Pages

Thursday 23 June 2022

Dar e Yaar By Sara Shah Episode 4 to 5 Complete

Dar e Yaar  By Sara Shah Episode 4 to 5 Complete 

Sara Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Dar e Yaar By Sara Shah Epi 4 to 5 

Novel Name: Dar e Yaar 

Writer Name: Sara Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 4 to 5

         در یار  

تحریر ؛۔ سارا      شاہ 

 4 , 5قسط نمبر ؛ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

" کیا دیکھا جا رہا ہے بھئی اپنی ان ٹھرکی نظروں سے؟؟۔۔۔ ہمم" 

کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سامنے اٹھی جہاں ماہی ارد گرد سے بے نیاز باہر دیکھ رہی تھی ۔۔۔اسکی اتنی گہری محویت پر وہ کچھ مشکوک ہوتی بولی تھی پر جواب ندارد ۔۔۔۔

" اچھا تو ابران بھائی کو دیکھا جا رہا ہے ایسے بے خبر ہو کر۔۔۔ "

جواب نا ملنے پر وہ  کچھ آگے آئی اور نگاہ سیدھا پورچ میں کھڑی گاڑی سے نکلتے ابران پر پڑی۔۔۔ جو اب بی جان کو سہارہ دے کر اندر لے جا رہا تھا وہ شائد جرگے سے لوٹے تھے۔۔۔ ان سے نظریں ہٹا کر ماہی کو دیکھا جو اب بھی اس کی موجودگی کو فراموش کیے انھیں دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اس نے ایک بار پھر سے نیچے دیکھا جہاں اب کوئی نا تھا۔۔۔کچھ خائف ہو کر اس نے ماہی کو جھنجوڑا جس پر وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔۔

" او عنا تم!!!تم کب آئیں "

" تب ہی جب تم ابران بھائی میں گم تھیں ۔۔اور اتنی گم تھی کہ میری آمد کا پتا نہیں چلا تمہیں ۔۔۔۔"

وہ کچھ نروٹھے پن سے طنزیہ گویا ہوئی۔۔۔۔جس پر ماہی سر جھکا گئی۔۔۔۔

" خود کو بے نام منزلوں کی جستجو میں ہلکان مت کرو ماہی ۔۔۔اختتام پر موجود اندھی گلی تمیں اذیت دی گی" ۔

۔اس کے سر جھکانے پر اسنے سنجیدگی سے نصیحت کی۔۔ اس کی اتنی صاف گوئی ماہی کا دل چیر کر اسکی آنکھیں نم کر گئی۔۔۔

" یہ میرے بس میں نہیں ہے عنا۔۔۔۔ میں جب جب انھیں دیکھتی ہوں بے خود ہو جاتی ہوں۔۔ پھر بھی کیوں ان تک میری محبت کی آنچ نہیں پہنچتی؟؟  "۔

وہ اذیت سے لب بھینچ کر بولی۔۔

" وہ ایک پتھر ہیں ماہی۔۔۔تم خود ٹکرا کر پاش پاش ہو جائو  گی مگر انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔۔پلیز خود کو سنبھالو۔۔"۔۔

" میں ان سے محبت کرتی ہوں تو انھیں میرا ہو نا ہو گا ۔۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔ورنہ میں مر جائوں گی"۔۔

اس کی بات سنتی وہ ضدی لہجے میں چیخی تھی جس پر عنایہ نے دہل کر اسے گلے لگا لیا ۔۔۔اسکے بازوئوں میں چہرہ چھپائے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی چلی گئی۔۔۔

" وہ ضرور تمیں ملیں گے ماہی فکر مت کرو میری دعا ہے وہ تمہارا مقدر بنیں انشا اللہ"۔۔

اس کے جنون پر وہ خائف ہوتی اس کے حق میں دعا کر گئی مگر یہ دعا قبول ہونی تھی یا نہیں یہ وقت نے طے کرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آٹھ منزلہ عمارت کے ٹاپ فلور پر کونے میں بنے سیاہ اور سفید امتزاج  کے کمرے کا ماحول دھویں سے بوجھل تھا۔۔۔ گلاس وال کے سامنے کھڑا وہ سیاہ جینز شرٹ میں عام حلیے میں بھی ماحول پر چھایا ہوا تھا۔۔ لبوں میں سیگریٹ دبائے، گہری بھوری آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیاں لیے پیشانی پر بکھرے بال اور پیچھے بنی پونی ایک ہاتھ گلاس وال پر ٹکائے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا آنکھوں میں موجود سرخ ڈورے بے خوابی کے گواہ تھے ۔۔۔۔۔آنکھوں کے پردوں پر ڈراسہمہ سراپا روشن ہوا جس کی سیاہ آنکھیں   اس کی زندگی میں موجود اندھیرے سے مطابقت رکھتیں تھیں ۔۔۔۔

خوف سے لرزتے ہونٹ سانسوں کی تیزی سے گردن میں ہوتی ہلچل اور شہ رگ کے پاس چمکتا تل ہر بار کی طرح آج بھی اس کے وجود میں بے چینیاں بھر گیا۔۔ اسی بے چینی میں اس نے جلتا سیگریٹ مٹھی میں دبوچ لیا ۔۔ہاتھ میں ہوتی جلن سے وہ یکثر بے پرواہ تھا کہ یہ جلن اس آگ کے سامنے کچھ نہ تھی جو اس کے سینے میں بھڑک رہی تھی ۔۔

"U will be mine my angel soon !!! Very soon "

وہ مدھم آواز میں بڑبڑایا تو لہجے میں بلا کی جنوں خیزیاں موجود تھیں۔۔۔آنکھوں کی تپش جانلیوا تھی۔۔۔ یہ جنوں کسی کی بربادی تھا یا کچھ اور یہ صرف وہ وجود جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

________________________________________________

" میرا وہاں کیا کام بابا؟؟۔۔آپ خود چلے جائیں نا۔۔"

وہ لائونچ میں بیٹھا سیل چیک کر رہا تھا ان کے نئے حکم پر تلملہ اٹھا۔۔اور حکم بھی کیا؟؟ وہ ان کی جگہ کسی کالج میں چیف گیسٹ بن کر جائے جس پر وہ جھنجلا کر انکار کر گیا۔۔۔ اس کے کورے جواب پر وہ اسے گھور کر رہ گئے۔۔۔۔

" وہاں تم ہی جاہو گے بس بات ختم نو مور آرگیومنٹس۔۔۔"

اب کہ وہ اپنے مخصوص حکمیہ لہجے میں بولے جس پر وہ خون کے گونٹ پیتا سر ہلا گیا۔۔۔

" پر یہ آخری بار ہے سن لیں اپ۔۔"

اس نے نروٹھے پن سے وارنگ دی جو انھوں نے ہوا میں اڑا دی ۔۔۔

" بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔۔ تم ریڈی ہو جائو جا کر فاسٹ۔۔"

وہ اس کے چہرے کے بنے زاویوں پر مسکراہٹ چھپاتے سخت لیجے میں بولتے باہر نکل گئے۔۔۔

" ہائے۔۔۔ دنیا کے فضول ترین کاموں کے لیے انھیں میں ہی ملتا ہوں ۔۔میں بیچارہ معصوم اففف" 

وہ پیچھے دکھ سے بڑبڑا کر رہ گیا۔۔۔۔

_______________________________________________

گورنمنٹ  میڈیکل کالج کے آڈوریم میں ہلچل مچی تھی یہ ایک فئیر ویل سرمنی تھی۔۔۔جس میں رخصت ہونے والے کچھ بریلینٹ سٹوڈنٹس کو ان کی کارگردگی پر انعام دینا تھا۔۔  اس کے لیے پرنسپل نے شہر کے مشہور بزنس مین بابر شاہ کو مدعو کیا تھا ۔۔۔۔۔۔فنکشن شروع ہونے ہی والا تھا اس لیے لڑکیوں میں افراتفری مچی تھی۔۔۔

" یار علینہ مان جائو۔۔ اب ضویا نہیں آئی میم پریشان ہو رہی ہیں ایک کمپیرنگ ہی تو کرنی پلیز مان جائو"۔۔

ضویا کے نا آنے پر میم نے علینہ کو منانے کی زمیداری صبا کو دی جو اس کی بیسٹ فرینڈ تھی۔۔کمپیئرنگ کی وجہ علینہ کی پیاری آواز تھی ۔۔۔اسلیے کافی دیر سے وہ اسے منانے میں لگی تھی ۔۔۔۔

" بات کمپیئرنگ کی نہیں ہے صبا۔۔۔بات یہ ہے میں وہاں بولوں گی کیا؟؟ میری تیاری بھی نہیں ہے "

وہ کچھ تذبذب سے بولی۔۔۔۔۔

" یار یہ پیپر سامنے ہو گا تمہارے دیکھ کر بول دینا۔۔۔۔ اب بس بات ختم کرو اور یہ لو کچھ پڑھ لو اس میں سے"

اس کی نیم رضامندی پر وہ سرعت اسے پیپر تھما کر یہ جا وہ جا ہوئی ۔۔کہ یہ نا ہووہ مکر جائے۔۔۔

پیچھے وہ اس کی جلدبازی پر اسے کوستی رہ گئی۔۔۔اسے پورا یقیقن تھا کہ ضرور اسی نے میم کو بڑکایا ہو گا۔۔۔

فنکشن شروع ہو چکا تھا۔۔وہ سیاہ ڈنر سوٹ میں اپنی ٹھٹھکا دینے والی پرسنیلٹی سمیت اکڑ کر سٹیج کے سامنے موجود صوفے پر بیٹھا تھا۔۔۔ اور اندر ہی اندر پیچ وتاب کھا رہا تھا ۔اس سے پہلے وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگتا  اس کے کانوں سے ایک خوبصوت آواز ٹکرائی۔۔۔جس پر اس نے سامنے سٹیج پر دیکھا ۔۔۔

سیاہ فراک پہنے ہمرنگ حجاب کیے مائک کے سامنے کھڑی وہ کچھ کہہ رہی تھی۔۔جسے سمجھنے سے وہ غافل رہا کہ وہ تو اس کے نقوش ازبر کرنے میں مگن تھا شہد رنگ آنکھیں کھڑی ناک بھرے بھرے ہونٹ اور ان کے پاس چمکتا سیاہ تل براق کے دل کی دنیا تہہ وبالا کر گیا۔۔۔ ایک لمحے کی بات تھی جسے یورپ کی خوبصورتی متوجہ نا کر پائی وہ سامنے موجود عام سے نقوش والی  لڑکی کے سامنے ہار گیا۔۔۔ اپنی سوچوں میں گم وہ اس کے سٹیج سے ہٹ جانے پر انجان ہی رہا ۔۔۔تالیوں کی آواز پر اسنے چونک کر سامنے دیکھا جہاں اسکی غیر موجودگی اسے پر وہ اسے کچھ بے چین کر گئی۔۔۔۔۔۔


کافی بے چینی سے اس نے پورا فنکشن اٹینڈ کیا۔۔کیونکہ اس تمام عرصے میں وہ اسے نظر نہیں آئی تھی۔اور آخر میں جب پرائیز دینے کے لیے اس نے اسے دعوت دی تو وہ کھل اٹھا کیونکہ سامنے سٹیج پر وہ پری پیکر موجود تھی۔۔۔۔۔نظریں اس پر جمائے سرعت سے اٹھتے وہ اپنی مغرور چال چلتا سٹیج کی طرف بڑھا ۔۔۔ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نظر اس پر سے نا ہٹی جس پر علینہ کا چہرا سرخ پڑ گیا ۔۔۔۔انعامات دے کر اس نے مختصر سی تقریر کی۔۔۔اور پھر فنکشن اختتام پزیر ہوا۔۔۔۔جبکہ اس دوران وہ سٹیج سے اتر کر اندر ہال کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔وہ اس کے پیچھے جانا چاہتا تھا مگر پرنسپل کی بات سننے کے لیے رک گیا ۔۔جب گفتگو طویل ہونے لگی تو ضروری فون کال کا کہہ کر اندر بڑھا۔۔۔جہاں وہ اسے اپنی دوست سے لڑتی نظر آئی۔۔۔

" تم مجھے تھوڑی دیر اور رکنے کا کہہ رہی ہو؟؟ اگر میں اور رکتی نا تو اس چیف گیسٹ کا منہ توڑ آتی ۔۔ڈھیٹ کیسے سب کے سامنے گھور رہا تھا "۔۔

وہ اشتعال میں مدھم  آواز میں چیخی تھی۔۔۔ اس کی بات سن کر براق نے بےساختہ ابرو اٹھائے ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے صبا کوئی جواب دیتی اسکی کی نظر سامنے اٹھی جہاں براق کھڑا تھا۔۔۔۔اسکی۔موجودگی پر اس نے انکھوں سے علینہ کو خفیف سا اشارہ دیا جسے سمجھتی وہ مڑی تھی اور پیچھے اسی ٹھرکی کو دیکھ کر اس کا پارہ ہائی ہوا تھا ۔۔۔

اسکے یوں اپنی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر اس نے سوالیہ انداز میں ابرو اچکایا۔۔۔اور اسے دیکھ کر مسکراتا براق گڑبڑا کر سیدھا ہوا تھا۔۔۔۔۔

" وہ دراصل میں یہاں آپ سے کچھ بات کرنے آیا تھا کیا آپ دو منٹ میری بات سن سکتی ہیں؟؟"۔۔

اسنے سنجیدگی سے بات کا آغاز کیا جس پر علینہ خاموشی سے کھڑی رہی گویا بات کرنے کی اجازت دی ہو ۔۔۔۔

" وہ ۔۔میں ۔۔بات دراصل یہ ہے کہ۔۔۔آپ کا نام کیا ہے؟؟"

اس کے اتنے ٹھنڈے انداز پر وہ اپنی بات بھولنے لگا اور ایک بےتکا سوال کیا۔۔۔جس پر علینہ نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ صبا اس کی پتلی حالت پر مسکرا رہی تھی ۔۔

کیوں؟؟ آپ نادرہ سے تعلق رکھتے ہیں جو میرا نام جاننا آپ کے لیےضروری ہے "۔۔

علینہ کے الٹے جواب پر اسے اپنی غلطی کا اندازہ ہوا ۔۔

" میرا نام براق شاہ ہے میں کوئٹہ کا رہنے والا ہوں۔۔۔ اور یہاں اپنے بابا کی جگہ آیا تھا۔۔رہی بات آپ کو دیکھنے کی تو اس کی سیدھی وجہ یہ ہے کہ مجھے آپ پہلی نظر میں اچھی لگی ہیں اور شائد محبت بھی ہو گئی ہے "۔۔

اورایک گہرا سانس لیتے اس کے تل کو فوکس میں رکھ کر وہ روانی سے بولتا چلا گیا جبکہ اسکی بات اور اسکی بے ہودہ نظروں کو اپنے تل پر مرکوز دیکھتے اس کی اس ڈھٹائی پر علینہ کی آنکھیں صدمے سے کھل گئیں۔۔۔ اور وہ غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ گئی ۔۔۔

" ہو گیا آپ کا ۔۔۔۔پہلی بات مجھے آپ میں رتی برابر انٹرسٹ نہیں ہےاور دوسری بات محبت آپ جیسے امیر زادوں کو ہر دوسری لڑکی سے ہو جاتی ہے ۔۔۔۔میں آپ کی ٹائپ کی نہیں ہوں اور ہماری کلاس میں بہت فرق ہے اس لیے اپنی محبت کو اپنی جیب میں رکھ کر اپنا راستہ ناپیے پلیز۔۔۔نائو اکسکیوزمی۔۔۔"۔۔ 

 سخت طیش میں وہ اسکی اچھی خاصی طبعیت صاف کر کے صبا کے ساتھ  مڑی گئی۔۔۔جبکہ پیچھے وہ اسکی باتوں کو سوچتا صدمے سے کھڑا رہ گیا۔۔۔اسے روکا تک نہیں کیونکہ یہ جگہ مناسب نا تھی اس لیئے اس کی باتوں کا ادھار وہ بعد میں چکانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" یار کتنی دیر ہو گئی ہے اس نے کیا امریکہ سے ڈانس کے لیے آنا تھا"۔۔

انھیں یہاں آئے کافی دیر ہو گئی تھی مگر رقص شروع نہیں ہوا تھا۔۔۔ آتی جاتی عورتوں کے بے باک قہقے معنی خیز اشارے بوبی کا فشار خون ںڑھا رہے تھے اس لیے وہ پاس بیٹھے دانی سے بولا جو پوری طرح ماحول کو انجوئے کر رہا تھا۔۔۔

" ہو جائے گا شروع۔۔۔۔اور تو تھوڑا صبر نہیں کر سکتا خاص چیزوں میں وقت لگتا ہے۔۔۔اسلیے اب منہ بند کر کے بیٹھ۔۔"۔۔۔

اس کے بیزار لہجے پر دانی نے اسے گھرکا تھا جس پر وہ اسے تگڑی گھوری سے نواز کر خاموشی سے سامنے دیکھنے لگا۔۔۔۔

اچانک ہال کی لائٹیں مدھم ہو گئیں اور بہت سی لڑکیاں سہج سہج کر چلتیں ہال کے فرش پر آ کر بیٹھ گئیں۔۔۔۔ اور پھر وہ اپسرا بھی سرخ جوڑے میں ملبوس ان کے درمیان آ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ اس نے گھونگٹ اوڑھ رکھا تھا صرف ہاتھ اور پائوں نظر آتے تھے۔۔۔ وہ پائوں میں پہنے گھنگھروں کو بڑی مہارت سے حرکت دے رہی تھی ۔۔۔۔۔موسیقی کے شروع ہوتے ہی وہ سب کھڑیں ہو کر ڈانس کے سٹیپ لینے لگیں۔۔۔۔سرخ جوڑے والی نے جانلیوا سٹیپ لیتے اپنا گھونگٹ الٹایا اور وہ جو یہ سب بیزاری سے دیکھ رہا تھا اس کا چاند چہرہ دیکھ کر ساکت ہو گیا ۔۔۔آنکھیں اس کے چہرے کا طواف کر رہیں تھیں۔۔مہارت سے سجے نقوش بوبی کی دھڑکنوں کو بڑھا رہے تھے اور وہ بس اپنی دھڑکنوں کے شور پر حیران تھا کہ جنہوں نے پہلے کبھی اپنی بیوی  کو دیکھ لے نہیں بدلی وہ آج کیسے انھیں بے بس کر گئیں ۔۔۔اپنے دوبچوں کو سوچتے اس نے نظر ہٹانی چاہی پر یہ اب ممکن نا تھا۔۔۔دفتا زونی کی نظر اس پر اٹھی۔۔۔جس پر اب تک کشمکش میں گھرا بوبی پوری طرح ہار گیا ۔۔پوری طرح ان سیاہ نین کٹوروں میں ڈوب گیا ۔۔۔۔جس سے نکلنے میں اسے صدیاں لگنیں تھیں۔۔۔۔۔

" اوئے اٹھ۔۔۔ ختم ہو گیا ہے سب۔ کب سے بے چین تھا کہ کب واپس چلیں تو اب کیوں جم کر بیٹھا ہے "۔۔

وہ دل اور دماغ کی جنگ میں اتنا محو تھا کہ کب سب ختم ہوا اسے پتا بھی نا چلا اور اب جیڈئ کے ہلانے پر وہ چونک کر حواسوں میں آیا سامنے دیکھا جہاں سب تھیں پر وہ نہیں تھی ادھر ادھر دیکھا پر بے سود۔۔۔ وہ کہیں نہیں تھی

اپنی بات پر ہونکوں کی طرح اسے ادھر ادھر نظر دوڑاتے دیکھ وہ دونوں حیران تھے ۔۔۔۔

" کسے ڈھونڈھ رہا ہے ؟؟؟۔۔۔بوبی بول نا یار کیا دیکھ رہا ہے"۔

اب کے دانی بھی فکرمندی سے گویا ہوا جس پر اس نے انھیں دیکھا اور ان کے پریشان چہرے دیکھ کر فورا بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھ کھڑا ہو ۔۔۔

" کچھ نہیں۔۔چلو چلتے ہیں مجھے گھٹن ہو رہی ہے"

وہ عجیب سے لہجے میں کہتا ان کے کچھ کہنے سے پہلے باہر نکل گیا اور وہ دونوں اس کے عجیب وغریب رویے پر حیران پریشان اس کے پیچھے باہر نکلے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

_______________________________________________

" اور بھئ برخوردار آگئے کچھ ہوا کیا؟؟؟ کسی نے سالم نگلا تمیں۔۔۔ "

وہ واپس آ کر لاونچ میں ہی صوفے پر نیم دراز اسکے خیالوں میں گم تھا کہ بابر صاحب کی بات سن کر دانت پیستا سیدھا ہوا ۔۔۔اسے اس لڑکی کے ساتھ بابا پر بھی غصہ آیا جنہوں نے اسے وہاں بھیجا نا وہ وہاں جاتا نا اس کی نظر علینہ پر ٹہرتی نا وہ اس کے ہاتھوں اتنا بے عزت ہوتا ۔۔

" جی کسی نے بھی نہیں نگلا ۔۔۔آپ نے تو آرام کیا ہو گا "

وہ تلملا کر بولا جس پر سامنے بیٹھے بابر صاحب نے ہاتھ جھلایا

" ایسا ویسا اچھی نیند آئئی تھی تم سنائو کیسا رہا اکسپیرینس "

بہت اچھا اتنا کہ میں بتا نہیں سکتا ۔۔۔ہنہ"

وہ بظاہر مسکرا کر بولا مگر حقیقت میں وہ سب کتنا خوشگوار تھا یہ تو براق کا دل جانتا تھا۔۔۔۔

چلیں میں چلتا ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر ریسٹ کر کے رات کو گائوں کے لیے نکلیں گے۔۔۔"

وہ انھیں یاد دہانی کروا کر کمرے کی طرف مڑ گیا انھیں وہاں آئے چار دن ہو چکے تھے اب تک تو بی جان ناراض ہو چکی ہوں گی اس لیے وہ رات کو نکلنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔۔۔۔۔

کمرے میں آ کر اس نے ایک نمبر ملایا۔۔۔

" ہاں اسد مجھے ایک لڑکی کی ڈیٹیل چاہیے پک واٹس ایپ کرتا ہوں ۔۔۔اور یہ میرے واپس آنے تک ہو جانا چاہیے۔۔سمجھ گئے"۔۔

اس نے اپنے ماتخت اسد کو علینہ کی انوٹیگیشن کے لےلگا دیا اور اسے چوری چھپے لی گئی تصویر سینڈ کی۔۔۔ اس تصویر  میں اس کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔

" تم بہت جلد میرے پاس ہو گی میری شیرنی ۔۔بہت جلد۔۔"

وہ اس کی تصویر کو دیکھ کر خمار الود لہجے میں بولا اس کے لہجے کی شدت اس کے مظبوط ارادوں کا پتا دے رہی تھی۔۔۔۔ 

________________________________________________

" تم ارام سے بات کا کہ رہی ہو۔۔۔ میں اس بکواس پر اس کا منہ توڑ دیتی "۔۔

وپسی پر جب صبا نے براق کی حمایت کی تو وہ بھڑک اٹھی ۔

" وہ کافی نرمی سے بول رہاتھا کیا ہوتا اگر تم آرام سے اس کی بات سن لیتی "۔۔

اس کے بھڑکنے پر وہ سنجیدگی سے بولی۔۔۔

" ہاں نرمی سے بات کرتی تاکہ وہ اور چوڑا ہو جاتا ہم مڈل کلاس لڑکیاں یہ سب افورڈ نہیں کر سکتیں صبا۔۔۔ ان امیر زادوں کا کیا ہے ٹشو پیپر کی طرح استمال کر کے پھینک دیتے ہیں "۔۔

وہ اس کی بات پر تلخی سے گویا ہوئی ۔۔ جس پر صبا کو چپ لگ گئی کیونکہ یہ ساری باتیں سچ تھیں اپنے پوائنٹ کو آتے دیکھ وہ اس سے گلے مل کر گال چومتی بس میں سوار ہو گئی ۔۔۔

پیچھے صبا بس کو تب تک دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی وہ یہ سب جانتی تھی پر وہ علینہ کو خوش دیکھنا چاہتی تھی اور براق کی آنکھوں میں اسے سچائی نظر آئی تھی پر یہ بات اسے کون سمجھاتا وہ سر افسوس سے ہلاتی اپنے پوائنٹ کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

____________________________________________________

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Dar e Yaar  Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dar e Yaar  written by Sara  Shah.  Dar e Yaar by Sara Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment