Pages

Tuesday 7 June 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 100 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 100 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 100

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 100

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

از قلم ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔100 ( ماضی اسپشل  ) 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میرپور 

“ سائیں یہ لیں ۔۔۔!! خادم برہان کو قمیض شلوار میں ملبوس دیکھ فون آگے کرتا بولا ۔۔۔۔

سرحان ابھی بھی وہی ہیں یا چلا گیا ۔۔۔؟ مقابل نے فون پکڑتے سرسری سی نظر ڈورائی تھی ۔ 

اور بند کرتے وکسٹ میں رکھا ۔ 

سائیں جب میں بڑی حویلی گیا تو وہاں کوئی نہیں تھا ۔ خادم نے اتنا بتاتے خاموشی اختیار کی ۔

اس کا مطلب وہ چلا گیا ۔ برہان جو اب کہ گلاسیز لگاتے گاڑی کی طرف بڑھا تھا ایک نظر لان کے دوسرے حصے کی طرف جاتی راہگیری کی طرف ڈالی ۔

خادم ۔۔۔۔ وہ ویسے ہی سرسری سا ہاتھ اپنے وکسٹ کو لگاتے اُسکو پکار گیا ، 

“ جی سائیں ،۔۔۔۔!! خادم سر جھکائے آگے ہوا ۔ 

آج اچھے سے صفائی کروانا اور دھیان میں رہے تمہاری چھوٹی بی بی کی نظروں میں کچھ نا آئے ۔،

برہان گاڑی میں سوار ہوتے خادم کو یہ کام دیتے ہاشم اور باقی گاڈرز کے ساتھ گھر سے نکلنا ۔ 

جب بھی برہان کا موڑ بنتا کہ وہ مراد اور جنت کی ویڈیو دیکھے گا خادم کو ٹھہر کر اُس کمرے کی صفائی کروانے کا حکم دیتا ۔

ہاشم ۔۔۔!! برہان جو بڑے فام ہاؤس آیا تھا ۔ جہاں پر زلیخا کو رکھا گیا تھا ، 

ہاشم کو آواز دیتے وہی کھڑے غور سے فام ہاؤس کو دیکھ گیا ۔

“ یس سر ۔۔۔۔ ہاشم تیزی سے قریب ہوا ۔

پتا کرو یہ غفار چوہدری کون ہے ۔۔۔۔۔!! برہان اپنی آنکھوں پر لگے گلاسیز کو سرسری سا کنارے سے ہاتھ لگاتے آگے بڑھا ۔ 

جبکے تبھی برہان کو یاد آیا تھا ، جب وہ سرحان سے اجازت لیتے نکلا تھا ۔

تب وہ اپنا فون وہی چھوڑ گیا تھا ، وہ واپس آیا تھا حویلی ۔۔۔۔ تب تک صفدر شاہ بھی پہنچ چکے تھے 

برہان جو فون لینے کی گز سے حویلی کے اندر گیا تھا ۔ ابھی وہ بنا شور کیے آگے بڑھ رہا تھا کہ کہیں صفدر اُسکو اس حال میں نا دیکھے ۔۔۔۔۔

کہ اچانک سے سرحان اور صفدر کی باتیں سنی ، وہ کچھ زیادہ تو نہیں سن پایا تھا ۔ 

لیکن ہاں آخر پر وہ صرف اتنا سن سکا کہ کسی غفار نام کو لے کر بے حد آگ بھگولہ ہوئے تھے دونوں ہی ۔۔۔ 

“ سلام سرکار ۔۔۔۔۔!! زلیخا برہان کو اپنے سامنے براجمان ہوتے دیکھ ماتھے کے قریب ہاتھ لے جاتے بولی

“ وعلیکم السلام ۔۔۔۔ کیسی ہو ابھی ۔۔۔؟ وہ گرے کلر کے گلاسیز اتار سامنے ٹیبل پر رکھتے اپنی نئی اسلامی باتوں کی وجہ سے اُسکا حال دریافت کر گیا ۔

میں ٹھیک سرکار ۔۔۔۔۔ زلیخا جو اُسکے لوگوں سے خوش ہوئی تھی ، ایک نظر آس پاس کھڑے سبھی کو دیکھتے کاشف کو دیکھا ۔۔۔۔

جس نے کافی اُسکا خیال رکھا تھا ۔

تو اس کا مطلب ابھی تم میرے سبھی سوالوں کے جواب دینے کئلیے تیار ہو ۔۔۔؟؟ برہان جو ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا ، ہاتھوں کو آپس میں ملاتے نیلی آنکھیں زلیخا پر گاڑھی ۔

“ سرکار آپ کس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔۔۔۔؟؟؟ مجھے ٹھیک سے بتا دیں ۔ میں سب کچھ بتا دوں گئی ؛۔

زلیخا جو چئیر پر بیٹھی ہوئی تھی سرسری سی نگاہ کمرے میں موجود سبھی گاڈرز کو دیکھ سرسری سے ہاتھ جوڑ بولی 

آئمہ ۔۔۔۔۔ جنت کوٹھے کی زینت ۔۔۔۔روشن تار ۔۔۔۔ جنت کی ماں ۔۔۔۔ ان عورت کے بارے میں کیا جانتی ہو ۔۔۔؟ 

مجھے سب کچھ جاننا ۔۔۔۔! شاید تمہیں یاد نا ہو ۔۔۔ 

میں تھوڑی سی روشنی ڈال دیتا ہوں ، جنت جس کا اصلی نیم آئمہ تھا ۔ وہ فیصل شاہ کی جنت تھی ۔ 

جتنا میرے علم میں آیا ہے ، وہ اب کہ چئیر کی ٹیک چھوڑ سبھی گاڈرز کو باہر جانے کا اشارہ کر گیا جبکے ہاشم اور کاشف وہی کھڑے رہے ۔۔۔۔

فیصل شاہ تو آئمہ کے ساتھ گھر بسانے والا تھا ۔ اُسکو وہاں اُس کوٹھے سے نکال کسی عالی شان گھر میں لے جانے والا تھا ۔ 

پھر اچانک سے کیا ہوا ۔۔۔؟ کہ سب کچھ بدل گیا ۔۔۔؟؟؟ 

برہان ماتھے پر شکن سمٹ بھنویں اچکا واپس سے چئیر کے ساتھ ٹیک لگاتے دونوں ہاتھوں کو چئیر کے پر ٹکایا ۔ 

آئمہ ۔۔۔ زلیخا کی سانس جیسے تھمی تھی ، وہ کیسے فیصل شاہ کے بارے میں زبان کھول سکتی تھی ۔

وہ گھبرائی تھی ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمکتی برہان نے اچھے سے نوٹ کی ۔ 

کیا ہوا ۔۔۔؟؟ یہ نام کیا کافی بھاری ہے ۔۔۔؟ وہ آئی براچکائے دھمیے سے بولا تو زلیخا نے مشکل سے توک نگلا ۔

میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے ، جلدی سے مجھے میرے پوچھے گئے سوالواں کے جواب دو ، 

برہان اُسکو خاموشی طاری کیے ادھر ادھر دیکھتے دیکھ سپاٹ ہوتے بولا ۔ 

تم کب سے روشن بیگم اور آئمہ کو جانتی تھی ۔۔۔؟ برہان نے اب کہ سگریٹ نکالتے لب میں دباتے پوچھا 

تب سے جب سے اُس کوٹھے میں آئی تھی ، روشن بیگم کا راج چلتا تھا اُس کوٹھے پر ۔۔۔ 

آئمہ یعنی ( جنت ) اُس کوٹھے کی شہزادی کہلاتی تھی ، سنا تھا میں نے۔۔۔ کہ روشن بیگم نے اپنی بیٹی کو بہت ناز ک ہاتھوں سے کراچی کے مہشور کوٹھے کلیوں میں پالا اور پیدا دی تھی ؛۔ 

جب میں جنت کوٹھے پر روشن بیگم کے انٹر آئی ، تب مجھے پتا چلا کہ وہ کیسی عورت ہے ۔ وہ حد سے زیادہ لالچی عورت تھی ۔ 

یہ جنت کوٹھہ کیسے بنا تھا ۔۔۔۔۔!! کوئی نہیں جانتا تھا ۔ 

ہم سب گلشن کوٹھے پر رہتے تھے ،میری ایک دوست جو کلیوں کوٹھے میں روشن بیگم کے پاس رہتی تھی اُسنے بتایا کہ کیسے  ایک دن روشن بیگم کچھ دن لاہور کا کہہ کر کراچی سے گئی تھی 

جب واپس آئی پانچ بعد تو بولی سب اپنا سامان باندھ لو ۔ اس سے عالی شان کوٹھے کو سجائیں گئے ۔ 

جس کوٹھے میں پہلے رہتے تھے وہ کسی کراچی کے مہشور رئیس کا تھا ، 

روشن کے کہنے پر کراچی چھوڑ سبھی لاہور چلے آئے ، تب اس کوٹھے کا کوئی نام نہیں تھا ۔۔۔ 

پہلے کبھی بھی روشن نے اپنی بیٹی کو ناچنے کا نہیں تھا ، ایک دن وہ اُسکو ناچنے کا بول گئی اور اُسکو سب کچھ سکھانا شروع ہوئی 

کیسے کسی کو اپنی ادا میں پھنساتے ہیں ۔ بس پھر جب میں اس کوٹھے پر بھاگ کر آئی ؛۔ 

تو تب میں نے آئمہ کو پہلی بار ناچتے دیکھا وہ بھی فیصل شاہ کے سامنے ۔۔۔۔ 

وہ دن اور اُسکے بعد کئی سالوں کے دن اس کوٹھے میں آئمہ کے جلوے بکھرے ۔۔

تبھی فیصل شاہ نے اُس کوٹھے کونام جنت کوٹھہ دیا تھا ۔

اور سب کو خبر دار کیا تھا کہ آج کے بعد آئمہ کو جنت کے علاوہ کسی اور نام سے پکارا نہیں جائے گا ۔۔۔

وہ اکثر آئمہ کو نیلی آنکھوں میں دیکھنا چاہتا تھا اسی لیے اُسنے صاف اُسکو صرف نیلے لنیز پہننے کا کہا تھا۔

آہستہ آہستہ جنت کے رقص کو دیکھنے کے لیے بڑے بڑے لوگ اس کوٹھے پر آنے لگے وہ سب صرف اُسکا رقص دیکھ سکتے تھے ۔۔۔

کسی کو بھی اُسکے جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی لیکن فیصل شاہ ہر رات جنت یعنی آئمہ کی بانہوں میں گزراتا ۔۔

روشن بیگم کو تم سے نفرت کیوں تھی ۔۔۔؟ برہان جو بہت غور سے اُسکی باتیں سن رہا تھا گال پر مٹھی بنائے ہاتھ رکھے ویسے ہی سوال داغا ۔۔۔ 

زلیخا نے سرسری سا برہان کو دیکھا ۔،

میں اکثر اُسکو بولتی کہ مجھے اپنی خاص بندی بنا لے ، لیکن اُسکو جانے مجھ سے کیا دشمنی تھی کہ وہ مجھے جھٹک دیتی 

اُسکی اسی جھٹک کی وجہ سے میرے دل میں بھی اُسکے لیے نفرت پیدا ہوگئی 

اور یہ نفرت ایسی تھی کہ میں نے تہ کر لیا روشن کی جگہ اس ملکہ کی رانی میں بنوں گئی ۔۔ 

میں فیصل شاہ کی خبری بن گئی ، روشن بیگم کو ملنے اکثر اُسکا کوئی رشتے دار آتا تھا 

وہ یہ بات کبھی بھی فیصل شاہ کو پتا چلنے نہیں دیتی تھی میں نے ایک دن دیکھ لیا اور فیصل شاہ کو بتا دیا ؛۔

تب فیصل شاہ نے جو ماں بیٹی کا حال کیا تھا مجھے دیکھ کر بڑا مزا آیا ؛۔

روشن چاہتی تھی کہ فیصل شاہ اُسکی بیٹی کو یہاں سے عالی شان حویلی میں لے جائے ۔۔۔۔ 

لیکن افسوس اُسکا یہ خواب ۔۔۔۔ خواب بن کر ہی رہ گیا ؛۔۔

اُسکی وہ بیٹی سمجھ گئی کہ فیصل شاہ صرف اپنی ہوس پوری کرنے آتا ہے ۔مگر ا سکی ماں یہ بات نا سمجھ سکی ؛۔

آئمہ نے تہ کر لیا تھا کہ وہ اس کوٹھے کو چھوڑ دے گئی لیکن وہ بھی یہ قدم نا اٹھا سکی 

چونکہ وہ فیصل شاہ کے بچے کی ماں بنے والی ہو گئی تھی ؛۔ 

تب روشن بیگم بہت خوش ہوئی کہ اب جیسے مرضی ہو فیصل شاہ کو آئمہ کو یہاں سے لے کر ہی جانا ہوگا ؛۔

فیصل شاہ آتا تھا اور آئمہ کا بہت خیال بھی رکھتا تھا ۔ 

تبھی اچانک سے کسی نے روشن بیگم کو بتایا کہ فیصل شاہ کے رشتے کی بات چل رہی ہے ؛۔

روشن بیگم بہت فکر مند ہوئی ، لیکن اس بات کا ذکر کبھی بھی اُسنے آئمہ سے نا کیا ۔۔۔۔

مہنیے گزرے اور آئمہ کا بچہ اس دنیا میں آنکھیں کھول گیا ؛۔

برہان جو آرام سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ، فیصل شاہ کا بچہ بھی ہے سن شاک ہوا ۔۔۔۔

جبکے وہ ٹیک چھوڑ حیرانگی آنکھوں میں بھر گیا ۔

آئمہ نے ایک لڑکے کو جم دیا ، فیصل شاہ بہت خوش تھا ۔ 

پورے کوٹھے میں خوشیاں منائی گئی ؛۔ پہلے تو باقی رقص دیکھنے والے آنے والوں کو پتا نا چلا لیکن آہستہ آہستہ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ؛۔ 

اور اس کو پھیلانے والی میں ہی تھی ، میں چاہتی تھی لوگ آئمہ کا رقص دیکھنا بند کر دیں ۔۔۔ 

تاکہ روشن بیگم کی ہار ہو جائے ، ابھی بچہ چار ماہ کا ہوا تھا کہ فیصل شاہ ہوشیاری سے کام لیتے بچہ آئمہ سے لے گیا ، 

روشن بیگم اور آئمہ اس چیز کے لئے بالکل بھی تیار نہیں تھی ، فیصل شاہ کو پتا چل گیا تھا

کہ کوٹھے سے ہونے والی کمائی کم ہونے شروع ہو گئی ہے اسی لیے وہ اپنے بچے کو وہاں سے لے گیا ؛۔ 

آئمہ کو اپنے چھوٹے بھائی اسلم شاہ سے ملوایا وہ روتے اپنی جھولی اُسکے سامنے پھیلا گیا کہ میرا کوئی بچہ نہیں ہے اس لئے اسُکو میری گود میں ڈال دو 

ہم تمہارے بیٹے کی پروزش بہت اچھی کرے گئے آئمہ بہت روئی تھی وہ کسی بھی قمیت پر اپنا بچہ دینا نہیں چاہتی تھی ؛۔

لیکن فیصل شاہ زبردستی بچہ آئمہ سے چھین لے گیا ، وہ روتی رہی بھیگی مانگتی رہی لیکن اُسکی کوئی سننے والا نہیں تھا ، 

بچے کا نام کیا تھا ۔۔۔؟ برہان نے تیزی سے پوچھا 

رب جانتا ہے سرکار ۔۔۔ تب تو بچے کا کوئی نام نہیں رکھا گیا تھا ؛۔

ہاں اتنا پتا ہے کہ وہ بچہ ابھی بھی اسلم شاہ کے پاس ہے ، اسی کا بیٹا کہلاتا ہے ۔۔۔۔۔!!!

“ اس کا مطلب جمال ۔۔۔۔ برہان کی زبان ساکت ہوئی تھی جبکے وہ اتنا شاک ہوا تھا کہ اٹھتے کھڑا ہوا ، 

جمال شاہ ۔۔۔۔۔!! فیصل شاہ کا بیٹا ہے ۔۔۔!! برہان کو اپنے کانوں پر جیسے یقین کرنا مشکل لگا تھا ؛۔

پھر فیصل شاہ نے آئمہ کو وہاں سے نکالا ۔۔؟ برہان واپس سے بیٹھا تھا ۔ 

کہاں سرکار ۔۔۔۔ وہ بچاری کتنے مہنیے اپنے بیٹے کے غم میں بیٹھی رہی ، جب سنبھالی تو واپس سے اپنے کام میں مگن ہو گئی 

جب بھی فیصل شاہ آتا وہ ضد کرتے اپنے بیٹے کی تصویریں اُس سے لے لیتی ۔ 

دو سال کا ہوا اور ایسے ہی چار سال گزر گئے ، اللہ نے پھر ایک بار آئمہ کو  ماں بنے کا موقعہ عطا کیا ؛۔ 

تب فیصل شاہ کسی بھی قمیت پر وہ بچہ رکھنا نہیں چاہتا تھا ۔ 

لیکن پھر خاموش ہو گیا ، اس کی وجہ کیا تھی کوئی جانتا نہیں تھا ۔

لیکن ہاں اُسنے پھر سے بیٹا  ہونے کا ہی آئمہ کو بولا تھا ؛۔ 

کہ مجھے بیٹا چاہیے ، لیکن اولاد تو اللہ اپنی مرضی سے عطا کرتا ہے ؛۔ 

فیصل شاہ نے اپنے خاندان میں شادی کر لی تھی یہ بات میں جان گئی تھی مگر آئمہ اور روشن بیگم بے خبر تھی ۔ 

آئمہ نے اُسی کوٹھے پر دوسری اولاد کو جنم دیا ، اور اس بار وہاں آنکھیں کھولنے والی لڑکی تھی ۔۔۔۔

برہان جو بہت غور سے سب کچھ سن رہا تھا ایک اور بچے کا سن ثرارت نارمل ظاہر کیے ۔۔۔

فیصل شاہ پہلے تو ہر روز آئمہ کے پاس آتا تھا پھر جب بھی پیسے لینے بھجتا تو اپنے کسی آدمی کو بھج دیتا 

روشن بیگم کو شک پڑ گئی ، تب اُسنے پتا کروایا تو فیصل شاہ کی شادی کا سچ ان دونوں ماں بیٹی کے سامنے آ گیا ۔ 

تب آئمہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائی تھی جیسے بھی ہو وہ کہیں نہ کہیں فیصل شاہ کو چاہنے کی غلطی کر بیٹھی تھی ۔ 

جب ایک دن فیصل شاہ وہاں آیا تو آئمہ نے اُسکے ساتھ زبردست جھگڑا کیا ۔ 

اور اُسکو دھمکی دی کہ میرا بیٹا مجھے واپس کرو اور میری زندگی سے نکل جاؤ ۔ 

اگر تم نے میرے بیٹے کو مجھے نہیں دیا تو میں تمہارے گھر تمہاری حویلی میں آ کر پورے خاندان کے سامنے اپنی بیٹی کو ڈال کر ثابت کر دوں گئی کہ میری اور تمہاری اولاد ہے ۔۔۔ 

پھر تمہارا سب کچھ ختم ہو جائے گا ۔۔۔ فیصل شاہ غصے سے آئمہ کو مارنے بھاگا ۔ 

لیکن وہ دیکھ نا سکا اور ناک دار چاچو جو ٹیبل پر پڑا تھا اُسکو لگ گیا 

اور وہ ایسی جگہ پر لگا تھا کہ ساری عمر کے لیے باپ بنے سے محروم ہو گیا ؛۔ 

فیصل شاہ نے مجھے بول دیا تھا کہ کسی بھی طرح آئمہ کی بیٹی کو مجھے مارنا ہوگا 

تاکہ وہ کسی بھی طرح کا اس کو بلیک میل نا سکے ؛۔،

اس سے پہلے میں کچھ کرتی آئمہ کو فیصل شاہ پر شک ہو گیا ، جب میں نے اُسکی بیٹی کو مارنے کی کوشش کی ۔

آئمہ نے مجھے پکڑ لیا اور تب روشن بیگم نے مجھے بہت مارا اس قدر کہ میں مرتے مرتے بچی ،،،،

وہ مجھے ایک کمرے میں بند کر گئی ، اور فیصل شاہ کو کوٹھے پر آنے سے بھی منع کر دیا ۔۔۔

فیصل شاہ خود تو کوٹھے میں آ نہیں سکتا تھا اُسنے اپنے ایک آدمی کے ہاتھ پیغام بھجیا ۔۔۔۔

کہ میں تیار رہوں کچھ آدمی وہ کوٹھے پر بھجے گا ان کے ساتھ مل کر مجھے اب اکیلی بچی نہیں آئمہ اور اُسکی ماں کو بھی ختم کرنا ہوگا 

اُسکے بعد یہ کوٹھہ میرا میں یہ سن بہت خوش ہوئی ، بس پھر رات کو جب سب سو گئے تو میں نے اپنے آدمیوں کے ساتھ مل کر اُن کو مارنے کے لیے کمروں کی طرف بڑھی 

آئمہ جو رات کو اپنی بیٹی کے لیے پہر لگاتی تھی میرے آدمیوں کو دیکھ بھاگی 

ہم نے اُسکو وہاں مارا لیکن وہ زخمی حالت میں بھی کمرے میں گھس اندر سے بند کر گئی ۔۔۔

میں دوسری طرف روشن بیگم کو سوئے دیکھ تیز چاقو لیے اپنا سارا غصہ اُس پر نکال گئی ۔۔۔۔

جب میں روشن بیگم کا کام تمام کرتے آئمہ کے کمرے میں آئی تو کمرا خالی ملا 

وہ زخمی حالت میں ہی اپنی بیٹی کو لیے وہاں سے بھاگ نکلی ، اُسکے بعد وہ کبھی بھی ہمیں نہیں ملی 

ہم نے روشن بیگم کو اور اُسکے کچھ خاص ملازموں  کو راتوں رات ہی جنگل میں پھینک آئے ۔۔۔۔ 

آئمہ کہاں گئی ۔۔۔؟ برہان نے مٹھیاں بھنچتے پوچھا ۔۔۔ 

سرکار ہمیں شک تھا کہ وہ اپنے رشتے دار کے پاس گئی ہو گی لیکن ہمیں نا ہی وہ ملی اور نہ ہی اُسکا وہ رشتے دار ۔۔۔۔

اُسکا کوئی تو نام ہوگا ،،۔۔؟ کوئی تصویر ۔۔۔؟ برہان رگیں تنے ویسے ہی سپاٹ دھاڑا ۔۔۔،

سرکار ۔۔۔۔ اُسکا نام شاید داتا بخش تھا ۔۔۔! زلیخا نے ڈرتے جواب دیا ۔ 

تو برہان جس کے رونگھٹے کھڑے ہو گے تھے ، نام سن تیزی سے کمرے سے نکلا ۔۔۔

داتا بخش ۔۔۔۔!! وہ پوری طرح الجھ چکا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے ۔ 

کیا آئمہ زندہ ہوگئی ۔۔۔؟ یہ سوال برہان کے دل و دماغ پر چھایا ۔ 

فیصل شاہ تیار رہو تمہیں بھی اگر پورے خاندان کے سامنے نا ذلیل کیا تو میرا نام بھی برہان شاہ نہیں ۔۔۔

برہان جس کے دن میں پہلے سے ہی فیصل شاہ کو لے کر شک رہتا تھا کہ وہ آدمی ٹھیک نہیں آج اتنا بڑا سچ سن غصے سے وہ نفرت انگیز لہجے میں بولا ۔

ہاشم ۔۔۔۔!! برہان نے دھاڑتے آواز لگائی تو ہاشم اور کاشف جو اُس سے چند فاصلے پر کھڑے تھے آگے ہوئے ؛۔،

“ یس سر ۔۔۔۔۔ وہ ہڑبڑاتے بولے ۔ 

مجھے کسی بھی طرح داتا بخش یہاں میرے پاس چاہیے۔۔۔۔۔

جیسے مرضی اسُکو تلاش کرو مجھے وہ زندہ چاہیے ۔ میرپور میں پوری طرح پھیل جاؤ ۔ 

اور اُسکو ہر جگہ میرپور کے چھوٹے سے چھوٹے شہر ، گاوں میں اُسکو ڈھونڈوں ۔۔۔۔اُسکی جان میرے لئے بہت خاص ہے ۔۔۔

برہان سپاٹ وحشت آنکھوں میں لیے بولا تو ہاشم لوگ اچھے سے سمجھے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اسی لیے فیصل شاہ نے جمال کو اتنا پیار دیا کہ وہ اسُکا اپنا خون ہے 

میں کبھی بھی معاف نہیں کروں گا فیصل شاہ کو اُسنے میری بڑی امی کو دھوکا دیا ۔۔۔

آئمہ کی زندگی برباد کر دی ، کہاں ہو گئی وہ بچاری عورت ۔۔؟ 

تبھی گاڑی رکی تھی ۔ برہان جو اپنی سوچ میں گھیر تھا ۔ 

سوچ کو جھٹکتے گاڑی سے نکلا ۔ 

سائیں صفائی ہو گئی ہے ۔ جیسا آپ نے کہا تھا بالکل ویسے ہی کیا ہے ۔ خادم جو گاڑی کا ڈور کھول برہان کے نکلنے پر پیچھے ہی لپکا تھا ؛۔

اُسکو بتاتے یاد کروایا۔ 

ٹھیک ہے دھیان رکھنا کوئی بھی یہاں آ نا پائے ۔۔۔ برہان جو پہلے گھر کے اندر جانے لگا تھا ؛۔

قدم لان کے راستے سے جاتے دوسری راگہری کی طرف ڈالے ۔،

ماضی 

وقت تیزی کے ساتھ پر لگائے ڈور رہا تھا ، اور اسی وقت کے ساتھ مراد شاہ اور وقار شیزاری کی دشمنی گہری سے بھی گہری ہوتی جا رہی تھی ؛۔ 

جو سلسلہ پہلے آئے دن سے چل رہا تھا وہ ویسے ہی بھاگ رہا تھا ، 

کبھی وہ لوگ مراد کے آدمیوں کو مارتے تو کچھ مراد ان کے آدمیوں کو سبق سکھاتا ؛۔ 

سلطان شاہ جو پہلے تو ساہیوال میں تھے ، مراد کے دشمنی میں اتنا گھسنے پر کچھ وقت کیلئے ناز بیگم اور اپنے بیٹے سرحان کے ہمراہ میرپور رہنے چلے آئے ؛۔،

سرحان جو دو سال کا ہو چکا تھا ، وہ مراد کا جگر بن چکا تھا ، سرحان جب بھی یہاں بھی  پایا جاتا تو مراد کی بانہوں میں پایا جاتا ؛۔

ایک طرف ان کی زندگیاں آگے بڑھ رہی تھی تو دوسری طرف داتا بخش اپنی کشمکش میں مبتلا ہوئے تھے ؛۔

یہاں کہانی میں آئمہ اور فیصل شاہ کی زندگی بچے پیدا ہونے سے کافی پیچھے کی ہے ، مطلب یہاں ابھی جمال کی پیدائش نہیں ہوئی ہے ؛۔ 

ناز بھابھی ۔۔۔۔۔ 

ہاں بولو جنت ۔۔۔۔ ناز جو سرحان کے لئے دودھ تیار کر رہی تھی 

بوتل کو بند کرتے ہلانا شروع ہوئی ، بھابھی سرحان کو میں آج اپنے پاس رکھ لوں ۔۔ مطلب اسُکو میرے روم میں سونے دیں ۔۔۔ 

جنت ناز کو بوتل ہلاتے چینی مکس کرتے دھمیے سے بولتی نیلی آنکھیں میں خوشی بھر گئی ۔۔۔

جنت وہ تجھے تنگ کرے گا ، ناز نے سرسری سا دیکھتے بولا ۔

کوئی تنگ نہیں کرتا وہ ۔۔۔۔ آپ کو پتا نہیں ہے وہ بہت اچھا بچہ ہے ، مجھ سے لکھوا لیں 

بڑا ہونے کے بعد سمجھ دار ثابت ہوگا ۔ جنت نے تو آگے تک بھی جیسے پہلے ہی دیکھ لیا تھا ۔۔

ہاہا ۔۔۔ ناز ہلکے سے قہقہہ لگاتی مسکرائی ۔ 

جنت ۔۔۔ توں بھی نا ۔۔۔ 

بھابھی ۔۔۔۔ ناز جو اُسکی بات کو ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح اڑا گئی تھی ؛۔

دودھ کی بوتل ہاتھ میں پکڑے کیچن سے نکلی ،تو جنت بھی بھابھی کو لمبا کھینچ لپکی ۔ 

میں آخری بار بتا رہی ہوں ، گولو ۔۔۔۔ آج میرے ساتھ ہی سوئے گا ، 

آپ میرے پیچھے مت آنا ۔۔۔۔! جنت نے سڑھیوں کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ناز کے ہاتھ سے بوتل کھنچی تھی 

اور آگے بڑھی ۔۔۔۔! 

ارے ۔۔۔۔ میری بات تو سنتی جا ۔۔۔!! ناز بیگم وہی سے تھوڑا اونچا بولی تو جنت فورا سے پلٹی ۔ 

بولیں سن رہی ہوں ۔ وہ سڑھیوں سے ہی مخاطب ہوئی ؛۔

مراد کو بولو کہ بچے کا سوچ لے ، اب تم لوگ بھی خوبصورت شاہ ہماری گود میں ڈالو تاکہ ہم بھی اُسکو پیار کر سکے ۔ 

ویسے بھی دیکھو کیسے تم بچوں کے لئے ہلکان ہو رہی ہو ۔ ناز بیگم نے اب کے دل میں ہنسی چھپاتے بولا 

“ اللہ معاف کرے ۔۔۔۔۔ وہ بوتل ویسے ہی ہاتھ میں پکڑے کانوں کو ہاتھ لگا گئی ۔ 

بھابھی ۔۔۔۔ میں گولو کو اس لیے اپنے پاس ڈالنے لگی ہوں کہ مجھے رات کو ڈر نا لگے ۔۔۔

اور ویسے بھی  پہلے بھابھی آپ اپنے  دیور کو بولوں  گھر اپنی بیوی کو شکل دکھا جائیں کہیں ایسا نا ہو کہ میں بھول جاؤں

پھر بھوتوں کی طرح چیختا رہ جائے گا ، اندازہ ہے آپ کو دو دن ہو گئے اُسکو فام ہاؤس میں بیٹھے ۔۔۔۔

سیاست میں اچھا گیا ہے ، گھر آنے سے ہی رہ گیا ۔،میں بالکل بھی بات کرنے والی نہیں ۔۔۔   

اور آپ تو پتا نہیں کہاں دور نکل گئی ، جائیں سو جائیں آپ تھک گئی ہیں جنت صدمے کی حالت میں بول آگے بڑھی تو ناز بھی سر جھٹکتے مسکراتے کیچن میں واپس گئیں ۔۔۔

“ گولو آج یہاں میرے پاس ہی رہے گا ۔۔۔!! جنت جو روم میں آ چکی تھی ۔ مسکراتے سرحان کو دیکھا جو ہوش سے بیگانہ سو رہا تھا ۔ 

“ مراد کو بولو بچے کا سوچے ،۔۔۔!! جنت جو دوپٹہ نکالتے سرحان کے ساتھ ہی لیٹی تھی ، ناز بھابھی کی بات یاد کرتے خود سے ہی شرمائی ۔۔۔

گھر تو آتا نہیں۔۔۔۔ اب تو میں اس کا فون بھی نہیں اٹھاؤ گئی ۔

جنت منہ بورستے واپس سے سرحان کو دیکھ اُسکا چھوٹا سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے مسکراتے آنکھیں بند کر گئی ۔ 

 برہان جو بہت الجھا آیا تھا ابھی سامنے جنت اور سرحان کو دیکھتے ہلکے سے مسکرایا ؛۔

داتا بخش ۔۔۔۔ 

حکم ۔۔ چھوٹے سائیں ۔۔۔۔ داتا بخش جو مراد کے ساتھ ہی گاڑی سے نکلا تھا ۔

سر خم کرتے پوچھا ۔ 

میرے خیال سے ہمیں حویلی کی سکیورٹی مزید بڑھا دینی چاہیے ، 

مراد جو بڑے حویلی پہنچا تھا سرسری سے اپنے آدمیوں کو دیکھتے داتا بخش سے گویا 

ٹھیک سوچا آپ نے چھوٹے سائیں ۔۔۔۔ میں کل ہی مزید لوگوں کو رکھتا ہوں ۔۔۔ داتا بخش نے جلدی سے اپنا اتفاق ظاہر کیا ؛۔

مراد آرام سے آگے بڑھا تھا وہ آج فام ہاؤس سے دو دن بعد واپس آیا تھا 

وہ سیاست کے سارے کام وہاں سے ہی کرتا تھا کیونکہ وہ میرپور شہر کے قریب ہی واقع تھا ۔ 

مراد جو سیدھا چلتے روم میں داخل ہوا تھا ، سامنے ہی اپنی جانیں ہستی کو دیکھ اُسکا سختی لیے چہرہ خوشی لیے مہکا ۔ 

وہ اپنی واچ اتارتے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوتے آئینے سے بیڈ پر ساتھ میں سوئے سرحان کو دیکھ گیا ۔ 

مقابل ویسے ہی چلتے کرسی پر بیٹھا تھا اور بند جوتے اتار وہی چھوڑ سیدھا کبڑد کی طرف گیا ۔۔۔

تھوڑی دیر میں وہ فریش ہوتے باتھ روم سے نکل گیلے بالوں میں ہی بیڈ کی طرف بڑھا ؛۔ 

“ مرجان سائیں ۔۔۔ یہ اچھا نہیں کیا ۔ آج میں نے آنا تھا آج تو بیڈ خالی ہونے چائیے تھی ۔۔۔

وہ جنت کو سرحان کے ساتھ لگے سوتے دیکھ خود سے بڑبڑاتے جنت والی سائیڈ پر دبے پاؤں گیا ۔

برہان کے ڈمپل آہستہ آہستہ گہرے ہوئے تھے ،  

“ جنت ۔۔۔۔ مراد آہستہ سے اُسکے قریب بیٹھا تھا یوں کہ وہ اُس پر جھکتے کان میں سرگوشی کر گیا ؛۔

ابھی چاہت تھی کہ وہ اُس سے دیکھے اور بات کرے ، وہ بےنیاز سے بنا پروار کیے کہ وہ گہری نیند میں ہے اُسکو ہلکا ہلکا ہلانا شروع ہوا ۔۔۔

وہ ایسا ہی تھا عشق جب سر پر چڑھتا تو یہ نا دیکھتا کہ وہ جانیں ہستی ڈسٹرب ہو جائے گئی؛۔ 

جنت ۔۔۔۔۔ وہ اب کہ تھوڑا سا اونچا پکارتے ساتھ زور سے اُسکو ہلا گیا 

وہ بے خبر ٹس سے مس بھی نا ہوئی تھی ، جبکے مراد کے تھوڑا سا اونچا پکارنے سرحان جو قریب ہی سو رہا تھا ؛۔

بچوں کی طرح منہ بگاڑتے کسمایا ۔ 

مراد جنت کو ویسے ہی گہری نیند میں دیکھ شرارت سے اُسکے گال پر اپنے لب رکھتے چوم گیا 

 ساتھ ہی مراد نے اُسکی کروٹ جو سرحان کی طرف تھی اپنے طرف دلائی 

وہ بالکل سیدھے ہوتے چہرہ مقابل کی سائیڈ پر ٹکا گئی ؛۔ 

وہ ہلکے سے مسکرایا تھا جبکے ساتھ ہی اُسکے گاڑھے نما ڈمپل نمایاں ہوئے ؛۔

وہ اُسکے ہونٹوں کو دیکھ تیزی سے جھکنے کو ہوا تبھی سرحان کی چیخیں گونجنا شروع ہوئی 

مراد جو بے فکر ہوئے جنت پر جھکنے لگا تھا ڈرتے اک دم سے پیچھے ہوئے ؛۔۔

ہاہاہاہ،۔۔۔۔۔۔۔ 

برہان جو یہ دیکھ پل انجوائے کر گیا تھا قہقہہ لگاتے زندگی سے بھرپور مسکرایا ۔ 

جنت ۔۔۔۔ مراد نے اب کے پوری قوت سے اُسکو جھھوڑا تھا تاکہ اٹھے اور سرحان کو دیکھے ۔

جنت جس کی آنکھوں میں پوری طرح نیند گھوم رہی تھی 

مقابل کے ایسے پکڑ کر جھھوڑنے پر منمناتے بوجھل سے ہلکی نیلی آنکھیں کھولی ۔

کیا ہے ۔۔۔۔؟ وہ چیخی تھی ۔ 

سرحان رو رہا ہے ۔ اُسکو دیکھو ۔۔ وہ چاہتا تو خود بھی سرحان کو خاموش کروا سکتا ۔ لیکن جان بوجھ پر جنت کو بولا 

تاکہ اُسکی نیند اتار سکے ، وہ ویسے ہی نیند سے بھری آنکھوں کو سرحان پر ڈال گئی 

کیا ہو گیا ۔۔۔۔۔! اُسنے اُسکو اپنی گود میں اٹھایا تھا ، اور آس پاس ہاتھ مارتے دودھ کی بوتل اٹھاتے اُسکے منہ سے لگائی 

وہ مزید چیخنا شروع ہو تو جنت رونے والی ہوئی ، اُسکی حالت کو دیکھ مراد انجوائے کرتے آرام سے ہنسی کو چھپا گیا ۔ 

تبھی کمرے کا ڈور بجا تھا ، لگتا ہے بھابھی آ گئی ۔۔۔۔ جنت جو رونے لگی تھی ہلکے سے مسکراتے سرحان کو ویسے ہی گود میں لئے بھاگی ۔۔۔۔

بھابھی ۔۔۔۔ یہ لیں ۔۔۔۔ جنت نے فورا سے ڈور کھول سرحان ناز بیگم کو پکڑایا ۔۔۔۔

تو مراد بھی ہنستے ڈور تک آیا ۔ 

میں نے پہلے ہی کہا تھا تمہارے بس کی بات نہیں ۔۔۔ ناز بیگم اُسکو واپس سے بھاگتے بیڈ پر گرتے دیکھ حیران ہوئی

مراد وہی ڈور کے ساتھ ٹیک لگائے مسکرایا ۔ 

توں کب آیا ۔۔۔؟ ناز بیگم جو ابھی پوچھنے والی تھی ، 

سلطان شاہ پیچھے سے آتے بولے تو مراد فورا سے آگے ہوتا ان کو ملا ؛۔

بس ابھی کچھ دیر پہلے ہی آیا تھا ، تو سرحان کو روتے دیکھ جنت کو اٹھانا شروع کیا ؛۔ 

جب نیند میں ہوتی ہے تو اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے ، وہ ہلکے سے مسکراتے گویا ۔ 

میری بات سنو شاہ ۔۔۔ ناز نے اب کہ مراد کو اپنی طرف متوجہ کروایا ۔ 

بچوں کے بارے میں سوچو ، جنت کو اپنا بچہ چائیے ، دیکھنا پھر کیسے یہ سینجدہ ہوتی ۔ 

جانتے ہو آج کیا کہا اُسنے ۔۔۔۔؟ ناز جو اپنی ہی باتوں میں لگی تھی سلطان شاہ بھی مسکرائے تھے 

کہتی بھابھی آپ کا دیور گھر تو آتا نہیں ہے بچا کہاں سے لائے گا ۔۔۔؟ 

ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ سلطان شاہ اور مراد کے قہقہے ایک ساتھ گونجے ۔ 

جبکے ناز بیگم بھی مسکرائی ۔ اُسکو وقت دیا کرو وہ اکیلی اس بڑی حویلی میں غصہ کرتی رہتی ہے ، 

بچے ہونگیں تو اُسکا بھی دل لگا رہے گا ، پھر وہ بار بار مجھے یہاں اتنی دور سے نہیں بلائیں گئی۔ 

سمجھے ۔۔۔۔ ناز بیگم پیار سے سمجھاتے گئی تو مراد سلطان شاہ کو گلے ملے ڈور لاک کرتے بیڈ کی جانب آیا ؛۔

ابھی بتاتا ہوں اُسکو۔۔۔ وہ اچھال کر بیڈ پر بیٹھا تھا اور ساتھ ہی جنت کو بازو سے پکڑے اٹھایا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

معذرت ایپی صبح دینی تھی مگر لائٹ نے اب دن میں بھی تارے دکھا دئیے ، 

پہلے رات کو جاتی تھی جس ٹائم ویڈیو لگانی ہوتی تو اب دن میں بھی اُسکو پتا چل گیا کہ میں نے اپنا ٹائم بدل لیا ہے 😢

مجھے بہت غصہ آتا ہے 😣😞 لیکن کوئی نہیں میں نے پھر بھی ایپی پوسٹ کر دی ہے ۔۔۔

چھٹی نہیں کی 🙈😁😂 ، چلو تو آج ماضی پڑھ کر کیسا لگا ، جمال کی زندگی  کا پورا سچ میں نے کھول دیا ہے ۔

آئی نو آپ لوگ اداس ہوئے ہونگیں کہ سارا ماضی ہی تھا لیکن گائز ناول ختم ہو رہا ہے تو ماضی بھی مجھے ختم کرنا ہوگا نا ۔۔۔۔؟ 🤩

خیر اگلی قسط میں بہت اچھا ہونے والا ہے ، آیت برہان کا لکھوں گئی 

باقی اس پر گزار کرو اور اچھے سے لائکس کرنے ہیں 


This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

No comments:

Post a Comment