Pages

Saturday 4 February 2023

Tere Ishq Main Pagal Novel By Miral Shah Episode 3 to 4

Tere Ishq Main Pagal Novel By Miral Shah Episode 3 to 4

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tere Ishq Main Pagal By Miral Shah Episode 3'4


Novel Name: Tere Ishq Main Pagal

Writer Name: Miral Shah

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


اج بارات ہونے کی وجہ سے ہر طرف گہمہ گہمی تھی ہر کوی اپنی تیاری مے مصروف تھا زینیا بھی اپنی اور سانیہ کی چیزیں ایک جگہ اکھٹی کر کے رکھ رہی تھی زینیا ہر کام بخوبی سر انجام دے رہی تھی

بارات شام کی تجی اسی لیے سب نے سکون سے تیار ہونا تھا

زینیا اور سانیہ کا ڈریس اج بھی سیم تھا

زینیا تیار تھی اج اسنے بلیک کلر کا لانگ فراق نیچے چوڑی پاجامہ بالوں کو کھلے چھوڑ کر کرل کیا بلیک کلر مے ہیل والی شوز ڈارک ریڈ کلر کی لپسٹک ہاتھوں مے ریڈ چوڑیاں انکھوں مے کاجل وہ اسمان سے اتری کوی حور پری لگ رہی تھی سانیہ کی بھی سیم ڈریسنگ تھی وہ بھی بہت پیاری لگ رہی تھی

...............................

زوار اور احمد نے بھی بلیک کڑتا اوپر براون واسکٹ پہنی تھی یہ دونوں بھی حد سے زیادہ ڈیشنگ لگ رہے تھے تیار ہونے کے بعد زوار صوفے پر بیٹھا فون یوز کر رہا تھا اور احمد بیڈ پر بیٹھا اسکا جایزہ لے رہا تھا

زوار نے احمد کے مسلسل گھورنے پر اسکی طرف   ایسے کیا گھور رہا ہے نظر لگانی ہے کیا

ہاہااہا احمد ہنسا اور پھر بولا

  تجھ جیسے کالے کو کس کی نظر لگنی ہے اور مے دیکھ رہا تھا کہ تو کالے ڈریس مے کالا کوا ہی لگ رہا ہے احمد نے کہ کر دوڑ لگا دی

احمد کے بچے تیری تو تو ہاتھ لگ تیرا قیمہ کروں 

زوار نے غصے سے چلا کر کہا

ہااہاہا یار سچ کڑوا ہی لگتا ہے احمد نے بھاگتے ہوے ہنس کر کہا

زوار نے صوفے سے کشن اٹھا کر اسے مارنے شروع کر دیے پھر کانچ کا گلاس اٹھا کر مارا احمد ساییڈ پر ہو گیا اور گلاس نیچے گر کر ٹوٹ گیا

احمد نے گلاس کو دیکھا پھر زوار کو

یار زوی کیا تیرے واقع مجھے مارنے کے ارادے ہیں یار خدا کے لیے بخش دے اگر تونے مار دیا تو تیرے بچے چاچو کسے کہیں گے اور ابھی میری شادی بھی نہیں ہوی تو بھابھی کسے کہے کا ہاے میرے ابھی نا ہونے والے بچے

احمد چلا چلا کر دوہایاں دے رہا تھا اور زوار اسکی دوہایاں سن کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا

جا معاف کیا زوار ہنسنے کے دوران بڑی مشکل سے بولا

اتنا ہنس چکا تھا کہ اسکی انکھوں مے پانی اگیا اور احمد کھڑا اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا

زوار ایا اور احمد کو گلے لگا کر کہا یار تو ہی میرے ہنسنے کی وجہ ہے اگر تو نہ ہوتا تو مے اب تک مر چکا ہوتا

احم نے اسے الگ کیا اور کہا دوبارہ مرنے کی بات نہ کریں جگر اور پھر سے گلے لگا لیا

اچھا بس کر احمد تو تو رومینس کرنا ہی شروع ہو ہوگیا

زوار نے ہنس کر کہا تو احمد بھی ہنس دیا

چل زوی چلتے ہیں ورنہ علی کا فون ا جاے گا 

...............................

چل زین ریڈی ہے تو ہال کے لیے نکلتے ہیں سانیہ نے کہا تو زینیا نے اسے گھورا اور کہا سانی میرا خیال ہے پہلے ہمیں پارلر جانا ہے اپی کو لینے پھر  ہال کے لیے

ہاں ہاں یاد ہے دادی اماں چلو اب زینیا مسکرا دی

...............................

دونوں ہال مے پہنچے تو سامنے علی کھڑا تھا اسنے ہاتھ ہلایا تو احمد زوار سے کہنے لگا زوی ایسے ہی نینا تجھے ہاتھ ہلاتی تھی یہ کہ کر ہنس کر وہ علی سے ملنے لگ گیا اور زوار بھی گھوری سے نواز کر اسے ملنے لگا

اور سناو سہی سے پہنچ گے علی نے پوچھا تو احمد بولا

نہیں ٹرک مے پہلے بجے تھے پھر پہنچے 

اسکی بات سن کر دونوں ہنسنے لگ گے

یار احمد کبھی تو سیدھا جواب دے دیا کر علی نے کہا تو تو زوار بولا الٹا ہے تو الٹا جواب ہی دے گا نہ

پھر علی بولا ہاں مینے ایک دفعہ اسے الووں کی طرح درخت پر لٹکے دیکھا تھا اور پھر دونوں کا مشترکہ قہقہ گونجا

احمد ان سونوں کو خونخوار نظروں سے گھور کر سٹیج کی طرف چل دیا وہ دونوں بھی اسکے پیچھے چل دیے

زوار کی نظریں زینیا اور احمد کی نظریں سانیہ کو ڈھونڈ رہیں تھی

اور احمد نے خود کو کوسا مے کیوں اس بدتمیز کو ڈھونڈ رہا ہوں اور زوار بھی اپنی کیفیت سے انجان تھا

...............................

زینیا اور سانیہ عایشہ کو لیکر پیچھے والے دروازے سے برایڈل روم مے داخل ہویں

اپی اپ یہاں بیٹھے ہم باہر جا رہے ہیں بارات اتی ہی ہوگی

مے کیلی اسنے گھبرا کر کہا

تو زینیا بولی نہیں اپی اپ بھی ہمارے ساتھ چلیں اسکی بات پر سانیہ ہنس دی اور عایشہ مسکرا دی

...............................

وہ دونوں باہر ای تو زوار اور احمد نے بیقوقت ان کو دیکھا تو دونوں کی نظریں ہٹنے کا نام نہیں لے رہیں تھی

احمد نے خود کو ملامت کیا اور نظریں ہٹا لیں اسنے زوار کی طرف دیکھا تو وہ ہنوز ویسے ہی دیکھ رہا تھا احمد نے اسکے تعاقب مے دیکھا تو وہ زینیا کو دیکھ رہا تھا احمد مسکرایا اور زوار کو کہنی ماری اور کہا اہم اہم اسکریم والی

احمد کی بات سن کر زوار مسکرایا اور نظروں کا زوایہ بدلہ جوکہ بہت مشکل تھا

   اسکریم کھایں گے کشمیر جایں گے

احمد نے ایک انکھ دبا کر گایا تو زوار نے اسکی کمر پر ایک مکہ رسید کیا کہ احمد نے کہا زوی ہاتھ ہے یا پتھر اور کمر سہلانے لگ گیا

بارات اگی کا شور ہوا تو سب لڑکیاں بارات کا استقبال کرنے کے لیے چلیں گی بارات کا بہت اچھے اچھےسے استقبال کیا 

نکاح ہوا اور پھر دلہن کو دلہے کے ساتھ بٹھا دیا اب لڑکیا دلہے کے سر پر کھڑی دودھ پلای کی رسم کر رہیں تھی ایک طرف سانیہ بیٹھی تھی تو ایک طرف زینیا

زوار زینیا کی بیٹھی کی پکس کھینچ رہا تھا کہ احمد احمدنے کہا بس کر بھای فون کی میمری ختم ہو جاے گی تو زوار مسکرایا 

رسموں مے بھی لڑکیوں نے کافی شور مچایا

زینیا اور سانیہ کھڑی خود کی پکس بنا رہیں تھی کہ سانیہ کو اسکی امی نے بلایا تو وہ چلی گی اب زینیا اپنی اکیلی کی پکس بنا رہی تھی کہ اچانک اچانکاسکی نظر زوار پر گی جو گھور رہا تھا زینیا کو وہ کافی ہینڈسم لگا پھر خود کو کوس کر شرمندگی سے سر جھکا گی

تو زوار مسکرا دیا

سانیہ اپنی امی کی بات سن کر زینیا پاس جا رہی تھی کہ احمد ایا اور اسنے کہا کیسی ہو چڑیل 

سانیہ اسکی چڑیل کہنے پر تپی اور بولی خود ہوگے جن بھوت بندر

احمد ہنسا اور پھر بولا نقل چور سیم کلر کیوں پہنا ہے

توبہ توبہ خود ہوگے نقل چور اسنے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا تو احمد پھر ہنس دیا 

احمد کو زوار نے بلایا تو اسنے سانیہ سے کہا پھر ملیں گے چھپکلی اور چلا گیا

تو سانیہ نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا اور زینیا پاس چلی گی

زینیا نے اسکا موڈ اف دیکھا تو پوچھا کیا ہو سانی

تو اسنے ساری سٹوری بتای تو زینیا کا قہقہ گونجا ہنس لے ہنس تو بدتمیز 

اچھا سوری سوری

رخصتی کا شور اٹھا تو ہر طرف اداسی چھا گی ایسے بارات بھی اختتام کو پہنچی۔

شادی ختم ہونے کے بعد زینیا اب اپنے گھر اچکی تھی اب انہیں محنت کرنی تھی کیونکہ دو ماہ بعد انکے پیپر تھے پھر سے وہیں روز مرہ کی روٹین شروع ہو گی تھی

احمد زوار کے گھر ایا ہوا تھا تو انے زوار کو خوشخبری سنای کے عمران جو لڑکیوں کی سمگلنگ کر رہا تھا اس پر چھاپا ڈال کر لڑکیوں کو ازاد کروا لیا ہے

زوار بہت خوش تھا اسے اج بھی خود پر غرور تھا کبھی نہ ہارنے کا غرور

احمد مے بہت خوش ہوں اج پھر ہماری ہی جیت ہوی عمران تڑپ رہا ہوگا کاش مے اسکی تڑپ دیکھ سکتا اور وہ دیکھ سکتا میری انکھوں مے جیت ہاہاہہاہا

فکر نہیں کر زوی وہ اور تڑپے گا جیت ہماری ہی ہوگی

زوار یار کچھ کھلا ہی دے احمد نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا تو زوار ہنسا اور کھانے کے لیے کچھ منگوایا

کھانا کھانے کے بعد احمد فون یوز کرنے لگ گیا

تو زوار بھی فون مے زینیا کی پک دیکھ کر مسکرانے لگ گیا

احمد نے زوار کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا 

کیا بات ہے زوی بڑا مسکرایا جا رہا ہے احمد نے مشکوک نظروں سے کہا

احمد یہ مجھے چاہیے زوار نے بے خودی مے کہا

کون چاہیے احمد نے نا سمجھی سیے کہا اور اسکے اسکےپاس جا کر بیٹھ گیا

یہ چاہیے زوار نے فون احمد کے سامنے کر دیا تو احمد کو حیرت کا جھٹکا لگا 

نہیں زوار یہ بہت معصوم ہے تو اسسے دور رہ سمجھا احمد نے سنجیدگی سے کہا

احمد یہ بہت خوبصورت ہے زوار نے بے ساختہ کہا 

زوار تجھے لڑکی ہی چاہیے نہ رات گزارنے کے لیے تو لڑکیاں مر رہی ہیں تیرے لیے تو ان مے سے کسی ساتھ گزار لے احمد نے دل پر پتھر رکھ رکھکر کہا ورنہ احمد کی پوری کوشش ہوتی تھی وہ ان سب سے دور رہے اور اج خود اجازت دے رہا تھا

نہیں یہ مجھے رات گزارنے کے لیے نہیں شادی کرنی ہے اس سے

زوار کی بات سن کر احمد کو جھٹکا لگا کہ زوار اور شادی احمد تو سوچ رہا تھا وقتی طور لگاو ہوگا پر یہاں تو کام ہی الٹا تھا 

بھای تو سیریس ہے سوچ لے تو کیا کہ رہا ہے ہوش ہوشمے تو ہے اگر نہیں ہے تو اجا جانی احمد نے اسے سمجھایا

نہیں احمد مجھے یہ چاہیے ہر حال مے چوہیے زوار بصد ہوا

زوار یہ کوی چیز نہیں ہے جا تجھٕ چاہیے جس کے لیے تو صد کر رہا ہے

احمد نے تھوڑا غرا کر کہا 

زوار نے احمد کے ہاتھ پکڑے اور کہا احمد یہ مجھے چاہیے میرا دل اسکے لیے تڑپ رہا ہے دل صد لگا کر بیٹھا ہے میرٕے ساتھ مجھے اسے محبت ہوگی ہے نہیں شاید عشق تو سمجھ رہا ہے نہ میری بات

احمد تو عشق کا لفظ سن کر ہی ٹھٹکا 

زوار عشق کر سکتا ہے زوار تو وہ ہے جو صرف رات گزارنا اور لڑکیوں ساتھ وقت گزاری کرتا تھا

زوار میری بات سن یہ بھی صرف وقت گزاری ہو تو ایسا کچھ نہ ہو تو بس اسے اپنے اوپر سوار کر کے بیٹھا ہو 

احمد کو سمجھ نہیں ارہا تھا اسے کیسے سمجھاے

احمد پلیز مجھے یہ چاہیے مر جاے گا تیرا بھای اسکے بغیر

زوار نے سرخ انکھوں ے کہا

احمد تو زوار کو ایسے دیکھ کر ہی تڑپ اٹھا وہ تو توزوار کے لیے دنیا چھوڑ سکتا تھا اسکی خوشی خوشیکے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا پھر وہ ایک لڑکی اسے کیسے نہیں دے سکتا تھا پر جب اسکا معصوم چہرا اسکے ذہن مے اتا تو احمد بے بس ہو جاتا پر احمد زوار کو چھے سے جانتا تھا اگر اگراسنے شادی کا فیصلہ کیا ہے تو ضرور کچھ ہے

ٹھیک ہے زوار مے تیرے ساتھ ہوں ہم اسکا رشتہ اسکے گھر لینے جایں گے 

نہیں احمد مانگنا نہیں زوار شاہ  جو چاہتا ہے وہ حاصل کر کے رہتا ہے 

ہاں ہاں زوی میرا مطلب وہ نہیں تھا وہ تیری ہے احمد نے صبر کے گونٹ بھر کے کہا

تو زوار احمد کے گلے لگ گیا

...............................

زینیا گراونڈ مے کتابوں مے سر دے کر بیٹھی تھی اور سانیہ بور ہو رہی تھی

چل زینی کینٹین مے میں بور ہو رہی ہوں

بور ہو رہی ہے تو پڑھ لے

نہیں چل اٹھ یار

سانی ہمارے پاس دو مہینے ہیں مارچ اینڈ فیب اگزیمز ہیں اپریل مے پڑھ لے

افففف زینی دو ماہ ہیں ابھی دو منٹ اٹھ جاے گی تو کچھ ہو نہیں جاتا

اہہہہہہ اچھا زینیا نے ہار مانی اور اثھ کھڑی ہوی

ہاہووووووووو سانیہ نے یاہو کا نعرہ لگایا تو زینیا مسکرا کر اسکا ہاتھ پکڑ کر لے گی

...............................

شاہ نے عمران کو فون ملایا تو اسنے اسنے اٹھایا اور طیش سے بولا

کمینے انسان مے جانتا ہوں یہ تیرا ہی کام ہے مے تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا

اور زوار نے قہقہ لگایا اور ہنستا چلا گیا

کیا ہوا یار عمران اتنے غصے مے کیوں ہو ے ایسا کیوں کروں گا اخر تو میرے پاپا کا دوست ہو اسنے دوست پر خاصہ زور دے کر کہا تو احمد سامنے سامنےبیٹھا سگریٹ پیتا ہنس دیا

زوار کی بات سن کر عمران نے غصے مے فون زمین پر دے مارا اور زوار کا قہقہ گونجا

عمران غصے مے ادھر اُدھر چکر کاٹ رہا تھا

اسکو تو مے نہیں چھوڑوں گا شاہ تو مرے گا

اسنے اپنے سیکرٹری سے دوسرا فون لیا اور حمزہ کو فون کیا اور کہا زوار شاہ کو جان سے مار دو اسکا مے تمہیں ٥کڑوڑ دوں گا کام کرکے بتانا اور اسکی سنے بنا فون کاٹ دیا

...............................

احمد فون مے کچھ دیکھ رہا تھا اور دیکھ کر مسکرایا اور زوار کو مخاطب کیا 

زوار اسکریم والی کا پتا چل گیا ہے

چل بول زوار نے سنجیدگی سے کہا

اسکا نام زینیا ہے گھر مے یہ اسکا بھای اور بھابھی ہوتے ہیں اسکے ماں باپ نہیں ہے سیکنڈایر مے پڑتی ہے اسکی بیسٹ مرینڈ إیک ہی ہے اور وہ ہے سانیہ علی کی بہن اسکے بھای کا رویہ اسکے ساتھ کچھ خاس نہیں ہے

احمد نے بول کر لمبا سانس لیا جیسے کوی جنگ فتح کی ہو ویسے یہ بھی جنگ سے کم نہیں تھی زوار سن کر خاموش ہوا اور جب بولا تو احمد کا پارا ہای کر گیا 

زوار کمینے لانتی کتنے مزے سے کہتے سہی ہے بدتمیز انسان 

ہاہاہہاہا احمد اتنا ہایپر کیوں ہو رہے ہو پوری بات تو سن لے مے کہنے لگا تھا چل پیزہ کھاتے ہیں 

تو پوری بکواس کرنی تھی نہ

اچھا چل اب پہلے میٹنگ اٹینڈ کرتے ہیں پھر پیزہ کھایں گے۔۔

زوار اج بہت خوش تھا اج اسکے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہی نہیں ہو رہی تھی اسنے بلیک پینٹ شرٹ اوپر جیکٹ پہنی ہوئی تھی اسنے والٹ کار کی چابی اور موبائل اٹھا کر بالوں میں ہاتھ پھیرتا نیچے اگیا اسنے احمد کو فون ملایا

احمد جو فون پر گیم کھیل رہا تھا جگز کالنگ دیکھ کر مسکرایا اور یس کیا

بول جگر

کہاں ہے تو

ارے بے صبرے ارہا ہوں ارہا ہوں احمد نے مسکراہٹ دبا کر کہا

اچھا رک میں تجھے لینے کے لیے اتا ہوں یہ کہ کر اسنے فون کاٹ دیا

اور قاسم کو فون لگا کر احمد کے گھر انے کو کہا

قاسم احمد کے گھر پہنچا تو احمد نے اس سے پوچھا 

تم یہاں

تو قاسم نے کہا شاہ ساٸیں نے بلایا ہے

...............................

اج سنڈے ہونے کی وجہ سے زینیا گھر پر ہی تھی صبح سے ہی کمرے میں بند تھی کیونکہ اج صبح صبح بھابھی نے اسکی بےعزتی کی تھی

اور صبح سے رو رہی تھی اب اٹھ کر فریش ہو کر کرواشروم میں چلی گی

...............................

احمد زوار ایک گاڑی میں اور قاسم ایک گاڑی میں تھے احمد نے گاڑی زینیا کے گھر کے سامنے روکی احمد نے زوار سے کہا اگیا بھابھی کا گھر اور ساتھ میں مسکراہٹ پاس کی 

دونوں اسوقت صوفے پہ بیٹھے اور قاسم پیچھے کھڑا تھا سامنے زینیا کا بھای اور بھابھی بیٹھے تھے

احمد نے زینیا کا مطالبہ کیا تو فرقان بولا دیکھیں مسڑ ہم ابھی زینیا کی شاد نہیں کرنا چاہتے

٥کڑوڑ زوار نے فرقان کی بات پر دھیان دیے بغیر کہا کیونکہ احمد نے زوار کو بتایا تھا کہ فرقان بہت لالچی ہے 

٥کڑوڑ سن کر فرقان اور اسکی بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اتنی رقم تو انہوں نے کہیں نہیں دیکھی تھی

فرقان کی بیوی نے اسے لینے کا اشارہ کیا وہ تو پہلے کسی طرح اس سے جان چھڑوانا چاہتے تھے تو توکیسے لینے سے انکار کرتے اور جھٹ سے ہاں ہاںکر ردی 

تو زوار اج پھر اپنی جیت پر کھل کر مسکرایا 

اور احمد نے افسوس سے سر ہلایا کے سب رشتے میلے ہو گے ہیں 

زینیا کی بھابھی اسکے کمرے میں اسکے پاس ای اور کہا چلو

کہاں بھابھی

جان چھوٹ گی ہے تم سٕے

مطلب

بیچ دیا اور ساتھ میں قہقہ لگایا

نہیں اپ مزاک کر رہی ہیں نہ اسنے خود کو تسلی دیتے ہوے کہا

مزاک نہیں میری جان مزاک نہیں چلو اب

نہیں بھابھی زینیا رو رہی تھی اور اسکے رونے کا اسکی بھابھی پر کوی اثر نہیں ہو رہا تھا وہ اسے کھینچتی ہوی ڈراینگروم میں لای زینیا نے انسوں بھری انکھوں سے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا تو ٹھٹھکی لیکن زینیا کو اسوقت ہوش نہیں تھا کہ وہ اس طرف دھیان دیتی 

وہ اپنے بھای کے پیروں میں بیٹھ گی اور کہنے لگی 

بھای بھابھی جھوٹ بول رہی ہیں نہ ا۔اپ مجھ سے پیار کرتے ہیں نہ

نہیں کرتا میں پیار نفرت ہے مجھے تم سے سمجھی سوتیلی ہو تم میری

فرقان نے نفرت سے کہا 

احمد کو اسکی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور زوار زوار کو بھی غصہ ارہا تھا کہ زینیا اسکے پیروں میں بیٹھی اسکی منتیں کیوں کر رہی ہے

چلو زینیا زوار نے صرف اتنا ہی کہا

زینیا نے زوار کی طرف دیکھا اور اپنے بھای سے کہا نہیں بھای پلیز مر جاوں گی میں 

لے جاٸیں شاہ صاحب اپنی امانت کو فرقان نے زینیا کی بات پر غور کیے بنا زوار سے کہا تو زوار زینیا کا بازو پکڑ کر اسے لیجانے لگا اور قاسم سے کہ کر انہیں رقم دے دی زینیا اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی 

زوار نے لاکر اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا کر لاک کر دیا

اور خود اگے اکر بیٹھ گیا احمد ڈرٸیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا 

زینیا بار بار دروازہ بجا رہی تھی احمد کو اس پر بہت ترس ارہا تھا

چلو احمد زوار نے ایک نظر زینیا کو دیکھ کر کہا

جب گھر زینیا کی نظروں سے دور ہوا تو منے ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگ گی

زوار کو اسکا رونا تکلیف دے رہا تھا 

رونا بند کرو زوار نے غصے سے کہا تو زینیا سہم گی اور احمد نے اسے گھورا تو زوار پیار سے بولا

بٹرفلاے رونا بند کرو تمہارا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے

پلیز اپ مجھے گھر چھوڑ دیں وہ ضرور مجھ سے کسی بات پر ناراص ہوں گے میں انہیں منا لوں گی اسنے روتے ہوے کہا

نہیں کرتے وہ تم سے محبت زوار نے اپنا لہجہ نرم رکھ کر کہا تو وہ گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گی

احمد نے گاڑی اپنے اور زوار کے مشترکہ فلیٹ کے کےسامنے روکی زوار نے زینیا کو باہر نکالا اور ایک کمرے میں لاکر بند کر دیا اور زینیا دروازہ بجانے لگ گی جب دروازہ بجا بجا کر تھک گی تو رونے لگ گی

زوار صوفے پر بیٹھا سگریٹ پینے لگ گیا اور قاسم سے کہا قاسم اڈے پر جاو اور دو بھروسہ مند ادمیوں کا انتظام کرو اور ایک کام والی کا بھی 

تو وہ جی شاہ کہتا وہاں سے چلا گیا

اب کیا کرنا ہے احمد نے زوار سے پوچھا

فل حال تو رات کی فلایٹ ہے میری میں وہاں جارہا ہوں باقی اکر دیکھتا ہوں تو گھر چکر لگاتا رہیں 

اوکے 

زینیا بیٹھی رو رہی تھی اور ساتھ میں دعا کر رہی تھی کہ الله اسکی عزت کی حفاظت کرے اور سوچ رہی تھی کہ اسکا بھای ایسا بھی ہو سکتا ہے یہی سب سوچتے سوچتے کب اسکی انکھ لگی اسے پتا نہ تھا

Aftet Two days

زینیا سوچ رہی تھی کہ دو دن ہوگے اسے یہاں اے ہوے ایک عورت اتی اور اسے کھانا دے کر چلی جاتی اور منتیں کرتے کہ کھا لیں ورنہ شاہ جی ہمیں چھوڑیں گے نہیں اور زینیا اس کا خیال کر کے کھا لیتی اور سوچتی انکا شاہ جی میرے ساتھ کیسا سلوک کرے گا اور پوری کانپ جاتی

یہں سوچتے اسنے کمرے میں میں نظر دوڑای اانے تو اج غور کیا تھا کمرہ بہت خوبصورت تھا ہر چیز ترتیب میں رکھی ہوی تھی

اسنے دیکھا ایک جالی کا دروازہ تھا اسنے کھول کر دیکھا تو وہ ٹیرس تھا زینیا کمرے مے ای اور چادر اپنٕے اوپر اوڑ کر ادھر ادھر نظر گھما کر چھلانگ لگا دی  تو اسنے دیکھا وہ ایک خوبصورت سا گارڈن تھا یہ اس پاس نظر دوڑاتے ہوے دروزے کہ پاس پہنچی دروازے کہ سوراخ سے باہر دیکھا تو ایک ادمی کرسی پر بیٹھا سویا ہوا تھا تو دوسرا دوسری طرف منہ کر کہ بیٹھا تھا

اسنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دیوار کہ ساتھ ہوتی ہوتی باہر نکا گی یہ سوچے بنا کہ اب یہ کہاں جاے گی

زوار اج خوشی میں گھر ایا کہ وہ زینیا کو دیکھ سکے سکےگا پر جیسے ہی دروازہ کھولا کمرہ خالی تھا اسکے ماتھے پر بل پڑے واشروم دیکھا تو واشروم بھی خالی تھا اسنے غصے میں ماسی کو اواز دی اور زینیا کا پوچھا تو انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا کمرے میں ہی تھی اسنے پورا گھر دیکھا وہ وہاں نہیں تھی اسنے احمد کو فون کر کہ بلایا اور باہر کھڑے پہرےداروں کو بھی اور غصے میں چلا کر پوچھا تو وہ دونوں گھبرا گے 

شاہ جی کوی باہر نہیں گیا 

باہر نہیں گی تو کہاں گی اسے زمین نگل گی یہ اسمان کھا گیا گی تو گی کہا 

تب تک احمد بھی رش ڈریونگ کرتا پہنچ چکا تھا 

شاہ جی ہمیں نہیں پتا یقین جانیں وہ دونوں زوار کے قدموں میں بیٹھے گڑگڑا رہے تھٕے

کیونکہ دونوں جانتے تھے اسکا انجام شاہ کی عدالت میں صرف موت ہے

قاسم جو زوار سے ملنے ایا تھا اسے غصے میں دیکھ کر سہم گیا

شاہ جی اسنے ڈرتے ڈرتے بلایا

دل تو کر رہا ہے تم دونوں کو شوٹ کر دوں تم دونوں کہ ہوتے وہ بھاگی کیسے 

قاسم بندوق لے کر او ان دونوں کا کام تمام کروں

پلیز معاف کر دیں شاہ جی وہ دونوں گڑگڑانے لگے

جاو تم دونوں احمد نے ان دونوں کو کہا 

تو زوار نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھا

زوار یہ وقت غصے کا نہیں ہمیں اسے ڈھونڈنا ہوگا

زوار وحشی ہو چکا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ دنیا تباہ کر دے 

زوار چل ڈھونڈتے ہیں احمد اسے لے گیا 

زینیا بھاگتی ہوی جارہی تھی کہ کچھ لڑکوں میں ٹکرای سوری سوری یہ کہ کر وہ جیسے مڑی تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اسکی سانسیں رک گیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جیسے ہی پیچھے مڑی زوار کو کھڑا دیکھ کر اسے اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا

زوار اسکی طرف بڑھا تو وہ اپنے پیچھے کھڑے لڑکوں کے پیچھے چھپ گی اور کہا

پلیز بچا لیں

اسکی بات سن کر زوار کے تیور بدلے 

ادھر او اسنے غرا کر کہا

پلیز بچا لیں وہ زوار کو اگنور کر کے لڑکوں سے کہنے لگی

مینے کہا ادھر او سنا نہیں زوار نے غصے سے چلا کر کہا

تو وہ سہم گی اور مدد طلب نظروں سے لڑکوں کی طرف دیکھا

ان میں سے ایک لڑکا اگے بڑھا اور زوار کو دھکا دیا اور کہا کیوں بے اس لڑکی کو چھیڑتا ہے

زوار نے پہلے لڑکے کو دیکھا اور پھر ہاتھ کو اور اسکے منہ پر مکہ دے مارا وہ برداشت نہ کر سکا اور گر گیا اسکا بازو جس سے اسنے دھکا دیا تھا وہ مڑوڑ دیا احمد فوراً اگے بڑھا اور اسے چھڑوایا

وہ لڑکے بھاگ گے اور دوسرا لڑکا بھی اپنا ہاتھ پکڑتا بھاگ گیا 

زینیا بھگنے لگی کہ زوار نے اسکو بازو سے دبوچ کر کھینچا اور خود سے قریب کیا 

کہا جا رہی ہو بٹرفلاۓ 

زینیا کو اسکی انگلیاں بازو میں گڑتی محسوس ہو رہیں تھی اسکی انکھوں سے انسو نکلنے لگ گے

احمد اگے ہو کر زوار کو دھکا دیا اور زینیا کو گاڑی میں بٹھایا زوار بھی اپنا غصہ ضبط کرتا گاڑی میں بیٹھ گیا

گھر پہنچ کر احمد نے زینیا کو کمرے میں بھیج کر دروازہ بند کر دیا زوار غصے سے باہر چکر کاٹ رہا تھا اور احمد اسے گھور رہا تھازوار رکا اور بند دروازے کو دیکھا اندر جانے لگا کہ احمد نے روک لیا 

غصے کو ٹھنڈہ کر

کچھ نہیں کرتا زوار نے کہا اور اندر چلا گیا

زینیا بیٹھی رو رہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی اواز سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو زوار تھا زینیا ڈر کر کھڑی ہو گی

زوار نے زینیا کو بازو سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا اسکی انگلیاں زینیا کو بازو میں چبھ رہیں تھی اسکے چہرے پر صاف زوار کے خوف کے چہرے لہرا رہے تھے

کیوں یہاں سے بھاگی تھی تم ہاں جواب دو اسنے تھوڑا غرا کر کہا

وہ وہ میں زینیا ہکلا رہی تھی

کیا وہ تم بولو

مجھ۔ے لگا آ۔آپ کہ پا۔س میری عز۔ت مح۔محفوظ نہیں آ۔آخر خریدہ ہے اپ۔نے مج۔مجھے اسنے اٹکتے ہوے کہا

اسکی بات سن کر زوار کو بے انتہا غصہ ایا اسنے پاس شیشے کا جگ پڑا تھا وہ اٹھا کر زمین پر مارا تو وہ ٹکرے ٹکرے ہو گیا

زینیا یہ دیکھ کر سہم گی اور رونا شروع ہو گی

احمد اندر ایا تو اندر کا منظر دیکھ کر اسکا دماغ گھوم گھومگیا 

اسنے خود پر قابو پا کر اسے دور دھکا دیا زوار دوبارا اگے بڑھا تو اسنے اسے مکا مارا تو وہ نیچے گر گیا 

زوار نے زمین پر مکا مارا اور دوبارا اٹھا کہ احمد دوبارا اگے ایا پر زوار نے اسے دھکا دے دیا اور احمد لڑکھڑاتا ہوا کانچ کے ٹکروں کے پاس گرا کانچ کانچکے کچھ ٹکڑے اسکے باٸیں ہاتھ میں دھنس گے اسنے اپنے ہاتھ کو دیکھا جہاں سے خون نکلنا شروع ہو چکا تھا

احمد نے زوار کو دیکھا جو ایک ہاتھ سے زینیا کے بال پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے اسکے منہ کو دبوچے کہ رہا تھا 

تم نے مجھے درندہ سمجھ لیا ہے تو کیوں نہ بن کر دیکھا دوں

احمد نے اپنے ہاتھ سے بےدردی سے کانچ کے ٹکڑے نکالے اور زوار کی طرف بڑھ کر اسے پرے دھکیلا اور انگلی اٹھا کر کہا

اگر تو بھابھی کے پاس بھی ایا تو اسے تجھ سے اتنا دور کر دوں گا کہ تو اس تک کبھی نہیں پہنچ پاے گا اور تو جانتا ہے میں ایسا کر سکتا ہوں

زوار نے اپنی لال انگارہ انکھوں سے اسکی طرف دیکھا اور تھوڑا دور ہو کر اپنا ماتھا مسلنے لگ گیا اور پھر بولا

احمد مولوی کا انتظام کر اس سے اج ابھی اور اسی وقت نکاح کرنا ہے وہ یہ کہ کر باہر چلا گیا تو احمد نے بےبس نظروں سے اسکی طرف دیکھا جس کا چہرہ انسوں سے تر ہو چکا تھا

بھابھی احمد نے صرف اتنا کہا

نہیں بھای پلیز مجھے انسے شادی نہیں کرنی یہ بہت برے ہیں مجھے ماریں گے 

احمد کا دل اسکی بات پر کٹ گیا

اسنے زینیا کو بیڈ پر بیٹھایا اور خود کچھ فاصلے پر پربیٹھ گیا

دیکھیں بھابھی وہ بہت اچھا ہے اپ سے بہت پیار کرتا ہے بس تھوڑا غصے کا تیز ہے میں اسے سمجھاوں گا وہ دوبارہ ایسے غصہ نہیں کرے گا اسے اچھا نہیں لگا اپکا ایسے بھاگنا میں وعدہ کرتا ہوں بھای کہا ہے تو بھای پر ایک بار یقین کریں اپ پریشان نہیں ہوں میں اپکی دوست سانیہ کو بھی لے اتا ہوں

تو زینیا نے کہا پکا بھای وہ برے نہیں ہیں

نہیں پیاری بہنا اسنے پیار سے سر پر چپٹ لگا کر کہا تو زینیا ہنس دی

احمد نے اسے پہلی بار ہنستے دیکھا تھا بھابھی اپ ہنستی بھی ہیں مجھے تو لگا بس روتی ہی ہیں احمد نے ہنس کر کہا 

تو وہ منہ بنا کر بیٹھ گی

اچھا اچھا سوری بہنا میں جارہا ہوں اس نواب زوادے زوادےنے مولوی صاحب کا اڈر دیا ہے اوکے وہ یہ کہ دو قدم ہی چلا تھا کہ زینیا نے کہا

اپ سانیہ کو لے اٸیں گے

تو احمد نے پیچھے مڑ کر مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور چلا گیا

زوار کھڑا سگریٹ پر رہا تھا کہ احمد اسکے پاس سے ہو کر گزر گیا

اسنے قاسم کو ساتھ انے کا کہا قاسم کے ساتھ مولوی کو بھیج کر اسنے علی کو فون کیا اور ساری سچویشن بتای

احمد یار میں تو اسلام اباد ہوں تو سانیہ کو لیجا

احمد نے اس سے سانیہ کا نمبر لیا اور اسے فون کیا 

سانیہ نے تیسری بیل پر فون اٹھایا اور کہا 

       کون؟

      احمد ہوں

        کون احمد؟

علی کا دوست

کونسا دوست اسکے اتنے دوست ہیں

یور چھپکی میں ہوں اسنے جھنجلا کر کہا

اوہ بندر تو تم ہو کیا ہے اور میرا نمبر کہا سے لیا

تمہیں لینے ارہا ہوں تمہارے گھر سے ریڈی رہا

اسنے اس کی بات ک اگنور کر کے کہا اور فون کاٹ دیا

احمد نے اسکے گھر کے سامنے پہنچ کر اسے باہر انے کا کہا

سانیہ باہر ای تو احمد گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا تھا

کیا ہے سانیہ نے گھور کر کہا

چلو میرے ساتھ 

کیوں میں کیوں جاو تمہارے ساتھ تم مجھے اگواہ کر لو تمہارا کیا بھروسا

بدتمیز لڑکی تمہارے بھای کو پتا ہے اور اس سے ہی تمہارا نمبر لیا ہے

کیا پتا تم جھوٹ بول رہے ہو

بسسس سکون سے ا کر بیٹھو اب تمہاری اواز نہ اے احمد نے غصے میں کہا تو سانیہ ڑر کر بیٹھ گی

گاڑی مین روڈ پر ای تو احمد نے کہا 

سوری

اٹس اوکے

اسنے نروٹھے پن سے کہا

یار میں اگے پریشان ہوں تمہارے سوالات ہی ختم نہیں ہو رہے تھے تو غصہ اگیا

اٹس اوکے کہاں لے کر جا رہے ہو

وہ دراصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسنے ساری سٹوری سانیہ کو بتایا

او ماے گاڈ اتنا سب کچھ ہو گیا زینیا کہ ساتھ وہ ٹھیک تو ہے نہ اسنے انکھوں میں انسو لے کر کہا

ہاں ٹھیک ہے رونا مت پلیز

تو اسنے اپنی انکھیں رگڑیں 

اچھا سوری سانیہ میں غصے میں تھا

سانیہ نے پہلی بار اسکے منہ سے اپنا نام سنا تو اسکی ہارٹ بیٹ مس ہوی اور پھر خود کو سنبھال کر کہا

کوی بات نہیں

اور سوچا بندہ تو غصب کا ہے پھر خود ہی اپنی سوچ پر لانت بھیجی۔

احمد نے سانیہ کو زینیا کے کمرے میں چھوڑا اور خود ڈراٸینگ روم میں چلا گیا زینیا نے سانیہ کو دیکھا تو اسکے گلے لگ کر خوب روی سانیہ نے اسکو کافی تسلیاں دی

احمد نے مولوی کو ساتھ لیا اور زینیا کے کمرے میں چلا گیا

سانیہ نے اسکے اوپر دوپٹہ اوڑھ دیا زینیا نے بڑی مشکل سے تین بار قبول ہے کہا اور سگنیچر کیے 

زینیا کے گواہ میں احمد سانیہ اور ماسی تھٕے

پھر احمد ڈراینگ روم میں مولوی صاحب کے ساتھ ایا احمد دروازے میں کھڑا تھا کہ زوار اسکے پاس ایا اور کچھ کہنے لگا کہ اسکی نظر اسکے ہاتھ پر گی

احمد یہ کیا ہوا تیرے ہاتھ کو خون جم گیا ہے تونے پٹی کوں نہیں کی جب یاد ایا یہ اسکا زخم دیا ہو ہے تو بولا سوری یار

احمد نے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اور مولوی صاحب کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا 

زوار کو احمد کے اس رویے نے بہت تکلیف دی 

مولوی صاحب نے دلہے کو بلانے کو کہا تو احمد نے اسکی طرف دیکھے بنا کہا 

شاہ اجاو نکاح کے لیے دیر ہو رہی ہے 

تو زوار خود پر ضبط کرتا اسکے ساتھ اکر بیٹھ گیا پر احمد اٹھ کر سامنے قاسم کے ساتھ کھڑا ہو گیا زوار اپنے لب بھینچ کر رہ گیا تو کیا احمد اس سے سےناراض ہو گیا تھا

نکاح کے بعد زوار احمد سے ملنے لگا تو احمد زینیا کے کمرے میں چلا گیا

ایک انسو اسکی انکھ سے ٹوٹ کر گرا تو کیا احمد اس سے اس قدر ناراص ہو گیا تھا کہ اسکے نکاح کی مبارکباد تک نہیں دی وہ جو کہتا تھا احمد مجھے تیری شادی کا بہت شوق ہے وہ اج اس سے ملا تک نہیں تھا

زوار خود کو کمپوز کرتا دوسروں سے ملنے لگ گیا

سانیہ بیٹھی زینیا کو سمجھا رہی تھی کہ احمد ایا اور کہا

کیا پٹیاں پڑھای جا رہیں ہیں میری بھابھی پلس بہنا کو

کوی پٹیاں وٹیاں نہیں پڑھا رہی تمہارا ٹانگ اڑانا ضروری ہے کیا اسنے جل کر کہا

اوہ میڈم مینے تو پٹیوں کا کہا ہے وٹیوں کا تو نام بھی نہیں لیا ویسے یہ ہوتا کیا ہے اسنے مسکراہٹ دبا کر کہا

تم اپنے کام سے کام رکھو اسنے تپ کر کہا

دونوں چپ کرو کیوں پاگلوں کی طرح لڑ رہے ہو زینیا نے تنگ ا کر کہا

ہمیں کہ رہی ہو زینی

نہیں تم دونوں کے علاوہ کوی اور پاگل ہے کیا تو دونوں نے زینیا کی طرف اشارہ کیا اور پھر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑے اور زینیا منہ بنا کر بیٹھ گی 

جب سانیہ کو لگا کہ یہ زیادہ فرینکلی ہوگیا تو اسنے احمد سے کہا اب زیادہ خوش فہمی میں نہ رہنا بندر

اور احمد ہنس دیا پاگل لڑکی

اچھا زینی میں چلتی ہوں کافی وقت ہو گیا ہے 

میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں

نہیں میں چلی جاوں گی شکریہ وہ یہ کہ کر باہر چلی گی

بھابھی جی اپ فریش ہو جاٸیں کھانا اے گا کھا لینا اور پھر ارام کر لیجیے گا

وہ یہ کہ کر باہر چلا گیا

باہر زوار کھڑا تھا اسکے پاس سے ہوتے ہوے بغیر کوی بات کیے سانیہ پاس چلا گیا زوار نے مٹھیاں بھینچی

روکو چھوڑ اتا ہوں رات ہو گی ہے کیسے جاو گی

جیسے بھی جاوں تم کو اس سے کیا

کہا نہ چھوڑ اتا ہوں

نہیں چلی جاوں گی اسنے ضدی لہجے میں کہا

شششش احمد نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور دو قدم اگے ہو کر اسکے قریب ہو گیا اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے کھینچ کر خود سے اور قریب کر لیا 

سانیہ تو مرنے والی ہو گی

چھوڑ اتا ہوں تو ضد کیوں کر رہی ہو تم

اسنے یہ کہ کر اسکے بال کان کے پیچھے کیے اور شرارت سے کہا ویسے تمہیں دیکھ کر کچھ ہوتا ہے دل کو اور اس سے دور ہو گیا

سانیہ تو فل سپیڈ سے واہاں سے بھاگی اور احمد کا قہقہ گونجا 

زینیا فریش ہو کر لیٹ گی تھی اور سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں اب اسکی اگے زندگی میں کیا ہوگا اسے بس اتنا پتا تھا یہ زینیا ملک سے زینیا شاہ بن گی تھی

زوار سگریٹ پر سگریٹ پر رہا تھا کہ احمد ایا احمد اسے اگنور کرتا صوفے پر لیٹ گیا اور فون یوز کرنے لگ گیا

احمد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احمد یار زوار نے اسے اوازیں پر اسنے انسنی کیں 

یار احمد بات تو سن

تو احمد نے زوار کی طرف دیکھا اور اور ہینڈفری نکال کر کانوں میں لگا لی

اس حرکت نے زوار کو غصہ دلایا اور اسنے ایشل ٹرے زمین پر دے مارا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا

احمد نے یہ دیکھا تو اسکا دماغ گھوم گیا اٹھا اور اسنے زوار کو گربان سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا تو سمجھتا کیا ہے خود کو جب غصہ اے توڑ پھوڑ شروع کر دے اب کچھ بھی توڑا نہ تو تیرا منہ توڑ کر رکھ دوں گا

احمد کی بات سن کر اسے صوفے پر گریا اور خود اس پر چڑھ کر بیٹھ گیا

میں تو اپنے اپ کو زوار شاہ اور تیرا جگر سمجھتا ہو اور یار تو ناراض کیوں ہو رہا ہے سوری نہ زوار نے بےچارگی سے کہا

تو احمد نے منہ دوسری طرف کر لیا

یار احمد مت کر ایسا تو جانتا ہے تیری ناراضگی مجھ سے برداشت نہیں 

تو تو بھی غصہ مت کیا کر اپنے کام سیدھے کر لے

یار سوری نہ اب کیا کروں جو تو مانیں گا

زوار پیچھے ہو کر بیٹھ گیا احمد بھی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا احمد نے زوار کی طرف دیکھا جسکا چہرہ ضبط کرنے سے سرخ ہو چکا تھا زوار نے اسکی طرف دیکھا تو ایک انسو اسکی انکھ سے گرا تو احمد تڑپ کر رہ گیا یار زوی رو نہیں اور کس کے گلے لگا لیا

سوری اچھا اچھا ٹھیک ہے نہیں ہوں ناراض

احمد تو نکاح کے بعد ملا بھی نہیں جانتا ہے کتنا دل دکھا ہے میرا 

میرا بہت دل تھا کہ تجھ سے ملوں پر وہ کیا ہے نہ کہ تجھے سزا دینا بھی ضروری تھا اور ساتھ میں دانتوں کی نمایش کی

اچھا ایک منٹ

زوار فرسٹ ایڈ باکس لایا اور اسکے ہاتھ کی پٹی کرنے لگ گیا اور احمد اسکے فون پر گیم کھیلنے لگ گیا

پٹی کرنے کے بعد اسنے احمد سے پوچھا زینیا کیسی ہے

یار زوی تونے بہت ڈرایا ہے اسے بڑی مشکل سے سمجھایا ہے خدا کے لیے تو اسکے سامنے غصہ مت کیا کر کنٹرول کر لیتا غصہ 

یار اسکی حرکت نے غصہ دلایا تھا 

ویسے زوار ایک بات پوچھوں اسنے کافی سنجیدگی سے کہا

ہاں بول

میری ساری زندگی تجھے سنبھالتے سنھالتے گزر جانی ہے

ہاہہاہاہااہا فکر نہیں کر تیری بھابھی اگی ہے ادھی زمہ داریاں وہ لے لے گی

خاک لے گی زمہ داریاں تیرے نام سے اسکے ہوش اڑ جاتے ہیں وہ تجھے سنبھالے گی

ہاہاہا کعی نہیں ڈر ختم کر دیں گے

اچھا زوی کمرے میں جا بھابھی کو تیری ضرورت ہے

اوکے میں چلتا ہوں خیال رکھیں

اوکے

زینیا نے دروازہ کھلنے کی اواز سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو زوار تھا زینیا فوراً اٹھ بیٹھی

کیا ہوا بٹر فلاے اٹھ کیوں گی زوار نے بیڈ پر بیٹھتے ہوے پوچھا

وہ اپ

اسنے ہکلا کر کہا

ہوں اچھا سو جاو شاباش

نہیں زینیا نے کہا تو زوار تھوڑا سنجیدگی سے بولا لیٹ جاو اور سو جاو تو زینیا نے ڈر کے مارے لیٹ کر لمبل اوپر تک تان لیا

زوار مسکرایا اور پاس ہی لیٹ گیا

جب زینیا کو اسکی موجودگی کا احساس ہوا تو اٹھ بیٹھی

کیا ہوا

اپ یہا۔ں سو۔یں گے

ہاں کیوں

نہیں اپ یہاں نہیں سویں گے

کیوں اور کسنے کہا

میں کہ رہی ہوں نہ

اووووو اچھا کوں نہیں سو سکتا ہاں شوہر ہوں تمہارا اور اب اور بحث نہیں 

تو زینیا بیڈ کے کونے میں لیٹ گی 

یہ عمل زوار کو زرا پسند نہیں ایا اسنے زینیا کو کھینچ کو کر خود سے قریب کیا اور ہا دور جانے کا سوچنا بھی مت اور زینیا سمٹ کر رہ گی.

صبح زوار زوار اٹھا تو زینیا اسکے اگوش میں سوی ہوی تھی زوار نے مسکرا کر اسکے ماتھے پر لب رکھے اور اٹھ کر باہر چلا گیا

زینیا اٹھی تو اسنے دیکھا یہ اکیلی سوی ہوی تھی اسے رات کی ساری کاروای یاد ای اور دو انسوں اسکی انکھ سے ٹوٹ کر گرے اور اٹھ کر واشروم چلی گی نہا کر باہر نکلی اور اپنے بال سکھا رہی تھی کہ زوار کھانے کی ٹرے لے کر اندر ایا زینیا کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا پھر اپنے جزبات کنٹرول کرتا زینیا سے کہا او بٹرفلاے کھانا کھاتے ہیں

نہیں مجھے بھوک نہیں

ضد نہیں جانم کھانا کھاتے ہیں

کہا نہ بھوک نہیں

زوار اٹھا اور اسکی طرف قدم بڑھانے لگا اور اسے کمر سے کھینچ کر خود سے قریب کر لیا

جانو کھانا نہیں کھانا اسکی لٹ سے کھیلتے ہوے کہا

نہیں بھو۔ک نہی۔ں 

انے اٹکتے ہوے کہا

زوار نے اسکی گردن سے بال ہٹاے اور اپنے دہکتے لب اسکی گردن پر رکھ دیے زینیا کے تو ہوش اڑ گے

ابھی بھی بھوک نہیں جانم

ہاں ہے بھوک اپ دور ہٹیں گے تو کھاوں گی 

زوار مسکرا کر دور ہوگیا اور پھر دونوں نے مل کر کھانا کھایا 

...............................

احمد افس میں بیٹھا فاٸل دیکھ رہا تھا کہ اسے سانیہ یاد ای تو اسنے اسے فون کیا 

ہیلو سانیہ کی نیند سے ڈوبی اواز ای

کیسی ہو سانیہ میڈم

کون؟

احمد ہوں

تم بندر ہمت بھی کیسے ہوی فون کرنے کی لنگور کی شکل والے میری نیند کا پیڑا گرک کر دیا بدتمیز

اوووو سٹوپ یار تم تو نان سٹاپ شروع ہو گی

اچھا ابھی میں بزی ہوں باے یہ کہ کر اسنے فن کاٹ دیا

تو احمد نے غصے سے فون ٹیبل پر پٹکا پاگل کڑی

...............................

زوار نہا کر باہر نکلا تو بال تولیے سے رگڑ رہا تھا کہ اسنے زینیا کو مخاطب کیا

جانم تم ہنستی یا بولتی نہیں ہو

نہیں ایک لفظ میں جواب ایا

اچھا گونگی ہو تم

ہاں پھر ایک لفظی جواب

چلو پھر پیار کی زبان سمجھ لیتے ہیں اسنے محبت بھرے لہجے میں کہا

اپ بہت بدتمیز ہیں اور برے بھی ہیں اسنے انکھوں میں انسو لے کر کہا

تو زوار نے اسکی طرف قدم بڑھانے شروع کر دیے زوار ایک قدم اگے بڑھ رہا تھا اور زینیا ایک قدم پیچھے ہو رہی تھی کہ دیوار ساتھ لگ گی اسنے پہلے دیوار کو دیکھا پھر سہمی نظروں نظروں سے زوار کو دیکھا زوار نے ایک ہاتھ دیوار پر رکھا اور دوسرا اسکے منہ پر پھیرتے ہوے کہنے لگا

کیا کہا جانم تم نے

کچ۔کچھ بھی تو نہیں اسنے گھبرا کر کہا

زوار نے اسے خفا نظروں سے دیکھا اسکا جھوٹ بو لنا اسے اچھا نہ لگا

جھوٹ کیوں بولا

تو زینیا نے انکھیں بند کر لیں زوار کو اس پر بہت پیار ایا اسنے بے ساختہ اسکے لبوں پر اپنے لب رکھے اور خود کو سیراب کرنے لگا زینیا نے کس کر اسکی شرٹ کو پکڑ لیا اور انکھیں سختی سے میچ لیں

زوار نے چہرہ اٹھا کر دیکھا تو زینیا رو رہی تھی اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گی

یار زینیا رو کیوں رہی ہو زوار اسکے انسوں صاف کرتے ہوے بولا

تو زینیا نے اسکے سینے پر مکا مارا اور کہا اپ سچ میں بہت برے ہیں

زوار مسکرایا اور کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اسکا فون بجا اسنے کوفت سے فون دیکھا اور پھر زینیا کو پھر اس سے دور ہو کر فون اٹھا کر دیکھا تو قاسم کا تھا

ہوں قاسم زوار بات کرتا کرتا باہر چلا گیا 

تو زینیا نے کچھ شرم سے اور کچھ رونے کی وجہ سے سرخ چہرہ شیشے میں دیکھا اور پھر اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا 

شاہ جی اپکو ایک خبر دینی ہے

بولو

عمران کے ادمی اے تھے اور انہوں نے توڑ پھوژ شروع کر دی تھی

پھر زوار کے تیور بدلے پہلے والا پیار اب کہیں دیکھای نہیں دے رہا تھا

تو سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا 

شاباش تم سے یہیں امید تھی اور سب کی لاشیں کہاں ہیں

سرکار یہیں ہیں

خوب ایسا کرو ان لاشوں کو عمران کے پاس بھیج دو اور کہنا شاہ نے تحفہ بھیجا ہے اور فون بند کر دیا

زوار کمرے میں ایا اور کچھ ڈھونڈنے لگ گیا اور ساتھ میں کہا

میں جا رہا ہوں کھانا کھا لینا اور ہاں انگلی اٹھا کر کہا طھاگنے کی کوشش بھی مت کرنا

تو زینیا نے تابعداری سے سر ہلایا

تو زوار مسکرایا اور کہا ایک بات تو بتاو

جی کیا

تم مجھ سے ڈرتی کیوں ہو

جن بھوت سے ڈرا ہی جاتا ہے اسنے بے ساختہ کہا اور پھر دانتوں تلے زبان دبای

اچھا جن بھوت زوار زینیا طرف بڑھا تو زینیا واشروم میں بھاگ گی اور زوار کا قہقہ گونجا

ڈرپاک کہیں کی اچھا میں جا رہا ہوں کھانا کھا لینا اور چلا گیا

افف یہ بندہ ہے یا کیا ہے ویسے ہے تو بہت خوبصورت افف کیا سوچ رہی ہے زینی

...............................

زوار افس ایا تو احمد فایلز میں سر دے کر بیٹھا تھا 

ارے واہ لوگ تو بصی محنتیں کر رہے ہیں 

احمد نے زوار کی طرف دیکھا اور پھر فایلز دیکھنے لگ گیا

کیا ہوا موٹے

بس زوار شاہ بس میرے منہ نہ لگ تو میں بہت بزی ہوں تو تو چاہتا ہے میں ترقی نہ کروں خود ویلا مجھے بھی ویلا رکھنا چاہتا ہے احمد کی ایکٹنگ عروج پر تھی

اوے نوٹنکی باز میں تیرے منہ بھی نہیں لگنا چاہتا چھییی شرم احمد میں کیوں تیرے منہ لگوں گا زوار نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا

اوے زوار لانتی گندے دماغ والے میری باتوں سے تجھے یہیں بات سمجھ ای اور اپنی واہیات باتیں اپنے پاس رکھ شریف لوگ پاس بیٹھے ہیں احمد نے کارلر چھاڑ کر کہا

کون شریف زوار نے حیرت سے ادھر ادھر نظر دوڑای 

کمینے انسان میں احمد نے اپنی طرف اشارہ کیا

توبہ توبہ جھوٹا جتنا دماغ تو تیرہ گندہ ہے نہ مجھ جیسے شریف کو بھی تونے بیگاڑ دیا ہے

شریف او جا زوی دیکھ لی ہے تیری شرافت احمد نے جل کر کہا

کیا ہوا تپا ہوا کیوں ہے زوار نے پوچھا

شکر ہے میری یاد ای مجھے اب لگتا ہے مجھے ہمیشہ ایسے اکیلا ہی رہنا پڑے گا میرا جگر تو شادی شدہ ہوگیا میں کلا رہ گیا اسنے نہ ہونے والے انسو صاف کیے

ہاہاہاہاہا اوو نوٹنکی فکر نہیں کر سانیہ کے لیے علی سے بات کرتے ہیں 

احمد نے حیرت سے زوار کی طرف دیکھا اوے جگر تجھے کیسے پتا

احمد تجھے بچپن سے جانتا ہوں اور ویسے بھی اندھا نہیں ہوں میں

ہاہاہا مجھے لگا اندھا ہے تو اسنے ہنس کر کہا

چل دفع ہو بھلای کا زمانہ ہی نہیں چل علی سے بات کرنا کینسل

ارے ارے مزاک کر رہا ہوں یار تو تو غصہ ہع گیا اور کندھے کے گرد بازو حماٸل کیے زوار ہنس دیا

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Pagal  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Pagal  written by Miral Shah  . Ishq Mian Pagal  by Miral Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment