Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 11 to 12 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 12 February 2023

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 11 to 12

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 11 to 12

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Episode 11'12

Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

آج آزر اور منال کی شادی کو ایک سال ہونے کو آیا تھا اس ایک سال میں بہت کچھ بدل چکا تھا آزر پہلے سے زیادہ سنجیدہ اور کم گو ہو گئے تھے منال نے بھی ان کی اسی طبیعت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔

شزرا نے شادی کی سالگرہ کی مبارکباد دینے کے لئے آج ایک مہینے بعد منال کو فون کیا تھا۔

بیل جا رہی مگر کوئی اٹھا نہیں رہا تھا وہ کوفت سے موبائل رکھنے ہی والی تھی کہ دوسری جانب کال اٹھا لی گئی۔

"ہیلو۔۔۔۔۔" آزر کی بھاری نیند میں ڈوبی ہوئی آواز اسپیکر سے ابھری تھی اس کی دھڑکنیں تھمی تھیں وہ یہ آواز آج پورے ایک سال بعد سن رہی تھی پل میں ہی اس کی آنکھوں میں موری جمع ہوئے۔وہ سن سی کھڑی تھی وہ ان کی آواز سننا چاہتی تھی مگر ان دوسری طرف بھی خاموشی تھی۔

شزرا نے کچھ نہ کہا تو آزر نے کان سے فون ہٹا کر اسکرین پہ چمکتا شزرا کا نام دیکھا پل میں ہی ان کے ماتھے پہ لا تعداد سلوٹیں نمودار ہوئی تھیں انہوں نے نہایت ناگواری سے فون کو دیکھا تھا وہ فون کاٹنے کی والے تھے کے شزرا کی سسکیوں کی آواز سنائی دی بے اختیار ہی انہوں نے فون سے لگایا تھا مگر کچھ نہ بولے۔

"تمہارا کی فیصلہ تھا نہ" جب بولے تو آواز انتہائی سرد تھی شزرا کو ان کے لہجے کی ٹھنڈک رگ و پے میں دوڑتی محسوس ہوئی اس نے ہاتھ کی پشت سے بیدردی سے اپنے آنسو رگڑے۔

"کیسے ہیں آپ؟" اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل کرتے ہوئے وہ بولی مگر آواز بھیگی ہوئی تھی۔

"ٹھیک ہوں اور بہت خوش ہوں" انہوں نے نفرت سے کہا تھا۔

"لیکن تمہیں پتا ہے دوسرے کا دل توڑنے والے کبھی خوش نہیں رہتے" آزر نے اس پہ خنجر اچھا جو جا کے اس کے دل کے مقام پہ لگا تھا۔

"خیر تم بتاؤ کیسی ہو" انہوں نے بات کا رخ بدلا۔

"آپ کی بد دعا کے زیر اثر ہوں شاید" شزرا نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا اس کی بات سن کے آزر تڑپ ہی تو گئے تھے۔

"میں تمہیں کبھی بد دعا نہیں دے سکتا شزرا" انہوں نے قطیعت سے کہا۔

جانتی ہوں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ کچھ بولتے بولتے خاموش ہوئی تھی۔وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر سارے الفاظ خاموشی کی گود میں کراہ کے رہ گئے۔

"آپی کہاں ہیں" اس نے بات کا رخ بدلا۔

"کچن میں شاید ناشتہ بنانے گئی ہے" آزر نے جواب دیا۔

پھر ایک طویل خاموشی نے دونوں کے گرد ڈیرا ڈال لیا کچھ دیر بعد فون کٹ گیا وہ نہیں جانتی تھی کہ فون خود کٹا ہے یا کاٹ دیا گیا ہے۔

اس کے رکے آنسو تواتر سے بہنے لگے اس نے پوری قوت سے پھیپھڑوں میں اٹکا سانس کھینچا تھا۔اسے لگا وہ تنہا کو لق و دق صحرا میں کھڑی ہو پریشان سی۔

آزر کے پاس تو منال کی محبت تھی اس کے پاس کون تھا وہ تو بلکل اکیلی تھی۔

کچی عمر میں دیکھا جانے والا خواب ٹوٹ جائے تو اس کی کرچیاں ساری عمر روح میں گڑی رہتی ہیں اس کا بھی تو خواب ٹوٹا تھا لیکن وہ کوشش کر رہی تھی نہ اپنی روح سے کرچیاں نکالنے کی۔

سب اپنا ا اپنا دکھ لئے بیٹھے تھے کسی نے اس کے بارے میں نہیں سوچا اسے تو اپنا گھر اس محبت کی وجہ سے چھوڑنا پڑا تھا آج وہ دیار غیر میں بسی تھی تو صرف اس محبت کی وجہ سے کون تھا جو اسکا دکھ بانٹتا تھا کوئی نہیں تھا اسکے پاس وہ اکیلی تھی۔

___________________________

منال کی طبیعت کئی دنوں سے خراب تھی مگر وہ موسمی بخار سمجھ کے نظر انداز کر رہی تھی آج جب کچن میں کام کرتے ہوئے وہ چکرا کے بیہوش ہوئی تو آزر فورا اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے ابتدائی طبی امداد کے بعد ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کے دیئے جو آزر نے اسی وقت کروا لیے شام کی اس کی رپورٹ آجانی تھی۔

دونوں گھر پہنچے تو تائی امی ان دونوں کا ہی انتظار کر رہی تھیں۔

"کیا کہا ڈاکٹر نے؟" انہوں نے فکر مندی سے پوچھا۔

"فی الحال تو کچھ نہیں کہا شام تک رپورٹس آئیں گی" آزر مختصر جواب دے کے اپنے روم میں چلے گئے۔

تائی امی نے بھی منال کو آرام کر نے کی تاکید کی اور اس مے لئے سوپ لینے چلی گئیں۔

منال دادو کے پاس آکے بیٹھ گئی وہ اس وقت تسبیحاں پڑھ رہی تھیں وہ خاموشی سے ان کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گئی۔

"اتنی خاموش کیوں ہے میری بچی؟" دادو نے اس کے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

"دادو کیا شزرا کو ہماری یاد نہیں آتی" اس نے افسردگی سے پوچھا۔

"بیٹا وہ سب سے زیادہ تمہیں یاد کرتی ہوگی" انہوں نے اسے تسلی دی۔

"نہیں دادو وہ بھول گئی ہے مجھے بھی" منال نے افسردگی سے کہا جب تک تائی امی اس کے لئے سوپ لے کے وہیں آگئیں تھیں۔

شام میں آزر منال کی رپورٹ لینے گئے تو لیبارٹری سے منال کی رپورٹس مل گئی اب وہ ڈاکٹر وہ رپورٹ دیکھانے لے جا رہے تھے انہوں نے بلا ارادہ وہیں کھڑے ہو کے رپورٹس کھول کے دیکھ لیں مگر اگلے ہی پل رپورٹس ان کے ہاتھ سے چھوٹ کے نیچے گر گئیں۔

______________

وہ دوڑ رہی تھی ہر چیز کو پیچھے چھوڑے پوری جان لگا کے بس دوڑتی ہیں جا رہی تھی اس کا سانس پھول رہا تھا ٹانگوں سے جان ختم ہو رہی تھی مگر وہ ہوش میں آتی تو اسے کسی چیز کا احساس ہوتا اب تو اس نے اپنی پرواہ کرنی کب کی چھوڑ دی تھی۔

آج پانچ سال ہونے کو آئے تھے مگر وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلی تھی۔ مگر سب شاید بہت حد تک آگے بڑھ گئے تھے۔

 دوڑتے دوڑتے اس کے قدم تھمے تھے سامنے ایک چھوٹی سی بچی تنہا کھڑی رو رہی تھی وہ بلا ارادہ ہی اس کی طرف بڑھی۔

"آپ کیوں رو رہی ہو؟" وہ اپنے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے اس کی طرف جھک کے پوچھ رہی تھی منہ بسورتی بچی نے روتے روتے اس کی طرف دیکھا اور شدت سے رونے لگی۔

"آپ کیوں رو رہی ہو؟" شزرا نے ایک بار پھر پریشانی سے پوچھا۔

وہ سرخ و سفید پھولے پھولے گالوں والی وہ بچی بہت ہی خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔

شزرا نے اس کے پیرنٹس کی تلاش میں ادھر اُدھر نگاہیں گھمائیں مگر اسے کوئی دیکھائی نہ دیا۔

"آپ رو نہیں آپ اپنے پیرنٹس سے بچھڑ گئے ہو" شزرا نے ایک بات اسے چپ کروانے کی کوشش اس بار وہ خاموش ہو کے شزرا کی شکل دیکھنے لگی۔

"آئسکریم کھاو گی آپ پھر آپ کے پیرنٹس کو ڈھونڈتے ہیں" شزرا نے پاس سے گزرتے آئسکریم والے کو روک کے کہا اب وہ بچی بلکل خاموش ہو گئی تھی۔

"آپ کا نام کیا ہے؟" شزرا نے آئسکریم کھول کر اسے پکڑاتے ہوئے پوچھا۔

"لیزا……." چار سالہ بچی نے خاموشی سے آئسکریم کھاتے ہوئے جواب دیا۔

"آپ کس کے ساتھ آئی ہیں یہاں؟" شزرا نے ایک اور سوال کیا۔

"مما پاپا کے ساتھ" اس بچی کو ایک بات پھر اپنے مما بابا یاد آگئے تھے۔

"کہاں ڈھونڈوں میں۔۔۔۔۔۔" شزرا نے اسے روہانسی ہوتے دیکھ کے پریشانی سے پوچھا اسی اثناء میں ایک عورت اسے اپنی طرف آتی دیکھائی دی وہ عورت تیزی سے لیزا کی طرف بڑھی اور اسے گود میں اٹھا لیا۔

"میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی تھی کہا تھا نہ ہاتھ پکڑ کے رکھنا" اس عورت نے بچی کو پیار کرتے ہوئے ڈانٹا بھی۔

اسی وقت ایک آدمی بھی ان کی طرف بڑھا وہ آدمی شزرا کو اپنے سامنے کھڑے دیکھ کے جم سا گیا۔

"مما یہ بہت اچھی ہیں انہوں نے مجھے آئسکریم دی" وہ بچی اب لہک لہک کے اپنی مما کو بتا رہی تھی۔

"بابا آپ آگئے"وہ بچی اب اپنے بابا کی گود میں چڑھ چکی تھی شزرا نے نظریں گھما کر اس کے بابا کی طرف دیکھا وہ اپنی جگہ جم سی گئی تھی۔

برہان اس کے سامنے کھڑا تھا برہان کی آنکھوں میں شناسائی کی ایک رمق سی ابھری تھی۔

"شزرا یہ تم ہو" برہان نے اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کے بات کا آغاز کیا۔

"جی۔۔۔۔" وہ بس اتنا ہی بول سکی۔

اس ایک پل میں اس نے اپنا محاسبہ کیا تھا برہان بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھ گیا تھا اس کی یہ چھوٹی سی بیٹی اس کے سامنے کھڑی تھی۔

"کیسی ہو؟" برہان نے سوال کیا۔

"ٹھیک ہوں۔۔۔۔آپ کیسے ہیں؟" شزرا نے جواب دیتے ہوئے سوال کیا۔

"میں بلکل ٹھیک۔۔۔۔یہ میری وائف اور یہ میری بیٹی" برہان نے دونوں کا شزرا سے تعارف کروایا۔

"اور سنبل یہ شزرا میری کزن" برہان نے اپنی وائف سے بھی شزرا کا تعارف کروایا۔

"بہت شکریہ آپ کا میری بیٹی کا خیال رکھنے کے لئے" سنبل نے مسکراتے ہوئے شزرا کا شکریہ ادا کیا۔

"کوئی بات نہیں آپ کی بیٹی بہت پیاری ہے" شزرا نے لیزا کو پیار کرتے ہوئے کہا۔

"شزرا تم چلو نہ ہمارے ہوٹل ہم قریب ہی ٹہرے ہیں" سنبل نے اسے اپنے ساتھ چلنے کی پیشکش کی۔

"پھر کبھی چلوں گی" شزرا نے جانے سے معذرت کی۔

"خالہ میرا انتظار کر رہی ہوں گی" شزرا نے واپسی کے لئے قدم بڑھا دیئے۔

چند قدموں کے بعد کوئی اس کے ہم قدم ہوا تھا۔

شزرا نے گردن موڑ کے دیکھا تو برہان خاموشی سے اس کے ساتھ چل رہے تھے وہ کچھ نہ بولی۔

"میں نے شادی کر لی تھی" انہوں نے سر جھکائے کہا نہ جانے وہ کیوں شرمندہ تھے۔

"بہت مبارک" شزرا نے دل سے مبارکباد دی۔

"تم آئیں نہیں میری شادی میں" برہان نے شکوہ کیا۔

"جی بس پڑھائی کی مصروفیات تھیں" شزرا نے نرمی سے کہا۔

"شادی کب کر رہی ہو؟" برہان نے ہلکے پھلکے لہجے میں پوچھا اس کی بات پہ شزرا کے ہونٹوں پہ ایک تلخ مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی جو برہان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔

شزرا کے قدموں میں اب تیزی نہیں رہی وہ بہت ہلکے ہلکے قدم اٹھا رہی تھی۔

"آپ سنائیں کیسی گزر رہی ہے آپ کی لائف" شزرا نے ان کے سوال کو یکسر نظر انداز کر کے پوچھا۔

"کب تک خود کو سزا دیتی رہو گی" وہ سنجیدگی سے اس سے پوچھ رہے تھے۔

"کیسی سزا۔۔۔۔۔میں بہت خوش ہوں اپنی زندگی میں" شزرا نے ایک ایک لفظ پہ زور دے کے کہا۔

"ٹھیک ہے مان لیا تم بہت خوش ہو تو پاکستان کیوں نہیں واپس آجاتیں؟" برہان نے تلخی سے کہا اس کے لہجے کی کڑواہٹ شزرا کو بخوبی محسوس ہوئی۔

"میں وہاں دوبارہ کبھی نہیں جاؤں گی" شزرا نے اٹک لہجے میں کہا جیسے اب اس کے آگے کوئی بات نہ رہی ہو۔

"میں نہیں جانتا تھا تم اتنی سنگدل ہوگی" برہان نے افسوس سے کہا اس کی چار پہ شزرا نے الجھ کے اسے دیکھا۔

"کیسی سنگدلی؟" وہ اب اس کے سامنے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔

"تمہاری بہن اس حالت میں ہے اور تم یہاں ہو یہ سنگدلی نہیں تو اور کیا ہے" برہان نے افسوس سے سر جھٹکا مگر وہ اب بھی کچھ سمجھ نہ پائی۔

"اس نے تو تمہیں ماں بن کے پالا تھا تو تم اس سے اتنی نفرت کیسے کر سکتی ہو" وہ بغیر رکے بول رہا جیسے اسے شزرا سے اس بات کی امید ہر گز نہ تھی۔

"کس حالت میں؟؟؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا" وہ ناسمجھی سے برہان کی طرف دیکھ رہی تھی برہان نے ایسی نظروں سے اس کی طرف دیکھا جیسے اسے اس کی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔

"کیا تمہیں کچھ نہیں پتا" برہان نے محتاط لہجے میں مگر دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔

"آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟" شزرا بدستور الجھی ہوئی تھی۔

"منال کو برین ٹیومر ہے کیا تمہیں کچھ نہیں پتا؟" برہان بے یقینی سے شزرا کی طرف دیکھ رہا تھا اسے حیرت تھی اتنی بڑی بات سے شزرا کیسے بے خبر رہ سکتی ہے۔

شزرا کے قدم لڑکھڑائے تھے تھے اسے اپنے چاروں طرف دل دہلا دینے والی خاموشی محسوس ہوئی۔وہ بے یقین سی برہان کی طرف دیکھ رہی تھی  سانسیں سینے میں اٹک رہی تھیں اور چہرے پہ سکتہ چھایا تھا ہر طرف بے یقینی ہی بے یقینی تھی ایک دھند سی اسے اپنے چاروں جانب اٹھتی محسوس ہوئی۔

اسے لگا کسی نے اس کا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہے۔

درد کی شدت سے اس کے منہ سے آواز بھی نہ نکل سکی۔

ایک آنسو پلکوں کی سرحد توڑ کے گال پہ بہہ گیا وہ آنسو شاید بہت کڑوا تھا اس کی کڑواہٹ اسے اپنی زندگی میں گھلتی محسوس ہوئی۔

اب دھند چھٹ رہی تھی اور اندھیرا بڑھ رہا تھا اس کے قدموں نے اس کا بوجھ سہارنے سے انکار کردیا وہ زمین پہ بیٹھتی چلی گئی۔

مگر زمین پہ بیٹھ کے بھی اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلا وہ بدستور زمین کو گھورے جا رہی تھی۔

"شزرا تم ٹھیک ہو؟" برہان نے اس کی غیر ہوتی حالت دیکھی۔

"میری آپ۔۔۔۔۔۔۔۔آپی" وہ بمشکل بول پائی اور پھوٹ پھوٹ کے رودی  راستے میں جانے والے تمام لوگ اسے عجیب سی نظروں سے گھور رہے تھے

مگر ہوش و خرد سے بیگانہ پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی۔

"شزرا سنبھالو خود کو اٹھو یہاں سے" برہان نے اس کے قریب آکے کہا اور ہاتھ پکڑ کے اسے اٹھایا وہ کسی بے جان چیز کی طرح اٹھ گئی۔

برہان نے اسے پاس پڑی بینچ پہ بٹھایا اور اس کے لئے پانی لینے چلے گئے پانی پی کر وہ کچھ حد تک سنبھلی تھی۔

"مم۔۔۔مجھے کیوں نہیں بتایا اس بارے میں" اس نے سرخ ہوتی آنکھوں سے پوچھا۔

"میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا" برہان نے لا علمی کا اظہار کیا۔

"میں کال کرتی ہوں آپی کو" اس نے گھبراہٹ میں اپنا فون نکالا مگر کانپتے ہاتھوں سے سنبھالا نہیں گیا۔

"شزرا سنبھالو خود کو" برہان اس کی یہ حالت دیکھ کے پریشان ہوگئے تھے۔

"مجھے آپی سے بات کرنی ہے" اس نے روتے ہوئے کہا لفظ بھی اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔

برہان نے کال ملائی مگر وہاں کوئی کال نہیں اٹھا رہا تھا وہ دونوں نہیں جانتے تھے کہ وہاں کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔

"آپی کو اتنی بڑی بیماری اور مجھ سے چھپایا گیا" وہ غصے کی آخری حدوں پہ تھی۔

"آپی روز کال کر کے مجھے بولتیں بس ایک بار آجاؤ مجھے کیوں نہیں بتایا انہوں نے" وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کے رو پڑی۔

"مجھے آپی سے ملنا ہے میں پاکستان جا رہی ہوں" وہ وہاں سے تیزی سے اٹھی اور اپنے گھر کی طرف دوڑی برہان بھی اس مے پیچھے لپکا۔

مگر اسی پل اس کا فون بج اٹھا اس نے اسکرین پہ جگمگاتا نام دیکھا تو امین صاحب کے گھر کی لینڈ لائن تھی۔

اس نے فون کان سے لگایا۔

"جی صاحب جی آپ فون کر رہے تھے" دوسری طرف شاید کوئی ملازم تھا۔

"ہاں میں فون کر رہا تھا گھر مے سب لوگ کہاں ہیں؟" برہان نے اس کی بھاری آواز محسوس کر کے پوچھا۔

"وہ جی سب اسپتال گئے ہیں منال بی بی کی طبیعت بیت خراب ہوگئی ہے" ملازم نے اطلاع دی۔

برہان کے دل کو انہونی نے گھیر لیا۔

"اچھا ٹھیک کے جیسا بھی ہو مجھے اطلاع کردینا" برہان کہہ کر فون رکھ دیا۔

برہان شزرا کے پیچھے گیا۔

وہ اسے روکتا رہ گیا مگر اس نے برہان کی کوئی آواز نہ سنی اور تیزی سے چلنے لگی۔

اب وہ اپنا سامان پیک کر رہی تھی ساتھ ہی روتی بھی جا رہی تھی برہان سامنے بٹھا ہمدردی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"شزرا آرام سے پیک کرو ایک گھنٹے بعد کی فلائٹ ہے" برہان نے اس کی گھبراہٹ نوٹ کر کے کہا مگر وہ کچھ سوچ سمجھ نہیں رہی تھی.

اگلے ایک گھنٹے بعد وہ سڈنی کے ایئر پورٹ پہ موجود تھی خالہ خاموش بھی اس کے ساتھ جا رہے تھے منال ان کی بہن کی نشانی تھی وہ کیسے اتنی بڑی بیماری میں اسے تنہا چھوڑ سکتی تھیں۔

پورے راستے شزرا روتی رہی تھی۔

بلاآخر وہ لوگ پاکستان پہنچے ایئر پورٹ سے باہر آکر انہوں نے گھر پہنچنے کے لئے ٹیکسی کر لی تھی کیونکہ حیرت انگیز طور پہ انہیں کوئی بھی لینے نہیں آیا جب کے ان کے آنے کی اطلاع رات کو ہی دے دی گئی تھی۔

______________________

آج وہ ایک بار پھر پورے پانچ سال بعد اسی گھر کی دہلیز پہ کھڑی تھی جہاں دوبارہ نہ آنے کی اس نے قسم کھا رکھی تھی۔

مگر واہ ری قسمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

انسان کو کیسے کیسے دوراہے سے گزارتی ہے کہ انسان کو اپنے زندہ ہونے پہ افسوس ہونے لگتا ہے۔

وہ اپنے ٹوٹے بکھرے سے وجود کے ساتھ اسی گھر کی دہلیز پہ کھڑی تھی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور قدموں میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی جیسے کچھ دیر اور کھڑی رہی تو یہیں زمین بوس کو جائے گی۔

اس نے سر اٹھا کر اس سفید محل کو دیکھا جو دن کی روشنی میں پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اس کے حلق میں ایک بار پھر آنسوؤں کا گولہ سا اٹکنے لگا۔

اس کا دل کیا وہ یہیں سے واپس بھاگ جائے۔۔۔۔۔ کہیں دور بہت دور جہاں زندگی کی تلخیاں اس کے پیچھے نہ آسکیں مگر وہ جاتی بھی کہاں اس کا اندر جانا ضروری تھا۔

اگر آج وہ اندر نہ جاتی تو پوری زندگی خود سے نظریں نہیں ملا سکتی تھی۔

وہ لرزتے قدموں سے آگے بڑھی اور آہنی دورازے کو کانپتے ہاتھوں سے پیچھے دھکیلا دورازہ بنا آواز کے کھلتا چلا گیا سامنے ہی ہال لوگوں سے بھرا پڑا تھا وہ اجنبی نظروں سے سب کی طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھی قدم سو سو من کے ہو رہے تھے۔

ہال کے ایک کونے سے رونے اور بین کرنے کی آوازیں آرہی تھی اس نے وہاں نگاہ دوڑائی اور کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

دل تھا کہ تکلیف سے پھٹا جارہا تھا۔

اس کی نظر کفن میں لپٹے بے جان وجود پہ پڑی تو اسے اپنے اندر سناٹا سا اترتا محسوس ہوا۔

اب اس کے اندر سے ہمت ختم ہو چکی تھی وہ وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔

کتنا بڑا زخم دے گئی تھی نہ زندگی۔۔۔۔۔۔۔

اپنوں کی موت انسانوں کو توڑ کے رکھ دیتی ہے مگر اسے تو ایسا توڑا وہ کرچی کرچی بکھر گئی تھی اب اسے سمیٹنا آسان نہیں تھا.

منال کفن میں لپٹی اس کے سامنے تھے اس کے چہرے سے کفن ہٹا ہوا تھا رشتہ دار عورتیں آخری دیدار کرنے کے لئے جمع تھیں اور ایک وہ بے یقینی سے آنکھیں پھاڑے یہ دل خراش منظر دیکھ رہی تھی۔اسے لگا اس کے قدموں تلے زمین نکل چکی ہے یا پھر آسمان اس کے سر پہ گر گیا ہے اس کے اندر شور بڑھتا جا رہا تھا مگر باہر بلکل سناٹا تھا۔

منال اسے چھوڑ کے جا چکی تھی ہر طرف بے یقینی کی دھند تھی اور اس دھند میں اسے اپنا آپ کھوتا ہوا محسوس ہوا۔

اسے تو لگا تھا کہ منال اس کی راہ دیکھ رہی ہوگی۔سارے راستے وہ جانے اپنے دل میں کتنے ارادے باندھتے آئی تھی کہ وہ جا کے سب سے پہلے اس کے گلے لگ جائے گی اسے جی بھر کے پیار کرے گی اپنی بیماری کا نا بتانے پہ لڑے گی ناراض ہوگیا جھگڑا کرے گی اور پھر مان جائے گی۔اس کا خیال رکھے گی۔اپنے دل کی ساری باتیں کرے گی اس کی گود میں سر رکھ کے اپنی ماں کی خوشبو محسوس کرے گی۔

مگر یہ کیا۔۔۔۔۔۔!!!!

وہ تو اسے چھوڑ کے چلی گئی اسے پلٹ کے بھی نہ دیکھا اور نہ اس کا انتظار کیا۔

وہ اسے تہی دامن کر گئی اور وہ کچھ نہ کر سکی۔

اسے اپنا دل پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔

اسے لگا تھا باہر کا تپتا سورج اس کے سر پہ آگیا ہے اور اس کا پورا وجود جل کے بھسم ہو جائے گا وہ جیسے کھلے آسمان تلے کھڑی تھی۔

منال کا بے جان وجود اس کے سامنے تھا جہاں زندگی کی کوئی رمق نہ تھی اس کی زندگی کی ڈور ٹوٹ چکی تھی۔

دلاور صاحب،امین صاحب اور آزر منال کا جسد خاکی لینے اندر آئے تو منال کی میت کے پاس شزرا کو کھڑے دیکھ کے ٹھٹھک گئے۔تائی امی اور دادو تو خود آدھ موئی ہوئی وہ بھی حیرت سے شزرا کو دیکھ کے کھڑی ہو گئیں۔

کسی کو یقین نہ تھا کہ شزرا ان کے سامنے کھڑی ہے سب ساکت ہوئے تھے۔

سب سے پہلے دلاور صاحب صدمے کی کیفیت سے باہر آئے اور تڑپ کے شزرا کی طرف بڑھے انہوں نے اپنا کانپتا ہاتھ شزرا کے سر پہ رکھا پھر آہستہ سے جھکے اور اس کے بالوں پہ ایک شفقت بھرا بوسہ دیا وہ دلاور صاحب کے گلے لگ کے ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کے رودی۔

دلاور صاحب بھی رونے لگے ان کے آنسو ان کے جھریوں زدہ بوڑھے چہرے پہ پھیل رہے تھے۔

"بابا میری آپی" شزرا نے روتے روتے سر اٹھا کے منال کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور پھر رونے لگی انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔

"بابا یہ کیا ہوا ہے میری آپی کو" اب وہ جیسے اپنے حواس کھوتی جا رہی تھی۔

"مجھے بتاؤ" وہ زور سے چینخی۔

"آپ کی آپی ہمیں چھوڑ کے چلی گئیں" دلاور صاحب کے ضبط کا بندھن ٹوٹا اور وہ رونے لگے۔

امین صاحب نے آگے بڑھ کے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور پھر شزرا کے سر پہ ہاتھ پھیرا جو خالی خالی نگاہوں سے اپنے بابا کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے ان کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔

"آپی مجھے ایسے چھوڑ کے نہیں جا سکتیں۔۔۔۔کیسے چلی گئیں وہ۔۔۔وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں دیکھنا وہ واپس آجائیں گی" وہ دلاور صاحب کی طرف دیکھ کے بول رہی تھی یا پتہ نہیں خود کو یقین دلا رہی تھی وہ حزن و ملال کی مورتی بنی کھڑی تھی۔

"تایا ابو میری آپی ٹھیک ہیں نہ انہیں کچھ نہیں ہوا" وہ امیں صاحب کے ہاتھ پکڑے کھڑی ملتجیانہ نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی امین صاحب کے آنسو پھسل کے گالوں پہ پھیل چکے تھے وہ ان کے آنسو دیکھ کے کرنٹ کھا کے پیچھے ہٹی۔

"آپ سب رو کیوں رہے ہیں میری آپی کو کچھ نہیں ہوا ابھی آٹھ جائیں گی" وہ ہوش و خرد سے بیگانہ روتے ہوئے منال کی طرف بڑھی مگر اس سے پہلے اس کا نازک سا ہاتھ کسی کہ مضبوط گرفت میں آ چکا تھا اس نے پلٹ کے دیکھا تو آزر سرخ انگارہ آنکھوں کے ساتھ سامنے کھڑے تھے۔

اس شخص کو وہ آج پورے پانچ سال بعد دیکھ رہی تھی ملگجا لباس بڑھی ہوئی شیو اور سرخ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اسے آزر کو پہچاننے میں مشکل ہوئی وہ بے یقینی سے سامنے کھڑے اس بد حال شخص کو دیکھ رہی تھی جسے اپنی زندگی میں صرف دکھ ہی دکھ ملے تھے اور ان دکھوں نے آج اسے کس حال پہ پہنچا دیا تھا یہ سارا زمانہ دیکھ سکتا تھا۔

ان میں پہلے والے آزر کی شبیہہ تک نہیں تھی۔

"وہ جا چکی ہے" آزر نے سرد لہجے میں کہا۔

"نہیں آپی مجھے اس طرح چھوڑ کے نہیں جا سکتیں" اس نے ایک بار پھر تکرار کی اور اپنا ہاتھ چھڑانے کی سعی کی مگر اس مضبوط گرفت کے آگے اس کی ایک نہ چلی بے بسی کا احساس کی اس کی رگ و پے میں سرایت کرگیا۔

کچھ آدمی منال کی میت کواٹھانے آئے تھے۔

"کہاں لے کے جا رہے ہیں میری آپی کو" وہ تڑپ ہی تو گئی تھی اور تیزی سے ہاتھ چھڑا کے منال کی طرف بڑھی۔

"آپی آپ مجھے اکیلے چھوڑ کے نہیں جا سکتیں۔۔۔۔میری آپی کو کچھ نہیں ہوا ہے یہ سو رہی ہیں بلکل ٹھیک ہیں ابھی آٹھ جائیں گی" صدمہ اس کے دماغ پہ اثر کر رہا تھا وہ وہاں موجود کر شخص کی آنکھ اشکبار تھی۔

وہ منال کا چہرہ چومتے ہوئے بے تحاشا رو رہی تھی۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے" تائی امی نے آگے بڑھ کے اسے گلے لگایا تھا وہ قسمت کے اس ستم پہ چھلنی ہوگئی تھی۔ اس کی روح اس کا وجود سب پل میں خالی ہو گیا تھا۔

آزر اور باقی لوگ اب منال کی میت اٹھا رہے تھے۔

"کہاں لے کے جا رہے ہیں آپی کو" وہ ہذیانی انداز میں چلائی تھی اور تڑپ کے آگے بڑھی مگر دلاور صاحب نے اسے پکڑ لیا۔

"بابا چھوڑیں مجھے وہ میری آپی کو لے جا رہے ہیں۔۔۔رو کیں انہیں۔۔۔۔میری آپی" وہ ان کے بازوؤں میں مچلتی ہوئی ان کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی اور پھر اگلے ہی پل وہ بیہوش ہو کے ان کے بازوؤں میں جھول گئی۔

___________________________

منال کا جسد خاکی لحد میں اتارا جا چکا تھا اس کا دنیا کا سفر تمام ہوا تھا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ہنستی کھیلتی لڑکی راہی عدم سدھار جائے گی مگر یہ انہونی ہو گئی تھی۔

وہ منوں مٹی تلے جا سوئی تھی۔

اپنے بابا کی پری ابدی نیند سو چکی تھی۔

وہ گھر جہاں اس کی نقرئی ہنسی گونجتی تھی وہ اس گھر کو سونا کر گئی تھی۔

"آزر گھر چلو" جانے کتنی دیر بعد دلاور صاحب نے آزرخجو مخاطب کیا تھا انہیں وقت کا اندازہ نہیں ہو سکا۔

آزر اس کی قبر پہ سر جھکائے بیٹھے تھے انہوں نے گردن اٹھا کر دلاور صاحب کی طرف دیکھا پلکوں کے کناروں پہ آنسو اٹکے تھے۔

"میں تھوڑی دیر میں آؤں گا" انہوں نے آستین سے آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔

دلاور صاحب نے دکھ سے اپنے جوان جہان بھتیجے کو دیکھا جس کی حالت اس کی آزردگی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

آزر قبر کی مٹی پہ ہاتھ رکھے بیٹھے تھے۔

"سنبھالو خود کو" دلاور صاحب نے ان کے کندھوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا بولتے بولتے ان کی آواز بھی بھرا گئی۔

آزر اٹھ کے ان گلے لگ گئے۔

___________________

وہ چار سال اس گھر کے مکینوں نے کانٹوں کی کاٹے تھے۔

پر روز ایک نیا امتحان ان کے سامنے کھڑا ہوتا تھا۔

راتیں پہلے سے زیادہ سیاہ ہو گئی تھی اور دن۔۔۔۔۔۔دن میں جیسے سورج نے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا تھا۔

چار سال پہلے جب منال کی بیماری کا علم ہوا تھا تو گھر میں ایک قیامت برپا ہو گئی تھی۔

اس گھر میں کہرام مچا تھا اس اچانک افتاد پہ سب کے ہاتھ پاؤں پھولے پڑے تھے منال سکتے کی کیفیت میں گھری بیٹھی تھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا زندگی کبھی یہ موڑ بھی لے گی وہ تو بہت خوش تھی نہ اپنی زندگی میں تو یہ سب کیسے ہوا اس کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں سلب ہو گئیں تھیں اس کی نظریں اپنے ہاتھ میں پکڑی رپورٹس پہ جمی تھی۔

آزر اور منال کچھ دیر پہلے ہی ڈاکٹر کے یہاں سے لوٹے تھے اور ڈاکٹر کے روح فرسا انکشاف کے بعد سب کی زبانیں گنگ تھیں۔

لیبارٹری سے رپورٹس کلیکٹ کرتے ہوئے وہ بہت خوش تھے اتنے خوش تھے کہ ان سے صبر ہی نہ ہوا اور لیبارٹری سے باہر ہی انہوں نے خود سے رپورٹس دیکھیں مگر رپورٹس کے اوپر جلی حروف میں برین ٹیومر لکھا دیکھ کے وہ جیسے سکتے میں چلے گئے جانے کتنی دیر وہ سڑک پہ بیٹھے رہے تھے مگر ایک موہوم سی امید کے تحت اٹھے اور گھر کی جانب دوڑے تھے۔گھر پہنچ کر انہوں نے منال کو نیچے آنے کو کہا منال نیچے آئی تو اسے کچھ بھی بتائے بغیر اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے منال پوچتھی رہ گئی مگر وہ بلکل خاموش تھے۔

جب ڈاکٹر نے بھی اس خبر کی تصدیق کردی تو وہ ڈھے کے رہ گئے۔

"آپ کی مسسز کو برین ٹیومر ہے" ڈاکٹر کے یہ الفاظ آزر کا سینہ چھلنی کر گئے تھے اور منال کو جانے کتنی دیر تک زمین پہ نظریں جمائے بیٹھی رہی۔

"مگر یہ قابل علاج ہے دواؤں سے اور علاج سے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے" ڈاکٹر کے اگلے جملے نے منال کے کانپتے وجود میں ایک نئی روح پھونکی تھی۔ مگر یہ بات اتنی آسان نہیں

 تھی کہ اس ایک جملے سے ان لوگوں کی تشفی ہو سکتی۔

وہ گھر آئے تو سب ہی سکتے کی کیفیت میں گھرے تھے وہ گھر جہاں تھوڑی دیر پہلے خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے تھے اب بلکل خاموش تھا۔

منال بھی خاموش بھی بلکہ اب اس کے پاس بولنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔

"علاج ہوگا میری بچی اور یہ بلکل ٹھیک ہو جائے گی" دلاور صاحب نے منال کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا صرف وہ ہی جانتے تھے کہ انہوں نے خود کو کس طرح سنبھالتے ہوئے یہ جملہ کہا تھا۔

"ہاں گڑیا یہ قابل علاج ہے اب ٹھیک ہو جائے گا ہمت رکھو" امین صاحب نے بھی اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی تھی۔

دادو اور تائی امی جانے کتنی دیر تک دوپٹے میں منہ چھپائے آسکتی رہی تھیں۔

"شزرا کو پتہ چلے گا تو وہ۔۔۔۔۔" دلاور صاحب نے سر جھکائے کہا۔

"نہیں بابا خدا کے لئے شزرا کو کچھ نہیں بتائے گا وہ مر جائے گی وہ نہیں برداشت کر سکے گی یہ سب" منال نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے آنسو اس کا چہرہ بھگو گئے۔

"لیکن بیٹا" دلاور صاحب نے کچھ کہنا چاہا۔

"بابا ڈاکٹر نے کہا ہے نہ میرا مرض قابل علاج ہے تو ایک بار میں ٹھیک ہو جاؤں میں خود شزرا کو بتادوں گی" اس کا یقین دیکھ کے دلاور صاحب چپ رہ گئے۔

ان چار سالوں میں منال کی طبیعت کبھی بگڑ جاتی تو کبھی بلکل صحیح ہو جاتی اور ایک امید کی ڈور بند جاتی مگر اگلے ہی لمحے جب طبیعت بگڑتی تو ساری آس کی ڈوری ٹوٹتی محسوس ہوتیں۔

اس عرصے میں اب نے بہت چاہا شزرا کو منال کی طبیعت کا بتادیں مگر اس نے سب کو قسم دے دی۔

"جب میں نے کہہ دیا کہ جب میں پوری طرح ٹھیک ہو جاؤں گی تو بتادوں گی اس بات کو آپ لوگ کیوں نہیں مان رہے" اس بار طبیعت بگڑنے کے بعد جب دلاور صاحب نے شزرا جو بتانے پہ زور دیا تو شزرا نے قدرے خفگی سے کہا اور سب نے تہہ دل سے اس کے صحت یاب ہونے کی دعا کی۔

آزر نے ان چار سالوں میں اپنا وقت پیسہ توانائی سب صرف کردی تھی منال کو بچانے کی خاطر۔ایک عرصے سے وہ آفس نہیں گئے تھے آفس کا سارا نظام دلاور صاحب اور امین صاحب ہی سنبھال رہے تھے اس عرصے میں آزر کی زندگی صرف گھر اور ہاسپٹل تک محدود ہو کے رہ گئی تھی۔انہون نے منال کو بچانے کے لئے پوری جان لگا دی مگر قسمت کے فیصلوں کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور وہ انہیں داغ مفارقت دے گئی۔ 

ان کے اعصاب بری طرح سے ٹوٹ چکے تھے۔

منال کی طبیعت میں سدھار آنے لگا تھا۔

"اللہ نے چاہا تو میری بچی بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔لمبی عمر پاؤ" دادو نے اس دن کامیاب سرجری کے بعد منال کا ماتھا چوم کے اسے لمبی زندگی کی دعا دی۔ 

مگر پھر اچانک ہی اس کی طبیعت بگڑی اور وہ چلی گئی ہمیشہ کے لئے۔

اس نے ایک بار بھی پیچھے پلٹ کے نہ دیکھا کہ وہ اپنے پیچھے کتنے رشتوں کو روتا چھوڑ جائے گی۔

کل شام منال کی سانسون کی ڈور ٹوٹنے کے بعد شزرا کو سڈنی فون ملایا مگر دوسری طرف سے خالہ کے گھر کی ملازمہ نے فون اٹھایا اور ان لوگوں کے پاکستان جانے کی اطلاع دی۔

___________

وہ جانے کتنی دیر تک بیہوش رہی تھی جب اس کی آنکھ کھلی تو کمرے میں گھپ اندھیرا چھایا تھا اس نے ہڑبڑا کے ادھر اُدھر دیکھا مگر اس اندھیرے کے سوا اس کمرے میں اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا اس نے سائڈ ٹیبل پہ ہاتھ مار کے لیمپ جلایا تو کمرہ یکدم روشن ہو گیا اس نے اپنے اطراف میں نگاہیں دوڑائیں یہ اس کا کمرہ نہیں تھا اس نے اپنی یاداشت پہ زور دیا مگر اسے سب انجانا لگا اس کی نظر سامنے دیوار پہ ٹنگی اپنی ماں کی تصویر پہ پڑی۔

"یہ بابا کا کمرہ ہے" اس نے خود کلامی کی وہ وہیں لیٹے لیٹے اپنی ماں کی تصویر کو دیکھنے لگی منال ہو بہو ان کی کاپی تھی وہیں ناک نقشہ گورا رنگ۔

"منال آپی" اس کے زہن میں جھماکہ سا ہوا وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اسے لگا وہ کسی گہرے خواب سے جاگی ہو کچھ دیر پہلے کے سارے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے اسے لگا کسی نے اس کا دل مٹھی میں بھینچ لیا ہو درد کی ایک لہر سی اس کے پورے وجود میں اٹھی۔

منال اسے چھوڑ کے جا چکی تھی یہ حقیقت بہت درد ناک تھی وہ بہن جو ماں کا پر تو تھی منوں مٹی تلے جا سوئی تھی اس نے اپنا سر ہاتھوں پہ گرا لیا آنسوؤں کی روانی میں مزید تیزی آگئی اس کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔

وہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی روتی رہی اسے اندازہ نہ ہوا جانے کتنی دیر گزر چکی ہے۔

وہ تو آسٹریلیا میں یہی سوچ کے خوش تھی کہ منال اور آزر ساتھ میں خوش ہیں منال کو اس کا پیار مل گیا وہ ایک آئیڈیل لائف گزار رہی ہے اپنے پیار کے ساتھ۔اگر وہ اسے خوشی دے کر بے سکون ہے بھی تو یہ اس کے لئے گھاٹے کا سودا ہر گز نہیں تھا منال کی خوشی اس کے لئے سب سے پہلے تھی مگر یہاں تو سب کچھ الٹ تھا وہ لوگ کس تکلیف سے گزر رہے تھے اسے اندازہ ہی نہ ہو سکا وہ اب تک ایک جھوٹی زندگی کی رہی تھی۔

یہ خیال آتے ہی وہ مزید پھوٹ پھوٹ کے رونےگی روتے روتے وہ بلکل نڈھال ہو گئی آنکھیں شدت گریہ کے باعث سرخ ہوکے سوج چکی تھیں۔

اسی اثناء میں کوئی دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا اس نے آنے والے کی طرف دیکھا دلاور صاحب اس کے سامنے یاسیت کی تصویر بنے کھڑے تھے اس نے اپنے بابا کو دیکھا جن پہ وقت نے بہت ستم کئے تھے پہلے جان سے عزیز بیوی کہ وفات اور اب جوان بیٹی وہ سارے غم اپنے سینے میں سجائے مضبوط بنے کھڑے تھے وہ چند قدم اٹھا کے اس کے پاس پہنچے اور اس کے برابر میں بیٹھ گئے شزرا خاموش بیٹھی روتی رہی اس نے ان کی طرف نہ دیکھا وہ بھی سر جھکائے رو رہے تھے۔

"پلیز بابا نہیں روئیں" شزرا نے تڑپ کے ان کی طرف دیکھا اور ان کا جھریوں بھرا چہرہ ہاتھوں میں لے کے ان کے آنسو پونچھے۔انہوں نے اسے سینے سے لگا لیا جانے کتنی دیر تک دونوں مشترکہ غم کا سوگ مناتے رہے۔

"مجھے کیوں نہیں بتایا گیا؟ کیوں مجھے کا علم رکھا گیا؟" شزرا نے ان کے سینے سے لگے بھیگی آواز میں پوچھا رونے کے باعث اس کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔

"منال نہیں چاہتی تھی وہ تمہیں پریشان کرے" بابا نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔

"آپ تو مجھے بتا سکتے تھے بابا" اس نے ایک شکوہ کناں نظر ان کے ڈالی۔

"میں نے بہت کوشش کی مگر اس نے نہیں بتانے دیا" انہوں نے آنسوؤں سے تر لہجے میں کہا۔

"کیا گناہ کیا تھا میں نے جو مجھے اتنی بڑی بات سے بے خبر رکھا گیا" وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کے رودی۔

"وہ چاہتی تھی جب وہ بلکل ٹھیک ہو جائے تو تمہیں بتائے۔۔۔۔۔ازے یقین تھا وہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔مگر۔۔۔۔" بولتے بولتے ان کی آواز رندھ گئی۔

"مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔وہ ہمیں چھوڑ گئی" ان کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا جو ان کی اندرونی کیفیت ظاہر کر رہا تھا۔

"پانچ سال۔۔۔ پورے پانچ سال میں نے اس دھوکے میں گزارے کی آپی خوش ہیں انہیں کوئی تکلیف کوئی دکھ نہیں" اس کی آواز کھوئی کھوئی سی تھی۔

"میں تو ان سے آخری بار مل بھی نہ سکی مجھ سے زیادہ بدنصیب اس دنیا میں کوئی نہیں ہے" وہ خود ترسی کی انتہاؤں پہ پہنچی ہوئی تھی۔

"ایسا نہیں بولو میری بچی خدا تمہارے نصیب بلند کرے" ایک باپ کی تڑپ کا اندازہ اس وقت کوئی نہیں لگا سکتا ایک بیٹی منوں مٹی تلے جا سویا تو دوسری بیٹی بد نصیب ٹہرائی گئی۔

"آپی ہمیں کیوں چھوڑ گئیں بابا۔۔۔۔ہم اکیلے رہ گئے بلکل" وہ بلک بلک کے رو رہی تھی اس کے آنسو ان کے دل پہ گر رہے تھے ان کا اس وقت بس چلتا تو اپنی بیٹی کی جھولی میں سارے جہاں کی خوشیاں ڈال دیتے مگر بے بسی ہی بے بسی تھی۔

دونوں کا دکھ یکساں تھا دونوں ایک دوسرے کا دکھ بانٹ رہے تھے ایک دوسرے کو دلاسے دے رہے تھے شزرا کے لئے اپنے بابا کی موجودگی ایک ستون لگی اور دلاور صاحب تو یہی سوچ رہے تھے کہ اگر شزرا نہیں ہوتی تو وہ اپنا غم کیسے برداشت کرتے۔

دونوں کے لئے ایک دوسرے کی موجودگی غنیمت تھی۔

ان سے کچھ فاصلے پہ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھے آزر قسمت کی ستم ظریفی پہ نالاں تھے وہ یخ بستہ فرش پہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے آنکھوں کے سوتے گیلے تھے کمرے میں گھپ اندھیرا چھایا تھا مگر پورے چاند کی روشنی کھڑکی کے راستے چھن چھن کے کمرے میں پڑ رہے تھی سامنے دیوار پہ منال کی ایک خوبصورت سی تصویر آویزاں تھی یہ ان دونوں کی شادی کی تصویر تھی چاند کی روشنی تصویر پہ پڑ رہی آزر خاموش بیٹھے بس اس تصویر کو تک رہے تھے۔

یہ چار سال انہوں نے جیسے گزارے تھے یہ صرف وہی جانتے تھے ہر دن ایک نیا امتحان ان کے سامنے ہوتا ان چار سالوں میں انہوں نے منال کے سوا کسی دوسرے پہ توجہ نہ دی وہ صرف منال کی ذات میں گم ہو کے رہ گئے۔

منال کا ٹریٹمنٹ کب ہے اسے کچھ ہاسپٹل لے کے جانا اس کی دوائیوں کا وقت ہونے والا ہے وہ صرف اسی میں گھر کے رہ گئے تھے۔

آج انہیں اپنے کمرے کے سونے پن کا شدت سے احساس ہوا وہ وجود وہاں موجود نہیں تھا جس کے لئے چار سال انہوں نے اپنی زندگی کے گنوائے تھے ہاسپٹل اور گھر میں رہ کے ایک ابنارمل لائف گزاری تھی۔

وہ اب خاموش تھے بلکل خاموش جیسے اب انہیں زندگی سے کسی چیز کی چاہ نہیں رہی ہو۔

وہ اندر ہی اندر مر چکے تھے۔

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages