Pages

Tuesday 24 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 7 to 8

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 7 to 8     

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...



Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 7'8


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

رات ميں اس نے کچھ سوچ کر حسن کو فون ملايا۔ 

"السلام عليکم! بابا کيسے ہيں" دو چار دن سے اسکی بات نہيں ہوپائ تھی۔ وہ بھی کچھ مصروف تھے۔ 

"وعليکم سلام! بابا کی جان لگتا ہے بہت مصروف ہوگۓ ہو۔۔ بابا بھی بھولے ہوۓ تھے چند دنوں سے" انہيں نے شکوہ کيا۔ 

"سوری بابا۔۔ بس کچھ مصروفيت تھی اور پھر ايک مسئلہ درپيش آگيا تو آپکو کال نہيں کرسکا" معذرت خواہانہ لہجے سے زيادہ مسئلے والی بات نے انہيں يکدم پريشان کيا۔ 

"خیرہو۔۔ کيا ہوا ہے بيٹے" وہ فکر مند ہوۓ۔ 

رئيد نے مطيبہ سے متعلق ايک ايک بات انہيں بتائ۔ 

"واللہ! سن کر روح کانپ گئ۔ ہمارے معاشرے ميں ابھی بھی ايسی سفاکی اپنے عروج پر ہے۔ جس امت ميں اللہ نے بيٹيوں کو رحمت بنا کر بھيجا۔ وہاں ابھی بھی ايسے باپ ہيں جو انہيں اپنی غرض کے لئے استعمال کرتے ہيں۔ انسانيت پر افسوس ہوتا ہے۔ بيٹيوں کے تو اس قدر حقوق ہيں۔ اور يہاں لوگ انہيں ہی چارہ کی طرح استعمال کررہے ہيں۔

بہت بہت دکھ ہوا ہے اس بچی کے لئے" حسن کا افسردہ لہجہ رئيد کو بھی افسردہ کرگيا۔

"ايسے لوگوں کو تو چوراہے پر لٹکا کر کوڑے مارنے چاہئيں۔ مگر افسو اسی بات کا ہے کہ ايسے ہی لوگ کھلے عام دندناتے پھرتے ہيں۔ ارے بيٹياں تو دنيا کی ميلی نظروں سے چھپا کر رکھنے والی ہوتی ہيں۔ ايسے سر عام کوئ ان کو بيچتا ہے۔۔۔ بيٹا تم جس حد تک ہو سکے اس لڑکی کی حفاظت کرو" ان کے لہجے کا دکھ ختم ہونے کا نام نہيں لے رہا تھا۔ 

"بابا ميں نے ايک فيصلہ کيا ہے اگر آپ اس ميں ميرا ساتھ ديں" رئيد نے اب فون کرنے کا اصل مقصد بتانے کا فيصلہ کيا۔ 

"ہاں ہاں بيٹا۔۔۔ ضرور بتاؤ" انہوں نے اسے اجازت دی۔ 

"بابا جس طرح وہ شخص نقلی نکاح نامہ بنوا چکا ہے۔ ہمارے يہاں کے جاہل جج اور وکيل چند ہزاروں اور لاکھوں کے عوض اسے اصل ہی مان ليں گے۔ آپ جانتے ہيں۔ اس ملک ميں چند پيسوں کے بدلے کسی کو بھی خريدا جاسکتا ہے" رئيد کی بات سے انہيں سو فيصد اتفاق تھا۔ 

"ميں اس لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں تاکہ ايک مضبوط رشتے ميں بندھ کر ميں بہتر انداز ميں اسکی مدد کرسکوں۔ کيونکہ وہ شمس بابا کے گھر بھی تبھی تک محفوظ ہے جب تک ان درندوں کو اس کا علم نہيں۔ 

اگر انہيں علم ہوگيا تو مجھے ڈر ہے کہ وہ اسے وہاں سے اغوا کرنے ميں ايک پل بھی نہيں لگائيں گے۔" رئيد نے اپنی بات انہيں سمجھانی چاہی۔ 

"بيٹا ميں نے پہلے ہی تمہيں کہا ہے کہ اس لڑکی کی جس حد تک جاکر حفاظت کرسکتے ہو کرو۔ ميں ہر طرح تمہارے ساتھ ہوں۔ 

تمہاری سوچ بے حد اچھی ہے۔ مگر ايک بات کا خيال رکھنا" اسکی سوچ کو سراہتے وہ اسے تنبيہانہ انداز ميں بولے۔ 

"جی بابا بوليں" 

"بيٹا نکاح کرتے وقت اس لڑکی کو يہ يقين دلانا کہ اگر وہ اس رشتے کو آگے بڑھانا چاہے تو اس کی مرضی اور اگر ان لوگوں کو انجام تک پہنچانے کے بعد وہ بچی اس رشتے سے آزاد ہونا چاہے تو بھی اس کی مرضی۔ 

يہ اقدام تم اسے بچانے کے لئے کر رہے ہو۔ اسے ايک اور ان وانٹڈ رشتے ميں باندھنے کے لئے نہيں کررہے۔" حسن کی بات کا مقصد وہ بہت اچھے سے سمجھ چکا تھا۔ 

"جی بابا۔۔ يہ نکاح صرف اسے بچانے کے لئے ہوگا" رئيد نے کچھ توقف کے بعد انہيں يقين دہانی کروائ۔ 

"کيا آپ شامل ہو سکيں گے؟" اس نے ايک اور مدعا بيان کيا۔ 

"بيٹا يہاں کچھ ضروری امور ايسے آگۓ ہيں کہ ميں چاہتے ہوۓ بھی نکل نہيں سکتا۔ مگر اس کا ايک حل يہ ہوسکتا ہے کہ تم سکائيپ پر لائيو ويڈيو کی مدد سے مجھے اپنے نکاح ميں شامل کرلو" انہوں نے فورا حل پيش کيا۔ 

"جی ضرور بابا۔۔۔" 

"اللہ تمہيں خوشياں دے۔ ميں تو بہت سی غلطياں کرچکا ہوں۔ مگر تم حوا کی بيٹی کو بچالينا" انہوں نے ايک آہ بھر کہا۔ 

رئيد اس آہ ميں چھپے غم سے واقف تھا۔

"بابا آپ انہيں ڈھونڈنے کی کوشش کيوں نہيں کرتے۔۔۔ کيا ميں يہ کوشش کرسکتا ہوں؟" رئيد انہيں اسی موضوع کی جانب آج پھر سے لے آيا جس سے وہ ہميشہ اجتناب برتتے تھے۔ 

"ميری ايک ضروری کال آرہی ہے پھر بات کرتے ہيں" وہ پھر سے پہلو تہی کرگۓ۔ 

رئيد نے ايک بے بس نگاہ موبائل پر ڈالی جہاں اب فون بندہونے کے بعد ٹوں ٹوں کی آواز آرہی تھی۔

_____________________

اگلے دن وہ پھر آفس کے بعد شمس کے گھر موجود تھا۔ 

شمس سے وہ نکاح والی بات کرچکا تھا۔ اب مسئلہ يہ تھا کہ مطيبہ سے کون بات کرتا۔ 

اسکی ماں بھی اسکے پاس نہيں تھيں۔ 

رئيد نے خود ہی بات کرنے کا فيصلہ کيا۔ 

"ارے بھائ۔ يہ تو کمال ہوگيا اتنی جلدی ہی دوبارہ چکر بھی لگ گيا" منزہ نے مسکراتے ہوۓ دروازہ کھولا۔ 

لطيف سا طنز کيا۔ 

"بس ديکھ لو۔۔۔کبھی کبھی ايسا بھی ہوجاتا ہے" رئيد نے اسکے سر پر چپت لگاتے کہا۔ 

"بيٹھيں" اس نے چارپائ پر اسے بيٹھنے کا کہا۔ 

"تمہاری دوست اور اماں کہاں ہيں" رئيد کو وہ  دونوں نظر نہ آئيں تو بولا۔

"اماں نزديک دکان پر گئ ہيں۔ مطيبہ شايد عصر کی نماز پڑھ رہی ہے" اس نے تفصيل سے رئيد کو بتايا۔ 

اسی اثناء ميں سميرا بھی آگئ۔ 

"کيسے ہيں صاحب" اندر آتے رئيد کے سلام کا جواب محبت سے ديتے وہ بولی۔ 

"کتنی بار آپکو کہا ہے صاحب نہ کہا کريں۔ بيٹا کہا کريں" رئيد خفگی بھرے انداز ميں بولا۔ 

"کيا کروں بس ۔۔۔زبان پر يہی چڑھا ہے۔ بھائ کو کچھ کھلايا پلايا ہے يا منہ اٹھا کر کھڑی ہے" رئيد سے مخاطب ہوتے يکدم سميرا کو مہمان نوازی کا خيال آيا تو منزہ کے لتے لئے۔ 

"ابھی ابھی تو آۓ ہيں" وہ رئيد کے سامنے ايسی شامت آتے ديکھ کر منہ پھلا گئ۔ 

"نہيں کچھ کھانا پينا نہيں ہے۔ منزہ مطيبہ کو بلاؤ اور آپ بھی يہاں بيٹھيں مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے" رئيد نے سنجيدگی سے سميرا کو اپنے سامنے رکھی چارپائ پر بيٹھنے کا کہا۔ 

منزہ مطيبہ کو بلا لائ۔ جو نماز ختم کئيۓ دعا مانگنے ميں مصروف تھی۔ 

"رئيد بھائ تمہيں بلا رہے ہيں" کمرے ميں آتے مطيبہ سے مخاطب ہوئ۔ 

وہ جاء نماز سميٹ کر دھڑکتا دل لئے باہر آئ۔ 

'نجانے اب شہاب نے کيا کرديا ہے' پريشانی عروج پر تھی۔ خود سے ہی مخاطب ہوتی باہر آئ۔ 

اسے باہر آتا ديکھ کر رئيد نے جھکا سر اٹھايا۔ 

مطيبہ نے نظر ملتے ہی سلام کيا۔ 

"کيسی ہيں آپ؟" سلام کا جواب ديتے اس نے ہنوز سنجيدہ لہجے ميں پوچھا۔ 

"ٹھيک" وہ مختصر سا جواب ديتی سميراکے قريب ہی ٹک گئ۔ 

"مجھے آپ سب سے کچھ ضروری بات کرنی ہے خاص طور سے مطيبہ کی رائے اور انکی اجازت چاہئيے" اس کی بات پر تينوں نے چونک کر اسے ديکھا۔ 

رئيد نے ايک نظر مطيبہ پر ڈال کر موڑ لی۔ 

"ميں نے اس سب مسئلے کا ايک حل يہی نکالا ہے کہ مطيبہ کا کسی سے نکاح کروا ديا جاۓ۔۔۔تاکہ ايک مضبوط رشتے ميں بندھ کر ان کا شوہر بہتر انداز ميں شہاب کا مقابلہ کرسکے" رئيد کی پہلی بات پر وہ جو سر جھکاۓ بيٹھی تھی جھٹکے سے سر اٹھايا۔

"کيونکہ اس کا نکاح جعلی ثابت کرنے کے لئے يہ بہت ضروری ہے۔ اور دوسری بات کہ اگر اسے اس گھر کا علم ہوگيا کہ آپ يہاں چھپی ہوئ ہو تو وہ يہاں آنے ميں ايک پل کی بھی ديرنہيں لگاۓ گا۔ اور شمس بابا اور يہ لوگ اتنی ہمت والے نہيں کہ آپ کو بچا سکيں۔ نہ ہی ميں آپ کو بچا سکوں گا۔۔ کيونکہ چاہے جعلی صحيح مگر بہرحال وہ نکاح کے پيپرز ہيں۔" اب کی بار رئيد مطيبہ سے مخاطب ہوا جو گم صم ہو چکی تھی۔ 

"نکاح کون کرے گا اس سے " آخر ان تينوں ميں سے سميرا نے خاموشی توڑی۔ 

"ميں" رئيد کی بات پر مطيبہ نے پھٹی پھٹی نظروں سے اسے ديکھا۔ 

"کيا کہہ رہے ہيں آپ" بالآخر وہ بول پڑی۔ 

"ميں جانتا ہوں يہ سب آپ کے لئے عجيب ہے مگر ميں اس سے زيادہ مخلص طريقے سے آپ کی مدد نہيں کرسکتا۔ اور يہ صرف نکاح ہے۔ تاکہ آپ کی حفاظت کرتے وقت کوئ قانون مجھے چيلنج نہ کرے کہ 'تم کس رشتے سے اس لڑکی کی مدد کررہے ہو' آپ خود سوچيں ايسے ميں ميں کيا جواب دوں گا" رئيد نے کھل کر بات کی۔ 

مطيبہ شش و پنج ميں مبتلا تھی۔ 

"میرے خیال ميں رئيد ٹھيک کہہ رہا ہے۔ اس سب کے بغير ہم تمہيں ان درندوں سے نہيں بچا سکتے ۔ اور تم کب تک يوں چھپ کر رہو گی" سميرا نے اسے حقيقت کا سامنا کروايا۔ 

"مگر يہ کيسے۔۔۔مطلب ميں یہ کيسے کرلوں" وہ تينوں اسکی کيفيت سمجھ رہے تھے۔ 

يوں اس کی کمپنی کا باس اسکی جان بچانے کو اپنے آپ کو پيش کردے تو مقام حيرت ہی تھا۔ 

ايک جانب مرد کا اتنا بھيانک چہرہ اسکے باپ اور شہاب کی صورت تھا 

تو دوسری جاب اسی صنف کا ايسا رحم دل چہرہ شمس اور رئيد کی صورت تھا۔ 

"آپ کو بالکل پريشان ہونے کی ضرورت نہيں جيسے ہی شہاب والا معاملہ کلئير ہوگا۔ اسے جيل ہو جاۓ گی تو ميں اس نکاح کو ختم کردوں گا۔" رئيد نے اسے يقين دلايا کہ وہ يہ سب واقعی اسکی مدد کرنے کے لئے کر رہا ہے۔ 

"اور۔۔۔اور آپ کے گھر والے۔۔۔کيا وہ کچھ نہيں کہيں گے آپ کو يوں ايک بے سہارا کے لئے اپنی جان خطرے ميں ڈالنے پر" مطيبہ نے الجھ کر اسے ديکھا۔ 

وہ کيوں کررہا تھا۔۔ وہ اتنا اچھا کيوں تھا۔۔

"ميری فيملی ميں صرف ميرے بابا ہيں اور ان کی اجازت لينے کے بعد ہی ميں آپ سے بات کررہا ہوں" رئيد نے يہ معاملہ بھی کلئير کيا۔ 

"اور آپکی مدر سے بھی ميں بات کرلوں گا۔۔۔آپ مجھے ايڈريس بتا ديں تاکہ ميں ان سے بات کرسکوں۔۔ اور انہيں بھی پروٹيکشن ميں لے سکوں" رئيد نے سميرا اور منزہ کے سامنے ايسے ظاہر کيا جيسے رئيد اسکے گھر کے پتے سے ناواقف ہو۔ حالانکہ وہ اسے ايک بار چھوڑ کر بھی آيا تھا۔ 

مگر اسکے انداز سے مطيبہ کو سمجھ آگئ کہ وہ اس بات کا ذکر ان دونوں کے بھی سامنے نہيں کرنا چاہتا تھا۔ 

اور مقصد يقينا مطيبہ کی عزت رکھنا تھا۔ تاکہ وہ مطيبہ کو غلط لڑکی نہ جانيں۔ 

ہم لوگوں کے اندر کی سوچ نہيں پڑ سکتے۔ اسی لئے کبھی کبھی مار کھاجاتے ہيں۔ 

احتياط ہر جگہ لازمی ہوتی ہے چاہے وہ کوئ بہت اپنا بھی ہو۔ 

رئيد کی معاملہ فہمی مطيبہ کو اچھی لگی۔ 

"منزہ ايک پيپر اور پن دينا۔" مطيبہ کے کہنے پر منزہ فورا کمرے ميں بڑھی۔ 

"بيٹا اللہ تمہيں اس نيکی کا يقينا بہت اچھا اجر دے گا" سميرا آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوۓ بوليں۔ 

وہ کل کی خود پريشان تھيں۔ يوں اچانک اس بچی کے لئے اللہ ايسا مضبوط  سہارا بھيجے گا وہ سوچ بھی نہيں سکتی تھيں۔ 

رئيد نے سميرا کی دعا پر ايک نظر سامنے بيٹھے جھکے سر پر ڈال کر آمين کہا۔ 

منزہ جيسے ہی کاپی اور پين لائ۔ مطيبہ نے اس پر اپنے گھر کے ساتھ موجود شميم کے گھر کا ايڈريس لکھ ديا۔ 

"بيٹا میرا خيال ہے کہ پہلے تم ماں سے فون پر بات کرلو۔۔ بلکہ ميں کر ليتی ہوں۔ اور اسکے گھر کے حالات بھی پتہ کرليتی ہوں۔ يہ نہ ہو شہاب اسی بات کی تاک لگاۓ بيٹھا ہو کہ کب تم وہاں جاؤ۔۔ يا کوئ ايسا ذريعہ وہاں جاۓ جس سے ہوتا وہ تم تک پہنچے۔ 

اور رئيد کو تو وہ پہلے ہی سازشی گردان چکا ہے" منزہ کی بات پر ان تينوں نے سر ہلايا۔ 

"بالکل صحيح بات ہے۔ ميں تو اسکے سامنے آچکا ہوں۔ يہ نہ ہو ہمارا پلين اس طرح دھرے کا دھرا رہ جاۓ اور وہ ميرے وہاں جانے پر کسی شک ميں مبتلا ہوجاۓ"رئيد نے سميرا کی بات کی تائيد کی۔ 

"صحيح ہے نا۔۔۔۔ اسکی اماں سے بات کرکے پھر ہم تمہيں بتا ديں گے" سميرا نے بات سميٹی۔ 

"ٹھيک ہے۔ پھر ميں چلتا ہوں۔۔" رئيد اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"اب ہم آپکے نکاح کے چھوہارے کھائيں گے" منزہ اسے چھيڑنے لگی۔ 

رئید کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ظاہر ہو کر معدوم ہوگئ۔ 

جبکہ مطيبہ کا چہرہ لمحہ بھر کو سرخ ہوا۔ 

اس نے نظر ادھر ادھر کرکے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ 

"اللہ سب بہتر کرے بس" سميرا نے دل سے دعا دی۔ 

"چلتا ہوں" رئيد نے منزہ کو گھوری سے نوازا۔وہ کھلکھلائ۔"

______________________


"اللہ سب بہتر کرے بس" سميرا نے دل سے دعا دی۔ 

"چلتا ہوں" رئيد نے منزہ کو گھوری سے نوازا۔وہ کھلکھلائ۔"

______________________

اسی رات مطيبہ نے فون ملا کر سميرا کو ديا۔ اپنے نکاح کی بات اب وہ خود ماں سے کيسے کرتی۔۔۔۔۔چاہے نکاح کيسے بھی ہو رہا تھا۔ مگر اسکے لئے يہی اس وقت ضروری تھا۔ وہ حقيقت پسند تھی اور جانتی تھی رئيد صرف اسے بچانے کے لئے يہ سب کررہا ہے۔ 

اس کا يہی احسان بہت تھا۔ مطيبہ کو نا چاہتے ہوۓ بھی يہ احسان لينا تھا۔ 

اپنی عزت اسے اپنی انا سے پياری نہيں تھی۔ اور عزت بچانے کی کوئ اور صورت اس 'نکاح' کے علاوہ اسکے سامنے نہيں تھی۔

"کيسی ہو بہن" سميرا نے بات کا آغاز کيا۔ 

"کيسی ہو سکتی ہوں بہن۔ ميری جان کا ٹکڑا يوں طوفانوں کی زد ميں ہے آپ ہی بتائيں ايسے ميں ميں کيسی ہو سکتی ہوں" وہ ياسيت بھرے لہجے ميں بوليں۔ 

"بہن اللہ پر يقين رکھيں وہ آپ کو اس مشکل سے ضرور نکالے گا" سميرا نے انہيں تسلی دی۔ 

"اسی پر تو يقين ہے" وہ سرد آہ بھر کر بوليں۔ 

"تو بس سمجھيں کہ وہ يقين پورا ہونے جارہا ہے" انہوں نے مسرت آميز لہجے ميں کہا۔

"کيا مطلب" وہ ناسمجھی سے بوليں۔ 

"کل شہاب مطيبہ کے آفس ميں بہت ہنگامہ کرکے گيا۔ پھر ہم نے مجبورا اسکے باس کو سب بتايا۔ وہ بہت اچھا بندہ ہے۔ اس نے ساری بات سن کر آج ايک جل بتايا ہے۔ جس کے لئے ہميں آپکی نہ صرف اجازت کی ضرورت ہے بلکہ وہ آپ سے ملنا بھی چاہتا ہے" رفيعہ حيرت سے سب سن رہی تھيں۔ 

"جی جی بہن بتائيں" 

"اصل ميں شہاب نے جھوٹا نکاح نامہ بنايا ہے۔ جس کی وجہ سے رئيد جو کہ مطيبہ کا باس ہے۔ اس نے سوچا ہے کہ وہ مطيبہ کو اپنے نکاح ميں لے کر شہاب جيسے غنڈے کا مقابلہ کرسکے اور اس کے پاس موجود نکاح نامے کو غلط ثابت کرسکے۔ اور بالفرض اس نے نکاح کا پيپر نہيں بھی بنايا تب بھی وہ اسے آرام سے جيل بھجوا سکے۔" سميرا کی بات سن کر رفیعہ سوچ ميں پڑ گئيں۔

"بہن مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہيں آرہی" وہ حقيقتا پريشان بھی تھيں اور حيران بھی تھيں۔ 

"ارے وہ ايسے ہی تھوڑی نکاح کر لے گا۔ آپ اس سے مل ليں۔ مگر مسئلہ يہ ہے کہ کيا آپکے گھر کے آس پاس شہاب کے بندے ہيں؟ يہ نہ ہو وہ ملنے کے لئے آۓ اور شہاب اسکا پيچھا کرتا مطيبہ تک پہنچ جاۓ۔ يا پھر آپ کو تنگ کرے کہ آپ مطيبہ کا پتہ بتائيں۔ کيونکہ اب تک تو شہاب کو يہ بھی نہيں پتہ کہ آپ کہاں ہيں" سميرا کی بات غلط نہ تھی۔ 

"کہہ تو ٹھيک رہی ہيں بہن۔ اچھا ميں ايسا کرتی ہوں کل آپکے ہی گھر آجاتی ہوں وہيں مطيبہ کے باس سے مل لوں گی۔" رفيعہ نے ہچکچاتے ہوۓ ہامی بھرلی۔ 

"کيونکہ ميرے گھر کے آس پاس ہر وقت شہاب کے دو بندے موجود ہوتے ہيں۔ جو کہ گھر کی پہرہ داری کررہے ہيں کہ کہيں ميں يا مطيبہ يہاں آئيں اور وہ ہميں پکڑ ليں" سميرا کا شک بالکل درست تھا۔ 

"اسی لئے ميں نے سوچا تھا کہ آپکی طرف رئيد نہ ہی جاۓ تو بہتر ہے۔" سميرا نے اپنا شک بتايا۔ 

"جی بالکل۔۔آپ نے صحيح کيا۔" رفيعہ نے انکی تائيد کی۔ 

"چليں ٹھيک ہے آپ پھر کل ہماری طرف آجائيں۔" سميرا نے پروگرام بناتے ساتھ ہی رفعیہ کو اپنے گھر کا ايڈريس بتايا۔ 

_______________________

اگلے دن برقعہ ميں رفيعہ خود کو اچھی طرح ڈھانپے شميم کے گھر سے نکليں۔ 

دل کو دھڑکا بھی لگا تھا کہ کوئ پيچھا نہ کرلے۔ 

مگر شکر ہوا کہ شہاب کے بندوں کو شک نہيں ہوا۔ 

شميم نے روٹ کی بس پکڑی اور سيدھا شمس کے گھر جا پہنچيں۔ 

مطيبہ تو اتنے دنوں بعد ماں کو ديکھ کر خود پر اختيار کھو بيٹھی۔ 

"نہ ميری بيٹی نہ۔۔۔۔اللہ نے ديکھ کتنا کرم کيا ہے ہم پر۔ کيسے تجھے ان سفاک لوگوں سے بچا لیا ہے۔ اب مجھے کوئ پريشانی نہيں۔ يقينا اللہ تيرے لئے بہت بہتر کرے گا۔" مطيبہ کو ساتھ لگاۓ۔ سميرا کے ساتھ ہی چارپائ پر بيٹھی تھيں۔ 

سميرا اور منزہ کی آنکھيں بھی اشکبار تھيں۔ 

"آپ کو نہيں پتہ کيسے ميں اکيلی ہوگئ تھی۔ اگر يہ لوگ نہ ہوتے تو ميں تو مرنے والی تھی" مطيبہ نے آنسو صاف کرتے تشکرانہ نظريں منزہ اور سميرا پر ڈالتے کہا۔ 

"بہن آپ لوگوں کا واقعی بہت شکريہ جس طرح آپ لوگوں نے ہمارا ساتھ ديا ہے۔ اس دور ميں ايسا تو اپنے بھی نہيں کرتے" سميرا کے ہاتھ تھامتے رفيعہ نم لہجے ميں بوليں۔ 

"ارے بہن شرمندہ مت کريں۔ يہ ميری منزہ کی ہی طرح مجھے عزيز ہے" سميرا نے محبت سے مطيبہ کو ديکھتے کہا۔ 

منزہ چاۓ بنانے اندر جا چکی تھی۔ 

دروازے پر کھٹکا ہوا۔ 

"ميں ديکھتی ہوں" سميرا چارپائ سے اٹھيں۔ 

دروازہ کھولا تو سامنے رئيد تھا۔ 

"کيسی ہيں آپ؟" رئيد نے محبت سے پوچھا۔ 

"اللہ کا شکر ہے ۔۔۔آؤ نا" انہوں نے ايک جانب ہوتے رئيد کو اندر آنے کا راستہ ديا۔ 

رفيعہ کی متحير نظريں اس خوبرو شخص کو ديکھ رہی تھيں۔ اونچا لمبا رئيد بليک پينٹ کوٹ پہنے وائٹ شرٹ کے اوپر سٹيل گرے ٹائ لگاۓ۔ جيل سے بالوں کو خوبصورتی سے جماۓ۔ خوشبوں ميں بسا تيکھے نقوش والا رئيد انہيں کسی شہزادے سے کم نہ لگا۔ 

"السلام عليکم" رئيد تعظيما رفيعہ کے آگے جھکا۔ 

جو پلک جھپکے بنا اسے ديکھ رہی تھيں۔ نجانے کہاں سے ياد کے پردوں پر کسی کی بھولی بسری ياد تازہ ہوئ۔ 

چونک کر اپنے سامنے جھکے رئيد کے کندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔ 

مطيبہ اسے سلام کرکے منزہ کے پاس کچن ميں جا چکی تھی۔ 

جس لمحے وہ لوگ چاۓ کے لوازمات لے کر باہر آئيں۔ ماحول کافی خوشگوار لگا۔ 

لگتا تھا رفيعہ اس نکاح کے لئے مان چکی ہوں۔ 

"ميرے خيال ميں آپکی موجودگی ميں ہی نکاح ادا ہوجاۓ تو بہتر ہے" مطيبہ سب کو چاۓ کے کپ دے رہی تھی۔ جب رئيد کی بات پر اسکا رئيد کو چاۓ پيش کرتا ہاتھ کانپا۔ 

رئيد نے ايک اچٹتی سی نگاہ اپنے سامنے موجود بوکھلائ سی مطيبہ پر ڈالی۔ 

ايک ہاتھ سے ٹرے تھامی اور دوسرے ہاتھ سے چاۓ کا کپ تھاما۔ 

مطيبہ نے خجل ہو کر ٹرے چھوڑ دی۔ 

رئيد نے کوئ بھی تاثر دئيۓ بنا ٹرے سامنے موجود چھوٹے سے لکڑی کے ٹيبل پر رکھی۔ 

"ہاں ميرا خيال ہے يہ مناسب ہوگا۔ تاکہ پھر کيس شروع کيا جاۓ" سميرا نے رئيد کی بات پر ہاں ميں ہاں ملائ۔ 

"اور آج ہی آپ دونوں ميرے ساتھ ميرے گھر چليں گی۔ تاکہ وہاں سيکيورٹی ميں رہيں۔ اور ايک دو دن ميں ميں کيس شروع کروادوں گا" رئيد کی بات پر مطيبہ اور رفيعہ ايک دوسرے کو ديکھ کر رہ گئيں۔ 

"کيونکہ اس نکاح کے بعد آپ کا واپس اسی محلے ميں جانا خطرے سے کم نہيں۔ يہ نہ ہو انہيں سن گن مل جاۓ اور وہ آپکے ذريعے ہميں کسی طرح سے اموشنلی بليک ميل کريں۔" رئيد کی بات انہيں درست لگی۔ 

مطيبہ تو مسلسل خاموش تھی۔ 

جس نے کبھی کسی کا احسان نہ ليا تھا يوں اچانک زندگی ميں کسی کا اتنا بڑا احسان لينا پڑ رہا تھا۔ کہ کوئ شخص اسے اپنا نام ہی دينے پر تل گيا تھا۔ 

گہری سانس خارج کرتے وہ وہاں سے اٹھ گئ۔ 

رئيد نے خاموش نظروں سے اسے وہاں سے جاتے ديکھا۔ 

"ٹھيک ہے بيٹا" رفيعہ نے رئيد کو اپنے پروگرام پر عمل کرنے کا عنديہ دے ديا۔ 

رئيد نے سر ہلا کر فيصلہ سنا۔

___________________________

ايک گھنٹے بعد رئيد کے چند دوست اور ايک کزن موجود تھی۔ جبکہ مطيبہ کی جانب سے گواہوں ميں شمس بابا اور رئيد کے ہی چند دوست تھے۔ 

رئيد کی کزن ايک سادہ مگر پيارا سا ہکلے کافی رنگ کا جوڑا مطيبہ کے لئے لائ۔ ساتھ ميں ميچنگ جوتے بھی تھے۔ 

رئيد نے منزہ سے کہلوا کر مطيبہ کے جوتے کا سائز پتہ کروايا تھا۔ مطيبہ نے کسی بات پر کوئ احتجاج نہيں کيا تھا۔ 

وہ بس خاموش تماشائ بنی يہ سب اپنے ساتھ ہوتا ديکھ رہی تھی۔ 

ايک سناٹا تھا جو اندر باہر پھيل چکا تھا۔ 

مولوی اور شمس مطيبہ کے پاس کمرے ميں آۓ جہاں وہ کپڑے تبديل کئيے۔ سوٹ کا ہی ہم رنگ دوپٹہ سر پر رکھے۔ نکاح کے پيپرز پر کسی روبوٹ کی طرح سائن کررہی تھی۔ 

ايک جانب سميرا رفيعہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھے انہيں حوصلہ دے رہی تھيں۔ جو مسلسل روۓ جارہی تھيں۔ اور دوسری جانب مطيبہ کے پاس منزہ اسکے کندھوں پر بازو پھيلاۓ بيٹھی تھی۔ 

مطيبہ بالکل ساکت بيٹھی تھی۔ بس قبول ہے کہ وقت ہی اسکے لب فقط ہلے تھے۔ 

مطيبہ سے سائن کروا کر مولوی رئيد کے پاس گيا۔ 

مطيبہ کی نسبت نجانے کيوں رئيد کے دل ميں ايک عجيب سی ہلچل تھی۔۔ خوشی تھی۔۔۔ حيرت تھی۔۔۔ کيا تھا۔ 

مگر بے چينی نہيں تھی۔ 

دل ميں ہلچل تھی۔ وہ ہلچل جو محبت کی پہلی بارش کی پھوار محسوس کرکے ہوتی ہے۔ 

رئيد نے حسن کو مسلسل آن لائن رکھا ہوا تھا۔ 

وہ بيٹے کے نکاح کا منظر نم آنکھوں سے ديکھ رہے تھے۔

"بيٹا وہ بچی کہاں ہے ميں دیکھنا چاہتا ہوں" حسن نے نکاح مکمل ہونے کے بعد اپنی خواہش کا اظہار کيا۔ 

"بابا وہ کمرے ميں ہيں۔ ميں مشال کو کہتا ہوں وہ موبائل وہاں لے جاتی ہے" رئيد ابھی مشال کو آواز دينے ہی والا تھا کہ حسن کے دوسرے موبائل پر کال آنے لگی۔ 

"بيٹا ايک ضروری کال آرہی ہے ميں پھر کل ان شاءاللہ بچی اور اسکی امی سے بات کروں گا" حسن نے معذرت کی۔ 

"ٹھيک ہے بابا" رئيد نے کوئ اعتراض نہ کيا۔ 

"مبارک ہو آنٹی۔۔ مبارک ہو بھابھی" رئيد کی کزن چہکتے ہوۓ مطيبہ کو ساتھ لگا کر مبارک دے رہی تھی۔ 

مطيبہ سپاٹ چہرہ لئے اسکی خوشی دیکھ رہی تھی۔ 

"بھابھی" يہ لفظ ہی کتنا عجيب لگ رہا تھا۔ 

رئيد ريفريشمنٹ کا کچھ سامان منگوا چکا تھا۔ منزہ اور مشال (رئيد کی کزن) سب کو کھانے پينے کی چيزيں پيش کررہی تھيں۔ 

"شکر اللہ کا سب خير خيريت سے ہوگا۔" منزہ نے ہاتھ آپس ميں جوڑ کر لمحہ بھر کو آنکھيں بند کرکے رفيعہ کو مخاطب کيا۔ 

"بس بہن دعا کرنا اس گرداب سے جلد باہر آجائيں۔ اللہ رئيد بيٹے کو بے حساب خوشياں دے جس نے ہم غريبوں کے لئے اتنا بڑا قدم اٹھايا ہے" رفيعہ بھی جانتی تھيں کہ يہ نکاح صرف مصلحتا کيا گيا ہے۔ وہ کسی خوش فہمی ميں نہيں رہنا چاہتی تھيں۔ 

کچھ دير بعد ہی جہاں سب مہمان گۓ وہيں رئيد نے بھی جانے کی اجازت مانگی۔ 

"آپ سب کا بے حد شکريہ" رئيد نے شمس بابا سے ہاتھ ملاتے سميرا اور منزہ کو بھی مخاطب کيا۔ 

"اللہ بس انہيں ان تکليف دہ حالات سے نکالے۔ اور ويسے بھی بيٹا انسان ہی انسان کے کام آتا ہےنا" سميرا نے سچے دل سے کہا۔ 

"ہم اسے بہت ياد کريں گے۔ بہت پياری بيٹی ہے" سميرا مطيبہ کو ساتھ لگاتے محبت سے بوليں۔ 

رئيد کو اس کی اس قدر خاموشی بہت چبھ رہی تھی۔ پريشان کررہی تھی۔ وہ بالکل گم صم تھی۔ 

رئيد نے اسکے بے تاثر چہرے سے نظريں ہٹائيں۔ 

"اوکے منزہ۔۔۔ تم آنا ميری اکيڈمی تمہاری جاب کا بندوبست کرتی ہوں" مشال منزہ سے ملتے ہوۓ بولی۔ چند ہی لمحوں ميں انکی بہت اچھی دوستی ہوگئ تھی۔ 

"ضرور" منزہ نے بھی ہامی بھری۔ 

گھر سے باہر نکلتے سميرا نے مطيبہ کو اچھی طرح چہرہ ڈھکنے کا کہا پھر منزہ نے خود ہی آگۓ بڑھ کر اسکے دوپٹے سے ہی اسکا نقاب سيٹ کرديا۔ 

"بھابھی آپ آگۓ بيٹھيں" گاڑی کے پاس آتے ہی مشال نے اسے آگے بٹھانا چاہا۔ 

"نہيں مشال آپ آگے بيٹھ جاؤ۔ ميں يا امی بيٹھے تو کسی کے بھی ديکھ لئے جانے کا خطرہ ہے۔" مشال کو سہولت سے انکار کرتے وہ پچھلی سيٹ کا دروازہ کھول کر بيٹھ بھی گئ۔ 

حالانکہ وہ نقاب ميں تھی اور رفيعہ برقعہ ميں۔۔۔

مشال ناسمجھی سے اسکا انکار سن کر وہيں جمی رہی۔ 

رئيد نے اسے اشارہ کرکے آگے بيٹھنے کا کہا۔ 

مطيبہ مشال کو يہ نہيں کہہ سکتی تھی کہ' نکاح کے ايک پيپر سائن کرلينے سے ميں واقعی تمہاری بھابھی نہيں بن گئ اور نا اس رحمدل شخص کی بيوی۔ يہ ايک مجبوری ہے اور مجبوريوں کو ميں يوں کيش کروانے کی قائل نہيں۔ ميں کل بھی اسکی ملازم تھی آج بھی اسکی ملازم ہوں۔ مالکن نہيں بن گئ" آنسو پيتے اس نے نظريں باہر بھاگتے دوڑتے منظر پر جمائيں۔ 

مگر بيک ويومرر سے دو آنکھيں اسکی آنکھوں کی وحشت سے انجان نہيں تھيں۔ اسکی آنکھوں ميں چھپے درد کو محسوس کررہی تھيں۔ رئيد نے پہلے مشال کو ڈراپ کيا۔ 

پھر گاڑی اپنے گھر جانے والے راستے پر بڑھا دی۔ 

کچھ دير بعد ہی گاڑی ايک عاليشان بنگلے کے آگے رکی۔ 

مطيبہ اور رفيعہ کو تو وہ کوئ محل ہی لگا تھا۔ 

"آئيے" گاڑی پورٹيکو ميں کھڑی کرکے وہ باہر نکلا۔ 

اسکی تقليد ميں وہ دونوں بھی باہر آئيں۔ 

رئيد انہيں اپنے پيچھے آنے کا اشارہ کرتا ويرانڈے کی سيڑھياں چڑھ کر اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ 

لکڑی کا منقشف دروازہ کھول کر ان دونوں کو اندر بڑھنے کا کہا۔

وہ دونوں خاموشی سے اندر آگئيں۔ 

سامنے بڑا سا ہال تھا جس کے چارو جانب مختلف دروازے تھے۔ 

رئيد انہيں لئے پہلے ہال کی سيڑھياں اتر کر صوفوں کی جانب بڑھا۔ 

"بيٹھيں آپ" انہيں بيٹھنے کا اشارہ کرکے کسی ملازم کو آواز دی۔ 

"ٹھنڈا لاؤ" ملازم کو حکم دے کر وہ اپنے سامنے موجود صوفوں پر بيٹھی رفيعہ اور مطيبہ کی جانب متوجہ ہوا۔ 

رفيعہ برقعہ اتار رہی تھيں۔ مطيبہ نے بھی نقاب گرا ليا تھا۔ 

"ابھی آپ دونوں کچھ دن باہر نہيں جائيں گی۔ ميں مشال سے کہوں گا۔ آپ دونوں کے کپڑوں کا بندوبست کردے۔" رئيد نے کسی باس کے سے ہی انداز ميں انہيں اگلے دنوں کا لائحہ عمل بتايا۔ 

اتنی دير ميں ملازم جوس لا چکا تھا۔ تينوں کو اس نے گلاس پيش کئيے۔ 

"بابا کچھ دنوں ميں آجائيں گے۔ تو ميں زيادہ جلدی اس سب مسئلے کو حل کروں گا۔ " رئيد کو سمجھ نہيں آرہی تھی ان دونوں سے کيا بات کرے۔ تو کيس کے حوالے سے ہی ڈسکس کرنے لگا۔ 

"آنٹی آپ کے بھائ نے کبھی آپ سے کانٹيکٹ نہيں کيا" رئيد نے رفيعہ سے سوال کيا۔ 

"نہيں بيٹے۔ وہ تو ايسے گيا سب تعلق ختم کرکے گيا کہ کہيں بھولے سے بھی ميں اس سے کوئ رابطہ نہ کرسکوں" انہوں نے لمبا سانس کھينچتے ہوۓ کہا۔ 

"اور آپکے کوئ کزنز۔۔۔کوئ خالہ۔ ماموں۔۔" رئيد کی بات پر انہوں نے نفی ميں سر ہلايا۔ 

"جب ميرے اپنے بھائ نے مجھ سے تعلق نہيں رکھا تو کسی اور رشتہ دار نے مجھے کيا سمجھنا تھا۔ " رفيعہ نے دکھ سے کہا۔ 

"اکبر۔۔۔۔۔کھانا لگاؤ" رئيد نے ملازم کو پھر سے ہانک لگائ۔ 

کھانا کھا کر رئيد نے ايک کمرہ مطيبہ اور رفيعہ کو دکھايا۔ 

"آپ اگر الگ سونا چاہتی ہيں تو اسکے ساتھ والے کمرے  ميں سو سکتی ہيں" رئيد نے مطيبہ کو مخاطب کيا۔ 

"ارے نہيں بيٹا اتنا بڑا تو کمرہ ہے ہم اکٹھے ہی سوجائيں گے" مطيبہ کے بولنے سے پہلے ہی رفيعہ بوليں۔ 

رئيد پھر بھی منتظر نگاہوں سے اسکی جانب ديکھتا رہا۔ 

کچھ تو قفل ٹوٹے۔ 

"نہيں ٹھيک ہے سر" مطيبہ نے آخری لفظ بول کر اسے اپنا اور اسکا اصل تعلق باور کروايا۔ 

"اوکے۔۔گڈنائٹ" رئيد سر ہلا کر کمرے سے باہر چلا گيا۔ 

مطيبہ نے اسکی نظروں کی گرفت سے آزاد ہونے پر سکھ کا سانس ليا۔ 

وہ کيوں اسے يوں اور مسلسل دیکھتا رہا تھا وہ سمجھ نہيں پارہی تھی۔ 

وہ کوئ حور پری نہيں تھی اور اس بات سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔

__جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment