Pages

Tuesday, 12 November 2024

Ishq Mera Faramosh Kun By Smareena Sehar Complete Romantic Novel

Ishq Mera Faramosh Kun By Samreena Sehar Complete  Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Mera Faramosh Kun By Smareena Sehar Complete  Romantic Novel 

Novel Name: Ishq Mera Faramosh Kun  

Writer Name: Samreena Sehar

Category: Complete Novel

محبت سے عشق اور عشق اور عشق سے جنون تک کی داستاں۔۔۔

خواب سے خواہش اور خواہش سے حقیقت تک کی داستاں۔

پہاڑوں کی اداسیوں  سے لے کر کیلفورنیا کی رنگینیوں تک کی داستاں۔۔۔

             💙عشق مرا فراموش کن💙

وہ بھاگ رہی تھی اتنا تیز جتنا وہ بھاگ سکتی تھی ۔

اب وہ اس گھنے جنگل میں داخل ہو چکی تھی جس کے ذکر سے بھی اس کا دم گھٹتا تھا۔

اور آج وہ اس میں چھپتی پھر رہی تھی قسمت کے کسی ورق نے مسکرا کے سوچا۔

پہاڑوں کی شہزادی کا دوپٹہ کہیں گر چکا تھا ۔

لمبے بال بکھر کر کمر پر پھیلے تھے مگر وہ بھاگ رہی تھی ۔

اچانک اس کے پیر پہ لگنے والا زخم اتنا زور کا تھا کہ وہ منہ کے بل گری ۔

منہ کے بل وہ اس جگہ نہیں آج سے کوئی دو گھنٹہ  پہلے گری تھی جب اس نے وہ خبر سنی تھی خبر بھی ایسی کے دل کو نچوڑ کر رکھ دے جینے کی ہر آرزو چھین لے۔

اس کی گہری سبز آنکھوں میں خون کی لہر نظر آتی تھی جب اسے اپنے پیچھے آتے قدموں کی آواز سنائی دی۔

آئید میر جو جنگل وزٹ پہ آیا تھا اسے یکدم کسی انہونی کا احساس ہوا۔

وہ اس طرف بھاگا تھا ۔

اور اچانک اس کے کانوں پہ سسکیوں کی آواز سنائی دی ۔

وہ کوئی لڑکی تھی جو شاید منہ ہاتھ پہ رکھے اپنی سسکیاں دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔

ایک مہینہ ہونے والا تھا اسے اس جگہ کچھ تو وہ ان راستوں سے واقف ہو چکا تھا۔

اس نے اپنا کوٹ اتار کر ایک ہاتھ پہ ڈالا جو جھاڑیوں سے الجھ رہا تھا۔اس کے وجہیہ چہرے پہ شکنیں ابھری تھیں۔

سامنے ایک وجود نظر آیا تھا اسے وہ گھٹنوں میں منہ دیے رو رہی تھی اتنا کہ آئید میر کو خطرہ لاحق ہوا کہ شاید یہ جنگل ڈوبنے والا تھا۔

او ہیلو محترمہ۔۔۔

اس سے پہلے کے واقع جنگل ڈوب جاتا آئید میر نے سسکتے وجود کو پکارا۔

اور محترمہ نے جن آنکھوں سے اسے دیکھا تھا وہ کانپ کے رہے گیا۔

خوف ،تکیلف،آنسو،امید،اور کرچیاں ٹوٹے ہوۓ خوابوں کی کیا کچھ نہیں تھا ان نظروں میں ۔

یہ اس کی اس خوبصورت شہزادی سے تیسری ملاقات تھی وہ اسے پہچان گیا تھا ۔

وہ آ گۓ میں نہیں جاؤں گی نہیں۔

وہ بھاگ کے اس کے پیچھے چھپ گئی تھی۔

آئید میر بنا اسے چھوۓ اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ سوکھے پتے کی مانند کانپ رہی تھی۔

چپ کر جاؤ لڑکی ایک منٹ ۔

وہ اس کا بازو کھینچ کے ایک جھاڑی کے پیچھے لے گیا تھا۔

اس کو گورنمنٹ کی طرف سے ملا ہوا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔

کیا تم واقع خطرے میں ہو سچ سچ بتاؤ مجھے۔

وہ اس کے پیچھے چھپ کے کھڑی تھی۔

ہاں میں خطرے میں ہوں مجھے مجھ سے خطرہ ہے مرنا چاہتی ہوں میں اور وہ لوگ جو مجھے پکڑ رہے اس سے پہلے کے وہ اور پٹر پٹر بولتی آئید میر نے اپنا چوڑا ہاتھ اس کے سرخ لبوں پہ رکھا۔

خاموش ہو جاؤ تم کیوں مجھے شہید کروانے پہ تلی ہو لڑکی۔ وہ اسے خاموش کروا چکا تھا مگر کاش وہ اسے بولنے دیتا گزرتے لمحے نے سوچ کے کروٹ بدلی تھی۔

اچھا خاصا جھڑک کہ کہا گیا تھا ۔وہ بالکل چپ ہو گئی اتنی مشکل میں بھی آئید میر کے چہرے پہ آنے والی مسکان شاندار تھی اس کی شخصیت کی طرح۔

صاب مجھے لگتا بی بی صاب اس طرف گیا ہے اس طرف ہم نے کالی چادر کا ٹکرا دیکھا تھا۔

کسی گارڈ کی آواز سنائی دی۔

نورم بچے خدارا جہاں بھی ہو مجھے جواب دو تم سب سے نفرت کر سکتی ہو مگر مجھ سے نہیں پلیز بیٹا جواب دو۔

گھمبیر آواز میں پکارتا اس کا لالہ ارمغان جہانگیر خان تھا ۔اس نے بے ساختہ سسکی دبا کر آئید میر کی شرٹ کا بازو پکڑا تھا گویا خود کو سہارا دیا ہو۔

تم ٹھیک ہو ناں۔

اس بار آئید میر کو اس پہ  ٹوٹ کے ترس آیا تھا۔

بال بکھرے ہوۓ تھے جو خوبصورت چہرے کے گرد پھیلے تھے سبز آنکھوں میں مٹے ہوۓ کاجل کی دھار درد بھری داستانیں سناتی تھیں۔

لبوں پہ پڑا کفل ایسا تھا کہ گویا ٹوٹے گا تو آدھی دنیا اس کے ساتھ مل کر روۓ گی۔

اسے سمجھ نہں آیا ابھی دس بیس دن پہلے پھولوں کی طرح ہنستی لڑکی کو کیا غم کھا رہا تھا۔

صاب بی بی صاب دوسری طرف گیا ہے ام کو یقین ہے پکا۔

گارڈ نے پھر کہا۔

چلو اس طرف۔

پھر وہ ہی خوبصورت گھمبیر آواز آئی تھی۔

اور آئید میر اس کو ساتھ لے کر جاتے ہوۓ گہری سوچ میں گم تھا۔ 

اور نورم جہانگیر اذیت کی انتہا پر تھی اس نے ساتھ چلتے اس دیوتا جیسے شخص کو دیکھا اور کرب سے آنکھیں جھکا لی تھیں اس نے اس انسان کے ساتھ اس طرح چلنے کا کب سوچا تھا کب ۔

مگر نورم کی سوچیں جانچنے کے لیے ہمیں جانا پڑے گا وقت سے تھوڑا پیچھے ظہار خان کے قبیلے میں پھیلے پہاڑوں کی سر زمیں پہ۔

                ؁؁؁؁

اور جب میرے محبوب نے رکھا میری سر زمیں دل پہ پہلا قدم۔۔۔

تو میں نے پایا خود کو نم ۔۔۔

میں نے بھیجا اس کو محبتوں کا تحفہ جو دیا اس نے ٹھکرا۔۔۔۔

میں نے دیکھا میری دل پہ اترتا خزاں کا موسم۔۔۔

تو مجھے لگا میر وجود جلتی بھٹی کا ایندن ۔۔۔

عشق نے مجھے بنا دیا جوگن  ۔۔۔

 اور میں پہنچی کا سئہ دل لے کے محبوب کے در پر۔۔۔

اور جب اس نے بخشا مجھے اپنی چاہت کا پیالہ ۔۔۔

تو میں نے پایا خود میں بہار کا موسم۔۔۔

اور میں نے اس کے لے خود کو کر دیا پاگل۔۔۔

تو پہنچی میں محبت کی پہلی سیڑھی پہ تو میں نے دیکھا تقدیر کا پہلا وار۔۔۔۔۔

اور میرے خوابوں کی ہوئی کرچیاں۔۔۔

میں نے جمع کی زخمی ہاتھوں سے وہ کر چیاں ۔۔۔۔

اور بنایا ایک ہمت کا محل ۔۔۔۔

اور رہنے لگی اس کے انتظار میں ۔۔۔

ایک دن دیکھ کر مجھے روتا ،ستارے اترے آسمان سے اور پوچھا۔۔۔۔

چاہیئے تم کو کیا ۔۔۔

کیوں روتی ہو اس قدر۔۔۔

میں نے نم آنکھوں سے تب یہ کہا۔۔۔

جا ؤ ۔۔۔

اور اس شخص کو میرے تقدیر میں لکھواؤ۔۔۔۔

اب وہ جو پلٹے تو سانس آۓ۔۔۔

میرے تپتے وجود کو آرام آۓ 

میرا من  رو رو کر بس یہی بس یہی گاۓ ۔۔

عشق مرا فراموش کن ۔۔۔۔۔

عشق مرا فراموش کن۔۔۔۔۔۔

عشق میرا فراموش کن۔۔۔۔۔

(ثمرینہ سحر)

نورم خان تھی وہ پہاڑوں کی شہزادی وہ ہنسی تھی تو لگا جھیل میں ٹھہرا پانی ہلچل مچا رہا ہو ۔۔

ساتھ کھڑی پلوشہ نے دل میں نظر اتاری تھی نورم جہانگیر خان ایسی ہی تھی۔۔۔

معصوم ۔۔

بھولی۔۔۔

خود سے لا پرواہ۔۔۔۔

پہاڑوں کی شہزادی تھی اتنی نرم دل کے ہر ایک کا دل جیت لیتی۔

پلوشہ اور ستارہ دونوں بکریوں کے ریوڑ اکھٹے کیے ان کو سبزے میں لائیں تو نورم سے رہا نہیں گیا جھٹ میں اپنی کالی شیشے والی چادر اوڑھی اور خانم (نورم کی دادی)

ان کو بس بتا کر بھاگ آئی ۔

 دادو خانم میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ باہر جا رہی ہو بابا سائیں یا لالہ آئیں تو کہنا سو رہی وہ چٹا چٹ ان کا گال چومتی بھاگ آئی تھی۔

پلوشہ مجھے یہاں آ کر بہت اچھا لگتا ہے کھلی فضا ایسے لگتا ہے جیسے یہ سب میرا انتظار کرتے ہیں۔

وہ ساتھ چلتی پلوشہ کو بتا رہی تھی۔

وہ لوگ اب سبزے سے تھوڑا دور روڈ کے ساتھ چل رہے تھے۔جب تیز دھول اڑاتی کار ان کے پاس آ کر رکی تھی ۔

بکریوں کا ریوڑ سامنے تھا اور وہ لوگ ہارن پہ ہارن بجا رہے تھے۔

تبھی سفید یونیفارم میں ملبوس ڈرائیور نکلا تھا۔

بیبیوں دیکھو صاب کو بہت جلدی ہے آپ لوگ ان کو راستہ دے دیں میربانی فر ما کر اس سے پہلے کہ وہ مجھے بکریوں کے اوپر سے اڑ کر جانے کو کہ دیں۔

وہ بیچارا پریشان تھا۔

ہم پہلے آۓ ہیں یہ ہماری زمیں ہمارا روڈ ہمارے پہاڑ ہیں ہم جب جائیں یہاں سے۔

اس سے پہلے کے پلوشہ کچھ بولتی نورم نے ڈرائیور کو جتا کر کہا تھا۔

وہ کسی سے الجھتی نہیں تھی مگر شہر کے لوگوں سے اسے تھوڑی چڑ تھی۔

کیا ہوا ہے نور دین تم کو پتہ ہے نا کہ میرا پہلا دن ہے اور تم یہاں مذاکرات پہ لگے ہو

وہ بولا تھا اس کو الجھتا دیکھ کر۔

وہ گاڑی سے باہر جو شخص آیا تھا نورم نے اس کو ایک جھلک دیکھا دوسرے پل وہ اس سے آگے کھڑا تھا بالکل کسی فاتح کی طرح۔۔۔

اس نے سنا تھا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آتے ہیں اور چھا جاتے ہیں وہ ایسا ہی تھا شاندار۔۔۔

بلیک جینز کے ساتھ وائٹ شرٹ میں اس کا دراز قد نمایاں تھا ایک ہاتھ پہ کوٹ ڈالے نک سک سے تیار آنکھون سے گلاسز اتارتا اس نے ایک بار بھی اس حسن کی دیوی جو پورے علاقے میں مشہور تھی نہیں دیکھا تھا بلکہ شاید اس نے نگاہ تک نہیں ڈالی تھی۔

کیا خاص تھا اس میں نورم نہیں جان سکی ہاں مگر یہ ضرور تھا کہ اب بس وہ ہی بول رہا تھا باقی سب کو چپ لگ چکی تھی ۔

دیکھۓ محترمہ آپ کو شاید پتہ نہں مجھے جلدی پہنچنا ہے وہ جس جگہ کا نام لے رہا تھا وہ بس ساتھ ہی تھی نورم نے سوچا ۔

تو آپ جائیں ہم نے آپ کو کب روکا ہے ۔

نورم کے گالوں پہ بس تب ڈمپل نہیں پڑتا تھا جب وہ ہنستی تھی بلکہ بولتے روتے کھاتے ہر وقت وہ نمایاں تھا۔

خوبصورت گورا رنگ گلابی گال کچھ بھی تو سامنے کھڑے شخص کو متاثر نہیں کر سکا تھا بلکہ اب وہ پلوشہ کو کچھ کہہ رہا تھا۔

پلوشہ نے اسے راستہ بنا دیا تھا اور وہ گاڑی بھگا لے گیا تھا بنا یہ سوچے کے پیچھے کھڑی شہزادی کا دل گم شدہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ تھی ان کی پہلی ملاقات۔

             ؁؁؁؁؁

ﯾﮧ ﺑﺎﺭﺷﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ

ﺟﻮ ﺑﺮﺱ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺑﮩﺎﺭ ﮨﮯ

ﺟﻮ ﭨﮭﮩﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﮯ

ﮐﺒﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺑﮯ ﺳﺒﺐ

ﮐﺒﮭﯽ ﭼﮭﺎ ﮔﺌﯽ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺭﻭﺯ ﻭ ﺷﺐ

ﮐﺒﮭﯽ ﺷﻮﺭ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﭼﭗ ﺳﯽ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﺑﺎﺭﺷﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ

ﮐﯿﺴﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ

ﺍﮎ ﺩﺑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺳﯽ ﺭﺍﮐﮫ ﮐﻮ

ﮐﺒﮭﯽ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﯾﺎ

ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ

ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻮﻧﺪ ﺑﻮﻧﺪ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﺑﺎﺭﺷﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ

                                                     (coppied )

اور یہ منظر کیلفورنیا میں یو سی بارکلے کا ہے ۔

وہ اس روم  میں بند روۓ جا رہی تھی باہر بارش تھی اور اندر اس کی آنکھوں میں بھی اسے خبر نہں تھی کہ اس نے کیوں ان فرنگیون پہ اعتبار کر کے سوشیالوجی کی کلاس کا روم پوچھ لیا تھا وہ اسے اس اکیلے روم میں بند کر کے جا چکے تھے ۔

افففف آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

اس کو یاد آیا امی کا چہرہ۔۔۔

بھائی کا۔۔۔

بابا جان۔۔۔۔

اس کی پیاری مانو۔۔۔۔

مطلب اب میں ان کو کبھی نہیں دیکھ سکوں گی افففف اس کا دل بند ہو رہا تھا۔۔۔۔

اور ادھر پوری یونی میں پاکستان ایسو سی ایشن کے وہ لوگ دیوانہ وار جس لڑکی کو ڈھونڈ رہھے تھے وہ اس اکیلے کمرے میں بند پڑی تھی۔

کہاں گئ وہ آخر ۔۔۔۔

نور بیچاری پریشان نظر آتی ہے۔

چلو جہنم میں جاۓ آو ہم باہر چلتے ہیں۔۔۔

یہ جو بولا تھا یہ نہ ایشایئ تھا پورا نہ انگریز۔۔

اس کے نین نقش ایشیائی تھے تو آنکھیں نیلی وہ بول اردو رہا تھا مگر لہجے میں فارنرز کی جھلک تھی وہ ولید  ابسن تھا اس کو جاننے کے لے تارخ کھولنی پڑے گی بہت جلد۔۔۔۔

بچا لو کو ئی بچا لو خدا کے لے میں دعائیں دوں گی وعدہ کرتی ہوں۔۔۔۔

اور اس سے پہلے کے باقی کچھ کہتے ان کو آواز آئی مگر کہاں سے؟؟؟

او شٹ یار وہ اس کو پرانے روم میں جہاں کیفے کا سامان رکھا جاتا بند کر گۓ ہیں ۔۔۔

ولید ان سب کو لے کر ایک سائڈ پہ بھاگا انہوں نے دروازہ کھولا تھا وہ جو پہلا شخص اندر داخل ہوا وہ ولید ابسن تھا اور جو اس کو دیکھ کر بھاگ کر اسکے گلے لگی تھی وہ حرم ریحان تھی وہ اس کے بازوؤں میں بےہوش ہو چکی تھی۔

ولید تو کیا باقی سب بھی ہکا بکا تھے اسکی حالت پہ وہ  اچھے موسم میں بھی پسینے میں شرابور تھی سر پہ حجاب ایک سائڈ پہ ڈھلک چکا تھا لمبی مڑی ہوئ پلکیں بند تھیں ۔

ولید نے اسے کو ایک سائڈ پہ لٹایا۔

لگتا گزر گئی۔

بیلا نے افسوس سے تبصرہ کیا۔

اس کے گھر والوں کو کیا منہ دیکھاؤں گا میں۔۔۔

حسان کو اپنی فکر ۔۔۔

تھی کافی پیاری۔۔۔

مائیکل کو افسوس اس کا نہیں تھا کہ وہ گزر گئی اس کا تھا کہ پیاری تھی اور گزر گئی۔

امی۔۔۔۔

تبھی نیچے پڑے وجود کہ لبوں سے نکلا۔۔

زندہ ہے  یہ تو حسان آگے ہوا۔

پانی دو جلدی ولید نے کشف سے پانی کی بوتل لے کر اسکے لبوں سے لگائی۔

کیا میں مر چکی ہوں۔۔۔

ہوش میں آنے کے بعد سامنے آتے چہروں کو دیکھ کے وہ معصومیت سے بولی۔

جی آپ مر چکی ہیں اور یہ تینوں جہنم کے فرشتے ہیں۔

اور ہم جنت کی حوریں تم کو ان سے لے جانے آئی ہیں

کشف نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔

اور حرم نے جس نظرو ں سے ولید حسان اور مائیکل کو دیکھا تھا ان کو یقین آ گیا تھا وہ شکل سے جہنم کے فرشتے ہی لگتے ہیں۔۔۔

تم زندہ ہو اور اب ٹھیک ہے نور اور سہانہ نے اس کےگال تھپتھپاۓ۔۔

تو ماما بابا سے بات کرواؤ ابھی میری پلیز۔

اب وہ ان کی منت پہ اتر آئی تھی۔

سنو لڑکی چپ کر کے بیٹھو تمہاری وجہ سے کس قدر خوار ہوۓ ہم اور تم یہاں فرمائشی پروگرام کھول کے بیٹھ گئی ہو۔

ولید سے زیادہ صبر کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی اور ایسا ہی ہوا وہ اس جھـڑک کے بولا 

اور حرم۔۔۔۔۔۔

وہ جو پہلے دل نم کیے بیٹھی تھی وہ رونا شروع کیا کی الامان۔۔۔

چپ کر جاؤ لڑکی خدارا پہلے باہر بارش نے سیلاب جمع کیا ہوا باقی تم پورا کر لو ارمان ولید بیچارا 

پچھتا رہا تھا اس وقت کو جب وہ اس سے کہہ بیٹھا تھا۔

اچھا شابا ش میں تمہاری بات کروا دوں  گی ا بھی پہلے ہم سے مل لو۔

کشف نے آگے ہو کر اسے چپ کرایا۔

میں کشف ہوں پاکستان سے اور یہ نور بھی۔

بیلا ادھر کی ہے امریکہ سے اور ولید بھی مگر دونوں مسلم ہیں ہاں ولید آدھا مسلم ہو گا ۔۔۔

اور سب نے زور کا قہقہہ لگایا۔

نہیں آدھا بھی نہیں وہ خود بھی ہنس رہا تھا۔

لا حول ولا۔۔۔۔ پڑھا گیا تھا حرم کی جانب سے۔

اور یہ حسان تمہارے بھائی کے دوست کا بھائی ہے۔

اور یہ مائیکل آسٹریلیا سے ہے۔

باقی بھی کافی لوگ ہیں ہمارے گروپ میں پھر مل لینا۔

اور یہ سہانا سر لنکا سے ہے  اس نے سانولی لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔

اب چلو بھی ہو گیا ہو پورا تعارف تو مجھے تو گھٹن ہو رہی اس کا کیا حال ہو گا حسان کو اس کا خیال آ ہی گیا تھا۔

               ؁؁؁؁؁

پہاڑوں کی شہزادی اور شہر کے دیوتا کی دوسری ملاقات تھی  کچھ اور بھی دلچسپ ۔۔۔۔

وقت سے کچھ پیچھے۔

 نورم بیٹا کیا ہوا اس قدر اداس کیوں بیٹھی ہو۔۔

دادی خانم نے اسے چپ دیکھ کر کہا تھا۔

اس کی ماں کا انتقال اس کی پیدائش پہ ہو چکا تھا۔

اسے یہ بات خانم نے بتائی تھی۔

ارمغان لالہ اس سے دس سال بڑے تھے ۔ با با  جان اور لا ل کب آئیں گے شہر سے یہی سوچ رہی ہوں۔

اس نے اپنے سنہری بالوں کو جو مینڈھیاں کس کس کر سامنے سے گھنگھریالے ہو چکے تھے ان کو انگلی پہ لپیٹتے ہوۓ کہا۔۔

پہاڑوں کی شہزادی کو عشق لاحق ہوا تھا خانم یہ بات کہاں سمجھ رہی تجھیں۔

اور نورم اس کا دماغ آگے کا پلان بنانے میں مصروف تھا وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی بس کسی طرح۔

اور اگلے پل وہ عزم کے ساتھ مسکرائی تھی۔   

اسے اس شخص کو دیکھنا تھا جو اس کے دل پہ ایک پل میں راج کرنے  لگاتھا جس کا نام تک نہیں پتا تھا جس نے نورم کی طرف ایک نگاہ نہیں ڈالی تھی ۔

پہاڑوں کی بیٹیوں کو عشق کا حق وہیں اونچی چوٹیوں میں دفنا دیا جاتا ہے نورم جہانگیر خان کو  یہ کہاں خبر تھی۔

سنو سلمی اس نے ملازمہ کو باہر آ کر پکارا۔

دادو خانم کو بتا دینا میں پلوشہ کے پاس جا رہی ہوں ابھی آ جاؤں گی۔

اس نے چادر اچھے سے کی اور باہر نکل آئی۔

اس کے پیرکانپ رہے تھے مگر ارادے اور خواہش مضبوط تھی اس راہ پہ چلتے پاؤں کن کانٹوں کے مسافر بننے والے تھے نورم خان ایک بار سوچتی تو کانپ اٹھتی

بی بی صاب کہاں جا رہی ہیں میں چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔

ابھی وہ گیٹ پہ پہنچی ہی تھی کہ گارڈز فورا الرٹ ہوۓ۔

نہیں میں بس پاس میں ہی پلوشہ کے پاس جا رہی اس نے سختی سے انکار کرتے ہوۓ قدم باہر بڑھا دئے تھے۔

وہ جو سرکاری بنگلہ ہے نا نہر کے پاس وہاں ٹھہرا ہے وہ سرکاری آفیسر ۔

پلوشہ کے ابو امی اس کا کھانا بنانے جاتے تھے اس لیے اس کے پاس کافی جبریں تھیں۔

سنو نورم ابا ایک اور بات بتا رہے تھے۔

وہ اس کے پاس کھسکی ۔

کیا بات۔

نورم نے اپنی سبز آنکھیں اس پہ جماتے ہوۓ کہا ۔

اس وقت اس کے زہن میں بس وہ مغرور دیوتا تھا وہ اپنا آپ گویا بھلاتی جا رہی تھی بھلا عشق یوں بھی اترا ہے کسی پہ اچانک ۔۔

بنا سوچے۔۔۔

ایک پل میں

بالکل کسی انہونی کی طرح۔

وہ قصوں کہانیوں کی ملکہ نہیں تھی مگر اس کی کہانی عجب رخ دھار رہی تھی۔

وہ جو شہری لڑکا ہے ناں وہاں ابا نے کچھ مشکوک لوگوں کو آتے دیکھا۔

ارے چھوٹی بی بی آئی ہیں اس سے

پلوشہ اسے کچھ اور بتاتی پلوشی  کی ماں نے اسے دیکھ کر فورا کہا تھا۔

 خالہ جان میں کتنی بار کہا ہے مجھے آپ نورم کہا کریں آپ پلوشہ کی ماں اور ستارہ کی خالہ ہیں تو میں بھی آپ کی بیٹی ہوئی نا۔۔۔

اس نے پیار سے ان کی گردن میں باہیں ڈال کر کہا۔

اور زہرہ خاتون تو واری گئی تھیں اس کی ادا پر۔

اچھا پلوشہ کل ہم نہر والی سائڈ پر جائیں گے کافی دن ہو گۓ ہیں ۔

اس نے خالہ کو سنا کر کہا۔

ارے اے لو بیٹا کل کیوں آج ہی آ جاؤ میں صاب کا کھانا بنانے جا رہی ہوں ۔۔

بڑے اچھے انسان ہیں وہ۔ نام تو کچھ مشکل سا ہے کیا تھا بھلا ہاں۔۔

میر داد میر ۔۔۔

نہیں کچھ اور تھا زہرہ خاتون نے جھلا کر کہا

زہرہ خالہ نے اپنے کام میں مگن کہا تھا اور نورم کا دل اس کے نام پہ دھک دھک کر رہا تھا ۔

وہ تو چاہتی ہی یہی تھی جھٹ تیار ہو گئی۔

مگر بچے خانم بی بی  ہم کو بہت ڈانٹے گا کہ ہم تم کو وہاں کیوں لے گۓ۔

زہرہ اس کے خاندان سے خوفزدہ تھیں اور وہ کیا پورا علاقہ ہی۔۔۔۔

نہیں خالہ وہ نہیں کہتی ہیں لالہ اور بابا جان گھر نہیں ہیں آج۔

پھر پلوشہ ستارہ اور نورم تینوں ہی تیار ہو گئے تھے جانے کے لیے۔

                 ؁؁؁؁ 

وہ  جو لاؤنج نما کمرے میں اخبار پڑھتا نظر آتا تھا وہ آئید میر تھا ۔

اس علاقے کا نیا فارسٹ آفیسر۔

نور دین دیکھو زہرہ مائی نہیں آئیں کیا ابھی تک مجھے تو کافی بھوک لگ رہی۔

جی صاب وہ آئی ہوئ ہیں اور ان کے ساتھ تین تین لڑکیاں بھی ہیں۔

نور دین نے ہاتھ کی انگلیوں سے اسے بتایا تھا گویا یہ اس صدی کی سب سے بڑی نیوز ہو۔

کیا مطلب ہے کون لڑکیاں ۔

ٹراؤزر پہ بلیک شر ٹ پہنے ماتھے پہ چند بال بکھراۓ گھریلو سے حلیے میں بھی وہ یونانی نظر آتا تھا۔

وہ اس علاقے کی روایات سے زیادہ نہیں تو کچھ تو واقف تھا اس لیے فورا اندر لپکا۔

اور نورم جو اسے دیکھنے باہر آ رہی تھی وہ پیچھے دیکھتی ہوئی اس سے زور کا ٹکرائی تھی آئید میر نے بہت کوشش کی اسے سمبھالنے کی مگر وہ گر چکی تھی فرش پہ اس کا پاؤں شاید مڑ چکا تھا اور کالی چادر ایک طرف گر گئی تھی۔

بلاشبہ وہ قدرت کا حسین شاہکار تھی ۔

ناک کی لونگ ڈمپل پہ روشنی بکھیر رہی تھی ایک بار آئید میر بھی مبہوت ہوا مگر اگلے پل۔اس کی سسکی سے چونک گیا تھا۔

آپ کون ہیں اور کیا کر رہی ہیں یہاں۔

وہ اب اس کے پاس بیٹھا اس کا پا ؤں دیکھنے کے کوشش کر رہا تھا مگر اس نے جھجک کر پیچھے ہٹا لیا۔

جو بھی ہو وہ دل پہ راج کرے یا وہ اس کی دیوانی ہو جاۓ مگر وہ اپنے باپ بھائی کا مان تھی۔

میں ٹھیک ہوں۔

اس نے بے ساختہ خود کو پیچھے کیا۔

جی وہ تو نظر آ رہا جتنا ٹھیک ہیں آپ۔۔

آئید میر نے اس بار دلچسپی سے اس کو دیکھا تھا

اور آپ ہیں کون ۔

پھر سوال ہوا۔

نورم کے دل نے سسکاری لی تھی وہ اس کو بھول چکا تھا وہ پہلی ملاقات میں اس کو یاد تک نہیں تھی ۔

نورم نے پلکیں جھکا لی وہ جو اس کی آنکھوں میں دیکھتی تو شاید آئید میر سارے راز جان لیتا۔

میں زہرہ کی بیٹی ہوں ۔

اس نے بے ساختہ کہا اور پیچھے سے آتی پلوشہ نے دل پہ ہاتھ رکھا۔

آئید میر نے اسے گھور کر دیکھا اپنے حلیے اطوار سے وہ کسی بہت امیر گھرانے کی محسوس ہوتی تھی۔

اچھا چلیں میں آپ کو وہاں بٹھا دوں۔

آئید میر نے ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔

نہیں نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں میں خود چل سکتی ہوں آپ پلیز دور رہیں۔

وہ سرا سیمہ ہو کر بولی تھی۔

دیکھیں محترمہ مجھے بھی شوق نہیں ہے کوئی خاص آپ کے نزدیک آنے کا آپ شاید کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں ۔

آئید میر اچھا خاصا تپا تھا۔

اور نورم کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔

اس نے اس لمحے کو کوسا جب وہ۔یہاں آئی تھی۔

جی میں اس کی مدد کرتی ہوں۔پلوشہ ان کو الجھتا دیکھ کر فورا  آگے آ گئی۔

آئید میر نے دیکھا تھا وہ لڑکی بہت مشکل سے چل رہی تھی تکلیف سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا مگر اس نے آئید میر کا سہارا نہیں لیا تھا اپنے درد تکیلف سے زیادہ اسے اپنی عزت نفس پیاری تھی۔

اس نے شانے اچکا کر واپسی کی راہ لی۔

مگر 5 منٹ بعد ہی نور دین کے ہاتھ میڈیسنز بھجوا دی تھیں۔

اور حال میں لوٹیں تو وہ لوگ آئید میر کے ریسٹ ہاؤس پہنچ چکے تھے۔

میں آ رہا ہوں دوائیں لے کر خبردار اگر تم ہلی ادھر سے۔

آئید میر نے اس رعب سے کہا اور وہ کسی معصوم بچے کی طرح سر ہلا گئی تھی مگر دل میں طوفان تھا جو آئید میر کو کس مشکل میں ڈالنے والا تھا یہ تو وقت ہی بتاتا

            ؁؁؁؁

سنو وہ کہاں گئی تم لوگوں کی سچی پاکستانی ۔

ولید ابسن کی نیلی آنکھوں میں شرارت چمکی تھی۔

کشف نے اسے گھور کر دیکھا۔

یہاں ہوں میں پورے امریکن۔

پیچھے سے آنے والی آواز پہ اس نے بے سا ختہ پلٹ کر دیکھا ۔

دیکھا تو حسان نور اور سہانا نے بھی تھا ۔

مائیکل کا تو منہ کھل چکا تھا ۔کشف البتہ مسکرا رہی تھی۔

وائیڈ لیگ جینز پہنے اس پہ بلیو کلر کا لانگ کرتا پہنے بالوں کی پونی ٹیل کیے اعتماد کے ساتھ بیگ پکڑ کر چلتی وہ اس طرف آ رہی تھی ۔

وہ حرم ریحان تھی۔

پاکستان کا مان اس کے بابا نے یہ کہہ کر بھیجا تھا۔گلے میں جینز کا ہم رنگ اسکارف تھا جو اس کی لمبی گردن میں جچ رہا تھا۔

حرم ریحان کو حسین نہیں کہا جا سکتا تھا مگر وہ ایسی تھی کہ ایک بار نظر ڈال کے پلٹنے پہ مجبور ہو جاؤ۔ اس کی گہری سیاہ آنکھیں اور اس کی ٹھوری پہ سیاہ تل اسے نمایاں کرتا تھا ۔رنگ صاف تھا اور نیں نقش مناسب۔ بال پونی میں مقید تھے جو کمر سے کچھ اوپر جھول رہے تھے۔

تم کو کیا لگتا ہے مسٹر ابسن ایک بار تمہارے گلے لگ کے رونے والی لڑکی ہر وقت تمہارے سامنے روتی رہے گی۔

وہ اسے ابسن کہتی تھی مگر کیوں۔۔۔

ولید نے یہ بات پھر کبھی پہ اٹھا رکھی

اس نے اعتماد سے اپنی سیاہ آنکھیں اس کی نیلی آنکھوں میں گاڑیں۔

اوہ اچھا۔۔۔۔

ولید نے آنکھوں کے ذریعے ہی کہا تھا۔۔

ہاں سچ جواب بھی آنکھیں دے رہی تھیں۔

تو چلو کلاس تمہارا انتظار کر رہی ہے۔

ان سب کے ڈیپارٹمنٹ مختلف ہیں مگر میرا نہیں۔

میں یعنی ولید ابسن تمہارا سینئر ہوں۔

اس نے اپنی جیکٹ کا کالر پچھے کرتے ہوۓ فاتحانہ نظروں سے کہا گویا کہہ رہا ہو بچ جاؤ حرم جتنا بچ سکتی ہو۔

اور یہ اس کا انداز تھا جس نے ایک بار حرم کو بھی ڈرایا تھا۔

چلو پھر۔

وہ اس کے پہلو میں آن کھڑی ہوئی۔

وہ اس کے کندھے تک آتی تھی۔

ولید ابسن کو یونیورسٹی میں منہ بولا کیلفورنیا کا شہزادہ کہا جاتا تھا۔

اور وہ اس بات کو دل سے ثابت بھی کرتا تھا۔

ساتھ کھڑے وہ ایک خوبصورت کپل لگتے تھے مگر دل میں دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے انجانا سا غصہ پال بیٹھے تھے۔

وہ اسے کلاس میں لے آیا۔

کلاس میں کوئی پچاس کے قریب اسٹوڈینٹس بیٹھے تھے۔

ان لوگوں کے لیے حرم ریحان عجوبہ لگی۔

اتنا لمبا قمیض اور گلے میں اچھے سے اسکارف ڈالے جو جسم کو ڈھانپ کے رکھتا تھا وہ ان کو اچھی نہیں لگی۔

سنو سنو سنو۔۔۔

ولید نے ڈائس پہ ہاتھ مارا۔

لڑکیوں نے فورا بال درست کر کے مسکان سجا کے اسے دیکھا تو لڑکوں میں سے کچھ نے اس کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا اور کچھ نے گویا وہ ان کا قائد ہو۔

تو یہ جو آپ کے سامنے کھڑی ہیں یہ ہیں حرم ریحان۔

اور تم خوبصورت شیطان حرم نہیں جانتی تھی اس نے یہ بات زور سے کر دی ہے اس کی عادت تھی وہ اکثر باتیں جو سوچتی وہ کر جاتی تھی۔

ساری کلاس میں قہقہوں کی گونج اٹھی۔

اور حرم کو پسینہ آنے لگا تھا جس نظر سے خوبصورت شیطان اسے دیکھ رہا تھا۔

تم لوگ میری بات سنو گے کیا ۔

وہ اب کلاس سے مخاطب تھا۔

اور سب نے ایسے سر ہلایا گویا اس سے ضروری کچھ نہ ہو وہاں۔ 

یہ ہیں حرم ریحان اور ان کو لگتا ہے کہ یہ پاکستان کا مان ہیں آپ سب سے بہتر ہیں آپ سب سے اوپر ۔ ان کو لگتا ہے کہ ان سے ذیادہ اس کلاس میں کو زہین ہو ہی نہیں سکتا اور اب آپ ان کو بتا دیں کہ یہ کس قدر درست ہیں

وہ اب اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اپنی پرکشش آنکھیں حرم پہ جما کر کھڑا تھا۔

پوری کلاس کی نظریں اس پہ آن جمیں غصہ ،ناپسندیدگی،ناراضگی ۔۔۔

وہ ایک پانچ منٹ میں اپنا کام کر چکا تھا۔

حرم کا ہاتھ بیگ پہ مظبوط ہوا ایک بار دل کانپا مگر وہ حرم تھی اپنے کالج کی سب سے پر اعتماد اور قابل لڑکی وہ یا تو بولتی نہیں تھی مگر جب بولتی تھی تو کوئی اور بولنے کے قابل نہیں رہتا تھا۔

پروفیسرز اس کے سوالوں سے گھبراتے تھے۔

جی جیسے کے مسٹر ابسن نے بتایا میں حرم ریحان ہوں۔

میں نے سوشیالوجی میں اپنے کالج میں ٹاپ کیا تو میرے پاس بہت یونیورسٹیز کا  تھا چانس کہ میں جا سکتی مگر میں نے چنا یو ۔ سی بارکلے کو کیلفورنیا کو آپ لوگوں کی وجہ سے میں ریسرچ کی آپ کے خلوص پہ میں نے سوچا میں جاؤں اور یو سی بارکلے میں آپ سب کے ساتھ مل کر اپنا آپ پرکھوں۔

اب یہ آپ پہ منحصر ہے کہ میں کتنا  سیکھتی ہوں کتنا روتی ہوں

وہ دو بس دو منٹ بولی تھی اور کلاس میں تالیاں گونج اٹھیں وہ ولید ابسن کو دو منٹ میں دھول چٹا چکی تھی۔

and we'll prove it haram...

i'm jenifer your friend from now....

ایک خوبصورت سی پتلی سی انگریز لڑکی اس کے گلے مل رہی تھی۔ حرم کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ تھے اور ولید ابسن کی آنکھوں میں غصہ۔

وہ اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا وہ اس سے خار کھا رہا تھا کس وجہ سے صرف اس کے پر اعتماد رویے پہ وہ یہ بات مانتا تب نا۔۔۔۔

                ؁؁؁؁

ﮐﺞ ﺍﻭﻧﺞ ﻭﯼ ﺭﺍﮨﻮﺍﮞ ﺍﻭﮐﮭﯿﺎﮞ ﺳﻦ

ﮐﺞ ﮔﻞ ﻭﭺ ﻏﻤﺎﮞ ﺩﺍ ﻃﻮﻕ ﻭﯼ ﺳﯽ

ﮐﭽﮫ ﺷﮩﺮ ﺩﮮ ﻟﻮﮒ ﻭﯼ ﻇﺎﻟﻢ ﺳﻦ

ﮐﭽﮫ ﺳﺎﻧﻮﮞ ﻣﺮﻥ ﺩﺍ ﺷﻮﻕ ﻭﯼ ﺳﯽ

آئید میر میدیسنز لے کر آیا تو وہ موجود نہیں تھی۔

اسے حیرت ہوئی وہ کہاں تھی۔

تبھی اسے ایک سائڈ پہ خون کا دھبہ نظر آیا وہ اس طرف گئی تھی اس کے پیر پہ زخم تھا وہ جانتا تھا۔

نور دین ۔۔۔

نور دین۔۔۔

آئید میر چلایا۔

جی صاحب نور دین بھاگ کر آیا۔

وہ لڑکی کدھر ہے ۔

صاحب وہ تو ادھر گئی ہے نہر والی جگہ پہ اس نے اشارہ کیا۔

اور آئید میر کو وہاں سے اس طرف بھاگنے میں ایک پل لگا تھا۔

سنو خدا کے لیے ایسے مت کرو واپس آ جاؤ۔

وہ بہت انا پرست تھا 

نہت سنگدل مشہور تھا۔

مگر وہ اس لڑکی کے لیے دل میں ترس محسوس کر رہا تھا۔

اونچی جگہ پہ کھـڑی وہ نہر میں جھانک رہی تھی۔

اور اگلے پل آئید میر نے استےکھینچ کے وہاں سے ہٹایا تھا اور زور کا تھپڑ اس کے منہ پہ مارا۔

تم پاگل ہو یا مجھے مروانے کی سازش ہے کوئی بتاؤ مجھے لڑکی۔

اس کو یقین تھا کہ اس کا دماغ ٹکھانے پہ لگانے کے لیے یہ تھپڑ ضروری تھا۔

نورم نورم جہانگیر خان ہوں میں اس نے گال پہ ہاتھ رکھ کر سبز آنکھیں اس کے چہرے پہ جمائیں۔

اور آئید میر اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔

کیا کہہ رہی ہو تم۔

اس نے دوبارہ پوچھا۔

نورم جہانگیر خان ظہار خان کی پوتی جہانگیر خان کی بیٹی اور ارمغان خان کی اکلوتی بہن ہوں میں۔

آنسو اس لڑکی کے خوبصورت چہرے سے گرتے تھے اور ڈمپل میں گم ہو کر بہہ جاتے تھے۔

لیکن اس کی آواز میں زرا لرزاہٹ نہیں تھی۔

آئید میر نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

وہ خود کو جس مصیبت میں گرفتار کروا چکا تھا یہ بات وہ جانتا تھا۔

کیا ہوا ڈر گئے نا۔

وہ ہنسی تھی ایسی ہنسی کہ دل چاہے پھر کبھی نہ ہنسے ۔

وہ ڈر نہیں رہا تھا وہ جو کچھ سوچ رہا تھا وہ نورم خان کو سوچ سے بہت اوپر کی چیز تھی۔

سنو چلو گھر جا کر بات کرت ہیں

اب وہ اسے نرمی سے کہہ رہا تھا۔

ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں وہ مان گئی اسے حیرت ہوئی تھی مگر اگلے پل نورم خان جس کے بارے میں وہ ایک پل کے لیے لاپرواہ ہوا تھا نہر میں کود چکی تھی آئید میر نے خواب میں  بھی نھی نہیں سوچا ہو گا کہ وہ یہ کر گزرے گی مگر وہ نورم خان تھی بلا کی جزباتی۔

سر پھری۔۔۔

نرم دل۔۔۔

سنو کیا تم کو واقع خطرہ ہے۔۔

آئید میر کے کانوں میں آواز گونجی تھی اپنی۔

ہاں مجھے مجھ سے خطرہ ہے ۔۔۔

اس معصوم لڑکی کی آنسوؤں بھری آواز اس کے دماغ میں ہلچل مچا رہی تھی اور اگلے پل وہ اس کے پیچھے چھلانگ لگا چکا تھا۔

آئید میر اچھے سے سوئمنگ جانتا تھا مگر سوئمنگ پولز

 میں ۔

اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ یہ نہر اتنی گہری ہو سکتی ہے ۔ نورم کو پکڑنا اور خود کو سمبھالنا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا ایک بار تو دل کیا مرنے دے اسے جتنا اسے شوق ہے مگر دل تھا کہ نرم ہوا جاتا تھا۔

جب تک وہ اسے باہر نکال کر آیا رات نے اپنے ساۓ پھیلانے شروع کر دئیے تھے۔

وہ بھیگی ہوئی تھی ساری ,بے ہوش تھی گویا مر ہی گئی ہو مگر سانسوں کا ردھم زندہ ہونے کی نوید دیتا تھا۔

موسم نے بھی تیور بدلنے شروع کر دئیے تھے آئید میر کو بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ اس بلا کو کس طرف لے جاۓ ۔سب سے بڑا خطرہ اس کے گھر والوں کی طرف سے تھا۔

وہ خود بھی بھیگ چکا تھا اور موسم کی وجہ سے اچھی خاصی سردی کا احساس ہو رہا تھا اس کی کشادہ پیشانی پہ بل صاف نظر آتے تھے۔

وہ اسے دونوں بازوؤں میں اٹھا کر گھر پہنچا تو نور دین نے سر پیٹ لیا تھا۔

خدا کا نام مانیں آپ صاحب یا مجھے فارغ کر دیں مجھے شوق نہیں ہے مفت میں مرنے کا۔آپ ایسا کریں مجھے ابھی فارغ کر دیں ۔

اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ بیٹھ کر پیٹنا شروع کر دے۔

اس سے پہلے کہ اس کی زبان اور چلتی آئید میر کی گھوری نے اس کی زبان پہ بریک لگائی۔

وہ آئید میر سے کچھ عرصہ ہی بڑا تھا بیوی بچوں والا تھا مگر آئید میر کے لیے ہمیشہ حاضر ہوتا تھا۔

اگر تم نے اور بولنا ہے تو ایک بار بول لو پھر اس کی طرف بھی ایک نظر ڈال لینا بہت شکر گزار رہوں گا میں آپ کا۔

آئید میر نے سامنے پھولوں کی طرح نازک نورم کی طرف اشارہ کیا جو گویا ساری دنیا سے ناراض سو رہی تھی۔

اچھا آپ جائیں کپڑے بدل لیں سردی لگ رہی ہو گی میں یہاں آگ کا بندو بست کرتا ہوں۔

مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق نور دین تیار ہوا تھا۔۔

اسے بھی تو سردی لگ رہی ہو گی اس کے کپڑے بھی گیلے ہیں۔

اس سے پہلے کہ وہ اور فرماتا کچھ نور دین کی نظروں نے اس سر کھجا کر آگے بڑھنے پہ مجبور کر دیا تھا۔

اچھا میں دو منٹ میں آ رہا بس آگ جلاؤ۔اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا اسے احساس ہوا نورم کا سانس ٹوٹ رہا تھا۔

نور دین کو بھی گڑ بڑ کا احساس ہوا وہ بھاگ کر گرم کمبل لے آیا تھا ۔

آئید میر نے ہیٹر آن کر دیا تھا وہ بھیگے لباس میں تھی سب سے بیگانہ تھی اس کی ناک کی  لونگ کی روشنی اس کے ڈمپل کو مہکا رہی تھی آئید میر کو ایک پل کے لیے وہ کسی اور دنیا سے بھٹکی ہوئ پری محسوس ہوئی تھی جو اپنے پر کھو چکی تھی۔

کمبل اور ہیٹر کی گرمی نے اور ان کے گرم دودھ اس کے منہ میں ڈالنے سے اس پہ اتنا اثر ہوا کہ وہ وہ کسمسائی تھی۔

بچ گئی ہے لگتا۔

نور دین کو گویا یقین نہیں آ رہا تھا۔

اس نے آنکھ کھولی تو سامنے آئید میر کا چہرہ تھا۔۔۔۔

اس نے بھاگ کر اٹھنے کی کوشش کی تھی۔

بس کرو اور آرام کرو اور مجھے اپنے گھر والوں کا پتہ بتاؤ جلدی اس سے پہلے کے زیادہ رات ہو جاۓ تم کو ان کے حوالے کرتا ہوں پھر چاہے مرنا یا جینا مری بلا سے۔

بھیگے بال ماتھے پہ چپکے تھے ناک سرخ ہو رہی تھی اس کو وہ بولتا ہوا پریشان اور غصہ دونوں دکھا رہا تھا۔نورم کو آہستہ آہستہ یاد آ رہا تھا وہ کہاں تھی کس لیے تھی۔

اس نے خود کو کمبل میں اور لپیٹا دل تھر تھر کانپنے لگا تھا۔

سنو لڑکی مجھے یہ چونچلے نہ دیکھاؤ تو بہتر ہو گا اور سیدھی بات بتاؤ کس لیے بھاگ رہی ہو تم ہاں کیا عذاب پڑ گیا ہے تم پہ جو میری اچھی خاصی زندگی کو عذاب بنانے پہ تل گئی ہو۔۔

جواب دو خاموش کیوں ہو۔

وہ اسے بولنے کا موقع دئیے بنا شروع ہو چکا تھا۔

اور نورم کی آنکھوں نے برسنا شروع کر دیا تھا۔

نور دین کبھی اس کی طرف دیکھتا کبھی آئید میر کی طرف ۔

مجھے لگتا ہے میں جا کر سو جاؤں ۔

آپ یہ مسئلہ کشمیر تھوڑا جلدی نپٹا لیں کیونکہ ان بی بی کا رات یہاں رہنا بالکل مناسب نہیں ہے۔

یہ ظہار خان قبیلہ ہے اسلام آباد نہیں۔

نور دین اسے سمجھا کے اپنے کمرے میں بڑھ گیا تھا۔

میرے گھر میں کوئی لڑکی نہیں ہے جو یہاں ہم دو  لوگ رہتے ہیں بس ایک مہینے سے۔

تمہارے گھر والے ہم دونوں کی میت بھی گھر جانے نہیں دیں گے تم سمجھ رہی ہو نا۔

اب وہ صوفے کے ساتھ جہاں وہ لیٹی تھی پیروں کے بل بیٹھا اس کو سمجھا رہا تھا۔

مجھے جانا چاہیۓ۔

نورم نے فورا دوپٹا جو ساتھ پڑا تھا لپیٹا اور کھڑا ہونے کی کوشش کی۔

چپ کرو چپ۔

وہ غصہ دبا کر بولا۔

تم پاگل ہو یا مجھے بنا رہی ہو جانے دوں تم کو تاکہ تم کسی جنگلی جانور کا لقمہ بن جاؤ اور نام مجھ پہ آۓ۔

آئید میر کا دل کیا اس کا دماغ ٹکھانے لگا دے مگر وہ پہلے ہی ٹھیک نہیں تھی۔

کبھی کبھی زمین پہ رہنے والے انسان جنگل میں رہنے والے حیوانوں سے بھی بد تر ہوا کرتے ہیں آپ کو ابھی پتہ نہیں شاید۔

نورم نے یہ بات نظریں جھکا کر کی تھی اس کی آنکھوں کا کرب تو چھپ گیا تھا مگر لہجے کی اذیت نے آئید میر کے دل کا ایک گوشا نم کر دیا تھا۔

نورم کے دو آنسو ٹوٹ کر اس کی شفاف ہتھیلی پہ گرے تھے۔

آئید میر کو یاد آیا وہ وہ وقت جب وہ اس کا سہارا لینے کو بھی تیار نہیں تھی اور آج۔۔۔۔

اس نے سر ہاتھوں میں گرا یا تھا۔

                   ***********

اور اس گھر سے بس چند قدم دور جائیں تو ارمغان خان گویا پاگل ہوا کھڑا تھا۔

میں خود کو گولی مار دوں گا اگر وہ مجھے نہ ملی ۔

میں ایک بچی کی حفاظت نہیں کر پا رہا مر جانا چاہیۓ مجھے۔

اس کے بے تحاشہ وجیہہ چہرے پر درد ہی درد تھا۔

اس نے ہاتھ سامنے کھڑے درخت میں اتنے زور سے مارا کہ خون رس آیا۔

سامنے سارے ملازم سر جھکاۓ کھڑے تھے حکم کے پابند زبانوں پہ تالے لگاۓ۔

اس کو کچھ ہو نہ گیا ہو یہ سوچ اس کو اندر سے کھا رہی تھی۔

وہ ارمغان خان کی بہن تھی وہ اس کی جان تھی وہ آج بے امان ہو کر در در کی ٹھوکریں کھا رہی تھی کیوں کس لیے یہ سوچ کر ہی اس کے لب بھینچ جاتے تھے۔

اس گھر میں چلیں سر خدا کے لیے ایک بار۔

اس سے پہلے کے کوئ کچھ بولتا اس کے خاص ملازم نے جسے وہ شہر سے لایا تھا  سامنے نظر آتے بنگلے پہ نظر ڈال کر کہا۔

کیوں وہ تو نئے آفیسر کا ہے ناں۔۔۔

ارمغان کو اس کی بات شدید ناگوار گزری۔

بس ایک بار دیکھ لینے سے کیا ہے۔

اس بندے کو صاف تو نہیں بس روشنی کے حالے میں ایک بار سایہ سا نظر آیا تھا کسی لڑکی کا مگر وہ یہ بات کہہ نہیں سکتا تھا نہ اتنا یقین تھا نہ اتنی اوقات۔

اوکے چلو سب۔

ارمغان نے سر ہلاتے ہوۓ کہا۔

موسم تھا کہ خوفناک ہو رہا تھا باکل اس وقت کی طرح جو آج اس قبیلے پہ اترا تھا۔۔۔

               ***********

اور میلوں دوو کیلفورنیا ریاست میں u.c barkeley سے کچھ دور وہ لڑکی ماتھے پہ کٹے بالوں کو جو اب تھوڑے بڑے ہو چکے تھے ان کو ایک طرف ہٹاتی سامنے بیٹھی لڑکیوں کو کچھ بتا رہی تھی۔

یہ رات کا وقت تھا ایک بیڈ پر کشف نور اور حرم گود میں تکیہ لیے بیٹھی تھیں تو دوسرے بیڈ پر سہانا پاؤں لمبے کیے سیل میں بزی نظر آتی تھی۔

یہ کمرہ سہانا اور حرم کا تھا اور سامنے والا نور اور کشف کا مگر وہ اس وقت ساتھ بیٹھتی تھیں۔

یار میں نے اس سے پنگا لے تو لیا مگر مجھے ڈر لگتا ہے وہ میرے خلاف کچھ کر نہ دے۔

حرم نے تھوڑا پریشانی والا منہ بنا کر پوچھا تھا ان سے۔

اچھا تو تم بس اوپر سے بریو ہونے کا ڈرامہ کر رہی تھی ۔

کشف نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ پوچھا۔

ہاں نا اب اس کے سامنے ڈر جاتی پتہ نہیں کیا سمجھ لیتا وہ۔۔

حرم نے ایسا منہ بنایا کہ وہ سب ہنس پڑیں۔

کشف اور نور دونوں کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ سے تھیں ۔

سہانہ البتہ فزکس میں تھی.

وہ جب سے کیلفورنیا آئی تھی ولید ابسن کے ساتھ اس کے فسادات چل رہے تھے یہ بات سبھی جان گئے تھے۔

مگر دیکھو اتنا ٹائم گزر گیا ہے مگر اس نے تم کو کچھ بھی نہیں کہا۔۔

سہانہ نے ولید کی سائڈ لی۔

ہاں مجھے یقین ہے وہ کسی بڑی مار کی تلاش میں ہے ۔

حرم نے پریشانی سے کہا تھا۔

اور یہ یقین دو دن بعد سچ ثابت ہوا تھا۔

دیکھو ابسن تم میری اسائنمنٹ واپس کر دو میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے آخر۔

حرم ریحان اس ولید ابسن کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی ۔

ساتھ بیٹھے لڑکوں اور لڑکیوں نے اس بے چاری کو تاسف سے دیکھا تھا بھلا کس سے اچھے کی توقع رکھ رہی تھی وہ بھی ۔

کون سی اسائنمنٹ اس کے خوبصورت چہرے پہ انجانی سے مسکراہٹ ابھری۔

وہ ہی جو تم نے میرے بیگ سے اپنے کسی چمچے کو کہہ کر نکلوائی ہے شرافت سے واپس کر دو مجھے۔

ایک ہاتھ سے بال ہٹاتے ہوۓ اس نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا ۔

اور نہ کروں تو۔

ببل چباتے ولید نے اپنی نیلی آنکھیں اس پہ گاڑیں۔

سر ڈیوڈ کی اس کی پہلی اسائنمنٹ تھی اور وہ تھے بھی سخت مزاج وہ ان پہ اپنا برا امپریشن نہیں ڈالنا چاہتی تھی اس لیے اب منت پہ اتر آئی۔

اچھا دیکھو میں تم سے سوری کر لیتی ہوں پلیز مجھے واپس کر دو۔

حرم نے مشکل سے آنسو روکے تھے پلکوں میں وہ ایسی ہی تھی سہنے پہ آۓ تو تیر بھی سہے جاۓ ورنہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔

ایک شرط پہ دے سکتا ہوں۔

اگر وہ جو سامنے انگریز لڑکا نظر آ رہا ہے تم اس کے بیگ سے نکال لاؤ گی۔

کیا مطلب اس کے پاس ہے میری اسائنمنٹ ۔

وہ غرائی۔

ہاں وہ میرا بیسٹ فرینڈ ہے اس لیے ولید نے چہرے پہ معصومیت طاری کرتے ہوۓ کہا۔

اب اسے دکھ ہوا کہ تم نے میری انسلٹ کی تھی اس دن تو اس نے ایسا کیا ۔

کیا کر سکتا ہوں میں اب اس پہ۔

اس پل ولید ابسن ایسا بنا نظر آتا گویا معصومیت کے سارے قوانین قاعدے پڑھ آیا ہو۔

وہ اس جانب بڑھی تھی وہ بہت معصوم تھی وہ اس کی چالاکی نہیں سمجھ پائی ورنہ اس وقت اس ولید کے ساتھ بیٹھا ہر بندہ جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔

سنو تم میری اسائنمنٹ واپس کر دو ۔

لان میں وہ لڑکا جو بگڑا ہوا انگریز نظر آتا ہے وہ لڑکیوں کے بیچ بیٹھا تھا۔

ایک سے بڑھ کے ایک ماڈرن۔

واٹ۔۔۔۔

اس نے سامنے کھڑی  لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پہ معصومیت تھی اور آنکھوں میں غصہ۔

ٹراؤزر کے ساتھ پاکستانی طرز کی پیچ شرٹ پہنے پیچ اسکارف گلے میں ڈالے اس کی سیاہ آنکھیں پریشان نظر آتی تھیں۔

کونسی اسائنمنٹ ہنی یہ کیا کہہ رہی ہے۔

ساتھ بیٹھی لڑکی نے ناز سے کہا۔

مجھے لگتا ہے یہ پاگل ہے وہ لوگ انگلش میں اس کی اچھی خاصی انسلٹ کر رہے تھے اور دور ولید منہ پہ ہاتھ رکھے ہنس ہنس کر دوہرا ہوا جاتا تھا۔

ادھر دیکھاؤ بیگ اپنا تم

حرم نے اس کے بیگ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

اور اگر نہ ہوئی تو 

اب سامنے والا اس کے سامنے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

تو میں ان سب کے سامنے تم سے معافی مانگوں گی اب دیکھاؤ مجھے۔

اس لڑکے نے بیگ اس کی طرف بڑھایا۔

وہ خالی تھا سواۓ اس کی ایک کتاب کے اور کچھ ببلز کے اس میں سے کچھ نہیں ملا اس نے پلٹ کر ولید کو دیکھا وہ اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا وہ اسے بنا اپریل کے فول بنا چکا تھا سارے لڑکے لڑکیاں اپنی ہنسی دبا رہے تھے۔

اس نے سامنے کھڑے لڑکے سے معافی مانگنی چاہی تھی۔۔

اچھا میں تم سے سب کے سامنے۔۔

اس سے پہلے کے وہ بات آگے بڑھاتی وہ فورا بولا تھا

اٹس او کے چھوڑو تم۔

سامنے والے کی نظر اس پہ کم ولید پہ ذیادہ تھی وہ اس کا باسکٹ بال رائیول تھا ۔

وہ اس کا اسٹڈیز میں دشمن نمبر ایک تھا۔

وہ اس کا یو نیورسٹی میں پہلا اور آخری دشمن تھا

وہ کچھ کچھ سمجھ رہا تھا۔

نہیں میں نے تم سے وعدہ کیا تھا میں تم سے معافی مانگوں گی۔

حرم نے سارے آنسو اندر اتارتے ہوۓ کہا۔

میں نے کہہ دیا نا بات ختم اب وہ لڑکا چلتا ہوا اس کے پاس آ کھڑا ہوا ولید بھی اس تک پہنچ چکا تھا۔

ولید کو جیمز ہاورڈ کی بات سمجھ نہیں آئی وہ اتنا کمینہ تو تھا کہ اس بات پہ وہ حرم کو تارے دیکھا دیتا لیکن وہ کیوں اس پہ مہربان ہو رہا تھا اسے سمجھ نہیں آئی۔

وہ بھاگتی ہوئی وہاں سے نکلی اور ولید ابسن اس کے پیچھے تھا۔

یہ اسائنمنٹ تمہاری وہ اس کے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا۔

حرم کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔

اس نے اسائنمنٹ اس کے ہاتھوں سے لی چار ٹکڑے کیے اور اس کہ منہ پہ دے مارے وہ بولی کچھ نہیں تھی وہ بول ہی نہیں سکتی تھی  بولتی تو پہلے سے زیادہ تماشا بن جاتا کبھی کبھی درد بھرے لمحات میں خاموشی ہی بہتر ہوا کرتی ہے آپ کو اور مشکلات سے بچا لیتی ہے آنسو تھے جو اس کی زبان بنے ہوۓ تھے اور اور آنسو ؤں سے بہتر بھی بھلا کوئی زبان ہوا کرتی ہے۔۔۔۔۔

 وہ بھاگتی ہوئی اس سے دور ہوتی گئی اور ولید وہیں کھڑا رہے گیا تھا۔۔۔۔

                    **********  

 اور ظہار خان قبیلے میں وہ لوگ آئید میر کے بنگلے کے قریب پہنچ چکے تھے۔

اس سے پہلے کے وہ لوگ اندر داخل ہوتے آئید میر ان کو دیکھ چکا تھا موسم کی وجہ سے لائٹ نہیں تھی اس نے نورم کے منہ پہ ہاتھ رکھ کے اسے دیوار کے ساتھ لگا دیا تھا وہ اس طرح کھڑا تھا کہ اس کی پیٹھ پیچھے تھی جو بھی دیکھتا وہ اندھیرے میں پہچان نہیں سکتا تھا نورم اس کے سینے کے پاس کھڑی تھی سانس روک کے اسے بھی خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔

وہ لوگ پہنچ آۓ ہیں خدا کے لیے ہلنا مت ورنہ مفت میں ماری جاؤ گی اور مجھے بھی مرواؤ گی۔ آئید میر نے اس کے کان میں جھک کر آہستہ سے کہا تھا وہ پہلے اس کی قربت میں بہت عجیب فیل کر رہی تھی ساری عمر کسی نا محرم نے چھوا تک نہ تھا اور آج ۔۔۔

وہ  اس سے زیادہ سوچ نہیں سکتی تھی ۔

اور آئید میر اس کے حواسوں پہ اس وقت بس وہ نازک وقت چھایا ہوا تھا ۔موت سے اسے ڈر نہیں تھا مگر ذلت اور مفت کی موت اسے گورا نہیں تھی وہ آئید میر تھا اسے اپنے مسائل حل کرنے کا ہنر آتا تھا اور جن کے پاس مسائل حل کرنے کا ہنر آ جاۓ وہ کسی مقام پہ آسانی سے نہیں ہارتے اسے بھی لڑنا تھا ان حالات سے ۔

یہاں تو کوئی نظر نہیں آ رہا۔

ارمغان کی آواز سنائ دی۔

نورم نے بے ساختہ آئید میر کا کالر جکڑا تھا ہاتھ میں وہ بہت کانپ رہی تھی خود سے ذیادہ اسے اس وقت آئید میر کی جان کی فکر تھی۔

یہ وہ پہلا شخص تھا جسے اس نے دل تک رسائی دی تھی۔

یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اس کے آنسو پونچھے تھے۔

یہ وہ پہلا شخص تھا جو اس کے لیے بنا کسی عہدو پیماں کے جان ہتھیلی پہ لیے کھڑا تھا۔

ہمیں کسی طرح اس دروازے تک جانا ہو گا جو باہر گارڈن میں کھلتا ہے وہاں پھر بھی جگہ مل سکتی ہے چھپنے کی۔

آئید میر نے اس کے کان میں کہہ کر اسے ایک سائڈ پہ کیا تھا وہ لوگ اب نا محسوس طریقے سے ایک طرف بڑھ رہے تھے۔

روشنی کرو کو ئی یہاں۔

ارمغان کو پہلی بار وہاں کچھ غیر معمولی احساس ہوا تھا۔

آئید میر اور نورم کے سامنے والا دروازہ کھلا تھا ۔

وہ اس اس طرح ساتھ لیے کھڑا تھا کی نورم اس کے بازوؤں کے حلقے میں تھی اور نورم کو اس مہرباں شہزادے کو بچانا تھا چاہے جیسے بھی اس نے ایک پل سوچا وہ لوگ دروازے کے پاس پہنچ چکے تھے گھر کہ ایک حصے میں روشنی ہو کر چکے تھے وہ لوگ اسمارٹ فونز کی لائٹس سے۔

نورم نے خود کو اس کے بازوؤں سے نکالا جتنا زور تھا اسے باہر کی طرف دھکا دیا اور دروازہ کھینچ کے بند کر دیا تھا۔

مگر کیا وہ اسے بچا پائی تھی یہ فیصلہ تو آنے والا وقت کرتا۔

                  **********

کون ہے یہاں کون ہے۔

وہ لوگ بھاگ کر اس طرف آۓ تھے جب نور دین آنکھیں ملتا ہوا آیا۔

اسے حالات کے نازک پن کا احساس تھا اسے معاملے کو سمبھالنے کی کوشش کرنی تھی آگے جو ہوتا۔

نورم۔۔۔۔۔۔

ارمغان کی آواز اگر چہ آہستہ تھی مگر اس میں اتنا سرد پن تھا کہ نورم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ اٹھی تھی۔

ارمغان اسے دیکھ چکا تھا وہ صوفے کے پاس سمٹی بیٹھی تھی وجود تھر تھر کانپ رہا تھا۔

نورم وہ بھاگ کر اس کے پاس آیا سامنے بیٹھا وجود بس ایسے بیٹھا تھا گویا موت کو فرشتہ سامنے ہو اور وہ جان نکالنے میں دیر کر رہا ہو جبکہ آپ مرنا جلدی چاہتے ہوں۔

لالہ آپ اس بار شہر جائیں گے تو میرے لیے بولنے والی گڑیا لائیں گے ۔۔۔

اس کے کانوم میں 7 سالہ نورم کو آواز گونجی۔

لالہ آپ کو پتہ ہے آج پلوشہ نے میرے بال کھینچے مجھے بہت درد ہوا۔

وہ ایک دن سکول سے واپسی پر اسے قصے سناتے ہوئے کس قدر معصوم لگتی تھی۔

ارمغان گھٹنوں کے بل اس 19 سالہ لڑکی کے سامنے بیٹھا اس کا بچپن یاد کر رہا تھا۔

وہ جو سامنے بیٹھی تھی اس کا وجود کانپ رہا تھا مگر آنسو خشک ہو چکے تھے۔

مگر جو سامنے 28 سالہ مظبوط مرد نظر آتا تھا اسے احساس نہیں تھا کہ آنسو اس کی آنکھوں سے موتیوں کی طرح گرتے تھے۔

بڑھی شیو میں اس کا چہرہ خوبصورت اور نورانی نظر آتا تھا وہ علاقے کا سب سے خوبصودت نوجوان تھا سب سے مہربان 

نورم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر سسکی بھری ۔وہ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کیسے ۔۔۔۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔

اگلے پل وہ اس کے سامنے کھڑا تھا اب ایک بھائی کی جگہ ایک وڈیرے ایک خان نے لے لی تھی۔

وہ آفیسر کہاں ہے اسے بلاؤ۔

اپنے ملازمیں کے سامنے اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ سامنے آتی دنیا کو تہس نہس کر کے رکھ دے۔

میں جب آئی یہاں کو ئی نہیں تھا مجھے ڈر لگ رہا تھا اس لیے میں اس خالی گھر میں داخل ہو گئی اس سے ذیادہ میں کچھ نہیں جانتی ہوں۔

نورم کو یاد آیا کیسے وہ اس کی جان بچا رہا تھا اب اسے اس کے لیے کچھ کرنا تھا۔

نورم نے آہستہ سے کہہ کر سر جھکا لیا تھا۔

آپ لوگ کس کی بات کر رہے ہمارا صاحب تو 2 دن سے شہر گیا ہوا ہے چھٹی پر آپ یہ کیا بات کر رہے ہیں میں اس گھر میں تھا میں نے اس لڑکی کو۔۔۔

اس سے پہلے کے نور دین بولتا گنز اس پہ تن چکی تھیں۔

معافی چاہتا ہوں بی بی جی ۔۔۔

بی بی جی کو میں نے نہیں دیکھا آپ لوگوں کی آواز سن کر یہاں تک آیا ہوں۔

وہ اس قدر روانی سے اور مستحکم لہجے سے جھوٹ بول رہا تھا کہ نورم کو شک ہونے لگا گویا وہ بھی اس مہربان شہزادے سے نہ ملی ہو ۔

اور پھر پانچ منٹ میں وہ لوگ ایک ایک کمرے میں جا کر تلاشی لے آۓ تھے۔

اور باہر والی کھلی جگہ پر درخت کہ پیچھے کھڑا آئید میر جانتا تھا کہ اس کے جانے سے اس لڑکی کے لیے اور مشکل ہو جاۓ گی اس لیے سر جھکاۓ وہیں کھڑا تھا پریشان سا۔

اور ایک ارمغان تھا جس کے دل کو ایک گونہ سکون نصیب ہوا تھا۔

چلو نورم گھر ۔

وہ اس کو بازوؤں کے حلقے میں لینا چاہتا تھا اسے پیار کرنا چاہتا تھا جب وہ بپھری ۔

مجھ سے دور رہیں آپ لالہ تو بہتر ہو گا ۔زیادہ سے زیادہ مار دیں گے نا آپ مجھے تو مار دیں مجھے پروہ نہیں ہے۔

موت سے بو خوف وہ لڑکی اتنی بہادر کس لیے بنی کھڑی تھی ارمغان کے سوا کو ئی نہیں جانتا تھا۔

میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں مگر یہ بات بھول جائیں کے نورم خان اب زندہ رہے گی زیادہ دن ۔

وہ آگے بڑھتی ہوئ بولی تھی اور ارمغان نے بمشکل خود کو سمبھال کے اس کے پیچھے قدم بڑھاۓ۔

                 ***********

 oh Haram you 've nailed it really i'm totally impressed girl this is good effort by you.....

 یو سی بارکلے میں سوشیالوجی کی کلاس میں داخل ہوں تو پروفیسر ڈیوڈ کے یہ الفاظ حیران کر دیتے ہیں۔

حیران تو حرم ریحان بھی تھی۔

اسے اس اسائنمنٹ پہ تعریفوں سے نوازا جا رہا تھا جو اس نے پھاڑ کر اس آدھے انگریز کے منہ پہ ماری تھی۔

سر ڈیوڈ اگر پاکستانی ہوتے تو ضرور اپنی شاگرد کو سامنے کنفوز دیکھ کر اسے شک بھری نگاہ سے دیکھتے مگر وہ بے چارے تو اب دوسری طرف مگن تھے۔

جینفر یار میں نے یہ اسائنمنٹ پھاڑ دی تھی تو کیا جن آ کر اسے جمع کروا گۓ ۔

وہ اب جینفر کو آہستہ سے کہہ رہی تھی اس نے لفظ"ghost "  کی بجاۓ انگلش کے پورے فکرے میں ایک لفظ جن استعمال کیا تھا وہ بے چاری انگریز لڑکی اس پنجابن کو پریشانی سے تک رہی تھی۔

جن کیا ہوتا ہے۔

وہ معصومیت سے بولی۔

جیسے ولید ابسن ہے ویسا۔

اس نے ایک بار کہا۔

دوبارہ کہا۔

اور تیسری بار وہ یہ لفظ کہتے ہوۓ باہر بھاگی تھی جینفر اس کے پیچھے سر ڈیوڈ کلاس لے کر جا چکے تھے۔

ولید ابسن کہاں ہے۔

اس نے سامنے نظر آتے اس کے دوست سے پوچھا تھا۔

اس نے کندھے اچکاۓ گویا کوئی خبر نہ ہو۔

اس نے اسائنمنٹ کھول کر دیکھی وہ بہت خوبصورتی سے لکھی ہوئی تھی اتنی کہ ایک بار دیکھ کر دل اس کے لکھنے والے کو دیکھنا چاہے۔

الفاظ وہ ہی تھے جو وہ پھاڑ کہ پھینک آئی تھی انداز وہ نہیں تھا۔۔یہ انداز تو کسی جن کا ہی ہو سکتا تھا اور یو سی بارکلے میں ولید ابسن سے بڑا جن کون تھا بھلا۔

وہ اور جینفر اسے ڈھونڈتی ہوئی باسکٹ بال کورٹ آئی تھیں۔

وہ کھیل رہا تھا اور وہ اتنا خوبصورت لگ رہا تھا کہ حرم ایک بار بھولنے لگی کہ وہ کس لیے آئی تھی۔

بھاگتے ہوۓ اس کے کچھ بال اڑتے تھے جو ماتھے پہ گرتے تو سیٹیاں بجاتی لڑکیوں کے دل اس کے ساتھ دھڑک رہے  تھے وہ ایسا ہی تھا شاندار۔۔۔۔

اس نے سامنے دیکھا کشف ،نور،مائیکل،سہانہ ،حسان،بیلا،سب لوگ تالیاں بجا رہے تھے آج اس کا میچ تھا اسے اب پتا چلا تھا۔

وہ اوی جینفر بھی جا کر خاموشی سے بیٹھ گئیں تھیں۔

ولید جو بال کے پیچھے بھاگ رہا تھا اس کی ایک نظر سامنے بیٹھے ہوۓ لوگوں پہ پڑی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ نظریں پھیر لیتا اسے وہ نظر آئی ۔

سبز شرٹ کے ساتھ سبز اسکارف گلے میں تھا ماتھے پہ بال تازہ کٹے ہوۓ لگتے تھے وہ لب کاٹتی اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔

ولید کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اسے اتنا غور سے دیکھنے کی وجہ سے بال مخالف ٹیم والے اس کے ہاتھوں سے کھینچ چکے تھے۔

ولید ابسن پاکستانی نہیں تھا جو لڑکی کو متاثر کرنے میں ہار جاتا اگلے پل اس نے نظریں پھیر لی تھیں مگر اب اس کی نظروں کی وجہ سے کافی لوگوں کی نظریں حرم کا تواف کر رہی تھیں۔

اسے اچھی خاصی شرمندگی ہونے لگی۔

اور تھوڑی دیر بعد ولید ابسن میچ جیت چکا تھا۔

تالیوں کی گونج میں کھڑا وہ فاتح نظر آتا تھا۔

سب سے ہاتھ ملا کر وہ جس لڑکی کی طرف بڑھا تھا وہ حرم ریحان تھی۔

چلو ادھر سے۔

ولید نے اس کا ہاتھ پکڑا 

اور اس نے کھینچ کے اپنا ہاتھ الگ کیا تھا۔

کیا مطلب ہوا اس کا۔

وہ کیلفورنیا کا پلا بڑھا تھا ۔

وہ سامنے کھڑی لڑکی پیور پاکستانی تھی۔

اففف یار۔

ولید کو ہنسی آئی اس کی جھجک پہ۔

اس سے پہلے کہ باقی سب اس کے پاس آتے وہ حرم کے ساتھ چلتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا بنا یہ سوچے کہ کسی کہ چھبتی آنکھیں اس کا پیچھا کر رہی ہیں۔

تو یہ اسائنمنٹ تم نے لکھی ہے۔

الگ کونے پہ کھڑی حرم اب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی تھی۔

کیا مطلب ہے میں نے لکھی ہے ہاں میں اتنا فضول ہوں کیا تمہارے لیے۔

ولید ابسن کی آنکھیں اور لہجہ اس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دیتے تھے اور حرم ریحان ماہر تھی لہجے پرکھنے کے۔

اچھا تو نہیں لکھی تم نے ۔

اب وہ معصومیت سے بال ہٹاتی بولی تھی۔

ہاں بالکل نہیں لکھی۔

ولید کو اس میں دلچسپی پیدا ہو رہی تھی یہ بات وہ سوچتا تو گھبرا جاتا مگر سوچتا تب نا۔۔۔۔

لیکن میں نے حسان کو دیکھائ تو وہ کہہ رہا تھا تمہاری رائیٹنگ ہھے یہ اففف مطلب ولید ابسن اب جھوٹ بھی بولے گا۔

لہجہ معصوم تھا مگر انداز نہیں۔

اس حسان کو تو میں چھوڑنے والا نہیں ہوں۔

ولید نے یہ بات اتنے زور سے تو کہی تھی کہ حرم کا قہقہہ زور دار تھا۔

وہ ہنستے ہوۓ بہت پیاری لگا کرتی تھی یہ بات وہ جانتی تھی ۔۔۔۔

مگر وہ روتے ہوۓ اس سے بھی زیادہ پیاری لگتی تھی یہ بات ولید ابسن نے اس دن محسوس کی جب وہ بھیگی آنکھوں کہ ساتھ اس کے منہ پہ اسائنمنٹ مار کر گئ تھی۔

ولید بے چارہ پاکستانی کتابیں پڑھتا ہوتا تو اسے ضرور پتہ ہوتا کہ عورت کے آنسو مرد کو کمزور کر دیتے ہیں اور وہ کمزور نہ پڑتا مگر اسے کہاں معلوم تھا یہ سب اس نے ساری رات لگا کر اس کی اسائنمنٹ جمع کروا دی تھی اور اب اس کے سامنے ایکسپوز کھڑا سر کھجا رہا تھا۔

وہ فاتح سا لڑکا اس خوبصورت سی لڑکی کو دلچسپی سے ہنستا دیکھ رہا تھا یہ منظر کیلفورنیا کے موسم کے لیے خوشگوار تھا۔

          ******************

اگر آپ کا باپ میرے سامنے آیا تو میں کچھ برا کر گزروں گی میں بتا رہی ہوں

ملگجے سے چہرے کے ساتھ وہ بس روتی تھی اور روتی تھی۔

وہ تمہارا بھی باپ ہے نورم جہانگیر خان ۔

ارمغان خان نے یہ بات چبا چنا کر کہی تھی۔

وہ اب تھکنے لگا تھا اس سے۔

نہیں وہ میرا باپ نہیں ہے۔۔

وہ میری ماں کا قاتل ہے قاتل۔۔۔۔۔

نورم نے اتنے ٹھنڈے لہجے میں کہا کی دادی خانم کو پلنگ کا سہارا لے کر بیٹھنا پڑا۔

بس کر جاؤ نورم اگر تم نے یہ بات اب کی تو۔۔۔

تو کیا ؟

اس سے پہلے کہ ارمغان کچھ اور بولتا وہ چلائی۔

مار دیا جاۓ گا مجھے قید کر دیا جاۓ گا۔۔

ہاں بولیں۔

تو کر دیں آپ لوگ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔

اور باہر کھڑے جہانگیر خان کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔

وہ اس سے بہت محبت کرتے تھے مگر وہ اب حد سے بڑھ رہی تھی انہیں کچھ سوچنا تھا اس کے بارے وہ شال درست کرتے یہ بات سوچتے ہوۓ مردان خانے میں چلے گۓ تھے۔

آپ کیوں رو رہی ہیں ہاں۔

نورم نے دادی خانم کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوۓ کہا۔۔

کس قدر خوفناک ہنسی تھی یہ کوئی ارمغان سے پوچھتا۔

لڑکی تم کچھ نہیں جانتی ہو اس لیے بہتر ہے خاموش رہو۔

دادی خانم نے اسے غصے سے دیکھا۔

میری ماں کو کیوں مارا گیا؟؟؟

اور میرے ساتھ اب کیا ہونے والا ہے؟؟

مجھے ان سوالوں کے جواب دے دیں بس ۔

نورم کا لہجا مستحکم تھا۔

خانم دادو آپ باہر جائیں۔

ارمغان نے ان کی طرف دیکھ کر نرمی سے کہا۔

وہ بھی سر جھکا کر چلی گئی تھیں

وہ میری بھی تو ماں تھیں نا نورم۔۔۔۔

وہ جو براؤن کپڑوں میں ملبوس بادشاہوں والی آن بان سا لڑکا اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھ رہا تھا وہ اس کے بھائ تھا وہ اس کے لاڈ اٹھا تا تھا۔

نورم۔کے نازک دل کو کسی نے بھینچا۔

مجھے بتاؤ تم کو یہ بات کہاں سے پتہ چلی۔

اور تم نے یقین کیسے کیا۔

وہ اس سے پیار سے ہوچھ رہا تھا۔

مجھے میرے سوالوں کے جواب دے دیں بس۔

وہ آپ کی ماں تھیں نہ لالہ اللہ کے نام پہ سچ بتا دیں کیوں مار دیا ان کو۔

وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھی۔

ارمغان نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر لبوں کے ساتھ لگا لیے تھے آنکھیں سرخ تھیں مگر زبان خاموش۔۔۔۔۔

              *************

مجھے اس لڑکی سے ملنا ہے نور دین چاہے جیسے بھی۔

آئید میر صبح صبح نور دین کو کہہ رہا تھا۔

آپ کیوں مفت میں اس مسئلے میں پڑ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آ رہی ۔

نور دین اس کے لیے چاۓ بناتا بولا۔

آپ اپنا مقصد یاد رکھیں بس آپ یہاں کس لیے موجود ہیں ۔

نور دین نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

اور آئید میر اس نے نظر اٹھا کر دیکھا۔

7 سال سے تم میرے ساتھ ہو کیا تم کو لگتا ہے میں اس معاملے میں مفت میں الجھ رہا ہوں۔۔۔

اور آئید میر کی آنکھوں میں کچھ ایسا ضرور تھا جس نے نور دین کو سامنے پڑی چئیر پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا۔

وہ کیا کرنے والا تھا اور کیا ہونے والا تھا۔۔

وقت کس طرف موڑ کاٹ رہا تھا۔

یہ کچھ سوالات ایسے تھے جن کے جوابات آئید میر کے سوا کسی کے پاس نہیں تھے آخر کون تھا آئید میر؟؟؟؟؟

             **************

وہ صوفے پہ بیٹھا تھا  لیپ ٹاپ گود میں رکھا تھا۔

لیپ ٹاپ پہ نظر آتی لڑکی کے بال ماتھے پہ کٹے تھے اور مسکان بہاروں کا پتہ دیتی تھی۔

میری گڑیا لگتا ہے کیلفورنیا جا کر کچھ زیادہ ہی نکھر گئی ہے۔

آئید میر نے دل میں نظر اتارتے ہوۓ کہا۔

ہاں میں تو پہلے بھی ایسی ہی تھی معصوم بھولی بھالی خوبصورت اسی۔

اس نے دونوں ہاتھ گالوں پہ رکھ کر ایسے کہا کہ آئید میر کا قہقہہ زود کا تھا نور دین جو سامنے بیٹھا آہستہ آواز میں ٹی وی دیکھ رہا تھا مسکرا دیا۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آ ئی بھائی پاپا ماما نے آپ کو اتنا دور اس علاقے میں بھیج کیسے دیا ۔

مجھے کیلفورنیا اور آپ کو ادھر اب گھر میں لگتا پارٹیاں کریں گے۔

حرم نے معصومیت سے کہا جی ہاں حرم ریحان آئید میر ریحان کی اکلوتی بہن ۔

یہ باتیں تم مت سوچا کرو بس اپنی پڑھائی پہ توجہ دو ۔

اچھا میری نور دین بھائی سے تو بات کروائیں اب وہ نور دین کو باتیں سنا سنا کر ہنسا رہی تھی۔

آئید میر کچن میں گیا تو زہرہ خاتون آئی ہو ئی تھیں اور اس کی قسمت کے ساتھ پلوشہ تھی۔

کیا وہ اس پہ اعتبار کر سکتا تھا۔

اس نے سوچا

زہرہ مائی آپ زرا لاؤنج دیکھ لیں ایک بار کافی خراب ہوا پڑا ہے ۔

آئید میر نے لا پرواہ نظر آتے ہوۓ زہرہ کو کہا۔

اماں آپ کام کریں میں دیکھ لیتی ہوں

آئید میر کی امید کے عین مطابق پلوشہ بول اٹھی تھی۔

اور لاؤنج میں آئید میر اسے پوچھ رہا تھا۔

وہ آپ کے ساتھ جو لڑکی آئی تھی اس دن وہ کون تھی۔

انداز سر سری تھا مگر پلوشہ چونک گئی۔

وہ صاب اس نے مزاق کیا تھا اس دن وہ میری بہن نہیں بلکہ سرداروں کی اکلوتی بیٹی ہے نورم جہانگیر خان۔

اور آئید مید نے سر بے ساختہ صوفے کی پشت پہ لگایا۔

تو وہ جو بتا رہی تھی وہ سچ تھا۔

اسے تکلیف ہوئی تھی۔

کیسی ہے وہ لڑکی۔

دوسرا سوال ہوا۔

بہت اچھی اتنی مہربان نرم دل پاک صاف کوئی نہیں ہے ظہار خان علاقے میں جتنی وہ ہے۔

مگر پتہ نہیں کیوں تین چار دن سے وہ نہ ملنے آئی ہے میں گئی تو خانم نے مجھے کہا سو رہی۔

پلوشہ اپنا کام کرتے ہوۓ اسے تفصیل سے بتا رہی تھی۔

پلوشہ اس کے کام کی لڑکی تھی آئید میر کو اندازہ ہو گیا۔

اچھا سنو کیا وہ پڑھنا لکھنا جانتی ہے۔

اس بار وہ الرٹ ہوا تھا۔

جی جی بالکل اس نے بارہ کلاسیں پاس کی ہیں اور اب آگے بھی داخلہ۔لیا ہوا تھا مگر کچھ عرصے سے کالج نہیں جا رہی ہے۔

پلوشہ اب اس کے سامنے صوفے پہ ٹک کر اسے جوب دے رہی تھی۔

سنو تم اس تک یہ پہنچا سکتی ہو کیا۔

اس نے جلدی سے چند الفاظ گھسیٹ کر ایک کاغذ اس کی جانب بڑھایا جسے پلوشہ نے فورا تھام لیا تھا۔

اور پلوشہ معصوم کو کیا پتہ تھا اس میں کیا ہے ۔

وہ تو خوش تھی کہ شہری آفیسر تک اس کے سہیلی کے دل کی بات خود پہنچ چکی ہے مگر وہ نہیں جانتی تھی وہ آئید میر ریحان تھا جو نا جانے کیا کرنے والا تھا ۔

آئید میر کو بس آئید میر خود جانتا تھا اور کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔

اور آئید میر ریحان یہ اچھے سے جانتا تھا وقت حالات اور واقعات کو اپنی طرف کیسے پلٹنا ہے۔

وہ اپنا کام پلوشہ کے ذریعے کروا چکا تھا اور اب رات کا انتظار کر رہا تھا۔

یہ رات ظہار خان قبیلے پہ کس انداز سے اترنے والی تھی یہ سامنے صوفے پہ بیٹھے لڑکے کے انداز بتا رہےتھے۔

مجھے سمجھ نہیں آتی موت کا یہ کونسا منفرد طریقہ ڈھونڈا ہے آپ نے جناب۔

نور دین نے اس کے سامنے جوس کا گلاس رکھا کم اور پٹخا زیادہ تھا۔

تمہیں لگتا ہے آئید مید ریحان کا خون اتنا ارزاں ہے کہ وہاں بہا دیا جا ۓ گا ہاں بولو۔۔۔۔

وہ غرا کے بولا تھا آنکھییں تھوڑی لال نظر آتی تھیں۔

نور دین نے سر جھٹکا۔

تم بے فکر رہو میرے یار میں جاؤں گا اور سہی سلامت واپس آؤں گا بس ۔

اس کے خوبصورت چہرے پہ پھیلی مسکان ہر گز خوبصورت نہیں تھی۔

یہ بات وہاں کھڑا نور دین محسوس کرتے ہوۓ بھی خاموش تھا۔

اور کچھ میل دور جائیں تو پلوشہ اسے کاغز کا ٹکرا پکڑا رہی تھی۔

نورم کے گال دہک اٹھے تھے اس دشمن جان کو یاد کر کے۔

سنو میں چلتی ہوں آج میں تمہارے چچا کو دیکھا ہے اور اس کی نظریں مجھے اچھی نہیں لگتیں تم بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔

پلوشہ اس کی حالت کا سبب بخار سمجھ رہی تھی جو آج ہی اسے چمٹا تھا۔

پلوشہ کے جانے کے بعد خانم دادی کمرے میں داخل ہوئیں تو نورم نے جلدی سے وہ کاغز چھپا دیا تھا۔

اٹھو دوائیں کھا لو شاباش۔

دادی خانم نے اپنا سفید جھریوں بھرا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا۔

ضرورت نہیں ہے مجھے اور آپ یہ اپنا پیار اپنے پاس رکھیں۔وہ ان کا ہاتھ جھٹک کے بستر میں گھس چکی تھی۔

     دادی خانم نے بے بسی سے اسے دیکھا تھا وہ معصوم پھولوں جیسی لڑکی کن حالات میں گھر چکی تھی ماں کے موت باپ کے ہاتھوں ہوئی ہے یہ جاننے کے بعد بھلا کون زی روح مسکرا سکتا تھا وہ تو نورم تھی حد سے زیادہ حساس اور کمبل میں پڑے وجود کے آنسو آنکھوں سے نکل کر تکیے میں جزب ہو رہے تھے تکیے بھی کتنے اچھے ساتھی ہوا کرتے ہیں نا خاص طور پہ معصوم لڑکیوں کے لیے دکھ درد کے ساتھی رونا ہو تو آنسو چھپا لیتے ہیں خوابوں کو سر زمین بخشتے ہیں یہ تکیے۔ ۔۔۔۔۔

                     ***********

وہ اپنی کلاس لے کر نکلا تھا جب تیر کی طرح بھاگ کر آتی حرم سے زور کا ٹکرایا۔

ٹکرانے میں غلطی تو حرم کی تھی یہ بات ارض و سماں بھی جانتے تھے مگر جن نظروں سے اس نے ولید ابسن کو دیکھا تھا وہ بالکل قابل قبول نہیں تھے۔

وہ اپنا ماتھا مسل رہی تھی جو اس کے مظبوط کندھے سے ٹکرایا تھا۔

تم اندھے ہو کیا۔

حرم کو واقع کافی درد ہوا تھا۔

جی بالکل میں تو اندھا ہوں مگر آپ یہاں آنکھوں کا نور بانٹتی پھرتی ہیں لگتا ۔

اس نے ہاتھ سے ایسے اشارہ کیا تھا کے پاس سے گزرتی لڑکیاں کھی کھی کرنے لگیں۔

ہاں تو تمہیں دیکھنا چاہیۓ کے کون سامنے کس سپیڈ سے آرہا ہے تاکہ اس کا راستہ صاف رکھو۔

حرم کے اپنے ہی قوانین قاعدے تھے ولید تو بے چارہ عش عش کر اٹھا۔

پہلے مجھے شک تھا کہ تم دماغ سے ہلی ہوئی ہو مگر اب یقین آ گیا ہے اس بات کا۔

ولید نے پتھر کے جواب میں پہاڑ دے مارا تھا ۔

اور حرم اس کی کالی کالی آنکھیں اور پھیلیں

تم مجھ سے زیادہ اوور ہونے کی ہمت مت کی کرو آئی سمجھ تم مجھے جانتے نہیں ہو ابھی۔

بلیک خوبصورت نفیس سی گھٹنوں تک آتی شرٹ پہنے وائٹ جدید طرز کی کیپری اور بال آج پونی ٹیل کی بجاۓ فرنچ چٹیا میں بندھے تھے اسکارف گلے میں تھا وہ ہمیشہ کی طرح خوبصورت لگ رہی تھی ۔

اب تو یو سی بارکلے کے درو دیوار بھی اس کے پاکستانی خوبصورت حلیے کے عادی ہو چکے تھے۔

وہ لوگ ابھی اور بھی کچھ کہنے سننے کے موڈ میں تھے جب کشف اور حسان بھاگتے ہوۓ آۓ تھے۔

یار یونی میں پاکستانی لڑکی کے ساتھ ایشو ہوا ہے کوئی تم دونوں چلو میرے ساتھ۔

حسان نے آتے ہی کہا تھا اور وہ چاروں ڈین کے آفس کی طرف بھاگے

ڈین کے آفس میں قدم رکھیں تو وہاں پاکستانی اسٹوڈینٹس کا زور بولتا نظر آتا تھا۔

ولید کو آتا دیکھ کر وہ سب پیچھے ہٹے تھے۔

یہ کیا مدد کرے گا ہماری یہ خود امریکن ہے۔

کسی لڑکے نے فقرہ کسا۔

سمجھ نہیں آتی یونی میں اس کو اس قدر کیوں سر چڑھایا ہوا ہے۔

کسی اور دل جلے کی آواز آئی ۔

حرم کو حیرت ہوئی تھی اس جیسا بد دماغ انسان ان سب کو جواب دینے کی بجاۓ راستہ بناتا آگے جا رہا تھا۔

بلیک جیکٹ پہنے خوبصورت بال نفاست سے بنے ہوۓ تھے وہ سب سے الگ نظر آتا تھا یہ بات تو سچ تھی۔

حرم کشف حسان بھی اس کے ساتھ تھے۔

ڈین ان کو بتا رہا تھا وہ لڑکی کسی ادبی مقابلے میں حصہ لے رہی تھی وہاں اس نے حجاب اور پردے پہ ایک نکتہ اٹھا دیا بس کچھ انتہا پسند انگریز اس کے پیچھے پڑ گئے اور اور اسٹیج سے اترتے ہوۓ اس لڑکی کا حجاب کھینچ لیا۔

یوسی بارکلے میں یہ بات عام ہو سکتی تھی مگر وہاں موجود سینکڑں مسلمانوں کے لیے نہیں۔

انہوں نے پکڑ کر ان لڑکوں کی اچھی خاصی دھلائ کر دی تھی۔

ابھی ڈین ان کو بتا رہا تھا کے سر جوزف جو اسٹو ڈینٹس افئیر کے سربراہ تھے آ چکے تھے۔

سر پاکستانی اینڈ مسلم کمیونٹی کا یہ فیصلہ کے بات چانسلر تک جاۓ بالکل درست ہے اور ہم پاکستان ایسو سی ایشن کے سارے لوگ ان کے حق میں کھڑے ہیں

ولید کی آواز نے سب پاکستانیوں کو حوصلہ دیا تھا مگر سر جوزف کا ماتھا پسینے سے چمکنے لگا تھا۔

مخالف پارٹی کو ئی عام نہیں تھی وہ جانتے تھے۔

سر اب تو چانسلر صاحب ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کے یا تو مسلم لڑکیوں کو یونی میں آنے سے روک دیں یا ان کی حفاظت کا زمہ قبول کریں۔

وہ لڑکی اس وقت کسی ایسے ادارے میں موجود نہیں تھی جہاں حجاب پہ پابندی ہو ۔۔

وہ اپنی مر ضی سے وہاں گئ تھی ان لوگوں نے اسے ہراساں کیا یہ بات درست نہیں ہے۔

حسان نے ولید کے کندھا تھپتھپا کر کام کی بات کی تھی۔

ٹھیک ہے جلدی آپ لوگوں کو اس کا فیصلہ سنا دیا جاۓ گا۔

سر جوزف نے نکلنے میں جلدی کی تھی۔

حرم کی نگاہ اس کے چہرے سے ٹکرائیں۔

باقی سب کو سب ٹھیک ہے کا یقین دلاتا ہوا وہ کس قدر صوبر لگ رہا تھا اسے یقین نہں آیا۔

                  *************

خانوں کی حویلی میں یہ رات بارہ کا وقت تھا۔

وہ کا غذ اس کے ہاتھ میں تھا اور دل پتے کی طرح لرز رہا تھا۔

نورم کی سبز آنکھوں میں خوف اور پریشانی دونوں جھلکتے تھے۔

اسے یاد آیا وہ کیسے اسے بچانے کے لیے نہر میں کود گیا تھا۔وہ کچھ بھی کر سکتا تھا وہ اتنا تو جان چکی تھی۔

اسے صوفے پہ بیٹھے 5 منٹ ہوئے تھے جب کھڑکی پہ کھٹکا ہوا تھا۔

اس کا دل اچھل کر ہلک میں آیا اس سے پہلے کے وہ سمبھلتی آنے والے نے اپنا مظبوط ہاتھ اس کے منہ پہ جمایا تھا۔

وہ اسے دیوار کے ساتھ لگائے اس کے کان میں کچھ کہہ رہا تھا اور نورم کا دل نیچے بیٹھتا جا رہا تھا۔

آپ کوئی بات دور رہے کر بھی کر سکتے ہیں یا ہر بار پاس آنا ضروری ہوتا ہے۔

وہ اس سے جس وقت الگ ہوئی تھی پھنکار کر بولی۔

او ہیلو محترمہ مجھے شوق نہیں ہے آپ کے قریب آنے کا وقت کا تقاضا یہی ہوتا ہے۔

اس نے ماتھے پہ گرے بال پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا ۔

آدھی رات کو اس کے کمرے میں کھڑا جینز پہ کالی شرٹ اور کالی ہی لیدر کی جیکٹ پہنے ہوئے تھا ۔

ہلکی شیو میں چہرہ بے تحاشہ ہینڈسم نظر آتا تھا۔

نورم کو سمجھ نہیں آیا وہ اپنا دل سمبھالے یا حالات۔

ان پہاڑوں اور جنگل کر درمیان وہ گھرا محل اس لڑکے پہ تنگ پڑنے والا تھا مگر اسے پرواہ کہاں تھی وہ تو اب آرام سے کھڑا پورے کمرے کا جائزہ  لے رہا تھا گویا رات وہیں گزارنے کا ارادہ ہو۔۔

اسی پل دروازے پہ کھٹکا ہوا تھا اور نورم کے ساتھ اس بار آئید میر کے چہرے پہ پریشانی جھلکی۔

سنو دروازہ کھولنے سے پہلے میری بات سن لو۔

وہ دروازے کی طرف بڑھی جب آئید میر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔

نورم کے چہرے پہ سرخی جھلکی تھی مگر سامنے کھڑے اس مرد کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔

میں دروازہ کھولنے والی نہیں تھی بس دیکھنا چاہا رہی تھی کے کون ہے۔

نورم نے اس کو گھورا۔

تو مجھ سے پوچھ لو۔

وہ ایک بار دروازے کے پاس گیا اور پلٹتے ہوۓ بولا تھا۔

تمہاری کوئی ملازمہ ہیں جسے تمہارے پہرے پہ لگایا گیا ہے مگر وہ بے چاری اتنی زہین نہیں ہے اس لیے سیڑھیوں کے پاس پڑے گملوں سے ٹکراتی پھرتی ہے۔

وہ اب صوفے پے بیٹھا آرام سے بتا رہا تھا۔

نورم کو سوچنا چاہیۓ تھا اس کی باتیں لہجہ کچھ تو عیاں کرتے تھے  وہ کون تھا مگر وہ معصوم تھی کہاں سوچتی ایسی باتیں۔

آپ نے کہا تھا کہ میں یہ کھڑکی کھلی رکھوں اور آپ مجھے کچھ بتانے والے ہو اب بتاؤ۔

وہ انگلیاں موڑتی کس قدر حسین لگ رہی تھی اوپر سے بخار نے کملا دیا تھا سادگی غضب ڈھا رہی تھی۔

آئید میر نے باڑی مشکل سے نظر پھیری تھی ۔

تم ان لوگوں سے کیوں بھاگ رہی تھیں۔

وہ بہت آہستہ بول رہے تھے۔ 

کمرے میں سر گوشیوں اور ملگجے سے اندھیرے نے عجیب ماحول بنا دیا تھا آئید میر کی نظریں بار بار بہک رہی تھیں اس نے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔

نورم کی طرف سے خاموشی تھی۔

آپ کچھ بتائیں گی یا مجھے پھر آپ کے نزدیک آنا پڑے گا۔

اب وہ مسکرا کے بولا ۔

نورم کی آنکھوں میں لالیاں تیر گئی تھیں

میں نہیں بتا سکتی آپ کو۔

سر جھکا ہوا تھا ڈر تھا محبوب کو سامنے پا کر آنکھیں سارے راز اگل نا دیں

اور سامنے بیٹھا شخص سارے راز ہی تو پانے آیا تھا۔

بھروسہ نہیں ہے مجھ پہ کیا۔

وہ آگے جھکا۔

اور پہلا وار کیا تھا اس کے دل پہ۔۔۔

کیوں کروں بھروسہ۔۔۔۔

اس بار اس نے سوال کر کے اسے لاجواب کر دیا تھا۔

آئید میر نے ایک پل کے لیے سامنے بیٹھی پری کو دیکھا۔

اس سوال کا جواب دینا لازمی تھا وہ جانتا تھا سوچ کے آیا گھا پلان سے پورا۔

دماغ میں کچھ آیا۔ مگر دل نے ڈانٹا بہت معصوم ہے وہ۔

مگر زہن میں جو کچھ تھا وہ دل کی سننے نہیں دے رہا تھا۔

اگلے پل اس کی آنکھوں نے فیصلہ کیا اور وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔

یہ کیسا فیصلہ تھا جو دل کی بجاۓ آنکھیں اور دماغ کر رہا تھا۔

وقت کے کسی رحم دل پل نے کرلاہٹ سے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا۔

ادھر آؤ۔

آئید میر نے ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔

وہ اسے اپنے ساتھ لگا کر سر اس کی ٹھوڑی پہ رکھ کے دو پل خاموش اس کے دل کی دھڑکن سنتا رہا تھا اور اسے اپنی سانسوں کے راز بتا رہا تھا۔

کیا تمہیں ابھی بھی پوچھنا ہے کہ میں یہاں کیوں ہوں۔۔۔

کس کے لیے ہوں۔۔۔

وہ اس کا ہاتھ پکر کر اس کے سامنے پیروں کے بل بیٹھ چکا تھا اور پہاڑوں کی شہزادی نے بنا کوئی بات کیے مسکرا کے سر نفی میں ہلا دیا۔

اس کے دل کے دروازے تو کب سے واں تھے اس شہزادوں جیسے آئید میر کے لیے وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ نہیں جانتا مگر وہ آئید میر تھا۔۔۔۔۔۔

اس قدر غم کے موسم میں بھی اس پاگل کو آئید میر کی چاہتوں کا رنگ خوشی دے رہا تھا۔

آئید میر نے اسے کے جھکے سر کو افسردگی سے دیکھا۔

اس کا ہاتھ آئید میر کے ہاتھ میں تھا وہ جان چکا تھا کہ وہ بخار کی کیفیت میں ہے ۔

وہ اسے دماغ سے ڈیل کر رہا تھا یہ بات اگر سامنے بیٹھا وجود جان جاتا تو یقینا جان سے جاتا۔۔۔

بہت پیاری ہو تم۔۔۔

ہر بات اس نے دماغ سے بولی ہو گی مگر یہ الفاظ دل سے نکلے تھے نورم خود میں سمٹ گئ تھی کالے لباس میں اس کا سرض سفید رنگ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔

اس سے پہلے کے کوئی کچھ کہتا ارمغان کی آواز نے نورم کو دہلا دیا تھا۔

نورم دروازہ کھولو بچے۔

آپ جائیں پلیز مجھے لگتا شک ہو گیا کسی کو۔

اسے خود سے زیادہ اس کی پرواہ تھی کس قدر قیمتی دل کی مالک تھی وہ۔

اچھا سنو یہ رکھو۔

اس نے ایک قیمتی سیل فون جیب سے نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔

نہیں بالکل نہیں خدا کے لیے اسے دور رکھیں۔

وہ ہراساں ہوئی۔

تو میں بھی نہیں جا رہا پھر۔

وہ دوبارہ بیٹھنے لگا۔

میں تم سے رومینس جھاڑنے کے لیے تم کو یہ سیل نہیں دے رہا بلکہ اس لیے دے رہا تا کہ تم کسی مشکل میں ہو تو مجھے پتہ چل جاۓ۔

اب وہ اسے سمجھا رہا تھا۔

اور وہ ہار گئ تھی اس سے۔

اس نے سیل پکڑ کر جلدی سے الماری میں رکھا۔

آئید میر نے پیار سے اس کا گال تھپتھپایا اور کھڑکی سے کود گیا تھا۔

نورم دروازے کی طرف بڑھی تھی جو اب بج بج کر خاموش ہو چکا تھا۔

             ************

 ہر رات کی طرح وہ سب اکھٹی بیٹھی تھیں اور دن کی باتیں کر رہی تھیں سب سے ذیادہ ڈسکس کیا جانے والا موضوع آج اس لڑکی فاطمہ کا حجاب کھینچے جانے کا واقع تھا ۔

یار تم لوگ میری بات یاد رکھو اگر یونی والوں نے کو ئی رد عمل ظاہر نہ کیا تو ہم سب کو اس کے حق کے لیے کھڑا ہونے پڑے گا ورنہ اگر آج وہ لڑکی ہو سکتی ہے تو کل ہم میں سے کوئ ہو سکتا ہے آج حجاب کھینچا گیا ہے کل لباس ہو سکتا ہے کیا ہم چپ رہے سکتے ہیں اس بات پہ کیا ہمارا ضمیر اس قدر مردہ ہو چکا ہے۔

اپنے شارٹ سنہری بال جو کندھوں پہ بکھرے تھے ان کو ایک سائڈ پہ کرتی بولتی ہوئی یہ کشف تھی جس میں جذباتیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

ہاں کشف تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو میں بھی کچھ ایسا سوچ رہی تھی۔

نور اور بیلا نے بھی ہامی بھری۔

تم کیوں اس قدر خاموش ہو حرم۔

سہانہ نے اس کا کندھا ہلایا۔

یار میں کچھ اور سوچ رہی ہوں۔

اس سے پہلے کے بات آگے بڑھتی کشف کے سیل کی چنگاڑ نے سب کو چپ کرا دیا۔

ولید ،حسان،مائیکل ہمارا ویٹ کر رہے نیچے جلدی چلو سب۔

کشف نے کال سن کے فورا کہا تھا۔۔

مگر اس وقت۔۔۔۔

پاکستانی حرم کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر مشرقیت بھری ہوئ تھی فورا بولی۔

ہاں اس وقت اب چلو سب جلدی۔

کشف نے وہ ہلچل مچائی کے سب باہر کی طرف بھاگی تھیں۔

آرام اے بیٹھی تھی تو حرم۔

اوۓ تم نہیں چل رہیں کیا۔۔۔

سہانہ نے اس کو گھورا۔۔

آ رہی ہوں مگر کپڑے بدل کر ۔

سہانہ نے اس کی طرف دیکھااس کے کپڑے واقع ملگجے ہو رہے تھے۔

ٹھیک ہے ہم انتظار کر رہے جلدی آنا۔

سہانہ اسے تاقید کر کے باہر کی جانب بڑھی۔

ابھی اسے پانچ منٹ بھی نہیں ہوۓ تھے کے نیچے بائیکس کے ہارنز کی وہ آواز سنائ دی کے حرم کو شک ہوا شاید اس کے ساتھ پورا کیلفو رنیا بھی چل پڑے گا ساتھ۔

کیا بدتمیزی ہے یہ تم لوگ صبر نہیں کر سکتے تھے کیا۔۔۔۔۔

جینز پہ کریم کلر کی میڈیم شر ٹ پہنے وہ اسکارف لپیٹتی بھاگی تھی۔

تو تم کیوں اتنی دیر کر رہی تھی ملکہ عالیہ۔

مائیکل نے چڑا کر کہا۔

وہ ان تک پہنچی تو اس کا دما غ خراب ہو گیا تھا۔

مائیکل اور سہانہ ایک بائیک پہ ۔۔

ایک پہ حسان اور نور تھے کشف الگ بیٹھی تھی

اور حد یہ کہ اس نے اپنے ساتھ جینفر کو بٹھایا ہوا تھا۔

حرم کی وجہ سے اب وہ بھی ان کے گروپ کا حصہ تھی ۔۔۔۔۔

 اور جو اس کے ویٹ میں مسکرا کر دیکھ رہا تھا وہ ولید ابسن تھا۔

اس نے سنا تھا کہ ولید بہت تیز بائیک چلاتا ہے اس لیے باقی سب اس کے ساتھ نہیں بیٹھی تھیں مطلب قربانی کی بکری وہ تھی۔

اس کا دماغ تپا تھا۔۔

میں اس کے ساتھ بیٹھنے والی نہیں ہوں آئ سمجھ تم لوگوں کو ۔

اس نے لمبے بالوں کی پونی جھکا کر کہا تھا۔

حسان اور مائکل نے دانت نکالے اسکی عزت افزائ پر۔

سنو تم  میں غرور کس چیز کا ہے۔

کیلفورنیا کا منہ بولا شہزادہ اس نازک سی لڑکی پہ غرایا۔

سنو تم اتنا بول فضول کیسے بولتے ہو۔

وہ بھی حرم ریحان تھی۔

حسان اور نور نے سر ہاتھوں میں گرایا۔

تم لوگوں کی وجہ سے ہمارا ٹرپ خراب ہوا تو میں نہیں چھوڑوں گی کسی کو۔

کشف بائیک پہ بیٹھی تھی ہیلمنٹ اتار کر فورا بولی۔

اور میں اس ولید ابسن کے ساتھ نہیں بیٹھنے والی بس۔

حرم نے اپنی خوبصورت پونی جھلاتے ہوئے کہا۔

بیٹھیں گے تو تمہارے فرشتے بھی۔

ولید نے مسکرا کر کہا تھا۔

چلو پھر فرشتوں کو ہی لےجاو ساتھ۔

حرم نے منہ بنایا۔

کشف اور ولید نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پلان بن چکا تھا آنکھوں میں۔

وہ کیا کرنے والے تھے یہ وہاں کھڑے سات لوگ جانتے تھے نہیں جانتی تھی تو حرم ریحان۔۔۔

تم لوگ یوسی بارکلے کے ہاسٹلز میں تو آ گۓ ہو مگر یہ نہیں پتہ کے یہ جگہ کس لیے مشہور ہے۔

ولید اس قدر سنجیدہ تھے کہ حرم کا دل ہول گیا۔

کس وجہ سے 

اب وہ اس کے نزدیک آ کر پوچھ رہی تھی۔

گھوسٹ(بھوت) کی وجہ سے حرم۔

ولید نے ایسے آہستہ سے کہا گویا گھوسٹ پاس ہی ہو۔

 اور حرم کا چہرہ زرد ہوا تھا۔

اگر وہ لڑکی ولید کی بجاۓ باقی کے چہرے دیکھ لیتی تو ولید کی طبیعت صاف کر دیتی جیسے وہ سب مسکرا رہے تھے۔

کیا واقع۔۔۔۔۔

وہ خوفزدہ ہو چکی تھی۔

ہممممممم ۔

ولید اگر ایکٹر ہوتا تو

 Leonardo DiCaprio

  بھی اس سے کلاس لینے آیا کرتا اور ہالی ووڈ میں اس کی شہرت ولید کی وجہ سے ہوتی مگر افسوس کے وہ ولید ابسن تک نہیں پہنچ پایا۔۔۔۔

اور جب وہ ولید کے پیچھے اس کی شرٹ کا کالر پکڑ کر بیٹھی تھی اور اس نے ہوا کی طرح بائیک چلائ اور سب کے قہقہے گونجے تھے تب اسے سمجھ آئی تھی کہ وہ ایک بار پھر سے بیوقوف بنا دی گئی تھی۔

چلتی بائیک پہ وہ جتنے تھپڑ مکے اس کی موٹی جیکٹ پر مار سکتی تھی وہ مار چکی تھی اور ساتھ میں اونچی آواز میں اس کی شان میں بھی  قصیدے پڑھے جا رہے تھے۔

               Downtown Oakland 

وہ علاقہ تھا کیلفورنیا کا جہاں جرائم پیشہ افراد کی کثرت تھی وہ لوگ بائیکس پہ اس علاقے کی اسٹریٹس میں داخل ہو چکے تھے۔

وہ سب کہاں گۓ ہیں۔۔حرم کا دل عجیب ہول رہا تھا۔

ہوں گے یہیں کہیں ۔

ولید نے بائیک کو ریس لگائی اسے بھی لگا تھا کہ علاقے میں اس وقت داخل ہونا خطرہ ہو سکتا ہے۔

اور اس کا خدشہ ٹھیک دو منٹ بعد درست ثابت ہوا تھا۔

وہ سیاہ فام تھے اور 3 لوگ تھے۔

انہوں نے ان کی بائیک روک لی تھی۔

وہ ولید سے پیسے اور سیل فون مانگ رہے تھے۔

یہ تو ہمارے پاکستان سے بھی زیادہ خطرناک غنڈے ہیں وہاں کم سے کم چوروں کی شکل اتنی بری تو نہیں ہوتی نا۔۔حرم کی بات سن کے ولید کا دل سر پیٹنے کو چاہا۔

دیکھو تم لوگ یہ رکھ لو ولید نے اپنا پرس اور سیل نکال کر سامنے رکھا۔۔

ان میں سے ایک کے ہاتھ میں چاقو تھا باقی خالی ہاتھ تھے۔

hey beautiful.....

وہ لوگ اب حرم کی طرف بڑھے ولید نے بے ساختہ اسے ایک ہاتھ سے اپنے پیچھے کیا۔۔۔۔۔۔

تم لوگوں کو جو چاہیۓ تھا وہ لے چکے ہو۔

ولید کی آنکھوں میں سرخی اتر رہی تھی۔

مجھے اس کے گلے کی چین چاہیئے۔۔۔

وہ حبشی حرم کو خباثت سے گھور رہا تھا۔

اس نے اسکا رف لیا ہوا گھا مگر بائیک پر بیٹھنے کہ وجہ سے وہ تھوڑا نیچے ہو چکا تھا اور اس کی خوبصورت گردن میں گولڈ کی چین چمک رہی تھی

او کے ہم دیتے ہیں مگر تم دور رہو گے۔

ولید اس کو حرم سے دور رکھنا چاہتا تھا اس کی نیلی آنکھوں میں پریشانی جھلک رہی تھی۔

کیوں میں نہیں اتار سکتا کیا۔۔۔۔

اب وہ چاقو پکڑ کر ان کے قریب آ گیا تھا۔

اور  حرم ریحان  وہ ولید کی پیٹھ پیچھے چھپ چکی تھی۔

ولید محسوس کر رہا تھا کہ وہ کانپ رہی ہے ۔اس کے دل کو افسوس ہوا وہ اس معصوم لڑکی کو کیوں لے آیا۔۔

وہ ان لوگوں کی نیت بھانپ چکا تھا   اچھے سے۔

حرم چین دو مجھے اپنی۔

اب وہ اسے لے کر آہستہ سے پیچھے ہو رہا تھا۔

حرم نے جلدی سے چین اتار کر اس کے ہاتھ پہ رکھی۔

یہ لو ۔

ولید نے چین سامنے اچھالی۔

لیکن اس سیاہ فام کے قدم نہیں رکے تھے۔

اور ولید نے حرم کو ایک سائڈ پہ کیا اور فلائنگ کک ماری تھی سامنے والا تیار نہیں تھا اس لیے چاقو اس کے ہاتھ سے گر چکا تھا۔۔

ولید نے اسے زور کا مکا مارا تھا 

حرم نے کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کے کیا کرے 

ہمیں یہ لڑکی چاہیۓ تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔

اب وہ تینوں اس کو گھیر کے کھڑے تھے۔

یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا۔

یہ اس لڑکے کی آواز سے زیادہ اس کی آنکھیں بتاتی تھیں۔۔

تبھی سامنے والے نے ولید کے منہ پہ پنچ مارا اس کی ناک سے خون نکل آیا تھا۔

حرم اس سائڈ پہ بھاگ جاؤ وہاں حسان لوگ ہوں گے پلیز گو۔۔۔۔

ولید ان کے درمیاں گھرا سے کہہ رہا تھا۔

نہی میں نہیں جاؤں گی۔

ولید اس کا دشمن اول بھی ہوتا تو وہ اس حال میں نہ چھوڑتی اسے وہ حرم ریحان ایسی تھی۔

وہ لوگ ولید پہ حملہ کر چکے تھے اور وہ ان سے لڑ رہا تھا وہ بلیک بیلٹ تھا مگر سامنے والے بھی کم نہیں تھے۔

تبھی حرم کی نظر سامنے چمکتے خنجر پہ پڑی اس نے جلدی سے اٹھا کر ولید کی طرف دوڑ لگائی تھی۔

اسے پرواہ نہیں تھی کے وہ اس کے ساتھ کیا کر سکتے اس نے بھاگ کر خنجر ولید کے پیر کے پاس پھینکا

اب خنجر ولید کے ہاتھ میں تھا وہ تو سامنے والے بھی محتاط ہو گئے تھے۔

وہ لڑکا کوئ عام انسان نہیں تھا۔وہ جان چکے تھے ۔

تبھی سامنے واکے نے پنڈلی سے بندھا چاقو نکالا اور ولید کی طرف بھینکا اس کا دھیان دو سری طرف تھا چاقو اڑتا ہوا اس کے بازو کو چھیلتا  آگے گرا 

 اور حرم کی زور دار چیخوں اور خون کے نکلتے فوارے نے ان سب کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا ۔

ٹھکائی وہ ان سب کی کر چکا تھا اور وہ بھی اچھی خاصی۔

حرم اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ولید ابسن کے خون میں شامل ہو رہے تھے۔۔۔۔

او ہیلو محترمہ مجھے خون کا دریا بنانے کا شوق نہیں ہے کوئی خاص اتنا اپنے آنسوؤں پہ کنٹرول رکھیں۔

ولید نے اس کا چہرہ جو آنسوؤں سے تر تھا دیکھ کے ہنس کر کہا تھا۔

حرم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا وہ اپنا اسکارف اس کے زخم پہ رکھ رہی تھی۔

تم  نے میری وجہ سے۔۔۔

اس سے زیادہ حرم کی آواز نہیں نکلی آنسو کہاں نکلنے دے رہے تھے۔

تبھی ان لوگوں کے کانوں پہ شور ہوا تھا حرم نے محسوس کیا کے ولید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سائڈ پہ کرنا چاہا تھا وہ اسے بچا رہا تھا حرم کا نازک ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا اور نظریں سامنے لگی تھیں۔

ان دونوں کی نگاہیں سامنے جمی تھیں تبھی ان کو پورا گروپ آتا نظر آیا۔

کیا ہوا ہے تم کو ولید ۔

وہ سب بھاگتے ہوۓ اس تک پہنچے تھے۔

اور ولید کا بہتا خون اور حرم کی سو جی ہوئی آنکھیں ان کو دہلا رہی تھیں۔

کیا ہوا تم کو۔

وہ کشف تھی جو بھاگ کر اس کے پاس پہنچی اس کا انداز حرم کو چونکا گیا تھا۔

کیا ہوا ولید تم کو ۔

کشف کے کیوٹ گالوں پہ بہتے آنسو ان سب کو حیران کر گئے تھے۔حیران تو ولید ابسن بھی ہوا تھا۔

او ہیلو میـڈم ۔۔۔۔

اس نے چٹکی بجائی کشف کے سامنے۔

ایکچوئیلی اتنا خون دیکھ کر میں ڈر گئی تھی۔

اب وہ کچھ سمبھل کر بتا رہی تھی۔

حرم کا دوپٹا سارا خون میں لتھڑا ہوا تھا حسان نے ولید کو اپنے ساتھ بائیک پہ بٹھایا تھا حرم کا دوپٹا اس کے بازو پہ ہی تھا اور ہاتھوں کی دونوں مٹھیاں بند تھیں۔

اور پھر وہ سب کس دل سے اس ٹرپ سے لوٹے تھے یہ بس وہ ہی جانتے تھے یا ان کا دل۔

                                       ********************

  نورم ایک ایسی شہزادی تھی جو اپنے ہی محل میں قید ہو چکی تھی۔

ہزاروں سوالات ایسے تھے جو اس کا دماغ تھکاۓ رکھتے تھے۔

ایک ارمغان تھا جو ہاورڈ یونیورسٹی کا گریجوایٹ تھا مگر ان قبائل میں آ کر ان جیسا ہی بن چکا تھا ۔

ابھی بھی وہ افسردہ سی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی جب اسے لگا کہیں کچھ تھر تھراہٹ واز آ رہی ہے وہ ڈر گئی تھی۔

اس نے بھاگ کر اپنا کبنٹ کھولا تو اس میں آئید میر کا دیا ہوا سیل فون تھر تھرا رہا تھا۔

نورم نے بھاگ کر پہلے دروازہ بند کیا تھا۔

اس کا دل عجیب لے پہ دھڑکنے لگا تھا۔

آپ نے فون کیوں کیا مجھے۔

یہ دوپہر کا وقت تھا اور آئید میر اپنے آفس میں بیٹھا اس سے بات کر رہا تھا ۔

اب تمہاری یاد آۓ گی تو کیا کروں گا اور دیکھ بھی تو نہیں سکتا نا تم کو۔

آئید میر کو احساس نہیں تھا وہ کس کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے جا رہا تھا۔

اور گلابی قمیض میں ملبوس نورم کے گالوں پی گلابی پن ٹوٹ کے بکھرا تھا۔۔وہ پریشان تھی۔۔۔۔

اکیلی تھی۔۔۔

خوفزدہ تھی۔۔۔

اداس تھی۔۔۔

اس حال میں آئید میر کا ساتھ اسے اچھا لگ رہا تھا۔

اور وہ نورم جہانگیر تھی وہ اپنا آپ بھلاۓ اپنا پندار بھلاۓ وہ اس کی باتوں میں آ رہی تھی بہت سی معصوم لڑکیوں کی طرح اسے لگ رہا تھا سامنے شہزادوں جیسا مرد اس پہ مر مٹا ہے۔۔۔

مجھے نہیں پتہ مگر آپ فون نہ کیا کریں جب میں مشکل میں ہوئی تو خود کر لو ں گی آپ کو۔

بال تھوڑے گالوں پہ گرے ہوۓ تھے اور سبز آنکھوں میں درد اور چاہت نے اسے عجیب سا رنگ بخشا تھا۔

اچھا تو تم یاد آؤ تو کیا کیا کروں میں پھر۔۔۔۔ شکاری نے ایک اور تیر پھینکا تھا۔

وہ نہیں معلوم مجھے وہ خود میں سمٹی آئید میر کی خوبصورت آواز اس کے حواسوں پہ چھا رہی تھی۔

اچھا سنو بات کرنی ہے ایک ضروری تم سے۔

بالا آخر وہ کام کی بات پہ آ ہی گیا تھا۔

جی بولیں ۔

نورم متوجہ ہوئی۔

تم کالج کیوں نہیں جا رہی ہو۔

اس نے آرام سے پوچھا۔ وہ اس کے بارے ساری خبریں رکھتا تھا نورم کا دل گداز ہوا۔

میں کالج نہیں جاؤں گی اب بس ۔

اس نے منہ بسور کر معصومیت سے کہا تھا آئید میر کے لبوں پہ اس بار آنے والی مسکان بہت دلکش اور سادہ سی تھی۔

مجھے تم سے ملنا ہے اور اس کے لیے تمہارا کالج جانا ضروری ہے ۔

تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہا ہوں۔

وہ اسے اچھے سے ڈیل کر رہا تھا آئید میر نورم جہانگیر کا ڈیل کر رہا تھا فقط ڈیل تقدیر کے کسی ورق نے اس آن بان سی رکھنے والے مرد کی طرف دیکھ کر قہقہہ لگایا وہ بے خبر تھا ۔۔۔۔۔

اور وہ جو اپنے بھائی کے سامنے انگلیاں موڑتی لڑکی نظر آتی تھی وہ نورم تھی عشق اپنی جوبن کی طرف بڑھنا چاہا رہا تھا اور بھلا عشق کی راہوں میں بھی کبھی کوئی حائل ہو سکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نورم میری جان ادھر آؤ۔

ارمغان اسے دیکھ کر اخبار فورا پھینک کر اٹھا تھا۔

ہاں بیٹا بولو کیا بات ہے۔

ارمغان نے بہن کے ماتھے پہ پیار دیا تھا اور ساتھ بٹھا لیا۔

لالہ آپ سے کچھ کہنا تھا۔آنکھیں جھکی ہوئی تھیں وہ نہیں چاہتی تھی اس کا بھائی اس کی آنکھوں میں موجود چاہتوں کا رنگ پا لے ۔

جی جان لالہ بولو۔

وہ اسے اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر اتنے دن بعد نہال ہو گیا تھا۔

میں کالج جانا چاہتی ہوں۔نورم ہمہشہ تمہید باندھنے میں دلیل دینے میں اچھی نہیں رہی تھی اس لیے فورا بول دیا۔

میں تو خود چاہتا ہوں کہ آپ جاؤ کالج مگر مجھ سے وعدہ کرو کہ خود کو نقصان نہں پہنچاؤ گی۔

ارمغان بہن سے بہت پیار کرتا تھا وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا کسی طور پر بھی ۔

ٹھیک ہے۔

نورم نے سادگی سے سر ہلایا مگر نظریں جھکی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔۔

                                 *******************

اور جب ذرا نظر دوڑائیں یو سی بارکلے کی عمارت پر تو وہاں وہ ماتھے پہ کٹے بالوں والی  لڑکی دونوں ہاتھ گال پہ رکھے کلاس لینے میں مصروف تھی۔

جب اسے کمرے سے باہر کوئی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔

اس کی نظریں فورا باہر کو دیکھنے لگیں تھیں

حرم۔۔۔۔۔

سر جوزف نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا۔

سوری سر۔

اس نے فورا نظریں کتاب پر جھکائیں

اففففف۔۔۔۔

ابھی دو منٹ نہیں ہوۓ تھے کہ نورم کے منہ سے نکلا تھا جینفر نے اسے اتنے زور سے پیر پہ اپنی ہیل ماری تھی کہ اس کے نازک پاؤں برداشت نہیں کر پا رہے۔

اس نے آنکھیں پھاڑ کر جینفر کو دیکھا وہ باہر اشارہ کر رہی تھی۔

اور باہر دیکھیں تو ٹی کلر کی شرٹ پہنے بال بے ترتیب سے ماتھے پہ گراۓ تھوڑا مسکراتا ہوا جو لڑکا نظر آتا تھا وہ کیلفورنیا کا منہ بولا شہزادہ تھا۔

مجھے لگتا ہے حرم آپ کو کلاس سے زیادہ باہر کی فکر ہے آپ پہلے وہ فکر جا کر ختم کر لیں۔

سر جوزف نے اسے باہر کا راستہ دکھایا اور پوری کلاس کے دانت نکل آۓ تھے نہیں کلے تھے تو حرم ریحان کے وہ جلتی بھنتی باہر نکلی۔

مجھے سمجھ نہی آتی تم میرے پیچھے نہا دھو کر کیوں پڑ گئے ہو۔

وہ اس کے سامنے کھڑی کالی آنکھوں سے اس پہ تیر چلا رہی تھی بلیک سمپل سے قمیض کے ساتھ بلیک۔ہی ٹخنوں تک آتی کیپری پہنے اسکارف گلے میں ڈالے پونی بناۓ وہ اس پہ تیر چلا رہی تھی۔

ولید نے ایک بار اس کی طرف شرارت سے دیکھا اور اگلے پل دل ہاتھ پہ رکھ کر ایک سائڈ پہ گرنے کا انداز دکھایا تھا مگر لبوں پہ ابھی بھی شرارت بھری مسکان تھی وہ اسے چڑا رہا تھا وہ جانتی تھی مگر نا چاہتے ہوۓ بھی اسکی ہنسی نکل گئ تھی اور ہنستے ہوۓ حرم ریحان اتنی خوبصورت تو لگا کرتی تھی کہ آس پاس لوگ پلٹ کر دیکھیں ولید نے ایک پل اسے نظر بھر کے دیکھا تھا اور دوسرے پل اس کی نظریں مسکرا کر کہں اور دیکھ رہی تھیں۔

اچھا مرو اب کہاں جانا ہے وہ اس کے کندھے پہ کتاب مارتی ہنستی ہوئی آگے بڑھی تھی اور ولید بالوں پہ ہاتھ پھیر کہ اس کے پیچھے۔

سنو تمہیں کچھ دینا تھا میں نے۔

وہ کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے اور حرم برگر کھاۓ جا رہی تھی وہ بھی ولید کے خرچے پہ۔

سنو تم اتنا کیسے کھاتی ہو توبہ۔

وہ۔اس کی بات پہ توجہ نہیں دے رہی تھی۔

اس لیے وہ زچ ہوا۔

سنو  مسٹر خبردار جو تم نے میرے کھانے پہ نظر رکھی تم نے ابھی پنجاب نہیں دیکھا تم کو کیا پتہ کھانوں کا۔

حرم کا دل اداس ہو گیا تھا پنجاب کے کھانوں کا سوچ کر۔

اچھا مجھے معافی دیے دیں ملکہ عالیہ ۔۔

ولید نے آنکھیں دکھا کر کان پکڑے۔

چلو معاف کیا کیا یاد کرو گے مگر ہاں اس برگر کے پیسے بھی  اب تم دینا بس اب وہ دوسرا برگر اٹھا رہی تھی اور ولید نے ٹھنڈی سانس بھری اب اسے اس کے ختم ہونے کا انتظار کرنا تھا۔

وہ ولید یعنی ولید ابسن اس کے لیے یعنی حرم ریحان کے لیے اتنظار کر رہا تھا اگر وہ سوچتا تو چونک جاتا سوچ تو حرم بھی نہیں رہی تھی مگر یوسی بارکلے کی درو دیوار کے لیے وہ دونوں ان کا لڑجا جھگڑنا اور پھر خیال بھی رکھنا ایک اچھی یاد گار بننے جا رہا تھا۔۔۔

یاد گار۔۔۔۔۔۔۔

چلو اب تم ہو جاؤ شروع 

آخر کار وہ پنجابن کھانے سے فری ہو ہی گئی ولید اگر عبادت گزار ہوتا تو  ضرور شکرانے کے نفل پڑھتا۔

وہ اس کی طرف منتظر نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جب اس خوبصورت شہزادے نے ہاتھ جیب میں ڈالا۔

اور مٹھی اس کے سامنے کھولی تھی۔

حرم کہ ہاتھوں نے حیرت سے لبوں کو چھوا۔

وہ اس کی گولڈ چین تھی جو وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کھو چکی یہ گولڈ چین اسے آئید میر نے اس کے ایف۔اے کے رزلٹ پہ گفٹ کی تھی جب اس بے کالج میں ٹاپ کیا تھا اور وہ اسے بہت عزیز تھی۔

یہ تم نے۔۔۔۔۔

حرم کی انکھوں میں آنسو تھے وہ دونوں اب آمنے سامنے کھڑے تھے۔

ہاں ایک تو انہوں نے مجھے اچھا خاصا مارا میں نے یہ چین سوچا چھپا لوں مجھے لگ رہا تھا تم کو عزیز ہے یہ اور میری وجہ سے تم مشکل میں پھنسی تھی وہ اتنی سادگی سے کہہ رہا تھا اور وہ حرم ریحان۔۔۔۔۔

وہ بھاگ کر اس کے گلے لگ گئی تھی ساتھ بیٹھے بہت سے اسٹوڈینٹس نے سیٹیاں بجائ تھیں مگر پرواہ کسے تھی۔۔۔۔

سب سے زیادہ حیرت زدہ ولید تھا اس سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ وہ اس کے گرد بازو کر دیتا وہ حیران سا کھڑا رہا تھا ہاں مگر اسے اس پل لگا تھا کہ وہ سامنے کھڑی لڑکی اس کا دل کھینچ رہی ہے  اس کے سینے سے اس سے پہلے کہ وہ خود کو اس کے قریب کرتا  تب تک حرم الگ ہو چکی تھی۔۔۔۔

وہ بہت جزباتی تھی یہ بات ولید بھی کچھ جان چکا تھا۔

بہت شکریہ ۔۔۔

اب وہ گال تھوڑے لال کیے اس سے بولی تھی۔

ولید مسکرا دیا تھا اس کے لیے لڑکی کے چہرے پہ شرم خی لالی بہت حسین منظر تھا جو اس نے کیلفورنیا میں نہیں دیکھا تھا۔

فرینڈز۔۔۔۔۔

ولید ابسن نے ہاتھ آگے بڑھایا مسکرا کر۔۔۔

حرم نے ایک پل دیکھا یہ وہ ہی ہاتھ تھا جو اس کی وجہ سے زخمی تھا۔۔

جس نے اس کو چین پکڑائی تھی ۔۔

فرینڈز۔۔۔

حرم نے مسکرا کر ہاتھ تھام لیا تھا۔

ہیچھے سے تالیوں کی آواز گونجی۔

کیلفورنیا کا شہزادہ وہ لڑ کا

پاکستان کا مان وہ لڑکی

ولید ابسن

حرم ریحان پہلے رشتے میں بندھے

دوستی کا رشتہ۔۔۔

پاک خوبصورت رشتہ خلوص والا رشتہ سب سے خوبصورت رشتہ۔۔۔۔

دور آسمان پہ پرواز کرتے پرندوں کے کسی جوڑے نے اس پل کی ان دونوں کی نظر اتاری تھی۔

ولید کا ہاتھ حرم کے ہاتھ میں تھا جب ایک طرف شور اٹھا ۔

وہ حیران ہوا تھا شور کافی تھا۔

ابھی وہ فاطمہ والا اشو حل نہیں ہوا تھا وہ ایسے ہی حرم کا ہاتھ پکڑ کر اسطرف بھاگا تھا حرم کی نوٹ بک وہیں ٹیبل پر پڑی رہے گئی تھی۔۔۔۔

                             ***********************

اور ظہار خان قبیلے سے چند میل دور وہ لڑکی کالی چادر میں لپٹی بیٹھی تھی۔

آئید میر مہارت سے ڈرائیو کرتا اسے وہاں سے لے جا رہا تھا۔

نورم اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی وہ اسے دو گارڈز کے ہوتے ہوۓ بھی اس کے کالج میں داخل ہو کر سیکنڈ گیٹ سے نکال لایا تھا نورم زیادہ سوچ نہیں پا رہی تھی ۔

آپ سچ کہہ رہے ہیں کیا آپ میری مدد کریں گے کیا۔

اس نے چادر کا پلو سائڈ پہ کیا تھا۔

ہاں جب تم مجھے سچ سچ  سب بتاؤ گی تو ضرور کروں گا مدد ۔

سپاٹ چہرے پہ وہ بڑی مشکل سے مسکان لایا تھا۔

گاڑی اب پتھریلے علاقے میں داخل ہو چکی تھی۔

وہ اسے جس گھر میں لے آیا وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا غریبی کا منہ بولتا ثبوت۔

تبھی ایک مرد باہر نکلا اس نے بس آئید میر کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور باہر چلا گیا۔

آو میرے ساتھ۔

اب وہ اس کو لے کر اندر داخل ہوا تھا۔

وہ ایک کمرے میں داخل ہوۓ جو اگر چہ چھوٹا تھا مگر صاف ستھرا تھا جو اچھا احساس بخش رہا تھا۔

نورم کا دل ہول رہا تھا۔

وہاں ایک سنگل سا بیڈ لگا ہوا تھا اور کوئی جگہ نہیں تھی بیٹھنے کی۔

آئید میر تھک گیا تھا کچھ اس لیے شوز اتار کر وہ آرام سے بیٹھ چکا تھا۔

آ جاؤ تم بھی ۔

وہ اسے کھڑا دیکھ کر بولا۔

وہ ایک کنارے پہ ٹک کر بیٹھ چکی تھی۔

آئید میر نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کرنے کی ٹرائی کی تھی اور نورم بپھر کر کھڑی ہوئی تھی۔

پلیز مجھ سے دور رہیۓ گا خدا کے لیے۔

سفید یونیفارم میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا 

اس کی آنکھوں میں خوف تھا اور آنسو ٹوٹ کر گالوں پہ گرے ۔

آئید میر کو حیرت ہوئ وہ بس اس ریلیکس کرنا چاہتا تھا اس بس اس لیے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔

او کے اوکے ریلیکس ہو جاؤ۔

وہ بھاگ کر اس کے برابر کھڑا ہوا۔

مجھے آپ کی مدد نہیں چاہئے مجھے واپس جانا ہے۔

وہ واقع اس سے ڈر گئی تھی آئید میر کو اس پر ٹوٹ کر ترس آیا مگر اس سے زیادہ اسے ترس کسی اور پہ آتا تھا اس لیے سر جھٹک  دیا۔

تم پاگل ہو کیا میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا تم کو چھونے کا وہ اب اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔

اوکے پلیز چپ کر جاؤ کہو تو میں نیچے بیٹھ جاتا ہوں۔

وہ واقع جھنجھلا گیا تھا۔

اور پھر بڑی مشکل سے نورم ایک کنارے پہ بیٹھی تھی وہ اپنے گھر میں اس کے قریب آنے سے جھجکی ضرور تھی مگر آج یہاں تنہائی میں خوفزدہ ہو رہی تھی اسے خانم دادی کی بات یاد آئی تھی اکیلی عورت اور مرد کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے اور وہ ایسے محسوس کر رہی تھی شیطان اس کے آس پاس ہی ہو ۔

میری امی کو بابا جان نے قتل کیا۔۔۔۔۔

نورم کے لبوں سے یہ لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہوۓ تھے اور آئید میر کے ہاتھ سے پانی کا گلاس ٹو کر گر گیا تھا۔۔۔۔۔۔

نورم کے چہرے پہ اذیت تھی۔

تمہیں کیسے پتا چلی یہ بات وہ اٹھ کر اس کے گھٹنوں کے پاس پیروں کے بل بیٹھ چکا تھا۔

نورم کی آنکھوں سے گرتے کچھ آنسو اس کے ہاتھ کی بیک سائڈ پر گر کر مٹی میں رلتے جا رہے تھے۔۔۔۔۔

ایک دن میں کالج سے آ ئی تو بابا اور لالہ کسی بات پہ زور زور سے بول رہے تھے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی مگر لالہ نے کہا آپ کی وجہ سے ہم نے اپنی ماں کو کھو دیا سب کچھ کھو دیا تو میں رک گئی۔

جب میں کمرے کے پاس بھاگ کر گئی تو لالہ رو رہے تھے بابا نے کہا ماما کو اپنے کرتوت لے ڈوبے اگر وہ ان کو نہ مرواتے تو ان کو اپنی عزت کھو نی پڑتی۔

مجھے میرا دل کیا زمیں پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں آپ نہ آتے میری زندگی میں تو نورم اب تک مٹی میں مل چکی ہوتی۔

بے دردی سے گالوں سے آنسو پونچھتے ہوۓ وہ اسے راز دے رہی تھی 

راز۔۔۔۔۔

اپنے دل کے۔۔۔ 

اپنے گھر کے۔۔۔

اپنے قبیلے کے۔۔۔

اور سامنے بیٹھا مرد سارے راز ہی تو پانا چاہتا تھا۔

تم نے اپنی ماما کی قبر پہ جاتی تھیں تھیں کیا۔

آئید میر نے پھر سے سوال کیا۔

نہی بابا نے کہا وہ باہر کے ملک تھے جب ماما کی دیتھ ہوئی اس لیے وہ ان کو ادھر دفنا آۓ۔

وہ ضبط کہ اتنہا پر تھی ۔آئید میر کو احساس ہوا اگر وہ اسے اور دیر ان چیزوں کے بارے پوچھتا رہا وہ گر جاۓ گی۔

اچھا اب تم یہ پانی پیو شاباش 

اس نے سامنے پڑے جگ سے پانی بھر کے اسے پکڑایا تھا۔

کیا میں یہاں تمہارے پاس بیٹھ سکتا ہوں۔۔

آئید میر نے اس بار اجازت مانگی۔۔

جی بیٹھ جائیں۔۔

وہ اب کچھ ریلیکس تھی۔

وہ اس کے پاس بیٹھا تھا اس کا ہاتھ پکڑا تھا سنو نورم تمہیں خود کو مضبوط بنانا پڑے گا ورنہ یہ دنیا تو تلاش میں ہے کسی کی کمزو ری ملے اور اس سے فائدہ اٹھایا جاۓ۔

وہ اس کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوۓ پیار سے سمجھا رہا تھا جو بھی ہوتا وہ انسان تو تھا اور نورم جہانگیر کا سوز اسے افسردہ کر رہا تھا۔

آئید میر کی سنہری پرکشش آنکھوں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا وہ اس کے بہت پاس تھی سبز آنکھیں تھوڑی سوجی ہوئ لگ رہی تھیں اور سنہرے بال چادر سے نکل کر چہرے پہ بکھرنے کو تیار تھے۔

اس نے بہت پیار سے اس کے بال چہرے سے ہٹاۓ تھے نورم کا چہرہ جھک گیا تھا اگلے پل وہ خود کو سمبھالتا اٹھ کھڑا ہوا ۔

آپ میری امی کی قبر ڈھونڈ دیں گے نا۔۔۔۔

وہ امید سے پوچھ رہی تھی۔

وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے اپنا سمجھ رہی تھی وہ آئید میر جو خود اپنے آپ کا بھی نہیں تھا۔۔۔

ہاں ڈھونڈ دوں گا۔

ایک وعدہ ہوا تھا

محبت کا پہلا وعدہ اور وعدہ بھی کیسا۔۔۔

اچھا تم ایک کام کرو گی کیا ۔

وہ اسے سمجھا رہا تھا آہستہ آواز میں کچھ اور وہ معصوم سی لڑکی اس بات میں سر ہلا رہی تھی آئید میر نے دل میں اعتراف کیا نورم جہانگیر سی مددگار اسے اور کہی نا ملنی تھی۔

چلو اب تم کو کالج چھوڑ آتا ہوں

وہ کار کی چابی اٹھا کر آگے بڑھا تھا نورم اس کے ساتھ تھی ۔۔۔

وہ قدم رکھتا تھا جس جگہ نورم اسی جگہ چلتی تھی وہ اس کے قدموں پہ قدم رکھ رہی تھی یہ بات نورم نے نہیں آئید میر نے نوٹ کی تھی اور چشمہ لگاتے ہوۓ بے ساختہ مسکرا دیا تھا اگر معصومیت کی انتہا دیکھی تھی اس نے تو وہ نورم۔جہانگیر تھی پہاڑوں کی شہزادی۔۔۔۔۔۔

                                         ***************

وہ فاطمہ کو گلے لگا کر خود بھی رو رہی تھی ۔

ہر طرف رش تھا حرم مشکل سے فاطمہ تک پہنچی تھی۔

اس کے ہاسٹل روم میں گھس کر کسی نے اس کے سارے حجاب جلا دئیے تھے اس کے کپڑے باہر پھینک دئے  اور اس کے کمرے کی دیواریں گھٹیا تصاویر سے سجا دی تھیں۔

ایک اشتعال تھا جو ہال میں برپا تھا۔

ولید ،حسان اور کچھ اور لڑکے بہت کوشش کر رہے تھے کہ سب کو ایک بار سمبھال سکیں ۔

ان لوگوں نے یہ سب کیا اور اب انتظامیہ کے سامنے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ خود کیا ہے تاکہ ان کی بات پہ غور کیا جاۓ۔

ایک  لڑکا جس کے چہرے پہ چھوٹی داڑھی تھی کافی غمزدہ نظر اتا تھا۔

تبھی ولید کی نظر حرم پہ پڑی وہ فاطمہ کا ہاتھ پکڑ کر غصے میں ایک طرف جا رہی تھی ولید کو ایک پل بھی نہں لگا تھا یہ سوچنے میں وہ کیا کرنے والی ہے۔

اس کے سامنے ہجوم تھا وہ سب کو ہٹا کر اس کے پیچھے بھاگا۔

حرم۔۔۔۔۔

اس نے شاید پہلی بار اس کا نام لیا تھا 

کافی لوگوں نے مڑ کر دیکھا نہیں دیکھا تھا تو حرم ریحان نے وہ جزباتی تھی اور جزباتیت انسان کو کبھی کبھی بہت نقصان دیا کرتی ہے۔

وہ سب کو ایک طرف ہٹا رہا تھا مگر رش اس قدر تھا کہ الاامان۔

اور ایک حرم ریحان تھی جس کی سیاہ آنکھوں میں آنسوؤں کا پانی چمک رہا تھا اس نے انگریزوں کے اس ٹولے میں جا کر جہاں ان کا سرغنہ وہ  ساؤتھ امریکن سفید فارم لڑکا جیکسن بیٹھا تھا ۔

حرم نے اسے دیکھا انگلی سے اپنی طرف بلایا۔

وہ بھی فاطمہ کو دیکھ کر خباثیت سے مسکرا کر اٹھا تھا مگر اسے احساس نہیں تھا کہ وہ سامنے کھڑی لڑکی اس کے ساتھ کرنے کیا والی ہے۔

اس نے ایک نہیں دو  تھپڑ کھینچ کے اس کے منہ پہ مارے تھے اور سامنے بیٹھ سب اسٹوڈینٹس کے سانس رک چکے تھے۔

جب ولید بھاگتا ہوا اس تک پہنچا تھا وہ جیکسن کے سامنے کھڑی تھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔

ولید بھاگتا ہوا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا اگر چہ وہ دور تھا مگر اس کے کانوں میں چٹاخ کی آواز اچھے سے آئی تھی۔

حسان سہانا کشف سب بھاگتے ہوۓ آۓ تھے مگر وہ خود پریشان نظر آ رہے تھے۔

اس نے ایک سفید فارم انگریز کے منہ پہ ایک نہیں دو تھپـڑ مارے تھے وہ بھی اس کے ملک میں کھڑے ہو کر سہانہ کا دل کیا وہ اسے وہاں سے غائب کر دے۔

ہٹ جاؤ ولید ابسن سامنے سے۔

جیکسن غرایا۔

وہ اس کی ڈھال بنا کھڑا تھا اسے نہیں پرواہ تھی کیا ہوا تھا کیا ہونے والا تھا اسے بس اس وقت حرم ریحان کا ساتھ دینا تھا اور بس۔۔۔۔

میں نہیں ہٹنے والا 

اس کا لہجہ اور آنکھیں پر عزم دکھائی دیں۔

وہ حرم کے سامنے اس طرح کھڑا تھا کہ اس کے لمبے چوڑے وجود میں حرم کا نازک وجود چھپ گیا تھا جیکسن کی آنکھوں سے۔

خبر تو جیکسن کے دوستوں تک بھی پہنچ چکی تھی وہ بھی ہوا کی طرح وہاں آۓ تھے۔

مائیکل۔اور حسان بھی اب ولید کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے تھے۔

                                         you Bich….

جیکسن کے منہ سے یہ الفاظ پورے نہیں نکلے تھے حرم کے لیے ولید کا مکا اس کے منہ پہ پڑا تھا۔

بکواس بند کرو اپنی ولید نے ایک اور تھپڑ اس کے منہ پہ لگایا۔

حرم شش در کھڑی تھی اسے اب احساس ہو رہا تھا وہ کیا کر گئی تھی۔

جیکسن کے دوستوں نے آگے آنا چاہا۔

مگر جیکسن نے روک دیا تھا۔

اتنی لڑکیوں کے سامنے وہ پہلے شر مندہ ہو چکا تھا اب اور نہیں چاہتا تھا۔

مائیکل اور حسان بھی پیچھے ہوۓ۔

اب ولید اور جیکس آمنے سامنے تھے۔

ولید پلیز واپس آ جاؤ۔

حرم نے بھاگ کر اس کا بازو ہلایا۔

وہ پہلے زخمی تھا حرم کا دل اس کے لیے درد محسوس کر رہا تھا ولید جو یہ  بات جان لیتا تو دل کو دل سے ملا کر ہر راز کا پردہ فاش کر دیتا۔

حرم جاؤ یہاں سے 

ولید نے اسے آنکھیں دکھائیں

میں نہیں ہٹوں گی جب تک تم واپس نہیں آ جاتے۔

اور ولید نے پلٹ کر جن نظروں سے اسے دیکھا تھا حرم بی بی آرام سے چلتی ہوئی واپس آئی تھیں

مائیکل کو اتنی سنجیدہ صورتحال میں بھی اس کی شکل دیکھ کر ہنسی آ رہی تھی۔

اور جیکسن نے ولید کو اس طرف متوجہ دیکھ کر فائدہ اٹھایا تھا اور کک اس کے پسلی میں ماری تھی ولید ایک بار لڑکھڑایا تھا مگر دو منٹ میں وہ جیکسن کو دھول چٹا چکا تھا اس کا بے حد وجیہہ چہرہ اور خوبصورت بال تھوڑے متاثر ہوۓ تھے مگر وہ سامنے کھڑے سارے اسٹوڈینٹس پہ چھا گیا تھا ایک پل میں۔

اس سے پہلے کے بات بڑھتی یونیورسٹی انتظامیہ تک ساری خبر پہنچ چکی تھی حالات اب کس طرف رخ موڑنے جا رہے تھے کون جانتا تھا مگر۔۔۔۔۔

وہاں وہ کھڑا لڑکا فاتح تھا ہمیشہ کی طرح سب کے بیچ چلتے ہوۓ اس نے ایک نظر حرم کو دیکھا تھا ۔۔

تم سے تو پوچھتا ہوں میں بعد میں 

نیلی آنکھوں کا پیغام حرم ریحان کی کالی آنکھوں نے پڑھا اور وہ واقع وہ اس سے  ڈر گئی تھی۔

ولید ابسن پاکستانی ہوتا تو ایک بار ضرور اسے فسادن کہتا۔

                                          *********************

چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کر دیا

عشق کے اس سفر نے تو مُجھ کو نڈھال کر دیا

ملتے ھوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی

اُس نے مگر بچھڑتے وقت کوئی اور سوال کر دیا

اے میری گُل زمیں تُجھے چاہ تھی اک کتاب کی

اہل کتاب نے مگر، کیا تیرا حال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں اک حجر کا فیصلہ بھی تھا

ہم نے تو ایک بات کی، اُس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو

شہر کے شہر کو میرا واقف حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے

وقت نے کس شبیہہ کو، خواب و خیال کر دیا

(پروین شاکر) ​

وہ جب سے آئید میر کو سارے راز بخش کے آئی تھی اس کے انداز بدل چکے تھے۔

وہ رات اس سے بات کر لیا کرتی اور جو وہ پوچھتا بتا دیتی تھی۔

وہ اب زیادہ روتی نہیں تھی خاموش رہتی تھی ۔

ارمغان آج کل کام کے سلسلے میں شہر تھا تو اس کی زندگی اور بھی محدود ہو گئی۔

ظہار خان حویلی 

جہانگیر خان اور اصغر خان کی تھی ظہار خان کے دونوں بیٹے ایک دوسرے سے مختلف تھے ۔

جہانگیر پڑھنے لکھنے کا شوقین تھا تو اصغر شکار اور کھیل کود کا۔

جہانگیر خان شہر گیا پڑھنے تو اصغر بس زمیں ہی دیکھتا رہا۔

آج حویلی میں ایک نیا قصہ چھڑا تھا ارمغان خان کی شادی کا۔

نورم کو بھوک لگی تھی وہ کچن میں جانے لگی جب دادی خانم کے کمرے سے آتی آواز نے اس کا دل دہلا دیا۔

تم یہ غلط کر رہے ہو جہانگیر میں بتا رہی ارمغان ہیرا ہے ہیرا اسے اپنی سیاست دولت میں ضائع مت کرو۔

وہ بھاگ کر کمرے میں آئی 

کیا ہوا دادی خانم بھائی کو۔

وہ باپ کو مکمل نظر انداز کر رہی تھی جہانگیر خان کے دل میں دکھ اٹھا تھا۔

آپ بتا دیں اسے بھی میں باقی انتظام دیکھ لوں وہ خانم ماں کو کہتے باہر چلے گئے۔

تمہارے بھائی کی شادی ہے اگلے جمعے کو۔

وہ کہہ کر تسبیح کے دانے پھیرنے لگیں۔

کیا مطلب کیا اور کس سے۔

مونگیا کلر کی فراک پہنے ہوۓ تھے ناک کی لونگ نے اس کے اضطراب میں اضافے کو جھلا کر بیان کیا۔

کشمالہ خان سے ظہور خان کی بیٹی سے۔

انہوں نے ایک اور بم پھوڑا ۔

کیا۔۔۔۔

وہ چیخی 

باہر موجود ملازموں تک اس کی آواز گئی تھی۔

نہیں یہ نہیں ہو سکتا وہ تو لالہ سے 15 سال بڑی ہیں خدا کے لیے لالہ کے ساتھ ایسا مت کریں۔

وہ ان کے سامنے ہاتھ جو ڑ کر بیٹھ چکی تھی۔

اگر ایسا نہ کریں تو ظہور خان کی اربوں کی جائیداد تیرے باپ کے ہاتھ سے چلی جاۓ گی اور سیاست بھی۔

دادی خانم آج خود تپی بیٹھی تھیں۔

اس نے سر اٹھایا کھانا وغیرہ بھول چکا تھا وہ بھاگ کر کمرے میں گئی تھی۔

میں ایسا نہیں ہونے دوں گی وہ سیل فون نکالے کوئی نمبر ملا رہی تھی۔  

                                        *******************

شام کو وقت تھا ماحول میں خنکی تھی آئید میر چاۓ کا کپ لیے لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب اس کا سیل گنگنا اٹھا تھا۔

آہاں ۔۔۔۔

آج تو بڑے اونچے لوگوں نے ہمہیں یاد کیا ہے۔

نورم کے سلام کا جواب دے کر اس نے فورا کہا تھا۔

اب وہ صوفے سے ٹیک لگا کر آرام سے اس کی طرف متوجہ تھا ۔

اور جو کچھ وہ اسے بتا رہی تھی آئید میر کی مسکان گہری ہوتی جا رہی تھی۔

اوہ بہت افسوس کی بات ہے یہ تو۔

اس نے مصنو عی افسردگی دکھائی۔

اچھا تم اس لڑکی مطلب عورت سے مل کر کیا کرو گی۔

وہ حیران ہوا اس کی فرمائش سن کر۔

آپ نے بس جس طرح مجھے اس دن کالج سے نکالا تھا ایک بار پھر سے ایسا کر دیں باقی میں دیکھ لوں گی۔

وہ اس سے کہہ رہی تھی۔

تمہاری بات بھلا میں ٹال سکتا ہوں۔۔۔

اس نے لہجا بدلا تھا محبتوں کی چاشنی گھولی تھی ۔

اور دور بیٹھی نورم کے کانوں میں مٹھاس گھلی وہ مسکرا دی تھی۔

وہ اس کو کچھ بتا رہی تھی اور آئید میر کی نگاہیں لیپ ٹاپ پہ جم گئی تھیں

اوکے سویٹ ہارٹ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں اس نے عجلت میں فون کاٹا اور فورا لیپ ـٹاپ اٹھا کر گود میں رکھا۔

اس کے پر کشش چہرے پہ چمک ابھری۔

نور دین جلدی گاڑی نکالو۔

وہ فور سیل اٹھا کر بھاگا۔

تھوڑی دیر بعد وہ جنگل کے پر خطر راستے پہ گامزن تھا ایک اور ثبوت ایک اور سرا ہاتھ لگا تھا اس کے وہ جلدی سے وہاں پہنچنا چاہتا تھا۔

                                        ***************

آپ لوگوں نے انتظامیہ کو سمجھ کیا رکھا ہے ہم لوگ یہاں آپ لوگوں کو فضول نظ آتے ہیں ۔

یو سی بارکلے کا ماحول اتنا تو تپا ہوا تھا کہ وہاں ایک انڈا فرائی ہو جاتا۔ 

حرم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سامنے کھڑے جیکسن کا منہ نوچ لیتی۔

مس حرم ریحان۔۔۔

اس کا نام پکارا گیا۔

اور مس حرم ریحان ایک قدم آگے ہوئیں سب سے۔

وہ سامنے آئی تھی نظر جھکی ہوئ تھی مگر سر اٹھا ہوا تھا۔

ہم آپ سے پوچھنے کی غلطی کر سکتے ہیں کیا یہ کیا کیا آپ نے۔

میم سو زین نے اس پیاری سی لڑکی جو کسی لحاظ سے بھی بری نہیں لگ رہی تھی دیکھ کر پوچھا۔ انداز طنزیہ تھا۔

میم میں بتاتا ہوں آپ کو۔

اس سے پہلے کے حرم بولتی ولید کی آواز آئ تھی مگر شکل سامنے نہیں۔

میرے خیال میں یہ عشق محبت باہر نپٹا لینا آپ ابھی مجھے اس سے بات پوچھنے دیں

اس قدر سخت ماحول میں بھی کافی لوگوں کے چہرے پہ مسکان بکھری۔

میم میں نے غلط کیا مجھے معلوم۔ہے مگر مجھے اس پہ افسوس نہیں ہے یہ شخص اس سے بھی زیادہ کا مستحق ہے۔

حرم نے چبا چبا کر کہا۔

اور بہت سے اس کے ہامیوں کے چہرے کھل اٹھے۔

یہ جب میرے ہاتھ لگی میں نے اسے زندہ نہیں چھوڑنا ولید نے حسان کے کان میں سر گوشی کی۔

پہلے ہاتھ تو لگے حسان نے اسے گھرکا۔

اس کے بعد حرم سب کچھ بتاتی گئی تھی۔

ابھی ایک مسئلہ حل ہوا نہیں تھا فاطمہ والا اور آپ نے بے عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ایک اور مسئلہ کھڑا کر دیا۔

سوزین میم کو فاطمہ کے ساتھ ہمدردی تھی مگر حرم۔پہ غصہ آ رہا تھا۔

پھر جیکسن کا بیان لیا گیا۔

حرم کا دل دھڑک اٹھا اگلی کس کی باری تھی۔

وہ کیا بتاۓ گا اس کا اپنا قصور نہیں تھا وہ حرم کے لیے پھنسا تھا۔

اس کا نام پکارا جانے والا تھا۔۔۔

جی تو محمد خالد بن ولید اب آپ آئیں سامنے۔۔۔۔۔

محمد خالد بن ولید۔۔۔۔

محمد خالد بن ولید ۔۔۔۔

حرم نے ایک بار کہا۔۔

دو بار۔۔

تین بار

سب کے چہرے نارمل تھے سواۓ اس کے۔

اور وہ جو چلتا ہوا سامنے اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا وہ ولید ابسن بناپھرتا تھا وہ جو محمد خالد بن ولید تھا حرم کا سر چکرا گیا وہ گر جاتی اگر ولید کے مضبوط بازو اسے تھا م نہ لیتے۔

وہ کون ہے کشف 

وہ اسے واپس ہاسٹل لے آئی تھیں اس کا دل زخمی تھا کس قدر خوبصورت نام تھا اس شخص کا ۔

وہ کوئی بہت اچھی مسلمان نہیں رہی تھی مگر ہر مسلمان کی طرح اسے محبت تھی اپنی تاریخ سے اپنے ہیروز سے۔

ولید کے بابا پاکستانی تھے بہت اچھے مسلمان وہ یہاں تبلیغ کے لیے آۓ تھے۔

وہ بہت خوبصورت تھے اتنے کی مایا میم جو کیلفورنیا کی مشہور ایکٹریس تھیں ان پہ مر مٹیں۔

مایا ۔۔۔۔

مایا ابسن کی بات کر رہی ہو کیا۔

حرم تکیہ پھینک کر اس کے پاس آئ وہ دونوں آس پاس بیٹھی تھیں۔

ہاں وہ ہی مایا ابسن ۔

مشہور ترین ہالی ووڈ ایکٹریس ولید ابسن کی ماں تھیں۔

کشف نے افسردگی سے بتایا۔

حرم ریحان پہ انکشاف ہوا تھا 

اوہ خدا۔۔۔۔ وہ بولی

اور پھر کیا ہوا۔

حرم نے بے تابی سے پوچھا۔

بس پھر وہ مایا سے مریم بن گئیں مسلمان اور شادی ہو گئی ان کی ولید کے بابا سے اور ولید کا نام محمد خالد بن ولید اس کے بابا نے رکھا یہ شخصیت ان کی فیورٹ تھی اسلامی تاریخ میں ۔

مایا کی تو ڈیتھ ہو چکی نا۔

حرم اتنا تو جانتی تھی۔

ہاں اور اسی لیے ولید۔۔۔

 ولید ابسن بن گیا۔

کشف نے دکھی دل سے بتایا۔

ایسا کیوں ہوا۔

حرم سارا کچھ ایک بار میں جان لینا چاہتی تھی۔

بس اتنا پتہ تھا مجھے باقی ولید کو پتہ ہو گا۔

کشف کہہ کر پانی پینے چلی گئی تھی ۔

حرم نے جلدی سے سیل فون اٹھایا۔

ہیلو ولید مجھے تم سے ملنا ہے وہ بے تابی سے بولی اور پھر کیلفورنیا کی شام میں وہ دونوں  آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔

کچھ پل ان کے درمیان خاموشی سے گزرے خاموشی بھی ایسی جو آواز رکھتی تھی لہجہ رکھتی تھی۔۔۔۔

تم مایا ابسن کے بیٹے ہو کیا ۔

حرم نے پہلی بات ہی غلط کی تھی سامنے بیٹھے خوبصورت لڑکے کی آنکھوں میں کچھ ٹوٹا۔

ہاں۔۔۔۔

ولید نے بہت مختصر جواب دیا۔

کیا تم مجھے اپنی کہانی سناؤ گے محمد خالد بن ولید۔۔۔

وہ لڑکی جو سامنے بیٹھی تھی اس نے سرخ رنگ کا قمیض پہنا تھا اور سر پہ آج سفید اسکارف تھا چہرہ میک اپ سے پاک تھا ۔

میری ماما تمہارے جیسے ڈریسنگ کرتی تھیں

وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا میکانکی انداز میں بولا ۔

حرم کا دل دھڑکا تھا وہ اسے ایک اعزاز بخش رہا تھا وہ حقیقت پانا چاہتی تھی۔

ہاں بتاؤ نا پلیز اور۔

وہ اس کے سارے راز پانا چاہتی تھی۔

کیوں بتاؤں میں ہاں بولو اور سنو آئیندہ مجھ سے کچھ پوچھنے کی کوشش مت کرنا اگلے پل وہ اپنے روپ میں لوٹ چکا تھا ۔

اور تم اس نے حرم کا بازو پکڑ کر کھینچا وہ اس کے اتنے نزدیک ہوئ تھی کہ اس نے محسوس کیا ولید کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔

تم مجھے ولید ابسن کہو گی ولید ابسن ۔

اس نے حرم کا بازو اتنے زور سے پکڑا ہوا تھا کہ درد سے اس کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے۔

حرم نے بے ساختہ اثبات میں سر ہلایا۔

جنگلی کسی جگہ کا وہ بڑ بڑائی۔

اور جنگلی اپنی آنکھیں آسمان پہ جمائے لا پروہ ہو چکا تھا۔

حرم کو افسوس ہوا کچھ تو تھا اس ہنستے مسکراتے چہرے کے پیچھے جو وہ سب سے چھاپۓ پھرتا تھا۔۔۔

اور پھر بہت سے پل خاموشی میں کٹے تھے وہ ایک بینچ پہ بیٹھے تھے خاموش۔۔۔

                                      ********************

آئید میر کی گاڑی تیز تیز ان راستوں پہ بھاگ رہی تھی۔

آپ کو یقین ہے نا کہ وہ وہی جگہ ہے جو بتائی گئی ہے۔

نور دین نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔

ہاں بس یہاں سے اس طرف مڑ جاؤ ۔

آئید میر نے فون سے دیکھ کر اسے راستہ سمجھایا۔

وہ جس جگہ پہنچے تھے وہ علاقہ  ایک گھنا جنگل کے درمیان میں تھا ۔

وہاں ایک سائڈ سے بالکل صاف جگہ کی گئی تھی   دور طرف بہت گھنے درخت تھے اتنے کہ کسی ذی روح کا دل کانپ جاۓ۔

اس جگہ وہ لوگ کر رہے ہیں یہ گھٹیا کاروبار۔

آئید میر کی آنکھوں میں تلخی تھی اور نفرت۔

اور آئید میر نے وہاں ایک گھنٹہ گزارا تھا ایک ایک چیز کا معائنہ کیا مٹی کا سمیپمل لیا۔

وہ لوگ یہاں کب آئیں گے کسی بھی کنفرم ثبوت کے لیے یہ جاننا ضروری ہے۔

نور دین نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر کہا وہ ایک ایک چیز کی تصویر لے رہا تھا۔

اور بہت کچھ اسے نیا دیکھنے کو مل رہا تھا۔

ہاں تو ہمیں یہ پتا چلے گا کیسے کہ وہ کب آتے ہیں اس بار۔

آئید میر نے اب پر کشش مسکان سے نور دین کو دیکھا۔

نہیں یہ مت کریں آپ۔

نور دین نے گھبرا کر کہا تھا۔

اس کے ساتھ رہے کہ وہ اب اسبخو سچین چہرہ پڑھنے لگا تھا۔

لاہور سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے ظہار خان تک کے سفر میں آئید میر نے خود کو ہر قسم کے حالات حتی کے موت کے لیے تیار کیا ہوا ہے تم بے فکر رہو میرے دوست۔

اس نے نور دین کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور آگے بڑھ گیا۔

                                   !******************

ولید جس وقت گھر میں داخل ہوا اس کا چہرہ سرد نظر آتا تھا۔

سامنے بیٹھی شخصیت کو اس نے ایک پل دیکھا ۔

کیا ہوا لگتا آج صاجزادے کے مزاج برہم ہیں ۔

آپ مجھ سے کم  مخاطب ہوا کریں ہاشم صاحب کتنی بار کہا ہے۔

سامنے داڑھی میں پر نور چہرے والا شخص اس کا باپ تھا ہاشم خان ۔کیلفورنیا کا با اثر شخص۔

تم کھانا کھا لو میں باہر جا رہا ہوں ۔

وہ جانتے تھے وہ ان کے ساتھ کھانا نہیں کھاۓ گا۔

وہ دکھی دل سے کہتے باہر نکلے تھے اور ولید صوفے پہ گرنے والے انداز میں بیٹھا تھا ایک آنسو اس کی آنکھ سے ہوتا ہوا کنپٹی میں جزب ہوا تھا۔۔۔۔

                                               *****************

نورم کا دل پتے کی طرح لرز رہا تھا وہ آج کیا کرنے والا تھا۔

ظہار خان قبیلے میں اس شہزادے جیسے شخص کی شادی اپنے سے 15 سال عورت سے ہو رہی تھی اور جشن تھا کہ ختم ہونے میں نہں آ رہا تھا۔

ابھی سب بڑی مشکل سے تھک کر سوۓ تھے رات دو بجے کا وقت تھا۔

ٹھیک سات دن بعد ارمغان کی شادی تھی کشمالہ ظہور سے۔

وہ ایک طرف جاتی پھر دوسری طرف۔

ریڈ فراک پاؤں کو چھوتا تھا بال چٹیا میں بندھے ہوۓ تھے اس کا گورا رنگ چمک رہا تھا۔

تبھی وہ کھڑکی سے کود کر کمرے میں داخل ہوا تھا اور نورم نے جلدی سے لائٹس آف کر دی تھییں۔

آپ نے اتنی ضد کیوں کی آخر کیا ضرورت تھی اتنی۔

ملگجے اندھیرے میں وہ اس کے قریب آئی۔

آئید میر ایک سانس لینا بھولا تھا وہ آج تھوڑا تیار تھی اور اور اس کا دل لرز گیا تھا حسن پر سوز پہ۔

میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس محبت کے چکر میں مجھے یہ سب کرنا پڑے گا ۔

اب وہ روہانسی ہو کر بولی تھی۔

سنو نورم اس وقت ہم لوگ جو کچھ کرنے والے ہیں وہ تمہاری بہت سی مشکلات حل کر سکتا ہے سب سے بڑھ کر تمہارے بھائی کو اس شادی سے بچا سکتا ہے۔

وہ اب اسے سمجھا رہا تھا۔

موسم بہت خراب ہو رہا تھا طوفانی ۔

تمہیں پتہ ہے تمہارے چچا اور بابا کیا کر رہے ہیں

وہ اس کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔

کیا کر رہے نورم نے معصومیت سے پوچھا۔

ڈرگز سپلائی۔

وہ بس اتنا بولا تھا نورم کے منہ سے نکلنے والی چیخ اس نے ہاتھ اس کے لبوں پہ رکھ کر دبائی

نورم کو احساس ہوا اس کا ہاتھ گیلا تھا۔

اس نے فورا پکڑ کر دیکھا تھا وہاں خون کی لکیر نظر آتی تھی۔

آپ کا ہاتھ زخمی ہے میر۔۔۔۔۔

اس نے آئید میر کو ایک نیا نام دیا محبت کا نام۔

میر۔۔۔۔۔

کوئی نہیں اتنا تم بس میری بات سنو ۔

وہ اپنے ہاتھ کو نظر انداز کر رہا تھا جو اچھا خاصا خون میں ڈوب رہا تھا۔بالکل نہیں سنوں گی میں وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر بھاگ کر کچن سے فرسٹ ایڈ باکس لے آئ تھی۔

وہ صوفے پہ بیٹھا تھا اور وہ اس کے ساتھ مہارت سے اس کے ہاتھ پہ بینڈیج لگا رہی تھی کس قدر خیال تھا اس کو ۔

میر آپ کو یہاں آنے کی اجازت کیسے مل جاتی ہے مطلب اتنے گارڈز۔

آج اس نے کام کا سوال کیا۔

میڈم آپ تو آج لگتا مجھے ادھر ٹھہرانے کے موڈ میں ہے بندہ غریب نے گھر بھی جانا ہے۔

اس کے سوالوں سے بچنے کے لیے وہ اب اسے اپنی باتوں میں گھیرنے لگا۔

ہاں تو رک جائیں کس نے روکا ہے۔

اس کے ہاتھ پر پٹی کر کے وہ اٹھتے ہوۓ بولی۔

آئید میر نے ہر چیز بھول کر اس دفعہ اس کا ہاتھ پکڑا۔

کیا واقع رک جاؤں نو رم صاحبہ وہ اب شرارت سے اس کی چھوٹی سی ناک دبا کر بولا تھا۔

ایک بار تو خیال آیا سب کچھ بھول کر اسے خود میں سمیٹ لے مگر آئید میر پہ ان ان چیزوں کا بوجھ تھا کہ وہ محبت کے بوجھ سے ڈر رہا تھا۔

اب وہ اس کا ہاتھ ایک بار پھر دیکھ رہی تھی جب باہر زور سے بادل گرجا تھا اور نورم اسکے کشادہ سینے میں منہ چھپا گئی تھی۔

آئید میر ششدر رہ گیا۔

اس نے اس کے بال سہلاۓ۔

بس بادل تھے نورم کس قدر خوبصورت بولتا تھا وہ۔

کچھ تھا جو آئید میر کے اندر غلط ہو رہا تھا کچھ تھا جو اسے بدل رہا تھا۔

آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں

وہ اب دور ہوتے ہوۓ معصومیت سے بولی یہ اسکی محبت کے اظہار کا سب سے خوبصورت انداز تھا۔

آئید میر مسکرا کر نظر پھیر گیا۔

جی جناب تو اب بتائیں کیا کرنا ہے مجھے۔

اب وہ ریلیکس تھی 

مجھے لگتا ہے چچا ایسا نہیں کر سکتے نا بابا۔

وہ ایک بار پھر بولی۔

قتل کر سکتے تو یہ کیوں نہیں۔

وہ بھی گھاگ تھا شکاری۔۔۔

اور شکار بھی اتنا معصوم۔

نورم سر جھکا گئی تھی۔مجھے تمہارے چچا کا سیل اور لیپ ٹاپ چاہئے بس دس منٹ کے لیے کیا تم کر سکتی ہو یہ۔

وہ اب کھڑا ہو گیا تھا وہ ماحول پہ چھا جانے کی خاصیت رکھتا تھا وہ اس کے سامنے سب بھول جاتی تھی کیا دنیا کہ دنیا کے لوگ۔۔۔۔

ہاں میں لے آتی ہوں آپ بیٹھو۔

وہ باہر نکلی۔

اور تھوڑی دیر بعد وہ اصغر خان کے لیپ ٹاپ  اور سیل کے ساتھ لوٹی ۔

اس سے لالہ کی شادی کیسے رکے گی میر۔

وہ یو ایس بی لگا کر کام کر رہا تھا وہ اس کے سامنے دونوں گال ہاتھ پہ رکھ کہ بیٹھی تھی۔

بس تم دیکھتی جاؤ اس کی ساری توجہ لیپ ٹاپ پر تھی۔

اچھا یہ لو اب رکھ آؤ مگر آرام سے ۔

آئید میر کو اس کی فکر تو تھی۔

وہ جب واپس آئی وہ جانے کے لیے تیار تھا۔

مجھے سمجھ نہیں آتی آپ اتنی اونچی جگہ کیسے آتے ہیں ۔

ایک اور سوال۔ہوا

اب تم کو اپنا بنایا ہے تو کچھ تو اس گھر کے اور لوگوں کو بھی اپنا بنانا پڑے گا نا اور تمہار گیٹ کیپر بہت اپنا سا لگا مجھے۔

آئید میر نے اپنے اصول سے ہٹ کر آج اسے بتایا تھا خوش اتنا تھا ثبوت پا کر ۔۔۔

وہ مسکرا دی تھی اور مسکان بھی ایسی کہ آئید میر نے نظر چرائی اور  کھڑکی کی طرف بڑھ گیا۔

                                     ***********************

اور کیلفورنیا میں وہ سب منہ لٹکاۓ بیٹھے تھے۔

جیکسن نے ثابت کر دیا تھا کہ حرم نے اسے پہلے تھپڑ مارے جو کہ تھا بھی سچ اس کی اس غلطی کہ وجہ سے فاطمہ کا کیس ڈسمس کر دیا گیا تھا وہ مان رہی تھی کہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے۔

کچھ جزباتی سی لڑکیاں اسے اچھی اچھی گالیوں سے بھی نواز کر گئی تھیں۔مسئلہ حرم کو گالیوں کا نہیں تھا فاطمہ کا تھا اگر آج یہ کیس دبا دیا جاتا تو بہت کچھ دبانا شرور کر دیتے وہ لوگ۔

ولید یونیورسٹی سے غائب تھا کوئ نہیں جانتا تھا وہ کہاں ہے۔

وہ اب گراؤنڈ میں بیٹھے تھے فاطمہ بے چاری اپنی اسٹڈیز چھوڑ کر پاکستان جانے کا سوچ رہی تھی حرم کو بہت دکھ ہوا۔

ولید کہاں تھا وہ ہوتا تو کچھ نا کچھ تو کر لیتا سب لوگ یہی سوچ رہے تھے۔

اور تبھی وہ نظر آیا بیگ لٹکاتا وہ لٹکے منہ سے حرم کے پہلو میں ہی آ کر بیٹھا تھا اور کر نظر انداز رہا تھا۔

کہاں تھے تم بتاؤ۔

حرم نے فورا گھور کر پوچھا

کیوں بیوی ہو تم میری جسے جواب دوں

ولید نے ایسا جواب دیا تھا کہ حرم تپ اٹھی تھی  اگر وہ پنجابی جانتا ہوتا تو حرم ضرور اسے شوخا کہتی۔

کیا ہوا سب کو ایسے بیٹھے ہیں جیسے قبر کے فرشتوں کا انتظار ہو وہ کیلفورنیا کا شہزادہ اب سب کی شکلیں دیکھ کر بیزار ہوا۔

اور پھر سہانا نے اور کشف نے باری باری اسے بات سمجھائ۔

حرم کا سر جھک گیا تھا وہ جانتی تھی اس کی کلاس لگنے والی ہے۔مگر ولید نے کچھ بھی نہی کہا وہ بالکل نارمل نظر آتا تھا جیسے سب پتا ہو اسے۔

ہاں تو یہ کونسی نئی بات ہے ایسے ہہ ہونا تھا مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا حرم یہ نہ کرتی تو بھی وہ لوگ کو اسٹینڈ نہیں لینے والے تھے چلو شکر ہے اس نے تھپڑ مار کر اسے سبق تو سکھا دیا۔

وہ ایک ہی سانس میں اس کے سر سے بوجھ اتار چکا تھا مگر حرم کو دیکھتی اس کی آنکھیں اسکے لہجے کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔

تو کیا اب بس ختم سب فاطمہ کا کیا بنے گا اگر ہم خاموش ہو گئے تو۔

حرم نے فوراً کہا تھا۔

کسِ نے کہا ہے کہ ہم خامو ش ہو جائیں گے اس بار وہ اٹھ کھڑا ہوا  بیگ کندھے پہ لٹکاۓ اس کے آنکھوں میں سوچ تھی۔

اٹھو سب لوگ یہاں مردودوں کی طرح بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ کچھ ہاتھ پیر ہلا لو 

وہ سب کو کھڑا کہہ رہا تھا۔

ہر کلاس میں جاؤ جہاں لگے کہ فارنر اسٹوڈینٹس چاہے جس ملک کے بھی ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں ان کو ہال میں لے آؤ۔

وہ ان کو ایک جدو جہد کا سبق پڑھا رہا تھا اس نے ہارنا نہیں سیکھا تھا وہ ہار کیسے جاتا۔۔۔۔

اسے جیتنا تھا ہر بار کی طرح۔۔۔

مگر اشو بھی بن سکتا ہے اس طرح تو۔

حسان نے سوچ کر کہا تھا۔

ان کے اشو بنانے سے پہلے ہم اپنا اشو اتبا بڑھا دیں گے کہ ان کو موقع نہیں ملے گا۔

محمد خالد بن ولید تھا وہ بہادری اس کے نام کے ساتھ ملی تھی حرم نے اسے فخر سے دیکھا اور بھاگ کر اس کے ساتھ کھڑی تھی۔

ہاں چلو میں تمہارے ساتھ ہوں

وہ اس کے ساتھ کھڑی ہونے والی پہلی تھی ۔۔۔

ولید نے اس کو دیکھا۔

تم سے بعد میں نپٹوں گا زرا ان سب سے نپٹ لوں۔

نیلی آنکھیں کالی آنکھوں کو یہ پیغام دے رہی تھیں حرم کو حرف با حرف اب اس کی آنکھیں پڑھنا آ گئی تھیں اگر وہ یہ سوچتی تو چونک جاتی اور ولید ابسن اگر پاکستان میں ہوتا تو ایک بار ان آنکھوں سے بات کرنے کی عادت کی وجہ سے جادوگر مشہور ہوتا حرم نے سوچا تھا مسکرا کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔

 ولید اس کی آنکھوں میں ہی دیکھ رہا تھا اور حرم ریحان نہیں جانتی تھی ولید ابسن بس آنکھوں نہیں چہرے کو پڑھنا بھی خوب جانتا ہے۔

حرم کو دیکھ کر باقی سب بھی اس کے ساتھ آ کھڑے ہوۓ۔

او مس پاکستانی۔۔

ولید نے اس کے آگے چٹکی بجائی۔

مس پاکستانی نے فخر سے اسے دیکھا

ہاں بولو 

وہ اس لقب سے خوش نظر آئی۔

اپنے سارے وہ پانچ گز والے دوپٹے لے آؤ جتنے بھی ہیں تمہارے پاس تو اسٹاک ہے ماءشااللہ

وہ یہ کہتا ہوا کتنا خوبصورت لگا تھا انگلش لہجے میں عربی۔۔۔

اور کشف تم نور سب لڑکیاں جو ایشیائ ہیں مجھے تم سب لوگوں کے اسکارف چاہئے ہیں 

وہ کیا کرنے والا تھا کسی نے نہیں پوچھا تھا سب کو یقین تھا محمد خالد بن ولید کچھ غلط نہیں ہونے دے گا مگر وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ تاریخ لکھنے جا رہا تھا یو سی بارکلے کی۔

                                            *******************

ظہار خان قبیلے میں وہ جو سر اٹھاۓ حویلی کھڑی تھی اس میں وہ قیامت برپا تھی کہ الامان۔

سارے نوکر ایک جگہ جمع تھے گھر کے سارے افراد ایک جگہ ۔۔۔۔۔

افراد تھے ہی کتنے۔۔۔۔

کس نے اس کتے تک خبر پہنچائی یہ اب مجھے جواب دو ۔

جہانگیر خان ملازمین کی وہ شامت لے آۓ تھے کہ شامت بھی پناہ مانگے۔

حورم جو کمرے میں بیٹھی تھی اسے احساس نہیں تھا وہ کیا کر چکی ہے اور سامنے والا وہ جو ڈرا تک نہیں تھا وہ جو جھجکا تک نہیں 

وہ آج صبح اپنے ساتھ یونیفارم میں ملبوس پولیس اہلکار لے آیا تھا اور اصغر خان کو گردن سے پکڑ کر لے گیا تھا وہ جیسے آیا تھا اس حویلی میں اور جیسے گیا تھا پورے علاقے نے وہ منظر اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا وہ ایک اکیلا لڑکا خانوں کو دھول چٹا گیا تھا۔

اور نورم کو یاد آیا جب حویلی سے نکلتے ہوۓ اس نے ایک نظر نورم پہ ڈالی تھی بس ایک نظر وہ کس قدر شاندار تھا وہ جتنا سوچتی حیران ہوتی۔

ساری حویلی میں اس وقت طوفان برپا تھا اور ارمغان حیرت زدہ اسے بالکل خبر نہیں تھی کہ اس کی حویلی سے دور جنگل میں ڈرگز کا کام کیا جا رہا وہ سر پکڑ کر بیٹھا تھا اتنی زلت رسوائی کبھی نہیں دیکھی تھی۔

                                           !******************

نورم کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا اس معاملے میں مَیں نے یار۔

آئید میر بار بار سیل اٹھاتا اور رکھ دیتا۔

آج صبح ہی اس نے رنگے ہاتھوں اصغر خان کے آدمیوں کو پکڑوایا تھا اور پھر حویلی سے اصغر خان کو اس کو نورم کی آخری ڈری ڈری نگاہیں یاد آ رہی تھیں

آپ کھانا کھا لیں زہرہ مائی کو کہا ہے میں نے اپنے لہجے میں وہ بتا دے گی حالات۔

نور دین نے اسے سنجیدگی سے کہا تھا۔

آئید میر کی بے چینیاں بڑھ رہی تھیں وہ کالز کرتا مگر وہ اٹھا نہیں رہی تھی وہ حالات کی ماری لڑکی اس کے چنگل میں کیوں پھنس گئی وقت کے کسی رحم دل پل نے سوچا تھا۔

ابھی نہیں۔تو کل حویلی والوں کو نورم کا سچ پتا چل جانا تھا پھر۔۔۔۔

اس کے آگے آئید میر سوچ نہیں پایا ۔۔۔۔۔۔

شکاری خود اپنے دام میں پھنس رہا تھا نور دین نے اسے تکلیف سے دیکھا۔******************

یو سی بارکلے کا آج کا دن ہسٹری میکر تھا یا ہونے والا تھا۔

وہاں ہال میں چلتے ہیں تو نظر آتے ہیں دوپٹوں کے ڈھیر اور ساتھ کھڑی حرم ریحان۔

کلاسز سے نکل نکل کر لڑکے لڑکیاں ہال میں جمع ہو رہے ہیں

یونورسٹی انتظامیہ اب چاہتی بھی تو فورا کچھ نہیں کر سکتی تھی روسٹروم پہ کھڑا وہ لڑکا جو کیلفورنیا کا منہ بولا شہزادہ ہے آج کچھ کر گزرنے والا ہے۔۔۔۔۔۔

یہ وہ دن تھا جو یو سی بارکلے میں ایک نئی تاریخ لکھنے جا رہا تھا۔ اور اس نئی تاریخ کا لکھا محمد خالد بن ولید کے ہاتھوں سے جانا تھا یہ بات کیلفورنیا میں بیٹھے یو سی بارکلے کہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے جو ولید کو ہلکے میں لے رہے تھے۔

بس آدھا گھنٹہ ہوا تھا یا آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت جب وہ ہال کھچا کھچ اسٹوڈینٹس سے بھر چکا تھا۔

کیا پاکستانی کیا انڈینز کیا انگریز وہاں نظر دوڑائیں تو وہ لوگ سر اٹھاۓ کچھ کر دینے کے لیے تیار تھے۔

تعداد بہت زیادہ ہو چکی تھی اور روسٹروم پہ کھڑے اس لڑکے کو ہونٹوں کو مسکان نے چھوا جسے نیچے کھڑی ماتھے پہ کٹے بالوں والی لڑکی نے دل سے محسوس کیا تھا۔

ولید کا سارا گروپ ایک طرف کھڑا نظرآتا تھا ان سب نے مسکرا کر ویکٹری کا نشان بنا کر اسے گڈ لک بولا تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب تک کوئی اپنے حق میں آواز نہیں اٹھاتاد نیا کی طاقتیں اس کے حقوق کھانا شروع ہوجاتی ہیں جو جتنا دبتا ہے یہاں اس کو اتنا اور دبایا جاتا ہے۔

وہ بول رہا تھا 

کوئی اتنا خوبصورت کیسے بول سکتا ہے نیچے کھڑے لوگوں کے دل اس کی آواز کے اتار چڑھاؤ کا ساتھ دے رہے تھے۔

جو بات میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کو چھوٹی لگے معمولی لگے مگر۔۔۔۔۔۔

آج ہم نے اس کے لیے کچھ نہ کیا تو ایک معصوم لڑکی کا بھروسہ انسانیت سے اٹھ جاۓ گا ولید ابسن کوئی اچھا انسان نہیں مگر میں یہ کبھی نہی چاہوں گا کہ اس لڑکی کو بھروسہ انسانیت سے اٹھ جاۓ۔۔

آج آپ سب یہاں ہو تو وجہ فاطمہ بنت فصیح نہیں ہے وجہ آپ کے اندر بیٹھا انسان ہے ۔

اب جو خود کو انسان سمجھتے ہیں وہ رکے رہیں باقی سب کلاسز میں جا سکتے ہیں۔

وہ اس قدر دلکش لگ رہا تھا کہ حرم ریحان کو گمان گزرا اس کی نظر اتارنا فرض ہو گیا ہے اس پہ اس نے دل میں اس کے لیے صدقے کا فیصلہ کیا تھا اور چپکے سے اپنے اللہ کو بھی سنا دیا تھا۔

حرم ریحان نے پہلی بار کسی کا صدقہ اتارا تھا ایک اور عہد ہوا تھا  ایک اور مرحلہ طےہوا۔۔۔۔

ولید ابسن کی آواز مائیک کو مہکا رہی تھی کسی نے جانا کیا خاک تھا الٹا کچھ لوگ اور بھی آ گئے تھے۔

اس کی امید کے عین مطابق یونیورسٹی والوں کو خبر ہو چکی تھی مگر وہ اس سیلاب کا مقابلہ نہیں کر سکتے  تھے جو وہ اپنے ساتھ لیے کھڑا تھا۔

اپنے کمرے میں بیٹھی میڈم سوزین نے مسکرا کر اس کی آواز سنی اور بیگ اٹھا کر باہر کی جانب بڑھی تھیں۔

فاطمہ بنت فصیح ولید کے کہنے پر اسٹیج پر آئی تھی۔

اس کا سر کالے اسکارف میں لپٹا تھا انداز اتنا معصوم اور خوبصو رت تھا اور نظریں ایسی شفاف کہ وہاں ہال میں کھڑے کئی مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کا سر فخر سے بلند ہوا تھا۔

یہ ہیں فاطمہ فصیح آپ سب کی طرح خواب لے کر یہ یہاں آئی تھیں مگر کیا ہوا ان کے ساتھ۔

اب وہ ساری تفصیل بتا رہا تھا اور یو سی بارکلے کہ انتظامیہ کے سر ہاتھوں میں گر چکے تھے وہ ایسا کچھ کر چکا تھا جو ان کو مزہ چکھانے والا تھا۔

یہاں میرے ہندو بہن بھائی کھڑے ہیں آپ بتاؤ آپ کے مقدس مورتیوں کے ساتھ کوئ برا کرے تو کیا احساس ہو گا۔۔۔۔۔

اب وہ سوالوں پہ اتر آیا وہ شاندار سا لڑکا لہجہ بھی شاندار رکھتا تھا ا ور زہانت بھی بہت لڑکیوں نے اسے حسرت سے دیکھا اور اسی پل ولید کی نگاہ اس لڑکی پہ پڑی تھی جو مسکرا کر اسے فخر سے دیکھ رہی تھی حرم ریحان کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ ولید ابسن کو لگا اگر اس نے نگاہیں نا پھیریں تو وہ سب بھول جاۓ گا۔

نیلی آنکھیں کالی آنکھوں سے ٹکرا کر پلٹ چکی تھیں اور کشف کے دل میں کہیں درد کی لہر اٹھی تھی اس منظر کو دیکھ کر۔

اب وہ عیسائ گروپ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

کوئ صلیب کی بے حرمتی کرے تو کیا احساس ہو گا آپ کا۔

اور نیچے کھڑے لوگوں کے دل اس لڑکی کے دکھ مییں شامل ہو چکے تھے۔

اگر میں باتوں پہ آیا تو ہم اور کچھ نہیں کر پا ئیں گے ۔

ساری گرلز میری بات سنیں۔

اور سب لڑکیوں کے کان کھڑے ہوۓ۔

فاطمہ کا ساتھ دیں گی آپ؟؟؟؟

ولید اب مائیک لیے فاطمہ کے ساتھ تھا وہ تھوڑا لرز رہی تھی اس نے حرم کو اشارہ کیا آنکھوں سے وہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس پہنچی تھی۔

فاطمہ کو سپورٹ کرو 

وہ اسے آہستہ سے کہتا اب آگے برھا۔

اب اسٹیج پر وہ ہی  چھایا ہوا تھا اور ایک طرف کھڑی حرم اور فاطمہ سب کی نگاہوں میں تھیں۔

حرم نے نیلے رنگ کا پاکستانی قمیض پہنا ہوا تھا اور سفید کیپری کے ساتھ بالوں کی فرنچ چٹیا تھی وہ اسکارف ہمیشہ کہ طرح اس طرح گلے میں ڈالے ہوۓ  نہیں تھی بلکہ سر پہ تھا ۔

بہت سی سلیو لیس  اور پھٹی جینز پہنے لڑکیوں کو شرمندگی نے آن گھیرا تھا۔

وہ دونوں کس قدرر شفاف لگ رہی تھیں کوئی پاکستان کے ان اسٹوڈینٹس سے پوچھتا جو ان کو  فخر سے دیکھ رہے تھے۔

پورے ہال میں موجود لڑکیوں کے ہاتھ فاطمہ کے حق میں بلند ہوۓ۔

اب وہ مائیک حرم کو پکڑا کر کچھ سمجھا رہا تھا۔

وہ پاکستان کا مان تھی وہ سمجھ گئی۔

تو آپ لوگوں کو ہمارا ساتھ دینا ہو گا ہمیں ان لوگوں کو بتانا ہے کہ مسئلہ حجاب نہیں تھا مسئلہ ان کی گندی سوچ تھی تو کیا آج ہم سب فاطمہ کے ساتھ حجاب اوڑھ کر ساری یونی کو بتا دیں کہ ہم فاطمہ کے ساتھ ہیں۔۔۔

ولید نے اسے مسکرا کر دیکھا وہ بہت اچھے سے لڑکیوں کو ڈیل کر رہی گھی ولید کا یقین جھوٹا نہیں تھا اس پر۔

اور پھر۔۔۔۔۔۔

بس دس منٹ میں یوسی بارکلے میں حجاب گرلز کا ایسا طوفان آیا کہ الامان۔

وہ پیاری سی انگریز لڑکیاں جب حجاب اوڑھ کر فاطمہ کے ساتھ باہر نکلی تھیں تو حرم ریحان کی ہنسی نکل۔گئی وہ سب اتنی کیوٹ لگ رہی تھییں

تعداد زیادہ تھی اور دوپٹے کم اور آج سب کو شوق لگ گیا تھا اس ایڈوینچر میں حصہ لینے کا انہوں نے دو حصے کر لیے تھے ایک حجاب کے ۔

یونیورسٹی میں نظر دوڑائیں تو وہان باہر سب سے بڑے گراؤنڈ میں لڑکیوں اور لڑکوں کا وہ سیلاب نظر آیا کہ ساری انتظامیہ اور چانسلر بھاگتے ہوۓ آۓ تھے۔

یہ جو ان کے سامنے آج کھڑے تھے یہ بس چند پاکستانی نہیں تھے یہ ہر ملک کے اور امریکہ کی نوجوان نسل تھی۔۔

ولید سب سے آگے کھڑا تھا فاتح تھا وہ اسے فاتح ہی رہنا تھا اس کے ایک بازو کے ساتھ حرم ریحان کھڑی تھی اور دوسری طرف فاطمہ اب انتظار تھا نتیجے کا اور اگر امتحان اچھے سے شوق سے دیا جاۓ تو رزلٹ کا خوف نہیں ہوا کرتا یہی بات ولید کے چہرے پہ رقم تھی کیلفورنیا کا شہزادہ سر اٹھاۓ کھڑا تھا اگر وہ پاکستان میں ہوتا تو یقینا ہر گھر جا کر روتی بسورتی لڑکیوں کو لیکچر دے کر ان کے حق کے لیے بولنا سکھاتا کاش وہ پاکستانی ہوتا حرم ریحان بس یہی سوچ رہی تھی۔۔۔۔

                                     *****************

ظہار خان قبیلے میں قدم رکھیں تو وہاں ایک اچھی خبر سننے کو ملتی ہے وہ ارمغان جہانگیر کی شادی مؤخر ہو نے کی۔

جہانگیر اور ارمغان پوچھ پوچھ کر تھک چکے تھے مگر سورا خ تھا کہ ملنے میں نہیں آ رہا تھا۔

ملتا بھی کیسے جب گھر کے اندر سے سب ہوا تھا۔

چھوٹی بی بی آپ کو پتا ہے آج وہ سرکاری آفیسر آ رہا حویلی۔

ایک ملازمہ نے اس کی خبر میں اضافہ کیا اور پانی پیتی نورم کا حلق خشک ہوا۔

کیوں آ رہا۔۔۔۔

اس نے کوشش کی کہ لہجے کو سر سری رکھے۔

وہ جی بڑے صاحب اور ارمغان صاحب نے بلایا ہے۔

اس ملازمہ کے پاس کافی خبریں تھیں۔

نورم لرز گئی تھی کیا ہونے والا تھا حویلی میں وہ سوچ نہیں پا رہی تھی۔

ٹھیک ہے یہ چاۓ جب بن جاۓ مجھے دے جانا کمرے میں۔

اس سے وہاں کھڑا ہونا محال ہو گیا تھا اور بھرم بھی تو رکھنا تھا لڑکی تھی اور خان تھی بھرم ہی تو سب کچھ تھا اس کا۔۔۔

جی بی بی وہ ملازمہ کہہ کر کام میں مصرف ہوئی اور نورم کا دل محبوب کی یادوں میں

اس نے اسے فون نہیں کیا تھا خوف تھا کہ اس کی بھی نگرانی نہ ہو رہی ہو اور وہ میر کو کسی مشکل میں نہیں ڈال سکتی تھی۔

اور کچھ گھنٹوں بعد وہ جو شان سے سر اٹھا کر حویلی میں داخل ہوا تھا وہ آ ئید میر ریحان تھا۔

سکن کلر کے شلوار سوٹ میں ویسی ہی میچنگ واسکٹ اور کندھوں پہ پڑی شال وہ شہری لڑکا جب اس حلیے میں حویلی میں داخل ہوا تھا بہت سی نظروں نے اس کا تواف کیا تھا۔۔۔۔

شکاری چلتا ہوا شکار بازوں کے قریب آیا تھا۔

نورم اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی وہ لوگ مردان خانے میں تھے اور حویلی کی عزت وہ وہاں نہیں جا سکتی تھی۔

تبھی اسے شکورا جو اسے سب بتا رہی تھی اس کا خیال آیا۔ مگر جھجک گئی۔

دل دماغ نے جنگ شروع کر دی تھی اور جیت دل چکا تھا۔

تھوڑی دیر بعد شکورا اس کے کمرے میں تھی 

اور نورم اسے آہستہ آواز میں اسے سمجھا رہی تھی محبت اب راز سے آگے منتقل ہونے جا رہی تھی۔

شکورا نے ایک بار اپنی معصوم سی بی بی کو دیکھا وہ اسے ساری خبر لانے کو کہہ رہی تھی۔

نورم اس کی آنکھوں کا مطلب کچھ اور سمجھی اور جھٹ سے اپنے ہاتھ میں گولڈ کی رنگ اتار کے اس کی طرف بڑھا دی تھی۔

نہ بی بی نہ۔۔

گناہ گار نہ کریں مجھے۔

شکورا اس سے دو تین سال ہی بڑی تھی اسے اپنی یہ نازک معصوم نرم دل مالکن سے ویسے ہی پیار تھا۔

میں پتہ کر کے آتی ہوں وہ تیا ہو گئی اور نورم کو لگا سانس کھل کے آئی ہو محبت کبھی کبھی اتنا مجبور کر دینی ہے کہ ہم خود کو نہیں پہچان پاتے اس وقت نورم کا یہی حال تھا محبت کی ماری جوگن۔۔۔۔۔۔

                                           *****************

اور مردان خانے میں جہانگیر خان اس سرکاری آفسر کو خریدنا چاہا رہے تھے ان کو یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ ہے کون بکاؤ مال یا خریدار۔۔۔۔۔

اگر آپ اس حویلی کی بجاۓ خود کو بھی میرے قدموں میں رکھ دیں میں آپ کی نہیں مانوں گا۔۔۔

وہ بولو تھا

اور باہر کھڑی شکورا نے دل پہ ہاتھ رکھا۔

ارمغان نے اٹھ کر اس کا گر یبان پکڑا تھا۔

ایک بار مجھے پتہ چل جاۓ کہ تمہارے پیچھے کون ہے میں زندہ گاڑ دوں گا اسے۔

اور ارمغان جہانگیر کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ آئید میر ایک بار لرزا تھا اس لڑکی کے لیے۔

پیچھے آ جاؤ ارمغان۔

جہانگیر خان نے واپس بلایا۔

آئید میر نے ارمغان کو کچھ نہیں کہا تھا بس وہ نفرت بھری نگاہیں جہانگیر خان پہ جماۓ بیٹھا تھا۔

میں جا رہا ہوں چاۓ بہت اچھی تھی مگر پی نہیں میں نے بس دیکھ کہ کہہ سکتا اس گھر کے چاۓ بہت اچھی ہو گی اس کے دماغ میں کسی کا حسین عکس جھلکا تھا۔

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

بنا ڈرے۔

وہ باہر نکلا تھا اور شکورا بھا گ کر پیچھے ہوئی مگر آئید میر کے ماتھے پہ ہزار شکینیں پڑی تھیں وہ دوبادہ پلٹا تھا شکورا کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔۔

اپنی مالکن سے کہنا بیوقوفیاں کم کر دے اب اور زرا سمبھل کر رہے وہ سخت آنکھوں سے شکورا کی آنکھوں میں دیکھتا آگے برھ گیا تھا۔

                                 !******************

 یو سی بارکلے میں آج حجاب دن نظر آتا تھا۔

مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ لوگ حجاب میں تھے مسئلہ یہ تھا کہ اتنے لوگ ان کے ساتھ تھے کیلفورنیا کے با اثر لوگوں کی اولاد آج ان مسلمانوں کے ساتھ کھڑی تھی۔

انتظاجیہ جیکسن کو اس کے والدین سمیت بلا چکی تھی ۔

اور ولید کے ساتھ اس وقت دیکھییں تو ہر وہ اسٹوڈینٹ نظر آ رہا تھا جو اس کو تھوڑا سا بھی جانتا تھا وہ اپنا کام اچھے سے کر چکا تھا مگر حرم کو اس کے کشادہ ماتھے پہ کہیں کہیں شکن نظر آ رہی تھی۔

کیا ہوا ہے ہیرو بڑے اداس کھڑے ہو۔

وہ راستہ بناتی اس تک پہنچی تو وہ لڑکوں سے ہٹ کے اس کے پاس آ کھڑا ہوا تھا۔

اداس نہیں ہوں

اس نے مختصر جواب دیا۔

پریشان ہو کیا۔ روٹھے    ؟

حرم اب اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔

ہاں ولید جینز کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے بولا ۔

کیوں پریشان ہو اب وہ اس  سے پوچھ رہی تھی۔؟

یہ سب جو میں نے کیا یہ میری سوچ سے بڑھ کر تھا سب اچھا ہوا لیکن ٹائم دیکھو ابھی تک کوئی رزلٹ نہں آ یا یونی کی طرف سے یہ جو لوگ تم کو نظر آ رہے ان میں سے کچھ ہمدردی کے لیے کھڑے ہیں اور کچھ بس تماشے کے لیے جیسے ہی یہ بور ہوۓ نکل جائیں گے اور حالات ہمارے ہاتھ سے۔

وہ حرم کو اپنی پریشانی بتا رہا تھا اور وہ 

حرم ریحان اس کی پریشانی میں پریشان ہوئی ایک اور مرحلہ سر ہوا تھا وہ ایک دوسرے کی پریشانی میں ساتھ کھڑے تھے ۔

تم ایک کام کیوں نہیں کرتے اب وہ چونکی۔

کیا

ولید نے آنکھوں سے پوچھا اور سامنے والی نے سنا۔

میم سوزین ۔۔۔۔

ان سے پوچھو وہ ہمارے حق میں تھیں مجھے یقین ہے۔

اب وہ اسے حل بتا رہی تھی اس کی پریشانی کا ایک نئی راہ۔

اور ولید واقع اس راہ پہ چلا۔

وہ میم سوزین کو کسی طرح الگ بلا لایا تھا۔

دیکھو بچوں میں کچھ نہیں کر سکتی انتظامیہ کا سر گھوم چکا ہے وہ ہاتھ جھٹک کے بولی تھیں

میم پلیز سپورٹ می۔۔۔۔۔

فاطمہ کے پرنور چہرے سے ایک آنسو نکل کر گالوں میں جزب ہوا۔

انہوں نے اسے ہمدردی سے دیکھا تھا۔

او کے میں کرتی ہوں کچھ

وہ کہہ کر آگے بڑھ گئی تھیں

کیا مطلب ہے مس سوزین آپ کا اس بات سے کہ وہ لوگ رات دن تک بیٹھے رہیں گے ۔

سر ولیم جو وائس چانسلر تھے پریشان ہوۓ۔

یہ اس بڑے ہال کا منظر تھا جہاں انتظامیہ کے تقریبا سبھی لوگ سر جوڑے بیٹھے تھے۔

جی سر میں ادھر سے آ رہی ہوں ابھی ہی وہ لوگ بہت جزبات میں ہیں ہمیں ہی ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا۔

وہ اچھے دل والی عورت ان کے ساتھ اچھا کر رہی تھی اور ٹھیک آدھا گھنٹہ بعد ولید ابسن ،حرم ریحان،فاطمہ ،حسان اور کچھ اور لوگوں کو اندر بلا لیا گیا تھا۔

اب سب لوگوں میں تجسس بڑھ چکا تھا کیا ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔

اور ولید نے ایک ہی بات سامنے رکھی۔۔۔

جیکسن اس کے دوست سب کے سامنے فاطمہ سے معافی مانگیں اس کے کپڑے خراب کرنے کا ہرجانہ دیں اور اگلے سمسٹر کی فیس ادا کریں۔

سر ولیم نے سر پکڑ لیا۔

ان لوگوں نے ایک چھوٹے سے مسئلے کو کیا کر دیا تھا وہ حیران تھے ۔

اور جیکسن صاحب نے جب دیکھا اتنی تعداد فاطمہ کے ساتھ ہے ولید کے ساتھ اس کے سارے طوطے چڑیا اڑ چکے تھے ۔

اوپر سے میم سوزین کی باتیں اور انتظامیہ کی لعنتیں اٹھا کر وہ تیار یو چکا تھا ان کے مطالبات ماننے کے لیے۔

                                        **************

ہال میں یوسی بارکلے میں یہ منظر اس قدر حسین تھا کہ حرم کا دل کیا کاش وہ کچھ سرخ ثابت مرچیں لیتی آتی نظر اتارنے کو پنجابن بے چاری۔۔۔۔۔

اسٹیج پر فاطمہ کا چہرہ اور نظریں اٹھی ہوئی تھیںں اس کے سامنے جیکسن کھڑا تھا اس کے ہاتھ جڑے ہوۓ تھے اور اس کے ایک بازو کے ساتھ محمد خالد بن ولید کھڑا تھا فاتح ۔۔۔۔

ہسٹری میکر لڑکا

ایک بازو کے ساتھ حرم ریحان تھی پاکستان کا مان۔۔۔

جیکسن معافی مانگ رہا تھا اور ہال میں تالیوں کی گونج تھی فاطمہ نے اسے معاف کر دیا تھا وہ پاکستانی تھی کھلے دل والی اس نے ثابت کیا تھا۔

اور فاطمہ مڑی تھی آنسو پلک سے نیچے گرے سارے ہال میں خاموشی چھائی حتی کے جیکسن بھی دیکھ رہا تھا۔

اس نے ولید کو دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگا لیا تھا اور ولید کو ایک پل لگا تھا سمجھنے میں اس نے فاطمہ کے سر پہ ہاتھ رکھا وہ اس کے گلے لگ کے رو رہی تھی اس کا بھائ بھی ہوتا تو اتنا نہ کرتا وہ بار بار یہ بات دہراتی تھی

 تم میری بہن ہی ہو۔۔

ولید نے شاید یہ جلمہ زندگی میں پہلی بار بولا تھا۔

اور محسوس بھی کیا تھا۔

ہال میں لڑکیوں کے چہرے پہ آنسو گرے تھے اس منظر کو دیکھ کر۔

فاطمہ ولید کے ساتھ لگی کھڑی تھی جیسے بڑے بھائیوں کا مان کچھ رشتے خون کہ نہیں ہوتے مگر حق خون والا نبھایا کرتے ہیں یہ بات آج اس لڑکے نے ثابت کر دی تھی۔

فاطمہ نے حرم کو دیکھا اس کی آنکھیں بھی ڈبڈبائی ہوئی تھیں وہ بھاگ کر فاطمہ کے گلے لگی تھی ولید کو ہنسی آئی اس کے بچگانہ انداز پر۔

اور فاطمہ کے آس پاس کھڑے ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا حرم نے اس کی نظر اتاری تھی آنکھوں میں اور اس بار ولید ابسن بے خبر نہیں تھا۔۔۔۔۔۔

اور سارے مسائل سے نکل کر وہ اس کے سامنے کھڑا تھا ۔

آج میری خیر نہیں حرم نے جینفر کے کان میں کہا تھا۔

بات کرنی ہے تم سے۔

ولید سنجیدہ تھا حرم اس کے ساتھ بڑھی تھی۔

یو سی بارکلے میں ایک جگہ وہ بھی تھی جہاں سکون ملتا تھا زرا رش سے ہٹ کر وہ اسے وہاں لے گیا۔

محترمہ حرم ریحان صاحبہ۔۔۔۔۔

وہ بولا

اففففف اتنی عزت  حرم کو خطرے کی گھنٹی بجتی نظر آئی تھی۔

میری ایک بات سن لو غور سے اور حرم نے سارے غور اس بات کے نام کر دئے تھے۔

یہ تم جو زیادہ بنی پھرتی ہو نا بہادر زرا اسے کنٹرول کرو تمہیں احساس بھی نہں ہے یہاں کیسے لوگ ہیں ۔

مجھے اس وقت غصہ آ گیا تھا ورنہ مجھے بھی شوق نہیں ہے پھنے خان بننے کی۔

حرم نے معصومیت سے کہا تھا۔

کیا خان۔۔۔۔۔

ولید کی اردو اتنی اچھی نہیں تھی اور حرم نے اسے ایسے دیکھا کے اس بے چارے کو افسوس ہوا کے اسے پھنے خان کا نہیں پتہ تھا چلو گوگل کر لوں گا ولید نے دل میں سوچا تھا۔

آئیندہ تم کسی پنگے میں نہیں پڑو گی۔

یہ لوگ بہت خطرناک ہیں اور یہ سر زمین بھی ولید بول رہا تھا یہ جانے بغیر کے سامنے کھڑی وہ لڑکی بہت جلد سامنا کرنے والی تھی ان حالات کا۔۔

ضروری نہی کہ میں ہر بار تمہارے ساتھ ہوں گا۔ولید نے اس کو دیکھ کر کہا 

تو تم آ جانا 

حرم نے کیسے کہا تھا اسے پتا تھا 

ولید بینچ سے کھڑا ہو گیا تھا حرم کے دل کو کچھ ہوا مگر اس نے سر جھٹک دیا تھا وہ دونوں مخالف سمتوں میں چل پڑے تھے اگر ولید ابسن کو اندازہ ہوتا کہ وہ حرم ریحان کو کھونے والا ہے وہ اسے خود میں چھپا لیتا۔۔۔۔

                                              !***************

شکورا نے نوراں کو سب کچھ بتا دیا تھا اس کے سرخ لب مسکرا دئے تھے وہ اس کا خیال رکھتا تھا ۔

وہ لڑکی پجارن بنی بیٹھی تھی وہ بالکل نہیں جانتی تھی کہ وقت اس کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔

رات دو بجے کا وقت تھا جب آئید میر کو اس کے کال موصول ہوئی پورے چھ دن بعد۔

وہ سیل فون کان سے لگاتا باہر لان میں نکل آیا تھا ۔

کیسے ہیں آپ۔

نورم نے جھجک کر پوچھا۔

میں ٹھیک ہوں تم اپنا بتاؤ کوئی پرابلم تو نہیں بنا۔

وہ پریشانی سے بولا تھا اور نورم کے دل میں سکون کی لہر اٹھی تھی۔

آپ کے ہوتے ہوۓ مجھے کوئی پریشان کر سکتا ہے کیا

نورم کی بات نے آئید میر کو بے چین کیا تھا بے سکون شکاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے آپ سے ملنا ہے۔

اس نے آہستہ سے کہا تھا۔

سب ٹھیک ہے نا نورم

وہ فوراً پریشان ہوا وہ اس کا نام بہت کم لیتا تھا مگر جب لیتا تھا نورم کو لگتا جیسے بہار چھا گئی ہو۔

جی اب ٹھیک ہے باقی مل کے بتاؤں گی۔

وہ آرام سے بتا رہی تھی۔

تو کل کالج سے پک کر لیتا ہوں تمہیں میں اس نے حل بتایا۔

نہیں اب گھر کے حالات اور ہیں مجھ پہ اتنی نظر نہیں ہے کسی کی میں پلوشہ کے ساتھ آؤں گی نہر والی جگہ آپ کو بتا کر۔

اور آئید میر کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا وہ فورا مان گیا تھا۔

نورم سیل الماری میں رکھ کے اٹھی جب اسے لگا کوئی اس کے کمرے سے باہر کھڑا ہے وہ ڈر گئی تھی۔

کون ہے وہ وہیں بیٹھ کر بولی مگر باہر خاموشی تھی اس نے خود کو جلدی سے کمبل میں چھپایا نا جانے کون تھا کیا سنا نورم کو اپنی کم آئید میر کی فکر ذیادہ تھی۔محبت کرنا وہ خوب جان چکی تھی جب خود سے ذیادہ کسی کی فکر ہو اس کی خوشیوں کا خیال ہو تو محبت اپنا معراج پا لیا کرتی ہے۔

                                        ******************

کیلفورنیا میں اترتا شام کا منظر بہت خوبصورت تھا مگر وہ وقت حرم ریحان کی زند گی میں بد صورت ترین بننے جا رہا تھا۔

وہ ہاسٹل کوریڈور میں لیپ ٹاپ اٹھاۓ چل رہی تھی بابا جانا ماما جان آپ دونوں نے بھائی اور مجھے بھیج کر جو گھر میں پارٹیاں کرنے کا پلان کیا ہے جا وہ سب نظر آ رہا ہے مجھے

وہ لمبے بالوں کی پونی جھلاتی چہک رہی تھی۔

نہیں ہمیں تو چھوڑو لگتا ہے میرے شیر کو کیلفورنیا راس آ گیا ہے۔

ریحان صاحب نے اس کی نظر آتارتے ہوۓ کہا۔

اچھا یہ لو اپنی ماما سے کرو بات پورا گھنٹہ میرا سر کھایا ہے وہ اب شرارت سے بولے تھے۔

ماما آپ تو زیادہ حسین ہو گئی ہیں

سعدیہ  اس کی بات پہ ہنس پڑی تھیں

تبھی اسے لگا کوئ اسے بلا رہا ہے پیچھے۔

اچھا ماما میں بعد میں بات کروں گی بہت سر کھایا آج میں نے آپ دونوں کا وہ فلائنگ کس کرتی روم میں آئی تھی

ارے حرم کوئی لـڑکی آئی تھی کہ رہی تھی نیچے ولید بلا رہا ہے تمہیں

نور سیل پہ بزی تھی اسے بتا کر دوبارہ مصروف ہو گئی۔

ولید نے کیوں بلایا ہو ہو سکتا ہے وہ مجھے اپنے بارے کچھ بتانا چاہتا ہو۔

اس نے اسکارف اٹھایا اور باہر بھاگی تھی۔

وہ نیچے پہنچی تھی مگر ولید اسے نظر نہیں آیا تھا۔

ابھی وہ آگے ہی بڑھی تھی جب ایک درخت پہ اسے سفید کاغذ نظر آیا ۔

یہاں سے چلتی ہوئی روڈ کے ایک سائڈ پہ بلیو کار کھڑی ہے وہاں آ جاؤ ۔

نیچے ولید جے سائن تھے وہ مسکرا دی بلو کار ولید کی ہی تھی وہ مسکرا کر آگے بڑھی۔

لڑکیوں کو لاپرواہ نہیں ہونا چاہئے یہ بات حرم ریحان اس دن نہیں جانتی تھی۔

وہ چلتی ہوئی روڈ پر پہنچی تھی گاڑی اسے تھوڑی دور نظر آئی اور ساتھ لڑکے کی بیک سائڈ ۔

اسے ایک بار لگا ولید نہیں ہے وہ آگے بڑھی مگر اس سے پہلے مضبوط ہاتھوں نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا وہ چیخنا چاہتی تھی مگر اس کے منہ پہ رکھا جانے والا رومال اسے بے ہوشی کی دنیا میں لے جا رہا تھا۔۔۔۔۔

وہ دو لوگ تھے سر پہ ہیٹ پہنے شام سے ڈھلتی رات کے اندھیرے میں وہ اس لڑکی کو گھسیٹ کر لے جا رہے تھے سفید کاغز حرم کے ہاتھ سے گر چکا تھا اور وہ نیند کی گہری وادیوں میں کھو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم ریحان پاکستان کا مان محمد خالد بن ولید کے بھروسے باہر نکلی تھی اس کے پیغام پر ۔۔۔۔۔۔۔

                                              ****************

نورم کالی چادر اوڑھے اس کے ساتھ بیٹھی تھی ۔

مجھے بتائیں آپ کون ہیں

اس نے آئید میر سے سیدھا سا سوال کیا۔

آئید میر ریحان

جواب بھی سیدھا تھا۔

آپ پولیس والوں کے ساتھ کیوں آۓ تھے گھر وہ فورا بولی تھی

بندہ ناچیز جنگلات کا آفیسر ہے اب پولیس والوں کے ساتھ رابطہ نہیں ہو گا تو کیا تم جیسی پریوں سے ہو گا۔

آئید میر آم کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اور اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔

کیا خبر ہوں بھی سہی پریوں سے رابطے مجھے کیا پتہ۔

نورم نے چڑ کر کہا تھا۔

اچھا تو آپ جیلس ہو رہی ہیں آئید میر کو اس کی باتیں بہت کیوٹ لگتی تھیں 

میں کیوں ہونے لگی جیلس میں تو منہ توڑ دوں گی کوئی آپ کے قریب آیا تو۔

وہ بھی نورم تھی غرور اس کا وطیرہ تھا لہجے میں وہ ہی  غرور جھلکا تھا مگر سامنے بیٹھا شخص وہ اس قابل کہاں تھا کہ اس پہ غرور کیا جاتا۔

اچھا اتنا پیار کرتی ہو کیا مجھ سے۔۔۔۔۔

وہ فورا آگے ہوا تھا وہ دونوں ایک سائڈ پر بیٹھے تھے اور کچھ فاصلے پہ پلوشہ اور ستارہ بکریاں چرا رہی تھیں

ہاں کرتی ہوں نورم کی پلکیں لرزیں

آئید میر نے لب بھینچ لیے تھے نورم کا دل کیا وہ بولے کچھ کہہ مگر وہ چپ تھا ۔۔۔۔۔

مجھے آپ کو ایک بات بتانی تھی اس کو خاموش دیکھ کر وہ خود ہی بول اٹھی 

کیا بات آئید میر چونکا

بابا جان اور لالہ آپ کا ٹرانسفر کروا رہے ہیں

اس نے آرام سے بوم پھوڑا

آئید میر کے لب بھینچ گئے تھے

وہ کچھ بولنا چاہتا تھا مگر سامنے بیٹھی لڑکی اس گھر کی بیٹی تھی۔

تم فکر نہ کرو اگر ظہار خان قبیلے میں دس جہانگیر مل بھی جائیں تو آئید میر ریحان کو اس جگہ سے بھیج نہیں سکتے جب تک آئید میر خود نہ چاہے

سامنے بیٹھے شخص کی سنہری آنکھوں میں عزم تھا۔

اور تم میڈم اب وہ نورم کر دیکھ رہا تھا 

زرا عقل سے کام لو کسی ملازم۔پہ اعتبار کرنے سے پہلے تم نے مجھ سے پوچھنا تھا جزباتیت سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے اسے بھی سیکھو

اب وہ اسے پیار سے سمجھا رہا تھا اور نورم کو رات والی بات یاد آئی

اس نے فورا آئید میر کو بتا دیا تھا

میر مجھے تو خوف آ گیا اتنا

وہ کس قدر معصوم تھی آئید میر اکثر خود سے نظریں نہیں ملا پاتا تھا۔

اس کی بات سن کر پر یشان وہ بھی ہوا تھا مگر ظاہر نہیں کیا۔

ہو سکتا ہے تمہارا وہم ہو یہ مگر۔۔۔

اب مجھے تم کال نہ کرنا تین چار دن انتظار کرنا میں تمہیں بتاؤں گا سب کہ کیا کرنا وہ اسکا خوبصورتگلابی گال تھپتھپا کر کہہ رہا تھا۔

   چلو اب تم گھر جاؤ میں کرتا ہوں کچھ اس سب کا میری پیاری نیوز پیپر وہ اب ہنس کر اسے کہہ رہا تھا اور نورم کھلکھلا کر ہنس دی نیوز پیپر اچھا خطاب ملا تھا اسے۔۔ 

                                           ******************

سنا ہے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے جا رہے ہیں یونیورسٹی میں

ولید باسکٹ بال کورٹ سے لوٹا تھا ہاشم خان اسے آج سامنے ہی مل گئے تھے۔

کوئی کارنامہ نہیں کیا میں نے

وہ سختی سے کہہ کر آگے بڑھا

نام کے اثرات آۓ ہیں آپ میں پدر عزیز اور یہیی میں چاہتا تھا

ہاشم نے پیچھے سے کہا

وہ پلٹا

ان کو دیکھا

ایک ایک قدم اٹھاتا ان تک آیا

ولید ابسن ہوں میں ۔۔۔۔

ولید ابسن۔۔۔۔

وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا۔

مایا ابسن کا بیٹا 

اس نے مزید کہا تھا اس بار ہاشم خان کے چہرے پہ درد کے ساۓ نظر آۓ

تمہاری ماں کی موت۔۔۔

بسسسسسس

اس سے پہلے وہ کچھ اور بولتے ولید چیخا

میری ماں کا نام آئیندہ آپ کی زبان پر نہ آۓ میں بتا رہا ہوں

وہ غرا کر کہتا سیڑھیاں چڑھ گیا تھا آنکھوں کی سرخی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ فورا شاور لیے چلا گیا تھا اور بیڈ کے ساتھ پڑے ٹیبل پر اس کا قیمتی سیل فون بج بج کر خاموش ہو چکا تھا۔

کشف ،نور ،بیلا بہت پریشان نظر آ رہی تھیں سہانا آج کل سر لنکا گئی ہوئ تھی۔

ولید کال نہیں اٹھا رہا حرم سیل ادھر بھول گئی ہے اور اتنا ٹائم ہو گیا ہے میرا دل بیٹھ رہا ہے نہ جانے کیوں

نور کچھ زیادہ نازک دل واقع ہوئی تھی

تھوڑی دیر بعد فاطمہ بھی آ گئی تھی وہ بھی ولید کو کال کر کر کے تھک چکی تھی۔

حسان کو کال کرو یار کچھ تو کرو تم لوگ

نور کے ہاتھ پیر پھول چکے تھے اس کی روم میٹ کمرے سے اتنی دیر سے غائب تھی۔

ولید نے فریش ہو کر سیل کو ایک نظر دیکھا تھا اور اس کے چودی طبق روش ہوۓ

دو سو پچاس کالز ان سب کی طرف سے

اس نے فورا کشف کو کال کی

کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے نا

وہ تیزی سے بولا

حرم کہاں ہے ولید اسے واپس بھیجو بہت لیٹ ہو گئی ہے کشف نے فورا کہا تھا اور ولید ابسن کو لگا اس کا دل اس کے پہلو سے نکل رہا ہے ٹاول اس کے ہاتھ سے گرا تھا۔

کہاں ہے حرم۔۔۔

ولید کا دل ہولا

کیا مطلب تمہارے ساتھ تو گئی تھی وہ کشف کو غصہ آیا۔

اور ولید بھاگا تھا اسے نہیں پتہ تھا وہ کیا کر رہا ہے تھوڑی دیر میں وہ سب سر جوڑے بیٹھے تھے ۔

تین گھنٹے ہو گئے اسے گئے ہوئے  نور کے آنسو گالوں ہر ابل رہے تھے

ولید کو دیکھیں تو وہ ساکن نظر آتا تھا اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید تھا۔

کسی نے چال چلی تھی اور خوب چلی تھی۔

وہ کہاں ہو گی ؟

کس حال میں ہو گی؟

کس کے ساتھ ہو گی؟

یہ ایسے سوالات تھے جو ولید کو پاگل کر رہے تھے

ضروری نہیں کہ میں ہر بار تمہارے ساتھ ہوں گا اس نے آج ہی تو کہا تھا ولید کو یاد آیا اس نے سر جھکا لیا تھا اسے لگا آنسو اس کی آنکھوں میں امڈ آۓ تھے۔

تو تم آ جانا۔۔۔۔۔

حرم نے کہا تھا ولید کو یاد آیا۔۔۔

وہ کھڑا ہوا تھا ایسے نہیں بیٹھ سکتے ہم حسان مائیکل چلو اور تم سب لوگ ادھر رہو کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ حرم نہیں ہے یہاں یہ بات کہتے ہوۓ اس کے دل کو جتنی تکلیف ہوئ تھی بس وہ ہی جانتا تھا۔۔

                                          ****************

یہ کوئی غار نما کمرہ تھا جب حرم کو ہوش آیا ۔

وہ ایک کرسی پہ بندھی ہوئی تھی اور منہ بندھا ہوا تھا۔

کمرے میں بہت اندھیرا تھا بس تھوڑی سی روشنی زندہ ہونے کی نوید دیتی تھی۔

اس کے ساتھ کیا ہوا تھا اسے نہیں معلوم تھا کیوں ہوا تھا نہیں ہوا تھا بس جو ہوا تو وہ بہت برا ہوا تھا اور اس سے زیادہ برا ہونے والا تھا وہ جان چکی تھی۔

تبھی باہر سے قدموں کی آواز آئی 

وہ گھبرا گئی کوئ آہستہ قدم اٹھاتا کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔

حرم نے قرب سے آنکھیں میچ لیں وہ حر کت نہیں کر پا رہی تھی

آنے والا بہت قریب آ چکا تھا اور فون پہ بزی تھا۔

          she is so beautuful buddy

اس کی نظروں میں کمینگی تھی اور حد سے زیادہ وہ کوئی انگریز تھا گندی شکل والا حرم نے فورا سوچا تھا۔

فکر نہ کرو تمہارے حکم سے پہلے کچھ نہیں ہو گا ادھر وہ خباثت سے کہتا حرم کے پاس آیا

حرم کو لگا اس کا دم گھٹ رہا ہے 

اس شخص نے اس کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا تھا۔

اور پانی کی بوتل حرم کے منہ سے لگائی

حرم کا دل کیا زمیں پھٹے وہ اس میں سما جاۓ وہ جس قدر گھٹیا نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

وہ کرسی کی ساتھ بندھی تھی کچھ کرنے سے قاصر بے یارو مددگار 

وہ سفید فام مرد چلتا ہوا اس کے بہت قریب آیا تھا اتنا کہ اس کے منہ سے اٹھتی وہسکی کی بدبو سے حرم کا دل بند ہونے لگا۔

یا اللہ میری عزت رکھیے گا بس۔

اس لڑکی نے زندگی نہیں مانگی تھی بس عزت مانگی تھی ۔

کیلفورنیا اسے مہنگا پڑ چکا تھا وہ یہ بات جان چکی تھی۔

تم تو بہت خوبصورت ہو یار۔

وہ جبیث انسان گندی زبان سے بولا۔

حرم ریحان نے سوچا ان لڑکیوں کا جو اس حال سے گزری ہوں گی اس نے سوچا کاش زمین کے کان ہوتے وہ کرلا کر اسے کہتی مجھے دفن کر لو۔

اس نے حرم کا حجاب کھینچ کر الگ کیا تھا۔

وہ جو اس کا جسم ڈھانپے یوۓ تھا۔

اس حجاب پر فخر تھا نہ ۔

وہ سامنے بیٹھی لڑکی کو کہہ رہا تھا جس کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح گرتے تھے وہ آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی اور لب بھینچے ہوۓ تھے۔

سنو تم مجھے مار دو۔۔۔۔

وہ اس شخص کو دیکھ کر منت سے بولی تھی۔

مار تو دینا ہی ہے تم کو میں نے۔

وہ بہت بھیانک تھا یا حرم کو لگ رہا تھا وہ سمجھ نہیں پائی۔

وہ پیچھے ہٹا اس نے حرم کو چھوا نہیں تھا ابھی تک اب وہ فون پہ خباثت سے کچھ کہہ رہا تھا اور ایک ایک لفظ حرم کے کانوں میں سیسہ بن کر گر رہا تھا۔

                                      ******************

         اس کی آنکھوں سے ہو کر آیا ہوں

گر وہ برسین تو شہر ڈوبے گا

اتباف ابرک

چٹاخ ۔۔۔۔۔

جہانگیر خان کی حویلی میں یہ تھپڑ جس کو پڑا تھا وہ نورم جہانگیر خان تھی شہزادیوں سی آن بان والی۔

کالی فراک جو گھٹنوں تک آتی تھی سر پہ کالا ہی دوپٹا لیے اس کا چہرہ انتہا کا گورا لگتا تھا اور اس چہرے پہ تھپڑ کے نشان اس سے بھی گہرے۔

ارمغان بھاگتا ہوا اس ہال نما کمرے میں داخل ہوا تھا اس کے پاؤں شل تھے اور دل گویا سینے میں کہیں مرنے لگا تھا۔

پوچھو اس سے اپنی لاڈلی سے کیا کرتی پھرتی ہے یہ پوچھو۔

اصغر خان آج ضمانت پہ رہا ہو کر آیا تھا اور نورم کی شامت بھی اسے اب خبر تھی کیسے یہ نورم نہیں جانتی تھی۔

بس چاچا جان 

ارمغان نے ان کو پیچھے ہٹایا 

نورم گالوں پہ ہاتھ رکھے کانپ رہی تھی۔

یہ لڑکی تو مر جاتی اس قسمت سے بہتر تھا بی جان نے دل میں سوچا۔

آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔

ارمغان کی آنکھیں لال تھیں

جہانگیر خان بھی کمرے میں داخل ہوۓ۔

اب اس منظر کو دیکھیں تو  کمرے کے درمیان میں نورم نظر آتی ہے گالوں پہ ہاتھ رکھے آنسو بہہ بہہ کر گال بھگو رہے تھے۔

اس کے ساتھ کھڑا ارمغان اور سامنے اصغر خان۔

تھوڑے فاصلے پہ بی جان بیٹھی نظر آتی ہیں اور اب کمرے میں داخل ہونے والا جہانگیر خان۔

کیا ہوا ہے اصغر کیوں میری بیٹی پہ ہاتھ اٹھا رہے ہو۔۔۔۔

جہانگیر خان فورا غصے سے بولے تھے۔

اگر میں نے آپ کو اصلیت بتائی تو آپ کو بھی شرم آۓ گی کہ آپ اس لڑکی کے باپ ہیں اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتے ارمغان چیخ پڑا تھا۔

مجھے کچھ نہیں جاننا میری بہن میری اولاد کی طرح ہے اس کو میں نے پالا ہے مجھے یقین ہے اس پر۔۔۔

وہ سامنے کھڑا لڑکا مان سے کہہ رہا تھا اور ساتھ کھڑی لڑکی کچرا ہو کر ٹوٹ رہی تھی محبت نے اسے ذلیل کیا تھا اور اب فنا کرنے والی تھی۔

چلو تو سنو پھر۔

افضل ۔۔۔۔

اصغر نے اپنے ملازم کو آواز دی۔

جاؤ حمیدہ کو لے آؤ۔

اور نورم کے کان کھڑے ہو گئے تھے حمیدہ اس گھر کی سب سے پرانی پکی عمر کی ملازمہ تھی ۔

تھوڑی دیر بعد وہ آ گئی تھی۔

سرکار ہم غریب لوگ آپ کہ جوتیوں کی دھول ہیں سرکار ہمیں معاف فرمائیں وہ ہاتھ جوڑے ارمغان کے سامنے کھڑی تھی۔

مائی بس کرو کام کی بات کرو جہانگر خان نے ٹوکا۔

سرکار افضل میرا شوہر جب اصغر سائیں سے مل کر جیل سے آیا تو اس نے مجھے کہا کہ گھر کے سب لوگوں پہ نظر رکھنی ہے سرکار مجھے ایک دن چھوٹی بی بی پر شک ہوا کہ وہ۔۔۔۔

اس کے لفظ ٹوٹ گئے ۔

وہ۔۔۔۔

ارمغان کا خوبصورت چہرہ تنا ہوا تھا۔

کہ وہ رات کو کسی سے باتیں کرتی ہیں۔۔۔۔

وہ اب عورت ارمغان کے پاؤں میں بیٹھ چکی تھی اور نورم کو دل پاتال میں اس کا دل کیا وہ اس عورت کو غائب کر دے یا خود کو مار ڈالے اس کا ماں جایا اس کا بھائی اس کے کندھے ڈھیلے ہو رہے تھے نورم کا چہرہ دیکھ کر۔

سائیں انہوں نے سرکاری آفیسر کو سرکار سارا مال دیا سائیں اصغر کا ۔۔۔۔

تو وہ حمیدہ تھی وہ حمیدہ جو اس کا پیچھا کرتی تھی۔۔۔۔

نورم فرش پہ بیٹھ چکی تھی۔

سرکار اس نے بی بی کو موبیل بھی دیا ہوا ۔

وہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں بتا رہی تھی۔۔۔۔

کاش کوئی ان لڑکیوں سے پوچھتا جزبات میں آ کر ایسے کام کر کے جب احساس ہوتا ہے وہ احساس کس قدر جان لیوا ہوتا ہے۔

ارمغان بھاگا تھا 

اس کے کمرے میں اس نے ہر چیز بکھیر دی تھی وہ پاگل ہوا کھڑا تھا۔۔۔۔

اور۔۔۔۔۔

الماری میں اس سیل فون کو اٹھاتے ہوۓ اس مضبوط مرد کے ہاتھ کپکپاۓ تھے۔

اس نے سیل کی سکرین اوپن کی۔۔۔

دو میسج بس دو اتنی ہمت تھی ارمغان جہانگیر خان کی اس نے دو میسج پڑھے تھے اور بس ۔۔۔

وہ نیچے آیا۔۔۔

نورم ادھر دیکھو میری جان میری بچی

وہ اس کو منت سے پکار رہا تھا 

یہ جھوٹ ہے نا۔۔۔

اففففف وہ کس قدر امید سے پوچھ دہا تھا سامنے کھڑی لڑکی کا دل نہیں تھا ٹکڑے ہو چکا تھا وہ بس بیٹھی رہی کھـڑی بھی نہ ہو سکی۔

ارمغان میں جتنا زور تھا اس نےوہ سیل دیواد میں مارا تھا اور۔۔۔۔

وہ مضبوط سا لڑکا جو چلتا تھا تو پہاڑوں کی گوریاں اسے گھروں سے چھپ کر تاکتی تھی وہ نورم کے پاس اس کے قدموں میں بیٹھ چکا تھا۔۔۔

اصغر نے حمیدہ اور افضل کو باہر بھیجا۔۔۔۔

وہ رو رہا تھا ارمغان خان دھاڑیں مار کر رو رہا تھا اس نے اپنا سر نورم کے سر سے ٹکا دیا تھا نورم کے آنسو نہیں بہہ رہے تھے  وہ پتھر ہو چکے تھے پلکوں میں محبت کس قدر بھاری پڑتی ہو لڑکیوں کو اس نے محسوس کیا۔

جہانگیر خان کا دل کیا وہ اس کا گلا گھونٹ دیں

ساری اپنی ماں پہ گئی ہے

انہوں نے زہر خند لہجے میں کہا

تم میرا مان تھیں نورم جہانگیر

ارمغان جہانگیر اس کو دیکھ کر کر لایا۔۔۔۔

نورم زندہ نہیں تھی شاید ہوتی تو دھاڑیں مارتی مگر وہ خاموش تھی۔

اس نے محبت کی تھی یہ غلطی نہیں تھی اس نے محبت میں غلطی کی تھی اس نے چوری چھپے سیل رکھا اس سے ملی اس کا بھائی باپ سب برباد ہو گئے تھے اس کی محبت نے ان کی عزت رولی تھی۔

ارمغان کھڑا ہوا تھا۔۔۔

آج سے نورم جہانگیر میرے لیے مر چکی

آپ لوگوں نے جو بھی کرنا ہے بس اس کی قبر میری نظروں سے دور ہو وہ کھڑا کہہ رہا تھا

بی جان نے فورا آگے بڑھ کر اس کے کندے پہ ہاتھ رکھا۔

میرا شہزادہ

مر گیا آپ کا شہزادہ بی جان آج

وہ روتا ہوا وہاں سے نکلا تھا باہر کھڑے ملازمین کے دل کرلا اٹھے تھے۔

                                      *******************

ﭼُﭗ ﻧﮧ ﺭﮨﺘﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ

ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺮ ﺑﺪﮔُﻤﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ

ﺿﺒط ﻏﻢ ﻧﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺎ ﻭﺭﻧﮧ

ﮨﻢ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ

ﺗُﻮ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﻠﭧ ﮐﮯ ﮨﻤﯿﮟ

ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻢ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ

ﺗﯿﺮﮮ ﻗﺼّﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺑﮭﻼ ﺧُﻮﺩ ﺳﮯ

ﮐﺲ ﻟﯿﮯ ﺑﺪﮔُﻤﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ

ﺗﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﮨﯽ ﻧﮧ ﻣِﻠﯽ

ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻢ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ

نوشی گیلانی

کھلے آسمان کے نیچے سڑکے کے بیچوں بیچ بیٹھا وہ شخص کوئی جوگی نظر آتا تھا۔

ہاں میں ولید ابسن میں اقرار کرتا ہوں مجھے حرم ریحان سے محبت ہے۔۔۔۔۔

وہ چیخا تھا

رات کے اس پہر خالی آسمان نے یہ بات سنی اور ستاروں کے سپرد کر دی ستارے مسکرا دیئے اس کی قسمت پہ

میں نے سے کھو دیا

وہ اب اور زور سے چیخا 

یوکلیپٹس کے اونچے درختوں کو اس کی حالت پہ ترس آیا۔

اور میں آج اس زمیں اس کائنات اس کی ہر ایک چیز سے وعدہ کرتا ہوں میں نے حرم کو واپس پا لیا تو میں ایک پل نہیں لگاؤں گا دل کو بیان کرنے میں۔۔۔

اب اس کی گالوں سے آنسو ٹوٹ کر اس کی شرٹ میں جزب ہوۓ۔

کیا سن رہے ہو تم سب ہاں کائنات بنے پھرتے ہو کچھ ہوتا تو ہے نہیں تم سب سے وہ لڑکا جو کیلفورنیا کا منہ بولا شہزادہ تھا اب چاند تاروں سے درختوں سے لڑ رہا تھا  عشق کا ایک اور مرحلہ سر ہوا تھا۔۔۔

کیا کوئی اسے واپس لا سکتا ہے۔۔۔۔

وہ اب گھٹنوں کے بل بیٹھا اتنا رو رہا تھا کہ حرم ریحان دیکھ لیتی تو اس کا مزاق بنانے میں اگلا سال گزار دیتی کاش وہ دیکھ لیتی دور کھڑے مائیکل اور حسان نے دل سے دعا کی۔

وہ بھاگ کر اس کے پاس آۓ

سمبھا لو خود کو

وہ جان چکے تھے جو شک تھے وہ دور ہو چکے تھے اب عرض کہ باشندوں نے عشق کی مہک محسوس کر لی تھی مگر وہ جو جس کے لیے جوگی بنا بیٹھا تھا وہ لڑکی کہیں دور کسی مصیبت میں تھی آزمائش میں کسی امتحان میں۔۔۔۔۔

مجھے اکیلا چھوڑ دو خدا کے لیے

ولید نے ان دونوں کے سامنے ہاتھ جوڑ دئے۔

وہ سمجھ گئے تھے اتنا عرصہ سے ساتھ تھے وہ دونوں اپنی بائیکس پہ لوٹ گئے تھے

رات صبح میں ڈھل گئی تو کیا حرم ریحان حرم ریحان ہو گی۔۔۔۔

یہ سوال ایسا تھا جو اس رولاتا تھا زارو زار۔

وہ چیخ رہا تھا اسے یاد آیا 

مایا ابسن کی موت پہ وہ ایسے ہی کرلا کرلا کے کائنات کے سامنے رویا تھا

وہ ڈر گیا

ولید ابسن ڈر گیا تھا 

اس نے آنسو پونچھے نہیں وہ نہیں اسے کچھ نہیں ہو گا  وہ اسے کچھ نہیں ہونے دے گا وہ اپنا سر گھٹنوں میں لپیٹ چکا تھا۔۔۔

کائنات کسی پہ ترس کھاتی تو وہ ضرور ولید ابسن ہوتا۔

                                      !*******************

سنو لڑکی تم میرے ساتھ ڈیل کر لو ایک۔

اب وہ حرم کے آنسوؤں سے عاجز آ چکا تھا۔

اس کے بندھے ہاتھ اسے مجبور کرتے تھے کہ وہ اس کی بکواس سنے۔

پلیز تم مجھے مار دو۔۔۔

وہ بس ایک بات کہتی تھی نہ چھوڑ دو نہ کچھ اور۔۔۔

تم کو زندگی سے زیادہ عزت کی پڑی ہے۔

اس امریکہ کے رہائشی کے لیے بات منفرد تھی اس کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی حرم میں۔

مجھے حکم ملا ہے تم کو اپنی مرضی سے جو جیسے کروں اور مار دوں۔۔۔

اور پتہ مزے کی بات سارا الزام کس پہ آۓ گا۔۔۔

اب وہ مسکرایا خباثت سے۔۔۔۔

کس پہ

حرم نے پوچھا۔۔۔

ولیدابسن پہ۔۔۔۔

وہ اب قہقہہ لگا رہا تھا اور حرم کے آنسو پلکوں میں ٹھہر گئے۔

لیکن اگر تم میرے ساتھ ڈیل کر لو تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا اسے میں ولید کی جان بھی بچ جاۓ گی۔

وہ کس قدر شیطان صفت انسان تھا حرم نے سوچا۔

لعنت بھیجتی ہوں میں تم پر اور تمہاری ڈیل پر آئی سمجھ

حر نے اس کے منہ پر تھوک دیا تھا

ٹائیگر کہتے ہیں مجھے

وہ غرا کر اس کے ہاس آیا

اس نے خنجر نکالا تھا اور حرم کی شرٹ کا بازو پھاڑ دیا تھا اس طرح کے اس کے بازو سے خون رسنے لگا تھا چاقو کی دھار سے

وہ سسکی تھی 

وہ لڑکی جو اتنی عزت دار تھی کے یو سی بارکلے میں اسے پاکستان کا مان کہا جاتا تھا اس ملک کے لوگوں نے اسے کس صورتحال میں ڈال دیا تھا وقت بے بس تھا اس کی بے بسی پر۔۔۔

                حرم کو اور کچھ نہیں سوجھا تھا اس نے آنکھییں بند کی اور آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دی تھی۔۔۔

ٹائیگر اس کو ہنس کے دیکھ رہا تھا جب زور کی ہوا چلی تھی اور موسم نے بدلنا شروع کر دیا۔

یہ جگہ اتنی محفوظ نہیں تھی کہ بارش کا پانی وہان نہ آتا ٹائیگر فورا باہر نکلا تھا موسم کا حال دیکھنے۔

حرم نے کو جو جو آتا تھا جو سورہ وہ بس آنکھیں بند کیے پڑھتی جا رہی تھی۔

قل ھو اللہ احد 

کہہ دو اللہ ایک ہے

اے اللہ آپ تو ایک ہیں تو یہ دنیا کے لوگ خدا کیوں بنے پھرتے ہیں وہ اب دل میں اللہ سے سوال کر رہی تھی۔

لا تحزن إن الله معنا

اور غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے 

وہ سورہ توبہ پہ پہنچی تھی دل کو سکون آیا اب وہ اونچی آواز میں کہہ رہی تھی اور اللہ میرے ساتھ یے تو کیا وہ میرے ساتھ ایسا ہونے دے گا اس کے چہرے پہ اب آنسو تھے اور سکون تھا۔۔۔۔

ترجمہ سورہ توبہ 

اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو اس کی اللہ نے مدد کی ہے جس وقت اسے کافروں نے نکالا تھا کہ وہ دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے اپنی طرف سے اس پر تسکین اتاری اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کی بات کو پست کر دیا، اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔

وہ بلند آواز میں ترجمہ پڑھ رہی تھی اور سامنے کھڑا ٹائیگر بس اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا باس آنے والا تھا اس سے پہلے اسے اس کا کام تمام کرنا تھا وہ یاد کر رہا تھا یہ بات

اب وہ رو رہی تھی زور زور سے پڑھ رہی تھی اس نے خود کو موت کے لیے تیار کر لیا تھا بس وہ عزت سے مرنا چاہتی تھی وہ پاکستان کا مان تھی اسے عزت سے ہی مرنا تھا۔۔۔۔۔

                                     !*****************

تیز ہوا اور جسم کو چھوتی سردی وہ لڑکا بس بیٹھا تھا سب لوٹا کر ۔

تبھی اسے احساس ہوا کچھ اس کے پاس  ہوا سے اڑتا ہوا چر چرایا ہے۔۔

وہ سفید کاغز تھا۔۔۔

اس نے اٹھایا۔۔۔

اس پہ لکھے حروف ۔۔۔۔

یہ وہ ہی کاغز تھا جو حرم ریحان کے ہاتھ سے گرا تھا۔

سامنے سڑک پر بلیو کار۔۔۔

وہ ہاسٹل سڑک پہ نکلی ہو گی اور سامنے گاڑی رات تھی وہ اتنی دیر میں اسے کہیں اور نہیں لے جا سکتے تھے

وہ آس پاس تھی بہت ۔۔۔۔

جس سڑک پہ وہ بیٹھا تھا ادھر سے ہی وہ گزری تھی

وی بھاگ کھڑا ہوا

اس کے ہاتھ سرا لگا تھا

ایک امید لگی تھی

وہ اب اس سمت جا رہا تھا جس سمت اسے جانا تھا ۔۔۔۔۔۔

سڑک پہ اس جگہ پہچ کر اسے احسا ہوا وہ گا ڑی یہاں کھڑی ہو گی۔

یہاں سے تین جگہ راستہ نکلتا تھا ایک جنگل والی سائڈ تھی وہ اس پہ نکل گیا تھا اس کی بائیک کی آواز نہ آۓ اس نے بائیک ادھر چھوڑ دی تھی۔

وہ بھاگ رہا تھا اس نے آواز نہیں نکالی تھی بالکل خاموشی سے وہ بس ہر جگہ اسے پاگلوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔۔

                                                 ***************

حرم کو احساس ہوا اس نے کچھ دیکھا ہے۔۔۔

اس نے ٹائیگر کو دیکھا وہ گم صم سا اس کی طرف دیکھ رہا تھا

حرم کی نظر باہر پڑی بادل گرجے تھے اور بادلوں کی گرج میں اسے وہ نظر آیا تھا 

تو تم آ جانا

حرم نے کہا تھا

وہ آ گیا تھا

حرم نے دیکھا 

وہ سامنے کھـڑی ٹوٹی پھوٹی عمارت کو دیکھ رہا تھا 

حرم اسے دیکھ چکی تھی اس کے دل میں سکون اترا تھا۔

مگر سامنے کھڑا ٹائیگر اس کے ہاتھ میں چاقو تھا اسے ولید کی فکر ہوئ۔

تم مجھے پانی دے سکتے ہو کیا

وہ چلا کر بولی اتنا کہ اس کی آواز باہر کھـڑے ولید تک گئی 

اسے لگا زندگی نے جینے کا اشارہ دے دیا ہو۔

تم اتنے زور سے کیوں بول رہی ہو 

ٹائیگر نے اسے گھور کر دیکھا۔

دیتا ہوں پانی۔

اس نے چاقو ایک سائڈ پر رکھا تھا۔

اور یہ وہ پل تھا جب ولید نے پیچھے سے آ کر اس کو لات ماری تھی۔

ٹائیگر نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ کوئی ادھر ایسے بھی آ سکتا ہے وہ فورا سمبھل نہیں پایا تھا۔

مگر ولید کو غصہ،دکھ ،سامنے بیٹھی لڑکی کی حالت اس ولید نے اسے اتنا مارا گھا جتنا وہ مار سکتا تھا۔

کس نے کیا یہ

اب وہ چاقو اس کی گردن پہ رکھ کر کھڑا تھا۔

جیکسن نے ٹائیگر نے فورا اگلا اور ولید کو شک یقین میں بدلا تھا۔

ٹائیگر بے ہوش ہو چکا تھا ولید بھاگ کر حرم کے پاس آیا اس نے اس کے ہاتھ کھولے تھے۔

وہ بھاگ کر ولید کے گلے لگی تھی وہ رو رہی تھی زور زور سے۔۔۔

شکر ہے تم آ گئے 

وہ اس کے بالوں پہ ہاتھ پھیر کر اسے چپ کروا رہا تھا جب وہ بولی تھی سسکی لے کر عشق نے ایک سیڑھی اور چڑھی تھی ایک مرحلہ اور سر ہو تھا ولید کا بس نہیں چلتا تھا وہ اسے چھپا لیتا کہیں۔

ولید مان چکا تھا اس کے سامنے کھڑی لڑکی کل کائنات تھی مگر سامنے کھڑی لڑکی کے کیے وہ مسیحا تھا اس کا۔

وہ اس کے پھٹے ہوۓ بازو کندھے سے نظر چرا کر اسے شرٹ پھاڑ کر باندھ رہا تھا 

اس کے بعد ولید نے اپنی جیکٹ بھی اسے پہنا دی تھی  وہ اس کی حفاظت کر رہا تھا اس کے پردے کی پاکیزہ محبت نے مسکرا کے دونوں کو پروں میں سمیٹ لیا تھا۔

وہ اس کا باس آنے والا تھا ولید۔

حرم نے سوجی آنکھوں سے  اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تو وہاں سرخیاں تھیں نیلی آنکھیں روئی روئی لگتی تھیں 

تم روۓ ہو کیا 

وہ کس قدر معصومیت سے پوچھ رہی تھی ولید ہنس دیا کتنی دیر بعد کھل کے مسکرایا تھا وہ سامنے والی لڑکی اس کی مسکان بن چکی تھی۔

اچھا چلو ہمیں چلنا چاہیۓ ابھی تم میرے ساتھ ہو تمہیں ڈاکٹر پاس لے جانا ہے اب میں اس سے اپنے طریقے اسے نپٹوں گا۔

وہ باہر بڑھے تھے تبھی ولید کی نظر سامنے پڑی۔

وہاں کچھ سائکلز رکھے تھے شاید یہ ورکشاپ تھی۔

سائیکل چلا لیتی ہو کیا پاکستانی۔۔۔

وہ اب اس کی ناک دبا کر پوچھ رہا تھا۔

کوئی ایسی ویسی۔۔۔

حرم کھلکھکلا دی۔۔۔

تو چلو پھر ولید نے ہاتھ پھیلایا۔۔۔

چلو ہاتھ تھام لیا گیا تھا۔۔۔

اور تھوڑی دیر بعد وہ رات کے اس پہر میں ہاتھ پکڑے سائیکلز بھگا رہے تھے۔

ایک دن گزرا تھا آنے والا دن ولید سوچ رہا تھا کیا ہونے والا تھا کچھ نیا سا۔۔۔۔

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا 

روح   تک   آگئی   تاثیر   مسیحائی   کی۔۔

پروین شاکر

عشق رولاۓ تو آہ تک بھی نہ نکلے بس وہ ہی حال تھا اس نازک شہزادی کا ۔

سرخ ہوتا چہرہ اور بخار سے تپتا وجود وہ اپنے کمرے میں پڑی بس روۓ جاتی تھی۔

وہ دشمن جان یاد آتا تو آنسوؤں میں روانی آ جاتی تھی۔

نورم بی بی خدا کے لیے کچھ تو کھا لیں 

شکورا کا بس چلتا تو کچھ گھول کر پلا دیتی جس سے وہ پہلے کی طرح ہنسنے بولنے لگ جاتی۔

بی جان ایک بار آئی تھیں کمرے میں بس وہ جو اس کا بھائی تھا وہ جو اس کا مان تھا وہ دنیا جہاں سے ناراض نا جانے کہاں گم تھا۔

شکورا نے اس کا حال دیکھا کچھ سوچا تھا اور چادر درست کرتی کھڑی ہو گئی۔

اس معصوم لڑکی کے لیے اس کا دل موم ہو رہا تھا وہ اسے اس صورتحال میں نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔

حویلی سے نکلتے ہوۓ اس کا دل کانپ رہا تھا رات 9 بجے کا وقت تھا اورپورا علاقہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔

شکورا نے ساری عمر اندھیرے دیکھے تھے غریبی کے غلامی کے اسے بھلا یہ اندھیرا کیا کہتا ڈر تھا تو بس غداری کا۔

اس کا رخ سرکاری آفیسر کے بنگلے کی طرف تھا ۔

زہرہ خاتون نے تو کام چھوڑ دیا ہے جناب اب مجھ سے اور نہیں بنا جاتا آپ کی بیگم زرا کسی ملازمہ کا بندو بست کر لیں آپ۔

نور دین ہاتھ میں کفگیر پکڑے اس کو سنا رہا تھا آئید میر کو بیوی کے نام پہ نا جانے کیوں نورم یاد آئی تھی۔ 

لا حول ولا پڑھ کر اس نے سر جھٹکا تھا۔

اچھا یار ابھی تو کر لو کچھ بہت دیر ہو رہی ہے۔۔

آرام دہ سوٹ میں آرام سے بیٹھا وہ شخص کسی کا آرام سکون سب چھین چکا تھا۔

تبھی باہر بیل ہوئی تھی وہ بھی زور شور سے۔

آئید میر ٹس سے مس نہ ہوا۔

مجھے بتا دیں آپ میں اس گھر کا خانسامہ ہوں یا پھر چوکیدار یا ڈرائیور۔

نور دین وہی کفگیر والا ہاتھ جھلاتا باہر بڑھا۔

او بی بی سنو تو کہاں رات گئے گھسی جا رہی ہو۔

وہ جس عورت کے پیچھے آ رہا تھا وہ بہت تیزی سے اس سے قدم اٹھاتی آگے آ رہی تھی۔

تمہارے صاحب سے بات کرنی ہے کسی چمچے سے نہیں

شکورا نے اس کے کفگیر والے ہاتھ کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا کہ سامنے بیٹھے آئید میر کا قہقہ روکنا مشکل ہوا تھا۔

اب اس منظر کو دیکھیں تو شکورا آئید میر ریحان کو دیکھ چکی ہے اونچا لمبا شکل سے بے انتہا خوبصورت نظر آتا وہ مرد اس کے سامنے ہے۔

مجھے لگا تھا بڑے الہام ہو رہے آپ کو محبت میں جس پل مجھے پہچان لیا تھا۔

وہ بڑے اعتماد سے بولی۔

آئید میر کو کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا۔

صاحب آپ کو اتنے الہام ہوتے تھے تو تھوڑی سی خبر اس معصوم لڑکی کی بھی کر لیتے جو اس وقت نہ مر پا رہی ہے نہ جی پا رہی ہے۔

شکورا کی آنکھوں میں آنسو آۓ۔

کیا ہوا نورم کو آئید مید ایک جھٹکے کیں کھڑا ہوا تھا کہ نور دیں جو ابھی تک خاموش کھڑا تھا اسے دیکھ کر سر جھٹک گیا۔

اور شکورا جب بولنا شروع ہوئی اس نے نورم کا درد لہجے میں بول ڈالا۔

آئید میر کا سر ہاتھوں میں گر چکا تھا وہ صوفے پہ بیٹھ چکا تھا۔

شکورا بھی اب اس کے سامنے چادر اوڑھے خاموش بیٹھی تھی۔

حمیدہ اور اور افضل کب سے ہیں حویلی میں آئید میر نے کچھ دیر بعد سوال کیا تھا ۔

مجھ سے بعد میں ہی آۓ تھے میرا تو بچپن سب ادھر گزرا شکورا نے خاموشی سے بتایا۔

آپ میرا ایک کام کر سکتی ہیں کیا

وہ اسے امید سے دیکھ کر بولا۔

آپ کے لیے نہیں نورم بی بی کے لیے کروں گی آپ بولیں۔

آئید میر کو اندازہ چکا تھا کہ وہ جو اس کے لیے جان خطرے میں ڈال کر یہاں تک آ گئی تھی وہ اس کے لیے مخلص تھی۔

مجھے نورم سے ملنا ہے بس ایک بار۔۔۔

آئید میر کی گھمبیر آواز نے سناٹا پیدا کر دیا۔

کیا مطلب ہے آپ کو پتہ

ہاں مجھے پتہ ہے۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ شکورا اور کچھ بولتی آئید میر نے بات کاٹی۔

آپ بس حویلی جا کر اس کے کمرے کی باہر والی کھڑکی کھول دیں باقی میں سمبھال لوں گا۔

وہ اب شکورا کو سمجھا رہا تھا۔

مجھے سمجھ نہیں آتی جب آپ کا مقصد پورا ہو گیا ہے جب آپ ان لوگوں کو درد دے چکے ہیں تو اب کیا فائدہ اس ہمدردی کا۔

شکورا کے جانے کے بعد نور دین زچ ہو کر بولا تھا۔

تمہیں کس نے کہا میرا مقصد پورا ہو چکا ہے تم جانتے ہو اچھے سے سب وہ اسے گھور کر بولا۔

لیکن اس بار نورم سے میں اپنے لیے نہیں اس کے لیے ملنے جا رہا ہوں

آئید میر کا دل کھانا کھانے کو نہیں تھا اس نے افسردگی سے قدم کمرے میں بڑھا دئے تھے۔

اور کمرے کی کھڑکی سے لگ کر عرصے بعد اسموکنگ کرتے ہوۓ وہ اس لڑکی کو سوچ رہا تھا کس قدر چاہتی تھی وہ اسے سوچتا تو اس کی محبت سے محبت کر بیٹھتا۔

                                         *****************

آپ کو کیا لگتا ہے میں اس بے ہودہ انسان کو معاف کر دوں گا بابا 

ارمغان کا چہرہ ضبط سے سرخ تھا۔

میں نے کب کہا معاف کر دو۔

جہانگیر خان کے لہجے میں زہر بولا۔

بس انتظار کرو ابھی اس نے تازہ وار کیا ہے ابھی وہ سب کی نظر میں ہے اس کے ساتھ جو کیا جاۓ گا وہ ہمارے گلے کا پھندہ بن جاۓ گا۔

اسے سبق سکھاؤ مگر حوصلے اور سوچ بچار کے ساتھ۔

جہانگیر خان نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا تھا اور مردان خانے کو بڑھ گئے تھے۔

یہ اس حویلی میں رات دس بجے کا وقت تھا۔۔۔۔

ارمغان کی خوبصورت آنکھوں میں سوچ تھی اور دماغ مسلسل سوچوں میں مشغول 

اس کی بہن کو استعمال کیا گیا جب وہ سوچتا تھا دماغ پھٹنے لگتا۔

اب جو میں کروں گا آئید میر تمہاری سات نسلیں یاد رکھیں گی وہ نفرت سے سوچ رہا تھا۔۔۔۔

                                               *************

کوئی بات تو ہے اس میں فیض

ہر خوشی جس پر لُٹا دی ہم نے

فیض احمد فیض

ماتھے پہ کٹے بال اب کچھ لمبے ہو گئے تھے اس لیے حرم کی کوشش ہوتی تھی ان کو کانوں کے پیچھے کر دے جو ناکام ہو جاتی تھی اور وہ جھنجھلا جاتی تھی۔

ابھی بھی سفید شلور قمیض مین ملبوس ریڈ اسکارف گلے میں ڈالے بیگ کندھے پہ لٹکاۓ وہ کلاس کی طرف بھاگ رہی تھی اور بال تنگ کر رہے تھے۔

اس واقع کو گزرے ایک ہفتہ ہو چکا تھا جیکسن غائب تھا اور ولید اس کو تلاش کرنے میں مگن۔۔۔۔

 اور اس ایک ہفتے میں ولید ابسن اسے کوئی پچاس ہزار بار اظہار محبت کر چکا تھا۔

سنو حرم میں نے وعدہ کیا تھا کائنات سے کہ تمہیں فورا بتا دوں گا سب۔

تھوڑا جھجک کر کہتا وہ کس قدر پیارا لگا تھا مگر حرم نے اسے جھڑک دیا تھا۔

ابھی پرسو کی ہی تو بات تھی یہ۔

سنو ہم بہت اچھے دوست ہیں میں بس پڑھنا چاہتی ہوں آخر پاکستان کا مان ہوں میں وہ سر جھکاۓ کہہ رہی تھی۔

ولید اس پل خاموش ہو گیا تھا۔

ابھی حرم سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ جاتے ہوۓ اس کو ہی سوچ رہی تھی۔

میری بات سن کر جانا تم۔۔۔

وہ کہاں سے اس کے سامنے آیا تھا حرم سمجھ نہیں سکی۔

کریم کلر کی خوبصورت شرٹ میں ملبوس بال نفاست سے بناۓ آج وہ خلاف معمول تھوڑا تیار لگ رہا تھا اور پیارا بھی بہت۔۔۔۔۔۔ 

سنوتم جن ہو کیا

حرم نے دانت کچکچاۓ۔

حالانکہ مجھے دیکھ کر تمہیں کہنا چاہیئے تھا سنو شہزادے ہو کیا 

ولید نے مسکرا کر کہا 

او ہلیو زرا دور رہو مجھ سے

حرم نے آنکھیں دکھائیں

وہ اس کا ہاتھ پیار سے پکڑ چکا تھا۔

آس پاس سے گزرتے لوگ اپنے کاموں میں باتوں میں مشغول تھے۔

اگر وہ پاکستان میں کھڑا اس کا ہاتھ پکڑ کے کچھ کہہ رہا ہوتا تو ضروری تھا اس پہ بے حیائی کو فتوئ لگ جاتا اور پرانے دور کی عورتیں دوپٹے منہ پر رکھ کر ضرور کہتیں بڑا بے شرم زمانہ ہے حالانکہ بے شرم زمانہ نہیں لوگ ہوا کرتے ہیں حرم اس کو دیکھ کر سوچ رہی تھی اور اس کے ہونٹوں پی مسکان آ گئی تھی۔

مسکرا رہی ہو مطلب دل میرے ساتھ ہے 

ولید کا چہرہ کھلا۔

جی نہیں میں پنجاب کو یاد کر کے مسکرائی ہوں

اس نے دانت کچکچاۓ

ولید کو لگا اسے پنجاب سے جلن ہوئی ہو شکر ہے اسے یہ پتہ تھا کہ پنجاب کوئی لڑکا نہیں۔

مجھے بات کرنی ہے تم سے اب وہ اس کا راستہ روک کے کھڑا تھا۔

اوہ سر ڈیوڈ۔۔۔۔۔

 حرم نے جلدی سے کہا ولید نے دیکھا اور وہ بھاگ کر اس کے پہلو سے نکلتی آگے بڑھ گئی تھی۔

                                              ******************

انگلیاں پھیر میرے بالوں میں

 میرا یہ دردِ ســر نہیں جاتا...

  جہاں وہ قدم رکھنے جا رہا تھا یہ وہ جگہ تھی جو اس کے لیے قبرستان ثابت ہو سکتی تھی۔

شکورا نے بخار میں تپتی نورم کے کان میں کچھ کہا تھا جو اس نے سنا ہی نہیں تھا وہ کھڑکی کے پٹ کھول کے جا چکی تھی۔

رات دوو بجے کا وقت تھا چاند کے آخری دن تھے یہ ظہار خان قبیلہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا جب اس نے نورم جہانگیر خان کے کمرے میں قدم رکھا تھا۔

ملگجے لباس میں ملبوس سرخ چہرہ لیے سامنے پڑی لڑکی قابل رحم نظر آئی۔

وہ آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آیا تھا۔

آئید میر کے دل میں افسوس اٹھا یہ وہ لڑکی تھی جو اس سے محبت کی دعوادار تھی اور یہ وہ ہی لڑکی تھی جس کے جزبات پہ قدم رکھ کہ وہ اپنے مقصد کی طرف بڑھا تھا کسی کے جزبات کو پیروں تلے  روندھ کر ان کا فائدہ اٹھانا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے وہ سامنے پڑا وجود عیاں کرتا تھا۔

آئید میر نے اس کی جلتی پیشانی پہ ہاتھ رکھا تھا 

وہ کسمسائی اور کروٹ بدل لی۔

اففففف

آئید میر کو وہ گھرانہ  اس وقت جانور لگا۔

اس نے ادھر اُدھر دیکھا جگ میں ٹھنڈا پانی پڑا تھا۔

وہ الماری سے نورم کا لان کا دوپٹا اٹھا لایا اور گیلا کر کے اس کے ماتھے پہ رکھنے لگا تھا۔

اسے ہوش آ جانا چاہئیے تھا آئید میر بس یہی چاہتا تھا۔ نورم کی آنکھیں بند تھیں گویا پورے جہان سے روٹھی ہوئی ہو۔

اور سامنے بیٹھا مرد یہ بھول گیا تھا کہ وہ کہاں مو جود ہے۔

کروٹ بدلنے کی وجہ سے اس کے سنہری بال ماتھے پہ آ گرے تھے آئید میر نے آہستہ سے اس کی پیشا نی سے بال ہٹاۓ اور پٹیاں رکھتا رہا ۔۔۔

                                            **************-

کیلفورنیا میں ایک بہت خوبصورت منظر انتظار میں تھا دیکھنے والوں کے۔

مسحور کن سا وہ منظر۔۔۔۔

یو سی بار کلے میں سوشیالوجی کی کلاس کے سامنے جو کھڑا چلا رہا تھا وہ اس یونی کا گرو مانا جاتا تھا۔۔۔

سنو تم مجھ پہ یقین کیوں نہں کرتی میں بتا رہا اگر اس بار تم نے باہر آ کر میری بات نہ سنی تو میں اس پورے روم کو لاک کر کے چلا جاؤں گا۔۔۔

اور پوری یونی کو تمہارے گھر لے آؤں گا۔

اور یونی کے اس کمرے میں بیٹھی لڑکیوں نے گھبرا کر اس نازک مزاج لڑکی کو دیکھا جو منہ بناۓ بیٹھی تھی۔۔۔

سنو تم چاہے پورے امریکہ کو بھی یہاں لے آؤ تو میں تمہارا اعتبار نہیں کرنے والی آئی سمجھ 

وہ جو بنا اثر لیے لڑکی بولی تھی اس کے ماتھے پہ کچھ کٹے بال اڑ کے لبوں تک آ گرے تھے جسے اس نے بے نیازی سے ہٹایا۔

بس بہت ڈر لیا تم سے اب نہیں۔۔۔۔

وہ اور زور سے چلائی۔

ہاں مگر دل کانپا تھا آج بھی۔

یہ بات ہے تو چلو دیکھو پھر۔

اور پھر ایک۔۔۔دو۔۔۔تین۔۔۔چار۔۔۔۔پانچ۔۔۔

افففففف اس لڑکے نے جس پہ آدھا یو سی بارکلے کا کرش تھا وہ وہاں اس کمرے کے دروازے پہ اسٹوڈینٹس کا ڈھیر لگا چکا تھا۔۔۔

اندر بیٹھی نازک مزاج لڑکی کا دل ہولا اس طرح تو وہ واقع پورا امرکہ یہاں لے آئے گا۔

وہ میرا اعبتار نہیں کرتی اسے بتاؤ مجھے عشق ہوا ہے اس سے۔۔وہ جو کسی سے سیدھے منہ بات نہی کرتا تھا اب ایک ایک کو بتا رہا تھا۔

اور باہر سے آتی آوازیں مان جاؤ 

مان جاؤ۔۔

وہ لڑکی جو پاکستان کا مان تھی سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں اس نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

وہ سوچتی تھی وہ کچھ بھی کر سکتا ہے آج آدھا کیلفورنیا دیکھ رہا تھا کہ وہ تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔

ڈین تک خبر پہنچی تو وہ پروفیسر جیمسن کو بتانے بھاگا مگر تب تک وہ لوگ اپنا کام کر چکے تھے ۔۔۔۔۔

وہ باہر آئی ایک غصے بھری نگاہ سامنے بیٹھے اس شہزادے جیسے لڑکے پہ ڈالی 

تم چاہتے کیا ہو آخر وہ اب واقع زچ ہوئی۔

تم کو چاہتا ہوں اور یہ بات پچھلے  2 دن میں دس ہزاد بار بتا چکا ہوں۔

وہ اب اسکے سامنے گھٹنوں کے بل۔بیٹھا تھا لڑکیوں نے اپنے دل ہاتھ پہ رکھے تھے۔

تو لڑکوں نے اس لڑکی کو اچک اچک کے دیکھنا شروع کیا جس کا غرور اس مغرور کو گھٹنو کے  بل لے آیا تھا۔

تو تم کو ایک چیلنج دیتی ہوں میں 

ہاں قبول ہے۔

اس کے کہنے سے پہلے وہ بول چکا تھا۔

سن تو لو۔

وہ غرائی۔

سن لیا ہے۔

وہ مسکرایا۔

وہ جس کا دل دھڑکا تھا اس مسکان پہ وہ حرم ریحان تھی۔ پاکستان کا مان۔۔۔

وہ جو بنا سوچے اس کے عشق میں مر مٹنے کو تیار تھا وہ ولید ابسن تھا۔۔۔

کیلفورنیا کا منہ بولا  شہزادہ

وہ اس کی آنکھوں سے آنکھیں چرا رہی تھی دل کو دل سے ملانے سے ڈر رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کے سامنے کھڑا خوبصورت ساحر آنکھوں والا لڑکا کوئی عام لڑکا نہیں تھا نہ اس کا عشق 

ولید نے دل کھول کر رکھا اور محبت کے سارے مراحل سر ہو گئے تھے اب تو بس جواب کا انتظار تھا۔

حرم نے دیکھا وہ پوری فوج لیے سا تھ کھڑا تھا 

اس کی پلکیں جھکیں اور ولید کا دل۔۔۔۔

کیا میں تمہیں آزما سکتی ہوں 

حرم پاکستانی تھی اتنا نرم دل تو تھا کہ اس پہ آ جاتا۔۔۔۔۔۔

مگر ہیر کی سر زمین سے تعلق رکھنے والی لڑکی اسے آزما تو سکتی تھی

ولید کو بارش فوبیا ہے سمجھو 2 منٹ بارش میں کھڑا نہیں ہو سکتا چڑ ہے اسے بارشوں سے۔۔۔۔

کشف کی بات اسے یاد آئی۔

پیار کرتے ہو نا مجھ سے

حرم نے معصومیت سے کہا 

ہاں دل وہ جان سے

وہ دل پہ ہاتھ رکھ کے جھکا تھا اور ہوٹنگ ایسی ہوئی کہ حرم کے کان لرز اٹھے

تو اب یہ اظہار محبت اس دن کرنا جس دن بارش آۓ اور وہ بھی بارش میں تب تک جب تک میں ہاں نہ بول دوں۔۔۔۔۔

محبت کا دیوتا مسکرایا تھا اس شرط پہ اس مان پہ

ولید ابسن کا دل آنکھیں جھکے ہوۓ تھے 

اسے ہر شرط قبول تھی

یہ ایک آسان کام تھا مگر حرم ریحان اسے مشکل بنانے والی تھی۔

قبول ہے مادام

وہ اب اسے دیکھ کر مسکرایا

اور پیچھے کھـڑی فوج نے بلند آواز میں بتا دیا تھا کہ وہ سب بھی ساتھ ہوں گے ولید کو دیکھنے کے لیے

یہ منظر یو سی بارکلے پہ کس ادا سے اترنے والا تھا وہ بس سوچا جا سکتا تھا

اور ولید ابسن کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ہواؤں سے جا کر بارش کی نوید لے آۓ۔

      عشق دے روگ دا کدے نا دارو عشق دے روگ اولےَ

عقلاں شکلاں والے کیتے عشق نے کملے جھلے   

رسوائیاں تے خواریاں باجوں کچھ نہیں عشق دے پلے 

او برباد ہوۓ ہر گھر حافظ جہیڑے عشق گھر نے ملے ۔                 

کتھے عشق دا روگ نا لا بیٹھی

تند چرخے پونڑیں پل جائیں گی

وچ دریا دے رل پھل جائیں گی

ارےبھار نہ کدرے چا بیٹھی

کتھے عشق دا روگ نہ لا بیٹھی 

دور کہیں نصرت صاحب کی آواز گونج رہی تھی۔

     آئید میر کے ہاتھوں کا لمس تھا یہ اس کے خیال رکھنے کا نتیجہ مگر یہ ہوا تھا کہ نورم نے سرخ آنکھیں کھولی تھیں 

آئید میر کو وہاں آۓ گھنٹہ ہونے والا تھا۔

نورم کو لگا وہ خواب میں ہے اس نے اپنا نرم ہاتھ آئید میر کے گال پہ پھیرا تھا آنسو آنکھوں سے نکلتے کنپٹیوں میں موجود بالوں میں جزب ہو رہے تھے ۔۔

سبز آنکھیں سوگوار تھیں

سبز آنکھیں پریشان تھیں

سبز آنکھیں اداس تھیں

آئید میر نے اس کا ہاتھ اپنے گال سے ہٹا کر بے خودی میں لبوں سے لگایا تھا۔

وہ نہیں جان سکا تھا کہ اس کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپک کر نورم کے ہتھیلی میں جزب ہو چکا تھا۔

زنجیریں۔۔۔

خون۔۔۔۔

ماتم۔۔۔۔۔

آنسو۔۔۔۔۔

کتنی تصویریں تھیں جو سامنے بیٹھے لڑکے کے زہن میں آئی تھیں

اس نے یکدم نورم کا ہاتھ چھوڑا تھا اور کھڑا ہوا ۔

سرخ آنکھیں درد کا پتہ دیتی تھیں مگر وہ یہاں رونے نہیں رولانے آیا تھا اسے یاد کرنا پڑا۔

نورم

آئید میر نے اس کے کان میں کہا تھا۔

اس بار نورم نے پوری آنکھیں وا کی تھیں

آپ۔۔۔

بخار کم ہوا تھا وہ اٹھنے لگی۔۔

لیٹی رہو تم۔

آئید میر نے اسے منع کیا آپ کو پتہ کیا ہوا۔۔۔۔

وہ پھر سے سسک رہی تھی میں نے بہت غلط کیا میر بہت ایسے نا۔

وہ اس کے وجہیہ چہرے پہ نظریں ڈال کر بولی تھی۔

نہیں تم نے کچھ غلط نہیں کیا تم نے سچ کا ساتھ دیا حق کا اور حق کا ساتھ دینے والے تکلیف تو دیکھتے ہیں

آئید میر اس سے تھوڑے فاصلے پہ بیٹھا اسے سمجھا رہا تھا

مگر مجھے ہر انصاف ہر حق سے زیادہ اپنا بھائی پیارا ہے

نورم نے ایک جملے میں اسے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔

وہ جلدی ٹھیک ہوجاۓ گا۔

آئید میر نے دلاسا دیا تھا مگر سامنے بیٹھا وجود دلاسوں پہ نہیں ماننے والا تھا۔

آپ مجھے یہاں سے لے جاؤ میر۔۔۔۔۔

وہ جو اس نے بات کی تھی وہ سامنے بیٹھے مرد کو سر سے پیر تک ہلا گئی تھی۔نورم کا چہرہ جھکا ہوا تھا وہ اذیت میں تھی صاف نظر آ رہا تھا۔

ہاں لے جاؤں گا جلدی میں مگر ایسے نہیں 

آئید میر نے کچھ سوچ کر پورے اعتماد سے کہا تھا۔

یہ ظہار خان قبیلے میں آنے کے بعد پہلی بات تو جو آئید میر نے دل سے کی تھی یہ پہلا فیصلہ تھو جو دل نے کیا تھا۔

اب وہ اسے سمجھا رہا تھا ہو سکتا اب ہم جلدی نہ مل سکیں 

یہ کہتے ہوۓ وہ خود بھی اداس تھا 

                                           *****************

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے​

پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے​

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں​

رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے​

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں​

پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے​

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا​

بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے​

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا​

جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے​

ناصر کاظمی​

حسان لہک لہک کے گا رہا تھا اور ولید کے کان کھا رہا تھا۔

اگر بارش نہ آئی تو ولید کا عشق تو گیا۔

مائیکل اور حسان جتنا اس کا مزاق بنا سکتے تھے بنا رہے تھے۔

یہ کشف کہ بچی مجھے مل جاۓ اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔

ولید کو رہے رہے کا اس پہ تپ چڑھتی تھی۔

ولید وہ دیکھو بادل

مائیکل نے چلا کر کہا تھا اور ولید نے جیسے بھاگ کر دیکھا گراؤنڈ میں بیٹھے اسکواڈ کی ہنسی نکلی تھی۔

تم مجھ سے پچنے والے نہیں ہو۔۔

اب منظر کچھ یوں تھا کہ ولید پیچھے تھا اور مائیکل آگے۔

وہ اس کو پکڑ رہا تھا جب سامنے آتے سر ڈیوڈ سے زور کا ٹکرایا تھا سر ڈیوڈ کا چشمہ گر گیا تھا۔

انہوں نے ولید کو گھورا۔

میراتھن میں آۓ ہو کیا۔

انہوں نے گھورا۔

نہیں سر بارش نہیں آ رہی اس لیے اس کا دماغ خراب ہو گیا۔

مائیکل پیٹ پہ ہاتھ رکھے ہنسی جا رہا تھا۔۔۔

تم دونوں کیا پاگل خانے سے سیدھے ادھر آ رہے ہو۔

سر ڈیوڈ فرینک رہتے تھے شاگردوں سے اس لیے مسکرا دئیے۔

نہی سر بارش نہ آئی تو جانے والے ہیں پاگل خانے مائیکل ولید کے گھوریوں کی پرواہ کیے بنا بولی جا رہا تھا۔

ابھی تو میں جا رہا ہوں کلاس ہے مگر جلدی یہ با رش والا مسئلہ حل ہو جانا چاہئے سر ڈیوڈ ولید کو گھورتے آگے بڑھ گئے تھے۔

یار جب سے عشق میں ڈوبے ہو تمہاری تو زبان بھی گم ہو گئی ہے 

مائیکل اس کو دیکھ کر بولا۔

ادھر آ میں بتاؤں وہ مائیکل کو پکڑ نے بھاگا تھا۔

اور یو سی بارکلے میں اس پل کو دیکھیں تو لب مسکرا دیں گے۔

سنو لو سی تمہارے ڈیڈ تو محکمہ موسمیات میں ہیں زرا پتہ کر کے بتاؤ بارش کب آنی ہے۔

اب ولید بالوں پہ ہاتھ پھیرتے اس لڑکی کو کہہ رہا تھا جو انگریز تھی اور اس کو اچھے سے جانتی تھی۔

کشف ،سہانا،نور،بیلا سب موجو د تھے ۔

بس حرم نہیں تھی اس کے مڈ ٹرمز ہو رہے تھے آج کل۔

اور لوسی بیچاری نے واقع ڈیڈ کو کال ملا دی تھی۔

سب کا ہنس ہنس کر برا حال تھا ولید کے حال پر۔

وہ بے چارا بس سر پہ ہاتھ پھیر کے رہے جاتا تھا۔

کل بارش ہو سکتی ہے ولید۔

لوسی بھاگ کر آئی تھی۔

کیا واقع

وہ اب خوش نظر آتا تھا۔

وہ بہت جزباتی تھا وہ بہت اچھا تھا وہ بہت نرم دل تھا وہ بس وہ تھا ولید ابسن جیسا کوئی نہیں تھا اور وہ سب اس کے ساتھ کھڑے تھے جیسے وہ ان کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔

                                            **************

وہ جو نظر آتا ہے نا وہ ہے نہیں

ارمغان نے سوچتی نظر سامنے بیٹھے وجود پہ ڈالی۔

 میں نے بہت کوشش کی مگر بس اتنا پتہ چلا کہ وہ لاہور سے ہے اسکا خاندان اور وہ اسلام آباد رہتا ہے تین سال سے جاب کے لیے سی ایس ایس کیا ہوا ہے فارسٹ آفیسر ہے۔

اس لے علاوہ بس ایک بات قابل غور پتہ چلی ۔

وہ کیا 

ارمغان سیدھا ہوا۔

وہ آٹھ مہینے غائب رہا ہر جگہ سے اس کا مارچ سے نومبر تک کوئی سراغ نہیں تھا اس کے بعد وہ واپس آیا اور ٹھیک پندرہ دن بعد ظہار خان قبیلے میں پوسٹنگ ۔

وہ جو کوئی بھی تھا پوری محنت سے پتہ کر کے ارمغان کے سامنے بیٹھا تھا۔

آہاں۔۔۔۔

ارمغان چونکا۔

آسمانی کلر کی شرٹ میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا سامنے بیٹھے وجود نے ایک نظر دیکھ کر آنکھیں پھیر لی تھیں۔

یہ آٹھ مہینے  میرب مجھے ان آٹھ مہینوں کا پتہ کرنا ہے۔اگر تم آسانی سے کر سکو تو۔

وہ اب اسے دیکھ کر کہہ رہا تھا۔

ارمغان شاید تم بھول رہے ہو ہاورڈ میں تم نے مجھے کتنی ہیلپ کی تھی آج مجھے موقع ملا ہے میں ضرور کروں گی۔۔۔۔

چوکلیٹ کلر شرٹ پہ اسی کلر کی جیکٹ پہنے جینز کے ساتھ گلے میں اسکارف تھا بال کندھوں تک کٹے ہوۓ تھے  گندمی رنگ پہ بڑی باڑی بادامی آنکھیں وہ پراسکیوٹر میرب سلطان تھی۔ارمغان کی واحد فی میل دوست۔

وہ جا چکا تھا اور میرب نے سر کرسی کی پشت پہ ٹکا دیا۔

کتنا لا پرواہ ہے وہ اور کتنی خود دار ہوں میں 

اس نے پیشانی مسلتے ہوۓ سوچا۔

تھوڑی دیر بعد وہ کسی کو کال ملا کر ملنے کا کہہ رہی تھی شہر کی سب سے مہنگی پراسکیوٹر ارمغان کے لیے اتنا سا کام نہ کر سکے یہ کیسے ہو سکتا تھا۔

                                          ****************

اور کیلفورنیا چلیں تو آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا نظر آتا ہے ایک بہت خوبصورت منظر انتظار میں تھا۔

ولید تمہیں تو بارش سے چڑ تھی فوبیا تھا ۔

حسان نے پریشانی سے کہا۔

آج سے محبت ہو گئی بارشوں سے بھی۔

وہ کھلکھلایا۔

حسان نے نظر ہٹا لی کہیں اسے نظر نہ لگ جاۓ اس وقت ایسا ہی لگ ریا تھا 

وہ حرم کے سامنے پوری فوج کے ساتھ کھڑا تھا چہکتا ہوا۔

سنو میں بارش بھی لے آیا ہوں  بادلوں  سے لڑ کر اب تو مان جاؤ وہ شرارتوں بھری خوشیوں بھری ایک کہانی کی شروعات تھی

بارش کے وہ قطرے عشق کی داستان میں ڈھل کر امر ہونے والے تھے۔

وہ جسے بارش فوبیا تھا وہ اس لڑکی کے عشق میں ڈوبا اس کی شرائط مان رہا تھا  عشق اسیری میں ڈھل رہا تھا۔۔۔۔۔

عشق جنون بننے جا رہا تھا۔۔۔۔۔

عشق اس شہزادے سے لڑکے کو کندن کرنے جا رہا تھا۔۔۔۔۔

اور پچھلے تین ماہ جو تم نے مجھے تنگ کیا وہ۔۔۔۔

یو سی بارکلے کی کھڑکی میں ماتھے پہ کٹے بالوں والی لڑکی  ناک چڑھا کر زور سے چلائی۔

وہ حرم ریحان تھی سب سے منفرد سب سے الگ ۔۔۔۔۔

اور میں جو تمہیں جان پر کھیل کر جیکسن سے چھڑوا لایا ۔۔۔

وہ اس بھی زور سے چلایا

اور جو تم نے جیکسن کو ابھی تک نہیں پکڑا وہ

حرم خو ایک اور بات یاف آئی وہ اور چلائی کہ سرخ رگیں ماتھے پہ ابھر آئی تھیں 

اور جو وہ بھاگ کر ملک بھی چھوڑ گیا ہے مجھ سے ڈر کر وہ

ولید ابسن تھا وہ اسے خون ہرا سکتا تھا وہ فاتح تھا سو فاتح ٹھہرا

حرم مسکرا دی

ہاسٹل میں حرم کے ساتھ ساتھ اب باقی لڑکیاں بھی کھڑکیوں پہ جھک چکی تھیں ایسا کوئی دلفریب منظر اترا ہی نہیں تھا اس سر زمیں پہ۔۔۔۔۔

ولید ابسن کے پیچھے لوگوں کا ہجوم تھا وہ اس کے دوست تھے ساتھی تھے وہ سب اس کے عشق کے گواہ بن کر اس پاکستانی لڑکی کے در پہ آۓ کھڑے تھے۔۔۔

کھڑکی سے جھانکتی کالی آنکھیں نیچے کھڑے لڑکی کی نیلی آنکھوں سے ٹکرائی تھیں دل نے دل کا راز پایا تھا ایک دوسرے کو حفظ کر کے دل کے دروازوں پہ تالے لگا دئیے تھے

مگر یہ عشق کس روپ میں ڈھلنے والا تھا اس کا فیصلہ وقت کرتا۔۔۔۔

وہ بھاگی تھی لڑکیوں نے زور سے تالیاں بجائیں۔

ولید کی جیکٹ پانی میں بھیگ چکی تھی اور اس کے ساتھ کھڑے وہ سب پانی پانی تھے۔۔۔۔

ہاسٹل سے کچھ لڑکیاں بھاگ کر حرم والی سائڈ پہ آ گئی تھیں

وہ اس کے سامنے گھٹنوں کہ بل بیٹھ گیا۔

میں ولید ابسن آج خود کو پورا کا پورا حرم ریحان کے سپرد کرتا ہوں۔۔۔

کیا حرم ریحان کو میرا ساتھ قبول ہے۔۔۔

اس کا سر جھکا ہوا تھا حرم کو لگا وہ کانپ رہا ہے اسے خوف تھا یا بارش وجہ وہ سمجھ نہیں سکی۔

حرم کو سب بھول گیا تھا

وہ کون تھی

اس کا نام کیا تھا

وہ کہاں سے تھی

سامنے بس عشق نظر آتا تھا۔

سامنے ولید نظر آتا تھا۔۔۔۔

وہ آہستہ قدم سے چلتی اس کے قریب آئی۔

سب کو چپ لگ چکی گھی بس بارش کا شور تھا یا حرم کے قدموں کا۔

وہ ولید کے پاس آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھی اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر اپنے ہاتھوں کا پیالہ بنا کو اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے لیا۔۔۔

وہ رو رہا تھا یہ بس حرم نے دیکھا تھا بارش کے پانی کے ساتھ ولید ابسن کے آنسو گرے اور وہ پانی انمول ہو گیا وہ بارش انمول ہوئی۔

حرم ریحان اقرار کرتی ہے کہ وہ ولید  کی ہوئی اس کی ہنسی اس کے آنسو اس کی خوشیاں سب محمد خالد بن ولید کے نام ہوئیں

وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر کہہ رہی تھی۔

میں کیلفورنیا کو گواہ بنا کر اس کائنات کو گواہ بنا کر اقرار کرتا ہوں حرم ریحان کی زندگی میں آنسو نہیں آنے دون گا غم کے۔

اب منظر ایسا تھا کہ ولید کا چہرہ حرم کے ہاتھوں میں تھا اور حرم کا چہرہ ولید کے ہاتھوں کہ پیالے میں

اور پیچھے کھڑی فوج  نے وہ نعرے لگاۓ کہ شک ہونے لگا ابھی عورتیں گھروں سے نکل کر ان کی عزت افزائی کر دیں گی اور طعنے دیں گی کہ ابھی بچے رو رو کہ سوۓ تھے ستیاناس کر دیا ان کی نیند کا مگر یہ پنجاب تو نہیں حرم نے سوچا اور کھلکھلا دی۔

محبت کے سبھی مراحل طے ہوۓ عشق نے پر پھیلاۓ اور قسمت طنز سے مسکرائی تھی وہ دونوں بے خبر تھے۔

کشف نے آہستہ سے پیر  پیچھے کیے تھے۔

وہ دونوں بھیگ چکے تھے اور بارش تھی کہ رک نہیں  رہی تھی۔

جب ہم پہلی بار ملے تو بارش تھی

وہ اس کو آنکھوں میں سمو کر بولا۔

جب تم نے مجھے تھپڑ مارا تھا۔

اس نے منہ بسور اففف کیوٹ حرم

اور تم نے مجھے گلے لگایا تھا۔۔۔۔

ولید نے کان میں کہا تھا اور وہ گل سے گلال ہوئی تھی۔

تو تمہیں مجھے سے کچھ وعدے کرنے ہوں گے

ماتھے پہ کٹے بالوں سے ٹپکتا پانی اس کے خوبصورت گالوں پہ گرتا تا ولید بس اسے دیکھ رہا تھا آج وہ پاکستانی جان بھی لکھواتی تو وہ لکھ کے دے دیتا۔

ہاں بولو کونسا وعدہ

ولید کی طرف سے سوال ہوا۔

پاکستان جا کر میرے ساتھ گول گپے کھاؤ گے

پنجابن نے جواب دیا اور دب زور کا ہنسے

میں تمہارے لیے گول گپوں کی مارکیٹ کھول دوں گا وہاں

جس قدر مان سے کہا گیا تھا جواب اتنا خوبصورت تھا۔

اور جب میں ٹی وی دیکھوں تو ریموٹ بھی نہیں  مانگو گے 

اور جب میں اپنی دوستوں کے گھر جاؤں گی میرے ساتھ میچنگ کپڑے پہنو گے۔

اور میرے ساتھ رات کو سڑکوں پہ پید ل ریس لگاؤ گے اور جب مجھے ڈانٹو گے مناؤ گے بھی خود اور جب میں لڑوں گی تو تم چپ رہو گے۔۔۔

اور وہ شروع ہوئی تو بولتی ہی گئی 

سب ہنس ہنس کے دوہرے ہوۓ بیٹھے تھے اب منظر کچھ یوں تھا کہ ولید کا کا ماتھا حرم کے ماتھے سے ٹکا تھا آمنے سامنے بیٹھے وہ دنیا بھلا کے بیٹھے تھے۔

مجھے ساری شرطیں قبول ہیں وہ اس کے مان کو مان بخش رہا تھا ایسا بھی بھلا کہیں پیار دیکھا تھی کسی نے فاطمہ سہانا کی آنکھوں میں ان دونوں کی لیے غرور چمکا وہ ان کے دوست تھے۔۔۔

کیلفورنیا کی سر زمین پہ عشق بول اٹھا تھا محبت کی خوشبو نے ہر پل کو لپیٹ لیا۔۔۔۔۔

ولید تمہاری طبیعت خراب ہو جانی ہے۔

حسان کو فکر تھی اس کی۔

نہیں ہو گی آج کے بعد۔

اب وہ حرم کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا تھا۔

سبز فراک میں مبلوس حرم اس کے ساتھ کھڑی گڑیا لگتی تھی۔۔۔۔

کاش وقت کے کسی لمحے نے نظر اتاری ہوتی اس پل کی۔۔۔۔۔

                                             ******************

اس کا کالج چھوٹا دوست چھوٹ باہر آجا جانا چھوٹا اور وہ قید ہوئی سونے کے س محل میں جو ظہار خان کی حویلی تھی۔

پیلے جوڑے میں ملبوس وہ باہر لان میں بیٹھی تھی جب ارمغان نے ادھر قدم رکھا۔

وہ سرسوں کا پھول لگ رہی تھی۔

ویران سی آنکھیں۔

ارمغان کو لگا اس کا دل کسی نے مٹھی میں لے کر بھینچا۔

وہ فوراً کچن گیا۔

شکورا ،حمیدہ نورم نے کچھ کھایا کیا۔

وہ تھوڑا جھجک کے پوچھ رہا تھا۔

عشق نے اس لڑکی کو کس موڑ پہ لا کھڑا کیا تھا کون جانتا تھا۔

نہیں سائیں بی بی تو پانی بھی نہیں ڈھنگ سے پیتی ہیں 

شکورا فورا بولی۔

اسے کھانا لازمی کھلانا۔جو ہو جاۓ وہ بھوکی نہ سوۓ ار مغان سرخ پڑتی آنکھوں سے شکورا کو ہدایت دے کر نکل گیا تھا۔

اور رات کا منظر تھا نورم کے کمرے کا وہ پریشان تھی وہ مضحمل تھی اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔

شکورا نے زبردستی اسے کھانا کھلایا تھا۔

رات کا کوئی پہر تھا جب وہ ڈر کے بیٹھ گئی اسے لگا کمرے میں کوئ تھا۔

نورم۔۔۔

کس قدر خوبصورت آواز سنی تھی اس نے۔

امی۔۔۔۔۔

وہ چلائی

ہاں میری بیٹی میں تمہاری ماں۔۔۔۔

اب کوئ عورت سفید کپڑوں میں ملبوس اس کے سامنے بیٹھی تھی اور یہ وہ پہلا نفسیاتی حملہ تھا جو اس لڑکی پہ ہوا تھا وہ مریض عشق سے دماغی مریض بننے جا رہی تھی کون جانتا تھا نورم جہانگیر کی قسمت۔۔۔۔۔

"امی آپ کہاں تھیں آپ کو پتا یے نا آپ کی نورم کا کوئی بھی نہیں ہے کوئی بھی نہیں"

وہ اب سسک رہی تھی ۔

شکورا جو اس کے کمرے میں پانی رکھنے آئی تھی وہ خوف زدہ ہوگئی وہ دیوار سے باتیں کر رہی تھی اور باتیں بھی ایسی ویسی۔

سفید کپڑوں میں لپٹی وہ عورت اس کی ماں تھی!

وہ ماں جو اس کے پیدا ہوتے مر چکی تھی۔نورم جہانگیر مریض عشق سے  دماغی مریض بنی بھی تو کس شخص کے لیے جو صرف بدلہ لینا چاہتا تھا اگر وہ جان لیتی تو جان سے جاتی۔

شکورا اس کی حالت دیکھ کر خوفزدہ ہو کر ارمغان کو بلانے بھاگی۔

ارمغان سائیں دروازہ کھولیں جلدی۔

وہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہی تھی۔

ارمغان بھاگ کر باہر نکلا 

ّ"کیا ہوا ہے شکورا کیوں اتنا چلا رہی ہو"

وہ اس پہ خفا ہوا۔

"سائیں وہ بی بی نورمّ"

وہ بس اتنا ہی کہہ سکی اور ارمغان بنا کسی بات کے اوپر بھاگا تھا سب بھول کر۔

"پیاری امی اب آپ واپس مت جائیے گا میرا تو دم گھٹتا ہے یہاں پر۔"

وہ روتے ہوۓ بول رہی تھی ارمغان کے قدم ساکت ہو گئے تھے وہ پڑھا لکھا تھا نرم دل تھا اور سب سے بڑھ کر نورم سے بہت محبت کرتا تھا۔وہ بھاگ کر کمرے میں داخل ہوا۔

"نورم "

اس نے پکارا تھا۔

اور وہ خؤف زدہ ہو گئی تھی ڈر گئی

ملگجے کپڑے چٹیا سے نکلے بال سبز آنکھوں کے کٹورے بھرے ہوۓ تھے ارمغان تڑپ کے آگے بڑھا۔

"کس سے باتیں کر رہی ہو نورم"

وہ نم لہجے میں بولا۔

"امی لالہ امی تھیں آپ  آۓ تو چلی گئیں ہیں "

وہ کس قدر اذیت میں تھی وہ خوب جان گیا تھا ارمغان کے دل میں آئید میر کے لیے نفرت مزید بڑھی۔

"مگر یہاں تو بس ہم ہیں اور تو کوئی نہیں"

وہ اس کا سر اپنے کندھے سے لگاۓ تھپک رہا تھا سارا غصہ ،نفرت،ناراضگی ایک پل میں کہیں دفن ہوۓ تھے۔

نورم کچھ نہیں بولی تھی اتنے عرصے بعد باپ جیسے بھائی کا لمس اسے سکون دے رہا تھا اگلے پل وہ نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی اور ارمغان کسی گہری سوچ میں۔

                                           **************

ولید اور حرم ان سب کو بہت عزیز تھے ۔

پردیس میں تو اپنے وطن کا پرندہ بھی اچھا لگا کرتا ہے وہ تو دوست تھے۔اس لیے سب نے مل کر ان دونوں کے لیے پلان کیا تھا کہ اج کے ایک ہونے کی خوشی میں ایک مناسب سی پارٹی رکھی جاۓ ویسے بھی مڈ ٹرمز کے بعد ایک بار سکون آیا تھا ان کو۔

پارٹی کے لیے سب سے پہلے جگہ کا مسئلہ اٹھا اور مارگریٹ نے اپنا لاس اینجلس کا فارم ہاؤس پیش کر دیا تھا۔

وہ سب امیر نہیں تھے جو تھے انہوں نے باقیوں کا بھرم رکھ لیا تھا ۔سب سے زیادہ کشف آگے تھے اور بیلا سہانا اس کی حالت سے پریشان۔

آج وہ سب جمع تھے اور کچھ اور بھی قریبی دوست یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت جشن سا تھا۔

"ولید کہاں ہے کب سے اسے کال کر رہا نہ اس کا پتہ ہے نا حرم کا"

مائیکل کو وقع اس پہ غصہ آ رہا تھا۔

"میں ادھر ہوں برو"

تبھی پیچھے سے آواز آئی تھی اور بہت سے چہرے مڑے تھے۔

بلیک تھری پیس میں بال نفاست سے بناۓ خوبصورت رسٹ واچ خوشبوؤں میں نہایا وہ شخص اس قدر شاندار تھا کہ کچھ پل کام کاج چھوڑ کر اسے دیکھا جا سکتا تھا،مائیکل اور حسان اس کے آس پاس گھوم رہے تھے باقی سب کہ ہنسی نکل گئی۔

کیا ہے کبھی کوئی ہینڈسم نہیں دیکھا؟"

ولید نے دونوں کو گھور کر کہا۔

محبت نے اس شخص کو اب اپنے رنگ دینے شروع کیے تھے اور وہ اس رنگ میں رنگا کھڑا تھا۔

کشف نے اس سے آنکھیں پھیر یں۔

بہت سے نظریں ولید پر تھیں مگر ولید کی نظریں جسے ڈھونڈ رہی تھیں وہ دکھائی نہیں دی۔

"او ہیلو"

ولید نے بیلا کو پکارا

"جی فرمائیں"

سفید فراک میں ملبوس بیلا مسکرا کر پلٹی۔

"وہ آج کی چیف گیسٹ نظر نہیں آ رہی"

بات وہ بیلا سے کر رہا تھا مگر نظریں ابھی بھی اسے ڈھونڈ رہی تھیں۔

:اس کے لیے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا زرا سا سر پرائز ہے"

بیلا مسکرا کر پلٹ گئی ۔

اناؤنسمنٹ پلیز سب متوجہ ہوں!

کشف اور حسان سٹیج پر چڑھے بولے،

سب کی گردنیں ادھر اٹھی تھیں۔

"آپ سب لوگوں کے لیے آج کی یہ پارٹی کسی کی محبت کی جیت کے لیے رکھی گئی ہے

یہاں ہم سب اپنوں سے دور ہیں اور ہم ہی ایک دوسرے کے اپنے ہیں "

کشف خوبصورت انداز میں بول رہی تھی سب اسے دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔

"اب اس محفل کی جان اس محفل کی جان کی جان کو بلاتے ہیں "

حسان نے ولید کو شرارت سے دیکھ کر کہا اور وہ ڈھٹائی سے مسکراتا رہا ،فخر سے،غرور سے سر اٹھاۓ۔

"اگر یہ پاکستان میں ہوتا نا تو ہیر رانجا،سسی پنو،شیری فرہاد کے بعد اسی کے قصے گاۓ جاتے" حسان کشف کے کان میں کہہ کر مسکرایا۔

"لائیٹس آف"

کشف کی آواز گونجی!

اور اندھیرا چھا گیا تھا!

ایلی گولڈنگ کی میوزک دھن بجنا شروع ہو چکی تھی ۔

اور تبھی لائٹس آن ہوئی تھیں مختلف کلرز میں۔

وہ جو سامنے دروازے سے لڑکی داخل ہو رہی تھی اس کا لمبا گاؤن نما  سیاہ فراک کارپٹ تک آتا تھا کمر تک آتے سیاہ بال جو ماتھے پہ گرتے تھے خوبصورت سٹائل میں مقید تھے اور باقی کمر پہ پڑے تھے، سیاہ ریشم کی طرح،وہ میک اپ میں تھی مسکارا لگی پلکیں جھکا کر چلتی سرخ لبوں پہ مسکان تھی ،اس کے گالوں پہ آتی لالی مصنوعی نہیں تھی محبت نے اسے اور نکھار دیا تھا۔ حرم ریحان کیلفورنیا کی سر زمیں پہ پہلی دفعہ اتنا تیار ہو کر چلی تھی لوگوں کا ٹھٹھکنا تو بنتا تھا اس کہ لافنگ لائن نمایا تھی مسکراتے ہوۓ اور سیاہ کالی آنکھیں کپڑوں کے ساتھ مل گئی تھیں۔جیو لری کے نام پر بس گلے میں نفیس سا نیکلس تھا جو ساری کمی پوری کر رہا تھا خوبصورت انگلش دھن میں چلتی وہ ولید کے پہلو میں آ کھڑی ہوئی تھی اور یہ ایسا منظر تھا کہ وہاں کھڑا ایک بھی زی روح نظر نہ چرا سکا۔

اس پل محبت کے دیوتا کا حق بنتا تھا کہ وہ ان دونوں کی نظر اتارتا۔

ولید کی آنکھیں پلٹنے سے انکاری تھیں اس لڑکے کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ وہ اس لڑکی کے قدموں میں دل رکھ دیتا۔

لائٹس آن ہو چکی تھیں۔

وہ دونوں بلیک ڈریس میں کھڑے پارٹی کی جان لگتے تھے۔

"ولید"

حرم کی آواز ہی سنی گئی گھی کیونکہ باقی سب تو خاموش تھے۔

"اور ولید نے ایسے پلٹ کر دیکھا گویا ایک پل بھی ضائع نہ ہو۔

"بولو حرم"

وہ شاندار سا لڑکا اور وہ کیوٹ سی لڑکی ساتھ کھڑے تھے۔

" اففف میرے پاؤں میں درد ہو دہا ہے مجھے ہیل پہننے کی عادت نہیں نا"

حرم نے زرا لاڈ سے کہا ۔

اور جس جس نے سنا تھا ہنسی دبائی وہ جھینپ گئی ۔

"ہاں تو اسے نہیں ہے عادت اسے درد ہوا اس نے بتا دیا ہنسنے والی کیا بات ہوئی"

ولید حد سے زیادی پو زیسیو ہو رہا تھا۔

ادھر بیٹھو تم وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر خوبصورت ست چئیر پہ لے گیا۔

حرم چئیر پہ بیٹھ گئی تھی اور وہ گھٹنوں کے بل اس کے پیروں کے پاس۔

"یہ کیا کر رہے ہو ولید"

وہ پریشان ہوئی۔

پاؤں دکھاؤ مجھے اپنا!

حرم کو شرم آئی سب ان کو دیکھ رہے تھے۔

"میں ٹھیک ہوں ولید پلیز اٹھو"

حرم اب روہانسی ہو رہی تھی۔

بالکل نہیں تمہارے لہجے نے بتا دیا مجھے ،دکھاؤ پیر مجھے "

اور واقع اس نے اس کا شوز اتروا دیا تھا۔

حرم کے لیے نیا جوتا منگوانا اس کے لیے مشکل نہیں تھا اور جب تک نیا جوتا نہیں آیا تھا حرم بے چاری صوفے پہ ٹک کر بیٹھے رہی مجال ہے جو اس نے ہلنے بھی دیا ہو بے چاری کو۔

کافی لڑکیاں اسے رشک سے دیکھ رہی تھیں۔

ا:وہ بھائی میر بات سن"

حرم کو جوتا پہنا کر وہ اب لڑکوں والی سائڈ پہ بڑھا جب ایک ہاکستانی نژاد لڑکے نے اس پکارا۔

"ہم پہ رحم کر لے بھائی میری منگیتر میرے ساتھ ہی ہے اور تین بار وہ آنسو صاف کر چکی ہے مجھے لگ رہا عنقریب اس نے انگھوٹھی میرے منہ پہ مارنی ہے اگر آپ نے یہی سپیڈ رکھی"

وہ بے چارا واقع منت پہ اتر آیا حسان اور مائیکل کی ہنسی زور دار تھی۔

                                    ********************

ﺁ ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺯ ﮐﺴﯽ ﺩُﮐﮫ ﭘﮧ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺭﻭﺋﯿﮟ

ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﺮﮒِ ﺟﻮﺍﮞ ﭘﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺑﻮﮌﮬﯿﺎﮞ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﯿﻦ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﮦ ﭘﻮﺵ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ

ﮈﺍﺭ ﮐﮯ ﮈﺍﺭ ﺯﻣﯿﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﺍُﺗﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ …

ﭼﯿﺨﺘﮯ، ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ … ﮐﺮﻻﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ

ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺭﻭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻟﻤﻨﺎﮐﯽ ﭘﺮ …

ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻭﯾﺮﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼُﮭﭗ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﺎ

ﺍﺟﻨﺒﯿﺖ ﮐﮯ ﮔﮭﭩﺎ ﭨﻮﭖ ﺑﯿﺎﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﯿﺎﮦ ﻏﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼُﮭﭗ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﺎ

ﺍﮎ ﻧﺌﮯ ﺩُﮐﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮯ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ

ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﮐُﻨﺠﻞ ﻣﯿﮟ ﺍُﻟﺠﮫ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﺎ

ﺍﻥ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﺳﮯ ﻭﻓﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ

ﻗﺎﻓﻠﮯ ﭼﮭﻮﮌﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﺍ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ

ﮨﻢ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﻘﺘﻮﻝ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ

ﺁ ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺯ ﮐﺴﯽ ﺩُﮐﮫ ﭘﮧ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺭﻭﺋﯿﮟ …

ﻓﺮﺣﺖ ﻋﺒﺎﺱ ﺷﺎﮦ

سامنے  بیٹھے وجود کے ہاتھ زنجیروں میں بندھے تھے،لب خاموش ،آنکھیں ویران،

اس نے اپنا سر آہستہ سے اس وجود کی گود میں رکھ دیا۔

آنسو وہیں کہیں جزب ہو رہے تھے۔

زنجیروں والے ہاتھوں میں حرکت ہوئی اور سر اس کی بالوں پہ آ رکا تھا۔

ایک وہ ہی تھا جسے وہ وجود پہچانتا تھا ۔

اسے سمجھ آ گئی تھی کے دورہ پھر پـڑا تھا ان کو اس لیے پھر زنجیر یں نظر آ رہی تھیں ۔اس نے آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ کھولنے شروع کیے۔چہرہ صاف کیا۔دل میں نفرر کچھ اور بڑھی تھی کچھ لوگوں کے لیے۔

"آپ کو کچھ بھی نہیں ہو گا کچھ بھی "

اس کے لبوں سے نکلا تھا۔

اور جہانگیر خان کی حویلی میں اصغر خان پھنکار رہا تھا۔

"اب ہمدردی جاگ اٹھی بہن کی یکدم وہ ڈدامے کر رہی ہے کل کو ایسا نقصان اٹھاؤ گے کہ رونا بھی مہنگا پڑ جاۓ گا۔"

ارمغان کا جھکا سر اسے یہ ہمت دیتا تھا کہ وہ پھنکارتا اس قدر۔

"چچا جان آپ میرا منہ نہ کھلوائیں تو اچھا ہو گا آپ کے کام آپ کی سازشیں کاروبار سب یہی وجہ ہے اسی وجہ سے وہ زلیل انسان میری بہن کو استعمال کرتا رہا آئی سمجھ آپ کو"

ارمغان جہانگیر کم معاملات میں بولا کرتا تھا مگر ایسا بولتا تھا کہ اگلے اس کا چہرہ تکتے رہے جائیں۔

:تو تم اس کی زندگی دوبارہ شروع کرواؤ گے میرے خلاف جا کر" 

اصغر کا چہرہ سرخ ہوا۔

"میری بہن میری زمہ داری ہے میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا"

وہ یہ بات کہہ کر آگے بڑھ گیا۔

"اٹھو نورم بھائی انتظار کر رہا تمہارا"

بی جان آج کافی دن بعد اس کے کمرے میں آئی تھیں۔

"لیکن مجھے کہیں نہیں جانا بی جان "

وہ گھبرا رہی تھی خوف زدہ تھی۔

"بی جان مجھ سے قسم لے لیں وہ امی تھیں جنہیں میں نے تصاویر میں دیکھا وہ تھیں پلیز میرا یقین کر جائیں"

نورم بی جان کو بتا رہی تھی اور وہ اس دکھ بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔

تبھی ملازمہ اسے دوبادہ بلانے آئی تھی اس لیے مرتا کیا نا کرتا کے مصداق وہ چل پڑی۔

ظہار خان قبیلے میں یہ رات دو بجے کا وقت تھا جب نور دین اس جھاڑی کے نیچے آ کھڑا ہوا۔

"سنو نور دین سر کو بتا دینا ارمغان نے جاسوسی کا بندو بست کیا یے اب کچھ عرصہ حویلی میں کچھ بھی کرنا مشکل ہے " 

"تمہیں کسی نے پہچانا تو نہیں نا"

نور دین نے سامنے والے سے سوال کیا تھا۔

"نہیں اتنی کچی گولیاں نہیں کھیلی میں نے"

سامنے والا مسکرایا۔

"صادق تمہیں بہت احتیاط کرنی ہو گی یاد رکھنا "

نور دین اسے سمجھا رہا تھا۔

"آج ارمغان خان اپنی بہن کو شہر لے گیا تھا اندر سے خبر ملی ہے کسی دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر کے پاس یہ بات بھی سر کو بتانا"

صادق نے جو کچھ بتایا تھا نور دین چونک گیا۔

"اچھا ان چلتا ہوں میں" صادق خدا حافظ کہہ کر چلا گیا تھا۔

                                             ****************

 محبت اجاڑ رستوں میں بہار کا سندیسہ 

محبت خزاں رت میں بہار لاۓ

محبت مہکتی صبح میں کوئل کی بولی

محبت آنکھوں میں خواب لاۓ

محبت جھرنوں کی میٹھی سی آواز ہے 

محبت ہی جینے کی آرزو لاۓ

محبت انوکھا سا ایک خواب ہے 

محبت  دلوں میں چین لاۓ 

محبت بیابانوں میں لگا ۓ میلے 

محبت اندھیروں میں چراغ لاۓ

محبت کا اپنا ہی انداز ہے 

محبت ہونٹوں پہ مسکان لاۓ۔

ثمرینہ سحر

وہ آنکھیں بند کر کے کھڑا تھا یہ کیک کٹ چکا تھا کھانا کھا لیا گیا تھا اب سب اس کا امتحان لینے پہ تلے تھے۔

حسان نے اس کی آنکھیں کس کر باندھ دیں۔

"تمہارے سامنے پیچھے اور دائیں بائیں چار لڑکیاں ہوں گی ان میں سے ایک حرم تم نے حرم کا ہاتھ پکڑ کر الگ ہو جانا ہے"

حسان اسے سمجھا رہا تھا اور وہ مسکراتا جاتا۔

کوئی پوچھے بھلا محبت بھی کبھی ایسے امتحانوں کی مستحق رہی ہے۔

ون ،ٹو،تھری حسان نے گننا شروع کیا۔

"پہچان لو ولید"

سب لوگوں کی نظریں اس پہ جمی تھیں وہ یہ بند آنکھوں سے بھی جانتا تھا۔

اس نے بنا ایک پل لگاۓ اپنے رائٹ سائڈ پہ کھڑی لڑکی کا ہاتھ پکڑا تھا اور آگے ہو گیا تھا ہال پورا ہوٹنگ سے  گونج اٹھا وہ بالکل بھی نہیں جھجکا تھا نہ ٹائم لیا 

اب وہ آنکھوں سے پٹی اتار کر حرم کو دیکھ رہا تھا نیلی آنکھیں سیاہ آنکھوں میں جھانک کر خود کو ڈھونڈتی تھیں یہ بات وہ اچھے سے جانتی تھی۔

"اگر لوگوں کی بھیـڑ ہو گی اور ان میں ایک حرم ریحان ہو گی تو ولید ابسن ایک پل میں پہچان لے گا یہ تو چار تھیں "

وہ حرم کو دیکھ کر مسکرا کر بولا ۔

وہ شرما گئی تھی ۔

"ویسے تمہیں پتہ کیسے چلا"؟

حسان اور مائیکل اس سے پوچھ رہے تھے۔

یات سیدھی سی بات ہے یہ میری مس رائٹ ہے تو رائٹ پہ ہی ہو گی اور اس نے جو پرفیوم لگایا وہ مجھے اچھے سے پتا تھا "

یہ تو چیٹنگ ہے ولید۔

حرم اس سے جھجکتی تھی کم ہی بولتی تھی اس لیے وہ اسے آہستہ آہستہ نارمل کر رہا تھا۔

"ہاں تم تو بہت ایماندار ہو مجھے تو جیسے پتہ نہیں مارگریٹ کو ہٹا کر آئی تھی رائٹ سائڈ پر"

ولید اب اسے شرارت سے دیکھ رہا تھا۔

افففففف

حرم کو اتنی شرم آئی تھی کہ وہ فورا اس سے ہاتھ چھڑوا کر کشف اور فاطمہ  کی طرف بڑھی جو پیچھے کھڑی تھیں۔

وہ سب لوگ باتیں کر رہے تھے جب ولید کا سیل گنگنایا

"تم نے ایک فاطمہ کے حجاب کے لیے میرا تماشا بنایا تھا نا ولید ابسن اب یو سی بارکلے میں ہزاروں لڑکیوں کو اس بھی نیچے مقام پہ نا لے گیا تو میرا نام جیکسن نہیں ہے اور سب سے پہلا نشانہ ہو گی تمہاری محبت حرم ریحان 

وہ حرم جو پاکستان کا مان ہے۔"

"اگر تم نے حرم کی طرف ایک نگاہ بھی ڈالی تو تم اس کے بعد کہیں اور نگاہ ڈالنے کے قابل نہیں رہو گے"۔ولید کے بے تحاشہ وجیہہ چہرے پر سرد پن کی اتہا تھی جیکسن اندر تک لرزا۔۔۔

نور دین جو کچھ اسے بتا رہا تھا اس کا دماغ چکرا گیا تھا۔"صادق نے جب مجھے بتایا کہ ارمغان نورم کو شہر لے گیا تھا میں نے کسی طرح شکورا سے رابطہ کیا اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر ہے آپ جناب مانیں یا نہ آپ اپنی زندگی میں ایک بہت بڑی غلطی بلکہ گناہ کر چکے ہیں اس لڑکی استعمال کر کے میری بھی بیٹی ہے مجھے بھی احساس ہے اس بچی کے دکھ کا"نور دین شروع ہوا تو بولتا ہی گیا اس کافی تکلیف ہوئی تھی سن کر یہ سب۔"لیکن یہ بھی تو پتہ چلے نا کہ دماغ اشو کر کیا رہا اس کا "آئید میر کو بہت ذیادہ تشویش ہو اٹھی تھی اور پہلی بار خوف بھی اگر اسے کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک ایسا سوال تھا جس کے آگے سب جوابات ہیچ پڑ جاتے تھے۔ وہ ایک سمجھدار مرد تھا اسے احساس تھا کہ وہ معصوم سی لڑکی دل کا ایک کونہ اپنے نام کر چکی تھی مگر یہ بات وہ ماننا نہیں چاہتا تھا اسی میں بہتری تھی سب کی۔۔۔۔۔۔

"یہ بھی معلوم کر لیا ہے میں نے "نور دین نے آرام سے کہا ،"کیا مطلب بتاؤ مجھے کیا اشو ہے اسے" آئید میر نے فورا اپنا سر اٹھایا تھا۔"وہ اپنی ماں کو اپنے سامنے دیکھتی ہیں باتیں کرتی ہیں روتی ہیں اور شاید یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی روح ان سے ملنے آ رہی ہے "نور دین آہستہ آواز میں بتا رہا تھا۔

اف!!!!!!!!!!!!!!!

آئید میر نے سر ہاتھوں میں گرا لیا تھا ۔"میں بس اتنا کہوں گا وہ لڑکی اتنا سب برداشت نہیں کر پاۓ گی تو جو سوچنا ہے سوچ سمجھ کر سوچیں"نور دین اسے سوچوں کے حوالے کر کے جا چکا تھا۔

                                            *******************

"نورم کل سے کالج جاۓ گی"ارمغان نے ناشتے کی ٹیبل پر یہ اعلان بڑے مضبوط لہجے میں کیا تھا۔"کیا بکواس کر رہے ہو تم عقل کہاں چلی گئی ہے تمہاری"اس سے پہلے کہ جہانگیر خان کچھ بولتے اصغر پھنکارا۔بی جان نے فورا اصغر کو گھورا تھا۔

"مگر ارمغان خان آپ کا یہ فیصلہ میں جان سکتا ہوں کس سے پوچھ کر کیا گیا ہے ؟"جہانگیر خان نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا ۔"جی بابا پوچھ سکتے ہیں،یا تو آپ لوگ اسے مار دیں قصہ ختم کریں ۔لیکن اگر اسے زندہ رہنا ہے تو اسے زندہ رہنے کا حق دیں ۔سارا قصور صرف اسی کا ہی نہیں ہمارے گھر کے اپنے لوگوں نے باہر کے لوگوں کو موقع دیا ہے اس گھر کی عزت اچھالنے کا"اس کی آنکھوں میں نظر آتی تپش اصغر خان اور جہانگیر خان خوب سمجھ رہے تھے اچھی طرح سے۔

"دیکھ لیا نا آپ نے بھائی جان کل کا لڑکا منہ کو آ رہا ہے اور آپ خاموش بیٹھے ہیں یہاں۔"اصغر خان نے  غصے سے کہا تھا اور جہانگیر خان کسی اور سوچ میں گم تھے۔

سفید یونیفارم میں وہ لڑکی کافی دن بعد کالج آئی تھی اس کا بھائی جیت گیا تھا اس نے دنیا میں ایک بار پھر سے قدم رکھا تھا۔اس کی سبز آنکھوں میں کہیں خوف نظر آتا تھا اور کہیں امید۔"اگر میں نورم جہانگیر خان نہ ہوتی تو میں زور زور سے ہنسا کرتی اور میں بولا کرتی ان لڑکیوں کی طرح میں ہر چیز سے لا پرواہ ہوتی۔بہاریں میری آنکھوں میں ہر وقت موجود رہتیں،خواب مجھے جینے کا حوصلہ دیتے،ہاں اگر میں نورم جہانگیر نہ ہوتی"پیریڈ فری تھا اس کا کوئی دوست نہیں تھا اس لیے ڈائری نکال کر وہ لکھتی جاتی۔

وہ جو کوئی بھی تھی بہت اعتماد سے اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔چھوۓ بال کندھوں تک آتے تھے جدید طرز کی شرٹ ؛اور کیپری میں ملبوس اس کا گندمی رنگ چمک رہا تھا ،مسکراتی ہوئی وہ نورم کی طرف بڑھی۔کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں چھوٹی کیوٹ سی لڑکی۔اب وہ مسکراتے ہوۓ نورم سے پوچھ رہی تھی۔اس نے جلدی سے ڈائری بیگ میں ڈالی اور سر اثبات میں ہلایا۔

"کسی ہیں آپ "وہ اس قدر پیار سے اسے دیکھ رہی تھی کہ نورم کو وہ اچھی لگنے لگی۔"جی میں ٹھیک ہوں"اس نے جھجک کر کہا۔آپ کی طرح آپ کی آواز بھی بہت خوبصورت ہے "سامنے بیٹھی لڑکی بے اس کا گال پیار سے چھوا ۔نورم شرما گئی تھی اپنی تعریف پر۔

"میں میرب ہوں میرب ہوں میرب سلطان!"اس نے اپنا نام بتایا۔"اور آپ؟"اب وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔"نورم جہانگیر "وہ بس اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی تھی۔میرب کے دل کو کچھ ہوا۔وہ ویسی ہی تھی جیسی ارمغان خان کی بہن کو ہونا چاہئے تھا۔معصوم ،بے انتہا حسین اور سادہ سی۔"میں یہاں کسی کام سے آئی تھی آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آ گئی مجھے آپ پیاری لگیں اس لیے"وہ اب اسے بتا رہی تھی ۔

"تھیینکس"۔۔۔۔۔۔

نورم بس اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی ۔

"اچھا تو آپ نہیں بتائیں گی کہ میں آپ کو کیس لگی؟"میرب نے شرارت سے کہا۔"آپ ۔۔۔۔۔آپ بھی بہت اچھی ہیں"نورم نے فوراً کہا اور میرب زور کا ہنسی تھی نورم نے دیکھا اسے ڈمپل پڑتا تھا نورم کی طرح نورم کو وہ اچھی لگی تھی اور نورم اسے ۔تھوڑی دیر بعد نورم اور میرب باتوں میں مصروف تھیں۔میرب نے سیل نکال کر "ڈن" لکھا اور ہوا کے دوش پہ ارمغان کو بھیج دیا تھا۔آفس میں بیٹھے اس شخص نے ایک منٹ بھی نہیں لگایا تھا اس میسج کو پڑھنے میں اس کا تو اسے انتظار تھا صبح سے ۔اس نے ایک سکون کی سانس بھری اور سر سکون سے پیچھے چئیر پہ رکھ لیا تھا۔ارمغان خان تھا وہ اسے معاملات سمبھالنے کو ہنر آتا تھا یہ بات ظہار خان کا چپا چپا جانتا تھا وہ یہ معاملہ بھی سمبھال چکا تھا اب اگلا پلان تیار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                           ***************

کیلفورنیا میں وہ لڑکا اس لڑکی کا سایہ بنا ہوا تھا۔

اسے خوف تھا۔۔۔۔۔

بے چینی تھی۔۔۔۔

پر یشانی تھی۔۔۔۔

اسے جیکسن کا خوف نہیں تھا اس کی شیطانیت سے تھا۔وہ زخمی ناگ تھا اور زخمی ناگ کتنے خطرناک ہوا کرتے ہیں وہ یہ بات اچھے سے جانتا تھا۔

"سنو ولید تم مجھے بونی بنا کر اپنی جیب میں ڈال لو تو اچھا ہو گا"ماتھے پہ گرے بال غصے سے ایک طرف ہٹاتی خوبصورت گرین شرٹ جینز کے ساتھ پہنے اسکارف گلے میں ڈالی وہ واقع اس سے زچ ہو رہی تھی۔وہ جہاں جاتی ایک دو منٹ بعد ولید آس پاس ہوتا۔

"لڑکی تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے کہ اتنی پرواہ کرتا ہوں تمہاری اور ایک تم ہو جس کے نخرے ہی نہیں ختم ہو رہے"ولید اسے چڑا کر بولا تھا۔وہ دونوں کیفے ٹیر یا میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ابھی کچھ دیر پہلے کی بات تھی سر جوزف حرم کی کلاس لے رہے تھے جب وہ کلاس میں داخل ہوا تھا "سر جو ٹاپک آپ پڑھا رہے ہیں میں اس کو مزید سمجھنا چاہتا ہوں اس لیے پلیز آج مجھے کلاس لینے دیں"وہ آرام سے کہتا حرم کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا تھا۔حرم نے زور کا پاؤں اس کے پاؤں پہ مارا تھا مگر پرواہ کسے تھی۔

"کونسا ٹاپک پڑھا رہے ہیں ہم ولید صاحب"سب ٹیچرز کا چہیتا تھا اس لیے سب ہی جانتے تھے کہ وہ نہ بھی پڑھتا تو ٹاپ ہی کرتا ایسا ہی تھاوہ اس لیے اس کا بہانہ وہ نہیں مان رہے تھے۔"کونسا ٹاپک ہے"اس نے حرم کے کان میں سر گوشی کی!  "مجھے نہیں پتا "وہ بھی حرم تھی پیار محبت اپنی جگہ اصول اپنی جگہ۔

ولید سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا اور سر جوزف کی چشمے کے پیچھے سے گھوریاں اسے اور بہت کچھ سمجھا رہی تھیں۔اس لیے شرافت سے اٹھ کر وہ باہر آ گیا تھا مگر کھڑا ادھر ہی رہا۔

اور اب کیفے میں وہ دونوں لڑ رہے تھے۔"تم زیادہ سر پہ نہ چڑھو مجھے پتہ ہے جو میں کر رہا ہوں خاموش رہا کرو بس"ولید نے شرارت سے کہہ کر منہ دوسری طرف کیا وہاں اور تبھی حرم کی نظر بھی ادھر پڑی ۔میری جوزف سر جوزف کہ بے انتہا حسین بیٹی جس کا مقابلہ پوری یونی میں نہیں تھا وہ ولید کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔

"اللہ اللہ کوئی شرم حیا نہیں اس قوم میں یوں پراۓ مرد کو دیکھ کر مسکرا کیسے رہی ۔یہ پاکستان میں ہوتی نہ میں اسے بتاتی ۔"حرم کو جیلسی نہیں ہوتی تھی کسی سے کسی معاملے میں مگر یہاں بات ولید کی تھی اس کی محبت کی محبت بھی وہ جو دل میں وجدان بن کی ابھری تھی جو آنکھوں میں خواب بن کر نظر آتی تھی۔ولید بھی اس کی نظروں سے میری کی طرف متوجہ ہوا تو وہ اور مسکرا دی۔"توبہ توبہ!!!!!!حرم نے کا بس چلتا تو اس کا منہ نوچ لیتی۔"میری طرف دیکھو ولید" اس بے غصے سے اس کے ہاتھ پہ کتاب ماری۔۔۔۔

"اف!!!!!!!ظالم لڑکی"  کتاب اچھی خاصی موٹی تھی جو اسے لگی تھی۔"تم نہیں دیکھو اسے "حرم نے سر جھکا کر اتنے کیوٹ سادہ لہجے میں کہا تھا کہ ولید کا دل کیا وہ پل یہیں رک جائین۔"یار ساری لائف وائف کو ہی دیکھنا ہوتا ہے اب زرا سا اسے دیکھنے دو"کس قدر گہری بات کی تھی اس نے حرم کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا اور گالوں پہ لالیاں دوڑی ۔مگر یہ وقت شرمانے کا نہیں تھا،محبت حرم کو بدل رہی تھی اسے احساس نہیں تھا۔۔۔۔وہ لڑکی ابھی بھی ولید کو دیکھ رہی تھی یہ سچ تھا کہ وہ اس قابل تھا کہ اسے دیکھ کے قافلے راہ بھول جائیں اسے کہیں پڑھی ہوئی بات یاد آئی تھی مگر اب وہ حرم ریحان کا تھا اب کسی کو حق نہیں تھا کہ وہ اسے دیکھتا یہ حق ولید نے خود اسے بخشے تھے۔تبھی میری نے ولید کو اشارہ کیا تھا بیہودہ سا۔۔۔۔۔

وہ اٹھی ولید کو گڑ بڑ کا احساس ہوا۔"او ہیلو محترمہ ! شرم حیا بیچ کھائی ہے کیا جو پراۓ لڑکوں کو ایسے گھور رہی ہو اللہ جھوٹ نہ بلواۓ تم تو ہاکستانی لفنگے لڑکوں سے بھی گئی گزری ہو۔"  ماتھے پہ بال غصے سے آ گرے تھے وہ میری کے ٹیبل پہ ہاتھ مار کے جھکی کھـڑی تھی۔وہ بے چاری ہکا بکا اسے دیکھے جاتی ۔"اسے سمجھ نہیں آ ریا کیا میں کیا کہہ رہی ہوں ؟"وہ ولید کی طرف پلٹی جو اسے چپ کروا رہا تھا،"نہیں اسے سمجھ نہیں آئی کیونکہ یہ اردو نہیں جانتی"ساتھ بیٹھے لڑکے اور لڑکیوں میں سے کوئی بولا اور زور کا قہقہ پڑا ولید خود ہنس دیا تھا۔تب حرم کو احساس ہوا کہ وہ غصے میں اردو بول رہی تھی۔

"Ok i can explain  it in engliah marry .don't see this boy again with your cheap eyes and style madam…."

اب وہ انگلش میں شروع ہونے لگی تھی میری کا چہرہ غصے سے لال ہوا۔ولید نے بڑی مشکل سے اسے وہاں سے ہـٹایا تھا۔

"پاگل لڑکی میں بس مزاق کر رہا تھا دیکھو غصے سے کیا حال کر لیا ہے"ولید نے اسے پانی کی بوتل پکڑائی۔"مجھے اچھا نہیں لگتا کوئی اچھا لگے اسے"حرم بے شرارت سے شعر پڑھا اور ولید باغ باغ ہوا۔"آج تو دن ہے میرا"وہ خوش تھا،"تم کسی خوبصورت لڑکی کو دو یا تین بار نہیں دیکھا کرو بس مجھے دکھ ہوتا ہے"سر جھکا کر اس نے اقرار کیا۔اور یہ اقرار اتنا خوبصورت تھا کہ ولید ابسن اسے ہمیشہ یاد رکھتا۔محبت سارے سر تال کے ساتھ اتر رہی تھی ان دونوں پر۔"میرے لیے دنیا کی سب سے حسین لڑکی حرم ریحان ہے اور رہے گی"یو سی بارکلے میں کسی درخت کے نیچے ایک عہد ہوا تھا محبت میں،حرم کے پلکیں جھکیں،"ایک بار دیکھ سکتے ہو"وہ کھلکھلائی اور ولید نے اس پل کو چرا کر آنکھوں میں قید کر لیا تھا۔

                                    ******************

میرب سلطان نورم کی زندگی میں آنے والا ایسا کردار تھا جس نے اس کی زندگی پہ خوشگواد ترین اثرات ڈالے تھے۔اب وہ کالج خوش ہو کر جاتی تھی۔آئید میر کے علاہ بی جان کی اس پہ نظریں تھیں۔اور سب سے ذیادہ اصغر خان کی۔۔۔۔۔

"نورم آپ نے تیاری کر لی ہےتو میں آپ کو کولج چھوڑ دیتا ہوں۔"وہ یونیفارم کے ساتھ بڑی سفید خوبصورت چادر لیے سیڑھیاں اتر رہی تھی جب ارمغان نے پکارا۔

"جی لالہ میں تیار ہوں"وہ فورا اس کے ساتھ آ کھڑی ہوئی تھی۔سائیکاٹرسٹ کی مینڈیسنز اور ارمغان کے خیال رکھنے ہر اتنا اثر ہوا تھا کہ وہ اب راتوں کو سب کے سامنے پاگلوں والی حرکتیں نہیں کرتی تھی۔"کالج جیسا جا رہا آپ کا؟"وہ اس سے چھوٹے چھوٹے سوالات کرتا آ رہا تھا۔"بہت اچھا اور شاید زندگی میں پہلی بار کالج اتنا اچھا لگ رہا مجھے۔"وہ سادگی سے بتا رہی تھی ۔ارمغان نے مسکان ہونٹوں میں دبائی۔وجہ وہ خوب جانتا تھا۔دل ہی دل میں اس نے میرب کی صلاحیتوں کو سراہا تھا۔

"اوکے بچے آپ کا کالج آ گیا۔"وہ گاڑی گیٹ سامنے روک کر بولا تھا۔

وہ اسے خدا حافظ کہہ کر اندر چلی گئی تھی۔

اور وہ اکنامکس کی کلاس لے کر سیدھی گراؤنڈ میں بھاگی۔

اس کی امید کے عین مطابق وہ وہاں موجود تھی۔

"آپ آ گئیں"وہ خوشی سے بولی۔سلور کلر کی خوبصورر اوپن سٹائل کی شرٹ جس کے بازو نورم کو بہت اچھے لگے تھے سلور ہی سمپل ٹراؤزر پہ بڑا سارا دوپٹا اوڑھے میرب اسٹائلش سی دیسی لوک دے رہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد وہ اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہی تھی۔ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا جب نورم اس سے سب شئیر کرتی مگر جلدی ایسا ہونے والا تھا یہ میرب کو یقین تھا۔

"تمہیں بتاؤں نورم میں نے پیار کیا ہے کسی سے بہت ذیادہ خود سے بھی شاید ذیادہ۔"میرب کی آنکھوں میں محبت کے رنگ بہت دلکشی سے مہکے تھے۔"کب؟"نورم نے فورا سوال کیا۔

"ہم!!!!!!!"

اس نے پر سوچ لہجا بنایا۔آج سے پانچ سال پہلے۔اس کی آنکھیں ماضی میں تھیں اس دور میں جس میں میرب سلطان محبت کی تتلیاں پکڑنے میں مصروف تھی۔

"میں باہر پڑھتی تھی ایک لڑکا تھا ایسا کہ اس پہ پہلی نظر میں دل ہاد دیا تھا میں نے،میرا پر س چور لے کر بھاگا۔اس میں میرا پاسپورٹ بھی تھا میرا تو دل ہول گیا۔تبھی میری نظر انگریزوں کی اس بھیڑ میں اس ایشیائی پر پڑی۔میں اس کی منت کی میرا پرس لے آؤ۔"بی بی میں کوئی ہیرو نہیں ہوں ،آپ کسی پولیس والے سے رابطہ کریں۔"ایسے ہی کہا تھا ارمغان نے اسے وہ ہرف باہرف یاد رکھتی تھی اس کی باتیں۔

"پھر کیا ہوا کیا وہ لڑکا آپ کا پر س لے آیا؟"نورم نے دلچسپی دکھائی۔"کہاں یار اس نے میرا ہاتھ پکـڑا اور مجھے پولیس اسٹیشن لے گیااور پھر پرس قانونی طریقہ سے واپس کروایا۔"میرب نے مسکرا کر کہا تھا۔یادیں اگر خوبصورت ہوں تو محبت کے بغیر بھی محبت کا سکون محسوس ہوتا یے۔اور میرب سلطان کے پاس یادیں ہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میرے لالہ نے بھی وکیلوں والی تعلیم حاصل کی ہے وہ بھی باہر سے ۔"وہ فخر سے بتا رہی تھی میرب نے بڑی مشکل سے ہنسی چھپا کر اس کی بات میں دلچسپی لی۔وہ اب اسے ارمغان کے بارے بتا رہی تھی اور میرب سلطان ایک عمر گزار سکتی تھی اس شخص کی باتوں میں۔

میرب کے ساتھ باتیں کر تی نورم نہیں جانتی تھی کہ وہ جس کی نظروں کی ضد میں ہے وہ ہی شخص اس کا سرمایہ حیات ہے۔

"اوہ تو ارمغان صاحب بڑے زہین ثابت ہوۓ ہیں آپ۔"آئید میر  کے خوبصورت چہرے پر پر سوچ مسکان ابھری۔میرب سلطان کو اچھے سے جانتا تھا۔

نورم سےملنا ضر وری ہو گیا تھا اس نے چشمہ آنکھوں پہ لگاتے سوچا تھا۔

                                         *******************

ولید کو لگا تھا  وہ حرم کی حفاظت کر رہا ہے اسے کچھ نہیں ہو گا مگر!!!!!!!!

وہ وقت جو اس دن یو سی بارکلے پہ اترا تھا وہ بہت عجیب تھا۔۔۔۔۔۔

وہ ایک معمول کے مطابق صبح تھی۔۔۔

ہاسٹلز میں لڑکیوں کی چہل پہل ،ناشتہ کرنا ،کپڑے پریس غرض ہر چیز معمو ل پہ تھی۔پیچ کلر کا سوٹ زیب تن کیے یونی کی طرف بھاگتی اس لڑکی کی زندگی میں کچھ بدلنے والا تھا۔

وہ جیسے ہی کلا س میں داخل ہوئی سب نے اسے حیرت سے دیکھا۔جینفر نظریں چراتی اس کے پاس آئی۔

"کیا ہوا ہی جینی یہ سب ایسے کیوں دیکھ رہے مجھے؟"وہ پریشان ہوئی۔وہ حرم ۔۔۔۔۔جینفر انگلیاں چٹخا رہی تھی۔"لگتی بالکل بھی نہیں ہو ایسی تم حرم بہت ڈرامے آتے تمہیں۔"ان کی کلاس کی ایک اور لڑکی بولی تھی۔اور اگلے دس منٹ میں پوری یونی میں آگ کی طرح جو خبر پھیلی تھی وہ حرم ریحان کے بارے میں تھی۔بلکہ بات کیا تھی واہیات کھیل تھا جو اس کے ساتھ کھیلا جا چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔

یوسی بارکلے میں جگہ جگہ حرم ریحان کے مختلف لڑکوں کے ساتھ پوسٹرز لگاۓ گئے تھے اور ایسی کمال ایڈیٹنگ کے حقیقت سے بڑی حقیقت محسوس پکچرز ایسی تھیں جن کو دیکھ کر حرم ششدر رہے گئی اور ساتھ لکھی گئی باتیں۔کیا سچ کا ساتھ دینے کا ،انصاف کا ساتھ   دینے کا اتنا بھیانک نتیجہ ہو سکتا ہے ۔وہ بس یہی سوچتی تھی۔وہ تصاویر کچھ حرم کی تھیں جن کو ایڈیٹ کیا گیا تھا اور کچھ فیک تھیں۔

کسی میں وہ جسی کے کندھے پہ سر رکھ کہ بیٹھی تھی تو کہیں ڈانس،ڈیٹنگ سٹائل میں لی جانے والی وہ پکس پاکستان کے مان کو بے امان کر گئی تھیں۔۔۔

وہ وہیں ٹوٹے  ہوۓ انداز میں دیوار کے ساتھ بیٹھتی گئی تھی مُردوں کی طرح۔۔۔۔۔۔

رش تھا کہ بڑھتا جاتا تھا۔کسی نے ولید کو خبر دی تھی اور وہ بھاگتا ہوا یو نی  پہنچا تھا ۔جا بجا لگے پوسٹررز اس باہمت لڑکے کو بے  ہمت کر رہے تھے۔کسی پہ لگا جھوٹا الزام جھوٹا ثابت ہونے تک جان لے لیتا ہے یہ بات ولید سے بہتر کون جانتا تھا۔

کردار اس بار وار کردار پر تھا اور کردار بھی اس لڑکی کا جو مثال بنی پھرتی تھی۔بھلا کردار کے بعد بھی کچھ بچتا ہے۔۔۔۔۔۔

یہ سب جھوٹ تھا ۔۔۔۔

یہ بات ولید جانتا تھا،حرم جانتی تھی،ان کے دوست جانتے تھے ،بیس پچیس اور لوگ جانتے تھے مگر!!!!!!!!!!

 سب نہیں جانتے تھے۔ 

وہ سر ہاتھوں میں گراۓ بیٹھ چکا تھا ۔مائیکل اور حسان اس قدر پریشان تھے کہ انہیں خود کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

پوسٹرز تعداد میں اتنے تھے کہ وہ سارا دن لگے رہتے پھر بھی اتار نہ پاتے اور بات تھی کہ پھیل چکی تھی۔

"بس کرو ولید اٹھو جو بھی ہے ان کو اتارنا تو پڑے گا ایسے ہمت مت ہارو"حسان اس کی لال ہوتی آنکھیں دیکھ کر بولا تھا۔ولید بنا کچھ کہہ اٹھ کھڑا ہوا تھا وہ پاگلوں کی طرح ایک ایک پوسٹر اتار رہا تھا۔یونی میں وہ بعد میں نپٹتا ابھی یہ معاملہ ضروری تھا۔بہت سے لڑکے لڑکیاں اس کے ساتھ شامل ہو چکے تھے۔

حرم ۔۔۔۔

"حرم کہاں ہے ولید"نور اس دیوانے ہوتے لڑکے کا کندھا ہلا کر بولی تھی۔اور ولید ابسن کے ہاتھ ساکت ہوۓ۔۔۔۔"کہاں ہے وہ"ولید میکانکی انداز میں بولا۔حرم وہ دوبا رہ بولا تھا اور اسے لگا وہ دوسری بار اپنی زندگی جھوٹ کی وجہ سے کھونے جا رہا تھا وہ ایک طرف بھاگا تھا۔اب دونوں کو نظر لگ چکی تھی یہ بات اس وقت وہاں کھڑا ہر شخص جانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اور یو سی بارکلے میں وہ دن اتنا سوگوار تھا کہ پرندے بھی نظر نہیں آتے تھے۔وہ اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا پھرتا تھا۔اس نے یونی کا چپہ چپہ چھان مارا ۔ وہ کہیں نہ تھی۔ وہ کہاں تھی یہ سوال ان سب کے دماغ میں تھا۔ ولید نے اپنا ہاتھ زور سے دیوار میں مارا تھا ۔

"ولید خود کو تکلیف مت دو وہ مل جاۓ گی۔"مائیکل جسے حسان نے بھیجا تھا اس کے پیچھے وہ سمجھا رہا تھا۔"میں اسے ہر بار کیوں کھو دیتا ہوں؟آخر کیوں؟میں اس کی حفاظت نہیں کر پایا مائیکل "آنسو اس کی آنکھوں سے گرتے ہوۓ شرٹ میں جزب ہوۓ۔ مائیکل کے دل کو کسی نے مٹھی میں لیا تھا وہ اس کے گلے لگ گیا تھا۔"ولید حرم کا پتہ چل گیا ہے"سہانہ اور بیلا بھاگتی ہوئی آئی تھیں ۔کہاں ہے وہ؟"ولید کو اپنی آواز کسی کنویں سے آتی محسوس ہوئی۔

ہاسپٹل۔۔۔۔۔۔

بیلا نے آہستہ سے کہا تھا اور ولید ابسن کو لگا اس کے پاؤں کے نیچے سے زمیم کھسک گئی ہے۔ بیلا ہاسپٹل کا نام بتا رہی تھی۔ وہ بھاگا۔ باقی سب بھی اس کے ساتھ تھے ۔ ہوا پہ سوار وہ ہاسپٹل پہنچا تھا۔اس کی حرم اتنی کمزور نہیں تھی کہ خود کشی کرتی مگر وہ اتنی مضبوط بھی نہیں تھی کہ سب کچھ برداشت کر جاتی۔ اس کے دماغ نے شدید اثر لیا تھا ۔نہ جانے کس نے اسے یونی میں گرے دیکھ کر ہاسپٹل پہنچایا تھا۔

ڈاکٹر بتا رہے تھے کہ اس کا نرویس سسٹم متاثر ہوا تھا ۔ اس کی حالت شدید خطرے میں تھی۔ "کیا اسے کچھ ہو جاۓ گا،"ولید نے خوف زدہ لہجے میں حسان سے پوچھا۔"دعا،ولید دعا کرو اس کے لیے اسے اس وقت یہاں اپنوں سے دور ہماری دعا کی ضرورت ہے۔"حسان خود آنسو چھپا رہا تھا اپنے۔ ابھی وہ بات کر ہی رہے تھے جب حسان کو فون بجا۔"حرم کے گھر سے کال ہے"تشویش سے وہ ولید کو بتا رہا تھا۔ "ان سے کہو وہ اپنی دوستوں کے ساتھ پکنک پہ گئی ہے اس فون ہاسٹل بھول گئی ہے ۔"ولید تو خا موش کھڑا تھا۔ بیلا نے ہی مشورہ دیا۔

"جی آنٹی وہ بالکل ٹھیک ہے آپ پریشان نہ ہوں سیل بھول گئی ہے بس"حسان سے جس قدر ہو سکتا تھا وہ لہجہ نارمل کر کے بتا رہا تھا۔ "میرا دل بیٹا نہ جانے کیوں گھبرا رہا پہلے وہ ہر روز کال کیا کرتی تھی آج اٹھا بھی نہیں رہی"سعدیہ کا لہجہ روہانسا تھا۔ حسان ان کو تسلی دے کر واپس آیا تھا۔ "ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ دعا کریں۔"ولید سر ہاتھوں میں گراۓ بیٹھا تھا۔"میں دعا نہیں کروں گا ،میں جب بھی دعا کرتا ہوں مجھ سے کچھ نہ کچھ چھین لیا جاتا ہے ۔ حرم اغوا ہوئی میں تب بھی دعا نہیں کی تھی میں نہیں کروں گا دعا"وہ حسان کے گلے لگ کر کسی بچے کی طرح رو رہا تھا۔ سسک رہا تھا۔ وہ جو اندر وجود پڑا تھا وہ اس کی کل کائنات تھا۔ اس کی کل کائنات داؤ پہ لگی تھی۔ 

"ہو سکتا ہے اس بار اللہ تمہاری سن لیں ولید۔"حسان نے اسے حوصلہ دیتے ہوۓ کہا۔حسان خود بھی دعا کر رہا تھا۔ کچھ نہ کچھ وہ اس کی بھی زمے داری تھی۔ اس کے بھروسے بھیجا گیا تھا حرم کو ۔ پھر نہ جانے کہاں سے اس کے ہاتھ صاف کپڑا لگا تھا جسے اس نے جائے نماز کی شکل دی تھی ٹوٹا پھوٹا وضو جو اسے آتا تھا،الگ جگہ پر وہ جائے نماز بچھاۓ خاموش بیٹھا تھا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ اور ہاتھ گود میں دھرے تھے ۔ نہ جانے شرمندگی تھی یا ڈر وہ ہاتھ اٹھا نہیں پا ر ہا تھا۔

                                       ****************

آج اس نے کالج سے چھٹی کی تھی سر بہت دکھ رہا تھا اوپر سے اصغر چچا کا رویہ وہ پریشان ہو جاتی تھی ان کی گھورتی شک بھری آنکھوں سے۔ وہ چائے بنا کر باہر لان میں آ گئی تھی۔ 

اور جہانگیر خان کی حویلی کے باہر کھڑی میرب کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ وہ اس جگہ کھڑی تھی،اس گھر میں قدم رکھنے والی تھی۔ اس نے ایک منٹ کھڑے ہو کر خود کو کمپوز کیا اور بیل بجا دی ۔ دروازی باوردی گارڈ نے کھولا تھا۔ وہ اسے لے کر سیدھا نورم کے پاس پہنچا۔

"ارے میرب آپ۔۔۔۔۔۔"نورم فورااً چائے کا کپ رکھ کر کھڑی ہوئی۔ "آپ نے تو آج چھٹی مار لی تو میں نے سوچا خود ہی آ جاؤں "اس کے ساتھ پڑی چئیر پہ بیٹھتے ہوئے کہا تھا اس نے۔ "آپ پچھلے تین دن سے نہیں آ رہی تھیں تو میں نے سوچا شاید آج بھی نہ آئیں آپ"میرب کو اس کا لہجا روٹھا ہوا معصومانہ لگا۔ سبز گھٹنوں تک آتی فراک کے ساتھ سنہری بال پونی میں جکڑے اس کے صاف گورے رنگ پہ آج ملاحت جھلک رہی تھی۔ ارمغان خان کسی حد تک کامیاب ہو تھا۔ "بس مصروف تھی میں پیاری لڑکی اس لیے"میرب نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔ پچھلے کافی دنوں سے وہ آئید میر کے سیکریٹس ڈھونڈنے میں لگی تھی مگر خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا تھا۔

"مجھے آپ سے ایک بات پوچھنا تھی؟"نورم نے جھجک کر کہا۔۔۔۔۔

"ہاں ضرور پوچھو،ملازمہ اسے بھی چائے دے گئی تھی اس بے کپ اٹھاتے یوۓ لبوں سے لگایا۔"آپ تو پیار کرتی تھیں نا کسی سے تو ۔۔۔۔۔۔۔"وہ خاموش ہو گئی تھی اتنا بول کر مگر میرب سمجھ گئی۔"تو کیا؟"اس نے مسکرا کر اس کی ڈھارس بندھائی۔"شادی کیوں نہیں کی آپ نے؟"بالاآخر اس نے جھجک کر پوچھ ہی لیا۔

میرب کی مسکراہٹ ایک پل کے لیے درد میں بدلی تھی مگر کامیاب پراسکیوٹر نے خود کو فوراًسمبھالا۔ "ضروری نہیں ہوتا کہ جس سے آپ پیار کریں اس سے آپ کی شادی بھی ہو نورم،ضروری یہ بھی نہیں ہوتا کہ آپ ساری زندگی روگ پالیں۔میری پاس میری محبت کی خوشبو مقید ہے جب تک میں اسے محسوس کروں گی میں خوش رہوں گی زندگی میں ایسے ہی"میرب نے اسے تفصیل سے بتایا تھا۔ "کیا آپ کہ فیملی کو اشو تھا؟"نورم نے بے تابی سے دوسرا سوال کیا ۔  اب وہ آہستہ آہستہ کھل رہی تھی اور یہی میرب سلطان چاہتی تھی۔"نہیں میری طرف سے کوئی اشو نہیں تھا بلکہ اسے تو میں نے کھل کر بتایا بھی نہیں کچھ"اب وہ مسکرا کر بولی تھی۔"

کیا!!!!!!!!!!؟ نورم کو جھٹکا لگا حیرت کا۔"ہاں کیونکہ میرا دل جانتا تھا کہ وہ سب جانتا تھا مگر اس نے ہمیشہ نظر یں چرائیں مجھ سے میرے پیار سے۔ مجھے اس سے محبت تھی ہے۔۔۔اسے مجھ سے نہیں تھی نہ ہے۔۔۔۔ میں اپنے بابا کا فخر ہوں ، غرور ہوں۔ میں وہ نہیں توڑ سکتی تھی۔ پتہ ہے نورم لوگ محبت کو برا کیوں سمجھتے ہیں آج کل؟"اس نے سوال کیا۔"کیوں؟"نورم دم سادھے اسے سن رہی تھی۔ کیونکہ ہم نے محبت کو برا بنا دیا ہے۔۔۔۔ اس نے آرام سے کہا۔ لڑکیاں بھاگ جاتی ہیں رسوا کون؟،محبت،خودکشی کر لو،رسو کون ؟محبت،ماں باپ کا سر جھکاؤ،رسو کون ؟محبت۔۔۔۔محبت تو بہت عزت دار جزبہ ہے جسے ہم گلی کوچوں میں بے عزت کرتے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔"میرب نے ایک دنیا دیکھی تھی ۔ اس کی باتیں ایسی تھیں کہ نورم کو لگا کوئی اسے آئینہ دیکھا رہا ہو۔وہ معصوم تھی مگر بیوقوف بھی بنتی تھی اور اسے احساس نہیں تھا۔ وہ میرب سلطان تھی جس نے اسے آج پہلا احساس دلایا تھا۔ "میں محبت کو بدنام نہیں ہونے دوں گی"اس نے دل میں ارادہ کیا اور وقت بھی بہت جلدی آیا تھا اسے پرکھنے کا اسی رات۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسٹڈی ٹیبل پر بیـٹھی کتاب پڑھ تھی جب اسے احساس ہوا کوئی اس کے پاس بیٹھا ہے۔ "امی آپ۔۔۔۔ وہ خو ش ہوئی۔ ارمغان کا خیال غلط تھا کہ وہ بچ گئی تھی وہ اس دلدل میں دھنستی جا رہی تھی جہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا۔وہ باتیں کر رہی تھی اور کھڑکی سے اندر آتے آئید میر کا دل پاش پاش ہوا تھا اس کی حالت پر۔وہ آرام سے کمرے میں داخل ہو کر اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا تھا۔نورم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہے گئیں ۔ اسے یاد تھا اس نے ساری کھڑکیاں اچھے سے بند کی تھیں۔اتنے دن بعد اسے دیکھ کر وہ سب بھولنے لگی تھی۔ مگر جلدی خود کو سمجھایا۔"آپ کیوں آئے ہیں یہاں خدا کے لیے چلے جائیں "اس کے آنسو پلکوں سے ٹوٹتے ہوئے نیچے گرتے تھے۔ آئید میر کے دل کو دھکا لگا۔ ایک وقت وہ تھا وہ اس کو دیکھ کر گلاب کی طرح کھل اٹھتی تھی اور آج۔۔۔۔۔

"میں آپ سے پیار کرتی ہوں بہت کرتی ہوں مگر میں محبت کو بدنام نہیں ہونے دینا چاہتی مجھ پہ رحم کریں"بنا اسے بولنے کا موقع دئیے وہ شروع تھی۔ "اور یہ محبت کی بد نامی کا سبق آپ کو کون پڑھا رہا ہے آج کل کیا میں جان سکتا ہوں؟"دونوں بازو سینے پہ باندھے بڑھی ہو شیو میں وہ اس قدر خوبصورت لہجے میں سوال کر رہا تھا کہ نورم کو سارے سبق بھولنے لگے۔"میرب آپی"وہ معصومانہ لہجے میں بولی۔ آئید میر نے بہت مشکل سے مسکان چھپائی تھی۔لیکن اس کا دل کیا تھا کہ ایک بار میرب محترمہ کو تو سبق سکھائے

"اچھا تو آج کل وہ آپ کی ہمدر اول بنی ہوئی ہیں"اس نے نورم کی اسٹڈی ٹیبل پر پڑا کوفی کا ادھ چھوڑا مگ اٹھا کر ہونٹوں سے لگایا تھا۔ نورم کو لگا اس کا دل دھک دھک کر رہا ہو،"میں آپ کے لیے اور لے آتی ہوں ،اس نے جھجک کر کہا،"۔"نہیں مجھے یہ ہی پینی ہے۔"اور ارمغان نے یہ بات دل سے کی تھی ۔ایک بار اس کا دل کیا وہ ارمغان اور میرب کو پول کھول دے مگر پھر خاموش ہو گیا کچھ سوچ کر۔

                                   ****************

اس نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے۔ خوف تھا،شرم یا بے یقینی مگر وہ چپ چاپ بیٹھا رہا تھا بنا کچھ بولے۔ تبھی حسان بھاگتاہوا آیا۔ "ولید حرم کو ہوش آ گیا ہے"وہ خوشی سے بھر ہور لہجے میں بتا رہا تھا۔ولید نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا"اسے ہوش آ گیا وہ ٹھیک ہے نا حسان اسے کچھ نہیں ہوا نا!"وہ حسان سے سوال کر رہا تھا ڈرے ہوئے لہجے میں۔"ہاں وہ بالکل ٹھیک ہے تم آؤ اس نے بلایا ہے تمہیں۔"حرم بے ولید کو بلایا تھا۔ ہوش آنے پر سب سے پہلے ۔ وہ بنا جوتا پہنے بھاگا تھا۔ 

وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا حرم کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا ۔ اور حرم کا بھیگتا ہاتھ صاف بتا رہا تھا سامنے بیٹھا وہ شہزادوں جیسا لڑکا زارو قطار رو رہا تھا۔ "میں نے سنا تھا جب کوئی مرد کسی عورت کے لیے روتا ہے اس کی محبت پہ شک نہیں کرنا چاہیۓ کبھی ۔بس آج کے بعد تم فری ہو کوئی شک نہیں مجھے"وہ نقاہت سے مسکرا کر کہہ رہی تھی۔ ولید نے چاہا وہ اس کا چہرہ دیکھے مگر وہ دیکھ نہیں سکا تھا۔ "یہ سب میری وجہ سے ہوا حرم اس نے میرا بدلہ تم سے لیا"ولید کے آنسو حرم کی شفاف ہتھیلیوں سے بہتے اس کے بازو تک جا رہے تھے۔ وہ اس کا ہاتھ لبوں سے لگائے بیٹھا تھا۔ "لوگ ولید ابسن کے بدلے حرم ریحان سے لیتے ہیں کس قدر خوبصورت احساس نے یے محبت کا یہ ولید"اس نے اپنی سیاہ آنکھیں ولید پہ جمائیں وہ ششدر رہ گیا تھا۔وہ بہت کم اظہار کرتی تھی مگر جب بھی کرتی تھی وہ مسحور ہو جایا کرتا تھا۔"حرم۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ کہتے ہوۓ رک گیا۔"حرم ۔۔۔۔۔ حرم نام ہے میرا ولید تمہیں پتہ ہے اس کا مطلب۔"وہ بہت دکھ سے بولی تھی ولید ابسن کا بس نہیں چلتا تھا وہ سامنے بیٹھی لڑکی کی زندگی سے وہ لمحات نکال دے۔ "حرم،یعنی پاک،نیک،عزت دار، "وہ دیوار پہ نظر جما کر بولی تھی۔" میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا حرم خدا کے لیے ایسا مت سوچو۔ تم ابھی ولید ابسن کو جانتی نہیں ہو۔" وہ اس یوں دیکھ کے کرب سے بولا۔"میں روئی نہیں ہوں ولید میں رونا نہیں چاہتی میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی ۔ مگر یہ حرم ریحان کی عزت وقار کا سوال ہے میں تم سے ایک موقع مانگوں گی اگر میں نے اس کو منہ کے بل نہ گرایا تو تم اسے جان سے مار دینا۔مگر ایک بار حرم ریحان کو اپنا آپ آزمانے دو"۔حرم کی آنکھوں میں مصمم ارادہ تھا خود پہ یقین تھا ولید نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر اسے آنکھوں سے کہا تھا"میں تمہارے ساتھ ہوں اٹھو حرم ریحان جیکسن کا منہ توڑ دو"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیلفورنیا میں ایک نئی تاریخ لکھی جانی تھی اس بار حرم ریحان کے ہاتھوں سے اور یہ بات وقت کا گزرتا ہر پل جانتا تھا۔ ہر چیز پہ کمپرومائز کیا جا سکتا تھا کردار پہ نہیں بات حرم ریحان کے کردار کی تھی ۔۔۔۔۔

                                   ******************

ہاتھ دیا اُس نے میرے ہاتھ میں۔۔

میں تو ولی بن گیا اک رات میں۔۔

عشق کرو گے تو کماؤ گے نام،

تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں۔۔

عشق بری شئے سہی پر دوستو،

دخل نہ دو تم میری ہر بات میں۔۔

مجھ پہ توجہ ہے سب آفات کی،

کوئی کشش تو ہے میری ذات میں۔۔

رہنما  تھا  میرا  اک  سامری،

کھو گیا میں شہرِ طلسمات میں۔۔

مجھ کو لگا عام سا اک آدمی،

آیا وہ جب کام کے اوقات میں۔۔

شام کی گُل رنگ ہوا کیا چلی،

درد  مہکنے  لگا  جذبات  میں۔۔

ہاتھ میں کاغذ کی لئے چھتریاں،

گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں۔۔

ربط  بڑھایا  نہ  قتیل  اس  لئے،

فرق تھا دونوں کے خیالات میں۔۔

۔۔۔

قتیل شفائی

 ایک محبت کی آفت کیا کم تھی جو وہ چھوٹی سی لڑکی اور ہزار محبتوں میں گھری نظر آ رہی تھی۔ وہ اس سے بحث نہیں کرنا چاہتی تھی مگر آئید میر اسے مجبور کر رہا تھا بولنے پہ۔ "کس سے باتیں کر رہی تھیں تم میرے آنے پہ۔"اب وہ اس کی طرف غور سے دیکھ کر بولا تھا۔ "مم میں کسی سے نہیں"نورم خوف سے دو قدم پیچھے ہوئی۔"اب تم مجھ سے جھوٹ بھی بولو گی کیا؟"وہ اس کے قرب آ کر بولا۔ نورم کا دل دھک دھک کر رہا تھا یہ پہلی بار تھا کہ اسے لگا اس کے علاوہ بھی کمرے میں کوئی ہے ۔ "پلیز آپ وہاں بیٹھ جائیں"وہ سراسیمہ ہو کر بولی۔ 

"کیوں؟"آئید میر نے قدم اور آگے بڑھائے۔ وہ اس سے سچ اگلوانا جانتا تھا شاید آئید میر ہی اس سے سچ اگلوانا جانتا تھا بس۔ عشق کی ماری وہ پجارن تکھنے لگی تھی اس کی پیش قدمی سے ۔ "آپ رک جائیں میر میں بتاتی ہوں،"وہ دیوار کے ساتھ لگ چکی تھی ہمیشہ کی طرح اس کے سنہری بالوں میں سے کچھ بال ماتھے سے ٹھوڑی تک آگرے تھے۔ اور یہ وہ منظر تھا جہاں آئید میر بے بس ہو جایا کرتا تھا۔ وہ بدلے ،نفرت سب بھولنے لگتا تھا نظر آتی  تھی تو بس نورم اور اس کی معصومیت۔۔۔۔۔ 

"ہاں بولو شاباش،"وہ خود کو کمپوز کرتا بولا تھا۔ "امی سے،"وہ ڈر سے کانپ رہی تھی ۔ اب وہ بھی اسے پاگل سجھے گا۔ اب وہ بھی ہنسے گا۔ اب وہ بھی اس اے دور ہو جائے گا۔ "اوہ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بہت سکون سے بولا۔ "ادھر آ کر بیٹھ جاؤ۔ "آئید میر کو اس کا کانپتا وجود صاف نظر آ رہا تھا اس لیے وہ خود کافی دور ہو گیا تھا اس سے۔ وہ اسے بولتا ہوا سننا چاہتا تھا۔ "امی وہ آتی ہیں سچ میں میر"اس کی سبز آنکھوں میں پانی چمکا۔ آئید میر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔"مگر وہ تو مر چکی ہیں نا تمہارے مطابق۔۔۔۔"وہ ٹھنڈے لہجے میں زہر اگل رہا تھا۔ "ہاں مجھے پتہ ہے شاید ان کی روح۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ کہہ کر چپ ہوئی۔ "بکواس بند کرو نورم" وہ زور سے دھاڑا اتنا کہ نورم نے بھاگ کر اس کے لبوں پہ اپنا نازک ہاتھ رکھ دیا تھا۔آئید میر کا سانس رکا تھا اس قریب اتنا قریب پا کر۔"آپ سب کو جگا دیں گے کیا"وہ روہانسی ہو کر پیچھے ہوئی۔ آئید میر خا موش ہو گیا تھا۔ 

"میرا یقین کریں میں سچ کہہ رہی ہوں"وہ امی ہیں وہ مجھ سے باتیں کرتی ہیں۔" کس قدر معصوم تھی نورم ۔۔۔۔ کس قدر سنگدل تھا آ ئید میر تقدید کو بھی ترس آیا تھا۔ اور آئید میر اسے لگا سامنے کھڑی لڑکی موت کی طرف جا رہی تھی اسے اپنوں کی لا پرواہی اور آئید میر کی محبت نے دماغی طور پر ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت آئید میر سب بھولا۔۔۔۔ہر چیز فرا موش ہوئی ۔۔۔۔ سب کچھ پیچھے رہے گیا۔۔۔۔۔ وہ اسے پکڑ کر بیڈ تک لایا۔اسے بٹھایا خود اس کے گھٹنوں کہ پاس آ بیٹھا۔"تمہاری امی کی روح تم سے بات نہیں کر سکتی نورم ۔۔۔۔"وہ کس قدر عزیت اور یقین سے بولا تھا۔ مگر کیوں؟"نورم نے سوال کیا۔۔۔۔

کیونکہ روح بننے سے پہلے مرنا ضروری ہوتا ہے تمہاری امی زندہ ہیں ۔۔۔۔۔۔

وہ سر جھکا کر بولا ۔ سرخ آنکھوں سے لگا خون ٹپک رہا ہو۔ نورم اٹھ کر فرش پہ اس کے پاس آ بیٹھی۔ وہ دونوں ٹھنڈے فرش پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ایک راز سے پردہ فاش ہونے والا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں خانوں کی اونچی حویلی میں ایک دوسرے کے سامنے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ نورم جو چپ نہیں ہوتی تھی اس پل وہ ساکت تھی۔ اس قدر کے مردہ کا گمان ہوتا تھا۔ اس کی وہ ہی حالت تھی جو ایک زندہ انسان قبر کے دہانے کھڑا موت کے انتظار میں ہو اور اسے زندگی کی نوید سنائی دے۔ اور ایک آئید میر تھا جو پتھر بنا پھرتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو نورم کو پاگل کر رہے تھے۔ وہ سسک رہا تھا اس کے سامنے اس کے بے انتہا وجیہہ چہرے پہ آنسو ٹوٹ کے بکھر رہے تھے۔ کون جانتا تھا وہ مضبوط نظر آنے والا مرد اندر سے کس قدر کمزور تھا۔ 

"امی زندہ ہیں کیا؟"نورم نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔ وہ خاموش بیٹھا رہا سر جھکائے۔"میر بتائیں نا۔۔۔۔۔۔؟"وہ اب بے تاب ہوئی۔ میر کیا بتاتا وہ خود آنسو قابو  کرنے میں لگا تھا۔ "خدا کے لیے میر خاموش مت رہیں آپ کو خدا کا واسطہ ہے "نورم نے آگے بڑھ کے اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے کر منت آمیز لہجے میں کہا تھا۔

یہ وہ لڑکی تھی جسے آئید میر نے بس تکلیفیں دی تھیں کیا تھا جو آج زندگی کی سب سے بڑی خوشی دے دیتا۔اسے نورم پہ ترس آیا۔ سامنے بیٹھی لڑکی کوئی غیر نہیں تھی اس کے لیے یہ بات اس کا دل جانتا تھا۔ "ہاں زندہ ہیں وہ بالکل زندہ سلامت"آئید میر نے سرخ آنکھیں اٹھا کر اسے بتایا ۔ اور نورم اس کی سبز آنکھیں گویا پھٹی ہوئی لگتی تھیں۔ انیس سال سے وہ جس عورت کو مرا ہوا سمجھ کر روتی رہی تھی وہ زندہ تھی۔۔۔۔ اس کی ماں زندہ تھی۔۔۔۔ وہ آئید میر کا چہرہ ٹکر ٹکر دیکھتی جاتی تھی۔ اور یہ وہ رات تھی یہ وہ پل تھا جب آئید میر ریحان نے دل سے اقرار کیا تھا وہ سامنے بیٹھی لڑکے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، وہ اس کے دل کے کسی کونے میں اپنا عکس پختہ کر چکی تھی۔سامنے بیٹھی لڑکی اس سے بہت چھوٹی تھی کم سے کم دس سال مگر آئید میر نے آج دل سے مانا وہ اس کا دل قبضے میں کر چکی تھی۔ وہ خاموش اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔"میں آئید میر ریحان تم سے وعدہ کرتا ہوں جلدی ان سے ملواؤں گا مگر اس سے پہلے مجھے میرا مقصد پانا ہو گا۔"یکد م اس کی آنکھوں میں وحشتیں اتری تھیں۔ کب ملوائیں گے؟"نورم کو زندگی دکھا کر وہ انتظار کا کہہ رہا تھا۔ "بہت جلدی مجھ پہ بھروسہ کرو۔"آئید میر نے ایک وعدہ کیا تھا اور سامنے والی نے دل و جان سے قبول کیا تھا۔ 

کافی دیر لگی تھی نورم کو نارمل ہونے میں ۔ آئید میر وہیں ٹھہرا رہا اس کی خاطر۔ "تو کیا اب بھی میری نورم روحوں سے باتیں کرے گی۔ وہ شرارت سے اس کی ناک دبا کر بولا۔ "میری"۔۔۔۔۔۔ نورم نے دل میں دہرایا۔ اس نے ایسا پہلی بار کہا تھا۔  اور نورم کو لفظ میری اس پل خاص لگا"نہیں اب نہیں۔"آئید میر کو حیرت ہوئی وہ اس قدر اعتماد سے بولی تھی۔

اور اس حویلی سے جاتے ہوئے آئید میر وہ کام کر چکا تھا کچھ پل میں جو ارمغان خان کب سے کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ نورم جہانگیر کو ایک پل میں سب اذیتوں سے نکال کر جا رہا تھا۔ اور جاتے ہوئے اس نے نورم کو جن نظروں سے دیکھا تھا وہ بھول نہیں پا رہی تھی ۔ نورم کا رواں رواں اس کے لیے دعا گو تھا۔مگر کچھ دعائیں راستوں سے ہی پلٹ آیا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔

                                   ****************

حرم کی ضد تھی کہ وہ ہاسپٹل سے واپس جانا چاہتی ہے تو بھلا کون آ سکتا تھا حرم اور اس کی ضد کے درمیاں۔ واپس ہاسٹل آ کر اس نے پہلا کام جو کیا تھا وہ ایک لسٹ تھی ۔اس میں جیکسن کے بارے میں اسے جتنا معلوم تھا اس نے لکھ ڈالا۔ "کشف یہ لو کاغذ پینسل "حرم اب ان سب کے پاس آئی کھڑی تھی۔ "کیا کروں اس کا؟"ان سب کو اس کی حالت ٹھیک نہیں لگتی تھی۔ "اس میں وہ سب لکھو جو جیکسن کے بارے میں تم جانتی ہو۔"وہ اطمینان سے کہہ رہی تھی۔ اور کشف کے بعد باقی سب سے بھی لکھوا چکی تھی۔ رات کے 12 بجے تھے جب ولید کا فون گنگنا اٹھا۔ جب سے حرم اس کی زندگی میں آئی تھی اس نے موبائل کو سائلنٹ پہ رکھنا چھوڑ دیا تھا۔ پہلی بیل پر ہی کال پک ہو چکی تھی۔ "فوراً پہنچو میرے پاس۔"حرم نے حکم دیا۔ اور وہ جانتا تھا اسے کہاں پہنچنا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ یوسی بارکلے سے کچھ دور سنسان روڈ پہ بیٹھے تھے۔ اس نے ولید کو بھی وہ ہی کہا تھا اور اس بے پل کے پل صفحہ کالا کر دیا ۔ اور یہی کالے کرتوت تھے جیکسن کے۔ وہ  سب جانتا تھا یہ بات حرم جانتی تھی اس لیے اب وہ اطمینان سے مسکرائی۔ "مجھے ہمیشہ ساتھ محسوس کرنا ،دل کرے تو اس کے جبڑے توڑ دینا ،ذیادہ موڈ بنے تو اس کی وہسکی میں زہر بھی ملا سکتی ہو۔ ولید ابسن سب کو دیکھ لے گا۔"وہ اطمیان سے بول رہا تھا۔ اور اگر وہ نہ بھی بتاتا تو حرم جانتی تھی وہ سب کو دیکھ لے گا ۔ ولید نے پوچھا نہیں تھا کہ حرم تم کیا کرو گی وہ جانتا تھا وہ جو بھی کرے گی ٹھیک کرے گی اور کچھ غلط کر بھی دیا تو وہ ٹھیک کر لے گا ۔ اور حرم نے بتایا نہیں تھا وہ کیا کرنے والی ہے اس پتہ تھا ولید ابسن اسے کبھی غلط نہیں سمجھے گا چاہے وہ غلط ہی کر کے آ جائے۔ کچھ ایسا ہی تھا ان کی محبت میں اعتماد،یقین،بھروسہ۔ ایسا عشق تھا کہ نظر اتارنا فرض ہو جاتا تھا۔ 

"حرم" وہ مسکرا کر بولا۔ جی ولید صاحب ،وہ جواب میں  کچھ سمجھ کے مسکرائی۔" سامنے دیکھو۔"اب وہ ہاتھ جھاڑتا کھڑا ہوا۔ خالی روڈ ۔۔۔رات کا سناٹا۔۔۔۔ اور وہ دونوں۔۔۔۔ حرم مسکرا دی۔

" بھاگو۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے آگے تھے اور حرم پیچھے۔۔۔۔ ریس لگ چکی تھی۔ وہ ہنستا جاتا تھا بھاگتے ہوئے اور حرم کے قہہقے اس کے پیچھے تھے۔ "جیکسن ایک کمینہ انسان ہے"۔۔۔۔ ولید زور سے بھاگ کر بولا۔ "جیکسن۔۔۔۔کا بچہ ہے۔۔۔۔"حرم اور زور سے چلائی۔ اب وہ اس کے برابر بھا گ رہی تھی۔ ولید جیکسن کی شان میں ایک لفظ بولتا تھا اور حرم بھڑا س نکالتی تھی۔ وہ بول رہے تھے اور بھاگ رہے تھے۔ اس دنیا میں کوئی نہیں تھا جو حرم ریحان کو ولید ابسن سے بہتر جان سکتا وہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا کر گیا تھا کمال کر گیا تھا۔ اور یوسی بارکلے میں اس کی ہیوی بائیک سے اترتے ہوئے وہ اتنی ہلکی پھلکی تھی کہ اب وہ جیکسن کو اچھے سے سمبھال سکتی تھی۔ "سنو ہیرو"

وہ جا رہا تھا جب حرم بے پکارا۔۔۔ وہ فورا پلٹا۔ "سنائیں مادام"،وہ کورنش بجا لایا۔" میرا حوصلہ بن کے میرے ساتھ رہنا"اس کی سیاہ آنکھوں میں کہیں پانی جھلکا۔ "تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا تو سارے حوصلے کھو دوں گا۔ "بہت سادگی سے بہت خوبصورت لہجے سے جواب دیا گیا تھا۔ "اچھے ہو تم"وہ آج مہربان نظر آئی۔ "مجھ میں اچھائی حرم ریحان کے ہونے سے ہے"وہ جو اس نے کہا تھا وہی تو حرم سننا چاہتی تھی  ۔ دونوں دو قدم کے فاصلے پہ کھڑے تھے۔ کل یونی نہیں جاؤں گی میں۔ حرم نے بتا کر قدم آگے بڑھا دئیے اور ولید ابسن جانتا تھا اسے کیا کرنا ہے کل۔۔۔۔۔۔۔

                                           ********************

کیلفورنیا میں دیکھیں تو بلیک ڈریس میں ملبوس وہ لڑکی اپنے سامنے بڑا سارا چارٹ لیے بیٹھی ہے۔ کمر تک آتے بال بے ترتیب جوڑے میں بندھے ہیں اور مارکر لیے وہ کچھ پوائنٹ مارک کرتی جا رہی ہے۔سیاہ آنکھوں میں رت جگا صاف نظر آتا ہے۔  سارا کمرا خالی ہے۔ وہ اکیلی وہاں نظر آتی ہے۔اور کچھ تصویریں۔  وہ لڑکی ہے ولید کی حرم ریحان۔۔۔۔۔

وہاں سے کچھ دور اوور کوٹ میں ملبوس بال نفاست سے جمائے آنکھوں پہ خوبصورت گلاسز لگائے  بہت ہینڈسم سا لڑکا اپنے سامنے اخبار پھیلائے چائے کا کپ سامنے لیے کیفے ٹیریا میں نظر آتا ہے۔ اس کی نظریں اخبار پہ کم اور سامنے والی سڑک پر زیادہ ہیں۔ حرم کا ولید ابسن۔۔۔۔۔

اور ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ نظر آ ئی۔ جینز پہ کالی گھٹنوں تک آتی شرٹ پہنے کوٹ بازو پہ ڈالے اس کے بازو پہ لانگ سٹریپ والا بیگ تھا۔ ولید نے اسے تھوڑا آگے جاتا دیکھا اور خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔ وہ خاموشی سے چلتی ہوئی نسبتا ایک بوسیدہ گھر میں داخل ہوئی۔

"زینب اگر آپ میرا ساتھ نہیں دو گی تو یہ انگریز میرا کیا ساتھ دیں گے۔بات میری ایک کی نہیں ہو رہی بات سب لڑکیوں کی ہے،سب کی عزت کی ہے۔"وہ اس گھر میں بیٹھی جس لڑکی کے ساتھ بحث کر رہی تھی وہ جیکسن کے ستائے ہوئے لوگوں میں نمبر ایک پر آتی تھی۔ "لیکن وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا ،گھر میں بس مَیں ،چھوٹا بھائی اور امی ہوتے ہیں۔ "وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی۔"میں نے سنا ہے تمہارے پاس اس کی کالز اس کی تصاویر اور اس کے کالے کرتو توں کی لسٹ ہے؟"حرم نے استسفار کیا۔ "ہاں جب اس نے مجھے محبت کے نام پر استعمال کیا ،مجھے اکیلا چھوڑ دیا اور جب میں اس کے پاس گئی اس کے گھر اس نے مجھے دھکے مار کر نکالا۔ ان دنوں میں بہت پریشان تھی اس لیے میں نے دن رات کر کے اس کے خلاف سب اکھٹا کیا ،مگر اسے پتہ چل گیا اور اس نے ہمارے گھر پہ حملہ کروایا اس کے بعد میں۔۔۔۔۔"وہ بات ادھوری چھوڑ کے سسک اٹھی۔ حرم نے اسے گلے لگایا ۔ "میں تم سے وعدہ کرتی ہوں وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،وہ بہادر اس لیے بنا کیونکہ تم لوگ کمزور پڑتے گئے ۔ مگر اب ایسا نہیں ہو گا اس بار اس کا واسطہ حرم ریحان سے پڑا ہے۔"اس کے لہجے میں مصمم ارادہ بولا۔ 

تبھی باہر کھڑا ولید بھی اندر آ گیا تھا۔ "اگر آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کو نقصان دے سکتا اپنی دولت سے تو میں آپ کو یقین دلا دیتا ہوں کہ پیسا اس سے ذیادہ ہے میرے پاس بس آپ کی ہمت چاہئے ہمیں۔"وہ حرم کے ساتھ بیٹھا اسے سمجھا رہا تھا۔ اور تب حرم نے دیکھا وہ چودہ پندرہ سال کا لڑکا بڑا سارا پیکٹ اس کے سامنے اٹھا لایا۔ "یہ اس میں اس کے خلاف سارے ثبوت ہیں آپا آپ کا ساتھ دیں یا نہ دیں میں آپ کے ساتھ ہوں"اس کی سرخ آنکھیں بتاتی تھیں کہ وہ کیا کچھ برداشت کر چکا ہے۔ اور پھر طے ہو گیا کہ وہ ٹیم بن گئے ہیں۔ اور حرم کے ساتھ باہر چلتے ہوئے ولید نے کال ملائی۔ "چشم بدور آج کا دن ہم تاریخ میں یاد رکھیں گے۔۔۔۔ہمارے پدر عزیز بے ہمیں فون کیا" ہاشم خان کی آواز گونجی۔"مجھے ایک فیملی کو  ہر لحاظ سے سپورٹ کرنا ہے  میں نے آپ کو تفصیل ٹیکسٹ کر دی ہے"اس نے بس اتنا کہہ کر فون کاٹ دیا۔ حرم سامنے آتی بس پہ سوار ہو گئی تھی۔ دونوں کا رخ مختلف اطراف میں تھا مگر ارادے ایک تھے۔

"حرم مجھ سے ملو بہت بڑی خبر میرے اور مائیکل کے ہاتھ لگی ہے" جینفر کا فون اس نے سن کر رخ یونی کی طرف کیا تھا۔ "کیا تم لوگوں کو یقین ہے اس بات کا"وہ پر جوش ہوئی۔ "ہاں یقین ہے حرم اس نے یونی سے پیپرز چرائے تھے اور یہ بات کیمرا نے بہت اچھے سے نوٹ کی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ یونی کے اس عملے کو خرید چکا تھا جو صفائی اور کیمر ے وغیرہ پہ تھے اس وقت انہوں نے ہی یہ سب دیکھا۔"مائیکل اسے ایک ایک بات بتا رہا تھا۔

اور کچھ دیر بعد وہ سب لوگ پورا گروپ سر جوڑے بیٹھا تھا انہیں یہ ویڈیو چاہیۓ تھی۔ کسی بھی حال میں جیسے بھی وہ ترپ کا پتا تھا جو ان کے ہاتھ لگا تھا۔ "ولید۔۔۔۔ وہ کر سکتا ہے اسے بلاؤ"حسان نے سوچ کر کہا۔ "نہیں وہ بزی ہے میں اور کشف بھی کر سکتے ہیں کیوں کشف ؟"اس نے مسکرا کر کشف کو دیکھا،"ہاں کیوں نہیں "کشف بھی مسکرا دی۔ "ایک بات ہے۔۔۔۔۔۔"مائیکل سر جھکا کر بولا۔

کیا؟"سب نے فورا دیکھا۔ وہ جو کیمرا میں نے ڈی سوزا اس نے مجھ سے پیسے لے کر ایک لڑکے اور لڑکی کی ویڈیو مجھے بیچی تھی۔ وہ سر جھکائے بول رہا تھا۔ بات حرم کی تھی جو اس کی دوست تھی اور اب بھابی بھی وہ کیسے اس کی مدد نہ کرتا۔ "مگر کیوں ؟"تم نے کیا کی ویڈیو؟"حسان اور سہانا نے ایک آواز میں پوچھا۔۔۔۔ اف دھیرج ۔۔۔۔ وہ لڑکا مجھے بہت تنگ کرتا تھا میں جس لڑکی کے ساتھ نظر آتا وہ میرا بریک اپ کروا دیتا تھا اور کوئی زیادہ بھی نہیں تھا کچھ ویڈیو میں بس۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتا حسان نے ایک دھموکا جڑا اسے۔ کشف اور حرم کو سراغ ملا تھا راستے سے راستہ نکل رہا تھا۔ 

اور کچھ دیر بعد وہ کیمرا مین کے سامنے بیٹھی تھیں۔ "آپ کی جاب ختم ہونے والی ہے تو ہم نے سوچا آپ سے جا کر مل آئیں آخر آپ کو کافی عرصہ دیکھا ہے ہم نے۔۔۔۔"کشف ایسے افسوس کر رہی تھی جیسے اس کو واقع بہت دکھ ہو۔"کیا مطلب ؟کونسی جاب کیا کہہ رہی آپ؟"ڈی سوزا کا پہلے سے سرخ چہرہ اور سرخ ہوا۔ میں بتاتی ہوں مسٹر ڈی سوزا۔۔۔۔اور پھر جو حرم بے بتایا اس کا چہرہ سیاہ پڑتا گیا۔

"کیا چاہتی ہیں آپ؟"وہ گھبرا گیا تھا اور یہ چیز وہ چاہتی تھیں۔" جیکسن کی پیپرز چوری کرنے والی ویڈیو۔"دونوں سکون سے بولیں۔ "کونسی ویڈیو میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ڈی سوزا جلدی سے بولا۔ مگر سامنے بھی حرم ریحان تھی پاکستانی کام کیسے نکلوانا ہے اسے وراثت میں ملا تھا۔ "وہ لڑکا ،لڑکی،ان کے خاندان،یونی کی اتنظامیہ کشف زرا گن کے بتانا کتنے ہوئے سب لوگ۔"ماتھے سے بال ہٹاتی ہو پر سوچ لہجے میں بولی تھی۔ بہت زیادہ اور ایک طرف بس جیکسن ۔۔۔۔:کشف بے افسردگی سے کہا۔ڈی سوزا بے بس ہو گیا تھا اس کے پاس راستہ صاف تھا ویڈیو اس نے نکال کر ان کے تھما دی تھی۔ 

حرم کا چہرہ چمک اٹھا۔ کل جو کچھ ہونے والا تھا وہ یاد رکھا جاتا۔

                                          *************

سنو لوگو

میری آنکھیں خریدو گے

بہت مجبور حالت میں

مجھے نیلام کرنی ہیں

کوئی مجھ سے نقد لے لے

میں تھوڑے دام لے لوں گا

جو پہلی بولی دے دے بس

اُسی کے نام کر دوں گا

مجھے بازار والے کہہ رہے ہیں

کم عقل تاجر

ارے لوگوں، سنو

نہیں میں حرص کا خواہاں

نفع نقصان کی شطرنج نہیں میں کھیلنے آیا

کوئی مجھ کو کہے نہ منچلا سا بے ہنر تاجر

بتا پاؤں کس طرح

کس تشویش میں ہوں میں

سنو لوگوں

بڑی محبوب ہیں مجھ کو

میری یہ نیم تر آنکھیں

مگر اب بیچتا ہوں کہ

مجھے ایک خواب کا تاوان بھرنا ہے

انہیں نیلام کرنا ہے

                                                                                       coppioed.

 آئید میر جب سے نورم سے مل کر آیا تھا اس کا دل بے چین تھا۔ کچھ انہونی ہونے کا احساس اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ وہ آفس میں بیٹھا نورم کے بارے سوچ رہا تھا جب اس کے فون کی بیل بجی۔ "ہاں علی بولو۔"وہ اب غور سے سن رہا تھا۔ اچھا کیا نام ہے جو میرے بارے معلومات اکٹھی کر رہے۔ اس نے مسکرا کر پوچھا۔ میرب سلطان وہ سن کر زیر لب مسکرایا۔ اس کا راستہ صاف کرو کچھ تو ان کو بھی پتہ چلنا چاہیۓ۔ اس نے کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔ سوچ ابھی بھی ظہار خان میں اس حویلی کی طرف تھی جس میں وہ جوگن بستی تھی۔ 

اور جہانگیر خان حویلی میں اس بڑے کمرے میں بند کچھ فیصلے ہو رہے تھے۔ اصغر خان،جہانگیر خان اور دو قریبی ملازم جو بازو تھے ۔ 

تھوڑی دیر بعد جہانگیر خان بی جان کے کمرے کی طرف بڑھے۔ ارمغان کسی کام کے لیے آسٹریلیا گیا ہوا تھا۔ یہ ہی اچھا موقع تھا ان کے لیے۔ 

"کل کچھ لوگ نورم کو دیکھنے آ رہے ہیں بات تو سمجھیں طے ہو چکی ہے نس رسم ہی ادا کرنی ہے آپ اسے بتا دیں"جہانگیر خان اپنی شال درست کرتے بی جان کو بتا رہے تھے۔ بی جان خاموش تھیں شاید یہی بہتر تھا ان کو بھی لگا۔۔۔۔ 

تھوڑی دیر میں ملازمین کے درمیان کھلبلی مچ گئی تھی ان کی پیاری سی نورم کا رشتہ طے ہونے والا تھا۔ بی جان نے آج کئی دنوں بعد پلوشہ کو بھی بلوا بھیجا۔ 

نورم کالج سے لوٹی تو ہر طرف ہلچل تھی۔ "کوئی مجھے بھی بتائے گا کیا یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ یونیفارم میں ہی بی جان کے پاس بھاگی تھی۔ اور جو خبر اسے ملی اسے لگا اس پہ پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے ہر طرف دیکھ رہی تھی۔ ابھی تو خوابوں نے آنکھوں میں ڈیرے ڈالنے شروع کیے تھے ۔۔۔۔ ابھی تو زندہ رہنے کی خواہش ہوئی تھی۔۔۔۔ ابھی کل ہی تو وہ اسے میری نورم کہہ رہا تھا۔ آنسو بہاتی وہ اپنے کمرے میں جا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا ہو رہا کیا ہونے والا ہے۔۔۔۔ 

شکورا۔۔۔۔ اسے کے زہن میں اس وقت یہی خیال آیا تھا۔ کاش نہ آیا ہوتا ۔ یہ وہ وقت تھا جہاں سے آئید میر ریحان کی بربادی کی شروعات ہوتی ہے۔ وہ جو محبت سے خوف کھاتا تھا جو بس نفرت کا پجاری تھا اس پہ عذاب اترنے کا وقت ہوا ہے۔۔۔

شکورا نہ کسی کی پرواہ نہیں کی تھی وہ بھاگتی ہوئی سرکاری آفیسر کے بنگلے پہ پہنچی۔ آئید میر گھر نہیں تھا۔ نور دین نے شکورا کی بات سن کر اسے کال ملائی اور وہ ہوا کے دوش پہ پہنچا تھا۔ 

"ارمغان کہاں ہے؟"ساری بات سن کر اس نے پہلا سوال کیا۔ "وہ تو جی باہر گئے ہیں کسی کام سے "شکورا دکھ سے بولی ۔ "اوہ تو اس لیے یہ سب ہو رہا اتنی جلدی میں "آئید میر کا چہرہ ضبط سے سرخ ہو رہا تھا۔ 

شکورا سب بتا کر جا چکی تھی اور وہ وہیں پریشان سا بیٹھا تھا۔ نور دین کچن سے پانی لے کر آیا تو وہ کہیں جانے کو تیار تھا۔ 

"کہاں جا رہے آپ،"نور دین پریشانی سے بولا۔ آئید میر نے بنا کچھ کہے قدم باہر بڑھا دئیے تھے۔ وہ شاندار سا مرد محبت میں رلنے پہ آ گیا تھا اور کیا ہونے والا تھا اگر نور دین جان لیتا تو اس کے پیر پکڑ کے اسے روک لیتا۔۔۔۔

                                          ********************

یو سی بارکلے میں یہاں تک کہ کیلفورنیا میں یہ وہ ایسا دن تھا جب سورج ان سب کو بہت تابناک لگ رہا تھا۔ 

دن دس بجے کا وقت تھا جب شہر کے سب سے بڑے اخبار میں جیکسن کے خلاف وہ سب چھپا کہ لوگوں نے انگیاں دانتوں میں دبا لی۔ اخبار کے پہلے صفحے پر زینب کے دئیے گئے ثبوت براجمان تھے۔ جیکسن کی مختلف جرائم میں ملوث ہونا لڑکیوں کا استعمال یہ ایسے ٹاپکس تھے جو آن کی آن میں ہر طرف پھیلے اور یونی میں آگ کی طرح یہ بات پھیل چکی تھی۔ زینب کا انٹرویو لینے والی وہ این ۔جی۔او تھی اور زینب نے جن اپنے درد کو لفظ دئیے تو اچھے اچھوں کے آنسو نکل آئے اور اس کے بعد یوسی بارکلے میں سے درجنو لڑکیاں تھیں جو جیکسن کے ظلم کا شکار ہوئی تھیں۔ حرم نے ٹھیک کہا تھا لوگ ہمیں کمزور اس وقت سمجھتے جب ہم خود کو کمزور ظاہر کرتے۔ اتنا بڑا اخبار اس میں ہائی لائٹ یہ نیوز ہوئی تھی یہ کوئی آسان کام نہیں تھا یہ وہ کام تھا جو ولید نے سمبھالا تھا اور نیوز والوں کو اپنے اعتماد میں لیا تھا۔ اور اگلا قدم اس سے بھی خطرناک تھا جو حرم نے اٹھایا۔ اس نے جیکسن کے پپیرز چوری کی ویڈیو پوری یونی میں وائرل کر دی۔یو سی بارکلے  میں طوفان تھا جو آیا تھا حرم والا واقعہ لوگ ایسے بھولے گویا تھا ہی نہیں الٹا اس کے فینز میں اضافہ ہو رہا تھا۔ آگ وہ لوگ لگا چکے تھے اب تماشا تھا جو وہاں برپا تھا۔ جیکسن کو عزت افزائی کے ساتھ یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اور ایسے کے ا گلے کچھ سال وہ کہیں داخلہ نہیں لے سکتا تھا۔

 کیس پولیس تک پہنچا اور جیکسن حرم کے قدموں میں۔ مگر ولید سامنے تھے اور حرم اتنی رحم دل بھی نہیں تھی کہ اپنے کردار پہ بات کرنے والے کو معاف کرتی۔ وہ معاملہ سر ہوا تھا اور ایسے ہوا کہ اب اب لڑکیاں لڑکے حرم کو عزت سے دیکھتے تھے لڑکیاں اس کے پاس مسائل لے کر آتی تھیں۔ اس کی ہمت اور جیکسن جو ایکسپوز کرنا سب جان چکے تھے۔ وہ اس کی زندگی کا شاندار دن تھا جب ساری کلاس میں سر ڈیوڈ نے اسے بلایا۔ ان کا پہلا سال ختم ہونے والا تھا ۔ "حرم ادھر آئیں"سر ڈیوڈ شفقت سے بولے تھے۔ وہ اعتماد سے چلتی ان کے پاس پہنچی۔ "میں فخر سے یہ بات مانتا ہوں کہ میں نے اتنی ہمت والی پہلی ایشیائی لڑکی اس ڈیپارٹمنٹ میں دیکھی۔"سفید اسکارف گلے میں ڈالے سلور لانگ شرٹ کے ساتھ سفید ٹراؤزر میں وہ پہلی نظر میں پاکستانی نظر آتی تھی۔ وہ فخر سے مسکرا دی۔ ساری کلاس میں تالیاں گونجی تھیں۔ ولید جو مل کر سب سے پہلے بتاؤں گی اپنی تعریف وہ شرماتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ 

                                           **************

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

 خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

 جون ایلیا

اور ظہار خان قبیلے میں وہ موت کا سا دن تھا ۔ پرندے سہمے سہمے پھرتے تھے۔ وہ جو آن بان شان والا ایک آئید میر تھا ۔۔۔۔ 

وہ جو محبت سے بھاگتا تھا۔۔۔۔

جس کے پاس نفرت تھی۔۔۔۔

وہ جو حویلی والوں کو دھول چٹا دیتا تھا خون میں لت پت نہر کے کنارے ملا تھا۔ اور وہ اتنا خوبصورت تھا ایسا تھا کہ عورتیں جو اسے جانتی تک نہیں تھی اسے اس حال میں دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔

آئید مید پہ فائرنگ کی خبر ظہار خان قبیلے میں ایسے پھیلی گویا جنگل میں آگ۔ نور دین اسے بڑی مشکل سے شہر لے گیا تھا ۔ کچھ سانسیں تھیں جو چل رہی تھیں ۔ ریحان ملک کے کندھے جھکے نظر آتے تھے۔ شیر جیسا جوان بیٹا زندگی کی جنگ لڑ رہا تھا۔  انہوں نے چشمہ اتار کر آنسو صاف کیے تھے۔ سعدیہ پتھر کی مورت کی طرح بیٹھی تھیں۔ اب ان میں ہمت نہیں تھی کسی اپنے کی لاش دیکھتیں ان کی آنکھیں خشک تھیں اور دل دعا گو۔۔۔۔۔

زرا چلتے ہیں ظہار خان قبیلے میں۔

وہاں وہ لڑکی ننگے پیر بھاگتی نظر آ رہی تھی۔ دوپٹا پاؤں میں رل رہا تھا۔ سنہر ی بال اڑ اڑ کے اسے پریشان کرتے تھے۔ وہ بس بھاگ رہی تھی۔ رسم،روایات،ڈر،خوف سب کچھ پیچھے رہے گیا تھا۔ وہ بھاگتی ہوئی نہر کے کنارے پہنچی یہاں وہ اس کا میر ملا تھا۔ اس کے پاؤں سست ہوئے پولیس یر جگہ موجود تھی۔ اس نے چادر سے منہ چھپایا۔ وہ چلتی ہوئی آگے بڑھی۔ اس کے پاؤں کی جگہ پر خون کے دھبے تھے نورم کو لگا گویا چھری سے کوئی اس کی نبض کاٹ رہا ہو۔ وہ پاگلوں کی طرح وہاں بیٹھ گئی تھی۔"میری نورم"اسے وہ الفاظ یاد آئے اس کی آخری ملاقات۔وہ دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھی۔ بہت سے لوگوں نے پلٹ کر دیکھا۔ زمیں پہ بیٹھی وہ لڑکی اس قافلے کے سردار کی طرح نظر آتی تھی جس کی متاع حیات چھین لی گئی ہو۔ "آپ کو کچھ نہیں ہو سکتا قسمت  نورم کے ساتھ اتنا ظلم نہیں کر سکتی"وہ سسک کہ کہہ رہی تھی۔ تبھی ایک بڑی ساری گاڑی وہاں آ کر رکی تھی۔ پولیس آفیسر سرمد اس لڑکی کو ایسے بلکتے دیکھ کر فورا وہاں پہنچا۔ گاڑی سے اصغر خان کا خاص ملازم اور اس کے ساتھ شکورا اترے تھے۔

"نورم بی بی اٹھیں کیوں خود کو تماشا بنوانے پر تلی ہیں آپ؟"شکورا نے آنسو  اپنی چادر سے صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔نورم کچھ نہیں بولی وہ بس خاموشی سے روتے جا تی تھی۔انسپکٹر سرمد خاموشی سے اسے نوٹ کر رہے تھے۔ شکورا اس کے سسکتے وجود کو سمبھال کر گاڑی کی طرف بڑھی۔

حویلی پہنچ کر اس کا سامنا ایک طوفان سے کرنا تھا۔ اصغر خان اور جہانگیر خان دونوں زخمی شیر نظر آ رہے تھے۔ 

"تم سب لوگ جاؤ۔"جہانگیر خان نے نورم کے اس ہال نما لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے ہی سب ملازمین کو اشارہ کیا۔ وہ سب پلک جھپکتے غائب ہو چکے تھے۔ 

"چٹاخ ۔۔۔۔۔۔نورم کے چہرے پہ پڑنے والا تھپڑ اتنا گونجدار تھا کہ اپنے کمرے میں موجود بی جان نے اپنا دل دہلتا ہوا محسوس کیا۔ "اپنی ماں کے ساتھ مر جاتی تم تو میں اج اس زلت سے بچ جاتا شاید"جہانگیر خان اور کچھ نہیں بول سکے تھے اور اس کو نفرت سے دیکھتے آگے بڑھ گئے تھے۔ بی جان اب وہاں داخل ہوئی تھیں۔

"آج کے بعد اگر تم نے قدم باہر رکھا تو یہاں لاش آئے گی تمہاری یاد رکھنا۔ اصغر خان اس کو نفرت سے کہا۔ "تو کیا ہو گا ؟۔۔۔۔۔۔ وہ جو ان کے سامنے سر اٹھا کر دو بدو بولی وہ نورم جہانگیر خان تھی گھر کی سب سے معصوم اور چپ کر کے رہنے والی لڑکی۔ اصغر تو کیا بی جان کی بھی آنکھیں پھٹ گئ تھیں۔نورم۔۔۔۔۔۔بی جان کا چہرہ غصے سے لال ہوا۔ وہ زور سے دھاڑی تھیں۔ "نہیں کروں گی میں چپ اور نہ کوئی کسی کی بات مانوں گی آپ لوگوں سے جو نہیں ہوتا نا اب وہ کر لیں سب مل کر۔"وہ بھی اسی خاندان کا خون تھی آج دل پہ وار ہوا تھا اس کے عشق پہ چوٹ لگی تھی وہ زندگی کا مقصد بھولنے لگی تھی اسے پرواہ ہی نہیں تھی زندگی موت کی ۔ بڑے آرام سے ٹھنڈے لہجے میں کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اصغر خان اور بی جان ہکا بکا کھڑے تھے۔ 

اور پھر اس حویلی میں موجود ہر شخص نے دیکھا کے نورم جہانگیر کو عشق نے کیسے بدلا تھا۔ وہ جائے نماز پر بیٹھی تھی سفید چہرہ سفید چادر میں لپٹا تھا۔ آج کل اس کا زیادہ تر وقت آئید میر کے لیے دعائیں کرتے گزرتا تھا۔ شکورا اس معلومات فراہم کر دیتی تھی جو اسے معلوم ہوتا تھا۔ دروازہ زور سے بجا۔ نورم جائے نماز پہ بیٹھی رہی آرام سے۔ جہانگیر خان خود دروازہ کھول کے اندر گئے تھے۔

"کل شفاقت صاحب اور ان کی فیملی آ رہی ہے مجھے کوئی تماشا نہیں چاہیۓ۔ "وہ اس کی پشت پہ کھڑے بول رہے تھے۔ نورم خاموش رہی۔ جو ہو وہ جہانگیر خان کے ساتھ اس دن کے بعد سے نہیں بولی تھی جب سے ماں کے قتل کا پتہ چلا تھا۔ مگر وہ زندہ تھیں یہ بات اسے سکون دیتی تھی۔

                                         **************

کیلفورنیا میں وہ دن پر لگا کر اڑ رہے تھے۔ حرم کو ایگزیمز کے علاوہ کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔ ریحان ملک نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ وہاں کے حالات سے ان دنوں بے خبر رہے۔ 

حرم کے دو سمیسٹر رہتے تھے اور ولید کا ایک۔ پارک میں بینچ پر بیٹھی ٹھنڈے موسم میں وہ آئس کریم کھانے میں مصروف تھی اور ولید اسے دیکھنے میں۔ 

"سنو ولید"حرم نے ناک چڑھا کر پکارا۔ ریڈ خوبصورت سویٹر میں اس کے گال سردی سے سرخ ہو رہے تھے۔ ولید نے مشکل سے نظر چرا کر سامنے دیکھا۔ "سناؤ"وہ ہمہ تن گوش ہوا۔ "کس قدر تاڑو ہو تم اف!!!!!!!!!! "حرم نے خالصتا پاکستانی الفاظ بولا۔ "کیا ہوں؟"ولید کی اردو اچھی تھی مگر اتنی بھی نہیں کہ وہ تاڑو کا مطلب سمجھتا۔کیا مطلب تمہیں تاڑو کا مطلب نہیں آتا؟"حرم نے معصومیت کی انتہا کر دی تھی سوال کرتے ہوئے۔"جانتا تو تھا بس بھو ل گیا۔۔۔۔تھارو" وہ امریکن لہجے میں اردو بولا تھا اور یہ منطر اس قدر خوبصورت تھا کہ حرم نے آئس کریم چھوڑ کر جو ہنسنا شروع کیاآس پاس والے لوگ بھی متوجہ ہونے لگے۔ "او میرے خدا تم میرے ساتھ پنجاب کیسے جاؤ گے سب سے ملنے تمہیں تو تاڑو کا ہی پتہ نہیں "وہ ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اور ولید بے چارے کو اپنی ناقص علمی پہ افسوس ہوا کہ اسے اتنے اعلیٰ لفظ کا مطلب نہیں آتا تھا۔ اف یہ پاکستانی حرم اور اس کے الفاظ۔

"تم مجھ سے اتنے راز کیوں رکھتے ہو ولید؟"حرم نے بہت سنجیدگی سے یہ بات آج کی تھی۔ "کونسا راز ؟"ولید نے استسفار کیا۔ "تمہاری زندگی کے سب راز اور تم جانتے ہو میں کیا بات کر رہی ہوں۔"وہ بالکل سنجیدہ تھی۔ ولید کا چہرہ۔تارکیوں میں گھر گیا۔"اگر تمہیں پھر سے ٹوٹنے کا خدشہ ہے نا تو یقین کرو ولید حرم ریحان تمہیں سمبھال لے گی۔"کس قدر خوبصورت بولتی تھی وہ ۔ اور یہی بات ولید کو پسند تھی بلکہ ولید کو تو ساری کی ساری حرم پسند تھی۔ 

"اٹھو میرے ساتھ چلو۔" یہ شام کی شروعات کا وقت تھا جب ولید نے کھڑے ہوتے کہا۔ حرم بنا کچھ کہے اس کے پیچھے چل پڑی۔ وہ اس کو وہاں سے کافی دور لے آیا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت سا گھر تھا۔ جس کی دیواریں بوسیدہ ہو رہی تھیں۔ حرم نے ولید کا چہرہ دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور ضبط کی انتہا تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اسے اندر لے آیا۔ شام نے اپنے سائے گہرے کیے۔ اس کمرے کا جہاں وہ کھڑے تھے لاک کھولتے ہوئے ولید کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اور جب حرم نے قدم اندر رکھے وہ ساری لائٹس جلا چکا تھا۔ 

"اوہ میرے خدا۔۔۔۔۔"حرم کے منہ سے فورا نکلا۔وہ سارا کمرا تصاویر سے بھرا ہوا تھا۔ مایا ابسن مشہور اداکارہ تھی حرم جانتی تھی۔ ان کی تصاویر سے ہورا کمرا دمک رہا تھا۔ اور کہیں ان کی گود میں ننھا سا بچہ نظر آتا تھا جو نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت تھا بنا ایک پل سوچے وہ پہچان گئی وہ ولید تھا۔ سب سے بڑی انلارج تصویر میں مایا دلہن بنی کھڑی تھیں ایک بے انتہا وجیہ مرد کے پہلو میں۔ وہ مسحور ہو کر ایک ایک تصویر دیکھ رہی تھی۔

حرم نے مڑ کر دیکھا وہ فرش پہ بیٹھا تھا سر گھٹنوں میں دیا اس کا ہلتا وجود بتا رہا تھا وہ سسک رہا ہے۔ وہ تڑپ کے اس کے پاس آئی۔ "کاش ہم یہاں نہ آتے"حرم واقع شرمندہ ہو رہی تھی۔"ولید۔۔۔۔۔"حرم نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ولید نے سر اٹھایا۔ اف!!!!!!!!!!حرم کو اس کے چہرے پہ وحشت نظر آئی۔ 

"چلو ہم واپس چلتے ہیں"وہ خود بھی رو پڑی۔ ولید کے ہاتھ میں ایک ڈائری تھی ۔ ایک بہت خوبصورت ڈائری جس کا کور ایک رات کا منظر تھا جس میں اکیلا چاند نظر آتا تھا۔ "یہ لے جاؤ اپنے ساتھ اور جب یہ ختم ہو جائے تو ولید ابسن کی ترس بھری زندگی پہ سوال لے آنا میں تمہیں سب بتاؤں گا۔ وہ خود پہ ضبط کر تا مگر آنسو رک نہیں رہے تھے۔ پتہ نہیں کونسا درد چھپائے بیٹھا تھا وہ لڑکا حرم نے اس کے ماتھے پہ بکھرے بال ہٹائے۔ "آئم ساری۔"وہ بس اتنا بولی ۔ "نہیں تمہاری کوئی غلطی بھی نہیں ہے۔ولید نے فورا سر اٹھایا۔حرم نے متاع حیات کی طرح وہ کتاب نما ڈائری سمبھالی۔ "تمہیں پتہ ہے حرم اگر وہ زندہ ہوتیں تو آج تمہارا استقبال کرتیں وہ کہا کرتی تھیں میرا ولید شہزادہ ہے اور اس کی شہزادی دور کسی پریوں کے دیس سے آئے گی۔ یہ بات کرتے ہوئے اس نے اپنے سارے حوصلے کھو دئے تھے۔ اور حرم اسے کچھ سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے اس نے سب بھلایا،سب فراموش ہوا،بس عشق موجود ریا وہ بھاگ کر اس کے سینے میں سما گئی تھی ۔ اس کے موٹے آنسو ولید کی شرٹ بھگو رہےتھے اور ولید کے آنسو حرم کے گھںنے بالوں میں جزب ہو رہےتھے۔ وہ  اسے کسی کرسٹل کی گڑیا کی مانند سمبھالے ہوا تھا۔ "آئم ساری"وہ بس روتے یوئے اتنا کہتی تھی۔ ولید کا درد ولید سے ذیادہ حرم محسوس کر سکتی تھی یہ وقت نے عشق کی کتاب پہ ایک کورے ورق پہ درج کیا۔ محبت نے ایک اور قدم بڑھا کر عشق کی جانب قدم رکھے اور تقدیر نے ترس سے پہلو بدلا۔ وہ شاندار سا لڑکا اس پہ مرتا ہے یہ احساس حرم کو گداز کر دیتا تھا۔ ولید نے بہت پیار سے اسے الگ کیا اور اٹھ کر اسے پانی پلایا۔ وہ سسک رہی تھی ولید کو ایسے دیکھ کر وہ اپنا آپ بھول گئی تھی۔ حرم کے گال شرم سے دہک رہے تھے ولید اچھے سے سمجھ گیا تھا اس کا حال اس لیے بنا کوئی بات کیے اس کا ہاتھ پکڑ کر قدم باہر بڑھائے۔ ڈائری حرم کے ہاتھوں میں تھی۔

                                      !*******************

'دور نہ جانا

ایک دن کے لئے بھی نہیں

کیونکہ 

کیونکہ مُجھے نہیں پتہ 

یہ کیسے کہنا ہے

کہ ایک دن بُہت طویل ہوتا ہے

اور میں تُمھارا انتظار کرتا رہوں گا

کسی خالی اور سُنسان 

مفلوج ریلوے سٹیشن کی طرح 

جس کی ٹرینیں کہیں اور کھڑی ہوجائیں

مجھے چھوڑ نہ جانا

ایک گھنٹے کے لئے بھی نہیں

کیونکہ بے چینی کے قطرے یکجا ہوکر

اُس دھویں کو بڑھاتے جائیں گے

جو خود کے لئے پناہ ڈُھونڈتا ہے

اور یہ سارا دھواں 

میرے سینے میں جمع ہوکر

میرے کھوئے دل کی 

بگڑی دھڑکنوں کو روک ڈالے گا

آہ کہ ساحل پہ پڑتے 

تمُھارے سائے کی تیرگی 

کبھی معدوم نہ ہونے پائے

آہ کہ تُمھاری پلکیں 

تنہا راہوں کو

کبھی دیکھتے ہوئے نہ تھرائیں 

مُجھے چھوڑ نہ جانا، 

جانِ من!

ایک لمحے کے لئے بھی نہیں

کیونکہ اُس ایک لمحے

تم اتنی دور چلی جاوگی

کہ میں دیوانہ وار زمین کے تمام

پُرپیچ راستوں پر گھومتا پھروں گا

تُمھیں تلاش کرتے اور پوچھتے 

کیا تم نے واپس آنا ہے؟

یا مُجھے یہیں چھوڑ چُکی ہو

مرنے کے لئے؟ "

 پابلو نیرودا

اور وقت نے قسم کھا لی تھی وہ منصوبہ ساز آئید میر کے سب منصوبوں پہ پانی پھیر دے گا۔اسے دو گولیاں لگی تھیں ایک تو کندھا چھو کر گزر گئی دوسری نے گردے کو نقصان پہچایا تھا۔ شہر کے سب سے بڑے ہاسپٹل کا منظر تھا یہ۔ 

جب ڈاکٹر ریحان صاحب کے پاس کھڑے تھے۔ "سرجری کامیابی سے ہو گئی یے بس آپ دعا کریں ان کو ہوش آ جائے جس کی ہمیں بہت جلدی امید ہے کیوبکہ پیشنٹ خود جینا چاہتے ہیں۔وہ جینا چاہتا ہے تو وہ ضرور موت کو ہرا دے گا وہ اپنے بیٹے کو جانتے تھے۔

اور دور کہیں خانوں کی حویلی میں آئید میر کی محبت برباد ہو رہی تھی۔ وہ جو بے خبر لیٹا تھا وہ کیا جانتا اس لڑکی کا حال جو نہ جی رہی تھی نہ مر رہی تھی۔ اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا اس لیے وہ بایر چلی  آئی۔وہ باہر نکلنے ہی لگی تھی جب کمرے سے آتی آوازوں سے چونک گئی۔ "تم نے ایک نمبر بیوقوفی والا کام کیا اضغر ،الیکش کے دن ہیں اور تم نے اس پہ گولیاں چلا دیں اگر مر مرا گیا تو سارا پولیس ڈیپارٹمنٹ جان کو آ جائے گا سرکاری آفیسر ہے وہ۔"نورم جہانگیر خان کی آواز سن کے لرز گئی۔ اس نے سامنے نظر آتی دیوار کے ساتھ پشت لگا دی تھی۔ "تو اور کیا کرتا بھائی صاحب وہ کل کا لڑکا منہ کو آ رہا تھا۔ اصغر خان ایسا انسان تھا جس کے پاس سوائے نفرت کے کچھ نہیں تھا۔ "ہوا کیا تھا ؟پوری بات بتاؤ مجھے ۔"جہانگیر خان کے لیے سارا مسئلہ جاننا ضروری تھا۔ اور اصغر خان شروع ہو گیا۔ وہ دور گھوڑوں کی ریس میں بیٹھا تھا جب ملازم نے آ کر بتایا کوئی لڑکا ملنے آیا ہے۔"مہمانوں والے کمرے میں بٹھاؤ میں آ رہا ہوں۔"اصغر خان نے کہا۔ میں یہاں آپ کا مہمان بن کر نہیں آیا مجھے بات کرنی ہے۔ تبھی پیچھے سے اس کی آواز آئی تھی۔ اصغر خان نے فورا پلٹ کر دیکھا۔"تم۔۔۔۔۔۔۔"ان کو حیرت ہوئی۔ "ہاں میں۔"کس قدر پر اعتماد لہجہ تھا آئید میر ریحان کا اصغر خان کو غصہ آیا۔ وہ اسے رش سے دور لے آئے۔ "میں آپ کو کچھ کہنے آیا ہوں اصغر خان صاحب۔"وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا اور یہی بات اصغرخان کو آگ لگاتی تھی۔

"بولو" وہ سرخ چہرے کے ساتھ بولے۔ "آپ کو لگتا ہے کیا پیسے کے بل بوتے پر آپ ہمیشہ باہر رہیں گے تو یہ غلط ہے جیل کا راستہ آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ اور میرے پاس آپ کے لیے اتنے ثبوت ہیں کہ ساری زندگی آپ کو باہر کا راستہ نظر نہ آئے گا۔ بالکل نہیں ڈرتا تھا وہ نہ ان خانوں سے نہ موت سے۔ اصغر خان کا غصے سے برا حال تھا۔ کیا چاہتے ہو تم؟"وہ غرائے۔ "نورم کے ساتھ کوئی ذیادتی نہ کی جائے"جس قدر آرام سکون سے کہا تھا اس نے اصغر خان کو اتنی آگ لگی ۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر کی عزت کا نام لیتے ہوئے اس کا گریبان پکڑ کر وہ غراتے ہوئے بولے۔ "آرام خان صاحب۔۔۔۔"آئید میر نے ایک جھٹکے سے ان کو الگ کیا۔ "یہ آئید میر ریحان کا گریبان یے ،آپ کے کسی پالتو کتے کا نہیں،اور آئید میر اچھے سے جانتا یے کتوں کو خود سے کیسے دور رکھنا یے۔"آئید میر نے اتنی بڑی بات کی تھی کہ وہ چکرا کے رہے گئے تھے۔ "وہ ان کو دھمکاتا ہوا وہاں سے چلا آیا تھا۔ اور پیچھے اصغر خان۔ آئید میر کی گاڑی نہر کے پاس پہنچی جب تین گاڑیوں نے اسے گھیر لیا۔ وہ آرام سے باہر نکلا تھا وہ موت سے نہیں ڈرتا تھا موت کو ہتھیلی پہ لے کر چلا کرتا تھا۔ 

"اگر میں بچ گیا نا اصغر خان تو تمہارا بچنا مشکل ہو جائے گا ۔"بس یہی آخری الفاظ تھے اس کے۔۔۔۔ 

اصغر خان بتاتا جا رہا تھا اور باہر کھڑی نورم کے آنسو کہیں سے کہیں جا رہے تھے۔ "تو اس کا بچنا ٹھیک نہیں اصغر خان۔۔۔۔۔"جہانگیر خان نے بہت ٹھنڈے لہجے میں کہا تھا اور باہر کھڑی نورم برف ہوئی۔۔۔۔۔اسے کچھ کرنا تھا وہ مرد جو زندگی کی جنگ لڑ رہا تھا وہ اس کی وجہ سے تھا اب اس کا فرض تھا اور فرض نبھانا نورم جہانگیر اچھے سے سمجھتی تھی۔ 

وہ وہاں سے بھاگی ۔ "شکورا میرے کمرے میں آؤ جلدی"کچن میں کام کرتی شکورا کو بلا کر وہ کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔ 

"شکورا تم جانتی ہو یہاں ایک ایسا گیٹ کیپر ہے جو میر کے ساتھ ہے بتاؤ مجھے۔"جی نورم بی بی صادق بھائی۔"اس نے کہا تھا اور نورم کو لگا ایک امید ہاتھ آئی ہو۔ "اس سے جا کر آئید میر کے کسی بھی آس پاس والے انسان کا فون نمبر لے آؤ خدا کے لیے۔" نورم نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئے تھے۔ "نہ  چھوٹی بی بی خدا کے لیے گناہ گار مت کریں ہاتھ جوڑ کر،میری نسلیں آپ پہ قربان میں ابھی جاتی ہوں۔"کس قدر وفادار تھی وہ نورم کو انجان بستی میں وہ اپنی لگی۔ شام کو لوگ رشتہ دیکھنے آ رہے تھے وہ اس سے پہلے سب کچھ کر لینا چاہتی تھی۔ 

ریحان صاحب اور سعدیہ دونوں دعاؤں میں مصروف تھے۔نور دین بھی پاس بیٹھا تھا۔نور دین کو لگا اس کا سیل وائبریٹ کر رہا اس نے جلدی سے باہر نکالا۔ نئے نمبر سے کال تھی۔ "آپ کون ہیں اور کیا بات کرنی ہے سر کے فادر سے؟"دوسری طرف کوئی لڑکی تھی۔

"دیکھئے میری ان سے بات کرنا بہت ضروری ہے میں اور کسی پہ بھروسہ نہیں کر سکتی میری بات کروا دیں۔"نورم کا لہجہ درد بھرا تھا۔ نور دین کا دماغ فورا جاگا۔ "آپ نورم ہیں؟"اس نے سوال کیا۔ اچھا میں کرواتا بات وہ بھاگ کر فون ریحان صاحب کی طرف لے گیا۔ان کے ہلیو کہنے کی دیر تھی وہ شروع ہو گئی۔ "آئید میر کی جان خطرے میں ہے جن لوگوں نے اس پہ حملہ کیا وہ دوباری سے منصوبے بنا رہے ہیں آپ خدارا اس کو بچا لیں۔۔۔۔۔"وہ بنا رکے بس بولی جا رہی تھی اور ریحان صاحب ساکت تھے۔۔۔۔۔ یہ آواز۔۔۔۔۔۔ لہجہ۔۔۔۔۔ انداز۔۔۔۔سب کچچ وہ ششدر تھے۔ "آپ آپ کا نام کیا ہے بیٹا؟"انہوں نے ہمت کر کے پوچھا۔"میں نورم نورم جہانگیر خان ہوں۔"آواز آئی تھی اور ریحان صاحب کو لگا پورا آسمان ان کے سر پہ آ گرا ہو۔ وہ کھڑے سے بیٹھ گئے تھے۔ "میں ان کی خیر خواہ ہوں انکل پلیز اب اس نمبر پر کال نہ کرئیے گا۔"کال کٹ گئی تھی مگر وہ ساکت تھے۔ "کیا ہوا کون تھی؟"سعدیہ نے سوال کیا۔ وہ خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک پل میں معمہ حل ہو گیا تھا آئید میر پہ حملے کا۔ انہوں نے بنا کوئی بات کیے نور دین کو دیکھا۔ اور جن نظروں سے دیکھا تھا وہ گڑ بڑا گیا۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے پہلے انہیں اپنے بیٹے کی زندگی محفوظ کرنی تھی پھر باقی سب۔

                                             ****************

ہاسٹل روم میں بیٹھی لڑکی ریڈ قمیض میں ملبوس تھی سفید ٹراؤزر پاکستانی اسٹائل کا تھا ۔ ماتھے پہ فریش کٹے بال گرے تھے باقی اونچی پونی میں بندھے تھے۔پورا ہاسٹل سو رہا تھا اور وہ ڈائری میں گم تھی۔ پر سو اس کا پہلا پیپر تھا اور وہ ادھر گم۔

ڈائری کے پہلے صفحات بس مایا ابسن کی زندگی کے نارمل دن تھے۔ مگر وہ صفحہ"زندگی میں خاص دن"اسے چونکا گیا۔ 

23 جون 1993 کیلفورنیا۔

آ"ج بھی ماما نے ڈیڈ سے لڑائی کی۔ ڈیڈ کو لگتا ہے میں باقی سب بچوں کی طرح بگڑ گئی ہوں اور مجھے فلمز چھوڑ دینی چاہئے مگر ماما مجھے آگے بڑھتا یوا دیکھنا چایتی ہیں۔ میں بہت اداس تھی اور شوٹنگ سے واپسی پہ بہت تھک چکی تھی۔"گاڑی کیلفورنیا کی سڑکوں پہ دوڑ رہی تھی جب بارش شروع ہو گئی۔ مجھے بارشوں سے ہمیشہ کوفت ہوتی تھی مگر اس دن مجھے بارشیں اچھی لگیں۔ وہ اتنا خوبصورت مرد تھا کہ اگر ہالی ووڈ میں ہوتا تو سب کا پتا صاف کر دیتا۔ بے انتہا مردانہ وجاہت سے بھر پور مگر سب سے خاص جو تھا وہ اس کے چہرے کی پاکیزگی اور سکون تھا۔ چہرے پہ سجی چھوٹی داڑھی اس کے مسلمان ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ وہ بلی کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو جو بارش میں بھیگ رہے تھے بچا رہا تھا۔ سب بے حس لوگوں میں مجھے اس کا دل زندہ لگا۔ میں خود کو روک نہیں پائی اور گاڑی سے اتر کا اس کی طرف بھاگی۔ وہ بلی کے بچے زیادہ سارے تھے اسے سمبھالنے میں مشکل ہو رہی تھی میں جلدی سے اس کے ہاتھ سے کچھ پکڑ لیے۔ میں شارٹ اور شکرٹ میں ملبوس تھی۔ اس نے بس ایک نظر مجھے دیکھا اور اس کے بعد نظر نہیں اٹھائی مجھے حیرت ہوئی۔ مشہور فلم اسٹار مایا ابسن کو نظر انداز کر رہا تھا وہ۔ میر سیکرٹری بھاگ کر آیا میم آپ کو سردی لگ جائے گی مگر میں نے اسے بھگا دیا۔ہم بلی اور بچوں کو خشک کر کے ایک شیڈ نیچے محفوظ کر چکے تھے۔ مگر وہ خاموش تھا نظر جھکائے۔

کیا آپ بول نہیں سکتے؟میں نے شرارت سے کہا۔ آپ اتنی خوبصورت ہیں کہ مجھے خوف آ رہا ہے میں اپنا ایمان کمزور کر بیٹھوں گا۔وہ نظر جھکائے بولا تھا اور مجھے حیرت ہوئی۔ یہاں سب وحشیوں کی طرح تھے وہ ایک انسان لگا وہ بنا کچھ کہے جا چکا تھا اور مجھے لگا میں مجھ میں نہیں رہی۔۔۔۔۔۔"

حرم نے سانس لینے کو سر اٹھایا اف کیا ہونے والا تھا آگے اس نے جلدی سے اگلے صفحات کھولے۔

وہ ڈائری پڑھ رہی تھی۔

23 جولائی 1993 کیلفورنیا۔

"اس شخص کو آج دوسری بار دیکھا میں نے اور لگا کتنے دنوں بعد سانس لیا ہو۔ آج وہ کچھ حبشی بچوں کو پارک میں بیٹھا پڑھا رہا تھا۔ اردگرد سے لا پرواہ وہ ان بچوں کے سا تھ مگن تھا۔ مجھے ہمیشہ بلیک لوگوں سے نفرت رہی مگر آج وہ مجھے برے نہیں لگ رہے تھے میں اس شخص کے سحر میں بری طرح گرفتار ہو چکی تھی۔ اپنا آپ فراموش کر بیٹھی۔ میں چلتے ہوئے اس کے قریب گئی۔ ۔۔۔۔۔ ہیلو! میں نے قریب جا کر پکارا۔ اس نے چہرہ اٹھایا اور حیران ہو کر کھڑا ہو گیا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے شناسائی دنیا کا سب سے خوبصورت جزبہ محسوس ہوا۔ نا جانے مجھے کیا ہو رہا تھا۔ آپ! وہ اب نظریں جھکائےکھڑا تھا۔ شاید اسے میری ڈریسنگ ڈسٹرب کرتی تھی مجھے اس پل فیشن سے نفرت محسوس ہوئ۔ میں نے نا چاہتے ہوئے اپنے بازو سینے پہ لپیٹے۔ اس کا چہرہ جھکا ہوا تھا مگر مجھے محسوس ہوا وہ مسکرایا ہے۔ کیا میں یہاں تھوڑی دیر بیٹھ سکتی ہوں۔ میں پوچھے بنا بہ رہے سکی۔ جی ضرور۔وہ بولا۔ اور اس طرح میری ہاشم خان سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ اس کا نام ہاشم خان۔ "

اس کے بعد کے کافی صفحات مایا ابسن کے شدید عشق پر لکھے گئے تھے۔ حرم کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں تو وہ صاف کر کے دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتی۔

اور ذیادہ سارے صفحات یہی بتاتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آ چکے تھے۔۔مایا نے ڈریسنگ سے لے کر ہر چیز تک خود کو بدل دیا تھا۔ ہاشم خان اور مایا ابسن کی ملاقاتیں اتنی معصوم تھی کہ حرم روتے روتے ہنس دیتی اور مایا کی محبت اتنی گہری تھی کہ وہ ہنستے ہنستے رو دیتی۔۔۔۔۔

17 دسمبر 1993 واشنگٹن۔

"آج میں شوٹنگ پہ آخری بار آئی ہوں واپس جا کر ہاشم کو سب بتا دوں گی۔ مجھے اس کا نام ٹھیک سے لینا نہیں آتا آج کا وہ ہی سیکھ رہی ہوں میں۔

میں رات لیٹ کیلفورنیا پینچی ماما ڈیڈ دونوں جاگ رہے تھے میں نے ہمت کر کے ان کو بتا دیا کہ میں ہاشم خان سے محبت کرتی ہوں۔ ڈیڈ خوش تھے وہ ہاشم خان کو اچھا انسان سمجھتے تھے اور ان کے لیے یہی کافی تھا۔ لیکن ماما۔۔۔۔۔۔ وہ آگ بگولہ تھیں۔۔۔۔۔

"یہ ایشیائی مرد ساحر ہوتے ہیں ،جادوگر ہوتے ہیں وہ مغربی عورت پر سحر پھونکتے ہیں اور جب کام نکل جاتا یے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں مایا تمہارے ساتھ یہی ہو گا۔ "اف! کس قدر بڑی بد دعا دی تھی انہوں نے میں غصے سے کمرے میں آ گئی ہوں۔ جو بھی ہوا کل میں بتا دوں گی۔ "

18 دسمبر 1993۔

"آج بہت خوش ہوں میں ۔ ایسے لگ رہا یے دنیا کا سب کچھ پا لیا میں نے۔ہم دونوں سامنے بیٹھے تھے میں نے ٹراؤزر کے ساتھ گھٹنو ں تک آتی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور اسکارف گلے میں تھا۔ ہاشم کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟میں نے دھڑکتے دل سے کہا تھا۔ آنسو میرے گالوں پہ بہہ رہے تھے۔ "مایا پلیز اپنے آنسو صاف کر لیں مجھے تکلیف دے رہے ہیں میں ابھی یہ حق نہیں رکھتا مگر بہت جلد یہ کام میرے زمے ہو گا۔ وہ دلکشی سے مسکرا کر بولے تھے اور میں اس خوبصورت اظہار پر دل ہار گئی۔"میں آپ کے لیے مسلمان ہونے کو تیار ہوں ہاشم"میں نے کہہ ہی دیا۔ "میں چاہتا ہوں آپ اللہ کی خاطر اپنی خاطر مسلمان ہوں "اف!!!!!! کچھ ایسا تھا اس کے الفاظ میں میں نے خود کو اندر سے بدلتے محسوس کیا۔ "اور اس نے مجھے قران کا انگلش ترجمہ دیا اب میں یہ پڑھوں گی بس یہ اب باقی سب ختم۔پیچھے آج اس مایا ابسن کا آخری دن تھا۔

اس کے بعد ڈآئری کے سارے  صفحات خالی تھی بہت ذیادہ۔ حرم پاگلوں کی طرح صفحات دیکھ رہی تھی اور آ خر اسے تحریر مل ہی گئی۔ 

20 مارچ 1994۔

لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔

"آج بہت دن بعد ڈائری اٹھا پائی۔ زندگی مصروف ہوئی حسین ہوئی تو سب بھلابیٹھی ہوں۔ میں آج مریم ہاشم ہوں ۔ مایا ابسن سے مریم ہاشم تک کا سفر اتنا خوبصورت ہے کہ الفاظ نہیں ملتے ابھی ہاشم سوئے ہیں اور میں ان کو دیکھ کر سوچ رہی ہوں کس قدر خوش نصیب ہوں میں۔ اس شخص کی محبت نے مجھے میرے اللہ سے ملا دیا۔ ہاشم سے اس دن ملنے کے بعد میں نے قران پاک کا ترجمہ پڑھا اور بار بار پڑھا۔ اتنا کے چلتے پھرتے الفاظ میرے دل میں ورد کرنے لگے۔ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ میں اللہ کو پا لیا اپنا آپ پا لیا۔ہم نے دنیا سے الگ ایک دنیا بسائی ہے۔میں شوبز چھوڑ چکی ہوں لوگ نیوز پیپر سب مجھے پاگل سمجھتے ہیں ۔ اگر ہاشم خان کے نام پہ مجھے پاگل بھی کہا جائے میں خوش ہوں۔۔۔۔۔"

سب ٹھیک تھا تو غلط کہاں ہوا۔ حرم بس یہی سوچ رہی تھی آگے کے صفحات سارے۔ محبتوں سےبھرے تھے۔ ان دونوں کی محبت ۔ اور پھر ایک صفحہ جہاں پہ بالکل چھوٹے بچے کی تصویر چسپاں تھی۔ حرم نے پیار سے ہاتھ پھیرا وہ اس کا ولید تھا۔ اس کے ہونٹ مسکرا دیئے۔

3 فروری 1995 کیلفورنیا۔ 

حرم جانتی تھی یہ ولید کا برتھ ڈے تھا۔ 

اس نے پڑھنا شروع کیا۔ 

"آج ہماری محبتوں کو مضبوط کرنے محمد خالد بن ولید آیا ہے۔ ہاشم کو بہت شوق تھا کہ وہ اپنے بیٹے کا نام ہسٹری کی بیس پہ رکھیں گے۔ ولید بالکل ہاشم کی کاپی ہے۔ زندگی اتنی مہربان ہے کہ کبھی کبھی خوف زدہ ہونے لگتی ہوں۔"

بہت مختصر سا صفحہ تھا وہ۔ اس کے بعد بالکل خاموشی تھی ۔ ڈآئری کے آخری صفحات پہ سیاہی نظر آتی تھی وہ جلدی سے وہاں پہنچی۔

3 جون 2001 کیلفورنیا۔ 

ایک صدی سے دوسری صدی میں قدم رکھا جا چکا ہے۔ پچھلے چند سال ایسے جئے ہیں کہ زندگی نے اپنا سارا فرض نبھا دیا۔ میری زندگی کو میری ہی نظر لگ چکی ہے۔ میں جو اس شخص پہ مرتی ہوں آج اس کی شک بھری نگاہیں مجھے واقع مار رہی ہیں ۔ ڈی سوزا مانک ۔۔۔۔۔ وہ سیاہ دھبا ہے جو اس لائف میں بوائے فرینڈ تھا میرا جب میں مغرب کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس شخص نے میری زندگی میں پہلا پتھر پھینکا۔ اور اس کی قربت کی تصاویر ہاشم کو بھیج دیں۔ وہ پریشان تھا اس دن بہت۔ کیا ہوا ہاشم آپ ٹھیک ہیں نا۔۔۔۔ اس کی سرخ آنکھیں مجھے بے چین کر رہی تھیں۔ وہ خاموشی سے اٹھا تھا اور لفافہ میرے سامنے رکھا۔

"یہ جھوٹ ہے نا مریم ؟"اس شخص کے لہجے میں بس مان اور یقین تھا۔ 

میں نے لفافہ کھولا اور آسمان سر پہ کیسے گرتا یے مجھے اس رات پتہ چلا۔ڈی سوزا کی گلے میں باہنیں ڈالے میں ہی تھی مجھے خود سے گھن آئی۔

"ہاشم۔۔۔۔۔۔۔"میں نے آنسو بھری آواز میں پکارا تھا۔ "میری جان مجھے پتہ ہے یہ سب بکواس یے تم پریشان نہ ہو۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لگا کر بولا۔ 

"یہ سچ ہے ہاشم ۔۔۔۔"میں نے سر اس کے سینے پر رکھ کے سسک کے کہا تھا۔ سامنے کھڑا مرد جو اسلام کی تبلیغ اپنے طریقے سے کیا کرتا تھا۔ جس کے لیے عزت اور قردار سب کچھ تھا وہ پتھر کا ہو چکا تھا۔ میں نے اس کے سب مان توڑ دئیے"میں اس کے قریب تھی مگر میں نے اس سے ذیادہ کوئی حد پار نہیں کی۔ میں نے اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے کر کہا۔ "میری محبوب بیوی کو مجھ سے پہلے اس کافر اس خبیث انسان نے چھوا۔"۔۔۔۔وہ مجھ سے الگ ہوا۔۔۔۔ ہاشم خان مجھ سے الگ ہوا تھا۔ وہ واقع الگ ہو چکا اس دن سے۔"

حرم کی سانسیں رکنے لگی تھیں وہ صفحات پڑھ کر۔ اس نے اٹھ کر پانی پیا ۔ رات کے 3 بج چکے تھے اور نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ 

7 جولائی 2001 کیلفورنیا۔ 

آج ختم ہو چکی ہوں میں۔ وہ صرف ایک وار نہیں تھا جو ڈی سوزا نے کیا تھا۔اس کے بعد اس نے گھٹیا ویڈیوز سینڈ کی تھیں ہاشم جو خود مجھے شاید معاف کر دیتے وہ  ٹوٹ گئے تھے ۔ اور میں اس دن ٹوٹی جب اس نے ولید کا ڈی ۔این۔اے ٹیسٹ کروایا۔۔۔۔۔ میں ختم ہو چکی ہوں۔ ہاشم اور میرے کمرے الگ ہو چکے ہیں،راستے الگ ہو چکے ہیں، ولید کو اکثر میں نےچھپ کر سسکتے دیکھا ہے۔ وہ اپنی عمر سے بڑا لگتا ہے مجھے سمبھالتا ہوا۔ ہم دونوں اپنے اپنے عشق کے غم میں گم ہیں اور وہ اپنے درد میں۔۔۔۔۔۔"

اتنے درد بھرے الفاظ تھے وہ کہ حرم کی ہمت جواب دے گئی۔ تکیے پہ سر رکھ کر وہ سسک رہی تھی۔

حرم کو سمجھ نہیں آئی وہ کس کے دکھ پہ رو رہی ہے۔ مایا ابسن کے ،ہاشم خان کے یا اپنے ولید کے دکھ پہ۔وہ لڑکا جو فاتح سمجھا جاتا تھا کس قدر ہارا ہوا تھا اندر سے۔ اس نے آنسو صاف کیے اور ڈائری پھر سے اٹھالی۔

6 اگست 2001 کیلفورنیا۔

"میں سوچتی ہوں طبعی موت مرنا آسان ہے عشق کی موت مرنا بہت مشکل عشق کی موت بڑی مشکل سے آتی ہے۔ یہ آپ کو اندر سے کھاتی ہے۔ اندر سے کھوکھلا کرتی ہے ،یادوں کا زہر پلاتی یے،لہجوں کا درد دلاتی ہے۔ انسان روز مرتا ہے روز جیتا ہے۔ مگر جان لبوں تک آ کر کہتی ہے ایک بار اسے بلا دو۔۔۔۔

میں پریگنینٹ ہوں کتنے سال بعد۔ ہاشم اور مجھے بیٹی کا بہت شوق تھا۔ میں اب مرنا نہیں چاہتی مگر وہ جا چکا ہے۔۔۔۔ ہاشم پاکستان جا چکا ہے۔ میری طبیعت دن بدن خراب رہتی ہے۔ ولید کا سکول جانا مشکل ہے۔ وہ مجھے دلاسے دیتا ہے۔ اور چپکے چپکے سارا دن بابا کو کالز ملاتا ہے مجھ سے چھپ کر۔ لیکن کوئی جواب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم کے آنسو ڈائری بھگو رہے تھے اور اس کا دل کہتا تھا یہ ڈائری پہلے سے بھیگی ہوئی تھی جس نے لکھا تھا اس کے الفاظ کرلا رہے تھے۔ 

    23 نومبر 2001 کیلفورنیا۔

آج جو کچھ لکھ رہی ہوں۔ یہ شاید آخری صفحہ ہے۔ یا زندگی کا آخری صفحہ ہے۔ دل کہتا ہے وہ ایک بار لوٹ آئے۔ وہ بس ایک بار آ کر پوچھے کیسی ہو تم۔۔۔۔ بس ایک بار آ کر گلے لگا لے۔ ایک بار آئے اور کہیے تم جیسی تھیں میری تھیں ۔ مجھ سے کچھ کھایا نہیں جاتا ڈاکٹرز خون کی کمی بتاتے ہیں ۔ وہ میرا شہزادہ ولید وہ اس عمر میں ہسپتالوں میں رل رہا ہے۔ کچھ کھانے لگتی ہو ں تو ہاشم یاد آتا ہے۔ بس ایک بار آ جاؤ ہاشم اس کے بعد بے شک چلے جانا۔ میں جینا چاہتی ہوں اس کے انتظار میں مگر زندگی کی ڈور ٹوٹتی جا رہی ہے۔ ولید چھپ چھپ کے روتا ہے۔ وہ جو اپنے بابا کا شیر بیٹا تھا کمزور پڑ گیا ہے۔۔۔۔۔

حرم کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ بس یہی آخری صفحہ تھا ۔ کہانی ادھوری تھی۔ پوری ولید کر سکتا تھا۔ اس بےچینی سے انتظا تھا صبح کا۔

                                        !******************

گو یہ انداز شاہانہ ہے امیروں جیسا

میرے اندر کا ہے انسان فقیروں جیسا

ہم نے چہرے پہ سجا رکھی ہے شہر کی رونق

میرے دل کا عالم ہے ویران جزیروں جیسا

اس کے اوصاف و خصائل نے مجھے جیت لیا

میرے مریدوں میں وہ شخص تھا پیروں جیسا

اس سے پہلے تھی اسیری بھی رہائی جیسی

اب کے آزادی میں بھی حال ہے اسیروں جیسا

اس کو گنوا کر ہیں خسارے اب تک محسن

وہ جو ایک شخص تھا میرے پاس ہیروں جیسا

محسن نقوی

وہ خاموش تھی اسے سجایا گیا وہ سج گئ۔ اسے حکم دئیے جا رہے تھے وہ سنتی جاتی وہ مانتی جاتی۔ کون جانتا تھا کونسا لاوا پل رہا تھا اس کے دل میں۔ آئید میر کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔

"بی بی جی سائیں نے کہا ہے آپ کو لے کر آئیں جی وہ لوگ آ چکے ہیں ۔ "وہ پلوشہ کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی جب دو ملازمائیں کمرے میں آئیں گلابی فراک ٹخنوں تک آتا تھا۔ گلے اور گھیرے پہ کام تھا سفید نگینوں کا۔ میک اپ کے نام پر کاجل اور لپ سٹک تھی۔سوگواریت نے اس کا حسن دو آتشہ کر دیا تھا مگر آنکھیں ویران تھیں ۔ 

وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چل پڑی۔ حویلی میں رسم نہیں تھی کہ مرد خواتین ساتھ بیٹھتے۔ مگر آج رسمیں بھی بدل گئی تھیں  نورم تلخی سے مسکرائی وہ شہر کے لوگ تھے لڑکا بھی ساتھ تھا اور سب ایک جگہ بیٹھے تھے۔ شام کا وقت تھا اور موسم  خوشگوار باہر لان میں بہت خوبصورت سا ماحول بنایا گیا تھا۔ وہ اہنا بھاری فراک سمبھالتی بہت اعتماد سے چلتی وہاں پہنچی۔ 

"چشم بدور۔۔۔"سامنے بیٹھی خاتون میکانکی انداز میں کھڑی ہو گئی۔ گلابی فراک میں گلابی چہرہ سہری بال سٹائلش چٹیا میں بندھے ہوئے تھے،سر پہ خوبصورت دوپٹہ تھا۔ اس کا معصوم سا چہرہ اور نرم و نازک وجود پورے ماحول پہ چھا گیا تھا۔ بی جان نے نظر اتار کر پیسے ملازمہ کو پکڑائے۔ جہانگیر خان اور اصغر خان ساتھ ساتھ خوبصورت کرسیوں پہ بیٹھے تھے۔ ایک طرف آنے والے مہمان تھے اور بی جان کے ساتھ نورم بیٹھی تھی۔۔ وہ لڑکا نورم کو ترسی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ بنا دیکھے سمجھ چکی تھی۔ 

"تو پیارے چچا جان رشتہ بھی اپنے معیار کا ڈھونڈھ کر لائے ہیں آپ۔"بہت سکون سے اس نے کہا او جو جہاں تھا وہیں تھم گیا۔بی جان نے اس کا بازو دبایا۔"میں سمجھا نہیں شفاقت صاحب کو بات ناگوار لگی۔"ارے نہیں سمجھے آپ اوہ سچ آپ تو بابا کے دوست ہیں نا مگر رشتی چچا جان کی وجہ سے ہو رہا طے تو میں سارا کریڈٹ ان کو دے دیا۔"آرام سے سامنے پڑا سیب اٹھا کو اس نے دانتوں سے کترا۔ جہانگیر خان نے بات آئی گئی کی۔ "بیٹا کیا کرتی ہیں آپ؟خاتون کچھ سوبر تھیں پوچھ بیٹھیں۔ "روتی ہوں۔۔۔۔"اس نے اعتماد سے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔"کیا مطلب آپ کا۔؟سب ہکا بکا تھے وہ لڑکا ہی بولا۔ 

اف!آپ مجھ سے کیسے بات کر سکتے ہیں ایسے آپ کو معلوم نہیں حویلی کی عزت کا نام لینے پہ چچا جان بندہ قتل کر دیتے ہیں ابھی ۔۔۔۔،"نورم" اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی جہانگیر خان دھاڑے۔ بی جان کا خون چہرے میں سمٹ آیا تھا۔ اور اصغر خان وہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں تھا کی مثال تھا۔ "کیا نورم؟آپ میرے بھائی کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں صرف اور صرف اس انسان کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اور میں خاموش رہوں کیا بات ہے۔۔۔۔۔ارمغان کے ذکر پہ ایک بار اس کا گلا رندھا تھا یہ لوگ جان بوجھ کر اسے دور رکھ رہے تھے وہ جانتی تھی۔ 

"یہ سب کیا ہو رہا ہے جہانگیر ؟ہم یہاں اپنی عزت اتروانے نہیں آئے تھے۔"شفاقت فورا غصے سے بولے۔ "ارے عزت کو چھوڑیں پیارے چچا جان تو چمڑی بھی اتار سکتے آپ کی اگر ان کو کچھ برا لگ گیا جیسے آپ کا واہیات بیٹا مجھے دیکھ رہا۔"وہ زور سے قہقہہ لگا کر بولی۔پلوشہ بھاگ کر آئی تھی۔ اسے لے جاؤ فورا یہاں سے۔ اس سے پہلے کے اصغر خان اس پہ ہاتھ اٹھاتا بی جان نے پلوشہ کو اشارہ کیا۔

"اگر آپ کو میری بات سمجھ نہ آئے تو واپس جاتے ہوئے زرا لوگوں سے ہوچھئے گا وہ سرکاری آفیسر کے ساتھ کیا ہوا ہے کیا؟"پلوشہ اسے تقریبا گھسیٹ کر لے گئی تھی اور وہ جاتے ہوئے بھی کہہ رہی تھی۔ پلوشہ دروازہ بند کر دو اندر سے۔ بی جان نے پلوشہ کو سمجھایا تھا اصغر خان کچھ بھی کر سکتا تھا آج۔ اور سامنے کھڑی لڑکی کو نہ موت کہ پرواہ تھی نہ مار کی۔ اسے بس اپنے عشق کی پرواہ تھی اپنے آئید میر کے لیے۔ اصغر خان جو آئید میر کو نہ چھوڑنے کی باتیں کرتا تھا نورم نے اسے ایک پل میں کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔

پلوشہ نے اسے لے جا کر دروازہ بند کر دیا تھا۔ ایک طوفان تھا جو حویلی میں آیا تھا۔ اب اس کے اثرات کیا ہونے والے تھے اس سے کون واقف تھا۔ 

اور باہر کھڑا اصغر خان وہ سوچ چکا تھا اسے کیا کرنا ہے۔ 

"وہ مار ڈالے گا تمہیں نورم"پلوشہ اس کے گلے لگ کر رو پڑی۔ "تو جینا کون چاہتا ہے؟"وہ سولیہ لہجے میں بولی۔ ہلوشہ بے بس ہو گئی تھی۔ "میں تو چاہتی ہوں میں اس کے لیے اس کے نام پہ قربان ہو جاؤں۔ وہ مجھے اس رشتے سے بچانے کے لیے کیا سے کیا کر گیا اور میں خاموش رہتی کبھی نہیں،تمہیں نہیں معلوم پلوشہ میں چاہتی ہوں وہ ٹھیک ہو کر آئے اور پوچھے نورم کہاں ہے؟،اور لوگ اسے بتائیں وہ تو تم پر قربان ہوگئی۔ تم پہ حملہ ہوا ماری وہ گئی۔ اور وہ مجھے سوچے کہ میں نے فرض نبھا دیا وفا نبھا دی۔وہ کیا بول رہی تھی ہلوشہ دہل گئی۔ یا خدا یہ قبولیت کی گھڑی نہ ،نہ ہو وہ دل سے دعا کر رہی تھی بس دعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                       ******************

اور نورم کی پہلی خواہش ہوری ہوئی۔ آئید میر نے آنکھیں کھول دیں۔ہاسپٹل میں سیکورٹی بہت سخت تھی۔ فی الحال خبر مخفی رکھی گئی تھی۔ اسے کچھ پل ہوش آیا تھا۔ اور پھر آنکھیں موند لی۔ یہ بات ڈاکٹرز کو پریشان کر رہی تھی۔ مگر سب کی دعائیں رنگ لے آئی اور اس نے موت کو ہرا کر زندگی کو گلے لگا لیا۔ سعدیہ اس کا ماتھا چوم کر رو پڑی تھیں۔ آئید میر کو شرمندگی ہوئی۔ "آپ سب لوگ باہر جائیں فی الحال ان کو آرام کی ضرورت ہے۔ "نرس نے سب سے شائستگی سے کہا۔"نور دین تم سے بات کرنی ہے رکو۔"آئید میر نے کہا نور دین کو تھا مگر جن نظروں سے ریحان صاحب اسے دیکھ رہے تھے وہ گڑ بڑا گیا۔ نور دین خود بھی گھبرایا ہوا تھا۔ 

"سب ٹھیک ہے نا ؟بابا کچھ عجیب لگ رہے۔"سب کے جانے کے بعد اس نے نور دین سے پوچھا۔ "آپ ذرا بستر سے اٹھ لیں پھر دونوں کی اکٹھی خبر لیں گے وہ۔"نور دین نے منہ بنا کر کہا تھا۔ "یار جو بار ہے بولو یہ کیا لڑکیوں کی طرح نخرے کر رہے ہوں۔"آئید میر نے نقاہت سے کہا۔ "یہ سن لیں آپ۔"اس نے نورم کی ریکارڈ شدہ کال اسے سنا دی۔ آئید میر کے لب دلکشی سے مسکرائے "۔ایسے لگ رہا ہے زخموں پہ مرہم رکھ دی کسی نے۔"اب وہ صاف اقرار کیا کرتا تھا۔" تو پھر یہ بھی سن لیں کہ سر ریحان ان کی آواز پہچان چکے۔"نہایت سکون کے ساتھ نور دین نے بوم پھوڑا۔ 

"کیا۔۔۔۔۔۔؟آئید میر اگر زخمی نہ ہوتا تو اچھل پڑتا۔ "جی بالکل۔"نور دین بے سکون سے کہا۔"اوہ میری پاگل شہزادی۔۔۔۔"آئید میر نے تھک کر سر تکیے پہ رکھا۔ اچھا مجھے حویلی کی ساری ر پورٹ دو۔ اور جیسے بھی خبر پہنچاؤ کہ میں اب ٹھیک ہوں۔ "آئید میر کو اس وقت بس وہ ہی یاد تھی۔ آپ ابھی آرام کریں حویلی کی خبر بعد میں سہی اور اطلاع نہیں ہم آپ کی بات کروائیں گے ہونے والی عقلمند بھابھی سے۔"نور دین نے آنکھ مار کر کہا تھا اور آئید میر جھیینپ گیا۔ عقلمند کا مطلب وہ سمجھ گیا تھا۔

                                          ********************

کیلفورنیا کے سوگوار ماحول میں چلیں تو وہ بلیک لانگ شرٹ پہ گرین اسکارف لیے بال پونی میں جکڑے ۔ سرخ پڑتی آنکھوں والی لڑکی اس شاندار سے محل نما گھر کے آگے کھڑی ہے۔

حسان ا سے چھوڑ کر خود جا چکا تھا یہ ولید کا گھر تھا ۔ اس نے بیل بجائی۔ایک۔۔۔دو۔۔۔۔۔تین۔۔۔۔۔  اس نے ہاتھ رکھ کر پھر چھوڑا نہیں۔"ارے بی بی خانا خراب کر دیا امارا صاب لوگ جاگ گیا تو میری خیر نہیں۔"وہ گیٹ کیپر پٹھان تھا جس نے دروازہ کھولا۔ "تو چاچا جلدی کھول دینا تھا نا۔۔۔۔۔"اس نے کہہ کر قدم آگے بڑھائے۔ اس چوکیدار کے لیے یہ منظر الگ تھا نیا۔۔۔۔۔ اس نے اپنی 6 سالہ جاب میں پہلی بار کسی لڑکی کو اس گھر میں داخل ہوتے دیکھا تھا وہ بھی اتنا صبح سویرے۔ یہ منظر نیا تو ہاشم خان کے لیے بھی تھا جو ابھی جاگنگ سے آئے تھے۔

اسلام علیکم!انہوں نے ڈرائنگ روم میں کھڑی حرم کو سلا کیا۔ اس نے بھاگ کر پیچھے دیکھا۔۔۔۔ اگر وہ کہتی کے ولید اس کے سامبے اولڈ ورژن میں تھا تو غلط نہ ہوتا۔ بلکہ اولڈ تو وہ لگ ہی نہیں رہے تھے۔ ڈائری میں پڑھا ایک ایک لفظ اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔ وہ ہاشم خان تھے ادھوری کہانی کا بقیہ حصہ۔ وہ ہونقوں کی طرح ان کو دیکھ رہی تھی۔ ہاشم نے گلا کھنکارا۔ 

"سوری۔۔۔وعلیکم اسلام" اس نے جلدی سے ان کے آگے سر جھکایا۔ ہاشم خان کو وہ لڑکی حلیے سے ہی اتنی پیاری لگی تھی اور پھر اس کا ایسے سر جھکانے کا انداز۔۔۔ انہوں نے شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ اور سیڑھیوں پہ کھڑے گیلے بالوں والے لڑکے نی اس منظر کی خوبصورتی میں کرب محسوس کیا تھا"آئیں بیٹا بیٹھ جائیں یہاں،"وہ صوفے کی طرف اشارہ کر کے بولے۔ 

وہ ان کے ساتھ چلتی صوفے پہ بیٹھ گئی۔ ولید نے بھی قدم بڑھائے۔

"میں ولید کی کلاس فیلو۔۔۔۔۔"اس نے انگلیاں موڑ کر کہا۔ وہ منہ اٹھا کر آ تو گئی تھی مگر اب شرمندہ تھی۔ ہاشم صاحب مسکرا دئیے۔اپنے بیٹے کو وہ اتنا تو جانتے تھے کے کوئی کلاس فیلو ایسے نہیں آ سکتی تھی۔تب تک وہ بھی آ چکا تھا۔ "چلیں ولید بھی آ گیا آپ لوگ باتیں کریں میں ناشتے کا کہتا ہوں۔وہ کہہ کر اندر بڑھ گئے تھے۔

ﻧﮑﻠﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﺍﻟﮓ ، ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﻭﺟﺪﺍﻥ ﺍﻟﮓ 

ﺍﻣﯿﺪ ﺍﻟﮓ ، ﺁﺱ ﺍﻟﮓ ، ﺳﮑﻮﻥ ﺍﻟﮓ ، ﻃﻮﻓﺎﻥ ﺍﻟﮓ

 ﺗﺸﺒﯿﮧ ﺩﻭﮞ ﺗﻮ ﮐﺲ ﺳﮯ ، ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺣﺴﻦ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺭﻧﮓ 

ﻧﯿلم ﺍﻟﮓ ، ﺯﻣﺮﺩ ﺍﻟﮓ ، ﯾﺎﻗﻮﺕ ﺍﻟﮓ ، ﻣﺮﺟﺎﻥ ﺍﻟﮓ

 ﺗﯿﺮﯼ ﺍﻟﻔﺖ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﮯ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﺐ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ

 ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺍﻟﮓ ، ﺗﮑﺮﺍﺭ ﺍﻟﮓ ، ﺗﻌﻈﯿﻢ ﺍﻟﮓ ، ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺍﻟﮓ

 ﮔﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﻧﭧ ﺩﻭ ﯾﮑﺠﺎﻥ ﻟﻤﺤﮯ 

ﻣﺴﺮﻭﺭ ﺍﻟﮓ ، ﻧﮉﮬﺎﻝ ﺍﻟﮓ ، ﭘﺮﮐﯿﻒ ﺍﻟﮓ ، ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺍﻟﮓ 

ﻭﻗﺖ ﺭﺧﺼﺖ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﺟﺐ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ 

ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻟﮓ ، ﻣﺴﮑﺎﻥ ﺍﻟﮓ ، ﺑﯿﺘﺎﺑﯽ ﺍﻟﮓ ، ﮨﯿﺠﺎﻥ ﺍﻟﮓ

 ﺟﺐ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﯿﺎ ، ﺗﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ

 ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺍﻟﮓ ، ﭘﺸﯿﻤﺎﻥ ﺍﻟﮓ ، ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺍﻟﮓ ، ﺑﯿﺎﺑﺎﻥ ﺍﻟﮓ

ہاشم خان کو دیکھ کر حرم بس مایا کو سوچ رہی تھی اس کی کہانی عشق  ہجر۔۔۔ولید محسوس کرتا یا نہ حرم کو ان کی آنکھوں میں درد نظر ایا تھا پھچتاوا ویرانی۔

ولید اور حرم کو بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب ہاشم خان نے ان کو پکارا تھا۔ "آ جاؤ بچوں ناشتہ ریڈی ہے۔" حرم آج پہلی دفعہ آئی تھی اس لیے ولید کوئی بد مزگی نہیں چاہتا تھا اس لیے اس کو لے کا ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھا۔ ناشتے کے دوراں ہاشم اس سے چھوٹے موٹے سوالات کرتے رہے جس کا جواب وہ ادب سے دیتی رہی تھی۔ ناشتہ کر کے وہ آفس چلے گئے تھے۔

"ولید مجھے ادھوری کہانی سننا ہے تم سے۔"حرم نے بھیگی آنکھو ں سے کہا۔" آ جاؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔"وہ اسے گھر کے پیچھے والی طرف لے گیا تھا۔وہ ایک چھوٹا مگر بہت خوبصورت سا باغیچہ تھا جو کے موتیا اور جیسمین کے پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔ حرم کو یاد آیا اس نے ڈائری میں ایک جگہ پڑھا تھا کہ مایا ابسن کو عشق تھا موتیے اور جیسمین سے۔وہ جگہ اس قدر خوبصورت اور صاف تھی کہ حرم بس دیکھتی جا رہی تھی۔ 

"کیا پوچھنا ہے حرم پوچھو؟"گیلے بال تھوڑے سے ماتھے پہ چپکے تھے وہ بنا بال سیٹ کیے اس کے ساتھ آ گیا تھا فریش نکھرا ہوا ولید بہت اچھا لگ ریا تھا۔ حرم کو دکھ ہوا کے وہ جو قصہ چھیڑنے والی تھی وہ اسے اداس کرے گا۔

"مجھے یاد ہے وہ دن اس دن وہ میرے گلے لگ کر روئی تھیں ۔ وہ ہر بار بیل بجتی چاہے کسی بھی پڑوسی کے گھر مجھے کہتی تھیں ہاشم آ گیا جاؤ اندر لے آؤ۔ مگر وہ شاید بھول گئی تھیں ہاشم صاحب کبھی دستک دے کر نہیں آیا کرتے تھے۔ "ولید کی آنکھیں آہستہ آہستہ سرخ ہو رہی تھیں۔

"انکل تھے کہاں۔۔۔۔۔؟"حرم نے پوچھا۔ "جن دنوں تصاویر کا مسئلہ ہوا تھا وہ بدل گئے تھے۔ مجھے پیار کرتے کرتے رو پڑتے تھے۔ ان کو یقین تھا میں ان کا ہی بیٹا ہوں ان کا خون،مگر وہ اس قدر بے بس تھےنفسیاتی کے انہوں نے ڈی۔ان۔اے کروایا اور جب اس نے بھی تصدیق کی کے ولید ان کا ہی بیٹا ہے وہ ماما کے سونے کے بعد ان کے قدموں میں بیٹھ کر روتے رہے تھے اور پھر غائب ہو گئے۔ مجھے اس وقت ان کی ضرورت تھی۔ ماما کچھ کھاتی پیتی نہیں تھی ان کو کمزوری ہو گئی تھی۔ میں ان کا ہر کام بھاگ کر کیا کرتا تھا۔ میری بہن آنے والی تھی مجھے یہ احساس ہر غم بھلا دیتا تھا۔ مگر اس دن۔۔۔۔۔۔۔"اس کا سانس پھول رہا تھا حرم کو لگا اسے پسینا آ رہا ہے۔"ولید بس کرو مجھے نہیں سننا کچھ پلز ریلیکس ہو جاؤ۔"حرم خود رونے والی تھی۔

"وہ مریم ہاشم یا مایا ابسن کا آخری دن تھا۔ انہوں نے تیاری کی اور اس انسان کا انتظار کرتی رہیں۔ صبح سے شام اور رات کب ہوئی ہم دونوں کو خبر نہیں تھی ۔میں سارا دن ان کو کالز کرتا رہا مگر آف سب۔۔۔۔اور پھر آدھی رات وہ مایوس ہوئی تھیں حرم وہ جیسے اٹھی تھیں میرا دل کانپ گیا تھا۔ مجھے یاد ہیں ان کے الفاظ۔۔۔؛ولید محبت کو پا کر کبھی نہیں کھونا چاہیے یہ درد اس درد سے کہیں ذیادہ ہوتا ہے جو محبت نا پانے کا ہو،ہاشم نے مرا عشق فراموش کر دیا وہ مجھے فراموش کر گیا جس کی خاطر میں ساری دنیا چھوڑی۔ وہ کسی ٹوٹے ہوئے پتھر کی مورت کی طرح لگ رہی تھیں۔انہوں نے میر آنکھیں چومیں۔ یہ آنکھیں تو میرے جیسی ہیں نا۔۔۔۔ یہ اسے میری یاد دلائیں گی نا۔۔۔وہ سوالیہ لہجے میں بولیں۔ اور میرا دل کیا میں یہ آنکھیں نکال دوں۔وہ خاموشی سے اٹھیں تھیں۔ان کی حالت خراب تھی وجود کانپ رہا تھا۔ میں رو رہا تھا ان کو پرواہ نہیں تھی۔  میں نے دن رات دعائیں کی تھیں اللہ سے مجھے بہت کچھ یاد کروایا گیا تھا ماما خود اچھی مسلمان تھیں مگر میری نہیں سنی گئی اور اس دن کے بعد دعا نہیں مانگی کچھ نہیں مانگا میں نے۔دو قدم بس دو قدم وہ چلی تھیں اور بس وہیں گر گئیں وہ اس شخص کے انتظار کی دہلیز پہ مری تھیں۔ میں ان کو ہاسپٹل لے گیا میں بہت چھوٹا تھا میں لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑتا تھا میری مدد کرو۔ اور ڈاکٹرز نے بتایا وہ مر چکی ہیں۔۔۔۔۔ مر تو وہ کب کی چکی تھیں بس اس دن جان نکل کر پرواز کر گئی۔ "ولید اور حرم نہیں جانتے تھے وہ دونوں سسک رہے تھے۔ دونوں رو رہے تھے۔۔۔۔

"ان کے مرنے کی خبر ہر جگہ پھیل چکی تھی۔ میڈیا نے اسے خوب اچھالا۔ اور وہ شخص جو ہماری دعاؤں منتوں پہ نہیں آیا تھا وہ اس دن لوٹا جب ماما کو گئے تین دن بس تین دن ہوئے تھے۔ میرا دل کیا میں ان کو بتاؤں کہ اس عورت کی نگاہیں مرے ہوئے بھی منتظر لگتی تھیں مگر تب ولید ابسن بدل چکا تھا۔ میں نے ہر وہ کام کیا جس سے ان کو تکلیف ہو۔وہ ماما کے کمرے میں جانا چاہتے تھے میں دیوار بن گیا۔ میں نے ان کو نہ صرف خود سے بلکہ ہر اس چیز سے الگ کر دیا جو ماما سے منسلک تھی ۔ مگر اس واقع کے بعد وہ بدل گئے تھے۔ بزنس اور بزنس وہ بس پیسا کماتے گئے مجھے لگا ان کو پیسے سے محبت ہو چکی ہے میں اتنا اڑایا جتنا اڑا سکتا تھا۔ مگر میں تھک گیا ۔ ہم نے وہ گھر چھوڑا اور یہاں آ گئے۔ وہ مر گئیں اور میری ذات کا ایک حصہ اپنے ساتھ لے گئیں۔ میں تو عشق کا ڈسا ہوا ہوں ۔ ولید بہت دلگرفتہ نظر آ رہا تھا اس کا خوبصورت چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔ حرم نے اس کے کندھے پہ سر رکھ دیا۔ تمہیں پتہ ہے جس دن تم گم ہوئی تھیں مجھے لگا میں اس گھڑی میں پہنچ گیا ہوں جب میں نےماما کو کھویا تھا۔"وہ افسردہ سا بولا۔"تم مجھے کبھی نہیں کھو سکتے ولید حرم تمہارے ساتھ ہو گی ہر پل میں تمہاری زندگی سے جانے کے لیے نہیں آئی۔" اس کے مضبوط کندھے پہ سر رکھ کے اس نے مضبوط لہجے میں وعدہ کیا۔مگر وہ نہیں جانتی تھی محبت میں کیے گئے وعدے کبھی بہت مہنگے پڑ جاتے ہیں۔ اس نے ولید ابسن کو یقین تھمایا اور وہ مسکرا دیا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس مسکان کو اگر چھینا اس نے تو وقت ظالم ہو ہو جاۓ گا۔ عشق کا ڈسا لڑکا عشق کر بیٹھا تھا تقدیر کو بھی ترس آتا تھا ولید ابسن کی قسمت پہ۔۔۔۔۔۔۔

                                             !*****************

"ارمغان کا فون آیا وہ ایک دو دن میں آنے والا اس سے پہلے مجھے اپنا ہدف پورا کرنا ہے۔ جہانگیر خان کو اس حویلی سے دور بھیجنا ہے۔"اصغر خان اپنے خاص ملازم افضل سے کہہ رہا تھا۔ "سرکار جان کی امان پاؤں تو ایک بات پوچھوں آپ سے ؟"افضل سر جھکا کر بولا۔"ہاں تم خاص آدمی ہو پوچھو"اضغر خان نے دریا دلی دکھائی۔ "سرکار آپ کی بڑے سرکار سے نفرت سمجھ نہیں آتی۔۔۔۔"اصغر نے گھگیا کر پوچھا۔ "ساری زندگی اس نے مجھے میری مرضی نہیں کرنے دی۔ ساری زندگی ہر چیز اپنے قبضے میں رکھی۔ مجھے ایک ایک چیز کے لیے ترسایا۔ اب اسی کی اولاد آگے ہے۔ وہ ارمغان پورےقبیلے کا چہیتا بنا پھرتا ہے۔ میری شادی بھی جان بوجھ کر نہیں کی۔اب میں ایسی مار دوں گا اسے کہ یاد رکھے گا۔سوتیلا ہو ں تو سوتیلابن کر دکھاؤں گا۔ "اس کے لہجے میں نفرت ہی نفرت تھی۔  کیا مطلب آپ سوتیلے ہیں۔۔۔۔؟"افضل حیرت سے اچھل پڑا۔ "ہاں میری ماں اس گھر کی نوکرانی تھی جو مجھے پیدا کرتے ہی مر گئی۔ ظہار خان بابا نے ان سے خفیہ نکاح کیا مگر یہ بات جب گھر کے لوگوں میں کھلی تو جہانگیر کے نانا نے طوفان کھڑا کر دیا۔میرے نانا نانی نے مجھے ان کو حوالے کیا اور پیسہ لے کر چلے گئے۔تب سے بی جان نے مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھا ۔ لیکن ہوں تو سوتیلا نا۔۔۔۔۔۔۔"جتنی نفرت اس کے دل میں تھی افضل خان بھی خوفزدہ ہو گیا تھا۔

صادق خان نے ڈرتے ڈرتے شکورا کو آواز دی جو باہر سے آ رہی تھی۔ "ہاں لالہ بولو"شکورا چادر لپیٹتی پاس آئی۔"یہ نمبر پکڑو اور اس پہ کال کر کے چھوٹی بی بی کی بات کروا دو"وہ بس اتنا کہہ کر واپس چلا گیا تھا۔ شکورا نے جلدی سے دوپٹے میں کاغذ چھپایا۔

"نورم بی نی نورم بی بی جلدی آئیں۔"وہ سیدھا اس کے کمرے میں آئی تھی۔ "شکورا کتنی بار کہا ہے مجھے بس نورم کہا کرو ۔" نورم کو بخار تھا اس لیے آواز بھاری تھی۔"وہ سب چھوڑیں ادھر دیکھیں یہ لالہ صادق نے دیا مجھے کے اس نمبر پہ بات کرواوں آپ کی۔"وہ شرارت سے بولی۔ "کیا ۔۔۔۔کیا تم سچ کہہ رہی ہو کیا وہ میر ہوں گے؟"نورم سب بھلائے اس سے پوچھ رہی تھی۔ "یہ تو نہیں پتہ جی آپ دیکھ لیں۔"اس نے چھوٹا سا موبائل اور کاغذ اس کی طرف بڑھایا۔ میں جا رہی ہوں۔ آپ کو چائے دینے کے بہانے آئی تو پوچھوں گی سب ابھی آپ بات کر لو۔"وہ نورم کا گال تھپتھپا کر چلی گئی۔ نورم اس کے خلوص کے آگے بے بس ہو جاتی تھی۔

اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ فون ملایا۔۔۔۔۔

"ہیلو۔۔۔۔۔۔"کسی مرد کی آواز تھی مگر وہ آئید میر نہیں تھا اس کا دل ڈوبا وہ کچھ نہیں بولی دوسری جانب سے ہلکی سی آواز آئی تھی۔اور پھر۔۔۔۔۔

کائنات نے اس کے کانوں میں رس گھولے نورم کی مایوس آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑی دل میں سکون اترا۔۔۔۔۔

"کیسی ہیں آپ محترمہ؟"اس کی آواز تھی خوشی سے نورم کے گال بھیگے ہونٹ لرزے ،دعائیں قبول ٹھہری تھیں وہ دل سے شکر بجا لائی۔ "مجھے لگتا تھا موت سے لڑ کر واپس آؤں گا تو بڑے پیارے لوگ بڑا پیارا سا پیارے لبوں سے کچھ حال۔احوال پوچھیں گے مگر لگتا سارے خواب ادھورے رہنے ہیں۔"آئید میر کی شرارت بھری آواز اس وقت اسے متاع جان لگی تھی۔

"میر۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بولی اور سسک دی۔ اس دفعہ اس طرز تخاطب پہ میلوں دور بیٹھے آئید میر کا دل ڈولا تھا۔ "جی جان میر۔۔۔"وہ مہربان نظر آیا۔ وہ بلش کر گئی۔ دل تھا کہ دھک دھک کر رہا تھا۔"مجھ سے کب ملیں گے آپ؟"کوئی خیر خیریت نہیں  پوچھی گئی تھی وہ آواز سے ہی پہچان گئی تھی وہ ٹھیک ہے اس بے بڑا خوبصورت سا سوال کیا تھا محبت سے بھرا ہوا جس نے بے رنگ سے نظر آتے آئید میر کے چہرے پہ رنگ گھولے۔"آج کل تو آپ بہت بہادر ہو چکی ہیں سنا ہے میں نے اب وہ اسے سراہا ریا تھا۔دونوں پیار بھری باتیں کر رہے تھے وقت کی چالوں سے بے خبر۔

                                           ****************

اور پیپرز حرم کے تھے مگر شامت ولید کی۔ ایک پل گزرتا تھا اور اس کا فون۔ "ولید مجھے اب بھول گیا۔"وہ معصومیت سے کہتی اور ولید سب کچھ بھول بھال کر اس کو سمجھانے لگ جاتا۔ دو پیپرز ہو چکے تھے۔ اور اگلا پیپر حرم کو بہت مشکل لگتا تھا۔ ولید کا فٹ بال میچ کا فائنل تھا وہ پریکٹس کر رہا تھا جب اس کا سیل بجا۔ مائیکل اور حسان نے شرارت سے دیکھا۔"کیا مسئلہ ہے تم لوگوں کے ساتھ جب دیکھو مفت میں دانت نکالتے رہتے ہو۔"ولید کی نیلی آنکھوں نے ان دونوں کو گھورا۔"ہماری مجال ہم تو بس ایک دوسرے کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ وہ ہی ولید صاحب ہیں جو کسی لڑکی کا فون آنے پہ تپ جاتے تھے جن کا دور دور تک کسی لڑکی سے تعلق نہیں تھا۔"حسان نے مائیکل کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کرکہا۔ "ہاں کیونکہ وہ بس لڑکیاں تھیں۔ اور یہ حرم ریحان ہے ولید ابسن کا اکلوتا پہلا دوسرا تیسرا اور آخری عشق وہ خاص ہے اور اس کا حق ہے مجھ پہ" وہ سیل جیب سے نکال کر آگے بڑھ گیا۔مائیکل اور حسان ہکا بکا کھڑے تھے۔ 

"بالکل بھی تم میچ دیکھنے نہیں آؤ گی حرم ایک تو دو دن بعد تمہارا پیپر ہے اور پچھلی بار یاد ہے مجھے جو تم نے کیا تھا میری  چھوٹی سی چوٹ پہ تم نے رونا شروع کر دیا تھا عجیب سب ہنس ر ہے تھے۔ "ولید ایک ہاتھ سے بال سیٹ کرتا بولا۔"نور ،سہانا،کشف اور بیلا بھی آ رہے ہیں ولید۔"اس نے معصومیت سے اس کی اطلاعات میں اضافہ کیا۔ ولید مسکرا دیا وہ سمجھ رہا تھا اس کی بات۔ "آپ پھر بھی نہیں آ سکتیں ہیں"وہ مسکرا کر بولا۔ "کیوں میرے سینگ ہیں کیا۔۔۔۔؟"حرم چڑی ۔"نہیں میں ہارنا نہیں چاہتا تم آؤ گی تو میرا دھیان سارا تمہاری طرف رہے گا کھیلوں گا کیسے؟"ولید نے آہستہ سے گھمبیر آواز میں ہوا کے ہاتھوں پیغام بھیجا۔حرم نے مسکرا کر وصول کیا  اور  گل سے گلال ہوئی۔ حرم کا دل دھڑک اٹھتا تھا جب وہ ایسے بات کرتا تھا۔میں چھپ کر بیٹھ جاؤں گی جہاں سے تمہیں نظر نہ آؤں مگر تم مجھے نظر آ جاؤ۔"اس نے بھی محبت کا جواب محبت سے دیا اور محبتوں کے جواب محبتوں سے دئیے جائیں تو زندگی میں سکون محسوس ہوتا ہے ولید کو بھی وہ ہی احساس ہوا تھا۔ "ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم مجھے نظر نہ آؤ پر چلو آ جانا مگر چپ کر کے بیٹھنا اس نے دوبارہ کہا اور حرم نے فورا ہامی بھری مگر اس شام ہی وہ بھول چکی تھی کہ کیا کہا تھا ولید نے۔

میچ شروع تھا ولید کی ٹیم ہمیشہ کی طرح اچھا کھیل رہی ہے۔حرم کے ہاتھ تالیاں بجا بجا کر سرخ ہو رہے تھے۔ ولید کی ٹیم کی شرٹ  لانگ ٹراؤزر کے ساتھ پہنے اسکارف گلے میں ڈالے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ ولید نے گول کیا تھا اور حرم نے دونوں ہاتھ ماتھے پہ رکھ کے جیسے نظر اتاری ولید نے بھی اس پل اسے دیکھا تھا اور مسکرا دیا۔ ساتھ بیٹھی لڑکیاں لڑکے بھی اس کے معصومانہ انداز پہ ہنس رہے تھے۔ اب یو سی بارکلے میں اکثر لوگ اسے ولید کے حوالے سے جاننے لگ چکے تھے۔ اور پھر سب نے ہی غور کیا کہ مخا لف ٹیم چیٹنگ پہ اتر آئی تھی۔ وہ ولید سے بال لینے سے ذیادہ اسے گرانے پہ زور دے ریے تھے۔ اور وہ دو لڑکوں میں سے ایک نے بھاگتے ہوئے ولید کے پیر میں پیر رکھ کر اسے گرایا تھا اور دوسرا بال لے گیا۔ ریفری نے سیٹی بجا کر اسے وارن کیا تھا مگر حرم اس کا منہ تپ چکا تھا۔

"چیٹر۔۔۔۔چیٹر۔۔۔۔۔چیٹر۔۔۔۔ "وہ زور سے چلائی۔ جذباتی ہونا بھی خطر ناک ہوا کرتا یے۔ اور آن کی آن میں گراؤنڈ سے چیٹر ۔۔۔۔۔"چیٹر"۔۔۔۔۔۔"چیٹر۔۔۔۔۔"کی آوازیں گونج اٹھی۔ مخاف ٹیم اچھے خاصے پریشر میں آئی ۔فائنل آور چل رہا تھا مائیکل نے اور ولید نے گول کر کے میچ اپنے نام کر لیا تھا۔سارے گراؤنڈ میں سیٹیاں تالیاں بج اٹھی تھیں۔مگر ولید خاموش تھا۔ اسے حرم کا یہ انداز اچھا نہیں لگا تھا مخالف ٹیم اسے ولید کی چال سمجھ سکتے تھے اور وہ ہی ہوا ۔"اگلی بار جیتنا ہو تو اپنے بل بوتے پر ہمت کر کے آنا مسٹر ابسن۔"مخالف ٹیم کا کپتان جینی کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا اور ولید کا چہرہ سرخ ہوا۔ حسان سب سن رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتا وہ بھاگتا ہوا وہاں سے آ گیا تھا۔انعام میڈل سب ٹیم کو ملا مگر وہ نہیں تھا۔ حرم کا دل گھبرایا۔اور پھر حسان نے اس کے غصے کی وجہ بتا دی تھی۔ حرم کا پریشانی سے برا حال ہو رہا تھا سارا جوش خوشی اڑن چھو ہو چکی تھی۔ 

                                                  ********************   

نورم۔جہانگیر کی زندگی کو جہنم بنانے کا پورا پلان کر لیا گیا تھا۔"افضل تم نکاح کرو گے نورم سے؟"اضغر نے یہ بات کر کے سامنے کھڑے نوکر کا سر ا ٹھا دیا تھا۔ وہ بس ٹکر ٹکر دیکھتا جا رہا تھا اس کا چہرہ۔ وہ بول نہیں پایا ۔ "ارمغان کو شہر سے ریسیو کرنے گیا ہے جہانگیر خان ناراض بیٹے کا دل خوش کرنا چاہتا ہے ۔ اور آج رات میں اسے وہ چوٹ لگاؤں گا کہ وہ یاد رکھے گا۔"اصغر خان کا لہجہ نفرت آمیز تھا۔ او ر افضل ایک پکی عمر کا مرد تھا۔شادی شدہ تھا۔ نورم کو اس نے ایک آدھ بار ہی دیکھا تھا۔ اب اصغر خان غصے میں اسے مالا مال کرنا چاہا رہا تھا تو وہ کیوں پیچھے ہٹتا۔ "جی سرکار تیار ہوں میں۔"دو کمینے مل۔کر شہزادی کو برباد کرنے لگ گئے تھے۔ آج رات خانوں کی حویلی کی سب سے بھیانک رات ثابت ہونے والی تھی۔ 

وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی ۔بی جان نے اس کا باہر داخلہ منع کر رکھا تھا۔ رات ڈھلنے والی تھی۔ "نورم بی بی مجھے آج یہاں سے خطرے کی بو آ رہی ہے۔"شکورا آہستہ سے دروازہ کھولتی اس کے کمرے میں آئی تھی۔ "کیا کہہ رہی ہو تم مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔"نورم ہراساں ہوئی۔ "وہ جو کھانا بنا کر گئی یے باورچن اس میں افضل خان نے کچھ ڈال کر بی جان کو کھانا بھجوایا ہے۔"شکورا کی خبرین پکی ہوا کرتی تھیں۔نورم ننگے پیر بی جان کے کمرے میں بھاگی۔"آپ ٹھیک ہیں نا۔۔۔۔۔؟"کتنے دنوں بعد وہ ان سے بات کر رہی تھی۔ بی جان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ "تم آج کیسے یہاں نظر آئیں؟"بی جان نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے قیمتی انگھیوٹھیاں اتارتے ہوئے کہا۔"بی جان یہ نہیں جانتی تھیں کہ اس حویلی میں وہ ان کو آخری بار نظر آئی تھی۔۔۔

"آپ کی خیریت پوچھنے۔"نہ جانے کیوں نورم کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔"ادھر آو۔۔۔"بی جان نے پکارا تھا۔وہ بھاگ کر ان کے گلے لگی۔ کتنے دنوں بعد اس نے یہ مہک محسوس کی تھی۔ "اچھا باقی لاڈ کل کرنا ابھی مجھے نیند آ رہی۔"ان پہ غنودگی سی  طاری تھی حالانکہ وہ جلدی نہیں سویا کرتی تھیں۔

                                             *********************

 شام کا وقت تھا یہ ملک ہاؤس میں۔آئید میر گھر لوٹ آیا تھا۔ آیا تھا اب وہ ٹھیک تھا ۔مگر سعدیہ اسے ایک پل نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھیں۔ابھی بھی وہ حرم سے بات کر رہا تھا جب اس کے پرسنل سیل کی بیل بجی۔ صادق خان تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ سعدیہ اور ریحان بابا کی طرف بڑھایا۔ اب حرم ان سے باتوں میں مصورف تھی اور اپنے پیپرز کو بڑھا چڑھا ک بتانے میں مصروف تھی۔ "بیٹا حرم پیپرز اتنے ہی مشکل ہیں تو آپ کا پاس ہونا تو خطرے میں پڑ گیا۔"ریحان صاحب نے مسکان دبا کر کہا۔"اف پا پا اف آپ کو شک ہے کیا میری صلاحیتوں پہ۔ "وہ پھیلی سعدیہ نے بھی منہ دوسری طرف کر لیا تھا مسکان دبانے کے لیے۔ تبھی آئید میر سرخ پریشان چہرے کے ساتھ لوٹا تھا۔ کہاں جا رہے ہو،؟ریحان صاحب اسے چابیاں اٹھاتے دیکھ کر غصے سے بولے۔"بس بابا ایسے سمجھیں آپ کے بیٹے کی زندگی داؤ پہ لگی ہے ۔۔۔۔۔۔"

اور خانوں کی اونچی حویلی میں اس کی زندگی وا قع داؤ پہ لگی تھی۔"چچا جان میرے ساتھ ایسے کیسے کر سکتے ہیں۔وہ کمرے میں بند روئے جا رہی تھی۔اس کے سامنے نکاح کا جوڑا رکھا تھا اور کمرہ بند ۔وہ چلا چلا کر تھ“”ک چکی تھی مگر کوئی سن نہیں رہا تھا۔ اسے ارمغان یاد آیا اس کا بھائی اس کا مان ۔۔لالہ ۔۔۔۔ وہ کرلائی۔تبھی اسے لگا کوئی آہستہ سے دروازہ کھول کر آیا ہے۔ "نورم بی نی آپ کا نکاح وہ اس افضل خان کے ساتھ کروا رہے ہیں۔"شکورا آج جان ہتھیلی پہ رکھ کر آئی تھی اس کی جانثار۔ "میں نے مشکل سے یہ چابی نکالی ہے خدا کے لیے بنا کچھ کہے میرے ساتھ چلیں۔"وہ خود بھی رو رہی تھی۔ "نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گی جو ہو جائے۔"نورم دو قدم پیچھے ہٹی اور بیڈ کے ساتھ بیٹھ کر سسک اٹھی۔"تو کیا آپ ان کے منصوبے پہ عمل ہونے دیں گی۔ کیا آپ اس افضل خان جیسے گھٹیا انسان کی۔۔۔۔"اس سے آگے وہ کچھ بول نہیں سکی تھی۔نورم بس روئے جا رہی تھی۔ آپ بس میرے گھر تک آ جائیں اس کے بعد کل تک ارمغان اور بڑے صاحب آجائیں گے۔ "وہ اسے دلاسہ دے کر بولی۔"بی بی جلدی کریں نیچے صادق لالہ انتظار کر رہا وہ ہی نکالے گا ہمیں یہاں سے۔"وہ نورم کے آگے ہاتھ جوڑ کے بیٹھ گئی تھی۔ اور پھر اسے ماننا ہی پڑا تھا۔باہر اصغر خان مولوی کا انتظام کر رہا تھا۔ افضل کی باچھین چری جا رہی تھیں اور ادھر وہ گھر کی عزت اپنے آپ کو بچانے کے لیے عزت داؤ پہ لگا رہی تھی۔ 

کھڑکی سے نیچے رسی کے ساتھ اترتے ہوئے نورم کے ہاتھ چھل چکے تھے۔ سیاہ چادر میں خود کو لپیٹے وہ دونوں رات کا حصہ معلوم ہوتی تھیں۔صادق خان ان کو ایک خاص راستے تک لایا تھا۔" یہاں سے آگے آپ کو خود جانا ہو گا اگر میں ذیادہ دیر باہر رہا تو ان کو شک ہو جائے گا۔"صادق خان کہہ رہا تھا اور۔۔۔۔۔۔۔حویلی میں شک ہو چکا تھا۔۔۔۔۔

"میں اس شکورا کمینی کو چھوڑوں گا نہیں۔ گاڑیاں نکالو جلدی۔ابھی دور نہی گئی ہوں گی وہ۔"اصغر خان اپنے پالتو نوکروں کی خفیہ فوج سے مخاطب تھا۔

نورم اور شکورا بھاگ رہے تھے ۔ نورم کے پاؤں زخمی ہو چکے تھے۔ اس کی ہمت جواب دے رہی تھی جب گاڑیوں کا شور سنائی دیا۔ صاحب اس طرف کچھ سایا سا ہے۔ایک ملازم بولا۔ وہ ان سے کافی دور تھیں  وہ دونوں زور سے بھاگی تھیں ۔۔۔۔مگر۔۔۔۔ وہ اندھیرے میں ہونے والا فائر بہت بھیانک تھا۔ شکورا کے منہ سے چیخ نکلی اور خون میں لت پت وجود نورم کے پاؤں پہ گرا پڑا تھا نورم کی چیخ اندھیرے میں دور دور تک سنی گئی۔

ظہار خان قبیلے میں آج قہر بھری رات تھی۔شکورا اس کے پاس خون میں لت پت پڑی تھی ۔ نورم بس حیران ششدر تھی۔

 "بی بی خدا کے لیے یہاں سے بھاگ جائیں وہ لوگ آپ کے ساتھ بہت برا کریں گے۔"

شکورا کراہا کر مشکل سے بولی۔

"نہیں بالکل تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔"وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔"آپ یہاں رہیں بھی تو کچھ نہیں ہو گا آپ کو میری قسم ہے جائیں یہاں سے۔" 

لوگوں کی آواز بہت قریب سے آ رہی تھی۔ نورم نے شکورا کو گلے لگایا تھا۔ اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ شکورا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اس کے لیے دعا کی تھی۔اس نے ثابت کر دیا تھا وفا کا کوئی اصول نہیں ہوتا۔

وہ جھاڑیوں کے اندر سے راستہ بناتی بھاگ رہی تھی۔ وہ لوگ شکورا کے پاس پہنچ چکے تھے اس نے مڑ کر دیکھا تھا۔ بس یہ آخری نگاہ تھی جو اس نے پیچھے ڈالی تھی۔اسے بھاگتے چھپتے ہوئے  کچھ منٹ ہوئے تھے جب اس کا سانس تھما۔ کوئی اس کے پاس تھا۔ بہت قریب۔ نورم کو گردن کے پاس کسی چیز کا احساس ہوا اس نے سانس روک لیا۔وہ مہک۔۔۔۔خوشبو۔۔۔۔ اس نے بھاگ کر پیچھے دیکھا اور آنے والے نے اپنا مضبوط ہاتھ اس کے منہ پہ رکھ کر اسے چیخنے سے روکا۔

"اب اگر تم چیخی نہ تو ادھر پھینک کے چلا جاؤں گا اپنا نہیں تو چلو میری بھری جوانی پہ ترس کھاؤ محترمہ۔۔۔۔"آئید میر نے خشمگیں نظروں سے اسے گھورا۔

نورم نے اسے دیکھا ۔پھر سے دیکھا  نظروں میں خوشی دوڑی اور اس کے سینے میں خود کو چھپا لیا۔آئید میر کو وہ دن یاد آیا جب وہ اسے ملا تھا اسی جنگل میں۔آئید میرنے جھک کر اس کے کان میں کچھ کہا اور وہ بھاگ کر الگ ہوئی۔اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔"آپ یہاں کیسے ۔۔۔۔؟"وہ سوں سوں کرتے بولی ۔ "یہ سب بعد کی باتیں ہیں نورم ابھی بس یہاں سے نکلنا ہے ہمیں۔"اسے سامنے دیکھ کر وہ سب کچھ بھول چکی تھی۔ اس کا کونسا قدم کیا کرنے والا تھا۔ وہ دونوں بھاگتے ہوئے گاڑی تک پہنچے تھے۔ ایک ایماندار فارسٹ آفیسر سے ذیادہ بھلا اس جنگل کے راستوں سے کون واقف تھا ۔وہ اسے بچاتا ہوا گاڑی تک آیا  گاڑی کی لائٹس آن ہوئی تو آئید میر نے دیکھا اس کے پیروں پہ خون تھا کپڑے سارے خراب ہو رہے تھے۔ اس کا دل دکھا تھا۔ مگر اس واقع کا ذمہ دار وہ نہیں تھا اگر وہ نہ ہوتا اصغر خان پھر بھی ایسے گندے منصوبے بناتا اور شاید کامیاب بھی ہو جاتا۔ وہ بالکل مردہ سی بیٹھی تھی۔ آئید میر بس وہاں سے جلد از جلد نکل جانا چاہتا تھا۔ گاؤں کی حدود سے کچھ باہر آ کر اس نے دیکھا وہ گاڑی کی سیٹ پہ سر رکھے اونگ رہی تھی۔ 

اس نے کال ملائی۔ نور دین سے کچھ ضروری باتیں کی تھیں اور سیل رکھ کے گاڑی کو فل سپیڈ پر چھوڑ دیا۔

                                            *******************

     فقط اس کے روٹھ جانے پر 

ایک بھی شے نہیں ٹھکانے پر

موسم گل ہے آشیانے پر 

اک فقط اس کے مسکرانے پر

کوئی مجھ سے خفا نہیں ہوتا 

تم مرے دوست ہو پرانے پر

مدتوں بعد کوئی آیا ہے 

روشنی ہے غریب خانے پر

زخم بھی اب حسین لگتے ہیں 

تیرے ہاتھوں فریب کھانے پر

ولید اس سے ناراض تھا اور حرم نے ہر شے خود پہ ناراض قرار دی۔ وہ اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈھ رہی تھی۔ مائیکل اور حسان کے علاوہ باقی سب بھی اس کے ساتھ تھے۔ پیپرز کی ٹینشن اس کی نارضگی وہ ہلکان ہو رہی تھی۔ 

تبھی وہ نظر آیا اپنی گاڑی کے پاس کھڑا وہ فون پہ کسی سے بات کر رہا تھا۔ وہ بھاگی۔"ولید۔۔۔۔۔۔"اس نے پکارا۔ ولید نے سن کر ان سنا کر دیا۔ اور حرم سن ہو گئی تھی۔۔بھلا ولید اسے نظر انداز کر سکتا تھا۔ عشق نے پورے زور سے سر اٹھایا۔وہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس گئی تھی۔ "ولید آئم ساری۔۔۔۔۔"وہ انگلیاں موڑ کر بولی۔"سوری فار واٹ۔"وہ تقریباً دھاڑا۔حرم سہم کر دو قدم پیچھے ہوئی۔ باقی سب لوگ بھی متوجہ ہوئے۔ ولید کو یکدم غلط ہونے کا احساس ہوا۔ وہ بھاگتی ہوئی وہان سے نکلی تھی اور ولید کے علاوہ باقی سب بھی اس کے پیچھے تھے۔"وہ اس پلے گراؤنڈ  کے سامنے سیڑھیوں پہ بیٹھی زور زور سے رونے میں مشغول تھی۔ ولید نے ہاتھ سر پہ رکھا۔ولید اس سے ناراض نہیں ہوتا تھا اور حرم سے برداشت بھی نہیں ہوتا تھا۔ "حرم۔۔۔۔۔"ولید نے ڈر کر پکارا۔ اور حرم تھی جس نے بھاں بھاں سے رونا شروع کر دیا تھا۔ آدھے سے ذیادہ موجود وہاں لوگ آ چکے تھے۔ "یار خدا کے لیے حرم چپ کر جاؤ۔"ولید اس کے پاؤں کے پاس بیٹھا بولا تھا۔ حرم نے سیاہ آنسوؤں سے بھری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ ولید کو عشق کا شکوہ صاف نظر آ رہا تھا۔ اس کا دل ان نین کٹوروں میں ڈوب رہا تھا۔اگر ولید کچھ دیر اور ان آنکھوں میں دیکھتا تو خود کو پورا کھو دیتا اس نے جلدی ست نظریں پھیریں وہ کچھ نہیں بولی تھی بس آنسو زبان بنے ہوئے تھے اس کی۔اور ولید اس کی ہر زبان ہر ادا سے واقف تھا "یار میں بس غصے تھا پلیز اب چپ کر جاؤ۔"پہلے تو غصے نہیں ہوتے تھے۔"اس نے سسکتے ہوئے منہ بنا کر کہا اور اوپر کھڑے مائیکل حسان کے علاہ کافی لوگوں نے ہنسی چھپانے کو منہ پھیرا۔ ولید بے چارا لا جواب ہوا ۔ اب پتہ نہیں وہ اس بات پہ رو رہی تھی کہ غصہ کیوں ہوئے۔ یا اس بات پہ کہ پہلے غصہ کیوں نہیں ہوتے خیر حرم ریحان تھی وہ کچھ بھہ کہہ اور کر سکتی تھی۔ "یہ سب ہنس رہے ہیں دیکھ لو۔اس نے گالوں پہ آتے موٹے آنسو بے دردی سے رگڑے۔ اور ولید نے جن نظروں سے پیچھے گھورا سارے ہنستے چہرے سپاٹ ہوئے۔"اچھا ایسے مت رو تم۔"وہ بے چارا اب واقع پریشان تھا۔ نہیں کرتی میں چپ نہی کرتی بس۔" وہ حرم ہی کیا جو وقت پہ مان جائے۔ "تم ناراض ہو مجھ سے۔"وہ اس قدر معصومیت سے بولی کہ ولید کو یاد کرنا پڑا کہ وہ تو نارض تھا اس سے۔ "میرے فرشتوں کہ بھی توبہ جو میں تم سے ناراض ہوا۔ بس اب چپ کر جاؤ۔ "ولید نے انگلیوں کہ پوروں سے اس کے آنسو نیچے گرنے سے روکے تھے۔ کشف نے اس پل کو دیکھ کر اذیت محسوس کی ۔مگر اب کافی حد تک سمبھل چکی تھی۔ ولید اکثر حیران ہو جاتا تھا حرم کی آنکھوں میں اتنے آنسو آتے کہاں سے تھے۔ سیاہ آنکھین تھوڑی گلابی پڑ رہی تھیں اور گال بھی ۔۔ولید اس کے قدموں میں بیٹھا تھا یہ منظر کیلفورنیا شہر کے لیے دلفریب تھا ان دونوں کا عشق ان سب کے لیے دلفریب تھا جو کھڑے ان کو دیکھ رہے تھے۔ "اب جب تک چپ نہ کرو مجھے ان آنکھوں سے نہ دیکھنا تم۔"ولید نے نظر جھکا کر آہستہ سے کہا تھا جو بس حرم نے سنا تھا اور اس کی بھیگی پلکیں لرزیں۔ آنسو آنکھوں میں ہی ٹھہر چکے تھے۔ وہ اس کے بہت قریب بیٹھا تھا سر جھکائے اتنا کہ اس کی شرٹ سے اٹھتے پرفیوم کہ مہک حرم نے محسوس کی۔

حسان نے مائیکل کی طرف اشارہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد حرم سے نظر بچا کر وہ ولید کے ہاتھ میں چاکلیٹس کا بیت بڑا پیکٹ پکڑا چکے تھے۔ ولید نے شکر گزار نظروں سے ان کو دیکھا۔ حسان اب باقی سب کو وہاں سے لے کر جا رہا تھا ۔

"اگر تم چپ کر جاؤ تو تمہیں ابھی انعام بھی مل سکتا ہے۔"ولید نے مسکان دبا کر اسے پیار سے کہا۔حرم انعام کے نام پر چونکی۔ولید کا ایک ہاتھ بیک پر تھا جس میں پیکٹ تھا۔ ان دونوں کی شرٹس ایک جیسی تھیں۔ آمنے سامنے بیٹھے وہ اچھے لگ رہے تھے۔"کیا انعام؟"وہ تجسس سے پوچھ رہی تھی۔ باقی آنسو آنکھوں میں ہی ٹھہر چکے تھے۔ ولید اچھے سے جانتا تھا اپنی حرم کو ڈیل کرنا۔ اس نے بڑا سا چاکلیٹس سے بھرا پیکٹ اس کی طرف بڑھایا۔ حرم کا دل تو للچایا مگر اسے یاد آیا وہ اس سے ناراض ہے۔وہ خاموش بیٹھی رہی مگر انکار بھی نہیں کیا تھا۔ ولید نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا۔ اس نے پیکٹ اس کی گود میں رکھ دیا۔"ابھی بھی ناراض ہو کیا؟"وہ پوچھ رہا تھا۔حرم نے ایک نظر چاکلیٹس کو دیکھا پھر اسے۔۔وہ کس قدر معصوم اور کیوٹ لگی وہ ولید کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔"آئندہ ناراض ہو گے کیا تم۔؟"ہاتھ چاکلیٹ پہ رکھے وہ معصومیت سے بولی۔"نہ میری توبہ ولید نے ہاتھ کانوں کو لگائے۔"اور اگر ہوئے تو ایسے تین پیکٹ لے کر آنا۔"اب وہ روتے روتے ہنس کر بولی تھی۔ولید نے سر خم تسلیم کیا۔ وہ اس سے لاڈ کرتی تھی اور ان دونوں کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ دنیا کا سب سے خوبصورت لاڈ محبت میں ہوتا ہے۔ "تم کبھی کبھار بچی بن جاتی ہو حرم۔"ولید نے اس کی ناک دبائی۔اور حرم میڈم کی ساری توجہ چاکلیٹس کھانے پہ تھی۔ 

                                               ****************

کیا اندھیروں کے دکھ، کیا اجالوں کےدکھ

جب ہرا دیں مقدر کی چالوں کے دکھ

جن کی آنکھیں نہیں وہ نہ روئیں کبھی

جان جائیں اگر آنکھ والوں کے دکھ

میری منزل کہاں، ہمسفر ہے کدھر

مار ڈالیں گے اب ان سوالوں کے دکھ

تم ملے ہو ، تمہاری محبت نہیں

ہجر سے بڑھ گئے ہیں وصالوں کے دکھ

دو گھڑی کے لئے پاس بیٹھو اگر

بھول جائیں گے ہم کتنے سالوں کے دکھ

میری سوچوں کے جلتے ہوئے دشت سے

چھین لے آ کے اپنے خیالوں کے دکھ

وہ کسمسائی تو آئید میر بھاگ کر اس کی طرف آیا تھا۔ "شکورا۔۔۔۔۔"اس نے نیم غنودگی  میں پکارا۔آئید میر نے کرب سے آنکھیں میچیں وہ کیا بتاتا اسے وہ اس سے وفا نبھاتے ہوئے موت کو گلے لگا چکی تھی۔ نورم کی حالت گاڑی میں ابتر ہونے لگی تھی۔ آئید میر نے نوردین کے گھر لا کر اسے بستر پہ لٹایا تو وہ نیم بے ہوش تھی۔

"سارا انتظام ہو گیا ہے نا؟"آئید میر نے نور دین سے پوچھا۔"جی ہو گیا ہے مگر آپ سوچ لیں۔"نور دین پریشان تھا۔"میں نے زندگی میں ہر کام سوچ سمجھ کر کیا ہے پلان کے ساتھ یہ واحد فیصلہ ہے جو میں دل سے کرنے جا رہا کیا تم۔مجھے غلط سمجھو گے۔۔؟"اور نور دین نے ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھ کر اپنے ساتھ کا یقین دلایا۔ تبھی نور دین کی بیوی انیلا نے آ کر بتایا کہ نورم کو ہوش آ یا ہے اور اب وہ اس کے پاس تھا۔

"میر شکورا کا کیا بنا۔؟"وہ ہوش میں آچکی تھی۔"آپ بول کیوں نہیں رہے بتائیں نا۔؟نورم کا دل کانپ رہا تھا۔"دیکھو نورم میری بات سنو۔۔۔۔۔"اس سے ہہلے کہ وہ کچھ کہتا وہ چلا اٹھی تھی۔"نہیں بالکل نہیں مجھے کچھ مت سمجھائیے گا اسے کچھ نہں ہوا کچھ نہیں۔"ملگجے سے لباس میں چاند چہرہ کملایا ہوا لگ رہا تھا۔ "وہ اس دنیا میں نہیں رہی نورم۔"آئید میر نے بالاآخر سچ بول ہی دیا۔ نورم جو بیڈ کے پاس کھڑی ہوئی تھی وہیں بیٹھ گئی فرش پہ۔"میری نسلیں آپ پہ قربان ۔"اسے شکورا کے الفاظ یاد آئے۔ ابھی کل ہی تو وہ شرارت سے میر کا بتا رہی تھی اسے۔ نورم کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ اور پھر اس نے وہ رونا شروع کیا تھا کہ آئید میر سے اسے سمبھالنا مشکل ہو گیا۔ "نورم۔۔۔۔۔۔۔" وہ اتنا زور سے دھاڑا کہ باہر کھڑے نور دین اور انیلا کا دل دہلا۔ وہ ساکت ہوگئی۔ "تم کیوں مجھے اور خود کو عذاب دے رہی ہو۔ بتاؤ مجھے۔ میری سچوئیشن کو سمجھو نورم میں تمہیں ظہار خان قبیلے سے لے آیا ہوں۔ وہ کتوں کہ طرح ہمارے پیچھے ہیں تم سمجھ کیوں نہیں رہیں۔" اب وہ اس کے پاس بیٹھا تکلیف سے کہہ رہا تھا۔اس وقت جتنی تمہیں میری سپورٹ کی ضرورت ہے اس سے کہیں ذیادہ مجھے تمہاری ہمت کی ضرورت ہے۔ ایک آگ کا دریا یے جو پار کرنے کا حوصلہ میں نے تمہاری محبت کی بنا پر کیا ہے۔مجھے ذیادہ لفاظی نہیں آتی بس مجھے پریشان نہ کرو ۔"وہ  اب اسے پیار سے اسے سمجھا رہا تھا۔یہ اس کے لہجے کی تکلیف تھی یا اس کے الفاظ میں چھپا سچ نورم خاموش ہو چکی تھی۔"آج تھوڑی دیر بعد نکاح ہے ہمارا۔"اور یہ وہ بات تھی جو آئید میر نے جتنے سادہ لہجے میں کی تھی نورم اتنا ہی حیرت سے اچھلی۔"کک کیا مطلب کیا کہہ رہے آپ۔"وہ اس سے دور ہٹی۔"نہیں میں لالہ اور بابا کے بغیر کبھی ایسا نہیں کر سکتی۔ "وہ کس قدر معصوم تھی اور بیوقوف بھی آئید میر نے سر ہاتھوں میں گرایا۔"چلو پھر تیاری کر لو تم میری لاش بھی شکورا کی طرح کہیں پڑی ہو گی۔ نور دین اور اس کا خاندان بھی برباد اور تم خود بھی۔"آئید میر نے ایسے ہاتھ جھاڑے گویا کہہ رہا ہو کر لو مرضی۔"ایسے کیوں بول رہے آپ۔؟"نورم نے روتے ہوئے پوچھا۔ "تو اور کیا کہوں ہاں تم اتنی بچی نہیں ہو کہ سمجھ نہ سکو میں تمہاری حفاظت نا محرم ہو کر کیسے کر سکتا بولو۔ "وہ واقع اس سے عاجز  آیا کھڑا تھا۔ آئید میر نورم جہانگیر خان سے محبت کرتا تھا تو وہ اس اسے عشق۔جس طرح حالات نے رخ موڑا تھا وہ دونوں بے بس ہو چکے تھے۔"بھابھی آپ ہی اسے سمجھائیں کچھ۔"انیلا ان کی باتیں سن کر اندر آئی تھی۔ جب آئید میر نے بے بسی سے کہا۔"بھائی آپ جائیں جو کام تھا میں سمجھاتی ہوں ان کو۔"انیلا نےروتی ہوئی نورم کو گلے لگا کر آئید میر کو کہا تھا۔ 

اور اسے بڑا معرکہ تھا جو وہ سر کرنے جا رہا تھا۔۔۔۔۔

                                            ******************

جب ظہار خان قبیلے چلیں تو ایک طوفان سا ہے جو اس حویلی میں آیا ہوا ہے۔ شکورا کی لاش اس کے گھر بھیجی جا چکی تھی۔ ساری خادمائیں خاموش کھڑی تھیں گویا سب کو سانپ سونگ گیا ہو۔

میں تو پہلے کہتا تھا کہ لڑکی کو سمبھالو اس ارمغان کو شوق تھا اسے پڑھانے کا آذادی دینے کا اب دیکھ لیا نتیجہ۔"اصغر خان زہر اگل رہا تھا اور وہ بادشاہوں سی آن بان وال مرد کندھے جھکائے بیٹھا تھا۔ آیا بہن کا طرفدار۔۔۔۔ہر کوئی حویلی میں یہی کہہ رہا تھا۔ بات کو حویلی تک ہی رکھنے کی کوشش کی گئی تھی مگر یہ کوشش کامیاب کیسے ہوتی جب اصغر خان خود آستین کا سانپ تھا۔اور وہ ہی ہوا۔ ہورا قبیلہ انگلیاں دانتوں میں دبا کر دیکھتا تھا اس حویلی کو۔"ساری ماں کا پر تو تھی وہ لڑکی۔"جہانگیر خان پہلی بار زندگی میں ٹوٹے تھے۔"بی جان خاموشی سے آنسو بہا رہی تھیں۔"میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں جب دونوں کی لاش آ جائے مجھے بتا دیا جائے۔"جہانگیر خان کو جھکا سر اصغر خان کو خوشی دے رہا تھا۔ مگر دل میں پریشانی بھی تھی کہ پلان اس کے مطابق نہیں ہوا تھا۔ ان سب کے درمیان جو خاموش تھا وہ ارمغان جہانگیر خان تھا۔ نورم کو اس نے اپنے بچوں کی طرح پالا تھا۔بی جان نے اسے پریشانی سے دیکھا تھا۔ وہ بولتا کیوں نہیں کچھ۔ یہ بات اصغر خان اوع بی جان کو ہلا رہی تھی۔

وہ خاموشی سے اٹھا اور حویلی سے نکلتا گیا تھا۔

لاہور میں وہ اپنے ہی گھر کھڑا گھبرا رہا تھا۔ 

"ماما ۔۔۔۔؟ آئید میر نے سعدیہ کو کچن میں پکارا۔ "ارے بیٹا کہاں تھے آ پ کب سے پریشان ہو رہی تھی۔وہ فورا ہاتھ صاف کرتیں اس کے پاس آئیں۔آپ چھوڑیں یہ سب وہ ان کو لے کر کمرے میں بڑھا۔ ریحان صاحب نے اسے دیکھ کر اخبار ایک طرف رکھ دیا تھا۔

"جو بات میں کرنے والا ہوں آپ نے ایک بار بس غور سے سننی ہے۔ اس کے بعد وہ بولتا گیا اور بولتا گیا۔سعدیہ کا چہرہ سفید پڑ رہا تھا۔ریحان صاحب کا چہرہ بنا کسی تاثر کے تھا۔"کہاں نے نورم۔۔۔۔"ریحان صاحب بس اتنا بولے۔"نور دین کے گھر۔آئید میر ان کی نظروں سے گھبرا رہا تھا۔"ہم شامل نہیں ہوں گے اس نکاح میں۔"ریحان صاحب نے ٹھنڈے لہجے میں کہا تھا۔"اور یہ وہ پل تھا جہاں راز فاش ہوا۔"ٹھیک ہے تو پھر لڑکی کی ماں "ماموں اور مامی کے بنا ہی نکاح ہو جائے گا۔"وہ اطمینان سے بولا۔ 

"چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔ریحان صاحب کا ہاتھ اتنا بھاری تھا یہ آئید میر کو اس پل احساس ہوا۔ سعدیہ ششدر تھیں۔ جوان خوبرو بیٹا جس پہ فخر کیا تھا انہوں نے آج اسے تھپڑ۔ وہ ساکت تھیں اور ساکت تو دروازے پہ کھڑا وجود بھی تھا۔۔۔۔۔

"جب تم نے اس لڑکی سے بدلے لیے تب تمہیں شرم نہیں آئی کہ وہ تمہارے باپ کی بھانجی ہے۔۔۔۔ تمہارر سگی لاڈلی پھوپھو کی اکلوتی بیٹی ہے ۔" ریحان صاحب پہلے ہی اس دن نور دین سے سب اگلوا چکے تھے۔ ان کا غصے سے برا حال تھا۔"اس بار میں اس سے بد لہ نہیں لیا اسے بچایا ہے محبت کرتا ہوں میں اس سے محبت سنا آپ نے۔۔۔۔۔۔"وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے چلایا تھا۔"محبت ۔۔۔جس دن اس لڑکی کو سچ معلوم ہوا نا تو دلانا یقین اسے محبت کا۔۔۔۔" انہوں نے جس انداز سے کہا تھا آئید میر اندر سے دہلا ۔ اس نے یہ کب سوچا تھا۔

نو۔۔۔۔۔۔ر۔۔۔۔۔م۔۔۔۔۔ دروازے پہ کھڑے وجود کہ لبوں سے یہ الفاظ نکلے تھے اور وہ تینوں چونکے۔۔۔۔ آئید میر بھاگا۔"پھو۔۔۔۔۔۔۔پلیز مجھے غلط مت سمجھئے گا۔"وہ اس بار رو دینے کو تھا۔ سامنے کھڑے وجود کی آنکھیں سنسان تھیں گہری سبز آنکھیں سنسان۔۔۔۔۔"نیلم ادھر آؤ۔سعدیہ کو ڈر تھا اسے دوبارہ دورہ نہ پڑ جائے اس لیے وہ آگے بڑھیں۔"نو۔۔۔۔رم۔۔۔۔۔کک ہا ہے۔۔؟"وہ آئید میر کا چہرہ دیکھ کر بولیں اور وہ ان کے گلے لگ کر سسک اٹھا تھا۔ریحان صاحب اور سعدیہ نے بھی آنسو پونچھے۔آج شاید انہوں نے سب سے ذیادہ الفاظ منہ سے نکالے تھے ورنہ ایک  عرصہ ہوا اس گھر کے مکینوں نے ان کو بس ہوں ہاں اور سر ہلاتے دیکھا تھا۔

کچھ اور لاشوں کو سمبھالنے کی تیاری کر لو سعدیہ تمہارا بیٹا بدلے کے راستے پہ نکلا ہے اور ساتھ بیٹے کے نکاح کی بھی۔ریحان صاحب کہہ کر کمرے سے چلے گئے تھے۔

                                                  ******************

حرم کے پیپرز ختم ہوئے اور اس نے سکھ کا سانس لیا اور سکھ کا سان تو ولید نے بھی لیا حالانکہ اس کے ابھی ختم بھی نہیں ہوئے تھے۔ اگلے سمیسٹر شروع ہونے میں کچھ  دن تھے اور تب تک اسے کچھ ادھورے کام پورے کرنے تھے۔اس نے گھر کافی دفعہ کال ملائی مگر کسے نے سنی نہیں تھی۔آئید میر کا پرسنل سیل بھی آف تھا۔اس نے کچھ سوچ کر ایک اور نمبر ملایا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔"ہیلو۔۔۔۔"آگے سے گھمبیر مردانہ آواز سنائی دی۔"انکل میں حرم۔۔۔"وہ جلدی سے بولی۔اور ہاشم خان کے لب مسکرائے۔ وہ کام کر رہے تھے چھوڑ کر اس کی بات سننے لگ گئے۔ "انکل میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں ۔کیا آپ کے پاس کچھ وقت ہو گا۔؟"وہ گھبرا کر بولی۔"جی بیٹے ضرور کیوں نہیں آپ آج ہی آ جائیں۔"وہ بشاشیت سے بولے حرم کا حوصلہ بڑھا۔ "آپ ولید کو اس بات کی خبر نہ ہو پلیز۔"ایک اور فرمائش کی گئی۔"آپ فکر نہ کریں بیٹا اسے ویسے ہی میرے کسی کام کی خبر نہیں ہوتی ۔ "وہ بولے تھے اور کوئی پہچان سکتا یا نہیں مگر حرم کو ان کے لہجے میں درد صاف محسوس ہوا۔" تو ٹھیک ہے پھر کل ولید کا پیپر ہے میں اس ٹائم گھر آ جاؤں گی۔"خود طے کر کے اس نے حکم سنا دیا اور اس بار ہاشم واقع ہنس دئیے۔ "ضرور آئیں آپ موسٹ ویلکم بیٹا۔"وہ پیار سے بولے۔ ہاشم حرم سے مل کر خوش ہوئے تھے اور پر سکون بھی ورنہ ان کو ڈر تھا کہ ولید ان سے نفرت کی وجہ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کر لے مگر اب وہ حرم سے مل کر پر سکون تھے۔

                                          *******************

ارمغان سرخ آنکھوں کے ساتھ سر جھکائے بیٹھا تھا۔میرب نے دکھ سے اسے دیکھا۔"بنا کچھ بولے تمہارے پاس میرب جتنی انفارمیشن ہے اس کی مجھے بتا دو۔" وہ بس اتنا بولا تھا۔میرب نورم کے حق میں بولنا چاہتی تھی مگر وہ اسے خاموش کروا گیا تھا۔اور وہ بتاتی گئی۔ گولڈ میڈلسٹ آئید میر ایک کامیاب آفسر تھا۔ اور فارسٹ آفیسر بنے سے پہلے وہ خفیہ ایجنسی کے لیے کام کر چکا ہے۔  بلیک بیلٹ ہے جوڈو کراٹے میں ماہر ہے ہر جگہ بس جیتا ہے وہ دور دور تک اس کا کسی لڑکی سے تعلق نہیں رہا۔ کس قدر شفاف ہسٹری تھی اس کی مگر ارمغان کو کچھ کھٹکا۔ "اس نے خفیہ ایجنسی کیوں چھوڑی۔"ارمغان نے میرب کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔میرب گڑ بڑائی۔ "اس نے فارسٹ آفیسر بننے کے فوراً بعد اپنا ٹرانسفر ظہار خان قبیلے میں کروایا۔حالانکہ کوئی ادھر آنے کا سوچتا بھی نہیں ہے۔اس سے لگتا ہے کہ اس کا مقصد تھا کچھ۔"میرب ٹھہر ٹھہر کر بولی ۔ارمغان کے بے تحاشا وجاہت بھرے چہرے پہ سرخی دوڑی۔ "کیا چھپا رہی ہو تم مجھ سے؟"اف کس قدر ذہین تھا وہ۔ میرب نے دل میں سوچا۔"ارمغان آئید میر کا پورا نام آئید میر ریحان نے وہ تمہارے سگے ماموں کا اکلوتا بیٹا ہے"میرب نے کہہ کر پانی اٹھا کر لبوں سے لگایا۔ارمغان حیران تھا۔ "تو یہ وجہ تھی۔۔۔۔۔۔اس نے سب کچھ نفرت کی آگ میں کیا نفرت کی آگ میں بدلے کے لیے کیا  ۔۔۔۔۔۔"ارمغان کا چہرہ لال ہوا۔ "کیسا بدلہ۔۔۔۔؟"میرب نے پوچھا تھا۔ "تمہارا بہت شکریہ میرب لیکن پلیز اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دو۔"کس قدر بے حس تھا وہ میرب کو کبھی دل میں جگہ نہیں دے سکتا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو آئے۔ میرب نے بیگ اٹھا کر قدم باہر بڑھائے تھے۔

"آئید میر ریحان۔۔۔۔ مجھے اس کی ہر کمزوری چاہیے چھوٹی سے چھوٹی کمزوری۔ موت اسے میں اپنے طریقے سے دوں گا۔وہ اپنے ہر اس بندے سے کہہ رہا تھا جن کو سپورٹ وہ کرتا تھا اور جو اونچی پوسٹس پہ تھے۔ وہ ارمغان جہانگیر خان تھا کوئی عام مرد نہیں۔ سفید شرٹ اے۔سی میں بھی بھیگ گئی تھی اس کی سوچ کر آئید میر کیا تھا۔ کیا کرنے والا تھا۔ ارمغان کی سبز آنکھیں دہک رہی تھیں۔ 

اور دو گھنٹے بس دو گھنٹے لگے تھے اس کا لیپ ٹاپ بھرا پڑا تھا معلومات سے۔ غصہ۔۔۔۔جذباتیت۔۔۔ نہیں یہ کمزوری نہیں وہ پڑھتا جاتا اور ریجیکٹ کرتا جاتا ۔ اور پھر ہاتھ ماؤس پہ رکے۔۔۔۔۔ ماتھے پہ کٹے بال سنہری تھے۔ سیاہ شرٹ کے ساتھ کوئی پرائس کارڈ پکڑے وہ لڑکی مسکرا رہی تھی۔ ارمغان نے پڑھنا شروع کیا۔حرم ریحان۔۔۔۔۔

"مجھے جتنا جلدی ہو سکے امریکہ کا ٹکٹ چاہیے۔ "وہ سیل فون پہ کہہ رہا تھا اور یہاں سے شروع ہوتی یے ایک نئی داستان بربادی عشق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سعدیہ نے اور ریحان صاحب نے  جب نور دین کے گھر میں قدم رکھا دونوں کے ہی جذبات الگ تھے۔ ریحان صاحب کی لاڈلی بہن کی سالوں سے بچھڑی بیٹی سے ملاقات اور رابعہ جن کا دکھ بہت  بڑا تھا ان کی آنکھیں بھی بھیگ رہی تھیں۔آئید میر تھا جس کا دماغ ہر طرح سے سوچوں میں گھرا تھا۔طے یہی ہوا تھا کہ نورم کو فی الحال نا واقف ہی رہنے دیا جائے۔

نور دین نے ساتھی ہونے کا حق ادا کر دیا تھا۔ سارا انتظام مکمل تھا۔

"آپ آ جائیں آنٹی میں آپ کو نورم کے پاس لے جاتی ہوں۔"انیلا نے گھبرائی ہوئی سعدیہ کو دیکھ کر کہا۔ اور جب سعدیہ نے اس کمرے میں قدم رکھا تھا ان کی پلکیں جھکنے سے انکاری تھیں۔آئید میر کے لائے ہوئے مکمل سرخ لہنگے میں ملبوس لڑکی جسے انیلا نے ہلکا پھلکا میک اپ کر دیا تھا سبز آنکھوں میں گہری نمی لیے اس کے سامنے تھی۔ وہ نیلم تھی ہو بہو۔ وہ ہی رنگ روپ بے حد خوبصورت چہرہ البتہ  آنکھیں جہانگیر خان پہ گئی تھیں۔نورم نے بھی سعدیہ کو دیکھا وہ جھجک کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سعدیہ نے خود کو سمبھالا تھا۔جو بھی ہوتا وہ لڑکی مظلوم تھی۔ وہ آہستہ سے چلتی ہوئی اس کے پاس گئیں۔سعدیہ نے نورم کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا اور سامنے کھڑی دلہن بنی لڑکی کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح گرے تھے۔ تبھی باہر سے  نور دین نے پکارا تھا کے نورم کو باہر لے آئیں۔نورم کا دل کانپ رہا تھا ۔ پسینہ بار بار ماتھے پہ چمک اٹھتا۔ سعدیہ اور انیلا نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ وہ اسے لے کر باہر آئی تھیں۔ جہاں آئید میر سفد شلوار سوٹ میں تھا اور فریش لگ رہا تھا۔ کچھ دوستوں کی موجودگی میں نکاح کی تقریب سر انجام پائی۔دل تو وہ پہلے اسے دے چکی تھی یہ وہ دن تھا جب اس نے اپنا آپ آئید میر ریحان کے نام لکھ دیا تھا۔ ایک رشتہ قائم ہوا۔ دو لوگ ایک ہوئے تھے۔ دو محبت کرنے والے اس مقام پر بیٹھے تھے جس کی خواہش ہر وہ انسان رکھتا ہے جس کے دل میں کسی کے لئے سچے جذبات ہوں۔مگر ان دونوں کی سوچوں میں اس رشتے کی نزاکت کے بجائے سوچیں تھیں لا محدود۔ نورم کا رنگ ہلکا پیلا ہو رہا تھا۔ دعا کے بعد مرد حضرات باہر چلے گئے تو انیلا نے اسے لیموں پانی پلایا تھا۔ صاف ہتھیلیوں پہ مہندی نام کی چیز تک نہیں تھی ۔سعدیہ کے دل کو کچھ ہوا ان کے لاڈلے اکلوتے بیٹے کی دلہن کس قدر پھیکی لگ رہی تھی۔ پھیکا تو وہ رشتہ بھی تھا مگر یہ بات وہ کہاں جانتی تھیں۔

                                      *****************

امتحانات کی پریشانی ختم ہوئی۔یو سی بارکلے میں سکون کی ایک لہر اتری۔

کہانی کا ایک رخ حرم جانتی تھی دوسرا نہیں۔ہاشم خان کچھ دن لندن تھے اس لیے اس کی ملاقات نہ ہو سکی۔ آج ولید کا میچ تھا وہ وہاں مصروف تھا۔اور حرم اس کے گھر موجود تھی۔ہاشم خان کچن میں چائے بنا رہے تھے اور وہ پاس رکھی خوبصورت سی چئیر پہ براجمان تھی۔انکل اگر میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہوں تو آپ بتائیں گے کیا۔اس نے معصومیت سے صاف سوال کیا۔ ہاشم خان ایک ذہین انسان تھے۔ان کو کسی حد تک معلوم تھا کہ کچھ نہ کچھ چل رہا تھا اس کے دماغ میں۔"کیا ہوچھنا چاہتی ہیں آپ بتائیں۔"وہ چائے کپ میں چھان رہے تھے گلاسز لگائے گھریلو سے حلیے میں بھی وہ بہت ہینڈسم لگ رہے تھے۔یہ لڑکی ان کو پیاری لگتی تھی سادہ مزاج اس لیے وہ بہت پیار سے پیش آ رہے تھے حرم کی ہمت بڑھی۔اس نے چائے کا کپ ان کے ہاتھوں سے لیا۔"آ جائیں بیٹا گارڈن میں بیٹھتے ہیں۔"ہاشم خان نے کہہ کر قدم باہر بڑھا دئیے تھے۔حرم نے ان کی تقلید کی۔

"اب بتائیں آپ کیا پوچھنا ہے؟"چائے کا سپ لیتے ہوئے وہ بولے۔"اف۔۔۔۔ آپ تو بالکل میری ماما جیس چائے بناتے ہیں انکل پتہ اتنے دن بعد میں نے ایسی چائے پی ہے۔" حرم واقع خوشی محسوس کر رہی تھی۔ہاشم خام کے چہرے پہ ایک سایہ آ کر گزر گیا تھا۔

"

"انکل کیا آپ مجھ سے ایک وعدہ کریں گے۔"حرم نے سنجیدگی سے ان کو دیکھ کر کہا۔"کیسا وعدہ؟"ہاشم خان نے حیرت سے پوچھا۔وہ خاموشی سے اٹھی اور اندر چلی گئی تھی۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں وہ سیاہ کور والی ڈائری تھی۔ہاشم خان جہاں تھے وہیں ساکت ہوگئے۔ان کو یہ اتنا بھی یاد نہیں تھا ان کے ہاتھ میں گرم چائے کا کپ تھا۔۔ہاتھ لرزا اور کچھ چائے اچھل کر کپڑوں پہ آ گری۔تب چونک کر انہوں نے کپ نیچے میز پہ رکھا۔"یہ۔۔۔۔۔آپ کے پاس۔۔۔۔؟" ہاشم خان کی آنکھیں سفید گلاسز میں اسے سرخ محسوس ہوئیں۔ولید سے اس ڈائری کے لیے کیا کیا منتیں نہیں کی تھیں انہوں نے ۔ ان کو یاد تھا۔حرم نے آرام سے وہ یادوں اور درد کی داستاں ان کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔وہ بالکل ساکت تھے۔ " متاع حیات کی طرح وہ اسے تھامے ہوئے تھے میں چاہتی ہوں یہ آپ پڑھیں۔یہ مایا آنٹی کی امانت تھی۔۔۔،"مایا مت کہو۔۔۔۔"وہ درد سے بولے تھے حرم کو چپ لگی۔سوری مریم آنٹی ان کی امانت تھی جس پہ آپ کا حق تھا۔ مگر آپ ولید کو مت بتائیے گا پلیز۔۔آپ یہ پڑھیں اس کے بعد مجھے باقی کی کہانی سننی ہے۔"بس وہ بول رہی تھی۔ہاشم خان خاموش تھے۔ حرم ان کو داستان ماما ابسن پکڑا آئی تھی۔اور وہ مطمئین تھی۔

                                                  ********************

نورم جہانگیر خان کی زندگی نے ایسا رنگ پلٹا تھا کہ وہ حیران تھی۔نکاح کے فورا بعد آئید میر نے اسے چینج کرنے کا حکم دیا تھا۔ نورم نے غور نہیں کیا وہ اس سے نظریں چرا رہا تھا۔اور گاڑی میں بیٹھے وہ دونوں اسلام آباد کی طرف گامزن تھے۔نورم خاموش تھی تو آئید میر کونسا بول رہا تھا۔ ریحان صاحب کا لگایا گیا تھپڑ اور وہ باتیں اس کا دماغ ہلا رہی تھیں۔"سنو تمہیں بھوک تو نہیں لگی؟"بالاآخر آئید میر کو نورم کا خیال آ ہی گیا تھا۔نورم نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا۔مجھے لگتا ہے زبان بھی ہے آپ کے پاس ایک عدد۔اس بار ڈرائیونگ سے توجہ ہٹا کر نورم کی طرف دیکھا گیا تھا۔ رشتہ بدل چکا تھا اور رشتے کے تقاضے بھی۔نورم کی ہتھیلیاں بھیگنے لگیں۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ گاڑی ایک جگہ روک کر اتر چکا تھا۔تھوڑی دیر بعد واپسی پہ اس کے ہاتھ میں کھانے پینے کی اشیا اور کچھ جوسسز تھے۔ نورم نے خاموشی سے چیزیں پکڑ کر گود میں رکھ لیں۔"یہ سب کچھ میں تمہیں دکھانے کے لیے نہیں لایا تھا ۔آئید میر نے اس بار اسے گھورا۔"چپ کر جائیں میر مجھے پہلے بہت ڈر لگا رہا ہے۔وہ رودینے کو تھی۔آئید میر نے کچھ سوچ کر گاڑی ایک نسبتا پرسکون جگہ پر روک دی تھی۔

"تمہیں لگتا ہے جو کچھ ہو چکا اسے بدلا جا سکتا ہے؟"وہ اس سے سوال کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نہیں"نورم نے گردن جھکائی ہوئی تھی۔"تو اس ڈر اور خوف کی وجہ۔دیکھو نورم جو کچھ ہوا اس میں تمہارا قصور نہیں ہے۔" وہ اسے دلاسہ دے رہا تھا۔نورم کے دل سے ایک بوجھ اترا تھا۔ آئید میر نے بھی تو اس کے لِئے کتنا کچھ کیا تھا۔وہ اسے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔نورم کے دل میں یقین پیدا ہوا۔مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ یقین کچھ ہی دیر بعد کانچ ثابت ہونے والا ہےجو دیکھنے میں تو بے انتہا خوبصورت لگتا ہے مگر ایک ٹھوکر لگتی ہے چکنا چور ہونے میں۔

آئید میر کا فلیٹ ہر طرح سے سیٹ تھا۔تین بیڈ رومز اور کچن کے علاوہ لاؤنج کو بھی اچھے سے سجایا گیا تھا۔ خوبصورت پینٹینگز جو دیواروں پہ لگائی گئی تھیں اسکے اعلیٰ ذوق کی گواہ تھیں۔

تھوڑی دیر چلتے ہیں ظہارر خان قبیلے کی طرف۔

سامنے مظر آتا مرد بیگ میں جو کچھ ہاتھ لگتا ٹھونستا جا رہا تھا۔ دماغ میں کہی آگ لگی تھی تو دل میں درد بھی تھا۔ وہ پچھلی کئی راتوں سے جاگ رہا تھا۔"ارمغان لالہ آپ کو بی جان بلا رہی ہیں۔"ملازمہ پیغام پہنچا کر غائب ہو گئی تھی۔

"جی بی جان آپ نے بلایا تھا۔"اس کی سبز پرکشش آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔خاموش طبع وہ تب سے تھا جب سے ماں کو کھویا تھا مگر اس واقع کے بعد تو حویلی کے مکینوں نے بہت کم بولتے سنا تھا اسے۔"ادھر آؤ بی جان کی جان۔"ان کے بوڑھے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ارمغان خاموشی سے ان کے پاس بیٹھ گیا۔باپ کا فرماں بردار بیٹا۔علاقے کا پڑھا لکھا خوبصورت ہمدرد سردار ۔بی جان کا لاڈلہ پوتا۔اور نورم جہانگیر کا مان اس کا لالہ اس کے لیے ہر مقام پہ لڑنے والا اس کا بھائی۔ارمغان جہانگیر اس حویلی میں اچھائی اور بردباری کا دوسرا نام تھا وہ سب سے الگ اپنی سوچ کے ساتھ جینے والا مرد تھا۔اس نے زندگی سے خوشیاں مانگنا تب سے چھوڑی تھیں جب اس کی ماں کو اس حویلی میں بد کردار کہا گیا تھا۔اور آج اس کی بہن کو وہی لقب دیا جا رہا تھا۔لوگ اسے افسوس سے دیکھتے تھے جسے کبھی رشک سے دیکھا جاتا تھا۔وقت کا رحم دل لمحہ اس کے حال پہ افسوس کرتا تھا۔بی جان نے اس کا ماتھا چوما۔"تم جیسے ہیرے جیسے مرد بھی حویلیوں میں برباد ہوتے ہیں ارمغان ۔صرف عورتیں نہیں۔ایک نئی زندگی شروع کرو یہاں سے کہیں دور جا کر۔ بی جان نے پیار سے اس کے ماتھے پہ گرے بال ہٹائے۔"جی بی جان ضرور کروں گا۔ مگر اس سے پہلے مجھے کسی کی زندگی کی ہر خوشی ختم کرنی ہے۔"وہ مسکرا کر بولا۔ بی جان کا دل کانپا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں وہ ادب سے ان کے ہاتھ کا بوسہ لیتے جا چکا تھا۔ بی جان کو افسوس ہوا۔ نورم تم نے اپنے ساتھ اس بچے کو بھی برباد کر دیا۔ بھلا کسی کی خوشی چھین کر بھی کوئی خوش رہا ہے کبھی وہ بس سوچ کر رہ گئی تھیں۔

اور یہ رات کا وقت تھا۔ نورم کا دل و دماغ عجیب کشمکش میں تھے ۔"تم ٹھیک ہو نا؟"آئید میر کو اس کا چہرہ پیلا سا لگ رہا تھا"ٹھیک ہوں میں اس نے آہستہ سے کہا۔تو اتنی پریشان کیوں ہو۔آئید میر اس کے قریب بیٹھ چکا تھا۔ نورم کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ تبھی آئید میر کا سیل بج اٹھا۔ وہ فون سنتے ہوئے باہر چلا گیا تھا۔ "سر ہم لوگ آپ کے گھر کے باہر موجود ہیں مگر یہاں پر بہت ذیادہ مشکوک آدمی دیکھے گئے ہیں اور ان میں خبر ملی ہے کہ اصغر خان بھی تھا۔ "جو کچھ اسے بتایا جا رہا تھا اس کی امید آئید میر کو تھی مگر پھر بھی اصغر خان کا نام سن کر اس کی حالات خراب ہوئی۔اس کو تو میں چھوڑوں گا نہیں۔اس نے دل میں سوچا تھا۔اور یہاں وقت نے عجیب پلٹا کھایا۔

یہ رات 2 بجے کا وقت تھا جب نورم کی آنکھ اچانک کھلی۔آئید میر ابھی تک کمرے میں نہیں آیا تھا۔وہ گھبرا گئی تھی۔کمرے میں لائٹ آف تھی جبکہ وہ بے خیالی میں سوئی تھی اس کا مطلب تھا وہ کمرے میں آ یا تھا ۔نورم نے چپل پہن کر جلدی سے پاؤں بیڈ سے اتارے۔آخر وہ کہاں تھا اس کا دل وسوسوں میں گھرا رہتا تھا۔

                                                *********************

"ولید مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی ہم لوگ جا کہاں رہے ہیں۔" حرم سے ایک پل خاموش نہیں بیٹھا جاتا تھا اور یہ بات ولید سمجھ چکا تھا۔ "ہر وقت تو تم تقریر جھاڑتی رہتی ہو بور ہو گئی ہوں۔ کیا کیلفورنیا ہے کہ زندگی ہے تو آج میں تمہیں کچھ دکھانے جا رہا ہوں۔"ولید نے اطمینان سے کہا تھا سارا فوکس ڈرائیونگ پہ تھا۔اور حرم کو بھی بہتر یہی لگا کہ خاموش ہو جائے۔ولید کو احساس تھا وقت کے قیمتی ہونے کا اس لیے اس نے کار کی سپیڈ بہت تیز رکھی تھی۔ "ولید تم جہاز اڑایا کرو یہ کار کو بخش دو۔"حرم سے چپ نہیں رہا گیا تھا۔ "اچھا تو پاکستان کہ شیرنی ڈر گئی۔"ولید بھی اپنے نام کا ایک تھا۔ "کیا مطلب تمہارا میں ڈر گئی ہوں؟"جینز کے ساتھ سیاہ کرتا ٹائپ شرٹ تھی۔اسکارف ہمیشہ کہ طرح گلے میں تھا۔ بال اس نے پونی میں جکڑے ہوئے تھے۔ صاف سادہ سا چہرہ لیے اس نے سیاہ آنکھیں ولید کو دکھائیں۔"مجھے سمجھ نہیں آتی تم ہر بات پہ یہ آنکھیں کیوں نکال لیتی ہو توبہ۔"ولید نے واقع جھنجھلا کر کہا۔"تو تمہی کس نے کہا ہے مجھے کہو کہ میں ڈر گئی؟"حرم کو شاید اس کی بات دل پہ ہی لگ گئی۔"تو کون سا جھوٹ بولا ہے۔"ولید نے کہا تو آہستہ سے تھا مگر حرم کی آنکھوں کے ساتھ کان بھی تیز تھے اور زبان بھی۔چلو ٹھیک ہے روڈ خالی ہے۔ تم بھگاؤ دیکھتی ہوں کون ڈرتا ہے۔اس کے بعد میں ڈرائیو کروں گی۔"ایک پل میں وہ مقابلے پہ اتر آئی۔"یہ بات ہے تو دیکھو پھر۔"ولید نے شرارت سے کہا اور سپیڈ بڑھا دی۔ حرم کا دل ہو ل رہا تھا واقع وہ لوگ ہوا سے باتیں کر رہے تھے۔ اوپر سے ولید کا فوکس ڈرائیونگ پہ مکمل نہیں ہو پا رہا تھا وہ بار بار اس کے چہرے کو دیکھتا تھا۔ حرم لا پرواہی سے بیٹھی رہی مگر وہ واقع ڈر رہی تھی۔"اس طرح لاس اینجلس کا نہیں پتہ مجھے ہاں مگر ہم جنت تک ضرور پہنچ جائیں گے۔"حرم نے چلا کر کہا تھا تقریبا۔"تو مان لو کہ تم ڈر گئیں۔ولید کا بس چلتا تو وہ گاڑی اڑا دیتا۔"میں نے سنا تھا لڑکے بڑے کئیرنگ ہوتے ہیں ڈرائیونگ میں جب لڑکی ساتھ بیٹھی ہو مگر تم تو الٹے ہو بالکل ولید۔"حرم نے زور کا مکا اس کے کندھے پہ مارا تھا۔ولید کا قہقہہ گونجا۔تم نے بڑی سنی ہوئی ہیں ایسی باتیں وہ شرارت سے بولا اور پھر اس نے آہستہ سے گاڑی کہ رفتار کم کر دی تھی۔حرم کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔"چلو اب تمہاری باری ہے۔"۔پہاڑوں کے بیچ خوبصورت روڈ پہ دوڑتی گاڑی میں ولید کی خو بصورت آواز گونجی۔میرا موڈ بدل گیا ہے اب۔"حرم نے نظریں چرا کر کہا"ولید نے بہت کوشش کی تھی اپنی ہنسی ضبط کرنے کی۔مجھے پتہ ہے تم دانت نکالنا چاہتے ہو اس لیے نکال سکتے ہو ویسے ڈرتی تو میں نہیں بالکل۔"حرم ایسی باتیں کتنے بھولے پن سے کرتی تھی یہ بات اسے لوگ بتاتے تھے ولید نہیں۔وہ بس بے بس ہو جاتا تھا۔اس کے چہرے پہ مسکان آتی یا آنسو۔باتیں کرتی یا خاموش ہوتی وہ اتنی الگ اور خالص لگتی تھی کہ وہ ڈر جاتا کہیں کسی کی نظر ہی نہ لگ جائے۔"حرم تم نے کہا تھا نا پاگل پن کبھی کبھی زندگی کے رنگ ایسے دیکھاتا ہے کہ ہم نے پہلے نہیں دیکھے ہوتے۔"وہ گاڑی آہستہ کرتا جا رہا تھا۔"ہاں کہا تھا اور میں اس پہ یقین بھی رکھتی ہوں۔"حرم بھلا کب ا نکار کرتی تھی اپنے فرمان سے۔"ہاں مجھے لگتا تم ٹھیک ہی کہتی ہو۔وہ مسکرا کر پیار سے بولا تھا اور یہ ولید ابسن کا وہ لہجہ تھا جس پہ وہ دل ہار جاتی تھی۔

                                             !*****************

کیلفورنیا۔

کیلفورنیا انٹر نیشنل ائیر پوٹ پر اترا وہ شخص جس کے ہاتھ میں خوبصورت بیگ تھا اس کو دیکھ کر ایک شخص بھاگ کر پاس آیا تھا۔گلاسز آنکھوں سے اتار کے اس نے سنجیدگی سے اس آدمی کو کچھ بولا تھا جسے سن کر اس نے ادب سے سر ہلایا۔تبھی ایک خوبصورت کار ان دونوں کے سامنے آ رکی۔ڈرائیور نے بیگ اس شخص کے ہاتھ سے لیا۔  بلیک تھری پیس میں ملبوس شخص نے گلاسز آنکھوں پہ چڑھائے اور گاڑی میں بیٹھ کر اپنا مہنگا لیپ ٹاپ اوپن کر لیا تھا۔گا ڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ 

وہ شخص کو ئی اور نہیں تھا ارمغان جہانگیر خان تھا۔ اس کے وجاہت سے بھرپور چہرے پہ بس سنجیدگی نظر آتی تھی۔

لاس اینجلس۔

وہ لوگ وینس بیچ پر موجود تھے۔ مارچ کا مہینہ تھا اور کافی لوگ وہاں آئے ہوئے تھے۔اف یہ کتنی خو بصورت جگہ ہے۔ولید اسے ایک پرسکون جگہ پر لے آیا تھا جہاں رش نا ہونے کے برابر تھا۔ولید نہیں چاہتا تھا وہ کپلز کو دیکھ کر وہاں عجیب محسوس کرے اس لیے وہ اس ایک طرف لے آیا۔حرم نے کوئی دو سو تصاویر بنا لی تھیں اور ولید کو یقین تھا اس میں سے دو ہی وہ پسند کرے گی۔ولید تو ایک سائڈ پر ہو گیا تھا وہ خود ہی انجوائے کیے جا رہی تھی۔"ولید تم کتنے اچھے ہو۔"وہ اس کے پاس آ کر بولی۔"اچھا کیا واقع ۔۔۔۔بہت شکریہ آنسہ حرم ریحان صاحبہ آپ نے مجھے یہ اطلاع دی۔"وہ چڑ کر بولا وہ کب سے اسے اگنور کیے جا رہی تھی بیچارا اور کرتا بھی کیا۔"او میرے خدا ولید تم نے مجھے متاثر کر دیا کس قدر اچھی اردو بول لیتے ہو اب تم۔"وہ بھی حرم تھی ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ولید نے اس کی طرف خالی  جوس کا ڈبا پھینکا تھا۔ ٹھہرو میں پوچھتا ہوں تم سے والا انداز تھا اس کا۔وہ کھلکھلا دی تھی۔ وہ خوش تھی اور ولید اس کی خوشی میں خوش۔

    کیلفورنیا۔

اس کے سامنے رکھا کافی کا کپ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ "سر یہ امریکہ ہے اور وہ لڑکی ایک نامور یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہے ۔آپ کو معلوم ہے یہ لوگ کس حد تک جا سکتے ہیں اگر کو ئی بھی ایسا ویسا کچھ ہوا۔"سامنے پاکستانی شکل و صورت کا آدمی انگلش میں بول رہا تھا۔"ہاں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہاں گناہ اتنے منظم طریقے سے کیے جاتے ہیں کہ جس کی انہتا نہیں۔پیسہ میرا جتنا تم کہو اور کام میری پسند کا جیسا میں کہوں۔"مختصر سی بات میں اس نے مدعا بیان کیا۔

سامنے بیٹھا شخص بے بس ہوا۔وہ ارمغان کو نہیں جانتا تھا۔ وہ جرائم پیشہ تھا۔اس کا رابطہ ارمغان سے کسی نے کروایا تھا۔ سبز آنکھوں میں ہلکی سے سرخی۔ چہرہ اگر چہ سخت لگ رہا تھا اس وقت مگر معلوم ہوتا تھا کہ وہ نرم دل انسان تھا۔ نک سک سے تیار وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔اگر کوئی پیار محبت کا چکر تھا تو وہ آخر یہ طریقہ کیوں اپنا رہا تھا۔ "تم سوچ لو مجھے بتا دینا میرے پاس وقت نہیں ذیادہ۔"مغرور کھڑی ناک پہ غصہ دھرا تھا۔"ٹھیک ہے سر ڈن ہے پیسہ آپ کا ہو گا کام میرا۔جگہ کا انتظام ہو جائے گا اور باقی بھی سارا۔ْ"وہ لائن پہ آ ہی گیا تھا۔ ارمغان کے ہونٹوں پہ تلخ مسکان آئی۔"ثروت شبیر نام ہے میرا۔"اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

"ارمغان جہانگیر خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس نے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کیا تھا سنجیدگی سے کارڈ پکڑاتا وہ وہاں سے نکل آیا تھا۔پیچھے بیٹھا شخص سحر ذدہ ہو چکا تھا۔

                                                 *****************

اے میری سوچ کی محور، تم اپنے سارے دکھ رو لو

سمجھ لو مجھ کو چارہ گر، تم اپنے سارے دکھ رو لو

اِسے تم مشورہ سمجھو یا میرا تجربہ سمجھو 

یہ دل ہوجائے گا پتھر، تم اپنے سارے دکھ رو لو

مجھے خاموش اشکوں سے بہت ہی خوف آتا ہے

نہ رکھو آنکھ یوں بنجر، تم اپنے سارے دکھ رو لو

تمہیں اس کی خبر ہو گی، یہ اک دن خُوں رلائے گا

بھلا کر خواب کا پیکر، تم اپنے سارے دکھ رو لو

مری جاں! یہ نہیں سوچو، سمیٹوں گا اِنہیں کیسے

مرے شانے پہ سَر رکھ کر، تم اپنے سارے دکھ رو لو

سُنا ہے اُس کی آنکھوں میں، تمہارے زخم کھلتے ہیں

تمہیں کہتا ہے جو اکثر، تم اپنے سارے دکھ رو لو

سُنو! نامہرباں آنکھیں، تمہیں ایسے ہی دیکھیں گی

نہیں بدلے گا یہ منظر، تم اپنے سارے دکھ رو لو

اگر یوں اشک رونے سے، انَا پر چوٹ پڑتی ہے

ہنسی کی اوڑھ کر چادر، تم اپنے سارے دکھ رو لو

بتا دینا، یہ میرا دل تمہارے غم سے بوجھل ہے

اُسے کہنا یہ نامہ بَر! تم اپنے سارے دکھ رو لو

عاطف سعید

میر۔۔۔۔۔۔۔اس نے آہستہ سے  پکارا تھا۔ سارا فلیٹ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔تبھی اسے ایک کمرے سے آواز آئی تھی۔وہ آہستہ سے چلتی ہوئی قریب گئی۔

دروازہ بند تھا مگر آوازیں آ رہی تھیں۔

"جہانگیر خان تم اس قدر ہارے ہوئے انسان نکلو گے میں نے سوچا نہیں تھا۔"

تمہیں ابھی تک اتنا بھی پتہ نہیں چلا کہ تمہارے علاقے میں تمہاری ناک کے نیچے جو کچھ ہو رہا ہے وہ تمہارا دشمن کروا رہا ہے۔مجھے تو افسوس ہو رہا ہے تمہاری سوچ پر عزت پہ چہ چہ۔۔۔۔۔۔"نورم کا دل چاہا یہ خواب ہو۔ کوئی بھیانک سا خواب۔اس نے بے ساختہ دروازہ تھاما تھا۔"ہاں میں نے بدلے کے لِئے کیا سب اور ابھی تمہاری بربادی کی شروعات ہوئی ہے بولو کیا کر لو گے تم۔"آئید میر نفرت میں بھول چکا تھا کہ وہ کیا بول رہا تھا اس وقت اس شخص کے دل میں سوائے جہانگیر خان کی نفرت بول رہی تھی نورم کی محبت مانند پڑ گئی تھی۔"بدلہ۔۔۔۔۔۔دشمن۔۔۔۔۔آئید میر۔نورم بے ساختہ پیچھے ہٹ چکی تھی۔اس کا دوپٹہ دروازے میں اٹک کر گر چکا تھا۔ ایک شخص کے لیے وہ خود کو دان کر آئی تھی سب چھوڑ آئی تھی اور صلہ یہ ملا۔اس کے دل نے بند ہو جانا چاہا ۔"جو کچھ تم سے نہیں ہوتا کر لو جہانگیر خان جو تم نے کیا تھا یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔اس کے آخری الفاظ سیسہ بن کر اس کے کانوں میں۔انڈ یلے گئے تھے۔وہ بھاگ کر لاؤنج میں فرش پہ بیٹھی تھی۔بے اماں سی بے یارو مدد گار۔۔۔۔۔۔۔۔

کال پہ بات کرتے آئید میر کو یکدم کسی انہونی کا گمان ہو۔وہ کال بند کر کے فورا باہر لپکا۔

دروازے میں سامنے بالکل اس کے قدموں میں نورم کا دوپٹہ پڑا تھا۔ کوئی آئید میر ریحان سے پوچھتا تو وہ بتاتا جس قدر اس کا دل خود زدہ ہوا تھا۔نہیں یہ نہیں ہونا چاہیئے اسے میں نے سب کچھ بتانا تھا۔ اس کے دل میں وہم آئے۔ آئید میر نے دوپٹہ اٹھایا اور آہستہ سے باہر بڑھا۔پورا فلیٹ اندھیرے میں ڈوبا تھا۔۔لاؤنج میں اسے اس وجود کا احساس ہو چکا تھا اور سب کچھ کھو دینے کا بھی۔

آئید میر نے لائیٹس جلا دی تھیں ساری۔۔فلیٹ روشن ہوا تو نورم کا تاریک چہرہ سامنے آیا۔وہ گم صم سی بیٹھی تھی۔فرش پہ کانپ رہی تھی۔آئید میر بھاگ کر آگے بڑھا۔

"نورم۔۔۔۔۔۔"اس نے پکارا تھا ۔سامنے بیٹھا وجود بنا حرکت کیے بیٹھا رہا۔"میں تو بیوقوف تھی بچپن سے ہی ہر رشتے کو لے کر بیوقوف۔"سبز آنکھیں بنجر تھیں ایک آنسو تک نہیں تھا ان میں۔تو وہ ہو چکا تھا جس کو سوچ کر ہی آئید میر کا دل لرزتا تھا وہ تھک کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

"لوگ اتنے اچھے اداکار کیوں ہوتے ہیں؟"کتنا درد تھا اس سوال میں لہجے سے ذیادہ آنکھیں بتا رہی تھیں۔"کیوں ہوتے ہیں آخر اور میرے سا تھ ہی کیوں۔؟"اور آئید میر ریحان کا دل چاہتا تھا وہ غائب ہو جائے۔کہیں چھپ جائے ورنہ سامنے بیٹھی لڑکی کے سوال اسے نگل جائیں گے۔آئید میر نے سوچا وہ روتی کیوں نہیں مگر اگلے پل وہ خوفزدہ ہوا کیونکہ وہ ہنس رہی تھی زور زور سے قہقہے لگاتی نورم جہانگیر خان۔اس داستان محبت میں اس سے زیادہ سوگوار منظر نہیں دیکھا گیا تھا۔یہ پہلا سوگواریت کا وقت تھا جو اس داستاں عشق میں پوری طرح نمودار ہوا۔

"نورم کہا گیا نورم کی ماں مر گئی۔"نورم نے مان لیا۔مجھے کہا گیا میری کاں بد کردار تھی ۔نورم روتی اور کہتی ہاں وہ ایسی تھی۔ اور پھر نورم کو پتہ چلا وہ تو ڈرامہ تھا اس کی ماں کو اس کے باپ نے مارا تھا۔۔۔۔ نورم روتی رہی چیختی رہی اور پھر ایسے بتایا گیا کہ کوئی ایسا ہے جو اس سے عشق کرتا" ہے۔اس نے آئید میر کی طرف دیکھ کر کہا وہ نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔ پہلی بار۔۔۔۔نو رم نے جینا سیکھنا شروع کر دیا۔اور بات کہ آخر پہ اس نے پھر سے ہنسنا شروع کر دیا۔کاش کسی کی زندگی میں کبھی ایسی ہنسی شامل نہ ہو رات کا وہ پہر جو اس کو دیکھ رہا تھا ترس سے سوچتا تھا۔"مجھے پاگل کہا گیا مجھے پاگل بنایا گیا۔۔۔۔ مجھے بے سہارا کیا گیا مجھے سہارا دیا گیا۔۔۔۔سب جھوٹ تھا سب ڈرامہ تھا صرف بدلے کی آگ تھی صرف۔وہ آہستہ سے سرگوشانہ لہجے میں بول رہی تھی۔کاش وہ چپ کر جاتی کاش وہ کچھ نہ کہتی ۔آئید میر کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

"اور سب سے مزے کی بات بتاؤں میں آئید میر۔۔۔۔۔"اس نے میر نہیں کہا تھا آئید میر کہا تھا سامنے بیٹھا مرد اندر سے ٹوٹا تھا۔

مجھے عشق کی ناکامی عشق کے جھوٹ کا ادراک تب ہوا جب آپ میرے شوہر بن چکے۔۔۔۔قسمت اتنا مزاق کیوں کرتی ہے میرے ساتھ۔"وہ اس کے قریب بیٹھی سوال پہ سوال کیے جا رہی تھی جس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔"بہت شکریہ آئید میر صاحب مجھے منہ دکھائی میں آنسوؤں کی سوغات دینے کا۔"وہ کرب سے بولی۔وہ پہلی دلہن تھی جسے منہ دکھائی میں آنسوؤں کے ساتھ ساتھ دھوکے کا تحفہ دیا گیا تھا اس کے محبوب شوہر کی جانب سے۔وہ پہلی دلہن تھی جس نے وعدے نہیں لیے تھے جس نے سوالات کیے تھے اور سوال بھی ایسے ویسے۔۔۔۔۔۔

نورم۔۔۔۔۔آئید میر کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔

آں ہاں۔۔۔۔۔کچھ مت کہیں۔آپ کو لگتا کیا میں پچھتا رہی ہوں اپنی محبت پہ ۔۔۔بالکل نہیں ۔میں نے بہت دل سے پیار کیا آپ سے مجھے کوئی دکھ نہیں ہاں مجھے دکھ ہے میرا انتخاب غلط نکلا۔۔۔۔۔"

اور محبت کرنے والا جان دینے والا خود سے زیادہ چاہنے والا شخص جب ایسے کہتا ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے آئید میر کے چہرے کے بدلتے زاویے خوب بتا رہے تھے۔

"میں نے آپ کو معاف کیا آئید میر ریحان۔ہر اس چیز کے لیے جو آپ نے میرے ساتھ کی۔ یہ میری طرف سے تحفہ ہے آپ کو۔وہ صوفہ پکڑ کر کھڑی ہوئی تھی۔اور وقت نے یہ مانا کہ شاید وہ پہلی دلہن تھی جو ایسا تحفہ دے کر جا رہی تھی ۔

آئید میر کا سر جھکا تھا۔اور آنسو تواتر سے ہاتھوں پہ گر رہے تھے۔اور آج آئید میر ریحان نے وہ کھویا تھا جو صرف اس کا تھا۔اس نے مخلص پیار اور اپنی دلہن شادی کہ پہلی رات کھو دی تھی۔ہر دفعہ کچھ نہ کچھ کھو ہی دیتا تھا وہ شخص اور یہ سب سے بڑا نقصان تھا۔

                                            *******************

لاس اینجلس۔

وقت جیسے اس کے گرد ٹھہر سا گیا تھا۔

حرم اور ولید ہالی ووڈ واک فیم میں موجود تھے۔وہ ہر چیز کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔اور ولید اس کے چہرے کو محبت سے۔

یہ وہ جگہ تھی جہاں بڑے بڑے ایکٹرز ایکٹریسز کے نام سٹارز پہ لکھے ہوئے تھے۔

"مائیکل جیکسن۔ یہ لو اس کا نام بھی لکھا گیا ہے حد ہے اس سے اچھا تو ہمارا عارف لوہار چمٹا بجا لیتا ہو گا۔ حرم نے ناک چڑھایا۔"چپ کر جاؤ حرم ابھی کسی نے سن لیا نا تمہیں بتائیں گے مائیکل جیکسن کا مطلب۔ولید کو پسند نہیں آیا تھا اس کا مائیکل جیکسن کو برا کہنا۔وہ جگہ ایسی تھی کہ ایک بار کسی اور دنیا کا گمان ہوتا تھا۔

ہیٹ شاپ سے ہیٹ لے کر سر پہ پہنتی حرم کا دماغ اس وقت گھوما جب ولید نے اس ہیٹ کی پیمنٹ کی۔" یا اللہ یہ اس قدر مہنگا ہیٹ ہے ۔"حرم شاپ سے نکل کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتی حیرت سے بولی۔"کوئی مہنگا نہیں تھا۔ "ولید نے اطمینان سے کہا تھا۔حرم بس اس کا چہرہ دیکھ کر رہے گئی تھی۔ایک بھرپور دن تھا جو وہ ساتھ بتا کر لوٹ رہےتھے ۔حرم کے چہرے پہ مسکان تھی جو کہ ولید کے لیے سب سے اہمیت رکھتی تھی ۔"یہ یادیں اور تمہارے ساتھ گزرا ہوا ہر پل اتنا خوبصورت ہے کہ آدھی زندگی میں ان کو سوچ کر ہی گزار سکتا ہوں۔"بارش کی رم جھم شروع ہو چکی تھی وہ گاڑی آہستہ کرتے ہوئے بہت سکون سے مسکراتا ہوا بول رہا تھا۔"اللہ نہ کریں کہ ہمیں یادوں کے بل بوتت زندگی گزارنی پڑے۔"حرم نے دہل کر کہا تھا۔ "مذاق کر رہا تھا پاگل۔"ولید نے اس کی ناک دبائی۔"بارش ہو رہی ہے ولید۔"وہ خوش ہو گئی تھی۔"تمہیں ایک غزل سناؤں کیا۔؟"وہ پر جوش ہو کر بولی تھی۔

"ہاں سناؤ۔"ولید نے اس کے چہرے کو آنکھوں میں جزب کیا تھا۔

"میں نے کافی عرصہ پہلے پڑھی تھی مجھے اچھی لگی کافی۔"

بارش کی اِن بوندوں نے جب دستک دی دروازے پر

محسوس ہوا تُم آۓ ہو انداز تمہارے جیسا تھا

وہ کار کے شیشے کھول کر ہتھیلوں پہ بارش کے قطرے جمع کر کے ولید پہ پھینک رہی تھی۔ولید نے گاڑی روک دی ۔وہ دونوں باہر اتر آئے تھے

ہوا کے ہلکے جھونکے نے جب آہٹ کی کھڑکی پر

محسوس ہوا تُم چلے ہو انداز تمہارے جیسا تھا

ولید نے سر خم تسلیم کیا کورنش بجا لایا حرم کھلکھلا دی۔

میں نے بوندوں کوجب اپنے ھاتھ پر ٹپکایا تو

اِک سرد سا احساس ہوا لمس تمہارے جیسا تھا

میں تنہا چلا جب بارش میں اِک جھونکے نے ساتھ دیا

میں سمجھا تُم ساتھ ہو میرے احساس تمہارے جیسا تھا

وہ ولید کو دیکھ کر خوبصورت لہجے میں بول رہی تھی۔

پھر رُک گئی وہ بارش بھی، رہی نہ باقی آہٹ بھی

میں سمجھا مجھے تُم چھوڑ گئے انداز تمہارے جیسا تھا

"اینڈ پہ سوگوار کیوں حرم"ولید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا گویا کسی بچے کے کھونے کا ڈر ہو۔

"غزل تھی مجھے تو خاص نہیں پتہ سوگواریت کا ۔وہ ادا سے بولی اور بات تھی بھی سچ اس نے زندگی میں غم نہ ہونے کے برابر دیکھے تھے خوش نصیب حرم ریحان پہ نصیب مہربان ہی رہتا تو اچھا تھا۔

                                 **********************

لاہور میں آئید میر نے گاڑی اپنے گھر کے سامنے روکی۔یہ رات کا وقت تھا ۔نورم نے بہت مشکل سے ایک دن گزارا تھا اس گھر میں اور اب اس کی ضد پہ وہ اسے لاہور لے آیا تھا۔ سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا تھا۔

"مجھے لگتا ہے سب سو چکے ہیں۔"آئید میر نے اس کا بیگ اپنے کمرے میں لا کر رکھا تھا۔دو دن کی نئی نویلی دلہنوں والی کوئی بات نہیں تھی چھوٹی سی نورم کو وقت نے سمجھدار بنا دیا تھا ۔وہ آرام سے فریش ہو کر تکیہ لے کر بیڈ پہ لیٹ گئی تھی بنا ایک لفظ بولے۔

آئید میر صوفے پہ بیٹھا تھا۔

"نورم مجھے تم سے کچھ بات کرنی۔"اس سے پہلے کے صبح کی روشنی سارے راز کھول دیتی وہ ہمت کر کے بولا تھا۔

"کچھ رہتا ہے کیا۔؟"پرسکون طنز سے پاک لہجا وہ اس کی دلہن تھی آئید میر ریحان کا پیار تھی۔آئید میر کے دل میں جزبات ایک پل کے لیے بدلے مگر وہ خود پہ قابو پانا جانتا تھا۔

"نورم میری بات سنو تم مجھے جو سمجھتی ٹھیک ہو اپنی جگہ ہر طرح سے مگر جو بات میں تمہیں بتانے والا ہوں وہ جان لینا اب تمہارے لیے ضروری ہے۔"آئید میر چلتا ہوا بیڈ روم کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا۔

"تم جانتی ہو تمہارے اور میرے درمیان سب سے پہلا رشتہ کونسا ہے۔؟نورم کو لگا اس کی آواز بھیگ رہی تھی۔"کیا۔۔۔۔۔۔؟

"تم بہت چھوٹی تھیں اور تم مجھے بالکل پسند نہیں تھی میں چڑ جاتا تھا تم سے پھو کبھی کبھار ہی آتی تھیں اور وہ بھی تمہارے لاڈ میرا دل کرتا میں اس سبز آنکھوں والی کانچ کی گڑیا کو اٹھا کر باہر پھینک آؤں۔"وہ نم لہجے سے مسکرا دیا تھا۔

اور نورم آئید میر وہ سکتے میں آ گئی تھی۔"پھو ۔۔۔۔۔۔۔"وہ لفظ دہرا رہی تھی۔وہ ہل بھی نہیں سکی۔آئید میر چلتا ہوا اس کے پاس آیا وہ پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی تکیہ گود میں تھا سبز رنگ کے لباس میں سبز آنکھوں میں پھیلی حیرانگی اور وحشت اسے اور پرکشش بنا رہی تھی سنہری بالوں کی گھنگھریالی لٹیں گود تک آ رہی تھیں ۔آئید میر اس کے گھٹنوں میں بیٹھ چکا تھا۔اس نے نورم کا ہاتھ پکڑا ۔ٹھنڈا یخ ہاتھ اس نے لبوں سے لگایا۔وہ ساکت تھی ۔"ہاں نورم آئید میر صاحبہ آپ میری سگی پھوپھو کی اکلوتی دختر نیک اختر ہیں۔"آئید میر کے آنسو آنکھوں میں ہی خشک ہو چکے تھے۔"تم بھی سوچتی ہو گی کہ زندگی تمہاری ایک راز ہے ایسے نا۔مگر یہ آخری راز تھا بس اب تو کہانی باقی ہے۔"وہ افسردگی سے کہتا اس کا ہاتھ گود میں رکھ کر باہر چلا گیا تھا۔پانچ منٹ بس پانچ منٹ ہوئے وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی۔"آئید میر۔۔۔۔۔"اس نے زور سے پکارا۔ ایک بار دو بار اور تین بار ۔اتنا زور سے کے اس گھر کے مکینوں کے دل دھڑک اٹھے۔سعدیہ اور ریحان صاحب ننگے پیر باہر بھاگے تھے۔سعدیہ نے ساری لائٹس جلا دی تھیں ۔رات کی سیاہی میں روشنی گھلی تو اجالا ہر سو پھیل گیا۔وہ آ رہا تھا سامنے سے مگر اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ وجود جس کے سر کے آدھے بال سفید تھے ۔چہرے پہ دکھ تکالیف کی داستان رقم تھی ۔وجود لاغر سا تھا اور آئید میر کے سہارے چلتا تھا۔نورم کا دل دہلا۔خون میں سنسناہٹ ہوئی۔سعدیہ اور ریحان صاحب تھک کر بیٹھ گئے تھے۔آئید میر کے ساتھ کھڑا وجود نورم کو حیرانی سے دیکھتا تھا۔

یہ۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے مشکل سے انگلی نورم کی طرف اٹھائی۔الفاظ ٹوٹ گئے۔آئید میر نے ان کو سہارا دیا۔"یہ۔۔۔نن۔نورم۔۔۔۔۔۔"الفاظ ادا ہو ہی چکے تھے۔۔"اٹھارہ سال۔۔۔۔ اٹھارہ سال کا وقت کم نہیں ہوتا نورم بی بی یہ یہ آپ کو پہچان چکی ہیں آپ بھی زندہ ہو جائیں۔"آئید میر کو اس کا لٹھے کے مانند سفید ہوتا چہرہ نظر آ رہا تھا۔"یہ امی ہیں۔۔۔۔اس نے معصومیت سے سامنے بیٹھے ریحان اور سعدیہ سے پوچھا۔ان دونوں کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے تر تھیں۔ریحان صاحب نے سر ہلا کر ہاں کہا تھا۔

وہ آہستہ سے چلتی ہوئی ان کے قریب گئی۔نورم کا پورا وجود کانپ رہا تھا مگر نیلم یعنی نورم کی ماں ساری آئید میر کے سہارے پہ تھیں۔نورم نے ان کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔ہاتھ پکڑا پھر دوسرا ۔وہ پاگلوں کی طرح ان کو چھو رہی تھی۔نیلم کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی تھی۔وہ آئید میر کے بازوؤں میں گر گئی تھیں۔امی۔۔۔۔۔نورم نے چیخ ماری۔آئید میر نے نیلم کو پیار سے اٹھا کر کمرے میں اپنے بیڈ پر لٹایا تھا۔"نورم پچھلے کچھ عرصے میں اتنی مظبوط ہو چکی تھی کہ اب اپنے اعصاب پر قابو پا لیتی تھی۔ وقت سے ذیادہ بہتر استاد کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور وہ بھی وقت کی شاگرد تھی۔

"یہ ایسی کیوں ہیں۔؟"ان کے سرہانے بیٹھ کر ان کا ماتھا چومتی نورم نے سب ستے دردناک سوال کیا تھا۔"اپنے باپ سے پوچھنا۔"آئید میر نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوا۔سعدیہ نے اسے آنکھیں دکھائیں۔اور آئید میر کے دوا وغیرہ دینے اور کوشش سے وہ ہوش میں آئی تھیں۔اور پھر وہاں جزبات کا وہ منظر تھا جسے بیاں کرنا مشکل ہو گا۔سعدیہ اور ریحان بار بار آنکھیں صاف کرتے تھے۔ایک آئید میر تھا جو نارمل تھا۔اس نے دونوں کو پانی پلایا تھا۔ نیلم کو اپنے ہاتھوں سے پلا کر اس نے جب گلاس نورم کی طرف بڑھایا تو اس نے تلخی

 سے جھٹک دیا تھا اور یہ بات ریحان اور سعدیہ نے غور سے محسوس کی۔

                                              ********************

ہاشم خان کے ساتھ پارک میں بیٹھی حرم کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔سفید قیمتی نفیس سے گلاسز کے پیچھے ان کی آنکھیں آج بھی سرخ تھیں۔تو وہ مایا ابسن کی داستان محبت پڑھ آئے تھے۔

"زندگی اتنی دردناک اور عذاب میں رہی ہے ہر دور میں کہ اب تو ہنسی آ جاتی ہے مجھے کہ اس وجود کا مقصد کیا تھا۔"وہ کرب سے بولے تھے۔حرم کی آنکھوں میں آنسو چمک اٹھے۔"انکل۔سوری۔۔۔۔۔۔"اس نے بے ساختہ ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔"نہیں بیٹا آپ نے تو احسان کیا مجھ پہ۔"وہ شفقت سے مسکرا کر بولے تھے۔

"مریم جب مایا ابسن تھی تو میں تب ایک ٹوٹا ہوا انسان تھا۔ایک محبت گنوا کر آیا تھا میں اس نے مجھے سکھایا تھا جینا وہ میرا دوسرا عشق تھی اور تب میں نے محسوس کیا کہ وہ ساری حقایات جھوٹی ہیں جو پہلی محبت پہ لکھی گئی تھیں کیونکہ مایا کے بعد میں نے خود کو مکمل پایا ۔اس کے ساتھ گزری زندگی کے وہ چند سال میں نے اپنی ساری زندگی ان میں ہی جی لی۔ وہ ایک بار مر گئی مجھے بار بار مرنے کے لیے چھوڑ گئی۔"وہ بولتے جا رہے تھے ۔شاید انہیں بھی کسی کندھے کی ضرورت تھی۔

"کیا آپ کسی اور سے محبت کرتے تھے انکل۔؟"اسے حیرت ہوئی۔"ہاں اور یہ بات مریم کو معلوم تھی مگر اس کی محبت کو نے کبھی گوارا ہی نہ کیا کہ وہ مجھے اس بات کا طعنہ دیتی۔وہ کہتی تھی مجھے تو اس ان دیکھی عورت سے بھی عقیدت محسوس ہوتی یے جس نے آپ کو چاہا جس کو آپ نے چاہا۔وہ پاگل تھی بالکل اور پاگل بھلا کب خوش رہتے ہیں۔"حرم کا دل کیا وہ ساری دنیا کو اکھٹا کر کے بتائے ایسے ہوتے ہیں محبت کرنے والوں کے لہجے۔وہ ایسے بات کر رہے تھے جیسے مایا ان کے سامنے ہو۔

"ایک ٹوٹا بکھرا انسان جس کا خاندان جس کی پہچان جس کا سب کچھ چھن چکا تھا اسے جینا سکھایا تھا مایا ابسن نے ۔اور جس دن مجھے معلوم ہوا وہ مجھ سے پہلے۔۔۔۔"انہوں نے بات کاٹ دی۔میں پہلے دماغی مریض سا انسا تھا میں خود میں گھٹنے لگا تھا۔ میں نے پاگل پن میں وہ سب کیا وہ کام جو اس کو اندر سے کھا گئے جیسے ولید کا ڈی۔این۔اے۔وہ اب رو رہے تھے اور حرم بھی رو رہی تھی۔

"انہوں نے آپ کو بہت بلایا انکل ولید نے آپ کو فون کیے پاکستان میں اس نے ہر جگہ آپ کو ڈھونڈا۔مگر اسے پتہ تک نہیں تھا نہ آپ کے گھر کا نا کچھ۔"حرم نے بات کے اندر ایک سوال کیا تھا وہ سمجھ گئے۔

"پاکستان۔۔۔۔۔انہون نے ٹھنڈی آہ بھری۔امریکہ آنے کے بعد میں ایک بار بھی پاکستان نہیں گیا نا میرا کسی سے رابطہ تھا۔نہ میرا گھر تھا نہ کچھ۔"وہ درد بھرے لہجے میں بولے تھے۔"تو کہاں تھے آپ؟"وہ فورا بولی ۔

جہاں انہوں نے نہیں ڈھونڈا۔مریم راجہ سنگھ کو اچھے سے جانتی تھی وہ میرا دوست تھا بہت اچھا دوست۔میں نے اس کو دل کا حال بتایا تو اس نے مجھے بلا لیا۔میں بس خود کو بدل کر واپس آنا چاہتا تھا۔مجھے مریم ہاشم خان کی محبت پہ اتنا یقین تھا کہ وہ میرے لیے در ہمیشہ کھلے رکھے گی مگر مجھے یہ نہیں علم تھا وہ خود چلی جائے گی۔"اس سے ذیادہ وہ بول نہیں سکتے تھے۔حرم کو احساس ہو چکا تھا۔

"ولید کا نام میں نے رکھا تھا اس نے وہ چھین لیا۔۔اس نے میرا نام اپنے نام سے ہٹا دیا اس نے مجھے ہر وہ اذیت دی جس کا میں حقدار تھا ۔مگر اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا یہ بھی اس کی ماں کا حکم تھا جانتا ہوں میں۔"وہ افسردگی سے بولے۔اس کے بعد کافی دیر وہ اسے بتاتے رہے تھے ۔

حرم نے خود سے وعدہ کیا تھا وہ ولید کو ایک بار سمجھائے گی مگر اسے یہ نہیں معلوم تھا وہ ولید سے اب مل نھی نہیں پائے گی۔

                                        ***********************

ہاشم خان کی حالت ایسی تھی کہ حرم نے ان کو منع کر دیا حالانکہ وہ بہت کہہ رہے تھے اسے ہاسٹل چھوڑ دیں گے۔ڈھلتی شام سے پہلے وہ ہاسٹل پہنچ جانا چاہتی تھی۔ٹیکسی روک کر وہ جلدی سے بیٹھ گئی۔ابھی کچھ دیر آگے ہی وہ بڑھے تھے جب خالی سڑک پر کھڑا شخص قریب آیا۔حرم کو حیرت ہوئی ٹیکسی والے نے ادب سے ٹیکسی روک دی تھی۔براؤن شرٹ بلیو جینز کے ساتھ پہنے بالوں کو ایک ہاتھ سے پیچھے ہٹاتا وہ شخص پورے اعتماد کے ساتھ اس کے ساتھ سیٹ پر آ کر بیٹھ چکا تھا۔

"او ہیلو مسٹر نظر نہیں آتا کیا یہاں پر کوئی موجود ہے ۔حد ہوتی ہے۔"وہ اس کی طرف دیکھ کر چلائی۔ارمغان نے ایک نظر اٹھا کر دیکھا تھا کالی آنکھیں سبز آنکھوں سے ٹکرائی تھیں۔حرم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی۔"تم غنڈے ہو کیا۔؟"ویسے لگتے تو نہی ہو۔"وہ اب آرام سے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے بولی۔ارمغان سنجیدہ ہی رہا۔وہ ٹیکسی والے کو راستہ سمجھا رہا تھا۔"حرم نے ٹیکسی والے سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ تو کان ہی نہیں دھر رہا تھا۔"اچھا سنو تم مجھے پہلے ہاسٹل چھوڑ دو پلیز اس کے بعد چاہے جہاں لے جانا اسے۔"وہ اب گھبرا رہی تھی۔ارمغان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔"خدا کے لیے مجھے کچھ تو بتا دو۔"اس کی کالی آنکھیں برس اٹھی تھیں۔اس بار ارمغان نے پوری نظر جما کر اسے دیکھا۔صاف رنگ پہ چمکتی کالی آنکھیں کشادہ پیشانی بال کیچر میں لا پرواہی سے جکڑے ہوئے تھے اور کچھ ماتھے پہ کٹے گرے ہوئے تھے۔ وی بہت خوفزدہ لگ رہی تھی۔ارمغان نے نظریں چرائیں۔"تم خاموش ہو سکتی ہو کیا۔"ارمغان نے اس بار اس سے بات کی تھی۔اف کس قدر خوبصورت آواز تھی اس حرم نے پریشانی میں بھی نوٹ کیا۔اور اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ بولتی ٹیکسی نے ایک ویران سے روڈ پہ ٹرن لیا ۔اور تھوڑی دیر بعد عجیب سے جگہ پر ٹیکسی رک چکی تھی۔حرم کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔وہ بھاگ کر باہر نکلی تھی۔ارمغان نے بھی قدم باہر رکھے۔"تم بعد میں بھی اپنا کام کر سکتے تھے مجھے جلدی جانا تھا۔"وہ گھبرا کر بولی۔کس قدر بیوقوف تھی وہ یا معصوم ارمغان نے سر جھٹکا۔وہ اسے نظر انداز کر کے ٹیکسی والے کو کچھ سمجھا رہا تھا۔حرم کچھ قدم آگے بڑھی۔اور اس کی جان تب نکلی جب سامنے آتے وہ کچھ غنڈے جن کے ہاتھوں میں پسٹلز تھے اسے نظر آئے۔وہ دو قدم پیچھے ہوئی۔"یہی وہ لڑکی ہے۔"ایک نے دوسرے سے پوچھا۔اور اس نے سرہلا کر ہاں کہاں۔وہ بھاگی تھی اندھا دھند ۔"خدا کے لیے مجھے ان سے بچا لو پلیز بچا لو۔سامنے سے آتے ارمغان سے ٹکرا کر وہ گر ہی جاتی اگر وہ اسے دونوں بازوؤں میں سمبھال نہ لیتا۔حرم کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا اور سانس تیز چل رہا تھا اس نے ایک ہاتھ سے ارمغان کی شرٹ کا بازو پکڑا ہوا تھا۔وہ اسے ایشیائی لگا تھا تو ہمدرد سمجھ رہی تھی۔ارمغان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ کانپ رہی تھی اس کے پاس بہت پاس تھی وہ۔اور وقت کے گزرتے پل میں ارمغان جہانگیر خان جس کے دل کے آس پاس کوئی گزرا تک نہیں تھا اس کھڑوس سے مرد نے دل سے اقرار کیا تھا اگر وہ آئید میر ریحان کی بہن نہ ہوتی تو اس سے عشق کیا جان چا ہئیے تھا۔

"سر آپ۔۔۔۔۔"؟وہ غنڈے چلتے ہوۓ قریب آۓ اور فورا مودب ہوئے۔"ہمیں معلوم نہیں تھا آپ بھی ساتھ ہوں گے۔

سر۔۔۔۔۔۔۔۔حرم کو لگا وہ گر جائے گی وہ اس سے ایک جھٹکے میں دور ہوئی۔اس کا اسکارف ارمغان کے قدموں میں گر چکا تھا۔

"ہاں میں ہینڈل کر لوں گا تم وین لے لے آؤ ادھر ہی۔وہ شاندار سا مرد اس پل حرم کو گھٹیا لگا۔آنسو گالوں پر خشک ہو چکے تھے۔ارمغان نے قدموں میں پڑا اس کا اسکارف اٹھا کر حرم کے کندھے پہ رکھا تھا اوع سا تھ ہی جیب سے ایک کپڑا نکال کر اس کی ناک پہ رکھا ۔ایک پل میں وہ اس کے بازوؤں میں جھول رہی تھی۔

حرم کو ہوش آیا تو اسے محسوس ہوا وہاں گھپ اندھیرا تھا کچھ ایسا اندھیرا اسے اپنے اندر اترتے ہوئے محسوس ہوا تھا۔وہ کون تھا ؟کیا چاہتا تھا ؟یہ سوچ اسے اندر سے سہما رہی تھی۔تبھء چر کی آواز سے دروازہ کھلا تھا۔اور کمرے میں روشنی چھا گئی۔آنے والا چار قدموں میں اس کے قریب پہنچا تھا۔۔۔۔"کھانا کھا لو"ارمغان نے سنجیدگی سے کہتے ہوۓ اپنے پیچھے اشارہ کیا تو ایک نقاب پوش پاس  پڑے میز پہ ادب سے کھانے کی ٹرے رکھ کے پلٹ گیا تھا۔حرم کو نا جانے کیوں ولید شدت سے یاد آیا اس کے ساتھ ہی اس کی موٹی آنکھوں سے لگاتار آنسو ٹوٹ کے بکھرے تھے۔ارمغان کو نا جانے کیوں تکلیف محسوس ہوئی وہ اس لڑکی کے ساتھ کیسے غلط کر سکتا تھا اس کا دل اداس ہوا تھا سوچ کر۔۔۔۔

"تم کیا چاہتے ہو مجھ سے۔۔۔۔"حرم نے بے بسی سے پوچھا۔"ابھی بتاتا ہوں،پہلے کھانا کھا لو۔"وہ آرام سے کہہ کر پاس پڑی کرسی پہ جم گیا تھا۔حرم کو اس کی سبز آنکھوں میں کہیں برائ نظر نہیں آئی تھی۔"مجھے بھوک نہیں۔"اس نے بے دردی سے آنسو پونچھے تھے۔۔۔۔۔۔۔چلو جیسے تمہاری مرضی ۔ارمغان کا دل چاہتا بھی تو زیادہ نرمی نہیں کر سکتا تھا وہ۔وہ اٹھ کے کمرے سے باہر گیا ۔تھوڑی دیر بعد اس کے ساتھ دو نقاب پوش اندر آئے تھے دونوں کے ہاتھ میں قیمتی لیپ ٹاپس تھے حرم کو گڑ بڑ صاف نظر آئی تھی۔۔۔۔۔

               ************  

نورم جا چکی تھی اور آئید میر کا فلیٹ جو ہمیشہ سے ویران نظر آتا تھا آج حقیقی معنوں میں ویران تھا۔اس کا سیل بج رہا تھا مگر وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے ایک ہی طرف نظریں جمائے بیٹھا تھا۔مگر کال کرنے والا بھی ڈھیٹ تھا اسے کال اٹھانی ہی پڑی۔

اور تھوڑی دیر بعد وہ پاگلوں کی طرح لیپ ٹاپ کنیکٹ کیے اس کی سکرین پہ نظر جما کر بیٹھا تھا۔آئید میر ریحان سے کوئی پوچھتا زندہ ہوتے ہوئے موت کی خوشبو کیسی ہوتی ہے تو وہ اس پل کو بیان کرتا۔۔۔۔۔۔

بال بکھرائے سرخ پڑتی آنکھوں کے ساتھ وہ جو سامنے نظر آ رہی تھی وہ اس کی اکلوتی بہن حرم ریحان تھی۔اس کے منہنپہ پٹی کس کے باندھی ہوئی تھی۔عقب میں کھڑے ارمغان کی آنکھوں مہں بس وحشت تھی جس نے آئید میر کو لرزایا ۔وہ کبھی سوچ پہ نہیں سکتا تھا ارمغان ایسی گری ہوئی حرکت کرے گا۔حرم کچھ بولنا چاہتی تھی مگر بندھا ہوا منہ اور ہاتھ اسے مجبور کر رہے تھے خاموش ہونے پہ۔وہ جو یوسی بارکلے کی ہونہار طالبہ تھی۔وہ جس سے لوگ مسائل کے حل پوچھتے تھے ۔وہ جس پہ شہزادوں جیسا لڑکا دل و جان سے مرتا تھا اسے لگا وہ اس پل ایک عام سی عورت ہے کسی پسماندہ گاؤں میں رہنے والی عورت جس کے پاس اپنے حق میں بولنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہوتی دلیل ہوتی بھی ہے تو زبان نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔"اب تم مجھے وہ سب کر کے دکھاؤ آئید میر ریحان جو تم آج تک کرتے آئے ہو شاباش ہو جاؤ شروع ۔۔۔۔۔۔"اس سے پہلے کہ شل بیٹھا آئید میر کچھ بولتا لیپ ٹاپ کہ سکرین تاریک ہو چکی تھی ۔

"تم گھٹیا انسان میرے بھائی سے چاہتے کیا ہو؟"  ویڈیو کال کے ختم ہوتے ہی حرم کو آذاد کر دیا گیا تھا وہ اس پہ جھپٹ پڑی۔ارمغان نے مہارت سے اس کے دونوں ہاتھ روکے تھے۔ان دونوں کے سوا کمرے میں کوئی نہیں تھا۔"یہ تم اپنے گھٹیا بھائی سے پوچھنا ۔۔۔۔مگر افسوس تمہیں موقع نہیں ملے گا نا تمہارے اس بھائی کو۔چچ۔"ارمغان کے ہاتھوں میں حرم کے دونوں ہاتھ تھے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا۔حرم نے جھٹکا دے کر اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے آزاد کروائے۔وہ بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی جو ہر طرح کے رنگوں سے خالی تھی۔

            ************    

ولید حرم کو ڈھونڈ رہا تھا ۔اسے غصہ بھی آ رہا تھا وہ اس کو بنا بتائے کہاں غائب تھی اور دل بھی اداس تھا۔ابھی وہ گھر آیا تھا ۔ہاشم اسے دیکھ کر چونکے تھکا ہارا سا ولید۔۔۔۔

"سب اوکے ہیں نا ینگ میں؟"وہ جانتے تھے وہ ان کو جواب نہیں دیتا مگر وہ پوچھے بنا نہ رہے سکے تھے۔اور خلاف معمول اس نے جواب دے دیا تھا۔"حرم نہ جانے کہاں ہے۔"وہ ماتھا مسلتا پریشان نظر آیا۔"کیا مطلب کہاں ہے۔؟"اس بار ہاشم بھی چونکے۔"کل سے میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔"وہ آج واقع بدلا ہوا تھا یا ہاشم کو لگا۔"کل شام حرم میرے ساتھ تھی۔اگر چہ اس نے منع کیا تھا مگر اب بات اس لے تحفظ کی ہے۔"وہ آہستہ سے بتا رہے تھے۔"آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔؟"ولید چونکا۔"اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ سب اکھٹے ہو چکے تھے۔"ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ پوری رات ہاسٹل سے باہر گزارے۔"حسان اور بیلا ڈسکس کر رہے تھے جب حسان کا سیل فون بجا تھا۔اور پھر جو خبر ملی اس نے ولید سمیت ان سب کے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی۔آئید میر نے کال کر کے حسان سے معلومات لی تھیں وہ کیلفورنیا آ رہا تھا اس کے علاوہ اس نے کچھ زیادہ نہیں بتایا تھا مگر اتنے سمجھدار تو وہ سب تھے کہ سمجھ سکتے۔"آئید میر کے آنے کا انتظار کرنا ہو گا۔"شل بیٹھے ولید کے کندھے پہ سوہانا نے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا ۔ان کا پورا گروپ آ چکا تھا جینیفر اور بیلا کی آنکھیں باقاعدی بھیگی ہوئ لگ رہی تھیں۔

               **********

آپ کا بیٹا مجھے کچھ نہیں بتاتا خود مہاراج بنا ہوا پے انیلا ۔ریحان صاحب انیلا کو کہہ رہے تھے جب باہر سے گزرتی نورم کے کانوں کو اس دشمن جان کا نام سنائی دیا۔اس کے قدم تھم گئے تھے نا چاہتے ہوئے بھی وہ اس کے ذکر پہ ٹھہرنے سے خود کو نہیں روک سکی۔۔۔

"امریکہ چلا گیا ہے وہ مجھے لگ رہا کچھ نہ کچھ بہت برا ہونے والا ہے ۔"ریحان صاحب چشمہ اتار کے افسردگی سے بول رہے تھے۔نورم اداس سے اپنے اور نیلم کے کمرے میں لوٹ آئی ۔ہمہشہ ماں کو دیکھ کر اسے ارمغان یاد آتا تھا ۔جب وہ امی سے ملیں گے ۔۔۔وہ یہ سوچ کر ہی خوش ہو جاتی تھی کہ تب سب ٹھیک ہو جائے گا۔

آئید میر سے جس قدر ہو سکا تھا وہ کیلفورنیا پہنچا تھا ۔وہاں سب موجود تھے سوائے ولید کے وہ مارا مارا پھر رہا تھا اس شہر کے گلی کوچوں میں۔۔۔۔تم لوگ جتنا مجھے بتا سکتے ہو بتا دو وہ آخری بار کہاں نظر آئی کس کے ساتھ تھی۔"آئید میر کے وجیہہ چہرے پر سنجیدگی کہ دبیز لکیر تھی وہ سب کچھ بھول چکا تھا۔یاد تھی تو صرف اپنی لاڈلی بہن۔"ولید ۔۔۔۔ولید کو معلوم ہو گا۔"بیلا نے جھجک کر کہا تھا۔"کون ہے ولید۔۔۔۔۔؟ارمغان نے ان سب کے چہروں پہ نا معلوم اداسی دیکھی۔نا جانے آج کتنے رازوں سے پردہ فاش ہونا تھا۔اور حسان سیل نکال کر ولید کو کال ملانے لگا تھا۔آئید میر کے چہرے پہ پھیلی پریشانی معاملہ سنگین ہونے کی خبر دیتی تھی۔

وہ ہارا ہوا سا شخص جیت کہ تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔اگر اس نے حرم کو کھو دیا۔۔۔۔۔یہ وہ سوچ تھی جہاں آ کر اس کی ساری سوچیں ختم ہو جاتی تھیں۔تبھی اس کے سیل پہ بیل سنائی دی۔۔۔"ٹھیک ہے میں ابھی آیا۔"آئید میر آ چکا تھا اور اسے وہاں پہنچنا تھا بہت جلدی۔۔۔۔۔

             **************

یہ ایک ویران سی جگہ تھی جہاں دو کمر ے تھے اور ایک سٹور روم اور چھوٹا سا لان۔گھاس کچھ صاف تھی اسے آئے  ساتواں دن تھا ۔اب اسے اتنی آذادی تو تھی کہ وہ وہاں آذادی سے اندر باہر آ سکتی تھی۔اس نے ارمغان کی سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی اور براؤں پینٹ کے پائنچے سمیٹ کر بھی پیروں تک آ جاتے تھے۔۔مگر مجبوری تھی سو اس نے خود کو حالات پہ چھوڑ دیا تھا۔اس وقت بھی وہ سر جھکائے نم ہوتی پلکوں کے ساتھ منہ گھنٹوں پہ رکھے ایک طرف دیکھ رہی تھی ۔اور سگریٹ سلگائے اندر سے سلگتا آئید میر اسے ۔۔۔۔۔۔

اس حرم ریحان سے اس قدر لگاؤ ہو چکا تھا کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی سارے پلان بھلا چکا تھا۔و9 بنا کسی سوچ کے اسے اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھا ورنہ ابھی تک پلان کے مطابق اسے امریکہ چھوڑ دینا چاہییے تھا اس کے ساتھ موجود وہ لوگ بھی پریشان تھے جو اس نے پیسوں سے خریدے تھے۔

اور وہ رات وہ بہت بھیانک تھی ۔۔۔۔رات نے اپنی سیاہی کے ساتھ ہی طوفان کا پتہ دیا تھا۔حرم سہم کر بیڈ کی ایک سائڈ پہ ٹھنڈے فرش پہ بیٹھی تھی۔بادلوں کے گرجنے اور اولے گرنے سے کمرے کی کھڑکیان اتنا شور کرتی تھیں کہ اس کا دل لرز جاتا۔دوسرے کمرے میں لیٹا ارمغان بھی اٹھ بیٹھا تھا اسے حرم کی سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔وہ بھاگ کر اٹھا۔"دروازہ کھولو حرم"وہ بے زور سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔حرم کا دل حلق میں آ گرا۔"تم جاؤ یہاں سے منحوس ہو تم۔"وہ چلا کر بولی تھی۔"ٹھیک ہے جو کہنا ہو کہہ لینا مگر دروازہ کھولو۔"ارمغان کو وہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی ۔"اور وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تھی۔اس کی خاموشی ارمغان کو ہولا رہی تھی۔اس نے ایک دو بار لات مار کے دروازے کا ایک پٹ توڑ دیا تھا۔وہ بھاگ کر اندر آیا تو سامنے فرش پہ بیٹھی وہ کانپتی لرزتی ہوئی سردی سے جمی معلوم ہو رہی تھی۔ارمغان کو کچھ سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے ہاں مگر یہ ضرور تھا کہ اس نے بیڈ پہ پڑا گرم کمبل اٹھا کر اسے اورھا دیا تھا اور سامنے پڑے میز سے ٹوٹا ہوا دروازہ بند کیا تاکہ جو ہڈیوں کو جمانے والی ٹھنڈ اندر آ رہی تھی اس سے بچا جا سکے۔"اٹھو حرم پلیز یہاں سے۔تم جو کہو گی وہی ہو گا مگر یہاں سے اٹھ جاؤ۔"وہ منت آمیز لہجے میں بولا تھا۔"نہیں اٹھوں گی میں ۔۔۔۔تمہیں کیا ہے مارنا ہی چاہتے ہو نا مجھے تو تمہارا کام میں آسان کر رہی ہوں۔"سرخ ہوتی آنکھیں نیلے پڑتے لب وہ اجڑی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

"جب سے کیلفورنیا آئی ہوں میں تب سے یہی ہو رہا کبھی کچھ کبھی کچھ میں کیوں آئی ۔۔۔۔۔وہ خود کلامی میں بول رہی تھی۔۔۔ارمغان اس کے سامنے تھک ہار کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔"مگر میں نہ آتی تو ولید ولید سے کیسے ملتی۔۔۔۔۔"اب وہ سسک رہی تھی۔ارمغان اچھے سے جانتا تھا ولید کون ہے ۔وہ ان سات دنوں میں ستر بار اس کا نام لے چکی تھی۔"بس یہی پریشانیاں ہیں نا تمہاری۔۔۔۔ ان کی وجہ سے مرنا چاہتی ہو۔؟تو میں۔۔۔میرا کیا مجھے تو بچپن میں مر جانا چاہیئے تھا جب میری ماں کو بد چلن کہا گیا۔۔۔۔یا تب جب میری ماں نے گھر سے  بھاگنے کی کوشش کی وہ بھی اپنے۔۔۔۔"وہ خاموش ہو گیا تھا۔حرم سب کچھ بھلائے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ رہی تھی۔نہیں مجھے تب مر جانا چاہیۓ تھا جب میں نے بچپن سے جوانی تک ماں کی کمی محسوس کی اور نام تک نہیں لے سکتا تھا۔جب میں نے خود کو خود سمبھالا۔یا تب مر جانا چاہیۓ تھا جب میری بہن کو بدلے کی خاطر گھر سے بھگا لیا گیا۔۔۔۔۔۔"اب وہ سسک رہا تھا رو رہا تھا۔وہ ارمغان جو ظہار خان قبیلے کا غرور تھا وہ جو سر جھکا کے نہیں چلتا تھا۔"مجھے میرے گھر کہ عورتوں نے برباد کر دیا۔۔۔۔۔"یہ کیسے الفاظ تھے حرم کا دل کانپا وہ ٹکر ٹکر اسے دیکھ رہی تھی۔ ماں باپ بن کر پالا تھا اسے بچہ سمجھتا تھا میں اسے جو تمہارے بھائی ہاں تمہارے بھائی کے ساتھ مل کر مجھے جیتے جی مار گئ۔گھٹنوں میں سر رکھ کہ وہ سسک رہا تھا۔حرم سمجھ نہ سکی وہ اسے کیا کہہ۔اس نے وہ پہلا مرد دیکھا تھا جو عورتوں کہ وجہ سے برباد نظر آ رہا تھا۔"میر بھائی۔۔۔۔"وہ کیسے نہیں نہیں۔۔۔۔۔"حرم کی سوئی اٹکی ہوئی تھی۔"اسی نے کیا سب کچھ سب کچھ" وہ چلایا۔حرم سہم کر پیچھے ہٹی تھی۔"اور تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں۔۔۔۔م؟اب وہ استہزا سے ہنسا۔

کون؟حرم کا ڈرا تھا۔سامنے بیٹھے مظبوط مرد کے کندھے جھکے ہوئے تھے اور سبز آنکھوں میں درد کی گہری لکیر تھی۔

"تمہاری سگی پھوپھو کا بیٹا ارمغان جہانگیر خان۔"

وہ سسک کر بول رہا تھا۔حرم کو لگا کمرے کہ چھت اس کے سر پہ آ گری ہو ۔اور ٹھوڑی دیر بعد وہ اس لے گلے لگ کر رو رہی تھی زور زور سے وہ اس کا سگا تھا ۔۔۔۔اپنا تھا۔۔۔۔۔ وہ اس کی پھوپھو کا بیٹا تھا وہ سب کچھ بھول چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔

                ***********

"سنو ولید کیا تم مجھے اپنے فادر سے ملوا سکتے ہو؟"آئید میر نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔و9 دونوں تھک چکے تھے ۔پولیس بھی تھک چکی تھی۔پاکستان بھی خبر پہنچ چکی تھی وہ کسی کو منہ دکھانے لے قابل نہیں تھا نا مان باپ کو۔

"کیوں نہیں آئیں آپ۔"ولید سیل نکالتا کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔وہ جتنی بھی کوشش کرتا خود کو آئید میر کے سامنے نارمل ظاہر کرے وہ ناکام ہو جاتا تھا۔"ان سے ہی ملی تھی نا حرم آخری بار۔"آئید میر نے ایک بار پھر تصدیق چاہی۔"جی۔۔۔۔"ولید آج کل مختصر بولتا تھا یا بولتا ہی نہیں تھا۔

اور کچھ دیر بعد وہ عالیشان سی بلڈنگ لے باہر کھڑے تھے۔لفٹ سے ہاشم خان کے آفس تک کا سفر ٹھیک گزرا تھا۔۔۔۔"حرم کے بھائی آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔"ولید نے بنا کچھ اور کہہ مدعے کی بات کی۔ہاشم خان کا رخ کھڑکی کہ طرف تھا سگار سلگائے وہ کسی سوچ میں گم تھے ۔۔۔۔۔وہ مڑے تھے اور وقت کے پل تھم۔گئے۔۔۔۔۔آئید میر کے پیروں تلے زمیں نکلی اور ہاشم خان کے ہاتھوں سے سگار گر چکا تھا۔۔۔۔۔۔ اگر تقدیر ایسے وار کرتی ہے کہ انسان ہول جائے اگر اتفاقات کوئی شکل رکھتے ہیں کہ۔کائنات حیران ہو جائے تو وہ وہی وقت تھا آئید میر کے لب میکانکی انداز میں ہلے۔۔۔۔۔

"ماموں۔۔۔۔۔۔"اور ولید جو باہر جا رہا تھا یک لخت پلٹا۔۔۔۔

ماموں۔۔۔۔۔۔یہ ایسے الفاظ تھے جس نے ولید کو  ساکت کر دیا تھا۔اور آئید میر وہ بھاگ کر ہاشم خان کے گلے لگ چکا تھا۔وہ دونوں رو رہے تھے اور ولید بے چارہ ہونق بنا ہوا سب دیکھ رہا تھا۔ہاشم خان نے آئید میر کو الگ کر کے ماتھا چوما تھا۔"بس میرے بچے بس۔"وہ اب اپنے آنسو صاف کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔

               ***********

سعدیہ نیلم اور نورم کے کمرے میں آ ئیں تو نورم جائے نماز پہ بیٹھی دعا کر رہی تھی۔وہ وہیں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگیں تھیں۔

"ممانی جان آپ۔۔۔۔۔۔۔۔"نورم جائے نماز لپیٹ کہ فورا ان کی طرف بڑھی۔"بیٹا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی"سعدیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اس کو اپنے پاس بیٹھا لیا۔نیلم سوئی ہوئی تھیں۔

"یہ تب کی بات ہے جب آئید میر کافی چھوٹا تھا مگر باقی بچوں کی نسبت زہین سمجھدار تھا۔نیلم کے ساتھ اس کا لگاؤ اس قدر تھا کہ اکثر میں بھی پریشان ہو جایا کرتی تھی کہ نیلم کہ شادی کہ بعد کیا ہو گا۔مگر یہ سہولت بھی تھی کہ شادی کے بعد بھی اس نے کونسا دور جانا۔نیلم اور میرے لاڈلے اکلوتے بھائی اسفندیار ہاشم کی پسند سے ان کی منگنی ہو چکی تھی۔جہانگیر ۔۔۔تمہارے والد۔نیلم کی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ہمیں آج بھی یاد ہے  وہ بھیانک دن جب نیلم اور اسفی کا نکاح تھا۔۔۔۔"وہ اب سسک رہی تھیں۔"سب بہت خوش تھے بہت۔جب وہ وڈیرہ جہانگیر اپنے غنڈے لے کر گھر میں داخل ہوا۔اس نے اسفی کو مارا اتنا مارا کہ لہو لہان کر دیا چھوٹا سا آئید میر کبھی ماموں کو بچاتا کبھی پھوپھو کے پاس بھاگتا جو گن پوائنٹ پہ تھی۔اور پھر۔۔۔۔۔۔سب کچھ برباد ہو گیا۔جہانگیر خان نے اسفی کی کنپٹی پہ بندوق رکھ کے نیلم سے نکاح کی ہامی بھروا لی تھی۔۔۔۔۔"سعدیہ خود بھی رو رہی تھیں اور نورم بھی۔"قصہ یہیں ختم نہیں ہوا۔۔۔۔۔اسفی کو جب ہوش آیا اس کہ دنا لٹ چکی تھی۔جوان خون تھا کسی کی کیا مانتا۔اور یہ سب آئید میر اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا۔ہم نے بہت کوشش کی کہ نیلم کو واپس لے آئیں مگر وہ خود اب نہیں آنا چاہتی تھی خون خرابے سے ڈرتی تھی اور سچ پوچھو تو میں خود بھی چاہتی تھی میرا بھائی محفوظ رہے۔مگر ۔۔۔۔اس دن جب نیلم کا فون آیا ارمغان اس کی گود میں تھا وہ روئے جا رہی تھی اس پہ شک ہوتا تھا۔آج بھی اسے اسی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔وہ یہ باتیں مجھے بتا رہی تھی مگر دوسرے فون سے کنکیٹ اسفی نے ہرف با ہرف سب سنا تھا۔وہ بہت غصے میں گھر سے نکلا۔اور ہوا یوں کہ   جو اسفی ہمیں واپس ملا وہ ۔۔۔۔۔"سعدیہ کی آواز رند گئی تھی۔"وہ جزبات میں وہاں چلا گیا تھا مگر جہانگیر خان نے اسے اپنی طرف  جان سے مروا کر پھینک دیا۔یہ اس کی ہمت تھی کہ چند سانسیں ابھی چل رہی تھیں۔کسی بھلا مانس ٹرک ڈرائیور نے اسے وہاں لا پھینکا تھا۔اور جہاں تک ہمیں خبر ملی وہ یہ تھی کہ نیلم پہ بھی بہت ظلم کیے جا رہے تھے۔اسفی کا علاج دو مہینے چلا ۔ہر طرف یہی مشہور کیا گیا کہ وہ زندہ نہیں ہے کیونکہ اس کی جان کو ابھی بھی خطرہ تھا۔پولیس کیا کرتی جب عدالت تک خرید لیتا تھا جہانگیر خان ۔اسفی کو ہوش آیا تو اس نے اپنے فیصلے خود کیے۔۔۔۔۔نہ جانے نیلم نے اسے کیا کہا تھا کہ اسے چپ لگ چکی تھی۔اور پھر جو اس نے کہا وہ دل دہلا دینے والا تھا۔وہ زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔مگر دنیا کہ نظروں میں۔نا جانے اس نے کیاکیا جتن جھیلے اور سب کچھ چھوڑ کر ہمہشہ کے لیے گمنامی کہ زندگی جینے چلا گیا۔مجھے یاد ہے ہم سب رات کو جس وقت اس کی فلائٹ تھی آسٹریلیا کی ہم سب رو رہے تھے ایسے ہی جیسے کوئی واقع مر گیا ہو۔ہمیں معلوم تھا وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا رابطہ نہیں رکھے گا ہمیں سب معلوم تھا۔۔۔۔۔۔اور ایسا ہی ہوا۔۔۔۔۔نورم کوئی مر جائے نا تو صبر آ جاتا ہے مگر زندہ لوگوں کو مرے ہوؤں میں شمار کرنا روز جان لیتا ہے جو ہمارے گھر کے ایک ایک فرد نے سہا۔۔۔۔۔"

سعدیہ اور نورم دونوں کے چہرے بھیگ چکے تھے۔

"یہ سب کر کے بھی جہانگیر خان کو چین نہیں آیا۔نیلم کی زندگی کیسی تھی ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔مگر کئی سال کئی سال بعد نہ جانے جہانگیر خان کو کیسے معلوم ہوا کہ ۔اسفندیار ہاشم خان اب ہاشم خان کی زندگی گزار رہا ہے ۔اس کے بعد جو اس نے نیلم کے ساتھ کیا۔۔۔وہ شک کرتا تھا ہر وقت۔بد چلنی کھ طعنے۔تب تک ارمغان بھی آٹھ دس سال کا ہو چکا تھا اور تم بھی اس کی گود میں تھیں۔آخر کار تنگ آ کر اس نے ہمیں فون کیا۔آئید میر اب سمجھدار بچہ تھا۔وہ وقت سے پہلے بڑ ا ہو چکا تھا۔نیلم وہاں سے جان چھڑوانا چاہتی تھی آخر کوئی کب تک برداشت کرتا۔آئید میر اور اا کے ابو رات چھپ کر تمہارے علاقے گئے۔مگر ۔۔۔۔۔ان لوگوں کو نیلم جس حالت میں ملی وہ اللہ جانتا ہے۔باقی تو تم نے سنا ہی ہو گا کہ بد چلنی کا داغ لگا کر تمہاری ماں کو مار دیا گیا۔جہانگیر خان یہی سمجھا کہ اسفی کا کیا دھرا ہے سب جو کہ سچ نہیں تھا ہمیں رو سالہا سال سے اس کی خبر تک نہیں۔۔۔۔۔پھر تمہاری اور ارمغان کی جدائی۔جسم میں لگنے والی گولیاں اور درد سب نے مل کر نیلم کو پاگل کر دیا۔تمہارے باپ کو معلوم تھا کہ نیلم زندہ ہے مگر آئید میر نے ایسے پکے کام کیے کہ پھر وہ کچھ نہ کر سکا بس یہی مشہور کیا کہ مر چکی ہے۔آئید میر کے دل میں اب بھی یہ نفرت غلط ہے تو تم خود فیصلہ کرو۔"سعدیہ نے روتے ہوئے آنسو پونچھے تھے۔اور تبھی نیلم کی سسکیوں کی آواز ان دونوں تک آئی تھی۔تینوں ہی رو رہی تھیں اپنی اپنی قسمت اور دکھ پہ اور زمہ دار ایک شخص تھا جہانگیر خان۔نورم کے دل سے آئید میر کے لہے کدورت دھلتی گئی تھی ۔۔۔۔

               ************

میں تمہیں آج واپس چھوڑ آوں گا حرم۔صبح ہوتے ہی ارمغان نے سرخ پڑتی آنکھوں سے اسے دیکھ کر کہا تھا۔"مجھے تم سے کچھ کہنا تھا۔"وہ کہہ کر خاموش ہو گئی تھی۔ارمغان کے سوالیے نظروں نے اسےدیکھا تو اس نے لب کھولے تھے۔ "وہ پھوپھو زندہ ہیں"وہ جلدی سے بول کر خاموش ہو گئی تھی۔۔۔۔۔"معلوم۔ہے مجھے "سبز آنکھوں کو کرب سے بند کرتا وہ بہت شاندار سا مرد ٹوٹا ہوا تھا۔"تو کیا ایک بار بھی تم ان سے پوچھو گے نہیں ان کی زبان سے ان کی بات۔؟"وہ واقع سمجھدار تھی وہ اسے یکدم ٹارچر کرنے کی بجائے اس پہ فیصلے چھوڑ رہی تھی۔"اب تو ضرور ملوں گا ہر سوال کا جواب مانگوں گا ان سے۔"ارمغان نے سنجیدگی سے کہا تھا۔

"چلو تم تیاری کرو میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔" وہ کہہ کر باہر چلا گیا تھا۔اور اسی جگہ اسی فارم ہاؤس سے کچھ دور وہ چاروں آدمی سر جھکا کر باتیں کر رہے تھے۔"دیکھو ڈوزی ہمارے دھندے کا اصول یہی ہے کہ ہم کام پورا کرتے ہیں۔باس نے ہمیں کہا تھا کہ یہ لڑکا اس لڑکی کولے کر یہاں سے نکل جائے گا دو ہی دنوں میں اور یہی ہمارے لیے اچھا تھا۔وہ ہم سب کے چہرے دیکھ چکی ہے۔وہ ہمارے لیے شدید خطرہ ہے کسی بھی طرح اس لڑکی کو ختم کرنا ہو گا۔ایک سفید فارم ڈوزی کو کہہ رہا تھا جو ان کا بس تھا۔

"ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو اس سے پہلے کہ وہ لڑکا اسے واپس چھوڑنے جائے اسے ختم کر دو اور اگر زیادہ اکڑ دکھائے پاکستانی تو ساتھ اسے بھی ختم کرو۔وہ اپنے وعدے سے پھرا ہے اور ہمارے لیے خطرہ ہیں وہ دونوں۔"ڈوزی نے بھی سفاکیت سے کہا تھا۔

اور ہاشم خان کے سارے اثرو سروخ استعمال میں لا کر وہ لوگ ثروت شبیر سے جا ملے تھے۔آئید میر نے جیسے تیسے اس سے سچ اگلوایا تھا۔اب وہ ان کو اس جگہ لے کر جا رہا تھا جہاں حرم کو لے جایا گیا تھا۔ولید کا دک دھک دھک کر رہا تھا اور تبھی اس نے محسوس کیا وہ دعا کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔وہ حیرت زدہ ہوا تھا یہ سب کچھ وہ غیر ارادی طور پہ کر رہا تھا۔مگر معلوم ہونے کے بعد بھی اس نے نم آنکھوں سے دعا جاری رکھی تھی۔وہ دل ہی دل میں اللہ سے مخاطب تھا یہ بات ہاشم خان نے محسوس کر لی تھی۔

             ***************

ظہار خان قبیلے میں جہانگیر خان کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔اصغر خان نے کسی غیرت مند کی عزت پہ ہاتھ ڈالا تھا اور اس لڑکی کے باپ نے گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا اصغر خان کو اور خود پولیس کے پاس جا کر سب سچ بتا دیا تھا۔جہانگیر خان ابھی اسے بوڑھے سے مل آیا تھا۔کس قدر وقار سے کھڑا تھا وہ۔اسے اپنی بیٹی پہ یقین تھا۔اور یقین کے اس رنگ نے جہانگیر خان کو اور زیادہ توڑ کے رکھ دیا تھا۔

افضل خان ڈر کے اسے اصغر کی ساری حقیقت بتا چکا تھا۔نورم کے ساتھ وہ کیا کرنے جا رہا تھا سب کچھ اور بی جان نے بھی سب سنا تھا۔وہ چاہا کر بھی اسے دلاسا نہیں دے پائی تھیں

جہانگیر خان ٹوٹ رہا تھا اندر ہی اندر۔۔۔۔۔۔

"ارمغان کب ملنے آئے گا مجھے نورم بیٹا۔۔۔۔۔" نیلم ان کچھ بہتر ہو چکی تھیں اس لیے کچھ باتیں بھی کر لیتی تھیں۔"جس دن ان کو پتہ چلے گا نا کہ ان کی ماں اور بہن نے ان کے ساتھ برا نہیں کیا وہ دوڑے چلے آئیں گے امی میں جانتی ہوں ان کو وہ بہت اچھے ہیں۔نورم نے ان کو دلاسا دیا تھا۔

اور وہ آئید میر میرا بچہ وہ کہاں گیا ہے نظر ہی نہیں آتا تم اپنے شوہر کا لگتا خیال نہیں رکھتی ہو۔نیلم کے لہجے میں پیار اور ڈپٹ دونوں تھے نورم کا دل دھک دھک کرنے لگا تھا اس کے ذکر پہ جب سے سارا معاملہ اس کو سمجھ آیا تھا وہ آئید میر کا شدت سے انتظار کرتی تھ

               **********

ﮐﻦ ﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﭩﮑﯿﮟ

ﺭﺕ ﺟﮕﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ

ﺳﺎﻋﺘﯿﮟ ﻟﻮﭦ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯿﮟ

ﯾﮧ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﮨﮯ ﯾﺎﺩ ﺗﻮ ﺁﺋﯿﮟ

ﮔﮭﺮ ﻣﺮﯼ ﺑﮯ ﻧﻮﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﺑﮯ ﮐﻞ

ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﭨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺩﯾﻮﺍﺭﯾﮟ

ﺍﯾﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﺗﻠﮯ

ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺳﺎﺋﺒﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﺮﺳﯿﮟ

ﺭﻭﺯﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺭ ﺁﺋﯿﮟ ﻣﮩﮑﺎﺭﯾﮟ

ﭘﮭﻮﻝ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﮐﮭﻠﯿﮟ

ﺁﺅ ﭼﭗ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻭﺭ

ﺍﺗﻨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﺗﮭﮏ ﺟﺎﺋﯿﮟ

ایوب خاور

تھوڑہ دیر بعد  ارمغان اسے وہاں سے لے کر نکلنے والا تھا۔ وہ اداس تھا مگر مطمئن بھی تبھی اس کے فون کی بیل بجی تھی۔"بابا جان۔۔۔۔۔"وہ زیر لب بڑ بڑایا تھا۔۔۔۔اور پھر جو کچھ اسے سننھ کو ملا اس کا دماغ شل ہو گیا تھا۔"کیا ہوا۔؟"حرم نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھا تھا۔

"چچا اصغر کی ڈیتھ ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس نے حرم کو سب بتا دیا تھا۔

"حرم نے شکر کا سانس لیا۔میر بھائی نے بس نورم کی جان بچائی ہے ارمغان تم غلط سمجھ رہے تھے بالکل دیکھ لو۔وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھے کہہ رہی تھی۔"میرے ساتھ تو ویسے ہی قسمت اچھا نہیں کرتی شکر ہے میں نے تمہاری قسمت تو خراب نہیں کی میں نے"وہ کرب سے کہہ کر خاموش ہو گیا تھا۔

"ایسے مت کہو تمہارے ساتھ بھی وقت جلدی اچھا کرے گا یقین رکھو۔"وہ اس قدر ازیت میں تھا کہ حرم کو سمجھ نہیں آئی وہ اسے کیا کہے۔

"کیا اچھا کرے گی قسمت ۔۔۔۔۔تم بھی تو کسی اور کی ہو۔۔۔۔۔۔"وہ استہزا سے کہتا باہر چلا گیا تھا اور حرم ریحان ساکت تھی۔۔۔۔یہ کیسا اظہار محبت تھا۔۔۔شاید دنیا کا سب سے تکلیف دہ اظہار ۔اسے ارمغان کی قسمت پہ وقع ترس آیا تھا۔

اور سڑک پہ بھاگتی وہ گاڑی اور اس میں موجود چار نفوس جلدی سے جلدی منزل پہ پہنچنا چاہتے تھے۔ولید کے دل دماغ میں ساری باتیں حرم کی شرارتیں اور پیار فلم کی طرح دوڑ رہا تھا وہ بہت ازیت میں تھا۔آئید میر کی اکلوتی بہن بے قصور ہو کر سزا کاٹ رہی تھی اس کا بس چلتا تو اڑ کر پہنچ جاتا۔اور ہاشم خان جن کو وہ ہمیشہ سے اپنی لگا کرتی تھی یہ جان کر لے وہ ان کی سگی بھانجی تھی وہ اور بھی زیادہ بے چین تھے اس کے لیے۔اور ثروت شبیر جو پہلے ارمغان سے خوف کھاتا تھا اسے اپنی فکر لاحق تھی۔۔۔۔

حرم نے ارمغان کا لایا ہوا ڈریس زیب تن کیا اور اسکارف اچھے سے خود پہ لپیٹا تھا۔وہ باہر نکلنے ہے لگی تھی جب وہ سفید فارم اور ایک حبشی دروازہ کھول کر اندر آئے تھے اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی وہ اس پہ پسٹل تان چکے تھے۔حرم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہے گئیں کیونکہ تھوڑی دیر بعد دوسرے دو ارمغام کو یر غمال بنا کر اندر آئے تھے۔۔۔۔

"تم نے اپنا وعدہ توڑا ہے باس یہ لڑکی ہم سب کو دیکھ چکی ہے۔یہ کیلفورنیا کی نامور یوینورسٹی کی طالبعلم ہے ہم۔کسی قیمت پہ خود کو داؤ پہ نہیں لگا سکتے۔"ڈوزی نے ارمغان پہ پستول تان کر کہا تھا۔"سنو میں وعدہ کرتی ہوں میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی خدارا تم ہمیں چھوڑ دو۔"حرم نے منت آمیز لہجے میں کہا تھا۔"ارمغان کو صرف حرم کی فکر تھی اس نے نا محسوس طریقے سے قدم آگے بڑھائے۔ڈوزی کی توجہ حرم پہ تھی اس لیے وہ محسوس نہیں کر سکا تھا۔

"انتظار کس بات کا کر رہے ہو تم مار دو اسے۔"ڈوزی نے اپنے ماتحت کو حکم دیا تھا جو حرم پہ پستول تان کہ کھڑا تھا۔اور پھر گولی چلنے کی آواز !حرم نے آنکھیں بھینچ لیں۔مگر ایک وہ پہاڑوں کا شہزادہ وہ ارمغان اس نے ایک جھٹکے سے حرم کو بازوں کے حصار میں لے لیا تھا اور گولیاں اس کے پیٹھ چیر گئی تھیں۔۔۔۔۔

وہ لوگ اس ویران جگہ پہنچے ہی تھے کہ گولی چلنے کی آواز نے ان سب کو ششدر کر دیا۔وہ سب اندر بھاگے تھے۔سب کے پاس پسٹل تھے سوائے ثروت کے۔

اس سے پہلے کہ وہ غنڈے کچھ اور کرتے آئید میر ،ولید اور ہاشم خان ان پہ پستول تان چکے تھے۔تبھی ولید کی نظر خون میں لت پت حرم پہ پڑی۔وہ سب کچھ بھول کہ اس کی طرف بھاگا تھا۔ارمغان کا سر حرم کی گود میں تھا۔وہ انتہا کا شاندار مرد سبز آنکھوں کو بمشکل کھول رہا تھا۔"ولید۔۔۔۔"ارمغان نے درد سے کراہا کر حرم سے تصدیق کی ۔حرم نے روتے ہوئے سر ہلا دیا تھا۔اور اس کے ساتھ ہی ارمغان جہانگیر خان نے اپنی پرکشش سبز آنکھیں ہمیشہ کے لیے موند لی تھیں۔۔۔۔حرم چلائی تھی۔۔۔۔ارمغان۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو پہلی نظر کی محبت کا شکار ہوا تھا۔وہ جو حالات کا مارا ہوا تھا۔وہ جسے پوری زندگی میں ایک لڑکی دل کو لگی تھی۔وہ جسے دیکھ کر بار بار دیکھنے کو من چاہتا تھا۔۔۔۔وہ عشق پہ خود کو قربان کر چکا تھا۔مختصر سا عشق فراموش ہوا تھا ایک لمبی داستان کے اختتام کے ساتھ۔۔۔۔۔۔

حرم کے گود ،ہاتھ خون آلودہ تھے۔وہ سب کچھ بھلائے اسے پکار رہی تھی۔ابھی تو وہ کہہ رہا تھا تم بھی کسی اور کی ہو۔۔۔۔۔۔یہی آخری لفظ تو بولے تھے اس نے۔وہ روتی جاتھی تھی اور ارمغان خاموش تھا۔۔۔۔۔محبت کی داستانوں میں سوگواریت ہمیشہ رولاتی ہے۔اور وہاں سب رو رہے تھے۔ولید بھی رو رہا تھا۔اور آئید میر وہ بھی وہیں گھٹنے ٹیک کر زارو قطار روتا جاتا تھا۔ہاشم خان کے آنسو اس نوجوان کی لاش دیکھ کر خود بہہ نکلے تھے۔ایک ثروت شبیر تھا جسے اس کا غرور وہ شخصیت یاد آ رہی تھی۔یہ شخص اب کبھی نہیں بولے گا۔۔۔۔۔کبھی نہیں ہنسے گا۔۔۔۔وہ جو کل تک کتنی نظروں کا محور تھا وہ آج نظریں موند چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔

              ************

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

کیفی اعظمی

ارمغان خان کی لاش جب ظہار خان قبیلے پہنچی تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔وہ کس قدر شان و شوکت سے چلا کرتا تھا ہر گھر میں صف ماتم بچھ چکا تھا۔عشق کیسے کیسے چہرے کھا گیا۔جہانگیر خان مرد تھے مظبوط مگر یہ تقدیر نے ایسا وار کیا تھا کہ وہ ہلکان ہو چکے تھے۔فالج کے اٹیک نے ایسا حملہ کیا کہ بیٹے کو الوداع تک نہ کر سکے تھے۔اور سب سے اذیت ناک منظر وہ تھا جب نورم بھائی کی میت پہ آئی تھی۔وہ پاگل ہو چکی تھی کبھی ہنس دیتی کبھی رو دیتی۔وہ مجھ سے خفا چلے گئے نا۔۔۔۔۔۔ساتھ بیٹھی حرم کو وہ نہیں جانتی تھی مگر بس سوال کیے جاتی۔حرم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔وہ واقع ارمغام کی بہن ہو سکتی تھی ویسی آنکھیں رنگ حرم نے تڑپ کہ آنکھیں بند کی تھیں۔نا جانے کتنے چہرے تھے جہنوں نے سالوں سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا وہ آج اس لڑکے نے آمنے سامنے لا کھڑے کیے تھے۔ہاشم خان کی نظر لرزتی ہوئی نیلم پہ پری جو آہستہ سے ارمغان کت سرہانے سر ٹکا رہی تھی۔ہاشم خان کی ہمت نہیں تھی وہ دوسری نظر ان پہ ڈالتا۔سعدیہ کو سب بھول گیا تھا وہ ہاشم خان کے گلے لگ کے زارو قطار روئے جاتی تھیں۔وہاں اتنا مجمع تھا کہ کسی نے غور نہیں کیا وہ کندھے تک کٹے ہوئے بالوں والی لڑکی جس نے سیاہ کوٹ اتار کے بازو پہ ڈالا تھا۔وہ دور بیٹھ کر اکیلی سسک رہی تھی۔میرب سلطان کا سالوں کا عشق حرم ریحان پہ قربان ہوا تھا تقدیر کے وار بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور جب ارمغان کو اس کی آخری آرام گاہ کی طرف لے جایا جانا تھا وہ وقت نے دیکھا کہ وہ اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ کسی اور نے بھی رخت سفر باندھا تھا۔۔۔۔نیلم جہانگیر خان۔ارمغان کی سالوں سے بچھڑی ماں نے اسے اکیلے بھیجنا گوارا نہیں کیا تھا۔جہانگیر خان کے گھر سے جب دو میت اٹھے تو غرور تکبر نے کہیں جا کر منہ چھپائے تھے۔حالات ایسے تھے کہ دشمن بھی سوچتا کہ ایسا کسی کے ساتھ نہ ہو۔جہانگیر خان ظلم و ستم میں یہ بھول جاتا تھا کہ قدرت کا بھی ایک نظام ہے افسوس یہ کہ ارمغان جیسا ہیرا منو مٹی تلے جا سویا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

               ***************

ﺁ ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺯ ﮐﺴﯽ ﺩُﮐﮫ ﭘﮧ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺭﻭﺋﯿﮟ

ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﺮﮒِ ﺟﻮﺍﮞ ﭘﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺑﻮﮌﮬﯿﺎﮞ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﯿﻦ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﮦ ﭘﻮﺵ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ

ﮈﺍﺭ ﮐﮯ ﮈﺍﺭ ﺯﻣﯿﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﺍُﺗﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ …

ﭼﯿﺨﺘﮯ، ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ … ﮐﺮﻻﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ

ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺭﻭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻟﻤﻨﺎﮐﯽ ﭘﺮ …

ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻭﯾﺮﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼُﮭﭗ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﺎ

ﺍﺟﻨﺒﯿﺖ ﮐﮯ ﮔﮭﭩﺎ ﭨﻮﭖ ﺑﯿﺎﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﯿﺎﮦ ﻏﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼُﮭﭗ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﺎ

ﺍﮎ ﻧﺌﮯ ﺩُﮐﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮯ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ

ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﮐُﻨﺠﻞ ﻣﯿﮟ ﺍُﻟﺠﮫ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﺎ

ﺍﻥ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﺳﮯ ﻭﻓﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ

ﻗﺎﻓﻠﮯ ﭼﮭﻮﮌﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﺍ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ

ﮨﻢ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﻘﺘﻮﻝ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ

ﺁ ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺯ ﮐﺴﯽ ﺩُﮐﮫ ﭘﮧ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺭﻭﺋﯿﮟ …

ﻓﺮﺣﺖ ﻋﺒﺎﺱ ﺷﺎﮦ

وقت کا کام ہے بڑھنا سو بڑھتا گیا۔۔۔۔

چالیسواں ہو چکا تھا۔آئید میر نے نورم کو آنکھوں کا نور بنا کر رکھا ہوا تھا۔وہ جہاں پاؤں رکھتی وہ دل دھر دیتا تھا وہی مثال تھی اس کی۔نورم کو بھی اس کی بانہوں میں پناہ ملتی تھی وہ سارے دکھ اس کے ساتھ روتی تھی۔آئید میر نے اسے بتایا تھا کہ ارمغان حقیقت جان چکا تھا۔وہ دونوں جہانگیر خان کی دل سے خدمت کر رہے تھے۔سب نے ایک دوسرے کو معاف کر دیا تھا۔وہ جو گیا تھا وہ سب کو ملا کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔

ہاشم خان اتنے عرصے بعد پاکستان آیا تھا سو سعدیہ اور ریحان صاحب کے ساتھ اس کا وقت گزر رہا تھا۔

جو صدمے سے نکل نہیں پا رہی تھی وہ حرن ریحان تھی۔۔۔۔۔وہ رات سوتے سوتے چیخ پڑتی اس نے آخری وقت گزارا تھا ارمغان کے ساتھ اسے یاد آتا تھا وہ رات وہ اس کے گلے لگ کے رو رہا تھا ۔۔۔۔۔

"حرم مجھے میرا قصور بتا دو۔۔۔۔۔"ولید تھک ہار کے اس کے قدموں میں آ بیٹھا تھا 

"ولید۔۔۔۔۔۔"وہ بس اتنا کہہ کر سسک پڑی اور پھر وہ اسے سب بتاتی گئی تھی۔ارمغان کی ایک ایک بات۔ولید نے وہ ساری باتیں ایسے سنی تھیں کہ ایک ایک بات ازبر ہو چکی تھی اسے۔

اور پھر پورا مہینہ سائکاٹرسٹ سے سیشن کے بعد حرم بھی سمبھل چکی تھی۔جانے والے چلے جاتے ہیں سب نے یہ مان لیا تھا۔

ولید کو ساری کہانی بتا دی گئی تھی اور حرم نے ہاشم خان کی کہانی بھی اسے سنا دی تھی۔پاکستان آ کر یہ ہوا تھا کہ ولید ۔۔۔ولید ابسن ہاشم بن چکا تھا۔اور ہاشم خان کے لیے یہ بات کافی تھی۔

نیلم گھر کا بے ضرر سا در تھیں جن کے جانے سے گھر پہ سوگواریت تھی۔کافی دن گزر چکے تھے۔

یہ رات کا منظر تھا سب لوگ اکھٹے بیٹھے تھے۔نورم اور حرم کی کافی بنتی تھی دونوں دکھ سکھ بانٹتی تھیں۔اور موضوغ اکثر ارمغان ہوتا تھا۔

اب بھی وہ دونوں کوئی بات کر رہی تھیں جب ہاشم خان کی آواز نے سب کو متوجہ کیا۔

"ریحان بھائی اور سعدیہ آپی میں جانتا ہوں کہ حالات عجیب ہیں مگر وقت کے تقاضے یہی ہوتے ہیں کہ ہمیں ان کو ماننا پڑتا۔میں اپنی بیٹی حرم کا ہاتھ مانگتا ہوں ولید کے لیے۔ میں چاہتا ہوں سادگی سے ایک بار نکاح کر دیا جائے رخصتی بیشک آپ لوگ چھ مہنے بعد ان کی پڑھائی مکمل ہونے پہ کر دیں۔"

وہ اپنا مدعا بیان کر کے خاموش ہو گئے تھے۔ولید نے حرم کو دیکھا اس کے گالوں پہ سرخی چھائی ہوئی تھی۔

"تمہاری ہی بیٹی ہے حرم ہمیں کیا اعتراض ۔"ریحان اور سعدیہ نے مسکرا کر کہا تھا۔

اور وقت کا وہ لمحہ بہت خوبصورت تھا جب ولید ہاشم کے گلے لگا تھا۔دونوں باپ بیٹا آنسو چپھانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔

                ***********

اداس ہو کیا۔۔۔۔۔۔؟

ولید نے اس کے کانوں کے بال پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا تھا۔حرم پیچھے ہٹی۔کیا یار اب تو بیوی ہو آفیشلی تم میری۔وہ چڑ کر بولا۔آفیشلی تب ہوں گی جب رخصتی ہوئی منہ دھو کر رکھو۔ابھی دو دن ہوئے ہیں نکاح کو۔حرم کہہ کر اندر بھاگ گئی تھی۔ولید سر پہ ہاتھ پھیر کر رہے گیا تھا۔۔۔۔۔۔

ظہار خان قبیلہ۔۔۔۔

کہانی جہاں سے شروع ہوتی ہے وہیں اختتام ہوتا ہے۔وہ قبرستان کا منظر تھا۔وہان منوں مٹی تلے اس علاقے کا مان ،غرور،فخر سو رہا تھا۔گورکن نے دیکھا آج پھر وہاں دیا جلتا ہوا نظر آ رہا تھا اور کچھ پھول بھی۔۔۔۔نہ جانے کون تھا جو ہر جمعرات کو یہ سب رکھ جاتا تھا۔ساری قبروں میں سے لگتا تھا ان پھولوں کی مہک آ رہی ہوں۔ابھی عصر کا وقت تھا۔۔۔۔۔بی جان کا لاڈلا۔۔۔بہن پہ جانے دینے والا۔۔۔۔۔۔باپ کا کندھا۔۔۔۔پہاڑوں کی سر زمیں کا وہ سونے جیسا دل رکھنے والا ارمغان جہانگیر خان عشق کی داستان کا اختتام تھا۔

براؤن کندھے تک کٹے بال ۔۔۔۔کوٹ بازو پہ ڈالے کھلتے گندمی رنگ والی وہ لڑکی آنسو پونچھتی گاڑی کی طرف بڑھی تھی۔کاش ارمغان ایک بار تم مجھے سن سکتے ۔۔۔۔۔۔اس کا دل بس یہی چاہتا تھا کہا تھا۔۔۔۔

اور یہ تھا ملاپ بھری داستان کا سوگوار اختتام۔۔۔۔۔۔

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Mera Faramosh Kun Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Mera Faramosh Kun   written by Samreena Sehar. Ishq Mera Faramosh Kun  by Samreena Sehar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment