Pages

Tuesday 31 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 17 to 18

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 17 to 18      

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...


Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 17'18


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اگلے دن رئيد کی توقع کے عين مطابق اسے شہاب کی جانب سے عدالتی نوٹس آفس ميں موصول ہوا۔ نوٹس ميں اس پر نکاح پر نکاح کا جرم عائد کيا گيا تھا۔ 

رئيد پہلے سے ہی شہاب کی جانب سے کسی گھٹيا چال کی اميد کررہا تھا۔ 

نوٹس اسے آفس ميں ہی موصول ہوا تھا۔ 

ابھی وہ نوٹس پڑھ ہی رہا تھا کہ آفس کے نمبر پر کال آئ۔ 

"ہيلو" مصروف انداز ميں فون اٹھايا۔ دوسری جانب مريم تھی۔ 

"سر کوئ شہاب صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہيں" مريم کی بات پر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا۔ 

"بات کرواؤ" کچھ سوچ کر مريم کو اجازت دی۔ 

تھوڑی دير بعد شہاب کی کرخت آواز فون پر ابھری۔ 

"کيسا لگا سرپرائز" اپنی طرف سے اس نے بڑا معرکہ مارا تھا۔ 

"ميرے لئے يہ بالکل بھی سرپرائز نہيں تھا۔ ميں تمہاری جانب سے اس سے بھی گھٹيا حرکت کے لئے تيار تھا۔ تم نے تو بڑے تھوڑے پر سودا کيا ہے" رئيد نے اسے جلانے والی مسکراہٹ سميت جواب ديا۔

اور حسب سابق وہ جل کر راکھ ہوگيا ۔ چہرے پر سختی در آئ۔ 

"جب عدالت ميں گھسيٹوں گا تب پوچھوں گا سودا کيسا لگا" 

"تو پھر عدالت ميں ہی بات کرنی تھی نا۔ پيسے کيوں ضائع کئيے" رئيد پر اسکی کسی دھمکی کا کوئ اثر نہيں ہورہا تھا۔ 

"تمہاری زندگی سے اس سکون کو چھين لوں گا" وہ پھنکار کر بولا۔ 

"تمہاری بدولت ہی تو عمر بھر کا سکون ميری زندگی ميں آيا ہے" مطيبہ کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوما۔ 

"اب ديکھنا يہ ہے کہ جس جھوٹ پر تم نے کسی کی عزت بيچنے کی کوشش کی تھی اسی جھوٹ پر تمہاری نام نہاد عزت کس طرح اچھالی جاۓ گی۔۔۔چچچ۔" رئيد نے اسے جلانے ميں کوئ کسر نہيں چھوڑی۔ 

"منہ کے بل گرو گے" اس نے پھر سے دھمکی دينی چاہی

"وقت بتاۓ گا" رئيد نے اسے چيلنج کيا۔ 

غصے ميں آکر اس نے آخرکار فون بند کرديا۔ رئيد نے سر جھٹکا۔

___________________

دو دن بعد انکی پہلی پيشی تھی۔ 

رئيد پوری تياری کے ساتھ تھا۔ رفيعہ کی ہمسائ نے بھی بيان ريکارڈ کروا ليا تھا جو کہ انتہائ مدلل تھا۔ 

اس بيان کی وجہ سے بھی ان کا کيس کافی سٹرانگ ہوچکا تھا۔ 

ہر پيشی پر مطيبہ کو ساتھ لازمی جانا تھا۔ 

وہ کچھ گھبرائ ہوئ بھی تھی۔ 

حسن، رئيد اور مطيبہ تينوں گاڑی ميں بيٹھ چکے تھے۔ 

رفيعہ پريشان سی پورٹيکو ميں کھڑی تھيں۔ 

رئيد نے انہيں بہت تسلی دلائ تھی اسکے باوجود ماں تھيں۔ پريشان ہونا تو بنتا تھا۔ 

رئيد اور حسن آگے بيٹھے تھے۔ جبکہ مطيبہ بڑی سی چادر ميں خود کو ڈھانپے پيچھے بيٹھی تھی۔ نجانے کيا بات تھی دل عجيب سا پريشان ہورہا تھا۔ 

وہ اپنی جلدی گھبرانے والوں ميں سے نہيں تھی۔ نہ ہی اسے اس پيشی سے پريشانی ہورہی تھی۔ پھر بھی دل ميں پتہ نہيں کيوں سناٹا چھايا تھا۔ 

خاموشی سے گاڑی سے باہر دوڑتے بھاگتے مناظر کو ديکھ رہی تھی۔ 

تينوں اس وقت خاموش تھے۔ حسن مسلسل کچھ ورد کررہے تھے۔ 

رئيد کی سنجيدگی بھی انتہا کو پہنچی ہوئ تھی۔ 

کورٹ کے باہر احاطے ميں گاڑی پارک کرکے وہ تينوں اپنے اپنے دروازوں سے باہر آۓ۔ 

سمير پہلے سے موجود تھا پارکنگ ميں ان کا ہی منتظر کھڑا تھا۔ 

انکی گاڑی رکتے ہی وہ تيزی سے تينوں کی جانب آيا۔ 

مطيبہ کو سلام کرکے حسن اور رئيد سے بغلگير ہوا۔ 

"اللہ بہتر کرے گا ان شاءاللہ" حسن کی کسی بات کے جواب ميں وہ بولا۔ 

حسن اور سمير باتيں کرتے ہوۓ آگے بڑھے۔ 

رئيد نے خاموش کھڑی مطيبہ کی جانب ديکھا۔ 

جو اپنی جگہ سے ہلی نہيں تھی ايسے جيسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو۔ 

رئيد نے کچھ چونک کر اسے ديکھا۔ پھر نجانے دل ميں کيا سمائ ہاتھ بڑھا کر مطيبہ کا باياں ہاتھ اپنے دائيں ہاتھ ميں تھاما مطيبہ نے کچھ چونک کر اسکی جانب ديکھا۔ 

رئيد نے اسکی حيران نظروں کو نظرانداز کيا۔ اور قدم آگے بڑھا دئيے۔ مطيبہ کو ايسے لگا اسکے اندرکا اضطراب کسی حد تک کم ہوگيا ہے۔ 

خاموشی سے اسکی پيروی کرتی اسکے پيچھے چلتی جارہی تھی۔ 

کمرہ عدالت ميں پہنچ کر بھی رئيد نے اس کا ہاتھ نہيں چھوڑا بلکہ سيٹوں کے قريب پہنچ کر اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کيا اور پھر خود بھی اسکے برابر بيٹھ گيا۔ 

سمير جج کے سامنے والی کرسيوں پر اپنی نشست سنبھال چکا تھا۔ 

حسن رئيد کے ساتھ بيٹھ چکے تھے۔ 

دوسری جانب شہاب بھی انہيں بيٹھا دکھائ ديا۔ 

رئيد نے بے حد سرد نگاہوں سے اسے ديکھا۔ 

جو مونچھوں کو تاؤ ديتا مطيبہ کو اپنی غليظ نظروں سے ديکھ رہا تھا۔ رئيد پر نگاہ پڑھتے ہی خوامخواہ ايک طنزيہ مسکراہٹ اسکی جانب اچھال کر منہ سيدھا کئے جج کو ديکھنے لگا۔ 

پانچ منٹ بعد دونوں جانب کے وکيل اپنا اپنا کيس بيان کرنے لگے۔ 

"جج صاحب! نکاح پر نکاح کرکے ميرے ساتھی وکيل کے ساتھيوں نے نہ صرف معاشرتی غير اخلاقی کا ثبوت ديا ہے بلکہ

مذہب کا بھی مذاق اڑايا ہے" شہاب کی جانب سے موجود وکيل نے پہل کی۔ 

"جج صاحب! ميں اپنے ساتھی وکيل کو درست کرواتا چلوں۔ جس نکاح کو بنياد بنا کر يہ يہاں آۓ ہيں وہ نکاح ميری ملزمہ نے انجام ہی نہيں ديا۔ اور نہ ہی انہوں نے دستخط خود کئيے۔ حتی کے جو شخص ان کا پہلا شوہر ہونے کا دعوی کررہا ہے اس کو انہوں نے کبھی ديکھا تک نہيں۔" سمير نے شہاب کے وکيل کے جواب ميں اپنے دلائل پيش کئے۔ 

"کيا ملزمہ يہاں موجود ہيں؟" جج نے سمير سے سوال کيا۔ 

"جی بالکل" سمير نے اسکی موجودگی کی تصديق کی۔ 

"ميری گزارش ہے کہ وہ ادھر آکر اپنا بيان ہميں بھی گوش گزار کريں" جج کے کہنے پر مطيبہ نے ايک نظر ساتھ بيٹھے رئيد کو ديکھا۔ جس نے اس کا ہاتھ تھپتھا کر جانے کا اشارہ کيا۔ 

مطيبہ نے سر جھکايا۔ خاموشی سے اٹھ کر وہ کٹہرے ميں پہنچی۔ 

قرآن شريف پر پہلے اس سے حلف ليا گيا۔ 

"جی محترمہ آپ اپنی صفائ ميں کچھ کہنا چاہتی ہيں" جج کی اجازت ملتے ہی مطيبہ نے ايک کاٹ دار نگاہ شہاب کی جانب ڈالی۔ 

پھر چہرہ گھما کر رئيد کی جانب ديکھا۔ جس کی نظريں اسے مطيبہ کا ساتھ دينے کی گواہی دے رہی تھيں۔ 

"ميں کچھ نہيں بہت کچھ کہنا چاہوں گی۔ يہ شخص جو آج يہاں ميرا دعويدار بنا بيٹھا ہے۔ اس کو ميں ہر گز ہرگز نہيں جانتی۔ ميرے باپ نے مجھے اسکے ہاتھ بيچا۔۔ " مطيبہ پل بھر کو رکی۔ اپنے لئے اتنے تلخ الفاظ کرنا اور اتنی بھيڑ کے سامنے کسی تکليف سے کم نہيں تھا۔ 

"مجھے جب معلوم ہوا ميں آفس سے اپنے گارڈ کے گھر پناہ لينے کے لئے چلی گئ۔ 

آپ جانتے ہی ہوں گے کہ جس لڑکی کی قيمت لگائ جاۓ اسکے ساتھ شريفوں والا سلوک نہيں ہوتا۔ 

اگر اس شخص کو مجھ سے غرض تھی ميری ماں سے ميرا ہاتھ مانگ کر شريفوں کی طرح آتا۔ آپ اس سے پوچھيں۔ کس دن اس نے ميرا رشتہ بھيجا۔۔ اگر يہ اتنا ہی سچا ہے تو اس سے پوچھيں ہمارا نکاح کہاں ۔اور کس جگہ انجام پايا تھا اور اسکے گواہان کون تھے۔ يقينا وہ بھی سب اپنی طرح جھوٹے اکٹھے کر لئے ہوں گے۔ 

نہ ہوش ميں اور نہ مدہوشی ميں ۔۔ميں نے اس شخص سے کسی قسم کا کوئ نکاح نہيں کيا" مطيبہ نے ايک ايک لفظ پر زور دے کر  کہا۔ اور جب بولی تو پھر بولتی چلی گئ۔ 

"ہاں جو اب اور ميرے اصل شوہر ہيں۔ ميں نے اپنی مرضی سے ان سے نکاح کيا ہے۔ پورے ہوش و حواس کے ساتھ ميں نے نکاح نامے پر دستخط بھی کئے ہيں اور قبول ہے بھی کہا ہے۔ اور يہ نکاح ہمارے اسی گارڈ کے گھر ہوا ہے۔ اور اب ميں اپنے شوہر کے ساتھ اپنی مرضی سے رہتی ہوں" غصے ميں بولتے مطيبہ کا سانس پھول گيا۔ 

"ٹھيک ہے محترمہ آپ اب اپنی سيٹ پر بيٹھ سکتی ہيں" جج نے کچھ پوائنٹس نوٹ کرکے مطيبہ کو اسکی سيٹ پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ 

"جی اب آپکے ملزم اپنی طرف سے کوئ ثبوت دينا چاہتے ہيں تو ضرور ديں" جج کا رخ اب شہاب کے وکيل کی جانب تھا۔ 

جس نے جھوٹے گواہان بھی حاضر کئے اور تو اور فائق کو بھی پيش کيا۔ 

"ميں نے خود اپنی بيٹی کا نکاح اس سے کيا ہے" مطيبہ حيران تھی اس کا باپ اس قدر بے غيرت کيسے تھا۔ 

جسے جيل ميں بھی عقل نہيں آئ تھی وہ شہاب کے ہی گن گاتا پھر رہا تھا۔ 

"ايک باپ سے بڑھ کر کون سچ بات کہہ سکتا ہے" شہاب کے وکيل نے اپنی بات ميں وزن پيدا کرنا چاہا۔ 

کچھ دير بيانات کا جائزہ لينے کے بعد جج نے اگلی پيشی کی تاريخ بتا دی۔

_________________________

"ميرے خدا يہ شخص کس قدر گھٹيا ہے۔" حسن گاڑی ميں بيٹھتے ہی صدمے سے بولے۔ 

صدمے ميں تو مطيبہ بھی تھی۔ باپ کے رشتے ميں ايک بھيڑيا اسے ملا تھا۔ جس نے بيچ چوراہے ميں اسکی عزت کا جنازہ نکالا تھا آج۔ 

مطيبہ نے سر جھکا کر اپنے آنسو صاف کئۓ جنہيں رئيد ديکھ چکا تھا۔ 

کورٹ سے نکلتے ہی اس کا پريشان چہرہ رئيد کو مضطرب کر گيا تھا۔ 

"رئيد مجھے برکت کی طرف اتار دينا ميں کچھ دير بعد آؤں گا" حسن نے اپنے کسی دوست کے گھر رکنے کا کہا۔  جن کا گھر راستے ميں پڑتا تھا۔ 

"جی بابا" رئيد نے اثبات ميں سر ہلاتے گاڑی کا رخ برکت صاحب کی طرف کيا۔ 

انکے گھر کے سامنے گاڑی روکی۔ 

"مطيبہ بيٹے پريشان نہيں ہونا اللہ بہتر کرے گا۔ ماں کو بھی گھر جا کر حوصلہ دينا" حسن نے پيچھے مڑ کر اسکے پژمردہ چہرے کو ديکھتے سر پر ہاتھ رکھتے تاکيد کی۔ 

"جی بابا" مطيبہ رئيد کی طرح انہيں بابا کہنے لگی تھی۔ کچھ دنوں سے ہی انہوں نے تاکيد کی اور جب سے اس نے ان کے ساتھ اجنبيت والا رويہ ختم کيا تب سے اس نے جانا کہ وہ واقعی بہت اچھے انسان ہيں۔ 

انکے مان بھرے انداز پر مطيبہ ان کو بابا کہنا شروع ہوگئ تھی۔ 

"دھيان سے جانا" اترتے وقت انہوں نے رئيد کو تاکيد کی۔

جيسے ہی حسن دروازہ بند کرکے برکت کے گھر کے گيٹ کی جانب بڑھے رئيد نے بيک ويو مرر سے اسے ديکھا۔ 

"آگے آجائيں" رئيد کے مخاطب کرنے پر مطيبہ نے ايک نظر بيک ويو مرر سے نظر آتی اسکی آنکھوں کو ديکھا۔ 

"ميں ٹھيک ہوں" مطيبہ نے انکار کيا۔ 

"مگر ميں ٹھيک نہيں ہوں۔ اور جب تک آپ آگے نہيں آئيں گی ٹھيک نہيں ہوں گا" رئيد نے ضدی لہجے ميں کہا۔ 

مطيبہ اسکے انداز سے زچ ہوئ۔ 

غصے سے دھب دھب کرتی آگے آکر بيٹھی۔ 

ايک تو وہ پريشان تھی اوپر سے رئيد کی يہ بے جا ضد۔ وہ جانتا تھا کہ اسے يہ فلمی باتيں پسند نہيں تھيں۔ پھر خوامخواہ کی ضد لگائ۔ 

"اب يہاں بيٹھ کر جتنا رونا ہے رو ليں۔ کم از کم آپ کو تسلی تو دے سکتا ہوں نا" رئيد نے اسکے بيٹھتے ہی سکھ کا سانس ليتے گاڑی آگے بڑھائ۔ 

وہ تو شکر تھا اس بحث سے پہلے ہی حسن برکت کے گيٹ کے اندر جاچکے تھے۔ ورنہ مطيبہ کا ان کے سامنے خفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ 

"مجھے کيا ضرورت ہے رونے کی" مطيبہ کے لہجے نے چغلی کھائ۔ 

"بالکل آپ کو رونے کی قطعی ضرورت ہونی بھی نہيں چاہئيے۔ جس اعتماد کا مظاہرہ آج آپ نے اپنی صفائ پيش کرتے وقت کيا تھا۔ ميری خواہش ہے کہ اس پورے کيس کے دوران آپ اتنی ہی بااعتماد نظر آئيں" رئيد سامنے ديکھتے پتہ نہيں اسے سراہ رہا تھا يا ہمت بندھا رہا تھا۔ مطيبہ کو سمجھ نہيں آئ۔ 

"بندہ تھينک يو ہی کہہ ديتا ہے" رئيد نے پھر سے اسکی خاموشی پر چوٹ کی۔ 

"کس بات کا شکريہ" مطيبہ نے اچنبھے سے پوچھا۔ 

"ميں نے تمام وقت آپ کو مورل سپورٹ دی۔ کتنا بڑا احسان کيا ہے آج ميں نے آپ پر۔۔ آپ کو کوئ قدر ہی نہيں" رئيد کے طنز کی وجہ مطيبہ کو سمجھ نہيں آئ۔ 

"بہت شکريہ ۔۔ ميں کبھی ايسی مورل سپورٹ کرکے اس احسان کا بدلہ اتار دوں گی" مطيبہ نے اس کی بات پر سپاٹ لہجے ميں کہا۔ 

"وعدہ کريں" مطيبہ جذبات ميں سوچے سمجھے بنا بول گئ۔ مگر اس کا اندازہ اسے نہيں تھا۔ 

"جی بالکل پکا وعدہ" مطيبہ نے منہ بنا کر کہا۔ 

"اب ياد رکھنا ہے اس بات کو" رئيد نے اسے پھر سے جتايا۔ 

"ميں اپنے محسنوں کو کبھی نہيں بھولتی" مطيبہ نے اسے باور کروايا۔ 

"کسی اور کے ساتھ زندگی گزارتے وقت بھی ياد رکھيں گی نا" رئيد کی بات پر اس نے ايک الجھی نظر رئيد کے جاذب نظر چہرے پر ڈالی۔ 

"کيا مطلب؟"

"مطلب اب يہ کيس حل ہوتے ہی آپ نے ميرے ساتھ تو ساری زندگی رہنا نہيں۔ اور پھر يقينا آپ کسی نہ کسی کو اپنی زندگی ميں شامل کريں گی تو جب شامل کريں گی۔تو ظاہر ہے ہم جيسوں کو کہاں زندگی بھر ياد رکھيں گی" رئيد کے منہ سے اس نے پہلی بار اتنے ہلکے پھلکے انداز ميں اس رشتے کو ختم ہونے کی بات سنی تھی۔ 

چند لمحوں کے لئے وہ سناٹے ميں چلی گئ۔ 

"نہيں ميں پھر بھی کبھی آپ کو نہيں بھولوں گی" نجانے اسکے آواز ميں کيسا کھوکھلا پن تھا جسے رئيد نے پوری طرح محسوس کيا۔

اسکے بعد سارا راستہ دونوں کے درميان خاموشی رہی

__________________________

عدالت سے باہر آتے ہی شميم اور علی حسن، مطيبہ اور رئيد سے اجازت لے کر اپنے گھر جانے کو پر تولنے لگے۔ 

"آپ کا بہت بہت شکريہ خالہ" مطيبہ نے تشکر آميز لہجے ميں کہا۔ کيس ميں آخری کيل علی کی بنائ ہوئ ويڈيو نے ہی ٹھوکی تھی۔ 

"ارے نہيں۔۔ تم ميری بيٹی جيسی ہو۔ اور بيٹيوں کی عزت بچانے کے لئے مائيں ہر حد تک جاتی ہيں" شميم محبت سے اسے اپنے ساتھ لگا کر بوليں۔ 

"نہيں آنٹی۔ آجکل کے دور ميں جہاں اپنے خونی رشتے نہيں پوچھتے آپکا اقدام قابل تحسين ہے۔" رئيد نے بھی انہيں سراہا۔ 

"بہت شکريہ بيٹے۔ گھر آنا کبھی رفيعہ کو لے کر" وہ نکلتے وقت ان سے گھر آنے کا وعدہ لے کر نکليں۔ انکے جاتے ہی رئيد سمير کی جانب مڑا۔

"تھينکس بڈی" اس سے مصافحہ کرتے محبت سے اسے گلے لگايا۔ 

"بے عقل انسان۔۔ تيرا کام ميرا ہی کام تھا" سمير نے اسے گھرکا۔ 

"بھابھی آپ لوگ چکر لگائيے گا کسی دن ميری طرف" رئيد کے بعد وہ مطيبہ کی جانب مڑا۔ 

"ان شاء اللہ بھائ ضرور" مطيبہ نے چہرے پر نرم سا تاثر ديتے ہوۓ کہا۔ 

"انکل آپکی کب کی فلائٹ ہے" سمير اب حسن سے مخاطب ہوا۔ بس اسی اتوار کی ہے۔ چار دن رہ گۓ ہيں" معاملہ نپٹ چکا تھا لہذا حسن واپس دبئ جانے کا سوچ رہے تھے۔ رات ميں ہی ٹکٹ کروا آئے تھے۔ 

انہيں اميد تھی کہ اسی پيشی پر کيس کا فيصلہ ہوجاۓ گا۔ 

اور اللہ نے انکی اميد نہيں توڑی۔ 

ويسے بھی انکے اينج ای اوز والے کام کا حرج ہورہا تھا۔ 

رئيد سے مشورہ کرکے وہ واپسی کی ٹکٹ کروا لائے تھے۔ 

"بس ٹھيک ہے کل ہی آپ سب ڈنر پر مجھے جوائن کريں" سمير نے وہيں کھڑے کھڑے پروگرام ترتيب ديا۔

"چل ٹھيک ہے گھر چل کر ديکھتے ہيں۔ پھر شام تک تجھے کنفرم کرديں گے" رئيد نے اسکی بات کا مان رکھتے ہوۓ کہا۔ 

"چلو ٹھيک ہے" سمير مطمئن سا اپنی گاڑی کی جانب پلٹ گيا۔ 

مطيبہ، حسن اور رئيد اپنی گاڑی کی جانب چل پڑے۔ 

سارا راستہ وہ کيس کو ہی ڈسکس کرتے جارہے تھے۔ 

گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھے کہ رئيد کے موبائل پر سلمان کی کال آئ۔ 

"ہيلو" رئيد نے عام سے انداز ميں ہيلو کہا۔ 

"بھائ جی۔۔۔۔ بھابھی جی کی امی کو پتہ نہيں کيا ہوگيا ہے۔ تھوڑی دير پہلے نوافل پڑھ رہی تھيں۔۔ ميں چاۓ دينے کمرے ميں گيا تو وہ فرش پر اوندھی ليٹی نظر آئيں۔۔۔ اور ناک سے خون بہہ رہا تھا" سلمان کی بات پر رئيد کی اسٹيرنگ پر گرفت ڈھيلی پڑی۔ 

"کيا بکواس کررہے ہو۔۔ صبح تک تو ٹھيک تھيں" وہ پريشانی سے بولا۔ 

"سچ کہہ رہاہوں۔ ميں نے سيدھا کرکے چيک کيا پانی کے چھينٹے وينٹے مارے۔۔۔ نبض چيک کی تو وہ ساکت ہے" سلمان نے اسے سر سے پير تک ہلا کر رکھ ديا تھا۔ 

اسکی پريشان آواز سنتے ہی مطيبہ اور حسن بھی اسے پريشانی سے ديکھنے لگے۔ 

"ہم پہنچنے والے ہيں تب تک تم ايمبولينس کو کال کرو" اسکی بات سن کر مطيبہ کے دل ميں خطرے کی گھنٹياں بجنے لگيں۔۔ اپنے شک کو بار بار جھٹلايا۔ کے نہيں رفيعہ کو کچھ نہيں ہوسکتا۔ 

"کيا ہوا ہے" مطيبہ ميں تو کچھ پوچھنے کی ہمت نہيں تھی۔۔ حسن نے ہی اسکی سوچ کو الفاظ دئيے۔ 

"اماں کی طبيعت ٹھيک نہيں ہے" ماتھے کی شکنيں اسکے اضطراب کو ظاہر کر رہی تھيں۔ 

رئيد نے ايک ہاتھ سے پيشانی کو مسلا۔۔اسپيڈ بڑھائ۔۔۔ گاڑی ہوا سے باتيں کرنے لگی۔

مطيبہ بالکل چپ اور ساکن تھی۔ 

گاڑی گھر کے پورچ ميں روکتے ہی رئيد تيزی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا بھاگتے ہوۓ اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ 

حسن بھی فورا باہر نکلے۔ 

مگر مطيبہ ميں باہر نکلنے کی ہمت نہيں ہورہی تھی۔ 

بہت کچھ کھونے کا احساس نجانے کيوں يکدم ہونے لگا تھا۔ 

کانوں پر ہاتھ رکھ کر وہ اندر کے شور کو دبانے لگی۔ 

وہ ماں جس نے اسے ماں اور باپ دونوں کا پيار ديا۔ اسے کھونے کی اس ميں ہمت نہيں تھی۔ 

خوفزدہ نظروں سے وہ گھر کے اندرونی حصے کی جانب ديکھ رہی تھی۔ 

يکدم ايمبولينس کی آواز آئ۔ 

رئيد رفيعہ کو ہاتھوں ميں اٹھاۓ تيزی سے باہر کی جانب لپکا۔ 

مطيبہ نے خوف سے آنکھيں ميچ ليں۔ افراتفری ميں کسی کو خيال ہی نہيں رہا کہ مطيبہ گاڑی سے اتری ہی نہيں۔ 

حسن ايمبولينس کے ساتھ بيٹھ چکے تھے۔ 

رئيد کو انہوں نے گاڑی پر آنے کا کہا۔ 

وہ تيزی سے گاڑی کی جانب بڑھا۔ 

جب سيٹ پر بيٹھتے اسکی نظر آنکھيں ميچے روتی ہوئ مطيبہ پر پڑی۔ 

کانوں پر ہاتھ رکھے گٹھڑی سی بنی ہوئ تھی۔

"مطيبہ" رئيد نے لمحر بھر کو رک کر اسکی حالت ديکھی اور افسرہ لہجے ميں بولا۔ 

وہ ساری زندگی خود ماں کے لئے ترسا تھا۔ يہ کمی کيا ہوتی ہے وہ اچھے سے جانتا تھا۔

مگر اس وقت اسے تسلی دينے کا بھی وقت نہيں تھا۔ 

خاموشی سے اسے نظر انداز کرتا وہ گاڑی کو تيزی سے باہر سڑک پر دوڑانے لگا۔ 

چند منٹوں بعد گاڑی اور ايمبولينس آگۓ پيچھے ہاسپٹل کے احاطے ميں داخل ہوئيں۔ 

حسن تو رفيعہ کی اسٹريچر کے ساتھ ہی تيزی سے اندر کی جانب بڑھ گۓ۔ جبکہ رئيد مطيبہ کو اس شاک سے باہر نکال رہا تھا۔ 

"باہر چليں" لہجہ نرمی لئے ہوۓ تھا۔ 

"آپ جائيں ميں باہر نہيں آؤں گی" وہ رندھی ہوئ آواز ميں بولی۔ 

"مطيبہ اللہ بہتر کرے گا۔ ايسے پريشان مت ہوں۔ حقيت کا يوں آنکھيں بند کرکے تو سامنا نہيں کرنا نا۔۔ پليز۔ ميں آپکی وجہ سے يہاں ہوں۔ بابا کو اور اماں کو ميری ضرورت ہے" رئيد زچ آکر بولا۔ 

"آپ جائيں ميں يہيں ہوں۔ مجھ ميں ہمت نہيں۔۔ پليز۔۔" مطيبہ نے سر ہاتھوں ميں تھام رکھا تھا۔ نفی کے سے انداز ميں سر کو دائيں بائيں ہولے سے جنبش ديتے وہ مکمل طور پر باہر نکلنے سے انکاری تھی۔ 

رئيد نے ايک سر آہ بھری اور گاڑی سے نکل آيا۔ 

تيزی سے ايمرجنسی وارڈ کے قريب پہنچا۔ 

"ہم پمپ کرنے کی کوشش کرتے ہيں ليکن کوئ خاص اميد نہيں ہے۔ کيونکہ برين کی رگيں پھٹ گئ ہيں۔ کچھ بھی نہيں کہا جاسکتا کہ زندگی کا کوئ چانس ہے يا نہيں" ڈاکٹر نے حسن کے کندھے کو تھپتھپاتے کچھ بھی نہيں چھپايا۔ 

انکے قريب آتا رئيد سب سن چکا تھا۔ 

حسن نے ايک مايوس اور افسردہ نگاہ اس پر ڈالی۔ 

"گھر فون کرکے مطيبہ کو صورتحال بتا دو۔ وہ پريشان ہوگی۔ دعا کرنے کا کہو" گھر پہنچتے ہی جس افراتفری کا انہيں سامنا ہوا تھا وہ نہيں جانتے تھے کہ مطيبہ رئيد کی گاڑی ميں ہے۔

"وہ ميری گاڑی ميں ہے۔ گھر پر وہ يہ سب حالات ديکھتے گاڑی سے اتری ہی نہيں تھی۔ بہت شديد صدمے ميں ہے۔۔ خوفزدہ ہے ابھی بھی گاڑی سے باہر نہيں آرہی" رئيد نے تفصيل سے انہيں بتايا۔ 

"ميرے خدا۔۔ کياديکھا اس بچی نے زندگی ميں نشی باپ اور اب جب حالات بہتر ہونے جارہے تھے تو ماں کی زندگی بھی۔۔۔" حسن کا لہجہ گلوگير ہوگيا۔ رئيد نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہيں گويا تسلی دی۔ 

"پليز بابا آپ ايسے ہمت ہاريں گے تو مطيبہ کو کون ديکھے گا" رئيد نے ان کے شانے پر تھپکی دی۔ 

اسی لمحے ڈاکٹر افسردہ چہرہ لئے باہر آئے۔ 

"آئم سوری۔۔۔ آپ کو انہيں ہاسپٹل لانے ميں بہت دير ہوگئ۔ ہم بچا نہيں سکے" حسن سے معذرت کرتا ڈاکٹر مايوسی سے کہہ کر دوسری جانب چل پڑا۔ 

رئيد اور حسن دونوں شديد شاک کی سی کيفيت ميں تھے۔ 

چند پل تو دونوں اپنی اپنی جگہ سے ہل ہی نہيں پاۓ۔ 

رئيد نے خود کو سنبھالا۔ دوآنسو حسن کی آنکھوں سے بہے۔ جنہيں پونچھ کر انہوں نے خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ 

رئيد تيزی سے ضروری کاروائ کرنے کے لئے ہاسپٹل کی انتظاميہ کی جانب بڑھا۔

_________________

حسن پھر سے ايمبولينس ميں رفيعہ کی ڈيڈ باڈی لئے گھر واپس چلے گۓ۔ رئيد کو اپنی گاڑی پر آنے کا کہا۔ 

رئيد شکستہ سا گاڑی کا دروازہ کھول کر بيٹھا۔ 

مطيبہ نے تڑپ کر اسے ديکھا۔ 

اس کا بيٹھنے کا انداز ہی اسے بہت کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ 

اس احساس سے چھٹکارا پانے کے لئے مطيبہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ 

رئيد نے چونک کر ذرا سا رخ موڑ کر ديکھا۔ 

"امی ٹھيک ہيں نا۔۔ کوئ خطرے والی بات تو نہيں" وہ اب بھی آس لگاۓ بيٹھی تھی۔ 

رئيد کی آنکھوں ميں آنسو لہراۓ۔ 

بمشکل آنسو پيتے اپنے کندھے پر رکھا اس کا ہاتھ تھپتھپايا۔ 

مگر ہونٹوں کا کفل نہيں ٹوٹا۔ 

"کچھ پوچھ رہی ہوں ميں" وہ دبی دبی آواز ميں اسے گاڑی سٹارٹ کرتا ديکھ کر چلائ۔ 

ہاتھ ابھی بھی اسکے کاندھے پر تھا۔ 

رئيد نے چہرہ دوسری جانب موڑ کر اپنے تاثرات چھپانے چاہے۔ خود ميں ہمت پيدا کرنی چاہی اسے سب بتانے کی۔ 

"آپ کچھ کہتے کيوں نہيں۔۔۔پليز رئيد۔۔۔ پليز بتا ديں۔۔ امی ٹھيک ہيں نا۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے بتائيں مجھے کچھ" اب کی بار وہ بری طرح اس کا کندھا جھنجھوڑ کر چيخی۔ 

"نہيں۔۔۔"رئيد نے يکدم بلند آواز ميں کہا۔ 

وہ وہيں پر ساکت ہوگئ۔ 

"اماں۔۔۔ ام۔۔ اماں۔۔ اب" رئيد کے الفاظ اس کا ساتھ نہيں دے رہے تھے۔ 

"چپ کريں۔۔ جھوٹ بول رہے ہيں آپ" وہ ہذيانی انداز ميں بولی۔ 

آنکھيں ۔۔ آنسو سب پتھرا گئے تھے۔ 

"يہ سچ ہے اماں اب اس دنيا ميں نہيں" رئيد نے ہمت کرکے اسے بتا ديا۔ وہ سچ جو اسے گھر جاکر پتہ چلتا۔ 

رئيد اسے پہلے سے بتا کر ذہنی طور پر تيار کررہا تھا۔ 

مطيبہ نے يک لخت اسکے کندھے سے ہاتھ کھينچا۔ 

چہرے پر شاک کی کيفيت بہت واضح تھی۔ 

رئيد نے اسکے چہرے سے آنکھيں ہٹاليں۔ 

اتنی وحشت اس لمحے اسکے چہرے پر اتر آئ تھی کہ رئيد ششدر رہ گيا۔ 

گھر کے باہر گاڑی روکتے وہ اپنی سيٹ سے اترا۔ 

مطيبہ کی جانب کا دروازہ وا کرکے اسے بازو سے پکڑ کر اتارا جو کسی روبوٹ کی طرح اسکے ساتھ کھينچتی چلی جارہی تھی۔ 

کوئ مزاحمت، کوئ ری ايکشن تھا ہی نہيں۔ 

بس خاموش گم صم۔ 

کچھ ہی دير بعد لوگوں کا تانتا بندھ گيا۔ 

مشال، منزہ مسلسل مطيبہ کے ساتھ ساتھ تھيں۔ لوگوں کو بھی سنبھال رہی تھيں۔ 

شميم بھی آچکی تھيں۔ اور بھی نجانے کون کون موجود تھا۔ 

مطيبہ بس ساکت نظروں سے ماں کے چہرے کو ديکھ رہی تھی۔ 

ايک پل کو بھی نظريں نہيں ہٹائيں تھيں۔ کون کون اسکے پاس آکر اس کے گلے لگ کر رو رہا تھا۔ 

اسے کچھ ہوش نہيں تھا۔ 

اسکے انداز نارمل نہيں لگ رہے تھے۔ 

مشال اور منزہ نے بہتيری کوشش کی کہ وہ روئے مگر اسکی آنکھ سے ايک آنسو نہيں ٹپک رہا تھا۔ 

اور يہ حالت نہايت تشويش ناک تھی۔ عصر کے قريب رفيعہ کو دفنانے کے لئے اٹھايا گيا۔ 

مطيبہ اس لمحے بھی نہيں روئ۔ اسکے وجود ميں کوئ جنبش ہی نہيں ہورہی تھی۔ 

دوپٹہ ڈھلک کر کہاں جارہا ہے اس نے ايک بار بھی ہاتھ بڑھا کر ٹھيک نہيں کيا تھا۔ 

"اسے رلاؤ" وہاں موجود کسی عورت نے مشال کو مخاطب کيا۔ 

"مطيبہ۔۔۔ پليز يار رو لو ۔۔ دل کا غبار ہلکا کر لو۔" مشال نے اسے خود ميں بھينچا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئ۔ 

منزہ نے بھی اپنی سی کوشش کرلی۔ 

لوگوں کو کھانا دے کر جيسے ہی وہ لوگ فارغ ہوئيں۔ مرد جنازہ پڑھ کر واپس آچکے تھے۔ 

مشال نے سلمان سے کہا کہ رئيد کو باہر مردوں ميں سے بلا کر لاۓ۔ 

مشال اور منزہ مطيبہ کو اسکے کمرے ميں لے جاچکی تھيں۔ 

"مطيبہ۔۔ آنٹی اب اس دنيا ميں نہيں ہيں۔ وہ تمہارے پاس نہيں ہيں۔۔۔ مطيبہ تم سن رہی ہو" جس لمحے رئيد اندر آيا منزہ پھر سے اسے رلانے کی اپنی سی کوشش کررہی تھی۔ 

مگر وہ ويسے ہی بت بنی بيٹھی تھی۔ 

"ہم کب سے اسے رلانے کی کوشش کررہے ہيں۔ مگر يہ ذرا سا بھی نہيں روئ۔ اور يہ کنڈيشن اسکے لئے ٹھيک نہيں۔ کوئ ڈاکٹر بلائيں" مشال نے اندر آتے رئيد کو ديکھ کر تمام صورتحال بتائ۔ 

رئيد نے ايک اچٹتی سی نگاہ مطيبہ کے بے پرواہ حليے  پر ڈالی۔ 

"نہيں ميں ديکھتا ہون" وہ آگے بڑھ کر اسکے سامنے بيڈ پر بيٹھا۔ 

مطيبہ کے ہاتھ تھام کر اسکی جانب ديکھا جو سامنے کسی غير مرئ نقطے کو گھور رہی تھی۔ رئيد کے ہاتھ تھامنے پر بھی وہ ويسے ہی بيٹھی رہی۔ 

مشال اور منزہ ايک جانب کھڑی ہو گئيں۔ 

"مطيبہ۔۔ اماں اب اس دنيا ميں نہيں اور اس حقيقت کو آپ کو فيس کرنا پڑے گا۔۔ جتنی جلدی کرلو بہتر ہے" رئيد نے بے تاثر اور قدرے سخت لہجہ اپنا کر کہا جو اسکی شخصيت کا خاصہ نہيں تھا۔ 

مطيبہ اسکی بات پر بغير کوئ ردعمل دئيے ويسے ہی بيٹھی رہی۔ 

رئيد نے اسے کندھوں سے پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا۔ 

"آواز آرہی ہے ميری" اب کی بار اسکی آواز بلند ہوئ۔ 

"آپ اکيلی ہو اب۔۔۔۔ نہ آپکا باپ ہے نہ آپکی ماں۔۔ بالکل اکيلی رہ گئ ہو۔۔۔" رئيد نے پھر سے اسے زور زور سے جھنجھوڑا۔ 

يکدم مطيبہ کی نظريں رئيد کے چہرے پر ٹکيں۔ جو غصے اور دکھ سے اسکی جانب ديکھ رہا تھا۔ 

"اماں۔۔ نہيں رہيں۔۔ انہيں ميں ان ہاتھوں سے قبر ميں اتار کر آيا ہوں۔۔ ديکھو ميرے ہاتھ" رئيد نے سخت لہجے ميں اپنے ہاتھ اسکے سامنے کئيۓ۔ مطيبہ اسکے ہاتھ تھام کر ان پر چہرہ رکھ کر يکدم پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ 

تينوں نے سکھ کا سانس ليا۔ رئيد نے ہاتھ کھينچ کر اسے خود ميں سمو ليا۔ نم آنکھيں لئے وہ کچھ نہ بولا۔ 

بس اتنا جان گيا کہ وہ اسکے لئے خاص ہے۔ 

اور خاص رشتوں اور لوگوں کے سامنے ہی ہم اپنا دل کھول کر رکھ ديتے ہيں۔ 

ہر اجنبی کے سامنے ہم اپنے دکھوں پر نہيں روتے۔ چند خاص رشتے اور لوگ ہوتے ہيں جن کے سامنے روتے ہميں کوئ سوچ۔۔ کوئ سبکی محسوس نہيں ہوتی

بس انکے سامنے دل کا ہر درد رکھ دينا ہوتا ہے۔۔مطيبہ کے پاس بھی اب جو خاص رشتہ تھا وہ رئيد تھا۔ جوکسی کے سامنے نہ روئ۔۔ وہ اسکے سامنے بکھر بکھر گئ کہ رئيد کو پھر اسے سنبھالنا مشکل ہوگيا۔

____


جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment