Pages

Wednesday 22 June 2022

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 3 Complete PDF

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 3 Complete PDF

RJ  Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Tawaif  Based Novel Enjoy Reading...

Sulagti Yadin K Hisar Main By RJ 

Novel Name: Sulagti Yadon K Hisar Main

Writer Name: RJ

Category: Episode Novel

Episode No: 3

سلگتی یادوں کے حصار میں

ازقلم: آر جے

قسط  3

” تُو مان نہ مان حاوی۔۔۔وہ آفیسر تجھ سے محبت کرنے لگا ہے۔۔۔“  وہ  دونوں اِس وقت گراؤنڈ میں بیٹھ کر چپس کترنے کے ساتھ ساتھ کتاب آگے رکھ کر گپیں بھی ہانک رہی تھیں جب پھر سے نیناں کا دھیان آئل کی جانب کھنچتا چلاگیا۔

اُسکی بات حاویہ کے حرکت کرتے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں بھی پل بھر کو رکی تھیں۔

نظروں کے سامنے بےاختیار عائل کا وجیہہ چہرہ گھوما تھا جو اُسے ساری رات جگائے رکھنے کا سبب بنا تھا۔

مگر بظاہر چہرے پر سخت تاثرات لیے اُسنے گردن موڑکر نیناں کو گھورا۔

”اور تُو مان نہ مان نینی۔۔۔۔مجھ سے دو کرارے جھانپڑ کھاکر ہی تیرا دماغ ٹھکانے پر آئے گا۔۔۔“  خود کے بدلے بدلے احساسات پر قابو پاتی وہ وارنگ دینے والے انداز میں بولی۔

شکر تھا کہ اُسنے نیناں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ کل رات کو وہ کافی دیر تک جاگتی رہی تھی ورنہ وہ میڈم اُسکا خوب ریکاڈ لگاتی۔

اُسکے کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھی نیناں تھوڑاسا پیچھے کھسکی مبادا تھپڑ ہی نہ پڑجائے۔

” کیا یار حاویہ۔۔۔تم اتنی بےمروت کیوں ہو آخر۔۔۔؟؟تمھارے یہی انداز مجھے زہر لگتے ہیں قسمے۔۔۔اُسنے دو دفعہ تمھاری جان بچائی ہے۔۔۔دو دفعہ۔۔۔لیکن تم نے ایک بار بھی اُسکو تھینک یو بولنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔اگر میں ہوتی ناں تمھاری جگہ تو اب تک دس بار تھینک یو بول چکی ہوتی اے۔ایس۔پی عائل حسن کو۔۔۔۔“  اُسکے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ جھپٹ کر وہ مزید فاصلے بناکر اُسکے مقابل بیٹھتی ہوئی مسلسل اُسکی کلاس لے رہی تھی۔

نیناں کی باتوں میں وزن محسوس کرتی حاویہ کو چند لمحوں کے لیے چُپی لگی تھی۔

”یار۔۔۔دونوں ٹائم پر میں ڈری ہی اتنا ہوئی تھی کہ اُسکا شکریہ ادا کرنا دماغ سے نکل گیا میرے۔۔۔۔“  منہ بسور کر بولتے ہوئے اُسنے اپنی شرمندگی کو مٹانا چاہا تو نیناں اُسکے بونگے بہانے پر اش اش کراٹھی۔

”ہاں ہاں۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔جیسے کہ میں تو کچھ جانتی ہی نہیں ناں تمھارے بارے میں۔۔۔تمھاری رگ رگ سے واقف ہوں میں محترمہ اسی لیے میرے سامنے جھوٹ بولنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔سمجھی۔۔۔؟؟“  شروع میں مصنوعی مٹھاس سے بولتی نیناں کے تیور ایکدم سےسختی میں ڈھلے تھے۔

”اچھا ناں بس۔۔۔اگر پھر کبھی وہ آفیسرمیرے سامنے آیا۔۔۔جوکہ مجھے پتا ہے کہ نہیں آئے گا۔۔۔تو میں اُسے تھینک یو بول دوں گی۔۔۔اوکے۔۔۔“  شکست خوردہ انداز میں کہتے ہی اُسنے بڑے اطمینان سے اُسکے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ آگے ہوکر جھپٹا مگر خالی پیکٹ ہاتھ میں آتے ہی حاویہ کا موڈ پھرسے بگڑا۔

جواب میں نیناں نے پورے استحقاق سے اپنی سفید بتیسی کی نمائش کی تھی جو اُسے بڑے غور سے گھورنے میں بزی تھی۔

”یہ بھی کھالو بھوکی۔۔۔۔“  خالی پیکٹ مٹھی میں گھچومچھو کرکے واپس اُسی کی جانب اچھالتی وہ دانت پیس کر بولی تو نیناں مزید ہنسنے لگی۔

”نہیں یہ تمہی کھالو۔۔۔میں اتنی بھی بےمروت نہیں ہوں۔۔۔تمھاری طرح۔۔۔“  اُسے مزید چڑاتے ہوئے وہ وہاں سے اُٹھ کر بھاگی تھی کیونکہ حاوی کتاب بند کرکے اُسکے سارے انجر پنجر ڈھیلے کرنے کے لیے اپنے بازو اوپر چڑھا کر چکی تھی۔

”ٹن ٹن ٹن۔۔۔۔۔“  اُن دونوں کو ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے ابھی چند ہی پل گزرے تھے جب اچانک بریک ٹائم ختم ہونے پر بیل بجنا شروع ہوگئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

رات کی سیاہی چہار سو اپنے پنکھ پھیلا چکی تھی لیکن حویلی نما کوٹھے میں جگمگ کرتی روشنیاں اسکے برعکس دن کا سا سماء پیش کررہی تھیں۔

کچھ دیر پہلے ہی بڑے سے ہال میں منعقد ہونے والی رنگین محفل اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔تابین بائی کی نگرانی میں سرخ  کارپٹ پر بکھرے ہزاروں کے نوٹ اکٹھی کرتی لڑکیاں سارا مال باری باری اُنکے کے حوالے کررہی تھیں جب رابی اپنے ڈیڑھ گھنٹے کے رقص پر شدت سے تھکاوٹ محسوس کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔

ابھی وہ پلنگ پر براجمان ہوتی صحیح سے سکون کا سانس بھی نہیں لے پائی تھی جب ایکدم سے دروازے کے وا ہوتے پٹ اُسکا سارا دھیان اپنی جانب کھینچ گئے۔

”واللہ کیا کہنے۔۔۔میں جانتی تھی۔۔۔۔تم میرے بنا دو دن بھی نہیں نکال پاؤگے۔۔۔۔“  سالار خان کو کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کرتا دیکھ کروہ گھنگرؤں کو پاؤں سے اتارتی کھل کر مسکرائی۔

اُسکے لہجے میں مان تھا یا غرور۔۔۔۔؟؟

پلٹ کر اُسکی جانب آتا سالارخان اُسکے تاثرات بغور دیکھ کر بھی سمجھ نہیں پایا تھا۔

”تمھاری بی بی جان کو پیسے دے کر آیا ہوں۔۔۔“  اُسکے پاس پلنگ پر بیٹھ کر بظاہر نرمی سے بولتا وہ اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے لگا جو کچھ دیر پہلے تابین بائی کے ساتھ ہوتی بحث کی وجہ سے امڈآیا تھا۔

”تو یعنی میری قیمت ادا کرکے آئے ہو۔۔۔۔“  خود کی ذات کے بارے میں تلخ الفاظ بولتی وہ ہولے سےمسکرائی تو سالار خان ضبط سے اپنے لب بھینچ گیا۔

اسی طرح کے جملے تھے جو اُسے زہر لگتے یا شاید کچھ وقت سے لگنے لگے تھے۔

تبھی وہ رنگین محفلوں کا حصہ بننا بھی لگ بھگ چھوڑ چکا تھا جہاں رابی کے لیے بہت سی قابلِ اعتراض تعریفیں کی جاتی تھیں۔

لیکن اُسکے علاوہ یہاں کسی کو اِسکی رتی بھر بھی پرواہ نہیں تھی۔یہاں تک کہ خود رابی کو بھی نہیں۔یہی وجہ تھی کہ وہ دل کے ہاتھوں بُرا پھنسا تھا۔

اگر اُسکا بس چلتا تو اُسے اس بدنامی کی دنیا سے بھگا کرہمیشہ کے لیے اپنی تنہا مگرحسین دنیا میں لے جاتا۔

لیکن جس ذی روح کے لیے یہ سب سے اہم مرحلہ تھا وہی اس تقاضے پر سرے سے انکاری تھی اور وہ ہربار بےبس ہوکررہ جاتا۔

”میں نے کبھی بھی کسی کو تمھاری قیمت ادا نہیں کی رابی۔۔۔اور نہ ہی تم سے ملنے کے لیے اسکا پابند ہوں۔۔۔بس تابین بائی کی بکواس برداشت نہیں کرسکا تو نوٹوں سے اُسکا منہ بھرآیا۔۔۔۔پلیزمیرے سامنے ایسی فضول گوئی سے پرہیز کیا کروتم۔۔۔۔“  بےاختیار اُسکی نازک کلائی کو اپنی سخت گرفت میں لیتا وہ سرد لہجے میں گویا ہوا۔

”اور تم بھی  بی بی جان کے معاملے میں اپنی حد میں رہنے کی کوشش کیا کرو سالار خان۔۔۔۔“  رابی جہاں اُسکے عزت دینے والے انداز پر مسکرائی تھی وہیں تابین بائی کے خلاف اُسکی بات سن کر پل میں اپنا ہاتھ اُسکی نرم پڑتی گرفت سے چھڑواتی سیخ پا ہوئی۔

اُسکی ناراضگی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے سالار خان کے وجود میں بےچینی سی بھرنے لگی تو وہ بےاختیارنرم پڑا۔

”واللہ۔۔۔۔میرے پسندیدہ رنگ میں تم خفا خفا سی اور بھی پیاری لگنے لگتی ہو۔۔۔“  اُسکی من موہنی سی صورت کو نظروں میں بھرتا وہ پُرشوخ لہجے میں مسکراتے ہوئے بولا جو آج بھی گہرے سبز رنگ کی فراک اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس ہربار کی طرح اس بار بھی اُسکا دل دھڑکاگئی تھی۔

رابی نے آنکھوں میں شکوہ لیے اُسکی جانب دیکھا۔

”واللہ۔۔۔کیا کہنے تمھارے بھی سالار خان۔۔۔تم اور تمھاری دن بدن بڑھتی گستاخیاں کسی دن مجھے تم سے بہت دور کردیں گی۔۔۔۔“  تابین بائی کے حوالے سے اُسکی بدلحاظی اور اکھڑلب و لہجے پر چوٹ کرتی وہ مزید دیر تک اپنی ناراضگی برقرار نہیں رکھ پائی تھی تبھی اپنے مخصوص لہجے میں بولتی اُسکی مونچھوں کو تاؤ دینے لگی جوکہ مقابل کے وجیہہ چہرے پر خاصی جچتی تھیں۔

البتہ پنکھڑی لبوں سےمسکراہٹ ہنوز سمٹی ہوئی تھی۔

”واللہ۔۔۔ایسا ظلم مجھ معصوم پر مت کیجیے گا۔۔۔ورنہ آپکا یہ دیوانہ کہیں کا نہیں رہے گا میرے دل کی ملکہ۔۔۔“  اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتا وہ قدرے سنجیدگی سے بولا تو رابی اُسکے چوڑے سینے پر دھپ رسید کرتی اس بارکھلکھلا اُٹھی۔

”تمھارا اور میرا ساتھ بالکل شہزادے سلیم اور انارکلی جیساہے۔۔۔جسے یہ ظالم سماج کبھی ایک نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔“  اپنے تعلق کو تاریخی قصے سے جوڑتی وہ بڑی دور کی کوڑی لائی تھی۔

”تم غلط بول رہی ہورابی۔۔۔انارکلی نے تو شہزادے سلیم کی خاطر اپنی جان تک کی بازی لگادی تھی۔۔ لیکن یہ والی انار کلی اپنے سلیم کی خاطر بدنامی بھری زندگی چھوڑنے تک کو تیار نہیں ہے۔۔۔“  اُسکی بات کی شدومد سے نفی کرتا وہ شکوہ کرگیا تو رابی کے لبوں پر رینگتی مسکراہٹ معدوم پڑتی سمٹ گئی۔

”مت چلو ایسی راہ پر جسکی کوئی منزل نہیں ہے۔۔۔تھک جاؤ گے۔۔۔“  جواب میں اُسکے خالی دامن میں ناامیدیاں بھرتی وہ قدرے مدھم لہجے میں بولتی اگلے ہی پل اُسکے کندھے سے لگتی آنکھیں موندگئی۔

سالار خان نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئےاُسکی یہ ادا ملاحظہ کی تھی جسکا صاف اشارہ تھا کہ وہ مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ماسوائے چیختی خاموشی کے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ دونوں اردگرد سے بےبہرہ آرام آرام سے سیڑھیاں چڑھتی ساتھ ساتھ مسلسل باتیں بھی کیے جارہی تھیں۔اُنکا اگلاسٹاپ انگلش کی کلاس تھی جس کا لیکچر شروع ہونے میں بس کچھ ہی منٹس باقی بچے تھے۔

”یہ تو بہت زبردست نیوز ہے حرمین۔۔۔مجھے تو اب بھی یقین کرنا مشکل ہورہا ہے کہ تمھیں تمھارے خوابوں کا شہزادہ مل گیا ہے۔۔۔واہ یار۔۔۔اٹس امیزنگ۔۔۔“  علیزہ کے لہجے میں خوشی سے ذیادہ حیرانی تھی۔

”منہ میٹھا کرلیا تم نے لیزی۔۔۔اور تمھیں ابھی بھی یقین نہیں آرہا۔۔۔رکو زرا۔۔۔۔“  اُسکی بےیقینی پر چڑتی حرمین نے اُسکے بازو پر زور کی چٹکی بھری تو وہ آخری اسٹیپ چڑھتی بلبلااٹھی۔

”اُوئی چوَل۔۔۔درد ہوتا ہےیار۔۔۔“  سرعت سے اُسکا ہاتھ جھٹکتی وہ اپنا بازو مسلنے لگی تو حرمین اُسکے بگڑے تیور دیکھ کر ہنس پڑی۔

”اب بولو۔۔۔یقین آیا۔۔۔؟؟؟یا میں پھر سے۔۔۔۔“  علیزہ سے بھرپور تصدیق مانگتے ہوئے اُسنے پھر سے اپنی انگلیوں کو مخصوص انداز میں حرکت دیتے ہوئے اُسکے قریب کیا تو وہ اچھل کر دور ہوئی۔

”نہیں نہیں پلیز۔۔۔مجھے یقین آگیاہے۔۔۔۔ایک سو ایک پرسنٹ یقین آگیاہےکہ تمھارا ذباب جیجو سے رشتہ پکا ہوچکا ہے۔۔۔اب بس چٹ منگنی اور پٹ بیاں کی دیر ہے۔۔۔“  فرفربولتے ہوئے آخر میں علیزہ کا انداز اُسے چھیڑنے والا تھا جس پر وہ اُسے گھورکر رہ گئی۔

”تو بتاؤ پھر کب تمھیں انگوٹھی پہنانے آرہے ہیں وہ۔۔۔۔؟؟“  کلاس کی جانب مڑتے ہوئے اُسنے سوال داغا۔

”بس کچھ ہی دنوں تک۔۔۔۔“  وہ شرماکر مسکراتی ہوئی بےاختیار نگاہیں جھکاگئی۔

”ہائے میں مرجاواں۔۔۔۔آریو بلشنگ حرمین۔۔۔۔“  اُسکے سانولے رنگ گالوں پر ہلکی ہلکی سرخائی دیکھتی علیزہ خوشی سے اچھلی جس پر گڑبڑاتی ہوئی وہ ایک بار پھر سے اُسکے بازو پہ ہلکی سی چٹکی بھرتی کلاس میں بھاگ گئی۔

”اُففف۔۔۔حرمین کی بچی۔۔۔۔روکو ذرا تم۔۔۔۔ابھی بتاتی ہوں تمھیں۔۔۔۔“  علیزہ بھی غصے سے اپنا بازو مَلتے تیزی سے اُسکے پیچھے لپکی تھی۔

جبکہ چند قدموں کے فاصلے پر چلتا فواد اپنی حیرانگی پر قابو پاتا جیبوں میں ہاتھ پھنسائے ہوئے جس خاموشی کے ساتھ وہاں آیا تھا اُسی خاموشی سے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف نکلتا چلا گیا۔

کیونکہ جو بھی مرچ مصالحہ اُسے چاہیے تھا بنا کسی مشکل کے وہ بڑی آسانی سے اُسے حاصل کرگیا تھا۔

اب کمی تھی تو بس اِس دھماکہ دار خبر کے ذریعے شام کو مرچ مصالحہ لگانے کی۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

عائمہ بیگم لان میں بیٹھی مزے سے چائے پی رہی تھیں جب وہ بھی گاڑی سے اتر کر سیدھا اُنہی کے پاس چلاآیا۔

”اسلام علیکم موم۔۔۔۔“  عائل سر سے کیپ اتارتا اُن کے سامنے والی چیئرپر بیٹھ گیا۔

”وعلیکم اسلام۔۔۔وعلیکم اسلام۔۔۔۔جیتے رہو میرے بچے۔۔۔۔آمنہ۔۔۔جلدی سے چائے کا ایک کپ بناکر لےآؤ۔۔۔“  بڑی چاہت سے اُس پر سلامتی بھیجتی ہوئی عائمہ بیگم نے ساتھ ہی ملازمہ کی انیس سالہ بیٹی کو آواز لگائی۔

”تھینکس موم۔۔۔۔میرا بھی یہی دل چاہ رہا تھا۔۔۔۔“  عائل ہلکی ہلکی تھکان محسوس کرتا نرمی سے گویا ہوا تو اپنا خالی کپ جھک کر ٹیبل پر رکھتی وہ کھل کر مسکرا اُٹھیں۔

”خیریت۔۔۔آج تو بڑی جلدی ڈیوٹی سے واپس آگئے ہو تم۔۔۔سب ٹھیک تو ہےناں بیٹا۔۔۔۔؟؟“  اُسکے وقت سے بہت پہلے ہی گھر آنے پر وہ اپنی حیرانگی مزید چھپانہیں پائی تھیں۔

”جی الحمداللہ سے سب کچھ ٹھیک جارہا ہے۔۔۔ایکچولی آج مجھے عبدالجبار صاحب نے ملنے کے لیے خاص طور پر اپنے آفس بلایا تھا۔۔۔کافی دن پہلےسرکاری زمین کو لےکر کچھ ایشو بن گیا تھا۔۔۔اور اب وہ کیس تقریباً سولو ہوچکا ہے۔۔۔تو اسی پر وہ میرا شکریہ اداکرنا چاہتے ہیں۔۔۔سوچا پہلے گھر سے فریش ہولوں پھر اُنکی طرف بھی چلا جاؤں گا۔۔۔“  گہرا سانس بھرتے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاکر اُنھیں سنوارنے کی کوشش کرتا وہ آرام سے بتاتا چلاگیا۔

”یہ تو تم نے بہت اچھا کیا بیٹا۔۔۔پہلے صحیح سے فریش ہولو پھر آرام سے چلے جانا۔۔۔“  عائمہ بیگم کے نرم لہجے میں فکر سی سمٹ آئی۔

تبھی آمنہ لال دوپٹے میں خود کو اچھے سے ڈھانپے ہاتھ میں گرم چائے کا کپ پکڑے وہاں آگئی۔

عائمہ بیگم نے ایک حقارت زدہ نظر اُس پر ڈال کر اپنا منہ پھیر لیا جبکہ اتنے دنوں بعد اُسے اپنے روبرو دیکھ کر عائل کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھرآئی۔

”صاحب جی۔۔۔آپکی چائے۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کی موجودگی میں ذرا سا گھبراتی وہ کپ عائل کی جانب بڑھاگئی۔

”شکریہ مُنی۔۔۔۔اور بتاؤ۔۔۔کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی ہوئی ہے ناں۔۔۔۔؟؟“  احتیاط سے کپ پکڑتا وہ اُسکے بارے میں کسی ٹیچر کی طرح پوچھ گچھ کرنے لگا تو وہ اُسکے طرز تخاطب اور بات پر پرجوش سی مسکرادی۔

عائل اپنے کاموں میں بزی ہی اتنا ہوتا تھا کہ کبھی کبھار ہی اُن دونوں میں کھل کر کوئی بات چیت ہوپاتی۔

اور یہ چیز  بھی عائمہ بیگم کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی جبکہ شام تو اُسے اور اُسکی ماں کو کام کے علاوہ بلانا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔

”جی صاحب۔۔۔رات کو فارغ ہوتے ہی میں اپنی کتابیں لےکر بیٹھ جاتی ہوں پڑھنے۔۔۔۔“  اگرچہ سکول میں مڈل کرنے کے بعدسے اُسکی تعلیم کا سرکٹ ختم ہوچکا تھا لیکن یہ عائل کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ اپنے شوق کو گھر بیٹھے ہی پورا کررہی تھی۔

”ویری گڈ۔۔۔یہ تعلیم ہی ہوتی ہے جو انسان کو بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے۔۔۔یہ سنہری موقع کبھی ضائع مت ہونے دینا۔۔۔۔“  وہ  مسرور سا چائے کے گھونٹ بھرتا اُسے مزید سمجھانے لگا تو وہ بھی ساتھ ساتھ تائید میں سرہلانے لگی۔

”جی صاحب۔۔۔۔میں خوب من لگا کر پڑھوں گی۔۔۔اور جس طرح آپ پولیس آفیسر بن کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں اسی طرح میں بھی ڈاکٹرنی بن کر دوسروں کی مددکیا کروں گی۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کی غصیلی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرنے کے باوجود بھی وہ بخوشی اپنی دلی خواہش کا اظہار عائل کے سامنے کرگئی۔

”ماشاءاللہ بہت ہی اچھے خیالات ہیں تمھارے مُنی۔۔۔ انشاءاللہ ایک دن ایسا ضرور ہو گا۔۔۔۔لیکن میری بار میں خود بیمار مت پڑجانا فیوچر کی ڈاکٹرنی صاحبہ۔۔۔“  اُسکے نیک خیالات جان کر خوشدلی سے مسکراتا وہ آخر میں شرارتی انداز اپناگیا۔

جہاں عائمہ بیگم نے عائل کی آخری بات پر برہمی لیے اُسکی جانب دیکھا وہیں آمنہ دل پر ہاتھ رکھتی بوکھلائی۔

”اللہ نہ کرے صاحب کہ آپ کو کبھی بھی کسی ڈاکٹر کی ضرورت پیش آئے۔۔۔اللہ آپکو ڈھیروں صحت و تندرستی عطا کرے۔۔۔“  دل سے دعادیتی وہ عائل کو اُسکی اتنی فکر کرنے پر ہنسنے پر مجبورکرگئی۔

”اچھا اب تم جاؤ یہاں سے اور اپنی ماں کو بولو کے دوپہر کے کھانے کے ساتھ گاجر کا حلوہ بنانا مت بھولے۔۔۔اور ساتھ ہی اُسے یہ بھی بتادینا کہ کل کی طرح سالن میں مرچیں پھیکی نہ رکھے۔۔۔سمجھ گئی۔۔۔؟؟“  تھوڑے دھیمے مگر سلگتے لہجے میں بولتی ہوئی وہ عائل کی موجودگی میں صبرکرگئی تھیں۔

ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ اُس نوکرانی کو اچھا خاصا جھڑک کر وہاں سے ابھی کہ ابھی دفع دور کردیں۔

”جی بیگم صاحبہ۔۔۔۔“  اپنی مسکراہٹ سمیٹتی وہ پھیکے سے لہجے میں بولتی ہوئی وہاں سے نکلتی چلی گئی تو عائل بھی سنجیدگی سے باقی بچی چائے کے گھونٹ بھرنے لگا۔

دوسروں کے ساتھ اپنی ماں کا ایسا رویہ اُسے ہمیشہ سنجیدہ کردیا کرتا تھا۔

”بیٹا میں نے تمھیں مسزشاہنواز کے بارے میں بتایا تھا ناں۔۔۔وہی خواجہ انڈسٹریز والے۔۔۔دراصل آج مجھے اُنکا فون آیا تھا۔۔۔وہ ہمارے گھر آنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔“  عائمہ بیگم لہجے میں چاشنی سموئے مین پوائنٹ پر آئی تھیں۔

”یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔آنے دیں پھر اُنھیں۔۔۔۔“  اِس بات پر سرسری سا دھیان دیتے وہ اپنی طرف سے بات ختم کرگیا تھا۔

”بیٹا۔۔۔بات صرف اتنی سی نہیں ہے۔۔۔“  اپنے مدعے کی جانب بڑھتے ہوئے اُنکی مسکراہٹ معدوم پڑی تھی۔

”تو پھر۔۔۔۔۔؟؟؟“  خالی کپ کو ٹبیل پر رکھتے وہ الجھا۔

”دراصل وہ تم میں بہت انٹرسٹڈ ہیں اور تمھارے ساتھ اپنی بیٹی عروسہ کا رشتہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔“  اصل حقائق کھول کر سامنے رکھتی وہ آس بھری نظروں سے اُسے دیکھنے لگیں جس کا چہرہ ایکدم سے سپاٹ ہوا تھا۔

گہری کالی آنکھوں میں بےاختیار وہ معصوم سا سانولا سلونا چہرہ گھوما تو وہ سختی سے اپنے لب بھینچ گیا۔

”بٹ موم۔۔۔۔آپ جانتی ہیں کہ مجھ پر پہلے ہی بہت سی دوسری ذمہ داریاں ہیں۔۔۔فی الحال کے لیے میں شادی جیسی بڑی ذمہ داری کو اپنے سر نہیں لےسکتا۔۔۔۔“  کچھ توقف کے بعد بڑی صفائی سے انکار کرتا وہ اُنھیں مایوسیوں کے سمندر میں دھکیل گیا۔

”تو اِس میں کیا قباحت ہے۔۔۔آج نہیں تو کل تمھیں یہ ذمہ داری بھی سر لینی ہی پڑے گی عائل۔۔۔بلکہ یہ تو اچھا ہے تم اس طرح اپنی ذمہ داریوں کو مزید اچھے طریقے سے سمجھ پاؤ گے۔۔۔۔اور مجھے بھی اچھی کمپنی میسر آجائے گی۔۔۔“  اپنی تمام تر ہمت ٹوٹنے کے بعد بھی وہ اُسے اس بےکار سی ضد پر سمجھانے لگیں مگر عائل خاموشی سے سنتا کسی اور ہی خیال میں گم تھا۔

”کہیں ایسا تو نہیں کہ تمھارے انکار کی وجہ تمھارا کسی اور کو پسند کرنا ہے۔۔۔؟؟اگر تم کسی اور لڑکی میں انٹرسٹڈ ہوتو مجھے بتاسکتے ہو۔۔۔شاید اس طرح سے ہم دونوں کی مشکل آسان ہوجائے۔۔۔“  عائمہ بیگم اُسے مشکوک نظروں سے دیکھتی اپنے دل میں شدت سے پنپتے سوال کو زبان پر لائیں تو عائل نے چونک کر اُنھیں دیکھا۔

”فی الحال تو میرےساتھ ابھی ایسا کوئی بھی چکر نہیں ہے موم۔۔۔۔لیکن اگر ہوا بھی تو سب سے میں پہلے آپ ہی کو بتاؤں گا۔۔۔۔ڈونٹ وری۔۔۔آپ بس اُن لوگوں کو انکار کردیں تاکہ وہ اپنے اِس ارادے سے باز رہ سکیں۔۔۔۔“  لبوں پر دلکش مسکراہٹ سجائے وہ اُنھیں وارن کرتا اُٹھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

پیچھے عائمہ بیگم اُسکے ایکدم سے بدلتے تیوروں پرٹھٹھکتی مزید شک و شہبات میں گھرسی گئی تھیں کیونکہ عائل کے لبوں پر مچلتی ہوئی مسکراہٹ اس بار ذرا ہٹ کر تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ جیسے ہی کلاس میں داخل ہونے لگا تو سامنے سر باقر کو وائٹ بورڈ پر مارکر گھسیٹتے دیکھ وہی ٹھٹھک کر رک گیا۔وہ یقیناً لیٹ ہوچکا تھا جسکا فوری احساس اُسے کلائی میں بندھی گھڑی کی سوئیوں کا مشاہدہ کرکے ہوا تھا۔

تبھی اُسکے لبوں نے بےاختیار”او شٹ“کہنے والے انداز میں حرکت کی۔

سر باقر نے ایک نظر فواد پر ڈالی اور اُسے نظرانداز کرتے ہوئے پھرسے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئے۔

”سر۔۔۔۔مے آئی کم اِن۔۔۔؟؟؟“  وہ بڑے اطمینان سے مسکراکرگویا ہوا تو اُسکی قدرے بلند آواز پر شام سمیت ساری کلاس اُسکی جانب چند پلوں کے لیے متوجہ ہوگئی۔

”نو۔۔۔۔“  مگن انداز میں ایک لفظی جواب دیتے سرباقر اُسے خاصا مایوس کرگئے۔

”بٹ سر میری کلاس۔۔۔۔“  ایک نظر کلاس پر ڈالتے ہوئے ماتھے پر شکنوں کا جال سجائے فواد نے احتجاج کرنا چاہا جب وہ ایکدم سے مارکر ڈائز پر پٹختے اُسکے مدِمقابل آکر کھڑے ہوگئے۔

”لیکچر اسٹارٹ ہوئے پندرہ منٹ گزرچکے ہیں فواد مسعود۔۔۔باقی کے منٹس بھی آپ  کلاس سے باہر رہ کر گزار سکتے ہیں۔۔۔مجھے کوئی ایشو نہیں۔۔۔اینڈ ایم شیور کہ آپکو بھی اپنا امپورٹینٹ لیکچر مس کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔“  سرباقر نے لہجہ نرم رکھتے ٹکاکر اُسکی انسلٹ کی تھی۔

لیکچر بیچ میں ہی سٹک ہوجانے پر تقریباً سبھی سٹوڈنٹس کلاس روم کی ایکدم سے بدل جانے والی دلچسپ حالت پر مزے لیتے اُن دونوں کی تکرار دیکھنے لگے۔

”سر اٹ از نسیسری فارمی۔۔۔۔نیکسٹ ٹائم ایسا نہیں ہوگا۔۔۔“  خود پر بمشکل ضبط کرتا وہ اپنی طبیعت کے خلاف جاکر نجانے کیسے ابھی بھی تمیز و تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کررہا تھا۔

شام منہ میں پین دبائے بھرپور انجوائے کرتا ہنوز مسکرا رہا تھا۔

افروز تو اُنھیں دلچسپی سے دیکھتا اپنا رجسٹر ہی بند کرچکا تھا۔

”آپکو ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی کیامسٹر فواد یا پھر آپ کو اس وقت فارسی زبان سننے کا شوق ہورہا ہے۔۔۔۔؟؟نو مینز نو۔۔۔آؤٹ۔۔۔۔“  اُسکی سرد لہجے میں کی جانے والی التجا پر وہ چڑتے ہوئے تڑخ کر بولے اور ساتھ ہی شہادت کی انگلی سے اُسے باہر کا رستہ دکھایا تو بےاختیار سب کی دبی دبی سی ہنسی چھوٹ گئی۔

اپنی اس قدر بےعزتی پر فواد پوری کلاس پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے مٹھیاں بھینچتا خجالت سے سرخ پڑا تھا۔

اپنی تازہ تازہ بنی گرلفرینڈ کی تاسف زدہ نظریں اور جانِ عزیز کمینے دوستوں کی ہنسی دیکھ کر وہ مزید جلا تھا جو اُسے دیکھ کر فلائنگ کس بھی   کرچکے تھے۔

 ”کیپ کوائیٹ پلیز۔۔۔۔“  سر باقر نے سب کو ڈپٹتے ہوئے خاموش کروایا۔

”سالا بڈھا ٹھرکی۔۔۔۔آؤٹ کا بچہ نہ ہو تو۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔“  سرباقر کے سفید بالوں کے ساتھ ساتھ اُنکی دوسری ٹیچرز کے ساتھ فرینک نیس پر بھی زیرِ لب چوٹ کرتا وہ وہاں سے پلٹنے سے پہلے اُنھیں گھورنا نہیں بھولا تھا۔

سر باقر بھی اُسکے حد درجہ بگڑتے موڈ کا اثر لیے بغیر واپس مارکر پکڑتے وائٹ بورڈ کی جانب پورے دھیان سے متوجہ ہوگئے۔

تبھی وہ بھی تن فن کرتا وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

کچھ ہی دیر میں لیکچر اپنے پورے ٹائم پر ختم ہوا تو باقی سٹوڈنٹس کے ساتھ وہ دونوں بھی کلاس روم سے نکل کر باہر آگئے۔

فواد سامنے ہی پلر کے ساتھ ٹیک لگائے قدرے بےنیازی سے کھڑا موبائل اسکرین پر دونوں انگھوٹے چلانے میں مگن تھا۔اُسکے لبوں پر رینگتی مسکراہٹ دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اس بندے کی کچھ دیر پہلے رکھ کر بےعزتی کی گئی تھی۔

”ہاں بھئی۔۔۔۔مزا آیا پھر دھوپ سیک کر۔۔۔؟؟؟“  اُسکے قریب جاتے ہی افروز نے لبوں پر دل جلادینے والی مسکراہٹ سجائے اُسکے مضبوط کندھے پر ہاتھ مارا تو شام بھی اس لطیف سے طنز پر ہنسا۔

”یہ سب چھوڑ کمینے۔۔۔اور شام تُو جلدی سے منہ میٹھا کروانے کی تیاری پکڑ۔۔۔۔“  وہ تپے بغیر موبائل جینز کی پاکٹ میں گھساتا قدرے اطمینان سے تقاضا کرگیا۔

”کیوں بے۔۔۔۔؟سر باقر کا لیکچر چھوٹ جانے کی خوشی تیرے سر چڑھ کر بولنے لگی ہے۔۔۔۔؟؟یاں پھر اپنی تازہ تازہ انسلٹ پر تیرا منہ کڑوا ہوچکا ہے جو میٹھا کھانے کو اس قدر دل چاہ رہا ہےتیرا۔۔۔۔؟؟“  شام ہنوز مسکراتا ابھی بھی غیر سنجیدہ تھا۔

”اڑالے جتنا مذاق اڑانا ہے میرا سالے۔۔۔مگر جب میں بولنے پر آؤں گا ناں تو تیری شکل دیکھنے لائق ہوگی بیٹا۔۔۔“  وہ بنا اثر لیے مسکرا کر بولا تو اپنی مسکراہٹ سمیٹتا شام صحیح منعوں میں الجھا۔

”سیدھا سیدھا بول معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  وہ ایکدم ہی سنجیدہ ہوا تو  اُسکے لہجے سے مزے لیتا فواد کھل کر مسکرایا۔

”معاملہ بہت گرم ہے شام صاحب۔۔۔وہ چڑیا جسے تُو پٹانے کی تگ و دو میں تھا وہ تو جال میں پھنسنے سے پہلے ہی اُڑ گئی۔۔۔۔شوووووکرکے۔۔۔۔“  شام پر مبہم انداز میں بم پھوڑتا وہ آخر میں ہاتھ کا ہوائی جہاز بناتا بھرپور اداکاری کرنے لگا جس پر دونوں کے تیوری چڑھنے لگی۔

”یعنی کہ اُس ملانی کا رشتہ پکا ہوچکا ہے برو۔۔۔۔اُسکا ریکاڈ ابھی تک قائم ہے۔۔۔پر تیرا ریکاڈ وہ ضرور توڑگئی ہے۔۔۔“  اُن دونوں کو ابھی بھی خود کی جانب ناسمجھی سے تکتا پاکر وہ شام کو بھرپور مرچ مصالحہ لگاتے مزید وضاحت دینے لگا۔

”بکواس بند کر اپنی۔۔۔۔“  اُسکے طنز پر شام دہاڑا تھا۔

”اب کیا کرے گا۔۔۔۔؟؟وہ تو چلی گئی۔۔۔کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا ہے یار۔۔۔۔“  اُسکے اچانک بھڑکنے پر جہاں فواد کی ساری شوخی جھاگ کی مانند بیٹھی تھی وہیں افروز نے قدرےسنجیدگی سے اُسکی رائے جاننا چاہی۔

”اصل گیم تو شروع ہی اب ہوئی ہے جسے میں کھیلوں گا بھی تو اب اپنے طریقے سے۔۔۔۔اگراُسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کردیا تو میرا نام بدل دینا تم لوگ۔۔۔۔وہ ملانی کہیں بھی چلی جائے  میری مٹھی میں ہے۔۔۔ “  حقارت زدہ لہجے میں بولتا وہ پُریقین تھا۔

اُسکے انداز میں اس قدر شدت تھی کہ وہ دونوں چونکتے ایک دوسرے کا منہ دیکھ کررہ گئے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆ 

اجازت ملنے پر وہ ہاتھ میں ٹرے پکڑے جیسے ہی روم میں داخل ہوئی تو شاہ آنکھوں میں ڈھیروں چمک لیے اُسے دیکھتا ہوا بےاختیار لیپ ٹاپ پیچھے گھسیٹ گیا۔

”سر۔۔۔۔ کافی۔۔۔۔“ سر جھکائے مدھم لہجے میں بولتی وہ آگے بڑھی کہ تبھی وہ بھی اپنی سیٹ سے اُٹھ گیا۔

کالے شوز میں مقید اُسکے قدموں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر وہ وہی  رک گئی۔گھنیری پلکیں اُٹھاتے ہی آبرو کو ایک قدم کے فاصلے پر رکتے مقابل کا وجیہہ چہرہ دکھائی دیا تو  دل شدت سے دھڑک اٹھا۔

”ویسے تو میں کافی نہ ہونے کے برابر پیتا ہوں۔۔۔لیکن اگر مجھے آپکے ہاتھ کا ٹیسٹ پسند آیا تو ہر روز اسی طرح مجھے کافی پیش کرنا آپکی جاب کا حصہ ہوگا مس آبرو۔۔۔۔“  ہاتھ جیبوں میں پھنسائے اُسکی اٹھتی جھکتی پلکوں کا کھیل دیکھتے ہوئے وہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں گویا ہوا تو اُسکی دلفریب مسکراہٹ سے نظریں چُراتی وہ محض سرہلاگئی۔

شاہ نے ٹرے کے بیچ میں سے مگ اٹھانے کی بجائے جان بوجھ کر پوری ٹرے ہی اُسکے مومی ہاتھوں سے لے لی۔

آبرو کو اپنی انگلیوں پر اُسکا سلگتا لمس محسوس ہوا تو وہ ہڑبڑا کر بےاختیار اپنے ہاتھ کھینچ گئی۔

اُسکی گھبراہٹ پر ٹرے ٹیبل پر رکھتے شاہ کے لب ہولے سے مسکرائے جو اب سر جھکائے اپنی نازک و مخروطی انگلیاں شدت سے مروڑ رہی تھی۔

”ہممم۔۔۔۔اٹس امیزنگ۔۔۔۔آئی لائیک اِٹ۔۔۔“  مگ اٹھاکر کافی کا لمبا گھونٹ بھرتا وہ ستائش بھرے لہجے میں بولا تو آبرو نے بےساختہ اُسکی جانب دیکھا۔

”تھینک یو سر۔۔۔۔“  بمشکل مسکرا کر اپنی تعریف وصولتی وہ اپنی پکی ڈیوٹی لگ جانے پر اندر ہی اندر رنجیدہ ہوئی تھی۔

”آپکے ہاتھ کے ٹیسٹ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آپ کو کوکنگ میں بھی خاصی مہارت حاصل ہے مس آبرو۔۔۔۔میں صحیح کہہ رہا ہوں ناں۔۔۔۔؟؟؟“  کافی کے مزید سِپ لیتے شاہ نے تعریف کرتے ہوئے قدرے دلچسپی سے استفسار کیا۔

”یس سر۔۔۔۔۔۔“  وہ اُسکے اتنی باریک بینی سے درست اندازہ لگانے پر حیران ہوئی تو وہ اُسکی نیلی آنکھوں میں شدت سے جھانکتا کھل کر مسکرایا۔

”گڈ۔۔۔۔کاش کہ مجھے بھی آپ جیسی کُک مل جائے ہمیشہ کے لیے۔۔۔ میری جو میڈ ہے اُس سے تو میں مکمل اکتا چکا ہوں۔۔۔بہت فضول کوکنگ کرتی ہے وہ۔۔۔۔“  ڈھکے چھپکے الفاظ میں اپنی دلی خواہش کا اظہار وہ بڑے دھڑلے سے کرگیا تھا مگرساتھ ہی اپنا پرسنل میٹربھی بڑے آرام سے شیئر کرتا وہ اُسے حیران پر حیران کرتا جارہا تھا۔

”سر۔۔۔۔آپکو اور کوئی کام ہے۔۔۔یا میں جاؤں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی باتوں سے پل پل خائف ہوتی آبرو کی حالت غیر سی ہونے لگی تو وہ بولے بغیر رہ نہ سکی۔

” کام تو بہت سے ہیں آپ سے۔۔۔لیکن پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپ ہر وقت اتنی جلدی میں کیوں رہتی ہیں مس آبرو۔۔۔۔؟؟“  معنی خیز انداز میں بولتا شاہ اُسکے تقاضے کو بڑی صفائی سے رد کرگیا۔

”نہیں تو۔۔۔۔ایسا تو کچھ نہیں۔۔۔میں تو بس کام کی وجہ سے۔۔۔“  عجلت میں بولتی وہ اس شکایت پر رودینے کو ہوئی تو شاہ کو اپنی طبیعت کے برخلاف اُس پر رحم سا آگیا۔

”ریلکس۔۔۔۔آپ جاسکتی ہیں۔۔۔اور ہاں۔۔۔ہرروز اسی ٹائم پر کافی میرے روم میں لےکر آنا اب آپکی ذمہ داری ہے۔۔۔مجھے دُہرانے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔۔۔از دیٹ کلیئر۔۔۔۔؟؟“  اپنے غارت ہوتے موڈ کی پرواہ کیے بغیر گہرا سانس بھرتا وہ بھرپورسنجیدگی سے بولا۔

”یس سر۔۔۔۔“  تیزی سے سر کو جنبش دیتی وہ اگلے ہی پل وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

پیچھے وہ اپنی کافی جوکہ اُسے ہمیشہ سے ناپسند رہی تھی کا آخری گھونٹ بھرتا پُرسوچ انداز میں مسکرادیا۔

اُسکے ہاتھ کا ٹیسٹ تو وہ حاصل کر ہی چکا تھا بس اب اُس پری پیکر کو حاصل کرنا باقی تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ٹیچر کی عدم موجودگی کے باعث پوری کلاس میں سٹوڈنٹس کی باتوں کا شور پھیلا ہوا تھا جب وہ کافی عجلت بھرے انداز میں لب کاٹتی اپنا پنک بیگ ٹٹول رہی تھی۔

اگلے ہی پل فارم پیج ہاتھ آتے ساتھ ہی اُسکے لب خوشی سے پھیلے تھے۔

تبھی وہ شکر کا سانس بھرتی اپنے پاس بیٹھی نیناں کا ہاتھ پکڑتی ہوئی سیٹ سے اُٹھ گئی۔

” کہاں بھئی۔۔۔۔؟؟؟“  وہ جو اردگرد سے بےبہرہ نوٹس پر جھکی بیٹھی تھی خود کو ایکدم سے اُسکے ساتھ گھسٹتا محسوس کرکے بےاختیار چلائی۔

”یہ فارم میں نے فل کردیا تھا لیکن ابھی تک سر کو جمع نہیں کروایا۔۔۔وہی دینے جارہی ہوں سر کے پاس۔۔۔تم بھی چلو میرے ساتھ۔۔۔“  اپنا بھول پن اُس پر دھیمے لہجے میں واضح کرتی وہ اُسے کلاس روم سے باہرتک لے آئی تھی۔

”ویسے تو تمھاری بڑی زبان چلتی ہے۔۔۔اور اتنی اہم چیز بھول گئی تم۔۔۔حد ہے ویسے۔۔۔“  اس اچانک افتاد پر پھیکی پڑتی نیناں اپنی زبان کو قینچی کی طرح  چلنے سے روک نہیں پائی تھی تبھی حاویہ نے اُسکا ہاتھ جھٹکتے اُسے غصے سے گھورا۔

”ذیادہ بکواس نہیں کرو میرے ساتھ۔۔۔۔چلنا ہے تو چلو۔۔۔نہیں تو میں اکیلے ہی چلی جاتی ہوں۔۔۔“  حاویہ اُس پر برہم ہوتی اُسے وہیں چھوڑ کر بس دو قدم ہی آگے بڑھی تھی جب ہوش میں آتی نیناں نے اُسے بازو سے پکڑ کر روکا۔

”او او۔۔۔میری پیاری بہن ایک تو تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی یہ چھوٹی سی ناک پھلاکر بیٹھ جاتی ہو ناں بس۔۔۔۔چل تو رہی ہوں تمھارے ساتھ۔۔۔“  قدرے نرمی سے بولتی وہ حاویہ کو اُسکی برائی گنواتی ہوئی منانے کی اپنی سی کوشش کرنے لگی۔

”چلو۔۔۔۔“  اُسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے وہ احسان کرنے والے انداز میں بولی تو نیناں اُسکے اتنی جلدی مان جانے پر کھل کر مسکراتی اُسکے ہمقدم ہوئی۔

”مے آئی کم اِن سر۔۔۔۔۔؟؟؟“  دروازے سے ذرا سا سرنکال کر اندر جھانکتی ہوئی قدرے نرمی سے اجازت طلب کرتی حاویہ براہ راست سرعبدالجبار سے مخاطب تھی۔

ایسے میں وہ یقیناً آفس کے اندر بیٹھے اے۔ایس۔پی عائل حسن کی موجودگی سے قطعی بےخبر تھی جو اُسکی آمد پر پل بھرکو چونکتا سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

”یس۔۔۔۔کم اِن۔۔۔۔“  سر عبدالجبار ناچاہتے ہوئے بھی اخلاق کے تقاضے پورے کرتے اُسے آرام سے اجازت دےگئے تو وہ دونوں پورا دروازہ کھول کر آفس میں داخل ہوگئیں۔

تبھی حاویہ کی نظر بائیں جانب دیوار کے ساتھ رکھے ٹوسیٹر صوفے پر گئی جہاں عائل بلیک شرٹ اور جینز میں آنکھوں میں چمک لیے بظاہر سنجیدگی سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

وہ الگ بات تھی کہ اُسکی یہاں موجودگی پر وہ اپنی حیرت بڑی صفائی سے چھپا گیا تھا۔

بھوری آنکھوں سمیت ہولے سے منہ کھولتی وہ اپنی جگہ پر جم سی گئی تو وہ اُسکی حالت دیکھ کر بےساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو روکتا لب بھینچ گیا۔

نیناں کی حالت بھی حاویہ سے کچھ کم نہیں تھی۔

”جی۔۔۔۔؟؟؟“  دونوں کی بےوجہ خاموشی کو شدت سے محسوس کرتے سر عبدالجبار نے اُنکی اچانک آمد کی وجہ جاننا چاہی تو بروقت ہوش میں آتی نیناں نے حاویہ کو خفیہ انداز میں ٹہوکا دیا۔

” کیا ہے بھئی۔۔۔۔؟؟؟  وہ جو عائل کی موجودگی کو یقینی بنانے کی غرض سے اُسے سرتاپیر گھوررہی تھی ایکدم سے جھٹکا کھانے پر نیناں پر بھڑکتی اگلے ہی پل ہوش میں آئی۔

”وہ۔۔۔سس۔۔۔سررر۔۔۔یہ فارم۔۔۔میں نے اسے فل کردیا ہے۔۔۔“  سرعبدالجبار کو خود کی جانب حیران نظروں سے تکتا پاکروہ کھسیانی ہوتی ہاتھ میں پکڑا فارم پیج بےاختیار اُنکی جانب بڑھا گئی۔

حاویہ کے یوں اٹکنے پر عائل اب کی بار کھل کرمسکرادیا۔

”اوکے اب آپ جائیں۔۔۔“  فارم پیج کو دراز کھول کر دوسرے فارمز کے اوپر رکھتے وہ مصروف سے انداز میں بولے مگر حاویہ اُنکے آڈر کو ان سنا کرتی کشمکش کی حالت میں کبھی عائل کو دیکھتی تو کبھی سرعبدالجبار کو جنھیں اُسکی دماغی حالت پر اب شبہ سا ہونے لگا۔

”لگتا ہے اِن محترمہ کو کوئی شکایت درج کروانی ہے مجھ سے جبھی تو یہاں سے جانے کو انکا دل نہیں چاہ رہا۔۔۔۔“  ٹانگ پر ٹانگ جمائے وہ اُسکے مزید یہاں رکنے پر حظ اٹھاتا آرام سے طنزکرگیا۔

حاویہ نے سر عبدالجبار کی گھوری کو محسوس کرتے اُسکی دل جلادینے والی دلکش مسکراہٹ کوآنکھیں سکیڑتے دیکھا تو نیناں بھی مسکرانے لگی۔

”ہونہہ۔۔۔خوش فہمیاں۔۔۔۔“  وہ اپنے شدتوں سے دھڑکتے دل پر قابو پانے کی کوشش کرتی غصے سے زیرلب بڑبڑاتی ہوئی اگلے ہی پل پلٹی اور دروازہ کھول کر نیناں سمیت آفس سے باہر نکل گئی۔

عائل سرجھٹکتا بمشکل سنجیدہ ہوتے ہوئے پھرسے سرعبدالجبار سے اپنی گفتگو کا منقطع سلسلہ دوبارہ سے جوڑ چکا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

”ذرا سنیے آفیسر۔۔۔۔“  عائل جیسے ہی سرعبدالجبار سے رخصت لیتا آفس سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر اُسکی راہ تکتی حاویہ نے ہمت کرتے اُسے آواز لگائی۔

وہ الگ بات تھی کہ نیناں کے زور کا ٹہوکا دینے پر ہی دبی دبی سی آواز اُسکے حلق سے نکلی تھی جو عائل کی تیز سماعتوں سے فوراً جا ٹکرائی۔

وہ حیرانگی سے اُسکی جانب پلٹا پر اگلے ہی پل اُسکی گڑبڑاہٹ محسوس کرتا اپنے لبوں پر آئی بےساختہ مسکراہٹ بڑی صفائی سے چھپاگیا۔جیبوں میں ہاتھ ڈالے قدم قدم چلتا وہ اُسکے سامنے آکھڑا ہوا جس پر حاویہ جھجھک کر اُسکے چہرے سے نظریں ہٹاتی نیناں کو دیکھنے لگی۔

”آپ یہاں تب سے کھڑی کس کا ویٹ کررہی ہیں۔۔۔۔؟؟آپکی کوئی کلاس نہیں ہورہی کیا۔۔۔۔؟؟یاں پھر آپ کلاسز بنک کرنے کی شوقین ہیں۔۔۔؟؟“  بڑی سادگی سے پوچھتا وہ اُسے صحیح معنوں میں سلگا گیا تھا۔

جبکہ دل اُسے پھر سے اپنے روبرو پانے کی خواہش پوری ہوتا دیکھ کر خوشی سے مچل رہا تھا۔

”میں یہاں اتنی دیر سے صرف آپکو تھینک یو بولنے کے لیے کھڑی تھی۔۔۔لیکن آپ ہیں کہ بس مجھے باتیں سنائے جارہے ہیں۔۔۔بلکہ نہیں۔۔۔جب سے میں آپ سے ملی ہوں تب سے۔۔۔“  اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتی وہ دھیمی آواز میں برہم سی غرائی۔

اگر اُسکا دغا دیتا دل اور نیناں اُسے مجبور نہیں کرتی تو وہ اس وقت کبھی اُسکا شکریہ ادا کرنے کے لیے اُسکے سامنے موجود نہیں ہوتی۔

”اوہ اچھا۔۔۔۔لیکن بقول تمھارے میں تو بدتمیز ہوں ناں۔۔۔اور سنگدل بھی شاید۔۔۔۔تو پھر ایسے حالات میں تم مجھ سے کسی اچھے کی امید کیسے کرسکتی ہو محترمہ۔۔۔؟؟؟“  اُسکی ہر ادا پر دل ہارتا وہ بظاہرسنجیدہ سا اپنی بھنوؤں کو سکیڑ گیا۔

”آپ بہت برے بھی ہیں عائل صاحب۔۔۔جائیں نہیں بولنا مجھے آپکو کوئی تھینک یو وینک یو۔۔۔۔میں جارہی ہوں۔۔۔“  مقابل کی سفاکی پر روہانسی ہوتی وہ جانے کے لیے پلٹی جب سرعت سے اُسکی کلائی تھامتا وہ اُسے اپنی جانب گھوما گیا۔

اپنی ہنسی روکتی نیناں نے منہ پر ہاتھ رکھے محتاط سی ہوکر اطراف میں دیکھا جہاں ابھی تک کسی کا بھی گزر نہیں ہوا تھا۔

”ایسے کہاں جارہی ہولڑکی۔۔۔؟؟میرے تھینک یو کا حساب تو پورا کرتی جاؤ۔۔۔۔“  نیناں کی پرواہ کیے بغیراُسکی پھیلی ہوئی نم آنکھوں میں شدت سے دیکھتا وہ اب کی بار دلکشی سے مسکراتا ہوا اپنا معصومیت بھرا تقاضا کرگیا۔

”تھ۔۔۔۔ینک یو۔۔۔۔“  اُسکے لمس پر کلائی چھڑواتی حاویہ کی سانسیں اٹکی تھیں جب وہ بڑی نرمی سے اُسے آزادی بخش گیا۔ 

”بس اتنا ہی۔۔۔۔؟؟؟“  کسرتی سینے پر ہاتھ باندھتا وہ تیوری چڑھائےشکوہ کرگیا تو دل کی بگڑتی حالت پر بےچین ہوتی حاویہ اُسے بنا سوچے سمجھے معصوم سی بددعا دے گئی۔

”اللہ کرے آپکو آپ سے بھی ذیادہ کھڑوس بیوی ملے جو بعد میں آپکی ساری اکڑ نکال دے۔۔۔“  

اسکی بات پر عائل بےاختیار قہقہ لگاتا اُسے جھینپنے پر مجبورکرگیا۔

”افسوس پر یہ تو اب پاسیبل نہیں ہے۔۔۔۔“  اداس ہونے کی اداکاری کرتا وہ پُر یقین لہجے میں گویا ہوا۔

”وہ کیوں۔۔۔؟؟؟“  حاویہ اپنی بات کی نفی ہونے پر حیران ہوئی تو اُسکی بےاختیاری پر عائل نے قدرے دلچسپی سے اُس کی جانب دیکھا۔

”کیونکہ مجھے اِن بھوری آنکھوں میں اپنے مستقبل کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔“  ایک قدم کا فاصلہ مٹاتا وہ اُسکی جانب جھکتا رازدارانہ انداز میں بولا۔

وہ جو اُسکے قریب آنے پر بےاختیار ایک قدم کا فاصلہ بناتی ناسمجھی سے اُسکا چہرہ دیکھ رہی تھی اُسکی معنی خیز بات کی گہرائی تک جاتے ساتھ ہی سرخ پڑی اور اگلے ہی پل اُسکی جذبے لٹاتی نظروں سے رُخ موڑتی شورمچاتی دھڑکنوں سمیت وہاں سے سرپٹ دوڑ لگادی۔

”ابھی میرا حساب پورا نہیں ہوا۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔“  اُسکے شرمانے کے اِس انداز پر اپنا دل سنبھالتا عائل پیچھے سے شوخ  لہجے میں ہانک لگاتے ہوئے آخر میں زیرِ لب بڑبڑایا اور اپنی جانب دیکھتی نیناں پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر بالوں میں ہاتھ پھنسائے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆


”اوہ نو۔۔۔۔اب میں گھر کیسے جاؤں گی۔۔۔؟؟؟“  وہ سٹاپ پر پہنچی تو تب تک پوائنٹ جاچکی تھی۔

اس تپتی دھوپ میں روڈ اس وقت تقریباً سنسنان ہی تھا جہاں نگاہ دوڑانے پر اُسے دور سے ایک دو آدمیوں کی پشت دکھائی دی تو وہ وحشت زدہ سی سینے سے لگے رجسٹر پر گرفت سخت کرتی پریشانی میں اپنے لب کاٹنے لگی۔

چھٹی کرنے کی وجہ سے حرمین کے کئی امپورٹنٹ لیکچرز چھوٹ گئے تھے جسے آج  اپنے رجسٹر پر نوٹ کرتے ہوئے اُسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوپایا تھا۔لیکن جب اُسے ہوش آیا تو تب تک کافی دیر ہوچکی تھی۔

”یااللہ۔۔۔۔۔“  مزید کچھ دیر گزرنے پر بے بسی سے اپنا چشمہ ٹھیک کرتی وہ بےاختیار چند قدم آگے کو اٹھاگئی۔انداز ایسا تھا جیسے مزید کوئی راہ نظر نہ آئی تو وہ روتے روتے پیدل ہی گھر کی جانب چل پڑے گی۔

 کم بخت کوئی رکشہ بھی دور دور تک آتا جاتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

معاً اُسے اپنے پیچھے گاڑی کا ہارن سنائی دیا تو جھٹکا کھاکر پلٹتی وہ سہم سی گئی۔

” کیا ہوا ڈارلنگ۔۔۔۔اپنی پوائنٹ مس کردی کیا۔۔۔۔؟؟“  ایک لڑکا شیشے سے سر باہر نکالے انتہا کی بےتکلفی سے اُسے اوپر سے نیچے تک گھورتا قدرے آوارہ انداز میں بولا تو حرمین کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی سرد لہر دوڑگئی۔اس اچانک افتاد پر گھبراتی وہ بغیر کوئی جواب دئیے اطراف میں مددطلب نم نظروں سے دیکھنے لگی۔

”ارے سوئیٹی پریشان کیوں ہورہی ہو۔۔۔؟؟ہم ہیں ناں اویل ایبل تمھارے لیے۔۔۔جہاں کہوگی وہیں چھوڑ آئیں گے۔۔۔ایک بار پیار سے بول کر تو دیکھو۔۔۔“  اب کی بار وہ اپنے ساتھی سمیت گاڑی سے باہر نکل کر قہقہ لگاتا اپنی بےلگام نظروں اور باتوں سے حرمین کو حددرجہ ڈرا چکا تھا تبھی وہ اُن پر لعنت بھیجتی ناک کی سیدھ میں سرپٹ بھاگی تھی۔

”پکڑ سالی کو۔۔۔۔۔“  اُسے فرار ہونے کی کوشش کرتا دیکھ وہ دونوں بھی اطراف کا جائزہ لیتے تیزی سے اُسکے پیچھے لپکے اور اُس سے دوگنی رفتار کے باعث چند لمحوں بعد ہی اُسے اپنی سخت گرفت میں دبوچ لیا۔

”آہ۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔مجھے گھٹیا انسان۔۔۔مجھےکہیں بھی نہیں جانا تم لوگوں کے ساتھ۔۔۔۔پلیزمیں خود چلی جاؤں گی۔۔۔۔“  پسینے میں پوری طرح شرابور اُسکے چنگل سے نکلنے کی جان توڑ کوشش میں چیختی وہ آخر میں  فریاد کرتی رو پڑی۔

”ایسے کیسے خود چلی جاؤ گی۔۔۔۔؟؟اپنا نہیں تو ہمارا ہی کچھ خیال کرلو ظالم حسینہ۔۔۔۔“  حرمین کی بازو پر پکڑ مزید سخت کرتے ہوئے اُسے اپنی جانب کھینچتے وہ دونوں کمینگی سے ہنس پڑے۔

”پلیز تمھیں خدا کا واسطہ ہے۔۔۔مجھے جانے دو۔۔۔نہیں تو میں شور مچاکر سب کو یہاں اکٹھا کرلوں گی۔۔۔“  ان دونوں کی گستاخیاں اُسے شدتِ خوف میں مبتلاکررہی تھیں کہ اتنا ڈر اُسنے اپنی زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا تھا اور نہ ہی پہلے کبھی اُسکے ساتھ ایسا ناقابلِ برداشت حادثہ پیش آیاتھا۔

”اچھاااا۔۔۔۔تو اب تُو ہمیں دھمکی دے گی سالی۔۔۔۔ابھی دیکھ تیرا میں کیا حشر کرتا ہوں۔۔۔پھر کسی کو بھی دھمکی دینے لائق نہیں رہے گی۔۔۔اُوے تبریز۔۔۔گاڑی یہاں لےکرآ فوراً۔۔۔“  حرمین کی کپکپاتی دھمکی پر ایکدم بگڑتا وہ ہتھے سے اکھڑا اور ساتھ ہی اپنے دوست کو آڈر دیا۔

وہ تائید میں سر ہلاتا  فوراً سے کچھ فاصلے پر کھڑی اپنی گاڑی کی جانب بھاگا تھا۔

”نن۔۔۔نہیں۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔بچاؤ۔۔۔کوئی ہے۔۔۔پلیز مدد۔۔۔“ اُنکے اس عمل پر حرمین کی جان حلق میں پھنسی تھی مگر مقابل کا مضبوط ہاتھ اُسکے چیختے لبوں پر پڑتے ہی سانسوں کے ساتھ ساتھ اُسکی آواز بھی بندکرگیا۔

”اممم۔۔۔۔اممم۔۔۔۔“  نتیجتاً اُسکا چشمہ لڑھک کر نیچے گرا تھا تبھی وہ مزید مچلتی سر مسلسل نفی میں ہلانے لگی۔

مہرون حجاب بھی ڈھیلا پڑ کر تقریباً کھل چکا تھا۔

”چپ ایکدم چپ۔۔۔اگر اب تیری زرا سی بھی میں میں مجھے سنائی دی تو زبان گدی سے کھینچ نکالوں گا تیری۔۔۔۔ابے جلدی کرتُو بھی۔۔۔تیرے ہاتھ پیرکیوں سست پڑگئے ہیں گدھے۔۔۔۔؟؟اس سے پہلے کوئی آجائے ہمیں اسے لے کرجلدی یہاں سے نکلنا ہوگا۔۔۔۔جلدی کر جلدی۔۔۔“  سختی سے بولتا وہ اُسکی نازک سی کلائی پکڑکر مروڑگیا اور ساتھ ہی اپنے دوست کو بھی لتاڑا جو گاڑی ڈرائیو کرکے اُنکے قریب پہنچ چکا تھا۔  

حرمین کی سانسیں مدھم ہوئی تھیں یہ دیکھ کر۔

”چھوڑ لڑکی کو۔۔۔۔“  اس سے پہلے کہ وہ لڑکا گاڑی کا دروازہ کھول کر حرمین کو پچھلی سیٹ پر پٹختا اپنی پشت سے ابھرتی سرد آواز پر بری طرح چونکتا حرمین سمیت پیچھے پلٹا۔

وہ دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں پھنسائے قدرے نڈر انداز میں غصے سے اُسے دیکھ رہا تھا۔بھوری آنکھوں میں صاف وارنگ ہچکولے لے رہی تھی۔

”شا۔۔۔م۔۔۔۔۔“  دل کی ایکدم سے تیز ہوتی دھڑکنوں سمیت حرمین کے سیاہی مائل لب اُس ظالم کی مضبوط ہتھیلی کے پیچھے پھڑپھڑائے۔

”کیوں بے ہیرو۔۔۔۔ہیروگیری کرنے آیا ہے یہاں پر۔۔۔۔؟؟میرا ذیادہ دماغ خراب مت کر اور نکل لے یہاں سے۔۔۔چل چل۔۔۔شاباش۔۔۔“  خود کی گھبراہٹ پر قابو پاتے اُسنے شام کو وہاں سے رفوچکر کرنا چاہا پر اگلے ہی لمحے شام نے حرمین کے منہ پر دھڑا اُسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے ہی ایک جھٹکے سے مروڑ ڈالا۔

جواب میں وہ درد سے بلبلاتا  پل پل سسکتی حرمین کو اپنی گرفت سے بے ساختہ آزادکرگیا۔

جس پر وہ بجلی کی سی تیزی سے شام کو اپنا مسیحا سمجھتی  اُسکی پشت پر جاکھڑی ہوئی اور اُسکی گرے شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں جکڑگئی۔

تبھی وہ مقابل کے وار کو بڑی آسانی سے روکتا ایک زوردار کِک اُسکے پیٹ پر مارکر پیچھے کی جانب تپتی سڑک پر پٹخ چکا تھا۔

”تیری تو۔۔۔۔“  تبھی دوسرا لڑکا بھی یہ تماشہ دیکھ کر گاڑی سے باہر نکلتا شام کو پیٹنے کے ارادے سے اُسکی جانب لپکا۔

” تُو بھی آجا بیٹا۔۔۔۔“  چیلنج بھرے انداز میں بولتے ہوئے وہ اُسکا پنچ کھانے سے پہلے ہی بھرپور شدت سے وارکرتا اُسکی ناک سے خون نکال چکا تھا۔

وہ ایکدم سے چیختا ہوا اپنی ناک کی ٹوٹی ہڈی پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا تو سہمی نظروں سے یہ سب دیکھتی وہ اپنی پکڑ اُسکی پشت پر مزید سخت کرگئی۔

اپنی واضح شکست پر وہ شام کی طاقت کا اندازہ لگاتے مسلسل کراہتے ہوئے وہاں سے اٹھے اور پلک جھپکتے اپنی گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی وہاں سے بھاگ نکلے۔

شام بھی اُنکے پیچھے جاکر اُنھیں مارنے کا ارادہ ترک کرتا ہوا اُسکی جانب پلٹا۔

”آریو اوکے حرمین۔۔۔۔تمھیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا ناں اُن کمینوں نے۔۔۔؟؟؟“  وہ فکرمند سا ہوکر اُسکا بھیگا بھیگا چہرہ دیکھ رہا تھا جسے اپنا حجاب بھی ٹھیک کرنے کی ہوش نہیں رہی تھی۔

شام نے پہلی بار اُسے بغیر حجاب اور چشمے کے اتنے قریب سے بغور دیکھا جس پر دل حقارت سے کروٹ بدلتا مچلا تھا۔

”نہیں۔۔۔۔“  اپنے ساتھ ہوئے سنگین حادثے کی بابت سوچتے آنسو بےاختیار اُسکی گالوں پر پھسلنے لگے۔

”ریلکس یار۔۔۔۔رو تو نہیں۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔۔“  بڑی دقت سے ہاتھ بڑھا کر اُسکے آنسو انگلیوں کی پوروں سے صاف کرتا وہ خود پر قابو پاگیا۔

”اگر۔۔۔آپ وقت پر نہیں آتے تو نجانے وہ لوگ میرے ساتھ کیا کردیتے۔۔۔۔؟؟“  اُسکا سہارا پاتے ہی وہ بےاختیار ہوتی اُسکے کندھے سے لگی خوف سے سسکنے لگی تو شام بھی اُسکے لرزتے وجود کو اپنے حصار میں لیتا بھنویں اچکائے فتح یاب سا مسکرایا۔

”ششش۔۔۔بس چپ۔۔۔بھول جاؤ سب۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔۔۔میں ہوں ناں تمھارے ساتھ۔۔۔۔“  اُسکے جوڑے میں مقید بالوں کو سہلاتا وہ نرماہٹ بھری سرگوشیاں کررہا تھا جب اچانک حرمین ہوش میں آتی جھٹکے سے اُسکا حصار توڑتی الگ ہوئی۔

اُسے کانپتے ہاتھوں سے اپنا حجاب سیٹ کرتا دیکھ شام نے لب بھینچ کر ضبط کا گہرا گھونٹ بھرا اور اگلے ہی پل سڑک پر پڑے چشمے کو ا ٹھاتا اُسکی ناک پر ٹکاگیا۔

شام کے اس قدر کئیرنگ انداز کو شدت سے محسوس کرتی ہوئی وہ اُسکے وجیہہ چہرے کو کچھ حیرت سے تکتی بےساختہ وہ اپنے دل کی ایک بیٹ مس کرگئی۔

اپنے باپ کے بعد سے کسی بھی مرد نے اُسے اتنے پیار سے چشمہ نہیں پہنایا تھا۔

بلاشبہ شام کے پرُاثر حرکتوں اور دلکش نقوش کا جادو ناچاہتے ہوئے بھی اُسکے کمزور سے دل پر چل گیا تھا جس پر وہ اپنی بے ہنگم ہوتی دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی بےاختیار نظریں چراگئی۔

”آپ بہت اچھے ہیں شام۔۔۔۔بہت ذیادہ اچھے۔۔۔۔اُس دن آپکے بھائی نے میری چھوٹی بہن کی جان بچائی اور آج آپ نے میری عزت۔۔۔“  تہے دل سے اُسکا شکریہ اداکرتی وہ اُسکے بڑے بھائی کا احسان بھی اُس پر آشکار کرگئی تو وہ عائل کے ذکر پر پل بھرکو چونکتا بمشکل مسکرایا۔

”ایک لڑکی کے لیے اُسکی عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے حرمین۔۔۔اور یقین جانو میرے لیے تمھاری عزت سب سے بڑھ کر ہے۔۔۔“  اپنے خوبصورت لفظوں سے اُسے معتبر کرتا وہ اُسکے کمزور دل کو مزید گھائل کرنے لگا تو وہ اپنی بگڑتی حالت پر شدت سے پریشان ہوتی اب کی بار اپنا رخ بدل گئی۔

تبھی اُسکی گہری سیاہ نظروں نے سامنے سے آتے رکشے کو پکڑا تو شام نے بھی سنجیدگی سے اُسے دیکھا۔

”اب گھر تک کیسے جاؤگی۔۔۔۔؟؟چلو میں تمھیں ڈراپ کردیتا ہوں۔۔۔تم بس مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتادو۔۔۔“  اُسکی مزید ہیلپ کرنے کی اداکاری کرتا وہ نرمی سے بولا تو مسکرا کر نفی میں سر ہلاتی وہ اگلے ہی پل ہاتھ سے رکشہ روک گئی۔ 

”نہیں۔۔۔۔میں اس رکشے میں چلی جاؤں گی۔۔۔پلیز آپ رہنے دیجیے۔۔۔۔پہلے ہی آپ میری حد سے ذیادہ ہیلپ کرچکے ہیں۔۔۔اب اور نہیں۔۔۔“  رکشے میں بیٹھتی وہ اُسکی مدد لینے سے انکار کرگئی  جسکا شام کو پہلے سے ہی خوب اندازہ تھا۔

”آر یو شیور۔۔۔۔؟؟؟“   بھرپورفکرمندی ظاہرکرتے اُسنے کنفرم کرنا چاہا تو وہ زورشور سے اثبات میں سرہلاتی مسکرادی۔

تبھی ڈرائیور مہارت سے رکشہ اسٹارٹ کرتا تیزی سے آگے بڑھا چکا تھا۔

ابھی وہ رکشہ شام کی بھوری نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہوا تھا جب اچانک اُسکے فون پر بیل ہونے لگی۔

”ہاں بولو۔۔۔۔“  فون کان سے لگاتے اُسکے تاثرات سمیت اُسکی آواز بھی سرد ہوئی۔

”سر آپ نے ہمیں پلین سے ہٹ کر کچھ ذیادہ ہی زخمی کردیا ہے۔۔۔۔اس حساب سے پیسے بھی ذیادہ ہوں گے۔۔۔۔“  اسپیکر سے ابھرتی تبریز کی تحکم بھری آواز میں درد کا گھلاملا احساس بھی شامل تھا۔

”ڈونٹ وری۔۔۔۔مل جائیں گے۔۔۔۔۔“  آنکھیں گھماکر گہری سانس فضاء میں خارج کرتا وہ اپنی بات مکمل کرتے ساتھ ہی قدرے لاپرواہی سے کال کاٹ چکا تھا۔

خالی سڑک پر مسکراتی نگاہ ڈالتا اگلے ہی پل وہ اپنے طریقے سے کھیلی گئی گیم پر پہلی فتح کا ٹیگ لگاتے ہوئے سرشار سا سیٹی بجاتا فاصلے پر کھڑی ہیوی بائیک کی جانب لپکا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر اپنے آفس روم میں بے چینی سے اِدھراُدھر ٹہل رہا تھا۔

جیسے جیسے اُسکی نظریں کلائی میں بندھی قیمتی گھڑی پر جارہی تھیں ویسے ہی اُسکے غصے کا گراف مزید بڑھتا جارہا تھا۔

اُسنے آبرو کو کب سے اپنے روم میں آنے کو بولا تھا مگر وہ تھی کہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔

معاً ایک بار پھر سے اُسکی بھوری آنکھوں کے آگے کچھ دیر پہلے کا منظر گھوما تھا جب وہ منیجر کے پاس کچھ خاص انسٹرکشنز دینے کے لیے گیا تھا لیکن گلاس ڈور کے پار دکھائی دیتا ناقابل برداشت منظر اُسے آگ لگاگیا۔آبرو ارگرد سے بےبہرہ وہاں ایک آفس ورکر کے ساتھ ہنستی مسکراتی باتیں کرنے میں مگن تھی۔

تبھی شاید رحمان نامی لڑکے سے ٹائپ کرنے میں کچھ غلطی ہوئی تھی جس پر وہ اپنے مومی ہاتھ سے اُسکی کی بورڈ پر چلتی انگلیاں پکڑ کر ہٹاتی ذرا سا اُسکے قریب جھکی اور مسکراتے ہوئے خود ٹائپ کرنے لگی۔رحمان بھی اُسکا حسین چہرہ نزدیک سے دیکھتے کھل کر مسکرادیا۔

”او جسٹ سٹاپ دیٹ۔۔۔۔“  اپنے خیال کو آپ ہی جھٹکتا وہ بےاختیار خود پرچلایا کہ تبھی روم کے دروازہ پر ناکنگ ہوئی۔

”کم اِن۔۔۔۔۔“  سرد آواز میں پرمیشن دیتا وہ دروازے کی جانب رخ موڑ گیا تو آبرو شاہ کے اندر بھڑکتے لاوے سے قطعی انجان اندر داخل ہوئی۔

”آپ نے بلایا تھا سر۔۔۔۔؟؟“  وہ جو شاہ کو بہت پہلے کافی دےکر خوشگوار موڈ میں چھوڑ کر گئی تھی اُسکے بگڑے تیور دیکھ کر پل بھرکو چونکی۔

شاہ جواب دینے کی بجائے غصے سے اُسکے خوبصورت مگر الجھے نقوش دیکھتا ہوا قدم قدم اُسکی جانب بڑھنے لگا۔نتیجتاً آبرو اُسکے قدموں کو رکتا نہ پا کر حیران پریشان سی پیچھے کو کھسکتی ہوئی دروازے سے جالگی۔

کہاں تھی تم۔۔۔۔؟؟؟“  خود پر بمشکل ضبط کیے وہ آپ سے تم کا فاصلہ پل میں طے کرتا ہوا پھنکارا تھا۔

”جج۔۔۔جی سر۔۔۔وہ میں بس آہی رہی تھی آپ کےپاس۔۔۔“  

اُسکی سرخ ہوتی بھوری آنکھوں میں حیرت سے جھانکتی وہ ہکلاکربولی۔

”مجھے ابھی تک میرا جواب نہیں ملا۔۔۔کس کے ساتھ تھی تم۔۔۔؟؟“  ہاتھ کی مٹھی بناتا وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہوئے اب کی بار اپنا سوال بدل گیا۔

لیکن بدقسمتی سے جواب ایک ہی تھا۔

”رحمان۔۔۔رحمان کے ساتھ اُسکی فائل بنوارہی تھی۔۔۔“  

مقابل کی نزدیکی پر کپکپاتی ہوئی آواز اُسکے گلے میں پھنسی تھی۔

بے اختیار وہ اپنی آنکھیں میچ کردوبارہ کھول گیا۔جیسے ضبط کی انتہا پرہو۔

”کتنے منٹ گزرگئے تمھیں میرا میسج ملے۔۔۔۔؟؟؟“  سخت تیوروں سے تفتیش کرتا وہ ایک ہاتھ اُسکے سر کے قریب دروازے پر ٹکاگیا تو اُس نے ہراساں ہوکر اُسکی جانب دیکھا۔

”بب۔۔۔بیس منٹ۔۔۔۔“  مجرموں کی طرح سر جھکاتی وہ نم پڑتی آنکھوں سمیت منمنائی۔

”اور تم نے مجھے۔۔۔میری ذات کو اگنور کرکے اُس دوٹکے کے امپلائے کو مجھ پر ترجیح دی۔۔۔۔کیسے۔۔۔ہممم۔۔۔۔کیسےےےے؟؟؟“  دانت پیس کر ایک ایک لفظ اُسے باور کرواتا وہ ضبط کی طنابیں چھوٹتے ہی چلایا اور دروازے پر دھڑے ہاتھ کا مکا بناکر پوری قوت سے اُس جگہ پر دے مارا۔

”سس سوری سر۔۔۔۔سوسوری۔۔۔۔پلیز۔۔۔“  نتیجتاً آبرو اس افتاد پر شدت سے گھبراتی ہوئی بےاختیار اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپتی بےآواز رونے لگی تو وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتا جیسے ہوش میں آیا۔

”مس آبرو۔۔۔ایم۔۔۔ایم سوری۔۔۔پتہ نہیں میں کیسے آپ پر اتنا غصہ کرگیا۔۔۔؟؟پلیز آپ پہلے رونا بند کریں۔۔۔آبرو۔۔۔؟؟“  وہ اس بار قدرے نرمی سے معذرت کرتا فکرمند سا اُسکے چہرے سے ہاتھ ہٹاگیا۔

بدلے میں اُسکا آنسوؤں سے تر بھیگا چہرہ دیکھنے کو ملا تو شاہ سختی سے اپنے لب بھینچ گیا۔

”آ۔۔۔پ نے مجھے بہت ذیادہ ڈرادیا تھاسر۔۔۔آپ مجھے ہمیشہ اپنی باتوں اور حرکتوں سے اسی طرح ڈرا دیتے ہیں۔۔۔آخر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔؟؟کیا قصور ہے میرا۔۔۔۔؟؟“  اُسکی گرفت سے اپنے دونوں ہاتھ چھڑواتی وہ  کانپتی آواز میں بےبس سی شکوہ کر گئی تو وہ ہولے سے مسکرادیا۔

”میں نے تمھیں کبھی بھی ڈرانا نہیں چاہا آبرو۔۔۔اور نہ ہی خود سے بدظن کرنا چاہا ہے۔۔۔بس میں تم پر اپنا حق جتاتاہوں۔۔۔میں مانتا ہوں کہ میرا انداز تھوڑا بہت الگ ہے۔۔۔مگر تم مجھے اس سب سے روک نہیں سکتیں۔۔۔اور تمھارا قصور یہ ہے کہ تم سب جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتی ہو۔۔۔تم نے کبھی میری فیلنگز کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔میرا یقین کرومیں تم سے بہتتتت محب۔۔۔۔“  پھر سے اُسکے ہاتھ تھام کر وہ دیوانہ وار اُسکے خفا خفا سے نقوش دل میں اتارتا اپنے سچے جذبات کا کھل کر اظہار  کررہا تھا جب اچانک بت بنی آبرو تڑپ کر اُسے مزید بولنے سے روک گئی۔

”مت کریں سر۔۔۔۔پلیز مت کریں یہ میرے ساتھ۔۔۔۔میں یہ سب ڑیزرو نہیں کرتی۔۔۔بالکل بھی نہیں کرتی۔۔۔“  وہ شدومد سے اُسکی چاہت و محبت کی نفی کرتی اُسے پل بھرکو ساکت کرگئی۔

شاہ کی محبت کے زورپر چمکتی آنکھیں شدتِ ضبط سے بے اختیار لہورنگ پڑی تھیں۔

زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کی واضح دھتکار نے اُسے اہانت کے شدید احساس سے دوچار کرکے رکھ دیا تھا۔

اُسکے بدلتے تیوروں سے وحشت زدہ ہوتی آبرو اُسکے سینے پر پوری شدت سے دباؤ ڈال کر اُسے چند قدم پیچھے دھکیل گئی اور راہِ فرار ملتے ہی پلٹ کر دروازہ کھولتی باہر کی جانب بھاگتی چلی گئی۔

یہ جانے بغیر کہ اپنے اس چھوٹے سے عمل سے وہ خود کے لیے کتنی مشکلات بڑھاگئی تھی۔

یہ پل پل اپنا ضبط کھوتا شاہ ہی تھا جس نے خود سے اُسے وہاں سے جانے دیا تھا ورنہ ممکن تھا کہ وہ غصے میں پاگل ہوکر اُسے کوئی نقصان پہنچا دیتا۔

”ڈیم۔۔۔۔۔“  اپنی انا پر سخت وار برداشت نہ کرتے ہوئے وہ تنی رگوں کے ساتھ ٹیبل کی جانب آیا تھا اور وہاں پڑی ساری چیزوں کو جھٹکے میں ہاتھ مارتا زمین پر بکھیر گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

شجاری ہے  

 next episode will b posted tomorrow Inshallah

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Yadon K Hisar Main  written by RJ .  Sulagti Yadon K Hisar Main by  RJ is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Rude Hero Tawaif  Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel '' Sulagti Yadon K Hisar Main '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1to 10 

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”سلگتی یادوں کے حصار میں “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel By RJ Continue Novels ( Episodic PDF)

  سلگتی یادوں کے حصار میں ناول    از  آر جے (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

No comments:

Post a Comment