نے سیڑھیاں اترتی منال کی طرف دیکھ کے کہا جو اب ان لوگوں کی طرف آچکی تھی۔

"تائی امی میں کیا کروں گی جا کے" شزرا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

"شزرا میں اکیلے کیسے پسند کروں گی ڈریس تم بھی چلو ساتھ" منال نے شزرا کی بات سن کے اسے کہا۔

"رہنے دو اگر شزرا نہیں جانا چاہتی تو" آزر نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے ان کی باتیں سن لی تھیں شزرا سر جھکا کے رہ گئی۔

"شزرا تم نہیں جاؤ گی تو میں بھی نہیں جاؤں گی" منال نے ضدی لہجے میں کہا 

"میں آتی ہوں تیار ہو کے" اور آزر کی طرف دیکھے بغیر اپنے روم میں چلی گئی روم میں آتے ہی رکے ہوئے آنسو ایک تواتر سے بہنے لگے۔

وہ خود کو سنبھال کے تیار ہو کے نیچے آئی تو دونوں اسی کا انتظار کر رہے تھے وہ لوگ تائی امی کو خدا حافظ کہہ کر باہر آگئے۔

منال آزر کے برابر میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی تھی جبکہ شزرا پیچھے بیٹھی تھی اس نے ایک بار بھی آزر کی طرف نہ دیکھا وہ سارے راستے خاموش بیٹھی رہی منال نے اسے مخاطب بھی کیا تو بس ہوں ہاں میں جواب دے کہ خاموش ہوگئی۔

گاڑی مال کی پارکنگ میں رکی تینوں نیچے اتر آئے۔

"تم لوگ چلو میں ایک امپورٹنٹ کال کر کے آتا ہوں" آزر نے منال کو مخاطب کر کے کہا وہ دونوں اندر چلی گئیں آزر شزرا کو دور تک اندر جاتے دیکھتے رہے اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا وہ خوش تھی تو وہ کیوں اپنا دل جلا رہے تھے انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور موبائل کان سے لگا لیا۔

کچھ دیر بعد وہ اندر پہنچے تو منال اور شزرا ایک شاپ میں کھڑی ڈریس سلیکٹ کر رہی تھیں آزر بھی ان کے برابر میں جا کھڑے ہوئے بیزاری چہرے پہ واضح تھی۔

" آزر یہ کیسا ہے؟" منال نے ہلکے گلابی رنگ کا ایک ڈریس اٹھا کر آزر کو دیکھایا۔

"ہاں ٹھیک ہے" آزر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

"میم پلیز یہ آپ ٹرائے کر لیں " سلیز گرل نے منال کو مخاطب کر کے کہا۔

"اوکے" منال اسے جواب دے کہ ڈریس ٹرائے کرنے چلی گئی۔

شزرا وہاں خاموشی سے سر جھکائے کھڑی تھی آزر نے ایک نظر اسے دیکھا اور آگے بڑھ کے ایک ڈریس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیلز گرل سے وہ ڈریس نکالنے کو کہا۔

سلیز گرل نے وہ ڈریس نکال کے دیکھایا تو اس کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کرنے والی تھی پیچ کلر کی میکسی پہ سلور کام اپنی چھب دکھلا رہا تھا۔

"اسے پیک کردیں" آزر نے سیلز گرل کو مخاطب کر کے کہا شزرا ان سے بے تعلق سی کھڑی تھی۔

کچھ دیر میں منال بھی آگئی آزر ڈریس کی پیمنٹ کرکے شاپ سے باہر آگئے ان کے پیچھے وہ دونوں بھی آگئیں ڈریس کی میچنگ کی جیولری وغیرہ لے کہ وہ لوگ واپس گھر آگئے شزرا نے جیسے اپنے ہونٹوں کو سی لیا تھا وہ لبوں پہ خاموشی کا فقل لگائے اپنی آنکھوں سے اپنی دنیا لٹتے دیکھ رہی تھی۔

منال خوشی خوشی سب کو اپنا ڈریس دیکھا رہی تھی جبکہ شزرا خاموشی بیٹھی زمین کو گھور رہی تھی اسے لگ رہا تھا وہ کچھ دیر مزید بیٹھی رہی تو اس کا ضبط جواب دے جائے گا وہ وہاں سے اٹھ کے اپنے کمرے میں آگئی اور بیڈ پہ گر کے پھوٹ پھوٹ کے رودی۔

کیسی بدقسمتی تھی اسے تو رونے کے لئے کوئی کندھا بھی میسر نہیں تھا وہ اپنی ہی کندھے پہ سر رکھے رو دی۔

اس نے اٹھ کے کمرے کی مدھم لائٹ بھی بند کی وہ شاید اپنا سامنا بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔

دل تھا کہ پھٹا جا رہا تھا وہ جانتی تھی وہ کس ضبط سے یہ سب دیکھتی رہی تھی اپنے ہاتھوں سے اپنی محبت کسی اور کو سونپ دینا کوئی آسان کام نہیں تھا اس کے احساسات میں ایک آگ سی بھڑک اٹھی تھی  جو بجھائے نہ بجھے۔۔۔۔۔۔۔

جانے کتنی دیر وہ اپنی قسمت کا ماتم کرتی رہی تھی اچانک ہی اس کا کمرہ روشن ہوا تھا وہ فورا سیدھی ہو کے بیٹھی اس نے پلٹ کے دروازے کی طرف دیکھا جہاں آزر اطمینان سے ٹیک لگائے کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے اس نے فورا ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کئے اور کھڑی ہوگئی۔

آزر اس کی طرف بڑھے وہ ان کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی وہ سر جھکائے بھی آزر کی خود پہ نظریں محسوس کر سکتی تھی اس کے اعصاب پہ بوجھ بڑھ رہا تھا۔

"شزرا۔۔۔۔۔۔" حدت دیتی آواز کہیں پاس سے ابھری تھی اس نے سر اٹھا کے گیلی آنکھوں سے آزر کی طرف دیکھا مگر یہ کیا۔۔۔۔۔۔!!؛

ان کے چہرے پہ بیگانگی کا تاثر واضح تھا۔

"کیوں رو رہی ہو" وہ انجان بنے اس سے پوچھ رہے تھے لہجہ سرد تھا۔

"وہ آنکھ میں کچھ چلا گیا بس اس لئے۔۔۔" شزرا نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔

"روک لو مجھے۔۔۔۔" وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے چلے گئے وہ دم بخود ہوئی تھی وہ ایک بار پھر اس کے سامنے اپنا آپ ہار رہے تھے آنسوؤں کا ریلا شاید دونوں کو بہا لے جا رہا تھا۔

وہ پتھر کی مورت بنی کھڑی تھی اور ساکت نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی ایک اونچا لمبا مضبوط مرد اس کے سامنے کیسے ریزہ ریزہ بکھر رہا تھا اس کا دل کیا وہ انہیں سمیٹ لے مگر خود پہ ضبط کئے وہ چہرہ موڑ گئی انہوں نے سر اٹھا کے بے یقینی سے اسے دیکھا اگلے ہی پل ان کی آنکھوں میں غصہ عود کر آیا وہ سیدھے ہو کہ کھڑے ہوئے اور اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔

"کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ ایسا" وہ دبے دبے لہجے میں غرائے تھے آنکھیں شدت ضبط سے لہو رنگ ہو گئیں ان کے ہاتھوں کی انگلیاں شزرا کے بازو میں گڑی جا رہی تھی درد کی شدت سے اس کے منہ سے آہ نکلی آنکھوں سے آنسو اور تیزی سے رواں ہو گئے اسے لگ رہا تھا وہ اپنا آپ ان کے سامنے ہار جائے گی اور ان کے سینے سے لگ کے اپنا ہر درد عیاں کردے گی وہ خود کو چھڑوانے کی سعی کرنے لگی مگر مقابل کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی وہ جیسے اپنا سارا غصہ اپنی بے بسی سب کچھ اس پہ اتار دینا چاہتے تھے۔

"جب تک جیئوں گا صرف تم سے نفرت کروں گا آج کے بعد سوائے نفرت کے کوئی اور جذبہ ہمارے درمیان نہیں آئے گا یہ وعدہ ہے تم سے" انہوں نے ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پہ پھینکا اور شاپنگ بیگ صوفے پہ ڈال کے کمرے سے نکل گئے اور وہ پیچھے بیڈ پہ اوندھے منہ گری اپنی قسمت کا ماتم کرتی رہی۔

بہت مشکل ہوتا ہے جس کی آنکھوں میں آپ صرف اپنے کئے پیار دیکھتے آئے ہوں اس کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت دیکھنا۔

دل اس کی طرف کھینچا جا رہا ہو مگر خود پہ ضبط کئے اپنا صبر آزمانا۔

دل کسی چیز کے لئے ایڑیاں رگڑ رہا ہو مگر اسے بھلا پھسلا کے کسی اور طرف مائل کرنا۔

اپنی پسندیدہ چیز کسی اور کے ساتھ دیکھنا۔

بہت مشکل ہوتا ہے۔

اسوقت شزرا جس کرب سے گزر رہی تھی اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتی تھی کہ وہ کس دل سے آزر کی محبت کو ٹھکرا رہی تھی صرف منال کی خوشی کے لئے اس سب میں اس نے اپنا سوچا ہی نہیں۔ کہ اس کا کیا ہوگا وہ کیسے رہے گی آزر کے بناء۔۔۔۔۔۔!!!!

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment