Pages

Thursday 23 June 2022

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 4 to 5 Complete PDF

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 4 to 5 Complete PDF

RJ  Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Tawaif  Based Novel Enjoy Reading...

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ 

Novel Name: Sulagti Yadon K Hisar Main

Writer Name: RJ

Category: Episode Novel

Episode No: 4 to 5

سلگتی یادوں کے حصار میں

ازقلم: آر جے

4 , 5قسط  


جینز کی پاکٹ میں ایک ہاتھ پھنسائے جبکہ دوسرے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو کان سے لگائے وہ اپنے کمرے کی قدآور کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوکر انسپیکٹر باسط سے کسی کیس کو لے کر محوِگفتگو تھا۔

سیاہ آنکھیں ڈھلتی شام کے گہرے سائے میں ڈوبتے وسیع لان کو مسلسل تکتے ہوئے کچھ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کررہی تھیں جب آمنہ کے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارنے سے سارا لان ایکدم سے جگمگاتی روشنیوں میں گھرا تھا۔

تبھی شام کانوں میں ہینڈ فری لگائے زیرِلب مسلسل کچھ گنگناتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو آہٹ محسوس کرتے ہی عائل نے گردن موڑ کر اُسکی جانب دیکھا۔

”ہاں ٹھیک ہے۔۔۔تم کل جاکر خود اچھے سے وہاں کی چیکنگ کرلینا اور پھر مجھے انفارم کردینا۔۔۔۔ہممم۔۔۔صحیح ہے۔۔۔۔اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔“  اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ کال ڈسکنکٹ کرتا شام کی جانب پلٹا جو تب تک بڑے مست موڈ میں اُسکے جہازی سائز بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکائے ڈھے چکا تھا۔ 

”ہیلوووو برادر۔۔۔۔کیا ہورہا تھا۔۔۔۔؟؟؟“  عائل جیب میں موبائل پھنساتا اُسکے سامنے صوفے پر بیٹھا تو وہ کانوں سے ہینڈفری ہٹاتا قدرے بےتکلفی سے پوچھنے لگا۔

وجیہہ نقوش پر خوشی کے واضح رنگ چھائے ہوئےتھے جبکہ بھوری آنکھوں میں گہری چمک تھی جسے دیکھ کر عائل بھی خوشدلی سے مسکرادیا۔

وہ کم ہی ایسا رویہ اپناتا تھا۔

آج اُسکا موڈ حد سے ذیادہ اچھا تھا یہ بات تو وہ اچھے سے جان ہی چکا تھا مگر وجہ کیا تھی؟اس سے وہ اب تک قطعی بےخبر تھا۔

”کچھ خاص نہیں۔۔۔۔بس ایک چھوٹا سا کیس تھا اُسی کو لےکر ہمارے بیچ ڈسکشن چل رہی تھی۔۔۔تم بتاؤ۔۔۔کیا کرتے پھر رہے ہو آجکل۔۔۔؟؟؟  اُسکے لاڈ جتانے پر مسکرا کر وضاحت دیتے آخر میں اُسکا انداز بالکل حسن صاحب کی طرح ہوا تھا۔آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔شام مسکرایا۔

”میں۔۔۔؟؟؟کچھ خاص تو نہیں۔۔۔۔ بس آج آپکے بہادر بھائی نے ایک لڑکی کو چند آوارہ بدمعاشوں سے بچایا ہے۔۔۔اور مزے کی بات بتاؤں۔۔۔؟؟جس لڑکی کی مدد میں نے کی۔۔۔وہ اُسی لڑکی کی بڑی بہن تھی جسکی جان اُس دن آپ نے بچائی تھی۔۔۔۔“  اپنی کالی کرتوت پر  کھوکھلی بہادری کا پردہ ڈالے وہ لیٹے لیٹے ہی فخر سے اپنے کالر جھاڑتا عائل کو اپنی بات سے الجھاگیا۔

”مطلب۔۔۔۔؟؟تم کن لڑکیوں کی بات کررہے ہو۔۔۔۔۔؟؟؟میں ٹھیک سے سمجھا نہیں۔۔۔۔“  واقعی اُسکے دماغ میں شام کی مبہم انداز میں کی جانے والی گفتگو فوری طورپر نہیں بیٹھی تھی جس پر وہ اپنی گھنی بھنوؤں کو سکیڑتا بھرپور سنجیدگی سے گویا ہوا۔

حرمین زہرا اور اُسکی چھوٹی بہن کی بات کررہا ہوں یار۔۔۔۔حرمین زہرا وہی جو میری یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔۔۔وہ آپکو اچھے سے  جانتی ہے بھائی۔۔۔اور آج میرے ساتھ ساتھ آپکی بھی خاصی تعریف کررہی تھی کہ کس طرح آپ نے اُسکی چھوٹی بہن کی جان بچائی۔۔۔“  شام سیدھا ہوکر بیٹھتے ہوئے حرمین کے نام پر زور دیتا کھل کر وضاحت دینے لگا تو عائل کے ذہن میں ایکدم سے جھماکہ ہوا۔ 

”اچھا اچھا۔۔۔۔۔تو تم حاویہ کی بڑی بہن کی بات کررہے ہو۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔جب ہوٹل میں، میں اُس سے اتفاقاً ملا تھا تو اُسنے مجھے اپنا انٹرو کروایا تھا۔۔۔۔اب تو وہ ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔؟؟“  ساری بات سمجھ آتے ہی اُسے اُس معصوم لڑکی کے ساتھ ہوئے ناخوشگوار واقعے کی بابت جان کر حقیقتاً افسوس ہوا تھا۔

”حرمین کی بہن کا نام حاویہ ہے۔۔۔؟؟بلیومی بھائی مجھے آج ہی یہ بات آپ سے معلوم پڑی ہے۔۔۔۔“  اُس کے سوال کو نظرانداز کرتےشام کا لہجہ شوخ رنگ ہوا جہاں افسوس کی کوئی بھی رمق باقی نہ تھی۔

یہ پہلی بار تھا جو عائل کو شام کا حاویہ کے نام پر چھیڑتا لہجہ دل سے بھایا تھا۔بےساختہ اُسکے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ رینگ گئی۔

حاویہ کے بوکھلائے بوکھلائے سے دلکش نقوش بےاختیار اُسکی یاداشت میں تازہ ہوتے چلے گئے۔

”اُسکی جان بچاتے بچاتے کہیں آپ اپنا دل تو نہیں گنوا بیٹھے بھائی۔۔۔؟؟اگر ایسی بات ہے تو مجھےابھی سے بتادیں۔۔۔موم تو الریڈی آپکے پیچھے پڑی ہوئی ہیں کہ شادی کرلو۔۔۔ شادی کرلو۔۔۔۔اچھا ہے اُنکی خواہش بھی جلد ہی پوری ہوجائے گی۔۔۔“  شام کی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گستاخیاں اُسے مزید مسرور کرتی اُس لڑکی کی یادوں میں مکمل طور پر دھکیل چکی تھیں جب اُسکی عدم توجہ محسوس کرتا وہ ذرا چونکا۔

”بھائی۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے کھوئے انداز میں مسکراتا دیکھ شام کی مسکراہٹ معدوم ہوتی ایکدم سے غائب ہوئی تھی۔

البتہ وہ خود کبھی اِن احساسات سے حقیقتاً دوچار نہیں ہوا تھا لیکن بھٹک جانے والے ایسے انداز و حالات سے جہاں انسان دوسروں سے قطعی غافل محض اپنی سوچوں میں گم آپ ہی آپ مسکرانے لگے خوب واقف تھا۔

 ”بھائی۔۔۔۔؟؟؟“   خود کے نظرانداز کیے جانے پر بمشکل ضبط کرتے اُسنے اس بار بآواز بلند اُسے مخاطب کیا۔

”ہاں۔۔۔۔۔؟؟؟“  اپنے گہرے خیالوں سے چونکتا وہ پل میں اُسکی جانب متوجہ ہوا۔

”مطلب۔۔۔سچ میں آپ اُس لڑکی کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں۔۔۔پلیز سچ بتائیے گا مجھے۔۔۔۔“  اپنی حیرانگی پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتا وہ پُریقین سا عائل کو بری طرح ٹھٹھکانے پر مجبور کرگیا۔

”بچ جاؤ میرے ہوہاتھوں سےشام۔۔۔۔بہت سوال پوچھنے لگے ہو اب تم مجھ سے۔۔۔“  عائل نے بات کو بدلتے ہوئے اُسے واضح طور پر ٹالنا چاہا پر وہ ٹلنے کو ابھی تیار ہی کہاں تھا۔۔۔

”پلیزبھائی۔۔۔آپ اب بات گھومائیں نہیں۔۔۔۔آئی ایم سریس یار۔۔۔۔“  قدرے سنجیدگی سے پیشانی پر بل ڈالتا وہ ضد پر اتر آیا۔

ماحول کے ساتھ ساتھ اُسکے لہجے میں بھی قدرے دھیما تناؤ آگیا تھا۔

”اچھی لگتی ہے وہ مجھے۔۔۔۔بہت اچھی۔۔۔۔“  اپنے بھائی کے سامنے ہتھیار ڈالتا وہ دبے لفظوں میں آرام سے اعتراف کرگیا۔

بالوں میں ہاتھ چلاتے اُسکے لب بےاختیار مسکرانے لگے تھے۔

”اٹس مین یور آر اِن لوَ بھائی۔۔۔۔فائنلی یوآر اِن لوَ۔۔۔۔“  فقط اُس لڑکی کے لیے عائل کے لب ولہجے سے ٹپکتی چاشنی اور محبت ملاحظہ کرتے ہوئے وہ جیسے اُسے باور کروانے سے ذیادہ دھیمے لہجے میں بولتا ہوا خود کو یقین دلارہا تھا۔

جواب میں وہ  بنا جھجکے سر تائید میں ہلاتا شام کا موڈ صحیح معنوں میں تباہ کرگیا۔

اُسکے دل میں بےاختیار جلن اور اُس اجنبی لڑکی کے لیے نفرت سی ابھرنے لگی تھی۔

”اُسے بھی معلوم ہے یہ بات۔۔۔۔۔؟؟؟“  اگلے ہی پل وہ سرجھٹکتا بظاہر  دلکشی سے مسکرایا تو عائل گہری ہوتی مسکراہٹ سمیت نفی میں سر ہلاگیا۔

”تمھارے علاوہ کسی کو بھی نہیں پتا۔۔۔۔اور موم کو تو بالکل بھی نہیں۔۔۔جب تک میں نہیں کہوں گا تم اپنا منہ بند ہی رکھوگے۔۔۔سمجھ گئے۔۔۔۔“  اُسکے پل پل سلگتے احساسات سے قطعی انجان سنجیدگی سے شہادت کی انگلی اُسکی جانب اٹھاتا وہ وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

شاید اُسے فکر تھی کہ کہیں اگر عائمہ بیگم کو معلوم پڑگیا تو وہ حاویہ کا اسٹیٹس کلیئر ہوتے ہی اُسے ریجیکٹ کردیں گی اور ایسا وہ بالکل بھی نہیں نہیں چاہتا تھا۔

معلوم تو یہ شام کو بھی اچھے سے تھا لیکن وہ فی الوقت ایسی ویسی کوئی بھی بات بول کر عائل کی مسکراہٹ کو اُسکے لبوں سے جدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”آپ بےفکر رہےہیں بھائی۔۔۔۔آپکا یہ سیکرٹ بوائے لائف ٹائم گرنٹی کے ساتھ ہمہ وقت ایویل ایبل ہے۔۔۔۔“ آنکھ دبا کربولتے ساتھ ہی شام نے اپنے لبوں پر ان دیکھی زپ کو بند کرتے کڑا اطمینان دلایا تو عائل اُسکے اسٹائل پر اس بار کھل کر ہنس پڑا۔

تبھی ادھ کھلے دروازے کو مکمل وا کرتی آمنہ کسی کام سے بے دھڑک روم میں داخل ہوئی لیکن عائل کے ساتھ شام کی تمام تر توجہ خود پر سمٹتی دیکھ حقیقتاً  بوکھلاگئی۔

”تم میں سینس نام کی کوئی چیز نہیں ہے کیا جو یوں منہ اٹھا کر سیدھا اندر گھسی چلی آرہی ہو۔۔۔۔؟؟؟ کسی کے روم میں آنے سے پہلے ناک کیا جاتا ہے۔۔۔۔پھر پرمیشن لے کر اندر آتے ہیں۔۔۔۔جاہل لڑکی۔۔۔۔“  اپنے اندر کی کھولن بےاختیار اُس پر اتارتا وہ اُسے پوری طرح سہما گیا تھا۔

”شام۔۔۔۔۔“  اُسکے اچانک سے بگڑنے پر چونکتا عائل تنبیہی انداز میں گویا ہوا۔

”بھائی۔۔۔اس کو اتنا سر پر چڑھا کر مت رکھا کریں یار۔۔۔۔“  سر جھٹکتا وہ خود پر بمشکل ضبط کرنے لگا تو آمنہ اپنی تذلیل پر بھیگتی آنکھوں سمیت اگلے ہی پل وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔

”تم جانتے ہو ناں مجھے ایسا بےہیویر بالکل پسند نہیں۔۔۔۔پھربھی تم۔۔۔۔“  آمنہ کے وہاں سے ہٹتے ہی وہ قدرے تاسف سے بولتا لب بھینچ کررہ گیا۔

”اچھا ناں سوری۔۔۔۔۔۔“  اپنی بےاختیاری پر گہرا سانس بھرتے اُسے عائل کی عدم مسکراہٹ کا شدت سے احساس ہوا تو لاڈ سے بولتا وہ فوری معذرت کرگیا۔

”تم کبھی نہیں سدھرو گے۔۔۔۔۔۔“  اُسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتا آخر میں وہ ہولے سے مسکرادیا تو شام بھی اس جملے پر سرشار سا مسکراتا اپنے بالوں میں لاپرواہی سے ہاتھ چلانے لگا۔

************************

رات قطرہ قطرہ بیت رہی تھی لیکن  بےچینی سے کروٹیں بدلتے دو وجود نیند سے کوسوں دور بظاہر آنکھیں بند کیے اپنی اپنی سوچوں میں پوری طرح منمہک تھے۔

”اپیہ۔۔۔سچی مح۔۔۔۔بت کی نشانی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔؟؟؟“  زوروں سے دھڑکتے دل پر اپنا نازک ہاتھ جمائے وہ بےقرار سی حرمین کی جانب کروٹ بدلتی لفظ”محبت“ پر اٹکی تھی۔

خود کے اندر پنپتے ناقابلِ بیان احساسات نے اُسے اپنی ہچکچاہٹ کو روندتے یہ سوال پوچھنے پرحددرجہ مجبورکردیا تھا۔

مگر وہ بنا کوئی ردِ عمل ظاہر کیے یونہی بے حس و حرکت آنکھیں میچے لیٹی پڑی تھی۔دماغ اس سمے لاتعداد الجھنوں کا شکار تھا جسے سلجھانا اُسکے لیے فی الوقت حد سے ذیادہ مشکل مرحلہ ثابت ہورہا تھا۔

”بولیں ناں اپیہ۔۔۔۔“ مقابل کی حالت سے بےبہرہ وہ اس بار اپنا اعتماد قدرے بحال کرتی اُسے بازو سے جھنجھوڑگئی تو وہ دھیرے سے اپنی نیند کے خمار سے سرخ پڑتی آنکھیں کھول گئی۔

”کیا۔۔۔۔۔؟؟؟“  سیاہی مائل لبوں نے ہولے سے آواز نکالی تھی۔

”اپیہ۔۔۔۔مجھے آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟بتائیں مجھے۔۔۔۔“  اگلے ہی پل اپنی کیفیات کو فراموش کیے وہ اُسکی بکھرتی حالت پر پھر سے غور کرتی اس بار حددرجہ فکرمند دکھائی دی۔

حرمین جب سے گھر آئی تھی عجیب سی خاموشی اختیار کیے بس اپنے کمرے میں ہی بند پڑی تھی۔حتیٰ کہ بیگم نفیسہ کے مجبور کرنے پر کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا تھااُسنے۔

یہ سب بقول اُسکے محض تھکاوٹ کی علامات تو نہیں ہوسکتی تھیں۔۔۔۔۔

جواب میں حرمین نے نفی میں گردن ہلاتے مسکرانے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔

”توپھر۔۔۔۔؟؟؟کہیں ذباب جیجو کی یاد تو نہیں آرہی آپکو۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔بولیں بولیں۔۔۔؟؟صحیح کہہ رہی ہوں ناں میں۔۔۔؟؟انہی کی یاد ستارہی ہے ناں آپکو۔۔۔۔؟؟“  دوسرے ہی پل ٹھوس وجہ تلاشتی وہ پُرجوش سی مزید اُسکی جانب کھسک گئی۔

بھرپور تصدیق چاہتے ہوئے اب فکرمند نقوش شرارتی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

”نہیں۔۔۔ شام کی۔۔۔۔“  غوروفکر سے  قطعی لاتعلق  اُسکے لب اس پل شدتِ بےبسی سے پھڑپھڑائے جسے بمشکل سماعتوں میں گھولتی حاویہ اپنی جگہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔

”شام۔۔۔۔۔یہ آپ کیا بات کررہی ہیں اپیہ۔۔۔؟؟؟“  توقع کے برعکس حرمین کے منہ سے ذباب کی جگہ کسی اور کا نام سنتے ہی حاویہ کی چھوٹی سی پیشانی پر بےاختیار تیوری چڑھی۔

”کیونکہ آج اُسنے میری عزت کو تار تار ہونے سے بچایا حاوی۔۔۔۔اپنی جان کی پروا کیے بغیر وہ اُن اوباشوں سے لڑمرنے کے لیے تیار تھا۔۔۔فقط میرے لیے۔۔۔۔اگر اُس پل وہ مسیحا بن کر بروقت مجھ تک نہیں پہنچتا تو شاید اب تک میں کسی ویرانے میں کوڑے کے ڈھیر کی طرح پڑی اپنی آخری سانسیں بھررہی ہوتی۔۔۔۔یاں پھر ممکن تھاکہ تم لوگوں کو ڈھونڈنے کے باوجود بھی میری لاش نہ ملتی۔۔۔۔“ وہ یہ سب شدت سے بولنا چاہتی تھی۔

اپنے اندر کافی دیر سے چیختی ان سرسراتی سرگوشیوں کو بآواز بلند زبان پر لانا چاہتی تھی پر ہنوز خاموشی اختیار کیے وہ چاہ کر بھی یہ سب بول نہیں پارہی تھی۔

اور وجہ صاف تھی۔۔۔۔

اپنی پریشانیوں کو وہ ہمیشہ کی طرح اپنے اندر تو سمیٹ سکتی تھی مگر اپنی وجہ سے اپنوں کو تکلیف دینے سے قطعی گریزاں تھی۔

”اپیہ۔۔۔آپ کچھ تو بولو چپ کیوں ہو۔۔۔؟؟جواب دو ناں مجھے۔۔۔ذباب جیجو کی جگہ آپ شام کو کیوں سوچ رہی ہو۔۔۔۔؟؟“  دماغ پر زور ڈالتے وہ شام کی بابت کچھ کچھ اندازہ تو لگاہی چکی تھی تبھی تھوڑا تلخ ہوتی اُسکی طویل مگر چیختی خاموشی کو شدت سے محسوس کرتی وہ اُسے جھنجھوڑ کر اُس کی توجہ اپنی جانب کھینچ گئی۔

دل میں بہت سے خدشے گھر کرنے لگے تھے۔

”پلیز حاوی اس وقت مجھ سے کچھ بھی مت پوچھو۔۔۔۔اس وقت میری ایسی حالت نہیں ہے کہ تمھاری کسی بھی بات کا جواب دےسکوں۔۔۔میں بہت تھک گئی ہوں۔۔۔۔اور اب صرف سونا چاہتی ہوں۔۔۔۔صرف سونا۔۔۔۔“  اُسکے پل پل بگڑتے لہجے اور سوالوں کی بےتابانہ بوچھاڑ سے عاجز آتی وہ اپنی نم پڑتی آنکھوں سمیت  تڑخ کر بولتی ہوئی اگلے ہی پل اُسے چپ کرواگئی۔ 

”اپیہ۔۔۔۔۔“  حرمین کو مخالف سمت کروٹ بدلتا دیکھ وہ دوسرے کمرے میں سوئی بیگم نفیسہ کی نیند خراب ہونے کے ڈر سے بےبس سی منمناکررہ گئی۔

البتہ اُس کے سلگتے لہجے کی کڑواہٹ بمشکل اپنے اندر اتارتے ہوئے اُسکی سوچوں کا محور و مرکز عائل کی جگہ اب اُسکا بھائی تھا۔

************************

چمکتے ستاروں سے محروم سیاہ و تاریک آسمان میں وقفے دقفے سے کڑکتی بجلیاں اور بادلوں کی کان پھاڑتی گڑگڑاہٹ ماحول میں اس وقت وحشت بھری ہولناکیاں برپا کررہی تھی۔

مگر وہ اپنے روم میں موجود ہر شے کے خوف سے بےبہرہ آنکھیں موندے کش پر کش بھرتا جارہا تھا۔پاس پڑا ایش ٹرے جلی بجھی سگریٹوں سے بھرا اس بات کی واضح تصدیق کررہا تھا کہ وہ وجود اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر اب تک تین سے چار سگریٹ کے پیک ختم کرچکا تھا۔

مگر سکون اُسے کم سے بھی کم میسر آیا تھا جو فی الوقت اُسکے لیے کسی بھی طور کافی نہیں تھا۔

بند آنکھوں کے پار مسلسل اُس پری پیکر کا چہرہ گھوم رہا تھا جو اُسکی غیر ہوتی حالت کی ذمہ دار تھی۔

کچھ ہی پلوں میں انگلیوں کے بیچ دبا یہ سگریٹ بھی ختم ہوا تھا جس پر شاہ مزید ایک اور سگریٹ کا مزہ لینے کے لیے بے اختیار اپنی آنکھیں کھول گیا۔

پر اگلے ہی پل اپنی لہورنگ آنکھوں کے سامنے وہ اُسے پورے وجود سے مسکراتی ہوئی نظرآئی تو وہ پل بھر کو چونکتا بےاختیار ٹیک چھوڑگیا۔

ایک وقت تھا جب وہ اُسکی بے وقت آمد پر بوکھلاکر پسینہ پسینہ ہوجایا کرتا تھا۔

پر اب تو جیسے اُسے اس بن بلائی آفت کی خاصی عادت سی ہوگئی تھی جس پر وہ محض لمحہ بھر کے لیے چونکنے پر ہی اکتفا کرتا تھا۔

البتہ نفرت کا گہرا سمندر تیزی سے اپنی جگہ رواں دواں تھا۔

”تم۔۔۔۔۔؟؟؟تم پھر آگئی۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکے وحشتوں بھرے چہرے سے ہمیشہ کی طرح خار کھاتا وہ حقیقتاً چٹخ گیا۔

”میں تو ہمیشہ ہی تمھارے پاس ہوتی ہوں۔۔۔۔بس تمہی کو  مجھے دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔۔۔۔“  اُسکی سخت چڑچڑاہٹ کا جواب بظاہر نرمی سے دیتی وہ ہرپل سلگتی قدم قدم اُسکی جانب بڑھنے لگی۔

”ہونہہ۔۔۔۔تم صرف میری تکلیف پر جشن منانے ہی میرے پاس آتی ہو۔۔۔اور اب بھی اسی لیے آئی ہو تاکہ دل کھول کر میری بےبسی کا تماشہ دیکھ سکو۔۔۔۔میری ہار کا شدت سے مزہ لینے کی تڑپ تمھارے وجود کو پل پل جھلسائے دیتی ہے۔۔۔۔تم مجھ سے فقط میری بربادی ہی چاہتی ہو۔۔۔ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟یہی سب چاہتی ہو ناں تم۔۔۔؟؟“  اُسکی دلی آرزوؤں کو سلگتے لفظوں کی صورت بیان کرتا وہ اُسے حددرجہ مسرورکرگیا۔

”ہاہاہاہا۔۔۔۔۔جب تم میرے بارے میں سب جانتے ہو تو بار بار پوچھتے کیوں ہو۔۔۔۔؟؟؟“  مقابل کی بات پر دل کھول کر قہقہ لگاتی سوال کے بدلے سوال کرتے ہوئے اسکے حددرجہ نزدیک پہنچ چکی تھی۔

”پر افسوس جو تم  اب تک یہ نہیں جان پائی کہ میری شکست دیکھنا تمھاری ایک ادھوری خواہش ہے جسے تم چاہ کر بھی کبھی پورا نہیں کرپاؤ گی۔۔۔“  اپنے مضبوط کندھوں پر اُسکے دھواں دھواں ہوتے نازک بازوؤں کو لپٹا دیکھ وہ شدید غصے میں بھی مسکراتا اُسے آگ لگاگیا۔

”تمھاری گھٹیا سوچ پر مجھے ہمیشہ سے افسوس ہوتا آیا ہے۔۔۔۔کیا یہ بےبسی تمھارے لیے کافی نہیں جو تم ناچاہتے ہوئے بھی مجھے میری مرضی کے مطابق دیکھنے کے پابند ہو۔۔۔۔؟؟“  قدرے سکون سے بولتی وہ اُسکے لبوں سے دلفریب مسکراہٹ نوچ گئی تھی۔

”او یو جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔تم اسے میری بےبسی کا نام ہرگزنہیں دے سکتی۔۔۔۔کیونکہ مجھے اس پر بھی خاصا اختیار حاصل ہے۔۔۔سمجھی تم۔۔۔“  درشتگی بھرے لہجے میں اُسکے دل جلادینے والے لفظوں کی شدت سے نفی کرتا وہ اپنی بات ثابت کرنے کی غرض سے اگلے ہی پل سختی سے آنکھیں میچے اُسے اپنی نظروں سے غائب کرگیا۔

وہ اُسکے ضد جتانے والے اِس انداز پر بےساختہ زہرخند لہجے میں مسکرائی۔

”مان لو شاہ میر حسن۔۔۔۔بےبس ہو تم میرے آگے۔۔۔۔۔۔“  اُسکے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کرتی وہ پھر سے اپنی کھنکھناتی ہنسی زہر کی مانند اُسکے کانوں میں انڈیل گئی۔

کیونکہ مقابل شدت سے چاہنے کے باوجود بھی ایک بےضرر عکس کے بازوؤں کا  پل پل تنگ ہوتا نامحسوس گھیرا خود پر سے ہٹانہیں پایا تھا۔

****************************


وہ پل پل بڑھتے غصے اور بےچینی پر بمشکل قابو پائے ہال نما کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔

سامنے ہی دیوان صوفے پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے تابین بائی اُسکی ہر حرکت کا مشاہدہ کرتی بے چین ہورہی تھیں جو بیچ بیچ میں گھڑی کی سوئیاں دیکھنے کی غرض سے رک بھی جاتا۔

تابین بائی کے وجود میں بھرتی بے چینی کی اصل وجہ اُسکی پہلی دفعہ دن دیہاڑے  بےوقت آمد تو تھی ہی مگر ساتھ میں گولڈ کی وہ بریسلٹ بھی اُنکی بےتابی کو بڑھا رہی تھی جو سالار خان اپنی محبت میں ڈوب کر فقط رابی کے لیے لایا تھا۔

”اور کتنی دیر لگے گی اُسے آنے میں۔۔۔۔؟؟؟“  قدرےجھنجھلا کر بولتا وہ تیسری بار تابین بائی کی جانب لپکا تو وہ اپنی ٹانگیں دبیز قالین پر جماتی اُسکی بےصبری پر ٹھنڈی آہ بھرکررہ گئیں۔

”آجائے گی۔۔۔۔“  مختصر جواب دیتی وہ حقیقتاً مقابل کی برداشت

آزماگئی تھیں۔

”کیا آجائے گی۔۔۔۔؟؟تین گھنٹے ہونے کو آئے ہیں اور ابھی تک اُسکا دور دور تک کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔۔۔۔نہیں کہاں۔۔۔؟؟؟ہے کہاں وہ۔۔۔۔؟؟خدا کا واسطہ ہے کچھ تو بول دیں۔۔۔۔“  تابین بائی کا تب سے ایک ہی راگ الاپنے پر وہ تڑخ کر بولتا کڑے تیوروں سے استفسار کرنے لگا تو وہ اپنی موٹی کمر پر  چوڑیوں بھرے دونوں ہاتھ جماتی اُسے سخت نظروں سے گھورنے لگیں۔

”میرے سامنے اتنا اچھلنے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں بابو۔۔۔۔اگر نہیں انتظار ہورہا تو یہ بریسلٹ مجھے دے دو اور چلتے بنو یہاں سے۔۔۔۔خواہ مخواہ میں خود کا وقت بھی ضائع کررہے ہو اور میرا بھی۔۔۔۔“  ہاتھ نچانچا کر نخوت سے بولتی وہ ایکدم اُسکے قریب ہوتی چوڑے سینے پر دباؤ ڈالے اُسے آدھا قدم پیچھے دھکیل گئیں تو وہ مٹھیوں سمیت لب بھینچ کررہ گیا۔

”کہیں آپ نے اُسے اپنے دباؤ میں لاکر کسی امیرمرد کے پاس۔۔۔۔“  دبیز قالین پر پُرسوچ نظریں جمائے وہ اپنے دماغ کے محدود میدان میں عقل و شہبات کے تیز گھوڑے دوڑاتا پھنکارا جب اُسکی بات بیچ میں کاٹتی وہ اُس سے دوگنا بھڑک اٹھیں۔

”یہ کیا بکواس کررہے ہو تم۔۔۔۔؟؟پاگل تو نہیں ہوگئے۔۔۔۔؟؟وہ شاپنگ کرنے گئی ہے۔۔۔سمجھے۔۔۔شاپنگ کرنے۔۔۔۔چاہو تو یہاں پرکسی سے بھی پوچھ سکتے ہو۔۔۔۔“  اُسکے اس حد تک چلے جانے پر تابین بائی پھاڑ کھانے والے انداز میں اُس پر برستی اُسے پل میں کڑا اطمینان دلاگئی تھیں۔

اُنکے شدومد سے نفی کرنے پر اُسکے دل کو دھاڑس سی ملی تھی۔

وہ صرف اسکی تھی یہ سوچ کر سالار کے رگ و پے میں سکون سا اتراآیا۔

تابین بائی پیسے کی خاطربغیرتی کی ساری حدیں پار کرنے کی قائل تھیں لیکن صد شکر تھاکہ اس حد تک کبھی نہیں گئی تھیں۔پل بھر کو اُن کے اس احسان پر خوش ہوتا وہ اس بات کا اعتراف کرگیا۔ 

”تم ایسا کرو یہ بریسلٹ مجھے دےدو۔۔۔خدا قسم میں رابی تک اُسکی یہ امانت صحیح سلامت پہنچا دوں گی۔۔۔۔“  سالار خان کو آپ ہی آپ مسکراتا دیکھ وہ تاسف سے سر جھٹک گئیں۔

اور اُسکی مٹھی میں جکڑا بریسلٹ کا چمکتا سرا نگاہوں میں بھرتے  بے دھڑک آگے بڑھ کر اُسے اپنے قبضے میں لینا چاہا جب اپنے دلفریب خیالوں سے چونکتا وہ اپنا ہاتھ بے اختیار اوپر کو اٹھاتا اُنھیں بےبس کرگیا۔

”یہ بریسلٹ میں آپکے حوالے کردوں۔۔۔۔؟؟ہونہہ۔۔۔۔مجھے دماغ سے کھسکا ہوا سمجھ لیا ہے کیا۔۔۔۔؟؟جس کی یہ چیز ہے میں اُسے خود دے دوں گا۔۔۔۔آپ کو فکر کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔“  تابین بائی کے بیس سے چمکتے ماتھے پر لاتعداد بل پڑتے دیکھ وہ ہتک آمیز لہجے میں بولتا اُنھیں سلگتے انگاروں پر لوٹا گیا۔

”بہت ہی کوئی بدتمیز انسان ہو تم۔۔۔۔اللہ بچائے تم جیسوں کے شر سے۔۔۔۔نجانے میری معصوم سی بچی تمھارے چنگل میں کیسے پھنس گئی۔۔۔؟؟مجھے تو حیرت ہوتی ہے سوچ سوچ کر۔۔۔۔“  اُس سمیت بریسلٹ پر بھی بمشکل لعنت بھیجتی وہ فی الوقت اپنی لالچی کو تھپکی دے کر سلاچکی تھیں۔

”حالانکہ ابھی تک میں نے آپ کے سامنے اپنی تھوڑی سی بھی بدتمیزی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔۔۔۔لیکن جس دن میں نے واقعی میں آپکو اپنا آپ دکھادیا ناں۔۔۔۔تو حقیقتاً مجھ جیسوں کے شر سے اپنے رب کی پناہیں مانگتی پھریں گی آپ جیسیاں۔۔۔۔“  رابی اور خود کے تعلق کی بابت اُنکی حددرجہ پھسلتی زبان سے ناپسندیدہ تبصرہ سن کر سالار خان نے قدرے بگڑے موڈ کے ساتھ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے اپنے سارے حساب بےباک کرڈالے۔

جس پر وہ اندر تک کلستی نیلی ساری کا پلو تھامے واپس صوفے پر براجمان ہوں چکی تھیں۔

اتنی دیر اُس خوبرو نوجوان کے مقابل کھڑے رہ کر مقابلہ بازی کرنا اُنکی عمر کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔

”اب جبکہ تم نے اپنی طرف سے خود پر شریفوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن میری نظروں میں پھر بھی بدتمیز ہی ہو۔۔۔یقین کرو تم جیسا بدلحاظ اور بےغیرت شخص واقعی میں،میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔“  بظاہر نرم لہجے میں طنز و مزاح کے نشتر اُسکے وجود میں پیوست کرتی وہ اُسے مکمل طور پر زچ کرنے کے در پر تھیں جب وہ خود پر سے پل پل ضبط کھوتا لمبی سانس بھر کے رہ گیا۔

”اللہ مجھے صبر دے اس مکار عورت کی چلتربازیوں پر۔۔۔۔رابی کی دیرآمدکا کڑوا گھونٹ تو میں جیسے تیسے بھی کرکے پی لوں گا۔۔۔لیکن اگر آپکی بکواس سننے کے لیے مزید یہاں ٹھہرا تو حقیقتاً اپنا ضبط کھو بیٹھوں گا۔۔۔۔جبکہ میرا دل اپنی رابی کو ناراض کرنے پر ذرا بھی آمادہ نہیں ہے۔۔۔۔اسی لیے جارہا ہوں میں یہاں سے۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔“  اپنے خالق ِیکتا سے زیرِلب مدد طلب کرتا اگلے ہی لمحے وہ تابین بائی پر اُنکی اوقات ظاہر کرگیا اور اُنکے سرخ لبوں کی مسکراہٹ چھینتے تن فن کرتا وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

”تو جاؤ میری بلاسے کہیں بھی۔۔۔۔آیا بڑا۔۔۔۔۔۔کمینہ کہیں کا۔۔۔۔“  کمرے کا دروازہ زور سے بند ہونے پر وہ قدرے تلخی سے بڑبڑاتی اگلے ہی پل سوچوں کی دلدل میں پھنستی چلی گئیں جس کا محور و مرکز یقیناً رابی ہی تھی۔

**************************

آج وہ دونوں کافی عرصے بعد شام کے اصرار پر اُسکے گھرآئے تھے اور اس وقت اُن کے شاندار ڈرائنگ روم میں بیٹھے گپ مارنے میں مصروف تھے۔

فواد اور افروز شام کے گھر آنے سے اکثر کتراتے تھے جسکی مین وجہ عائل اور حسن صاحب تھے جو اُنکو کچھ خاص پسند نہیں کرتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ وہ جب بھی شام کے گھر آتے تو اُن دونوں اکڑ باپ بیٹے کی غیرموجودگی میں ہی آتے یاں پھر اپنا ذیادہ وقت مستی میں اُسکے ذاتی فارم ہاؤس میں گزاردیتے۔

اسکے برعکس عائمہ بیگم فقط اپنے لاڈلے بیٹے کی خوشی کی خاطر اُن دونوں کا ہربار خوشدلی سے استقبال کیا کرتی تھیں۔

”دیکھا تھا تم لوگوں نے اُسے۔۔۔۔کیسے بار بار مسکراکر صرف مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔مطلب سمجھ رہے ہوں ناں اس بات کا۔۔۔۔؟؟؟“  ڈرائی فروٹ کی ٹرے میں سے مونگ پھلی اٹھاتے افروز کی پیٹھ پر ہولے سے دھپ مارتا وہ پرجوش سا بولا تو وہ پل بھرکو چونکتا سر ہلاگیا۔

آج یونی میں حرمین نے بارہا شام کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھا تھا جو کبھی اُسکے لیکچر ٹائم پر کلاس کے باہر کھڑا کسی سے محوِ گفتگو ہوتا۔

کبھی اپنے فرینڈز کے ساتھ لائبریری میں تو کبھی کیفے میں۔۔۔۔

بار بار دل دھڑکا دینے والے اِس اتفاق پر جی بھرکر حیران ہوتی وہ ہر بار اُسے دیکھ کر احسان کے بوجھ تلے خوشدلی سے مسکرادیتی جس پر بھرپور حظ اٹھاتا شام اپنی چالاکیوں پر دلکشی سے مسکراتے مزید اُسکا نازک دل دھڑکا جاتا۔

اِس بڑی تبدیلی کو اُن تینوں کے علاوہ دوسروں نے بھی خاصے تجسس کے ساتھ محسوس کیا تھا۔

 ”مطلب ہاتھ گئی چڑیا دھیرے دھیرے دام میں پھنس رہی ہے۔۔۔۔“  افروز کی بجائے فواد نے جواب دیا تو شام شہادت کی انگلی اُسکی جانب جھٹکتا پرجوش سا چلایا۔

”یہ بات۔۔۔۔۔“  

”مونگ پھلی میں چھلکے اور لڑکیوں میں نخرے نہیں ہوتے تو زندگی کتنی آسان ہوتی ناں۔۔۔۔؟؟؟آہ۔۔۔۔سالے۔۔۔۔“  اپنی پسندیدہ مونگ پھلی چھیلتے وہ تاسف زدہ لہجے میں بولا تو اُسکے ڈرامائی انداز پر بدمزہ ہوتا شام اگلے ہی پل اُسکی کمر پر زور کا دھموکا جڑ گیا۔

”اتنی انسلٹ کروانے کے بعد بھی وہ چڑیل تیرے دماغ سے نہیں نکلی ناں۔۔۔۔؟؟؟“  رابعہ کی بابت پوچھتا وہ چڑچڑا سا ہوا۔

”نام بھی مت لے اُس چڑیل کا میرے سامنے۔۔۔۔میں اُسے چھوڑ کر باقی ساری لڑکیوں کی بات کررہا تھا۔۔۔۔اچھا چھوڑ اور ہمیں اپنے کارنامے کے بارے میں بتا۔۔۔۔ایسا کیا جادو کردیا تُونے اُس ملانی پر۔۔۔۔؟؟مطلب ایک عدد فیوچر فیانس کے باوجود بھی تجھ جیسے فلرٹی پر چانس ماررہی ہے۔۔۔بندہ بھی وہ جو ہروقت گرلفرینڈز جیب میں لیے گھومتا ہے۔۔۔۔“  شام کے صحیح اندازے پر مصنوعی غصہ دِکھاتا وہ فٹ سے لائن پر آیا تھا۔ حالانکہ ایک بھی رات ایسی نہیں گزری تھی جس میں وہ اُس دل جلی کے خوبصورت نقوش کو یاد کرتا خود نہ جلا ہو۔

” ابے کہاں یار۔۔۔۔؟؟آجکل اُس ملانی کی نظروں میں اچھا بننے کی خاطرساری گرلفرینڈز سے مجبوراً دوری اختیار کررکھی ہے میں نے۔۔۔۔اور کچھ جلن کی وجہ سے خود ہی دور ہو گئیں۔۔۔۔“  افسردہ لہجے میں بولتا وہ سر جھٹک گیا جب دونوں نے اپنے بیچ بیٹھے اپنے کمینے دوست کو گھورکردیکھا۔

”صرف یونی ایریا کے اندر اندر۔۔۔۔باہر تو تُو پھر بھی باز نہیں آتا جھوٹے۔۔۔۔“  اب کے فواد نے اُسکے مضبوط کندھے پر دھموکا جڑتے حقیقت کھول کر سامنے رکھی۔

”تو جلتا رہ بس۔۔۔۔۔“  کندھے پر اٹھنے والے دھیمے درد کو سرے سے نظرانداز کرتا وہ بالوں میں ہاتھ چلاتے ہنس کر گویا ہوا۔

تبھی آمنہ عائمہ بیگم کے فوری حکم پر ٹرے میں تین بڑے بڑے چائے کے مگ سجائے قدرےجھجھک کر اندر داخل ہوئی۔

تینوں نے اپنی باتیں روک کر اُسکی طرف متوجہ ہوئے۔

شام تو اُسے سرسری سا دیکھ  کر اگلے ہی پل کوفت سے اپنی نگاہیں پھیر چکا تھا مگر وہ دونوں ابھی بھی اُسکے دوپٹے میں چھپے سراپے کو تفشیشی انداز میں گھوررہے تھے۔

”صاحب۔۔۔۔چائے۔۔۔۔“  اپنے چھوٹے صاحب کے آوارہ دوستوں کی خود پر جمی نظریں شدت سے محسوس کرتی وہ جلدی سے آگے بڑھی اور ٹرے اُنکے سامنے رکھ کرجانے کے لیے پلٹی ہی تھی جب اچانک سے افروز نے اُسے پیچھے سے آواز لگائی۔

”رکو۔۔۔مجھے یہ بسکٹ کی پلیٹ بھی پکڑاتی جاؤ۔۔۔۔اتنی دور کون پاگل رکھتا ہے۔۔۔۔؟؟“  دو ہاتھ کے فاصلے پر رکھی بیکری بسکٹس سے بھری پلیٹ کی جانب آنکھ سے اشارہ کرتا وہ ڈپٹنے والے انداز میں بولا تو وہ بمشکل تھوک نگلتی اثبات میں سر ہلاگئی۔

”یہ ل۔۔۔یں۔۔۔صاحب۔۔۔۔“  جیسے ہی آمنہ ٹھوڑی کے نیچے سے دوپٹے کو کس کر پکڑے پلیٹ اٹھاتی اُسکی جانب بڑھانے لگی تو افروز نے  پلیٹ کی بجائے سرعت سے ہاتھ آگے بڑھا کر اُسکی نازک کلائی کو اپنی گرفت میں جکڑلیا۔

آنکھوں میں واضح کمینگی چمک رہی تھی جبکہ فواد آمنہ کے پوری طرح بوکھلا کر ہراساں ہونے پر لطف لیتا کھل کر ہنس پڑا۔

”صص۔۔۔۔صاحب۔۔۔ہمارا۔۔۔ہاتھ۔۔۔ہاتھ چھوڑو صاحب۔۔۔۔“  اُسکی زہر لگنے والی مسکراہٹ کو دیکھ کر روہانسی انداز میں بولتی وہ رودینے کو تھی۔

اُسکی ہوس بھری آنکھوں میں جھانکتے اس پل اُسے کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔۔۔۔گزرے وقت کی تلخ یادیں پھر سے اُسکے حواسوں پر طاری ہوتی اُسے مقابل سے شدید نفرت کرنے پر مجبور کرگئیں۔

تبھی اُسکے کپکپاتے ہاتھ سے چھوٹتی پلیٹ کو تب سے خاموش بیٹھ کرتماشہ دیکھتے  شام نے آگے بڑھ کر نیچے گرنے سے بچایا تھا۔افروز پر ایک ضبط بھری نگاہ ڈالتا اگلے ہی پل وہ اُسکی سخت گرفت سے آمنہ کی سرخ  کلائی چھڑواگیا تو وہ جھٹکے سے دور ہوئی۔

”یاررر۔۔۔۔۔شام۔۔۔۔۔“  اُسکی حرکت پر جی بھر کر بدمزہ ہوتا وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاکررہ گیا۔

یہ دیکھ کر فواد کی مسکراہٹ بھی سمٹی تھی۔

”دیکھ کیا رہی ہو۔۔۔۔؟؟چلو اب  دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔۔“  اُسکی آنسو ٹپکاتی تشکر بھری نگاہیں خود پر جمی دیکھ کر شام ایکدم سے اُس پر چلایا۔

”جج۔۔۔۔جی صاحب۔۔۔۔“  اُسکی دھاڑ پر بےاختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھتی وہ تیزی سے ڈرائنگ روم کے دروازے کی جانب لپکی۔

”بعد میں یہ برتن آکر ضرور سمیٹ لینا۔۔۔۔ہمیں گندگی بالکل بھی پسند نہیں ہے۔۔۔سمجھی۔۔۔“  خود پر ضبط کرتا افروز پیچھے سے زور کی ہانک لگانا نہیں بھولا تھا جسے وہ سرے سے اَن سنی کرتی وہاں سے جاچکی تھی۔

”یار ہے تو یہ بھی بڑی مست چیز۔۔۔۔بس لیول سے آکر مارکھاگئی سالی۔۔۔۔“  مگ اٹھا کر لبوں سے لگانے سے پہلے فواد نے اپنی رائے دینا ضروری سمجھا۔

جہاں افروز کھلے دروازے کے پار دیکھتا سر ہلائے مسکرایا تھا وہیں پیشانی پر بل ڈالے اپنی آنکھوں سمیت لمبی پلکوں کو انگلیوں تلے مسلتا شام جھٹکے سے اُنکی جانب مڑا۔

”اب تم دونوں مجھ سے نہ مار کھالینا سالو۔۔۔۔چپ چاپ چائے پیواپنی ۔۔۔۔اگر عائل بھائی یہاں پر موجود ہوتے اور تمھاری یہ حرکت دیکھ لیتے ناں تو یقیناً تم دونوں کا اس گھر میں آنا جانا ساری عمر کے لیے بند ہوجاتا۔۔۔۔ہرجگہ بس شروع مت ہوجایا کروتم لوگ یار۔۔۔۔“  اُنہی کی فکر میں غصے سے دونوں کی کلاس لیتے اُسکا موڈ تقریباً غارت ہوچکا تھا۔

اگرچہ اُسکا لہجہ قدرے تلخ تھا مگر اُسکی بات سو فیصد درست تھی جسکا احساس اِس لمحے اُن دونوں کو ہی ہو چکا تھا۔

”کیا یاررر۔۔۔۔اب اپنے بھائی کی دھمکی دے کر تُو ہمیں انڈراسٹیمیٹ کرےگا کیا۔۔۔۔؟؟جانتا تو ہے مجھے۔۔۔۔میں اپنی عادت کی وجہ سے ذرا مجبور ہوں۔۔۔۔“  افروز اُسکے تنے نقوش دیکھتا قدرے غیرسنجیدگی سے گویا ہوا۔

”تیری مجبوری کی تو۔۔۔۔۔##(گالی)۔۔۔۔“  بےاختیار اُسکے سر پر ٹھوکتا وہ اُسکے سلیقے سےسنورے بال بکھیرگیا۔

جواب میں پاس پڑا کشن غصے سے اُسکی جانب اچھالتا وہ زیرِلب شام کو نت نئے القابات سے نوازنے لگا جب وہ کشن کیچ کرتا واپس اُنکے بیچ آکر بیٹھ گیا۔

” تُو بھی اپنی بتیسی اندر کرلے نہیں تو توڑدوں گا۔۔۔۔“  ایک سائیڈ پر لگے فواد کو دھمکی دیتے ہوئے وہ اپنے بال ساتھ ساتھ سیٹ کررہا تھا۔

فواد اثر لیے بغیرسرجھٹک گیا۔

”چھوڑ ناں اس فضول انسان کو۔۔۔۔یہ تو بکواس کرتا ہی رہے گا تو یہ بتا کہ وہ ملانی تیری طرف مائل کیسے ہوگئی۔۔۔۔؟؟؟“ سنجیدہ بیٹھے شام کو پھر سے سابقہ ٹاپک کی طرف دھکیلتا فواد اُسکا دھیان بھٹکانے میں کامیاب ٹھہرا تھا۔

اب کے افروز بھی چائے کی چسکیاں لیتا دلچسپی سے اُسے دیکھنے لگا۔

”اب اپنے ٹیلنٹ کے بارے میں کیا بتاؤں یاروں۔۔۔بس ذرا لمبی کہانی ہے۔۔۔۔۔“  بیک وقت اُسکے سیاہی مائل لبوں کی مسکراہٹ اور آنسوؤں سے لبا لب گہری سیاہ آنکھوں کو یادداشت میں تازہ کرتا وہ ہولے سے مسکرادیا۔

***************************

وہ قدرے فکرمند سا ماتھے پر سلوٹیں ابھارے اُسکے سامنے مجرموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

مگر فائل کے صفحے الٹ پلٹ کرتے مقابل کا اطمینان اس پل قابلِ دید تھا۔

تبھی خود کے حواسوں پر بمشکل کنٹرول کرتی آبرو پورے فکس ٹائم پرٹرے ہاتھوں میں تھامے اجازت لیتی روم میں داخل ہوئی۔

”سرآپکی کافی۔۔۔۔“  دھیمے لہجے میں بولتی وہ ٹرے میں سے کافی کا مگ اٹھا کر اُسکے سامنے ٹبیل پر رکھے دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

مگر شاہ نے بولنا تو دور اُسکی جانب دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا جسکا اُسے شدت سے کھٹکا لگا۔

”بٹ سر آپ ایسے کیسے فائر کرسکتے ہیں مجھے۔۔۔۔؟؟؟حالانکہ میری کوئی غلطی بھی نہیں۔۔۔۔“  آبرو پر سے اپنی نظریں ہٹاتا رحمان شکایتی انداز میں بولا تو وہ شاہ کو دیکھتی صحیح معنوں میں چونکی۔

یہ پہلی بار تھا جب شاہ اُسکے سوال پر نہ صرف مسکرایا تھا بلکہ آبرو کے حیران نقوش پر پل بھر کے لیے جتاتی نگاہ ڈالتا واپس بھی موڑ گیا۔

”کیونکہ آپکا اور ہمارا ساتھ بس یہی تک خدا کو منظور تھا مسٹر رحمان اصغر۔۔۔۔اور پلیز غلطی پر غلطی دُہراکر اگرآپ اپنی بےوقوفی کا ثبوت نہیں دیں گے تو یہ ذیادہ بہتر رہے گا آپ کے لیے۔۔۔۔ناؤ یو کین گو فرام ہیر فارایور۔۔۔۔“  اپنے تاثرات ایکدم سے سپاٹ بناتا وہ دوبدو جواب دے کراُسکی بولتی پل بھر کو بند کرواگیا۔

وہ جو دس دنوں کی کڑی محنت کے بعد ایک امپورٹینٹ پروجیکٹ پر اپنی فائل کمپلیٹ کرتا شاہ کے پاس داد وصولنے کی غرض سے آیا تھا مگر آگے سے اُس کے سکون بھرے لہجے میں دیئے جانے والے آڈر پر اُسے خود کا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا۔

”پلیز سر۔۔۔۔مجھے یوں جاب سے مت نکالیں۔۔۔اگر انجانے میں مجھ سے کوئی بھی مسٹیک ہوگئی ہے تو اس پر میں آپ سے تہے دل سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔پر پلیز۔۔۔۔مجھ پر رحم کریں میرے سر پر میرے بیوی بچوں کی بھی ذمہ داری ہے۔۔۔۔ایسے میں۔۔۔میں اتنی جلدی دوسری جاب کہاں سے ڈھونڈوں گا۔۔۔۔؟؟پلیز سر۔۔۔۔“  اُسے کسی بھی طور قائل نہ ہوتا دیکھ رحمان بےبسی کی انتہا پر پہنچتا اب کی بار بھرپور منتوں پر اتر آیا۔

مگر نہ تو اُس بےحس کو فرق پڑنا تھا اور نہ ہی اُسے کوئی فرق پڑا تھا۔

اندر ہی اندر آبرو رحمان کی بےروزگاری کی ذمہ دار خود کو ٹھہرانے لگی تھی۔

” گیٹ آؤٹ۔۔۔۔مسٹر رحمان۔۔۔۔وہ رہا دروازہ۔۔۔۔“  اُسکے جوڑے ہاتھ اور تراتر چلتی زبان دیکھ کر دانت بھینچتے وہ باہر کی جانب اشارہ کرتا خود پر سے ضبط کھونے لگا جب رحمان کے لیے پریشان ہوتی آبرو ہمت جُٹاتی دو قدم آگے بڑھی۔

”سس۔۔۔سررر۔۔۔۔۔“  وہ کچھ بولنا چاہتی تھی مگرپل میں بپھرتے شاہ نے اُسے آواز نکالنے کا کوئی موقع ہی فراہم نہیں کیا تھا۔

”آئی سیڈ گیٹ آؤٹ۔۔۔۔اگر نہیں چاہتے کہ گارڈز کے ہاتھوں دھکے کھاتے ہوئے یہاں سے سب لوگوں کے سامنے بےعزت ہوکر جاؤ تو۔۔۔۔آؤٹ۔۔۔۔ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔“  اُسکی بلند دہاڑ میں غضب ہی غضب ہچکولے لے رہا تھا جسکی وجہ یقیناً آبرو کا اُس دو ٹکے کے ملازم کی حمایت میں ذرا سی آواز نکالنا تھا۔

جہاں آبرو اُسکے حددرجہ بگڑے تیور دیکھتی اپنی نیلی کانچ سی آنکھیں پھیلائے بےاختیار اپنے قدم پیچھے لینے پر مجبور ہوئی تھی وہیں رحمان اپنی پھیکی پڑتی رنگت سمیت ایک آخری نظر آبرو پر ڈالتا شکست زدہ سا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر ہوش میں آتی آبرو اُسکے عتاب سے بچنے کی خاطر وہاں سے نکلنے کوتھی جب شاہ کی انتہائی سرد آواز نے اُسکے بڑھتے قدموں کو وہی پر جمادیا۔

”مس آبرو۔۔۔۔آپکو کسی نے بولا یہاں سے جانے کو۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟“  تلخ لہجہ اپنائے وہ اُسکے وجود کی کپکپاہٹ  میں مزید اضافہ کرگیا۔

”سس۔۔۔۔سوری سر۔۔۔۔۔“ واپس پلٹتی وہ حلق میں پھنستی آواز کو بمشکل اُسکے سامنے نکال پائی تھی۔

دل مقابل کے خوف کے تحت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔

اُسکی اس قدر غیر ہوتی حالت پر کافی گہرائی سے غورکرتا شاہ اپنے غصے کی پرواہ کیے بغیر پل بھرکو مسکرایا۔

جبکہ آبرو بےدھیانی میں اُسکے لبوں پر غور کرتی رہ گئی۔۔۔آیا وہ شدید غصے میں مسکرایا بھی تھا یا پھر یہ محض اُسکا وہم تھا۔۔۔۔؟؟

گہری نظروں کی تپش سے وہ اُسکے ننھے سے دماغ میں آئی سوچ بآسانی پڑھ گیا اور بےساختہ اُمڈ آنے والی مسکراہٹ کو چھپانے کی غرض سے اگلے ہی پل ہاتھ کی مٹھی بناتا لبوں پر جماگیا۔

اپنی اس قدر بےاختیاری پر سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں وہ اپنی نگاہوں کو ماربل پر جماتی پل میں سرخ  پڑی۔

مگر شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ اُسکے سرخ گلاب رخسار اور بےخبری میں دانتوں کے نیچے سختی سے دبا پنکھری لب مقابل کے دل پر گہرا وار کرگیا تھا۔

”مس آبرو۔۔۔۔آپ یہ بات تو اچھے سے جانتی ہی ہیں کہ مسٹر رحمان اصغر کی سیٹ خالی ہوچکی ہے۔۔۔۔لہٰذا اُنکے حصے کا کام روک کر میں کسی بھی قسم کے بزنس لاس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔۔۔۔اسی لیے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اُنکے حصے کا سارا کام اب سے آپ کریں گی۔۔۔۔“  گلاکھنکار کر خود کو بمشکل سنبھالے وہ سکون سے بولتا اُسکا سکون بڑی آسانی سے چھین چکا تھا۔

”میں۔۔۔۔؟؟؟“  اپنی جانب انگلی گھماتی وہ حیرتوں کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔

”جی آپ۔۔۔۔۔ ویسے بھی بہت شوق ہے ناں آپکو مسٹر رحمان کی ہیلپ کرنے کا۔۔۔۔تو میں آپ کو دل کھول کر چانس دے رہا ہوں۔۔۔۔۔ناؤ اٹس یور ٹائم ٹو پروو یورسیلف۔۔۔۔اینی مور کوئسچن۔۔۔۔؟؟؟“  سرد لہجے میں دوٹوک بات کرتا وہ مسلسل اُسکی مشکلات کو بڑھتا ہی جارہا تھا۔

”نو۔۔۔نونو۔۔۔“  اُسکی پیشانی پر بل پڑتے دیکھ کر شدت سے خائف  ہوتی وہ اب کے رودینے کو تھی پر اس بار وہ اُس اناپرست کو چاہ کر بھی”نہ“  کرنے کا رسک نہیں لےسکی تھی۔

شاہ کی اس قدر بےرحمی پرحسین آنکھوں کی بھیگتی نیلاہٹ پل پل آنسوؤں کی صورت اختیار کرنے لگی تھی۔

اُسکے سر پہلے سے ہی بہت سی مجبوریاں اور ذمہ داریاں تھیں۔

مگر مقابل کا ان سب سے کوئی لینا دینا ہوتا تو پرواہ بھی کرتا۔۔۔۔وہ تو شاید انتقام کی آگ میں سلگتا سامنے والے کے ہر درد سے لاتعلق تھا۔

آنسو بےاختیار گھنیری پلکوں کی باڑ پھلانگتے گالوں پر پھسلے تھے۔

”اب آپ جاسکتی ہیں۔۔۔۔“  پہلی دفعہ دل پر پتھر رکھ کر اُسے خود سے دور جانے کی اجازت دیتا وہ اپنے اِس نئے اور سرد انداز سے اُسے دوبارہ حیران کر گیا۔

اگلے ہی پل وہ سختی سے اپنے گال رگڑتی دروازے کی جانب لپکی جب وہ اُسے پھر سے اپنے حکم کا پابند بناگیا۔

”رکیں۔۔۔۔یہ کافی ٹھنڈی ہوکر بالکل ہی بدذائقہ ہوگئی ہے۔۔۔بالکل میرے اندر کی طرح۔۔۔۔سو پلیز اسکی جگہ دوسری کافی بناکرلائیں میرے لیے۔۔۔۔“  اُس کا رخ اپنی جانب گھومتا دیکھ وہ قدرے لاپرواہی سے بولتااُسکی بےبسی کا جی بھرکے فائدہ اٹھا رہا تھا۔

بھوری آنکھیں اُسکے دبے دبے غصے کو محسوس کرتی اس پل شدت سے مسکرارہی تھیں۔

”اوکے سر۔۔۔۔۔“ بےدلی سے بولتی ہوئی وہ اُسکی جانب لپکی اور ٹرے کو ٹیبل سے اٹھاتی بغیر اُسکی جانب دیکھے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

”اففف آبرو اففف۔۔۔۔ابھی تو یہ شروعات ہے۔۔۔۔اور جہاں تک مجھے اندازہ ہے تمھارے جیسی معصوم مگر ضدی چڑیا میرا وار سہنے کی ذرا سی بھی طاقت نہیں رکھتی۔۔۔۔لیکن اب کیاکیا جاسکتا ہے۔۔۔۔؟؟مجھے اس حد تک لانے پربھی تمہی نے مجبور کیا ہے۔۔۔۔اب برداشت تو کرنا ہی پڑے گا۔۔۔۔“  ریوالونگ چیئر کی پشت پر سر ٹکائے سرد آہ بھرتا وہ خیالوں میں بھی فقط اُسی سے مخاطب تھا۔

اپنے ہی دل کے قرار کو بےقرار کرنے کے لیے وہ کس حد تک جانے والا تھا شاید یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔

سوائے اسکے کہ آبرو سکندر کو اپنی محبت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرہر صورت مجبور کرنا تھا۔۔۔۔

****************************

وہ اپنے سب سے عزیز فرینڈ کو ایئرپورٹ تک سی آف کرکے سیدھا گھرآیا تھا۔گرمی کی شدت اور ایسے میں چائے کی طلب اُسے بےچین کیے دے رہی تھی۔اوپر سے تھکاوٹ کا معاملہ اور دماغ میں مسلسل پنپتے ایک نئے کیس کا الجھاؤ۔۔۔۔

آج وہ حقیقتاً تھک چکا تھا۔

بازو پہ کوٹ دھڑے وہ اپنے کمرے کی جانب جارہا تھا جب کچن سے آتی کھٹ پٹ کی آوازوں نے اُسے دو سیڑھیوں سے واپس مڑنے پر مجبور کردیا۔

”مُنی۔۔۔۔پلیز ایک کپ چائے بناکر میرے کمرے میں لے آؤ۔۔۔۔سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔۔۔۔“  کچن کی دہلیز پر کھڑے ہوکر برتن دھوتی آمنہ کی پشت کودیکھتا وہ مسلسل اپنا ماتھا مسل رہا تھا۔

”جی صاحب ابھی لائی۔۔۔۔“  عائل کے نرم مگر عجلت بھرے انداز سے چونکتی وہ ذرا سی گردن موڑے دھیرے سے بولی۔

برتنوں پر گرتے نل کے پانی کا شور اُسکی بھیگی آواز کو دبا گیا تھا جس پر غور کیے بنا وہ اگلے ہی پل وہاں سے واپس پلٹ گیا۔

”صاحب چائے۔۔۔۔“  کچھ ہی دیر میں اُسکے کہے کی تعمیل کرتی وہ چائے کا مگ ٹرے میں سجائے قدرے محتاط انداز میں اُسکے روبرو سرجھکائے کھڑی تھی۔

چائے بھرا  مگ اٹھاتے وہ جواباً مسکرایا۔

”آہ۔۔۔۔تھینکس مُنی۔۔۔۔تیز پتی والی چائے بناکر تو تم نے بہت اچھ۔۔۔ااا۔۔۔۔“  تیزدم چائے کا کڑک سواد منہ میں گھلتے ہی اُسنے تب سے پہلی بار اُسکا دوپٹے کے ہالے میں گھرا زرد چہرہ دیکھا تھا مگر یہ سرسری سی نگاہ اگلے ہی پل اُسکی سرخ آنکھوں میں جھانکتی گہری نگاہ میں ڈھلی تھی۔

”مُنی۔۔۔ تم روئی ہو۔۔۔۔؟؟تمھاری آنکھیں کس قدر سرخ پڑرہی ہیں۔۔۔۔“  پوچھتے ہوئے ماتھے پر ایکدم سے بل پڑے تھے جس پر وہ گھبراتی شدومد سے نفی میں سر ہلاتی مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

”نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں تو صاحب۔۔۔۔وہ بس کھانا بناتے وقت مرچیں آنکھوں میں گھس گئی تھیں۔۔۔۔“  آنکھوں میں آنے والی نمی کو سرعت سے صاف کرتی وہ روہانسی آواز میں بےڈھنگا سا بہانہ بناگئی۔

مگر مقابل بالکل بھی مطمئن نظر نہیں آرہا تھا۔

”ایک ساتھ دونوں آنکھوں میں۔۔۔۔؟؟؟مت بھولو کہ میں ایک پولیس آفیسر ہوں۔۔۔۔رونے اور آنکھوں میں مرچی چلے جانے کےچھوٹے سے فرق کو بآسانی سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔چلو اب بتاؤ۔۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔؟؟“  مگ کو سائیڈ پر رکھتا وہ اپنی تمام تر توجہ اُسکی جانب سمیٹ گیا تو اُسکے لہجے میں چھپی فکر اور اپنائیت محسوس کرتے اُسے خود کے اجڑنے پرمزید رونا آنے لگا۔

”موم نے ڈانٹا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے خاموش پاکر بذاتِ خود حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی ہلکی سی کوشش کرتے اُسکا لہجہ سرد ہوا۔

جہاں تک عائل کو معلوم تھا اُسکے اکثر افسردہ ہونے کی وجہ عائمہ بیگم کی ڈانٹ ڈپٹ ہی ہوا کرتی تھی۔

مگر اسکے باوجود بھی وہ کبھی اس حد تک نہیں گئی تھی کہ رو رو کر اپنی حالت ہی خراب کرڈالے۔

”نہیں صاحب۔۔۔۔قسم لے لو۔۔۔۔اُنھوں نے تو مجھ سے کام کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔“  گالوں پر لڑھکتے بےقابو آنسوؤں کو سختی سے مسلتی وہ کمزور سی آواز میں اپنی صفائی دینے لگی جب خود کا ہی ہاتھ لگنے سے دوپٹہ ہلکا سا پیچھے سرکتا پیشانی کی تازہ چوٹ کو واضح کرتا چلاگیا۔

”یہ۔۔۔یہ چوٹ کیسے لگی۔۔۔۔؟؟“  عائل کی گہری سیاہ آنکھوں نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اُسکے ماتھے پر ابھرے زخم کو حیرت سے پکڑا تو وہ اُسکے سوال پر بوکھلاتی  دوپٹے کا سرا سرعت سے بھنوؤں تک کھینچ گئی۔

اب کیا بتاتی اُسے کہ جو کارنامہ اُسنے نادانی میں سرانجام دیا تھا اُس پر اُسکی اماں کا دیا ہوا پہلا تحفہ تھا یہ۔۔۔۔

اُسے گہری سوچ میں مسلسل خاموش دیکھ کر ضبط سے عائل کا سر درد سے مزید پھٹنے لگا۔ 

”گڑیا۔۔۔۔اپنے صاحب سے اپنا مسئلہ شیئر نہیں کروگی کیا۔۔۔۔۔؟؟؟گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے پگلی میں ہوں ناں تمھارے ساتھ۔۔۔۔شاباش بتاؤ ہوا کیا ہے۔۔۔۔؟؟“  گہرا سانس بھرتے اگلے ہی پل وہ اپنے عصاب ڈھیلے چھوڑگیا۔

اُسکے نرم لہجے میں التجاء صاف جھلک رہی تھی۔

وہ جو کب سے اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مررہی تھی مقابل کے مان اور ہمددر بھرے لہجے سے جی جان سے مرعوب ہوتی پل میں اپنا آپ اُسکے سامنے کھولنے کا فیصلہ کرگئی۔

اس لمحے اُسے انجام کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہی تھی۔

”صص صاحب۔۔۔۔وہ۔۔۔۔جج۔۔۔جنید۔۔۔۔“  وہ ہمت کرتی ابھی بول ہی رہی تھی جب اچانک اپنی پشت سے ابھرتی اپنی اماں کی حدرجہ سخت آواز پر ٹھٹھک کر چپ ہوئی۔

”آمنہ۔۔۔۔تُو یہاں کھڑی ہے پگلی اور بیگم صاحبہ تجھے نیچے بلارہی ہیں۔۔۔۔چل جلدی سے جاکر اُنکے لیے مالٹے کا جوس بنادے نہیں تو وہ ناراض ہوکر تجھے پھرسے ڈانٹ دیں گی۔۔۔۔چل جلدی نیچے جا شاباش ۔۔۔۔“  بروقت اُسے منہ کھولنے سے روکتی وہ بےاختیار اُسکے کندھے پر وارن کرتے انداز میں تھپ رسید کرگئی۔

”ایک منٹ طلعت۔۔۔۔پہلے ہماری بات مکمل ہولینے دو۔۔۔۔پھر وہ موم کا بھی کام کردے گی۔۔۔۔ہاں بولو مُنی۔۔۔۔کس جنید کا بتارہی تھی تم مجھے۔۔۔۔؟؟“  وہ جو نیا معاملہ کھلنے پر چونک کر سیدھا ہوا تھا طلعت کی غلط ٹائم آمد پر سخت بدمزہ ہوتا سپاٹ لہجے میں بولا۔

”ارے صاحب یہ تو پوری جھلی ہے۔۔۔۔بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بک دیتی ہے۔۔۔آپ اسکی باتوں پر دھیان مت دو۔۔۔۔یونہی آپکا قیمتی وقت ضائع ہوگا۔۔۔۔“  وہ لہجے کو نرم رکھتے بمشکل مسکراتی عائل کو ٹالنے کی کوشش میں تھی مگر پھربھی اپنے ڈگمگاتے لفظوں کی گھبراہٹ اُس سے چھپا نہیں پائی تھی۔

”میں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں مانگا طلعت۔۔۔۔بہتر ہے ہمارے معاملے میں مت پڑو۔۔۔۔اگر پھر بھی خاموش نہیں رہا جاتا تو دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔تم جاسکتی ہو یہاں سے۔۔۔۔“  طلعت کو آمنہ کا بازو پکڑکے وہاں سے لےجاتا دیکھ وہ اپنی جگہ کھڑا ہوتا لہجے میں شدید برہمی لیے بولا تو ناچار طلعت کو اُسکا بازو چھوڑنا پڑا۔

”میں سن رہا ہوں مُنی۔۔۔۔جو بھی دل میں ہے سب بےجھجک بول دو گڑیا۔۔۔۔“  اپنے تاثرات پھر سے نرم بناتا وہ اپنے سینے پر ہاتھ باندھ گیا جب وہ طلعت کی سخت گھوری کی پرواہ کیے بغیر عائل کی جانب متوجہ ہوئی۔

شاید اب وہ تھک گئی تھی خود سے تنہا لڑتے لڑتے اور جب اپنے مسیحا کا مضبوط سہارا مل رہا تھا تو پھر کیوں قدم پیچھے لیتی۔۔۔۔

 ”صاحب۔۔۔۔وہ لڑکاجنید۔۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے سے بےپناہ محبت کرتے تھے صاحب۔۔۔۔اور اسی محبت میں اندھی ہوکر میں نے سب کے احساسات کی پرواہ کیے بغیر اُس سے چھپ کر نکاح  کرلیاتھا۔۔۔۔لیکن پھر۔۔۔۔“  شرمندگی سے بھیگتے لفظوں کو رفتہ رفتہ زہر کی  مانند اُسکی سماعتوں میں گھولتی وہ اس لمحے ڈوب مرنے کے مقام پر تھی جب لڑکھڑاتی آواز نے ایکدم سے ساتھ چھوڑا تھا۔

اس کھلے انکشاف پر اُسنے قدرے بے یقینی سے اُسکے معصوم دِکھنے والے پھیکے نقوش بڑی گہرائی سے دیکھے تھے جو اس پل اُسکی زباں سے پھسلتے حدرجہ تلخ لفظوں سے کسی بھی طرح میل نہیں کھا پارہے تھے۔

تبھی وہ گہرا سانس بھرتی پھرسے بولنے کے لیے اپنے کپکپاتے لبوں کو کھولنے کی گستاخی کرگئی۔

اپنی بےقابو بیٹی کا پھر سے کھلتا منہ دیکھ کر پاس ہی کھڑی طلعت کا بےبسی کے مارے بلڈلو ہورہا تھا۔

سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے پل پل بگڑتے معاملے کو سنبھالے۔۔۔؟؟؟

 ”جب جب اُسے موقع ملا اُسنے پورے استحقاق سے میرے وجود کی دھچیاں اڑائیں صاحب۔۔۔اور میں پاگلوں کی طرح اُس ذلیل انسان کی ہوس کو محبت سمجھتی رہی۔۔۔۔محض چند دن کا کھیل تھا جب اُسکے سر سے اِس کھوکھلی محبت کا بھوت بھی اترگیا۔۔۔۔جس خاموشی سے اُسنے مجھے اپنایا تھا اُسی خاموشی سے تین بولوں کا ٹھپہ میرے ماتھے پر مارکر اُس ظالم نے مجھے اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکال باہر کیا۔۔۔۔میں نے بھی دل پر پتھر رکھ کے یہ سب بڑی خاموشی سے برداشت کرلیا صاحب۔۔۔لیکن۔۔۔“  وہ کس اذیت سے اپنے دل کا بھاری بھرکم بھید اُس پر قطرہ قطرہ ظاہر کررہی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی اور وہ کس قدر ضبط سے لب بھینچے یہ سب سن رہا تھا یہ بھی صرف اُسے ہی معلوم تھا۔

”لیکن کیاااا۔۔۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی چبھتی خاموشی پر بےاختیار مٹھیاں پھینچتے وہ بے چین سا غرایا۔

یعنی اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اُسکا لفظ ”لیکن“ پیچھے باقی تھا۔

”مت بول آمنہ۔۔۔۔۔خدارا چپ ہوجا نہیں تو غضب ہوجائے گا۔۔۔۔“  طلعت گھٹتے دل کے ساتھ زیرِلب التجاء کرتی اگلے ہی پل سہارے کی تلاش میں دروازے کا ہینڈل تھام گئی۔

وہ شدت سے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپارہی تھی۔

”لیکن اب میں بدقسمتی سے اُسکے بچ۔۔۔بچے کی م۔۔۔ماں۔۔۔۔۔“  ہنوز بہتی ہوئی جھکی آنکھوں سے وہ بمشکل اپنی ٹوٹی بکھری ہمت کو مجتمع کرتی اُسکے سر پر ایک اور دھماکہ کرگئی تھی جسکا مطلب فوراً سے بھی پہلے سمجھتا وہ اُسے وہی پر دہاڑتے ٹوک گیا۔

”شٹ اپ۔۔۔۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔“  وہ اس پل ضبط کی تمام حدوں کو پار کرگیا تھا جبکہ مقابل کی آنکھوں سے پھوٹتی چنگاڑیوں اور درشتگی بھرے لہجے پر وہ طلعت سمیت  اپنی جگہ پر اچھل کررہ گئی۔

اگلے ہی پل بے اختیاری میں تھپڑ کی صورت اٹھتا عائل کا ہاتھ بےبسی سے ہوا میں ہی معلق رہ گیا تھا جس پر آمنہ دبا سا چیختی فوری اپنی آنکھیں میچ گئی۔

دل تو شدت سے چاہ رہا تھا کہ اُسکا بھیگا چہرہ ابھی تھپڑوں سے لال کردے مگر صد افسوس کہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھانے کا قائل نہیں تھا تبھی ہاتھ کی سخت مٹھی بناتااگلے ہی پل اُسکی طرف سے اپنا رخ پھیرگیا۔

دل میں موجود اُس لڑکی کے لیے عزت و اپنائیت کی عمارت پل میں ملیامیٹ ہوئی تھی جسے وہ خود سے پڑھا لکھا کر جانے کیا سے کیا بنانا چاہتا تھا۔۔۔۔مگر وہ کیا نکلی تھی۔۔۔۔؟؟

بدکردار۔۔۔۔یاں دھوکے باز۔۔۔۔؟؟

”ایڈریس بتاؤ مجھے اُس خبیث کا۔۔۔۔؟؟“  نفرت سے پھنکارتا وہ اگلا لائحہ عمل سیکنڈوں میں ذہن نشین کررہا تھا۔

وہ جو عائل کے حددرجہ سخت لب و لہجے پر آنکھیں کھولے تکلیف اور صدمے سے اُسکی پشت دیکھ رہی تھی اُسکے پلٹ کر غصے سے دیکھنے پر کپکپاتی فوری سب کچھ بتاتی چلی گئی۔

”صاحب۔۔۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے موبائل سکرین پر تیزی سے انگلیاں چلاتا دیکھ وہ آنسو پونچھتی اُسکی جانب بڑھی۔

”ہاں راشد۔۔۔۔میں نے تمھیں جو ایڈریس ابھی سینڈ کیا ہے گاڑی لے کر فوری وہاں پہنچو۔۔۔۔تب تک میں بھی وہاں پہنچتا ہوں۔۔۔۔اور ہاں ہتھکڑی ساتھ لانا مت بھولنا۔۔۔۔اوکے خدا حافظ۔۔۔۔“  سب انسپیکٹر سے بات کرتا وہ اُسے بالکل نظرانداز کرگیا جبکہ اُسکی بات سن کر وہ دونوں چونک کررہ گئیں۔

”صص صاحب۔۔۔صاحب آپ کدھر جارہے ہو۔۔۔۔؟؟؟ مجھ سے انجانے میں بہت بڑی غلطی ہوگئی۔۔۔۔خدارا مجھے معاف کردو صاحب۔۔۔۔صاحب۔۔۔۔۔“  اُسے کوٹ پکڑتے کمرے سے جاتا دیکھ  آمنہ بدحواس سی اُسکے سامنے آکر ہاتھ جوڑے کھڑی ہوگئی جب وہ اُسے جھٹکے سے پیچھے دھکیل گیا۔

”کوشش کرنا کہ اب سے مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔۔۔۔ورنہ ممکن ہے کہ میں اپنا ضبط کھو بیٹھوں۔۔۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھائے قدرے تنفر سے بولتا وہ اُسے بھبھک کر رونے پر مجبور کرگیا جبکہ اپنی بیٹی کی بےوقوفیوں کی وجہ سے طلعت سے نظریں ہی اوپر نہیں اٹھائی جارہی تھیں۔

”افسوس کہ تم اپنی اکلوتی بیٹی کی صحیح سے حفاظت بھی نہیں کرسکی طلعت۔۔۔۔اور شاید نہ ہی میں۔۔۔۔۔“  کمرے کی دہلیز پھلانگنے سے پہلے وہ طلعت کو احساسِ جرم سے دوچار کرنا نہیں بھولا تھا اور پھر اگلے ہی پل لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

”کلموہی۔۔۔۔منحوس ماری۔۔۔۔کیا آفت پڑگئی تھی تجھے عائل صاحب کے سامنے سب بکنے کی۔۔۔۔؟؟اتنا بڑا کانڈ چھپ کر کرلیا اور اب کھلے عام اسکا ڈھنڈورا پیٹتی میرے سر پر خاک ڈلواتی پھررہی ہے۔۔۔۔اپنی پھسلتی زبان سے ہماری روزی روٹی پر لات مارہی دی ناں تُونے بےوقوف۔۔۔۔دیکھنا ابھی کچھ ہی دیر میں ہمیں اس گھر سے دھکے مار کر باہر نکال پھینکیں گے یہ لوگ۔۔۔۔یااللہ مدد کر ہماری۔۔۔۔“  طلعت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور آمنہ کو دوپٹے سمیت بالوں سے جکڑتی ایک ساتھ کئی چماٹ جڑ ڈالے۔

”اماں اب یہاں رہنا ہی کون چاہتا ہے۔۔۔۔۔ہم خود ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔۔۔۔۔“  اپنی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر وہ بڑے ضبط سے بولتی طلعت کو مزید آگ بگولا کرگئی۔

تبھی کوئی کھٹکے کی آواز کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو دونوں نے بھیگی آنکھوں سے بےاختیار پلٹ کر پیچھے دیکھا۔

”بب۔۔۔بیگم صاحبہ۔۔۔۔آ۔۔۔پ۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کے غصے سے لبریز خطرناک تیور دیکھ کے دونوں ماں بیٹیوں کی جان ہوا ہوئی تھی۔

*************************** 

آج اتوار کا دن تھا۔برائے نام آرام کا دن جو کہ حاویہ کے لیے کسی وبال سے کم نہیں تھا۔ایک سنڈے سارے کاموں کا ذمہ اُسکے سر ہوتا اور دوسرا سنڈے حرمین کے نام ہوتا۔

مگر بدقسمتی سے یہ والا سنڈے اس بار اُسکے حصے میں آیا تھا۔نفیسہ بیگم نسیمہ آپا کے ساتھ حرمین کے ہونے والے سسرال گئی ہوئی تھیں۔

حالانکہ اُسکا بھی جانے کو بہت من ہورہا تھا پر نفیسہ بیگم نے ساتھ لےجانے سے صاف منع کردیا تھا۔سو اُس نے بھی سب معاملات سمجھتے ہوئے ذیادہ ضد نہیں کی تھی۔

حرمین بھی پڑھائی کے سلسلے میں اس وقت اپنی فرینڈ علیزہ کی طرف گئی ہوئی تھی۔

شاید یہی وجہ تھی جو وہ سارے کام چھوڑے اس وقت دیوار کے ساتھ لگی چیئر پر کھڑی ہوکرنیناں سے گپیں ہانکنے میں مصروف تھی۔

”اچھا بس بس۔۔۔بہت ہوگئیں باتیں۔۔۔اب مجھے کام کرنے دو۔۔۔۔وہاں دھونے والے کپڑوں کا انبار لگا پڑا ہے۔۔۔جو مجھ بیچاری کو اکیلے ہی دھونا پڑے گا۔۔۔۔تم کونسا آکر میری مدد کروں گی۔۔۔۔بس باتیں کروالو تم سے جتنی مرضی۔۔۔میں تو چلی۔۔۔۔تم جاکے اب اپنے مہمانوں کو سنبھالو۔۔۔“  نیناں کو اچھی خاصی جھاڑ پلاتی وہ رفوچکرہونے کو تھی جب وہ اُسے آواز دے کر ایکدم سے روک گئی۔

نیچے سے اُسے اپنی امی کی مسلسل آوازیں پڑرہی تھیں۔

”اچھا اچھا۔۔۔میری ایک آخری بات تو سنتی جاؤ۔۔۔۔میں تمھیں سب سے امپورٹنٹ بات بتانا تو بھول ہی گئی۔۔۔۔“  قدرے عجلت میں سر پر ہاتھ مارتی وہ اُسے اچھا خاصا تجسس دلاگئی۔

”جلدی بول نیناں۔۔۔اتنا فالتو وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔۔۔“  منہ بسور کر بولتی وہ مزید ایڑیاں اچکاگئی۔

”وہ بختی ہے ناں۔۔۔۔ارے بختیارکی بات کررہی ہوں۔۔۔۔وہ کل ہی دبئی سے واپس آیا ہے۔۔۔۔اُسکی چھوٹی بہن آئی تھی ہماری طرف۔۔۔بتارہی تھی کہ اُسکا بھائی بہت چیزیں لایا ہے اُن سب کے لیے۔۔۔۔“  پرجوش سی بولتی وہ حاوی کے سر پر دھماکہ کرگئی اور اگلے ہی پل پھر سے اپنی امی کی چیختی آواز پر نیچے کی جانب بھاگی جہاں اُنکے مہمان یقیناً آچکے تھے۔

پیچھے وہ حق دق سی جہاں کھڑی تھی وہی کھڑی رہ گئی۔

بختی کے نام پر دل ایکدم خوف و غم سے پھڑپھڑایا تھا جسے وہ اپنے دل و دماغ سے تقریباً نکال ہی چکی تھی۔

قدرے ڈھیلے انداز میں چیئر سے نیچے اترتے ہوئے بےاختیار اُسکے دماغ میں اُسکی زبردستی قربت کے خیالات گھومنے لگے تو وہ اندر تک کانپ کررہ گئی۔

”یا میرے اللہ۔۔۔۔مجھے اُس شیطان کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھنا۔۔۔۔۔ہمیشہ بس اپنی پناہ میں رکھنا۔۔۔بےشک عزت اور ذلت تیرے ہی ہاتھ ہے میرے مالک۔۔۔۔“  بےاختیار آسمان کی جانب نم آنکھوں سے دیکھتی وہ اپنے رب کی رحمت و تحفظ کی شدت سے طلبگار تھی۔

اور پھر کچھ ہی پلوں میں خود کو پرسکون کرتی سامنے کمرے کی جانب بڑھ گئی جہاں دھونے والے کپڑوں کا  ڈھیر ٹب میں پڑا یقیناً اُسکی کے انتظار میں تھا۔

***********************

وہ اس وقت گھر کے کھلےصحن میں کرسی پر براجمان ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا فون پر کسی لڑکی سے محوِ گفتگو تھا۔

ماں باپ اور چھوٹی بہن اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے جو شہر سے باہر اپنے دور کے رشتہ دار کی شادی اٹینڈ کرنے گئے تھے۔

ایسے میں اُسے کھلی چھوٹ مل چکی تھی۔

باتیں تو باتیں۔۔۔انداز بھی ایک دم چھچھوڑا تھا جس پر دوسری طرف سے شرمانے کی بھونڈی اداکاری کرتی لڑکی کی کھنکھناتی ہنسی سنائی دی۔

”پلیز بےبی۔۔۔۔صرف آج کے لیے میرے پاس آجاؤ ناں۔۔۔۔گھر پر اگلی صبح تک کے لیے مکمل پرائیویسی دستیاب ہوگی۔۔۔۔پھر شاید ہی کبھی ہمیں ایسا سنہری موقع ملے ملاقات کے لیے۔۔۔۔میرا دل بہت بےقرار ہورہا ہے تمھیں دیکھنے کے لیے۔۔۔۔اب صرف تم ہی ہو جو اِس پیاسے دل کو سیراب کر سکتی ہو۔۔۔۔تم آؤگی ناں۔۔۔۔؟؟؟  وہ اُسکی مکمل توجہ سمٹے مزید مست ہوتا اصل مدعے کی جانب بڑھ رہا تھا لیکن تبھی زور زور سے بجتے دروازے کے درمیان لڑکی کا واضح انکار اُسکا موڈ حددرجہ خراب کرگیا۔

”ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔۔۔“  مسلسل دروازہ توڑ دستکوں پر وہ گالی بکتا تیزی سے مین گیٹ کی جانب بھاگا۔

”کون ہے بے۔۔۔۔۔؟؟صبر کر آرہا ہوں۔۔۔۔“  غصے سے چیختا وہ کنڈی کھول گیا لیکن سامنے پینٹ کوٹ میں کسی اجنبی شخص کے ساتھ ایک باوردی سب انسپیکٹر کو دیکھتے اُسکی سٹی گم ہوئی تھی۔

”جنید امجد۔۔۔۔تمہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟“   کڑے ضبط سے پوچھتا یہ عائل تھا۔

”جج۔۔۔جی صاحب۔۔۔۔پر میں نے آپکو پہچانا نہیں۔۔۔کون ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟“  پولیس کو دیکھ کر ماتھے پرآیا  پسینہ ہاتھ کی پشت سے صاف کرتا وہ تحمل سے مسکراتے ہوئے استفسار کرنے لگا۔

”چل آجا پھر۔۔۔۔ابھی اچھے سے پہچان کرواتا ہوں تجھے کہ کون ہوں میں بےغیرت انسان۔۔۔۔“  اپنے سوال کی مکمل تصدیق پر وہ اگلے ہی پل دانت پیس کر بولتا ہوا اُسے گریبان سے پکڑ کر دہلیز سے باہر کھینچ چکا تھا۔

”ارے صاحب یہ کیا کررہے ہو۔۔۔۔؟؟؟چھوڑو مجھے۔۔۔۔صص۔۔اااا۔۔۔۔۔حب۔۔۔۔“  اُسکی مضبوط گرفت سے اپنی خاکی رنگ قمیض کا کالر چھڑوانے کی کوشش کرتا سانولی رنگت کا جنید گھبراتے ہوئے چلایا جب ایکدم سے منہ پر پڑنے والا زور کا مکا اُسکی بولتی بند کروانے کے ساتھ ہی اُسے زمین بوس کرچکا تھا۔

یہ منظر دیکھ کر آس پاس محلے کے لوگ تماشا دیکھنے کے لیے آہستہ آہستہ  جمع ہونے لگے۔کچھ ہی دیر میں اطراف میں بھیڑ لگ چکی تھی جن میں سے

کچھ اس آوارہ لڑکے کی دھلائی ہوتے دیکھ حیرانگی اور کچھ دلچسپی سے تکنے لگے جبکہ ان میں سے چند ایک  آگے بڑھ کر جنید  کو عائل کے ہاتھوں بچانے کی سوچ میں تھے مگر باوردی سب انسپیکٹر کی حاضری سمیت عائل کا حددرجہ غصہ دیکھ کر اپنی جگہ بےبس کھڑے رہ گئے۔

جبکہ وہ اردگرد سے بےبہرہ آمنہ کے لفظوں کی کھولن اُس پر پوری طرح اتارتا پل پل بے قابو ہوتا چلاجارہا تھا۔

***************************

”یااللہ خیر۔۔۔۔۔“  لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتے شور پر گھبراتی وہ دھونے والے کپڑوں کا ڈھیر وہیں پر چھوڑے بنا دوپٹے کے ٹیرس کی جانب تقریباً بھاگتی ہوئی لپکی۔تجسس اس قدر حاوی تھا کہ ہاتھ میں پہلے سے ہی جکڑی پانی سے آدھی بھری بالٹی کا بھی دھیان نہیں رہا تھا۔نیچے جھانکتے ہی اُسے بہت سے لوگوں کا ہجوم دکھائی دیا لیکن اگلے ہی پل جس چونکا دینے والے منظر نے اُسکی توجہ شدت سے اپنی جانب کھینچی تھی وہ ٹھیک نیچے اُنکے محلے کے آوارہ ٹائپ لڑکے کی دب دبا کے ہونے والی کٹائی تھی۔اپنی جانب پشت ہونے کی وجہ سے وہ اُس دبنگ شخص کا چہرہ نہیں دیکھ پارہی تھی جو پینٹ کوٹ میں ملبوس بنا رکے اُسے کپڑے کی طرح دھونے میں کوئی کثرباقی نہیں چھوڑرہا تھا۔

”چچ۔۔۔اب یہ نیا مدمعاش کون ہے بھئی۔۔۔۔؟؟؟“  خود کے بالوں سے الجھتی وہ مزید آگے کو ہوئی جس کے ساتھ ہی دیوار کے سہارے ٹکی بالٹی پر اُسکی گرفت بے دھیانی میں ڈھیلی پڑی تھی۔

”مج مجھے۔۔۔معاف کردو صاحب۔۔۔غلطی ہوگئی مجھ سے۔۔۔مم میں حلالہ کرواکر آمنہ کو پھرسے اپنالوں گا۔۔۔بس مجھے چھوڑدو۔۔۔“  وہ لڑکا اپنے دفاع میں ہاتھوں کو آگے پھیلائے فوری حل نکالتا پھٹے لبوں سے اپنی جان بخشی کی بھیک مانگ رہا تھا۔

”حلالہ تو تیرا جیل جانے کے بعد میں خود کرواؤں گا ذلیل انسان۔۔۔۔“  اُسکی نازیبا بات پر بھڑک کربولتے ہوئے اُسنے نیچے گرے لڑکے کو گریبان سے پکڑکراپنے مقابل کھڑا کیا جب اچانک اوپر سے گرتا جھاگ والا پانی اُسکے پورے وجود کو تیزی سےبھگوتا اگلے ہی پل اُسے بری طرح حواس باختہ کرگیا۔

”کیا بیہودگی ہے یہ۔۔۔۔؟؟؟“  ضبط سے گہرا سانس بھرتے اپنے بھیگے چہرے کو دائیں ہاتھ سے صاف کرتا وہ شدید غصے میں برہم سا چلایا اور اگلے ہی پل پلٹ کر سرخ آنکھوں سمیت اوپر کی جانب دیکھا جہاں وہ ویسے ہی جھکی سانس روکے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

بالٹی کا کھلا منہ بھی قدرے آگے کو جھک کر عائل کو بخوشی سلامی پیش کررہا تھا۔

وہ حاویہ کے دل ڈگمگانے دینے والے ملگجے حلیے سمیت اُسکا زرد پڑتا چہرہ دیکھ کر پل بھر کو بری طرح چونکتا قدرے ضبط سے مٹھیاں بھینچ گیا۔

”او تیری ی ی ی ی۔۔۔۔۔“  عائل سمیت وہاں کھڑے سب لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول ہوتے دیکھ وہ اگلے ہی پل چھپنے کی کوشش میں جھٹکے سے بالٹی سمیت گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھی تھی۔

”وہ یہاں کیا کررہا تھا۔۔۔۔؟؟“  عائل کی غصیلی نظروں کو اندر تک محسوس کرتی وہ شدت سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ گئی۔

”پاگل۔۔۔۔بےوقوف۔۔۔۔“  اُسے فوراً سے بھی پہلے سب کی نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ وہ دانت پیستے ہوئے سختی سے لب بھینچ گیا اور مُڑکر جنید سمیت سب کی طرف دیکھا جو اپنی نگاہوں کا زاویہ بدلتے واپس اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔

بہت سوں کی نظروں میں خود کے لیے تمسخر محسوس کرتا وہ واپس جنید کی جانب متوجہ ہوا جو اب سوجھی ہوئی آنکھ سے اُسے گھورنے میں مصروف تھا۔

”لے جاؤ اسے۔۔۔اور جب جب یہ بولے اسکی اچھی خاطرتواضع کرنا مت بھولنا۔۔۔۔بہت خاص مہمان ہے یہ ہمارا۔۔۔۔۔“  زہرخندق لہجے میں راشد کو حکم دیتا وہ جنید کو گریبان سے پکڑکر اُسکی جانب دھکیل گیا۔

”نن۔۔۔نہیں صاحب۔۔۔۔خدارا معاف کردو۔۔۔۔مم۔۔۔میں پیر پکڑتا ہوں آپکے صاحب۔۔۔۔نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔“  راشد اُسے اپنے قابو میں کیے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈالتا جونہی اپنے ساتھ گھسیٹ کر کچھ فاصلے پر موجود موبائل تک لے جانے لگا تو وہ پھر سے زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگا۔

موبائل تک پہنچتے ہی راشد اُسکی گردن پر زور کا چھانپڑ چھوڑتے اُسے بےدردی سے اندر پٹخ گیا اور سٹینڈ کے ساتھ ہتھکڑی کا دوسرا سرا بھی لاکڈ کرتے اُسے مکمل بےبس کرگیا۔

”تماشہ ختم ہوچکا ہے۔۔۔۔اب آپ لوگ بھی جاسکتے ہیں یہاں سے۔۔۔۔“  موبائل کو دورجاتا دیکھ عائل ایکدم سے تالی بجاتا لوگوں کو مخاطب کیے بھیڑ ختم کرنے کا آڈر دےگیا۔

تبھی ایک ایک کرکے سب لوگ چہ مگوئیاں کرتے وہاں سے ہٹتے چلے گئے۔

 تبھی آخری نگاہ واپس ٹیرس کی جانب اچھالتا وہ بےاختیار اپنا گیلا کوٹ ہاتھ مار کے جھاڑ گیا جہاں اب اُس لڑکی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔

 ”ایڈیٹ۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل وہ اُسکے گھر کی نشاندہی کیے پیرپٹختا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

******************


”بس عشق۔۔محبت۔۔اپناپن

  بس عشق۔۔محبت۔۔اپناپن 

  بس عشق۔۔محبت۔۔اپناپن۔۔۔۔“  

وہ قدم قدم چلتا ہال کے دروازے کے سامنے جارکا تو مدھم مدھم سی موسیقی اُسکی سماعتوں میں گھلنے لگی۔

اگلے ہی پل ہاتھ سے دباؤ ڈالے وہ ایک پٹ وا کرتا اندر داخل ہوا تو سامنے ہی وہ زرک برگ لباس میں ملبوس لڑکیوں کے بیچ مہارت سے اپنے پورے وجود کو دلنشین انداز میں حرکت دینے میں مگن تھی۔

برقی قمقموں کی طرح اُسکا دلکش حسن بھی سنہرے رنگ لباس میں لشکارے مارتا اردگرد بیٹھے جانے کتنے ہی رنگین مزاج مردوں کو اپنا اسیربنا رہا تھا۔

یہ دیکھ کر سالار خان کے وجیہہ چہرے پر بےاختیار شدت کی ناگواری چھائی تھی۔

تراتر بجتے طبلوں کا شور اُسکے دماغ میں ہتھوڑے کی مانند برس رہا تھا جبکہ اُسکا دل بہکادینے والا رقص اتنے عرصے بعد براہِ راست دیکھتے ہوئے اُسکی آنکھوں میں مرچیں سی بھرنے لگیں۔

وہ جو اپنے کاموں سے بمشکل وقت نکال کر رابی سے اپنی ادھوری ملاقات پوری کرنے کے لیے یہاں آیا تھا آج رات کی اِس رنگین محفل سے قطعی بے خبر تھا۔

اپنی انتہائی غلط وقت آمد پر وہ ہاتھ میں پکڑی بریسلٹ سمیت قدرے ضبط سے مٹھیاں بھینچ گیا۔

اپنی لانبی انگلیوں کو ایک ادا سے چہرے کے حسین نقوش کے آگے لہراتی وہ زرا سا دائیں جانب مڑی تو نگاہیں بے ساختہ سامنے کھڑے سالار خان پر جاٹھہرئیں جو لب بھینچے برہم سا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔پل بھرکو  رُکتی رابی کے دل کی  گداز دھڑکنیں بےاختیار تیز ہوئی تھیں مگر دوسرے ہی لمحے وہ اُس کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھتی سریلے لفظوں پر خود کو پھرسے مست کرگئی۔

”مغل اعظم ذلِ الہی

 ماہبلی تیری دیکھ لی شاہی

 زنجیروں سے کہاں رکے ہیں

 پیارسفر میں عشق کے راہی

 گاتے پھریں گے جوگی بن بن

 عشق۔۔ محبت۔۔اپنا پن 

  بس عشق۔۔ محبت۔۔ اپنا پن۔۔۔“  

شدت سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتی وہ مخصوص انداز میں گھومنے لگی تو ناچاہتے ہوئے بھی سالار خان اپنے قدموں پر واپس لوٹنے کی بجائے ٹرانس کی کیفیت میں اُسکی سمت بڑھنے لگا۔

سامنے ہی تابین بائی آج کی محفل کے خصوصی مہمان کے ساتھ لکڑی کے جھولے پر بیٹھی بےتلکلفی سے باتیں کرنے میں مگن تھی جبھی تو وہ سالار خان کی آمد کا بھی کچھ خاص نوٹس نہیں لےسکی تھیں۔مگر وہ اُس شخص کو لمحوں میں ناپ چکا تھا جس کی غلیظ نظریں گاہے بگاہے رابی کے جھومتے وجود کی جانب اٹھ رہی تھیں۔

غم و غصے کی کیفیت میں سر جھٹکتا وہ رقص سے حِظ اٹھاتے تماشائیوں کے ساتھ دو زانوں بیٹھ گیا۔رابی کی صحرزدہ سی خشک آنکھوں میں مایوسیوں کا عالم فقط اُسے ہی محسوس ہورہا تھا مگر یاقوتی لبوں پر بکھرا تبسم بھی سالار خان کو الجھائے دے رہا تھا۔

تڑپتے دل کے ساتھ اپنی محبت کا سرِعام تماشہ دیکھتے ہوئے ابھی کچھ ہی پل سِرکے تھے جب دیوان ملک خود پر سے ضبط کھوتا تابین بائی کے پاس سے اُٹھ کر رابی کی جانب لپکا۔

سالار نے ذرا سی گردن موڑ کر اُس عیاش کی جانب دیکھا تو پل میں اُسکے ارادے بھانپتے بےاختیار ماتھے پر بل پڑتے چلے گئے۔

”آہ جانِ جہاں۔۔۔کیوں دور سے ہی جان لینےپر تُلی ہوئی ہو۔۔؟پاس آکر بھی تو یہ کام اچھے سے کرسکتی ہوتم۔۔۔“  آگےبڑھ کراُسکی جھومتی کمر پر ہاتھ ڈالتاوہ اگلے ہی پل اُسےاپنی جانب کھینچ چکا تھا۔اپنےفعل میں

غرق جہاں وہ مقابل کی اِس اچانک گستاخی پر بوکھلاتی اُسکے سینے پرسرعت سے اپنی نازک ہتھیلیاں جماگئی تھی وہیں وہ تماشائیوں کے بیچ  بمشکل ضبط کیے بیٹھا اِس ناقابلِ برداشت نظارے پر جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔

”واللہ۔۔۔دیوان صاحب چھوڑئیے ہمیں ورنہ رقص سےلطف اندوز ہونے والوں کو بڑی دقت کا سامنا ہوگا۔۔۔“ اُسے غصے میں تیزی سے اپنی جانب لپکتا دیکھ وہ فوری گردن موڑتی مقابل سے التجاء کرگئی مگر وہ 

اُسکی درخواست کو ناک پرسے مکھی کی طرح اڑاتا اپنی خباثت بھری مسکراہٹ مزید گہری کرگیا۔

”چھوڑ اِسے۔۔۔“  پل میں اُسکے سر پر پہنچتا وہ سختی سےمٹھیاں بھینچے شدتِ نفرت سے پھنکارا تو دیوان ملک چونک کراُس خوبرو جوان کی جانب متوجہ ہواجبکہ وہ اگلےلمحوں کی بابت سوچتی مزیدپریشانی میں گھری تھی۔

”کیوں چھوڑوں۔۔۔؟یہ صرف تمھاری ملکیت نہیں ہے بلکہ یہاں پر بیٹھا ہروہ شخص اِس رقاصہ پر برابر کاحق رکھتا ہے جو اِسکے بےداغ حسن سے گھائل ہوکر اندھا دھنداِس پر پیسوں کی برسات کرتاہے۔۔۔“  اُسکی سرخ انگارہ آنکھوں میں جھانکتا وہ قدرے بےباکی سے بولا۔ساتھ ہی انتہا کی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتا اُسکی نازک سی کسمساتی کمر پر اپنی گرفت مزید سخت کرگیا۔مگر دوسرے ہی لمحے منہ پر مقابل کا بھرپور شدت سے پڑنے

والامکا اُسے اپنے بازوؤں کا سخت گھیرا پوری طرح کھولنے پر مجبورکرگیا۔

”یہ فقط میری ملکیت ہے۔۔۔فقط سالارخان کی ملکیت جس پرکسی بھی دوسرے کاکوئی حق نہیں ہے۔۔۔اب اگرکسی نےاِسےانگلی سےبھی چھونے کی کوشش کی تو میں اُسکا بازو ہی کندھے سےاکھاڑپھینکوں گا۔۔۔یاد 

رکھنا میری بات!“  پورے استحقاق سے رابی کی چوڑیوں بھری کلائی تھام کر اُسے اپنے پیچھے کرتا وہ انگلی اٹھائےتقریباً سب کو ہی کھلے عام دھمکی دےگیا۔

حیرت کا مجسمہ بنی رابی نے اِس جنونی محبت پر آنکھیں پھیلائے سالار خان کو دیکھا جو اُسے اپنی پشت پرکھڑا کرتاایک بےنام سا تحفظ دے گیا تھا۔ 

دیوان ملک کو پھٹے ہونٹ پر ہاتھ رکھ کے بلبلاتا دیکھ وہاں بیٹھے لوگ حیرانگی اور کچھ تجسس سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

نظارہِ عشق دیکھنے لائق تھا۔۔۔۔

خوشگوارمحفل ایکدم ہی ٹینشن زدہ ماحول میں ڈھلی تھی۔ساری شوخیاں،رنگ رلیاں اور مستیاں پل میں اڑن چھو ہوگئی تھیں۔ہوش میں آتی تابین بائی جھٹکے سے جھولے سے اٹھی تھیں۔اُس کی اِس گستاخی پر بےاختیار اُسے قتل کرنے کو دل چاہا تھا۔

”تیری اتنی ہمت سالے۔۔۔۔تُونے دیوان ملک پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔تجھے تو میں ابھی تیری اوقات پر لاتا ہوں۔۔۔۔“  بےیقینی سے اپنی انگلیوں پر لگے خون کو دیکھ کر وہ اگلے ہی پل وحشی سا سالار خان پر جھپٹا۔

اُسکے محبت بھرے اعتراف سے ذیادہ اُسے بھری محفل میں اپنی ذلالت کا دکھ مارے جارہا تھا۔

دیوان ملک کے ہاتھوں کو اپنے گریبان پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ اُنھیں اپنی مضبوط گرفت میں لیتا دوسرا دھموکا بھی جڑ چکا تھا۔

” تُو ابھی خود سالار خان کی اوقات سے صحیح طرح سے واقف نہیں ہے ورنہ اِس گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی حماقت کبھی نہیں کرتا۔۔۔۔“  اپنی شرٹ کا کالر پکڑ کر صحیح کرتا وہ اُس پر اپنی اہمیت واضح کرگیا جو خونخوار نظروں سے بےبس سا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

”واللہ۔۔۔۔سالار خان جاؤ یہاں سے۔۔۔۔خدارا چلے جاؤ۔۔۔۔“  رکتے دل کے ساتھ جہاں رابی نے اُسکی شرٹ کو بازو سے دبوچا تھا وہیں اپنا تمام تر صبرکھوتی تابین بائی بگڑے تیوروں کے ساتھ سالار خان کی جانب تیزی سے لپکیں۔

”کیا۔۔۔؟؟کیا چاہتے کیا ہو تم۔۔۔؟؟کس حق سے اتنی بڑی بڑی باتیں کررہے ہو میری بیٹی کے بارے میں۔۔۔؟؟کیا بیوی ہے وہ تمھاری۔۔۔؟؟یاں پھر ماں بہن لگتی ہے جو غیرت کے معاملے میں اتنے اکڑے جارہے ہو۔۔۔؟؟“  اُسکا گریبان دونوں ہاتھوں سے دبوچتی وہ اُس پر طوفان بن کر نازل ہوئی تھیں۔

”محبت ہے وہ میری۔۔۔۔بےغیرت عورت۔۔۔۔محبتتتت۔۔۔۔“  تابین بائی کے گہرے واروں پر آپے سے باہر ہوتا وہ جھٹکے سے اُنھیں پیچھے دھکیل گیا۔

نتیجتاً وہ پیچھے کو گرتی کمرے پکڑے کراہ اٹھیں یا شاید جان بوجھ کر گرنے کا دکھاوا کیا گیا تھا۔۔۔۔

رابی نے سرعت سے آگے بڑھ کر اٹھنے کی کوشش کرتی تابین بائی کو بازوؤں سے تھام کر سہارا دیا تھا۔

یہ سرکشی کی حد نہیں تو پھر کیا تھا۔۔۔۔۔؟؟

اگلے ہی پل وہ شش و پنچ میں کھڑے سالار خان کی جانب پلٹی تھی اور تڑاخ کی پُرزور آواز گہرے سکوت کو توڑتی چلی گئی۔

”را۔۔۔بی۔۔۔۔۔“  تپتے رخسار پر چند انگلیاں جماتا وہ بےیقین سا زیرلب اُسے مخاطب کرگیا جو اُسے نم مگر خونی نظروں سے گھور رہی تھی۔

اُسکے پورے وجود میں نئے سرے سے تڑپ جاگ اٹھی تھی۔

سالار خان کے اِس قدر دلچسپ انجام پر جہاں دیوان ملک کا فلک شگاف قہقہ حلق سے نکلا تھا وہیں تابین بائی آنکھوں میں حقارت لیے ہولے سے مسکرائیں۔

”دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے سالار خان۔۔۔اور ہوسکے تو کبھی مجھے اپنی شکل مت دیکھانا۔۔۔۔نکل جاؤ۔۔۔۔“  چوڑے سینے پر دباؤ ڈال کر اُسکا ڈھیلا وجود پیچھے دھکیلتی وہ غرائی تو وہ لہورنگ آنکھوں سے اپنے  مخالفوں کو مسکراتا دیکھ اگلے ہی لمحے رخ پھیرتا لوگوں کے بیچ سے نکلتا چلاگیا۔

تبھی تابین بائی کے اشارے پر نئے سرے سے موسیقی اور طبلوں کا دور چلا تھا۔

گہرا سانس بھرتی رابی جہاں خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرتی بےحسی سے مسکرائی تھی وہیں سب کی نظروں سے بچتی بچاتی تابین بائی دبیز قالین پر سے گولڈ کی بریسلٹ اٹھاتی اپنی جامنی ساری کے پلو میں چھپاگئیں۔

***************************

وہ لاؤنج میں پُرسوچ سا بیٹھا دو انگلیوں سےمسلسل اپنا ماتھا مسل رہا تھا۔پاس ہی صوفے پر بیٹھی عائمہ بیگم پوری تندہی سے آمنہ اور طلعت میں سے بھربھرکے کیڑے نکالتی اگلے پچھلے سارے حساب بےباک کرنے میں مصروف تھیں جنھیں اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر اِس گھر سے نکلے کئی گھنٹے بیت چکے تھے۔

”میں اور شام تم سے ہمیشہ یہی بات بولتے رہے کہ اُس لڑکی کو اتنا سر پر مت چڑھاؤ۔۔۔اب دیکھ لیا ناں اپنی مہربانیوں کا نتیجہ۔۔۔۔مجھے تو بہت پہلے سے ہی اُس پر شک تھا۔۔۔شک کیا یقین تھا پورا۔۔۔۔وہ میسنی گھنی شکل سےجتنی معصوم دِکھتی تھی کرتُوتوں کی اتنی ہی کالی نکلی کمبخت۔۔۔۔دیکھو تو سہی۔۔۔اتنی سی عمرمیں ایک ناجائز بچے کی ماں بننے جارہی ہے۔۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔اللہ معاف ہی رکھے ایسی بدکار عورتوں سے تو۔۔۔۔“  کانوں کو ہاتھ لگاتی وہ حد سے تجاوز کرگئیں تو عائل نے کچھ حیرت سے عائمہ بیگم کے آخری لفظوں پر غور کیا۔

”پلیز موم۔۔۔۔جو کچھ بھی ہوا تھا نکاح کے بعد ہی ہواتھا۔۔۔اب ایسے میں آپ اُسے ناجائز قرار دے کر ذیادتی تو مت کریں۔۔۔۔“  سرد لہجے میں عجلت بھری برہمی سموئے وہ بےاختیار آمنہ کی حمایت میں بول گیا جبکہ انہیں اپنے بیٹے کا یہ انداز ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔

یعنی اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی وہ اُنہی ماں بیٹی کے حق میں بولتا خود کی ماں سے احتجاج کررہا تھا۔

”کیا معلوم نکاح کی بابت بھی وہ جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔۔خیرجو بھی تھا تمھیں خواہ مخواہ پرائے پھڈے میں نہیں پڑنا چاہیے تھا عائل۔۔۔“  اپنے آپ کو ہرلحاظ سے صحیح ثابت کرنے کی خاطر خود سے غلط اندازے لگاتی اب کے وہ بھی ذرا خفگی سے گویا ہوئیں جس پر وہ محض گہری سانس بھرکے رہ گیا۔

جنید کے جیل میں بندہونے کی خبر مانو اُنھیں آگ ہی تو لگاگئی تھی۔ 

”آپ یہ سب چھوڑیں موم اور  مجھے بس اتنا بتائیں کہ اُن دونوں کو آپ نے خود زبردستی تو نہیں نکالا تھا۔۔۔؟؟؟یعنی وہ خود اپنی مرضی سے یہاں سے  گئی تھیں۔۔۔۔؟؟؟“  اُن دونوں کی بے بسی اورمجبوریوں کی فکر کرتا وہ بظاہر بےتاثر لہجے میں بولا۔ 

اُسے قطعی اس بات کی امید نہیں تھی کہ آمنہ اور اُسکی ماں خود اپنی مرضی سے یہاں سے چلی جائیں گی۔وہ بھی ایسے میں جب اُنکے پاس نہ تو کوئی دوسرا روزگار تھا اور نہ ہی آمنہ کا باپ اُنکی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل تھا۔

عائل کے تفتیشی سوال پر ایک پل کو ٹھٹھکتی وہ فوراً سے اپنے تاثرات مضبوط بناگئیں۔

”وہی تو میں بھی تم سے کہہ رہی ہوں بیٹا۔۔۔۔اُن ماں بیٹیوں نے مجھے موقع ہی کب دیا کہ میں دھکے مار کر اُنھیں اِس گھر سے باہرنکال سکتی۔۔۔؟؟بلکہ وہ دونوں خود ہی چوروں کی طرح منہ چھپاکر اپنا سامان سمیٹتی یہاں سے چلتی بنیں۔۔۔مگر جاتے جاتے اُسکی ماں اپنا حساب کتاب چکتا کرنا نہیں بھولی۔۔۔حد ہے بھئی بےشرمی کی بھی۔۔۔۔“  سچ ملا جھوٹ بےدھڑک عائل کے سامنے پیش کرتی وہ پل میں اُسے کڑا اطمینان دلاگئی تھیں۔

حقیقتاً تو طلعت نے گڑگڑا کر اُن سے تب تک یہاں ملازمت کرنے کی درخواست کی تھی جب تک کہ اُنھیں کوئی دوسری جگہ مناسب نوکری  نہ مل جاتی۔

مگر وہاں پرواہ کسے تھی۔۔۔؟؟

تبھی عائمہ بیگم نے اُنھیں جلی کٹی باتیں سناکر بغیر ترس کھائے منٹ میں گھر سے نکال باہر کیا تھا۔

”ہوں۔۔۔۔۔“  ایک نظر اُنکے نفاست سے کیے گئے میک اپ شدہ چہرے پر ڈالتا وہ سرد ہنکارا بھرگیا۔

”اففف میرا بچہ کتنا تھک گیا ہے ناں۔۔۔تم رکو میں ابھی نئی ملازمہ سے بول کر تمھارے لیے ٹیبل سیٹ کرواتی ہوں۔۔۔۔“  اُسکے چہرے پر جمی تھکاوٹ دیکھ کر عائمہ بیگم کو بےاختیار اُسکی بھوک کا احساس جاگا جس نے جانے کتنے وقت سے کچھ نہیں کھایا تھا۔

جواب میں وہ نئی ملازمہ کے نام پر پل بھرکو چونکتا دھیرے سے سرہلاگیا۔

”اور ہاں۔۔۔۔میں تمھیں ایک اہم بات بتانا تو بھول ہی گئی۔۔۔۔“  وہاں سے جاتے جاتے وہ ایکدم سے رکتی اُسکی جانب پلٹیں تو عائل اُنکے پرجوش انداز پر ٹیک چھوڑتا اُنکی جانب متوجہ ہوگیا۔

”کونسی بات۔۔۔۔؟؟کیا ڈیڈ بزنس ٹور سے واپس آگئے ہیں۔۔۔؟؟“  اُنکے چہرے کی مسکراہٹ کا کنکشن حسن صاحب کی گھرواپسی سے جوڑتا وہ بھی خوشدلی سے مسکرایا۔

”نہیں وہ تو آہی جائیں گے۔۔۔۔بتانا یہ تھاکہ شام کی برتھ ڈے آرہی ہے۔۔۔۔جانتے ہوناں اس دن کو لے کر وہ کتنا ایکسائٹڈ ہوتا ہے۔۔۔۔؟؟“  شام کی بابت اُسے یاددہانی کرواتی وہ قدرے مسرور لہجے میں بولیں۔

”اوہ ہاں۔۔۔۔وہ میں کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟چھوٹے نواب کو بہت اچھے والا سرپرائز دوں گا میں اِس بار۔۔۔۔“  حسبِ توقع وہ بھی مسکاتی آنکھوں سے اپنے مائنڈ میں نئے نئے پلینز سوچنے لگا تھا۔

شام کے علاوہ باقی سب سوچوں سے فی الوقت اُسکا دھیان ہٹ چکا تھا اور شاید عائمہ بیگم بھی یہی چاہتی تھیں۔

”تمھیں جو بھی کرنا ہے کرو۔۔۔۔بس میرا بچہ خوش ہوجائے۔۔۔۔اور دعا کروکہ اس بار حسن صاحب اپنے غصے کے چکر میں شام کا اسپشل ڈے خراب نہ کردیں۔۔۔۔۔نہیں تو اُسے منانا مشکل ترین کام ہوجائے گا۔۔۔۔۔“  خود کے ساتھ ساتھ اُسے بھی نئی الجھنوں میں الجھاتی وہ حسن صاحب کے غصے سے خائف ہوتی قدرے فکرمند ہوئی تھیں۔

پچھلی بار کا تماشہ اُنھیں اچھے سے یاد تھا۔

جب شام نے اپنی برتھ ڈے پارٹی پر کسی معروف ڈانسر کو مدعو کیا تھا جس پرحسن صاحب اچھے خاصے بھڑک اٹھے جبھی تو سب مہمانوں کا لحاظ کیے بغیر وہ اُسے اچھی خاصی جھاڑ پلاگئے تھے۔

نتیجتاً شام بھی زبان درزای کرنے کے بعد ناراض ہوکر فارم ہاؤس چلاگیا تھا اور پھر کافی اصرار پر دو دن بعد گھرواپس لوٹا تھا۔

”ڈونٹ وری اباؤٹ دیٹ موم۔۔۔۔۔انشاء اللہ سب اچھا ہی ہوگا۔۔۔۔“  پُریقین سا بولتا وہ مسکرایا تو گہرا سانس بھرتی عائمہ بیگم اثبات میں سرہلاگئی اور کچن کی جانب مڑتی  ”راشدہ“ نامی ملازمہ کو اونچی اونچی آوازیں دینے لگیں۔

*************************


وہ اپنا سارا میک اپ صاف کرکے واشروم سے باہر نکلی تھی۔ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ جس پر جگہ جگہ نفیس کام ہوا تھا  اُسکی پھیکی رنگت پر اپنی رونق کھورہا تھا۔ڈریسنگ سے اپنا چشمہ اٹھاکر تیکھی ناک پر ٹکاتی وہ گم صم سی بیڈ پر بیٹھ گئی۔گنے چنے چند افراد سمیت چھوٹا سا فنکشن اٹینڈ کرنے کے باعث تھکاوٹ اُسکے سر چڑھ کر بول رہی تھی۔

مگر ذہنی اذیت اس جسمانی تھکاوٹ سے کئی بڑھ کر تھی جو اُسے پل پل بےچین کیے دے رہی تھی۔

”ذباب۔۔۔۔۔“  اپنی انگلیوں کو چہرے  کے سامنے پھیلائے اُسکی بے تاثر نگاہیں اس سمے گولڈ کی رِنگ پر اٹکی ہوئی تھیں جو کچھ دیر پہلے اُسے ذباب کے نام سے پہنائی جاچکی تھی۔

 کتنی شدت سے انتظار تھا اُسے اِن لمحات کا مگر جب یہ خوشگوار پل اُسکی زندگی میں آکر گزربھی گئے تھے تو پھر کیوں اُسے خوشی نہیں ہورہی تھی۔۔۔؟؟

کیوں زباب کے نام پر کوئی جذبہ اُسکے اندر نہیں پنپ رہا تھا۔۔۔۔؟؟

کیوں اُسکے نازک سے مایوس دل کی دھڑکنیں بےہنگم نہیں ہورہی تھیں۔۔۔؟؟بالکل ویسے ہی جیسے شام کے ذرا سے ذکر پر۔۔۔۔۔۔!!

کب سے اپنے آپ سے الجھتی حرمین اس پوائنٹ پر آکربےساختہ ٹھٹکی۔

دل بےاختیار دھڑکا تھا۔

 کیا وہ اُسے چاہنے لگی تھی۔۔۔؟؟

اِس چھ لفظی سوال کے بدلے نفی کی تو کہیں بھی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

نہیں۔۔۔یہ غلط ہے۔۔۔۔۔!!

اِس گہرے انکشاف پر جہاں اُسکے الجھے ذہن کی اذیت کچھ کم ہوئی تھی وہیں کہیں اندر سے چیختی آواز نے حرمین کے اعصاب کو جھنجھوڑا کر رکھ دیا مگر وہ اِس بےایمان دل کا کیاکرتی جو ان لمحوں میں شدت سے دھڑکتا اعتراف کرنے کے درپے تھا۔

جبھی تو وہ پل میں خودغرض بنتی  ضمیر کی آواز کو گہری سانسوں کے درمیان اندر ہی کہیں دباگئی تھی۔

شام کی شدت بھری توجہ۔۔۔۔دل میں اترجانے والی شریں گفتگو۔۔۔۔دلفریب مسکراہٹ۔۔۔۔اور چاہت بھری نظریں۔۔۔۔کچھ بھی تو ٹھکرانے کے قابل نہیں تھا۔۔۔۔

اُسکی برائے نام خوبیوں کو یبک وقت گنتی وہ جذباتی سی تکیہ اٹھا کر اپنے حصار میں سختی سے جکڑ چکی تھی۔

اور سب سے بڑھ کر وہ اُسکی عزت کا رکھوالا تھا۔۔۔۔ایک ایسا مسیحا جو انجانے میں اُسکے بےجان دل کو اپنی چاہت سے آشناکرواتا دھڑکنا سیکھاگیا تھا۔۔۔۔

شریر اذہان میں پنپتے ناپاک ارادوں سے قطعی انجان ایک اور ٹھوس جواز اُسکے دھڑکتے دل نے پیش کیا تھا۔

تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ شام کی نرمی و اپنائیت کا جواب بے حسی اور سنگدلی سے دیتی۔۔۔۔

فیصلہ کن موڑ پار کرتی حرمین کے سیاہی مائل لبوں پر ایک کھوئی کھوئی سی مسکراہٹ بکھری تھی۔

وہ خود کی گہری سوچوں میں مزید ڈوبتی اردگرد سے اس قدربےبہرہ ہوچکی تھی کہ اپنے موبائل فون پر آنے والی ذباب کی چھٹی کال بھی مسڈ کال میں بدل چکی تھی۔

**************************

وہ جو سینے سے فائل لگائے  تھکے تھکے سے انداز میں اپنے فلور پر آئی تھی سامنے ہی شاہ کو اپنے کیبن کے پاس کنزا سے گفتگو کرتا دیکھ ٹھٹک کر اپنی چال سست کرگئی۔

”گڈ مارننگ سر۔۔۔۔۔“  قدرے دھیمی آواز میں مسکرا کر بولتی وہ پہلے سے ہی متوجہ شاہ کو مکمل اپنی جانب متوجہ کرواگئی۔

شاہ نے ایک گہری نظر اُسکے حسین مگر مرجھائے نقوش پر ڈالی تھی اور اگلے ہی پل اُسکی نیند نہ پوری ہونے کے باعث گلابی پڑتی آنکھوں سے نگاہیں ہٹاتا آبرو کو اُسکی گڈمارننگ سمیت پوری طرح اگنور کرگیا۔

”مس کنزہ۔۔۔۔آپ یہ ٹوٹل اپ ڈیٹس وقار صاحب تک پہنچادیں۔۔۔۔اور وہ اپائنٹمنٹ لیٹر۔۔۔۔؟؟؟  قدرے پروفیشنل انداز میں سنجیدگی سے بولتا وہ آبرو کی مسکراہٹ چھیننے میں مکمل کامیاب رہا تھا جو اب کنزہ کے ذرا حیرت میں ڈھلتے تاثرات دیکھ کر خوامخواہ شرمندہ سی ہونے لگی تھی۔

”جی سر وہ بھی ریڈی ہے۔۔۔۔“  شاہ کو سوالیہ انداز میں آبرو اچکاتا دیکھ وہ تیزی سے اپنا سر ہلاگئی جبکہ گم صم سی وہیں پر کھڑی آبرو نے اپائنٹمنٹ لیٹر کے ذکر پر چونک کر شاہ کو دیکھا جو اب بھی اُسے سرے سے نظرانداز کیے کنزا سے محوِ گفتگو تھا۔

”گڈ۔۔۔۔اب آپ جاکر اپنا کام کریں۔۔۔۔“  کنزا کو سرسری سی داد دیتا وہ اگلا آڈربھی دے چکا تھا جس پر وہ گردن ہلاتی منیجر وقار صاحب کے روم کی جانب اپنے قدم بڑھاگئی۔

تبھی ہوش میں آتی آبرو نے بھی وہاں سے کھسک جانا ہی بہتر سمجھا تھا مگروائے رے قسمت۔۔۔

ابھی اُسنے پہلے کے بعد دوسرا قدم اٹھایا ہی تھا جب شاہ نے اُسے راہِ فرار تلاشتا دیکھ موقع پر چوکا مارا۔

”مس آبرو۔۔۔۔ذرا روم میں آئیں میرے۔۔۔۔“  آواز میں کرختگی کا عنصر واضح تھا جس پر وہ بے اختیار اپنی آنکھیں سختی سے موندکر کھلتی اُسکی جانب پلٹی۔

”جی سر۔۔۔۔۔؟؟؟“  فائل پر پکڑ مزید سخت کرتی وہ بےبس سی نظریں جھکائے اُسکے پیچھے پیچھے چل پڑی۔

روم میں پہنچ کر آبرو نے اپنے ہٹلر باس کی جانب نظر بھر کر دیکھا جو اپنی سیٹ پر براجمان ہونے کی بجائے اب ماتھے پر تیوری چڑھائے اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔

اُسکے بگڑتے تیور ملاحظہ کرتی آبرو کو اپنے ناکردہ جرم کی سزا کا اندیشہ ہوا کہ تبھی وہ رک کر اُسکی جانب گھوما۔

”یہاں کی باس آپ ہیں یاں میں آبرو صاحبہ۔۔۔۔۔؟؟“  پاکٹس میں ہاتھ ڈالتا وہ سرد لہجے میں بولا۔

”آپ سر۔۔۔۔“  اُسکے غیرمتوقع سوال پر پل بھر کو گڑبڑاتی وہ پورے اعتماد سے اُسے جواب دے گئی تو وہ پُرسوچ انداز میں سرہلاتا اُسکے مقابل آکھڑا ہوا۔

”اس حساب سے تو پھرآپکو مجھ سے بھی پہلے یہاں پر موجود ہونا چاہیے۔۔۔ناں کہ میرے بعد۔۔۔۔مگر آپکو دیکھ کر مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کوئی رُول فالو کرنے کے لیے بنی ہی نہیں۔۔۔۔“  بظاہر سخت نظروں سے گھورتا وہ آبرو کو ٹارچر کرنے کا ایک اور سرا ہاتھ میں تھام چکا تھا۔

”اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے سر۔۔۔۔فرسٹ ٹائم ہی لیٹ ہوئی ہوں ورنہ تو ہمیشہ ٹائم پر ہی آتی ہوں میں۔۔۔۔ایکچولی کام کا لوڈ ہی اتنا تھا مجھ پر کہ ساری رات جاگ کر کام کرتی رہی ہوں۔۔۔۔اسی لیے صبح ذرا دیر سے آنکھ کھلی تھی میری۔۔۔۔“  شاہ کے انسلٹ کرنے کے اس نئے انداز پر اپنے اندر امڈتی حیرت پر قابو پاتی اب کے وہ بھی ذرا چڑ کر بولی۔

” تو کیا کروں پھر۔۔۔۔؟؟؟تالیاں بجاکر داد دوں کہ آپ نے اپنا کام پورا کرکے مجھ پر احسان کیا ہے۔۔۔۔؟؟“  اُسکے انداز کو اندر ہی اندر انجوائے کرتا وہ بےاختیار دونوں ہاتھوں سے شور برپا کرگیا تو اُسکا حددرجہ تلخ لہجہ محسوس کرتی آبرو سہم کر ایک قدم پیچھے کو ہوئی۔

”نو سر۔۔۔۔میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔میں تو بس۔۔۔۔“  وہ شرمندہ ہوتی آنکھوں کے بھیگتے گوشوں سمیت سر جھکاگئی۔

اُس پر غالب آنے کا ہنر وہ اچھے سے جانتا تھا۔

”آپکے بی ہیویر سے تو مجھے یہی مطلب سمجھ آیا ہے مس آبرو۔۔۔۔میں غلط تو نہیں کہہ رہا ناں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے روہانسا دیکھ کر نرمی سے بولتا وہ اب بھی اُسے زچ کرنے سے باز نہیں آرہا تھا۔

”سوری سر۔۔۔۔۔“  سرخ گال پر لڑھکتا آنسو صاف کرتی وہ بغیر اُسے نظریں ملائے معذرت کرگئی تو جانے کیوں شاہ کو اُسکے آنسو دیکھ کر برا لگا تھا۔

”سوری سے کیا ہوگا۔۔۔۔؟؟اس طرح آپ اپنی عادتیں بدل لیں گی۔۔۔؟؟؟“  پھر سے سوال کرتا وہ ایک قدم کا فاصلہ مٹاتا اُسکے حددرجہ قریب آگیا تو آبرو نے شکوہ کناں نظروں سے اُسکی خمار آلود ہوتی آنکھوں میں دیکھا۔

شاہ ہولے سےمسکرایا اور اگلے ہی پل اُس کا سارا دھیان اُسکے تیزی سے بھیگتے گالوں کی جانب چلاگیا۔

اسکا اپنے چہرے کی جانب بڑھتا ہاتھ دیکھ کر آبرو شدت سے دھڑکتے دل سمیت سرعت سے اپنا چہرہ پھیرتی پیچھے ہوئی۔

یہ دیکھ کر شاہ ہوا میں ٹھہرے ہاتھ کی مٹھی بناتا بےخودی میں مسکراتے لب بھینچ گیا۔وہ ہربار اُسے نظرانداز کرکے دل پر گہراوارکرجاتی تھی۔

”نیکسٹ ٹائم اگر آپ سے کوئی بھی مسٹیک ہوئی یاں پھر آپ نے یہاں کے رولز سے اوائڈ کرنے کی کوشش کی تو سزا کے لیے ریڈی رہیے گا مس آبرو۔۔۔۔اس بات کا اندازہ اب تک تو آپکو بھی اچھے سے ہوگیا ہوگا کہ میں کسی کو بھی چُھوٹ دینے کا قائل ہرگز نہیں ہوں۔۔۔۔“  اپنے اندر انگڑائیاں لیتے غصے کو دبائے بغیر وہ اُسکی جانب انگلی اٹھائے چبا چبا کر بولتا آخر میں طنزکرنا نہیں بھولا تھا۔

”اندازہ تو اچھے سے ہے۔۔۔۔آئندہ سے خیال رکھوں گی۔۔۔۔“  اُسکی سخت نظروں سے خائف ہوتی وہ بڑے دھیمے انداز میں تقریباً منمنائی۔

وہ الگ بات تھی کہ اُسکے بدلتے تیوروں کی وجہ سمجھتی وہ دل ہی دل میں مسرور ہوئی تھی۔

آخر کو وہ بھی تو اپنے کھڑوس باس کو بغیر ہتھیار کے  گھائل کردینے کی سکت رکھتی تھی۔۔۔۔

”گڈ۔۔۔اب اگر آپ نے شوق سے میرا قیمتی ٹائم برباد کرلیا ہو تو پلیز یہ فائلز مجھے پکڑائیں اور جائیں یہاں سے۔۔۔ مجھے اور بھی ضروری کام کرنے ہیں۔۔۔۔“  اچانک ہی اُسکے ہاتھوں سے دونوں فائلز تقریباً جھپٹتا اگلے ہی پل وہ اپنا رخ پھیرگیا۔

اشارہ صاف تھا کہ اب وہ یہاں سے جاسکتی ہے ورنہ ممکن تھا کہ وہ اُسے حد سے ذیادہ ٹارچر کرجاتا جوکہ اس پل اُسکا دماغ یہ سب کرنے کو شدت سے اُ کسا بھی رہا تھا۔

”شیور سرررر۔۔۔۔۔“  اُسکی چوڑی پشت کو تاسف سے دیکھتی وہ ناک منہ چڑھاتی وہاں سے نکلتی چلی گئی جبکہ وہ فائل کے پیج پلٹتا دروازہ بند ہونے کی زوردار آواز پر ضبط سے گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔

*************************

وہ بالائی لب کے اوپری حصے پر آیا پسینہ ہاتھ کی پشت سے پونچھتی گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئی۔

”اسلام علیکم۔۔۔۔۔“   کندھے سے پھسلتے  بیگ کی سٹرپ کو واپس اوپر چڑھاتی حاویہ معمول کے مطابق  بآواز بلند سلام لیتی اندر کی جانب لپکی تھی

لیکن سامنے صوفے پر نفیسہ بیگم کے ساتھ بیٹھے اضافی وجود کو دیکھ کر پھیلتی آنکھوں سمیت اُسکا حلق بےساختہ خشک پڑا تھا۔

بختی ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے مسکاتی آنکھوں میں ڈھیروں چمک لیے اُسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا۔

چار سال بعد آج وہ اُسے اپنے سامنے دیکھ رہی تھی یاں یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اُسے دیکھنے پر مجبور تھی۔

اِس پل کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا اُسے مقابل کا چہرہ دیکھ کر۔۔۔۔

وہ اُسکا بہانے بہانے سے قریب آنا۔۔۔جان بوجھ کر ٹچ کرنا اور پھر معنی خیز باتیں کرنا جو وہ اپنی کم عمری کی وجہ سے کبھی سمجھ نہیں پائی تھی یاں پھر سمجھ کر بھی اُسکے ڈر کی وجہ سے جھٹلادیا کرتی تھی۔۔۔۔

”وعلیکم اسلام۔۔۔۔دیکھو تو ذرا کون آیا ہے ہم سے ملنے۔۔۔۔پہچانا تم نے حاویہ۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی حیرت زدہ آنکھوں میں خوشی سے جھانکتی نفیسہ بیگم نے اُسے الجھانا چاہا تو وہ فوری ہوش میں آتی بےدلی سے سر ہلاگئی۔

کالی ٹی شرٹ اور سفید ٹراؤز میں بختیار عرف بختی کا کسرتی جسم واضح ہورہا تھا جبکہ شیو کی بجائے اِس بار داڑھی کا فرق آیا تھا۔

لیکن اُسکی خباثت کا لیول پہلے کی نسبتاً بڑھ چکا تھا جسکا اندازہ حاویہ اُسکی مسلسل گھورتی نظروں سے ہی لگاچکی تھی۔

”جی۔۔۔۔بختی بھائی آئے ہیں۔۔۔۔کیسے ہیں آپ بھائی۔۔۔۔؟؟“  بھائی پرخاصا زور دیتی وہ مروتاً اُسکا حال احوال پوچھ گئی۔

کہنے کو تو وہ نفیسہ بیگم کا منہ بھولا بھانجا تھا اور فیضان صاحب کی وفات کے بعد سے ایک بیٹے کی ہی طرح اُسنے بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لی تھیں۔سب ٹھیک چل رہا تھا  لیکن پھر پتا نہیں کب اور کیسے بختی کی نیت اُس پر خراب ہوگئی تھی؟یہ بات وہ خود بھی کبھی جان نہیں پائی تھی۔

”میں ایکدم پرفیکٹ باربی ڈول۔۔۔۔تم اپنے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔کونسی کلاس میں پڑھ رہی ہو۔۔۔۔؟؟“  اُسکے بھائی بولنے پر پھیکی پڑتی مسکراہٹ کو بمشکل بحال کرتا وہ قدرے اشتیاق سے پوچھنے لگا۔

”جی میں سیکنڈائیر میں پڑھ رہی ہوں بھائی۔۔۔۔“  اُسکے شریں لہجے اور طرزِتخاطب سے خار کھاتی وہ اپنے کمرے میں جانے لگی تو بختی اُسکی حدرجہ سنجیدگی شدت سے محسوس کرتا فوراً ٹوک گیا۔

”ارے کہاں جارہی ہو حاوی۔۔۔۔؟؟کچھ دیر ہمارے پاس بھی تو بیٹھو۔۔۔۔ماشاءاللہ۔۔۔۔دیکھیں تو خالہ جب میں اِسے چھوڑ کر گیا تھا تو تب اتنی سی تھی یہ۔۔۔۔بالکل باربی ڈول جیسی۔۔۔۔اور اب۔۔۔۔کتنی بڑھی ہوگئی ہے ناں۔۔۔۔وقت اتنی تیزی سے گزرگیا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔۔۔۔“  بظاہربڑاپن دکھاتا وہ ایکسرے کرتی نظروں سے حاویہ کا دلکش سراپا نظروں میں بھرتے نفیسہ بیگم کو بھی اندر گھسیٹ گیا تو حاویہ ضبط کے مارے اپنے دکھتے کندھے سے لٹکے بیگ پر گرفت سخت کرگئی۔

”ہاں بیٹا یہ تو تم بالکل صحیح بول رہے ہو۔۔۔۔بس اب میں اپنی دونوں بیٹیوں کے فرائض پورے حق کے ساتھ اداکردوں تو مجھے اور فیضان صاحب کی روح کو سکون سا مل جائے گا۔۔۔۔“  وہ جو بختی کی تمام باتوں کو محض ایک بڑے بھائی کے نظرئیے سے لیتی مسکراتے ہوئے تائید میں سر ہلارہی تھیں لگے ہاتھوں اُسکے سامنے اپنی خواہش کا بھی اظہارکرڈالا۔

”ماما۔۔۔میں فریش ہونے جارہی ہوں۔۔۔۔آپ بختی بھائی کو کمپنی دیں۔۔۔۔“  اپنی برداشت کھوتی حاویہ بمشکل خود کو نارمل رکھتی اگلے ہی پل اپنے کمرے کی جانب تقریباً بھاگتی ہوئی لپکی تھی۔

لیکن اسکے باوجود بھی وہ بختی کی نظروں کی تپش آخر تک محسوس کرسکتی تھی جو وہ حاویہ کے کمرے میں گم ہوتے ہی واپس نفیسہ بیگم کی جانب موڑ گیا۔

”خالہ آپ نے حرمین کا رشتہ تو طے کردیا ہے۔۔۔تو کیا حاوی کا بھی کہیں دیکھ رکھا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  دل میں پنپتے اندیشے کو الفاظ دیتا وہ اپنے اندر بےچینی سموئے بظاہر پُرجوش سا بولا۔

”نہیں بختی بیٹا۔۔۔۔فی الحال تو ابھی وہ پڑھ رہی ہے۔۔۔۔اسی لیے اتنا دھیان نہیں دے رہی اسکی طرف۔۔۔۔پہلے حرمین اپنے گھر کی ہوجائے پھر اسکے بارے میں بھی سوچوں گی۔۔۔۔بس اللہ سب بچیوں کے نصیب اچھے کرے۔۔۔۔آمین۔۔۔۔“  نفیسہ بیگم اُسکی بات کی شد و مد سے نفی کرتی انجانے میں اُسے اندر تک مسرور کرگئی تھیں۔

”جی جی کیوں نہیں۔۔۔۔بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔۔اللہ سب بہتر کریں گے انشاءاللہ۔۔۔۔“  سامنے پڑی پیسٹریز اٹھاکر منہ میں ڈالتا وہ اپنی طرف سے اِس خوشخبری پر منہ میٹھا کرگیا تھا۔

تبھی بیک وقت دونوں کے نتھنوں سے کسی شے کے جلنے کی کافی تیز بو ٹکرائی تھی۔

”اوہ ہو۔۔۔میں تو چولہے پر سالن چڑھا کر آئی تھی۔۔۔۔لگتا ہے جل گیا ہے سارے کا سارا۔۔۔۔“  ایک جھٹکے سے اپنی جگہ پر سے اٹھتی نفیسہ بیگم پریشان سی کچن کی جانب لپکی تھیں۔

نفیسہ بیگم کے جاتے ہی بختی بھی اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور کچھ سوچ کر سنگل صوفے پر رکھی چیزیں ہاتھوں میں پکڑتا حاویہ کے کمرے کی طرف بڑھا گیا۔

بند دروازے کے ہینڈل کو گھماتے ہی دروازہ آرام سے کھلتا چلا گیا تو وہ بنا شور کیے مسکراتا ہوا کمرے کے اندر قدم جماگیا۔

دروازے بند کرتے ساتھ ہی اُسنے اطراف میں نظریں گھمائیں جہاں حاوی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔

اِس سے پہلے کہ وہ اُسے مائے باربی ڈول کہہ کر مخاطب کرتا تبھی حاویہ اپنے دھیان سے واشروم کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی۔

بنا دوپٹے کے اُسکا نازک سا سراپا دیکھ کر جہاں بختی کی نظریں ساکت پڑی تھیں وہی حاویہ یوں اچانک سے اُسے اپنے کمرے میں دیکھتی بوکھلااٹھی۔

”آپ۔۔۔آ۔۔۔۔پ۔۔۔۔ناک کرکے کیوں نہیں آئے کمرے میں۔۔۔۔؟؟؟“  اگلے ہی پل وہ بیڈ پر رکھے دوپٹے کی جانب تیزی سے لپکتی شدید برہمی سے بولی اور ساتھ ہی ہلکے فیروزی دوپٹے کو اچھے سے اپنے چہرے کے گرد لپیٹ لیا۔

”لو مجھے کیا پڑی ہے ناک کرنے کی۔۔۔۔؟؟لیکن اگر تمھیں پسند نہیں آیا تو نو پرابلم۔۔۔۔میں ناک کرکے پھرسے آجاتا ہوں۔۔۔“  اُسکی بھیگے چہرے سے چھلکتے غصے سے مرعوب ہوئے بغیر وہ قدرے ڈھٹائی سے بولتا واپس مڑا تو حاویہ اُسکے لبوں کی مسکراہٹ سمیت اُسکی حرکت پر بل کھاتی رہ گئی۔

”آپکو اگر کوئی کام ہے تو پلیز آپ ماما سے بول لیں۔۔۔۔“  ننھی سی پیشانی پر ناپسندیدگی کی سلوٹیں ابھارتے ہوئے اُسنے دبے لفظوں میں بختی کو یہاں سے دفع ہونے کا بولاتھا لیکن وہ کوئی اثر لیتا تب ناں۔۔۔۔

”خالہ سے تو  مجھے کوئی کام ہی نہیں رہا۔۔۔۔اب جو بھی کام ہے وہ بس تمہی سے ہے مائے باربی ڈول۔۔۔۔“  پلٹ کر گہری نظریں اُس پر ٹکائے وہ قدم قدم اُسکی جانب بڑھتا خمار آلود لہجے میں بولا تو حاویہ اُسکے تیوروں سے خائف ہوتی بے اختیار اپنے قدم پیچھے لے گئی۔

”آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟پلیز آپ جائیں یہاں سے۔۔۔۔“ اُسکی معنی خیز بات پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ تلخ ہوتی دبا دبا سا چیخ اٹھی۔

”ارے اتنا گھبراکیوں رہی ہو مجھ سے۔۔۔۔؟؟میں پہلے والا ہی بختی ہوں۔۔۔۔تمھارا بختی۔۔۔۔خیر چھوڑو یہ سب اور یہ دیکھو۔۔۔۔میں تمھارے لیے دبئی سے کیا کچھ لےکر آیا ہوں۔۔۔۔یہ والا ڈریس دیکھو۔۔۔۔اسکا کلر تم پر بہت سُوٹ کرے گا۔۔۔۔“  اتنے عرصے بعد اُسکی گھبراہٹ سے جی بھر کر لطف اٹھاتا وہ کھل کر ہنسا تھا اور ہاتھ میں پکڑی چیزوں کو بیڈ پر پھینکتا دوسرے ہی پل ڈیپ ریڈ کلر کا ڈریس ہاتھ میں تھامے پھرسے اُسکی جانب لپکا۔

”مجھے اِن میں سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔۔۔۔آ۔۔۔پ اسے واپس رکھ لیں اور پلیز جائیں یہاں سے بختی بھائی۔۔۔۔نہیں تو میں ماما کو بلالوں گی یہاں۔۔۔۔“  وہ جو سوٹ اُسکے ساتھ لگاکر دیکھنا چاہ رہا تھا حاویہ غصے میں کپڑوں کو خود سے دور جھٹکتی دھمکی آمیز لہجے میں ذرا سا اٹک کر بولی۔

مگر اگلے ہی پل بختی ساری نرمی و مسکراہٹ ایک سائیڈ پر رکھتا سختی سے اُسکا بازو جکڑگیا۔

”یہ تم کچھ ذیادہ ہی بھائی بھائی کی گردان نہیں کرنےلگ گئی اب۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟لگتا ہے میری پہلے والی سمجھائی بات بھول گئی ہو غالباً جبھی تو ایسی بچگانہ حرکتوں پر اتر آئی ہوتم۔۔۔۔اور اگر اب میری دی ہوئی کسی شے سے انکار کیا ناں تو پھر میں بہت سختی سے پیش آؤں گا تمھارے ساتھ۔۔۔۔اور خالہ سے تمھاری شکایت الگ سے کروں گا۔۔۔۔سمجھ رہی ہوناں میری بات۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟“  اُسکی بازو پر اپنی گرفت پل پل سخت کرتا وہ اُسکی نم پڑتی آنکھوں میں جھانکتا وارنگ دے رہا تھا اور وہ ناچاہتے ہوئے بھی اُسکے ڈر سے کانپتی خاموش کھڑی سب برداشت کرنے پر مجبورتھی۔

پہلے کی طرح وہ اس بار بھی اُس پر اپنا اچھا خاصا روعب جماگیا تھا۔

”ارے بیٹا تم یہاں ہو۔۔۔۔مجھے لگا کہ تم چلے گئے ہو۔۔۔۔“  بختی نے شاطر مسکراہٹ لبوں پر سجاتے جیسے ہی اُسکا بازو جھٹکے سے چھوڑا عین اُسی وقت نفیسہ بیگم دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئیں۔

”نہیں خالہ۔۔۔۔میں تو بس یہ چیزیں حاوی کو دینے آیا تھا۔۔۔۔اور دیکھیں اسے پسند بھی بہت آئی ہیں۔۔۔۔“  بغیر ہچکچائے دھڑلے سے جھوٹ بولتا وہ ہاتھ میں پکڑا ڈریس واپس بیڈ پر اچھال گیا تو نفیسہ بیگم اُسکی اتنی چاہت پر سرشار سی مسکرااٹھیں۔

”تمھارا بہت بہت شکریہ بیٹا جو تم ہمارے لیے اتنا کچھ لے آئے ۔۔۔۔ویسے خوامخواہ کی زحمت کی ہے بس تم نے بھی۔۔۔“  تشکرآمیز لہجے میں بولتے ہوئے اُنہوں نے ایک نظر حاویہ پر ڈالی جو بھیگی ہوئی بھوری آنکھوں کو چھپانے کی غرض سے چہرہ جھکاتی بمشکل مسکرائی۔

”ارے خالہ۔۔۔بیٹا بھی بولتی ہیں اور شکریہ بھی۔۔۔۔اٹس ناٹ فیئر ہاں۔۔۔۔آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں اور یہ تھینکس وینکس بولنے سے پرہیز کریں پلیز۔۔۔“  چاشنی گھلے لہجے میں شکوہ کرتا وہ نفیسہ بیگم کا پہلے سے جیتا دل مزید اپنے قبضے میں کرگیا جبکہ حاویہ اندر ہی اندر آنسو پیتی اُسکے پل پل بدلتے روپ دیکھ کر رہ گئی۔

**********************

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Yadon K Hisar Main  written by RJ .  Sulagti Yadon K Hisar Main by  RJ is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Rude Hero Tawaif  Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel '' Sulagti Yadon K Hisar Main '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1to 10 

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”سلگتی یادوں کے حصار میں “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel By RJ Continue Novels ( Episodic PDF)

  سلگتی یادوں کے حصار میں ناول    از  آر جے (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

No comments:

Post a Comment