Pages

Saturday 28 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 11to 12

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 11to 12

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...



Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 11'12


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"ايک تو ميری سمجھ سے باہر ہے تم باپ بيٹے کو ان غريب رشتے داروں سے کيا محبت ہے" حسن نے تاسف بھری نظروں سے ماں کو ديکھا جو نخوت سے اپنی بات کہہ کر کيوٹيکس لگانے ميں مصروف ہوگئيں۔ 

"ممی پليز۔۔ اللہ کو يہ غرور پسند نہيں ہے" حسن نے ماں کو سمجھانا چاہا۔ 

"افوہ بھئ۔۔ اب يہ مولويوں والی باتيں لے کر بيٹھ جاؤ۔۔ کوئ کہہ سکتا ہے کہ تم باہر سر پڑھ کر آۓ ہو۔۔" وہ ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کرواتی ہوئيں سر جھٹک کر بوليں۔ 

"اور ميری ايک بات کان کھول کر سن لو۔ تمہارے باپ کے سر پر جو اپنی غريب کزن کی بيٹی سے تمہاری شادی کا بھوت سوار ہے نا۔ وہ بھوت تمہارے سر پر چڑھا تو ميں تمہيں کبھی معاف نہيں کروں گی" بيٹے کو وارن کرتيں وہ اٹھ کر وہاں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھيں۔ 

حسن نے سر کو ہولے سے نفی کے انداز ميں جنبش دی۔ 

باپ تھا کہ اپنی کزن کی بيٹی سے شادی کروانے پر تلا تھا اور ماں تھی کہ جن کا غرور ہی ختم ہونے ميں نہيں آرہا تھا۔ وہ تو جيسے ان دونوں کے درميان سينڈوچ بن گيا تھا۔ 

حسن والدين کا اکلوتا بيٹا تھا اور يہ اکلوتا ہونا جہاں خوشی کا سبب تھا وہيں ايک بہت بڑا عذاب بھی تھا۔ کيونکہ دونوں اس پر اپنی اپنی مرضی تھوپتے تھے۔ اور وہ اپنی مرضی نہيں کرپاتا تھا۔ 

ماں کی خواہش پر باہر پڑھنے چلا گيا۔ 

واپس آيا تو قدير نے اسے بزنس ميں اپنے ساتھ لگا ليا۔ اس نے بھی چپ چاپ ان کے بزنس کو مزيد بڑھانا شروع کيا۔ 

اسکے والد شروع سے لينڈ لارڈ نہيں تھے۔ تعليم حاصل کرنے گاؤں سے شہر آۓ۔ 

پڑھائ ختم کرتے ہی ايک دوست کے ساتھ بزنس شروع کيا اور پھر وہ چمکتا گيا۔ 

اسکی والدہ مہر بانو نے کسی بزنس ڈنر ميں ديکھا اور ان پر دل ہار گئيں۔ قدير مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا۔ 

مہرماہ نے کسی طرح انہيں اپنی جانب متوجہ کر ہی ليا۔ خوبصورت تھيں قدير نے بھی ہامی بھر لی۔ 

شادی کے بعد پہلی اولاد کے وقت ہی کچھ ايسی پيچيدگياں ہوئيں کہ وہ حسن کے بعد دوبارہ ماں نہيں بن سکيں۔ 

اسی لئے ساری توجہ حسن پر مبذول تھی۔ 

قدير گوکہ گاؤں سے آگۓ تھے مگر پيچھے رہ جانے والے بہن بھائيوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مدد کا سلسلہ ہميشہ قائم رکھتے تھے۔ 

حسن کے باہر سے تعليم مکمل کرکے آتے ہی وہ حسن کو لئے گاؤں گۓ۔ مہربانو کو گاؤں کبھی پسند نہيں رہا تھا۔ وہ قدير کے ساتھ بھی بہت کم جاتی تھيں۔ اس بار بھی نہ گئيں۔ مگر يہ نہ جانا انکے گلے پڑ گيا۔ 

قدير اپنی خالہ کی بيٹی کے گھر اسکی مزاج پرسی کرنے گۓ تو معلوم ہوا وہ بيمار ہے۔ اسکی ايک ہی بيٹی رفيعہ اور ايک ہی بيٹا نديم تھا۔ 

خاوند بھی کافی لاغر تھا۔ وہ چاہتی تھيں کہ انکے مرنے سے پہلے بيٹی کا گھر بس جاۓ۔ 

قدير کی رفيعہ کی ماں سے شروع سے بہنوں والی انسيت تھی۔ انکی تکليف۔۔ ان کا رونا قدير کو برداشت نہ ہوا تو رفيعہ کو حسن کے لئے مانگ ليا۔ 

حسن سے پوچھا تو اس نے باپ کے فيصلے کی خلاف ورزی نہيں کی۔ 

وہيں بات پکی کرکے آگۓ۔ 

گھر آکر جب مہر بانو کو بتايا انہوں نے تو ايسا طوفان کھڑا کيا کہ حسن کو اس طوفان کے آگے کھڑا رہنا مشکل ہوگيا ۔ مگر قدير ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ 

"ميں زبان دے آيا ہوں اور زبان سے ہم پيچھے ہٹنے والوں ميں سے نہيں۔ تم خود اس بچی کو ديکھو گی تو تمہيں بہت پسند آۓ گی۔ بہت پياری ہے وہ" ان پر مہر بانو کے واويلے کا کوئ اثر نہيں ہورہا تھا۔ 

"ديکھتی ہے ميری جوتی" وہ چلائيں۔ 

"يہ بات ياد رکھنا کہ اسکی شادی ميں اگر تم شامل نہ بھی ہوئيں تو مجھے کوئ افسوس نہيں ہونے والا۔ اسی لئے سيدھی طرح اسکے نکاح کی تياری کرو۔ نکاح کے چند مہينوں بعد ہم شادی کرديں گے" انہوں نے اپنا فيصلہ سنايا۔ 

مہربانو انکے انداز ديکھ کر وقتی طور پر خاموش ہوگئيں۔ 

مگر حسن کی برين واشنگ کرتی رہيں۔ 

جس کا کوئ اثر نہ ہوا۔ الٹا حسن ماں سے متنفر ہوگيا۔

انکی ہر وقت کی اميری غريبی کا راگ الاپنے والی حرکت اسے بے حد گراں گزر رہی تھی۔

___________________

ہفتے بعد ہی اسکے نکاح کی تياری شروع ہوچکی تھی۔ 

"ميں نے کتنا تمہيں سمجھايا مگر تم پر کوئ اثر نہيں ہوا" وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے آيا تھا کہ مہربانو پھر سے لٹھ لئے اسکے پيچھے پڑ گئيں۔ وہ اپنے کمرے ميں بيڈ پر بيٹھا جوتے اتار رہا تھا جب وہ اسکے کمرے ميں، اسکے پاس بيٹھ کر کندھے پر ہاتھ رکھ کر بوليں۔  

"ممی پليز ميں تنگ آگيا ہوں روز روز کی ان باتوں سے" وہ بہت دھيمے مزاج کا انسان تھا مگر ماں کی ان تکليف دہ باتوں پر آخر کار پھٹ پڑا۔ 

"ہاں تو نکالو خود کو اس اذيت سے۔۔ ايک سے ايک لڑکی ہے ہمارے حلقے ميں ۔۔۔ميں تمہاری ان ميں سے جس سے تم کہو گے تمہاری شادی کروادوں گی" وہ اسے نئے مشورے دينے لگيں۔ 

"ہاں اور کل کو وہ آپکی طرح ميری اولاد کو اميری اور غريبی کے سبق پڑھا رہی ہو۔۔ ممی اللہ نے ہم سب کو انسان بنايا ہے۔ اميری اور غريبی کسی انسان کی انسانيت کو جج کرنے کا پيمانہ نہيں ہے۔۔ اصل پيمانہ انسانيت ہے۔" وہ اپنے مخصوص دھميے لہجے ميں ماں کو ايک بار پھر سمجھانے لگا۔ 

"حسن تمہيں کيا ہوگيا ہے بيٹا۔۔ کيا يہ سب دولت جائيداد ہم نے اسی لئے بنائے ہيں کہ تم ايک غريب غرباء سے شادی کرکے اس پر خرچ کرو" وہ ہاتھ لہراتے ايک ادا سے بوليں۔ 

"يہ آپ کا بنايا ہوا نہيں ہے۔ يہ اللہ کی دين ہے۔ وہ چاہے تو ايک سيکنڈ ميں يہ سب الٹ دے اور آج جن کو آپ غريب کہہ رہی ہيں۔ کل کو ہم بھی انہی کی لائن ميں شامل ہو جائيں۔ ممی اتنا غرور اللہ کو پسند نہيں" حسن تاسف بھری نظروں سے ماں کو ديکھ کر بولا۔ 

"اب پھر شروع کردو يہ مولويوں والی باتيں۔۔۔ تم دونوں کو سمجھانا بھينس کے آگے بين بجانا ہے۔ مگر ياد رکھنا ميں بھی کسی کام ميں پيش پيش نہيں ہوں گی" آخر انہوں نے اموشنلی بليک ميل کرنا شروع کيا۔ 

"ميرا خيال ہے ڈيڈی آپکو پہلے ہی بتا چکے ہيں کہ اس سب سے کوئ فرق نہيں پڑے گا۔ شادی کے لئے ايک نيک اور اچھی عورت کی ضرورت ہوتی ہے ميرے خيال ميں رفيعہ ويسی ہی ہے" حسن نے دو ٹوک انداز ميں کہا۔ مہربانو نے غصيلی نظروں سے بيٹے کے انداز ديکھے۔ 

"جہنم ميں جاؤ دونوں" اور پھر انکا ہر احتجاج دم توڑ گيا۔ جب نکاح کا دن آيا۔ 

قدير کی مرضی کے مطابق سادگی سے نکاح گاؤں جاکر ہوا۔ 

مہر بانو اس وقت تو خاموشی سے شامل ہوگئيں مگر دل ميں سوچ ليا کہ يہ سب ختم کروا کر رہيں گی۔

______________________

مگر انہيں کوئ چال چلنے کی نوبت ہی نہيں آئ۔ 

حسن اور رفيعہ کی شادی سے ہفتہ پہلے قدير کا انتقال ہوگيا۔ 

شادی ملتوی کرنی پڑی اور مہر بانو کو موقع مل گيا۔ 

"حسن تم سے ايک بات کرنی ہے بيٹا" حسن باپ کے بعد ماں کا اور بھی زيادہ خيال رکھنے لگ گيا تھا۔ 

ان کی کسی بات سے انکار نہ کرتا۔ مہربانو بھی تو قدير کی جدائ ميں نڈھال سی ہوگئيں تھيں۔ 

"جی ممی کہيں" حسن انکے کمرے ميں انکے بيڈ پر بيٹھا ہوا تھا۔ جبکہ مہر بانو نيم دراز اجڑی صورت ميں ليٹی ہوئ تھيں۔ 

حسن ہولے ہولے انکی ٹانگيں دبا رہا تھا۔ 

"جب سے اس لڑکی کا اس گھر ميں نام ليا جانے لگا۔ ہماری تو سمجھو کم بختی ہی آگئ۔ 

پہلے تمہارے ڈيڈی مجھ سے لڑتے رہے۔ حالانکہ ہماری کبھی شادی کے بعد لڑائياں نہيں ہوئيں۔ جيسے اور مياں بيوی کی ہوتی ہيں۔ مگر نجانے وہ منحوس ايسی ہماری زندگيوں ميں آئ کہ ہمارے گھر ميں فساد سا پيدا ہوگيا۔ 

اور اب شادی کی ڈيٹ قريب تھی تو ميرا شوہر کھاگئ۔ 

حسن مجھے يہ لڑکی بہت منحوس لگتی ہے" وہ خوفزدہ مگر کسی قدر متنفر لہجے ميں بوليں۔ 

حسن لب بھينچ کر رہ گيا۔ 

جو بھی تھا يہ رشتہ اسکے باپ نے جوڑا تھا اور حسن اسے توڑنا نہيں چاہتا تھا۔ ويسے بھی اسکی ماں کی ظالم سوچوں کے پيچھے اس معصوم کيا قصور جسے اسکے نام کيا گيا تھا۔ 

"ممی پليز۔۔۔آپ پڑھی لکھی ہو کر کيسی باتيں کررہی ہيں" حسن کو ماں کو ٹوکنا پڑا۔ 

"کيا مطلب کيسی۔۔۔ تمہيں خود نظر نہيں آرہا۔ حسن ميں اب اور کوئ نقصان برداشت کرنے کی اہل نہيں۔۔ تم تم۔۔ اس لڑکی کو طلاق دو" ماں کی بات پر وہ ششدر کتنے ہی لمحے بے يقينی سے انہيں ديکھتا رہا۔ 

جو داياں بازو ماتھے پر موڑ کر ٹکاۓ اس سے نظريں چرا رہی تھيں۔ 

"آ۔۔۔ آپ جانتی بھی ہيں کہ آپ کيا کہہ رہی ہيں۔" حسن نے انہيں انکی ظالمانہ سوچ کا احساس دلانا چاہا۔ 

"کيا برا کررہی ہوں ميں۔۔۔۔تمہيں اور خود کو اس کی نحوست سے بچانا چاہتی ہون۔ اس ميں کيا برا ہے" وہ جھٹکے سے سيدھی بيٹھتی ہوئيں چلائيں۔ 

"ممی ۔۔۔موت زندگی اللہ کے ہاتھ ميں ہے۔۔ ہم بندوں کا اس ميں کيا قصور" حسن نے محبت سے انہيں سمجھانا چاہا۔ 

"ميں تمہيں کہہ رہی ہوں کہ ميں کوئ اور بات نہيں جانتی۔۔ بس يہ لڑکی اب ہماری زندگيوں ميں نہيں رہے گی۔ کل کو تمہيں يا مجھے کچھ ہوجاۓ تو۔۔۔۔ اور ويے بھی ابھی تو وہ اس گھر ميں آئ نہيں تو تمہاری طرفدارياں ختم نہيں ہورہيں۔ 

جب وہ آجاۓ گی تم تو ماں کو پوچھو گے بھی نہيں کہ زندہ ہے يا مر گئ" وہ ايک ہی سانس ميں بولتی چلی گئيں۔ 

غجيب ہسٹيرک ہورہی تھيں

"ممی۔۔ پليز ممی۔۔ اپنی بيوی کو بغير کسی وجہ کے کيسے طلاق دے دوں۔۔يہ گناہ ہے" حسن کے چہرے پر اندرونی تکليف کے آثار بآسانی پڑھے جاسکتے تھے۔ مگر وہ کيسی ماں تھيں جو اپنی اولاد کے چہرے پر رقم اذيتوں کی تحرير نہيں پڑھ پارہی تھيں۔ 

"ميں اسے اس گھر ميں اور اپنے نزديک برداشت نہيں کرسکتی۔ تم اسے طلاق نہيں دوگے تو تم بھی اس گھر سے دفع ہوجاؤ۔۔ مگر ميں اسے يہاں کبھی نہيں لاؤں گی۔ 

وہ ڈائن ہے مجھے بھی کھا جاۓ گی" انکے چلانے ميں اضافہ ہو چکا تھا۔ 

غصے سے حسن پر آنکھيں نکالتيں وہ اسے اپنا فيصلہ سنا رہی تھيں۔ 

"مت کريں ممی ايسے ۔۔ اب آپ ہی تو ميرا سب کچھ ہيں۔ آپ کو کيسے چھوڑ سکتا ہوں۔" وہ بے بسی سے بولا۔ ماں اسے سمجھنے کو ہی تيار نہيں تھی۔ 

"مجھے نہيں چھوڑ سکتے تو اسے چھوڑ دو۔ تمہيں ايک کا انتخاب کرنا پڑے گا حسن۔۔ ميں اس لڑکی کو تمہاری اور اپنی زندگی ميں ہر گز آنے نہيں دے سکتی" وہ ہذيانی انداز ميں بوليں۔ 

"ممی وہ ميری زندگی ميں آچکی ہے۔ يہ ڈيڈی کا فيصلہ تھا مجھے يہ بہت مقدم ہے۔۔" حسن نے انہيں کندھوں سے تھام کر سمجھانا چاہا مگر وہ مچھلی کی طرح اسکی گرفت سے تڑپ کر نکليں۔ 

"جو زندہ ہے تمہيں اسکے کہے کی پرواہ نہيں جو مرگيا ہے اسکے فيصلے کو لے کر پيٹتے رہو۔۔ نہ تمہارے باپ نے سنی تھی نہ اب تم سن رہے ہو۔۔ 

ٹھيک ہے کل صبح اپنا سامنا باندھو اور چلے جاؤ يہاں سے ہميشہ ہميشہ کے لئے" وہ سرخ چہرہ لئے غصے سے بوليں۔ 

حسن ہاتھون پر سر گراۓ بے بسی کی تصوير بنا ہوا تھا۔ 

وہ يہ رشتہ توڑنا نہيں چاہتا تھا۔ وہ نکاح کے بعد چند ايک بار رفيعہ سے ملا تھا۔۔ وہ بہت پياری لڑکی تھی ۔ معصوم سی۔ 

قدير کی وفات پر وہ چند دن انکے ہی گھر ميں رہی تھی۔ 

حسن کا چند ايک بار اس سے آمنا سامنا ہوا تھا۔ 

اسکی آنکھوں ميں موجود اپنے لئے محبت وہ ديکھ چکا تھا۔ 

اسے چہرے پڑھنے کا فن آتا تھا۔ اور رفيعہ کے چہرے پر واضح اسکی محبت ديکھی اور پڑھی جاسکتی تھی۔ 

حسن کو وہ کہيں سے بری نہيں لگی تھی۔ 

"ممی آپ۔۔" وہ بات پوری بھی نہ کرپايا کہ مہربانو نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروايا۔ 

"ميں يا تمہاری نام نہاد بيوی" حسن کی جانب ديکھنے کی بجاۓ بائيں جانب چہرہ موڑے وہ پتھريلے تاثرات سميت بوليں۔ 

حسن کتنی ہی دير خاموش رہا۔

"صرف آپ" اندر کی جنگ سے تھک ہار کر اس نے ماں کا انتخاب کيا۔ 

شور تھا کہ اندر بڑھتا جارہا تھا۔ 

مہر بانو نے خوشی اور حيرت کے تاثرات لئے اسے ديکھا۔ پھر خود سے لگاتے خوشی سے کھنکھناتی آواز ميں گويا ہوئيں۔ 

"مجھے پتہ تھا ميرا بيٹا ميرا مان رکھے گا" حسن نے تکليف سے آنکھيں ميچ ليں۔ 

دل ميں ہزار بار اللہ سے معافی مانگی۔ 

انسان کيسے کسی کو پل ميں حقير اور پل ميں عرش پر بٹھاتا ہے۔ 

مگر اللہ تو سب ديکھ رہا ہوتا ہے۔ 

وہ مہر بانو جو اس بات سے خوفزدہ تھی کہ رفيعہ کے آتے ہی وہ مر جاۓ گی يا حسن کو کچھ ہوگا۔ 

حسن کے رفيعہ کو طلاق بھجوانے کے ٹھيک ايک ہفتے بعد ہميشہ کی نيند جاسوئ۔

حسن کا صدمے اور غم سے برا حال تھا۔

وہ خوف جو اسے کسی انسان کے وجود سے تھا۔۔ وہ خوف اللہ نے حقيقت کے روپ ميں اسکے سامنے لاکھڑا کيا مگر کسی انسان کے توسط سے نہيں بلکہ قسمت کے روپ ميں۔ 

ہوتا وہی ہے جو انسان کی قسمت ميں ہے۔ کسی کے ہونے يا نہ ہونے سے کوئ فرق نہيں پڑتا۔ 

ماں کی وفات سے سنبھلتے ہی حسن نے سب کچھ وائنڈ اپ کيا۔ اسکا ايک دوست دبئ ميں تھا۔ 

اس نے حسن کو دبئ بلا ليا۔ وہ خود بھی اس تکليف دہ ماحول سے نکل جانا چاہتا تھا۔ اسے لگتا تھا ايک بے قصور کی آہ لگ گئ ہے۔ 

اسی لئے وہ پاکستان اور اپنے گھر ميں مطمئن نہيں تھا۔ 

دبئ جاکر دوست نے ہی زبردستی رئيد کی ماں سے حسن کی شادی کروائ۔ 

اور وہ بھی رئيد کی پيدائش کے کچھ لمحوں بعد حسن کی زندگی سے چلی گئ۔ 

حسن کی زندگی جامد ہوچکی تھی۔ 

اور اپنا غبار اس نے ايک دن رئيد کے سامنے کھول ديا۔ 

رئيد زبردستی پاکستان آيا تھا۔ اور باپ کو کہہ کرگيا تھا کہ آپ وہاں آئيں گے اور اپنے خوف سے چھٹکارا پائيں گے۔ 

حسن کو دبئ ميں پتہ چلا تھا کہ رفيعہ کی شادی اسکی ماں نے کسی نشئ سے کروادی ہے۔ 

اور رفيعہ کے ساتھ ہونے والی اس زيادتی کا قصوروار وہ خود کو گردانتا تھا۔ 

_________________________

"بابا آپ فريش ہو ليں" رئيد مطيبہ کی پريشانی بھانپ چکا تھا جو ابھی تک کنفيوز تھی کہ رئيد کے والد کو اسکی ماں کيسے جانتی ہے اور وہ کون سا ظلم ہے جس کی وہ بات کررہی ہے۔ 

حسن رفيعہ کے سامنے اتنے شرمندہ کيوں ہيں۔ 

مطيبہ نے ايک ترچھی نظر رئيد پر ڈالی يقينا يہ ہر بات سے واقف تھا۔ 

پھر الجھی نگاہ ماں کے پرسکون چہرے پر ڈالی۔ 

"جاتا ہوں بيٹا" حسن اور رفيعہ ابھی بھی روبرو کھڑے تھے۔ 

اور انکے ساتھ کھڑے رئيد اور مطيبہ بھی ايک دوسرے کے روبرو کھڑے تھے۔ 

"مگر اس سے پہلے مجھے معافی مانگنی ہے۔مجھے معاف کردو رفيعہ۔۔ خدا گواہ ہے کہ ميں وہ سب کرنے کے بعد ايک پل بھی سکون سے نہيں رہ سکا۔اور ممی جنہوں نے زبردستی مجھ سے وہ گناہ کروايا وہ اپنے شک اور وسوسوں سميت ايک ہفتے بعد ہی منوں مٹی تلے جا سوئيں" وہ ہاتھ جوڑے نم آنکھيں لئيے رفيعہ سے معافی مانگ رہے تھے۔ 

"حسن ايسے مت کہيں۔۔ ہاں اس اذيت سے تب نکلنا آسان نہيں تھا۔ مگر اب وہ ماضی کی باتيں ہوگئيں ہيں۔ مجھے ان پر اب کوئ تکليف محسوس نہيں ہوتی۔ 

آپ يہ سب مت کريں مجھے آپکی ماں سے بھی کوئ شکوہ نہيں۔ يقینا بچوں کے لئے ماں باپ کے فيصلے ہی اہميت کے حامل ہوتے ہيں۔۔۔ ماموں کی وجہ سے آپ نے نکاح کيا اور ماں کی وجہ سے طلاق۔۔ مگر مجھے آپ سے اب کوئ شکوہ نہيں" مطيبہ الجھی نظروں سے ماں کی باتيں سن رہی تھی۔ 

رئيد اسکے تاثرات بہت غور سے ديکھ رہا تھا۔ 

يکدم نجانے اسے کيا ہوا۔ 

مطيبہ کا ہاتھ تھام کر بيرونی حصے کی جانب چل پڑا۔ 

حسن اور رفيعہ نے اس کا نکلنا محسوس نہيں کيا۔ 

ماضی اور حال کے سنگم نے انہيں ايسا بوکھلا ديا تھا کہ وہ رئيد کی اس حرکت کو نوٹ نہ کرسکے۔ 

دونوں چند لمحوں کے لئے يہ بھول گۓ تھے انکے اردگرد انکے علاوہ بھی کوئ ہے۔ 

جبکہ مطيبہ نے رئيد کی اس حرکت پر حيرت سے اسے ديکھا۔ 

وہ تو ماں اور حسن کی انکہی کہانی کو ہی سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ رئيد نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اور بھی بوکھلا ديا۔ 

"کيا کررہے ہيں آپ" آخر وہ دبے دبے لہجے ميں چلائ۔ 

اسکے يوں خود کو زبردستی گھسيٹ کر باہر لانے کی وجہ نہيں سمجھ سکی۔ سارا دن اسے باہر نہ نکلنے کا کہہ کر اب وہ اسے لئے باہر آرہا تھا۔ 

مگر يہ ديکھ کر اطمينان ہوا کہ اسے ايک پلر کے ساتھ ايسے کھڑا کيا کہ کوئ مطيبہ کو دیکھ نہيں سکتا تھا۔ 

اور خود اسکے سامنے اسکے مد مقابل آکھڑا ہوا۔ 

مگر اسکا ہاتھ نہيں چھوڑا۔ 

مطيبہ کی سب حسيات اس ہاتھ ميں سمٹ آئيں جو رئيد کے ہاتھ ميں تھا۔ 

"ان دونوں کو اس وقت ہماری ضرورت نہيں ہے۔ وہ اپنے ماضی کے اوراق کھنگال رہے ہيں۔ جہاں ايک شخص کی کوتاہئياں اور دوسرے کا صبر درج ہے۔ 

انہيں معافی تلافی کے عمل سے گزر لينے ديں پھر ہم انکے پاس چلے جائيں گے" سکون سے اس کا ہاتھ چھوڑ کرسينے پر بازو لپیٹتے ہوۓ اس نے مطيبہ کے سوالوں کے جواب دينے کے لئے خود کو تيار کيا۔ 

"مگر ميری امی کا آپکے والد سے کيا رشتہ ہے۔ اور يہ نکاح اور طلاق کی کيا بات ہے۔ مجھے آپکے چہرے سے لگ رہا ہے کہ آپ سب جانتے ہيں" مطيبہ نے مشکوک نظروں سے اسے ديکھا۔ 

رئيد ہلکا سا قہقہہ لگا گيا۔ 

"چہرے پڑھنے آگۓ ہيں آپ کو ۔۔۔؟ابھی تو ميری سنگت ميں رہيں بھی نہيں" رئيد کی گہری نظروں سے بچنے کے لئے اس نے ہميشہ کی طرح نظريں دوسری جانب موڑيں۔ 

"ظاہر ہے کوئ بھی آپکے چہرے سے بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ آپ سب جانتے ہيں۔ میری طرح ہونق نہيں لگ رہے" مطیبہ بگڑے لہجے ميں بولی۔ رئيد کی جاندار مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوئ۔ 

"آپکو کيسے پتہ آپکا چہرہ ہونق لگ رہا ہے۔ ميری آنکھوں ميں نظر آرہا ہے کيا؟"وہ رئيد سے ايسی بات کی توقع کرنا نہيں چاہتی تھی مگر ان دنوں وہ جس انداز ميں باتيں کرکے اسے حيران کر رہا تھا۔ اب وہ اس سے ہر طرح کی توقع کرتی تھی۔ 

"پليز سر" مطيبہ نے اسے ٹوکنا چاہا۔ 

"پہلے تو آپ مجھے سر کہنا بند کريں کيونکہ آپ ميری سيکنڈ کزن ہيں۔۔" رئيد کی بات پر اسے رئيد کی جانب ديکھنا پڑا۔ 

اسکی آنکھوں کی حيرانی اور سوال رئيد کو اسے سب بتانے پر اکسانے لگے۔ 

"جی۔ آپ میری کزن ہيں۔۔ " رئيد نے بنا کہے اسکا سوال سمجھتے اپنی بات کی تصديق کی۔ 

"يہ ۔۔ يہ سب کيا ہے۔۔ اگر آپ سب جانتے ہيں تو مجھے بتائيں پليز" مطيبہ نے آخرکار بے چارگی سے کہا۔ 

"کہانی تھوڑی لمبی ہے۔۔۔" اور پھر رئيد ہر راز سے پردہ اٹھاتا چلا گيا۔ مطيبہ دم سادھے وہ سب حقيقتيں سن رہی تھی جن کا ذکر حسن اور رفيعہ اپنی ملاقات ميں چند لمحوں پہلے کر رہے تھے۔

مطيبہ سکتے کے عالم ميں سب سن رہی تھی۔ 

"آپکے فادر اتنے سفاک کيسے ہوسکتے ہيں؟" خشک ہونٹوں پر زبان پھيرتے وہ بدقت بولی تو لہجہ نم تھا۔ 

رئيد جو سب بتا کر چہرہ نيچے کئيے تھا جيسے اپنے باپ کے اقدام پر نادم ہو۔ 

"ہاں ميں مانتا ہوں بابا کا فيصلہ بالکل غلط تھا۔ ميں يہ بھی مانتا ہوں کہ باباميں شايد اتنی ہمت نہيں تھی کہ اس رشتے کو کسی بھی اور طريقے سے قائم رہنے ديتے۔ 

ليکن دوسری جانب آپ يہ بھی ديکھيں کہ آپ والدين سے مقابلے پر نہيں اتر سکتے۔"رئيد کی بات پر وہ ايک طنزيہ مسکراہٹ اسکے چہرے پر بکھری۔ 

"تو اس کا مطلب ہے کہ ماں باپ کے مقابلے پر کسی معصوم کے ارمانوں کا خون کرديا جائے۔ آپ اپنے فادر کو ڈيفينڈ کررہے ہيں؟" مطيبہ نے اسے مشکل ميں ڈالنا چاہا۔ 

"نہيں ميں کسی کو ڈيفينڈ نہيں کررہا اور نہ ہی يہ کہہ رہا ہوں کہ ايک رشتے کو بچانے کے لئے آپ دوسرے اتنے ہی اہم رشتے کو داؤ پر لگا ديں۔ مگر ہر انسان کی مشکل حالات کو برداشت کرنے کی اپنی اپنی سکت ہوتی ہے۔ 

بابا ان حالات کو بہتر طور پر ڈيل نہيں کرسکے" رئيد نے اپنا نقطہ نظر کلئير کيا۔ 

"اور ويسے بھی بابا اپنے کئيے پر شرمندہ ہيں" رئيد کی بات پر مطيبہ نے اب کی بار ترچھی نظروں سے اسے ديکھا۔ 

"انہيں ہونا بھی چاہئيے۔ ميرے ساتھ کوئ ايسا کرتا ميں اسکی زندگی عذاب بناديتی" اسکے غصيلے انداز پر رئيد کے لبوں پر بڑی شرارتی مسکراہٹ آئ۔ 

"آپ مجھے وارن کررہی ہيں؟" رئيد کا شرارتی سا استفسار مطيبہ کو سٹپٹانے پر مجبور کرگيا۔ 

"کيا مطلب؟" بھول پن سے پوچھا جو مصنوعی تھا اور رئيد جيسے بندے سے اپنی اصل کيفيت چھپانا مشکل ہی نہيں ناممکن تھا۔

"سمجھ تو آپ گئيں ہيں۔۔ بس انجان بن رہی ہيں۔ ميرا خيال ہے اندر چليں اب۔۔ اميد ہے حالات بہتر ہوگۓ ہوں گے" رئيد نے جان بوجھ کر اسکی بات کا رخ بدلا۔ اور مڑ کر قدم اندر کی جانب بڑھا دئيے۔ وہ بھی پيچھے پيچھے اندر آگئ۔ 

مگر اسکے بعد اسکا موڈ حسن کے سامنے ٹھيک نہ رہا۔ 

خاموشی سے رات کا کھانا کھا کر وہ سب سے پہلے اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ 

رئيد نے خاموش نظروں سے اسکے يہ ناراض انداز ديکھے۔ 

حسن نے بھی رئيد کی خاموش نظروں کو ديکھا۔ 

انہيں سمجھ آگئ تھی کہ رئيد مطيبہ کو سب حقيقت بتا چکا ہے۔ اسی لئے اسکا رويہ کھچا کھچا تھا۔

_________________________

رفيعہ جس لمحے کمرے ميں آئيں مطيبہ بيڈ پر بيٹھی ٹانگيں موڑ کر سينے سے لگاۓ انکے گرد بازو باندھے ٹھوڑی گھٹنوں پر رکھے کسی گہری سوچ ميں تھی۔ 

کھٹکے کی آواز پر ماں کے طمانيت بھرے چہرے پر نظر ڈالی۔ 

"ہم کل يہاں سے کہيں اور چلے جائيں گے" نجانے وہ دل ميں کيا ٹھانے بيٹھی تھی۔ 

"کيا مطلب کيوں؟" وہ ناسمجھی سے اسے ديکھنے لگيں۔ 

بيڈ پر بيٹھ کر اسکا رخ اپنی جانب کيا جو چہرہ موڑے دوسری جانب کسی غير مرئ نکتے کو گھور رہی تھی۔ 

"ميری وجہ سے آپ ايک ايسے شخص کے قريب رہيں جس کی وجہ سے آپ ان حالوں کو پہنچی ہيں۔۔مجھے يہ کبھی بھی گوارا نہيں اماں۔۔ ميں نے آپ کو اور ابا کو ہمشيہ سکھ دينے کا سوچا۔

ليکن مجھے نہيں پتہ تھا کہ ابا کو تو سکھ دينے کا موقع نہيں ملے گا۔ اور آپ کو ميں اپنی وجہ سے دکھوں سے دوچار نہيں کرنا چاہتی" اس کا قطعيت بھرا انداز انکے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آيا۔ 

"ميں جانتی ہوں تم بہت احساس کرنے والی بيٹی ہو۔ بيٹا تکليف وہاں ہوتی ہے جہاں پرانے دکھوں کو سينے سے لگا کر رکھا جاۓ۔ جبکہ ميں نے تو اس دکھ کو تمہارے بعد کبھی محسوس تک نہيں کيا" رفيعہ اپنے ہميشہ والے ٹھنڈے ٹھار لہجے ميں بوليں۔ 

"اماں پليز۔۔ ميں۔۔ ميں ايسے شخص کا سامنا بھی نہيں کرنا چاہتی جس نے ميری ماں کو اتنے دکھ پہنچاۓ ہيں" وہ نفی ميں سر ہلاتی اپنی بات پر ڈٹی رہی۔ 

"مطيبہ۔۔ بيٹے لوگوں کو معاف کرنا سيکھتے ہيں۔ جب ميں نے اسے معاف کرديا تو تمہارا اس سے بدلہ لينے کا کوئ جواز ہی نہيں۔" رفيعہ نے اسے سرزنش کی۔ 

"اور ويسے بھی اگر وہ سب ميری زندگی ميں نہيں ہوتا تو اللہ مجھے اتنی پياری بيٹی سے کيسے نوازتا" رفيعہ نجانے اسے بہلا رہی تھيں يا واقعی انہيں کوئ غم نہيں تھا۔ 

مطيبہ نے حسرت سے ماں کے پرسکون چہرے کو ديکھا۔ 

"اللہ نے تمہارا اور رئيد کا جوڑ لکھا تھا اسی لئے اس نے يہ سب حالات پيدا کئيے" رفيعہ کی اس قدر مثبت بات پر وہ جتنا ششدر ہوتی کم تھا۔ 

"يہ مجبوری کا رشتہ ہے اماں ۔۔ ہميشہ کا نہيں" اس نے ماں سے زيادہ شايد خود کو باور کروايا۔ 

"ہاں مگر مجھے نجانے کيوں لگتا ہے وہی تيرے لئے بنا ہے" رفيعہ نے محبت سے اسکے چہرے پر ہاتھ پھيرا۔ 

"اماں پليز۔۔۔ ميں کسی خوش فہمی ميں کبھی نہيں رہنا چاہتی" مطيبہ کی بات پر وہ ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئيں۔ 

"اور ويسے بھی اسکے فادر کا پتہ چلنے کے بعد بھی آپ مجھے اس شخص سے جوڑے رکھنا چاہتی ہيں" مطيبہ کے استفسار پر وہ ہولے سے مسکرائيں۔ 

"بيٹے ہميشہ يہ ياد رکھنا کہ کسی قصوروار کے کئيے کی سزا کبھی کسی بے قصور کو مت دينا۔ رئيد بے قصور ہے۔ وہ تو مجھے ان حالوں ميں نہيں لايا۔۔

تو پھر ميں اسکے بارے ميں کوئ غلط بات کيوں سوچوں" رفيعہ کی بات سن کر وہ اپنی کہی گئ بات پر نادم ہوئ۔ 

"پھر بھی اماں" وہ منہ بنا کربولی۔ 

"نہيں مطيبہ۔۔ يہ ناانصافی اللہ کو بھی پسند نہيں۔ اسے اسکی وجہ سے پرکھو۔۔ دوسروں کے رويوں پر اسکی جانچ پڑتال مت کرو" رفيعہ نے اسے سمجھانا چاہا۔ 

"ہم کہيں نہيں جارہے ۔۔ جب تک يہ معاملہ نہيں نمٹ جاتا۔ پھر سوچتے ہيں" رفيعہ اپنی بات کہہ کر اٹھ گئيں۔

_________________________

"آقا جی شام ميں رئيد کے گھر ايک آدمی آيا تھا کافی سارے سامان کے ساتھ۔" کيف جو کہ رئيد کے گھر کی نگرانی پر مامور تھا وہ حسن کو ديکھ چکا تھا۔ 

اور اب اس وقت شہاب کو رپورٹ دے رہا تھا۔ 

"کتنی عمر کا لگ رہا تھا" شہاب نے آنکھيں سکيڑ کر سوال کيا۔ 

"زيادہ عمر کا نہيں تھا کوئ پچاس کے لگ بھگ ہوگا۔ يا خود کو فٹ رکھا ہوا ہے کہ اتنی عمر کا نہيں لگتا" کيف نے قياس لگايا۔ 

"ٹھيک ہے اسکی تصوير لے کر مجھے بھيجو۔۔ اور کوئ خطرہ تو نہيں تمہيں" شہاب نے تشويش کا اظہار کيا۔ 

"خطرہ ہے بھی اور نہيں بھی۔۔ کيونکہ اسکے گھر کے باہر کافی سارے پوليس والے آچکے ہيں۔ گھر کی پيراداری کے لئے۔ 

مگر ابھی تک کسی نے ميری نقل و حرکت نوٹ نہيں کی" کيف نے باقی کی صورتحال بھی بتائ۔ 

"ہمم۔۔ اس کا مطلب ہے وہ بڑھيا اور چھوری يہی ہيں" شہاب کی کمينی سی ہنسی کيف کو فون سے سنائ دی۔۔۔ 

"جی مجھے بھی اب يقين ہوگيا ہے۔۔۔" کيف نے بالوں ميں انگلياں چلاتے ہوۓ کہا۔ 

"ٹھيک ہے۔۔ بچيں گے نہيں اب يہ" شہاب کی رگيں تن گئيں۔ 

"تم اب اور چوکنا رہو۔۔جيسے ہی ہميں موقع ملے گا۔۔ نقب لگائيں گے" شہاب نے کيف کو مزيد ہدايتيں ديں۔

_________________________

"رفيق" فون بند کرتے ہی شہاب نے کچھ سوچ کر آواز لگائ۔ 

رفيق بھاگا ہوا آيا۔ 

"جی آقا جی" سانس تھوڑا سا پھول رہا تھا۔ 

رفيق کو اس نے فائق کی نگرانی پر مامور کيا ہوا تھا۔ 

"فائق کو چھوڑ دو" رفيق اسکی بات پر الجھا۔۔ 

رفيق کی اچھا جی کی آواز جب نہ آئ تو شہاب نے گھور کر اسکے چہرے کی جانب ديکھا۔ 

"بکواس سمجھ نہيں آئ تجھے" وہ دہاڑا۔ 

"جی۔۔ جی آقا جی۔۔ پر" اس سے پہلے کے رفيق کچھ کہتا شہاب جھٹکے سے اپنی کرسی سے اٹھا۔ 

"بکواس کی ہے کہ ميرے استاد مت بنا کرو۔۔ کہا ہے چھوڑ دو تو چھوڑدو" رفيق کو گريبان سے پکڑ کر جھٹکا ديا۔ 

"جج۔۔ ج۔ جی۔۔ معاف کرديں آقا جی ميں ابھی چھوڑ ديتا ہوں" رفيق بيچارا اسکے انداز پر بوکھلا کر بھاگا۔ 

"اور سن" شہاب نے پھر سے پکارا۔ 

رفيق کے بھاگتے قدم اسکی دھاڑ پر رک گۓ۔ 

" اسے اسی کے گھر کے آس پاس چھوڑ کر آنا" شہاب کی تنبيہہ پر وہ سر ہلاتا بھاگ کھڑا ہوا۔ 

"اب ديکھتا ہوں کيسے باپ کے پيچھے نہيں آتيں" شہاب نے ہمکلامی کی۔ 

اس کا خيال تھا کہ جب فائق کو وہ چھوڑ دے گا۔ اور فائق يقينا کسی طرح اسکے آفس اور پھر رئيد تک پہنچ جاۓ گا۔ 

جب وہاں پہنچے گا تو وہ اسے مطيبہ تک لازمی پہنچاۓ گا۔ 

اس سب کے دوران وہ اپنے ايک بندے کو فائق کے پيچھے لگاۓ گا اور فائق سے ہوتا وہ مطيبہ تک پہنچ جاۓ گا۔ 

مگر وہ يہ نہيں جانتا تھا کہ رئيد تو چاہتا يہی تھا کہ فائق اس تک پہنچے تاکہ اس سے ہوتا وہ شہاب پر بآسانی کيس کروا سکے۔ 

شہاب خود اپنے جال ميں پھنسنے جارہا تھا۔

____________________

رئيد رات ميں ہی حسن کو وکيل سے ہونے والی ملاقات کے بارے ميں سب بتا چکا تھا۔ 

انہوں نے بھی وکيل کی باتوں کی تائيد کی تھی۔ 

اگلے دن صبح ناشتے ميں سبھی موجود تھے سواۓ مطيبہ کے۔ 

رئيد رات سے ہی اسکا کھچا کھچا رويہ نوٹ کرچکا تھا۔ 

"مطيبہ نہيں آئ" حسن نے بھی بيٹھتے ساتھ ہی اسکی کمی محسوس کی۔ رئيد کی سوچ کو الفاظ بھی انہوں نے ہی دئيے۔ رئيد نے جوس پيتے ايک نظر رفيعہ کے بجھے بجھے چہرے پر ڈالی۔ 

"سر ميں درد تھا۔ کہہ رہی تھی تھوڑی دير بعد ناشتہ کرے گی" رفيعہ کا چہرہ ديکھتے ہی رئيد کو اندازہ ہوگيا تھا کہ وہ جھوٹ کا سہارا لے رہی ہيں۔ 

"اللہ کرم کرے۔۔ بہت پياری بيٹی ہے تمہاری" حسن نے محبت سے کہا۔ 

"شکريہ "رفيعہ نے نظريں چراتے کہا۔ 

"ميں ديکھ لوں مطيبہ کو" حسن اخبار کھول کر سرخياں پڑھ رہے تھے۔ رفيعہ خاموشی سے ٹوسٹ پر جيم لگا کر کھانے اور کچھ سوچنے ميں مصروف تھيں۔ جب رئيد کے اجازت لينے والے انداز پر چونکيں۔ 

اور چونک تو حسن بھی گۓ تھے۔ 

بيٹے کے انداز انہيں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہے تھے۔ 

"ہا۔۔ ہاں۔ ديکھ لو" رفيعہ نے ہکلا کر کہا۔ 

رئيد مسکراہٹ دباتا اپنی کرسی گھسيٹ کر اٹھا۔ 

متانت سے چلتا رفيعہ اور مطيبہ کے مشترکہ کمرے کی جانب آيا۔ 

ہاتھ بڑھا کر بند دروازے پر ناک کيا۔ 

مطيبہ جو بيڈ پر بيٹھی موبائل پر فيس بک کھولے بيٹھی تھی۔ ناک کی آواز پر يہی سمجھی کہ سلمان ہوگا۔ 

"کيا مسئلہ ہے سلمان ۔۔امی کو کہا ہے نا کہ ميں نے ابھی ناشتہ نہيں کرنا تم کيا لينے آۓ ہو" اندر سے کوفت زدہ لہجے ميں مطيبہ يقينا سلمان کو لتاڑ رہی تھی۔ 

رئيد نے مسکراتے لبوں سے پھر سے دروازہ ناک کيا۔ 

"آجاؤ۔۔ چين نہيں تم۔۔۔" غصے سے غالبا سلمان کو اندر آنے کی اجازت دی مگر دروازہ کھول کر اندر آنے والے کو ديکھ کر باقی کے الفاظ منہ ميں رہ گۓ۔ 

جلدی سے بيڈ سے اٹھی۔۔ دوپٹہ ٹھيک کيا۔ 

"آپ" 

"جی پتہ چلا تھا طبيعت کافی خراب ہے۔۔ سوچا خير خيريت پتہ کرلوں۔۔۔ مگر يہاں تو گرج چمک کے آثار ہيں" رئيد نے اندر آتے مسکراہٹ دباتے اسکے کچھ دير پہلے کے جلالی انداز پر چوٹ کی۔ 

"جی بس سر ميں درد ہے۔۔ ميں تو يہی سمجھی کہ سلمان ہوگا۔ اسی لئے" مطيبہ نے بات بنائ۔ 

ماتھے پر اسکے ہونٹوں ميں چھپی مسکراہٹ ديکھ کر بل پڑے۔ 

"سر ميں درد ہے تو ناشتہ کرکے دوائ ليں اور فيس بک  اور واٹس ايپ پر آن لائن رہنے کی بجاۓ خاموشی سے سوجائيں" رئيد کچھ دير پہلے نے اسے واٹس پر آن لائن ديکھا تھا 

اور ايک نظر اسکے بيڈ پر پڑے موبائل پر ڈالی جہاں فيس بک کھلا ہوا تھا۔ 

"جی مين کر لوں گی ناشتہ" اس نے جان چھڑانے والے انداز ميں کہا۔ 

رئيد دو قدم آگے بڑھا۔ 

مطيبہ نے اچھنبے سے اسے قريب آتے ديکھا۔ 

"جب آنٹی معاف کرچکی ہيں تو آپکی ناراضگی کوئ معنی نہيں رکھتی" بن کہے اسکا حال جاننے والا يہ شخص مطيبہ کو الجھنے پر مجبور کرنے لگا تھا اب۔۔۔۔

"ميں کسی سے ناراض نہيں" سر جھکا کر مجرموں کی طرح کہا۔ 

"ميرا خيال تھا کہ آپ جيسی بااعتماد لڑکياں جھوٹ نہيں بولتيں" رئيد نے اسکے جھکے سر کو مسکراتی نظروں سے ديکھا۔ نجانے کيوں دھيرے دھيرے وہ دھڑکنوں کے ہمراہ دھڑکنے لگی تھی۔ 

"مصلحت کے تحت بولے جانے والا جھوٹ جھوٹ نہيں ہوتا" مزے سے سر اٹھا کر ناراض نظروں سے اسے ديکھتے دھڑلے سے اپنے جھوٹ بولنے کا اعتراف کرنے والی يہ لڑکی رئيد نے پہلی بار ديکھی تھی۔ 

ہولے سے مسکراہٹ ہنسی ميں بدلی۔ 

"يہ جھوٹ بھی بولنے کی ضرورت کيوں پيش آئ۔۔ چليں چند دن صرف يہ سوچ ليں کہ وہ صرف ميرے فادر ہيں۔۔يقين کريں ان سے بات کريں گی تو آپکو وہ بہت اچھے انسان لگيں گے" رئيد کی نرم گرم نگاہيں اسکی ہتھيلوں کو پسينے سے بھر رہی تھيں۔ 

"ہر اولاد کو اپنے ماں باپ اور ہر ماں باپ کو اپنی اولاد اچھی ہی لگتی ہے۔ 

اور ميں کيسے اس حقيقت سے نظريں چرا لوں کہ وہ صرف آپکے فادر نہيں ميری ماں کو تکليف پہنچانے والے انسان بھی ہيں" مطيبہ نے اپنا نکتہ نظر پيش کيا۔ 

"پھر ميں بھی اس حقيقت سے نظريں نہيں چرانا چاہتا کہ اگر وہ ايک ہوجاتے تو ميں اور آپ آج يوں اس رشتے ميں بندھے ايک دوسرے کے آمنے سامنے نہ کھڑے ہوتے۔ 

ميرے لئے تو ان کا نہ ملنا خوش بختی ہی ہے" رئيد کی گمبھیر آواز پر مطيبہ نے چونک کر اسکی نظروں ميں جھانکا۔۔۔

وہاں کون سا عکس نظر آيا تھا وہ ششدر ديکھ رہی تھی۔ 

"جا کر ناشتہ کريں۔ اور اس خود ساختہ خول سے باہر آئيں۔ بہت سی چيزيں بالکل ٹھيک جگہ محسوس ہوں گی۔ اپنا خيال رکھنا" ہاتھ اٹھا کر اسکے چہرے پر جھولنے والی لٹ کو ہولے سے کان کے پيچھے اڑيستا اپنے لمس سے آشنا کرتا مزے سے کمرے سے نکل گيا يہ ديکھے بنا کہ اس کی اس حرکت نے مطيبہ کو کتنے ہی لمحے وہاں سے ہلنے نہيں ديا۔ 

"يہ کيا تھا" اپنے چہرے پر اسکی انگلی کی پوروں کا لمس محسوس کرتے وہ سرگوشی نما آواز ميں خود سے بولی۔

______________________


__جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment