Pages

Sunday, 6 October 2024

Main Heer Ranjhan Yaar Di By Faiza Ahmed Complete Romantic Novel

Main Heer Ranjhan Yaar Di By Faiza Ahmad New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Main Heer Ranjhan Yaar Di By Faiza Ahmed Complete Romantic Novel 

Novel Name: Main Heer Ranjhan Yaar Di

Writer Name: Faiza Ahmed

Category: Complete Novel

سر جھکائے پچھلے بینچ پر بیٹھی وہ نوٹ بک پر مسلسل کچھ لکھ رہی تھی ۔

بڑی سے سفید چادر ارد گرد اچھے سے اوڑھے ہوئے وہ اپنے کام میں مگن سی تھی ۔

وہ اکیلی بیٹھی ہوئی تھی جبکہ باقی سب لڑکیاں ہنسی خوشی شرارتوں میں مگن تھیں ۔


اسکی کوئی دوست نہیں تھی وہ اپنی زات کی طرح اس دنیا میں اکیلی تھی ایک ماں تھی وہ بھی بیمار اور ایک چھوٹا دس سال کا بھائی۔۔۔

اسے دیکھو میسنی کو ہر وقت پتا نہیں کیا لکھتی رہتی ہے ۔

ملائکہ نے اپنی ساتھی دوست کو کہنی مارتے ہوئے اس پر طنز کیا ۔


وہ سب اب اس پر طنز پر طنز کرنے لگیں تھیں ۔

وہ بنا ان پر دھیان دئیے اپنے کام میں مگن رہی کہ لوگوں کا کام ہے باتیں بنانا انہیں انکا کام کرنے دینا چاہئیے آخر کب تک کریں گئے آخر کار چپ تو ہونا ہی پڑے گا انہیں ۔۔


سر جھٹکتی ہوئی وہ پھر سے بہت توجہ سے نوٹ بک پر کچھ لکھنے لگی تھی۔

کالج کی چھٹی کی محصوص گھنٹی بجنے پر سب لڑکیاں بیگ اٹھاتیں ہوئی باہر کی طرف دوڑیں تھیں۔


کلاس روم خالی ہونے کے بعد وہ گہرا سانس لیتی ہوئی اٹھی ۔

بیگ کندھے پر رکھ کر وہ دھیمے دھیمے قدموں سے باہر کی طرف بڑھنے لگی تھی ۔

آنکھوں میں نمی تھی پتا نہیں کس لیے تھی یہ نمی ۔۔۔

بھوک سے پیٹ میں درد شروع ہو گیا تھا آخر دو دن سے اس نے پانی اور قہقوے پر گزارا تھا درد تو ہونا ہی تھا نا ۔

___________________________

بلیک پراڈو اپنی محصوص رفتار سے ایک بڑے سے محل میں آکر رکی تھی گاڑی کے رکتے ہی تین چار ملازم بھاگتے ہوئے گاڑی کے نزدیک آئے تھے گاڑی کا ڈور اخترام سے کھول کر وہ سب پیچھے ہوئے تھے ۔۔

اندر سے نکلتی شخصیت کو دیکھ کر پہلی بار کوئی بھی ساکت رہ جاتا ۔

گہری نیلی آنکھوں میں ایک سرد پن لیے وہ باہر آیا تھا مغرور کھڑی ناک پر ہمہ وقت غصہ ہی رہتا تھا ۔


سحر انگیز شخصیت والا وہ انسان پورے سات گاوں کا سردار تھا جو باہر سے پڑھ کر آیا تھا ۔

سب ملازم ہاتھ باندھے بہت اخترام سے اسے سلام پیش کر رہے تھے ۔

وہ سر ہلاتا ہوا بڑے سے دروازے کے سامنے رکا جہاں آج سارا گھر جمع تھا آخر وہ سردار اور اس گھر کا سب سے بڑا بیٹا تھا جو آج پورے پانچ سال بعد اپنے وطن لوٹا تھا ۔

خشمت شاہ نے اسکی طرف اپنے مضبوط بازو بڑھائے تھے ۔

وہ ہلکا سا مسکرایا ۔

جس پر تینوں لڑکیاں حیرت زدہ ہوئیں تھیں اسکے گالوں پر پڑتے گھڑے تو کسی کو بھی گھائل کر سکتے تھے ۔

اپنے باپ کے گلے وہ کسی بچے کی طرح لگا تھا ۔

اپنے باپ سے اسے بہت محبت تھی اور انہیں اپنے اکلوتے بیٹے سے بے انتہا محبت تھی ۔

وہ آہستہ آہستہ سب سے مل رہا تھا ۔

بہت سے چہروں پر اسکے لیے حسد اور نفرت تھی آخر کیوں ؟

سب سے ملتا وہ سپاٹ تاثرات چہرے پر لیے اپنے کمرے کی طرف تیز قدموں سے بڑھ تھا ۔

باقی سب بھی باتیں کرتے ہوئے لاونج میں پڑے صوفوں پر بیٹھے تھے ۔۔

تیمور میں کہہ رہا تھا کیوں نا کل رات سارے علاقے میں دعوت نامہ بھیجا جائے آخر انکا سردار واپس آیا ہے انکی دعوت کرنا تو بنتا ہے نا ۔

خشام صاحب نے سنجیدگی سے اپنےچھوٹے بھائی کو مخاطب کیا ۔

آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن کہنے میں دیری کردی ہے ہم دعوت نامہ آج صبح ہی پہنچا چکے ہیں ۔

تیمور صاحب مونچھوں کو مڑوڑتے ہوئے خوش اخلاقی سے بولے جس پر وہ تینوں بھائی کل ہونے والی دعوت کے بارے میں ڈسکس کرنے لگے تھے ۔

انہیں تو اپنے بھائی اور بھتیجے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔


نوشین بیگم تنک کر بڑبڑائی تھی ۔


تینوں لڑکیاں صوفے پر بیٹھی اپنے کزن کی پرسنلٹی کے بارے میں باتیں کر رہیں تھیں جبکہ نوشین اور ماہین بیگم جل بھن رہیں تھیں آخر انکے بیٹوں میں آخر کس چیز کی کمی تھی جو سردری کی پگڑی اسکے سر پر رکھی جا رہی تھی جو سب لوگوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا کسی سے بات تک وہ ٹھیک سے نہیں کرتا تھا ۔


____________________________

کچن میں پڑے خالی برتن اسے رولا گئے تھے سچ کہتے ہیں بھوک سے بڑا کوئی عذاب نہیں ہوتا ۔

ہیر بچے قہوہ ہی بنا دو اگر قہوے کا سامان ہے تو ۔

اندر سے آتی اماں کی پکار پر وہ بھاری قدموں سے قہوے کا سامان ٹٹولنے لگی لیکن خالی پڑے جار اسے خون کے آسو رو لا گئے ۔

چچی اماں پانچ منٹ انتظار کریں میں بناتی ہوں ہاتھ منہ دھو لوں پہلے ۔

کچن سے ہی آواز لگاتی وہ باہر کے خارجی دروازے کی طرف بڑھی ۔


کالی چادر کو اچھے سے اوڑھے وہ چچا مختیار کی دکان پر آئی چچا مختیار تو اچھے تھے لیکن انکا بیٹا عرفان وہ ایک نمبر کا گھٹیا انسان تھا ۔

دکان میں چچا مختیار کی بجائے عرفان کو دیکھ کر اسکے قدم بھاری ہوئے تھے ۔

پھر بھی قدم گھسیٹتی ہوئی وہ دکان کے دروازے کے پاس آئی ۔

عرفان کسی گاہک کو سودا پکڑاتا اسے دیکھ کر خباثت سے مسکرایا ۔

وہ لرزی تھی پھر چچی امی کا خیال کرتی ہوئی وہ اندر آئی ۔۔

عرفان بھائی مجھے قہوے کا سامان دے دیں میں کل یا پرسوں آپکو پیسے لوٹا دوں گئی ۔۔

سر جھکائے وہ نرم لہجے میں بولی تھی ۔

عرفان کمینگی مسکراہٹ سے اسکے سراپے کو دیکھتا ہنسا وہ لڑکی حد سے زیادہ کمزور تھی عام سی شکل بکھڑے بال جو چادر سے آدھے باہر نکلے ہوئے تھے۔

مل جائے گا لیکن میری ایک شرط ہے ۔

اسکے نزدیک آتا وہ زرا روعب سے بولا۔

آنکھیں میچے وہ ضبط کے گھونٹ بھرتی اسکے اگلے جملے کا انتظار کرنے لگی ۔۔

تمہیں مجھ سے تھوڑا سا فری ہونا پڑے گا زیادہ نہیں بس تھوڑا سا میری بنو ۔۔

وہ اسکے ہاتھ کی پشت پر انگلیاں پھیرتا کمینگی سے بولتا ہیر رضا کا دل لرزا گیا تھا وہ خوف سے پیچھے ہٹتی ہوئی جانے ہی لگی تھی جب سامنے سے چچا مختیار کو آتے دیکھ کر وہ رکی۔


عرفان بھوکھلا کر جلدی سے کاونٹر کے ہیچھے ہوا ۔۔

کیا بات ہے بیٹا کچھ چاہئیے تھا۔

چچا مختیار نے اسکی سرخ آبخنکھوں کو دیکھ کر تشویش سے پوچھا ۔

چچا قہوے کا سامان چاہئیے تھا چچی اماں کو بنا کر دینا ہے ۔

اسکے لرزتے لہجے پر چچا مختیار نے آفسوس سے اس بیس سال کی لڑکی کو دیکھا پھر اپنے بِیٹے کو تندہی سے گھورا ۔

عرفان بھوکھلاتے ہوئے حساب کتاب کی کاپی لے کر بیٹھ گیا تھا جیسے بہت حساب آتا ہو اس نالائق کو ۔۔


تم رکو بیٹا میں دیتا ہوں ۔

اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ قہوے کا سامان شاپر میں ڈالنے لگے ۔۔

اور آخر میں بیس روپے والا بسکٹ بھی اسے پکڑ ادیا ۔

چچا مجھے طخبس قہوے کا سامان چاہئے بسکٹ تو میں نے نہیں مانگے ۔۔

وہ دھیمے لہجے میں بولتی مختیار صاحب کو بڑی پیاری لگی ۔۔

بیٹا یہ میں اپنی بیٹی کو کھانے کے لیے دے رہا ہوں اور اسکے پیسے بھی میں نہیں لکھوں گا تم کھا لینا بیٹا ۔

مختیار چچا نے اسکے چہرے پر بھوک کے سائے دیکھ لیے تھے ۔

لیکن چچا ۔

وہ لینے سے ہچکچا رہی تھی ۔

بس بیٹا اسے رکھ لو مجھے اپنے چچا کی ہی جگہ رکھا کرو۔

وہ شفقت سے اسے زبردستی پکڑاتے نئے آئے گاہک کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔۔۔


گلی میں آتے ہی اس نے وہ بسکٹ کا پیکٹ کھولا ۔


منہ کی طرف بڑھایا بسکٹ وہی ساکت رہ گیا تھا ۔

امی اور بھائی کی بھوک کا احساس اسے آنکھیں میچنے پر مجبور کر گیا تھا ۔


لب سختی سے بھینچے وہ بسکٹ پیکٹ میں ڈال کر گھر میں آگئی ۔


چولہے پر پانی رکھ کر وہ قہوہ تیار کرنے لگی تھی تین کپ قہوہ بنا کر ساتھ پلیٹ میں بسکٹ بھی ڈال کر لے آئی تھی وہ۔

جہاں اسکی ماں(چچی) اسکی انتظار میں تھی جبکہ اسکا چھوٹا بھائی(چچی کا بیٹا) نوٹ بک پر جھکا ہوم ورک کر رہا تھا وہ دونوں بہن بھائی گورنمنٹ سکولز میں پڑھتے تھے ۔

بسکٹ وہ ان دونوں ماں بیٹے کے سامنے رکھ گئی تھی ۔

نائلہ بیگم نے اسکا چہرہ دیکھا جو پیلا پڑ چکا تھا انہیں دل میں درد سا اٹھتا ہوا محسوس ہوا انکے شوہر کو کتنی پیاری تھی یہ لڑکی اور آج وہ بھوک و افلاس سے دن با دن مڑجھائے جا رہی تھی ۔

انہوں نے بسکٹ کو اسکے ہونٹوں کی طرف بڑھایا ۔

انہیں ضبط سے دیکھتی وہ نفی میں سر ہلا گئی ۔

ہیر کھا لو میری بچی میں جانتی ہوں تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا کھالو میری بچی۔۔

نائلہ کہتے ہی رو دئی تھی رو تو وہ بھی دی تھی ۔

آخر کب تک ضبط کرتی ۔۔

چچی یہ دن کب بدلیں گئے ۔

وہ انکا ہاتھ تھام کر آس سے پوچھ رہی تھی ۔

بہت جلد تم دیکھنا ہم پھر سے خوشیوں بھری زندگی گزاریں گئے میری بچی بس خدا کی ذات پر بھروسہ رکھو اگر وہ دکھ والے دن لاتا ہے تو خوشیوں بھرے دن بھی جلد لائے گا بس صبر کرنا ۔۔

نائلہ خاتون نے اسکا سر شفقت سے چومتے ہوئے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا ۔

خیام ساکت سا بیٹھا اپنی ماں بہن کو وہ چھوٹا سا بچہ بہت ضبط سے دیکھ رہا تھا ۔

آپی آپ پریشان نا ہوں آپکا بھائی ہے نا۔

خیام نے اسکا ہاتھ ہونٹوں سے چھوتے ہوئے اپنے بھائی ہونے کا احساس دلایا تھا ۔

وہ دونوں اسے دیکھتی مسکرا دیں لیکن اس مسکراہٹ میں چھپا درد کوئی نہیں پہچانتا تھا ۔

محلے والے انہیں ختم وغیرہ پر ہی کوئی کھانے کی چیز بھیجتے تھے ورنہ کبھی کسی نے جھوٹے منہ بھی انہیں کھانے یا پیسوں کی صلح نہیں ماری تھی ۔

__________________________


کمرہ کیا تھا کوئی محل ہی تھا انتہا کا خوبصورت کمرہ جس کی دو والز تو شیشے کی تھیں ،بڑا سا جہازی سائز گول بیڈ کمرے کے وسعت میں پڑا ہوا تھا ۔

ّوائٹ اور گوکڈن تھیم کا وہ کمرہ دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا تھا ۔۔

بیزار تاثرات سے کمرے کو دیکھتا وہ واش روم میں چلا گیا تھا ۔

جب وہ فریش ہو کر آیا تو اسکا باپ اسی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ۔

ڈیڈ آپ ؟

وہ آہستہ سے کہتا ہوا انکے قریب آیا ۔۔۔

بیٹا کل ہم نے آس پاس کے سب علاقے مکینوں کو دعوت پر بلایا ہے صبح جلدی اٹھ جانا تمہیں اپنے دادا کی قبر پر بھی تو جانا ہے نا اور پھر لوگ اپنے سردار سے ملنے ملانے چلے آئیں گئے تو کافی وقت لگے گا ۔

وہ اسے بتا رہے تھے لیکن جانتے تھے انکے مغرور بیٹے کے خوبصورت چہرے پر بیزاری والے تاثرات ضرور رقم ہوں گئے آخر اپنے بیٹے کی نس نس واقف جو تھے ۔۔۔

ڈیڈ یار پلیز بورنگ باتیں بعد میں بھی ہو سکتی ہیں میں اس وقت صرف سونا چاہتا ہوں ۔

بنا شرٹ کے مرر کے آگے کھڑا وہ باڈی سپرے کرتا بیزاری سے بولا ۔


تیمور صاحب مسکرائے ۔

اوکے صبح ناشتے پر ملاقات ہوتی ہے ، گڈ نائٹ مائے سن ۔

بیٹے کو دیکھ کر کہتے وہ کمرے سے چلے گئے ۔

گڈ نائٹ ۔

دھیمے سے کہتا وہ بیڈ کی طرف بڑھا ۔

بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا وہ کسی کے بارے میں سوچتا ہوا نیند کی وادیوں میں اتر گیا تھا۔۔۔

___________________________

جیسے ہی وہ کالج سے گھر آئی ،

پاس والی ماسی رشیداں اسی کے انتظار میں اسکی چچی کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔


السلام علیکم ۔

دھیمے لہجے میں اسلام کرتی وہ چچی کے پاس بیٹھی۔

وعلیکم السلام ۔

ماسی رشیداں نے خوش اخلاقی سے اسے جواب دیا۔

بیٹا آج 6 بجے تیار رہنا ۔

ماسی رشیداں کے کہنے پر وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی ۔

آج پاس والے گاوّں سردار تیمور خان کے گھر دعوت ہے انہوں نے تو سب کو دعوت دی ہے تم بھی چلنا کھانا وغیرہ لے آنا ۔

ماسی رشیداں کے کہنے پر وہ اپنےماں کو نا سمجھی سے دیکھنے لگیں ۔

جس پر نائلہ بیگم سر جھکا گئی ۔

وہ گہرا سانس لیتی ماسی رشیداں کو جانے کی خامی بھر گئی۔

ہیر جاو وردی بدل لو گندی ہو جائے گئی ۔

نائلہ بیگم کے کہنے پر وہ سر ہلاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔

نائلہ جتنی جلدی یوتا ہے اسے اپنے گھر کی کردو آخر زندگی کا کیا بھروسہ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو جوان بچی کہاں جائے گئی آج کل کے لوگ تو مردار نہیں چھوڑتے ،وہ تو پھر جیتی جاگتی انسان ہے ۔

ماسی رشیداں کے کہنے پر نائلہ بیگم ساکت سی ماسی رشیداں کو دیکھنے لگی ۔

ماسی ہمارے پاس تو کھانے کے لیے ایک وقت کا کھانا نہیں ایسے میں کون ہمارے گھر رشتہ لے کر آئے گا ۔

نائلہ بیگم آفسردگی سے بولی ۔

ارے تم فکر مت کرو میں ڈھونڈ لوں گئی بچی کے لیے کوئی اچھا سا رشتہ آخر کو ہیر میری بھی بیٹی ہے بس اب سے میں اسکے لیے کوئی اچھا سا رشتہ دیکھنا شروع کر دیتی ہوں ۔

ماسی رشیداں کے کہنے پر نائلہ آہستہ سے سر ہلا گئی لیکن چہرے پر پریشانی چھا گئی تھی انہوں نے تو سوچا ہی نہیں تھا انکی چھوٹی سی ہیر اتنی بڑی ہو گئی ہے اور ماسی رشیداں سچ ہی تو کہہ رہی تھی اپنے شوہر کے جانے کے بعد انہوں نے دنیا کا اصلی چہرہ تو دیکھ ہی لیا تھا وہ ہیر کے ساتھ کچھ برا نہیں ہوتے دیکھ سکتیں تھیں۔

___________________________

مما غازان تو پہلے سے بھی خوبصورت ہو گئے ہیں ۔۔

مہرینہ نے ماں کے ہاتھ سے دودھ پکڑتے ہوئے کسی افسوں میں کھوئے ہوئے کہا۔

مہرینہ آہستہ بولو اور اسے سردار کہو اگر کسی نے تمہارے منہ سے یوں غازان کہا سن لیا ہوتا تو ہنگامہ ہو جاتا کیا تم نہیں جانتی سردار کا نام نہیں بلایا جاتا آئندہ دھیان رکھنا اس بات۔

ماہین بیگم نے اسے تندہی سے دیکھتا ہوئے آہستہ آواز میں ٹوکا ۔۔

افف ایک تو آپ لوگ نا ۔

وہ سر جھٹک گئی ۔

مما سراد کی شادی کس سے ہو گئی ۔

مہرینہ نے مچلتے دل سے پوچھا ۔

تم جانتی ہو اسکی شادی صرف اور صرف شائنہ ولید سے ہو گئی پھر اس سب بکواس کا کیا فائدہ ۔۔۔

ماہکن بیگم کے غصے سے کہنے پر وہ پیر پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

کیا کروں میں اس پاگل لڑکی کا ۔

ماہین بیگم بے بسی سے کہتی ہوئیں اسکا دودھ کا گلاس اٹھانے لگیں جسے اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا ۔۔۔

شام کو چھت پر وہ واحد بچھی چارپائی پر بیٹھی دوسروں کے گھروں سے آتی کھانے کی مہک پر آنسو پینے لگی ۔

بھوک تو اسکی ماں ، بھائی اور اسے بھی بہت لگی تھی ۔

کیا کروں میں اللہ کہاں جاوں ۔

گھٹنوں کے گرد ہاتھ باندھتی وہ رودی ۔

بھوک کے مارے اس سے لیٹا بھی نہِیں جا رہا تھا۔۔

ہیر ناسی رشیداں آئیں ہیں ۔

نیچے سے آتی چچی امی کی آواز پر وہ آہستہ سے اٹھی۔

مٹکے میں رکھے پانی سے اچھی طرح چہرہ دھوتی وہ سیڑیاں اترتی نیچے آئی ۔

چل بیٹا سردار محل چلتے ہیں میں نے تجھے بتایا تھا نا دعوت کے بارے میں۔

ماسی رشیداں نے اسے یاد دلایا ۔

وہ خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھتی سر ہلا گئی ۔

میں چادر لے آوں ۔۔

آہستہ سے کہتی وہ چچی کے کمرے میں آئی کِلی پر ٹنگی انکی کالی چادر لے کر وہ اچھے سے اوڑھتی ہوئی باہر آئی ۔۔

چچی میں جاوں ۔۔

ان سے پوچھتی وہ انکا دل رو لا گئی ۔

ہاں جاو ساتھ خیام کو بھی لے جاو رات کا وقت ہے بیٹا۔

نائلہ نے اسکی خالی خالی نظروں سے آنکھیں چڑاتے ہوئے کہا۔

خیام جاوّ آپی کے ساتھ ۔

نائلہ نے بک کھولے خیام کو مخاطب کیا جو سر ہلا کر بک بند کرتا اپنی آپی کا ہاتھ پکڑتا ماسی رشیداں کے ساتھ نکل چکا تھا ۔


آج تو بندو بست ہو جائے گا کل کیا ہو گا پرسوں کیا ہو گا ۔۔

دل میں سوچتی ہوئی وہ ٹھوکڑ کھا کر نیچے گری تھی۔

آپی آپ ٹھیک ہیں ۔۔

خیام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے پریشانی سے پوچھا۔

ہاں خیام ٹھیک ہوں بس گر گئی تھی۔

بھرائے ہوئے لہجے میں بولتی وہ اپنے بھائی کے سہارے اٹھی۔

جلدی چلو تم لوگ ورنہ دعوت کا وقت نکل جائے گا۔

ماسی رشیداں کے ڈانٹنے پر وہ پیروں کو گھسیٹنے لگی تھی ،

بھوک سے اس سے ایک قدم نہیں چلا جا رہا تھا یہ وہی جانتی تھی یا اسکا رب کے وہ کیسے چل رہی تھی ۔۔

آدھے گھنٹے بعد وہ بڑے سے سفید محل کے آگے تھے ۔

بہت آہستہ چلتی ہو لڑکی تم دس منٹ کا سفر تم نے مجھ سے آدھے گھنٹے میں کروایا ہے ارے تمہارے جتنے ہوتے تھے تو پیدل شہر چلے جایا کرتے تھے بیلی سے لکڑیاں کاٹ کر لے آیا کرتے تھے لیکن تمہارا پتا نہیں کیا بنے گا سست لڑکی !


ماسی رشیداں اسے ڈانٹ رہی تھی جس کی جان لبوں کو آئی ہوئی تھی ۔

سرجھکائے ہی وہ انکی ڈانٹ سنتی محل کے لان میں آگئ ۔۔


جہاں قدم رکھنے کو جگہ نہیں تھی ایسا لگتا تھا جیسے ساری دنیا ہی یہاں جمع ہو گئی ہو ۔۔

خیام تو بہت اشتیاق سے ہر طرف دیکھ رہا تھا جبکہ وہ پھولوں کی کیاری کے پاس بیٹھ گئی کہ اس میں کھڑا ہونے کی اور ہمت نہیں تھی ۔

بھائی ایک گلاس پانی دینا ۔۔

پاس سے گزرتے ایک لڑکے سے اس نے بڑی منت سے کہا جو کولڈ ڈرنکس کے گلاس ٹرے میں رکھے ہوئے تھا ۔

اس لڑکے نے اسے گھورا ۔

تمہارا نوکر نہِیں ہوں جاوّ جاو کر خود لے لو پتا نہِیںخ کہاں کہاں سے بھکاری آجاتے ہیں۔

وہ لڑکا غصے سے کہتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔

پیٹ پر ہاتھ رکھتی اسکی بڑی بڑی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرے تھے جنہیں وہی ہتھیلی سے رگڑ کر صاف کرتی ہوئی وہ ٹہنی کے سہارے اٹھی ۔۔

خیام !

دور کھڑے خیام کو اس نے آواز لگائی ۔

خیام بھاگ کر اسکے قریب آیا۔

جی آپی ۔۔

وہ لڑکا اسکی روئی آنکھوں میں دیکھتا پریشانی سے بولا ۔

بیٹا پانی لادو کہی سے ۔

بھرائے ہوئے لہجے میں کہتی وہ اپنے بھائی سے شرمندہ بھی ہوئی تھی ۔

خیام سر ہلا کر بائیں سائیڈ کو بھاگا ۔

اچانک سے ہی شور اٹھا تھا ۔

لوگوں کا ہجوم سا اکٹھا ہونے لگا تھا لوگوں کے دھکے پر دھکے لگنے لگے تھے ۔

وہ دو بار نیچے گری تھی اگر نیچے بیٹھی رہتی تو اسے یقین تھا لوگ اسکے کچلتے ہوِے آگے بڑھ جاتے ۔۔


امی !

تیسری بار گرنے پر وہ تکلیف سے روئی تھی ۔۔

سب لوگ لان کے ایک طرف بنے سٹیج کی طرف جمع ہونے لگے تھے ۔


لان انتہا سے زیادہ بڑا تھا ۔

سٹیج کو لال سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا اوپر ریڈ ویلوٹ کے صوفے رکھے ہوئے تھے ۔۔

آپی پانی ۔۔

خیام نے اسکے ہونٹوں سے اپنی لگاتے ہوئے اسے مخاطب کیا ۔

وہ ایک ہی سانس میں پانی کا سارا گلاس خالی کر گئی تھی ۔

آپی یہ بھی کھائیں ۔

خیام نے تھالی میں رکھی روٹی اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔


وہ روٹی دیکھتی اپنے بھائی کو دیکھنے لگی ۔۔

تم کھالو میں اب ٹھیک ہوں ۔

اسکے بال انگلی سے چھوتی ہوئی وہ محبت سے بولی ۔

آپ پہلے کھا لیں میں بعد میں کھا لیتا ہوں وہاں اس سائیڈ کھانے کا بہت بڑا انتظام کیا گیا ہے آپی، میں ادھر ہی جا رہا ہوں ابھی ۔۔

وہ اسکی گود میں پلیٹ رکھ کر کہتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا ۔۔

وہ مسکرائی ۔۔

روٹی کی طے کھولتی وہ روٹی کے بڑے بڑے لقمے لینے لگی تھی ۔۔

آفرین ہے لڑکی تم پر سردار آنے والے ہیں اور تمہیں روٹی کی پی ہوئی ہے رکھو اسے نیچے اور اپنے سردار کا اٹھ کر استقبال کرو ۔

ماسی رشیداں کے تندہی سے کہنے پر و آدھی کھائی روٹی کو دیکھتی کھڑی ہوئی جو آدھی بچی تھی وہ اسے ہاتھ میں قید کر گئی ۔۔

اب چلو ندیدی کہی کی۔

ماسی رشیداں غصے سے کہتی ہوئی آگے بڑھی ۔

وہ روٹی کو دیکھتی ہوئی اسے ہلیٹ میں ہی رکھ گئی ۔۔

انکے ساتھ چلتی وہ ایک طرف کھڑی ہو گئی ۔۔

سردار غازان تیمور خان زندہ باد ۔۔

آپ کا استقبال ہے ہم سب کے علاقے میں۔۔۔۔

اسکی لون میں ہوتی اینٹری لوگوں میں اشتیاق کی لہڑ دوڑا گئی تھی ۔

سب لوگ مل کر خوشی سے نعرے لگانے لگے تھے ۔۔

اس نے ہاتھ اوپر اٹھا کر ان کے جوش کا جواب دیا تھا۔

بہت سارے لوگوں میں گرا وہ سٹیج تک آیا تھا اسکے اوپر پھولوں کی برسات کر دی گئی تھی ۔

چہرے پر بیزاری واضع دیکھی جا سکتی ۔

عنابی ہونٹ بھینچے وہ اپنے باپ کے کان میں کچھ بات کر رہا تھا ۔۔


ہیر نے ایڑیاں اٹھا کر اپنے سردار کو دیکھنا چاہا لیکن ناکام رہی تھی ۔۔

وہ اب ان سے کچھ بات کر رہا تھا آواز بہت روعب دار تھی چہرے پر سنجدگی سجائے وہ اپنے لوگوں سے مخاطب تھا انکی پرخلوصیت کا شکر گزار تھا ۔۔

ہیر تک بس اسکی آواز ہی رہی تھی ۔۔


کچھ دیر بعد وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا اسکے باپ کے لیے یہ بھی بہت تھا جس نے آدھا گھنٹہ تو دیا تھا اپنے لوگوں کو ۔۔۔

آپی ہمارے نئے سردار بہت خوبصورت ہیں ایک دم پرنس جیسے ۔۔

خیام کہی سے دیکھ آیا تھا اب اپنی آپی کو بہت پر اشتیاق سے بتا رہا تھا ۔

وہ بیزاری سے کندھے اچکا گئی کہ پہلے سردار نے کونسا انکے لیے کچھ کیا تھا جو یہ کرتا اس لیے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی سردار شردار سے ۔

تم دونوں یہی رہنا وہاں کھانا تقسیم کیا جا رہا ہے چلو آو میرے ساتھ ۔

ماسی رشیداں کی خونخوار آواز پر وہ جلدی سے ماسی کے ساتھ لپکے ۔۔۔

ماسی کے کہنے پر انہیں بھی کھانا دے دیا گیا تھا شاپر میں ڈال کر وہ دونوں بہن بھائی وہاں سے نکل گئے کہ انکی بھوکھی ماں انکا گھر انتظار کر رہی تھی۔۔

ماسی رشیداں تو وہاں کی خاص خادمہ تھی وہ تو اب رات گئے تک ہی واپس آتی وہ اتنی دیر نہیں رک سکتے تھے ۔۔


آپی آپ سردار کو دیکھتی نا حیرت سے دو چار ہو جاتی یہ لمبا قد اور آپ کو پتا ہے انکی آنکھیں گہری نیلی تھیں جیسے انگلش ہیرو کی ہوتیں ہیں اور وہ بہت روعب سے بول رہے تھے ۔۔

خیام کی تو زبان پر تو آج اپنے سردار کی ہی باتیں تھیں ۔

بس کردو خیمی ہمیں کیا وہ جیسے بھی ہوں تم قدم جلدی آگے بڑھاو گھر امی راہ دیکھ رہیں ہوں گئیں ۔۔

اسے ڈانٹتی ہوئی وہ دائیں طرف جاتی کچی سڑک کی طرف بڑھی ۔۔

خیام نے خفگی سے منہ بسورا ۔۔

گاوں میں آج سناٹا سا چھایا ہوا تھا کیونکہ سب لوگ تو سردار محل میں جمع تھے ۔۔

گھر میں قدم رکھتی وہ جلدی سے کچن کی طرف آئی ۔۔

پلیٹوں میں کھانا ڈالتی وہ چچی امی کے کمرے میں آئی جہاں خیام پھر سے شروع ہو چکا تھا نئے سردار کی شان میں قصیدے پڑھنا۔

خیام بس کردو اب چلو کھانا کھاتے ہیں ۔۔

نیچے چٹائی پر وہ کھانا رکھتی خیام کو ڑوک گئی ۔۔

نائلہ نے کتنے عرصے بعد دنوں بچوں کے چہروں پر خوشی دیکھی تھی ۔

کھانا دونوں بچوں کے منہ میں ڈالتی وہ اندر سے روئی انکے دونوں صخت مند بچے تو کافی کمزور ہو چکے تھے ۔

ہیر کتنا کھاتی تھی ہر وقت اسے کچھ نا کچھ کھانے کو چاہئیے ہوتا تھا وہ کافی صخت مند ہوا کرتی تھی ،

سب اسے موٹی کہہ کر چڑایا کرتے تھے لیکن وہ موٹی کہنے سے چڑتی نہیں تھی بلکہ فخر سے گردن اکڑا کر کہتی تھی کھاتے پیتے گھر سے ہوں بھوکے گھر سے نہیں ہوں۔۔

اور آج وہی انکی صخت مند بچی سوکھ کر کانٹا ہو چکی تھی کٙئی کئی دن انکے فاقوں میں گزر جاتے تھے انکے شوہر جب زندہ تھے تو زندگی ان پر بہت مہربان تھی اپنی بھتیجی میں تو انکی جان ہوا کرتی تھی ہر شام وہ اس کے لیے کچھ نا کچھ بازار سے ضرور لایا کرتے بازار میں حو نیا ڈیزائن آتا نائلہ بیگم سب سے پہلے اپنی ہیر کے لیے خریدتی انہوں نے تو اسے کبھی پرایا سمجھا ہی نہیں تھا وہ تو اسے اپنی بیٹی ہی مانتی تھی ہیر کے باپ کا انتقال تو جب وہ دو سال کی تھی تب ہی ہو گیا تھا تب شرجیل صاحب نے اس ننھی جان کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا اور نائلہ بیگم نے اسے اپنی بیٹی بنا لیا۔۔


ہیر ان دونوں کو بہت لاڈلی ہوا کرتی لیکن پھر اسی لاڈلی بیٹی کو بہت کچھ سہنا پڑا تھا۔

انکے شوہر شرجیل گورنمنٹ جاب کرتے تھے اچھی خاصی تنخواہ تھی انکی لیکن ایک شام گھر واپس لوٹتے وہ ایک کار کے نیچے آ کر دم توڑ گئے تھے اور اپنے گھر والوں کو زمانے کے بے رحم سہارے پر چھوڑ گئے ۔۔


ان کے شوہر کو فوت ہوئے ڈیڈھ سال ہو چکا تھا لیکن انہیں ابھی تک پینشن کی رقم نہیں ملی تھی اس کے لیے انہوں نے درخواست بھی دے رکھی تھی لیکن آج تک کچھ بن نا سکا تھا ۔


امی وہ لوگ تو بہت رئیس ہیں اتنی اتنی بڑی انکی کاریں تھی کہ کیا بتاوں میں آپکو!

اور آپکو پتا ہے وہ کاریں تو گنتی میں ہی نہیں آئی تھیں ۔۔

خیام پھر سے شروع ہو گیا جس پر کھانا سمیٹتی ہیر مسکرائی ۔۔

___________________________

وہ دسویں کلاس کی طالب علم تھی ۔

آخری بینچ پر اکیلی بیٹھی وہ اپنی نوٹ بک کا خالی صفحہ ڈھونڈ رہی تھی جو کہ نا ممکن تھا کہ نوٹ بک فنش ہو چکی تھی ۔

جبکہ اسے میم رضیہ کا لیکچر نوٹ کرنا تھا اگر انکا کوئی لیکچر نوٹ نا کرئے تو وہ بہت بری سزا دیتی تھیں اور بے عزتی الگ ۔


ہولتے دل سے اسکے بیگ میں جنتی بھی نوٹ بک تھیں اس نے سب دیکھ لیں لیکن کوئی خالی ورق نا مل سکا اسے ۔۔

آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتی وہ کھڑی ہوئی کہ میم رضیہ اسے ہاتھ سے کھڑا ہونے کا کہہ رہیں تھیں۔

جو لیکچر نوٹ کیا ہے وہ دیکھاو ۔

مس رضیہ کے درشتگی سے کہنے پر وہ سر جھکا گئی ۔

میں پاگل یوں جو بولتی رہتی ہوں اور تم شہزادیاں گھر سے آتی ہو اور بیٹھ کر چلتی بنتی ہو، انتہائی نالائق ہو تم دفع ہو جاو میری کلاس سے اور پرنسپل کے آفس چلو زرا ۔

میم رضیہ نے اسکے سر پر بک مارتے ہوئے چلا کر کہا ۔

ساری کلاس منہ پر ہاتھ رکھے دبی دبی ہنسی ہنس رہیں تھیں۔

آنکھوں میں آنسو لیے وہ کانپتے ہاتھوں سے کتابیں بیگ کے اندر رکھنے لگی ۔

جلدی کرو سست لڑکی ۔۔

ایک اور کتاب پڑی تھی اسکے سر پر۔

بیگ کندھے پر رکھتی وہ مس کے کمرے سے نکل گئی اپنے پیچھے تمسخرانہ نظرِیں وہ اچھے سے محسوس کر سکتی تھی ۔۔

گرونڈ میں بیٹھی وہ چادر سے نکلے بال درست کرنے لگی تھی ۔۔

آنکھوں سے کئی آنسو بیک وقت اسکے گالوں پر لڑکھے تھے ۔

کچھ ہی دیر میں اسے پرنسپل کا بلاوا بھی آگیا تھا ۔۔

بہت شکایات مل رہیں ہیں مجھے تمہاری آخر تم پڑھائی کو سیریس کیوں نہیں لے رہی یہ لاسٹ وارننگ ہے اب اگر تمہاری کوئی بھی شکایت آئی تو میں تمہیں سکول سے فارغ کر دوں گئی اب دفع ہو جاو ۔

اسے ہنوز سر جھکائے دیکھ کر پرنسپل میم نے کافی غصے سے کہا ۔

سر جھکائے ہی وہ وہاں سے نکلتی ہوئی باہر مین سڑک پر آ گئی ۔۔

آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے لیکن اس نے انہیں باہر نہیں آنے دیا ۔۔

آنکھیں جھپک جھپک کر آنسو روکتی وہ لب بھینچ گٙئ۔۔

سڑک پر گول گپے کی ریڑی دیکھ کر وہ وہی تھم گئی ۔۔


(چاچو آپ میرے لیے گول گپے نہیں لائے جائیں میں نہیں بولتی آپ سے آپ جانتے ہیں نا گول گپے اگر نا کھاوں تو مجھے نیند بھی نہیں آتی ۔۔

سینے پر ہاتھ باندھ کر منہ بسور کر کہا گیا تھا ۔

سوری بیٹا باہر بارش تھی تو مجھے کوئی گول گپے بیچنے والا نہیں ملا لیکن کل میں اپنی بیٹی کے لیے ڈھیر سارے گول گپے لاوں گا ٹھیک ہے ۔۔

کان پکڑے اسکے چاچو نے معذرت کی تھی ۔

سچ !

وہ چہکی تھی !

مچ میری جان ۔

اسکے چاچو نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے لاڈ سے کہا تھا )


آنکھوں میں رکے آنسو بہہ نکلے تھے ۔

چاچو آپکی ہیر نے پورے سال سے ان گول گپوں کا ذائقہ نہیں چکھا آپ کیوں چلے گئے ہمِیں بے سہارا چھوڑ کر آپ تو کہتے تھے ہیر کی آنکھوں میں آپ کبھی ایک آنسو بھی نہیں آنے دیں گئے لیکن آج آپ دیکھ لیں آپکی ہیر کی آنکھیں سوکھتی ہی نہیں ہیں ہر کوئی مجھے ڈانٹا ہے مارتا ہے کہ کون ہے جو اسکی سائیڈ لے گا آپ واپس آجائیں یا ہم تینوں کو بھی اپنے پاس بولا لیں ۔۔

ہتھیلیوں سے آنسو صاف کرتی وہ خود سےبڑبڑا رہی تھی بلکہ اپنے چاچو سے مخاطب تھی۔۔

اپنی طرف دو لوفر لڑکوں کو دیکھتا دیکھ کر وہ چادر کو اچھے سے ماتھے پر کرتی ہوئی بھاگنے سے انداز میں وہاں سے نکلی ۔۔۔

___________________________

مزے سے سوئمنگ کرتا وہ بد مزہ ہوا کہ اسکا فون مسلسل رنگ کر رہا تھا ۔

ناک چڑہا کر وہ گون پہنتا ہوا فون پکڑتا بیزاری سے فون کو پانی میں اچھال گیا تھا ۔

نان سینس۔

غصے سے بولتا ہوا وہ روم میں آیا ۔

بلیک کلر کی شرٹ نیچے بلیک ہی پینٹ پہنے وہ خود پر ڈھیر ساری پرفیوم چھڑکتا ہوا باہر آیا ۔

وہ بہت نک چڑہا اور ہر وقت تیار رہنے والا شخص تھا اپنے کپڑوں پر وہ ہلکی سی بھی سلوٹ برداشت نہیں کرتا تھا وہ تو سوتے وقت بھی نئے کپڑے پہن کر سوتا تھا ۔۔

آئیں سردار بیٹا کیا کھائیں گِے آپ ۔۔

اس نیچے آتا دیکھ کر نوشین بیگم نے مصنوعی محبت سے پوچھا ۔

مہرینہ اور شزرا نے چونک کر اپنے ہینڈسم کزن کو دیکھا جس نے آج تک انہیں مخاطب نہیں کیا تھا ۔

Nothing.

بھاری آواز میں کہتا ہوا وہ اپنے باپ کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔۔

نخرے تو پہلے ہی ساتویں آسمان تک پہنچے ہوئے تھے اب تو سردار بن گیا ہے اب کہاں کسی کو دیکھے گا وہ ۔۔

ماہین بیگم نے جلے دل سے کہا۔

جس پر نوشین نے بھی سر ہلا کر تائید کی ۔۔

ویسے امی نخرے تو بنتے ہیں سردا ر کے اتنا خوبصورت اور اوپر سے اتنا پڑھے ہیں کہ آس پاس تو کیا دور تک ان کے جتنا کوئی نہیں پڑھا اور پھر قسمت نے انہِیں سردار کے رتبے پر فائز کر دیا ہے تو نخرے بنتے ہیں امی ۔۔

مہرینہ نے ہاتھوں پر مہندی لگاتے ہوئے ماں کی بات کے جواب پر کہا۔

مہرینہ منہ بند رکھا کرو کتنی دفع کہا ہے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔

مہرین تپ کر بولی تھی ۔

جس پر وہ ہلکا سا مسکراتی ہوئی شانے اچکا گئی ۔۔

شزرا تو ابھی تک اس طرف دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ مغرور شہزادہ گیا تھا ۔

شائنہ خانم آ رہی ہے پرسوں ۔

ماہین نے اونچا بولا آخر اپنی بیٹی کو بھی تو سنانا تھا ۔

مہرینہ نے ناک منہ بسورا ۔

اففف! اللہ کرئے جس فلاٙٹ سے وہ آئے اسکی سیڑی ہی ٹوٹ جائے یا پھر ہماری شائنی خانم کی ٹانگ ہی ٹوٹ جائے ۔۔

مہرینہ نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے ۔۔

بکواس بند کرو ۔۔

ماہین کی ڈانٹ پر وہ منہ بسورتی ہوئی پیر پٹختی وہاں سے واک آوٹ کر گئی۔۔

پتا نہیں یہ لڑکی کب سدھرے گئی۔

ماہین نے غصے سے سر جھٹکا ۔۔

جبکہ نوشین نے جٹھانی کو طنزیہ نظروں سے دیکھا ۔

مطلب یہ تھا تمہاری بِیٹی ہو اور سدھری ہو یا تو کہی ہو ہی نا جائے ۔۔۔

ماہین اپنی جٹھانی کی نظرِیں باخوبی سمجھتی تھی لیکن چپی میں ہی عافیت تھی

__________________________


چاچا رحیم امی کہہ رہیں ہیں آپ نے کافی مہینوں سے کرایا نہیں دیا اب کی دفع دے دیں ورنہ ہماری دکانیں خالی کر دیں ۔۔


وہ دوپہر کے وقت اپنی دکان میں کھڑی چاچا رحیم سے دھیمی آواز میں مخاطب تھی۔

چاچا رحیم نے اسے طنزیا نظروں سے دیکھا ۔

کونسی دکانیں ہاں یہ دکانیں میری ہیں تمہارا چاچا مجھے فروحت کر گیا تھا ارے میں تو رقم بھی ادا کر چکا تھا اب مجھے کیا پتا اس نے تم لوگوں کو کیوں نہیں بتایا آئی بڑی دکان کی مالکن اب اگر یہاں مجھے نظر ائی تو ٹانگیں توڑ دوں گا ۔۔

اسے باہر کی طرف دھکا دیتا وہ پھنکارا ۔۔

وہ ایک دم باہر سڑک پر گری تھی ۔

جس سے پاوں میں پہنی سستی چپل ٹوٹ گئی تھی۔۔

بھرائی نظروں سے وہ اس شخص کو دیکھ رہی تھی جو کتنا مہربان ہوا کرتا تھا جب اسکے چاچو زندہ تھے گھر آ کر کرایہ دیتے تھے اس شخص نے بھی انہیں بے سہارہ جان کر اپنا اصلی چہرہ بہت پہلے دیکھانا شروع کر دیا تھا ۔

تپتی سڑک پر وہ ہتھیلیاں جماتی کھڑی ہوئی ۔

چاچا آپ جھوٹ بول رہے ہیں یہ ہماری دکانیں ہیں اور میں ایک دن آپ سے لے کر رہوں گئی یاد رکھئیے گا آپ۔۔

لڑکھراتے لہجے میں بولتی وہ ایک چپل ہاتھ میں لیتی ہوں تپتی سڑک پر ایک ننگے پاوں سے چلتی ہچکیوں سے رو رہی تھی ایک پیسہ نہیں تھا انکے پاس گھر میں راشن نہیں تھا چچی امی کی دوائِیں ختم ہو گئیں تھیں اسکی پنسلیں اور نوٹ بک ختم ہو گیں تھِیں وہ کہاں جاتی کون تھا جو اسکی مدد کرتا کوئی نہیں ایک خدا کی زات کا سہارا تھا ۔

پاوں نیچے سے سرخ پر چکا تھا۔۔


سنسان سڑک پر چلتی وہ ساتھ ساتھ رو رہی تھی ۔۔

دور سے آتی بلیک پراڈو اسکے پاس سے گزرتی تھوڑی دور جا کر رکی تھی ۔۔

ائے لڑکی سنو ۔

اپنے پیچھے آتی مردانہ پکار پر وہ ڈر کر اچھلی تھی ۔

سہمی نظروں سے وہ بھاری کلاشنکوف پکڑے اس آدمی کو دیکھ رہی تھی جو اسکے قریب آچکا تھا ۔

ننگے پاوں کیوں چل رہی ہو اور رو بھی رہی ہو کیوں۔

وہ آدمی بے تاثر لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

وہ آنسو پونچھتی بنا اس آدمی کو جواب دئیے وہاں سے جانے لگی ۔

ائے لڑکی یہی رکو دو منٹ میں آتا ہوں میں ۔

وہ آدمی اس کی حالت سمجھ چکا تھا اس لیے اس سے کہتا گاڑی کی طرف تیز قدموں سے چلا گیا ۔

وہ حیرت سے پلٹ کر اس آدمی کو دیکھ رہی تھی گاڑی میں بیٹھے آدمی سے کوئی بات کر رہا تھا اسکا دل سوکھے پتے کی طرح کانپنے لگا تھا ۔۔

وہ ٹھٹھکی ۔

گاڑی کی کھڑکی کا شیشہ نیچے ہوا تھا اندر سے براون واچ والی سپید کلائی نظر آئی تھی دودھ جیسے سفید ہاتھ ان پر چھوٹے چھوٹے بال درمیانی انگلی پر پہنی آسمانی رنگ کے نگنینے والی انگھوٹھی اس شخص کے ہاتھ پر بہت جچ رہی تھی ۔

نیلے نوٹ پکڑاتا وہ ہاتھ اندر چلا گیا تھا جبکہ وہ ابھی بھی مبہوت نظروں سے اس ہاتھ کو گھم ہوتا دیکھ رہی تھی ۔

وہ شخص اسکی طرف آیا ۔

اسکی طرف پیسے بڑھائے لیکن وہ لینے کے لیے ہاتھ نا بڑھا سکی وہ بھکاری تو نہیں تھی لیکن قسمت نے اسے کیا بنا دیا تھا ایک بھکاری سے بھی بری حالت تھی اس کم سن لڑکی کی ۔۔

وہ شخص کندھے اچکاتا پیسے اسکے قریب رکھ کر چلا گیا کہ اسکا صاحب انتہا کا غصے والا تھا اگر تھوڑی سے بھی دیری ہوتی تو دوسرا لمحے وہ نوکری سے فارغ ہوتا ۔

وہ ساکت نظروں سے اپنے پیروں میں اڑھتے نیلے نوٹوں کو دیکھنے لگی جو پانچ نوٹ تھے ۔

آہستہ سے بیٹھتی وہ ان نوٹوں کو ہاتھ میں سمیٹنے لگی ساتھ رو بھی رہی تھی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکیں تھیں ۔۔

کالی چادر سے ناک آنکھیں صاف کرتی وہ آسمان کی طرف دیکھتی ہوئی ایک بار پھر سے رو دی ۔

آج اگر اسے پیسے نا ملتے تو کیا ہوتا لیکن اللہ نے اسکی مدد کر دی تھی ۔

اسلام علیکم ،

شاپر چارپائی پر رکھتی وہ دھیمے لہجے میں بولی۔

وعلیکم السلام بیٹا یہ سب کہاں سے خرید لائی ہو تم ۔

انہوں نے حیرت سے پوچھا۔

امی رحیم چاچا سے کچھ پیسے ملے تھے کرائے کے انہی سے تھوڑا سا سودا خریدا ہے ۔

سر جھکا کر بولتی وہ کچن میں چلی گئی ۔

نائلہ بیگم نے شاپرز میں جھانکا دو شاپرز میں گھر کا تھوڑا بہت سودا تھا ایک میں انکی دوائِیں تو تیسرے میں چار پانچ نوٹ بک ، پنسلیں اور خیام کا یونیفارم تھا خیام کا یونیفارم بہت پرانا ہو چکا تھا تو وہ لے آئی تھی ۔

اتنے پیسوں میں صرف یہی آ سکا تھا اب اسکے پاس صرف ایک سو روپیہ تھا جو اس نے مشکل سے بچایا تھا ورنہ پانچ ہزار کا آج کل کے دور میں کیا بنتا ہے ۔۔


بیٹا اس نے پیسے کم دئیے کیا ۔

انہوں نے اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر پوچھا جو گرمی اور رونے سے سرخ پڑ چکا تھا ۔

جی امی ۔

سر جھکائے ہی اس نے جواب دیا جس پر نائلہ نے سر تاسف سے ہلایا ۔

پھر چونکیں اسکے پاوں کیں سستی سی گلابی چپل دیکھ کر وہ آتے وقت ریڑی والے سے ڈیڈھ سو کی چپل لائی تھی ۔

بیٹا دوائِیں اگلے مہینے لے لیتے ہم تم کوئی اچھی چپل لے لیتی۔

نائلہ نے فکرمندی سے اسکے بکھڑے بال سمیٹتے ہوئے کہا۔

وہ انکی گود میں سر رکھتی مسکرائی البتہ آنکھیں جھلملائیں تھیں۔

امی آپکی صخت ہمارے لیے سب سے اہم ہے چپل تو میں اگلے مہینے بھی لے سکتی ہوں نا آپ فکر نا کرِیں ۔۔

انکی گود میں منہ چھپائے وہ اتنی دھیمی آواز میں بولی کہ نائلہ بیگم بمشکل سن پائی۔

انہوں نے تاسف سے اپنی تھکی بیٹی کو دیکھا ۔

ہیر جاو جاکر نہا لو پہلے اور تھوڑی دیر آرام کر لو پھر تم نے تین بجے اپنی نئی جاب پر بھی تو جانا ہے نا ۔

انہوں پیار سے اسے مخاطب کیا ۔

وہ سر ہلاتی ہوئی اٹھی اور واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔

ناِئلہ بیگم آنکھوں میں آئے آنسو اپنی چادر سے پھونچھتی ہوئی اندر چلیں گئیں ۔۔

کافی دیر وہ شاور کے نیچے کھڑی رہی ۔۔

شاور لیتے اس نے یونہی آنکھیں بند کیں وہ چونکی ۔

دماغ کے پردوں میں ایک بھاری سپید کلائی لہرائی اس پر پہنی براون واچ جو دھوپ سے چمک رہی تھی ۔

اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں ۔

سر جھٹک کر وہ جلدی سے شاور لے کر باہر آ گئی۔۔

چھوٹے کمرے میں آ کر اندر سے دروازہ بند کرتی وہ چارپائی پر گیلے بالوں سمیٹ ہی لیٹ گئی ۔۔

تکیے میں منہ دئیے وہ گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگی تھی۔۔

___________________________

چھوڑیں میرا ہاتھ چھوٹے خان ۔۔

وہ فون سنتا چونکا پچھلے باغ سے کسی کے دبی دبی آواز میں چلانے کی آواز آ رہی تھی ۔۔

I I'll call later

کال بند کرتا وہ سنجیدگی سے پائیں باغ کی طرف بڑھا ۔

آپ پاگل ہو گِے ہیں چھوڑیں مجھے خان ۔۔

آواز اب کے صاف سنائی دی گئی تھی ۔

وہ رکا سامنے ہی اسکا کزن کسی لڑکی کو زبردستی اپنے ساتھ لگائے کھڑا تھا ۔

داور ۔

اسکی تیز آواز پر داور اور وہ لڑکی ایک پل میں ساکت ہوئے تھے دوسرے ہی لمحے وہ اس سے الگ ہوا تھا ۔

لڑکی تم جاو یہاں سے ۔

اسکی سپاٹ آواز پر وہ لڑکی سر جھکائے وہاں سے بھاگی ۔۔


سردار یہ لڑکی ٹھیک نہیں ہے آپ !

داور ابھی اپنی صفائی میں کچھ کہتا جب اسکے بھاری ہاتھ کا تھپڑ اسے زمین پر گرا گیا تھا۔


remember you, I hate liars and cheaters ۔...

انگلی سے اسے وارننگ دیتا وہ پلٹ گیا فون دوبارہ سے آن کر کے کان سے لگاتا وہ پھر سے اپنے دوست سے کچھ اہم بات کرنے لگا تھا ۔


داور نے نفرت آمیز نظروں سے اسکی پشت دیکھی جو بے فکری سے فون میں کسی سے مخاطب تھا ۔

سردار غازان تیمور اچھا نہیں کیا ایک تو مجھ سے سرداری چھین لی دوسرا مجھے تھپڑ مارا داور خان پر ہاتھ اٹھایا یو ول پے اٹ سردار صاحب ۔۔۔

گال پر ہاتھ رکھے وہ نفرت سے چلایا ۔۔


چچچ پہلے اپنی حرکتیں درست کرو پھر کسی اور کو مزہ چکھانا مائے ڈیئر بردار ۔۔

مہرینہ کی طنزیہ آواز پر وہ پلٹ کر اپنی بہن کو دیکھتا اسکے قریب جارخانہ قدموں سے بڑھا ۔

سردار غازان خان ۔۔

اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ طنز سے چلائی جس پر داور خان وہی ساکت ہو ا۔

اگر مجھے ٹچ بھی کیا نا ابھی آواز لگا لوں گئی سردار جی کو ۔۔

سینے پر ہاتھ باندھ کر وہ مسکرا کر بولی۔

تمہارا تو پیدا ہوتے ہی گلہ دبا کر مار دینا چاہئیے تھا مجھے۔

وہ پھنکارا ۔۔

میرا بھی یہی دل کرتا ہے میں تمہار اگلہ دبا دوں یا پھر تمہیں زہر دے دوں جان چھوٹے اس زمین کی تم جیسے انسان سے ۔۔

نخوت سے بولتی ہوئی وہ وہاں سے واک آوٹ کر گئی ۔

جبکہ داور مٹھیاں بھینچ کر ضبط سے دانت پر دانت جما کر رہ گیا ۔

پہلے اس سردار کا کچھ کرنا ہو گا پھر تمہیں تمہاری اصلی جگہ دفع کروں گا ۔۔

وہ غصے سے چلاتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔

____________________________

سردار محل میں ایک ساتھ بہت ساری گاڑیاں داخل ہوئِیں تھیں ۔۔

سیب کھاتی مہرینہ نے گاڑی سے نکلتی قیامت کو گھورا ۔

اسکا تو ایکسیڈینٹ بھی نہیں ہوتا ۔

مہرینہ کے نخوت سے کہنے پر شزرا نے اسے کہنی ماری۔۔

نزاکت سے گاڑی سے باہر نکلتی شائنہ خانم کو کچھ لوگوں نے پیار سے تو کچھ نے حسد سے دیکھا تھا ۔

گلابی پیروں تک آتی فراک نیچے وائٹ چوڑی دار پجامہ سر پر وائٹ بڑا سا شفون کا کڑھائی والا دوپٹہ بال کھلے ہوئے تھے جو اس لڑکی کے حسن میں چار چاند لگا رہے تھے ۔

وہ لڑکی اپنے حسن میں اپنی مثال آپ تھی ۔۔

نزاکت سے چلتی وہ سب بڑوں سے بہت اخترام سے مل رہی تھی ۔

کیسی ہو مہرینہ تم !

وہ مہرینہ کے قریب آتی مسکر کر نرم آواز میں بولی ۔

ابھی تک تو ٹھیک تھی شائنہ خام لیکن اگلی گھڑی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔

وہ ہنوز سیب کھاتی اپنے لاپرواہ سے انداز میں بولی ۔


گڈ ۔۔


شائنہ خانم مسکرا کر کہتی ہوئی سب بڑّوں کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گئی ۔۔

اسکے تو دانت ہی ٹوٹ جائیں گڈ بڑی آئی مس کہی کی۔۔

غصے سے سر جھٹکتی وہ سنبھلی پھر ٹھٹھکی ۔۔۔

سامنے سے کوئی اور نہیں سردار غازان تیمور چلا آرہا تھا ۔

پیچھے پانچ چھ مرد تھے جو اسکی خفاظت کے لیے زبردستی تیمور خان نے رکھے ہوئے تھے ۔۔

وائٹ شرٹ بروان پینٹ بروان ہی چوڑی واچ باندھے براون ہی شوز پہنے وہ شخص اپنی نیلی آنکھوں سے کسی کو بھی گھائل کر سکتا تھا وہ بالکل اپنی ماں پر گیا تھا اسکی ماں مصر کی رہنے والی تھی وہ اب بھی وہیں رہتیں تھیں لیکن وہ غازان اور تیمورکے ساتھ کیوں نہیں رہتیں تھیں؟


سردار ۔

اسکے سامنے آکر سر جھکا کر اخترام سے بولی ۔

اس نے فقط سوالیہ آئی برو اچکائے ۔۔

بولو !

وہ بے تاثر لہجے میں بولا۔


مجھے نا آپ سے ٹائم پوچھنا تھا ۔

جب کوئی بات نا سوجھی تو وہ جلدی سے اسکی واچ دیکھ کر بول گئی۔

سردار نے آنکھِیں سکیڑ کر اپنی چھوٹِی سی کزن کو دیکھا ۔

پھر موبائیل میں ٹائم دیکھ کر اسے بتاتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔

ہائے کیا خوشبو لگاتے ہیں ! پتا نہیں کونسی لگاتے ہیں ،پتا کرنا پڑے گا مہرینہ ۔۔

دل پر ہاتھ رکھ کر وہ خاص لوفرانہ انداز میں بولتی سامنے سے آتے اپنے باپ کو دیکھ کر چپ ہوئی پھر وہاں سے بھاگ نکلی ۔۔۔۔

جبکہ باپ نے بیٹی کی حرکت پر فقط صرف دانت ہی پیسے ۔۔۔

_________________________


اسے تین سے سات بجے تک فروٹ پیک کرنے والی فیکٹری میں جاب ملی تھی۔

مہینے کی پانچ ہزار سیلری طے ہوئی تھی ۔۔۔

فروٹ کو ڈرائے کلین کرنا پھر ان پر مختلف قسم کے کیمیکل کا استعمال کرنا انہیں پیک کرنا یہ تھی اسکی جاب ۔۔۔

رات کے اٹھ بجے وہ روڈ پر بس کے انتظار میں تھی وہ لیٹ ہو چکی تھی ۔۔۔

دور دور تک کسی گاڑی کا نام و نشان نہیں تھا ۔

کانپتے قدموں سے وہ میں روڈ کی طرف دورنے لگی تھی۔

آنکھوں میں نمی بھی تیرنے لگی تھی ۔

اسکے پاس پانچ سو روپے تھے جو آج اسے ملے تھے ۔

وہ ابھی روڈ کراس ہی کرنے لگی تھی۔

جب دو بائیک سوار ایک دم سے اسکے سامنے آئے تھے ۔

وہ چیختی ہوئی پیچھے ہوئی ۔

ہاہاہا بچی ڈر گئی بوس ۔

پیچھے بیٹھے آدمی نے قہقہ لگاتے ہوئے مضحکہ خیز انداز میں کہا۔

پرانے لیدر کے بیگ پر وہ پکڑ مضبوط کرتی انکے قریب سے گزرنے لگی تھی جب پیچھے بیٹھے آدمی نے اسکا بیگ ایک جھٹکے سے چھینا تھا ۔

وہ کھلے منہ سے بیگ کو انکے ہاتھوں میں دیکھتی انکے قریب آنے ہی لگی تھی جب وہ ایک دم سے وہاں سے فرار ہوئے تھے ۔


ساکت سی وہ روڈ پر کھڑی رہ گئی جیسے ہلنے کی ساکت نا بچی ہو ۔۔

اسکا بیگ تو اسکے لیے بہت قیمتی تھا وہ بیگ اسکے چاچو اسکے لیے لاِیا تھا بیگ تو ایک طرف رہ گیا اس میں ایک اکلوتا پانچ سو کا نوٹ تھا اس میں چاچی کی شوگر کی میڈیسن تھیں اس میں خیام کے لیے تھوڑا سا فروٹ تھا۔

جو فروٹ تھوڑا سا خراب ہوتا تھا کمپنی وہ فروٹ اپنے ورکرز کو دے دیتے تھی وہ آج کتنی خوش تھی، کیا اسے کوئی بھی خوشی راس نہیں آنی تھی ؟


بھرائی آنکھوں سے وہ پورے قد سمیت سڑک پر گری تھی۔

مجھے میرا بیگ دے دو پلیز ۔

ہونٹوں میں ہلکی سی بڑبڑاہٹ ہوئی تھی۔

دوسرے ہی پل وہ آنکھیں موندیں فرش پر گر گئی تھی اسکا بی پی شوٹ کر گیا تھا دور سے آتی گاڑی اسکے وجود سے کچھ قدم دور رکی تھی ۔۔

اندر سے ایک عورت بھاگتی ہوئی اسکے قریب آئی تھی ۔۔

سنیں جی یہ لڑکی تو بے ہوش پڑی ہے ۔


اس عورت نے اپنے شوہر سے کہا۔

چلو ہسپٹل چھوڑ جاتے ہیں جوان لڑکی ہے اسے یوں روڈ پر چھوڑنا ٹھیک نہیں ۔۔

وہ آدمی اس معصوم لڑکی پر ترس کھاتا اپنی عورت سے بولا ۔

چلیں جی اسے اٹھانے میں میری مدد کریں ۔۔

وہ دونوں میاں بیوی اسے گورنمنٹ سول ہسپتال چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔۔

کافی دیر وہ وہاں بے یارو مدد گار پڑی رہی پھر کہی جا کر اسکی باری آئی ۔۔

اسے ڈریپ لگا دی گئی تھی ۔۔

کافی دیر بعد اسے ہوش آیا تھا ۔

دھیرے سے بھاری ہوئیں آنکھیں کھول کر وہ ارد گرد کے ماحول کو نا سمجھی سے دیکھنے لگی تھی ۔

بالکہ کافی دیر وہ ماوف ہوئے دماغ سے لوگوں کو دیکھتی رہی پھر اپنے ہاتھ پر لگی ڈریپ دیکھنے لگی جو بس تھوڑی سی ہی رہ گئی تھی ۔

آہستہ آہستہ دماغ اپنی جگہ پر آنے لگا تھا ۔

تلخ زندگی کی سچائی اسکی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لے آئی تھی ۔

سنیں کیا ٹائم ہوا ہے ۔

وہ دوسرے بیڈ پر ایک پیشنٹ چیک کرتی نرس سے بولی ۔

ساڑھے نو ۔

نرس کہتی ہوئی پھر سے اپنے کام میں لگ گئی۔ ۔

اففف اللہ میری امی بھائی وہ مجھے نا پا کر کتنے پریشان ہوں گئے افف میں کیسے اتنی دیر غافل پڑی رہی ۔۔

ہاتھ سے ڈریپ نکالتی وہ باہر کی طرف دوڑی ۔

پیچھے سب اس لڑکی کی حرکت کو حیرت سے دیکھتے رہ گئے۔

لمبے کوڑیڈور سے وہ دوڑتی ہوئی مین ہال میں آئی جہاں ہر طرف چیٙئرز پڑیں ہوئیں تھی بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

مجھے ایک فون کرنا ہے ۔

اسے فون کرنا یاد آیا تو وہ ریسیپشن پر بیٹھے لڑکے پاس آئی ۔

اس لڑکے نے گھور کر اس لڑکی کے بکھڑے بالوں کو دیکھا۔

یہاں علاج مفت ہوتا ہے فون نہیں ۔

وہ لڑکا بہت غصے سے بولا۔

بھرائی آنکھوں سے وہ ایک دو قدم پیچھے ہوئی ۔

اس دنیا میں غریب کا کوئی ساتھی نہیں ، یہاں صرف کھلانے والوں کے یار ہوتے ہیں کھانے والوں کے نہیں ۔۔۔

ہاتھ کی پشت سے ناک صاف کرتی وہ ننگے پاوں باہر کی طرف بڑھنے لگی پھر کسی اور سے کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی اسے شاید اگر وہ کسی اور سےکہتی تو کروا ہی دیتا ۔۔

ہسپٹل کی بڑی سے عمارت سے وہ ننگے پاوں باہر نکل آئی ۔۔

آنکھِوں میں آنسو آئے چلے جا رہے تھے بار بار سختی سے پوچھنے پر بھی وہ خشک نہیں ہو رہے تھے ۔


مین روڈ پر آکر وہ تھمی ۔۔

وہاں گاڑیوں کا کافی ہجوم تھا ۔

شاید یہاں کوئی مسلہ درپیش آیا تھا جو پولیس بھی وہی موجود تھی۔ ۔

آنکھیں کالی چادر سے رگڑتی وہ گزر ہی رہی تھی جب وہ ٹھٹھکی تھی۔

ایک بڑی سے پراڈو گاڑی کا ڈور ہلکا سا کھلا ہوا تھا ۔

اسکے رکنے کی وجہ سیٹ پر پڑا کھلا سیل فون تھا جس میں شاید کوئی فنکشن چل رہی تھی ۔

ہونٹ بھینچے وہ ارد گرد دیکھتی آہستہ سے جھک کر وہ لمبا گولڈ کلر کا آئی فون پرو اٹھا چکی تھی ۔

جو اسکے ہاتھ سے بڑا تھا ۔

آہستہ سے گرین سلیوز کہنی سے اوپر کی جہاں ایک نمبر کالی پنسل سے لکھا ہوا تھا اسے نمبر یاد نہیں رہتے تھے تو اپنی بازو پر پنسل سے لکھ لیتی تھی تاکہ اسے کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے تو کسی کا نمبر اسکے پاس ہو ۔

یہ نمبر انکے ہمسایہ کا تھا جن کا گھر انکے ساتھ تھا۔

ڈائیل پیڈ پر وہ نمبر لکھ کر یس کا بٹن دباتی فون کان سے لگا گٙی ۔

ہونٹ ہاتھ ٹانگیں کانپ رہیں تھیں بالکہ فون بھی اس سے صحیح سے پکڑ نہیں جا رہا تھا ۔

ہیلو شمسہ خالہ میں ہیر بول رہی ہوں آپ پلیز میری امی کو بتا دیں آج کام زیادہ تھا اس لیے دیر ہو گئی ہے میں آرہی ہوں وہ پریشان نا ہوں آپ بتا دیجِئے گا۔۔۔۔۔!

آئے لڑکی !

پیچھے سے آتی خونخوار پکار پر فون پھسل کر اسکے ہاتھ سے گرا تھا ۔۔

بنا پیچھے مڑے وہ وہاں سے بھاگی تھی ۔


بندوق مین وہاں بھاگ کر آیا جہاں وہ لڑکی کھڑی تھی ۔

کیا ہوا ۔۔

بھاری آواز پر وہ بندوق مین سرعت سے اپنے سردار کی طرف مڑا جہاں وہ کافی لوگ کے ساتھ اپنے گاڑد کی طرف ہی متوجہ تھا ۔

صاحب ایک لڑکی آپ کے فون سے کچھ چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی شاید کوئی چورنی تھی بھاگ گئی ہے اس کچے کی طرف لیکن آپکا فون بھی گرا گئی دیکھیں سکرین ٹوٹ گئی ہے ۔۔


اس آدمی نے جلدی جلدی ڈر کر بتاتا اور وہ گولڈ کلر کا فون اپنے سردار کی طرف بڑھا گیا ۔۔

سردار ہم جائیں اس طرف ۔۔

ایک پولیس والے نے اس سے اخترام سے پوچھا ۔

ایک منٹ سیل دو ۔۔

بھاری گھمبیر آواز میں کہتا ہوا وہ اپنے آدمی سے فون پکڑ کر چیک کرنے لگا انگلیاں بڑی سرعت سے سکرین پر متحرک تھیں ۔

کال کی تھی اس کڑکی نے بے وقوف یہ نہیں جانتی وہ کال بھی ری کارڈ ہو چکی تھی۔

ریکارڈنگ کا بٹن پریس کرتا وہ فون کان سے لگا گیا ۔۔

خوبصورت نین نقوش والا وہ مصری شہزادہ بلیک کلر کی پینٹ شرٹ زیب تن کیے ہوئے تھا چہرے پر بڑی بیزاری والے تاثرات رقم تھح جیسے اسے کسی چیز میں کوئی دلچسپی نا ہو سوائے اپنی زات کے ۔۔

(ہیلو شمسہ خالہ میں ہیر بول رہی ہوں آپ پلیز میری امی کو بتا دیں کہ آج کام زیادہ تھا اس لیے دیر ہو گئی ہے وہ پریشان نا ہوں میں آرہی ہوں )

کال کٹ گئی تھی ۔

واپس آجاو ۔۔

پولیس اور اپنے دو آدمیوں کو کچے راستے کی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ سپاٹ آواز میں کہتا گاڑی کی طرف بڑھا۔

لیکن سردار اگر وہ کوئی دہشت گرد یا کوِی آپکے دشمن کی بھیجی ہوئی ہوئی تو ۔۔

پولیس والے نے پریشانی سے کان میں بلیوٹوٹھ لگاتے اپنے سراد سے پوچھا۔

اس نے فقط انسپکٹر کو ایک نظر ہی دیکھا تھا ۔

جس پر انسپکٹر بھوکھلایا۔

آوکے جیسے آپکی مرضی۔ ۔

وہ پولیس والا کہتا جلدی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔


ہیلو غازان تیمور خان سپکینگ اگر فارغ ہوں تو مجھے کال کر لیجئے گا ۔۔

کسی کو خفگی بھرا وائس میسج بھیجا گیا تھا ۔۔

___________________________


تم ٹھیک ہو نا بیٹا تم جانتی ہو میں اتنے وقت میں ہی مر مر کر جی ہوں ہمیں نہیں کرنی یہ نوکری ہم رہ لیں گئے بھوکے ۔

نائلہ خاتوں اسے سینے سے لگائے روتے چلے جا رہی تھی وہ اتنے سے وقت میں ہی صدیوں کی بیمار نظر آنے لگی تھی جوان لڑکی تھی کیا کیا خیال نہیں اگئے تھے انکے دل میں۔


پتھرائی آنکھوں سے انکے سینے سے لگی وہ ساکت سی تھی ۔

میں ٹھیک تھی امی بس میری ساتھی لڑکی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی تو سکے ساتھ ہسپتال چلی گئی اور فون کرنا یاد ہی نا رہا مجھے ۔۔

انکے ہاتھ چہرے پر رکھتی وہ دھیمی آواز میں کہہ رہی تھی ۔

ٹھیک ہے لیکن تم یہ نوکری نہیں کرو گئی چاہے تم کچھ بھی کہہ لو اب جاو منہ ہاتھ دھو کر آو تو کھانا کھاتے ہیں آج میں نے تمہارے لیے دال چاول بنائے ہیں تمہیں بہت پسند ہیں نا ۔

انہوں نے اسکا ماتھا چومتے ہوِے پوچھا۔

وہ فقط سر ہلا گئی ۔

جاو پھر فریش ہو کر آجاو ۔

انہوں نےا سے وہاں سے اٹھایا ۔


اسکے جاتے ہی وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی بیٹی کے ننگے پاوّں دیکھتی رہ گئیں جس کے پاس نا تو وہ لیدر کا کالا بیگ تھا نا ہی چپل لیکن انہوں نے کچھ نہیں ہوچھا وہ اپنی بیٹی کا بھرم نہیں توڑنا چاہتیں تھیں ۔۔۔

آنکھیں رگڑ رگڑ کر پونچھتی وہ چھوٹے سے کچن کی طرف بڑھیں راش ختم ہونے والا تھا کوئی راہ بھی نظر نہیں آرہی تھی آخر وہ کیا کریں ۔۔۔

____________________________

سردار آپکا شائنہ خانم باہر گارڈن میں انتظار کر رہیں ہیں ۔

ملازم اسے سر جھکا کر بتا کر چلا گا۔

سر ہلا کر وہ پھر سے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔

کف لنکس بند کرتا وہ باہر آیا ۔۔


یہ تیاری کہی شائنہ خانم کے لیے تو نہیں یقیناً اسی کے لیے ہے ۔۔

پلڑ کے پاس کھڑی مہرینہ نے پیر پٹخ کر سوچا ۔

پھر اس خوبصورت شخص کی تیاری کو دیکھ کر مسکرائی لیکن یہ تو ایسے ہی تیار رہتے ہیں ہر وقت پتا نہیں کیوں ۔

وہ پھر سے بڑبڑائی ۔

پھر ہاتھ میں پکڑے اورنج جوس کو دیکھ کر شیطانی مسکان ہونٹوں پر سجاتی ہوئی مصروف سے انداز میں چلتی ہوئی وہ ایک دم سے سردار غازان سے ٹکڑائی تھی ۔

وہ اس شیطان کی خالہ کو دیکھ نہیں سکا تھا جو محالف سمت سے اچانک سے کہی سے آتی اس سے ٹکڑائی تھی ۔۔

اورنج جوس اسکی وائٹ شرٹ کو داغدار کر چکا تھا ۔

وہ شرٹ کو حیرت سے دیکھتا اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھنے لگا جو مصنوعی حیرت چہرے پر سجائے اسکی شرٹ کو شاک سے دیکھ رہی تھی۔ ۔

what the hell ،

What did this crazy girl do!

وہ غصے سے چلایا ۔

کہاں وہ اپنی شرٹ پر معمولی سی شکن برداشت نہیں کرتا تھا اور کہاں وہ لڑکی اسکی شرٹ کو جوس سے نہلوا گئی تھی۔

سب ملازم اپنا کام چھوڑے حیرت سے سردار کو دیکھ رہے تھے کہ اب مہرینہ کا کیا بنے گا ۔

مہرینہ نے مصنوعی شاک سے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا ۔

سوری سردار غازان میں آپکو دیکھ نہیں سکی ورنہ میں ایسی غلطی کبھی نا کرتی آپ دیں لیں جو سزا دینی ہے میں تیار ہوں ۔۔


ہاتھ باندھے وہ معصوم سا منہ بناتی ہوئی بولی ۔

دماغآنکھوں اور کا استعمال کرنا شروع کردو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔

غصے سے اسے وارننگ دیتا وہ اپنے کمرے کی طرف پلٹ گیا ۔


ہاہاہا بے چاری شائنہ خانم اور کرو انتظار یہ تو ابھی شروعات ہے آگے آگے دیکھو میں کرتی کیا ہوں تمہارے ساتھ۔۔

ہنوز ہاتھ باندھے وہ کھلکھلا کر بولی تھی۔

کام کرتے ملازم حیرت زدہ ہوئے بھکا ڈانٹ کھا کر جون خوش ہوتا ہے ۔۔

اگر انکے خاندان میں سے کوئی اور سردار ہوتا تو اسکی غلطی کی سزا ضرور دیتا لیکن وہ اپنی نوعیت کا الگ ہی سردار تھا شاندار شخصیت والا وہ مصری شہزادہ اس خاندان کو تو لگتا ہی نہیں تھا ۔

مہرینہ کو ڈاوٹ تھا کہ وہ اسکے خاندان کا نہیں ہے ۔۔

اففف کاش یہ شائنہ کو ایک تھپڑ مار کر میرے سینے میں ٹھنڈک ڈال دیں تم نے جو میرے ساتھ کیا تھا نا شائنہ اسکا بدلا میں تم سے لیتی رہوں گئی سود سمیت ۔۔

مزے سے بولتی ہوئی وہ کام کرتے ملازموں گو گھورنے لگی ۔

کیا ہے میرے منہ پر کوئی فلم چل۔رہی ہے جو بنا آنکھیں جھپکے دیکھے جا رہے ہو کام کرو ورنہ کام سے فارغ کردوں گئی۔


روعب سے انہیں حکم دیتی بال جھٹکتی ہوئی باہر کی طرف چلی گئی۔

پیچھے سب ملازم حیرت سے نکلتے اپنے اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔۔۔

. رئیلی ڈیڈ آپ چاہتے ہیں میں شادی کر لوں کیا جوک ہے ڈیڈ میں کوئی شادی نہیں کرنے آیا یہ بات آپ دماغ میں رکھا کریں۔

پینٹ کی پاکٹس میں دونوں ہاتھ گھسائے پانی میں تیرتیں بطخوں کو دیکھتا وہ طنزیہ مسکان سے بولا ۔

تیمور خان نے اسے گھور کر دیکھا ۔

غاذان بات کو سمجھو تمہاری بچپن سے بات طے ہے شائنہ سے پھر اس سے شادی کر کے تمہاری پوزیشن میں واضع تبدیلی آئے گئی بیٹا ۔

تیمور صاحب جھنجھلا کر بولے ۔

سیریسلی ڈیڈ ۔

وہ مسکراتا ہوا انکی طرف پلٹا ۔

اسکی مسکان سے چڑتے وہ ریلنگ پر ہاتھ جما گئے ۔

دیکھیں ڈیڈ آپ جانتے ہیں شادی وادی مجھے پسند نہیں میں پابند ہو کر نہیں رہ سکتا اور دوسرا سچ آپ بھی جانتے ہیں ۔

انکے ساتھ کھڑا ہوتا وہ سپاٹ سے انداز میں بولا ۔

تیمور خان نے اسے گھورا ۔

مجھے گھورنے کا کوئی فائدہ نہیں ڈیڈ جب میرا دل کرئے گا شادی کا آپ کو بتا دوں گا ۔

کندھے اچکا کر بولتا وہ پاکٹ سے سگریٹ کی ڈبی نکال گیا۔

تیمور صاحب نے اسے زبردست گھوری سے نوازا جبکہ وہ مسکراتا ہوا سگریٹ منہ سے لگا گیا ۔

پیئیں گئے ڈیڈ ۔

ہلکی مسکان سے خود کو گھورتے تیمور خان سے وہ بولا تھا۔

ایسے واحیات شوق تمہارے ہیں تمہارے باپ دادا نے کبھی اس شے کو ہاتھ نہیں لگایا اور تم میرے سامنے کھڑے دیدہ دلیری سے نا صرف سگریٹ پی رہے ہو بالکہ مجھے آفر بھی کر رہے ہو آفرین ہے سردار غاذان تیمور تم پر ۔

وہ خاص تپ چکے تھے اپنے بیٹے کی حرکتوں سے.

کش لیتا وہ بھرپور مسکرا دیا ۔

سردار ہوں جو کام کروں گا دیدہ دلیری سے کروں گا اور آپ زیادہ ہائپر نا ہو طبیعت خراب ہو جائے گئی آپکی۔۔

پھر سےسکون سے بولا گیا۔

ہائپر کرنے والی باتیں بھی کرتے ہو اور یہ بھی کہتے ہو طبیعت خراب ہو جائے گئی اتنے کوئی تم میرے خیر خواہ ۔

غصے سے کہتے وہ اسکے کمرے سے ہی نکل گئے۔

اسکے خوبصورت ہونٙٹوں پر مسکراہٹ چھب دیکھلا کر غائب ہو گئ۔

اب وہ سنجیدگی سے نیچے پول کے پاس بیٹھی شائنہ خانم کو دیکھنے لگا جو سرخ سوٹ پہنے بالوں کا جوڑا بنائے فون میں کسی سے بات کر رہی تھی وہ لڑکی کافی خوبصورت تھی اسے پسند بھی تھی لیکن شادی وہ ابھی نہیں کرنا چاہتا تھا کم از کم ایک سال تک تو بالکل بھی نہیں۔۔


_______________________


ان تینوں نے کل صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا چاچی کو تو موسمی بخار ہو گیا تھا ۔

وہ کبھی بیٹھتی کبھی کھڑی ہو جاتی اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کہاں جائے کون ہے جو اسکی مدد کرئے اب وہ روز روز تو کسی سے مانگ نہیں سکتی اسے خود ہی کچھ کرنا تھا ۔

بڑی سی کالی چادر سر پر لیتی وہ خیام کو امی کا خیال رکھنے کی تاکید کرتی ہوئی باہر نکل گئی شام کے چار بج رہے تھے ۔

دھوپ کے سائے ڈھل چکے تھے ۔

عرفان نے مسکرا کر اسے کوئی واحیات سا اشارا کیا تھا جس پر وہ ضبط سے ہونٹ بھینچتی ہوئی تیزی سے اسکی دکان کے پاس سے گزر گئی۔۔

پیدل تیز تیز چلتی وہ کافی دور نکل آئی تھی ۔

چہرے پر بے بسی سی تھی ۔

وہ آخر کار سردار محل کے سامنے آکر رک گئی تھی۔

مجھے اندر جانا ہے ۔

گیٹ کے پاس چار پانچ کھڑے چوکیداروں سے وہ بولی ۔

کون ہو تم لڑکی ہم ایسے ہی کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دیتے ۔

ان میں سے ایک آدمی کافی غصے سے بولا ۔

کیوں نہیں جانے دیتے مجھے سردار سے ملنا ہے اور ان سے ملنے تو کوئی بھی آسکتا ہے پھر کیوں آپ اندر جانے نہیں دیتے ۔۔

وہ پہلی دفعہ غصے سے بولی تھی ۔

ان آدمیوں نے کمزور سی لڑکی کو گھورا.

ائے بی بی جاو یہاں سے ہمارا دماغ مت خراب کرو ہمارے سردار بس خاص لوگوں سے ملتے ہیں ویسے بھی انکے بہت دشمن ہیں ہو سکتا ہے تمہیں انکے کسی دشمن نے بھیجا ہو ۔

ان میں سے دوسرا آدمی زرا رعب سے بولا ۔

وہ لب کاٹتی ہوئی انہیں دیکھتی رہی ۔

ہم لوگوں کے مسائل حل کرنا انکی زمہ داری ہے اگر ہم ان سے ملیں گئے نہیں تو انہیں اپنے مسائل سے کیسے آگاہ کر سکیں گئے حیرت ہے آپ لوگوں پر ۔

وہ غصے سے بولتی ہوئی چپ ہوئی دروازہ کے پاس چار پانچ گاڑیاں قطار میں محل سے باہر آنے لگیں تھیں ۔۔

سب چوکیدار حر کت میں آتے ہوئے مستعدی سے کھڑے ہوئے تھے وہ باہر بیٹھے ہوئے تھے اندر بھی چوکیدار ہوتے تھے باہر بھی ہوتے تھے ۔

وہ ایک سائیڈ پر ہوتی امیروں کے ٹھات دیکھتی رہ گئی ۔

ان میں سے کس گاڑی میں ہوں گئے وہ۔

وہ گاڑیوں کو غور سے دیکھتی ہوئی بولی ۔

ان میں سے دوسرے نمبر والی گاڑی میں ہیں سردار جی ۔

ایک چوکیدار جو بھلا دیکھتا تھا وہ آہستہ سے اسے بتاتا گیٹ کے پاس چلا گیا۔

وہ کالی پراڈو کو غور سے دیکھنے لگیں جس کے سیاہ شیشے اندر کا منظر چھپا گے تھے ۔

وہ دل مضبوط کرتی ہوئی دوڑ کر اس گاڑی کے قریب پہنچی تھی ۔

گاڑیاں رکیں ہوئیں تھِیں ۔

سردار غاذان کی گاڑی کا شیشہ وہ زور سے بجا گئی تھی۔


گاڑی کے اندر بیٹھا موبائیل یوز کرتا وجود چونکا تھا ۔۔

گاڑی کے باہر کا منظر تو دیکھتا تھا لیکن اندر کا نہیں ۔

اس نے چونک کر اس کمزور لڑکی کو دیکھا جس نے کالی چادر سے ہونٹوں کو چھپایا ہوا تھا ۔۔

ڈرائیور اس سے پوچھو کوئی مسلہ ہے ۔

وہ بے ساختہ بولا تھا ۔

غاذان چھوڑو اسے ہمیں کانفرنس کے لیے لیٹ ہو رہا ہے ۔

دوسری طرف بیٹھے تیمور خان نے بیزاری سے بیٹے سے کہا۔

بہادر خان پوچھو اس سے جا کر۔

وہ باپ کی بات نظر انداز کرتا اپنے خاص ملازم کو حکم صادر کر گیا تھا ۔

ملازم باہر نکلتا اس لڑکی کے قریب آیا جس کی آنکھوں میں ویرانی سی تھی۔

کیا مسلہ ہے لڑکی تم جانتی ہو ایسی حرکت کرنا منع ہے کیا چاہئیے پیسے ۔

وہ ملازم اسے پہچان چکا تھا۔

وہ بھی اس آدمی کو پہچان چکی تھی۔

میں بھکارن نہیں ہوں مجھے سردار غاذان تیمور سے بات کرنی ہے تم سے نہیں ۔

وہ سرد لہجے میں بولی ۔

بہادر خان نے اس لڑکی کو حیرت سے دیکھا پھر گاڑی کے اندر چلا گیا ۔

سردار وہ آپ سے بات کرنا چاہتی ہے ۔

وہ موبائیل پر میٹینگ اٹینڈ کرتے سردار سے بولا ۔

اس نے حیرت سے آئی برو اچکائے پھر لڑکی کو دیکھا ایک منٹ ڈرائیور ۔

ڈرائیور کو گاڑی سٹارٹ کرتا دیکھ کر وہ بولا جس پر تیمور خان نے اسے گھورا کہی انہوں نے اسے سردار بنا کر کوئی غلطی تو نہیں کر دی تھی کیا یہ شخص کبھی انکی کوئی بات مانے گا لگتا تو نہیں ہے ۔

وہ لب بھینچ کر اپنے مغرور بیٹے کو دیکھنے لگے جو ڈور کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا باہر نکلا تھا ۔

بیٹا باہر بہت گرمی ہے تم کہاں گرمی برداشت کر سکتے ہو ۔

انہوں نے اسے ٹوکا ۔

وہ مسکرایا ۔

ڈیڈ ایک دو منٹ کی گرمی سے آپ کا بیٹا مر نہیں جائے گا ڈونٹ وری ۔

طنز سے کہتا ڈور کھول کر وہ باہر نکلا تھا اسے باہر نکلتا دیکھ کر اسکے گارڈ بھی بے ساختہ باہر آتے اس کے ارد گرد پھیلے تھے ۔


ہیر بے ساختہ دو قدم دور ہوئی ۔

وہ شخص قد اور رتبے میں بہت بڑا تھا اسے سے ،

ہیر سر اٹھائے بہت حیرت سے اسے دراز قامت شخص کو دیکھ رہی تھی۔

جو وائٹ شرٹ خاکی تنگ پینٹ براون شوز پہنے آنکھوں پر براون کلر کے ہی شیڈ لگائے وہ لڑکی کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

خیام ٹھیک کہتا تھا سردار غاذان انتہا سے زیادہ خوبصورت تھا اسکی پرسنلٹی ہی بہت شاندار تھی ۔

اسکی نیلی آنکھیں گلاسز کے پیچھے چھپی ہوئیں تھیں ۔

کوئی مسلہ ہے تو جلدی کہیں ۔

وہ سنجیدگی سے اس کمزور کم سن لڑکی سے مخاطب تھا جس سے لوگ مخاطب ہونے کے لیے ترستے تھے ۔

وہ چپ ہی رہی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اس شخص سے کیا کہے۔

لڑکی تم ٹھیک ہو۔

اسکی سپاٹ آواز پر اسکی انکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیرتے باہر آنے کو مچلنے لگے تھے ۔

سردار غاذان خان نے آفسوس سے اس لڑکی کو دیکھا پھر پینٹ کی پاکٹ سے والٹ نکال کر کئی نوٹ اس لڑکی کی طرف بڑھائے ۔

پیسوں کو دیکھ کر وہ بے ساختہ لب بھینچ گئی۔

سردار مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔

وہ بنا پیسوں کو پکڑے سر جھکائے بولی ۔

جس پر تیمور خان غصے سے باہر نکلا۔

ائے لڑکی کیا تماشا لگا رکھا ہے پیسے چاہئیے تو لو ورنہ ہٹو راستے سے ۔

تیمور خان کی خقارت زدہ آواز پر اسکی آنکھوں میں تیرتے آنسو باہر نکل آئے تھے ۔

سردار غاذان نے باپ کو سنجیدگی سے دیکھا اسکی پروش اسکی ماں نے کی تھی وہ لوگوں کی مدد کرنا جانتا تھا ورنہ اگر ان محل والوں میں پلا ہوتا تو وہ بھی کٹھوڑ دل کا مالک ہوتا ۔

مجھے ان سے اکیلے میں بات کرنی ہے ۔

وہ پھر سے ڈیٹھ پن سے بولی ۔

یہ پیٹ کی بھوک انسان کو بڑا بے بس کر دیتی ہے وہ لڑکی بھی مجبور تھی اپنوں کو بھوک میں دیکھ کر ،

اپنی تکلیف برداشت کر لی جاتی ہے اپنے دل سے جڑے رشتوں کی نہیں وہ اپنی امی بھائی کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی یہی مجبوری اسے سردار غاذان کے در پر لے آئی تھی ۔

اس طرف آو ۔

وہ کہتا ہوا آگے بڑھا پیچھے سب حیرانی سے اپنے سردار کو دیکھ رہے تھے اسکے ساتھ بہادر خان بھی بڑھا تھا کہ وہ اسکا رائٹ ہینڈ تھا ۔

وہ حیران تھی کیا سردار اتنے خوبصورت رویہ کے مالک بھی ہوتے ہیں وہ تو ویسے ہی چلی آئی تھی وہ نہیں جانتی تھی سردار غاذان اسکی بات سنے گا ۔


کہو !

ہاتھ پشت پر باندھتا وہ بے تاثر لہجے میں بولا۔

میں اپنی چچی کے ساتھ رہتی ہوں میرے امی ابو ، چاچا کا انتقال ہو چکا ہے ہمارا کوئی سر پرست سہارا نہیں ہم کئی دن فاقوں میں گزارتے ہیں مجھے بھیک نہیں مجھے کام چاہئیے جس سے میں اپنی ماں بھائی کو دو وقت کا کھانا کھلا سکوں پیسے نہیں آپ سردار ہیں آپکا فرض بنتا ہے ہماری مدد کرنا ہمارے مسلے کا حل نکالنا ۔

سر جھکائے وہ بول رہی تھی اسکی بہادری پر بہادر خان عش عش کر اٹھا تھا ۔

سردار سے دو ٹوک بات کرنا بہت ہمت کی بات تھی ۔

تمہیں کام چاہئیے ؟

وہ پوچھ رہا تھا ۔

ہاں ۔

وہ سر جھکائے بولی ۔

وہ والٹ نکالتا ایک کاڑد اسکی طرف بڑھا گیا ۔

یہاں چلی جانا تمہیں نوکری مل جائے گِی ۔

اسے کارڈ تھما کر کہتا وہ خوبصورت چال چلتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا ۔

کارڈ پکڑے وہ حیرت زدہ سی تھی اس نے سردار غاذان سے بات کی تھی بہت حیرت تھی اسے خود پر وہ اتنی ہمت کہاں سے لے آئی تھی سردار سے بات کرنے کی۔

گاڑیاں بہت تیزی سے وہاں سے گزریں تھیں ۔۔

کارڈ پر کسی کمپنی کا نام درج تھا ۔

کارڈ پکڑ کر وہ اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی ۔

چاچا مختیار دکان پر تھے انہیں دکان پر دیکھ کر وہ دکان کے اندر آ گئی ۔

چاچا ہمارے ادھار کی رقم کتنی ہوئی ہے ۔

وہ گہری سانس لیتی چاچا سے بولی ۔

ایک منٹ بیٹا ۔

دس ہزار ۔

چاچا نے رجسٹر میں جھانکتے ہوئےا سے بتایا ۔

وہ لب بھینچ گئی ۔

چاچا میں جلد آپکے پیسے لوٹانے کی کوشش کروں گئی کیا مجھے ایک پاو ماش کی دال مل سکتی ہے ۔

وہ شرمندگی بھرے لہجے میں بولی ۔

چاچا نے گہرا سانس لے کر اسے ایک پاو ماش کی دال دے دی ساتھ ہی دس روپے والا بسکٹ کا پیکٹ بھی پکڑا دیا۔

دکان سے وہ قدم گھسیٹتی ہوئی گھر آئی۔

کچن میں آکر سب سے پہلے اس نے ماش کی دال چولہے پر چڑھانے کی کوشش کی لیکن چولہا تو جل ہی نہیں رہا تھا ۔

گیس ختم ہو گئی تھی۔

لب بھینچ کر وہ ٹھنڈے پڑے چولہے کو دیکھنے لگی وہ بے بسی کی انتہا پر تھی ۔

پھر کچھ سوچ کر وہ باہر آئی چار اینٹِیں باہر والے گیٹ کے پاس پڑیں ہوئیں تھیں ۔

ان اینٹوں کو پکڑ کر وہ دیوار کے پاپس لے آئی انہیں جوڑ کر وہ چھت پر چلی گئی ۔

پاس والی چھت پر کافی سوکھی لکڑیاں پڑیں ہوئیں تھی اسے پتا تھا اگر مانگی تو نہیں ملیں گئیں س لیے وہ ِادھر اُدھر دیکھتی انکی چھت سے کافی ساری لکڑیاں اٹھا کر بھاگی ۔

نیچے آکر اس نے لکڑیاں چولہحے میں سیٹ کیں پھر ان پر کافی سارے کاغذ رکھے دس منٹ کی کوشش سے آگ جل اٹھی تھی۔

اپنی کامیابی پر وہ مسکرائی ۔

رات کا وقت ہو چکا تھا ۔

پتلی سی دال وہ آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت پر وہ پکا پائی تھی ۔

تھوڑا سا آٹا تھا اسکی پتلی سی چار روٹیاں بنیں تھیں ۔۔

روٹیاں بہت مشکل سے پکیں تھیں کیونکہ آگ بار بار بجھ جاتی تھی پرانی کاپیاں جکا کر وہ بہت مشکل سے روٹیاں تیار کر سکیں۔

کھانا لے کر جب وہ اندر آئی چاچی آنکھیں بند کیں پڑیں ہوئیں تھی ، خیام نیچے فرش پر ہی سو گیا تھا وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا وہ دس سال کا بچہ تھا اسے بھوک بھی بہت لگتی تھی لیکن وہ ماں بہن سے کہہ نا پاتا کہ کچھ ہوتا تو اسکی بہن انہیں کھلاتی نا ۔۔

خیام اٹھو کھانا کھا لو ۔


پیار سے اسکے بال سہلاتی ہوئی وہ بولی ۔

خیام جھٹ سے اٹھا ۔

آپی گھر میں تو کچھ نہیں تھا پھر آپ کھانا کہاں سے لائِیں ۔۔

خیام حیرت سے بولا ۔

اللہ نے دیا ۔

مسکرا کر اسکا ماتھا چومتی وہ بولی ۔

چاچی امی اٹھیں کچھ کھا لیں ۔

چاچی سوجیں آنکھیں اس پر جمائے اٹھ کر بیٹھیں وہ شاید کافی وقت روتی رہیں تھِیں۔

انکی سوجیں سرخ آنکھوں سے نظریں چڑائے وہ کھانا انکے آگے رکھ گئیں خود دونوں بہن ایک کٹوری میں کھا رہے تھے ۔

نائلہ خاتون مسکرا دیں یہ لڑکی انکے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھیں اگر وہ نا ہوتی تو شاید وہ دونوں ماں بیٹا کب کے اس بے رحم دنیا سے چلے گئے ہوتے لیکن خدا نے اس لڑکی کو انکا وسیلہ بنا دیا تھا۔

پتا نہیں وہ کہاں سے یہ دال لائی تھی نا دال تھی اور نا ہی گیس ۔

وہ نوالہ منہ میں رکھے ہیر پر نظریں جمائے گہری سوچ میں مبتلا تھیں ۔۔۔

_________________________


سر دار آپکی کافی ۔

وہ لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب مہرینہ نے کافی کا بڑا سا مگ اسکے سامنے کیا۔

تم کیوں لائی ملازم کدھر ہیں اس گھر کے ۔

وہ بنا کپ تھامے آئی برو اچکا کر بولا۔

آپکا کام کرنا مجھے اچھا لگتا ہے سردار جی ۔

وہ خالص فلمی ڈائیلوگ بولی تھی جس پر وہ لیپ ٹاپ بند کرتا اسے گھورنے لگا ۔

پرپل کی شارٹ قمیض نیچے بلیک ٹروزر پرپل کریب کا دوپٹہ کندھے پر رکھے بال آدھے کھولے اسے امپریس کرنے کے چکر میں تھی وہ۔

وہ کوئی بچہ نہیں تھا جو اس لڑکی کی حرکتوں کو نا سمجھ پاتا ۔

کیا ایج ہے تمہاری ۔

وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔

وہ خوش ہوئی ۔

کیا یہ میری برتھ ڈیٹ جاننا چاہ رہے ہیں افف کل میرا نمبر مانگیں گئے پرسوں اظہار پھر شادی واوا۔ ۔

وہ خیالوں میں آسمان پر پہنچی ہوئی تھی جب اس نے اسے گھورا ۔

مہرینہ ایج پوچھی ہے تمہاری کوئی میتھ کا سوال نہیں پوچھا تم سے ۔

وہ غصہ ہوا تھا اس پر۔

جی بیس سال ۔

شرما کر کہا گیا۔

ہمم !

اور میری ایج کیا ہے ؟

وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے آئی برو اچکا کر بولا ۔

آپکی ؟

وہ حیرت زدہ ہوئی ۔

میں نے پوچھا میری ایج کیا ہے ۔

وہ غصے سے بولا ۔

آپکی شاید تھرٹی ۔

وہ حیرت سے بولی ۔

شاید نہیں تھرٹی کا ہوں میں اور تم سے کتنا بڑا ہوا میں ۔

وہ سوال پر سوال پوچھ رہا تھا ۔

دس سال ۔

وہ سر جھکائے بولی دل میں الجھ سی رہی تھی اسکے سوالوں سے ۔۔

ہممم مطلب میں تم سے دس سال بڑا ہوں تم مجھے بالکل بہن کی طرح لگتی ہو مہرینہ اور کچھ نہیں بہتر ہو گا پڑھائی پر توجہ دو مجھے پڑھائی سے جان چھڑانے والے سخت زہر لگتے ہیں جانتی ہو گئی تم اور دوسرا کوئی اپنی ایج کا لڑکا پسند کر لو تمہاری شادی کروانا میری زمے داری ہے اور دوپٹہ سر پر رکھا کرو جاو اب دماغ تو چاٹ ہی چکی ہو تم اب کافی پی لینے دو ۔۔

وہ دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھتا کافی کا مگ اٹھاتا بنا اسکے کھلے منہ پرتوجہ دئیے وہ کافی کے سپ لینے لگا ۔

آپ شائنہ سے شادی کریں گئے۔

وہ منہ بسور کر بولی ۔

ہاں کیوں تمہیں کوئی اعتراض ہے۔

وہ لیپ ٹاپ کھولتا ہوا اسے گھورتا ہوا بولا ۔

نہیں سردار ۔

منہ بنا کر کہتی وہ پلٹ گئی ۔

مجھ سے نہیں تو اس شائنہ خانم سے بھی نہیں ہو گئی اپکی شادی ۔

دل میں سوچتی وہ مسکرائی ۔

پھر پلٹی ۔

سردار آپکے ساتھ تو کوئی انوسینٹ سوٹ کرئے گئی جبکہ شائنہ تو بالکل بھی انوسینٹ نہیں بالکہ ہمارے خاندان میں تو صرف میں ہی انوسینٹ ہوں ۔

وہ جاتے جاتے پلٹ کر پھر سے بولی ۔

مہرینہ نواز ۔

وہ لیپ ٹاپ بند کرتا پھنکارا ۔

میرا مطلب تھا شائنہ بھی تھوڑی سی انوسینٹ ہے ۔

ڈر کر تیزی سے بولتی وہ وہاں سے رفو چکر ہوئی تھی۔

بے وقوف !

سر ہلکا سا دباتا وہ سر جھٹک کر بولا تھا ۔

__________________________


صبح کے دس بجے وہ کارڈ میں موجود جگہ پر پہنچ چکی تھی ۔

یہ کوئی بڑی سی بلڈنگ تھی لوگوں کا کافی ہجوم تھا اندر۔

وہ کانپتے قدموں سے اندر چلی آئی چکنے فرش پر اسکے پاوں پھسل رہے تھے ۔

وہ کاونٹر پر موجود لڑکے کے پاس آئی ۔

مجھے یہ کارڈ سردار غاذان تیمور خان نے دیا ہے انہوں نے کہا تھا شہنام صدیقی سے ملنے کے لیے ۔

وہ کارڈ اس لڑکے کی طرف بڑھاتی ہوئی سہمے سے لہجے میں بولی ۔

آپ لفٹ سے سیکنڈ فلور پر چلیں جائیں پہلی رو میں جو کمرہ ہے وہاں چلیں جائیں ۔

وہ لڑکا اس سے کہتا دوبارہ سے کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہو گیا۔

شکریہ کہتی وہ لفٹ کی طرف چلی گئی۔

لؐفٹ سے اسے ڈر لگتا تھا ، اس لیے وہ سیڑیوں سے اوپر جانے کا فیصلہ کرتی ہوئی سیڑیوں کی طرف بڑھ گئی۔

دوسرے فلور پر پہنچ کر وہ ہانپ چکی تھی ایک دو منٹ رک کر وہ گہرے گہرے سانس لیتی اس روم کے دروازے میں آئی ۔

اس نے ڈرتے ہوئے دروازہ ہلکا سا نوک کیا جس کے جواب میں یس آیا تھا ۔

اندر آکر اس نے چیئر پیچھے کی جانب کھسائے بیٹھے شخص کو دیکھا ۔

بیٹھ جاو ۔

روعب دار آواز میں کہا گیا تھا ۔

وہ سر ہلاتی جلدی سے بیٹھی ۔

یور کوالیفیکشن ؟

اسکی طرف رخ کرتا وہ روعب سے بولا ۔

میٹرک کیا ہے ۔

شرمندگی سے چور لہجے میں وہ بولی ۔

سیریسلی ۔

وہ حیرت سے بولا ۔

جی !

وہ لب کاٹتی ہوئی بولی ۔

کھانے میں کیا چیز پسند ہے ۔

اسکے چہرے کو دیکھتا ہوا وہ بولا۔

فیورٹ !

وہ کیسے بتاتی مفلس لوگوں کی کوئی پسند نہیں ہوتی انہیں سوکھی روٹی بھی مل جائے تو وہ اسی پر خوش ہو جاتے ہیں ۔

کیا ہوا میں نے کیا مشکل سوال پوچھ لیا ہے ۔

وہ پنسل انگلیوں میں گھماتا ہوا بولا۔

سر جو مل جائے وہی فیورٹ ہوتا ہے ۔

وہ سنجیدگی سے بولی ۔

گڈ ۔

وہ منہ بناتا ہوا بولا ۔

مس خفضہ کے پاس جاو اور ان سے اپنا کام سمجھ لو ۔

وہ جسے کا حوالہ لے کر آئی تھی اس حوالے کی وجہ سے وہ اسے ریجیکٹ نہیں کر سکتا تھا۔

تمہیں پتا ہے یہاں کیا کام ہوتا ہے۔

وہ اسے پلٹتا دیکھ کر مصنوعی سنجیدگی سے بولا ۔

نہیں ۔

وہ پھر سے شرمندگی سے بولی ۔

ہم سپاریاں لیتے ہیں ۔

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

سپاریاں مطلب ؟

وہ ناسمجھی سے بولی ۔

ہاہاہا او مائی گاڈ مطلب ہم لوگوں کو آرڈر پر مارتے ہیں ۔

وہ پہلے تو قہقہ لگا گیا تھا بعد میں مصنوعی سنجیدگی کا خول خود پر چڑھاتا ہوا بولا ۔

کیاااا!!!

وہ ساکت سی اسے دیکھتی بھاگنے لگی تھی جب وہ سرعت سے اسکے سامنے آیا ۔

دیکھیں میں لوگوں کو نہیں مار سکتی آپ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے مجھے نہیں کرنا یہ کام ۔

وہ سہمے سے لہجے میں بولتی شہنام صدیقی کو پھر سے قہقہ لگانے پر مجبور کر رہی تھی ۔

آپ کیوں نہیں مار سکتی لوگوں کو ہیں تو آپ خاصی صخت مند ۔

اسکے کمزور وجود پر طنز کرتا وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولا ۔

مجھے نہیں مارنا اب مجھے جانے دیں ۔

غصے سے کہتی وہ جانے لگی تھی جب وہ پھر سے اسکے سامنے آیا ۔

سوری لیکن اب تمہیں یہ کام کرنا پڑے گا اور آج سے ہی کرنا ہے ۔

دونوں ہاتھ پاکٹ میں ڈال کر اسکے سامنے کھڑا ہوتا وہ ڈیٹھ لہجے میں بولا البتہ آنکھوں میں واضع شرارت تھی جبکہ چہرے پر مصنوی سنجیدگی ۔

وہ تھوک نگلتی رونے ہی لگی تھی جب وہ چونکا۔

ہے رونا مت میں مزاق کر رہا تھا ہمارا تو کپڑے کا کاروبار ہے ۔

اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ جلدی سے بولا۔

آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔

وہ ڈرے ہوئے لہجے میں بولی ۔

نو آئی ایم سیریس ۔

وہ کندھے اچکا کر بولا۔

مجھے کیا کرنا ہو گا ۔

وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

تمہیں میرے سر پر ہتھوڑا مارنا ہو گا مار لو گئی نا۔

وہ اسے دیکھتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے بولا ۔

جی مار لوں گئی۔

وہ بے ساختہ بولی ۔

پھر چونک کر اسے دیکھنے لگی کہ جو اسکے کانوں نے سنا تھا کیا سچ میں اس نے کہا تھا ۔

اس نے ہیر کو گھورا ۔

ؐوگوں کو مارا نہیں جاتا لیکن اپنے بوس کو مار سکتی ہو ہاں تمہاری دشمنی کیا ہے مجھ معصوم سے جو میرے سر پر ہتھوڑا برسانا چاہتی ہو ۔

اسکے تیکھے لب و لہجے پر وہ کسی معصوم بچے کی طرح سہم سی گئی۔

وہ وہ غلطی سے بول دیا ہے نہیں ماروں گئی میں۔

اسکے معصوم لہجے پر اس نے اسے مزید تنگ کرنے کا پلین ترک کر دیا ۔

ہمم جاو اور مس خفضہ سے اپنا کام سمجھ لو اور دوسری بات اگر تمہیں مجھے مارنے کی سپاری ملے تو انکار کر دینا سمجھی ۔

وہ اپنی چیئر کی طرف بڑھتا اسے پھر سے تنگ کرنا نہیں بھولا تھا ۔

جی ۔

وہ حیرت سے بولی ۔

ہاں جی اب جائیں کافی وقت ضائع کر دیا ہے تم نے میرا بہت بولتی ہو تم اب کافی بھیجوا دینا سر درد کرا دیا ہے تمہارے سوالوں نے ۔

لیپ ٹاپ کھولتا وہ ایسے بولا جیسے سچ میں ہیر نے اس سے سوال پوچھ پوچھ کر اسکا سر درد کرا دیا ہو ۔

وہ بنا کچھ بولے حیرت سے اسکے کمرے سے بھاگنے سے انداز میں نکلی ۔


یہ لڑکی کون ہے ؟

داور نے اس لڑکی کے حلیے کو دیکھتے ہوئے اپنی سیکرٹری سے پوچھا۔

سر اسے سر شہنام صدیقی نے رکھا ہے یہ مس حفضہ کے اندر کام کرئے گئی ۔

واٹ یہ کیسے کیسے لوگوں کو رکھنے لگا ہے اسکے کپڑے دیکھو اور جو اس نے چادر لی ہوئی ہے وہ پھٹی ہوئی ہے اسے ابھی کہ ابھی نکالو باہر ۔

داور خان غصے سے اپنی سیٹ سے کھرا ہوتا ہوا بولا ۔


سارا نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں وہ خفضہ کی بات دھیان سے سنتی سر ہلا رہی تھی وہ لڑکی شکل سے ہی معصوم دیکھتی تھی ۔

سر نہیں نکال سکتے اسے سردار غاذان تیمور نے رکھا ہے ۔

سارا کی آواز پر وہ چونک کر اسکی طرف پلٹا ۔

کس نے رکھا ہے ؟

وہ حیرت سے چور لہجے میں بولا ۔

سردار غاذان تیمور نے ۔

وہ سر جھکا کر بولی ۔

اسکی بات پر اس نے پھر سے اس لڑکی کو دیکھا یہ لڑکی کہاں ملی سردار کو کیا چکر ہے یہ ۔

سوچنے والے انداز میں وہ اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔

پھر ایک شاطر مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر رقصاں ہوئیں ۔

جس پر سارا نے حیرت سے اسے دیکھا ۔

سردار غاذان تیمور خان ۔

اسکا نام بڑبڑاتا ہواوہ دوبارہ سے اپنی چیئر پر بیٹھا ۔۔

__________________________


امی وہاں کے کوگ اچھے ہیں لیکن ۔

رات کو انکے پاس بیٹھی وہ کہہ رہی تھی لیکن پھر چپ ہو گئی ۔

کیا ہوا ہیر کیا کسی نے تنگ کیا ۔

انہوں نے پریشانی سے پوچھا ۔

نہیں امی پریشان کسی نے نہیں کیا شہنام صدیقی یاد آیا تھا پریشان کرنے والی بات پر لیکن وہ اسکا بوس تھا وہ یہ جاب ہرگز نہیں چھوڑ سکتی تھی وہ یہ بھی جانتی تھی اسے کوئی کام پر نہیں رکھے گا اسنے نا ہی پڑھائی کمپلیٹ کی ہوئی تھی اور نا ہی اسکے پاس کوئی تجربہ و ہنر تھا اگر سردار نے نا کہا ہوتا تو اسے شاید ہی کوئی نوکری ملتی ۔۔

امی وہاں سب نے اتنے اچھے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور میری لیلن کی چپل اور یہ پھٹی ہوئی چادر پرانا سا سوٹ امی میں کیا کروں گئی میرے پاس تو مشکل سے چار سوٹ ہیں وہ بھی پرانے سے ۔۔

ہیر کے بھرائے ہوِے لہجے پر نائلہ بیگم اسے اپنے سینے سے لگا گئی ۔

بیٹا تم بھی کل جانا بازار اور سوٹ لے آنا اپنے تین چار میں خود سلائی کروں گئی پیارے پیارے ڈیزائن بناوں گئی ان پر ۔

انہوں نے اسکی پیشانی چومتے ہوئے کہا ۔

اس نے حیرت سے انہیں دیکھا ۔

امی ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں کہ ایک وقت کا کھانا خرید کر کھا لیں کپڑے کیسے خریدوں گئء ۔

وہ بے بسی سے چور لہجے میں بولی ۔

آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں تھیں ۔۔

اونہہہ رونا نہیں اور میری بات دھیان سے سنو ماسی رشیداں سے میں نے کچھ پیسے ادھار مانگے تھے وہی دے کر گئیں ہیں آج ۔

انہوں نے مسکرا کر اسے بتایا.

امی ہم اتنے پیسے کیسے واپس کریں گِے ۔

اس نے پریشانی سے پوچھا۔

اللہ مالک ہے اور ہم اللہ کے فضل سے ایک دن سب کے پیسے لوٹا دیں گئے دیکھنا تم ۔

انہوں نے اسے پھر سےسینے سے لگاتے ہوئے کہا۔

امی وہ پیسے تو آپ نے سودا سلف خریدنے کے لیے لیے ہیں میں کیسے ان سے کپڑے لے لوں ۔

وہ انکے ساتھ لیٹتی ہوئی بولی ۔

پانچ ہزار ہیں تم تین ہزار کے سیل سے سوٹ لے آنا وہاں سے سستے مل جاتے ہیں میں ان پر ڈًیزائن کر کے پیارے بنادوں گئی باقی دو ہزار کا تھوڑا سا سودا لے آنا آگے کا اللہ مالک ۔

انہوں نے اس پر چادر دیتے ہوئے کہا۔

انکے ہاتھ چوم کر سر ہلاتی وہ آنکھیں موند گئی لیکن نیند گہری سوچوں والوں کو کہاں آتی ہے ۔

دوسری چارپائی پر خیام لیٹا آنکھیں موندیں پڑا ہو اتھا ان دونوں کو پتا تھا وہ سو رہا ہے لیکن وہ سو نہیں پایا تھا اپنی ماں بہن کو اس طرح حالات کی چکی میں پھنسے دیکھ کر ۔

مجھے کام کرنا ہو گا انکی زمے داری مجھے اٹھانے ہو گئی ۔

تکیے میں منہ دئیے وہ سوچ رہا تھا ۔۔

یہ طے تھا نیند تو ان تینوں کو ہی نہیں آنی تھی تینوں اپنی اپنی سوچوں میں غرق تھے۔

__________________________


سردار غاذان تیمور خان !

وہ گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا جب مہرینہ کی آواز پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی رکا ۔

آپ کہاں جا رہے ہیں میرا مطلب ہے کیا آپ شائنہ خانم کے ساتھ ڈًینر پر جا رہے تھے ۔

اسکی گھورتی نظروں نے اسکے چودہ طبق روشن کر دئیے وہ پوچھ کر پچھتائی تھی۔

مہرینہ تمہاری اس گستاخی کی سزا آج تمہیں ضرور ملے گئی کیا تم نہیں جانتی سردار کو ہیچھے سے آواز نہیں دی جاتی کیا تم نہیں جانتی سردار اپنی مرضی کا مالک ہوتا کوئی بھی اس سے ایسے سوال و جواب نہیں کر سکتا ۔

اسکے سرد و غصیلے لہجے پر وہ اپنی جگہ کانپ گئی۔

مجھے معاف کردیں سردار آئندہ یہ غلطی نہیں ہو گئی میں تو آپکی چھوٹی سی کزن ہوں نا اس بار معاف کردیں پلیززززز ۔

وہ سر جھکائے بہت معصوم سا منہ بنا کر بولی ۔

وہ گہری سانس لیتا اس ڈیٹھ لڑکی کو دیکھ کر رہ گیا وہ چاہ کر بھی اسے سزا نہیں دے پاتا تھا کہ اسے وہ اپنی بہن رنم جیسی ہی لگتی تھی ۔

اس بار معاف کر رہا ہوں لیکن آئندی ایسی حرکت پر سزا ملے گئی انڈر سٹینڈ ۔

اسکے پوچھنے پر اسکا سر بے ساختہ پہلے نفی میں پھر اسکی غصیلی آنکھیں دیکھ کر سر ہاں میں ہلا.

بلیک چشمہ آنکھوں پر لگاتا وہ پر اعتماد چلتا اپنی گاڑی کی طرف آیا ڈرائیور نے مستعدی سے اسکے لیے ڈور کھولا۔

تین چار گاڑیاں اسکی گاڑی کے پیچھے گئیں تھیں ۔

شائنی تو ابھی گھر پر ہی ہے سردار جی دیکھتی ہوں کیسے ڈیٹ پر جاتے ہیں میں نہیں تو شائنہ بی بی بھی نہیں کب کی آئی ہے جاتی ہی نہیں اپنے گھر،

مہمان تو ایک دن کا ہوتا ہے اور اسے آئے چھ دن ہو چلے ہیں ابھی تو سردار ٹھیک سے مخاطب نہیں کرتے ورنہ یہ تو ہماری گودوں میں ہی بیٹھ جائے مہارانی کہی کی ۔۔۔

بال جھٹک کر وہ بڑبڑاتی ہوئی شائنہ خانم کے روم میں آئی روم میں کوئی نہیں تھا ۔

وہ ارد گرد دیکھتی ہوئی جلدی سے روم میں آئی ۔

واش روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔

او تو مہارانی شاور لے رہیں ہیں نہاتی رہو میڈیم لیکن سردار غاذان کو میں تمہارا کبھی نہیں ہونے دوں گئی۔

آہستہ سے بولتی وہ واش روم کا دروازہ باہر سے لاک کر گئی ۔

اندر ہی رہیں خانم جی سارے سال کا شاور لیتی رہیں مائے ڈیئر گڈ بائے تم نے میری زندگی کی پہلی خواییش رد کروائی تھی میں تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہیش کبھی پوری نہیں ہونے دوں گئی یاد رکھنا ۔

مسکرا کر کہتی وہ جلدی سے باہر کی طرف دوڑ گئی ،

کمرے میں آکر اپنا کالج بیگ پکڑا اور کمبائن سٹڈی کے لیے اپنی دوست کے گھر بھاگ گئی کہ اس پر کوئی الزام نا آئے۔۔

___________________________

چھوٹاسا بازار تھا جہاں سے صرف اس جیسے غریب ہی شاپنگ کرتے تھے ۔

سیل سے تین چار سستے سستے وہ سوٹ لے کر انکے ساتھ میچنگ لیس بھی لے چکی تھی ایک تین سو والی نارمل چپل بھی لے چکی تھی وہی سے اس نے گھر کے لیے تھوڑا تھوڑا راشن لیا ۔

بازار سے نکلتی وہ ٹھٹکی۔

خوبصورت سی مردانہ واچ دیکھ کر،

اسکے بھائی کو کتنا شوق تھا واچ لینے کا پہننے کا لیکن وہ کبھی خرید ہی نہیں سکی تھی ۔

خیام پہلی تنخواہ سے میں تمہارے لیے سب سے پہلے واچ لوں گئی یہ تمہاری بہن کا تم سے وعدہ رہا ۔

آنکھوں میں آئے آنسو وہی کہی روکتی وہ خود سے وعدہ کرتی پیدل ہی گھر جانے والے راستے کی طرف بڑھی کہ رکشے کے لیے اسکے پاس پیسے نہیں تھے تین سو بچے تو تھے لیکن وہ ان پیسوں کو سنبھال کر رکھ چکی تھی بس کا کرایہ دینے کے لیے،

اب وہ اتنی دور پیدل تو نہیں جا سکتی تھی نا ۔

___________________________

یہ دروازہ کیسے لاک ہو گیا باہر سے میں نے تو اندر سے لاک کیا تھا ۔

شائنہ نے پریشانی سے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

اسکا موبائیل بھی باہر تھا اور دیواریں ساونڈ پروف ۔۔

اففف مہرینہ ایسی حرکت تم ہی کر سکتی ہو تم نے مجھے بہت ہلکا سمجھا ہے اب دیکھو تمہارے ساتھ میں کرتی کیا ہوں تم نے شائنہ کو پریشان کیا اب شائنہ تمہیں ایسا سبق سیکھائے گئی کہ یاد رکھو گئی تم ۔

دروازے پر ہتھیلی رکھتی وہ غصے سے بولی ۔

غصے سے سفید رنگت سرخ پڑ چکی تھی ۔۔

ْ__________________________


صبح سات بجے وہ نکلتی اور جا کر نو بجے وہ بمشکل پہنچ پاتی تھی کہ بس وغیرہ دیر سے آتی کبھی جگہ ملتی تو کبھی دوسری بس کا انتظار کرنا پڑتا ۔

شام کے چار بجے وہ گھر آتی اسکا کام کمپیوٹر میں ڈیٹا سیف کرنا فائلز کو کولیکٹ کرنا ان پر شہنام اور داور کے سائن لینے ۔۔

کافی بھاگ دوڑ والا کام تھا اسکا !

کوئی اسے چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا تھا کسی کو کچھ چایئیے تھا تو کسی کو کوئی فائیل ۔۔

لنچ بریک میں سب لنچ کرنے جا چکے تھے وہ اکیلی بیٹھی فائیلز کو چیک کر رہی تھی یہ فقط مصروفیت کا بہانہ تھا ۔

آو تم بھی لنچ کر لو ۔

خفضہ نے بیگ اٹھاتے ہوئے اس سے کہا ۔۔

نہیں آپ جائیں میرا تھوڑا سا کام رہتا ہے ۔

وہ ہنوز فائیل پر سر جھکائے آہستہ سے بولی۔

خفضہ کے جانے کے بعد اس نے نمی لیے آنکھیں پونچھی اسکے پاس فقط پچاس روپے تھے وہ کہاں لنچ ڈینر جیسی عیاشی کر سکتی تھی۔

بیگ پکڑا اندر سوکھی روٹی شاپر میں رکھی ہوئی تھی۔ وہ ناشتہ کر کے نہیں آتی تھی روٹی پکا کر ساتھ لے آتی تھی جب سب لوگ لنچ کرنے چلے جاتے وہ روٹی نکال کر جلدی سے کھا لیتی۔۔

گلاس میں پانی ڈال کر وہ سوکھی روٹی کے بڑے بڑے لقمے منہ میں رکھتی ہر لقمے پر اللہ کا شکر ادا کرتی۔۔۔

ائے لڑکی میرے لیے کافی بنا کر لاو ۔

داور ملک نے سر جھکائے بیٹھی اس سے کہا۔

وہ جھٹ سے روٹی بیگ میں ٹھونستی ہوئی اٹھی۔

جی سر ؟

اونچا سنتی ہو کیا ۔

وہ درشتگی سے بولا۔

وہ سر جھکائے نفی میں سر ہلا گئی ۔

کافی بنا کر لاو پانچ منٹ میں ۔

حکم صادر کرتا وہ جانے ہی لگا تھا ۔

جب وہ بے ساختہ بولی ۔

سر مجھے کافی نہیں بنانی آتی بس چائے بنا لیتی ہوں ۔

سر جھکائے وہ شرمندگی سے بولی ۔

واٹ نانسینس تم اتنی بڑی ملٙٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتی ہو اور بنانی تمہیں ایک کپ کافی نہیں آتی پتا نہِیں کس جھگی سے اٹھ کر آ گئی ہو کل سے مجھے یہاں نظر مت آنا ۔

خقارت سے اسکے جھکے سر کو دیکھ کر کہتا وہ اپنے کیبن کی طرف تیز قدموں سے بڑھ گیا اُسے تو غریب لوگوں سے سخت چڑ تھی دوسرا اسکا حوالہ اسے غصہ دلا دیتا تھا ۔

تم دیکھنا اس لڑکی کو میں کیسے یہاں سے بے عزت کر کے نکالوں گا تم نے رکھوایا ہے نا اسے اب دیکھو اس لڑکی کو کیسے میں دن میں تارے دیکھاتا ہوں۔

اپنے کیبن میں آکر سامنے لگی سردار غاذان کی تصویر دیکھ کر وہ غصے سے بھرپور لہجے میں بولا اب وہ کیا جانے جس لڑکی کو وہ غاذان کی وجہ سے زلیل کرنا چاہتا تھا غاذان تو اس مسکین کو بھول بھی چکا تھا۔


شوں شوں کرتی وہ فائلز سیٹ کر رہی تھی جب شہنام صدیقی اسکی طرف آیا ۔

ائے لڑکی کیا ہوا !

وہ اسکی آنکھوں میں ٹھہرے آنسو دیکھتا ہوا بولا ۔

وہ گھبرا کر کھڑی ہوئی ۔

کچھ نہیں سر بس سر میں درد تھا ۔

وہ آنسو پونچھتی جلدی سے بولی ۔

پینا ڈول کی ایک گولی اور چائے پیو ٹھیک ہو جائے گا ۔

وہ اسکے سرخ چہرے کو آفسوس سے دیکھتا ہوا بولا۔۔

ْ سر کیا جسے کافی بنانی نہیں آتی آپ اسے نوکری سے نکال دیتے ہیں ۔

اسکے سہمے سوال پر وہ حیرت سے پلٹا ۔

نہیں!

یہ تم سے کس نےکہا ۔

وہ حیرت سے بولا ۔

سر نے مجھ سے کافی مانگی میں نے کہا مجھے نہیں بنانی آتی تو کہتے ہیں کل سے آفس مت آنا ۔

بھرائے ہوئے لہجے میں کہتی وہ شہنام صدیقی کو حیرت میں ڈال گئی۔

ایسا تم سے داور اختشام خان نے کہا۔

وہ سنجیدگی سے بولا ۔

وہ سر ہلا گئی ۔

اسے نا پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں سو ریلکس رہو اور میڈیسن لے کر گھر چلی جاو تم بھی کیا یاد کرو گئی کس سہی بوس سے پالا پڑا ہے ۔

وہ کہتے ہوئے اپنے روم کی طرف بڑھا

سر میں کام ختم کر کے جاوں گئی۔

اس بار اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

وہ کندھے اچکا کر مسکرایا مطلب سر درد نوکری سے نکالے جانے کا تھا ۔

میرا کام تھا کہنا اب یہ تو تم پر ہے جانا چاہو یا نہیں ویسے بھی میری پرسنلٹی ہی ایسی ہے جہاں میں ہوتا ہوں وہاں سے کسی کا ہٹنے کو دل ہی نہیں چاہتا ۔

اپنی تعریف خود ہی کرتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

جبکہ وہ منہ کھلے اسے جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔

__________________________


سردار غاذان خان کیسے ہیں آپ۔

نیم دراز پول کے کنارے پڑے صوفے پپر وہ بیٹھا ہوا تھا جب شائنہ خانم چلی آئی ۔

اس نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا جو ڈارک فیروزی سوٹ اوپر ریڈ کلر کا دوپٹہ لیے اس سے پوچھ رہی تھی ۔

آو بیٹھو ۔

اس نے سائیڈ پر پڑی کرسی کی جانب اشارا کیا ۔

وہ ہلکا سا مسکراتی ہوئی اسکی ٹانگّوں کے پاس پڑی خالی جگہ پر بیٹھی ۔

آپ جانتے ہیں ہم نے آج آپکا کتنا انتظار کیا۔

وہ اسکے چہرے کے نقوش میں ڈوبی مدھم لہجے میں اس سے شکایت کر گئی ۔

لیپ ٹاپ اس نے بند نہیں کیا پر اسے دیکھنے لگا ۔

ہم ایک ضروری کام میں پھنس گئے تھے دونٹ وری ڈینر پھر کبھی صحیح ۔

وہ کندھے اچکا کر لاپرواہی سے بولا ۔

جس پر شائنہ نے سنجیدگی سے اسکے چہرے کو دیکھا ۔

پھر سر ہلاتی مسکرا دی ۔

کوئی بات نہیں پھر کبھی صحیح ۔

وہ اسکی لمبی انگلیوں کو انگلیوں کے پوروں سے چھوتی ہوئی بولی

۔

سردار غاذان تیمور نے سنحیدگی سے اسے دیکھا پھر بہت آہستہ سے ہاتھ وہاں سے ہٹا کر بال سنوارنے لگا۔۔

آج ہم آپ کے پاس ایک شکایت کے کر آئیں ہیں ۔

شکایت ۔

پلڑ کے پیچھے چھپی مہرینہ کا دل زوروں سے دھڑکا ۔

یہ لازمی میری شکایت کر کے مجھے سردار سے ڈانٹ پڑوانا چاہتی ہے ۔

مہرینہ نے بال منہ سے ہٹاتے ہوئے لب بھینچ کر سوچا ۔

آج آپکو پتا ہے مہرینہ نے میرے ساتھ کیا کیا ؟

اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھتی وہ غصے سے بولی ۔

سردار غاذان نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔

اس نے مجھے آج ۔۔۔۔۔

شائنہ خانم آپ یہاں ہیں اور میں آپکو پورے گھر میں تلاش کر چکی ہوں آپ جانتی ہیں مجھے آپ سے کتنی محبت ہے زرا نا مجھے دیکھیں تو دل بے چین میرا مطلب ہے دل ہی نہیں لگتا میرا ۔۔۔۔

بھاگ کر انکے قریب آتی وہ جلدی جلدی بولی۔

شائنہ نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔۔

سیریسلی !

اس بار سردار غاذان ائی برو اچکا کر اپنی معصوم کزن سے بولا ۔

جی میں سچ کہہ رہی ہوں یہ دیکھیں میں نے تو اپنے موبائیل کی وال پیپر پر دونوں کی تصویر لگائی ہوئی ہے دیکھیں ۔۔۔

موبائیل کی سکرین اوپن کر کے وہ ان دونوں کے سامنے کر گئی ۔


شائنہ نے حیرت سے اسکے فون کو دیکھا جہاں اس نے واقعی دونوں کی پکس لگا رکھی تھی لیکن یہ بات الگ کہ شائنہ کی تصویر اس اینگل سے کھینچی گئی تھی کہ وہ اس تصویر میں بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی جبکہ مہرینہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی یہ تصویر اس نے ایڈت کر کے لگا رکھی تھی ۔

پہلی بار سردار غاذان خان کے ہونٹوں کے کناروں پر ہلکی سے مسکان جھلکی تھی ۔

تم نے میری پکس اتنی بری کیوں کھینچی ہے ۔

شائنہ نے صدمے سے پوچھا کہ اتنی بری تصویر وہ بڑی کر کے سردار کو دیکھا رہی تھی ۔

مجھے تو آپ اچھی لگتی ہیں اس تصویر میں بھی حلانکہ آپ بہت کوجی میرا مطلب ہے ٹھیک لگ رہی ہیں پھر بھی مجھے تو حسین لگ رہی ہیں اور جھوٹ تو میں بولتی ہی نہیں۔۔

وہ بولتی ہوئی آخر میں سردار کی کھوجتی نظروں خود پر محسوس کر کے جلدی سے جو منہ میں آیا بول گئی۔

شائنہ نے گہری سانس لے کر خود کو ریلکس کیا کہ وہ سردار غاذان خان کے سامنے چلا نہیں سکتی تھی اسے ڈانٹ نہیں سکتی کہ سرادر کو پرسکون ٹھنڈے مزاج کے لوگ پسند تھے ۔

شائنی آپی آپ تو بہت پیاری ہیں۔۔

وہ شائنہ کے کندھے پر سر رکھتی ہوئی بولی۔

اوکے اوکے اصل میں مجھے زرا کام ہے اندر پھر ملتے ہیں چلتی ہوں سردار ۔۔

وہ اسے خود سے پراں کرتی جلدی سے وہاں سے نکلتی چلی گئی کہ وہ اور اس لڑکی کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔

اب وہ پورے دانتوں کی نمائش کرتی سردار غاذان تیمور کو دیکھ رہی تھی جبکہ وہ سنجیدگی سے نظریں اس پر جمائے ہوئے تھا۔

میرے کمرے میں جاو وہاں جو میرا سٹڈی روم ہے وہاں کی ساری بکس کو پونچھ کر دوبارہ سے انکی صحیح جگہ پر رکھو۔


وہ لیپ ٹاپ آن کرتا انتہائی سنجیدگی سے بولا۔

ی یہ کام ہے یا سزا ۔

وہ ہڑبڑا کر بولی ۔

دونوں ۔

وہ لیپ ٹاپ پر تیزی سے انگلیاں چلاتا بنا اسے دیکھے بولا ۔

جی اچھا ۔

گہرا سانس لیتی مرمر سے لہجے میں کہتی وہاں سے نکل گئی ۔

حلیمہ !

اسکی ایک پکار پر دروازے کے پاس کھڑی ملازمہ دوڑ کر اسکے قریب آئی ۔۔

اسے میرے کمرے میں جانے میں وقت لگے گا آہستہ آہستہ چلے گئی آئی نو تم جاو اور سٹڈی روم کے شیلف پر رکھی ساری کتابوں کو نیچے رکھ دو اس سے سارا کام خود کرواو پہلے کتابیں صاف اچھے سے کرواو پھر شیلف پر رکھواو ۔۔

اپنی ملازمہ کو حکم صادر کرتا وہ پھر سے لیپ ٹاپ میں مصروف ہو گیا۔۔۔

جی ملازمہ حیرت سے اپنے سردار کو دیکھتی وہاں سے نکل گئی ۔

اچھا ہے مصروف رہے گئی تو میرے کان اور سر محفوظ رہے گا۔

وہ ہلکے سے بڑبڑاتا ہوا پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔۔

مصر میں اسکا بہت بڑا کاروبار تھا جو وہ اپنے بھائی کے حوالے کر آیا تھا ،

وہ زیادہ وہی رہتآ تھا یہاں اسکا باپ تھا رشتے تھے جس کی وجہ سے اسے آنا پڑتا تھا اب تو اسکے سر پر سردار کی پگڑی تھی جو گھر کا بڑا بیٹا ہی اپنے سر پر رکھتا ہے اس لیے اسے نا چاہتے ہوئے بھی اپنے باپ کے کہنے پر رکھنی پڑی تھی۔

مصر میں اسکے بہت پیارے رشتے تھے جو اسے بہت مس کرتے تھے ۔۔


___________________________

یہ پیسے ہیر رضا کے بیگ میں رکھ دو ۔۔

داور ملک نے سارا کو بھاری رقم دیتے ہوئے کہا۔

کیوں سر !

سارا نے پیسوں کی گدی پکڑتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

جو کہا ہے وہ کرو یہ کام بہت رازداری سے کرنا بنا کسی کی نظروں میں آئے ۔

وہ شیشے کے پار بیٹھی ہیر کو دیکھتا ہوا بولا ۔

ہیر سر جھکائے بڑی مہارت سے کمپیوٹر چلا رہی تھی ۔

گلابی رنگ کی قمیض سبز شلوار سبز ہی گلابی ریبن والا دوپٹہ لیے وہ کمزور سی لڑکی کی زندگی میں ابھی بہت ساری مشکلات منہ کھولے کھڑیں تھِیں۔۔۔

لنچ ٹائم جیسے ہی وہ واش روم گئی سارا نے ہال خالی دیکھ کر داود کا کام بہت ہوشیاری سی کر دیا ۔۔

___________________________

کب کرو گِے شادی کے لیے ہاں شرجیل خانم آج بھی آیا تھا شادی کا پوچھنے انکی بیٹی جوان ہے تمہاری منگ شادی کرنا چاہتے ہیں وہ اب۔۔

تیمور خان آج پھر اس ضدی کے کمرے میں کھڑے زچ ہوتے کہہ رہے تھے کافی پیتا وہ مسکرایا ۔

مسکرانا بند کرو اور جواب دو ۔

انہوں نے اسکی مسکراہٹ سے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔

ایک سال کا ٹائم مانگا تھا شاید میں نے آپ سے ۔

سینڈوچ کا پیس منہ میں رکھتا وہ آئی برو اچکا کر بولا ۔

سردار غاذان ۔

ان کے تنبیہی لہجے پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی مسکرایا ۔

انکا بیٹا رج رج کر سوہنا تھا ِِاِسکا انہیں غرور بھی تو بہت تھا لیکن آج انہیں اسکی مسکراہٹ ایک آنکھ نہیں بھائی تھی ۔۔

تم چاہتے ہو تمہارے باپ کا سر کسی کے سامنے جھکے ۔

وہ اسکے سامنے بِیٹھتے ہوئے بولے ۔۔

بالکل بھی ۔

کافی کا کپ رکھتا وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا کہ اسے اپنے رشتے بہت پیارے تھے۔

تو ہاں کردو بچے کبھی تو اس باپ کی بھی مان لیا کرو ۔۔

انکے بے چارگی لیے لہجے پر وہ آنکھیں سکیڑے انہیں دیکھتا مسکرا کر سر ہلا گیا ۔

اوکے لیکن جلدی کی کوئی ڈیٹ آپ فائنل نہیں کریں گئے مجھے واپس جانا ہے کچھ میٹینگز ہیں جو مجھے ہی ڈیل کرنی ہیں۔۔

گہری سانس لے کر انکی من پسند بات وہ کہہ گیا تھا۔۔

جیتے رہو میرے شیر۔۔

انہوں نے مسکرا کر اسکا ماتھا چوما تھا آخر خوشی کی بات تھی ۔۔

جبکہ وہ اپنی ماں کے ردعمل سے ابھی سے پریشان ہونے لگا تھا وہ مانِیں گئیں یا نہِیں یہ ایک علیحدہ ٹینشن تھی۔۔

اسے کام نمٹاتے ہوئے کافی وقت ہو چلا تھا لیکن کام تھا کہ بڑھ ہی رہا تھا ختم ہونے کا نام تو لے ہی نہیں رہا تھا اسکی چائے کا پڑا کپ کب سے ٹھنڈا ہو چکا تھا لیکن اس بے چاری کو کچھ ہوش ہی نہیں تھا۔


آٹینشن ایوری ون!

داور کے سنجیدگی بھرے لہجے پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔

جو ایک ہاتھ پینٹ میں ڈالے سب پر ایک طرائنہ سی نگاہ دوڑا رہا تھا آخر کار نگاہ اس پر رکی تھی جو کام چھوڑے داور کو ہی دیکھ رہی تھی داور کے دیکھنے پر وہ سر جھکا کر نظرین فرش پر جما چکی تھی ۔

جس پر داور کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکان چھلکی تھی ۔۔

میرے کیبن سے پورے تین لاکھ غائب ہوئے ہیں کسی کو آئیڈیا ہے وہ کہاں گئے ہیں ۔

اس کے سنجیدگی سے پوچھنے پر سب ہی اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے تھے۔

سر ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا کہ آفس کی کوئی چیز یا کیش غائب ہوا ہو ۔۔


ً سارا نے مصنوعی پریشانی سے داور کے پاس رکتے ہوئے کہا۔

جس پر داور نے سب کو تندہی سے دیکھا۔

ہاں لیکن کوئی ہے جو میرے کیبن میں آیا اورکیش لے کر چلا گیا ورنہ میرے رکھے پیسے کہاں جاسکتے ہیں جس نے بھی یہ حرکت کی ہے وہ بتا دے ورنہ پولیس کو تو میں فون کر چکا ہوں تھوڑی دیر میں آجا تی ہے لیکن اگر کوئی خود اپنا جرم قبول کر لے گا تو میں اسے معاف بھی کر سکتا ہوں ۔

اس نے ورکرز کے کیبن کی طرف چکر لگاتے ہوئے روعب دار لہجے میں کہا۔

اب لوگ آپس میں چہ موگوئیاں کرنے لگے تھے صرف ایک ہیر ہی تھی جو خاموش سی کھڑی اپنے چائے کے کپ کو دیکھ رہی تھی چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا آخر وہ کیوں ڈرتی یا پریشان ہوتی اس نے کونسا چوری کی تھی ۔۔

لگتا ہے سر تلاشی لینے پڑے گئی کوئی اپنا جرم تھوڑا نا قبول کرتا ہے ۔

سارا نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔

اب سب خاموش نظروں سے سارا اور داور کو دیکھنے لگے تھے ۔۔

لیکن ایسے کیسے سر ہم تو پرانے ورکر ہیں ہم نے پہلے کبھی چوری کی ہے جو آپ لوگ ہماری تلاشی لیں گئے۔

ایک درمیانی عمر کا آدمی جو کافی عرصے سے اس کمپنی میں کام کرتا تھا آخر بول پڑا تھا۔

منصور صاحب میں جانتا ہوں بٹ چور کو پکڑنے کے لیے سب کی تلاشی لازمی یے سارا تم گرلز کے بیگ وغیرہ چیک کرو اور منصور صاحب آپ میلز کے ۔۔۔

اپنے لیے لائی کرسی پر بیٹھتا وہ سرد لہجے میں بولتا نگاہیں اس معصوم لڑکی پر جما گیا تھا جس کا زرد چہرہ فاقوں کی کہانی بتاتا تھا آنکھوں میں چھائی ویرانیاں اسکی راتوں کی بے چینی کی کہانی سناتی تھِیں وہ کیا جانے کچھ دیر بعد اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے وہ تو آج گھر میں موجود راشن کا حساب لگا رہی تھی جو ایک دن ہی چلے گا ابھی تنخواہ ملنے میں کافی دن پڑے ہوئے تھے کہاں سے لاوں پیسے خیام کے تو دو تین سوٹ ہیں وہ بھی پرانے ہو چکے ہیں امی کے بھی دو ہی سوٹ ہیں کیا کروں کیا تنخواہ کے لیے درخواست دوں ۔۔

وہ اسی حساب میں الجھی ہوئی تھی جب سارا اسکے قریب آئی ۔۔

ہیر بیگ کی تلاشی دو ,

ہیر سارا کی آواز پر چونک کر اسے دیکھنے لگی پھر گہرا سانس لیتی ہوئی اپنا بیگ اسے پکڑا گئی انداز میں معصومیت تھی جس پر سارا کو تھوڑا سا ملال بھی ہوا لیکن سر کے آگے وہ بھی مجبور تھی ۔۔۔

بیگ کے اندر ہاتھ ڈالتے ہوئے اس نے چونکنے کی زبردست ایکٹنگ کی تھی ۔۔

پھر پھرتی سے بیگ کا منہ زمین کی طرف کر دیا جس کے نتیجے میں سب چیزیں فرش بوس ہوئیں تھیں ۔

سب نے حیرت سے اس معصوم لڑکی کو دیکھا جو حیرت سے فرش پر بکھڑی چیزوں کو دیکھتی آخر پیسوں کی گڈی پر اسکی نظرِیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں۔

ہیر نے سرعت سے نیچے بیٹھ کر پیسوں کو پکڑا کہ آخر یہ سچ میں اسی کے بیگ سے گرے تھے ۔

سب لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے آفس کے پیسے چڑا کر آفس میں ہی بیٹھی ہوئی تھی وہ ، کیا بے وقوفانہ حرکت تھی اسکی،

تو بہت سے اسے غصے بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ وہ شکل سے چورنی لگتی تو نہیں تھی ۔۔

یہ پیسے میرے بیگ میں کیسے آئے ۔

وہ پیسوں کی گڈیاں پکڑتی ہوئی حیرت سے جیسے پوچھ رہی تھی ۔

میں نے ڈالے ہیں ۔

سارا نے اسکے سامنے آتے ہوئے طنز سے کہا۔

جس پر وہ ٹھٹھک کر سارا کو دیکھنے لگی تھی وہ اسکی بات کو سچ ہی سمجھتی مگر سارا کے تالی مارنے پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی ۔

واوا مس ہیر کچھ دن ہی ہوئے ہیں تمہیں یہ آفس جوائن کیے اور تم میں اتنی جرت آگئی کہ تم سر کے کیبن میں گئی وہاں سے پیسے چرا کر یہی بیٹھی رہی بلکہ بیگ بھی دے دیا چیکنگ کے لیے تاکہ تم پر کوئی شک نا کرئے واو داد دینی پڑے گئی تمہاے دماغ کی۔۔۔

سارا کے درشت لہجے پر وہ آنکھوں میں آنسو لیے سر نفی میں ہلانے لگی ۔

نہیں میم میں نے چوری نہیں کی میں نہیں جانتی یہ پیسے میرے بیگ میں کیسے آئے آپ چاہیں تو مجھ سے جس کی مرضی قسم اٹھوا لیں ،میں ایسا کیوں کروں گئی ۔۔

ہاتھ جوڑے وہ روتے ہوئے بے بس سے لہجے میں بولی ۔

داور کوٹ کے بٹن بند کرتا ہوا اسکے قریب آیا ۔

کیا تمہاری والدہ بیمار نہیں ہیں کیا تمہارے گھر میں کھانے پینے کی چیزوں کی کمی نہیں ہے چوری کا جواز تو بنتا ہے ظاہر سی بات ہے تمہیں پیسوں کی ضرورت تھی تم نے اٹھوا لیے اور دوسری بات تمہیں میرے کیبن میں جاتے ہوئے سب نے دیکھا تھا اور میں اس وقت کمرے میں نہیں تھا جب تم میرے کمرے میں گئی تھی اور تمہارے بعد میرے کمرے میں کوئی گیا بھی نہیں تھا تو کیا پیسے خودبخود تمہارے اس خوبصورت بیگ میں آگئے تھے، یا پھر ہمیں تم پاگل سمجھتی ہو ۔۔

داور کے ایک دم سے چلانے پر وہ ڈر کر اچھلتی تین چار قدم پیچھے کی جانب کھسکی تھی ۔۔


بنا کچھ بولے وہ روتے ہوئے سسکنے لگی تھی اتنے لوگوں میں اسے کوئی بات اپنے دلائل میں کہنا آ ہی نہیں رہی تھی وہ کیا کہتی آخر۔۔


بے بسی کے احساس سے وہ سسکنے لگی تھی ۔

کتنا معصوم سمجھتے تھے ہم اسے ،

شکل سے ہی میسنی لگتی تھی یہ ۔۔

لوگوں کی باتیں اسکے آنسو میں اضافہ ہی کر رہی تھیں شرمندگی کے احساس سے اس سے سر نہیں اٹھایا جا رہا تھا ۔۔

میں نے چوری نہیں کی سر ۔

دھیمے سے لہجے میں وہ انہیں صفائی پیش کرتی چونکی تھی کیونکہ سامنے سے ایک لیڈی پولیس آفسر اور دو میل آفسر تھے ۔

اسکی آنکھوں میں ایک دم سے ڈر و خوف چھایا پر وہاں اس غریب پر کوئی ترس کھانے والا نہیں تھا داور کے دل میں تھنڈک سی اتری تھی اس لڑکی کے چہرے پر خوف دیکھ کر ۔

غاذان تمہیں میں اسی لڑکی کے ہاتھوں ہی بدنام کروں گا دیکھنا تم ۔

ہلکی مسکان سے وہ اس سے خیالوں میں مخاطب تھا کہ اسکے سامنے بولنے کا انجام وہ اچھے سے جانتا تھا۔

اسے پکڑ کر لے جائیں مجھے اپنی فیکٹری میں ایسے چور لوگ نہیں چاہئے اور جیل میں تم اس لیے جاو گئی تاکہ آئندہ تم چوری کرنے کی ہمت نا کر سکو ۔۔

ساکت چہرے سے وہ اپنی کلائی کو اسے لیڈی آفسر کے ہاتھوں میں جھکڑی ہوئی دیکھنے لگی۔


چھوڑیں مجھے میں نے کوئی چوری نہیں کی یہ پیسے میرے بیگ میں کیسے آئے میں نہیں جانتی پلیز مجھے جانے دیں ۔

انکے آگے ہاتھ جوڑے وہ بلک اٹھی تھی ۔

جبکہ اسکی التجا پر بنا کوئی کان دھرے اپنے اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔


چوری کر کے سب پکڑے جانے پر یہی بولتے ہیں اور تم تو شکل سے ہی چورنی لگتی ہو اس لیے چپ چاپ کر کے ہمارے ساتھ چلو ورنہ اتنی مار ماروں گئی کہ ساری زندگی یاد رکھو گئی ۔

لیڈی اہلکار کے درشت لہجے پر وہ ڈر کر ایک دم سے چپ ہوئی تھی ۔

لیڈی آفسر نے مسکراتی آنکھوں سے داور کو دیکھا جو مسکراتی آنکھوں سے ہی اسے لے جانے کا کہہ رہا تھا ۔

وہ اسے کھینچ کر لے جانے لگے تھے ۔

وہ روتے ہوئے اسکی سخت پکڑ سے اپنی کلائی آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی ۔

باہر آ کر لیڈی آفسر نے اسکی کلائی پر پکڑ بہت ہلکی کردی تھی ۔

اپنی کلائی کو آزاد دیکھ کر وہ اسکے ہاتھ پر دانتوں کا نشان چھوڑتی ہوئی دائیں سائیڈ بھاگی تھی ۔

پکڑو اسے ۔۔

لیڈی آفسر کے کہنے پر دونوں آفسر اسکے پیچھے بھاگے تھے جبکہ وہ خود وہی کھڑی رہی ۔۔

سر جیسے آپ نے کہا تھا بالکل ویسے ہی ہوا ہے ۔

موبائیل فون میں اس سے کہتی ہوئی وہ خود گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔


بھاگ بھاگ کر اسکے پیٹ میں درد ہونا شروع ہو گیا تھا وہ اہلکار اب اسکے پیچھے نہیں تھے ۔

ایک بند دکان کی سیڑیوں پر بیٹھی وہ زارو قطر رونے لگی تھی۔

یہ اسکے ساتھ کیا ہو گیا تھا چوری اور وہ اس نے تو بہت بھوک و افلاس والے دن کاٹے تھے تب اسے چوری کا خیال نہیں آیا تھا تو اب وہ چوری کیسے کر سکتی تھی ۔

اللہ کے سامنے وہ شکوہ کر رہی تھی ، وجود کسی پتے کی طرح کانپ رہا تھا ۔

اس میں ہلنے کی سکت نہیں بچی تھی ۔

آپی !

سکول سے آتا خیام اسے وہاں بیٹھا دیکھ کر چیخ کر اسکی طرف آیا تھا ۔

بھائی کو دیکھ کر وہ جلدی جلدی آنسو صاف کرنے لگی تھی۔

کیا ہوا ہے آپکو ؟

خیام کے درد بھرے لہجے پر وہ اندر سے کراہی ۔۔

خیام میرے بچہ کچھ نہیں ہوا بس پیٹ میں درد ہے تو اسلیے رونے لگی اور بھلا کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔

بھائی کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہوتی وہ ضبط کی انتہا پر تھی ۔۔

منہ کو چادر سے ڈھانپتی وہ چونکنا نظروں سے ارد گرد دیکھتی ہوئی خیام کا ہاتھ پکڑ کے گھر جانے والے راستے کی طرف چلنے لگی ۔

چلنے میں بہت دشواری ہو رہی تھی لیکن چلنا تو تھا نا آخر چلے بغیر گزارا جو نہیں تھا ۔۔


____________________________________


غاذان تم کب واپس آ رہے ہو !

انکا ہمیشہ سے بولے جانے والے فقرہ سنتا وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔

جلد آوں گا بس تھوڑا پیشنٹ رکھیں میں بھی آپ سے ملنا چاہتاہ

وں لیکن کیا کروں یہاں بہت سارے کام ایسے ہیں جو صرف مجھے ہی انجام دینے ہوں گئے ڈونٹ وری جلدی ہی چکر لگاوں گا

۔

کافی کا سپ لیتا وہ نرم لہجے میں انہیں تسلی دینے لگا ۔

آئی مس یو بیٹا۔

انہوں نے کہتے ہی فون رکھ دیا۔

آئی مس یو ٹو مائی ڈیئر موم۔

دھیمے لہجے میں بڑبڑاتا ہوا وہ کھڑکی میں آیا ۔

نیچے کا منظر دیکھتا وہ دانت پیس کر رہ گیا کہ لان میں تیمور خان شرجیل خانم بیٹھے ہوئے تھے ساتھ اسکے چچا بھی تھے۔

میں نے کہا تھا میں جلد شادی نہیں کروں گا لیکن انہیں سکون نہیں ہے ۔

غصے سے بڑبڑاتا ہوا وہ چائے کا کپ رکھتا باہر جانے والے دروازے کی جانب بڑھا۔

اسکے لان میں آنے پر سب باتیں ترک کیے اسکا استقبال کرنے لگے تھے ۔

مغرور تاثرات چہرے پر سجائے وہ اپنے باپ کے ساتھ والی چیٙر پر بیٹھا تھا ۔

بیٹا یہاں تمہارا ہی زکر ہو رہا تھا ۔

شرجیل خانم نے خوشی سے چمکتے چہرے پر مسکان لیے اسے مخاطب کیا ۔

آئی نو ۔

وہ سنجیدگی سے کہتا اپنے باپ کو سرد تاثرات لیے دیکھنے لگا جس پر وہ تھوڑا چونکنا ہوئے ۔

تو تیمور کب کی ًڈیٹ فائنل کریں میں اب جلد شائنہ کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں یار ۔

شرجیل کے لہجے پر اس نے بے فکری سے موبائیل پاکٹ سے نکال کر اس پر انگیاں چلانے لگ جیسے یہ بات اسکے متعلق نہیں کسی اور کے بارے میں ہو ۔

تیمور صاحب گھبرائے ۔

دیکھو شرجیل شادی میں اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے ابھی سردار غاذان کو بہت کام انجام دینے ہیں اسے تھوڑ ا کام میں ریلیف آنے دو پھر ہم ڈیٹ فائنل کر لیں گئے ابھی بس انگوٹھی پہنانے کی رسم کر لیتے ہیں۔

تیمور خان کے سنجیدگی سے کہنے پر شر جیل خانم سر ہلا گئے کہ اور کہہ بھی کیا سکتے تھے وہ ایک کائیاں انسان تھے جانتے تھے یہ فیصلہ تیمور کا نہیں سردار کا ہے ۔۔

باپ کی بات پر موبائیل پر بے تاثر انداز میں انگلیاں چلاتا وہ دھیمے سے مسکرایا پھر سب سے ایکسیوز کرتا ہوا کوریڈور کی طرف بڑھ گیا ۔

جبکہ تیمور صاحب نے بیٹے کی پشت پر دانت پیسے کہ وہ ایک نمبر کا ہوہشیار شخص تھا جانتا تھا اگر پاس آ کر نا بیٹھا تو باپ نے تو ہاں کر ہی دینی ہے ۔۔

ہاں للی کیسا جا رہا ہے آفس ورک ۔

اپنی سیکرٹری سے فون میں کہتا ہوا وہ رکا سامنے سے ہی شائنہ خانم آ رہی تھی کالی چادر سر پر اٹکائے بال کھولے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔

سردرا کیسے ہیں آپ ؟

اسکے پاس آ کر رکتی وہ بہت محبت سے پوچھ رہی تھی جبکہ آنکھیں اسکے حسین چہرے پر جمائے ہوِے تھی۔

غاذان نے سر ہلایا پھر ایک طرف رکھی کرسیوں کی جانب بڑھا۔


شائنہ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے بیٹھو۔

کرسی پر بیٹھتا وہ سنحیدگی سے بولا۔

کہیں سردار ۔

شائنہ اسکے سامنے والی چیئر پر بیٹھتی ہوئی سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی ۔

دیکھو میں ایک سنجیدہ سا بندہ ہوں پیار محبت جیسی فضول چیزوں پر مجھے کچھ خاص یقین نہیں ہے سو ان باتوں کی توقع مجھ سے مت کرنا ۔

اسکے چہرے کو دیکھتا ہوا وہ سنجیدگی سے بولتا شائنہ خانم کو جتا رہا تھا کہ کل کو شکایت مت کرنا ۔

میں جانتی ہوں میرے لیے یہی بہت ہو گا کہ ہم دونوں ایک رشتے میں ہیں ۔

شائنہ نے مسکرا کر اسکی بات کی تائید کی۔

اس بار وہ مسکرایا جس پر وہ چونکی وہ شخص انتہا سے زیادہ پیارا مسکراتا تھا اسکی آنکھیں بھی مسکراہٹ میں اسکا ساتھ بھرپور دیتیں تھیں ۔۔

لیکن ایک بات تم نہیں جانتی ۔

موبائیل کو آن کرتا وہ ہلکی طنزیہ مسکان سے بولتا شائنہ کو پریشان کر گیا۔

کیا نہیں جانتی میں ۔

وہ پریشانی سے بولی ۔

یہی کہ میں دو شادیاں کروں گا ۔

اسکا آرام سے کہا فقرہ اسکا خون خشک کر گیا تھا وہ اک دم سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی ۔

وہ سنجیدگی سے اسکے چہرے کو دیکھتا رہا ۔

مطلب ؟

کچھ دیر بعد پریشانی سے بولتی وہ دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھی تھی ۔

مطلب یہ کہ ایک میرے باپ کی پسند کی اور ایک میری ماں کی پسند کی دونوں سے کمینٹمنٹ کر چکا ہوں پیچھے نہیں ہٹ سکتا اگر سوکن برداشت کر سکتی ہو تو شادی کے لیے حامی بھرنا کیونکہ یہ تو طے ہے سردار غاذان تیمور اپنی ماں کی پسند کی شادی بھی لازمی کرئے گا ۔

سنجیدگی سے کہتا فون پاکٹ میں ڈالتا وہ پراعتماد چال سے چلتا ہوا اسکی نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔

جبکہ وہ ہاری سی بیٹھی رہ گئی یہ وہ کیا کہہ گیا تھا وہ تو سمجھی تھی وہ مزاق کر رہا ہو گا لیکن وہ تو سچ بول رہا تھا ۔

نہیں سردار غاذان تیمور تم صرف میرے ہو کسی اور کے ساتھ میں تمہیں ہرگز شیئر نہیں کروں گئی یہ بات بھی طے ہے ۔۔

مٹھیاں بھینچتی وہ ضبط سے خود پر قابو پاتی دھیمے لہجے میں چلائی ۔۔


دروازے کے پیچھے کھڑی مہرینہ نے آہستہ سے ہاتھ پر تالی ماری ۔

ہائے اللہ سردار خوش کردیا لیکن میں انکی مما کو امپریس کیسے کروں گئی اور اگر امپریس نا کر سکی تو وہ کسی اور کو پسند کر لیں گئیں نہیں مہرینہ حل ڈھوند تاکہ وہ تجھے اپنے بیٹے کے لیے چنیں اور مجھے مصر میں لے جائیں واوا آج رات نیند کیسے آئے گئی مجھے ۔۔

خوشی سے بولتی وہ اپنے کمرے کی طرف دوڑی تھی ۔

سردار اور شائنہ کو اکیلے بیٹھے دیکھ کر انکی باتِں سننے کے چکر میں وہ دروازے کے پیچھے چھپ گئی تھی سردار کی باتوں نے اسے خوش کر دیا تھا ۔۔

____________________________________


دو دن سے اسے سخت بخار تھا وہ نا کچھ کھا رہی تھی نا پی رہی سارا دن چارپائی پر لیٹی غیر مری نقطے پر نظریں جمائے رکھتی نائلہ اور خیام سخت پریشان تھے اسکی حالت پر۔

ہیری یہ شربت پی لو اس سے آرام آئے گا تمہیں تمہارے چچا مختار دے کر گئے ہیں کہہ رہے تھے اس سے تمہارا بخار اتر جائے گا ۔

ہیر کے بکھڑے الجھے بال انگلیوں سے سنوارتی ہوئی وہ بولیں ۔۔

ہیر نے انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھا جو اسکے ساتھ ہوا تھا وہ صرف وہی سمجھ سکتی تھی وہ انہیں بتا بھی نہیں سکتی تھی ۔

اسکی خالی ویران آنکھیں نائلہ کو پریشان کر گئیں تھیں ۔

بیٹا کیا بات ہے کیوں نہیں بتاتی مجھے ۔

انہوں نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے نم زدہ لہجے میں پوچھا ۔

چچی امی میری نوکری چلی گئی ہے اور میں ا ب کسی دفتر میں کام نہیں کروں گئی لوگوں کے گھر برتن دھو لوں گئی جھاڑوں پونچھا لگا کوں گئی لیکن میں دفتر نہیں جاوں گئی۔

سپاٹ لہجے میں بولتی وہ نائلہ بیگم کا دل خالی کر گئی تھی۔

انکی بیٹی اتنے دنوں سے اتنی تکلیف میں تھیں ا ور وہ محسوس بھی نا کر سکیں ۔

تمہیں کوئی ضرورت نہیں کہی جانے کی میں ہوں نا اب طبیعت بھی بہتر رہتی ہے میری اس لیے کپڑے سلائی کرنے کا سوچا ہے میں نے ،اس کام میں پیسے بھی زیادہ ملتے ہیں بس تم پریشان نا ہو۔

انہوں نے اسکا سر چومتے ہوئے نرم لہجے میں اس سے کہا جبکہ وہ چپ رہی گھر میں کچھ کھانے کو تھا نہیں وہ پریشان کیسے نا ہوتی اسکی آنکھوں کے گرد چھائے سیاہ خلقے اس بات کے گواہ تھے کہ وہ لڑکی کبھی بھرپور نیند لے ہی نہیں سکی تھی۔۔


آج موسم ابر آلود تھا آسمان پر گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے ۔

چھت پر بیٹھی وہ سامنے والے گھر کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں ایک لڑکی اِدھر اُدھر بھاگ رہی تھی جبکہ اسکے تین بھائی اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے اس لڑکی کے چہرے پر کوئی فکر و پریشانی نا تھی ۔

آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی تھی اپنے حالات دیکھ کر وہ اور خیام بھی تو ایسے ہی لڑتے تھے جب چاچو زندہ تھے ہر بات پر لڑنا ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا لیکن جب سے انکے چاچو فوت ہوئے تھے وہ دونوں تو لڑنا بھول ہی گئے تھے بلکہ خوشیاں اس گھر کی دہلیز سے جیسے روٹھ ہی گئیں تھیں ۔

آنکھوں سے آنسو صاف کرتی ہوئی وہ چارپائی پر لیٹ گئی ۔۔

کل بھی کچھ نہیں بنا ،کیا آج بھی میرے گھر والے بھوکے رہیں گئے ۔۔


ہیر بیٹا نیچے آو دیکھو خیام کیا لایا ہے تمہارے لیے۔

اسکی سوچوں کو لگام نائلہ کی پکار نے لگائی ۔

چچی کی آواز لگانے پر اٹھ کر بیٹھی پاوں میں لیلن کی چپل پہنتی وہ ہ نیچے جاتی سیڑیوں کی طرف بڑھی ۔۔

خیام کا سفید چہرہ جو اب کالا لگ رہا تھا اسے دیکھ کر مسکرایا ۔

وہ بھی جواباً مسکرائی ۔

خیام نے ایک سفید چھوٹا سا شاپر اسکی طرف بڑھایا ۔

اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے شاپر اسکے ہاتھ سے لے کر شاپر میں جھانکا ۔

شاپر میں درمیانے سائز کا ایک شوارما تھا ۔

شوارما دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہوئی ہاں اسے شوارما بہت پسند تھا لیکن انکے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ایک وقت کا کھانا بنا سکیں تو پھر یہ وہ کہاں سے لے آیا تھا ۔

آپی آپکا فیورٹ ہے نا دیکھیں امی کے لیے فروٹ چاٹ لایا ہوں ۔

اس نے فروٹ چاٹ والا شاپر اسے دیکھاتے ہوِے پرجوش انداز میں بتایا تھا۔

تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئیں ۔

اسکے چہرے پر نظریں جمائے وہ حیرت سے بولی ۔

نائلہ نے بھی بیٹے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔

آپی آپ تو جانتی ہیں میری ڈرائنگ کتنی اچھی ہے کلاس کے لڑکوں کو بنا کر دی تھی تو انہوں نے مجھے بدلے میں پیسے دئیے ۔

نائلہ کے پاس بیٹھتا بنا اس سے نظریں ملائے وہ بولا تھا ۔

ہیر بھی پاس رکھی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھی ۔

آپی کھائیں نا ۔

اسے ہنوز خاموش بیٹھا دیکھ کر وہ بولا تھا ۔

اپنے لیے کیا لائے ہو ۔

اسے خالی ہاتھ دیکھ کر وہ پوچھنے لگی ۔

آپی آپ اکیلی ہی شوارما کھانا چاہتی ہیں کیا۔

وہ مصنوعی خفگی سے بولا ۔

وہ مسکرائی ۔

پھر شوارمے کے دو پیس کر کے ایک پیس اس کی طرف بڑھا گئی ۔

نائلہ بیگم نے گہرا سانس لے کر دونوں کو شوارما کھاتے دیکھا ۔

فروٹ چاٹ گود میں ہی رکھے وہ نمی لیے آنکھوں سے اپنے بچوں کو دیکھ رہیں تھی جن کے چہرے حالات کی چکی میں پیس کر تبدیل ہو چکے تھے ۔۔

ہیر شوارما کے چھوٹے چھوٹے لقمے لیتی خیام کے مرجھائے چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔

میں سونے جا رہا ہوں شام تک مجھے کوئی نا جگائے ۔

ان کو خبر دار کرتا وہ کمرے کی جانب بڑھا ۔

ہوم ورک نہیں کرو گٙے ۔

وہ ایسے ہی پوچھ بیٹھی ۔

نہیں وہ سکول میں ہی کر لیا تھا ۔

وہ اسے جواب دیتا کمرے میں چلا گیا ۔

امی یہ قمیض مجھے دیں میں اسکی تڑپائی کر دوں گئی ۔

انہیں تڑپائی کرتا دیکھ کر وہ بولی ۔

اچھا تم تڑپائی کردو تب تک میں دوسرا سوٹ شروع کر لیتی ہوں جتنے جلدی سلائی ہوں گئے پیسے ملنے کی امید بھی جلدی ہو گئی نا ۔

اس سے کہتیں وہ شاپر سے دوسرا کوئی سوٹ نکال کر کاٹنے بیٹھ گئِیں۔ ۔۔۔

خاموش نگاہیں ان پر جمائیں وہ انہِیں دیکھتی رہی تھیں۔۔۔

_________________________________


سردار غاذان کیا میں آپکے روم میں آجاوّں۔

ملازم کے ہاتھ سے کوٹ لے کر پہنتا ووہ چونک کر دروزے میں کھڑی بلا جو دیکھنے لگا۔

جو آج چہرے پر معصوم سے تاثارت لیے کھڑی تھی ۔۔

آجاوّ___

گہری سانس لے کر کہتا وہ خود پر پرفیومز کا بے دریغ استعمال کرنے لگا تھا ۔۔

میں اب آپکو تنگ نہیں کروں گئی آپ نا مجھے اپنی مما کا نمبر دے دیں ۔۔

بنا کوئی اور بات کیے وہ ڈائریکٹ مطلب کی بات پر آئی تھی ۔۔

مطلب اب میری مما کو تنگ کرنا چاہتی ہو۔


کلائی پر براون واچ پہنتا وہ طنز سے بولا ۔

نہیں میں تو ان سے دوستی میرا مطلب ہے مصر کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں وہ اصل میں اس پر ہمیں ایک سائمنٹ ملی ہے ۔

نظریں اسکے شاہانہ کمرے پر جمائے وہ پراعتماد انداز میں بولی ۔

سیریسلی !

آئی برو اچکا کر بولتا وہ اسے ٹھٹھکا گیا تھا _


جی !

وہ پریشانی سے بولی ۔


کتنے لوگوں کی باتیں چھپ چھپ کر سنتی ہو ۔

اس کے قریب آتا وہ سرد لہجے میں بولا ۔

جی !

پیسینہ صاف کر کے وہ حیرت سے بولی ۔

میری شادی میرے ماموں کی بیٹی فبیہا سے طے ہے مائے سویٹ لٹل ڈول۔

مسکراتے لہجے میں اسے جتاتا وہ کمرے سے نکل گیا ۔

جبکہ وہ شرمندگی سے ہونٹ بسور کر رہ گئی ۔۔


اففففففف ایک نہیں دو ڈائنیں ہیں میرے راستے میں ،میں معصوم ان چالاکوں سے کیسے نمٹ سکتی ہوں ۔

کمرے کی چیزوں کو دیکھتی ہوئی وہ غصے سے بولی تھی ۔۔

______________________________________


گلابی دوپٹہ سر پر لیے وہ پیدل چلتی آج کام کی تلاش میں نکل آئی تھی کہ گزارا بھی تو کرنا تھا ۔

ہاں اب یہ تھا کہ ایک دو وقت کا کھانا انہیں میسر تھا لیکن ان پیسوں سے وہ کپڑے جوتے نہیں خرید سکتے تھے بجلی تو ان کے گھر سے کب کی بجھ چکی تھی بل کے لیے پیسے ہوتے تو لائٹ جلتی نا گرمیوں کے دن تھے اسے کام کر کے میٹر دوبارہ سے لگوانا تھا اسے مخنت کرنی تھی ۔۔

ایک دو گھروں میں کام کہا تھا اس نے لیکن انہوں نے اسے رکھا نہیں تھا یہ کہہ کر بی بی تم بیمار لگتی ہو کام کیا خاک کرو گئی علاج کروا پہلے اپنا پھر کام کرنا ۔۔

آنکھوں میں آئی نمی ہاتھوں سے پونچھتی وہ رکی اسکے سامنے ایک بوڑھی عورت بھیک کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی ۔

ہیر نے اس بوڑھی عورت کو دیکھتے ہوئے بیگ سے دس روپے نکا ل کر دئیے ۔

وہ عورت دس روپے لیتی ہوئی گریبان سے بندھی پوٹلی میں ڈالنے لگی اسکی پوٹلی سے جھانکتے ہزاروں کے نوٹ اسے ٹھٹھکا گئے تھے ۔

وہ عورت اب کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی ۔

اس عورت کو تاسف سے دیکھتی وہ آگے چلتی روکی آگے روڈ جام تھا شاید کوئی امیر اسامی تھی جسکی گاڑی کے پیچھے بھی گارڈز ز کی گاڑیاں تھیں تو آگے بھی ۔


سر جھکا کر چلتی وہ لوگوں کا ہجوم دیکھنے لگی جو اس شخص کے گاڑی سے باہر آتے ہی اسکے گرد جمع ہونا شروع ہو گیا تھا۔

وائٹ سوٹ اوپر بلیک واسکٹ پہنے کلائی پر باندھی بروان واچ وہ ہاتھ اٹھائے لوگوں کی محبت کا جواب دے رہا تھا ۔۔

البتہ چہرے پر بیزاری تھی تیمور صاحب بھی ساتھ تھے جو اسے خوش اخلاقی سے پیش آنے کا کہہ رہے تھے ۔

لوگوں سے بات کرتا وہ اسے زہر لگا تھا آخر اس نے کیا کیا تھا ان جیسے غریبوں کے لیے۔

اسکے قدم بے ساختہ ہجوم کی طرف اٹھنے لگے تھے ۔

چہرے پر درد والے تاثرات چھا گئے تھے ۔

اتنے لوگوں میں اسکا آگے بڑھنا مشکل تھا

لیکن اس نے آگے بڑھنا تھا تاکہ اپنے سردار کو بتا سکے کہ اسکی ریاست کے لوگ بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں آخر وہ کیوں نہیں غریبوں کے لیے کچھ کرتے سارے سوکھ امیروں کے لیے ہی تو ہیں ۔


وہ راستہ بناتی بہت مشکل سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی تھی جو کہ نا ممکن تھا ۔

ہونٹ بھینچے وہ آگے بڑھنے کی تدبیر سوچنے لگی تھی اسکے گارڈ اب لوگوں کو ہٹانے لگے تھے ۔

بے بسی سے وہ ہونٹ بھینچے سردار کو دیکھنے لگی تھی ۔

غاذان تیمور خان۔ ۔

وہ جو گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا کسی کی سپیکر سے آتی بلند آواز پر اسے رکنا پڑا تھا ۔

وہ حیرت سے پلٹا تھا۔

سب لوگ حیرت سے اس لڑکی کو دیکھنے لگے تھے جو سردار لگانا شاید بھول گئی تھی تھی ریاسٹ مِیں اسے جرم سمجھا جاتا تھا ۔۔

آنکھوں سے براون شیڈ کا چشمہ ہٹاٹا وہ اس لڑکی کو دیکھنے لگا تھا وہ اسکی طرف بڑھ رہی تھی لوگ خودبخود اب اسے راستہ دیتے جا رہے تھے کہ یہ بھلا کون تھی جو سرادر کو غاذان تیمور کہہ رہی تھی ۔

مائیک اس نے ایک ریپورٹر سے لیا تھا۔

تیمور صاحب سمیت سب نے اسے گھورا ۔

سردار غاذان آنکھیں سکیڑے اسے لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔

آپ کو سرادر میں نے کیوں نہیں کہا پوچھیں گئے نہیں ۔۔

اسکے سامنے آتی بنا ڈرے جھجھکے وہ بولی تھی پتا نہِیں اس کمزور لڑکی میں اتنی ہمت کیسے آ گئی تھی یا شاید حالات نے اسے یہ سب کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔

ائے لڑکی زبان سنبھال کر بات کرو تم جانتی ہو تم کس سے مخاطب یو ۔

سرادر کے پیچھے کھڑے شخص نے غصے سے اسے ٹوکا ۔

جانتی ہوں میں کس سے مخاطب ہوں لیکن کیا یہ جانتے ہیں میں کون ہوں ؟

وہ الٹا ان سے سوال پر اتر آئی تھی ۔

اب سب لوگ اس لڑکی کو حیرت سے دیکھنے لگے تھے ۔

سردار غاذان نے بنا کوئی تاثر چہرے پر سجائے اس لڑکی کو آئی برو اچکا کر دیکھا جیسے پوچھا ہو کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ۔

میں انکی ریاست کی ایک معمولی سی لڑکی ہوں جسے یہ نہیں جانتے لیکن وہ جانتی ہے کیونکہ وہ ہمارے سردار جو ہوئے وہ سردار جو سردار بننے سے پہلے بہت سے عہد لیتا ہے جن میں مین عہد یہ ہوتا ہے کہ انکی ریاست میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا کوئی بھوکا نہیں رہے گا یہ سب کی مدد کریں گئے یہ غریوں کو کام دیں گِے ان کا خیال رکھیں گِے ان پر سب سے زیادہ حق ہم غریوں کا ہے لیکن یہ اپنا عہد بھول چکے ہیں تو میں کیوں مانوں انہیں سردار جب میں اور میرے گھر والے روز بھوکے سوتے ہیں میں ہی کیوں یہاں پر بہت سے میرے جیسے روز بھوکے ہی سوتے ہیں تو وہ کیوں مانیں انہیں سردار ۔۔۔


اسکی آواز میں چھپا درد وہاں کوئی سمجھنے والا نہیں تھا سوائے اس شخص کے جو اسکے چہرے پر چھائے گہرے غم کے بادل دیکھ رہا تھا ۔

تیمور صاحب اس لڑکی کی خبر لینے آگے بڑھنے لگے تھے جب سردار غاذان نے انکا ہاتھ تھاما ۔

انہوں نے مجھے پر ایک احسان کیا جو مجھے یاد ہے ایک بار میرے کہنے پر انہوں نے مجھے نوکری دلوائی لیکن مجھ غریب پر چوری کا الزام لگا کر مجھے وہاں سے نکال دیا گیا کیا انکا حق نہیں ہم غریوں کی خبر لیتے رہنے کی میں نہیں مانتی آپکو اپنا سردار اس گستاخی کے لیے مجھے ہر سزا قبول ہو گئی ۔۔

آخر میں اسکی آواز بھرانے لگی تھی۔

وہاں اسکی آواز کے علاوہ دوسرا اور کوئی شور نہیں تھا ۔

سردار غاذان تیمور خان دو قدم چل کر اسکے قریب آ رکا تھا ۔

کچھ اور بھی کہنا ہے آپکو۔

دونوں ہاتھ کمر پر باندھے وہ سنجیدگی سے اس پوچھ رہا تھا ۔

اسکا آپ کہنا ہی ہیر کو حیرت میں ڈال گیا تھا ۔

کس کمپنی میں جاب ملی تھی آپکو ۔

وہ اس معمولی لڑکی کو بھول چکا تھا دن میں وہ بہت سارے لوگوں سے ملتا تھا ایسے وہ عام چہرے والی لڑکی اسے کیسےیاد رہتی ۔

سردار آف گروپ کمپنی میں ۔

سر جھکا کر وہ بولی ۔

احمد ۔

اسکے کی پکار پر ایک سوٹ بوٹ آدمی سرعت سے اسکے سامنے آیا تھا ۔

انکے گھر کا اڈریس نوٹ کرو ۔

اسکے سرد لہجے پر وہ آدمی جلدی سے اسکے گھر کا پتا پوچھنے لگا ۔

کچھ سوچ کر بتاتی وہ پلٹنے لگی تھی وہ اتنا کچھ تو کہہ چکی تھی لیکن اب اتنے لوگوں کو اپنی طرف دیکھتا دیکھ کر وہ شرمندہ ہو گئی تھی ۔

وہ کیا کرتی اسے ایسا کہنے پر مججور کیا تھا اسکے بھائی نے اسکے ہاتھوں پر پڑے چھالوں نے اسکے دھوپ سے ہوئے سانولے رنگ نے جو انہیں تو یہ کہتا تھا کہ وہ سکول جاتا ہے لیکن اسکا حولیہ صاف بتاتا تھا وہ سکول نہیں جاتا کیا وہ اپنی بہن کو بے وقوف سمجھتا تھا اسکا تھکا وجود اسے خون کے آنسو رولاتا تھا لیکن وہ بتاتا بھی تو کچھ نہیں تھا آخر وہ کیا کرتی کہاں جاتی آج سردار کو دیکھ کر پتا نہِیں اس میں اتنی ہمت کیسے آگئی تھی ۔

ایک منٹ مخترمہ ۔

اسے پلٹتا دیکھ کر وہ اسے پکارتا ہوا ڈرائیور کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا بولتا اسکی طرف متوجہ ہوا تیمور صاحب نے کافی غصے سے اپنے خود سر بیٹے کو دیکھا جس پر انکا رنگ کم ہی چڑھا تھا انہوں نے شاید غلطی کر دی تھی اسے سردار بنا کر لیکن کیا کرتے آخر یہ پگڑی اسی کے سر جانی تھی گھر کا بڑا بیٹا جو تھا۔ 

ایک منٹ محترمہ ۔

اسکی گھمبیر بھاری آواز ہیر کو ڈرا گئی تھی کیا وہ اسے کوئی سزا دینے والے ہے یا پھر تھپڑ نا مارے دے۔

دل میں خوف کی لہر سی دوڑ گئی تھی ۔

یہاں سے بھاگ جا ہیر کہی یہ پولیس کو ہی نا دے دیں ۔۔

دل میں سوچتی وہ بنا اس کی طرف پلٹتی ہوئی تیز قدموں سے جانے لگی تھی جب اسکا آدمی سرعت سے ہیر کے سامنے آیا تھا ۔

ہیر نے پریشانی سے اسے دیکھا ۔

کیا نام ہے آپکا ۔

اسکے سامنے آکر رکتا وہ بے تاثر لہجے میں بولا تھا ۔


ہیر کی سانسیں رکنے لگیں تھیں۔

لوگ حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ایک آسمان تو دوسرا زمین وہ شخص دیکھنے میں ہی آن بان والا لگتا جیسے پیدا ہی سرادری کرنے کے لیے ہو ا ہو ۔

ہیر رضا ۔

دھیمے سے لہجے میں نام بتاتی وہ اس گھڑی کو کوسنے لگی تھی جب وہ اسکے سامنے آئی تھی ۔۔

چلئیے میرے ساتھ ۔

گاڑی کی جانب بڑھتا وہ دھیمے لہجے میں بولتا گاڑی کے اندر بیٹھ کہ دھوپ بہت تیز تھی حلانکہ اس پر ایک ملازم چھتری تانے کھرا تھا لیکن دھوپ کی تیز شعائیں اسکی آنکھوں میں چبنے لگیں تھیں اس لیے وہ گاڑی میں بیٹھتا اب اس لڑکی کو دوسری گاڑی میں بیٹھنے کے لیے کہہ رہا تھا یہ سردار کی گاڑی تھی اس پر وہی یا پھر اسکا باپ بیٹھ سکتا تھا ۔

آپ مجھے معاف کردیں میں آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گئی مجھے جانے دیں پلیزز ۔

کانپتا وجود ہاتھ جوڑے وہ اس شخص کی منت پر اتر آئی تھی ۔

کام چاہئیے ۔

اسکے سرد لہجے پر وہ ایک دم سے چپ ہوئی تھی ۔

پھر کچھ دیر بعد سر ہاں میں ہلا دیا ۔

تو پیچھے جو گاڑی ہے اس میں بیٹھیں ۔

کہہ کر وہ گاڑی کا شیشہ چڑہا چکا تھا یہ اس بات کا اشارا تھا کہ وہ مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اس کہی جانا بھی تھا لیکن اس لڑکی مسلہ وہ پہلے سولو کرنا چاہتا تھا۔۔

تیمور صاحب اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے قہر بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔

کیا ضرورت ہے ایسے معمولی لوگوں کو منہ لگانے کی اب یہی پکس صبح کے اخبار وغیرہ میں آئیں گئیں کیا وہ لڑکی اس لائیک ہے

کہ تمہارے سامنے کھڑی ہو کر بات چیت کر سکے ۔۔

انکے پھنکارتے لہجے پر بنا انہیں دیکھے وہ لیپ ٹاپ اوپن کر گیا تھا جس پر تیمور صاحب نے تیوی چڑہا کر اسے دیکھا تھا ۔۔

بیٹھیں ۔۔۔

اسکا خاص ملازم اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ رہا تھا جو دو آدمی اس گاڑی میں سوار تھے وہ پیچھے والی گاڑیوں میں چلے گئے تھے ۔۔

ہیر نے مڑ کر اسکی گاڑی کو دیکھا جو سٹارٹ ہوتی آگے بڑھنے لگے تھے ۔

میم پلیززز ۔۔

خادم محمد کے پھر سے کہنے پر وہ جھجھکتی ہوئی گاڑی میں بیٹھی تھی۔ ۔۔۔

اسکے بیٹھتے ہی گاڑی سردار غاذان کی گاڑی کا تعاقب کرنے لگی تھی ۔۔

ہاتھوں کی انگلیاں مڑورتی وہ سخت پریشان تھی ۔

یہ مجھے کہاں لے جانا چاہتے ہیں کہی مار نا دیں لیکن ایسے لگتے تو نہیں ہیں۔

خود سے بڑبڑاتی ہوئی وہ وہ چونکی تھی ۔

گاڑی جس جگہ رکی تھی وہ اسے ٹھٹھکنے پر مجبور کر گیا تھا ۔

یہ یہاں کیوں لے آئے ہیں مجھے ۔۔

وہ اچھل کر رہ گئی تھی سامنے کھڑی عالی شان عمارت کو دیکھ کر ۔۔۔

سر دار غاذان کے مسلخ گاڑدز سرعت سے اسکی گاڑی کا ڈور کھولنے بھاگے تھے ۔۔

گاڑی سے نکل کر اس نے فون ملا کر کسی سے بات کی پھر آگے کی طرف بڑھا ۔

آپ مجھے یہاں کیوں لائیں ہیں ۔

سردار غاذان تیمور خان سے سوال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں تھی لیکن وہ لڑکی سمجھتی تب نا ۔۔

تیمور صاحب گاڑی کے اندر ہی رہے وہ اپنے بیٹے کی طرح بے وقوف نہیں تھے جو لوگوں کے مسلے خود سولو کرتے پھرتیں انکے خیال میں انکے بیٹے کی عقل تو گھاس چڑنے گئی ہوئی تھی ۔


یہ جاب میں نے دلائی تھی آپکو جب تک میں یہاں سے آپکو نا نکالو آپ نے یہاں سے کہی نہیں جانا چلیں اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔

سرد لہجے میں کہتا وہ کچھ گارڈرز کو وہی رکنے کا اشارا کرتا اندر کی طرف بڑھا تین چار اسکے پیچھے تھے انہی میں پیر رضا بھی تھی جو قدموں کو گھسیٹتی ہوئی اسکے پیچھے آرہی تھی اتنی زلت و بے عزتی کے بعد اسکا دل اندر جانے کو نہیں چاہ رہا تھا لیکن مجبور ی تھی یہ پیٹ کی بھوک بڑے بڑوں کو جھکا دیتی ہے تو وہ تو پھر بھی ادنیٰ سی کمزور سی لڑکی تھی ۔۔


آفس ورکر کام کرتے ہوئے چونکے مین اینٹرس زیادہ دور تو نہیں تھی کہ وہ سردار غاذان تیمور کی موجودگی محسوس نا کر سکتے ۔۔

سب اپنا کام ترک کر کے ایک دم سے اپنی اپنی چیئر سے کھڑے ہوئے تھے ۔۔

دونوں ہاتھ کمر پر رکھے وہ سب پر طرائنہ سی نظر ڈال رہا تھا ۔

گڈ آفٹرنون سردار ۔

سب نے یک زبان ہو کر اخترام سے سر جھکا کر اسے وش کیا تھا ۔

جواباً گڈ آفٹرنون ۔

کہتے ہی وہ ہال کے وسط میں آیا ۔۔

اب سب حیرت زدہ سے اسکے پیچھے کھڑی لڑکی کو با آسانی دیکھ سکتے تھے ۔

گلابی چادر کو ماتھے تک کھینچ کر لاتی وہ سخت نروس تھی لوگوں کی نگاہوں سے ۔

بیس تاریخ کو کتنے پیسوں کی چوڑی ہوئی تھی آفس سے ۔

اسکی سرد آواز سب کے دلوں میں خوف کی لہر دوڑا گئی تھی ۔

سردار تین لاکھ کی ۔

سارا نے سر جھکا کر ادب سے اسے جواب دیا۔

اور کی کس نے تھی ۔

اسکے چبتے سوال پر سارا نے پریشانی سے تھوک نگلا ۔

جی ہیر رضا نے ۔

سارا کے سوال پر اس نے سنجیدگی سے سر ہلایا ۔

ہممم ثبوت لاو کہ چوری ہیر رضا نے کی تھی ۔

اپنے لیے رکھی چیئر پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ رکھ کر بیٹھتا وہ سرد لہجے میں اس سے مخاطب ہوا ۔۔

سر ثبوت یہ تھا کہ تلاشی کے وقت پیسے انکے بیگ سے گرے تھے ۔

سارا نے گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کرتے ہوئے اسکے سوال کے جواب میں کہا۔

اوکے تو کیا پیسے رکھتے ہوِے اسے دیکھا گیا تھا ۔

اسکے سرد سوالات سارا سمیت سب عملے کو پریشان کرنے لگے تھے ۔

سب نے اس سہمی سی لڑکی کو دیکھا اسکا کیا رشتہ تھا سردار غاذان سے جو وہ خود چل کر اسکے لیے آئے تھے ۔

نہیں سر ۔

سارا نے لب کاٹتے ہوئے کہا۔

ہممم۔

اسکے جواب پر وہ سر ہلاتا ہوا اٹھا تھا ۔

مس ہیر جو آپکی جگہ ہے وہاں پر جا کر بیٹھ جائیں ۔

اسکے سنجیدگی سے کہنے پر وہ سر اٹھائے حیرت سے سردار غاذان کو دیکھنے لگی تھی ۔

کیسے ممکن تھا وہ کیا کہہ رہے تھے ہیر کو کچھ بھی سمجھ میں نا آیا تھا۔

ہیر میں آپ سے مخاطب ہوں ٹائم نہیں ہے میرے پاس ۔۔

واچ میں ٹائم دیکھتا وہ طنز سے اسکے خاموش وجود پر چوٹ کر گیا تھا ۔

وہ دھیمے قدموں سے اپنے خالی کیبن کی طرف بڑھی تھی سب کی نظریں اسی پر جمی ہوئی تھیں ۔۔

لوگوں کی نظروں سے بچتی وہ اپنے کیبن کی چیئر کے پاس آ کر رکی ۔

سردار غاذان تیمور خانم۔

وہ جو جانے کے لیے آگے بڑھنے لگا تھا داور کی پکار پر رکا تھا ۔

لیکن پلٹا نہیں کہ اسے کام تھا سردار سے سردار کو نہیں جو پلٹنا ضروری سمجھتا۔ ۔۔

آپ ہی تو کہتے ہیں چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دینے چاہئیے آج آپ ہی ایک چوری کرنے والے کو پناہ دے رہے ہیں چچچ سردار غاذان یہ آپ کر رہے ہیں ۔

داور نے اسکے سامنے آ کر رکتے ہوئے مصنوعی تاسف سے سر جھٹک کر کہا۔


جبکہ وہ سرد مسکان سے سر ہلا گیا ۔

ہیر کی آنکھوں میں پھر سے نمی جمع ہونا شروع ہو گئی تھی زلت کا حساس بہت شدید تھا آخر اسکا رب اسکی کب سنے گا ۔

آنسو صاف کر کے وہ اس شان دار شخص کو دیکھنے لگی جو اس آفس میں کھڑا اس آفس کی شان بڑھا گیا تھا ۔

کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو پناہ تو میں نے کافی چوروں کو دی ہوئی ہے لیکن کیا کروں دینی پڑتی ہے آخر رحم کھانا میری فطرت جو ٹھہری۔

آہستہ سے مسکرا کر طنز سے کہتا وہ داور کو ہونٹ بھیچنے پر مجطور کر گیا تھا ۔

ہیر کیا تم نے داور کے پیسے چڑائے تھے ۔

اسکی طرف پلٹتا وہ دھیمے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا ۔

نہیں سردار میں نے نہیں چڑائے میں نہیں جانتی یہ پیسے میرے بیگ میں کیسے آئے میں واش روم گئی تھی تو جب میں آئی میرا بیگ نیچے گرا ہوا تھا لیکن میں نے بنا کوئی توجہ دئیے بیگ اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دیا ۔

بھرائے ہوئے لہجے میں کہتی وہ سب کو پھر سے خود کو دیکھنے پر مجبور کر رہی تھی ۔

اوکے بیٹھو اور اپنا کام کرو اور ہاں داور اس کا خیال رکھنا اگر یہ کوئی غلطی کرئے تو کنیکٹ می ۔۔

گلاسز لگاتا اپنے لگاتار بجتے فون کو بند کر کے جیب میں ًڈال کر داور پر طنز کرتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا گاڑدز بھی سرعت سے اسکے پیچھے لپکے۔۔

داور اسکی پشت کو دیکھ کر طنز سے مسکرایا ۔

آخر وہ جو کنفرم کرنا چاہ رہا تھا وہ کنفرم ہو گیا تھا ۔

ہلکی مسکان سے وہ ہیر کو دیکھنے لگا جو دونوں ہاتھ گود میں رکھے ساکت سی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔

کام کرنے کے یہاں پیسے ملتے ہیں گود میں ہاتھ رکھنے کے نہیں ۔۔

داور اسکے ساکت وجود پر طنز کرتا اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا ۔

لب بھینچ کر اس نے لوگوں کو دیکھا جو ابھی بھی حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے انکا دیکھنا تو بنتا تھا نا سردرا غاذان تیمور جس سے ملنے کے لیے لوگ ہفتوں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں وہ خود چل کر اس لڑکی کو اپنے آفس چھوڑنے آیا تھا انکا حیران ہونا بنتا تھا لیکن ہیر سمجھ ہی نا سکی انکے دیکھنے کو،

اسے لگا وہ چوری والے خادثے کی وجہ سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ ۔

گہری سانس لے کر وہ اپنے کمپیوٹر کو آن کرنے لگی ۔۔

سردار غاذان تیمور خان ۔۔

کا نام سامنے کی دیوار پر بڑے خروف میں درج تھا جس پر وہ نظریں اٹکا کر دیکھنے لگی تھی دل میں کوئی ہلچل سی مچنے لگے تھے جس پر وہ ناسمجھ لڑکی پریشان تھی کہ کہی وہ بیمار تو نہیں ہونے لگی جو دل اتنے زور سے دھڑک رہا ہے ۔۔


_________________________________


یہ اس لڑکی کے گھر بھیجوا دینا۔

اپنے خادم کو ایک چیک دیتا وہ آگے بڑھ گیا ۔

جبکہ تیمور خان نے کوفت سے اپنی بیٹے کی ہمدرد طبیعت کو کوسا تھا اسکی ماں کی تربیعت کے گن اس میں دیکھتے تھے ۔

ادھر لاو یہ چیک ۔

خادم کے ہاتھ سے چیک لیتے وہ سرد سا بولے تھے ۔

لیکن خان یہ چیک تو ۔

اپنے سرادر کو کہنا تم یہ چیک پہنچا چکے ہو سمجھے ۔

درشتگی سے کہتے وہ آگے بڑھ گئے جبکہ خادم نظریں جھکا کر تاسف سے اس چیک کے ٹکڑے دیکھنے لگا جو وہ جاتے جاتے کر گِے تھے ۔۔

_______________________________


امی آپ بابا کو کہیں نا میری شادی سردار سے طے کر دیں میرا حق بنتا تھا ان پر نا کہ اس شائنہ خانم کا ابھی شادی ہوئی نہیں تو ایسے ہمارے گھر دندناتی پھرتی ہے جیسے اسکے باپ کا گھر ہو۔۔

فروٹ کی پلیٹ صاف کرتی وہ اپنی ماں سے بولی ۔

نوشین نے قہر بھری نظروں سے اپنی کم عقل بیٹی کو دیکھا ۔

پاگل یو گئی ہو یا دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ارے وہ سردار ہے اپنی مرضی کرنے والا اگر اس نے سن لیا نا تو تمہارے ٹکڑے کر دے گا آئی بڑی اس سے شادی کرنے والی ویسے بھی تم اس سے پورے دس سال چھوٹی ہو۔ ۔

سیب کی فاش منہ میں ڈالتی وہ کوفت سے بولیں ۔

مہرینہ نے ماں کو گھورا ۔

کیسی ماں ہے آپ کبھی جو میری کوئی فرمائش پوری ہوئی ہو اس قید خانے میں میں بتا رہی ہوں اگر میری شادی سردار سے نہیں ہو گئی تو میں اس شائنہ کی بھی نہیں ہونے دوں گئی ۔

مہرینہ کافی بنا کر لاو میری بالکنی میں ۔

پیچھے سے آتی آواز دونوں ماں بیٹی کو ساکت کر گئی ۔

پریشانی سے وہ پلٹیں تھیں ۔

جبکہ وہ حکم صادر کر کے وہاں سے جا چکا تھا ۔

امی اب کیا ہو گا ۔

ڈر کے مارے وہ بمشکل بول پائی تھی ۔

بس اسی وقت سے میں ڈرتی تھی آواز ہے یا سپیکر آہستہ بولا ہی نہیں جاتا کمبخت سے جاو اب بھگتو میری بلا سے ۔ ۔

اس پر غصہ ہوتیں نوشین بیگم پریشانی سے کمرے سے ہی چلیں گئیں تھیں۔

آخری بچی سیب کی فاش منہ میں ڈال کر وہ مرر کے آگے جلدی سے آئی بالوں پر برش کیا لپسٹک جلدی جلدی لگائی ایک انگوٹھی پہن کر وہ مرے مرے قدموں سے کچن کی طرف چلی گئی ۔۔


جب وہ کافی لے کر آئی تو وہ چینج کر چکا تھا ۔

چاکلیٹ کلر کی شرٹ نیچے ہاف وائٹ پینٹ پہنے وہ دونوں ہاتھ ریلینگ پر رکھے سامنے پہاڑوں کی جانب دیکھ رہا تھا چہرے پر سرد سے تاثرات رقم تھے ۔

سردار میں آجاوں ؟

سر جھکائے وہ معصوم سے لہجے میں پوچھ رہی تھی جس پر اس نے صرف سر ہلایا تھا ۔

آپکی کافی ۔۔

کافی کا ٹرے اسکے سامنے کرتی وہ دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھی ۔

شکریہ ۔

کافی کا مگ اٹھاتا ہوا وہ بولا۔

مہرینہ تم مجھ سے بہت چھوٹی ہو اور نا سمجھ بھی اور میں تمہیں اپنی چھوٹی بہن ہی مانتا ہوں ،

کیا تم مجھے بتانا پسند کرو گئی یہ شادی جیسی خرافات تمہارے اس چھوٹے سے دماغ میں کیسے آئے ۔

وہ سامنے دیکھتا ہوا اس سے بہت نرمی سے پوچھ رہا تھا۔

مہرینہ نے پریشانی سے اسے دیکھا۔

وہ نا شائنہ مجھے اچھی نہیں لگتی اور دوسری بات اس محل کا کوئی لڑکا مجھے پسند نہیں سوائے آپکے اور امی کہتیں ہیں محل کی لڑکیوں کی شادی انکے اپنے رشتے داروں میں ہی ہوتی ہیں تو مجھے کوئی اچھا ہی نہیں لگا سوائے آپکے اس لیے کہا۔

اسکے معصوم جواب پر وہ کافی کا سپ لیتا مسکرایا ۔

اور اگر میں تمہارے لیے خود رشتہ دیکھوں تو اور وہ ہمارے اس محل سے نہیں ہو گا ڈونٹ وری اس لیے اب تمہارے منہ سے میں کوئی بیہودہ بات نا سنوں اپنی پڑھائی پر فوکس کرو جب تمہاری شادی کا ٹائم آئے گا تو لڑکا تمہاری پسند کا لاکر دوں گا ۔

ہنوز سامنے دیکھتا وہ اس بار کافی تندہی سے بولا تھا ۔

وہ اسکی پشت کو گھورنے لگی ۔

سیریسلی میری پسند کا ہی ہو گا نا ۔

اس بار وہ اشتیاق سے بولتی اسے غصہ چڑہا گئی تھی کہ وہ کم عقل لڑکی کیا اشارا جس طرف تھا وہ سمجھ چکا تھا ۔

دفع ہو جاو میرے کمرے سے اور دروازہ بند کرتے جانا۔

درشتگی سے کہتا وہ مہرینہ کو اچھلنے پر مجبور کر گیا تھا ۔

وہ بھاگتے ہوئے وہاں سے رفو چکر ہوئی تھی ۔

بے وقف ۔

سر جھٹکتا ہوا وہ بولا تھا کہ وہ چاہ کر بھی اس لڑکی سے غصے سے پیش نہیں آتا تھا،

اسے وہ معصوم سی گڑیا اپنی بہن ہی لگتی تھی کہ اسکی کوئی بہن جو نہیں تھی ۔۔


مہرینہ کو سردار کے روم سے نکلتا دیکھ کر شائنہ رکی ۔

مہرینہ اسکے منہ پر بارہ بجتے دیکھ کر ہلکا سا شرمائی ۔

وہ نا سردار غاذان کو میرے ہاتھوں کی کافی اتنی پسند ہے کہ کیا بتاوں میں آپکو ،

فرمائش کر دیتے ہیں وہ کبھی بھی چاہے رات کا ایک ہی کیوں نا بج رہا ہو ۔۔

سر جھکا کر مسکرا کر بولتی وہ شاٙئنہ کو سخت زہر لگی تھی ۔

تمہارے ہاتھ کی کافی اور سردار کو پسند نا ممکن سردار کا ٹیسٹ اتنا برا بھی نہیں ہے سو یہ جھوٹ کسی اور سے بولنا تم ۔

سینے پر ہاتھ باندھتی وہ طنزسے بولی جس پر مہرینہ غصہ ہوئی ۔۔

آپ نے کبھی پی جو نہیں اور میں ہر کسی کو اپنے ہاتھ کی اسپیشل کافی پلاتی بھی نہیں ہوں یہ صرف خاص لوگوں کے لیے ہے سمجھی شاٙئنہ خانم جی۔

اس بار مسکر کر کہتی وہ پھر سے شائنہ کو آگ لگا گئی تھی ۔

مہرینہ دروازہ بند کرنے کو کہا تھا تم سے لیکن تم ایک نمبر کی نکمی ہو ۔

پیچھے سے آتی سرادر کی آواز پر وہ اچھل کر رہ گئی تھی چونک تو شائنہ بھی گئی تھی ۔

مہرینہ نے وہاں سے بھاگ جانا ہی مناسب سمجھا تھا اسلیے وہ پل میں وہاں سے رفو چکر ہوئی تھی ۔

سردار دروازہ بند کر چکا تھا ۔

سر دار غاذان کے لیے مجھے سو خون کرنا پڑے تو یہ شائنہ گھبرائے گئی نہیں تو مہرینہ تم کس کھیت کی مولی ہو تمہیں بہت جلد میں مزہ چکھاوں گئی ویٹ کرو زرا تم ۔۔

نفرت سے بڑبڑاتی ہوئی وہ آگے کی طرف بڑھ گئی ۔

_______________________________


آفس میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اب کوئی اس سے طنز سے بات نہیں کرتا تھا وہ جانتی تھی کس کے ڈرے سے داور سے اسکی ملاقات نہیں ہوئی تھی اس دن کے بعد سے شہنام صدیقی بھی بزنس ٹوور سے لوٹ آیا تھا سو آفس کا ماحول بہتر تھا ۔۔

آج اسے سات ہزار سیلری ملی تھی وہ جانتی تھی اسکی سیلری دس ہزار ہے لیکن اسے صرف سات ہزار ہی دئیے گیے تھے اس نے چپ چاپ لے لی کہ کچھ نا ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے ۔

اخراجات زیادہ تھے تو سیلری کم ۔

سوچ کی تفکرات اسکے چہرے سے جھلکنے لگے تھے ۔

ان پیسوں سے گھر کا سودا لوں یا پھر کپڑے ۔

وہ پریشانی سے بینچ پر بیٹھ گئی ۔

بازار دس قدم کے فاصلے پر تھا ۔

گہری سانس لیتی وہ سستے بازار چلی آئی یہ بازار کہنے کو ہی سستا تھا چیزوں کے ریٹ یہاں بھی آسمان کو چھو رہے تھے ۔


سستے سے دو سوٹ امی کے خیام کے تین سوٹ اپنا بھی ایک سوٹ لے کر اب وہ پیسوں کا حساب لگاتی پریشان ہو گئی اس تنخواہ سے اس نے کتنی امیدیں باندھی تھیں ۔

لیکن اب اسکے پاس صرف چار ہزار تھے ۔

مختیار چچا کی دکان سے سودا لے لوں گئی۔

شاپر پکڑ کر وہ پیدل ہی گھر جانے والے راستے کی طرف چلنے لگی یہ دوسرا راستہ تھا اس راستے سے وہ پہلے بھی ایک بار آئی تھی ۔

پیسوں کا حساب لگاتی وہ چل رہی تھی جب راستے میں اینٹوں کی بھٹی آئی ۔

وہ

اینٙٹوں کی بھٹی دیکھتی ہوئی چل رہی تھی جب اسکے قدم اپنی جگہ ساکت رہ گئے تھے ہاتھ میں پکڑے شاپرز زمین بوس ہوئے تھے ۔

بہت سے بے حال مزدوروں میں ایک مزدور اسکا چھوٹا سا بھائی تھا جو پرانے سے کپڑے پہنے سر پر بہت سی اینٹیں اٹھائے ہوئے چل رہا تھا دھوُپ بہت تیز تھی جس سے اسکے وجود سے پسینا کافی مقدار میں بہہ رہا تھا ۔

آنکھیں چھم چھم برسنا شروع ہو گئیں تھی اسکا لاڈلا بھائی جو ہل کر کچن سے پانی تک پینے نہیں جاتا تھا وہ سر پر اتنا اتنا بھار لادے ہوئے تھا اسکے بھائی کا سفید رنگ کیسے کالا پڑا تھا وہ جان چکی تھی ۔

ہونٹوں پر ہاتھ رکھے وہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی آتے جاتے لوگ حیرت سے اس لڑکی کو دیکھتے جاتے ۔۔

ّخیام کافی دور تھا اس لیے اپنی آپی کو فیکھ نہیں سکا تھا وہ۔

نیچے بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے شاپر اٹھاتی وہ گھر جانے والے راستے کی طرف دوڑ گئی تھی کہ اسکی حالت اس سے دیکھی نا گئی وہاں مرد زات کی کثرت تھی وہ چاہ کر بھی وہاں جا نا سکی ۔


سارے راستے وہ روتی آئی تھی آنکھیں سرخ انگارہ ہو چکیں تھی تو ہونٹ سوج گئے تھے۔

شاپر باہر چائی پائی پر رکھتی وہ چھوٹے کمرے میں چلی آئی ۔

دروازہ بند کر کے وہ فرش پر ہی بیٹھ گئی ۔

شک تھا کہ وہ سکول نہیں کہی اور جاتا ہے لیکن اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ا سکا بھائی اتنی سخت مزدوری کرتا ہو گا ۔

ہائے اللہ میں کیا کروں کہاں جاوں میرا بھائی ۔۔

سینے پر ہاتھ مارتی وہ روئے جارہی تھی اسے خود سے زیادہ خیام عزیز تھا تو وہ کیسے اسے اس حالت میں دیکھ سکتی وہ تو اسے کوئی بہت بڑا آفسر بنانا چاہتی لیکن اسکا بھائی تو کتنے دنوں سے سکول ہی نہیں جا سکا تھا ۔۔

_____________


شام کو خیام گھر آیا تو وہ مٹر نکال رہی تھی آنکھیں رونے کی بھرپور چغلی کھا رہی تھیں نائلہ بیگم نے کچھ نا پوچھا کہ شاید وہ خود ہی بتا دے ۔۔

خیام کے دونوں ہاتھوں میں بھرے ہوئے شاپرز تھے ۔

کیا آج پھر کسی بچے کی ڈارئنگ بنائی تھی ۔

ہنوز مٹر نکالتی بنا اسے دیکھے وہ ضبط سے بولی ۔

خیام کے مسکراتے ہونٹ ساکت ہوئے پھر زور سے سر ہلا گیا تھا ۔

کیا لائے ہو ۔

اسے پانی پیتا دیکھ کر وہ بولی ۔

وہ مسکرایا ۔

آپکے لیے سوٹ امی کے لیے چپل اور پکانے کے لیے مرغی لایا ہوں ۔

وہ شاپر اسکے سامنے کرتا ہوا بولا۔

اپنے لیے کیا لائے ہو۔

آلو چھیلتے ہوئے وہ سپاٹ لہجے میں بولی ۔

اپنے لیے اگلی بار لے آوں گا نا ۔

وہ سر جھٹکتا ہوا بولا ۔

نائلہ نے غور سے ہیر اور خیام کو دیکھا ۔


خیام یہ جو تم لڑکوں کو ڈرائنگ بنا کر دیتے ہو تو وہ کتنے پیسے دیتے ہیں تمہیں ۔۔

سبزی ٹوکڑی میں ڈال کر دھوتی ہوئی وہ مصروف سے انداز میں بولی۔

خیام نے گھبرا کر اپنی آپی کو دیکھا ۔

کوِئی سو کوئی دو تین سو ۔۔

چارپاٙئی سے اٹھتا ہوا وہ دھیمے لہجے میں بولا جسم تھکاوٹ سے چور تھا لیکن آپی کے سوال ختم ہی نہیں ہو رہے تھے ۔۔

ہمممم ۔

ٹوکڑی کو میز پر رکھتی وہ اسکے سامنے آئی تھی۔

خیام نے خوف سے اپنی آپی کے انداز کو دیکھا۔

نائلہ کچن میں چلی گئی تھی سبزی پکانے ۔۔

شرم تو نہیں آتی نا آپی سے جھوٹ بولتے ہوئے ۔

اسکا کندھا پکڑتی ہوئی وہ سپاٹ لہجے میں بولتی خیام کو ٹھٹھکا گئی تھی ۔۔


دیکھا تمہیں آج ڈرائنگ بناتے ہوئے ۔

خیام خوف سے دو تین قدم پیچھے سرکا تھا اسکے لہجے پر ۔

کس کی اجازت سے تم نے یہ کام کیا مجھ سے اجازت لی تھی یا پھر امی سے بولو چپ نا رہو ۔

اسکے چلانے پر نائلہ بھی بھاگتی ہوئی باہر آئی ۔

آپی ۔

خاموش ۔

اب کے وہ کافی غصے سے بولی تھی۔

بیٹا کیا ہوا کیا کیا ہے خیام نے ۔

نائکہ نے پریشانی سے پوچھا۔

امی یہ سکول نہیں اینٹوں کی بھٹی پر جا کر مزدوری کرتا ہے سارا سارا دن کام کرتا ہے ہمارے لیے بڑا جو ہو گیا ہے۔

نائلہ بیگم کے کندھے پر سر رکھ کر کہتی وہ رو دی تھی۔

نائلہ نے ساکت نظروں سے اپنے بیٹے کا مڑجھایا چہرہ دیکھا ۔

جسکی آنکھوں میں نمی منڈلانے لگی تھی ۔

خیام !

نائلہ یہی کہہ سکی تھی۔

خیام سر جھکائے چارپائی پر بیٹھ گیا۔

خیام تمہاری آپی مر گئی تھی جو تم اتنا سخت کام کرتے رہے ہم تو تمہیں پڑھا لکھا دیکھنا چاہتے تھے میں تو کچھ بن نہیں سکی لیکن ہم تمہیں ترقی کرتا دیکھنا چاہتے تھے کیوں کیا تم نے ایسا۔

نائلہ بیگم کرسی پر دھڑم سے بیٹھ گئی جبکہ وہ اسکے قدموں میں بیٹھتی ہوئی نم زدہ لہجے میں پوچھنے لگی تھی ۔


خیام کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔

آپی میں کیسے پڑھتا جب آپ اور امی بھوکے سوئیں کچھ کھانے کو نا ہو میں کیسے سکول جاتا امی کہتی ہیں میں اس گھر کا چراغ ہوں لیکن آپی میں کیسا چراغ ہوں جسکے ہوتے ہوئے آپ اندھیروں سی زندگی جی رہی ہیں میں کیسے آپکو امی کو بھوکا دیکھتا مجھے کرنا پڑا آپی کرنے دیں مجھے مزدوری کم از کم ایک دو وقت کی روٹی تو نصیب ہو جاتی ہے ۔

آپی کے سر پر سر رکھے وہ بھرائے لہجے میں بولتا نائلہ اور ہیر کا دل چھلنی کر گیا تھا ۔

خیام تمہیں کوئی ضرورت نہیں میرے ہوتے یہ کام کرنے کی میری نوکری لگ چکی ہے مجھ سے وعدہ کرو آئندہ تم یہ کام نہیں کرو گئے صرف سکول جاو گے پڑھو گئے تاکہ ہم اچھے دنوں کی امید رکھیں ۔

اسکا سر چومتی وہ نمی لیے لہجے میں بول رہی تھی جبکہ نائلہ آنسو صاف کرتی اپنے دونوں بچوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔

لیکن آپی ۔۔۔

کچھ نہیں خیام تمہیں میری قسم تم کل سے اس کام پر نہیں جاو گئے پڑھو گئے نام کماو گئے تمہیں اپنی آپی سے وعدہ کرنا ہو گا میں تو اگلی تنخواہ میں تمہارا سکول بدلنا چاہ رہی تھی تاکہ تم اچھے سے اپنی پڑھائی کو سر انجام دو ابو کا نام روشن کرو ۔۔۔

اسکے سخت ہوتے ہاتھ تھامتی وہ محبت سے بولی آخر میں اسکے ہاتھوں پر ہونٹ رکھے ۔

وہ سر ہلاتا مسکرایا جواباً وہ بھی اپنی آپی کے ہاتھ ہونٹوں اور آنکھوں سے لگا گیا ۔۔

نائلہ آنسو صاف کرتی ان دونوں بہن بھائی کو محبت سے دیکھتی مسکرا کر دیکھتی دوبارہ کچن میں چلی گئی ۔۔


دیکھو میں تمہارے لیے کیا لے کر آئیں ہوں ۔

بلیک پھولا ہوا شاپر اسکی طرف بڑھاتی ہوئی وہ آئی برو اچکا کر بولی ۔۔

خیام نے اشتیاق سے شاپر کھولا پھر مسکرایا ۔۔

اچھا ابھی آرام کرو پھر شام کو پیسے لے جا کر مختیار چچا کی دکان سے سودا لے آنا ۔

اسکے بال سنوار کر کہتی وہ کچن میں چلی گئی ۔

________________________________


سرادر غاذان تیمور خانم !

بہت جلد تمہاری زندگی کے برے دن لانے والا ہوں میں یہ سرداری کی پگڑی جس پر تمہیں بہت ناز ہے بہت جلد تم سے چھیننے والا ہوں میں۔


بیئر کے آہستہ آہستہ گھونٹ بھرتا و ہ تیش سے اسکے نام کو دیکھتا ہوا بولا ۔

آخر ایک مصر پلٹ کو چاچا جان کیسے پگڑی دے سکتے ہیں جبکہ اسکا اصلی خقدار تو میں تھا اب بس بہت ہوا اب تمہیں مزہ چکھانے کا ٹائم آگیا ہے ۔۔

موبائیل میں کسی کا نمبر ملاتا وہ مسکرا کر بولا ۔۔۔

رانا سردار کو ٹھکانے لگانے کا ٹائم آچکا ہے تیاری پکڑ لو ۔۔

بے فکر رہو داور اس سے بہت سے حساب نکلتے ہیں بری موت دوں گا اسے ۔۔

رانا مشتعل ہوتا پھنکارا ۔۔

اونہہہ ابھی جان سے نہیں مارنا ایسا کرنا ایک گولی ٹانگ اور ایک گولی بازوں پر مار دینا کچھ دن بستر پر ہے گا تو ہم بھی سوکھ سے رہیں گِے ۔۔

داور نے کہتے ہی فون بند کردیا اب آنکھوں میں ایک چمک سی تھی ۔۔

_______________________________


گاڑی میں بیٹھا وہ فون یوز کر رہا تھا جب وہ چونکا تھا ۔

چاروں طرف چونکنا نظروں سے دیکھتا وہ دوبارہ موبائیل پر ماں کو میسج کرنے لگا۔۔

وہ پھر چونک اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس ہر نظر رکھے ہوئے ہو ۔

موبائیل سے نظریں ہٹا کر اس نے باہر دیکھا گاڑدز اسکی گاڑی کے پاس چوکنا سے کھڑے تھے ۔

وہ موبائیل پاکٹ میں ڈالتا ہوا باہر نکلا تھا ۔۔

دشمن کو موقع مل چکا تھا اپنا کام کرنے کا ۔۔

بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس وہ بہت خوبصورت لگ رہا ۔

فون کی بیل ہر وہ موبائیل پاکٹ سے نکالتا مسکرایا ۔

اسکے جگری دوست کا میسج تھا آخر مسکرانا تو بنتا تھا۔

ہاں اسیر کیسے ہو ۔

فون کان سے لگاتا وہ خوش اخلاقی سے بول رہا تھا۔

ہاہاہا۔۔۔

اسکے مسکرانے سے اسکی گالوں میں پڑتے گھڑے نمایاں ہونے لگے تھے ۔

آتے جاتے لوگوں نے حیرت سے اس حسن کے مجسمے کو دیکھا تھا ۔

جو بے فکری سے اپنے یار سے گفتگو تھا۔


تمہارے لیے میں صرف غاذان ہوں نا کہ سردار خانم۔

گاڑی سے ٹیک لگاتا وہ اپنے یار کو کہہ رہا تھا جب سامنے سے ایک دم سے دھواں سا آنے لگے تھا ۔

اونہہہہ ۔۔

وہ فون بند کرتا کھاسنے لگا تھا کہ اسے دھول مٹی اور دھواں سے سخت الرجی تھی ۔۔

سب گارڈز اسی طرف متوجہ ہو گے تھے یہاں سے دھواں اٹھ رہا تھا ۔

تب ہی اچانک ایک سنسناتی ہوئی گولی سردار غاذان کا کندھا چیڑ گئ تھی ۔

گولی کے آواز پر گارڈز ایک دم سے حرکت میں آتے پریشانی سے ارد گرد دیکھتے ہوئے فائر پر فائر کرنے لگے کہ حملہ آور کو مزید وار کرنے کا موقع ہی نا مل سکا تھا ۔۔

سردار گاڑی میں بیٹھیں اور تم لوگ پتا کرو سردار پر کس نے حملہ کیا ہے اسکی یہ جرت وہ ہمارے سردار پر حملہ کرئے۔۔

محمد حادم اسے گاڑی میں بیٹھاتا گارڈز پر اونچی آواز میں چیخا تھا ۔

اسکی وائٹ شرٹ سرخ خون سے لگاتار رنگنے لگی تھی ۔

کندھے پر ہاتھ رکھے وہ سخت تکلیف میں تھا ۔۔

لیکن چلایا کراہا نہیں کہ ایک سردار کو ایسی چھوٹی چھوٹی مشکلات کا سامنا ہر روز کرنا پڑتا تھا۔

سردار آپ کو زیادہ تکلیف تو نہیں ہو رہی آپ ٹھیک تو ہیں نا ۔۔

خادم پریشانی سے اسکے بہتے خون کو دیکھتا ہوا بدحواسی سے بولا ۔۔

میں ٹھیک ہوں خادم ۔۔

لب بھینچ کر وہ بہت ضبط سے بولا تھا ۔


خادم اسے ریاست کے سب سے بڑے ہسپٹل لایا تھا اس کے پہنچتے ہی پیچھے گاڑیوں کی قطار جمع ہونے لگی تھی ۔

اسکا باپ تینوں چچا رشتے دار معزز شخصیات نیوز ریپورٹر پولیس والے سب وہاں پہنچ چکے تھے،

ہسپٹل میں پیر دھرنے کی جگہ نہیں بچی تھی ۔۔۔


ڈاکٹرز پر بہت پریشر آچکا تھا ۔

انہوں نے کندھے سے گولی نکال کر اسکی ڈریسنگ کر دی تھی اور ایک خون کی ڈرپ لگا دی ،

وہ ایک بار بھی بے ہوش نہیں ہوا تھا ڈاکٹر کو بھی اس نے کہہ دیا تھا اسے بے ہوشی کا انجیکشن نا لگایا جائے ۔۔


ڈاکٹر حیران تھے اسکی ہمت پر ۔۔

وہ اب بہتر تھا پولیس اسکا بیان لے کر جا چکی تھی انہوں نے دعوا کیا تھا ایک دو گھنٹے میں وہ مجرم کو ڈھونڈ لیں گئے لیکن وہ زندہ ہوتا تو پکڑتے نا۔۔۔


تیمور صاحب بیٹے کا صدقہ دے کر اسکے پاس آئے انہیں پریشان دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرایا ۔

کم آون ڈیڈ آپکا سردار بیٹا اتنا کمزور نہیں کہ ایک گولی کھا کر مر جائے سو خود کو سنبھالیں ۔

انہیں مسکرا کر تسلی دیتا وہ زرا سا اونچا ہوا ۔

لیٹے رہو پہلے ہی خون بہت بہہ گیا ہے، تمہارا خون بہانے والے کا ایک ایک خون کا قطر نچوڑ لوں گا میں ،دیکھنا تم ۔

درشتگی سے کہتے وہ بیٹے کے پاس بیٹھے ۔

اس نے صرف سر ہلایا ۔

اسکا روم فل پھولوں سے بھر چکا تھا کمرے میں کوئی جگہ نہیں بچی تھی جہاں پھول نا پڑے ہوں ۔

اسکے ملنے والوں نے اس پر چھاں سی

کی ہوئی تھی ۔۔


_______________________________


امی کی بلیڈ پریشر اور شوگر کی دوائیں ختم ہو گئیں تھی اس لیے وہ آج دفتر سے جلدی آکر انہیں سردار خانم ہوسپٹل لے آئی تھی۔۔

اس ہوسپٹل میں صرف چیک کرنے کی فیس لی جاتی تھی باقی دوائیں اور علاج مفت میں ہوتا تھا ۔

امی کو چیک کروا کر وہ انہیں رکشا میں بٹھا کر خود اندر بنے میڈیس سٹور کی جانب چلی آئی ۔۔۔


وہ وی آئی آپی کوریڈور سے گزرتی ہوئی ٹھٹھکی تھی ۔

شیشے کا ڈور کھلا ہوا تھا اندر بیٹھے شخص کو دیکھ کر وہ وہی تھم سی گئی تھی ۔

وہ نیم دراز سا سامنے بیٹھی شخصیات کی باتوں پر سر ہلا رہا تھا چہرے پر بڑی بیزاری سی تھی ۔۔

یہ یہاں کیوں ہیں کیا یہ بیمار ہیں ۔۔

وہ پریشانی سے بڑبڑاتی ہوئی اسکے دروازے کے سامنے کھڑے گاڑدز کی طرف بڑے ساختہ پن سے آئی تھی ۔


سنیں ۔

وہ جھجھک کر انہیں مخاطب کر بیٹھی تھی ۔

جی ۔۔

ایک گاڑدز نے حیرت سے اس سے پوچھا ۔

سردار غاذان تیمور کو کیا ہوا ہے یہ ہسپٹل میں کیوں ہیں ۔

اسکے نروس لیے انداز پر ایک گاڑدز نے اسے غور سے دیکھا ۔۔

سردار کو کل رات گولی لگی تھی آج تو وہ گھر جانے والے ہیں کای آپ نیوز یا خبریں نہیں پڑتی ۔

ایک گاڑدز نے بڑے نرم لہجے میں اس چھوٹی سی لڑکی کو بتایا ۔۔

اسکا دل دھک دے رہ گیا ۔۔

گولی ۔۔

وہ ہونٹوں پر ہاتھ رکھتی صدمے سے بولی ۔

ہاں جی اب وہ بہتر ہیں ۔

اسی گاڑدز نے پھر سے بتایا ۔

اندر پڑے پھولوں کو دیکھتی قدم گھسیٹتی ہوئی وہ وہاں سے چلی گئی ۔۔

وہ باہر گاڑدن میں آکر رکی تھی۔

انہیں گولی لگی تو میرا دل اتنا پریشان کیوں ہوا ہے ۔

پریشانی سے بینچ پر بیٹھتی ہوئی وہ بولی ۔

پانچ منٹ بعد ہمت مجتمع کرتی وہ وہاں سے اٹھ کر گاڑڈن میں لہلہا تے ہوئے پودوں کے پاس آئی ۔۔


اودھ کھلا خوبصورت سرخ پھول توڑ کر وہ بڑے بے ساختہ پن سے عمارت کی طرف بڑھنے لگی تھی یہ حرکت بڑی بے ساختہ تھیا س چھوٹی سی معصوم لڑکی کی اسکا دل کیا وہ بھی سردار کو کچھ دے۔

باتیں کرتے گارڈز پھر سے چونکے اس غریب لڑکی کو سامنے کھڑا دیکھ کر ۔۔


جی بی بی اب کیا ہے ۔

ایک اکھڑ گارڈز نے پوچھا ۔

اس نے اس گارڈ کو اگنور کیا اور دوسرے گارڈ کی طرف آئی۔۔

بھائی یہ پھول آپ سردار غاذان کو دے دیجئیے گا پلیززز۔

پھول اس حیرت سے دیکھتے آدمی کو پکڑا کر وہ وہاں سے بھاگ نکلی تھی دل نے شور جو مچانا شروع کر دیا تھا۔


پھینک دے یہ خقیر سا پھول، سردار کو بھلا اس پھول کی کیا ضرورت ۔

وہ اکھڑ گارڈ نخوت سے بولا۔

یہ ایک امانت ہے میرے پاس میرا کام ہے امانت کو اس کے خقدار کے پاس پہنچانا اب وہ خقدار چاہے تو رکھے یا پھر پھینک دے یہ ان پر ہے اور دوسری بات پھول خقیر نہیں ہوتے اُس ایک پھول کو ملا کر ہی پورا ایک گلدستہ بنتا ہے سمجھے تم ۔

وہ بھلا آدمی اس سے کہتا دروازہ نوک کرتا ہوا اندر آیا کہ سردار اس وقت اکیلا تھا ۔

سردار یہ لیں ۔

پھول کو اخترام سے اسکی طرف بڑھاتا ہوا وہ ادب سے سر جھکا کر بولا ۔

وہ موبائیل بیڈ پر رکھتا اس سرخ گلاب کو حیرت سے دیکھتا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔

سردار یہ ایک لڑکی یہاں سے گزر رہی تھی تو وہ دے گئی ہے کہتی ہے یہ پھول سردار کو دے دوں ۔

وہ آدمی وضاحت سے بولا ۔

سر ہلا کر وہ پھول کو تھام چکا تھا ۔

وہ آدمی سر جھکا کر روم سے باہر نکل گیا ۔۔

سردار غاذان نے پھولوں سے بھرے کمرے کو دیکھ کر اس اکلوتے پھول کو غور سےدیکھا پھر اسے پاس پڑے سفید خوبصورت پھولوں کے گلدستے میں لگا دیا ۔

وہ گلدستہ جیسے سرخ پھول کے ہی انتظار میں تھا،

وہ ہلکی مسکان سے سونے کے لیے آنکھیں موند گیا تھا۔۔


بیٹا اتنی دیر لگا دی ۔

نائیلہ نے پریشانی سے اسے پاس آتا دیکھ کر پوچھا۔

امی وہ میڈیسن لینے کے لیے بھیڑ جمع تھی وہاں اس لیے تھوڑی دیر ہو گئی ۔

سر جھکا کر بولتی وہ انکے ساتھ بیٹھی لہجے میں ندامت تھی کہ اپنی ماں سے جھوٹ جو بولا تھا ۔۔

_______________________________


ریچارج ہو کر وہ گھر کیا آیا تھا لوگوں کی بھیڑ ہی ختم نہیں ہوتی تھی ۔

وہ بیزاری سے شہر والے گھر میں چلا آیا تھا ۔

سگریٹ سلگائے کھڑکی پر ہاتھ رکھے وہ سامنے بہتے دریا کو دیکھنے لگا۔

یہ گھر تیمور صاحب نے خاص اس کے لیے خریدا ہوا تھا۔ ۔

تین کمروں کا یہ گھر قندر سے بہت خوبصورت تھا ،جبکہ باہر سے وہ کوئی عام سا گھر دیکھتا تھا لیکن بنانے والے کی مہارت کے وہ گھر اندر سے کسی محل جیسا لگتا تھا ۔۔

کیسی ہو تم ،

وہ فون میں کسی سے مخاطب تھا ۔

میں ٹھیک ہوں تم کیسے ہو اور کب آ رہے ہو ۔۔

اس کی خوبصورت آواز پر وہ مسکرایا ۔

جلد آوں گا یار بس تھوڑا بزی ہوں ۔

گہری سانس لیتا وہ اس بار سنجیدگی سے بولا ۔

پھوپھو نے ہماری شادی کی شاپنگ شروع کر دی ہے یار۔۔

ناخنوں پر گلابی نیل پالش لگاتے ہوئے وہ منہ بسورتے ہوئے بولی تھی ۔۔

واٹ ۔۔

وہ چونک کر سیدھا ہوا ۔

ہاں ۔

فبیہا نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔

اففف مما بھی نا ____

وہ پریشانی سے فون ٹیبل پر پٹختا ہوا بولا ۔۔

سفید خوبصورت چہرے پر اب سوچ کے تفکرات پھیلنے لگے تھے۔۔

اسے مصر جانے کی تیاری کرنے پڑے گئی ۔

لب بھینچ کر بولتا وہ سوئمنگ کے لیے باہر چلا گیا ۔۔

________________


ہیر کے دن ٹھیک ہی گزر رہے تھے دفتر میں نا وہ کسی کو کام کے علاوہ مخاطب کرتی نا وہ کرتے ۔

اپنے کیبن کی کھڑکی سے وہ ہیر کو سپاٹ نظروں سے دیکھتا مسکرایا ۔

پھر فون میں کسی کا نمبر ملایا ۔

داور بول رہا ہوں کسی کو ایک جگہ کی ہوا لگانی ہے ۔

وہ مسکرا کر کسی سے بات کر رہا تھا ۔

ارے نہیں دفتر سے باہر یہاں تو ہمارے سردار صاحب غصہ ہوں گئے اور ہاں وہ موجی کو کہاں بھیج دیا ہے پولیس ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہو رہی لیکن سردار پر حملہ کرنے والے کو وہ ڈھونڈ نے سے کاصر ہیں ۔۔


رانا مسکرایا ۔

مار چکا ہوں میں اسے اور دفن بھی کر چکا ہوں ڈونٹ وری مٹی پا اس کیس پر تو بس اس سردار کی چہتی کی تصویر بھیج مجھے ،اسے زلیل کرنا میرا کام ہے ۔

رانا نے مسکرا کر کہا جبکہ داور اسکے چالاک دماغ پر عش عش کر اٹھا تھا ۔

بالکل ٹھیک کیا یار ورنہ ہم پکڑے جاتے ۔

داور نے ریلکس ہوتے ہوئے کہا۔

اس لڑکی سے سردار کا کیا رشتہ ہے ۔

رانا نے چائے پیتے ہوئے اس سے پوچھا ۔

مجھے تو لگتا ہے وہ اس لڑکی کو پسند کرتا ہے یہ نوکری بھی اس نے ہی اسے دلائی اور جب یہاں سے نکالا تو خود چلایا آیا باز پرس کرنے اور مجھے یہی کنفرم کرنا تھا اور کنفرم ہو بھی گیا ۔

داور نے طنز سے مسکر کر کہا۔

لیکن سردار اتنی معمولی لڑکی کو کیوں پسند کرنے لگا ہے جبکہ اسکی خوبصورت کزن اسکے پیچھے پاگل ہے ۔

رانا نے حیرت سے پوچھا ۔

اب یہ تو ہمارے سردار ہی جانیں ۔

داور نے اس لڑکی کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے رانا سے کہا۔


ٹھیک ہے پھر رکھتا ہوں اس لڑکی کو مزہ بھی تو چکھانا ہے ۔

رانا نے کہتے ہی فون بند کر دیا اور موبائیل میں آئی اس لڑکی کی تصویر کو غور سے دیکھنے لگا ۔

سفید چادر جس کے ارد گرد بلیک ریبن لگا ہوا تھا وہ آدھے سر پر لیے ہوِے تھی سامنے پڑے کمپیوٹر پر وہ انگلی رکھے ہوئے تھی ۔

لڑکی تو عام تھی لیکن کشش تھی اس لڑکی میں ۔۔

رانا مونچھیں مڑورتے ہوئے کمینگی سے مسکرایا تھا ۔


______________________________


رکشا رکتے دیکھ کر وہ پریشان ہوئی ۔

بھائی کیوں روکا ہے کیا خراب ہو گی ہے ۔

وہ پریشانی سے رکشے والے سے بولا۔

باجی آگے پولیس ہے چیکنگ وغیرہ کر ہیں ایسے نہیں جانے دیں گِے وہ ۔۔

رکشے والے نے پیچھے کی طرف چہرہ کرتے ہوئے اسے بتایا ۔۔

پولیس کے نام پر وہ ٹھٹک کر رہ گئی ۔

ڈر اور خوف سے اسکے چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے چمکنے لگے تھے ۔۔

ہیر کیوں ڈر رہی ہو وہ معاملہ تو ختم ہو گیا ہے نا اب ڈرنے کی کیا ضرورت۔

وہ خود کو تسلی دیتی رومال سے چہرہ صاف کرنے لگی ۔

تلاشی دو ۔

ایک لیڈی اور مرد انکے رکشے کی جانب آتے کرخت لہجے میں بولے ۔

انکے لہجے پر وہ ڈرتے ہوِے نیچے اتری تھی اس معصوم لڑکی نے ابھی بہت کچھ دیکھنا تھا شاید ۔۔

بی بی بیگ دو ادھر ۔

کرخت چہرے والی لیڈی آفسر اسکے ہاتھ سے پرس چھین کر اسکی تلاشی لینے لگی تھی جبکہ میل آفسر رکشا ڈراوئیونک کی چیکنگ کر رہا تھا ۔

نازیہ بہت توجہ سے اسکے بیگ کو چیک کرتی ہوئی ٹھٹھکی تھی ۔۔

پھر ہاتھ مارتی ہوئی وہ رکی پھر اسے گھورنے لگی ۔

ہیر گھبرائی ۔

سر یہ دیکھیں یہ لڑکی بیگ میں ڈرگز لے کر گھوم رہی ہے شاید یہی لڑکی ہے جس کے بارے میں ہمیں نفارم کیا گیا تھا ۔


لیڈی پولیس آفسر کے کہنے پر وہ آفسر حیرت سے اس معصوم چہرے والی لڑکی کو دیکھتا لیڈی نازیہ کے ہاتھ سے وہ ہوریاں لے کر چیک کرنے لگا ۔

ہیر تو ڈرگز کے نام سے واقف ہی نہیں تھی اس لیے وہ الجھی نظروں سے سفید پوریوں میں موجود مواد کو دیکھ رہی تھی ۔۔

نمک ہی تو ہے یہ ایسے کیوں جانچ پڑت کر رہے ہیں ۔

بی بی یہ آپکے ہیں ۔۔

اس اہلکار نے کرختگی سے پوچھا۔۔

جی ۔۔

وہ خوف سے لرزتا وجود لیے ہوئے بولی ۔

شرم کرو تم لڑکی ہو کر نشہ بھیجتی ہو شکل سے تو تم اچھے گھرانے کی لگتی ہو لیکن بیچتی نشہ ہو۔۔

اس اہلکار کو غصہ ہی چڑ گیا تھا ۔

جبکہ وہ نشے کے نام پر ٹھٙٹھک سی گئی تھی ۔

یہ تو نمک تھا جب وہ دفتر سے آرہی تھی تو ایک لڑکی نے اسے دیا تھا کہ یہ نمک شفا والا ہے اپنے کسی بیمار کو کھلانا وہ ٹھیک ہو جائے گا یہ کام وہ خفمت خلق کے لیے کرتی ہے اسکے پوچھنے پر اس لڑکی نے کہا تھا ،

اس نے بھی لے لیا وہ معصوم خاک سمجھتی تھی ان چیزوں کو۔۔

لوگ آس پاس کھڑا ہونا شروع ہو چکے تھے ۔۔

پولیس کو کسی نے فون کر کے اطلاع دی تھی کہ ایک لڑکی درگز لے کر آج وہاں سے گزرے گئی بات سچ ثابت ہو چکی تھی ۔

لیڈی نازیہ نے بہت غصے سے اسے دیکھتے

ہوِئے اسکی کلائیوں پر ہتھکڑی لگائی تھی ۔۔

یہ میرے نہیں ہیں ۔

لڑکھراتے لہجے میں بولتی وہ اپنی کلائی چھڑانے لگی تھی ۔


چپ ایک دم چپ مجرموں جیسے کام کر کے بعد میں کہتی ہو یہ تمہارے نہیں ہِن جیل میں لمبے عرصے کے لیے جاو گئی تم ۔

اسے کھینچ کر لیجاتے ہوئے وہ پھنکاری تھی ۔

لوگ منہ پر ہاتھ رکھے اس چھوٹی سی لڑکی کو حیرت و غصے سے دیکھ رہے تھے ۔۔

پلیز مجھے جانے دیں یہ میرے نہیں ہیں

وہ روتے ہوئے فریاد کر رہی تھی لیکن انہیں کسی پر ترس یا یقین تھّوڑے نا آتا تھا ۔۔

کرلاتی روتی وہ فریاد پر فریاد کر رہی تھی جبکہ وہ اسے زبردستی گاڑی میں بٹھا کر لے جا چکے تھے۔

اس لڑکی نے پتا نہِیں اور کیا کیا دیکھنا تھا ۔

________________________________


ایک لڑکی سفید کپڑے پہنے ہونٹوں پر چادر رکھے وہ روتی آنکھوں سے اس سے مدد مانگ رہی تھی ۔

آپ سن کیوں نہیں رہے مجھے آپکی ضرورت ہے ۔۔

روتے کر لاتے لہجے پر وہ ایک دم سے اٹھا تھا ۔


چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے چمکنے لگے تھے ۔

گہری سانس لیتا وہ بکھڑے بال ماتھے سےپیچھے کھڑکی میں آیا تھا ۔

کون تھی وہ ؟

لب بھینچے وہ پریشانی سے بولا ۔

اسے اس لڑکی کی بڑِی بڑی آنکھوں میں تھہرے آنسو بھول نہیں رہے تھے ۔

نیچے مہرینہ جھولے پر بیٹھی اسے اخترام سے سر ہلا کر اسلام پیش کر رہی تھی ۔

سر ہلاتا وہ باہر کی طرف بڑھا۔

رف سی وائٹ شرٹ بلیک ٹروزر میں بھی وہ شاندار لگ رہا تھا مصری نقوش کا حامل وہ شخص دل کا ایماندار صاف نیت کا تھا اسے تربیعت ماں سے ملی تھی اگر وہ بھی محل میں تربیعت پاتا تو شاید وہ بھی ان جیسا بے حس ہوتا ۔۔

آپ فری ہیں آج ۔۔

راستے میں ہی اسے شائنہ مل گئی تھی ۔

ہاں فری تو ہوں بس ایک چکر پولیس اسٹیشن کا لگانا ہے پھر فری ہوں گا کیوں پوچھ رہیں ہیں آپ ۔

وہ پاکٹ میں ہاتھ ڈالتا آئی برو اچکا کر بولا ۔

شائنہ اسکے آئی برو اچکانے پر مسکرائی ۔۔

مجھے آج آپکے ساتھ کچھ وقت گزارنا ہے کیونکہ کل مجھے ایبٹ باد جانا ہے میری کزن کی شادی ہے تو اس لیے جانے سے پہلے میں چاہ رہی تھی آپکے ساتھ کچھ وقت گزارنے کو مل جاتا.

وہ اسکے ساتھ چلتی ہوئی وضاحت سے بولی


وہ سر ہلا گیا ۔

اوکے رات کو چلتے ہیں ۔

اسکی طرف دیکھتا وہ مسکرا کر بولا۔

اسکی ہلکی مسکان شائنہ کو ہواوں میں اڑانے لگی تھی ۔

کہتے ہی وہ مردانے خانے کی طرف چلا گیا ۔۔

جبکہ شائنہ مہرینہ کی طرف آئی ۔

فنگر چپس کھاتی وہ شائنہ کے کھلتے چہرے کو کھوجنے والی نظروں سے دیکھنے لگی تھی.

کچھ تو ہے کہی سردار نے مسکرا کر تو نہیں دیکھ لیا۔

صحیح سے انداز لگاتی وہ نخوت سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگی۔

کہی سے جلنے کی بو آرہی ہے کیوں مہرینہ تمہیں نہیں آرہی ۔

اسکے ساتھ جھولے میں بیٹھتی وہ چبتے لہجے میں پوچھنے لگی۔

نہیں تو شاید آپکو ہی آرہی ہو میرا تو کل سے زکام کی وجہ سے ناک بند ہے ۔

ہنوز منہ مارتی وہ لاپرواہی سے بولی ۔

جبکہ شائنہ طنز سے مسکرائی ۔

جب میری شادی ہو گئی سردار سے تو تمہارا ناک ایسے ہی روز بند رہے گا دیکھنا تم ۔

اسکی پلیٹ سے چپس اٹھا کر کھاتی وہ طنز سے بھرپور لہجے میں بولی ۔

چپس کی پلیٹ دوسری طرف کھسکاتی وہ مسکرائی ۔

ہو گئی تب نا ۔

فل مسکان ہونٹوں پر سجائے کہتی ہوئی وہ اندر کی طرف چلی گئی اسے ابھی پتا بھی تو کرنا تھا اسکے مسکراتے چہرے کے پیچھے چھپے راز کا ۔۔۔۔۔۔*

_____________________________


ایک کونے میں بیٹھی وہ گھٹنوں کے گرد ہاتھ باندھے ہوئے تھی کہنیاں چھل گئی تھیں گرنے سے، آنکھیں رو رو کر سرخ اور سوج چکیں تھی ۔

بہت غریبی کے دن دیکھے تھے اس نے اپنی زندگی میں لیکن زلت آج دوسری بار دیکھی تھی ۔

کالے دوپٹے سے بکھڑے بال باہر کو جانک رہے تھے اسے یہاں بیٹھے دو گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ہو چکا تھا وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوٙئی تھی درد کی انتہا پر تھی وہ۔

اتنی مشکل سے اسے ایک بار پھر یہ نوکری ملی تھی وہ پھر سے چھین جائے گئی جب سب کو پتا چلے گا ساتھ ساتھ زلت کا الگ سے سامنا کرنا پڑے گا۔

کون تھا جو اسے اسے جیل کی حدود سے باہر نکالتا اسکا بھائی چھوٹا تھا ماں بیمار وہ کہاں اسے آذاد کروا سکتے تھے ۔

بیٹھے بیٹھے ایک شخص کا خیال اسے اچانک سے ہی آیا تھا ۔

سردارا غاذان تیمور خانم۔۔

یہ نام اس کے زہن کے پردوں میں اچانک سے ہی لہرایا آیا تھا ،

لیکن میں ان تک کیسے پہنچ سکتی ہوں میرے پاس تو انکا نمبر بھی نہیں اور ناہی میں ان تک اپنی آواز پہنچا سکتی ہوں ۔

اسے ایک دو پولس والوں کی نظریں بھی پریشان کر رہی تھی جو اس کے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔

میں کہاں جاوں ائے خدا مجھے کوئی راستہ دیکھا ہمارا تیرے علاوہ کوئی نہیں اب تو ہی مجھے کوئی راستہ دیکھا میرا بھائی ماں پریشان ہوں گئے میرے اللہ ہماری مدد کر ہمارا تیرے علاوہ اور کوئی نہیں زمین پر بھی تیرا سہارا ہے اور اوپر بھی تو ہے مجھ گنہگار کی پکار سن یا رب مجھے یہاں سے رہائی دلا دے ۔۔

جوڑے ہاتھوں پر سر رکھے وہ اللہ سے مدد کی فریاد میں مگن تھی جب ۔۔


سردار غاذان تیمور خان آرہے ہیں سب اپنے کام پر توجہ دیں جلدی سے ۔۔۔۔

اس نے چونک کر پولیس اہلکار کے منہ سے یہ نام سنا تھا ۔

وہ پولیس والا سب کو کہتا پھر سے باہر وابھاگ گیا تھا۔

آفسر جو آرام سے بیٹھے تھے حولدار کے کہنے پر سب ہی اٹھ کر ٹھیک سے اپنی اپنی نشتوں پر بیٹھے تھے ۔


ہیر کو ایسے لگا جیسے اللہ نے اسکی بہت قریب سے سن لی ہو ۔۔

جس سے وہ مدد کی خواہ تھی وہ لود چل کر یہاں تک آ پہنچا تھا ۔

کیا وہ اس پر یقین کرئے گا کیا وہ اسکی فریاد بھی سنے گا یا نہِیں کیا ہتا وہ پھر سے مجھے بھول گئے ہوں مجھے یاد رکھ کر وہ کریں گئے بھی کیا ۔

آنکھوں سے آنسو صاف کرتی وہ خود پر ماتم کناں تھی ۔۔۔۔

سردار جی آئیں پلیززز ۔۔

وہ آج پولیس اسٹیشن کے وزٹ پر تھا یہ ایک سرادر پر ہوتا کہ وہ کیسے علاقے کا سسٹم چلاتا ہے اس لیے اسے ہوسپٹل پولیس اسٹیشن سکولوں وغیرہ میں وزٹ کرنا پڑتا تھا ۔۔

وائٹ شرٹ جسکی سلیوز کہنیوں تک موڑے ہوئے تھا نیچے خاکی پینٹ چشمہ گریبان پر اٹکائے وہ اس پولیس اسٹیشن کی شان بڑھا گیا تھا آج تیمور صاحب ساتھ نہیں تھے کہ انہیں کچھ ضروری کام تھا ،


وہ نا قدانہ نظروں سے تھانے کا جائزہ لے رہا تھا مطمئن نہیں ہوا تھا وہ تھانے کی کارگردگی سے ۔

اسکی تیکھی نظروں سے سب ڈر رہے تھے وہ چاہتا تو کھڑے کھڑے ہی سب کو فارغ کر دیتا ۔۔

ایک خستہ حال چیئر پر بیٹھے وجود کو دیکھتا وہ رکا تھا۔

وہ کون ہے ۔

اپنے سامنے کھڑے آفسر سے وہ بولا ۔

وہ گھٹنے پر سر رکھے ہوئے تھی شرمندگی کے ڈر سے ۔۔

جی یہ مجرم ہے ڈرگز بیچتی پکڑی گئی ہے ۔

اس آفسر نے اسکی طرف اشارا کرتے ہوئے بتایا تھا ۔

ہممم ۔۔

کہتے ہی وہ آگے بڑھ گیا تھا ۔۔

______

سردار یہ لڑکی ڈرگز بیچتی ہوئی پکڑی گئی ہے ابھی اسے جیل میں ڈالتے ہیں رانا صاحب ابھی ایک دوسرے کیس کے سلسلے میں گئے ہیں وہی آکر اس کیس کو دیکھیں گئے۔


اہلکار نے ادب سے اسے جواب دے کر آگے بڑھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔۔۔

وہ سر ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا۔

ہیر اسکے جانے کے بعد درد سے رو دی۔

پتا نہیں وہ اس سے مدد کیوں نہیں مانگ سکی تھی وہ جاننے سے کاصر تھی کہ جس شخص سے وہ دل میں مدد کی خواں تھی اس شخص کے سامنے آنے پر وہ منہ کیوں چھپا گئی تھی نہیں جانتی تھی وہ۔

ہونٹوں پر ہاتھ رکھے وہ گھٹ گھٹ کر رو دی ۔

پتا نہیں اسکی ماں ، بھائی کیا کر رہے ہوں گئے میں کیا کروں یا اللہ مجھے بے گناہ ثابت کر دے تم تو جانتے ہو میں بے قصور ہوں مجھے میرے اپنوں کے لیے اس جیل خانے سے نجات دے میرے مولا مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔


دل ہی دل میں اس پاک زات سے وہ مخاطب تھی جو شارگ سے بھی زیادہ قریب تھا ۔۔

________________________________


سیاہ مرسڈیز کا درازہ کھولے محمد خادم اسکے ہی انتظار میں تھا ۔۔

سیاہ چشمہ آنکھوں پر لگاتا وہ تھانے کی حدود سے باہر نکل گیا تھا لیکن دل بے چین تھا جیسے کچھ پیچھے چھوٹ ہو گیا ہو لیکن آخر کیا ؟

ہونٹ بھینچے وہ دل کی بے چینی پے حیران سا تھا ۔


اسید رانا نے اپنے سامنے کھڑی چھوٹی سی کانپتی لڑکی کو دیکھا ۔

کتنی سال عمر ہے تمہاری ۔

غور سے اس لڑکی کی پلکوں کو لرزتا دیکھ کر وہ بولا ۔۔

وہ چپ رہی کہ زبان تو تالو سے چپک چکی تھی ۔

میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔۔

اس بار وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتا پھنکارا تھا ۔

وہ دبک سی گئی تھی ا سکے چلانے پر۔


ب ب بیس سس سال۔ ۔۔

بڑی مشکل سے ہونٹ سر کے تھے ۔

رانا مسکرایا ۔

ہمم لگتی تو تم صرف اٹھارا کی ہو ۔

مونچھوں کو تاوّ دیتا وہ عجیب انداز میں مسکرایا تھا۔

نشہ کیوں بیچتی ہو۔

چھڑی ہاتھوں میں گھماتا مسکراتے لہجے میں بولا ۔

ہیر نے نمی بھری آنکھوں سے اسے دیکھا ۔

میں نہیں بیچتی ۔

وہ بس یہی کہہ سکی تھی ۔

تو کیا تمہارے فرشتے پکڑے گئے تھے نشہ کے ساتھ ۔

رانا کے تیکھے لہجے پر وہ ڈر کر دو تین قدم پیچھے سرکی ۔

اسکا دب جانا اسے بہت بھایا تھا ۔

سانولا چہرہ بھرے بھرے ہونٹ موٹی موٹی آنکھوں پر گھنی سیاہ پلکیں درمیانہ ناک عام سی لڑکی تھی وہ،

ایک بار دیکھنے پر دوسری بار اسے نا دیکھا جاتا وہ پیاری تھی لیکن خوبصورت نہیں تھی لیکن اسکا قد قابل رشک تھا لمبا قد اسے بہت سوٹ کرتا تھا ۔

جامنی چادر جس پر بلیک کڑھائی کی گئی تھی وہ چادر اپنے ارد گرد بہت اچھے سے اوڑھے ہوِے تھی کہ اسکا نازک سراپا چھپ گیا تھا ۔

تم جا سکتی ہو۔

اسکی غیر متوقع بات پر اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔

رانا اسکے ہونق ہونے پر مسکرایا ۔

تم جا سکتی ہو لیکن ایک شرط ہے میری ۔

اس نے اسکے قریب آتے ہوئے کہا۔

میں سچ میں چلی جاوں ۔۔۔۔


بے ساختہ ہونٹوں پر ہلکی مسکان رقص کرنے لگی تھی ۔

رانا نے کمینگی مسکان سے سر ہلایا ۔

شکریہ آپ کا اللہ آپکی آپکے خاندان کی خفاظت کرئے اللہ آپکو بہت نوازے گا ایک غریب کی مدد کرنے پر۔ ۔

چادر کے پلو سے آنکھیں صاف کرتی وہ جلدی جلدی بولتی دروازے کی جانب دوڑی تھی ۔

ایک منٹ ہیر رضا۔ ۔۔

اسکے پکارنے پر وہ بے ساختہ رکی تھی لیکن پلٹی نہیں۔

شاید تم نے سنا نہیں میں نے کہا تم صرف ایک شرط پر یہاں دے جاسکتی ہو ۔

اسکے سامنے آتا رانا سرد لہجے میں بولتا ہیر رضا کا خون خشک کر گیا تھا ۔

آنکھوں میں ویرانی لیے وہ اس پولیس والے کو دیکھنے لگی۔

شرط کا نہیں پوچھو گِئی۔

ٹیبل پر بیٹھتا وہ طنز سے بولا ۔

میرے پاس پیسے نہیں ہیں دینے کے لیے ۔

اسے لگا وہ شاید پیسوں کی بات کر رہا ہے ۔

ہاہاہا !تمہاری اوقات بھی نہیں اسید رانا کو پیسے دینے کی۔

قہقہ لگاتا وہ اس پر طنز بڑچھا گیا تھا ۔

ہیر نے ہونٹ بھینچے ۔۔

تو پھر آپکو کیا چاہئیے ۔۔

وہ اس بار زرا اونچے لہجے میں بولی کہ وہ اب ٹھک چکی تھی اپنی صفائیاں پیش کر کر کے کیا قسمت تھی اس بے چاری کی پریشانیاں تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں تھی۔

ان پیپرز پر جیسٹ سائن کرنے ہیں ۔

سادہ پیپرز اسکے سامنے کرتا وہ مسکراتے لہجے میں بولا تھا ۔

ہیر نے اچنبے سے سادہ کاغذات کو دیکھا ۔

لیکن ان پر تو کچھ نہیں لکھا ۔

وہ حیرت سے بولی ۔

آئی نو اگر گھر جلدی جانا ہے تو ان پر سائن کرو اور بھاگ جاو ۔

پنسل اسکی طرف بڑھاتا اسے کے خوشی سے چمکتے چہرے کو دیکھتا وہ مسکرا کر بولا۔


ہیر نے پنسل کو آہستہ سے پکڑا اور پیپرز کے نیچے سائن کرتی گئی ۔

کیا میں اب جاوں ۔

اس نے بے یقینی سے پوچھا۔

بھاگ جاوّ۔

پیپرز کی تہ لگاتا اس سے بولتا وہ اپنی چیٙر کی طرف بڑھا تھا۔

ہیر بنا کچھ آگے پیچھے دیکھا وہاں سے تیزی سے بھاگ نکلی تھی ۔


رات کا گہرا اندھیرا ہر سُو چھا چکا تھا ۔


تھانے سے کافی دور آکر کمر پر ہاتھ رکھے وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی تھی تھی ۔


پول لائٹ کی روشنی بھی گھور چھائے اندھیرے کو ختم نہیں کر سکی تھی اسے دور سے اپنا گاوں نظر آرہا تھا لیکن وہ جانتی تھی سے ابھی کافی چلنا ہے ۔

پاوں میں درد شروع ہو گیا تھا گرنے سے چلنے سے ۔

اسکی بس ہو چکی تھی اس سے اب ایک قدم تک کا فاصلہ طے نہیں ہو پائے گا وہ جانتی تھی ۔

اللہ ۔۔۔

سڑک پر ہی بیٹھتی وہ اپنی بے بسی پر رونے لگی تھی ۔

کاش میں بھی مر جاتی اپنے ماں باپ کے ساتھ لیکن پھر چاچی امی اور خیام کو کون دیکھتا ۔

ایک سیکنڈ میں ہی اسے اپنوں کا خیال آچکا تھا ۔

میں کیسے گھر جاوں ۔

پاوں کو دباتی بے بسی سے بولتی وہ سامنے سے آتے سیاہ گھوڑے کو دیکھنے لگی اس پر سوار آدمی چہرے پر سیاہ مفرل باندھے ہوئے تھا وہ فل بلیک سوٹ میں تھا ۔

کہی یہ گھوڑا والا مجھے مار ہی نا دے۔

خوف سے وہ پیچھے کو سرکتی ہوئی اچانک ہی اٹھ کر بھاگنے لگی تھی ۔

گھوڑ سوار نے حیرت سے آگے بھاگتی لڑکی کو دیکھا تھا۔


اور نہیں بھاگ سکتی میں ۔

پیٹ پر ہاتھ رکھے وہ کراہی تھی ۔

تب ہی گھوڑ ا اسکے قریب آ گیا تھا وہ حیرت سے پلٹی تھی ہاتھ ابھی بھی پیٹ پر ہی تھا، صبح سے اس نے ایک چائے کے علاوہ کچھ کھایا پیا نہیں تھا اور اب بھوک اور بھاگنے سے پیٹ میں درد کی لہریں اٹھنے لگیں تھیں اسکی آنکھوں میں موٹے موٹے تیرتے آنسو اسکے درد و بے بسی کے گواہ تھے ۔

وہ حیرت سے اچھلی تھی اس گھوڑ سوار کو چھلانگ لگا کر گھوڑے سے اترتے دیکھ کر ۔

ہلکی بروان مائل آنکھیں لمبے قد کسرتی جسم کا مالک وہ شخص اس سے کچھ فاصلے پر رکا تھا گھوڑے کی لگام ایک ہاتھ میں پکڑے وہ اس لڑکی کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ پول لائٹ اب تھوڑ دور تھی جس کی وجہ سے اسکے دھندلے دھندلے نقش نظر آرہے تھے ۔

کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ ۔

اسکے سرد لہجے پر ہیر حیرت سے تین چار قدم پیچھے ہوئی ۔

وہ انہیں پہچان گئی تھی وہ بھلا کیسے نا پہچانتی ایک اسی شخص نے تو اس سے نرمی سے بات کی تھی اسکی ہر بار مدد کی تھی وہ کیسے نا پہچانتی اسکی آواز ۔۔


اسکی گھمبیر آواز پر آنکھوں میں تیرتے آنسو اب بن پار کر آئے تھے گالوں پر بہتے آنسو سردار غاذان کو ٹھٹھکا گئے تھے وہ پہچان چکا تھا اس لڑکی کو اسکی سیدھی نکالی مانگ جھکا سر بہتے آنسو کانپتا وجود وہ پہچان چکا تھا کہ یہ لڑکی وہی ہے جو ہر بار اسکا راستہ روک لیتی تھی ۔

کیا ہوا ۔۔۔

اس بار لہجے میں نرمی تھی ۔

وہ کچھ نا بولی بس ہچکیوں سے روتی رہی ۔۔

ائے میں تم سے مخاطب ہوں کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہو۔ ۔

اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ نرمی تھی اس بے بس لڑکی کے لیے ۔

وہ کچھ نا بولی سر جھکائے روتی رہی جیسے بچہ ماں کو سامنے دیکھ کر فلاں فلاں کی شکایت لگانے کے لیے روتا ہے وہ بھی اسے سامنے دیکھ کر خود پر قابو نہیں پا سکی تھی اسے ایسے لگا جیسے انجانی بھیڑ میں کوئی اپنا مل گیا ہو ۔۔


وہ تھوڑا اور قریب آیا ۔

وہ اسکا ہاتھ پیٹ پر رکھے دیکھ کر چونکا ۔

پیٹ میں درد ہے ؟

وہ کچھ سمجھتا ہوا بولا ۔

اسکے بہتے آنسو ساکت ہوئے تھے پھر ایک جھٹکے سے ہاتھ پیٹ سے ہٹایا ۔

سر اٹھائے قد میں کافی لمبے شخص کو وہ سر اٹھا کر حیرت سے دیکھنے لگی ۔

سردار غاذان اسکی بڑِی بڑی آنکھوں میں جمع ہوا پانی دیکھ کر ایک قدم پیچھے ہوا۔

یہ آنکھیں تو اس نے کل خواب میں دیکھیں تھی ایسی ہی تو وہ آنکھیں اسے دیکھ رہیں تھیں جیسے اس سے فریاد کناں ہوں ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں حیرت اتر آئی تھی وہ بھری ہوئیں آنکھیں دیکھ کر ۔۔

کچھ چاہئیے ۔

کچھ دیر بعد وہ خود پر قابو پا کر بولا تھا ۔

ہیر نے سر نفی میں ہلا دیا۔

اس نے کچھ سوچ کر پاکٹ میں ہاتھ ڈالا ۔۔

بڑی سی کوئی چاکلیٹ تھی جو اسے آج شام کو مہرینہ اور صفا نے دی تھی کہ کل اس کا برتھ ڈے تھا ،

لیکن مہرینہ نے زبردستی وہ چاکلیٹ اسکے ہاتھ میں دے دی تھی بنا یہ جانے کہ اسے میٹھی چیزیں سخت نا پسند تھیں یہ چاکلیٹ اسے پاکٹ سے نکالنے کا یاد ہی نا رہا تھا ۔

لیکن وہ سمجھ چکا تھا یہ چاکلیٹ اس لڑکی کا نصیب تھا ورنہ جو چیز اسے پسند نا ہو وہ زبردستی کرنے پر بھی نہیں لیتا تھا لیکن اسے لینی پڑی کہ اس پر اِس لڑکی کا نام لکھا ہوا تھا ۔


یہ !

اپنی طرف بڑھی چاکلیٹ کو دیکھ کر وہ ناسمجھی سے پوچھنے لگی ۔

اسے کھانے سے پیٹ کا درد چلا جائے گا ۔

ہنوز ہاتھ میں چاکلیٹ لیے اسکی طرف بڑھائے وہ بے تاثر لہجے میں بولا ۔


ہیر نے لرزتے ہاتھ سے وہ چاکلیٹ پکڑی تھی ۔

کھالو ۔

گھوڑے کی طرف مڑتا وہ بولا ۔۔

سنیں ۔۔

اسے جاتا دیکھ کر وہ بے ساختہ پکار بیٹھی ۔

اسکے چلتے قدم ساکت ہوئے تھے اسکے لہجے پر۔۔

۔

بنا کچھ بولے اسکی طرف پلٹ کر وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا تھا ۔

کچھ نہیں ۔

اسے سمجھ میں ہی نا آیا کہ وہ کیا کہے ۔

ایک دو پل اس کے چہرے کو دیکھ کر وہ گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ مارنے لگا تھا ۔

سردار ،


وہ سوار ہوا تھا جب وہ اسکے دوسری بار پکارنے پر رکا تھا لیکن وہ حیرت سے ساکت رہ گیا وہ نقاب میں تھا وہ جانتا تھا اسکے گھر والوں کے علاوہ کوئی اسے پہچان نہیں سکتا کہ وہ سردار غاذان تیمور خانم ہے پھر وہ ایک چھوٹی سی لڑکی کیسے پہچان چکی تھی کہ نقاب کے پیچھے سردار ہے کوئی اور نہیں اسے رائیڈنگ کا جنون کی حد تک شوق تھا ،

مصر میں تو اسکا بہت بڑا اصطبل بھی تھا ۔۔

اس نے اب کی دفع اس لڑکی کو غور سے دیکھا۔

وہ پھر سے اسکی طرف آیا۔

تمہیں کیسے پتا میں سردار ہوں ۔

بھنیویں اچکائے وہ سرد لہجے میں بولتا ہیر کو پریشان کر گیا اسکے منہ سے بے ساختہ نکل چکا تھا اس نے جان بوجھ کر نہیں پکارا تھا ۔

وہ ۔

وہ کچھ بول ہی نا پائی اسے کچھ سمجھ میں ہی نا آیا کہ وہ کیا کہے ۔۔


غور سے اسکے چہرے کو دیکھتا وہ سر ہلاتا پھر سے پلٹ کر گھوڑے کی طرف آیا ۔

تم چل کر اپنے گھر جا سکتی ہو ۔

وہ گھوڑے پر بیٹھنے لگا تھا جب اسے چانک ہی ویران سڑک پر اس لڑکی کا خیال آیا کہ وہ کیسے جاسکتی تھی بھلا اتنی دور چل کر خلانکہ اسکے پیٹ میں درد تھا اس لیے وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔


میں چل لوں گئی ۔

سر جھکا کر وہ ادب سے بولی ۔

گھوڑے پر بیٹھو گئی۔

اسکے پوچھنے پر وہ حیرت سے سر نفی میں ہلا گئی ۔

تو پھر کیسے گھر جاو گِئی۔

سردار کو پتا نہِیں کیوں اس لڑکی کی اتنی ٹینشن تھی ۔۔

سردات اس سے زیادہ سفر میں روز پیدل چل کر طے کرتی ہوں یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ۔

گہری سانس لیتی وہ دھیمے سے بولی سر ہنوز جھکا ہوا تھا ۔

اوکے جاو پھر اور چاکلیٹ کھاتی جانا یہ کھانے کے لیے ہے ہاتھ میں پکڑنے کے لیے نہیں ۔

اسے کھاتے نا دیکھ کر وہ ہلکا سا طنز کر گیا تھا ۔

سر ہلا کر وہ آہستہ سے اپنے گاوں جاتی سڑک کی ڈھلوان اترنے لگی کہ سڑک کافی اونچی تھی ۔۔

بنا پیچھے دیکھے وہ دھیمے دھیمے چلتی اپنے گاوں کی حدود میں داخل ہو چکی تھی ۔

اسے لگا سردار چلے گِے ہوں گئے لیکن وہ کیا جانے وہ اسے گاوں کی حدود میں داخل ہوتا دیکھ کر وہاں سے گیا تھا اسے خیال تھا اپنی ریاست میں رہنے والے ہر شخص کا آج کل تو لوگ مردار نا چھوڑیں وہ تو پھر ایک بھولی سی معصوم سی جیتی جاگتی لڑکی تھی جو شاید ان نزاکتوں کو نہیں جانتی تھی ۔۔۔۔۔


**********

گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔۔

قدم گھسیٹ کر اندر آئی جہاں اسکا بھائی اور ماں فرش پر بیٹھے ہوئے تھے نائلہ تو رو رہی تھی جبکہ خیام آنسو بھری آنکھوں سے سر تھامے بیٹھا تھا۔

امی، خیام۔ ۔

اسکی میٹھی آواز ان دو وجود میں جیسے پھر سے زندگی دوڑا گئی تھی ۔

آپی ۔۔۔

خیام اسے دیکھتا جھٹ سے کھڑا ہوتا اسکی طرف دوڑا تھا ۔

ایک دم سے اسکے گلے لگتا وہ لڑکا زارو قطار رونے لگا تھا وہ جب گھر نہیں آئی تو وہ دونوں ماں بیٹا پریشان ہو گئے تھے تو نائلہ نے سے اسکے دفتر بھیجا وہاں یہ خبر ملی وہ تو کب کی جا چکی ہے وہ ساری جگہیں دیکھ آیا لیکن اسکی آپی اسے نا ملی وہ ماں بیٹا تو ختم ہو جاتے اگر وہ اور تھوڑی دیر نا آتی تو نائلہ کے دل میں تو کئی برے برے خیال آنا شروع ہونے لگے تھے جن نے انہیں ادھ موا کر دیا تھا ۔۔

کہاں تھی اپی آپ ۔

خیام اس سے الگ ہوتا نم زدہ لہجے میں پوچھنے لگا ۔

اسکا سر چومتی وہ اپنی طرف آتی نائلہ کے گلے لگی ۔۔

امی آج آپکی دعاوں نے بچا لیا آپکی بیٹی کو۔

انکے کندھے میں منہ چھاپئے وہ بلک اٹھی تھی اسے بھی تو رونے کے لیے کسی کا کندھا چاہئیے تھا ۔۔

نائلہ بیگم کا دل لرز اٹھا اسکے اس طرح رونے پر ۔

خیام بھی نائلہ کے دوسرے کندھے پر سر رکھے خاموشی سے اپنی آپی کو دیکھنے لگا جسکا وجود تھکا تھکا سا تھا جیسے میلوں کا سفر طے کر آئی ہو ٠۔

نائلہ نے بہت مشکل سے اسے چپ کروایا تھا ۔

انکے کندھے پر سر رکھے وہ ساکت نظروں سے چھوٹی سی چارپائی پر لیٹے اپنے بھائی کو دیکھتی رہی کیا اسکا بھائی اسکے رونے سےپریشان ہو چکا تھا ۔

خیام ۔۔

اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ کو دیکھتے ہوِئے سے پکارا ۔

جی آپی۔

وہ ایک جھٹکے سے اسکی دھیمی پکار پر اٹھ کر بیٹھا تھا ۔۔

یہ دیکھو میرے پاس کیا ہے ۔

چاکلیٹ اسے دیکھاتی وہ مصنوعی مسکان سے بولی ۔

خیام نے آپی کو دیکھ کر انکے ہاتھ میں لہراتی چاکلیٹ کو دیکھا ۔


ان دونوں بہن بھائی کو چاکلیٹ حد سے زیادہ پسند ہوتی تھی چاچو سجاد ان دونوں کے لیے ہمیشہ چاکلیٹ لایا کرتے تھے اور وہ دونوں بہن بھائی پاگلوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتے تھے ایک بائٹ لینے کے لیے ۔

آپی اسکا زائقہ بھول چکا ہے مجھے ۔

خیام کے بھراِئے لہجے پر نائلہ ، ہیر نے دھک سے اسکی خالی خالی ویران آنکھیں تھیں ۔

خیام !

ہیر نے بے ساختہ دل پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا ۔

نائلہ نے درد سے ہونٹ بھینچے انکے دونوں بچے ہی زندگی کے مدار سے نکل چکے تھے وہ دونوں ہی اپنی ہر خواہیش پسند کو تیاگ چکے تھے کیا وہ بھی کبھی خوشیوں بھری زندگی گزاریں گئے۔

خیام کا قد ہیر سے بڑا ہی تھا وہ لگتا بھی ہیر سے بڑا تھا کہ وہ مضبوط جسامت کا مالک تھا لیکن وہ ان دونوں کے لیے ابھی بھی بچہ ہی تھا لیکن وہ بچہ تو کب کا حالت کی چکی میں پھس کر بڑا ہو چکا تھا،

ہیر کے نا ملنے پر اسکا دل کیا تھا ساری دنیا کو آگ لگا دے لیکن اسکے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں تھا بس بہت ہوا وہ اپنی جوان بہن کو آج سے گھر سے باہر نہیں نکلے دے گا خود کام کرئے گا پڑھے گا اور ماں بہن کا سہارا بنے گا جب اسے کہی سے اپنی بہن نہیں ملی تھی تو اسے لگا تھا وہ اندر سے مر گیا ہے جب آپی سامنے آئی تو وہ پھر سے جی اٹھا لیکن اسے روتا دیکھ کر اسکا دل پھر سے مٹی کا ڈھیر بن گیا تھا وہ کیسے آپی کو بتاتا کہ وہ آج زرا دیر گھر نا آتی تو وہ مرجاتا اسکا دل بند ہوجاتا آئے دن لڑکیوں کا ریپ ، گواہ ہونا وہ سنتا رہتا تھا وہ بڑا ہو چکا تھا لیکن اپنی ماں بہن کو کیسے بتاتا ۔


خیام ہم اس چاکلیٹ کے تین حصے کریں گئے سمجھے تم اکیلے نہیں کھانی تم نے۔

ہیر نے سب پریشانیوں و دکھ کو کہی گہرے کنویں میں پھینکتے ہوئے اپنے بھائی کے لیے پھر سے وہی ہیر بن چکی تھی جو شرارتی تھی ہنستی تھی کھلکھلاتی تھی لڑتی تھی۔

آنکھوں میں مصنوعی شرارت سجاتے ہوئے اس نے اپنے بھائی کے بال بیگاڑ کر اسے آدھی سے زیادہ چاکلیٹ پکرائی ۔

تھوڑی سی خود اور تھوڑی سی نائلہ کو دی جنہوں نے لینے سے انکار کر دیا تھا ۔

آپی امی والی چاکلیٹ میں آدھا حصہ آپکا اور آدھا میرا ہے سمجھی آپ ۔

خیام نے بھی سارے دکھ و پریشانیوں کو اندر ہی کہی سلاتے ہوئے آئی برو اچکا کر اسے یاد دلایا ۔


کیوں تمہاری کتنی زیادہ ہے یہ میری ہے سمجھے تم

ہیر نے چاکلیٹ کی بائیٹ لیتے ہوئے اسے ڈانٹا۔

جبکہ خیام نے سرعت سے اسکے ہاتھوں سے چاکلیٹ پکڑی اور جھٹکے سے منہ میں ڈالی ۔

امی دیکھیں اسے زرا ،میری ساری چاکلیٹ کھا گیا چول کہی کا۔

ہیر کے منہ بسورتے لہجے پر خیام اور نائلہ مسکرائیں ۔۔

خیام نے اسکے سر سے سر جوڑا اور اپنی چاکلیٹ کو اسکے ہونٹوں کے قریب کیا ۔

اسکی چاکلیٹ کا بڑا سا بائٹ لیتی وہ مسکرائی ۔

جبکہ اس دفعہ خیام نے منہ بسورا تھا ۔

نائلہ نے مسکرا کر اب دونوں کو جھگڑتے دیکھا تھا ۔

یہ لڑکی انکے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی وہ اللہ کا شکرا ادا کرتیں دونوں کو کندھوں سے لگا گئِیں ۔۔۔

_____________________________


کل جو میں نے آپکو چاکلیٹ دی تھی کیا آپ نے کھائی۔

اسکی طرف کافی کا بلیک بڑا سا مگ بڑھاتی وہ اشتیاق سے پوچھنے لگی۔ ۔


آج گھر میں ہر قسم کی دیگیں پک رہیں تھیں پورے سردار مخل کو فینسی لائٹوں سے سجایا جا رہا تھا اور پورے سات گاوں کو مدو کیا گیا تھا لیکن اسکے چہرے پر یہ سب دیکھ کر بے زاری سی چھا گئی تھی اسے برتھ ڈے منانا سخت نا پسند تھا عیسائیوں کی رسم کو فروغ دینا کہاں کی عقل مندی تھی لیکن لوگ سمجھیں تب نا ۔۔۔

اس بار تو مجھے چاکلیٹ دی اگر آئندہ زبردستی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا سمجھی تم میٹھی چیزوں سے سخت الرجی ہے مجھے ۔

وہ کافی تیکھے لہجے میں بولا تھا اس گھر میں کافی وہ صرف مہرینہ کے ہاتھ کی ہی بنی ہوئی ہی پیتا تھا یہ سب جاننے لگے تھے ۔۔


مہرینہ نے ناک منہ چڑہایا ۔

شائنہ خانم نے کیا گفٹ دیا آپ کو ۔۔

کلین پر بیٹھتی وہ تجسس کے ہاتھوں مجبور تھی ۔

mind your own business(اپنا کام کرو )

وہ سخت غصے سے بولا تھا ۔

آپ کبھی مسکراتے بھی ہیں ہر وقت غصے میں رہنے سے انسان کو بہت سی زہریلی بیماریاں لگ سکتیں ہیں لیکن آپکو کون سمجھائے ۔۔

بڑی بی بی پھر سے شروع ہو چکی تھی ۔


مہرینہ !

جی سردار،

اسکے پکارنے پر وہ مسکرا کر بولی ۔

move aside( ایک طرف ہو جاو)

وہ سخت لہجے میں بولا تھا ۔

جبکہ اسکی مسکراہٹ سمٹی ۔

برے برے منہ بناتی وہ وہاں سے اٹھ کر اپنی کزنز میں آ کر بیٹھ گئی ۔

آج تو خوب جشن ہو گا گاوں میں ۔

مہدیہ نے بالوں میں کنگی کرتے ہوئے کہا۔

ہاں ہو گا لیکن ہمیں تو ہمیشہ کی طرح کونسا گھر سے نکلنے کی اجازت ہو گئی۔


صفا نے سر جھٹکتے ہوئے غصہ سے کہا۔

ٹھیک کہہ رہی ہو تم سب، لیکن اس بار ہم بھی سارا جشن دیکھیں گئی ۔

مہرینہ نے غصے سے کہا۔

تمہیں اپنی ٹانگیں تڑوانے کا شوق ہو گا ہمیں نہیں داور بھائی اور تیمور چاچا جان سے مار دیں گے اگر کسی کو دیکھ لیا تو ۔

سفینہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

ارے پاگلو چوری چھپے دیکھیں گِی نا ۔

اس نے انکی عقل پر ماتم کرتے ہوئے سخت غصے سے کہا۔

اسکے پاگلو کہنے پر سب نے اسے زبردست گھوری سے نوازا ۔۔

ارے تم لوگوں کو نہیں کہہ رہی میں خود کو کہہ رہی ہوں ۔

اس نے انکی گھوریوں کے جواب میں کہا۔

ہاں پھر ٹھیک ہے تم سچ میں ہو بھی۔

مہدیہ نے سر ہلاتے ہوِے کہہ کر اسے تپایا ۔

منہ بند رکھو سمجھی اور امی نے کہا تھا چائے کی باری آج مہدیہ اور صفا کی ہے اگر جان پیاری ہے تو جاو سارا دن کچن میں مہمانوں کے لیے جا کر چائے بناو ۔۔

مہرینہ نے بھی حساب چکایا ۔

افففففف۔

وہ دونوں جھنجھلا کر رہ گئیں کہ آج سارا دن چائے پر چاِے ہی بننی تھی انکے گھر میں کھانا چائے وغیرہ گھر کی خواتین ہی کرتیں تھی جبکہ باقی سب کام ملازم کرتے تھے ان نکمیوں کو یہ کام بھی سخت گراں گزرتے تھے مہرینہ تو چوری چوری اپنے حصے کے زیادہ تر کام ملازموں سے ہی کرواتی تھی ۔۔

وائٹ سوٹ پر براون واسکٹ پہنے براون ہی واچ مضبوط کلائی میں باندھے وہ ایک ہاتھ کھڑا کیے سب کی محبت کا جواب خلوص سے دے رہا تھا ،

ریاست کے تمام امراء معتبر اور عہدار وہاں جمع تھے عام لوگ بھی تھے لیکن جو پروٹوکول امیروں کو دیا جا رہا تھا وہ عام لوگوں کو حاصل نہیں تھا ۔

کھانے کا ارینج وسیع پیمانے پر کیا گیا تھا تیمور اور حشام صاحب نے اپنی نگرانی میں سارا کھانا تیار کروایا تھا تقریباً ہر قسم کی کھانے کی ڈش وہاں موجود تھی ۔۔

سنگنگ کا انتظام ، کامڈین کا ارینج کافی کچھ پلین کیا ہوا تھا تیمور خانم نے جو کہ سردار کو نا پسند تھا لیکن اپنے باپ کی خاطر چپ تھا۔ ۔

سب کو کھانا کھاتے دیکھ کر اچانک ہی اسے اس غریب لڑکی کا خیال آیا تھا ۔

جس کی خالی آنکھیں بہت کچھ اپنے اندر چھپائے ہوئے تھیں ۔

خادم ۔

جی سردار


اسکے دھیمی آواز پر بھی خادم جی جان سے مخاطب ہوا تھا۔

یہ جتنے بھی کھانے ہیں تھوڑے تھوڑے سارے پیک کروا کر اس لڑکی کے گھر بھیجوا دو ۔۔

اسکے سرد لہجے پر خادم نے ایک پل کو اپنے سردار کو دیکھا پھر اخترام سے سر جھکا کر وہاں سے نکل گیا۔ ۔

گہری سانس لیتا وہ تیمور صاحب کی طرف بڑھ گیا جو اسے اپنی طرف آنے کا اشارا کر رہے تھے شاید کسی شخصیت سے ملوانا تھا۔۔۔


اوپر چھت پر دونوں کہنیاں منڈیر پر رکھے نیچے کی طرف جھکی وہ دلچسپی سے وہاں ہوتی محفل کو انجوائے کر رہی تھی اس دعوت میں صرف مرد خضرات ہی مدعو تھے ۔۔


ایک طرف تخفوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔۔

مہرینہ نے سردار کو دیکھا جس کے آگے پیچھے سنگر گرل گھوم گھوم کر گا رہی تھی جبکہ سردار کے انداز میں سرد سا تاثر موجود تھا اسے بیہودہ چیزیں سخت نا پسند تھیں ۔۔

مہرینہ نے موبائل نکال کر کیمرہ زوم کیا اور سردار کو بڑے آرام سے کیپچر کیا تھا ۔


اسکے ہاتھ سے موبائیل چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا کہ سردار غاذان کی سرد نظریں اچانک ہی کالے لباس میں ملبوس مہرینہ پر پڑیں تھیں۔

لب دبا کر وہ وہاں سے بھاگی تھی ۔۔

راستے میں دو تین بار گری بھی تھی لیکن سانس بحال اپنے روم میں آکر ہی کیا ۔۔۔


اس نے بیزاری سے اپنے سامنے ضحڑی سنگر کو دیکھا جو گانا گاتی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔


وہ لب دبا کر سٹیج سے نیچے اترا اور سب سے طبیعت خرابی کا کہتا بنا کسی کی سنے تیز قدموں سے وہ محل کے اندر کی طرف بڑھا تھا ۔۔

اسکے جانے کے بعد داور نے سنگر کو پھر سے شروع ہونے کا اشارا کیا تھا ۔۔


______________


مہرینہ !

اسکے کمرے میں آتا اسے نا پا کر وہ آواز لگانے لگا تھا لہجے میں بھرپور غصہ تھا ۔


بیڈ کے نیچے چھپی مہرینہ نے سر پر ہاتھ مارا ۔۔

اففف کتنی تیز نظریں ہیں انکی پہچان لیا مجھے اب کون بچائے گا مجھ بے چاری کو۔

مہرینہ آرام سے بیڈ کے نیچے سے باہر آجاو ۔

بیڈ کے پاس اکڑو سٹائل میں بیٹھتا ہوا وہ اسے وارننگ دینے والے لہجے میں بولا

۔

مہرینہ نے اسے دیکھ کر بے ساختہ مصنوعی مسکان سے سارے دانتوں کی نمائش کی تھی۔ ۔

وہ میری پونی نیچے گر گئی تھی وہ لینے نیچے آئی تھی۔

الٹا سیدھا جواز پیش کرتی وہ باہر نکلی تھی ۔

ملی پونی ۔۔

اسے خالی ہاتھ دیکھ کر سرد لہجے میں بولتا وہ اسکے چھکے چھڑوا گیا تھا ۔

نہیں ملی وہ شاید کہی اور گر گئی ہو گئی۔ ۔

بد حواسی سے بولتی وہ سر جھکا گئی۔

شاید چھت پر گر گئی ہو گئی جب تم محفل کو فل انجوائے کر رہی تھی ۔

اسکے بے تاثر لہجے ہر پہلے تو اس نے نا سمجھی سے سر ہلا دیا پھر زور سے نفی میں سر ہلایا ۔۔

تمہیں زرا شرم نہیں آئی چھت پر جاتے ہوئے وہاں مردوں کی بھیڑ جمع تھی اگر کسی کی تم پر نظر پڑتی تو کیا سوچتے اس گھر کی لڑکی کے بارے میں اگر ڈیڈ دیکھتے تو اب تک تم زمین کے اوپر نہیں زمین کے اندر ہوتی اس لیے کہہ رہا ہوں سدھر جاو ورنہ بہت پچھتاو گئی تم ۔

اسکا کان کھینچتا وہ سخت لہجے میں اس سے مخاطب تھا ۔

معاف کر دیں سردار آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گئی بس اس بار بخش دیں۔

اپنا کان چھڑانے کی کوشش کرتی وہ تیز تیز لہجے میں روہانسی ہوتی بولی تھی۔ ۔

کچن میں جاو دس کپ چائے بناو اور چائے پندرا منٹس میں بننی چاہئیے سمجھی۔

غصے سے بولتا وہ پلٹا تھا ۔

لیکن سب مہمان تو باہر ہیں پندراں کپ چاِے کون پئیے گا۔

مہرینہ نے ہولتے ہوئے پوچھا۔

تم سے مطلب تمہیں جو کہا ہے وہ کرو انڈرسٹینڈ۔

غصے سے اسے ڈانٹا وہ باہر نکل گیا تھا ۔


مہرینہ سر تھامتی بیڈ پر گرنے سے انداز میں بیٹھی۔ ۔

اللہ بچا لے آج ،مجھ سے تو ایک کپ چائے بن سکتی ہے وہ بھی دس منٹ میں بنتی یے جبکہ پندارں کپ چائے وہ تو ایک گھنٹے میں بنے گئی ۔۔

حساب کتاب لگاتی وہ اونچا اونچا رونے لگی تھی ۔۔


)))))))))))))))))))))((((((((((((((((((((


رات کے سات بج رہے تھے جب دروازے پر زور سے نوک ہوا ۔۔

نائلہ کچن میں تھی اور خیام اوپر چھت پر ۔

وہ چپل پہنتی چادر کو ٹھیک سے خود پر اوڑھتی ہوئی دروازے کے قریب آئی۔


دروازہ کھول کر وہ حیران ہوئی تھی ۔

محمد خادم ہاتھ آگے باندھے کھڑا تھا پیچھے دو ملازم تھے جن کے ہاتھوں میں بھاری بھاری شاپرز تھے ۔

اسکے ملازم کو جانتی تھی ،اسلیے وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ۔

یہ کچھ سامان ہے ہمارے سردار کا جنم دن تھا آج،

اس لیے ہم کھانا تقسیم کر رہے ہیں یہ آپ لوگوں کا حصہ ہے۔

محمد خادم نے کہہ کر کھانوں سے بھرے شاپرز اسکی طرف بڑھائے۔

خیام بھی اسکے ساتھ آکھڑا ہوا تھا کہ وہ بیل کی آواز سن چکا تھا۔

شکریہ۔ ۔

خیام نے شاپرز انکے ہاتھ سے لے کر نرم لہجے میں کہا ۔

خیام نے شاپرز صحن میں پڑی چارپائی پر رکھے ۔۔

ہـــــــــیر نے بے ساختہ چارپائی پر رکھے ان شاپرز پر ہاتھ پھیرا تھا ۔

امی مت بنائے آلو کھانا آچکا ہے ۔

خیام نے زور دار آواز پر کچن میں موجود نائلہ سے کہا جو حیرانی سے کچن سے باہر آتی شاپرز کے ڈھیر کو دیکھ رہیں تھیں۔


یہ کہاں سے آئے ۔۔

نائلہ نے حیرت سے نکلتے ہوئے ہیر سے پوچھا ۔

امی یہ سردار غاذان کے جنم دن کے خوشی میں آیا ہے ۔

خیام نے مسکرا کر کہا کہ اسے سردار غاذان بہت پســــــند تھا ۔۔۔


ہیــــــــــــر نے چٹائی بچھائی جو پھٹی ہوئی تھی لیکن گزارے لائق تھی اس پر کھانا رکھا کچھ کھانا خالہ ثریا کی فریج میں رکھوا دیا تھا ۔۔

کھانے کا پہلا لقمہ لیتی وہ اسے جنم دن کی مبارکباد دینا نہیں بھولی تھی ۔


---------------------------------------------------


موم بہت جلد آپکے پاس آوں گا بس یہاں کچھ کام ایسے ہیں کہ مجھے ہی دیکھنے ہیں یہاں سے فارغ ہوتے ہی پہلی فلائٹ سے آپکے پاس پھر چاہے جتنا مرضی دیکھ لیجئیے گا ۔۔

گاڑی سے نکلتا وہ ماں کو صفائیاں پیش کر رہا تھا ۔

اوکے اللہ خافظ اپنا خیال رکھئیے گا جلد ملاقات ہو گئی ان شاء اللہ ۔

دھیمے لہجے میں کہہ کر فون بند کر کے ساتھ آتے خادم کو پکڑا دیا ۔۔

سردار آج سکولز کے دوڑے پر نکلے ہوئے تھے۔

سکولز کے ہیڈ ماسٙٹر سے بات کرتا وہ چونکا تھا۔

اسکے ساتھ اسکے گاڑدز کی ایک بھاری ٹیم اور میڈیا والے تھے ۔۔

لیکن اسکے چونکنے کی وجہ گرونڈ میں ہوتی لڑکوں کی لڑائی تھی جنہوں نے کافی شور مچا رکھا تھا۔۔۔


پرنسپل نے پریشانی سے سردار کو دیکھا جو لب بھینچے اسے سخت نظروں سے دیکھتا گرونڈ کی طرف بڑھا تھا اسکے پیچھے سب ہی دوڑے تھے جہاں وہ تیز قدموں سے بڑھا تھا کہ لڑکوں کی کافی آوازیں آرہیں تھیں۔

وہاں پہنچ کر وہ غصے سے ان لڑکوں کی طرف بڑھا جو بہت سارے مل کر ایک لڑکے کو بہت بری طرح مار رہے تھے ۔۔

چھوڑو اسے ۔

اس لڑکے کو ان مشتعل لڑکوں سے پیچھے کرتا وہ پھنکارا تھا اسکے سخت درشت لہجے پر سب ہی چونک کر سردار کو دیکھتے پل میں پیچھے پیچھے ہوئے تھے سردار کا تو انہیں پتا ہی نہیں تھا ۔۔

ان لڑکوں کو سرد نظروں سے دیکھتا وہ نیچے زخمی لیٹے لڑکے کی طرف بڑھا اسے لڑکے کی طرف بڑھتا دیکھ کر سب ہی اس لٰڑکے کو اٹھانے لپکے تھے ۔

لیکن اسکے ہاتھ کے اشارے نے سب کو وہی روک دیا تھا ۔

اس لڑکے کے سر سے خون بہہ کر گردن تک آ گیا تھا اوپر والا ہونٹ سوجا ہوا تھا ۔۔

خادم پولیس کو فون کرو اور ان لڑکوں میں سے ایک بھی بھاگنا نہیں چاہئیے۔ ۔


اسکے سرد و سپاٹ لہجے پر سب کو سانپ سونگ گیا تھا جبکہ خادم سر ہلاتا ہوا تھوڑا پیچھے ہوا ۔

اپنی پانی کی بوتل وہ زبردستی اس لڑکے کے منہ سے لگا گیا تھا ۔

اس لڑکے نے بہت مشکل سے سوجے ہوئے ہونٹوں سے پانی پیا تھا ۔

پسینے سے تر چہرے سے اس لڑکے نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے نجاتِ دہندہ کو دیکھا ۔

سردار غاذان تیمور۔۔۔۔

خیام کے ہونٹ آہستہ سے اسے سامنے دیکھ کر ہلے تھے ۔

بچے آپ ٹھیک ہو ۔

اس نے اسے کھڑا کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا ۔

خیام کی آنکھوں سے آنسو کی جھڑی سی بہنے لگی تھی ۔

پھر وہ ہوا جو کسی نے ایکسیپٹ نہِیں کیا تھا سب نے ساکت نظروں سے اس لڑکے کو سردار کے گلے لگا دیکھا تھا وہ لڑکا بے ساختہ اسکے گلے لگ چکا تھا اسکی گردن سے بہتا خون سردار کی نئی سفید شفاف شرٹ کو داغدار کر گیا تھا ۔

ائے لڑکے پیچھے ہٹو ۔

ایک آدمی نے غصے سے اس لڑکے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تھا لیکن سردار نے اسے سخت نظروں سے دیکھ کر پھر اس کم سن لڑکے کو دیکھا پھر آہستہ سے اسے خود سے الگ کیا دھڑ دھڑ سردار کی پکچرز کھینچی جا رہی تھی ۔ ۔


تب تک ڈاکٹر بھی آچکا تھا اس نے اپنی نگرانی میں خیام کی مرہم پٹی کروائی تھی ۔

ان لوگوں نے کیوں مارا تمہیں ۔۔

ایک رپوڑٹر لڑکے نے اس سے پوچھا ۔

خیام نے ریپورٹر کو دیکھنے کی بجائے سردار غاذان کو دیکھا۔

اس نے نرمی سے اسے بتانے کا شارا کیا ۔

مجھے یہاں داخلہ لیے ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے پہلے میں دوسرے سکول میں تھا پھر میری آپی نے مجھے یہاں ایڈمٹ کروا دیا میں جب سے یہاں آیا ہوں یہ لڑکے مجھے غریب بے چارا کر کے چھڑتے ہیں کبھی میری نوٹ بک پھاڑ دیتے ہیں تو کبھی میرا بیگ پانی میں پھینک دیتے ہیں میں نے بہت بار انتظامیاں سے شکایت بھی کی لیکن کسی نے ان کے خالف سٹینڈ نہیں لیا کیونکہ یہ سب امیر گھرانوں سے ہیں اور میں غریب گھرانے سے اس معاشرے میں غریب کی نہیں امیر کی سنی جاتی ہے اس لیے میری بھی کسی نے نہیں سنی۔۔

وہ کہتے ہوئے ایک سیکنڈ کے لیے چپ ہوا۔ ۔۔

آج ہمارا پیپر ہو رہا تھا تو یہ سب بک کھولے وہاں سے دیکھ دیکھ کر لکھ رہے تھے مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوا میں پانی پینے کے بہانے پرنسپل کو بلا لایا انہوں نے نگران ٹیچر کو سختی سے ڈانتا اور ان لڑکوں کے پیپرز چھین لیئے یہ اسی بات پر مجھے پیٹ رہے ہیں ۔۔

اس نے آنکھوں میں آئی نمی پیچھے دھکیلتے ہوِے صرف سردار کو دیکھتے ہوئے بتایا باقی وہ کسی کو نہیں دیکھ رہا تھا وہ بتا بھی سردار کو رہا تھا ۔۔۔


غاذان سنجیدگی سے ان لڑکوں کی طرف مڑا جو ہاتھ پشت پر باندھے سر جھکائے کھڑٙے تھے ان لڑکوں کے پیچھے اسکے گاڑدز تھے ورنہ انہوں نے بھاگ جانا تھا اب تک ۔


اس لڑکے کو مارنے کا کیا حق بنتا تھا تم لوگوں کا ۔

اسکے درشت لہجے پر سب کانپ کر رہ گئے ۔۔

اگر وہ جان سے چلا جاتا تو کون زمہ دار ہوتا یہ اداراہ یا یہاں کے نگران جو ائے سی والے کمروں میں بیٹھے کر چائے نوش فرما رہے ہیں یا پھر تمہارے والدین بولو جواب دو کس نے حق دیا یوں کسی پر تشدد کرنے کا ۔۔

انسپکٹر اریسٹ ہم جب تک میں نا کہوں انہیں چھوڑنا مت یہ میرا آرڈر ہے اور یہاں کی انتظامیاں کو بھی ابھی فارغ کرو مجھے میری ریاست میں ایسے لوگ نہیں چاہئیے ڈیٹس مائے آرڈر ۔۔۔

انتہائی سرد لہجے میں کہتا وہ پلٹا تھا ساتھ ساتھ اسکے گارڈز اور میڈیا والے بھی تھے۔ ۔

وہ کسی کے معافی ترلے سننے نہیں رکا تھا ۔

پھر وہ پلٹا اس نے خیام کو اشار ا کیا تھا ۔

خیام پیر گھسیٹ کر اس تک آیا ۔

یہ میرا کارڈ رکھو مجھ سے تین چار دن میں ملنا ابھی دو تین دن میں فارغ نہیں ہوں یہ میر پرسنل نمبر ہے اوکے ۔


اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر شفقت سے کہتا وہ وہاں سے تیزی سے نکل گیا ۔۔

خیام نے مسکرا کر سنہری بلیک کارڈ کو دیکھا جس پر اسکا نام اور نمبر درج تھا۔

اسے ایسے ہی تو نہیں پہلی نظر میں اپنا نیا سردار اچھا لگا تھا وہ سب سے مختلف اور خاص تھا ، یہاں کے لوگوں سے مختلف ۔


خیام نے مسکرا کر ان لڑکوں کو دیکھا جو پولیس کے ساتھ جاتے اسے وارننگ دیتی نظروں سے دیکھ رہے تھے جبکہ وہ سر جھٹکتا ہوا نیچے گرا اپنا بیگ اٹھانے کے لیے بڑھا ابھی اسے بہت سا چل کر گھر بھی تو جانا تھا ۔۔۔

________________________________


ہیر اور نائلہ کے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے خیام کو زخمی دیکھ کر جب کہ وہ بخار سے تپتا انہیں تسلی دے رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہے ۔

خیام اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ہم دونوں جیتے جی مر جاتیں ہمارا کون ہے تمہارے سوا ہم تو تمہارے سہارے زندگی جی رہے ہیں ۔۔

ہیــــــــــــر اسکے سر پر چہرہ رکھے روتے ہوئے درد بھرے لہجے میں بول رہی تھی ۔

خیام نے ماں اور بہن کو تکلیف سے دیکھا ۔

آپی ، امی میں بالکل ٹھیک ہوں یہ ہلکی ہلکی چوٹیں مجھے کوئی تکلیف نہیں دے رہیں ۔

اس نے نائلہ اور ہیـــــــــر کو دیکھتے ہوئے جیسے انہیں یقین دلانا چاہا ۔

نائلہ کو بھی بخار چڑ چکا تھا بیٹے کو یوں دیکھ کر اسکی چارپائی پر بیٹھیں وہ روئے چلی جا رہیں تھیں انکا رونا ہیـــــــــر اور خیام کو بہت تکلیف دے رہا تھا ۔


خدا کرِے تمہِیں گرم ہوا بھی نا چھو کر گزرے خیام تم ہماری آنکھوں کی تھنڈک دل کا سکون ہو تم نہیں جانتے تمہیں زخمی دیکھ کر ہمارے دلوں میں کیا بیت رہی ہے یہ ہم ہی جانتی ہیں یا ہمارا رب اللہ تمہارے حصے کی ساری تکلیفیں تمہاری بہن کی جھولی میں ڈال دے ۔۔

شوں شوں کرتی وہ اسکا سر چومتی روتے لہجے میں بولی تھی کہ خیام نے بے ساختہ کہا تھا ۔۔

اللہ نا کرئے آپی میں اپکو اور امی کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔

ماں بہن کو دیکھتا دل میں ہی وہ بولا تھا ۔۔

___________


نائلہ کو سخت بخار چڑ چکا تھا جسکی وجہ سے وہ کپڑے سلائی نہیں کر سکیں تھی ،

گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں بچی تھی خیام بھی چارپائی پر تھا مختیار چچا کے پاس جاتے اسے شرم آتی تھی کہ پہلے ہی انکا بہت ادھار چڑ چکا تھا اس پر ۔۔


خیام اور امی کو دوا دے کر وہ گھر سے نکل چکی تھی ، کہ شام کے کھانے کا کوئی سامان نہیں تھا گھر پر ۔

مختیار چچا کی بجائے دکان پر عرفان کو دیکھ کر وہ دروازے پر ہی رک گئی ۔

آجاو ہیــــــــر بی بی تم تو اب دیکھتی بھی ہی نہیں ہو۔

عرفان اسےدیکھتا چیئر سے اٹھ کر مسکراتے ہوئے بولا ۔

ہیر نے کالی چادر کو ماتھے تک کھینچا اور انہی قدموں سے وہاں سے چلی گئی جبکہ عرفان پیچھے سے آوازیں دیتا رہ گیا۔ ۔۔


سڑک کے کنارے سر جھکائے وہ چلتی جا رہی تھی۔

دل میں بہت غبار جمع ہو چکا تھا وہ

کسی سنسان جگہ پر بہت سا رونا چاہتی تھی ۔۔

ہیـــــــــررضا ۔۔۔

پولیس وین سے نکلتے آدمی کو دیکھ کر وہ ڈر کر اچھلتی تین چار قدم پیچھے ہوئی تھی۔

ڈر گئی مجھے دیکھ کر اتنا ڈرونا چہرہ ہے کیا میرا؟

اسکے قریب آتا وہ مسکرا کر بولا تھا ۔

ہیر کی جان ہوا ہوئی تھی اسے یوں سڑک پر اپنے سامنے دیکھ کر وہ تو اسے بھول چکی تھی ۔۔

ادھر آ کر کر میری بات سنو ۔

اسکے پسینے سے بھیگے چہرے کو دیکھتا رانا سنجیدگی سے بولا ۔

آپکو کیا بات کرنی ہے مجھ سے ۔

نظریں زمین پر جمائے وہ دھیمے لہجے میں بولی ۔

اسید رانا سے جان چھڑانا آسان نہیں ہیــــــــــر رضا ادھر آ کر بات سنو ورنہ تمہارے کیس کی فائل ابھی بھی میرے دراز میں پڑی ہے چاہوں تو ابھی تمہیں گرفتار کر لوں کوئی روکنے والا نہیں ہو گا مجھے ۔۔

کمینگی مسکان سے اسکے بد حواس چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا ۔

بیٹھو ۔۔

سامنے پڑے بینچ کی طرف اشارا کرتا وہ بولا ۔

ہیر ہونٹ بھینچے خالی پڑے بینچ پر بیٹھ گئی پورا وجود کسی پتے کی طرح کانپ رہا تھا ۔۔

ایک پیر بینچ پر رکھتا وہ جھکا ۔۔

تم جانتی ہو نا تم نشہ بھیجتی پکڑی گئی تھی لیکن میں نے تمہیں آزاد کر دیا کیونکہ مجھے تم سے ایک کام تھا لیکن اگر تم نے میرا وہ کام نا کیا یا انکار کیا تو بیس سال کے لیے جیل میں ڈالوں گا اور تمہارے بھائی اور ماں کو بھی جیل میں ڈال دوں گا چچچ ہیر پھر کیا ہو گا۔

ہنوز جھکے وہ بڑے ڈرامائی لہجے مِیں اسکا دماغ ٹریپ کر رہا تھا۔


ہیر کا رنگ ایک دم سے سیاہ پڑا تھا ہونٹ نیم وا کیے پھیلی آنکھوں سے وہ اسے دیکھے گئی۔

تم ایسا نہیں چاہتی ۔

اس نے مسکرا کر پوچھا ۔

ہیـــــــــر نے میکانکی انداز میں سر نفی میں ہلایا تھا ۔

وہ مسکرایا کہ یہ لڑکی حد سے زیادہ معصوم تھی جیسی لڑکی اسے چاہئیے تھی اسے مل چکی تھی وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی لیکن کام چل سکتا تھا ۔۔۔


کھانا اور بہت سارے پیسے چاہئیے نا تمہیں اور اپنی ماں کا علاج بھی تو کروانا ہے تمہیں ۔۔۔۔

اس نے ہیر کے نڈھال چہرے کو دیکھتے ہوئے پراسراریت سے پوچھا۔

ضبط کے گھونٹ بھرتی وہ فقط سر ہلا گئی تھی ۔

تو جو میں کہتا ہوں وہ کرو یہ فائل پکڑو اور اس میں موجود مواد کو اچھے سے پڑھ لو لیکن یاد رکھنا اگر تم نے انکار کیا تو تم جیل میں جاو گئی اور تمہاری ماں صدمے سے مر جائے گئی وہ بھی بھوکھی پیاسی اور تمہارا چھوٹا سا بھائی اسکا کیا ہو گا ،انکی موت کی زمے دار ہو گئی ہــــــــــــیر رضا ۔۔

وہ عجیب سے لہجے میں بولا تھا ۔

جس پر اس نڈھال لڑکی کا دل خوف سے لرزا تھا۔

جاو اب اور شادی کی تیاری کرو ۔

وہ پھر سے عجیب سے لہجے میں بولا تھا ۔

شادی !

اسکے لرزتے اور خوف زدہ لہجے پر وہ مکرو قہقہ لگاتے ہوئے اٹھا تھا۔

اس فائل میں ایک شخص کی تصویر ہے اسے دیکھ لو اور اسکے بارے میں جان لو کیونکہ آج سے دس دن بعد اس سےتمہاری شادی ہو گئی ۔

رانا کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا ۔

وہ ساکت بیٹھی اپنی کالی چادر کو مٹھیوں میں بھینچ کر رہ گئی ۔

یہ وہ کیا کہہ گیا تھا ۔

وہ کانپتے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے وہاں سے بھاگی تھی ۔۔۔

لیکن کیا وہ اس سے بھاگ سکتی جس کے چنگل میں وہ بری طرح پھنس چکی تھی۔

___________________________________


سردار اور شائنہ آج لنچ پر آئے ہوئے تھے ۔۔

شائنہ بلیک سوٹ اوپر بلیک ہی دوپٹہ جس کے باڈرز پر شیشوں کا کام تھا اوڑھے بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی ۔

قاتل نگاہیں سامنے بیٹھے دلربا شخص کو دیکھ کر مسکرا رہیں تھیں ۔

وہ بلیک شرٹ براون پینٹ میں ملبوس فون میں کچھ تیز سے ٹائپ کر رہا تھا ۔

سردار غاذان میرا خیال ہے ہم ڈینر پر آئے ہیں ۔

شائنہ نے مینیو کارڈ دیکھتے ہوئے اسے متوجہ وجہ کیا۔

ایک ضروری امیل ریڈ کر رہا ہوں آئی نو ڈینر پر ہیں ہم ۔۔

اس نے مصروف سے انداز میں اس کے سوال کے جواب میں کہا۔

گارڈز ایک طرف ہو کر کھڑے تھے ۔

سردار آپ کیا کھائیں گئے ۔۔؟


شائنہ نے ویٹر کو اپنی ڈشز نوٹ کروا کر اس سے پوچھا ۔

اونلی بلیک کافی ۔۔

ہنوز نوبائیل میں انگلی چلاتے وہ بولا تھا ۔

شائنہ خانم نے ہونٹ بھینچ کر اسے دیکھا ۔

جس کے سلکی بال ماتھے پر بکھڑے اسے اور وجیہہ بنا رہے تھے ۔۔

سردار آپ میرے ساتھ لنچ پر آئے تھے ناکہ کافی پـــــــــر۔۔۔۔

دوپہر کو اونلی کافی لیتا ہوں میں ڈیئر ۔۔

موبائل پاکٹ میں رکھتا وہ ہلکی مسکان سے بولا ۔

شائنہ بھی مسکرائی ۔

سردار آپکو ڈائٹنگ کی ضرورت نہیں ہے ۔

وہ اسکے کسرتی وجود کو دیکھتی بے باکی سے بولی ۔

جبکہ وہ اسے ایک نظر دیکھ کر ویٹر کے ہاتھ سے کافی کا بڑا سا مگ اٹھا گیا ۔۔


سارا ٹائم شائنہ ہی باتیں کرتی رہی اور وہ سر ہلا کر سنتا رہا دھیان اپنی ماں کی طرف تھا جنہیں ہلکا سا موسمی بخار تھا اسے فبیہا نے بتایا تھا تب سے اسکا دھیان کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا دل کر رہا تھا سب چیزوں کو بھاڑ میں جھونک کر خود اوڑ کر ماں کے پاس چلا جائے۔ ۔۔


دس دن کام کآ شیڈول کافی سخت تھا گیارویں دن وہ اپنی ماں کے پاس ہو گا دل کو تسلی دے کر وہ کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر کر دلکشی سے مسکرایا کیونکہ اسے اپنی ماں کی کوئی بات یاد آ گئی تھی۔ ۔

اسکے مسکرانے پر شائنہ بھی بھرپور مسکان سے ہنسی اسے لگا وہ اسکے جوک پر ہنسا ہے ۔

______________________________


ہیـــــــــــــــــر نے ڈر سے رانا کی دی ہوئی تصویر راستے میں ہی کہی پھینک دی تھی۔

وہ ایسے کیسے کر سکتا تھا اسکے ساتھ ۔۔

شادی جیسا لفظ اسے اپنی زندگی میں نہیں چاہئیے تھا کہ اس کے کندھوں پر بہت سی زمے داریاں تھیں انہی سوچوں میں تھی جب خیام کے چلانے کی آواز پر وہ بھاگ کر نیچے آئی جہاں نائلہ بیگم سینے پر ہاتھ رکھے جیسے اپنی آخری سانسوں میں ہو ۔

خیام امی کو کیا ہوا ہے۔

چلا کر وہ نائلہ بیگم کو تھام گئی تھی ۔

پتا نہیں امی کو اچانک سے درد ہونا شروع ہو گیا ہے۔

خیام نے روتے ہوئے اسے بتایا ۔

خیام جاو رکشہ لے کر آو امی کو ہسپٹل لے کر جانا ہو گا ۔

ہیــــــــــر کے چلانے پر خیام اٹھا تھا جب نائلہ نے کراہتے ہوئے اسکا ہاتھ تھاما ۔۔

ہیـــــــــر اپنے بھائی کا خیال رکھنا اور خیام اپنی آپی کو کبھی مت چھوڑنا چاہے حالات کیسے بھی ہوں ہیر کو اکیلا نا چھوڑنا اسکا سہارا بننا تم دونوں ایک دوسرے کا سہارا ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔

نکی سانسیں اکھڑنے لگی تھی

آپی! امی نے یہ اچانک آنکھِیں کیوں بند کر لیں ہیں۔۔

خیام نے ساکت بیٹھی بہن کو ہلایا ۔

بنا کچھ بولے وہ نائلہ پر نظریں جمائے ساکت سی بیٹھی رہی تھی۔

خیام نے پریشانی سے ہیـــــــــر اور نائلہ کے ساکت وجود کو دیکھا۔

آپی امی کو دیکھیں یہ آنکھیں بند کر گئیں ہیں میں ڈاکٹر وسیم کو بلا لاوں ۔۔

وہ کھڑا ہوتا جیسے خود سے بولتا دروازے کی جانب بھاگا تھا ۔

ہیـــــــر نائلہ پر نظریں جمائے بیٹھی رہ گئی سر سے چادر کھسک کر کندھوں پر آ چکی تھی ۔

آنکھوں میں سے آنسو بن پار کر کے گالوں پر بہنے لگے تھے ۔


تب ہی ماسی ریشیداں ہاتھ میں سبزی کا شاپر پکڑے اندر چلی آئیں ۔

نی ہیــــــــر یہ نائلہ نوں کی ہویا ائ۔ ۔

ماسی رشیداں شاپر وہی تخت ہر رکھتی بھاگ کر ہیـــــــــــــر کے پاس آئیں ۔

نائلہ کا سر ہیــــــر کی گود میں تھا ، ہیـــــــر ماں پر نظرِں جمائیں انہیں دیکھتی جا رہی تھی ۔

رشیداں نے کسی انہونی کے احساس سے نائلہ کی نبض ٹٹولی جو کافی دیر پہلے سے رک چکی تھی ۔

نی نائلہ اتنی جلدی کیا پڑ گئی تجھے جانے کی ایس کڑی دا کیہڑا تھاں سی تیرے علاوہ۔ ۔۔

ماسی ریشیداں ہاتھ ملتی دہائی دینے لگی تھی انکی آواز پر سارا محلہ انکے گھر جمع ہونے لگا تھا ۔

پیچھے ہٹیں آپ لوگ اسطرح کیوں رو رہے ہیں میری امی ٹھیک ہیں ڈاکٹر آپ چیک کریں انہیں، یہ شاید بے ہوش ہو گئی ہیں۔ ۔

خیام اتنی بھیڑ کو اپنے گھر جمع دیکھ کر مشتعل ہوتا چلایا تھا ۔۔

نائلہ کو چارپائی پر لیٹا دیا گیا تھا اوپر سفید چادر ڈال دی گئی تھی یہ سب محلے والوں نے کیا تھا ورنہ ہیــــر تو چپ چاپ سی تھی جیسے جسم میں جان ہی نا ہو ۔۔

محلے والوں نے اسے کتنی بار کہاں ماں کو رولو لیکن وہ ہلی تک نہیں ۔۔

اصلی ماں تب فوت ہو گئی تھی جب وہ چھوٹی سی تھی اس نے تو ماں کے روپ میں نائلہ کو ہی دیکھا تھا ماں کی چھایا اسے نائلہ نے ہی تو دی تھی خیام سے بھر کر اسے پیار دیا وہ کیسے یقین کرتی اسکی ماں چلی گئی ہے ابھی صبح ہی تو انہوں نے روٹیاں بنائی تھیں اپنے ہاتھوں سے خیام اور ہیـــــر کو کھلائیں یہ آخری نوالے شاید وہ خود اپنے بچوں کے منہ میں ًڈالنا چاہتیں تھیں۔۔


خیام کے رونے پر باقی لوگ بھی ان دونوں کے دکھوں پر رو پڑے تھے ۔

ہیــــر کے گلے لگا وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔

اسکے گلے لگتے ہی ہیر کے سکات وجود میں جیسے جان آ گئی ہو۔

نہِیں وہ اکیلی تو نہیں تھی اسکا بھائی تھا جو اسے جان سے پیارا تھا اسکا سہارا اسکے سر کی چادر ابھی سلامت تھی وہ اکیلی تو نہیں تھی ۔

آنکھیں چھم چھم برسنا شروع ہو گئی تھی ۔

پھر وہ اتنا روئی کہ سب سے سنبھالنا مشکل ہو گیا چیخیں مار مار کر روتی وہ کوئی پاگل ہی لگی تھی ۔

خیام نے بڑی مشکل سے اسے باانہوں میں لیا جو قابو میں نہیں آرہی تھی پھر ماسی رشیداں نے ہی اسے سمجھا بجھا کر چپ کروایا ۔

تدفین ک انتظام محلے والوں نے کرنا چاہا لیکن اس نے منع کر دیا اندر سے تین ہزار لے کر اس نے چچا مختیار کو کفن وغیرہ کے لیے دئیے کہ وہ اپنی ماں کو لوگوں کا رحم کھا کر دیا کفن نہیں پہنانا چاہتی تھی یہ تین ہزار بھی س نے ادھار لیے تھے محلے کی انٹی رفیعہ سے جو کمیٹی وغیرہ ڈالتی تھی اور جسکو کہی سے پیسے نا ملتے اسے انٹی رفیعہ دے دیتی کہ وہ رحم دل خاتون تھیں۔ ۔


نائلہ کو ان سے بچھڑے دو دن ہو چکے تھے وہ دونوں بہن بھائی چٹائی پر بیٹھے رہتے نا کچھ کھاتے نا پیتے بس غیر مری نقطے پر نظریں جمائے بیٹھے رہتے ۔

خیام کا خوبصورت چہرہ کملا کر رہ گیا تھا ۔۔۔

نائلہ کا قل کا ختم بھی ہو گیا لیکن ان بہن بھائی میں زندگی کی کوئی رمق نہیں دیکھتی تھی ماسی رشیداں کے سمجھانے پر وہ انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہتی۔

ہیـــــــــــر کی ہن خیام نوں وی گوانا چاہنی ائے ۔

انہوں نے تلخی سے پنجابی میں ہوچھا۔

جس پر اس نے ہول کر ماسی کو دیکھا ۔

ارے اس پر توجہ دو ایسے تو وہ کبھی زندگی کی طرف نہیں آئے گا تم بڑی ہو تمہیں ہی اسے سنبھالنا ہو گا ورنہ ایک دن اسے بھی کھو بیٹھو گئی پھر روتی رہنا ۔۔۔۔


ماسی ریشیداں تلخی سے کہہ کر چلی گئیں ۔۔۔

ہیر نے کانپتے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا ۔

اللہ نا کرئے میں اپنے بھائی کو کھوں ماسی ریشیداں آپ بولنے سے پہلے سوچ سمجھ تو لیا کریں ۔۔

وہ چلائی لیکن ماسی ریشیداں تو وہاں سے کب کی چلی گئیں تھیں۔ ۔

سرعت سے کھڑی ہوتی وہ سیڑیوں کی طرف بڑھی بڑی سے کالی چادر جو گندی ہو چکی تھے ملگجھے سے کپڑے جن پر اتنی سلوٹیں پڑ چکیں تھِیں کہ قمیض شارٹ لگنے لگی تھی بال سارے چوٹی سے آذاد ہو کر کندھوں پر اور منہ پر رہتے لیکن اسے ہوش ہی نہیں تھا کسی چیز کا تو وہ کپڑے بال کیسے سنوارتی ۔۔

خیام۔ ۔

چھت پر پڑی چارپائی پر وہ چٹ لیٹا ہوا تھا آنکھوں میں اداسی تھی ،

آنکھوں کے گرد سیاہ خلقے پڑ گئے جیسے وی کتنوں دنوں سے سویا ہی نا ہو ۔۔


خیام ۔۔

دکھتے دل سے اپنے بھائی کی حالت دیکھتی اس بار اس نے زرا اونچی آواز میں اسکا نام پکارا۔ ۔

خیام نے چونک کر اپنے سراہنے کھڑی آپی کو دیکھا۔

آپی ۔

وہ بیٹھتا ہوا حیرت سے بولا کہ آج کتنے دبوں بعد وہ خود سے بولی تھی۔


نہا لو میں تب تک تمہارے کپڑے نکالتی ہوں ۔۔

اسکے الجھے بالوں میں انگلی سے کنگھی کرتی وہ محبت سے بولی ۔

آپی آپ ٹھیک ہو ۔

ہیـــــر کا ہاتھ تھامتا وہ کم سن لڑکا فکرمندی سے بولا تھا ۔

میں ٹھیک ہوں خیام تم پریشان نا ہو نہا کر فریش ہو جاو تو اپنی کتابیں کھولو میں تب تک تمہارے لیے تمہاری پسند کا کھانا بناتی ہوں ۔۔

اسکا سر چومتی وہ اتنے دنوں بعد مسکرا کر بولی ۔

خیام بھی مسکرایا ۔

ہیـــــر خوش تو اسکا بھائی خوش ۔۔

اس نے بھی بہن کے سر پر ہونٹ رکھ کر دل میں سوچا۔۔

ہیــــــــر پھر سے مسکرائی ۔

جاو نہالو میں کپڑے نکالتی ہوں تمہارے۔

اسے زبردستی اٹھاتی ہوئی وہ بولی ۔


سامنے چھت پر کھڑی نازیہ نے قہر سے دونوں کو دیکھا ۔

____________


بھلا یہ کیا بے شرمی پھلا رکھی ہے

دونوں نے وہ اسکا سر چومتی ہے تو وہ اسکا ارے سگے بہن بھائی تو نہیں ہیں نا دونوں جوان ہیں اور کھلم کھلا ایک دوسرے کے گلے لگتے ہیں آپ بات کریں محلے کی بڑے بزرگوں سے آخر کو ہماری ؑبھی بچیاں ہیں کیا سوچیں گئیں وہ ان دونوں کو ایسی حرکتیں کرتے دیکھ کر۔ ۔


ُنازیہ نے اپنے شوہر کو کھانا دیتے ہوئے غصے سے کہا اسکا تو کام ہی یہی تھا لائی بجھائی کرنا اور اپنے جیسا کسی کو نا سمجھنا۔ ۔

________________________________


سفید شفاف سوٹ پہنے سفید ہی موتیوں والی چادر سر پر لیے وہ لڑکی اسے دیکھ کر مسکرائی تھی جب وہ مسکرائی تو اسکی آنکھیں بھی مسکرا اٹھی تھِیں ہونٹ اور ناک تو سفید چادر کے پیچھے چھپے ہوئے تھے بس آنکھیں تھیں جو واضع تھیں ۔۔

(آپ کہاں ہیں )

وہ لڑکی اسے دیکھتی مسکرا کر پوچھ رہی تھی ۔

میں تمہارے سامنے ہی تو ہوں ۔

وہ حیرت سے بولا تھا ۔

لیکن آپ مجھے دیکھتے کیوں نہیں ہیں۔


وہ لڑکی پریشانی سے پوچھ رہی تھی جس پر وہ بھی پریشان ہوا تھا ۔۔۔

ایک دم سے اسکی آنکھیں کھلیں تھیں چہرہ ائے سی والے کمرے میں بھی پسینے سے تر ہو چکا تھا ۔

آخر یہ لڑکی کون ہے ؟اور یہ کیوں اس طرح میرے خوابوں میں چلی آتی ہے !

چہرے سے پسینا صاف کرتا وہ بے تاثر لہجے میں بڑبڑایا تھا ۔۔

کچھ دیر ایسے ہی بیٹھا رہا پھر وہ اٹھ کر باہر واک کے لیے نکل گیا ۔

سردار میں بھی آپکے ساتھ چلوں ۔

مہرینہ نے اسکے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اشتیاق سے پوچھا ۔

نو !

پاکٹ میں ہاتھ ڈالے وہ سرد لہجے میں بولا تھا۔

جس پر مہرینہ نے ہونٹ بسورے ۔

سردار پلیزززز لے جائیں نا ،مجھے بڑا شوق ہے رات کو واک پر جانے کا ۔

اسکے سامنے آتی وہ لاڈ سے بولی۔

اوکے لیکن تنگ مت کرنا ۔


سرد لہجے میں بولتا وہ تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا مہرینہ بھی فل مسکان ہونٹوں پر لاتی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔۔

________________________________********"""""****""""""******"""""*****

خیام کے سکول جانے کے بعد وہ برتن کچن میں رکھنے کے لیے دھونے لگی تھی جب دروازہ کھٹکھایا گیا تھا ۔

نائلہ کو بچھڑے آج دس دن ہو چکے تھے انکی کمی تو پوری نہیں ہو سکتی تھی لیکن جینا تو تھا ہی اور جینے کے لیے سارے کام کرنے پڑتے ہیں چاہے دل کرئے یا نا کرئے۔ ۔


ہ دوپٹے سے ہاتھ صاف کر کے اس نے دروازہ کھولا ۔

وہ حیرانی سے اپنے محلے کے بڑے آدمیوں اور تین چار عورتیں کو دیکھنے لگی ۔

خیریت آپ سب لوگ ایسے ۔۔

وہ انہِیں حیرت سے دیکھتی بس یہی پوچھ سکی ۔

خیریت نہیں ہے ہیــــــــر بی بی ۔

نازیہ بیگم نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

جس پر ہیــــــــــر نے پریشانی سےا نہیں دیکھا ۔

تم چپ رہو نوید بھائی آپ بات کریں ۔


نازیہ کا شوہر اسے ڈانٹ کر چپ کرواتا درمیانی عمر کے نوید سے بولا جو اس محلے میں سب سے زیادہ پیسے والا تھا خقیقی بات ہے جسکے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہو وہی معتبر اور عزت دار ہوتا ہے

۔

بات یہ ہے کہ پہلے تم اپنی چاچی کے ساتھ رہتی تھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا ظاہر ہے وہ تمہاری چاچی تھی تم انکے ساتھ رہ سکتی تھی لیکن اب جبکہ تمہاری چاچی بھی فوت ہو چکیں ہیں اور خیام تمہارا سگا بھائی نہیں ہے تو تم دونوں ساتھ نہیں رہ سکتے وہ تمہارا محرم نہیں ہے ہیــــــــــر ۔۔


نوید کی بجائے سجاد صاحب بولے تھے جو تقریباً پچاس سال کے ہوں گِے ۔۔

ہیــــــــــر پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھتی جا رہی تھی یہ سب کیا کہہ رہے تھے خیام تو اسکا بھائی تھا وہ دونوں تو بہن بھائی ہی تھے پھر یہ سب کیا کہہ رہے تھے۔

وہ میرا بھائی ہے سگا سوتیلا میں نہیں جانتی میں بس اتنا جانتی ہوں خیام اس دنیا میں میرا اکلوتا سگا رشتہ ہے ۔۔


بھرائے ہوئے لہجے میں بولتی آخر میں وہ قطیعت سے بولی تھی۔ ۔۔۔۔

نازیہ سمیت سب نے اسے گھورا ۔

نا جی نا ہماری جوان بچیاں ہیں تمہِیں اسکے ساتھ رہنا ہے تو اسکے ساتھ نکاح کر لو ورنہ ہم یہاں بے حیائی نہیں پھیلنے دیں گئے آخر کو اکیلی عورت اور مرد میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ ۔

نازیہ نے کہتے ہوِئے غصے سے سر جھٹکا ،

ہیــــــــر کا دل زور سے پھٹا تھا یہ آخر وہ کیا کہہ گئیں تھیں کیا انہیں شرم نہیں آئی تھی ۔۔

ابھی اسی وقت یہاں سے چلے جائیں میں اپنے گھر میں رہتی ہوں آپ لوگوں کے گھر پر نہیں جو آپ سب کی بیہودہ باتیں مانوں گئی میں بھوکی رہوں ننگی رہوں کبھی آپ لوگوں نے خبر نہیں لی خلانکہ اوپر اللہ کی عدالت میں سب سے پہلے ایک پڑوسی کے خقوق کا حساب ہو گا کبھی خبر لی ہماری ،

اور آج آپ لوگ ایک نیا فتویٰ ہم پر لے کر دوڑے چلے آئے وہ میرا بھائی ہے اور میں اسکی نخبہن بس بات ختم آئندہ برائے مہربانی میرے گھر مت آئیے گا ۔۔

سپاٹ لہجے میں کہہ کر اس نے ٹھک سے دروازہ بند کیا تھا ۔

باہر وہ لوگ اونچی آواز میں اسے بُرا بھلہ کہتےچلے گئے۔ ۔

آنسو صاف کر کے وہ نائلہ کے کمرے میں چلی آئی انکی چارپائی پر بیٹھ کر وہ زورو قطار رونے لگی تھی ۔۔

اونچی آواز میں روتی وہ اللہ سے گلے شکوے کرنے لگی تھی ۔


شکر ہے خیام گھر پر نہیں تھا ورنہ اسکے معصوم زہن پر کیا اثر پڑتا ان باتوں ۔۔

نائلہ کی پائنتی پر سر رکھے وہ آنکھیں موند گئیں تھی ۔۔

_____________________________


کیا کروں کہاں جاوں کس سے مدد مانگوں ۔۔

چارپائی پر نیم دراز وہ پریشانی سے سوچ رہی تھی ،

خیام دوسری چارپائی پر اوندھے منہ سو رہا تھا ۔۔

اسے دیکھ کر وہ مسکرائی ۔۔

خیام تمہارے لیے تمہاری آپی کو کچھ بھی کرنا پڑا تو کرئے گئی صبح تمہاری فیس ضرور جمع کرواوں گئی وہ نہیں نکالیں گئے تمہِن ۔

اسکے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیرتی وہ دھیمے قدموں سے چلتی باہر نکل گئی ،


گلیاں سنسان و ویران تھی کہ گاوں کے لوگ عموماً جلدی سو جاتے ہیں ۔۔


تنگ گلی سے گزرتی وہ کلمہ طیب کا ورد کرنے لگی تھی کہی سے کتوں کی بھوکنے کی آوازیں اسکے ڈر میں اضافہ کر رہیں تھیں۔ ۔۔

کسی کسی گھر کے دیوار پر لگا زرد بلب تاریک رات کو کسی حد تک کم کر دیتا تھا لیکن وہاں چھایا سناٹا اسکے دل کو ڈرا رہا تھا ۔

تنگ گلی سے وہ کھلی سڑک پر آ چکی تھی ۔۔

اپنے دھیان میں گزرتی وہ ٹھٹھکی تھی سامنے چوڑے درخت کے نیچے تین چار لڑکے بیٹھے ہوئے تھے جو شاید نشے آور کوئی شے بنا رہے تھے ۔

ہیــــــــــر انکے قریب سے تیزی سے گزری جبکہ وہ لڑکے کام ترک کیے اس لڑکی کو مسکراتی نظروں سے دیکھنے لگے ۔

وہ تینوں ہی ایک دوسرے کو اشارا کرتے اس لڑکی کے پیچھے دوڑے تھے ۔

انہیں اپنے پیچھے دوڑتے دیکھ کر وہ بھی بھاگنے لگی تھی زرد چہرے پر خوف سے پسینے کے قطرے چمکنے لگے تھے ۔۔

ائے رک زرا ۔۔

ایک لڑکے نے اسکی سفید چادر کو کھینچتے ہوئے آواز لگائی ۔

وہ کمزور لڑکی زیادہ بھاگ نہیں سکتی تھی اس لیے انہوں نے اسے ایک ہی جست میں قابو کر لیا تھا ۔

وہ تینوں اسکے ارد گرد پھیل گئے تھے ۔

اسکے ارد گرد پھیلے وہ اسکے فرار کی ساری راہِیں بند کر چکے تھے ۔

انہیں پھیلی آنکھوں سے دیکھتی وہ پریشان ہو گئی۔

دیکھیں مجھے جانے دیں میرے پاس تو کوئی پیسے نہیں کوئی زیور نہیں مجھے جانے دیں پلیزززز،

انکے آگے ہاتھ جوڑے وہ روتے ہوئے بولی تھی۔

وہ تینوں اسے دیکھتے قہقہ لگا گئے۔

پیسے نہیں توں چاہئیے نا سمجھ لڑکی ۔۔

ان میں سے ایک اسکی سفید شفاف چادر

کھینچ کر مکرو لہجے میں بولا ۔۔

ہیر کے آنسو آنکھوں میں ہی ٹھٹھرا گئے ۔۔

وہ سرعت سے چادر پکڑنے نیچے جھکی جب ایک نے پیچھے سے اسے ٹھڈا مارا تھا وہ آیک جھٹکے سے سڑک پر گری تھی ہاتھوں پر نوکیلے چھوٹے چھوٹے کنکر بہت زور سے چبے تھے۔

اس نے پلٹ کر بھرائی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔ ۔

دوسرے لڑکے نے اسکی کلائی کو ہاتھ میں جھکڑ کر اٹھایا تھا۔

وہ بت بنی انہیں دیکھتی رہی بنا کوئی مزاحمت کیے ۔۔

آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے تھے ۔

تیسرے لڑکے نے قہقہ لگاتے ہوئے اسکی گردن کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا اپنے طرف بڑھتے ہاتھ کو دیکھتی وہ فقط سر نفی میں ہلانے لگی کہ بولنے سمجھنے کی سکت اس میں ختم ہو چکی تھی وہ چھوٹی سی لڑکی تھک چکی تھی دنیا کے ستم سہہ سہہ کر۔۔۔


گردن کی طرف بڑھایا ہاتھ راستے میں ہی کوئی مٹھی میں بھینچ کر روک چکا تھا ۔۔

اسکے سامنے آتا وہ قہر بھری نظروں سے سے ان لڑکوں دیکھ رہا تھا جن کے چہروں میں خوف چھا چکا تھا سردار غاذان کو سامنے دیکھ کر۔

معاف کر دیں سردار ۔۔


ہاتھ جوڑ کر باقی دو بولے تھے ۔

بنا انکی سنے وہ تینوں کو بری طرح پیٹنے لگا تھا وہ ایک سردار کا مقابلہ نہیں کر سکتے تٙھے نا ہی کرنا چاہتے کہ وہ ایک سردار تھا ۔

ہونٹ بھینچے وہ بہت بری طرح انہیں مار رہا تھا انکے ناک منہ سے خون کے فوارے چھوٹ چکے تھے ۔۔

آئندہ میری ریاست میں کسی لڑکی پر بری نظر نہیں ڈالو گئے تم ۔

انکی آنکھوں پر مکے پر مکہ برساتا وہ پھنکارا تھا انکے چیخنے چلانے کی آوازیں دور تک گئی تھیں ۔


مہرینہ نے پہلی بار سردار کا یہ روپ دیکھا تھا وہ حیرت و اشتیاق سے اسے لڑتا دیکھ رہی تھی ۔

وہ تینوں ہیر کے قدموں میں گرے تھے ۔۔

اس نے نیچے گری اسکی سفید چادر اٹھائی اور اسکی طرف بڑھائی ۔۔

لیکن اس نے تھامی نہیں ایسے ہی ہاتھ بانہیں چھوڑے وہ پورے قد سے نیچے گری تھی لیکن اسے زمین پر گرنے سے پہلے ہی وہ اسے تھام چکا تھا ۔۔

مہرینہ بھی بھاگ کر اسکے قریب آئی ۔۔

یہ تو بے ہوش ہو چکی ہے ۔

مہرینہ نے اس لڑکی کو دیکھتے ہوِے پریشانی سے سردار سے کہا ۔

وہ تینوں زمین پر پڑے کراہ رہے تھے بنا ان پر نظر ڈالے وہ اس کم سن لڑکی کو بانہوں میں اٹھا گیا تھا ۔

مہرینہ نے حیرت سے اپنے سردار کو دیکھا جلدی سے فون نکالا کیمرہ کھولا اور اسکی پک بنائی پھر مسکرائی ۔

مہرینہ اسکی چپل اٹھا لو۔

وہ پیچھے مڑتا غصے سے بولا ۔

جی اٹھاتی ہوں وہ فون میں سنگنل چیک کر رہی تھی۔ ۔

اس نے ناک سکوڑ کر ایک انگلی سے اسکی ٹوئی پھوٹی چپل اٹھا کر سردار کو اپنی صفائی پیش کی تھی۔

تیز قدموں سے چلتا وہ اسے لے کر دور کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا ۔


سردار آپ اسے جانتے ہیں ۔۔

مہرینہ نے ہیر کے ساتھ بیٹھتے ہوِے اس سے پوچھا ۔

نہیں ۔۔۔۔

گاڑی کو ریورس کرتا وہ سنجیدگی سے بولا۔ ۔

ہائے! اسے جانتے نہیں تو اسکی اتنی کیئر کر رہے ہِیں اگر انکی بیوی ہوتی تو کیا کرتے ۔۔۔

مہرینہ نے ہیــــــــــر کے زردی گھلے چہرے کو دیکھتے ہوئے حسرت سے سوچا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛


اسے ہسپٹل ایڈمٹ کروا کر اسکا سارا بل جمع کروا کر وہ ایک نرس کو اسکی نگرانی کے لیے چھوڑتا وہاں سے نکل گیا ۔

مہرینہ گاڑی میں تھی اسے آتا دیکھ کر وہ چوکنا ہو کر بیٹھی ۔۔

تب ہی وہ چلائی ۔۔

سردار بچیں ۔۔۔

پیچھے سے ایک آدمی گاڑی روکتا اس ہر فائرنگ کھول چکا تھا ۔۔

گولی اسکے بازوں کو چیڑ گئی تھی وہ اگر نیچے نا بیٹھتا تو وہ گولی سیدھی اسکے دل پر لگتی ۔ ۔

وہ بنا کس سیکورٹی گاڑد کے نکلا تھا یہ تو ہونا ہی تھا ۔

مہرینہ نیچے جھک جاو ۔۔۔۔

وہ پسٹل نکالتا مہرینہ سے بولا تھا ۔

مہرینہ ڈرتے ہوِے نیچے بیٹھ گئی،

جبکہ وہ پسٹل نکالے گاڑی کے پیچھے ہوتا جوابی کاروائی کرنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے گارڈز کی گاڑیاں پہنچ چکیں تھیں گاڑیوں سے چھلانگ لگاتے وہ اپنی بندوقوں کے منہ کھول چکے تھے ۔

سردار گاڑی مِیں بیٹھتا مہرینہ کو حیرت سے دیکھنے لگا جو سیٹ سے نیچے اپنے اوپر چادر لیے مرغا بنی ہوئی تھی۔

مہرینہ تم مرغا کیوں بنی ہوئی ہو۔ ۔۔

اس نے پریشانی سے اسے سیدھا کرتے ہوئے پوچھا۔

ای ی ی ۔۔

وہ شرمندگی سے ہنستی ہوئی سیٹ کے اوپر بیٹھی ۔

ڈرتی نہیں ہوں میں اصل میں میرے بالوں سے پن نیچے گر گئی تھی تو وہی ڈھونڈ رہی تھی۔

بال ٹھیک کرتی وہ سنجیدگی سے بولی کہ جھوٹ اور بے سروپا باتیں صرف مہرینہ ہی کر سکتی تھی ۔

ملی پن ۔۔۔۔

اس نے کافی سنجیدگی سے آئی برو اچکا کر پوچھا۔

نہیں شاید میں گھر پر چھوڑ آئی ہوں ۔۔

اس نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔

جس پر سردار غاذان نے اسے زبردست گھوڑی سے نواز کر خادم کو دیکھا جو دروازہ کھولے اسکے باہر آنے کے انتظار میں تھا۔

سب کلیئر ہے۔ ۔

اس نے سرد نظروں سے ارد گرد دیکھتے ہوئے پوچھا۔

جی سردار سب کلیئر ہو چکا ہے انکے تین ساتھی مارے گئے ہیں جبکہ دو بھاگ گئے ہیں چلیں آئیں ڈاکٹر کے پاس۔۔

خادم نے ہاتھ آگے اخترام سے باندھے اسے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔

گولی لگے بازو پر ہاتھ رکھے وہ ہسپٹل کی عمارت کی طرف بڑھ گیا ۔۔

جبکہ مہرینہ اسکے جانے کے بعد پھر سے اپنی سیٹ سے اتر کر نیچے جھک کر بیٹھ گئی کہ کہی وہ حملہ آور دوبارہ آگئے تو بس اسی ڈر سے وہ پھر سے مرغا بن گئی حلانکہ اسکی گاڑی کے پا

س دو گارڈز کھڑے تھے لیکن مہرینہ بے چاری کو کون سمجھائے۔ ۔


________________________________


صبح 6 کا وقت تھا جب وہ رکشے والے کو کرایہ پکڑاتی اپنے گھر جاتی گلی کی طرف مڑ گئی۔۔

قدم گھسیٹ گھسیٹ کر وہ چل رہی تھی اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے ٹانگّوں میں سے جان ختم ہو چکی ہو جب صبح اسے ہوش آیا تو سب سے پہلا خیال خیام کا آیا وہ نرسز کے روکنے پر بھی نہِیں رکی تھی وہی سے رکشہ پکڑا اور چلی آئی سو روپے اسکی چادر کے پلے کے کونے میں بندھے ہوئے تھے اس نے وہی نکال کر کرایہ ادا کیا اور دھیمے دھیمے قدموں سے چلتی اپنی گلی کے کونے سے ہوتی اپنے گھر کے سامنے آ گئی ۔

محلے کی دو تین خواتین نے حیرت سے اسے دیکھا تھا کہ یہ صبح صبح بھلا کہاں سے آرہی ہے اور حلیہ بھی عجیب سا تھا اسکا۔۔۔

آپی!

خیام دروازے کے باہر ہی کھڑا تھا اسے دیکھتا وہ بھاگ کر اسکے قریب آیا ۔

آپی آپ کہاں تھیں میں کب سے آپکو تلاش کر رہا ہوں ۔۔

اسے لا کر چارپائی پر بٹھاتا وہ پریشانی سے بولا البتہ نظریں اسکی سوجی ہوئی آنکھوں پر تھیں ۔

خیام ۔۔

اس نے آہستہ سے اسے پکارا ۔

آپی ۔

خیام نے اسکے لہجے پر ٹھٹھک کر اسے دیکھا ۔

اگر میں مر گئی نا تو تم یہاں سے کہی دور چلے جانا جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں کوئی غم در و تکلیف نا ہو وعدہ کرو مجھ سے ۔۔

اسکے ہاتھ تھامے وہ عجیب سے لہجے میں بولتی خیام کو تڑپا گئی تھی۔۔

آپی !

وہ پیچھے ہوتا چلایا تھا۔

یہ آپ کیسی باتیں کر رہیں آپکو ابھی بہت سا جینا ہے اور خوشیاں بھی دیکھنی ہیں۔۔

خیام کی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے اسکی حالت دیکھ کر آخر اسکی آپی کے ساتھ کیا ہوا تھا وہ کیوں برسوں کی بیمار نظر آنے لگی تھی۔

خیام اب جینے کو دل نہیں کرتا کاش امی ابو کے ساتھ میں بھی مر جاتی تو کتنا اچھا ہوتا نا میں کیسی بہن ہوں تمہارا خیال بھی ٹھیک سے نہیں رکھ پاتی نا ہی تمہارے سکول کی فیس ادا کر سکتی ہوں اور نا ہی تمہیں تین وقت کا کھانا کھلا سکتی ہوں تو میرا مرجا ہی بہتر ہے نا ۔۔

اسکے چہرے پر نظریں جمائے وہ بے بسی سے بول رہی تھی۔

خیام اسکے لہجے پر کرنٹ کھا کر دو تین قدم پیچھے ہوا اسے لگا جیسے دل پھٹ گیا ہو جینے کی وجہ مر گئی ہو آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں تھیں ۔۔

آپی ،

وہ بس یہی کہہ سکا تھا۔

ہیر کی آنکھوں سے آنسو قطار میں بہتے گالوں سے ہوتے اسکی گردن میں آنے لگے تھے ۔

خیام آپی کو معاف کردو،

نیچے دیکھتی وہ پھر عجیب سے لہجے میں بولی تھی کہ خیام ٹھٹھک گیا تھا ۔

آخر اسکی آپی ایسی کیوں باتیں کر رہی تھی کیوں اسکا دل چیڑ رہی تھی ۔۔۔

تب ہی دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی تھی ۔

وہ آنسو صاف کرتا دروازہ کھولنے کے لیے بڑھ گیا ۔

اسکے دروازہ کھولتے ہی محلے کی چار پانچ عورتیں اور مرد اسے پیچھے کرتے اندر آئے تھے ۔

تم باز نہیں آئی اپنے کالے کرتوتوں سے کہاں تھی رات بھر ،

بی بی یہ شریفوں کا محلہ ہے یہاں یہ بے غیرتی نہیں چلے گئی سمجھی تم ۔۔

نازیہ اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کرتی بھڑک کر چلائی ۔۔

خیام نے غصے سے اپنی آپی کی کلائی اس سے چھڑانی چاہی لیکن اسکی پکڑ کافی مضبوط تھی۔

خیام حیرت سے انہیں دیکھتا آپی کو دیکھنے لگا جس کا چہرہ بے تاثر تھا ۔

وہ پریشان ہوتا پھر سے اپنی آپی کی کلائی اس موٹی عورت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔۔


بس بہت ہوا اب تم اس محلے میں نہیں رہ سکتی ارے ماں باپ کیا مر گئے تمہیں تو کھلی چھوٹ مل گئی ہے بے حیائی کرنے کی کل کو ہمارے جوان لڑکوں پر بھی ڈورے ڈالو گئی۔۔

نازیہ کی بہن شازیہ بھی اس معصوم لڑکی پر پھنکاری تھی ۔۔

سر جھکائے وہ کھڑی رہی بولی کچھ نہیں کہ اس سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے بس جان نکلنے والی ہو ۔۔


بس چپ کر جائیں آپ لوگ اور چھوڑیں میری بہن کی کلائی ہم جو مرضی کریں آپ لوگوں کو کیا تکلیف ہے ۔

تیش سے اپنی آپی کو ان سے چھڑا کرسینے سے لگاتا وہ بے حس انسانوں پر چلایا تھا جن میں رحم نام کی کوٙئی چیز نہیں تھی وہ دیکھ نہیں رہے تھےا سکی آپی کی طبیعت کتنی خراب ہے ۔

ہیر اسکے سینے پر سر رکھے خالی خالی آنکھوں سے ان خواتین کو دیکھنے لگی ۔

جو ہاتھ نچاتی سب اپنی اپنی بولی میں ان بہن بھائی کو برا بھلہ کہہ رہیں تھیں باقی کچھ لوگ چھتوں پر چڑے خاموشی سے تماشا دیکھ رہے تھے ۔۔

ابھی اسی وقت میرے گھر سے دفع ہو جائیں ہم جو مرضی کریں ہماری مرضی گیٹ آوٹ فرام مائے ہاوس ۔۔

وہ اس بار پھنکار کر بولا تھا۔

اوئے تمیز سے بات کر سمجھا ورنہ ابھی ایسی مار ماروں گا کہ ماں یاد آ جائے گئی بڑا جگا بن رہا ہے ۔

نازیہ کا بڑا بیٹا آستین چڑہاتا ہوا غصے سے بولا۔

میرے بھی ہاتھ سلامت ہیں تم ایک مارو گئے میں تمہیں دو ماروں گا سمجھے ۔۔

خیام نے بھی بنا کسی مروت کے تلخی سے کہا۔

ہیر بس سن رہی تھی آنکھوں میں آنسو کی کوئی رمق نہیں تھی وہ خالی تھِیں ان میں کوئی تاثر نہیں تھا ۔۔

تیری تو ۔۔

نازیہ کا بیٹا لپک کر اسکے گال پر زور سے تھپڑ مار چکا تھا ۔

ہیر کا دل کرلایا مت مارو میرے بھاِئی کو ۔۔۔

وہ بول نہیں سکی لیکن دل کرلایا تھا ۔

خیام بھی آپی کو اپنے پیچھے کرتا اس پر چڑ دوڑ تھا ۔۔

ارے مارو اسے ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری نازیہ نے دوسرے لڑکوں کو تماشا دیکھتے دیکھ کر دوہائی دی کہ خیام نے لگاتار دو تھپڑ اسکے گال پر بر سا دئیے تھے نازیہ کو کہاں منظور تھا اپنے اکلوتے بیٹے کو تھپڑ کھاتا دیکھنا ۔

تیوں لڑکے چڑ دوڑے تھے خیام پر ۔۔

چھوڑو میرے بھائی کو۔۔

ساکت وجود میں جان پڑ گئی تھی اسے مار کھاتے دیکھ کر ۔

شازیہ نے زور سے اسے دھکا دیا تھا وہ لہرا کر چارپائی پر گری تھی ۔۔

کچھ لوگوں نے اس پر ترس کھا کر اسکے بھائی کو ان لڑکوں سے زبردستی چھڑایا تھا ۔

عورتیں ان دونوں کو بری بری گالیاں نکال کر وہان سے چلتی بنیں ۔

آپی آپ ٹھیک ہو ۔۔

ِزمین سے اٹھ کر وہ آپی کی طرف دوڑا جسکا بی پی شوٹ کر چکا تھا اسکا وجود ایک دم سے ٹھنڈ ا پڑ چکا تھا ہلدی مائل رنگت ٹھنڈے پسینے وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی ۔

مت مارو میرے بھائی کو ۔۔۔۔۔

دھیمے سے بڑبڑاتی وہ آنکھیں موند گئی تھی ۔۔

خیام نے ٹھٹھک کر اسکی بند ہوتی آنکھیں دیکھیں ایسے ہی تو اسکی ماں نے بھی آنکھیں بند کیں تھیں ۔

نہِیں اللہ میری آپی کو کہی مت لے جانا میں زندہ ہی انکی وجہ سے ہوں اگر یہ زندہ ہیں تو میں زندہ ہوں اگر یہ مر گئی تو میں کس کے لیے زندہ رہوں گا نہیں اللہ آپ ایسا نہِیں کر سکتے۔۔

گھٹنوں کے بل نیچے گرتا وہ ایک دم سے چلایا تھا ۔

آخر وہ کس سے مدد مانگتا ان دونوں کا تو اللہ کی ذات کے علاوہ اور کوئی سہارا ہی نہیں تھا ۔۔

ایک دم سے اسے سردار غاذان کا دیا ہوا وہ کارڈ یاد آیا ۔۔۔

بھاگ کر اندر آیا بیگ کتابوں والی شیلف پر پڑ ہوا تھا بیگ کے اندر بنی زیپ میں ہاتھ ڈال کر بلیک سنہری کارڈ برامد کیا ۔۔


کارڈ پکڑ کر باہر آیا آپی کو ٹِھیک سے چارپائی پر ڈالا اور باہر کی طرف بھاگ گیا ۔۔

دو گلیاں چھوڑ کر ایک دکان ہر آیا وہاں پڑ افون اپنی طرف کیا اور جلدی سے سردار کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔۔

پہلے پیسے دو پھر نمبر ملانا ۔۔

فون والے نے درشت لہجے میں کہہ کر فون اسکے ہاتھ سے چھینا ۔

میں دے دوں گا پلیز بس ایک کال ۔

اسکے روئی آنکھوں پر اس آدمی نے ترس کھا کر فون اسے پکڑا دیا ۔

اسکا شکریہ دادا کرتا وہ پھر سے سردار کا نمبر ملا گیا۔۔


""""""""""--------"""""""""-------"""""""""-------""""


بلیک کافی کا مگ پکڑے وہ بالکنی میں کھڑا فریش سا لگ رہا تھا ہاف سلیوز سے جھانکتے مسلز اسکی مضبوط جسامت کے گواہ تھے ۔

بائیں بازو پر ڈریسنگ کی ہوئی تھی ۔۔

بلیک شرٹ بلیک ہی تنگ جینز میں وہ بے حد ہینڈسم لگ رہا تھا ۔

ٹوں ٹوں۔۔۔

اسکے موبائیل پر ایک بار رنگ ہوئی پھر سے بند ہو گیا ۔

سر جھٹکتا وہ سامنے کی طرف دیکھتا ہوا کافی کے سپ لینے لگا ۔۔

پھر سے فون پر رنگ ہوئی تھی۔۔۔

مگ ریلنگ پر رکھتا وہ پاکٹ سے فون نکال کر نمبر دیکھنے لگا جو ان نون تھا۔


تین چار بیلز پر اس نے ضروری کال نا ہو سمجھ کر کان سے لگا لیا۔۔

ہیلو کون ؟

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا

میں خیام سجاد ۔۔۔

وہ گلہ تر کرتا بھرائے ہوئے لب و لہجے میں بے قراری سے بولا ۔

کون خیام سجاد؟

وہ لاپرواہی سے بولا کہ وہ اس کم سن لڑکے کو بھول چکا تھا ۔۔۔

خیام نے لب بھینچ کر اللہ سے مدد کی اپیل کی پھر گہرا سانس لے کر اسے بتانے لگا کہ کیسے اسکی ملاقات خیام سے ہوئی تھی اور اس نے اسے اپنا پرسنل نمبر دیا تھا۔

او ہاں یاد آگیا اصل میں دن میں کافی لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو بہت سے بھول جاتا ہوں ڈونٹ مائنڈ ۔

اس نے شائستگی سے معذرت کی ۔

آپ میری مدد کریں سردار خدا اور اسکے رسول کے بعد صرف آپ سے مدد کی امید ہے پلیزز میری مدد کریں مجھے میری آپی کو ہسپٹل لے کر جانا ہے لیکن میں اکیلا کہی نہیں جا سکتا آپ میری مدد کریں سردار آپکو اللہ اور اسکے رسول کا واسطہ ہے انکار مت کرئیے گا ۔

وہ ایک دم سے رونے لگا تھا کہ دکاندار حیرت سے اسے روتا اور اسکے منہ سے سردار کا نام سن رہا تھا ۔۔

سردار غاذان نے حیرت سے کم سن لڑکے کی آواز کو سنا جس میں درد کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا تیمور خانم مری گئے ہوئے وہ اس لڑکے کی مدد کرنے جا سکتا تھا ورنہ تیمور صاحب کبھی نا جانےدیتے ۔۔

ایڈریس لکھواوّ ۔۔۔

فون کندھے میں رکھے وہ والٹ کو پاکٹ میں رکھتا کیز اٹھانے لگا ۔۔

ایڈریس غور سے سنتا فون بند کرتا وہ باہر کی طرف تیز قدموں سے بھرا تھا ۔۔


شائنہ مسکراتی ہوئی اسکے راستے میں آئی ۔۔

سردار آپ ۔۔۔۔۔

لیکن وہ اسکی بنا کوئی بات سنے اس لڑکے کی مدد کے لیے بھاگ گیا تھا کہ وہ اس لڑکے کی امید کو خالی نہیں لٹانا چاہتا تھا پتا نہِیں کتنی مشکل میں تھا وہ کم سن لڑکا۔۔

گاڑی میں بیٹھتا وہ اپنے پیچھے گارڈز کو آنے سے منع کر گیا تھا جبکہ خادم نے جلدی سے گاڑی کو اسکے بتائے ہوئے راستے پر ڈالی ۔۔۔۔


سردار میں جاتا ہوں ۔۔

وہ تنگ گلیاں دیکھ کر سردار سے بولا کہ گلیاں گندی بھی تھیں ۔۔

نو مجھے خود جانا ہو گا ۔۔۔

وہ ماسک لگا کر کہتا ہوا تیز قدنوں سے آگے بڑھا کہ لوگ حیرت سے آنکھیں پھاڑے اپنے سردار کو اپنی گلیوں میں دیکھ رہے تھے ۔۔

خیام گلی میں ہی تھا ۔۔

سرادر کو دیکھ کر وہ بھاگ کر سرادر غاذان کے گلے لگا تھا ۔

لوگوں نے تو حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دبا لیں تھیں ۔۔۔

کہاں ہے تمہاری آپی ۔۔

وہ اس کم سن لڑکے کے آنسو صاف کرتا ہو ابولا۔

اندر ہیں وہ ۔

اندر کی طرف اشارا کرتا وہ تین چار سیڑیاں چڑتا اس لڑکے کے صحن میں آچکا تھا صحن میں بچھی چارپائی پر وہ لڑکی ہاتھ پیر چھوڑے پڑی ہوئی تھی اسکے پاس آتا وہ ٹھٹھک کر رکا کہ یہ لڑکی تو ہسپٹل میں تھی پھر یہ کیسے !

وہ ساکت ہوا تھا۔

پھر سر جھٹکتا ہوا اسے بانہوں میں اٹھاتا باہر کی طرف تیز قدموں سے بڑھا کہ اس لڑکی کی سانسیں بہت کم رہ گئیں تھی انہیں جلدی پہنچنا تھا ورنہ لڑکی ختم ہو سکتی تھی ۔۔۔


خادم نے ٹھٹھک کر اپنے سردار کو دیکھا کسی غیر لڑکی کو بانہوں میں اٹھانا یہ کیسا منظر تھا وہ حیرانی کو پیچھے دھکیلتا انکے پیچھے دوڑا ۔۔

گلی کے لوگ گھر سے باہر اپنے دروازوں میں کھڑے حیرت و تجسس سے یہ منظر دیکھ رہیں تھیں بھلا ایسے کیسے ہو سکتا تھا نہیں یہ سردار نہیں ہو سکتے سردرا نے منہ پر کالا نقاب پہن رکھا تھا لیکن اسکے خاص خادم جو سب پہچانتے تھے کہ یہ خادم سردار کا خاص بندا تھا جو ہمہ وقت سردار کے ساتھ رہتا ہے بھلا سردار کا ہیر سے کیا رشتہ ہو سکتا تھا نہیں یہ کوئی اور ہے ۔۔

ںازیہ نے پریشانی سے سر جھٹکا بھلا سردار غــــاذان تیمور کہاں اور کہاں یہ ہیــــــــر ۔۔۔

________________________________


ہسپٹل میں پہلی فرصت میں ڈاکٹرز نے اسے آئی سیو میں شفٹ کیا تھا ۔۔


سردار نے یہاں بھی ماسک کو اتارا نہِیں تھا اس لیے کسی نے اسے پہچانا نہیں کہ وہ خادم کو باہر ہی رہنے کا کہہ آیا تھا ۔۔

خیام نے نم آنکھوں سے شیشے کے دروازے کے پار اس نالیوں میں جھکڑے وجود کو دیکھا جو اسکے جینے کی وجہ تھی جو اسکا واحد رشتہ تھی جو اسے خود سے بھر کر چاہتی تھی وہ آج نالیوں مشینوں میں جھکڑی اس کے غم زدہ وجود سے غافل تھی ۔

سردار نے اسکے کندھے پر تھپکی دی تھی ۔۔

سردار یہ بچ جائیں گئی نا ۔

اس نے اسکی طرف روخ موڑتے ہوئے آس لیے لہجے میں پوچھا۔

اللہ بہتر کرئے گا خیام حوصلہ رکھو بی بریو ۔۔۔۔۔

وہ سنجیدگی سے بولتا باہر آتے ڈاکٹرز کی طرف بڑھا ۔

How she is ?

وہ لگاتار بجتے فون کو بند کرتا ڈاکٹر سے بولا ۔۔

انکا بی پی خطر ناک حد تک شوٹ کر گیا تھا جس کا اثر انکے دماغ پر پڑا ہے انکی جان چلی جاتی اگر آپ آدھا گھنٹہ لیٹ ہو جاتے ابھی ہم ٹھیک سے کچھ کہہ نہیں سکتے بس اللہ سے دعا کریں ۔۔

ڈاکٹر سنجیدگی سے کہہ کر آگے بڑھا گیا۔۔

جبکہ خیام میں کچھ بھی سننے سمجھنے کی ہمت نہیں رہی تھی ۔

وہاں رکھی کرسوں پر بیٹھ کر دونوں ہاتھ منہ پر رکھے وہ زارو قطار اونچا اونچا روتا آتے جاتے لوگوں کو حیرت میں ڈال گیا تھا ۔۔

سردرا نے آفسوس سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔

آپی میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتیں ہیں ،

نہیں وہ کہی نہیں جائیں گئی اللہ جانتا ہے میرا انکے علاوہ کوئی نہیں وہ میری آپی کو مجھے سے دور نہیں کرئے گا۔

روتا ہو وہ مسلسل بول رہا تھا ۔

سردار نے پہلی دفع اتنا دکھ درد کسی لڑکے کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔

غاذان نے اسکے سر پر شفقت و ہمدردی سے ہاتھ رکھا ۔۔

ؓمسلدل بجتے فون کو آن کر کےوہ ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔

سردار غاذان کہاں ہو تم ؟

تیمور صاحب نے طنز سے دانت پیس کر بیٹے سے پوچھا۔۔

یہی گھر پر ہوں کیوں خیریت ۔۔

اس نے ماتھا مسلتے ہوئے پوچھا۔

جھوٹ کب سے بولنا شروع کر دیا ہے تم نے میں گھر پر ہوں میرے بیٹے اور

تمہارا انتظار بھی کر رہا ہوں پریس میں جانے کے لیے کیا آپ گھر آنا پسند کریں گئے۔

تیمور صاحب کے طنز پر وہ

ہلکی مسکان سے مسکرایا ۔

آئی ویل کم ڈیڈ ۔۔

مسکراتے لہجے میں کہتا وہ خیام کی طرف آیا ۔۔

خیام مجھے اب چلنا ہو گا اصل میں مجھے ایک پریس میں جانا ہے تمہارے پاس میرا نمبر ہے کسی بھی چیز کی ضرورت ہوئی مجھے کال کر لینا اور ہاں پریشان نا ہونا تمہاری آپی ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گئی ۔۔۔


اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ سنجیدگی سے بولتا وہاں سے تیزی سے نکل گیا کہ اس نے جو پریس والوں کو ٹائم دیا تھا اسکو گزرے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا اس لیے وہ بھاگا تھا کہ اسے کسی کو انتظار کروانا اچھا نہیں لگتا تھا ۔۔۔

خیام اکیلا ہی ساکت بیٹھا رہ گیا ۔۔

دیوار سے سر ٹیکتا وہ سسکنے لگا تھا کہ ایک بہن ہی تو تھی سب کچھ اور آج وہ بھی اسکے وجود سے بیگانہ پڑی زندگی و موت کے درمیان جھول رہی تھی۔

___________________


سیڑیوں پر بیٹھی وہ سخت غصے میں تھی سردار غاذان کی اتنی ہمت وہ مجھے اگنور کرئے سردار ایک بار شادی ہو جائے پھر آپکو بتاوں گئی میں ۔۔

دانت پیستے ہوئے وہ بڑبڑائی تھی ۔۔۔

تب ہی وہ چونکی ،

مسکراتی ہوئی مہرینہ اسکے پاس بیٹھی تھی ۔

کیا بات ہے ۔۔

اپنی طرف اسے مسکراتا دیکھ کر وہ طنز سے بولی ۔۔

کچھ نہیں بس آج مسکرانے کو دل کر رہا ہے بلکہ قہقہ پر قہقہ لگانے کو دل کر رہا ہے کسی کی شکل دیکھ کر ۔

وہ ہونٹ دانتوں میں دباِے مسکرا کر بولی ۔

شٹ اپ جاو یہاں سے ۔

سر پر دوپٹہ ٹھیک سے جماتی وہ پھنکاڑی ۔۔


"آج میں اوپر زمانہ ہے پیچھے "


سیڑیوں پر کھڑی ہوتی وہ لہرا کر بولی تھی ۔

شائنہ کھڑی ہوتی ایک دم سے اسکا بازو پکڑتی ہوئی اسے سخت گھوری سے گھورنے لگی۔

مسلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ہاں۔۔

وہ تلخی سے بولی۔۔

شائنہ تم میری کزن ہو اور مجھے اچھی لگتی تھی لیکن تم نے مجھ سے میرا خواب چھین لیا تم نے مجھے باہر سٹڈی کے لیے نہِیں جانے دیا تم نے مجھے میڈیا میں نہیں آنے دیا تم نے مجھے شہر میں پڑھنے نہیں دیا تم ہمیشہ میرے راستے میں آئی پتا نہیں تمہیں کس بات کی احساس کمتری تھی کہ تم نے مجھے کچھ بھی پڑھنے نہِیں دیا کچھ بننے نہیں دیا اب میرا بھی فرض بنتا ہے تمہیں ٹارچر کرنے کا۔۔۔

لب دبائے وہ سنجیدگی سے بولی ۔

شائنہ مسکرائی ۔۔۔


تم شائنہ کے برابر نہیں آسکتی مہرینہ چاہے تم کچھ بھی کر لو۔

شائنہ اسکے برابر آتی ہوئی فخر سے بولی کہ مہرینہ اسکے برابر کچھ بھی نہیں تھی ۔

مہرینہ نے طنز سے سر جھٹکا ۔

تمہارے برابر میں نہیں کوئی اور آئے گا ۔

موبائیل میں انگلیاں چلاتی ہوئی وہ تجسس سے بولی ۔

کیا مطلب ہے تمہار ا۔

شائنہ نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔


اس نے مسکرا کر فون اسکے سامنے لہرایا ۔۔

شائنہ نے ٹھٹھک کر اسکے ہاتھ سے موبائیل چھین کر غور سے دیکھا ۔

سردار غاذان کا چہرہ واضع تھا جبکہ لڑکی کا چہرہ اسکے سینے میں تھا جس سے اس لڑکی کا چہرہ کچھ واضع نہیں تھا ۔

اس نے فق ہوتے چہرے سے اس تصویر کو دیکھ کر مہرینہ کو دیکھا جو ہلکی مسکان چہرے پر سجائے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

میں نہیں یہ لڑکی تمہارے برابر آئے گئی دیکھنا تم ۔۔

موبائیل اسکے ہاتھ سے چھین کر کہتی اسے تپا کر چلتی بنی ۔۔

شائنہ نے گہرے گہرے سانس لے کر اس تصویر کو زہن کے پردوں سے جھٹکنا چاہا لیکن وہ تصویر اسکے زہن سے چپک چکی تھی ۔

سرادر آپ مجھے دھوکا نہیں دے سکتے آپ کی بیوی بننے کا حق صرف اور صرف شائنہ خانم کو ہے سنا آپ نے ۔۔

گہرے گہرے سانس لیتی وہ جنتے زور سے چلا سکتی تھی چالائی ،آنکھوں میں چنگاڑیاں سی بھڑکنے لگی تھی۔

تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گئی لڑکی تمہاری ہمت کیسے ہوئی شائنہ خانم کے سردرا پر نظر ڈالنے کی انہِن چھونے کی موت سے بد تر سزا دوں گئی تمہِیں موت سے بدتر سنا تم نے۔۔

کمرے میں آتی ہر چیز کو تہس نہس کرتی وہ چیخ کر بولی تھی۔۔

________________________________


آج دو دن ہو چکے تھے اسکی آپی کو ہسپٹل میں۔

ہسپٹل کافی مہنگا تھا لیکن اسکا سارا خرچہ سردار نے اٹھایا ہوا تھا وہ جب سے گیا تھا لوٹ کر نہِِن آیا تھا کہ وہ ایک بزی بندا تھا اسے اپنے لیے بھی وقت نہیں ملتا تھا تو ہسپٹل کیسے چکر لگاتا ۔۔


ہیر کو ایک دو بار ہوش آیا تھا لیکن پھر سے وہ عنودگی میں چلی جاتی خیام کا کتنا دل تھا اس سے بات کرنے کا لیکن وہ پوری طرح ہوش میں ہی نہیں آئی تھی بات کیسے کرتی ۔


تیسرے دن جا کر اسے پوری طرح ہوش آیا تھا خیام کو دیکھ کر اسکی آنکھیں تیزی سے پانی سے بھرنے لگی تھیں ۔۔

خیام ّخود پر ضبط کے پہرے بٹھاتا بڑی مشکل سے مسکرایا ۔۔

آپی آپ ٹھیک ہیں ۔۔

خیام اسکی آنکھوں سے نمی چنتا دھیمے سے بولا ۔

تم ٹھیک ہو! کھانا کھایا ۔

دھیمے لہجے میں اسکا ہاتھ تھامتی وہ فکرمندی سے بولی ۔

خیام نے ضبط کے پہرے لاکھ بٹھائے تھے لیکن آنکھیں پھر بھی تیزی سے نمی چھلکانے لگیں تھیں ۔

نہیں آپ ہوتی تو کچھ کھلاتی نا ۔

اسکے سر پر ہونٹ رکھتا وہ بھرائے لہجے میں کہتا ہیر کو دکھ سے دو چار کر گیا ۔

خیام جاو کھانا کھا کر آو اپنی آپی کے لیے کھا آو ۔۔

اس نے شفقت و محبت سے چور لہجے میں اپنے بھائی کو آس سے کہا ۔

کھا لیتا ہوں تھوڑی دیر تک ۔

گہرا سانس لیتا وہ سنجیدگی سے بولا ۔

خیمی تم اتنے مہنگے ہسپٹل کیوں چلے آئے بل کہاں سے دیں گئے ہم۔

ہیر نے پریشانی سے ہونٹ دانتوں سے کچلتے ہوئے کب سے دل میں مچلتا سوال آخر پوچھا ہی ڈالا۔ ۔۔

سردار غاذان آپکو یہاں لے کر آئے تھے میں نہیں اور یہاں کا سار بل وغیرہ بھی انہی نے دیا ہے ۔

خیام کھڑا ہوتا اسے بتا رہا تھا سردار کے نام پر بیمار ہیر کا دل زوروں سے دھڑک اٹھا تھا ۔

خیام تم نے ان سے اتنے پیسوں کی مدد کیوں لی ۔

اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے خیام سے پریشانی سے پوچھا۔

آپی کہاں جاتا انکے علاوہ ہماری کوئی مدد نہِیں کرتا میں جانتا ہوں آپ فکر نا کریں جب میں پڑھ لکھ کر اچھی پوسٹ پر ہوں گا تو سب سے پہلے انہی کا قرض لوٹاوں گا ڈونٹ وری آپ فکر نا کریں ۔

وہ دھیمی مسکان ہونٹوں پر سجاتا ہوا بولا ۔۔۔

ہیر اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرائی ۔

اوف شکر ہے اللہ کا جس نے ہیر آپی کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔۔

کینٹین کی طرف بڑھتا وہ تشکر کی سانس خارج کرتا ہوا بولا ۔۔۔

_________________________________

ہیر نے آج ڈسچارج ہو جانا تھا ۔

آپی میں آپکو اس محلے دوبارہ نہِیں لے کر جانا چاہتا ۔

خیام نے چادر سر پر اٹکاتی اپنی بہن سے قطیعت سے کہا ۔

تو کہاں جائیں گِے ہم ،خیام ہمارا اس گھر کے علاوہ اور کوئی جائے پناہ بھی تو نہِیں ہے اور نا ہی اتنے پیسے ہیں کہ کسی کرائے کے مکان مِیں رہ لیں میرے بھائی ہمیں وہی رہنا پڑے گا اسی محلے میں ۔۔

شیشے کا ڈور کھولتے سردار کے ہاتھ وہی ساکت ہوئے تھے ۔۔

آپی ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں جہاں آپکو برا بھلہ کہا گیا ہو ،آپکی بے عزتی کی گئی ہو آپکو موت کے منہ میں لے جانے والے وہی محلے والے تھے میں ان لوگوں کو دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا ۔۔

قطیعت سے کہہ کر وہ سنگل صوفے پر بیٹھ گیا۔

تو ہم کہاں جائیں گئے ، کیا کوئی پناہ گاہ ہے ہماری ۔

گہری سانس لیتی وہ پریشانی سے بولی ۔


پتا نہِیں کہاں جائیں گئے لیکن اس محلے میں آپکو آپکا بھائی نہِیں لے کر جائے گا بس بات ختم ۔۔

بات ختم کرتا وہ پریشانی سے کچھ سوچنے لگا ۔

آپی آپکی شادی کردوں گا میں بہت جلد۔


اسکے سنجیدگی سے کہنے پر وہ بے ساختہ ہنس پڑی تھی ۔۔

لڑکا کہاں سے لاوّ گے ۔۔

مسکراہٹ ضبط کرتی وہ سنجیدگی بھرے لہجے میں بولی ۔

مل جائے گا لیکن آپی کاش سردار غاذان جیسا کوئی ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا میں پہلی فرصت مِن آپکی شادی کر دیتا ۔۔

خیام کے کہنے پر وہ ساکت سی اسے دیکھنے لگی باہر کھڑے سردار نے سنجیدگی سے اس لڑکے کو دیکھا تھا پھر اس لڑکی کو جس کا چہرہ ابھی بھی ہلدی مائل تھا نقوش میں گھلی زردی اسے بیمار ظاہر کرتے تھے۔

اسے ان دونوں پر بے انتہا ترس آیا تھا۔ ۔

کچھ سوچتا ہوا وہ دروازہ دھکیلتا اندر آیا تھا ۔۔۔

_____________________


تیمور خانم نے حیرت سے اخبار کے اس ٹکڑے کو دیکھا جس کے پہلے صفے پر بہت بولڈ انداز میں انکے سردار بیٹے کی تصویر ایک لڑکی کے ساتھ لگی ہوئی تھی ۔

ایک جگہ وہ اس لڑکی کو گود میں اٹھائے ہوئے تھا تو دوسری جگہ وہ اس لڑکی کی طرف ہاتھ بڑھائے ہوئے تھا ۔۔۔


وہ حیرت سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے ۔۔

گڈ ایوننگ ۔۔

اسکی بھاری گھمبیر آواز پر وہ دونوں حیرت سے دروازے کی جانب دیکھنے لگے تھے ۔

ہیر نے سرعت سے شانے پر پڑا دوپٹہ ٹھیک سے سر پر جمایا ،

جبکہ خیام حیرانی سے کھڑا ہوتا اپنے سردار غاذان کی طرف بڑھا تھا۔

کیسے ہو خیام ۔

اس نے سنجیدگی سے پوچھا پیچھے اسکا خاص ملازم خادم تھا وہ آج بھی چہرے پر بلیو کلر کا ماسک لگا کر آیا تھا کہ وہ کوئی ہنگامہ نہیں چاہتا تھا لیکن ہنگامہ تو بن چکا تھا جس سے وہ ابھی انجان تھا۔

ہم ٹھیک ہیں سردار! شکریہ ہماری بھرہور مدد کرنے کے لیے۔

اسکے سامنے سر جھکا کر وہ عقیدت سے بولا تھا،

غاذان سنجیدگی سے اسکا کندھا تھپکتا ہیر کی طرف بڑھا تھا جس پر اس کے دل نے ایک الگ ہی قسم کی لے بدلی تھی ۔۔

آپ کیسی ہیں ۔

اسکے چہرے کو دیکھتا وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔

میں ٹھیک ہوں ۔

اپنے ہاتھوں کو دیکھتی وہ نروس لیے انداز میں بولی ۔

وہ سر ہلا کر خادم کو کچھ اشارا کر گیا۔

خیام آج سے تم میرے ساتھ رہو گئے تم نے صرف یہ کرنا ہے میری ساری میٹنگز انٹرویوز تم نے دیکھنے ہیں اور تمہاری جاب سٹارٹ ہو گئی دوپہر چار بجے سے لے کر رات آٹھ بجے تک کیا کرو لو گِے یہ کام۔

وہ آنکھوں میں سنجیدگی لیے اس سے پوچھ رہا تھا جبکہ وہ بہن بھائی حیرت سے اسے دیکھنے لگے یہ وہ کیا کہہ رہا تھا کیا جو انہوں نے سنا تھا وہ سچ تھا یا صرف ایک خواب۔ ۔

سردار آپکے ساتھ کام ۔

وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔

کرو گئے ۔

اس نے اس بار آنکھوں میں مسکراہٹ لیے پوچھا ۔

جبکہ وہ سردار کے ہاتھ تھما کر نم آنکھوں سے لگا گیا کہ اسے اللہ نے انکے لیے فرشتہ ہی بنا کر بھیجا تھا جو ان دونوں کی ہر پریشانی میں انکی مدد کرنے چلا آتا تھا وہ کیسا سردار تھا وہ دونوں بہن بھائی سمجھ نہیں سکے کہ پہلے بھی تو کافی لوگ سردار رہ چکے تھے کسی نے ایسے غریبوں کی مدد نا کی ہو گئی ۔۔

کل آجانا اوکے اور ہاں تم اپنی بہن کو لے کر اس گھر میں چلے جاو یہ میرا گھر ہے تم دونوں وہاں سیو رہو گئے جب تک خیام اپنا گھر نہیں لے لیتا تب تک وہاں رہ سکتے ہو آپ لوگ اوکے ۔۔

بھاری آواز میں کہہ کر بنا انکی کچھ سنے وہ وہاں سے تیزی سے نکلا تھا کہ باپ کی کال پر کال آرہی تھی ۔۔


خیام پتہ ہاتھ میں پکڑے حیرت سے اس دروازے کو دیکھ رہا تھا جہاں سے وہ گیا تھا ۔

آپی یہ سردار کیا ۔

اس سے کچھ بولا ہی نا گیا ہیر نیچے والا ہونٹ اوپر والے ہونٹ کے نیچے دبائے خود حیرت میں تھی ۔۔

خیام ہم کیسے وہاں جا سکتے۔۔

ہیر پریشانی سے بولی ۔۔

جبکہ وہ مسکرا کر رہ گیا ۔۔

آپی ہم نئے گھر میں رہیں گئے ، کوئی ظالم دیو نہیں ہو گا وہاں! جو ہماری مرضی ہو گئی وہ کریں گئے کتنا مزہ آئے گا نا آپی۔ ۔۔

خیام ایکسائٹمنٹ سے بولے جا رہا تھا خیام کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ کو دیکھتی اسکے سوکھے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئی۔۔

_________________________________


وہ جیسے ہی گھر آیا سب افراد کو لاونج میں بیٹھے دیکھ کر وہ تشویش زدہ ہوا تھا ۔

کچھ رشتے دار بھی تھے اور تو اور ریاض خانم (شائنہ کے فادر) بھی وہاں غصے سے بیٹھے ہوئے تھے ۔

اسکے آنے پر سب کھڑے ہوئے کہ سردار چاہے کس عمر کا ہی کیوں نا ہو اسکے آنے ہر تعظیم سے اٹھا جاتا تھا ۔۔

داور نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔

سب خیریت ہے ۔

اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔

یہ پڑھو ۔۔

تیمور خانم نے اخبار اسکی طرف بڑھاتے ہوئے غصے سے کہا۔

انہیں ایک نظر دیکھتا وہ پیپر انکے ہاتھ سے لے کر نظر دوڑاتا چونکا تھا ۔۔

پھر انہیں دیکھتا اخبار کے ٹکڑے کو نیچے پھینک دیا۔

تو !

اس نے آئی برو اچکا کر بھاری آواز میں لاپرواہی سے پوچھا۔

سردار یہ آپکا مصر نہیں یہ پاکستان ہے جہاں ایسی چیزوں پر سکینڈلز بنتے ہیں کیا ُآپ نہیں جانتے آپ ایک سردار ہیں آپکو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہو گا ۔


اس بار ایک بزرگ آدمی اسکے لاپرواہ سے انداز پر سنجیدگی سے اسے ٹوکنے لگے تھے۔

او پلیزز میں ان چیزوں کو سمجھتا ہوں اس لیے مجھ سے باز پرس نا کی جائے تو بہتر ہو گا ۔


وہ اس بار کافی غصے سے بولا تھا اسے کب گوارہ تھا کوئی اس سے سوال و جواب کرئے یا ٹوکے ۔۔

سردار غاذان یہ لڑکی کون ہے کیا آپکی گرل فرینڈ ہے یا کوئی رکھیل جسے آپ سڑکوں پر گود میں اٹھائے گھوم رہے ہیں ۔۔

ریاض خانم کافی تیکھے لہجے میں بولے تھے ۔

غاذان کا چہرہ سرخ پڑا تھا ریاض خانم کی بات پر۔ ۔

منہ سنبھال کر باتیں کریں شکر کریں آپ مجھ سے بڑے ہیں ورنہ اب تک میں یہ بولنے والا کا منہ توڑ دیتا اس لڑکی کو مدد کی ضرورت تھی میں نے کر دی اب جسکو جو سوچنا ہے سوچے آئی ڈونٹ کیئر میں تھک چکا ہوں آرام کرنا چاہتا ہوں سو گڈ نائٹ ایوری ون۔ ۔۔

سپاٹ لہجے میں کہتا وہ وہاں سے نکل گیا تھا پیچھے وہ سب حیرت زدہ سے بیٹھے رہ گیے اوپر کھڑی خواتیں بھی حیران سی اسے دیکھتی رہ گئیں ۔

شائنہ کا چہرہ سرخ پر چکا تھا آپ نے میرے باپ کی بے عزتی کی ہے سردار آپ نے اچھا نہیں کیا۔

وہ ضبط کے مارے ہونٹ کاٹ کر رہ گئی۔

______________________________


واوا آپی اتنا خوبصورت گھر۔ ۔

باہر سے عام دیکھنے والا گھر اندر سے کسی عالی شان بنگلے سے کم نہیں تھا۔

یہ سردار کا پرسنل کاٹیج تھا لیکن وہ نہیں جانتا یہ گھر ان دو بے سہاروں کو دے کر وہ اپنے اوپر بدنامی لکھنے والا ہے۔

ہیر نے گھر کی ہر چیز کو چھو کر دیکھا کہ کہی وہ خواب تو نہیں دیکھ رہی۔

آپی آپ کونسا روم لیں گئی ۔

خیام نے ایکسائٹمنٹ سے پوچھا ۔

جو تم کہو گئے وہی لے لوں گئی۔

وہ کرسی پر بیٹھ کر بولی کہ کمزوری کی وجہ سے زیادہ دیر اس سے کھڑا یا چلا نہیں جاتا تھا ۔۔

ہم دونوں ساتھ ساتھ والے روم لے لیتے ہیں رات کو ایک دوسرے کی کبھی ضرورت بھی تو پڑ سکتی ہے ۔

خیام کچھ سوچتا ہو بولا

وہ بے دھیانی میں سر ہلا گٙی ۔

خیام لگتا ہے یہ گھر کافی عرصے سے بند ہے دیکھو نا کتنی مٹی اور جالے ہیں ۔

وہ ارد گرد دیکھتی ہوئی پریشانی سے بولی ۔

آپی میں صاف کردوں گا آپ آرام کریں ۔۔

وہ شرٹ کے بازوں اوپر کرتے ہوئے اسکے خیال سے بولا ۔

وہ جواباً چپ رہی کہ اس سے کام وغیرہ واقعے نہیں سکتا تھا ۔

ہیر ارد گرد دیکھتی ہوئی پریشان تھی کہ یہ گھر کافی بڑا تھا اور ویران بھی کیا وہ اکیلی رہ لیا کرئے گئی جب خیام سکول اور جاب پر چلا جایا کرئے گا آس پاس تو کوئی گھر بھی نہیں تھا ۔۔


ہونٹ بھینچے وہ اٹھ کر بیٹھ کر ہی ڈسٹنگ کرنے لگی کہ اتنا کام خیام اکیلا نہیں کر سکتا تھا۔ ۔

_______________________________


مہرینہ نے اسے کافی کا کپ پکڑا کر اسے دیکھا جو بے تاثر چہرے سے لیپ ٹاپ گود میں رکھے کوئی میل وغیرہ پڑھ رہا تھا ۔۔

مہرینہ کوئی کام ہے ۔

وہ بنا اسکے چہرے کو دیکھتا کافی غصے سے بولا ۔

نہیں تو !

وہ بھوکھلا کر کہتی اسکے کمرے سے بھاگی تھی کہ آج کل سردار کا موڈ بہت آف تھا یہ نا ہو وہ اسے ہی ڈانت دے۔ ۔


شائنہ غصے سے گھر چلی گئی تھی اسکے ماموں اور مامیوں نے کافی روکنےکی کوش کی لیکن وہ نا رکی ۔۔

باہر آکر موبائیل نکال کر وہ ارد گرد کی تصویریں وغیرہ لینے لگی تھی جب ایک نیا چہرہ اسکے فون میں کیپچر ہوا تھا ۔۔


وہ حیرت سے موبائیل سے نظر ہٹا کر اس نئے کم عمر لڑکے کو دیکھنے لگی ۔

جو وائٹ شرٹ اور بلیو پینٹ میں تھا ایک کندھے سے بیگ گزار کر کمر پر ڈالا ہوا تھا وہ لڑکا کافی خوبصورت تھا ۔


وہ حیرت سے اسے دیکھتی اسکے آگے بازو کر گئی تھی۔

وہ اسے نا سمجھی سے دیکھنے لگا۔

مہرینہ نے جواباً سوالیہ آئی برو اچکائے ۔

جی !

وہ پریشانی سے بولا۔

کون ہو تم اور یہاں کہاں منہ اٹھا کر چلے آرہے ہو کیا تم نہیں جانتے یہ سردار محل ہے یہاں کسی کو آنے کی ضرورت نہیں۔


وہ ناک کے نتھے پھیلاتی کافی غصے سے بولی ۔

خیام نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جو ہونٹوں میں لولی پاپ دبائے اس پر کافی روعب جھاڑ رہی تھی ۔

آئی نو یہ سردرا محل ہے مجھے سردار غاذان نے جاب پر رکھا ہے اوت میں انکی اجازت پر ہی آیا ہوں ۔

وہ سر جھکاِے اخترام سے بولا۔

وہ دونوں آئی برو اکٹھے کیے اسکا جائزہ لیتی بازو اسکے آگے سے ہٹا گئی ۔

اسکے جانے کے بعد وہ شرارت سے مسکرائی کہ سے تنگ کرنے کے لیے ایک نیا بکرا مل چکا تھا ورنہ تو وہ کافی بور ہو چکی تھی عام سی روٹین سے ۔

لولی پوپ منہ میں گھماتی ہوئی وہ بھی کچن میں جانے کے لیے اندر کی طرف بڑھ گئی۔

________________________________


گھر کیا تھا کوئی بھوت بنگلہ تھا ڈراونا سا ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا ۔

بالوں کی مضبوط چوٹی سے بال ہوا سے اڑ اڑ کر چہرے پر آنے لگے تھے بیقرار آنکھیں اپنے بھاِئی کا راستہ دیکھ رہیں تھیں۔

وہ شیشے کی کھڑکی کے سامنے کھڑی باہر چمکتی دھوپ کو پریشانی سے دیکھ رہی تھی کہ یہاں پر گاڑی آگے نہیں آسکتی تھی خیام کو پیدل ہی آنا پڑتا تھا دھوپ سخت تھی تو گرمی بھی بھلا کی تھی ۔

ہونٹ کاٹتی وہ بڑے سے کچن میں چلی آئی ۔۔۔

وہ چائے بنا رہی تھی جب وہ حیران ہوئی کیونکہ باہر والے دروازے کی گھنٹی بجی تھی خیام تو اس وقت نہیں آپتا پھر کون آگیا ہے کوئی چور نا ہو میں دروازہ نہیں کھولوں گئی۔

وہ لب کاٹتی ڈرے سہمے لہجے میں بولتی

لاونج میں چلی آئی ۔

اب اسکا سانس اوپر کا اویر نیچے کا نیچے رہ گیا کہ کوئی دروازے میں کیز گھما رہا تھا ۔

لیکن جب کلک کی آواز آئی تو وہ وہی کھڑی منہ پر ہاتھ رکھے چیخنے لگی تھی اسکی چیخیں در و دیوار سے ٹکڑاتی اندر آتے نفوس کو ٹھٹھکا گئیں تھیں ۔۔

اپنے سامنے کھڑِی چیختی لڑکی تیمور خانم ، خشام خانم ، داور اور دوسرے افراد کو ٹھٹھکا گئی تھی وہ حیران پریشان سے اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے ۔

کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو۔


تیمور صاحب کی طیش بھری آواز پر وہ ایک دم سے ساکت ہوئی تھی ۔

چہرے سے ہاتھ ہٹاتی وہ ان نفوس سے ڈر سی گئی تھی۔

تیمور صاحب نے اس لڑکی کو غور سے دیکھا یہ تو وہی تھی اخبار والی اور ایک دو بار انکے راستے میں بھی آئی تھی۔ ۔

جبکہ داور نے کمینگی مسکان سے اس معصوم لڑکی کو دیکھا تھا ۔

وہ بھی پریشانی سے انکو دیکھتی سر جھکا گئی تھی۔

تیمور صاحب کا دل کیا اس لڑکی کو ابھی زمین کے اندر دفن کر دیں آخر کیا تھا اس لڑکی میں نا صورت نا سٹیٹس پھر کیوں انکا بیٹا اس لڑکی کے پیچھے پڑا ہوا تھا وہ شائنہ کے مقابل تو کچھ بھی نہیں تھی آخر کیا جادو کر دیا تھا اس کم زات نے انکے سردار بیٹے پر۔

وہ نفرت سے اس لڑکی کو دیکھتے اسکے قریب آئے تھے ۔

کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو۔ ۔۔


انہوں نے تیکھے لہجے میں دانت پیس کر اس سے پوچھا تھا ۔

وہ گھبرا کر دو تین قدم پیچھے ہوئی تھی چہرے پر سراسیمگی سی چھا گئی تھی۔

میں پوچھتا ہوں تیمور خانم ۔۔

ریاض خانم غصے سے کہتا اس لڑکی کی طرف بڑھے تھے جو سر جھکائے کسی بت کی مانند لگی تھی انہیں ۔۔

کون ہے تو اور سردار غاذان سے تیرا کیا رشتہ ہے۔

ریاض خانم ایک ایک لفظ چبا کر بولا۔

وہ بنا سر اٹھائے سسکنے لگی تھی وجود کسی پتے کی طرح کانپنے لگا تھا ۔

میں پوچھتا ہوں کون ہو تم اور کس نے بھیجا ہے تمہیں یہاں ۔

ریاض خانم اسے کمزور لڑکی پر ہاتھ اٹھاتے چلائے تھے۔

انکے بھاری تھپڑ سے وہ لڑکی ایک دم سے فرش پر گری تھی۔


ریاض خانم ۔۔

سردار کی آواز وہاں بھوچال لے آئی تھی ۔

سب نے حیرت سے پلٹ کر پیچھے دیکھا جہاں وہ براون پینٹ پر وائٹ شرٹ زیب تن کیے لونگ براون شوز پہنے وہ کسی ریاست کا شہزادہ ہی لگتا تھا وہ اس لائیک تھا کہ اسکے سر پر سردار کی پگڑی سجتی۔

داور مسکرایا پلین کامیاب رہا تھا اسکا اور رانا کا اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے

ہلکی مسکان سجائے وہ آگلے سین کا منتظر تھا ۔

وہ نیچے پڑی لا وارثوں کی طرح سسکنے لگی تھی اسے دیکھ کر!

آخر اور کیا کیا دیکھنا تھا اسے وہ سمجھنے سے کاصر تھی۔ ۔

نکلو یہاں سے تم، پھر میں اپنے بیٹے سے پوچھتا ہوں ۔۔

تیمور خانم اسکا بازو ڈبوچتا ہوا پھنکارا ۔

ہیر نے دھندلائی نظروں سے اسے دیکھا جو تیزی سے انکی طرف آرہا تھا۔


پریس کہاں رہ گئی تمہاری۔۔

داور نے غصے سے رانا کو میسج کیا ۔

بس سمجھ یار پہنچنے والی ہے اب نیا تماشا دیکھ توں ۔۔

رانا نے کہتے ہی فون رکھ دیا ۔

یہ گھر میرا ہے ڈیڈ ایک سردار کا آپ اسے یہاں سے نہیں نکال سکتے ۔۔

اسکا بازو انکی گرفت سے نکالتا وہ سرد لہجے میں ان سے مخاطب تھا۔

سردار غاذان تم ہوش میں ہو اپنے باپ سے مخاطب ہو تم ۔۔

ریاض خانم غصے سے چلائے ۔۔

آئی نو ریاض خانم اب آپ ایک سردار کو بتائیں گئے اسے کیسے مخاطب ہونا چاہئیے۔

انکی طرف دیکھتا وہ سرد لہجے میں بولتا انکی بولتی بند کر گیا تھا ۔

غاذان بکواس بند کرو سمجھے اس لڑکی کو چلتا کرو یہاں سے تم نے اسکے ساتھ کچھ وقت سپینڈ کر لیا نا چلو ٹھیک ہے یہ سب ہوتا رہتا ہے اس عمر میں لیکن اب اسے اسکا معاوضہ دے کر چلتا کرو یہاں سے۔۔۔۔۔


ڈیڈ ۔۔

وہ ایک دم مشتعل ہوتا چلایا تھا تب ہی وہاں پریس کی ایک پوری ٹیم جمع ہوئی تھی انہیں یہ خبر دی گئی تھی کہ سردار اپنے پرسنل کاٹیج میں ایک لڑکی کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے انہیں ڈسپوز کرو تو وہ پہنچ چکے تھے انہیں بھلا اور کیا چاہئے تھا ۔۔۔۔

سردر یہ لڑکی آپکی کیا لگتی ہے ؟

سردار کیا رشتہ ہے اس سے آپکا ؟

کون ہے یہ؟ اور یہ آپکے پرسنل کاٹیج میں کیوں رہ رہی ہے ؟

کیا یہ لڑکی آپکی گرل فرینڈ ہے یا کچھ اور ؟

طرح طرح کے سوالات نے سردار غاذان کو غصہ چڑہا دیا تھا ۔

تیمور سمیت سب ہی پریس کو دیکھ کر پریشان ہو گِے تھے انکا امیج خراب ہو سکتا تھا اور اگر ایسا ہوتا اتو انکے بیٹے کو سرداری کے عہدے سے پراں ہونا پر سکتا تھا ،

اور اگر ایسا ہو گیا تو انکا خریف اشفاق رانا کا بیٹا سردار بن سکتا تھا کیونکہ دوسر امیداوار وہ تھا لیکن ووٹ انکے زیادہ تھے تو سردار انکا بیٹا بن چکا تھا لیکن وہ اگر ہٹتا تو رانا کا بِیٹا اگلا سردار ہو سکتا تھا انکی کیا عزت رہ جاتی نہِیں ایسا نہیں ہو سکتا تھا یہ پگڑی ہمیشہ سے انہی کے خاندان کا حصہ رہی ہے وہ اسے باہر جاتا نہیں دیکھ سکتے تھے کچھ تو کرنا تھا انہیں لیکن کیا۔ ۔۔


________________________________


بات سنو لڑکے !

وہ سردار کی گاڑی کے پاس کھڑا سردار کا ویٹ کر رہا تھا کہ وہ ایک ضروری میٹنگ اٹنینڈ کرنے گئے تھے لیکن ابھی تک نہیں لوٹے تھے اسے انہِیں رات کے ڈیننر کے بارے میں بتانا تھا جو کہ ایک بہت بڑے نیوز چینل کے اونر کے ساتھ تھا وہ انہِیں پوری تفصیل بتا کر گھر جانا چاہتا اس لیے باہر کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا جب نسوانی آواز پر وہ چونک کر پلٹا ۔


وہ بلیو جینز پر بلیک پلین کرتا پہنے ہوئے تھی بال بکھڑے سے تھے کہ اس لڑکی کے بال اس نے ہمیشہ بکھڑے ہی دیکھے تھے پتا نہِیں کیوں وہ بالوں کا گھونسلہ بنائے رکھتی تھی ۔

جی ۔۔

وہ اخترام سے بولا۔

سموکنگ کرتے ہو ۔

وہ ارد گرد دیکھتی ہوئی دھیمی آواز مِیں اس سے پوچھ رہی تھی ۔

نہیں ۔۔۔

وہ حیرت سے بولا ۔

جس پر وہ ناک منہ چڑہا گئی تھی۔ ۔

میں کرتی ہوں سموکنگ سنو کل آتے وقت سگریٹ کی ڈبیاں لے آنا ۔۔

چیونگم چباتی وہ اس کے چھکے چھڑ گئی تھی۔ ۔

واٹ ۔۔

وہ حیرت سے زیادہ پریشان ہوا تھا۔

کیا واٹ امیر گھرانے کے لڑکے لڑکیاں سموکنگ کرتے ہیں شراب پیتے ہیں تو میں بھی پیتی ہوں اس میں نئی بات کیا ہاں ویسے سب سے چھپا کر پیتی ہوں کسی کو بتانا مت ورنہ نوکری سے نکلوا دوں گئی سمجھے۔

آنکھوں میں شرارت جبکہ چہرے پر سنجیدگی سے تھی ۔

خیام نے پہلی دفعہ ایسی لڑکی دیکھتی تھی وہ پریشان ہو چکا تھا اس لڑکی کی حرکات سے ۔

لا دو گئے ۔

اس نے آئی برو اچکا کر تصدیق چاہی ۔

نہِیں ۔۔

سنجیدگی سے کہتا وہ دور کھڑے گارڈز کی طرف بڑھا۔

ہیں! ہمت تو دیکھو ہے ملازم اور ایٹیوڈ ایسے دیکھاتا ہے جیسے اس گھر کا مالک ہو ۔

وہ ناک چڑہاتی غصہ ہوئی تھی کیونکہ ہاتھ میں آیا مرغا نکل چکا تھا شائنہ بھی چلی گئی تھی ورنہ اسے ہی تنگ کر لیتی۔۔


امی سے کہتی ہوں رشتہ دیکھیں میرے لیے کہ زندگی بور سی لگنے لگی ہے مجھے نا کوئی ساس ہے نا نند! ہو گئیں تو لڑائی شڑائی تو ہو گئی نا کچھ چینج آئے گا زندگی میں۔ ۔

سنجیدگی سے سوچتی وہ اندر کی طرف بڑھ گئی ۔

جبکہ وہ اسکی بڑبڑاہٹ بڑی واضع سن چکا تھا وہ اس لڑکی کی بات سنتا استغفار پڑھ کر رہ گیا کہ اسکے خیال میں وہ لڑکی کافی بگڑی سی تھی ۔۔

________________________________


میں کسی کو جواب دینے کا پابند نہیں ،

غصے سے ابھی وہ کچھ اور کہتا جب تیمور صاحب کا دماغ تیزی سے کام کیا تھا ۔

وہ آپ لوگوں کو کیوں حواب دے آخر کو یہ لڑکی اسکی بیوی ہے وہ اسے جہاں دل کرئے رکھ سکتا ہے ۔۔

تیمور صاحب نے بہت پراعتماد انداز سے اپنی بات کہی تھی جس پر سردار سمیت ہیر اور باقی خاندان والے بھی حیرت و شاکس سے انہیں دیکھنے لگے تھے ۔

ڈیڈ یہ آپ ۔۔۔

وہ غصے سے کچھ کہتا جب وہ اسے ایک طرف زبردستی لے گئے تھے ۔

غاذان تمہیں اپنی ماں کا واسطہ ہے چپ رہو کہ جو رائتہ تم پھیلا چکے ہو وہ میں ہی اب صاف کروں گا تم کچھ نہیں بولو گئے۔

وہ سرد لہجے میں بولے تھے جس پر اس نے بے تاثر نظروں سے انہیں دیکھا تھا۔

ڈیڈ آپ جانتے ہیں مجھے جھوٹ سے کتنی نفرت ہے اور آپ ہیں کہ اتنا بڑا جھوٹ بول آئے ہیں مجھے یہ کسی صورت منظور نہیں ۔

وہ سرد لہجے میں کہتا آگے بڑھنے لگا تھا جب انہوں انے اسکا بازو کھینچا ۔

غاذان اگر آج تم نے میری عزت کی لاج نا رکھی تو یاد رکھو گئے تم ۔۔

انہوں نے بھی طیش سے کہا۔

وّہ ہونٹ بھینچے انہیں دیکھتا رہ گیا ۔۔

ہیر کی نظریں زمین سے چپک چکیں تھی وہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ۔

ریاض صاحب نے غصے سے تیمور خانم کو دیکھا ۔۔

تم ہوش میں تو ہو تیمور ۔۔

ریاض خانم پھنکارے تھے دھیمی آواز پر جبکہ وہ دھیمی ّآواز میں اس کے کان میں کچھ کہنے لگے تھے میڈیا والے آپس میں کھسر پھسر کرتے انہیں دیکھ رہے تھے ۔۔

تیمور صاحب آپ نے کیوں نہیں بتایا سردار کی شادی کا کسی کو ۔

ایک ریپورٹر تلخی سے بولی تھی۔

یہ شادی کچھ دنوں بعد ڈسکلوز کرنی تھی لیکن پہلے ہی ہو گئی یہ وہی لڑکی ہے جسکی تصاویر کچھ دن پہلے سردار کے ساتھ چھپیں تھیں ۔

انہوں نے سنجیدگی سے ریپورٹر کو جواب دیا۔

سردا غاذان ہونٹ بھینچے باپ کو کاٹ دار نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ باقی خاندان والے خاموش ہو چکے تھے تیمور کی مصلحت سمجھ کر ان میں ایک داور تھا پریشان کہ یہ انکے پلین میں شامل نہیں تھا جو ہونے جا رہا تھا کہ رانا کو وہ کمزور لڑکی پسند آ چکی تھی وہ اب اسکے ساتھ خود کی شادی رچانا چاہتا تھا اس لڑکی کی آنکھوں کی کشش نے رانا کو اپنے ساتھ باندھ لیا تھا ۔۔

کیا آپکے پاس نکاح نامہ ہے یا آپ سرداری بچانے کے لیے جھوٹ بول رہے ہیں ۔

ایک ریوپورٹر کافی تلخی سے بولا تھا۔

اب کے بار تیمور سمیت سب ہی ٹھٹھکے تھے یہ تو انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔


آپ نکاح نامہ دیکھا دیں تاکہ سب کو یقین ہو جائے ۔

داور ہلکے سے مسکرایا کہ اب چاچو پھنسے تھے ۔۔

ہیر ہونٹ کاٹتی ایک طرف پڑی کرسی پر بمشکل بیٹھی اسکا سر درد کرنے لگا تھا یا شاید پھر سے بی پی ہائی ہو گیا تھا ۔


سردا نے بھی اس بار باپ کو طنزیہ نظروں سے دیکھا اور ہلکا سا مسکرایا سب کے پسینے چھوٹتے دیکھ کر پتا نہیں کیوں یہ مسکراہٹ کا فی بے ساختہ تھی اسکی۔ ۔۔۔

نکاح نامہ ہے لیکن گھر ہے اب ہم جیبوں میں لے کر تھوڑے نا گھومتے ہیں نکاح نامے۔ ۔

اس بار خشام صاحب بولے تھے ۔


تو نکاح نامہ گھر سے منگوایا بھی تو جا سکت ہے نا ۔

دوار نے جس ریپورٹر کو پیسے دئیے تھے وہ کافی ترش سوال پوچھ رہا تھا ۔

وہ چہرہ نیچے کیے مسکرایا تھا ۔


تیمور صاحب آپ گھر سے ایک فون کر کے نکاح نامے منگو لیں تاکہ ہم سب بھی دیکھ لیں کہ سردد کا کردار کتنا پاک ہے ۔

ایک اور رپیوٹر بولا تھا۔

ایکسیوزمی مجھے اپنے کردار کا سرٹیفیکٹ کسی سے نہیں چاہئیے میں جانتا ہوں میں کیسا ہوں میرے لیے یہی کافی ہے ۔

اسکے غصے بھرے لہجے پر ایک لمحے کے لیے خاموشی سی چھا گئی تھی۔

لیکن آپ ہماری ریاست کے سردار ہیں ہمارا حق بنتا ہے یہ جاننا کہ ُآپ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ ۔

وہی ریپورٹر پھر سے بول تھا ۔

تیمور معاملہ بگڑ چکا ہے اب اسکا ایک ہی حل ہے اس لڑکی کا سردار کے ساتھ نکاح پڑھوا کر نکاح نامہ سب کو دیکھا دو بعد میں اس لڑکی کو دودھ میں مکھی کی طرح نکال باہر کریں گئے لیکن اگر جھوٹا بنوایا تو ہم بہت برے پھنسے گئے انہیں کل کا ٹائم دو ۔۔

انکے خاندان کا ایک بزرگ کافی سمجھداری سے بولا تھا ۔۔۔۔

تیمور سمیت ریاض صاحب بھی چونکے پھر تیمور صاحب مسکرائے تھے ۔۔

غاذان ایسے لاپرواہی سے بیٹھا تھا جیسے مسلہ اسکا نہیں کسی اور کا چھڑا ہو ۔۔


ہیر اب اسی کو دیکھ رہی تھی آنکھوں میں نمکین بہت ساپانی جمع ہو چکا تھا سردار کا دھندلا سا عکس اسے نظر آرہا تھا ۔۔


ٹھیک ہے کل چار بجے آپ لوگ سردار غاذان تیمور کا نکاح نامہ دیکھ سکتے ہیں وہ بھی سردارمحل میں یہاں نہیں ۔


تیمور صاحب کی پرجوش آواز پر سردار ایک دم سے چیئر سے کھڑا ہوا تھا ہیر نے پریشانی سے ہونٹ بہت بے دردی سے کچلے تھے کہ یہ کیا ہونے جا رہا تھا جسکی اسے کچھ خبر ہی نا تھی۔

اب آپ لوگ جا سکتے ہیں کہ ہمیں ایک ضروری کام سے جانا ہے ۔

تیمور صاحب نے ریپورٹرز سے کہہ کر اپنے بیٹے کو طنزیہ نظروں سے دیکھا جیسے کہا ہو تمہارا ہی بویا کاٹ رہے ہیں بیٹا اب پریشان کیوں ہو۔ ۔۔۔۔


امپوسیبل میں نکاح کسی صورت نہیں کروں گا یہ میری لائف ہے ڈیڈ جسے میں اپنے حساب سے جینا چاہتوں ناکہ آپکے ۔۔

ُآپ نے کہا سردرر تمہیں ہی بننا ہے میں بنا خلانکہ میں انٹرسٹڈ نہِیں تھا آپ نے کہا شائنہ سے منگنی کرو میں نے آپکے لیے وہ بھی کر لی آپ چاہتے کیا ہیں آخر ڈیڈ ۔۔

سرد لہجے میں بولتا وہ انکے سامنے آیا تھا ۔

تو بیٹا کس نے کہا تھا اس لڑکی کی مدد کرو اسے اپنا پرسنل کاٹیج گفٹ کرو اب بھگتو تم بھول گئے تھے کیا ایک سردار کے کتنے دشمن ہوتے ہیں تمہارے کسی دشمن نے کردی ہو گئی میڈیا کو اطلاع اور اگر ہمارے سر سے ہمارے بزرگوں کی پگڑی چلی گئی نا تو اسکے زمے دار صرف تم ہو گئے غاذان ہم نہیں ہم جو کرنا چاہ رہے ہیں ہمیں کرنے دو بہت مہربانی ہو گئی تمہاری ۔


تیمور صاحب بھی تلخی سے بولتے اسکے سامنے تن کر کھڑے ہوئے تھے ۔

میری وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے کاش ہم یہاں نا آتے اپنے اسی محلے میں چلے جاتے ۔

ہونٹوں پر ہاتھ رکھے وہ بھرائے دل سے سوچنے لگی تھی ۔۔

نگاہیں ان باپ بیٹے پر تھیں ۔

میں یہ نکاح نہیں کرنا چاہتا بس بات ختم،

وہ کہتا ہوا سیڑیاں اترنے لگا تھا جب تیمور صاحب نے اسکی کلائی تھامی تھی ۔

سردار بیٹے نکاح تو تمہِیں کرنا ہے بعد میں اس مسلے کا حل نکال لیں گئے میری خاطر مان جاو کیا تمہیں پسند ہو گا لوگ تمہارے باپ پر ہنسے اسکا مزاق اوڑائیں اس سے بہتر ہو گا میں کہی چلا جاوں تم تو خوش رہو گئے نا ۔


تیمور صاحب مصنوعی درد بھرے لہجے میں بولے تھے ۔

وہ آنکھیں سکیڑے انہیں بے تاثر چہرے سے دیکھنے لگا باقی سب بھی پریشان سے تھے سوائے داور کے ۔۔

ریاض خانم قہر بھری نظروں سے اسے خاموش کھڑی لڑکی کو دیکھ رہے تھے ۔

تب ہی وہاں خیام آیا تھا وہاں اتنے لوگوں کو جمع دیکھ کر وہ پریشان ہوا تھا پھر ُاسکی ہلدی مائل رنگت دیکھ کر وہ اسکی طرف پریشانی سے آتا سب کو دیکھنے لگ جیسے معاملہ سمجھنا چاپ رہا ہو ۔

ڈیڈ آپ باز نہیں آئیں گئے

وہ تیکھے لہجے میں پوچھ رہا تھا۔

جس پر تیمور صاحب ارد گرد دیکھتے اس سے لا تعلق ہوئے ۔

اوکے ایز یو وش ۔۔

کہتے ہی وہ باہر کی طرف بڑھ گیا۔

خادم نکاح کا جلدی سے بندو بست کرو کہ اس سے پہلے ہمارے دشمن حرکت میں آئیں

تیمور صاحب کہہ کر سر پھرے بیٹے کے پیچھے باہر کی طرف چلے گئے ۔۔

انکی دیکھا دیکھی سب باہر لان میں چلے گئے آخر کو منصوبہ بندی بھی تو کرنی تھی ۔۔

………………………………………………………


خیام بھی پریشان سا تھا سارا معاملہ جان کر وہ دونوں ساکت سے سے بیٹھے تھے جب خادم ہاتھ میں بھاری تھال پکڑے آیا۔

میم یہ پہن لیں اور اچھے سے تیار ہو جائیں ۔

خادم نے چیزوں کی بھڑی تھال اسکی طرف بڑھاتے ہوئے سر جھکا کر کہا۔

ہیر نے حیرت سے خیام کو دیکھا تھا ۔ 

ہیر نے حیرت سے خیام کو دیکھا اور خیام نے اسے ۔

آپی !

خیام نے اپنی طرف ساکت نظروں سے دیکھتی ہیر کا کندھا ہلایا ۔

میم پکچرز لینی ہیں ابھی بیوٹیشن آ جاتی ہیں تب تک ڈریس وغیرہ چینج کر لیں۔

خادم تھال اسکے سامنے پڑے چھوٹے سے ٹیبل پر رکھ کر کہتا ہوا باہر نکل گیا۔

آپی اب اسکے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔

خیام نے گہری سانس لے کر اسے متوجہ کیا جو ہاتھ پر ہاتھ رکھے چپ چاپ تھی لیکن نظریں اس سرخ جوڑے پر تھیں جو کافی ہیوی تھا ۔

خیام یہ ٹھیک نہیں ہے سردار ایسا نہیں چاہتے یہ لوگ زبردستی انکا نکاح میرے ساتھ کرنا چاہ رہے ہیں ۔

ہیر کو خود سے زیادہ فکر اس شہزادے کی تھی بھلا وہ کہاں عام سی کمزور لڑکی اور کہاں وہ جو دیکھنے میں ہی کسی ریاست کا شہزادہ لگتے ہیں، انکا اور میرا تو کوئی جوڑ ہی نہیں ہے خیام۔

سر جھکائے وہ پریشانی سے بول رہی تھی ۔

آپی پلیز آپ چینج کر لیں کیا پتا خدا نے انہِیں ہی آپکے نصیب میں لکھا ہو آپکی ساری تکلیفوں کا مداوا وہ ہوں اللہ کا فیصلہ جان کر تیار ہو جائیں اللہ ایسے ہی وسیلے بناتا ہے آپ کا اور انکا ملنا ایسے ہی لکھا تھا ۔

اپنے بھائی کے منہ سے یہ سب باتیں اسے حیرانی میں ڈال گئیں تھیں وہ کہی اسکی نظروں میں چھپے انکے عکس سے آگاہ تو نہیں ہو چکا تھا ۔

وہ حیرت سے اسکی پشت دیکھتی رہ گئی جو باہر کی طرف جا رہا تھا ۔۔


آپ نے ابھی تک ڈریس چینج کیوں نہیں باہر سب لوگ تیاری میں ہیں ۔

ایک لڑکی اندر آتی کافی تیکھے لہجے میں اس سے بولی تھی ۔

میں پہن رہی ہوں۔

ایک دم کھڑی ہوتی وہ جلدی سے بولی ۔

پلیز زرا جلدی کریں مجھے اور بھی برائیڈز کو تیار کرنا ہے۔

وہ لڑکی بیوٹی بوکس سے سامان نکال کر ٹیبل پر رکھتی ہوئی مغرور تاثرات سے بولی ۔

سر ہلا کر وہ سامنے بنے واش روم کی طرف چلی گئی ۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ ایک بھاری ریڈ کلر کی فراک میں تھی ۔

دھیمے قدموں سے شرمیلے چہرے سے وہ اسکے قریب آئی تھی ۔

یہاں بیٹھو۔

اسے چیئر پر بٹھاتی وہ لٰڑکی عام سے لہجے میں بولی ۔

پہلے اس نے اسکی خوبصورت سی ڈیزائن والی چوٹیا بنائی پھر ہلکا ہلکا میک اسکے چہرے پر سجا کر وہ لڑکی ایسے جیسے جان چھڑا رہی تھی ۔

ہلکا سا میک اپ کر کے وہ اسے نکلی زیورات بھی پہنانے لگی تھی جو لگتے سونے کے تھے لیکن تھے نکلی ۔۔

وہ زندگی میں پہلی بار اتنا تیار ہوئی تھی خلانکہ اس بیوٹی پارلر والی نے جان چھڑائی تھی لیکن اس پر تو ٹوٹ کر روپ آیا تھا لگتا ہی نہیں تھا یہ وہ ہیر ہے جو عام سے کپڑوں اور کئی کئی دن بال نا بنانے والی ہیر ہے یہ کافی مختلف ہیر تھی ۔۔


تیار ہو تم ۔۔

اپنا سامان واپس رکھتی وہ اس سے کہہ کر وہاں سے نکل گئی ۔

جبکہ وہ ہاتھ مڑوڑتی سخت نروس انداز میں تھی ۔

ہونٹ بھینچے وہ دھڑکتے دل سے پریشان بھی تھی ۔

مولوی صاحب خیام تیمور اور شہام صاحب کو اس طرف آتا دیکھ کر وہ حد سے زیادہ نروس ہوتی سر اتنا جھکا گئی کہ ایسے لگا سر گود کو چھو لے گا۔


"”ہیر بنت رضا ولد علی اصفر آپکا نکاح سردار غاذان تیمور خانم کے ساتھ حق مہر پچاس ہزار روپے سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ””


مولوی صاحب کے پڑھائے ہر لفظ پر اسکا دل کانپا تھا ،

اس نے بے ساختہ سر اٹھا کر خیام کو دیکھا دونوں کی آنکھوں میں نمی تھی

۔

خیام نے سر ہلا کر قبول ہے کہنے ک اشارا کیا تھا۔

قبول ہے

قبول ہے

قبول ہے🔥


تین بار کہنے پر مولوی نے اسکے سائن نکاح نامے پر لیے پھر بنا اس لڑکی کو دیکھے مولوی سے کچھ بات چیت کرتے وہ باہر چلے گئے ۔

نجانے کیوں ہیر کا دل کیا تھا تیمور خانم اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دیتے پتا نہیں کیوں انہیں دیکھ کر اسے اپنے بابا یاد آگئے تھے ۔۔

خیام نے سر جھکا کر اسکا سر چوما پھر ہاتھ پکڑ کر چومے۔

نکاح مبارک آپی ۔

اسکے سنجیدگی سے کہنے پر وہ سر جھکا گئی اسے اپنے سے چھوٹے بھائی سے آج کافی شرم آرہی تھی چہرہ سرخ ہو گیا تھا تو آنکھوں پر ایسے جیسے بہت سا بوجھ آن پڑا ہو جو وہ اٹھنے سے انکاری تھیں۔

خیام مسکرا دیا ۔۔

تھوڑے ہی وقت بعد وہ آگے آگے تھا اور اسکے پیچھے سب آرہے تھے ۔

وہ عام سے بلیک ٹو پیس سوٹ میں تھا ۔

ہیر کی تو نظریں پہلے ہی جھکی ہوئیں تھی اب تو گردن بھی فرش سے جا لگی تھی ۔۔

غاذان بیھٹو اس لڑکی کے ساتھ ۔

تیمور نے زبردستی اسے ہیر کے ساتھ بٹھایا ۔۔

وہ ہونٹ بھینچے بنا ہیر کو دیکھتا بیٹھ گیا شکایتی نظریں باپ پر تھیں جو اسے مسکرانے کا اشارا کر رہیں تھیں۔

یہ دکھاوا مجھ سے نہیں ہو گا تصویر بنانی ہے تو بنائیں ورنہ میں جا رہا ہوں ۔

وہ بھی آخر انہی کا بیٹا تھا ۔

تیمور نے فوٹو گرافر کو پکچرز وغیرہ بنانے کا اشارا کیا ۔

کیمرہ مین سر ہلاتا کیمرے کا فوکس ان دونوں پر کر گیا۔

ہیر کا دل اتنے زور سے دھڑکنے لگا تھا کہ اسے لگا اسکی دھڑکن کی آواز سب سن چکے ہوں ہتھیلیاں پسینے سے بھیک چکی تھیں۔

میم پلیز سر اٹھائِیں۔

کیمرہ مین نے اسے ایک دو بار کہا تھا لیکن پتا نہِیں اسکا دھیان کہاں تھا وہ تو اپنے دل کی رفتار میں الجھی ہوئی تھی ۔

ائے لڑکی سن نہیں رہی وہ کیا کہہ رہا ہے سر اٹھا اپنا اور کیمرے کی طرف دیکھ۔

اس بار ریاض صاحب پھنکارے تھے اس مومصوم لڑکی پر۔

وہ دبک سی گئی تھی انکے تیز اور ہتک آمیز لہجے پر۔

ایک دم سے وہ سر اٹھا گئی تھی ۔

خیام نے غصے سے ریاض خانم کو دیکھا جن کا دل کر رہا تھا اس لڑکی کو کچا چبا جائیں پتا نہیں وہ کہاں سے ٹپک پڑی تھی منہوس ماری ۔۔

ریاض صاحب بہت مشکل سے خود کو کنٹرول کیے ہوئے تھے ورنہ!


تین چار ہی پکچرز بنی تھی جب سردار غاذان وہاں سے اٹھ کر تیزی سے نکل گیا تھا بنا اس معصوم لڑکی کو دیکھے جو شاید اسی کے نام سے تیار ہوئی تھی لیکن اپنے نام لکھوانے والے کے سوا سب نے اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔۔

آہستہ آہستہ سب باہر چلے گئے وہ بہن بھائی ہی وہاں بیٹھے رہ گئے۔

_____________________. . . .


کیا کرنا ہے اس لڑکی کا ۔

ریاض صاحب سرد لہجے میں تیمور خانم سے مخاطب تھے ۔

ریاض کل کا دن صبر کر لے اس کے بعد یہ لڑکی تجھے نظر نہیں آِے گئی یار ۔


تیمور نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینے والے انداز میں ریلکس کیا ۔

کیا صبر کروں جب سے میری بیٹی نے سنا ہے وہ چپ ہے نا کچھ بولی ہے نا کسی کو دیکھتی ہے تم کہتے ہو صبر کر جا، یاد رکھنا تیمور خانم اگر میری بیٹی کو اسکی اصلی جگہ نا ملی تو اپنی بہن کے لیے جگہ بنا لینا طلاق لے کر تمہاری دہلیز پر آئے گئی بھاڑ میں گئی رشتے داری مجھے میری بیٹی سے بھر کر کوئی چیز عزیز نہیں تمہاری دوستی اور رشتے داری بھی نہیں کل مجھے یہ لڑکی نظر نا آئے یہی ہم سب کے لیے بہتر ہو گا۔


ریاض غصے کا بھرپور مظاہر کر کے وہاں رکے نہیں تھے ۔

جبکہ وہ تینوں بھائی پریشانی سے وہاں کھڑے رہ گئے۔

اس لڑکے کی رحم دلی نے ہمیں کہی کا نہیں چھوڑا بھائی ۔۔

سہیر خانم بھی غصے سے بولے جو کہ مہرینہ کے والد تھے اور کافی غصے والے بھی تھے ۔۔

سب ٹھیک ہو جائے گا بس ایک دو دن تک کلیئر ہو جائے گا ثمینہ کو اتنی آسانی سے نہیں نکال سکتا وہ۔۔۔

تیمور خانم نے گہری سانس لے کر انہیں آرام کیا۔۔


_________________________________

ساری رات وہ سو نہیں سکے تھے ۔

ہیر نے سفید کلر کا کاٹن کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس پر کالی لیس لگی ہوئی تھی اوپر کالی ہی شال لیے وہ کچن میں کھڑی خیام کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی ۔

آنکھیں حد سے زیادہ درد کر رہیں تھی لیکن پرواہ کسے تھی ۔

خیام آو ناشتہ کر لو کالج کے لیے دیری ہو رہی ہے ۔

خیام کو صوفے پر نیم دراز دیکھ کر وہ کچن کی کھڑکی سے اسے پکار گئی تھی ۔

سر ہلاتا وہ اٹھ کر کچن کی طرف چلا آیا ۔۔

آپی دل نہیں کر رہا ۔

اسے اپنے سامنے کھانا رکھتا دیکھ کر وہ

پریشانی سے بولا۔

خیام پلیز تھوڑا سا کھا لو ۔۔

ووٹی کا نوالہ اسکی طرف بڑھاتی ہوئی وہ فکرمندی سے بولی ۔

تو پھر آپکو بھی میرے ساتھ شیئر کرنا ہو گا ۔

وہ بھی نوالہ توڑ کر اسکے ہونٹوں کے قریب کرتا ہوا بولا۔

ہلکی مسکان سے اسے دیکھتی وہ منہ کھول گئی ۔

خیام اور ہیر نے مل کر وہ پراٹھا کھایا تھا ۔۔

خیام کے چلے جانے کے بعد وہ کمرے میں آتی لیٹ گئی کہ دل بہت پریشان تھا جیسے کچھ ہونے والا ہو کسی کام کو ہاتھ لگانے کا دل نہیں کر رہا تھا ۔

اسے لیٹے ابھی آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا جب دروازے پر بیل بجی ۔

وہ چونک کر اٹھتی دوپٹہ ٹھیک سے وجود کے گرد لیتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی ۔

دروازہ کھولتی وہ ٹھٹھکی تھی سامنے ہی رانا پولیس یونیفارم میں کھڑا اسے سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔

آپ!

وہ ڈر کر پیچھے ہوتی ہوئی بولی تھی ۔


کیوں مجھے اتنی جلدی بھول گئی۔

وہ طنز سے بولتا ہوا اسکے قریب آیا ۔

وہ ڈر کر پیچھے ہوئی تھی ۔

شادی کر لی سردار سے بہت مزے میں ہو گئی تم تو ۔

رانا کے طنزیہ لہجے پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی آنکھوں میں نمی جھلملانے لگی تھی تو وجود لرزنے لگا تھا۔

مجھے معاف کردیں پلیز مجھے گرفتار مت کرئے گا میں نشہ نہیں بھیجتی ۔


وہ سہما سا انداز لیے خوف زدہ لہجے میں بولتی رانا کو غًصہ چڑہا گئی تھی۔

نہیں کروں گا گرفتار لیکن اگر تم میری بات مانو گئی تو ۔

وہ گھمبیر لہجے میں بولتا آخر میں اسکی ٹھوڑی دو انگلیوں سے چھوتا ہوا مسکرایا تھا ۔

ہیر نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا پھر اسکے ہاتھ کو ۔

پیچھے ہٹیں شرم نہیں آتی آپکو ۔

ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ پیچھے کرتی وہ صدمے سے چلائی تھی۔

بات سنو میری،

یہ نکاح عارضی ہے اس لیے اپنی اوقات میں رہو سردار کے خواب اگر ان آنکھوں میں سجانے کی کوشش کی تو آنکھیں نوچ لوں گا سمجھی تم مجھے ابھی جانتی نہیں تم نے میرا صرف ایک روپ دیکھا ہے اور میں چاہتا بھی یہی ہوں تم میرا بھیانک روپ نا ہی دیکھو اس سردار کو اپنے قریب آنے دیا تو چمڑی اڈھیر دوں گا سمجھی۔۔

اسکا منہ اپنے سخت ہاتھوں میں ڈبوچتا ہوا وہ پھنکارتا وہاں رکا نہِیں تھا ۔۔

اسکے جانے کے بعد وہ وہی دہلیز پر بیھٹتی رو دی ۔۔۔

ابھی تو بہت کچھ دیکھنا تھا اس چھوٹی سی لڑکی نے ابھی تو شروعات

تھی ۔۔

>>>>>>>><<<<<<<<<<>>>>>>>>>۔


پریس کانفرنس میں پکچرز نکاح نامہ اور کچھ ضروری ثبوت لائیو پوری ریاست کو دیکھائے گئے تھے ۔

نکاح نامہ جانچا بھی گیا کہ کہی نقلی تو نہیں ۔۔

جبکہ وہ ہاتھ کی مٹھی بنائے ہونٹوں پر رکھے بِیٹھا رہا اسکا سر درد کرنے لگا ایسی چیزوں سے جھوٹ سازشیں اسے نہیں آتیں تھیں نا ہی اسے پسند تھیں لیکن وہ خاموش تھا صرف اپنے باپ کی وجہ سے ۔۔


سردار ون کوئسچن کیا اس لڑکی سے آپکو محبت ہے ۔

ایک من چلا رییورٹر اشتیاق سے بولا تھا ۔

اب سب کی نظریں سردار پر تھیں جیسے وہ سب بھی جاننا چاہتے ہوں

وہ بنا انہیں دیکھتا باپ کو دیکھ کر مسکرایا، جبکہ تیمور صاحب بھوکھلائے تھے ۔

نہیں مجھے اس لڑکی سے محبت نہیں ہے ۔

کہتے ہوئے وہ اٹھا تھا ۔

ریپورٹرز نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ تیمور سمیت سب اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔

مجھے اس سے عشق ہے یہ محبت تو بڑا چھوٹا سا لفظ ہے اسکے سامنے ۔

مسکراتے لہجے میں کہتا وہ تیزی سے وہاں سے نکل گیا ۔


گھر والے ریپورٹرز سب حیرت سے سر گھما کر شان سے چلتے سردار کو دیکھتے رہ گئے جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی باپ کا ہونق بنا چہرہ دیکھ کر آخر اس نے بھی تو بدلہ لینا تھا ۔


ریاض خانم نے دانت پر دانت جماتے ہوئے تیمور خانم کو دیکھا ۔

تیمور خانم بھوکھلائے تھے ۔۔

تیلی ویژن پر انکا نکاح نامہ تصاویر وغیرہ دیکھائی جا رہیں تھی ابھی بھی وہ لڑکی کہتی تھی وہ عام ہے وہ عام کیسے ہو سکتی تھی جس کے نصیب میں سردار غاذان تھا رب نے کیسے وسیلا بنایا تھا انہیں ملانے کا کہ ساری دنیا آگاہ ہو چکی تھی انکے نکاح سے ۔۔


گہرے گہرے سانس لیتی شائنہ گھر کے سارے ٹی وی توڑ چکی تھی ہر چیز وہ گھر کی توڑ چکی تھی چلا چلا کر اسکا گلہ بیٹھ چکا تھا ۔

ثمینہ بیگم تو بیٹی کو دیکھ دیکھ کر ہول رہی تھی لیکن پاس نہیں جا سکی کہ غصے میں وہ کسی کا لخاظ نہیں کرتی تھی جو چیز ہاتھ میں آتی وہی اگلے بندے پر ُپھینک دیتی اسے ہینڈل اسکا باپ ہی کر سکتا تھا ۔


>>>>>>>>>>>>>><<<<<<<<<<<<<


سردار غاذان ضروری کام سے آوٹ آف سٹی گیا ہوا تھا ۔

خیام بھی ابھی تک نہیں تھا۔۔

وہ اتنے بڑے گھر میں اکیلی تھی بارش بھی خوب برس رہی تھی اسکا دل پریشان ہو چکا تھا ۔

مسلسل برستی بارش اور تیز ہوا سے سردی کی شدت میں کافی اضافہ ہو چکا تھا ۔

لاونج میں رکھے صوفے پر وہ ڈری سہمی سی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔

تب ہی کلک سے دروازہ کھولا تھا اسے لگا شاید خیام ہے وہ اطمینان کا سانس لیتی جھٹ سے صوفے سے کھڑی ہوئی لیکن سامنے سے آتے غیر آدمیوں کو اس نے حیرت و نا سمجھی سے دیکھا تھا ۔

تم ہیر ہو ۔

ایک آدمی کافی زہریلے لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

دوپٹہ ٹھیک سے سر پر جماتی وہ ڈرتی ہوئی سر جھکا گئی ۔

وجود کانپنے لگا تھا پتا نہیں وہ کون تھے ۔

تو وہ تم ہی ہو ۔

وہ آدمی اسکی چوٹی پکڑتا ہوا بے تاثر لہجے میں بولا ۔

ہیر نےتکلیف سے سر اٹھا کر انہِیں دیکھا۔

چھوڑیں میرے بال ۔

بال چھڑآنے کی کوشش کرتی وہ منمنائی تھی آنکھوں میں درد سے نمی جمع ہونا شروع ہو گئی ۔

چھوڑ دیتے ہیں اتنی جلدی بھی کیا ہے۔

اسے ہنوز بالوں سے پکڑ کر باہر کی طرف کھینچتے ہوئے وہ بولا تھا وہ تین آدمی تھے تینوں ہی شکل سے بدماش لگتے تھے ۔۔

اس آدمی نے بالوں سے پکڑے ہی اسے باہر کی طرف زور دھکا دیا تھا۔

آہ آہ۔۔

وہ چیختی ہوئی سیڑیوں سے ہوتی نیچے فرش پر گری تھی ۔

تیری یہ مجال تو شائنہ کی جگہ لے تیرے ٹکڑے نا کردوں میں خبیث لڑکی ۔

ّوہ پہلے والا ہی بھرپور غصے سے چلایا تھا ۔

بالوں پر ہاتھ رکھے وہ تکلیف و ہتک آمیز انداز پر رونے لگی تھی ۔۔

چل نکل یہاں سے ۔۔

وہی آدمی دوبارہ اسکی چوٹی سے ہی پکڑتا ہوا اسے کھینچتا ہوا بولا تھا ۔

انداز بے حسی لیے ہوا تھا۔

وہ مسلسل بال روتی ہوئی بال چھڑانے کی کوشش میں تھی ۔

اس نے اس بار بھی پوری شدت سے اسے باہر کی طرف منہ کے بل دھکا دیا تھا ۔

منہ کے بل گرتی وہ چیختی ہوئی کچی مٹی پر گری تھی۔

یہ جائے گئی نہیں پھر آجائے گئی ۔

دوسرا آدمی اسے روتا دیکھ کر بے تاثر لہجے میں بولا ۔

ندی میں پھینک دے اسے اسے کونسا تیرنا آتا ہے ۔

انکی باتوں نے ہیر کے رونگٹے کھڑے کر دئیے تھے ۔

ہونٹوں سے مٹی صاف کرتی وہ بامشکل کھڑی ہوتی ہوئی رورنے لگی تھی دائیں پیر کے انگوٹھے کا ناخن اکھڑ چکا تھا وہ کیسے دوڑتی۔۔

دوسرے ہی لمحے وہ پھر اسے پکڑ چکے تھے ۔۔

کہاں بھاگنے کی تیار ہے کم زات لڑکی ۔


اسے پھر سے بالوں سے ہی پکڑتا وہ بولا تھا۔

مجھے جانے دیں پلیز مجھے مت ماریں ۔

بہت مشکل سے انکے آگے ہاتھ جوڑے وہ بولی تھی ۔

چل آسان موت دیتے ہیں اس ندی میں کود جا ورنہ گولیوں سے تیرا پورا وجود


چھلنی کر دیں گئے کیا یہ منظور ہے یا پھر ندی میں کودنا ہے۔

اسکے بال چھوڑتا وہ تمسخر سے بولا تھا دوسرے دونوں قہقہ لگا گئے اس بے بس لڑکی کی بے بسی پر۔

مجھے جانے دیں آپکو اللہ کا واسطہ ہے ۔

وہ ہاتھ جوڑے کراہی تھی۔

چل بھاگ جا لیکن اس گھر میں ہمیں واپس دیکھی تو تیرا سارا وجود گولیوں سے چھلنی کر کے کتوں کے آگے پھینک دیں گِے سمجھی۔

ُسٹل انگلی پر گھماتا وہ بے حس انداز میں بولا ۔

وہ ٹھٹھکتی انہیں دیکھتی ہوئی سر ہلاتی ہوئی بہت مشکل سے بھاگنے لگی تھی ۔

جبکہ وہ تینوں گھر کے اندر چلے گئے کہ کہی وہ پھر سے نا آجائے ۔۔۔


دوپٙٹہ وہی اندر انکے کھینچنے سے گر چکا تھا ۔

روتے ہوئے وہ بھاگتی رکی تھی کہ سامنے سے آتی گاڑی کی ہیڈ لائٹس اسکی آنکھوں میں پڑیں تھیں۔

آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ کانپنے لگی تھی۔

وجود لرزنے لگا تھا سردی سے ۔۔

آریو اوکے!

کسی نے دھیمے لہجے میں پوچھا تھا ۔

ہیر نے جھٹ سے آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے ۔

کہ وہ اس آواز کو لاکھوں آوازوں میں بھی پہچان سکتی تھی پھر بارش کے شور میں کیسے نا سن پاتی اسکا نرم لہجہ۔

وہ بھی حیرت سے دو تین قدم آگے کو سرکا تھا اسے اس حالت میں دیکھ کر ۔


ہیر رضا!

وہ پریشانی سے بولا تھا۔

سردار ،

ہونٹوں پر ہاتھ رکھتی وہ شدت سے رو دی تھی ۔

ہیر اگلے ہی لمحے اسکی بانہوں میں تھی کہ وہ حواس کھونے لگی تھی ۔

اس نے اسکے بھیگے کپڑوں میں نمایا ہوتے وجود پر اپنی شرٹ پہنا کر گارڈ کو گاڑی کا ڈور کھولنے کو کہا

آنکھوں میں سرد پن سا تھا۔۔

_______________

اس بے اسرا لڑکی کو بانہوں میں اٹھائے وہ اپنے زاتی گھر میں داخل ہوا تھا ۔

اسے بانہوں میں اٹھائے وہ گاڑی کی پچھلی سائیڈ پر بڑی اختیاط سے ڈالتا ہوا خود بھی ساتھ آکر بیٹھا تھا ۔

سردار محل چلیں یا آپکے زاتی گھر ۔

خادم نے ادب سے پوچھا۔

محل نہیں میرے بنگلو چلو ۔

ہیر کے چہرے کو دیکھتا وہ سرد لہجے میں بولا تھا۔

گاڑی نے جیسے ہی مخالف موڑ کاٹا ہیر کا سر ڈھلک کر اسکے کندھے پر آ گرا تھا ۔

اس نے چونک کر اسکے سر کو دیکھا سیدھی نکلی مانگ میں ابھی بھی پانی کے قطرے ٹھہرے ہوِئے تھے دراز پلکیں ایک دوسرے سے چپکی ہوئیں تھیں ۔۔

یہ اسطرح گھر سے کیوں نکلی تھی اور یہ حالت کیسے ہوئی ۔۔

اسکا سر ٹھیک کرتا وہ پرسوچ انداز میں بڑبڑایا تھا ۔

گاڑی کے رکتے ہی بنا ہیر کو اٹھائے وہ اندر کی طرف تیز قدموں سے بڑھا تھا چیرے پر سختی سی تھی۔۔

وہ دونوں تاش کھیلتے قہقے پر قہقہ لگا رہے تھے ۔

انہیں اپنے لاونج میں دیکھ کر اسکا خون تیزی سے کھولنے لگا تھا ۔

مٹھیاں بھینچے وہ تیز قدموں سے انکی طرف بڑھا تھا بنا انہیں سنبھلنے کا موقع دیئے وہ ان پر چڑ دوڑا تھا۔

یو باسٹرڈ اس لڑکی کے ساتھ کیا ہے تم دونوں نے ۔۔۔

انکے گریبان پکڑتا وہ پھنکارا تھا ۔

جبکہ ان کی تو سٹی ہی گھم ہو چکی تھی سردار غاذان کوچ اپنے سامنے دیکھ کر موت انہیں آس پاس چلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی وہ ریاض خانم کے خاص آدمی تھے ریاض کے کہنے پر تو وہ اہنی جان بھی دے سکتے تھے۔۔

ہمیں معاف کردیں سردار ہم نے بس اسے یہاں سے بھگایا ہے اسکے ساتھ کوئی غلط حرکت نہیں کی ہمیں جانے دیں سردار ۔۔۔


دلاور ہاتھ جوڑتا بولا تھا

اسکا پیر زخمی ہے اسکے بال ٹوٹ کر اسکے کندھوں پر پڑے ہیں اور تم کہتے ہو تم نے اسکے ساتھ کوئی غلط حرکت نہیں کی ۔

انکے سر ایک دوسرے سے مارتا ہوا وہ طیش سے چلایا تھا خادم نے چونک کر اپنے سردار کو دیکھا تھا۔

تم دونوں ہوتے کون ہو میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں گھسنے والے ہاں تم دونوں کی جرات کیسے ہوئی یہاں آنے کی ۔

انہیں نیچے پٹختا ہوا وہ پھر سے چلایا تھا ۔

معاف کر دیں ہم سے بھول یو گئی ہے۔ سردار ۔۔۔

اسکے قدنوں میں بیٹھتے وہ روتے ہوئے بولے تھے۔

غلطی نہیں گناہ کہو ۔۔

انہیں ٹھوکڑ مار کر پیچھے کی طرف گراتا وہ اس بار سرد لہجے میں بولا تھا۔

خادم انکی اچھے سے دھلائی کر کے انہیں ریاض محل بھیجنا انہیں بھی تو پتا چلیں اپنے کارنامے ۔۔

سرد لہجے میں کہتا وہ باہر کی طرف بڑھا تھا۔

جبکہ خادم اور گاڑدز ان دونوں کی طرف بڑھے تھے۔

گاڑی کا ڈور گارڈز نے اسے دیکھ کر سرعت سے کًھولا ۔

جھک کر آرام سے اس کمزور وجود کو بانہوں میں لیا تھا ۔

اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت ہلکی چیز اٹھائے ہوئے ہے لگ ہی نہیں رہا تھا یہ ایک جیتی جاگتی لڑکی کا وجود ہے ۔

بانہیں نیچے کو جھول رہیں تھیں جبکہ سر اسکے کندھے پر پڑا ہوا تھا ۔

اسے نیچے والے پہلی رو میں بنے روم میں لے آیا تھا ۔

اسکے وجود کو بیڈ پر بڑے آرام سے ڈالتا ہوا وہ ڈاکٹر کو فون کرنے لگا ۔۔

جیسے ہی اس نے فون بند کیا اسی وقت اسکی موم کی کال آنے لگی تھی ۔

اس نے مسکرا کر ماں کی کال اٹینڈ کی ۔۔

کیسی ہیں ُآپ!

وہ کھڑکی میں آتا بڑے نرم لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

تمہارے بنا تمہاری ماں کیسی ہو سکتی ہے غاذان۔

رائنہ کے لہجے میں مایوسی تھی وہ کب اسے اتنے دن دیکھے بغیر نکال سکتیں تھی۔

وہ مسکرا دیا !

کل کی فلائٹ سے آپکے پاس ہوں گا میں اب تو تھوڑا سا مسکرا دیں ۔

وہ ہیر کی طرف رخ موڑتا ہوا محبت سے بولا۔

سچ !

رائنہ کے لہجے میں بے یقینی سی تھی۔

سچ موم میں آپکو سپرائز کرنا چاہ رہا تھا لیکن اب آپکو پریشان دیکھ کر بتا دیا ہے اب تو خوش ہو جائیں آپکا بیٹا رات کا ڈینر ُآپکے ساتھ کرنے والا ہے۔

دھیمے قدموں سے آنکھیں کھولتی لڑکی کے پاس آتا ہوا وہ بولا تھا ۔

میں انتظار کر رہی ہوں غاذان ماں کو زیادہ انتظار نا کروانا ۔

انہوں نے کہہ کر فون رکھ دیا ۔

فون پاکٹ میں ڈالتا وہ دروازے کی جانب دیکھنے لگا جہاں سے خادم کے ساتھ ایک ینگ سی ڈاکٹر داخل ہو رہی تھی ۔

خادم ڈاکٹر کو کمرے میں چھوڑ کر خود باہر چلا گیا۔۔

ہیر کی نبض چیک کر کے وہ اسٹیتھوسکوپ سے اسےچیک کرنے لگیں ۔

کیا یہ آپکی وائف ہیں ۔

ڈاکٹر نے سردار سے حیرت سے پوچھا تھا۔

وائف کہنے پر وہ چونک سا گیا تھا ۔

ہیر بھی آنکھیں کھول کر ڈاکٹر کو دیکھنے لگی لیکن آنکھوں میں خالی پن سا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے اسکا وجود تو یہی ہو لیکن دھیان کہی اور ہی تھا ۔۔

سردار نے اسے دیکھا جو اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔

نہیں !

اس نے کچھ سوچ کر بتایا تھا ۔

ہیر کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوئیں تھیں ۔

او!

ڈاکٹر نے سر ہلایا ۔۔

دیکھیں یہ کافی کمزور ہیں ا نہیں اچھی خوراک اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے پلیز انکا خیال رکھیں انہیں پریشانی وغیرہ سے دور رکھیں ورنہ ۔۔


ڈاکٹر سنجیدگی سے کہتی ہوئی چپ ہوئی تھی جبکہ سردار غاذان نے چونک کر انہیں دیکھا ۔

ورنہ کیا !

فون کان سے لگاتا وہ سنجیدگی سے بولا۔

انہیں ہائی بلیڈ پریشر کا مسلہ ہے زیادہ دباو سے انکی دماغ کی نسیں پھٹ بھی سکتیں ہیں۔

ڈاکٹر کے انکشاف پر اس نے حیرانی سے ڈاکٹر کو دیکھ کر اسے دیکھا جو انکھیں موندے پڑی ہوئی تھی ۔

اسے دیکھتا وہ سر ہلا گیا ۔

ڈاکٹر میڈیسن لکھ کر باہر کھڑے خادم کو پکڑا گئی تھی ۔

بند آنکھوں سے آنسو ایک قطار میں بہتے اسکے گالوں پر بکھڑنے لگے تھے ۔

وہ چونکا سا گیا تھا ۔۔

________________________________


بڑے سے ہال میں کھڑا وہ بارش کے روکنے کے انتظار میں تھا کہ بارش بہت تیز تھی اتنی کہ باہر منہ تک نہیں نکالا جارہا تھا ۔

وہ ٹھٹھکا تھا پلڑ کے پیچھے سے دھواں سا نکل رہا تھا ۔

وہ تشوش سے پلڑ کی جانب بڑھا تھا ۔

اسے سموکنگ کرتا دیکھ کر وہی کا وہی جم گیا تھا۔

وہ چونک کر پلٹی تھی لیکن اسے دیکھ کر وہ ریلکس ہوئی ۔

پیو گئے۔

دھواں اسکے منہ پڑ چھوڑتی ہوئی وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔

اسے اس لڑکی سے نفرت ہوئی تھی جو کش پر کش لگا رہی تھی ۔

کیا ہے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو۔

وہ غصے سے پوچھ رہی تھی۔

آپکو شرم نہیں آتی لڑکی ہو کر سموکنگ کرتے ہوئے ۔

ؐآسے پتا نہِیں کہوں غصہ سا آگیا تھا۔

تم سے مطلب نوکر ہو تو نوکر رہو زیادہ میرا ابا بننے کی ضرورت نہیں اور ہاں اگر کسی کو بتایا تو بہت برا پیش آوں گئی میں ،تم ابھی مجھے جانتے نہیں ۔

سگریٹ کو پیر سے مسلتی وہ پہلی بار سنجیدگی سے بولی تھی۔

آپ ایک لڑکی ہیں اور۔۔۔

جانتی ہوں میں لڑکی ہوں تمہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ۔

منہ اور ہاتھوں پر سپرے کرتی وہ سر جھٹک کر بولی ۔

اسے دیکھتا وہ ہونٹ بھینچ گیا ۔

وہ لڑکی چوری چوری نجانے کیا کیا کام کرتی تھی وہ تشویش میں پڑ گیا تھا آخر وہ سردار کی کزن تھی اس ناطے اسکا پریشان ہونا بنتا تھا ۔

وہ آگے بڑھا تھا جب وہ اسکا ہاتھ تھام گئی ۔۔

وہ حیرت سے اپنی کلائی کو دیکھنے لگا جو اسکی کلاِئی ہاتھ میں پکڑے اس وارننگ دیتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔


بات سنو میری دھیان سے کیا تم جانتے ہو میرے پاس میرے خود کی پسٹل بھی ہے اور اس میں چھے کی چھے گولیاں پڑی ہوئیں ہیں بتانے کا مطلب یہ ہے اگر تمہارے منہ سے میرے لیے سردار یا کسی اور کے سامنے کچھ بھی نکلا تو پہلی گولی تمہارے نام اس دھمکی مت سمجھنا میں جو کہتی ہوں وہ کرتی بھی ہوں۔


غصے سے کہتی بال جھٹکتی وہ وہاں سے نکل گئی ۔۔

جبکہ وہ پریشانی سے وہی کھڑا رہ گیا۔


کیا اسے اس لڑکی کی حرکات کا اسے سردار کو بتانا چاہئیے تھا ہاں اسے بتانا چاہئیے تھا بعد میں جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا اسکا فرض بنتا تھا سردار کو بتانا ۔۔

کچھ سوچتا ہوا وہ بارش میں ہی نکل چکا تھا گھر کے لیے کہ اسکی آپی گھر میں اکیلی ہوں گئی ۔۔

________________________________


تم ٹھیک ہو جاو گئی پلیز ڈونٹ ٹو کرائے۔

اس سے نرمی سے کہتا وہ نجانے کیوں اس لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ گیا تھا ۔

اسکا ہاتھ اپنے سر پر محسوس کرتی وہ ساکت ہوئی تھی ۔۔

آنکھیں کھول کر خود پر جھکے سردار کو وہ بے یقینی سے دیکھ رہی تھی ۔

کیا کہی درد ہے۔

وہ بہت ہی نرم لہجے میں پوچھ رہا تھا۔

اس نے فقط سر نفی میں ہلا دیا۔

اپنا خیال رکھو لڑکی جو لوگ اپنی زات کے لیے سٹینڈ نہیں لیتے لوگ انہیں پاوں کے نیچے کچل دیتے ہیں تم کھاو پیو اور جان بناو تب ہی تم زمانے کا سامنا کرنے کے قابل بنو گئی ورنہ تمہاری زات مٹی میں کب کیسے مل جائے گئی تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔


اسکے سر پر ہاتھ رکھے وہ ہنوز جھکے ہوئے اسے سمجھا رہا تھا ۔

وہ آنکھیں کھولے اسے دیکھتی رہی ۔

اللہ خافظ ۔

اسکا سر انگلیوں سے تھپکتا وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔


جبکہ وہ اسکے نرم لہجے کے سحر میں گھم ہونے لگی تھی۔

آنکھوں میں ٹھہرے آنسو اپنی جگہ رک سے گئے تھے جیسے سردار کی بات کے ادب میں رک گئے ہوں وہ لڑکی بھی عجیب تھی جانتی تھی اسکا ان سے کوئی جوڑ نہیں ،لیکن پھر بھی دل انہیں دیکھ کر ٹھہر سا جاتا تھا بلکہ اسے زمانے انکے سامنے رکے سے لگتے تھے وہ پاگل تھی آسمان سے دل لگانے چلی تھی کیا جانتی نہیں تھی یہ نا ممکن سا ہے ۔۔

اس راہ میں اسے کیا کیا سہنا پڑے گا ابھی جانتی جو نہیں تھی۔

__________________________________

خیام کے پوچھنے پر اس نے اسے بتا دیا تھا وہ بارش کی وجہ سے سیڑیوں سے سلپ ہو گئی تھی وہ ساری رات بہن کے سراہنے بیٹھا رہا کہ اسے بہت تیز بخار چڑ چکا تھا شاید سرد لگ گئی تھی اسے ۔


کیا جانا ضروری ہے ۔

اسے سامان پیک کرتا دیکھ کر وہ پریشانی سے بولے تھے ۔

یس ڈیڈ ۔

کالی شرٹ پر براون کوٹ پہنتا وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔

مت جاو یار دل نہیں لگے تمہارے باپ کا۔

وہ پریشانی سے بولے تھے ۔

کم آون ڈیڈ آپکا دل بہلانے کے لیے یہاں بہت کچھ ہے لیکن میری موم کا دل صرف مجھ سے ہی بہلتا ہے نا کہ کسی اور وجود سے ۔

وہ واچ پہنتا ان پر ہلکا سا طنز کر گیا تھا ۔

تیمور خانم نے اسے سلگتی نظروں سے دیکھا ۔

تمہاری ماں نے میرے بارے میں تم سے کچھ زیادہ ہی غلط بیانی کی ہے ۔

وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے ۔

میری موم جھوٹ نہیں بولتی ڈیڈ ۔

ہلکی مسکان سے کہتا وہ باپ کو تپا گیا تھا۔

تو کیا تمہارا باپ جھوٹ بول رہا ہے ۔

وہ دانت پیس کر بولے ۔

ایسا میں نے کب کہا ۔

وہ آِئی برو اچکا کر شرارت سے بولا تھا جس پر وہ اسے غصے سے گھورتے کمرے سے ہی چلے گئے وہ جواباً سنجیدگی سے سر جھٹک کر رہ گیا ۔


آپ کتنے دن وہاں رہے گئے۔

مہرینہ اسے کافی پیش کرتی اخترام سے پوچھ رہی تھی۔

جلد آجاوں گا تم نے کسی کو تنگ نہیں کرنا اور نا ہی مجھے کوئی تمہاری شکایت ملے ۔

کافی کا سپ لیتا وہ سنجیدگی سے اسے سمجھا رہا تھا جبکہ وہ سرجھکائے کسی شریف بچے کی طرح بس سر ہلاِے جارہی تھی ۔۔

ہممم گڈ گرل ۔۔

اسکی فرمانبرداری پر وہ مسکرایا تھا ۔


وہ بھی جواباً مسکرائی ۔

مجھے آپ کو یہ دینا ہے ۔

وہ ایک پرچی اسکی طرف بڑھاتی ہوئی بولی تھی۔

کپ اسے تھماتا وہ پرچی اسکے ہاتھ سے لے کر ایک نظر دوڑانے لگا تھا پھر اسکی فرمانبرداری کی سمجھ آچکی تھی اس نے کافی لمبی لسٹ اسے تھمائی تھی جن میں صرف میک اپ کے کاسمیٹکس کا نام درج تھا ۔

ُپرچی لے کر وہ سر ہلا گیا تھا ۔

سب سے ملتا خادم کو کچھ خاص ہدایت دیتا وہ مصر کے لیے روانہ ہو چکا تھا ۔

_______________________________


سردار جا چکا ہے اب اس لڑکی کا کیا کرنا ہے ۔

ریاض نے خشام اور تیمور سے خاصے غصے میں پوچھا تھا اسکے آدمیوں کی جو حالت سردار نے کی تھی وہ اسے بھول نہیں رہی تھی اب اسکی سزا وہ اس لڑکی کو دینا چاہتا تھا آخر اسی لڑکی کی وجہ سے وہ اسکی بیٹی سے بھاگ رہا تھا ۔۔

کرنا کیا ہے مار دیتے ہیں نا رہے گا سانپ نا بجے کی بین ۔۔۔

سہیر عالم نے انکے پاس آتے ہوئے نفرت سے کہا۔

ریاض صاحب کو انکی بات بہت بھائی تھی۔

سہیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے اب اس لڑکی کا کام تمام کر دینا چاہئیے ۔

ریاض نے بھی سنجیدگی سے کہا ۔

جبکہ تیمور خانم نے ہونٹ بھینچے۔

میرے خیال میں اسے کچھ پیسے دے کر یہاں سے چلتا کر دینا چاہئیے ۔

تیمور نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

تیمور خانم تم کیا چاہتے ہو تمہارا بیٹا اسے ڈھونڈتا پھرے اسکا کام تمام کرو اور میری بیٹی کو اس گھر کی بڑی بہو بنانے کی تیاری کرو آخر کب تک میں اپنے بہن بھائیوں کو صفائیآں پیش کرتا رہوں گا۔

ریاض کے ترش لہجے پر وہ سر ہلا گیا ۔۔


دروازے کے ساتھ کان لگائے مہرینہ نے پریشانی سے کچھ سوچا پھر وہاں سے بھاگنے لگے تھی جب اسے کرسی سے زور سے ٹھوکڑ لگی تھی گھٹنا پکڑے وہ وہی بیٹھ گئی تھی ۔

سسی ۔

وہ کراہ کر گئی لیکن ٹھٹھکی تب جب دروازے پر سب کو کھڑا پایا ۔۔

گھٹنے کا درد بھول کر وہ ان کو لرزتے دل سے دیکھنے لگی۔

تم یہاں کیا کر رہی تھی ۔

سہیر خانم اسکی کلائی کو سخت ہاتھوں میں جھکڑتے ہوئے سخت لہجے میں پوچھ رہے تھے۔

میں یہاں سے گزرتی ۔۔۔۔

چٹاخ ۔۔۔

اسکا بہانہ سننے سے پہلے ہی وہ اسے زور سے تھپڑ مار چکے تھے ۔

تم مردوں والے حصے میں کر کیا رہی تھی بہت شکایتیں مل رہیں مجھے تمہاری مجھے لگتا ہے تمہاری ٹانگیں کاٹنی پڑیں گئیں۔۔

اسے دوسرے حصے کی طرف کھینچ کر لےجاتے وہ سرد لہجے میں بول رہے تھے کہ بیٹیاں انہیں اچھی لگتی ہی نہیں تھیں خاص کر مہرینہ سہیر خانم ۔۔۔


وہ چپ چاپ انکے ساتھ کھینچتی گئی تھی اب اسے پتا تھا مار پڑنے والی ہے اور کوئی بچانے والا بھی نہیں تھا اگر سردار ہوتے تو وہ بچا لیتے لیکن بد قسمتی اب اسے دو تین دن کمرے میں ہی رہنا تھا ۔۔

_______________________________


کیسی ہیں آپ ۔

انکا سر چومتا وہ بہت محبت سے پوچھ رہا تھا ۔

کیسی ہو سکتی ہوں تمہارے بنا ۔۔

وہ مسکراتے ہوِے جواباً اس سے پوچھ رہیں تھیں وہ انتہا سے زیادہ خوبصورت تھیں آخر کو وہ ایک مصری تھیں۔

وہ اپنی ماں کی شکل کا تھا بس بال اور قد باپ پر تھا باقی وہ خوبخو رائنہ نوشیرواں پر تھا ۔۔

آِئی مس ہم آلاوٹ مائے سن ۔۔

وہ بھی جواباً اسکا سر چومتیں شدت سے بولیں تھیں۔

وہ مسکرایا تھا۔

باقی لوگ کہاں ہیں۔

گھر میں چھائی خاموشی اسے کھٹکی تھی۔

کسی کو تمہارے آنے کی خبر نہیں تھی سب اپنے اپنے کام پر ہیں رات کو سب لوٹ آئیں گئے ۔

اس اندر لے جاتی وہ بتا رہیں تھیں ۔۔

یہ ایک بہت بڑا اور خوبصورت سا گھر تھا جس میں کمرے ایک گول قطار کی شکل میں تھے کیونکہ گھر کا کوئی پورشن نہیں تھا اوپر چھت تھا جس پر بڑا س لاون بنایا گیا تھا انکا گھر چوڑی گلی میں تھا جہاں ہر قسم کی دکان تھی یہ گھر ایک ائیڈیل تھا۔

یہ گھرانہ خوبصورتی کی مثال تھا کہ یہاں اس گھر میں ایک سے بھر ایک حسین تھا ۔

رائنہ اس سے باتیں کرتیں اسے اسکے کمرے میں لے گئی تھی جو کافی وسیع اور خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔

کمرہ دیکھتا وہ مسکرایا کہ اسکی ماں نے اسکے جانے کے بعد بھی اسکے کمرے کی صفائی ترک نہیں کی تھی۔۔

_________________________________

یہ سردار فون کیوں نہیں اٹھا رہے ۔۔

فون پٹختے ہوئے وہ پریشان ہوئی تھی۔

وائس میسج چھوڑ دیتی ہوں ۔

اچانک ہی خیال آنے پر وہ میسج کر کے فون بند کر چکی تھی۔

گال اسکے سوجے ہوئے تھے ۔

دو دن اس نے کمرے میں ہی رہنا تھا یہ اسکی سزا تھی ۔۔

دیکھتی ہوں کیسے مارتے ہیں آپ لوگ اسے ۔

فون انگلیوں میں لہراتی ہوئی وہ طنز سے کہتی مسکرائی تھی گال درد کیے تھے لیکن پروا کسے تھے ۔۔

________________________________


خیام نے اچھے سے سرسوں کے تیل سے اسکے سر کا مساج کیا تھا ۔

وہ نیچے بیٹھی مسکرا رہی تھی ۔

وہ اسکی ڈھیلی ڈھالی چوٹی کرتا ہوا ہاتھ ٹشو سے صاف کرنے لگا۔

اب سر کا درد کیسا ہے ۔

اس نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس سے پوچھا۔

وہ مسکرائی ۔

تم مالش کرو اور سر درد رہ جائے ایسا ممکن ہے کیا ۔

وہ اسکی طرف چہرہ کرتی محبت سے پوچھ رہی تھی۔

خیام بازار سے کچھ سبزیاں وغیرہ لے آو رات کو سالن بھی بنانا ہے۔

وہ نیچے سے اٹھتی ہوئی بولی ۔

اوکے میں لے آتا ہوں زرا کپڑے چینج کر لوں ۔

شرٹ پر تیل کے قطرے گر گئے تھے، بروان شرٹ پر داغ دیکھتا وہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔

ایک منٹ آپی ۔

اسے کچن کی طرف جاتا دیکھ کر وہ کچھ خیال آنے پر اسے پکار گیا ۔

ہاں ۔

وہ پلٹی تھی۔

آپ بھی چلیں میرے ساتھ آپکی تھوڑی واک بھی ہو جائے گئی اور میں آپکو آئس کریم بھی کھلا لاوں گا ۔

وہ کہتا ہوا آخر میں اسے لالچ دینے لگا تھا ۔

آئس کریم !

وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی ۔


آئس کریم کھائے تو اسے صدیاں بیت چکیں تھیں ۔

ہاں اب آپکے لیے میں روز آئس کریم لایا کروں گا ۔

اسکی طرف آتا وہ سب کچھ سمجھتا ہوا بولا تھا ۔

ہیر کی آنکھیں بھرنے لگیں تھیں۔

خیام نے اسکا سر اپنے سینے پر رکھ کر چوما ۔

آپی اب اچھے دن آئیں گِے میں پڑھتا بھی ہوں اور جاب بھی کرتا ہوں تو آپکو رونے کی ضرورت نہیں آپ بس جلدی سے مکمل صخت یاب ہو جائیں پلیزز ۔

وہ اسے بانہوں میں لیتا پریشانی سے بول رہا تھا ۔

وہ مسکرائی لیکن مسکراہٹ اوپری سی تھی۔۔


_______________________________


دونوں آئس کریم کھاتے ہاتھوں میں بھاری شاپر اٹھائے وہ باتیں کرتے گھر والے راستے پر تھے جب ایک تیز رفتار گاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔


خیام اگر اسے کھینچتا نہیں تو وہ گاڑی کب کی اسے کچل کر گزر گئی ہوتی ۔

یو باسٹرڈ اندھے ہو گاڑی مِیں بِیٹھ کر کیا انسان دیکھنا بند ہو جاتے ہیں۔

وہ غصے سے اس گاڑی والے پر چلایا تھا لیکن گاڑی جا چکی تھی۔


جبکہ ہیر سہم سی گئی تھی ۔

خیام !

خیام. کو پاس دیکھ کر وہ اسکا ہاتھ تھام چکی تھی ۔

اسکی ائس کریم بھی نیچے گر چکی تھی جس سے اس نے ابھی ایک دو بائیٹ ہی لیں تھیں ۔


بچ گئی وہ !

گاڑی والے نے کسی کو تیزی سے میسج کیا تھا ۔

تم سے کبھی کوئی کام ہوا ہے میں ہی پاگل تھا جو تمہیں ایک اہم کام سونپ چکا تھا ۔

کسی نے جواباً غصے سے کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔

______________________________


باہر لان میں بیٹھی وہ دھاگے میں سرخ و سفید پھول پرو رہی تھی سردار کو گئے آج چار دن ہو چکے تھے خیام کالج چلا گیا تھا موسم کافی ٹھنڈا سا تھا وہ نہا کر نیلے رنگ کا کاٹن کا سوٹ پہنے اوپر گلابی کریب کا دوپٹہ اوڑھے وہ لاون میں بیٹھی کافی سارے پھول توڑ کر انہیں ایک موٹے سے دھاگے میں سوئی کی مدد سے پرو رہی تھی ۔


اسی وقت تین چار گاڑیاں سردار غاذان کے لان میں رکیں تھیں ۔

اتنی گاڑیاں دیکھ کر وہ ایک دم سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوٙئی تھی ۔

تیمور خآنم ،سہیر ،ریاض خانم وہ تینوں اس کمزور لڑکی کی طرف بڑھے تھے ۔

کتنے پیسے چاہئیے ۔۔

تیمور نے چیک بک پر سائن کرتے ہوئے اس سے سرد لہجے میں پوچھا ۔

جی۔

وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی۔

اپنی قیمت بتا بازارو عورت ۔

ریاض کے پھنکارتے لہجے پر وہ دبک سی گئی تھی سہمی سی وہ لڑکی تین چار قدم پیچھے ہوئی تھی ۔

ہمارے بیٹے کو چھوڑنے کی قیمت بتا اور پیسے لے کر اپنے اسے بے غیرت بھائی کو لے اور یہاں سے دفع ہو جاو۔

سہیر خآنم سرد لہجے میں کہہ کر اسکی طرف بڑھا تھا ۔

میرا بھائی بے غیرت نہیں ہے ۔

اسے یہ گالی بہت چبی تھی پتا نہیں وہ کیسے بول گئی تھی ۔

لیکن اگلے ہی لمحے ریاض کا تھپڑ اسے دن میں تارے دیکھا گیا تھا ۔

گال پر ہاتھ رکھے وہ پشت کے بل نیچے گری تھی ۔۔

وہ روئی چلائی نہیں

میں تو کہتا ہوں اسے مار کر یہی دفنا دو کسی کو پتا بھی نہیں چلتے گا عزت بھی رہی رہے گئ

ریاض کے بے حس لہجے پر وہ لرز کر پیچھے کی طرف سرکی تھی۔


تو تم میرے بیٹے کا پیچھا نہیں چھوڑوں گئی ۔۔

تیمور خانم آخری بار سنجیدگی سے پوچھ رہے تھے۔

بنا کچھ بولے وہ انہِیں حیرت سے دیکھتی رہی اسے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے ۔۔

دلاور ۔۔

ریاض کے کہنے پر دلاور اس پر پسٹل تان گیا تھا ۔

وہ کیسے بے حس لوگ تھے جو اس معصوم کو مارنے پر تیار تھے ۔

ایک منٹ دلاور ۔۔

پیچھے سے آتی سرد آواز پر سب کے حواس گھم ہوئے تھے ۔

وہ سب حیرت سے پیچھے کی طرف پلٹے تھے ۔

جہاں وہ وائٹ شرٹ براون پینٹ پہنے سرد نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا دلاور کے ہاتھ سے پسٹل چھوٹ کر نیچے جا گرا تھا ۔

جبکہ وہ ہیر کو دیکھ رہا تھا ۔

جس کی نظروں میں بے یقینی تھی وہ تو سمجھی تھی شاید اب وہ کبھی اسے دیکھ نہیں سکے گئی

تیمور خانم بیٹے کو دیکھ کر بھوکھلا سے گئے تھے اچانک سے اسے سامنے دیکھ کر، وہ تو تین چار دن میں آنے والا تھا پھر تین دن میں ہی کیسے یہاں آگیا تھا۔۔

دلاور کے ہاتھ کانپ رہے تھے وہ جھٹ سے ریاض خانم کے پیچھے ہوا تھا ۔

جبکہ باقی سب بھی حیرت سےا سے دیکھ رہے تھے جو اچانک ہی کہی سے آگیا تھا ۔


ہیر کی آنکھوں میں واضع بے یقنی تھی وہ کہی خیال تو نہیں دیکھ رہی,

سردار اسے دیکھتا متوازن چال چلتا ہوا اسکے قریب آیا تھا ،بنا اپنے گھر والوں کو دیکھے ۔

وہ دونوں ہاتھ کوٹ کی جیب میں گھسائے ہیر کو ہی دیکھ رہا تھا۔

ہر بار قسمت ساتھ نہیں دیتی ہیر رضا انسان میں اتنی ہمت تو ہونی چاہئیے کہ وہ اپنی طرف اٹھنے والی انگلی کو توڑ نہیں تو پکڑ سکے لیکن تم میں تو زرا بھی ہمت نہیں وہ تمہیں مارنا چاہ رہے ہیں اور تم تیار ہو مرنے کے لیے آنکھیں بند کیے انہیں دعوت دے رہی ہو وہ تمہیں آسانی سے مار دیں تمہارا کام فنش کر دیں،

کیسی لڑکی ہو تم کس زمانے میں رہی ہو تم آج کل کی لڑکیوں جیسی کوئی بات ہے ہی نہیں تم میں بھلے ہی انکا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی لیکن بندا چلاتا ہے بھاگتا ہے تم تو مرنے کے لیے چپ چاپ کھڑی ہو اگر مرنے کا شوق ہے تو مجھے کہہ دیتی میں مار دیتا۔ ۔۔۔۔


اسکے درشت سرد لہجے پر ہیر سمیت سب حیرت سے اپنے سردار کو دیکھ رہے تھے ۔

ہیر کی آنکھوں میں حیرت تھی کیا وہ اس سے اتنے غصے میں مخاطب تھا۔

وہ کم ہمت لڑکی تھی وہ نہیں چلا سکی کہ اسکی یہاں کوئی نہیں سنتا لیکن وہ خدا سے مدد کی طلب گار تھی اور خدا نے اسکی سنی بھی تھی اسکے مسیحا کو بھیج دیا تھا، اور اسے کیا چاہئیے تھا اور وہ تھا کہ کہہ رہا تھا تمہیں مرنے کا شوق تھا تو مجھ سے کہتی کیا میں انہیں کہتی تو یہ سچ میں مجھے مار دیتے ۔۔


دوپٹے کا پلو ہاتھ میں بھینچے وہ سر جھکائے سوچ رہی تھی ۔

گلے میں جیسے آنسو کا گولا سا پھنسنے لگا تھا ۔۔

وہ اسے دیکھتا اب اپنے گھر والوں کی طرف پلٹا تھا ۔

کیوں مارنا چاہتے ہیں اس کمزور لڑکی کو ؟

اب وہ اپنے گھر والوں سے سپاٹ لہجےمیں مخاطب تھا ۔

یہ لڑکی تمہارے قابل نہیں سردار۔

ریاض آگے آتا ہوا بولا ۔

وہ طنزیا مسکرایا ۔

میرے قابل صرف آپکی بیٹی شائنہ ہے ہے نا ریاض خانم

وہ طنز سے پوچھ رہا تھا ۔

ہاں اسکے علاوہ سردار غاذان میں تمہاری زندگی میں کسی کو نہیں آنے دوں گا یہ میرا وعدہ ہے۔

ریاض بہت غصے سے بولتا اسکے سامنے آیا تھا ۔

اس نے مسکراتے ہوئے آئی برو آچکاتے ہوئے سر ہلایا تھا ۔

لیکن میرا سوال وہی ہے کیوں مارنا چاہتے ہیں اسے۔

بیرڈ کھجاتا وہ تیمور صاحب سے اس بار مخاطب تھا ۔

تاکہ اس لڑکی کا تمہاری زندگی میں کوئی وجود نا رہے ۔

تیمور صاحب نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ اب چھپانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا ۔

تو کیا آپ اسے مار دیں گئے تو اس کا وجود میری زندگی سے مٹ جائے گا، جب میں راضی نہیں تھا تو زبردستی اس سے میرا نکاح پڑھوایا گیا پھر اس کا کیا قصور یہ میری زندگی میں نہیں آئی تھی آپ لوگ لے کر آئے تھے اسے مت ماریں بلکہ خود کو ماریں کیونکہ وجہ آپ لوگ تھے خبردار اگر ائندہ اس لڑکی کو کسی نے نقصان پہنچایا میں معاف نہیں کروں گا کسی کو بھی یہ معصوم آپ لوگوں کو کیا کہتی ہے کچھ نہیں یہ میرے نکاح میں ہے اور خود سے جوڑی چیزوں کی خفاظت کرنا غاذان تیمور کو اچھے سے آتی ہے آئندہ یاد رہے ۔

سرد و سپاٹ لہجے میں بولتا وہ پھر اس بت بنی لڑکی کی طرف پلٹا تھا جو آنکھوں میں حیرانی لیے اسے اپنی طرف آتا دیکھ رہی تھی ۔

اسکی کلائی ہاتھ میں جھکڑتا وہ بنا کسی کو دیکھے انکے بیچ سے نکلا تھا وہ سب آنکھیں منہ کھولے اسے جاتا دیکھتے رہے ۔

سردار کو کس نے بتایا ہو گا ۔

ریاض نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

جس پر تیمور اور خشام نے سہیر خانم کو دیکھا تھا وہ سمجھ گیا اسکی بیٹی اپنا کام انجام دے چکی ہے کہ اس کے علاوہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں تھی یہ ان چاروں کا منصوبہ تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا سوائے انکی بیٹی کہ جو شاید اس دن انکے منصوبے سے آگاہ ہو چکی تھی۔ ۔

سہیر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھیں اب انکے قہر سے مہرینہ کو کون بچاتا وہ تو بے خبر سو رہی ہے بنا آنے والے وقت کی آگاہی سے ۔

_________________________________

اسکے نکلتے ہی گارڈز کی گاڑیاں بھی سکے پیچھے نکلیں تھِیں۔

ٹھوڑی پر ہاتھ کی مٹھی بناِے رکھے وہ سخت غصے میں تھا ۔

تب ہی اسکا فون بجا تھا ۔

میں پہنچ چکا ہوں موم ۔

اس نے سنجیدگی سے انہیں جواب دیا تھا ۔

وہ لڑکی ٹھیک ہے اور میرے ساتھ ہے ۔

اس نے انکے سوال کے جواب میں کہا تھا۔

موم وہ بہت شرمیلی ہے کسی سے بات نہیں کرتی آپ سے بھی نہیں کرئے گئی ۔

اس نے پھر سے انکے کسی سوال کے جواب میں کہا تھا ۔

اوکے میں پہنچ کر اس سے آپکی بات کروا دوں گا ابھی فلحال وہ صدمے ہے شاید۔

اسے اپنی طرف ٹکڑ ٹکڑ تکتا دیکھ کر وہ بولا تھا۔

ہیر نے سرعت سے اس سے دھیان ہٹا کر باہر کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کیا وہ اسکی بات کر رہا تھا لیکن کس سے کیا اس نے کسی کو بتایا تھا اسکے بارے میں کیا وہ اتنی اہم تھی کہ اسکا زکر وہ کسی سے کرتا ۔۔

ناخن منہ میں دئیے وہ پریشانی سے سوچ رہی تھی ۔۔

اونہہ بیٹ ہیبٹ ۔۔

وہ بنا اسے دیکھے موبائیل پر تیزی سے انگلیاں چلاتا ہوا بولا تھا ۔

ہیر نے سرعت سے ناخن منہ سے باہر نکالے۔۔

گاڑی ایک بہت بڑے ہوٹل کے سامنے رکی تھی ۔۔

جس کی پارکنگ ہی کافی وسیع و عریض تھی ہوٹل بہت بڑا تھا ۔

اسکے پیچھے آنکھوں میں بے انتہا حیرانی لیے وہ چل رہی تھی ۔


اسے دیکھتے ہی سب اپنی جگہ ساکت ہوئے تھے یہ ہوٹل اسکے دادا نے بنوایا تھا بعد میں اس نے نئے سرے سے اس میں چینجنگ کروائیں تھیں ۔

گڈ ایوننگ سردار غاذان تیمور خانم۔


ہوٹل کا مینجر بھاگتا ہوا اسکے قریب آتا ہوا ادب سے بولا تھا اس نے سر ہلا کر ہوٹل پر ایک طرائنہ نظر ڈالی ورکرز سمیت بہت سے لوگ اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔

سردار جی اتنے دنوں بعد چکر لگایا۔

مینجر اور تین چار لوگ اسکے پیچھے اتے ہوئے بولے تھے۔

بزی تھا تھوڑا ،تھڑد فلور پر میرا جو کمرہ تھا وہ کھلواوّ۔

لفٹ کی طرف بڑھتا وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔

لفٹ سے ہیر کو کتنا ڈر لگتا تھا وہ بتا نہیں سکتی تھی کہ اس تنگ چیزوں سے فوبیا تھا اسے سانس آنا بند ہو جاتا تھا ، وہ تو سردیوں میں بھی بھی منہ دھک کر نہیں سوتی تھی کہ اسے ایسے لگتا جیسے اسکا سانس بند ہو جائے گا ۔

وہ لفٹ سے باہر ہی کھڑی رہی ۔

آو ۔۔

اسے وہی جمع دیکھ کر وہ بولا تھا ۔

سردار کو ایک نظر دیکھتی وہ سر جھکا گئی لیکن اندر کی طرف قدم نہیں بڑھائے۔


ہیر کیا پرابلم ہے تم اندر کیوں نہیں آرہی۔

اس نے ہیر کے نزدیک آتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا ۔

تنگ اور بند چیزوں سے میرا سانس بند ہو جاتا ہے میں نہیں آسکتی اندر ۔

وہ بھرائے لہجے میں بولی تھی ۔

غاذان نے ٹھٹھک کر اس کم عمر لڑکی کو دیکھا ۔

تو اسے فوبیا تھا ۔

اوکے ہم سیڑیوں سے چلے جاتے ہیں آو ۔

وہ باہر آتا سیڑیوں کی طرف بڑھتا ہوا بولا تھا باقی سب حیران ہوئے تھے ۔

ہیر نے پریشانی و حیرت سے اسے دیکھا ۔

آپ لفٹ سے جائیں میں سیڑیوں سے آجاوں گئی پلیز سردار آپ لفٹ سے جائیں ۔

وہ لب کاٹتی ہوئی بولی ۔

اونہہ بیٹ ہیبٹ ۔

وہ پھر اسے ٹوک گیا تھا ہیر نے اسے حیرانی سے دیکھا ۔

وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔

آو ہم سیڑیوں سے جائِیں گئے اچھا ہے تھوڑی واک بھی ہو جائے گئی۔

وہ کہتا ہوا سیڑیوں کی طرف بڑھا تھا باقی سب بھی حیرانی سے ہیر کو دیکھتے سیڑیوں کی طرف بٰڑھے تھے۔


ہیر حیرانی سے اسکی پشت دیکھتی ہوئی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔

ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سی بے ساختہ آئی تھی ۔

کہی میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی

وہ پریشانی سے بڑبڑائی تھی ۔

تھڑد فلور پر پہنچ کر وہ کچھ دیر سانس درست کرتی پھر تیز قدموں سے چلتے سردار کی پیچھے چلنے لگے ۔

ہیر بہت تھک چکی تھی وہ اتنی سیڑیاں اتر چڑ نہیں سکتی تھی لیکن یہ سردار غاذان کو کون بتاتا ۔

وہ کمرہ نمبر 44 کے آگے رکا تھا ۔

پیچھے کھڑی عوام کو جانے کا اشارا کرتا ہوا وہ ہیر کو اندر لایا تھا ۔

کمرہ دیکھ کر ہیر کی آنکھیں کھولی کی کھولی رہ گئیں ۔

گول وسیع کمرہ تھا جس کی دو دیواروں پر گلاس لگ ہوا تھا ۔

گول ہی وائٹ بیڈ شیٹ والا بیڈ ،وائٹ ریشمی پردے ایسا کمرہ تو اس نے ٹی وی میں بھی نہیں دیکھا تھا ۔

یہ کس کا کمرہ ہے ۔

وہ بے ساختہ حیرانی سے بولی تھی۔

تمہارا ۔

اسکی طرف آتا ہوا وہ بولا تھا ۔

میرا ۔۔

وہ حیرت سے پریشانی سے بولی تھی ۔

وہ سر ہلا گیا ۔

لیکن یہ میرا کیسے ہو سکتا ہے ۔

وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی ۔

وہ فون پاکٹ میں ڈالتا اسکے نزدیک آیا

ہیر آج سے تم اسی ہوٹل میں رہو گئی تم سمجھو یہ تمہارا اپنا زاتی روم ہے اسے تم جیسے مرضی رکھو تمہاری مرضی تمہارا جو دل کرئے وہ کرو یہاں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کوئی بھی نہیں اس لیے تم یہاں آزاد ہو باہر گارڈن میں جاو گھوموں پھرو کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا اپنی لائف کو اپنے حساب سے سٹارٹ کرو ہیر۔

وہ اسکے چہرے جو دیکھتا ہوا بول رہا تھا ۔

سچ!

وہ بے ساختہ پوچھ رہی تھی ۔

ہممم۔

وہ فقط یہی بولا تھا۔

لیکن خیام پریشان ہو گا وہ میرے بغیر نہیں رہتا ۔

وہ پریشان ہوئی تھی کہ اسکا بھائی پریشان ہو گا اب تک تو وہ گھر آچکا ہو گا ۔

وہ بھی یہی تمہارے ساتھ والے روم میں رہے گا

۔

وہ گلاس ونڈو کے پاس آتا ہوا بولا ۔

یہ اتنے اچھے کیوں ہیں ۔

وہ پریشانی سے انگلیاں مڑوڑتے ہوئے بڑبڑائی تھی ۔۔


بیٹ ہیبٹ ۔۔

اسے ایک نظر دیکھتا وہ بولا تھا ۔

ہیر نے سرعت سے ہاتھ کی انگلیاں مڑوڑنا ترک کیں۔

کون سی کلاس میں تھی تم !

وہ اسکے سامنے آتا ہوا بولا تھا ۔

وہ قد میں ہیر سے کافی اونچا تھا وہ سر اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھنے لگی جواباً اس نے سوالیہ آئی بروا چکائے تھے.

10th میں

وہ پریشانی سے بولی ۔

کونسے سبجیکٹ تھے تمہارے۔

وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا مزید بولا ۔

وہ حیران ہوئی تھی اسکے سوالوں سے ۔

آرٹس رکھے تھے مطلب سمپل تھے۔

وہ سر جھکاِے ہی بولی ۔

تمہیں سائنس کے ساتھ پڑھنا چاہئیے تھا۔

وہ آفسوس سے بولا۔

جبکہ وہ خوامخواہ ہی شرمندہ ہوئی تھی ۔

زہین تھی یا نالاق تھی یا ایوریج۔

اسکے سوالوں نے ہیر کو بہت پریشان کر دیا تھا ۔

وہ اب کیا کہتی وہ اسی سوچ میں تھی ۔


تم ایوریج تھی ہے نا ۔

وہ یقین سے پوچھ رہا تھا ۔

وہ شرمندگی سے سر ہلا گئی ۔

اوکے تم سائنس کے سبجیکٹ پڑھ سکو گئی نو ایشو تمہارا ایڈمیشن کروا رہا ہوں کالج میں تیار رہنا میں چلتا ہوں تھوڑی دیر میں خیام بھی پہنچ جائے گا اسے میرا میسج پہنچ چکا ہو گا اللہ خافظ اینڈ بی بریو۔۔

سنحیدگی سے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا وہ وہاں سے تیزی سے نکلا تھا ۔

ہیر کسی آفسوں میں قید ہوئی تھی وہ اسے کیسے بتاتی اسکا سر پر ہاتھ رکھنا ہیر کو کس جہاں میں پہنچا دیتا ہے اسے ایسے لگا وہ اکیلی نہیں کوئی ہے اسکے سر پر ہاتھ رکھنے والا ۔

سر پر اسی جگہ ہاتھ رکھا جہاں کچھ دیر پہلے اسکا بھاری ہاتھ ٹھہرا تھا وہ مسکرا دی دل سے مسکرا دی ۔

اللہ ۔۔

اللہ کو دل سے پکارتی وہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔

یہ کہی کوئی خواب تو نہیں۔

وہ مسکرا کر اللہ سے پوچھ رہی تھی ۔

یہ کیا سچ میں مجھے پڑھائیں گِے.

وہ لب کاٹتی ہوئی خود سے بول رہی تھی

_______________________________


مہرینہ سو رہی تھی جب کسی نے جھٹکے سے اسکے منہ سے بلینکٹ کھینچا تھا ۔

کیا ہے سونے دو ایک تو مجھے یہاں کوئی سونے نہیں دیتا ۔

وہ بنا آنکھیں کھولے غصہ ہوئی تھی ۔

چٹاخ!


لیکن اگلا لمحہ اسے دن میں تارے دیکھا گیا تھا ۔

منہ پر ہاتھ رکھے وہ اپنے باپ اور بھائی کو دیکھ رہی تھی دروازے میں اسکی ماں پریشان صورت لیے کھڑی تھی۔

کہا تھا نا اپنی حرکتوں سے باز آجاو لیکن تم باز نہیں آئی کیوں بتایا سردار کو ۔

اسکی کلائی جھکڑتے وہ آنکھوں میں قہر لیے بولے تھے۔

وہ انہیں حیرت سے دیکھتی رہی ۔

تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں میں۔

دوسرا تھپڑ اسکے منہ پر برساتے وہ چلائے تھے ۔

میں نے تو سردار کو کچھ نہیں بتایا کیا کچھ بتانا تھا سردار کو

وہ بنا ڈرتے ہوئے بولی تھی۔

بابا جھوٹ بول رہی ہے یہ بہت زیادہ جھوٹ بولنا سٹارٹ کر چکی ہے۔

داور کے کہنے پر سہیر خانم نے اسکی کلائی کھینچ کر اسے کھڑا کیا تھا۔

اس دن سب سن چکی تھی نا تم، تم نے بتایا ہے نا سردرا کو ۔

اس بار بال کھینچ کر پوچھا گیا.

نہیں میں نے تو کچھ نہیں بتایا اور نا ہی میں کچھ جانتی تھی ۔

بنا بال چھڑائے وہ دھیمی آواز میں بولی تھی۔

باز آجاو ورنہ کاٹ کر پھینک دوں گا یہ تربیعت کی ہے تم نے اسکی ۔

اب توپوں کا رخ نوشین کی طرف ہوا تھا۔

وہ سر جھکا گئیں ۔۔

نوشین پورے دو دن کچن کے سارے کام یہ کرئے گئی اور اگر اس نے منع کیا تو پھر نتیجے کی زمہ دار بھی یہ ہو گئی۔

اسے بیڈ پر دھکا دیتے وہ باہر نکل گئے ۔

اسک چہرہ سائیڈ ٹیبل پر بہت زور سے لگا تھا ۔

ہونٹوں سے خون کی لکیر پھوٹنے لگی تھی۔

نوشین لپک کر اسکی طرف آئی ۔

کیوں تنگ کرتی ہو انہِیں ۔

اسے سیدھا کرتی وہ پریشانی سے اسکا چہرہ دیکھتی ہوئیں بولی تھیں ۔

لیکن میں نے تو کچھ نہیں کیا ۔

بنا درد پر دھیان دئیے وہ کندھے اچکا کر بولی تھی ۔

مہرینہ تم کس سمت نکلی جا رہی ہو باز آجاو ورنہ انہیں چار دیواروں مِن بھٹکتی مر جاو گئی۔

نوشین اسے گلے سے لگاتی ہوئیں بھرائے ہوئے لہجے میں بولی ۔

اس لیے تو کہتی ہوں میری شادی کر دیں ۔

وہ آنکھوں کی نمی پیتی ہوئی بولی تھی ۔

نوشین نے تاسف سے اسے دیکھا تھا وہ باز نہیں آسکتی تھی شاید مار کھا کھا کر وہ ڈیٹھ ہو چکی تھی اسے کسی کا ڈر خوف نہیں رہا تھا دوسری لڑکیاں بھی تو تھیں آج تک کسی نے انکی آواز تک نہیں سنی تھی پھر یہ کیوں اپنی موت کو خود دعوت دے رہی تھی ۔۔

وہ ابھی یہاں کے بے حس لوگوں سے ٹھیک سے آگاہ نہیں ہو سکی تھی شاید۔

____________________________


خیام مجھے یقین نہیں ہو رہا وہ خود یہاں لے کر آئے اور کہا میں اب پڑھوں گئی خیام کیا سچ میں ایسا ہو سکتا ہے ۔

وہ اشتیاق سے اس سے پوچھ رہی تھی۔ جو مسکراتے چہرے سے ہیر کو دیکھ رہا تھا ۔

اگر سردار نے کہا ہے تو ان شاء اللہ سچ ہو گا آپ پڑھ سکیں گئیں ۔

وہ جوس والا گلاس اٹھاتا ہوا بولا۔

وہ مسکرادی ۔

خیام نے کتنے عرصے بعد اسکے چہرے پر سچی مسکان دیکھی تھی ۔

وہ دونوں روم میں یی ڈینر کر رہے تھے، بہت سے کھانے ان دونوں کے آگے پڑے ہوئے تھے جو انہوں نے شاید دیکھے ہوئے بھی نہیں تھے۔

ہیر ہر کھانے سے چمچ بھر بھر کر کھا رہی تھی کہ وہ آج بہت خوش تھی ۔۔


سردار نے چونک کر مہرینہ کو دیکھا جس کے چہرے پر نیل پڑے ہوئے تھے ۔

مہرینہ کیا ہوا ہے تمہیں۔

وہ تشویش سے پوچھ رہا تھا انداز میں بے انتہا فکر تھی اس کے لیے جسے محسوس کرتی وہ مسکرائی۔

سردار صبح سیڑیاں اترتی سلپ ہو گئی اور گر گئی ۔

وہ منہ بسورے بتا رہی تھی وہ گہرا سانس لیتا اسکا چہرہ دیکھنے لگا ۔

اب بہتر ہو یا ڈاکٹر کو بلا لوں ۔

وہ پریشانی سے پوچھ رہا تھا ۔

دوا لگائی ہے آپ میرا میک اپ کا سامان دے دیں نا ۔

وہ ہاتھ اسکی طرف بڑھاتی ہوئی اشتیاق سے بولی ۔

وہ ہونٹ بھینچ کر ہلکا سا مسکرایا۔

کیا مطلب آپ نہیں لاِے ۔

وہ اسکی مشکوک مسکراہٹ کو دیکھتی ہوئی پریشانی سے بولی ۔

تم نے کل میسج کیا اور آج میں آگیا کچھ لینے کا وقت ہی نہیں ملا لیکن ڈونٹ وری میں تمہاری چھوٹی سی لسٹ موم کو دے آیا ہوں وہ بھیج دیں گئی۔

اس سے کہتا وہ مسلسل بجتے ہوئے فون کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔

وہ ریلکس ہوئی ۔

مہر اگر کمفرٹیبل ہو تو سٹرونگ سی کافی بنا کر بھیج دو اور ہاں ایک مںت تم جس کالج میں پڑھتی ہو وہاں کا ماحول سٹڈی اور سٹاف کیسا ہے کیا تم وہاں کمفرٹیبل ہو۔

وہ کچھ یاد آنے پر اس سے پوچھ رہا تھا ۔

مہرینہ اسے حیرت سے دیکھتی ہاں میں سر ہلا گئی آج کیسے پوچھنے کا خیال آگیا۔

اوکے یہی کنفرم کرنا تھا ۔

عجلت سے کہتا وہ فون کان سے لگا کر تھوڑا دور کھڑا ہو گیا ۔

مہرینہ ناسمجھی سے اسے دیکھتی اسکے کمرے سے جانے کے لیے پلٹ گئی۔

جبکہ اس نے پلٹ کر مہرینہ کی پشت کو جانچتی نظروں سے دیکھا تھا ۔

مہرینہ خیام کو بھیجو دینا۔

فون پر کسی سے بات کرتا وہ اس سے کہہ گیا تھا.

مرینہ رکی پھر سر ہلاتی ہوئی وہ تیزی سے سیڑیوں کی طرف بڑھ گئی ۔

________________________________

جاو سردار بلا رہے ہیں۔

وہ سٹڈی روم میں بیٹھا کمپیوٹر پر تیزی سے کوئی فائل بنا رہا تھا جب اسکی آواز پر اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔


وہ چونک کر پلٹا پھر چونکا اسکے سوجے ہوئے چہرے کو دیکھ کر ۔

کیا ہےایسے کیوں دیکھ رہے ہو سیڑیوں سے گر گئی تھی ۔

بال پیچھے کرتی وہ اسکی نظریں چہرے پر محسوس کر کے تنک کر بولی تھی۔

وہ سر جھٹکتا ہوا فائل سیو کرتا ہوا اٹھا۔

بات سنو تمہاری ایج کیا ہے۔

اسکے سامنے آتی وہ پوچھ رہی تھی ۔

16 ۔۔

وہ بولتا ہوا جانے لگا تھا جب اس نے اسے رکنے کا کہا ۔

میں اس گھر کی مالکن ہوں اور تم نوکر تو جب تک میں نا کہوں ہلا بھی مت کرو سمجھے ۔

وی اسکی عجلت پر غصہ ہوئی تھی۔

آپکو مجھ سے کچھ کام ہے۔

وہ پوچھ رہا تھا انداز میں جیسے بے بسی سی تھی۔

تم سے کیا کام ہو گا مجھے ، میں تمہیں بس مالکن اور نوکر کے اداب سکھا رہی تھی ۔

وہ نخوت سے ناک چڑہا کر بولی تھی۔

آوکے آئندہ خیال رکھوں گا اب جاوں میں مس مالکن جی۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا اس نے سر ہلا کر اسے جانے کا اشارا کیا۔


اسکے جانے کے بعد وہ کچن کی طرف جاتی راہدری کی طرف بڑھی تھی جب شائنہ ایک دم سے اسکے سامنے آئی تھی۔

مہرینہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔

ہائے شائنہ کیسی ہو تم ۔

وہ مسکرا کر پوچھ رہی تھی۔

جواباً وہ اسکے چہرے کو دیکھتی طنز سے ہنسی۔

میں تو ٹھیک ہوں لگتا ہے تمہارے حالات ٹائٹ ہیں کیا کہی گر گئی تھی۔

وہ مسکرا کر طنز سے پوچھ رہی تھی۔

ارے نہیں گریں میرے دشمن مجھے تو بابا نے مارا تھا وہ سردار کی بیوی کو جو بچایا تھا ۔

وہ بالوں کو پیچھے کی طرف جھٹکتی ہوئی جواباً مسکراہت سے بولی۔

شائنہ کے ہونٹ سکڑے تھے۔

کیا ہوا مائے ڈیئر برا لگا کیا۔

وہ ہونٹ باہر کو لٹکاتی ہوئی بولی تھی انداز بچوں سا چڑایا تھا ۔

لگتا ہے ہماری مہرینہ کو زندگی سے پیار نہیں ۔

شائنہ نے اسکے سوجے ہوئے گال دیکھ کر مصنوعی تاسف سے کہا۔

ارے نہیں زندگی مجھے بہت پیاری ہے لیکن تمہارے منصوبے کامیاب نہیں ہونے گئی یہ مہرینہ، پھر چاہے جان جائے یا رہے پرواہ کسے ہے۔

وہ اسکے نزدیک آتی ہوئی بھرپور طنز سے بولی

مہرینہ تم جانتی ہو مامو کتنی محبت کرتے ہیں مجھ سے آئندہ اگر میرے راستے میں آئی تو نجام برا ہو گا۔

شائنہ نے اسے دھمکانا اپنا پرانا فرض سمجھا تھا۔

شائنی تم جسکی مرضی پیاری بنتی پھرو آئی ڈونٹ کیئر لیکن سردار کی پیاری یہ مہرینہ تمہیں کبھی نہیں بننے دے گئی ویسے تم ہو بہت ڈیٹھ جاتے وقت تو ایسے گئی تھی جیسے اب سردار محل میں قدم نہیں رکھو گئی لیکن پھر چلی آئی ایک بات تو طے ہے تم میں نا نام کی کوئی چیز نہیں خیال رکھنا اپنا ، مجھے زرا دیر ہو رہی ہے سراد کے لیے چائے بھی تو بنانی ہے ۔

اس پر طنز کے تیر برساتی بالوں کو جان بوجھ کر لہراتی ہوئی وہ وہاں سے چلی گئی ۔۔

________________________________


خیام کالج چلا گیا تھا وہ کل سے روم سے باہر نہیں نکلی تھی سردار نے اسے نیچے واکے روم میں شفٹ کروا دیا تھا کہ وہ اتنی سیڑیاں اتر چڑ نہیں سکتی تھی نیچے والا کمرہ بھی بہت خوبصورت تھا ۔

وہ بور ہوتی باہر نکل آئی تھی گارڈن بہت وسیع و عریض تھا ہوٹل کی لوکیشن بہت زبردست تھی یہ ہوٹل کافی نیچے بنا ہوا تھا چاروں طرف پہاڑ خوبصورت جنگلات ، ندی، یہ ایک آئیڈیل ہوٹل تھا اسی لیے تو اس ہوٹل میں سارا سال رش ہی رہتا تھا یہاں بہت مشکل سے کمرہ ملتا تھا ۔۔

زیادہ تر یہاں کپلز تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ مستیوں میں مصروف تھے ۔

اسے شرم سی آرہی تھی پتا نہیں کیوں ۔


تب ہی وہ چونکی تھی ۔

اپنے سامنے سردار کے خاص ملازم خادم کو دیکھ کر ۔

میم سردار باہر گاڑی میں آپکا ویٹ کر رہے ہِیں انکا آرڈر ہے آپ اچھا سا تیار ہو کر آئیں میں تب تک آپکا یہی ویٹ کر رہا ہوں۔

وہ پریشانی سے اسے دیکھتی ہوئی کھڑی ہوئی ۔

تیار ۔

وہ حیرت سے بڑبڑائی تھی ۔

جی جلدی کر لیں زرا ہمارے سردار کو ویٹ کرنا پسند نہیں ۔

اسے وہی جمع دیکھ کر خادم نے سر جھکائے ہی کہا۔

وہ لب کاٹتی ہوئی اندر کی طرف بڑھ گئی۔

میرے پاس تو اچھے کپڑے ہے ہی نہیں ۔

کُل چار جوڑوں کو دیکھتی وہ پریشان ہوئی تھی ۔

پھر ان میں سے جو قدرے بہتر حالت مِیں تھا وہ اٹھا کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔

سکن چادر کو اچھے سے اوپر اوڑھتی ہوئی وہ باہر نکل آئی سر جھکا ہوا ہی تھا ۔

خادم نے اسے آگے بڑھنے کا اشارا کیا.

وہ آگے بڑھتی ہوئی دھیمے قدموں سے چل رہی تھی ۔

سردار گاڑی میں بیٹھا کسی سے فون میں بات کرنے میں بزی تھا ۔

خادم نے سردار کی بائیں سائیڈ والا دروازہ اسکے لیے کھولا تھا ۔


وہ جھجھکتی ہوئی اندر بیٹھی تھی ۔

چکر لگاوں گا فری ہو کر تم تب تک کام کو اچھے سے ہینڈل کرو اور ہاں مہرینہ کی پک بھیجی ہے دیکھ لو اور اگر پسند آتی ہے تو اپنے پیرینٹس کو بھی دیکھا دو پھر ہی میں یہاں بات کروں گا رکھتا ہوں رات کو فری ہو کر بات کروں گا۔

اسیر سے کہتا وہ فون بند کر کے بنا اسے دیکھے موبائیل پر پھر سے تیزی سے انگلیاں چلانے لگا تھا ۔

وہ شاید بہت بزی تھا ۔

ہیر نے کانی نظروں سے اسکی مضبوط کلائی میں بندھی براون قیمتی واچ دیکھی تھی بازوں پر بروان ہی چھوٹے چھوٹے بال اسکی مردانہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھے ۔

ہیر تم اچھے سے تیار کیوں نہیں ہوئی۔

وہ ہنوز موبائیل میں مصروف اس سے پوچھ رہا تھا ۔

ہیر نے پریشانی سے ہونٹ بھینچے ۔

میں تیار ہوں ۔

وہ اسکی اپنی طرف اٹھتی سوالیہ نظروں کے جواب میں بولی تھی ۔

وہ آِئی برو اچکا کر اسکی تیاری دیکھتا سر جھٹک کر رہ گیا کہ اس لڑکی کی سلیوز میں چھوٹا سا سوراخ تھا ۔

لیکن وہ لڑکی شاید جانتی نہیں تھی یا پھر جان کر بھی انجان تھی۔

وہ شاید اب فارغ تھا ۔

ہاں !

اور خیام نے ؟

وہ لگتا تھا اب کچھ زیادہ ہی فارغ تھا ۔

اس نے بھی کیا تھا ۔

وہ حیرت سے بولی تھی حیرت اسے اپنی اور خیام کی فکر پر تھی ۔

کیا کھایا ۔

وہ شاید پوچھتے وقت زیرے لب مسکرایا تھا ۔

ہیر ساکت ہوئی تھی کیا اسکے پاس یہ سب پوچھنے کا وقت تھا ۔

ہیر سحرزدہ سی ہو گئی تھی اسکی کیئر پر۔

میں نے چائے کے ساتھ بسکٹ کھائے تھےا ور خیام نے پراٹھا ۔

وہ سر جھکائے دھیمے سے بول رہی تھی وہ سر ہلا گیا ۔

ہیر تم جانتی ہو ہم کہاں جارہے ہیں۔

اس نے بنا اسے دیکھے پوچھا تھا ۔

وہ جواباً سر نفی میں ہلا گئی ۔

تمہار ایڈمشن ہو گیا ہے ہیر تمہِیں مہر کے حوالے کر کے میں آوٹ آف سٹی جاوں گا تم اچھے سے اپنی یونی دیکھ لو لوگوں سے مل۔لو اور ہاں مہر اور شائنہ بھی یہی پڑھتیں ہیں لیکن تم مہر کے ساتھ رہنا ۔

وہ اسے سمجھا رہا تھا یا بتا رہا تھا ہیر سمجھ نا سکی ۔

مہر کون ہے ؟

وہ پتا نہیں کیسے پوچھ گئی تھی ۔

ماِئے سوئٹ کزن ۔

وہ دھیمے سے بولا تھا ۔

یونی کے باہر اس نے گاڑی روکنے کو کہا کہ اگر اندر جاتا تو اسے سب گھیر لیتے اسکے پاس ٹائم نہیں تھا اسکی آدھے گھنٹے میں فلائٹ تھی کراچی کی ۔

مہرینہ باہر ہی کھڑی تھی جیسے ہی سردار کی گاڑی دیکھی سرعت سے ہاتھ ہلاتی وہ انکے قریب آئی تھی ۔

مہرینہ یہ ہیر ہے اسکا خیال رکھنا ۔

اس سے کہتا وہ ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا اشارا کر گیا ۔

انکی گاڑیوں کے جانے کے بعد مہرینہ نے گھوم پھر کر اسکا جائزہ لیا ۔

ہیر سخت نروس ہوئی تھی مہرینہ کے ٹکڑ ٹکٹ دیکھنے سے۔

کونسی کلاس میں ہو ۔

وہ پوچھ رہی تھی۔

دسویں میں۔

وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی تھی ۔

مہرینہ بلیک ٹروزر پر بلیک ہی شارٹ فراک پہنے ہوئے تھے اونچی پونی گلے میں سکن مفرل منہ میں چیونگم وہ لڑکی بہت خاص لگی تھی ہیر کو ۔

ویسے لگتی تم ساتویں کلاس کی طلبہ ہو ۔

مہرینہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

ویسے تم کوئی جادو کرتی ہو ۔

اسے اپنے ساتھ آنے کا کہتی وہ کچھ سوچتی ہوئی بولی تھی ۔

نہیں تو آپ ایسے کیوں کہہ رہیں ہیں۔

وہ حیرت سے بولی ۔

یہ تم نہیں سمجھو گئی جانے دو میں تم سے دو کلاس آگے ہوں تمہارے ساتھ والا میرا کلاس روم ہے اکیلے مت جانا کہی بھی اوکے ۔

آو تمہیں ساری یونی دیکھاوں تاکہ تم اپنی یونی سے اچھے سے واقف ہو جاو ۔

مہرینی آگے آگے چلتی بول رہی تھی جبکہ وہ اس سے دو تین قدم پیچھے تھی ۔۔

یہاں پر اگر اچھے لوگ ہیں تو برے زیادہ ہیں سو کسی سے بات وات مت کرنا ۔

وہ آتی جاتی لڑکیوں سے ہائے ہیلو کرتی اسے سمجھا بھی رہی تھی ۔

ہیر صرف سر ہی ہلا رہی تھی ۔۔۔

کچھ کھاو گئی ۔

وہ اسے ساری یونی گھمانے کے بعد اسکے تھکے سے چہرے کو دیکھتی ہوئی بولی ۔

وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

مہرینہ مسکرائی ۔

آو کافی پلاتی ہوں ۔

وہ اسکا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی تھی آخر کو وہ اسکے سرادر کی پہلی بیوی تھی اسے اچھی تو لگنی ہی تھی نا ۔

اسے بٹھانے کے بعد وہ اندر آتی شخصیت کو دیکھ کر مسکرائی ۔

شائنہ بھی ساکت ہوئی تھی مہرینہ کے ساتھ بیٹھی لڑکی کو دیکھ کر وہ اسکا چہرہ کیسے بھول سکتی تھی یہی تو چڑیل تھی جس نے پتا نہیں کیسے اسکے سردار کو اس سے چھین لیا تھا وہ ابھی تک حیران تھی اور یہ لڑکی اب پھر سے آگئی تھی ۔

وہ غصے سے ان کی طرف بڑھی تھی پیچھے اسکی تین چار فرینڈز تھی جو خلیے سے کافی امیر لگ رہیں تھیں۔

ہائے مائے دیئر کزن کیسی ہو کافی دنوں بعد آئی کالج سب خیریت تو تھی نا۔

مہرینہ اس سے مصنوعی مسکان سے پوچھ رہی تھی ۔

جبکہ اسکی نظرِیں اپنی طرف دیکھتی ہیر پر تھیں جسکا چہرہ سکن چادر کے ہالے میں تھا وہ لڑکی شکل سے ہی معصوم لگتی تھی لیکن شائنہ کو وہ شاطر اور چالاک لگی تھی وہ چاہتی تو ابھی اس دھکے مار کر یہاں سے نکال دیتی لیکن باپ کا پڑھایا ہوا سبق یاد تھا کہ سردار کے سامنے اچھا ہی بننا ہے برا نہیں ۔

او مہرینہ تم نے یہ کسے دوست بنا لیا ہے جو شکل سے ہی غریب لگ رہی ہے کیا دوستوں کا کال پڑ گیا تھا ۔


شائنہ نے اسکا مزاق اوڑانا اپنا فرض سمجھا تھا آخر اور کچھ نہیں تو اس لڑکی سے ایسے ہی بدلا لیا جا سکتا تھا ۔


ہیر نے ہونٹ بھینچ کر اس چمکتی رنگت والی خوبصورت لڑکی کو دیکھا تھا ۔

ارے نہیں شائنی، یہ غریب نہیں ہے اسکا شوہر بہت امیر ترین ہے یار ،کیا اسکا نام جاننا چاہو گئی ۔

مہرینہ کھڑی ہوتی ہوئی طنز سے مسکرا کر پوچھ رہی تھی ۔

شائنہ کے مسکراتے ہونٹ سکڑے تھے ہونٹ بھینچے وہ ہیر کو گھورتی ہوئی وہاں سے تیزی سےنکلی تھی۔

ہیر تم نا اسکا مائنڈ مت کرنا اصل میں تھوڑی پاگل مغروری اور ایک نمبر کی لمبی زبان والی ہے سو اس سے بچ کر رہنا ہے ہمیں ۔

مہرینہ نے اسے پریشان دیکھ کر سمجھایا۔

یہ کون ہیں۔

ہیر نے پوچھا تھا ۔

یہ ایک خوبصورت چڑیل ہے ۔

وہ بڑے آرام سے ہیر کے چھکے چھڑا گئی تھی ۔

کیا۔۔۔۔

ہاہاہاہا

یار مزاق کر رہی تھی انسان ہی ہے ۔

ہیر کا فق ہوتا چہرہ دیکھ کر وہ بولی تھی۔

ہیر بھی پہلی بار مسکرائی تھی.

تم مسکراتی رہا کرو تم بہت اچھی لگتی ہو مسکراتے ہوئے۔

مہرینہ نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

ہیر شرما سی گئی تھی ۔

سر جھکائے وہ اورنج جوس کی طرف ہاتھ بڑھا گئی تھی ۔۔۔

سردار کے بعد اسے کوئی اچھا لگا تھا تو وہ تھی ؛مہرینہ سہیر خانم؛


_______________________________


داور نے رانا کو دیکھا جو پرسنل فلیٹ میں بیٹھا شاید کسی گہری سوچ میں تھا ۔

کیا سوچا ,ہے پھر اس سردار کی نقلی بیوی کے بارے میں۔

وائن کا گلاس پکڑتا وہ اس سے بولا تھا.

جواباً وہ اسے ایک نظر دیکھتا پھر سے کسی گہری سوچ میں مبتلا ہو گیا تھا۔

اس لڑکی کی معصوم آنکھیں اسکا مجھ سے ڈرنا اسکے کانپتے ہونٹ مجھے کچھ بھی نہیں بھول رہا داور میرا پہلی بار کسی پر دل آیا تھا اور ہر بار کی طرح وہ پھر سے آگیا کباب میں ہڈی بننے لیکن اب اسے بہت مہنگا پڑنے والا ہے کباب میں ہڈی بننا۔

وہ سگریٹ کے کش پر کش لگاتا ہوا سرد لہجے میں بولا تھا.

کیا مطلب اس پر حملہ مت کروانا اب سیکورٹی چاچو نے سخت کی ہوئی ہے اسکے ارد گرد کچھ ایسے بھی بندے ہیں حو دور سے اسکی گاڑی کو فالو کرتے ہیں ایسے میں ہماری کوئی بھی غلطی ہمیں لے ڈوبے گٙی انتظار کرو صحیح وقت کا۔

داور نے اسے سمجھاتے ہوئے ریلکس کرنا چاہا ۔

اس نے جواباً اسے گھورا ۔

اتنی آسانی سے مارنا بھی نہیں ہے مجھے اسے اسے تو تڑپا تڑپا کر ماروں گا جیسے اس نے میرے بھائی کو مارا تھا ۔

وہ زہریلے لہجے میں بولا تھا.

داور مسکرایا ۔

سردار کے بہت دشمن تھے اسے چپ ہی رہنا چاہئیے تھا نجانے کب وہ اس دنیا سے اٹھ جائے۔

مسکراتے ہوئے وہ وائن کا گلاس منہ سے لگا گیا۔

________________________________

.

ریاض نے طنز سے ثمرینہ کو دیکھا ۔

جاو اپنے بھائیوں کے گھر تاکہ انہیں بھی پتا چلے بہن بیٹی کی کیا تکلیف ہوتی ہے۔

ریاض نے اسکے ہاتھ سے چائے چھین کر نیچے مارتے ہوئے سرد لہجے میں اسے مخاطب کیا تھا ۔

کتنے دنوں سے تو وہ اس سے کلام ہی نہیں کر رہا تھا اور آج وہ اس پر چڑ دوڑا تھا ۔

ثمرینہ نے زخمی نظروں سے انہیں دیکھا ۔

خانم اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں پھر آپ اور آپکی بیٹی مجھے کیوں برا بھلا کہتے ہیں ۔

وہ آج بول ہی پڑی تھی ۔

کیونکہ تم اسی لائق ہو تم کیا جانو اولاد کی تکلیف کیا ہوتی ہے تمہاری کوئی اولاد جو نہیں کیسے پتا چلے گا تمہیں ۔

وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا اس پر چڑ دوڑا تھا ۔

ثمی نے انہیں زخمی نظروں سے دیکھا ۔

ُپھر وہاں سے چلی گئی دل ایک دم پھٹنے لگا تھا ۔

ریاض نے اسکی پشت کو دیکھ کر زور سے مکہ ٹیبل پر برسایا تھا ۔

_________________________________

خیام اور وہ دونوں بہت دیر باتیں کر کے اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے تھے کہ خیام آج بہت تھک گیا تھا کالج کا بوجھ پھر ٹیوشن پڑھانا اور پھر چار بجے سردار کے گھر جا کر کمپیوٹر پر کام کرنا اسکی آنکھوں میں ہلکا ہلکا سا پین ہونے لگا تھا لیکن ہیر کو اس نے نا بتایا کہ وہ پریشان جلدی ہو جایا کرتی تھی ۔

کچھ مہرینہ بی بی نے اسے خوب تنگ کیا ہوا تھا وہ کل اسکی شکایت سردار سے لگانے والا تھا ۔


ہیر کو نیند نہیں آرہی تھی کیونکہ وہ کالج سے آکر سوتی رہی تھی شام کو تو اٹھی تھی پھر نیند کیسے آتی ،

کالج سے اسے خادم نے پک کیا تھا ۔


آنکھیں جیسے ہی بند کرتی سردار کا سراپا چھم سے آنکھوں کے پردوں پر لہرانے لگتا ۔

وہ اکتا کر اٹھتی کھڑکی میں آگئی ۔

اس وقت رات کا دو بج رہا تھا ہوٹل میں اب جا کر خاموشی چھائی تھی ورنہ تو ساری رات یہاں دن سا ہی سماں رہتا تھا ۔

وہ چونک کر کھڑکی کے نزدیک آئی تھی ۔

گاڑی سے کوئی اور نہیں سردار نکل رہا تھا وہ اور خادم ہی تھے ۔

ہیر اور آگے جھکی تھی کہ سردار کی اچانک ہی نظریں اسکی کھڑکی پڑ پڑیں تھیں ۔

وہ بھوکھلا کر ایک دم پیچھے ہوئی کہ وہ سیدھا نیچے ہی جا گری تھی ۔

وہ بھوکھکلا کر کھڑی ہوئی بکھڑے بالوں کو سنوارا چادر بھی ٹھیک سے لی ۔

منہ دھو لیتی ہوں ۔

کچھ سوچ کر وہ واش روم کی طرف دوڑی تھی ۔

منہ دھو کر باہر آئی تھی تب ہی اسکے ڈور پر ہلکا سا نوک ہوا تھا ۔

کون ؟

وہ دھڑکتے دل سے بولی تھی ۔

میں خادم۔ سردار نے آپکو ڈائنی ہال میں بلایا ہے ۔

خادم اسے پیغام دے کر چل گیا تھا ۔

وہ کچھ دیر تک تو کھڑی رہی پھر دھڑکتے دل سے ڈائنی ہال پہنچی ۔

وہ ساکت ہوئی ۔

وہ بڑے سے ٹیبل کے گرد بیٹھا ہوا تھا اسکے آگے ویٹر بہت سے کھانے رکھ رہا تھا ۔

اس نے اسے دیکھ کر ہاتھ سے اندر آنے کا اشار کیا تھا ۔

اور ویٹر کو جانے کا ۔

ویٹر ادب سے سر جھکا کر چلا گیا ۔

خادم ہاتھ باندھے سردار کی چیئر کے پیچھے کھڑا تھا ۔

ہیر تم ابھی تک سوئی کیوں نہیں ۔

چائنیز رائس کا چمچ منہ میں رکھتا وہ اس سے بولا تھا ۔

وہ چپ رہی اسکے سامنے اس سے کوئی بات بن ہی نہیں پاتی تھی ۔

ہیر بھوک لگی ہے ۔

اسے کھانے کی طرف دیکھتا دیکھ کر وہ زیرے لب مسکان لیے بولا تھا

خادم نے چونک کر اپنے سردار کو دیکھا تھا مزاق اور سردار امپوسیبل لیکن وہ نہیں جانتا تھا ابھی کیا امپوسیبل سے پوسیبل ہو گا ۔۔

نہیں تو !

وہ بھوکھلا کر شرمندگی سے بولی تھی۔

لیکن بھوک تو تھی اسے یہ سردار اچھے سے جانتا تھا کہ اس لڑکی کا چہرہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھا 

ہیر نے جھکی جھکی نظروں سے ہی اسے نفاست سے کھانا کھاتے دیکھا ۔

اس نے صاف پلیٹ ہیر کی طرف بڑھائی۔

جو کھانا ہے ڈال لو۔

اسکی بھاری سنجیدہ سی آواز پر وہ دبک سی گئی تھی۔

نہیں مجھے بھوک نہیں میں نے شام کو کھانا کھایا تھا ۔

وہ بھوکھلاتے ہوئے بولی تھی ۔

اس نے کھاتے ہوئے فقط سر ہلا دیا ۔

نیپکن سے منہ ہاتھ اچھے سے صاف کرتا ہوا وہ اٹھا تھا ۔

ہیر میرے ساتھ آو !

اس سے کہتا وہ ایک مخالف سمت جاتے کوریڈور کی طرف بڑھا تھا ۔

ہیر سر ہلاتی اٹھ کر کھڑی ہوئی خادم بھی اسکے پیچھے ہی بڑھا تھا ۔

وہ اسکی پلیٹ کی طرف ڈرتے ڈرتے بڑھی تھی۔

اسکی پلیٹ میں پڑا اسکا آخری نوالہ وہ مٹھیوں میں بھینچ گئی تھی۔

خادم جو اسے آگے آنے کا کہنے والا تھا اسکی اس حرکت پر وہ ساکت رہ گیا تھا ۔

وہ سرعت سے سر آگے کر گیا تاکہ وہ لڑکی شرمندہ نا ہو اپنی حرکت پر ۔

ہیر بھی تیزی سے انکے پیچھے بڑھی تھی۔

خادم جالی کے بڑے سے دروازے کے پاس رک گیا تھا ۔

وہ اسے لیے کھلے اسمان تلے آیا تھا بیٹھو ۔

سامنے پڑی چیئر کی طرف اشارا کرتا وہ بولا تھا۔

ہیر جھجھکتے ہوئے بیٹھی ۔

خادم میرے روم سے سامان لے آو۔

اسے سے کہتا وہ ہیر کو دیکھنے لگا ۔

جسکی سیدھی نکلی مانگ آج بھی بہت واضع تھی ۔

ہیر آج یونی میں انجوائے کیا۔

وہ نرم لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

ہیر نے تھوڑا سا سر اٹھا کر اسے دیکھا جو بلیو تنگ شرٹ جسکے اوپر والے تین چار بٹن کھلے ہوئے تھے مضبوط سینا واضع تھا،

ہاف وائٹ پینٹ میں وہ ہیر کو ایک سحرزدہ سا لگا تھا جو رج کے خوبصورت ہونے کے ساتھ ایک نرم دل کا مالک بھی تھا تو وہ کس طرح نا اس پر دل ہارتی جو قدم قدم پر اسکا مخافظ بنا تھا۔

ہیر کہاں گھم ہو ۔

اس نے اسے ویٹر کی طرف متوجہ کیا جو کب سے اسکی طرف دودھ بڑھائے کھڑا تھا ۔

دودھ ۔

اسکا کافی کا مگ دیکھ کر اس نے اچنبے سے دودھ کا گلاس دیکھا تھا ۔

کیا تمہیں چاِے پسند ہے۔

وہ کافی کا سپ لیتا ہوا اس سے ہوچھ رہا تھا ۔

وہ دودھ پر نظریں جمائے سر ہاں میں ہلا گئی تب تک خادم بھی دھیڑ سارے بیگز پکڑے سردار کے پاس آ کھڑا ہوا تھا ۔

آج سے تم چائے نہیں دو ٹائم دودھ پیو گئی تم پہلے ہی کمزور ہو ہیر، تم نے اب سے اپنے کھانے پینے کا خاص خیال رکھنا ہے تمہیں خون کی کمی ہے اور چائے خون ہی جلاتی ہے سو یہ تمہارے لیے سوٹ ایبل نہیں ہے اب سے تم صرف دودھ اور جوس وغیرہ ہی لیا کرو گٙئ نو چاِے ۔

وہ قطیعت سے کہتا خادم کی طرف متوجہ ہوا ،

رکھ دو ادھر اور جاو سو جاو جا کر تم بھی تھک گئے ہو گئے ۔

خادم سے کہتا وہ کافی کے سپ لینے لگا جبکہ ہیر اسے کیسے بتاتی اسے دودھ نہیں پسند وہ تو چائے نا پیئے تو اسکا گزارا ہی نہیں لیکن چپ رہی اور خاموشی سی دودھ کا گلاس تھام گئی ۔

سردار میں تھکا نہیں ہوں گاڑی میں سوتا رہا تھا میں ۔

خادم نے اخترام سے کہہ کر اپنی طرف آتے ویٹر کی ٹرے سے چائے کا کپ اٹھایا۔

ہیر ان بیگز میں تمہارے لیے کچھ چیزیں ہیں کمرے میں جا کر دیکھ لو اور جو کمی بیشی رہ گئی ہو تو بتا دینا بنا شرمائے اوکے ۔

اسکی بھاری ّآواز پر وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگی ۔

کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی ریاست کا سب سے خوبصورت شہزادہ اسکے لیے کچھ لایا تھا اس سے مخاطب تھا اسے لگتا تھا وہ خواب میں ہو کیونکہ خقیقت اتنی خوبصورت کب ہوتی ہے۔

دودھ فنش کر کے جاو ۔

اس اٹھتا دیکھ کر وہ ٹوک گیا تھا اسے، اسکا دودھ کا گلاس ہنوز بھرا ہوا تھا ۔

ہیر نے آنکھیں بند کیں اور دودھ کا بھرا گلاس ایک ہی گھونٹ میں پینے لگی بنا سانس لیے

وہ دودھ ختم کر گئی تھی ۔

گڈ گرل۔

وہ کھانستا ہوا بولا تھا شاید اسکا گلہ خراب تھا کہ اسکی آواز آج کافی بھاری لگی تھی اسے ۔

وہ تشویش سے انہیں دیکھتی وہاں سے چلی گئی خادم بھی پیچھے ہی تھا اسکے بیگز والے شاپرز پکڑے ۔


اسکے جانے کے بعد وہ موبائیل میں آئے میسج ریڈ کرنے لگ گیا تھا ۔

اس نے ہیر کے لیے اپنی سیکرٹری سے شاپنگ کروائی تھی اس نے کہا تھا اگر سائز میں مسلہ ہوا تو وہ چینج کروا لے گئی۔

آج صبح اسکے پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر وہ کافی پریشان ہو اٹھا تھا ۔۔

وہ اس لڑکی کی مدد ، ہمدردی اور اپنے سردار ہونے کا فرض سمجھ کر رہا تھا اس کے لیے اور کوئی جزبہ نہیں رکھتا تھا وہ ۔

لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا اسکی ہمدردی ہیر کو کس راہ پے لے جائے گئی ۔

______________________________


''مینوں عشقے دا لگیا روگ

میرے بچنے دی نئیوں کوئی امید!


وہ پلے باندھے اسکے آخری نوالے کو کھول کر ہتھیلی پر رکھ چکی تھی۔

نوالہ تڑ مڑا گیا تھا لیکن ہیر سے کوئی پوچھتا اسکی ہتھیلی پر تو جیسے اسکی جان پڑی تھی یہ وہ کس راہ پر چل نکلی تھی جسکی کوئی منزل ہی نہیں تھی ۔


دوسرے ہی لمحے وہ نوالہ منہ میں ڈال چکی تھی آنکھوں میں نمی سی چمکنے لگی تھی ۔

شوں شوں کرتی وہ بیڈ پر پڑے بیگز اپنی طرف کھینچ گئی تھی ۔

اس بیگ میں کوئی ساتھ آٹھ سوٹ تھے وہ بھی ڈیزائنر وہ حیرت سے دوسرے بیگز کھولنے لگی تھی ۔

دوسرے میں سات آٹھ ہی سینڈلز ، تیسرے میں پرفیومز ، کاسمیٹکس کا سامان ، رنگ برنگےہیئر بینڈز ہیئر کیچرز پینز، کالج بیگ دھوپ والے شیڈز آخر کیا کچھ نہیں تھا ان بیگز میں ،

وہ حیرت سے ان چیزوں کو دیکھ رہی تھی اس نے تو ان چیزوں کی تمنا ہی کرنا چھوڑ دی تھی ۔

منہ پر ہاتھ رکھے وہ ان چیزوں کو شاک سے دیکھے جا رہی تھی ۔

________________________________


مہرینہ نے لب بھینچ کر اس میسنے شکل والے کو دیکھا جو اپنا کام کر چکا تھا ۔

سردار نے مہرینہ کو تیکھی نظروں سے دیکھا ۔

کیوں تنگ کرتی ہو تم خیام کو ۔

اس نے کھڑے ہوتے ہوئے آئی برو اچکا کر پوچھا ۔

سردار میں تنگ نہیں کرتی یہ شاید جھوٹ بول رہا ہے۔

اس نے سر جھکائے ہی ہی منمنا کر اپنی صفائی پیش کی تھی ۔

شاید سے کیا مطلب ہے تمہارا !

وہ تیکھے چتونوں سے باز پرس کر رہا تھا ۔

خیام ہاتھ پشت پر باندھے وائٹ شرٹ بلیو پینٹ میں کم سن وہ لڑکا کافی خوبرو تھا وہ سر جھکائے کھڑا تھا ایک بار بھی مہرینہ کو نہیں دیکھا جو کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔

شاید سے میرا مطلب تھا شاید اسے صفا تنگ کرتی ہو وہ ہے بھی کافی لڑاکی وہ تو مجھے بھی تنگ کرتی ہے اور گھر کے سب ملازموں کو تو تگنی کا ناچ نچاتی ہے میں تو اسکی شکایت آپ سے ایک دو دن میں کرنے والی تھی کہ س کھجور کے منہ میرا مطلب ہے اس نے آپ سے پہلے کر دی دی ۔۔

وہ کہتی ہوئی پٹری سے اترنے لگی تھی لیکن سردار کی گھورتی نظروں نے اسے دوبارہ پٹڑی پر چڑہایا تھا۔

خیام تمہاری نظر کمزور ہے ۔

سردار کے اچانک سے پوچھنے پر وہ حیرت سے سر نفی میں ہلا گیا ۔

خیام الجھ سا گیا تھا۔

تو کیا مہرینہ ہی تمہاری ناک میں دم کرتی ہے ۔

اس نے پوچھا تھا

جی سردار یہ مجھے ہی نہیں باقی کے ورکرز کو بھی بہت پریشان کرتیں ہیں کل انہوں نے ایک ملازم کو مرغا بنایا ہوا تھا ۔

اس نے تفصیل سے بتایا تھا کہ اس لڑکی نے اسکے ساتھ ساتھ باقیوں کا بھی جینا حرام کر رکھا تھا ۔

مہرینہ نے لب بھینچ کر اسے دھمکی دیتی نظروں سے دیکھا تھا۔

مہرینہ کیا سن رہا ہوں میں تم کالج میں یہ سب پڑھنے جاتی ہو اگر چاچا جان کو پتا چلتا تو لگ تمہیں بھی پتا جاتا اب سے میں نا سنوں تم بے چارے ملازموں کو تنگ کرتی پھرتی ہو اپنے حصے کے کام نا سے کرواتی ہو انڈرسٹینڈ۔

وہ اسکے قریب آتا ہوا سرد لہجے میں اسے ڈانٹ رہا تھا ۔

سوری سردار ۔

وہ سر جھکائے ہی بولی۔

جاو اب اور شریف بچی بن کر رہنا ہے اوکے۔

اس نے جاتی مہرینہ کو وارنگ دینا ضروری سمجھا تھا ۔

جی!

کہتے ہی وہ جھپاک سے کمرے سے نکل گئی ۔۔

مہرینہ کے جانے کے بعد اس نے خیام سے کچھ بات چیت کر کے اسے بھی جانے کا اشارا کر دیا ۔

خود آکر کھڑکی میں کھڑا ہو گیا۔


خیام بیگ کندھے پر رکھتا خارجی دروازے کی طرف بٰڑھنے لگا تھا۔

جب مہرینہ کی ٹانگ اچانک ہی اسکی ٹانگ میں الجھی تھی وہ تیار نہیں تھا جس کے نتیجے میں وہ زور سے نیچے گرا تھا ۔

اب آیا مزہ مہرینہ کو کوئی سیدھا نہیں کر سکا اور نا ہی وہ کبھی ہو گئی سمجھے ابھی تو تم میرے گھر ہو باہر ملنا زرا پھر تمہیں بتاوں گئی مہرینہ سے الجھنے کا انجام ۔۔

اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتی وہ دانت پیس کر اسے دھمکا رہی تھی۔

وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتا اٹھ کر بیٹھا ۔

ابھی تو شکر کریں میں نے آپکا سموکنگ نہیں بتایا اگر بتا دیا ہوتا تو جانتی ہے نا کیا ہوتا آپکے ساتھ ۔

وہ شرٹ جھاڑتا اٹھ کر کھڑا ہوتا طنز سے بولا تھا ۔

مہرینہ نے اسے حیرت سے دیکھا مطلب کہ لومڑی کے بھی پر نکل آئے تھے ۔

اللہ خافظ ۔۔

اسے حیرت میں ہی چھوڑے وہ تیز قدموں سے وہاں سے نکل تھا ۔

اوپر کھڑا وہ مسکرا دیا کہ یہ لڑکی شاید ہی کبھی سدھرے ابھی اس نے سمجھایا تھا اور اس نے فرمانبرداری سے سن کر دوسرے کان سے نکال بھی دیا تھا کیا کرتا وہ آخر اسکا۔

اسیر کو مہرینہ پسند آگئی تھی وہ ایک دو دن میں گھر والوں سے بات کرنے والا تھا اسے اسیر اسکے لیے بیسٹ لگا تھا وہ میچور تھا مہرینہ کو سنبھال سکتا تھا زندگی کے ہر قدم پر۔ ۔۔

________________________________


بلیک قمیض جسکی فل سلیوز تھی اور قمیض کے دامن میں ہلکا ہلکا کٹ ورک کا کام تھا وائٹ کیپری بلیک وائٹ بارڈر والا دوپٹہ کندھے پر رکھے وہ لمبے بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی ۔۔

سچ کہتے ہیں کپڑے انسان کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں وہ اس برینڈڈ سوٹ میں پرانی ہیر سے کافی مختلف لگ رہی تھی۔

نیچے بلیک سینڈل تھی وہ بہت یونیک سی لگ رہی تھی ۔

ماشاءاللّٰه ماشاءاللّٰه میری آپی کو کسی کی نظر نا لگے۔

خیام نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر محبت سے کہا۔

وہ سرخ چہرے سے سر جھکا گئی اسے پتا نہیں کیوں اپنے سے کافی چھوٹے بھائی سے شرم سی محسوس ہوئی تھی ۔

چلیں !

وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔

خیام میرا دل نہیں کر رہا جانے کا وہاں عجیب عجیب لوگ ہیں جو دیکھ کر عجیب سا مسکراتے ہیں ۔

وہ اندر سی ڈری ہوئی تھی شاید۔

آپی آگے بڑھنے کے لیے ہمیں لوگوں کی نظریں اور باتیں نظر انداز کرنی ہوں گئی آپ نے دل لگا کر سٹڈی کرنی ہے اور ہاں سردار بتا رہے تھے مہرینہ آپکے ساتھ ہوں گئی آپی پلیز اس سے تھوڑا دور رہئیے گا ۔

اس نے سنجیدگی سے اسے سمجھایا تھا ۔

لیکن وہ تو بہت اچھی ہے۔

ہیر نے الجھتے ہوئے کہا۔

اچھا چھوڑیں اور چلیں خادم باہر ویٹ کر رہا ہو گا ۔

اسے کندھوں سے تھامے وہ اسے لیے باہر کی طرف بڑھا تھا۔

_____________________________


کالج چھوڑنے اور لے کر جانے کی ڈیوٹی سردر نے خادم کو دے دی تھی ۔

وہ ہیر کو یونی کے اندر چھوڑ کر گیا تھا ۔

سامنے ہی مہرینہ جوس کا کین پکڑے شاید اسی کے انتظار میں تھی ۔۔۔


السلام علیکم !

وہ اسکے قریب آتی دھیمی مسکان ہونٹوں پر سجاتی ہوئی بولی تھی ۔

جبکہ وہ حیرت سے اسے پاوں سے لے کر سر تک دیکھ رہی تھی ۔

اسکے غور سے دیکھنے پر ہیر نے سرخ چہرے سے ارد گرد دیکھا ۔

واوا آج بہت لشکارے مار رہی ہو کہی یہ سوٹ سردار غاذان نے تو گفت نہیں کیا۔

اسکے درست اندازے نے ہیر کو شرم سے سر جھکانے پر مجبور کر دیا تھا ۔

ارے یار ایک تو تم شرماتی بہت ہو ۔

اسکے سرخ گال کھینچتی وہ شرارت سے بولی تھی ۔

سیڑیاں اترتی شائنی نے اسکے سراپے کو قاتل نظروں سے دیکھا تھا ۔

شرما لو جتنا شرمانا ہے بہت برا انجام ہو گا تمہار دیکھنا تم، تم ابھی شائنہ خانم کو جانتی نہیں جس دن جان گئی اس دن اس دنیا میں رہو گٙئ بھی نہیں ۔

وہ دل میں نفرت سے سوچتی ان کی طرف آئی تھی۔

مہرینہ آج تو تمہاری غریب دوست اچھے خلیے میں ہے لگتا ہے کسی سے مانگ کر گزارا گزارا کیا ہے بے چاری نے اگر مزید کی ضرورت ہوئی تو مجھ سے بولنا میری کبڈ تو پرانے کپڑوں سے بھری پڑی ہے ۔

اپنی دوستوں کے ہاتھوں پر تالیاں مارتی وہ اسکا مزاق اوڑا رہی تھی۔

ہیر نے لب بھینچ کر اسے دیکھا پھر ارد گرد دیکھا بہت سے سٹوڈینٹ انکی ہی طرف متوجہ تھے ۔

مہرینہ مسکرائی ۔

یار تم بھی نا لگتا ہے تمہاری یاد داشت بہت کمزور ہو چکی ہے بادام کھایا کرو اس سے عقل بھی آئے گئی اور شکل بھی ،

کل بتایا تھا نا اسکا شوہر بہت امیر ہے وہ تمہاری جیسی اپنے گھر ملازمہ رکھ سکتا ہے اور تم کپڑوں کی باتیں کر رہی ہو یار بڑی ہو جاو اب ۔

مہرینہ نے بھرپور طریقے سے اسکے وار کا جواب دیا تھا ۔

ہیر نے اسے مشکور نظروں سے دیکھا جبکہ شائنی نے قہر سے اس پر نظر ڈالی۔

وہ جل بھن چکی تھی۔

مہرینہ میرے راستے میں مت آو ورنہ جلا کر راکھ کا ڈھیڑ بنادوں گئی میرا فرض تھا تمہیں وارن کرنا آگے تمہاری مرضی یاد رکھنا شائنہ کسی کو معاف نہیں کرتی ۔

اس سے سپاٹ لہجے میں کہتی وہ ہیر کی طرف متوجہ ہوئی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

ہمیں تمہاری معافی چاہئیے بھی نہیں ۔۔

مہرینہ نے اسکی بات ایسے سنی جیسے ناک سے مکھی اوڑائی ہو ۔۔


وہ جاتے جاتے ہیر کا نازک پیر اپنی ہیل سے کچل گئی تھی ۔

آہ ۔۔

ہیر کی چیخ بے ساختہ تھی حس پر مہر نے چونک کر اسے دیکھا تب تک شائنی جا چکی تھی۔

کیا ہوا ۔

مہر نے الجھ کر پوچھا ۔

میرا پیر ۔۔

اس نے پیر کی طرف اشارا کیا جس پر سرخ نشان واضع تھا ۔

آو تمہیں یہاں کے ڈاکٹر کے پاس لے چلوں ۔

مہرینہ نے تشویش سے اسکا سرخ ہوتا پیر دیکھ کر کہا۔

نہیں ٹھیک ہو جائے گا آپ پریشان نا ہوں۔


وہ زبردستی سی مسکان ہونٹوں پر سجاتے ہوئے بولی تھی۔

مہرینہ نے ترس سے اس معصوم لڑکی کو دیکھا ۔

آپ مجھے میری کلاس تک چھوڑ دیں گئی ۔

وہ درد کو اندر ہی کہی دباتی مہرینہ سے بولی تھی۔

چلو آو ۔۔

مہرینہ اسکا ہاتھ تھام کر سیڑیوں کی طرف بڑھی تھی۔

_________________________________

کھڑکی میں کھڑی وہ اداس سی تھی ،سردار اس دن کے بعد سے پھر نہیں آئے تھے پتا نہیں کیوں۔

وہ کہی مجھے بھول تو نہیں گِے ۔

وہ بھرائی ہوِے لہجے میں خود سے بڑبڑائی تھی ۔

تب ہی وہ چونکی تھی برستی بارش میں کوئی اور نہیں گاڑی سے اسکا سردار ہی باہر نکل رہا تھا ایک ملازم نے بھاگ کر اس پر چھتری تانی تھی لیکن اس نے اشارے سے منع کر دیا تھا ۔

وہ بھیگے بالوں کو ماتھے سے انگلیوں سے پیچھے کرتا اندر کی طرف تیز قدموں سے بڑھا تھا۔

ہیر کا دل زور سے دھڑک اٹھا تھا ۔

یہ آگئے اس کا مطلب یہ مجھے بھولے نہیں۔

وہ گلابی پیلے گوٹے والا دوپٹہ سر پر ٹھیک سے جماتی باہر کی طرف دوڑی تھی یہ حرکت اسکی بے ساختہ تھی ۔۔

وہ بھاگتی ہوئی کوریڈور کا موڑ مڑتے سردار سے زور سے ٹکڑائی تھی کہ وہ انہیں دیکھ ہی نہیں سکی شاید خوشی نے اسے اندھا کر دیا تھا ۔

ہیر سنبھل کے ۔۔

اس نے سرعت سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے گرنے سے بچایا تھا ۔

ہیر نے چونک کر انہیں دیکھا جو اسے قدموں پر ٹھیک سے کھڑا کرتے ہوئے کافی نرمی سے بولا تھا ۔

السلام علیکم !


ہیر پھولی ہوئی سانسوں سے اس سے مخاطب ہوئی تھی۔

وعلیکم السلام کیسی ہو ۔

وہ سامنے کی طرف چلتا ہوا اس سے مخاطب تھا۔

میں ٹھیک ہوں ۔۔

وہ اسکے پیچھے چلتی ہوئی بولی تھی۔

کالج کیسا جا رہا ہے۔

وہ سلیوز کے بٹن کھولتا اس سے بہت نرم لہجے میں مخاطب تھا ۔۔

اچھا جا رہا ہے ۔

وہ بہت دھیمے لہجے میں بولی تھی وہ سر ہلا کر پنے روم میں چلا گیا ۔

وہ وہی کھڑی اسے جاتا دیکھتی رہی رگوں میں خون کی گردش جیسے رواں سی ہو گئی تھی ہونٹوں پر ایک مسکان نے ڈیڑہ بہت چپکے سے جمایا تھا وہ لڑکی شاید خود کو بھولنے لگی تھی ۔


مما میں اسے اسکے قدموں پر مضبوطی سے جمانا چاہتا ہوں مجھے ایسے لگتا ہے اسکا مخافظ مجھے بنایا گیا مجھے اسکی زمہ داری اللہ نے سونپی ہے موم اور میں اپنی زمہ داری نبھانا چاہتا ہوں ۔

بلیو ٹوٹھ کان میں فٹ کیے گریبان کے بٹں بندھا کرتا وہ ماں سے مخاطب تھا۔

وہ کچھ بھی اپنی ماں سے چھپا نہیں سکتا تھا اسکی پہلی دوست اسکی ماں تھی ۔۔

اور جب وہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی تو پھر۔ ۔

رائنہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

تو اسے اس رشتے سے آذاد کردوں گا وہ کافی چھوٹی ہے مجھ سے اور معصوم بھی ،

اسے زندگی کے ہر قدم پر گائیڈنس کی ضرورت ہو گئی اسکا بھائی چھوٹا ہے اور نا سمجھ بھی وہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے گئی تو اسے خاموشی سے اس بے نام رشتے سے آذاد کر دوں گا میں ۔


گرم کافی کا سپ لیتا وہ اپنا سارا پلین ماں سے شیئر کر رہا تھا ۔

غاذان ہیر کو مصر بھیج دو ہم اسے اپنے کالج میں ایڈمٹ کروائِیں گئے میں اسکی ہر قدم پر رہنمائی کروں گئی وہاں تم اتنے بزی ہوتے ہو اور ہر وقت اسکے ساتھ نہیں رہ سکتے میں نہیں چاہتی تمہارا کوئی دشمن اس معصوم کو کوئی نقصان پہنچائے ۔

رائنہ نے بستر پر دراز ہوتے ہوئے کچھ سوچ کر کہا۔

غاذان نے چونک کر انکی بات سنی یہ اس نے پہلے کیوں نہیں سوشکریہ موم میں کرتا ہوں کچھ اللہ خفظ۔

گہری سانس لے کر کہتے اس نے فون بند کر دیا ۔

پھر مسکرایا ۔

خوبصورت مسکان آنکھوں میں بھی نظر آنے لگی تھی جب وہ مسکراتا تو اسکی آنکھیں چھوٹی ہو جاتیں تھیں جس سے وہ اور زیادہ پیارا لگتا تھا۔ See less

رات کو ڈینر پر سب خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے مرد الگ سے کھاتے تھے اورعورتیں الگ ،

اس لیے ٹیبل پر صرف مرد خضرات ہی تھے۔

چاچو اسیر کیسا لگا آپکو مہرینہ کے لیے ۔


آرام سے چکن روسٹ کا ٹکڑا کانٹے سے منہ میں رکھتا وہ ان سے سنجیدگی سے مخاطب تھا.

سہیر ،نے تیمور اور خشام کو دیکھا ۔

لڑکا ٹھیک ہے اپنا کاروبار ہے اسکا اور شریف فیملی سے ہے ،باقی تم ایک بار سوچ سمجھ لو پھر ہی اسے بلائیں گِے یہاں ۔۔

تیمور صاحب کھانا کھاتے سہیر کی نگاہوں کا مطلب سمجھتے ہوئے بولے ۔

نہیں اگر آپکو اور غاذان کو پسند ہے تو میری طرف سے بھی اوکے ہے غاذان آپ بلا لو اسے تاکہ رشتہ فائنل کر لیں ۔

سہیر نے سنجیدگی سے کہا۔

چاچو ایک بار مہرینہ سے پوچھ لیں ۔

اس نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے انہیں نرمی سے سمجھایا ۔


سردار غاذان مہرینہ کا باپ ابھی زندہ ہے فیصلہ کرنے والا اور پھر اسکی حرکتوں سے میں سخت پریشان ہوں اچھا ہے جلد اپنے گھر بار والی ہو جائے گئی تو میری اور نوشین کی ٹینشن بھی ختم ہو جائے گئی۔

انکے سنجیدگی بھرے لہجے پر غاذان نے سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھا ۔

پانی کا جگ اس طرف لے کر آتی مہرینہ وہی کھڑی رہ گئی ۔

تو مہرینہ آپکی بیٹی آپکے لیے ٹینشن ہے پہلے تو میں ٹینشن نہیں تھی بابا لیکن اب آپکو ٹینشن بن کر دیکھاوں گئی ویٹ اینڈ واچ ۔۔

سپاٹ لہجے میں خود سے بڑبڑاتی ہوئی وہ واپس پلٹ گئی تھی ۔

چاچو معاف کیجئے گا لیکن اس میں کوئی ایسی ویسی برائی نہیں ہاں تھوڑی شرارتی ہے لیکن اسکی عمر کی لڑکیوں میں یہ سب ہوتا ہے اس گھر میں وہ اپنی مرضی سے نہیں رہے گئی تو کیا اگلے گھر جا کر رہے گئی جب آپ لوگ اسکی شرارتیں برداشت نہیں کر سکے تو اگلے کیونکر کریں گئے ۔

انہیں دیکھتا وہ بہت سنجیدگی سے ان سے مخاطب تھا ۔

تیمور نے اسے چپ رہنے کا اشارا کیا تھا ۔

سہیر خانم ا سے ایک نظر دیکھتے پھر سے کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ۔

جس پر غاذان نے لب بھیبچے۔

وہ ایک دم اٹھتا ایکسیوزمی کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا،

پیچھے تیمور سمیت سب اسکی پشت کو دیکھتے رہ گئے تھے ۔۔۔

________________________________


ہیر کالج سے آکر سونے کے لیے لیٹ گئی تھی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی آج جس طرح شائنہ نے اس پر جوس اور سوس گرا کر بے عزتی کی تھی وہ اسے رو لا گئی تھی مہرینہ آج نہیں آئی تھی تو شائنہ کو موقع مل چکا تھا اپنی بھڑاس نکلانے کا ۔۔

تکیے پر سر رکھے وہ سامنے لگی آرٹ پینٹنگ کو دیکھنے لگی ۔۔

جس میں ایک لڑکی ننگے پاوں ننگے سر ایک سحرا میں چل رہی تھی دھوپ بھی شدید تھی لیکن وہ لڑکی سر جھکائے بس چل رہی تھی۔

نجانے کیوں اسے اس لڑکی میں اپنا آپ کیوں دیکھا تھا ۔


وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔

واش روم جاکر دوسرے کپڑے پہنے گیلے بالوں پر ایک چھوٹا سا کیچر لگایا وجود کے گرد کالی چادر اوڑھ کر باہر نکل آئی ۔

بچے فٹ بال کھیل رہے تھے وہ بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگی تھی اس نے بچپن بہت کم انجوائے کیا تھا آنکھوں میں ایک حسرت سے جاگنے لگی تھی ان بچوں کو بے فکری سے کھیلتے دیکھ کر ۔

آپی آپ کھیلیں گئیں ۔

ایک بچے نے اسے آفر کی تھی ۔

وہ مسکرا کر سر نفی میں ہلا گئی۔

کیوں !

وہ بچے مایوسی سے بولے ۔

کیونکہ مجھے کھیلنا نہیں آتا۔

وہ لب بھینچ کر انہیں دیکھتی ہوئی بولی تھی۔

اس گیند کو صرف ایک کک ہی تو مارنی ہے آپ ماریں ہم لے کر آئیں گئے ٹھیک ہے۔


ہیر مسکرا کر سر ہلاتی ہوئی اٹھی۔

اور پھر ایک زور سے کک مار گئی تھی کک کافی زور سے ماری تھی اس نے ،

گاڑی سے نکلتے تیمور خانم کی ٹانگ پر بال بہت زور سے لگی تھی۔

ہیر نے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں دیکھا تھا جبکہ تیمور خانم نے بال مارنے والے کو سر گھما کر قہر و غضب سے دیکھنا چاہا ۔

دوسری طرف سے نکلتے غاْذان نے باپ کو دیکھا جو غصے سے ان بچوں کی طرف بڑھ رہے تھے ۔

کس نے مارا ہے یہ گیند ۔۔

انہوں نے غصے سے بچوں سے پوچھا تھا۔

بچوں نے پریشانی سے اسے دیکھا ۔

انکی نظروں کا مطلب سمجھتے وہ ہیر کی طرف غصے سے بڑھے تھے ۔

انہیں اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ ایک دم بھاگی ہے تھی پھر اس طرف آتے غاذان کی پشت سے وہ خوف سے چمٹی تھی ۔۔

اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں جھکڑتی وہ اسکی پشت میں چہرہ چھپانے لگی تھی ۔


سردار سمیت تیمور اور خادم نے بھی حیرانی سے ہیر کا ردعمل دیکھا تھا ۔

یہ کیا تماشا ہے غاذان تم اسے یہاں کیوں لے آئے ہو یہ ہمارا ہوٹل ہے کوئی یتیم خانہ نہیں ۔۔

تیمور خانم اس لڑکی کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے چلائے تھے۔

سردار نے سنجیدگی سے ڈر سے کانپتی لڑکی کو دیکھا تھا ۔

اور پھر باپ کو جو اسے مارنے کے لیے ہاتھ تک اٹھا گِے تھے ۔

ڈیڈ انف از انف ۔

وہ سرعت سے اسے اپنی طرف کھینچتا سرد لہجے میں باپ سے مخاطب تھا ۔

وہ بھرائی آنکھوں سے اسے دیکھتی اسکے کندھے کے پیچھے ہوئی تھی اسے تیمور صاحب سے اس دن سے بہت ڈر لگنے لگا تھا جب انہوں نے اسے مارنے کی بات کی تھی۔

اسے لگا تھا وہ اسے گولی سے مار دیں گئے۔

تم اس بھکارن لڑکی کے لیے باپ کے سامنے بولو گئے۔

انہوں نے درشت لہجے میں بیٹے سے باز پرس کی ۔۔

ڈیڈ وہ بچی ہے، ہو گئی غلطی اس سے، اس نے جان بوجھ کر تو آپکو نہیں مارا تھا۔

وہ غصے سے بولا ۔

وہ پہلی دفع باپ کے سامنے آیا تھا وہ بھی اس معمولی لڑکی کے لیے ۔

تیمور خانم اسکے قریب آئے ۔

اس لڑکی کو جتنا جلدی ہوتا ہے خود سے دور کرو میں مزید برداشت نہیں کروں گا اور ویسے بھی میں ریاض کو شادی کی ڈیٹ دینے والا ہوں۔۔

تیمور اس سے سرد لہجے میں میں کہہ کر آنکھوں پر گلاسز لگا کر اندر کی طرف تیز قدموں سے بڑھے تھے انکے پیچھے انکے خاص آدمی بھی بڑھے تھے۔

اس نے گہری سانس لی اور اسکا ہاتھ پکڑا ۔

ہیر وہ چلے گئے ہیں.

اسے سختی سے آنکھیں میچے دیکھ کر وہ بولا تھا ۔

ہیر نے آہستہ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا ۔

اسے دیکھتی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کٙئی آنسو گالوں پر گرے تھے ۔

اونہہ اچھے بچے روتے نہیں ہیں ہیر ۔

اس نے سنجیدگی سے اسے ٹوکا ۔

ّوہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف بڑھا تھا ہیر نے حیرانگی سے اپنی پتلے سے ہاتھ کو مضبوط ہاتھ میں قید ہوتے دیکھا تھا۔

وہ ہاتھ کو دیکھتی انکے ساتھ تقریباً کھینچتی چلی جا رہی تھی ۔۔

جاو اپنا آئی ڈی کارڈ لے کر آو ۔

وہ اسے کمرے میں لاتا ہوا بولا تھا اب وہ اسے یہاں رہنے نہیں دینا چاہتا تھا وہ اس لڑکی کو مضبوط دیکھنا چاہتا تھا اگر وہ یہاں رہی تو اسے کوئی مضبوط نہیں بننے دے گا ہیر کو وہ مصر بھیج کر ہی سکھ کی سانس لینا چاہتا تھا ۔

ہیر میں کیا کہہ رہا ہوں ۔

اسے ہنوز سر جھکائے اپنی جگہ پر کھڑا دیکھ کر وہ دانت پیس کر بولا تھا.

کیا ۔؟

اس نے شاید سنا ہی نہیں تھا کہ سردار نے کیا کہا ہے ۔

اپنا آئی ڈی کارڈ مطلب شناختی کارڈ لے کر آو ۔۔۔۔

وہ گہرا سانس لیتا ہوا بولا تھا اس لڑکی کے لیے پتا نہیں ابھی اسے کیا کیا سہنا تھا خدا ہی بہتر جانے۔۔

لیکن وہ تو میں نے بنوایا ہی نہیں ہے ۔

وہ شرمندگی سے بولی ۔

سردار نے آنکھیں میچ کر خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کمپوز کیا۔

اوکے نو پرابلم جاوّ جا کر برٹھ سرٹیفیکٹ لے کر آو وہ تو ہیں نا ۔

اس نے پوچھا ۔

ہاں ۔

وہ سر ہلا گئی ۔

جاو شاباش جلدی سے لے آو۔

اس سے کہتا وہ لمبے سے صوفے پر بیٹھا تھا وہ اس لڑکی کا آئی ڈی کاڑد اپنے نام پر بنونے والا تھا جو ہو رہا تھا وہ قدرت کی طرف سے ہو رہا تھا اس میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔


وہ جانتا تھا اسے اس کا آئی ڈی کارڈ ایک دو دن میں مل جانا تھا آخر وہ ریاست کا سردار تھا ۔

موم ہیر کے ڈاکومینٹس کی ضرورت پڑے گئی داخلے کے لیے۔

وہ ماں سے پوچھ رہا تھا۔

اگر ہیں تو بھیج دو اور اگر نہیں ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا میں اسکا آسانی سے یہاں ایڈمشن کروا دوں گئی ۔

رائنہ نے فائیل بند کر کے بیٹے کو ریلکس کیا۔

موم وہ تقریباً دو دن میں آپکے پاس ہو گٙی اب وہ آپکے حوالے ہو گئی آپ نے جس طرح میری تربیعت کی ہے میں چاہتا ہوں آپ اسکی ایک بیٹی کی طرح پروش کریں ۔

وہ سنجیدگی سے ماں سے مخاطب تھا پتا نہیں کیوں لیکن وہ لڑکی اسکی اہم زمے داری بن چکی تھی۔

غاذان یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی بیٹا ۔

رائنہ نے مسکرا کر بیٹے کو جواب دیا ۔

وہ بھی ریلکس ہوتا مسکرا دیا تھا ۔

________________________________


باتھ روم میں کافی دیر سگریٹ پی کر وہ باہر آئی تھی منہ پر سپرے کر کے وہ باہر نکلی وہ جب ڈپریشن میں ہوتی تو خوب سموکنگ کرتی تھی ۔۔

سامنے سے ہی صفا اور مہدیہ ہنستی مسکراتی ہوں آرہی تھی ۔

وہ بھی مسکرائی ۔

کیا بات ہے ایسے مسکرا کیوں رہی ہو ۔

وہ کمر پر ہاتھ رکھے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔

کل ہم سب پاس والے گاوں میں جائیں گئے تیمور تایا کے بیٹے کی شادی ہے نوشین چچی کہہ رہی تھی ہم بھی جائیں گئے کتنا مزہ آئے گا نا۔

وہ اس سے پرجوش انداز میں پوچھ رہیں تھیں جبکہ اس نے ناک چڑہایا ۔

تم لوگ ہمیشہ کنویں کے مینڈک ہی رہنا۔۔

ّانکو دیکھتی وہ سوچ کر رہ گئی۔

میں نہیں جاوں گئی تم لوگ چلی جانا۔

بے تاثر لہجے میں کہتی وہ کچن کی طرف بڑھ گئی۔

یہ کیوں جائے گئی کالج کے بہانے گھوم پھر جو آتی ہے

صفا اور مہدیہ غصے بڑبڑاتیں ہوئیں سفینہ کے کمرے کی طرف دوڑیں آخر کو انہوں نے کپڑے بھی تو سلیکٹ کرنے تھے ۔

وہ گیلری میں کھڑی چائے پی رہی تھی جب خیام کو سفید شرٹ میں نیچے سے گزرتے دیکھا۔

وہ مسکرا دی ۔

بچو مہرینہ سے پنگا ناٹ چنگا۔

چائے گرم نہیں تھی ٹھنڈی ہو چکی تھی آرام سے چائے کا کپ وہ نیچے کی طرف الٹ چکی تھی۔

خیام اپنے دھیان میں چلتا چونک کر اوچھلا تھا چائے اسکے سر سے ہوتی اسکے منہ اور کندھوں پر گری تھی۔

وہ ارد گرد دیکھتا اوپر کی طرف دیکھنے لگا ۔

سامنے ہی وہ فل مسکان چہرے پر سجائے اسے ہاتھ ہلا رہی تھی۔

ڈونٹ وری برائٹ سب رائٹ کر دے گا ۔

ہونٹ دانتوں تلے دباتی وہ شرارت سے بولی تھی ۔

خیام کا دل کیا اسکی گردن پکڑ کر اسے نیچے گرا دے یہ لڑکی تھی یا شیطان کی خالہ جب دیکھو دماغ میں کوئی نا کوئی کھچڑی پک ہی رہی ہوتی تھی ۔

کیا ہے جاو جہاں جا رہے تھے ۔

اسے اپنی طرف غصے سے دیکھتا دیکھ کر وہ بولی تھی۔

آپکو تو دیکھ لوں گا میں

غصے سے بڑبڑآتا وہ خارجی ڈور کی طرف بڑھا تھا۔

اسکے جانے کے بعد وہ گہرا سانس لیتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔

____،،،،،_____،،،،،_____،،،،______،،،،،___


وہ دونوں بہن بھائی رات کا کھانا کھا کر کافی دیر بیٹھ کر باتیں کرتے رہے تھے خیام کی تو ہر بات میں سردار غاذان کا زکر لازمی تھا اور وہ دونوں ہاتھ گالوں پر رکھے بہت دھیان سے سردار کا زکر سن رہی تھی۔


خیام بات سنو سردار تمہیں اپنے روم میں یاد کر رہے ہیں ۔

خادم کے دروازہ کھٹکانے پر وہ دونوں چونک کر سیدھے ہوئے۔

سردار کب آئے ۔

خیام نے حیرانی سے ہیر سے پوچھا اس نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا ۔

اوکے میں سن کر آتا ہوں آپ آرام کریں اپنے روم میں جا کر ۔

خیام چپل پہن کر اس سے کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا تھا ۔

پیچھے وہ حیران تھی وہ دل میں انہیں دیکھنے کی خواں تھی کہ وہ آج تین دن بعد آئے تھے ۔

وہ بھی چپل پہن کر خیام کے پیچھے ہی اسکے روم سے نکل چکی تھی ۔۔


جی سردار ۔۔

وہ صوفے پر بیٹھے کافی پیتے غاذان سے ادب و اخترام سے مخاطب تھا ۔

وہ اسکی وقت براون شرٹ جس کے اوپر والے بلیک بٹن کھلے ہوئے تھے نیچے بلیک ہی پینٹ میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔

بیٹھو خیام !

کافی لو گئے یا چائے۔

وہ کافی کا سپ لیتا اس سے پوچھ رہا تھا ۔

نتھنگ سردار ابھی چائے پی ہے میں نے اور آپی نے ۔

وہ بیٹھتا ہوا ادب سے بولا ۔

آپی نے بھی چاِے پی ۔

اس نے آئی برو اچکا کر پوچھا ۔

جی سردار۔

اس نے جواب دیا۔

ہممم اصل میں مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔

وہ مگ ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا ۔

جی حکم سردار۔

خیام کے انداز میں اسکے لیے عقیدت ہی عقیدت تھی۔


ہیر کو میں مصر بھیجنا چاہ رہا ہوں فردر سٹڈی کے لیے تم کیا کہتے ہو۔

اسکے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوا وہ بولا تھا ۔

خیام نے حیرت سے انہیں دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے وہ سر جھکا گیا ۔

لیکن سردار وہ یہاں بھی تو پڑھ سکتیں ہیں ۔

وہ پریشانی سے بولا تھا۔

خیام یہ تمہاری آپی کی سیوٹی کے لیے ہے آگے تم خود سمجھدار ہو سمجھ گئے ہو گئے میری بات کا مطلب اور ہاں وہاں وہ آذادی سے اپنی سٹڈی کمپلیٹ کرئے گئی آگے بڑھے گی بنا ڈرے سہمے اور تمہارا جب دل کرئے گا تمہیں ہیر سے ملنے بھیج دیا کروں گا ڈونٹ وری ۔

وہ دوبارہ کافی کا مگ اٹھاتا ہوا سنجیدگی سے بولا۔

پریشانی خیام کے چہرے سے واضع دیکھی جا سکتی تھی ۔

کل پاسپورٹ کے لیے لے کر جانے والا ہوں میں اسے،

خیام اسی میں تمہاری آپی کی بہتری ہے۔

وہ گہری سانس لیتا ہوا بولا ۔

خیام نے ہلکی مسکان سے سر ہلا دیا ۔

سردار جانتا تھا اسکی زبردستی مسکان کی وجہ لیکن یہی ان دونوں کے لیے بہتر تھا ۔۔


تم جا سکتے ہو خیام ۔

وہ مسلسل بجتے فون کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔

کھڑکی میں کھڑا وجود اپنی جگہ ساکت ہو گیا تھا ۔

نہیں مجھے کہی نہیں جانا ۔

وہ خوف سے بڑبڑائی تھی ۔

______________________________


ثمرینہ کہاں ہے ۔۔


اپنے آگے ملازمہ کو کھانا رکھتے دیکھ وہ سرد لہجے میں سے بولا تھا۔

جی وہ اپنے کمرے میں ہیں ۔

ملازمہ نے گلاس میں جوس ڈال کر انہیں جواب دیا ۔

ریاض خانم نے غصے سے ہونٹ بھینچے ۔۔

جاو اسے بلا کر لاوّ ۔۔

وہ بنا ناشتے کو ہاتھ لگائے بولا تھا۔

ملازمہ سر ہلا کر ثمی کے کمرے کی طرف چلیں گئیں ۔۔

کچھ دیر بعد ملازمہ آتی ہوئی دیکھائی دی ۔

جی وہ کہہ رہیں ہیں انہیں بھوک نہیں ۔

ملازمہ ان سے کہتی کچن کی طرف چلی گئی جبکہ وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا اسکے کمرے کی طرف بڑھا تھا ۔۔

ایک جھٹکے سے اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر آیا تھا ۔

ثمرینہ نے چونک کر انہیں دیکھا۔

یہ نخرے تم کسے دیکھا رہی ہو ،یاد رکھو تم تمہارے نخرے دیکھنے کے لیے نہیں بیاہ کر لایا تھا میں تمہیں

وہ جارخانہ قدموں سے اسکی طرف بڑھتا ہوا بولا تھا۔

میں کوئی نخرے نہیں دیکھا رہی آپکو مجھے بھوک نہیں تھی تو کہہ دیا مجھے بھوک نہیں ۔

وہ ان سے نظریں چڑاتی ہوئی بولی ۔

میرے کھانے پینے کی زمے داری تمہاری ہے ثمرینہ خانم۔

اسکی کلائی ہاتھ میں جھکڑتا وہ سرد لہجے میں بولا تھا ۔

آپ نے ہی تو کہا تھا کہ آپکے سامنے نا آوں۔

انہیں دیکھتی وہ سپاٹ لہجے میں بولی تھی__،

ریاض خانم ساکت ہوا تھا وہ ایک جھٹکے سے اسکی کلائی چھوڑتا ہوا پیچھے ہوا تھا ،۔ثمرینہ انہیں دیکھتی رہی ۔

وہ ایک جھٹکے سے پلٹ کر باہر کی طرف بڑھ تھا ۔

ڈائننگ ٹیبل کے قریب سے گزرتا وہ ہاتھ مار کر ٹیبل سے چیزیں گرانا نہیں بھولا تھا ۔۔

ثمرینہ واپس بیڈ پر بیٹھ گئی پھر اذیت سے مسکرا دی ۔

اسکا تو کوئی گھر ہی نہیں تھا نا شوہر کا نا بھائیوں کا ۔۔

_____________،،،،،،،،،،،،_____________


ھیر گلابی سوٹ میں تھی وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی وہ پاسُپورٹ بنوا کر واپس آ رہے تھے ۔

ھیر نے اسے دیکھا ،

وہ فون کان سے لگائے کسی سے بات کرتا مسکرایا۔

ھیر نظریں پھیر گئی ۔

وہ فون رکھتا اسے ایک نظر دیکھ کر سامنے دیکھنے لگا ۔

سڑک پر پولیس وین سے باہر نکلتا اسید رانا اسے دیکھ کر حیرت زدہ ہوا۔

وہ سردار کی گاڑی میں اسکے ساتھ تھی۔

وہ ہونٹ بھینچ گیا تھا ۔

ہیر کچھ کھانا ہے ؟

وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا ۔

وہ اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتی سر ہاں میں ہلا گئی ۔۔

اس نے رات سے کچھ نہیں کھایا تھا اب دن کے چار بج رہے تھے بھوک تو لگنی ہی تھی نا ۔۔

وہ سر ہلاتا ہوا باہر کے مناظر دیکھنے لگا

تب ہی انکی گاڑی جھٹکا کھاتی ہوئی ڈولنے لگی تھی ۔

ہیر ایک دم سے اسکے اوپر گری تھی ۔

گاڑی کو کیا ہو ہے اسد۔

وہ ہیر کو ایک بازو میں لیتا ہوا بولا تھا۔

سر گاڑی کے ٹائر پر سائلنس فائر ہوا ہے اور ایسا لگ رہا ہے گاڑی کی بریکس بھی فیل کر دیں گئیں یہ رک نہیں رہی۔

اسد نے چہرہ پیچھے کی موڑتے ہوئے جواب دیا۔

اس نے پریشانی سے ہیر کو دیکھا پیچھے گاڑیوں میں موجود گارڈز حرکت میں آچکے تھے ۔

ہیر تم ڈر رہی ہو ۔

اس نے اسکی آنسو سے بھری آنکھیں دیکھ کر نرمی سے پوچھا۔

وہ جلدی سے سر نفی میں ہلا گئی ۔

نہیں تو آپ ہیں نا۔

وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی وہ اسکی آستین مٹھیوں میں جھکڑے ہوئے تھی ۔

ڈونٹ وری اوکے ۔۔

وہ اسک سر تھپکتا اسد کو گائِڈنس دینے لگا تھا ۔۔

خادم اور گاڑدز نے پریشانی سے ختم ہوتی سڑک دیکھی ۔

سردار باہر کودیں ۔۔

خآدم نے پریشانی سے اسے مخاطب کیا ۔

وہ سرہلاتا ہوا انہیں ریلکس کرتا اسد کو ڈرائیونگ سیٹ سے ہٙٹا کر خود اسکی سیٹ پر آیا تھا ۔

ہیر نے فق ہوتے چہرے سے اپنے خالی پہلو کو دیکھا تھا ۔

وہ مسلسل جھکا کچھ کر رہا تھا لیکن پتا نہیں کیا کر رہا تھا جبکہ باہر سے سب پریشانی سے انہیں باہر آنے کا کہہ رہے تھے ۔۔

سردار !

ھیر نے کانپتے ہاتھوں سے اسکی سیٹ کو پکڑا تھا ۔

گاڑی آہستہ آہستہ ہچکولے کھاتی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔

اسد نے حیرت سے اسے دیکھا یہ اسنے کیسے کیا تھا ۔

سبھی گاڑیاں اسکی گاڑی کے رکتے ہی رکی تھیں تھیں ۔

ل

خادم نے بھاگ کر اسکی گاڑی کا ڈور کھولا تھا وہ باہر آتا سب کو ریلکس رہنے کا کہہ رہا تھا ۔

ھیر باہر آو ۔

سب نے حیرت سے اسے دیکھا اسکی گاڑی کھولنے کے لیے کٙئی ملازم تھے اور وہ ایک معمولی لڑکی کا ڈور کھولے تھوڑا سا جھکا اسے بایر آنے کا کہہ رہا تھا ۔

وہ پیلے چہرے سے اسے دیکھتی باہر آئی ۔

ہیر آر یو اوکے۔ ۔

اسکی سیدھی نکلی مانگ پر ہاتھ رکھے وہ بہت ہی نرم لہجے میں اس سے مخاطب تھا ۔

وہ بھرائی آنکھوں سے اسے دیکھتی سر ہلا گئی ۔

اسکا ہاتھ پکڑے وہ دوسری گاڑی کی طرف بڑھا تھا۔

اسے مارنے کی کوشش تو کسی دشمن نے پوری کی تھی لیکن کہتے ہیں نا مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقتور ہوتا ہے ۔۔

________________________________


خیام کے گلے سے لگے وہ کافی دیر سے رو رہی تھی وہ نہیں جانا چاہتی تھی لیکن سردار غاذان سارا بندوبست کر چکا تھا اسکے سامنے وہ کیسے کہتی وہ نہیں جانا چاہتی وہ دل پر چپ کے تالے لگا کر چابی کہی دور گہرے سمندر میں پھینک چکی تھی ۔

اور آج وہ تینوں ایئرپورت پر تھے اور اسے بھیجنے والے کا کل سے کچھ پتا نہیں تھا۔

خادم پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا جو ایسے رو رہے تھے جیسے صدیوں کے لیے بچھڑ رہے ہوں۔

آپی سردار نے کہا تھا میرا جب دل کرئے گا آپ سے ملنے کا وہ آپکو مجھ سے ملنے لے آیا کریں گئے ڈونٹ وری اب ہمت دیکھانی ہے آپی فلائٹ کی انونسمینٹ ہو رہی ہے ۔

اسے خود سے الگ کرتا وہ ضبط سے اسے سمجھا رہا تھا ۔

جائیں ۔۔

اس سے تھوڑا پیچھے ہوتا وہ بولا تھا ۔

جبکہ اسکی نظریں خارجی دروازے پر تھیں۔

وہ اس سے ملنے نہیں آئے تھے چھوڑنے نہیں آئے تھے کیا وہ ا نکے لیے کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔

لب بھینچ کر وہ بیگ پر پکڑ مضبوط کرتی ہوئی پیچھے پیچھے ہونے لگی تھی ۔


"اپکو اللہ اور اسکے رسول کی امان میں دیا آپی "

خیام الودعی ہاتھ کھڑا کر گیا تھا ۔

وہ روتی ہوئی جھٹکے سے پلٹی تھی ۔۔


ہیر !

بھاگتے قدم ساکت ہوئے تھے ۔

وہ حیرت سے پلٹی تھی ۔۔

وہ پھول ہاتھ میں پکڑے اسکی طرف آرہا تھا فل بلیک سوٹ پہنے کندھوں پر براون چادر رکھے وہ کوئی جاگیردار ہی لگ رہا تھا ۔

وہ تیز قدموں سے اسکی طرف آتا اسکے سامنے آ رکا تھا ۔

ہیر حیرت کی زیادتی سے آنکھ تک نہیں جھپک رہی تھی ۔

تمہارے لیے میری طرف سے۔

اسکی طرف سفید پھولوں کا خوبصورت گلدستہ بڑھائے وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔

اسے دیکھ کر اسکی آنکھیں پھر سے برسنا شروع ہو چکیں تھیں ۔

اونہہہ ہیر بری بات میں ہیر کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔

ہمیشہ کی طرح اسکے سر پر ہاتھ رکھے وہ نرمی سے بولا تھا ۔

مجھے نہیں جانا سردار مجھے یہی رہنا ہے۔

انکا ہاتھ تھانے وہ ہچکیوں سے روتی یوئی بولی تھی ۔


ہیر ۔

وہ سنحیدگی سے بولا تھا ۔

ہیر لب کاٹتی ہوئی انہیں دیکھنے لگی آنکھوں میں آس سی تھی ۔

ہیر بات سنو کیا تم نہیں چاہتی تم اعلیٰ تعلیم حاصل کرو ایک کامیاب شہری بنو ایسا کرو گئی تو کیسے آگے بڑھو گئی کیسے تمہاری زندگی ایک نیا ٹرن لے گئی تم جانتی ہو میں کتنی اہم میٹنگ ادھوری چھوڑ کر آیا ہوں جانتا تھا تم اور خیام پریشان ہو گئے ہیر میرے لیے خیام کے لیے آگے بڑھو ہمیں کچھ بن کر دیکھاو۔


ہنوز اسکے سر پر ہاتھ رکھے سر جھکاِے وہ دھیمے سے اسے سمجھا رہا ت

ہیـــــــــر ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں آنسوں کی روانی دیکھ وہ اسے ٹوک گیا تھا ۔

اس نے جلدی سے ہتھلیوں سے آنسو صاف کیے اور انہیں دیکھا ۔

وہ لب بھینچے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔

نہیں جانا۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

خیام نے پریشانی سے ہیــــــــر کو دیکھا۔

جانا ہے لیکن جہاز کی اوڑان سے ڈر لگتا ہے میں نہیں سفر کر سکوں گئی مجھے اکیلے ڈر لگے گا۔

شوں شوں کرتی وہ پریشانی سے اپنے دو واحد رشتوں کو دیکھتی بے بسی سے بولی تھی۔

خیام ہلکی مسکان سے بہن کی پریشانی پر تھوڑا سا ہنس دیا تھا ۔

جبکہ سردار نے سنجیدگی سے اسکے پتلے لمبے ہاتھوں کو ہاتھ میں پکڑا ۔

ہیر کا دل اسکے ہاتھ پر دھریں اپنی ہتھیلیوں میں دھڑکنے لگا تھا ۔

دھک دھک دل سے نظریں چڑاتی وہ ایسے سر جھکا گئی جیسے رکوع میں چلی گئی ہو۔۔


خیام بہن کی کنڈیشن پر مسکرایا کہ وہ جانتا تھا اپنی بہن کی بدلتی حالت اسکی آنکھوں میں جو دیپ سردار غاذان کو دیکھ کر جلتے تھے وہ اس سے پوشیدہ تو نہیں تھے وہ بھلے ہیـــــــــــر سے عمر میں چھوٹا تھا لیکن قد اور سمجھداری مِیں وہ اس سے بڑا ہی لگتا تھا۔

دونوں ہاتھ پاکٹ میں ڈالتا وہ دو تین قدم پیچھے ہوتا بہن کو دیکھنے لگا ۔۔۔


ٹرسٹ می کچھ نہیں ہو گا ہلکا سا فیل ہو گا پھر سب نارمل ہو گا پتا بھی نہیں چلے گا اور ہیر مصر کے ایئرپورٹ پر لینڈ کر جائے گئی تم بہت انجوائے کرو گئی اور ہاں موم جو کہیں انکی بات ماننا ہے ورنہ انہیں اگر غصہ آجائے نا تو پھر ڈانٹتی بھی ہیں اور مارتی بھی ہیں۔

۔

وہ بہت سنجیدگی سے اسے سمجھا رہا تھا جیسے کوئی بڑا کسی بچے کو سمجھاتا ہے ۔

ہیر مار اور ڈانٹ والی بات پر حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔

وہ پریشان ہوئی ۔

آپ وہاں نہیں ہوں گئے تو مجھے انکی ڈانٹ اور مار سے کون بچائے گا۔

وہ سخت پریشانی سے بولی تھی۔

ڈونٹ وری مزاق کر رہا تھا اب جاو اور کنفیڈنس سے قدم اٹھاو ۔۔

الودع !

اسکے سر پر ہاتھ پھیرتا وہ تھّوڑا پیچھے ہوتا ہو بولا تھا۔

ہیــــــــر اسے دیکھتی اسکی تصویر اپنے دل کے ہر کونے میں سجانے لگی تھی بلکہ وہ اپنا وجود ہی اس مغرور لیکن نرم دل سردار کے پاس چھوڑ کر جا رہی تھی ۔

خیام کو الوداع ہاتھ ہلاتی وہ لب بھینچتی ہوئی اپنے پاس کھڑی ایئر ہوسٹس کے ساتھ آگے بڑھی تھی خیام اور ہیـــــــــر کی آنکھیں بیک وقت بھیگی تھیں ۔

وہ داخلی دروازے کے پاس آتی اچانک ہی پلٹی تھی ۔۔

سردار نے ہلکا سا ہاتھ ہلایا تھا جواباً اسنے بھی ہلکی مسکان سے سردار کو ہاتھ ہلا کر خیام کو دیکھا ۔

خیام کو دیکھ کر آنکھیں بھیگنے لگیں تھیں جب ایئر ہوسٹس اسکی کلاٙئی پکڑتی اسے اندر لے گئی اور ڈور بند ہو گیا۔


سردار نے انگلی سے آنسو پونچھتے خیام کو دیکھا ۔

خیام بی بریو یار۔

سردار غاذان اب میرا دھیان کون رکھے گا انکا دھیان کون رکھے گا ہم تو ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے کیسے رہیں گے ہم ایک دوسرے کو دیکھے ۔

بچوں کی طرح روتا وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔

سردار نے گہری سانس لے کر اسکا کندھا تھپکا تھا ۔۔

بعض و قات بہتری کے لیے ہمیں درد اور دوریاں برداشت کرنی پڑتیں ہیں خیام اپنا دل مضبوط بناو اور اس سے روز ویڈیو کال پر بات کرنا ایسے میں تم دونوں کو دوری محسوس نہیں ہو گئی۔


اسے باہر لے کر جاتا وہ اسے سمجھا رہا تھا وہ شخص ان دو وجود کے لیے اللہ کا سہارا ہی تھا جس نے اسے انکی زمے داری سونپی تھی اور وہ اپنی زمے داری نبھا رہا تھا بنا مااتھے پر بل لیے اسکے اندر اسکی ماں کی تربیعت نظر آتی تھی ورنہ سردار محل کے مرد کتنے کٹھوڑ دل تھے یہ کسی سے بھولا ہوا تو نہیں تھا۔


سردار کچھ دیر کے کیے رک جاوں تب تک جب تک فلائت فلائے نہیں کر جاتی ۔

وہ اسکے آگے سر جھکائے اجازت لے رہا تھا ۔

اوکے آجانا میں پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکا ہوں اللہ خافظ۔

وہ نرمی سے کہتا ہواتیزی سے گاڑی کے کھلے ڈور سے اندر بیٹھا تھا۔

اسکے بیٹھتے ہی چاروں گاڑیاں وہاں سے قطار کی صورت میں نکلی تھیں۔

وہ وہی بینچ پر بیٹھا فلائٹ کے اوڑنے کے انتظار میں تھا ۔

تب ہی جہاز آہستہ آہستہ رینگتا اوپر کی طرف اوٹھنے لگا تھا اور خیام کا دل پریشان ہوا تھا ۔

جہاز کی بلندی آسمان کو چھونے لگی تھی ۔

اللہ اور رسول کی مان میں آپی ۔۔

ہاتھ کھڑا کرتا وہ جہاز پر نظریں جمائے ہوئے بولا تھا ۔۔۔

________________________________


کیسے ہو تم !

ثمرینہ بھیتجے کے قریب آتی ہوئی بولی تھی ۔

وہ بہت چھوٹی تھی جب ماں باپ کا انتقال ہو گیا تو اسکی پھپھو اسے لے گئی تھی انہوں نے ہی پالا پوسا اور جب وہ جوان ہوئی تو اسکی بہن ثمینہ کا

انتقال ہو گیا جو اس سے بارہ سال بڑی تھیں اور انکی ایک دس سال کی بیٹِی بھی تھی ۔

سب بڑوں نے بنا ثمرینہ کی کوئی مرضی جانے اسے ریاض خانم سے بیاہ دیا وہ جو روتی چلاتی اس گھر سے گئی تو پھر کبھی نہیں آئی اس لیے غاذان اور اسے ایک دوسرے سے زیادہ آشنائی نا تھی کہ وہ جب اس گھر میں آئی تھی تو وہ اپنی ماں کے ساتھ مصر سیٹل ہو چکا تھا ۔


وہ گلاسز اتارتا حیرت سے انہیں دیکھنے لگا وہ اسے اپنے دادا کی کاپی لگیں تھیں ۔

وہ محبت سے اسے دیکھتی ہوئیں پوچھ رہیں تھیں ۔۔

وہ گلاسز گریبان میں اٹکاتا ہوا جھٹ سے انکے قریب آیا تھا ۔

میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں اور اتنے عرصے بعد ادھر کا چکر لگانے کا کیسے خیال آیا۔


اسکے ہاتھ تھامتا آنکھوں سے لگاتا ہوا وہ بولا تھا ۔

ثمرینہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔

میں کبھی نہیں آئی تو تم بھی تو نہیں آئے تمہیں زرا خیال نہیں آیا غاذان کہ تمہاری کوئی پھپھو بھی ہے ۔

وہ اسکا چہرہ محبت سے دیکھتی ہوئی شکوہ کر رہی تھی۔

میں معذرت خواں ہوں پھپھپو اسکے لیے آپکی ہر سزا سر آنکھوں پر۔

اسکے اتنی محبت سے کہنے پر وہ اسکے سینے سے لگیں تھیں ۔

وہ اس سے چھّوٹا تھا لیکن پتا نہیں کیوں ثمی کو اس میں اپنا باپ دیکھا تھا ۔۔

آپ رو رہی ہیں ۔

وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا آپ ٹھیک تو ہیں وہاں۔

وہ اب کے پریشانی سے بولا تھا

وہ مسکرا دی..

ہاں الحمداللہ میں ٹھیک ہوں بس تمہیں دیکھا تو خود پر قابو نہیں پا سکی خوش رہو آباد رہو۔

اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتی وہ دل سے بولیں تھیں ۔۔

آئیں اندر !

انکے کندھوں پر ہاتھ رکھے وہ بہت محبت و اخترام سے بولا تھا ۔

ثمرینہ سر ہلاتی اسکے ساتھ چلنے لگی اور اسکی ماں کے طبعیت کے بارے میں پوچھنے لگیں۔

ہال میں بیٹھے سب کی نظر بیک وقت ثمی پر پڑی تھی۔

تیمور اور خشام کھڑے یوتے اسکی طرف تیزی سے آئے تھے۔

کیسی ہو ثمی۔

تیمور کے گلے لگا کر پوچھنے پر وہ آنسوں آنکھوں میں روکتی سر ہاں میں ہلا گئی وہ باری باری سب سے مل رہی تھی وہ آج کتنے عرصے بعد اپنے محل آئی تھی ریاض نے اسے نکالا تو نہیں تھا لیکن شائنہ کا رویہ اس سے بہت برا تھا صبح ناشتے پر اس نے یہ بھی خیال نا کیا کہ یہ میری خالہ ہیں اور میری ماں بھی ہیں اس نے کافی بے عزتی کر دی تھی اسکی جبکہ ریاض خاموش بیٹھے رہے بیٹی کو ٹوکا بھی نا کہ چلو ماں سمجھ کر نہیں خالہ سمجھ کر ہی اسکی عزت کر لو وہ جب سے اُس گھر بیاہ کر گئی تھی وہاں کسی کا رویہ اس سے اچھا نہیں تھا وجہ تھی ثمرینہ کی ایک غلطی جو اسکے ددھیال والوں نے شائنہ کے کانوں میں ڈال رکھی تھی ۔۔


وہ ریاض کے جانے کے بعد محل کے لیے نکل آِئی کہ دل ہی نہیں کیا آج وہاں ٹھہرنے کا ۔۔

ثمرینہ سب سے ملتی ملاتی اب خاموش بیٹھی بھائیوں کو دیکھ رہی تھی جو تشویش سے اسے ہی دیکھ رہے تھے انہیں لگا تھا کہ شاید ریاض نے اسے نکال دیا ہو

________________________________


فلائٹ میں اسکے ساتھ والی سیٹ پر ایک بزرگ بیٹھے تھے جو کافی نیک لگ رہے تھے وہ موبائیل میں تلاوتِ قرآن پاک سن رہے تھے ۔

وہ ڈرتی ہوئی آنکھں میچ گئی کہ فلائٹ آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگی تھی۔

اللہ رحم ،

ہینڈل پر ہاتھ کی پکڑ مضبوط کرتی وہ بڑبڑائی تھی ۔۔

وہ بزرگ اسے دیکھتے مسکرائے۔

بچے ڈر لگ رہا ہے۔

وہ موبائل کوٹ کی جیب میں ڈالتے اس سے پوچھ رہے تھے ۔

وہ سر نفی میں ہلا گئی جس پر وہ اور مسکرائے ۔۔

جب دل پریشان ہو تو اللہ کا زکر کرنے سے دل کو راحت ملتی ہے آنکھیں بند کرو اور اللہ کا زکر کرنا شروع کر دو اس سے تمہیں ڈر بھی نہیں لگے گا اور سفر بھی اچھا گزرے گا۔

انہّوں نے ایسے ہی ہاتھ اسکے سر پر رکھ کر کہا تھا جیسے سردرا غاذان اسکے سر ہاتھ رکھتا تھا اسکی یاد اسکی آنکھوں میں پھر سے نمی لے آئی تھی ۔

وہ انہیں دیکھتی درود پاک زیرے لب پڑھنے لگی ۔۔

کچھ وقت ہی گزرا تھا اسے ایسے لگا جسے وہ کمرے میں ہو اب وہ ریلکس تھی

آپ کہاں جا رہے ہیں ۔

وہ ان سے پوچھ رہی تھی ۔

وہ مسکرا دئیے ۔

بیٹا یہ فلائٹ مصر کی ہے کوئی سٹے نہیں راستے میں تو مطلب مصر جا رہا ہوں ۔

وہ ہلکی مسکان سے بولتے ہیر کو شرمندہ کر گئے تھے ۔

تھوڑی دیر بعد ہی انہیں چائے سرو کی گئی۔۔

چائے کی طرف بڑھتا ہاتھ کسی کی بات پر تکا تھا ۔

(ہیــــــــــر نو چائے نو کافی آج سے تم صرف دودھ پیا کرو گئی )

وہ ہاتھ کھینچ گئی ۔

دودھ ۔۔

وہ دھیمے سے ان سے کہہ گئی وہ سر ہلاتی ہوئیں چلیں گئی۔

وہ بزرگ مسکرائے۔

کہاں جانا ہے بچے میرا مطلب ہے کسی ریلٹیو یا سٹڈی کے لیے کیونکہ تم مصر کی تو نہیں ہو اور فرسٹ ٹائم تم فلائٹ کا سفر کر رہی ہو ہے نا۔

وہ پورے یقین سے پوچھ رہے تھے ۔

ہاں جی پہلی دفعہ ہے اور میں ریلٹیو کے گھر جا رہی ہوں سٹڈی کے لیے۔

وہ دودھ کا گلاس پکڑتی ہوئی تفصیل سے بولی تھی ۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب فلائٹ لینڈنگ کی انونسمینٹ ہونے لگی تھی ۔

جیسے جیسے پلین نیچے آرہا آرہا تھا اسکا دل پھر سے دھڑکنے لگا تھا ہینڈل پر پکڑ مضبوط ہو چکی تھی۔

اللہ ہو اکبر ۔۔

بزرگ جی بولے تھے انہیں دیکھتی وہ بھی دل میں بولنے لگی تھی۔

لینڈنگ ہوتے ہی سب پسینجر باری باری اترنے لگے تھے ۔

اللہ خافظ بیٹا اگر اس مولا نے چاہا تو پھر ملاقات ہو گٙی۔

اپنا سفری چھّوٹا سا بیگ کندھے پر ڈالتے وہ اس سے شفقت سے کہتے جہاز کے دروازے کی طرف بڑھ گئے ۔

ہیر بھی بیگ لیتی انکے پیچھے ہی باہر نکلی تھی ۔

وہ بڑے سے ہال میں کھڑی کسی کے انتظار میں تھی ۔

ویلکم Cairo ..

ایک لڑکا اسکی طرف پھول بڑھاتے ہوئے بولا تھا ۔

آپ ۔۔۔

وہ حیرت سے دنگ نظروں سے سامنے کھڑے وجود کو دیکھ رہی تھی ۔

وہ مسکرایا ۔

تم پہچان گئی مجھے۔۔

ہیر کی آنکھوں میں مچلتی حیرت اسے خوشی سے دو چار کر گئی تھی۔

سر آپ یہاں کیسے؟

شہنام صدیقی کو دیکھتی وہ سخت حیرت میں تھی ۔

جیسے تم یہاں آگئی ویسے ہی میں اپنے شہر آگیا کیوں کوئی پریشانی ہے اگر کہتی ہو تو چلا جاتا ہوں۔

وہ اپنے محصوص لہجے میں بولتا اسے پریشان کر گیا تھا ۔۔

نہیں سر میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔

وہ جلدی سے بولتی ارد گرد دیکھنے لگی ۔

سردار غاذان میرے پھوپھی کی بیٹے ہیں اور میں انکا ماوں کا بیٹا شہنام وہاں میں تھوڑا تجربہ حاصل کرنے گیا تھا جب سمجھ نہیں آئی تو واپس آگیا۔۔


وہ اسکے ساتھ چلتا ہوا بول رہا تھا ۔

جبکہ ہیر متحیر سی اسکے ساتھ چل رہی تھی

وہ بہت حیرت زدہ تھی اسے دیکھ کر ۔۔

وہ اسکا سامان گاڑی میں رکھتا مسکرایا تھا اسکی پوری کھلی آنکھوں اور کھلے ہونٹوں پر وہ شاید منہ بند کرنا بھول چکی تھی۔

مس ہیر آپ نا اتنا حیران نا ہوں میں بزنس کلاس کا سٹوڈینٹ ہوں چھٹیاں تھیں تو سوچا بزنس کا عملی تجربہ کیا جائے اور میں چلا گیا اپنے کزن کا بزبس دیکھنے کے وہ مجھے کہہ بھی رہے تھے۔۔


وہ گاڑی ڈرائیو کرتا بہت خوش اخلاقی سے اسے بتا رہا تھا ۔

شکر ہے ہیر نے آنکھیں اور منہ تو بند کیا تھا ۔

وہ بہت اشتیاق سے باہر دوڑتے مناظر دیکھ رہی تھی ۔۔

اونچے اونچے کھجور کے درخت بڑے بڑے ٹیلے وہ بہت محویت سے دیکھ رہی تھی اس نے تو کبھی سوچا بھی نا تھا وہ شہر سے باہر جائے گئی لیکن قسمت اسے ایک خوبصورت ملک لے آئی تھی ۔۔

کولڈ کافی لو گئی۔

وہ گاڑی روکتا اس سے پوچھ رہا تھا۔

کولڈ کافی۔

وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی۔

ہمم بیٹھو لے کر آتا ہوں ویٹ ٹو منٹ ۔۔

اس سے کہتا وہ ایک بہت بڑے ہوٹل کے اندر چلا گیا تھا ۔

وہ وہاں کے خوبصورت لوگوں کو بہت اشتیاق سے دیکھ رہی تھی ۔

لیکن سردار غاذان تو سب سے الگ ہیں ان جیسا تو یہاں کیا پورے پاکستان میں نہیں ہو گا۔

دوپٹہ سر پر ٹھیک سے لیتی وہ سنجیدگی سے خود سے بولی تھی۔

اففف اب میں کب انہیں دیکھوں گئی ۔

وہ پریشان ہوئی تھی ۔


تمہاری کولڈ کافی۔

وہ گاڑی میں بیٹھتا اسکی طرف بڑا سا پلاسٹک کا مگ بڑھائے ہوئے بولا تھا۔

وہ چونک کر اسے دیکھتی ہوئی اسکے ہاتھ سے کافی پکڑ گئی۔

اسے اسکی موجودگی کا پتا ہی نہیں چلا تھا ۔۔

وہ مصر کے مشہور شہر cairo میں رہتے تھے وہاں کی ہی یونی میں اسکا ایڈمشن ہوا تھا ۔۔

گاڑی ایک بہت خوبصورت سے بڑے سے گھر کے آگے رکی تھی۔

وہ ارد گرد دیکھتی ہوئی اسکی تقلید میں گاڑی سے اتری تھی۔

یہ ہے ہمارا سویٹ ہوم ۔

وہ اسے ایک بڑے سے سفید دروازے کی جانب لے کر چلتا ہوا بتا رہا تھا ۔

وہ نروس سی انگلیاں مڑوڑتی ہوئی چل رہی تھی۔

ٹن ٹن۔۔۔

وہ شاید گھنٹی پر ہاتھ رکھ کر ہٹانا بھول چکا تھا۔۔

وہ ارد گرد دیکھ رہی تھی بہت رونق تھی انکے سوسائٹی میں، بازار لگے ہوئے تھے ایک ساتھ جڑے گھر وہ بہت اشتیاق سے دیکھ رہی تھی ۔۔

کیا ہے تم بہرے ہو تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ سب بہرے ہی ہوں گئے۔

ایک خوبصورت سی اونچی لمبی لڑکی اس پر چڑ دوڑی تھی ۔

میں تو بہرہ ہوں لیکن تم بہری ہونے کے ساتھ اندھی بھی ہو دیکھ نہیں رہی میرے ساتھ مہمان ہیں لیکن تم نا بنا ادھر ادھر دیکھے بس شروع ہو جایا کرو۔

وہ اس پر مصنوعی غصہ جھاڑتا اسے اندر لے آیا تھا۔۔

وہ لڑکی اسے غور سے دیکھتی اسکی طرف ہاتھ بڑھا گئی۔

ہائے ایم فبیہا اور تم۔۔

وہ لڑکی مسکرا کر اپنا تعارف کرواتی اب اس سے اسکا نام جاننا چاہ رہی تھی پھپھو نے بتایا تو تھا لیکن وہ بھول چکی تھی۔

ہیر رضا۔

اسکا ہاتھ تھامتی وہ شرمیلے لہجے میں بولی تھی۔

واوا بہت خوبصورت نیم ہے آپکا۔


وہ اسے ایک بہت بڑے گول ہال میں لے آئے تھے وہاں اتنے سارے لوگوں کو بیٹھا دیکھ کر وہ سخت نروس ہوئی تھی۔

وہاں تین عورتیں ایک لڑکی تھی۔۔

وہ اب اپنی باتیں ترک کیے اسے بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ ۔

رائنہ ایک دم سے اسکی طرف آئی تھی۔

اس نے ہیر کو غور سے دیکھا ۔

جو ریڈ لمبی قمیض کے نیچے سلور کلر کا تنگ پجامہ پہنے ریڈ سلور گوٹے والا دوپٹہ بہت اچھے سے اوڑھے سر جھکائے کھڑی تھی۔

انہیں وہ بہت الگ سی لگی تھی ۔

کیس ہو بیٹا کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی سفر میں ۔۔۔

رائنہ اسکے ہاتھ تھامتی خوش اخلاقی سے پوچھ رہی تھی ۔

وہ جواباً انہیں دیکھتی سر نفی میں ہلا گئی ۔

سب سے تعارف میں تمہار رات کے کھانے پر کرواوں گئی پہلے فریش ہو جاو اور تھوڑا آوام کر لو بیٹا ۔

رائنہ نے اسکے تھکے سے چہرے کو دیکھ کر کہا۔

وہ سر ہلا گئی۔

رائنہ اسکا ہاتھ تھامتی اسے لیے بڑے سے کوریڈور کی طرف بڑھ گئی تھی۔

ان دو عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

جگہ کہاں تھی گھر میں جو رائنہ نے وہاں سے کسی کو بلاوا لیا۔

عاجلہ خاتون نے عائفہ خاتون سے تیکھے لہجے میں کہا۔

وہ غاذان کے کمرے میں ٹھہرے گئی۔

عائفہ نے دوبارہ سے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے انہیں ٹھنڈا کیا۔

غاذان کے کمرے میں ارے وہ کب کسی کو اپنے کمرے میں ٹھہرنے دیتا ہے۔

عاجلہ نے حیرت سے پوچھا۔

رائنہ پھپھو کہہ رہیں تھیں کہ اسے غاذان کے کمرے میں ہی ٹھہرائیں گئی کہ وہ زیادہ عرصہ رہے گئی تو کپ

وئی مہمان آگیا تو تکلیف نا ہو۔

شہنام نے ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے انہیں بتایا۔

اور جب غاذان آئے گا پھر وہ تو چکر لگاتا رہتا ہے نا۔


عاجلہ کو شاید اس لڑکی کی موجودگی بھائی نہیں تھی۔

تو پھر کچھ اور بندوبست ہو جائے آپ پریشان نا ہوں ۔۔

فبیہا نے کانوں میں ہینڈ فری ٹھونستے ہوئے انہیں بتایا۔

لو بھلا میں تو کبھی کسی کو غاذان کے کمرے میں قدم نہیں رکھنے دیتی اور رائنہ نے غاذان کا کمرہ ہی اٹھا کر اس پرائی لڑکی کو دے دیا پتا ہے کتنا کانشنش رہتا ہے اپنی چیزوں کو لے کر۔ ۔


عاجلہ کو تو اس لڑکی کا غاذان کے کمرے میں ٹھہرنا کسی صورت نہیں بھایا تھا کہ غاذان انہیں بہت لاڈلا تھا وہ اسے شہنام سے بھر کر محبت دیتی تھیں وہ تو شہنام کو نہیں گھسنے دیتی تھی پھر یہ کہاں سے آگئی تھی ۔


_______________


یہ کمرہ آج سے تمہارا ہے وہ واش روم ہے وہ سٹڈی روم اور وہ ڈریسنگ روم۔ ۔

اسے اچھی طرح سے کمرے کے بارے میں گائیڈ کرتی وہ آخر میں اسکا سر چوم گئیں آخر کو وہ ان کے بیٹے سے منسوب تھی تو پھر وہ کیوں نا انہیں اچھی لگتی ۔


ہیر نے حیرت سے انہیں دیکھا۔

نہا لو اور چینج کر کے سو جاو اس سے زہن اور جسم ریلکس ہو گا شام کو ملتے ہیں ۔

اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر کہتی وہ کمرے سے نکل گئیں۔

پیچھے وہ حیرت زدہ تھی اسے یقین نا تھا کہ وہ اتنی اچھی ہوں گئی۔

وہ ایک نظر پورے کمرے میں دوڑاتی ہوئی ٹھٹھکی تھی۔

سامنے ہی بڑی سے دیوار پر اسکی ان لارج پک لگی ہوئی تھی ۔

وی تصویر شاید یونی کے زمانے کی تھی تب اسا چہرہ کلین شیو تھا اب تو اسکی بیئرڈ تھی،

وہ گاڑی کے ساتھ کھڑا کان سے فون لگائے کھڑا تھا وہ شاید اپنے دھیان میں تھا یہ تصویر شاید کسی نے اسکی بے خبری میں کھینچی تھی ۔

ہونٹوں پر ہلکی مسکان فل بلیک سوٹ میں کف کہینوں تک موڑے، مضبوط کلائی پر وہی براون واچ وہ واچ شاید خاص تھی کیونکہ وہ واچ ہمیشہ اسکی کلائی میں سجی رہی تھی ۔

وہ تصویر انتہا سے زیادہ خوبصورت تھی اسے اس کمرے میں وہ نایاب لگی تھی بے ساختہ وہ بیڈ پر چڑ کر اس تصویر کے پاس آئی تھی۔

وہ دھڑکتے دل سرخ چہرے سے اب بہت پاس سے اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی لیکن چھونے کی جرات نہیں ہوئی تھی اسکی ۔

سرخ چہرے سے وہ واش روم کی طرف بھاگ گئی تھی۔

_______________________________


مہرینہ سوئمنگ پول میں پیر ڈبوئے بیٹھی ہوئی تھی۔

چہرے پر بوریت والے تاثرات تھے کہ آج سب ساتھ والے گاوں میں شادی پر گئے تھے کہ وہاں سہیر خانم کے جگری دوست کی بیٹی کی شادی تھی سوائے تیمور ، غاذان اور داور کے سب ہی گئے ہوئے تھے۔

تیمور داور اور سردار غاذان کسی اہم جلسے میں گئے تھے وہاں انکی پریس کانفرنس بھی تھی ۔

اس وقت تو اس نے کہہ دیا کہ اسکا من نہیں جانے کا لیکن اب سوچ رہی تھی چلی جاتی تو بوریت تو نا سہنی پڑتی ۔

سامنے سے آتے خیام کو دیکھتی وہ چونکی اب چہرے پر بیزاری کی بجائے شرارت والے تاثرات رقم ہو چکے تھے۔


آج ہوٹل جانے کو دل نہیں کر رہا تھا کہ پہلے تو وہاں بیٹھا عزیز وجود اسکی راہ تک رہا ہوتا تھا،

لیکن آج کون تھا جو اسکے انتظار میں ہو اسکے لیے کھانا سامنے رکھے اسکا انتظار کر رہا ہو ۔

وہ خقیقتاً بہت اداس ہو چکا تھا ہیر کو مصر بھیج کر ۔۔

اففف میں کیسے رہوں گا ۔

وہ پریشانی سے سوچتا رکا تھا ۔

جب ایک بازو سرعت سے اسکے سامنے آیا تھا۔

وہ اسے دیکھتا دوسری سائیڈ سے گزرنے لگا تھا جب اس نے شرارت سے پیر اسکے پیر کے آگے کیا تھا وہ اس سب کے لیے تیار نہیں تھا وہ ٹھوکڑ کھاتا ایک دم سے سوئمنگ پول کے پانی میں گرا تھا یہ سب اچانک سے ہوا تھا ۔۔


وہ اسے پانی میں گرتا دیکھ کر زور سے کھلکھلائی تھی ۔

اب آیا مزہ اور شکایت لگاو میری سردار سے ۔۔

وہ بہت مزے سے اسے ہاتھ پاوں مارتا دیکھ کر چلائی تھی۔

وہ شاید جانتی نہیں تھی کہ اسے تیرنا نہیں آتا تھا جبکہ وہ پول کافی گہرا اور بڑا تھا ۔

پانی اسکی آنکھوں ناک اور منہ میں گھسنے لگا تھا ۔

وہ ہاتھ پیر مارتا ہوا تیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

لیکن وہ ہنوز نیچے ہی جا رہا تھا ۔

اسے پانی میں گھم ہوتا دیکھ کر اسکی مسکراہٹ کو باریک لگا تھا ۔

کیا اسے تیرنا نہِیں آتا تھا ۔

وہ پانی کی طرف جھکتی ہوئی پریشانی سے بڑبڑائی تھی ۔

وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی لیکن جب وہ پوری طرح پانی میں ڈوب گیا،

تو

وہ ایک دم سے پانی میں چھلانگ لگا چکی تھی ۔

وہ کتنی اچھی تیرک تھی یہ اسکے تیرنے سے پتالگ رہا تھا ۔

وہ پانی کے اندر جاتی اسے ڈھونڈنے لگی تھی لیکن وہ نہیں مل رہا تھا ۔

وہ تیزی سے اس سمت آئی تھی جہاں پانی کی لہریں سی بہہ رہیں تھیں وہ پانی کی نیچلی سطح سے لگتا جا رہا تھا جب مہرینہ نے تیزی سے اسکی شرٹ کھینچی تھی ۔

وہ چاہے عمر سے اس سے چھوٹا تھا لیکن تھا تو ایک مرد وہ اس سے سنبھالے نہیں جا رہا تھا بہت مشکل سے اس نے اسے کمر سے پکڑ کر اوپر کھینچا تھا وہ گہرے گہرے سانس لیتی اسے لیے تیرنے لگی تھی اسکا پلین اسی پر ہیطبھاری پڑنے لگا تھا،

_________________________________

یہ عاجلہ بھابھی ہیں میری بڑی بھابھی یہ عائفہ ہیں میری چھوٹی بھابھی عاجلہ بھابھی کے دو بچے ہیں بیٹا شہنام ، اور بیٹی عمائمہ ، عائفہ بھابھی کی بھی ایک بیٹی ہے فبیہا اور چھوٹا شایان ہے میرے دونوں بھائی یونس اور یوسف اپنا کاربور کرتے ہیں اور ہم بہت اچھی خوش حال زندگی گزار رہے ہِیں میں یونی میں لیکچرار ہوں وہی پر تمہارا ایڈمشن کروایا ہے ۔۔

وہ سب کا کھانے پر اس سے تعارف کروا رہیں تھیں۔

وہ سب سے دھیمی مسکان سے ملتی ہوئی چیئر پر بیٹھی تھی۔

وہ اس وقت نیلے سوٹ میں تھی چادر بہت مضبوطی سے اپنے گرد اوڑھے ہوئے تھی ۔

وہ اسکی پلیٹ میں چکن بریانی ڈالتی اسے کھانے کا اشارا کرتی خود بھی کھانے لگیں تھیں ۔

اسے شرم آرہی تھی سب کے سامنے یوں کھانے میں لیکن کھانا تو تھا نا ورنہ وہ پتا نہیں کیا سوچتے ۔

وہ آہستہ آہستہ لقمے لینے لگی تھی۔

باقی سب خاموشی سے کھانا سے کھا رہے تھے کہ کھانے کے دوران باتیں نہیں کی جاتیں تھیں۔

______________________________


وہ بہت مشکل سے اسے کنارے پر لائی تھی وہ کنارے پر ہاتھ جمائے زور زور سےبکھانس رہا تھا وہ اگر خود بھی زرا ہاتھ پیر نا چلاتا تو مہرینہ اسے کبھی باہر نہیں نکال سکتی تھی۔

مہرینہ اسکی پیٹھ پر تھپر مار رہی تھی وہ سر جھکائے کھانس رہا تھا۔۔


______________________________


کالے لمبے بالوں کو سفید پونی میں جھکڑے سفید ہی سوٹ پر بلیک کوٹ پہنے وہ یونی داخل ہوئی تھی۔

یونی کئی حاطوں پر تھی۔

وہ حیرے سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی چہرہ پر دبا دبا جوش سا تھا کالی آنکھوں میں چمک لیے وہ شہنام کے ساتھ اپنے ڈیپارمںت کی طرف بڑھنے لگی تھی۔

شہنام کی کافی لڑکے لڑکوں سے دوستی تھی سب سے ہاتھ ملاتا وہ آگے بڑھ رہا تھا کئی نے ےو اسے ہیر کے ساتھ فیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں معنی خیز اشارے بھی کیے تھے ۔

جنہیں وہ سرعت سے اگنور کر گیا ۔۔


ہیر کو اسکی کلاس میں چھوڑ کر وہ اپنے بزنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا ۔۔


ہیر کا سب کلاس نے خوش امدید کیا تھا ۔

وہ دھیمی مسکان سجائے سب سے ہاتھ ملا کر ملی تھی ۔۔


یونی میں اسکا بہت دل لگ گیا تھا وہاں کوئی اس طنز سے نییں دیکھتا تھا کوئی اسکی غریبی کا مزاق اوڑانے والا نہیں تھا ۔

اسے یہاں آئے دس دنہو چکے تھے خیام سے وہ روز بات کرتی تھی لیکن سردار سے وہ نا بات کر سکی نا اسے دیکھ سکی ۔۔

موبائیل اسے رائنہ نے لاکر دیا تھا اقر سم بھی ڈال دی تھی وہ اسکا بہت خیال رکھتی تھیں انہیں دیکھ کر اسے اپنی ف اپنے کام سے مطلب رکھتے تھے بس عاجلہ کا رویہ تھا اس سے اکھڑا پتا نہیں کیوں وہ سمجھ نا سکی تھی۔۔اکھڑا

_____________________________


ریاض خانم نے چونک کر بیٙٹی کو دیکھا۔۔


کہاں گئی ہے تمہاری خالہ۔

اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے دوبارہ سے پوچھا۔

اپنے میکے۔۔

وہ موبائل ہر انگلی چلاتی انہیں لاپرواہی سے جواب دے گئی۔

وہ ہونٹ بھنچے ساکت بیٹھے رہ گئے۔

کیا ہوا ڈیڈ برا لگ رہا ہے آپ کا دل نہیں لگ رہا اپنی سیکنڈ بیوی کے بغیر۔

وہ انہیں خاموش بیٹھا دیکھ کر طنز سے پوچھ رہی تھی۔

جواباً وہ اسے سپاٹ نظروں سے دیکھتے اٹھ کر کمرے کی طرف چلے گئے ۔

وہ مووبائیل گود میں رکھے انہیں جاتا دیکھتی رہی ۔

نع ڈیڈ آپکے دل میں کسی دوسری عورت کے لیے فلنگ میں نییں جاگنے دوں گئی سمجھے آپ وہ اب میکے میں ہی رہے تو یہی بہتر ہو گا اسکے لیے۔

وہ تیکھے لب و لہجے میں سوچتی ہوئی اٹھی تھی ۔

ایک اس دن سے اسے یی ٹینشن تھی کہ وہ ہیر چلی کہاں گئی مہرینہ نے طھی اسے نہیں بتایا تھا کیا اسے کہی سردار نے چھپا دیا ہے ۔

وہ کمرے کی طرف جاتی سوچ رہی تھی۔

کچھ بھی ہو مجھے پتا لگانا ہے وہ ہیر کہاں ہے ۔

سپاٹ نظروں سے اپنے کمرے میں سجی سردر غاذان کی تصویر دیکھتی وہ خود سے بولی تھی۔

پورا کمرہ سردار غاذان کی پکس سے سجا ہوا تھا

وہ اسے جنون کی حد تک چاہتی تھی وہ اسے کدی کو آسانی سے چھیننے تو دینے والی نہیں تھی۔

تم ٹھیک ہو۔۔

پول کے اوپر چھلانگ لگا کر چڑتے خیام سے وہ پریشانی سے بولی تھی۔


وہ جواباً ہونٹ بھینچے شرٹ نچوڑنے لگا ۔

مہرینہ نے ہونٹ بھینچے ۔۔

دیکھو میرا کوئی قصور نہیں مجھے کیا پتا تھا تمہیں تیرنا نہِیں آتا ،

اور خبردار اگر سردار کو بتایا تو مار مار کر بینگن کا بھرتا بنا دوں گئی سمجھے میسنے کہی کے۔۔

وہ اسکے سامنے آتی تیکھے لب و لہجے میں اس وارن کر رہی تھی۔

وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتا آگے بڑھا تھا۔

یہ تم ایٹیوڈ کسے دیکھا رہے ہو میں مالکن ہوں اور تم ملازم پھر یہ آنکھوں میں غصہ لیے مجھے گھور کیوں رہے ہو تمہیں تو میرا لاکھ کڑوڑ بار شکریہ ادا کرنا چاہئے میں نے تمہیں پانی سے باہر نکالا ہے ورنہ اب تک تو تمہاری روح بھی پرواز کر چکی ہوتی اور تم ہو کہ آنکھیں دیکھا رہے ہو کہ تمہاری موٹی آنکھیں ہیں اور مہرینہ بے چادری کی تو چھوٹی ہیں ۔۔


وہ دونوں ہاتھ کمر پر جمائے بہت تیکھے لہجے میں اس سے لڑائی کے موڈ میں تھی۔

شکریہ ادا کیسا دھکا بھی تو مالکن نے دیا تھا نا۔

خاموش نظروں سے اسے دیکھتا وہ سپاٹ لہجے میں کہتا وہاں رکا نہیں تھا۔


اکڑ دیکھو زرا آیا بڑا نواب کہی کا نا ہی نکالتی تو اچھا تھا کونسا کسی کو پتا لگنا تھا ایویں بچا لیا۔

وہ پانی سے شرابور کپڑے دیکھتی ہوئی تاسف سے بولی تھی۔

________________________________

لمبے کالے بالوں کو سفید پونی میں جھکڑے سفید ہی سوٹ پر بلیک کوٹ پہنے وہ یونی داخل ہوئی تھی۔

یونی کئی حاطوں پر مشتعمل تھی۔

وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی چہرہ پر دبا دبا سا جوش تھا کالی آنکھوں میں چمک لیے وہ شہنام کے ساتھ اپنے ڈیپارمنٹ کی طرف بڑھنے لگی تھی۔

شہنام کی کافی لڑکے لڑکیوں سے دوستی تھی سب سے ہاتھ ملاتا وہ آگے بڑھ رہا تھا کئی نے تو اسے ہیر کے ساتھ دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں معنی خیز اشارے بھی کر دئیے تھے ۔

جنہیں وہ سرعت سے اگنور کر گیا تھا۔


ہیر کو اسکی کلاس میں چھوڑ کر وہ اپنے بزنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا ۔۔


ہیر کا سب کلاس نے خوش امدید کیا تھا ۔

وہ دھیمی مسکان سجائے سب سے ہاتھ ملا کر ملی تھی ۔۔


یونی میں اسکا بہت دل لگ گیا تھا وہاں کوئی اسے طنز سے نہیں دیکھتا تھا کوئی اسکی غریبی کا مزاق اوڑانے والا نہیں تھا ۔

اسے یہاں آئے دس دن ہو چکے تھے خیام سے وہ روز بات کرتی تھی لیکن سردار سے وہ نا بات کر سکی نا انہیں دیکھ سکی دل میں انہیں دیکھنے کی حسرت ززور پکڑ چکی تھی۔۔

رائنہ نے اسے موبائیل لاکر دیا تھا اور سم بھی ڈال دی تھی وہ اسکا بہت خیال رکھتی تھیں انہیں دیکھ کر اسے اپنی نائلہ چچی یاد آجاتی تھی ۔

باقی لوگ اپنے کام سے مطلب رکھتے تھے بس عاجلہ کا رویہ اس سے کچھ اکھڑا سا تھا ۔

_________________________________

ریاض خانم نے چونک کر بیٙٹی کو دیکھا۔۔

جو انکی بات کا جواب دے کر دوبارہ موبائل کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔


کہاں گئی ہے تمہاری خالہ۔

اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے دوبارہ سے پوچھا۔

اپنے میکے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ موبائل پر انگلی چلاتی انہیں لاپرواہی سے جواب دے گئی تھی۔ ۔

وہ ہونٹ بھنچے ساکت بیٹھے رہ گئے۔

کیا ہوا ڈیڈ برا لگ رہا ہے آپ کا دل نہیں لگ رہا اپنی سیکنڈ وائف کے بغیر۔

وہ انہیں خاموش بیٹھا دیکھ کر طنز سے پوچھ رہی تھی۔

جواباً وہ اسے سپاٹ نظروں سے دیکھتے اٹھ کر کمرے کی طرف چلے گئے ۔

وہ مووبائیل گود میں رکھے انہیں جاتا دیکھتی رہی ۔

نو ڈیڈ آپکے دل میں کسی دوسری عورت کے لیے فلنگ نہیں جاگنے دوں گئی سمجھے آپ وہ اب میکے میں ہی رہے تو یہی بہتر ہو گا اسکے لیے۔

وہ تیکھے لب و لہجے میں سوچتی ہوئی اٹھی تھی ۔

ایک اس دن سے اسے یہی ٹینشن تھی کہ وہ ہیر آخر چلی کہاں گئی ہے مہرینہ نے ابھی اسے نہیں بتایا تھا کیا اسے کہی سردار نے چھپا دیا تھا ۔

وہ کمرے کی طرف جاتی سوچ رہی تھی۔

کچھ بھی ہو مجھے پتا لگانا ہے وہ ہیر کہاں ہے ۔

سپاٹ نظروں سے اپنے کمرے میں سجی سردار غاذان کی تصویر دیکھتی وہ خود سے بولی تھی۔

پورا کمرہ سردار غاذان کی پکس سے سجا ہوا تھا ۔

وہ اسے جنون کی حد تک چاہتی تھی وہ اسے کسی اور کو آسانی سے چھیننے تو دینے والی نہیں تھی۔

________________________________


مہرینہ کو گلابی سوٹ پہنا وا کر کندھوں سے نیچے آتے بالوں کا ڈفرنٹ سا سٹائل بنوایا گیا تھا کہ اسیر اپنے والدین کے ساتھ اسے دیکھنے آنے والا تھا ۔

وہ ہونٹ بھینچے ہوئے تھی غصہ تو اتنا آرہا تھا کہ بس ،

لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھی کہ آج سہیر خانم اور سردرا غاذان گھر پر ہی تھے۔۔

میں کوئی جانور ہوں جسے جہاں دل کیا ہانک دیا میری تو مرضی ہی نہیں پوچھی گئی میں کیوں کروں اس سے شادی۔۔

وہ غصے سے سوچ رہی تھی وہ خوبصورت بہت لگ رہی تھی کہ وہ عموماً گھر پر رف سے خلیے میں ہی رہتی تھی۔۔


اور کل بھی تو فنشن تھا سردار اور شائنہ کی رنگیجمنٹ تقریب تھی ۔۔


سہیر کے آتے ہی گھر میں چہل قدمی کی لہڑ سی دوڑ گئی تھی ۔۔

اسکی آو بھگت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی تھی ۔

وہ ایک خوبرو نوجوان تھا جو شاید غاذان سے دو تین سال چھٰوٹا ہی تھا لیکن دونوں کی دوستی میں کوئی کمی نہیں تھی ۔۔

تھوڑی ہی دیر بعد مہرینہ کو اسکے سامنے لایا گیا تھا۔

سہیر خانم اور دوسرے مرد اٹھ کر ایک طرف چلے گئے تھے ۔۔

اب صرف خواتیں، اسیر کی والدہ، اسیر اور سردار غاذان وہاں موجود تھے۔


اسیر نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

وہ اسکے دیکھنے پر جواباً پورے دانتوں کی نمائش کر گئی تھی ۔

اسیر نے حیرت سے اسے دیکھا ۔

جو سردار کے دیکھنے پر پھر سے سر جھکا گٙی تھی۔

اسکے دانت کافی بڑے تھے تصویر میں تو وہ اندر تھے اب اونچے دانت کہاں سے آگئے تھے اسکے۔

اسیر حیرت زدہ تھا نقلی کی طرف تو اسکا دھیان ہی نہیں گیا تھا ۔


بیٹا پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔

اسیر کی والدہ نے شفیق مسکان سے اس سے پوچھا تھا ۔

جی بہت اچھی جا رہی ہے۔

نہایت باریک آواز میں وہ بولی تھی سر ہنوز جھکا ہوا تھا ۔۔

مسز عیسیٰ نے چونک کر اسے دیکھا انہیں وہ کچھ خاص اچھی نہیں لگی تھی شاید پک میں فلٹرز یوز کیے ہوئے تھے اس نے۔۔

انہوں نے بیٹے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارا کیا تھا گھر والے انجان تھے اس کے کارنامے کے بارے میں اگر پتا ہوتا تو سہیر خانم اسکی چمڑی نا اڈھیڑ دیتے ۔۔

اسیر نے انہیں ریلکس رہنے کا اشارا کیا تھا ۔۔

آپکی ہابیز کیا کیا ہیں۔

وہ اسکے جھکے سر کو دیکھتا ہوا بولا تھا۔

جی لیٹنا سونا کھانا پینا اور روز شاپنگ پر جانا دوستوں سے گھنٹوں باتیں کرنا سارا دن موبائل یوز کرنا اور لوگوں سے جیلس ہونا میری کوئی زیادہ ہابیز نہیں ہیں ۔۔

وہ دونوں ماں بیٹا اسکے کافی قریب بیٹھے ہوئے تھے جبکہ باقی سامنے والے صوفے پر تھے فاصلہ زیادہ تھا اور وہ کچھ بول بھی باریک سی آواز میں رہی تھی تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ انکی بیٹی کیا بول رہی ہے انہیں یہی لگ رہا تھا کہ انکی بیٹی شرما شرما کر انکی باتوں کے جواب دے رہی ہے۔


اسکی ہابیز ان ماں بیٹے کے چھکے چھڑا گئیں تھیں۔

گردن پر خارش کرتی وہ مسکرا دی ۔

باقی وقت وہ دونوں ماں بیٹا خاموش ہی رہے جبکہ اسیر کی شکایتی نظریں سردار غاذان پر تھیں جو کسی فائیل پر سائن کر کے پاس کھڑے ملازم کو پکڑا رہا تھا۔

وہ ان سے بات کر رہا تھا جب اسکا فون رنگ ہوا تھا۔

نمبر دیکھ کر ان سے ایکسیوز کرتا وہ تھوڑا دور کھڑا ہوا تھا اگلے بندے کی بات سنتا وہ چونکا تھا ۔۔

آئی ول کم ،


اس نے کہتے ہی فون بند کر دیا تھا ۔۔

_________________________________

لفٹ میں کھڑی وہ گہرے گہرے سانس لینے لگے تھے تین چار لوگ تھے جو تیسری منزل پر اتر چکے تھے اب وہ اکیلی تھی ۔

کیونکہ اسے پانچویں منزل پر جانا تھا سیڑیاں چڑنا مشکل تھیں تو وہ خود میں ہمت مجتمہ کرتی آج لفٹ میں داخل ہو ہی گئی تھی۔

چہرہ پیسینے کے قطروں سے چمکنے لگا تھا۔

اس نے سرعت سے دیوار تھامنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ گر چکی تھی نیچے شاید لفٹ میں کوئی مسلہ ہو گیا تھا کہ وہ ایک جھٹکے سے رک چکی تھی۔


خیام ۔۔۔

وہ ہانپتے ہوئے چلائی تھی ۔۔

سردار !

وہ نیچے گری کھینچ کھینچ کر سانس لیتی اسے پکارنے لگی تھی۔

سردار غاذان۔

دھیمے سے اسکا نام اسکے لبوں سے نکلا تھا اسکے بعد اسکے منہ سے کچھ نہیں نکلا تھا وہ بے ہوش ہو چکی تھی لیکن ہونٹ ابھی بھی کانپ رہے تھے ۔


________________________________


کیا !

شہنام سنتا ہی سیڑیوں کی طرف بھاگا تھا۔

انتظامیہ نے لفٹ ٹھیک کرنے والے کو اسی وقت بلوا لیا تھا ۔

لفٹ ٹھیک ہوتے ہی چوتھی منزل پر کھول لی گئی تھی ۔

اس سب میں آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت لگ چکا تھا ۔


لفٹ جب کھلی تو شہنام ایک دم ساکت ہوا تھا ۔

وہ نیم وا ہونٹوں لیے ہوش و خرد سے بیگانہ تھی ۔۔

ہیر،۔۔۔

وہ سرعت سے اسکی طرف لپکا تھا ۔

باہر کافی بھیڑ جمع تھی۔

وہ اسے بانہوں میں لیتا لفٹ کا بٹن دبا گیا اب لفٹ تیزی سے نیچے آنے لگی تھی۔۔

وہ ہیر کو پاس ہی بہت بڑے ہسپٹل لے آیا تھا۔

جنہوں نے فوراً اسے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کیا تھا ۔۔

ہیر کو ایکسیجن ماسک لگا دیا گیا تھا ڈاکٹر اسکی کنڈیشن سیریس بتا رہے تھے ۔۔

شہنام نے پھپھو اور سردار غاذان کو فون کر دیا تھا ۔


رائنہ تو اسی وقت بھاگتی چلی آئیں تھیں۔

وہ ہیر کے لیے پریشان تھی اور دل سے اسکے لیے دعا گو بھی تھیں۔


________________________________


وہ اپنے پرائیوٹ ہیلی کاپٹر سے ڈیڈھ گھنٹے میں مصر تھا ۔

دو آدمی اسکے پیچھے اسکے قدموں کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ناکام ثابت ہو رہے تھے اسکے قدموں میں بجلی سی تیزی تھی۔۔

ہسپٹل پہنچنے میں اسے آدھا گھنٹہ لگا تھا ۔۔

وہ ایک لمبی راہداری کی طرف بڑھا تھا لوگ مڑ مڑ کر اس شاندار شخص کو دیکھ رہے تھے ،

جو بلیک شلوار قمیض پر ہاف وائٹ چادر کندھے پر رکھے واقعی کسی ریاست کا شہزادہ لگتا تھا ۔

شہنام اسے دیکھتا بھاگ کر اسکے قریب آتا اسے ساری بات بتانے لگا تھا ۔

شہنام میں نے اسکی زمے داری تمہیں سونپی تھی۔

وہ اسے سنجیدگی سے دیکھتا فقط یہی بولا تھا ۔

شہنام نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا تھا۔

بھائی وہ !

اسکے سنگین تاثرات دیکھ کر وہ ہکلا کر رہ گیا تھا۔

رائنہ نے اسکے ہاتھ تھام کر اسے ریلکس رہنے کا اشارا کیا تھا ۔


جبکہ اسکی نظریں شیشے کے پار اس وجود پر تھیں وہ لڑکی زندگی کو کب صحیح طریقے سے سروائیو کر سکے گئی اس نے اسے یہاں بھیجھا ہی تو اس لیے تھا کہ وہ لڑکی سکیور رہے گئی اپنی زندگی کو اپنے حساب سے جیئے گئی لیکن جو مشکلات انسان کے مقدر میں لکھیں ہیں وہ تو مل کر رہیں گئی نا وہ کیا جانے ابھی اس نازک وجود نے کیا کیا سہنا تھا۔

_________________________________

ہیر !

اس نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں اپنے سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کر وہ خیال کا ہی گھما کرتی پھر سے آنکھیں موندنے لگی تھی جب سردار کی آواز اسے گماں سے یقین میں لے آئی تھی۔


ہیر کی آنکھیں حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہیں تھی جو اسے اس لفٹ میں سب سے زیادہ یاد آیا تھا جسے وہ یہاں ایکسیپٹ نہیں کر سکتی تھی ۔

اسے خود پر جھکا دیکھ کر اسکی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔

ہیر تم ٹھیک ہو۔

کرسی اسکے بیڈ کے قریب کھینچتا وہ نرم لہجے میں اس سے مخاطب تھا۔

وہ آنسوں بھری آنکھوں سے سر تیزی سے نفی میں ہلا گئی۔

کہی درد ہے۔

وہ پوچھ رہا تھا ۔

نہیں !

وہ سر نفی میں ہلا گئی۔

ڈر لگ رہا ہے۔

اسکے دھیمے گھمبیر لہجے پر وہ سر ہاں میں ہلا گئی کہ اسے وہ بند لفٹ پھر سے یاد آنے لگی تھی ایسا لگ رہا تھا اسکی سانسیں پھر سے بند ہو جائیں گئیں ۔

ہیر ڈر کیسا میں ہوں نا یہاں اور اس لفٹ سے تم باہر بھی تو آگئی ہو۔

وہ اسکے ہاتھ کی پشت تھپکتا ہوا اسے ریلکس کر رہا تھا۔

آپ چلیں جائیں گئے۔

وہ بھرائے لہجے میں اپنے ڈر کو زبان دے رہی تھی۔

ہمم !

اس نے سر ہلایا ۔

آنکھوں میں تیرتے آنسو بن پار کر آئے تھے۔

وہ گہری سانس لیتا ہوا اسے دیکھنے لگا ۔

یہاں دل نہیں لگ رہا ۔

وہ یقین سے پوچھ رہا تھا۔

وہ زور زور سے سر ثبات میں ہلانے لگی تھی جس پر وہ مسکرا دیا۔

اسکے خوبصورت دانت آج بہت واضع دیکھے تھے اس نے وہ ساکت نظروں سے اسے دیکھنے لگی کہ پلیکں جھپکنے سے وہ کہی غاِئب نا ہو جائے۔۔

ہیر دل تو لگانا پڑے گا نا دوستیں بناو گھومو پھرو لائف کو انجوائے کرو،

ہیر یہی عمر ہے ہنسنے کھیلنے کی ۔

وہ بہت سنجیدگی سے اسے سمجھا رہا تھا ۔

مجھے یہاں کی مقامی زبان نہیں آتی تو پھر میں کیسے کسی کو اپنی دوست بناوں ۔

وہ بے بسی سے بولی تھی۔

کیا شہنام نے تمہارا لنگوئج کورس میں ایڈمشن نہیں کروایا ۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔

وہ سر نفی میں ہلا گئی۔

آپ چلیں جائیں گئے۔

وہ پھر سے پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔

وہ جواباً خاموشی سے اسے دیکھتا رہا جیسے اسکے چہرے پر کچھ کھوجنا چاہ رہا ہو ۔۔

ہیر کا دل اسکی محویت پر لرزنے لگا تھا۔


ہیر تمہیں یہاں دو سال اپنی سٹڈی کمپلیٹ کرنی پڑے گئی اپنی پرسنلٹی گروم کرنی ہو گئی خود میں ہمت پیدا کرنی ہو گئی پھر ہی تم دنیا کا مقابلہ کر سکو گئی۔

اسکے بکھرے بالوں کو الجھن سے دیکھتا وہ بولا تھا۔

جب تمہاری چھٹیاں ہوا کریں گئی تم پاکستان آنا کرنا اپنے دن خیام کے ساتھ ہنسی خوشی سے گزارانا ۔

وہ اسے سمجھاتا ہوا اٹھا تھا کہ اسے واپس جانا تھا آج اسکی منگنی کی تقریب تھی لیکن وہ لڑکی تھی کہ بچہ بنی ہوئی تھی۔

شہنام آج سے تمہارا بہت خیال رکھے گا ہیر اور تمہیں خود بھی اپنا خیال رکھنا ہے انڈرسٹینڈ اب مجھے چلنا ہو گا اٹس امپورٹنٹ اوکے اللہ خافظ۔

اسکے سر پر پیار دے کر وہ کہتا ہوا تیزی سے وہاں سے نکلا تھا جبکہ اسکی خالی ویران آنکھیں مایوس سی خالی کمرے کو دیکھنے لگیں تھیں کچھ دیر پہلے اسے اس کمرے میں زندگی سی دوڑتی نظر آئی تھی لیکن اب زندگی بھی ایک کونے میں کھڑی ویران سی تھی۔ ۔

________


یار موم اسکا خیال رکھئے گا،

آج انگیجمنٹ سیرمنی ہے ڈیڈ نے الگ سے سیاپا ڈالا ہے کرنی پڑے گئی ،

انکا ماتھا چومتا وہ کہتا ہوا تیز قدموں سے وہاں سے نکلا تھا جبکہ رائنہ بیٹے کو اللہ کی مان میں دیتی ہیر کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھیں۔ ۔

_________________________

بابا وہ مصر چلی گئی زرا سوچیں وہاں جا کر وہ پڑھ لکھ کر کچھ بن گئی تو ہمارے مقابلے آ جائے گئی بابا کچھ کریں ورنہ میں اپنی جان لے لوں گئیں۔۔

وہ بھاری فینسی سوٹ پر ہلکی سی جیولری پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی ابھی اسے پتا چلا تھا کہ سردار نے ہیر کو مصر بھیج دیا ہے یہی بات اسے جلا کر رکھ گئی تھی آج تک وہ انہیں اپنے مصر والے گھر نہیں لے کر گیا تھا اور وہ لڑکی اتنی اہم تھی کہ اس مصر بھیج دیا ۔۔

ریاض کی تسلی پر بھی وہ انگاڑوں پر لوٹتی رہی پیسہ اسکے پاس بے انتہا تھا ایک آدمی کو وہ مصر بھیج چکی تھی ہیر کے پیچھے آخر وہ کب تک اس کمزور لڑکی کو اپنے مقابل دیکھ سکتی تھی۔


ہیر اپنی زندگی کے الٹے دن گننا شروع کردو تم ابھی جانتی کہاں تھی شائنی کو لیکن اب جان جاو گئی ۔۔

دوبارہ سے تیار ہوتی وہ زہریلی سوچ میں گھم تھی ۔۔

_____________________________


اوئے۔

خیام حیرت سے پیچھے پلٹا تھا ۔

وہ وائٹ فراک کے نیچے ہائی بلیک ہیل پہنے ہوئے تھے بالوں کو کھلا چھوڑ کر آگے ڈالا ہوا تھا ۔

کیسی لگ رہی ہوں۔

اسکے سامنے گھومتی وہ آئی برو اچکا کر اس سے سوالیہ پوچھ رہی تھی۔

جی۔ ۔۔

وہ حیرت سے بولا تھا۔


کیا ہے بٹن بٹن جتنی آنکھیں ہیں اگر بتا دو گئے تو میری تسلی ہو جائے گئی اصل میں میرا ابھی کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے نا بتانے والا خیر تم بتا دو۔ ۔

وہ بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتی ہوئی بولی تھی۔

استغفراللہ!

وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھا تھا جب مہرینہ نے سرعت سے اسکی کلائی ہاتھ میں پکڑی ۔

بتائے بغیر جانے نہیں دوں گئی سمجھے آخر تم بھول کیوں جاتے ہو میں تمہاری مالکن ہوں میری تو عزت ہی نہیں اس گھر میں۔

وہ اس بار خاصے غصے سے بولی تھی۔

جبکہ خیام نے حیرت سے اپنی کلائی کو دیکھا جو وہ پکڑے اسے گھور رہی تھی۔


یہ کیا ہوا رہا ہے ۔۔

سہیر عالم کی پاٹ دار آواز مہرینہ کے چھکے چھڑا گئی تھی وہ بجلی سی تیزی سے اسکی کلائی کو ہاتھ سے آزاد کر چکی تھی ۔۔

________________


ہیر چلتی ہوئی ایک دم سے کسی سے ٹکڑائی تھی یا شاید کوئی اس سے جان بوجھ کر ٹکڑایا تھا وہ جان نا سکی ۔

وہ ایک لڑکا تھا جو بلیک ہڈی پہنے اسے دیکھ رہا تھا آنکھوں میں سرد تاثر لیے وہ ہیر کو دیکھ رہا تھا ۔

ہیر سر جھٹکے اسکے قرہب سے گزر گئی ۔

زندگی تو اب شروع ہوئی ہے ہیر رضا۔

وہ طنز سے مسکراتا ہوا بولا تھا۔ ۔

بابا وہ ۔۔۔۔

اسکے بولنے سے پہلے ہی تھہڑ اسکے گال کی زینت بن چکا تھا ۔

خیام نے ٹھٹھک کر انہِیں دیکھا۔

شرم نہیں آتی تمہیں یا سب بھول چکی ہو ایک ملازم کا ہاتھ ہاتھوں میں لیے کیا کر رہی تھی گھر میں تمہیں پسند کرنے لڑکے والے آئے ہوئے ہیں، اور تم یہ مشکوک حرکتیں کر رہی ہو اور تم لڑکے ملازم ہو تو ملازم جیسے ہی خواب دیکھنا ورنہ انجام سے آگاہ نہیں ہو تم اپنے ۔


آخر میں اسے سپاٹ لہجے میں وارننگ دیتے وہ مہرینہ کی کلائی ہاتھ میں جھکڑتے وہاں سے نکل گئے تھے۔

مہرینہ سپاٹ نظروں سے باپ کو دیکھتی چلنے لگی تھی پلٹ کر اسے بھی خاموش نظروں سے دیکھا ۔

جبکہ خیام کی ساکت نظریں اس پر تھیں ۔۔

اسکی سمجھ سے باہر تھے اس محل میں بسنے والے لوگ ۔۔

جو اپنی بیٹیوں کے سگے نہیں تھے وہ کسی اور کی بیٹی کی کیا خفاظت کریں گئے اسے ہیر کی بھی ٹینشن لگ گئی تھی۔۔

مہرینہ کی گال پر سرخ نشان اسے بھول نہیں رہا تھا وہ اتنا بیزار ہوا کہ محل سے ہی نکل گیا اسے یہ بھی پوچھنے کا یاد نہیں رہا کہ محل میں فنکشن کیسا ہے آج ،

،________________________________

ہائے ایم ساریا اینڈ یو۔ ۔

ہیر نے حیرت سے ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھا جو اسکی طرف ہاتھ بڑھائے ہوئے تھی وہ لڑکی پاکستان سے تھی آج ہی یہاں آئی تھی اور آج ہی اس سے دوستی کی خواں تھی۔

ہیر علی رضا،

ہیر نے مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام کر اپنا تعارف کروایا ۔

واوا بیوٹیل فل نیم ۔

ساریا خوش اخلاقی سے بولی تھی ۔

ہیر مسکرا دی۔

کوئی غور سے دیکھتا تو پتا چلتا اسکے مسکرانے سے اسکی بائیں گال پر چھوٹا سا ایک گھڑا نمایا ہوتا تھآ ۔

ساریا اسکے ساتھ چلتی ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی اس دن ہیر کالج میں بور نہیں ہوئی تھی شہنام نے اسے لنچ کروایا بعد میں ایک بڑے سائز کی آئس کریم دلا کر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا ۔۔۔

یہ تمہارا کیا لگتا ہے۔

ساریا نے لاپرواہی سے پوچھا۔

ریلٹیو ہیں انہی کے گھر ٹھہری ہوئی ہوں میں۔

آئس کریم شوق سے کھآتی وہ ساریا سے بولی تھی ۔

ساریا کی تیز نظریں شہنام کی پشت ہر گئیں تھیں ۔

وہ سر ہلا گئی ۔۔


انٹی چائے۔

ہیر یہ کیا بات ہوئی ابھی تم یونی سے آئی ہو اور ابھی چائے بنانے لگ گئی بیٹا آرام کرتی بن جاتی چائے بھی۔

رائنہ نے خفگی سے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے ٹوکا ۔

پلیز انٹی اس وقت کی چائے آپکے لیے میں بنایا کروں گئی اور میں کوئی تھکتی نہیں گاڑی سے آتی ہوں گاڑی پر جاتی ہوں اور وہاں بھی بیٹھی رہتی ہوں تو تھکوں گئی کیسے اور آپکو ایک بات بتاوں آج نا میری ایک بہت پیاری لڑکی سے دوستی ہوئی ہے ۔

وہ انکے پاس بیٹھتی ہوئی انہیں اشتیاق سے بتا رہی تھی ۔

واوا ڈیٹس گریٹ ، دوست بنانا لیکن اس پر اتنی جلدی اعتماد مت کرنا یہاں کون کس بھیس میں ہے ہیر کوئی پتا نہیں چلتا اس لیے تم بھی اختیاط کرنا۔

چائے ایک سائیڈ پر رکھتی وہ اسے سمجھانے لگیں تھیں ۔

انٹی میں اختیاط کروں ڈونٹ وری آپ چائے تو پیئیں نا ٹھنڈی ہو جاِے گئی ۔

وہ منہ بسورے ان سے بولی تھی۔

اوکے مائے ڈیئر۔ ۔

وہ کپ دوبارہ اٹھاتی ہوئیں مسکراتی ہوئی بولیں تھیں۔

اچھا ایک گھنٹہ ریسٹ کر لو پھر فبیہا کے ساتھ چلی جانا شاپنگ پر آج اسکا ہاف ہے ورنہ وہ فارغ کم ہی ملتی ہے گھر پر ۔۔

انہوں نے محبت سے اسکے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا۔

جبکہ انکے پیار دینے پر ہیر کا دل زوروں سے دھڑکا تھا کسی کے دلکش نقوش آنکھوں کے آگے لہرائے تھے ۔

وہ نظریں جھکاتیں سر ہاں میں ہلا گئی ۔۔

________________________________


وہ بلیک سوٹ پر ہاف وائٹ واسکٹ کوٹ پہنے ہوئے تھا وجیہہ نقوش پر سنجیدگی سی تھی دل پتا نہیں کیوں ڈوب سا رہا تھا ۔

بیٹا رنگ پہناو۔

تیمور خانم کے سنجیدگی سے کہنے پر وہ انہیں ایک نظر دیکھتا اپنے پہلو میں بیٹھی شائنہ کو دیکھنے لگا وہ چونکا اور ٹھٹھکا تھا ،

اسے اسکے چہرے میں کسی اور کی پرچھائی نظر آئے تھی وہ سر جھکائے آنسو کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔

ہیر تم ٹھیک ہو!

اسکے ایک دم فکرمندی سے پوچھنے پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے تیمور ساکت ہوئے تھے جبکہ شائنہ نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔

تینور خانم نے لب بھینچتے ہوئے بیٹے کو تگڑی گھوڑی سے نوازا تھا لیکن وہ انہیں نہیں شائنہ کو دیکھ رہا تھا ۔

غاذان تیمور۔ ۔

تیمور کی سرد آواز پر وہ چونک کر انہیں دیکھتا ایک بار پھر شائنہ کی طرف دیکھنے لگا تھا لیکن شائنہ کو خود کو دیکھتا دیکھ وہ گہری سانس خارج کر گیا تھا ۔

ریاض صاحب شدید غصے میں آچکے تھے

لیکن اس وقت کچھ کر نہیں سکتے تھے کہ انکے بھائی بہن بھی موجود تھے الٹا بے عزتی انکی ہی ہوتی ۔۔

شائنہ ریاض ، ۔۔

شائنہ سنجیدگی سے بولتی سردار کی طرف ہاتھ بڑھا گئی تھی ۔

سردار نے لب بھینچ کر اسکی انگلی میں رنگ پہنا دی تھی ۔

اسیر نے چونک کر دور کھڑی مہرینہ کو دیکھا ۔

وہ لڑکی اُس دن سے کافی مختلف لگی تھی اسے وہ بے ساختہ اسکی طرف بڑھا تھا جو غصے بھری نظروں سے شائنہ کو دیکھ رہی تھی ۔


ہیلو مہرینہ۔

وہ سنحیدگی بھری آواز پر انکی طرف متوجہ ہوئی تھی سامنے وہی خوبرو نوجوان کھڑا اسکی طرف بہت غّور سے دیکھ رہا تھا۔


ہائے۔

وہ سینے پر ہاتھ باندھتی سنجیدگی سے بولی ۔

وہ اسکے دانتوں کو دیکھتا حیران ہوا وہ تو درمیانے تھے لیکن کل تو کافی بڑے تھے ۔

وہ دانت میرے اصلی ہیں یہ نقلی ہیں یونو آج مہمان آنے والے تھے نا تو کتنا بری لگتی یوں انکو بڑے بڑے دانت نکال کر ویلکم کرتی

وہ اسکی نظروں کا مطلب سمجھتی سنجیدگی سے کہہ کر آگے بڑھ گئی۔

جبکہ وہ پیچھے کھڑا ہنس دیا تھا ۔

وہ لڑکی انوکھی سی تھی جو اسے بھایا بھی تھی۔

______________________________


ہیر کی کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی ساریا سے وہ کافی کیئر کرتی تھی ہیر کی اسکی پسند نا پسند کا دھیان بھی خوب رکھتی تھی ۔

ساریا نے مسکرا کر اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔

میں نے تو اپنے سب گھر والوں کو بتا دیا ہے کہ میری یہاں بہت اچھی ایک دوست بھی بن چکی ہے ۔

ہیر مسکرائی ۔۔

تم خود بہت اچھی ہو ساری ،

وہ نوٹ بک پر کچھ لکھتی ہوئی مسکرا کر بولی تھی۔

ساریا مسکرا دی ۔۔

ہیر آگے بڑھ گئی تھی وہ اب واقعی ہی کچھ بن کر ہی جانا جاتی تھی ۔

_______________________________


ہیر جیسے ہی اندر آئی سامنے بیٹھے وجود کو دیکھ کر وہ حیرت کی زیادتی سے دنگ ہوئی تھی۔

آنکھیں مسلتی وہ اپنے وہم کے گمان میں تھی لیکن وہ خقیقت بنا سامنے بیٹھا چائے پیتا اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا تھا ۔

وہ ایک دم سے اسکی طرف آئی تھی ۔

آپ سچ میں آئے ہیں ۔

وہ بے یقینی سے پوچھ رہی تھی ۔

ہیر !

اسکی تنبیہہ پر وہ مسکرائی تھی ۔

آپ کب آئے اور چائے کس نے بنا کر دی گھر میں تو کوئی نہیں تھا آپ ویٹ کر لیتے میں خود بنا دیتی آپ نے ملازمہ سے کیوں بنوائی ۔

وہ اسکے قدموں میں بیٹھی ایک ہی سانس میں بولتی جا رہی تھی ۔

جبکہ وہ حیرت سے ہیر کو دیکھ رہا تھا ہیر میں واضع تبدیلی آئی تھی ۔

وہ کپ رکھتا ہیر کو سامنے والے صوفے پر بیٹھنے کا کہہ رہا تھا ۔

وہ اسکے قدموں میں بیٹھی تھی اسکے سامنے اشارا کرنے پر بھی وہ وہی بیٹھی رہی ۔

ہیر نیچے نہیں اوپر بیٹھو ۔

وہ سنجیدگی سے اسے ٹوک گیا تھا ۔

وہ ابھی آدھا گھنٹہ پہلے آیا تھا باقی سب اپنے اپنے کاموں پر تھے رائنہ عاجلہ اور عائفہ کسی کی فوتگی پر گئی ہوئیں تھیں ۔

وہ اچانک ہی آیا تھا اسکی موجودگی سے کوئی اگاہ نہیں تھا ۔


ہیر سرعت سے اوپر بیٹھی تھی۔ ۔

وہ چائے پیتا ہیر سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا اٹھا تھا ہیر بھی ایک دم سے اٹھی تھی۔ ۔۔۔۔

ہیر یہاں کوئی پرابلم تو نہیں تمہیں یا کسی نے تنگ کیا ہو یا کوئی اور پریشانی۔

وہ اپنے خواب سے پریشان تھا جو اس نے ہیر کے بارے میں دیکھا تھا ۔

نہیں تو یہاں سب اچھا ہے آپکے لیے کھانا بناوں ۔۔

وہ چہکتے لہجے میں بولتی سردار کو ریلکس کر گئی تھی۔

نو ابھی مجھے آدھے گھنٹے تک واپس بھی جانا ہے تم چینج کر آو تمہیں لنچ کروا کر جاوں گا میں۔

پاکٹ میں ہاتھ ڈالے وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔

ہیر نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔

ہیر گو۔ ۔

وہ اسکی محویت پر پریشان ہوا تھا ۔

وہ بھاگتی ہوئی وہاں سے غائب ہوئی تھی ۔

وہ مسکرا دیا اسکی عجلت پر پتا نہیں وہ کیسے یہاں چلا آیا تھا وہ حیران تھا خود پر کہ کیسے ایک برے خواب کو لے کر وہ پریشان ہوتا یہاں چلایا تھا اپنی لاکھوں کی مِیٹنگ چھوڑے وہ جانتا تھا تیمور صاحب بہت غصہ ہوں گئے ۔


چلیں سردار!

وہ اسکے سامنے آتی ہوں پوچھ رہی تھی یہاں پر اس میں جو نکھار آیا تھا وہ تھا اعتماد ۔

چلو ۔۔

کہتا ہوا وہ آگے بڑھا تھا ۔

ہیر بھی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی تھی ۔

وہ بلیک سوٹ پر بلیک ہی ویلوٹ کی کامدار چادر اوڑھے ہوئے تھی۔


وہ اسے ایک خوبصورت ہوٹل لایا تھا جو اوپن تھا وہاں ٹیبل چیئر وسیع گارڈن میں لگیں ہوئیں تھی ۔

وہ اشتیاق سے سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔

وہاں بیٹھی کافی لڑکیوں کی نظر اس کے سردار پر تھی ۔

اس نے تیوری چڑھائی تھی ۔۔

کیا کھاو گئی۔

وہ موبائیل پر سنجیدگی سے کوئی وائس میسج بھیجتا ہیر سے مخاطب تھا ۔

کچھ بھی ۔

وہ اسے نگاہوں میں سماتی ہوئی بولی تھی۔


ہیر وہ سامنے مینیو کارڈ ہے اس پر اپنی پسند کی ڈش دیکھ کر آرڈر کرو۔


وہ سنجیدگی سے اسے گھورتا ہوا بولا تھا ۔

ہیر نے جلدی سے مینیو کارڈ پکڑ ایک دو ڈش اسنے پاس کھڑے ویٹر کو لکھوا دیں ۔

میرے لیے اونلی بلیک کافی ود آوٹ شوگر ۔

وہ موبائیل رکھتا اپنی طرف سوالیہ دیکھتے ویٹر سے بولا تھا ۔


ویٹر سر ہال کر چلا گیا ۔۔

آپ اتنی دور سے آئیں ہیں اور صرف کافی ہی پیئیں گئے ۔۔

وہ پریشانی سے بولی تھی۔

وہ آنکھیں چھوٹی کیے مسکرایا ۔

ہیر میں اس وقت صرف کافی ہی لیتا ہوں ڈونٹ وری تم سٹارٹ کرو۔

وہ ویٹر کی رکھی کافی اٹھاتا دھیمے لہجے میں اس سے مخاطب تھا ۔

وہ میکرونی کھاتی اسے بھی دیکھ لیتی ۔

ہیر شاپنگ کی تھی اس دن۔

وہ پوچھ رہا تھا تو رائنہ بیگم سے اس نے کہا تھا ۔

ہاں کی تھی فبیہا آپی نے کافی ساری شاپنگ کروا دی تھی آپ کو پتا ہے میں صبح چار بجے اٹھتی ہوں اپنے کاموں سے فارغ ہوتی میں صبح کی چائے بناتی ہوں دونوں ماموں کو بہت پسند آتی ہے ،

اور اوپر جو لاون میں سبزیاں لگائی گیں ہیں انہیں پانی دیتی ہوں پھر پکی ہوئی سبزیاں تارتی ہوں پھر فرش ہو کر چینج کرتی ہوں یونی کے لیے تیار ہوتی ہوں یونی جاتی ہوں وہاں پڑھتی ہوں لنچ کرتی ہوں اور گھر آتی ہوں ُپھر سوتی ہوں شام کو چائے پیتی ہوں عاجلہ انٹی کا ہاتھ بٹاتی ہوں پھر کھانا کھاتی ہوں دودھ پیتی ہوں اور سو جاتی ہوں بہت بزی روٹین چل رہی ہے ُآپ پریشان نا ہونا اور خیام سے بھی کہہ دیجئیے گا کہ پریشان نا ہو۔ ۔

وہ ایسی سٹارٹ ہوئی تھی کہ پھر رکی نہیں تھی وہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا جو شاید زندگی میں پہلی بار شاید اتنا بولی تھی ۔۔۔

وہ سر ہلا گیا لیکن ہیر چپ نہیں ہوئی۔


آپ چلیں جائیں گئے پھر کب آئیں گئے۔

والٹ سے پیسے نکالتے ہاتھ تھمے تھے ۔۔

وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا ہوا بہت ساری کرنسی اسکی طرف بڑھا گیا تھا۔

یہ کس لیے؟ ؟

وہ لینے سے ہچکچا رہی تھی شاید۔

تمہاری ضرورتوں کے لیے تمہارا بینک کاونٹ کھلواوں گا جب اگلی بار آوں گا تب تک لیے یہ رکھ لو تمہارے کام آئیں گئے ۔۔

پیسے زبردستی اسکے ہاتھ میں دیتا وہ نرم لہجے میں کہہ رہا تھا۔

ہیر نے کرنسی کا بنڈل ہاتھ میں پکڑے اسے دیکھا ۔

آج ہی کھلوا دیں نا یہ کہی مجھ سے گھم نا ہو جائیں ۔

وہ شاید اسکے ساتھ کچھ اور وقت گزرانے کی خواں تھی۔

ہیر اگلی بار جلد آوں گا اور ساتھ خیام کو لاوں گا اب خوش۔

ہمیشہ کی طرح اسکے سر پر ہاتھ رکھے وہ نرم لہجے میں اس سے مخاطب تھا۔

ہیر کی آنکھوں میں نمی سی چمکنے لگی تھی ۔

اور ہاں گھر میں کسی کو نہیں بتانا میں آیا تھا ورنہ سب نا ملنے کی شکایت کریں گئے اوکے۔

وہ ہنوز اسکے سر پر ہاتھ رکھے بول رہا تھا ۔

ہیر سر ہلا گئی ۔

آو ۔

اس سے کہتا وہ بل کارڈ میں رکھتا ہوا آگے بڑھا تھا ۔۔۔


ہیر بیگ لیتی اسکے پیچھے چلنے لگی کہ وہ اسکے ساتھ چلنے کی نہیں اسکے پیچھے چلنے کی خواں تھی ۔۔

اسے گھر چھوڑ کر وہ روانہ ہو چکا تھا اپنی منزل کی طرف لیکن دشمن بھی تاک میں تھے ۔

مصر میں وہ اس پر حملہ نہیں کر سکتے تھے لیکن اپنی سرزمین میں آج وہ اسے گولیوں سے بھون دینا چاہتے تھے۔


ہیر کا دل گھبرانے لگا تھا کسی چیز میں اسکا دل نہیں لگ رہا تھا عجیب سی گھبراہٹ تھی جو پتا نہیں کیوں تھی ۔۔

وہ سونے کا ارادہ ترک کیے باہر نکل آئی ۔

فبیہا کے کمرے کی دم جلتی لائٹ دیکھ کر وہ اسکے کمرے کی طرف بڑھی تھی کہ اس اسے اسکی کافی دوستی ہو چکی تھی۔


ڈینی جاو یہاں سے اگر کسی نے دیکھ لیا تو بہت برا ہوگا۔۔

جان آج رات یہی رکنے دو نا وعدہ رہا سب کے اٹھنے سے پہلے ہی یہاں سے چلا جاوں گا ۔۔

کسی مرد کی آواز پر وہ رکی تھی لیکن وہ اسکی لینگوئج سمجھ نہیں سکی تھی ۔۔

________________________________


ایئرپورٹ سے وہ تھوڑا ہی آگے آیا تھا جب ایک گاڑی سے نکلتے تین چار ہٹے کٹے مرد اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر گئے تھے ۔

اسے سنبھلنے کا موقع نہیں ملا تھا ڈرائیور تو شدید زخمی تھا جب کے وہ خون سے لت پٹ آنکھیں موند گیا تھا ۔

وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہاں سے نکلے تھے ۔

اسے فوراً ایمرجنسی وارڈ کی طرف لے جایا گیا تھا ۔

پولیس اور ساری میڈیا فوراً سے وہاں پہنچ چکی تھی ۔


لیکن وہ بے ہوش تھا کیسے کسی کو کوئی بیان وزغیرہ دیتا ۔

تیمور خانم ، سہیر خانم، ، خشام خانم ریاض سب وہی تھے عورتیں گھر میں تھیں پریشان اور فکرمند سیں ۔


ڈاکٹر نے بتایا تھا اسے تین گولیاں لگیں تھیں ایک کندھے پر ایک سینے پر اور ایک دائیں بازو پر ۔۔

ڈاکٹر کا دوسری بار انکشاف انہیں ڈھے گیا تھا کہ وہ کوما میں جا چکا ہے دعا کریں آپ لوگ،

ڈاکٹر کی بات پر سب کو جیسے سانپ سونگ گیا تھا۔ ۔

تیمور نے لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا لیا تھا۔

_________________________


رانا ٹو وی پر چلتی نیوز کو طنزیہ مسکان سے دیکھتا ساتھ ساتھ بیٙر سے بھی انصاف کر رہا تھا ۔

داور اسے دیکھتا مسکرایا ۔

تمہیں کہا تھا کچھ دن صبر کرلو لیکن تم نہیں مانے اب بچ کر رہنا پورے شہر میں پولیس کتوں کی طرح پھیل گئی ہے۔

داور نے سنجیدگی سے سے سمحھایا ،

ہاہاہا داور تم شاید بھول رہے ہو کہ میں ایک پولیس والا ہوں وہ مجھے کبھی نہیں ڈًھونڈ سکتے وہ گاڑی جس میں اس سردار پر حملہ کیا گیا تھا نا وہ کب کی اپنی آخری سانس بھی لے چکی ہے اور آدمیوں کو میں گاوں والی حویلی بجھوا چکا ہوں کوئی کیسے پتا لگا سکے گا اور میں خود ڈھونڈ رہا ہوں اب میں اپنے خلاف تھوڑے نا ثبوت اکھٹا کروں گا ۔

وہ سر جھٹکتا ہوا تمسخر سے بولا تھا ۔


پورا کمینہ ہے تو ۔۔

داور نے کمینگی مسکان سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

آگے آگے دیکھو اس سردار کا خشر میں کیا کرتا ہوں ابھی تو شروعات ہے جانی۔

تیسرا گلاس خالی کرتا وہ اس بار سرد لہجے میں بولا تھا ۔

داور سر ہلا گیا ۔۔

بھاگتی آئے گئی وہ مصر سے ۔

وہ سرد لہجے میں بڑبڑایا تھا ۔۔

_______________________________


سردار کی کنڈیشن میں کوئی سدھار نہیں آیا تھا ۔

کالے بکروں کا صدقہ دیا گیا کئی غریبوں کے چولہے جلائے گئے لیکن سردار کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا ۔۔

مصر میں مقیم اسکی پوری فیملی آچکی تھی آخر اتنی بڑی خبر کیسے چھپی رہ سکتی تھی ۔۔


تیمور فون کان سے لگائے راہدری سے گزر رہے تھے جب رائنہ سے ان کا سامنا اچانک ہوا تھا ۔

رائنہ اور وہ ٹھٹھک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے ۔

تیمور خانم ساکت ہوئے تھے برسوں بعد اپنی محبت کا چہرہ دیکھ کر ۔۔

رائنہ نے ہونٹ بھینچے ۔

چڑہا دیا میرے بیٹے کو موت کی سولی پر کان کھول کر سنو لو تیمور خانم میرے بیٹے کو اگر کچھ ہوا نا تو بخشوں گئی نہیں تمہِیں یاد رکھنا تم۔

نفرت سے پ انہیں دیکھتی وہ کہہ کر رکی نہیں تھی۔

تیمور نے سنجیدگی سے اسکی پشت دیکھی پھر فون دوبارہ سے کسی کو ملاتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا ۔

_______________________________


سفید چادر سر پر مضبوطی سے اوڑھے وہ سجدے میں تھی ۔۔

آنکھیں متورم تھیں تو ستواں ناک سرخ ۔۔

اللہ سے اپنے مخاظ کی زندگی کی دعا کرتی وہ بیڈ پر لیٹ گئی ۔

سب اسے اور فبیہا کو وہی چھوڑ آئے٠پ تھے کہ فبیہا تو دوسرے شہر کسی کام کے سلسلے میں تھی اور ہیر کے مڈٹرم چل رہے تھے تو سب نے اسے ساتھ لے جانا بہتر نہیں سمجھا تھا وہ بھی کچھ نہیں بولی بس خالی خالی آنکھوں سے کمرے میں بند اسکی تصویر پر نظریں جمائے بیٹھی رہی تھی۔

ُوہ اکیلی تھی گھر پر تب ہی وہ ٹھٹھکی تھی لاونج میں کسی چیرز کی گرنے کی آواز آئی تھی۔

شاید فبیہا آپی آگئی ہوں ۔۔

وہ چپل پہنتی دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔

لاونج میں تو کوئی نہیں تھا ۔

وہ چاروں طرف نظر دوڑاتی ہوئی اپنا وہم سمجھتی ہوئی واپس کمرے کی طرف بڑھی تھی جب کسی نے درشتگی سے اسکی کلائی کھینچ کر اسے دیوار سےا لگایا تھا

ہیر کی چیخ بے ساختہ تھی ۔


________________________________


مہرینہ رات کے اندھیرے میں پلڑ سے ٹیک لگائے بیٹھی سگریٹ کے کش پر کش لگا رہی تھی وہ سخت ٹینشن میں تھی ۔

سردار اسے دل و جان سے عزیز تھا اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔

گھر کی خواتین اندر تھیں وہ باہر ہی بیٹھی ہوئی تھی ۔

بروان بالوں کی ڈھیلی سی پونی کیے کھلے ٹروزر پر وہ کھلی سے بلیک شرٹ پینے کافی رف سی لگ رہی تھی ۔

خیام !

اسے اندر آتا دیکھ کر وہ بے ساختہ اسے پکار بیٹھی تھی ۔

خیام کی آنکھیں بھی سوجی ہوئیں تھیں شاید وہ بھی ساری رات جاگتا رہا تھا۔


سردار اب کیسے ہیں ۔

وہ سگریٹ پیر سے مسلتی ہوئی اسکے قریب آئی تھی۔

ٹھیک ہیں وہ !

وہ اسکے ننگے پیر تاسف سے دیکھتا ہوا بولا تھا کہ وہ چاہے غریب تھا لیکن نفاست اس میں بہت تھی وہ کوئی بھی بے ترتیب چیز برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔

تم نا میرا نمبر نوٹ کرو سردار کی پکس بنا کر مجھے سینڈ کر دینا پلیزز۔

وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی تھی ۔

وہ سر ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا جبکہ وہ دوبارہ وہی بیٹھ گئی ۔


ماحول میں سوگواریت سی رچی ہوئی تھی ۔

__________________________


ہیر نے مچل کر اپنا آپ چھڑانا چاہا تھا ۔

لیکن بے سود رہا تھا ۔

وہ جو کوئی بھی تھا مضبوط جسامت کا تھا وہ ہیر کو لاونج میں پڑے صوفے پر پھینک کر اس پر جھپٹا تھا ۔

ایک دم چپ لڑکی آواز آئی تو گلہ کاٹ دوں گا ۔۔

وہ ہیر کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے داڑھا تھا ۔

ہیر ساکت آنِکھوں سے اسے دیکھتی ہلنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی ۔

وہ اسکی لینگوائج سے انجان تھی ۔

ہیر نے پورا زور لگا لیا لیکن وہ آدمی اس پر قابض رہا ۔

اللہ ۔۔

وّہ دل میں خدا سے فریاد کناں تھی ۔

فبیہا کا بدلہ میں تم سے لوں گا وہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتی ۔

وہ شاید اسے فبیہا کی بہن سمجھا تھا ۔


ہیر کی آستین اڈھیڑتا وہ چلایا تھا ۔

ہیر نے پورے زور سے اپنے واحد ہتھیاڑ کا استعمال کیا تھا۔

اسکی گردن پر اپنے دانتوں کا استعمال اس نے شدت سے کیا تھا ۔

وہ بلبلاتا ہوا ایک جھٹکے سے اس سے دور ہوا تھا ۔۔

ہیر موقعے کا فائدہ اٹھاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف دوڑی تھی وہ بھی گالیاں بکتا اسکے پیچھے دوڑا تھا لیکن تب تک وہ کمرے کا دروازہ لاک کر چکی تھی ۔۔

دروازہ کھولو بچ گرل۔

وہ دروازے پر ٹھوکڑ مارتا ہوا چلا رہا تھا ۔

ہیر دروازے سے پراں ہٹتی سردار کا نمبر ملانے لگی تھی ۔

وہ جانتی تھی کہ وہ ہوش کی دنیا میں نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی اسی کا نمبر ملا رہی تھی ،تھی نا بے وقوف ۔

خادم نے چونک کر اسکے بجتے فون کو دیکھا تھا کہ سردار کا فون اسی کے پاس تھا۔

کالنگ پر ہیر رضا لکھا آرہا تھا ۔

خادم نے ہونٹ کاٹ کر سردار کو دیکھا پھر وہ چونکا تھا سردار کی انگلی میں جنبش سی ہوئی تھی ۔۔

ڈاکٹر ،

فون پاکٹ میں ڈالتا ہوا وہ باہر کی طرف


دوڑا تھا ۔


ہیر باتھ روم میں کافی دیر چھپ کر بیٹھی رہی جب باہر بالکل خاموشی چھا گئی تو وہ واش روم سے باہر نکلتی بیڈ پر بیٹھ گٙی دل سوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا تھا ۔

کیا وہ مجھے مارنا چاہتا تھا لیکن کیوں میں نے اسکا کیا بیگاڑا تھا ۔

وہ خوف زدہ نظروں سے ارد گرد دیکھتی ہوئی بڑبڑا رہی تھی۔


:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::


سردار غاذان کی مومینٹ پر ڈاکٹرز حیران تھے ۔

اسکی حالت میں تیزی سے بہتری آرہی تھی ۔

اسے ڈاکٹر نے آئی سیو سے وی آپی روم میں میں شفٹ کر دیا تھا ۔

رائنہ اسکے پاس بیٹھی مسلسل اس پر کچھ نا کچھ پڑھ کر پھونک رہی تھی۔

اس نے صبح جا کر دھیرے سے آنکھیں کھولیں تھیں۔

ماں کو دیکھتا وہ دھیرے سے مسکرایا تھا جیسے خواب میں ہو۔

نئی زندگی میرے بیٹے کو مبارک ہو ۔

اسکے سر پر ہونٹ رکھتی وہ بھرائے ہوئے لب و لہجے میں بولیں تھیں۔

وہ چونک کر ماں کو دیکھنے لگا تھا ۔


آپ یہاں ،

وہ حیرت سے آہستگی سے پوچھ رہا تھا ۔

کیا اب بھی نا آتی ۔

وہ نم زدہ لہجے میں بولیں تھیں ۔

وہ گہری سانس لیتا تکلیف سے آنکھیں موند گیا تھا ۔

غاذان کہی تکلیف ہے بیٹا ۔

وہ ماں تھی بیٹے کے چہرے پر چھائے درد والے تاثرات انہیں پریشان کر گِے تھے ۔

موم بیٹر ہوں کہی تکلیف نہیں ڈونٹ وری آپ ریسٹ کریں جا کر آئی نو آپ نے اریسٹ نہیں کیا ہو گا ۔

وہ انکا ستا ہوا چہرہ دیکھتا پریشانی سے بولا تھا۔

وہ اسکا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگاتی سر نفی میں ہلا گئی ۔

موم ہیر ۔۔۔۔؟


وہ ان سے پوچھ رہا تھا خود وہ تکلیف کی انتہا پر تھا لیکن پھر بھی اسے ہیر کی فکر تھی ۔۔

وہ مصر ہی ہے ڈونٹ وری فبیہا اسکے ساتھ ہے باقی سب ابھی گِے ہیں ہوٹل آرام کرنے تم بھی آرام کرو ۔۔


اس سے کہتیں وہ دور پڑے صوفے ہر دراز ہوئیں تھیں ۔

تب ہی تیمور خانم اندر آئے تھے ۔


وہ انہِیں دیکھتا مسکرایا اسکا ہمیشہ ٹور میں رہنے والا باپ آج وہ بھی رف سے خلیے میں تھا ۔۔

کیسے ہو !

شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بولے تھے ۔

وہ مسکرا کر سر ہاں میں ہلا گیا ۔

رائنہ انکی بھاری آواز پر منہ سامنے دیوار کی طرف موڑ گئیں ۔۔


________________________________


مجھے پاکستان جانا ہے۔

وہ فبیہا سے ضد بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی ۔

وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

لیکن ہیر تمہارے پیپرز چل رہے ہیں نا۔

وہ فکرمندی سے بولی ۔

مجھے نہیں دینے پیپرز آپ مجھے واپس بھیجوا دیں پلیزز ورنہ میں خود ہی بندوبست کر لوں گئی ۔

وہ قطیعت بھرے لہجے میں کہتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھی تھی ۔

کہاں جا رہی ہو ؟

فبیہا نے حیرت سے پوچھا ۔

پیکنگ کرنے آپ میری پہلی جو بھی فلائٹ ملتی ہے سیٹ کروا دیں آپ کے تو کافی دوست ہیں نا اس لائن میں۔

وہ کہتی ہوئی کمرے کی طرف چلی گئی۔

فبیہا پیچھے ہکا بکا رہ گئی،

پھر نا چاہتے ہوئے بھی اپنے فرینڈ سے کہہ کر اسے فلائٹ میں جگہ دلوا دی تھی اسنے وہ خود بھی ہیر کو منظر سے غائب کرنا چاہتی تھی کہ وہ سارا سارا دن گھر سے غائب رہتی تھی اور جان پر اسے کوئی خاص بھروسہ نہیں تھا ۔

آپی آپ !

وہ حیرت سے اسے دیکھتا ہوا اسکی طرف دوڑا تھا ۔

خیام!

وہ اسکے سینے سے لگتی بے ساختہ رو دی تھی ۔

آپی کیا ہوا ہے یوں اچانک کیسے آگئی آپ ۔

وہ اسے خود سے الگ کرتا ہوا پریشانی سے بولا تھا ۔

خیام میں وہاں نہیں رہ سکتی پلیز مجھے اپنے پاس رکھ لو مِیں یہی دل لگا کر پڑھوں گئی تمہیں یا سردار کو کوئی شکایت کا موقع نہیں دوں گئی ۔

اسکے ہاتھ تھامتی وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔

خِیام نے پریشانی سے اسے دیکھا کیا وہاں آپی کے ساتھ کچھ ہوا ہے ۔

وہ اسکی حالت دیکھتا ہوا پریشان ہو اٹھا تھا ۔۔

وہ اسے لیے اندر کی طرف بڑھ گیا تھا چہرے پر پریشانی چھا گئی تھی ،


وہ گھٹنوں کے گرد ہاتھ باندھے اس خوفناک رات کے بارے میں سوچنے لگی تھی اسے یہی لگ رہا تھا کہ وہ آدمی اسے مارنا چاپتا تھا اسکا کم سن دماغ کچھ اور سوچ ہی نہیں سکا تھا ۔۔


میں سردار کو کہہ دوں گئی مجھے نہیں جانا وہاں چاہے کچھ بھی ہو،

یہاں خیام ہے وہ ہیں جنہیں جب دل کرئے دیکھ تو لیتی ہوں وہاں کون ہے میرا میں نہیں رہ سکتی وہاں ۔

وہ ڈرے سہمے لہجے میں خود سے بولتی ایسے ہی بیڈ سے ٹیک لگائے سو گئی کہ وہ تین راتوں سے جاگ رہی تھی ۔۔

ایک سردار کی ٹینشن پھر اس آدمی کا خوف۔

وہ کیسے سو سکتی تھی وہاں یہاں کی فضا میں اسے تخفظ کا احساس ہوا تھا کسی کے ملنے کی امید برقرار تھی پھر وہاں دل کیسے لگتا اسکا ۔۔

____________________________


سردار کو تین چار دن بعد ہسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا ۔

اسے ٹھیک سلامت دیکھ کر رائنہ نا چاہتے ہوئے بھی واپس لوٹ گئی کہ اس محل میں وہ نہیں جانا چاہتیں تھیں ہیر کا کسی کو پتا نہیں تھا کہ وہ پرسوں سے واپس آچکی ہے نا ہی خیام نے بتایا وہ کب اپنی آپی کو نگاہوں سے دور کر سکتا تھا ۔۔۔


اسکے محل میں اینٹر ہوتے ہی اس پر پھولوں کی بارش برسا دی گئی تھی کئی لاکھ اس پر سے وار کر غریبوں مسکینوں کو دئیے گئے تھے ۔

محل میں صبح سے دیگیں پک رہیں تھی ملنے ملانے والوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا تھا ۔

وہ کسی سے نہیں ملا تھا وہ بیزار ہو چکا تھا اس ماحول سے۔

سب آنے والوں سے تیمور اور سہیر خانم ہی ملتے اور اسکی خیریت سے آگاہ کرتے رہے تھے ۔۔


مہر ٹھیک ہوں میں رو کیوں رہی تھی۔

اسکی آنکھیں پونچھتا وہ ازلی نرمی سے بولا تھا جو اسے مہر سے محسوس ہوتی تھی۔

آپکو اگر کچھ ہو جاتا تو ۔

وہ نم زدہ لہجے میں پوچھ رہی تھی۔

کچھ نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی جاتا تو اسی میں ہتری ہوتی ہماری اور ہاں مہر سب سے زیادہ تمہاری بلیک ہاٹ کافی کو مس کیا ہے میں نے جاو شاباش جلدی سے جا کر میرے لیے بناو لاو۔

وہ شفقت سے اسکا سر تھپکتا ہوا بولا تھا ۔

مہرینہ آنسو صاف کرتی ہوئی مسکرا دی ۔

ایک منٹ مہرینہ ،

اسنے کچھ یاد آنے پر اسے روکا تھا

جی!

کیا تمہیں اسیر عالم پسند ہے ۔

وہ اسکا چہرہ غور سے دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

مہرینہ نے سر جھکا لیا۔

مہرینہ اسے میں کیا سمجھوں ۔

وہ نرم لہجے میں نا سمجھی سے پوچھ رہا تھا۔

اگر آپکو پسند ہے تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔

وہ دھیمے لہجے میں کہہ کر وہ وہاں رکی نہیں تھی خیر اعتراض تو اسے بہت سارے تھے لیکن ابھی خاموشی ہی بہتر تھی۔۔

جبکہ وہ سر جھٹکتا ہوا مسکرا دیا تھا ،


؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛


شائنہ اسی دن سے سردار محل تھی وہ ہر کام میں آگے آگے تھی اسے سردار کی نظروں میں آنا تھا اپنا مقام بنانا تھا اسکے کھانے پینے کا سارا دھیان وہی رکھ رہی تھی ۔۔


خیام کے پیپرز چل رہے تھے تو سردار نے اسے تب تک چھٹیاں دے رکھیں تھیں ۔۔


مہرینہ اور اسیر عالم کا نکاح طے پایا گیا تھا سردار کے ٹھیک ہونے کے بعد۔۔

مہرینہ نے تیکھی نظروں سے سب سے پیار لیتے اسیر کو دیکھا تھا پتا نہیں کیوں دل اسے اپنا ہمسفر بنانے پر رضا مند نہیں تھا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔۔

____________________


ہیر بھاگنے لگی تھی جب رانا سرعت سے اسکے آگے آیا تھا وہ ایک دم سے ساکت ہوئی تھی اسکی آنکھوں میں جلتے شعلے دیکھ کر ،

ہیر علی رضا اتنی جلدی بھول گئی مجھے ناٹ فیئر احسان کیا تھا میں نے تم پر کیا بھول گئی یا پھر وہ کیس کی فائل ری اوپن کرواو۔

وہ اسکے قریب آتا سرد لہجے میں بولا تھا ،

ہیر نے تھوک نگلتے ہوئے اسے دیکھا اسکی سمجھ سے باہر تھا بار بار اپنے راستے میں اسکا آنا پھر دھمکی وہ کچھ بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی ۔

آپ پلیزز مجھے بخش دیں میں کوئی چور وور نہیں ہوں۔

وہ ارد گرد دیکھتی ہوئی منمنائی تھی۔

واوا ہیر رضا کو تو مصر جا کر بولنا بھی آچکا ہے ۔

وہ بھرپور طنز سے بولا تھا۔

اسکے مصر کہنے پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی کہ بھلا اسے کیسے پتا لگا تھا مصر کے بارے میں ۔

کیوں پریشان کیوں ہو گئی تمہاری پل پل کی خبر رکھتا ہوں میں ۔

وہ اسے پیچھے ہٹتا دیکھ کر خاصے غصے سے بولا تھا۔

آپ کیا چاہتے ہیں۔

وہ پریشانی سے بولی تھی۔

وقت ُآنے پر بتاوں گا ابھی تو میں صرف تمہیں ملنے آیا تھا جلد ملاقات ہو گئی گڈ بائے۔

سرد لہجے میں کہتا وہ وہاں سے عجلت میں نکلا تھا کہ تین گاڑیاں ہوٹل میں بیک وقت داخل ہوئیں تھیں اور وہ جانتا تھا یہ گاڑیاں کس کی ہیں ۔

ہیر وہاں سے بھاگتی اندر ہال میں آئی تھی ۔

یہ آخر کیا چاہتے ہیں مجھ سے۔

وہ لب کچلتی ہوئی پریشان ہوئی تھی ۔


ہیر !


ہوا کا ٹھنڈا جھونکا کسے کہتے ہیں کوئی اس وقت ہیر سے پوچھتا ،

وہ اپنی سماعتوں پر وہم کرتی ایک جھٹکے سے پلٹی تھی،

وہ ہاف وائٹ شرٹ ، بلیک پینٹ میں ملبوس انتہا کا ہینڈسم لگ رہا تھا ،

چار گاڑڈز تھے اسکے پیچھے جنہیں پیچھے ہی رکنے کا کہتا وہ اسکے پاس سے گزر گیا تھا ،

ہیر جھٹکے سے اس سمت مڑی جہاں وہ گیا تھا ،

وہ کچھ دیر اسکی پشت دیکھتی وہی کھڑی رہی ۔۔

ہیر!

اسکی تنبیہی آواز پر وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں اسکے پیچھے بڑھی تھی۔

وہ ایک گول سے بنے روم میں آیا تھا۔

ہیر کی نظریں اسکے بازو پر تھیں جس پر سفید پٹی بندھی ہوئی تھی آج آٹھ دن ہو چکے تھے اس پر حملہ ہوئے آج صبح ہی رائنہ نے بتایا تھا کہ ہیر کو تو تین دن ہو چکے ہیں پاکستان آئے وہ حیران رہ گیا تھا اسے خبر تک نہیں تھی اور اسکے ایگزام بھی تو چل رہے تھے تو پھر وہ کیسے آسکتی تھی۔


مصر سے کب آئی۔

وہ اسکی طرف پلٹتا سرد لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

وہ پریشان ہوتی انگلیاں مڑوڑنے لگی تھی۔

ہیر میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے کہ کب آئی تم مصر سے ؟

وہ اسکے قریب آتا ہوا بے لچک لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

تین دن پہلے،

وہ ڈرے سہمے لہجے میں سر جھکائے بولی تھی ۔

وہ لب بھینچتا تندہی سے اسے دیکھنے لگا تھا ۔

کیوں !

وہ صوفے پر بیٹھتا ہنوز سرد لہجہ اپنائے ہوئے تھا۔

ہیر کیوں آئی تم مصر سے جب تمہارے ایگزام چل رہے تھے کیا وجہ تھی آخر بتانا پسند کرو گئی تم،

اسکے درشت لہجے پر وہ ڈر کے مارے اچھل کر رہ گئی تھی،

آنکھیں تیزی سے بھیگنے لگیں تھیں ،

ہیر کچھ پوچھ رہا ہوں میں ۔

وہ زچ ہوا تھا اسکی خاموشی پر۔

مجھے نہیں جانا وہاں مجھے یہی رہ کر پڑھنا ہے میں نہیں جاوں گئی وہاں ۔

وہ شوں شوں کرتی ہوں بولی تھی ،

آنسو گالوں پر لڑکھ آئے تھے۔

وہ تیکھی نظروں سے اس بے وقوف لڑکی کو دیکھنے لگا انداز میں تیکھا پن سا تھا۔

کیوں نہیں جانا وہاں، وجہ بتانا پسند کریں گئیں ہیر رضا۔

وہ بھرپور طنز سے بولا تھا۔

وہ وہ وہاں میرا دل نہیں لگتا خیام بھی نہیں ہوتا آپ بھی نہیں ہوت۔ ۔۔۔۔

وہ بے ساختہ بولتی ہوئی زبان دانتوں تلے دبا گئی تھی جبکہ سردار غاذان نے چونک کر اسے دیکھا ۔

اس نے آئی برو اچکائے پھر اسکے قریب آیا ۔

سامان پیک کرو اپنے پرائیوٹ طیارے سے چھوڑ کر آوں گا میں تمہیں۔

اسکے قریب رکتا وہ اسکے جھکے سر کو دیکھتا ہوا درشت لہجے میں بولا تھا ۔


ییر کا دل ڈوبنے لگا تھا ،

وہ کیا کرئے کہ اسکے پاس ہمیشہ اسکے قدموں میں پڑی رہے آخر وہ کیا کرئے ۔۔

وہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی کہ وہ رونے پر قابو نہیں پا سکی تھی۔

ہیر!

وہ لب بھیبچتا حیرت سے اسے پکار گیا تھا ۔

مجھے یہی رہنا ہے اپنے وطن اپنوں کے پاس مجھے وہاں مت بھیجیں ۔

وہ روتے ہوئے بولی تھی چہرہ ہنوز جھکا ہوا تھا کمزور وجود رونے سے ہل رہا تھا ۔


وہ پریشانی سے اسکے لرزتے وجود کو دیکھتا رہا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ہیر کی کنڈیشن اسکی ضد۔ ۔

ہیر کیا وہاں کچھ ہوا جس سے تم خوف زدہ ہو ۔۔

وہ لب بھینچتے ہوئے یقین سے پوچھتا ہیر کا دل ساکت کر گیا ،

اس نے پہلی بار سر اٹھ کر اپنے سے کافی اونچے قد کے حامل شخص کو دیکھا جو قد میں ہی نہیں رتبے اور خیثیت میں بھی اس سے بہت اونچا تھا ۔

ہیر میں کچھ پوچھ رپا ہوں ناو ٹیل می کیا ہوا ہے وہاں ۔

وہ اسکے قریب آتا ہوا اس بار دھیمے لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔


کچھ نہیں ہوا بس مجھے وہاں نہیں جانا،

وہ پہلی بار سراسیمگی لیکن اٹل لہجے میں بولی تھی اب اسے کیا بتاتی کہ مجھے آپ کے پاس رہنا ہے یہاں تو پھر تین چار دن بعد آپکا چہرہ دیکھنے کو مل جاتا ہے وہاں تو امید ہی نہیں ہوتی دو چہرے دیکھنے کی۔


ہیر !

وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا تھا یہ ضد کرنا کہاں سے سیکھ لی تھی آخر اس نے۔

ہیر ارد گرد دیکھتی نظریں پھر سے فرش پر جما گئی ۔

سامان پیک کر کے لاو میں یہی ویٹ کر رہا ہوں۔

وہ سامنے کرسی کی طرف بڑھتا ہوا قطیعت سے بولا ۔

ییر کا دل کرلایا ۔

اس کے چہرے کے دلکش نقوش کو دیکھتی وہ بھاگ کر اسکے قدموں میں بیٹھی تھی ۔

غاذان نے ساکت نظروں سے اسے اپنے گھٹنے تھامتے دیکھا تھا ۔

آپ کو اللہ کا واسطہ ہے مجھے یہی رہنے دیں مت بھیجے دور میں وہاں خوش نہیں ہوں میں یہی پڑھ لکھ کر آپکا خواب پورا کروں گئی کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گئی چائے نہیں پیئیوں گئی دودھ دن میں تین بار پیئوں گئی کپڑے بھی فیشن ایبل پہنوں گئی یونی سے آپکو سٹڈی کے حوالے سے میری کوئی شکایت نہیں ملے گئی میں اچھی بچی بن کر رہوں گئی جو آپ کہیں گئے وہ کروں گئی آپکو ایک اچھی پائیلٹ بن کر دیکھاوں گئی آپکا یہی چاہتے ہیں نا ۔۔


اسکا گھٹنہ تھامے آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لیے وہ پگلی لڑکی بولے جا رہی تھی جبکہ وہ ساکت سا بیٹھا اسکے جھکے سر کو دیکھ رہا تھا جس کی سیدھی نکلی مانگ آج کچھ ٹیڑی میڑی سی تھی ۔۔


ہیر !

اسکے سنجیدگی سے پکارنے پر وہ چونک کر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی جو ابھی بھی اسکے گھٹنوں پر تھے ۔۔

اسنے ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ غاذان کے گھٹنوں سے ہٹائے تھے ۔۔

جی!

وہ اسکے چہرے کو دیکھتی ہوئی بولی تھی ۔

پیچھے ہٹو مجھے دیر ہو رہی ہے ۔

وہ اسکے بلکل قدموں کے درمیان میں تھی وہ ایسے اٹھ نہیں سکتا تھا اسے ہیر کا ایسے اپنے قدموں میں بیٹھنا بلکل پسند نہیں ایا تھا اور کچھ اسکی ضد ہر وہ غصہ تھا ۔۔

ہیر اٹھی نہِیں بس تھوڑا سا پیچھے کی جانب سرک تھی۔ ۔


وہ ایک جھٹکے سے کھڑآ ہوتا باہر کی طرف چلا گیا۔

دروازے کے ساتھ کھڑے باڈی گاڑد بھی سرعت سےا سکے پیچھے چوکنا چلنے لگے تھے ۔

وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی ہوئی رونے لگی تھی ۔۔

اسنے اپنے سردار کو ناراض کر دیا تھا ! وہ خود نہیں جانتی اس نے اتنا کچھ کیسے کہہ دیا وہ خود پر حیران سے زیادہ پریشان تھی اسنے انکی بات نہیں مانی تھی وہی تو دونوں کا سہارا تھے اور وہ انہیں ناراض کر چکی تھی۔۔

وہ رونے لگی تھی ہونٹوں پر ہاتھ رکھے وہ گھٹی گھٹی آواز میں سسکنے لگی تھی ۔

خادم نے تاسف سے اسکے وجود کو دیکھا تھا اسے اس پر بہت ترس آیا تھا ۔۔

_______________________________


سرادر کے مکمل صحت یاب ہوتے ہی محل میں مہرینہ کے نکاح کی تیاریاں شروع کر دی گئیں تھیں ۔

مہرینہ نے اپنی مرضی سے نکاح کی ساری شاپنگ کی تھی ۔

سردار کو ہیر سے ملے ہفتہ ہو چکا تھا وہ شاید اس سے ناراض تھا لیکن آج صبح اس نے بہت سارے پیپرز بھیجے تھے خیام کے ہاتّھوں ہیر کے لیے،

ایڈمشن پیپرز تھے اس نے اسکی پچھلی یونی میں ہی ایڈمشن کروا دیا تھا،

سردار غاذان کروایا تھا تّو ہو گیا ورنہ اسے ایک سال تک کا ویٹ کرنا پڑتا ۔۔

وہ ساکت سی بیٹھی رہ گئی وہ تو سمجھی تھی کہ شاید ہی وہ انہیں کبھی دیکھ سکے ، لیکن انہِیں اسکا احساس تھا اسکا وہ دھیرے سے ان بے جان کاغذ پر انگلیاں پھیرتی مسکرا دی ۔


صبح وہ چھ بجے ہی اٹھ گئی۔

پہلے شاور لیا کپڑے پریس کیے کھانا اس نے اور خیام نے اکھٹے ہی کھایا تھا خیام ریلکس تھا اسے اپنے سامنے دیکھ کر ورنہ وہ پہلے خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگا تھا ہیر کے وجود سے اسے اپنے اکیلے ہونے کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔

بلیک کیپری پر بلیک ہی گھٹنوں تک آتی قمیض پرپل کا دوپٹہ بالوں کو ایسے ہی پونی میں قید کر لیا بلیک لیدر کا بڑا سا بیگ جس میں اسکے کورس کی کتابیں تھیں ۔

کالی سینڈل پہنتی وہ باہر بھاگی تھی خیام نے قسطوں پر بائیک لی تھی تو وہ آج اسی کے ساتھ جا رہی تھی ۔۔

بائیک پر بیٹھنے کا تجربہ پہلی بار کیا تھا اس نے ۔

خیام مجھے صحیح سے بیٹھنا نہیں آرہا اور اگر تم نے مجھے گرا دیا تو ۔

وہ پریشان ہوئی تھی۔

ٹرسٹ می آپی نہیں گرواوں گا آپ بس ٹھیک سے پیچھے بیٹھے اور میرے کندھے کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ۔

اس نے بائیک کو سٹارٹ کرتے ہوئے مدھم مسکان سے اسے ہدایت دی ۔۔


وہ اسکے کندھے کو جھکڑتی اللہ رسول کا نام لیتی ہوئی بیٹھ گئی۔

خیام نے بائیک کی سپیڈ سلو ہی رکھی تھی ۔

ہیر میں بہت اعتماد آچکا تھا شاید یہ اعتماد اس میں اچانک سے آنا اس شخص کے نرمی کا نتیجہ تھا ۔۔


بائیک پر اسے مزہ بھی بہت آرہا تھا ۔

آپی وہ دن بھی آئے گا جب میں کار لوں گا اور آپ اس میں میرے ساتھ دور تک سفر کیا کریں گئیں ۔

وہ آنکھوں میں امید کے جگنو لیے اپنی بہن سے مخاطب تھا ۔

ہیر کی آنکھیں جھلملا گئیں تھیں کاش آج چاچی امی ساتھ ہوتیں تو کتنی خوش ہوتیں انہیں دنیا کے ساتھ آگے بڑھتا دیکھ کر ۔۔

وہ انہیں سوچوں میں تھی جب ٹریفک جام ہوا تھا ۔

آپی سردار غاذان کی گاڑی !

خیام کے اچانک سے کہنے پر وہ بے ساختہ پاگلوں کی طرح چاروں طرف دیکھنے لگی تھی چار پانچ گاڑیاں آگے پیچھے چل رہیں تھیں۔

او تو س لیے ٹریفک جام ہوا تھا ۔۔

وہ پیچھے بیٹھا فون کان سے لگائے ہوئے تھا ساتھ تیمور خانم بھی تٙھے ،

ہیر کا دل دھڑک اٹھا تھا ۔

وہ فون کال میں بزی تھا لیکن ہیر اور خیام کو وہ ایک نظر دیکھ چکا تھا ۔۔

انکی گاڑیاں گزرتے ہی ٹریفک کھل چکا تھا ۔

آپی چلیں ۔

ّوہ مسکراتے لہجے میں ہیر کو ٹہکا مار گیا تھا۔

ہاں چ چ چلو۔ ۔

بھوکھلا کر کہتی وہ سرعت سے اسکے پیچھے دوبارہ سے بیٹھی تھی۔


خیام مسکرا دیا ،

اسکے یونی کے دروازے کے سامنے ابھی رکا ہی تھا جب خیام کا فون دھیمی آواز میں بجنے لگا تھا ۔

سردار ہیں ،

خیام نے موبائیل نکالتے ہوئے اسے بتایا ۔

ہیر دھڑکتے دل کے شور سے گھبراتی سر جھکا گئی ۔۔

جی سردار ابھی پہنچا ہوں اوکے جیسے آپکو مناسب لگے ،


وہ آخر میں کہتا فون بند کر گیا تھا ۔

ہیر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔

سردار کا فون تھا وہ کہہ رہے ہیں آپکو لینے اور چھوڑنے خادم آیا کرئے گا۔ ۔

اسنے اسکی سوالیہ نظروں کو پڑھتے ہوئے اسے بتایا ۔

وہ سرخ چہرے سے اسے اللہ خافظ کہتی اندر کی طرف بڑھ گئی تھی،


______________________________


مہرینہ کے نکاح کی تیاریاں عروج پر تھیں بہت ساری خاص جگہوں پر دعوت نامے بجھوائے گئے تھے ۔

پورے محل کو لائٹوں اور قمقموں سے سجایا گیا تھا ۔۔

وہ ہاف وائٹ لہنگے پر ڈارک گلابی کامدار چنڑی اوڑھے ہلکے ہلکے میک اپ میں فل جیولری پہنے کسی ریاست کی شہزادی ہی لگ رہی تھی ۔۔۔

اسیر بھی اس سے کم نہیں لگ رہا تھا ہاف وائٹ سوٹ پر براون واسکٹ پہنے وہ بھی بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔

ماحول میں بہت رونق تھی ۔

وہ اب خوش تھی اچھا تھا اس قید خانے سے آزادی تو ملتی ، وہ کھل کر جیتی بنا کسی روک ٹوک کے ۔

اسکے چہرے پر ایک مدھم سی حسین مسکراہٹ تھی ۔

ہیر نے ساری جگہیں دیکھ لیں لیکن مہرینہ اسے کہی نہیں ملی تھی ۔

وہ مایوس ہو کر اپنی کلاس میں چلی گئی۔

وہ پھر سٹڈی میں ایسی مصروف ہوئی کہ لنچ کا بھی ٹائم نہیں ملا اسے ۔


چھٹی ٹائم وہ باہر آئی تو وہاں خادم محمد پہلے سے ہی کھڑا اسکے انتظار میں تھا ۔

وہ جھجھکتی ہوئی اسے اسلام کرتی اسکے کھولے ہوئے ڈور سے اندر بیٹھ گئی ۔


وہ یہاں آکر خوش تھی لیکن ایک خلش بھی تھی کہ وہ سردار کو ناراض کر چکی ہے لیکن وہ دل کے ہاتھوں محببور تھی ۔

رانا نے مسکرا کر اسکی جاتی گاڑی کو دیکھا ۔

ہیر بس کچھ دن اور اسکے بعد تم اُس سردار کی گاڑی میں نہیں میری گاڑی میں بیٹھا کرو گئی ۔۔

گاڑی کو وہاں سے نکالتا رانا طنزیہ مسکان سے بولا تھا۔

اسے اب ہیر حاصل کرنی تھی اسے سردار کو نیچا دیکھانا تھا تھا اور اس سے بہتر اور بھلا کیا طریقہ تھا کہ سردار کی بیوی ایک دن اسکی بیوی بنے ۔ ۔

واوا

کیا پلین تھا اسکا ۔

_________________________________

مہرینہ اور اسیر کا جیسے ہی نکاح ہوا سماں میں مبارک سلامت کی آوازیں ایک ساتھ گونجنے لگیں تھیں ۔

نکاح کے بعد مہرینہ کو اسیر کے ساتھ بٹھایا گیا تھا۔

مہرینہ کے ہونٹوں پر ایک مدھم سی مسکان تھی ۔

وہ جب سٹیج پر آئی تو اسیر عالم نے اسکا اٹھ کر استقبال کیا ۔

اسکا ہاتھ تھام کر سردار غاذان نے اس کی سٹیج پر چڑنے میں مدد کی تھی ۔

اسکا ہاتھ تھامے ہی وہ اسے اسیر کے ساتھ والے صوفے پر بٹھا چکا تھا ۔


مہرینہ ہاف وائٹ سوٹ میں کمال کی لگ رہی تھی کچھ آج اسکے چہرے پر شرمیلی سی مسکان بھی تو تھی،

وہ واقعے ہی آج پہچانی نہیں جا رہی تھی نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔

شائنہ بھی اسکے ساتھ آکر کھڑی ہوئی تھی۔

وہ وائٹ سوٹ پر گرین کامدار دوپٹہ لیے انتہا کی حسین لگ رہی تھی،

سردار نے ایک نظر اسے دیکھ کر مروت سے مسکراہٹ پاس کی تھی ۔

شائنہ کے لیے یہ بھی بہت تھا وہ کھل اٹھی تھی ۔


ریاض خانم کی نظریں ثمرینہ پر تھیں جو اس دن سے محل میں آئی واپس نہیں گئی تھی انہِیں اس پر غصہ تو بہت تھا لیکن کیا کرتے وہ اس پر یہاں چلا نہیں سکتے تھے۔۔

شاید وہ اسکے وجود کا عادی ہو چکا تھا کہ اسے اب وہ گھر ثمرینہ کے بغیر ادھورا سا لگ رہا تھا۔

ثمرینہ با خونی خود پر ریاض خانم کی نظرِیں محسوس کر سکتی تھیں ۔۔

لیکن جان کر بھی انجان بنی رہی۔۔


سردار غاذان نے بھاری نوٹوں کی گدی ان دونوں پر سے وار کر غریبوں میں تقسیم کیے تھے ۔


شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے۔

اسیر کا گھمبیر لہجہ پہلی بار اسکے دل میں کوئی کلی کھلا پایا تھا ۔

وہ دھیمے سے مسکرا دی ۔

کیا تم کچھ نہیں بولو گئی۔

وہ شاید اسکی ّآواز سننا چاہ رہا تھا۔

جبکہ وہ شرارت سے سر نفی میں ہلا گئی ۔

یار میرا اب دل نہیں لگے مصر میں تمہارے بنا اب جاتے ہی سب سے پہلے میں رخصتی کی بات کروں گا غاذان سے ۔

وہ دھیمے دھیمے بولتا مہرینہ کا دل دھڑکا رہا تھا ۔

وہ سر جھکا گئی شرمیلے پن سے چہرے پر سرخی سی چھا گئی تھی۔

مجھے یاد کرو گئی نا ,

اسکے گھمبیر لہجے میں پوچھنے جانے پر وہ آہستہ سے سر نفی میں ہلا گئی ۔

جبکہ اسیر آسودگی سے مسکرا دیا کہ مہرینہ سے اسے پہلی نظر میں محبت ہوئی تھی اور وہ اسے اچھی بھی تو بہت لگی تھی باقی لڑکیوں سے تھوڑی مختلف تھی وہ۔۔۔۔


سردار غاذان نے آسودہ سی مسکان سے مہرینہ کے ہونٹوں پر سجی مسکان دیکھی تھی۔

ایسے ہی تو نہیں اس نے اسیر کا انتخاب کیا تھا اپنی مہرینہ کے لیے ،

وہ ایک بہت اچھا انسان تھا وہ مہرینہ کو ہمیشہ خوش رکھتا وہ جانتا تھا لیکن انسان کی تدابیر نہیں چلتی ہوتا وہی ہے جو خدا کی مرضی ہو کون جانے اس کی قسمت میں کیا لکھا تھا اور کیا نہیں رب ہی جانے ہم انسان تو صرف منصوبے ہی بنا سکتے ہیں۔۔۔


________________________________


ہیر کو یونی جاتے مسلسل چار دن ہو گئے تھے پانچویں دن جا کر اسے مہرینہ ملی تھی ۔

مہرینہ چونک گئی تھی اسے یونی میں دیکھ کر آج تو شائنہ بھی یونی آچکی تھی ۔

ہیر کو دیکھ کر وہ لب بھینچ کر رہ گئی پھر کچھ سوچتے ہوئے وہ مسکرا دی اب آئے گا مزہ ۔

وہ کمینگی سے بڑبڑا کر رہ گئی تھی ۔

مہرینہ کو ہیر نے بتا دیا تھا کہ وہ مصر سے لوٹ آئی ہے اور اب یہی پڑھے گئی ۔


مہرینہ اور ہیر میں کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی ،

ہائے !

وہ نوٹ بنا رہی تھی جب جانی پہچانی آواز پر اس نے حیرت سے چہرہ سامنے والی کی طرف اٹھایا تھا ۔

سامنے ہی سرخ سوٹ میں ملبوس کوئی اور نہیں ساریا ہی تھی۔

ساریا تم یہاں کیسے۔

وہ دنگ نظروں سے اسے دیکھتی حیرت سے کھڑی ہوتی پوچھ رہی تھی ۔

بس وہاں دل نہیں لگا تو تمہاری طرح واپس آگئی اور یہی اپنے شہر ایڈمشن لے لیا پہلے میں دوسری یونی میں تھی لیکن اس بار شاید ہمیں ملنا تھا اس لیے میں نے ضد کر کے یہی پر ایڈمشن لے لیا۔

وہ اسکے ساتھ بیٹھتی خوش اخلاقی سے بولی تھی ۔

ہیر دل سے مسکرا دی ۔۔۔

ساریا بھی کھل کر مسکرائی تھی۔

اب وہ دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنا سٹارٹ کر چکیں تھیں ۔۔

۔

__________________________


سردار کو دیکھے آج ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا دل کے دیپ بجھ سے گئے تھے بنا انہیں دیکھے ۔

کیا وہ اب مجھ سے کبھی بات نہیں کریں گئے ۔

گاڑی میں بیٹھی وہ آفسردگی سے سوچ رہی تھی جب گاڑی ایک دم سے روکی تھی ۔

ہیر میم آپ یہی بیٹھیں مجھے کچھ اہم فائلز سردار کو دینی ہیں جو میں گھر سے لے کر آیا تھا آپ پانچ منٹ ویٹ کریں میں ابھی آتا ہوں انہیں دے کر ۔

وہ عجلت سے کہتا تین چار فائلز ہاتھ میں لیے ایک اونچی بلڈنگ کی طرف بڑھ گیا تھا ۔

وہ حیرت سے اس ایریے کو پہلی بار دیکھ رہی تھی اس نے پہلی بار سردار غاذان کا دفتر دیکھا تھا ۔

کافی سخت سکیوڑتی تھی وہاں اونچی شاندار عمارت دیکھنے والوں رشک میں ڈال دیتی ۔

وہ عمارت کو محبت کی نگاہ سے دیکھتی ایسے ہی گاڑی سے بار نکل آئی تھی۔۔


وہ بلیک شال سر پر اچھے سے لیے ہوئے تھی بلیک ہی سادہ سا سوٹ پہنے وہ عام سی ہی لگ رہی تھی ۔


سردار آپکی فائلز ۔

خادم نے مصروف سے سرادر کو ادب سے مخاطب کیا وہ شاید کسی بہت اہم فائل میں بزی تھا کہ اسے کافی پینے کا بھی ہوش نہیں رہا تھا ۔

سردار نے سر اٹھ کر اسے دیکھا ۔

رکھ دو اور ہاں ہیر کو چھوڑ آئے ہوٹل۔

وہ فائل میں کچھ لکھتا مصروف سے انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا ٹائی کی نوٹ کافی ڈھیلی ہو چکی تھی سلیوز کہنیوں سے اوپر تک موڑ رکھیں تھیں شاید وہ واقعے بہت بزی تھا ۔

نہیں سردار وہ ساتھ ہی ہیں میں نے سوچا پہلے آپکو فائل دیتا چلوں ۔

خادم کے سر جھکا کر کہنے پر اسکی کشادہ پیشانی پر کئی بل اچانک ہی نمودار ہوئے تھے۔

گاڑی تم ڈرائیو کرتے ہو ۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔

نہیں سردار ڈرائیور ہی کرتا ہے ۔

اس نے مستعدی سے جواب دیا ۔

تو گاڑی میں پٹرول تم ڈلواتے ہو گئے ۔

فائل بند کرتا کرسی سے ٹیک لگاتا وہ سپاٹ سے انداز میں پوچھ رہا تھا ۔

خادم نے حیرت سے سر نفی میں ہلایا تھا۔

تو پھر تمہیں کیا پرابلم تھی جب میں نے کہا تھا کہ ہیر کو پہلے چھوڑ کر آنا پھر مجھے فائلز دینے آنا تو کیا مسلہ تھا کیا تمہیں پیدل چل کر آنا تھا جو ایک ساتھ دو دو کام نمٹا رہے تھے ۔

وہ سرد لہجے میں اس سے باز پرس کر ریا تھا ۔

خادم خوف سے سر جھکا گیا ۔

وہ اسے گھورتا دراز گلاس وال کے قریب آیا تھا ۔

وہ چونکا تھا ۔

وہ بے وقوف لڑکی گاڑی سے باہر کھڑی ارد گرد بے وقوفوں کی طرح دیکھ رہی تھی ۔

جاو ہیر کو بلا کر لاو اور آئندہ ایسی غلطی کی تو پھر اپنی سزا بھی سوچ لینا ۔

اسکے سنجیدگی سے کہنے پر وہ انہیں دیکھتا سرعت سے کمرے سے بھاگا تھا ۔

کیا ضرورت تھی گاڑی سے نکلنے کی سلی گرل لگتا ہے اوپر والا خانہ خالی ہے اسکا ۔

وہ غصے سے سوچتا واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھا تھا۔


ہیر نے حیرت سے خادم کو دیکھا ۔

کیا وہ بہت غصے میں ہیں ۔

اسکے پیچھے آتی وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی ۔

ہاں غصے میں تو بہت لگ رہے ہیں ۔

وہ سنجیدگی سے جواب دیتا سیڑیوں کی طرف بڑھا۔

اب اسے ہیر کے لیے سیڑیاں چڑنا تھا ۔

وہ بیس منٹ میں تیسرے فلور پر آئے تھے ہیر ہانپنے لگی تھی گہرے گہرے سانس لیتی اسکے بتائے ہوئے روم پر کانپتے ہاتھوں سے نوک کرنے لگی تھی ۔۔


یس کم ان !

اندر سے آتی گھمبیر آواز پر اسکا دل زوروں سے رفتار پکڑ چکا تھا ۔

ہیر جھجھکتے ہوئے اندر آئی تھی ۔

وہ لیپ ٹاپ سامنے رکھے اسے پر مہارت سے انگلیاں چلاتا ہوا اسے کھڑا دیکھ کر اسکی طرف متوجہ ہوا تھا۔

آوّ!

وہ سیکٹری کا دوبارہ سے رکھا کافی کا کپ پکڑتا ہوا بولا تھا ۔

وہ لرزتے قدموں سے اس کی طرف بڑھی تھی۔

بیٹھو!

سامنے پڑی چیئر کی طرف اشارا کرتا ہوا وہ بولا تھا۔

ہیر سر جھکائے بیٹھ گئی۔

ہاتھوں کی انگیاں مڑوڑتی ہوئی وہ سخت نروس تھی۔

ہیر انگلیاں مت چٹخایا کرو یہ بیٹ ہیبٹ ہے اور گناہ بھی ہے۔

وہ ٹوک گیا تھا ۔

سرعت سے انگلیاں جہاں تھیں وہ وہی ساکت کر گئی تھی ۔

کچھ کھاو گئی۔

اس بار وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔

نہیں!

سر نفی میں وہ ہلا گئی۔

کینٹین سے لنچ کرتی ہو ۔

وہ ایسے سوال پوچھ رہا تھا جیسے کسی بچے سے مخاطب ہو اور سچ ہی تھا ہیر اسکے لیے ایک بچی ہی تو تھی۔

جی کرتی ہوں ۔

وہ دھیمی آواز میں بولی۔

کیا !

کافی پیتا جیسے اب وہ فارغ تھا کوئی کام نہِیں تھا شاید اسے کیونکہ وہ فرصت سے ہیر سے مخاطب تھا ۔

چاٹ یا پھر سموسے وغیرہ ۔

وہ گہری سانس لیتی ہوئی بولی۔

ہیر تم جانتی ہو ایسی تیکھی چیزوں سے ہی معدہ خراب ہوتا ہے اور چہرے پر پیمپلز وغیرہ بھی اتے ہیں ہیلدی چیزیں کھایا کرو اور صخت کا خاص خیال رکھا کرو ۔

وہ سنجیدگی سے اسے سمجھا رہا تھا ۔

ہیر سر اٹھائے اب اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔

پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔

وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا تھا ۔

ہیر کو ایسے لگا جیسے وہ انٹرویو دینے آئی ہو ۔

اچھی جا رہی ہے ۔

وہ ارد گرد نظریں دوڑاتی ہوئی بولی تھی ۔

ہممم !

وہ ہنکار بھرتا فون کی طرف متوجہ ہوا تھا جہاں اسیر کالنگ لکھا آرہا تھا ۔

ہاہاہا کوئی حال نہِیں تمہارا چلو پریشان نا ہو کرتا ہوں میں بات آج گھر والوں سے ۔

وہ پہلی بار اسے یوں قہقہ لگاتے دیکھ رہی تھی۔

اوکے آئی ول کال یو لیٹر ابھی تھوڑا بزی ہوں۔

کہتے ہی اس نے کال بند کی اور کپ ٹیبل پر رکھا ۔

ہیر جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اسکے یوں ایک دم سے دیکھنے پر وہ سر سرعت سے جھکا گئی ۔


ہیر کسی چیز کی ضرورت ہے۔

وہ بیئرڈ کھجاتا اس سے نرمی سے پوچھ رہا تھا۔

ہیر کا سر میکانکی انداز میں ہاں مِیں ہلا تھا ۔

کیاااا۔

وہ آئی برو اچکائے نرمی سے پوچھ رہا تھا ۔

آپ مجھ سے ناراض تھے نا۔۔۔۔

ابھی فقرا اسکے منہ میں ہی تھا جب دروازہ کھولتے عجلت سے تیمور خانم اور سہیر خانم اندر آئے تھے ۔

ہیر کو دیکھ کر وہ دونوں ہی ٹھٹھک کر رکے تھے۔

ہیر ساکت ہوئی تھی اسکے ٹانگیں کانپنے لگیں تھی وہی منظر اسکی آنکھوں میں پھر سے چھانے لگا تھا خود پر ہسٹل تاننے والا ، بالوں سے گھسیٹ کر باہر دھکا مارنا۔

وہ ڈر کے مارے سر جھکا گئی تھی،

یہ یہاں کیا کر رہی ہے !

تیمور خانم نے درشت لہجے سے بیٹے سے پوچھا۔

کچھ نہیں کر رہی آپ دونوں کو کوئی کام تھا۔

وہ چیٙر سے کھڑا ہوتا ہوا باپ سے بولا تھا ۔

غاذان تم باز نہیں آرہے آخر کیوں تم نے اس لڑکی کو خود پر سوار کر رکھا ہے کیوں نہیں اسے چھوڑ دیتے تمہاری شادی ہو گئی تو صرف شائنہ سے سمجھے۔

وہ درشت لہجے میں بیٹے سے مخاطب تھے۔

سمجھ گیا اور کچھ۔

وہ انکی طرف آتا ہوا ریلکس بھرے لہجے میں بولتا ان دونوں بھائیوں کو غصے سے لال پیلا کر گیا تھا ۔

غاذان ابھی اسی وقت اس لڑکی کو طلاق دو تاکہ اسکا منحوس وجود ہمارے خاندان سے غائب ہو۔

اس بار سہیر خانم اس سے سرد لہجے میں مخاطب تھے ۔

ہیر کا دل وخشت سے سکڑا تھا ۔


او سیریسلی چاچو اینڈ ڈیڈ۔

وہ بے ساختہ ہنس دیا تھا جیسے کسی کے بے تکے جوک پر ہنس دیا جاتا ہے۔

جبکہ ہیر نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا ۔

ہم تم سے سنجیدگی سے مخاطب ہیں اور تم نان سیریس بیہیو کر رہے ہو ریاست کے سردار سے ہمیں یہ امید نہیں تھی۔

سہیر خانم کافی غصے سے بھتیجے سے مخاطب تھے۔


او پلیز چاچو کیا ریاست کے سردار سے آپ یہ امید کرتے ہیں وہ آپکی انگلیوں پر ناچے تو غلط امید رکھتے ہیں سردار پر ،

اس لڑکی کو آپ لوگوں کے کہنے پر ہی اپنایا تھا اب آپکے کہنے پر میں اسے نہیں چھوڑوں گا ہرگز نہیں یہ امید تو رکھیں ہی مت ریاست کے سردار سے۔


وہ دونوں ہاتھ پاکٹ میں گھسائے بہت سنجیدگی سے انہیں دیکھتا ہوا بولا تھا انداز میں لاپرواہی سی تھی۔

غاذان !

تیمور صاحب کے درشت لہجے پر وہ مسکرا دیا جو ان دو بھائیوں کو تپانے کے لیے کافی تھا۔

آخر کیوں نہیں چھوڑ سکتے اسے کہاں سے میچ کرتی ہے یہ تمہارے ساتھ ، اسے دیکھو زرا اور خود کو دیکھو اپنے رتبے کے حساب سے اپنا پارٹنر چنو غاذان تاکہ تمہِیں اور لوگوں کو تم پر رشک آئے ۔


تیمور ایک جھٹکے سے ہیر کی کلائی ہاتھ میں جھکڑتے اسے اسکے ساتھ کھڑا کرتے تیکھے لہجے میں مخاطب تھے ۔


ہیر نے بھرائی آنکھوں سے اسے دیکھا جس نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھیں ۔

پلیز ڈیڈ ڈونٹ ٹو دس آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کسی کو اس طرح ڈی گریڈ کرنے کا۔

اسکی کلائی زبردستی انکے ہاتھ سے چھڑاتا وہ اب غصہ ہوا تھا۔

اسکے تیکھے نقوش تن گئے تھے ۔

تم ہوش میں تو ہو غاذان تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے باپ کو جواب دے رہے ہو شرم کہی بیچ کھائے ہو کیا۔


سہیر خانم کے درشت لہجے پر وہ طنز سے مسکرایا ۔

یہ دو ٹکے کی لڑکی میری بیوی ہے چاچو آپ اسے اس طرح نہیں کہہ سکتے اور نا ہی آپکا بھتیجا یہ سب آئندہ برداشت کرئے گا ۔


وہ ہنوز سرد لہجے میں ان دونوں کو دیکھتا ہوا مخاطب تھا۔

ہیر کا پورا وجود خوف سے کانپنے لگا تھا ۔

وہ اسکے پیچھے تقریباً چھپی ہوئی تھی۔


چلیں بھائی صاحب اس سے آج رات گھر کی پنچائت میں ہی نمٹا جائے گا۔

سہیر خانم غصے سے بھتیجے کو دیکھتے تیمور سے مخاطب ہوتے وہاں سے نکل گئے ۔

بھینچے ہوئے ہونٹوں سے بیٹے کو گھورتے وہ وہاں سے جا چکے تھے ۔۔

ہیر وہ جا چکے ہیں ۔

وہ اسکی طرف پلٹتا ہوا بولا تھا لیکن وہ حواس کھوتی اسکی بانہوں میں ہی جھول گئی تھی ۔

ہیر !

وہ سرعت سے اسے تھامتا ہوا بولا تھا ۔

اسکا سر سردار غاذان کے کشادہ سینے پر آیا تھا ۔

وہ لب بھینچے اس چڑیا کے دل والی لڑکی کو تاسف سے دیکھنے لگا آخر یہ لڑکی کب حالات کو فیس کرنا سیکھے گئی۔

وہ اسے بانہوں میں لیتا اپنے پرسنل روم کی طرف بڑھتا ہوا ہریشانی سے بڑبڑا رہا تھا ۔۔

اب وہ کیا جانے اس چڑیا جیسے دل والی لڑکی ابھی کیا کیا دیکھنا تھا۔

______________________________


مہرینہ نے ساکت نظروں سے ماں کو روتے دیکھا پھر دوسروں کو دیکھا جو منہ پر دوپٹہ رکھے رونے میں مصروف تھیں۔

کیا ہوا ہے سب خیریت تو ہے۔


وہ بیگ ٹیبل پر رکھتی پریشانی سے سب کو دیکھتی ہوئی بولی تھی ۔

نوشین نے بیٹی کو کرلاتے دل سے دیکھا تھا ۔


وہ نیلے جوڑے میں بالوں کی اونچی پونی بناِے کافی دلکش لگ رہی تھی کلائی میں سونے کی دو موٹیاں موٹیاں چوڑیاں تھیں ، جو اسکی ساس نے نکاح والے دن تخفے میں پہنائیں تھیں اسے۔


کیا ہوا آپ لوگ کیوں سوگ کی حالت میں ہیں سردار تو ٹھیک ہیں نا۔


اس نے جھنجھلا کر پوچھا تھا ۔

تب ہی مہدیہ بھاگ کر بہن کے گلے لگتی رونے لگی تھی۔

وہ پریشان ہو اٹھی تھی۔۔ 

ہیر نے ساری جگہیں دیکھ لیں لیکن مہرینہ اسے کہی نہیں ملی تھی ۔

وہ مایوس ہو کر اپنی کلاس میں چلی گئی۔

وہ پھر سٹڈی میں ایسی مصروف ہوئی کہ لنچ کا بھی ٹائم نہیں ملا اسے ۔


چھٹی ٹائم وہ باہر آئی تو وہاں خادم محمد پہلے سے ہی کھڑا اسکے انتظار میں تھا ۔

وہ جھجھکتی ہوئی اسے اسلام کرتی اسکے کھولے ہوئے ڈور سے اندر بیٹھ گئی ۔


وہ یہاں آکر خوش تھی لیکن ایک خلش بھی تھی کہ وہ سردار کو ناراض کر چکی ہے لیکن وہ دل کے ہاتھوں محببور تھی ۔

رانا نے مسکرا کر اسکی جاتی گاڑی کو دیکھا ۔

ہیر بس کچھ دن اور اسکے بعد تم اُس سردار کی گاڑی میں نہیں میری گاڑی میں بیٹھا کرو گئی ۔۔

گاڑی کو وہاں سے نکالتا رانا طنزیہ مسکان سے بولا تھا۔

اسے اب ہیر حاصل کرنی تھی اسے سردار کو نیچا دیکھانا تھا تھا اور اس سے بہتر اور بھلا کیا طریقہ تھا کہ سردار کی بیوی ایک دن اسکی بیوی بنے ۔ ۔

واوا

کیا پلین تھا اسکا ۔

_________________________________

مہرینہ اور اسیر کا جیسے ہی نکاح ہوا سماں میں مبارک سلامت کی آوازیں ایک ساتھ گونجنے لگیں تھیں ۔

نکاح کے بعد مہرینہ کو اسیر کے ساتھ بٹھایا گیا تھا۔

مہرینہ کے ہونٹوں پر ایک مدھم سی مسکان تھی ۔

وہ جب سٹیج پر آئی تو اسیر عالم نے اسکا اٹھ کر استقبال کیا ۔

اسکا ہاتھ تھام کر سردار غاذان نے اس کی سٹیج پر چڑنے میں مدد کی تھی ۔

اسکا ہاتھ تھامے ہی وہ اسے اسیر کے ساتھ والے صوفے پر بٹھا چکا تھا ۔


مہرینہ ہاف وائٹ سوٹ میں کمال کی لگ رہی تھی کچھ آج اسکے چہرے پر شرمیلی سی مسکان بھی تو تھی،

وہ واقعے ہی آج پہچانی نہیں جا رہی تھی نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔

شائنہ بھی اسکے ساتھ آکر کھڑی ہوئی تھی۔

وہ وائٹ سوٹ پر گرین کامدار دوپٹہ لیے انتہا کی حسین لگ رہی تھی،

سردار نے ایک نظر اسے دیکھ کر مروت سے مسکراہٹ پاس کی تھی ۔

شائنہ کے لیے یہ بھی بہت تھا وہ کھل اٹھی تھی ۔


ریاض خانم کی نظریں ثمرینہ پر تھیں جو اس دن سے محل میں آئی واپس نہیں گئی تھی انہِیں اس پر غصہ تو بہت تھا لیکن کیا کرتے وہ اس پر یہاں چلا نہیں سکتے تھے۔۔

شاید وہ اسکے وجود کا عادی ہو چکا تھا کہ اسے اب وہ گھر ثمرینہ کے بغیر ادھورا سا لگ رہا تھا۔

ثمرینہ با خونی خود پر ریاض خانم کی نظرِیں محسوس کر سکتی تھیں ۔۔

لیکن جان کر بھی انجان بنی رہی۔۔


سردار غاذان نے بھاری نوٹوں کی گدی ان دونوں پر سے وار کر غریبوں میں تقسیم کیے تھے ۔


شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے۔

اسیر کا گھمبیر لہجہ پہلی بار اسکے دل میں کوئی کلی کھلا پایا تھا ۔

وہ دھیمے سے مسکرا دی ۔

کیا تم کچھ نہیں بولو گئی۔

وہ شاید اسکی ّآواز سننا چاہ رہا تھا۔

جبکہ وہ شرارت سے سر نفی میں ہلا گئی ۔

یار میرا اب دل نہیں لگے مصر میں تمہارے بنا اب جاتے ہی سب سے پہلے میں رخصتی کی بات کروں گا غاذان سے ۔

وہ دھیمے دھیمے بولتا مہرینہ کا دل دھڑکا رہا تھا ۔

وہ سر جھکا گئی شرمیلے پن سے چہرے پر سرخی سی چھا گئی تھی۔

مجھے یاد کرو گئی نا ,

اسکے گھمبیر لہجے میں پوچھنے جانے پر وہ آہستہ سے سر نفی میں ہلا گئی ۔

جبکہ اسیر آسودگی سے مسکرا دیا کہ مہرینہ سے اسے پہلی نظر میں محبت ہوئی تھی اور وہ اسے اچھی بھی تو بہت لگی تھی باقی لڑکیوں سے تھوڑی مختلف تھی وہ۔۔۔۔


سردار غاذان نے آسودہ سی مسکان سے مہرینہ کے ہونٹوں پر سجی مسکان دیکھی تھی۔

ایسے ہی تو نہیں اس نے اسیر کا انتخاب کیا تھا اپنی مہرینہ کے لیے ،

وہ ایک بہت اچھا انسان تھا وہ مہرینہ کو ہمیشہ خوش رکھتا وہ جانتا تھا لیکن انسان کی تدابیر نہیں چلتی ہوتا وہی ہے جو خدا کی مرضی ہو کون جانے اس کی قسمت میں کیا لکھا تھا اور کیا نہیں رب ہی جانے ہم انسان تو صرف منصوبے ہی بنا سکتے ہیں۔۔۔


________________________________


ہیر کو یونی جاتے مسلسل چار دن ہو گئے تھے پانچویں دن جا کر اسے مہرینہ ملی تھی ۔

مہرینہ چونک گئی تھی اسے یونی میں دیکھ کر آج تو شائنہ بھی یونی آچکی تھی ۔

ہیر کو دیکھ کر وہ لب بھینچ کر رہ گئی پھر کچھ سوچتے ہوئے وہ مسکرا دی اب آئے گا مزہ ۔

وہ کمینگی سے بڑبڑا کر رہ گئی تھی ۔

مہرینہ کو ہیر نے بتا دیا تھا کہ وہ مصر سے لوٹ آئی ہے اور اب یہی پڑھے گئی ۔


مہرینہ اور ہیر میں کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی ،

ہائے !

وہ نوٹ بنا رہی تھی جب جانی پہچانی آواز پر اس نے حیرت سے چہرہ سامنے والی کی طرف اٹھایا تھا ۔

سامنے ہی سرخ سوٹ میں ملبوس کوئی اور نہیں ساریا ہی تھی۔

ساریا تم یہاں کیسے۔

وہ دنگ نظروں سے اسے دیکھتی حیرت سے کھڑی ہوتی پوچھ رہی تھی ۔

بس وہاں دل نہیں لگا تو تمہاری طرح واپس آگئی اور یہی اپنے شہر ایڈمشن لے لیا پہلے میں دوسری یونی میں تھی لیکن اس بار شاید ہمیں ملنا تھا اس لیے میں نے ضد کر کے یہی پر ایڈمشن لے لیا۔

وہ اسکے ساتھ بیٹھتی خوش اخلاقی سے بولی تھی ۔

ہیر دل سے مسکرا دی ۔۔۔

ساریا بھی کھل کر مسکرائی تھی۔

اب وہ دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنا سٹارٹ کر چکیں تھیں ۔۔

۔

__________________________


سردار کو دیکھے آج ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا دل کے دیپ بجھ سے گئے تھے بنا انہیں دیکھے ۔

کیا وہ اب مجھ سے کبھی بات نہیں کریں گئے ۔

گاڑی میں بیٹھی وہ آفسردگی سے سوچ رہی تھی جب گاڑی ایک دم سے روکی تھی ۔

ہیر میم آپ یہی بیٹھیں مجھے کچھ اہم فائلز سردار کو دینی ہیں جو میں گھر سے لے کر آیا تھا آپ پانچ منٹ ویٹ کریں میں ابھی آتا ہوں انہیں دے کر ۔

وہ عجلت سے کہتا تین چار فائلز ہاتھ میں لیے ایک اونچی بلڈنگ کی طرف بڑھ گیا تھا ۔

وہ حیرت سے اس ایریے کو پہلی بار دیکھ رہی تھی اس نے پہلی بار سردار غاذان کا دفتر دیکھا تھا ۔

کافی سخت سکیوڑتی تھی وہاں اونچی شاندار عمارت دیکھنے والوں رشک میں ڈال دیتی ۔

وہ عمارت کو محبت کی نگاہ سے دیکھتی ایسے ہی گاڑی سے بار نکل آئی تھی۔۔


وہ بلیک شال سر پر اچھے سے لیے ہوئے تھی بلیک ہی سادہ سا سوٹ پہنے وہ عام سی ہی لگ رہی تھی ۔


سردار آپکی فائلز ۔

خادم نے مصروف سے سرادر کو ادب سے مخاطب کیا وہ شاید کسی بہت اہم فائل میں بزی تھا کہ اسے کافی پینے کا بھی ہوش نہیں رہا تھا ۔

سردار نے سر اٹھ کر اسے دیکھا ۔

رکھ دو اور ہاں ہیر کو چھوڑ آئے ہوٹل۔

وہ فائل میں کچھ لکھتا مصروف سے انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا ٹائی کی نوٹ کافی ڈھیلی ہو چکی تھی سلیوز کہنیوں سے اوپر تک موڑ رکھیں تھیں شاید وہ واقعے بہت بزی تھا ۔

نہیں سردار وہ ساتھ ہی ہیں میں نے سوچا پہلے آپکو فائل دیتا چلوں ۔

خادم کے سر جھکا کر کہنے پر اسکی کشادہ پیشانی پر کئی بل اچانک ہی نمودار ہوئے تھے۔

گاڑی تم ڈرائیو کرتے ہو ۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔

نہیں سردار ڈرائیور ہی کرتا ہے ۔

اس نے مستعدی سے جواب دیا ۔

تو گاڑی میں پٹرول تم ڈلواتے ہو گئے ۔

فائل بند کرتا کرسی سے ٹیک لگاتا وہ سپاٹ سے انداز میں پوچھ رہا تھا ۔

خادم نے حیرت سے سر نفی میں ہلایا تھا۔

تو پھر تمہیں کیا پرابلم تھی جب میں نے کہا تھا کہ ہیر کو پہلے چھوڑ کر آنا پھر مجھے فائلز دینے آنا تو کیا مسلہ تھا کیا تمہیں پیدل چل کر آنا تھا جو ایک ساتھ دو دو کام نمٹا رہے تھے ۔

وہ سرد لہجے میں اس سے باز پرس کر ریا تھا ۔

خادم خوف سے سر جھکا گیا ۔

وہ اسے گھورتا دراز گلاس وال کے قریب آیا تھا ۔

وہ چونکا تھا ۔

وہ بے وقوف لڑکی گاڑی سے باہر کھڑی ارد گرد بے وقوفوں کی طرح دیکھ رہی تھی ۔

جاو ہیر کو بلا کر لاو اور آئندہ ایسی غلطی کی تو پھر اپنی سزا بھی سوچ لینا ۔

اسکے سنجیدگی سے کہنے پر وہ انہیں دیکھتا سرعت سے کمرے سے بھاگا تھا ۔

کیا ضرورت تھی گاڑی سے نکلنے کی سلی گرل لگتا ہے اوپر والا خانہ خالی ہے اسکا ۔

وہ غصے سے سوچتا واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھا تھا۔


ہیر نے حیرت سے خادم کو دیکھا ۔

کیا وہ بہت غصے میں ہیں ۔

اسکے پیچھے آتی وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی ۔

ہاں غصے میں تو بہت لگ رہے ہیں ۔

وہ سنجیدگی سے جواب دیتا سیڑیوں کی طرف بڑھا۔

اب اسے ہیر کے لیے سیڑیاں چڑنا تھا ۔

وہ بیس منٹ میں تیسرے فلور پر آئے تھے ہیر ہانپنے لگی تھی گہرے گہرے سانس لیتی اسکے بتائے ہوئے روم پر کانپتے ہاتھوں سے نوک کرنے لگی تھی ۔۔


یس کم ان !

اندر سے آتی گھمبیر آواز پر اسکا دل زوروں سے رفتار پکڑ چکا تھا ۔

ہیر جھجھکتے ہوئے اندر آئی تھی ۔

وہ لیپ ٹاپ سامنے رکھے اسے پر مہارت سے انگلیاں چلاتا ہوا اسے کھڑا دیکھ کر اسکی طرف متوجہ ہوا تھا۔

آوّ!

وہ سیکٹری کا دوبارہ سے رکھا کافی کا کپ پکڑتا ہوا بولا تھا ۔

وہ لرزتے قدموں سے اس کی طرف بڑھی تھی۔

بیٹھو!

سامنے پڑی چیئر کی طرف اشارا کرتا ہوا وہ بولا تھا۔

ہیر سر جھکائے بیٹھ گئی۔

ہاتھوں کی انگیاں مڑوڑتی ہوئی وہ سخت نروس تھی۔

ہیر انگلیاں مت چٹخایا کرو یہ بیٹ ہیبٹ ہے اور گناہ بھی ہے۔

وہ ٹوک گیا تھا ۔

سرعت سے انگلیاں جہاں تھیں وہ وہی ساکت کر گئی تھی ۔

کچھ کھاو گئی۔

اس بار وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔

نہیں!

سر نفی میں وہ ہلا گئی۔

کینٹین سے لنچ کرتی ہو ۔

وہ ایسے سوال پوچھ رہا تھا جیسے کسی بچے سے مخاطب ہو اور سچ ہی تھا ہیر اسکے لیے ایک بچی ہی تو تھی۔

جی کرتی ہوں ۔

وہ دھیمی آواز میں بولی۔

کیا !

کافی پیتا جیسے اب وہ فارغ تھا کوئی کام نہِیں تھا شاید اسے کیونکہ وہ فرصت سے ہیر سے مخاطب تھا ۔

چاٹ یا پھر سموسے وغیرہ ۔

وہ گہری سانس لیتی ہوئی بولی۔

ہیر تم جانتی ہو ایسی تیکھی چیزوں سے ہی معدہ خراب ہوتا ہے اور چہرے پر پیمپلز وغیرہ بھی اتے ہیں ہیلدی چیزیں کھایا کرو اور صخت کا خاص خیال رکھا کرو ۔

وہ سنجیدگی سے اسے سمجھا رہا تھا ۔

ہیر سر اٹھائے اب اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔

پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔

وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا تھا ۔

ہیر کو ایسے لگا جیسے وہ انٹرویو دینے آئی ہو ۔

اچھی جا رہی ہے ۔

وہ ارد گرد نظریں دوڑاتی ہوئی بولی تھی ۔

ہممم !

وہ ہنکار بھرتا فون کی طرف متوجہ ہوا تھا جہاں اسیر کالنگ لکھا آرہا تھا ۔

ہاہاہا کوئی حال نہِیں تمہارا چلو پریشان نا ہو کرتا ہوں میں بات آج گھر والوں سے ۔

وہ پہلی بار اسے یوں قہقہ لگاتے دیکھ رہی تھی۔

اوکے آئی ول کال یو لیٹر ابھی تھوڑا بزی ہوں۔

کہتے ہی اس نے کال بند کی اور کپ ٹیبل پر رکھا ۔

ہیر جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اسکے یوں ایک دم سے دیکھنے پر وہ سر سرعت سے جھکا گئی ۔


ہیر کسی چیز کی ضرورت ہے۔

وہ بیئرڈ کھجاتا اس سے نرمی سے پوچھ رہا تھا۔

ہیر کا سر میکانکی انداز میں ہاں مِیں ہلا تھا ۔

کیاااا۔

وہ آئی برو اچکائے نرمی سے پوچھ رہا تھا ۔

آپ مجھ سے ناراض تھے نا۔۔۔۔

ابھی فقرا اسکے منہ میں ہی تھا جب دروازہ کھولتے عجلت سے تیمور خانم اور سہیر خانم اندر آئے تھے ۔

ہیر کو دیکھ کر وہ دونوں ہی ٹھٹھک کر رکے تھے۔

ہیر ساکت ہوئی تھی اسکے ٹانگیں کانپنے لگیں تھی وہی منظر اسکی آنکھوں میں پھر سے چھانے لگا تھا خود پر ہسٹل تاننے والا ، بالوں سے گھسیٹ کر باہر دھکا مارنا۔

وہ ڈر کے مارے سر جھکا گئی تھی،

یہ یہاں کیا کر رہی ہے !

تیمور خانم نے درشت لہجے سے بیٹے سے پوچھا۔

کچھ نہیں کر رہی آپ دونوں کو کوئی کام تھا۔

وہ چیٙر سے کھڑا ہوتا ہوا باپ سے بولا تھا ۔

غاذان تم باز نہیں آرہے آخر کیوں تم نے اس لڑکی کو خود پر سوار کر رکھا ہے کیوں نہیں اسے چھوڑ دیتے تمہاری شادی ہو گئی تو صرف شائنہ سے سمجھے۔

وہ درشت لہجے میں بیٹے سے مخاطب تھے۔

سمجھ گیا اور کچھ۔

وہ انکی طرف آتا ہوا ریلکس بھرے لہجے میں بولتا ان دونوں بھائیوں کو غصے سے لال پیلا کر گیا تھا ۔

غاذان ابھی اسی وقت اس لڑکی کو طلاق دو تاکہ اسکا منحوس وجود ہمارے خاندان سے غائب ہو۔

اس بار سہیر خانم اس سے سرد لہجے میں مخاطب تھے ۔

ہیر کا دل وخشت سے سکڑا تھا ۔


او سیریسلی چاچو اینڈ ڈیڈ۔

وہ بے ساختہ ہنس دیا تھا جیسے کسی کے بے تکے جوک پر ہنس دیا جاتا ہے۔

جبکہ ہیر نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا ۔

ہم تم سے سنجیدگی سے مخاطب ہیں اور تم نان سیریس بیہیو کر رہے ہو ریاست کے سردار سے ہمیں یہ امید نہیں تھی۔

سہیر خانم کافی غصے سے بھتیجے سے مخاطب تھے۔


او پلیز چاچو کیا ریاست کے سردار سے آپ یہ امید کرتے ہیں وہ آپکی انگلیوں پر ناچے تو غلط امید رکھتے ہیں سردار پر ،

اس لڑکی کو آپ لوگوں کے کہنے پر ہی اپنایا تھا اب آپکے کہنے پر میں اسے نہیں چھوڑوں گا ہرگز نہیں یہ امید تو رکھیں ہی مت ریاست کے سردار سے۔


وہ دونوں ہاتھ پاکٹ میں گھسائے بہت سنجیدگی سے انہیں دیکھتا ہوا بولا تھا انداز میں لاپرواہی سی تھی۔

غاذان !

تیمور صاحب کے درشت لہجے پر وہ مسکرا دیا جو ان دو بھائیوں کو تپانے کے لیے کافی تھا۔

آخر کیوں نہیں چھوڑ سکتے اسے کہاں سے میچ کرتی ہے یہ تمہارے ساتھ ، اسے دیکھو زرا اور خود کو دیکھو اپنے رتبے کے حساب سے اپنا پارٹنر چنو غاذان تاکہ تمہِیں اور لوگوں کو تم پر رشک آئے ۔


تیمور ایک جھٹکے سے ہیر کی کلائی ہاتھ میں جھکڑتے اسے اسکے ساتھ کھڑا کرتے تیکھے لہجے میں مخاطب تھے ۔


ہیر نے بھرائی آنکھوں سے اسے دیکھا جس نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھیں ۔

پلیز ڈیڈ ڈونٹ ٹو دس آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کسی کو اس طرح ڈی گریڈ کرنے کا۔

اسکی کلائی زبردستی انکے ہاتھ سے چھڑاتا وہ اب غصہ ہوا تھا۔

اسکے تیکھے نقوش تن گئے تھے ۔

تم ہوش میں تو ہو غاذان تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے باپ کو جواب دے رہے ہو شرم کہی بیچ کھائے ہو کیا۔


سہیر خانم کے درشت لہجے پر وہ طنز سے مسکرایا ۔

یہ دو ٹکے کی لڑکی میری بیوی ہے چاچو آپ اسے اس طرح نہیں کہہ سکتے اور نا ہی آپکا بھتیجا یہ سب آئندہ برداشت کرئے گا ۔


وہ ہنوز سرد لہجے میں ان دونوں کو دیکھتا ہوا مخاطب تھا۔

ہیر کا پورا وجود خوف سے کانپنے لگا تھا ۔

وہ اسکے پیچھے تقریباً چھپی ہوئی تھی۔


چلیں بھائی صاحب اس سے آج رات گھر کی پنچائت میں ہی نمٹا جائے گا۔

سہیر خانم غصے سے بھتیجے کو دیکھتے تیمور سے مخاطب ہوتے وہاں سے نکل گئے ۔

بھینچے ہوئے ہونٹوں سے بیٹے کو گھورتے وہ وہاں سے جا چکے تھے ۔۔

ہیر وہ جا چکے ہیں ۔

وہ اسکی طرف پلٹتا ہوا بولا تھا لیکن وہ حواس کھوتی اسکی بانہوں میں ہی جھول گئی تھی ۔

ہیر !

وہ سرعت سے اسے تھامتا ہوا بولا تھا ۔

اسکا سر سردار غاذان کے کشادہ سینے پر آیا تھا ۔

وہ لب بھینچے اس چڑیا کے دل والی لڑکی کو تاسف سے دیکھنے لگا آخر یہ لڑکی کب حالات کو فیس کرنا سیکھے گئی۔

وہ اسے بانہوں میں لیتا اپنے پرسنل روم کی طرف بڑھتا ہوا ہریشانی سے بڑبڑا رہا تھا ۔۔

اب وہ کیا جانے اس چڑیا جیسے دل والی لڑکی ابھی کیا کیا دیکھنا تھا۔

______________________________


مہرینہ نے ساکت نظروں سے ماں کو روتے دیکھا پھر دوسروں کو دیکھا جو منہ پر دوپٹہ رکھے رونے میں مصروف تھیں۔

کیا ہوا ہے سب خیریت تو ہے۔


وہ بیگ ٹیبل پر رکھتی پریشانی سے سب کو دیکھتی ہوئی بولی تھی ۔

نوشین نے بیٹی کو کرلاتے دل سے دیکھا تھا ۔


وہ نیلے جوڑے میں بالوں کی اونچی پونی بناِے کافی دلکش لگ رہی تھی کلائی میں سونے کی دو موٹیاں موٹیاں چوڑیاں تھیں ، جو اسکی ساس نے نکاح والے دن تخفے میں پہنائیں تھیں اسے۔


کیا ہوا آپ لوگ کیوں سوگ کی حالت میں ہیں سردار تو ٹھیک ہیں نا۔


اس نے جھنجھلا کر پوچھا تھا ۔

تب ہی مہدیہ بھاگ کر بہن کے گلے لگتی رونے لگی تھی۔

وہ پریشان ہو اٹھی تھی۔۔ 

مہدیہ کے گلے لگنے سے وہ اور زیادہ پریشانی ہوئی تھی ۔۔

کیا ہوا ہے آپ سب لوگ مجھے بتاتے کیوں نہیں ہیں ۔۔

وہ مہدیہ کو پیچھے کرتی وخشت سے چلائی تھی ۔۔

آج صبح اسیر کا کار ایکسیڈینٹ میں انتقال ہو گیا ہے مہرینہ تو سہاگن بننے سے پہلے ہی بیوہ ہو گئی ہے ارے بد بخت نکلی توں ۔۔

نوشین سینے پیٹتی واویلا کرتی ہوئی چلاِے جا رہی تھی ۔۔

وہ آنکھوں میں وخشت لیے انہیں ساکت وجود لیے دیکھ رہی تھی۔

آج صبح اسیر کا کار ایکسیڈینٹ میں انتقال انتقال انتقال۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

کانوں میں یہ الفاظ پگلا سیسہ بنا کر گونجنے لگے تھے ۔

وہ سر نفی میں ہلاتی دو تین قدم پیچھے ہوئی تھی۔

مہدیہ اور سفینہ نے اسے بے ساختہ تھاما تھا ۔۔

نہیں یہ جھوٹ ہے صبح انکا گڈ مارنگ کا میسج آیا تھا یہ جھوٹ ہے،

آپ لوگ مزاق کرنے سے پہلے سوچ تو لیا کریں نا ایسے کون مزاق کرتا ہے بھلا۔ ۔۔


وہ وخشت سے اتنی زور سے چلائی تھی کہ گلے میں خراشیں سی پڑتی محسوس ہوئیں تھیں اسے ۔۔

نوشین اور مہدیہ نے دہل کر اسے دیکھا تھا جس کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا پڑنے لگا تھا ۔


"مہرینہ بہت جلد میں تمہیں وہاں سے لے آوں گا یار میرا اب دل نہیں لگتا یہاں آپکو دیکھنے کو دل کرتا ہے ، اور تم ویڈیو کال پر بھی تو نہیں آتی قسم سے بہت ظالم ہو یار "


اسکے رات کو کہے فقرے اسکے کانوں میں چکرانے لگے تھے ۔

نہیں !

وہ کانوں پر ہاتھ رکھتی نیچے گری تھی ۔۔

سب گھر والے پریشانی سے اسکے پیچھے بھاگے تھے ۔

سنا نہیں آپ لوگوں نے وہ کہی نہیں گئے یہ فقط ایک مزاق ہے آپ لوگوں کو شرم آنی چاہئیے ۔


ماں اور بہن کی گرفت میں مچلتی وہ درد سے چلائی تھی ۔

وہ اسے اچھا لگنے لگا تھا جینے کی امید اس میں نظر آنے لگی تھی اسکی معنی خیز باتیں اسکا دل دھڑکانے لگیں تھیں ابھی تو اسنے اس رشتے کی خوبصورتی کو محوس کیا تھا اور اتنی جلدی وہ اس سے چھین بھی گیا تھا کیسے یقین کرتی وہ ۔۔۔

بال نوچنے لگی تھی وہ۔۔

بہت مشکل سے سب نے اسے قابو کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔

_______________________________


انکی ول پاور بہت ویک ہے سردار جی انکے نروسز زیادہ دباو یا پریشانی برداشت نہیں کر سکتے آپ کوشش کیا کریں کہ انہیں ٹینشن وغیرہ سے دور رکھیں ۔۔


ڈاکٹر نے اسے چیک اپ کرتے ہوئے اسے تفصیل سے بتایا تھا۔

وہ پریشانی سے لب بھینچے اسے دیکھتا رہا ۔۔

تب ہی اسکا فون بجا تھا فون تو کافی دیر سے بج رہا تھا لیکن اس نے اٹھایا اب تھا اور جو خبر اسے سننے کو ملی تھی وہ اسکے پیروں سے زمین کسکانے کے لیے کافی تھی۔ ۔

وہ پریشانی سے خادم کو کچھ اہم ہدایت دیتا وہ وہاں سے پریشانی سے بھاگا تھا ۔۔


ہیر نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو خود کو ایک بہت ہی خوبصورت کمرے میں اکیلا پایا وہ ارد گرد دیکھتی ہوئی بیڈ سے اٹھی تھی تب ہی اسے کمزوری سے زور سے چکر آیا تھا ۔۔

وہ سرعت سے بیڈ کی پانتی تھام گئی ورنہ نیچے گر جاتی۔۔

میم آپ ٹھیک ہیں ۔

خادم نے اندر آتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا ۔

وہ کھڑی ہوتی سر ہلا گئی نظریں ارد گرد کسی کی تلاش میں تھیں لیکن وہ تھا ہی نہیں تو نظروں کو بھی مایوس ہی لوٹنا تھا نا ۔۔

آپ اگر ٹھیک ہیں تو چلیں۔

وہ سر جھکائے ہی پوچھ رہا تھا ۔

وہ سر ہلاتی اپنا بیگ پکڑتی ہوئی اسکے پیچھے چلنے لگی۔

انہیں میری فکر ہوتی تو میرے پاس رکتے نا ,میں کہاں اور وہ کہاں شاید اس لیے ہی میں انکی نظروں میں ہی نہیں آتی۔

وہ لب کچلتی دلگرفتی سے سوچ رہی تھی ۔۔

اب وہ کیا جانے وہ اسے بے ہوش دیکھ کر کتنا پریشان ہوا تھا وہ کیا جانے اسکے ہوش میں آنے سے پانچ منٹ پہلے ہی وہ وہاں سے نکلا تھا ۔۔

______________________________


غاذان پہلی فرصت میں ہی مصر روانہ ہو چکا تھا وہ اسکی آخری رسومات کو مس نہیں کرنا چاہتا تھا اپنے دوست کا آخری بار چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔۔

اسکی قبر کی تازی مٹی کو دیکھتیں اسکی آنکھیں نم ہو چکیں تھی وہ بہت مضبوطی سے جب سے وہاں آیا تھا اسکے خاندان کو صبر کی تلقین کر رہا تھا اس وقت سے وہی بھاگ دوڑ کر رہا تھا ۔

سفید سوٹ میں ہاتھ پیچھے باندھے اپنے اکلوتے دوست کی موت اسکی آنکھوں میں آنسو لے آئی تھی وہ نہیں جانتا کہ وہ کبھی رویا ہو لیکن آج دل کر رہا تھا رونے کو۔ ۔

کتنی کم عمر لکھوا کر آئے تھے تم اسیر کتنا نیک دل تھا تمہارا تم ہمیشہ میرے دل میں رہو گئے اسیر تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا خدا تمہارے درجات بلند کرِئے آمین۔۔!


آہستہ سے اسکی قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیرتا ہوا وہ بڑبڑا رہا تھا ۔

وہاں سے نکل کر وہ موم کے پاس چلا گیا وہ بھی صبح سے اسیر کے گھر پر ہی تھِیں اسکے آخری رسومات کے بعد ہی وہ گھر لوٹیں تھیں۔

انکے پاس کچھ دیر بیٹھ کر وہ پاکستان کے لیے روانہ ہو گیا کہ ابھی اسے مہرینہ کو سنبھالنا تھا پتا نہیں اسکی کیا حالت ہو گئی۔

وہ پریشانی سے ماتھا مسلتا ہوا سوچ رہا تھا ۔


_____________________________


مہرینہ کو سفید جوڑا پہنا دیا گیا تھا ۔

اسنے جو جو زیور پہنا ہوا تھا اسب اتروا لیا گیا تھا ۔

وہ حیرت سے سب کی کاروائی دیکھ رہی تھی ۔

لیکن چپ رہی !

صبح سے گہری رات ہو گئی تھی اس نے نا پانی کا گھونٹ پیا اور نا ہی کھانے کا لقمہ زبان پر رکھا ۔۔

ہاتھ گھٹنوں کے گرد باندھے بازوں پر سر رکھے وہ روئی روئی آنکھوں سے پہلے والی مہرینہ نہیں لگ رہی تھی ۔


مہر!

نرم آواز پر وہ چونک کر سر اٹھاتی سامنے دروازے کے فریم میں کھڑے وجود کو دیکھ کر اسکی طرف دوڑی تھی ۔

اسکے کندھے سے لگتی وہ بے ساختہ رو دی تھی۔

اسنے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا ۔

مہر خود کو سنبھالو آنے والا اتنی ہی عمر لکھوا کر آیا تھا صبر کرو اسکے لیے مغفرت کی دعا کرو ۔

ہ اسکے گالوں پر ہاتھ رکھے نرمی سے وہ سمجھانے لگا تھا ۔

نفی میں سر ہلاتی وہ اور زور سے رونے لگی تھی۔

مہر پلیز تمہارے آنسو ہم سب کو تکلیف دیتے ہیں کیا تم چاہتی ہو تمہاری وجہ سے ہم سب بھی پریشانی میں رہیں کچھ کھائیں پیئے بھی نا اگر بھوکا رہنے سے کوئی واپس آجاتا یا غم و پریشانیاں کم ہوجائیں تو یقین کرو سب لوگ بھوکا ہی رہنا پسند کرتے لیکن آفسوس ایسا ممکن نہیں ہے ہمیں خود کو مضبوط رکھنے کے لیےکھانا کھانا پڑتا ہے حالات چاہے جیسے بھی ہوں کھانا کھائے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے۔۔۔

اسے بیڈ پر بٹھاتا وہ نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا ۔

اگر وہ تھوڑی عمر لکھو کر آئے تھے تو میری زندگی میں کیوں چلے آئے ۔

وہ شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔

وہ گہرا سانس لیتا اسے دیکھتا دانی(ملازمہ) کو کھانا لانے کا اشارا کر گیا تھا۔

وہ اب دھیرے دھیرے اسکا سر تھپکتا اسے کچھ کہا رہا تھا۔

اسے سمجھا رہا تھا کہ مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا ۔

وہ اذیت سے مسکرا دی ۔

آپ اپنی اس ریاست سے ابھی آگاہ نہیں سردار یہاں مرنے والے کے ساتھ اسکی جیتی جاگتی بیوی کو بھی مرنا پڑتا ہے وہ تو چلا جاتا ہے لیکن سہنا ایک بیوی کو پڑتا ہے جس پر باہر کی زندگی حرام کر دی جاتی ہے رنگوں کو اسکے وجود سے نوچ کر کسی کمرے اندھرے میں پھینک دئیے جاتے ہیں اس پر خوشیاں حرام کر دی جاتیں ہیں وہ بس ایک زندہ لاش ہوتی ہے جو زمین کے نیچے نہیں زمین کے اوپر دفنائی جاتی ہے آپ کیا جانے یہ لوگ اب مجھے پر کیا کیا ستم دھائیں گئے مجھے دیکھیں زرا مجھے یہ سفید سوٹ پہنا دیا گیا اور تلقین کی ہے کہ چار ماہ تک کمرے سے نا نکلوں لیکن چار ماہ کے بعد بس اتنا فرق آئے گا کہ میں اس گھر میں تو چل پھر سکتی ہوں لیکن باہر کی دنیا اب میں نہِیں دیکھ سکتی یا پھر کسی رنڈوے یا بوڑھے سے بیاہ دیں گئے،

آپکی ریاست میں ایک بیوہ اور طلاق یافتہ کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے سردار میں بچپن سے یہ سب دیکھتی آئی ہوں۔۔


وہ تو ایک دم سے پھٹ پڑی تھی درد سے رودی تھی۔ ۔۔


سردار نے ساکت نظروں سے اسے دیکھا تھا۔

کسی اور کا مجھے نہِیں پتا لیکن مہر تم پر یہ عدت اور چار دیواریاں لاگو نہیں کی جائیں گئی تم پہلے جیسے ہی جی سکو گئی ۔

وہ دانی کے ہاتھ سے کھانا پکڑتا ہوا بولا تھا ۔

وہ مہر کو ایسے نہیں دیکھ سکتا تھا اسکا دل پھٹ رہا تھا لیکن کیا کرتا وہ مجبور تھا یہ دکھ تو اسے برداشت ہی کرنا تھا نا ۔


اسکا بڑھایا ہو لقمہ منہ میں لیتی وہ طنز سے ہنس دی تھی

آپ شاید ابھی پوری طرح میرے باپ سے آگاہ نہیں۔

وہ اسکے ہاتھ سے کھانے کے لقمے زبردستی خلق میں اتارتی طنز سے سوچ کر رہ گئی ۔

سفید سوٹ بکھڑے بال بنا کوِئی زیور کے وہ مہرینہ تو نہیں لگ رہی تھی جو فیشن کی دلدہ تھی جو ہر وقت ٹین شن سی رہتی تھی۔


_______________________________


خیام کے پیپرز ہو گے تھے تو اس نے واپس اپنی ڈیوٹی جوائن کر لی تھی پیپرز اسکے بہت اچھے ہوئے تھے اسی خوشی میں وہ ہیر کے لیے اسکی پسند کی آئس کریم لایا تھا ۔

ہیر نے آدھی آئس کرم خود کھائی اور آدھی اسے کھلائی ۔

دن بے کیف سے گزر رہے تھے ۔

وہ اکیڈمی سے سیدھا سردار محل آیا تھا ۔

شام کے چھ بج رہے تھے سردار نے اسے لیپ ٹاپ سے کچھ فائلز کو ریکور کرنے لے لیے بلایا تھا جو اسکے لیپ ٹاپ سے اڑ چکیں تھی اور خیام ان کاموں میں بہت ماہر تھا ۔

وہ ایک گھنٹے کی مخنت سے فاٙئلز دوبارہ اسکے اکاوّنٹ میں ٹرانسفر کر چکا تھا ۔


راہدری سے ہوتا ہوا وہ برامدے میں آیا تھا جہاں ایک لوہے کا بھاری جالیوں والا دروازہ لگا ہوا تھا ۔

وہ رکا تھا کہ اس طرف عموماً کوئی نہیں آتا تھا ۔

اسکے روکنے کی وجہ سفید دوپٹہ تھا جو سیڑیوں پر بیٹھے وجود کے کندھے پر جھول رہا تھا ۔۔

وہ تاسف سے شیشے کی پلیٹ کو دیکھ رہا تھا جو سگریٹوں سے بھری ہوئی تھی۔

اتنی سموکنگ وہ بھی لڑکی ہو کر آپ کیسے کر سکتی ہیں ۔

وہ بے ساختہ اس سے پوچھ بیٹھا تھا۔

وہ چونک گئی تھی ۔

پھر پلٹ کر اسے دیکھتی طنز سے مسکرا دی۔

جب اندر آگ لگی ہو نا تو آگ ہی اس آگ کو بجھا سکتی ہے پانی سے تو وہ اور بھڑکتی ہے۔

وہ سنجیدگی سے کش پر کش لگاتی ہوئی بولی تھی ۔

خیام نے ناک چڑہا کر اسے دیکھا مانا کہ اس کا دکھ بڑا تھا لیکن کیا یہ دھواں اس دکھ کو کم کر سکتا تھا ۔

وہ تاسف سے اسکے الجھے بکھڑے بال دیکھتا ہوا بڑبڑایا تھا ۔

جس کا سفید سوٹ میلا سا ہو گیا تھا آج پانچ دن سے اس نے وہی سفید سوٹ پہنا ہوا تھا ۔۔

وہ اس دن سے صرف سموکنگ پر گزارا کر رہی تھی خوراک بہت کم کر گئی تھی لوگوں کی ترحم زدہ نظریں اسے اندر تک جلا دیتیں تھِیں اور آج صبح ہی تو ایک عورت اسکی ماں کو کہہ رہی تھی اب کوئی کنوارا تو ملنے سے رہا کسی رنڈوے سے کر دینا اسکا نکاح گھر بٹھا کر مت رکھنا ۔۔


وہ تو کسی کی بات برداشت نہیں کرتی تھی لیکن اس عورت کو وہ خالی خالی نظروں سے دیکھ کر رہ گئی تھی۔

پلیز انکا استعمال ترک کردیں یہ صحت پر بہت بری طرح اثر کرتے ہیں ۔

وہ اسکے نڈھال چہرے کو دیکھتا ہوا بولا تھا ۔۔

وہ جواباً سر جھٹکتی ہوئی دوبارہ سے کش پر کش لگانے لگی تھی۔۔

وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر لب بھینچتا ہوا وہاں سے نکل گیا ۔


________________________________

ہیــــر!


ہیــــــــــــــر ساکت ہوئی تھی انہیں یوں اپنے سامنے دیکھ کر۔۔

کیسی ہو ہیر ،

وہ گلاسز اتارتا مسکرا کر اس سے پوچھ رہا تھا ۔

ہیر سے کتاب چھّوٹتے چھّوٹتے بچی تھی۔

شام کے ہلکے سرمئی اندھیرے میں اسے کوئی چمکتا ہوا روشن ستار لگا تھا وہ۔


جو وائٹ شرٹ بلیک تنگ جینز میں کافی سے زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا جبکہ وہ نیلے سوٹ میں لمبے بالوں کا رف سا جوڑا بنائے سبق رٹ رہی تھی جب اسکی آواز اسکے ویران دل میں کہکشاں سی کھلا گیا تھا۔

آپ کیسے ہیں اور مہرینہ کیسیں ہیں ؟

کتاب بند کرتی اپنے احساست کو قابو میں رکھے وہ دھیمی مسکان سے سر جھکائے ہی پوچھ رہی تھی۔

وہ لڑکی شرمیلی بہت تھی یہ غاذان تیمور جانتا تھا ۔

وہ ٹھیک ہے آو تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔

وہ دور لگی کرسیوں کی طرف اشارا کرتا ہوا اس سے بولتا ہوا آگے بڑھا۔

ّوہ بھی جلدی سے اسکے پیچھے اسکے قدموں کے نشان پر پیر رکھتی ہوئی چلنے لگی تھی۔

یہ لو تمہارے لیے ۔

وہ بیٹھتا ہوا پاکٹ سے کچھ نکالتا اسکی طرف بڑھاتا ہوا بولا تھا ۔

وہ کل دس دن بعد دبئی سے آیا تھا اور شاید اسکے لیے گفٹ تھا چھوٹے سے ریپر میں لپٹا۔

وہ گفٹ ریپر حیرت سے پکڑ گئی۔

کیا وہ اسکے لیے کچھ لائے تھے ۔

وہ دھڑکتے دل سے سوچنے لگی تھی ۔


ہیر بیٹھ جاو اور کھول کر بتاو کیسا لگا تمہیں تمہارا گفٹ ۔

وہ ریلکس ہو کر بیٹھتا دھیمے لہجے میں اس سے بولا تھا۔

ّوہ لمبے سے باکس پر چڑھائے ریپر کو کھولنے لگی تھی ،اندر ویلوٹ کا عنابی کلر کا کیس تھا۔

وہ انجان تھی کہ اس میں کیا ہے ۔

اسے کھولتی وہ حیرت سے دو چار ہوئی تھی اندر ایک وائٹ گولڈ کا لاکٹ سیٹ تھا ۔

چھوٹے چھوٹے ٹاپس باریک سی نازک چین جس میں ہیر لکھا ہوا تھا ۔

کیسا ہے ۔

وہ حیرت سے دنگ بیٹھی لڑکی سے بولا تھا ۔

یہ میرے لیے ہے ۔۔

وہ حیرت کی زیادتی سے بمشکل بول پائی تھی۔

ہمممم۔ ۔

وہ کافی کا کپ اٹھاتا ہوا بولا تھا جو ابھی ہوٹل کا ملازم رکھ کر گیا تھا ۔


ہیر کا دل ٹرین کی رفتار سے دوڑنے لگا تھا ۔

وہ حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں کھانے لگی تھی کیا سچ میں ریاست کے سردار نے ایک ادنیٰ سی لڑکی کے لیے اتنا مہنگا تخفہ لیا تھا وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی۔


کیا آپ سچ میں لائیں ہیں یہ ۔۔

وہ بے یقینی سے بھولپن سے پوچھ بیٹھی تھی ۔

لیکن اپنی بات پر جانتی نہیں تھی ایسا نظارا دیکھنے کو ملے گا۔

ہاہاہا۔۔۔۔

وہ بے ساختہ قہقہ لگا بیٹھا تھا کہ اس لڑکی کے چہرے کے تاثرات بڑے مزاحیہ تھے۔

نہیں یہ ایک بھوت لایا ہے۔

وہ دھیمے سے بولا تھا ۔

وہ بھی مسکرائی بلکہ ہنسی تھی ۔۔

ہیـــــــــر یہ نقلی ٹاپس اتار کر پھینک دو اور اس سیٹ کو پہنے رکھنا ،کبھی مت اتارنا میں اسی لیے ہلکا سا لایا ہوں۔۔


وہ اسکے نقلی ٹاپس کو دیکھتا ہوا بولا تھا جو کالے پر چکے تھے شاید وہ اسکے ان ٹاپس کو دیکھ کر ہی لایا تھا کیونکہ ہیـــــــــر کو شوق تھا جیولری کا لیکن وہ کبھی خرید نہیں سکی تھی ۔

دبئی کے بہت بڑے شاپنگ مال سے اپنے لیے کچھ شاپنگ کرتے اسے ہیر کے لیے جانے کیوں کچھ لینے کا خیال آیا تھا پھر اسکے کانوں میں پڑے نقلی جیولری یاد آئی تو وہ لے آیا تھا۔

لیکن چین پر نام وہ لکھ کر دیتے تھے تو اس نے ہیر کا نام بھی لکھوا لیا ۔۔


ہیـــــــر بھرے بھرے ہونٹوں میں دھیمی مسکان سجائے سر ہلا گئی۔

پاوں لگ رہا تھا زمین پر نا ہو جیسے ہواوّں پر ہوں۔


میں ابھی آئی ۔

وہ کہتے ہی اندر کی طرف بھاگی تھی۔

ہیر سنبھل کے !

اسے ٹھوکڑ کھاتے دیکھ کر وہ بے ساختہ بولا تھا ۔

سر اسکی طرف گھماتی پھر سر ہاں میں ہلاتی وہ اندر کی طرف دوڑ گئی تھی ۔

وہ سر جھٹکتا کافی کے سپ لے رہا تھا جب وہ تین چار منٹ میں مٹھی میں کچھ پکڑے اسکے سامنے آئی تھی۔

ہیر چادر سر پر لو۔۔۔۔

اس نے نرمی سے ٹوکا تھا اسے۔۔

ہیر کا نیلا دوپٹہ سر سے کندھوں پر آگیا تھا دو تین لڑکے دور کھڑے ہیر کی طرف متوجہ ہوئے تھےا س لیے وہ اسے ٹوک گیا تھا۔


وہ جلدی سے دوپٹہ کندھوں سے سر پر اوڑھ گئی ۔

یہ آپ کے لیے میں پرسوں لائی تھی ۔

وہ اسکی طرف بڑھاتی ہوئی بولی تھی۔


وہ حیرت سے کپ ٹیبل پر رکھے اسکے ہاتھ میں ریڈ کلر کے پین کو دیکھ رہا تھا ۔

جو کافی خوبصورت تھا ۔

وہ اسے دیکھتا مسکرا دیا۔

ہیر بھی کھل کر مسکرائی ۔

یہ کیوں !

وہ پین پکڑتا نرمی سے پوچھ رہا تھا ۔

آپ کی پاکٹ میں ہمیشہ پنسل لگی ہوتی ہے تو اس لیے لیا کیا آپ اسے بھی پاکٹ میں لگا سکتے ہیں ؟

وہ جھجھکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

وہ سنجیدگی سے سر ہلا گیا ۔

دور بیٹھا ریاض کا آدمی ان دونوں کی پکس بنا کر ریاض کو سینڈ بھی کر چکا تھا ۔۔۔

وہ رات کی کافی اپنی بالکنی میں بیٹھ کر پیتا تھا آج سارا دن وہ بہت بزی رہا تھا لوگوں کے مسلے نمٹاتے اسے شام ہو گئی تھی ۔۔

کچھ تیمور صاحب بار بار اسے شائنہ سے نکاح کے لیے فورس کر رہے تھے وہ زینی طور پر تیار نہیں تھا شائنہ سے نکاح کے لیے وہ اسے ابھی جانچنا پڑتنا چاہتا تھا لیکن تیمور صاحب کی جلد بازی ۔۔

وہ گہرا سانس لیتا کافی کے گھونٹ گھونٹ بھرتا فائل پر رکھا ہیر کا پین دیکھنے لگا ۔۔

وہ غیر اردای طور پر اسے دیکھتا جا رہا تھا جب تیمور صاحب نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا۔

کیا سوچا ہے پھر ۔۔

وہ اسکے سامنے بیٹھتے ہوئے بولے تھے ۔

وہ چونک کر انہیں دیکھتا ہنوز کافی کے سپ لیتا رہا۔۔

کس بارے میں ؟

وہ سوالیہ آئی برو اچکا کر لاپرواہی سے بولا تھا۔

شائنہ کے بارے میں کب اس سے شادی کرو گِے ڈیٹ دو فائنل کرنی ہے سردار غاذان تیمور ۔۔


وہ ایک ایک لفظ دانت پیس کر بولے تھے۔

وہ مسکرایا تھا انکے تپے چہرے کو دیکھ کر ۔۔

ڈیڈ میں نہیں کرنا چاہتا شادی اتنی جلدی، یار آپ سمجھو جلد بازی میں ،میں کچھ خراب نہیں کرنا چاہتا ۔

وہ کپ ٹیبل پر رکھتا ہوا سنحیدگی سے بولا ۔

جس پر تیمور صاحب لب بھینچے بیٹے کو گھورنے لگے ۔۔

تمہیں کہی وہ لڑکی پسند تو نہیں آ گئی ۔

وہ طنز سے پوچھ رہے تھے ۔

وہ جواباً حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔

نو ڈیڈ آپ کو ایساکیوں لگا !

وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔

تو تیار ہو جاو میں نے طلاق نامہ بنوا لیا ہے ایک دو دن تک تمہیں مل جائے گا تو سائن کر دینا اس غریب لڑکی کو میں اور تمہارے ساتھ نہیں دیکھنا چاہتا سمجھے اور ہاں تم میرے بیٹے ہو اور میں تمہارا باپ ہمیشہ سے تمہاری ہی مان رہا ہوں تم نے کہا میں یہاں نہیں رہنا چاہتا مصر جانا چاہتا ہوں میں نے خود پر جبر کر کے تمہیں مصر بھیجوا دیا تم نے جو جو کہا وہ تمہاری پسند سے ہوا اب شادی تو کم از کم میری پسند سے کر لو تا کہ مجھے بھی لگے کے میرا بیٹا میرا فرمانبرادر ہے ناکہ نا فرمان۔


وہ چہرے پر غم زدہ تاثرات لاتے ہوئے غمگین لب و لہجے میں بولتے سچ میں بیٹے کو اینوشنل کر گئے کہ وہ ان سے بہت مجبت کرتا تھا وہ انکی ہی خاطر یہاں رہ رہا تھا ورنہ اسکا کب دل لگتا تھا یہاں ۔۔۔۔

اوکے جو مرضی ہے کریں لیکن پلیز ایندا سے میرے سامنے روئیے گا مت ۔۔

سنجیدگی سے کہتا وہ وہاں سے سرعت سے اٹھتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔

پیچھے وہ اپنی ایکٹنگ پر مسکرا دئیے۔۔


____________________________


سردار تین دن کے لیے مصر چلے گئے تھے رائنہ سے ملنے کیونکہ نہِیں موسمی بخارا سا تھا اور وہ ماں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔۔

مہرینہ نے چونک کر لاونج میں بیٹھی عورت کو دیکھا۔

اسکا کالج جانا باہر نکلنا سب بند تھا وہ سردار سے آج کل میں ان سب کی شکایت لگانے والی تھی لیکن وہ مصر کے لیے نکل چکے تھے ۔

وہ عورت اسے دیکھنے آئی تھی اپنے پنتیس سالہ بھائی کے لیے جس کے پہلے سے دو بچے تھے لیکن بیوی کو طلاق دے کر بچے بھی بیوی کو ہی لکھ دئیے تھے ۔


وہ عورت اسے ناقادانہ نظروں دیکھتی رہی وہ شاید خاص مطمئن نہیں ہوئی تھی اسے سے کہ وہ کافی ملگجے سے خلیے میں تھی ،

وہ عورت کافی امیر ترین لگ رہی تھی جاہلوں کی طرح سونے سے لدی ہوئی تھی جیسے لوگوں پر اپنے امیر ہونے کی ڈھاک بٹھانا چاہ رہی ہو ۔۔


بہن مجھے اسکی کوئی تصویر دے دیں تاکہ میں اپنے بھائی کو دیکھا دوں اسے پسند آئی تو توہی بات آگے بڑھے گئی۔


وہ عورت مغرور تاثرات سے بولی جیسے انکا بھائی کنوارا اور بیس سال کا ہو ۔

لب بھینچتی ہوئی وہ کھڑی ہوتی

اس عورت کی طرف آئی تھی۔

کھڑی ہوں ۔

اسکے تیکھے لہجے پر نوشین سمیت سب ہی بھوکھکلا گئے تھے ۔

وہ عورت نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔

میں نے کہا کھڑی ہوں یا اونچا سنتی ہیں آپ۔

۔

وہ اس بار چلائی تھی ۔

وہ عورت چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتی ہوئی اٹھی تھی۔۔

وہ دروازہ ہے اس گھر کا شرافت سے چلیں جائیں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔

مہرینہ ۔۔۔

نوشین نے اسکا بازو ڈبوچتے ہوئے اسے تنبیہی لہجے میں پکارا ۔۔

چھوڑیں مجھے شرم آنی چاہئیے آپ لوگوں کو۔

وہ خلق کے بل چلائی تھی ۔

اور آپ ابھی تک یہی کھڑیں ہیں کوئی عزت وزت ہے یا وہ بھی بیچ کر گہنے ہی خرید چکیں ہیں آپ۔

سینے پر ہاتھ باندھتی وہ اس بار طنز سے بولی۔

ارے کتنی بد زبان ہے تمہاری بیٹی اسکی شادی مت کرو اسے گھر پر ہی بٹھا کر رکھو کے اس جیسی لڑکیوں کی شادی نہیں ہوتی۔

وہ عورت اپنا بیگ اٹھاتی ہوئی تیکھے لہجے میں پھنکاڑی۔

میں یہی ٹھیک ہوں آپ جائیں جا کر اپنے کنوارے کم سن بھائی کے لیے کوئی دودھ پیتی بچی ڈھونڈیں اور آئندہ ادھر کا رخ کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔


وہ سپاٹ لہجے میں مسکراتی ہوئی بولی تھی۔

ار ے چل دفع ہو تجھے تو کوئی طلاق یافتہ تو کیا رنڈوا بھی منہ نا لگائے آئی بڑی بڑبڑ کرنے والی وہ عورت تیکھے لہجے میں کہتی اسے دھکا مار کر چلتی بنی ارے بہن میری بات تو سنیں۔


نوشین اور شرمین بھوکھلاتے ہوئے اس عورت کے پیچھے بھاگیں تھیں جبکہ وہ تاسف سے ماں اور چاچی کو دیکھتی رہ گئی۔


کیا ضرورت تھی یہ سب بکواس کرنے کی۔

نوشین اسکا رخ اپنی طرف کرتی ہوئی غصہ ہوئی تھی اس پر ۔۔۔

وہ ہنسی ۔۔

امی مجھے بیوہ ہوئے ایک ماہ ہوا ہے اور آپ مجھے اس گھر سے نکالنے کے درپے ہو گئی کیا میں بوجھ بن چکی ہوں آپ پر۔


وہ درد بھرے لہجے میں بولتی نوشین کا دل دہلا گئی ۔۔

نہیں میری بیٹی ایسا نہیں ہے میں نہیں چاہتی تم ہمیشہ اس محل کے چار دیواروں میں بھٹکتی رہ جاو،

ہم تمہیں تمہارے گھر کا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں پھر تمہاری بہن کا بھی تو سوچنا ہے وہ تم سے بڑی ہے مہرینہ ۔

نوشین اسے سینے سے لگاتی ہارے ہوئے لہجے میں بولیں۔

وہ لب بھینچے ان سے اپنا آپ چھڑاتی ہوئی سیڑیوں کی طرف بڑھ گئی۔

شرمین نے طنز سے نوشین کو دیکھا تھا ۔

ؑبہت اتراتی پھرتیں تھی اپنے بیٹے اور بیٹوں پر اب بھگتو ۔۔

وہ دل میں کمینگی سے سوچ کر رہ گئیں۔

______________________________


تیمور صاحب نے شادی کی تاریخ دے دی تھی ریاض صاحب کو وہ خوش ہوتے ثمرینہ کو لے گئے تھے ثمرینہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن بھائیوں کی وجہ سے چلی گئی کہ وہ اپنی وجہ سے سب کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔


شائنہ کے پاوں زمین پر پڑنے سے انکاری تھے ۔

فائنلی سردار غاذان اسکا ہونے والا تھا وہ ہیر کو اسکی زندگی سے جلد نکالنے والی تھی آخر وہ کب تک اسکے ہونے والے شوہر پر قابض رہتی۔۔۔

_______________________________


خیام نے ساکت نظروں سے گھر کی سجاوٹ کو دیکھا ۔۔

تو کیا سردار اسکی بہن کو چھوڑنے والا تھا یہ خیال ہی اسکا دل چیڑ گیا تھا ۔۔

وہ اپنی بہن کی رگ رگ سے واقف تھا کیا وہ نہیں جانتا تھا اسکی بہن انکے لیے کس قدر پاگل تھی انکا نام ہی اسکے چہرے پر قوس و قزاح کے رنگ بکھیڑ دیتے تھے وہ ہیر سے کیا کہے گا ۔

وہ لب بھینچتا ہوا وہاں سے برے دل سے نکل گیا تھا ۔

محل کو دس دن پہلے ہی سجایا جا رہا تھا آخر کو ریاست کے سردار کی شادی تھی۔۔۔۔

___________________


وہ بازار میں اپنے لیے بکس وغیرہ لینے آئی تھی پھر خیام کے لیے دو تین شرٹس لینے مال چلی آئی ۔

اسکے لیے اچھی سی دو شرٹ لیتی وہ وہاں سے پلٹ رہی تھی جب اسکی نظر

ہینگر پر لٹکتی ایک نیوی بلیو کلر کی شرٹ پر پڑی جس پر سفید بٹن لگے ہوئے تھے شرٹ اچھی خاصی مہنگی تھی ۔

اسکی قینخمت سن کر وہ مایوس ہوئی اس کے پاس تو صرف پانچ سو تھا جبکہ سیلز مین پندرا سو کی شرٹ بتا رہا تھا۔

وہ لب بھینچے حسرت سے اس شرٹ پر نظریں جمائے کھڑی رہ گئی ۔۔

آنکھوں میں آنسوں سے چمکنے لگے تھے۔

بکس کو دیکھ کر اسے اچانک ہی ا یک خیال سرعت سے آیا تھا ۔

بکس لے کر وہ جلدی سے بکس والی دکان کی طرف دوبارہ سے بھاگی ۔۔

وہ بکس واپس کر چکی تھی ۔

بھائی میں پھر لے لوں گئی ۔

ان سے پیسے لے کر وہ عجلت میں کہتی ہوئی اسی شاپ میں گئی شرٹ خریدی اور ہوٹل چلی آئی وہ شرٹ چپکے سے کبڈ کی تہ میں رکھ دی ۔۔

_______________________________


مہرینہ کا رشتہ سہیر خانم نے پاس کے گاوّں میں بہت بڑے جاگیردار سے طے کر دیا تھا بنا گھر میں سے کسی سے پوچھے بس بھائیوں سے صلاح مشورہ کیا اور ایک شادی شدہ آدمی سے کر دی اسکی بات پکی اس سے جس کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں تھی ۔


شبیر جاگیردار کو مہرینہ پسند آئی تھی اسکی یونی کی پکس دیکھ کر اس نے ہاں کر دی اور پھر ایسے میں آنا فانا رشتہ بھی طے ہو گیا بنا مہرینہ سے پوچھے ۔۔

وہ لاونج میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی سارے گھر کی خوب صفائی ہو رہی تھی آج ,

وہ نا سمجھی سے سب دیکھتی رہی ۔۔

لیکن چونکی تب جب بار بار نوشین نے اسے تیار ہونے کو کہا۔۔۔

لیکن وہ ہر بار سر جھٹک گئی ۔۔

وہ ٹھٹھکی ۔۔

لاونج میں چار پانچ خواتیں آئیں تھی دو مرد بھی پیچھے تھے ۔۔


مہرینہ صحیح سے بیٹھو یا کمرے میں چلی جاو ۔۔

مہدیہ نے ڈھیٹ بنی بیٹھی مہرینہ کو ٹہکا مارا لیکن وہ آنے والوں کو نا سمجھی سے دیکھتی ٹھس سے بیٹھی رہی جو اب اسکے قریب آچکے تھے اور باری باری سب اسے پیار دینے لگے تھے ۔

بہت پیاری بچی ہے آپکی نوشین ۔۔

ایک عورت نے اسے محبت سے دیکھتے ہوئے ان سے کہاّ۔۔

وہ ابھی ابھی نہا کر بیٹھی تھی وائٹ سوٹ اوپر بلیک وائٹ کڑھائی والی چادر لیے وہ آج اچھی لگ رہی تھی۔

وہ آنے والوں کا مطلب سمجھ چکی تھی۔


تو کیا اب میرے گھر والے مجھے اس گھر میں نہیں رہنے دینا چاہتے ۔

وہ دلگرفتی سے سوچتی اٹھی تھی وہاں سے جب ایک بزرگ خاتون نے اسے واپس بٹھا لیا۔

زبیدہ جب بچی پسند ہے تو چھوٹی سی رسم کر لیتے ہیں۔


بڑی عمر کی عورت شاید اپنہ بہو سے بولی تھی۔

نوشین اور سب گھر والے صرف مہرینہ کو ہی دیکھ رہے تھے۔۔

وہ زبردستی اسکی انگلی میں بھاری سونے کی انگوٹھی پہنا چکے تھے ۔

سب لوگ منہ میٹھا کرنے لگے تھے۔

وہ بت بنی سب کو پتھرائی نظروں سے دیکھتی رہی۔۔۔

سردار آپ کہاں ہیں !

وہ آنکھوں میں آئی نمی پیتی ہوئی اس شخص کو یاد کرنے لگی جو اس گھر میں سب سے زیادہ اس سے محبت کرتا تھا جو کہتا تھا مہر میں تمہارے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہونے دوں گا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کس کی اجازت سے آپ لوگوں نے میرا رشتہ طے کیا ہے بھاڑ میں گیا یہ رشتہ میری جوتی کرتی ہے اس سے شادی سمجھے آپ لوگ۔۔


انکے جانے کے بعد وہ ایک دم سے پھٹی تھی محل والوں کی بے حسی پر۔۔


آہستہ بولو تمہارے بابا بیٹھک میں ہیں ۔

نوشین نے ترلے سے اسے چپ کروانا چاہا۔

تو کیا کروں سنتے ہیں تو سن لیں یہ لیں اپنی سوہنی انگوٹھی ۔

ایک دم سے مشتعل ہوتی انگوٹھی انگلی سے اتار کر وہ زور سے فرش پر پٹخ چکی تھی۔

لیکن برا ہوا وہ رنگ جا کر سہیر خانم کے قدموں میں آکر گری تھی۔

وہ قہر بھری نظروں سے بیٹی کے مشتعل وجود کو دیکھ رہے تھے ساتھ خشام خانم بھی تھے اور داود بھی تھا جو بہن کو بہت غصے سے دیکھ رہا تھا ۔

مہرینہ نے بے تاثر نظروں سے باپ بھائی کو دیکھا ۔۔

کیا حرکت ہے یہ ۔۔

وہ بیٹی کے نزدیک آتے ہوئے اس پر چلائے۔

وہ انکی آنکھوں میں دیکھتی رہی بنا ڈرے ۔

نوشین نے ہولتے ہوئے بیٹی اور شوہر کو دیکھا جو آج آمنے سامنے تھے ۔


نظریں نیچی کرو بے شرم لڑکی۔

وہ مشتعل ہوتے پوری قوت سے چلائے تھے ۔۔

سب اپنی اپنی جگہ کانپ کر رہ گئے۔

سوائے مہرینہ کے ۔

بے شرم کیوں کہا آپ نے کونسے میں نے باہر عاشق پال رکھے تھے کونسا میں اپنے لیے یار پسند کر بیٹھی ہوں گھر سے بھاگی نہیں ہوں تو بے شرم کیسے اگر اپنے حق کے لیے بولنا بے شرمی ہے تو ہاں مہرینہ سہیر خانم دنیا کی سب سے بے شرم لڑکی ہے نہیں کرئے گئی وہ آپ لوگوں کے پسند کیے بوڑھے سے شادی اپنی پسند سے کرو۔۔۔۔۔۔


چٹاخ, چٹاخ ، چٹاخ ، چٹاخ۔


اگلا فقرہ منہ میں ہی رہ گیا تھا پے در پے تھپڑوں نےا سے فرش کی دھول چٹا دی تھی ۔

معاف کردیں اسے بچی ہے نا سمجھ ہے۔

نوشین بیٹی کے اوپر گرتے ہوئے بے بسی سے روئی۔

بکواس بند کرو تم نے ہی اسے سر چڑیا رکھا ہے دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتی تم شادی کل ہی ہو گا تمہارا نکاح بتا چکا ہوں میں انہیں اور اب اگر تمہارے منہ سے ایک لفظ بھی نکلا تو ہمشہ کے لیے تمہیں گونگا کرنے میں مجھے زرا آفسوس نہیں ہو گا۔۔

وہ ایک دم سے چلائے تھے ۔

سب لڑکیاں کونوں میں سہمی سی کھڑیں تھیں ۔۔

چلو یار بس کردو ابھی بچی ہے سمجھ جاِے گئی آہستہ آہستہ۔

خشام صاحب نے بھائی کو آرام کرنا چاہا۔


نہیں چاچو بابا کا رویہ اس سے ٹھیک ہے یہ کچھ زیادہ ہی سر چڑ چکی ہے۔

داور بھی اس پر غصہ تھا بہت۔۔۔۔۔


وہ خون آلود چہرہ اوپر اٹھائے انہیں سپاٹ نظروں سے دیکھتی رہی ۔۔

چہرہ زور سے فرش پر لگنے سے دانتوں سے خون رسنے لگا تھا اسکا ۔۔


اب اس لڑکی کو میں زرا اس گھر میں برداشت نہیں کروں گا ۔۔

وہ غصہ سے کہتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔۔

پیچھے خشام اور داور بھی بڑھے۔

نوشین نے ساکت بیٹھی بیٹی کو سیدھا کیا ۔

وہ خالی ویران آنکھیں لیے مہدیہ کے ساتھ کسی بے جان گڑیا کی طرح کھینچتی چلی لگی۔

نوشین صوفے پر بیٹھتی رونے لگی تھی اور شرمین انہیں چپ کروا رہی تھی اوپر اوپر سے۔۔۔


________________________________


ہیر نے ساکت نظروں سے ساریا کو دیکھا ۔

ساریا یہ تم نے کیا کیا۔

اپنے بالوں کو دیکھتی وہ وخشت سے بولی ۔۔

اسکے لمبے سیدھے خوبصورت بال اب بمشکل کندھوں سے نیچے تک آرہے تھے ۔۔


یونی سے ساریا اسے زبردستی پارلر لے آِئی کہ تمہارے بالوں کی نیچے سے کٹنگ کرواوں گئی تو زیادہ بڑھیں گئے ۔

وہ منع کرتی رہی لیکن ساریا نے کہا ایک انچ ہی تو کٹیں گئے اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا لیکن وہ تو اسکے سارے بال کٹوا چکی تھی۔


ارے یار یہ فیشن ہے تم تو صدا مائی جی ہی بنی رہتی اب دیکھو تم پر یہ ہیئر کٹ کتنا سوٹ کر رہا ہے۔

ساریا اسکے بالوں کو ہلاتی ہوئی لاپروائی سے بولی۔

جبکہ وہ نیچے گرے بالوں کو دیکھتی اونچا ونچا رونے لگی تھی ساریا سمیت وہاں سب لوگوں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔


یہ تم نے کیا کردیا ساریا تم جانتی تھی مجھے اپنے بالوں سے کتنی محبت تھی ۔

وہ روتے ہوئے بول رہی تھی ۔۔

ارے یار ریلکس پھر سے بڑے ہو جائیں گئے اس میں اتنا اوور رئیکٹ کی کیا ضرورت ہے بھلا۔

ساریا نے اپنے لمبے بالوں کو انگلیوں سے لہراتے ہوئے اسے ٹھنڈا کرنا چایا۔

وہ اسے زخمی نظروں سے دیکھتی وہاں سے غصے سے بھاگی تھی ۔

ساریا بھی اپنا سٹائلش بیگ پکڑتی اسکے پیچھے پیچھے بھاگی۔


______________________________


اسکے ساکت بیٹھے وجود کو زبردستی سجایا سنوارا جا رہا تھا ۔۔

وہ بنا کوئی حرکت کیے پتھرائی ہوئی نظروں اپنے اپنوں کو دیکھتی رہی۔

اسے ریڈ کلر کی بہت بھاری اور خوبصورت فراک پہنائی گئی تھی گولڈ کی بھاری جیولری بنا میک کے وہ دلہن بنی عجیب ہی لگ رہی تھی کہ اس نے سختی سے میک اپ کرنے سے منع کر دیا تھا جس پر سب نے اسے بہت سمجھایا ترلے کیے لیکن وہ نا مانی ۔۔

سردار آپ بھی انہی کے جیسے ہیں آپ کی ہی وجہ سے آج میری یہ حالت ہے ۔

وہ نکاح نامے پر سائن کرنے کو جھکتی ہوئی درد بھرے دل سے سوچ رہی تھی ۔

شبیر بہت چاہ سے اپنی نئی نویلی دلہن کو دیکھ رہا تھا ۔۔

۔۔

ایک منٹ !

مہری۔۔۔

وہ اپنا نام ابھی آدھا ہی لکھ سکی تھی جب بھاری سنجیدہ آواز پر اسکا ہاتھ ساکت ہوا تھا۔۔

وہ ایک دم سے سر اٹھاتی ہوئی اس طرف دیکھنے لگی ،

وہ غصے سے قریب آیا تھا ۔

اسکے آگے سے پیپرز جھپٹتا وہ ایک دم سے سارے پھاڑ کر سب کے منہ پر پھینک چکا تھا۔

سب کھڑے ہوتے سردار کو غصہ حیرت سے دیکھنے لگے۔

سوچ بھی کیسے لیا آپ لوگوں نے کہ مہر کی شادی میرے بنا کسی بھی ارے غیرے سے کر دیں گئے زندہ ہوں میں ابھی مرا نہیں۔


وہ وخشت سے سب پر چلایا تھا ۔۔

تم سردار ہو تو تمہارا لخاظ کر دیا ہے ورنہ کوئی اور ہوتا تو اب تک اپنی آخری سانسیں گن رہا ہوتا ۔۔

شبیر جاگیردار غصے سے چلایا ۔

آواز نیچی!

اپنے آگے اونچی آواز سننا مجھے پسند نہیں سمجھے تم،

اور چاچو آپ اسکے باپ ہیں یا کوئی غیر مجھے نہیں لگتا یہ آپکی بیٹی ہے۔

وہ اپنی طرف قہر سے دیکھتے سہیر خانم پر پھنکارا تھا ۔

تم ہوتے کون ہو؟ وہ میری بیٹی ہے میں جس سے چاہوں اسکی شادی کر دوں تم ہوتے کون ہو یہ حرکت کرنے والے سردار اپنے رتبے پر ہی رہو تو بہتر ہو گا ورنہ تم مجھے اچھے سے جانتے ہو سمجھے۔۔


سہیر خانم قہر بھری نطروں سے اسے دیکھتے ایک ایک لفظ چبا کر بولے تھے۔


غاذان تم اندر چلو ۔۔۔

تیمور صاحب بولے تھے جب وہ ہاتھ سے انہیں اشارا کرگیا لیکن دیکھتا سہیر خانم کو رہا۔

چاچو اگر وہ آپکی بیٹی ہے تو میں بھی خدا کی قسم اسے اپنی بیٹی ہی مانتا ہوں مجھے تو وہ اتنی عزیز ہے کہ میری جان نکل رہی اسے اس طرح دیکھ کر اور آپ کہہ رہے ہیں میرا اس سے کیا تعلق ہے اپنے جیتے جی یہ سردار مہر سے کوئی زیادتی نہیں ہونے دے گا یہ میرا وعدہ تھا مہرینہ سے ,

اور وعدے نبھانا غاذان تیمور کو اچھے سے آتے ہیں ۔۔۔

اسکی سرد آواز پر سب کو جیسے سانپ سونگھ 

سردار غاذان اس سے پہلے میں بھول جاوں تم ایک سردار اور میرے بھیتجے _ہو نکل جاو یہاں سے یہ میری بیٹی ہے جس سے چاہوں بیاہ دوں تم ہوتے کون ہو بھیچ میں بولنے والے کہنے سے کوئی کسی کا باپ نہیں بن جاتا ۔

وہ بھی سہیر تھے کسی کی نا سننے والے۔

سردار مسکرایا ۔

آپ بھیتجے کو تو یہاں سے بھیج سکتے ہیں لیکن ریاست کے سردار کو یہاں سے جانے کے لیے آپ نہیں کہہ سکتے بہتری اسی میں ہے میری بات مان لی جائے ورنہ جیل میں ڈلوا سکتا ہوں لڑکی کی زبردستی شادی کروانے کے جرم میں اور یہ کرتے مجھے زرا بھر افسوس نہیں ہو گا ۔۔


وہ آرام سے ہاتھ پشت پر بندھتا ہوا سرد سے لہجے میں بولا تھا ۔

سب نے پریشانی سے اسے دیکھا آخر وہ چاہتا کیا تھا کیوں بنی بنائی بات بھگارنے پر تلا ہوا تھا۔

سہیر نے طنزیہ نظروں سے بھائی کو دیکھا ۔۔۔

تیمور نے نظروں ہی نظروں میں اسے تسلی دی تھی۔

غاذان تم تھک گئے ہو گئے جاو اپنے روم میں آرام کرو ۔

تیمور خانم کی غصیلی آواز پر وہ انکی طرف مڑا تھا۔

مہرینہ سر جھکائے ساکت بیٹھی تھی جیسے وہ وہاں ہو ہی نا اسکا دل اچاٹ ہو گیا تھا ان رشتوں سے جو صرف دنیا کے لیے ہی جیتے تھے اپنوں کی تکلیف انہیں نظر نہیں آتی تھی اگر آتی بھی تھی تو وہ آسانی سے نظر انداز کر دیتے کیسے رشتے تھے یہ کیا یہ صرف نام کے ہی رشتے تھے بناوٹی۔


ڈیڈ پلیز آپ بیچ میں مت بولیں تو بہتر ہو گا یہ مت بھولیں میں آپ سب کا لخاظ کر رہا ہوں ورنہ سردار سے اونچے لہجے میں بات کرنے والے کی کیا سزا ہوتی ہے آپ لوگ اچھے سے جانتے ہیں میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھائیں آپ سب۔

اسکے سخت و ترش لہجے پر تینوں بھائیوں نے اسے پریشانی سے دیکھا تھا۔

ٹھیک ہے نہیں کرتے اسکی شادی کسی ایسے ویسے مرد سے اگر تم ابھی کنوارا لے آو تو میں یہ رشتہ توڑ دوں گا ۔

سہیر خانم اسکے سامنے آتے ہوئے طنز سے بولے کہ وہ جانتے تھے کوئی کنوارا لڑکا اسے نہیں ملے گا اور اتنی جلدی تو ہرگز نہیں ۔۔

غاذان نے ٹھٹھک کر انہیں دیکھا ۔

تیمور نے بھی کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا کہ اب آیا اوّنٹ پہاڑ کے نیچے ۔

وہ ان بھائیوں کو کچھ دیر سنجیدگی سے دیکھتا رہا ۔

اوکے تو پھر ڈن ہوا آپ لوگ ایک دو دن کا وقت دیں مجھے ۔

وہ بھی کندھے اچکاتا سنجیدگی سے بولا تھا۔

نہیں سردار جی ابھی اسی وقت ہو گا نکاح کیا کہتے ہو پھر ۔

سہیر خانم فل موڈ میں میدان میں اتر چکے تھے جانتے جو تھے بات نا ممکن سی ہے۔


لیکن اتنی جلدی کیسے ارینج ہو سکتا ہے آپ لوگ کم از کم کچھ دن کا وقت تو دیں مجھےّ۔۔

وہ کافی غصے سے بولا ۔

نکاح ابھی ہو گا ورنہ پھر کبھی نہیں ہو گا۔۔

تیمور خانم بھی سنجیدگی سے بولے۔

وہ ہونٹ بھینچے انہیں دیکھتا رہا ۔

ایک گھنٹہ کا وقت دیں مجھے۔

وہ اس بار خاصے روعب سے بولا ۔

دیا ا گھنٹے کا وقت لیکن لڑکا کنوارا ہو پڑھا لکھا ہو اچھے اور امیر خاندان سے ہو ۔۔

سہیر خانم کی شرط سن کر اسکے کشادہ پیشانی پر کافی بل نمودار ہوئے تھے ۔

جاو بیٹا رشتہ ڈھونڈو تمہارے وقت میں دو منٹ بیت بھی چکے ہیں۔

خشام نے بھی اس بار گفتگو میں حصہ لیا۔

وہ لب بھینچے وہاں سے تیزی سے نکلا تھا پیچھے گارڈز کی فوج بھی لپکی تھی ۔


مہرینہ طنز سے مسکرا دی۔

سردار بھی بھولے ہیں بھلا انکی ریاست میں ایک بیوہ کو اچھا اور کنوارا لڑکا کیسے مل سکتا تھا۔

شبیر جاگیردار نے غصے بھری نظروں سے سہیر کو دیکھا جنہوں نےا سے ریلکس رہنے کا کہا اور اسکے پاس آئے۔

ڈونٹ وری سردار کو کہی سے رشتہ نہیں ملے گا میری بیٹی کا نکاح صرف تم سے ہی ہو گا۔

انہوں نے اسکا کندھا تھپکتے ہوئے اسے تسلی دی ۔۔

جبکہ مہرینہ نے غصے سے اپنے باپ کو دیکھا تھا۔

___________؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛___________


ہیر نے سرخ آنکھوں سے اپنے بالوں کو دیکھا ۔

اسکے بال کمر سے نیچے تک جاتے تھے ، کتنی محنت سے اسکی چچی امی نے تیل لگا لگا کر اسکے بال بڑھائے تھے اور ایک جھٹکے سے اسکے بال کیسے اتنے چھوٹے ہو گئے اففف میں کیا کروں گئی کیسے رہوں گئی اپنے بالوں کے بغیر۔

وہ بیڈ پر بیٹھتی دونوں ہاتھوں میں منہ چھپاتی رونے لگی تھی اسکی معصومیت کا لوگ ایسے ہی تو فائدہ اٹھاتے تھے ۔۔


آپی ایسے رونے سے کیا ہو گا جو ہونا تھا وہ ہو گیا نا اب بس کر دیں رونا ، پھر سے بڑھ جائیں گئے بال۔

خیام نے ہیر کو صبح سے روتے دیکھ کر اب پریشانی سے اسے ٹوکا تھا ۔۔

خیام چچی امی کی نشانی تھے میرے بال انہوں نے کتنی محنت کی تھی میرے بالوں پر پتا نہیں کیسے اتنی جلدی میرے بال کاٹ دئیے انہوں نےخ اور مجھے پتا بھی نہیں چلا۔

وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی۔ ۔

چپ بس اب آپ نے نہیں رونا جو ہوتا تھا وہ ہو گیا اب رونے کا کیا فائدہ ۔۔

اس نے ہیـــــر کا سر تھپکتے ہوئے تسلی دی۔

وہ آنکھوں میں آئی نمی پیتے ہوئے سر جھکا گئی۔

تب ہی وہ چونکی تھی جانی پہچانی خوشبو کی دلفریب مہک پر ،

تب ہی دروازہ کھلا تھا اور وہ عجلت سے اندر آیا تھا ۔

وہ دونوں اسے دیکھتے بیڈ سے کھڑے ہوئے تھے۔

ہیــــــر کی آنکھیں جل تھل ہوئیں تھیں اپنے مسیحا کو سامنے دیکھ کر۔

وہ جلدی سے چادر سر پر اوڑھ گئی وہ انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے بال نہیں دیکھانا چاہتی تھی۔

ہیـــــر کیسی ہو تم۔

وہ اتنی پریشانی میں بھی اسکی خیر خیریت پوچھنا نہیں بھولا تھا۔

وہ سر ہلا گئی بولی نہیں کہ گلہ بیٹھ چکا تھا رو رو کر ۔۔

گڈ ۔۔

خیام باہر آو تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔

وہ ہیر کی سرخ آنکھیں غور سے دیکھتا ہوا خیام سے بولا تھا ۔

خیام سرعت سے سر ادب سے جھکا گیا ۔۔

وہ انہی قدموں سے باہر نکل گیا ۔

خیام اسے ریلکس رہنے کا اشارا کرتا ہوا انکے پیچھے بڑھا تھا ۔

ہیر کا دل خالی ہوا ۔

سردار تھوڑی دیر رکے بھی نہیں تھے ۔

اب وہ کیا جانے ریاست کے سردار کو کتنی پریشانیوں سے سامنا تھا ۔


خیام مجھے کچھ کام ہے تم سے کیا تمہاری نظر میں کوئی اچھا لڑکا ہے جسکا خاندان بھی اچھا کھاتا پیتا ہو اور شادی کے خواں ہوں مجھے یہاں سیٹل ہوئے زیافہ عرصہ نہیں ہوا تو میں پرسنلی کسی کو اتنے اچھے سے جانتا نہیں ہوں شہنام بھی یہاں نہیں ورنہ مجھے کوئی پریشانی نا ہوتی ۔


وہ چاہتا تو کسی کو بھی شادی کے لیے لے جاتا کہ اسکے کہنے کی دیر تھی کونسا کسی نے اسکی بات کا انکار کرنا تھا ۔

لیکن وہ جلد بازی میں مہرینہ کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا وہ ایک عذاب سے نکل کر کسی دوسرے عذاب سے دو چار ہو اور وہ بھی اسکی جلد بازی کی وجہ سے وہ خقیقت مہرینہ سے بہت پیار کرتا تھا کہ یہ اسکے چہرے سے پتا چل رہا تھا ۔۔


خیام نے حیرت سے انہیں دیکھا پھر کچھ سوچتا ہوا مایوسی سے سر انکار میں ہلا گیا ۔

وہ گہرا سانس لیتا ادھر ادھر چکر لگانے لگا آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا۔

کہاں سے ڈھونڈو مہرینہ کے لائق لڑکا ۔

وہ پریشان ہو اٹھا تھا ۔

پھر اسکی نظرِیں اچانک سے خیام پر ٹھہریں تھیں ۔۔

جو بلیو تنگ جینز پر وائٹ شرٹ پہنے ہوا تھا سلیقے سے بال جمائے خوبصورت نقوش والا سلجھا سا لڑکا اور ذہانت تو اسکی ایکسٹرا کوالٹی تھی وہ لڑکا کسی بھی لڑکی کا ائیڈیل ہو سکتا تھا لیکن تھا کم عمر ۔

سردار پریشان ہوا تھا کہ وہ مہرینہ سے کافی چھوٹا تھا ،

لیکن وہ جانتا تھا ایک ڈیڈھ سال میں وہ لڑکا مہرینہ جتنا ہی لگنے لگ جاتا مجبوری تھی ورنہ وہ مہرینہ کے لہے شہنام صدیقی کو ہی چنتا ۔


وہ پڑھتا تھا ٹیوشن پڑھآتا پھر وہاں سے اسکے ہاں جاتا اسکے کمپیوٹر وغیرہ کا سارا کام وہی تو سنبھالے ہوئے تھا ۔۔

خیام کو دیکھتے اسکے زہن میں اسرعت سے بہت سے خیال آ جا رہے تھا۔۔

پھر وہ اسے دیکھتا ہلکا سا مسکرا دیا بھلا مہرینہ کے لیے اس سے بہتر لڑکا اسے کہاں مل سکتا تھا ہرگز نہیں ہاں وہ غریب تھا لیکن اسے یقین تھا وہ لڑکا اپنی محنت سے ایک دن بہت آگے جائے گا۔


پھر کچھ سوچتا ہوا باہر کی طرف لپکا تھا خیام کو پیچھے آنے کا اشارا بھی کر گیا تھا۔


خیام انکی نظروں سے پریشان ہوتا انکے پپیچھے جلدی سے دوڑا تھا ۔

_____________________________


نکاح شروع کیا جائے مولوی جی۔

سہیر خانم کی آواز پر مہرینہ نے لب کاٹ کر خود پر جبر کیا ۔

بیٹا کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔

مولوی نے پریشانی سے تیسری بار ساکت بیٹھی دلہن کو مخاطب کیا تھا ۔

نوشین نے بیٹی کو فکرمندی سے دیکھا لڑکیاں خاموشی سے بس سر جھکائےا یک کونے میں کھڑیں تھیں ۔۔

مہرینہ!

سہیر خانم کی تنبیہی آواز پر وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی تھی ۔۔


سب نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا جسکے چہرے پر وہی ضدی تاثرات بھر آئے تھے جو اسکی شخصیت کا خاصا تھے۔

جب تک سردار نہیں آئیں گئے میں اس نکاح کے لیے ہاں نہیں کروں گئی انہوں نے مجھے بیٹی کہا ہے تو ایک بیٹی کا فرض ہے وہ اپنے باپ کی موجودگی میں ہاں کہے ۔

وہ کھڑی ہوتی سپاٹ لہجے میں بولی تھی سہیر خانم لب بھینچ کر اسکی طرف غصے سے بڑھے تھے۔

شائنہ نے سینے پر ہاتھ باندھ کر مسکراتی آنکھوں سے مہرینہ کو دیکھا کوئی اور خوش تھا یا نہِیں لیکن شائنہ بہت خوش تھی۔

اسے اسکا ہارا وجود کتنی خوشی دیتا تھا کوئی پوچھتا تو وہ بتاتی کہ وہ انتہا سے زیادہ خوش تھی آج۔


تمہارا باپ ابھی زندہ ہے مرا نہیں سمجھی۔۔

سہیر خانم نے اسکے بازو پر گرفت سخت کر کے غصے سے بھینچے ہوئے لہجے میں دھیمے سے کہا۔

وہ انہیں دیکھتی رہی ۔

چاہے آپ لوگ مجھے مار دیں یا جو کرنا ہے کرلیں لیکن مہرینہ سہیر خانم انکے بغیر ہاں نہِیں کرِے گئی پھر چاہے وہ جو بھی لے آئیں رنڈوا بوڑھا جوان امیر غریب مہرینہ انکار نہیں کرئے گئی ۔

بھرایا ہوا انداز لیے ہوئے سپاٹ و بے لچک لہجے میں وہ بولی تھی ۔

ہال میں گہری خاموشی چھا گئی تھی ۔۔


کیا ہونے جا رہا تھا آخر کیسا نکاح تھا یہ ،

سب حیران و پریشان تھے سردار کو گئے ایک گھنٹہ اور دس منٹ ہو چکے تھے۔

ہاں بولو ورنہ زندہ جلا دوں گا ۔

سہیر خانم آہستہ آواز میں ضدی بیٹی پر برسے تھے۔

جو کرنا ہے کرلیں میں بھی تو دیکھوں آخر آپ کس حد تک جا سکتے ہیں ویسے بھی مہرینہ کو آپ سے کبھی کوئی اچھی امید تھی بھی نہیں ۔

وہ سینے پر ہاتھ باندھتی مسکرا کر بولی تھی۔

داور نے درشتگی سے اسکا کندھا ڈبوچ کر اسے بٹھانا چاہا تھا ۔

ایک منٹ داور اتنی جلدی بھی کیا ہے۔

اسکی سرد غصے واخی آواز پر سب حیرانی سے پیچھے کی طرف مڑے تھے ۔

جہاں وہ خیام خادم اور اپنے چند خاص گارڈز کے ساتھ کھڑا تھا ۔۔

وہ سنجیدگی سے سٹیج پر چڑہا ۔

جبکہ باقی سب کی نظریں ارد گرد متلاشی تھیں جیسے نئے دلہے کی تلاش میں ہوں۔۔

مہرینہ دوڑ کر اسکے بازو سے لگی تھی۔

شائنہ کو سخت تیش آیا اسکے سردار سے چمٹنے کا تو بہانہ چاہئیے تھا اسے۔

داور آئندہ اگر تم نے مہرینہ سے سختی برتی تو سوچ رکھنا انجام اپنا پہلی اور آخری وارننگ سمجھنا اسے میری ،

داور خوف سے باپ کے پیچھے ہوا تھا کہ سردار غاذان کا سخت لہجہ کسی بھی رشتے سے عاری تھا ،


تمہیں دیا ہوا وقت پورا ہو گیا ہے بہتر ہو گا اب چپ رہنا اور نکاح کی تقریب کو خاموشی سے دیکھو۔

سہیر خانم مسکراتے لہجے میں بھتیجے سے مخاطب تھے۔

وہ مسکرایا ۔

بلکل خاموشی سے ہی دیکھوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ آپ بھی خاموشی سے میرے ساتھ کھڑا ہوا کر دیکھیں ۔

وہ خیام کو اوپر آنے اشارا کرتا ہوا کندھے اچکا کر بولا تھا ۔

خیام گہری سانس لیتا ہوا اوپر آیا تھا۔


سردار اسے بتا چکا تھا اپنا مقصد اس نے انکار نہیں کیا کہ ان پر بہت احسان تھے سردار غاذان کے وہ ہیر کو بھی بتا چکا تھا ۔۔

ہیر فقط خاموش رہی بولی کچھ نہیں بس اتنا کہا جو تمہیں ٹھیک لگتا ہے وہ کرو ۔۔

اٹھو یہاں سے ۔

وہ اب شبیر سے مخاطب تھا ۔

کیوں اٹھوں جی نکاح کروا کر ہی اٹھوں گا سردار جی۔

وہ طنز سے لیکن ادب سے ہی بولا۔

وہ مسکرایا۔

خواب میں کروا لینا اپنے جیسی کسی سے لیکن یہاں سے اٹھو تاکہ میری مہرینہ کا ہونے والا دلہا بیٹھ سکے۔۔

اب سب حیرت سے سردار کو دیکھنے لگے تھے۔

دلہا کہاں تھا گھر والوں سمیت سب کی نظرِیں ارد گرد دلہے کی تلاش میں تھِیں کچھ کی نظروں میں تجسس تھا تو کچھ کیں میں غصہ۔۔

کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔

سہیر خانم تیش سے بولے۔

وہ مسکرایا ۔۔

مطلب یہ کہ مجھے دلہا مل چکا ہے اور دیر اس لیے لگی کہ دلہا ڈھونڈنا تھا کوئی سوٹ نہیں سو مجھے میری مہر کے لیے کوئی اچھا نیک اور سب سے بڑی بات ایماندار دلہا مل چکا ہے جو مہرینہ کا خیال اپنی جان سے بھر کر رکھے گا ۔۔

اسکے سرد اور مضبوط لہجے پرخیام نے پریشانی سے انہیں دیکھا وہ کچھ زیادہ امیدیں باندھ رہے تھے اس سے ۔۔۔

کتنا اعتماد تھا سردار کو اسکی ذات پر وہ شرمندہ سا ہوا تھا خود پر۔


مہرینہ حیرت سے سردار کو دیکھ رہی تھی ۔۔

کون ہے وہ؟

تیمور خانم سنجیدگی سے سوالیہ لہجے میں بولے۔

وہ لب بھینچ کر سر ہلاتا شبیر کا ہاتھ پکڑ کر اسے ٹو سیٹر صوفے سے اٹھا چکا تھا ۔

شبیر نے کافی غصے سے اسے دیکھا لیکن بولا کچھ نہیں۔

اسے اٹھا کر وہ خیام کا کندھا پکڑتا اسے بٹھا چکا تھا مہرینہ سمیت سب کی نظرِیں اس پر تھیں جو لب بھینچے سر جھکا گیا تھا۔

کیا مزاق ہے یہ!

سہیر مشتعل ہوتے چلائے ۔

کب سے خاموش بیٹھا ریاض بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔

وہ بنا ان پر توجہ دئیے ساکت کھڑی مہرینہ کی کلائی تھام کر اسے خیام کے ساتھ بٹھا چکا تھا ۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم ایک کمی کمین کو میری بیٹِی کے ساتھ بٹھاوّ کہاں مر گئی ہے تمہاری غیرت کہ سب کچھ گھول کر پی گئے ہو ۔

سہیر خانم تیش سے چلا پڑے تھے اس پر،

داور بھی بہت غصے سے اسے دیکھ رہا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ ابھی گولی سے اسکا بھیجا اوڑا دیتا۔۔۔

تیمور نے آنکھیں میچیں کہ اس نے خقیقتاً انہیں بہت پریشان کر رکھا تھا ۔


چاچو وہ کوئی کم ذات والا نہیں ہاں غریب ضرور ہے لیکن ایک دن وہ اپنے بل بوتے پر بہت آگے جائے گا بہت لڑکے دیکھے لیکن مجھے مہرینہ کے لیے کوئی سوٹ ایبل نہیں لگا سوائے خیام کے وہ بہت اچھا لڑکا ہے اور مہرینہ کو خوش بھی رکھے گا خوشیاں پیسوں سے نہیں سکون سے ملتیں ہیں ۔۔۔

وہ دونوں ہاتھ پاکٹ میں گھسائے بہت سنجیدگی سے بولا تھا ۔

یہ لوجیک کسی اور کو سناو مجھے نہیں میں مہرینہ کی شادی کسی کم خیثت لڑکے سے ہرگز نہیں کروں گا میڑی بیٹی ہے وہ اسے کسی امیر کھاتے پیتے گھر میں بھیجنا چاہتا ہوں اور تم ایک نوکر کو میری بیٹی کے مقابل لے آئے ہو واوا سردار جی آپکی لوجیک کو تو اسلام ہے بھائی صاحب دیکھ رہیں آپ اپنے سردار بیٹے کو،

اسلیے کہتا تھا مت بھیجو پرائے ملک ۔۔

وہ چلا کر بولتے آخر مِیں خاموش کھڑے بھائی کی طرف مڑے تھے۔۔

غاذان اور کتنا شرمندہ کروا گئے مجھے میرے بھائیوں کے سامنے ۔۔

وہ تیکھے لہجے میں بیٹے سے مخاطب تھے۔۔

وہ مسکرایا ۔۔

ڈیڈ ایسا کیا کردیا ہے میں نے جو آپ سب لوگ اتنا ہائپر ہو رہے ہیں مولوی صاحب آپ تو نکاح شروع کریں ۔

وہ لاپرواہی سے کہتا آخر میں مولوی سے مخاطب ہوا ۔۔

جو حیرانی سے محل کے لوگوں کو دیکھ رہے تھے ۔۔

مولوی جی سر ہلاتے رجسٹر کھولنے لگے اور کچھ لکھنے لگے۔

مہرینہ نے ہونٹ بھینچ کر سردار کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔

میرے لیے۔

وہ آہستگی سے بڑبڑایا تھا ۔

مہرینہ سر جھکا گئی،

اسے ان لوگوں سے مہرینہ کو بچانا تھا ان لوگوں کیا بھروسہ اسکے منظر سے ہٹتے ہی اگر انہوں نے اسکا نکاح شبیر سے پڑھوا دیا تو وہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا اس لیے سب کچھ آناً فاناً کر رہا تھا ۔


تم خود تو اس نوکرانی سے نکاح کر کے بیٹھے ہو اب اس گھر کی لڑکی کی شادی بھی ملازم سے کرنا چاہتے ہو لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گئے۔

خیام نے سرد نظروں سے ریاض کو دیکھا اسکی بہن کو نوکرانی بولنا اسے اچھا نہیں لگا تھا لیکن موقع کی نزاکت کو سمجھتا وہ چپ رہا۔۔۔

سردار تیکھی نظروں سے انہیں دیکھتا انکے قریب آیا ۔۔

میری بیوی کو نوکرانی بولنے پر میں آپکو سزا بھی دے سکتا ہوں سو نیکسٹ ٹائم بی کیٙئر فل ہر بار میں آپکا لخاظ نہیں کروں گا سمجھے آپ اس لیے اب چپ رہئیے گا اسی میں بہتری ہے آپ سب کی۔

وہ انکے قریب آتا خاصے غصے سے بولا تھا۔

شائنہ نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا اسے زرا اچھا نہیں لگا تھا سردار کا ہیـــــــــــر کی سائیڈ لینا ۔۔

اسے تو میں ایسی جگہ بھیجنے کی تیاری کر رہی ہوں آپ تو اسکی خاک بھی نہیں پا سکو گئے سردار جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بہت زہریلے لہجے میں بڑبڑائی تھی۔


ریاض خانم غصے سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔۔


مولوی صاحب ڈر رہے تھے وہ نکاح کے الفاظ بھی بول نہیں پا رہے تھے لیکن ریاست کے سردار کا حکم وہ ٹال نہیں سکتے تھے۔


نِکاح شروع کریں مولوی جی کتنی بار آپ سے کہنا پڑے گا۔

وہ اس بار درشت لہجے مِیں بولا تھا ۔

تب ہی سہیر خانم نے پسٹل نکال کر اس پر تانی تھی سب نے شاکس سے سہیر کو دیکھا تھا۔

جو پسٹل کا رخ اسکے سر کی طرف کیے ہوئے تھے انکھوں میں قہر و غضب تھا ۔

وہ مسکرایا۔

چاچو اس کھلونے سے غاذان تیمور اگر ڈرتا تو سردار کی پگڑی سر پر سجائے نا پھر رہا ہوتا اس کھلونے سے کسی اور کو ڈرائیں مجھے نہیں مولوی جی پلیززز۔۔

اب اس کی توپوں کا رخ مولوی کی طرف مڑا تھا ۔۔


اسکے گاڑدز بھی سرعت سے اپنی اپنی پسٹل کا رخ سہیر خانم کی طرف کر گئے تھے جس پر اس نے انہیں پسٹل نیچے کرنے کا اشارا کیا تھا ۔۔۔

مولوی جی ہڑبڑاتے ہوئے نکاح کے کلمات دوڑانے لگے تھے۔۔

مہرینہ اگر نکاح کے لیے ہاں بولا تو تمہیں اپنی بیٹی کے رتبے سے فارغ کردوں گا ۔

انکے کرخت لہجے پر مہرینہ کا دل اچھل کر رہ گیا۔

نوشین اور مہدیہ نے ہول کر انہیں دیکھا ۔

جبکہ سردار نے طنز سے۔

مہرینہ ہاں بولو ۔

وہ انہیں دیکھتا سرد لہجے میں بولا تھا ۔

ایک منٹ یہ نکاح ایک صورت میں ہی ہو گا ۔

تیمور صاحب بھی میدان میں آئے تھے۔

سہیر ۔ریاض ، خشام، اور سردار نے انہیں سرعت سے دیکھا ۔

بھائی صاحب ۔۔

سہیر صاحب چلائے تھے۔

ایک منٹ سہیر میری بات سن لو پہلے ۔

وہ سہیر کو ہاتھ سے اشارا کرتے اپنے بیٹے کے مقابل آئے۔۔۔۔

یہ نکاح تب ہی ہو گا جب سردار اس لڑکی کو طلاق دے تب ہی یہ نکاح ہو گا گا ادروائز کوئی چانس نہیں بیٹے ۔۔


تیمور صاحب نے مسکراتے لہجے میں بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے تھے وہ ایسا نہیں کرئے گا اور نا ہی خیام ایسا چاہے گا ،

بھلا ایک بھائی بہن کی طلاق دلوا کر خود کیسے اسی گھر میں شادی کر سکتا تھا نا ممکن تھا یہ تو ۔۔۔


_____________________________


ہیر کا دل پریشان سا تھا ۔۔

وہ کچھ سوچتی ہوئی بڑی سی چادر اپنے ارد گرد اچھے سے اوڑھتی ہوئی باہر نکل آئی ۔۔

رکشا رکوا کر اس میں بِیٹھتی وہ محل کی طرف روانہ تھی چہرہ کو نقاب سے کور کر رکھا تھا ۔۔

دل پریشان سا تھا پتا نہیں کیوں ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نا ممکن !


سردار مسکرایا تھا۔۔


جبکہ خیام اپنی جگہ سے بے ساختہ کھڑا ہوا تھا ۔

مہرینہ کی نظرِیں اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر تھیں دل خالی تھا اس میں کوئی جذبہ نہیں تھا۔

ڈِیڈ پلیز بچوں جیسی باتیں مت کریں ہونے دیں نکاح پھر تفصیل سے بات ہو گئی آپ سے۔ ۔

وہ تمسخرانہ لب و لہجے میں بولا تھا۔


خیام لب بھینچے کھڑا تھا لیکن سردار کے اشارا کرنے پر وہ دوبارہ نا چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گیا ۔

واٹ ربش اب تم اپنے باپ سے ایسے لہجے میں بات کرو گئے۔

وہ پھنکارے تھے آخر یہ کیوں ہمیشہ انکے الٹ ہی کرتا تھا۔

ڈیڈ اگر آپ نے نکاح نہیں ہونے دیا تو آئی سویئر میں پہلی فلائٹ سے مصر چلا جاوں گا کبھی نا آنے کے لیے اور آپ جانتے ہیں سردار غاذان بات کا کتنا پکا ہے۔

وہ عجیب سے سرد لہجے میں بولا تھا ۔

جبکہ تیمور ،سہیر ، خشام حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔

تب ہی مولوی صاحب نکاح کے کلمات پھر سے دوڑانے لگے تھے ۔

مہرینہ کا دل زرا بھی اس نکاح کے لیے رضامند نہیں تھا لیکن اسے اسکے سوا کہاں کوئی راستہ دیکھائی دے رہا تھا ،

اسے آزادی کے لیے اس نکاح پر سائن کرنے تھے ورنہ اسکا باپ اسے وہاں پھینکتا جہاں سے اسے خود کو اپنا آپ نا دیکھتا ۔

وہ قبول ہے کہتی خیام کو خود کو دیکھنے پر محبور کر گئی تھی۔

خیام نے بھی گہری سانس لیتے ہوئے نکاح کے لیے حامی بھر ہی لی اسکے پاس بھی کوئی اچارہ نہیں تھا اس نکاح کو کرنے کے علاوہ وہ لب بھینچے سائن کرنے لگا جبکہ سہیر خانم مٹھیاں بھینچے وہاں سے نکلے تھے پیچھے پیچھے تیمور داور اور ریاض بھی لپکے تھے بس خشام اور باقی سب وہاں کھڑے رہ گئے۔

سردار کا اخترام لازم تھا ریاست کے ہر فرد پر,

لیکن انکے گھر والے شاید انکے مقام کی قدر نہیں کرنا چاہتے تھے کچھ وہ اپنے رشتوں کو لے کر احساس بھی تو بہت تھا وہ چاہتا تو سب کو اس سے الجھنے کی سزا دے ڈالتا لیکن وہی بات وہ اپنے سے جڑٙے ہر رشتے سے بے پناہ محبت کرتا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا اِس گھر میں کون اسکا سگا ہے اور کون نہیں لیکن وہ پھر بھی انہیں دل میں رکھتا تھا کہ وہ غاذان تیمور تھا جسکی تربیت اسکے باپ نے نہیں اسکی ماں نے کی تھی ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس نے خالی خالی نظروں سے جاتے باپ کی پشت دیکھی تھی ۔

خیام کو آگے بڑھ کر سردار اور دوسرے لوگوں نے گلے لگایا تھا آخر کار اتنی مشکلوں کے باوجود وہ یہ نکاح کروانے میں کامیاب رہا تھا ۔

اسے پتا بھی نا چلتا اور نکاح ہو چکا ہوتا اگر مہدیہ اسے فون کر کے سب نا بتاتی اسے مہرینہ نے کہا تھا بتانے کے لیے جسے سن کر وہ اگلے دن ٹھیک نکاح کے وقت وہاں پہنچ چکا تھا ۔۔


ہیر کو اندر گھسنے نہیں دیا گیا تھا آخر محل میں ہر کسی کو تو اندر آنے کی اجازت نہیں تھی جب تک اسکے پاس اجازت نامہ نا ہو ۔۔

وہ لب بھینچے وہاں سے پلٹ آئی ۔۔


آنکھوں میں در آئی نمی صاف کرتی وہ چلتی جا رہی تھی ۔۔

ہوٹل وہ پیدل ہی آئی تھی کمرے میں اکر وہ بیڈ پر گر سی گئی تھی تھکن سے وجود چوڑ چوڑ ہو گیا تھا ۔۔

سردار غاذان !

انکا نام نیند کی وادیوں میں جانے سے پہلے اسکے ہونٹوں پر مدھم سا ٹھڑٹھڑایا تھا ۔

🌿۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🌿۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🌿


سردار نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اسے لگا جیسے ہیر نے اسکے کان میں سرگوشی سی کی ہو لیکن ارد گرد تو کوئی نہیں تھا وہ یہاں کیسے ہو سکتی بھلا۔۔

وہ پریشان ہو اٹھا تھا نظریں ادھر ادھر ہجوم میں گھوم رہیں تھیں جیسے کسی نا دیدہ وجود کی تلاش میں ہوں۔۔


مہرینہ اسکے ساتھ گاڑی میں پیچھے بیٹھی تھی سردار غاذان نے مہرینہ کو ریتی رواج سے رخصت کیا تھا ۔


نوشین مہدیہ باقی گھر والے اسے خیام کے ساتھ نہیں بھیجنا چاہتے تھے لیکن سردار نے اسے وداع کر کے ہی سکھ کا سانس لیا کہ وہ بعد میں کوئی نیا تماشا نہیں چاہتا تھا ۔۔


گاڑی میں جامد سکوت تھا ۔

خیام شیشے سے باہر دیکھ رہا تھا جبکہ مہرینہ سامنے کی طرف دیکھ رہی تھی خالی ویران آنکھیں ضبط سے سرخ پر چکیں تھیں۔


شادی !

وہ شادی کے لفظ کو اپنی زندگی میں ابھی ایڈ نہِیں کرنا چاہتا تھا جب تک کچھ بن نا جاتا اسکی آپی اپنے گھر والی نا ہو جاتی ابھی تو اسے داڑھی مونچھ آئی تھی اور شادی بھی ہو گئی وہ کہتے ہیں نا ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہمارے چاہنے نا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔

ہوٹل میں جب گاڑی رکی تو وہ کتنی دیر اس ہوٹل کی دراز عمارت کو دیکھتا رہا ۔

کیا مہرینہ کو اس ہوٹل میں رکھنا ٹھیک تھا یقیناً نہیں وہ خودار خاندان کا بیٹا تھا اسے جلد کسی نئے گھر کا بندو بست کرنا تھا ۔۔


وہ اپنی سائیڈ سے نکلتا مہرینہ کی طرف کا ڈور کھولے اسکے باہر آنے کا منتظر تھا ۔


وہ گہری سانس لیتی اپنی بھاری کامدار فراک کو چٹکیوں سے تھامتی باہر نکلی ۔

خیام اسکے آگے چلنے کا منتظر تھا جبکہ وہ خیام کو بے تاثر نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

آپ مجھے کیوں گھور رہیں ہیں گھورنا تو آپکو وہاں چاہئیے تھا ۔

وہ بھی خیام تھا بات جو دل میں ہوتی ہونٹوں پر بھی وہی ہوتی۔

تم زیادہ خوش مت ہونا کہ مہرینہ سہیر خانم تمہاری بیوی بن گئی ہے تو جو چاہو گئے کرو گئے میں کہاں اور تم کہاں اپنی اوقات کبھی مت بھولنا۔


وہ شاید اتنے دنوں کا غصہ بھی خیام پر اتارنا چاہ رہی تھی۔

ایکسیوزمی مجھے آپکے ساتھ کچھ بھی کرنے کا کوئی شوق نہیں مائنڈ یو مس مہرینہ سہیر آپ تو ویسے بھی میرے لائیک نہیں۔

وہ بھی اسکے قریب آتا ہوا جواباً بولا تھا۔


مہرینہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔

میں تو آپکے ساتھ روم بھی شیئر نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن سردار کا حکم ہے جو میں مرتے دم تک ٹال نہیں سکتا۔

وہ غصے کا کافی تیز لگتا تھا ۔

مہرینہ نے دانت پیسے پھر ایک جھٹکے سے اینٹرس کی طرف بڑھی تھی ۔

وہ کچھ دیر اسکی پشت دیکھتا رہا پھر اسکے پیچھے بڑھا تھا ۔

مہرینہ نے اسے دیکھا کہ کونسا روم ہے وہ دونوں بہن بھائی فرسٹ فلور پر رہ رہے تھے کیونکہ ہیر کو اونچائی فوبیا تھا ۔۔

وہ بنا اسکی کسی بات کا جواب دئیے روم نمبر اا کی طرف بڑھا تھا ۔


وہ دروازہ کھول کر اسکے اندر آنے کا منتظر کر تھا ۔

وچہرے پر غصہ سجائے وہ اندر آئی تھی ۔

مہرینہ نے اپنے کپڑوں کا بیگ بھی نہیں لیا تھا نجانے کیوں اب اسکی سیاست تو وہی سمجھ سکتی تھی نا۔

_________________________________

مجھے شرم آتی ہے تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے ۔

وہ شرٹ بدل رہا تھا جب تیمور خانم اندر آتے ہی اس پر برسے تھے ۔

وہ انہیں ایک نظر دیکھتا کف لنکس لگانے لگا ۔

تم سے مخاطب ہوں آخر کس پر چلے گے ہو تم ہمارے خاندان میں تو دور دور تک تم جیسا کوئی پیدا نہیں ہوا تھا۔ ۔*


وہ جھنجھلائے تھے اس پر۔

انکے تپے چہرے کو دیکھ کر وہ مسکرایا تھا ۔


مسکراو مت ورنہ دانت توڑ دوں گا میں تمہارے ۔

وہ اسکی مسکراہٹ دیکھ کر شدید تپے تھے۔

میری تو کوئی بات تم مانتے ہی نہیں ہو۔ ۔

وہ کہتے ہی اسکے کمرے سے غصے سے نکل گئے۔

پیچھے وہ گہری سانس لیتا گھڑی پہنتا ہوا باہر نکل گیا ۔

اسکا آج ایک دو یونی میں دورہ تھا تو اسے جلد نکلنا تھا ۔۔

_______________________________


ہیر کافی دیر مہرینہ کو بے یقنی سے دیکھتی رہی وہ لڑکی اسے بہت پسند تھی اور قسمت نے اسے اسکی بھابھی بنا دیا تھا وا قسمت کے کھیل ہمیشہ انوکھے ہی ہوتے ہیں ۔۔

کیسی ہو ہیر ۔

خیام باہر چلا گیا تھا ہیر کو بتا کر ہیر تب سے اسکے پاس بیٹھی ہوئی تھی ۔


میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ۔

وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

ہیر تمہارے بالوں کو کیا ہوا ہے ۔

ہوا سے اسکے سر سے چادر سرکی تھی جب مہرینہ نے اسکے چھوٹے سے بال حیرت سے دیکھے تھے،

جو کندھوں پر لاپرواہی سے بکھڑے ہوئے تھے اگر دیکھا جاتا تو ہیر کو چھوٹے بال بہت زیادہ سوٹ کر رہے تھے لیکن وہ بڑے بالوں کی عادی تھی اسے تو اپنے بڑے بال بھول ہی نہیں رہے تھے ۔۔

کٹوا دئیے ہیں اصل میں نیچے سے خراب ہو گئے تھے تو مجبوراً کٹوانے پڑے ۔

ہیر نے سر جھکا کر دھیمے سے اسے بتایا تھا ۔


او مائی گاڈ تمہیں کتنے سوٹ کر رہے ہِے یہ شارٹ ہیر کٹ یار پلیز دوپٹہ مت لیا کرو ۔

وہ ابھی بھی اسی فراک میں تھی ہیر بے بسی سے مسکرا دی آنکھیں جھلملانے لگیں تھیں۔

ساریا اس سے کافی بار معافی مانگ چکی تھی اسنے معاف کر دیا تھا کہ شاید اس پارلر والوں کی غلطی تھی بھلا ساریا کا کیا قصور تھا اس سب میں ۔

وہ صاف اور معصوم دل کی تھی تو اسے دوسرے لوگ بھی اپنے جیسے ہی لگتے تھے، اچھے۔


_____________________________


وہ جب کمرے میں آیا تو وہ بال کھولے بیڈ پر بِیٹھی ہوئی تھی سامنے والی دیوار پر ایل ڈی چل رہی تھی اسکی نظرِیں تو سکرین پر تھیں لیکن دھیان کہی اور تھا یہ خیام کو پتا لگ گیا تھا ۔


آپکے لیے!

ایک شاپر اسکی طرف بڑھاتا ہوا وہ بولا تھا۔

وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی ۔

پھر کچھ سوچ کر شاپر تھام لیا ۔


وہ سلیز کہینوں تک موڑتا ہوا واش روم کی طرف چلا گیا ۔


وہ کچھ دیر اس شاپر کو دیکھتی رہی پھر تجسس سے مجبور ہو کر وہ اس شاپر کو کھول چکی تھی ۔

اندر ریڈی میڈ دو نارمل سے سوٹ تھے۔

ایسے کپڑے شاید انکے گھر والی کام والیوں کے ہوتے تھے سستے اور سادہ سے ،

ایسے کپڑے پہننے کی عادی نہیں تھی وہ لیکن اب شاید اسے انہی کپڑوں سے خود کو ڈھانپنا تھا لیکن کب تک اسکا انداز نہیں تھا اسے۔

میں ایسے کپڑے نہیں پہنتی ۔

اسکے باہر آنے پر وہ غصے سے بولی تھی۔

لیکن اب آپکو ایسے ہی کپڑے پہننے ہیں کیونکہ آپکا شوہر غریب ہے اور وہ اپنی خیثیت کے مطابق ہی آپکو ڈھانپے اور کھلائے گا اور یہاں سے ہم تین چار دن میں شفٹ کر جائیں گئے کیونکہ میری غیرت گوارہ نہیں کرتی اب میں یہاں رہوں ۔

کہتے ہی وہ لمبے سے صوفے پر آنکھوں پر بازو رکھتا دراز ہوا تھا۔

دل تو کر رہا تھا شاپر اسکے منہ پر دے مارے لیکن خود پر جبر کرتی اس میں ایک سوٹ پکڑتی وہ واش روم چلی گئی کہ وہ اتنے ہیوی سوٹ میں سو نہیں سکتی تھی ۔۔

گلابی کلر کی قمیض تھی جس کے گلے پر سکن کلر کے بٹن لگے ہوئے تھے سکن ہی ٹروزر تھا ۔

وہ سوٹ اسے تھوڑا سا کھلا تھا لیکن مجبوری تھی اسی میں گزارا کرنا تھا اسے ۔

پلیز لاٹس آف کردیں۔

اسے بنا لائٹ آف کیے دراز ہوتا دیکھ کر وہ سنجیدگی سے بولا ۔

سوری میں لاِئٹ جلا کر ہی سوتی ہوں کیونکہ مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔

وہ ڈھیٹ پن لیے ہوئے بولی۔

جبکہ وہ چہرے سے بازو پیچھے کرتا اسے حیرت سے دیکھنے لگا ۔

بچو تمہیں اتنا تنگ کروں گئی کہ یاد رکھو گِے سردار کو بھی میرے لیے یہی غریب ملا تھا ۔

وہ غصے سے سوچ رہی تھی لیکن جلتی لائٹ مِیں وہ بھی نہیں سو سکتی تھی۔

وہ گہری سانس لیتا بالکنی میں چلا گیا تھا۔۔۔

اسکے جانے کے بعد منہ بناتی ہوئی وہ تکیے پر سر گرا گئی تھی۔

لیکن نیند اسے کہاں آنی تھی وہ جانتی تھی رات آنکھوں میں ہی کٹے گئی ۔۔

_____________________________


ہیر جیسے ہی یونی آئی راستے میں ہی اسے ساریا مل گئ اس سے ہائے ہیلو کرتی وہ لائبریری چلی گئی کہ اسے ایک بک واپس کرنی تھی ۔

لائبریری میں اسے ایک گھنٹہ لگ گیا تھا ۔

لابریری سے نکل کر وہ کوریڈور سے گزر رہی تھی جب بہت ساری گاڑیاں بیک وقت یونی کی پارکنگ میں اینٹر ہوئی تھیں ۔۔

گرل کے پاس کھڑی وہ دھڑکتے دل سے گاڑی سے نکلتی شخصیت کو دیکھ رہی تھی۔

جو وائٹ کاٹن کے سوٹ پر بلیک جیکٹ پہنے بلیک ہی چمشہ لگائے ہوئے باہر نکلا تھا لڑکیوں اور لڑکوں کا ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا اسکے ارد گرد ۔

بروان رولکس کی واچ دھوپ میں خوب چمک رہی تھی ۔

وہ ساکت وجود لیے نظریں بھی اسی پر ساکت کر گئی تھی۔

وہ ہاتھ اٹھائے ان سے سوال جواب کر رہا تھا ۔

شائنہ تو جلدی سے اسکے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔

خادم ہیر آئی ہے آج۔

وہ ارد گرد متلاشی نظروں سے دیکھتا ہوا تھوڑی دیر بعد خادم سے بولا تھا۔

خادم نے چونک کر اپنے سردار کو دیکھا۔

جی میں خود چھوڑ کر گیا تھا انہیں ۔

خادم نے سر جھکا کر تعظیم سے جواب دیا۔

شائنہ اسکی مدھم گفتگو سلگتے وجود سے سن چکی تھی وہ اسکے ہوتے ہوئے اس عام سی لڑکی کے بارے میں کیسے پوچھ سکتے تھے آخر انہیں میں نظر کیوں نہیں آتی وہ ہیر تو میرے مقابل کچھ بھی نہیں ہے پھر کیوں یہ مجھ پر اس عام لڑکی کو فوقیت دے رہے ہیں۔۔

لب بھینچے انکے چہرے کو دیکھتی ہوئی وہ تلخی سے سوچ رہی تھی ۔۔


وہ اب یوتھ سے یونی کے سسٹم کے بارے میں سوال و جواب کر رہا تھا ۔۔

ہیر چل نا دیکھ کتنا خوبصورت شخص ہماری یونی میں آیا ہے ۔۔


ساریا اسکی کلائی کھینچ کر اسے باہر لاتی ہوئی بولی وہ شاید سردار غاذان کو جانتی نہیں تھی وہ بس اسکی شخصیت سے بری طرح متاثر ہو چکی تھی۔


ہیر اسے دیکھنے لگی اب اسکا چہرہ تھوڑا دور تھا لیکن ہیر اسکی آواز با آسانی سن سکتی تھی ۔


آپ لوگوں کو جو بھی شکایت ہے اس یونی سے تو پلیز ٹیل می تاکہ میں اسے خود دیکھوں اور آپکے مسلے سولو کروا سکوں۔

وہ چشمہ دوبارہ لگاتا ہوا بولا ۔


کچھ سٹوڈینٹ اس سے ضروری مسلے ڈسکس کرنے لگے تھے ۔

وہ سر ہلاتا سنتا رہا پھر انہیں سولو کرنے کا کہتا وہ واپس اپنی گاڑی کی طرف مڑا تھا ۔

ہیر کا دل لرزا ۔۔

وہ پھر پلٹ تھا ہجوم پر ایک طرائنہ نظر ڈالی لیکن اس بار نظر خالی نہیں لوٹی تھی ۔

درخت کے ارد گرد بنی اونچی منڈیر پر کھڑی وہ اسے نظر آگئی تھی ۔

وہ گلابی چادر ارد گرد اوڑھے ہوئے تھی نیچے لینن کا فیروزی سوٹ پہنا ہوا تھا ۔


اسکے ہونٹ بے ساختہ دھیمی مسکان میں ڈھلے تھے۔۔


شائنہ نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو وہ جل کر راکھ ہوئی تھی ۔

کم ہیئر !


کیا وہ اسے اشارا کر رہا تھا ۔

اسکے اشارا کرنے پر بہت سے سٹوڈینٹ پیچھے مڑے تھے ۔۔

ہیر کا سانس اوپر کا اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔

وہ ساکت کھڑی رہی تو وہ خود آگے بڑھا تھا ۔


اسے راستہ خود بخود سٹوڈینٹ دیتے چلے گئے تھے ۔

وہ آخر اس تک پہنچ چکا تھا ،

آنکھوں میں نرمی لیے وہ اسکا جھکا سر دیکھ رہا تھا وہ لڑکی سادگی کی مثال تھی کوئی بناوٹی چیز آج تک اسنے اسکے چہرے میں نہیں دیکھی تھی ،


پڑھائی کیسی جا رہی ہے ہیر کی ۔

وہ زیر لب تبسم لیے اس سے بولا تھا ۔


جی اچھی جا رہی ہے بس ایک دو سبجیکٹ میں تھوڑی کمزور ہوں۔۔۔۔۔

وہ سر جھکاِے مدھم آواز میں بولی چہرے پر سرخی سے چھا گئی تھی اسکی اتنی سی توجہ پر ہی۔ ۔


وہ سر ہلا گیا رات کو فری ہوں میں ملاقات ہو گئی تم سے تفصیل ۔

وہ دوبارہ چشمہ لگاتا دھیرے سے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوا پلٹ گیا تھا ۔

ہیر کا پورا وجود دنگ رہ گیا تھا ،

اسکا سر پر ہاتھ رکھنا ہیر کو کیسا لگتا تھا اگر وہ جان جاتا تو شاید بونچکار رہ جاتا ۔


سب لوگ حیرانی و تجسس سے ہیر کو دیکھ رہے تھے اتنے لوگوں کی خود پر جمی نظریں اسے بھوکھلائے دے رہیں تھیں۔

ہیر تم کیسے سردار غاذان کو جانتی ہو۔


اسکی کلاس میٹ وردہ حیرت سے پوچھ رہی تھی ۔۔

حیرت میں تو ساریا بھی تھی ،


میں بتاتی ہوں ۔۔

ہیر کے بولنے سے پہلے ہی شائنہ ہجوم میں سے بولی تھی سب پیچھے مڑ کر اسے دیکھنے لگے۔

ہیر نے بھی آنکھوں میں الجھن لیے اسے دیکھا۔ ۔

یہ ہمارے گھر میڈ ہے مطلب نوکرانی ہے اس پر ہمارے سردار نے ترس کھا کر ایڈمشن دلوایا ہے اس یونی میں وہ غریبوں کا بہت خیال رکھتے ہیں اسکے تو بھائی کو بھی ملازمت پر رکھا ہو ہے ہمارے سردار نے یونو انکا دل بہت رحم دل ہے۔


وہ اسکے قریب آتے ہوئے زہر میں بجھے تیر اس پر برسانے لگی تھی۔ ۔

ہیر نے ہونٹ بھینچ کر اسے دیکھا ۔

چہرے پر دبا دبا سا غصہ جھلکنے لگ تھا اس کے ۔

ارے واوا سردار تو بہت رحم دل ہیں یار۔


ایک لڑکی کافی امپریس تھی سردار سے۔

شائنہ نے ہیر کی آنکھوں میں جمع ہوتی نمی مسکرا کر دیکھی۔

پھر کسی کو درشتگی سے اشارا کرتی وہ وہاں سے نکل گِی۔

ہیر آو آج میں تمہیں اپنے گھر لے کر چلوں۔۔

ساریا نے اچانک ہی اسکے پاس آتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

نہیں یار مجھے آج گھر جلدی جانا ہے اسائمنٹ بھی بنانا ہے پرسوں لاسٹ ڈیٹ ہے ۔

وہ گہری سانس لے کر خود کو ریلکس کرتی ہوئی بولی۔

نہیں یار میں نے خالہ کو بولا ہے کہ آج میں اپنی اکلوتی فرینڈ کو آپ سے ملوانے لاوں گئی اگر تم نا گئی تو سوچو میری کتنی بے عزتی ہو گئی۔

وہ منہ بسور کر بولی ۔

ہیر نے بے چارگی سے اسے دیکھا پھر سر ہلا گئی ۔

اوکے لیکن پھر میں آدھا گھنٹہ ہی وہاں رکوں گئی اور تم واپسی میں مجھے یونی چھوڑنے خود آو گئی۔

وہ اسکے ساتھ چلتی ہوئی بولی۔

فکر نا کرو تمہیں چھوڑ کر ہی جاوں گِی ڈونٹ وری ۔۔

وہ گاڑی کو سڑک پر لاتی ہوئی بولی ۔

اس نے سات قسم کے کلرز سے بال رنگوائے ہوئے تھے جو اس پر بہت سوٹ کر رہے تھے ۔

وہ مختلف سڑکوں سے گاڑی گزارتی ہوئی

گاڑی ایک کھلی سڑک پر روک گئی۔

چلو یار گاڑی آگے نہیں جائے گئی گلی تنگ ہے۔

وہ باہر نکلتی ہوئی بولی ۔


ہیر چادر کو مضبوطی سے اپنے ارد گرد اوڑھے اسکے ساتھ چل رہی تھی ۔

پرانے طرز کے بنے مکان ، منڈھیروں پر لٹکتی لڑکیاں جو ہر آتے جاتے مرد کو عجیب سے انداز میں اشارا کر رہیں تھیں۔


ہیر الجھن سے اپنی طرف دیکھتی لڑکیوں کو دیکھتی ساریا کے ساتھ چل رہی تھی ۔۔۔

_________________________________


وہ ساری رات سو نہیں پایا تھا کہ باہر بالکنی میں بہت مچھر تھے ۔۔


وہ اندر آیا تو مہارانی صاحبہ پورے بیڈ پر پسارے سو رہی تھی ۔

وہ رکا سامنے ہی شیشے کی کٹوری میں چار پانچ سگریٹ پڑے ہوئے تھے ۔

تو کیا وہ ساری رات سگریٹ پیتی رہی تھی اور اسے سگریٹ لا کر کس نے دئیے تھے ۔۔

وہ پریشانی سے سوچتا ہوا واش روم میں چلا گیا ۔۔

شاور لے کر جب وہ باہر آیا تو ٹھٹھکا وہ اتنی گہری نیند میں تھی کی مسلسل کھڑاک سے بھی اسکی آنکھ نہیں کھلی تھی ۔

وہ پریشانی سے اسکے بیڈ کے پاس آیا سگریٹ کو پکڑ کر ناک کے قریب کیا سگریٹ چھوٹ کر اسکے ہاتھوں سے نیچے جا گرا تھا وہ بس سگریٹ ہی نہیں ڈرگز بھی لیتی تھی آنکھوں کے گرد سیاہ خلقے سیاہ پڑتے ہونٹ او تو وہ لڑکی نشے کی اس حد تک عادی ہو چکی تھی کہ اسے نشہ کیے بغیر شاید نیند بھی نہیں آتی تھی۔

ساریا واپس چلتے ہیں مجھے اسائمنٹ بھی بنانا ہے دیر ہو جائے گئی۔

وہ ایک دم سے رک کر اسکی کلائی پکڑتی ہوئی بولی تھی انداز میں پریشانی سی تھی۔

ساریا نے اسے مسکرا کر دیکھا ۔

یار بات کو سمجھو اب تم خالہ کے دروازے سے لوٹو گئی تو کیسا لگے گا انہیں سوچو زرا چائے پی کر میں تمہیں تمہارے ہوٹل خود چھوڑ آوں گئی اب چلو۔

وہ اسکا گال کھینچ کر بہت محبت سے بولتی ہیر کا بازو پکڑ کر تقریباً اسے کھینچ کر ایک سرخ رنگ کے بنے مکان کے اندر لے آئی تھی۔۔


ہیر نے پریشانی سے ارد گرد دیکھا بہت سے مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفی سے کھڑے باتیں کر رہے تھے ۔

اس نے پہلی بار ایسا ماحول دیکھا تھا اسے عجیب سی الجھن ہو رہی تھی ۔


انٹی دیکھیں میں کسے لائی ہوں اپنی دوست ہیر کو ۔۔


یہ ایک بہت ہی بڑا اور کھلا سا ہال تھا جہاں چاروں طرف صوفے پڑے ہوٙے تھے ریشمی پردے ہر جگہ لگے ہوئے تھے فرش پر سرخ رنگ کی دریاں بچھی ہوئیں تھیں جہاں بہت ساری لڑکیاں بیٹھی ُاسے دیکھ کر معنی خیزی سے کانوں میں سرگوشیاں کر رہیں تھیں انکے تنگ چست لباس دیکھ ہیر کو پریشانی ہوئی تھی ۔

پیشانی پسینے کے قطروں سے چمکنے لگی تھی۔


ارے کیا بات ہے آج تو تم نے آخر ہمارا کام کر ہی دیا شاباش ۔۔

وہ لمبی سے درمیانی عمر کی عورت ہیر کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے بولی تھی۔

ہیر نے الجھمن سے ساریا کو دیکھا۔


ارے خالہ کو تم سے ملنے کا بہت شوق تھا نا تو اس لیے بول رہیں ہیں۔

وہ ہیر کی الجھن لیے آنکھیں دیکھ کر بولی تھی ۔

ساریا مجھے گھر جانا ہے تم بعد میں آجانا چاِے میں پھر کبھی پی لوں گئی۔


وہ دھڑکتے دل سے بنا ساریا اور اسکی خالہ کو دیکھے خارجی دروازے کی طرف بڑھی تھی جب ساریا کی خالہ نے لپک کر اسکی کلائی تھامی تھی ۔

وہ حیرت سے پلٹتی انہِیں دیکھنے لگی ۔۔

میری بچی یہاں لوگ آتے اپنی مرضی سے ہیں لیکن جاتے دلنشین بیگم کی مرضی سے ہیں ۔۔

اسے زبردستی ہال کے بیچ و بیچ لاتیں ہوئیں وہ بولی تھیں۔

کیا مطلب !

وہ پریشانی سے ساریا کو دیکھتی ہوئی بولی تھی ۔۔

مطلب یہ کہ چائے پیئے بغیر میں تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گئی۔

وہ اسے زبردستی صوفے پر بٹھاتیں ہوئی بولی اسی وقت ملازمہ ایک بڑے سے سٹیل کے ٹرے میں تین کپ چائے لے آئی ہیر کا کپ سفید جبکہ ان دونوں کے کالے تھے ۔

ہیر نے زبردستی چائے کو ہونٹوں سے خلق میں اتارا ۔

چہرے پر پسینہ سا چمکنے لگا تھا، جبکہ دل دھک دھک کر رہا تھا نجانے کیوں شاید کسی انہونی کے احساس سے ۔


دلنشیں اور ساریا اسے دیکھتی چائے کے سپ لینے لگیں تھیں۔

او لگتا ہے کوئی نیا مال آیا ہے ۔۔


ایک موٹا سا آدمی بلاجھجھک اندر آتا ہوا ہیر کو دیکھ کر معنی خیزی سے بولتا ہیر کو ٹھٹھکا گیا تھا ۔


ہیر کپ رکھتی ایک دم سے کھڑی ہوتی بنا کسی کو دیکھے بڑے سے خارجی دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔

کالی چادر سے بالوں کی لٹیں چہرے پر جھول رہی تھی تو پیشانی پسینے کے ننھے ننھے قطروں سے چمکنے لگی تھی ۔۔


وہ رکی تھی سر ایک دم سے چکرایا تھا چلتے قدم بری طرح لڑکھڑائے تھے ،

بیگ چھوٹ کر اسکے ہاتھ سے گر کر زمین بوس ہوا تھا کچھ ہی پل میں اسکی آنکھوں کے آگے گہرا اندھیرا چھایا تھا وہ دھڑم سے چکنے فرش پر گرتی ہوئی اپنے ہوش و حواس کھو چکی تھی ۔۔

وہ تینوں مسکراتے ہوئے اسکے وجود کے پاس آئے تھے۔

لڑکی کنواری ہے نا ۔

دلنشین نے تصدیق چاہی ۔

ہاں بالکل کنواری بس ایک چھوٹا بھائی ہے اور رہتے بھی ہوٹل میں ہیں مطلب غریب ہیں اور کوئی آگے پیچھے بھی نہیں تو ہمیں ڈرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔۔۔

ساریا نے اسکے وجود کے پاس بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے انہیں اس لڑکی کے بارے میں بتایا۔

اسے روم میں لے جا پرسوں تک اسے ٹرین کے کر چوہدری صاحب کے آگے پیش کریں گئے انہیں ہی بند کلی چاہئیے تھی اور منہ مانگا پیسہ وصولیں گئے۔

وہ عورت اپنی بڑی بڑی سرمہ لگیں آنکھیں اسکے معصوم چہرے پر جمائے ہوئے بولی سفاکی سے تھی ۔

وہ آدمی اسکے وجود کو اٹھا کر اندر کی طرف بڑھ گیا پیچھے پیچھے ساریا بھی تھی۔

_________________________________

کوئی لڑکی سڑک پر روتی ہوئی بھاگ رہی تھی سفید سوٹ کھلے لمبے بال پیچھے بہت سے آدمی تھے اس لڑکی کے،

کالی چادر کندھوں پر سے ہوتی زمین پر جھاّڑو دے رہی تھی۔۔


وہ تیز تیز دوڑتی ہوئی پیچھے کی طرف پلٹی تھی ۔

ہیر!


وہ بے ساختہ اسے پکارتا ہوا اٹھ کر بیٹھا تھا شرٹ کے بغیر سینہ پسینے سے تر تھا ۔

وہ گہرے گہرے سانس لیتا پاس پڑے پانی کے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر وہ ایک ہی سانس میں پانی چڑہا گیا تھا ۔


ہیر ٹھیک تو ہے نا۔

اسے اسکے بارے میں کبھی کوئی خواب جھوٹا کب آتا تھا ۔

وہ چپل پہنتا ہوا اٹھا تھا تب ہی اسکا فون رنگ کرنے لگا تھا رات کے نو بج رہے تھے اسے ہیر سے آج ملنا تھا لیکن وہ صبح کا نکلا گھر لِیٹ آیا تھا تو تخخخخخخخھک چکا تھا شاور لے کر وہ ایسے ہی لیٹا تو نیند آگئی ۔۔

خیام کالنگ۔۔

غاذان تیمور سپیکنگ ۔

وہ فون اٹھاتا ہوا اپنا محصوص جملہ بولا تھا لیکن آگے سے جو اسے سننے کو ملا تھا وہ اسکے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکا گیا تھا۔

وہ شرٹ پکڑتا عجلت سے باہر کی طرف دوڑا تھا ۔۔

غاذان بات سنو ۔۔

تیمور صاحب نے اسے پکارا لیکن وہ بنا انہیں دیکھے اور انکی سنے باہر کی طرف تیزی سے دوڑا تھا گاڑڈز نے اسے گاڑی کی طرف آتا دیکھ جلدی سے گاڑی کا ڈور کھولا ساتھ خادم بھی بیٹھا تھا ۔

خادم کو دیکھ کر اس نے غصے سے لب بھینچے۔

ہیر کو یونی سے پک کیا۔

وہ سپاٹ لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا ۔


خادم نے چونک کر اپنے سردار کو دیکھا

جی میں گیا تھا پک کرنے، لیکن وہاں سے مجھے پتا چلا وہ چھٹی سے پہلے ہی گھر چلی گئی تھیں تو میں بھی وہاں سے آگیا سردار سب ٹھیک تو ہے نا وہ ٹھیک ہیں نا ۔۔

وہ سنجیدگی سے بولتا ہوا آخر میں پریشانی سے سردار سے پوچھنے لگا تھا ۔

جبکہ وہ لب بھینچے باہر کی طرف دیکھنے لگا تھا ۔۔

چہرے پر سپاٹ تاثرات رقم تھے جسکے باعث خادم خاموشی سے سامنے دیکھنے لگا تھا۔

گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں رکی تھی وہ نکلتا ہوا اندر کی طرف بڑھا تھا جب سامنے سے ہی اسے خیام آتا دیکھائی دیا۔

ہیر جب یونی سے گھر نہیں آئی تو تم نے تب مجھے کیوں نہیں بتایا ۔

وہ غصے سے پوچھ رہا تھا۔


خیام رو پڑا ۔


میں کالج سے سیدھا ٹویشن دینے چلا گیا تھا پھر وہاں سے آپکے آفس آگیا ، بہت سا کام پینڈینگ میں تھا وہی دیر یو گئی جب ہوٹل آیا تو رات کے آٹھ بج رہے تھے میں سیدھا انہی کے روم میں گیا تھا لیکن وہ وہاں نہیں تھیں انتظامہ سے پوچھا مہرینہ جی سے پوچھا کسی نے بھی انہیں صبح سے نہیں دیکھا ،

پھر یونی چلا گیا وہاں پتا کیا انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اسکی ایک ہی دوست تھی وہاں گیا اسکے فلیٹ پر تالہ لگا ہوا ہے میں بہت ہریشان ہو گیا تھا پھر آپکو فون کیا ۔۔

وہ آنسو صاف کرتا ہوا ساری بات اسے تفصیل سے بتا گیا۔۔۔

۔

سردار لب بھینچے فون نکال کر اپنے نئے بنے دوست کو کال کر گیا جو حال میں ہی پولیس کی فورس میں اعلیٰ پوسٹ پر تعین ہوا تھا۔

وہ ارد گرد چکر لگاتا سخت پتھڑیلے تاثرات لیے اب یونی کے پرنسپل سے بات کر رہا تھا۔

جنہوں نے فوٹیج دیکھ کر بتایا کہ وہ یونی سے ساڑھے بارہ بجے کے قریب نکلی تھی ایک لڑکی ساریا کے ساتھ ۔۔

خیام اور مہرینہ ایک طرف کھڑے سردار کو ہی دیکھ رہے تھے مہرینہ بھی اب پریشان دیکھنے لگی تھی اسکی کونسا ہیر سے کوئی دشمنی تھی جبکہ خیام کی تو آنکھیں ہی نہیں سوکھ رہیں تھیں دل میں کئی بُرے بُرے وسوسے آنے لگے تھے ۔۔


کچھ ہی دیر میں پولیس کی کئی گاڑیاں وہاں آرکیں تھیں ۔۔

وہ بڑے آفسرز سے سنجیدگی سے کچھ کہہ رہا تھا ساری پولیس فورس اسکے ارد ارد اکٹھی ہو چکی تھی ۔۔


وہ انکے ساتھ ہی وہاں سے نکل چکا تھا ۔


خیام گہری سانس لیتا سر ہاتھوں میں تھام گیا ۔

اگر انہیں کچھ ہو گیا تو میں امی کو کیا جواب دوں گا ۔۔

پریشانی سے سوچتا وہ بھی باہر کی طرف بھاگا تھا کہ وہ ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ نہیں بیٹھ سکتا تھا ۔

مہرینہ اسکے جانے کے بعد خود بھی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

چال میں اسکی واضع لڑکھراہٹ تھی ۔

شاید نشے کی کمی کے باعث۔۔


_____________________________


سجنا ہے مجھے سجنا کے لیے۔۔۔۔


وہ مرر کے آگے کھڑی خود پر فیوم کا بے دریغ استعمال کر رہی تھی چہرے پر واضع مسکراہٹ تھی ۔

بلیک نائٹی میں لمبے بال کھولے وہ قیامت ہی لگ رہی تھی ۔۔

اپنے کمرے میں لگی اسکی انلارج پک کو دیکھتی رہی بے ساختہ قدم اسکی تصویر کی طرف اٹھنے لگے تھے اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرے وہ دھیرے دھیرے کچھ بڑبڑانے لگی تھی ۔

بس کچھ دن اور پھر سردار شائنہ خانم کے ہوں گئے آپ صرف اور صرف میرا مقدر ہیں اُس ملازمہ کا نہیں اگر ایسا ہوا تو سردار آپ کو شائنی کے قہر سے کوئی بچا نہیں سکے گا کوئی نہیں آپ میرے نہیں تو کسی کے نہیں۔۔

وہ زہریلی مسکان ہونٹوں پر لیے عجیب جنون بھرے لہجے میں بول رہی تھی۔

_____________________________


یونی کی فوٹیج وہ دوبارہ دیکھ رہا تھا لڑکی کا چہرہ وہ واضع دیکھ چکے تھے ۔

وہاں سے ہوتے وہ لوگ درمیانہ درجے کی بلڈنگ میں آئے جہاں وہ کرائے پر رہ تھی ۔۔


لاک کھلوا کر وہ اندر آئے اندر اتنا گند تھا کہ سردار غاذان نے بے ساختہ منہ پر ماسک چڑہایا تھا ،

وہ پولیس کے ساتھ ساتھ تھا آخر وہ اسکی بیوی تھی وہ کیسے کسی اور پر اسکے ڈھونڈنے کی زمے داری چھوڑ دیتا۔


ساری کبڈ وغیرہ چیک کر لیں کوئی نیا جوڑا کبڈ میں نہیں تھا سارے پرانے سے پرانے کپڑے بیڈ پر صوفوں پر فرش پر بکھڑے پڑے تھے کچن میں گندے برتنوں کا ڈھیر تھا ۔۔

بیڈ روم مں شراب کی بوتلیں سگریٹ کی ڈبیاں اور تو اور مردانہ شرٹ وغیرہ پھٹی پڑیں ہوئیں تھِیں۔


وہ معاملہ سمجھ گئے کہ لڑکی کردار کی کیسی تھی۔

سردار غاذان کو جی بھر کر اپنی بھولی بیوی پر غصہ چڑہا کیسی دوست بنا رکھی ہوئی تھی اس نے ۔۔

وہاں سے صرف انہِیں صرف اس لڑکی کی بولڈ پکس ہی ملیں تھیں وہ اس لڑکی کی تصاویر مختلف جگہوں پر بھیج چکے تھے۔


سردار غاذان گاڑی میں بِیٹھا سخت پریشان ہو چکا تھا کشادہ پیشانی پر بہت سی سلوٹیں نمودار تھیں ہونٹ بھینچے وہ کھڑکی سے باہر کے دوڑتے مناظر دیکھ رہا تھا انہیں چار گھنٹے ہو چکے تھے ہیر کی تلاش میں لیکن ابھی تک کوئی سراغ انکے ہاتھ نہیں لگا تھا جس سے وہ ہیر تک پہنچ پاتے اپنے خواب کا سوچتا وہ خون کے گھونٹ بھر کر رہ گیا۔۔۔

ہیر کہاں ڈھونڈوں میں تمہیں ۔

وہ مٹھیاں بھینچے خود پر بھی غصہ ہوا تھا ۔

______________؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛____________


وہ آنکھیں مسلتی اٹھ کر بیٹھی بالوں کو چہرے سے پیچھے کرتی وہ پھر سے آنکھیں مسلنے لگیں تھیں جو کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں۔

آنکھیں مسل کر وہ ارد گرد لاپرواہی سے دیکھنے لگی سر ایک دم سے پھوڑے کی طرح دکھنے لگا تھا ۔

ارد گرد دیکھتی وہ چونکی تھی یہ کمرہ اسکا تو نہیں تھا یہ چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی اکلوتی کھڑکی پر بھاری تالا لگا ہوا ۔

ارد گردے پڑے بھڑکیلے کپڑے میک اپ کا سامان اسکے پاس بیڈ پر بے ترتیب سے پڑے ہوے تھے،!

اسکی کالی چادر نیچے فرش پر گری ہوئی تھی اسکی قمیض کا گلا گہرہ تھا وہ اٹھ کر سرعت سے چادر پکڑ کر اپنے ارد گرد اوڑھ کر حیرت سے دروازے کی طرف بڑھی۔۔


لیکن یہ کیا دروازہ تو باہر سے بند تھا ، کمرے میں باہر سے کسی شوخ گانے کی آواز آ رہی تھی۔۔


کوئی ہے ۔۔

دروازے پر زور سے ہاتھ مارتی وہ زور سے بولی تھی

لیکن کوئی نہیں آیا ۔۔

وہ دھڑکتے دل سے اپنے بیگ کی تلاش کے لیے نظریں دوڑانے لگی لیکن بیگ ہوتا تو ملتا نا ۔۔


کھلے بالوں پر اس نے چھّوٹا سا کیچر لگایا ہوا تھا کیونکہ پونی کی قید میں تو وہ اب آنے سے رہے پورا وجود پسینے سے شرابور ہو چکا تھا کمرے میں لگے گندے پوسٹر دیکھ کر ۔۔

کوئی ہے ساریا تم کہاں ہو پلیز مجھے یہاں سے نکالو۔

وہ پھر سے دروازہ پیٹتی ہوئی بولی تھی لیکن اسکی بھرائی آواز پر کوئی نہیں آیا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا یہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے وہ خود صاف اور نیک دل کی تھی تو اسے سب اپنے جیسے ہی لگتے تھے وہ کیسے کسی کو برا جانتی جب وہ خود بری نہیں تھی تو کیسے کسی کی بری نیت بھانتی وہ۔۔


فرش پر بیٹھتی وہ رونے لگی تھی وہ ابھی تک نہیں سمجھی تھی کہ یہ ہوا ہے کیا ہوا ہے اسکے ساتھ۔


خیام کتنا پریشان ہو گا اور سردار انہوں نے کہا تھا وہ آج مجھ سے ملنے آئیں گئے کیا وہ آئیں ہوں گئے۔

گھٹنوں کے گرد ہاتھ باندھے وہ شوں شوں کرتی خود سے بول رہی تھی ۔

آخر یہ لوگ کیا چاہتے ہیں مجھ سے۔

وہ پریشان تھی بہت لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھی رونے اور پریشان ہونے کے علاوہ۔۔۔۔۔۔۔۔


اسے دو گھنٹے سے زیادہ وقت ہو چلا تھا وہ ایسے ہی بیٹھی رہی جب دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا تھا ۔

وہ چونک کر دروازے کو دیکھنے لگی ،

پھر

ساریا کو دیکھ کر وہ جلدی سے اٹھ کر اسکے قریب آئی تھی ٹانگیں چلنے سے انکاری تھیں کہ وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے اکڑ گئی تھی ۔


اچھا ہوا تم آگئی ان لوگوں نے مجھے کمرے میں بند کر رکھا ہے ساریا پلیز مجھے میرے بھائی کے پاس چھوڑ آو وہ پریشان ہو گا میں خود ہی چلی جاتی ہوں۔


وہ تیز تیز بولتی باہر کی طرف لپکی تھی جب ساریا نے اسکی کلائی پکڑ کر ایک جھٹکے سے اسے دوبارہ اپنے سامنے کیا تھا ۔

ہیر نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا تھا ۔

ساریا مجھے جانا ہے تم جانتی ہو میرا بھائی پریشان ہو گا۔

وہ اسے حیرت سے دیکھتی منمنائی تھی ۔


میری پیاری اور بھولی ہیر اب یہاں سے صرف تمہاری لاش تمہارے بھائی کو مل سکتی ہے تم یہاں سے کہی نہیں جا سکتی مائے ڈیئر فرینڈ۔۔

اسکے چہرے کو چھوتی وہ کمینی مسکان سے بولی تھی۔

ہیر نے حیرت سے اسے دیکھا پھر اسکا ہاتھ غصے سے جھٹکا ۔

کیا مطلب ہے تمہارا آخر یہ سب کیا ہے کیوں بند کیا ہے مجھے یہاں ۔

وہ اس بار خاصے غصے سے بولی تھی جو ہیر کی طبیعت ک خاصا نہیں تھا ۔۔


آئی سویئر تمہیں کوٹھے کا نہیں پتا ہو گا اور ان ہی مرد عورت کے ریلیشن شیپ کا کیونکہ تم معصوم ہی اتنی ہو کیونکہ نا تم ٹی وی دیکھتی ہو نا تمہارے پاس نیٹ ہے تم تو آج کل کی لڑکی لگتی ہی نہیں ہو خیر دوسری بات کوٹھا اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں برے کام ہوتے ہیں یہاں دن کو لوگ سوتے ہیں اور رات کو جاگتے ہیں مجرہ کرتے ہیں مردوں کو خوش کر کے ان سے پیسے لیے جاتے ہیں اب تمہیں بھی اپنی اس معصوم شکل سے لوگوں کو خوش کر کے ہمیں بہت سا ۔پیسہ کما کر دینا ہو گا ۔


ساریا نے اسکے پاس آتے ہوئے بہت تفصیل سے اسے سمجھایا تھا ۔

ہیر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی تین چار قدم پیچھے ہوئی تھی۔

وجود لرز اٹھا تھا کوٹھے کی کہانی ایک بار اسکی ایک کلاس میٹ نے بتائی تھی لیکن کوٹھے کی اصلیت آج پتا چلی تھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی یہ اسکے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔۔


تم تو میری واحد دوست تھی نا ۔

اس نے ساکت لبوں سے با مشکل یہ چند الفاظ بولے تھے۔۔


دوست تو میں کسی کی نہیں سوائے پیسے کی اور ہاں یہاں میں دوست بن کر بہت سی لڑکیاں لا چکیں ہوں سویٹی وہ لڑکیاں آج بہت خوش ہیں یہاں دن رات عیش کرتیں ہیں تم بھی پیچھے کی زندگی بھول جاو کیا رکھ ہے عام زندگی میں بھوک دکھ غم بھول جاو وہ سب اور اپنی جوانی کو کیش کرواو ۔

وہ اسکے سٹیپ کٹنگ بالوں کو چھوتی ہوئی خالصاً کمینگی سے بولی تھی۔


چٹاخ۔۔۔۔

ہیر نے نا آو دیکھا نا تاو تھپڑ اسکے گال پر دے مارا تھا ۔

ساریا نے گال پر ہاتھ رکھ کر حیرت سے اسے دیکھا اسے بھلا اس چیوٹی سے ایسی امید کب تھی ۔

تم ایک بہت بری لڑکی ہو مجھے سردار کی بات مان لینی چاہئے تھی لیکن میں نے تمہیں دوست مانا تم پر بے انتہا بھروسہ کیا اپنا مانا اور تم نے میرے ساتھ کیا کیا ہاں میرا دل کر رہا تمہیں جان سے مار دوں تم اس دو دن کی زندگی میں تو عیش کر سکتی ہو لیکن آخرت میں تمہارے یہ عیش تمہارے ناپاک وجود پر مار دئیے جائیں گِے پھر کیا کرو گئی،

تم مجھے یہاں نہیں رکھ سکتی سمجھی میں شادی شدہ ہوں میرا شوہر تمہیں جان سے مار دے گا سمجھی تم بہتری اسی میں ہے مجھے جانے دو ۔


اسکے نزدیک آتی نفرت سے اسکا مکرو چہرہ دیکھتی ہوئی وہ غصے سے چلائی تھی ۔

جبکہ ساریا اسکی ہمت پر حیرانی سے زیادہ شاک میں تھی وہ تو سمجھی تھی وہ رو دے گئی یا چیخے گئی چلائے گئی پھر چپ کر کے انکا کہنا مان جائے گئی لیکن اس نے تو اسے تھپڑ ہی دے مارا تھا جو آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی اور غصہ بھی تو بہت کر رہی تھی ۔۔۔


تمہاری یہ ہمت تم ساریا پر ہاتھ اٹھاو ۔۔


دلنشین بیگم اچانک ہی کہی سے نمودار ہوتی اسکا چہرہ اپنے سخت ہاتھ میں دبوچتے ہوئے چلائی تھی ۔۔

وہ کب سے دروازے میں کھڑی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی اب اسکی ہمت جواب دے گئی تھی اسکی ہمت کہ وہ ساریا پر ہاتھ اٹھائے ۔۔

ہیر نے اسکا ہاتھ جھٹکنا چاہا لیکن ناکام یاب رہی ۔۔

جبکہ ساریا اسکی شادی شدہ لفظ پر اٹکی ہوئی تھی ۔۔

کون ہے تمہارا شوہر ۔

ساریا نے اسکے بال پکڑ میں لیتے ہوئے غصے سے پوچھا۔۔

اسکے شوہر کا پوچھنے پر اتنی تکلیف پر بھی ہیر کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

سردار غاذان تیمور ہیں میرے شوہر میری ڈھال میرے مخافظ وہ تم لوگوں کو چھوڑیں گئے نہیں انہوں آج تک مجھے کوئی خراش نہیں آنے دی تو اب کیوں آنے دیں گئے۔

اسکے مضبوط لہجے پر وہ دونوں ہی ٹھٹھک کر اسکا سانولا چہرہ دیکھنے لگیں۔

جھوٹ بولتی ہے کمبخت بغیرت لڑکی تجھے تو دو دن بھوکا رکھوں گئی پھر ہی ہوش ٹھکانے آئیں گئے تمہارے۔

دلنشین نے سنبھلتے ہوئے زور سے اسکے نرم گال پر اپنا بھاری ہاتھ مارا ۔

وہ چیختی ہوئی زمین پر گری تھی گال پر اسکے سخت ہاتھوں کی چھاپ چھپ چکی تھی۔۔


________________________________


تیمور صاحب کو پتا لگ چکا تھا کہ انکا بیٹا رات سے کس کے لیے حوار ہو رہا ہے ۔

اچھا ہے کہی مر کھپ گئی ہو وہ۔

سہیر خانم نے غصے سے کہا۔

ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن سردار کی دیونگی دیکھ رہے ہو کل رات سے وہ گھر سے غائب ہے پولیس کو اس نے سولی پر ٹنگا ہوا ہے آرمی اسکے ساتھ ہے خادم کہہ رہا تھا سردار نے کل سے کچھ کھایا نہیں سوائے پانی کے چند گھونٹ کے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا میرا بیٹا ایک غریب کم زات لڑکی کے لیے اتنا حوار ہو سکتا ہے۔

تیمور صاحب سنگار پیتے ہوئے سخت غصہ تھے بیٹے پر اور حیران بھی تھے۔

سہیر خانم نے سمجھ کر سر ہلایا ۔

بات تو سچ ہے آپکی ،مجھے لگتا ہے اس لڑکی کو غائب کروانے میں ریاض کا ہاتھ ہے۔

سہیر چائے کا سپ لیتا ہوا یقین سے بولا ۔

جس پر تیمور نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔

کیسا پولیس ڈیپارٹمنٹ ہے یہ تم لوگوں سے ایک لڑکی تک تو ڈھونڈی نہیں جا رہی یہ کردار ادا کرتے ہو تم لوگ۔ ۔


وہ غصے سے پولیس پر چڑہ دوڑ تھا ۔

جواباً شرمندگی سے سب سر جھاک گئے ۔

سردار ایک دو دن تو لگ ہی جائے گا ۔

جواب رانا کی طرف سے آیا تھا۔

شٹ اپ مجھے میری وائف آج چاہئے کل سے وہ غائب ہے اور تم لوگوں کو کوئی سراغ نہیں ملا سلیوٹ ہے تم سب پر جو بھی ہے مجھے میری وائف آج کے قت میں ہی چاہئے ورنہ ایک ایک کو اس نوکری سے نکال باہر کروں گا ۔۔


غصے سے کہتا آنکھوں پر براون شیڈز کا چشمہ لگاتا وہ تیزی سے باہر کی طرف بڑھا تھا ۔

رانا نے چونک کر سردار کا مشتعل روپ دیکھا تھا ۔

کہی سردار کو اس سے پیار تو نہیں ہو گیا اتنی فکر ایسے ہی تو کوئی کسی کی نہیں کرتا ۔

وہ لب بھینچے بہت پریشانی سے بڑبڑایا تھا ۔۔


آپی ٹھیک تو ہوں گئی نا سردار ،

خیام نے فکرمندی سے پوچھا اس سے پوچھا تھا جسکے ماتھے پر تفکر کی لکیریں بڑی واضع دیکھی جا سکتیں تھیں۔


ان شاءاللہ تمہاری آپی ٹھیک ہوں گئی تم گھر جاو مہرینہ اکیلی ہو گئی میں ہوں نا تمہاری آپی کو صحیح سلامت لاوں گا بھروسہ رکھو مجھ پر۔ ۔


اسکا شانہ تھپکتا وہ نرم لہجے میں بولا تھا ۔

سردار میں آپکے ساتھ رہ کر انہیں ڈھونڈنا چاہتا ہوں ۔

خیام نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔


خیام تم تھک گئے ہو جاو آرام کرو میں پھر تمہیں بلوا لوں گا ًڈونٹ وری تمہاری آپی کو کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔

اس سے نرم لہجے میں کہتا وہ گاڑی میں بیٹھا تھا ۔

خیام نے لب بھنچ کر آنکھوں سے اوجھل ہوتی گاڑی کو دیکھا ۔۔۔۔


اس لڑکی کے فلیٹ میں چلو !

وہ موبائیل کان سے لگاتا ڈرائیور سے بولا تھا ۔

خادم نے حیرانگی سے انہیں دیکھا ۔

اس لڑکی ساریا کے فلیٹ پر۔

خادم نے حیرانگی سے پوچھا ۔

جس پر سرادر نے تندہی سے اسے دیکھا تھا۔ ۔

وہ جلدی سے سر ہلاتا آگے کی طرف دیکھنے لگا ۔

سردار غاذان سپیکنگ کیا خبر ہے۔

وہ سرد لہجے میں اب فون میں کسی سے مخاطب تھا۔


سردار وہ لڑکی کافی شاطر تھی اس نے اپنے پیچھے کوئی ثبوت چھوڑا ہی نہیں کوئی اس لڑکی کو جانتا ہی نہیں مجھے لگ رہا ہے وہ لڑکی کسی اور شہر میں رہتی ہے ۔

وہ لڑکا کافی معدب انداز میں سردار کو بتا رہا تھا ۔

سردار نے چونک کر اسکی بات سنی پھر بنا کچھ کہے فون بند کر دیا ۔


اس لڑکی کے فلیٹ کی طرف جاتے وہ خاصے غصے میں تھا ۔

سب لوگ حیرانی سے اپنے اپنے فلیٹوں سے باہر نکلے ریاست کے شاندار سردار کو دیکھ رہے تھے کھڑی ناک والا وہ شخص جیسے بنا ہی سرداری کرنے کے لیے تھا اسکے غصے کو دیکھ کر کوئی آگے نہیں آیا تھا۔


بلڈینگ کے مینجر نے سرعت سے لاک کھولا تھا ادکے فلیٹ کا۔۔

وہ اکیلا اندر آتا دروازہ بند کر چکا تھا باقی سب حیرانی سے باہر ہی کھڑے رہ گئے ۔۔

دونوں ہاتھ کمر پر رکھے وہ پورے ہال کو طرائنہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔

اس نے دونوں کمرے چھان مارے لیکن کچھ نا ملا وہ کچھ سوچتا سرعت سے کچن کی طرف آیا تھا ۔

کچن میں پڑے گندے برتنوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھی برتنوں میں رکھے کھانے میں سے بہت بری بو آرہی تھی ۔۔

ناک سکوڑتا وہ منہ پر ماسک چڑہا چکا تھا۔


پورے کچن میں عجیب گندی سمیل پھیلی ہوئی تھی۔

وہ بند کبنٹ کھول کھول کر اندر پڑے جاڑ برتن باہر پھینکتا جا رہا تھا ۔

سارے کیبنٹ چھان مارے لیکن وہاں سے کچھ نا ملا ۔


وہ کرسی کو ٹھوکڑ مارتا ہوا باہر نکلنے لگا تھا جب کرسے کے نیچے پڑے موٹے خاکی لفافے پر اسکی نظر ٹھہڑی تھی۔

وہ بیٹھ کر اس لفافے کو اٹھا چکا تھا ۔۔


کرسی پر بیٹھ کر اسنے بنا عجلت دیکھائے وہ لفافہ چاک کیا ۔۔

اندر سے بہت سارے پیسے میز پر گرے تھے پھر ایک اور چھوٹا سا کارڈ تھا جس پر R ,T ...

لکھا ہوا تھا ۔

RT..

وہ سنجیدگی سے بڑبراتا ہوا اسی چیٹ کو پکڑے باہر کی طرف بڑھا تھا ۔

اسکے باہر آنے پر جتنے لوگ دروازے کے آگے کھڑے تھے وہ ایک دم سے پیچھے پیچھے ہوئے تھے۔

تم اس بلڈینگ کے مینجر ہو۔

اس نے کالے کوٹ والے شخص سے سنجیدگی سے پوچھا ۔

جی سردار ۔۔

اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ادب سے جواب دیا ۔

خادم ایک گھنٹے تک مجھے یہ بلڈنگ سیل چاہئیے ۔

وہ سرد لہجے میں کہتا آگے بڑھا تھا۔


لیکن سردار اس میں ہماری غلطی کیا ہے ۔

مینجر اسکے پیچھے دوڑتا ہوا گڑگڑایا تھا ۔


تم لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ تم لوگ بنا تحقیق کیے کسی کو بھی کرائے پر فلیٹ دے دیتے ہو ایک نظر میں جان گیا ہوں یہاں زیادہ تر کیسے لوگ رہتے ہیں مجھے اپنی ریاست میں ایسے بیہودہ ہوٹلز نہیں چاہئیے۔۔

سرد لہجے میں کہتا وہ ایک شان سے وہاں سے نکلا تھا ۔


''

بات سنو ایک کارڈ کی پک بھیج رہا ہوں دیکھ کر بتاو یہ کیا ہے ۔


کہتے ہی اس نے چند بٹن دبائے اور پھر فون ساتھ پڑی خالی سیٹ پر پھینکا تھا ۔۔


_________________________________

ہیر بیڈ کی پائنتی سے سر ٹکائے خاموش تھی آنکھیں اور ناک رو رو کر سرخ پڑ چکے تھے ،

پیاس اور بھوک سے بے حال تھی وہ ۔


تب ہی دروازہ کھولتی ساریا اور ایک خوش شکل سا آدمی اندر آیا تھا۔ ۔


یہ ہے لڑکی دیکھ لو غور سے بالکل منہ بند کلی ہے جیسی تمہیں چاہئیے تھی۔

وہ مسکراتے ہوئے ایک جیتے جاگتے وجود کا سودا کر رہی تھی۔

ہیر نے اس آدمی کو دیکھ کر خود کو چادر میں اچھے سے قید کیا تھا ۔


اسکی گندی نظرِیں اپنے وجود پر جمے دیکھ کر وہ حقارت سے منہ دوسری طرف پھیر گئی تھی ۔۔


ٹھیک ہے لڑکی آج رات اسی کو بک کردو آج میں ہوں بھی فری ۔

چوہدری صاحب کہتے ہوئے پلٹ گئے جبکہ ساریا اسکی طرف آئی۔

ساریا مجھے جانے دو ورنہ ٹھیک نہیں ہو گا تمہارے لیے۔

وہ بیڈ کا سہارا لے کر کھڑی ہوتی ہوئی غصے سے پھنکاری تھی۔


کیا کر لو گئی مائے دیئر یہاں کی لوکیشن تمہارے فرشتوں کو بھی پتا نہیں لگ سکتی کیونکہ ساریا کوئی کام کچا کرتی ہی نہیں ۔۔

اسکے گال چھوتی وہ تمسخرانہ بولی تھی۔

ہیر نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا ۔

ارے اتنا غصہ ننھی سی جان میں کہاں سے آگیا ہے بھئی۔

ساریا نے مسکراتے ہوئے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔


ساریا اگر تم مجھے یہاں سے جانے دو گئی تو میں وعدہ کرتی ہوں کسی کو تمہارے بارے میں نہیں بتاوں گئی میں نے زندگی میں بہت کچھ سہا ہے اب اور ہمت نہیں مجھ میں کچھ سہنے کی پلیز مجھے میرے گھر جانے دو تمہیں اللہ کا واسطے ہے ۔۔

اسکے سامنے ہاتھ جوڑے روتے ہوئے بے بسی سے وہ بولی تھی ۔

وہ کمینگی سے مسکرائی ۔۔

مجھے تم سے پوری ہمدردی ہے ہیر لیکن اگر تمہیں یہاں سے جانے دیا نا تو میں کہی کی نہیں رہوں گئی یہ جو آدمی یہاں سے گیا ہے نا اسے آج رات تم نے خوش کرنا ہے اسکے بدلے وہ تمہیں پیسوں میں تول دے گا بڑی تگڑی اسامی ہے اسے ہاتھ سے مت جانے دینا۔

وہ بے باکی سے بولتی ہوئی پلٹی تھی ۔

کیا مطلب ۔۔

ہیر نے نا سمجھی سے پوچھا۔

وہ بنا پلٹے مسکرائی ۔

وہ جو سامنے کپڑے پڑے ہیں نا پہن لو اور ہاں کھانا بھی بھیجوا رہی ہوں کھا لینا اور کوئی ہنگامہ کیے تیار ہو جانا ورنہ دلنشین بیگم کو تم نہیں جانتی چمڑی ادھیڑنے میں اس وقت نہیں لگتا ۔


وہ کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔

ہیر نے لرزتے وجود سے کھلے دروازے کو دیکھا وہ اسکی زومعنی باتوں کا مطلب سمجھ نہیں سکی تھی ۔

بیڈ پر بیٹھی وہ ہاتھوں کی لکیروں پر نظریں جما گئی ۔۔

کچھ ہی دیر گزری تھی ایک کالا سا موٹا چھوٹے قد کا آدمی ٹرے میں اسکے لیے کھانا لیے چلا آیا تھا ۔


وہ اسے دیکھ کر سہم سی گئی تھی۔


وہ آدمی اسے مسکراتی نظروں سے دیکھتا کھانا اسکے سامنے رکھ کر چلا گیا۔

وہ خوف سے کھانے پر نظریں جما گئی پانی کو دیکھ کر اسکی آنکھیں چمکیں تھیں جلدی سے دو گلاس پانی وہ حلق میں فٹا فٹ چڑہا گئی ۔

ہونٹ صاف کر کے وہ گہرے گہرے سانس لیٹی بیڈ پر ٹھیک سے بیٹھی ۔


وہ اب کھانے کو بے بسی سے دیکھ رہی تھی ۔

دو سوکھی روٹیاں دال سبزی اور ایک طرف چھوٹی سی کٹوری میں ابلے ہوئے چاول رکھے ہوئے تھے ۔

ایک دم سے بہت سے آنسو آنکھوں میں جمع ہونے لگے تھے جو اب گالوں پر لڑکھ آئے تھے ۔

ایسے ہی روٹی کو پکڑ کر وہ کھانے لگی تھی دل تو نہیں کر رہا تھا لیکن اسے ان لوگوں کا مقابلہ کرنا تھا تو کھانا کھانا لازمی تھا۔۔

ایک سوکھی روٹی کھا کر وہ اب ابلے چاول کھانے لگی تھی ۔

کھانا کھا کر وہ کچھ دیر ایسے ہی بیٹھی رہی پھر باہر سے قہقوں کی آواز سن کر اسکے قدم بے ساختہ باہر کی طرف لپکے تٙھے۔۔

_________،،،،،،،،،،،،،،_________،،،،،،،،،،،،،،،


سردار یہ کسی علاقے کا نام لگتا ہے مجھے ۔۔

مطلب ؛

وہ آئی برو اچکا کر بولا ۔

مطلب یہ کہ RT مطلب ریڈ ٹون ۔۔

وہ لڑکا کچھ سوچتا ہوا بولا ۔

واٹ ڈڈ یو مین ،،۔

وہ تیوڑی چڑہاتا ہوا بولا ۔۔

مطلب ریڈ ٹون طوافوں کا محلہ ۔۔

وہ لڑکا سر جھکاتا ہوا بولا تھا جبکہ اسکے پیروں کے نیچے سے زمین سرکی تھی ۔

وہ ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا تھا ۔

تم یقین ہو اسکا یہی مطلب ہے۔

وہ آخری بار پوچھ رہا تھا ۔

جی !

وہ بھی کھڑا ہوتا ہوا ادب سے بولا۔

وہ ایک دم سے وہاں سے بھاگا تھا چہرے پر پسینے کے قطرے سے چمکنے لگا تھا ۔

وہ بدحواسی سے کسی کو فون ملانے لگا تھا ۔

_________________________________


ہیر ایک لمبی سے راہدری سے ہوتی ہوئی گول ہال میں چلی آئی ۔

وہاں ڈولکی کی تھاپ پر لڑکیاں لڑکے ناچ رہے تھے لڑکیوں کے بیہودہ لباس دیکھ کر ہیر کے وجود میں سنسنی خیز لہر دوڑ گئی تھی۔۔

وہ لڑکے لڑکیوں کے جسم پر جگہ جگہ ہاتھ لگا رہے تھے اور وہ خوش ہوتیں رقص اور تیز کردیتیں ۔


وہ گھبرا کر وہاں سے دوڑ گئی تھی۔


بیڈ پر بیٹھتے ہی اسکا سر ایک دم سے بھاری ہونے لگا تھا ۔

گھبراہٹ اس پر حد سے زیادہ سوار ہو چکی تھی ۔

وہ بیڈ پر لیٹ چکی تھی کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند کی وادیوں میں تھی۔

تب ہی دلنشین بیگم اور ساریا اندر آئیں ۔

لگتا ہے دوا کا اثر ہو چکا ہے ۔

دلنشین بیگم نے اسکے چہرے کو چھوتے ہوئے کہا۔

ہاں اگر دوا نا دیتے تو اس نے ماننا نہیں تھا یہ کرنا لازمی تھا ۔

ساریا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔


ہممم اس نے پیسے بھیجوا دئیے ۔


دلنشین بیگم کچھ یاد آنے پر اس سے پوچھنے لگی ۔

ہاں اسی دن دے دئیے تھے ،

ساریا بول رہی تھی جب اسکا موبائیل شور مچانے لگا تھا۔

جی میں دلربا بول رہی ہوں ۔

کیاااا۔

وہ حیرت سے کہتی دلنشین بیگم کی طرف پلٹی۔

پولیس کا چھاپا پرنے والا ہے جلدی سے یہاں سے نکلنا ہو گا۔

ساریا کہتی ہی جلدی سے باہر کی طرف دوڑی تھی ۔۔


دلنشین بیگم بھی حواس باختہ ہوتی ہوئی اسکے پیچھے تیزی سے دوڑی ۔۔


وہ سب جلدی جلدی وہاں سے سب کچھ سمیٹ کر نکل چکیں تھیں ۔


انکے نکلنے کے ٹھیک پندراں منٹ بعد ہی ڈھیروں پولیس کی گاڑیاں اس ایریے میں آئیں تھیں ۔۔

سب لوگ بد حواس ہوتے جدھر راستہ مل رہا تھا دوڑ رہے تھے ۔۔

پولیس ہر کسی کو اٹھا کر گاڑیوں میں ڈال رہی تھی آگے بھاگتا کوئی اور نہیں سردار غاذان تیمور تھا جو ہاف وائٹ پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے ہوئے تھا وہ جو دن میں دو تین بار تو لازمی کپڑے بدلتا تھا کل سے اسی سوٹ میں بنا کھانے پینے کا ہوش رکھے بس اس عام سے لڑکی کے لیے وہ خوار ہو رہا تھا ۔


لیکن ہیر کی بدقسمتی یا پھر سردار غاذان کی کہ وہ سب وہاں سے سب کچھ سمیٹ کر نکل چکے تھے کہ ایسے لوگوں کے کئی ٹھکانے ہوتے تھے اور آشنا بھی کئی ہوتے ہیں جو انہیں خبر کر دیتے ۔


غاذان اندر آتا پاگلوں کی طرح ادھر ادھر اپنی بیوی کو ڈھونڈ رہا تھا کوٹھے کا ہر کونا اسنے خود دیکھا تھا لیکن ہیر کا کہی وجود نا ملا ۔۔

وہ لب بھینچے اس چھوٹے سے کمرے سے پلٹا تھا جب وہ بیڈ پر پڑی کالی چادر دیکھ کر ٹھٹھکا تھا ۔

وہ آہستہ قدموں سے بیڈ پر پڑی چادر کسی متاع حیات کی طرح اٹھا چکا تھا ۔


اس دن یونی میں اس نے یہی چادر بہت اچھے سے خود پر اوڑھی ہوئی تھی ۔


سر جھکائے ، وہ سر ہلا کر بات مانتی اسے بری شدت سے یاد آئی تھی ۔


ہیر !!!!


وہ چادر پکڑتا خلق کے بل چیخا تھا ۔

ساری فورس سردار کا یہ روپ دیکھ کر حیران تھی پریشان تھی ۔۔

جلدی چلو وہ لوگ یہاں سے ابھی اتنی دور نہیں گئے ہوں گئے۔

اسکا دوست آفسر اپنے ما تختوں سے بولا تھا جبکہ رانا نے کمینگی سی مسکان سے سردار کے چہرے پر اذیت دیکھی تھی ۔


وہ اب کیسے بتاتا اسے سردار کو ایسے دیکھ کر کتنی خوشی ہو رہی تھی۔

اللہ کرئے تمہیں کبھی ہیر نا ملے سردار اور تم اسکی راہ میں پاگل ہو کر مر جاو تو میرے دل کو کتنا سکون ملے گا میں تمہیں بتا نہیں سکتا ۔۔

وہ مسکراتا ہوا دل سے اسے بدعا دے رہا تھا ۔۔۔

وہ سب وہاں سے نکلتے ہی دائیں طرف جاتے روڈ کی طرف گئے تھے ۔۔

غاذان اسکی چادر گود میں رکھے اس معصوم لڑکی بارے میں بے انتہا فکر مند تھا چہرے پر اذیت سی رقم تھی ۔۔


________________________________


کچھ پتا چلا ہیر کا ۔۔

مہرینہ نے اسے تھکا ہارا اندر آتے دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا ۔

وہ سر نفی میں ہلاتا ہوا صوفے پر بے حال گرا تھا ۔

مہرینہ نے تاسف سے اسے دیکھا تھا ۔

وہ رف سے کھلے ٹروزر پر لمبی گھٹنوں تک آتی فیروزی قمیض پہنے ہوئے تھی بالوں کا اونچا جوڑا بنائے وہ اسے دیکھ رہی تھی وہ خقیقتاً خود اس لڑکی کے لیے بہت پریشان تھی۔


آپی آپ کہاں ؟

وہ آنکھیں موندے دلگرفتی سے بڑبڑایا تھا ۔۔

جبکہ وہ پریشانی سے لب کاٹتی ہوئی بیڈ پر بیٹھی۔

_____________________


پتا نہیں کیسے پولیس ہمارے مین اڈے پر پہنچ گئی پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا ۔۔


دلنشین بیگم پریشانی سے اِدھر اُدھر چکر لگاتی ہوئی بولی تھی ۔

وہ جی بِلو کہہ رہا تھا وہ کسی لڑکی کی تلاش میں ہیں مجھے لگتا ہے یہ جو لڑکی نئی آئی ہے اسکی تلاش میں ہوں گئے ۔


ان کے خاص ملازم( خواجہ سر) نے پاندان سے پان بنا کر دلنشین کو دیتے ہوِے پتے کی بات بتائی۔

دلنشین اور ساریا نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا تھا۔

اتنی پولیس اس عام سی لڑکی کے لیے نہیں آسکتی ۔

دلنشین نے سر جھٹکتے ہوئے یقین سے کہا ۔

جبکہ ساریا لب بھینچے کسی سوچ میں گھم ہو چکی تھی ۔

تم کس مراقبے میں چلی گئی ہو ۔

وہ اسے ٹہوکا مارتی ہوئی نخوت سے بولی۔

خالہ مجھے لگتا ہے شینو ٹھیک کہہ رہی ہے اس ہیر میں کچھ بات تو ہے آپکو پتا ہے وہ سردار کی خاص ملازمہ ہے اس دن یونی میں وہ سب کو پیچھے چھوڑے خود اسکے پاس آئے تھے ۔

ساریا سیدھی ہو کر بیٹھتی ایک دم سے یاد آنے پر بولی تھی۔

دلنشین بیگم نے پریشانی سے اسے دیکھا ۔

تو یہ تُو اب بتا رہی ہے کم بخت وہ لڑکی ہمارے لیے کہی کوئی مصیبت کھڑی کر دے گئی ۔

دلنشین نے اسے جھانپر مارتے ہوئے غصے سے کہا۔

اسے چھوڑ بھی تو نہیں سکتے وہ ہمیں چھوڑے گئ ؟ اسے اگر چھوڑ دیا تو۔

ساریا نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔

جس پر دل بیگم نے سر ہلایا ۔

اسے تیار کروا دیا ہے ۔

دل نے پان منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا ۔

ہاں تیار کروا دیا ہے چوہدری اسے دیکھ کر اپنے ہوش و حواس گھم کر بیٹھے گا اور منہ مانگے پیسے دے گا یارانہ سے تیار کروایا ہے آپکو تو پتا ہے وہ اگلے بندے کی ایسی لک چینج کرتی ہے کہ پہچاننا مشکل ہوتا ہے ۔


اپنے کمرے کی طرف جاتی ہوئی بولی۔


وہ پلنگ پر پڑی ہوش و حواس کی دنیا سے بیگانی تھی ۔

کچھ ہی دیر بعد اسکی آنکھوں اور ہاتھوں میں ہلکی سی حرکت ہوئی تھی۔

وہ اودھ کھلی آنکھیں کھولے سرعت سے اٹھ کر بیٹھی ۔۔

یہ ایک درمیانے درجے کا کمرہ تھا جسکے چاروں طرف ریشمی پردے تھے جو ہوا سے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے ،

وہ گلا تر کرتی بیڈ سے کھڑی ہوئی تھی تب ہی فضا میں چوڑیوں اور پائل کی گونج بہت زور سے ہوئی تھی ۔


وہ چونک کر ارد گرد دیکھنے لگی تھی۔

پر اسکی نظر گھوم پھر کر خود پر ہی آئی تھی،

وہ خود کو حیرت و بے یقینی سے دیکھنے لگی تھی ۔

دونوں ہاتھوں میں ہری اور سرخ چوڑیاں تھیں جو خوب بھر بھر کا پہنائیں گئی تھیں۔

سبز ریشمی لہنگا سرخ کامدار کرتی جس میں اسکا پیٹ بہت مشکل سے کور تھا ریشمی دوپٹہ جو کندھے پر بہت مہارت سے سیٹ کیا گیا تھا لیئر میں کٹے بالوں کی سیدھی مانگ نکال کر دونوں طرف سے پھلے ہوئے رول بنائے ہوئے تھے گہرا میک اپ ۔۔


وہ ٹھٹھک کر خود کو آئنے میں دیکھ رہی تھی ۔

نہیں یہ میں نہِیں ہوں۔ ۔

وہ پیچھے ہوتی ہوئی جیسے خود سے بولی تھی ۔


پھر اس نے وخشت سے اپنا گلا ٹٹولا تھا جس میں ہیر والا پینڈنٹ غائب تھا کانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹاپس بھی نہیں تھے انکی جگہ بھاری ارٹیفیشل بڑے بڑے جھمکے تھے۔۔

میرا لاکٹ سیٹ کہاں گیا سردار کیا سوچیں گے انکی ہیر انکے دئیے ہوئے تخفے کی خفاظت بھی نہیں کر سکی ۔۔۔۔


نہیں۔ ۔۔۔


وہ گال پر تھپڑ مارتی چیخی تھی وہ پاگل ہونے لگی تھی۔۔۔


یہ میں نہیں ہوں ہیر رضا ایسی بیہودہ نہیں ہے وہ ایسے کپڑے نہیں پہنتی وہ اتنا سجتی نہیں ہے وہ اتنی خوبصورت نہیں ہے یہ میں نہیں ہوں۔ اور میرا لاکٹ سیٹ کہاں گیا ۔

وہ چیخی تھی۔

ہال میں بیٹھی ساریا ایک دم سے ہڑبڑاتی ہوئی ہیر کے کمرے کی طرف دوڑی تھی۔

کیا تکلیف ہے کیوں چلا رہی ہو تم بہرہ سمجھا ہوا ہے کیا ہمیں،

جو یوں ہمارے کان کے پردے پھاڑ رہی ہو ۔


تمہاری ہمت کیسی ہوئی مجھے یہ بیہودہ کپڑے پہنانے کی اور یوں میری بے ہوشی پر مجھے ہاتھ لگانے کی ۔

کیا تم جانتی نہیں ہو ایک عورت کا ایک عورت سے اتنا ہی پردہ ہے جتنا ایک مرد کے سے پھر تم مجھے ہاتھ کیسے لگا سکتی ہو مجھے نہیں رہنا یہاں اور ہاں میں اپنا لاکٹ سیٹ تم سے لے لوں گئی اپنے سردار سے کہلوا کر ۔۔۔


وہ بے پنا غصے سے کہتی ہوئی باہر کی طرف دوڑی تھی پیچھے ساریا بھی حیرت سے نکلتی ہوائی دوڑی ۔۔


ہال میں آتے آدمی سے وہ زور سے ٹکڑاتی ہوئی نیچے جا گری تھی ۔۔


سامنے کوئی لمبا ترنگا آدمی کھڑا اسے ہوس زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔

وہ خوف سے ارد گرد دیکھتی ہوئی پیچھے کی طرف سرکی تھی۔


کون ہے یہ لڑکی۔

وہ لمبا آدمی اسکے قریب بیٹھتا ہوا ساریا سے بولا ۔۔

ساریا نے اسے دیکھ کر تھوک نگلا تھا ۔

یہ نئی آئی ہے اور اسکا سودا ہم نے چوہدری جی سے کر دیا ہے یہ آج رات انہی کے لیے تیار کروائی ہے ۔

وہ ہیر کو دیکھتی ہوئی بولی جو بے ہوش ہونے کے قریب تھی کہ وہ بہت مشکل سے کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔


بھاڑ میں گیا چوہدری اس سے تین گنا زیادہ رقم دوں گا بس یہ لڑکی آج رات میری ہے۔

وہ ایک جھٹکے سے دکھوں کی ماری لڑکی کی کلائی ہاتھ میں جھکڑتا ہوا بولا تھا ۔


ہیر نے حیرت سے اپنی کلائی اس آدمی کی گرفت میں دیکھی ۔

اس وہ پل یاد آیا جب سردار نے کتنی نرمی سے اسکی کلائی تھام کر بٹھایا تھا


ایک بار اسکا نرمی سے ہاتھ تھپکا تھا ۔

انکے زیر لب مسکراتے ہونٹ اس سے کچھ کہہ رہے تھے ۔


" ہیر رات کو فری ہوں میں تم سے ملاقات ہو گئی تفصیل سے"

"ہیر رات کو فری ہوں میں تم سے ملاقات ہو گئی تفصیل سے"

سردار غاذان کا نرم لہجہ سماعتوں میں جیسے چکرانے لگا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ اس آدمی کو دیکھتی ہوئی کچھ بول بھی رہی تھی۔

جب اس آدمی نے کھینچ کر اسے گلے لگانے کی کوشش کرنی چاہی تھی۔

یہ خوشبو اسکے سردار کی تو نہیں تھی پھر یہ بھلا کون تھا؟

وہ ایک جھٹکے سے اس آدمی کی گرفت سے نکلتی تین چار قدم پیچھے ہوتی اس آدمی کے مکرو چہرے کو دیکھنے لگی۔

بہت دم ہے بھئی لڑکی میں بس دیکھنے میں ہی کمزور لگتی ہے۔

وہ آدمی قہقہ لگا گیا تھا ساریا اور دلنشین بھی ہنس دیں پیسے جو نظر آرہے تھے دونوں کو ۔

ہیر کی آنکھوں سے آنسو قطار کی صورت نکلتے اسکا چہرہ بھیگونے لگے تھے ۔۔

وہ آنسو صاف کرتی ہوئی سردار کو پکار رہی تھی ۔

آپ کہاں ہیں؟

کیوں نہیں ڈھونڈ رہے آپ ہیر کو ؟


وہ سر جھکائے دھیمے لہجے میں اسے فریاد کناں تھی جو بہت دور تھا لیکن پھر بھی قریب ہی تھا ۔ ۔

________________________________


یہ کیا طریقہ ہے تم خود کو بھول چکے ہو ،

ایک سردار کو بھول چکے ہو،

کیا تم جانتے نہیں تم ایک سردار ہو تمہارے کندھوں پر اِس ریاست کی بہت سیں زمہ داریاں ہیں لیکن تم شاید اس غریب لڑکی کے پیچھے سب بھول بیٹھے ہو آخر کیا ہے اس عام سی لڑکی میں ایسا ۔۔


تیمور صاحب اسے راستے میں ہی پکڑ چکے تھے کہ گھر تو وہ اس دن سے گھسا نہیں تھا ۔

اور اب وہ بہت غصے سے اپنے سر پھرے بیٹے سے مخاطب تھے۔


کیا چاہتے ہیں آپ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاوں اس لڑکی کو نا ڈھونڈو جو میری بیوی ہے جس کا اس دنیا میں میرے علاوہ اور کوئی سہارا نہیں ہے آخر چاہتے کیا ہیں آپ ۔

وہ آج بہت تیکھے لہجے میں باپ سے مخاطب تھا۔

سردار غاذان اگر اس لڑکی کو ڈھونڈنا اتنا ہی ضروری ہے تو اس لڑکی کو ساری پولیس ڈھونڈ رہی ہے مل جائے گئی وہ ،تم اپنی ریاست کو سنبھالو تو یہ بہتر ہو گا ۔

وہ دونوں باپ بیٹا سڑک کے بیچ و بیچ آمنے سامنے کھڑے تھے ۔۔

نو ڈیڈ اس لڑکی کی زمے داری میرے رب نے مجھے سونپی ہے میں اپنی زمے داری کسی دوسرے پر نہیں ڈال سکتا کل کو میں اس رب کو کیا جواب دوں گا میری غیرت یہ گوارہ نہیں کرتی کہ میری بیوی غائب رہے اور میں گھر بیٹھ کر کھانا کھاوں ، کپڑے بدلوں لوگوں کے مسلے دیکھوں جبکہ میرا اپنا مسلہ بہت بڑا ہے وہ غائب ہے دیڈ اور لڑکی ہے سمجھیں آپ، مجھے دیر ہو رہی ہے اور ہاں میرے ساتھ والا جو روم بند رہتا ہے اسے اچھے صاف کروا دیجئے گا پردے اور بیڈ شیٹ بدلوا دیجئے گا۔

وہ گاڑی کی طرف بڑھتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔

کیوں !

انہوں نے غصے سے زیادہ حیرت سے پوچھا تھا۔

ابھی ٹائم نہیں ہے میرے پاس بتانے کے لیے دیر ہو رہی ہے مجھے اللہ خافظ۔ ۔

کہتے ہی وہ گاڑی میں بیٹھا چار پانچ گاڑیاں تھیں اسکے ساتھ،

دو اسکے آگے اور تین اسکی گاڑی کے پیچھے تھیں ۔

تیمور صاحب نے زور سے مکہ گاڑی پر مارا انکا بیٹا شیو کرنا بھی بھول چکا تھا دو دن سے وہی کالی شرٹ۔

اس غریب لڑکی نے میرے بیٹے پر کیا پڑھ کر پھونک دیا ہے آخر ۔۔

وہ شدید جھنجھلاہٹ میں تھے ادھر ریاض نے الگ ہنگامہ بڑپا کیا ہوا تھا ۔

کیا کریں آخر وہ اپنے خود سر بیٹے کا ۔

وہ غصے سے چشمہ لگاتے گاڑی میں بیٹھے تھے ۔۔

اس بار ریڈ بہت ہی راز داری سے ہونی چاہئیے پچھلی بار کسی نے انہیں خبر کر دی تھی تب ہی وہ لوگ ہمارے آنے سے پہلے وہاں سے نکل گئے تھے ورنہ انہیں کیا پتا کہ پولیس آرہی ہے یا نہیں۔


وہ گاڑی کی جانب بڑھتا ہوا سرد لہجے میں بول رہا تھا۔ ۔


ایسا ہی ہو گا سردار جی!

اسکے آفسر دوست نے سر ہلا دیا تھا ۔

جبکہ وہ گاڑی میں بیٹھتا ابھی تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا جب اسکا فون رنگ ہوا تھا ۔

سرعت سے فون اٹھایا تھا اس نے ۔


سردار غاذان سپیکنگ ۔

سردار ایک اچھی خبر ہے مجھے لوکیشن مل چکی ہے اس لڑکی (ساریا) کے ایک گاہک نے ہی مجھے لوکیشن دی ہے آپ جلدی سے وہاں پہنچنے کی تیار کریں کہ خبر یہ ہے آج رات بہت سی لڑکیوں کا سودا ہوا ہے وہاں اور ۔

سینڈ می اڈریس ۔۔


وہ ابھی بول رہا تھا جب سردار کی سپاٹ اور درشت آواز پر اس نے سر ہلایا اور اسکے نمبر پر پورا ایڈریس ڈیٹیل کے ساتھ سینڈ کر دیا ۔

ڈریس دیکھ کر اسکے آنکھوں میں ایک سرد پن سا اتر آیا تھا ۔۔


_______________________________


کیسا سردار ہے یہ ایک لڑکی کے لیے دو دن سے کھجل خوار ہو رہا ہے تیمور صاحب معاف کرئیے گا لیکن ایک سردار کو یہ سب سوٹ نہیں کرتا ۔۔


ریاض کے ساتھ آئے ایک آدمی نے بہت غصے سے کہا تھا جبکہ تیمور صاحب خاموش ہی رہے ۔۔

خیر آج سے پندراں دن بعد کی ڈیٹ رکھی ہے ہم بڑوں نے سردار اور ریاض کی بیٹی کی شادی کی،

آپ لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ۔

پنچائت کے ایک بڑے نے سنجیدگی سے غاذان کے گھر والوں سے پوچھا ۔

سہیر نے اسے کچھ بھی کہنے سے منع کیا کہ وہ انکی بات سے انکار کر کے کوئی مصیبت نہیں مول لینا چاہتے تھے ۔


ریاض نے خوشی سے چمکتے چہرے سے تینوں بھائیوں کو طنزیہ نظروں سے دیکھا تھا ۔

________________________________


پیاس کے مارے اسکے گلے میں کانٹے اُگ آگے تھے ۔


دونوں ہاتھ گھٹنوں کے گرد باندھے وہ بس روئے جا رہی تھی اب تو آنسوں بھی خشک ہو چکے تھے۔

آنکھیں سوج چکیں تھی سر الگ سے رو رو کر بے انتہا درد کر رہا تھا کہ اس سے درد اب سہنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔

سمجھ نہیں آرہا میں کہاں ہوں کوئی مجھے ڈھونڈ کیوں نہیں رہا کیا میں اس بدنام جگہ پر ہی مر جاوں گئی اور کسی کو ہیر کی لاش تک نہیں ملے گئی یہی سزا ہونی چاہئے ہیر تمہاری۔۔۔۔


بھرائے ہوئے لہجے میں وہ خود ترسی میں مبتلا تھی سے ۔

یا اللہ ہیــــــر کو موت دے دے میں یہاں ایک ایک پل بہت مشکل سے گزار رہی ہوں ۔۔۔


وہ اب اللہ سے اپنی موت کی دعا کر رہی تھی کہ جب دروازے پر زور سے دستک ہوئی کہ اس نے ڈر کر اندر سے دروازہ لاک کر رکھا تھا ۔۔


دروازہ کھولو !

ساریا نے غصے سے دروازہ کھٹکایا تھا ۔

اس نے کنڈی چڑہائی ہوئی تھی یہ پرانے دور کا دروازہ تھا اس میں کوئی جدید لاک نہیں لگے ہوئے تھے اسکی باہر بھی موٹی سی کنڈی تھی اور اندر بھی ۔


دروازہ کھولو ہیــــــــر ورنہ اچھا نہیں ہو گا ۔

ساریا کی دھمکی پر وہ کھڑی ہوتی ارد گرد دیکھنے لگی یہ تو طے تھا ہیر نے دروازہ آج کی تاریخ میں نہیں کھولنا تھا ۔


شینو جاو جا کر بخشو کو بلاو اور کہو دو تین لڑکے لے آئے ساتھ دروازہ توڑنا پڑے گا اور ہیـــــــــــــر یاد رکھنا دروازہ توڑ کر تمہیں تیر کی طرح سیدھا کر دوں گئی میں ۔۔


ساریا نے غصے سے اسے دھمکی دی۔


ہیــــــــر لب کاٹتی بند کھڑکیوں کو درزیدہ نظروں سے دیکھنے لگی پھر وہ چونکی تینوں کھڑکیوں پر بھاری تالے تھے جبکہ ایک کھڑکی پر تالہ نہیں تھا ۔


باہر سے اب دھڑ دھڑ دروازہ توڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔


وہ آنسو صاف کرتی ہوئی اس کھڑکی کی طرف آئی کھڑکی پر بہت زنگ لگ چکا تھا شاید برسوں سے بند تھی۔۔

اسکے بہت زور لگانے پر بھی کھڑکی نہیں کھلی تھی۔


یا اللہ میری مدد کر۔۔

وہ لب بھینچے بڑبڑائی تھی لیکن وہ بھولی جانتی نہیں تھی کہ اس کھڑکی کو باہر سے لاک لگایا گیا ہے کہ وہ کھڑکی لمبی سی راہدری میں کھلتی تھی وہ لوگ کچا کام نہیں کرتے تھے ۔

دروازہ دھڑ دھڑ اکھاڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا ۔۔


تب ہی دروازہ ٹوٹ کر اندر کی طرف گرا تھا ہیر کے پیر پر دروازے کا تھوڑا سا حصہ لگا تھا ۔

جس سے اسکی چیخ بڑی بے ساختہ تھی ۔

وہ پیر پکڑ کر چیختی ہوئی نیچے بیٹھی تھی۔


_________________________________

سردار غاذان آپ کہاں ہیں ۔۔

فون میں ریاست کا کوئی بڑا آدمی بول رہا تھا ۔۔

میں مصر ہوں کل سے۔

وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔

او مجھے تو آپ سے بہت ضروری کام تھا ۔


وہ آدمی تاسف سے بولا ۔

کوئی نہیں مصر سے آکر سب سے پہلے آپ سے ہی میٹنگ ہو گئی ڈونٹ وری ابھی رکھتا ہوں جلدی میں ہوں ۔


سنحیدگی سے کہتا وہ فون رکھ چکا تھا ۔


جبکہ خادم نے حیرانی سے اسے دیکھا کتنی آسانی سے جھوٹ بول گیا تھا وہ خلانکہ جانتا تھا ملک صاحب جانتے ہیں وہ پاکستان میں ہی ہیں۔۔

سردار کہاں چلیں ۔۔

خادم نے پیچھے کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھا۔

گرین ٹون ۔۔

وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا تھا آنکھوں میں بے پناہ غصہ تھا جیسے آج آڑ یا پار کرنے کا ارداہ ہو ۔۔۔


______________________________


کیوں رے بہت پر نکل آئے ہیں تمہارے ۔۔

ساریا نے اسکا بازو مڑوڑتے ہوئے تیکھے لہجے میں پوچھا ۔

ہیـــــــر تکلیف سے سی کر کے رہ گئی ۔۔۔

تمہیں کیا لگا تھا تم دروازہ نہیں کھولو گئی تو بچ جاو گئی ہاں ۔۔


ساریا نے پوچھنے کے ساتھ ہی غصے سے اسے زور سے تھپر مارا تھا کہ اسکا نازک گال سرخ ہو گیا تھا۔۔

وہ جواباً آنکھوں میں ڈھیروں نمی لیے لب بھینچے اسے دیکھے گئی بنا کچھ بولے بنا آنسو بہائے ۔۔


چلو اسے لے کر جوزف کے پاس ۔

ساریا نے اسے کھینچ کر اٹھاتے ہوئے غصے سے کہا۔

وہ اسے گھسیٹ کر بائیں طرف بنے کوریڈور کی طرف لے کر جا رہے تھے جہاں قطار میں بہت سے روم بنے ہوئے تھے۔ ۔۔۔


وہ اسے ایک روم میں لے آئے اس روم میں صرف ایک بیڈ تھا اور سامنے دیوار پر ایک بڑے سائز کا مرر لگا ہوا تھا ۔۔


ّوہ لوگ ہیـــــــــــر کو بیڈ پر پھینک کر باہر سے دروازہ بند کر کے جا چکے تھے ۔۔


وہ چونک کر اٹھتی ارد گرد حیرت سے دیکھنے لگی ۔۔

کہ کمرے میں بہت گندے گندے پوسٹر لگے ہوئے تھے ۔۔


وہ بامشکل بیڈ سے کھڑی ہوتی دروازے کی جانب بڑھی تھی جب زور سے دروازہ کھلا تھا ۔۔

اور کوئی اندر آیا تھا ۔

ہیر انجان آدمی کو دیکھ کر بے ساختہ خوف سے پیچھے ہوئی ۔

وہ آدمی کمینگی مسکان ہونٹوں میں لیے اس معصوم لڑکی کی طرف بڑھا تھا ۔


ہیر نے لرز کر اسکی نظروں کو اپنے جسم کے آر پار ہوتے دیکھا تھا ۔


وہ جلدی سے کامدار ریشمی دوپٹہ اپنے ارد گرد لپیٹ گئی ۔۔

کوِئی فائدہ نہیں دوپٹہ لینے کا ڈارلنگ ۔


وہ آدمی جلدی سے شرٹ کے بٹن کھول کر اسکے قریب آتا ہوا بولا ۔

ہیر کا دل رک سا گیا تھا ۔

وہ اسکے قریب سے ہوتی باہر بھاگنے لگی تھی جب وہ آدمی اسے پکڑ کر بیڈ پر دھکیل چکا تھا ۔

ؑبھاگنا نہیں پاس آنا ہے جانے من۔


ہیـــــــــر نے چیخ مارنی چاہی جب وہ اسکے ہونٹوں پر سخت ہاتھ مضبوطی سے جما گیا تھا۔


وہ ہوس کا مارا انسان اسے بیڈ پر جھکڑ چکا تھا جب باہر سے ٹھاہ ٹھاہ کی دو تین آواز آئیں تھیں۔ ۔۔۔ ۔

وہ آدمی بھوکھلاتا ہوا سیدھا ہوا پھر شرٹ ہاتھ میں پکڑتا وہ باہر بھاگا تھا اسے لگا شاید پولیس نے ریڈ مار دی ہے ۔۔


ہیــــــــر بامشکل نیچے گرا دوپٹہ اٹھاتی ہوئی باہر جانے لگی تھی جب وہ پیر کی تکلیف سے وہی دوہڑی ہوتی بیٹھ گئی تھی ۔

اور وہی بیٹھ کر زور و شور سے رونے لگی تھی۔۔

وہ سر چھٹ کی طرف اٹھائے لوب چیخ چیخ کر رو رہی تھی ۔۔


_______________________________


لمبے سے ہال میں وہ دونوں بیٹھیں پیسے گن رہیں تھی آس پاس اور بھی لڑکیاں بیٹھیں ہوئیں تھیں جو مردوں کو اپنے قابو میں کرنے کے طریقے ایک دوسرے کو بتا رہیں تھیں ۔


اس لڑکی کو اب چوہدری صاحب کو دیتے ہیں ایسے ہی تیار کروانا پھر دیکھنا وہ بھی منہ مانگا پیسہ دے گا۔

دلنشین بیگم پیسوں کو سونگ سونگ کر جھولی میں رکھتی شرشار سے لہجے میں بول رہی تھی جب ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا تھا اور بہت سارے مرد اور لیڈی پولیس آفسرز اندر آئیں تھیں ۔۔


وہ سب بھوکھلاتیں ہوئیں کھڑی ہوئیں تھیں چہروں پر دم بخوخردہ تاثرات رقم ہو چکے تھے انہوں نے تو ایسا خوبوں خیالوں میں بھی نہیں سوچ تھا ۔

آگے آگے تیز تیز قدموں سے چلتا سردار غاذان تیمور تھا اسی سلوٹوں زدہ سوٹ میں چہرے پر غضب ناک تاثرات لیے ماتھوں پر ڈھیوں بل ڈالے اس کے ہاتھ میں جدید دور کی پسٹل تھی اس نے آتے ہی چمکیلا لباس پہنی ساریا پر کھینچ کر تین چار تھپڑ برسائے تھے وہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کا قائل نہیں تھا لیکن یہ عورتیں نہیں معاشرے کا ناسور تھیں جنہیں ختم کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے جنہں برے کاموں سے حرام کھانے کی لت پڑ چکی ہو وہ بھلا کب سدھرتے ہیں ۔۔


ساریا اسکے بھاری تھپڑوں کی تاب نا سہتے ہوئے دور جا گری تھی مہ سے خون چھوٹ گیا تھا ۔۔


جبکہ دلنشین بیگم تو آنکھیں پھاڑیں انہیں دیکھ رہیں تھیں بھلا ایسا کب سوچا تھا اس نے ایسا تو وہ خواب میں بھی نا دیکھتی جو خقیقت بنا اسکے سامنے ہو رہا تھا ۔

ہیــــــــــــر کہاں ہے ۔۔


وہ اسکے بال پکڑتا بولا نہیں تھا بلکہ پھنکاڑا تھا ۔

دل بیگم اور ساریا نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا ۔

ہیـــــــــــر ؟

وہ لرز کر اسکا نام بڑبڑائی تھی اسکے ہونٹوں سے خون بہنے لگا تھا ۔۔

کہاں ہے ہیــــــــر۔ ۔

وہ درشت لہجے میں چلایا تھا ۔۔۔

پولیس انکو چاروں طرف سے گھیرے کھڑی تھی اور اب حیرت سے سردار کا مشتعل روپ دیکھ رہے تھے۔۔

کون ہیــــــــر ہم کسی ہیر کو نہیں جانتے آپ لوگ کہی اور جا کر ڈھونڈیں اپنی ہیــــــر بی بی کو۔

دلنشین بیگم بڑے مضبوط لہجے میں کہتی میدان میں اتری تھی۔

تب ہی سردار غاذان نے ہوا میں دو تین فائر بلند کیے تھے ۔۔

دلنشین اور ساریا کی تو سٹی ہی گھم ہو چکی تھی۔

و و وہ اس طرف ۔۔۔

ساریا سہمے لہجے میں لڑکھراتے ہوئے بولی تھی ۔

سردار غاذان بائیں سائیڈ کوریڈور کی طرف بھاگا تھا پیچھے اسکا دوست بھی تھا جو حال میں ہی اسکا بہت اچھا دوست بن چکا تھا ۔

جبکہ رانا لب بھینچے کھڑا تھا اگر سردار کو ہیـــــر مل گئی تو!

وہ شدید پریشان ہوا تھا ۔۔

اسے پتا نہیں تھا کس جگہ ریڈ پڑنی ہے ورنہ کسی طرح ان لوگوں کو خبر کر دیتا کیونکہ نئے آفسر نے انہیں بس چلنے کو کہا تھا پر یہ نہیں بتایا تھا کہ کس جگہ جا رہے ہیں اس نے پوچھا بھی لیکن ڈی ایس پی درید مل نے بات آئی گئی کر دی تھی ۔۔

وہ بھاگتا ہوا کوریڈور کی طرف آیا تھا سامنے سے آتے مرد کو وہ درشتگی سے پکڑ کر پیچھے آتے خادم کو پکڑا گیا تھا اور خود

وہ تیزی سے آگے بڑھا تھا لیکن قدم بے ساختہ آگے جا کر رکے تھے ۔۔


وہ تیزی سے الٹے قدم پیچھے آیا تھا۔۔۔


کھلے دروازے سے اندر بیٹھے وجود کو دیکھ کر پہلی بار سردار غاذان کا دل دھڑکا تھا اس عام سی لڑکی کے لیے جس کے لیے وہ کھانا پینا سونا جاگنا ختیٰ کے دنیا کا ہر کام بھولا بیٹھا تھا ۔

وہ لڑکی سبز لہنگے میں سر جھکائے بیٹھی بس اپنے پیر کی طرف متوجہ تھی بال بکھڑے ہوئے تھے ہیئر سٹائل خراب ہو چکا تھا سیدھی نکلی مانگ میں پہنی بندیا بائیں کان کی طرف جھول رہی تھی۔ ۔ ۔۔


ہیـــــــر!

وہ جو پاوں پکڑے چھلے ہوئے ماس پر پھونکیں مار رہی تھی گھمبیر دھیمی آواز پر ہیـــــــر کا دل رک سا گیا تھا ۔۔۔


وہ ہنوز سر جھکائے اسکی آواز کی بازگشت اپنے ارد گرد محسوس کرنے لگی تھی ۔


ہیــــــــــر !

وہ اندر آتا ہوا بولا تھا ۔

ہیــــــر نے ایک جھٹکے سے سر اوپر اٹھایا تھا،

اپنے سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کر ہیـــــــــر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا ،


وہ زور زور سے آنکھوں کو مسلنے لگی تھی۔۔

لیکن اسکا وجود خقیقت بنا اسکے سامنے کھڑا تھا بھینچے ہوئے ہونٹ سرد آنکھِیں اسکی روئی روئی آنکھوں پر جمائے وہ خقیقت بنا اسکے سامنے کھڑا تھا ۔

آپ سچ میں ہیں۔

وہ کھڑا ہونے کی کوشش کرتی ہوئی بھولپن سے بولی تھی۔


ہیـــــــــر مجھے معاف کردو میں تمہیں اتنے دن تکلیف میں رہنے سے روک نہیں پایا ۔

پسٹل پاکٹ میں اڑستا وہ بے ساختہ اسے کندھوں سے تھام گیا تھا ۔


ہیــــــــــــــر ہونٹوں پر ہاتھ رکھے گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگی تھی وجود ہچکولے کھانے لگا تھا، اب شاید موت بھی آجاتی تو ہیـــــــــــر کو غم نا ہوتا۔


سردار غاذان نے تاسف سے اسے دیکھا تھا ۔۔

پھر وہ چونکا اسکی نظر اچانک ہی ہیـــــــــر کے سراپے پر گئی تھی ۔

لمبا لہنگا اوپر پہنی چولی سے جھانکتا جسم چھوٹے سے لیئر میں کٹے بال بازوں آدھی سے زیادہ ننگی تھیں ۔

اسکا حلیہ دیکھ کر اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑنے لگا تھے اور پھر نظر اسکے وجود سے سرعت سے ہٹا گیا تھا۔۔

وہ سختی سے لب بھینچ گیا ۔۔

ہیـــــــــــــر نے بہتی آنکھوں سے اسے دیکھا لیکن پھر وہ بھی ٹھٹھکی اسکی نظرِیں اپنے سراپے پر دیکھ کر وّہ خود شرم سے خود میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ۔

ان لوگوں نے زبردستی پہنایا ہے۔ ۔

وہ بمشکل بول پائی تھی ۔

میں جانتا ہوں ہیـــــــــر ۔۔

وہ کہتے ہی صوفے پر پڑی سفید چادر کی طرف بڑھا تھا جو شاید باہر جانے کے لیے استعمال کی جاتی تھی کہ چادر بہت بڑی تھی۔

وہ چادر کو پکڑ کر اسکے سر سے لے کر پاوں کر اس چادر میں اچھے سے چھپا گیا تھا ۔۔

"ہیــــــــر کا دل کیسے نا اسکا روگ لیتا وہ شخص تھا ہی بہار کی پہلی ہوا جیسا تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاوّں جیسا زحم سے مسیحا جیسا ،تپتے صحرا میں ساون جیسا وہ ہیــــــــــر کو اپنا دیوانہ ایسے تو نہیں کر گیا تھا ۔"

سردار باہر آئیں وہ عورت دست بردازی پر اتر آئی ہے۔

ایک حوالدر اندر آتا ہوا اس سے مخاطب تھا ۔

وہ پلٹ کر اسے دیکھتا سر ہلا گیا تھا ۔

میرا پیر !

وہ اسکا ہاتھ پکڑ اسے لے جانے لگا تھا جب ہیـــــــــر نے پیر کی طرف اشارا کیا تھا ۔۔

اس نے چونک کر اسکے پیر کی طرف دیکھا جہاں پیر کے اوپر کی جلد اچھی خاصی اتر گٙی تھی اور وہاں خون جمع ہوا تھا ۔

ہیـــــــر یہ کیسے ہوا ؟

وہ غصے سے بولا ۔

وہ سر جھکائے بس رو دی ۔

شوں شوں کرتی وہ سردار کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئی۔

پھر وہ ہوا جو ہیــــــــر کبھی نہیں سوچ سکتی تھی جو اسکے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔

اور پھر ُسردار غاذان تیمور اسکے قدموں دوزانو بیٹھا۔۔


ہیــــــــــر کا وحود دنگ رہ گیا تھا ،

اسکا ننھا سا دل لرز کر رہ گیا تھا ۔۔

وہ دنگ نظروں اور ساکت وجود سے بہت عظیم انسان کو اپنے قدموں میں بیٹھا دیکھ رہی تھی ۔۔


وہ اب پاکٹ سے سفید روما نکال کر اسکے چھلے ہوئے پاوّں میں باندھنے لگا تھا ۔


ہیـــــــــــر کے وجود میں ایک کرنٹ سا دوڑا تھا اسکے نرم اور تخفظ بھرے لمس پر ۔۔

اس نے پیر پیچھے کرنا چاہا تھا ،

لیکن وہ اسکا پاوں نرم لیکن مضبوط گرفت میں لیے ہوِے تھے،

وہ اب اپنا سفید رومال اسکے داہنے پاوں پر نرمی سے باندھ رہا تھا ،

ہیـــــــــر کے پاوں کا درد اسکے لمس اور توجہ پر جاتا رہا تھا ،

اسکی نرمی اور توجہ پر وہ ایسے ہزاروں زخم کھا سکتی تھی بنا اف کرئے ،کاش وہ اسے اپنے دل کا درد بھی بتا سکتی ۔۔۔


ہیــــــــر حیران تھی کوئی بھلا کب اتنا اچھا ہوتا ہے ،

وہ کتنا اچھا شخص تھا کاش کوئی ہیــــــر سے پوچھتا۔۔۔

اس شخص نے ہمیشہ اس غریب لڑکی کو تھاما تھا کبھی گرنے نہیں دیا تھا ،


وہ رومال باندھ کر اٹھا تھا ،

وہ اس سے قد اور رتبے میں بہت بڑا تھا ،

وہ اب نرم نظروں سے اسکے لرزتے وجود کو دیکھ رہا تھا ،

اسکے التفات پر آنکھیں پھر سے برسنے لگی تھیں ۔

پھر وہ ہونٹوں پر انگلیاں رکھتی گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگی تھی ۔

وہ بنا کچھ بولے ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا ،

نظروں سے نرمی جاتی رہی تھی اسکے سانولے گال پر سرخ انگلیوں کے نشان دیکھ کر ۔۔۔۔

اسکا ہاتھ تھام کر اسے باہر لے کر چلنے لگے تھا ،ہیـــــر اسکے ساتھ چلنے لگی تھی لیکن سسکیاں ابھی جاریں تھیں ۔۔

باہر نکلتے ہوئے اسنے ٹوٹے ہوِے ایک طرف پڑے دروزے کو سنجیدگی سے دیکھا تھا۔۔

پیچھے دو گاڑد بھی تھے جو دروازے سے تھوڑا دور کھڑے تھے۔ ۔

ہیر اسکے ساتھ کسی ٹرانس سی کیفیت میں چل رہی پاوّں کا درد کہی دور چلا گیا تھا جیسے وہ تھا ہی نہیں اسکے لمس نے ہیـــــــــر پر کسی جادو سا اثر کیا تھا ۔


وہ اسے لیے ہال میں چلا آیا تھا،

جہاں دل بیگم نے خوب شور مچا ہوا تھا وہ لڑ رہی تھی ہتھکڑیاں کھولنے کے لیے مچل رہی تھی جب سردار ہیـــــــــر کو اسکے سامنے لایا ۔

دل بیگم ہیر کو دیکھ کر پریشان ہوئی تھی۔


ہیــــــر کی سوکھی آنکھیں پھر سے بہنے لگیں تھیں۔


ہیـــــــــــــر جتنا زور کا تھپڑ تم مار سکتی ہو اس عورت کے منہ پر مارو ۔


اسکے سرد بے لچک لہجے پر ہیـــــــــــر نے چونک کر اپنے ساتھ کھڑے ڈھال بنے وجود کو دیکھا ۔

سردار غاذان تیمور نے اسکے دیکھنے پر نرمی سے سر ہلایا ۔

غاذان کو بے انتہا غصہ آرہا تھا دل کر رہا تھا کہ ان دو عورتوں کو آگ لگا دے جنہوں نے ہیر پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے تھے۔


دل بیگم تھوڑا پیچھے ہوئی جبکہ ساریا کی حیران نظریں ہیـــــــر پر تھیں اس نے اسے کیا سمجھا تھا اور وہ کیا نکلی تھی وہ پریشان تھی اور حیران بھی بہت تھی۔ ۔


ہیـــــــــر!

اسنے اسے مارنے کو اشارا کیا تھا ۔

میں کیسے مار سکتی ہوں میں تو کمزور ہوں ۔

وہ بھرائے ہوئے لہجے میں اسے بتانے لگی تھی۔


ہیــــــر میں چاہتا ہوں تم ان دو عورتوں کے منہ پر تھپڑ مارو تاکہ تمہارے ساتھ جو انہوں نے سلوک کیا ہے اسکی کچھ سزا تو تم اپنے ہاتھوں سے انہِیں دو ۔۔

وہ سرد لہجے میں ہیر سے مخاطب تھا وہاں کھڑے سب سردار اور اس لڑکی پر نظرِیں جمائے ہوئے کھڑے تھے جبکہ رانا پریشان تھا اور سردار غاذان کو قہر بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہیر کو دوبارہ سردار غاذان سے چھین کر اسے بے چین پھر سے کر دے اور خود سکون سے اسکی بے چینی دیکھے۔۔


ہیر کیا کہہ رہا ہوں میں ۔

اب کی بار وہ خاصے غصے سے بولا تھا ۔

ہیر ڈر سی گئی تھی اسکے تیز لہجے پر ۔

وہ ہمت مجتمع کرتی ہوئی

آگے بڑھی اور دل بیگم کے منہ پر تھپڑ مار دیا تھا اسنے,

لیکن تھپڑ ایسا تھا جیسے کسی چھوٹے بچے کو مارا جاتا ہے اسکی چھوٹی سی غلطی پر ۔

ہیـــــــــر جتنا کھایا ہے نا زندگی میں اتنا زور لگا کر ان دو عورتوں کو مزہ چکھاوّ تاکہ غاذان تیمور کے دل میں ٹھنڈک پڑے وہ سکون میں آئے ۔۔۔


اسکے چلانے پر ہیــــــر نے ڈر کے مارے اس بار واقعے اتنا زور کا تھپڑ مارا تھا کہ تھپڑ کی گونج پورے ہال میں گونجی تھی ۔۔

لوگ سانس روکے اس لڑکی اور سردار غاذان کو دیکھنے لگے تھے ۔

ہیــــــر مارتی جاو انہیں دل کا بوجھ ہلکا کر دو۔۔۔


وہ اس بار نرم لہجے مِیں ہیــــــــر سے مخاطب تھا ۔۔

ساریا نے خوف سے ہیـــــــــر کو دیکھا جو اسکے سامنے آ رکی تھی۔۔


میں نے تمہیں اپنی واحد دوست کہا تھا ساریا تم پر یقین اور اعتبار کیا میرا بھی پہلی بار کسی کو دوست بنانے کو دل چاہا تھا کہ سکول میں تو کوئی مجھے دوست بناتا ہی نہیں تھا لیکن تم نے جب میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو مجھے بہت اچھا لگا مجھے لگا میری بھی کوئی دوست ہو گئی جسکے ساتھ میں ہنسوں گئی کھیلوں گئی اور شرارتیں کروں گئی۔


تم نے پہلے میرے سارے بال کٹوا کر بیچ دئیے پھر تم نے معافی مانگی تو میں نے معاف کر دیا خلانکہ میں پورے تین دن روتی رہی تھی اپنے بالوں کے غم میں لیکن پھر بھی تمہیں معاف کیا تمہارے ساتھ تمہاری خالہ کے گھر آئی اور تم نے میرے ساتھ کیا کیا ساریا کوئی ایسا کرتا ہے کسی کے ساتھ جیسا تم نے میرے ساتھ کیا ۔۔


وہ بھرائے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔


جبکہ سردار نے ٹھٹھک کر اسکے بالوں کو دیکھا تو ہیـــــــر کے چھوٹے بالوں کی وجہ یہ لڑکی تھی ۔۔


وہ اسی لنگے میں تھی لیکن اب فرق یہ تھا کہ اسنے سردار کی دی ہوئی بھاری چادر اپنے ارد گرد اچھے سے لی ہوئی تھی وحود جو عیاں تھا وہ اب مخفی تھا ۔


بال کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے آنکھوں سے کاجل بہہ کر اسکے گالوں پر آچکا تھا ۔


ساریا نے ارد گرد دیکھ کر سر جھکایا لیکن اسکے چہرے پر شرمندگی دیکھنے سے وہ قاصر تھی ۔۔


سردار نے ہونٹ بھینچ کر ہیر کو دیکھا جو غصہ تھا اس لڑکی پر اب وہ ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔


لیکن اگلا جھٹکا ساریا کے لیے شدید تھا جب ہیــــــــر کا زور دار تھپڑ اسکے چودہ طبق روشن کر گیا تھا اسنے واقعے جو کھایا پیا تھا ساریا کو تھپڑ مارنے میں دکھا دیا تھا کہ ساریا تھپڑ کے وار کو نا سہتے ہوئے پیچھے صوفے پر جا گری تھی ۔

تم بہت ہی نیچ لڑکی ہو ۔۔

وہ نفرت سے چلائی تھی ۔

ہیــــــــــــر چلو یہاں سے۔۔۔

اسکا بازو پکڑ کر وہ اسے ساتھ لے جاتا ہوا بولا تھا ۔

ہیر نے اسکے ساتھ چلتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا ساریا اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

رانا نے شدید غصے سے سردار کے ساتھ چلتی ہوئی اس لڑکی کو دیکھا تھا جس میں پتا نہیں اتنی ہمت اور چینج کہاں سے آگیا تھا۔۔

سردار غاذان اسکا ہاتھ تھامے اس وسیع ہال سے لے جانے لگا تھا ,

ہیر کا وجود بہت ہلکا پھلکا ہو گیا تھا ،

اور دل میں اسکے لیے محبت اب شدت کڑنے لگی تھی اسکا دل چاہ رہا تھا ساری دنیا کہی غائب ہو جائے اور وہ اپنے سرادر غاذان کو دیکھتی رہے تا عمر بنا اپنا ہوش سنبھالے وہ اس مہربان شخص پر پنی زندگی کی آخری سانس بھی وار دے ۔۔

___🍁🍁__🍁🍁___🍁🍁___🍁🍁🍁

ہیـــــــــــر میری واچ اندر ہی کہی گر گئی ہے میں ابھی آتا ہوں تم بیٹھو آرام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں گارڈز یہی ہیں ۔ ۔

ہیر کو گاڑی کے اندر بٹھانے کے بعد وہ اچانک ہی بولتا اندر کی طرف دوڑا تھا ۔۔

ہــــیر نے تیز قدموں سے چلتے سردار کو حیرت سے دیکھا تھا کہ بروان وان اسکی مضبوط کلائی پر طاندھی نظر آرہی تھی پھر انہوں نے ایسا کیوں کہا بھلا ۔۔

وہ سر جھٹکتی اسکی پشت کو دیکھتی رہی اسکی پشت نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد وہ ٹھیک سے بیٹھی تھی خادم اور ڈرائیور آگے بیٹھے ہوئے تھے جبکہ کچھ گاڑدز اسکے پیچھے ہی دوڑے تھے وہ اسے اکیلا نہیں چھوڑتے تھے اسکے کہنے پر بھی نہیں کہ یہ انکے سردار کی زندگی کا سوال تھا۔۔

وہ جب واپس ہال میں آیا تو!


ساریا پولیس والوں کو گالیاں بک رہی تھی جبکہ دلنشین بیگم ہاتھ پاوں چھٰڑانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ انہیں رشوت کا لالچ دینے کی کوشش کر رہی تھی جو کہ بیکار کوشش تھی ۔۔


چپ ایک دم چپ!!!


غاذان کی سرد آواز ان دونوں کی حرکات کو ایک دم بریک لگا گئی تھی۔

وہ دونوں ساکت سی اسے دیکھنے لگیں تھیں جو دوبارہ وہاں آچکا تھا اور اب ان دونوں کو لہو رنگ ہوتی نظروں سے دیکھ رہا تھا انکی خوش قسمتی تھی جو وہ عورتیں تھیں ورنہ اب تک وہ زمین کے اندر ہوتیں۔

خیر سزا تو انہیں ملنی تھی آخر کو انہوں نے سردار غاذان کی عزت کی طرف نا صرف دیکھا تھا بالکہ اسے پریشان بھی کیا تھا تو پھر وہ کیسے وہاں سے جا سکتا تھا بنا انہِیں کوئی معمولی سزا دئیے۔۔


وہ تیز قدموں سے چلتا اس آدمی کی طرف آیا تھا جسنے ہیر پر ہاتھ ڈالنا چاہا تھا اور اسکی سلیوز پھاڑیں تھیں ۔

وہ آدمی سردار غاذان کی سرد نظروں سے پسینہ پسینہ ہو چکا تھا ۔


مجھے معاف کردیں سردار مجھے نہیں پتا تھا وہ آپکی رشتہ دار ہے ۔

وہ آدمی ہاتھ جوڑتا گڑگڑایا تھا۔


سردار غاذان نے آنکھ سے خادم کو کوئی اشارا کیا تھا خادم سر ہلاتا جھٹ سے اس آدمی کا گریبان جھٹکتا ہوا اسکی گردن نیچے جھکا گیا تھا ۔


دوسرا لمحہ سب کے لیے حیرت سے زیادہ کسی شاک سے کم نہیں تھا کیونکہ سرادر غاذان کا پسٹل اسکا دماغ اڑا گیا تھا ۔

سردار غاذان نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا اس آدمی کو۔ ۔


ساریا اور دلنشین کی چیخیں سردار غاذان کے بھینچے ہوئے ہونٹوں میں سرد سی مسکراہٹ لے آئی تھی ۔۔


یہ اسکی سزا تھی اور میری نظر میں معمولی ہے کیونکہ میری عزت کی طرف ہاتھ ڈالنے کی اسے گندی نظر سے دیکھنے والے کے تو جسم سے ریشہ ریشہ الگ کر دینا چاہئیے تھا ،خیر

تم دونوں سوچ لو تم دونوں کے ساتھ کیا ہو گا ۔


اسکے مسکراتے لہجے پر ان دونوں کی ریڑ کی ہڈی میں سنسنی خیز لہر دوڑ گئی تھی ۔


ہمیں معاف کردیں سردار ۔


وہ دونوں خوف سے اسکے قدموں میں گریں تھیں باقی سب خاموشی سے کھڑے نظریں ان دونوں پر جمائے ہوئے تھے ایک صرف رانا تھا جسکا موبائل آن تھا اور ہونٹوں پر دھمی سی مسکان تھی۔


تم دونوں کو ہاتھ لگانا میں اپنی توہین سمجھتا ہوں ماریا ۔

اسنے کہتے ہی لیڈی آفسر کو آواز لگائی تھی ۔

ماریا ہاتھ پیچھے باندھے جھٹ سے آگے آئی تھی ۔

جی سردار ۔۔

اخترام سے سر جھکائے وہ پوچھ رہی تھی ۔

ان دونوں کے ساتھ جو کرنا ہے تم جانتی ہو اور ہاں میں انہیں دیکھنے ضرور آوں گا اور ایک بات جو سزا لازمی اس لڑکی کو ملنی چاہئیے وہ ہے اس لڑکی کے جڑ سے لے کر سارے بال کات دینا اور اگر یہ کام آج کے وقت میں نا ہوا تو یاد رکھنا تم بھی ۔۔


سرد لہجے میں کہتا وہ کوئی نرم دل سردار غاذان تو نہیں لگ رہا تھا ،یہ اسکا کوئی اور ہی روپ تھا ،

جی سردار جیسے آپکا حکم۔

وہ مودبانہ انداز میں بولتی پیچھے ہوئی تھی۔


جبکہ نیچے گری ساریا کا رنگ اسکی بات سن کر فق ہوا تھا نہیں یہ نہیں ہو سکتا تھا ،اسے تو اپنے بال بہت پسند تھے انہی زلفوں سے تو ہی وہ بڑے بڑے زاہدوں کو اپنے آگے جھکا دیتی تھی اسکا حسن ہی اسکے بال تھے۔

وہ کانپ اٹھی تھی پہلی بار اسکی آنکھوں سے آنسو ٹپکے تھے ،

ان دو عورتوں کو قہر بھری نظروں سے دیکھتا وہ وہاں سے پلٹا تھا ،

اسے ایک بہت ضروری میٹنگ میں بھی جانا تھا آج ۔

پیچھے ان دونوں کے منت ترلے جاری تھے جو اسنے سنا گوارہ نہیں کیے تھےم؟ ۔۔


آنکھوں پر گاگلز لگائے وہ ایک شان سے چلتا وہاں سے نکلا تھا پیچھے پیچھے گارڈ پولیس آفسر وغیرہ بھی تھے ۔

جبکہ رانا داڑھی کھجاتا ہوا کچھ سوچتا ہوا آرام سے چل رہا تھا ۔۔


پیچھے ان دونوں کی چیخیں باخوبی سنائی دے رہیں تھیں جس سے اسکے چہرے کے اعضا میں سکون سا آیا تھا ۔


گاڑی میں بیٹھی وہ باہر ہی دیکھ رہی تھی ۔

پھر اسکی آنکھوں میں چمک آئی تھی اسے سیڑیاں اترتا دیکھ کر ۔

وہ پیچھے آتے آفسر سے کچھ کہہ رہا تھا ۔

چال میں اسکی تیزی تھی وہ رف سے خلیے میں بھی شاندار ہی لگتا تھا ۔


پھر الوداعی کلام کہتا وہ اپنی شاندار بلیک گاڑی کی جانب بڑھنے لگا تھا جسکے اندر بیٹھا وجود اسکی راہ تک رہا تھا ۔


ہیر ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھی تھی ۔

وہ اسکے ساتھ بیٹھتا اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا تھا ۔

جسکے بال چادر سے باہر جھانک رہے تھے ۔

وہ سر جھکا گئی۔

گاڑی سٹارٹ ہوتی تیزی سے وہاں سے نکلی تھی ۔


تب ہی اسکے فون میں رنگ ہوئی تھی۔

۔

ریلکس وہ میرے ساتھ ہے اور ہم محل جا رہے ہیں آج سے وہ میرے گھر رہے گئی ڈونٹ وری یار باقی باتیں کل ابھی بہت تھک گیا ہوں ۔

آہستہ سے کہتا وہ فون بند کر چکا تھا ۔


ہیـــــــــر کو پتا تھا وہ کس سے مخاطب تھا ۔


خیام کی تکلیف پر اسکی آنکھ سے ایک آنسو گرا تھا ۔

سردار نے چونک کر اپنے ہاتھ کی پشت دیکھی جہاں اسے نمی سی محسوس ہوئی تھی وہاں ایک چھوٹا سا پانی کا قطرہ تھا۔

سردار غاذان تیمور نے ہونٹ بھینچے تھے پتا نہیں کیوں لیکن اسے ہیر کے آنسو زرا اچھے نہیں لگے تھے۔۔

وہ ہیر کو سنجیدگی سے دیکھنے لگا تھا جسکے سر سے چادر ٹھوڑی سی کسکی ہوئی تھی۔


اگلے ہی پل ہیر کا وجود دنگ ہوا تھا جب اسنے اسکے سر پر چادر اپنی انگلیوں سے درست کر کے اسکی چھوٹی چھوٹی لٹیں چادر کے اندر کیں تھیں۔

وہ سیدھا ہو بیٹھا تھا اور فون پر آئی ضروری کال سننے لگا تھا جو کہ بہت ضروری تھی،

اور وہ تو جیسے اسی پل میں ہی کہی ٹھہر گئی تھی ،

سر پر ابھی بھی اسکا لمس محسوس ہو رہا تھا ۔

گاڑی میں پھیلی بھنی بھنی خوشبو ہیر کو بہت اچھی لگی ۔

بھرے بھرے ہونٹ بڑے برسوں بعد ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے ،وہ زندگی میں پہلی بار دل سے مسکرا دی تھی۔

اور کسی نے چونک کر اسکی بلاوجہ مسکراہٹ دیکھی ،


________________________________


خیام ۔۔۔

محل کے دروازے کے باہر اسے خیام نظر آیا تھا ۔

گاڑی رکی تھی سردار کے اشارے پر ۔۔


وہ عجلت سے گاڑی سے نکلتی بھاگ کر اسکے سینے سے لگتی بلک اٹھی تھی ۔

ارد گرد کا ہوش اسے نہیں رہا تھا۔

اسکے سینے میں سر دئیے وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی کہ اسکا بھائی اسکے سامنے تھا اسکا واحد رشتہ ۔


آپی پلیز مجھے تکلیف ہوتی ہے آپکو اس طرح روتا دیکھ کر ۔

وہ بھرائے ہوئے لہجے میں اسکا سر تھپکنے لگا تھا ۔


سردار غاذان نے گلاسز اتار کر سنجیدگی سے ان دونوں کو دیکھا تھا ۔۔


خیام ۔

اسکی سنجیدہ آواز پر وہ دونوں ایک دم سے ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے ۔


ہیــــــــر نے ایک نظر سنجیدہ چہرہ لیے سردار کو دیکھا پھر بے ساختہ اپنے بھائی کا ماتھا چوم گئی تھی ۔

خیام آنکھوں میں نمی لیے مسکرایا تھا بڑی بہن جو ٹھیک سلامت تھی اور یہ ایک وجود کی ہی مرہونِ منت تھا ۔


وہ اللہ کا جتنا شکر کرتا کم تھا اسنے اسکی بہن اسے لوٹا دی تھی شکر کے نوافل پڑھنا تو اس پر واجب ہو گیا تھا ،

اور پھر اس شخص کا جسنے انکی زندگی میں آکر انکی تکلیفیں کافی حد تک کم کر دیں تھیں ۔

خیام نے تشکر لیے آنکھوں سے سردار غاذان کو دیکھا تھا۔

جو گاڑی سے ٹیک لگائے انہیں ہی دیکھ رہا تھا ۔

وہ بار بار واچ بھی دیکھ رہا تھا شاید اسے کہی اور بھی جانا تھا ۔


خیام گھر جاو شام ہونے والی ہے کل ان شاءاللہ ملاقات ہو گئی۔ ۔

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا دوبارہ گاڑی کے اندر بیٹھا تھا ۔

اسکے لہجے میں پتا نہیں کیا تھا کہ خیام بنا کچھ کہے سر ہلاتا اپنی بائیک کی طرف بڑھا تھا ۔

خیام اپنا خیال رکھنا ۔

وہ خیام کی پشت دیکھ کر بے ساختہ بولی تھی۔

وہ پلٹ کر سر ہلاتا پھر سے بائیک کی طرف بڑھا تھا۔

ہیـــــر ۔


وہ موبائل میں کچھ دیکھتا اسے پکار گیا تھا جو ہنوز وہی کھڑی تھی ۔

اللہ کی پناہ میں خیام۔


وہ اسکی بائیک کو دیکھتی ہوئی بولی تھی جو نظروں سے اوجھل ہونے کو تھا۔

اور اب سردار کی پکار پر اسکا وجود پھر سے منجمد ہونے لگا تھا آخر کیا تھا وہ شخص ،


جس پر سردار نے بائیاں آئی برو اچکا کر اس کمزور سی لڑکی کو دیکھا تھا جو کہ ہنوز وہی کھڑی تھی ۔

ہیر کم ان خیام چلا گیا ہے,


اسکی تنبیہ پر وہ جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھی تھی،


وہ اودھ کھلے دروازے سے اندر بیٹھی تھی بنا سردار کی جانب دیکھے،

اور گاڑی کھلے گیٹ سے اندر بڑے سے پورچ کی طرف دوڑ گئی تھی اس میں سات آٹھ گاڑیاں پہلے سے ہی کھڑیں تھیں ۔


گاڑی کے رکتے ہی خادم نے بھاگ کر سردار کی طرف کا دروازہ کھولا تھا ۔


وہ آگے بڑھا تھا دھیان فون میں تھا لیکن وہ رکا تھا اپنے پیچھے اسکی غیر موجودگی محسوس کر کے ۔


ہیـــــــــــر!


وہ پلٹا تھا اور اسے پکار بھی گیا تھا جو گاڑی کے پاس ہی کھڑی انگلیاں مڑور رہی رہی تھی نظریں نیچے تھی تو نچلا ہونٹ اوپر والے ہونٹ میں دبائے وہ سخت پریشان تھی وہ یہاں نہیں آنا چاہتی تھی یہاں کے لوگ ظالم تھے اور وہ جانتی تھی ۔


اسکی سنجیدہ سی پکار پر وہ ایک نظر سردار غاذان کو دیکھ کر پھر سے نظریں جھکا گئی تھی۔

اندر آو ۔

وہ وہی کھڑا نرمی سے بولا تھا ۔


مجھے نہیں آنا آپ پلیز مجھے ہوٹل چھوڑ آئیں ۔

وہ کچھ جھجھک کر بولی تھی لہجے میں خو اور ڈر نمایا تھا ،


اسکے ڈرے سہمے لہجے پر وہ ہونٹ بھینچ گیا تھا ،

پھر اسکی طرف تیزی سے بڑھا تھا ۔


بنا اسے کچھ کہے وہ اسکا ہاتھ تھام کر اندر کی طرف بڑھا تھا قدموں کی رفتار بہت تیز تھی ۔


ہیــــــر اسکے ساتھ کھینچتی چلی گئی تھی ۔

سر سے چادر اتر چکی تھی چھوٹے لیئر میں کٹے بال دیکھنے لگے تھے ۔

خادم ہاتھ پیچھے باندھے آہستہ سے چل رہا تھا نظریں جھکی ہوئیں تھیں لیکن وہ پریشان تھا کہ حالات اب کس رخ کروٹ بدل لیں گئے یہ سردار غاذان تو شاید حالات سے انجان تھا جو آنے والے تھے یا پھر جان کر بھی انجان بنا بیٹھا تھا ۔


🍁🍁🍁🍁🍁_____🍁🍁🍁🍁


بڑے سے گول ہال میں سفید صوفوں پر بیٹھے وہ ساتھ والے گاوں میں ہونے والے جلسے کو لے کر بتاتیں کر رہے تھے جب سردار پر سہیر خانم کی اچانک ہی نظر پڑی تھی پھر ہٹنے سے انکاری ہوئی تھی اسکے ساتھ اس لڑکی کو دیکھ کر وہ ایک دم سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے انکی دیکھا دیکھی سب ہی اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے انکی نظروں کے تعاقب میں دیکھنے لگے تھے اور ساکت رہ گئے تھے۔۔۔


تیمور خانم کو چار سو چالیس واٹ کا جھٹکا لگا تھا انہوں نے آنکھیں میچیں پھر کھولیں لیکن وہ خقیقت بنا انکے سامنے تھا اور اب دونوں ہاتھ پاکٹس میں ڈالے ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا ان تینوں کو سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا ۔


ہیـــــــر سر پر چادر جماتی جھٹ سے اسکی پشت کے پیچھے ہوئی تھی ۔

وہ بری طرح سہم چکی تھی ان سب کو خود کو گھورتا پا کر کیا وہ اسے ماریں گے یا پھر اس گھر سے دھکے دے کر نکالیں گئے اس خوف سے ہیـــــــــر کا بی پی اپ ڈون ہونے لگا تھا ۔


اسے کیوں ساتھ لے آئے ہو غاذان یہ گھر ہے ہوٹل نہیں شاید تم بھول چکے ہو یہ بات۔

تیمور صاحب آگے بڑھتے ہوئے بھینچے ہوِے لہجے میں بیٹے پر برسے تھے ۔


وہ بھی جواباً تھوڑا آگے بڑھا۔

ایک بیوی اپنے شوہر کے گھر میں رہتی ہے نا کہ ہوٹل میں ،

سو میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہئیے تھا ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ڈیڈ،


وہ کندھے اچکاتے ہوئے لاپرواہی سے بولا تھا ۔

بیوی !

بیوی!


ہیر کو ایسے لگا جیسے ہر طرف اس خوبصورت لفظ کی سماعت اسکے ارد گرد رقص کرنے لگی ہو ۔

اسکا ننھا سا دل صرف اس لفظ پر ہی دھڑکنے لگا تھا چہرہ زرد رنگ سے سرخ رنگ میں ڈھلنے لگا تھا ،


واٹ ربش یہ کیا تماشا ہے ،کیا سرادر ہو تو کچھ بھی کرتے پھرو گئے ،

مت بھولو تم اس ریاست کے سردار ہو یہ بھکارن اس لائق ہے کہ اسے اس سردار محل میں رکھا جائے بیوی تو دور کی بات ہے سردار صاحب یہ تو تمہاری ملازمہ بننے کا درجہ بھی نہیں رکھتی۔


سہیر خانم درشتگی سے اتنا اونچا بولے تھے کہ گھر کے سارے افراد بھاگ کر لاونج میں آئے تھے اور اب ناسمجھی سے اس لڑکی اور سردار کو دیکھ رہے تھے ،


جسکی آنکھوں میں بھکاری لفظ کے نام پر تلخی سی چھائی تھی ۔


انکی اونچی آواز سے سہمتی وہ سردار غاذان کی شرٹ پشت سے تھام گئی تھی دل سوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا تھا قدم جسم کا بوجھ سہنے سے انکاری تھے لیکن وہ کھڑی رہی تھی کہ اسے ایک شخص کا سہارا حاصل تھا وہ اسکی شرٹ کو تھامے ہوئے تھی مضبوطی سے کبھی نا چھوڑنے کے لیے۔۔۔


چاچو پلیز میں بہت بار آپکا لخاظ کر چکا ہوں لیکن آپ ہیں کہ باز نہیں آتے مجھے اس حد تک مت لائیں کہ میں آپکا اور اپنا رشتہ بھول جاوں اور ایک بات اور ملازمہ کا درجہ دیا بھی نہیں ہے اسے کیونکہ بیوی ملازمہ نہیں ہوتی لیکن آپ لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے خیر باقی باتیں بعد میں نوراں ،

سرد اور سپاٹ لہجے میں ان سے کہہ کر وہ آخر میں گھر کی ہرانی ملامہ کو پُکار گیا تھا جو پیچھے ہی کھڑی تھی۔

جی سردار حکم !

ملازمہ جھٹ سے آگے آئی ۔


جو کمرہ صاف کروایا تھا بی بی کو اس کمرے میں چھوڑ آو۔


روعب دار لہجے میں کہتا وہ سب کو حیرت میں ڈال گیا تھا ۔

گھر کی خواتین کی نظریں ہیــــر رضا پر تھیں جو کافی ڈری سی تھی ۔

ہیــــــــــــر جاو ۔

اس سے اپنی شرٹ بمشکل چھڑاتا ہوا وہ بولا تھا ۔

ہیر نے التجائی و بھرائی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔

ڈونٹ وری ہیـــــــر میں ہوں یہاں۔


اسکے آدھے چادر میں ڈھکے سر پر ہاتھ رکھے وہ بہت نرم لہجے میں اس سے مخاطب تھا ۔

باقی سب حیرت ورطہ میں تھے آخر یہ کونسا روپ تھا سردار غاذان کا۔

ہیر کا ہاتھ تھام کر نوراں اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔

لیکن وہ مڑ مڑ کر سردار کو ہی دیکھ رہی تھی جیسے اسکے چلے جانے کا ڈر ہو۔۔۔


نوشین اور شرمین نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اپنے شوہروں کو جو خود غصے میں تھے لیکن بے بس تھے ۔


مجھے آفسوس ہے تمہیں سردار کی گدی پر بٹھانے کا ۔

تیمور خانم کے غصیلے لہجے پر وہ پہلی دفعہ اتنے عرصے میں مسکرایا تھا ۔

اسکی طنزیہ مسکان پر وہ تینوں بھائی جی جان سے سلگے تھے ۔

بھتیجے میں بھی دیکھتا ہوں تم اس کمتر لڑکی کو کتنے دن اس گھر میں رکھو گئے تمہاری اور ہماری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے وہ لڑکی اور ہم اس لڑکی کو اس گھر میں زیادہ عرصہ ٹھہرنے نہیں دیں گے یاد رکھنا یہ تم ۔


سہیر خانم کے لہجے میں پتا نہیں کیا تھا کہ غاذان نے ہونٹ بھینچے پھر انکے قریب آیا ۔


جب تک میں ہوں ہیر کو آپ تو کیا کوئی بھی اس گھر سے نکال نہیں سکتا آپ بھی یاد رکھئیے گا یہ۔


سپاٹ لہجے میں کہتا وہ وہاں رکا نہیں تھا باہر کی طرف بڑھ گیا کہ آج اسکی بہت اہم میٹنگ تھی جو سے ہر حال میں اٹینڈ کرنی تھی چینج وغیرہ وہ اپنے آفس میں بھی کر سکتا تھا کہ وہاں بھی اسکے سوٹ اور باقی چیزیں ہمشہ رہتیں تھیں۔۔

خادم بھی سردار کے پیچھے بڑھ گیا تھا ۔۔


تیمور دیکھ رہے ہو اپنے بیٹے کو یہ تمہاری ہی دی ہوئی ڈھیل کا نتیجہ ہے کتنی دفعہ کہا تھا وہ اہل نہیں ہے سردار کی پگڑی کا لیکن تم سمجھتے کب ہو۔ ۔

سہیر خانم درشتگی سے کہتے وہاں رکے نہیں تھے ۔

خشام بھی سر جھٹکتے سہیر خانم کے پیچھے چلے گئے ۔


تیمور صاحب ہونٹ بھینچے غصے کی انتہا پر تھے انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کر دیں وہ اس بیٹے کا جس نے انہیں سب کے سامنے شرمدہ کر رکھا تھا۔

وہ غصے سے اسکے پیچھے ہی لپکے تھے ۔


لو بھلا کر لو بات بھابھی اب یہ ہمارے ساتھ رہے گئی جسکی خیثیت ہمارے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ سے بھی کم ہے ۔


نوشین نے غصے سے شرمین سے کہا تھا

شرمین نے بھی سر ہلا دیا انہیں بھی وہ لڑکی اپنے اس گھر میں بھائی نہیں تھی لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھیں ہاں وہ یہ بھی جانتیں تھیں وہ لڑکی زیادہ عرصہ اس گھر میں نہیں رہ سکتی تھی۔۔

،______________________________


کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی وہ تذبذب میں تھی ۔

کمرہ اتنا کشادہ تھا کہ اس کمرے جتنے انکے دو کمرے تھے ۔

چادر اب پوری سر سے اتر چکی تھی وہ چاروں طرف گھوم گھوم کر دیکھ رہی تھی ۔

نوراں اسے چھوڑ کر جا چکی تھی ۔

وہ دھیرے سے شیشے کی بڑی سی کھڑکی کی طرف بے ساختہ آئی تھی ۔

کھڑکیاں اسے کتنی پسند تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا ،

اپنے کمرے کی چھوٹی سے کھڑکی جو گلی میں کھلتی تھی وہ گھنٹوں اسکے آگے بیٹھی رہتی لیکن یہاں تو پوری وال جتنی کھڑکی تھی جو ڈر تھا خوف تھا وہ کھڑکی کو دیکھ کر کہی پس منظر میں چلا گِیا تھا ۔۔

کھڑکی پر نیلے کلر کے ریشمی پردے پڑے ہوئے تھے ۔

کہی یہ خواب تو نہیں میں اس محل میں کیسے آ سکتی ہوں جس کی خوبصورتی کے بارے میں امی بتایا کرتی تھی آج میں یہاں ہوں کیا یہ سچ ہے ۔

وہ ہوا سے اڑتے پردوں کو تھامتی ہوئی بڑبڑائی تھی ۔

ّوہ اسی لہنگے چولی میں تھی ہاں چادر تھی تو اسکا وجود کور تھا اس میں ۔

کاش میں آپکو بتا سکتی سردار کے آپکا میرے سر پر ہاتھ رکھ کر بولنا مجھے کس جہاں میں پہنچا دیتا ہے دل کرتا ہے میں ساکت ہو جاوں اور آپکو دیکھتی رہی اور آپ تا عمر ایسے ہی میرے سامنے کھڑے بولتے رہیں ۔۔

وہ حیرت سے پردے کو تھامے بڑبڑا رہی تھی جب ایک جھٹکے سےا سکے کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔

وہ پلٹی تھی ۔

کالی قمیض شلوار میں کوئی اور نہیں شائنہ خانم کھڑی تھی اجڑی ہوئی حالت لیے وہ شائنہ نہیں لگ رہی تھی جو وہ لگتی تھی۔

وہ آنکھوں میں غیض و غضب لیے ہیـــــر کی طرف آئی تھی ۔۔

کون ہو تم ؟

اسکے قریب آتی وہ انداز میں وخشت لیے ہوئے بولی تھی ۔

ہیـــــــــــر حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ شائنہ کا اس گھر سے کوئی تعلق ہو گا ۔

جی !

وہ پریشانی سے بولی تھی ۔

یہی جی جی کر کے تم نے میرے سردار کو مجھ سے چھینا ہے نا ،

شائنہ درشتگی سے اونچا بولی تھی ۔

ہیر حیرت و نا سمجھی سے اسے دیکھے گئی۔


ہیر!

وہ فون ٹھوڑی نیچے رکھے دھیمی سی مسکان ہونٹوں پر سجائے انہوں لمحوں کے سحر مِیں تھی جب انکی نرم آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی کہ وہ چونک کر پیچھے مڑی جہاں شائنہ وائٹ سلک کے کھلے ٹروزر پر مہرون گھٹنوں تک آتی شرٹ پہنے لمبے بالوں کو ہاف باندھے اپنے خوبصورت دلکش چہرے پر مسکان سجائے اسی سے مخاطب تھی۔


ہیر بجائے خوش ہونے کے پریشان ہوئی تھی کہ یہ بھلا ایک دم سے کیسے اتنی بدل سکتی تھی ۔۔

آو ہم سب نیچے واک پر جا رہے ہیں چلو گئی ،

وہ اسکے قریب آتی ہوئی پوچھ رہی تھی۔

اس وقت ۔

واچ پر آٹھ کا ہندسہ دیکھ کر وہ حیرت سے بولی۔

ارے یار ابھی تو مزہ آئے گا چلو شہنام بھی نیچے ہی ہے۔

وہ اپنا بیگ پکڑتی ہیر سے عجلت میں مخاطب تھی۔

ایک منٹ میں چادر لے لوں ۔

چیئر پر پڑی چادر اٹھا کر وہ خود پر اچھے سے اوڑھتی ہوئی اسکے ہم قدم ہوئی تھی ۔

ہوٹل بہت خوبصورت تھا ۔وہ ہوٹل کی خوبصورتی دل میں سراہے بنا نہیں رہ سکی تھی ۔

نیچے لابی میں واقعے سب سٹوڈینٹ واک کے لیے تیار تھے دو میل اور فی میل ٹیچرز انکے ساتھ جا رہے تھے ،

شہنام دو لڑکوں کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا جب ہیر کو دیکھ کر ہاتھ ہلا گیا تھا ۔

وہ بنا جواباً ہاتھ ہلائے اسکے پاس آرکی تھی آخر سردار غاذان کا حکم جو تھا کہ شہنام صدیقی کے ساتھ ہی رہنا ہے۔

بے مروت عورت ۔

وہ جل کر بولا تھا۔

شٹ اپ تم سے چھوٹی ہی ہوں ۔

وہ ناک سکوڑ کر بولتی شہنام کو پریشان کر گئی۔

بات سنو سردار نے مجھے کہا تھا تم بہت معصوم ہو تمہارے منہ میں زبان نہیں ہے وغیرہ وغیرہ انکے سامنے تمہارے اندر کی خرانٹ عورت کہاں چلی جاتی ہے ہاں۔


وہ حیرت سے چلتے ہوئے اس لڑکی سے مخاطب تھا جو ہلکا سا مسکراتی ہوئی سامنے دیکھتی ہوئی چل رہی تھی۔

سردار غاذان جھوٹ نہیں بولتے میں واقعی معصوم سی ہوں تم خود چالاک ہو اسلیے تمہیں سب چالاک نظر اتے ہیں ۔

ساتھ چلتی لڑکی تھوڑی شرارت سے بولتی شہنام کو غصہ چڑہا گئی تھی ۔

نہیں رکھوں گا میں خیال تمہارا ۔

وہ بھنا کر بولتا دو قدم آگے ہوا تھا۔

سردار پوچھ لیں گئے تم سے ۔

وہ پھر سے شرارت پر آمادہ تھی۔

پوچھ لیں میں بھی کہہ دوں گا میرے کان بہرے کر دئیے ہیں انکی معصوم چڑیل نے ۔

وہ جھلا کر بولتا اپنے دوستوں میں شامل ہو چکا تھا ۔

انکی معصوم چڑیل ۔۔۔۔

یہ فقرہ اسے بہت پسند آیا تھا ۔

کاش میں ساری زندگی انکے ساتھ رہوں ۔

وہ دل میں حسرت سے بڑبڑائی تھی۔

شیزا اور ایک دوسری لڑکی کے ساتھ چلتی شائنی انگاروں پر لوٹ رہی تھی ۔

ہیر تم نے میری دنیا مجھ سے چھینی ہے سزا تو بہت بھیانک ملے گئی تمہیں یاد کرنے کے لیے تمہیں مہلت بھی نہیں ملے گئی۔

وہ جلتے دل سے سوچتی اسکی پشت کو نفرت آمیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔


وہ سب آدھا گھنٹہ گھوم پھر کر واپس آچکے تھے ،

آتے وقت سب کے ہاتھوں میں کون آئس کریم تھی ۔

شہنام کے پاس چاکلیٹ فلور تھا جبکہ ہیر کے ہاتھ میں سٹرابری فلیور تھا اسے بہت پسند آیا تھا یہ فلیور اس لیے اسکے ہاتھ میں دو آئس کریم تھیں پیسے جلتے بھنتے شہنام نے ہی دئیے تھے ۔

جا کر ایک ایک پیسہ سردار صاحب سے لوں گا کس بھوکی کو میرے ساتھ بھیج دیا ہے پورے دو سو خرچ کرا دئیے میرے۔

وہ جل کر بول رہا تھا جبکہ وہ بنا اسکی بات پر کان دھرے مسکراتی ہوئی باری باری دونوں آئس کرم کی بائٹ لے رہی تھی ،،

شائنہ نے اچانک ہی پیچھے سے اسے دھکا مارا تھا اور وہ جو اپنے دھیان میں تھی دھکے کے لیے تیار نہیں تھی سنبھل نہیں سکی تھی لہرا کر گری تھی دونوں آدھی آدھی کھائی آئس کریم نچے گھاس پر گر گئیں تھیں۔

او سو سوری مجھے پیچھے سے دھک لگ اور میں تم پر گر گئی تمہیں چوٹ تو نہیں لگی ۔

اسے اٹھاتے ہوئے وہ پریشانی سے بولی تھی۔

نہیں چوٹ نہیں لگی ٹھیک ہوں میں۔

کھڑی ہو کر کپڑے جھارٹی وہ بولی تھی ۔

مجھے افسوس ہے تمہاری آئس کریمز گر گئیں ۔

شائنہ کو افسوس ہوا تھا ۔

کوئی بات نہیں میرے نصیب میں اتنی ہی کھانی لکھی تھی ۔

وہ ہلکی سی مسکان سے بولتی

آگے بڑھ گئی تھی جبکہ شہنام تھوڑا اس سے آگے تھا ایک لڑکی کے ساتھ بڑا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا ،

شائنہ نے مسکراتی نظروں سے اسکی آئسکریم کو ملیا میٹ ہوتے دیکھا تھا۔


شہنام تمہاری نظر بہت بری ہے میری دونوں آئسکریم نیچے گر گئی ہیں۔

اسکے ہم قدم ہوتی وہ مایوسی سے بولی تھی ۔

شہنام نے اپنی آئس کریم اسکی طرف بڑھ دی تھی بنا اس لڑکی سے نظر ہٹائے ۔

جھوٹی نہیں کھاتی میں ۔

وہ سنجیدگی سے کہتی آگے بڑھ گئی جبکہ وہ اس لڑکی کے سامنے شرمندہ ہو گیا تھا ۔

وہ غصے سے دانت پیس کر رہ گیا تھا ۔

اسے لا کر میں نے غلطی ہی کی ہے لیکن اگر اسے نا لاتا تو لارڈ صاحب نے مجھے کونسا آنے دینا تھا ۔

وہ غصے سے کھول کر رہ گیا تھا۔

_________،،،،،،،،،،،،،،،_________


یہ ایک بہت خوبصورت جگہ تھی جسکے نام سے وہ انجان ادھر ادھر ٹہل رہا تھا وہ سفید سوٹ میں تھا حلانکہ سوٹ اسے زرا پسند نہیں تھے لیکن اس وقت وہ سفید سوٹ میں ہی تھا ،

آسمان نیلا تھا لیکن کہی کہی سفید بادلوں کے ٹکڑے بھی اڑ رہے تھے،

بہت ہی پرسکون جگہ تھی ،

وہ ٹہلتے ٹہلتے اچانک رکا تھا ،

بہتے جھڑنے کے پاس اسکی طرف پشت کیے ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی ،

وہ بے ساختہ اس لڑکی کی طرف بڑھا تھا ۔

ائے کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو ۔

وہ بھاری آواز میں پشت کیے بیٹھی لڑکی سے مخاطب تھا ۔

پشت کیے بیٹھی لڑکی اچانک ہی اسکی طرف مڑی تھی ۔

وہ لڑکی بھی سفید ریشمی سوٹ میں تھی سفید چادر سر پر لیے وہ اسے خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔

جبکہ وہ ساکت رہ گیا تھا ،

ہیر۔

وہ پریشان ہو اٹھا تھا۔

اسکی آنکھوں سے لہو بہہ رہا تھا لیکن اسکے ہونٹ تو مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے تھے ۔

وہ اسکی طرف پریشانی سے بڑھا تھا لیکن خاموش بہتا جھڑنا اچانک ہی اوپر اچھلا تھا اور اسکے وجود کو ساتھ بہہ لے گیا تھا۔


ہیر!

وہ دل خراش چیخ سے چیختا

اٹھ بیٹھا تھا ،

شرٹ کے بغیر سینہ پسینے سے تر ہو ہو چکا تھا مدھم روشنی میں بیڈ پر بیٹھا وہ گہرے گیرے سانس لے رہا تھا ،

نہیں اب اسے کچھ نہیں ہو گا ۔

خود کو کمپوز کرتا وہ فون کو جھپٹ کر شہنام کا نمبر ملا چکا تھا رات کے تین کا وقت تھا۔

چار پانچ بیل پر اسکا فون رسیو ہو چکا تھا ۔

ہیر کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہے نا تم اسکا خیال رکھ رہے ہو یا نہیں ۔


وہ فون رسیو ہوتے ہی تیز تیز لہجے میں بولے گیا تھا ۔

شہنام نے حیرت سے فون کو دیکھا ۔

سردار صاحب رات کے تین کا وقت ہے اور وہ معصوم چڑیل کب کی سو چکی ہے آپ کو بڑا خیال رہتا ہے اس خرانٹ عورت کا کبھی میرے لیے تو فکرمندی کا اظہار نہیں کیا آپ نے۔۔۔۔۔۔

شٹ اپ ایڈیٹ مین

وہ تیکھے لہجے میں بول رہا تھا جب سردار کی غضب ناک آواز پر اسکی سٹی گھم ہوئی تھی ۔


تمیز سے بات کرو اسکے بارے میں شرم آنی چاہئے تمہیں اس معصوم لڑکی کے لیے ایسے الفاظ یوز کرتے ہوئے۔

وہ اس پر غصے سے برس تھا۔

شہنام حیران و پریشان ہوا تھا ۔

جی معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ کو اس وقت اس معصوم لڑکی کی حیرت کیوں مطلوب تھی۔

وہ اب کی دفعے ناک چڑہاتا نرم لیکن غصیلے لہجے میں مخاطب تھا۔

ہیر کا خیال رکھنا ۔

کہتے ہی اسنے فون رکھ دیا تھا ۔

گہری سانس لیتا وہ شیشے کا ڈور دھکیل کر کھلی سی بالکنی میں آچکا تھا ۔

اس لڑکی کے حوالے سے مجھے ہمیشہ سچے خواب ہی آئے ہیں کیا کچھ ہونے والا ہے نہیں کچھ نہیں ہو گا بس ایسے ہی دھیان اسکی طرف تھا تو خواب میں چلی آئی شاید ۔

خود کو ریلکس کرتا وہ دونوں ہاتھ باونڈری پر جماتا سامنے گہرے اندھیرے میں ڈوبے گھنے جھنگل کو دیکھنے لگا تھا ۔

پھر اچانک ہی نظریں اپنے ہاتھ کی پشت پر پڑیں تھیں جہاں اسکے نرم ہونٹوں کا لمس ابھی ابھی پھر سے محسوس ہوا تھا ۔


__________،،،،،،،،،،__________


آج کا سار دن انہوں نے گھومنے پھرنے میں گزارا تھا وہ کافی خوش تھی ۔

یہاں کافی ٹھنڈ تھی تو اسنے سویٹر اور مہرون بھاری شال خود پر اچھے سے اوڑھے رکھی تھی پورا وجود اس بھاری چادر میں مقید سا تھا ۔

شہنام اور اس میں کافی دوستی ہو چکی تھی شہنام ویسے تو بہت کنجوس تھا لیکن اسنے کسی بھی کھانے والی چیز کا بل اسے نہیں دینے دیا تھا ،وہ جھنجھلا جاتی تھی لیکن وہ کون سا اسکی سنتا تھا ۔۔۔۔


یہ ایک کافی رش والا بازار تھا سب سٹوڈینٹ ٹولیاں بنائے کچھ نا کچھ لے رہے تھے اپنے پیاروں کے لیے۔

وہ آئس کریم والا کپ پکڑے غور سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھی خیام کے لیے بھاری گرے شال ایک سنہری خوبصورت پن، مہرینہ کے لیے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لے اور نا ہی مہدیہ کے لیے ان دونوں کی پسند کا اسے کچھ پتا نہیں تھا ،

وہ چلتی ہوئی ایک دم سے رکی تھی جہاں مردانہ ورئٹی کی شاپ میں شہنام اور بہت سے لڑے لڑکیاں گھوم۔ پھر رہی تھیں ۔


وہ بھی شیشے کا گلاس ڈور دھکیل کر اندر چلی آئی تھی باہر کی نسبت اندر کا ماحول کافی گرم تھا جو جسم کو بہت بھلا لگا تھا ۔

وہ ایسے ہی دیکھتی رہی جبکہ شہنام اسے مشکوک نظروں سے گھورتا رہا تھا۔

شائنہ بھی اسی شاپ میں چلی آئی تھی ساتھ تین چار لڑکیاں بھی تھیں۔


جیولری سٹال مِیں بلیک کلر کی ایک رنگ اسے بہت پسند آئی تھی بلیک بڑا سا سٹون رنگ پر لگا اسکی شان بڑھا رہا تھا باقی سلور کا باریک سا ڈیزائن کیا ہوا تھا ۔۔

اسے وہ رنگ دیکھ کر نجانے کیوں سفید مضبوط ہاتھ یاد آئے تھے شہادت کی انگلی پر ایک سنہری کلر کا چھلا اسنے ہمیشہ انکے ہاتھوں پر دیکھا تھا ۔

رنگ پکڑ کر وہ تصور میں انکے ہاتھ دیکھتی زیرے لب مسکرائی تھی ۔

یہ کہی تم میرے لیے تو نہیں لے رہی ۔

وہ خفگی سے رنگ کی طرف اشارا کرتا ہوا بولا تھا ۔

جس پر وہ غصے سے اسے دیکھتی سر جھٹک کر رہ گئی تھی۔

اتنی خوش فہمی بھی صخت کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔

وہ غصے سے بولی تھی ۔

چالاک عورت!

وہ بڑبڑایا تھا۔


**********"""""""""""*******""""""""""******

ایک ہاتھ سے ریلنگ تھامے دوسرے میں کافی کا سپ لیتا وہ مین اینٹرس سے داخل ہوتی شخصیت کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔

جامنی رنگ کا سوٹ بلیک سینڈل دوپٹہ آدھے سر پر اٹکائے وہ ڈرتی ڈرتی اندر آ رہی تھی ۔

ہال میں بیٹھی نوشین ایک دم سے اسے دیکھتی کھڑی ہوئی تھی پھر بھاگ کر بیٹی کے گلے سے لگی تھیں۔

مہرینہ یہ تم ہو میری بچی کیا حال بنا رکھا ہے تم نے کتنی کمزور ہو چکی ہو۔


اسکا ماتھا سر چومتی وہ ممتا کے بھرپور لہجہ لیے بولیں تھیں۔

انکے ہاتھ تھامتی وہ مسکراتی دوبارہ ماں کے شفیق سینے سے لگی تھی۔۔


تمہاری جرات کیسے ہوئی اس گھر میں آنے کی۔

سہیر خانم سیڑیاں اترے درشت لہجے میں اس پر برسے تھے۔

داور بھی شرٹ کے بٹن بند کرتا اپنے کمرے سے نکلا تھا۔

شرمین مہدیہ سفینہ صفا سب ہال میں آچکیں تھیں۔


کیوں نا آوں یہ میرا بھی گھر ہے، اور روز آیا کروں گئی اتنے دن اس لیے نہیں آئی کہ میں ایڈجیسٹ ہونے میں وقت لینا چاپتی تھی ورنہ مجھے کون نکال سکتا تھا یہاں سے۔

وہ انکے قریب آتی لاپرواہی سے شانے اچکاتی ہوئی بولی تھی انداز میں کوئی ڈر ور نہیں تھا ۔

داور اسکے قریب آیا تھا۔

بابا کے آگے زبان چلاتی ہو شرم نہیں آتی ۔

اسکے قریب آتا وہ پھنکارا تھا ۔

زبان کہاں چلا رہی ہوں انکی بات کا جواب دیا ہے اور تم میرے معاملے سے سو فٹ کی دوری پر رہا کرو ۔

وہ بھی اس بار خاصے غصے سے بولی تھی۔

اوپر کھڑا وجود آرام سے کافی کے گھونٹ بھرتا نیچے دیکھ رہا تھا چہرے کے اعضلات سنجیدگی میں ڈھلے ہوئے تھے۔

کیوں دل بھر گیا اس کنگلے شوہر سے آگئی اپنی اوقات میں چلی آئی اپنے اصلی ٹھکانے پر ۔

داور استہزایہ لہجے میں بولتا طنز سے ہنسا تھا۔

مہرینہ نے ہونٹ بھینچ کر خاموش کھڑے ماں باپ کو دیکھا تھا۔

دل کیوں بھرے گا شوہر ہے وہ میرا شادی ہوئی تھی میری اس سے اور کنگلا وہ نہیں تم ہو جس کا دل نہایت غریب اور کدورت سے بھرا پڑا ہے ۔

وہ داور کو دیکھتی جواباً اس سے اونچی آواز میں چیخی تھی جب غصے سے داور نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا مار دیتا اسکے چہرے پر اگر مضبوط ہاتھ نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں جھکڑ نا لیا ہوتا تو ۔


داور نے پریشانی سے سردار کو دیکھا تھا ۔

جبکہ مہرینہ نے دھندلائی نظروں سے انہیں دیکھا تھا۔

سفید سرخ چہرہ بے انتہا سنجیدہ تھا ۔


اگلے پل داور زمین پر بے یقین سا پڑا

ہوا تھا ۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی بہن پر ہاتھ اٹھانے کی اور تم نے سوچ کیسے لیا کہ تم سردار غاذان کے ہوتے ہوئے مہرینہ پر ہاتھ اتھا سکو گئے میں تمہیں جان سے مار دوں گا کم ہمت انسان۔


اسکا گریبان سختی سے جھکڑے وہ سرد سے لہجے میں اس پر پھنکار رہا تھا ، داور کی تو سٹی ہی گم ہو چکی تھی۔

نوشین نے ہول کر غاذان کو دیکھا جو پھر سے انکے بیٹے کو نیچے پٹخ چکا تھا ۔

سردار غاذان معاف کردیں اسے آئندہ یہ ایسی حرکت نہیں کرئے گا بس اس بار اسے بخش دیں ۔

ماں تھیں اکلوتے بیٹے کے منہ سے لہو چھوٹتا دیکھ برداشت نہیں کر سکیں تھیں۔


جبکہ سہیر خانم ہاتھ پشت پر باندھے سنجیدگی بھری نظروں سے بھتیجے کو دیکھ رہے تھے بولے کچھ نہیں نا ہی آگے بڑھے تھے ۔

اگر اگلی بار اسنے کسی پر بھی ہاتھ اٹھایا تو پھر وہ ہاتھ اسکی تن سے علیخدہ کرنے میں مجھے زرا دکھ نہیں ہو گا تائی جان آپ سمجھا لیجئے گا اسے۔

مہرینہ تم آو بیٹھو کس کے ساتھ آئی تھی۔

تائی سے مخاطب ہو کر اب وہ مہرینہ سے شفقت سے پیش آرہا تھا ۔

وہ جو داور کی بے عزتی اور کٹ پر خوش ہو رہی تھی سردار کے شفقت بھرے لہجے پر سرشار سی ہوتی انکے ساتھ آگے بڑھنے لگی تھی۔

سہیر خانم باہر بیٹھک میں چلے گئے تھے۔


مہدیہ اچانک ہی بہن کے گلے لگتی نم آنکھوں سے مسکرا دی ۔

سردار بھائی کیا اب مہرینہ یہاں آ سکتی ہے ۔

وہ مہرینہ کے لیے پانی لینے جاتی رک کر ان سے پوچھ رہی تھی ۔

اسنے جواباً سر ہلا دیا تھا ۔۔


مہرینہ کے گرد ساری لڑکیاں بیٹھ چکیں تھیں ۔

مہرینہ خیام کے ساتھ آئی ہو۔

وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھتا اچانک ہی یاد آنے پر پھر سے پوچھنے لگا تھا۔

جی سردار وہ اکیڈمی جاتے مجھے یہاں اتار گیا تھا ۔

وہ پانی کا گلاس پکڑتی انکو جواب دینے لگی تھی۔

وہ سنجیدگی سے سر ہلاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ، کہ ابھی اسے آوٹ آف کنٹری میٹنگ کے سلسلے میں جانا تھا ۔

سردار غاذان آج کی سبکی اور مار کا بدلہ تم سے بہت بھیانک لوں گا دیکھنا تم۔

سردار کی پشت کو دیکھتا وہ نفرت سے بڑبڑایا تھا۔

***********"""""""""**********"""""""""""

مہرینہ کے لیے دو خوبصورت نازک سی چپلیں اور ایک خوب صورت لونگ اوپن سکن سویٹر لے چکی تھی سویٹر بہت مہنگا اور نفاست سے بنایا گیا تھا جس کے سوراخوں میں کالے بڑے بڑے موتی پروئے ہوئے تھے،

سویٹر وہ لے چکی تھی اپنی بھابھی کے لیے ،

مہدیہ کے لیے اسنے وہاں کی روایتی جیولری لی تھی ۔

ائے لڑکی سب کے لیے کچھ نا کچھ لے لیا اپنے لیے بھی لے لو کل ہم نے چلے جانا ہے ۔

وہ اچانک ہی کہی پیچھے سے آتا ایک دم سے بولتا اسے ڈرا گیا تھا۔

سینے پر ہاتھ رکھ کر اسنے لمبے سے لڑکے کو گھورا تھا۔

ایسا کون ایک دم سے بات کرتا ہے ۔

وہ غصہ ہوئی تھی اس پر۔

چلو جلدی سب لوگ آج وادی نیل کی سیر پر جا رہے ہیں ۔

وہ غصے سے بولتا آگے بڑھا تھا ۔

وہ بھی شاپرز کو مضبوطی سے ہاتھوں میں تھامے اسکے پیچھے پیچھے تھی۔


سامان واپس ہّوٹل میں رکھ کر لنچ کرتے وہ اپنے اگلے ٹھکانے کی طرف نکل چکے تھے ۔

شائنہ نے بس میں بیٹھتے ہیر کو دیکھا جو شہنام کی باتوں پر دھیما دھیما ہنس رہی تھی نیلی سفید بٹنوں والی جرسی پہنے نیلے ہی جاگرز پہنے وہ پہلے والی ہیر سے بہت مختلف لگتی تھی ۔

اسکو دیکھ کر اسنے کسی کو میسج کیا تھا ۔۔

مطمئن ہوتی وہ سیٹ سے سر ٹکا کر باہر کے دلکش مناظر دیکھنے لگی تھی۔


تم بہت کم کھاتی ہو۔

شہنام نے اسے ٹوکا تھا جو تھوڑا سا کھا کے ہی ہمیشہ پراں ہو جایا کرتی تھی۔

زیادہ کھانا چاہتی ہوں لیکن کھا نہیں پاتی ، شاید مجھے اتنا ہی کھانے کی عادت ہو چکی ہے زیادہ اب مجھ سے ہضم بھی نہیں ہوتا ۔

وہ سنجیدگی سے بولی تھی۔

شہنام کو سمجھ تو کچھ نہیں آیا تھا لیکن سر ہلا دیا کہ چلو کہہ رہی تو ٹھیک کہہ رہی ہو گئی۔


واوا کتنا پیارا منظر ہے نا ،

چاروں طرف ہرا بھرا جھنگل دور بہتا جھڑنا پرندوں کی دلفریب بولیاں رنگ برنگے پھول ،

بہت سی لڑکیاں جھولے کی طرف بھاگیں تھیں۔


وہ بھی ایک جھولے پر اشتیاق سے بیٹھ چکی تھی ۔

میں تمہیں جھولا دیتی ہوں۔

شیزا اچانک ہی پیچھے سے بولی تھی.

ہیر نے مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا وہ پرحوش سی جھولا لینے کے لیے تیار تھی ۔

لڑکے سب فٹ بال کھیل رہے تھے شہنام سب سے آگے دوسرے لڑکوں کو پیچھے بھاگا رہا تھا اور ہاں انکی گالیاں بھی کھا رہا تھا کہ وہ انکو باری ہی نہیں دے رہا تھا۔

شیزا نے پہلے تو آہستہ آہستہ اسے جھولا دیا لیکن پھر آہستہ آہستہ بہت تیز کر دیا تھا ۔

ہیر کا دل دھک سے رہ گیا ۔

شیزا پلیز آہستہ میں گر جاوں گئی۔


لوہے کی زنجیروں کو مضبوطی سے تھامتی وہ کانپتی آواز میں بولی تھی ۔


ارے یار آہستہ کا وہ مزا کہاں جو تیز جھولا لینے میں ہے ۔

کہتے ہی اسنے اسے پیچھے سے اسے زور سے جھولا دیا تھا جھولا بہت دور تک گیا تھا اسکے دھکا دینے سے وہ خود کو بیلنس نہیں کر سکی تھی جسکے نتیجے میں دل خراش چیخ سارے سبزے میں گونجی تھی ّ۔

وہ ایک دم سے منہ کے بل نیچے گری تھی ۔

ہاہاہا ،

بہت سی لڑکیوں کے قہقے بیک وقت وادی میں گونجے تھے ۔

وہ سبکی سے ایک دم سے نیچے سے اٹھی تھی چوٹ لگی تھی لیکن محسوس نہیں ہونا دیا کسی کو لیکن شکایتی نظروں سے وہ شیزا کو دیکھتی اپنی طرف آتے شہنام کی طرف چلی گئی تھی۔

شیزا نے مسکرا کر دور جھولا لیتی لڑکی کو دیکھا تھا جس نے جواباً وکٹری کا نشان بنایا تھا۔

ہیر تم ٹھیک ہو چوٹ تو نہیں لگی کہی۔

وہ فکر مندی سے پوچھ رہا تھا ۔

نہیں ۔

دھیمے بھرائے لہجے میں کہتی وہ دور بہتی ندی کی طرف چلی گئی تھی۔

سب ٹیچرز ایک طرف بِیٹھے کوکیز انجوائے کر رہے تھے ۔

شہنام کو اسکے دوست دوبارہ سے کھینچ کر کھیل میں شامل کر چکے تھے ۔۔


ندی کافی دور تھی اور ارد گرد جھاڑیاں بھی بہت تھیں۔ ۔

پاوں کے انگھوٹھے پر چوٹ شدید تھی ۔

آنسوں بھی گالوں پر لڑکھ آئے تھے۔

میں ان جیسی نہیں بن سکتی یہ ہمیشہ میرا مزاق ہی اوڑائیں گئیں۔

ندی کے کنارے بیٹھی لڑکی دلگرفتی سے سوچتی پانی ہاتھوں کے پیالوں میں لیتی منہ دھونے لگی تھی کہ گالوں پر خشک مٹی لگ چکی تھی کپڑوں پر بھی لگی ہوئی تھی وہ ہاتھ گیلا کرتی کپڑے صاف کرنے لگی تھی سوِیٹر اتار کر وہ کہنیوں تک بازوں دھونے لگی تھی پانی یخ ٹھنڈ تھا لیکن اسکی کہنی پر گرنے سے رگڑ لگی تھی جس کی وجہ سے اس جگہ پر جلن سی ہو رہی تھی ۔


بہتے سفید پانی کو دیکھتی وہ یہاں نہیں کہی اور ہی پہنچ چکی تھی جب اسکے ماں باپ زندہ تھے وہ آٹھ سال کی تھی وہ بہت خوش رہتی تھی ،

اپنے بابا کی وہ پری ہوا کرتی تھی تو ماں کی رانی بیٹی تائی کی دلاری چچا کی شہزادی کیسے اللہ نے ایک ایک کر کے سب کو اپنے پاس بلا کر اسے تنہا کر دیا تھا لیکن اللہ اگر کچھ لیتا ہے تو دیتا بھی تو ہے اسے بھی تو اللہ نے دیا تھا وہ کب کسی سے نا انصافی کرتا ہے بے شک وہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے ۔


کاش میں بھی انکے ساتھ اس جہاں سے اس جہاں میں چلی جاتی تو کتنا گپ۔ اچھا ہوتا نا ۔٩

بازوں گھٹنوں کے گرد باندھے وہ سوچ رہی تھی ۔


شام کا نیلگوں اندھیرا ہر سمت پھیلنے لگا تھا۔

وہ کافی دیر اس پرسکون جگہ بیٹھی رہی تھی یہاں سے وہ سب نظر نہیں آتے تھے لیکن انکی آوازیں کچھ دیر پہلے آ رہیں تھیں جو کہ اب نہیں آرہی تھیں۔

وہ کچھ سوچتی اچانک ہی پیچھے پلٹی تھی ۔

اور پھر وہ بھاگی تھی ،

وہ دھک سے رہ گئی تھی سر پر دھماکے سے ہونے لگے تھے کہ کچھ دیر پہلے جو جگہ سب سٹوڈینٹ سے بھری مختلف بولیوں سے ماحول گرما گرما تھا اب وہ جگہ پرسکون تھی ،


شہنام ،شہنام۔


وہ چلاتی بھاگتی ہوئی آگے بڑھنے لگی تھے جب وہ رکی تھی ۔

اچانک ہی کہی سے تین موٹے سانڈ اسکے سامنے آ رکے تھے ۔

وہ خوف سے اپنی جگہ تھمی تھی ۔

ان تینوں کی غلیظ نظریں اسکے چھپے وجود کا جائزہ لینے لگیں تھیں۔

سوکھے خلق کو تر کرتی وہ وہاں سے جانے لگی تھی جب ایک نے لپک کر اسکی کلائی پکڑی تھی۔

ہیر کا وجود ساکت ہوا تھا خوف اور وخشت سے۔

کہاں جانے کی تیاری پرنسس۔

ایک جو ان سے زرا پتلا تھا اس کے قریب آتا بہکے سے انداز میں بولا تھا۔


ہیر کو کوٹھے کا وہ دلخراش منظر یاد آیا تھا جب وہ وخشی انسان اس پر اپنا قبضہ کرنا چاہتا تھا ۔

شہنام !

وہ اپنی پوری طاقت صرف کرتی ہوئی چلائی تھی ۔


ہاہاہا جواباً وہ تینوں ہنسے تھے۔

ہیر کے خوف سے رونگھٹے کھڑے ہو چکے تھے ٹانگیں جسم کا بوجھ سہنے سے انکاری تھیں۔


سردار !

وہ ان سے بازو چھڑاتی پیچھے کی طرف بھاگی تھی ۔

پکڑو اسے اور بے ہوش کر کے جلدی سے نکلتے ہیں کہی وہ لوگ یہاں پہنچ نا جائیں۔

ان میں سے ایک ہیر کے پیچھے بھاگتا ہوا بولا تھا ۔


بھاگنے کی پریکٹس ہیر نے خوب دیکھائی تھی ۔

وہ بہت تیزی سے دکھتے پیر سے بھاگ رہی تھی ،

کہ وہ اس بہتی ندی کے پاس پہنچ چکی تھی جسکا شفاف ٹھنڈا پانی پتا نہیں کہاں سے کہاں جا رہا تھا۔

وہ اسکی چادر کھینچ کر اسے نیچے گرا چکے تھے ۔

تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ ہے مجھے جانے دو ۔

وہ کانپتے ہاتھ جوڑتی شدت سے روتی ہوئی چلائی تھی ۔

بے ہوش کرو اسے ٹائم نہیں ہے ہمارے پاس جلدی ہری اپ۔

وہی آدمی پھر سے بولا تھا۔

ہیر نے دہشت سے اس ادمی کو دیکھا آنکھیں سے بہتا پانی خوف سے ایک دم ساکت ہوا تھا۔

یار کیا معصومیت سے دیکھتی ہے اسے تو میں تین چار دن اپنے پاس رکھ کر اگلے جہاں پہنچاو گا ۔

ان میں سے موٹا آدمی اسے للچائی نظروں سے دیکھتا خباثت سے بولتا ہیر کو پتھر کا کر گیا تھا۔

مٹھیاں زمین پر مضبوطی سے جماتی ایک دم سے اٹھتی وی صاف شفاف پانی میں بنا انہیں کچھ بھی کرنے کا موقع دئیے اس پتھروں کی بنی ندی میں کود گئی تھی ۔۔

وہ تینوں حق دق کھڑے رہ گئے تھے انہیں کہاں اس چھوئی موٙئی لڑکی یہ توقع تھی۔ ۔

*************"""""""""*********""""""""""

براون جینز پر بلیک شرٹ کہنیوں تک سلیوز موڑ رکھیں تھیں کسرتی جسم درواز قد میں وہ اپنے رف سے حلیے میں بھی جان لیوا لگ رہا تھا دو انگلیوں میں سگار پکڑے وہ شیشے کی بڑی سی وال کے آگے کھڑا تھا ،

آج وہ آوٹ آف سٹی گیا تھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی آیا تھا تو ہیر سے بات نہیں ہو سکی تھی۔

دل اچانک ہی ایک دم سے گھبرایا تھا ۔

وہ موبائیل کے لیے اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگا تھا کہ اسکی اچانک ہی نظر شیشے کی بلیک چکور نما میز پر پڑی تھی جہاں ایک نیلے کلر کی نوٹ بک کافی دنوں سے پڑی ہوئی تھی ۔

وہ ہیر کا فولڈر تھا جو اسے دینے کا خیال نہیں آیا تھا ۔

موبائیل سے دھیان ہٹا تھا قدم بے ساختہ اس نیلی ڈائری کی طرف بڑھے تھے ۔

سگار ایش ٹرے میں پھینکتا وہ بھاری فولڈر اٹھا کر شیشے کی وال کے پاس آ کھڑا ہوا تھا ۔

پہلا صفحہ کھولا تھا جہاں بڑے بڑے خروف میں ہیر رضا لکھا ہوا تھا نام کے نیچے چھوٹا سا پھول بنایا گیا تھا کاربن پنسل سے ۔۔

وہ زیرے لب مسکرایا تھا۔

دوسرا صفحہ پلٹا گیا تھا ۔۔


ہے ایک ایسا شخص؛

*جو صبح کی ٹھنڈی ہوا جیسا ہے؛

*گرم دوپہر میں ٹھندی پھوار جیساہے؛

*کالی سیاہ رات مِیں چمکتے ستاروں جیسا ہے؛

*وہ عطر کی دلفریب مہک جیسا ہے؛

*ہے ایک ایسا شخص جو غیروں میں؛ اپنے جیسا ہے؛

بہت ہی خوبصورت لکھائی میں یہ لائنیں نیلی روشنائی سے لکھی گئِیں تھیں کہ وہ ٹھٹھک سا گیا تھا ۔

ہونٹ بھینچے وہ اگلا صفحہ پلٹ چکا تھا ۔


افففف کیا کوئی ہے ان جیسا ۔

اگلے ورق میں صرف ایک یہی چھوٹی سی لائن لکھی گئی تھی ۔


کیا کسی کو بلیک کلر اتنا سوٹ کرتا ہے جتنا انہیں سوٹ کرتا ہے یقیناً نہیں بلیک کلر تو جیسے بنا ہی انکے لیے ہے۔

وہ ساکت سا یہ الفاظ پڑھ پایا تھا ،

نظر اپنی بلیک شرٹ پر بے ساختہ گئی تھی ۔

سختی سے ہونٹ بھینچے وہ ساکت سا تھا ۔

اگلا صفحہ ہوا سے خودبخود اوڑ کر کھل چکا تھا۔

ہیــــــــــر غاذان تیمور🌹

چھوٹا سا نام لکھا ہوا تھا بہت ہی پیاری ہینڈ رائٹنگ میں آگے چھوٹا سا پھول بنا کر اس میں کلر کیا گیا ہوا تھا۔ ۔۔

اسکے سر پر دھماکا سا ہوا تھا ۔

فولڈر اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا ۔

اوپر والا گریبان لرزتی انگلیوں سے کھولتا وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا تھا۔

خانوش ساکت فضا میں ایک دم سے فون کا شور بہت چبا تھا ۔

خود کو کمپوز کرتا وہ لگتار بجتے فون کی طرف تیز قدموں سے بڑھا تھا ۔

سکرین پر شہنام کالنگ لکھا آرہا تھا۔

شہنام کا نام دیکھ کر وہ کچھ ساعت کو بے دھیانی سے نمبر کو دیکھتا رہا ،

پھر گہرا سانس خارج کرتا یس کا بٹن دبا کر وہ کان سے لگا گیا تھا۔

بولو شہنام ۔

سردار غاذان ساکت ہوا تھا اسکی بات پر ۔

تم کہاں تھے ۔

بھینچے ہوئے لہجے میں وہ بہت مشکل سے بول پایا تھا ۔

آگے سے پتا نہیں کیا کہا گیا تھا کہ وہ سختی سے ہونٹ بھینچ گیا تھا ۔


کہاں ہو تم اس وقت ؟


اننتہائی سرد لہجہ تھا اسکا میلوں دور کھڑا وجود اسکا سرد لہجہ محسوس کر کے اور زیادہ پریشان ہو چکا تھا۔

فون بند کر کے وہ تیز قدموں سے باہر کی طرف دوڑا تھا ۔

سارا محل رات کے اندھیرا میں ڈوبا ہوا تھا وہ دوڑتا ہوا سیڑیاں اتر رہا تھا ۔

چہرے کے تاثرات سرد سے تھے پتا نہیں لگ رہا تھا کہ اسکے اندر کیا کیا چل رہا تھا ۔

باہر والے لاونج میں سہیر اور تیمور صاحب بیٹھے ہوئے تھے انکے آگے چائے کے کپس اور فائلیں رکھیں ہوئیں تھیں۔

خادم جو لاونج کی چیئر پر بیٹھا ہوا تھا عجلت سے اسے باہر آتے دیکھ کر وہ چوکس سا کھڑا ہوا تھا۔

غاذان کیا ہوا ہے کہاں جا رہے ہو اس وقت۔

تیمور صاحب نے اسے بھاگتے دیکھ کر پریشانی سے پوچھا تھا۔

وہ خود پر ضبط کرتا رکا تھا کہ باپ کی بات کی جواب دینا لازم تھا اس پر۔

ڈیڈ ایک ضروری کام آگیا ہے آوٹ آف سٹی جا رہا ہوں بعد میں تفصیل سے بات ہو گئی اللہ خافظ۔۔

سنجیدگی سے کہتا وہ گاڑی کی طرف دوڑا تھا گاڑدز اسے دیکھ کر پہلے سے ہی چوکنا کھڑے تھے ،

اسکے بیٹھتے ہی گاڑیاں سٹارٹ ہوتیں رات کے وقت میں نکل چکیں تھی انجانی منزل کی طرف۔


بھائی صاحب بات کوئی بڑی ہے ورنہ سردار ایسا رئیکٹ کب کرتا ہے۔

سہیر خانم دوبارہ بیٹھتے ہوئے بولے تھے۔

ہاں ایسا ہی لگ رہا ہے مجھے بھی۔

تیمور صاحب سہیر خانم کو کہہ نہیں سکے تھے کہ ایسی پریشانی تو تب ہی دیکھنے کو ملتی تھی جب اس لڑکی پر کوئی پریشانی نازل ہو چکی ہو تو کیا وہ اس وقت اس لڑکی کے پاس گیا تھا کیا وہ لڑکی کسی مصیبت میں تھی۔۔


چائے کے سپ لیتے وہ بے دھیانی میں اسی لڑکی کے بارے میں سوچ رہے تھے آخر باپ تھے بیٹے کو اچھے سے جانتے تھے۔

🍂🍂🍂🍀🍂🍂🍂🍀🍂🍂🍂


اپنے پرائیوٹ جیک سے وہ ایک گھنٹے میں مری میں تھا ۔

شہنام جو بے حال سا کھڑا تھا اسی پارک کے مین اینٹرس سے گاڑد پیچھے لیے وہ ایک شان سے تیز قدموں سے چلتا شہنام کے قریب آچکا تھا۔

ہیر کہاں ہے؟

اسکے قریب آتا وہ عجیب ٹھنڈے لہجے میں پوچھ رہا تھا ,

کہ شہنام کی ریڑ کی ہڈی میں سنسنی خیز سی لہر دوڑ گئی تھی۔

وہ یہی تھی کہ۔۔۔۔

چٹاخ !

سردار کے بھاری تھپڑ پر آس پاس کھڑے سٹوڈینٹ سمیٹ ٹیچرز بھی حیرت سے دنگ ہوئے تھے ۔

جبکہ شہنام گال پر ہاتھ رکھے حیرت سے سردار غاذان کا پہلی بار مشتعل سا روپ دیکھ رہا تھا ۔


یہی تھی پھر کہاں گئی وہ تمہارے ساتھ بھیجا تھا نا پھر کیوں نہیں رکھا اسکا خیال ،یاد رکھنا اگر اسے کچھ ہوا تّو اپنا انجام بھی سوچ رکھنا تم ،

ڈھونڈ تو میں لوں گا اسے لیکن اسکی ساری تکلیفوں کا حساب تم دو گئے تمہارے ساتھ تم پر بھروسہ کر کے اس معصوم کمزور لڑکی کو بھیجا تھا تم نے اسکا نام بنا پوچھے لکھوا دیا تھا تم نے مجبور کیا وہ مجھ سے اجازت لے ورنہ وہ مجھے سے کبھی نا کہتی اور نا میں اسے اجازت دیتا۔


وہ بول نہیں چیخ رہا تھا ۔

جبکہ شہنام گھم صم کھڑا اپنے کزن کا دیوانہ اور آگ برساتا روپ دیکھ رہا تھا ۔

میری غلطی ہے سردار لیکن اتنی نہیں ہے وہ مجھے بتائے بنا اس ندی کی طرف چلی گئی تھی مجھے اسکا میسج آیا تھا کہ وہ کیفے جا رہی ہے تو ہم سب بھی چلے گئے مجھے کیا پتا تھا وہ یہی کہی تھی اسنے جھوٹ بولا تھا ۔۔


وہ تیز قدموں سے چلتے سردار کے پیچھے دوڑتا ہوا اپنی صفائی دے رہا تھا ۔

لیکن وہ کونسا اسکی سن رہا تھا ۔۔

سب سٹوڈینٹ پریشان تھے لڑکیوں کو ہوٹل بھیحوا دیا گیا تھا ,

ندی اندھیرے میں صاف شفاف خوبصورت لگ رہی تھی وہ اس ندی کو دیکھ کر چونکا تھا یہ وہی ندی تھی جیسی اسنے خواب میں دیکھی تھی۔

غاذان نے ضبط سے آنکھیں میچیں تھیں۔

اففف اس لڑکی کو کچھ نا ہو میرے خدا ورنہ میں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکوں گا وہ میری زمے داری تھی میں کیسے اپنی زمے داری کسی اور کو سونپ گیا غلطی میری ہی تھی مجھے اختیاط کرنی چاہئیے تھی ..

بہتی ندی پر نظریں جمائے وہ ساکت تھا ۔


سردار انکا میسج رسیو ہوا تھا شہنام کو کہ اوپر سڑک پر ٹی کیفے ہے وہ وہی جا رہیں تم سب بھی آجاو ہم چلے گئے لیکن وہ ہمیں وہاں نہیں ملی تھی بس میں بھی دیکھ لیا انکا فون ٹرائے کیا لیکن رسپونس صفر رہا سو ہم سب یہی چلے آئے اسی پارک میں ہم سب گروپ کی شکل میں انکی تلاش میں تھے کہ کچھ سٹوڈینٹ کو ندی کے پاس انکی چادر اور گرا ہوا بیگ ملا تھا اور انکی چپل ندی کی جھاڑیوں میں پھنسی ہوئی ملی ہے وہ شاید سلپ ہو کہ ندی میں گر چکیں ہیں ۔

ہم نے یہاں کی انتظامہ سے مدد لی ہے پتا چل جائے گا مس ہیر رضا کا ۔


بڑی عمر کا ٹیچر پریشان حال کھڑے سردار کو تفصیل سے بتا رہا تھا۔


کہاں جاتا ہے اس ندی کا پانی ۔

وہ وہاں کی انتظامیہ سے درشتگی سے مخاطب تھا۔

جی یہ پانی تو تین چار جگہوں پر جاتا ہے ہم ٹرائے کر رہے ہیں ۔


مجھے تم لوگوں کا ٹرائے نہِیں چاہئے سمجھے مجھے میری ہیر چاہئے ۔

وہ ایک دم مشتعل سا چیخا تھا۔

جس پر سب حیرت سے اسے دیکھنے لگے تھے لیکن شہنام تو پتھر کا بن چکا تھا اسکے الفاظ سے میری ہیر تو کیا سردار ہیر کو لائیک کرتے ہیں۔

وہ حیرت سے بڑبڑایا تھا وہ انکے رشتے سے انجان تھا وہ تو صرف ہمدری کا رشتہ سمجھا تھا لیکن یہاں تو اسے کچھ اور ہی نظر آرہا تھا۔

ہم چل رہے ہیں تینوں جگہوں پر مین تو جنگل کی طرف ہے باقی دو دور ہیں لیکن زیادہ پانی جنگل کے پاس بہت بڑی نہر ہے وہی ہوتا ہے ۔


انتظامیہ کا ایک خاص آدمی بہت سنبھل کر بولا تھا ۔

نہر کی طرف چلو۔

وہ کہتے ہی بھاگا تھا پیچھے سب گاڑڈز بھی تھے ۔

میرے پیچھے کوئی نا آئے صرف انتظامیہ اور میرے گارڈز انف از انف۔


وہ درشتگی سے کہتا اوپر سڑک پر کھڑی گاڑی کی سمت تیزی سے دوڑا تھا ۔

ہیر کو تیرنا نہیں آتا تو کیا نہیں نہیں یہ میں کیا سوچ رہا ہوں وہ ٹھیک ہو گئی۔


گاڑی کے شیشے سے باہر کی طرف دیکھتا وہ سوچ رہا تھا ۔

خادم خود بہت پریشان تھا سردار غاذان کو تسلی دیتا وہ ہیر کو مرا ہوا ہی سمجھ رہا تھا ،

وہ بھی اُسی وقت سمجھ چکا تھا جب سردار غاذان عجلت میں گھر سے نکلا تھا وہ جان گیا تھا کہ ضرور ہیر مشکل میں ہے ۔

سردار وہ مل جائیں گئی نا۔

خادم نے پہلی بار لب کشائی کی تھی۔

ہاں۔

بنا اسے دیکھے وہ یقین سے بولا تھا کہ اسکے یقین پر خادم دنگ ہوا تھا خلانکہ وہ بھی جانتا تھا اس لڑکی کو تیرنا نہیں آتا تھا اور پانی کے تیز بہاو میں وہ بھلا کہاں زندہ رہ پائی ہو گئی ۔


🍂🍂🍂🍀🍂🍂🍂🍀🍂🍂🍂🍀

یہ شام کا وقت تھا جب ایک لڑکا جو کہ تقریباً بیس کا تھا اور ایک بوڑھی عورت جو کہ دیکھنے میں پچپن کی لگتی تھی سر پر لکڑیوں کی گٹھڑی رکھے ہاتھ میں دودھ کی بالٹی پکڑے غالباً گھر کی طرف رواں تھے ۔


اماں اس بار تو فصل اچھی ہے اچھے داموں میں فروخت کروں گا ۔

وہ لڑکا پرجوش سے لب و لہجے میں ماں سے مخاطب تھا اسکے ہاتھ میں کلہاڑی اور پرانی چادر تھی۔


بچے جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے جو اس سوہنے رب کو منظور ہو گا وہی ہو گا تو پہلے سے کیوں سوچ رکھنا جب چلنی اسی واحد زات کی ہے ۔


وہ عورت دھیمی مسکان سے بیٹے کو سمجھا رہی تھی ۔

بیٹے نے سر ہلا کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا لڑکے کے ساتھ ایک چھوٹا سا کتا تھا جو اسکے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

وہ ڈھلوان اترتے نیچے نہر کے قریب سے گزرتے گھر کی طرف جا رہے تھے جب کتے نے اچانک ہی بھوکنا شروع کر دیا تھا۔

کیا ہوا شہزادے۔

وہ لڑکا لگتار بھوکتے کتے سے مخاطب تھا ۔

کتا بھاگتا ہوا پتھروں پر پڑے بے جان وجود کی طرف دوڑا تھا ۔

رات کا گہرا اندھیرا چار سوں پھیل چکا تھا لیکن اندھیرا اتنا بھی گہرا نہیں تھا کہ اوپر پہاڑی پر لوگوں کے گھر تھے جہاں لگے بڑے بڑے زرد بلبوں کی روشنی نیچے تک آرہی تھی تو پھر اس کتے کی نظر اس وجود پر کیسے نا پڑتی جو کنارے سے لگا بے جان سا تھا شاید۔

وہ نہر کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ان دونوں کی بھی نظر اس وجود پر اچانک ہی پڑی تھی ۔۔


اماں !

وہ لڑکا شاید ڈر گیا تھا اسلیے ماں کے ساتھ ہوا تھا ۔

جبکہ وہ عورت لڑکیوں کو نیچے پھینکتی اس طرف بھاگی تھی جہاں وہ سرد وجود ساکت سا پڑا ہوا تھا۔

وہ لڑکا بھی ماں کے پیچھے ہی بھاگا تھا ۔

نہر کے کنارے ایک ٹھنڈا اکڑا وجود شاید اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا۔

وہ عورت اسکی سرد کلائی پکڑ کر شاید اس میں زندگی کی کوئی رمق محسوس کرنا چاہ رہی تھیں۔

جانی جلدی کر اسے گھر لے کر جانا ہے ورنہ یہ مر جائے گئی ۔

وہ عورت ساکت کھڑے لڑکے سے مخاطب تھی۔

وہ لڑکا حیرانگی سے نازک سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔

شاید اوپر سے کہی پانی میں گر گئی ہو گئی ۔

وہ عورت بولتی ہی اس لڑکی کو اپنے بازو کے دم پر کھینچتی گھاس پر لے آئی تھی ۔

جانی جلدی کر لڑکی کا وجود بہت زیادہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے اور لگتا ہے پانی بھی ناک اور منہ سے اندر چلا گِیا ہے تم بھاگ کر اپنی ریڑی لے آ میں جب تک اسکے اندر سے پانی نکلاتی ہوں۔

وہ عورت لڑکی کو سیدھا کرتی ہونق بنے اپنے لڑکے سے مخاطب تھی وہ لڑکا سر ہلاتا تیزی سے وہاں سے بھاگا تھا ۔


وہ عورت اسکے ناک کے آگے ہاتھ رکھے اسکی مدھم سانسیں محسوس کرتی اسے الٹآ لٹا کر کمر پر ہاتھوں کا دباو ڈالتی پانی نکال رہی تھی پانی اسکے منہ اور ناک سے باہر بہنے لگا تھا ۔


دس منٹ بعد جانی اپنی گدھا گاڑی لے آیا تھا ۔

ان ماں بیٹے نے اسے اوپر لٹایا اور جلدی سے گھر والے راستے پر گدھے کو بھاگنا شروع کر دیا تھا ۔


اسے اندر نرم گرم چارپائی پر لٹا کر وہ اس کے اوپر لحاف ڈال چکی تھی لڑکی کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا تھا ۔


اماں لڑکی بہت ٹھنڈی ہے اور اسکے ہونٹ دیکھ کیسے نیلے ہو گئے ہیں ۔

وہ لڑکا پریشانی سے بولا ۔

ہاں پتا نہیں بے چاری کب سے وہاں اس پانی میں پڑی ہوئی تھی سچ پوچھو تو مجھے اس پر اتنا ترس آرہا ہے کہ بتا نہیں سکتی ک تجھے اللہ اسے زندگی دے ابھی اسکی عمر ہی کیا ہے ۔


وہ عورت لحاف ٹھیک سے اس پر اوڑھتی مٹی کی تیل والے چولہے پر پانی گرم کرنا رکھ چکی تھی ،۔۔


یہ جھونپڑی نما ایک کمرہ تھا جہاں چارپائی پر وہ کمزور سی لڑکی خود سے بیگانہ ہاتھ پاوں چھوڑے پڑی ہوئی تھی اس کی زرد رنگت سے اس میں زندگی کی رمق بہت کم نظر آتی تھی ۔


اماں مجھے لگتا ہے مر گئی ہے یہ۔

وہ لڑکا پریشانی سے بولا ۔

اس عورت نے پریشانی سے اس لڑکی کی ٹھنڈی پیشانی چھوئی تھی ،

پھر اسکی نبض ٹٹولی تھی ۔

نہیں زندہ ہے ابھی تم جاو فیقے حکیم کو بلا لاو وہ بہت سیانا ہے جلدی بھاگ جا سائیکل پر جانا ۔

وہ عورت اس لڑکی پر لحاف کے اوپر ہی سے گرم کھیس ڈالتی ہوئی اپنے بیٹے سے مخاطب تھی ۔

وہ لڑکا سر ہلاتا ہوا عجلت سے باہر بھاگ گیا تھا ۔


اس کمزور سی لڑکی کے چہرے پر زخموں کے نشان بہت واضع تھے زخموں پر سے خون سوکھ چکا تھا نچلے ہونٹ کا کنارہ بہت زخمی تھا شاید وہاں کوئی نوکیلی چیز چبی تھی۔ ،

اس عورت کو اس لڑکی پر بے پناہ ترس آیا تھا پھر گرم پانی سے اسکے زخموں کو صاف کرنے لگی تھی ۔

🍂🍂🍂🍀🍂🍂🍂🍀🍂🍂🍂


وہ بیس منٹ سے گہرے اندھیرے میں اس نہر کے اندر تھا سب نے منع کیا کہ یہاں بہت زہریلے کیڑے ہیں ہو سکتا ہے اندر سانپ بھی ہوں لیکن وہ ٹھنڈی ٹھاڑ نہر میں خود کود گیا تھا شہنام بھی نہر کے چاروں طرف گھوم پھر آیا تھا ,

پانی کے اندر گھم وجود کو جسکا وجود مطلوب تھا وہ ملا نہیں تھا ۔

خادم فون کرو انتظامیہ کو شاید وہ اس طرف بہہ گِی ہو۔

وہ باہر آتا گہرے گہرے سانس لیتا ہوا پریشانی سے بولا ۔

اتنی ٹھنڈ تھی اور اسے پریشانی میں محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی بھیگی شرٹ اسکے جسم سے چپک چکی تھی ۔


جی سردار ۔

وہ انکا نمبر لے چکا تھا اس لیے انہیں فون ملا گیا تھا ۔

بہت روشنی ہو گئی تھی نہر کے کنارے کے ان سب کے ہاتھوں میں سو واٹ والی لائٹیں تھیں کچھ کے ہاتھوں میں موبائل ٹارچ تھیں۔

دونوں ہاتھ کمر پر رکھے وہ درزیدہ نگاہوں سے اچھلتے کودتے پانی کو دیکھ رہا تھا ۔

نہیں سردار ان دونوں جگہوں پر بھی ابھی کچھ نہیں ملا ۔

خادم بے بسی سے بولا تھا۔

وہ ہونٹ بھینچتا قہر بھری نظروں سے شہنام کو دیکھنے لگا تھا جواباً وہ دور جا کھڑا ہوا تھا پریشان تو وہ بھی بہت تھا۔

سردار ہمیں آس پاس کے لوگوں سے پوچھنا چاہئے شاید کسی نے دیکھا ہو یا شاید کسی کو کچھ پتا ہو۔

خادم سردار کی حالت کو پریشانی سے دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا۔

پھیل جاو اس علاقے میں سب کے گھروں میں جا کر پتا کرو۔

وہ بنا انکی طرف پلٹے حکم دیتا پانی کو ہی دیکھ رہا تھا ۔

اور آپ سردار۔

شہنام نے درتے ڈرتے پوچھا تھا ۔

شٹ اپ تمہاری آواز نا آئے اب مجھے ۔

وہ اچانک ہی درشتگی سے بولتا ہنوز ساکت کھڑا رہا ۔

وہ سب اُدھر سے چلے گئے تھے ۔

ہیر !

وہ انکے دور جانے کا یقین کرتا غم سے چور آواز مِیں چلایا تھا ۔

خاموش ویرانے میں اسکی آواز پلٹ کر اسے کے پاس ہی گونجی تھی ۔

میں نا اہل ہوں ہیر تمہاری زمے داری آج تک میں ٹھیک سے نبھا ہی نہیں پایا تمہاری زمے داری مجھے نہیں سونپنی چاہئے تھی میں ایک اچھا پوٹیکٹر نہیں ہوں ہیر ۔

وہ وہی بِیٹھتا ہوا مدھم لہجے میں بولا تھا۔۔

چاند کی خفیف روشنی میں اسکی نظر اچانک ہی ساکت ہوئی تھی ۔

ڈیڈھ انچ اُگے گھاس پر ایک ہلکے سرمئی کلر کا وہ بھاری جھمکا تھا ،

شاید انہوں نے جب ہیر کو کھینچا تھا تب وہ گِرا تھا ۔

وہ لرزتی دو انگلیوں سے وہ جھمکا اٹھا چکا تھا ۔

اسنے اس جھمکے کو اسکے کان میں نہیں دیکھا تھا لیکن وہ جانتا تھا یہ جھمکا اسکی ہیر کا ہی ہے اسے ہی تو ایسے جھمکے پسند تھے ۔

لب بھینچے وہ اچانک ہی اٹھتا بائیں طرف جاتے راستے کی طرف بڑھا تھا ۔

🍀🍀🍂🍀🍀🍂🍀🍀🍂🍀🍀🍂

لڑکی کافی دیر ٹھنڈ میں پڑی رہی ہے شاید ,

جکیم اسے چیک کرتا فکر مندی سے بولا تھا ۔

تو پھر کیا کریں حکیم جی۔

وہ عورت پریشانی سے بولی تھی ۔

اسے زیادہ سے زیادہ گرمائش کی ضرورت ہے تم نے ٹھیک کیا جو اسکے اندر سے پانی نکال دیا ورنہ مر جاتی اب تک ، تم اسے گرم دودھ کے ساتھ یہ دوا دو رب نے چاہا تو شفا پائے گئی ورنہ جو اللہ کو منظور۔

وہ بوڑھا آدمی زرد روشنی میں اس زرد رنگت والی لڑکی کو دیکھتا ہوا بولا تھا۔

جانی جاو حکیم صاحب کو چھوڑ آو ۔

عورت دودھ سٹیل کی پتیلی مِیں ڈالتی بیٹے سے بولی تھی ۔

جانی اور حکیم صاحب کے جانے کے بعد وہ عورت کپڑا گرم کر کے اسکی سرد پیشانی میں رکھنے لگی تھی۔


سرد۔۔۔

ہونٹ ہلکے سے کانپے تھے۔

وہ عورت سرعت سے اسکے نزدیک جھکی تھی ۔

بیٹی ۔

وہ عورت گرم پٹی اسکے سرد یخ ہاتھوں پر رکھتی ہوئی بولی تھی ۔

سردا۔۔۔

ہونٹ پھر سے کانپے تھے ۔

چچچ بے چاری پتا نہیں کہاں سے آِئی ہے کیسے گر گی ندی میں پتا نہِیں اسکے گھر والوں کی کیا حالت ہو گئی۔

گرم دودھ سٹیل کے گلاس میں ڈالتی وہ عورت تاسف سے بولی تھی۔

🍁🍁🍁🍁🍀🍁🍁🍁🍀🍁🍁


بہت تیز چلتا وہ جنگل سے نکل کر ایک کھلی جگہ پر آچکا تھا جہاں آبادی کم تھی صرف گنتی کے سات آٹھ گھر تھے۔

ایک لڑکا اور ایک بزرگ سائیکل میں اسکے پاس سے گزر گئے تھے۔

چہرہ تھکن سے چور تھا ہونٹ بھینچے وہ آگے بڑھا تھا،

جب وہی لڑکا سائیل پر دوبارہ آتا دیکھا تھا اسے ۔

کنپٹی دباتا وہ اس لڑکے کو رکنے کا اشارا کر گیا تھا ۔۔

وہ لڑکا حیرانی سے اس خوبصورت مرد کو دیکھتا اسکے قریب آچکا تھا۔

🍁🍁🍁🍁🍀🍁🍁🍁🍀🍁🍁🍁

مہرینہ نے حیرت سے خیام کو دیکھا جسکے ماتھے پر دو انچ جتنا زخم کا نشان تھا بال ماتھے پر بکھڑے بیگ ٹیبل پر رکھتا وہ اسے اسلام کر رہا تھا ۔

کیا ہوا ہے تمہیں یہ چوٹ کیسے لگی۔

اسکے نڈھال چہرے کو دیکھتی وہ پریشانی سے بولتی خیام کو خود کو دیکھنے پر مجبور کر گئی تھی ۔

ہلکی سی مسکان ہونٹوں پر سجاتا وہ اسکے قریب سے گزرتا جگ سے پانی انڈھیل کر پینے لگا تھا۔

میں نے تمہیں کوئی لطیفہ تو نہیں سنایا تھا جو ہنس دئیے ہو۔۔

وہ اسکے پیچھے کھڑی ہوتی تیکھے لہجے میں بولی تھی ۔

بس زرا سی چوٹ ہے مائے ڈیئر ۔

دھیمے سے کہتا وہ صوفے پر گر سا گیا تھا۔

مائے ڈیئر کیا ہوتا ہے بات سنو مہرینہ ہوں میں تو اسی نام سے پکارو عمر دیکھو اپنی اور حرکتیں دیکھو لائن مار رہو مجھ پر۔

لاونج میں پڑے ٹیبل کے دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر لاتی وہ خاصے غصے سے مخاطب تھی ۔

وہ جواباً اسے دیکھتا پھر سے ہنس دیا تھا ۔

بیوی پر کون لائن مارتا ہے لاِئن تو گرل فرینڈ پر ماری جاتی یے۔

وہ مخفوظ ہوتی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا شرارت سے بولا ۔

اسکی چوٹ پر بینڈیج لگاتا ہاتھ رکا تھا ۔

گرل فرینڈ ہے تمہاری کوِئی۔

وہ سپاٹ سے انداز میں پوچھ رہی تھی۔

ہاں ایک دو ہے آپکو کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا۔

وہ سنحیدہ ہوتا ہوا پوچھ رہا تھا۔

ؓیری جوتی کو بھی اعتراض نہیں میری طرف سے ان سے شادی کر لو آئی ڈونٹ کیٙر۔

غصے سے کہتی بنا اسے بینڈیج لگائے وہ پیر پٹخ کر چلی گئی تھی۔

نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے وہ شرارت سے اس کمرے کو دیکھ رہا تھا جہاں وہ گئی تھی۔

آپی کا فون نہیں آیا آج۔

فون نکالتا وہ فکرمندی سے بولتا ہیر کا نمبر ڈائل کر گیا تھا جو ان ریچبل جا رہا تھا ۔

وہ اب پریشان ہوتا سردار غاذان کا نمبر ملا چکا تھا انکا بھی فون بند جارہا تھا ۔

خیر ہو ۔

وہ اب صحیح معنوں میں پریشان ہونے لگا تھا۔ناشتے میں سڑے ہوئے ٹوس ہی لیے رہ گئے ہیں میرے۔

وہ ٹھیک ٹھاک ٹوس پلیٹ میں پھینک کر کل والا غصہ نکلانے لگی تھی ۔

خیام نے بھنویں سکیڑیں پھر سر ہلا گیا۔

تو آپ خود اپنے لیے کیوں نہیں بنا لیتی میری بنائی ہر چیز میں نقص تو آپ نے لازمی نکالنا ہوتا ہے شکر کیا کریں اللہ نے کتنا اچھا شوہر دیا ہے آپکو۔

وہ چائے کا آخری گھونٹ خلق سے اتارتا ہوا بولا۔

میں کیوں بناوں میں تو اپنے محل میں بیڈ سے اٹھ کر خود پانی تک نہیں پیتی تھی اور شوہر تو دیکھو زرا ہننن۔۔

وہ غرور سے کہتی آخر میں منہ بنا کر رہ گئی تھی۔

اسنے مصنوعی حیرانگی سے اسے دیکھا۔

مہرینہ آپکے گھر میں کافی عرصہ جاب کی ہے دو وقت کی چائے اور مہمانوں کی خاطر تواضع بھی آپکے زمے ہی تھی ۔

وہ بڑے آرام سے بولا تھا ۔

تو تم کیا وہاں تانکا جھانکا کرنے جاتے تھے میں پہلے ہی جانتی تھی کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے تھے تم ۔

وہ چائے کپ میں انڈھلیتی ہوئی بولی۔


وہ مسکرایا۔

مہرینہ آپ مجھ سے لڑنا چاہتی ہیں۔

وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

میں کوئی لڑاکی ہوں جو لڑنا چاہوں گئی مجھے تو لڑنا ہی نہیں آتا خیر چھّوڑو آج مجھے محل چھوڑتے جانا ۔

وہ ناشتے سے بھرپور انصاف کرتی ہوئی بولی۔


وہ ہاں میں سر ہلاتا اسکے تیکھے نقوش کو دیکھے گیا ۔

نظر ہٹا لو تم نظر نا لگا دینا کہی مجھے ۔

وہ اسکی نظروں کی ارتکاز پر خفا ہوئی ۔

وہ کھل کر مسکراتا ہوا اٹھا تھا ۔

مہرینہ نے تیکھی نظروں سے اسکی مسکراہٹ دیکھی ۔

_______________________


گاڑیاں ایئرپورٹ کی شاندار پارکنگ میں ایک قطار میں رکیں تھیں ۔

وہ گارڈز کے ڈور کھولنے سے پہلی ہی باہر آچکا تھا ۔

بلیک کوٹ کا بٹن بند کرتا وہ عجلت میں عمارت کے اندر کی طرف بڑھنے لگا تھا عجلت میں بھی وہ ہیر کا ہاتھ پکڑنا نہیں بھولا تھا ۔

وہ تقریباً بھاگ کر اسکے تیز رفطار قدموں کا ساتھ دے رہی تھی۔


گارڈز باہر ہی رک چکے تھے جبکہ خادم ساتھ ہی تھا دو تین قدم پیچھے ۔

سامنے ہی ویٹنگ ایریا میں وہ بلیک نفیس سوٹ پر بلیک بڑا سا سرخ کڑھائی والا دوپٹہ لیے کالا ہینڈ بیگ کالی ہی فلیٹ چپل کلائیوں میں نفیس سے دو سنہری کنگن ایک انگھوٹی سادہ سی وہ عورت بہت نفیس اور کہی سے بھی ایک جوان بیٹے کی ماں نہیں لگتی تھی ۔

موم۔

وہ شدتِ جذبات سے انہیں پکارتا تیزی سے انکی طرف بڑھا تھا ۔

وہ بھی اٹھ کر بے ساختہ اسکے سینے سے لگتیں نم آنکھوں سے اسکا سینہ پھر اسکا ماتھا سر چوم رہیں تھیں انکا قد درمیانہ تھا تو وہ جھکا ہوا تھا ,

اب وہ ماں کے ہاتھ اور پیشانی چومتا دھیمے دھیمے مسکرا رہا تھا ۔

کیسیں ہیں آپ۔

وہ محبت و اخترام سے پوچھ رہا تھا۔

کیسی ہو سکتی ہوں تمہارے بنا ۔

وہ بھیگے سے لہجے میں سوالیہ سے انداز میں پوچھ رہیں تھیں۔


وہ جواباً پھر سے انکے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگا گیا۔

آپ روح ہیں غاذان تیمور کی آپ خود یہاں آنا نہیں چاہتیں تھیں میں بھی بہت مس کرتا ہوں آپکو یار۔

وہ خوشی میں انہیں ہمشہ یار ہی کہتا تھا ۔

رائنہ کی نگاہیں دو قدم پیچھے کھڑے وجود پر بے ساختہ پڑیں تھیں۔

وہ مسکرا دیں ۔

وہ نیلے سے ملگجے سوٹ میں نروس سی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔

ارے ہیر بیٹا آپ غاذان آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔

وہ بے ساختہ کہتیں ٹھیک جیسے غاذان کو سینے سے لگایا تھا ویسے ہی اسے بھی لگا گئیں ۔

ہیر کو ان سے ممتا کی خوشبو آئی تھی۔

آپ کیسیں ہیں انٹی۔

وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

میں ٹھیک ہوں بیٹا آپ تھوڑی مجھے کمزور لگ رہیں ہیں۔

وہ فکرمندی سے اسکے گال چھوتیں ہوِیں گویا ہوئی ۔

وہ یونی سے سکول جاتی ہوں نا پھر پڑھنا لکھنا تو اس لیے کمزور ہو گئیں ہوں پہلے سے۔

وہ جو دونوں ہاتھ پاکٹس میں گھسائے دھیمی مسکان سے ساس بہو کو دیکھ رہا تھا زور سے ہنسا ۔

رائنہ بھی اسکی معصومیت پر ہنس دیں ۔

ہیر پزل سی ہوئی دونوں کی شرارتی مسکان پر۔

موم چلیں آپ تھک گئی ہوں گئی۔

وہ انکے کندھے تھامے پوچھ رہا تھا ۔

وہ تینوں باہر کے خارجی ڈور کی طرف بڑھے تھے سامان پیچھے خادم لے کر آ رہا تھا ۔

_______________________


گاڑِی سے اترتی وہ کچھ دیر سپاٹ نظروں سے طویل قامت عمارت کو دیکھتی رہی پھر ہونٹ بھینچ کر اندر کی طرف آئی ۔

سامنے ہی نوشین شرمین بیٹھی کوئی شو دیکھ رہیں تھی جبکہ لڑکیاں نیچے کارپٹ پر بیٹھیں خریدے ہوئے کپڑوں پر تبصرہ کر رہیں تھیں۔

اسلام علیکم مامی جی۔

وہ مصنوعی مسکان ہونٹوں پر سجاتی ہوئی اندر آئی تھی۔

سب نے چونک کر شائنہ کو دیکھا جو فیروزی اور نیلے کمبینشن نفیس سوٹ پر ہاف وائٹ سلک کی بھاری کام والی چادر لیے ہوئے تھی ۔

وعلیکم اسلام بیٹا آو آو آج اتنے دنوں بعد چکر لگایا۔

دنوں مامیاں کھڑی ہوتی ہوئیں مسکرا کر بولیں۔

بس بزی تھی سٹڈی میں۔

وہ شانے اچکا کر کہتی ہوئی مہرون صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مغرور تاثرات چہرے پر سجائے ہوئے بیٹھی تھی۔

ہائے شائنی۔

وہ سب باری باری مسکراتے ہوئے بولیں۔

ہائے کیا کر رہی ہو تم لوگ۔

وہ ڈھیر سارے شاپنگ بیگز دیکھ کر ایسے ہی پوچھنے لگی تھی ۔

بس کل شاپنگ کی تھی تو وہی دیکھ رہیں تھیں۔

سفینہ نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔

اس کزن کی شروع سے ہی اس گھر میں بہت عزت اور روعب تھا جو کہ انکے والدین کے بل بوتے پر تھا.

ہممم مامی کچھ پلائیں ہی دیں کیا مجھے اب کہہ کر کھانا پینا مانگنا ہو گا ۔

وہ سرد سی مسکان سے پوچھنے لگی تھی۔

نوشین اور شرمین ہڑبڑا گیِں تھیں۔

ارے بیٹا کیوں مانگ کر سب کچھ ملے گا بس تم اتنے دنوں بعد آئی ہو تو بیٹھ گئی تمہارے پاس اور خیال نہیں رہا ہم ابھی کچھ کھانے پینے کا ابندوبست کرتیں ہیں چلو شرمین۔

نوشین کہہ کر جلدی سے کچن کی طرف بڑھ گئی پیچھے شرمین بھی چلی گئی۔

ویسے شاپنگ اتنی جلدی اور اس بار مجھے بتایا بھی نہیں۔

وہ ملازمہ سے پانی کا گلاس پکڑتی ہوئی بولی۔

ارے مت پوچھیں شاپنگ کا کل ہمارے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔۔

صدا کی بے وقوف باتونی صفا نے منٹوں میں اسے شاہ میر اور جو جو کل ہوا وہ بتا دیا تھا۔

شائنہ سے پانی خلق میں اتارنا مشکل ہوا تھا ۔

مہدیہ نے صفا کو تگڑی گھوری سے نوازا بھلا کیا ضرورت تھی اس جیلسی ککڑی کو بتانے کی ۔

او تو وہ نوکرانی اب تم لوگوں کے ساتھ شاپنگ پر جاتی ہے اور اسکے پاس اتنے پیسے تھے کہ اسنے تم لوگوں کی شاپنگ کی پے بھی کر دی واوا بھئی واوا وہ بھکارن اسی لیے تو یہاں ٹکی ہوئی ہے ۔

وہ زہرخند لہجے میں پھنکاری تھی۔

ویسے وہ اب بھکارن نہیں اس محل کی مالکن ہے شائنہ بی بی جلا تھوڑا کم کرو ورنہ رنگ تو تمہارا پہلے ہی کملانے لگا ہے ایسا نا ہو جل جل کر کالی بوتنی بن جاو اپنا خیال رکھا کرو نا شائنہ ۔


اس سے پہلے مہدیہ کچھ کہتی داخلی دروازے سے اندر آتی مہرینہ استہزایہ بولی تھی۔

شائنہ نے چونک کر اسے دیکھا ۔

وہ ہمیشہ کی طرح بالوں کی پونی بنائے بلیو جینز پر لمبا سکن کرتا پہنے چادر کو کندھوں کے گرد لپیٹے پہلے والی ہی مہرینہ لگ رہی تھی مسکراہٹ جل جلانے والی ہونٹوں پر ہنوز رقم تھی ۔

تمہیں اس گھر میں آنے کی اجازت کس نے دی ہے۔

وہ کھڑی ہوتی نفرت سے بولی ۔

میرا گھر ہے شائنہ کیا بھول گئی ہو۔

وہ سب لڑکیوں سے ہاتھ ملاتی ہوئی مسکرا کر بولی ۔

شائنہ نے ہونٹ بھینچے۔

پھر سینے پر ہاتھ باندھ کر سر ہلاتی ہوئی مسکرائی ۔

ذلگتا ہے تمہاری یاداشت کمزور ہو گئی ہے اس کمزور انسان کے ساتھ رہتے ہوئے اس محل سے تمہیں ہمشہ کے لیے نکال دیا گیا تھا لگتا ہے کچھ کھانے پہنے کے لیے نہیں ملتا تمہیں۔۔

وہ بھی استہزایہ بولی تھی۔

سب لڑکیاں کھڑی ہوتیں پریشانی سے ان دونوں کو دیکھ رہیں تھی۔


ارے میرا شوہر کمزور نہیں ہے اب تمہیں کیسے بتاوں مائے ڈیئر خیر میرا شوہر تو زبردستی مجھے اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلاتا ہے بہت ہی محبت کرتا ہے مجھ سے اب تمہیں اور کیا کیا بتاوں یونو تمہاری ابھی شادی جو نہیں ہوئی میں کہتی ہوں کروا لو ورنہ عمر نکل گئی تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔

اسکے کان کے پاس ہونٹ کرتی وہ شرارت سے بولی ۔

جبکہ شائنہ کا چہرہ ضبط و غصے سے لال پڑا۔

شٹ اپ ایڈیٹ تمہیں تو دیکھ لوں گئی میں یاد رکھنا تم۔

غصے سے کہتی وہ محل میں موجود اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

جبکہ لڑکیاں اب اسے اپنی اپنی شاپنگ دیکھانے لگیں تھی۔

شاہ میر کل رات کو دیر سے گھر آیا تھا اور آتے ہی اپنے کمرے میں گھس کر لاک لگا گیا تھا جو ابھی تک کھلا نہیں تھا جبکہ وہ سب انتظار میں تھیں اسکی درگت بنانے کو۔

_______________________


وہ اپنے شاندار اپارٹمنٹ میں انہیں لے آیا تھا ۔

رائنہ صوفے پر ریلکس سی بیٹھی بیٹے سے محو گفتگو تھیں جبکہ کچن میں چاِے بناتی وہ بڑی سی ونڈو جو لاونج میں کھلتی تھی چاِے بناتی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔

وہ دونوں ماں بیٹا ساتھ بیٹھے بہت اچھے لگ رہے تھے جیسے دو گہرے دوست ہوں ۔

وہ انکے قدموں میں بیٹھتا اپنا سر انکی گود میں رکھ گیا تھا ۔

رائنہ شفقت سے مسکراتی اسکے گھنے سنورے بالوں کو خراب کرنے لگیں تھی ان میں انگلیاں پھیر کر۔

تب ہی وہ چائے کے تین کپ بڑی سی ٹرے میں رکھے لے آئی ۔

ٹرے میں دو پلیٹیں تھیں ۔

ایک میں مختلف سائز کے بسکٹ تھے تو دوسرے میں نمکو تھی کبڈ میں چائے پتی ڈھونڈتے ہوئے اسے مل گئی تھی تو وہ لے آئی۔

انٹی چائے ۔

ٹرے انکے سامنے کرتی وہ دھیمے سے بولی۔

جیتی رہیں ۔

چائے کا کپ اٹھاتی وہ بولیں۔

غاذان صوفے پر بیٹھتا چائے لے کر ٹیبل پر رکھ گیا۔

ہیر بیٹا پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔

انہوں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

ہیر نے بے ساختہ انہیں دیکھا ۔

موم اسکی پڑھائی بہت اچھی جا رہی ہے، پہلے سمسٹر میں سوینٹی فائیو پرسنڈ مارکس آئے ہیں اسکے ۔

ہیر نے انکے جواب میں اچھی کہا تھا تو وہ جواباً اسکی تعریف ماں کے سامنے کر گیا۔

رائنہ بیٹے کو دیکھتی معنی خیزی سے سر ہلا گئیں ۔

اور دوسری بات اسکے کپڑوں پر بلکل مت توجہ دئیجے گا یہ سو رہی تھی تو میں ہیر کو زبردستی اٹھا کر لے آیا خلانکہ ہیر نے کہا چینج کا لیکن مجھے جلدی تھی سو اسی طرح سے لے آیا۔۔۔۔

وہ اس بار کہتا بھرے پور لہجے میں مسکرایا تھا جبکہ رائنہ قہقہ لگا گئیں۔

اور وہ شرمندہ ہوتی خفا سی نظروں سے سردار غاذان کو دیکھنے لگی۔

پھوپھی ،

پھوپھی ،

ویئر از مائے سویٹ پھوپھی۔


وہ اونچا اونچا بولتا ہوا گھر میں داخل ہوا تھا ۔

ہیر نے دہل کر اسے دیکھا وہ بھاگ کر انکی طرف ہی آرہا تھا اور آتے ہی انکی گود میں گھسنے کی پوری کوشش کی لیکن اتنا بڑا بچہ بھلا کہاں گود میں آسکتا تھا۔

ہیر ڈر کر کھڑی ہوتی تھوڑا دور ہوئی اس سے ۔

آپ نے مجھے آج دیکھا دیا کہ آپ کو آپکا بیٹا زیادہ پیارا ہے بھتیجا نظر نا آیا اطلاح دینے کے لیے ۔

وہ تھک ہار کر انسے جڑ کر بیٹھتا شکوہ کر رہا تھا۔

غاذان تیمور ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا لیکن نگاہوں میں نرمی تھی اپنے کزن کے لیے۔

آپ کو ہو سکتا ہے میں نے نا بتایا ہو آپکا فون جب کرو تب ہی بزی ملتا ہے اس میں قصور آپکا ہے بچے جی۔۔


وہ اسے گلے سے لگاتی ہوئیں بولیں۔

اسنے پریشانی سے اپنے سردار کزن کو دیکھ کر کان کھجائے۔

وہ اصل میں بینک والوں کی طرف سے ہوتا ہے ۔

وہ منمایا تھا ۔

کیوں تم بینک والوں کے رشتے دار لگتے ہو جو تجھ سے سارا دن وہ باتیں کرتے رہتے ہیں شہنام سدھر جاو ورنہ مار کھاو گئے مجھ سے اور زرا لخاظ نہیں کروں گا تمہارا اگر اس بار تمہارے نمبر کم آئے تو کچھ ہیر سے سیکھو کتنی پریشانی رہیں اسے پھر بھی اسنے اچھے نمبر لیے ۔

وہ سنجیدگی سے اسے ڈانٹ رہا تھا ۔

جبکہ شہنام نے فخر سے خود کو دیکھتی ہیر کو گھورا ۔

وہ تھوڑی سی مسکان ہونٹوں میں لیے اسے چڑا بھی رہی تھی ۔

چڑیل پتا نہیں کونسا جادو کردیا ہے ہمارے سردار بھائی پر ۔

وہ بھنبھنایا تھا دل ہی دل میں۔

اور تم کوئی چیز اسے دیئے بنا کیسے کھا سکتے ہو آئندہ ایسا کیا تو گردن توڑ دوں گا اسے سارا دن کچھ نا کچھ لے کر دیتے رہا کرو اور ہاں اسے پریشان بھی مت کرنا اب۔

وہ اسکا زکر ایسے کر رہا تھا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی بچی ہو ۔

کیوں اسے میں نے گود میں لیا ہوا ہے یا پھر یہ میرے ابو کے گھر پیدا ہوئی تھی۔

شہنام خوب تپا تھا رائنہ مسکرائے جا رہی تھی ۔

جبکہ وہ گردن اکڑاِے اسکی درگت کو انجوائے کر رہی تھی لیکن جیسے ہی سردار نے اسے دیکھا تو جھٹ سے گردن سر جھکایا اور مسکراہٹ بھی جلدی سے ہونٹوں سے خارج کی ۔


غاذان آئندہ شہنام تمہیں شکایت کا موقع نہیں دے گا بھروسہ رکھو اس پر ۔

رائنہ اسکے بال سنورتی ہوئیں بولیں اور جواباً اسنے انکے کندھے سے سر ٹکائے سردار غاذان کو ہننن کر کے چڑیا تھا۔۔

اسنے سر جھٹک کر واچ پر ٹاِئم دیکھا۔

موم میں چلتا ہوں رات کو چکر لگاوں گا ابھی امپورٹنٹ میٹنگ ہے ڈیڈ اور چاچو سے اکیلے نہیں ہو گئی تو ہیر کو شام کو میں پک کر لوں گا اور شہنام اب آپکے ساتھ ہی رہے گا ابھی اجازت دیں اللہ خافظ۔

وہ کہتے ہی انکے آگے سرجھکا گیا ۔

اللہ کی مان میں بیٹا ۔

وہ سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں جاو ہیر غاذان کو دروازے تک چھوڑ کر آو۔

وہ سردار کو دیکھتی ہیر سے مخاطب ہوئیں اور وہ جلدی سے سرہلاتی انکے پیچھے ہولی ۔

شہنام نے اسکی پشت کو خشمگیں نظروں سے گھورا ۔


ہیر موم کا دھیان رکھنا اوکے ۔

وہ دروازے میں پلٹ کر اس سے مخاطب تھا۔

اسنے زور زور سے سر ہاں میں ہلایا۔

اللہ خافظ۔

بڑے بے ساختہ پن سے اسکی مانگ پر ہونٹ رکھ کر کہتا وہ رکا نہیں تھا تیز تیز قدم اٹھاتا وہ لفٹ میں بند ہو گیا۔

وہ فق ہوتے چہرے سے مانگ پر ہاتھ رکھے ساکت و جامد تھی ۔

ہونٹ تھوڑے سے نیم وا تھے انکی دلفریب حرکت پر ل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز ہونے لگی تھی ۔

اللہ اللہ یہ کیا تھا شاید خواب تھا ۔

وہ لرزتے ہونٹوں سے بڑابڑائی ۔

جب پیچھے سے زور سے دھکا پڑا تھا ۔

وہ ایک دو قدم آگے ہوئی دھکا لگنے سے پھر حیرت سے پیچھے مڑی۔

شہنام کو دیکھ کر وہ غصہ ہوئی۔

کون سا جادو منتر کرتی ہو مجھے بھی تعویز کر کے دو تاکہ میں بھی ایک لڑکی کو پھانس لوں اور ہاں آئندہ اگر میری شکایت لگائی تو آنکھیں پھوڑ دوں گا ۔

وہ دانت پیس کر بولا۔

لگاوں گئی تم ایک نمبر کے لڑاکے ہو کوئی لڑکی نہیں سیٹ ہو گئی تم سے سمجھے بس صبر کرو تم وہ بھی ساری زندگی کے لیے۔

وہ بھی غصے سے دانت پیس کر بولتی اندر کی طرف بڑی ہاں یہ بات الگ تھی چہرہ ابھی بھی سردار کی حرکت پر گلنار سا تھا ۔۔۔۔۔

_______________________


مہرینہ کھانا کھا کر خود ہی اس بڑے گھر سے چھوٹے گھر میں آچکی تھی آکر اپنے دھونے والے کپڑے دھوئے تو واش روم میں اسکی بھی دو شرٹ اور ایک جینز لٹک رہی تھی۔

وہ ہونٹ بھینچے کچھ دیر اسکے کپڑوں کو دیکھتی رہی پھر انہیں بھی واشنگ مشین میں ڈال لیا۔۔

کپڑے دھو کر انہیں سکھانے کے لیے باہر باندھی رسی پر ڈالتی وہ چونکی ۔

وہ ہیلمٹ اتارے سامنے کھڑی لڑکی سے کچھ بات چیت کر رہا تھا ۔

وہ نرمی سے سر ہلاتا اس لڑکی کی کوئی بات سن رہا تھا۔

مہرینہ کو جی بھر کر اس معصوم شکل والے پر غصہ آیا۔

وہ الوداعی مسکان سے اس لڑکی کو نوازتا ہوا چھوٹا سا دروازہ دھکیلاتا لان میں آیا تھا۔۔

لیکن پھر ٹھٹھکا ۔

وہ خالصاً گھریلو روپ دھارے ایک ہاتھ کمر پر رکھے اسے کینہ توز نظروں سے گھور رہی تھی ہونٹ بھینچ رکھے تھے۔

اسلام علیکم یہ کیا حالت بنا رکھی ہے آپ نے ۔۔

اسکے آدھے کپڑے پانی سے شرابور تھے جبکہ بالوں کا اونچا جوڑا بنا رکھا تھا اسنے۔

مجھے چھوڑو پہلے یہ بتاو کون تھی وہ سڑی ہوئی شکل والی۔

وہ مسکرایا۔

یار آپکا شوہر ایسا نہیں ہے اسکے کندھوں پر بہت سی زمے داریاں ہیں ایسے کاموں کے لیے میرے پاس فضول وقت نہیں ہے اور دوسرا وہ ہماری پروسن ہے ہمیں کھانے پر انوائٹ کر رہیں تھیں میں نے کہا تم سے پوچھ کر بتاوں گا کیا آپ جیلس ہو رہیں تھیں۔

وہ اسکا بھیگا ہاتھ تھام کر شرارت سے پوچھ رہا تھا ۔

جی نہیں ایسی نہیں ہوں میں سمجھے میں بس پوچھ رہی تھی ۔

وہ ہاتھ کھینچتی ہوئی بولی ۔

خیام کی مظریں اچانک ہی اپنی دھلی ہوئی شرٹ پر نظر پڑی وہ مسکرایا۔

کیا ضرورت تھی دھونے کی۔

وہ اسکی مسکراہٹ کو دیکھ خود کو کوس کر رہ گئی۔

زیادہ ہنسنے کی ضرورت نہیں سرف زیادہ گھول دی تھی تو میں نے سوچا غریب بندہ ہے ضائع نہیں کرنی چاہئیے کیا یاد کرئے گا ۔

وہ تپ کر کہتی اندر کی طرف بڑھی ۔

وہ بھی پیچھے پیچھے تھا اسکے ہونٹوں سے مسکراہٹ جد انہیں ہو رہی تھی ۔

کیا ہے کیوں مسکرائے جا رہے ہو۔

وہ پتی تھی اسکی ہنوز چڑاتی مسکراہٹ پر ۔

وہ جواباً اسکا بھیگا ہاتھ تھام کر چومتا اندر کی طرف بھاگا تھا۔

وہ دم بخود ہوتی اسکے پیچھے چلاتی ہوئی دوڑی تھی لیکن وہ چوکنا تھا واش روم کا دروازہ وہ ٹھک سے بند کر گیا _

________________________

وہ شام کی بجائے رات کو آیا تھا ہاتھوں میں ڈھیرو ڈھیر بیگ تھامے خادم بھی پیچھے تھا ۔

وہ لاونج میں آتا ٹھٹھکا تھا کچن کا منظر بڑا واضع تھا ۔

جبکہ رائنہ شاید کمرے میں تھی کہ لاونج خالی تھا ۔

ٹھٹھکنے کی وجہ شہنام اور ہیر تھے ۔

ہیر کے ہاتھ میں کفگیر تھی تو شہنام کے ہاتھ میں سلور کی بڑی سی پرات ۔

یہ کیا ہو رہا ہے ۔

وہ کچن میں آتا ہوا حیرت سے ہیر کو دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

ہیر کے ہاتھ سے کفگیر چھوٹتے چھوٹتے بچی تھی ۔

شہنام اسے دیکھتا دل جلی مسکان سے مسکرایا تھا ۔

پہل اسنے کی میں سالن بنا رہی تھی تو اسنے مجھے کوجی اور چڑیل کہا اور یہ بھی کہا کہ میں کالی چڑیل ہوں۔

وہ روہانسی ہوتی جلدی سے بولتی ہوئی کفگیر دیگچی پر رکھ گئی تھی۔


ہیر کا ڈوب کر مرنے کو دل کر رہا تھا وہ بھلا کیا سوچیں گئے ہیر کتنی لڑاکی ہے بد تمیز ہے اففف مر جا ہیر کہی ڈوب کر لیکن اسنے مجھے تنگ کیا تھا میرا کوئی قصور نہیں تھا۔

سر پر چادر درست کرتی وہ لب بھینچے روہانسے لہجے میں سوچ رہی تھی۔

شہنام تمہیں تمیز کب آِے گئی کیوں تنگ کیا ہے تم نے اسے اور تم اسے چڑیل کہنے سے پہلے خود کو دیکھ لیا کرو جن سے بھی زیادہ ڈروانے تمہارے دانت ہیں آخر کیوں پریشان کرتے ہو تم اس معصوم کو ۔

وہ اچانک ہی معصوم شکل بنائے شہنام کی گردن دبوچے اسے ڈانٹ رہا تھا لیکن آخر میں اسکے ٹیڑے میڑے دانتوں پر طنز بھی کر گیا تھا ۔


تو آپ اسکے بھی پہلے دیکھ لیں اسکے دائیں طرف ایک دانت پر ایک اور دانت ہے اسے تو آپ نے نہیں ڈانٹا بس مجھ معصوم پر ہی سب کا زور چلتا ہے۔

مصنوعی دکھی لہجے میں کہتا وہ زبردستی گردن چھڑاتا رائنہ کے کمرے میں دوڑا تھا ۔

جبکہ ہیر نے اپنے دو دانت والی بات پر ہونٹ بھینچے۔

اسنے میرے دانت کب دیکھے بھلا ۔

وہ پریشان سی ہوتی سوچ رہی تھی جب وہ حیران ہوئی نہیں بلکہ ساکت ہوئی تھی۔

وہ رومال سے اسکی پیشانی کو خشک کر رہا تھا جو سردار غاذان کو دیکھ کر شرمندگی سے پھوٹا تھا ۔

وہ سر اٹھائے انہیں دیکھے گئی ۔

کیا بنایا ہے ۔

وہ سارا چہرہ ہی اسکا تھپتھپاتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

وہ حیرت سے اسے دیکھے گئی بنا پلکوں کو حرکت دئیے وہ بس ساکت تھی چہرہ دھواں چھوڑنے لگا تھا ۔

ہیر کیا بنایا ہے تم نے بتایا نہیں۔

رومال جیسے پاکٹ سے نکالا تھا ویسے ہی پاکٹ میں رکھتا وہ نرمی و محبت سے پوچھ رہا تھا ۔

چکن قورمہ ساتھ سادے ابلے چاول ۔

وہ سر جھکا گئی آخر کب تک وہ ان نگاہوں میں دیکھ سکتی تھی جن میں عجیب سی چمک اور کشش تھی جو اگلے بندے کو بس میں کر لیتی تھی۔

اور میٹھے میں۔

وہ اسکی ناک پر ٹھہرا پسینے کا قطرہ انگلی پر لیتا ہوا دھیمے لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

ہیر اسکی قربت سے پریشان ہوتی دو تین قدم پیچھے ہوتی سر اور زیادہ جھکا گئی۔

کچھ بھی نہیں کیا بناوں ۔

وہ اخترام و محبت سے پوچھ رہی تھی۔

تمہیں کیا ضرورت تھی کھانا بنانے کی میں لے کر آیا ہوں سب کچھ باہر سے۔

وہ اسکے تھکے سے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا ۔

میرا دل کر رہا تھا کوکنگ کا ۔

وہ سنک میں پڑے برتن دھونے والی تھی جب غاذان تیمور نے سختی سے اسکے ہاتھ تھامے ۔

ہیر خبر دار اگر تم نے برتن دھوئے مجھے نہیں پسند ہیر کام وغیرہ کرئے اور برتن تو بالکل بھی نہیں یہ لو اس پیکٹ میں تمہارے لیے ڈریس لیا ہے لاونج والے چینجنگ روم میں چینج کر کے آجاو میں موم کے روم میں جا رہا ہوں میں زرا شہنام کو تو سیدھ کروں۔

وہ کہتے ہی پلٹا تھا جبکہ وہ مسمرائز ہوتی پریوں کے دیس میں جاتی اگر اسنے جاتے وقت بنا پلٹے اسے ہری اپ نا کہا ہوتا تو ۔


ّوہ دھیمی مسکان بھرے بھرے ہونٹوں میں لیے شاپنگ میں جھانکنے لنگی تھی ۔

چہرے پر چار سو واٹ کی مسکان آئی تھی ۔

پھر بھاگ کر لاونج میں بنے چینجنگ روم کی طرف دوڑی۔

اسنے بیگ کو ایک کارپٹ پر الٹ دیا۔

ایک سیاہ رنگ کا سوٹ میچنگ چپل ہیئر پنز وہ مسکرائی تو وہ جانتے تھے ہیر کو ہئیر پینز بہت پسند تھیں۔

رات کا نجانے کونسا پہر تھا جب وہ گیلری میں آیا ۔

تیمور صاحب کو باہر بِیٹھا دیکھ وہ تشویش سے تیز قدموں سے انکی طرف بڑھا تھا ۔

ڈیڈ کیا ہوا ایوری تھنگ از فائن۔

وہ انکے سامنے آتا فکرمندی سے بولا ۔

وہ جواباً ہاں میں سرہلاتے آدھے ادھورے چاند کو دیکھنے لگے۔

وہ لب بھینچے انکے سامنے بیٹھا تھا ۔

ڈیڈ سب ٹھیک ہو جائے گا وہ یہاں آگئی ہیں نا بس آپ نے اب ہمت نہیں ہارنی۔

وہ سمجھ چکا تھا باپ کی پریشانی ۔


وہ تلخی سے مسکرائے ۔

وہ بہت انا پرست ہے کبھی نہیں مانے گئی۔

آپ میں بھی تو انا بہت تھی ڈیڈ اگر آپ اس وقت انا سے نہیں دل سے کام لیتے تو آج مما آپکے ساتھ ہوتیں لیکن ابھی بھی کچھ نہیں گزرا آپ انہیں منانے کی تگ و دو جاری رکھیں وہ یقیناً مان جائیں گئیں۔

وہ انکے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا تھا۔

جوانی میں غلطیاں ہو جاتیں ہیں غاذان مجھ سے بھی ہو گئی اور میں نے اسے چھوڑ بھی دیا لیکن رائنہ کا دل نرم نہیں پڑا وہ آج بھی مجھ سے نفرت کرتی ہے۔

وہ سنجیدگی سے دور خلا میں دیکھتے ہوئے بولے تھے۔

کس نے کہا وہ نفرت کرتیں ہیں، ڈیڈ وہ نفرت نہیں کرتیں آپ سے ،

بلکہ آج بھی آپ سے ہی محبت ہے انہیں آپ جانتے ہیں انکی کبڈ میں آج بھی زیادہ بلیک کلرز کے سوٹ ہوتے ہیں کیونکہ آپکو بلیک کلر ان پر پسند تھا نا آپ کے دئیے کنگن آج تک انہوں نے اپنی کلائی سے اتارے نہیں دعا میں ہمشہ آپکا زکر وہ کرتیں ہیں آپ جانتے ہیں انہیں اونچی دعا مانگنا پسند ہے اور میں اکثر سن لیا کرتا تھا اور آپ کہتے ہیں انہیں آپ سے محبت نہیں ،ہاں وہ اس بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتِِیں تھی میں نے کتنی دفعہ ان سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ سختی سے مجھے ڈانٹ چکیں ہیں۔

وہ بھی چاند کو دیکھتا ہوا ان سے بات کر رہا تھا آج پہلی بار وہ کھل کر ان دونوں کے ریلیشن پر بول رہا تھا ۔

وہ مسکرائے ۔

تم سچ کہہ رہے ہو ۔

وہ بولے۔

آپ جانتے ہیں غاذان تیمور جھوٹ نہیں بولتا ۔

وہ جواباً دھیمی مسکان سے بولا تھا۔


کیسی لگ رہی تھیں وہ ۔

وہ اب بے تابی سے بولے ۔

ڈیڈ یو نو یار وہ ہمیشہ ہی اچھی لگتی ہیں ۔

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا تھا۔

میں صبح جاوں گا تمہاری موم سے ملنے ۔

وہ بھی کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔

وہ بنا پلٹے پاکٹس میں ہاتھ ڈالتا مسکرایا۔

آپکے ساتھ جو ہو گا اس میں میری کوئی زمے داری نہیں ہو گئی آپ جانتے ہیں وہ بہت سخت بھی ہیں ۔

وہ جاتے جاتے کندھے اچکا کر کہتا وہاں سے نکل گیا۔

تیمور صاحب سنجیدگی سے اسکی پشت جو گھورتے اپنے کمرے کی طرف بڑھے تھے۔


پلڑ کے پیچھے چھپے وجود نے سینے پر ہاتھ رکھ کر گہری سانس لی تھی ۔

_______________________


دروازہ آہستہ سے نوک ہوا تھا پھر دوسری بار زرا تیز دستک ہوئی تھی ۔

لیکن اندر سے جواب ندارد رہا۔

ہیر ۔

اسنے مدھم سا پکارا تھا دروازے کو نوک کرتے ہوئے ۔

اور یہ کیسے ہو سکتا تھا ہیر اسکی پکار نا سن پاتی ۔

۔

وہ چونک کر اٹھی تھی پھر نیند میں جھولتے ہی اسنے دروازہ کھول دیا ۔

وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھنے لگا کہ اسکی آنکھیں بند تھیں وہ نیند میں ہی تھی شاید۔

ہیر !

اسنے سنجیدگی سے اسکا کندھا ہلایا تھا ۔

جواباً وہ اسکے کندھے سے جھول گئی تھی وہ اسکے سینے پر سر رکھے شاید سو گئی تھی ۔

غاذان نے دھڑک اٹھے دل پر بنا توجہ دئیے اسکے چہرے کو غور سے دیکھا تھا ۔

دراز پلکیں گال کو چھو رہیں تھی جبکہ ہونٹ تھورے سے کھلے ہوئے تھے وہ حیران تھا اگر وہ نیند میں تھی تو اسنے دروازہ کیسے کھولا تھا ۔

ہیر ،،

اسنے سنجیدگی سے اسے اسکے پاوں پر کھڑا کرتے ہوئے پکارا تھا ۔

ہاں ۔

وہ آنکھیں ایک دم سے کھولتی ہوئی بولی پھر بد حواسی میں دوپٹہ سر پر لیا اور کھلے ہوئے منہ کو بند کیا اور تھوڑا دور کھرا ہوئی کچھ دیر پہلے کی حرکت وہ بھول چکی تھی ۔۔۔


مائی گڈ نیس ہیر تم نے نیند میں دروازہ کھول دیا اگر تم گر جاتی تو! کیا ساری رات سوئی نہیں ہو ۔

وہ تشویش سے پوچھ رہا تھا۔

نہیں !

وہ شرمندگی سے بولی۔

کیوں۔

وہ تیکھی نظروں سے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھتا ہوا بولا۔

نیند آہی نہیں رہی تھی ۔

وہ لاچاری سے بولتی سر جھکا گئی۔

غلط بات ہے ٹائم ہر سویا کرو اور ٹائم پر اٹھا کرو اب جاو جاکر فریش ہو کر لان میں آو جاگنگ پر جانا ہے ہری اپ ۔

وہ بنا اسکے شاک میں ڈوبے نقوش پر دھیان دئیے پلٹ گیا ۔

جبکہ وہ نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو بمشکل کھولے رکھے واش روم میں آگئی ۔

لگتار تین چار چھپاکے منہ آنکھوں پر مارے پھر جا کر کہیں آنکھیں ٹھیک سے کھیلیں تھیں۔

اب مجھ سے ورزش بھی کروائیں گئے کوئی کام چھوڑئیے گا مت ۔

وہ چینج کرتی جھنجھلاتی ہوئی بڑبڑا رہی تھی ۔۔۔


وہ ہاتھ باندھے گرونڈ میں اسکے پیچھے سست قدموں سے چل رہی تھی۔

ہیر بھاگو۔

وہ تیز تیز چلتا اس سے بولا تھا۔

مجھ سے نہیں بھاگا جائے گا میری ٹانگوں میں درد ہے میں وہاں بیٹھ جاوں پلیز کل دوڑوں گئی پکا۔

وہ بے چارہ سا منہ بنائے سامنے پڑے بینچ کی طرف اشارا کرتی ہوئی نہایت معصوم لگی تھی اسے ۔

اوکے جاو لیکن کل سے نو ایکسیوزز۔

وہ سنجیدگی سے کہتا دوڑنے لگا تھا ۔

پارک میں ابھی اتنا رش نہیں تھا اکا دکا ہی لوگ تھے ۔

وہ بینچ پر بیٹھ کر دور سردار غاذان کو بھاگتا ہوا دیکھتی رہی۔

وہ مکمل سیاہ ٹریک سوٹ میں تھا خادم پانی اور جوس کی بوتل پکڑے آسکے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا وہ بھی شاید صبح کی روٹین کی ورزش کر رہا تھا ۔

کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔

ایک ٹین ایجر لڑکا اس سے بولا تھا ۔

ہیر نے دوپٹہ سر پر ٹھیک سے جماتے ہوئے بنا اسکو کوئی جواب دئیے سامنے دیکھنے لگی ۔

وہ سبز سوٹ پر کالا دوپٹہ لیے ہوئے تھی اونچی پونی بنائے وہ اپنی عمر سے کم ہی لگتی تھی ۔۔

میں بیٹھ جاتا ہوں اصل میں میں یہاں روز آتا ہوں آپکو پہلی بار دیکھا ہے یہاں۔

وہ لڑکا کچھ زہادہ ہی باتوں کا شوقین تھا یا پھر شاید فلرٹی تھا ۔

تو میں کیا کروں اور پلیز کہی اور چلے جاو مجھے یہاں اکیلے بیٹھنا ہے۔

وہ بے زاری سے بولی ایک تو نیند نہیں جان چھوڑ رہی تھی اوپر سے اس لڑکے کی باتیں ۔

غاذان تیمور نے پانی پیتے ہوئے چونک کر ہیر کو کسی سے بات کرتے دیکھا تھا ۔

پانی کی بوتل پکڑے ہی وہ ہیر کی طرف تیز قدموں سے بڑھا تھا ۔

کون ہو تم کیوں بات کر رہے ہو اس سے ۔

وہ اس بے چارے کا ایکسیڈینت میں فون بھی ٹوٹ گیا تھا ۔

وہ انتہائی غمگین تاثرات سے بولا ۔


او چچچ تمہارا بے چارا دوست چلو وہ کس ہسپٹل میں ہے وہ بتا دو اب تمہارے دوست کی عیادت کرنا تو بنتا ہے نا ۔

وہ بھی آخر کو سردار تھا اسے اسکے داو پیچ میں ہرانا جانتا تھا۔

اسے تو کل چھٹی ہو گئی ہے وہ گھر چلا گیا ہے اور اسکے گھر کا ایڈرس مجھے بھول گیا ہے جب وہ نیا موبائیل لے گا تو میں آپکو لے جاوں گا اسکے گھر ابھی مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھا لوں جا کر ۔

وہ ماں باپ سے تو نہیں ڈرتا تھا لیکن اپنے اسے سردار کزن سے وہ شروع سے ہی بہت ڈرتا تھا وہ اگلے بندے کو بھگو بھگو کر مارنا جانتا تھا ۔

بلکل کھاو ۔

اسکی شرٹ سے نادیدہ شکن دور کرتا وہ بڑے نرم لہجے میں بولا ۔

شاہ میر کو فخر ہوا تھا اپنی جھوٹی سٹوری پر۔

کھانا بعد میں کھانا پہلے ہیر کے اکاونٹ میں پانچ لاکھ جمع کروا دینا ایک منٹ یہ اسکے اکاونٹ کا نمبر اور پن ہے دوپہر تک مجھے تصدیقی میسج آجانا چاہئیے اس نے تمہاری جگہ پیسے دئیے تھے تو اب تم اسکے اکاونٹ میں پیسے کروا دو اور اگر آج نا کروائے تو پھر یاد رکھنا اور ہاں دس ہزار تو پہلے کروانا الگ سے ۔۔

و و وہ ک کس لیے ؟

وہ شاک سے بڑی مشکل سے بول پِایا چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئیں تھیں ۔


وہ مسکرایا ۔

لڑکیوں نے راستے میں کھانا بھی تو کھایا تھا نا ۔


بہت ہی سنجیدگی سے کہتا اسکے فق ہوتے چہرے کو مسکراتی نظروں سے دیکھتا وہ اپنے کمرے کو جاتی سیڑیاں چڑ گیا تھا ۔

جبکہ وہ پریشان تھی سردار کی بات پر اسکا کاونٹ کب بنا بھلا اور اسے پتا بھی نہیں چلا تھا۔


اور دوسری بات پیسے واپس لینے ضروری تو نہیں تھے نا لیکن وہ سردار غاذان کو کہاں اتنا جانتی تھی ابھی بھلا ۔

وہ شاہ میر کو دیکھتی سیڑیاں چڑ گئی ۔

اس کا کوئی اکاونٹ بھی ہے کیا یہ نوکرانی نہیں ہے تو کون ہے یہ ،میر یہ چھوڑو اس بات کو سوچو پانچ لاکھ دس ہزار، میں نہیں دوں گا اپنے پیسے کسی کو بھی،

آئندہ میرے فرشتوں کی بھی توبہ جو کسی کو شاپنگ پر لے جاوں تو۔۔


تین چار ہزار ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی نا ۔

وہ رونے والا ہو گیا تھا ؛وہ شروع سے ہی کنجوس تھا بہت_

_______________________


رائنہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ کر وہ حیرت سے دو چار ہوئیں تھیں۔

جی سردار غاذان اس وقت یہاں نہیں ہیں۔

وہ بمشکل بول پائیں تھیں۔

تیمور صاحب نے چشمہ اتار کر رائنہ کے چہرے کو غور سے دیکھا ۔

میں جانتا ہوں رائنہ ، لیکن میں یہاں آپ سے ملنے آیا ہوں رائنہ پلیز مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے سردرا اور ہیر کے متعلق۔

وہ کہی سی بھی پہلے والے تیمور خانم نہیں لگ رہے تھے جو غصے اور غرور سے تنی گردن لیے اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے ۔

رائنہ نے کچھ دیر انہیں دیکھا پھر دروازے سے ہٹ گئیں ۔

وہ خوبصورت سے لاونج میں آِئے بروان ویلوٹ کے صوفے پر بیٹھتے رائنہ کو بھی بیٹھنے کا اشارا کیا تھا ۔


ہیر جو باتھ روم میں تھی باہر آتی وہی تھم گئی ۔

وہ یونی سے سیدھا یہی آگئی تھی یہی سے وہ سکول جاتی پھر وہاں سے محل ۔۔

آخر کب تک ہم دونوں انا کی جنگ لڑتے رہیں گئے رائنہ ۔

وہ تھکے تھکے سے پوچھ رہے تھے۔

رائنہ نے جواباً ہونٹ بھینچے ۔

یہ جنگ آپ نے ہی شروع کی تھی تیمور خانم ۔

وہ طنز سے بولی ۔

ہاں میری وجہ سے تم مجھے سے دور ہو گئی لیکن کیا اب ہم ایک نہیں ہو سکتے ۔

وہ اس سے آس سے پوچھ رہے تھے۔

آپ شاید غاذان اور ہیر کے متعلق کچھ بات چیت کرنے آئے تھے۔

وہ تیکھی نظروں سے انہیں دیکھتی ہوئی پوچھ رہی تھیں ۔

انہوں نے لب بھینچے۔

ادھر ہیر نے بھی ۔۔

رائنہ پلیز غاذان کے لیے اب یہ ساری رنجشیں دور کرتے ہیں آخر کو ہمیں اب ان دونوں کی شادی کرنی ہے دھوم دھام سے کیا تم چاہتی ہو ہمارا بیٹا اب بھی کچھ ادھورا سا محسوس کرئے وہ ساری زندگی ہم دونوں کی خاموش جنگ میں پھنسا رہا ہے تم خود ہی تو کہتی ہو وہ تمہیں تمہاری جان سے زیادہ عزیز ہے تو اسکے لیے مجھے معاف کردو رائنہ ۔

وہ ایک دم سے انکے قدموں میں آتے ہوئے درزیدہ لہجے میں بولتے رائنہ کو ساکت کر گئے تھے ۔

یہ وہی شخص تھا نا جنہوں نے اسے جاتے وقت روکا بھی نہیں تھا اور اب کیسے اسکے ترلے منتیں کر رہے تھے ۔


تیمور پلیز مجھے گنہگار مت کریں ویسے بھی اب کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا ایک عورت کی وفا اور محبت پر آپ نے کسی دوسری عورت کو ترجیع دی تھی میں وہ اذیت بھرے پل نہیں بھول سکتی ۔

وہ ایک دم سے اٹھتی ہوئی بولیں ۔

تیمور خانم نے خاموش نظروں سے انکی پشت کو دیکھا ۔

رائنہ میں انتظار کروں گا تمہارے لوٹ آنے کا ۔

وہ انکی پشت کو سنجیدگی سے دیکھتے وہاں سے جا چکے تھے۔

رائنہ نے خالی دل سے خالی لاونج کو دیکھا تھا ۔

ہیر پریشانی سے کچن کی طرف بڑھ گئی تھی ۔

_______________________


نیوز دیکھی آپ نے ۔

سہیر خانم عجلت میں اندر آتے ہوئے تیمور سے بولے ۔

نہیں کیوں ایسا کیا ہے نیوز میں ؟


تیمور خانم نے حیرانگی سے پوچھا۔

آپ خود دیکھ لیں ۔

سہیر خانم نے سامنے لگی ایل ڈی کو ریموٹ سے چلایا اور مطلوب چینل لگا دیا ۔

جہاں صاف بڑے بڑے نمایا الفاظ میں سردار غاذان کے خلاف بریکنگ نیوز چل رہی تھی ۔

دو دن قبل سردار غاذان نے ایک غریب آدمی کا قتل کر دیا وجہ کوئی نہیں بس غصہ تھا جو اس بے چارے انسان پر نکل گیا ناظرین ہم آپکو بتاتے چلیں یہ سردار غاذان خان کی پرانی حویلی کی ویڈیو ہے جہاں انہوں نے دو دن قبل ایک آدمی کا قتل کر دیا جیسے کہ آپکو ویڈیو میں دیکھایا جا رہا ہے ۔۔

ویڈیو واقعے انکی پرانی حویلی کی تھی جہاں وہ نیچے بیٹھے شخص کے سر پر ہسٹل تانے کھڑا تھا اور خادم اس آدمی کو گردن سے تھامے ہوئے تھا ارد گرد کوئی اور انسان نہیں تھا ۔

تیمور خانم پریشان ہو اٹھے تھے ۔

یہ کیا ہے سہیر۔

وہ فون پر کوئی نمبر ڈائل کرتے ہوئے بولے تھے ۔

جبکہ سہیر خود بہت پریشان تھے ہر نیوز میں یہی ایک نیوز چل رہی تھی اور سردار غاذان کو سرداری سے ہٹانے کی درخواست بھی ساتھ ہی درج تھی ہر جگہ ۔۔


وہ سوئمنگ پول کے قریب بیٹھا پانی میں تیری بطخوں کو لب بھینچے دیکھ رہا تھا جب اسکا فون بجا تھا ۔

اسنے نمبر دیکھ کر فون پک کر لیا تھا۔

غاذان یہ کیسی ویڈیو ہے جو نیوز میں دیکھائی جا رہی ہے کیا یہ سچ ہے تم نے دیکھی کیا ۔

وہ بے انتہا پریشانی سے پوچھ رہے تھے۔

yes dad i have seen

وہ سنجیدگی سے کھڑا ہوتا ہوا بولا ۔

کیا یہ ویڈیو سچ ہے غاذان۔

وہ کھڑکی میں آتے پوچھ رہے تھے۔

وہ بھی دو قدم چلتا سوئمنگ پول کے قریب آچکا تھا ۔

سچ تو ہے لیکن ایسے نہیں جیسے دیکھایا جا رہا ہے آپ فکر مت کریں میں ہوں سب سنبھال لوں گا ۔

وہ ایک کان سے فون دوسرے پر منتقل کرتا ہوا بولا ۔

کیا کہوں میں تمہیں غاذان لوگ شدید غصے میں ہیں وہ تمہارے لیے ایکشن کے لیے زور دے رہے ہیں ۔

تیمور صاحب غصے سے بولے۔

ایک سرد سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر آکر معدوم ہو گئی ۔

میں سب ہینڈل کر لوں گا آپ کو فکر کی کوئی ضرورت نہیں ابھی فون رکھتا ہوں لنچ کے لیے مجھے دیری ہو رہی ہے ۔

اسنے آرام سے کہتے ہی فون بند کر دیا نگاہیں اچانک ہی اوپر اٹھی تھیں ہیر کو پردہ تھامے دیکھے وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔

جبکہ وہ بدحواس ہوئی لیکن اب واپس بھی پلٹ نہیں سکتی تھی۔

میں پوچھنے آئی تھی چائے بنا لاوں آپکے لیے۔

وہ جلدی سے بولی۔

ہاہاہا۔

ہیر کیا اب یہاں سے چاِئے کا پوچھا کرو گئی سلی گرل بہانہ کوئی ڈھنگ کا بنایا کرو ۔

وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر آگے بڑھ گیا ،

جبکہ وہ شرمندہ سی ہو گئی تھی ۔


اففف کیا ضرورت تھی انہیں دیکھنے کی ۔

وہ شرم سے سرخ پڑ چکی تھی ۔

تب ہی خیام کالنگ اسکے موبائیل پر لکھا چلا آیا تھا۔

گہری سانس لے کر اسنے مسکراتے ہوئے فون پک کیا تھا ۔

_______________________


خادم کب سے اسے ٹرینگ کرواتی علینہ کو دیکھ رہا تھا علینہ اسکی نظروں کے ارتکاز پر حیران ہوتی اسکی طرف دیکھنے لگی تھی ۔

وہ جواباً دوسری طرف چہرہ موڑ گیا تھا ۔

وہ ہیر کو ٹریڈ مل پر دوڑنے کی پریکٹس کروا رہی تھی ۔

وہ دوڑ دوڑ کر ہانپنے لگی تھی تب جا کر اسکی جان چھوٹی تھی ۔

خادم پریشان تھا سردار غاذان کو لے کر وہ کل سے گھر نہیں آیا تھا اور اسے بھی ساتھ نہیں لے کر گیا تھا وہ اس بندے کی تلاش میں تھا جس نے چھپے ہوئے اس پر وار کرنے کی کوشش کی تھی ۔

اسنے کل رات کو پریس کانفرنس رکھوائی تھی یہ بھی اطلاع اسے فون میں ملی تھی لیکن علینہ کو دیکھ اسکا دل پتا نہیں کیوں پرسکون ہو نے لگا تھا ۔

چلیں بھائی ۔

وہ تھکے تھکے چہرے سے کندھے پر بیگ رکھے اس سے پوچھ رہی تھی۔

جی !

وہ اسے آگے بڑھنے کا کہتا ہوا اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا تھا ۔

خادم بھائی سردار کہاں ہیں کل سے۔

کافی دیر ہمت متجمع کر کے اسنے جھجھکتے ہوئے پوچھا تھا.

وہ کل سے آوٹ آف سٹی ہیں ایک دو دن میں آجائیں گئے ۔

وہ سنجیدگی سے بولا ۔

ہیر نے لب کچلے انکے بغیر اسے کچھ اچھا ہی نہیں لگتا تھا ۔


گاڑی سردار غاذان کے اپارٹمنٹ کے آگے آ رکی تھی۔

وہ بیگ پکڑے پراعتماد چال سے اندر چلی آئی ۔

کچھ دیر بعد وہ پریشان بیٹھی رائنہ کو پریشانی سے دیکھ رہی تھی ۔

آنٹی آپ کیوں پریشان ہیں آج۔

وہ آخر کار پوچھ بیٹھی تھی۔

رائنہ نے چونک کر اسے دیکھا پھر نفی میں مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا ۔

کیا نیوز نہیں دیکھتی ہو ۔

وہ اسے پاس بلاتی ہوئیں پوچھ رہی تھی۔

اسنے جواباً نفی میں سر ہلایا ۔

جاو فریش ہو جاو پھر ڈینر کرتے ہیں۔

اسکے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی ہوئیں وہ بولیں۔

شہنام ڈینر نہیں کرئے گا کیا ۔

وہ اسکی غیر موجودگی محسوس کرتی ہوِئی پوچھ رہی تھی ۔

نہیں وہ کسی کام سے باہر گیا ہے ۔

وہ اٹھ کر کہتی کچن میں چلیں گئیں۔

پتا نہِیں فضا میں اتنی اداسی کیوں ہے دل بھی تو پریشان ہے انکے بغیر۔۔


_______________________


غاذان کی کانفرس اچھی رہی ۔

سہہر خانم چاِے پیتے سنجیدگی سے تیمور سے بولے۔

ہاں وہ کر سکتا ہے سب کچھ۔

وہ بھی چائے کا گھونٹ لیتے فخر سے بولے۔

کچھ پتا چلا یہ کس نے دشمنی نکالی ہے۔

وہ فکرمندی سے بولے۔

وہ پرسوں سے اسی کی تلاش میں تھا لیکن چال کھیلنے والے نے کمال کا دماغ لڑایا ہے۔

سہیر خانم نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔۔

اسنے وہ نمبر ڈھونڈ لیا تھا جس سے سب نیوز چینل والوں کو وہ ویڈیو بھیجوائی گئی تھی لیکن وہ تو بہت غریب آدمی تھا جسکا نمبر تھا اور تھا بھی بیمار اسنے کہا کہ اسکا فون کافی دنوں پہلے گھم ہو گیا تھا ، کسی نے اس کے نمبر سے سارا کھیل کھیلا تھا خیر میرا بیٹا لگا لے گا پتا ،

اصلی ویڈیو بھی تو اسنے ڈھونڈ لی ہے ورنہ مجھے ڈر تھا کہ کہی کچھ غلط نا ہو جائے ۔

تیمور صاحب کے لہجے میں بیٹے کے لیے فخر بھی تھا اور فکر بھی ۔

ہممم غاذان کر سکتا ہے سب کچھ اور اس لڑکی کو کب اسکی زندگی سے نکالو گِے وہ آخر کب تک ہمارے بیچ رہے گئی ۔

سہیر خانم اس بار رعونت بھرے لہجے میں بھائی سے مخاطب تھے۔

اس لڑکی کا نام غاذان کو بہت پسند ہے سہیر اسے اسکے نام سے بلایا کرو ۔

وہ مسکراتے ہوئے بولے ۔

جبکہ سہیر شدید حیران ہوئے۔

کیا مطلب ہے تمہارا ۔

وہ آگے کو ہوتے ہوئے بولے۔

مطلب یہ کہ غاذان اسے خود سے الگ کر ہی نہیں سکتا پتا ہے سہیر میں انہی دنوں سمجھ گیا تھا جب وہ غائب ہوئی تھی کیسی دیوانوں جیسی حالت تھی اسکی دو دن تک اسنے کپڑے نہیں بدلے تھے گھر نہیں آیا تھا کچھ کھایا پیا نہیں تھا اور جب وہ مل گئی تو غاذان پھر سے پہلے جیسے ٹپ ٹاپ ملا ،

اسکی آنکھوں کی بجھی چمک اس لڑکی کے ملنے سے پھر سے چمک اٹھیں تھیں اسکا خیال رکھنا اسکی چھوٹی بڑی ہر چیز کا دھیان بہت اچھے سے رکھنا اسے دیکھ کر جب وہ ہو لے سے مسکراتا تھا تو مجھے شدید حیرانگی ہوتی تھی وہ اتنا ہینڈسم تھا کالج اور یونی میں آپکو پتا ہے اسکے ارد گرد لڑکیوں کے بھیڑ رہتی تھی سب اسکی خواہیش مند تھیں اور وہ ہالے جو اسکی بیسٹ فرینڈ تھی کیسے غاذان کے انکار پر اسنے اپنی نس کاٹ لی تھی لیکن غاذان نے اسے سمجھایا اپنا نہیں بنایا لیکن اگر بات ہیر کی آئے تو وہ کسی کی نہیں سنتا مجھے وہ اپنی شرع سے لے کر ہر بات بتاتا ہے آپ جانتے ہیں وہ مجھ سے دور ہو کر بھی دور نہیں تھا وہ اپنی ہر ایکٹیویٹی شیئر مجھ سے ہی کرتا تھا پھر اس لڑکی کی عادات کیسے نا شیٙر کرتا میں جان گیا ہوں ہم اس لڑکی کو اسکی زندگی سے نکال ہی نہیں سکتے ہرگز نہِیں ویسے بھی مجھے اسکی خوشی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے پہلے میں کرنا چاہتا تھا اسے اسکی زندگی سے خارج لیکن اب نہیں جب وہ اس سے عشق کرنے لگ گیا ہے بلکہ میں نے سوچ لیا ہے اسی ہفتے انکی شادی کی دیٹ اناونس کروں گا سردار کی شادی دھوم دھام سے کرنی چاہئیے ہمیں سہیر مان جاو آخر کو تمہارے لاڈلے بھتیجے کی بات ہے ۔

وہ تفصیل سے بات کرتے آخر میں شرارت سے بولتے زیرے لب ہنسے بھی بیٹے کی طرح ۔

سہیر تو شاک سے تیمور کو دیکھ رہے تھے ۔

شادی ۔

وہ سنبھل کر بولے۔

ہاں شادی وہ بھی ویسی جیسی ایک سردار کی ہوتی ہے ۔

وہ بولے ۔

سپیر خانم سنجیدگی سے تیمور کو دیکھتے آخر میں گہرا سانس لیتے سر ہلا گئے تھے ۔

داور نے باپ کو غصے سے دیکھا۔

انہیں ہمیشہ وہی تو نظر آیا ہے مجھ پر ہمیشہ اپنے بھتیجے کو فوقیت دی ہے آپ نے مگر میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا یاد رکھئیے گا آپ ۔

وہ نفرت سے سوچتا واپس پلٹ گیا تھا ۔ہ کب سے کمرے میں بے چین روح کی طرح اِدھر سے اُدھر چکر لگاتی تھک گئ تھی آنکھیں کسی کی دید کی طلب میں تھیں نیند جو تھی وہ آنکھوں سے کوسوں دور تھی حلانکہ وہ آج خاصی تھکی ہوئی تھی ۔


آخر کار وہ کبڈ کھول کر بیٹھ گئی تھی ۔

سارے کپڑے نکال کر انہیں ترتیب سے رکھ کر وہ اپنی جیولری نکال کر بیڈ پر لے آئی تھی۔

اسے جیولری کا بچپن سے شوق تھا وہ ڈارک فیروزی کلر کے موتیوں والے جھمکے نکال کر پہننے لگی تھی ۔

عجیب کمبینشن تھا ہیر کا ،

سرخ ڈارک مہرون کلر پر فیروزی جھمکے ۔

وہ جلدی سے شیشے کے آگے آ کھڑی ہوئی دو تین بار سر ہلایا جھمکوں کے زور سے ہلنے پر وہ ہنسی تھی ۔

بال اب کندھوں سے نیچے آنے لگے تھے سٹپ کٹنگ بال اسے سوٹ بھی تو بہت کرتے تھے ایک دم سے سیدھے کالے بال تھے اسکے ۔

وہ جیولری والا ڈبہ پھر سے کبڈ کے خانے میں رکھتی وہ خاکی کلر کا ڈبہ دیکھ کر چونکی پھر محبت سے اسے چھو کر نکال لیا۔

نکال کر وہ قیمتی خریدی ہوئی شرٹ نکال کر اپنے ساتھ لگا کر دیکھتی وہ اداس ہوئی اسنے کتنی حسرت سے یہ شرٹ خریدی تھی اپنی کتابیں واپس کر کے لیکن حوصلہ ہی نہیں تھا انہیں دینے کا وہ جانتی تھی انکی شرٹس کافی قیمتی ہوتی تھیں یہ شرٹ تو انکے آگے کچھ بھی نہیں تھی ۔


کچھ دیر شرٹ کو دیکھ کر وہ شرٹ کا پیکٹ اٹھا کر دبے قدموں باہر نکل گئی تھی۔

رات کا پہر تھا ظاہر ہے کوریڈور سنسان ہی تھے ۔

ڈم سی روشنی ہر طرف پھیلی بہت بھلی لگ رہی تھی لیکن ہیر کو ڈر لگا رہا تھا قدم بے ساختہ اس بڑے سے منقش دروازے کے آگے روکے تھے جو مضبوطی سے بند تھا بغیر لاک کے ۔۔


پہلے اِدھر اُدھر چوکنی نظروں سے دیکھا پھر دروازہ آہستہ سے دھکیلا۔۔

دروازے نے چوں چراخ کا اختجاج کیا تھا ۔

ہیر کا دل ڈوبا۔۔

بے ساختہ پیچھے دیکھا کوئی نہیں تھا ۔

لب بھینچے اندر آ کر دروازہ آہستہ سے بند کیا اور پھر لائٹ بھی جلا دی تھی ۔۔

کمرے کو محبت سے دیکھا ۔

کمرہ صاف ستھرا تھا کوئی شے بے ترتیب نہیں تھی ہر چیز اپنی جگہ پر پڑی اسے محبت سے تک رہی تھی ۔


چادر کے پلو سے آہستہ سے صاف تصویر کو دوبارہ سے صاف کیا ۔

مسکراتی نظروں سے تصویر کو دیکھ کر اسکو اسکی جگہ پر رکھ دیا۔۔


دراز قامت مرر کے اگے آتی وہ مختلف برینڈز کی پرفیومز کو کھول کھول کر دیکھتی بے انتہا خوش تھی ہلکی سی سپرے بھی خود پر کردی تھی ۔

وہ ایسے سارے کمرے میں گھوم رہی تھی جیسے وہ اسکی ملکیت میں ہو ۔

وہ چونک کر گول اوپر کو جاتی سیڑیوں کو دیکھنے لگی تھی ۔


وہ اشتیاق سے دھیرے دھیرے سیڑیاں چڑھتی اوپر جانے لگی تھی سراپے میں اشتیاق سا تھا ۔۔

وہ اوپر آتی ٹھٹھکی تھی۔

بہت ہی کھلا سا گول ٹیرس تھا سٹیل کی باونڈری کے چاروں طرف مختلف قسم کے پھول گملوں میں اگے عجیب سا ہی ماحول بنا رہے تھے ، اوپر کالا ستاروں بھرا آسمان ٹھنڈی میٹھی ہوا ۔

اففف میں پہلے کبھی نہیں آئی یہاں انہوں نے بھی ایک بار نہیں کہا ہیر ٹیرس ہی دیکھ لو ۔

وہ ٹھنکی تھی ۔

آج بالوں کو چوٹی میں گوندھا ہوا تھا ،چھوٹے چھوٹے بال چہرے پر ہوا سے اڑ اڑ کر چہرے کے نقوش کو چھو رہے تھے ۔۔

وہ گلابی رنگ کا پھول بے ساختہ توڑ بیٹھی تھی ۔

پھر پریشان بھی ہوئی کہ کہی ان کو پتا لگ گیا تو وہ ڈانٹیں نا ۔

لب کاٹتی وہ اچانک ہی گھبرائی تھی خاموش فضا میں گاڑیوں کے شور سے ۔

یہ گاڑیاں ۔

وہ باونڈری پر آئی لیکن کچھ نظر نا آیا ۔

ہیر نکل یہاں سے اگر کسی نے دیکھ لیا تو خوامخوہ شرمندگی ہو گئی ۔

وہ پریشانی سے سوچتی جلدی سے سیڑیوں کی طرف دوڑی تھی ۔

اس سے پہلے وہ بھاگتی کمرے کے دروازے کے ناب گھمانے پر وہ ساکت ہوتی جلدی سے واش روم بھاگ گئی تھی ،

دروازہ کھول کر وہ اندر آتا چھوٹا سا بیگ صوفے پر رکھتا وہ شرٹ کے بٹن کھولنے لگا تھا ۔۔

شرٹ کھول کر کبڈ سے صاف ستھرا ٹاول پکرتا وہ واش روم کی طرف بڑھنے لگا تھا کہ ٹھٹھک کر رکا تھا ۔


کارپٹ پر گرا گلابی پھول اسکی توجہ اپنی جانب کھینچ گیا تھا ۔

اسنے بے ساختہ جھک کر وہ تازہ توڑا پھول پکڑ کر غور سے دیکھا پھر سیڑیوں کی طرف نگاہیں کیں ۔

کمرے میں پھیلی اسکی خود کی مہک اسنے پرسوچ نظروں سے کمرے کو دیکھا تھ

وہ پھول ڈریسنگ مرر کے اوپر رکھتا واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا ،

دروازہ کھول کر وہ ساکت ہوا تھا ۔

وہ دروازے سے چپکے ہونے کی وجہ سے دروازہ کھولنے سے وہ دھڑم سے نیچے گرتی چیخی تھی۔


او مائی گاڈ ہیر تم اس وقت روم میں اٹھو نیچے سے چوٹ تو نہیں لگی ۔

وہ حیران ہوتا ہوا بولا لیکن اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ وہ تشویش کا اظہار کر گیا تھا ۔

ہیر سے نظریں نہیں اٹھائی گئیں ۔

وہ شرٹ تو پہنے ہوئے تھا لیکن شرٹ کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے جو ہیر کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکے تھے ۔

اٹھو نیچے سے ۔

وہ اسکی کلائی پکڑتا نرمی سے کہتا اسے کھڑا کر گیا تھا۔

وہ کھڑی ہوتی بھاگنے لگی تھی جب وہ اسکی کلائی پکڑ کر اسے خود سے قریب کر گیا ۔

ہیر کا چہرہ زرد ہوا۔

مجھے میرے روم میں جانا ہے ۔

وہ آنکھیں سختی سے میچتی خوف سے بولی۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ بتانا پسند کریں گئی کہ آپ میرے روم کیسے آئیں ۔

وہ مسکراتے نقوش سے اسکے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوا بولا۔

وہ کچھ نہیں بولی تھی صرف چہرہ سرخ ہوا تھا ۔

جواب دو ہیر ۔۔۔

وہ اسکی دونوں کہنیوں سے پکڑے ہوئے تھا جبکہ وہ ایسے تھی جیسے ابھی چھوڑا تو ہیر مر جائے گئی ۔


میں بھول کر آگئی تھی ۔

وہ لرزتے لہجے میں بمشکل بول پائی۔

وہ مسکراتا ہوا اسے نرمی سے لے کر اسے بیڈ پر بٹھا گیا ۔

اور پھر شرٹ کے بٹن بند کرتا ہوا مسکرایا ۔

ہیر آنکھیں کھولو میں نے بٹن بند کر لیں ہیں۔

وہ شاید اسکی شرم سمجھ چکا تھا ۔

ہیر نے آہستہ سے پلکیں اٹھائیں ۔ گہری مسکان ہونٹوں پر سجائے سردار غاذان کو دیکھ کر وہ جھٹ سے کھڑی ہوتی لب کچلنے لگی انگلیاں مڑوڑتی وہ سخت پریشان تھی۔

تمہارا پھول ۔

پھول ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھا کر اسے دیتا وہ بولا تھا.

ہیر نے حیرت سے پھول کو دیکھا پھر اسے کہ کہی وہ پھول توڑنے پر ناراض تو نہیں ہیں نا۔

لیکن اسکے چہرے کے نارمل تاثرات ہیر کے دل سے ڈر نکال گیا تھا ۔

لرزتی انگلیوں سے پھول تھامنے کی کوشش کی لیکن بیکار کوشش رہی تھی ۔

وہ دھیمی سی مسکان ہونٹوں پر لیے پھول واپس اپنی طرف کھینچ گیا تھا ۔

ہیر نے حیرت و شاک سے اسے دیکھا ۔

وہ اسکے بے حد قریب ہوا تھا اور اسکے کندھے تھام کر وہ اسکی پشت اپنی طرف کر گیا تھا۔


ہیر کی ٹانگوں سے جان جیسے ختم ہونے کو تھی ۔

اسکی انگلیوں نے نرمی سے ایک پن اسکے بالوں سے اتار کر اس گلابی بڑے سے پھول کو اسکی چوٹی کی شروعات میں سجانا شروع کیا تھا ۔

ہیر کے ہونٹ شاک سے کھلے جسم تنکے کی طرح کانپا تھا پلکیں شرم سے لرزنے لگیں تھیں۔


ایسا تو وہ خواب میں بھی سوچ نہیں سکتی تھی جو خقیقت کا روپ دھارے اسکے سامنے تھا ۔

پھول لگا کر اسنے اسکے بالوں کو نرم نگاہوں سے دیکھا اور انگلیوں سے محبت سے چھوا تھا ۔

ادھر بیٹھو کیا مجھے مس کیا ۔

اسے زبردستی سنگل صوفے پر بیٹھا کر خود اسکے عین سامنے میز پر بیٹھتا وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا ۔

سر جھکاِے بیٹھی لڑکی نے اسے حیرت سے دیکھا ۔

تو مجھے مس نہیں کیا آپ نے۔

وہ مسکراتی نگاہوں سے سرخ چہرے والی لڑکی سے مخاطب تھا ۔

مس کیا میں نے آپکو۔

وہ بے ساختہ بولی تھی ۔

وہ سر پیچھے گراتا ہنسا تھا اسکے اظہار پر ۔

اور یہ شرٹ کون لایا ہے ۔

وہ اٹھ کر سیڑیوں کے پاس ٹیبل کے پاس جا کر وہ شرٹ لاتا ہوا پوچھ رہا تھا۔

وہ پریشانی سے شرٹ کو دیکھتی سر نفی میں ہلا گئی۔

مجھے نہیں پتا میں تو نہیں لائی ۔

وہ یقین سے بولی لیکن نظریں جھکا گئی۔

او میں بھی سوچوں ہیر کہاں مجھے کوئی پرائز دیتی ہے یہ ضرور شائنہ لائی ہو گئی مجھے پتا چلا ہے وہ آئی ہوئی ہے اسے بڑا شوق ہوتا ہے میرے لیے گفٹ لینے کا ۔

اسے جلاتا وہ مرر کے آگے آتا شرٹ لگا کر ناقدانہ نظروں سے خود کو دیکھنے لگا ۔

ہیر کا دل رکا تو کیا وہ انکے لیے گفت لاتی تھیں۔

وہ اٹھی ۔

لیکن یہ شرٹ تو مہنگی نہیں نا تو یہ کوئی اور لایا ہو گا ۔۔

وہ خفگی سے بولی تھی ۔۔

ہیر کو کیسے پتا یہ شرٹ سستی یے مجھے تو بہت مہنگی لگ رہی ہے ۔

وہ کہتا ہوا اسکے قریب آنے لگا تھا۔

سستی ہی ہے کیا کوئی شرٹ ہے آپکی پندراں سو کی نہیں نا ۔

وہ بے ساختہ بولتی ہونٹوں پر تین انگلیاں رکھ گئی تھی ۔

وہ دل شکن انداز میں مسکرایا تھا ۔

اسکا دل لرزا ۔

میں جاوں مجھے نیند آئی ہے میں یہاں صفائی کرنے آئی تھی لیکن کمرہ صاف تھا اب مجھے نیند آرہی ہے ۔

وہ بولی تھی ۔۔

مائی گڈ نیس ہیر کتنے جھوٹ بولتی ہو تم ۔

اسے تھام کر وہ اسے شرمندہ کر گیا تھا ۔

اسکا کا دل رکا تھا۔۔

وہ اسے آہستہ سے سینے سے لگاتا اسکے گرد بانہوں کا حصار نرمی سے کھینچ گیا تھا ۔

ہیر لرزی ۔

وہ اسکی نرم گرفت سے نکلنے کی ہمت خود میں نہیں پاتی تھی ۔

ہمس یو الاٹ یار ۔

وہ گھمبیر لہجے میں بولتا شاید اسکی جان لینے کے در پے تھا ۔

وہ اسکی گرفت میں کسمسائی ۔

وہ مسکرایا ۔

ہیر جھمکوں اور سوٹ کا کمبینشن اچھا ہے آئی لائیک اٹ ۔

وہ اسکا سر چوم کر بولتا اسے گرفت سے آزاد کر گیا تھا ۔

وہ بے ساختہ پیچھے ہوتی اچانک ہی پلٹ کر تیزی سے وہاں سے نکلی تھی ۔

وہ پیچھے چلتا دروازے کے بیچ میں آیا تھا وہ سنسنان کوریڈور میں بھاگ رہی تھی۔


ہیر آہستہ گر جاو گئی۔

اسکے مسکراتے لہجے پر وہ جھپاک سے اپنے کمرے میں آتی درواذہ بند کر کے اس سے پشت لگاتی گہرے گہرے سانس لیتی وہ گالوں پر ہاتھ رکھے نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی ۔

وہ ساکت سی انہی پلوں میں تھی جب وہ اسکے سامنے آئے تھے وہ شرمندہ تھی اور بے انتہا شرمندہ تھی شرم سے گال الگ سے تپ رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کمر کے گرد ابھی بھی انکی نرم گرفت موجود ہو ۔

وہ پریشانی سے ہلتے پردے کو دیکھنے لگی تھی ۔۔

______________________


تمہارے ڈیڈ آئے تھے فرائیڈے کو ۔

وہ اسکے لیے چائے نکالتی ہوئیں بولیں۔

اسنے چونکنے کی زبردست ایکٹنگ کی تھی ۔

رئیلی مجھے تو نہیں بتایا انہوں نے ۔

وہ مصنوعی حیرت کا اظہار کرتا رائنہ کی گھوری کا حقدار ٹھہرا تھا ۔

غاذان میں جانتی ہوں وہ تمہاری اجازت سے آئے تھے جھوٹ بھی بولو گئے اب۔

وہ سنجیدگی سے بولیں۔

وہ آج ناشتہ ان کے ساتھ کر رہا تھا ۔


موم وہ شرمندہ ہیں پلیز اب پچھلی باتوں کو بھول کر آگے بڑھیں اور انہیں معاف کردیں میں انہیں پریشان نہیں دیکھ سکتا اور نا ہی آپکو اکیلا دیکھ سکتا ہوںّ سنجیدگی سے فورک سے ہاف فرائے ایگ کھاتا ہوا وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔۔

رائنہ نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔

تب ہی ڈور بیل بجی تھی۔

میں دیکھتا ہوں۔

وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا رائنہ کو بیٹھنے کا اشارا کرتا ڈور کی طرف بڑھا تھا ۔

____________،___________


پانی شڑاپ کی آواز نکالتا سوئے ہوئے خیام کا چہرہ شرٹ اور آدھا بیڈ گیلا کر گیا تھا ۔

وہ حیرت بھرے تاثرات سے سامنے کھڑی تھانیدارنی کو دیکھ رہا تھا ۔

کیا حرکت تھی یہ مہرینہ ۔

وہ شاک سے بولتا ایک دم سے بیڈ سے اترا.

میرے بیڈ پر سوئے تھے تم ، مجھے پتا بھی نہیں لگا تم میری نیند کا فائدہ اٹھانا چاہ رہے تھے۔

وہ بھڑکی تھی۔

اسنے حیرت سے اسے دیکھا ۔

اگر فاٙئدہ اٹھانا ہوتا تو آپکے جاگنے کی اور اس حرکت کا انتظار نا کرتا مہرینہ کچھ تو عقل کا استعمال کیا کریں ۔

وہ غصے سے بولا۔

تو کیوں آئے اندر پھر ۔

وہ دانت پیس کر بولی ۔

میری مرضی اس گھر کا رینٹ میری جیب سے جاتا ہے اور دوسرا باہر مجھے لگا جیسے کوئی بھوت میرے پاس بیٹھا ہو تو مجھے ڈر لگا تو آپکے پاس آگیا۔

وہ کبڈ سے شرٹ نکال کر مہرینہ کے خون کی روانی روک گیا تھا ۔

تم جھوٹ بول رہے ہو میں کوئی بچی نہیں ہوں ۔

وہ گھبرا کر بولی تھی۔

مانے نا مانے آپکی مرضی پلیز ایک کپ چائے بنادیں مجھے جلدی نکلنا ہے ۔

وہ کہتا ہوا لاونج میں بنے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔

مہرینہ کا دل سوکھے پتے کی طرح لرزا تھا۔

وہ فریش ہو کر آتا بال سنوارنے لگا پھر پرفیومز چھڑک کر اسکی طرف پلٹا جو ابھی بھی وہی کھڑی تھی جہاں وہ چٙھوڑ کر گیا تھا ۔

مہرینہ چاِے ملے گئی۔

وہ اسکے قریب آتا ہوا بولا۔

خود بنا لو سمجھے مجھ سے بات مت کرنا تم نے مجھے کیوں بتایا کہ رات کو جن تھا یہاں اگر وہ تمہاری غیر موجودگی میں مجھے مار گیا تو

وہ اسکے پیچھے آتی ہوئی خوف سے چیخی۔۔


وہ جواباً مسکراتا ہوا کیتلی میں پانی ڈال کر چولہے پر رکھ گیا ساتھ ہی ٹوس نکال کر ان پر جیم لگانے لگا۔

تم جواب کیوں نہیں دے رہے ۔

وہ خفا ہوئی اس پر۔

وہ جواباً اسکی طرف پلٹا ۔

جھوٹ بول رہا تھا یار بس جو تم نے پہلے بات کہی تھی اسکی نیت سے آیا تھا ۔

وہ ہاتھ پشت پر باندھتا فرصت سے اسکے سراپے کو دیکھتا شرارت سے بولا.

مہرینہ نے شاک سے اسے دیکھے پھر ایک جھٹکے سے اسکے بال پکڑے ۔

اپنی عمر دیکھو پہلے زرا چھچھوڑے کہی کے اگر آئندہ ایسی حرکت کی تو کچا چبا جاوں گِی مہرینہ بھوت کے علاوہ کسی شے سے نہیں ڈرتی سمجھے۔

وہ بھڑکی ۔

وہ جواباً اسکے ہاتھوں سے بال نرمی سے آزاد کروا گیا تھا ۔

مسکراتی نظروں سے غور سے اسکا چہرہ دیکھتا وہ شانے چکا کر ہنستا کیتلی میں دودھ ڈال گیا تھا ۔۔

مہرینہ آپ اتنی لڑاکی کیوں ہیں باقی محل کی لڑکیان کتنی سویٹ ہیں اور آپ اللہ معاف کرِے آپ سے تو۔

اسکے شرارت سے کہنے پر وہ تپی ۔

خبردار اگر میرے سامنے دوسری لڑکیوں کے نام لیے تو ۔

وہ خوب جلی تھی۔

اپنا نام بھی تو نہیں لینے دیتی آپ ۔

چائے کا کپ اسکی طرف بڑھاتا وہ ہلکی مسکان سے بولتا وہ مہرینہ کو ساکت کر گیا تھا ۔

اپنا کپ اور ٹوس والی پلیٹ اٹھا کر وہ میز کی طرف بڑھا تھا ۔

جبکہ وہ اسکی پشت کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی تھی ۔

_________________________

میں کچھ نہیں جانتا رانا بس مجھے اسکی موت چاہئیے ۔

وہ بھڑکا تھا ریلکس بیٹھے رانا پر۔


پہلے کتنی بار میں نے اس پر حملہ کروایا ہے لیکن ہر بار بچ جاتا ہے وہ خبیث لیکن خیر تم بتا رہے تھے اسکی شادی کی تیاریاں شروع ہونے والی ہیں ۔

وہ سنجیدگی سے بولا۔

ہاں کل بات کرتے سنا تھا میں نے انہیں،

بابا کو تو ہمیشہ وہی نظر آتا ہے غاذان کی طرح بنو غاذان یہ پڑھتا ہے تم بھی پڑھو غاذن جیسے کوئی نہیں مجھے تو لگتا ہے انکا سگا وہی ہے بس ہر رشتے سے نفرت ہونے لگی ہے مجھے۔

وہ حسد کی آگ میں گیلی لڑکی کی طرح سلگنے لگا تھا ۔

تم ٹینشن نا لو غاذان کی بارات والے دن کریں گئے دھمکا بس اس دن کا مجھے شدت سے انتظار ہے ۔

وہ خلاء میں دیکھتا عجیب سی مسکراہٹ سے بولتا داور کو چونکا گیا تھا ۔۔

________________________

غاذان نے حیرت سے تیمور صاحب اور انکے پیچھے نروس سی کھڑی اپنی بیوی کو دیکھا تھا ۔

کون ہے غاذان ۔

رائنہ اٹھ کر پیچھے ہی چلی آئی تھی اور اب وہ بھی حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔

ہیر آج یہاں ناشتہ کرنا چاہتی تھی تو میں لے آیا اسے غاذان تو اسے بنا لیے ہی آگیا تھا ۔

وہ ماں بیٹے کو دیکھ کر بولے جبکہ ہیر نے حیرت سے تیمور صاحب کو دیکھا ۔

آئیں اندر آئیں ۔

وہ مسکراہٹ ضبط کرتا ہوا بولا ہیر کے ایکسپریشن اسے بتا گئے تھے پلین کس کا تھا ۔

رائنہ بھی ایک سائیڈ ہوئیں ۔

شہنام فریش سا ڈائننگ ٹیبل پر آتا وہاں سب کو دیکھ کر مسکرایا۔

گڈ مارننگ انکل!

تیمور صاحب کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا وہ بولا ۔

گڈ مارننگ بچے۔

وہ بھی جواباً خوش اخلاقی سے بولے۔

ہیر کی طرف اسنے ناک چڑہا کر دیکھا جس پر اسنے شکایتی نظروں سے غاذان کو دیکھا ۔

آرام سے ناشتہ کرو سمجھے خبردار اگر ہیر کو آنکھیں نکال کر ڈرایا تو ۔

وہ مسکراتے لہجے میں اسے ڈانٹ رہا تھا ۔

ہیر نے خفگی سے انہیں دیکھا تھا۔


ڈیڈ کیا لیں گئے ۔

وہ اب باپ سے مخاطب تھا جو ایک آدھ نظر لاتعلق بیٹھی بیوی کو بھی دیکھ لیتے تھے ۔

بس چائے اور ساتھ میں روٹی ۔

وہ بولے تھے اور ارئنہ خاموشی سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی ۔

غاذان نے اسے دیکھا ۔

جو ٹی پنک سوٹ پر نیلا پنک کڑھائی والا دوپٹہ لیے بہت پاکیزہ لگی تھی اسے ۔

وہ ٹوس کی پلیٹ اٹھانے لگی تھی جب سرعت سے وہ پلیٹ شہنام اٹھا لے گیا ۔

اسے گھور کر وہ جوس کا جگ اس سے پہلی اٹھاتی وہ جگ بھی اٹھا گیا تھا ۔۔

ہیر شرمندہ سی ہوئی۔۔


شہنام ٹوس پر مکھن اور گلاس میں جوس ڈال کردو مجھے ہری اپ ۔

وہ اچانک ہی بولا تھا ۔

شہنام نے برا سا منہ بنا کر ٹوس پر مکھن لگایا اور جوس گلاس میں ڈال کر لارڈ صاحب کے سامنے رکھ دیا۔۔

ہیر یہ لو ناشتہ کرو ۔

وہ پلیٹ اور جوس اسکے آگے رکھتا باپ کو مسکرانے جبکہ شہنام کو غصے سے لال پیلا کر گیا تھا ۔

ہیر نے ڈبڈبائی نظروں سے اسکے نرم نقوش کو دیکھا پھر شہنام کو ۔

تب ہی رائنہ نرم سوکھی روٹی ساتھ آم اور مرچ کا اچار گرم کپ چائے کا لیے چلیں آئیں پلیٹ انہوں نے خاموشی سے تیمور صاحب کے آگے رکھی اور اپنی جگہ بیٹھتی اپنا چھوڑا ہوا ناشتہ دوبارہ کرنے لگیں ۔

تیمور صاحب نے غاذان کو دیکھا جسکی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی ۔۔

اور ہیر بھی غور سے رائنہ اور تیمور کو دیکھتی غاذان کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔

جواباً وہ بھی آنکھیں میچ کر ہنسا تھا ۔

وہ بلیک گلاسز لگائے کان میں بلیو توٹھ سیٹ کرتا کسی سے بات کرتا ہواق اندر آ رہا تھا جب وہ شاہ میر کو دیکھ کر رکا تھا ۔

شاہ میر کا چہرہ فق ہوا تھا اسے سامنے دیکھ کر ۔

وہ جواباً نرمی سے مسکرایا مروتاً اسے بھی مسکرانا پڑا تھا۔

شاہ میر ابھی تک کوئی میسج نہیں آیا یا پھر آیا ہو اور مجھے پتا نا لگا ہو کیا ایسا ہی ہے ۔

اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ ک چلتا وہ بڑے دوستانہ انداز اپناِئے ہوئے تھا۔


شاہ میر تھوک نگلتا سر جھکا گیا ۔

تمہارا وہ دوست اب کیسا ہے کیا اس سے بات ہوئی ۔

وہ پوچھ رہا تھا ۔

شاہ میر نے زور سے نفی میں سر ہلایا ۔

او چچچ!

اچھا پیسے کیوں نہیں بھیجے جب میں نے کہا تھا کہ ٹرانسفر ہو جانے چاہئیے ۔

وہ اس بار سنجیدگی سے اسکے چہرے کو دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔

وہ سردار برو اصل میں میرے اکاونٹ میں کچھ مسلہ ہے تو اس وجہ سے نہیں کرا سکا ورنہ آپکا حکم کون ٹال سکتا ہے بھلا۔

وہ جلدی سے بولتا اس سے تھوڑا دور ہوا تھا ۔


بچے اگر آج ٹرانسفر نہیں ہوئے نا تو تمہارے سارے اکاونٹ سیل کروانے کا وعدہ میں کرتا ہوں ،

اچھا ابھی چلتا ہوں شام کو ملیں گئے کہی باہر مت جانا ساتھ میں ڈینر کرنے چلیں گئے ۔

سرد سی مسکان سے کہتا وہ گاڑی کی طرف بڑھ گیا جبکہ شاہ میر رونے والا ہوتا جلدی سے فون نکال کر پیسے اسکے اکاونٹ میں ٹرانسفر کرانے لگا تھا کہ وہ جانتا تھا سردار برو صرف دھمکی نہیں دیتے عمل بھی کرتے ہیں سو وہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔

اسکی بڑی فکر ہے لگتا ہے اسے پسند کرتے ہیں پتا کرنا پڑے گا ۔

وہ موبائل پر انگلیاں چلاتا ہوا کچھ سوچ کر بولا تھا۔

________________________

یہ پیسے رکھ لو تمہارے کام آئیں گئے مہر ۔

نوشین نے مہر کی طرف کچھ پیسے بڑھاتے ہوئے کہا۔

مہرینہ نے ہونٹ بھینچ کر ماں کو دیکھا ۔


ْآپکو کیا لگتا ہے میں یہاں پیسے لینے آتی ہوں جو آپ ہر بار پیسوں کی آفر کرتیں ہیں مجھے میں یہاں اپنا حق سمجھ کر اس لیے آتی ہوں کہ آپ لوگوں کو بتا سکوں کہ مہرینہ کتنی خوش ہے،

میرا شوہر کم پیسوں میں میری ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے اور بہت آزاد زندگی جی رہی ہوں آپکو ایک بات بتاوں یہ محل بہت بڑا ہے لیکن مجھے کسی قید جیسا ہی لگتا تھا مہر یہ پہنو مہر وہ کھاو یہ لڑکیاں نہیں کھاتی مہر باہر جا رہی ہو تو وہ پہنو زیادہ ہنسو مت بابا ڈانٹیں گئے مہر چائے بناو فلاں آیا ہے مہر تم بڑی ہو سو تمیز سے رہا کرو تاکہ دوسری لڑکیاں بھی تم سے کچھ سیکھیں مہر ٹائم پر سویا کرو ٹائم پر کھایا کرو بے وقت مت کھایا کرو سسرال میں جا کر کیا کرو گئی سچ پوچھیں تو آپ لوگوں نے ڈپریشن کی مریضہ بنا دیا تھا مجھے لیکن خقیقت بتاوں وہ چھوٹا سا گھر ہے جہاں ہم رہتے ہیں لیکن میں آزادی سی رہتی ہوں اپنی مرضی سے اٹھتی ہوں جو دل کرتا ہے کھاتی ہوں جہاں دل کرتا ہے جاتی ہوں کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ شوہر میرا تو خود کھانا بناتا ہے کبھی کسی کام کو ہاتھ لگانے نہیں دیتا دیکھیں مجھے کیا آپ کو لگتا ہے مجھے پیسوں کی یا کسی چیز کی ضرورت ہو گئی۔

وہ کھڑی ہوتی ہوئی عجیب سی مسکراہٹ سے پوچھ رہی تھی ،

نوشین بیگم ساکت و جامد بیٹھی بس بیٹِی کو تکے جا رہی تھیں ۔

واقعے سوٹ چاہے اسکا سادہ اور سستا تھا لیکن مہرینہ کو اسے پہن کر کوئی شرم نہیں تھی وہ تراشے ہوئے بالوں کو ایک کندھے پر ڈالے پراعتماد نظروں سے ماں کو دیکھ رہی تھی ۔

خیر میں ہیـــــــر اور دوسری لڑکیوں سے مل لوں پھر خیام آجائے گا ۔

وہ کہتے ہی نیلے کارپٹ والی سیڑیوں کی طرف بڑھی تھی ۔

بیٹھک کی کھڑکی میں کھڑے سہیر خانم کی بھی ساکت نظریں بیٹی کی پشت پر تھیں ۔

_______________________


شہنام اور وہ بالکنی میں بیٹھے لنچ کر رہے تھے ۔

بات سنو تم موٹی ہوتی جا رہی ہو۔

وہ چاٹ کھاتی ہیر سے سنجیدگی سے بولا۔

ہیر نے اسے دیکھا پھر خود کو ۔

تم اصل میں خود موٹے ہو رہے ہو اس لیے تمہیں ایسا لگتا ہے۔

وہ ناک چڑہا کر بولی ۔

شہنام نے اسے گھورا ۔

بات سنو تم پہلے تو بڑی معصوم ہوتی تھی۔

ّوہ حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔

تم خود بہت چالاک ہو اس لیے تم میری معصومیت سے جلتے ہو ۔

وہ کندھے اچکا کر لاپرواہی سے بولی۔

کیا جادو کیا ہے تم نے ہمارے سردار کزن پر جو انہیں صرف تم ہی نظر آتی ہو۔

وہ حیرت سے پوچھتا دنگ ہوا کہ ہیـــــر کے ہونٹوں پر دھنک سی مسکان اچانک سے ہی آئی تھی ۔

تم مسکرا کیوں رہی ہو۔

وہ حیرانی سے پوچھ رہا تھا کیا تم نے واقعے ان پر کوئی جادو کیا ہے۔


وہ آگے ہوتا حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔

اسنے مسکراتے ہوئے سر ہاں میں ہلا دیا تھا۔۔

کس سے کروایا ہے بتاو مجھے۔

وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتا ہوا چلایا۔


میں خود کرتی ہوں اور بات سنو مجھ سے زرا تمیز سے رہا کرو تم پر بھی کر سکتی ہوں۔

وہ تیکھی نگاہوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

میں تو کبھی تمہارے ہاتھ نا آوں جادو گرنی کہی کی۔

وہ غصہ ہوا۔

ارے جاو میں تمہیں خود ہی ہاتھ میں نہیں لینا چاہتی میرا دماغ ابھی اتنا بھی خراب نہیں ہوا ۔ بلکہ میں تو تم پر کوئی ایسا جادو کروں گئی جس سے تمہاری کبھی شادی نہیں ہو گِی۔


وہ کھڑی ہوتی شرارت سے بولتی ایک دم سے چپ ہوئی تھی بلکہ چہرہ فق ہوا تھا کچھ دیر پہلے جو چہرے پر شرارت تھی اب وہاں بس خوف تھا۔

وہ دیوار سے کندھا ٹکائے گلاسز گریبان میں لٹکائے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے بڑی فرصت سے کھڑا تھا ۔


شہنام نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا پھر مسکراتا ایک دم سے کھڑا ہوا۔

دیکھا میں نا کہتا تھا یہ چڑیل ہے بس آپکو ہی یقین نہیں تھا مجھ معصوم پر۔۔۔

وہ ہیــــــــر کو منہ چڑاتا سردار کے پیچھے کھڑا ہوتا ہوا بولا تھا۔۔

نی م می تو مزاق ۔۔

وہ ہراساں ہوتی ہوئی ٹوٹے پھوٹے فقرے بولی۔

کوئی مزاق نہیں تھا سردار غاذان یہ سچ تھا آج آپ نے اپنے کانوں سے سن لیا نا ۔

وہ جوش سے بولتا کمینگی سے ہنسا ۔

سردار غاذان دو قدم چلتا اسکے قریب آیا جواباً وہ تین چار قدم پیچھے ہوئی تھی ۔

مہرون سوٹ پر شفون کا سکن دوپٹہ لیے وہ معصوم ہی لگتی تھی ۔

وہ زرد چہرے سے سر جھکائے پریشان تھی ۔

وہ ایک دم سے اسکا بازو کہنی سے تھام کر اسے قریب کھینچ گیا ۔

روز مجھے ڈانٹ پڑتی ہے آج ان صاحبہ کو پڑے گئی مزہ آئے گا ۔

وہ خوش ہوا ۔

لیکن پھر وہ دنگ ہوا شاک سے اسکی آنکھیں باہر آنے کو تھیں ۔


وہ ہیـــــــــــر کے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھے اسکے چہرے کو دھیمی مسکان سے دیکھ رہا تھا۔

شہنام میری ہیـــر کو تنگ مت کیا کرو ورنہ اسنے تم پر واقعے کوئی جادو کر کے تمہیں کوہ قاف پہنچا دینا ہے کہ اصل جگہ تو وہی ہے تمہاری۔

ہیــــــر کے حیران و پریشان چہرے کو دیکھ وہ مسکراتے لہجے میں شہنام کو سنا رہا تھا ۔

یہ مجھے روز تنگ کرتا ہے آپ یقین کریں مجھے جادو نہیں آتا میں نے آپ پر کوئی جادو نہیں کیا یہ جھوٹ بولتا ہے مجھے کوہ قاف بھیجنا نہیں آتا ۔

وہ روہانسے لہجے میں اپنی صفائی پیش کرتی سردار غاذان کو قہقہ لگانے پر مجبور کر گئی تھی ۔

او مائی گاڈ کتنی معصوم ہے میری ہیر اور تم اسے چڑیل کہتے ہو اصل میں تم ہیر سے جلتے ہو ہے نا ۔

وہ مسکراتی آنکھوں سے شاک سے کھلے منہ والے سے مخاطب تھا ایسا روپ تو اسنے پہلی بار دیکھا تھا سردار غاذان کا کیا وہ اس سے محبت کرتے تھے۔۔۔


ہیر شرم و حیا سے جھجھک کر پیچھے ہوتی وہاں سے بھاگی تھی کہ اسے گملے سے ٹھوکر لگی تھی پر وہ رکی نہیں تھی


تمہاری وجہ سے وہ اگر گرتی تو تم بہت مار کھاتے مجھ سے ۔

وہ اس پر خفا ہوئے ۔

بات سنیں اگر آپ اسے پسند کرتے ہیں پھر بھی زرا پیچھے رہ کر بات ہو سکتی تھی ہمیں تو بڑا ہدایت نامہ جاری کرتے تھے لڑکیوں سے فاصلے سے بات کرنی ہے ان سے دوستی نہیں کرنی خلانکہ جتنی آپکی فرینڈز ہیں شاید کسی اور کی ہوں چلو ان سے آپکی ایسی بے تکلفی نہیں تھی لیکن اس سے آپکو میرے سامنے ایسے رومینس جھاڑنا اففف کیا دیکھ لیا ہے میں نے میں پھپھو کو بتاوں گا۔


وہ تیز تیز بولتا رکا کہ اسکی ہونٹوں پر پھر سے مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی ۔

تم نے اگر اسے چڑیل کہا یا اسکے آگے سے کھانا اٹھایا یا اسے زچ کیا تو میں تمہیں سیدھا مصر روانہ کروں گا سمجھے۔

وہ اسکے پاس آتا پاکٹس میں ہاتھ گھسائے کندھے اچکا کر لاپرواہی سے اسے دھمکی سے نواز رہا تھا ۔

میں آپکا پھپھو کو بتاوں گا ۔

وہ بھی شیر ہوا ۔

شوق سے بتاو مجھے تو وہ بہت پسند ہے دراصل میں آج اسے رومینٹک ڈیٹ پر لے کر جاوں گا ۔

وہ شاید آج اچھے موڈ میں تھا ۔

شہنام آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتا رہا ۔


تو اب آپکو کسی کا لخاظ نہیں رہا ۔


وہ پریشانی سے پوچھ رہا تھا وہ تو سمجھا تھا وہ ہیـــــــــر سے ہمدردی رکھتا ہے لیکن یہاں تو معاملہ کچھ اور ہی تھا ۔


بلکل بھی نہیں جاو جسے بتانا ہے بتاو ہاں پھر اپنا بیگ پیک کر لینا کہ پھر میں تمہیں یہاں ٹکنے نہیں دوں گا اور اس سے دور رہنا تمہیں اسکی خفاظت پر معمور کیا ہوا ہے ناکہ اسے پریشان کرنے کے لیے۔

آخر میں سرد لہجے میں کہتا وہ جا چکا تھا لیکن کوریڈور میں آتا وہ مسکرانا نہیں بھولا تھا ۔


شہنام سر تھامتا وہی بیٹھ گیا ۔

او تو معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے اور مجھے خبر تک نہیں ہوئی۔۔


وہ شاک سے بڑبڑایا تھا۔

________________________

ارے تم کہاں تھی یار کتنی پیاری ہو گئی ہو پہلے سے،

مجھے لگا تھا اس گھر میں بے رونقی اسی کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہوئی ہے ۔

شاہ میر اسکے سامنے آتا ہوا اشتیاق سے بولتا مہر کو قہقہ لگانے پر مجبور کر گیا تھا ۔

بائیک پر بیٹھتا وہ چونک کر ان دونوں کو دیکھنے لگا تھا ۔

ہیرے کی قیمت ایک جوہری ہی لگا سکتا ہے شاہ میر میں نے بھی تمہیں مس کیا تھا ۔

وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔

خیام نے چبتی نظرّوں سے اسے دیکھا ۔

ہاں تو ہم دونوں ایک جیسے جو ہوئے مجھے تو تمہارے بنا مزہ ہی نہیں آرہا،خ رہنے کے لیے آجاو نا کچھ دن ۔

وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔

مہرینہ چلیں ۔

وہ آگے سے اس سے پہلے کچھ کہتی خیام اونچا بولا تھا ۔

ان دونوں نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔

اچھا پھر ملاقات ہو گئی اللہ خافظ ۔

مہر نے مسکرا کر کہا،

شاہ میر نے جواباً ہاتھ اسکی طرف بڑھایا تھا ۔

مہرینہ ہاتھ ملا کر الوداعی کلمات کہتی جلدی سے بائیک کی طرف بڑھی تھی ۔


تم جیلس تھے اس سے ۔

رات کو کھانا کھاتی اسکی خاموشی نوٹ کرتی ہوئی وہ بولی تھی ۔

وہ جواباً اسے دیکھتا پھر سے کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا ۔

مہرینہ نے اسے گھورا۔

بات سنو وہ میرا کزن ہے تم کیوں اس وقت سے منہ سوجائے بیٹھے ہو ۔

وہ تنک کر بولی ۔

میں کیوں جیلس ہوں گا۔

وہ سر جھٹکتا ہوا بولا ۔

مہر نے اسے تیکھی نگاہوں سے دیکھا ۔

پھر بات کیوں نہیں کر رہے ۔

وہ بولی ۔

آپ چاہتیں ہیں میں آپ سے بات کروں ۔

وہ پانی کا گلاس ہونٹوں کو لگاتا اسکے چہرے کو دیکھتا ہوا وہ پوچھ رہا تھا.

مہرینہ نے ہونٹ بھینچے ۔

جاو نا بولو اور ہاں میں آج ہیر سے بھی ملی وہ بہت اچھی لگ رہی تھی ۔

روٹی کا ٹکڑا منہ میں رکھتی ہوئی وہ بولی ۔

وہ مسکرایا ۔

مہرینہ نے اسکی مسکان گہری نگاہوں سے دیکھی ۔

وہ ہیں ہی اچھی یہ پوچھیں وہ کب اچھی نہیں لگتی ۔

وہ محبت سے بولا تھا ۔

کیا تم روز اس سے ملتے ہو ۔

وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی۔

ہاں میں روز انکے یونی جاتا ہوں ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر کہاں رہ سکتے ہیں، آپی میں بہت چینج آگیا ہے اور انکا چینج مجھے بہت پسند آیا ہے میں انہیں ایسا ہی دیکھنا چاہتا تھا ۔

بہن کے زکر پر شفقت سی لو چہرے پر سے پھوٹنے لگی تھی ۔

مہرینہ نے حسرت سے اسے دیکھا ۔

کتنا پیار کرتا تھا وہ اپنی بہن سے ایک اسکا بھائی تھا جسنے کبھی انہیں محبت بھری نظروں سے دیکھنا تو دور انکو بلانا اپنی توہین سمجھتا تھا ۔


مہرینہ آپ کہاں چلی گئیں ۔

اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہوا وہ بولا تھا ۔

تم تو ناراض تھے مجھ سے ۔

وہ جواباً خفگی سے پوچھ رہی تھی ۔

وہ مسکرایا ۔

اب نہیں ہوں ۔

وہ اسکے چہرے کو دیکھتا ہوا بولتا اسے بھوکھلانے پر مجبور کر گیا تھا ۔

تم ناراض ہی اچھے ہو ۔

وہ غصے سے بولتی کچن میں چلی گئی ۔

جواباً وہ بے ساختہ ہنسا تھا ۔

_______________________


آج سب لڑکیاں لان میں گھنی چھاوں میں بیٹھی فروٹ کے ساتھ بھرپور انصاف کر رہی تھیں۔

وہ بھی ان سے تھوڑا سا دور بیٹھی ہوئی تھی گود میں نوٹ بک رکھے وہ کچھ لکھ رہی تھی جب پھیری والے کی آواز پر وہ سب پرجوش سی ہوئیں تھیں۔

میں تو دوبارہ کان چھیدواوں گئی ۔

صفا ایکسائٹمنٹ سے کہتے ہی بھاگ کھڑی ہوئی تھی ۔

میں بھی اور ساتھ ناک بھی ۔

سفینہ نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔

صفا بھائی کو اندر ہی لے آو ۔

سفینہ نے اسے آواز لگائی۔

ماوں سے تو پوچھ لو ۔

شزرا نے بھی کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔

ارے مائیں نہیں ڈانٹیں گئیں ہمارے پاس کونسا جیولری کی کمی ہے ۔

مہدیہ نے کہتے ہی ہیر کا ہاتھ تھاما وہ جو انکی باتیں سر جھکائے سن رہی تھی مہدیہ کے بازو کھینچ پر وہ حیرت سے اسے دیکھتی ہوئی کھڑی ہوئی تھی۔

اٹھو تم بھی کان یا ناک چھیدوا لو ۔

مہدیہ نے پچاس پچپن سال کے آدمی کو اندر آتے دیکھ کر کہا۔

اس آدمی کے ہاتھ میں اور کندھے پر بیگ لٹک رہے تھے ۔

جاو سفو چیئر لے آو ۔

شزرا نے سفینہ کو کہا سفینہ اسے گھورتی دور پڑی چیئر لینے بھاگی تھی۔

نہیں مجھے نہیں چھیدوانے درد ہوتا ہے اور وہ بھی تو گھر پر نہیں ہیں ۔

وہ دھیمے سے بولتی شزرا اور مہدیہ کو خود کو دیکھنے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔


ارے تو پہلے بھی چھیدوائے تھے نا اور گھر پر نہیں ۔

شزرا نے شرارت سے پوچھا ۔

وہ تو بچپن میں نا اب تو مجھے درد ہو گا تم لوگ چھید کرولو میں بس دیکھوں گئی ۔۔

وہ نرمی سے بولی۔

واوا جی واوا ہم یہاں درد برداشت کریں اور تم ہمیں دیکھو بھائی جی پہلے ہماری اس کڑی دا ناک چھیدو ۔

شزرا نے جلدی سے اسکی کلائی تھام کر کہا ہیر کا رنگ اڑا تھا ۔

مجھے درد ہوتا ہے میں نے ان سے پوچھا بھی نہیں۔

وہ بازو کھینچتی ہوئی ہراساں سے لہجے میں بولتی مسلسل کلائی چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔


کن سے پوچھنا ہے تمہیں۔

سفینہ نے پوچھا تھا ۔

ہیر کا چہرہ سرخ ہوا ۔

ارے سردارنی نے اپنے سردار جی سے پوچھنا ہے پاگلو لیکن وہ تو گھر پر نہیں ہیں نا میں جانتی ہوں وہ تمہیں ڈانٹے گئے نہیں۔

مہدیہ نے کہتے ہی اسے زبردستی انتظار میں بیٹھے آدمی کے پاس بٹھایا۔


اسنے جیسے ہی چھیدنی نکالی ہیــــــــر کانپی ۔

بیٹی کہاں کروانا ہے چھید۔

وہ آدمی ہاتھ میں دوائی کی شیشی پکڑے بولا ۔

ناک میں کروا دیں اور ہمیں کوکے بھی دیکھائیں۔

مہدیہ نے اسکے خالی ناک کو دیکھ کر جلدی سے کہا باقی سب بھی بیٹھ چکیں تھیں ۔

پہلے تم لوگ کرواو۔

وہ خوف سے بولی ۔

تاکہ آپ بھاگ جائیں ۔

صفا نے ہوشیاری سے پوچھا ۔

کونسا کوکا پہنو گئی۔

شزرا نے رنگ برنگے کوکے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

یار سرخ نکالو ہیر کی چادر کے ساتھ کا ۔

مہدیہ نے کہتے ہی باریک نگ والا چھوٹا سا چمکتا سرخ کوکا باکس سے نکال لیا تھا ۔

ہیر نے آنکھیں زور سے میچیں ۔

اور پھر اسکی چیخ بے ساختہ تھی ۔

بس بیٹی ہو گیا ہے

وہ آدمی بولتا اب دوسری لڑکی کا منتظر تھا ۔۔۔

وہ ناک پر ہاتھ رکھ کر اٹھتی اندر کی طرف دوڑی تھی ۔۔

ان سب نے حیرت سے اسے بھاگتے دیکھا تھا ۔۔

_______________________


وہ سوئمنگ پول کے قریب کھڑا باپ کے ساتھ ٹہلتا ہوا کوئی بات کر رہا تھا ۔

وہ ان دونوں کو وال گلاس سے دیکھتی کچن کی طرف دوڑی تھی ۔

نوشین نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا ۔

وہ جھجھکتی ہوئی کیتلی پکڑ کر اس میں ایک کپ پانی ڈال کر چولہے پر رکھتی اسکے ابلنے کے انتظار میں تھی۔

شرمین نے سبزی کاٹتے رشک و حسد سے اس لڑکی کی قسمت دیکھی تھی ۔

کیا تھا اگر سردار انکی کسی لڑکی کا نصیب ٹھہرتا وا اللہ تیری قدرت ۔

وہ بڑبڑائی ۔۔

وہ اب دودھ ڈال کر پتی تیز رکھ کر چاِے کو خوب پکاتی سفید کپ جن پر سنہری پھول بنے ہوئے تھے چائے چھان رہی تھی ۔

دوسرا کپ کس کے لیے ہے۔

نوشین نے پوچھا انہوں نے سوچا شاید وہ اپنے لیے بنا رہی ہو ۔

انکل جی اور سردار جی کے لیے ۔

آہستہ سے کہہ کر وہ ٹرے اٹھا کر باہر چلی گئی ۔

دیکھ لو قسمت انسان کو کہاں سے کہاں لے آتی ہے ورنہ اس گھر میں سردار بیگم بننے کے خواب کس کس نے نا دیکھے تھے ۔

نوشین بریانی پر دم لگاتی ہوئیں ٹھنڈی آہ بھر کر بولیں ۔

شرمین نے بھی سر ہلا دیا تھا ۔

________________________

انکل کہاں گئے میں انکے لیے چائے لائی تھی ۔

وہ اسے اکیلے دیکھ بے ساختگی سے بولتی چپ ہوئی پھر ٹھٹھکی ۔۔

وہ بلیک پینٹ جس پر باریک سفید لائنیں بنی ہوئیں تھیں اسکے اوپر اسکی دی ہوئی بلیک پلین شرٹ پہنے ہوئے تھا جسکی سلیوز ہاف تھیں دودھیا مضبوط بازوں کسرتی جسم پر وہ شرٹ بے انتہا جچ رہی تھی ۔

وہ دھیمی مسکان سے اسے دیکھتا چونکا تھا ۔

سوجے ہوئے ناک پر دھوپ میں چمکتا وہ لال موتی خوب نمایا تھا ۔

ہیر واٹ از دس ۔

وہ اسکے قریب آتا ہوا حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔

ہیر کی آنکھیں ڈبڈبائیں۔

آج لڑکیوں نے زبردستی میرا ناک چھیدوا دیا مجھے اس وقت اتنا درد نہیں ہوا تھا لیکن جب سے دوا کا اثر ختم ہوا ہے ناک میں درد ہے جسکی وجہ سے سوجن ہو گئی ہے کیا اچھا نہیں لگ رہا ۔

وہ منہ بچوں جیسا بنا کر کہتی آخر میں بے ساختہ پوچھ بیٹھی تھی۔


نا اچھا لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہـــــــــیر لیکن تمہیں درد کتنا ہوا ہے یار کیا ضرورت تھی میں ابھی ان لڑکیوں کی خبر لیتا ہوں۔

وہ غصے سے کہتا دو قدم ہی چلا تھا جب وہ ٹرے ٹیبل پر رکھے اسکی کلائی دونوں ہاتھوں میں جھکڑ چکی تھی ۔

ان سے کچھ مت کہیں پلیز میرا ہی قصور تھا مجھے بھی شوق تھا نا کل تک تو ٹھیک ہو ہی جانا ہے نا۔

وہ اسکے سامنے کھڑی آہستہ سے اسے سمجھا رہی تھی ۔

جسکی نظریں اسکے ناک پر تھیں۔

کچھ لگایا اس پر۔

وہ اسے چیئر پر بٹھاتا ہوا پوچھ رہا تھا ہاں مہدیہ نے کوئی کریم دی تھی وہ لگائی تھی اب درد نہیں ہے ۔

وہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتی ہوئی بولی ۔

وہ مسکراتا ہوا نیچے بیٹھا ۔

ہیـــــــــــر پریشان ہوتی کرسی سے اٹھنے لگی تھی۔

ہیر بیٹھی رہو ۔

وہ اسے دیکھتا ہوا ٹوک گیا تھا ۔

وہ بیٹھی رہ گئی نظریں اپنے ہاتھ پر تھیں جو وہ پکڑے آہستہ سے انگوٹھے سے سہلا رہا تھا ۔


اسکا ننھا دل لرزنے لگا تھا پلکوں کا رقص بڑا ہی دل موہ لینے والا تھا

ہیــــــر ۔

اسنے جھکے سر والی لڑکی کو شدت سے پکارا تھا ۔

جی !

وہ سر اٹھائے جواب کی منتظر تھی ۔

کیا سچ میں جادو کرتی ہو۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

نہیں وہ جھوٹ بولتا ہے میں ایسی لڑکی نہیں ہوں ۔

وہ پریشانی سے بولی۔

پھر کیسی لڑکی ہو ۔

وہ نظریں اسکے نقوش پر گاڑھے گھمبیر لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

اچھی لڑکی ہوں جادو کرنے والے تو اچھے نہیں ہوتے وہ تو جہنم جائیں گئے نا ۔

وہ غاذان کو دیکھتی بڑی سنجیدگی سے اپنی صفائی پیش کر رہی تھی ۔


مائی گڈ نیس کتنا کچھ پتا ہے ہیر کو اچھا آج موڈ میرا اچھا ہے میں چاہتا ہوں تم مجھ سے کوئی فرمائش کرو ۔

وہ ہنوز اسکے پاس دوزانوں بیٹھا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

اوپر کھڑی شائنہ جلن و حسد سے پاگل ہونے کو تھی ۔


جی !

وہ حیران ہوئی ۔

ہممم مانگو کچھ ۔

وہ کھڑا ہوتا اسے بھی ساتھ میں کھڑا کرتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔


وہ حیران ہوتی اسے دیکھے گئی ۔

ہیر سوچا مت کرو بس فٹ سے بولا کرو میرا دل کرتا ہے تم مجھ سے فرامائشین کیا کرو روٹھا کرو اور ۔۔۔

وہ کہتا چپ ہوا ۔۔

اور ؟

وہ مسمرائز سی ہوتی جواباً پوچھ رہی تھی ۔

اور کچھ نہیں ۔

وہ زیرے لب مسکان سجائے بولا تھا ۔


مجھے یہ چاہئیے ۔

وہ بولی تھی ۔

وہ اسکے اشارے پر نظریں اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی کی درمیانی انگلی میں پہنی رنگ کو دیکھتا چونکا پھر حیران ہوتا اسکے چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔

آر یو سیریس مس ہیر ۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

ہاں آپ نے کہا نا جو مانگوں وہ آپ دیں گئے تو پھر دیں رنگ ۔۔

وہ کہتے ہی ہتھیلی بھی پھیلا گئی تھی اسکے سامنے ۔

ہاہاہا !

مائی گاڈ ہیر تمہاری نظریں صرف میری چیزوں پر ہی کیوں ہوتیں ہیں یہ تو سونے کی نہیں ہے میں تمہیں ڈائمنڈ کی لا دوں گا یہ تو ویسے بھی تمہیں کھلی ہے کافی ۔

وہ سرخ چہرے سے خفگی والی لڑکی سے بولا۔

آپ نے کہا میں فرمائش کیا کروں ۔

وہ خفگی سے بولی تھی بلکہ بچوں کی طرح دائیاں پاوں بھی پٹخ چکی تھی.

وہ جواباً ہاتھ اسکی طرف بڑھا گیا ۔

وہ اس لڑکی کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتا تھا شہنام ٹھیک ہی کہتا تھا وہ کوئی جادو گرنی ہی تھی شاید ۔۔


ہیر نے جھجھکتے ہوئے ہاتھ تھام کر وہ رنگ آہستہ سے نکال کر کسی متاع حیات کی طرح ہاتھ میں بھینچی تھی ۔


مجھے لگتا ہے کسی دن تم میری شرٹ یا پھر کسی دن میری ٹائی پھر کسی دن میرا بریسلیٹ پھر کسی دن تم میرے شوز بھی مانگ لو گئی ۔

وہ اسے تھام کر دل کے عین سامنے لاتا ہوا شرارت سے بولا تھا۔

وہ شرمندگی سے سرخ چہرہ لیے سر جھکا گئی ۔

غاذان تیمور نے دل کے کہنے پر دھیرے سے اسکے ناک پر ہونٹ رکھے تھے ۔

اسنے گہری نظروں سے اسکا شفق کے رنگوں سے سجا چہرہ دیکھنے لگا تھا

وہ جا چکا تھا لیکن اس پیچھے پتھر کا بنا گیا تھا ۔

وہ ساکت سی کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی ۔

آج تم مجھ سے بچ کر دیکھاو چلی جاوں گئی میں آج یہاں سے لیکن تمہیں سبق سکھا کر جاوں گِی یاد رکھو گئی تم مجھے۔

شائنہ نے آنسو صاف کر کے نفرت سے سوچا تھا۔

وہ اب ہتھیلی میں پڑی قیمتی رنگ کو دیکھ کر ہنسی تھی خوشنما سی مسکراہٹ تھی جو اسکے نقوش نقوش میں سے پھوٹنے لگی تھی ۔

چہرہ سارا سرخ پڑ چکا تھا اور ہونٹ بہت ہی خوبصورتی سی مسکان میں ڈھلے ہوئے تھے ۔

ڈیڈ شادی کی تاریخ کے لیے آج سب کو بلا لیں آئی ایم ریڈی ناو۔ ۔۔

ّوہ کوریڈور میں آیا تھا جب سامنے سے آتے تیمور خانم سے بول کر وہ آگے بڑھ گیا تھا رکا نہیں تھا۔

پروقار چال چلتا وہ آگے بڑھنے لگا تھا ۔

جبکہ وہ حیرت سے پلٹ کر مسکرائے تھے ۔

پھر موبائل نکالتے وہ اس پر کوئی نمبر ڈائل کرنے لگے ۔

ائنہ نے سپاٹ نظروں سے تیمور خانم کو دیکھا ۔

آخر کب تک تم ایسے ہی مجھ سے منہ موڑے رکھو گئی میں تم سے اپنے اس گناہ کے لیے معافی مانگتا ہوں رائنہ پلیز شادی کی ڈیٹ فکس کرنی ہے ہم نے آج تمہارے بنا کیا وہ خوش ہو گا آگے تم خود سمجھدار ہو ۔۔


تیمور گرئے شرٹ بلیک پینٹ بلیک ہی کوٹ میں بہت ہی سوبر اور ہینڈسم لگ رہے تھے وہ لگتے ہی نہیں تھے ایک جوان تیس سال بیٹے کے باپ ۔

اپبے بیٹے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں میں شام کو آجاوں گئی۔

وہ چائے کا کپ اٹھاتی ہوئیں بولیں۔

تیمور خانم نے غور سے انکے چہرے کو دیکھا جو بے تاثر تھا ۔

تمہاری مہربانی ہو گئی رائنہ اور ہو سکے تو شادی تک وہی رکنا اسے میری اور میرے بیٹے کی التجا سمجھ لینا۔

تیمور نے انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دھیمے سے التجا کی تھی۔

رائنہ نے ایک جھٹکے سے ہاتھ کھینچا اور کھڑی ہوتی لاونج سے نکل گئی۔

ہیر نے منہ بسورا وہ جانتی نہیں تھی کیا بات ہو رہی ہے لیکن اتنا سمجھ چکی تھی کہ آج بھی ناراضگی برقرار تھی۔


کیا انٹی آپ سے بہت ناراض ہیں ۔

انکے سامنے والے چھوٹے سے ٹیبل پر بیٹھتی وہ جھجھکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

ہاں، ۔

وہ تاسف سے بولے۔

وہ بھی پریشانی سے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔

چلیں اب تمہیں سکول بھی تو جانا ہے۔

وہ بے چارہ سا منہ بنائے بیٹھی اپنی بہو سے بولے تھے۔

وہ ہاں میں سر ہلاتی ایک منٹ کا کہتی اندر کسی کمرے میں بھاگ گئی۔

جبکہ وہ پیچھے سے آہستہ سے ہنسے تھے بلکل بیٹے کی طرح ۔

_______________________


وہ جب سے سکول سے آئی تھی کافی حیران تھی ،

محل کو آج خوب چمکایا لشکایا جا رہا تھا ملازم کاموں میں طرح متحرک تھے پھولوں کی سجاوٹ ہر جگہ کی جا رہی تھی ۔۔


وہ بور سی ہوتی کھڑکی میں چلی آئی ۔

پھر ٹھٹھکی ۔۔

وہ مسکراتے ہوئے خادم کی کوئی بات سن رہا تھا نظریں بس فون پر تھیں ۔

اسکے ٹھٹھکنے کی وجہ سردار غاذان کا حلیہ تھا اسنے بہت کم انہیں شلوار قمیض میں دیکھا تھا وہ آج نیوی بلیو سوٹ پر بلیک واسکٹ پہنے اپنے شاندار پرسنلٹی سے ہیر کے چہرے پر کئی رنگ بکھیڑ گئے تھے ۔


وہ کھڑکی میں کہنی جماتی انہیں بس دیر تک دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔


وہ سرخ سوٹ پر سرخ ہی دوپٹہ لیے ہوئے تھی ناک میں پڑا سرخ نگ والا کوکا چہرے کو عجیب سی چمک بخش رہا تھا ۔

بالوں کی چوٹی بنا کر دائیں کندھے پر ڈالے ہوئے تھی سردار کی گھڑی کافی تنگ کر کے کلائی میں پہنی ہوئی تھی انکی انگوٹھی پر کافی سارا دھاگہ باندھ کر بمشکل بڑی انگلی پر فٹ کی ہوئی تھی بھلا کوئی تھی اس جیسی دیوانی ۔


یہ کتنے اچھے لگ رہے ہیں شاید مہمان آنے ہوں آج۔

وہ کچھ سوچ کر بولتی سامنے دیکھنے لگی تھی جہاں بڑے سے داخلی گیٹ سے سفید کرولا اندر داخل ہو رہی تھی۔

وہ حیران ہوئی تھی ۔

گاڑی سے پہلے تو رائنہ نفیس سے ٹی پنک کلر کے سوٹ پر بلیک بڑی سی چادر اوڑھے باہر نکلیں تھیں ۔

لیکن پھر وہ حیران ہوتی سیدھی ہوئی تھی۔۔

بہت پیاری سی ایک متناسب سراپے والی لڑکی باہر آئی تھی ۔

وہ بلیک تنگ جینز پر بلیو کلر کی بہت شارٹ فراک پہنے ہوئے تھی کھلے کندھوں تک آتے ریشمی بال اونچی کالی سینڈل والی وہ لڑکی ہیر کو چونکا گئی تھی ۔


سردار غاذان نے مسکراتے ہوئے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا تھا جواباً وہ لڑکی اسکا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لیتی کافی پرجوش سی تھی اس کی نظریں صرف غاذان تیمور کے چہرے پر تھیں۔


یہ کون ہے؟


ہیر ایک دم سے پلٹی ۔

تو اسکے لیے اتنی تیاریں ہو رہیں تھیں۔

وہ سوچتی ہوئی باہر بھاگی تھی راستے میں ہی مہدیہ ہاتھ میں ایک سوٹ پکڑے اس سے ٹکرائی تھی ۔

اچھا ہوا آپ مل گئی بتائیں یہ سوٹ کیسا ہے میں نے انلائن منگوایا ہے آج کے لیے۔

وہ سوٹ کو سامنے کرتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔

اچھا ہے ۔

کہتے ہی وہ آگے بڑھی تھی جب مہدیہ نے خفگی سے اسکی کلائی پکڑی ۔

صرف اچھا ہے بیس ہزار کا لیا ہے میں نے۔

مہدیہ نے خفگی سے سوٹ کو دیکھ کر کہا۔

ہیر کا وجود بیتابی میں ڈھلا۔

بہت بہت اچھا ہے پلیز اب جانیں دیں نا ۔

بنا سوٹ کو دیکھے جلدی سے کہتی وہ بھاگ کھڑی ہوئی تھی جبکہ مہدیہ نے حیرانگی سے اسکی عجلت اور بے تابی نوٹ کی تھی ۔

پھر وہ سفینہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔

وہ جلدی سے مین دروازہ جو لاونج میں کھلتا تھا اسکے پیچھے ہوئی کہ وہ تینوں اندر ہی آ رہے تھے ۔

واوا بہت پیارا گھر ہے ۔

وہ لڑکی خوبصورت انگلش لہجے میں بولی تھی ۔

ٹھینکس ہالے۔

وہ گھمبیر لہجے میں کہتا اچانک ہی چلتا رکا تھا ۔

وہ واپس پلٹا ۔۔

ہیر یک دم سے دروازے کے پیچھے ہوئی ۔

سردار نے ارد گرد جیسے کسی اپنے کی موجودگی محسوس کی تھی لیکن جب کوئی نظر نہیں آیا تو وہ واپس پلٹ گیا ۔

لاونج میں سب لڑکیاں عورتیں کھڑی تھیں جیسے رائنہ کا استقبال پر معمور ہوں ۔۔

رائنہ سب سے رسمی سا ملتی غاذان کو کمرے کا چلنے کا کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں ۔

ہالے آو تمہیں تمہارا کمرہ میں خود دیکھاتا ہوں۔

وہ مسکراتے ہوِے کہتا اسے لیے دائیں کوریڈور جسکی سیڑیاں تھرڈ فلور کو جاتیں تھیں لے کر بڑھا تھا ۔

وہ ہنستی مسکراتی ہوئی اسکے ساتھ ہولی تھی۔


ہیر کا دل دکھا ۔

جب میں پہلی بار آئی تھی تو مجھے نوراں کے ساتھ کمرے میں بھیجا تھا اور اسے خود چھوڑنے گئے ہیں ۔

وہ پریشانی سے سوچتی ہوئی سیڑیاں چڑ گئی ۔

سامنے سے ہی وہ دوبارہ اسے نظر آیا تھا ۔

ہیر نے خفگی لیے نظروں سے اسے دیکھا ۔

کیسی ہو صبح سے نظر کیوں نہیں آئی مجھے۔

وہ اسکے چہرے کو آنکھوں میں جذب کرتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

میں تو یہی تھی آپ ہی آج فارغ نہیں ہیں ۔

لہجہ ہنوز خفگی لیے ہوئے تھا ۔

وہ دھیمے سے ہنستا سر ہلا گیا ۔

یہ تیاریاں کس لیے ہیں۔

اسکے پیچھے چلتی ہوئی وہ پوچھ رہی تھی ۔

وہ مسکرایا ۔

شادی کے لیے ۔

وہ بس اتنا بولا ۔

کس کی شادی کے لیے۔

وہ حیران ہوتی پوچھ رہی تھی۔

میری شادی کے لیے ۔

وہ جواباً بولتا واپس پلٹا جبکہ عین اسکے پیچھے چلتی وہ زور سے اس سے ٹکرائی تھی ۔

ہیر کا ناک اسکے کندھے سے مس ہوا تھا وہ ناک کو تھامتی پیچھے ہوئی ۔

آپکی شادی ؟

وہ ساکت سی ناک تھامے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔

ہممم ۔

وہ اسکے ناک سے ہاتھ ہٹا کر دیکھتا کہ کہی زیادہ زور سے تو نہیں لگا بولا تھا۔

کس سے ۔

وہ پریشان ہوئی۔

ایک لڑکی سے سوچا کر ہی لوں شادی ڈیڈ کہتے ہیں میری عمر کے لڑکے دو دو بچوں کے باپ بن چکے ہیں تو سوچا چلو کر لیتا ہوں شادی تم کیا کہتی ہو اس بارے میں۔

وہ ہونٹ کا کونا دانت میں دبائے شرارت سے پوچھ رہا تھا ۔

وہ شدید پریشان ہوئی ۔

مت کریں ابھی آپکی عمر ہی کیا ہے نا کریں انکل کو سمجھا لیں پلیز ۔

وہ خلق میں پھنسے گولے کو بمشکل اندر اتارتی ہوئی بولی تھی۔

ہاہاہا۔

مائی گڈ نیس ہیر تم کتنی کیوٹ ہو لیکن سوری یار میں تمہاری یہ بات نہیں مانوں گا آج شادی کی دیٹ فکس ہو گئی ریاست کے سارے بڑے بڑے لوگ دعوت پر مدعو ہیں اچھے سے تیار ہو جانا مجھے ابھی کچھ کام ہے بعد میں ملاقات ہوتی ہے ۔

وہ آخر میں سنجیدگی سے اسکا گال تھپکتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا ۔

ہیر کی آنکھیں جھلملائیں۔

کیا یہ واقعی اس لڑکی سے شادی کر لیں گئے پھر میں کہاں جاوں گئی میں تو انکے بغیر نہیں رہ سکتی۔

وہ کمرے میں آتی بے دھیانی میں خود سے اعتراف کر رہی تھی ۔

اچانک بیڈ پر پڑے بلیک شاپنگ بیگ پر اسکی نظر پڑی تھی وہ بیگ کی طرف بڑھی۔


بیگ کو بے دلی سے تھام کر اندر سے کپڑے نکالے جو ایک باکس میں پیک تھے ۔

گرے کلر کی لمبی فراک جس کے کناروں پر سلور بھاری گوٹا لگا ہوا تھا لمبی سلیوز جو ساری موتیوں کے کام سے مزین تھیں گلا سادہ تھا لمبے سے بہت ہی باریک دوپٹے کے کناروں پر سلور گوٹا لگا ہوا تھا کہی کہی موتی بھی لگے ہوئے تھے نیچے گرے سلک کا چوڑی دار پجامہ ساتھ سلور کی بیڈ ہیل تھی۔

وہ ریڈی میڈ ڈریس بلاشبہ بہت ہی پیارا تھا لیکن اسے زرا اچھا نہیں لگا تھا ۔۔

کوئی پیارا نہیں ۔

وہ سوٹ پراں کرتی بے دلی سے بولی تھی۔


________________________

اسلام علیکم میں شہنام صدیقی سردار غاذان کا ماموں زاد بھائی اور آپ ؟


سامنے سے آتی وہ کومل سی لڑکی سے ایک دم سے بولا تھا ۔

اسنے حیرانی سے اسکے تعارف کو سنا تھا ۔

چہرے پر بیزای آئی کہ میں کیا کروں بھئی مجھے کیوں بتا رہے ہو اور تمہیں کیوں بتاوں میں کون ہوں

۔وہ بس سوچ کر رہ گئی ۔


جی کیا حدمت کر سکتی ہوں میں آپکی۔

وہ زبردستی سی مسکان سے بولی جواباً وہ مسکرایا ۔

ُآپ بھی بدلے میں تعارف کروائیں ۔

وہ ہاتھ پشت پر باندھتا ہوا بولا۔

مہدیہ کو غصہ تو آیا لیکن کنٹرول کر گئی آخر وہ سردار کا کزن تھا ۔

نائیس نیم مسٹر۔

مصنوعی بڑی سی مسکان سے کہہ کر وہ اسکے پاس سے گزر گئی تھی۔

نام اچھا لگا پھر بھی نام سے نہیں بلایا عجیب لڑکی ہے ۔

وہ حیرت سے بولتا اپنا بیگ پکڑے اندر آیا تھا ۔


شائنہ نے خود پر بے حسی کا حول چڑھا رکھا تھا وہ بھی تیار تھی آج سکن کڑھائی والا سوٹ پہنے کندھے پر سرخ چادر رکھے وہ کوفت زدہ چہرے سے ہیر کو دیکھ رہی تھی ۔


جو کھانا کھا نہیں رہی تھی بس اس سے کھیل رہی تھی سب کڑکیاں لمبے کوریڈور والے لاونج میں نرم کارپٹ پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں ۔

ییر بی بی آپکو سردار غاذان نے یاد کیا ہے۔

دینہ (ملازمہ) نے سر جھکا کر اسے تعظیم سے بتِایا تھا ۔

لڑکیوں نے اسے معنی خیزی سے دیکھا تھا ۔

وہ سر ہلاتی جلدی سے باہر پڑی چل پہن کر ملازمہ کے پیچھے گئی تھی ۔

قسمت والی ہے ہیر۔

سفینہ نے رشک سے کہا۔

ہاں سچ کہہ رہی ہو۔

مہدیہ بھی بولی جبکہ شائنہ نے قہر سے ان کو دیکھ کر کھانے کو آگے سرکایا پھر اٹھ کر باہر کو چلی گئی۔

اسے کیا ہوا ۔

سفینہ نے حیرت سے کہا۔

بے چاری کے دل کو لگا ہو گا ۔

مہدیہ نے تاسف سے کہا۔

ہاں بچپن سے خواب بھی تو سردار غاذان کے دیکھیں ہیں ہمیں تو انکے پاس نہیں پھٹکنے دیتی تھی ۔

شزرا نے کھانے سے بھرپور انصاف کرتے لاپرواہی سے کہا تھا ۔

سب پھر سے سر جھٹکتی باتوں اور کھانے میں مصروف ہو چکیں تھیں اور آپس رات کے فنکشن میں پہنے جانے والے کپڑے ڈسکس کرنے لگیں ۔

_______________________

جی !

وہ انکے روم میں آتی ہوئی پوچھ رہی تھی۔

ڈریس پسند آیا آج کے لیے۔

وہ اسے دیکھ کر صوفے پر بیٹھتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

جی ٹھیک ہے ۔

وہ بولی ۔

اسنے اچنبے سے اسکے بیزار چہرے کو دیکھا ۔

کیا طبیعت ٹھیک ہے۔

وہ فکرمند ہوا.

جی۔

لٹھامار انداز تھا آج۔

وہ مسکرایا ۔

آج سکول تو نہیں جاو گئی نا۔

وہ مسکراتی نگاہوں سے اسکا صاف شفاف چہرہ دیکھتا ہوا بولا ۔

کیوں نہیں جاوں گئی میں جاوں گئی۔

وہ اسکے اشارا کرنے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

آج چھٹی کر لو کیا یاد کرے گئی ہیر۔۔


وہ کافی کا مگ اٹھاتا ہوا فیاضی سے بولا۔

مجھے نہیں کرنی میں جاوں گئی ورنہ ٹرینر ڈانٹتی ہے۔

وہ خفا سے لب و لہجے مِیں بولی ۔

نہیں ڈانٹے گئی میں اسے فون کردوں گا۔

وہ نرم انداز میں بولا ۔

مجھے پھر بھی جانا ہے۔

وہ خفا تھی اور سردار غاذان جان چکا تھا ۔

پھر اسکی مسکراتی نظریں اپنی واچ اور رنگ پر گئیں تھی جنہیں وہ بہت محبت سے پہنے ہوئے تھی ۔

ہیر کیا ناراض ہو مجھ سے کیا میری دوست اچھی نہیں لگی ۔


وہ کچھ سمجھتا ہوا پوچھتا ہیر کا دل دھڑکا گیا تھا ۔

ک و کونسی دوست میں تو آپکی کسی دوست کو نہیں جانتی ۔

وہ جھوٹ بول لیتی تھی لیکن اتنے اچھے سے نہیں سردار غاذان پھر بھی اسکے جھوٹ سے متاثر ہوا تھا ۔

پہلے کھڑکی سے پھر دروازہ کے پیچھے چھپ کر بھی وہ نظر نہیں آئی اچھا خیر میں ملوا دوں گا ۔

وہ اٹھ کر اسکے پاس آ کھڑا ہوا تھا ۔

ییر کا چہرہ شرم سے لال ہوا پھر خفت زدہ تاثارت چہرے پر آئے ۔

وہ شرمندہ سی ہوئی ۔

کیا آپ شادی کر کے مجھے یہاں سے نکال دیں گئے ۔

وہ بھرائی نظروں سے انکے دلکش چہرے کو دیکھ کر پوچھ رہی تھی ۔

وہ دھیمے سے مسکرایا ۔

کیا تمہیں صرف اس گھر سے لگاو ہے مجھ سے نہیں۔

وہ اسے واپس بٹھا کر نیچے دوزانو بیٹھ کر سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔


اسنے ٹھٹھک کر سردار کا چہرہ دیکھا ۔

پھر سر جھکا گئی ۔


وہ گہرا سانس لیتا اسکے پاس سے اٹھ کر اسے بھی کھڑا کر چکا تھا ۔

تیار ہو جاو پھر ایک سپرائز میری ہیر کا منتظر ہے ۔

اسکا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگاتا ہوا وہ بولا ۔

کیا سپرائز ہے۔

وہ حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔

وہ مسکرایا ۔

ہے ایک سپرائز اب جلدی سے تیار ہو جاو نیچے مہمان آنا شروع ہو چکے ہیں ۔۔

وہ کہتا اسے فرصت سے دیکھنے لگا تھا ۔

ہیر نے سر ہلایا اور ہاتھ چھوڑنے کی منتظر تھی۔

میرا ہاتھ ۔

وہ سرخ چہرے سے کہہ رہی تھی ۔

کونسا ہاتھ یہ تو سردار غاذان کا ہاتھ ہے ہیر۔

وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا ۔

وہ بے انتہا حیران ہوئی لیکن تب ہی اسکا فون بجا تھا ۔

وہ اسکا ہاتھ چھوڑ گیا اور اسے بھاگنے کا موقع مل گیا ۔۔

_______________________


تم اتنا تیار ایسے ہو رہے ہو جیسے سردار نے تمہیں لڑکی دیکھانا لے جانا ہو ۔

مہرینہ اسے کافی دیر سے مرر کے آگے کھڑا دیکھ غصے سے ٹوک گئی۔

یہی سمجھ لیں آپ۔

وہ بال جیل سے جماتا ہوا بولا۔

مہرینہ نے دانت پیسے۔

شکل دیکھی ہے اپنی ۔

وہ بالوں کو پن سے سیٹ کرتی بھڑکی ۔

ماشاءاللہ بہت پیاری ہےّ۔

وہ مسکراتے لہجے میں بولا ۔

مہرینہ نے ناک چڑہایا۔

چلیں دیر ہو رہی ہے۔

وہ اب پوچھ رہا تھا جو صوفے پر دونوں پاوں اوپر کو چڑہائے ایسے بیٹھی تھی جیسے یہاں سے اٹھنے کا موڈ ہی نا ہو ۔

وہ اٹھ ہی گئی۔

سنو وہاں میری کزنوں سے فری مت ہونا ۔

اسکے ساتھ بائیک پر بِیٹھتی وہ اسے وارن کر رہی تھی۔

وہ دل سے مسکرایا ۔

کیوں آپ جیلس ہوں گئی۔

بائیک کو دھیمی رفتار پر رکھے وہ پوچھ رہا تھا ۔

بہت خوش فہمی ہے تمہیں میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ میری کزنیں کسی لڑکے سے بات نہیں کرتیں ۔

ناکریں آپ کیوں اپنا خون جلا رہیں ہیں اب اتنا بھی ہینڈسم نہیں لگ رہا مِیں آپ خوامخواہ ہی پریشان ہیں اور کوِئی بات نہیں ۔

وہ شرارت سے بولا ۔

مہر نے جواباً غصے سے زور سے پنج اسکی پشت پر رکھ کر مارا تھا ۔

اور وہ زور سے ہنسا تھا

اسکی جلن پر ۔۔


انہیں سردار غاذان نے شام کو بلایا تھا لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ کیوں بلایا ہے۔۔

_______________________


مہدیہ اور شزرا زبردستی اسے تیار کر رہیں تھی ۔

لمبے قد پر وہ باریک خوبصورت فراک بہت جچ رہی تھی ۔

مہدیہ نے اسکی سیدھی مانگ نکال کر آگے دونوں طرف سے فرنچ نوٹ بنائے تھے بھاری سونے کے جھمکے ساتھ سونے کا خوبصورت نفیس سا ہار تھا،

تین چار انگوٹھیاں دو کنگن گلابی ہلکی لپ سٹک آنکھوں میں صرف کاجل تھا اور پلکیں بڑی کی گئی تھیں۔

وہ حیران پریشان تھی آخر یہ سب کیا تھا،

وہ سمجھنے سے قاصر تھی اسے کوئی کچھ بتا بھی تو نہیں رہا تھا۔۔


نقلی کوکا نکال کر اسکی جگہ سفید نگینے والا سونے کا نازک سا کوکا پہنا دیا گیا تھا ۔۔

بال کندھوں پر دونوں طرف سے آگے کو ڈال رکھے تھے،

باریک نرم دوپٹے کو سر پر بہت اچھے سے پنز سے سیٹ کیا تھا ان دونوں نے۔


انہوں نے واقعی بہت دل سے ہیر رضا کو تیار کیا تھا۔

آپ تیار ہیں۔

ہیر نے حیرانگی سے مہدیہ کو دیکھ کر خود کو دیکھا ۔

وہ خود کو پہچاننے سے قاصر تھی۔

آخر مجھے کیوں اتنا تیار کیا گیا ہے کیا آج کوئی اسپیشل موقع ہے۔

وہ کھڑی ہوتی ہوئی پوچھ رہی تھی اس کا قد ان دونوں سے لمبا تھا ۔

وہ مسکرائیں۔

بالکل اب نیچے چلیں ریاست کی مہمان عورتیں آپکو دیکھنے کو بے تاب ہیں سردار بیگم جی۔

شزرا نے جھک کر اخترام سے کہا۔


وہ حیران کھری ہیر کو تھامے باہر لیں آئیں تھیں لاونج میں دس پندراں نئے چہرے والی عورتوں کو دیکھ کر وہ حیران اور پھر نروس سی ہوتی مہدیہ کی کلائی سختی سے پکڑ گئی۔

سب عورتیں اسکے استقبال میں کھڑیں ہوئیں تھیں۔

ماشاءاللہ ۔

اسکے اسلام کرنے پر سب بولیں تھی۔

رائنہ نے محبت سے اسے تھام کر مہرون رنگ کے سجے ہوئے صوفے پر بٹھایا تھا ۔

وہ حیرانگی سے بیٹھ گئی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔


کچھ خواتیں کی نگاہوں میں اس لڑکی کے لیے رشک تو کچھ کی نگاہوں میں اسکے لیے حسد تھا آخر وہ سردار بیگم جو ٹھہرِی تھی ۔


باہر والے لاونج میں بیس پچیس مردوں کے درمیان وہ پراعتماد انداز لیے بیٹھا گفتگو میں حصے دار تھا اسکا اخترام چھوٹے بڑے پر لازم تھا ۔

مولوی جی نے اسکی شادی کی تاریخ اس سے پوچھ کر ہی رکھی تھی ۔


تیمور صاحب نے اسے اٹھ کر گلے سے لگایا پھر سہیر نے خشام نے شہنام نے داور نے تو برے دل سے اسے گلے لگایا تھا باقی سب نے بہت اخترام سے اس سے ہاتھ ملایا تھا ۔

اسکے چہرے پر دھیمی سی مسکان بہت بھلی لگ رہی تھی ۔


ہیر نے حیرت سے پیشانی چومتے بھائی کو دیکھا تھا۔

وہ اسے دیکھ کر حیرانگی سے مسکرائی تھی ۔

ماشاءاللہ ۔

وہ جھکا ہوا بولا تھا ۔

ہیر نمی بھری آنکھوں سے مسکراتی جواباً اسکے جھکے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر گئی تھی یہ اسکی محبت تھی جو خیام کو بہت پسند تھی۔

پھر وہ چونکی تھی ۔

گھر کے مردوں کے بیچ شان سے چلتا کوئی اور نہیں سردار غاذان تیمور تھا ۔


بلیک سوٹ پر گرے کوٹ پہنے وہ اپنی دلکش پرسنلٹی سے ہیر کا دل ساکت کر گیا تھا۔

وہ کھڑی ہو گئی تھی اسے دیکھ یہ حرکت بے ساختہ تھی اسکی۔

عورتیں بھی کھڑیں ہوتیں ایک سائیڈ کو ہوئیں۔

گڈ لکنگ ہینڈسم۔۔

ہالے بولڈ انداز میں بولی تھی اسے دیکھ وہ جواباً مسکرایا تھا ۔

لیکن نظریں ساکت کھڑی اپنی ہیر پر تھیں ۔

آج سے دس دن بعد ہماری شادی ہے کیا آپ مجھ سے دوبارہ شادی کریں گئی ہیر غاذان تیمور ۔

وہ اچانک ہی ساکت کھڑی لڑکی کا ہاتھ تھامے بولا تھا لڑکیوں نے خوشی سے گالوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے اور شاہ میر حیران سا تھا۔

تب ہی کہوں انہیں بڑا خیال تھا اسکا اسنے مسکراتے ہوئے سوچا پھر زور سے شوخ سی سٹی ماری تھی ۔

ہیر ساکت تھی وہ نظریں جھکا ہی نہیں سکی کیا یہ خواب ہے۔

وہ پریشانی و حیرت سے سوچ رہی تھی ۔


رائنہ نے کئی نوٹ ان دونوں پر سے وار کر وہی

کھڑے ملازموں میں بانٹے تھے ۔

تیمور خانم نے گہری نگاہوں سے نیلے سوٹ والی عورت کو دیکھا تھا جنکی خوشی آج سنبھالے نہیں جا رہی تھی جبکہ نوشین شرمین بس نارمل ہی تھی ۔

مہرینہ تو سردار غاذان کے پاس کھڑی خوشی سے ہیر کے جواب کی منتظر تھی۔

جبکہ خیام محبت سے بہن کو دیکھ رہا تھا آنکھیں بھر آئیں تھیں جنہیں اسنے مسکراتے ہوئے صاف کیا تھا ۔

سردار بیگم جواب کے منتظر ہیں ہمارے سردار صاحب۔

مہرینہ نے اسکا کندھ ہلایا اور وہ ہوش میں آتی سر جھکا گئی تھی ۔


موم لگتا ہے ہیر راضی نہیں ہے تو آپ کسی اور سے کر دیں میری شادی اب شادی تو کرنی ہے نا۔۔۔۔


میں راضی ہوں ۔۔

اسکی شرارت وہ کہاں بھانپ سکتی تھی بھلا ۔

وہ ایک دم سے جلدی لیکن نرم لہجے میں بولتی وہاں کھڑے سبھی لوگوں کے چہروں پر مسکان لے آئی تھی ۔

سردار غاذان کی مسکان پر تو صدقے دینے بنتے تھے کتنی دلکش مسکان سے وہ اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس نے بہت کچھ سہا تھا پھر اللہ نے اسے اتنا نواز تھا کہ اسکا دامن تنگ پڑنے لگا تھا

(بےشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے بس صبر کرنا چاہئیے )


ان دونوں کو ساتھ بٹھا کر لوگ پھر سے بیٹھ چکے تھے ۔

سردار غاذان نے ماں کا ہاتھ چوما تھا جس سے وہ اسکا منہ میٹھ کروا رہیں تھیں۔


سب خواتین نے ہیر کو چھوٹے چھوٹے لیکن قیمتی تخفے دینے شروع کیے تھے ۔

ہالے نے اسے جھمکے گفٹ کیے تھے ۔

شاہ میر نے اس لڑکی کو حیرانی سے دِیکھا کہ وہ اسے پہلی بار دیکھ رہا تھا اور وہ بہت خوبصورت اور ہنس مکھ تھی۔

_______،،،،،_______،،،،،______


وہ رات کی تاریکی میں کوریڈور کی سیڑیوں پر کھڑی کالی چکتی رات کو ہونٹ دانتوں میں دئیے بے یقین سی دیکھ رہی تھی چہرے سے لال سی شفق پھوٹ رہی تھی ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے ۔

وہ سادی سے کالی قمیض شلوار پہنے ہوئے تھی سر پر مہرون دوپٹہ وہ اچھے سے لیے جیسے زمین پر نہیں تھی ۔

بہت خوش ہو ۔

ہاں ۔

وہ باریک چاند کو دیکھ کر بے ساختہ بولی ۔

تمہیں پتا ہے تم میری قسمت جی رہی ہو میرے حصے کی خوشیوں پر قابضہ کیے ہوئے ہو۔

مسکراہٹ معدوم ہوئی تھی شائنہ کی زہر بھری آواز پر۔

وہ پلٹ کر شائنہ کو حیرت سے دیکھنے لگی تھی ۔

تم اگر نا ہوتی تو آج میں غاذان کی بیوی ہوتی اس ریاست کی سردار بیگم کہلاتی کیا تمہاری خیثیت تھی سردار بیگم بننے کی۔

وہ اس سے دو سیڑیوں کے فاصلے پر رکتی درشتگی سے پوچھ رہی تھی ۔

آپ کو ان سے محبت ہے کیا ۔

وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔


محبت وخبت نہیں کرتی تھی میں اس سے شروع سے اس گھر میں حکمرانی کے خواب دیکھائے گئے مجھے ریاست کی سردار بیگم بننے کے خواب دیکھے لیکن تم کھا گئی میرے خواب۔

وہ زہر خند لہجے میں چلا رہی تھی ۔

ہیر کو اس سے خوف محسوس ہوا تھا ۔

مجھے نیند آرہی ہے چلتی ہوں اللہ خافظ ۔

وہ کہتے ہی اسکے قریب سے گزرتی اگر وہ گزرنے دیتی تب نا ۔

وہ اسکا بازو پکڑ کر اسے سامنے کر چکی تھی ۔

تم جانتی ہوں میں جانتی ہوں تمہیں مار کر مجھے کچھ نہیں ملے گا وہ نہیں ملے گا مجھے لیکن خیر ہے تم بھی تو نہیں رہوں گئی اسکی زندگی میں، میں اگر اسکے ساتھ نہیں رہوں گئی تو تم بھی نہیں رہو گٙی ۔

وہ عجیب سی مسکان سے کہہ رہی تھی ۔

ہیر پریشانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی لیکن رات کے گیارہ بجے کون اسکی مدد کو آسکتا تھا بھلا وہ آواز لگاتی تب بھی کوئی نا آتا کیونکہ دیواریں ساونڈ پروف تھیں۔


تمہیں ڈر لگ رہا ہے نا مجھ سے اور خقیقتاً تمہیں ڈرنا بھی چاہئیے تم باہر نا آتی تو بھی اج تمہارا کام میں تمام کر کے ہی رہتی ہیر پتا ہے کیا جو چیز میری نہں ہو سکتی میں وہ کسی کی بھی نہیں ہونے دیتی ۔

وہ نفرت سے کہتی چادر میں چھپا ہاتھ باہر لے آئی تھی ۔

ہیر کا رنگ فق ہوا تھا ,

جدید چھوٹا سا پسٹل وہ ہیر پر تھامے طنز سے ہنسی تھی۔

سردار ،،

وہ پیچھے ہوتی شاک سے چیخی تھی۔۔

جسکو مرضی بلا لو لیکن تمہیں اس دنیا سے بھیجے بغیر میں یہاں سے ٹلوں گئی نہیں۔

بہت زہریلا لہجہ تھا اسکا ۔

وہ اس سے پہلے بھاگتی وہ اسکا بازو پکڑ کر پسٹل اسکے ماتھے پر ٹکا گئی۔

ہیر کا رنگ زرد ہوا وہ کانپنے لگی تھی ۔

شائنہ !

اوپر کھڑا وہ چیخا تھا ۔

وہ پہلے تو ڈری تھی پھر سنبھل کر مسکرائی ۔

ہیر بازو چھڑانا بھول کر انہیں دیکھتی روئی تھی ۔۔

خبردار اگر تم نے میری ہیر کو ایک کھڑوچ بھی لگائی تو تمہیں زمین کے اندر گاڑھ دوں گا نیچ لڑکی ۔

وہ درشتگی سے چیختا نیچے دوڑا تھا ۔

وہی رک جاو سردار صاحب بس انگلی کا دباو ہلکا سا بڑھے گا اور تمہاری ہیر اوپر پہچ جائے گئی تو وہی رک جاو تم مجھے روک نہیں سکتے ۔

وہ چیختی اور زور سے مچلتی ہیر کا بازو دبوچ چکی تھی ۔

سردار ۔

وہ خوف سے روئی ۔۔

ہیر رونا نہیں میں ہوں نا میرے ہوتے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔

وہ غصے سے چلاتا شائنی سے کچھ فاصلے پر آ رکا تھا ۔۔

شائنہ تلخی سے مسکراتی غاذان کو غور سے دیکھتی رہی ۔

میں نے پلین چینج کر لیا ہے ہیر تمہیں مار کر مجھے وہ مزہ نہیں آئے گا جو تمہیں ٹرپتے دیکھنے میں آئے گا سو پلین ول بی جینچ ۔


وہ بول تو ہیر سے رہی تھی لیکن نظریں غاذان تیمور کے غصے سے سرخ پڑتے چہرے پر تھیں۔

وہ دو قدم آگے بڑھا ۔

تم مزہ دیکھنے کے لیے زندہ بچو گئی تو لو گئی نا تمہیں شوٹ نا کردوں میں ۔

وہ درشتگی سے بولتا دو قدم اور نزدیک آیا تھا اب وہ شائنہ سے سات آٹھ قدم کے فاصلے پر تھا۔

شائنہ نے مسکراتے ہوِے پسٹل کا رخ غاذان کی طرف موڑا تھا ۔

اور وہ آئی برو اچکاتا طنز سے مسکرایا تھا ۔


ہیر نے وخشت سے پسٹل کا رخ غاذان کی طرف ہوتے دیکھا تھا ۔

جسم میں جان نکلنے کو تھی پسٹل کا رخ دیکھ کر ۔۔

تم مجھے مار دو شائنہ ورنہ غاذان تیمور تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا اور ہاں مجھے مارنے والے بڑے آئے لیکن نامراد ہی رہے تم بھی کوشش کر لو۔

وہ اب تھوڑا ریلکس تھا ہیر سے پسٹل کو ہٹتے دیکھ کر وہ چاہتا تو ایک جھٹکے سے پسٹل چھین لیتا مگر وہ جلد بازی میں کسی کی زندگی داو پر نہیں لگا سکتا تھا ۔


لیکن یہ تو کوئی ہیر سے پوچھتا نا جان تب نہیں نکلتی جب ہم خود مصیبت میں ہوں جان تب نکلتی ہے درد تب ہوتا ہے جب آپ کے جان سے پیارے کی جان نکلتی ہے وہ مشکل و تکلیف میں ھو ۔۔


گڈ بائے سردار غاذان اگر میں نہیں تو سردار بیگم یہ بھی نہیں ۔۔

کہتے ہی اسنے ٹریگر پر انگلی دبائی۔


نہیں پلیز انہیں مت مارنا تمہیِں مجھ سے تکلیف ہے نا تم مجھ سے نفرت کرتی ہو نا تو مجھے مار دو مگر انہیں کچھ مت کرنا میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز ۔

وہ تڑپ کر کہتی ہاتھ جوڑ چکی تھی ۔

شائنہ تمسخر سے مسکرائی لیکن نظریں صرف غاذان پر تھیں۔


شٹ اپ ہیر خبر دار اگر میرے ہوتے کسی کے آگے ہاتھ جوڑے یا منت کی تو جان لے لوں گا میں تمہاری ۔

وہ غصے سے چلایا وہ کہاں برداشت کر سکتا تھا اسے گڑگراتے دیکھ ۔


تم دونوں کی کوئی بات مجھے نہیں سننی سو آخری بار دیکھ لو ہیر اپنے سوکالڈ سردار غاذان کو ۔

کہتے ہی وہ فائر کر چکی تھی ۔

لیکن اسکا ہاتھ اوپر کو تھا ۔

ہیر اسکا ہاتھ اوپر کو کیے سرخ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جبکہ وہ مسکرایا تھا اسے مارنا آسان تھا کیا!


چٹاخ ۔۔

پسٹل چھین کر دور پھینکتی وہ تھپر بھی مار چکی تھی اسے ، شائنہ لڑکھراتی ہوئی ریلنگ پر گری ۔

وہ کہاں امید کر سکتی کمزور سی ہیر سے اس لیے وہ اپنی نظریں صرف غاذان کی حرکات پر جمائے ہوئے تھی اسکی طرف سے تو وہ بالکل غافل تھی لیکن اس میں ہمت آچکی تھی عشق کو مصیبت میں دیکھ کر ۔۔

وہ حیرت سے ریلنگ کو پکڑے اسکی طرف پلٹی تھی ۔

افسوس ہوتا ہے مجھے آپکو انکی کزن کہتے ہوئے آپ نفرت میں اتنی اندھی ہو چکی ہیں کہ آپکو کوئی اپنا بھی نظر نہیں آرہا شرم کریں زرا، چلو میری خیر تھی آپ کا حق چھینا تھا میں نے لیکن یہ نصیبوں کے کھیل ہوتے ہیں اگر آپ کے نصیب میں وہ ہوتے تو میری جیسی دس ہیر بھی انہیں آپ سے چھین نہیں سکتی تھیں لیکن جب وہ آپکے تھے ہی نہیں تو پھر یہ نفرت بلاوجہ ہے آپ ان پر کیسے گولی چلا سکتی ہیں کیسے کر سکتی ہیں آپ ایسا دل کر رہا جان سے مار دوں آپ کو۔

وہ اسکا بازو دبوچے غم و غصے سے پوچھ نہیں رہتی تھی چیخ رہی تھی ۔


ہیر تم اوپر جاو اس سے میں نمٹ لیتا ہوں پرانے حساب بھی آج اسنے چکانے ہیں ۔

وہ سیڑیوں پر آتا سپاٹ انداز میں کہہ رہا تھا وہ ہیر کے سامنے کوئی حرکت نہیں کرنا چاہتا تھا ۔

نہیں جاوں گئی۔

وہ ضد بھرے لہجے میں بولتی پہلے والی ہیر تو نہیں لگی تھی انہیں ۔

شائنہ نے غصے سے اسے ایک دم سے دھکا دیا اور وہ چیختی ہوئی نیچے گری ۔

ہیر !

غاذان تین چار سیڑیاں پھلانگتا اس تک پہنچ جاتا اگر شائنہ نے اسکی شرٹ کو پیچھے سے ایک جھٹکے سے کھیچا نا ہوتا تو گردن پر گریبان بہت زور سے پھرتا گیا تھا ۔

غاذان ۔

وہ نیچے گری پہلی بار انہیں نام لے کر پکار رہی تھی ۔

غاذان تیمور پلٹا تھا اور رکھ کر دو تھپڑ اسکے دونوں گالوں پر مارے ۔

وّہ بھی سیڑیوں پر گری تھی ۔

ہیر ماتھے پر ہاتھ رکھے اٹھ کر بیٹھی تھی کمر پر درد کی ٹھیسیں سی اٹھی تھیں اور ماتھا پھٹ گیا تھا وہ تو شکر تھا وہ پانچ سیڑیوں پر سے ہی گری تھی ورنہ زیادہ چوٹیں آتیں ۔


وہ بنا ہیر کو دیکھے اسکی پرواہ کیے اسے بازو سے گھسیت کر نیچے لے آیا اور پھر سے اسے غصے سے تھپڑ مار چکا تھا وہ کہی سے بھی عورت کی عزت کرنے والا غاذان تیمور نہیں لگ رہا تھا ۔

وہ چیخ رہی تھی چلا رہی تھی درد کی شدت سے ۔

ہیر اپنی تکلیف بھلائے پریشانی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔

پلیز مت ماریں اسے ۔

وہ شائنہ کی ابتر حالت دیکھ چلائی تھی ۔

نوشین جو پانی لینے آئی تھی صورت حال دیکھ وہ سہیر کو بدحواسی سے بلانے بھاگی تھی۔

سہیر نے بھوکھلاتے ہوئے ساتھ ہی تیمور کو بھی بلا لیا تھا ۔

غاذان ہوش میں او ۔

تیمور صاحب غصے سے بولے تھے ۔

چھوڑیں ڈیڈ یہ رحم کھانے کے قابل نہیں پوچھیں اس سے اسنے کہاں کہاں ہیر کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی کیا کوئی کرتا ہے ایسا۔

وہ نفرت سے بھڑکا تھا۔۔


ساریا کا بتاو پھر پکنک میں جو ہوا وہ بتاو مجھے آج ہی پتا چلا ہیں مجھے اسکے کرتوتوں کا خادم مجھے اسکے بارے میں سب بتا چکا ہے کتنی گھٹیا لڑکی ہے یہ ڈیڈ اور آپ اس سے میری شادی کروانا چاہتے تھے۔

وہ تو کسی کی پکڑ میں ہی نہیں آرہا تھا۔

شائنہ نے لرزتے ہونٹوں سے خون صاف کیا پھر کھڑی ہوئی۔

اسے مروانے کی بہت کوشش کی لیکن ہر بار بچ جاتی تھی اسکی قسمت بہت اچھی ہے غاذان لیکن میں تم دونوں کو ساتھ نہیں دیکھ سکتی یہ میری مجبوری ہے ۔

وہ ہاری نہیں تھی پھر سے چلائی ۔

تم ہاتھ لگا کر دیکھاو اگر تمہیں کھڑے کھڑے ہی جہنم وصل نا کر دیا تو غاذان تیمور نام نہیں میرا ۔

اسکی گردن کو جھٹکے سے پکڑتا وہ سرد لہجے میں پھنکارا تھا ۔

شائنہ کی ریڑ کی ہڈی تک خوف کی لہر دوڑی تھی ۔

ہیر کی انگلیوں سے خون نکل کر ناک اور گال پر آنے لگا تھا۔

وہ بس انہیں خوف سے دیکھے جا رہی تھی وہ پہلی بار اسے اتنے غصے میں دیکھ رہی تھی وہ خود ڈر گئی تھی اسکے مشتعل ہوتے روپ سے ۔


غاذان چھوڑو اسے اسکے باپ کو فون کر دیا ہے آتا ہو گا وہ ۔

تیمور صاحب فون جیب میں رکھ کر اسے پیچھے ہٹانے لگے تھے ۔

غاذان پلیز اسے چھوڑ دیں خدا کا واسطہ ہے آپکو۔

وہ وہی بیٹھی بمشکل بولی تھی۔

اسکی نظریں شائنہ سے ہٹتی دور بیٹھی اپنی متاع حیات پر گئیں تھیں۔


وہ ایک جھٹکے سے اسے پیچھے کی طرف دھکا دے گیا تھا ۔

سہیر اور تیمور نے سکھ کا سانس لیا ورنہ وہ چھڑائے نہیں چھوڑ رہا تھا ۔


افسوس ہے مجھے شائنہ تم پر ہمیشہ اپنے بچوں پر تمہیں فوقیت دی تمہاری مثالیں دیا کرتا تھا میں اپنی بیٹیوں کو لیکن تم کیا نکلی ہو تمہاری وجہ سے میں نے مہرینہ پر کتنی دفعہ ہاتھ اٹھایا تم بھی آخر باپ کا ہی پرتو نکلی ۔

سہیر خانم غصے سے بولے کہ وہ نیچے گرا پسٹل دیکھ چکے تھے ۔

شائنہ نے پہلی دفع شرمندگی سے سر جھکایا تھا ۔

ڈیڈ میں اسے معاف نہیں کر سکتا اسنے اس لڑکی پر بہت بار ظلم کیا ہے تو میں کیسے اس بخش دوں میں پولیس کو فون کرنے لگا ہوں۔

وہ سپاٹ لہجے میں کہتا پولیس کا نمبر ڈائل کر چکا تھا ۔

شائنہ نے خوف سے اسے دیکھا۔


تیمور صاحب کچھ نہیں بولے وہ خود صدمے میں تھے ۔۔

وہ پولیس کو فون کر کے تیز قدموں سے ہیر کی طرف بڑھا تھا ۔

جیب سے رومال نکال کر وہ اسکے چہرے سے خون صاف کرنے لگا تھا ۔

وہ بھینچے ہوِئے ہونٹ چہرے پر پتھریلے تاثرات سجائے اسکے چہرے کو صاف کر رہا تھا ۔۔


وہ کانپتے ہونٹوں سے بس انکو ہی دیکھے جا رہی تھی شائنہ کی نظریں زمین پر تھیں اور وہ دونوں بھائی صوفے پر پریشان بیٹھے ہوئے تھے ۔

غاذان ہیر کو کمرے میں لے جاو ۔

نوشین کے ہاتھ وہ پانی لے کر ہیر کے ہونٹوں سے لگا چکا تھا جب تیمور صاحب نے کہا ۔

پہلے میں ریاض خانم سے دوٹوک بات کر لوں

وہ ریاض کو اندر اتا دیکھ سرد لہجے میں بولتا اٹھ کر کھڑا ہوتا انکی طرف بڑھا تھا جو بھاگ کر بیٹی کو تھام کر سینے سے لگا چکے تھے اور اب غصے سے انہیں دیکھ رہے تھے ۔۔

یہ کیا حالت کردی ہے تم لوگوں نے میری بیٹی کی اسے میری نہیں اپنی مری ہوئی بہن کی بیٹی سمجھ کر خیال رکھ لیتے تف ہے تم سب پر ۔

ریاض خانم غصے سے چلایا ۔

تف تو آپ پر ہے جنہوں نے بیٹی کی تربیت خوب کی ہے اور آج تک اسے اپنی پھپھو کی بیٹی سمجھ کر رعیت دیتے رہے ہیں ۔

وہ بھی غصے سے بولا۔

اسکے ہاتھ میں خون آلود رومال تھا جو اسنے پھینکا نہیں تھا پکڑے ہوئے تھا وہ۔

پولیس آرہی ہے شاید اب تو پہنچ بھی چکی ہو آپکی بیٹی کو گرفتار کرنے ۔

وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا ۔

جس پر ریاض نے پریشانی و غم سے تیمور اور سہیر کو دیکھا جواباً وہ دونوں منہ موڑ گئے تھے۔

تم ایسا نہیں کرسکتے غاذان۔

وہ غم سے چلائے۔

پہلے تو تمیز سے بات کریں دوسرا سردار کہیں اور آپ کہہ کر مخاطب کریں ورنہ اس غلطی کی سزا ابھی آپکو بھگتنی پڑ سکتی ہے تیسرا بیٹی کو سمجھاتے نا ایسے اگر اسے چھوڑ دیا تو یہ خطرہ ثابت ہو سکتی ہے میں اب کوئی رسک نہیں لوں گا ۔

تب ہی پولیس اجازت لیتی اندر آئی تھی تین آفسر اور دو لیڈی پولیس آفسر تھیں۔

بابا مجھے بچا لیں مجھے نہیں جانا جیل۔

وہ باپ کے سینے میں چھپتی وخشت سے چلائی ۔۔

ہیر نے آنسو بھری آنکھوں سے اس سے التجا کی جواباً وہ ہونٹ بھینچ گیا تھا ۔

سردار غاذان میں تمہارے پاوں پکڑتا ہوں میری بیٹی کو چھوڑ دو میں وعدہ کرتا ہوں اپنی بیٹی کو لے کر یہاں سے چلا جاوں گا یہ اب تمہیں پریشان نہیں کرئے گئی پلیز اپنی پھپھو کے صدقے اس پر رحم کھاو ۔

وہ ہاتھ جوڑ گئے تھے ۔

غاذان نے گہرا سانس لیتے باپ اور چاچا کو دیکھا پھر ہیر کو جو اسے ہی پریشانی سے دیکھ رہی تھی۔

یہ میری نہیں میری بیوی کی مجرم ہے اسے کہیں یہ میری بیوی سے ہاتھ حوڑ کر معافی مانگیں اگر وہ اسے معاف کرتی ہے تو میری طرف سے یہ بھاڑ میں جائے ۔

وہ بے لچک لہجے میں بولا تھا ۔۔

شائنہ نے اسے دیکھ کر ہیر کو دیکھا۔

ہیر ہونٹ کاٹتی کچھ بولنے لگی تھی جب وہ ہاتھ اٹھا گیا ۔

اسے معافی مانگنے دو ہیر ۔

وہ سرد لہجے میں اسے تنبیہ کر رہا تھا ۔

وہ سر جھکا گئی جبکہ شائنہ نے باپ کو دیکھا جو معافی مانگنے کا کہہ رہے تھے ۔

وہ اگر پولیس کے ساتھ جاتی تو انکی عزت کہی کی نا رہتی بہت بدنامی ہوتی انکی ۔۔

ہیر میں تم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں مجھے معاف کردو میں آئندہ تمہیں پریشان نہیں کروں گئی کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گئی ۔

وہ ہاتھ جوڑ کر لرزتے لہجے میں بولی تھی ۔

میں نے معاف کیا آپکو ۔

وہ بہت جلدی بول گئی جس پر غاذان نے اسے تگڑی گھوری سے نوازا اور وہ سر جھکا گئی تھی ۔


ریلنگ تھامے پوری فوج اوپر سے ساری صورتحال دیکھ رہی تھی نیچے آتے تو بے عزتی ہوتی اس لیے اوپر سے ہی جھانک رہے تھے ۔۔


شہنام ،شاہ میر، شزرا ،مہدیہ سفینہ وہ پانچوں ایک ساتھ کھڑے نیچے نظرِیں جمائے ہوئے تھے۔


جا سکتے ہیں آپ دونوں لیکن اب میری نظرِیں آپ دونوں پر رہیں گئی سو بی کیٙئر فل ۔۔

سرد لہجے میں کہتا وہ ہیر کی طرف بڑھا ۔

ہیر کو ڈر لگ کہ کہی وہ اسے ڈانٹے نا لیکن وہ تو اسے سنجیدگی سے گود میں اٹھا چکا تھا ۔

ہیر کا منہ کھلا شرم سے زرد پڑا چہرہ سرخ ہوا اور پھر بے بسی سے سر جھکا گئی ۔


ریاض تیمور اور سہیر کو دیکھتی بیٹی کا بازو کھینچ کر وہاں سے ہمیشہ کے لیے لے گِے ۔

شائنہ نے پلٹ کر آخری بار سردار کو دیکھا تھا آنکھوں سے آنسو گر کر گال پر لڑکھ آئے ۔


ُآپ سے معذرت چاہتے ہِیں بلاوجہ تکلیف دینے پر۔

تیمور صاحب پولیس سے بولے ۔

وہ سر کو خم دیتے وہاں سے نکل گئے تھے ۔


شائنہ ایسی ہو گئی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔

تیمور صاحب غم سے بولے ۔

جس پر سہیر خانم بھی نے غم و غصے سے ہونٹ بھینچے وہ دونوں شاک میں وہی لاونج میں بیٹھے رہ گئے جبکہ نوشین آنکھیں مسلتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔


ُپوری ینگ جنریشن نے خاموشی سے پلٹ کر ان دونوں کو اپنے پاس سے گزرتے دیکھا تھا ۔

سب سے زیادہ شہنام کا منہ کھلا ہوا تھا اسکا شام سے ہی حیرت کے مارے منہ کھلا ہوا تھا جو ابھی تک بند نہیں ہو سکا تھا ۔۔

________________________

وہ خاموشی سے نظریں اسکے زخم پر جمائے روئی کی مدد سے اس پر پائیوڈین لگا رہا تھا ۔

سییی۔۔

ہیر کو ہلکی سی جلن ہوئی ہوتی ۔۔

ماتھا سیڑیوں پر رگڑنے پر خون بہا تھا جو کہ اب تھم چکا تھا ناک کے نتھوں میں بھی خون جما ہوا تھا شاید ناک سے بھی خون آیا تھا ۔

اور کہاں درد ہے ۔۔

وہ زخم پر بینڈیج لگاتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔۔

کمر پر۔

کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا گیا۔

تب ہی مہدیہ نوک کر کے ٹرے میں گرم دودھ کا گلاس رکھ کر لے آئی غاذان نے اسے کہا تھا گرم دودھ لانے کو۔

وہ ہیر کی طبیعت پوچھ کر دودھ رکھ کر چلی گئی۔۔

یہ میڈیسن لو گرم دودھ سے درد میں افاقہ ہو گا ۔

وہ گولی اسکے منہ میں رکھتا سنجیدگی سے بولتا دودھ اسے پکڑا گیا ۔۔

وہ دودھ کا سارا گلاس ڈرتے ڈرتے خالی کر گئی تھی۔۔

آرام کرو اب ۔۔

وہ کہتے ہی اٹھا تھا جب اسنے اسکی کلائی کو نرمی سے چھوا تھا۔

وہ رکا ضرور لیکن پلٹا نہیں تھا۔۔۔۔

آپ مجھ سے کیوں ناراض ہیں میں نے کیا کیا ہے ۔

وہ روہانسے لہجے میں پوچھ رہی تھی ۔

تم رات کو کمرے سے باہر کیوں نکلی اگر مجھے خادم نے اسکے متعلق نا بتایا ہوتا تو میں اسکے کمرے میں جا رہا تھا وہ تو قسمت اچھی تھی میری جو وقت پر روم سے باہر نکل آیا ورنہ جانتی ہو وہ پاگل تم پر فاٙئر کر دیتی ۔

وہ غصے سے بولا۔

مجھے نیند نہیں آرہی تھی پانی پی کر تھوڑی دیر وہاں ٹھہر گئی تھی مجھے کیا پتا تھا وہ ایسا کریں گئیں شکر ہے آپ ٹھیک ہیں ورنہ پتا نہِیں کیا ہو جاتا ۔۔

وہ جھرجھری لیتی ہوئی خوف سے بولی ۔۔

وہ نرم پڑا ۔۔

ہیر مجھے بچانے کے لیے خود کو کبھی مصیبت میں مت ڈالنا ورنہ تمہیں چھوڑوں گا نہیں میں۔

وہ سنجیدگی سے بولا۔

جواباً دائیں بائیں سر سعادت مندی سے ہلایا گیا ۔

ہیر سینے سے لگو یار بہت پریشان ہو چکا تھا میں ۔

وہ بولا تھا جبکہ وہ ہونق ہوئی پھر شرم سے سرخ ہوئی۔

سو جاوں اب میں۔

وہ اچانک ہی اسکی بات کا اثر زائل کرنے کے لیے پوچھ رہی تھی ۔

سو جانا لیکن پہلے میرے سینے کو ٹھنڈک کو تو پہنچنے دو یار ۔

وہ کہتے ہی اسے خود میں شدتِ جذبات سے بھینچنے کی حد کر چکا تھا ۔

ہیر ساکت و جامد اسکے سینے میں چھپی رہ گئی جبکہ وہ اسکی ٹیڑی میڑی مانگ چوم کر بینڈیج لگا زخم چومتا اٹھا ۔

اللہ خافظ۔

اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا وہ چلا گیا ۔

جبکہ وہ بے حس و حرکت ویسے ہی رہی جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا ۔

ہلنے میں سکت کہاں بچی تھی اس میں ۔

شرم سے چہرہ بھاپ چھوڑنے لگا تھا ۔۔

اسنے جلدی سے کانپتے ہاتھوں سے دوپٹہ سر پر جمایا اور تکیے میں منہ دیا ۔۔

آنکھیں بند کیں تو کچھ دیر پہلے والا منظر کسی فلم کی طرح چلنے لگا پٹ سے آنکھیں کھولتی وہ جھنجھلاتی تکیہ دور پھینک گئی ۔

انہیں زرا لخاظ نہیں کسی کا۔

وہ خفگی سے بولتی پھر سے آنکھیں میچ گئی اب انکا چہرہ آنکھوں میں گھومنے لگا تھا انکا چلنا مسکرانا کھانا کھانا چاِے پینا اسے سنجیدگی سے دیکھنا نرمی سے دیکھنا اسے سینے سے لگانا۔

انکا ہر پوز اسکی آنکھوں میں صاف صاف گھومنے لگا تھا ۔

لیکن ابکے آنکھیں نہیں کھولیں بلکہ ہونٹ نرم سی خوشنما مسکان میں ڈھلے ہوئے تھے ۔۔

_______________________


وہ فروٹ کی پلیٹ گود میں رکھے بیٹھی کھا رہی تھی جب وہ بے دھڑک کمرے میں آیا ۔

وہ سر پر چادر ٹھیک سے لیتی اسے گھورنے لگی تھی۔

کسی کے کمرے میں آنے سے پہلے اجازت لی جاتی ہے ۔

وہ تیکھے لہجے میں بولی۔

سردار بیگم مجھے یہ جاننا ہے آپ نے یہ کیسے کیا۔

کمر پر ہاتھ رکھے وہ حیرانگی سے پوچھ رہا تھا ۔

کیا ؟

وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔

سردار غاذان کو کیسے قابو میں کیا مجھے جاننا ہے کیونکہ مجھے بھی کسی کو قابو میں کرنا ہے جلدی بتائیں ورنہ سارے فروٹ کھا جاوں گا۔

وہ اس سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھتا ہوا پوچھ رہا تھا۔

اسکے انداز پر وہ تھوڑا سا ہنسی ۔

میں نے قابو تو نہیں کیا بس اللہ نے ایک مضبوط رشتے میں باندھا تھا ہمیں ویسے تم بیکار کوشش کرو گئے کوئی تمہارے قابو میں کیوں آئے گا بھلا۔

وہ حیرت کا مصنوعی اظہار کرتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔

شہنام نے اسے گھورآ۔

مصر کا خوبصورت شہری ہوں صاحب جائیداد بھی ہوں پڑھا لکھا ہوں اور کیا چاہئے تمہاری نند کو۔

وہ خفا ہوا تھا جیسے ۔

ہیں میری کونسی نند کی بات ہو رہی ہے ۔

وہ فروٹ کی پلیٹ کو پراں کرتی ہوئی شدید حیران ہوئی۔

وہ جسکے براون سلکی بال ہیں قد درمیانہ ہے ناک چھوٹی سی ہے غصے والی بھی ہے تھوڑی سی۔

وہ اسکے نام سے واقف نہیں تھا اسلیے اسکا حلیہ ہی بتا پایا۔

ہیر نے سیب کی فاش کو بمشکل نگلا ۔

تم مہدیہ کی بات کر رہے ہو کیوں سردار جی سے مار کھانی ہے دیکھو وہ لڑکی کافی سلجھی سی ہے تم زرا دور رہو اس سے ۔

وہ آہستہ آواز میں بولی تھی۔

یار تم پلیز مجھے اسکے ساتھ سیٹ کروادو تم جو کہو گئی وہ کروں گا پکا وہ لڑکی مجھے بہت اچھی لگی ہے پھر امی کو لے آوں گا۔

وہ اسکا ہاتھ تھامتا منت ترلے سے بولا ۔

تم نا آپ کہا کرو دوسرا ہاتھ میرا ۔۔۔۔

ہاتھ چھوڑو اسکا اور یہ کیسے اسکے پاس گھس کر بیٹھے ہوئے ہو کوِئی تمیز ہے یا نہیں۔

وہ اچانک ہی کہی سے نمودار ہوتا غصے سے بولا تھا ہیر کا فقراہ منہ میں ہی رہ گیا تھا ۔

جبکہ وہ ہاتھ چھوڑتا ایک دم سے اسکے پاس سے اٹھا ۔

وہ میں تو عیادت کو آیا تھا ۔

وہ ہینڈسم سے سردار غاذان سے بولا تھا۔

تمہاری عیادت مجھے مطلوب ہے ہاتھ کیوں تھاما اسکا دور سے بھی عیادت ہو سکتی تھی۔۔

ِ وہ اسکی گردن کو دبوچے غصے سے بولتا ہیر اور اسے حیران کر گیا تھا۔

کیا بات کرتے ہیں آپ سردار صاحب جی آپ نے تو اس سے نکاح کر رکھا تھا ورنہ میں نے تو سرخ پھول رنگ لے رکھی تھی سردار بیگم کو پرپوز کرنے کے لیے ۔۔

وہ تھوڑا دور ہوتا خاصے تیکھے لہجے میں بولتا سردار غاذان کے غضب کو آواز لگا گیا تھا۔۔۔

تمہاری یہ جرات کمینے انسان ۔۔

وہ درشتگی سے بولتا اسکے پیچھے بھاگا تھا آگے آگے وہ تھا اور پیچھے وہ اسے ڈانٹا ہوا بھاگ رہا تھا سب لوگ حیرانی سے سردار غاذان کا پہلی دفعہ ایسا روپ دیکھ رہے تھے ۔

،پچھے وہ حیرت سے دنگ بیٹھی رہ گئی تھی ۔

پھپھو بچائیں مجھے اپنے بیٹے سے۔

وہ پھپھو کے کمرے کی طرف بھاگتا چلایا تھا۔

تمہیں آج مجھ سے تمہاری پھپھو بھی نہیں بچا سکتیں سمجھے ۔۔

چاکلیٹ کلر کی فٹنگ والی شرٹ میں ملبوس وہ غصے سے پھنکارتا ہوا بھاگ رہا تھا ۔۔

غاذان تمہاری پسند بہت اچھی ہے وہ لڑکی کافی انوسنٹ ہے اور پیاری ہے

۔۔

وہ شام کے وقت سوئمنگ پول کے قریب بیٹھے چائے پی رہے تھے جب کھڑکی سے نظر آتے وجود کو دیکھ کر ہالے نے کہا۔

غاذان سر ہلاتا مسکرایا۔

ہمم پسند نہیں ہے وہ میری۔

وہ مبہم سا بولا ۔

ہالے نے اسے الجھ کر دیکھا ۔

تو!


عشق ہے وہ میرا اور تم جانتی ہو اسکا عشق کس نے میرے دل میں ڈالا ہے۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

کس نے ؟

وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی ۔

اللہ نے ،

اللہ نے اسے مجھ سے ملوایا اسے میرا نصیب بنایا پھر میرے دل میں اسکے لیے پرواہ ڈالی پھر اپنا پن پھر پسندیدگی پھر محبت اور اب آخری پراوّ عشق بھی ،

وہ لڑکی اچانک سے ہی میرے دل میں نہیں آئی آہستہ آہستہ وہ مجھ میں گھر کرتی رہی اور میں بس خاموشی سے دیکھتا رہا مجھے بہت عزیز ہے ہالے وہ ،روح کی تسکین ہے جیسے میری۔۔


وہ کپ رکھتا بے پناہ سنجیدہ تھا۔

ہالے ساکت نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔۔

وہ بہت خوش قسمت ہے جسے تم ملے ہو ۔

ہالے نے دور کھڑکی میں کھڑے وجود کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔

جواباً وہ مسکرایا۔۔


ہیر نے پردے ایک دم سے برابر کیے۔

مجھ سے کبھی اتنی لمبی بات نہیں کی اپنی فرینڈ کو کبھی شاپنگ کرواتے ہیں کبھی لنچ پر لے جاتے ہیں اور مجھے زبردستی یونی سکول بھیج دیتے ہیں ۔

وہ منہ بسور کر کہتی بیڈ پر بیٹھی۔

ناخن دانتوں میں چبائے وہ سخت جیلسی محسوس کر رہی تھی اس خوبصورت لڑکی سے ۔۔

پھر وہ کچھ سوچ کر جلدی سے بھاری بک اٹھائی،

سبز دوپٹے کو ٹھیک سے سر پر جمایا چپل دوسری پہنی آئنے میں خود کو دیکھا کہ ابھی ابھی اسنے کپڑے بدلے تھے بال بنائے تھے اور کریم وغیرہ بھی لگائی تھی سو وہ اچھی لگ رہی تھی ۔۔


کہاں جا رہی ہیں ۔۔

وہ ساتھ چلتا ہوا پوچھ رہا تھا.

باہر ۔

وہ چلتے ہوئے بولی۔

کیوں !

وہ اسکے ساتھ ہی سیڑیاں اترتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

پڑھنے اور کیا آم لینے تم میرے پیچھے مت آو مجھے سکون سے پڑھنا ہے کل ٹیسٹ ہے میرا۔

وہ غصے سے بولی۔

شہنام نے معصوم شکل والی لڑکی کو گھورا ۔

تو کیا میں باہر نا جاوں مجھے نہانا ہے ۔

وہ غصے سے بولا۔

تو اپنے کمرے میں نہاو کیا باہر نہاو گئے۔۔

وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی۔

میں سوئمنگ کروں گا کپڑوں سمیت ڈونٹ وری ۔

وہ خفا سے لہجے میں بولا،

وہ پچھلی طرف چھاوں میں بنے سوئمنگ پول کے قریب پہنچ چکے تھے سوئمنگ کے چاروں طرف خوبصورت پھول لگے ہوئے تھے جو ہلکی پھلکی چلتی ہوا سے جھوم رہے تھے ۔

دور لگے جھولے پر مہدیہ بیٹھی ہوئی تھی ساتھ شزرا تھی تھی۔


سردار نے سنجیدگی سے ان دونوں کو ساتھ چلتے اور باتیں کرتے دیکھا تھا ۔

اسلام علیکم !

وہ پاس آتی مدھم لہجے میں اسلام پیش کر رہی تھی ۔

ہالے اسے دیکھ مسکرائی لیکن وہ انہیں دیکھ رہی تھی جو ٹانگ پر ٹانگ رکھے بلیو ٹروزر پر ہاف سلوز والی بلیو ہی شرٹ پہنے اپنی دلکش پرسنلٹی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔


کیوں لڑ رہے ہو۔

اسنے شہنام کو گھورتے ہوئے پوچھا۔

آپکی غلط فہمی ہے کہ ہم لڑتے ہیں بلکہ ہم تو بہت پیار۔۔۔

شٹ اپ ایڈیٹ مین لگتا ہے کل کی درگت تم بھول چکے ہو۔

وہ اسکی بات کا مطلب سمجھتا ایک دم سے چلایا تھا۔

شہنام مصنوعی سیریس ہوا جبکہ ہیر نے کھا جانے والی نظروں سے شہنام کو دیکھا ۔

یہ جھوٹ بول رہا ہے کوئی پیار نہیں ہے میں نے تو اسے ڈانٹا کہ میرے ساتھ کیوں آرہے ہو لیکن یہ بہت ڈھیٹ ہے۔

وہ اپنی صفائی میں جلدی سے بولی تھی۔

ہیر یار بہت جھوٹ بولتی ہو تم ابھی تو تم نے کہا تھا باہر پڑھنے چلتے ہیں اور سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھ کر مزے کریں گئے ۔

وہ تھوڑا دور ہوتا غصے سے چلایا۔

ہیر نے شاک سے اسے دیکھا ۔۔

ٹھہر جا بچے تمہیں مزے صرف میں ہی کروا سکتا ہوں رکو زرا۔


وہ ایک جھٹکے میں اسے پکڑتا تپا تھا ۔

شہنام بری طرح بھوکھلایا ،

جبکہ ہالے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے صرف ہنستی جا رہی تھی غاذان کا ایسا روپ وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی ۔


مزاق کر رہا تھا میں، پلیز چھوڑ دیں اور سردار بیگم سوری آپ ہی مجھے اپنے خونخوار سردار سے بچائیں پلیزززز۔

وہ گردن چھڑانے کی کوشش میں ہلکان ہوتا ہیر سے مخاطب تھا ۔

جواباً اسنے ناک چڑہا کر اسے دیکھا تھا ۔

دفع ہو جاو نظر مت آنا مجھے رات تک ۔

وہ اسے چھوڑتے خفا سے لہجے میں بولا۔

شکریہ سردار صاحب جی اور ہاں سردار بیگم رات کو چھت پر بیٹھ کر چائے پئیں گئے میں محو انتظار ہوں گا آپ کا۔

کہتے ہی وہ جتنی تیزی سے بھاگ سکتا تھا بھاگا تھا جواباً وہ انگلش میں اسے کوس کر رہ گیا ۔

غاذان مزاق کر رہا تھا وہ۔

ہالے مسکراتے ہوئے اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر بولی تھی ۔

وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا واپس بیٹھا تھا ۔۔

بیٹھو ھیر ،یہ ہالے ہے میری بیسٹ فرینڈ مصر میں ہوتی ہے ،

یہ برائیڈل ڈریس ڈیزائن کرتی ہے میں چاہتا ہوں تم اپنا ڈریس خود بنواو جس طرح کا تم بنوانا چاہو ہالے بنائے گئی یہ ایوارڈ بھی لے چکی ہے اپنی بیسٹ کارگردکی کا۔

وہ ہالے کی تعریف میں بولتا ہیر کو ہی دیکھ رہا تھا ۔

وہ بس سر ہلا گئی تھی۔


اندر کہی شدید جیلس ہوئی تھی، اسکے منہ سے ہالے کی تعریف سن کر ۔۔۔

تم دونوں بیٹھو میں زرا آرام کر لوں پھر میری اور ہیر کی ملاقات ہو گئی کہ دن کم ہیں اور کام کل سے ہی شروع کرنا ہو گا اور دن رات کرنا ہو گا۔

وہ کہتے ہوئے چلی گئی ۔۔

ہیر کونسا رنگ زیادہ پسند ہے تمہیں۔

وہ پنسل کو دائیں بائیں ہاتھ میں منتقل کرتا اسکے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

ّوہ لب بھینچے سوچے گی ۔

اور وہ دھیمی مسکان سے اسے دیکھتا رہا کہ صبح سے اب اسنے اسے دیکھا تھا کہ آج وہ سارا دن بزی رہا تھا ایک دورے پر رہا ،پھر لنچ، میٹنگ اور اب جا کر واپسی ہوئی تھی۔


لائٹ پنک ۔۔

وہ بہت سوچ کر بولی اور وہ ہنسا ۔۔

جواباً وہ تھوڑا شرمندہ ہوئی تھی ۔


کیا پڑھنا ہے ۔

وہ میتھ کی بک دیکھ کر بولا ۔

میتھ سمجھنا ہے آپ سے۔

وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی ۔

اور وہ سنجیدگی سے آئی برو اچکا گیا ۔

لاو اِدھر اور اِدھر بیٹھو ۔

وہ ساتھ والی چیئر کی طرف اشارا کرتا ہوا بک اسکے ہاتھ سے لے گیا۔


وہ بک پکراتی اسکے پاس بیٹھی تھی۔

گرین سوٹ والی لڑکی کے نقوش میں مسکراہٹ ڈھلی تھی انہیں دھیمے سے سمجھاتے دیکھ ۔۔

وہ نوٹ بک پر لکھتا ساتھ ساتھ اسے سمجھا بھی رہا تھا ۔

وہ اسکے ہاتھوں کو دیکھ کر مسکرائی پھر نظریں تھوڑی اٹھیں اور انکے بولتے ہونٹوں پر گئیں ۔

وہ بہت ماہر انداز میں اسے پڑھا رہا تھا ۔

ہیر کی نظریں ہوا سے ہلتے اسکے براون شیڈ بالوں پر جمیں تھیں۔

اسکی نظریں اچانک ہی ہیر پر اٹھیں تھیں ۔

وہ بھوکھلاتے ہوئے جلدی سے نظریں بک پر جماتی سر ہلانے لگی ۔

سمجھ آیا ۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا

جی ۔

وہ خود پر غصہ ہوتی ہوئی بولی۔

کیا سمجھ آیا زرا بتاو جو میں نے ابھی تمہیں سمجھایا ہے۔

وہ سنجیدگی سے پیچھے ہوتا پوچھ رہا تھا۔

وہ پریشان ہوئی۔

وہ مشکل ہے دو تین بار سمجھانے پر آئے گا۔

وہ پریشانی سے بولتی اٹھی کہ اسی طرف تیمور خانم اور خشام صاحب آرہے تھے۔

انکل چاِے بنا لاوں ۔

وہ جلدی سے پوچھتی بک بھی اٹھا گئی تھی ۔

غاذان نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔

بنا لاو بچے ۔

تیمور خانم شفقت سے بولتے غاذان کے سامنے والی چیئر پر بیٹھے تھے۔

جی ۔۔

وہ سر ہلاتی بھاگی تھی ۔۔

غاذان کل سے پورے محل میں ڈیکوریشن کا کام شروع ہو جائے گا اور پورے دس دن غریب لوگوں کی دعوت ہمارے محل میں ہو گئی تو تم کچھ اسپیشل کرنا چاہتے ہو تو بتا دو وہ بھی ایڈ کر لیتے ہیں ۔

وہ بیٹے سے بولے۔

ڈیڈ میں چاہتا ہوں آپ سب کچھ اپنی مرضی سے کریں جو آپکو اچھا لگتا ہے وہ کریں ۔۔

وہ انہیں دیکھتا محبت سے بولا تھا۔۔


تیمور صاحب نے فخر سے خشام کو دیکھا تھا جواباً وہ بھی مسکرائے کہ انہیں کونسا بھتیجا پیارا نہیں تھا ۔۔

_______________________

تم بہت خوش ہو پرسوں سے ہے نا ۔

مہرینہ نے چائے کا سپ لیتے ہوِئے اس سے پوچھا ۔۔

وہ شام کے ہلکے سرمئی اندھیرے میں چھوٹے سے لان میں بیٹھے ہوئے تھے ۔


خیام پانی والی موٹر کھولے مختلف ہتھیاروں سے اسے کھول کر ٹھیک کر رہا تھا وہ موٹر ٹھیک کرتا گنگنا بھی رہا تھا جب مہرینہ نے پوچھا ۔

ہاں ۔

وہ اسے دیکھتا دھیمے سے مسکراتے ہوئے بولا۔

مہرینہ نے سر ہلایا ۔

اور اسکی وجہ ہیر کی رخصتی ہے، ہے نا ۔

وہ جواباً پوچھ رہی تھی۔

ہاں!

پتا ہے کیا مہرینہ ہم انکے برابر کے نہیں تھے مجھے امید نہیں تھی کبھی سردار میری بہن کو بیوی کا درجہ دیں گئے یا اگر وہ دینا چاہئیں گئے تو انہیں ایسا کرنے دیا جائے مگر اللہ کا شکر ہے اب سب ٹھیک ہو گیا ہے، مجھے بھی ایک اچھی کمپنی میں ایک سے پانچ بجے تک نوکری مل گئی ہے اور سیلری بھی اچھی ہے تو خوش تو ہوں گا نا میں۔

وہ سیاہی لگے ہاتھوں سے بال پیشانی سے پیچھے کرتا ہوئے بولا ۔

مہرینہ نے غور سے اسے دیکھا ۔

ہلکے گھنگھڑیالے بالوں والا وہ لڑکا کافی خوش شکل تھا اوپر سے قد کاٹھ نے اسے بڑا ہینڈسم بنا دیا تھا وہ تھا بھی بہت زہین جو کام دیکھتا وہ کر لیتا تھا وہ دو دو نوکریاں اور کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا مہرینہ لڑتی تھی آخر اتنا پیسہ وہ کہاں خرچ کرتا ہے جواباً وہ میسنی سی مسکان سے ہنس دیتا جس پر وہ اور تپ اٹھتی تھی۔

وہ اب پانی کی موٹر سیٹ کر رہا تھا اور وہ اندر کپ رکھنے چلی گئی ۔


اسلام علیکم ۔

وہ کام میں مصروف تھا جب ایک پتلی سی نسوانی آواز پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا یہ ایک کم سن لڑکی تھی لمبے سے قد والی کافی پیاری تھی اور وہ جانتا تھا ساتھ والا انکا گھر تھا ۔

جی !

وہ کھڑا ہوتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

امی نے بریانی بھیجی ہے آپکے لیے ہم نے نیاز دلوائی تھی اور یہ آپکا حصہ ہے ۔

وہ لڑکی شرماتی ہوئی بولی اندر سے بھاگ کر وہ باہر آتی بریانی کی پلیٹ تھام گئی تھی۔

اور میرا حصہ۔

وہ تیکھے چتونوں سے اس لڑکی کو گھورتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔

آپ بھی اس میں سے کھا لیجئے گا ۔

وہ لڑکی احسان کرتے ہوئے بولی۔


دیکھو بی بی یہ شادی شدہ ہے اور میں اسکے گھر والی سو آئندہ میرا حصہ الگ سے لانا اور دوسرا مجھے دینا کہ ایسے کام تو خواتین کے ہوتے ہیں ہے نا سو برتن میں صبح دھو کر بھیجوا دوں گئی اللہ خافظ۔


وہ اس لڑکی کو کافی دیر سے خیام کو دیکھتا دیکھ رہی تھی جب برداشت سے باہر ہوا تو بھاگ آئی باہر اسے سبق سکھانے ۔

آپ ِانکی بیوی ہیں۔

وہ موٹر کے ساتھ اب پائپ فٹ کر رہا تھا لیکن ہونٹوں پر ایک دھیمی سے مسکان ٹھہری ہوئی تھی ۔

وہ لڑکی پیر پٹخ کر چلی گئی۔

تم کیوں ہنس ہنس کر بات کر رہے تھے اس چڑیل سے۔

وہ اب اسکی طرف ہوئی تھی ۔

خدا کو مانے مہر میں تو ایک بار بھی نہیں ہنسا تھا ہاں بات سن رہا تھا ویسے لڑکی پیاری تھی ۔

وہ ہاتھ صابن سے دھوتا ہوا شرارت سے بولا جب مہر نے اسے پیچھے سے کھیچا وہ پیچھے گرا تھا مہر نے جھٹ سے اسکی شرٹ کو چھوڑا ۔

لیکن وہ تب اسکی کلائی تھام اسے بھی ساتھ گرا چکا تھا ۔

سیدھا جہنم میں جائیں گئی آپ ۔

وہ مہرینہ کے سرخ چہرے کو دیکھ

کر بولا ۔

شرم تو نہیں آئی شوہر کو دھکا دیتے ہوئے۔

وہ مصنوعی تاسف سے بولا۔

تم بھی جہنم میں ہی جاو گئے میری تعریف تو کبھی کی نہیں اس چھوئی موئی کو کیسے خوبصورت کہہ دیا خلانکہ میں اس سے زیادہ پیاری ہوں

۔

وہ تپ کر بولتی اپنے کپڑے جھاڑنے لگی۔

آپ کہاں مجھ غریب کو تعریف کا موقع دیتیں ہیں ادھر میں کچھ بولوں تو ادھر آپکا خونخوار لیکچر شروع ہو جاتا ہے ۔

وہ بھی کھڑا ہوتا اسکے سرخ چہرے کو دیکھ کر بولا۔

تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے ۔

وہ تپ کر کہتی اندر چلی گئی

میرے سامنے والی کھڑکی میں ایک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے ۔۔

پیچھے وہ بھی گنگناتا بلکہ اسے جلاتا ہوا بڑھا تھا ۔۔

اسنے زور سے کشن اسکے مبہ پر دے مارا تھا اور وہ ہنستے ہوئے جواباً کیچ بھی کر گیا تھا۔۔

زندگی آسان ہونے لگی تھی خیام اور مہرینہ کی ،خوشیوں پیسوں کی مختاج نہیں ہوتیں دل کا سکون ہی اصل خوشی کیا سبب ہوتاخ ہے ۔

________________________

ایک سال کم عرصہ نہیں ہوتا ۔

وہ آج ایک سال بعد انہی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں تھی ۔

فیروزی سوٹ پر گلابی موتیوں والی بڑی سی چادر لیے وہ بس چل رہی تھی ۔

نظریں اِدھر اُدھر تھیں ،

چہرے پر گہرے غم کے تاثرات تھے ۔

لوگ حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔

اسکا حلیہ ہی لوگوں کو چونکا رہا تھا مہنگا برینڈڈ سوٹ موتیوں سے سجا بڑا سا باریک دوپٹہ ہاف بالوں کو باندھے گلابی نرم چپل میں پاوں گھسائے وہ کسی کی بھی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی بس اپنے اُس گھر پہنچ جانا چاہتی تھی جہاں اس نے اور خیام نے بہت تکلیف بھرا وقت گزرا تھا ،

آخر وہ گھر کے سامنے آ رکی تھی ،

نیلا لوہے کا دروازہ جیسے ہیر کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

وہ بھی جواباً مسکرائی آہستہ سے ہاتھ بڑے پیارے سے دروازے پر پھیرا تھا ۔

ہیر بیٹا کیسی ہو تم ۔

اوپر انکی پروسن رقیہ خالہ حیرت سے پوچھ رہیں تھیں۔

ٹھیک ہوں خالہ۔

آہستہ سے کہہ کر وہ بھاری تالہ چابی سے کھولنے لگی تھی ۔

گلہ بھاری ہونے لگا تھا اندر قدم رکھتے ہوئے ۔۔

چھوٹا سا صحن دھول مٹی سوکھے پتوں سے گندا پڑا تھا باہر پڑی چارپائی ٹوٹ چکی تھی اسکے اوپر ویسے ہی بستر رکھا ہوا تھا لیکن چادر کا رنگ اڑ چکا تھا بستر بھی خراب ہو چکا تھا ،

آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گال پر بکھڑ آئے تھے ۔۔

وہ چلتی ہوئی برامدے میں آئی ۔

پھر خستہ حال کمرے میں آتی وہ سسکیاں روکنے کے لیے ہونٹوں پر سختی سے ہاتھ جما گٙی تھی۔

اندر کِلی پر نائلہ کی قمیض ٹنگی ہوئی تھی ساتھ انکی بڑی سی سفید چکن کی چادر ٹنگی ہوئی تھی جو وہ باہر جاتے وقت اوڑھا کرتِیں تھیں۔


اسنے چادر کو آہستہ سے تھاما تھا ۔

پھر ہونٹوں سے چھوا ۔

امی آپ دیکھ رہی ہیں ہم کتنے خوش ہیں شاید آپ کو ہی ہماری خوشیاں دیکھنا نصیب نا تھیں خیام بہت بہادر بن چکا ہے اور بہت سمجھدار بھی،

مجھے ایک تشنگی ہمیشہ رہے گئی کہ ہماری امی نے بہت بھوک افلاس میں دم توڑا تھا اب بھی جب میں نوالہ توڑتی ہوں نا تو آپکے سوکھے ہونٹ خالی پیٹ یاد آجاتا ہے وہ دن یاد آجاتا ہے جب سکول ٹیچر ہم دونوں کو کلاس سے باہر نکال کر دھوپ میں سارا دن کھڑا کر دیتیں تھیں صرف کاپی پنسل نا ہونے کی وجہ سے اتنی جلدی کچھ بھولا نہیں جاتا لیکن میں خوش بھی ہوں کہ آپ ہمیں دیکھ رہیں ہوں گئی تو خوش ہوں گئی ہے نا ۔۔


بچوں کی طرح انکی چادر سے باتیں کرتی وہ سمجھدار ہیر نہیں لگتی تھی ۔

وہاں سے وہ تنگ سے کچن میں آئی ۔

سوکھا پڑا چولہا خالی ڈبے زنگ لگیں پتیلیاں کچھ بھی تو نہیں بدلہ تھا یہاں ،

یہاں کھڑے ہو کر امی ہم دونوں کے لیے پراٹھا بنایا کرتی تھیں۔

وہ اس جگہ پر کھڑی ہوتی بڑبڑائی ۔

پھر وہاں سے نکلتی وہ برامدے میں سیڑیوں کے پاس آِئی لیکن ٹھٹھکی تھی ۔

دروازے سے کوئی بہت ہی شاندار سا شخص اندر آیا تھا ۔

سکن بلیک بٹن والی تنگ شرٹ بلیک تنگ جینز والا کوئی اور نہیں تیز قدموں سے اسکی طرف آتا سردار غاذان تیمور تھا ۔

اور اوپر چھت پر کھڑے لوگ اس سے زیادہ حیران پریشان تھے کچھ لوگ تو دروازے سے لگے کھڑے تھے ۔

کس سے پوچھ کر یہاں آئی ہو اور خادم کو ساتھ کیوں نہیں لیا ، آگر آنے کا دل تھا تو کسی کو لے آتی ساتھ ۔۔۔

وہ غصے سے بولتا چپ ہوا کہ اسکی سرخ سوجی آنکھیں گالوں پر نمی ۔

وہ لب بھینچ گیا۔

تم یہاں رونے کے لیے آئی تھی ۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

اسنے جواباً سر نفی میں ہلایا ۔

میرا دل کر رہا تھا ایک بار گھر کو دیکھوں آپ تو گھر پر نہیں تھے نا خادم بھائی بھی آپکے ساتھ تھے تو میں چلی آئی میرا دل کر رہا تھا بس دل اداس تھا میرا۔

وہ انکا ہاتھ تھامتی بھرائے ہوئے لہجے میں بولی۔

سردار غاذان نے اسکے گال پر ہتھیلی جمائی ۔۔

ہیر اگر اب تم روئی تو میں ڈانٹوں گا ۔

وہ اسے سنجیدگی سے تنبیہ کر رہا تھا ۔

فرمانبردار بیوی نے جلدی سے آنکھیں اور گال صاف کیے۔

اب نہیں روں گئی ۔

وہ شوں شوں کرتی ہوئی بولی ۔

کیا مجھے نہیں دیکھاو گئی اپنا گھر۔

وہ اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

وہ پریشان ہوئی بھلا یہ گھر تھا اس شاندار شخص کے کھڑے ہونے کا دیکھانا تو دور کی بات تھا۔

چلیں اب ۔

ّواپس چلیں اب وہ گھبرا کر جلدی سے بولی ۔

وہ مسکرایا۔

لیکن مجھے تو اپنی ہیر کا گھر دیکھنا ہے جہاں اسنے بچپن گزارا تھا جہاں وہ روتی تھی ہنستی کھیلتی تھی سوتی تھی پھرتی تھی ۔

وہ اسے خود سے قریب تر کیے بہت محبت سے کہہ رہا تھا ۔

ہیر کی آنکھ سے ایک آنسو نکلتا اگر غاذان تیمور اس آنسو کو شہادت کی انگلی میں جذب نا کر لیتے۔

لوگ سانس روکے انہیں دیکھ رہے تھے بھلا ہیر اور سردار غاذان کیسے ۔۔

وہ حیران پریشان تھے۔

لیکن گھر گندا ہے اور چھوٹا بھی ۔

وہ پریشانی اور شرم سے کہہ رہی تھی نظرِیں آج سردار غاذان کی نظروں میں الجھی ہوئیں تھیں ۔

یہ گھر میری ہیر کا ہے یہ گندا بھی مجھے صاف لگے گا اور چھوٹا بھی کسی محل سے کم نہیں لگے گا مجھے وہ کمرہ دیکھاو جہاں تم رہتی تھی۔


وہ تیکھے ہونٹوں پر دھیمی مسکان سجائے دبلی پتلی لڑکی سے مخاطب تھا ۔

وہ ہونٹ بھینچے انہیں دیکھتی رہی محبت و عشق سے دل کا سکون وہی تو تھے اب۔۔

ہمارے تو دو ہی کمرے تھے اور ایک کچن امی اور خیام اس کمرے میں ہوتے تھے اور میں کبھی کبھی اس کمرے میں سو جاتی تھی ورنہ ہم تینوں ایک کمرے میں ہی سوتے تھے ۔

وہ اسے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے آئی جہاں ایک چھوٹی سی کھڑکی مفقل تھی جو شاید گلی میں کھلتی تھی ۔۔

ایک چارپائی تھی جس پر نیلی چادر بچھی ہوئی تھی اس پر سبز بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے ایک خستہ حال کرسی ایک دیوار میں بنی دو پٹوں والی کھڑکی جس میں شاید پرانی کتابیں اور کپ گلاس پڑے ہوئے تھے ۔۔

فرش جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا ۔

ہیر کو شرمندگی تو ہو رہی تھی جبکہ وہ بنا کوئی تاثر چہرے پر سجائے بڑے غور سے کمرے کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا تھا ۔

پھر اسکی نظر کِل پر ٹنگے براون بیگ پر ُپڑی ۔

چارپائی کے نیچے ہیر کی سکول سینڈل چھوٹا سا شیشہ کل پر ٹنگا ہوا تھا ساتھ پیلے رنگ کی کنگھی بھی ٹنگی ہوئی تھی ایک طرف پیٹیاں پڑی ہوئیں تھیں ۔

اب چلیں ۔

وہ پھر سے پریشانی سے بولی۔

ہیر تم سے ریلیٹڈ کوئی بھی چیز میرے لیے بُری نہیں ہوسکتی مجھے تمہاری چیزیں بھی عزیز ہیں ، سو ریلکس رہو ۔

ّوہ کھڑکی کھولتا ہوا بولا ۔

ہیر کے چہرے پر دھیمی مسکان آ ٹھہری ۔۔

(بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے )

کبھی پڑی آیات کا مفہوم آج ٹھیک سے سمجھ آیا تھا ۔

اللہ کا شکر گزار اسکا روم روم ہوا تھا ۔

چھت پر چلیں ۔

وہ پوچھ رہی تھی۔

چلو۔

وہ کہتا ہوا پلٹا تھا جبکہ وہ اگے بڑھی اور غاذان تیمور نے اسکے سراہنے برسوں پڑا سفید چھوٹا سا کیچر اٹھایا تھا اور جیب میں ڈال لیا تھا ۔

وہ کھلی چھت پر آئی وہاں بھی ایک چارپائی دیوار کے ساتھ کھڑی تھی ۔

اسنے جلدی سے چارپاٙئی بچھائی پھر اپنے دوپٹے سے چارپائی کو جھاڑا۔

وہ مسکراتا ہوا ادھر ادھر دیکھتا رہا اور لوگ ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کرتے رہے ۔

یہ لوگ تمہارا خیال رکھتے تھے ہیر۔


وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔


جوابًا تھوڑے سے وقفے کے بعد اسنے سر ہاں میں ہلا دیا ۔

اور وہ ہیر کی رگ رگ سے واقف تھا پھر کیسے نا سمجھتا ۔

نیچے چلیں ۔

وہ پوچھ رہی تھی ۔

ہممم ۔

وہ سر ہلاتا اسکا ہاتھ تھام کر نیچے چلا آیا ۔

ہیر تم چائے بنا لاو گئی۔

وہ اسکے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا بولا کہ اسنے آج نیچرل کلر کی لپ سٹک جو لگائی ہوئی تھی جو بھرے بھرے ہونٹوں پر عجیب سی شب دکھلا رہی تھی ۔۔

لیکن کیسے گیس ختم ہے دودھ پتی کچھ بھی نہیں ہے ۔

وہ اسکی نظروں سے پزل ہوتی بے بسی سے بولی۔

وہ جواباً مسکراتا فون کان سے لگا گیا ۔

ہیر اسے الجھن سے دیکھتی رہی ۔

صحن میں اب چھاوں آنے لگی تھی ۔

اور وہ چارپائی پر بیٹھا لوگوں کو بھی دیکھ لیتا جو بنیڑوں سے جھانک لیتے جب وہ دیکھتا تو بھاگ جاتے۔


کافی رونق تھی ہیر کے محلے میں ۔۔

پندراں منٹ بعد دروازہ کھٹکا ۔

اور وہ اٹھتا دروازے کی طرف چلا گیا کرسی پر بیٹھی وہ حیران ہوتی کھڑی ہوئی تھی۔


خادم کے ہاتھ میں گیس والا چولہا تھا جبکہ پیچھے آتے دو گارڈز کے پاس بڑے بڑے تھیلے تھے ۔

گارڈز اور خادم یہی تھے باہر کھلی سڑک پر کھڑے تھے کہ سردار نے

انہیں ادھر آنے سے جو منع کیا تھا ۔


خادم چولہا سیٹ کر کے باہر چلا گیا پیچھے گارڈز بھی تھے ۔

خادم خود اور گارڈز کو کھانا کھلا دینا دوپہر کا۔

وہ جاتے خادم سے بولا ادم نے جواباً سینے پر ہاتھ رکھ کر سر کو خم دیتا باہر نکل گیا۔


اب بن سکتی ہے چائے۔

وہ اسکے بالکل پاس کھڑا حیرت بھرے چہرے کو دیکھ کر پوچھ رہا تھا ۔

وہ ٹرانس سی کیفیت میں بنا سر ہلائے انہیں دیکھے گئی۔


اور پھر ہیر کو نظریں جھکانی پڑی کہ سردار غاذان کے ہونٹوں کا نرم گرم لمس اسے بائیں آئی برو پر محسوس ہوا ۔

وہ جھٹ سے پیچھے ہٹتی سر ہلاتی کچن کی طرف بھاگی ۔

وہ ہاتھ پشت پر باندھے ہیر کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔۔

وہ غور سے کمرے کو دیکھ رہا تھا ۔

کمرے کی ایک ایک چیز چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ اس گھر نے بہت غربت بھرے دن دیکھے ہیں بہت مشکل وقت سہا ہے۔

وہ چلتا ہوا اسکے کالج بیگ کے پاس آیا پکڑ کر اتارا اندر جھانکا ۔

تین خستہ حال بکس ایک کاپی ایک نیلی سیاہی والی پنسل جو ختم ہو چکی تھی۔۔


پچاس روپے والی کاپی نکال کر کھولی ۔

پہلی صفحے پر پیاری سی ہینڈرائٹنگ میں ہیر رضا لکھا ہوا تھا باقی سارے صفحے نیلی سیاہی سے بھرے ہوئے تھے ۔۔

وہ ایک صفحے پر آ کر رکا ۔

وہ صفحہ اکڑ گیا تھا آنسوں کے نشان اسے محسوس ہو گئے تھے۔

وہ لب اذیت سے کاٹ گیا ۔

اف کتنا برا وقت سہا تھا اسکی ننھی سی جان نے ۔

وہ اذیت سے سوچتا کھڑکی میں آیا۔

غاذان تیمور کا دل خالی ہوا تھا اسے وہ وقت یاد آیا جب وہ ٹوٹی جوتی والی لڑکی اسکی گاڑی کے سامنے آئی تھی۔

پھر جب وہ دوبارہ اسکے سامنے ائی تھی تو اسے یاد پڑتا تھا اس لڑکی کی آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں ہونٹ پپڑی زدہ تھے۔

مٹھیاں بھینچے وہ دیوار پر مکہ مار گیا ۔


ادھر وہ سامان کھولتی حیران پریشان تھی ۔

اتنی ساری چیزوں کی کیا ضرورت تھی بھلا ہم نے تو صرف چائے ہی تو پینی تھی ۔

وہ مختلف قسم کا سامان دیکھتی جھنجھلائی تھی ۔

بہت فضول خرچ ہیں یہ ۔

وہ غصہ ہوئی ۔

ایک کپ پانی ابالے کھا کھا کر جب سوکھنے لگا تو اس میں دودھ ڈال کر وہ پکانے لگی ۔

چائے جب گہرا رنگ چھوڑتی خوشبو اڑانے لگی تو ۔

وہ بھاگ کر امی نائلہ کے کمرے میں آئی دیوار میں نصب الماری سے دو کپ نکالے ۔

ٹرے نکالا دو پرچیں نکالیں یہ امی نائلہ کے جہیز کے برتن تھے جو سوچی چینی کے تھے ۔


کپ پرچ کو اچھے سے باہر لگے نلکے میں دھویا ۔۔

چائے چھان کر کپس میں ڈالی انہیں پرچ پر رکھا ،

ساتھ بیکری بسکٹ نکالے سوفٹ کیکس نکال کر پلیٹوں میں رکھتی بڑے سے ٹرے میں رکھ کر وہ سارا سامان اس کمرے میں لے جہاں وہ گئے تھے ۔

وہ کھڑکی میں کھڑے نظر آئے ،

وہ اِدھر اُدھر ٹرے رکھنے کی جگہ تلاش کرتی مایوس ہوئی کہ کوئی ٹیبل نہیں تھا وہ تو کارپٹ پر بیٹھ کر کھاتے پیتے تھے نا ۔

وہ پلٹ کر اسکی طرف آتا اسکی الجھن سمجھ چکا تھا ۔


ٹرے لے کر وہ باہر کی طرف بڑھا ۔

وہ بھی حیرانی سے پیچھے پیچھے تھی۔

صحن میں پڑے تخت پر وہ ٹرے رکھ گیا ۔

پھر اندر گیا اور اب ایک ہاتھ میں کرسی تھی جو وہ تخت کے ساتھ رکھ کر اس پر ٹرے رکھ گیا تھا۔

ہیر کی آنکھیں نم ہوئیں ۔

ہیر چائے ٹھنڈی ہو جائے گئی ۔

نرمی سے اسے پاس بلا کر کہا گیا۔

وہ بیٹھ گئی تھی زرا فاصلے پر۔


وہ چائے کا کپ اٹھا کر اسے پکڑا گیا تھا ۔

اب خود چائے میں بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھانے لگا ۔

ہیر نے چمکتی آنکھوں سے انہیں دیکھا ۔

چہرے پر دھنک رنگ مسکان ہر نقوش سے پھوٹنے لگی تھی انہیں اپنے گھر میں بنا کوئی تکلف برتتے دیکھ کر ۔


وہ اپنی چائے میں بسکٹ ڈبو کر ہیر کے ہونٹوں کے قریب کر گیا۔

اسنے سرخ چہرے سے سر نفی میں ہلایا۔

ہیر۔۔

وہ تنبیہ بولا اور ہیر نے ہونٹ وا کر دئیے ۔

وہ پورا بسکٹ اسکے منہ میں ڈال چکا تھا۔

وہ اب چائے ختم کر کے کیک سے انصاف کر رہا تھا ۔

کیا آپکو بھوک لگی تھی۔

وہ پشیمانی سے بولی ۔

ہاں صبح سے صرف دو کپ کافی کے ہی پئیں ہیں لنچ کرنے لگا تھا کہ پتا چلا میری ہیر سیر پر نکلی ہوئی ہے تو میں بھی چلا آیا۔


وہ اسکے چہرے کو دیکھتا بولا جبکہ وہ شرمندہ ہوئی تھی ۔

آئی ایم سوری آپکو میری وجہ سے تکلیف ہوئی آپ کھانا بھی نہیں کھا سکے۔

وہ فکرمندی سے بولی ۔

وہ جواباً سر جھکاتا مسکرایا ۔۔۔


ہیر تمہیں پتا ہے آج مجھے کتنا مزہ آیا ہے یہاں تمہارے گھر میں تمہارے ہاتھوں کا لنچ کر کے ۔ّ

وہ نیپکن سے منہ ہاتھ صاف کرتا بولا تھا ۔

اور وہ مسکرا دی۔

اور وہ اسے دیکھ کر مسکراتی آنکھوں سے خود پر ضبط کرنے لگا ۔

ورنہ شرماتی وہ اسے بہت پیاری لگتی تھی اور جب سر جھکا کر ہنستی تھی تو غاذان تیمور کی جان جاتی تھی اُس عام لڑکی پر،

اور جب وہ اسے دیکھتی تھی وہ اس پر اپنا آپ قربان کرتا تھا اور پھر وہ پاگل لڑکی کہتی تھی انہیں تو میری کوئی فکر ہی نہیں۔

______________________

بات سنیں آپ منگنی شدہ ہیں۔


وہ پاس سے گزرتی مہدیہ سے کافی سنجیدگی سے بولا ۔

جی نہیں۔

وہ اسے گھور کر بولی۔

تو شادی شدہ ہوں گئی ؟

وہ اس بار کافی سنجیدہ تھا ۔

جی نہیں میں کہاں سے شادی شدہ لگی ہوں آپکو۔

وہ بہت غصے سے بولی۔

تو پھر آپکی نظر کمزور ہو گئی۔

وہ اس بار یقین سے بولتا مہدیہ کو اور غصہ دلا گیا۔

نظر کمزور ہو میرے دشمنوں کی میری تو الحمداللہ پرفیکٹ ہے۔

وہ شدید غصے میں آ چکی تھی۔

میں مان ہی نہیں سکتا، ان تینوں وجوہات میں ایک تو لازمی ہے آپکے ساتھ ورنہ اتنا خوبصورت لڑکا ہر وقت سامنے ہو اور بندہ دیکھے بھی نا ۔

وہ پاکٹس میں ہاتھ گھسائے کافی پر یقین تھا۔

شٹ اپ سردار کے کزن ہیں اس لیے لخاظ کر گئی ہوں اور دوسرا آپ سے زیادہ پیارے لڑکے الحمداللہ ہمارے گھر میں موجود ہیں ، آپ تو انکے آگے کچھ بھی نہیں ہیں۔

وہ کمر پر ہاتھ رکھتی تیکھے لہجے میں بولی۔

کوئی نہیں، مجھے تو اپنے سے پیارا یہاں پر کوئی لڑکا نظر نہیں آیا ۔

وہ تاسف سے جیسے بولا تھا ۔

میرے سردار بھائی کے سامنے تو آپ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔

وہ فخر سے بولی

ارے انکی چھوڑیں وہ تو مرد ہیں ۔

اسنے جیسے ناک سے مکھی اڑائی تھی۔

میرے خیام جیجو بھی اپ سے زیادہ ہینڈسم ہیں ۔ّ

وہ بولی۔

ارے کوئی غیر شادی شدہ میرے مقابل لائیں تو مانوں۔

دوسری بار ناک سے مکھی اڑائی گئی۔


مہدیہ نے لب بھینچے۔

شاہ میر۔۔

اسکا نام مت لیجئے گا وہ تو مجھے ایک آنکھ سے کانا لگا ہے پلیز ڈونٹ مائنڈ لیکن میں زرا صاف صاف بات کہنے کا قائل ہوں ۔۔

وہ گردن زرا اونچی کرتا اسکی بات بیچ میں ہی کاٹ گیا تھا ۔

جبکہ پیچھے سے گزرتے شاہ میرے نے پریشانی سے دیوار پر لگے آئنے میں اپنی آنکھ کو غور سے دیکھا تھا ۔۔

آپ دراصل خود کانے ہیں اور ہینڈسم بھی نہیں ہیں دوسرا آج سے زرا اپنی شکل غور سے مرر میں دیکھ لیا کرنا تو لگ پتا جائے گا بڑے خوبصورت بنے پھرتے ہیں دماغ کی دہی کر دی ہے میری۔


وہ غصے سے کہتی پیر پٹخ کر سیڑیاں چڑ گئی۔

جواباً اسنے اسکی پشت کو گھور کر وہ پیچھے مڑا پھر ٹھٹھا کہ شاہ میر دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔

وہ بھوکھلایا۔

ارے کیسے ہیں آپ ہینڈسم انسان ۔

وہ خفت سے بولتا اسکے قریب آیا۔

جبکہ شاہ میر نے اسے گھورا ۔

غالباً ابھی تم نے مجھے کانا کہا تھا۔

وہ کافی غصے سے بولا۔

غلط فہمی ہوئی ہے آپکو میں نے تو داور بھائی کو کانا کہا تھا ۔۔

وہ جھوٹ بولتا گھبرا گیا کہ داور اسی طرف آرہا تھا۔۔

میں آتا ہوں مجھے بھوک لگ رہی ہے شدید ۔


وہ بھوکھلا کر کہتے وہاں سے بھاگ نکلا تھا جبکہ شاہ میر نے اسکی پشت کو گھورا تھا۔۔

________،،،،،_________،،،،،،______

اففف۔۔۔۔۔۔۔

پورے کمرے میں جھومتی وہ بے انتہا خوش تھی اسے وہ منظر بھول ہی نہیں رہا تھا اپنے کچے صحن میں چائے پیتے سردار ۔۔

ہیر۔۔

وہ ساکت و جامد ہوئی کہ تیمور صاحب دروازہ کھولے اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔

جی وہ میں ناچ نہیں رہی تھی میرے پیر کا درد ختم ہو گیا ہے تو میں ہلا ہلا کر دیکھ رہی تھی کہ اب درد تو نہیں ہوتا نا ۔

چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق ہیر صاحبہ بھی اپنی صفائی میں الٹا سیدھا بول گئی تھی۔

تیمور خانم نے پہلے تو حیرانی سے اپنی بہو کو دیکھا اور پھر وہ ہوا جو اس ٹھٹھکا گیا تھا.

ہاہاہا۔۔

وہ پہلی بار اونچا قہقہ لگا رہے تھے جبکہ اسکے کمرے میں آتی رائنہ اور ہیر حیران پریشان ہوئیں تھیں ۔

وہ بہت زیادہ شرمندہ ہوئی۔

تو درد ہوا پاوں میں۔

وہ اسکے کمرے میں آتے پوچھ رہے تھے۔

وہ پریشانی سے سر نفی میں ہلا گئی اور وہ اسکی ہونق شکل دیکھ پر سے ہنسے تھے.

شہنام بھی آکھڑا ہوا تھا رائنہ کے پیچھے۔

مائی گاڈ آپ درد ایسا محسوس کرتی ہیں تو جب ٹھیک ہوتی ہوں گئی پھر کیا کرتی ہوں گئی۔

وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔

ہیر نے خود کو کوسا ۔

کیا میں آپکے لیے چائے اور سینڈوچ بنا لاوں ۔۔

وہ خفت سے سرخ رنگت لیے پوچھ رہی تھی ۔

فرار کی راہ بہت پیاری چنی گئی تھی ۔

ضرور بلکہ میں چاِے کی تو فرمئش کرنے آیا تھا زندگی میں پہلی دفعہ تو مجھے کسی کے ہاتھ کی چائے پسند آئی ہے۔

وہ یقیناً رائنہ کو دیکھ چکے تھے۔

رائنہ سر جھٹکتی اندر آئی۔

ہیر فارغ ہو کر میرے روم میں آکر بات سننا

۔

وہ وہی سے ہیر سے کہہ رہیں تھیں۔

تیمور صاحب نے گہری نظروں سے سبز ریشمی سوٹ پہنے صدیوں سے ناراض بیوی کو دیکھا تھا ۔

وہ کہہ کر چلیں گئیں۔

اور ہیر بھی جلدی سے راہ فرار پاتی کچن میں چائے بنانے دوڑی تھی ۔

پ بہت پیاری لگ رہیں ہیں آج۔

شہنام نے گرین سوٹ میں ملبوس مہدیہ کا راستہ روک رکھا تھا اور اب تعریف کرتا اسے ٹھٹھکا گیا تھا ۔

مہدیہ نے غور سے اسے دیکھا وہ گڈ لوکنگ تھا اور آج تو سوٹ پہنے وہ اور زیادہ اچھا لگ رہا تھا۔

شرم نہیں آتی لڑکیوں کو روک کر انکی تعریفیں کرتے ہوئے ۔

وہ بہت تیکھے لہجے میں اس سے پوچھ رہی تھی۔

لڑکیوں کی نہیں میں نے صرف ایک اکلوتی لڑکی کو روک رکھا ہے اور تعریف بھی اسں کی کی ہے اور دوسرا اتنی غصے والی کیوں ہو شادی تو کرنی ہے نا کسی سے تو مجھ سے کر لو اچھا ہوں پڑھا لکھا ہوں مصر کا شہری ہوں مصر میں تو لڑکیاں سارا دن پھول لے کر کھڑی رہتی تھِیں کہ کب شہنام گزرے اور ان پر پیار کی نظر برسائے ، لیکن آپکو میری قدر ہی نہیں ناٹ فیئر مس مہدیہ سہیر ۔۔

وہ جھوٹ سچ کی ملاوٹ کرتا روہانسی شکل بنا چکا تھا ۔۔

مہدیہ نے آئی برو اچکائے پھر سر ہلا دیا۔

راستہ دیں ۔

سنجیدگی سے کہتی وہ اسکے قریب سے گزر گئی تھی ۔۔

شہنام نے محبت سے اسکی پشت دیکھی اور پھر پریشان ہوا۔

شاہ میر سیڑیوں پر کھڑا کافی سنجیدگی سے اسے گھور رہا تھا ۔

وہ دراصل انہیں انکی امی کا پیغام دے رہا تھا وہ باہر انہیں بلا رہیں تھیں نا۔

وہ جلدی سے بھوکھلاتے ہوئے بولا۔

تمہیں کیا پیغام پہنچانے کے پیسے ملتے ہیں سب جانتا ہوں میں پاگل سمجھ رکھا ہے کیا الو کے شکل والے۔

غصے سے کہتا شاہ میر کمرے میں جانے کے لیے پلٹ گیا کہ ابھی اسکی تھوڑی تیاری رہتی تھی ۔۔

الو کی شکل والا کسے کہہ گیا یہ، میری تو اتنی پیاری شکل ہے جیلس پیپل ہیں یہاں میری خوبصورتی سے ۔۔

وہ غصے سے بولتا باہر جانے کے لیے بھاگا تھا ۔۔۔۔

∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆

رائنہ بہت خوش تھی آج ،

وہ نوشین اور شرمین سے بات کر لیتیں تھیں اب۔

خوبصورت گرین سوٹ پہنے سر پر سرخ کامدار دوپٹہ لیے وہ ہاتھوں میں سفید گجرے پہنے تھیں،

سونے کا نازک سا سیٹ پہنے وہ یقیناً بہت خوبصورت لگ رہیں تھی عورتوں سے ملتی ملاتی وہ دور کھڑے تیمور صاحب کا دل دھڑکا رہیں تھیں۔

آئی لو یو موم۔

وہ پیچھے سے آتا انکے کندھے پر سر رکھتا ہوا بولا تھا ۔

وہ شفقت سے مسکرائیں ،

آئی لو یو ٹو غاذان ،

وہ اسے سامنے کرتی نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئیں بولیں تھیں۔

آپکی آنکھیں نم کیوں ہیں موم، آپ جانتی ہیں نا مجھے آپ روتی بلکل اچھی نہیں لگتیں ۔

وہ سنجیدگی سے بولا۔

خوشی کے آنسو ہیں غاذان اس دن کے لیے میں نے بہت سی دعائیں مانگی تھیں کہ اللہ یہ دن میری زندگی میں جلد لے آئے میں اپنے بیٹے کو دلہا بنے دیکھوں تو بس تشکر سے آنکھیں نم ہو گئیں، ۔

وہ نمی چنتی آخر میں بولتی مسکرائیں تھیں۔۔


غاذان نے پہلے تو انکی پیشانی چومی پر انہیں اپنے کشادہ سینے سے لگا لیا۔

غاذان لوگ تمہیں مبارکباد دینا چاہتے ہیں چلو میرے ساتھ.

وہ بولتے ہوئے آِے تھے۔؛

وہ سر ہلاتا سامنے بڑے سے بنے سٹیج کی طرف پروقار چال سے چلتا سیڑیاں چڑ گیا تھا ۔

خادم اور دو گارڈز ہمہ وقت پیچھے تھے وہ اتنی بڑی تقریب میں اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔

کیا خیال ہے دوبارہ نکاح کر لیں ہم دونوں۔

وہ ہاتھ پشت پر باندھے دھیمی مسکان ہونٹوں پر لیے اپنی خوبصورت بیوی سے بولے ۔

رائنہ کا چہرہ پل میں سرخ ہوا ۔

آپ کو حیا آنی چاہئے ۔

وہ جواباً بس یہی بول سکیں تھیں۔

حیاء تو عورتوں کا گہنا ہے رائنی میں نے اپنی نادانی میں زندگی کے بہت سے سال ضائع کر دئیے ہیں لیکن جو بچے ہیں انہیں میں ضائع نہیں کرنا چاہتا اب زندگی کا ہر پل میں آپکے ساتھ خوشیوں اور محبت سے کشیدہ کرنا چاہتا ہوں مائے لو۔۔

دھیرے سے انکے ہاتھ تھامے وہ محبت سے چور لجے میں بولتے رائنہ کا دل دھڑکا گئے ۔

سب دیکھ رہیں آپ جائیں غاذان انتظار کر رہا ہو گا۔

وہ ہاتھ کھینچتی سرخ چہرے سے بولتی وہاں سے کسکی گئیں تھیں۔


وہ مسکراتے ہوئے بیٹے کے پاس جانے کے لیے پلٹے ۔

اس عمر میں بھی انہیں کوئی شرم لخاظ نہیں ۔

شرمین نے حسد سے کہا تھا۔

نوشین جواباً کچھ نہیں بولیں وہ اٹھ کر اپنے بھائی بھاوج کے استقبال کے لیے اٹھ گئیں تھیں ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہیر بھابھی یہ آپ ہیں۔

مہدیہ نے واضع حیرت کا اظہار کیا تھا۔

وہ واقعی پہچانی ہی نہیں جا رہی تھی ۔

ہیر سر جھکاتی مسکرا دی سب لڑکیاں اسکے کمرے میں برجمان تھیں ۔

وہ سب بہت خوبصورت لگ رہیں تھی وہ سب پیلے لہنگے پہنے گرین دوپٹے

کندھوں پر ڈالے انکی تیاری بھی دیکھنے لائیک تھی ۔


مہرینہ پیلا کامدار لہنگا پہنے گرین کرتی گرین ہی دوپٹہ ایک کندھے پر سیٹ کیے اسنے بالوں کی چوٹی بنا کر آگے کو ڈال رکھی تھی بڑے بڑے بالے پہنے وہ بہت حسین لگ رہی تھی ۔

باہر چلیں اب سب لوگ مہندی کی دلہن کا انتظار کر رہے ہیں ۔

مہرینہ نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا۔

ہیر پریشان ہوئی۔

باہر سب ہوں گئے مجھے شرم آئے گئی۔

وہ بے بسی سے بولی۔

تو آپ ایسا کرنا امیجن کریں وہاں سردار صاحب کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو آپکو دیکھنے والا ہو اب ٹھیک ہے۔

شزرا کے مزاق سے کہنے پر اسنے بے بسی سے مہرینہ کو دیکھا۔

کچھ نہیں ہو گا آپ بس نظریں جھکائے رکھنا اور چلتے جانا اور پُراعتمادی سے قدم اٹھائیے گا جیسے سردار غاذان چلتے ہیں۔

بیڈ پر پڑا سرخ ریشمی دوپٹہ اٹھاتی وہ بولی تھی ،

دوپٹہ بہت پیارا تھا جو چاروں نے ایک ایک کونے سے پکڑا تھا ۔

وہ دھیمی مسکان سے سر جھکا گئی چہرہ اچانک ہی دھنک رنگ اوڑھنے لگا تھا کسی کے دلکش تصور سے ،،


وہ جب مین اینٹرس میں آئیں تو اوپر سے دھڑم سے پھولوں سے بڑی بالٹی ان پر برسائی نہیں جیسے گرائی گئی تھی۔۔


ان سب نے حیرت سے سر اٹھایا تھا .

وہ جواباً ان سب کو دیکھتا ڈھیٹ پن سے مسکرایا تھا۔

یہ کیا حرکت تھی کیا ایسے پھول برسائے جاتے ہیں ۔۔

مہرینہ نے غصے سے سر اٹھا کر پوچھا تھا ۔۔۔۔۔

آپ سب کو تو خود پر رشک آنا چاہئیے کہ دی گریٹ شہنام صدیقی نے آپ سب پر پھول برسائے ہیں ورنہ مصر میں تو لڑکیاں ترستی تھیں میری ایک ہلکی سی مسکان کے لیے ۔

فخر سے کہتا وہ دوسری پھولوں سے بڑِی بالٹی ایک دم سے مہدیہ پر پھینکتا مسکرایا تھا ۔۔

مہدیہ نے حیرت سے پھولوں سے بڑے اپنے کپڑے بال دیکھے تھے پھر غصے سے اس کی طرف دیکھا تھا ۔

سب لڑکیوں کے گھورنے پر وہ مسکرایا تھا۔


جواباً وہ دانت نکوستا سامنے سے آتے سردار کو غاذان کو دیکھ کر سریس ہوا وہ سٹیج اترتا خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتا ہوا چلا آرہا تھا ۔


وہ پل میں بالکنی سے غائب ہوا تھا ۔

ہیر کی نظریں اپنی طرف آتے مرد پر تھیں وہ سفید سوٹ والا مرد آنکھوں میں بے پناہ محبت کے جگنو لیے چلتا ہوا اسکے پاس آرکا تھا ۔

وہ سانس روکے انہیں دیکھتی رہی تھی جو اسکا ہاتھ ہاتھوں میں لیے بنا لوگوں کی شوق نظروں کی پروا کیے اسے لیے ہوئے آگے بڑھا تھا ۔

ہیر انہیں دنگ نظروں سے دیکھتی ہوئی چل رہی تھی ,

کیمرہ مین نے بہت سے خوبصورت پل کمرے میں کیپچرز کیے تھے ۔

اسے اختیاط سے سٹیج پر لاتا وہ اسے بہت نرمی سے بٹھا بھی چکا تھا ۔

لڑکے لڑکیاں سٹیج پر چڑ چکے تھے ۔


اور پھر رشک سے لوگوں نے ساکت بیٹھی لڑکی کو دیکھا تھا جسکا شوہر اسکے سر سے بہت سے پیسے وار کر ملازموں کو پکڑا چکا تھا ایسا انوکھا شوہر پہلی بار لوگوں کو دیکھنے کو ملا تھا ۔۔

ہیر کی آنکھیں ڈبڈبائیں، ٹھوڑی ہلکی سی کانپی ،

تشکر کا ایک آنسو پلکوں کی بار پھلانگتا ہوا باہر نکل آیا تھا ۔۔

وہ اب تھوڑا دور کھڑا شہنام کی گردن دبوچے کھڑا تھا ۔۔

تم سے میں نے ایسے پھول برسانے کو کہا تھا ۔

وہ درشتگی سے پوچھ رہا تھا ۔

وہ وہ میں بھول گیا تھا اور جب بھابھی اینٹرس میں آئیں تو یاد آیا اور میں پھر پھولوں کی بالٹی لیے ہی بھاگا تھا میرا کیا قصور ہے ایک مرد ہوں اور کام آپ نے ہزاروں مجھ معصوم پر چھّوڑے ہوئے ہیں ۔

وہ سر جھکاتا منمنایا تھا۔

ؓمرد کے بچے اب اگر کسی کو تنگ کیا تو ٹانگیں توڑ دوں گا تمہاری ، اپنی مہندی کا لخاظ کر رہا ہوں ورنہ ابھی الٹا لٹکا دیتا۔


وہ غصہ ہوا تھا اسکی نالائق حرکتوں پر ۔۔

سردار غاذان ادھر آئیں زرا ۔۔

تیمور صاحب نے اسے اشارا کیا اور وہ باپ کی طرف بڑھا گیا شہنام نے شکر کا کلمہ پڑھا اور سٹیج پر بڑی شان سے چڑھا تھا ۔

اسنے شرمائی سی لڑکی کو گھور کر دیکھا۔

آپ اپنے شوہر کو سمجھا لیں جہاں دل کرتا ہے بے عزتی کر دیتے ہیں میں اب انکی سردری کا لخاظ نہیں کروں گا ۔

وہ ہیر کے کان میں غرایا تھا ۔

ہیر نے چونک کر اسے دیکھا پھر بے ساختہ نظریں دور کھڑے مرد پر گئیں وہ مسکراتے ہوئے کسی سے بات کرتا اچانک ہی نظریں ہیر پر ڈال گیا تھا نظروں کا تصادم بڑا پیارا تھا ،

وہ سر جھکا گئی اور وہ دلکشی سے مسکرا دیا ۔۔

جبکہ شہنام نے دونوں کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا ۔۔۔۔۔۔۔


*********؛؛؛؛؛؛؛؛*******؛؛؛؛؛؛؛؛*********؛؛؛؛؛؛؛؛؛


رائنہ نے ہیر پر پیلی چادر اوڑھی اور چھ سونے کی چوڑیاں پہنائیں تھیں ماتھا چوم کر وہ اٹھ گئیں باری باری سب اسے کچھ نا کچھ دیتے اور منہ میٹھا کرواتے سردار غاذان تو کب سے اسے نظر ہی نہیں آیا تھا۔


تب ہی لان میں چار پولیس اہلکار اچانک ہی آئے تھے ساتھ سفید قمیض شلوار میں ملبوس رانا تھا ۔۔

وہ مسکراتا ہوا تیمور صاحب اور سہیر صاحب سے ملتا ان سے کچھ کہنے لگا تھا وہ بات سنجیدگی سے کر رہا تھا تیمور صاحب اور سہیر صاحب پریشانی سے فق ہوتے چہرے سے وہ پیپرز دیکھ رہے تھے جو اسنے انہیں پکڑائے تھے ۔

رانا کے چہرے پر شاطر سی مسکان چمکی داور کو دیکھ کر داور بھی جواباً انگوٹھے کا اوکے کر گیا ۔۔

یہ شادی نہیں ہو سکتی تیمور خانم صاحب مجھے کیا پتا تھا یہ لڑکی اب آپ کے گھر میں گھس آئی ہے مجھے لگا میرا سارا کچھ لے کر کہی اور بھاگ گئی ہو گئی میں نے بہت تلاشا اسے لیکن مجھے یہ کہی نہیں ملی، اسے میں نے اریسٹ بھی کیا تھا چوری کے جرم میں میرے پاس اُسکی جیل کی تصویر بھی ہے آپ خود دیکھ لیں ۔

اسنے کہتے ہی تصویر تیمور صاحب کی طرف بڑھائی تھی ۔

تیمور صاحب نے لرزتے ہاتھ سے تصویر تھامی ۔۔

سلاخوں کے پیچھے بیٹھی گھٹنوں پر سر رکھے وہ کمزور سی ہیر ہی تھی کالی چادر سر پر مضبوطی سے جمائے وہ سامنے ہی دیکھ رہی تھی۔

وہ بہت اونچا اونچا بول رہا تھا جسکی بنا پر بہت سے لوگ اسکی بات سنتے اسکے آس پاس جمع ہونا شروع ہو گئے تھے ۔۔

تم جھوٹ بول رہے ہو میری بہن ایسی نہیں ہے گھٹیا انسان تمہیں جان سے مار دوں گا میں ۔۔

خیام جو کب سے اسے ساکت نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ہوش آنے پر اسکا گریبان پکڑتا غصے سے چلایا تھا ۔

رانا نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے کیا ۔

ایک پولیس والے کا گریبان پکڑنے کا جرم جانتے ہو تم اور تم اتنا حیران کیوں ہو رہے ہو اپنی بہن کے جرم میں تو اسکے ساتھ تھے ہاں اگر اسنے تمہیں نکاح کا نہیں بتایا تھا تو اس سے جا کر پوچھو اور نکاح نامہ غور سے پڑھ لو سمجھے۔

رانا گریبان ٹھیک کرتا غصے سے چلایا ۔

خبر دار اگر میری بہن کا نام بھی لیا تو جان سے مار دوں گا تمہیں کمینے انسان ۔

وہ درشتگی سے چلاتا اسکی طرف بڑھا تھا جب پولیس والوں نے اسے پکڑا تھا ۔


ہیر جو سب لڑکیوں کے مزاق مستی کو دھیمی مسکان سے انحوائے کر رہی تھی خیام کی اونچی غصے سے بھری آواز پر وہ چونک کر سامنے دیکھنے لگی تھی ،

مہرینہ حیرانگی سے سامنے دیکھتی سرعت سے نیچے کی طرف بڑھی تھی ،

لڑکیاں بھی حیرانگی سے سامنے دیکھنے لگی تھیں جہاں رانا اور خیام آپس میں گتھم گتھا تھے لیکن پھر پولیس والوں نے غصے سے خیام کو قابو کیا تھا ۔۔

وہ اٹھتی ہوئی بنا کچھ سوچے نیچے بھاگی تھی ۔۔

رائنہ نوشین شرمین بھی سب اسکے پیچھے اتریں ۔۔

کیا ہوا ہے خیام ۔

مہرینہ نے پریشانی سے پوچھا۔

وہ جواباً قہر بھری نظروں سے شاطر چہرے والے کو دیکھنے لگا پولیس والوں نے اسے ہتھکڑی لگا دی تھی ۔

تیمور صاحب اور باقی صاحب پریشانی سے ساکت کھڑے تھے جو ہو رہا تھا انکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا وہ حیران زدہ تھے ،

گارڈز بھی ایک طرف کھڑے تیمور صاحب کے اشارے منتظر تھے ۔


خیام تمہیں ہتھکڑی کیوں لگائی ہے کیا ہوا میرے بھائی ۔

وہ خیام کے پاس آ کر رکتی پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔

خیام نے لب بھینچے ۔

یہ تصویر تمہاری ہے ۔

سہیر صاحب نے ایک تصویر اسکی طرف بڑھائی تھی۔

وہ حیرانگی سے فق ہوتے چہرے سے تصویر تھام گئی پھر نظریں ساکت ہو گئ ۔

وہ سفید سوٹ پہنے کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی ساتھ رانا تھا کالی قمیض شلوار میں وہ خوش تھی ہنس رہی تھی کیمرے کو دیکھ کر۔

نہیں ۔

اسنے میکانکی انداز میں سر نفی میں ہلایا تھا ۔۔


یہ میں نہیں ہوں۔

وہ تصویر پھیکنتی پست آواز میں بولی تھی۔

میں جانتا ہوں آپی یہ آپ نہیں ہیں ریلکس رہیں اس شخص کو میں دیکھ کوں گا۔

ہیر کی آنکھیں برستی دیکھ وہ غصے سے چیخا تھا۔

ہیر نے سب کو حیرت سے دیکھا جو سفید کاغذ کا ٹکڑا باری باری دیکھ رہے تھے۔

اسکی نگاہیں متلاشی اِدھر اُدھر بھٹکیں تھیں لیکن مطلوب چہرہ کہی نہیں دیکھا تھا نگاہوں کو شدید مایوسی ہوئی تھی ۔۔۔


بات یہ ہے کہ یہ نکاح پہلے ہوا تھا اسلیے سردار غاذان سے مس ہیر سیعد رانا کا نکاح باطل ہے انہیں آپ رانا کے ساتھ جانے سے روک نہیں سکتے اگر آپ لوگ زبردستی روکتے ہیں تو آپ پر کاروائی کی جائے گئی۔

اسکے ساتھ کھڑے وکیل نے مضبوط دلائل دیا تھا۔

نکاح۔۔

وہ حیرت سے رانا کی طرف پلٹی وہ اسے دیکھ کر ریشان ہوئی تھی ،


جبکہ وہ مسکرایا تھا اسکی حیرت پر،

ہیر کو اسے دیکھ کر خوف آیا تھا ۔

لڑکیاں پریشانی سے کبھی ہیر کو تو کبھی رانا کو دیکھیتیں ۔


لوگ اب دلچسپی سے سارا واقعہ دیکھ رہے تھے ۔۔

میرا کوئی نکاح اس سے نہیں ہوا یہ جھوٹ بول رہا ہے سردار کہاں ہیں میں جھوٹ نہیں بول رہی یہ جھوٹ بول رہا ہے۔

وہ ایک دم سے لرزتی آواز میں وخشت سے چلائی تھی۔


مس ہیر یہ سائن آپکے ہیں کیا۔

وکیل نے پیپرز اسکی طرف بڑھاتے ہوئے سپاٹ انداز میں پوچھا۔

ہیر نے غور سے سائن دیکھے ،

سائن میرے ہیں لیکن میں نے اس سے نکاح نہیں کیا یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔

وہ بھرائے ہوئے لہجے مِیں اپنی صفائی پیش کر رہی تھی۔

رائنہ نے بے بسی سے اسکا رونا بکھڑنا دیکھا تھا انہیں تکلیف ہوئی تھی اسکے یوں رونے سے ۔۔

جبکہ تیمور خانم موبائیل کان سے لگائے کھڑے تھے ،


تو کیا رانا سعید کی تم سے کوئی دشمنی تھی یا آپ کوئی حور پری تھی جسکے لیے وہ سازش کرئے گا مان جائیں مس بھابھی کہ یہ نکاح آپ نے کیا ہے اور اب پیسوں کے لیے ہمارے سردار پر جال بچھا رکھا ہے اپنی معصومیت کا ۔

داور کہی سے آتا غصے سے بولتا سب کو حیران پریشان کر گیا۔

تم چپ رہو داور ۔۔

تیمور صاحب غصے سے بولے۔

کیوں کیا آپ ایک نکاح شدہ لڑکی کو اپنے بیٹے سے رخصت کریں گئے یہ گناہ آپ کمائیں گئے چاچو سوری ہم تو آپکے اس جرم میں ُآپکے ساتھ شریک نہیں ہوسکتے ۔۔

داور نے بے لچک لہجے میں کہا۔


خیام نے وخشت سے ہتکھڑی والا ہاتھ جھٹکا لیکن ناکام رہا ۔

وہ بھاگ کر رائنہ کے پاس آئی۔

امی یہ جھوٹ بولتا ہے میں نہیں جانتی اس نکاح کو میں تو ایک دو بار ان سے ملیں ہوں میں تو زیادہ جانتی ہی نہیں انہیں۔

رائنہ کے ہاتھ تھامے وہ لرزتے لہجے میں ان سے کہہ رہی تھی رائنہ نے بے ساختہ اسے سینے سے لگایا انکا دل مان ہی نہیں رہا تھا جو یہ آدمی کہہ رہا تھا وہ معصوم بنتی ہی نہیں وہ تھی ہی معصوم پھر وہ کیسے یقین کر لیتیں وہ بہت پریشان تھیں،

بیٹا بھی تو کہی نظر نہیں آرہا تھا انہیں ۔


تیمور صاحب نے رائنہ کو دیکھ کر رانا کو دیکھا۔

دیکھو ابھی تم جاو بعد میں بات ہو گئی اس بارے میں ابھی تم جاسکتے ہو۔

تیمور صاحب سنجیدگی سے بولے۔

معذرت تیمور خانم لیکن میں اپنی بیوی کو لیے بغیر یہاں سے ایک انچ بھی نہیں ہلوں گا اور اگر مجھے کسی نے روکا تو اسکے خلاف کیس کروں گا میں کچھ غلط تو نہیں کر رہا سارے ثبوت آپکو دیکھا چکا ہوں بلکہ آپ لوگوں کو تو میرا شکرگزار ہونا چاہئیے جو میں نے بروقت ایک دھوکے باز لڑکی سے آپ لوگوں کو بچا لیا ہے ۔


وہ سنجیدگی سے کہتے ،

لرزتی کانپتی ہیر کی طرف بڑھا تھا ۔

دور رہنا میری بہن سے ورنہ تمہِیں قتل کر کے میں پھانسی پر چڑھنا پسند کروں گا سمجھے ۔

خیام غصے سے کہتا اسکی طرف دوڑا تھا جب راستے میں ہی دو اہلکاروں نے اسے جھکڑ لیا تھا رانا تمسخرانہ انداز میں مسکرایا تھا۔

ہے دور رہو اس سے،


مہرینہ ہونٹ بھینچتی غصے سے اس پولیس والے کے ہاتھ جھٹکتی بولی تھی ۔

ڈونٹ ٹچ ہم۔۔


خیام کا ہاتھ پکڑ کر انہیں پراں کرتی وہ چیخی تھی ۔

سہیر صاحب نے حیرت سے بیٹی کو دیکھا تو کیا وہ اسے شوہر تسلیم کر چکی تھی۔

وہ سوچنے لگے تھے ۔

خیام نے بے بسی سے بہن کو دیکھا۔

ہیر کا چہرہ آنسوں سے تر ہو چکا تھا ۔

کچھ دیر جو چہری دھنک کے تمام رنگ اوڑھ چکا تھا اب وہاں زردی کھنڈ چکی تھی کاجل لگی آنکھیں جن میں کچھ دیر پہلے تمام جہاں کی خوشیاں رقص کر رہیں تھیں وہ اب ویران دیکھنے لگیں تھیں۔۔۔


شہنام بھی یہاں نہیں تھا کیونکہ وہ بھی کہی نظر نہیں آرہا تھا ۔۔

تیمور صاحب بیٹے کو مسلسل فون ملا رہے تھے کہ پریس والے بھی پہلے ہی سے موجود تھے اور اب وہ دھڑ دھڑ فوٹو کھینچ رہے تھے اور سوال پر سوال کر رہے تھے ۔

چلیں مائی ڈیئر وائف۔

اسکا ہاتھ پکڑتا وہ خباثت سے بولتا ہیر کے خون کی رفتار روک چکا تھا ۔

وہ درشتگی سے قسکا ہاتھ جھٹک گِی لیکن اسکی پکڑ مضبوط تھی وہ پکڑ اور مضبوط کر گیا تھا ،

ہاتھ مت لگانا مجھے ۔

وہ چیختی ہاتھ دوبارہ جھٹک گئی تھی۔

رائنہ نے بھی اسکا ہاتھ اسکی کلائی سے پیچھے کیا تھا۔

تم جو کوئی بھی ہو واٹ ایور میری بہو کو ہاتھ لگانا مہنگا پڑ سکتا ہے تمہیں۔

وہ اسے سینے سے لگاتی سرد لہجے میں بولیں۔

وہ ڈھیٹ پن سے مسکرایا۔

آپکی بہو یہ تب ہوتی جب یہ میرے نکاح میں نا ہوتی میری بیوی ہے اس لیے اس پر صرف میرا حق ہے اور کسی کا نہیں۔

وہ دوبارہ اسے اپنی طرف کھینچ کر غصے سے کہتا آگے بڑھا تھا ۔

خیام راستے میں آیا تھا پر رانا نے اسے زور سے دھکا دیا تھا اور وہ ہتھکڑی پہنے سمیت ٹیبل پر زور سے جا گرا تھا پیشانی شیشے کے میز سے بڑے زور سے لگی تھی ،

مہرینہ بھاگ کر اسکے پاس آئی تھی ،

باقی سب ہیر کے پیچھے لپکے تھے سوائے داور کے ۔۔

۔

پولیس والے ان سب کو پیچھے پیچھے کرتے رانا کا راستہ ہموار کر رہے تھے۔


چھوڑو مجھے ڈیڈ یہ اچھا انسان نہیں ہے اسنے مجھے بہت تنگ کیا ہے یہ اچھا انسان نہیں ہے۔

وہ پیچھے پلٹتی ہاتھ چھوڑاتی فون پر بات کرتے تیمور صاحب سے چیخ کر بولی تھی اسنے پہلی دفعہ انہیں ڈیڈ کہا تھا ۔۔

تیمور خانم غصے سے اسکے پیچھے لپکے تھے ۔

رانا نے مسکراتے ہوئے کھلے ڈور سے اسے اندر بٹھانا چاہا تھا جب چار گاڑیاں سرعت سے وہاں رکتی اسے چونکا گئیں تھیں ۔۔

گاڑی سے تیزی سے نکلتا کوئی اور نہیں سردار غاذان تیمور تھا پیچھے شہنام صدیقی بھی تھا۔

گلاسز ہاتھ میں پکڑے وہ آتے ہی ہونق بنے رانا کے ہاتھ سے ہیر کی کلائی چھوڑا کر اسے اپنے پیچھے کر گیا تھا ۔


رانا نے دور کھڑے دورا کو پریشانی سے دیکھا تھا۔

باقی سب گھر والے بھی پاس پہنچ چکے تھے،

تیمور اور رائنہ کے چہرے پر اب اطمینان جھلکنے لگا تھا ۔

ہیر نے بے ساختہ ہاتھ انکی پشت پر رکھا تھا وہ جانتی تھی وہ آجائیں گئے وہ اسے کبھی یہاں سے جانے نہیں دیں گئے۔

سردار غاذان میری بات۔۔۔۔۔

اسکے فقرے منہ میں ہی رہ گئے تھے کہ سردار غاذان کا زناٹے دار تھپڑ رانا کا چہرہ گھما گیا تھا ۔

چٹاخ۔۔

دوسرا تھپڑ اسے زمین بوس کر گیا تھا ۔

رانا سمیت سب پریشانی سے سردار غاذان کے غیض و غضب سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ رہے تھے ۔

تنہاری ہمت کیسے ہوئی نیچ انسان کہ تم میری بیوی کو ہاتھ لگاو ہاتھ نا توڑ دوں میں تمہارے ۔

اسے زمین سے اٹھاتا وہ غصے سے غرایا۔

ہیر خیام کے کندھے سے بے ساختہ لگتی انہیں دیکھنے لگی تھی خیام ہونٹ بھینچے رانا کو دیکھ رہا تھا جسکے ناک میں پڑتا مکہ اسکے ناک سے خون باہر لے آیا تھا ۔

بس سردار غاذان بس آپ کو کیا لگتا ہے آکے تھپڑ اور مکے مجھے میری بیوی ۔۔

خبردار منہ توڑ دوں گا میں تمہارا ۔

وہ مشتعل ہوتے رانا کے ہونٹوں پر قہر سے مکہ مار گیا تھا۔

رانا نے غصے سردار غاذان کا گریبان پکڑا ہی تھا جب اسکے گارڈز رانا پر لپکنے لگے تھے لیکن اسنے روک دیا۔

کوئی اسے ہاتھ نا لگائے یہ میری بیوی کا مجرم ہے اسے میں خود دیکھوں گا۔

وہ سرد لہجے میں نیچے گرے رانا سے بولا تھا گارڈز وہی رک گئے۔

داور نے پیشانی سے پسینہ جلدی سے صاف کیا بازی ایک بار پھر سے سردار غاذان کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی ۔

یہ بیوی میری ہے سردار غاذان تم سردار ہو تو کیا کسی کی بھی بیوی پر قبضہ کر لو گئے ۔

وہ میڈیا کے سامنے چلایا تھا جو دھڑ دھڑ تصویریں بنا رہے تھے ۔۔۔۔

پھر سے بیوی کہا ۔

وہ مشتعل ہوتا چلاتا پسٹل گارڈز کے ہاتھ سے چھین کر اسکی طرف بڑھا تھا جب سہیر اور تیمور صاحب نے بمشکل اسے قابو کیا۔

چھوڑیں ڈیڈ اسے سبق سکھاتا ہوں میں آج اچھے سے اگر آپ مجھے فون نا کرتے تو میں وہی فیکٹری میں الجھا کھڑا ہوتا میں سمجھ چکا ہوں ڈیڈ آگ اسی نے ہماری فیکٹری میں لگوائی تھی ورنہ ہماری فیکٹری میں آگ لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وہ غصے سے بولتا اس تک پہنچ چکا تھا جواباً ہلکی مسکان سے جیب میں اڑسا اسنے بھی اپنا پسٹل نکال سردار غاذان پر تانا تھا۔

خادم نے بے ساختہ بندوق کا رخ رانا کی طرف موڑا وہ سردار کے آگے کھڑا تھا۔

خادم پیچھے ہٹ جاو اسکی اتنی جرات نہیں کہ مجھ پر گولی چلائے سردار غاذان پر گولی چلانا آسان ہوتا تو اب تک بہت سے لوگ مجھے گولی مار چکے ہوتے ۔

وہ خادم کو زبردستی پیچھے کرتا کہتا رانا کی طرف آیا۔

ہیر نے خوف و پریشانی سے سب کو ساکت کھڑے دیکھ جلدی سے خیام سے پیچھے ہوتی سردار غاذان کے پیچھے بھاگی تھی ،

وہ ان کا دوسرا بازو تھام چکی تھی ۔سردار غاذان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔

یہ جھ جھوٹ بولتا ہے میں نے کوئی نکاح اس سے نہیں کیا یہ جھوٹ ہے اسنے مجھے ایک بار جیل میں بھی بند کیا تھا۔

وہ اپنی طرف سنجیدگی سے دیکھتے سردار غاذان سے لرزتے لہجے میں بولی تھی ۔۔۔

سردار غاذان نے اس پر سے نگاہ ہٹا کر رانا کو دیکھا جسے اب گارڈز پکڑے ہوٙے تھے جبکہ پولیس والے اور اسکا وکیل ایک دوسرے سے جھڑپ کر رہے تھے ۔

ِیہ رہا نکاح کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں اس پر تاریخ اور سائن دیکھ لیں آپ لوگ پھر مجھے جھوٹا کہیئے گا اور دوسرا سردار غاذان کے نکاح کی ڈیٹ دو ماہ بعد کی ہے تو آپ سب لوگ خود بتائیں کیا یہ میری بیوی ہو گئی یا سردار غاذان کی یہ سردار ہیں تو کچھ بھی کریں گئے کیا،

میرا کیا قصور تھا مجھے تو خود آج پتا چلا ہے کہ میری بیوی بنا مجھ سے خلع لیے سردار سے شادی کر رہی ہے تو میں دوڑا چلا آیا میں ایک ماہ سے آوٹ آف کنٹری تھا کیا غریب بندے کی کوئی ویلیو نہیں اس امیروں کی ریاست میں ۔۔


وہ گارڈز سے بمشکل خود کو چھڑاتا میڈیا والاوں کے سامنے نکاح نامہ کرتا مصنوعی بے بسی سے چلایا تھا۔


ہیر نے وخشت سے اس جھوٹے مکار انسان کو دیکھا پھر سردار غاذان کی بھینچی مٹھیوں کو۔

،

وہ لرزتے وجود سے اپنے خدا سے دعا گوہ تھی،

سہیر اور خشام سب مہمانوں کو معذرت کے ساتھ رخصت کرنے لگے تھے جب سردار غاذان نے ہاتھ اٹھا کر انہیں جانے سے منع کرتے ہوئے قدم رانا کی طرف بڑھائے تھے

سردار غاذان تیمور آپ انہیں دھمکا ڈرا نہیں سکتے یہ نکاح نامہ سچ ہے آپ کا نکاح باطل ہے سو مس ہیر رضا کو انکے ساتھ جانا ہو گا آپ قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے بلکہ نس ہءر ہر تو کیس کرنا چاہئیے یہ نکاح پر نکاح کرنے کے جرم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک ریپورٹر سنجیدگی سے بولا پیچھے سب اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے تھے ۔


ہیر نے خوف سے کس کر اسکا بازو پکڑا تھا ۔

اسنے غور سے اسکے ہاتھ کو دیکھا جس میں اسکی رنگ خوب چمک رہی تھی پھر نظر کلائی پر بندھی بروان واچ پر پڑی تھی ۔۔

پھر نظریں ہیر کے لرزتے کانپتے ہونٹوں پر پڑیں تھیں اسنے ضبط سے ہونٹ بھینچے تھے۔


شو می نکاح نامہ ۔

وہ نکاح نامے کے لیے ہاتھ بڑھاتا سرد لہجے میں اس سے مخاطب تھا۔

رانا کے زخموں سے چور چہرے پر کمینگی سی مسکان چمکی جبکہ وہ اسکے چہرے کو دیکھتی اسکے بازو پر پکڑ مضبوط کر گئی تھی۔۔

رانا نے نکاح نامہ بڑھا دیا ۔

وہ جھپٹ کر تھامتا نکاح نامے پر نظریں دوڑانے لگا تھا ۔

وہ جیسے جیسے پڑھ رہا تھا ویسے ویسے ہیر کا رنگ زرد ہو رہا تھا ۔


وہ آخر میں مسکرایا ،

جھوٹا ہے۔

وہ بولا تھا جبکہ رانا نے حیرانگی سے اسے دیکھا باقی سب خاموشی سے ہیر، رانا اور سردار کو دیکھ رہے تھے۔


آپ کیسے کہہ سکتے ہیں نکاح نامہ جھوٹا ہے۔

رانا کے وکیل نے جلدی سے پوچھا ۔

بس میں کہہ رہا ہوں تو جھوٹا ہے مجھے اور کچھ نہیں کہنا مجھے خود سے زیادہ اپنی بیوی پر بھروسہ ہے وہ معصوم ہے ایسی غلطی وہ کبھی نہیں کر سکتی اور اگر اب تم نے میری بیوی کو اپنی بیوی کہا تو زمین کے اندر گاڑھ دوں گ تمہیں سمجھے ۔۔


وہ نکاح نامے کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا اسکے چہرے پر پھینکتا ہوا بولا نہیں غرایا تھا ۔


سردار صاحب نکاح نامہ پھاڑنے سے کچھ نہیں ہو گا میرے پاس اور بھی ثبوت ہیں پکچرز ہیں گواہ ہیں اور نکاح نامے کی فوٹو کاپیز بھی ہیں ۔

وہ سنجیدگی سے بولتا پکچرز بھی سردار کی طرف بڑھا گیا ۔

اسنے ایک نظر بھی ان پکچرز پر نہیں ڈالی۔

چٹاخ چٹاخ چٹاخ۔۔۔۔


لگتار اسے تھپڑ مارتا وہ اسے ٹیبل پر گرا چکا تھا رانا کے منہ ناک سے خون چھوٹ گیا تھا لیکن وہ ہار نہیں مانا پغر سے اٹھ کر کھڑا ہو چکا تھا ۔

نیوز چینل والے لگتار اسکی ویڈیو اور تصویریں بنا رہے تھے جنکی اسے مطلق پرواہ نہیں تھی ۔

مار دیں مجھے لیکن خقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے آپ،

وہ ہونٹوں سے خون صاف کرتا ہوا عجیب ڈھیٹ پن سے بولا تھا ۔


اسنے اسے قہر بھری نظروں سے دیکھ کر خود کو ٹکڑ ٹکڑ تکتی بیوی کو بازو سے پکڑ کر درمیان میں کیا تھا۔۔

ہیر نے خوف سے سردار غاذان کو دیکھا سب کی نگاہیں اب ہیر پر تھیں ۔


ہیر بتاو یہ کیسے تمہیں جانتا ہے اور یہ سائن اسنے کیسے لیے

تمہارے ۔۔۔

زرد رنگت والی لڑکی سے وہ سنجیدگی سے مخاطب تھا سردار کا چہرہ بے غصے سے انتہا سرخ تھا۔۔

وہ خود پر بہت مشکل سے کنٹرول رکھے ہوئے تھا ورنہ رانا جیسے لوگوں کو تو وہ چٹکی میں مسل دیتا تھا۔


ہیر کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ ٹوٹ کر رخساروں پر بکھڑنے لگے تھے ۔۔

دھندلائی نظروں سے وہ اس روشن سفید چہرے والے غمسار کو دیکھتی ہونٹوں پر ہاتھ رکھتی روتی سر جھکا گئی تھی۔

خیام نے ہونٹ بھینچ کر بہن کے آنسوں سے نظریں چڑائیں تھیں شہنام کو بھی دوست کا رونا برداشت نہیں ہوا تھا ۔۔


ہیر میں کہہ رہا ہوں بتاو مجھے ان پیپرز پر تمہارے سگنیچرز کیسے آئے بتاو سب کو ۔۔

وہ اسک بازو پکڑے درشتگی سے اسکے آنسوں کو دیکھتا بولا تھا ۔

وہ ڈر کر اسے دیکھتی رہی ۔

بولو ۔

وہ پھر سے بولا تھا ،


میں اسے صرف اتنا ہی جانتی ہوں کہ اسنے مجھے گرفتار کیا تھا اسنے مجھے چھوڑنے کے لیے پیپرز پر سائن لیے تھے لیکن تھے ۔

وہ دھیمے سے لہجے میں سر جھکاتی ہوئی بولی تھی۔

رانا تمسخر سے مسکرایا تھا۔۔

کس جرم میں پکڑا تھا یہ بتائیں میم صاحبہ ۔

رانا طنز سے بولا تھا جبکہ ہیر کا خون خشک ہوا تھا ۔

سردار غاذان نے غور سے اسکی ویران آنکھیں دیکھیں ہیر نے بھی اسی وقت ان جھانکتی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔


کس جرم میں پکڑا تھا یہ بتائیں میم۔

ایک ریپورٹر بڑی بیتابی سے بولا تھا۔


تب ہی سردار غاذان نے قہر بھری نگاہوں سے اس پھرتیلے نوجوان کو دیکھا وہ انکی نظروں سے خوف کھاتا تھوڑا پیچھے کھڑا ہوا اور پھر سر جھکا گیا تھا۔


میں چور نہیں ہوں ۔

وہ اپنے بالکل پاس آکر رکتے سردار غاذان سے بڑے دھیمے لہجے میں بولی تھی اتنے دھیمے لہجے میں کہ اسکی دھیمی لرزتی آواز صرف سردار غاذان ہی سن پایا تھا ۔

وہ چور کے لفظ پر چونکا تھا۔

پھر اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں تھاما ۔

ہیر کے ساتھ سب ہی چونک کر اسے دیکھنے لگے تھے ۔

کیا دشمنی ہے تمہاری میری ہیر سے ۔

وہ ہنوز اسکا چہرہ تھاما اسکے لرزتے ہونٹوں کو دیکھتا بڑے سپاٹ لہجے میں رانا سے پوچھ رہا تھا بنا اسے دیکھے ۔

میری کوئی دشمنی نہیں ہے میں جھوٹ بولتا ہی نہیں ہمیشہ سچ بولا ہے اور آج بھی جو سچ ہے وہی کہا ہے ۔

وہ خون منہ سے تھوکتا ہوا بولا تھا ۔

ہیر نے نفی میں سر ہلایا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔

سردار غاذان مسکرایا ۔

اپنے نکاح کے تینوں گواہ پیش کرو ابھی کہ ابھی۔

وہ اسکی آنکھ سے ٹپک آنے والے آنسوں پوروں سے چنتا سرد لہجے میں اس سے مخاطب تھا۔

رانا نے گھبرا کر اسے دیکھا۔

سردار نے ہیر سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا ۔

گواہ پیش کرو ہمارا حکم ہے یہ۔

وہ عجیب ٹھنڈے لہجے میں اس سے مخاطب ہوا تھا ۔

دو تو آوٹ آف کنٹری ہیں لیکن ایک یہی ہے آپ سب کے بیچ۔

رانا کے کہنے پر سب نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ سردار نے دور کھڑے فق ہوتی رنگت والے داور کو دیکھا تھا ۔

داور نے بے ساختہ پسینے کے قطرے صاف کیے تھے ۔

کہی تیسرا گواہ ہمارا داور تو نہیں ،

وہ ہیر کا ہاتھ ہنوز تھامے داور کی طرف قدم بڑھاتا ہوا بولتا سبکو چونکا گیا تھا ۔

رانا نے حیرت سے سردار کو دیکھا کہ اسے بھلا کیسے پتا چلا تھا ۔

سردار غاذان کیا کہہ رہے ہیں آپ داور ایسا کیوں کرئے گا رانا سے اسکا کیا تعلق بھلا۔

سہیر خانم سنجیدگی و حیرت سے پوچھ رہے تھے ۔

خیام نے چونک کر مہرینہ کو دیکھا جو بنا کسی کو دیکھے ٹشو سے اسکی پیشانی سے لگی رگڑ سے خون صاف کر رہی تھی ۔


کیونکہ ہمارا داور اور رانا سعید پرانے دوست جو ہیں آئی ایم شور تیسرا گواہ داور ہی ہو گا ۔

وہ عجیب سے سرد لہجے میں بولا تھا کہ داور کی ریڑ کی ہڈی تک سنسنی خیز لہر دوڑ گئی تھی ۔

وہ دونوں اسے جتنا بے خبر سمجھتے تھے اتنا وہ تھا نہیں۔

ہاں تیسرا گواہ آپکے گھر کا فرد ہی ہے یعنی داور سہیر خانم پتا نہیں اسنے کیوں نہیں بتایا آپ لوگوں کو مجھے تو اسی نے بتایا تھا کہ تمہاری بیوی دوسری۔۔


وہ پھر سے ہوشیاری سے بولتا چپ ہوا تھا کہ سردار ایک دم سے ہیر کو پیچھے کرتا پسٹل کی نوک اسکی ہونٹوں پر کھبا گیا تھا ۔

گٹیا انسان میں ایک دو بار وارننگ دیتا ہوں تیسری بار سیدھا اٹیک کتنی بار بولنا پڑے گا کہ ہیر کو بیوی مت بولنا لیکن تم باز نہیں آرہے ،

خادم , شہزاد اسے جتنا مر سکتے ہو مارو اور دو چار داور کو بھی لگاو ۔


وہ رانا کو پیچھے کی طرف دھکا دیتا بولتا رانا اور داور کو ساکت کر گیا تھا وہ تو سمجھا تھا سردار اتنے لوگوں میں اسکا کچھ نہیں بیگاڑ سکتا تھا لیکن یہاں تو بازی الٹ پڑ چکی تھی۔

خادم اور ٹرینڈ باڈی بلڈر شہزاد ایک دم سے رانا کی طرف بڑھے تھے داور کو دو گارڈ پکڑ چکے تھے اسکے بھاگنے کی چال ناکام ہوئی تھی ۔


وہ سسکتی ہیر کو ایک دم سے سب کے سامنے اپنے سینے میں بھینچ چکا تھا ۔

تمہارا نکاح نامہ جھوٹا ہے رانا جاو اپنے ماں باپ کو لے آو تمہاری بات مان لوں گا میں، یا پھر میں فون کر دیتا ہوں جان گیا ہوں تم اپنے بھائی کا بدلہ مجھ سے لینا چاہ رہے تھے، لیکن تم اپنے بھائی کی طرح چالباز ہی نکلے نا، میں آرڈر دیتا ہوں رانا سیعد کو آج کی تاریخ میں پولیس کی وردی سے برترف کر دیا جائے اور سات سال کی سزا ااسے دی جائے تاکہ اسے پتا چلے چالبازی کی کیا سزا ہوتی ہے کسی پر جھوٹا بہتان باندھنے کی کیا سزا ملتی ہے سات سال جیل میں سڑو پھر تم سے میں پوچھوں گا کہ اب کوئی اور چال باقی ہے یا سب بھول چکے ہو خود کے ساتھ تمہاری کیں ساری چالیں میں بھول سکتا ہوں لیکن اپنی بیوی پر جھوٹا لزام لگانے والے کو سردار غاذان معاف نہیں کرتا چاہے وہ میرا سگا ہی کیوں نا ہو.

آخری آلفاظ وہ ساکت کھڑے داور کو دیکھ کر بولا تھا ۔

سہیر صاحب نے درشتگی سے بیٹے کو دیکھا پھر غصے سے اسکا گریبان پکڑ دو تین تھپڑ اسے جڑ چکے تھے کہ نوشین بیگم نے بے ساختہ سینے پر ہاتھ رکھا تھا ۔

بابا میری بات سنیں یہ رانا جھوٹ بول رہا ہے میرا اس سب میں کوئی ہاتھ نہیں یہ صرف ہم سے دشمنی نکال رہا ہے ۔

داور دو تھپڑ کھا کر بھوکھلاتے ہوٙے بولا تھا ۔

مار کھاتا رانا غصے سے مشتعل ہوا تھا اس میں دم خم نہیں رہا تھا اتنی مار کھا چکا تھا وہ ڈھیٹ کہ اسکا سارا چہرہ اور وجود زخموں سے بھر چکا تھا لیکن داور کی بات اسے آگ لگا گئی۔


سردار غاذان جھوٹ بولتا ہے تمہارا یہ کزن تمہاری سرداری سے جلتا تھا یہ تم پر ہم نے کتنی بار حملے کروائے لیکن تم بچ گئے تمہاری بیوی بھی چھین لینا چاہتے تھے تاکہ تم تا عمر ٹرپو تمہاری ویڈیو بھی ہم دونوں نے جاری کی تھی یعنی دا گریٹ داور اینڈ رانا نے میں اکیلا سزا وار نہیں ہوں اسے بھی برابر کی سزا ملنی چاہئیے اور ہاں نکاح نامہ جھوٹا تھا مجھے معاف کردیں مجھے چھوڑ دیں سردار میرے ماں باپ دوسرے بیٹے کی جدائی سہہ نہیں سکے گئے ۔


وہ نیچے پڑا کانپتے ہاتھ جوڑتا ہوا بولا تھا ۔


سردار سمیت تیمور خانم نے بھی قہر بھری نظروں سے بھیگی بلی بنے داور کو دیکھا ۔

ہیر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ چیئر پر اسے بٹھاتا ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی گلاس میں ڈال کر اسکے سفید ہونٹوں سے لگا گیا تھا لپ سٹک تو اسکی سفید قمیض پر لگ چکی تھی بھیچنے سے،

اسکے ہونٹ خوف سے سفید پڑ چکے تھے وجود الگ بخار میں تپنے لگا تھا ۔۔

ہیر پانی پیو سب ٹھیک ہے ۔

اسے پانی پینے پر امادہ کرتا وہ نرمی سے بولا تھا۔

ہیر نے بمشکل چار پانچ گھونٹ خلق سے اتارے تھے۔

تمہیں میں اپنا بیٹا سمجھتا تھا اپنے بھائی کی پیاری اولاد لیکن تم کیا کرتے پھر رہے تھے میرے بیٹے پر حملے کروا رہے تھے اپنی بھائی کے دشمن بن بیٹھے تھے صرف ایک پگڑی کے لیے تف ہے داور تم پر ۔۔

تیمور خانم کے تھپڑ نے اسکے حواس گھم کر دئیے تھے ۔۔

مجھے شرمندگی ہے بھائی صاحب کہ یہ میرا بیٹا ہے ُ جو چاہے اسے سزا دیں ہمیشہ بیٹیوں پر اسے فوقیت دی لیکن اسنے ہمیشہ میرا سر نیچا ہی کیا ہے ۔

وہ غم سے چور لہجے میں بولے تھے۔


کیوں شرمندگی ہے آپکو مجھے اپنا بیٹا کہنے پر آپ نے ہمیشہ غاذان کو مجھ پر فوقیت دی ہے یمیشہ اسے سراہا ہے مجھے کیا ملا ہمشیہ سڑے ہوئے طعنے اور اسے ہر چیز مجھ سے بہتر ملی سرداری بھی اسے دے دی میرے باپ نے بلکہ مجھے شرمندگی ہوتی ہے آپکو اپنا باپ کہتے ہوئے ،

زندگی کے ہر میدان میں مجھے آپ نے مایوس کیا ہے سردار غاذان کی مثالیں دیں ہیں کیا کبھی سراہا مجھے اسکے نمبر اچھے آئے ہیں وہ اتنا اچھا ہے وہ کتنا خوبصورت ہے وہ کیسے چلتا ہے وہ کیا کیا کرتا ہے آپ نے ہمیشہ میرے سامنے اسکی ہی تعریفیں کیں ہیں خقیقتاً آپکو اسکے سامنے آپنا بیٹا کبھی نظر ہی نہیں آیا ہے بلکہ میں تو کہی دیکھا ہی نہیں آپ سبکو وہ یہاں ہو یا نا ہو لیکن بات ہمیشہ غاذان تیمور کی ہو گئی آپ نے اپنے بیٹے کی پرسنلٹی ہمیشہ ڈون کی ہے تو کیوں کروں میں کسی کا لخاظ ہاں مروانے کی بہت بار کوشش کی ہے لیکن یہ اپنی اچھی قسمت کے بل بوتے پر بچ گیا ۔


وہ نفرت سے باپ سے مخاطب تھا باقی سب شاک سے اسے دیکھ رہے تھے گارڈز نے سب مہمان اور ریپورٹرز کو زبردستی نکال باہر کیا تھا اور رانا کو پولیس پکڑ کر لے جا چکی تھی,


سہیر نے بے ساختہ کرسی تھامی تھی کہ کہی گر ہی نا جائیں دل دہلا دینے والے انکشاف سے۔

نوشین بھی زارو قطار رو رہی تھیں۔

باقی سب شاک میں تھے مہرینہ اور مہدیہ بھی ماں باپ کا دکھ برداشت نہیں کر سکیں تھیں انکی آنکھیں بھی بھیگنے لگیں تھیں۔۔


خیام نے ہونٹ بھینچ کر بیوی کو دیکھا جسکی آنکھیں اچانک ہی برسنے لگیں تھیں۔

سردار اٹھا تھا اور اسکے سامنے آیا ،

داور نے بنا خوف کے اسے دیکھا ۔

تمہیں ہمیشہ اپنا بھائی ہی مانا تھا داور تمہاری نفرت سے آگاہ تھا میں اور رانا سے دوستی سے بھی آگاہ تھا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ میرا بھائی اپنی اندھی نفرت میں مجھے مارنے کی کوشش کر سکتا ہے میں ابھی بھی یقین نہیں کر پا رہا اور دوسرا چاچو کو بلیم مت کرو تم خود مجرم ہو اپنے اور اپنے پیاروں کے ہاں چاچو غلط کرتے تھے تمہیں میری مثالیں دے کر لیکن ایک باپ اپنے بیٹے کو بلندی پر ہی دیکھنا چاہتا ہے وہ بھی تمہیں میرے برابر لانا چاہتے تھے تو اس میں انکا کیا جرم ہے جرم تو تمہارا نکلتا ہے داور کے تم کم ظرف تھے سیاہی مائل دل تمہارا تھا اگر چیزوں کو پازیٹیو دیکھتے تو آج تم نیچے نہیں میرے برابر ہوتے مجرم نہیں سرخرو ہوتے چاچو کو مت الزام دو خود کو دو ،

انصاف تو یہی کہتا ہے تمہیں بھی رانا کے برابر کی سزا دی جائے چاچو آپ کیا کہتے ہیں کیا اسے چھوڑ کر میں اللہ کا مجرم بن جاوں کیا یہ سزا کا حقدار نہیں اسنے مجھے پر حملے کروائے میری ہیر کے خلاف چالیں چلیں تو کیا یہ رانا کے برابر میں مجرم نہیں میں اسے اگر چھوڑ دیتا ہوں تو میں سردار بننے کے لائیک نہیں ۔

وہ داور سے تین چار قدم پیچھے ہوتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا ۔

غاذان پولیس کو بلاو اسے سزا ملنی چاہئے لیکن داور میری بات ہمیشہ یاد رکھنا ایک باپ اپنی اولاد کا کبھی برا نہیں سوچتا وہ خود سے زیادہ اپنی اولاد کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتا ہے شاید میری ہی غلطی ہے جو تمہاری تربیعت پر میں دھیان نہیں دے سکا۔

سہیر خانم تھکے تھکے سے لہجے میں کہتے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے اور نوشین مہرینہ مہدیہ بھی باپ کے پیچھے بے ساختہ بڑھیں تھیں ۔

داور کو پہلی بار اپنے رشتوں کے سامنے شرمندگی ہوئی تھی ۔۔


سردار نے فون نکال کر پولیس والوں کو بلایا تھا وہ اسے اپنا سمجھ کر چھوڑ نہیں سکتا تھا اگر اسے بہتر بنانا تھا تو اسکی غلطیوں پر پکڑ ضروری تھی اگر آج وہ چھوڑ دیتا تو خود سے نظریں چڑاتا داور بھی کبھی نا سدھرتا ۔۔


خیام آہستہ سے ہیر کے قدموں میں بیٹھا تھا ۔

ہیر نے اسے دیکھا ۔

وہ آج ان سب سے بہت شرمندہ تھی کہ اسکی وجہ سے وہ سب پریشان ہوئے تھے انہیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ خود سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔

خیام نے اسکا مہندی سے سجا ہاتھ چوما تھا ۔

وہ بمشکل اسے دیکھ کر مسکرائی۔

آپ کیوں پریشان ہیں جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے ہر کام میں خدا کی مصلحت ہوتی ہے اچھا ہو گیا نا خقیقت سب کے سامنے آ گئی تو پھر یوں خود کو بلیم مت دیں آپ ۔

وہ اسکی ویران آنکھوں کی ادسی سمجھ چکا تھا ۔

خیام مجھے لگتا ہے زندگی صرف مجھے ہمشیہ آزمائے ہی چلی جائے گئی کبھی مجھے پوری خوشی نصیب ہونے نہیں دے گئی آج ہم سب کتنے خوش تھے نا اور دیکھو پھر کیا ہو گیا اتنا کچھ ہو گیا صرف میری وجہ سے۔

وہ دور کھڑے غاذان کو دیکھ کر بول رہی تھی جو تیمور اور رائنہ سے پتا نہیں کیا بات کر رہا تھا داور کو پولیس پکڑ کر لے جانے لگی تھی ،

سردار غاذان نے سبکو کمرے میں جانے کا کہا تھا ۔

وہ سب سر ہلاتے اندر ہال کی جانب بڑھے تھے تاسف بڑھی نظر ہیر پر ڈالنا نہیں بھولے تھے ۔۔


سردار غاذان بالوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں درست کرتا آنکھیں بند کرتا خود کو ریلکس کرنے لگا تھا ۔

خیام جاو آرام کرو میں ہوں تمہاری آپی کے پاس ۔

وہ پاس آتا سنجیدگی سے خیام سے بولا تھا ۔

وہ سر ہلاتا اٹھتا اندر کی طرف بڑھ گیا تھا ۔

لان میں اب ملازم سب کچھ سمیٹ رہے تھے ۔

وہ چیئر کھینچ کر اسکے ساتھ بیٹھے تھے ۔

ہیر سر جھکائے ساکت بیٹھی رہی ۔

ہیر تمہیں مجھ پر کتنا یقین ہے ۔

وہ سامنے کام میں متحرک ملازموں کو دیکھتا ہوا بھاری آواز میں پوچھ رہا تھا ۔۔

ہیر نے جھکا سر اٹھایا اور انہیں بے ساختگی میں دیکھے گئی ہلکی بڑھی ہوئی شیو ٹین شین سے رہنے والے سردار غاذان میں ہیر کی جان بستی تھی انہیں دیکھ کر اسے اپنے جینے کا احساس ہوتا تھا اور وہ پوچھ رہے تھے اسے ان پر کتنا یقین ہے۔

جواب نہیں دیا ہیر۔


وہ سامنے سے نظریں ہٹاتے اسکے کملائے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے دوبارہ سے بولے۔

اللہ نبی کے بعد صرف آپ پر ہی تو یقین ہے سردار جی۔

وہ اب انکے ہاتھوں کو دیکھتی بھیگے سے لہجے میں بولی۔

پھر کیوں پریشان ہو روئی کیوں تھی، ہیر کیا میں نے تمہیں کہا نہیں تھا میرے ہوتے ہوئے تمہاری آنکھوں سے آنسو نہیں آنے چاہئیے ۔

وہ اسکا ہاتھ ہاتھوں میں لیتے سنجیدگی سے اسے ٹوک رہے تھے ۔

ہیر کی آنکھیں بھر آئیں تھیں ۔

بس آگیا رونا میں ڈر گئی تھی مجھے لگا وہ آدمی مجھے آپ سب سے دور کر دئے گا اسنے تین چار بار مجھے تنگ کیا تھا۔۔۔۔

تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا کہ وہ تمہیں تنگ کرتا ہے ۔

وہ اسکی بات بیچ میں ہی کاٹتا ہوا سنجیدگی سے بولتا ہیر کو پریشان کر گیا ۔۔

ہیر نے لب کاٹے پھر انکے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ سے پکڑ مضبوط کی اب دونوں کی نظریں ایک دوسرے کے ہاتھوں پر تھیں۔

آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی میں۔

وہ بولی۔

اور وہ عجیب سا مسکرایا ۔

کیا اب میں پریشان نہیں ہوا تھا اگر تم پہلے بتا دیتی تو آج اسکی جرات نہیں ہوتی تمہارا ہاتھ پکڑنے کی تمہیں اپنی بیوی کہنے کی خیر اسکی سزا تو وہ تا عمر بھگتے گا اسے بھی تو پتا چلے سردار غاذان کے راستے میں آنے والے کا کیا خشر ہوتا ہے ہیر میں اتنا اچھا نہیں ہوں میں صرف اچھوں کے ساتھ اچھا ہوں بروں کے ساتھ میں ان سے زیادہ برا ہوں میں نہیں چاہتا میری بیوی مجھ سے کوٙئی بھی بات چھپائے مجھے خود پر غصہ آیا ایک دل کیا خود کو ہی گولی سے اوڑا دوں وہ میری بیوی کو تنگ کرتا رہا اور میں بے خبر رہا کیسا سردار ہوں میں تف ہے غاذان تمہارے سرادر ہونے پر۔۔


بے انتہا سرد لہحے میں کہتا وہ اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکال کر وہاں رکا نہیں تھا چلا گیا تھا اسے اکیلا چھوڑ کر ۔

اسنے پہلی بار انہیں اتنے غصے میں دیکھا تھا اسے مہدیہ کی بات یاد آئی کہ انہیں غصہ کبھی کبھی آتا ہے لیکن جب آتا ہے تو شدید آتا ہے ۔۔

وہ بے ساختہ انکے پیچھے دوڑی تھی بھاری کامدار لہنگے میں دوڑنا آسان نہیں تھا لیکن وہ دوڑی اور جب تک وہ ہال میں آئی وہ اسے کہی نہیں دیکھے تھے ۔

آنسو آنکھ سے گرتا گال پر بہہ آیا ۔

شوں شوں کرتی وہ قدم گھسیٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی چال میں عجیب سی تھکاوٹ تھی آج۔

_________________________

خیام نے کھڑکی میں کھڑی مہرینہ کو دیکھ اسکے قریب چلا آیا وہ دور نظر آتے باریک چاند پر نظریں جمائے کھڑی تھی ،

مہر سو جائیں اب صبح شادی ہے جلدی اٹھنا ہو گا نا ۔

اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا وہ فکرمندی سے بولا تھا ۔

وہ اسکی طرف پلٹتی بے ساختہ اسکے سینے پر سر رکھتی بازوں اسکے ارد گرد لپیٹ گئی تھی ،

خیام نے حیرت سے اسے دیکھا وہ پہلی بار اسکے قریب خود ہوئی تھی شاید اسے کوئی کندھا چاہئیے تھا ۔

خیام نے دلگرفتی سے سوچتے ایک بازو کو اسکے کندھے کے گرد باندھا تھا ۔

خیام ہم بیٹیاں بھی عجیب ہی کوئی شے ہوتیں ہیں ہمارے ماں باپ ہم سے جیسا مرضی سلوک کر لیں ہم ان سے ناراض ہو جائیں لیکن جب باپ کی آنکھ سے

آنسو گرئے نا تو ایک بیٹی کے لیے اس سے بڑا دکھ کا مقام کوئی ہو ہی نہیں سکتا ،ابو نے ہمیشہ مجھے ڈانٹا برا بھلا کہا میں بھی ان سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھی آخر مجھے برا لگتا تھا انکا بلاوجہ ڈانٹنا لیکن آج جب انکی آنکھیں نم ہوئی نا تو ایسے لگا جیسے کسی نے دل پر ہاتھ مارا ہو دل پر بہت درد ہوا اور پھر مجھے پتا لگا میں ان سے کتنی محبت کرتی ہوں۔

وہ بڑے دھیمے لہجے میں اپنے دل کا دکھ اس سے بیان کر رہی تھی ۔

خیام نے اسے سینے سے الگ کر کے اپنے روبرو کیا ۔

کیونکہ بیٹیوں کے دل نرم ہوتے ہیں آپ پریشان نا ہوں سب ٹھیک

کر دیں گے سردار، اور اب آپ نے رونا نہیں ٹھیک ہے۔

وہ اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھے سنجیدگی سے کہہ رہا تھا مہر نے بغور اسے دیکھا اور پھر زبردستی اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا کہ یہاں اسکے دل کو عجیب سا سکون میسر آیا تھا ۔

جبکہ وہ شدید حیران ہوا تھا اسکے دوسری بار گلے لگنے سے ۔۔۔۔

اور پھر سر جھکا کر اسکے چہرے کو دیکھا لیکن وہ آنکھیں موندے ہوئے تھی

_____***____***_____***____

رات کا ہی کوئی پہر تھا جب وہ جھجھکتی ہوئی اسکے جم روم میں آئی تھی کیونکہ جم کی لائٹ جو جل رہی تھی تو وہ چلی آئی ،

پنجنگ بوکس پر لگتار مکے برساتا وہ اسے دیکھ کر ساکت ہوا تھا ۔

وہ بلیک پینٹ پر بلیک ہی بنیان پہنے ہوئے پسینے سے تر تھا ۔

وہ بھی کپڑے چینج کر چکی تھی ۔ سادہ سی فیروزی قمیض نیچے وائٹ تنگ لیس والا ٹروزر پہن رکھا تھا فیروزی دوپٹہ آج سر پر نہیں کندھے پر تھا اونچی پونی میں بال جھکڑ رکھے تھے ۔

وہ اسے بے تاثر چہرے سے دیکھ رہا تھا ۔اسنے ستاروں سی چمکتی نگاہیں ہیر کی بڑی سی نتھ پر جمائیں تھیں نتھلی میں لگا بڑا سا مہرون نگ ہیر کے ہونٹوں کو بار بار چھو رہا تھا ۔

اسنے ہاتھ بڑھایا تھا اپنی بیوی کی طرف ۔

ہیر نے ہاتھ کو محبت سے دیکھا اور کافی دیر تک دیکھا چہرے پر شرمیلی سی مسکان تھی چہرہ الگ سے تپنے لگا تھا اتنے لوگوں کی نظریں خود پر محسوس کر کے وہ نروس سی ہو رہی تھی۔۔۔۔

خیام نے دھیمی مسکان ہونٹوں پر سجائے بہن کا ہاتھ تھام کر سردار غاذان کے ہاتھ پر رکھا تھا ۔


مہندی سے سجا ہاتھ نرالی ہی چھب لیے ہوئے تھا ،کیا کوئی اتنی پیاری دلہن ہو گئی اس روئے زمین پر جیسی میری ہیر لگ رہی ہے۔

غاذان نے مسکراتے ہوئے سوچا تھا حسن انسان کے اندر ہونا تو اسے کوئی چیز بد صورت نہیں لگتی ہیر بھی سردر غاذان کے آگے بہت معمولی تھی لیکن سردار غاذان چہروں کی نہیں کردار کی خوبصورتی پر بھروسہ رکھتا تھا ،اسے ہیر کی ہر عادت سے محبت تھی اسکا اسے دیکھنا، شرمانا ، غاذان کی چیزوں سے عشق کرنا اسے بہت بھاتی تھی ہیر کی یہ عادت ،

ہیر کا چوری چھپے اسے دیکھنا یہ عادت تو غاذان کو سب سے زیادہ پسند تھی ۔

وہ دونوں چل رہے تھے سامنے پڑے مخملی سرخ صوفوں کی طرف ،لڑکیاں لڑکے پھولوں کی پتیاں دل کھول کر اس خوبصورت جوڑے پر نچھاوڑ کر رہے تھے ،

سردار غاذان اور اسکی دلہن کو دیکھ کر سب چھوٹے بڑے تالیاں بجا رہے تھے یہ خوشی کا ایک اظہار تھا ان سب کا اپنے سردار سے۔

رائنہ کی آنکھیں آج بار بار نم ہو رہیں تھیں۔

بیٹے کو دلہا بنا دیکھ کر یہ دن ماوں کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے یہ صرف مائیں ہی سمجھ سکتیں ہیں ۔

تیمور صاحب نے آہستہ سے ہاتھ انکے کندھے پر رکھا وہ خوبخو بیٹے جیسے ڈریسنگ کی ہوئے تھے بس ریڈ ٹائی کی گلے میں کمی تھی ، وہ بھی بیٹے کی طرح ہی وجیہہ لگ رہے تھے ۔


رائنہ نے مسکراتے ہوئے آنکھیں صاف کیں تھیں۔

ان دونوں کے بیٹھتے ہی سب لڑکیوں نے باری باری انہیں گفٹ دئیے تھے شزرا نے اسے پھولوں کا بڑا سا گلدستہ دیا تھا ،

خیام اسکے قدموں میں دوزانو بیٹھا تھا ,

ہیــــــــر نے سر اٹھا کر بھائی کو شفقت سے دیکھا۔

خیام نے مسکراتے ہوئے جیب سے مخملی کیس نکال کر اسکے اندر سے سونے کی نفیس سی رنگ نکال کر ہیر کی انگلی میں ڈالی تھی ۔

ہیر نے مسکراتے ہوئے انگلی کو دیکھا پھر اسے جو کھڑا ہوتا اسکا سر چومتا پیچھے ہو گیا تھا ۔

مووی میکر سب کی پکس اور تصاویر بنا رہا تھا ۔


ہیر نے جھکے سر کو تھوڑا سا اٹھایا کہ اب آس پاس رش کم تھا کہ کھانا لگا دیا گیا تھا پوری بیس ڈشز تھیں مینیو میں بوفے لگا ہوا تھا امیر غریب سب انوائٹ تھے اپنے سردار کی شادی پر پر کوئی اپنی مرضی کی ڈش منتخب کر رہا تھا۔

وہ پانی پی رہا تھا جب وہ چونکا ۔

ہیر کی انگلی نے اسکی انگلی کو دھیرے سے چھوا تھا ۔

اسنے اسکی طرف چہرہ موڑا ۔

وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

ہیر کی مسکارا لگیں آنکھیں اسکے دیکھنے پر مسکرائیں ۔

سردار غاذان نے سرعت سے چہرہ اسکی طرف سے موڑ لیا۔

ہیر کے گلے میں پھندا سا لگا تھا ۔

کیا وہ اس سے اتنے ناراض تھے کہ آج کہ اہم دن میں بھی وہ اسکی طرف دیکھ نہیں رہے تھے مسکرا نہیں رہے تھے تو کیا وہ اس سے بہت زیادہ ناراض ہیں ۔

ہیر نے انہیں دیکھ کر ہونٹ بھینچے ۔

انکے آگے ملازموں نے کھانا چن دیا تھا لیکن ہیر نے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا ۔

سردار غاذان نے بڑی سے سفید پلیٹ پکڑی اس میں تھوڑے سے چاول ریشین سیلڈ ایک طرف بھنا ہوا گوشٹ ڈال کر اسکی طرف بڑھایا تھا ۔

مجھے نہیں بھوک ۔

ناراضگی بھرا لہجہ گونجا تھا اسکے آس پاس۔

اسنے چونک کر اسکے خفگی سے سجے چہرے کو دیکھا تھا ۔

ہیر کھانا کھالو تو بہتر ہو گا تمہارے لیے۔

وہ سنجیدہ تھا بہت ۔

اور اگر نا کھایا تو !

ّوہ اسکی طرف چہرے موڑے پوچھ رہی تھی لہجے میں ضد سی تھی۔

سردار غاذان نے ہونٹ بھینچے اور اپنی پلیٹ بھی پیچھے کھسکا دی تب ہی شاہ میر اور شہنام انکے پاس چلے آئے ہاتھوں میں کولڈرنکس پکڑے ہوئے۔

شاہ میر تم نے بھابھی کو کیا تخفہ دیا ہے۔

شہنام نے سنجیدگی سے پوچھا۔

میں تو الریڈی اپنا اکاوّنٹ سردار بھابھی کے نام کر چکا ہوں ۔

وہ مسکین سا منہ بنا کر پوچھ رہا تھا ۔

واٹ پورا اکاونٹ۔

شہنام حیرت سے بولا تھا ۔

ہاں ۔

وہ ہنوز چہرہ مسیکن ہی بنائے ہوئے تھا۔

جبکہ ہیر نے حیرت سے اسے دیکھا اسنے کب بھلا اسکے نام اکاونٹ کیا تھا اسنے سردار غاذان کی طرف دیکھا تھا جو دونوں کو گھور رہا تھا اور فون بھی کان سے لگا رکھا تھا۔


تم نے کیا گفٹ دیا سردار بھابھی کو۔

شاہ میر نے تجسس سے پوچھا جبکہ وہ شرارت سے مسکرایا ۔

میں تو الڑیڈی سب کچھ انکے نام کر چکا ہوں اب بس میرے پاس یہ سرخ گلاب بچا ہے جو میں انکی نذر کرنے لگا ہوں بھابھی جان قبول شبول کریں ۔

ایک گھٹنے پر بیٹھ کر وہ خالصاً کسی عاشق کی طرح بولا تھا ۔

اس سے پہلے ہیر اسے گھورتی اسنے پھول اسکے ہاتھ سے چھین کر اسکے منہ پر پھینکا تھا ۔

جان مت بولا کرو خبیث انسان سردار بھابھی کہا کرو اور آئندہ ایسی فضول حرکت کی تو الٹا لٹکا دوں گا لوفر انسان بھاگو اب یہاں سے۔


اسکے غصے بھرے لہجے پر شاہ میر اور شہنام الٹے قدموں وہاں سے بھاگے تھے۔

جبکہ وہ سر جھکاتی مسکرائی تھی۔


_______________________


مہمانوں کو کھانا کھلا کر عزت سے رخصت کر دیا گیا تھا پھر دلہن کی رخصتی کا مرحلہ آیا تھا خیام اور مہرینہ نے محبت سے اسکی رخصتی کی تھی ,

خیام کیسے ہو بچے کام کیس جا رہا ہے تمہارا۔

خیام جو جانے کے لیے مہرینہ کو اشارا کر رہا تھا سہیر صاحب کے چانک ہی سامنے آکر پوچھنے پر وہ حیرت زدہ ہوا تھا کہ پہلی بار انہوں نے اسے مخاطب کیا تھا ۔

جی الحمدللّٰه کام بھی اچھا جا رہا ہے اور میں بھی اللہ کا شکر ہے فٹ فاٹ ہوں۔

وہ بھی بہت ادب سے بولا تھا ۔

اندر سے بیگ لے کر آتی مہرینہ وہی سیڑیوں پر ہی رک چکی تھی ۔

وہ اس وقت بروان کلر کی سادی سی فراک میں ملبوس تھی بالوں کو چھوٹے سے کیچر میں جھکڑے سر پر سفید چادر لیے وہ پہلی والی مہرینہ سے زرا مختلف ہی لگتی تھی۔

بیٹا میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط رویہ رکھا تھا اسکے لیے میں تم سے معافی کی درخواست خواہ ہوں۔

وہ شرمساری سے بولتے سامنے دیکھنے لگے جہاں انکی بیٹی انہیں ہی دیکھ رہی تھی وہ اس بیٹی سے بھی تو بہت شرمبدہ تھے اس بیٹی کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ برا سلوک ہی کیا تھا پتا نہیں کیوں شاید انہیں بیٹیاں کچھ خاص پسند نا تھیں لیکن اب انکی سوچ ٹوٹلی تبدیل ہو چکی تھی وہ بیٹا جس پر انہیں بہت مان تھا سارے جگ کے سامنے اسنے انہیں رسوا کر کے رکھ دیا تھا جبکہ بیٹیوں نے انہیں کبھی کسی کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دیا تھا۔

کیسی باتیں کر رہے ہیں انکل آپ، آپ میرے ابو جیسے ہیں مہرینہ کے بابا ہیں آپ کیوں معافی مانگے گے جو ہوا وہ اس وقت حالات کی ڈیمانڈ تھا اور ہر باپ اپنی بیٹی کے لیے اچھا ہی تو سوچتا ہے اُس وقت واقعی میرے پاس کچھ نہیں تھا آپ غلط نا تھے۔

وہ انکے جڑے ہوئے ہاتھ تھام کر بہت ادب و اخترام سے بولتا انہیں بہت اچھا لگا تھا ۔

مہرینہ کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گال پر بکھڑا تھا ۔

مہرینہ!


انہوں نے بیٹی کی طرف بانہیں پھیلائیں تھیں ,

نوشین بھی چہرے پر بے پناہ حیرت لیے لان میں انکے پاس ہی آ کھڑی ہوئیں تھیں ۔

مہرینہ سامان وہیں چھوڑے بھاگتی ہوئی انکے سینے سے لگتی رو دی تھی ۔

بس بچے اپنے باپ کو معاف کردو آئندہ تم دونوں بہنوں کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی یہ وعدہ ہے تمہارے بابا کا تم دونوں سے۔

اسکا سر ماتھا چومتے وہ شفقت سے بولے تھے۔

بابا آئی مس یو الاٹ۔

وہ سر اٹھا کر ان سے بولی تھی اور وہ ایک بار پھر سے شرمندہ ہوتے اسکا سر چوم گئے ۔

خیام اور نوشین لبوں پر مسکراہٹ لیے باپ بیٹی کو دیکھ رہے تھے ۔۔


پرسوں کا ڈینر میں تم دونوں کی طرف کرنا چاہتا ہوں خیام تم دونوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا نا۔

وہ بیٹی کو بانہوں کے خلقے میں لیے ہوئے خیام سے مخاطب تھے۔

انکل یہ ہم دونوں کے لیے اعزاز ہو گا اعتراض کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وہ ہلکی مسکان سے کہتا مہرینہ کو بہت پیارا لگ دل کے اندر گھستا محسوس ہوا کتنے ادب سے مخاطب تھا نا وہ اسکے باپ سے ۔خقیتاً لڑکیوں کو وہی لڑکے پسند آتے ہیں جو انکے ماں باپ کو عزت دیں مان دیں ۔

اب اجازت دیں ہمیں لیٹ ہو رہے ہیں ہم۔

وہ واچ پر ٹائم دیکھتا ہوا اجازت چاہ رہا تھا۔

اللہ خافظ بچے۔

سہیر خانم اب اسکی طرف بانہیں پھیلا رہے تھے اور مہرینہ اور وہ حیران ہوئے تھے ،

خیام چہرے پر جھینپی سے مسکان لیے انکے بازو سے لگا تھا اور سہیر خانم نے شفقت سے اسکی پیٹھ تھپکی تھی ۔

وہ جازت لیتے گاڑی کی طرف بڑھ گئے کہ وہ ایک دوست کی گاڑی لے آیا تھا کل سے ۔

آج تو آپ کو دوست کی گاڑی میں بٹھا رہا ہوں ایک ماہ تک إنشاءاللّٰه آپ اپنی گاڑی میں سفر کریں گئی جو صرف آپکی ہو گئی آپکو گاری ڈرائیو کرنے کا شوق ہے نا۔

وہ سیٹ بیلٹ باندھتا محبت سے مہرینہ سے مخاطب تھا جسکے چہرے پر برسوں بعد مطمئن اور پیور مسکان جھلک رہی تھی۔

تم سچ کہہ رہے ہو۔

وہ حیران ہوئی۔

ہنڈرڈ پرسنٹ مسز خیام ۔

وہ گاڑی کو ریورس کرتا ہوا بولا تھا ۔

اور وہ خوشی سے نہال ہوتی بے ساختہ اسکا ماتھا چوم گئی جبکہ خیام سے بہت مشکل سے گاڑی سنبھلی تھی۔

وہ بنا شرمائے اسے دیکھتی ہنسی تھی کہ خیام کا چہرہ سرخ ہوا تھا اسکے اس بے ساختہ عمل سے۔

خیام نے بھی مسکراتے ہوئے اسکے چادر سے چھپے کندھے پر محبت کا اظہار لازمی کیا تھا اب جھینپنے کی باری مہرینہ بی بی کی تھی۔

اور پھر گاڑی میں خیام کا جاندار قہقہ گونجا تھا ۔

_______________________

_

وہ بیڈ پر بیٹھی بےتخاشا نروس تھی وہ بھی اب ان سے ناراض تھی،

جوس کا گلاس ہنوز سائیڈ ٹیبل پڑا ہوا تھا ۔

سارے کمرے کو سفید فینسی لائٹ سے سجایا گیا تھا جبکہ بیڈ کے ارد گرد سفید ریشمی پردے تھے جن کے ساتھ سرخ پھولوں کی خوبصورت لڑیاں لٹک رہیں تھیں ،

پورے روم میں انکی دلفریب مہک رچی ہوئی تھی ۔


بیڈ کے کراوّن سے سر اٹکاتی وہ کمرے کو بہت محبت سی دیکھنے لگی تھی پھر نظریں انکی واچ پر گئیں تھیں جو آج بھی کلائی میں سجی ہوئی تھی اسنے وہ واچ اتاری نہیں تھی چوڑیوں میں سے جھانکتی وہ واچ جیسے ہیر کی محویت کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔


کافی دیر انکا انتظار کرتے نجانے کب اسکی آنکھ لگی تھی وہ جان نہیں سکی تھی ۔

جبکہ وہ بمشکل سب کاموں سے جان چھڑاتا ہوا روم میں بارہ بجے آیا تھا ۔

کمرہ صبح کی روشنی کی طرح منور تھا روم بے انتہا خوبصورت ڈیکوریٹ کروایا تھا اسنے ۔

اسکی نگاہ اپنے گول بیڈ پر لیٹی عزیز جان ہستی پر گئی تھی ۔

وہ دونوں ہاتھ سر کے نیچھے رکھے بڑے بے آرام سی لیٹی سو رہی تھی دونوں ٹانگیں خود میں سمیٹے وہ اسکی ہیر ہی تھی ۔

پشت پر ہاتھ باندھ کر اسنے فرصت سے اسکے سجے سجائے دلکش روپ کو دیکھا تھا ۔

قدم اسکی طرف بے خودی میں اٹھنے لگے تھے ۔

وہ اب صرف شرٹ ہی پہنے ہوئے تھا کورٹ وہ شاید بیٹھک میں اتار کر رکھ آیا تھا جبکہ ٹائی ڈھیلی کر رکھ تھی ۔

بڑی دھیمی سی مسکان غاذان کے ہونٹوں پر رقصاں تھی۔

ہیر !

اسکے اوپر جھکتے اسنے مدھم سے لہجے میں اسے پکارا تھا ۔

ہیر جو گہری نیند میں تھی اسے ایسے لگا جیسے کوئی بہت محبت سے اسے پکار رہا ہو ۔

وہ نیند میں ہی مسکائی تھی اور وہ ٹھٹھکا تھا مہرون رنگ سے سجے ہونٹوں پر پیاری سی مسکان آتے دیکھ کر ۔

ہیر !

اسکے جھمکے کو بڑی محبت سے دیکھتے اسنے اس دفعہ زرا اونچا پکارا تھا ۔

ہیر نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں پھر اِدھر اُدھر بے خیالی میں دیکھا لیکن پھر نظر اس وجود پر ساکت ہوئی جو کمر پر ہاتھ رکھے ہیر کو چمکتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ہونٹوں پر بڑی ہی دھیمی سی مسکان تھی جیسے کسی اپنے بڑے پیارے رشتے کو دیکھ کر آتی ہے۔

وہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھی سونے کی چوڑیاں بج اٹھیں تھیں ماتھا پٹی بھی ٹیڑی میڑی ہو چکی تھی جو اسنے جلدی سے درست کی دوپٹہ ٹھیک کیا لہنگے کو درست کر کے وہ دلہن کی طرح دوبارہ بیٹھ چکی تھی۔

ہاہاہا،

اور اسکی حرکتیں دیکھ وہ کھل کر مسکرایا تھا ۔

ہیر نے اچنبے سے اسے دیکھا ۔

مائی گدنیس ہیر تم یہ سب کرتی بہت پیاری لگی ہو مجھے۔

وہ ہنوز کھڑا مسکراہٹ سے مزین ہونٹوں سے گھمبیر لہجے میں بولا ۔


ہیر نے ہونٹ بھینچے ۔

آپ میرا مزاق بنا رہے ہیں۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔

سلی گرل ایسا سوچنا بھی مت کہ کبھی سردار غاذان تمہارا مزاق بنا سکتا ہے ۔

وہ اس بار سنجیدگی سے بولتا اسکے لہنگے کو تھوڑا پیچھے کرتا اسکے سامنے بیٹھا تھا ۔

ہیر سر جھکا گئی۔

لیکن آپ مجھ سے ناراض ہیں۔

وہ اس بار غمگین لہجے میں بولی۔

ہاں ناراض تھا لیکن اتنا نہیں جتنا میں پوز کر رہا تھا ۔

ہیر کی مہندی کو دیکھتا وہ دلکش لہجے میں بولا ۔

پوز؟

وہ حیرت سے سر اٹھا کر پوچھ رہی تھی

۔

ہممم تاکہ تم میرے غصے کو سریس لو اور آئندہ چھوٹی سی چھوٹی بات بھی مجھ سے نا چھپاو ہیر میرے بہت سے دشمن ہیں اور میرے آس پاس ہیں میں نہیں چاہتا کوئی تمہیں زرا سا بھی نقصان پینچائے یا تم کوئی ایسی بات مجھ سے چھپاو جس سے تمہیں نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔

اس لیے ناراض تھا ورنہ جب تم جم میں رات کو تیار ہو کر آئی تھی سارا غصہ اسی وقت کہی دور جا سویا تھا لیکن میں نے سوچا تھوڑا سا اپنی ہیر کو تنگ کروں تاکہ وہ نصیحت پکڑے ۔

اسکا ہاتھ تھام کر وہ بہت گھمبیر لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا جبکہ ہیر کی سانسیں مدھم پڑی اسکے بھاری لہجے پر انگلیں کے گرم لمس پر ۔

میں تیار ہو کر نہیں آئی تھی وہ کپڑے تو میں نے رات کو پہنے تھے ۔

وہ سر جھکاتی ہوئی دھیمے سے لہجے میں خفگی سموئے ہوئے بولی تھی۔

اور وہ اسکی بڑی سی نتھ کو دیکھ کر مسکرایا تھا جب وہ بات کرتی ہونٹ حرکت مِیں آتے تو وہ مہرون بڑا سا موتی اسکے ہونٹوں کو دھیرے سے چھوتا تھا ۔

ہیر یہ اتار دو سب کچھ آئی تھنک تم کمفرٹیبل نہیں ہو گئی اس ڈریس میں ہے نا۔

وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا اور ہیر نے خفگی سے انہیں دیکھا ۔

لیکن میرا دل نہیں کر رہا اسے اتارنے کو بڑا پسند ہے برائیڈل ڈریس مجھے ۔

وہ منہ بسورے کہہ رہی تھی اور وہ مسکرایا۔

تو کیا اس ڈریس میں ہی سو گئی۔

وہ حیرت کا اظہار کر رہا تھا ۔

ہاں سو جاوں گئی کوئی مسلہ نہیں ہو گا۔

وہ انکے ہاتھ میں پہنے سلور کلر کے بریسلیٹ کو دیکھتے ہوٙے بولی تھی کہ بریسلیٹ میں بہت سے بلیک ایچ(H) جڑے ہوئے تھے ۔

وہ مسکراتے ہوئے سر ہلاتا ہوا اٹھا تھا اور کبڈ کھول کر اپنے کپڑے نکالنے لگا تھا ۔

ہیر نے انہیں غور سے دیکھا ۔

سنیں آپ بھی مت چینج کریں نا ۔

وہ جھجھکتے ہوئے بولتی اسے حیرت میں ڈال گئی تھی۔

اور کیوں نا کروں ۔

وہ اسکے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھتا ہوا دھیمی مسکان سے پوچھ رہا تھا ۔

ٹھیک ہے میں بھی چینج کر لیتی ہوں ۔

وہ اٹھتی ہوئی بولی ۔

ہیر چینج کا اس لیے بولا ہے تمہیں کہ یہ کافی ہیوی ہے تم سکون سے سو نہیں پاو گئی اور ابھی تو تمہیں کہی لے کر جانا بھی ہے میں نے۔

وہ شرٹ بازو پر رکھے اس سے مخاطب تھا ۔

کہاں ۔

وہ بمشکل چلتی ہوئی انکے قریب آتی ہوئی پوچھ رہی تھی۔

بس کہی دور جہاں میں اور صرف میری ہیر ہو۔

وہ دو قدم اسکے قریب آتا ہوا بولا تھا۔

ہیر نے ٹھٹھک کر انہیں دیکھا۔

نگاہیں نگاہوں سے ملیں تھیں اور دل کی دھڑکنیں ایک ہی ساز پر تھڑکنے لگیں تھیں۔

سردر غاذان نے بے ساختہ اسے تھاما تھا اور بنا ہیر کے شاک والے چیرے کو دیکھے اسے سنیے میں بھینچ گیا ۔

ہیر مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا آئی لو یو الالٹ ممائے لائف کیسے آئی ڈونٹ نو بس تم اب مجھے ضروری ہو میرے خون کی روانی تم سے ہے ہیر اس لیے کبھی اکیلے باہر مت جانا اگر کبھی کوٙئی خطرہ محسوس کرو تو فوراً مجھے یا خادم کو بتاو یونی میں کبھی کسی ٹھرڈ پرسن پر یقین مت کرنا ،

اسے خود میں پیوسٹ کیے وہ بہت ہی بھاری لہجے میں ہیر سے مخاطب تھا یا شاید خود سے کہ وہ بہت مدھم سا بولا رہا تھا اسکے دل کی دھڑکنیں وہ واضع سن سکتی تھی اسکی جیولری اسکے سینے میں چب رہی تھی لیکن اسے پرواہ کب تھی ہیر کے آگے اسے ہر چیز ہیچ لگتی تھی ہیر کے لیے عشق اسکے خدا نے اسکے وجود میں ڈالا تھا ۔

ہیر ساکت تھی لیکن وجود میں لرزش بھی تھی کیا وہ اس سے اتنی محبت کرتے تھے وہ جب جب انہیں دیکھتی تھی بے یقین ہو جاتی تھی کہ کہاں وہ مصری خوبصورت شہزادہ کہاں وہ عام سی غریب لڑکی لیکن جوڑ شکر ہے اللہ بناتا ہے ورنہ دنیا کب کسی غریب کا کسی امیر سے جوڑ بننے دیتی یقییناً اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہی ہوتی ہے ۔


جیولری اتار لو گئی۔

اسے سامنے کرتا وہ بڑے نرم لہجے میں اپنی بیوی سے پوچھ رہا تھا ۔

اسنے اثبات میں زور زور سے سر ہلایا۔


مائی گڈنیس ہیر جب تم ایسے یوں سر ہلاتی ہو تو بہت کیوٹ لگتی ہو یار۔

وہ کہتے ہی اسکی ماتھا پٹی سے سجی پیشانی پر بڑی نرمی سے ہونٹ رکھ گیا۔

ہیر کو انکا عکس دھندلا سا نظر آیا تھا شاید اسکی آنکھیں نمی پکڑنے لگیں تھی وہ کہاں اتنی محبت و کیئر کے قابل تھی۔

رونا نہیں بالکل ورنہ میں ماروں گا اب ۔

وہ سنجیدگی سے اسے تنبیہ کر رہا تھا ۔

رو تو نہیں رہی تھی بس آنکھوں میں شاید مچھر چلا گیا ہے تو اس لیے پانی آگیا میں بھلا کیوں روں گئی۔

وہ آنکھیں ہتھلیوں سے صاف کرتی ہوئی معصومیت سے پوچھ رہی تھی ۔

گڈ لیکن ہیر میرے روم میں مچھر نہیں آسکتا ۔

وہ اس بار پھر سے سنجیدگی سے بولا ۔

اور وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی۔

ہیر جاو چینج کر لو واش روم میں تمہارے کپڑے لٹک رہیں ہیں ان بھاری کپڑوں میں تمہیں دیکھ کر مجھے گرمی لگنے لگ گئی ہے یار جاو پہلے چینج کر لو۔

وہ تھوڑا پیچھے کی طرف قدم اٹھاتا ہوا کہہ رہا تھا.

ہیر سر ہلاتی بھاری لہنگے کو بمشکل اپنے ساتھ کھینچتی واش روم کی طرف جانی لگی تھی اور وہ بازو پر شرٹ رکھے اسے جاتے دیکھتا رہا نگاہوں میں بے پناہ اس وجود کے لیے نرمی تھی ۔

نیلی اور سفید ٹائلز سے سجا واش روم بہت صاف ستھڑا اور پیارا تھا ۔

وہ اشتیاق سے سب کچھ دیکھتی رہی ۔

ہیر ہری اپ۔

باہر سے آواز آئی تھی اور وہ عجلت سے قدم کپڑوں کی طرف اٹھانے لگی تھی ہیر کا ایک دو بار پیر پھسلا لیکن وہ سنبھل گئی تھی۔


پورے بیس منٹ بعد وہ باہر آئی تھی ۔

آپ ٹھیک کہہ رہے تھے اب لگ رہا ہے جیسے میں سکون میں ہوں ۔

وہ گہری سانس لیتی ہوئی بولی تھی ۔

کہی دور چلیں۔

وہ اسکی طرف پلٹتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

وہ بلیک سفید لائنیوں والے تنگ ٹروزر پر بلیک ہی شرٹ پہنے بڑا آرام دہ لگ رہا تھا ۔

کہاں ۔

وہ حیران ہوئی کہ رات کے اس وقت وہ کہاں جا سکتے تھے بھلا ۔

وہاں جہاں رات کی تاریکی ہو تم ہو میں ہوں اور گہری خاموشی ہو ۔

وہ نرم نگاہوں سے اسکا سادہ روپ دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا ۔

ٹھیک ہے چلتے ہیں۔

وہ انہیں انکار کر سکتی تھی بھلا۔


وہ نیلی اوپن بٹنوں والی قمیض کے نیچے بلیک کیپری پہنے ہوئے تھی سر پر نیلا ہی دوپٹہ تھا وہ بلکل سادہ حلیے میں تھی لیکن غاذان کو وہ ہر روپ میں دل و جان سے بھاتی تھی۔


باہر ٹہلتا خادم انہیں دیکھتے ہوئے رکا تھا۔

کہاں جانا ہے سردار میں چلوں ساتھ۔

وہ پریشانی سے بولا ۔

نو تم گھر کا خیال رکھو میرے پاس دو پسٹل ہیں اپنی سیفٹی کے لیے سو یو ڈونٹ وری۔

وہ کہتے ہی بلیک پجارو میں بیٹھا تھا ہیر کو وہ پہلے ہی بٹھا چکا تھا ۔


خادم نے بے بسی سے سر ہلا دیا۔

لیکن انکی گاڑی کے محل سے نکلتے ہی وہ دوسری گاڑی میں بیٹھتا اسے باہر لے آیا تھا رات کے خاموش سناٹے میں گاڑی کا شور واضع تھا لیکن وہ ایک فیصلے پر انہیں فالو کر رہا تھا ۔

جبکہ سردار منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا تھا ۔

**********''''''''''''''''*********''''''''''''''*********

ہیر آنکھیں بند کرو ۔

گاڑی روکتا ہوا وہ کہہ رہا تھا ۔

ہیر نے ارد گرد نہیں دیکھا تھا وہ پورے راستے سوتی جاگتی کیفیت میں رہی تھی۔

کیوں !

وہ حیران ہوتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔

بس ایسے ہی ۔

وہ کندھے اچکاتا ہوا بولا تھا ۔

کیا میرے لیے کوئی سپرائز ہے ۔

وہ ایکسائٹمنٹ کہی اندر ہی چھپاتی ہوئی نارمل سا رئیکشن دیتی ہوئی پوچھ رہی تھی۔

نو ،بس بند کرو کیونکہ میں کہہ رہا ہوں۔

اسکے نو کہنے پر ہیر خفا سی ہوئی لیکن پھر آنکھیں موندھ گئی کہ انکا حکم وہ کہاں بھلا ٹال سکتی تھی ۔

دوسری گاڑی بھی ان سے بہت پیچھے رک چکی تھی ۔


ہیر کی میچیں آنکھیں دیکھ وہ مسکراتے ہوئے گاڑی سے اترا تھا ۔

اسکے سائیڈ کا ڈور جیسے اسنے کھولا ہیر نے کانی نظر سے اسے دیکھا لیکن جیسے ہی اسنے گھورا وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی تھی ۔

ہیر تمہیں میری قسم اگر اب آنکھیں کھولیں تو ۔

اسے باہر نکالتا وہ سنجیدگی سے بولتا ہیر کی جان لے گیا تھا ۔

لیکن پھر وہ لرزی کے اسے وہ گود میں بڑی اختیاط سے اٹھا چکا تھا ۔

ہیر کی پلیکں واضع لرزنے لگیں تھیں چہرہ تیزی سے سرخی پکڑنے لگا تھا وہ اسے دیکھ دھیمے سے مسکرایا پیچھے کوئی بڑی اختیاط سے چل رہا تھا اور سردار جان گیا تھا وہ کون ہے۔

وہ مختلف جگہوں سے ہوتا اسے اختیاط سے نیچے کھڑا کرتا کوئی دروازہ کھولنے لگا تھا۔

دروازہ کھول کر وہ اسے اختیاط سے چلاتا اندر لے آیا ،

سوئچ آن کرنے کی آواز آئی تھی اسے لیکن اسنے آنکھیں نہیں کھولی وہ ساری زندگی آنکھیں بند کر کے گزار سکتی تھی کہ قسم جو انہوں نے اتنی بڑی دے دی تھی ۔

ہیر دھیرے سے آنکھیں کھولو ۔

وہ سامنے کھڑا ہوتا بڑی نرمی سی اپنی سہمی ہوئی بیوی سے بولا کہ اسکے چہرے پر پسیننے کے ننھے ننھے زرات وہ دیکھ سکتا تھا ۔

ہیر کی پلکیں لرزیں لیکن اسنے آہستہ سے پلیکں اٹھائیں اب وہ آنکھوں کو پوری طرح وا کر گئی تھی۔

اسنے انہیں دیکھا ۔

مجھے نہیں گھر کو دیکھو۔

وہ مسکراتے ہوئے بولتا دونوں ہاتھ ٹروزر مِیں اڑس گیا تھا ۔

ہیر نے ارد گرد بے دھیانی میں دیکھا ُپھر گھوم پھر کر دیکھا نظریں عام تھیں ۔


لیکن پھر وہ ٹھٹھکی کہ یہ جگہ اسے جانی پہچانی لگی تھی جیسے وہ یہاں بہت بار آ چکی ہو ۔

اسنے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر نئے سیمنٹ و رنگ سے سجی دیواریں دیکھیں جدید نقش و نگار کے دروازے دیکھے اکھڑا ہوا سرخ اینٹوں والا فرش تبدیل ہو کر سفید پتھروں سے سجا ہوا تھا ہر چیز تبدیل تھی ۔

وہ بے یقینی سے قدم اٹھاتی اندر چلی آِئی۔

کیا یہ وہی کمرہ تھا جسکی دیوریں اتنی خستہ حال تھیں کہ کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ یہ صرف اللہ کے کرم فرمائی سے ہی قائم تھیں سفید پینٹ سارے کمرے میں ہو چکا تھا سفید ہی جدید دور کا لکڑی کا دروازہ تھا کھڑکی جو لکری کی دو پٹوں پر مشتعمل ہوتی تھی اب وہ جالی دار کھڑکی میں تبدیل ہو چکی تھی چارپائی کی جگہ سنگل بیڈ تھا دیواروں پر ایک لڑکی کی بہت سی تصویریں سجی ہوئیں تھیں۔

کہی وہ ہنس رہی تھی ، کہی وہ پریشان تھی ،کہی وہ سنجیدہ چہرے سے کھتی تھی تو کہی وہ شرارت سے کسی کو دیکھ رہی تھی ۔

کبڈ بھی چینج کرا دیا گیا تھا ۔

سارا سازو سامان ہی نیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکی آنکھیں برسنے لگیں تھیں گھٹی گھٹی رونے کی آواز پر وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھا تھا ۔


ہیر کیا پاگل پن ہے کیا تمہیں یہاں میں رونے کے لیے لایا تھا ۔

وہ سنجیدگی سے اسکا کندھا تھامے پوچھ رہا تھا۔

ہیر نے لب بھینچ کر انہیں دیکھا ۔

آخر ایسی کونسی نیکی کی تھی جس کا بدل وہ شخص تھا آخر اللہ کو کونسی اسکی ادا پسند آئی تھی جو اسکی قسمت میں سردار غاذان تیمور لکھا تھا ،

جو رتبے ، قد ہر چیز میں اس سے اونچا تھا اسکا دل ہیرے جیسے تھا جو وہ ہیر سے اتنی محبت کرتا تھا اسکا خیال رکھتا اس سے جڑی ہر چیز کا وہ ویسا ہی خیال رکھتا تھا جیسے اسکا رکھتا تھا اب اسکے لیے اسکا گھر تک ٹھیک کروا دیا تھا آخر وہ کیسے نا اسکے عشق میں ڈوبتی۔

وہ بے ساختہ اسکے قدموں میں بیٹھنے لگی تھی جب سردار غاذان تیمور نے درشتگی سے اسے تھام کر اپنے ساتھ لگایا تھا ۔

ہیر آخری بار تمہاری اس حرکت کو معاف کر رہا ہوں اگر آئندہ ایسی حرکت کی تو سزا کی زمے دار تم خود ہو گئی ۔

وہ اسے سینے سے لگائے بہت سختی لیے لہجے میں بولا تھا ۔

آپ کسی دن ایسے ہی میری جان لے لیں گئے ۔

وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔

جان جائے ہیر کے دشمنوں کی گھر کیسا لگا ہے میری ھیر کو۔

وہ اب اسے سامنے کرتا اسکے گال اپنی ہتھیلیوں سے صاف کرتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔

آپ نے کب کیا یہ اور کیوں اتنی فضول خرچی کی ۔

وہ انکے ہاتھ تھامے محبت کی شدت لہجے میں سموئے انکے تیکھے ناک پر نظریں جمائے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

ماگڈ نیس فضول خرچی واوا ۔

وہ ہنسا تھا سر پیچھے گرتا اپنی محصوص سٹائل میں۔

وہ بھی مسکرائی چہرہ روشن ہوا انہیں اتنے دنوں بعد ایسے مسکراتے دیکھ کر ۔

کوئی فضول خرچی نہیں ہے ہیر تمہارے لیے اس سردار کی جان بھی حاضر ہے دوسرا اس گھر پر اسی دن کام شروع ہو چکا تھا جب ہم یہاں سے گئے تھے تیسرا میں کبھی اپنی ہیر کے چہرے پر اپنے گھر کی خستہ حالت کو لے کر شرمندگی نہیں دیکھنا چاہتا ۔

وہ بڑے ہی نرم لہجے مِیں اس سے مخاطب تھا ۔

وہ مبہوت سی دیکھتی رہی انہیں بنا پلکیں جھپکائے۔

چوتھا یہ تمہاری رونمائی کا گفٹ ہے اس لیے تمہیں اسی وقت دیا جس وقت تمہیں تخفہ دینا مجھ پر فرض تھا ۔

وہ اسکی ناک ہلکے سے کھینچتا ہوا بتا رہا تھا ۔

وہ بے ساختہ انکے ہاتھ تھامے محبت و عشق سے چومتی سردار کو دیوانی لگی تھی ۔

انکے ہاتھ چوم کر اب وہ انکی ہتھیلوں پر ہونٹ رکھتی ان پر چہرہ اٹکا گِی جبکہ وہ دنگ ہوتا ہیر کے لمس کو محسوس کر رہا تھا ۔

نمی بھری آنکھوں سے وہ اب انہیں دیکھ رہی تھی ۔

سردار غاذان اس کا سر محبت سے چومتا اسے سینے لگا گیا تھا ۔

ہیر بھوک لگی ہے۔

وہ جانتا تھا اسکی ہیر کو ضرور بھوک لگی ہو گئی۔

جی !

وہ حیرت سے انہیں تکتی سر ہاں میں ہلا گئی۔

اپنے کچن میں جاو وہاں سب کچھ رکھا ہے اپنے اور میرے لیے فٹا فٹ کچھ بنا لاو ۔

وہ تھوڑا دور ہوتا ہوا کہہ رہا تھا ۔

وہ پھر سے حیران ہوئی ۔

کیا کچن بھی نئے سٹائل کا ہے۔

وہ پوچھ رہی تھی اور اسنے مسکراتے ہوئے سر ہاں میں ہلا دیا ۔

لیکن نئی دلہن کام نہیں کرتی ایک دو ماہ تک۔

وہ پریشانی سے کہہ رہی تھی اور وہ پھر سے قہقہ لگا گیا تھا ۔

ہیر نے حیرت سے انکا قہقہ سنا تھا ۔

مائی گڈنیس تو کیا میری ہیر تھوڑی سی کام چور بھی ہے ۔

وہ نگاہوں میں بے پناہ محبت کے جگنو لیے پوچھ رہا تھا ۔

جبکہ اسنے خفگی سے نفی میں سر ہلایا۔

میں کام چور نہیں ہوں میں بس ایسے ہی کہہ رہی تھی ابھی بنا کر لاتی ہوں میں ، میں بہت اچھا کھانا بناتی ہوں ۔

وہ فخر سے گردن اکڑاتی کہہ رہی تھی۔

جبکہ اسنے بنا کچھ کہے سر ہاں میں ہلا کر اسکی تائید کی تھی۔

بٹ ہیر نمک کھانے میں تھوڑا کم رکھنا میں جان گیا ہوں میری ہیر کو نمک سے زرا زیادہ ہی محبت ہے۔

وہ پلٹتی ہیر سے بولا تھا جبکہ وہ خفگی سے انہیں دیکھتی ہوئی منہ بسور کر چلی گئی ۔

پیچھے دونوں ہاتھ دوبارہ پاکٹ میں اڑسے وہ کھل کر ہنسا اسکا پلین ہر سنڈے کو یہاں ہیر کے ساتھ آنے کا ارادہ تھا وہ ہر پل سنڈے کو یہاں اسکے ساتھ گزرانا چاہتا تھا ۔

اب اسکی نظر ہیر کی مسکراتی تصویر پر تھی تصویر میں اسنے پیلی قمیض پہنی پوئی تھی سر پر سفید لیس والا پیلا ہی دوپٹہ تھا وہ شاید شہنام کو دیکھ کر شرارت سے ہنس رہی تھی کہ پک یونی کی تھی تو کیا وہ اپنی ہیر پر ہر پل نظر رکھے ہوئے تھا ۔۔

""""""""""""""""""***********"""""""""""""""

صبح کی روشنی سارے سردار محل میں پھوٹ چکی تھی ،

کوئی لڑکی بیڈ پر سو رہی تھی ڈھیروں کشن ارد گرد بکھیڑے ۔

وہ لڑکی سفید شفون کا ڈریس پہنے ہوئے تھی سراپا کچھ بھاری سا تھا۔

بالوں کو کھولے وہ معصوم ہی دیکھتی تھی ۔

مائے لائف مائے زندگی گڈ مارننگ ڈیئر۔


کوئی کوٹ بازو پر لٹکاٙے دھیمے لہجے میں اس پر جھک کر بولا اور اسنے پٹ سے آنکھیں کھولیں کہ بھلا یہ ہو سکتا ہے سردار پکاریں اور ہیر سوتی رہ جائے نا ممکن۔

وہ جھٹ سے اٹھی تھی ۔

لمبے کمر تک آتے بال پشت اور کندھے پر بکڑے تھے ناک میں پڑا مہرون نگ والا کوکا بھی جیسے اتنے دنوں بعد سردار کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

آپ کب آئے ۔

وہ بیڈ سے اٹھتی ہوئی حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔

ابھی جب آپ نے آنکھیں کھولیں۔

کوٹ بیڈ پر رکھتا وہ دھیمے سے کہہ کر اسکی شفاف پیشانی چوم گیا کافی دیر ہونٹ پیشانی پر رکھ کر اسکی خوشبو کو اسنے محسوس کیا تھا۔

اب کیسی طبیعت ہے میری بیوی کی۔

وہ اسکے سراپے کو دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا جواباً معصوم لڑکی کی آنکھیں ؑبھر آئیں ۔

آپ نے کتنے لگا دئیے مصر میں آپ دس دن کہہ کر گئے تھے پورے پندراں دنوں بعد لوٹے ہیں ہیر کی طبیعت کیا ٹھیک رہ سکتی تھی بھلا۔

وہ انکے چوڑے سینے پر سر رکھے خفگی سے بول رہی تھی جواباً خوبرو سے سردار نے اسے سینے میں نرمی سے لیا تھا۔

بس کام کا لوڈ ہو گیا تھا ورنہ ایسا ہو سکتا ہے آپکو اتنے دن ویٹ کرواو کیوں طبیعت خراب کی تھی موم کہہ رہی تھی تم کھانے پر خاص توجہ نہیں دیتی ہیر بیڈ ہیبٹ یونو تم جانتی ہو نا تمہیں کتنی ضرورت ہے کھانے پینے کی پہلے ہی تم اتنی ویک ہو چکی ہو سارا وقت میں تمہارے لیے پریشان رہتا ہوں اگر تم خود کی اچھے سے دیکھ بھال کرو تو میں پریشان تو نا ہوں نا۔


اسے سامنے کرتا وہ خفگی سے کہہ رہا تھا ۔

آئی ایم سوری اب میں پراپر دھیان رکھوں گی خود کا آپ اب سے پریشان نہیں ہوں گئے ہیر آپ کو کبھی پریشان نہیں دیکھ سکتی ۔

وہ انکے ہاتھ تھامے محبت سے کہہ رہی تھی ۔

سردار جواباً عزیز جان کو سینے سے لگاتا اسکا ہاتھ چوم گیا تھا ۔


کیا میں اندر آسکتا ہوں۔

دروازے پر زور سے نوک ہوا تھا ۔

ہیر ایک دم سے پیچھے ہٹتی بیڈ پر پڑی بھاری شال اٹھا کر اپنے ارد گرد بہت اچھے سے لپیٹ چکی تھی ۔

آجاو ۔

وہ غصے سے بولا۔

اور منہ بسورے کوئی اندر آیا تھا۔

آخر آپکی کیا دشمنی ہے مجھ سے آپ شروع سے ہی میری پرسنلٹی سے جیلس ہیں کتنا خیال رکھتا ہوں آپکی سڑی طبیعت والی بیوی میرا مطلب ہے خوش طبیعت والی بیوی کا آخر مسلہ کیا ہے اچھا کماتا ہوں پڑھا لکھا ہوں میرے جتنا تو کوئی اس گھر میں پڑھا ہی نہیں آپ کو چھوڑ کر کہہ رہا ہوں کیوں آخر منع کیا میری ماں کو شادی کی ڈیٹ فکس کرنے سے کیا آپ کسی کو گھوری چڑتا نہیں دیکھ سکتے میں بھی اب بدلہ لوں گا آپکی بیوی کو چڑیل بولوں گا سمجھے آپ ،حد ہو گئی ہے اب میں معصوم نا بولوں تو کیا ُآپ لوگ میری شادی نہیں کریں گئے کہہ کہہ کر اس سڑی طبیعت والی لڑکی سے مگنی کروائی تھی کیا شادی بھی کہہ کہہ کر کرواں آپ لوگوں کو خود میرا سوچنا چاہئیے آخر کب تک میں شرمندگی کی ساری حدیں توڑتا پھروں گا۔


وہ بے پناہ غصے سے جو بولنا شروع ہوا تھا تو رکا نہیں تھا ۔

ہیر لبوں پر ہاتھ رکھے مسکراہٹ ضبط کرنے کی تگ و دو میں تھی ۔

جبکہ وہ پاکٹس میں ہاتھ گھسائے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔

ہو گیا تمہارا یا ابھی بھی کوئی بکواس کرنی ہے۔

وہ سنحیدگی سے پوچھ رہا تھا۔

شہنام نے جواباً خفگی سے پیر پٹخا تھا ۔

تم جس دن میری ہیر کو چڑیل کہنا بند کرو گئے سمجھو اسی دن تمہاری شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی سمجھے۔

کف لنکس کھولتا وہ سنجیدگی سے اس سے بولا ۔

ہیر نے محبت سے انکی پشت دیکھی جبکہ شہنام کا حیرت سے منہ کھلا تھا ۔

چڑیل میں اس لفظ سے انجان ہوں سردار غاذان اور یہ پری کون ہے ۔

وہ حیرت کا مصنوعی اظہار کرتا ہیر کو کھلکھلانے پر مجبور کر گیا تھا ۔

سردار نے چونک کر ہیر کے سرخ کھلکھلاتے چہرے کو دیکھا اور پھر شہنام کو ۔

سمجّھو کل رات ہی تمہاری شادی کی دیٹ فکس ہو جائے گئی کیونکہ آج مجھے علینہ کے پرینٹس سے ملنا ہے خادم کے لیے۔

وہ جانتا تھا وہ کہے گا آج کیوں نہیں اس لیے اسے تفصیل سے جواب دیا ۔

وہ گھنا میسنا کہی کا میں جانتا تھا وہ ہماری پری کی ٹرینر پر نظریں جمائے بیٹھا ہے بڑا گھنا ہے کیا اب یہی رہ گیا تھا میری راہ میں روڑے اٹکانے والا میری تو لائف ہی برباد ہو چکی ہے۔


وہ کھولتا ہو باہر چلا گیا تھا ۔

وہ ایک بار پھر سے کھلکھلائی تھی ۔


اور سردار نے چمکتی نظروں سے اسکے روشن چہرے کو دیکھا پریگنسی سے اسکے چہرے پر الگ سا ہی نور آیا تھا تین ماہ رہ گئے تھے اسکی ڈیلیوری کو رائنہ اور تیمور اپنی جان سے زیادہ اسکا خیال رکھتے تھے ۔

خیام اور مہرینہ اپنی لائف میں کافی سیٹ ہو گئے تھے انہوں نے نیا گھر لے لیا تھا خیام نے جاب کے ساتھ کپڑے کی دکانیں بھی کھول لیں تھیں جس میں کافی ترقی ہو رہی تھی اسے ،

ہیر تین چار دن ان دونوں کے ساتھ رہ کر آئی تھی وہ ان دونوں کی لڑائی بہت انجوائے کرتی تھی وہ ایک دوسرے کا خیال بھی بہت رکھتے تھے اور بچوں کی طرح لڑتے بھی تھے ۔۔

ہیر نے چونک کر اس دلربا سے شخص کو دیکھا ۔

پاکٹ سے ہزاروں کی گدی نکال کر وہ ہیر کے سر سے وارتا اسے مسکرانے پر محبور کر گیا۔

بس ایسے ہی کھلکھلاتی رہا کرو تمہارا مسکرانا میری ساری تھکن دور کر دیتا ہے میرے خون کی روانی تیز کر دیتا ہے اس لیے مسکراتی رہا کرو اپنے سردار کے لیے۔

وہ دھیمے سے چمکتے چہرے والی لڑکی سے مخاطب تھا ۔

ہیر نے ہونٹ اندر کو کھینچے اور شرارت سے انکے گال کھینچے جیسے وہ اسکا ناک کھینچتے تھے ۔

پھر آپکو اپنی ہیر مسکراتی ہی نظر آئے گئی وعدہ ہے یہ ہیر غاذان کا آپ سے۔

وہ انکی بازوں پر ہاتھ رکھے بہت شدت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی اور سردار غاذان نے خوشنما مسکان ہونٹوں پر سجاتے اسے خود میں لیا تھا ۔

________❤❤❤_________


تیز رفتار سے بھاگتی گاڑی ہسپتال کی پارکنگ میں رکی تھی کوئی گاڑی سے عجلت میں سے نکلتا ہسپٹل کی راہدری میں بھاگ رہا تھا پیچھے سات آٹھ گارڈز بھی تھے گارڈز سے آگے خادم تھا جو سردار کی طرح ہی پریشان تھا ۔

سامنے ہی گھر کے بہت سے افراد کھڑٙے تھے ۔

جن میں تیمور خانم، سہیر خانم، رائنہ ،خیام ،مہرینہ، اور نوشین تھیں شہنام بھی وہی تھا جو ضروری دوائیں لینے ہسپٹل کی فارمیسی میں گیا ہوا تھا ۔

کیسی ہے میری ہیر یہ دروازہ کیوں بند ہے ۔

وہ شیشے کا بنا ڈور کھولنے کی کوشش کرتا باپ سے بیتابی سے پوچھ رہا تھا ۔

ریلکس غاذان وہ ٹھیک ہو گئی ۔

وہ بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہہ رہے تھے ۔

جبکہ اسنے غصے سے شیشے کے ڈور پر لات ماری ہی تھی جب لیڈی ڈاکٹر اور ایک میل ڈاکٹر باہر آئے تھے ۔

کیسی ہے ڈاکٹر میری بیوی وہ ٹھیک تو ہے نا اگر نا ٹھیک ہوئی تو تمیں چھوڑوں گا نہیں میں۔

وہ غصے سے بولا تھا ۔

ریلکس سردار صاحب وہ ٹھیک ہیں کچھ پچیدگی کی وجہ سے ہمیں انکا میجر اپریٹ کرنا پڑا تھا ابھی ہم انہیں دوسرے روم میں شفٹ کردیں گئے ایک دو گھنٹے میں وہ ہوش میں آجائیں گئی او سوری مبارک دینا میں بھول گیا سردرا صاحب آپکے ہاں ماشاءاللہ صخت مند بیٹا پیدا ہوا کانگریچولیشن سردار صاحب۔

ڈاکٹر اخترام سے کہتے آگے بڑھ گئے جبکہ پیچھے کھڑی نرس کے ہاتھ میں اسکی نظر بے ساختہ پڑی تھی ۔

رائنہ بھاگ کر نرس کے پاس آئی تھی بسم اللہ کہہ کر بچے کو پکڑا تھا جو ٹاول میں لپٹا آنکھیں موندے ہوئے تھا ۔

خیام کی آنکھیں نم تھیں اللہ کا شکر کر کے وہ بے ساختہ ساکت کھڑے سردار کے گلے لگا تھا ۔

مبارک ہم سبکو سردار بھائی۔

وہ ان سے الگ ہوتا ہوا خوشی سے لبریز لہجے میں کہہ رہا تھا جبکہ مہرینہ اور نوشین باری باری بچے کو پکڑ رہیں تھیں ۔

غاذان بیٹے کو پکڑو گٙے نہیں ۔

رائنہ نے اسکے بیٹے کو اسکے سامنے کرتے ہوئے چمکتی نظروں سے بیٹے سے پوچھا تھا ۔

اسکی نظریں بچے پر پڑیں پھر وہ مسکرایا۔

موم کیسے پکڑوں چھوٹا ہے یہ بہت دوسرا ہیر پتا نہیں کتنی تکلیف میں ہو گئی میں ٹینس ہوں بہت ،

موم وہ جلد ٹھیک ہو جائے گئی نا۔

وہ پریشانی سے پوچھ رہا تھا اور رائنہ مسکرائی بچہ اب تیمور خانم کے ہاتھوں میں تھا ۔

وہ ٹھیک ہو جائے گی غاذان بس دو تین گھنٹے صبر کر لو پھر اس سے پوچھ لینا اب ریلکس رہو تمہارے ڈیڈ نے تمہارے آنے سے پہلے ہیر کا صدقہ دے دیا ہے اللہ نے فضل کر دیا ہے بچے بس اللہ کا شکر کرو۔

انہوں نے اسکا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔

جبکہ وہ سنجیدگی سے شیشے کے پار لیٹے وجود پر نظریں جمائے ہوئے سر ہلا گیا۔

_______________________

وہ مسکرا رہی تھی جبکہ وہ اسکا ہاتھ تھامے پریشان تھا ۔

ہیر میں نے سوچ لیا ہے ہمیں ایک بچہ کافی ہو گا اب میں تمہیں اس اذیت ناک لمحے سے دوبارہ کبھی گزرنے نہیں دے سکتا ۔

وہ پرسوں والی ڈریسنگ میں ہی تھا بال جو ہمیشہ جیل سے ترتیب میں پڑے رہتے تھے وہ پرسوں سے ماتھے پر بے ترتیب پڑے ہوئے تھے ۔

ہیر کو انہیں بکھڑی حالت میں دیکھ کر تکلیف ہوئی۔

میں ٹھیک ہوں نا اب ۔

وہ محبت سے انکے بال ماتھے سے پیچھے کرتی ہوئی کہہ رہی تھی ۔

جبکہ غاذان نے وہی ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگایا تھا ۔

آپکو اپنا بیٹا کیسا لگا۔

وہ گود میں پڑے صخت مند بچے کو دیکھ کر پوچھ رہی تھی ۔

وہ سوئے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر سے مسکرایا ۔

بلکل اپنی ہیر جیسا ،۔

وہ ہنوز پیر کے زرد چہرے کو دیکھ کر کہہ رہا تھا جواباً وہ خفگی سے انہیں دیکھنے لگی۔

پتا ہے کیا مہدیہ مہرینہ وغیرہ کہہ رہیں تھیں یہ بلکل آپکی کاپی ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی میں اللہ سے یہی دعا کرتی تھی کہ اللہ مجھے چاہے بیٹی دے یا بیٹا تیری مرضی لیکن وہ بلکل اپنے بابا کی طرح ہو اللہ نے میری سن لی دیکھیں یہ بلکل خوبخو آپ جیسا ہے ۔

وہ سوئے ہوئے بیٹے کی پیشانی چومتی مسکرا کر کہہ رہی تھی اسکا آئی پی روم سارا سفید سرخ پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔

اسنے وہاں سے بیٹے کو چوما جہاں ہیر نے چوما تھا۔

لیکن میری اللہ نے نہیں سنی میں نے بھی بہت دعا کی تھی میری اولاد بلکل میری ہیر کی طرح کی ہو معصوم تھوڑی شرارتی سی ویسے ہی نین نقش ۔

وہ بھی دھیمے سے کہہ رہا تھا ۔

جبکہ وہ بیٹے کو سینے سے لگاتی کھل کر مسکرائی تھی ۔

جبکہ سردار غاذان نے اسکا سر چوما تھا اور پھر بیٹے کو دیکھا جو اب آنکھیں کھولے ماں باپ کو دیکھ رہا تھا ۔

غاذان نے مسکرا کر اپنی جنت کو دیکھا جبکہ ہیر نے انہیں دھیمی مسکان سے تکا تھا ۔

ختم شد،

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Main Heer Ranjhan Yaar Di Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Main Heer Ranjhan Yaar Di written by Faiza Ahmed .Main Heer Ranjhan Yaar Di by Faiza Ahmed  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment