Pages

Thursday 19 January 2023

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 20 to 21

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 20 to 21

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Itni Muhabbat Karo Na By Zeenia Sharjeel Episode 20'21

Novel Name:Itni Muhabbat Karo Na 

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"کیا؟؟ کیا ہوگیا ہے ممی آپ کو۔۔۔۔۔ آپ کیسے ہیں یعشر بھائی کے لئے تانیہ کو پسند کرسکتی ہیں"

اشعر بالکل سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا 

"لو بھلا ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ لڑکی اچھی ہے، ڈیسنٹ ہے، پریٹی بھی ہے"

شازیہ کو بیٹے کی بات پر تعجب ہوا 

"تو اچھی لڑکی ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ یعشر بھائی کے لئے اس کا رشتہ لے کر جایا جائے" 

اشعر اب بھی سنجیدہ تھا

"ہیں اب یعحشر کا کیا ذکر۔۔۔۔ کیا برائی نظر آگئی اس میں،، اتنا سلجھا ہوا بچہ ہے میرا۔۔۔ پوری دنیا میں ایسا فرمابردار بچہ نہ ملے۔۔۔۔ ذرا جو اس نے آج کل کے لڑکوں کی طرح منہ پھاڑ کر اپنی پسند کا اظہار کیا ہوں۔۔ ۔  ماں کے سامنے سیدھے سے بول دیا جو آپ کی پسند ہو وہی میری پسند ہوگی"

شازیہ نے برا مانتے ہوئے اشعر کو کہا

"ممی یعشر بھائی سیدھے سادے سلجھے ہوئے اور فرماں بردار بچے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان کے لئے تانیہ کا رشتہ لیکر جایا جائے"

اب کے اشعر نے جھجکتے ہوئے شازیہ سے کہا

"اوہو تو یہ بات ہے،، تو پھر کس کا رشتہ لے کر جایا جائے تانیہ کے لئے"

اب شازیہ کو کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تو اس نے اشعر سے پوچھا

"تانیہ جیسی ڈیسیٹ اور پریٹی لڑکی کے لئے اپ کو اپنا یہ لال نظر نہیں آ رہا" 

اب کیا اشعر نے منہ بسورتے ہوئے شازیہ  سے کہا 

"اچھا میرے لال تو یہ بات ہے"

شازیہ نے اشعر کے کان کھینچتے ہوئے کہا 

"ارے ممی کیا کر رہے ہیں کیا کان توڑیں گی میرا"

آشعر نے اپنا کام سہلاتے ہوئے کہا موبائل بجنے پر فون اٹھایا

"ہاں بولو خیریت اس وقت کال کی"  

موبائل پر رات کے وقت بلال کی کال آئی تو اشعر نے پوچھا

"کیا۔۔۔ کون سے اسپتال میں،، تم پہنچوں میں بھی آتا ہو"

اشعر کال کاٹتے ہوا باہر جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا

"خیریت کہاں چل دئیے،، کیا ہوا ہے؟ کون ہے اسپتال میں"

شازیہ نے ایک دم سے اشعر سے سوال کیا

"حور بھابھی کو زین اسپتال لے کر گیا ہے"

اشعر گاڑی کی کیز اٹھاتے ہوئے کہنے لگا 

"اللہ رحم کرے بچی پر کیا ہو گیا اچانک رکو پھر میں بھی چلتی ہوں"

شازیہ نے اٹھتے ہوئے کہا 

"ممی اتنی رات کو آپ کیسے جاۓ گیں۔۔  پہلے مجھے پتہ تو چلے کہ ہوا کیا ہے،، پھر آپ کو لے جاؤں گا۔۔۔ ابھی بلال نے سرسری سے بتایا ہے مجھے۔۔۔ زین اکیلا ہے وہاں، میں جاتا ہوں اس کے پاس"

اشعر باہر نکلتے ہوئے بولا

****

"حور" 

اس سے پہلے زین اس کو تھامتا،، حور دور جاکر گر چکی تھی

"حور۔۔۔۔۔ حور اٹھو لگی تو نہیں تمہیں"

زین تیزی سے اس کی طرف بڑھا حور  کو تھامتے ہوئے کہنے لگا

حور کو تکلیف ہو رہی تھی اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔۔۔ مگر تکلیف سے اس سے کچھ میں بولا نہیں جارہا تھا آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔ وہ گردن نفی میں ہلا رہی تھی

"یا میرے اللہ،، کچھ نہیں ہوگا حور اٹھو پلیز"

اچانک پڑنے والی افتاد پر زین کے ہاتھ پیر پھول گئے اسے خود اس صورتحال سے خوف آنے لگا اس نے حور کو اٹھایا اور گاڑی تک پہنچا۔۔۔ حور کو گاڑی میں بٹھایا اور خود گاڑی سٹارٹ کردی لیکن ڈرائیو کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں لعرزرش واضح تھی۔۔۔ دماغ سے ہر برے خدشے کو نکال کر وہ گاڑی چلانے لگا،،، حور نے اب آواز سے رونا شروع ہوئی تو اس نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا دی قریبی ہسپتال میں کار روک دی

*****

وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے ہوئے شکستہ حال کرسی پر بیٹھا ہوا تھا دل اس کا بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔۔۔ ایسا اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔۔

"اللہ نہ کرے کچھ غلط ہو ورنہ میں کیسے خود سے یا پھر حور سے نظر ملا سکوں گا"

ابھی وہ سوچوں میں گم تھا کہ اس کے موبائل پر بلال کی کال آنے لگے اس نے غائب دماغی کے ساتھ موبائل کو دیکھا اور کال ریسیو کر کے کان پر لگایا

"اور کل کے لئے تیاری کیسی ہے۔۔۔ آئی وش کے کل والا پروجیکٹ ہم کو ہی ملے گا"

بلال کی آواز موبائل سے ابھری مگر زین نے کوئی جواب نہ دیا 

"ہیلو زین کہاں ہو سن رہے ہو نا"

جب بلال کو کوئی آواز نہیں آئی تو اس نے زین سے پوچھا 

"بلال میں ایسا نہیں چاہتا تھا،، قسم سے میں بالکل ایسا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ میں بہت محبت کرتا ہوں حور سے،، تم جانتے ہو نہ ابھی سے نہیں بہت پہلے سے۔۔۔۔ تو میں نے کیسے اس کو"

زین کی بے ربط جملے بلال کو سمجھ نہیں آ رہے تھے         

"زین یہ تم کیا کہہ رہے ہو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تم ٹھیک ہونا۔۔۔ کہاں ہیں حور بھابھی"

بلال کو زین کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھی اس کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا تو وہ پوچھ بیٹھا 

"زین میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے جواب دو"

بلال زین کے خاموش رہنے پر دوبارہ بولا

"وہ بہت رو رہی تھی بلال۔۔۔۔ اسے بہت تکلیف ہو رہی تھی میں اسے اسپتال لے کر آ گیا ہوں"

یہ کہتے ہوئے زین کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے جسے اس نے فورا صاف کیا 

"کیا بول رہے زین کیا ہوا حور بھابھی کو؟؟ حور بھابی ٹھیک تو ہیں۔ ۔۔  کون سے اسپتال کی بات کر رہے ہو کہاں ہو تم جلدی سے نام بتاؤ مجھے"

بلال نے جلدی سے اپنا والٹ اور کیز اٹھائی ایک نظر سوتی ہوئی فضا پر ڈالی اور پھر وہ باہر نکل گیا

*****

اس نے بلال سے بات کر کے موبائل کو جیب میں رکھا سامنے روم سے ڈاکٹر باہر آئیں زین ساکت نگاہوں سے انھیں دیکھے جا رہا تھا اس نے کوئی بھی بات پوچھنے کی ہمت نہیں کی

"آپ کی مسزز اب ٹھیک ہیں لیکن بلیڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم آپکے بچے کو نہیں بچاسکے۔۔۔ آپ مل سکتے ہیں اپنی وائف سے۔۔ اور یہ کچھ میڈیسن ہیں یہ لے لیے گا"

ڈاکٹر زین کی کنڈیشن دیکھتے ہوئے خود سے ہی اس کے پاس آ کر اس کو حور کا بتانے لگی اور ہاتھ میں پرچہ تھماتے ہوئے چلی گئی 

زین کی آنکھیں ایک دفعہ پھر بھیگنے لگی،، وہ دوبارہ دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر بیٹھ گیا اندر سے اسے جس بات کا خوف کھائے جا رہا تھا وہ حقیقت میں تبدیل ہو گیا

"کس منہ سے میں حور کے پاس جاؤں گا۔۔۔۔ یا اللہ کیا کروں اب میں۔۔۔یہ کیا ہوگیا مجھ سے" 

اپنے بابا کی ڈیتھ کے وقت وہ بہت رویا تھا اس کے بعد آزمائشوں کا ایک دور شروع ہو گیا اس کے باوجود اسے یاد نہیں پڑھا اس نے کبھی آنکھوں میں آنسو نکلے ہو مگر آج پھر اس کا دل بری طرح دکھ رہا تھا 

"زین کیسی ہے بھابھی کی طبعیت؟ کیا ہوا ہے انھیں۔۔۔  تم ٹھیک ہونا"

بلال بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا زین سر تھامے ہوئے بیٹھا تھا بلال نے زین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سوال شروع کردیئے 

زین سر اٹھا کر دیکھا تو اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں

"بہت غلط ہو گیا بلال مجھ سے۔۔۔ اب سب واپس کیسے ٹھیک ہو گا۔۔۔۔ میں کیسے سامنا کروں گا اس کا"

زین کی باتیں بلال کو سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور مسلسل پریشان کر رہی تھی 

"تم زین پلیز سنبمھالو خود کو اور مجھے بتاؤ تو ہوا کیا ہے" 

بلال نے پریشان ہوتے ہوئے زین سے پوچھا

وہ غائب دماغی میں سب بتاتا چلا گیا جسے سن کر بلال نے اپنا سر پکڑ لیا 

"یہ کیا حرکت کی ہے زین تم نے۔۔۔ نہ صرف حور بھابھی کے ساتھ تم نے برا کیا ہے بلکہ اپنے ساتھ کتنا برا کیا ہے تم نے۔۔۔ بے شک تمہیں غصہ ہوگا لیکن تم اتنی بڑی بیوقوفی کیسے کر سکتے ہو"

بلال کو اسوقت سچ میں زین پر غصہ آ رہا تھا

"کیا ہوا سب خیریت ہے نا"

اشعر نے آتے ہی ان دونوں کی طرف دیکھ کر سوال کیا

"ہاں خیریت ہے"

بلال نے آنکھ کے اشارے سے اسے کچھ بھی پوچھنے سے باز رکھا

"زین تم جاو بھابی سے مل کر آؤ"

بلال نے زین کو دیکھتے ہوئے کہا

"میں کیسے جاسکتا ہوں اس کے سامنے۔۔ ۔  کیسے جاو"

زین کو سمجھ نہیں آیا وہ یہ بات بلال سے کہہ رہا ہے یا پھر اپنے آپ سے

"زین تم اس وقت بھابھی کے پاس جاؤ۔۔ وہ اکیلی ہیں اور انھیں تمھاری ضرورت ہے"

بلال نے زین کو سمجھاتے ہوئے کہا

زین حور کے روم کی طرف بڑھا، اشعر نے بلال کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔ بلال نے لمبا سانس کھینچ کر اشعر کو سارا قصہ سنایا 

****

زین بہت ساری ہمت جمع کر کے حور کے پاس روم میں داخل ہوا وہ بیٹھ پر آنکھیں موندے ہوئے لیٹی تھی۔۔۔۔ اس کے قریب آیا کسی احساس کے تحت حور نے اپنی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا

"حور" 

زین کا چہرہ ضبط سے سرخ ہو رہا تھا، حور نے ایک نظر اس کو دیکھا اور  اپنے چہرے کا رخ دوسری طرف پھیر لیا مطلب صاف تھا وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی

زین آگے بڑھ کر پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھا، حور کا اس طرح چہرہ موڑ لینا اس کو تکلیف دے گیا مگر اب اسے برداشت کرنا تھا 

"حور"

زین نے حور کے ڈرپ والے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے دوبارہ پکارا۔۔۔ حور نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ کے نیچے سے نکالنا چاہا۔۔۔  رخ حور کا ابھی بھی دوسری طرف ہی تھا

"حور مجھے معاف نہیں کرنا، بالکل بھی معاف نہیں کرنا مجھے۔۔۔ مگر پلیز اس طرح نہیں کرو میرے ساتھ"

زین نے آگے بڑھ کر حور کے کندھے پر اپنا سر رکھ لیا۔۔۔ وہ زین کے آنسو اپنی گردن پر محسوس کر رہی تھی

"پلیز بات کرو مجھ سے، لڑو، شکوہ کرو اس طرح اجنبی رویہ اختیار نہیں کرو۔۔۔۔ میں نے انجانے میں تمہیں نہیں بلکہ اپنے آپ کو تکلیف دی ہے۔۔۔ مجھے واقعی اس وقت بہت تکلیف ہو رہی ہے پلیز میری طرف دیکھو مجھ سے بات کرو"

زین اسی طرح حور کے کندھے پر اپنا سر رکھے ہوئے کہہ رہا تھا اور حور کا رخ دوسری طرف تھا اس کی بھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے

دروازے پر کھٹکے کی آواز سے زین پیچھے ہوا نرس نے اندر آکر حور کا چیک اب کیا پین کلر لگا کر واپس چلی گئی۔۔۔ کافی دیر تک روم میں خاموشی رہی جسے حور کی آواز نے توڑا

"میں ماما سے ملنا چاہتی ہوں ماما کو بلا دو"

حور نے بغیر دیکھے زین کو مخاطب کیا

_____

"کیا؟؟ کیا ہوگیا ہے ممی آپ کو۔۔۔۔۔ آپ کیسے ہیں یعشر بھائی کے لئے تانیہ کو پسند کرسکتی ہیں"

اشعر بالکل سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا 

"لو بھلا ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ لڑکی اچھی ہے، ڈیسنٹ ہے، پریٹی بھی ہے"

شازیہ کو بیٹے کی بات پر تعجب ہوا 

"تو اچھی لڑکی ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ یعشر بھائی کے لئے اس کا رشتہ لے کر جایا جائے" 

اشعر اب بھی سنجیدہ تھا

"ہیں اب یعحشر کا کیا ذکر۔۔۔۔ کیا برائی نظر آگئی اس میں،، اتنا سلجھا ہوا بچہ ہے میرا۔۔۔ پوری دنیا میں ایسا فرمابردار بچہ نہ ملے۔۔۔۔ ذرا جو اس نے آج کل کے لڑکوں کی طرح منہ پھاڑ کر اپنی پسند کا اظہار کیا ہوں۔۔ ۔  ماں کے سامنے سیدھے سے بول دیا جو آپ کی پسند ہو وہی میری پسند ہوگی"

شازیہ نے برا مانتے ہوئے اشعر کو کہا

"ممی یعشر بھائی سیدھے سادے سلجھے ہوئے اور فرماں بردار بچے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان کے لئے تانیہ کا رشتہ لیکر جایا جائے"

اب کے اشعر نے جھجکتے ہوئے شازیہ سے کہا

"اوہو تو یہ بات ہے،، تو پھر کس کا رشتہ لے کر جایا جائے تانیہ کے لئے"

اب شازیہ کو کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تو اس نے اشعر سے پوچھا

"تانیہ جیسی ڈیسیٹ اور پریٹی لڑکی کے لئے اپ کو اپنا یہ لال نظر نہیں آ رہا" 

اب کیا اشعر نے منہ بسورتے ہوئے شازیہ  سے کہا 

"اچھا میرے لال تو یہ بات ہے"

شازیہ نے اشعر کے کان کھینچتے ہوئے کہا 

"ارے ممی کیا کر رہے ہیں کیا کان توڑیں گی میرا"

آشعر نے اپنا کام سہلاتے ہوئے کہا موبائل بجنے پر فون اٹھایا

"ہاں بولو خیریت اس وقت کال کی"  

موبائل پر رات کے وقت بلال کی کال آئی تو اشعر نے پوچھا

"کیا۔۔۔ کون سے اسپتال میں،، تم پہنچوں میں بھی آتا ہو"

اشعر کال کاٹتے ہوا باہر جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا

"خیریت کہاں چل دئیے،، کیا ہوا ہے؟ کون ہے اسپتال میں"

شازیہ نے ایک دم سے اشعر سے سوال کیا

"حور بھابھی کو زین اسپتال لے کر گیا ہے"

اشعر گاڑی کی کیز اٹھاتے ہوئے کہنے لگا 

"اللہ رحم کرے بچی پر کیا ہو گیا اچانک رکو پھر میں بھی چلتی ہوں"

شازیہ نے اٹھتے ہوئے کہا 

"ممی اتنی رات کو آپ کیسے جاۓ گیں۔۔  پہلے مجھے پتہ تو چلے کہ ہوا کیا ہے،، پھر آپ کو لے جاؤں گا۔۔۔ ابھی بلال نے سرسری سے بتایا ہے مجھے۔۔۔ زین اکیلا ہے وہاں، میں جاتا ہوں اس کے پاس"

اشعر باہر نکلتے ہوئے بولا

****

"حور" 

اس سے پہلے زین اس کو تھامتا،، حور دور جاکر گر چکی تھی

"حور۔۔۔۔۔ حور اٹھو لگی تو نہیں تمہیں"

زین تیزی سے اس کی طرف بڑھا حور  کو تھامتے ہوئے کہنے لگا

حور کو تکلیف ہو رہی تھی اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔۔۔ مگر تکلیف سے اس سے کچھ میں بولا نہیں جارہا تھا آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔ وہ گردن نفی میں ہلا رہی تھی

"یا میرے اللہ،، کچھ نہیں ہوگا حور اٹھو پلیز"

اچانک پڑنے والی افتاد پر زین کے ہاتھ پیر پھول گئے اسے خود اس صورتحال سے خوف آنے لگا اس نے حور کو اٹھایا اور گاڑی تک پہنچا۔۔۔ حور کو گاڑی میں بٹھایا اور خود گاڑی سٹارٹ کردی لیکن ڈرائیو کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں لعرزرش واضح تھی۔۔۔ دماغ سے ہر برے خدشے کو نکال کر وہ گاڑی چلانے لگا،،، حور نے اب آواز سے رونا شروع ہوئی تو اس نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا دی قریبی ہسپتال میں کار روک دی

*****

وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے ہوئے شکستہ حال کرسی پر بیٹھا ہوا تھا دل اس کا بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔۔۔ ایسا اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔۔

"اللہ نہ کرے کچھ غلط ہو ورنہ میں کیسے خود سے یا پھر حور سے نظر ملا سکوں گا"

ابھی وہ سوچوں میں گم تھا کہ اس کے موبائل پر بلال کی کال آنے لگے اس نے غائب دماغی کے ساتھ موبائل کو دیکھا اور کال ریسیو کر کے کان پر لگایا

"اور کل کے لئے تیاری کیسی ہے۔۔۔ آئی وش کے کل والا پروجیکٹ ہم کو ہی ملے گا"

بلال کی آواز موبائل سے ابھری مگر زین نے کوئی جواب نہ دیا 

"ہیلو زین کہاں ہو سن رہے ہو نا"

جب بلال کو کوئی آواز نہیں آئی تو اس نے زین سے پوچھا 

"بلال میں ایسا نہیں چاہتا تھا،، قسم سے میں بالکل ایسا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ میں بہت محبت کرتا ہوں حور سے،، تم جانتے ہو نہ ابھی سے نہیں بہت پہلے سے۔۔۔۔ تو میں نے کیسے اس کو"

زین کی بے ربط جملے بلال کو سمجھ نہیں آ رہے تھے         

"زین یہ تم کیا کہہ رہے ہو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تم ٹھیک ہونا۔۔۔ کہاں ہیں حور بھابھی"

بلال کو زین کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھی اس کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا تو وہ پوچھ بیٹھا 

"زین میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے جواب دو"

بلال زین کے خاموش رہنے پر دوبارہ بولا

"وہ بہت رو رہی تھی بلال۔۔۔۔ اسے بہت تکلیف ہو رہی تھی میں اسے اسپتال لے کر آ گیا ہوں"

یہ کہتے ہوئے زین کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے جسے اس نے فورا صاف کیا 

"کیا بول رہے زین کیا ہوا حور بھابھی کو؟؟ حور بھابی ٹھیک تو ہیں۔ ۔۔  کون سے اسپتال کی بات کر رہے ہو کہاں ہو تم جلدی سے نام بتاؤ مجھے"

بلال نے جلدی سے اپنا والٹ اور کیز اٹھائی ایک نظر سوتی ہوئی فضا پر ڈالی اور پھر وہ باہر نکل گیا

*****

اس نے بلال سے بات کر کے موبائل کو جیب میں رکھا سامنے روم سے ڈاکٹر باہر آئیں زین ساکت نگاہوں سے انھیں دیکھے جا رہا تھا اس نے کوئی بھی بات پوچھنے کی ہمت نہیں کی

"آپ کی مسزز اب ٹھیک ہیں لیکن بلیڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم آپکے بچے کو نہیں بچاسکے۔۔۔ آپ مل سکتے ہیں اپنی وائف سے۔۔ اور یہ کچھ میڈیسن ہیں یہ لے لیے گا"

ڈاکٹر زین کی کنڈیشن دیکھتے ہوئے خود سے ہی اس کے پاس آ کر اس کو حور کا بتانے لگی اور ہاتھ میں پرچہ تھماتے ہوئے چلی گئی 

زین کی آنکھیں ایک دفعہ پھر بھیگنے لگی،، وہ دوبارہ دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر بیٹھ گیا اندر سے اسے جس بات کا خوف کھائے جا رہا تھا وہ حقیقت میں تبدیل ہو گیا

"کس منہ سے میں حور کے پاس جاؤں گا۔۔۔۔ یا اللہ کیا کروں اب میں۔۔۔یہ کیا ہوگیا مجھ سے" 

اپنے بابا کی ڈیتھ کے وقت وہ بہت رویا تھا اس کے بعد آزمائشوں کا ایک دور شروع ہو گیا اس کے باوجود اسے یاد نہیں پڑھا اس نے کبھی آنکھوں میں آنسو نکلے ہو مگر آج پھر اس کا دل بری طرح دکھ رہا تھا 

"زین کیسی ہے بھابھی کی طبعیت؟ کیا ہوا ہے انھیں۔۔۔  تم ٹھیک ہونا"

بلال بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا زین سر تھامے ہوئے بیٹھا تھا بلال نے زین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سوال شروع کردیئے 

زین سر اٹھا کر دیکھا تو اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں

"بہت غلط ہو گیا بلال مجھ سے۔۔۔ اب سب واپس کیسے ٹھیک ہو گا۔۔۔۔ میں کیسے سامنا کروں گا اس کا"

زین کی باتیں بلال کو سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور مسلسل پریشان کر رہی تھی 

"تم زین پلیز سنبمھالو خود کو اور مجھے بتاؤ تو ہوا کیا ہے" 

بلال نے پریشان ہوتے ہوئے زین سے پوچھا

وہ غائب دماغی میں سب بتاتا چلا گیا جسے سن کر بلال نے اپنا سر پکڑ لیا 

"یہ کیا حرکت کی ہے زین تم نے۔۔۔ نہ صرف حور بھابھی کے ساتھ تم نے برا کیا ہے بلکہ اپنے ساتھ کتنا برا کیا ہے تم نے۔۔۔ بے شک تمہیں غصہ ہوگا لیکن تم اتنی بڑی بیوقوفی کیسے کر سکتے ہو"

بلال کو اسوقت سچ میں زین پر غصہ آ رہا تھا

"کیا ہوا سب خیریت ہے نا"

اشعر نے آتے ہی ان دونوں کی طرف دیکھ کر سوال کیا

"ہاں خیریت ہے"

بلال نے آنکھ کے اشارے سے اسے کچھ بھی پوچھنے سے باز رکھا

"زین تم جاو بھابی سے مل کر آؤ"

بلال نے زین کو دیکھتے ہوئے کہا

"میں کیسے جاسکتا ہوں اس کے سامنے۔۔ ۔  کیسے جاو"

زین کو سمجھ نہیں آیا وہ یہ بات بلال سے کہہ رہا ہے یا پھر اپنے آپ سے

"زین تم اس وقت بھابھی کے پاس جاؤ۔۔ وہ اکیلی ہیں اور انھیں تمھاری ضرورت ہے"

بلال نے زین کو سمجھاتے ہوئے کہا

زین حور کے روم کی طرف بڑھا، اشعر نے بلال کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔ بلال نے لمبا سانس کھینچ کر اشعر کو سارا قصہ سنایا 

****

زین بہت ساری ہمت جمع کر کے حور کے پاس روم میں داخل ہوا وہ بیٹھ پر آنکھیں موندے ہوئے لیٹی تھی۔۔۔۔ اس کے قریب آیا کسی احساس کے تحت حور نے اپنی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا

"حور" 

زین کا چہرہ ضبط سے سرخ ہو رہا تھا، حور نے ایک نظر اس کو دیکھا اور  اپنے چہرے کا رخ دوسری طرف پھیر لیا مطلب صاف تھا وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی

زین آگے بڑھ کر پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھا، حور کا اس طرح چہرہ موڑ لینا اس کو تکلیف دے گیا مگر اب اسے برداشت کرنا تھا 

"حور"

زین نے حور کے ڈرپ والے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے دوبارہ پکارا۔۔۔ حور نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ کے نیچے سے نکالنا چاہا۔۔۔  رخ حور کا ابھی بھی دوسری طرف ہی تھا

"حور مجھے معاف نہیں کرنا، بالکل بھی معاف نہیں کرنا مجھے۔۔۔ مگر پلیز اس طرح نہیں کرو میرے ساتھ"

زین نے آگے بڑھ کر حور کے کندھے پر اپنا سر رکھ لیا۔۔۔ وہ زین کے آنسو اپنی گردن پر محسوس کر رہی تھی

"پلیز بات کرو مجھ سے، لڑو، شکوہ کرو اس طرح اجنبی رویہ اختیار نہیں کرو۔۔۔۔ میں نے انجانے میں تمہیں نہیں بلکہ اپنے آپ کو تکلیف دی ہے۔۔۔ مجھے واقعی اس وقت بہت تکلیف ہو رہی ہے پلیز میری طرف دیکھو مجھ سے بات کرو"

زین اسی طرح حور کے کندھے پر اپنا سر رکھے ہوئے کہہ رہا تھا اور حور کا رخ دوسری طرف تھا اس کی بھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے

دروازے پر کھٹکے کی آواز سے زین پیچھے ہوا نرس نے اندر آکر حور کا چیک اب کیا پین کلر لگا کر واپس چلی گئی۔۔۔ کافی دیر تک روم میں خاموشی رہی جسے حور کی آواز نے توڑا

"میں ماما سے ملنا چاہتی ہوں ماما کو بلا دو"

حور نے بغیر دیکھے زین کو مخاطب کیا

______

"کیسی طبیعت ہے اب بھابھی کی"

 اشعر نے زین سے پوچھا دونوں ہی رات سے اس کے پاس تھے

"ہہمم ٹھیک ہے ابھی پین کلر لگائے ہے تھوڑی دیر ہوئی ہے اسے سوئے ہوئے۔۔۔ میرے خیال میں تم دونوں کو نکلنا چاہیے آفس کیلئے"

ذہن نے کرسی سے سر ٹیکتے ہوئے کہا تھکن کے آثار اس کے چہرے پر بھی نمایاں تھے

"اور تم"

 بلال نے پوچھا 

"میں یہیں ہوں حور کے پاس"

زین نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا

"کیا بات کر رہے ہو زین، تم نہیں آؤ گے۔۔۔۔ آج کا دن کتنی اہمیت کا حامل ہے تمہیں اندازہ ہی نہ اس بات کا۔۔۔ آج وہ پروجیکٹ ہمیں ملنے والا ہے جس کے لئے ہم نے دن رات محنت کی ہے"

اشعر نے اس کو سمجھانا چاہا

"حور بھی میرے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے اور میں اس کو اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جا سکتا ویسے بھی تم دونوں ہوگے وہاں پر"

زین نے آنکھیں کھول کر اشعر کو دیکھتے ہوئے کہا

"مگر تمہاری موجودگی وہاں پر معنی رکھتی ہے میرے خیال سے تمہیں چلنا چاہیے میں نے تانیہ کو بلا لیا ہے،  جب تک بھابھی کے پاس وہ ہو گی اور ویسے بھی بھابھی ابھی سو رہی ہیں جب تک تو تم واپس آ جاؤ گے۔۔۔۔ اور تم نے ان کی امی کو بھی تو بلایا ہے یہاں پر فون کرکے،، تھوڑی دیر کی بات ہے زین تمہیں چلنا چاہیے"

بلال نے لمبی چوڑی وضاحت دے کر اس کو سمجھایا 

ابھی وہ تین باتیں کر رہے تھے کہ تانیہ اسپتال میں پہنچی اشعر اور زین کو سلام کر کر وہ حور کے پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی

زین ناچاہتے ہوئے بھی بلال اور اشعر کے زور دینے پر ان کے ساتھ چلا گیا۔۔۔ ابھی تانیہ کو آئے ہوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک پریشان چہرے کے ساتھ ایک خاتون روم کے اندر آئی ان کے پیچھے ایک نوجوان بھی تھا،، تانیہ دونوں کو دیکھ کر چونکی

"حور میری بچی کیسے ہو گیا یہ سب"

وہ حور کی طرف بڑھی تو تانیہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ حور کی امی ہیں

****

میٹنگ کے دوران سارا وقت اس کا دھیان حور کی طرف ہی لگا رہا سب کچھ اشعر اور بلال نے ہی ہینڈل کیا ابھی وہ لوگ فارغ ہوئے تھے کہ بلال کے نمبر پر تانیہ کی کال آئی

"ہاں تانیہ بولو سب خیریت ہے"

بلال نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا

"کیا۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے،، تم اسے ایسا کرو گھر چلی جاؤ" بلال نے فون رکھا 

"کیا ہوا ہے بلال تانیہ کیا کہہ رہی ہے"

زین جو اس کے چہرے سے بات کا اندازہ لگانا چاہ رہا تھا، بلال کے کال کاٹتے ہی اس نے بلال سے پوچھا

"تانیہ بتا رہی تھی کہ بھابھی کی امی اور ان کے کزن آئے تھے،، بھابی کے ہوش میں آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی وہ ان کو اپنے ساتھ لے گئں ہیں"

بلال نے زین کو بتایا 

زین نے بےیقینی سے بلال کو دیکھا 

"حور ان کے ساتھ چلی گئی مجھے چھوڑ کر"

وہ زیر لب بڑبڑایا 

"یار تمہیں ایسا کیوں سوچ رہے ہو،، تم اس وقت اور بھابھی کی کنڈیشن بھی تو دیکھوں ایسے وقت میں انھوں نے اپنی امی کی کتنی ضرورت ہوگی وہ تمہیں کیوں چھوڑ کر جانے لگیں بھلا۔۔۔ دیکھو زین یہ حادثہ تم دونوں کے لیے بڑا ہے تم بھابھی کو تھوڑا مینٹلی ریسٹ2 ۔۔۔۔خود کو ریلیکس کرو اپنی حالت دیکھو کتنے بیمار لگ رہے ہوں کل سے"

اشعر نے زین کو تحمل سے سمجھایا

"صحیح بول رہا ہے اشعر زین اس وقت بھابی کو تھوڑا سا وقت دو،، جو بھی کچھ ہوا بے شک ہو تم دونوں کے لئے شاک سے کم نہیں تھا بھابھی اپنی امی کے پاس رہے گی تو تھوڑا ان کی طبیعت بھی سنبھلے گی اور تم بھی گھر جا کر تھوڑی دیر ریسٹ کرو"

بلال کے سمجھانے پر زین چپ ہو گیا 

اشعر ہی زین کو گھر چھوڑ کر آیا

*****

"حور بیٹا بتاؤ تو مجھے کیا ہوا تھا  یہ سب اتنے اچانک سے کیسے ہو گیا"

اسماء کافی دیر سے حور سے وجہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اسپتال سے آئی تھی مگر وہ مسلسل چپ تھی بالآخر بولی

"مجھے اس ٹاپک پر بات نہیں کرنی ہے ماما پلیز"

حور نے بیزاری سے جواب دیا 

"صحیح ہے نہیں کرتی ہوں میں اس ٹاپک پر بات بس مجھے یہ بتاؤ تمھارے اور زین کے بیچ میں سب ٹھیک ہے نا۔۔۔ وہ تمہیں اسپتال میں ایسے چھوڑ کر چلے گیا ایسے کیسے کرسکتا ہے وہ"

آسماء نے زین کی آنکھوں میں حور کے لیے محبت چھلکتی ہوئی دیکھی تھی لیکن اتنے بڑے حادثے پر وہ حور کو اس طرح چھوڑ کر چلا گیا تو ان کا دماغ یہ قبول نہیں کر رہا تھا اور دوسرا حور کے ہی مسلسل کہنے پر آسماء اسے اپنے ساتھ لے کر آئی تھی اس وجہ سے اسے دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا

"ماما وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔ پلیز میں تھوڑی ریسٹ کرنا چاہتی ہوں"

حور کی طبیعت میں چڑچڑاپن دیکھ کر آسماء نے اپنے موبائل کی رنگ ٹون of کردی تاکہ اس کے آرام میں خلل نہ پڑے بنا کچھ کہے روم سے باہر چلی گئی

"کیسی طبیعت ہے اب حور کی اور کیا بتا رہی ہے وہ"

ظفر مراد نے آسماء کو کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر پوچھا خضر اور فاطمہ بھی وہی صوفوں پر برجمان تھے

"طبیعت بہتر ہے اس کی۔۔۔ مگر ابھی  کچھ بتا نہیں رہی کہہ رہی ہے ریسٹ کرنے دیں۔۔۔۔اللہ جانے کیا بات ہوئی ہوگی"

آسماء نے پریشانی سے کہا

"مجھے تو وہ لڑکا شروع دن سے ہی پسند نہیں آیا۔۔۔ انتہا کا بدتمیز اور منہ پھٹ،،، اب اس معاملے کو میں ایسے نہیں جانے دوں گا میرے بھائی کی بیٹی ہے کوئی لاوارث نہیں۔۔۔ اسے ابھی آرام کرنے دو اگر کچھ نہیں بتا رہی تو زبردستی بھی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے" 

ظفر مراد اپنی بات مکمل کر کے وہاں سے اٹھ گئے

"بیٹیوں کی شروع سے ہی تربیت کی جاتی ہے،، انھیں بتایا جاتا ہے کہ شوہر کا گھر ہی اب ان کا اصل گھر ہے تمہیں حور کو یہاں پر ہرگز نہیں لانا چاہیے تھا"

فاطمہ جو کافی دیر سے چپ بیٹھی ہوئی تھی شوہر کے جاتے کے بعد فوراً نحوست سے بولی سب سے زیادہ حور کا اس گھر میں آنا انہیں ہی ناگوار گزرا تھا

"یہ کیسی بات کررہی ہیں امی وہ کسی غیر کے گھر میں نہیں آئی ہے یہ حور کا اپنا گھر ہے"

آسماء کے کچھ بولنے سے پہلے خضر نے فورا اپنی ماں سے کہا 

"یہ گھر حور کا نہ پہلے تھا، نہ ہے اور نہ آگے کبھی ہو سکتا ہے یہ بات تم اپنے دماغ میں اچھی طرح بٹھا لو خضر۔۔۔ شادی کے بعد شوہر کا گھر ہی لڑکی کا گھر ہوتا ہے حور اب شادی شدہ ہے اور زین کا گھر ہی اب حور کا گھر ہے"

فاطمہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اسماء پر سرسری نظر ڈال کر وہاں سے چلی گئی

خضر فاطمہ کو جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا،،، اسماء خضر سے نظریں چرانے لگی

"آپ پریشان مت ہوں چچی حور کا بہت خیال رکھیئے گا۔۔۔ ادھر ادھر کی باتوں پر دھیان مت دیں"

خضر نے رسانیت سے آسماء کو کہا

****

زین موبائل پر مصروف تھا جب حور برابر میں آکر دھب سے بیٹھیی

"حور دھیان سے یار کل بھی میں نے تمہیں منع کیا تھا کتنی احتیاط بتائی ہے ڈاکٹر نے تمہیں"

زین نے گھورتے ہوئے حور کو کہا۔۔۔ حور زین کی بات سن کر ہنسنے لگی

"اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے،، اس دن اماں ابھی تمہیں کتنی نصیحتیں کر رہی تھی مگر اب لگتا ہے سب کچھ تمہارے سر پر سے گزر گیا" زین نے افسوس سے کہا 

"مجھے ہنسی اس بات پر آرہی ہے تم اس وقت نصیحتیں کرتے ہوئے بالکل کوئی دادی اماں ٹائپ خاتون لگ رہے ہو"

حور زین کو دوبارہ دیکھ کر ہنسنے لگی

"بوکس قسم کا جوک تھا بالکل بھی ہنسی نہیں آئی مجھے" 

زین نے دوبارہ موبائل دیکھتے ہوئے کہا 

"کیا مسئلہ ہے زین،، رکھو اس موبائل کو  سائیڈ پر۔۔۔۔ ابھی اگر میرے ہاتھ میں میرا موبائل ہوتا تو تمہارے شکوے شروع ہوجاتے کہ میں تمہیں ٹائم نہیں دیتی ہوں اور مجھے نصیحتوں کی نہیں تمہاری ضرورت ہے اس وقت" 

حور نے منہ بناتے ہوئے کہا

"اوکے سویٹ ہارٹ رکھ دیا موبائل سائڈ پر اب بولو"

زین موبائل رکھتے ہوئے حور کا سر اپنے سینے پر رکھ لیا 

"ویسے دیکھ کیا رہے تھے موبائل میں"

حور نے منہ اونچا کرکے زین کے سینے پر تھوڑی ٹکاتے ہوئے کہا

"میں اچھے اچھے babies کے نام دیکھ رہا تھا ہمارے بےبی کے لیے"

زین نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ حور بھی مسکرانے لگی  

سوچیں تھیں کہ دماغ سے چمٹ کے ہی رہ گئی تھی۔۔۔باوجود تھکن کے وہ کافی دیر سے بیڈ پر لیٹ کر سونے کی کوشش کررہا تھا کافی دیر گزر گئی مگر نیند آبھی بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔ شاید کسی کمی کا احساس ہو رہا تھا ان تین مہینوں میں وہ اس کے وجود کا اتنا عادی ہوگیا تھا کہ اب وہ اس کے بغیر اس کو نیند نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔ اسماء کے موبائل پر زین نے کافی ساری کالز کی مگر مسلسل بیل جاتی رہی اسماء نے یا حور نے اس کی کال ریسیو نہیں کی،،، زین  نے دوبارہ موبائل نکالا اور حور کی تصویریں دیکھنے لگا

"تمہارے اس طرح روٹھ کر گھر سے جانے سے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا پری پلیز واپس آ جاؤ"

کافی دیر تک وہ حور کی تصویروں سے باتیں کرتا رہا نہ جانے کب اس کی آنکھ لگی اسے پتہ نہیں چلا..

یہ کس بے وقوف نے آئسکریم دی ہے کھانے کے لئے اور تم کھا بھی رہی ہو،، پتہ بھی ہے نہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے" 

زین انکھوں سے گلاسز اتار کر شرٹ میں اٹکاتا ہوا ان دونوں کے قریب آیا اور حور کے ہاتھ سے آئسکریم لے کر دور اچھالی

"یہ کیا بدتمیزی ہے شاہ"

حور نے زین کو دیکھتے ہوئے ناگواری سے کہا

"اسے بدتمیزی نہیں سویٹ ہارٹ کیئر کہتے ہیں،، تمہیں پتہ ہے نہ تمہاری طبیعت خراب ہوتی ہے تو میری جان پر بن آتی ہے۔۔۔۔۔اپنے شاہ پر رحم کرو اور اب جلدی جلدی سے اپنی طبیعت ٹھیک کرلو میں مزید تمہاری طبیعت خرابی بالکل افورڈ نہیں کرسکتا"

وہ حور کے چہرے پر آئی ہوئی لٹیں پیچھے کرتے ہوئے کہنے لگا 

"ایک منٹ تم یہاں کیسے آئے؟؟ تمہیں اندر کس نے آنے دیا"

خضر زین کو اپنے گھر میں موجود دیکھ کر چونکا اور غصے سے کہنے لگا

"آخر تمہیں یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی خضر کہ جب میں اپنی بیوی سے بات کر رہا ہوں تم مجھے کسی دوسرے کا بیچ میں مداخلت کرنا سخت زہر لگتا ہے ،، اچھی عادت نہیں ہے یہ تمہاری، پلیز بدلو اس کو اور رہی بات میرے یہاں پر آنے کی تو جب تک میری بیوی اس گھر میں موجود ہے تو کسی کا باپ بھی مجھے یہاں آنے سے نہیں روک سکتا"

زین نے دوستانہ انداز میں کہتے ہوئے آخر میں خضر کو باور کرایا

"حور اب تمہارے ساتھ واپس نہیں جانے والی، یہ بات اس نے خود اپنے منہ سے اس دن کہی تھی شاید تم بھول رہے ہو"

خضر نے اس کو جتانے والے انداز میں تین دن پہلے کا واقعہ یاد دلایا   

"اس کا کہنا یا نہ کہنا میرے لیے معنی نہیں رکھتا۔۔۔ اگر میں چاہوں تو اس وقت بھی حور کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں کون روکے گا مجھے تم؟؟ اگر میں ابھی حور کو اپنے ساتھ واپس لے جاو تو وہ خود بھی مجھے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی"

زین نے چیلنجنگ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا 

"شاہ تم" 

حور نے کچھ بولنا چاہا تو زین نے اپنی شہادت کی انگلی حور کے ہونٹوں پر رکھ کر اس کو کچھ بھی بولنے سے باز رکھا

"شش شاہ کی جان اب میری سنو۔۔۔۔ جلدی سے اپنی طبعیت ٹھیک کرو مزید تمہیں یہاں پر برداشت نہیں کرنے والا میں،،، ابھی تھوڑی دیر پہلے اندر بتایا تھا نہ تمہیں کہ کتنا مس کر رہا ہوں اندازہ نہیں ہوا تمہیں"

زین حور کے گالوں کو اپنی انگلیوں سے چھوتے ہوئے گردن تک لایا 

حور زین کی حرکت پر بدک کر پیچھے ہٹی اور گھور کر زین کو دیکھنے لگی جبکہ دوسری طرف خضر لب بیچ کر رہ گیا

"حور سے زیادہ پیار جتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ جو اس دن تم نے ریسٹورنٹ میں اس کے ساتھ کیا تھا وہ تماشہ دنیا نے دیکھا تھا اور مجھے بھی ابھی تک یاد ہے"  

"کیا ہے نا خضر میں اپنی بیوی کے معاملے میں بہت زیادہ ٹچی ہو،،، اسے اگر ہوا بھی چھو کر گزر جائے نا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔اور تمہیں تو میں صرف اس لیے بخش دیتا ہوں کہ تم اس کے کزن ہو،، یقین جانو تم خوش قسمت ہو کہ اس دن ریسٹورنٹ سے اپنے پیروں پر چل کر گھر گئے اور یاد تو تم ابھی بھی بہت کچھ رکھنے والے ہو"

یہ کہتے ہوئے زین نے اچانک حور کو اپنی طرف کھینچا اور ایک سیکنڈ بھی لگائے بغیر وہ حور کے چودہ طباق روشن کر چکا تھا۔۔۔ حیرت اور بے یقینی سے حور کی آنکھیں پھٹی کی پٹھی رہ گئیں اور دوسری طرف 14 طباق تو خضر کے بھی روشن ہو چکے تھے مگر وہ صرف سرخ چہرے کے ساتھ مٹھیاں بیچ کر رہ گیا 

"آئسکریم کا ٹیسٹ بالکل اچھا نہیں تھا خیر رات میں کال کروں گا پک کر لینا"

آئس کریم کا ٹیسٹ اپنے ہونٹوں پر محسوس کرتے ہوئے وہ حور کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے بولا

حور ابھی بھی آنکھیں پھاڑے ہوئے زین کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی زین نے اس کو دیکھ کر شرارت سے اپنی ایک آنکھ دبائی اور مسکرا دیا اور جانے سے پہلے سے خضر کی طرف مڑا

"جب تک یہ یہاں پر موجود ہے تو اپنی بہن کا خیال رکھنا"

وہ جاتے جاتے بھی خضر کو مزید سلگانہ نہیں بھولا 

زین کے جاتے ہی حور نے بھی خضر کو دیکھے بناء اندر کی طرف دوڑ لگادی اسے اب زین کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا

"اف میرے خدا یہ شخص تو میرے جانے کے بعد فل ٹائم بے ہودگی پر اتر آیا ہے،، توبہ ہے خضر بھائی کے سامنے ہی۔۔۔۔۔" آگے کا منظر سوچ کر حور کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہوگیا 

"اف کیا سوچ رہے ہوں گے خضر بھائی بھی،، ان کے سامنے جاتے ہوئے کتنی شرم آئے گی۔۔۔۔۔ بلکہ سامنا ہی نہیں کروں گی اب میں ان کا"

اور شاید یہی اس کا شوہر بھی چاہتا تھا 

*****

زین صبح آفس پہنچا تو ماحول میں عجیب سے تناؤ کا احساس ہوا۔ بلال اور اشعر دونوں ہی چپ تھے دونوں ہی اس کی بات کا جواب سرسری انداز میں دے رہے تھے اور ایک دوسرے کو بالکل بھی مخاطب نہیں کر رہے تھے 

"کیا پرابلم ہے تم دونوں کے ساتھ"

 کافی دیر دیکھنے کے بعد آخرکار زین نے دونوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا 

"کوئی پرابلم نہیں ہے یہ فائل صدیقی صاحب کو دینے جا رہا ہوں تاکہ شام تک اس کی ڈیٹیلز مل جائیں"

فائل لے کر بلال روم سے باہر چلا گیا 

"کیا بات ہوئی ہے آشعر! تم دونوں کے درمیان"

زین نے اشعر سے پوچھا 

"بس یار جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ ہوگیا" 

اشعر نے مایوس لہجے میں کہا

"یہ پہیلیاں کم بوجھاو اور کام کی بات پر آو فورا"

زین نے سگریٹ ہونٹوں میں دباتے ہوئے کہا 

"ہونا کیا تھا کل اس سالے کو پتہ چل گیا کہ میں اسے سالا بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔ تب سے خونخوار نظروں سے مجھ معصوم کو گھورے جا رہا ہے"

اشعر کے لہجے سے ابھی بھی مایوسی کم نہیں ہوئی تھی

"اور تمہارے اس کارنامے کا اس کو معلوم کیسے ہوا"

زین نے لائٹر جلاتے ہوئے کہا 

"اپنی ہونے والی شریک حیات سے اس کی مرضی اور رائے جاننے کے لیے  اس کو ملنے گیا تھا پتہ نہیں یہ وہاں  کہاں سے ٹپک پڑا"

اشعر نے ٹھنڈی آہ بھری 

"ہاہاہا تو یہ بات ہے" 

زین نے ہنستے ہوئے کہا 

"تم ہنس رہے ہوں ظالم انسان یہاں میری بینڈ بجی ہوئی ہے"

اشعر نے تپتے ہوئے کہا

"شکر کرو بینڈ اس نے تمھاری بجائی نہیں صرف گھورنے پر ہی انحصار  کیا ہے بائی داوے آپ کی ہونے والی شریک حیات کا کیا خیال ہے آپ کے بارے میں"

زین نے مسکراتے ہوئے سگریٹ کا دھواں منہ سے چھوڑا

"شکر ہے یار اس کے خیالات میرے بارے میں نیک ہیں۔۔۔۔ اپنے کھڑوس بھائی کی طرح نہیں"

اشعر نے تانیہ کا چہرہ یاد کرتے ہوئے مسکرا کر کہا  

"ہہمم تو یہ معاملہ ہے سارا"

زین نے اشعر کو دیکھتے ہوئے کہا

"ہاں یہ بات ہے ساری جبھی تو مجھ سے صحیح طرح اداس بھی نہیں ہوا جا رہا"

اشعر کے لہجے میں ایک امید تھی جیسے وہ بلال کو منا لے گا  

*****

"بھائی پانی"

بلال کے آفس سے آتے ہی تانیہ ہمت کرکے پانی کا گلاس بلال کے سامنے لے کر آئی۔۔۔۔ کل جب بلال اس کو گھر لے کر آیا تھا تو وہ اس کے بعد سے کمرے سے نہیں نکلی تھی فضا کے پوچھنے پر بھی طبیعت خرابی کا بہانہ بنا دیا مگر اس طرح چپ رہنے کا مطلب اپنے آپ کو مجرم ثابت کرنا تھا۔۔۔۔۔ اس لیے اس نے بلال سے بات کرنے کا سوچا 

"بھائی آپ پلیز میری بات سنیں"

بلال اٹھ کر جانے لگا تو ایک دم تانیہ سامنے آکر بولی

"کوشش کرو کہ اپنی شکل مجھے نہیں دکھاو"

بلال تانیہ کو بول کر ٹھہرا نہیں کمرے سے باہر نکلنے لگا مگر سامنے کھڑی فضا کو دیکھ کر ایک لمحے ٹھٹکا پھر وہاں سے چلا گیا 

فضا نہ سمجھی سے بلال کو دیکھنے لگی کمرے میں آئی تو  تانیہ کو روتے ہوئے دیکھا

"تانی کیا ہوا ہے"

 فضا نے تانیہ کو گلے لگاتے ہوئے پوچھا

"بھائی مجھ سے ناراض ہیں فضا وہ مجھ سے بات تو دور کی بات میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہ رہے ہیں،، جب کہ میری کوئی غلطی نہیں تھی"

فضا کے گلے لگتے ہی تانیہ نے رونے میں مزید شدت آگئی 

"بات کیا ہوئی ہے تم دونوں بہن بھائیوں کے درمیان مجھے کچھ بتاو تو سہی" 

فضا کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا تانیہ نے کل والا سارا واقعہ فضا کو سنایا 

"ہہمم تو یہ بات ہے" فضا نے سن کر کچھ سوچتے ہوئے کہا 

"میری بس یہ غلطی تھی فضا میں اس وقت اشعر کے کہنے پر ان کے ساتھ چلی گئی۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے یا اس وقت بھی میں نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے بھائی کا سر جھکے"

تانیہ نے روتے ہوئے کہا

"افوہ یہ رونا بند کرو اپنا میں تمہیں جانتی نہیں کیا جو مجھے وضاحتیں دے رہی ہو اور اپنے اس سڑے ہوئے بھائی کے  رویہ کو سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ اس کا بس چلے وہ تو ہواؤں کی بات تو کا بھی برا مان جائے تم اس سمت کیوں چل رہی ہو"

فضا نے بلال کی نکل اتارتے ہوئے کہا

"ویسے ایک بات ہے تانیہ اشعر بھائی ہے تو بڑے ڈیشنگ بہت زیادہ پیارے لگو گے تم دونوں ایک ساتھ"

فضا نے خوش ہوتے ہوئے تانیہ سے کہا 

"نہیں فضا ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا میں بھائی کو مزید ناراض نہیں کرسکتی اور اشعر کو خود ہی منع کر دوں گی کہ وہ اپنی مدر کو ہمارے گھر نہ بھیجیں"

تانیہ نے افسردگی سے کہا 

"تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا اگر کوئی بھی ایسی بیوقوفی کی نا تم نے تو سچ مچ پٹو گی میرے ہاتھوں سے اور تمہارے اس سڑے ہوئے بھائی کو آنے دو،، آج دو دو ہاتھ کرتی ہوں اس سے میں۔۔۔۔ سمجھتا کیا ہے وہ خود کو،، اپنی اسٹوری میں تو خود ولن بنا ہی اور اب بہن کی اسٹوری میں بھی وہی کردار ادا کر رہا ہے"

فضا نے غصہ میں بھناتے ہوئے کہا 

"نہیں فضا تم بھائی سے کچھ نہیں کہو گی اس معاملے میں۔۔۔۔ اس معاملے کو زیادہ بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے، بات یہی ختم ہوجائے گی یہی بہتر ہے"

تانیہ نے اٹھتے ہوئے کہا

"میری بات غور سے سنو تانیہ اگر تم نے اشعر بھائی کو فون کرکے کچھ بھی بولا تو تم اشعر بھائی کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بھی زیادتی کروگی اور رہی بات تمہارے بھائی کی تو تم اس کی فکر نہیں کرو مجھ پر بھروسہ رکھو میں تمہارے ساتھ کبھی بھی زیادتی نہیں ہونے دوں گی"

فضا سنجیدہ لہجے میں اس کو یقین دلایا

"مگر فضا تم نہیں جانتی وہ بھائی"

"ارے چھوڑو اس وقت بھائی وہای کو،، بھوک لگ رہی ہے کھانا کھاؤ چلو میرے ساتھ۔۔۔ ماموں کو بھی دوا دینی ہے پھر"

 فضا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا              

 *****

"ابو مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے"

خضر نے اسٹیڈی میں آتے ہوئے ظفر مراد سے کہا 

"ہاں بولو میں سن رہا ہوں"

انھوں نے مصروف انداز میں جواب دیا

"آپ نے تو اسے بڑے دعوے سے کہا تھا کہ آپ زین سے سب کچھ واپس چھین لیں گے حور اور ساری رقم جو اس نے ہم سے چھینی ہے وہ سب واپس لے لیں گے"

خضر نے ظفر مراد کو یاد دلاتے ہوئے کہا 

"وہ سب مجھے یاد ہے آگے بولو"

ظفر مراد نے خضر سے بولا 

"تو پھر اس معاملے کو اتنا تول کیوں دے رہے ہیں،، جو بھی کچھ کرنا ہے کرکرا کے فارغ کریں وہ زین روز یہاں پر آجاتا ہے مجھ سے بالکل برداشت نہیں ہوتا"

خضر کو آج شام والا منظر یاد آیا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی  

"کوئی تول نہیں دیا میں نے اس معاملے کو بہت سمجھ داری سے قدم اٹھانا پڑتا ہے ایسے معاملوں میں جلد بازی میں صرف نقصان کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔۔ میں نے کہا تھا نہ حور اور پیسہ سب واپس اس گھر میں آئے گے حور آگئی ہے اور اب بس پیسہ واپس لانا ہے اپنا،،،،، اس پر حور کے سائن ہونے کے بعد ہی ہمہیں اگلا قدم اٹھانا ہے" ظفر مراد نے پیپر خضر کے آگے بڑھاتے ہوئے کہا

"کیا ہے ان پیپرز میں"

خضر نے ظفر مراد سے پوچھا 

"یہ تم خود ہی دیکھ لو"

ظفر مراد نے پیپرز خضر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا خضر نے ایک نظر پیپرز کو دیکھا اور پھر ظفر مراد کو 

"کیا حور ان پیپرز پر سائن کرے گی" خضر نے ظفر مراد سے سوال کیا

_______

"ان پیپرز پر حور سے کیسے سائن کروانا ہے یہ تمہارا کام ہے جب وہ زین سےخلع لے گی،، اس کے بعد ہی ہم زین پر کیس کریں گے کہ زبردستی گن پوائنٹ پر نکاح کرنا گن پوائنٹ پر رقم چھیننا اور حور کی گواہی سے ہی ہم اپنی رقم نکلوا سکتے ہیں اس کو سلاخوں کے پیچھے کر سکتے ہیں"

ظفر مراد نے سوچا ہوا پلان خضر کو بتایا دروازے پر دستک کی آواز پر ان دونوں کی نظریں  اسماء پر پڑی جو ہاتھ میں چائے کے کپ لیے ہوئے اندر آ رہی تھی

"خضر بیٹا آپ کے پاس کوئی پین کلر ہے"

انہوں نے نرم لہجے میں چائے کے کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے خضر سے پوچھا 

"خیریت چچی کیا ہوا"

خضر نے آسماء سے پوچھا 

"میڈیسن باکس میں میرے پاس پین کلر موجود نہیں ہے شام سے ہی سر میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا تھا اب کافی بڑھ گیا ہے"

انہوں نے چائے کے کپ دونوں کو تھاماتے ہوئے کہا

"آپ روم میں چلیے میں آپ کو دے دیتا ہوں"

خضر نے ان کو نارمل انداز سے بات کرتے ہوئے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں سنا خضر نے شکر ادا کیا 

****

اسماء کا موبائل جو کافی دیر سے حور کو نیند میں ڈسٹرب کر رہا تھا آخرکار بیزار آ کر بند آنکھوں سے ہی حور نے کال ریسیو کر لی اور بیزاری سے گویا ہوئی ہے 

"ہیلو کون بول رہا ہے"

نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں حور نے پوچھا 

"میں یہاں تمہاری یاد میں تارے گن رہا ہوں اور تم مزے سے نیندیں پوری کر رہی ہوں۔۔۔۔چلو ویسے یہ بھی اچھا ہے اپنی نیندیں میکے میں ہی پوری کر کے آنا میرے پاس"

زین کی آواز موبائل سے ابھری تو حور کی آنکھیں پوری کھل گئی 

"کس نے کہا تمہیں اس وقت تارے گننے کو ہمیشہ مجھے نیند میں ڈسٹرب کرنا بس"

حور نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا 

"یہ تو الزام ہے سویٹ ہارٹ صرف آج دوپہر اور ابھی نیند میں ڈسٹرب کیا اس سے پہلے تو ہمیشہ اپنے دل کو مار کر تمہاری نیند کا احترام کیا ہے"

زین کی بےتکی باتوں سے اس سے بالکل نیند نہیں آنی تھی

"تم نے فون کس لئے کیا ہے شاہ"

حور نے زین سے پوچھا

"تمہیں پتا ہے دو دن سے سعیدہ کام کرنے کے لئے نہیں آرہی، گھر کتنا گندا پڑا ہے"

زین نے حور کی معلومات میں اضافہ کیا

"او تو اب وجہ سمجھ آئی تم بار بار بھی کیوں چاہ رہے ہو میں گھر واپس آجاؤ۔۔۔ تمہیں گھر کی فکر ہے گھر کی صفائی کی۔۔۔۔ تم نے مجھے گھر کی چھپکلی سمجھ رکھا ہے"

حور نے تپتے ہوئے کہا

"سویٹ ہارٹ خود کو چھپکلی تو نا کہو۔۔۔۔ تم تو میرے گھر کی اور اس دل کی ملکہ ہوں،، صرف تمہاری حکمرانی ہے اس دل پر اور صرف مجھے گھر کی ہی نہیں اپنی بھی فکر ہے تمہیں پتہ ہے نا میرا گزارہ بہت مشکل ہے تمہارے بناء۔۔۔۔یو نو اکیلے اتنے بڑے بیڈ پر سونا کتنا برا لگ رہا ہے" 

زین نے ٹیرس کا دروازہ بند کرکے روم میں آتے ہوئے کہا 

"تم فضول حرکتوں کے ساتھ ساتھ فضول باتوں میں بھی ماسٹر ہو۔۔۔۔ اور یہ آج دوپہر میں تم نے خضر بھائی کے سامنے کیا بیہودہ حرکت کی تھی،،، تمہیں ذرا شرم نہیں آئی"

حور نے اس کو غلطی کا احساس دلانا چاہا 

"او کم ان یار تمہارے خضر بھائی کون سے دودھ پیتے بچے ہیں،،، اسے پتہ نہیں ہے کیا، میاں بیوی کا ریلیشن،، زیادہ نہیں سوچو تم بھی" 

زین نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا 

"بے شک وہ دودھ پیتے بچے نہیں ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہر کسی کے سامنے شروع ہو جاؤ۔۔۔ کیا سوچ رہے ہوگے وہ کتنا برا لگا ہوگا انھیں"

حور نے زین کو شرمندہ کرنا چاہا

"اکیلے میں تم نے کہاں موقع دیا کمرے سے باہر ہی نکل گئی اور کچھ برا نہیں لگا ہوگا اسے ورنہ وہ آنکھیں بند کرلیتا اپنی۔ ۔۔۔ ویسے تمہیں تو برا نہیں لگا نا"

زین اب شرارت سے حور سے پوچھ رہا تھا

"تم سدھرنے والی یا بات ماننے والی شے نہیں ہوں۔۔۔ کبھی تو سیریز لیا کرو مجھے"

حور نے جھنجھلاتے ہوئے کہا

"ایک تمہیں ہی تو سیریس لیا ہوا ہے سویٹ ہارٹ اب تم بھی میرے لئے بالکل سیریس ہوجاؤ اور بند کرو یہ خضر نامہ۔ ۔۔۔ پری سے کہو کہ وہ شاہ کے پاس آجائے اس کا شاہ اپنی پری کو بہت مس کر رہا ہے" 

زین نے آنکھیں بند کرتے ہوئے ایک جذب سے کہا جیسے وہ واقعی اس کو مس کر رہا ہو

"اور پھر شاہ نے اگر دوبارہ پری کو ڈرایا یا غصہ کیا تو"

حور نے زین سے کہا

"اب بالکل بھی غصہ نہیں ہوگا پرامس"

زین نے ہار مانتے ہوئے کہا

"اور جو شاہ کے غصے میں پری کا نقصان ہوا ہے اس کا کیا"

حور کو نئے سرے سے دکھ نے آگھیرا

"اس دن صرف تمہارا نقصان نہیں ہوا حور میں نے بھی اپنا بچہ کھویا تھا اس دن صرف تم نے تکلیف برداشت نہیں کی ہے میں بھی بہت تڑپا ہوں مگر پلیز حور یوں دور رہ کر سزا نہیں دو واپس گھر آجاؤ"

زین نے بیڈ سے اٹھ کر بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا

"نہیں مجھے واپس فی الحال نہیں آنا تمہیں یاد ہے نا میں نے لاسٹ ٹائم تمہیں کہا تھا کہ آئندہ اگر تم نے غصہ کیا تو میں بہت برا ناراض ہو گئی تم سے، نہ صرف غصہ بلکہ تمہارے غصے کی وجہ سے ہم اپنے آنے والی خوشی سے بھی محروم ہو گئے۔۔۔۔ تمہاری طرح میرا بھی اتنا بڑا ظرف نہیں ہے میں تمہیں فوری طور پر سب بھول سکو" 

حور اس کے ساتھ جانا تو چاہتی تھی لیکن اس کا احساس دلانا بھی ضروری تھا کہ اس کے غصے کی وجہ سے ان دونوں نے کیا کچھ کھویا ہے اس نے سوچا کہ وہ زین سے دور رہے گی تبھی زین کو اس کی غلطی کا احساس ہوگا اور اس کے غصے میں بھی کمی آئے گی یہی سوچتے ہوئے زین کو انکار کیا

"بس حور بہت ہوگیا ہے اب،، کہہ تو دیا ہے نا یار شرمندہ  ہوں۔۔۔۔ اب کیا چاہتی ہوں میں کل تمہیں لینے آ رہا ہوں"

زین نے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا

"میں تمھارے ساتھ نہیں جاو گی شاہ" 

حور بھی اپنی ضد پر اڑی رہی

"تمھاری نہ پہلے کبھی چلی ہے نہ اب چلے گی اور یہ تم خود بھی اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ کان کھول کر سن لو تم کل میرے ساتھ واپس آ رہی ہو جو بھی نخرے دکھانے ہیں یہاں آکر دکھاؤ تاکہ تمہارا اچھی طرح علاج کروں میں،، کل کوئی تماشا لگائے بغیر ریڈی رہنا" 

زین نے غصے میں کہتے ہوئے فون رکھا

"نہیں یہ میری سوچ ہے، یہ انسان نہیں سدھر سکتا۔۔۔۔ اب پتہ نہیں کل کتنا بڑا تماشہ ہوگا"

حور نے سوچتے ہوئے دوبارہ آنکھیں بند کرلی

"زبردستی ہی صحیح،، گھر تو وہ اسے آج بھی لے کر آ سکتا تھا۔۔۔۔۔ وہ بےشک اس سے ناراض سہی زین کے زبردستی کرنے پر واپس آ بھی جانتی۔۔۔۔مگر زین چاہتا تھا وہ اپنی خوشی اور پوری دلی آمادگی کے ساتھ واپس آئے۔۔۔یہی سوچ کر وہ بیڈ کر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا..

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Itni Muhabbat Karo Na   Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Itni Muhabbat Karo Na    written by Zeenia Sharjeel .   Itni Muhabbat Karo Na   by Zeenia Sharjeel   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment