Ziddi Junoon By Naina Khan Romantic Novel Episode 40 to Last Episode
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Ziddi Junoon By Naina Khan Romantic Novel Episode 40 to Last Episode |
Novel Name: Ziddi Junoon
Writer Name: Naina Khan
Category: 40 to Last
سالار عین کے سینے پر سر رکھے گہری نیند میں گم تھا اسکے خوبصورت چہرے پر ہلکی سی مسکان تھی جب بھی سالار عین کے پاس ہوتا تو ایسے ہی وہ آسودگی میں رہتا تھا
عین بڑے پیار سے اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی
بہت چاہنے لگی ہوں میں آپ کو سالار ۔۔۔۔ لیکن کیا اب آپ کا پیار میرے لئے ہم ہوگیا ہے جو دوسری عورت میں ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ مجھ سے تو آپ نے کہا تھا کہ میرے علاوہ کوئی بھی آپ کے دل تک رسائی نہیں پاسکتا تو کیوں کسی اور کو اپنے تک رسائی دے رہے ہیں۔۔۔۔۔
عین نم آنکھوں سے سالار کو تکتے فل میں بول رہی تھی کیونکہ وہ ابھی سالار پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ اب بلکل ہوش میں آچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
سالار نیند میں کسمسایا تھا شائد عین کی آنکھوں کی ہی تپش تھی جس نے سالار کی نیند میں خلل ڈالا تھا
سالار نے آنکھیں کھول کر عین کو دیکھا جو سالار کے اٹھنے پر فورا"آنکھیں میچ گئی تھی اس لئے سالار کو لگا کہ شائد اسے وہم ہوا تھا کہ عین اسے دیکھ رہی تھی
سالار نے نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور پھر شاور لینے واشروم میں چلا گیا
پیچھے عین نے آنکھیں کھولیں تھیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
پر اسرار مسکراتے ہوئے وہ کچھ سوچ رہی تھی
عین نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا اور کب کرنا ہے
جیسے ہی اسے لگا کہ سالار اب باہر آرہا ہے فورا" سے اس نے لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں
سالار جب باہر نکلا تو ایک پل کے لئے سالار عین کو دیکھ کر ٹھٹک گیا پھر سر ہلاتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف چلا گیا جبکہ اسکی نظریں مسلسل عین کی طرف ہی تھیں
___________________
ثبوت مل گے ہیں مجھے سالار بھائ کب سے کب سے ہم ڈھونڈ رہے تھے آخر کار سارے ثبوت مل ہی گے ہمیں اب سہیل خان اور اسکی بیوی کو کوئ نہیں بچا سکتا۔۔۔۔۔۔
برہان کو جیسے ہی سارے ثبوت ملے فورا"سے پرجوش سا فون اٹھا کر سالار کو کال ملا دی اور ایک ہی سانس میں سب بتا دیا
برہان کو آج جتنی خوشی ہوتی وہ کم تھی کیونکہ کئی سالوں سے وہ اس پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا مگر سہیل خان ہر بار چکما دے جاتا اور برہان ہاتھ ملتا رہ جاتا تھا مگر اب وہ آخر کار کامیاب ہو گیا تھا زیادہ خو شی اسے سالار کے لئے تھی کہ اسکے باپ کے قاتل کے خلاف برہان نے سارے ثبوت اکھٹے کر لئے ہیں اب وہ دونوں نہیں بچ پائیں گے اور سزا حاصل کر کے ہی رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار نے بے ساختہ آنکھیں بند کیں تھیں کیا کیا نہ یاد آیا تھا اسے ۔۔۔۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کال بند کئے سالارچئر پر سر ٹکائے پھر سے خود کو اکیلا محسوس کر رہا تھا
نہیں ہوں میں اکیلا میرے پاس میری عین ہے
لبوں پر سالار کے دلکش مسکراہٹ چھاگئی تھی اور پھر اب سالار تھا اور عین تھی
سالار اپنے آفس میں بیٹھا آنکھیں بند کیے عین کے خیالوں میں گم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
____________________
عین آنکھیں کھولے چھت کو گھورے جا رہی تھی ابھی بھی اسکے کانوں میں سالار کی آواز گونج رہی تھی جو وہ برہان کو لڑکی کے بارے میں خوبیاں گنوا رہا تھا کہ یہ ہو یہ نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عین ایک جھٹکے سے بیڈ سے اٹھی اور پھر اپنے قدم زمین پر بچھے نرم قالین پر جمائے اور دھیرے سے کھڑی ہوگئی
ابھی کوما سے باہر آنے کے بعد عین زیادہ سہی طرح سے نہیں چل سکتی تھی اسے چلنے میں تھوڑی مشکل ہوتی تھی مگر آہستہ آہستہ وہ بہتری محسوس کر رہی تھی
عین دھیرے سے چلتے وارڈروب تک آئی اور نارنجی کلر کا سادہ سا سوٹ نکال کر واشروم چلی گئی پھر سے حجاب کرکے کمرے سے باہر نکل آئی اور گھر میں ادھر ادھر چکر لگانے لگی ۔۔۔۔۔
گھر میں ایک لڑکی کو گھومتے دیکھ کر تمام ملازم حیران ہوکر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ یہ تو مر چکی تھیں تو اب یہاں کیسے آگئیں ۔۔۔۔۔۔
کچھ کو تو عین کا بھوت لگ رہا تھا انہیں لگ رہا تھا کہ بیگم صاحبہ سالار کی تکلیف پر انکی پکار پر بھوت کی شکل میں واپس آگئی ہیں
سارے ملازم ڈر کے مارے عین کے سامنے آتے ہی بھاگ گئے ۔۔۔۔۔
عین جو ملازم سے کچھ پوچھنے آرہی تھی مگر اسکے ایک دم خوفزدہ ہو کر بھاگ جانے پر حیران ہو گئی ۔۔۔۔ پھر دوسرے اور جب تیسرے نے بھی ایسا کیا تو عین کو اب غصہ آنے لگا تھا کہ یہ کیا بات ہوئی
کہیں نظر ی بیگم صاحبہ کی وجہ سے تو۔۔۔۔۔
سالار آپ کی اس کی بیگم کو تو میں پوچھوگی
غصے سے وہ کانپ رہی تھی زیادہ غصہ تو اسے سالار کی نئی بیگم پر آرہا تھا۔۔۔۔۔۔
سر جھٹک کر وہ آگے بڑھ گئی
غصے میں اسے پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں جارہی ہے
__________________
سالار ۔۔۔۔۔۔ تم نے یہ اچھا نہیں کیا ۔۔۔۔۔ تمہیں کیا لگا کہ تم میرے خلاف ثبوت اکھٹا کرلوگے تو کیا میں پولیس کے ہاتھ لگ جاؤں گا ۔۔۔۔۔
نہ۔ نہ۔۔۔۔۔ ابھی تم بچے ہو لڑکے ۔۔۔۔۔ میں اتنی آسانی سے خود کو حراست میں دے دوں گا یہ تمہاری بھول ہے میں جلد ہی فرار ہو جاؤ گا اور یہ پولیس کچھ بھی نہیں کر پائے گی ۔۔۔ ہا ہا ہا
چچ۔چچ۔۔چچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچارا سالار ۔۔۔۔۔۔ ویسے مجھے بہت دکھ محسوس ہوتا ہے تمہارے لئے کہ تمہارے پاس نہ تمہارا باپ رہا اور نہ ہی ماں چچ چچ افسوس صد افسوس ۔۔۔۔۔ ہاہ۔۔۔ اب کیا کر سکتے ہیں مقدر کا کھیل اسے ہی تو کہتے ہیں نہ۔۔۔۔۔
ویسے تمہارے باپ ناحق مارا گیا تھا میں نے تو اسے کہا تھا کہ وہ میرے اور تمہاری ی ی ماں کے بیچ میں سے ہٹ جائے مگر ۔۔۔ اہہہہ نہیں غیرت جو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس میں کہنے لگا کہ یا تو وہ مجھے ختم کرے گا یا اپنے آپ کو مگر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ ناجائز رشتہ نہیں بنا نے دوں گا۔۔۔۔۔
سالہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(گالی)
باز نہ آیا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔۔
مگر بتاتا چلوں کہ یہ آئیڈیا بھی تمہاری اپنی ماں کا تھا میں تو بس اسے زندہ لاش بنا کر چھوڑنا چاہتا تھا مگر تمہاری ماں کو نہ جانے کس کا خوف تھا کہ اسے ختم ہی کرنا پڑنا ۔۔۔
خیر تمہیں تمہاری عین کی یادوں کے سہارے چھوڑ کر جارہا ہوں ڈئیر ۔۔۔۔ افسوس بہت ہوا تھا مجھے سن کر کہ عین بچی بچ نہیں پائی چلو کم از کم میری بیٹی نے اپنا بدلہ تو کمال کا لے لیا آخر خون کس کا تھا۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں کہ وہ تمہارے پاس ہے لیکن بہت جلد اسے میں تم سے چھڑا لوں گا کوئی کمی نہیں ہے میرے پاس پیسوں کی ۔۔۔ ارے میں تو کئی سالوں سال بغیر کچھ کئے شاندار زندگی گزار سکتا ہوں
مگر تم کیا کروگے سالار شجاعت تمہارے پاس تو اب عین بھی نہیں رہی ۔۔۔۔۔ تمہاری پیاری سی وائف۔۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔
بائے ڈئیر دشمن اگر قسمت میں لکھا ہوا تو ضرور آمنے سامنے ملیں گے ۔۔۔۔
ٹاٹا۔۔۔۔۔ بائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
سالار کمپیوٹر کوئی کام کر رہا تھا کہ اسے ایک میل موصول ہوئی جب سالار نے اسے کھولا اور پھر جیسے جیسے پڑھنا شروع کیا تو اسکا خون کھول گیا
غصے میں اس نے آفس کی ایک ایک چیز اٹھا کر تباہ کردی ۔۔۔۔۔۔۔
عین۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
اچانک عین کا خیال آتے ہی سالار نے گاڑی کی کیز اٹھا ئیں اور اپنی عین کے پاس چلا گیا کہ اب عین ہی تھی جو اسکے پھر سے ہرے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ سکتی تھی
_____________________
نور چلتے چلتے گھر کے سب سے الگ گوشے میں آچکی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ شائد یہ کوئی تہہ خانہ ہے ۔۔۔۔
تجسس کے مارے نور آگے بڑھی اور پھر چند قدم بعد اسے دروازہ نظر آیا جو باہر سے تو بند تھا مگر لاک نہیں کیا گیا تھا اور شائد سالار نے یہی غلطی کردی تھی
نور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی ہر طرف گھور اندھیرا چھایا ہوا تھا کچھ نظر نہیں آرہا تھا اس نے ہاتھوں سے ٹٹولتے ٹٹولتے سوئچ بورڈ ڈھونڈا اور پھر ٹھک کی آواز سے پورے کمرے میں روشنی پھیل گئی اور جو منظر نور کو نظر آیا وہ اسکے ہوش اڑا نے کے لئے کافی تھا
نور آنکھیں پھاڑے ۔۔۔۔۔۔ سامنے لٹکے وجود کو دیکھ رہا تھا جس کے دونوں ہاتھ رسیوں سے اوپر کی طرف چھت سے باندھے گئے تھے اور پاؤں زمین پر لگی کیلوں سے باندھے گئے تھے
مم۔۔۔۔۔ میزی۔۔۔۔۔۔ نور کے منہ سے سرسراتی ہوئی مدھم آواز نکلی اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ جو وہ دیکھ رہی ہے آیا وہ حقیقت ہے یا کوئی خواب ۔۔۔۔۔۔۔
میزی کی بھی اس پر نظر پڑی تو کچھ تکلیف اور کچھ ندامت سے آنسو بہانے لگی ۔۔۔۔۔۔
نور کا تو میزی کی حالت دیکھ کر ہی سر چکرا گیا تھا آنسو تو جیسے اسکی آنکھوں سے ابل پڑے تھے وہ اس وقت اپنے ساتھ کی گئی میزی کی زیادتی کو سراسر فراموش کر چکی تھی
اسکا مطلب کہ سالار میزی کو میری حالت کی سزا دے رہے تھے۔۔۔۔۔
یہ سوچ آتے ہی نور نے اور بھی زیادہ رونا شروع کردیا تھا
میزی نور کو اپنے لئے روتا ہوا دیکھ کر مزید شرمندہ ہوئی کہ جس کو اس نے مارنے کے کیا کیا نہیں کیا وہی لڑکی آج اس کے لئے آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
نور میزی کو دیکھ کر روئے جارہی تھی بھاگ کر اسکے پاس پہنچی اور اسکے ہاتھ کھولنے لگی اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ سالار نے اس سے اس حد تک ظلم کیا ہے جلدی سے اسکے ہاتھ کھول کر اسے بڑی مشکل سے چئیر پر بٹھایا اور پانی کا گلاس اسکے لبوں سے لگایا
میزی ایک ہی سانس میں سارا پانی غٹاغٹ پی گئی نہ جانے کب سے پیاسی تھی
او۔۔۔۔۔۔ اور دوں پانی۔۔۔۔۔۔؟؟
نور اسکے تیزی سے پانی پینے پر اس سے اٹکتے ہوئے پوچھنے لگی ساتھ میں رو بھی رہی تھی
میزی نے اثبات میں گردن ہلائی اور پھر نور نے اسے ایک اور گلاس پانی کا پلایا۔۔۔۔
پانی پینے کے بعد میزی کو تھوڑا سکون نصیب ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور ۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟!؟ نور مجھے لے جاؤ یہاں سے وہ مجھے پاگل کردے گا ۔۔۔۔۔ نہ مارتا ہے نہ بخشتا ہے پلیز مجھے بچاؤ اس سے ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔۔ اتنی ۔۔۔اتنی تو بڑی غلطی نہیں کی میں نے کہ ۔۔۔۔وہ مجھے ازیت پہ ازیت دئے جارہا ہے ۔۔۔۔پلیز نور میں تمہارے ۔۔۔۔۔ آ۔۔۔۔۔۔ گے ۔۔۔۔۔ہاتھ۔۔۔۔۔جوڑتی۔۔۔۔۔۔۔۔ لے ۔۔۔۔۔۔۔ج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مم۔۔۔۔۔ مجھ۔۔. ۔۔
میزی کو جیسے ہی تھوڑی ہمت ملئ وہ نور کے آگے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑانےلگی کہ وہ اسے یہاں سے لے جائے ۔۔۔۔۔ بولتے ہوئے اچانک میزی بے ہوش ہوگئی ۔۔۔۔ نور اسے دیکھ کر بوکھلا گئی اور دوڑتی ہوئی باہر آئی اور دوگارڈز کے ہمراہ واپس آکر انکی مدد سے میزی کو اٹھایا اور گاڑی میں ڈال کر ہاسپٹل چلی گئی اور پھر راستے میں ہی گھر فون ملادیا ۔۔۔۔۔ اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے بوکھلاہٹ میں وہ پسینے سے بھیک چکی تھی سالار پر تو اسے بے انتہا غصہ تھا اس لئے اس کے بارے میں تو وہ غلطی سے بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی۔۔
رنگ جا رہی تھی اور نور بے چینی سے منتظر تھی آخر کو اتنے سالوں بعد جو کسی اپنے کی آواز سننے والی تھی
_________________
سب لوگ اس وقت شام کی چائے ہمیشہ کی طرح ایک ساتھ تو پی رہے تھے مگر ہر کوئی اپنے ہی خیالوں میں گم تھا
ابو جان مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی
صدیق مرزا اپنی چائے کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے بولے
کہو ۔۔۔ کیا کہنا ہے تمہیں۔۔۔۔
دادا جان ہمہ تن گوش ہوئے
میں نے سوچا ہے کہ کیوں نہ کراچی میں اپنے بزنس کی ایک اور برانچ کھول لی جائے ۔۔۔۔۔ میرے خیال سے تو بہتر رہے گا کیونکہ کچھ سالوں سے ہمیں پرافٹ کافی رسیو ہوا ہے اور ویسے بھی جتنا جڑیں پھیلیں اتنا ہی ہمارے بچوں کے لئے بہتر ہوگا اور ساتھ میں میں نے یہ بھی سوچا تھا اس برانچ سے حاصل ہونے والا آدھا پرافٹ ہم ٹرسٹ وغیرہ میں اور آدھا نور کے خواب پر لگا ئیں ۔۔۔ نور بچی چاہتی تھی کہ وہ ایک اسکول کھولے گی غریب بچوں کے لئے مگر شائد قسمت کو منظور ہی نہیں تھا کہ وہ اس کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھ سکے ۔۔۔۔۔۔
صدیق مرزا آنکھوں میں امڈ آنے والے بے ساختہ آنسؤوں کو پیچھے دھکیل کر غمزدہ لہجے میں بولے ۔۔۔۔۔۔
آپ کا کیا خیال ہے ابو جان۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
ہمممم۔۔۔۔۔۔۔ خیال برا نہیں ہے بیٹا بلکہ بہت اچھا ہے جانتے تو ہم بھی تھے کہ نور اسکول کھولنا چاہتی تھی مگر اس موضوع پر بات نہیں ہو پارہی تھی اچھا کیا جو تم نے ہی آغاز کرلیا ۔۔ ٹھیک ہے تو پھر اس منصوبے پر جلد سے جلد عمل کیا جائے ۔۔۔۔۔۔
دادا جان اپنی پیالی خالی کرکے ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولے کیونکہ انکی بھی یہی خواہش تھی مگر پھر وہی کہ نور کے زکر سے پھر کہیں غمگین ماحول نہ ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ابو جان ضرور۔۔۔۔۔۔۔۔
صدیق مرزا بڑے ہونے کے ناطے بات رکھ چکے تھے اور تائید بھی مل گئی تھی باقیوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا وہ بھی دل سے اس آئیڈیے کو سرا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے تو پھر میں آج ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ صدیق مرزا کچھ کہتے بیچ میں ہی لاؤنج میں رکھے فون نے چیخنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔۔
میں دیکھتی ہوں آپ رہنے دیں تایا جان ۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ صدیق مرزا اٹھ کر فون رسیو کرتے رباب جو ٹرے میں خالی چائے کی پیالیاں اٹھا کر لے جا رہی تھی انہیں روکتے ہوئے بولی
ہمممممم۔۔۔۔۔۔۔۔
رباب ٹرے ٹیبل پر رکھ کر مڑی اور فون اٹھا کر کان سے لگایا
اسلام وعلیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ یہاں کا رول تھا کہ ہیلو کی بجائے سلام کیا جائے ویسے تو سب کبھی کبھی کٹوتی کر جاتے تھے مگر زیادہ تر سلام ہی کیا جاتا
اسلام وعلیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
دوسری طرف سے جب کوئی نہ بولا تو رباب نے دوسری بار زرا زور سے سلام کیا کیونکہ اسے گاڑیوں کا شور سنائی دے رہا تھا
دوسری طرف نور اتنے سالوں بعد رباب کی آواز سن کر سن ہوگئی وہ بس اسکی اسلام وعلیکم کی گردان ہی سنے جا رہی تھی
کون ہے ۔۔۔۔۔۔؟؟
کس سے بات کرنی ہے آپ کو ۔۔۔۔۔۔ دیکھیں جو کوئی بھی ہیں اب اگر نہ بولے تو میں نے فون رکھ دینا ہے
رباب نے جھنجلا تے ہوئے دھمکی دی کہ وہ فون ہی رکھ دے گی اسے لگ رہا تھا کہ برہان اسے جان بوجھ کر تنگ کر رہا ہے کیونکہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس وقت وہ سب کو شام کی چائے سرو کرتی ہے
نن۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
نور نے جب فون رکھ نے کا سنا تو فورا" سے بولی کی مبادہ رباب فون رکھ ہی نہ دے
کک۔۔۔,۔ کون۔۔۔۔۔۔ کون بول رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
رباب آواز تو پہچان گئی تھی مگر پھر بھی جب نور مر چکی ہے تو وہ کیسے فون کر سکتی ہے
اس لئے اٹکتے ہوئے پوچھا کہ کون ہے
نن۔۔۔۔۔۔۔ نور۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
فون سے نکلنے والی ایک بار پھر سے آواز نے رباب کے چودہ طبق روشن کر دئے تھے
نور نے چند باتیں کی تھیں جو بھی تھا پر فی الحال اس وقت میزی کو ٹھیک کرنا تھا
کال کب کی ڈراپ ہوچکی تھی مگر رباب تھی کہ ابھی تک فون کان سے لگائے ساکت کھڑی تھی
کس کا فون تھا بیٹا سب خیر تو ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔
اکبر مرزا رباب کے سکتے کو دیکھ کر پریشان سے آگے بڑھے اور کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
بولتی کیوں نہیں ہو بیٹا بتاؤ نہ۔۔۔۔۔۔۔
سکندر مرزا نے بھی بے قراری سے استفسار کیا اور ساتھ ہی دل میں دعا کی کہ سب خیر ہو اب مجھ میں اور صدمہ سہنے کی زرا سی بھی ہمت نہیں ہے
نن۔۔۔۔۔۔۔۔ ن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نو۔۔۔۔۔۔ نور کا۔۔۔۔۔۔۔۔
نور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فون ۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
سب ہی کو جھٹکا لگا تھا آخر رباب نے بات ہی ایسی کی تھی
سب منہ کھولے رباب کی بات غور سے سن رہے تھے جو نور نے رباب کو سرسری سا بتایا تھا میزی کی حالت اور ہاسپٹل جانے کے بارے میں پھر سب ہی گھر کی تمام عورتوں سمیت ہاسپٹل کی طرف دوڑے تھے
____________________
جیسے ہی تھکے ہارے سالار نے ڈور کھولا تو سامنے پڑتی نظر نے اسے شاکڈ کردیا تھا
عین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عین۔کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
کہاں ہے میری عین۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیننننننن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
کچھ پل تک تو سالار ایسے ہی اٹھ ہوئے رنگ کے ساتھ کھڑا رہا پھر بھاگ کر بیڈ کے پاس آیا اور پھر پورا کمرہ چیک کرنے کے بعد وہ پورے گھر میں پاگلوں کی طرح دوڑے جارہا تھا
اسے خدشہ تھا کہ کہیں سہیل خان نے تو نہیں ۔
اگر اسکے پیچھے تم ہوئے نہ سہیل خان تو اس بار میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے مار دوں گا
اسکی دھاڑ کی آواز پر کچھ ملازم دوڑتے ہوئے اسکے پاس آئے تھے
بتاؤ کہاں ہیں میری عین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار نے ایک ملازم کا گریبان پکڑ کر اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا
صاحب ۔۔۔۔۔۔ وہ ہمیں لگا کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔بھ۔۔۔۔ بھوت
ہیں تو اس لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
کیا کہا تم نے ۔۔۔۔۔۔ میری عین بھوت۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
سالار نے نا سمجھی سے سرد آواز میں اسے گھور کے پوچھا
ووووو۔۔۔۔۔۔۔ صاحب ۔۔۔۔۔۔ ووہ۔۔۔۔۔۔ بی بی جی کسی زخمی لڑکی کو لے کر ہاسپٹل گئی ہیں گارڈز کے ساتھ۔۔۔۔۔۔
ملازم نے ہکلاتے ہوئے اسے سب بتایا کہ کیا ہوا اور عین کہاں گئی
سالار نے اسے ایک جھٹکے سے دور پھینکا اور گارڈز کو کال کی جس پر پہلے تو سالار نے انکی کلاس لی کہ اسے کیوں نہیں انفارم کیا پھر ہاسپٹل کا نام پوچھ کر فون بند کرکے گاڑی کی طرف بھاگا
میزی کو تم کیوں لے کر گئی عین اسکی سزا تمہیں ضرور ملے گی ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے تمہیں مجھ سے چھیننے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔۔ سالار کی عین کو۔۔۔۔۔۔۔سالار شجاعت کی خوشیوں کو چھیننا چاہا تھا
سالار غصے سے آگ بگولا ہوئے انتہائی فاسٹ سپیڈ پر گاڑی ہاسپٹل کی طرف دوڑا رہا تھا
سالار کو عین کے خود چل کر جانے کی اتنی حیرانگی نہیں ہوئی تھی کیونکہ آج صبح ہی سالار کو پتہ چل گیا تھا کہ عین کو ہوش آچکا ہے اور وہ اب صرف ایکٹنگ کر رہی ہے
جب عین سالار کے واشروم جانے کے بعد اٹھ کر بیٹھی تھی تب چادر اسکے سینے تک ڈالی ہوئی تھی مگر جب سالار واشروم سے نکلا تھا تب جلدی میں چادر جو بیٹھنے کی وجہ سے پیٹ تک آگئی تھی وہ ٹھیک نہیں کرسکی اور یہی چیز تھی جو سالار نے خاص نوٹ کی تھی اور وہ دل سے بے انتہا خوش بھی ہوا تھا کہ اسکی عین کو ٹھیک ہو گئی ہے اور ڈرامے کر رہی ہے
سالار نے بھی پھر اپنے دماغ میں پلین تیار کرلیا تھا کہ وہ عین کو رات میں اتنا مجبور کر دے گا کہ وہ خود اٹھ کر بیٹھے گی اور پھر وہ اسے اپنے انداز میں بوکھلا کر رکھ دے گا
مگر یہاں تو عین نے سالار کے سارے ارمانوں پر ہی پانی پھیر دیا تھا
سالار اب عین پر بے انتہا غصے تھا کہ وہ بنا اس سے ملے گئی اور وہ بھی میزی کو چھڑوا کر لے گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سالار کا سارا غصہ عین کی طرف چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________
سب لوگ جیسے ہی ہاسپٹل پہنچنے تو نور کو اپنے سامنے زندہ سہی سلامت پاکر تو مانو انکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا
شمائلہ بیگم تو اپنے جگر کے گوشے کو بار بار چوم رہی تھیں اور اپنی آنکھوں کی پیاس بھی آرہی تھیں باقی سب کا بھی یہی حال تھا مگر اب وہ سب غصے میں تھے کیونکہ رباب نے برہان کو بھی فون کر کے ہاسپٹل بلا لیا تھا اور جب برہان وہاں پہنچا تھا تو اصل صورتحال کا اندازہ ہونے پہ اس نے کلمہ شہادت پہلے سے ہی پڑھ لیا تھا پھر کیا تھا برہان صاحب اب کٹہرے میں کھڑے انکے تمام سوالوں کے جواب دے رہا تھا تمام کتھا سننے کے بعد تو ان سب کا غصے سے برا حال تھا اور تو اور سالار سے تو وہ اس طرح کی امید کرسکتے مگر تم تم سے ہمیں ایسی امید بلکل بھی نہیں تھی
برہان سر جھکائے ان سب کی ڈانٹ سن رہا تھا
سالار کہاں ہے بلاؤ کوئی اسے۔۔۔۔۔۔۔
دادا جان کے کہنے پر برہان نے فون ملایا مگر دوسری طرف کوئی رسپونس نہیں
اوہ تو طوفان خود آرہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
برہان سمجھ گیا تھا کہ وہ یہی آرہا ہے یقیننا"اس کی عین گھر سے اٹھ کر کہیں چلی جائے اور وہ لاعلم رہ جائے ایسا ہو نہیں سکتا تھا
یا اللہ اب سب خیر ہو بس ۔۔۔۔۔۔۔
________________
سالار ایک جھٹکے سے بریک لگاتا گاڑی سے اترا اور ریسیپشن سے پتہ کرتا تیز تیز قدم اٹھاتا اسی طرف چل دیا
نور تب سے بڑی اکڑ کے بیٹھی ہوئی تھی مگر جب سالار سامنے سے آتا ہوا دکھا تو اسکی ساری طراری ایک پل میں ہوا ہوگئی
سالار سرد تاثر لئے بنا کسی کو دیکھے دلیری سے آگے بڑھ رہا تھا
نور تو اس کے انداز دیکھ کر ہی ڈر گئی تھی
سالار سیدھا عین کے پاس آیا
اور اسکا ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکے سے اٹھایا
چلو گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
یہ کہہ کر سالار اسے لئے آگے بڑھنے لگا کہ دادا جان نے اسے آج پہلی بار غصے سے روکا تھا
سالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار نے انکی غصیلی آواز پر اپنے قدم روکے ضرور تھے مگر پلٹا نہیں تھا
نور کا ہاتھ چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کے ساتھ ہی اسکے ہاتھ سے دادا جان نے نور کا ہاتھ الگ کیا تھا
سالار کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے حیرانی آئی تھی کہ جس شخص نے اسکی سانسیں اسے تھمائیں تھیں آج وہی انسان اس سے اسکی عین کا ہاتھ چھڑوا رہا تھا
تم اسے نہیں لے کر جا سکتے ۔۔۔۔۔
دکھ تو دادا جان کو بھی ہوا تھا مگر سالار نے اس بار کیا ہی ایسا تھا کہ وہ اب چپ تو بلکل بھی نہیں رہ سکتے تھے
تم جانتے ہو سالار تم نے کیا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
اتنا بڑا جھوٹ بولا تم نے ہم سب سے ۔۔۔۔ کہ نور ۔۔۔
آگے کے الفاظ وہ نہیں بول پائے
جانتے ہو کتنا تڑپا ہوں میں اسکے لئے مگر تم۔۔۔۔ تم نے تو ہمیں توڑ دیا سالار ۔۔۔۔
بہت تکلیف دی ہے تم نے ہم سب کو ۔۔۔۔۔۔
دادا جان غم سے چور تھکے تھکے سے بولے
ابو جان نور ہمارے ساتھ جائے گی میں نے تو اسے ابھی جی بھر کر دیکھا بھی نہیں ہے
سالار تب سے اب تک خاموش کھڑا تھا مگر انکی عین کو روکنے کی بات پر اس نے سرد نظریں انکی طرف موڑیں
پھر عین کو دیکھا
تم رکنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
غراتی سرگوشی میں سالار نے عین کے کان میں تقریبا"منہ گھسا کر بولا تھا
عین تو اسکی حرکت پر فورا" سے پیچھے ہوئی تھی اور اپنا ہاتھ چھڑوا تے ہوئے بولی تھی
ہاں ۔۔۔۔۔ مم۔۔۔۔۔ میں رکوں گی امی کے پاس ۔۔۔۔
ڈرتے ڈرتے اس نے ہمت کرکے بول ہی دیا تھا مگر اسے اپنی غلطی کا احساس تب ہوا جب سالار ایک سیکنڈ بھی رکے بنا کچھ بولے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا
عین کی آنکھ میں آنسو جھلملائے تھے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________
نور بیٹا کیا کر رہی ہو یہاں کھڑے ہو کر چلو نیچے دونوں بچیاں جب سے تمہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بے حال ہو گئی ہیں
نور کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے خیالوں میں گم تھی کہ شمائلہ بیگم نے اسے پیار سے کہا
نور کو یہاں آئے ایک مہینہ ہو چلا تھا مگر سالار تھا کہ جب سے گیا تھا تب سے واپس نہیں آیا تھا برہان سے اسے پتہ چلا تھا کہ وہ لندن چلا گیا ہے
ضرور اس چڑیل کے پاس ہی گئے ہوں گے جس سے دوسری شادی کر رہے تھے
بے ساختہ اسکے آنسو بہے تھے جو اس نے بے دردی سے رگڑے تھے اور زخمی مسکراہٹ سجائے نیچے چلی آئی تھی جہاں سب اسکا انتظار کر رہے تھے اور خاص کر کے تانیہ اور ماہ نور جو کہ اب اسکی جان بن گئی تھیں وہ تھیں ہی اتنی پیاری کہ دل کرتا بس ان سے باتیں ہی کرتا جائے ۔۔۔۔۔۔
ان دونوں کے بارے میں سوچ کر عین کے لبوں پر خوبصورت سی مسکان آئی تھی
برہان وقتا" فوقتا" سالار سے کونٹیکٹ میں تھا جس میں وہ صرف سہیل خان سے ریلیٹڈ ہی بات کرتا اور کسی بارے میں نہیں لیکن جب برہان نے اسے یہ خبر سنائی کہ سہیل خان اور ماہ وش پکڑے گئے ہیں اور انہیں پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے تو اس کے بعد تو سالار نے اس سے بھی اپنا رابطہ منقطع کر دیا تھا
میزی کا ہاسپٹل میں علاج چل رہا تھا وہ دماغی طور پر بہت اپسیٹ ہوچکی تھی
دن یونہی گزرتے جارہے تھے مگر آکر کوئی رکا ہوا تھا تو وہ عین تھی جو سالار بے رخی برداشت نہیں کر پارہی رہی تھی
اسے رہ رہ کر رونا آرہا تھا کہ کیوں اس نے رکنے کا کہا تھا مگر پھر دوسرے ہی پل ڈھیٹ بن جاتی کہ اچھا ہی ہوا کم سے کم میرے سامنے تو وہ اپنی اس سو کالڈ دوسری بیوی سے رومانس جھاڑ کر مجھے جلا تو نہیں پائیں گے
نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف سالار ابھی تک عین پر غصے تھا اور اوپر سے عین نے جو ہاسپٹل میں کیا تھا تب تو اسے اور ہی آگ لگی تھی
اب نہ جانے یہ لاواہ کب اور کیسے پھٹنا تھا
مگر سالار اچھی طرح سوچ چکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور اپنے کمرے میں کھڑی وارڈروب میں سے کپڑے سلیکٹ کر رہی تھی
آج تانیہ اور ماہ نور کی برتھڈے تھی تو رباب نے نور کو اسپیشلی کہا تھا کہ وہ لازمی اچھا سا تیار ہو اپنی بھانجی پلس بھتیجیوں کے لئے۔۔۔۔۔۔
یہ لو بھئی جلدی سے اب ریڈی ہوجاؤ کب سے اس میں منہ دیئے کھڑی ہو تم۔۔۔۔۔۔
رباب نے آتے ہی لتاڑا تھا کیونکہ ساری تیاریاں ہوچکی تھیں سب نیچے کھڑے نور کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آئے تو کیک کٹ ہو مگر نور تھی کہ وہ بے دلی سے تیار ہونے میں لگی تھی
رباب نے اسے ریڈ کلر کی شیفون کی ساڑھی دی تھی اور ساتھ ہی میچنگ جیولری بھی رباب نے اسے حجاب لینے سے منع کیا مگر نور پھر بھی اسکارف لپیٹے ڈریسنگ روم سے باہر نکلی گیلے نم بالوں میں وہ بہت جازب نظر لگ رہی تھی بال تو اب پہلے جیسے تھے نہیں مگر پھر بھی نور کو یہ اسٹائل بھی سوٹ کر رہا تھا نور تیار ہونے کے بعد نم گیلے بالوں کا جوڑا بنائے اسکارف لپیٹے جلدی سے باہر آئی تھی کیونکہ پہلے ہی اس کی وجہ سے بہت دیر ہوچکی تھی اور اب وہ مزید تاخیر نہیں کرنا چاہتی تھی نور نیچے آئی تو سب نے اسکی تعریف کی اور پھر کیک کٹ کیا گیا ۔۔۔۔۔ کیک کٹنے کے بعد بچیاں تو اپنے کھیلنے میں لگ گئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور دادا جان کے پاس بیٹھی کیک کی پلیٹ پکڑے اسے گھورے جا رہی تھی کہ ایک دم سامنے نظر پڑنے پہ اسکی آنکھیں کھلیں کی کھلیں رہ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔
سالار گرے کلر کے تھری پیس سوٹ میں سرد سنجیدہ نظروں سے چلتا ہوا اس کی طرف ہی آرہا تھا
اسے دیکھ کر نور ایک پل کے لئے تو سانس لینا ہی بھول گئی اتنے دنوں بعد جو دیکھ رہی تھی دشمن جاں کو ۔۔۔۔۔۔۔
سالار اسکے پاس پہنچتا کسی کو بھی خاطر لائے بغیر عین کو ایک جھٹکے سے اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور تیز قدموں سے چلنے لگا
عین اس اچانک پڑنے والی افتاد پر بوکھلا ہی گئی تھی اور اوپر سے سالار کی سب کے سامنے اس حرکت نے اسے شرم و خفت سے لال کر دیا تھا
سالار آگے بڑھ رہا تھا کہ شمائلہ بیگم سامنے آئیں تو سالار کے قدم بمشکل رہے تھے ورنہ شائد زبردست تصادم ہوتا
اگر آج مجھے کسی نے بھی روکنے کی کوشش کی تو پھر جو میں کروگا وہ آپ سب لوگوں کو شائد نہیں یقیننا" اچھا تو بلکل بھی نہیں لگے گا
ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولتا وہ سب کو ششدر کر گیا تھا
دادا جان نے سب کو ہاتھ کے اشارے سے روک دیا تھا
سالار نے پھر سے اپنے قدم آگے بڑھا لئے تھے
باہر نکل کر عین کو غصے میں ہونے کے باوجود بھی سالار نے اسے آرام سے کسی قیمتی متاع کی طرح فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور گاڑی کو فل سپیڈ پر چلانے لگا
عین زبان پر قفل لگائے سہمی ہوئی بیٹھی تھی گاڑی تو جیسے ہواؤں میں اڑ رہی تھی
نور ڈر سے کانپے جا رہی تھی اسے لگ رہا تھا آج تو وہ سالار کے غصے سے نہیں بچے گی
سالار فل سپیڈ پر گاڑی دوڑا رہا تھا اس کی ساری توجہ سامنے سڑک پر مرکوز تھی کہ نہ جانے سڑک پر کون سا نمونہ کھڑا دیا گیا ہو جو اپنی نظریں ہی نہیں جھپک رہا تھا
سالار نے ایک دم بریک لگائی تو گاڑی چررررر کی آواز پر رکی۔۔۔
عین نے خوف سے بند کی آنکھیں کھولیں تو سامنے گھنے جنگل کو پایا
وہ حیرانی سے اردگرد دیکھ رہی تھی کہ ایک بار پھر سالار نے اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور گاڑی لاک کرتا جنگل کے دوسرے رخ چل دیا
ہائے اللہ کہیں یہ مجھے جانوروں کی خوراک بنانے تو نہیں لائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوف سے عین کی آنکھیں پھٹنے کو تھیں
عین کا اسکارف جو پہلے ہی ڈھیلا پڑ چکا تھا اب تو گر گیا تھا عین کے سارے بال اسکے منہ پر آرہے تھے
سالار تیز تیز ایسے چل رہا تھا جیسے وہ اکیلا ہو اسکے کندھے پر کچھ ہو ہی نہ ۔۔۔۔۔
سالار جنگل کے بیچ و بیچ بنے درخت پر بنے ووڈن ہاؤس کی طرف آیا اور اسے کندھے پر ہی رکھے لکڑی کی سیڑھیوں پر قدم جماتا اوپر چڑھا اور ووڈن ہاؤس میں داخل ہو کر دروازہ پہلے اچھی طرح سے بند کیا اور پھر عین نیچے بچھے گدے پر پھینکا اور خود بھی اسکے ساتھ ہی گرا اسکے اوپر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار کے اس طرح کرنے پر عین کے منہ سے چیخ نکلی جسکا گلا سالار نے اپنے دہکتے لبوں سے گھونٹا تھا
عین جو پہلے ہی اسکے وزن کو برداشت نہیں کر پارہی تھی اسکے اس طرح کرنے سے اسکی بچی کچی سانسیں بھی رکنے لگی تھیں
سالار اپنے عمل میں گم ہر شے سے بیگانہ اپنے دل کی بےچینی و تڑپ کو رفع کرنے میں مگن تھا وہ اسے محسوس کرنا چاہتا تھا کب سے وہ اس سے دور تھا ۔۔۔۔۔۔ پورے ایک ماہ سے ۔۔۔۔۔ ایک ماہ سے اس نے اسے دیکھا نہیں تھا ۔۔۔۔ محسوس نہیں کیا تھا ۔۔۔۔۔ اب تو سالار کو لگنے لگا تھا کہ اگر وہ عین کے پاس نہیں گیا تو وہ مر ہی جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔ عجیب سی گھٹن تھی اسکے وجود میں ۔۔۔۔۔۔ بلآخر خود سے ہارتے ہوئے وہ دوڑتے ہوئے عین کے پاس گیا تھا کیونکہ اب اس سے مزید دوری اسکے لئے سوہان روح تھی ۔۔۔۔۔۔۔
عین کو لگ رہا تھا کہ اب سالار نہیں رکا تو وہ مر جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار جب کافی دیر تک نہیں ہٹا تو عین نے اپنے چھوٹے نازک ہاتھوں سے اسکے سینے پر رکھے تھے اور خود سے دور کرنے کی ناممکن سی کوشش کی تھی جو یقیننا" بے کار گئی تھی بلکہ الٹا وہ پچھتائی تھی کیونکہ سالار نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کے ایک ہاتھ سے ٹائی نکال کر اسکے دونوں ہاتھ سختی سے پیچھے لکڑی کے پلر کے ساتھ باندھ دئے تھے
جبکہ اس دوران سالار ایک ایک سیکنڈ کے لئےبھی اس سے دور نہیں ہوا تھا
سالار نے پھر اس پر رحم کھا کر اپنا چہرہ اوپر کیا تھا اور عین کو غور سے دیکھنے لگ گیا تھا
عین کا تنفس بری طرح سے بگڑ چکا تھا وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اگر سالار اسکو نہ بخشتا تو شائد اسکی سانسیں واقعی ہی بند ہو جاتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معلوم ہوا کہ جب کسی کی سانسیں روکیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے
سرد آواز میں اسکے کان میں بولتا وہ اس کے رگ و پے میں سنسنی پھیلا رہا تھا
تم نے بھی میرے ساتھ ایسا ہی کیا ہے جانتی ہو کتنا تڑپا ہوں میں ۔۔۔ کتنی تکلیف ہوئی مجھے تم سے دور ہو کر ۔۔۔۔۔ تم نے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا کہ میں تمہارے بغیر جیسے رہوگا ۔۔۔۔۔۔۔
تو اب سزا تو بنتی ہے نہ ۔۔۔۔۔۔۔ جنم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ساتھ ہی اسکی کان کی لو کو دانتوں سے ہلکا سا کاٹا تھا
بایاں ہاتھ بڑھاکر اسکی ساڑھی کا پلو ایک جھٹکے میں کھینچا تھا جس سے نور کو وجود میں چیونٹیاں رینگتی محسوس ہونے لگیں
سالار نے اسکے کندھے سے بلاؤز کو زرا سا نیچے سرکایا تھا اور اپنے لب اس پر رکھے تھے
سس۔۔۔۔۔ سال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سشششششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عین کے منہ سے گھٹی گھٹی سی آواز سرگوشی میں نکلی تھی جو سالار نے اپنے بھاری ہاتھ سے بیچ میں ہی روک دی تھی اور پھر وہ اس پر جھکتا چلا گیا اور اپنی شدتیں و محبتیں اس کے نازک وجود پر پھیلانے لگا
عین بے بس سی اسکی شدتوں پر پگھلی جارہی تھی اور سالار اسے سمیٹے اپنی دیوانگی و جنوں کی داستان رقم کر رہا تھا
آخر تھک ہار کر عین نے خود کو سالار کے سپرد کر دیا تھا جو بھی ہو وہ اسکا محرم تھا اسکا شوہر اسکا مجازی خدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند کی روشنی پوری آب وتاب سے چمک رہی تھی اس جنگل میں چھائی خاموشی اور ہلکی چاند کی روشنی ماحول کو فسوں خیز کر گئی تھی
اس پر سالار کی بڑھتی شدتیں
عین کو بوکھلائے دے رہی تھیں
_______________
سورج کی روشنی چھن سے کھڑکی کے راستے نور کے چہرے پر پڑ رہی تھی
نور نے کسمسا تے ہوئے آنکھیں کھولیں تو پہلے تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ ہے کہاں پر مگر پھر جب یاد آیا تو رات کا ایک ایک منظر اسکی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا شرم سے سر جھکائے نور ہلکا سا مسکائی تھی پھر جلدی جلدی سے ادھر'ادھر دیکھتے کہ کہیں سالار تو نہیں دیکھ رہا مگر جب تسلی ہوئی کہ وہ یہاں نہیں ہے تو نور اپنے سر پر چپت لگاتی اٹھ بیٹھی اپنے وجود پر نظر پڑی تو سالار کی گرے شرٹ نے اسکو چھپا رکھا تھا
ایک بار پھر سے نور کا چہرہ سرخ ہوا تھا
سامنے ہی صوفہ پر اسکا ڈریس رکھا ہوا تھا اور اسکے سامنے پڑی لکڑی کی ٹیبل پر ناشتہ بھی موجود تھا
نور نے ارد گرد نظر دوڑائی تو یہ ایک اوپن روم کچن اور لاؤنج ووڈن ہاؤس تھا کونے میں ایک دروازہ تھا شائد واشروم تھا وہ ۔۔۔۔۔۔۔
پورا ہاؤس ماحول کے لحاظ سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا
مطلب کہ سالار نے پہلے سے ہی ساری پلیننگ کر رکھی تھی اور اتنا اچھا انتظام کیا تھا
نور جھجھکتے ہوئے اٹھی اور پھر ڈریس اٹھا کر واشروم فریش ہونے چلی گئی
سالار نیچے اتر کر کالا ٹراؤزر پہنے بغیر بنیان شرٹ کے ایکسرسائز کر رہا تھا
سالار عین کو سب سے دور یہاں لے کر آیا تھا جہاں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی بھی نہ تھا
سالار کو عین پر جتنا بھی غصہ تھا وہ سارا کا سارا کل رات ہی اتر گیا تھا جب عین نے خود سپرد گی کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
نور چینج کرنے کے بعد چھوٹے گول شیشے کے سامنے آکر بال بنانے لگی جو دیوار کے ساتھ لٹکا ہوا تھا بالوں بنا کر نور نے کپڑوں کا جائزہ لیا ہلکے ییلو کلر کا ڈریس تھا بنا دوپٹے کے تو حجاب بھی نہیں تھا ساتھ ۔۔۔۔۔ نور جھجھکتے ہوئے ڈور کھول کر نیچے اتری اور پھر سامنے سالار کو بنا شرٹ کے دیکھ کر لڑکھڑا گئی اور پھر اپنا رخ ہی اس سے موڑ لیا
سالار نے اسے دیکھ لیا تھا اور اسکے انداز پر قہقہہ لگاتا اسکے پاس آیا اور کمر سے پکڑ کر اپنے حصار میں لے کر منہ اس کے نم کھلے بل بالوں میں چھپا لیا
نور نے نکلنے کی کوشش کی مگر بھلا سالار ایسا کرنے دے سکتا تھا کیا ۔۔۔۔۔ بلکہ اس نے تو اور بھی گرفت سخت کر دی تھی اور اپنے اسکی گردن پر رکھ دیے تھے
عین اسکی بڑھتی گستاخیوں پر کانپنے لگ پڑی تھی ۔۔۔۔
جب وہ سالار کو الگ نہیں کر پائی تو رونے لگی اسے رہ کر غصہ چڑھ رہا تھا سالار پر ایک تو وہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ہنی کون منانے کے بعد جب دل پورا بھر لیا تو اب اسکے پاس آگیا تھا ۔۔۔۔۔۔
ہونہہ۔۔۔۔۔۔ ٹھرکی کہیں کے۔۔۔۔۔۔۔
سالار کو جب اسکے چہرے پر نمی محسوس ہوئی تو فورا" سے اسکا رخ اپنی طرف موڑا تھا
عین۔۔۔۔۔۔۔ جنم۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔
سالار کے بےچینی سے پوچھنے پر عین کو تو مانو تپ ہی چڑھ گئی تھی
پاگل ہو گئی ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار جو انگلیوں کی پوروں سے اسکے آنسو صاف کر رہا تھا عین کے ایک دم چیخ کر ہاتھ جھٹکتے ہوئے سنا تو وہ حیران ہی تو ہوگیا تھا
کیا کہہ رہی تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
سالار نا سمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا جو اب منہ ہاتھوں میں چھپائے رو رہی تھی
پہلے یہ اپنا رونا بند کرو تم فورا""
عین نے جب رونا بند نہ کیا تو سالار جھنجھلاتے ہوئے بولا اسے اسکا رونا تکلیف دے رہا تھا
کیوں بند کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ہچکی)
اور آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوتے کون ہیں مجھ پر حکم چلانے والے ۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔ سمجھتے کیا ہیں خود کو آپ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک تو کمزور لڑکی کو اپنے ہی گھر میں قید کرکے اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی کہ وہ دماغی توازن کھونے کے قدار پر آگئی تھی۔۔۔۔۔۔ مجھ سے تو (۔۔۔۔۔) اسکی حالت ہی نہیں دیکھے جارہی تھی ۔۔۔۔۔ بیچاری کتنا تکلیف میں تھی وہ ۔۔۔۔۔۔ کیوں کیا آپ نے ایسا ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔۔۔ کیسے ظلم کر لیا آپ نے ایک لڑکی پر ۔۔۔۔۔۔ مرد ہیں طاقتور ہیں تو کیا اپنی مردانگی اس طرح دکھا ئیں گے ۔۔۔۔ کسی معصوم لڑکی کو مار پیٹ کر ۔۔۔۔۔۔ اسے بجلی کے جھٹکے دے کر ۔۔۔۔۔ اتنے ظالم ہیں آپ ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
اتنے کہ ایک لڑکی۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی کے ساتھ ۔۔۔۔۔
اس سے آگے اسکی ہچکی ایسی بندھی کہ وہ کچھ بول ہی نہیں پائی۔۔۔۔۔۔۔
سالار اسکی باتوں پر پر سکون سا خاموشی سے سن رہا تھا جب عین رکی تو ایک ہی جھٹکے میں اپنی طرف کھینچا اور سختی سے اس حد تک بھینچا کہ عین کو لگا اسکی پسلیاں ابھی ٹوٹی تو ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار سرد سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اسکی آنکھیں جیسے اسکی آنکھوں میں گڑ گئی تھیں
سالار جھکا تھا اور اسکے لبوں پر سخت ترین گستاخی کی کہ اسکے ہونٹوں سے خون کی بوند نکل آئی ۔۔۔۔
درد کی ایک لہر تھی جو اسکے ہونٹوں سے ہوتی جسم میں اتر گئی تھی وہ بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہی تھی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
یہ تمہاری سزا تھی اس غلطی کی جو تم نے اس میزی کو آزاد کروایا وہ بھی اپنے ہاتھوں سے اور خود ہی اسے ہاسپٹل لے کر بھی گئی ۔۔۔۔
اسکی انگلیاں عین کو اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں
عین کے اندر اچانک ڈر آگیا تھا سالار کا ڈر ۔۔۔۔
سالار بنا اسکی کیفیت جانے اپنی ہی بولے جا رہا تھا
اس لڑکی نے میری جان کی جان لینے کی کوشش کی تھی
اس کو تھپڑ مارے تھے جو میری رگ و جاں مین بستی ہے ۔۔۔۔۔۔ میری عزت پہ وار کیا تھا اس نے۔۔۔۔ کیسے چھوڑ دیتا میں اسے ۔۔۔۔۔۔۔ کیسے۔۔۔
سالار کی بولتے ہوئے آخر میں آواز نم ہوگئی تھی خود سے گلے لگائے اسکی آنکھ سے آنسو بہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے تم نے مجھ پہ کسی اور کو فوقیت دی کیسے۔۔۔۔۔۔۔ کیسے چھوڑ دیا تم نے مجھے عین ۔۔۔۔۔۔ کیسے؟؟؟؟؟
جانتی ہو کتنا یقین تھا مجھے کہ تم مجھے چنوگی میرے ساتھ چلو گی مگر تم ۔۔۔۔ تم نے ایسا نہیں کیا۔۔۔۔۔ تم نے مجھے چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو چنا عین۔۔۔۔۔۔۔
اتنا بھی نہ سوچا کہ تم تو پچھلی ساری زندگی انکے ساتھ ہی گزار کر آئی ہو ۔۔۔۔۔پر میرے ساتھ تو کوئی نہیں تھا کوئی نہیں نہ ماں نہ باپ ۔۔۔۔
پھر پتہ چلا کہ جسے میں ماں سمجھ رہا تھا وہ تو تھی ہی نہیں میری ماں ۔۔۔۔۔ میری ماں تو مجھے جنم دے کر چلی گئی تھی مجھے چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔ اور جو تھی وہ تو سوتیلی تھی میرے باپ کی دوسری بیوی ۔۔۔۔۔۔۔
سالار نے آج اپنے دل میں دبا ایک اور راذ بتا دیا تھا
عین اس انکشاف پر ششدر کھڑی رہ گئی تھی
تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا عین۔۔۔۔۔۔
آااپ۔۔۔۔۔۔ نے بھی تو ۔۔۔۔۔ چھوڑ دیا تھا مجھے اور دوسری شادی کرنے لگے تھے ۔۔۔۔۔ میں نے خود سنا تھا اپنے کانوں سے آپ برہان بھائی سے کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔
عین بھی اسکے ساتھ لگے ۔۔۔۔۔۔ لگے ہاتھ شکوہ بھی کر دیا تھا جو اس سب کی سب سے بڑی اور مین وجہ تھا ۔۔۔۔۔۔
اففففف۔۔۔۔۔ جنم ۔۔۔ وہ تو سب ناٹک تھا ۔۔۔ تمہیں سنا نے کے لئے کیا تھا تاکہ تم کچھ ری ایکٹ کرسکو ۔۔۔ تم اس بات کو پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ ادھر دیکھو میری طرف تم۔۔۔۔۔
سالار یہ سن کر حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔ تو گویا یہ وجہ تھی جو عین ایسے بی ہیو کر رہی تھی اس کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار اسکا چہرہ اوپر اٹھا تھا مگر جب اپنے غصے کا نشان اسکے لبوں پر دیکھا تو خود پہ بے انتہا غصہ آیا اسے ۔۔۔۔ یہ کیا کیا تھا اس نے۔۔
فورا"جھک کر اسکے لبوں پر پیار کرنے لگا ۔۔۔
پاگلوں کی طرح اسے پیار کئے جارہا تھا جیسے وہ اس کے زخم پر مرہم لگا رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئم۔۔۔۔۔۔ آئم۔۔۔۔ سوری ۔۔۔۔۔۔
مجھ۔۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔ممممعاف کر۔۔۔۔۔ دو ۔۔۔ پتہ نہیں کیسے کردیا میں نے یہ ۔۔۔۔۔
سالار اسے چھوڑ کر اپنے سر کے بال نوچ رہا تھا
عین کو وہ کوئی پاگل لگ رہا تھا
مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔
اچانک سالار آگے بڑھا اور لکڑی کا نوک دار ٹکڑا اٹھا کر اپنے ہونٹ میں گھونپ دیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے خون کی پھوار ابل پڑی تھی
عین پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی
یہ ۔۔۔۔۔ ییی۔۔۔۔ کیا ۔۔۔ کیا آپ نے پاگل ہوگئے ہیں آپ ۔۔۔۔۔ ہمت کیسے ہوئی آپ کی ایسا کرتے ہوئے
کوئی حق نہیں ہے آپ کو خود کو نقصان پہنچانے کا ہاں ۔۔۔۔۔ ہمت بھی کیسے کی۔۔۔۔۔ آپ میرے ہیں ۔۔۔۔ آپ صرف میرے ہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ کے وجود پر صرف اور صرف میرا حق ہے ۔۔۔۔ آپ خود کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔ آپ نہیں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ ہوں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔!!!
سمجھ آئی آپ کو ۔۔۔۔۔ آئندہ ایسا کیا نہ تو میں بھی خود کو ایسے ہی نقصان پہنچاؤگی
سمجھے یا پھر لگاؤں ایک تھپڑ ۔۔۔۔۔ عین نے روتے ہوئے بے دھیانی میں کیا بولے جارہی تھی اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ ڈھکے چھپے الفاظوں میں محبت کا اعتراف کر چکی ہے
سالار تو دنگ کھڑا بے یقین چہرہ لئے نم آنکھوں سے عین کو دیکھ رہا تھا جو اس نے کہا تھا کیا وہ سب سچ میں ہوا ہے یا پھر وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے
چلیں بھی اب کہاں کھو گئے ہیں ۔۔۔۔ چلیں مرہم لگاؤں میں اس پر ۔۔۔۔۔۔
عین اپنی آواز سے اسے یقین سونپتی اسے اپنے ساتھ گھسیٹتی سیڑھیاں چڑھتی اوپر لائی تھی اور گدے پر بٹھا کر فرسٹ ایڈ باکس ڈھونڈ نے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار کے سامنے بیٹھ کر اسنے روئی پایوڈین میں ڈبوئی اور سالار کے نچلے ہونٹ کے کونے پر رکھ کر پہلے اسے اچھی طرح آہستہ سے خون صاف کیا اور پھر آئنٹمنٹ لگایا
سالار خود کو مکلمل اسکے رحم و کرم پر ڈھیلا چھوڑتا اسکے ہر حکم پر سر خم کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
دو ۔۔۔۔ تمہیں بھی مرہم لگادوں۔۔۔۔۔۔
عین چیزیں واپس فرسٹ ایڈ باکس میں رکھ رہی تھی جب سالار نے ہاتھ آگے بڑہاتے ہوئے کہا
وہ۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔۔ آپ نے لگادیا۔۔۔۔۔۔
عین نے اسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑے ہلکی آواز میں کہا
سالار اسکی رونے کی وجہ سے سبز سرخ آنکھوں میں خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کر رہا تھا
کتنے ہی پل ایسے ہی ایک دوسرے کی آنکھوں کو تکنے میں نظر ہوگئے
اچانک عین نے اپنا چہرہ سالار کے چہرے کے قریب کیا اور آنکھیں موند کر اسکی چوٹ پر اپنے کپکپاتے نازک لب رکھ دیے ۔,۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار تو حیرت ورطہ حیرت میں ڈوبا ہوا اسکے لمس کو محسوس کر رہا تھا
اب بچا ہی کیا تھا جو اسے یہ بتا سکے کہ عین اس سے محبت کرتی ہے !!!!!!!!
یہ خیال ہی خوش کن تھا کہ اسکی محبت ،اسکا عشق اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے ورنہ کہاں وہ ڈرپوک نازک سی شرمیلی عین اور یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار کی تو مانو آج سب سے بڑی مراد بر آئی تھی
اسے اور کیا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔
کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
عین کے آگے دنیا کی ہر شے سالار کے لئے ہیج تھیں۔۔۔۔
دونوں ایک دوسرے میں گم ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کر رہے تھے
دل کی دھڑکنیں بھی آج رقص کر رہی تھیں
ہر چیز جیسے آج انکے ساتھ خوشی سے ناچ رہی تھی
یہ سرد ہو آئیں ۔۔۔۔ پرندوں کے گیت۔۔۔۔۔ انکی خوشی میں خوش جھوم جھوم رہے تھے
__________________
دو سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔
سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے ہر کوئی آج کی تقریب کے لئے خاص طور پر تیار ہو کر آیا تھا
سالار وائیٹ اینڈ بلیک سوٹ میں سوٹڈ بوٹڈ ڈیشنگ لگ رہا تھا اور اوپر سے اسکے چہرے کی چمک اور لبوں پر چھائی دلکش مسکراہٹ اسکے وجاہت سے بھرپور وجود کو چار چاند لگا رہے تھے
اتنے میں بجتا میوزک ایک دم بند ہوا
اور سامنے سیڑھیوں سے عین اترتی ہوئی آرہی تھی بلیک کلر کے فراک اور بلیک ہی چوڑی دار پاجامہ پہنے ہمرنگ حجاب پہنے سہج سہج کر قدم رکھتی سپوٹ لائٹ کی روشنی میں اتر رہی تھی۔۔۔۔
سوائے گھر والوں کے باہر کا کوئی بھی مردانہ نہیں تھا عورتیں ضرور موجود تھیں
عین بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی
سالار یک ٹک سا اسے گہری چاہت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا
سالار کی نظروں کی تپش عین باخوبی اپنے اوپر شدت سے محسوس کر رہی تھی اور وہ پگھلی جارہی تھی
سالار نے آخری سیڑھی پر عین کے پہنچنے پر
اسکو ہاتھ تھام کر اتارا اور پھر درمیان میں لاکر کھڑا ہوگیا اور بایاں ہاتھ اسکی کمر کے گرد پھیلا لیا ۔۔۔۔ عین نے شرماتے ہوئے اسے آنکھیں دکھا ئیں کہ باقیوں کا ہی خیال کر لو کچھ مگر سالار کو کہاں فرق پڑنے والا تھا۔۔۔۔۔ مزے مسکراتے ہوئے اسے آنکھ ماری اور اسے اور بھی اپنے قریب کیا
نور سٹپٹاتے ہوئے آس پاس دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ۔۔۔۔ پھر تسلی ہونے پر اسکی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا کہ یہ کہاں باز آئے گے تم ہی احتیاط کرلو تھوڑی ۔۔۔۔۔
ارے بھئی اپنی بچی کے بغیر ہی کیک کٹ کرلوگے گیا آپ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔
رباب کیک پر نظریں رکھے اپنے بھاری وجود کو چھپائے مزے سے بولی
اللہ تعالہ برہان کو ایک اور خوشی سے نواز نے والا تھا
ہاں بھئی کہاں ہیں ہماری جنم کی جان ۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار پھر سے شرارت کرتے ہوئے بولا تو سب نے بے ساختہ قہقہے لگانے لگے۔۔۔۔۔
یہ رہی ہماری سب کی جان ۔۔۔۔۔
حورالعین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عین کی گود میں حورالعین کو شمائلہ بیگم نے پکڑاتے ہوئے پیار سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں نے اسے پکڑ کر مسکراتے ہوئے زندگی سے بھرپور مکمل منظر کے ساتھ کیک کاٹا ۔۔۔۔۔۔
آج انکی ویڈنگ اینی ورسری تھی جو سالار نے بڑی دھوم دھام سے منائی تھی
کیمرے نے ان تینوں کی یادگار فوٹو کھینچی تھی
حور بہت جلد سو بھی گئی تھی اور رباب اسے اور اپنی دونوں بیٹیوں کو لئے گھر کے لئے نکل پڑی چونکہ آج انکی اینی ورسری تھی تو وہ ان دونوں کو کچھ ٹائم اکیلے میں بتا نے کے لئے چھوڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی سب بھی جاچکے تھے
نور چینج کرنے گئی تھی ۔۔۔۔ سالار نے اس سے کہا تھا
سالار نیچے لاؤنج میں کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا جب عین شرم سے سرخ ہوتی اسکے پیچھے آئی اور سالار اسے دیکھتے ہی مبہوت رہ گیا
تیز مونگیا رنگ کے سلیو لیس گھٹنوں تک آتی ڈریس میں وہ بے پناہ خوبصورت لگ رہی تھی
سالار اسکے آگے ہاتھ بڑھایا جس کو عین نے بنا دیر کئے اپنا ہاتھ اسے سونپ دیا
سالار اسے لئے کارپٹ پہ بلکل درمیان میں آیا اور پھر مدھر سا میوزک بجنے لگا سالار اور عین ایک دوسرے میں کھوئے ڈانس کرنے لگے تھے
انکی آنکھوں کے سامنے ہر وہ منظر گھومنے لگا جو ان دونوں کی زندگی میں خوشی اور غم کی وجہ بنے تھے
دونوں اب اپنی زندگی سے مطمئن تھے خوش و شادماں تھے
اب کوئی بھی غم کا بادل ان پر نہیں آنے والا تھا اگر آیا بھی تو دونوں مل کر اسکا سا منہ کریں گے
سالار نے عین کو اپنی باہوں میں بھر کر اٹھایا اور اپنی منزل کی جانب بڑھ گیا جہاں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں اسکی منتظر تھیں جہاں کوئی بھی انکی خوشیوں کو نظر لگانے والا نہ تھا۔۔۔۔۔۔
سالار اور عین ایک ہوگئے تھے ہمیشہ کے لئے ۔۔۔ تا عمر ۔۔۔۔۔ تک۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Tumhe Jana Ijazat Hai Season 2 Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tumhe Jana Ijazat Hai Season 2 written by Amrah Sheikh. Tumhe Jana Ijazat Hai Season 2 by Amrah Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment