Pages

Saturday, 9 November 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 56 to 60

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 56 to 60

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 56 to 60

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

" آپ نے میری بیوی کو دیکھا کیا۔۔!! صبح میں گھر ہی چھوڑ کر گیا تھا اسے۔ واپس آیا ہوں تو نظر نہیں آرہی۔ بلیو شرٹ اور جینز پہنی ہوئ تھی اس نے۔ درمیانہ قد اور کیوٹ سا فیس ہے اس کا۔ دیکھتے ہی پیار آجاۓ ایسی ہے وہ۔۔!! آپ نے کہیں دیکھی ہے تو مجھے بتادیں۔ کافی دیر سے ڈھونڈ رہا ہوں میں اسے۔۔۔!!!" 

یشاور فریش ہوکر کچن میں آیا۔ وائٹ شرٹ کی آستینیں کہنی تک موڑے، بکھرے ہلکے سے گیلے بالوں کے ساتھ اس کی سبز آنکھیں حسین لگ رہی تھیں۔ ان نظروں کا مرکز تھی سامنے کھڑی بہار۔ جو ایپرن پہنے آرام سے کھیرے کے سلائس کررہی تھی سلاد کے لیے۔ کھانا وہ بناچکی تھی۔ یشاور کی آواز سن کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔

" وہ تو اب آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ جاتے وقت آپ کے سارے کپڑے آپ کے وارڈروب میں رکھ گئ ہے اور کہہ رہی تھی مزید لڑکا بن کر وہ نہیں گھوم سکتی۔ اب میں ہوں اور یہ گھر ہے۔ اسے چھوڑے اور میرے ساتھ ہی گزارہ کرلیں۔ وہ بہت پھوہڑ تھی میں پھر بھی تھوڑی سی سگھڑ ہوں۔ دیکھیں کھانا بھی بنالیا میں نے۔ اور اس جینز شرٹ والی لڑکی سے تو ہزار درجے پیاری لگ رہی ہوں میں۔ دیکھیں یہ لک مجھ پر سوٹ کررہا ہے نا ۔۔ !!" 

چھری کٹنگ بورڈ پر رکھ کر بہار اس کے بالکل سامنے کھڑی ہوئ۔ لیونڈر کلر کی شارٹ فراک اور پلازو پہن کر کھلے بالوں کو چھوٹے سے کلپ سے باندھ کر وہ پیاری لگ رہی تھی۔ کچھ زلفیں چہرے کے گرد بھی پھیلی ہوئ تھیں۔ یشاور نے اسے نظر بھر کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ ہنستے ہوۓ کتنی پیاری لگتی تھی پھر اس کی وہ کتھئ رنگ آنکھیں، جو اسے سب سے منفرد بناتی تھیں۔ اس کے دل نے بیٹ مس کی۔ 

" پیاری تو وہ بھی بہت تھی لیکن تمہیں دیکھ کر میرا پہلے سے پاگل دل مزید پاگل پن کی حدوں کو چھونے لگا ہے۔ تم آج سے پہلے مجھے اتنی پیاری نہیں لگی سچ میں۔ شاید میں نے غور سے دیکھا ہی پہلی دفعہ ہے یا دیکھا ہی پہلی دفعہ ہے۔ پتہ نہیں۔ لیکن  کچھ تو ہورہا ہے مجھے۔ یہ کیا ہورہا ہے اس دل کے ساتھ۔ بہار یہ دل سچ میں پاگل ہورہا ہے۔ ۔۔۔!!!!!" 

یشاور اسے دیکھتا ہی گیا پھر ٹرانس کی کیفیت میں الٹی سیدھی تعریف کرکے اس نے بہار کو بھی الجھن میں ڈال دیا۔ ایک ہاتھ سلیب پر رکھ کر اس نے حلق تر کرتے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا جیسے اپنی ہی کیفیت سے انجان تھا وہ۔ بہار جسے تعریف کی توقع تھی اس انوکھی تعریف پر گہرا سانس بھر کر وہ واپس سے اپنے کام میں لگ گئ۔ سائیڈ پر بریانی دم پر رکھی تھی۔ اور رائیتہ فریزر میں پڑا تھا۔ 

" کچھ نہیں ہوا آپ کے اس دل کو۔ ایویں ہی شوخا ہورہا ہے۔ اتنا یہ دل پاگل ۔۔۔!!! فلرٹ کرنے کا نیا طریقہ نکالا ہے آپ نے۔ ویسے ایک بات تو بتائیں کتنی لڑکیوں کے پیچھے آپ کا دل ایسے ہی پاگل ہوا ہے آج تک۔۔!!!!" 

کھیرے کاٹ کر اب وہ ٹماٹر اٹھا کر اس کے سلائس کرنے لگی۔ یشاور نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا وہ سچ میں وقفے وقفے سے دھڑک رہا تھا۔

" میرا دل ہے مینٹل ہاسپٹل نہیں جو ساری لڑکیوں کے پیچھے پاگل ہوتا پھرے۔ تم مانتی نہیں ہو لیکن یہ دل تمہیں ہی دیکھ کر ناچنے لگتا ہے۔ میرے دماغ میں گھنٹیاں بجتی ہیں اور میری آنکھوں سے اگر تم خود کو دیکھو تو تم پر پھول بھی گریں گے۔  دل، پھولوں کی پتیاں۔ سخت گرمی میں بھی تمہیں دیکھتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے یہ سب مجھے محسوس ہوتا ہے۔ کہیں کوئ خطرناک بیماری تو نہیں ہوگئ مجھے ۔۔۔!!!" 

یشاور کھوۓ ہوۓ انداز میں اسے تکتا گیا۔ یہ سب سچ میں ہوتا تھا اس کے ساتھ۔ وہیں یہ سب سن کر بہار کے چہرے پر بھی رنگ کھلے۔ ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ ابھری جسے ویسےہی وہ چھپاگئ۔ 

سلاد کے لیے سیزیاں کاٹ کر اس نے انہیں مکس کرنا شروع کیا۔ توجہ اس کی بظاہر سلاد پر تھی پر حقیقت میں وہ یشاور کی طرف متوجہ تھی۔ 

" اچھا نا بتائیں تو سہی۔ کبھی کسی لڑکی کو آپ نے پھول دیا ہو۔ کوئ دل کو اچھی لگی ہو۔ کوئ تو ایسی ہوگی نا جسے آپ اپنا ہمسفر بنانا چاہتے تھے۔ اگر میں آپ کی زندگی میں نہ آتی تو کوئ تو ایسی ہوتی جو آج یہاں کھڑی آپ کے دل کے پاگل پن کو سن رہی ہوتی۔ مجھے اس کا نام جاننا ہے۔۔!! جھوٹ نہیں بولنا۔ کوئ ہے تو بتادیں۔ میں کھلے دل کی مالک ہوں جیلس نہیں ہوں گی۔ البتہ اگر مجھے کسی اور زرائع سے پتہ چلا تو کوئ بعید نہیں کہ میں روایتی بیوی بن جاؤں۔ یہ جو چھری ہے نا اسی سے گلا کاٹوں گی میں آپ کا ۔۔۔!!! راز نہیں رکھنا کوئ بھی مجھ سے آج موقع  ہے بتادیں ۔۔۔!! " 

وہ جان بوجھ کر بات بڑھارہی تھی۔ اسے پتہ تھا یشاور پھر سے کہے گا ایسی کوئ لڑکی نہیں یے اور اسے تسلی ہوجاۓ گی کہ اچانک اس کی زندگی میں دھاوا بول کر اس نے اسے کسی خوشی سے محروم نہیں کیا۔ بہار نے ہی یشاور کو منایا تھا کہ وہ اسے تم کہا کرے۔ ایسے اسے ان دونوں کے بیچ ہر تکلف سے پاک اس رشتے کو اپنانے میں آسانی ہوگی۔ وہ بھی اسی کی خوشی کے لیے مان گیا تھا۔ بہار نے اسے چھری دکھائ جیسے دھمکی دی ہو تو اس نے ڈرنے کی اداکاری کرتے سر پیچھے کی جانب کیا۔

یشاور کو ماضی میں کیے گۓ اپنے کارنامے یاد آۓ۔ وہ مار جو وشہ کے شوہر سے کھائ تھی اس نے۔ اس کے زہن کے پردوں میں گھومی۔

" پھول نہیں دیا تھا ایک لڑکی کو اغواہ کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔!! یونی سے واپسی پر میرے بندے اسے اٹھاکر میرے پاس لانے والے تھے اور میں اسے برباد کرنا چاہتا تھا۔ اسے قید کرنا چاہتا تھا۔ پر اس دیار کے بچے نے وہاں پہنچ کر سارا پلین خراب کردیا۔ نہیں تو آج میں اپنے علاقے میں ہوتا ۔ " 

 یشاور نے بولنا شروع کیا۔ وہ جو تھا بہار کو بتانا چاہتا تھا۔ بہار واپس سے اپنے کام میں مگن ہوگئ تھی پر اب اس کے چلتے ہاتھ رکے اس نے میکانکی انداز میں یشاور کو دیکھا۔ جو سر جھکائے کھڑا تھا۔ 

" آپ نے لڑکی کو اغواہ کرنے کی کوشش کی تھی۔۔ !!!" اس نے حیران ہوکر پوچھا۔ 

" ہاں کی تھی ۔۔!! پھر ایک لڑکی میری انا کا مسئلہ تھی جس کے بھائ نے میرا رشتہ ٹھکرا دیا کیونکہ میں ایک کلب سے پکڑا گیا تھا۔ گارڈز میں سے کسی نے غداری کی۔ جب میں نشے کی حالت میں خود سے بھی بیگانہ ہوچکا تھا تب دیار کو وہاں بلاکر ۔۔۔!!! "

یہ ایک اور انکشاف تھا۔ بہار کے لب وا ہوۓ۔ آنکھیں ساکت ہوئیں۔ 

" آپ نشہ بھی کرتے تھے کلبز میں بھی جاتے تھے ۔۔۔!!!" 

وہ شاکڈ تھی۔ یشاور نے سر کو ہاں میں جنبش دی۔ 

" ہاں کرتا تھا۔۔!! شراب، جوا، آوارہ گردی ان سب کے بغیر تو مجھے نیند ہی نہیں آتی تھی۔پھر اس درمان پر حملہ کروایا تھا میں نے تاکہ وہ مر جاۓ اور علاقے کی سرداری مجھے مل جاۓ۔ مگر بڑا ہی کوئ فولادی انسان ہے وہ دو گولیاں کھائ اس نے سینے میں پھر بھی یوں تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ خیر مجھے جب ان دونوں کے آدمیوں نے مارا تھا تب میں کوئ پندرہ دن تو بستر سے اٹھ نہیں پایا۔ آج بھی پسلیوں میں درد ہوتا ہے۔ کمینوں نے مجھے فٹبال کی طرح پیٹا تھا ۔۔!! " 

دانت پیستے اسے اس وقت درمان اور دیار پر غصہ آیا پھر پسلیوں میں ہوتے درد کو محسوس کرکے اس نے سر جھٹکا۔ دوبارہ اسے ان کے سامنے نہیں جانا تھا۔ بہار اسے دیکھتی ہی گئ۔ 

" مجھے لگا تھا کوئ سیکرٹ یک طرفہ محبت بھری کہانی ہوگی آپ کی جسے سن کر میں روپڑوں گی کہ کسی کا گھر بسنے سے پہلے اجاڑ دیا میں نے ۔۔!! پر آپ تو غنڈے تھے پورے !! اس سے آگے میں نے کچھ نہیں جاننا۔ کیا پتا کچھ دیر بعد ایک دو بچے بھی یہاں میرے سامنے لاکر کھڑے کردیں۔ویسے شرم نام کی بھی کوئ چیز ہوتی ہے۔ یہاں کھڑے ہوکر اپنے کارنامے ایسے بتارہے ہیں آپ۔ جیسے ورلڈ ریکارڈ بنایا ہو آپ نے ۔۔۔!! جائیں وہاں جاکر بیٹھیں میں کھانا لگادیتی ہوں ۔۔!! کھالیجۓ گا ۔۔!!" 

خیالوں سے نکل کر بہار نے منہ بسورا۔ اسے سچ میں غصہ آیا یشاور پر کہ کتنا الٹا آدمی ہے یہ۔لیکن دکھنے میں کتنا شریف لگتا ہے۔ اسے بیویوں کی طرح غصہ کرتے دیکھ کر یشاور نے مسکراہٹ دبائ۔ اسے کوئ مسئلہ نہیں تھا اپنی شناخت اسے بتانے میں۔۔!! 

" تم نے کہا تھا تمہارا دل بہت بڑا ہے۔ کچھ نہیں کہوں گی مجھے۔۔!! پھر اب کیوں غصہ کررہی ہو۔ ابھی تو اور بھی بہت کچھ ہے۔ بدکردار نہیں ہوں بس اس کے سوا سب ہی ہوں میں۔ چلو تمہیں اپنی ایک اور حرکت بتاتا ہوں۔۔!!!" 

اسے تپانے کی خاطر یشاور اس کی اور جھکا۔ جب اس نے اسے گھور کر دیکھا۔

" معصوم سی شکل ہونا بھی نعمت ہوتی ہے بندہ جتنا بھی گرا ہوا ہو کوئ مان ہی نہیں سکتا ۔ آج پتہ لگ گیا۔ ڈونٹ جج آ بک باۓ اٹس کور کسی نے کس قدر جل بھن کر کہا تھا۔ دکھنے میں تو بھولے ہیں آپ۔ لیکن صورت پر کرتوت تھوڑی نہ لکھے ہوتے ہیں۔ میں اتنی پیاری اور سلجھی ہوئی لڑکی آپ کی گاڑی کے آگے پتہ نہیں کیوں آگئ۔۔!! آپ کے گاڑی کے آگے کسی سرپھری کو انا چاہیے تھا ۔۔۔!! "

اسے دیکھ کر اس نے یوں ظاہر کیا جیسے اپنی قسمت پر دکھ ہورہا ہو اسے لیکن سچ میں تو وہ خوش تھی کہ چلو یشاور کی زندگی میں کوئ محبت کا قصہ نہیں۔ جتنا وہ الٹا ہے بہار نے اس کی زندگی میں آکر کوئ ظلم نہیں کیا اس کے ساتھ۔ 

" تم بن مانگے میرے پاس آئ ہو۔ بھلا میں کیوں ناشکری کروں۔۔!!! ہاں تمہاری قسمت مجھ آوارہ کے ملتے ہی پھوٹ گئ اس بات کا اعتراف میں بھی کرتا ہوں ۔۔!! اچھا اب جلدی سے کھانا لگادو مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ اس بادل کی وجہ سے آفس میں ذلیل ہوکر رہ گیا ہوں میں۔ گدھے کی طرح کام کرواتا ہے وہ مجھ سے ۔۔!! ظالم کہیں کا ۔۔ !!!" 

اس کا گال نرمی سے چٹکی میں بھر کر اس کی گھوری کا خاطر خواہ اثر لے کر یشاور جاکر کچن میں ہی رکھے چھوٹے سے بیضوی ٹیبل کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ بہار کی مسکراہٹ اب پھر سے اس کے لبوں کی زینت بن چکی تھی۔ تھوڑا تھوڑا ہی سہی اسے یشاور اچھا لگنے لگا تھا۔ اچھے سے زیادہ وہ اسے اپنا لگنے لگا تھا۔ جو اس کی عزت کرتا ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر اسے ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔ جو وہ کہتی ہے مان لیتا ہے۔ ایک لڑکی کو اس سے زیادہ چاہیے ہی کیا۔ بہار کی امیدوں سے بڑھ کر تھا اس کے لیے یشاور ۔۔!!! 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" ڈاکٹر ۔۔۔!! آپ کچھ کر کیوں نہیں رہی۔ وہ اتنے گھنٹوں سے آئ سی یو میں ہے۔ تکلیف میں ہے وہ۔ اسے اتنی گہری چوٹ لگی ہے۔ اور آپ نے اسے مشینوں کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔ آپریٹ کریں یا کچھ بھی ایسا کریں کہ وہ مجھے آنکھیں کھول کر دیکھ لے۔ مجھ سے بات کرلے میری بات کا جواب دے دے۔ آپ میری حالت نہیں سمجھ رہیں۔ 

میری روح فنا ہورہی ہے اس کی خاموشی دیکھ کر۔۔!! کچھ تو کریں پر پلیز اسے بچالیں ۔۔۔!! مجھے بس وہ چاہیے۔ اگر آپ بےبی کی وجہ سے ٹریٹمنٹ نہیں کررہے تو سن لیں مجھے بس میری زری واپس چاہیے ۔۔!! بس میری زری ۔۔!!! اسے ٹھیک کردیں ۔۔۔!!!" 

درمان ڈاکٹرز کی سستی دیکھ کر تھک چکا تھا۔ کب سے وہ بس یہاں سے وہاں گھومتی پھر رہی تھیں اور اس کی بیوی آئ سی یو میں مشینوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ وہ کب تک یہ سب برداشت کرتا۔ ڈاکٹر اس کے لہجے کی سختی اور بےبسی محسوس کرگئ۔ لب سختی سے بھینچ کر اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی زرلشتہ کی رپورٹس دیکھیں۔ 

" مسٹر درمان ۔۔!! سوری ٹو سے لیکن ہم بےبی کو تو کیا آپ کی وائف کو بھی اس لمحے ہاتھ نہیں لگاسکتے۔ آپریٹ ہم بھی کرنا چاہتے ہیں پر ایسے ان کی جان بچنے کا بس ایک فیصد چانس ہے ۔۔۔!!! شدید سٹریس، ہائ بلڈ پریشر ، لائف میں فرسٹ ٹائم ہائ شوگر لیول۔۔!! خون کی کمی اور سر پر لگنے والی گہری چوٹ وہ یہ سب نہیں برداشت کرپا رہیں۔۔!! پھر اس وقت ان کے وائٹلز بھی سٹیبل  نہیں یوں لگ رہا ہے جیسے وہ خود سے ہی کسی بات پر الجھ رہی ہیں۔ ان کے ذہن میں بےہوشی کے باجود کوئ جنگ چل رہی ہے۔۔۔۔!!

 جیسی ان کی کنڈیشن ہے ذرا سی بھی لاپرواہی آپ کی مسز کی جان لے لے گی۔ تو ہم جیسے چل رہے ہیں ویسے ہی چلنے دیں ہمیں۔۔۔!! انفورچونیٹلی ہمیں آپ کی مسز کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ اب یا تو بےبی اور مما دونوں بچیں گے یا پھر ۔۔۔۔!!!!!!" 

غیر دانستہ طور پر ڈاکٹر نے بات ادھوری چھوڑ دی تو درمان مٹھیاں بھینچ کر اس لمحے کو کوسنے لگا جب اپنی متاع جان اس نے اپنی سنگدل ماں کے حوالے کی تھی۔ 

" آستین کے سانپ جان لے لیتے ہیں اور سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔"

اس نے بےساختہ شیشے کے پار لیٹی اپنی چھوٹی سی بیوی کو دیکھا۔ اس کا ڈر سچ ثابت ہوگیا تھا۔ اسے لگا زرلشتہ اسے بتارہی ہے دیکھو لے لی نا آستین کے سانپ نے میری جان۔ کاش تم تب سنبھل جاتے۔ کاش ۔۔۔!! 

" مجھے اپنا بےبی خود سے پیارا ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے میں کسی پر بھی یقین نہیں کروں گی ۔۔!!!" 

اپنی کہی گئ بات پر وہ اب تک قائم تھی۔ اپنے بے بی کی حفاظت اب تک وہ خود ہی کررہی تھی۔ اس حالت میں جب اس کی اپنی جان خطرے میں تھی کسی بھی لمحے وہ دنیا سے ہی منہ موڑ سکتی تھی۔ جب وہ اپنی حفاظت بھی خود نہیں کرسکتی تھی اس دوران بھی کسی میں ہمت نہیں تھی اس کے بچے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا۔ وہ سچ میں ماں کے رتبے پر فائز ہونے سے پہلے ہی اپنی ذمہداریاں نبھارہی تھی۔ پر درمان کیسے اسے بتاتا اسے تو بس وہ چاہیے۔ بس وہ ۔۔۔!!!!! 

" کاش زرلش میں لے جاتا تمہیں اس حویلی سے بہت دور ۔!! تو آج تم پھر سے اسی تکلیف سے نہ گزرتی۔ میں گنہگار ہوں تمہارا۔ سب جانتے بوجھتے میں پھر سے اپنی سنگدل ماں کو تم پر فوقیت دے گیا۔ "

ہاتھ کی بھینچی ہوئ مٹھی کھول کر اس نے اس گول شیشے پر ہاتھ رکھا۔ جیسے دور سے ہی اسے چھوا ہو۔ 

مجھ سے لڑلینا، مار لینا، ناراض ہوجانا۔ پر چھوڑنا مت ۔۔ !! جسے دیوانہ کریں اسے بیچ راستے ٹھوکریں کھانے کو نہیں چھوڑتے۔۔۔!! مجھے اپنے پاس چاہیے ہو تم۔ بس اس دفعہ بھروسہ کرلو۔ باخدا آج کے بعد تمہین خراش بھی نہیں آنے دوں گا۔ !! بس اس دفعہ کرلو بھروسہ ۔۔ !!!" 

اس ہاتھ کی انگلیاں پھر سے بھینچ کر اس نے اپنا سر اس پر ٹکایا۔ دل کی دھڑکنیں قابو سے باہر تھیں۔ کتنا ستاتی تھا نا وہ اسے۔ اور وہ بیچارا ہر بار تڑپنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" آپ کی وائف کو استھما کا مسئلہ ہے ۔۔۔!!!" 

سامنے بیٹھی ڈاکٹر کی بات سن کر فدیان نے چونک کر اسے دیکھا۔

" نہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے ساتھ ایسا کوئ مسئلہ نہیں ۔۔۔!!!" 

اس نے تردید کرنا چاہی۔ اس کی معصومہ تو بالکل ٹھیک تھی۔ ڈاکٹر نے فائل پر کچھ نوٹ کیا۔

" آپ کی وائف کو استھما کا ایشو ہے۔ گولی لگنے سے پہلے انہیں استھما کا اٹیک ہوا تھا۔ یعنی گولی لگنے سے پہلے ہی وہ مشکل سے سانس لے رہی تھیں۔ مجھے نہیں پتہ اس بچی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ پر یہ نارمل کیس نہیں ہے۔ فیزیکلی یہ بہت ویک تو ہے ہی لیکن مینٹلی بھی سٹیبل نہیں ہیں یہ۔ خون زیادہ بہہ گیا ہے۔ 

ہاسپٹل لیٹ لانے کی وجہ سے سانس بھی بند ہوچکا تھا ان کا۔ اٹس آ میریکل کہ یہ زندہ ہیں ابھی تک۔ بٹ مجھے کچھ ڈسکس کرنا ہے آپ سے آپ کی وائف کے حوالے سے ۔۔۔!! اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو ۔۔۔!!!" 

فائل پر آخری حروف لکھ کر ڈاکٹر نے وہ سائیڈ پر رکھ دی۔ فدیان اس کی باتوں میں الجھا ہوا تھا اس نے کرسی سے ٹیک لگائ۔ 

" آپ کی وائف بامشکل سولہ سے سترہ سال کی ہوں گی۔ اتنی جلدی شادی کرنے کی وجہ ۔۔۔!!!" 

ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں پوچھا۔ تو فدیان نے نچلا لب دانتوں تلے دبایا۔ 

" ونی ہوئ ہے وہ۔۔!! میں راضی نہیں تھا پر ہمارے ہاں بڑوں کی بات کے آگے ہماری نہیں چلتی۔ وہ چھوٹی ہے ابھی میں بھی جانتا ہوں۔ اور میں نے بہت خیال رکھا ہے اس کا۔ لیکن افسوس مجھے نہیں پتہ تھا اسے استھما ہے ۔۔۔!!! وہ ٹھیک تو ہوجاۓ گی نا ۔۔۔!!!" 

 فدیان نے آس بھرے لہجے میں پوچھا۔ تو ڈاکٹر نے بھی معصومہ کی قسمت پر افسوس میں سر کو جنبش دی۔ 

" انشاء اللہ ۔۔!! آپ بس دعا کریں ان کے لیے۔ انہیں پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔ بقول آپ کے اس لڑکی کو ونی کردیا گیا۔ اس دور میں بھی اس قدر جہالت دکھائ اس کے گھر والوں نے۔ تو یقینا یہ ان کے لیے اہمیت رکھتی ہی نہیں تھیں۔ آپ کو ہمت سے کام لینا ہوگا۔ انہیں وہ پیار اور توجہ دینا ہوگی جو ان کا حق ہے۔ 

جو ماضی میں ہوا ان کے ساتھ وہ آپ کو انہیں بھلانا ہوگا۔ جونہی یہ ہوش میں آئیں انہیں نئ زندگی مل جائے گی۔ یہی سمجھیں یہ ان کی زندگی کا پہلا دن ہوگا۔ یہ اللہ کی عنایت ہوگی آپ پر ۔۔۔!! 

آپ حوصلہ رکھیں یہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ اگر یہ اب تک سروائیو کررہی ہیں تو آگے بھی کریں گی۔ !! انشاء اللہ ۔۔۔!!!" 

ڈاکٹر نے یقین سے کہا تو فدیان کو بھی حوصلہ ملا۔ اس کی اداس صورت پر تھوڑی ہی سہی چمک آگئ۔ تب اچانک اسے اپنے بھائی کا خیال آیا۔ جسے کچھ دیر پہلے وہ آئ سی یو کے باہر بےچینی کے عالم میں شیشے سے زرلشتہ کو تکتا دیکھ کر آیا تھا ۔

" ڈاکٹر کیا آپ بتاسکتی ہیں زرلشتہ کی کنڈیشن کیسی ہے۔ آۓ مین آپ بھی گئ تھیں ڈاکٹر کلثوم کے کہنے پر ان کا چیک اپ کرنے۔ تو وہ کیا ٹھیک ہے۔   !!" 

اسے ہچکچاہٹ ہورہی تھی پر پوچھنا ضروری تھا۔ اپنے بھائ کی طرف سے وہ بےفکر ہونا چاہتا تھا پر زرلشتہ کی دفعہ ڈاکٹر کا چہرہ بھی ہر چمک سے پاک ہوگیا۔ جو تھوڑی بہت امید اس نے معصومہ کی باری دی تھی اب نہیں دے سکتی تھی وہ ۔

" ان کے ہسبینڈ پتہ نہیں کیسے یہ صدمہ برداشت کریں گے پر مجھے کیا پورے سٹاف کو نہیں لگتا کہ وہ لڑکی بچ پائے گی۔ ہم ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے اب اسے۔ بینڈیج کرنے کے بعد ہم آپریٹ کرنا چاہتے تھے ان کا۔ ان کی طبیعت اسی صورت ٹھیک ہوسکتی تھی اگر وہ اس دوسری تکلیف( بچے ) سے آزاد ہو جائیں۔ پر افسوس اسی وقت سے ان کی حالت اتنی بری ہے کہ ڈریپ کی نیڈل ٹھیک کرنے کے لیے انہیں ہلکا سا چھوا بھی جاۓ تو ان کی ہرٹ بیٹ رکنے لگتی ہے۔ ہم ان کا ٹریٹمنٹ ہی نہیں کرپارہے۔ میں آپ کو یہی مشورہ دوں گی کہ اپنے بھائی کو مینٹلی پریپیئر کردیں۔ تاکہ بعد میں انہیں اچانک صدمہ نہ لگے۔۔۔!!!" 

ڈاکٹر کی باتیں سن کر فدیان نے آنکھیں بند کیں۔ اپنی ماں کی سفاکیت پر اسے رونا آیا۔ اس ہنستی مسکراتی لڑکی کو مار کر کیا ملا تھا اسے۔ 

" مورے ۔۔!! آج آپ نے ممتا کے رشتے پر ہی سوال اٹھادیے۔ مجھے محسوس ہوتا یے آپ ہماری سگی ماں ہیں ہی نہیں۔ آپ ماں ہوہی نہیں سکتیں۔ ماؤں کے دل اتنے سخت نہیں ہوتے کہ کسی کی اولاد کو قتل کردیں وہ۔ نفرت ہورہی ہے مجھے آپ سے ۔۔!! شدید نفرت ۔۔۔!!!" 

فدیان کے چہرے پر اذیت سے سرخ رنگ چھا گیا۔ وہ بےبس تھا۔ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس کی ماں نے اسے بولنے لائق بھی نہیں چھوڑا تھا کیا کرتا وہ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" ہم کیسے معافی مانگیں ان سے۔۔!!! ان سے لڑتے وقت تو ہمیں کبھی شرم نہیں آئ اب احساس ندامت ہمیں ان کے پاس بھی نہیں جانے دے رہا ۔۔۔!! اور ایک یہ ہیں سٹڈی سے واپس ہی نہیں آرہے ۔۔۔!!! " 

اپنی انگلیاں مڑورتے ہوۓ وشہ نے سٹڈی روم کا بند دروازہ دیکھا۔ جہاں دیار پچھلے دس منٹ سے بند تھا۔ آتے ہی وہ وہاں چلا گیا۔ رات کافی ہوگئ تھی پر وشہ کو اس کے بغیر نیند بھی کہانی آنے والی تھی۔ ۔

" وہ باہر آئیں گے تو ہم ایک دم سے سوری کہہ دیں گے۔ باقی وہ خود بھی سمجھدار ہیں سمجھ جائیں گے کہ ہم اچھے ہوگۓ ہیں۔ اب ہم لڑاکا نہیں رہے۔ یہ اچھا آئیڈیا ہے۔ اوکے وشہ تم تیار رہنا۔ جونہی وہ باہر آئیں انہیں سوری کہہ دینا۔۔۔!! پر وہ باہر آئیں گے کب ۔۔!!!" 

وشہ نے آئیڈیا سوچا تو ایک چھوٹی سی کوشش کے سوا اسے کچھ نہ ملا۔ عجیب بات تھی جب وہ اس سے لڑنا چاہتی تھی تو کتنے راستے نکل آتے تھے لڑنے کے۔ آج سوری کہنا تھا تو طریقے ہی ختم ہوگۓ دنیا سے۔ وہ سوچوں میں غرق تھی اچانک دروازہ کھلا اور دیار عجلت میں سٹڈی سے نکلا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ ۔۔۔!!! آنکھیں شدت ضبط سے سرخ ہورہی تھیں۔ کہ اچانک اسے وشہ نظر آئ۔ 

" و۔وشہ ۔۔!! جلدی سے اپنی شال اوڑھی ہمیں ہ۔ہاسپٹل  جانا ہے۔ وقت نہیں ہے۔ درمان اکیلا ہے وہاں ۔۔۔!!" 

بغیر وقت ضائع کیے دیار نے اسے حکم دیا۔ لیکن اس مضبوط مرد کا لہجہ دو دفعہ ڈگمگایا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے اسے فدیان کی کال آئ تھی جس نے اسے درمان کے پاس آنے کو کہا ساتھ ہی زرلشتہ کی بگڑی حالت بھی بتادی۔ چھپانے کا مطلب ان سب کو بعد میں اذیت سے دوچار کرنا تھا۔ وشہ کی آنکھیں خوف سے دھندلی ہوئیں۔ اس کا بھائ ہاسپٹل میں کیا کررہا تھا۔۔۔!! 

"ک۔ کیا ہوا ہے دیار ۔۔۔؟ سب خیریت تو ہے نا۔ آپ اتنا گھبراۓ ہوۓ کیوں ہیں۔ !!" 

بجاۓ شال لانے کے وشہ اس کے قریب آئ۔ اس نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بےچینی سے پوچھا۔

" وشہ ۔۔!! م۔میری زرلش ٹھیک نہیں ہے۔۔۔!! وہ ہاسپٹل میں ہے۔ ابھی فدیان کی کال آئ تھی۔ اس نے کہا زرلش سیڑھیوں سے گری ہے۔ ڈاکٹرز نے ج۔جواب دے دیا ہے۔" 

دیار کے حلق سے آواز نکلنے سے انکاری تھا۔ ہاں وہ شخص ڈگمگانا نہیں جانتا تھا پر ڈگمگا گیا آج۔ وشہ کا ہاتھ بےجان سا ہوکر اس کے کندھے سے گرا۔ 

" ز۔ زرلش ۔۔!! انہیں کیا ہوگیا ..!! دیار حوصلہ کریں۔ پلیز ۔۔!!" 

وشہ خود حیران تھی۔ کچھ دن پہلے تک تو وہ اس کی دعوت کا پروگرام بنارہے تھے پھر جو مسئلہ اس کے ساتھ ہوا اس وجہ سے وہ کچھ بھی نہ کرپاۓ۔ پر اسے ہوا کیا ۔۔!!! اسے اپنا دماغ سن ہوتا محسوس ہوا۔ 

 "درمان کے پاس جانا ہوگا ہمیں۔ وشہ میری شہزادی تو خوش تھی نا۔ اسے تو اتنی بڑی خوشی ملی تھی۔ کیا ہوگیا اچانک اسے۔ وہ کیسے گرگئ سیڑھیوں سے۔ کہاں تھا درمان اس وقت ۔ ۔!! میری بہن سنبھال نہیں سکتا تھا تو چھوڑ جاتا اسے۔ ہم سنبھال لیتے اسے۔ جب پتہ تھا اسے زرلشتہ پہلے ہی بیمار ہے تو کیوں اس نے میری بہن کی حفاظت نہیں کی۔۔۔!! 

وشہ اگر کوئ بری خبر ملی تو میں بھی زندہ نہیں رہوں گا۔ میری شہزادی کو ضرورت تھی میری اور میں بدقسمت انسان اس سے ملنے بھی نہیں جاسکا۔ مجھ جیسے بھائ سے اچھا تھا اس کا کوئ بھائ ہی نہ ہوتا۔  !!!" 

اپنے بال اس نے مٹھی میں جھکڑے۔ اسکے بس میں ہوتا تو اپنی ہی جان نکال لیتا اس وقت۔ اسے اپنا قصور لگا اس سب میں کہ کاش زرلشتہ اس کے پاس ہوتی تو آج ٹھیک ہوتی۔ کاش وہ اسے ونی نہ ہونے دیتا یا بعد میں واپس جانے نہ دیتا۔ 

" اللہ نہ کرے دیار ۔۔!! آپ کیسی باتیں کررہے ہیں۔ آپ رکیں ہم شال اوڑھ کر آتے ہیں۔ کچھ نہیں ہوگا ہماری زرلش کو۔ وہ جانتی ہیں ان کی زندگی سے کتنے لوگوں کی سانسیں جڑی ہیں۔ وہ کبھی ہمیں تکلیف میں ڈال کر نہیں جائیں گی۔ وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ بالکل ٹھیک ۔۔۔!!!"

اسے حوصلے دیتے اچانک ہی اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔ ایک زرلشتہ ہی تو تھی جس سے وشہ سب سے زیادہ پیار کرتی تھی۔ دیار سے بھی زیادہ ۔۔!! 

وہ اس کی جان تھی۔ اسے یاد آیا جب اس کی پہلی ملاقات ہوئ تھی اس سے۔ پھر وشہ کی دوستی ۔ زرلشتہ کا اس کی شادی کی اریجمنٹ کرنا۔ وہ ہنستی ہوئ لڑکی آج سب کو رلا گئ تھی۔  

اپنی شال اوڑھ کر وہ دیار کے پاس آئ تو خود پر ضبط کے کڑے بندھن باندھتے ہوۓ دیار بھی مسلسل زرلشتہ کی زندگی کی دعائیں کرتا اس کے ہمراہ ہاسپٹل کی طرف چلا گیا۔ اپنی ماں اور بابا کو اس وقت اسے کچھ نہیں بتانا تھا۔ بیٹیوں کا دکھ والدین کی جان نکال دیتا ہے۔ اس وقت یہ سب ان سے چھپانا ہی ٹھیک تھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" شنایہ۔ !! مجھے تم سے اتنی گھٹیا حرکت کی امید نہیں تھی۔ تم نے ناصرف آج مجھے شرمندہ کیا میرے بیٹیوں کی نظروں میں۔بلکہ انہیں بھی ممتا جیسے مقدس رشتے سے نفرت کرنے پر مجبور کردیا۔ درمان اور فدیان تمہارے بیٹے نہیں ہیں کیا اس وجہ سے لیا تم نے یہ سب۔ بیٹوں سے بڑھ کر عزت دیتے ہیں وہ تمہیں پھر بھی اتنی نفرت ۔۔۔!!!" 

لاونج کے سناٹوں کو دراب آفریدی کی گرجدار آواز نے توڑا تو سامنے مجرموں کی طرح کھڑی شنایہ بیگم کے چہرے پر سالوں سے چھپا یہ راز سنتے ہی خوف کے مارے کئ رنگ آۓ اور گۓ۔ 

" سردار وہ میرے ہی بیٹے ہے۔ آپ جانتے ہیں وشہ سے زیادہ میں ان سے پیار کرتی ہوں۔ انہیں کبھی سوتیلا نہیں سمجھا میں نے۔ جب سے آپ نے انہیں میری جھولی میں ڈالا ہے میں نے سگی ماں سے بڑھ کر ان دونوں کو پیار دیا ہے۔۔ !!! یہ بات میں قطعاً برداشت نہیں کروں گی کہ میرے بیٹوں کو آپ سوتیلا کہیں ..!!" 

باران کی نظریں خود پر جمی دیکھ کر انہوں نے لفظوں پر زور دیا جیسے دراب آفریدی تو مان جاتے اس کی بات۔ انہوں نے ہنکار بھرا۔ 

" غلطی ہوگئ تھی ہم سے جو سحرش کی موت کے بعد ہم نے اپنے بیٹے تم جیسی مکار کی گود میں ڈال دیے۔سگی بہن تھی وہ تمہاری۔ پر تمہیں اس کی اولاد سے محبت کرنا بھی نا آئ۔تم وہ ہو جسے رشتوں کے تقدس کا بھی پتہ نہیں۔ تم محبت کی بات کرتی ہو۔ ممتا کی بات کرتی ہو شرم نہیں آتی تمہیں اپنی گندی زبان سے ایسے مقدس جذبوں کا ذکر کرتے۔ تم ہمارے بچوں کو کیا اپنا سمجھتی ہماری بیٹی کو بھی کھلونا بنادیا تم نے۔ کیا تمہیں لگتا ہے وشہ کی سنجیدگی کے پیچھے چھپی وجہ ہم نہیں جانتے۔ فدیان کیوں لاپرواہ ہے کیوں توجہ کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں حتی کہ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالنے سے نہیں ڈرتا ہم نہیں جانتے کیا۔ ہمارے فدیان نے آج تک ہر الٹی حرکت کی خود کو کئ بار موت کے پاس لے کر گیا وہ صرف اس لیے تاکہ تمہارا پیار مل جاۓ اسے۔ ہماری وشہ نے خود کو ہی سب سے  الگ کرلیا۔ کیونکہ اسے یقین ہوگیا تھا یہ پیار اسے مل ہی نہیں سکتا۔ درمان کو محض پیسہ حاصل کرنے کے لیے مہرہ بناکر استعمال کرتی رہی ہو تم۔ ماں کے نام پر گالی ہو تم ۔۔۔!!!" 

وہ اپنی نشست سے اٹھ گۓ۔ لاونج میں ان کا چٹانوں جیسا لہجہ گونج رہا تھا جو ان پر تو سکتہ ہی طاری کرگیا۔ یہ وہ حقیقت تھی جو شنایہ بیگم خود سے بھی چھپاکر رکھتی تھیں۔ درمان اور فدیان ان کے بیٹے نہیں تھے۔ وہ تو ان کی بڑی بہن سحرش کا خون تھے۔ سحرش چھوٹے گھر کی لڑکی تھی۔ جس سے شادی دراب آفریدی نے اپنی پسند سے کی تھی۔

 وہ بھلے قبائلی رسموں رواج کو جان سے قیمتی سمجھتے تھے پر ان کے بابا نے ان کی محبت کو ان تک لانے میں ساتھ دیا تھا ان کا ۔ باران کی بھی محبت کی ہی منگنی تھی پر اس منگنی میں خاندانی رشتے داری کا عکس تھا۔ کہہ سکتے ہیں رشتہ پہلے طے تھا محبت بعد میں ہوئ۔ 

سحرش اور دراب آفریدی کی پہلی خوشی درمان تھا اور دوسری فدیان۔ جس کی پیدائش کے چند ماں بعد ہی دراب آفریدی کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ وہ اپنی امانت اپنے والدین کے حوالے کرکے گۓ تھے۔ 

پر افسوس وہاں جانے کے کچھ ہفتے بعد ہی انہیں خبر پہنچ گئ کہ حویلی میں آگ لگنے کی وجہ سے موقع پر ہی سحرش جاں بحق ہوگئ۔ درمان اور فدیان  تب ان کی بہن کے پاس تھے تو وہ بچ گۓ۔ لیکن سحرش اس دنیا میں نہیں رہی۔ تب وہ بہت ٹوٹ گۓ تھے۔ کھانا پینا سب چھوڑ کر انہیں بس دن رات سحرش کی یاد ہی ستاتی رہتی تھی۔ تب ان کے گھر والوں نے بچوں کی پرورش کے لیے شنایہ بیگم کا نکاح دراب آفریدی سے کروادیا۔ وہ اپنے بیٹوں کی وجہ سے مجبور تھے جنہیں ماں کی ضرورت تھی۔ تو انکار نہ کرپاۓ۔

 شنایہ بیگم سے شروع سے ہی انہیں چڑ تھی یہ عورت پیسے کی بھوکی تھی وہ محسوس کر چکے تھے۔ لیکن کر وہ کچھ نہیں سکتے تھے  سوائے صبر کے۔ وشہ کے بعد بھی انہیں افسوس ہوا جب شنایہ بیگم نے ان بچوں سے زیادہ ہمیشہ اپنے سکون کو ترجیح دی۔ دوسروں کو حقیر سمجھا اور پیسے کی پجارن بن گئیں۔ درمان کے ذہن سے آہستہ آہستہ سحرش کی یادیں مٹ گئیں اور فدیان تو شروع سے ہی انجان رہا اپنی ماں سے۔ تو شنایہ بیگم ہی دونوں کے نزدیک ان کی سگی تھیں۔

ماضی آنکھوں نے سامنے ہلکا سا گھوما تو سحرش کی یاد میں ان کی آنکھیں نم ہوئیں۔ محبت کھونے کے غم میں درد سے وہ بھی گزرے تھے۔  

" کتنا گرو گی تم۔ آخر کتنا بدنام کرو گی تم ممتا کے رشتے کو۔۔۔!! ماں کے پیروں کے نیچے تو جنت ہوتی ہے آج ثابت ہوگیا ہر ماں کے پیر اس قابل نہیں ہوتے جو جنت کی حفاظت بھی کرسکیں۔  !!!" 

انہوں نے گرج کر کہا۔ لیکن شنایہ بیگم نے جواب میں سر جھکاکر دانت نکوسے۔

" اس باران کی باتوں میں آکر آپ اتنا بڑا الزام لگارہے ہیں مجھ پر۔ یہ جانتے بوجھتے کہ یہ شروع سے ہی مجھے پسند نہیں کرتا۔ مجھے تو پورا یقین ہے یہ سب اس نے ہی کیا ہے۔ میرے پوتے کی جان لے لی اس نے۔ اور بیچاری وہ بچیاں ۔۔۔!!!" 

جلدی سے انہوں نے پینترا بدلا لیکن آدھے رستے ہی دراب آفریدی کی خون آشام آنکھیں انہیں چپ کروا گئیں۔ 

" ایک اور لفظ نہیں اب ۔۔!! آج فیصلہ ہوگا تمہارے گناہوں کا۔ سزا تو تمہیں ملے گی اور ایسی ملے گی پوری زندگی یاد رکھو گی تم۔  ۔۔۔!!!" 

انہوں نے دونوں ہاتھ پشت پر باندھے جب شنایہ بیگم نے کھاجانے والی نگاہ باران پر ڈالی جو کب سے مناسب موقع کی تلاش میں تھا کچھ بتانے کے لیے۔

" لالہ وقت آگیا ہے درمان اوع فدیان اپنی اصل ماں سے مل لے۔۔!! ہوسکتا ہے اسی بہانے وشہ کو بھی ماں کا پیار مل جاۓ ۔۔!! کیا کہتے ہیں آپ اس بارے میں ۔۔!!" 

اس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائ تو شنایہ بیگم نے اپنا چکراتا سر پکڑا۔ باران کے لبوں پر جلادینے والی مسکراہٹ تھی۔

" قبر دیکھیں گے تو ٹوٹ جائیں گے وہ۔ میری مجبوری ہے کہ اس سفاک عورت کو ہی ماں سمجھنا ہوگا انہیں۔ کاش میری سحرش زندگی ہوتی۔۔!! کاش ۔۔۔!!!" 

وہ واپس سے صوفے پر بیٹھ گۓ۔ شنایہ بیگم کا رنگ فق تھا لیکن باران نے مسکراتے ہوۓ اپنے فون پر آیا میسج دیکھا۔

" کس بدبحت نے آپ سے کہا کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔ بھابھی بیگم زندہ ہیں۔ اور خیر سے ابھی یہیں لینڈ کرنے والی ہیں۔ کیوں بھائ نمبر ٹو۔۔!! صحیح کہا نا میں نے سحرش بھابھی آج اٹھائیس سالوں بعد اپنے اصل گھر آنے والی ہیں آپ کیا کچھ کہیں گی نہیں اس بارے میں ۔۔۔!!!" 

 وہ مسکرایا۔ ہاۓ اس کی وہ مسکراہٹ جو اگلے کا سکون چھیننے کی صلاحیت رکھتی تھی وہ یک طرفہ مسکراتا تھا جب بھی کسی کو تباہ کرنا ہو۔ اس کی ہلکی نیلی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔ اور آنکھیں سکڑ کر چھوٹی ہوجاتی تھیں۔

دراب آفریدی سمیت شنایہ بیگم بھی سکتے کے عالم میں تھیں۔ 

" کیا بکواس کررہے ہو تم۔ مر چکی ہے وہ ۔۔!!" شنایہ بیگم نے اسے باور کروایا۔ جس نے اووو کی شکل میں ہونٹوں کو گول کیا۔ جیسے اسے ابھی ہی پتہ چلا ہو۔

" تو تئیس سال سے گلگت کی وادی میں بنی کھنڈر نما حویلی میں کیا بھابھی کا بھوت قید کیا تھا آپ نے ۔۔!! وہ غالبا بھابھی بیگم ہی تھیں جو آج سے چند ہفتے پہلے انتہائ بری حالت میں مجھے گلگت سے ملی ہیں۔۔۔!! جو کئ ہفتوں سے ہوسپیٹلائز ہیں۔ ۔۔!! یا وہ بھوت ہیں عالمِ برزخ سے واپس آئ ہیں۔ ذرا روشنی ڈالیں اس ٹاپک پر ۔ !!" 


"تو تئیس سال سے گلگت کی وادی میں بنی کھنڈر نما حویلی میں کیا بھابھی کا بھوت قید کیا تھا آپ نے ۔۔!! وہ غالبا بھابھی بیگم ہی تھیں جو آج سے چند ہفتے پہلے انتہائ بری حالت میں مجھے گلگت سے ملی ہیں۔۔۔!! جو کئ ہفتوں سے ہوسپیٹلائز تھیں۔ ۔۔!! یا وہ کوئ بھوت ہیں عالمِ برزخ سے واپس آئ ہیں۔ ذرا روشنی ڈالیں اس ٹاپک پر ۔ !!"

اس نے دانت کچکچا کر کہا۔ باران کی بات سن کر دراب آفریدی بے اختیار اسے دیکھنے لگے جس کے لہجے سے صاف ظاہر تھا ان کی سحرش زندہ ہے۔ پر کیسے ۔۔۔!!! 

شنایہ بیگم یک ٹک اسے دیکھتی گئیں۔ وہ پوری تیاری کرکے آیا تھا ان کی تباہی کی۔ 

" تم جھوٹ بول رہے ہو۔ سردار یہ بیوقوف بنانا چاہتا ہے آپ کو۔ اسے لگتا ہے کہ آپ اس کی بات پر یقین کرلیں گے۔ سخرش زندہ ہوہی نہیں سکتی۔ سردار اس کی قبر تو آپ نے بھی دیکھی ہے نا۔ وہ زندہ نہیں ہے سردار۔ وہ مر چکی ہے۔۔۔۔!!!!!" 

انہوں نے لفظوں پر اچھا خاصہ زور دیا۔ تو باران کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئ۔ اپنا فون اس نے دوسری طرف رکھا۔

" قبر دیکھی ہے بس انہوں نے۔ انہیں کیا پتہ اندر کون ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں جنازے کو کندھا انہوں نے نہیں دیا تھا۔ یہ سب بہت جلدی میں ہوا۔ اور میں کیوں اپنا وقت ضائع کررہا ہوں۔ جب وہ یہاں آپ سب کے سامنے ہوں گی تو دیکھ لیجۓ گا خود۔ ۔!! باران بغیر ثبوتوں کے بات نہیں کرتا۔ آج تو ابھی مزید رازوں سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ یہ رات انصاف کی رات ہوگی۔ ایک مجرم کے جرائم سے پردہ ہٹنے کی رات ہوگی۔۔۔!!! چلیں میں بتاتا ہوں مجھے بھابھی بیگم کہاں سے ملیں۔۔۔!!!" 

اس نے استیزائیہ لہجے میں انہیں باور کروایا کہ وہ اسے بیوقوف سمجھنے کی بھول نہ کریں وہ آج رازوں سے پردہ اٹھا کر جاۓ گا۔ دراب آفریدی خاموش تھے سوال پوچھنے کی ہمت بھی نہیں تھی ان میں۔ البتہ شنایہ بیگم کی جان لبوں پر آچکی تھی۔

" بقول بھابھی نمبر دو کے میں تو پیرس میں تھا پھر ان کے گناہوں کی خبر کیسے ہوگئ مجھے تو ان کا یہ وہم بھی دور کردیتا ہوں میں۔ بھابھی نمبر دو پیرس میں بزنس کے ساتھ میرا تعلق وہاں کی سیکرٹ انٹیلیجنس ایجنسی سے بھی ہے۔ سادہ لفظوں میں آپ مجھے جاسوس بھی کہہ سکتی ہیں۔۔۔!!!! میں چیف ہوں وہاں کا۔ یعنی پورا ڈیپارٹمنٹ میرا ہی سمجھیں۔کیا بنانا چاہتی تھیں آپ مجھے اور کیا بنادیا میری قسمت نے مجھے..!!! خیر میری زندگی تباہ کرنے کی خواہش تھی آپ کی۔ تو دیکھیں میں تباہ نہیں ہوا خود کو تباہ کرنے والوں کو تباہ کرنے کے قابل ہوگیا۔!!! "

اس کی مسکراہٹ اب بھی قائم تھی جب اس نۓ انکشاف پر کہ وہ خفیہ انجنسی کا چیف بھی ہے دراب آفریدی پر نیا بم گرا۔ انہیں لگتا تھا وہ زندگی سے تنگ آکر پیرس میں ان بری یادوں سے چھپا ہوا ہے۔ پر وہ تو اپنی پہچان بنانے میں لگا تھا۔ شنایہ بیگم نے تھوک نگلا وہ سمجھ گئیں آج وہ نہیں چپ ہوگا۔ 

" کچھ ہفتے پہلے دلاور خان کی غیر قانونی فیکٹری کا گند اس دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لیے میرا خاص آدمی گلگت بلتستان گیا تھا۔ وہاں اس کی فیکٹری تباہ کرنے کے بعد میں نے اسے باقی کا ایریا چھان مارنے کو کہا شاید دلاور خان کی کوئ اور کمزوری مل جاۓ۔ وہاں سے دور کھنڈر نما حویلی میں کسی سراغ کی تلاش میں گۓ میرے آدمی کو سراغ تو نہیں ملا پر تے خانے سے ایک عورت ادھ مری حالت میں ضرور مل گئ۔ 

نقاہت زدہ چہرہ، مار کے نشان، کئ دنوں کی بھوکی پیاسی، غیر ہوتی حالت۔ وہ تقریبا مرنے والی تھی۔ جیسے کسی نے اسے بےبسی کی موت مرنے کے لیے تنگ آکر چھوڑ دیا ہو۔۔۔!! میرا آدمی اسے وہاں سے سیدھا میرے آرڈر پر یہاں کے ہاسپٹل میں لایا۔ مشکل تھا یہ کام کیونکہ وہ عورت سالوں سے اندھیرے میں قید تھی تو زندگی کی رمق بھی نہیں بچی تھی اسمیں۔ لیکن کسی معجزے کی امید میں ہم نے اسے ہاسپٹل داخل کروادیا۔ وہاں کچھ ہفتے کے ٹریٹمنٹ کے بعد جب اسے ہوش آیا تو جانتے ہیں سب سے پہلا لفظ اس نے کیا بولا ۔۔۔!!!" 

وہ سنجیدگی سے انہیں سب بتانے لگا۔ پھر رک کر اس نے جواب طلب نگاہ دراب آفریدی پر ڈالی تھی جو بت بنے بیٹھے تھے۔ جیسے انہیں یہ سب خواب لگ رہا ہو۔

" درمان اور فدیان سے ملنا ہے۔۔۔!! وہ مسلسل ایک ہی جملہ بولتی رہی۔ میں تب وہاں نہیں تھا۔ لیکن میرے کہنے پر اسے سائیکیٹرسٹ کو دکھایا گیا۔ شاید وہ اپنا نام بتادے۔ پر وہ مسلسل اپنا وہی جملہ دہراتی رہی۔ پھر مجبورا مجھے وہاں جانا پڑا کیونکہ وہ کچھ کھاپی نہیں رہی تھی صحیح سے۔ ڈاکٹرز کو ڈر تھا کہ وہ مر جائے گی اگر ایسا ہی چلتا رہا تو۔ میں وہاں گیا تو وہ نقاہت زدہ چہرہ مجھے کچھ جانا پہچانا لگا۔ میں نے سمجھا میرا وہم ہوگا۔

 لیکن وہ جس تڑپ سے مجھے دیکھتے ہی شدت سے درمان اور فدیان کا نام لے رہی تھی۔ ایسی تڑپ کسی ماں کے لہجے میں ہی ہوسکتی ہے۔ !! میں نے بات کرنے کی کوشش کی اس سے۔ اس کا نام پوچھنا چاہا مجھے حیرت ہوئ تھی درمان اور فدیان کا نام سن کر پر مجھے وہم لگا۔ اس نام کے اور بھی بہت لوگ ہیں تو شاید وہ کسی اور درمان اور فدیان کا ذکر کررہی ہو۔ تب میں اپنے سیکرٹ گیٹ اپ میں تھا۔ وہ گیٹ اپ جس کی وجہ سے مجھے کوئ پہچان نہیں سکتا تھا۔ چاہے میں آپ میں سے کسی کے سامنے بھی کیوں نہ کھڑا ہوتا۔ تو وہ بھی نہیں پہچان سکی۔ " 

اس نے پھر سے وقفہ لیا لاونج میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ بادل بن کر ملنے گیا تھا ان سے۔ جس لک میں وہ شلوار قمیض پر اپر پہننے کے ساتھ، اپنی پٹھانی ٹوپی اور بھوری آنکھوں کے ساتھ ایک الگ فیس ماسک لگاتا تھا۔ جس سے اس کے چہرے کی رنگت بھی بدل جاتی تھی۔ اور نین نقش میں بھی ایسی تبدیلی آتی تھی کہ کوئ چاہ کر بھی اسے نہیں پہچان سکتا تھا۔ ساتھ ہی وہ بادل کے گیٹ اپ میں اپنی آواز بھی بدل لیتا تھا اور لہجہ اس لک میں تو تھا ہی سب سے الگ ۔۔۔!!!!!! 

  کچھ میک اوور کا کمال تھا تو کچھ کمال اس کی اداکاری کا کہ سالوں ان سب کے ارد گرد رہ کر بھی اس کی موجودگی کی بھنک کسی کو نہ پڑی۔ ابھی بھی اس لک میں وہ اگر دلاور کے سامنے جاتا تو وہ اسے باران سمجھتے بادل نہیں ۔۔۔!!!! 

وہ سیکرت ایجنٹ تھا۔اس وقت پاکستان میں وہ دلاور خان نامی بلا کے خاتمے کے لیے آیا تھا۔ جس کے بارے میں راسم کے ذریعے اسے خبر ہوئ تھی۔ چار سال لگاۓ تھے اس نے اس کی جڑیں کمزور کرنے میں۔۔۔!!!! 

" میں نے اس کا نام پوچھا اس نے نہیں بتایا۔۔۔!! اس کی شناخت پوچھی، گھر کا پتہ اس نے کچھ نہیں بتایا۔ پھر درمان کے بارے میں پوچھا تو اس کے نقاہت زدہ چہرے پر چمک ابھری۔ اس نے بتایا کہ وہ بیٹا ہے اس کا۔ اسے اس کے پاس جانا ہے۔جانتے ہیں تب مجھے لگا تھا یہ کہیں ہماری سحرش بھابھی نہ ہوں۔ تو میں نے چاہا کہ شک دور کرلوں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیسا دکھتا ہے۔ تو اس نے خوبخو درمان کے نقش بتاۓ اس کی نیلی آنکھیں، کھڑوس سا انداز، وہ چھوٹا سا گول مٹول درمان انہیں یاد تھا۔

 پھر اپنا شرارتی فدیان بھی وہ نہیں بھولی تھیں۔ میں نے بس ویسے ہی انہیں ان دونوں بچوں کی بچپن کی تصویریں دکھادیں تو وہ تڑپ اٹھیں۔ بے ساختہ میرے ہاتھ سے فون پکڑ کر وہ ان دونوں کی تصویروں کو دیوانہ وار چومنے لگیں۔ میں پہچان گیا تھا وہ کون ہیں پر مجھے کنفرم کرنا تھا ۔۔!! وہ اس پوزیشن میں نہیں تھیں تب کہ مجھے کچھ اپنے بارے میں بتادیں۔ 

تب مجھے درمان کا ڈی این اے میچ کرنا پڑا ان سے۔ اور رزلٹس آنے کے بعد میں اس معجزے پر شاکڈ تھا۔ جس عورت کی لاش ہم نے خود دفنائ جو اس رات آگ میں جل گی تھی وہ میرے سامنے تھی ۔ میں نے پتہ لگوایا کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ پرانے ملازموں کو کھوجا ان سے ڈیٹیل لی۔ تو ہماری سب سے پرانی ملازمہ نے بتایا کہ اس رات حویلی میں آگ خود نہیں لگی تھی لگائ گئ تھی ۔۔۔۔!!!" 

باران نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں۔ اور شنایہ بیگم پر تیز نگاہ ڈالی جن کا روم روم کانپ اٹھا تھا۔ گناہ چھپتے نہیں ہیں ایک نہ ایک دن سب سامنے آہی جاتا ہے۔ دراب آفریدی نے سر جھکایا۔ آنکھوں میں نمی ابھری۔ وہ اتنے سالوں سے زندہ تھی اور انہیں خبر بھی نہیں تھی۔ 

" شنایہ بھابھی شروع سے حسد کرتی تھیں اپنی بہن سے۔ انہوں نے حویلی کے ملازمین کے ساتھ مل کر آپ کی غیر موجودگی میں انہیں مارنے کی سازش رچائی۔ اس رات موقع دیکھ کر انہوں نے حویلی میں آگ لگوا کر ایک لاش کو اس میں جلنے کے لیے چھوڑ دیا اور سحرش بھابھی کو پیچھے کے رستے یہاں سے نکال لیا اور آپ سب کی نظروں سے چھپا دیا۔ کیونکہ یہ انہیں دکھانا چاہتی تھیں کہ ان کی قسمت جی کر کیسا لگ رہا ہے انہیں۔۔۔!!!

 پھر درمان اور فدیان کو مہرہ بناکر انہوں نے آپ سے شادی کی۔ پیسے ملتے ہی انہوں نے اپنے ان سارے ملازموں کے منہ بھرے اور بھابھی بیگم کو یہاں سے دور گلگت بھیج دیا۔ یہ اتنی سفاک ہیں کہ پچھلے تئیس سال سے انہیں پل پل مار رہی ہیں۔ انہیں ان کے بچوں کی صورت نہیں دیکھنے دی انہوں نے۔ موت سے بدتر زندگی گزار رہی تھیں بھابھی بیگم۔ جہاں انہیں زبردستی زندہ رکھا جارہا تھا اور زندوں میں شامل بھی نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔۔۔!!! 

یہ سب ان چند ملازموں نے بتایا جو ابھی تک پیسے کھاکر سحرش بھابھی کو تکلیف دے رہے تھے۔۔!! وہ بیچاری تو اپنا نام بھی بھول چکی ہیں۔ اتنا ٹارچر کیا ہے انہوں نے انہیں۔انہیں آپ بھی یاد نہیں تھے۔ میں بھی یاد نہیں تھا۔۔!! نا یہ حویلی یاد تھی۔ بس یاد تھا تو وہ پانچ سال کا درمان اور سال کا فدیان۔۔۔!! بس ۔۔۔!! " 

اس نے گہرا سانس بھرا اس عورت کی سفاکیت بتاتے اس کی روح کانپ اٹھی تھی اور آفرین تھی اس عورت پر جو ابھی سوچ رہی تھی کہ ایسا کیا کرے وہ ان سب سے بچنے کے لیے۔ جو نیا پلان بنانے میں مصروف تھی۔ دراب آفریدی نے نفرت سے سامنے کھڑی اس عورت کو دیکھا۔ شدید نفرت محسوس ہوئی انہیں ان سالوں سے جو اس خودغرض عورت کے ساتھ گزارے تھے انہوں نے۔۔۔!! دل کیا ان کا اس کا گلا دبا دیں۔ 

" خدا کے قہر سے ڈرو شنایہ ۔۔!! اپنی ہی بہن کا گھر اجاڑ دیا تم نے اور کسی کو بھنک بھی نہ پڑنے دی۔ کتنی ظالم اور مکار ہو تم۔ ہمارا بس چلے تو زندہ گاڑ دیں ہم تمہیں اس زمین میں۔ ہم سمجھتے تھے تم بس ذکیہ کی مجرم ہو جسے اس رات پناہ نہ دی تھی تم نے۔ جب وہ اپنے شوہر کے ظلم سے بچ کر باران کے پاس یہاں آئ تھی۔ گھٹیا تو تم تب سے ہمیں لگتی ہو جب سے بہراور کو اس گھر کی دہلیز سے واپس بھیجا تھا تم نے۔ باران کی منگنی توڑنے کا جھوٹ بول کر۔ بعد میں جو گندے لفظ تم نے اس معصوم لڑکی کو بولے تھے تب سے ہمیں چڑ تھی تم سے۔ پر آج تو ہمیں اپنے وجود سے نفرت ہوگئ جو تمہاری سفاکیت سے بے خبر تھا   ۔۔۔۔!!!!" 

آہنی نشست سے اٹھتے ہی ایک الٹے ہاتھ کا تھپڑ انہوں نے شنایہ بیگم کے منہ پر مارا۔ ان کی گرج کی آواز سے انہیں اپنے کان کے پردے پھٹتے محسوس ہوۓ۔ جب باران کے ذہن پر اس معصوم کا عکس لہرایا جو عشق تھی اس کا۔۔۔۔!!! 

بڑے ضبط کے باوجود وہ پھر سے اسی گہرے ماضی کے گڑھے میں کھونے لگا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" میں باران ہوں باران ۔۔۔!! کیوں مجھے بادل بادل کہتی ہو تم ۔۔۔!! روح یار چڑ ہے مجھے اس لفظ سے۔ اپنا آپ بوڑھا لگنے لگتا ہے مجھے۔۔۔!! کیا چیز ہو آخر تم۔ کیوں تنگ کرتی ہو مجھے۔۔!!!" 

 آفریدی حویلی کے لان میں کھڑی ذکیہ نے باران کی چرچراہٹ  کے جواب میں مسکراہٹ روکی۔ 

(وہ ابھی بارہ سال کی تھی جبکہ باران سولہ سال کا۔ تب درمان اور دیار تقریبا چھ سال کے ہوں ہوگے اور فدیان کوئ دو سال تک کا ۔۔۔!! دیار اور درمان کی دوستی بھی بچپن سے تھی۔ کیونکہ منگنی کے وقت تک دونوں خاندان ایک دوسرے سے مکمل طور پر جڑے ہوۓ تھے۔ آج منگنی ہوئ تھی دونوں کی۔ وہ بچپن کے دوست تھے۔

 دراب آفریدی اور بہراور درانی کی دوستی کی وجہ سے ہی ان دونوں کی شادی کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ تعلقات مزید پختہ ہو جائیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ تب بھی دراب آفریدی اور بہراور درانی نے آپس میں طے کیا تھا کہ ان کی بیٹیوں کی شادی باہر نہیں ہوگی وہ ان کی ہی بہوئیں بنیں گی۔۔۔۔!!!!!! جو حادثہ دراب آفریدی کے ساتھ ہوا اس کے بعد یہ ان کے گھر میں آئ پہلی خوشی تھی) 

" تم پٹھانوں کی طرح بات کیوں نہیں کرتے۔ پتہ ہے نا تمہیں مجھے ہم ہم کہہ کر بات کرنے والے ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے والے لڑکے کتنے پسند ہیں۔۔ !! اور بارش سے زیادہ مجھے سفید بادل پسند ہیں۔ میرے پاس تو تم ہی ایک نمونہ ہو جس کے ساتھ میں زبردستی ایڈجسٹ کررہی ہوں تو اب سارے شوق میں تم پر ہی پورے کروں گی نا ۔۔۔!!! بادل ہو تم روح کے بادل ..!!!" 

پہلے اس نے منہ بسورا (وہ چاہتی تھی باران ویسے اس کے سامنے آۓ جس حلیے میں وہ اب حال میں جاسوس بنا ہوا تھا )

پھر وہ معصوم سی صورت بناکر اپنی مجبوری بتانے لگی۔ تو اس نے بیچارگی سے سر جھٹکا۔ وہ نہیں سدھر سکتی تھی۔

" یار میں ویسے بھی بہت اچھا دکھتا ہوں تمہارے الٹے سیدھے شوق پورے کرنے کے چکر میں کارٹون بن جاؤں گا میں ۔۔۔!!!  لیکن تمہیں منع کرکے میں زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ چلو آج سے میں تمہارا بادل ۔۔۔!! اور تم بادل کی روح ۔۔!! جو تمہاری خواہشیں ہو ہم کو بتانا۔۔!! ہم ہے جو ادھر فضول میں رلنے کے لیے۔بن جاۓ گا ہم کارٹون بھی۔!! پر اگر تم ہمارے سوا کسی اور سے بات کرنے لگا تو ہم تم سے روٹھ جاۓ گا پھر مانے گا بھی نہیں۔ !! تم جانتا ہے باران آفریدی ایسا کر بھی گزرے گا ۔۔!! اب بتاؤ ہم کو تم خوش یے اب ۔۔۔!!!!"

باران نے ہار مانی اور ویسے ہی بولنے لگا جیسے وہ اسے کہتی تھی بات کرنے کو  تو وہ کھلکھلا اٹھی۔ اتنا ہی کافی تھا باران کے لیے۔

" بہت سے بھی زیادہ ۔۔!!! یار تم کتنے اچھے ہو نا۔۔۔!! دل آجاتا یے تم پر۔ کاش آج منگنی کی بجاۓ ڈائریکٹ نکاح ہی ہوجاتا ہمارا۔ کتنا مزہ آتا نا میں روحِ ذکیہ درانی سے سیدھا روحِ باران آفریدی بن جاتی۔ لیکن منگنی بھی بہت ہے۔ ہم غریب لوگ اس میں ہی خوش ہوجائیں گے۔۔۔!!!" 

اس نے چہک کر کہا تو اس کی حسرت سن کر باران اس چھوٹی سی پٹاخہ کے دماغ کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ تھی تو وہ بارہ سال کی پر زبان سے بڑی دادی امی لگتی تھی۔ 

" کہو تو میں نکاح بھی کرسکتا ہوں۔ بس بابا سے بات کروں گا وہ مان جائیں گے۔ اور تم میری ہوگی۔ پھر میں تمہیں خود سکول چھوڑنے جایا کروں گا۔ تمہارے بال بنایا کروں گا۔ تمہیں کھانا کھلایا کروں گا۔ اب بارہ سال کی بیوی ہوگی میری تو مجھے اسے اڈاپٹ ہی کرنا پڑے گا۔ کیا خیال ہے تمہارا بننا ہے تمہیں میرا ۔۔۔!!!" 

باران اس کی آنکھوں میں شرارت سے دیکھنے لگا جس کے چہرے پر لاپرواہی کے تاثرات تھے۔

" رہنے دو جو تھوڑی سی منگنی ہوئ ہے نا وہ بھی ٹوٹ جاۓ گی۔ اور مجھے اتنی جلدی شادی کرنے کا کوئ شوق نہیں۔ میں تو ابھی پڑھوں گی، بڑی ہوں گی، کھانا بنانا سیکھوں گی، پھر کروں گی شادی ۔۔!! 

اور تمہارے علاؤہ میں کسی سے بات نہیں کرتی۔ یو نو تمہارے علاؤہ میرے لیول کا کوئ نہیں ہے۔ سب مجھے بچی سمجھتے ہیں گال کھینچنے ہیں اور مجھے چڑ ہے اس قسم کے لاڈ سے۔۔۔!!! تم اچھے ہو۔ آخر روح کے ہو تو اچھے تو ہوگے ہی ۔۔۔!!!" 

وہ مسکرا اٹھا۔ اس کی خوشی تھی روح ۔۔۔!!! 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

منگنی کے بعد سال تک تو سب ٹھیک رہا پھر دلاور خان کی اینٹری نے سب تباہ کردیا۔ وہیں شنایہ بیگم کو زکیہ نند کے روپ میں قبول نہیں تھی۔ انہیں ڈر تھاکہ یہ بچی جو اس عمر میں بھی سب کی توجہ لینا جانتی ہے۔ جس کا ذہن ابھی سے اتنا آگے یے کہ وہ انہیں کھڑے کھڑے بیچ بھی دے تو انہیں پتہ نہیں لگے گا یہ بعد میں کیا کرے گی۔ جس عورت نے اپنی سگھی بہن کو برداشت نہیں کیا تھا وہ ذکیہ کو کیسے برداشت کرلیتی ۔ 

دلاور خان پہلے تو بہراور کے دور کے دوست تھے۔ بس سلام دعا ہوجاتی تھی پھر اچانک ہی ان کے عزیزوں میں شامل ہوگۓ وہ اپنی مکاری سے۔ ان کا آنا تھا کہ دراب آفریدی اور بہراور درانی نے ملنا جلنا کم کردیا۔ کیونکہ شنایہ بیگم انہیں وہاں جانے سے روکتی تھیں۔ پھر اگر وہ جانا چاہتے تو وہ بچوں کو لے کر میکے چلی جاتیں۔ یا پھر مصروفیت کا بہانہ بنادیتیں۔ بہراور درانی اپنی فیملی کے ساتھ مصروف تھے اور یہاں دراب آفریدی کو لگا وہ ان سے دور ہوگئے ہیں۔ جب وہ انہیں کچھ نہیں سمجھتے تو وہ کیوں ان کے پیچھے خوار ہوں۔ رشتے ایسے ہی نازک ہوتے ہیں کسی تیسرے کی موجودگی پہلے دو کو دور کردیتی ہے۔ 

 زرلشتہ کی پیدائش کے وقت دوری اتنی ہوگئ تھی کہ زبانی مبارکباد اور مٹھائ بھیج کر ہی کام نمٹا دیا گیا۔ دوریاں بڑھتی گئیں۔ یہی وجہ تھی کہ درمان کو دیار کی فیملی کے بارے میں زیادہ نہیں پتہ تھا بس اتنا پتہ تھا کہ وہ بہراور کا بیٹا ہے بس ۔۔۔!! 

لیکن ذکیہ اور باران کی منگنی کی بات وہیں کی وہی لٹکی ہوئی تھی۔ وہ دونوں سکول سے واپسی پر مل لیتے تھے کبھی خط و کتابت ۔۔۔!! 

مختصراً ان کی محبت مزید گہری ہوتی گئ۔ وہاں ان کے خاندان مزید دور ہوتے گۓ۔ 

مزید چند سالوں کے گزرنے کی دیر تھی جب زکیہ سولہ سال کی ہوگئی اور باران بیس سال کا تب دراب آفریدی نے شنایہ بیگم کے کہنے پر اسے جرمنی بھیج دیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے لیے۔ اور وعدہ کیا جب وہ واپس آۓ گا تب دونوں کی شادی کردی جاۓ گی۔ وہاں جانے سے چند ہفتے پہلے ذکیہ نے اسے کبوتر کا پر دیا تھا یہ کہہ کر کہ وہ اگر اسے سنبھال لے گا تو وہ مان جاۓ گی کہ وہ اسے بھی سنبھال سکتا ہے۔ وہ سب اس نے مزاق میں کہا تھا پر باران نے آج تک وہ پر اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھا تھا۔ 

وہ چلا گیا۔ پیچھے دلاور اور بہراور کی دوستی آگے بڑھتی گئی اور ایک دن شکار پر غلطی سے بہراور درانی کی بندوق سے نکلی گولی راسم کے بڑے بھائی کو لگ گئ۔ اور وہ موقع پر ہی جان گنوا بیٹھا۔ بہراور کو لگا تھا گولی انہوں نے ہی چلائ تھی پر وہ سمجھ نہ پاۓ دوست کے روپ میں جو سانپ ان کے ساتھ تھا یہ تو اس کی سازش تھی۔ 

(دلاور کی نظر تھی راسم کی زمینوں پر جو اسے چاہییں تھیں پر راسم کے والد نے دینے سے انکار کیا تھا۔ تب تو وہ میٹھا بن کر چپ ہوگیا پر دل ہی دل میں اس نے ان سب کو تباہ کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا ۔۔۔!!! پہلے تو اس نے راسم سے دوستی کی۔ مکار تو وہ بہت تھا تو راسم اس کے جال میں پھنس گیا۔ جبکہ راسم جانتا تھا وہ سبرینہ کا شوہر ہے۔ ۔

جس نے سبرینہ کو محض کاروبار میں ہوۓ نقصان کی تلافی میں لیا ہے۔ وہ اس کی محبت چھیننے والا انسان ہے۔ پر یہ جو خوشامدی اور مطلب پرست لوگ ہوتے ہیں نا یہ انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی چھین لیتے ہیں۔ یہی ہوا راسم کے ساتھ اور وہ دلاور پر یقین کر بیٹھا ۔۔۔!!!)

جرگے میں ثابت ہوگیا کہ یہ سب بہراور نے کہا ہے وہیں دلاور نے راسم کے والد کو ونی مانگنے پر اکسایا۔ جو اتنا اندھا ہوچکا تھا نفرت میں کہ اس نے ونی مانگ لی ۔۔۔!!! 

بہراور درانی کو آج بھی اپنی لاڈلی بہن کی سسکیاں اور فریادیں سنائ دیتی تھیں۔ وہ تو باران کے عشق میں پاگل تھی کیسے کسی اور کی بن جاتی۔ تبھی سب سے تنگ آکر وہ دراب کے پاس گۓ تھے۔ رات کے اندھیرے میں نکاح سے ایک رات پہلے ۔۔۔!!! 

" بھابھی ۔۔!! میں ہاتھ جوڑنے کو تیار ہوں آپ کے سامنے۔ میری بہن کو بچالیں۔ باران کی امانت ہے وہ۔ اسے بلائیں اسے بتائیں کہ وہ تکلیف میں یے اسے لے جاۓ وہ یہاں سے۔ یہ لوگ مار دیں گے میری معصوم بہن کو۔ وہ جس کی امانت ہے اسے بلا لیں واپس ..!!" 

بہراور درانی نے ہاتھ جوڑ دیے وہ اپنے بابا سے چھپ کر یہاں آۓ تھے جب سامنے کھڑی شنایہ بیگم نے نحوت سے انہیں دیکھا۔ دراب آفریدی شہر میں تھے انہیں تو پتہ بھی نہیں تھا یہاں کیا کچھ ہوگیا ہے۔ 

" معاف کیجۓ گا بھائ صاحب ۔۔۔!! ہمیں ہمارے باران کی جان بہت عزیز ہے۔ پرائ دشمنی میں ہم اس بچے کو مرنے کے لیے نہیں چھوڑ دیں گے۔ یہ کیا بات ہوئ کہ دشمنیاں آپ مول لیں اور بیٹا ہمارا بھگتتا پھرے۔ قتل آپ نے کیا ہے نا تو بہن آپ کی ہی ونی ہونی چاہیے۔ ہم سے امید نہ رکھیے گا کوئ بھی۔ ہمارا باران منگنی توڑ چکا ہے ۔۔۔!!!" 

بہراور درانی نے بےیقینی سے انہیں دیکھا ۔

" وہ ایسے کیسے منگنی توڑ سکتا ہے۔ میری بہن انتظار میں بیٹھی ہے اس کے اور آپ کہہ رہی ہیں اس نے منگنی توڑ دی۔ ہمارے ہاں منگنی نکاح کی حیثیت ہی رکھتی ہے اسے بلائیں اور نکاح کروائیں ذکیہ کا اس کے ساتھ ۔۔!! رحم کریں آپ دونوں اس بچی پر۔ کیوں میری بہن کی جان کے دشمن بنے ہوۓ ہیں۔ ابھی نکاح کا کچھ ہوجاۓ مقتول کے وارثوں کو میں سنبھال لوں گا۔ پر ونی نہیں دینی مجھے انہیں۔ آپ دراب کو بلائیں وہ سمجھ جاۓ گا مجھے۔۔!!!" 

  وہ منتوں پر اتر آئے۔ بہن کی زندگی کی بھیک مانگی تھی آج دراب آفریدی کے در پر ایک بھائ نے۔ 

" معاف کردینا بھائ صاحب ۔!! پر منگنی ٹوٹنے والی شے ہوتی ہے۔ ہمارا بھائ وہاں رہنا چاہتا ہے وہاں ہی شادی کرے گا۔ اسے آپ کی بہن میں اب کوئ دلچسپی نہیں رہی۔ وہ کہاں اور زکیہ کہاں۔ ذکیہ کو بتادینا آپ کہ وہ آگے بڑھ جائے۔ بھول جاۓ باران کو۔ وہ نہیں رکھنا چاہتا اس سے کوئ بھی تعلق ۔۔۔!!!" 

یہ انکار نہیں طمانچہ رسید ہوا تھا ایک بھائ کے مان پر جو اپنی بہن کی زندگی کے لیے بھیک مانگنے رہا تھا۔ اور ناامید ہوکر اسے اٹھنا پڑا۔ 

" جیسے منگنی آج ٹوٹ گئ۔ ویسے ہی میں بھی مر چکا ہوں دراب کے لیے ۔۔۔۔!!! وہ جب آۓ تو بتادیجۓ گا اسے۔ آئندہ میرے سامنے آنے کی غلطی نہ کرے۔ جیسے آج دھتکارا ہے نا سب نے میری بہن کو بھولیے گا مت۔ میں لعنت بھیجتا ہوں ایسی دوسری پر جو مشکل میں کام نہ آسکی۔۔۔!! خدا خافظ ۔۔۔!!!"

وہ چلے گۓ تو پیچھے شنایہ بیگم مسکرائیں کہ شکر ہے اس ذکیہ سے جان چھوٹی ان کی۔ یہ بات انہوں نے دراب آفریدی سے چھپالی تھی کہ بہراور درانی یہاں آۓ تھے۔ گھنٹوں منتیں کی تھیں انہوں نے۔ وہ کیوں اپنی شامت بلواتیں۔۔۔!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

ذکیہ کو جب باران کے اس عمل کا پتہ چلا ( جس سے وہ خود بھی واقف نہیں تھا ) تو اسے یقین نہ آیا کہ اس کا بادل اسے یوں تنہا بھی چھوڑ سکتا ہے۔ اس نے یقین کیا ہی نہیں تھا اس بات پر وہ بہت روئ تھی سسکی تھی کہ باران ایسا نہیں ہے وہ آۓ گا۔ جلد آۓ گا وہ ۔۔!! 

" بابا ۔۔!! وہ ایسا نہیں ہے۔ اس نے وعدہ کیا تھا مجھ سے۔ وہ مجھ سے ہی شادی کرے گا۔ میں تو اس کی منگ ہوں نا۔ ہمارے ہاں منگنیاں ٹوٹتی نہیں ہیں۔ بابا رحم کریں مجھ پر۔ میرا کوئ قصور نہیں ہے توکیوں مجھے قربان کررہے ہیں۔ بابا اللہ کا واسطہ ہے آپ کو مجھے باران سے بات کرنے دیں۔ وہ آجاۓ گا واپس جب اسے میں بلاؤں گی۔۔۔!! مجھ پر رحم کریں ۔۔۔!!" 

روتی بلکتی ذکیہ نے ان کے پیر پکڑے جن کا اپنا دل بھی تڑپ رہا تھا پر کیا کرتے وہ۔ بیٹے کی زندگی انہیں پیاری تھی۔ ناجانے کیوں جہاں بیٹے اور بیٹی میں سے ایک کو چننے کی باری آۓ بیٹیاں ہی کیوں قربان ہوتی ہیں۔۔۔!!! 

" بس کرو لڑکی ۔۔۔!! بےحیائ کی بھی حد ہوتی ہے۔ وہ محرم نہیں ہے تمہارا جو اس کا نام بار بار لے رہی ہو۔ ہم نے تمہیں پڑھایا لکھایا اور آزادی دی اس کا صلہ یہ دے رہی ہو تم ہمیں۔۔ !! اہنے باپ اور بھائ کے سامنے اس نامحرم کا نام لے کر ۔۔!! جس نے اس مشکل کے وقت میں منگنی ہی توڑ دی۔ وہ بزدل ہے۔ نامرد ہے جو اپنی منگ چھوڑ گیا۔ تمہارا جینا اب فضول ہے میری مانو تو کرلو راسم سے  نکاح۔۔ !! تمہیں اس کا ہی ہونا تھا۔ مان لو یہ حقیقت ۔۔۔!!!" 

ایک تھپڑ ذکیہ کو اس کے خوابوں کی دنیا سے نکال گیا۔ یہی اوقات تھی اس کی سب کی نظروں میں۔ روتے بلکتے باران کو پکارتے اس نے نکاح تو کرلیا۔ پر اس گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس کا استقبال جن تھپڑوں سے ہوا اس کی گونج آج بھی اس حویلی میں گونجتی ضرور ہوگی۔ 

جرگے سے واپسی پر پہلا قدم جو اس نے گھر میں رکھا تھا تب اسے یقین تھا یہاں تذلیل ملے گی۔ پر راسم کی ماں نے تو اس کی جان مار مار کر نکال دی۔ 

" منحوس ۔۔۔!! اس قاتل کا خون ہے تو جس نے میری گود اجاڑ دی۔ آوارہ لڑکی میرے بیٹے سے نکاح ہوگیا تیرا۔ میرا دل تو کررہا ہے منہ نوچ لوں تیرا۔ کم زات تیرا بھائ میری گود اجاڑ گیا۔ تو تجھے کیا بسنے دوں گی میں۔۔۔!! نہیں ۔۔۔!! تیرا وہ حال کروں گی کہ دیکھنے والے پناہ مانگیں گے۔  !!" 

وہ عورت غصے سے پاگل ہوچکی تھی تبھی مارتے ہوئے وہ یہ بھی بھول گئ کہ سامنے سترہ سال کی بچی ہے۔ معصوم سی ۔۔!! جسے آج تک کسی نے مزاق میں بھی سخت ہاتھ نہیں لگایا۔ جسے بس پہلا تھپڑ ملا ہے نکاح سے پہلے ۔ !! اپنے بابا کے ہاتھ کا۔ وہ کیسے کھاۓ گی اتنی مار۔ 

پر غصہ انسان کی حسیات سلب کرکے اسے بے رحم بنادیتا ہے ایسا بےرحم کہ قتل کرتے اور کسی معصوم کا وجود زخموں سے چور کرتے انسان کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ 

ان کے ظلم سے کسی نے نہیں بچایا تھا ذکیہ کو۔ وہ اپنی اوقات سمجھ گئ۔ رونا چیخنا سب فضول تھا۔ 

جسے عشق کی مار پڑی ہونا تو اسے دنیا کی مار کچھ نہیں کہتی۔ 

تبھی تو خون میں رنگی ذکیہ جب راسم کے سامنے آئ تو کوئ درد نہیں تھا اس کی آنکھوں میں۔ وہ تو سوچ رہی تھی کہ ایسا کونسا گناہ کیا تھا اس نے کہ باران چھن گیا اس سے۔ پھر راسم کے ظلم ۔۔۔!! 

وہ وحشی ہوچکا تھا۔ انسانیت بھول گیا تھا۔ ہمارے دین میں تو عورت کو اتنی عزت ملی ہے کہ جنت اس کے پیروں میں رکھ دی گئی۔ پر یہ معاشرہ کہاں عورت کو عزت دینا چاہتا ہے۔۔۔۔!!!!!!!!! یہاں تو عورت کی اہمیت پیر کی جوتی جتنی ہی ہے۔۔ !! بس ۔۔!! یہی ہے تلخ حقیقت۔۔!!!  

راسم کے نزدیک وہ بس ایک کھلونا تھی۔ جسے مار کر ازیت دے کر، اس کے وجود کو تار تار کرکے وہ اپنی ہوس پوری کرتا رہا تھا۔ وہیں ذکیہ ایک دن بھی اس کے کسی ظلم کی وجہ سے نہیں روئ تھی وہ تو روز اپنے زخم دیکھ کر سوچتی تھی کہ باران نے اسے کیوں چھوڑا ۔۔۔!! وہ بادل تھا اس کا پھر اسے ہی تپتی دھوپ کیوں ملی۔ دلاور بھڑکاتا رہا راسم کو اور راسم سارا غصہ ذکیہ پر اتار کر اس کی روح تک چھلنی کرتا رہا۔

" باران کاش تم میرے سامنے آؤ ۔۔!! تو تمہارے کندھے پر سر رکھ کر میں رو لوں۔۔!! بڈی بیچ راستے میں تو نہیں نا چھوڑتے۔ ہاتھ چھوڑنا تھا تو تھاما ہی کیوں۔ تم بہت برے ہو ٹرسٹ می قیامت میں بھی مجھے دکھے نا تو تھپڑ ماروں گی میں تمہیں۔ !! جو قرض ہے تم پر ۔۔!! راسم والی مار پر تو رونا ہے مجھے تمہارے گلے لگ کر۔ پر تھپڑ جو بابا نے اس بےحیائ کا طعنہ دے کر مارا تھا نا مجھے اس کا حساب لینا ہے تم سے۔۔!! " 

اپنے رخسار پر لگے ابھی تازہ زخم پر اس نے مرحم رکھا۔ پر کیا کرتی وہ اس دل کا جسے باران بھولتا ہے نہیں تھا۔ وہ امید سے تھی۔ اس دوران راسم کی مار سے وہ بچ چکی تھی۔ جو شائد اولاد کی خاطر اسے بخش رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ اب پیار سے بات بھی کرلیا کرتا تھا اس سے۔ لیکن اسے دیکھتے ہی ذکیہ ڈر جاتی تھی تو وہ فاصلے پر ہی رہتا تھا۔ تاکہ اس کی اولاد کو کوئ نقصان نہ پہنچے۔  پر ساس کا تو کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا تھا اس وقت تک جب تک اسے مار نہ لیں۔ 

" باران آۓ ہیٹ یو۔۔!! تم گندے ہو۔ تم نے کہا تھا جب ہماری شادی ہوگی تم میرا خیال رکھو گے۔ مجھے بہت سے پھول دو گے۔ میرے بال بناؤ گے۔ خود کھانا کھلاؤ گے۔ مجھے اپنے ساتھ گھومانے لے کر جاؤ گے۔ میں پوچھتی تھی کہ ایسا کیوں کرو گے تم.تو تم کہتے تھے سب شوہر ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔!! پیار کرنے والے..!! اپنی بیویوں کو سب چھوٹے سے بچے کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ پر بادل راسم نے بہت مارا ہے مجھے۔ وہ ویسا نہیں ہے جیسا ہونا چاہیے تھا اسے۔ اسے دیکھتے ہی ڈر لگتا ہے مجھے۔ وہ گندا ہے بہت گندا ۔۔۔!!! 

کاش تم پاس ہوتے تو مجھے بچالیتے۔ مجھے تو کوئ بچانے بھی نہیں آتا۔۔۔!!!" 

وہ رو پڑی۔ اس شخص کی یاد رلاتی تھی اسے ہمیشہ۔ تب اچانک وہاں راسم آگیا۔ 

" ہر وقت روتی رہتی ہو تم۔ کبھی ہنس بھی لیا کرو۔ کوئ عقل نہیں ہے تم میں میرا خون کھول اٹھتا ہے تمہارے آنسو دیکھ کر۔ تم ہمیشہ سے ہی ایسی ہو یا یہ عنایت خاص میرے لیے ہے۔۔!! " 

اس نے اسے پھر سے روتے دیکھا تو بیزاریت سے کہا پھر جب نظر اس کے نیل زدہ چہرے پر پڑی تو مسکراہٹ وہیں ختم ہوگئی۔ آنکھوں کے نیچے حلقے، نیل زدہ چہرہ، گردن پر انگلیوں کے نشان( یقیناً اس کی ماں کے ہی تھے) کمزور سا سراپہ وہ سالوں کی مریض لگی اسے۔ 

" میں ایسی نہیں تھی ہمیشہ سے۔۔!! پر سلامت تھے تو اڑتی تھی۔ ہواؤں میں ۔۔!! پھولوں کی خوشبوؤں میں سانس لیتی تھی، ہنستی تھی، چہچہاتی تھی۔۔!! پھر ایک دن پر کٹ گۓ۔ بن پر کا پنچھی اڑتا نہیں ہے بس پھر پھراتا ہے۔ میں بھی پھرہھرارہئ ہوں اس پنجرے میں۔ جلد رہائی مل جاۓ گئ مجھے ۔۔۔!! دیکھ لینا آپ ۔۔!! میرا وقت قریب ہے ۔۔۔!!" 

وہ اپنے بیتے دنوں کو یاد کرتے زخمی سا مسکرائی۔ پھر راسم پر ایک بےبس نگاہ ڈال کر چلی گئ۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دراب آفریدی کے دل میں بہراور درانی کے لیے نفرت مزید بڑھتی گئی جس نے بقول شنایہ بیگم کے اپنا گناہ اپنی بہن کے سر ڈال کر اسے ونی کردیا تھا۔ یہ جانتے بوجھتے کہ ان کا باران ذکیہ کے بغیر مر جائے گا۔  باران اکثر ذکیہ کے بارے میں پوچھتا تو مجبورا انہیں کہنا پڑتا کہ اب نکاح تک تمہارا اس سے پردہ ہے۔ جب نکاح ہوگا تو وہ تمہاری ہوگی۔ تب تک دور رہو اس سے۔ اور وہ بےچین دل کو سمجھا دیتا کہ صبر کرو۔ بس کچھ وقت اور پھر وہ تمہارے پاس ہوگی۔ دل نہیں مانتا تھا اس کا پر اسے منانا پڑتا تھا اسے۔

" بس کچھ ٹائم اور گزر جاۓ۔۔۔!! پھر میں اسے اپنے ساتھ یہیں لے آؤں گا۔ جنگلی بلی نے یاد تو بہت کیا ہوگا مجھے۔ اور مجھے بھی بہت یاد آتی ہے اس کی۔ لگتا ہے کچھ تو بہت برا ہوا ہے پر کیا سمجھ نہیں آرہی ۔!! کاش اس سے میرا رابطہ ہوتا۔۔!! تو میں بھی پرسکون ہوسکتا ۔۔!! اففففففففففف زکیہ تم کیوں خوابوں میں آکر رونے لگی ہو۔ آجاؤ گا میں جلدی اور تمہیں خوابوں کی بجاۓ حقیقت میں اپنے پاس رکھ لوں گا۔ ۔۔!! بس کچھ وقت اور ۔۔۔!!!" 

آج پھر اس کی یاد میں نیند سے اچانک جاگ کر باران نے خود کو دلاسہ دیا تھا  ۔۔۔!!! 

" کون ہے باران ۔۔۔!!! زکیہ کیا تم واقعی اس سے محبت کرتی تھی۔ اتنا بڑا سچ کیوں چھپایا تم نے مجھ سے۔۔۔!!!!" 

لاونج میں سب نفوس کھڑے تھے۔ اور ہمیشہ کی طرح سامنے کھڑی ذکیہ خوف سے کانپ رہی تھی۔ وہ حیران تھی کہ راسم کو باران کا کیسے پتہ چلا۔ اس نے کبھی باران کا ذکر نہیں کیا تھا راسم کے سامنے۔ پر اب یوں آج اچانک اس کا سب کے سامنے کھڑے ہوکر یہ سوال پوچھنا اسے لرزا گیا۔ تبھی اس کی ماں اچانک آگے بڑھیں۔ اور اسے دونوں شانوں سے پکڑا ۔

" عاشق ہوگا وہ اس آوارہ کیا۔۔۔!! میں تو پہلے ہی اس آوارہ، بدچلن کے اس گھر میں رہنے کے خلاف تھی پر میری بات نہیں مانی کسی نے۔ اس کا وہ قاتل بھائ میرا بیٹا مار گیا اور یہ کم زات، بدنام زمانہ لڑکی ہمارے سر پر تھوپ دی انہوں نے ۔۔۔!! راسم اسے طلاق دے ۔۔۔!! میں کہہ رہی ہوں دے طلاق اسے۔۔۔!!!" 

وہ عورت چیخ اٹھی۔ راسم نے غصے سے مٹھیاں بھینچ کر شعلے برساتی نگاہ ڈالنے کھڑی اس سترہ سال کی لڑکی پر ڈالی جو ان کے ظلم سہتی سہتی اب بس موت کی منتظر تھی۔ 

" چلو میرے ساتھ۔۔۔!! تمہیں کچھ زیادہ ہی سر پر چڑھا لیا تھا میں نے۔تم اس قابل ہوہی نہیں۔ بس بہت ہوگیا تمہیں اب میں طلاق ہی دوں گا۔ پر کاغزی کاروائ اور بچے کی پیدائش تک تم اسی سٹور میں بند رہو گی اور اپنی قسمت پر روتی رہو گی۔ میرا بیٹا جونہی مجھے ملا تمہیں اٹھا کر باہر پھینکوں گا میں۔۔۔۔!! پیپرز بنوالوں میں پھر جلدی ہی تمہیں اس رشتے کی قید سے آزاد بھی کردوں گا۔ پر تب تک اپنی شکل نہ دکھانا اس گھر میں سے کسی کو بھی۔۔۔!!!" 

اسے پکڑ کر وہ سٹور میں لایا پر ہمیشہ کی طرح ذکیہ نے کوی جواب نہیں دیا تھا وہ کھلونہ تھی سب کے نزدیک تو کھلونے احتجاج نہیں کرتے۔ جہاں چاہے انہیں پھینک دو وہ اف نہیں کرتے۔ 

راسم کو بھی کہیں نہ کہیں اس لڑکی پر رحم آیا تھا باران کو جانتا تھا وہ۔ سالوں پہلے اس نے اسے بہراور درانی کے ساتھ دیکھا تھا۔ آج دلاور نے اسے بھڑکایا تھا یہ کہہ کر کہ باران عاشق ہے ذکیہ کا۔ تو اب گنجائش نہیں تھی کوئ اس کے پاس ذکیہ کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنے کی۔ اس نے یہاں بند کرکے اسے اپنی ماں سے بچایا تھا۔ ڈیلیوری کے وقت تک باران بھی واپس آجاتا۔ اسے امید تھی۔ تو اس کا ارادہ زکیہ کو آزاد کرنے کا تھا ابھی طلاق ممکن نہیں تھی۔ وہ اسے دھکے کھانے کے لیے نہ چھوڑتا۔ لیکن اگر ابھی کاغزی کاروائ پوری ہوجاتی تو بعد میں اسے عدت کی ضرورت نہ رہتی۔  بہت سوچنے سمجھنے کے بعد اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ذکیہ خوشیاں ڈیزرو کرتی ہے۔ وہ اس کے قابل نہیں تو اسے اسے چھوڑ دینا چاہیے۔

اس نے بہت تکلیف دی تھی زکیہ کو اب اسے،اسے باران کے حوالے کرنا تھا۔ 

وہ چپ کرکے اسی سٹور میں بیٹھی رہی. اس کا ٹھکانہ وہی تھا اب۔ مار نہ سہی پر تنہائ اسے اب بھی موت کے قریب لے جارہی تھی۔ آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی حالت مزید بگڑتی گئ۔ یہاں تک کہ وہ اب منہ سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کرتی تھی۔ بس چپ کرکے موت کا انتظار کرتی رہتی۔ جب اچانک ایک دن طبیعت بگڑنے پر اسے ہاسپٹل جانا پڑا۔ 

 وہاں بس راسم تھا کیونکہ گھر کے باقی افراد کا ارادہ نہیں تھا ذکیہ پر وقت ضائع کرنے کا۔ 

تب ایک پیاری سی چھوٹی سی بیٹی ذکیہ کی زندگی میں آئ۔ ہاسپٹل کے بیڈ پر جب اس نے آنکھ کھولی تھی تو کئ آنسو اس وجہ سے آنکھوں سے بہے کہ موت بھی روٹھ گئ ہے اس سے جو آج بھی نہیں آئ۔ 

اپنی بیٹی کو دیکھ کر اس نے آنکھیں میچیں۔ وہ بیٹی تھی بیٹا نہیں۔۔۔!! یعنی راسم کی ماں اسے بھی اسی کی طرح مارتیں۔ طلاق کے کاغذات اس کی بیٹی کے پاس ہی رکھے تھے۔ راسم تمام قانونی کاروائ بہت پہلے ہی پوری کرچکا تھا  اب وہ اس کا کچھ نہیں تھا۔ وہ آزاد ہوچکی تھی اس نام نہاد رشتے سے۔۔۔!! ایک سال ٹارچر سہہ کر خود کو بےمول کرواکر۔ دن رات مار کھاکر وہ اب آزاد تھی ۔۔۔!! 

مشکل سے ہمت کرکے وہ وہاں سے اٹھی۔ دل عجیب سا ہورہا تھا اس کا۔ اسے راسم سے پوچھنا تھا کہ اب اس بیٹی کو  لے کر وہ دفع ہو یا اسے ساتھ رکھنے کے لیے اسے منتیں کرنی پڑیں گی۔ دیوار کا سہارہ لے کر وہ کمرے سے باہر نکلی۔ تو جو الفاظ اس کے کانوں میں پڑے اسے سن کر جھٹکا لگا۔

" ہاں ہوگئ ہے وہ آزاد۔۔!! وہ راسم سمجھ رہا ہے کہ اسے آزاد کرکے وہ اس کے منگیتر کے پاس پہنچا دے گا اسے۔ پر اسے ابھی میری طاقت کا اندازہ نہیں۔ میں جب خود قتل کرکے اس بہراور پر ڈال سکتا ہوں۔ راسم کو بیوقوف بناکر اسے شیشے میں اتار سکتا ہوں۔ جب بہراور اور دراب کی سالوں کی دوستی ختم کرسکتا ہوں تو میں کچھ بھی کرسکتا ہوں ۔۔!! یہ لڑکی آج یہاں سے زندہ بچ کر نہیں جاۓ گی۔ اس کی بیٹی بھی آج یہیں مرے گی۔۔۔!! تم بس انتظام پورا رکھو جنازہ بھی تو پڑھنا ہوگا نا ۔۔!!!" 

وہ شیطانی ہنسی ہنسا۔ جب ذکیہ کے ذہن میں اس کی بیٹی کا معصوم سا چہرہ آیا۔ اس کی بیٹی کا کیا قصور تھا اس دشمنی میں۔ اسے حقیقت پتہ لگ گئ کہ اس کا بھائ بے گناہ ہے۔ سارا قصور اس دلاور خان کا ہے۔ اور اب اسے یہ سب بتانا تھا باران کو۔ اسے امید تھی آج جب وہ اس کے پاس جاۓ گی تب وہ اسے تھام لے گا۔ اسے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ جیسی اس کی حالت تھی کوئ غیر بھی دیکھتا تو ترس کھالیتا وہ بھی ترس کھا لے گا اس پر ۔۔۔!!! 

خاموشی سے وہ واپس مڑی اور اپنی بیٹی کو کاٹ سے نکال کر اسے خود سے لگا کر اس نے خاموش آنسو بہاۓ۔

" مما کو معاف کردینا میری جان۔۔!! میں آپ کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی۔ آپ کو جانا ہوگا۔ اللہ کی امان میں دیا آپ کو ۔۔! مجھے معاف کردینا میری جان۔ پر مما کی اپنی سانسیں دوسروں کے رحم و کرم پر چل رہی ہیں۔ ابھی ناجانے کتنے دھکے کھانے لکھے ہیں میری زندگی میں۔ تو میں آپ کو کیسے رکھوں اپنے پاس۔ 

میرا بچہ جہاں بھی رہنا خوش رہنا۔۔۔!!!" 

اس نے عزم کرلیا خود سے کہ وہ اس بچی کو بچالے گی۔ اسے اپنی جیسی زندگی جینے وہ نہیں دے گی۔ اسے اپنے ساتھ لے کر وہ کمرے سے باہر نکلی اور آس پاس دیکھ کر دوسرے روم میں چلی گئ۔ ابھی نرس کو بات کرتے سنا تھا اس نے کہ ایک اور پیشنٹ بھی یہاں آئ ہے جس کی بیٹی کی ابھی ڈیتھ ہوئ تھی۔  حیرت کی بات تھی کہ اس کے شوہر کو ذرا بھی پرواہ نہیں تھی اپنی بیوی کی۔ اپنی بچی کو لے کر وہ اسی عورت کے پاس آئ۔ جو ہاتھ میں چھوٹا سا وجود پکڑ کر رورہی تھی۔ شاید اس کی بچی اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔ 

" میری جان ۔۔!!!! مما کو یوں نہ چھوڑو۔ میرے پاس اس خود غرض دنیا میں جینے کا واحد سہارہ تم ہو۔ میرا بچہ اٹھ جاؤ۔ میں نے بہت انتظار کیا ہے تمہارا۔ ایسے نہ چھوڑو مجھے۔۔ !!!" 

ذکیہ کی گرفت اس ننھی سی جان پر مزید مضبوط ہوئی۔ کوئ یہاں بیٹی کے دور جانے پر رورہا تھا تو کوئ یہاں اپنی ہی بیٹی کو کسی کو سونپنے آیا تھا۔ 

تقدیر کے کھیل بھی نرالے تھے ۔۔۔!! 

اس نے پیچھے کی جانب دیکھا۔ کہیں دلاور آس پاس نہ ہو۔ پھر ہمت جمع کرکے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوۓ اس عورت کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ نرس کو دیکھ کر اسے ہچکچاہٹ ہوئ تھی پر وقت کم تھا اس کے پاس۔

" میم ۔۔!! اپنے ہسبینڈ کو بلادیں۔ ہمیں کچھ پیپرز پر سائن چاہیئیں ان کے۔ آپ کے ڈسچارج پیپرز بھی ریڈی ہیں۔ بس آپ کے شوہر کا انتظار ہے ہمیں۔ اور بچی آپ کو ابھی ہمیں دینی ہوگی۔ آگے ہی رولز کے خلاف آپ اسے پہلے ہی اپنے پاس رکھ کر بیٹھی ہیں۔ کسی سینئر ڈاکٹر نے دیکھ لیا تو میری نوکری خطرے میں پڑجاۓ گی۔!!" 

نرس نے سامنے کھڑی اسی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا تھا پھر واپس سے وہ اس عورت کی جانب متوجہ ہوگئ۔ جس نے آنسو پیتے سر جھکا لیا۔ اس کا شوہر مرضی کا مالک تھا دل کرتا تو یہاں آجاتا ورنہ نہیں ۔۔!! 

" وہ خود ہی آجائیں گے یا آپ ان کے نمبر پر کال کرلیں جو ریسپشن پر لکھوایا ہے انہوں نے۔ میں اس خودغرض کے انتظار میں بیٹھی رہوں گی۔ پر رابطہ کرنے کا مطلب اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ زندگی میں انتظار کے سوا اب رہ ہی کیا گیا ہے۔ مجھے اسے جی بھر کر دیکھ لینے دیں۔ ایک ہی خوشی تھی میری وہ بھی چھن گئ۔!! " 

درد سے چور انداز میں کہتے اسے اپنی قسمت پر رونا آیا۔ جب بات کرنے کے لیے ذکیہ نے لب وا کیے۔

" سنیں۔۔۔!! آپ جو بھی ہیں۔ میں اس وقت بہت مشکل میں ہوں۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہے میری بیٹی رکھ لیں۔ میری زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں ہے اس وقت۔میرے شوہر نے کچھ دیر پہلے طلاق کے پیپرز مجھے دیے ہیں۔ میری جان کو خطرہ ہے ایک شخص سے۔ وہ شخص میرے ساتھ میری بیٹی کو بھی مارنا چاہتا ہے۔ میری خیر ہے پر اس کا کوئ قصور نہیں۔ میرے نصیب کی سیاہی اسے بھی کھاجاۓ گی۔ آپ کو سہارا چاہیے نا جینے کا یہ آپ رکھ لیں۔ اور یہ مجھے دے دیں۔۔!! پلیز ۔۔!! اللہ کا واسطہ ہے مدد کردیں میری ۔۔۔!!!" 

اپنی بات مکمل کرکے زکیہ نے اپنی بیٹی ان کے سامنے رکھ دی جو دکھنے میں بہت کمزور تھی وہ چونک گئ۔ کوئ ماں کیسے اپنی اولاد کسی کو دے سکتی ہے ۔۔!! 

زکیہ نے ہاتھ بڑھا کر ان کی بیٹی لے لی جو آخری دیدار کے لیے نرس یہاں لائ تھی تاکہ ان کے دل کو یقین آجاۓ ان کے جگر کا ٹکڑا اس دنیا سے جاچکا ہے۔ 

" تم کون ہو ؟؟ اور اسے مجھے کیوں دے رہی ہو۔ تم مزاق کررہی ہو نا میرے ساتھ۔ میرا مزاق بنانے آئ ہو نا تم۔ ابھی ہنسو گی تم میرے نصیب پر ۔۔!!" 

اس کی بیٹی کو دیکھ کر اس عورت نے اشتعال میں آکر کہا تو ذکیہ نے فورا نفی میں سر ہلایا۔ وہ پیچھے مڑ کر بھی دیکھ رہی تھی کہیں کوئ آنہ جاۓ۔ 

" میں بہت مشکل میں یوں ۔۔۔!!! آپ اسے رکھ لیں۔ میں واپس نہیں لوں گی اسے آپ سے۔ یہ آپ کی بیٹی ہے۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ نا میں آپ کو تفصیل سے کچھ بتاسکتی ہوں۔ اسے بس زندہ رہنا ہے۔ اسے سکون بھری زندگی آپ دے دینا۔ بھول جائیں کہ آپ کی بیٹی کو کچھ ہوا ہے یہ ہے آپ کی بیٹی۔۔۔!!! یہ آپ کا خون ہے ۔۔!! مجھے جانا ہوگا ۔!! اللہ حافظ ۔۔۔!!" 

عجلت میں انہیں سمجھا کر زکیہ وہاں سے نکلی اور وہ مردہ بچی اپنے کاٹ میں ڈال دی اس نے۔ نرس ساری صورتحال دیکھ رہی تھی اس نے پیچھے ریپورٹ کرنا چاہا تو اس عورت نے روک دیا اسے۔ اس کی ممتا کی پیاس بجھ رہی تھی اسے کیا چاہیے تھا۔ اس بچی کو اٹھا کر اس عورت نے خود میں بھینچا پھر مسکرائ۔ اسے محسوس ہوا جیسے اللہ نے اس پر رحم کردیا ہو۔ اسے اس کی بچی واپس مل گئ ہو۔ عجیب کھیل تھا یہ قسمت کا کوئ اپنا جگر کا ٹکڑا نکال کر کسی دوسرے کی جھولی میں ڈال گیا۔۔۔!!!! اور خود کو قامت کے حوالے کردیا اس نے۔

 بعض اوقات قسمت ہمیں خود غرض بننے پر مجبور کردیتی ہے تب ہم خود بےحس بننا چاہتے ہیں وہ بھی تب اپنے لیے سوچنے لگیں۔ 

نرس کو اور سٹاف کو پیسوں کا لالچ دے کر انہوں نے ان کا منہ بند کروادیا اور ریپورٹس چینج کروادیں۔ اب بقول ریپورٹس کے ان کی مرتی ہوئ بچی بچ گئ تھی۔ اور زکیہ کی بیٹی اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ راسم بعد میں ہاسپٹل بل پے کرنے آیا تو حیران رہ گیا کیونکہ وہاں سے ذکیہ غائب تھی اور وہ بچی جاں بحق ہوچکی تھی۔

 راسم اسے نہیں دکھا تھا پر جاتے ہوئے طلاق کے کاغذات لے لیے تھے اس نے۔ نا اس کے پاس پیسے تھے نا گھر کا راستہ آتا تھا اسے۔ سڑکوں پر گھومتے بھوک پیاس سے اس کی حالت بری ہوگئ لیکن وہ چلتی رہی۔ فائنلی وہ اپنے باران کے پاس جارہی تھی اسے سچ بتانے۔۔!! کہ اس کے لالہ بے قصور ہیں۔ اور اس تھپڑ کا بدلہ لینے جو اس کی محبت کی وجہ سے اسے پڑا تھا۔

اسے پناہ چاہیے تھی۔ اسے موت کا یقین تھا پر اس باغی دل کو امید تھی شاید وہ اسے اپنی پناہ میں لے لے۔ سالوں کی دوستی کا بھرم رکھ لے۔ طلاق حقیقت میں ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ پر بعض صورتوں میں ذکیہ جیسی مظلوم عورتوں کے لیے یہ خوشی کی نوید ہوتی ہے۔ یہ قید سے رہائی ہوتی ہے ان مظلوم عورتوں کے لیے جو دن رات زلیل ہوکر موت مانگتی ہوں۔۔۔۔!!!!! 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دن سے رات ہوگئ۔ ٹھنڈ کی وجہ سے اس کے وجود پر کپکپی طاری تھی۔ اس کنڈیشن میں چل چل کر وہ بس بے ہوش ہونے والی تھی۔ اسان نہیں تھا اتنا چلنا۔ پر وہ اپنا آخری سفر طے کررہی تھی۔ تو ناجانے کیسے وہ چلتی گئ ۔  !!! 

ساتھ ہی پیروں پر الگ چھالے نکل آۓ تھے۔ پر رات کے اگلے پہر جب اسے سامنے آفریدی مینشن دکھا تو آنکھوں میں چمک اتری۔ سب بھول کر وہ تیز تیز چلتی مین گیٹ کے پاس آئ۔ جہاں ذلت اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔

دروازہ کھٹکھٹانے پر ملازم نے پہلے تو اسے غور سے دیکھا پھر اسے پہچانتے ہی بغیر وقت ضائع کیے اسے گھر کے اندر لے گیا۔ آج بھی ذکیہ کی بدقسمتی ایسی اس کے ساتھ تھی کہ نا دراب آفریدی گھر پر تھے نا ہی باران جرمنی سے واپس آیا تھا۔ وہ جب بھی واپس آنے کی بات کرتا دراب آفریدی اسے ڈانٹ کر چپ کروا دیتے کہ پڑھائ پر دھیان دے وہ۔ واپس تو ایک نہ ایک دن آہی جانا ہے۔ پر ابھی یہ بیوقوفی نہ کرے وہ۔ تو اسے ناچاہتے ہوۓ چپ ہونا پڑتا۔ 

شنایہ بیگم اسے سامنے دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔ بقول ان کے اسے تو مرجانا چاہیے تھا۔ وہ زندہ کیوں تھی۔۔۔!!! 

" آپی ۔۔!! باران کہاں ہے۔ اسے بتائیں میں آئ ہوں۔ اس کی روح آئ ہے۔۔!! میں بہت مشکل میں ہوں۔میں تکلیف میں ہوں بہت۔۔!! آپ پلیز اسے بلادیں۔ میری جان کو خطرہ ہے۔راسم نے طلاق دے دی ہے مجھے لیکن وہ دلاور خان پتہ نہیں کیوں مجھے مارنا چاہتا ہے۔۔!! آپ میری بات کروادیں بادل سے۔۔!! میں ریکوئسٹ کرتی ہوں آپ سے ۔۔۔!!!" 

انہیں دیکھتے ہی وہ آگے بڑھی آنکھوں میں آس تھی۔ لہجے میں مان تھا ۔ سوجھی ہوئ حلقوں کے زد میں آئ آنکھیں باران کو دیکھنا چاہتی تھیں۔ جب شنایہ بیگم کے اندر کی سفاک عورت پھر سے جاگ گئ۔

" اب کیوں آئ ہوں اس گھر میں ۔۔!! اپنی نحوست کا سایہ ڈالنے آئ ہوں ہمارے باران کی زندگی پر۔ پہلے تمہارے اس بھائ نے کسی بے گناہ کو قتل کردیا پھر تم نے باران کو چھوڑ کر کسی اور سے نکاح کرلیا۔ اب دل بھر گیا ہے اس شخص سے تو منہ اٹھا کر ہمارے گھر آگئ ہو۔ بی بی یہاں کوئ تمہارے انتظار میں نہیں بیٹھا تو جن پیروں پر چل کر آئ ہو انہی پیروں پر چل کر دفع ہوجاؤ اس گھر سے ۔۔!! اور آئندہ شکل نہ دکھانا مجھے اپنی۔ طلاق ہوگی ہے تو عدت میں بیٹھو ہمارا سر نہ کھاؤ۔۔!!"

انہوں نے سر تا پیر ذکیہ کو گھورا پھر زہر اس کے کانوں میں انڈیلا جس کے اندر موجود جینے کی ننھی سی رمق بھی دم توڑ رہی تھی۔

" آ۔آپ مجھے یہاں سے کیوں نکال رہی ہیں۔ میں بہت مشکل سے یہاں تک پہنچی ہوں۔ باران سے ملے بغیر نہیں جاؤں گی۔ آپ اسے بلائیں۔ میں نے بات کرنی ہے اس سے۔ آپ کوئ نہیں ہوتی مجھے اس سے دور کرنے والی۔ میں عدت میں بھی بیٹھ جاؤ گی کہیں گی تو اس ملاقات کے بعد مر بھی جاؤں گی۔ پر مجھے باران سے ملنے دیں۔ باران کہاں ہو تم۔۔!! بڈی مجھے سن رہے ہو تو باہر آؤ۔۔!! بادل   ۔۔!!" 

اس نے چیخنا شروع کیا۔ تو شنایہ بیگم نے آس پاس کھڑے ملازموں کو دیکھ کر نفرت سے اسے گھورا۔ پھر آگے بڑھ کر اس کے نازک گال پر تھپڑ رسید کرتے ان کے دل میں سکوں سا اترا۔ وہ مجبور تھی بہت ۔۔ !! 

اتنے مجبور لوگوں اسے باران سے ملنا تھا پر ملا کیا تھپڑ ۔۔۔!!!!! 

" بات سمجھ میں نہیں آتی تمہیں۔ باران نہیں ملتا چاہتا تم سے۔ نکاح ہوگیا ہے اس کا۔ اپنی بیوی کے ساتھ باہر گیا ہے وہ۔ تمہارے انتظار میں نہیں بیٹھا ہوا وہ یہاں۔ تم جیسی آوارہ اور بدچلن لڑکی ٹسوے بہا کر اسے پھر سے اہنے پیچھے پاگل کرنا چاہتی ہے تو سن لو باران تمہیں بھول چکا ہے۔ بیبی تمہیں اب یہاں کوئ نہیں جانتا۔ دفع ہوجاؤ یہاں سے ۔۔!! اس سے پہلے میں جان نکال لوں تمہاری۔ کسی اور سے نکاح کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا تمہیں کہ باران کی امانت ہو تم ۔۔!! تب تو خیال نہیں آیا اب برباد ہوگئ ہو تو منہ اٹھا کر باران باران کرنے آگئ ہو تم ۔۔!!" 

وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی۔ تو یہاں بھی اس کی وہی اوقات تھی جو راسم کے گھر پر تھی ۔۔!! 

شنایہ بیگم نے اسے بازو سے دبوچا اور رات کے اندھیرے میں اس کی غیر ہوتی حالت کا لحاظ کیے بنا اسے گھر سے نکال کر اس کے منہ پر دروازہ بند کردیا۔ اس وقت بھی بہت سی فضول باتیں وہ اس کے کردار کے بارے میں کرتی رہیں۔ 

جب دروازہ اس کے منہ پر بند ہوا تو اسے ہوش آیا۔ پھر وہ مسکرائ۔۔!! 

بے سہارہ ہوکر اس وقت اندھیرے میں اپنے باران کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکر اسے اپنی قسمت پر ہنسی آئ۔ 

" بڑا اچھا صلہ دیا ہے تم نے مجھے باران ۔۔!! تھینکس ٹو یو کہ اس نام نہاد محبت کی پٹی میری آنکھوں سے اتار دی تم نے ۔۔!! اب میں آزاد ہوں اس دنیا کی ساری فکروں سے آزاد ۔۔!!" 

وہ جانے کو تو اپنے بھائ کے گھر بھی چلی جاتی پر اس کا دل ہی نہ کیا۔ زخمی پیروں کے ساتھ اس علاقے سے باہر نکل کر وہ سنسان سڑک پر چلنے لگی۔ 

ذہن کے پردوں پر بس باران ہی سوار تھا۔ اسے باران سے نفرت ہوئ۔ وہ بیچارہ تو جانتا بھی نہیں تھا کتنی بار اس کے نام سے اس لڑکی کو ازیت دی گئ۔ 

وہ چلتی گئ اسی سڑک پر بس۔۔۔!!! 

( کچھ لوگ قسمت کے آگے مجبور ہوتے ہیں۔ قسمت ان سے کھیلتی ہے اور وہ بیچارے کھلونا بننے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ ذکیہ بھی کھلونا تھی اس معاشرے کے لیے۔۔۔!! جسے اس کے بابا نے بیٹے کو بچانے کے لیے استعمال کیا، شوہر نے غصہ اتارنے کا ذریعہ سمجھا، سسرال والوں نے اسے بدلہ لینے کا ذریعہ بنایا۔ پھر غیروں نے اسے حقیر سمجھا۔۔۔!!!! )

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

پھر قسمت کو اس پر ترس آگیا اور سب ختم۔ اگلے دن اس کی لاش اس کے گھر لائ گئ۔ جب اس کا چہرہ تک پہچان میں نہ آسکا۔ کیسے، کسے وہ کب ملی ۔۔؟؟ کوئ نہیں جانتا ۔۔۔!!!! اس کی ماں نے اس کی حالت دیکھتے ہی اتنا گہرا صدمہ لیا کہ کچھ عرصے بعد وہ بھی چل بسی۔  اور باپ بعد میں اس کی حالت یاد کرتے اس دنیا سے چلا گیا۔ 

( دلاور خان کی انا نے اجاڑ کر رکھ دیا تھا اس گھر کو۔ اور شنایہ بیگم کی خود غرضی نے ایک اور ہنستی مسکراتی لڑکی کو ذلت کی موت مار دیا )

کیا ہوا اس کے ساتھ کوئ نہیں جانتا۔ بس اتنا سب کو یاد تھا اسے طلاق ہوچکی تھی۔ کیونکہ اس کی لاش کے پاس سے طلاق کے کاغذات ملے تھے ۔!!! 

سب ختم ہوگیا پھر سب ہی بدل گیا۔ راسم کو دلاور کا اصل چہرہ پتہ لگ گیا پر اس سے پہلے ہی وہ اس کی جائیداد ہتھیاکر اس کے بابا کو مار چکا تھا۔ اس کی ماں کو فالج ہوگیا اور مرتے وقت بھی انہیں بس ذکیہ کا انتظار تھا جس سے وہ معافی مانگ سکیں۔ 

قصور جس کا ہو سزا اسی کو ملنی چاہیے۔ اس سے جڑے لوگوں کو نہیں۔ نہ دین میں کسی کے جرم کی سزا اس کے رشتے داروں کو دینے کا حکم ہے نا ہی انسانیت اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ تو کیوں یہ معاشرہ باپ کے گناہ کی سزا اس کے بچوں کو دیتا ہے۔ یا بھائ کا جرم ہمیشہ ایک بہن کی قربانی مٹاتی ہے۔۔۔!!! 

ونی کا تصور اسلام میں نہیں۔ یہ رسم ان کم ظرف لوگوں کی بنائ گئ ہے جو عورت کو پیر کی جوتی سمجھتے ہیں۔پاکستان کے قانون میں بھی اس رسم کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ پر افسوس یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اصل زندگی میں بھی کئ عورتیں ونی کے نام پر پل پل مرتی ہیں۔۔۔!! 

ونی کی رسم میں آئ لڑکیوں کو پل پل مارنے والے اللہ کے عتاب کو آواز دیتے ہیں۔ پھر جو اللہ کے اصول توڑ دے تو اللہ اسے کسی قابل نہیں چھوڑتا۔

اس عورت نے ایک معصوم کو زندگی میں ہی جہنم دکھائ تھی پھر سسک سسک کر وہ مرگئ۔ راسم اپنی بچی کچی جائیداد بیچ کر پیرس چلا گیا۔ اور بہراور درانی کے گھر میں بھی سناٹے پھیل گۓ۔ انہیں دکھ تھا کہ کاش دراب،باران کو بلالیتا۔ کاش ان کے ساتھ کھڑا ہوتا تو آج ذکیہ زندہ ہوتی۔ 

شنایہ بیگم ہمیشہ کی طرح سکون میں تھیں کہ ذکیہ سے جان چھوٹ گئ۔ اور دراب آفریدی بہراور پر غصہ تھے جس نے اپنی ہی بہن کو موت کے منہ میں اتار دیا۔ سب کے بیچ غلط فہمیاں ہی غلط فہمیاں تھیں۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

تب مزید سال بعد ڈگڑی مکمل ہوتے ہی باران واپس سے پاکستان آیا۔ اپنی ذکیہ کی خاطر ۔۔!! جہاں کی زمین پر  قدم رکھتے ہی اس کی بےچینی بڑھ گئ۔ جب سے وہ گیا تھا ایک بار بھی اس کا رابطہ ذکیہ سے نہ ہوا نا ہی بہراور کی فیملی میں سے کسی سے اس نے بات کی۔

ایئر پورٹ سے گھر کے راستے تک وہ بہت خوش تھا۔ ذکیہ کے لیے وہاں کی ہر فیمس چیز وہ لے کر آیا تھا۔ پھر خوشی دوہری بھی تھی کہ ذکیہ جلد اس کی ہوجاۓ گی۔ یہاں آتے ہی سب اس سے نارملی ملے۔ اس نے ذکیہ کا پوچھا تو سب نے ٹال دیا۔ اسے کچھ گڑ بڑ لگی تھی تو ایک دن سب کو بتاۓ بغیر وہ بہراور کے پاس چلا گیا۔

" تم کیوں آۓ ہو یہاں۔۔؟؟؟؟ کیا کوئ کسر رہ گئ ہے جو پوری کرنی ہے تمہیں۔ میری بہن تو مرگئ تمہاری اس بزدلی کی وجہ سے۔منوں مٹی تلے جاسوئ وہ۔ کیا فاتحہ پڑھنے آؤ ہو اب اس مظلوم لڑکی پر۔ تب تو نہیں آۓ تھے جب رو رو کر وہ تمہیں بلارہی۔ اب کیوں منہ اٹھا کر آۓ ہو۔ دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔ میری بہن کی ابتر حالت یاد آتی ہے مجھے تمہاری صورت میں ۔ !! "

باران پر گویا آسمان گر گیا۔ اس کے لیے زمین پھٹ گئ اور ہوا تو جیسے تھم گئ۔ آنکھیں ساکت تھیں اور دل دھڑکنے سے انکاری۔ وہ بولتے جارہے تھے پر وہ  اٹکا تھا لفظ 'مر گئ' پر۔ اسے محسوس ہوا دنیا اجڑ گئ ۔۔!! اس کی ذکیہ اسے چھوڑ گئ۔۔!! پر کیوں ۔ !! 

دماغ سائیں سائیں کرنے لگا اور اگلے ہی لمحے اسے نروس بریک ڈاؤن ہوا۔ وہ جواب میں ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ اسے شدید دھچکا لگا اتنا بڑا کہ اسکے دماغ کی نسیں پھٹتے پھٹتے بچیں۔ دل کی دھڑکن رک گئ اور جسم سے روح جیسے نکل گئ۔ 

وہ تقریبا چار سال تک کوما میں رہا۔ یہ ایک اور راز تھا جو دراب آفریدی نے سب سے چھپاکر رکھا ۔ اسے پیرس کے ہاسپٹل شفٹ کیا گیا تھا۔ جہاں پورے چار سال تک وہ اسی شاک کے زیرِ اثر زندگی اور موت کے بیچ لٹکتا رہا۔دراب آفریدی کے نزدیک سب کی وجہ بہراور کی خود غرضی تھی اور بہراور کے نزدیک تو یہ سب ہی مجرم تھے۔ چار سال کوما میں رہ کر وہ شاید ایک ہی لفظ کو سنتا رہا۔ کہ وہ کیسے مرگئ وہ کیوں زندہ تھا اگر وہ مرگئ تو ۔۔!! 

ڈاکٹرز کو لگتا تھا وہ مینٹلی طور پر اب مکمل ختم ہوچکا ہے۔ اب کچھ نہیں بچا پیچھے۔ اسے روکنا محض اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ 

جب امیدیں دم توڑنے لگیں تو وہاں سے معجزے شروع ہوتے ہیں۔ باران کو چار سال بعد ہوش آ ہی گیا۔ پر تب بھی اس کے ذہن میں ذکیہ ہی سوار تھی۔ اس کی روح مرگئ اب جسم بے کار تھا اس کے لیے۔

ہوش میں آنے کے بعد اس کا جسم پیریلائز تھا۔ وہ نا بول سکتا تھا نا ہی کچھ کرسکتا تھا۔ بس گھنٹوں بیٹھ کر وہ ایک نقطے کو گھورتا رہتا۔۔!! جیسے ذکیہ ہو ڈھونڈ رہا ہو۔

فزیو تھراپی اور دوائیوں کے بعد وہ آخر کار سال بعد بولنے کے قابل ہوا۔ تو اعصاب بیدار ہوتے ہی وہ اپنی محبت پر رویا۔ پانچ سال لگے اسے اس حقیقت کو قبول کرنے میں کہ ذکیہ اس کے پاس نہیں ہے۔ ۔!! 

وہ تڑپتا رہا، بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا رہا۔ اس نے نماز میں اللہ سے فریادیں کیں۔ اپنا قصور پوچھا۔۔!! 

وہ دیوانہ ہوگیا تھا اس کی یاد میں۔ ایسا دیوانہ کے جسے بس وہی چاہیے تھی۔ کچی عمر سے عشق کی ابتدا ہوئ تھی اب تو عشق اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ اگر عشق کو چھوڑنے کی بات آتی تو روح جسم سے نچڑ کر نکل جاتی۔ اس نے اللہ سے صبر مانگا۔

اور بےتحاشہ صبر مانگا۔ سائیکیٹرسٹ کے ریگولر سیشن سے اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کی گئ۔ وہ کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتا تھا ڈاکٹرز نے دن رات  ایک کیے اس پر کہ وہ زندگی کی طرف واپس آۓ۔

پر زندگی کی طرف اسے واپس لانے والی ایک روح نام کی بچی تھی۔۔۔!! 

ایک دن پارک کے بینچ پر بیٹھے ہوۓ باران نے کسی کی باتیں سنیں۔ کوئ ماں اپنی گمشدہ بیٹی کی تلاش میں رورہی تھی۔ جدائ کی وجہ سے وہ رو رو کر ہلقان ہوچکی تھی۔ بچی کا نام روح تھا۔ !! 

باران کے اعصاب بیدار ہوۓ۔ یہ نام اس کے جسم کو کرنٹ کی طرح جھنجھور گیا  !! 

اس نے سوچا کہ کیا کرے وہ ایسا کہ روح مل جاۓ اس لڑکی کو۔ اسے ایسے کاموں کا تجربہ نہیں تھا پر جنون کے سامنے کوئ نہیں ٹکتا۔ بس ایک ہفتے کے اندر اندر باران نے خفیہ طریقے سے ناصرف وہ بچی ڈھونڈی بلکہ اس جیسی کئ بچیوں کو ڈھونڈ کر سب کو حیران کردیا۔ اس نے یہ کیسے کیا اسے بھی خبر نہیں تھی۔ بس اہنے سارے سورس لگا کر اپنے لالہ کی مدد سے پیسہ پانی کی طرح بہاکر وہ سب کرگیا۔ پیرس کی خفیہ ایجنسی کو ساری اطلاع تھی۔ انہیں اس جیسا بندہ چاہیے تھا ۔ جو کام کو لے کر دیوانہ ہو۔۔۔!!! 

باران کو جینے کی وجہ مل گئ اس ایجنسی کی صورت میں پھر بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملانا اور برے لوگوں کو ختم کرنا اس کا مقصد بن گیا۔

مزید دو سال لگاکر وہ اس ایجنسی کا چیف بن گیا۔ ساتھ ہی اس نے سائیڈ بزنس شروع کیا کیونکہ اپنی شناخت اسے پوشیدہ رکھنی تھی۔ اپنے دماغ کو اس نے الجھا لیا۔ اتنا کہ سارے دن میں اسے ایک منٹ بھی فری نہیں ملتا تھا۔ فری ہونے کا مطلب ڈیپریشن تھا جو اسے نہیں چاہیے تھا۔ سال گزرتے گۓ۔ اور باران کامیابی کی اس منزل پر پہنچ گیا جو ہر کسی کو نہیں ملتی۔ 

اس دوران وہ گھر میں  ایک دو کال کرلیتا۔ پھر دس سال بعد اسے واپس جانے کا اتفاق ہوا۔ اسے ذکیہ کی قبر پر چانا تھا۔ اب تک وہ خود کو سنبھال چکا تھا۔ یہاں آکر پرانے ملازموں سے پوچھنے پر اسے شنایہ بیگم کی حقیقت پتہ چل گئ۔ بس دو گھنٹے وہ اس گھر میں رکا پھر چلا گیا۔  مزید اسے کچھ نہیں جاننا تھا۔ یہاں تو پہلی ہی سیڑھی پر اپنوں نے اسے گرا دیا۔ آگے کیا ہوتا۔

اسے پتہ چلا کیسے شنایہ بیگم نے منگنی توڑنے کا جھوٹ بولا تھا، زکیہ کو دروازے سے دھکا دیا ، اسے مارا ۔۔!! 

بس پھر وہ وہیں سے واپس چلا گیا ہمیشہ کے لیے۔ دراب آفریدی نے بھی سچ جان لیا تھا انہیں بھی نفرت ہوگئ اس لمحے اس عورت سے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

پھر ابھی پانچ سال پہلے اسے اچانک راسم ملا بزنس کے سلسلے میں۔ باران کو عادت تھی اپنے ارد گرد لوگوں کی انفو نکلوانے کی۔ جب راسم کی انفو نکلی تو اس میں زکیہ سے شادی کا ذکر تھا۔ 

اس کا مجرم خود چل کر اس کے پاس آیا تھا وہ کیسے جانے دیتا اسے۔ باران نے اگلی پچھلی کسر نکالی اس پر۔

راسم کو یاد تھا جب باران سے ملاقات کے بعد گھر کے راستے پر کسی نے اسے کچھ سونگھا کر بے ہوش کیا پھر جب آنکھ کھلی تو وہ ایک تنگ، حبس زدہ کمرے میں رسیوں سے جھکڑا ہوا تھا، سر پر پیلے رنگ کا بلب جلا تھا جس کی حرارت اس کی سکن کو جلارہی تھی۔ 

اسے ہوش ٹھنڈے برف کے پانی کی پوری بالٹی اپنے منہ پر گرنے سے آیا تھا۔ 

" ککک۔ کون ہو تم لوگ ۔۔!! کیوں لاۓ ہو مجھے یہاں ۔۔۔!!!" 

اس نے ہڑبڑا کر پوچھا پھر سامنے کھڑے اس شخص کی آنکھوں میں اترا خون دیکھ کر اسے ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہوئی۔

" تیری موت ہو میں۔ غور سے دیکھ لے مجھے۔ کیونکہ اب تو میرا غلام ہے۔ میں جب چاہوں گا جیسے چاہوں گا تجھے تڑپا تڑپا کر ماروں گا۔ باران آفریدی نام ہے میرا۔ جلد تجھے انداز ہوجاۓ گا کس سائیکو کے ہاتھ لگا ہے تو۔۔۔!!!! میں وہی باران ہوں جس کی روح کو تو نے ہاتھ لگایا۔۔۔۔!! وہی باران ہوں میں جس کی امانت پر تونے قبضہ کیا۔ وہی باران جس کی روح کو تونے ازیت دی ۔۔۔!!! " 

اسکے بال مٹھی میں جھکڑ کر باران نے اتنی زور سے جھٹکے کے وہ کراہ اٹھا۔ ناک کے راستے خون کی لکیر نکلی۔ یہ اس خطرناک کیمیکل کا ری ایکشن تھا جو  اس بالٹی کے پانی میں شامل تھا۔ اس سے اگلے چند گھنٹے تک شدید سردرد سے راسم ترپتا رہتا۔ یہ تو آغاز تھا اب آگے آگے اسے باران کیا ہے یہ پتہ چل ہی جاتا۔

اسے وہیں چھوڑ کر باران چلا گیا۔ راسم نے باران کا نام سنتے ہی جان لیا کہ یہ ذکیہ کا منگیتر ہی ہے۔ اذیت راسم کا مقدر بن گئ۔

باران نے اس کے ہاتھوں کی انگلیاں تک توڑ دی تھیں جن سے اس نے اس کی ذکیہ کو چھوا۔ اسے مار مار کر ادھ موا کردیا اس نے۔ طرح طرح کے کیمیکلز سے وہ اسے روز اذیت دیتا۔ روز اس کے پاس آکر وہ غصے کی کیفیت میں ایک ہی بات بول کر اسے مارتا۔

" میری روح کو تونے چھوا کیسے کمینے۔ ۔!! وہ سراپہ محبت تھی۔ تو تونے اسے اپنی ماں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑا۔ اس معصوم کو تونے کس جرم کی سزا دی۔ کیا ملا تجھے اسے مار کر ۔۔۔!!! شوہر تھا نا تو اس کا تو کتا کیوں بنا۔۔۔!! " 

ایک سال تک مسلسل روح کی ازیت کا بدلہ اس شخص سے لے کر ایک دن باران کا غصہ تھوڑا سا ٹھنڈا ہوا تو اس نے راسم کو بولنے کا موقع دیا۔ 

جس کی حالت اتنی بری تھی کہ وہ بولنے لگتا تو منہ سے خون نکلتا۔ پر باران کو ذرا بھی رحم نہ آیا۔ جب روح کا زخمی وجود اس ظالم کو سکون میں رکھتا تھا تو باران کیوں سوچنا اس کے بارے میں۔ 

" م۔ میں ذکیہ  ۔۔۔!!!!" 

بڑی ہمت جمع کرکے چند لفظ اس نے بولے جب باران نے الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔

" تیرا کوئ حق نہیں بنتا کہ تو اس کا نام بھی لے۔ اپنی گندے زبان سے نام نہ لینا اس کا ۔۔ !! اب بول کیا ہوا تھا تیرے اس گندے دماغ کو جو تو روح کا دشمن بن گیا ۔۔۔!!!" 

آرام سے واپس بیٹھ کر بادل نے اپنے کف لنکس ٹھیک کیے اسے بالکل پرواہ نہیں تھی اس سامنے بیٹھے وجود کی۔ جو درد سے ہوش کھورہا تھا۔

" مجھے اس دلاور نے کہا تھا اس لڑکی کو مارنے کے لیے۔ تم ٹھیک کرتے ہو میں یوں ہی اس مار کے قابل۔ مجھے بھی تو ترس نہیں آتا تھا اس لڑکی پر۔ میں نے جزبات میں آکر اس کتے کی بات مانی جس نے میری سبریبہ کو چھوٹی سی عمر میں مجھ سے چھینا تھا۔ وہ وخشی جانور جس نے میرا باپ مار دیا، میرا بھائ مار دیا، میری دولت چھین لی۔ میں نے کبھی اس پر یقین کیا تھا۔۔۔۔۔!! تم مارو مجھے میں اسی قابل ہوں۔۔۔!!" 

درد کو بھول کر راسم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا اس دلاور کا ذکر باران کو کہانی میں نیا لگا۔ !! 

" کون ہے یہ دلاور ۔۔ !!!" 

" کون ہے یہ دلاور ...!!!" 

اس کی پیشانی پر شکنیں ابھریں جب مقابل زخمی سا مسکرایا۔ 

" دورِ حاضر کا فرعون سمجھ لو اس کمینے کو۔ دولت کا بھوکا ہے وہ۔ سالا ساری دنیا کو اپنے سامنے کمتر سمجھنے والا۔ اس بھوکے بھیڑیے نے دولت کی خاطر بےشمار قتل کیے۔ تم نہیں جانتے ابھی لیکن میرے بڑے بھائی کا قاتل بہراور نہیں وہ دلاور خان تھا۔ اس نے قتل کرکے الزام بہراور پر ڈالا پھر بابا کو ونی مانگنے پر اکسایا۔ 

پھر مجھے اس مظلوم پر ظلم کرنے کے لیے بھڑکاتا رہا۔ میں پاگل انسان اسی کتے کی دکھائ راہ پر چلتا رہا۔آخری وقت میں اچھی لگنے لگی تھی وہ لڑکی مجھے۔ پر اس کتے نے مجھے تمہارے بارے میں بتاکر اس بیچاری کے کردار کو ہی مشکوک بنادیا۔ وہ بس کھیل رہا تھا ہمارے ساتھ۔ اور ہم سب کھلونا بنے رہے۔۔۔!!! 

جانتے ہو اس نے میرا پورا گھر اور بہراور کا گھر صرف اس لیے برباد کردیا کہ میرے بابا نے اسے اپنی زمینیں نہیں بیچی تھیں۔ میری ماں، بابا، لالہ ، بہراور کی بہن، اس کے ماں، بابا سب مر گۓ۔ تم تباہ ہوگۓ، میرا گھر اجڑ گیا۔ صرف اس دلاور کی وجہ سے۔ اس نے بس ایک نا کا بدلہ لیا۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ سامنے انسانی جانیں ہیں کوئ فلم نہیں چل رہی ۔۔۔!!!!" 

راسم کے لہجے میں غصہ تھا پھر تکلیف بھی تھی اپنے سارے گھر والوں کے مرنے کی۔ پھر راسم نے اسے شروع سے لے کر آخر تک سب بتانا شروع کیا۔ کہ کیسے وہ لوگوں کو منافق بن کر اپنے جال میں پھنسا کر ان کا اعتبار جیتتا ہے پھر آستین کے سانپ کی طرح انہیں ڈس کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتا یے باران خاموشی سے سب سنتا رہا۔ تو دلاور تھا اسکا اصل مجرم۔ باقی سب تو مہرے تھے بس۔۔۔!!!! 

 اس نے کچھ سوچا۔ سامنے بیٹھا شخص بھی ایک ناکام عاشق تھا اور وہ بھی ۔۔۔!!! 

ایک عاشق کا درد دوسرا عاشق ہی سمجھ سکتا ہے۔ باران کے بندوں نے اسے بتایا تھا کہ آخری وقت میں راسم نے زکیہ پر ظلم کرنا بند کردیا تھا پھر اس نے اسے اپنی ماں کے مظالم سے بھی بچایا اور وہ اسے طلاق بھی دے چکا تھا۔ کیونکہ باران کے بارے میں اسے خبر مل گئ تھی۔ 

وہ اپنے فیصلہ پر پہنچ گیا بس چند منٹوں میں۔ راسم کی سزا ختم ہوچکی تھی۔

" میرے لیے کام کرو گے ۔۔۔!!! نا کا آپشن نہیں ہے۔ وہ کمینہ تمہارا بھی مجرم ہے اور میرا بھی۔ تو کیوں نہ اب اس کتے کو واقعی کتے کی موت مار کر اس دنیا کو اس کے بوجھ سے آزاد کردیا جاۓ۔ لیکن موت ویسی ہوگی جیسی میں چاہتا ہوں۔ آہستہ آہستہ مارنا ہے مجھے اسے۔ سالوں لگا کر۔ جیسے میں سالوں تڑپا ہوں۔ اسے سالوں لگاکر اعتبار کی مار ماروں گا میں۔۔۔!!" 

اس نے کرسی کی ٹھیک چھوڑدی۔ انداز پراسرار سا تھا۔ لہجے سے وحشت ٹپک رہی تھی جب راسم نے اپنے سن ہوتے دماغ کو مشکل سے بیدار رکھ کر سر ہاں میں ہلادیا۔

" بدلے میں مجھے سبرینہ چاہیے۔۔۔!! چایے پانچ سال لگیں یا دس سال۔ دلاور خان کے اس دنیا سے جاتے ہی تم مجھے سبرینہ دو گے ۔۔!!!" 

باران خان سالوں بعد پہلی بار اس کی وجہ سے مسکرایا۔ لب دبا کر اس نے ہنسی روکی۔ اسے بدلہ بھی چاہیے تھا واہ ۔۔۔!!! 

" تمہیں کیوں لگتا ہے اس دلاور کے مرتے ہی میں سبرینہ یعنی تمہارا عشق تمہارے حوالے کردوں گا۔ ایسی کوئ ڈیل نہیں کرنی مجھے۔۔۔!!!"

پل بھر میں سنجیدہ ہوکر باران نے اس کے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔ 

" تو پھر مجھے بیس سال بھی اپنی قید میں رکھ لو میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گا۔ مرنا تو سب نے ایک نہ ایک دن یے ہی تو مجھے تمہارے ہاتھوں سے موت قبول ہے۔ میری زندگی کا کوئ مقصد نہیں اس وقت۔ جب دلاور کی بربادی میرا مقصد ہوگی تو اس مقصد کے بعد مجھے انعام بھی چاہیے۔ کیونکہ اس کے تباہ ہونے کے بعد بےرنگ زندگی میں میرا جینا مشکل ہے۔ مان لو میری بات ورنہ میں یہیں بندھا ہوا ہی اچھا ہوں۔۔۔!!!" 

راسم نے سر کرسی کی پشت سے ٹکادیا۔ باران کی مسکراہٹ پھر سے اس کے چہرے پر پھیلی۔ راسم کی طرف سے اب اس کے دل کو سکون مل چکا تھا اب اسے کوئ بیر نہیں تھا اس شخص سے۔

" پوری بات نہیں بھی سن لیا کرو۔ دلاور خان کو مارنے کا نہیں اسے برباد کرنے کا ارادہ ہے میرا۔ تمہیں سبرینہ اس کی زندگی میں ہی ملے گی۔ بےفکر رہو تمہاری شادی کی مٹھائ اس کتے کے آگے میں خود پھینکوں گا۔ یہ وعدہ ہے باران کا تم سے۔۔۔!! اب اٹھو منہ دھوؤ جاکر اور شکل بھی درست کرنا شروع کردو۔ جب تک سبرینہ نہیں ملتی تمہیں اپنا خیال رکھو۔ اس منہ پر تو میں تمہیں بھیک نہ دوں۔ کجا تمہاری محبت تمہیں ملے گی۔۔ !! " 

ہنستے ہوئے باران اپنی نشست سے کھڑا ہوا پھر اس کی زخمی اور اجڑی ہوئی حالت کو دیکھ کر اس پر طنز کرنے اس نے دوستی کا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔

" پھٹکار پڑی ہے اس منہ پر دلاور خان کی دوستی کی۔اتنی جلدی نہیں اترے گی یہ۔۔۔!!! رہی سہی کسر تمہارے سائیکو دماغ نے پوری کردی۔ لو اٹھ گیا میں ۔۔!!" 

اسے خفگی سے دیکھ کر راسم نے اس کا ہاتھ پکڑا پھر کھڑا ہوگیا۔ 

" ویلکم ٹو باران ڈارک ورلڈ۔۔۔!!!!!! مشن دلاور کی دھلائی پلس سکھائ کل سے شروع ۔۔۔!!!!" 

اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ تو راسم کے دل پر زکیہ کی حالت کا پڑا بوجھ بھی کم ہوگیا۔ جس باران کی وہ دیوانی تھی آج اس کا ساتھ دے کر وہ کم از کم اس کے مجرموں کی فہرست سے اپنا نام ہٹادیتا۔ 

باران نے اسے ایک مہینہ اپنی فورس میں رہنے کے لیے ٹریننگ دی۔ اسے سمجھایا کہ سیچوئیشنز سے ڈیل کیسے کرنا ہے۔ مشکل کے وقت اپنی شناخت کیسے چھپانی ہے۔ اسکا بات کرنے کا انداز کتنا سخت ہونا چاہیے۔ اور دماغ کا استعمال کن سیچوئیشنز میں کرنا ہے.

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

سورج کے ساتھ ہی باران اپنے پلین کے ساتھ پاکستان کی سرزمین پر ایک بات پھر لینڈ کرچکا تھا۔ ۔۔!!!

نا چہرے پر کوئ خوشی تھی نا ہی سکون۔ کچھ تھا تو بس ایک عزم دلاور خان کی بربادی کا۔

پھر جو اس شہر میں آنا ہو تو ملنا مجھ سے

گھر کا آسان  پتہ یہ  ہے کہ  گھر ہے  ہی نہیں۔۔۔!!!!! 

سب سے پہلے اس نے یہاں آتے ہی اپنی روح کی قبر پر آج پہلی بار جانے کا سوچا۔ بہت سے پھولوں کے ساتھ۔ روح جب اس کے دل میں زندہ تھی تو وہ کیوں اس کی قبر پر پھولوں کی پتیاں ڈالتا روح کو بلیک روزز پسند تھے۔ جو انتہائ ریئر قسم ہے گلاب کے پھولوں کی۔۔ ہر جگہ سے یہ پھول ملنا مشکل ہیں۔ پھر اس کے لیے وہ بلیک روزز لے کر آیا۔ اس کی قبر پر آتے ہی ناجانے کیوں پر دل نے کچھ محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ حیران ہوا۔ بہت حیران ۔۔۔!!! 

کیا روح ناراض تھی اس سے۔۔۔۔!!!! 

 گھنٹوں بیٹھ کر وہ اس کی قبر پر جگمگاتے اس کے نام کو دیکھتا رہا۔ پر چاہ کر بھی وہ کچھ نہ بول پایا۔ 

ذہن کے پردوں پر معصوم سی روح کا عکس لہرایا۔ وہ زندگی کو جینے والی روح۔ پھر اچانک ہی اس کی دھڑکن رکی۔ دل نے جیسے چلنے سے انکار کیا۔ روح نہیں تھی اس کے پاس۔ اس بات کو شدت سے محسوس کرتے باران کی آنکھیں بھیگیں۔ 

آنسو گود میں گرنے لگے۔ آج اسکی روح ہوتی تو کبھی اپنے بادل کو برسنے نہ دیتی۔ پر وہ تھی ہی نہیں۔۔۔!!! یہی تو دکھ تھا۔۔۔!!! 

غم زندگی تیری راہ میں..

شب آرزو تیری چاہ میں..

جو اجڑ گیا وہ بسا نہیں..

جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں..

جو دل و نظر کا سرور تھا..

میرے پاس رہ کے بھی دور تھا..

وہی ایک گلاب امید کا..

میری شاخ جاں پہ کھلا نہیں..

میرا ہمسفر جو عجیب ہے..

تو عجیب تر ہوں میں آپ بھی..

مجھے منزلوں کی خبر نہیں..

اسے راستوں کا پتہ نہیں..

پسِ کارواں ، سر رہگزر..

شکستہ پا ہوں تو اسلئے..

کہ قدم تو سب سے ملا لیا..

میرا دل کسی سے ملا نہیں..

شام تک اپنی آنکھوں کو برسنے کی اجازت دے کر وہ وہاں سے اٹھ گیا۔ اب آگے کی تیاری کرنی تھی اسے۔ وہ وہاں سے سیدھا راسم کے بتاۓ ہوۓ ہوٹل پر گیا جہاں میک اپ آرٹسٹ نیو فیس ماسک کے ساتھ موجود تھے اس کا گیٹ اپ چینج کیا گیا بالکل چینج۔۔۔!!! 

روح کا بدلہ لینے کا حق بس اس کے بادل کا تھا۔ آج باران اپنی شناخت بدل کر بادل بن گیا۔ 

سب سے پہلا کام تھا دلاور کی فورس میں آنے کا۔ پر اپنے طریقے سے۔ 

باران نے خود دلاور پر حملہ کروایا۔ پھر خود اس جگہ پہنچ کر اپنے آدمی کو خوف کو شوٹ کرنے کو کہا۔ وہ پہلے ہی تنبیہ کرچکا تھا کہ گولی دل کے پاس لگے۔ اس دل سے اسے شکایت تھی کہ روح کی تکلیف اسے محسوس کیوں نہ ہوئ تو سب سے پہلی سزا اس موڑ پر اس نے اپنے دل کو دی۔

" گولی سیدھا دل کے پاس لگنی چاہیے۔ ایک انچ بھی دور نہ ہو دل سے۔ اگر میں میجر آپریٹ کے بغیر زندہ رہا تو میرے اٹھتے ہی تمہارا آخری دن ہوگا اس دنیا میں۔ تقریبا دس دن مجھے ہوش نہیں آنا چاہیے۔ خون اتنا زیادہ بہے کہ میرے بچنے کی امید اس دنیا کے کسی ڈاکٹر کو نہ ہو۔ یا ایسا کرنا ایک ساتھ تین گولیاں میرے سینے کے آر پار کردینا۔مجھے اتنا درد ملے کہ میری روح کانپ اٹھے۔۔۔!!! درد تھوڑا بھی کم نہ ہوا تو تمہاری موت پکی۔ " 

شوٹر جب شوٹ کرنے والا تھا تب باران کی بات یاد کرکے اس کے ہاتھ کانپ گۓ۔ کسی کو خود سے اتنی نفرت بھی نہیں ہوسکتی جتنی اس شخص کو تھی۔ پھر ایک ساتھ تین گولیاں باران کے سینے کے آر پار ہوئیں۔ درد اتنا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ میں ہی دنیا بھول گیا۔ 

پھر راسم کے پلین کے مطابق جو گارڈز دلاور کی فورس میں وہ خرید چکے تھے وہ باران کو اپنے ہاسپٹل لے کر گۓ۔ جہاں باران کی شناخت چھپی رہتی۔ اس کا ماسک نہ اتارا جاتا۔ باران کا میجر آپریٹ ہوا، عجیب بندہ تھا وہ اسے زندہ بھی رہنا تھا موت بھی چاہیے تھی۔ 

" یہ آدمی سچ میں پاگل ہے۔ کیا ضرورت تھی اس کمینے کی وجہ سے سچ میں گولیاں کھانے کی وہ بھی اکٹھی تین دل کے آس پاس۔۔۔!! یہ دیوانہ ہوچکا ہے۔ یہ اب دلاور کو تڑپا تڑپا کر ہی مارے گا۔ یااللہ اس شخص پر رحم کردے۔ یہ اپنے حواسوں میں نہیں ہے۔ اپنا دشمن بن چکا ہے یہ ۔ !! یا الٰہی رحم ۔ ۔!!!" 

ڈاکٹرز کی جانب سے وینٹی لیٹر ہٹانے کی بات سن کر راسم نے موت کے منہ میں پڑے اس دیوانے کو دیکھا۔ جو عشق کی اس منزل پر تھا جہاں اپنی فکر بھی کسی کو نہیں ہوتی۔ 

وہیں دلاور خان تو جلے پیر کا بلا بن کر ادھر ادھر گھوم رہا تھا آج زندگی میں پہلی بار کسی نے ناجانتے ہوۓ بھی اس کے لیے جان دی تھی۔ اسے کوئ جلی ہوئ روٹی کا چھلکا نہ دیتا یہاں تو جان کی بات تھی ۔۔۔!!!! 

" ڈاکٹرز کو کہو جتنے پیسے لگتے ہیں لگادیں۔ پر مجھے یہ شخص زندہ چاہیے۔ یہ کام کا آدمی ہے۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔   !!!" 

اس کے حکم پر اسکا ملازم تابعداری سے سر ہلاتا چلا گیا۔ پھر کیا ہونا تھا پورا ایک مہینہ ڈاکٹرز نے دوائیوں سے لے کر دعائیں سب آزمائیں۔ 

مہنگے سے مہنگا ٹریٹمنٹ۔ ہر طرح کی میڈیسنز ۔ !! 

سب کرنے کے بعد اسے ہوش آگیا۔ اس کے ہوش میں آنے کی سب سے زیادہ خوشی اس ہاسپٹل کے سٹاف کو تھی جنہیں ایک طرف راسم نے الٹا لٹکا رکھا تھا تو دوسری طرف دلاور خان نے۔

بالآخر باران کامیاب ہوگیا اس کے اٹھتے ہی دلاور خان نے میٹھا بننے کی اخیر کوشش کی اور اسے اہنے ساتھ رکھنے کی بات کی۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔!!! 

باران نے اپنی تنہائی اور مظلومیت کا رونا روکر ناچاہتے ہوئے بھی اچھا خاصہ ڈراما کرکے اس کی آفر قبول کرلی اور یہاں سے شروع ہوگیا اسکا سفر اس کی جڑیں کمزور کرنے کا ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

وہ دلاور کا واحد ساتھی تھا جو اس کی حویلی میں بھی بغیر روک ٹوک کے گھومتا تھا۔ اس اعتماد کو جیتنے میں اس نے سال پورا لگا دیا۔ وہ اعتماد کہاں جیت رہا تھا وہ تو اس کی فورس کو خرید رہا تھا۔۔۔!!  یہاں آکر اس نے سبرینہ سے سلام دعا کی۔ جو شروع میں اس سے دور ہی رہتی تھی۔ پھر ایک دن باران نے اسے راسم کے بارے میں بتادیا۔

" وہ تم کو چاہتا ہے بہت۔ !! ہم کو ملا تھا وہ کہہ رہا تھا تمہارا بغیر زندہ نہیں رہ سکتا وہ۔ تم جانتا ہے اچھے سے جو ہوا اس میں اسکا کوئ قصور نہیں ہے آپی۔ یہ سب تمہارا گھر والوں کا قصور ہے۔ ہم چاہتا ہے تم خوش رہے ہمیشہ۔۔۔!!!" 

باران نے خلوص بھرے انداز میں کہا جب سبرینہ نے معصومہ کے کمرے کی طرف دیکھا۔ 

" اس وخشی کے ساتھ رہنا میری مجبوری ہے۔ میری بیٹی کا باپ ہے وہ۔ جیسا بھی ہے وہ کم از کم ایک چھت تو ہمیں ملی ہوئ ہے۔ میں نے طلاق کا مطالبہ کیا تو وہ وخشی انسان میری بیٹی کو مار دے گا۔ راسم کو کہہ دینا تم کہ اس کی سبرینہ مرچکی ہے۔ بھول جاۓ اسے وہ اور اپنی زندگی میں مووآن کرے۔ "

 انہوں نے سپاٹ انداز میں کہا۔ باران سمجھ گیا معصومہ ان کی کمزوری ہے جس کا فایدہ دلاور اٹھاتا ہے۔ اس نے ان دونوں ماں بیٹی کو اس شخص سے بچانے کا کام شروع کیا۔ دلاور کو ذلیل کرکے، اس کو کوس کر اتنا تو اس نے سبرینہ کرکے کردیا تھا کہ وہ اب سبرینہ پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا۔

راسم کو اس نے مطمئن کردیا کہ جلد یا بدیر وہ اسے ہی ملے گی۔ باران وعدے کا پکا ہے۔ بس بے فکر رہے وہ۔ 

وقت گزرتا گیا اور باران نے اس کی کمزوریاں جان لیں۔ اب دلاور اس کے لیے کچھ بھی نہیں تھا بس جب بادل چاہتا اسے ریت کی تحریر کی طرح مٹادیتا۔ 

پھر ایک دن کہانی میں آیا نیا موڑ یشاور کے نکاح کی خبر کی صورت میں۔ جو وہ کمینہ دلاور زرلشتہ سے کروانا چاہتا تھا۔

" یہ ابلیس صفت جانور کتنا بےرحم ہے پہلے اس کتے نے ذکیہ کو تباہ کیا بہراور کا گھر اجاڑ دیا۔ اب کیسے اس کی بیٹی کو تباہ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ ذکیہ آج زندہ ہوتی تو وہ زرلشتہ کا نکاح میرے بھتیجے درمان سے ہی کروانا چاہتی۔ وہ ذکیہ کا عکس میرے درمان کے ساتھ ہی میچ کرے گا۔ مانا میرا بھتیجا الٹے دماغ کا ہے۔ پر جیسا بھی ہے زرلشتہ کے لیے پرفیکٹ ہے۔۔ !!! 

بھابھی بیگم نے میری زکیہ کو مجھ سے دور کیا تھا نا اب یہ لڑکی اپنی زبان سے ان کا دماغ ٹھکانے لگاۓ گی۔  ہوسکتا ہے بھابھی بیگم کا الٹا دماغ بھی یہ ٹھیک کردے۔۔۔!!" 

یہاں سے بادل نے اپنا میرج بیورو کھولا 😂۔ 

اس نے یشاور کا اصل چہرہ دیار کو دکھایا۔ پھر گلریز اور درمان کی لڑائ میں دیار کو بھیج کر اس نے سارا الزام دیار پر ڈلوایا۔تاکہ ونی کی صورت زرلشتہ اس کے پاس چلی جاۓ۔ اس وقت گلریز کے آدمی درمان کے قتل کی نیت سے آۓ تھے۔ کیونکہ دلاور سرداری کے لالچ میں دراب کے بڑے بیٹے کا قتل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بادل کے ہوتے اس کی دال گلنے والی نہیں تھی۔

دیار پر گولی بھی اس نے ہی چلوائ تھی کیونکہ یوں دیار کو خود بھی لگتا یہ سب اس نے کیا ہے۔ 

پھر فدیان کو اس نے خود اغواہ کیا۔ لیکن دلاور کو اپنی باتوں کے جال میں الجھا کر۔۔!! یہ کہہ کر کہ درمان کے بعد سردار کی نشست فدیان کو ملے گی۔ تو فدیان ہو بھی اٹھوالو۔ اپنا بھتیجا ہواؤں میں اڑتا اور دیار سے ہمدردی کرتا اسے زہر لگا تھا۔ یہاں وہ ذکیہ کی بھتیجی کی جان بچانا چاہتا تھا اور اس کا بھتیجا معاملہ ٹھنڈا کررہا تھا۔ 

فدیان کے گم ہوتے ہی یہ الزام بھی دیار پر لگا پھر زرلشتہ کا نکاح ہوگیا۔ تب بات وشہ تک پہنچ گئ۔ دیار اس کے راستے میں آۓ اسے برداشت نہیں تھا تو اس کے پیروں میں بھی شادی نام کی زنجیر اس نے ڈال دی۔ پھر اپنی معصومہ کے لیے اسے فدیان سے اچھا کوئ نہ لگا۔ وہ زندگی جینے والا انسان تھا اور معصومہ تو رنگوں سے ہی ناواقف تھی۔ تو فدیان کو معصومہ دے کر اس نے گویا معصومہ کی قسمت میں اجالا کردیا۔ اسے یقین تھا زرلشتہ اور فدیان اس کی معصومہ کو سنبھال لیں گے۔

اتنے سالوں سے سب پلین کے مطابق ہورہا تھا بس ایک جگہ وہ مات کھاگیا۔ وہ جگہ تھی اس مکار صفت شنایہ کو ہلکے میں لینے کی۔ یہ وہ غلطی تھی جس کی تکلیف اسے اپنے عشق کو کھونے سے زیادہ ہوئ۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

(حال..!!!!!)

خیالوں سے نکلتے ہی باران نے سامنے کھڑی شنایہ پر افسوس بھری نگاہ ڈالی۔ سارا ماضی اس کے ذہن میں اب بھی لہرارہا تھا۔ ان سب میں اسے سب سے زیادہ گنہگار یہی عورت لگی۔ 

" جھوٹ بول رہا ہے یہ سردار مرچکی ہے وہ۔ وہ زندہ نہیں ہوسکتی۔ یہ شخص شروع سے ہی ناپسند کرتا ہے مجھے۔ پہلے اپنی اس ذکیہ کو لے کر مجھ پر جھوٹ باندھتا رہا اور اب جب معصومہ اور زرلشتہ ہسپتال میں ہیں تو یہ نیا الزام لگارہا ہے مجھ پر۔ آپ ہمیشہ اس کی باتوں کا یقین کرتے ہیں اور مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں۔سحرش نہیں ہے زندہ۔۔!! وہ مرگئ ہے ۔۔!!!" 

اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر لہجہ مضبوط بناتے ہوۓ انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ تب اپنی شرٹ کے سامنے لگا بٹن باران نے ٹھیک کیا۔ وہ بٹن نہیں کیمرہ تھا جسے ابھی باران نے آن کیا۔ 

" تو کیا ارادہ ہے لالہ ۔۔۔!!! سحرش بھابھی کی اینٹری سادے طریقے سے ہویا پھر طریقہ دبنگ ہونا چاہیے۔ کاش اس موقعہ پر درمان یہاں ہوتا تو اپنی سگی ماں کو دیکھ کر اپنی بیوی کی اس مجرم کو اہنے ہاتھوں سے قتل کرتا۔ چلو کوئ نہیں میں ہوں نا۔ جو کرنا ہوا میں کر لوں گا۔۔۔!!!" 

اپنے ہاتھ اس نے پشت پر باندھے پھر ایک سٹائل سے چلتا ہوا شنایہ بیگم سے چار قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ دراب آفریدی کی گردن کی نسیں پھول چکی تھیں۔

" کہاں ہے سحرش ۔۔۔!!! بلاؤ اسے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں اس مظلوم کو جسے اس کی سگی بہن نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ مجھے اسے دیکھنا ہے۔ وہ کس حال میں ہے جاننا ہے۔ میں مزید انتظار نہیں کرسکتا۔ بلاؤ سحرش کو ۔۔۔!!!"

مٹھیاں بند کرکے پھر انہیں کھول کر وہ خاصے ضبط سے بولے۔ جب باران نے داخلی دروازے کی جانب نگاہ ڈالی۔ اس کی نگاہ کا اس جانب اٹھنا تھا جب دو عورتوں کے سہارے (جو شاید نرسز تھیں) ایک کمزور سی عورت سیاہ شال میں لپٹی ہوئی گھر کی دہلیز پار کرکے سامنے آئ۔

سب کی نگاہیں اسی جانب اٹھیں۔ نقاہت زدہ سا وہ چہرہ اس حویلی کے در و دیوار کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ یہ سب تو اس کے ذہن کے پردوں سے مٹ چکا تھا۔ شنایہ بیگم کی سانسیں ناہموار ہوئیں۔ اس عورت کو چند ہفتے پہلے انہوں نے خود مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ ان کے آدمیوں نے خود بتایا تھا انہیں کہ یہ عورت مرچکی ہے پھر یہ یہاں کیسے آئ۔ 

ان کا اپنے گال پر رکھا ہاتھ پہلو میں گرا اور دراب آفریدی کے دل میں تو طوفان مچا ہوا تھا۔ محبت بچھڑ کر ملے، پھر ملے بھی یوں کہ امید ہی نہ ہو، تو انسان سانس لینا بھی بھول جاتا ہے۔۔۔!!!! 

گناہ کبھی نہیں چھپتے۔ انسان کی بھول ہے جو گناہ کرکے سمجھتا ہے وہ ثبوت مٹادے گا تو کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ وہ سمجھتا ہی نہیں کہ اللہ تو دل کے رازوں سے بھی واقف ہے پھر۔ بند کمرے میں چھپ کر گناہ کرو یا بھرے مجمعے کے سامنے گناہ کرو سزا ملنی ہے۔ مل کر رہنی ہے۔

کہاں سوچا تھا انہوں نے کہ کبھی یہ عورت دراب آفریدی کے سامنے کھڑی ہوگی۔

" سحرش۔۔۔!!! تم زندہ ہو۔۔ !!!" سکتہ ٹوٹتے ہی خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں وہ چند قدم ان کی جانب بڑھے۔ 

" لو بھابھی نمبر دو۔۔!! سوتن اندھیرے کمرے سے سیدھا گھر کے لاؤنج میں آگئ اور تم کچھ کر بھی نہیں پائ۔ ویسے کیسا فیل ہورہا ہے اس وقت سوتن کو سامنے دیکھ کر۔ خوشی تو بالکل بھی نہیں ہورہی ہوگی نا۔ ایسا کرو مرجاؤ۔ میں خاموشی سے دفنادوں گا تمہیں۔ نہیں تو لالہ تمہارے اتنے ٹکڑے کریں گے کہ تم گن بھی نہیں پاؤ گی۔۔۔!!!" 

باران نے ان کی طرف جھک کر سلگادینے والی سرگوشی کی۔ جو سحرش کو ہی گھور رہی تھیں۔ 

" سحرش ۔۔۔!! زندہ بچ کر گناہ کیا ہے تم نے۔ تمہیں آج میں تمہارے اس شوہر کے سامنے ماروں گی۔ بہت ہوگیا یہ ڈرامہ۔ تمہیں مرنا ہوگا۔۔۔!!!"

اشتعال کے مارے شنایہ بیگم کو اپنے جسم میں شرارے پھوٹتے محسوس ہوۓ۔ یوں لگا جیسے کسی نے انہیں جلتی بھٹی میں دھکا دے دیا ہو۔ بھسم کردینے والے انداز میں وہ بھوکے بھیڑیے کی طرح سامنے کھڑی اس عورت کی طرف دوڑیں۔ ان کے یہ نیک خیالات دراب آفریدی نے بھی سنے تھے۔ 

آگے بڑھتے ہی اس عورت نے سحرش پر حملہ ہی کیا پر بھلا ہو ان نرسز کا جنہوں نے فورا اس عورت کے گندے اردوں سے سحرش کو بچالیا۔

" مرنا اسے نہیں تمہیں ہوگا۔ گھٹیا عورت ۔۔!!! تم نے ساری حدیں پار کردی ہیں۔ کوئ شرم لحاظ نہیں بچی تم میں۔ ہمیں اس وقت پر افسوس ہورہا ہے جب تم جیسی نیچ عورت سے ہم نے نکاح کیا۔ کاش ہم جانتے ہوتے تم ناگن ہو۔ تو اپنے بچوں کو تم جیسی سفاک عورت کے حوالے نہ کرتے ہم۔۔۔!! دور رہو سحرش سے ۔۔۔!!!" 

دراب آفریدی نے گرجتے ہوۓ اسے بازو سے گھسیٹ کر اپنے سامنے کیا پھر ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر مارا جو اب کی بار فرش پر اوندھے منہ گری تھی۔ جب اس نے نیچے دیکھا تو دل میں آگ لگی کیونکہ وہ سحرش کے پیروں میں گری تھی۔ ہاتھ فرش پر جماکر وہ اب کی بار دراب آفریدی کی سمت مڑی۔

" کوئ حد نہیں پار کی میں نے۔ یہ عورت اسی قابل تھی کہ اسے اس کے بچوں کی صورت دیکھنے کے لیے ترسنا پڑتا۔ اور درمان اور فدیان بھی اسی قابل تھے کہ ساری زندگی ماں کے پیار کو ترستے رہتے کیونکہ وہ اس سحرش کے بچے تھے۔ میں نے تو انہیں ان کی بیویوں کے دکھ میں بھی ڈال دیا۔ وہ اسی قابل تھے۔ اس معصومہ کو مار کر سکون ملا پھر اس زرلشتہ کی چلتی زبان کی وجہ سے اسے سیڑھیوں سے دھکا دے کر دل میں قرار سا اترا۔ میں خوش ہوں اپنے کیے پر ۔ میں نے آپ سے شادی اسی لیے کی کہ درمان اور فدیان کو ماں کے پیار کے لیے ترسا سکوں۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئ دوسری عورت ان لڑکوں کو ماں کا پیار دے دے۔ 

ہاں نفرت کرتی ہوں میں ہر اس شخص سے جو اس سحرش کے وجود سے جڑا ہو۔ چایے وہ درمان اور فدیان ہوں یا آپ۔ میں نے اس عورت کو پل پل تڑپایا۔ کیونکہ اس کی سسکیاں مجھے سکون دیتی تھیں۔ جب یہ درمان اور فدیان کا نام لے کر روتی تھی تو میرے اندر سکون اترتا تھا۔ میں تو روز اسے ٹارچر کرتی تھی۔ چاہتی تھی کہ یہ مرے نہیں بس تڑپے ۔۔۔!! 

مجھے ایک ایک شخص سے نفرت ہے جو اس سحرش کا سگا ہے۔ اس عورت کی آتی جاتی سانسوں سے نفرت ہے مجھے۔ اس کے پورے وجود سے نفرت ہے مجھے۔ میں نے کیا تھا اسے اغواہ۔ میں نے اس کی موت کا ڈرامہ رچایا۔ میں اب بھی یہی کروں گی۔ مار دوں گی میں اسے۔۔۔۔!!!!" 

اٹھتے ہی شنایہ بیگم نے گرجدار آواز میں اپنا اعتراف جرم کیا۔ اس کی آنکھوں میں کوئ شرم نہیں تھی۔ ذرا پچھتاوا نہیں تھا۔ لاؤنج میں یک دم خاموشی چھائی۔ 

سحرش کو یاد نہیں تھا ابھی کہ یہ عورت کون ہے پر جیسے یہ بولتی جارہی تھی اسے سب یاد آتا گیا۔ کیسے اس عورت نے اسے قید میں تڑپایا تھا۔ 

" کیوں نفرت ہے تمہیں اپنی ہی سگی بہن سے۔ جس نے تمہیں اس دنیا میں سب سے زیادہ پیار کیا۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں یہ اپنے سگے بچوں سے زیادہ تمہیں چاہتی تھی۔ تو اتنی نفرت کیوں پیدا ہوگی تمہارے دل میں۔۔۔!!" 

انہوں نے سانس چھوٹتے ہی پوچھا تو وہ نفرت سے مسکرائی۔

" تو اس کی محبت مانگی کس نے تھی۔ سگھی بہن۔۔!! ہنہہ ۔۔۔!!! کوئ سگی بہن نہیں ہے یہ میری۔ تایا کی بیٹی ہے جسے تایا کے انتقال کے بعد رشتےدار ہماری دہلیز پر پھینک گۓ۔ جسے کسی نے قبول نہیں کیا تھا۔ مجبورا ہمیں اسے رکھنا پڑا۔ کچڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی یہ عورت میرے لیے۔ یہ تو میرے بابا تھے جنہوں نے اسی منحوس کو اپنا سگا خون سمجھ لیا۔  یتیم سمجھ کر اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا اور میرے حصے کی ساری محبت اس گھنی میسنی پر نچھاور کردی۔

 جو سب کے سامنے کسی حور سے کم نہیں تھی۔ سارا بچپن اس کی تعریفیں سنتی رہی میں۔ کہ سحرش کتنی قابل ہے۔ سحرش پڑھائ میں کتنی تیز ہے۔ سحرش تو ہر کام کرسکتی ہے۔ سحرش دکھنے میں کتنی سادہ لیکن کتنی پیاری ہے۔ سحرش میں فلاں خوبی ہے۔ فلاں خوبی ہے۔ شنایہ تم بھی اس جیسی بن جاؤ۔ شنایہ تم اس جیسی کیوں نہیں ہو۔ اس کی قسمت میں راج کرنا لکھا ہے۔ بختوں والی ہے یہ۔  !!! سحرش نہ ہوگئ جان کا عذاب ہوگئ میرے لیے۔ جسے کسی تمغے سے نوازنا باقی تھا بس." 

دراب آفریدی کو افسوس ہوا اس عورت کی سوچ پر۔ وہیں باران کو بھی عجیب سی گھن آئ اس عورت سے۔ جسے صحیح غلط کی تمیز ہی نہیں تھی۔ سحرش اس کی تایا زاد تھی۔ جس کے سر پر ہاتھ اس کے بابا نے خدا کے خوف سے رکھا۔ پر شنایہ بیگم صدا کی حاسد عورت خود سے اسے کمپیئر کرکے احساسِ کمتری کا شکار ہوگئیں۔ جبکہ سچ تو یہ تھا کہ سحرش نے اپنا نصیب اپنے اخلاق سے بنایا۔ وہ دلوں میں گھر کرگئی صرف اپنے اخلاق سے۔ !! 

اس نے کسی کا حق نہیں چھینا۔ بلکہ اپنا مقام صبر سے بنایا تھا۔

" مجھے اس کی قسمت جینی تھی۔ جس قسمت پر سب کو ناز تھا مجھے وہ چاہیے تھی۔ اس کے لیے کسی ڈرامے جیسی زندگی، امیر شوہر، نوکروں سے بھری حویلی، رانیوں جیسا مقدر اور میرے لیے عام سی شکل و صورت والا ایک سرکاری نوکر۔۔۔!!! کیوں آخر ہر اچھی شے اس بھکارن کو ملی اور ہر بری شے سر سے اتار کر مجھے دے دی گئ۔ بس جس دن وہ دو ٹکے کا رشتہ میرے لیے آیا تھانا تبھی سوچا تھا میں نے اس عورت کا مقدر اب میں جیوں گی۔ اسے بتاؤں گی کہ اسکی قسمت جیتے مجھے کیسا لگا۔ 

پھر میں نے اسے حویلی سے نکالا قید کیا، آپ سے شادی کی اس کے بچوں کے ذہن سے اسے مٹایا اور بن گئ سحرش ۔۔۔!!! تئیس سال اس کا نصیب جیا میں نے۔ تئیس سال اسے ٹھوکروں پر رکھا۔ اس ذکیہ کے بھائ کو اس رات یہاں سے میں نے ہی نکالا تھا۔ منگنی ٹوٹنے کا جھوٹ میں نے بولا تھا۔ پھر جب وہ اپنی موت کی رات باران سے ملنے آئ تھی تب اسے اس کی اوقات یاد دلا کر میں نے نکالا تھا اس گھر سے۔ 

مر گئ وہ بھی اچھا ہوا ۔۔۔!!! مجھے کوئ دکھ نہیں اپنے کیے پر۔ بس خوشی ہے کہ اس کی زندگی تباہ ہوگئ۔ اس کے بچے پیار کو ترستے رہے۔ شنایہ جیت گئ اور یہ فضول سی عورت ہار گئ ۔۔۔!!!!" 

سب ہونق بنے کھڑے تھے اور شنایہ بیگم آج اپنے سارے گناہ ماننے کے موڈ میں تھیں۔ دراب آفریدی نے تاسف سے سر کو نفی میں جنبش دی۔

" ان سب کے ساتھ تو جو کیا تم نے سو کیا پر وشہ کا کیا قصور تھا۔ اسے کیوں حسرتوں میں رکھا تم نے۔ درمان اور فدیان تو چلو اس عورت کے بیٹے تھے پر وشہ تو تمہاری سگی تھی نا ۔ !!! اس سے ایسا دوغلا سلوک کیوں کیا تم نے ۔۔ !!!" 

وہ بے نیازی سے آنکھیں دوسری طرف موڑ کر کھڑی ہوگئیں۔

"آپ کا خون تھا وہ۔ مجھ جیسا بن ہی نہ جاتا۔ اور آپ کی اولاد سے میں کیوں محبت کرتی۔ ایک تو اسے سچ بولنے کی بیماری تھی، پھر اس عورت کی طرح سب کی سگھی بننے کا شوق۔۔۔!!!! مجھے میری غلطیاں بتاتی رہتی تھی۔ کہ فلاں ملازم کے ساتھ ایسے نہ کرو۔ فلاں کا حق نہ کھاؤ۔ گناہ ملے گا۔ ایسے ہوگا۔ ویسے ہوگا ۔ ایک آنکھ نہیں بھاتی وہ مجھے

۔ سوچا تھا بیٹا ہوگا تو درمان اور فدیان کو راستے سے ہٹاکر ساری دولت اسی کے نام کروادوں گی۔ پر افسوس ملی کیا ایک بیٹی۔۔۔۔!!!!!! بس ایک بیٹی ۔۔ !!! جو میری ہوکر بھی میری نہیں تھی۔ اسے تو بس اپنے باپ سے پیار تھا اور بھائیوں کا احساس بس ۔۔!!!! اپنے سگے خون سے بھی نفرت تھی مجھے۔ اس سحرش کی خوشبو آتی تھی اس سے۔ کبھی کبھی لگتا تھا اللہ نے میرے کیے کا عزاب سحرش کو میرے پاس واپس بھیج کر دیا ہے۔۔۔!!! پھر مجھ سے پیار لےکر کیا کرنا تھا اس نے۔"

کوئ ماں اپنی ہی اولاد سے اتنی نفرت کیسے کرسکتی ہے یہ سوال وہاں کھڑے سارے نفوس کے زہن میں تھا۔ وہ شنایہ بیگم تھی حسد، جلن، غرور، تکبر اور انا کی بھٹی میں سلگتی عورت۔۔۔!!! اس کے دل پر مہر لگی تھی کہ اب اسے احساس نامی دولت کبھی نہ ملتی۔

" میرے پاس آتی تھی بچپن میں کہ میں اسے سلاؤں۔ اسے بچپن سے نیند نہیں آتی تھی کوئ بیماری ہی تھی شاید۔ جب تک اس کے پاس کوئ اسے سلانے والا نہ ہو۔ وہ سو نہیں پاتی۔ پڑھائ کا بخار جو سوار تھا اس پر اس سحرش کی طرح۔ شکل بھی اس میسنی جیسی تھی۔ میرا کبھی کبھی دل کرتا تھا اس کا گلا دبا دوں۔ یہ سحرش میرے پاس پھر سے کیوں آگئ تھی۔

 میں نے بہت سمجھایا تھا اسے کہ اپنے بھائیوں سے زیادہ آپ کے قریب ہو۔ بھلے اس نے پیدا ہوکر میرے ارمانوں کا قتل کیا۔ پر اپنے بھائیوں کو راستے سے ہٹانے میں ہی سہی میری مدد کردے۔ پر سحرش کا وہ عکس اور میری بات مانتا ناممکن ۔ میں نے بھی صحیح کیا اس کے ساتھ۔ اسے نیند کی گولیوں پر لگا کر۔ اس کی صورت میں سحرش کا بچپن اجاڑ کر سکون ملا مجھے۔۔۔!!!! 

اب بھی پڑی ہوگی کہیں سسرال میں۔ میری بلا سے مرے مجھے کوئ فکر نہیں اس کی۔ جیسی وہ ہے نا زبان دراز مجھے امید ہے بسنا اس نے کوئ نہیں۔ اسی کی وجہ سے درمان اور فدیان کو برداشت کیا میں نے  ۔۔۔!!!" 

نحوت سے کہتے اس عورت نے سر جھٹکا۔ وہ نفسیاتی تھی۔ پاگل تھی وہ۔۔۔۔!!!! 

باران اپنا کام کرچکا تھا اب اسے اس عورت کو مزید یہاں رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جو اپنی سگھی اولاد کی نہ ہوسکی جو اپنے قدموں میں رکھی جنت کا احترام نہ کرسکی۔ وہ کیا کسی غیر کی سگی ہوتی۔  

اس نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں دو عورتیں موجود تھیں اس نے انہیں آگے آنے کا اشارہ کیا۔

" لالہ ۔۔!! اجازت ہے آپ کے مجرم کو اس گھر سے باہر پھینکنے کی ۔۔!!!" 

باران نے بےتاثر انداز میں پوچھا۔ تو انہوں نے سر ہاں میں ہلایا۔ ان لوگوں کو اشارہ کرکے باران خود دراب آفریدی کے پاس کھڑا ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو عورتیں شنایہ بیگم کے پاس آئیں اور اسے بازوؤں سے جھکڑ کر گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جانے لگیں۔

" کیا کررہے ہو تم لوگ۔  !!! چھوڑو مجھے ۔۔۔!!! کہاں لے کر جارہے ہو۔ سردار بچائیں مجھے ۔۔۔!!! میں بیوی ہوں آپ کی۔ درمان اور فدیان کی ماں ہوں میں۔ مجھے ایسے گھر سے نہیں نکال سکتے آپ۔۔ !!! چھوڑو مجھے ۔۔۔۔!!" 

وہ چیخ رہی تھیں۔چلا رہی تھیں پر کسی نے نہیں روکا اور چند سیکنڈز میں یہ عورت اس گھر سے باہر تھی۔ آج شنایہ کا چیپٹر باران نے کلوز کردیا۔ وہ عورت جو بچپن سے نفسیاتی تھی اسے اس گھر سے نارمل لوگوں کی زندگیوں سے نکال دیا اس نے۔ لیکن ابھی کچھ باقی تھا۔ 

سحرش خاموش کھڑی تھی اور دراب شرمندہ تھے۔ 

" کیا کرنے والے ہو تم اس کے ساتھ ۔۔۔!!! " 

انہوں نے سر جھکاۓ ہی پوچھا۔ 

" جو اس نے سالوں پہلے کیا تھا وہی کروں گا میں بھی۔ آپ طلاق دے دیں اسے۔ میں نہیں چاہتا اس گھر کی عزت کے ساتھ میں جانوروں والا سلوک کروں۔ باقی جو بھی ہوا آپ اعتراض نہیں کریں گے۔ بس میں پیپرز کل ہی دے دوں گا آپ کو۔ اس بلا کو چھوڑ دیں آپ۔ " 

اس نے سکون بھرے انداز میں کہا۔ تو دراب آفریدی نے افسوس بھرا سانس ہوا کے سپرد کیا۔ اس عورت نے انہیں تباہ کرکے رکھ دیا تھا اور افسوس وہ بےخبر رہے۔ 

"درمان ۔۔۔!!!!" 

ہاسپٹل کے کوریڈور میں بیٹھے درمان کے کندھے پر فجر کے قریب کسی نے ہاتھ رکھا۔ ہاتھ رکھنے والے کا اپنا ہاتھ لرز رہا تھا۔ درمان نے سر اٹھایا۔ نیلی آنکھوں کو سامنے اپنا جگری دوست دکھا۔ وہ جو اسے چھوڑ چکا تھا۔ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ آج اس کے سامنے کھڑا تھا۔

 درمان کی آنکھوں میں جھانکتے دیار کی آنکھوں میں نمی چمکی۔ درمان رورہا تھا کہاں دیار سے برداشت ہوتا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اسے اٹھایا تو اٹھتے ہی درمان اس کے گلے لگ گیا۔ اسے سہارا چاہیے تھا رونے کے لیے۔ اور مشکل وقت میں ایک دوست سے بڑا سہارا کس کا ہوسکتا ہے۔ 

" وہ نہیں اٹھ رہی یار۔ ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں وہ اسے نہیں بچاپائیں گے۔ تم کہو نا اس سے۔ مجھے اتنی بڑی سزا نہ دے۔ میں کیسے جیوں گا اس کے بغیر۔ پلیز دیار تمہاری ساری باتیں وہ مانتی ہے۔ مجھ پر ترس کھالو اور اسے مجھے لوٹا دو۔۔۔۔!!! میں نہیں رہ سکتا زرلش کے بغیر۔ کیوں کررہی ہے وہ میرے ساتھ یہ سب۔۔۔!!!" 

اس کی گرفت دیار کے گرد تنگ ہوئ۔ وہ ضبط کے کڑے بندھن ٹوٹتے محسوس کررہا تھا۔ جب دیار نے اپنا کانپتا ہاتھ اس کے گرد باندھ کر اس کی پشت تھپکی۔

" بی بریو درمان۔۔!!! وہ ایسی ہی ہے۔ تنگ کرتی رہتی ہے۔ کیونکہ اپنی اہمیت منوانا پسند ہے اسے۔ شرارتی ہے نا تو ابھی ضد کررہی ہے۔ میں آگیا ہوں نا اسے ہم مل کر منالیں گے۔ میری شہزادی جانتی ہے ہم اس کے بنا نہیں رہ سکتے وہ ہمیں کسی دکھ میں نہیں ڈالے گی۔۔۔!!!! حوصلہ کرو تم ۔۔۔!!!" 

دیار نے حلق میں آنسؤوں کا گولا اتارا۔ جبکہ وشہ انہیں وہیں چھوڑ کر آئ سی یو کے دروازے کے قریب کھڑی ہوکر شیشے سے سامنے کا منظر دیکھنے لگی۔ زرلشتہ کی حالت پر اس کا دل پسیج گیا۔

" مورے ۔۔۔!!! آپ کو سچ میں اللہ سے ڈر نہیں لگتا۔ ایک ہنستی مسکراتی لڑکی کو کس حال میں پہنچا دیا آپ نے۔ جب دیار کو پتہ چلے گا یہ سب ہماری ماں نے کیا ہے۔ ہماری ماں نے ان کی لاڈلی بہن کو موت کے منہ میں پہنچادیا ہے تو وہ کیوں رہیں گے ہمارے ساتھ۔ اچھا ہے ہم قابل ہی نہیں ان جیسے اعلی ظرفی انسان کے۔ آپ کے گناہوں کا بوجھ ہمیں بھی لے ڈوبے گا۔ اور یقین ہے ہمیں آپ کو اس بار بھی احساس نہیں ہوگا۔۔!! " 

اپنا ہاتھ اس شیشے پر رکھ کر آنکھوں سے بہتے ان موتیوں سے بےخبر ہوکر وشہ نے دل میں اپنی سنگدل ماں سے کلام کیا۔ اسے یقین تھا یہ سب اس کی ماں نے  کیا ہے۔ آخر وہی ایک تھی جو اس دنیا میں اپنے سوا کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتی تھی۔

" یااللہ ۔۔!!! یاالٰہی۔۔!!! اے مالک۔۔۔!!!  بےشک تو سب سے عظیم ہے۔ کوئ تیرے برابر نہ تھا نہ ہوگا۔ تو وحدہ لاشریک ہے۔کوئ تیرا ہمسر نہیں۔ بےشک تو ایک لمحے بھی اس کائنات سے بےخبر نہیں ہوتا۔ بےشک تو جانتا ہے اس وقت ہمارے دل کا حال کیا ہے۔ تو جسے چاہے زندگی دے۔تو جب چاہے جس کی چاہے سانسیں روک دے۔ یہ تیرے فیصلے ہیں۔ 

ہم تیرے فیصلوں کے سامنے اعتراض کرنے والے کوئ نہیں ہوتے۔ پر تجھ سے دعا تو کرسکتے ہیں نا۔ بےشک دعاؤں میں اتنی طاقت ہے کہ یہ نصیب بدل دیں۔ تقدیر بدل دیں۔ کسی مرتے ہوۓ کو زندگی دے دیں۔ کسی ڈوبتے کو سہارا دے دیں۔  بےشک تو جو چاہتا ہے ہوتا وہی ہے۔ اے جلد راضی ہونے والے۔ اے سریع الرضا۔!!! " 

دعائیں جب خلوص دل اور تڑپ سے مانگی جائیں تو یہ سیدھا عرشِ الہی تک جاتی ہیں۔ دعاؤں میں ہمیشہ یہ یقین ہونا چاہیے کہ ہم مانگ رہے ہیں وہ ہمیں سن رہا ہے۔ وشہ نے سر ٹکادیا اس شیشے پر۔ تڑپ سچی ہوتو جواب بھی آتا ہے۔۔۔۔!!! بس تڑپ ہونی چاہیے ہر دعا میں۔ 

"تو جانتا ہے سامنے دنیا سے بےخبر لیٹا یہ وجود اور اس ہاسپٹل کے دوسرے آئ سی یو میں لیٹا وہ دوسرا وجود یہ دونوں بےقصور ہیں۔ ان کی زندگی سے کافی زندگیاں جڑی ہیں۔ تو تو سب جانتا ہے نا۔ اے مولا علی علیہ السلام کے اللہ۔۔۔!!! اپنے رحم کے در کھول دے ہمارے لیے۔ یااللہ ہمیں مانگنا نہیں آتا۔ بھلا تیرے در کا حق ہم ناچیز انسان جو اپنے نفس کے غلام ہیں ادا کرسکتے ہیں۔۔۔!!!!! بالکل نہیں.۔۔!!  

مالک ہم تو تیرے گنہگار سے بندے ہیں۔ جو وقت پڑنے پر تیری بارگاہ میں سوالی بن کر آجاتے ہیں۔ پھر بھٹک جاتے ہیں۔ پھر واپس سے آتے ہیں پھر بھٹک جاتے ہیں۔ جنہیں غم میں سواۓ شکووں کے کچھ نہیں آتا۔ جو اپنا نصیب کوسنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔وہ بھکاری جسے بھیک بھی چاہیے اور مانگنا بھی نہیں آتا۔ پر تو تو دینے پر قادر ہے نا۔ مالک کرم کردے ہم پر۔ 

زندگی دے دے ان دونوں بےقصور لڑکیوں کو۔ اپنے لیے ہم کچھ نہیں مانگ رہے کیونکہ جانتے ہیں تو جو کرتا ہے ہمارے بھلے کے لیے ہی کرتا ہے۔پر آج ہمیں خالی ہاتھ نہ لوٹانا یہاں سے۔ ہم بھلے بھیک کے قابل نہیں پر تو ہمیں خالی ہاتھ نہ لوٹانا۔ مالک رحم کردے ہم پر ۔۔۔!!! مالک ۔۔۔!!! رحم۔۔۔!!  اپنے حبیب کے صدقے میں رحم کردے۔ اپنے ولی کے صدقے میں رحم کردے ۔۔!!!!" 

اللہ سے کوئ سچے دل سے مانگے اور وہ نہ دے ایسا ہونہیں سکتا۔ پھر واسطہ بھی دے ان کا ہو جو اللہ کا عشق ہوں۔ پھر تو دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ کسی مصلحت کے تحت رک جاۓ تو الگ بات ہے پر جائز دعائیں قبولیت کی مہر لگواکر اس پاک ذات کے عرش سے معجزے بن کر لوٹتی ہیں۔۔!!!!

آنسو اس کی آنکھوں سے بہتے جارہے تھے یہ آنسو اس دعا کی قبولیت کے لیے سفارش کا کام کرتے۔ ہاں جو کوئ اللہ کے در پر روپڑے تو وہ آنسو کہاں ضائع ہوتے ہیں۔ 

کہتے ہیں جب کوئ مشکل میں ہوتو جسے بھی اس کی مشکل کا پتہ چلے اسے اس کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔ پتہ نہیں کس کی زبان سے نکلی التجا اس پاک ذات کو پسند آجاۓ۔ کس کے مانگنے کا طریقہ کسی کی مشکل آسان کردے۔ دعائیں بڑی طاقت رکھتی ہیں۔اتنی کہ پورا نصیب ہی بدل دیتی ہیں۔۔!!!! 

دروازے کی ٹیک چھوڑ کر اپنے آنسو صاف کرکے وہ واپس سے اپنے شوہر اور بھائ کی طرف رخ پھیر کر کھڑی ہوگئی۔ جہاں درمان اب کرسی پر بیٹھا تھا جبکہ دیار اسے حوصلہ دینے کو کچھ کہہ رہا تھا۔ یہاں آنے سے پہلے راستے میں اس کی بات فدیان سے ہوئ تھی۔ جس نے اسے معصومہ کی حالت بتادی تھی۔ اب وہ کہاں تھا اس کی نظروں کو اس کی تلاش تھی۔ 

 ان دونوں کو یہیں چھوڑ کر وہ دوسری طرف چلی گئ۔وہاں سے گزرتی نرس سے اس نے دوسرے آئ سی یو کا پوچھا۔ پھر چلتے ہوۓ وہ اس سمت آگئ جہاں فدیان بیٹھا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

 اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملاکر انہیں ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر پھر کہنیاں گھٹنوں پر ٹکاکر وہ سامنے دیوار کو گھور رہا تھا۔

" ہوجاۓ گی وہ ٹھیک۔ ٹینشن نہیں لو لالہ۔ آپ دعا کرو اس کے لیے۔ کچھ نہیں ہوگا اسے۔ ہمت سے کام لو۔۔۔!!! "

 وشہ اس کے پاس بیٹھ گئ تو خیالوں میں کھوۓ فدیان نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ 

" تم کب آئ۔سوری مجھے پتہ نہیں چلا۔ دیار لالہ ابھی درمان لالہ کے پاس ہیں نا۔۔!!!" 

اپنے چہرے پر ہاتھ پھر کر فدیان نے نارمل رہنے کی کوشش کی۔ تو وشہ نے سر ہاں میں ہلایا۔

" ابھی ہی آۓ ہیں ہم۔ دیار ابھی لالہ کے پاس ہی ہیں۔ انشا اللہ ۔۔!! سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔۔۔!!! آپ دعا کریں وہ دونوں ٹھیک ہوجائیں گی کسی ایک کو بھی کچھ نہیں ہوگا۔۔!!" 

نرم مگر مضبوط لہجے میں وشہ نے اسے تسلی دی پھر ہاتھ اس کے مضبوط ہاتھ پر رکھ کر اس پر ہلکا سا دباؤ بڑھایا جیسے اسے تسلی دے رہی ہو جس کا حوصلہ بحال ہوا تھا۔ تبھی اچانک معصومہ کے روم میں ایمرجنسی بیل بجنے لگی۔ جو خطرے کی علامت تھی۔ اس آواز پر ڈاکٹر اور نرسز بھاگتے ہوئے آئ سی یو کی جانب آۓ۔ 

فدیان نے غیر معمولی ہل چل دیکھی تو اپنی نشست سے اٹھ گیا۔ اس میں ہمت نہیں تھی کسی بھی نرس سے کچھ پوچھنے کی۔ دل ڈر رہا تھا کہ کہیں اسے کچھ ہونہ جاۓ۔ وہ کیسے اتنی دکھی خبر برداشت کرے گا۔ 

تقریبا پندرہ منٹ تک ڈاکٹرز اور نرسز مختلف دوائیاں ڈرپس میں انجیکٹ کرتے رہے۔ معصومہ کی حالت بگڑ رہی تھی۔ اور ڈاکٹرز کی جان سولی پر اٹکی تھی۔ وشہ فدیان کو حوصلہ دے رہی تھی تب اچانک ایک ڈاکٹر کمرے سے باہر فدیان کے پاس آکر کھڑی ہوئ۔

جس کا چہرہ ہلکے سے پسینے سے تر تھا۔ اپنا فیس ماسک اس ڈاکٹر نے اتارا۔ فدیان کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ 

" یااللہ اگر کوئ بری خبر ہے تو مجھے اسی لمحے اس زندگی کی قید سے آزاد کردے۔ میں اس لڑکی کی جدائ نہیں سہہ سکوں گا۔۔۔!!!" 

اس کے اعصاب سن ہونے لگے۔ وشہ کی نظریں بھی اسی ڈاکٹر پر ٹکی تھیں۔ جو ان کا ضبط آزما رہی تھی۔

" مسٹر فدیان ۔۔۔!!! آپ کی وائف کا بی پی شوٹ کرگیا تھا۔ اس سیچوئیشن میں جب خون کی کمی کی وجہ سے وہ بےہوش ہیں بی پی شوٹ کرجانا مطلب پیشنٹ کی جان کو بڑا خطرہ ہونا۔ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ وہ بچ جائیں ۔۔ !!! " 

ڈاکٹر نے اس کی صورت دیکھی جس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ 

" پھر ۔۔!!!" اس کے لب بے آواز پھڑپھڑاۓ۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر نے لب بھینچے۔ کہ اب یہ شاپنگ خبر اسے کیسے سناۓ۔

" ہم تو انہیں بچانا چاہتے تھے پررررر۔۔!!! قدرت کے فیصلوں کے سامنے کب کسی کی چلتی ہے۔ اچانک ہی ان کا بی پی غیر معمولی حد تک شوٹ کرگیاااااااا اور کسی معجزے کے چلتے انہیں ہوش آگیا۔۔۔!!!

 کونگریچولیشن مسٹر فدیان۔۔!! وہ خطرے سے مکمل باہر ہیں۔ انہیں اب بس احتیاط کی ضرورت ہے۔ باقی خطرہ نوے فیصد ٹل چکا ہے ۔۔۔!!!" 

پورا ڈرامہ کرکے اس ڈرامے باز کی جان نکال کر اچانک اس شخص کے ہاتھوں میں ہفت اقلیم کی دولت تھمادی اس ڈاکٹر نے کہ بے ساختہ فدیان نے اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھا جیسے دھڑکن چیک کی ہو۔ 

" وہ بچ گئ ۔۔۔!!!" 

اس نے آنکھیں موند لیں پھر اگلے ہی لمحے وہ سجدے میں گرا۔ ہاسپٹل کے کوریڈور سے گزرتے لوگوں نے اس شخص کو دیکھا تھا جو یہاں سجدے میں گرا سب سے پہلا شکر اپنے مالک کا ادا کررہا تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے ایسا کیا ہوا ہے اس کے ساتھ جو یہ سجدہ شکر ادا کررہا ہے۔ پر کئ لوگوں نے اس شخص کے نصیب پر رشک کیا جس کی وجہ سے یہ شخص سجدے میں گرا رو رہا تھا۔

وشہ نے مسکراتے ہوئے آنکھیں موندیں۔ دعائیں کتنی جلدی قبول ہوتی ہیں نا۔۔۔!!! 

بس تڑپ سچی ہونی چاہیے۔ اس زات سے پورے یقین سے مانگ کر تو دیکھو وہ ناامید نہیں کرے گا۔ 

فدیان کی آنکھوں سے شکر کے آنسو بہنے لگے۔ جب ڈاکٹر نے مسکرا کر اس شخص کو دیکھا جو کئ گھنٹوں سے چپ تھا۔ اس کی چلتی زبان کے جوہر انہوں نے تب دیکھے تھے جب سر پر لوہے کا راڈ کھاکر یہ ہاسپٹل آیا تھا۔ تب پورے ہاسپٹل کی جان عزاب میں ڈال کر سب ڈاکٹرز کو پاگل ثابت کرنے میں اس نے کسر نہیں چھوڑی تھی اور آج اس فدیان کو دیکھ کر لگتا تھا ہنسنا اسے آتا ہی نہیں۔ 

پیار کہیں کا نہیں چھوڑتا بندے کو۔ آج فدیان جان گیا جو اسے زرلشتہ سے تھا وہ اٹریکشن تھی پیار تو اس نے معصومہ سے کیا تھا۔ اور پورے حق سے کیا تھا۔۔۔!!! 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" مسٹر درمان ۔۔!! آپ کی وائف کی حالت اب خود بخود نارمل ہورہی ہے۔ کچھ دیر پہلے سارے ٹیسٹ دوبارے کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس وقت آپ چاہیں تو ہم آپریٹ کرسکتے ہیں۔ آپ کی اجازت چاہیے ہوگی ہمیں۔ یہاں سائن کردیں۔۔!!!" 

درمان اس وقت ڈاکٹر کے کیبن میں بیٹھا لب سختی سے باہم پیوست کیے ان پیپرز کو دیکھ رہا تھا جو ابھی کچھ دیر پہلے اس ڈاکٹر نے اس کے سامنے رکھے تھے۔ اس نے گہرا سانس خارج کیا۔ 

" کیا آپریٹ کرنا ضروری ہے؟ مطلب آپ نے خود کہا اس کی کنڈیشن سٹیبل ہورہی ہے تو ہم ویٹ کرلیتے ہیں شاید وہ ہوش میں آجاۓ۔ دیکھیں ڈاکٹر ۔۔!!! یہ صرف میرا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ مجھ سے زیادہ وہ خوش تھی اس خوشی کی وجہ سے۔ اگر میں نے اس وقت یہ فیصلہ کردیا تو ہوش میں آتے میں اس سے نظریں نہیں ملا پاؤں گا۔۔۔!!! 

وہ اس وقت بھی خود کو ہاتھ لگانے نہیں دے رہی کسی کو جب اسے دنیا کی خبر ہی نہیں۔ تو میں کیسے اس سے اس کی خوشی چھین لوں۔ اب جب میری وائف خطرے سے کچھ حد تک باہر ہے تو میں اپنی زری کی خوشی نہیں چھینوں گا ۔۔۔!!!!" 

 اس نے رسان سے انکار کیا۔ پہلے تو یہ ڈاکٹرز اس کی بیوی کو قسمت کے بھروسے چھوڑ کر بیٹھے تھے اب جب کچھ بہتری آئ تو اسکی اولاد ختم کرنا چاہتے تھے۔ غصہ تو درمان کو آیا پر وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ اس ڈاکٹر کو کچھ سخت کہتا۔ ڈاکٹر نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلایا۔

" میں سمجھ رہی ہوں آپ کا پوائنٹ ۔۔!!! پر وہ فیزیکلی ویک ہیں بہت۔ یہ رسک ہے ان کے لیے۔ ہوسکتا ہے فیوچر میں آپ کو پھر اسی تکلیف سے گزرنا پڑے جس سے آپ ابھی گزر رہے ہیں۔ میری مانیں تو ان پیپرز پر سائن کردیں۔ ہم بہت سوچ سمجھ کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ آپ کی وائف کی جان کو اب بھی خطرہ ہے۔ آگے آپ کی مرضی ہے کہ اپنی وائف کی جان بچائیں گے آپ یا خودغرضی کا مظاہرہ کریں گے۔ مسٹر درمان ان کی حالت اب بھی کریٹیکل ہے۔۔!! ہمیں یہ کرنا ہوگا۔۔۔!! کل کو آپ نے انہیں کھودیا تو پچھتائیں گے بہت۔ پلیز سائن کردیں۔  باقی ہم ویٹ ضرور کریں گے۔ شاید ان کی حالت مزید ٹھیک ہوجاۓ۔ اور آپریٹ کی ضرورت ہی پیش نہ آۓ۔!!!" 

ڈاکٹرز بہت سوچ سمجھ کر اس فیصلے پر پہنچے تھے تبھی ڈاکٹر نے درمان کو فورس کرنا چاہا۔ درمان نے آنکھیں بند کیں تو آنکھوں کے سامنے اسی کا مسکراتا چہرہ لہرایا۔ وہ دنیا جہاں سے بے خبر اپنی دنیا میں مگن رہنے والی لڑکی۔ اسے کیسے عجیب موڑ پر لے آئ تھی۔ اس نے تھوک نگلا۔ اور پیپرز پر خاموشی سے سائن کرکے انہیں آپریٹ کی اجازت دے دی۔ اسے اپنی زرلشتہ سے زیادہ کچھ پیارا نہیں تھا۔ 

" اس کے بعد بھی اگر میری زری کو کچھ ہوا تو آپ کے پیروں کے نیچے نہ زمین رہے گی نہ ہی اس دنیا میں آپ کا نشان۔۔ !!!! مارک ماۓ ورڈز۔ میں کر گزروں گا یہ سب ۔۔۔!!!! کل اس ہاسپٹل میں آپ بس ایک یاد بن جائیں گی اور یادیں تکلیف دیتی ہیں بس۔۔!! امید کرتا ہوں میری زری کو مشکل میں ڈال کر اپنی زندگی کی ڈور نہیں کاٹیں گی آپ۔۔۔!!!" 

کرسی سے کھڑے ہوکر ڈاکٹر کے چہرے پر اپنی احساسات سے عاری نظریں گاڑھ کر درمان نے اسے دھمکی دی۔ اسے یہ ڈاکٹر اس وقت دنیا کی سب سے بیکار شے لگ رہی تھی۔ جس کے پاس ڈگڑی تھی، تجربہ تھا، سب تھا۔ پھر بھی ایک بار بھی اس نے کوئ اچھی بات منہ سے نہیں نکالی تھی۔ ڈاکٹر نے بےیقینی سے اسے دیکھا جو اب جاچکا تھا۔

" استغفرُللہ ۔۔!!! اس انسان کی بیوی بیمار ہی کیوں ہوئ۔ جب بھی اس کے گھر والوں کو کچھ ہو یہ بندہ میرا قتل کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ جیسے میں وجہ ہوں سب الٹے کاموں کی!!  یااللہ مجھ معصوم پر رحم کردے اور اس کی بیوی کو ٹھیک کردے۔ ورنہ کل سچ میں، میں ایک یاد بن جاؤں گی۔ اس شخص کی بیوی کا علاج اب مجھے نہیں کرنا وہ جو نیو ڈاکٹر آئ ہے نا اس ہفتے۔۔!! اب یہ کام وہی کرے گی۔ مجھے میری جان پیاری ہے۔ اس بندے کے ہاتھوں مجھے نہیں مرنا۔۔۔!!!"  

جھرجھری لے کر اس ڈاکٹر نے فائل بند کرکے سائیڈ پر رکھ دی۔ پھر اپنا فون نکال کر اس نے ڈاکٹر روحیہ زہرہ کو ٹیکسٹ کیا کہ کیا وہ فری ہے تو یہ کیس وہ اس کے حوالے کردے۔ دوسری طرف سے کچھ منٹس بعد میسج آگیا۔

" آفکورس۔۔!! میں حاضر ہوں۔۔۔!! ابھی کچھ دیر میں آرہی ہوں تمہارے پاس۔ تفصیل سے بات ہوگی۔ تم مجھے ڈیٹیلز دے دینا۔ پھر اس نیو کیس کو اپنے طریقے سے میں خود ہینڈل کرلوں گی۔ " 

اس میسج کو پڑھتے ہی ڈاکٹر عافیہ کی جان میں جان آئی۔ درمان کی بیوی کا علاج اب یہ ڈاکٹر ہی کرتی۔ اور اپنے طریقے سے کرتی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

معصومہ کو روم میں شفٹ کردیا گیا تھا۔ اس کی حالت اب خطرے سے باہر تھی۔ فدیان نے روم کا دروازہ آہستگی سے بند کیا تاکہ معصومہ اس کی آواز سے ڈسٹرب نہ ہو۔ بیڈ پر سوۓ ہوۓ اس وجود پر نگاہ ڈال کر فدیان سکون سے چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔

بند آنکھوں کے سنگ وہ سوئی ہوئ معصومہ بہت کمزور لگی اسے۔ اس کے ڈرپ لگے ہاتھ کو انگوٹھے سے چھو کر فدیان نے جھک کر اسکی پیشانی پر بوسہ دیا اور آنکھیں بند کرکے چند سانحے اسی پوزیشن میں جھکا رہا۔ جب اپنے چہرے پر نمی محسوس کرکے نیم غنودگی میں سوئی معصومہ نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ آنکھوں سے پانی کی بوندیں بہنے لگیں۔ اور فدیان کی خوشبو اپنے پاس محسوس کرکے اس نے اس خوشبو میں سانس لیا۔

" ف۔فف۔فادی ۔۔!!!" 

آواز اتنی مدھم تھی کہ اس کے پاس ہوتے ہوۓ بھی فدیان کی سماعتوں سے مشکل سے ٹکرائی۔ تو آنکھیں کھول کر فدیان نے اس کا چہرہ دیکھا۔ اس کی اپنی پلکیں بھی نم تھیں۔

" جی فادی کی جان۔ فادی کا سکون۔ فادی کی خانی۔۔۔!! اٹھ گئ تم۔ کب سے انتظار کررہا تھا میں تمہارا۔۔۔!!! اچھا میری بلی کو درد تو نہیں ہورہا نا۔ میں ڈاکٹر کو بلاؤں ۔۔!!" 

اس سے تھوڑے سے فاصلے پر ہوکر فدیان نے انگلیوں کی پوروں سے اس کی آنکھوں سے نکلتی نمی صاف کی۔ تو معصومہ نے اب کی بار اس ہاسپٹل کے کمرے کو اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہا۔ پر دھندلا عکس اور سن ہوا جسم اس کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔

" ممم۔ میں کہاں ۔۔!!" خشک ہونٹوں کو تر کرکے معصومہ نے ادھورا سا سوال پوچھا۔ جب اس کی آواز سن کر فدیان کہ روح تک میں سکون اترا تھا۔ اپنی اس معصوم سی پری کی ادھ کھلی آنکھوں کو اس نے پیار بھری نظروں سے دیکھا۔

" ہم ہاسپٹل میں ہیں خانی۔ ابھی تمہیں پرائیویٹ روم میں شفٹ کیا گیا ہے۔ طبیعت خراب تھی نا تمہاری تو بس اسی لیے ہم یہاں آۓ ہیں۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں میں ہوں تمہارے پاس۔ تم اکیلی نہیں ہو۔۔!!" 

اس کے آنسو صاف کرکے فدیان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیا۔ پھر اس پر لمس چھوڑ کر محسوس کیا کہ وہ ٹھیک ہے۔ اس کے پاس ہے۔ 

معصومہ کو ابھی فدیان کی باتیں بالکل سمجھ نہیں آرہی تھیں۔ دوائیوں کے اثر کی وجہ سے اسے نیند کے جھونکے محسوس ہورہے تھے۔

" ہ ہ۔ ہاسپٹل کیوں۔۔!! ک۔کیا ہوا ممم۔مجھے ۔۔!!!" 

معصومہ نے آنکھیں پھر سے بند کیں تو فدیان نے جھک کر ان آنکھوں کو چھوا۔ جو اس کا سکون تھیں۔ 

" میری جان ابھی سوجاؤ تم۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ میں پاس ہوں تمہارے۔ بس سکون میں رہو۔ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم محفوظ ہو۔ کیونکہ میں اب تمہارے پاس ہوں۔۔۔!!!" 

فدیان کا نرم اور محبت سے چور لہجہ سن کر معصومہ پھر سے نیند کی وادیوں میں کھوگئ۔ جب فدیان وہیں اس کے پاس کرسی رکھ کر بیٹھ گیا۔ ابھی اسے معصومہ سے دور نہیں جانا تھا۔ بھلے وہ سوئی تھی پر وہ نہیں چاہتا تھا اٹھنے پر اسے پاس نہ پاکر وہ بےسکون ہو۔  

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" میرا شہزادہ۔۔۔!! لالہ کی جان ۔۔!! کیوں تنگ کررہی ہو مجھے۔ میرا شہزادہ اتنی ناراضگی اچھی نہیں ہوتی۔ مجھ سے نہیں برداشت ہوتی تمہاری ناراضگی۔۔!! "

بڑی ہمت کرکے دیار زرلشتہ کے پاس آیا۔ پھر جھک کر اپنی بہن کی پیشانی پر بوسہ دے کر اس نے ضبط سے سرخ آنکھوں سنگ اس کی بند آنکھیں دیکھیں۔ آنسو گررہے تھے۔ اور وہ اپنے لالہ کی دیوانی آج اس کے رونے پر بھی نہیں اٹھ رہی تھی۔

"جانتا ہوں میں میرا قصور ہے جو تم سے بےخبر رہا میں۔ پر میرا بچہ میرا قصور اتنا بڑا نہیں کہ تم میری صورت بھی نہ دیکھو۔۔۔!!!" 

دیار کا بس نہ چلا اس ہاسپٹل کو آگ لگادے۔ جو اتنے قابل ہونے کے باجود اس کی چھوٹی سی بہن کو نہیں بچاپارہے۔

" میرا شہزادہ۔۔!! لالہ کو رلارہی ہو تم۔ گندا بچہ بن رہی ہو نا تم۔ اس درمان کے ساتھ رہتے رہتے اسی جیسی ہوگئ ہو۔ وہ بھی تو میرا دل دکھاتا ہے اب تم بھی یہ کرو گی تو بتاؤ میں کہاں جاؤں گا۔۔۔!!! میرے بچے لالہ کو دیکھو تو سہی۔ لالہ کی جان نکل رہی ہے اس وقت۔۔۔!!!" 

اس کے رخساروں پر گرے اپنے آنسو صاف کرکے دیار نے اس پی پیشانی پر لگی پٹی کو ہاتھ سے چھوا۔ کوئ نہ مانتا کہ دیار درانی رو بھی سکتا ہے۔ وہ جو اپنی پر آۓ تو بڑے بڑوں کو سڑک پر لانا بھی کوئ بڑی بات نہیں تھی اس کے لیے۔ وہ آج بچوں کی طرح اپنی بہن سے شکوے کررہا تھا۔ 

" بچے ۔۔!! تم جانتی ہو آگے ایک سالوں پرانا دکھ میری جان نکالتا ہے روز کہ ہماری 'زی' میرے ہوتے ہوۓ اس دنیا سے چلی گئ۔ اور اب تم نیا دکھ دے رہی ہو۔ اٹھو میرا بچہ اور بتاؤ کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ۔ کون ہے تمہارا مجرم ۔۔۔!! میری جان میں ہاتھ جوڑنے کو تیار ہوں تمہارے سامنے۔ مجھے نہ تڑپاؤ۔ اٹھ جاؤ ۔۔۔!!!" 

دیار نے اس کا ہاتھ پکڑا پھر اس پر سر ٹکاکر رونے لگا۔ اس کی یچکیوں کی آواز اس روم میں گونجی۔ پہلی ہچکی جو زرلش کی سماعتوں سے ٹکرائ وہاں رکھی مشینوں میں ہلکا سا شور پیدا ہوا۔ اسی لمحے کمرے کا دروازہ کھول کر ڈاکٹر بھی کمرے میں داخل ہوئ۔ جو اس وقت یہی دیکھنے آئ تھی کہ کیا زرلشتہ اس کنڈیشن میں یے کہ وہ باقی کے ٹیسٹ کرسکیں۔ 

دوسری ہچکی پر اس کے دل کی رفتار تیز ہوئ۔ جو ہمارے دل میں بستے ہوں نا ان کا رونا ہمیں موت کے بعد بھی برادشت نہیں ہوتا۔ تڑپا دیتا ہے۔ وہ تو پھر بھی زندہ تھی ۔۔۔۔!! اس کا دماغ ایکٹو تھا۔ 

" زرلش یار اٹھ جاؤ نا۔ اتنا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں کہ ایک اور دکھ دیکھوں۔ میرا دل پھٹ جاۓ گا۔ اٹھ جاؤ میرا بچہ ۔۔۔!!!" 

اس کی تڑپ، تکلیف اور درد زرلشتہ کی سماعتوں میں گھل کر دل میں قہرام سا مچاگیا۔ کہ اسی وقت مشینوں کی ٹک ٹک بھی تیز ہوگئ۔ وہ ڈاکٹر آگے بڑھی پھر اس کے قدم ان انوکھے بہن بھائ کو دیکھ  کر تھمے۔ کیا آج کے دور میں بھی رشتوں میں اتنا خلوص پایا جاتا ہے۔  !! وہ بس سوچ ہی سکی۔

" لا۔لالہ ۔۔!!! ج۔جان۔ !!!" 

دیار جھٹکے سے اٹھا اور اس کی جانب جھکا۔ کیا ہی عجیب بات تھی کہ یہ آواز نکلی ہی نہیں تھی بس لب پھڑپھڑاۓ تھے اور دیار نے آواز سنی تھی۔۔!!! 

" جی لالہ کی جان ۔ ۔!! اٹھو بات کرو مجھ سے۔۔!! درمان ابھی آنے والا ہے۔ یاد ہے نا تمہیں اس نے دل دکھایا تھا میرا۔ تمہارے لالہ کو تنگ کیا تھا۔ میں ناراض تھا اس سے۔ پر تمہاری خاطر مجھے اس کے پاس آنا پڑا۔ مجھے ایسے ہی معاف نہیں کرنا اسے۔ تم اٹھو اور میری طرف سے لڑو اس سے۔۔۔!!! 

میں اکیلا نرم پڑ جاؤں گا۔ اپنی ڈرامہ کوئین کے بنا میں کچھ بھی نہیں۔ میری آسکر ڈیزرونگ ایکٹرس بہن اٹھو اور اہنے شوہر کا گریبان پکڑو ۔۔۔!!!" 

آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر اس نے اس کا ہاتھ واپس سے پکڑا پھر اسے بھڑکانے لگا۔ جیسے امید تھی اسے وہ سن رہی ہے۔ 

پر دیار کی بری قسمت یہ اس کی سازشی پلیننگ وہاں ابھی کمرے میں آۓ درمان نے سن لی۔ جس کو پتہ تو نہیں تھا یہاں کیا ہورہا ہے پر اپنی بیوی کے اس بھائ کی اس قدر دیدہ دلیری پر وہ عش عش کر اٹھا۔ ڈاکٹر نے یہاں آتے اس نۓ بندے کو دیکھا تو مسکراہٹ روکی۔ وہ دوائیوں سے زیادہ نیچرل تھراپی سے ہوۓ علاج پر یقین رکھنے والی انسان تھی اور جانتی تھی جب دوائیاں اثر نہیں دکھاتی تو ایموشنز اثر دکھا جاتے ہیں۔ 

" لالہ مم۔میرا بےبی ۔۔!!!" 

اس کی اگلی سرگوشی پر دیار مسکرایا۔ وہ جواب دے رہی تھی اتنا ہی بہت تھا۔ البتہ آنکھیں اس کی بند تھیں۔ اور کمرے میں مشینوں کا شور حد سے تیز۔ 

" سب ٹھیک ہے میرا بچہ ۔۔۔!! بس تمہارے لالہ کو تمہاری ضرورت ہے۔ اٹھو اور بدلہ لو میرا۔ اس درمان کے آنے سے پہلے ہم پلیننگ کرلیتے ہیں پھر ستائیں گے اسے۔ کیا ارادہ ہے تمہارا ۔۔!! موقع اچھا ہے میں اس کا منہ بھی توڑ لوں گا۔ اور وہ تمہاری موجودگی کی وجہ سے کچھ کہے گا بھی نہیں۔۔!!" 

اس نے شرارت سے کہا جب درمان لب بھینچ کر اس کے قریب آیا۔

" بڑے بڑے آستین کے سانپ دیکھے پر تیرے جیسا کوئ نہیں دیکھا دیار۔میں نے سمجھا تھا تو میرے لیے یہاں آیا ہے پر تو تو میری بیوی کو میرے خلاف بھڑکا رہا ہے۔ جیسی تیری حرکتیں ہیں نا میں آج وشہ کو اپنے ساتھ گھر لے جاؤں گا۔ تو تو رہنا اس کے بغیر۔ آغا جان کو ضرورت ہوگی اس کی۔ اور زرلشتہ اس کی کسی بھی بات کو سیریس نہ لینا۔ تم جانتی ہو میں کتنا اچھا ہوں۔ پلیز اس کی وجہ سے مجھ سے نہ لڑنا۔۔۔!!!!"  

اس کی کمزوری بھی درمان کے ہاتھ میں تھی جب وشہ سے دور ہونے کا سن کر دیار کا منہ کھلا وہیں اس نے شکل پر مزید معصومیت طاری کی۔ اچانک درمان کی اینٹری اس کے منصوبوں پر پانی پھیر رہی تھی۔

" دیکھ لو بچے ۔۔!! یہ مجھے سانپ کہہ رہا ہے۔ یعنی بقول اس کے میں زہر پھیلاتا پھررہا ہوں۔ اور تمہاری بھابھی کو یہ مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ افسوس ہوا درمان تیری سوچ پر۔ بچاۓ اس کے کہ تو میرے پیروں میں گر کر معافی کی بھیک مانگتا تو میرا گھر اجاڑ رہا ہے۔ تف یے تجھ پر۔۔!!! بچے اٹھو لالہ کمزور ہیں تمہارے بنا۔ اس سے لڑو ۔۔!!" 

مظلومیت کا ڈرامہ کرتے ہوۓ وہ درمان کے سر کو چکرانے پر مجبور کرگیا۔ درمان نے افسوس سے سر کو نفی میں جنبش دی۔

" اب میں تیرے پیر بھی پکڑوں۔ کہتا ہے تو تیرے لیے آستانہ کھول دیتا ہوں۔ لوگ تیرے پیروں میں گر کر تیری یہ حسرت پوری کردیں گے۔ تونے آج میرا دوستی سے یقین ہی اٹھوادیا۔ میری بیوی کی بےہوشی کا فائدہ اٹھاکر تو اسے میرے خلاف کررہا ہے۔ سالے اس دن میرا منہ توڑ کر تجھے سکون نہیں ملا تھا کیا۔ تو آج میری بیوی بھی چھین رہا ہے ۔۔ !!!" 

جل بھن کر درمان نے اسے شعلے برساتی نظروں سے گھورا۔ نیلی آنکھوں میں جتنا غصہ تھا دیار کو مزہ آیا اسے زچ کرکے۔ زرلشتہ کے ہاتھ کی پشت پر لمس چھوڑ کر دیار نے اسی ہاتھ پر مظلومیت کی مثال بنتے ہوۓ سر ٹکایا۔

" یہ عزت ہے تمہارے لالہ کی تمہارے اس شوہر کی زندگی میں۔ اس سالے نے مجھے سالا بول دیا۔ بہنوئ بھی تو بول سکتا تھا یہ۔ پر نہیں میرے اور وشہ کے رشتے کو اس نے قبول ہی نہیں کیا۔ یہ آج بھی سالا سمجھتا ہے مجھے جب کہ میں بہنوئ صاحب کا بہنوئ ہوں  ۔۔!! 

بس زرلش میں جارہا ہوں اس دنیا کو چھوڑ کر۔ جس دنیا میں عزت ہی نہیں مجھے وہاں نہیں رہنا۔ ہوسکے تو لالہ کو معاف کردینا پر اس شخص کے ہوتے تمہارے لالہ کبھی تمہاری بھابھی کے ساتھ خوش نہیں رہیں گے۔ بچے میں آیا تھا یہاں یہ ڈاکٹر اس بات کی گواہ ہے۔ پر جارہا ہوں میں اب ۔۔۔!!!" 

اس کا ہاتھ دیار نے چھوڑنا چاہا جب اس کی ہلکی سی گرفت دیکھ کر وہیں تھم گیا۔ نظریں درمان کی بھی پڑی تھیں اس کی انگلیوں کی ہلکی سی گرفت پر تب وہ بھی ہلکا سا مسکرایا۔ ان کی لڑائ وہ سن رہی تھی۔ 

" لا۔لالہ ۔۔!!! درد ہے ۔!! نہ جا۔ جائیں ۔۔!! " 

آنکھیں اس نے کھولنے کی کوشش کی پر ہمت نہیں تھی پر بولتے وقت وہ ٹوٹے پھوٹے جملے بول گئ۔ جب درمان نے دوسری طرف سے اس کے پاس آکر جھک کر اس کے رخساروں پر بہتا نمکین پانی صاف کیا۔ جو آنکھیں کھولنے کی تگ و دو میں بہا تھا۔

" تم ٹھیک ہو بٹر کپ۔۔!! زری تم بول رہی ہو۔ پورے ڈرامے باز ہو تم دونوں بہن بھائ۔ میں بولتا رہا تم سے پر تم نے جواب نہیں دیا پر اس سالے کے آتے ہی تم نے بات کرلی اس سے۔ اس کے بعد تو وشہ کو پکا میں واپس لے کر جاؤں گا۔ " 

اس سے بات کرنے کے ساتھ اس نے ترچھی نظروں سے دیار کو دیکھ کر دھمکی بھی دی۔ جس نے مزید مسکینیت طاری کی اپنے چہرے پر۔

وہاں کھڑی ڈاکٹر ان تینوں کی بانڈنگ اور دیار اور درمان کی نوک جھوک انجواۓ کررہی تھی اب آگے بڑے کر اس نے بالآخر ان کی نوک جھوک میں حلل ڈال دیا۔

" Am I allowed to examine the patient if both of you are out of tiptoe? no ..!! If you want to continue the argument right now, I don't have any problem. I'll stand here and wait."

ڈاکٹر نے خاصے دوستانہ انداز میں پوچھا اسے واقعی کوئ مسئلہ نہیں تھا۔اپنگ سامنے کھڑی ڈاکٹر کو دیکھ کر انہوں نے سر ہاں میں ہلادیا۔ پھر خاموشی سے کھڑے ہوگۓ جب تک ڈاکٹر نے زرلشتہ کا چیک اپ نہ کرلیا۔ 

مشینوں کو چیک کرکے خود ہی وہ نتیجے پر بھی پہنچ گئ۔  

" Apparently everything is normal now. Hope so she will be fine even after regaining consciousness. She's indeed very brave who is recovering on her own despite such a big mishap. Just let her rest now. She'll be fine soon!!!"

پیشہ وارنہ مسکراہٹ کے ساتھ انہیں زرلشتہ کی طبیعت کے بارے میں بتاکر سر کو ہلکا سا خم دے کر ڈاکٹر روحیہ وہاں سے چلی گئیں۔ دیار اور فدیان نے مسکراتے ہوۓ زرلشتہ کو دیکھا۔

عجیب ہی تھی وہ بھی ڈاکٹرز کی سمجھ سے بھی باہر ۔۔۔!!!! 

" تو میں وشہ کو لے جاؤں اپنے ساتھ ۔۔!!!" 

" اچھا یے نا تم وشہ کو لے جاؤں میں زرلشتہ کو لے جاؤں گا۔ پورے ایک سال کے لیے۔ آخر مما سے زیادہ اس کا خیال کون رکھ سکتا ہے۔ صحیح کہہ رہا ہوں نا میں ۔۔۔!!!!" 

دیار نے دانتوں کی نمائش کروائی تو درمان نے دانت پیسے۔

" سالا ۔۔!! " اس نے زیر لب کہا۔

" Same to you ...!!!!"

جواب بھی اسی وقت آیا۔

ان دونوں کی نوک جھوک سنتے ہوئے زرلشتہ پھر سے سوچکی تھی۔اس کا اچانک اٹھنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ پر سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اب خطرے سے باہر تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

شنایہ کے ہنگامے کی وجہ سے سحرش کی طبیعت خراب ہوگئی تھی تو نرسز انہیں گیسٹ روم میں نیند کا انجیکشن دے کر سلا کر ان کے پاس ہی رک گئیں۔ دراب آفریدی لاؤنج میں بیٹھے تھے رات سے اور سوچ رہے تھے کہ کہاں کمی رہ گئ تھی شنایہ کے حقوق پورے کرنے میں کہ وہ ان کے نکاح میں آنے کے بعد بھی نہ سدھری۔ 

انہوں نے آج تک اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔ رعب ڈال دیتے تھے کیونکہ زکیہ والے سانحے کے بعد وہ ڈرتے تھے کہ شنایہ پھر سے کسی کو تباہ نہ کردے۔ پر عورت ذات کو مارنا ان کے نزدیک مردانگی نہیں تھی۔

اپنا ہاتھ دیکھا انہوں نے پھر اس کی مٹھی بنا کر زور سے بھینچی اتنی زور سے کہ ان کے ہاتھ کی نسیں ابھر گئیں۔آج اس پر ہاتھ اٹھا کر انہیں اپنا وقار کم ہوتا محسوس ہوا ۔۔!!!

پیسے کی کمی نہیں تھی شنایہ کو۔ جس چیز کا نام لیتی اس کے سامنے حاضر ہوجاتی۔ پیار بھی وہ جتنا دے سکتے تھے انہوں نے دیا۔ آسان نہیں ہوتا اپنی محبت کے مرنے کے بعد کسی دوسرے کو اتنی ہی اہمیت دینا۔ اپنے حصے کی جائز محبت کرکے پھر کسی دوسرے کو اسی مقام تک لانا۔ پر انہوں نے دی تھی شنایہ بیگم کے حصے کی محبت انہیں۔۔۔!!!! 

آج تک ایک اچھا شوہر جو جو کرسکتا ہے انہوں نے اس سے بڑھ کر کیا یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ ذکیہ کی مجرم ہے۔ وہ اسے تکلیف نہیں دے پاۓ۔ پر شنایہ بیگم کا اصل چہرہ جاننے کے بعد اب ان کے دل میں کوئ احساس نہیں تھا ان کے لیے۔ انسان کو اپنی اولاد سب سے پیاری ہوتی ہے۔ پھر ہوبھی بیٹی تو کچھ لوگوں کو خاص انسیت ہوتی ہے اس اولاد سے۔ انہیں بھی تھی وشہ سے وہ انسیت۔۔۔!!!! 

آج شنایہ نے حدیں پار کردی تھیں۔۔!! سب ختم کردیا تھا ۔۔۔!!!! سب ۔۔۔!!!! 


جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment