Pages

Wednesday, 9 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 26To30

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 26To30

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 26To30

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

"معصومہ کی تو شادی ہونے والی ہے۔ پھر میری معصوم سی بلی اپنے گھر چلی جاۓ گی۔ ان غصہ کرنے والے چیخنے چلانے والے لوگوں سے بہت دور۔ایسی جگہ جہاں نہ کوئ چیخے گا نہ چلاۓ گا۔ کوئ معصومہ کو پھر کبھی ڈرا بھی نہیں پاۓ گا۔ ٹھیک ہے نہ۔۔!!!!"

انہوں نے اس کے پاس رکھے بیگ سے پیارا سا کامدار ٹی پنک کلر کا ڈریس نکال کر اس کے سامنے کیا۔ ان کی آنکھوں میں چمک تھی۔ آخر ماں تھیں وہ تو بیٹی کے لیے خوش ہونا تو لازم تھا ان پر۔ لیکن معصومہ کی آنکھوں میں نہ کوئ چمک تھی نہ ہی کوئ خوشی کی امید۔ اسکی تو کل کائنات بس اس کی ماں تھی۔

"آپ بھی س۔ساتھ آئیں گی نہ میرے۔ ہم یہاں سے د۔دور چلے جائیں گے۔ بہت دوررر۔۔!!! جہاں نہ کوئ ڈانٹے گا نہ چ۔چیخے گا۔ پھر آپ کو کوئ مارے گا بھی نہیں ۔ صحیح ہے نہ ۔!!"

اس نے ہاتھ سے ان قیمتی زیوروں کو پیچھے کیا جو ابھی اس کی ماں نے کھول کر بس اس کے سامنے ہی کیے تھے۔ پھر ان کے دونوں ہاتھ تھام کر اس نے اپنی بے رونق آنکھوں سے انہیں دیکھا۔ سیاہ تاریک آنکھوں میں سوال تھا۔ جو اس کی ماں نے پڑھ لیا۔

معصومہ کے نزدیک تو یہ سب بیکار اور دنیاوی چیزیں تھیں۔اسے تو بس پیار چاہیے تھا۔ سکون چاہیے تھا۔ ایک ایسی دنیا جہاں کوئ اسے کم تر نہ سمجھے۔

"معصومہ شادی کے بعد لڑکیاں اکیلی ہی سسرال جاتی ہیں کوئ ان کے ساتھ نہیں جاتا۔ میں اتنے سال تمہارے ساتھ رہی ہوں بس اب آگے تمہیں اکیلے ہی رہنا ہے اپنے خوابوں کے جہان میں۔ اور میں یہ سب رکھنے کے لیے نہیں لائ تمہیں دیکھانے کے لیے لائ ہوں دیکھو اور بتاؤ کیسا لگا تمہیں یہ سب۔۔!!! پیارا ہے نہ ۔!!!"

اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑا کر سبرینہ بیگم نے مسکراتے ہوۓ بات سنبھالنا چاہی۔ پر معصومہ کا ننھا سا دل تو ڈوب گیا تھا ماں سے دور جانے کا سن کر ۔

ناموں کا اثر انسان کی شخصیت پر واقعی میں بہت گہرا ہوتا ہے ۔ معصومہ کی شخصیت بھی اسی کے نام جیسی تھی معصوم سی ۔۔!!!!

یقیناً اس کے آس پاس کے لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اپنی عمر کے حساب سے بڑی نہیں ہوئ۔ سولہ سال کی لڑکی اتنی بھی معصوم نہیں ہوسکتی۔ جسے بات کرنا ہی نہ آۓ۔

پر جن بچوں نے بچپن سے ہی حقارت سہی ہو۔ جنہیں دنیا سے ہی ڈر لگتا ہوں ۔ جو بچپن سے خوف کا شکار ہوں ۔ جن کی شخصیت کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی احساس کمتری میں ڈال دیا گیا ہو۔ وہ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ 

معصومہ نے تو پھر پیدا ہوتے ہی پہلے اپنے باپ کی نفرت سہی پھر بھائ کا خوف ۔ جس کی زندگی ایک ہی کمرے تک مقید ہو۔ اسے کیا پتہ کہ باہر کی دنیا کیسی ہوتی ہے ۔ جس نے آج تک کسی سے دوستی ہی نہ کی ہو۔ جسے سکول میں بھی مزاق کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہو۔ وہ تو ایسی ہی ہوگی۔ ڈرپوک ۔۔۔!!!!

ان گنت phobias میں مبتلا ایک زندگی سے ہاری ہوئی انسان۔۔!!!!

"مائیں کیوں ن۔نہیں جاتی ساتھ۔۔۔!!! ماں تو ساتھ رہتی ہے نہ۔ میرے پاس آ۔آپ کے سوا کوئ نہیں ۔اگر و۔وہاں مجھے کسی نے مارا تو میں کیا کروں گی۔ آپ کو بھی میں اب اچھی نہیں لگتی نہ س۔سب کی طرح۔ آپ بھی مجھے چھوڑ رہی ہیں۔۔!!!"

اپنے آنسوؤں کو نکلنے کا راستہ دے کر معصومہ نے معصوم سا شکوہ کیا۔ اس کی آواز رندھ گئی ۔ اس کا شکوہ سن کر سبرینہ بیگم جو خود کپڑے بیگ سے نکال رہی تھیں ان کے ہاتھ تھمے ۔

انہوں نے بے ساختہ معصومہ کو دیکھا جسے سمجھانا مشکل تھا۔

"میرا بچہ۔۔!!! مما کی جان ۔۔!!! مما کیوں چھوڑیں گی آپ کو۔ شادی ہورہی ہے تمہاری ۔ میں کونسا تمہیں ہمیشہ کے لیے خود سے دور بھیج رہی ہوں ۔تم آتی رہنا نہ مجھ سے ملنے۔۔!! اور اللہ نہ کرے کوئ تمہیں مارے۔ ایسی باتیں نہیں کرتے۔ اب رونا تو بند کرو۔ ابھی تو رخصتی نہیں ہوئ تمہارا یہ حال ہے ۔ جب تم مجھ سے دور گئ تب کیا کرو گی ۔!!!!معصومہ۔۔!!! کرجاؤ نہ چپ ۔!!!"

کپڑے وہیں رکھ کر سبرینہ بیگم نے روتی ہوئ معصومہ کو خود سے لگایا ۔ جس کی ہچکیوں کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔

پھر انہوں نے اپنی نم آنکھوں میں آۓ آنسووں کو پیچھے دھکیلا۔

"کاش معصومہ میں تمہیں بتاپاتئ کہ میری مجبوری کیا ہے۔ تم بہت چھوٹی ہو۔ مجھے نہیں سمجھ سکتی ۔ تم میری کمزوری ہو۔ جس کے بلبوتے پر اس منافق صفت دلاور خان کے خلاف میں کھڑی نہیں ہوپا رہی۔

  ایک بار تم یہاں سے چلی جاؤ تو میں خود اس منافق کو پوری دنیا کے سامنے لاؤں گی۔ اس کے سارے کالے کرتوتوں کے ثبوت کے ساتھ ۔ !!! بس مجھے تمہاری جان عزیز ہے ۔ انشأ اللہ تمہارا شہزادہ تمہیں اتنا خوش رکھے گا کہ تم مجھے بھی بھول جاؤ گی۔ انشأ اللہ ۔۔!!!"

سبرینہ بیگم نے گہرا سانس خارج کیا۔ انہیں تکلیف ہورہی تھی معصومہ کو روتا دیکھ کر جھک کر اس کے سر پر بوسہ دیتے انہوں نے خود کو بھی مطمئن کیا۔ وہ ابھی بہت چھوٹی تھی شادی جیسی ذمہ داری نبھانے کے لیے ۔ پر وہ زندہ رہے اس کے لیے یہ فیصلہ ناگزیر تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

جرگے کے بعد درمان اپنا غصہ نکالنے اپنے ڈیرے پر گیا تھا۔ جہاں خود کو پرسکون کرکے وہ سیدھا شہر گیا تاکہ اپنی مصیبت کے لیے نیا فون لاسکے۔اسے خود کو حد سے زیادہ پرسکون رکھنا تھا ۔ابھی وہ زرلشتہ کو ناراض کرکے اسے ہمیشہ کے لیے اپنے آپ سے دور کرنا نہیں چاہتا تھا۔

پرانا والا فون تو اس کے آفس میں ہی رکھا تھا۔ جسے چیک کرنا تو دور اس نے دوبارا دیکھا بھی نہیں تھا۔ مصروفیات اسے کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھیں۔وشہ والا معاملہ وہ اب بعد میں حل کرتا۔

 پہلے اسے اپنی مصیبت والا مسئلہ حل کرنا تھا۔ اور یشاور کی بہن تو اب فدیان چاہتا یا نہ چاہتا اس کے نکاح میں ہی جاتی کیونکہ درمان تو اپنے بابا کو کہہ چکا تھا کہ وہ اب اس کی طرف سے اپنی عزت بچانے کے لیے کسی الٹے کام کی امید نہ رکھیں ۔وہ اپنی بیوی کے ساتھ خوش ہے۔ اب اپنی ٹریک پر آتی زندگی میں اسے کوئ طوفان نہیں چاہیے۔

ہاتھ میں فون والا بیگ پکڑے وہ سیڑھیوں کی طرف جانے ہی والا تھا جب اسے وہاں سے گزرتی ملازمہ دکھی ۔

سارا سٹاف وہ چینج کرواچکا تھا۔ اور جس عورت نے اسے ساری حقیقت بتائ تھی اس نے اسے بھی دوسری جگہ بھیج دیا تھا یہاں اس کی جان کو اس کی ماں سے خطرہ ہوتا۔

"سنیں زرلشتہ نے کھانا کھایا ہے یا نہیں کھایا ابھی تک ۔۔!!"

دل میں کب سے اٹکے سوال کو درمان نے پوچھ لیا ۔ملازمہ کو کسی اور کا پتہ ہو یا نہ ہو زرلشتہ کا پتہ تھا ۔ آخر درمان کی ہدایت کے مطابق اسے سخت تاکید کی گئ تھی کہ وہ زرلشتہ کا ہر حکم مانے۔

"صاحب۔۔!! ان سے میں کھانے کا پوچھنے گئ تھی پر تب وہ سورہی تھیں۔ تو میں نے انہیں جگایا نہیں۔ اب بتادیں کیا بنانا ہے میں بنادیتی ہوں ۔!!'

ملازمہ نے مؤدب انداز میں کہا۔ درمان کو یاد آیا اس کی مصیبت کو صرف الٹی سیدھی چیزیں کھانے کا شوق ہے۔ تو پھر یہی سہی۔

"پاستہ بنانا آتا ہے اگر آپ کو تو وہ بنادیں ۔ساتھ میں chocolate fondant بھی۔ لیکن جلدی۔ زیادہ ٹائم نہیں لگانا ۔ اتنے ملازم ہیں یہاں سب مل کر آدھے گھنٹے میں تو یہ کام ختم کرہی لیں گے ۔!!!"

درمان نے کچھ سوچ کر بتایا۔ اس کی مصیبت کو چاکلیٹ سے عشق تھا تو چاکلیٹ کی ریسپی ابھی اس کے ذہن میں یہی تھی۔ ویسے بنانے میں تو گھنٹہ لگ ہی جاتا پر درمان کو اب آدھے گھنٹے میں ہی چاہیے تھا۔ 

سوفٹ سے چاکلیٹ کیک پر مزیدار سی چاکلیٹ لیئر اور ان اندر میلٹڈ میلو چاکلیٹ اوپر آیس کریم کی ٹائپنگ اگر یہ عنایت درمان نے پہلے کی ہوتی تو اب تک وہ خود ہی فیصلہ سنا چکی ہوتی کہ اسے درمان کو نہیں چھوڑنا ۔

پر دیر آۓ درست آۓ۔ !!!

ملازمہ سر ہلاکر چلی گئ تو درمان بھی اب کمرے میں جانے لگا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ جو صبح دوبارا سوگئ تھی اس کی آنکھ شام میں کھلی۔ طبیعت پہلے سے بہتر تھی تبھی اس نے فریش ہونا ضروری سمجھا ۔ فریش ہوکر اپنے بال ٹاول سے ہی سکھا کر اس نے اپنی گیلی پٹی دیکھی جس میں اب درد بھی ہورہا تھا۔ اور وہ خود کبھی بھی اسے چینج نہ کرتی۔ اتنا حوصلہ اس کے پاس نہیں تھا۔

کمرے کا دروازہ کھلتے ہی اس نے پیچھے دیکھا تو اسے درمان کمرے میں آتا دکھا۔ اسے دیکھ کر خوف کی ایک لہر اس کے اندر دوڑی تھی ۔اسے پتہ تھا اس کا بھائ مل گیا ہے۔ اس نے شام میں کسی ملازمہ کو یہ بات کرتے سنا تھا۔ تب اس کے اندر امید جاگی تھی اس قید خانے سے نکلنے کی۔ پر درمان کو دیکھ کر اس کا سانس رکا۔

درمان نے جونہی زرلشتہ کو سامنے دیکھا تو اس کی بے چین روح کو سکون ملا۔ چہرے پر سکون کے ساتھ مسکراہٹ اتری۔پر زرلشتہ کا حلیہ تھوڑا عجیب لگا اسے۔

لیمن کلر کے سادہ سے سوٹ میں اپنے بال کیچر میں مقید کیے اور پیشانی پر ساۓ کی طرح چھاۓ بالوں کو آج پنز سے اچھے سے سمیٹے دوپٹہ مشرقی طرز میں شانوں پر پھیلاۓ۔ وہ کوئ اور زرلشتہ لگی اسے۔ 

"بال اتنی جلدی لمبے کیسے ہوگے تمہارے۔۔!!! کون سا جادو کیا ہے تم نے۔"

دونوں کے بیچ کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی پھر درمان نے ہی خاموشی توڑی۔ تو زرلشتہ نے سر جھکا لیا۔ اب وہ اسے کیا کہتی کہ ان بالوں کے اس بچکانہ سٹائل سے درمان کو ہی مسئلہ تھا اس نے تو بس مسئلہ حل کیا ہے۔

"کچھ نہیں کیا وہ بس آنکھوں میں چبھتے تھے اس لیے میں نے سیٹ کردیے۔ آہستہ آہستہ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ !!"

اس نے بھی عام سے انداز میں کہا۔ پھر خشک ہونٹوں کو تر کرکے اس نے درمان کی طرف دیکھا۔ جو بغیر کچھ کہے جاکر بیڈ پر بیٹھا اپنے جوتے اتار رہا تھا۔

وہیں درمان کو اندازا ہوگیا تھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہے۔ جب طعنہ اس نے دیا تھا تو اب انجام بھی اسے ہی بھگتا تھا۔

"ایسے بھی پیاری لگو گی تم۔۔۔!!! طبیعت ٹھیک ہے نہ تمہاری۔ درد تو نہیں ہورہا نہ۔ اور کھانا کیوں نہیں کھایا تھا تم نے۔۔!! جب تک اٹھی تھی سب سے پہلے تمہیں کھانا کھانا چاہیے تھا۔ پھر کچھ اور کرتی۔ !!"

وہیں سے ہی ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھ کر درمان نے خاصے دوستانہ انداز میں کہا۔ زرلشتہ کا حوصلہ تھوڑا سا بڑھا تھا۔ کہ وہ اب جب بدل رہا ہے تو اسے بھی ضرور سمجھے گا۔ اسے اپنے گھر والوں سے ملنا ہے اور درمان کو اسے روکنا بھی نہیں چاہیے۔

"بھوک نہیں تھی۔ابھی کھالوں گی میں۔۔!!"

زرلشتہ نے گہرا سانس بھرا۔درمان ہمم کہنے پر اکتفا کیا۔

"سنیں ۔ !!! میں ایک بات کرلوں آپ سے۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو۔ "

زرلشتہ ایک قدم آگے بڑھی اور اپنی انگلیاں ڈرتے ہوئے مروڑنے لگی۔ درمان نے آرام دہ سلیپرز پہنے اور اس انوکھے سوال پر اسے حیرانگی سے دیکھنے لگا۔

"خیر تو ہے بیوی صاحبہ۔ !! آپ کب سے اجازت مانگنے لگیں ۔ جو کہنا ہے کہو۔ آفٹر آل وی آر فرینڈز۔۔۔!!!"

اس نے اپنی گھڑی اتاری۔ اور مسکرایا۔ زرلشتہ کو اجازت مانگتا دیکھ کر اسے لگا تھا کہ وہ یقیناً کوئ خیال دیکھ رہا ہے یا اس کی بیوی بدل گئ ہے حقیقت میں۔۔!!!

زرلشتہ نے مزید ہمت جمع کی۔ جو وہ کہنے والی تھی انجام برا ہی ہوتا ۔

"آپ کے بھائ مل گۓ ہیں نہ۔ اور میرے لالہ بھی بے قصور ثابت ہوگۓ ہیں۔ د۔درمان آپ مجھے میرے گھر جانے دیں ۔ مجھے میرے مما ، بابا سے ملنا ہے۔۔!! پلیز۔۔!!"

 زرلشتہ نے تقریبا التجا ہی کی ۔پھر خود ہی نظر اٹھا کر درمان کو دیکھا جو یہ بات سن کر جہاں تھا وہیں تھم گیا۔

"کیا کہا تم نے ایک بار پھر کہو۔۔!!"

 گھڑی اتار کر اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی پھر بے تاثر انداز میں زرلشتہ کو دیکھا۔جسے اگر پتہ ہوتا کہ وہ اس بات کو سن کر کتنے غصے میں آۓ گا تو وہ کبھی یہ بات نہ کرتی ۔

"مجھے واپس جانے دیں۔ میں آپ کو پکا اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گی۔ کبھی آپ کو تنگ کرنے آپ کے سامنے نہیں آؤں گی۔ آپ کہیں گے تو ساری زندگی آپ کو دیکھوں گی بھی نہیں ۔ مجھے پتہ ہے آپ کو میں پسند نہیں ہوں۔ تو مجھے جانے دیں۔۔!! آپ خوش رہیں گے میرے جانے کے بعد۔۔۔!!! پلیز۔۔!!!"

روانی میں بولتے جب اس نے درمان کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھے تو منتوں پر اتری۔ 

درمان۔ کو یاد آیا جرگے نے فیصلہ کرنے کا اختیار اسے دے دیا ہے اور وہ خود کہہ رہی ہے اسے واپس جانا ہے۔ درمان ساکت رہ گیا۔ کیا واپسی اتنی آسان ہے...!!!!

اس کے دل میں چھین ہوئ۔ اس نے تو زرلشتہ کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا تھا نہ اپنی مرضی سے اسے دل میں بسایا تھا۔ وہ چلی جاتی تو درمان اپنے دل کو کیسے تسلی دیتا ۔

"تم رہائ چاہتی ہو یا مجھے سزا دینا چاہتی ہو زرلشتہ ۔۔!! تمہیں لگتا ہے تمہارے جانے سے سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ لیکن تم بے خبر ہو اب تمہارے جانے سے سب برباد ہوگا ۔ میں بھی میرا سکون بھی ، تم بھی اور ہمارا یہ رشتہ بھی ۔۔!!!"

اس کے حلق میں کانٹے اترے۔ چہرے پر تکلیف سے سرخی چھائ ۔

لمحے میں اپنے دل کو اس نے پتھر کیا۔ نیلی آنکھوں نے زرلشتہ کے چہرے کی بجاۓ کسی غیر متعین نقطے کو دیکھا۔ اسے چھوڑنے کی بجاۓ وہ اب مرنا پسند کرتا۔ زرلشتہ کبھی بھی سیدھے طریقے سے نہ مانتی۔ تو لہجہ سخت کرنا ضروری تھا۔ 

"تمہیں کس نے کہا ہے کہ دیار کی جان کو اب کوئ خطرہ نہیں ۔ خطرے تمہارے سامنے کھڑا ہے۔ یعنی میں جب چاہے تمہارے لالہ کی چلتی سانسیں روک سکتا ہوں۔ ویسے بھی میں تو ظالم ہوں نہ۔ اور ظالم کہاں صحیح غلط کا فرق دیکھتے ہیں ۔۔!!"

وہ پراسرار سا مسکرایا ۔ سینے میں ہوتی جلن برداشت سے باہر تھی۔ وہیں زرلشتہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا پر بات سمجھتے ہی اس کے چہرے کا رنگ اڑا۔درمان نے بھی نظریں اسی کی طرف کیں۔ اپنی باتوں کا ہوتا اثر اسے دکھ چکا تھا۔

"آ۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ اب ظالم نہیں بنیں گے۔ پھر آپ کیوں ایسی باتیں کررہے ہیں۔ آپ ڈرارہے ہیں مجھے۔ آپ کو آپ کا بھائ مل گیا نا تو مجھے بھی اپنے بھائ سے ملنے دیں۔"

وہ روہانسی ہوئ۔ اس کی آنکھوں میں درد کی لہر جھلکی ۔

"میں تمہارے معاملے میں ظالم نہیں ہوں۔ بس تمہارے معاملے میں۔۔!!  باقی کی دنیا کے لیے درمان اب بھی ویسا ہے جیسا پہلے تھا۔ بے فکر رہو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا پر اگر کوئ میرے اور تمہارے درمیان آیا تو اس کی جان کی کوئ گارنٹی نہیں ۔ چاہے وہ تمہارا بھائ ہی کیوں نہ ہوا۔۔!!"

اس نے کندھے اچکادیے کہ میری بلا سے سب بھاڑ میں جائیں۔پر زرلشتہ کا دل کانپ گیا ۔شاید وہ سب میں ماردے دیار کو۔

"اللّٰه کا واسطہ ہے آپ کو درمان ایسا کچھ نہ کیجۓ گا۔ آ۔آپ کو مجھ سے مسئلہ ہے نہ تو مجھے مار لیں ۔ وعدہ رہا ایک بار افف بھی نہیں کروں گی پر میرے بھائ کو کچھ نہ کہیے گا۔ ان کا تو کوئ قصور نہیں ہے۔ وہ بے قصور ہیں ۔ پلیز درمان انہیں کچھ نہ کہیے گا ۔۔!!!"

وہ سچ میں بیوقوف تھی جو اتنی سی بات پر روپڑی ۔ اس کے گال بھیگنے لگے۔ رخسار پر لگے زخم پر آنسوؤں کی جلن ہوئ پر اس نے توجہ نہ دی۔

درمان کے دل نے کہا کہ وہ اسے نہ ستاۓ وہ مانگتی ہی کیا ہے اس سے۔ کچھ بھی نہیں ۔ پھر اس معصوم کو رلانا گناہ ہے بہت بڑا گناہ ۔اس کی سرمئ آنکھوں کی معصومیت جو اسے اس کے ظالم والے روپ سے نکالنا جانتی تھی وہ اثر دکھاگئ۔

"یااللہ ۔۔!!! میرے دل میں جو رنگ بستا ہے وہ کیوں اس کی آنکھوں میں اتر آیا ہے۔ میں تو اسے دیکھ کر اب غصہ بھی نہیں کرپارہا۔ میرے غصے کا اینٹی ڈوڈ ہے یہ۔۔!! "

اس نے آنکھین میچیں۔

"افف مصیبت۔۔۔!!! تم تو روپڑی ہو یار۔ میری چھوٹی سی جان میں کیوں ماروں گا کسی کو۔ سوری میں پاگل ہوگیا تھا جو بکواس کرگیا ۔ پر تم نے میری جان نکال دی ہے ان آنسوؤں سے ۔۔!!"

سب جھٹک کر وہ آگے بڑھا تاکہ اسے سنبھال سکے پر وہ ڈر کر خود ہی پیچھے ہوگئ۔

"و۔وعدہ میں نہیں جاؤں گی کہیں بھئ۔ میرے بھائ کو کچھ نہ کہیے گا۔ وہ بہت اچھے ہیں۔۔!! پلیز ۔۔۔!!!"

زرلشتہ درد کی شدت سے روئ ۔جو اس کے دل میں اٹھا تھا کہ وہ اب شاید پوری زندگی اپنے گھر والوں کی شکل دیکھنے کو ترس جاۓ گی۔

یہ قید اب کبھی ختم نہیں ہوگی ۔

درمان نے خود کو کوسا یہ معصوم سی لڑکی تو پہلے ہی ڈرتی ہے اس سے۔

آگے بڑھ کر آرام سے اسے صوفے پر بٹھا کر درمان نے اس کے دونوں ہاتھ تھامے اور خود اس کے سامنے نیچے بیٹھ گیا۔ جو پوری طرح سے کانپ رہی تھی۔ پہلے ہی کیا کم اذیت دیکھی تھی اس نے تو آج نیا غم دے دیا درمان نے اسے۔

"چلی جاؤ تم۔۔!! میں نہیں روکوں گا تمہیں ۔ مل آؤ تم سب سے۔پر بات صرف ملنے کی ہوئ ہے۔ یاد رکھنا ۔۔!! میں کل خود تمہیں وہاں چھوڑ آؤں گا۔ اور جب میں کہوں تم واپس بھی آجانا۔ اپنا سکون تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ کیونکہ تمہیں تکلیف میں، میں نہیں دیکھ سکتا اب۔ 

درمان کے سینے میں موجود یہ پتھر بھی تمہیں دیکھ کر مجھ سے بغاوت کرنے لگا ہے۔میرا دل ہے تو میرے پاس پر یہ اب میرے لیے ہی دھڑکتا نہیں ۔ عجیب کیفیت ہوگئ ہے میری۔تم نے کہیں کا نہیں چھوڑا اس ظالم کو۔ 

جو تم کہو میں بھی اسی پر راضی ہوں۔ "

اس کے ہاتھوں پر پکا سا دباؤ دیتے وہ اذیت سے بولا ۔ تو زرلشتہ نے اس کا جھکا سر دیکھا ۔ درمان اتنی جلدی ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔ زرلشتہ اسے بدل چکی تھی۔ اور یہی حقیقت تھی۔

"آپ نہیں ماریں گے نہ میرے بھائ کو ۔آپ جو کہیں گے میں مانوں گی وعدہ۔۔!!"

اس کا لہجہ آس بھرا تھا۔ درمان نے لب بھینچے اور نفی میں سر ہلادیا۔

پھر اٹھ کر اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔

"ایسے رویا نہ کرو روتی تم ہو دل میرا بند ہوتا ہے۔ زخم تمہیں ملے تو تکلیف مجھے ہوتی ہے۔ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔!!!"

نرمی سے اس کے آنسو پونچھتے وہ جھنجھلا کر بولا۔ سمجھ تو زرلشتہ کو بھی کچھ نہیں آیا تھا۔ اب یہ انوکھی لوجک مصیبت کے دماغ سے آگے کی تھی۔ جہاں درمان نہیں پہنچ پارہا تھا تو زرلشتہ کیسے پہنچتی ۔یا پھر بے خبری میں پہنچ ہی جاتی ۔۔ !!!!

"آپ کہیں میرے عشق میں پاگل تو نہیں ہوگۓ۔ آپ کی مورے کو میں نے کہا تھا کہ اللہ آپ کو میرے عشق میں پاگل کردے گا۔ شاید دعا پوری ہوگئ ہو۔ اور آپ پاگل ہوگۓ ہو۔ایسا موویز میں ہوتا ہے ہیروئن کو کچھ ہوتا ہے اور ہیرو بھی ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ آپ پاگل ہوگۓ ہیں۔۔!!"

زرلشتہ نے اس کی باتیں سنیں تو اسے اپنی بات یاد آئ جو چیلنج اس نے اپنی ساس کو دیا تھا۔

وہ کہیں پورا نہ ہوگیا ہو۔۔۔!!!! وہ پاگل تھی تبھی تو سکون سے اس نے درمان کو بھی یہ بات بتادی ۔اس کی آنکھیں فرصت سے مقابل کی نیلی آنکھوں کو تک رہی تھیں ۔یہ نیلی آنکھوں والا جن اسے اچھا لگتا تھا۔ اور آج اس کی آنکھوں کی تکلیف اسے بری لگی تبھی وہ اسے اس تکلیف سے نکالنے لگی۔

جس نے یہ سنتے ہی پہلے حیرت سے اس کی آنکھوں میں فکر دیکھی پھر اگلے ہی لمحے اپنی مسکراہٹ روکنے کی کوشش میں نچلا لب دانتوں تلے دبا گیا۔

"تم مجھے پاگل کرکے چھوڑو گی۔ یہ کیا کوئ وقت ہے ایسی بات کرنے کا۔ تم پر غصہ کرنا تو دور کی بات میں تو کوئ اور بات بھی نہیں کرسکتا۔ کیا چیز ہو تم۔۔!!"

توبہ یہ اس کی بیوی بھی جسے خود بھی نہیں پتہ وہ کیا کیا بولتی رہتی ہے ۔

اگلے ہی لمحے زرلشتہ نے درد سے آنکھیں میچیں گال پر لگا زخم دکھا تھا۔

درمان بھی اسی طرف متوجہ ہوا۔ 

"زیادہ درد ہورہا ہے۔۔!! اور یہ بینڈیج کیوں گیلی ہے ۔زخم تازہ ہے ابھی تو زرا احتیاط کیا کرو۔ پاگل ہو تم پوری کی پوری ۔ اپنی ذرا فکر نہیں تمہیں۔۔۔!!"

اس کی نم پٹی کو انگلی سے چھو کر درمان  اسے مصنوعی گھوری سے نواز کر خود فرسٹ ایڈ باکس لینے چلا گیا۔

پیچھے زرلشتہ نے اپنے آنسو صاف کیے۔ درمان اتنی جلدی مان گیا تھا یہ بات قابلِ حیرت تھی ۔ 

پر اسے درمان کا اپنی فکر میں گھلنا اچھا لگا۔ اس کے کیوٹ پٹھان کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"مورے نے کیوں مارا تھا تمہیں؟ مجھ سے کچھ بھی مت چھپانا ۔ شوہر ہوں میں تمہارا ۔ تمہارے ساتھ کوئ کیسا سلوک کرتا ہے اس بات کو جاننے کا حق ہے میرے پاس ۔۔!! تو سچ سچ بتاؤ۔ کیا مسئلہ ہے انہیں تم سے۔۔!!"

درمان نے وہ گیلی بینڈیج احتیاط سے اتارنا شروع کی۔ ساتھ میں اس کا دھیان بھٹکانے کے لیے سوال بھی کیا۔

جواب میں زرلشتہ نے لب بھینچے ۔ سب چھپانے کا کوئ فایدہ نہیں تھا اچھا تھا وہ بتادیتی ۔

"اس رات آپ غصے میں گھر سے چلے گے تھے تو انہیں لگا آپ کا سکون میں نے خراب کرکے رکھا ہے۔ انہوں نے مجھے برا کہا ۔ پھر بازو بھی زور سے پکڑا اور تھپڑ بھی مارا۔ پہلے وہ جب مجھ پر غصہ کرتی تھیں تو میں بھی حساب برابر کرکے آتی تھی ۔

کیونکہ ناول والی ونی کی ساس بھی تو ایسی ہی تھی اور ژالے نے کہا تھا کہ اپنی ساس کو خود پر ظلم نہ کرنے دینا ۔لیکن جب کل انہوں نے مجھے مارا تھا تو سب اتنا اچانک ہوا کہ مجھے سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا ۔۔۔!!!"

بتاتے وقت زرلشتہ کی آنکھیں پھر سے نم ہوئیں ۔درمان کو پتہ تھا وجہ وہی ہوگا اسے تکلیف ملنے کی۔ پر ناول والی ونی اور ژالے کا کیا قصہ ہے اسے جاننا تھا۔

"ناول والی ونی کیا مطلب۔۔!!"

اس نے تفتیشی انداز میں پوچھا ۔ساتھ ہی بینڈیج اتار کر ایک طرف رکھ دی۔

"وہ جب بابا نے مجھے ونی کیا تھا تو میں نے ژالے سے پوچھا تھا کہ ونی کیا ہوتی ہے تو اس نے مجھے ناول سینڈ کیا تھا اور کہا تھا میں پڑھ لوں ۔اس ناول میں ونی کی ساس آپ کی مما جیسی تھی ظالم اور وہ منحوس ہیرو بھی آپ جیسا تھا۔ اکڑو ، ظالم جن کہیں کا ۔اس نے اس بیچاری کو بہت مارا تھا بہت ۔!!!! 

پھر وہ بیچاری مرگئ ۔ میں بہت روئ تھی اس بیچاری کے لیے ۔ اور آپ کو پتہ ہے اس کا وہ منحوس شوہر اس کے مرنے کے بعد بہت رویا تھا۔ تب مجھے لگا تھا میں بھی مرجاؤں گی اور آپ میرے بعد روتے ۔!!!!"

وہ اپنی دھن میں بولتی گئ جب نظر درمان پر پڑی جو یقینا اس اکڑو کے کردار کی وضاحت کے لیے خود سے دی گئ تشبیہ پر نالاں تھا۔ تبھی اس نے زبان دانتوں تلے دبائی اور چپ کرگئ۔

درمان نے بھی سرجھٹکا کہ کوئ پاگل ہی تھا جس نے اس پاگل کو ونی کا مطلب سمجھانے کے لیے ناول پڑھنے کو کہا یہ جانتے ہوۓ کہ یہ پاگل ناول پڑھنے کے بعد کسی بھی اچھے بھلے انسان کو پاگل کردے گی۔

اور یہ پاگل درمان کو بھی پاگل کرچکی تھی۔

اس کی بینڈیج احتیاط سے بدل کر درمان نے اس کا زخمی رخسار اور پھٹا ہوا ہونٹ کا کنارہ دیکھا۔ ناک پر لگا زخم بھی ویسا ہی تھا۔ 

"میں نے اپنی انا کی دیواریں اونچی کرنے کے لیے تمہیں ازیت دے کر جو گناہ کیا ہے اس کا ازالہ میں ضرور کروں گا ۔!!! پاگل کیا میں تو پوری زندگی تمہارے نام کرنے کو تیار ہوں۔ بس تم خوش رہو۔ جہاں بھی رہو ۔!!"

جھک کر اس کے رخسار پر دوا لگاتے ہی  اسے یاد آیا کل وہ چلی جاۓ گی پھر ناجانے لوٹ کر آنا بھی چاہے یا نہ چاہے۔ یہ سوچ آتے ہی درمان نے فورا اپنے دل کو تسلی دی کہ کچھ بھی ہوجاتا فیصلہ نہ بدلنا اس کی خوشی جس میں ہے وہی ہونے دو ۔

سائیڈ سے بیگ اٹھا کر اس نے زرلشتہ کے سامنے کیا۔

"یہ تمہارا گفٹ ہے۔ سم بھی ساتھ ہے ۔ وہ ڈال لینا اس میں۔ اور میں جب بھی فون کروں کال ریسیو۔ کرلینا اتنا تو کرہی سکتی ہو نہ تم  میرے لیے ۔۔۔!!!!"

فون درمان نے اس کے حوالے کیا ۔ جو اتنی عنایتوں پر بے ہوش ہونے والی تھی۔ ونی کا شوہر اچھا ہوکر اسے گفٹ بھی دے سکتا ہے بات تو حیران کرنے والی ہی تھی۔

"اور یہ ونی وغیرہ میرے نزدیک کچھ نہیں ہوتا تو اب یہ سوچنا چھوڑ دو ۔ اور مجھے اس ظالم منحوس ہیرو سے ملانا بھی چھوڑ دو۔ اتنا ظالم نہیں ہوں میں جتنا بنادیا ہے تم نے مجھے ۔ !!!"

درمان کی بات سن کر اس نے کھوۓ ہوۓ انداز میں سر ہاں میں ہلادیا۔

"میں سچ میں چلی جاؤں۔۔!!!" وہ تصدیق چاہتی تھی۔

"چلی جاؤ۔۔!!! میں قید نہیں کروں گا تمہیں۔ جہاں چاہے جاؤ جو چاہے کرو۔ میرے ساتھ رہی تو شاید میری پابندیوں میں تم کھل کر سانس نہ لے سکو ۔ مشکل ہے تمہارے بغیر رہنا پر خیر ہے میں کوشش کروں گا۔ کہ تمہارے معاملے میں نرم دل بن جاؤں۔۔!!!! 

باقی میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ تمہارا ہے۔آج ہفتہ ہے اگلے جمعے کو میں تمہاری کال کا انتظار کروں گا۔ تم نے اگر کال کردی تو پھر اس قید میں خوش آمدید ورنہ آزادی تمہارا حق ہے۔ وہ میں نہیں چھینوں گا تم سے ۔ لیکن اس ایک ہفتے تک تم مجھ سے بات ضرور کرتی رہنا پلیز۔۔۔!!!"

آگ کی تپش پر اپنے دل کو جلتے دیتے وہ ظالم انسان جس نے اسے دو مہینے اپنی قید میں رکھا تھا آج خود اس کے آنسوؤں کے سامنے ہار کر اس کے راستے سے ہٹ گیا۔ 

جسے کسی کا اپنے فیصلے پر اعتراض پسند نہیں تھا اس نے آج فیصلے کا اختیار اس بیوقوف لڑکی کو دے دیا۔

یہ جانتے ہوے کہ یہ جب اپنی دنیا میں واپس جاۓ گی تو آسانی سی اسے بھول جاۓگی۔وہاں اس کے ماں باپ ہیں بھائ ہے ۔ دوست ہیں۔ ان سب میں درمان کی جگہ نہیں ۔

وہ ہی تو اس کا پرستان ہے۔ 

زرلشتہ نے اس فون کو دیکھا پھر درمان کو دیکھا جو چہرہ موڑ کر شاید اپنا درد چھپا رہا تھا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی تو۔ اس نے فورا دروازہ کھول دیا۔

سامنے ملازمہ موجود تھی اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی کھانے کی ۔ جسے پکڑ کر درمان نے دروازہ بند کیا اور لاکر ٹرے بیڈ پر رکھ دی ۔

زرلشتہ نے سامنے دیکھا جہاں اس کا فیورٹ کریمہ پاستہ رکھا تھا۔ ساتھ ہی چاکلیٹ فوندینٹ جو اس کا فیورٹ تھا۔ اور وہاں اس سے ذرا فاصلے پر بیڈ پر درمان بیٹھا تھا۔

"پاستے کے علاؤہ کیا پسند ہے تمہیں ؟ سب الٹا ہی کھاتی ہوگئ تم۔ کوئ انسانوں والی پسند تو نہیں ہوگی تمہاری ۔۔۔!!"

درمان نے سر جھٹکا ۔ تو جواب میں زرلشتہ بھی مسکرائ۔ 

"میں الٹا لٹک کر کچھ نہیں کھاتی۔ انسانوں کی طرح بیٹھ کر ہی کھاتی ہوں۔ اور سچ میں میں نے کبھی جانوروں کی طرح درختوں کے پتے نہیں کھاۓ۔ میں انسان ہی ہوں۔لگتی بندر ہوں پر ہوں انسان ہی ۔!!"

سر جھکا کر زرلشتہ نے مسکراہٹ روکی درمان تو پوری طرح مسکرا بھی نہ سکا ۔

یہ محبت مسکراہٹ بھی چھین لیتی ہے انسان کی۔۔ !!!

"بندر کو بدنام نہ کرو ۔ بیچارا یہ صدمہ سہہ نہیں پائے گا۔تم چوزی لگتی ہو۔چوزی ۔چھوٹی سی ,شرارتی سی۔۔!!! "

اس نے لفظوں پر زور دیا۔  جواب میں زرلشتہ نے منہ کھول کر خفگی سے اسے دیکھا۔

"خود گوریلا کی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں نہ تبھی اپنے رشتے داروں کی بےعزتی کی فکر ہے انہیں ۔ میں چوزی ہی اچھی ہوں۔ وہ اتنی پیاری سی تو ہوتی ہے۔ کیوٹ سی ۔یہ جن ہیں گوریلا جیسے ڈراؤنے ۔!!!"

اس نے منہ بسورا پھر پاستہ کھانے میں مصروف ہوگئ۔اپنی فیورٹ ڈش کو انکار کرکے کیا ملتا اسے۔وہیں درمان بھی بینڈیج اور فرسٹ ایڈ باکس اٹھا کر چینج کرنے چلا گیا۔ کل کا سورج اسے ازیت ہی دینے والا تھا۔ اور ابھی بھی اسے تکلیف ہی ہورہی تھی بس ۔!!!!"یہ جگہ ہے تو بہت اونچی ۔۔!!! دل کررہا ہے کہ ایک بار چھلانگ لگا کر دیکھ لوں میں ۔ اگر میں بچ گیا تو ریکارڈ بنے گا خود کو کوئ پہنچا ہوا بابا نہیں پہنچا ہوا نوجوان عامل ثابت کرکے پیسے کماؤں گا میں اور اگر کوئ مسئلہ ہوگیا تو ہاسپٹل بھی یہیں ہے بروقت علاج کے بعد میں بچ ہی جاؤں گا ۔تو لگادوں کیا میں چھلانگ۔۔!!"

فدیان نے ہاسپٹل کے اس روم کے گلاس وال کو سائیڈ پر کیا اور نیچے جھانکا ۔وہ ابھی پانچویں منزل پر موجود تھا۔ نیچے دیکھتے ہی اس کی آنکھیں چمکیں۔ نیا آئیڈیا اس کے ذہن میں آچکا تھا۔تھوڑا آگے بڑھ کر وہ کچھ سوچ کر پیچھے ہوگیا ۔

"یار میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔ ابھی تو شادی بھی نہیں ہوئ میری ۔شادی سے یاد آیا کیا اسے میرے اغواہ کی خبر پہنچی ہوگی بھی یا نہیں۔۔!!! کسی نے اسے بتایا ہوگا کہ میں اغواہ ہوا ہوں۔ مجھے نہیں لگتا ۔۔!!!

ویسے بھی اسے تو فرق پڑنا ہی نہیں تھا۔ اس کے دل تک پہنچنا آسان کام تو نہیں ہے۔ کہیں اس کی شادی ہی نہ ہوگئ ہو ۔!!"

کمرے میں واپس آکر اس نے سوچا پھر اپنی ہی سوچ پر جھرجھری لی۔

"نہیں وہ تو ابھی پڑھ رہی ہے۔ اور اس کے گھر والے اسے اتنی جلدی تو اتنی بڑی ذمہ داری میں نہیں باندھیں گے۔۔!! اور میں بھی اب واپس جاتے ہی پہلے اس کا پتہ کرواؤں گا۔ پھر کچھ اور کروں گا۔ کل صبح صبح ہی مجھے واپس چلے جانا چاہیے۔ اگر میرے جانے کے بعد اس کی شادی ہوگئ ہوئ تو فدیان کیا ہوگا تمہارا ..!!!"

اسے کوئ یاد آیا تھا ۔ جس کے بارے میں سوچتے ہی وہ سنجیدہ ہوگیا۔ اپنا مزاق پیچھے کرکے اس نے گہرا سانس خارج کیا۔

"میں پہلے ہی بہت دیر کرچکا ہوں۔اب میں ایک دن کی بھی دیر نہیں کروں گا۔ یہاں سے جاتے ہی رشتہ بھیجوں گا۔ یہ مسئلہ پوری طرح سلجھادوں گا۔ بس بات ختم ۔۔ !!!"

وہ بیڈ پر بیٹھ گیا اور پورا ارادہ کرلیا۔ ابھی تک کسی نے اسے ونی والی بات نہیں بتائ تھی اور اگلے ایک ہفتے کے بیچ بیچ تک کوئ بتانے بھی نہیں والا تھا۔

"یا اللہ کہیں یہ مجھے ونی میں نہ دے دیں۔ میرے جیسا سگھڑ لڑکا تو لوگ ونی میں بھی سکون سے لے لیں گے۔ نہیں یا اللہ مجھے ناکام عاشق نہ بننے دینا ۔۔!!! میں نہ ونی میں جاؤں نا کوئ مجھے ونی دے۔ ۔۔!!"

فدیان نے اپنی نیلی آنکھوں کو رگڑا جو نیند سے بند ہورہی تھیں پھر بیڈ پر لیٹ گیا۔ اب اسے بھی کبھی نہ کبھی وہ فیصلہ ضرور بتایا جاتا جو سب لے چکے تھے۔

گزری شام کے ڈھلتے سورج کے ساتھ ہی درمان کی زندگی میں چھائ روشنی بھی ذرا مدھم پڑچکی تھی۔اپنی زندگی کی روشنی کو آسانی سے خود ہی خود سے دور جانے کی اجازت دے دینا وہ بھی تب جب آپ کا سکون اس سے جڑچکا ہو۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ 

اگلے دن  کے چڑھتے سورج نے اسے منادی دے دی کہ جیسے کچھ عرصہ پہلے بغیر دستک دیے زرلشتہ اس کی زندگی میں آئ تھی ہوا کے جھونکے کی طرح بالکل ویسے ہی آج وہ واپس چلی جاۓ گی۔ پھر اگر اس نے چاہا تو وہ درمان کے پاس واپس آۓ گی ورنہ سب ختم۔۔۔۔۔!!!!!

 عجیب بات یہ تھی کہ درمان دل سے راضی تھا کہ جو زرلشتہ چاہے آگے سب وہی ہو۔ پہلے ہی وہ اسے بہت ازیت دے چکا ہے ۔ مزید ازیت دے کر وہ اسے خود سے بدگمان نہیں کرسکتا۔

وہیں زرلشتہ بھی خوش تھی کہ آج اتنے عرصے بعد وہ اس حویلی سے باہر نکلے گی۔ اپنے گھر والوں سے ملے گی۔ اس آزاد فضا میں سانس لے گی۔ جن زنجیروں نے اس کا راستہ جکڑ رکھا تھا درمان وہ خود ہی توڑنے والا ہے۔ جس قیدی کو رہائی مل رہی ہو اس کے لیے اس سے زیادہ کوئ خوشی کی بات ہوگی کیا۔۔۔!!!!

آج کی صبح فدیان نے بھی ہاسپٹل میں ہنگامہ کھڑا کرکے ڈاکٹرز اور نرسز کا جینا حرام کرکے وہاں سے نکلنے کا پلان پوری تیاری سے ایگزیکیٹو کرنا شروع کردیا تھا۔

 جتنا وہ چارج تھا ڈاکٹرز کو تو اپنی ڈگریاں بھی جعلی لگنے لگیں کہ ایک بندہ جو موت کے منہ سے واپس آیا ہے جس کے برین کی سینسیٹو نرو بری طرح ڈیمج ہے ۔وہ کیسے پورے ہاسپٹل کا جینا حرام کرسکتا ہے آخر کیسے۔۔۔۔!!!!!!

فدیان نے پورے ہاسپٹل کے وارڈز کا تفصیلی جائزہ لے کر وہاں کے مریضوں کو کہہ کر کہ یہاں کے ڈاکٹرز جعلی ہیں انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ کون سا مریض ٹھیک ہے اور کونسا بیمار ہے۔ اس جیسے صحت مند انسان کو جسے بس سر پر ہلکی سی کھروچ لگی ہے اسے بیمار کہہ کر بیڈ ریسٹ کا مشورہ دینا کیا ٹھیک ہے۔

اس کی پھرتی دیکھتے ہر مریض نے ڈاکٹر کو شک بھری نظروں سے ضرور دیکھا کہ اس نمونے کو ہاسپٹل میں رکھنے کی وجہ کیا ہے آخر ۔۔۔ !!!!! نکال باہر کھڑا کرو اس نمونے کو ۔ جو اس ہاسپٹل کو سرکس سمجھ رہا ہے۔

جو حشر ڈاکٹرز کا وہ کرچکا تھا اس کے بعد اسے مزید پانچ منٹ بھی وہاں رکھنا اپنا ہاسپٹل اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے کے برابر تھا۔ تبھی ڈاکٹرز نے خود کو پاگل ہونے اور مریضوں کو ہاسپٹل چھوڑ کر بھاگنے سے روکنے کی خاطر ارجنٹ بیسز پر دراب آفریدی کو ہاسپٹل بلایا اور دست بستہ گزارش کی کہ اپنا بیٹے لیں اور جائیں یہاں سے۔ اس سے پہلے کہ ہم خود اسے اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ یہ تو ان کا چلتا کام روک کر سکون لے گا۔

 وہ بالکل ٹھیک ہے اتنا ٹھیک کہ اگر اس کے سامنے کوئ صحت مند انسان آگیا تو وہ خود کو کوستا واپس جاۓ گا ۔کہ یہ ٹھیک ہے اور میں پی پاگل خانے سے بھاگا ہوا آخری سٹیج کا مریض ہوں۔ ان کے ہسپتال کی مشینیں خراب ہیں جو اسے بیمار کہہ رہی ہیں ۔ وہ جاہل ہیں جو اسے سیریس کیس سمجھ رہے ہیں۔ اللہ کا واسطہ ہے اس نمونے کو لے جائیں ۔ورنہ سارے ہاسپٹل کے ڈاکٹرز کی موت کے ذمہدار وہ اکیلے ہوں گے۔ آخر باپ جو ہیں وہ اس نمونے کے۔ جو فلحال ہاسپٹل کی لمبائ ماپ رہا ہے کہ کہاں سے چھلانگ لگاؤں تو ورلڈ ریکارڈ بن سکتا ہے ۔!!!

ڈاکٹرز کی دہائیاں اور اپنے سامنے ڈسچارج پیپرز دیکھ کر دراب آفریدی بھی بوکھلاۓ ہوئے انداز میں اس نمونے کو واپس لے آۓ۔ جو ہر جگہ ان کی ناک کٹوانا فرض سمجھتا تھا۔فدیان کے یہاں بھی اپنے شیطانی دماغ کو داد ضرور دی تھی جس کے سامنے اس کے ماں باپ بھی ہکا بکا رہ جاتے تھے ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"ہوگئ پیکنگ۔۔ !!! کچھ رہ تو نہیں گیا۔۔!!! "

لائٹ پنک کلر کے ڈریس میں زرلشتہ سادہ سی تیار ہوکر شال اچھے سے سر پر اوڑھے ایک ہاتھ سے اپنا بیگ گھسیٹتی ڈریسنگ روم سے باہر نکلی تو درمان نے پوچھا۔ 

 جواب میں زرلشتہ نے ہمم کہنے پر اکتفا کیا ۔

درمان کی جگہ کوئ اور ہوتا تو اس بدلی ہوئ زرلشتہ کے اداس حلیے سے بھی اسے پھر سے محبت ہوجاتی پر درمان کو اس کا بدل جانا بھی چبھ رہا تھا۔ وہ اپنی مرضی سے بدلتی تو ٹھیک تھا پر یہاں تو درمان کے غصے سے ڈر کر اس نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ 

درمان نے دکھ سے چہرہ پھیر لیا پھر خود کو کمپوز کرکے وہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

",اپنا خیال رکھنا ، میڈیسنز ٹائم پر لینا، کھانا وقت پر کھانا زیادہ رونے یا پھر کسی بھی بات کی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔!!!!

اور آخری بات میں تمہارے فیصلے کا انتظار کروں گا۔ اچھے سے سوچ کر طے کرلینا کہ تم یہ رشتہ آگے نبھانا چاہتی ہو یا نہیں چاہتی۔۔۔!! تمہارا جو بھی فیصلہ ہوا میں اس کا احترام کروں گا ۔۔۔!!!!"

اس کی آنکھوں میں جھانکتے درمان نے بے حد محبت سے کہا ۔اتنی محبت اس کے لہجے میں تھی کہ اس کی نیلی آنکھیں بھی مقابل کی سرمئی آنکھوں میں جھانکتے مسکرائی تھیں۔ان آنکھوں کی مسکراہٹ نے ایک سحر سا طاری کیا۔ جیسے وہ سچ میں کوئ جادو کررہا ہو۔ یا طلسم پھوک رہا ہو ۔ ناقابل موجود اس ناسمجھ سے وجود پر ۔

 زرلشتہ اس کی آنکھوں میں کہیں کھوگئ۔ درمان کا پھونکا گیا طلسم کام کرگیا۔ 

اتنے عرصے میں درمان کے غصے کے باوجود جو چیز اسے درمان کی اور کھینچتی تھی وہ تھی درمان کی یہ شہزادوں جیسی آنکھیں ۔

درمان کو محسوس ہوگیا کہ وہ کہاں کھوئ ہوئ ہے۔ اس کا سحر توڑنے کا درمان کا کوئ ارادہ نہیں تھا۔ 

وہ ایک قدم مزید آگے بڑھا۔۔!!! زرلشتہ ابھی بھی اسی پوزیشن میں کھڑی تھی۔ ایک بار بھی پلک نہیں جھپکی تھی اس نے۔

"زری ۔۔!!!!" اس نے گھمبیر لہجے میں کہا۔ 

"جی۔۔۔!!!" پکار کا جواب بھی زرلشتہ نے معصومیت سے ہی دیا۔

"رکھو گی نہ اپنا خیال۔۔!!! اور یاد کرو گی نہ مجھے۔ فیصلہ جو بھی ہو ایک بار سوچنا ضرور کہ کیا اس عرصے میں میں تمہیں تھوڑا بھی اچھا نہیں لگا۔ اگر تھوڑا بھی اچھا لگا ہوں تو اس تھوڑے کے سامنے تم میری غلطیاں معاف کردینا۔ ایک موقعہ دینا مجھے میں تمہاری زندگی خوبصورت بنادوں گا۔۔!!! 

تھوڑا غصیلا ہوں پر ٹھیک ہوجاؤں گا آہستہ آہستہ ۔۔!! دو گی نہ مجھے موقع۔۔!!!"

اس کی طرف ذرا سا جھک کر درمان نے ایک امید سے پوچھا۔ چہرے پر ہلکی سی بھی سختی نہیں تھی ۔ پر ڈر تھا کہ کہیں وہ اسے منع نہ کردے ۔وہیں زرلشتہ کے چہرے پر حیرت سی چھائ۔

"آپ کی آنکھیں بولتی ہیں ۔۔!! جو آپ کہہ رہے ہو یہ بھی وہی کہہ رہی ہیں۔ ایسا ہوسکتا ہے کیا کہ آنکھیں بھی بولیں۔ !!!"

اسی کیفیت میں زرلشتہ کے لبوں نے ہلکی سی جنبش کی۔ الفاظ مدھم تھے پر درمان کی سماعتیں زرلشتہ کی آواز کی منتظر تھیں تبھی تو اس نے آسانی سے اس کی بات سن لی۔

اس کی آنکھیں ہلکی سی چمکیں۔ پھر اس کی وہ مسکراہٹ جو نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت تھی۔ تبھی تو وہ اسے چھپا کر رکھتا تھا۔وہ بھی اس سحر میں اپنا حصہ ڈالنے لگی۔

"جو انہیں اچھا لگے یہ اس سے بات کرتے وقت پھر میری بھی نہیں سنتیں ۔ان کی زبان سمجھنے کی صلاحیت بھی تمہاری ان آنکھوں کے پاس ہی ہے۔ کیا کریں یہ آنکھیں بھی جب تمہیں دیکھتی ہیں تو پھر کچھ مزید دیکھنا ہی نہیں چاہتیں۔ انہیں بھی کہیں عشق تو نہیں ہوگیا تم سے۔ !!! تم بتاؤ کیا کہہ رہی ہیں یہ۔۔!!!"

درمان کی مسکراہٹ مزید خوبصورت ہوتی گئ۔ زرلشتہ نے اسی کیفیت میں اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ جیسے اس کی آنکھیں پڑھنا چاہیں۔ درمان بڑی آسانی سے اسے اپنے سحر میں جھکڑ چکا تھا۔ ایک واحد راستہ تھا یہ اسے اپنا بنانے کا۔ تو وہ کیوں موقع جانے دیتا ۔وہیں زرلشتہ کی آنکھوں میں جھانکتے اسے بھی ایک الگ ہی دنیا دکھ رہی تھی۔ 

"شاید ہوگیا ہو۔۔!!! ان میں وہ اجنبیت نہیں ہے اب جو پہلے ہوا کرتی تھی۔اگر یہ ایسے ہی بولتی رہیں تو یہ مجھے بھی پاگل کردیں گی پر میں تو پہلے ہی پاگل ہوں ۔۔!! انہیں کہیں نہ یہ کیوں ایسے دیکھ رہی مجھے۔۔!!!"

وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس جیسی بیوقوف لڑکی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر درمان کو اپنا دل ہی خوشی سے رکتا محسوس ہوا۔ اس لڑکی کا ہر انداز نرالا تھا۔

 یہ اگر اسے پسند کرنے لگتی تو درمان تو ہواؤں کی سیر کو نکل جاتا۔ کشش تھی زرلشتہ میں جو دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لے۔

"کس نے کہا تم پاگل ہو۔ تم نہیں پاگل تو میں ہوں جو تمہیں سمجھ نہیں پایا۔ تم موقع دو گی نہ مجھے۔۔!! "

اس نے پھر وہی بات دہرائی۔لہجہ سحر طاری کرنے والا تھا۔ آواز انتہا کی مدھم کہ اس کے علاؤہ کوئ سن نہ پاۓ۔  زرلشتہ نے اپنی آنکھیں ہلکی سی جھپک کر سر خود ہی ہاں میں ہلادیا۔ 

"جی۔۔!!! " بس اتنا سا کہنا تھا درمان کے دل نے ایک بیٹ مس کی ۔ اس کا دل رک کر پھر دھڑکا۔ ابھی اسے مزید بھی زرلشتہ سے بہت کچھ کہنا تھا۔

 آخر بار بار وہ اس سحر میں تو نہ جھکڑی  جاتی۔ اسے اسی کے منہ سے سننا تھا کہ کیا وہ درمان کو پسند کرتی ہے یا نہیں اور یقینا زرلشتہ ہاں میں ہی جواب دے دیتی۔

آسان لفظوں میں درمان نے زرلشتہ کو ہیپناٹائز کرلیا تھا اپنی آنکھوں کی مدد سے۔ وہ جو کہہ رہی تھی ممکن تھا کی خود بھی بھول جاتی۔ 

اس نے اس کے گال پر لگا زخم دیکھا تو دل میں کرچیاں سی چھبیں۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر انگلیوں کی پوروں سے ہلکے سے اس زخم کو چھوا۔

"بہت درد ہوا تھا جب مورے نے مارا تھا۔۔!! "

اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑی اس لمحے کو یاد کرکے جب زرلشتہ کو اس نے دور جاتا محسوس کیا تھا۔

"بہت درد ہوا تھا۔ آپ کو بلایا تھا میں نے۔ آپ آۓ ہی نہیں تھے۔۔!!"

زرلشتہ نے اس کی طرف دکھ سے دیکھا۔ لہجہ اب بھی کھویا ہوا تھا۔ درمان نے لب بھینچے۔ اب وقت تھا محبت کا اظہار یا پسندیگی کا اظہار کروانے کا۔اگر ایک ہلکی سی جھلک وہ محبت کی دے دیتی تو درمان پوری زندگی اسے خود سے دور نہ کرتا اب۔ ایک امید جس کے سہارے وہ یہ دوری برداشت کرلے ۔!!!

"میں نے تو کبھی تمہارا احساس کیا ہی نہیں پھر کیوں تم مجھے بلا رہی تھی۔ میں تو صرف اذیت دیتا ہوں تمہیں ۔تم تو نفرت کرتی ہو نہ مجھ سے۔۔!!!"

پھر سے اسی کی آنکھوں میں جھانکتے اس نے عجیب سے لہجے میں پوچھا۔ تو زرلشتہ کے چہرے پر بھی اداسی چھائ۔

"اللہ ناراض ہوجاتا ہے اگر بیوی شوہر سے نفرت کرے تو۔ میں نے کبھی آپ سے نفرت نہیں کی۔آپ کے غصے سے مجھے ڈر لگتا ہے پر آپ تکلیف دے کر مرہم بھی خود ہی رکھتے ہیں۔

 رلا کر آنسو بھی خود ہی پونچھتے ہیں ۔ آپ عجیب ہیں بہت عجیب۔ پر چاہ کر بھی مجھے آپ برے نہیں لگے کبھی۔۔!! اب اگر کوی مجھے درد دے تو میرا دل آپ کو پکارتا ہے۔کوئ مجھے برا کہے تب بھی آپ ہی یاد آتے ہو ۔ ڈر لگے تب بھی آپ کو کو بلانے کا دل کرتا ہے۔آپ جنوں کے سردار ہیں نہ تو آپ کے ساتھ مجھے تخفظ محسوس ہوتا ہے۔مجھے بھی کچھ ہوگیا ہے ۔پر آپ تو مجھے دور بھیج رہے ہیں نہ!!! "

بامشکل اپنے آنسو روکتے ہوئے اپنی ہی کیفیت سے انجان ہوکر زرلشتہ نے بے بسی سے کہا۔ پر اس کیفیت میں بھی وہ اسے جن کہنا نہیں بھولی تھی ۔ درمان نے مسکراہٹ ضبط کی۔ پھر نرمی سے اس کا زخم سہلاتے درمان نے اب آگے کی بات کرنے کے لیے خود کو تیار کیا ۔

"تمہیں محبت ہوگی ہے مجھ سے ۔ ایک بار کہہ دو وعدہ پھر تمہیں اپنے پاس رکھنے کی ذمہ داری میری۔ اتنا حوصلہ دو کہ ہفتے بعد مجھے خود تم بلاؤں گی۔ اتنا تو کرسکتی ہو نا تم!!"

موقع کا فایدہ اٹھاتے اس نے معصوم بننے میں حد کردی ۔زرلشتہ نے کچھ سانحے اس کی مسکراہٹ دیکھی۔ پھر ہلکا سا سانس خارج کیا ۔

"ہاں ہوگئ ہے محبت ۔!! تھوڑی نہیں بہت۔۔!!! پہلے دن سے ہونا شروع ہوئ تھی۔اب تک تو بہت ساری جمع ہوگئ ہوگی نا ۔!!! ایسے ہی جمع ہوتی ہے نہ محبت دل میں تھوڑی تھوڑی۔۔!! کتنی ہوگئی ہوگی اب تک۔میں کیسے بتاؤں اب۔!!!"

اس نے بہت عجیب سا اظہار کیا۔ بہت عجیب سا کہ اسے فکر تھی کہ محبت اب کتنی جمع ہوگئ ہوگی ۔اسے صحیح اندازا لگانا تھا۔

درمان نے سر کو نفی میں جنبش دی کہ ایسا اظہار کون کرتا ہے۔ بچکانہ۔۔!!! بھلا محبت کوئ ماپنے والی شے ہے ۔

پر وہ تو تھی بھی شہزادی تو اظہار بھی شاہانہ ہی ہوتا۔

بس کافی تھا اس کے لیے ۔ !!!

"زری تم کیوں ہو اتنی معصوم۔۔!!! میں تمہارے معاملے میں جنونی ہوگیا تو تمہاری طرف اٹھنے والی نظریں نوچ پھینکوں گا۔ میرا تو غصہ ہی آج تک مجھ سے سنبھالا نہیں گیا کہیں دیوانگی کے چلتے سب برباد نہ کردوں۔ !! تمہارے سوا سب ۔۔ !!!!"

اس کے چہرے پر سختی کی جھلک ابھری ۔آنکھوں میں عجیب سا خوف ابھرا۔ اسی لمحے اس کے کوٹ کی پاکٹ میں رکھا فون رنگ ہوا۔ دونوں کے بیچ چھائ خاموشی کو اس ہلکی سی آواز نے توڑ دیا۔ 

 اچانک زرلشتہ کا سحر ٹوٹ گیا۔ابھی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ان آنکھوں کا غصہ دیکھ پاتی۔  تبھی وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہوئ۔ یہیں درمان بھی ہوش میں آیا۔

ان نے زرلشتہ کے بیگ کا ہینڈل پکڑا۔ کام تو اس کا ہوچکا تھا۔ جب دل میں وہی ہے تو وہ پھر فکر کیوں کرے کہ یہ فیصلہ اس کے خلاف دے گی۔ کبھی نہیں ۔۔ !!

"آجاؤ چلیں  ۔!!! اگر میرا ارادہ بدل گیا تو پھر تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گا۔ بغیر کچھ کہے فورا میرے ساتھ چلو۔ کچھ کہا تم نے تو پھر پلین کینسل ۔۔!!"

زرلشتہ نے بے یقینی اور ناسمجھی کی کیفیت میں درمان کے چہرے پر چھاۓ انگنت رنگ 

دیکھے۔ اسے یاد آیا ابھی تو یہ شخص اداسی کی مورت بنا کھڑا تھا اچانک اسے کیا ہوا۔

ہیپناٹزم سے نکلتے ہی اسے تو اپنا اظہار بھی بھول گیا۔ جو درمان بڑی ہوشیاری سے کرواچکا تھا۔ زرلشتہ بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑی۔ کہیں درمان کا ارادہ نہ بدل جاۓ ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

وہ ابھی اسے لے کر اپنی گاڑی کے پاس آیا ہی تھا جب مین گیٹ سے اسے وائٹ کلر کی کار اندر آتی دکھی۔ جس میں یقیناً فدیان تھا۔ راستے میں دراب آفریدی اسے اس گاڑی میں واپس بھیج کر خود اپنے ضروری کام سے ڈیرے پر چلے گۓ تھے۔ 

فدیان تو سارے راستے اپنی ان خاص صلاحیتوں پر خود کو داد دیتے آیا تھا جن کی بدولت وہ جو چاہتا منوالیتا۔۔!!!

درمان وہیں رک گیا ۔گاڑی کو زرلشتہ نے بھی دیکھا تھا۔ وہ بھی حیران تھی کہ اس وقت کون آگیا۔ اسے لگا شاید دراب آفریدی ہوں گے۔

گاڑی رکی تو برق رفتاری سے گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر فدیان مسکراتے ہوۓ باہر نکلا۔ پیشانی پر پٹی ویسے ہی بندھی تھی۔ چہرے پر اس کی مظلومیت کی گواہی دیتے زخموں کے نشان بھی ویسے ہی تھے۔

 البتہ اس کی ڈرامائی مسکینیت فلوقت غائب تھی۔

گھر واپس آنے کی خوشی ہی انوکھی تھی۔ ارادہ تو اس کا تھا کہ لوگ اس پر پھول پھینکیں پھر اس نے سوچا وہ اپنی شادی پر خود پر پھول پھینکوا لے گا۔

ابھی سرپرائز دینا ہی کافی تھا۔فدیان اور اس کے خواب۔۔!!!! 

اب لگ رہا ہے نہ کہ اس گھر کا دوسرا بیٹا موت کے منہ سے نکل کر آیا ہے  اپنی بھی ویلیو بن گئ ہے اب ۔!! موت کے کنویں میں بائیک چلانا اور بات ہے اور موت کے منہ سے زندہ نکل کر اس انوکھے ایڈونچر پر chill کرنا اور بات ہے۔...!!!"

اسے خود ہر فخر محسوس ہوا۔ باقاعدہ فرضی کالر اٹھا کر اس نے خود کو داد دی ۔کیوں نہ کرتا وہ فخر ۔۔!! اپنے تئیں تو وہ اغواہ کاروں کو نچا کر اپنا شوق ایڈونچرس بننے کا پورا کرکے آیا تھا۔ اسے جب درمان دکھا تو وہ فورا اس کی طرف بھاگا۔اور اسے گلے لگاگیا۔

"لالہ۔۔!! بہت یاد کیا میں نے آپ کو اور آپ کی ڈانٹ کو۔ ساتھ میں آپ کے وی آئ پی غصے کو بھی۔ لالہ میں مان گیا اس پوری دنیا میں فدیان کو لگامیں ڈالنا آپ کے بس کا کام ہے۔ورنہ تو یہ آج کل کے دو ٹکے کے اغواہ کار بھی اور ان کا باس بھی مجھے قابو میں نہیں کر پایا تھا۔۔۔!!! 

فدیان کی عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ فدیان دا گریٹ کو بس درمان آفریدی ہی لائن پر رکھ سکتا ہے۔ اگر درمان نہ روکے تو فدیان تو دنیا میں تہلکہ مچادے۔ تہلکہ۔۔۔!!!"

اس کے گلے لگتے فدیان نے خوشی سے کہاں۔زرلشتہ ان دونوں کی محبت دیکھ کر  شاکڈ تھی۔ کیونکہ اس لڑکے کے آتے ہی درمان بھی اتنی ہی گرم جوشی سے اس سے مل رہا تھا۔

"کتنے لوگوں کو خود کشی پر مجبور کرکے آؤ ہو۔ تم سے کسی سیدھے کام کی امید نہیں ۔ یہاں میں سمجھا تھا میرا بھائ رو رہا ہوگا کہیں۔۔!!! تمہیں آئ سی یو میں دیکھ کر میری جان نکل گئ تھی۔۔!!  اور تم بے حس ،ڈرامے باز  سکون سے ہمدردیاں بٹوررہے تھے۔ اگر ڈاکٹر مجھے تمہاری کنڈیشن نہ بتاتی تو اغواہ کاروں سے پٹنے پر آج میں تمہیں خود ہی مار دیتا۔۔!!! 

اور ہاسپٹل ابھی حیریت سے ہے یا آج تمہارے آنے کے بعد اپنی جان بخشی کی خوشی پر وہ لوگ عام تعطیل کا اعلان کر چکے ہیں۔۔!!!"

اسے خود سے الگ کرکے درمان کا ہاتھ اس کی گردن تک پہنچ گیا۔ جب نے جواب میں شرارتی سی ہنسی چہرے پر سجائ۔ 

 کل فون لانے سے پہلے درمان ہاسپٹل گیا تھا جہاں اسے ڈاکٹرز نے بتایا  کہ اس کے بھائ کے چہرے پر لگے زخم ایک دن پرانے ہیں اور اس کی صحت سے اندازہ ہورہا ہے وہ ریلیکس تھا۔ ذرا کمزوری نہیں ہوئ اسے۔۔!!!

تب درمان کو آگے کی کہانی خود ہی سمجھ میں آگئ ۔ باقاعدہ اس حالت میں بھی فدیان کو مزہ چکھا کر اس کی درگت بناکر درمان اس سے ساری کہانی سن کر واپس آیا تھا۔ اور فدیان نے سب اے ٹو زی بتابھی دیا تھا۔

"بھائ کسی سیانے نے کہا تھا کہ کسی شخص کی اپنی زندگی میں اہمیت جاننی ہو تو اس کو خود سے دور کردو یا خود جنگلوں میں نکل جاؤ  اگر پیسے زیادہ ہیں پاس تو چھٹیوں پر چلے جاؤ کسی سنسان جگہ پر۔ 

میں بھی سنسان جگہ پر ہی جارہا تھا پر اغواہ ہوگیا ۔ خیر سیانے کا آگے کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے یا تو تم خوشی سے سڑکوں پر ناچو گے یا اس کی یاد میں الٹی کلابازیاں کھاؤ گے۔ لالہ میں تو آپ کی یاد میں بندر کا تماشا کرکے آیا ہوں۔مار بعد میں لیجئے گا پہلے بتائیں یہ بچی کون ہے۔کہیں میری بھولی بھالی سی بھابھی پر آپ سوتن تو نہیں لے آۓ۔۔!!!"

اپنی گردن چھڑوا کر سرجھکا کر کھڑی زرلشتہ کو دیکھ کر فدیان نے تفتیشی انداز میں پوچھا ۔ 

درمان نے اپنے کف لنکس ٹھیک کرتے ہوۓ فدیان کو گھورا۔

"بھابھی ہے تمہاری ۔۔!! اور کوئ سوتن نہیں لایا میں۔ تم اور تمہاری فضول زبان ۔۔!!!"

 فدیان کی بات سن کر زرلشتہ نے بھی چہرہ اوپر کیا ۔فدیان تو کھوجتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

اسے یہ چہرہ جانا پہچانا لگا۔ جیسے وہ جانتا ہے اسے۔ پر حلیہ تھوڑا عجیب تھا۔

"یہ چھوٹی سی بچی جانی پہچانی لگ رہی ہے۔ یہ شکل بھی میں نے کہیں دیکھی ہے۔ پر حلیہ تھوڑا ڈفرینٹ تھا۔۔!! سیم ٹو سیم ایسی شکل ہماری جونیئر کی تھی۔زرلش نام تھا اس کا۔۔۔!!"

 بہت سوچ کر جب اسے یاد آیا تو اس نے فورا کہا۔  وہیں زرلشتہ نے اس لڑکے کے منہ سے اپنا نک نیم سنا تو تھوڑا حیران ہوئ۔ 

اس نے بھی غور سے اس کی صورت دیکھی۔ زخموں کے نشانوں کی وجہ سے چہرہ پہچاننا مشکل کام تھا۔

"فاد بھائ آپ یہاں۔۔!!! " زرلشتہ اسے پہچان گئ اس نمونے کو کون نہ پہچانتا ۔

وہیں یہ فاد بھائ کا ٹائٹل سن کر فدیان کی مسکراہٹ گھل ہوئ۔ ایسے اسے اس پوری دنیا میں ایک ہی نمونی بلاتی تھی۔ اسے تنگ کرنے کے لیے۔ اس کا دل ڈوبا۔ اس نے زرلشتہ کے اداس اور زخمی چہرے کو دیکھا ۔اس کی آنکھوں کی ازلی چمک وہیں غائب ہوگئ۔

یہی تو وہ تھی جس نے آج تک فدیان جیسے بندے کو بھی ٹف ٹائم دے کر رکھا تھا۔ ہر بار دوستی کی آفر منہ پر مار کر ۔!!! 

پھر اسے چڑانے کے لیے بار بار اسے بھائ کہ کر بلانا۔ ویسے وہ دونوں یونیورسٹی فیلو تھے۔پوری یونی میں اس معصوم سی پری کے سامنے آج تک فدیان نہیں ٹک پایا تھا۔ یہ اس سے بھی بڑی فلم تھی اور آج یہ اسی کے بھائ کی بیوی بن کر کھڑی تھی یہ صدمہ تھا یا کسی نے اس کا دل ہی نوچ لیا تھا۔ فدیان کو چپ سی لگ گئ۔ کہ کاش یہ کوئ خواب ہو۔۔!!!

"تم دونوں جانتے ہو ایک دوسرے کو۔۔!! "

درمان نے حیران ہوکر پوچھا ۔ تو جواب میں زرلشتہ نے سر ہاں میں ہلادیا۔

"یہ فاد بھائی ہیں۔!! یونی میں میرے سینئر تھے۔ بہت اچھے ہیں یہ۔ مجھے نہیں پتہ تھا یہ آپ کے بھائ ہیں۔۔!!!! درمان ہم تو گھر جارہے تھے نا ۔۔!!! چلیں پلیز ۔ !!!" 

زرلشتہ نے درمان کی طرف دیکھا اور مختصراً اسے فدیان کے بارے میں بتادیا پھر اگلی بات گویا اسے یاد دلائ تھی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں درمان اپنے بھائ کے آنے کی وجہ سے اس کو گھر چھوڑنے کا پلان ہی کینسل نہ کردے۔ درمان نے گہرا سانس خارج کیا کہ یہ لڑکی اب نارمل ہونے میں تھوڑا وقت تو ضرور لے گی۔ بات کرتے وقت بھی لہجہ وہ دھیما ہی رکھتی تھی جس سے خوف کی ننھی سی جھلک واضح ہوتی تھی۔

فدیان تو وہیں تھما ہوا تھا۔ اس کے لیے تو اس کی دنیا وہیں کی وہیں رک گئ۔ وہ سانس تو لے رہا تھا پر براۓ نام ۔۔!!!!

"ٹھیک ہے جونئیر طوفان تم ریسٹ کرو۔ میں تمہاری بھابھی کو اس کے گھر چھوڑ آؤ۔ پھر آکر تم سے ملوں گا۔ اور زیادہ اچھل کود مت کرنا۔ تمہارے یہ ایڈونچر کے شوق کہیں ہماری جان نہ نکال لیں ۔!!! آجاؤ زرلشتہ گاڑی میں بیٹھو۔ !!!"

درمان مدھم سا مسکرایا پھر زرلشتہ کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا جو ایک ہلکی سی نظر فدیان کے سفید پڑتے چہرے پر ڈال کر گاڑی میں بیٹھ گئ۔ 

درمان بھی گاڑی میں بیٹھا اور وہاں سے چلا گیا

پیچھے فدیان تھا جو اپنی دنیا ایک دم لٹنے پر افسوس بھی نہیں کر پایا۔

"تم دیار کی بہن تھی ۔۔ ؟؟؟ مطلب میرے اغواہ ہونے کے بعد دیار لالہ پر لگے الزام کے بدلے میں تمہیں اس ظلم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔۔!!!

اف میرے اللہ۔۔۔۔۔!!!! تمہارا وہ سپر ہیرو بھائ دیار تھا ۔نہیں یہ سب کیسے ہوگیا ؟ کیوں ہوگیا؟"

ایک بار دوبارا سب دہرا کر فدیان نے افسوس سے آنکھیں میچیں۔ دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر اس نے مشکل سے خود کو ہوش میں رکھا۔ 

"تم ایسی تو نہیں تھی۔ یہ خوف تم پر اچھا ہی نہیں لگتا۔ تم تو زندگی جیتی تھی۔ پھر بھائ کے غصے کو کیسے تم نے برداشت کیا ہوگا۔ مورے نے کیا سلوک کیا ہوگا تمہارے ساتھ ۔ !!!! تمہارے گھر والے کیسے تمہیں ونی کرسکتے ہیں ۔ !کیسے ۔۔ !!!"

فدیان کے دل میں طوفان سا مچا۔ زرلشتہ اسے اچھی لگتی تھی۔ وہ تھی بھی تو بالکل اس جیسی۔ یا فدیان کو بس وہی اچھی لگی تھی۔  

دل پر کہاں کسی کا بس چلتا ہے۔ یہ تو کسی کو بھی کبھی بھی پسند کرنے لگتا ہے۔ فدیان کے دل نے بھی تو زرلشتہ کو پسند کیا تھا۔ یہی تو وہ لڑکی تھی جس کے بارے میں وہ اکثر سوچتا رہتا تھا ۔اور آج اسے چانک پتا لگا کہ وہ تو اس کے بھائ کی بیوی ہے ۔اس کی بھابھی۔ !!

کانٹوں کی طرح حلق میں تھوک نگل کر۔ اس نے گہرا سانس خارج کیا۔ اس دوران بھی کئ بار اس کا دل کرچی کرچی ہوا ۔

"وہ بھابھی ہے میری ۔!! قابلِ عزت ہے میرے لیے ۔ مانا میں اسے پسند کرتا تھا پر اب وہ میرے جان سے عزیز بھائ کے نکاح میں ہے۔ میں اب اس کے بارے میں سوچنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ بس بہت ہوگیا میرے دل بھول جاؤ اسے۔ کوئ زرلشتہ نہیں تھی کبھی اس دل میں ۔۔!!! کسی زرلشتہ کو میں نہیں جانتا۔۔!!!"

اپنے دل کو فدیان نے سختی سے سمجھایا۔ فدیان وہ پہلا انسان ہوگا جو اپنی ہی محبت کو اپنے ہی بھائ کی بیوی بنا دیکھ کر خود ہی اسی بھائ کی محبت میں یہاں کھڑا اپنے ہی دل کو بچوں کی طرح سمجھا رہا تھا کہ وہ کسی زرلشتہ کو جانتا ہے نہیں۔

جو جواب میں اسے یونیورسٹی میں ملی معصوم سی زرلشتہ کا عکس دل پر چھپا دکھا رہا تھا کہ دیکھو کیا تم اسے بھول بھی سکتے ہو۔ جواب تھا نہیں ۔۔ !!!!

پر بھولنا تو ضروری تھا۔

"بھول جاؤ نا اسے۔مجھے مزید طوفان نہیں چاہیے اس کی زندگی میں ۔ تم بھول جاؤ اسے۔ رحم کرو مجھ پر ۔ مجھ میں اتنا بڑا جھٹکا سہنے کے بعد اب مزید جنونی بننے کا حوصلہ نہیں ہے۔ سب ختم ہو گیا ہے نا ۔ایک بار اسے بھول جاؤ پھر دیکھنا سکون بھی مل جاۓ گا ہمیں ۔۔ !!!!"

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر فدیان نے پھر سے اسے سمجھایا ۔جو جواب میں بس رونے والا تھا  

محبت بس کہنے سے ختم ہوتی تو لوگ اس کے روگ میں مزاروں پر نہ روتے پھرتے ۔

دیوانے بن کر خود کو نہ بھول جاتے ۔ محبت کے قصے نہ سناۓ جاتے۔ !!!

پر بھول جانا تب آسان ہوسکتا ہے اگر اللہ اس شخص کو اس کے صبر کا کوئ انعام دے دے۔ انعام بھی ایسا کہ وہ شخص محبت کیا خود کو بھی اسی انعام کے پیچھے بھول جاۓ۔ 

ضبط کرکے فدیان گھر میں داخل ہوا۔ اس وقت کوئ بھی اسے سامنے نہ دکھا۔ نہ کسی کا سامنا کرنے کی اس میں ہمت تھی۔ 

ابھی بھی محبت کا گلا گھونٹا تھا اس نے رونے کو اور اس پر گریہ کرنے کو کچھ وقت تو چاہیے تھا اسے۔

اپنی آنکھوں کو رونے سے باز رکھ کر وہ برق رفتاری سے سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے کی طرف بھاگ گیا۔ تاکہ آرام سے ایک ہی دفعہ میں سوگ منا کر محبت کو اس کونے میں دفناۓ کہ دوبارا رونے کے لیے بھی اسے وہ کونہ ہی نہ مل پاۓ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان اسے سیدھا اس کے گھر لے آیا۔ زرلشتہ سارے راستے کھوی ہوئ تھی۔ یہ راستہ جو اسے اس کے گھر لے جارہا تھا اسے اس وقت انجانا سا لگا۔ ایک ویرانی کا جہاں آباد تھا اس کی آنکھوں میں ۔

سارے رستے اس نے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ 

درمان نے گاڑی اس کی حویلی کے سامنے روکی تو تکلیف سے اس نے اپنے خوابوں کے گھر کو دیکھا جہاں سے اسے فالتو شے کی طرح نکالا گیا تھا۔ 

درمان نے بغیر کچھ کہے اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا تو وہ بھی خاموشی سے باہر نکل آئ۔ سوچوں اور تکلیف کی وجہ سے لمحے کے لیے اس کا سر چکرایا۔ اسی لمحے درمان نے اسے سہارا دیا ۔

"ٹھیک ہو تم۔۔!! طبیعت زیادہ خراب ہے تو ہاسپٹل چلیں ۔۔!!"

اسے خود سے لگاتے اس کا چہرہ درمان نے سامنے کیا جس نے نفی میں سر ہلادیا۔

"بس ویسے ہی سر میں درد ہورہا تھا۔ ٹھیک ہوں میں ۔آپ فکر نہ کریں۔۔!!!"

زرلشتہ اس کے حصار سے نکلی اور زبردستی مسکراتے ہوئے اپنی تکلیف چھپانی چاہی۔

درمان نے سمجھ کر سر ہاں میں سہلادیا۔

اور اس کا سامان گاڑی سے نکال کر وہاں کھڑے گیٹ کیپر کے حوالے کیا۔ جو اس گھر کی شہزادی کو اتنے ٹائم بعد سامنے دیکھ کر خود بھی شاکڈ تھا۔ جیسی زرلشتہ کی حالت تھی دیکھنے والا خود بھی سوچتا کہ خوش ہو یا افسوس کرے۔

"اپنا خیال رکھنا ۔ میڈیسنز ٹائم پر لینا۔ زیادہ رونے کی یا پھر اچھل کود کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ٹھیک ہے نہ۔ !! اب جاؤ۔ !!"

درمان کا لہجہ محبت بھرا تھا۔ جو اظہار اس نے کروایا تھا اس کے بعد تو یہ محبت اب لہجے میں ہونی ہی چاہیے تھی۔

"آپ نہیں آئیں گے میرے ساتھ۔۔!! گھر کے باہر سے بغیر اندر آۓ چلے جانا صحیح نہیں ہے۔ آپ ساتھ ہی آجائیں ۔۔!! "

اسے پیچھے کی طرف جاتا دیکھ کر زرلشتہ بے ارادہ بول اٹھی جس نے اس قدر عنایت پر ابرو آچکا کر اس کی طرف دیکھا۔ جیسے اسے اس آفر کی امید نہیں تھی۔ درمان کو پتہ تھا اس گھر میں اس کا استقبال گھوریوں سے ہوگا۔

کوئ اسے یہاں برداشت نہیں کرے گا ۔

درمان اور اس کی قسمت اس حویلی کا اکلوتا داماد ہونے کے باوجود وہ اندر جانے کی ہمت بھی نہیں کر پایا ۔ ابھی لڑنے کا اس کا موڈ نہیں تھا۔

"میں نہیں آسکتا ۔ مجھے میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے ایک۔ پھر کسی دن آؤں گا۔ تم جاؤ اب۔ ورنہ میرا اردہ بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہیں سے واپس لے جاؤں گا۔ ویسے بھی میں سوچ رہا ہوں کہ اس مصیبت کے بغیر ایک ہفتہ رہنا زرا مشکل ہے تو کیوں نہ اپنی مصیبت ہی واپس لے جاؤں۔۔!!! کیا ارادہ ہے پھر اندر جاؤ یا پھر واپس آؤ۔۔!!؛"

درمان کی دھمکی اور اس کے لہجے میں چھپی شرارت سمجھتے زرلشتہ فورا اندر چلی گئ۔ یا یوں کہیں اگلا سانس بھی اس نے اندر جاکر ہی لیا تھا۔ 

درمان اس کی تیزیوں پر ہنس پڑا۔ پاگل تھی یہ لڑکی بالکل پاگل۔۔۔!!!!

"عجیب دور آگیا ہے اس گھر کا اکلوتا داماد بغیر اپنے سسرالیوں سے ملے واپس جارہا ہے۔ جس کا سالا دیار جیسا ہوگا اسے تو میری طرح ڈر کر ہی رہنا پڑے گا۔دیکھ لینا دیار میرے حصے کے بھی سارے بدلے تجھ سے وشہ لے گی اور اچھے سے لے گی۔

تلافی چاہیے تھی نہ تجھے اب دیکھنا تو معافیاں مانگتا پھرے گا۔ "

گاڑی میں واپس بیٹھتے ہوئے دیار کی متوقع حالت سوچ کر درمان۔ دلکشی سے مسکرایا ۔ 

اسے وشہ اور دیار کی شادی پر کوئ اعتراض نہیں تھا ۔اس جیسا لڑکا تو اسے اپنی بہن کے لیے کہیں اور مل ہی نہیں سکتا تھا۔ ویل ایجوکیٹڈ، گڈ لکنگ، ویل سیٹلڈ، ویل مینرڈ ہر چیز میں پرفیکٹ ۔۔!!!تو درمان کیوں بیچ کی دیوار بنتا۔ 

لیکن درمان کو ایک بات کی فکر تھی اور کمینی سی خوشی بھی کہ وکیل صاحبہ اس ونی کی رسم میں ہوئے نکاح پر کیا ہنگامہ مچاۓ گی دیار کی زندگی میں۔  اور خوشی اس بات کی تھی کہ دیار چپ چاپ ظلم بھی سہے گا اور اس کے جواب میں بھی وشہ کا خیال ہی رکھے گا ۔ پھر وشہ جو حال اس کا کرے گی درمان کے دل کو تو ٹھنڈ ہی پڑنی تھی۔

گھر میں داخل ہوتے ہی بچپن کی ان گنت یادیں ، خوبصورت لمحے اس کی شرارتیں ،گھر والوں کا اس کے لاڈ اٹھانا اسے سب یاد آنے لگا۔ 

لان پر ایک نگاہ ڈالتے ہی اس کے حلق میں کانٹے چبھے۔ اسے وہی معصوم سی زرلشتہ بھاگتی دوڑتی دکھی۔ جس کا کام ہی اس گھر کے لوگوں کو تنگ کرنا تھا۔

 سانس وہیں روک کر اس نے بامشکل خود کو رونے سے باز رکھا۔ اس زرلشتہ کو تو کبھی کانٹا بھی نہیں چبھا تھا۔ اور یہ زرلشتہ تو کئ بار موت کو قریب سے دیکھ کر آئ تھی۔یہاں کے ذرے ذرے سے اس کی یادیں جڑی تھیں ۔ اسے اپنی آواز اپنی ہنسی کی کھلکھلاہٹ کسی حسرت کی طرح اپنے کانوں میں پڑتی سنائ دی۔ اس نے لب بھینچے۔ 

گال پر لگے زخم میں درد کی لہر اٹھی۔ آنسو کا ایک قطرہ بے مول ہوکر اسی زخم میں اپنی نمکینیت سے جلن پیدا کرگیا تھا ۔

جب آنسو بھی تکلیف دینے لگیں تو انسان بے بسی کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔

خاموشی سے وہ آگے داخلی دروازے کی طرف بڑھی۔ جب اچانک اسے سامنے دروازے سے دیار نکلتا ہوا دکھا۔ 

"لالہ جان۔۔!!!" اس کی آنکھیں درد سے دھندلا گئیں۔ اپنے جان سے پیاری بھائ کو دو مہینے بعد دیکھنا یہ کیفیت ناقابل بیان تھی۔

وہیں دیار بھی اتفاق سے یہاں آیا تھا ۔اپنے بابا سے کہنے کے وہ کبھی درمان کی بہن سے نکاح نہیں کرے گا۔ یہ اس کی غیرت کو گوارہ نہیں ۔ اپنے باپ کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ نہ مانا اور ابھی بھی بس وہ وہاں سے جانے ہی والا تھا۔ جب اسے زرلشتہ دکھ گئ۔

"ذرلش ۔۔۔!!!" دیار مسکرایا ۔ ابھی اس نے بس زرلشتہ کو اچانک دیکھا تھا۔ اس کے زخم اسے نہیں دکھے تھے یا نظر نہیں پڑی تھی ۔

دیار کی آنکھیں نم ہوئیں۔کہ کہیں یہ کوئ خیال تو نہیں ۔ یہ شہزادی اچانک کہان سے آگئ اس کے سامنے۔

وہ خود ہی آگے بڑھا اور اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لیا۔ وہ تو امید ہی تور چکا تھا کہ اب اس سے مل پاۓ گا۔ پر قسمت کے کھیل ہی نرالے ہیں۔ جہاں امید ٹوٹ جاۓ وہاں سے بھی راستہ نکل آتا ہے۔ انسان تو ششدر رہ جاتا ہے بس۔۔۔!!!

"ل۔لالہ جان میں نے ۔بہت یاد کیا آپ کو۔۔!! آپ کو ب۔بہت بار بلایا پر آپ نے تو مجھے پلٹ کر دیکھا بھی نہیں ۔ ب۔بھول گۓ نہ آپ مجھے۔۔!! بہن کو بھول گۓ آپ...!!! آپ برے ہیں بہت برے۔۔!!! میں نے کوئ نہیں بولنا آپ سے۔۔!!! آپ برے ہیں ۔!!!!"

دیار کی موجودگی کی وجہ سے وہ شدت سے رونے لگی۔ ہچکیوں کے درمیان مشکل سے اس نے چند شکوے کیے۔ وہیں اس کے شکوے دروازے کے پاس کھڑے بہراور درانی اور رخمینہ بیگم نے بھی سنے تھے۔ جو خود بھی اچانک اسے یہاں دیکھ کر شاکڈ تھے۔

دیار نے اس کے سر پر بوسہ دیا۔ وہ کیا بتاتا اسے کہ اپنی اس بہن سے اسے کس قدر عشق تھا۔ جو وہ اس کی خاطر گھر ہی چھوڑ گیا تھا۔ اس نے سب سے منہ پھیر لیا ۔ کیونکہ اس کی بہن اذیت میں تھی۔

"میرے بچے لالہ سے بدگمان نہیں ہو آپ۔ آپ کے لالہ کی تو شہزادی ہو آپ۔ میری معصوم سی پری۔۔۔!!! آپ کے لالہ پر تو وہ سانس بھی حرام تھی جس میں میں نے آپ کو واپس لانے کی خواہش نہ کی ہو ۔۔۔!!!! 

میرے بے چین دل کو تو اس سیاہ دن کے بعد قرار ہی آج آیا ہے ۔۔!!! "

دیار نے صفائ دینی چاہیے پر زرلشتہ کو کچھ نہیں سننا تھا۔ جو وقت اس نے وہاں گزارا تھا۔ وہ کسی قید خانے میں رہنے کے برابر ہی تھا۔

"ج۔جھوٹ بول رہے ہیں آپ۔ آپ سب تو خوش تھے نا کہ اس مصیبت سے جان چھوٹ گئ۔۔!! اب یہ کبھی آپ کو تنگ کرنے واپس نہیں آۓ گی۔ پر میں آپ سب کو ایسے نہیں چھوڑوں گی۔ آپ سب نے میرا د۔دل توڑا ہے۔ مجھے تکلیف دی ہے میں کسی کو نہیں بخشوں گی۔ کسی کو بھی نہیں ۔۔۔!!!!"

وہ چیخ اٹھی۔ اس کی آواز سن کر سارے ملازم بھی وہاں جمع ہوچکے تھے۔ ہر کوئ اسے اچانک یہاں دیکھ کر صدمے میں تھا۔ اس کے شکوے دیار کے دل پر ضرب لگا رہے تھے ۔ اس کے رونے میں شدت آتی گئ۔

جیسے کوئ بچہ جو گھر والوں سے بچھڑ گیا ہو۔ اس نے واپسی کی امید ہی چھوڑ دی ہو اور ایک دن اسے اچانک اس کے ماں باپ اور گھر والے مل جائیں تو جیسے وہ خود پر گزری روداد سنانے کو , سب سے شکوے کرکے اپنا درد بانٹنے کو بے چین ہوتا ہے وہ بھی اتنی ہی بےچین تھی۔

"زرلش میری جان۔۔!!! لالہ کی ساری زندگی قربان تمہاری ایک مسکراہٹ پر ۔!!! تم جانتی ہو میں بھلے تمہارا بھائ ہوں پر تم میرے لیے میرے بچوں جیسی ہو۔۔!!! میری شہزادی ہو تم ۔۔!! شکوے کرلو پر مجھ سے بدگمان نہ ہو ۔!!!"

دیار نے بے چین ہوکر کہا۔ پر زرلشتہ کسی ضدی بچے کی طرح اس کے ہاتھ جھٹک کر اس کے حصار سے نکل کر دور ہوگئ۔ آنکھیں رونے کی شدت سے سرخ ہوچکی تھیں ۔

اس نے پیچھے کھڑے اپنے ماں باپ پر رکھ بیتی نظر ڈالی۔

"تکلیف ہورہی ہوگی نا آپ کو کہ یہ کیوں واپس آگئ ۔ ہم نے تو اس سے جان چھڑ والی تھی۔ پھر سے یہ مصیبت کیوں ہمارے سر پر مسلط ہوگئ۔ تو سن لیں میں صرف اپنے بھائ سے ملنے آئ ہو۔ صرف اپنے بھائ سے ۔۔ !!!

مجھے آپ دونوں سے ملنے کا شوق نہیں ہے۔ جیسے آپ نے مجھے فضول سمجھ کر قربان کیا تھا۔ اب میں بھی کبھی نہیں بولوں گی آپ سے ۔!!! سب ب۔ برے ہیں ۔۔!! بہت برے۔۔ !!! "

وہ انہیں دیکھ کر چیخی۔ لہجہ ٹوٹ سا گیا۔ آواز حلق میں دب سی گئ۔ دیار اس کے بدلے انداز پر بوکھلا گیا۔ کہ زرلشتہ اتنا ہائیپر تو نہیں ہوتی تو آج کیا ہوگیا اسے۔۔!!!وہ بھول رہا تھا کہ وہ جس غصے کی دکان کے ساتھ رہتی رہی ہے اس کا بھی تو اثر ہونا ہی تھا اس پر !!!!

وہیں بہراور درانی نے بیٹی کے چہرے سے نظریں پھیریں۔ رخمینہ بیگم کی آنکھوں سے آنسو بہے۔ خون کی کشش تھی جو زرلشتہ کو اپنوں کے پاس آنے کے بعد وہی احساس واپس سے دلارہی تھی جو یہاں سے جاتے وقت تھا۔

زرلشتہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا ۔ ہواسوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور اگلے ہی لمحے وہ بے سدھ ہوگئ ۔ 

دیار آگے کی سمت بڑھا اور اسے تھام لیا۔ جو اب مزید ان سے لڑ نہیں سکتی تھی۔ تب اس کی نظر اس کے زخمی رخسار پر پڑی ، پیشانی پر بندھی پٹی جسے اس نے اب ہی غور سے دیکھا تھا۔ 

"زرلش۔۔!!!! ہوش میں آؤ بچے۔ !!! کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔۔ !!!"

اس نے اس کے رخسار تھپتھپاۓ جس کے وجود میں ہلکی سی بھی جنبش نہیں ہوئ تھی۔ 

"دیکھ لیں اس کا حال ۔۔!! مل گیا ہے نا اب آپ کی کھوکھلی انا کو سکون ۔۔!!! میری بہن کو اگر کچھ بھی ہوا تو یاد رکھیے گا درمان کا پورا گھر صفحہ ہستی سے مٹا دوں گا میں ۔اور میری صورت دیکھنے کو بھی ترسیں گے آپ۔۔۔ !!!"

دیار نے پیچھے کی سمت اپنے ماں باپ کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں جنون سا اترا تھا۔ جس بہن کو اس نے کوئ دکھ نہیں ملنے دیا تھا۔ وہ اس وقت قابلِ رحم حالت میں تھی۔ وہ تباہ کربھی دیتا سب کچھ ۔۔!!!!

"صفدر۔۔!!! پاس والے کلینک سے اسی وقت ڈاکٹر کو بلا کر لاؤ۔۔!!! جلدی پانچ منٹ میں ڈاکٹر یہاں ہونی چاہیے ۔۔۔!!! ورنہ اچھا نہیں ہوتا تمہارے ساتھ۔۔۔!!!"

اب کی بار ملازم کو دیکھ کر وہ چیخا۔ وہ جلدی سے بیگ وہیں چھوڑ کر ڈاکٹر کو بلانے چلاگیا۔ جو یہاں پاس میں ہی کلینک میں ہوتی تھی ۔

اس نے زرلشتہ کو اٹھایا اور گھر کے اندر لے گیا۔

بہراور درانی اور رخمینہ بیگم بھی اسی کے پیچھے اندر کی سمت بھاگے۔ 

زرلشتہ کو صوفے پر لٹا کر اس نے ملازمہ کو پانی لانے کو کہا۔اور خود بےچینی سے اس کی ہتھیلیاں رگڑنے لگا۔

کچھ ہی دیر میں ملازمہ پانی لے آئ۔ اس کے چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کرنے کا بھی کوئ فایدہ نہ ہوا۔ گھر میں سکتہ چھاچکا تھا۔ سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ بولنے کی بھی ہمت نہیں تھی کسی میں۔

پانچ منٹ میں ڈاکٹر بھی وہاں آگئ۔ جس نے آتے ہی پہلے اس کا شوگر لیول اور بلڈ پریشر چیک کیا۔ پھر کچھ انجیکشنز اسے لگاۓ۔ وہ کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہوئ تھی۔ کچھ ابھی زخموں کا درد بھی تھا جو اسے تکلیف دے رہا تھا۔ 

شوگر لیول لو ہے ان کا۔ دھیان رکھیں آپ۔کچھ کھلائیں پلائیں انہیں ۔ اور میڈیسنز بھی ٹائم پر دیں۔ شی از آ سیریس کیس۔۔!!! انہیں ضرورت سے زیادہ کیئر کی ضرورت ہے۔ورنہ ان کی جان کو بھی چہرہ ہوسکتا ہے۔ انہیں ابھی ہوش آجاۓ گا۔

بس آپ ان کا خیال رکھیں ۔ کوشش کریں کہ یہ خوش رہیں ۔۔ !!!!"

کچھ میڈیسنز چٹ پر لکھ کر اس نے دیار کے حوالے کیں پھر ان کے سروں پر نیا بم پھوڑ کر وہ پروفیشنل سی مسکراہٹ کے سنگ وہاں سے چلی گئ ۔

پیچھے سب شاکڈ تھے کہ زرلشتہ کو سالوں سے ڈائبیٹیز دوبارہ نہیں ہوئ تھی۔ اس کا مسئلہ تو حل ہوگیا تھا۔ تو وہ سیریس سٹیج تک کیسے پہنچ گئ۔۔!!! 

دیار کے ذہن میں پہلا خیال ہی درمان کا آیا۔ یہاں وہ اس کی بہن کو جرگے میں لانا گوارہ نہیں کررہا تھا اور اس نے اس کی بہن کو موت کے منہ میں پہنچا دیا۔ دیار نے آنکھیں میچیں۔ درمان اتنا گرجاۓ گا اس نے سوچا بھی نہیں تھا ۔

 اس کے ماں باپ کی نظریں بھی زرلشتہ کے مرجھانے ہوئے چہرے پر اٹھی۔ سادہ سے کپڑوں میں ملبوس وہ اداس سی زرلشتہ ان کی تو نہیں تھی۔ 

دیار چپ کھڑا رہا۔ انجیکشنز کے اثر کی وجہ سے کچھ ہی دیر میں زرلشتہ بھی اٹھ گئ۔

"م۔مان۔۔۔!!!" 

اس کے لبوں نے ہلکی سی جنبش کی۔ عجیب بات تھی کہ اپنے گھر میں ہونے کے باوجود وہ بلا درمان کو رہی تھی۔ کسی نے اس کا یہ لفظ سمجھا نہیں تھا ۔ سمجھ لیتے تو مزید حیرتوں کے سمندر میں گرجاتے ۔ ان کی بیٹی بھی کسی کے عشق میں پاگل ہورہی تھی۔ یا پھر ہوہی چکی تھی ۔ 

دیار نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اور خود اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ پھر پانی کا گلاس اٹھا کر اسے پلانے لگا۔

"م۔مان کہاں ہیں ۔۔؟؟ مان ۔۔!!!"

مشکل سے آنکھیں کھول کر اس نے سامنے دیکھا  ۔ جہاں اس کے ماں باپ کے سوا کوئ اسے نہ دکھا۔ 

رخمینہ بیگم نے سوالیہ نظر دیار پر ڈالی کہ یہ کسے بلارہی ہے۔ جس نے خود ناسمجھی سے سر کو نفی میں جنبش دی کہ وہ نہیں جانتا۔

"زرلش کسے بلارہی ہو تم۔۔؟؟؟ کیا ہوا ہے میرے شہزادے کو۔ کسے دیکھ رہی ہو ۔!!"

دیار نے پانی کا گلاس واپس رکھا پھر سوال پوچھا۔ جواب میں ذرلشتہ نے دیار کو دیکھا۔ تو اسے یاد آیا وہ تو اپنے گھر پر ہے۔ جہاں اچانک اسے کمزوری سے چکر آگۓ تھے۔ اور وہ بے ہوش ہوگئ ۔ پھر یاد آیا کہ درمان تو اسے یہاں چھوڑ کر چلاگیا ہے۔ 

اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔ دیار کو تکتے اس نے نفی میں سر ہلایا۔ اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر خاموش آنسو بہانے لگی۔

"یا اللہ کہیں میری دعا ریورس تو نہیں ہوگئ۔ کہیں میں بھی ان کے عشق میں پاگل تو نہیں ہوگئ۔ مجھے کیا ہورہا ہے۔ مانا وہ میرے شوہر ہیں ۔ میں انہیں یاد کرسکتی ہوں۔ اور وہ مجھے اچھے بھی لگ سکتے ہیں۔ پر یہ عشق وغیرہ میرے بس کی بات نہیں..!!!

اگر ایسا ہوگیا تو درمان کے بغیر میرا گزارہ بھی مشکل ہوجاۓ گا۔ یااللہ پلیز یہ دعا صرف درمان کے بارے میں ہی قبول کرنا۔ کہیں مجھے ان کے عشق میں نہ ڈال دینا۔۔۔!!!

ویسے ان میں ہے ہی کیا جس سے عشق کیا جاۓ۔ ہر وقت تو غصہ کرتے رہتے ہیں ۔ پر اب تو وہ بھی اچھے ہوگۓ ہیں۔ کہیں میں بھی پاگل تو نہیں ہوگئ ۔اگر عشق ہوبھی جاۓ تو اتنا مسئلہ نہیں ہوگا۔ بیوی کو اگر شوہر سے محبت ہو تو اسے تب بھی ثواب ملتا ہے۔ مطلب میں تو پھر اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوجاوں گی ۔!!!"

زرلشتہ اور اس کی سوچ ۔ جو کوئ جان لے تو ہنس ہنس کر پاگل ہوجاۓ کہ اس لڑکی کو فکر ہے کہ اگر اسے درمان اچھا لگ گیا تو اس کا گزارہ مشکل ہوجاۓ گا۔ لیکن ثواب بھی ملے گا۔یہ ہے ہی پاگل۔۔۔!!!

"زرلش اکیلی آی ہو تم۔۔!!! یا کوئ چھوڑ کر گیا ہے۔ اب واپس تو نہیں جاؤں گی نا تم ۔۔!!! میری جان میں نے بہت یاد کیا ہے تمہیں ۔مما کو تم نے بھی یاد کیا ہے نا۔۔۔!!!"

رخمینہ بیگم اس کے ساتھ بیٹھیں جس نے آنکھیں خفگی سے موڑ لیں۔ 

"میں درمان کے ساتھ آئ ہوں۔ اکیلی کیوں آؤں گی ۔۔!!! کچھ دنوں بعد واپس لے جائیں گے وہ مجھے۔ اور میں بس اپنے لالہ کی وجہ سے اس گھر میں موجود ہوں ۔ورنہ جہاں سے مجھے عزاب سمجھ کر نکالا گیا تھا۔ میں وہاں کا رخ بھی نہ کرتی دوبارہ۔ !!!"

دیار کا بازو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر زرلشتہ نے خفگی سی کہا۔ اس کا انداز دیکھ کر دیار کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئ۔ بچپن سے لے کر اب تک جب بھی اس کا ناراضگی بٹن آن ہوا تھا ۔

وہ ایسے ہی دیار کے نام کے طعنے سب کو دیتی تھی کہ وہ بس دیار کی وجہ سے یہاں ہے۔ ورنہ تو کب کی چلی جاۓ یہ گھر چھوڑ کر ۔

اب بھی یہی انداز اپنایا اس نے ناراضگی جتانے کا۔

بہراور درانی خاموش کھڑے رہے۔ بولنے کی ہمت نہیں تھی ان میں۔ رخمینہ بیگم نے حسرت سے زرلشتہ کو دیکھا کی کاش وہ اسے ایک بار سینے سے لگالے تو ان کی ممتا کی پیاس بجھ جاۓ۔

"کس نے مارا ہے تمہیں زرلشتہ ۔!! یہ زخم کیسے آۓ۔۔!! اور تمہارے حلیے کو کیا ہوا ہے۔ تمہیں تو ایسے کپڑے پسند ہی نہیں تھے۔۔۔!!

درمان نے مارا ہے تمہیں ۔۔!!"

گہرا سانس بھر کر دیار نے اس سے سوال پوچھا جس نے بلا ارادہ اس کا بازو چھوڑا اور جلدی سے نفی میں سر ہلایا ۔

"وہ کیوں ماریں گے مجھے۔ م۔مجھے کچھ نہیں ہوا۔ یہ تو میں واش روم میں گرگئ تھی۔ تو چوٹ لگ گئ ۔اور وہ سٹائل بھی پرانا ہوگیا تھا تو میں نے بدل لیا۔ میں تو ایسے بھی اچھی لگتی ہوں نا ۔!! لالہ جان پریشان نہ ہوں۔ آپ کی بہن کو ہاتھ لگانے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔۔!! ویسے بھی میں تو چھوٹا بھائ ہوں نا آپ کا۔ !! بالکل آپ جیسا۔۔!!!"

زرلشتہ کا لہجہ ٹوٹا جسے اس نے سنبھال لیا۔ پھر آخر میں شرارت سے مسکراہٹ دبائ۔ جھوٹ بولنا زرلشتہ کا کام نہیں تھا۔ دیار سمجھ گیا درمان نے بھی اس کے ساتھ کوئ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اس نے خواہش کی کہ کہیں سے درمان اسے دکھ جائے تو وہ اسے آج مار ہی دے۔

"تم نے اچھا نہیں کیا درمان ۔!!اب تو تمہیں میں ہی ماروں گا۔ میرے ساتھ تم جو بھی کردیتے مجھے برا نہ لگتا پر آج میری بہن کا یہ جو حال ہے اس کا حساب تو تم دو گے۔۔ !!!"

سرمئی آنکھوں میں غصہ چمکا۔ مٹھیاں بھینچ کر اس نے بھی سر ہاں میں ہلا دیا تاکہ اس کی بہن مطمئن ہوجاۓ کہ وہ اس کے جھوٹ تک نہیں پہنچ پایا ۔

"زرلشتہ مجھ سے مل تو لو۔۔!!! ماں ہوں میں تمہاری ۔ ایک بار تو مل لو نا۔۔۔!! "

رخمینہ بیگم کی آنکھوں سے متواتر آنسو نکلتے گۓ۔انہوں نے آنکھوں میں امید لیے اسے دیکھا ۔ زرلشتہ کا دل تو نہیں تھا اتنی جلدی پگھلنے کا پر ماں کی تڑپ کے آگے ہارنا اسے اچھا لگا۔ ماں کو روتا دیکھنا اس کے دل نے گوارہ نہیں کیا۔ تبھی فورا آگے بڑھ کر وہ ان سے لپٹ گئ۔ جن کے جلتے دل پر پھوار پڑی تھی۔ 

اسے خود میں بھینچ کر انہوں نے اس کے سر پر طویل بوسہ دیا ۔ ساری رونق ان کے گھر میں اسی بیٹی سے تھی۔

وہیں بہراور درانی اب بھی دور کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ کسی کی اہمیت کا احساس تب ہوتا ہے جب وہ نظروں سے اوجھل ہوجاۓ۔

وہ بھی جان گۓ کہ زرلشتہ ان کے لیے کیا تھی۔

زرلشتہ ممتا کے آنچل میں اپنا درد کم کررہی تھی اور دیار تو اب درمان کا دماغ ٹھکانے لگانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ 

دوستی کا مان جو توڑا تھا درمان نے اب دیار اس کا منہ توڑنا چاہتا تھا۔۔!!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

بند کمرے میں اپنے بیڈ پر لیٹے مدھم سی روشنی کے ساتھ اپنا غم بانٹتے فدیان کی نظریں چھت پر ٹکی تھیں۔ محبت دفنانے کے بعد گریہ ضروری تھا۔ ایک ہی بار میں رو کر دل ہلکا کرنا اسے مناسب لگا۔ بار بار اذیت سے گزرنے سے یہ بہتر تھا۔

اگر کسی کو اس کی خاموش محبت کا پتہ لگ جاتا تو سوال زرلشتہ پر ہی اٹھتا۔ وہ معصوم سی لڑکی تو جانتی بھی نہیں تھی کہ کوئ اس کی معصومیت کا دیوانہ ہے۔ 

زرلشتہ اس محبت نامہ شے سے حال ہی میں متعارف ہوئ تھی۔ جب اس نے اپنے شوہر کو دل میں بسایا تھا۔ اس سے پہلے اس کی زندگی اپنے گھر والوں پر شروع اور ان پر ہی ختم ہوجاتی تھی ۔

نا اکڑ ، نا غرور ، نا آگے بڑھنے کے چکر میں دوسروں کو روندھنے کی آرزو ایسی لڑکی آسانی سی کسی کی بھی آئیڈیل ہوسکتی ہے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"آپ دوستی کریں گی مجھ سے۔۔!! میرا نام فدیان آفریدی ہے۔ اس پوری یونی میں میرا نہ کوئ دوست تھا نہ کوئ دوست بننا چاہتا ہے۔ اگر آپ مجھ سے دوستی کرلیں گی تو بڑا احسان ہوگا آپ کا مجھ پر ۔ لٹل باربی ۔!!!"

کیفیٹیریا میں بیٹھی زرلشتہ کے سامنے والی کرسی پر فدیان بے تکلفی سے بیٹھا۔ زرلشتہ جو موبائل میں مگن تھی اس نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔ 

"آۓ ایم ناٹ آ باربی ۔!!! تو مجھے ایسے فضول ناموں سے بلانے کی ضرورت نہیں ۔ میرے بھائ اور بابا کے سوا کسی کو یہ حق میں نے نہیں دیا کہ مجھے القابات سے بلا سکے تو پہلے اپنے الفاظ درست کریں ۔ 

ورنہ میں آپ کے سر پر گرم گرم کافی کا پورا مگ ڈال دوں گی۔ کافی میں نہانا وہ بھی اتنے ٹھنڈے موسم میں یقیناً آپ پسند نہیں کریں گے۔۔۔!! دو نمبر چائنہ کے آفریدی۔۔!!!"

زرلشتہ تپ گئ تبھی موبائل ٹیبل پر رکھ کر گرم کافی کا کپ اس کے سامنے کیا۔ جس نے اس قدر سختی پر تھوک نگلا۔

"اوکے فائن مس زرلشتہ ۔۔ !!! آپ دوستی تو کرہی سکتی ہیں مجھ سے ۔ !! پلیز۔۔۔!!"

جلدی سی اپنے لفظوں پر معافی مانگ کر فدیان نے پھر سے ریکوئسٹ کی۔

جواب میں زرلشتہ نے گھوم کر اس پاس کے خالی بینچز دیکھے پھر آخر میں فدیان کے گروپ کو دیکھ کر زہریلی سی مسکراہٹ اس نے چہرے پر سجائ۔۔۔۔!!!

"میں نہیں چاہتی کہ پوری زندگی آپ اپنے ان گلے سڑے ابلے آلوؤں جیسی شکل کے دوستوں کو دیکھنے کے لیے ترستے رہیں۔

مجھ سے دوستی کرنے کا انجام جتنا برا ہوگا یقینا آپ جان کر اپنی آفر سے پیچھے ضرور ہٹیں گے۔۔!!"

سر جھٹک کر بیزاریت دکھاتے زرلشتہ نے فون اٹھایا۔ جب فدیان بے تکلفی سے اس کا کپ اٹھا کر پینے لگا جس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار وہ کررہی تھی۔ زرلشتہ کے چہرے کے تاثرات بگڑے ۔ 

"کافی کے لیے شکریہ ۔۔!!! اچھا باربی۔۔!! اوپس سوری مس زرلشتہ ذرا دوستی کے خطرناک نتائج بھی بتائیں آپ مجھے۔۔۔!!!"

فدیان نے دانتوں کی نمائش کی جس کے جواب میں زرلشتہ کا دل اس کا سر پھاڑنے کو کیا۔ اوپر سے رونا بھی آیا۔ کیونکہ وہ ابھی فرسٹ ایئر کی سٹوڈنٹ تھی اور سینیٹرز اسے تنگ کررہے ہیں اسے یہ بھی اچھے سے پتہ تھا۔

"سینگ نکل آئیں گے آپ کے سر پر۔ گدھے لگیں گے بالکل سینگوں والے ۔۔ !!  آپ کے سینگ دیکھ کر یہ آپ کا آوارہ دوستوں کا ٹولا جس نے آپ کو مجھے ٹریپ کرنے کے لیے بھیجا ہے یہ بھی آپ کی اس شکل کو دیکھنا گوارہ نہیں کرے گا۔

 گھر والے گھر سے نکال دیں گے۔ پھر آپ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے سڑکوں پر بھیک مانگیں گے بھیک۔۔!! کہ اللہ کے واسطے مجھ چائنہ کے دو نمبر آفریدی کو ایک وقت کا کھانا دے دو۔ وہ لوگ بھی آپ کو کچھ کھانے کو نہیں دیں گے۔ بچے آپ کو جوکر سمجھیں گے۔ لوگ دھکے دینے گے آپ کو دھکے ۔۔۔ !!!!"

زرلشتہ نے دبی دبی آواز میں کہا۔ فدیان کے حلق میں کافی پھس گئ۔ ایک دوستی کے اتنی سنگین نتائج۔

"ممکن ہے آپ جنگل میں جاکر رہنے لگیں۔ وہاں بندر گیدڑ اور بھالو سے دوستی کرنی پڑے آپ کو۔ آپ کے پاس سے بو آیا کرے گی۔ سر میں جوئیں پڑ جائیں گی۔ ٹارزن کی طرح آپ درختوں پر لٹکیں گے۔ آپ کی شادی بھی نہیں ہو گی۔پھر کرتے رہنا جنگلوں میں گشت ۔ !!

اور کسی گندے نالے پر بیٹھ کر اپنی بو کو سونگھتے اس دن کو رونا جب آپ نے یہ دوسری کی آفر مجھے دی تھی۔ !!!

میں نہیں چاہتی کہ آپ کو جان لیوا بیماریاں لگ جائیں جنگلی جانوروں سے۔ تو یہ دوستی کی آفر اپنے پاس ہی رکھیں۔ !!"

اپنا بیگ اٹھا کر وہ بھی کھڑی ہوگئ۔ فدیان پہلی بار لاجواب ہوا تھا۔ خود کو کسی گندے نالے پر بیٹھا سوچ کر ہی اسے خود سے کراہت محسوس ہوئ۔

اس نے بے ساختہ جھرجھری لی۔ تو زرلشتہ نے بھی رونی صورت بنائی ۔

"سوری ریلی ویری سوری باربی۔۔!! تم تو رونے والی ہوگئ ہو۔ بیٹھ جاؤ تم یہاں ۔ میں چلا جاتا ہوں۔۔!!!"

فدیان فورا سے پہلے اٹھا جب زرلشتہ نے اسے گھورا ۔

"میری کافی کے پیسے دیں۔۔!! نا جان نہ پہچان اور میری ساری کافی پی گۓ آپ ۔۔!! وہ میری تھی۔ میں نے ٹھڈی ہونے کے لیے رکھی تھی میرا اتنا وقت برباد ہوگیا اس کے چکر میں ۔ اور آپ نے اپنی فضول سی آفر کی وجہ سے مجھے پریشان کیا۔

 سینئر نہ ہوگۓ ملک کے وزیراعظم ہوگۓ آپ جو چاہیں گے اس پر قبضہ کرلیں گے۔ مسٹر دو نمبر آفریدی اگر آپ نے ابھی کے ابھی مجھے میرے پیسے واپس نہ دیے یا وہی کافی لاکر نہ دی تو میں سیدھا پرنسپل انکل کے پاس جاؤں گی۔وہ بابا جان کو جانتے ہیں ۔دیکھنا میں آپ کو رسٹیکیٹ کروادوں گی یونی سے ۔۔!! 

زرلشتہ درانی ہوں میں ۔ہلکے میں نہیں لینا مجھے۔۔!!"

مشکل سے چیخ کر اس نے دھمکی دی تو اس چھوٹی سی پٹاخہ کے منہ سے پرنسپل آفس تک کی دھمکیاں سن کر فدیان جلدی سے اس کے لیے کافی لینے چلا گیا۔ کہیں یہ رونے ہی نہ لگے۔ 

وہیں اس کا گروپ بھی فدیان جیسے سرپھرے کو اس لڑکی سے ڈرتا دیکھ کر ہنس ہنس کر پاگل ہوگیا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"میں تمہیں اپنے گھر لے جاؤں گا۔ دیکھ لینا ۔ ایک دن تم میرے ہی گھر رہا کرو گی"

یونی کے آخری دن فدیان نے زرلشتہ سے اپنے دل کی بات ڈھکے چھپے لفظوں میں کہی تھی۔ جو اسے تو سمجھ نہیں آئ تھی ۔

"ماسی بنانا چاہتے ہیں مجھے تو جان لیں میں اتنی امیر ہوں کہ آپ جیسے بندے کو گھر کا چوکیدار بناسکتی ہوں۔ تو اچھا ہے آج شرافت سے اپنا آخری دن یونی میں گزاریں اور گھر جائیں 'فاد بھائ'"

زرلشتہ کا لہجہ جتاتا تھا۔ جواب میں فدیان کا دل کہیں سر مارنے کو کیا۔

"توبہ کرو لڑکی۔ میں کیوں ایسی فضول بات سوچوں گا۔ اور میری الحمداللہ ایک عدد بہن ہے تمہارے جتنی ہی ہے۔ تو مجھے بھائ کہنا چھوڑ دو۔ کیوں ان آخر کے لفظوں پر زور دیتی ہو تم"

فدیان جھنجھلایا۔ تو زرلشتہ نے آنکھیں گھمائیں ۔

"میرا بھی ایک عدد بھائ ہے آپ سے تو بڑا ہی ہے وہ۔ ایک بار انہیں پتہ لگ گیا نا کہ ان کی بہن کو آپ اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو آپ کے گھر جانے کے قابل  نہیں چھوڑیں گے ۔!!! اور میں تو آپ کو بھائ ہی کہوں گی۔ اور جب جب ملوں گی یہی کہوں گی۔ دیکھ لینا آپ ۔!!"

وہ پھر اس دن اسے جتاکر چلی گئ۔ پیچھے فدیان نے اپنا سر پھاڑنا چاہا کہ یہ ٹیہڑی پسلی سیدھی نہیں ہوسکتی۔

خیالوں سے نکل کر فدیان زخمی سا مسکرایا ۔اور اٹھ بیٹھا۔ لائٹ آن کرکے اس نے اپنے آنسو پونچھتے۔ آخری بار شروع سے آخر تک سب یاد کرکے اس نے دل کو تسلی دے لی تھی۔

"سب ختم ہوگیا ہے آج ۔سب۔۔۔!!! آئندہ اگر میرے دل نے اسے یاد کیا تو اس دل کو ہی نوچ پھینکوں گا۔ "

اٹھ کر وہ واش روم چلا گیا تاکہ منہ دھو سکے۔

جتنا رونا تھا اس نے رو لیا تھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ نے سارا دن اپنے بھائ کے ساتھ ہی گزارا ۔اس کے ماں باپ تو بس اسے دیکھ کر ہی نظروں کی پیاس بجھاتے رہے ۔

کھانے کے وقت بھی اس نے کوئ نخرہ نہیں کیا تھا۔ سب اس کی پسند کا تھا اور اسے کوئ دلچسپی نہیں تھی اس میں۔

رات کو وہ اپنے کمرے میں واپس آگئ جو اب بھی ویسا کا ویسا تھا۔ کمرے کی حالت بتارہی تھی کہ باقاعدگی سے اس کی صفائ کروائی جاتی رہی ہے۔ سامنے گلدان میں lilly flowers  پڑے تھے۔ 

اسے یاد آیا کہ درمان کو اس سے الرجی ہے۔ وشہ نے ہی اسے بتایا تھا کہ وہ پھولوں سے دور ہی رہتا ہے۔ 

اس نے وہ سارے پھول اٹھاۓ۔

"میرے کمرے میں تم لوگوں کی کوئ جگہ نہیں ہے۔ مجھے تو تم سب بھی غصہ دلارہے ہو۔ ایک وہ مجھے اکیلا چھوڑ گۓ اور اوپر سے تم سب ان کے دشمن میرے ہی کمرے پر قبضہ کرکے بیٹھے ہو۔ بدتمیز کہیں کے ۔۔ !!!

جاؤ چلے جاؤ زرلشتہ کی دنیا سے۔ بھلے انہیں میرا احساس نہیں پر جو انہیں پسند نہیں مجھے بھی ایسی چیزوں کو دیکھنے کا شوق نہیں ۔۔ !!"

اس نے پھول ٹیرس سے نیچے پھینک دیے۔ جہاں دیار کھڑا تھا اس lilly flowers کی بارش پر اس نے سر اٹھاکر اوپر دیکھا ۔ جہاں اسے کوئ نہ دکھا۔

اس نے جھک کر وہ پھول پکڑے۔ اور افسوس سے سر کو نفی میں جنبش دی ۔

"درمان یہ رات گزر جانے دو کل تمہیں اپنے ہاتھوں سے سیدھا کروں گا۔ کل تم سے زرلشتہ کا بھائ ملے گا۔ نا کہ تمہارا سابقہ دوست ۔۔ !!!

بہت اڑ لیا تم نے۔ تمہیں اب ہواؤں کی نہیں زمین کی گہرائ کی سیر کرواؤں گا۔ پاگل انسان۔خود جیسا ہے میری بہن کو بھی ایسا ہی کردیا اس نے۔ !!!"

دیار کو انتہا کا غصہ آیا درمان پر۔ اور اس کا منہ توڑنے کا پکا ارادہ کرلیا اس نے۔ 

پھول غصے سے پھینک کر وہ بھی اندر چلاگیا ۔

کمرے میں واپس آکر زرلشتہ نے اپنے ٹیڈی بیئرز دیکھے جو ویسے کے ویسے رکھے تھے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان کا سارا دن اپنے آفس میں ہی گزرا تھا۔ مصروفیت بھرا ۔۔ !!!! رات کو وہ واپس گھر آیا پر اداس کیفیت میں کہ آج زرلشتہ اسے نہیں دکھے گی ۔  پھر بھی اس کی یادوں کے ساتھ وقت گزارنے کی خاطر وہ کمرے میں جانے لگا۔ جب راستے میں شنایہ بیگم اس کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔

انہیں دیکھنے کی دیر تھی جب اسے زرلشتہ کا بےجان وجود یاد آیا۔اس کا خون آلود چہرہ ۔

پھر ڈاکٹر کی وہ بات کہ شاید زرلشتہ اس رات اسی حالت میں مرجاتی ۔

پل میں درمان نے نظریں پھیر لیں۔

"اتنی دیر کردی تم نے آج آنے میں ۔ بھوک لگی ہوگی نا تمہیں ۔ میں کچھ کھانے کو لادوں۔ "

انہوں نے بغور اس کا چہرہ دیکھ کر کہا۔ دل میں پھر سے زرلشتہ کے لیے نفرت جاگی کہ اس کی وجہ سے درمان اب ان سے بات نہیں کرتا ۔

"رہنے دیں مجھے بھوک نہیں ۔میں کھانا کھاکر آیا ہوں۔ اگر اتنا احساس آپ نے میری بیوی کا کرلیا ہوتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے ۔۔۔!!

آپ زخمت نہ کیجۓ گا اب ۔ میں اپنا خیال خود رکھ سکتا ہوں۔ !!"

درمان سائیڈ سے گزر گیا۔ اس کا اکتایا ہوا انداز دیکھ کر انہوں نے غصے سے ہنکار بھرا۔

"اس میسنی کی وجہ سے یہ میرے ساتھ ایسا سلوک کررہا ہے۔ اچھا ہوا چلی گئ وہ۔ اب کبھی واپس نہ آۓ۔ اور یہ بھی جلدی بھول جاۓ گا اسے۔۔۔!!"

شنایہ بیگم کو ذرا شرمندگی نہیں تھی اپنے کیے پر تبھی تو وہ سنگدل بنی وہاں سے چلی گئیں۔

درمان نے کمرے میں آتے ہی اداسی نوٹ کی آخر ہر چیز اسی لڑکی کی یاد جو دلاتی تھی اسے۔ 

"تم مجھے اپنا دیوانہ بناکر خود چلی گئ ہو یار۔ یہ ناانصافی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب میں مجنوں بنا تمہاری یاد میں دیوانہ ہوا پھروں گا ۔کوئ کیسے اتنے مختصر سے ٹائم میں کسی کے حواسوں پر سوار ہوسکتا ہے کیسے ۔۔ !!!"

اپنے شوز اتار کر وہ بیڈ پر گرا ۔ پر سکون نہیں ملا اسے۔ اسے یاد آیا جب پہلی ملاقات میں ذرلشتہ اسے اسی بیڈ پر جمپ کرتے دکھی تھی 

"میں پاگل ہوجاؤں گا اب اگر تمہاری آواز نہ سنی میں نے تو۔۔!!"

کسی کی عادت ہوجانا محبت سے بھی خطرناک بات ہے جو اچھے خاصے ظالم انسان کو مجنوں بناسکتی ہے۔

"ہاں ہوگئ ہے محبت ۔!! تھوڑی نہیں بہت۔۔!!! پہلے دن سے ہونا شروع ہوئ تھی۔اب تک تو بہت ساری جمع ہوگئ ہوگی نا ۔!!! ایسے ہی جمع ہوتی ہے نہ محبت دل میں تھوڑی تھوڑی۔۔!! کتنی ہوگئی ہوگی اب تک۔میں کیسے بتاؤں اب۔!!!"

اسے اس کا انوکھا اظہار یاد آیا تو وہ دلکشی سے مسکرایا۔

"میرے دل میں تو انگنت محبت جمع ہوگئ ہے تمہارے میں تو مجھ سے بھی زیادہ جمع ہوگئ ہو گی۔۔!!! میری پاگل مصیبت ۔!!"

وہ اٹھ کر بیٹھا۔ اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاگیا۔

"اگر یہ ایسے ہی بولتی رہیں تو یہ مجھے بھی پاگل کردیں گی پر میں تو پہلے ہی پاگل ہوں ۔۔!! انہیں کہیں نہ یہ کیوں ایسے دیکھ رہی مجھے۔۔!!!"

اس کی مسکراہٹ دلکش ہوتی گئی ۔ ایسی مصیبت بھی نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔

"مجھے مار کر چین سے آپ بھی نہیں بیٹھیں گے۔میں بدروح بن کر آپ کا پیچھا قیامت تک کروں گی۔

آپ کی دوسری شادی بھی نہیں ہونے دوں گی۔کوئ لڑکی آپ کے آس پاس بھٹکی تو اسے گنجا کردوں گی۔اسے کیا میں تو آپ کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑوں گی۔جنت میں بھی آپ کو میں ہی ملوں گی۔کسی حور کو آپ کے پاس بھی نہیں آنے دوں گی۔ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔۔۔!!!!"

"اففف مصیبت دعوے جنت کے کرکے تم تو اس جن کو دنیا میں ہی اکیلا چھوڑ گئ ہو ۔ !!"

درمان نے آنکھیں بند کیں ۔اس لڑکی کی باتیں اسے رہ رہ کر یاد آرہی تھیں۔

تب اچانک اسے زرلشتہ کو کال کرنے کا خیال آیا۔ تو وہ جھٹکے سے سیدھا ہوکر بیٹھا۔

"موبائل کس دن کام آۓ گا۔ !! اسے فون کرلیتا ہوں۔ سادی کال کیا کرنی ہے ویڈیو کال ہی کرلیتا ہوں اچھا ہے نا اسے دیکھ بھی لوں گا۔ اور بات بھی کرلوں گا۔ ورنہ تو درمان صبح تک اس کی یادوں کے سہارے پاگل ہوجاۓ گا۔ !!"

اس نے کال ملائ جو دوسری طرف سے دوسری بیل پر اٹھا لی گئ ۔

زرلشتہ نے جب فون رنگ ہوتا دیکھا تو سکرین پر کال کرنے والے کا نام چیک کیا فون درمان نے اسے آن کرکے دیا تھا اور سکرین پر درمان لگا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ سے فون چھوٹتے چھوٹتے بچا۔

"زما خدايه! دا ظالمان پښتانه دي که نه؟دوی څنګه ما له لاسه ورکړ؟"

(میرے اللہ! یہ ظالم پٹھان ہی ہیں یا نہیں۔ !! انہیں میری یاد کیسے آگئ)

اس نے بڑی مشکل سے سکرین کی طرف دیکھا۔ جہاں درمان بھی اسی کی نظر کا منتظر تھا۔

زرلشتہ نے درمان کی طرف دیکھا ۔جو بغیر کچھ بولے بس اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"ا۔السلام علیکم ۔۔!! آپ نے اتنی رات کو کال کی۔ سب حیریت ہے نا ۔۔؟؟"

اسے ڈر بھی لگا اس سے اور ہچکچاہٹ بھی ہوئ۔ درمان اچانک اسے ویڈیو کال کرلے گا ۔اسے امید نہیں تھی۔ وہیں درمان نے اس سوال پر بھنویں اچکائیں۔ 

زرلشتہ کا چہرہ دیکھ کر اس کی روح تک میں سکون پہنچا تھا۔ پر اس کا تکلف سے بھرپور سوال سن کر وہ تھوڑا حیران ہوا۔ اب شوہر کو اپنی بیوی کو کال کرنے کے لیے کسی وجہ کی ضرورت تو نہیں ہوتی۔وہ جب چاہے کال کرسکتا ہے۔

"وعلیکم السلام ۔۔!!! شکر ہے تم نے بھی مجھے سلام کیا۔ ورنہ مجھے تو شک ہورہا تھا کہ تم پتہ نہیں مسلمان بھی ہو یا نہیں ہو۔ اس دن تم آیت الکرسی بھول گئ تھی نا تو ذرا شک تھا میرے دل میں پر آج دور ہوگیا ۔۔۔۔!!!!

اور اس انوکھے تکلف کے پیچھے وجہ کیا ہے۔ ابھی بس دس بجے ہیں تم کونسا اس وقت سوجاتی ہو۔اور کیا میں تمہیں بغیر کسی وجہ کے کال نہیں کرسکتا ۔کیا ضروری ہے کہ کچھ ہو تو میں تمہیں کال کروں۔۔!!!"

درمان نے اس کی ہلکی سی سرزنش کی۔ یہ بدلی ہوئ زرلشتہ اسے غصہ دلارہی تھی ۔ 

وہی زرلشتہ نے آنکھیں میچیں۔ یہ جن طنز کرنے میں بھی ماہر تھا۔ اب وہ سلام نہ کرتی تو کیا منہ پھاڑ کر پوچھتی کہ بتاؤ اس وقت کال کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ خود ہی تو چھوڑ کر گۓ تھے اب میری یاد کیسے آگئ۔

آنکھیں کھول کر اس نے درمان کی طرف دیکھا۔ جس کے چہرے پر مصنوعی رعب تھا۔ اس نے حلق تر کیا۔

"م۔میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں مجھے۔ وہ آپ نے اچانک کال کی تو مجھے لگا شاید غصہ اتارنے کے لیے کال کی ہو ۔میں نے پھر کچھ غلط کردیا ہو۔ تبھی صرف ڈر سے منہ سے نکل گیا۔ سوری ۔۔!!!"

منمناتے ہوۓ زرلشتہ نے سر جھکایا ۔ اس جواب پر درمان کا رعب حیرت میں بدلا ۔ اس کے چہرے کے تاثرات عجیب ہوۓ ۔

"تمہیں لگتا ہے میں تم پر غصہ اتارنے کے لیے سپیشلی تمہیں ویڈیو کال کروں گا۔ پھر چیخوں گا تم پر۔تمہیں ڈراؤں گا۔ کیا عظیم سوچ ہے تمہاری۔۔!!! اتنا ظالم +ویلا سمجھ رہی ہوں تم مجھے۔۔ !!!"

درمان نے لب بھینچے ۔زرلشتہ نے اسے غصہ ہوتے دیکھا تو فورا سر اٹھایا پر جب نظر درمان کے اڑے رنگ پر پڑی تو دل کے کسی کونے میں سکون سا اترا ۔ وہ مخظوظ ہوئ اسے اسے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا دیکھ کر۔درمان سچ میں بہت معصوم لگا اسے۔

تبھی مسکراہٹ روکتے وہ بھی باضد ہوئ۔

"ہاں نہیں تو اور کیا۔۔۔!!! اب میں آپ کو ایویں ظالم پٹھان تو نہیں کہتی نا۔ اس کے پیچھے کوئ نہ کوئ وجہ تو ہے۔ آپ کا جب دل مجھ پر غصہ اتارنے کو کرتا ہے مجھے نیند سے اٹھا کر جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔اب دیکھیں کیسے معصوم بن رہے ہیں ۔یہ معصومیت آپ کے لیے نہیں بنی ظالم پٹھان جی تو زیادہ اوور ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے ہنسی آرہی ہے۔۔!!!"

زرلشتہ زیادہ دیر تک اس کے چہرے کو نہ دیکھ سکی۔ تبھی مسکراہٹ دباتے سر جھکاگئ۔ فون اس کے ہاتھ میں ہی تھا۔ 

درمان نے اسے ہنستے دیکھا تو خود بھی ناچاہتے ہوۓ اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ چھا گئ۔ جسے فورا سے پہلے وہ دباگیا۔ 

ورنہ زرلشتہ کو اس مسکراہٹ کے پیچھے کی وجہ کیا بتاتا۔

زرلشتہ کو بھی پتا تھا وہ اس وقت اسے ڈانٹے گا نہیں کیونکہ وہ اس سے دور بھی ہے اور بیمار بھی ہے۔ اتنا احساس تو ظالم پٹھان اس کا کر لے گا۔

"پٹھان ظالم ہی ہوتا ہے۔ پٹھان کا غصہ ہی اس کی پہچان ہے۔ اور میرا سیدھا نام لیا کرو۔ کیا ظالم ظالم کی رٹ لگاتی رہتی ہو۔میں شوہر ہوں تمہارا کوئ کراۓ کا بدمعاش نہیں ہوں۔ آئندہ مجھے درمان ہی کہنا ۔!!"

درمان نے پھر سے اسے مرعوب کرنا چاہا ۔ جس نے جواب میں اسے خفگی سے دیکھا ۔

"پٹھان صرف ظالم نہیں ہوتا کیوٹ بھی ہوتا ہے۔ آپ نے اسلحے کے علاؤہ کوئ اور شے دیکھی ہو تو آپ کو پتہ ہو۔ میرے لالہ جان سے کبھی آپ ملے ہوں گے تو آپ کو پتہ ہوگا کہ پٹھان کے مزاج میں محبت بھی ہوتی ہے۔ اور ابے انتہا ہوتی ہے۔ میرے لالہ جان مجھ پر جان بھی دے سکتے ہیں۔ "

وہ اچانک سے جرح پر اتری۔

جواب میں درمان نے دیار کا ذکر سن کر ہنہہ کہہ دیا۔ اسے اپنے اور زرلشتہ کے بیچ اس کا بھائ بھی منظور نہیں تھا۔

"پھر میرے باباجان بھی تو اتنے پیارے ہیں۔ وہ میرے ساتھ کھیلتے بھی تھے۔ اتنی دور کیوں جانا آپ کے بھائ فدیان وہ بھی تو اتنے کیوٹ ہیں۔ فدیان میرے سال جتنا عرصہ بھی یونی میں رہے تھے انہوں نے میرا بہت خیال رکھا تھا۔ وہ تو جتنے دیکھنے میں کیوٹ ہیں اتنے ہی مزاج کے بھی اچھے ہیں ۔ مجھے تو ان جیسا سیم ٹو سیم ان جیسا پٹھان چاہیے تھا۔جو مجھ سے پیار بھی کرتا اور میرا خیال بھی رکھتا ۔ لیکن آپ اس کیٹیگری میں نہیں آتے۔ آپ ظالم ہی ہیں ۔!!!"

منہ پھلا کر زرلشتہ نے شدید ناراضگی ظاہر کی۔ درمان نے اسے فاد بھائ سے سیدھا فدیان کہتے دیکھا تو اس کا منہ کھلا ۔ پھر اسے فدیان کو اس سے کمپیئر کرتے اور اسے اچھا کہتے دیکھ کر اس کا سر ہی چکرا گیا۔ 

اس کی بیوی اسی کے بھائ کو اس سے بہتر سمجھ رہی تھی۔وہ تو تپ گیا۔

"فدیان کے ساتھ ہمیشہ بھائ لفظ لگایا کرو۔ ورنہ یاد رکھو تمہاری زبان کاٹنے میں مجھے وقت نہیں لگے گا۔ آئندہ اگر تم نے فدیان کا نام اتنے پیار سے لیا یا میرے سامنے اپنے بھائ کو بھی اچھا کہا تو میں تمہیں واپس تمہارے گھر نہیں جانے دوں گا۔ بہت دور لے جاؤں گا ان لوگوں سے۔ اس لیے کسی کی بھی تعریف کرنے سے پہلے محتاط رہا کرو۔ میں صرف دکھنے میں ظالم نہیں ہوں ۔ ہوں بھی بہت ظالم۔!!!"

درمان نے غصے سے کہا۔ اس کے پل میں بدلتے تاثرات دیکھ کر زرلشتہ کا چہرہ بھی سفید پڑا ۔

وہ جانتی تھی درمان جو کہتا ہے کر گزرتا ہے۔ اگر وہ سچ میں اسے لے گیا تو وہ کیا کرے گی پھر۔ اس نے تو بس مزاق کیا تھا۔ درمان کا غصہ اسے برا لگ اس وقت جب وہ اس سے دور بھی تھی۔

درمان نے اسے چپ ہوتا دیکھا تو جبڑے بھینچ لیے۔ پھر خود کو کوسا کہ جب وہ جانتا ہے زرلشتہ بس اسے چڑا رہی ہے تو اسے غصہ کرکے اسے ڈرانا نہیں چاہیے تھا۔

لیکن جیلس تو وہ ہوا تھا۔ اور شدید ہوا تھا۔

"دیکھو میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ فدیان تم سے بڑا ہے۔ اچھا نہیں لگتا کہ خود سے بڑے کو تم اس کے نام سے بلاؤ۔ میں تو تمہارا شوہر ہوں تم مجھے میرے نام سے بلاسکتی ہو۔پر فدیان کو بھائ لازمی کہا کرو۔ ورنہ تمہیں ہی گناہ ملے گا"

درمان نے وضاحت دی تو زرلشتہ نے ضبط کرتے اسے دیکھا۔

"م۔میں ویسے کہہ رہی تھی۔ پر آپ تو میری زبان کاٹنے تک کو تیار ہوگۓ۔ آپ کو میں کبھی اچھی لگ ہی نہیں سکتی۔ آپ کا بس چلے تو مار کر چپ کروا دیں مجھے ۔۔!!"

اسی کے ساتھ ہی اس کا ضبط ٹوٹا اور وہ روپڑی۔ درمان نے اپنی اس جیلسی پر بھی لعنت بھیجی کہ کیا ضرورت تھی اسے زرلشتہ کو ڈانٹنے کی۔ پیار سے بھی تو وہ سمجھا سکتا تھا۔

"رونا مت ورنہ میں سچ میں ابھی کے ابھی وہاں آجاؤں گا۔ سوری زری۔۔!! دیکھو میں ہوں ہی پاگل جسے پل میں غصہ آجاتا ہے۔ تمہارے منہ سے کسی اور کا ذکر مجھے گوارہ نہیں ۔اب میرا مزاج ہی ایسا ہے تو میں کیا کروں ۔اچھا نہیں کہہ رہا میں تمہیں کچھ بھی ۔بس یہ بات بات پر رونے کی ضرورت نہیں ۔"

درمان نے تھک کر کہا ۔اس بس اسے رلانا آتا تھا اور کچھ نہیں ۔

"آپ ہیں ہی ظالم ۔!! سب اچھے ہیں آپ برے ہیں۔ میں اب آپ کو ہمیشہ ظالم ہی کہوں گی۔ ظالم ۔پہلے رلاتے ہیں پھر خود ہی معصوم بن جاتے ہیں آپ۔ بہت برے ہیں آپ!!!"

آنسو رگڑ کر وہ بھی اسی کے انداز میں بولی ۔درمان حیران ہوا اور اس کے انداز پر عش عش کراٹھا۔ درمان کا بڑا گہرا اثر ہوا تھا اس پر جو یہ بھی غصے میں اس کے لیول پر آرہی تھی ۔

"اگین سوری یار ۔۔۔۔!!! کہہ لو تم مجھے ظالم ۔تمہارے منہ  سے یہ ظالم لفظ والا تیر بھی میں بغیر اف کیے اب سہہ لوں گا۔ پلیز میرے غصے کو اگنور کردیا کرو۔ اچانک مجھے کچھ بھی ہوجاتا ہے۔ تم صحیح کہتی ہو میں ہوں ہی ظالم ۔اچھا بتاؤ طبیعت تو ٹھیک تھی نہ تمہاری آج۔ دوپہر میں بھی تمہیں چکر آرہے تھے۔ بعد میں تو کچھ نہیں ہوا نا۔ !!"

درمان بے بس ہوا۔اس نے ٹاپک بدلنا چاہا۔ زرلشتہ نے اپنی نم آنکھوں سے اس کا شرمندہ ہوجاتا چہرہ دیکھا۔ تو سر جھٹک دیا۔ یہ انسان خود بھی نہیں جانتا کہ اسے کب غصہ آتا ہے اور کب غصہ ختم بھی ہوجاتا ہے ۔

"ٹھیک ہوں میں ۔کچھ نہیں ہوا مجھے۔ آپ بے فکر رہیں۔ اتنی آسانی سی نہیں مروں گی۔ پہلے آپ کا جینا محال کروں گی پھر ہی مروں گی۔ابھی مجھے نیند آرہی ہے۔ تو میں کال بند کرنے لگی ہوں ۔ !!"

زکام زدہ سانس کھینچ کر زرلشتہ نے کال کٹ کرنے کی بجاۓ منہ پھیر لیا۔

"سارا غصہ ایک طرف اور ناراضگی ایک طرف پر آئندہ مرنے کی بات تم نے کی تو یاد رکھنا میں سب خود ختم کروں گا۔ یہ جو مرنے کا شوق ہے نا تمہیں بات بات پر خود کو بددعائیں دیتی رہتی ہو۔ میرے مرنے پر تمہارا  سارا شوق پورا ہوجاۓ گا۔ اور کال کٹ کرو ابھی کے ابھی۔۔!!! ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔ میں معافی مانگ بھی رہا ہوں پر تم ہو کہ رونے سے فرصت نہیں مل رہی تمہیں ۔۔!!!"

درمان سنجیدہ ہوا۔ اس کی بات سن کر زرلشتہ نے بیچارگی سے اسے دیکھا کہ اب کیا مسئلہ ہے۔ درمان کال کٹ کرنے کا انتظار کررہا تھا۔ 

"میں ناراض ہوں تو غصہ آپ کیوں کررہے ہیں۔ مجھے منانے کی بجاۓ اپنا ازلی رعب جھاڑنا ناانصافی ہے۔ میں ناراض ہوں مجھے منائیں ۔ نہ کہ مزید رلائیں ۔!!"

زرلشتہ منمنائ ۔ عجیب دور آگیا تھا جب اپنا ناراض ہونے کا اعلان بھی خود ہی کرنا پڑرہا تھا اسے۔ درمان نے گہرا سانس بھرا کہ اب اسے زندگی میں پہلی بار کسی کو منانا بھی پڑے گا ۔

پھر سوچا اب محبت جیسے نبھانی ہے ویسے ہی ہر بار روٹھنے پہ اسے منانا بھی ہے۔

              "    گلے چاہے بہت کرنا

                  رلانا اور بہت لڑنا

                سنو ناراض مت ہونا "

درمان کی آواز زرلشتہ کے کانوں میں پڑی وہ جو ناراض تھی اس نے درمان کی آنکھوں میں دیکھا ۔ جو سچ میں اسے منانے والا تھا اب۔

          "      کبھی ایسا جو ہو جائے

                 کہ تیری یاد سے غافل

               کسی لمحے جو ہو جاؤں

                بنا دیکھے تیری صورت

           کسی شب میں جو سو جاؤں

                تو سپنوں میں چلے آنا

              مجھے احساس دِلا جانا

                سنو ناراض مت ہونا  "

اس کا انداز میٹھا ہوتا گیا۔ وہی اس کی شہزادوں جیسی آنکھیں اب منتظر تھیں معافی کی۔ زرلشتہ نے دل نے ایک بیٹ مس کی۔ اس نے بس یونہی کہا تھا۔

 مجھے مناؤ۔ پر درمان نے انا کو بیچ میں نہ لاکر جو سحر اب اس کے دل پر طاری کیا تھا۔ وہ عجیب سے بھی عجیب تھا۔

             ' کبھی ایسا جو ہو جائے

               جنہیں کہنا ضروری ہو

           وہ مجھ سے لفظ کھو جائیں

                انا کو بیچ مت لانا

                میری آواز بن جانا

              کبھی ناراض مت ہونا  "

درمان نے اپنی غزل ختم کی۔ پھر اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھا۔ سحر طاری کرنے میں تو وہ ماہر تھا۔ تبھی اب خود بھی مسکرا اٹھا۔ 

بعض اوقات جھک جانا وہ فائدے دیتا ہے جو انا کے چلتے مل ہی نہیں سکتے۔ درمان نے بھی تو انا کو بھاڑ میں جھونک دیا تھا۔ جو زرلشتہ کہتی وہ مان لیتا ۔

      "وہ کریں گے مرا قصور معاف 

       ہو چکا کر چکے ضرور معاف "

اس نے جتایا ۔ تو زرلشتہ نے ہڑبڑا کر چہرہ دوسری طرف کیا۔

           حسن کو بے قصور کہتے ہیں 

           ہے قصور آپ کا قصور معاف 

          میں نے یہ جان کر خطائیں کیں 

           ہر خطا ہوگی بالضرور معاف 

            وہ ہنسی آ گئی ترے لب پر 

            ہو گیا وہ مرا قصور معاف "

اس کی آواز میں بھی زرلشتہ کے انداز پر سرشاری سی آئ۔ یہ شعر و شاعری کرنا اس کے مزاج کے خلاف تھا۔ پر شعر پڑھنے کا اسے تھوڑا بہت شوق تھا جو آج کام آگیا۔

        "  بے خودی میں جو ہو خطا ہم سے 

         کم سے کم وہ تو ہو ضرور معاف 

         خامشی ان کی مجھ سے کہتی ہے 

             اب ہوا اب ہوا قصور معاف "

زرلشتہ کے گالوں پر لالی چھائ ۔ جسے دیکھ کر اس کی ہنسی کی مدھم سی آواز فون کے دوسری طرف موجود زرلشتہ نے بھی سنی۔

یہ ناراضگی اسے ہی بھاری پڑی تھی۔ درمان کا کیرنگ انداز اس کے ہوش اڑانے کو کافی تھا ۔

"کردیا معاف ۔۔!! اب سوجائیں ۔ اچانک سے آپ میں کیرنگ پٹھان کی روح آجاتی ہے تو کبھی آپ کا دماغ گھوم جاتا ہے۔ پر مجھے نیند آرہی ہے۔ اللہ حافظ ۔۔!!"

اس دفعہ جلدی سی زرلشتہ نے خود ہی فون بند کردیا۔ درمان کو اس نے اگلی بات کرنے کا موقع بھی نہیں دیا تھا۔ 

درمان نے بھی فون سائیڈ پر رکھا اور بیڈ پر لیٹ گیا۔ زرلشتہ سے بات کرکے جو سکون اسے ملا تھا۔اب نیند بھی مہربان ہوہی جاتی۔

اتنی جلدی اس نے اسے رلایا بھی پھر ڈانٹا بھی اور منایا بھی تھا کہ وہ خود شاکڈ رہ گیا کہ کیا یہ وہ خود ہے۔ 

"مصیبت تم نے مجھے اتنا تبدیل کردیا ہے کہ اب مجھے اپنی کیفیت سمجھنے میں بھی گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ پل میں روتی ہو اور اگلے ہی پل مان بھی جاتی ہو۔ میں کتنی بار تمہارا دیوانہ ہوں آخر۔۔!!"

مسکراتے ہوۓ درمان نے سوچا۔

وہیں زرلشتہ بھی سکون سے لیٹ گئی۔

"یہ مجھے بھی پاگل کرکے چھوڑیں گے۔ پہلے سے پاگل انسان مزید کتنا پاگل ہو۔ اب انہیں کون سمجھائے ۔۔!!! 

یا اللہ سچ میں اگر مجھے یہ اچھے لگ گئے تو مجھے گناہ تو نہیں ملے گا نا۔ !!! ایسا نہ ہو کہ بعد میں پتہ لگے کہ یہ سب غلط ہے۔ 

ہر ایسا ہوتا تو نہیں ۔۔ !!

یا اللہ اب میں کیا کروں۔۔!! کہاں پھنس گئ ہوں میں ۔۔۔!!!"

سوچتے ہوۓ زرلشتہ بھی نیند کی وادیوں میں کھو گئ ۔ایک محبت نے دو لوگوں کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ پہلا تھا درمان جو اب صحیح سے غصہ بھی نہیں کر پاتا تھا۔

دوسری تھی زرلشتہ جس کے ناسمجھ دماغ نے ناسمجھ سی محبت کی تھی۔ جس پر اسے بھی ڈر تھا کہ کہیں اس سے بھی گناہ نہ ملتا ہو۔

اب دیکھنا یہ تھا کہ قسمت کیا ان لوگوں کی محبت کو قائم رکھتی یا پھر کوئ نیا موڑ آجاتا ان کی کہانی میں ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اگلے دن کا سورج چڑھتے ہی درمان سیدھا آفس چلا گیا بغیر کسی سے ملے سواۓ فدیان کے۔ جس کی خراب طبیعت پر وہ پریشان بھی تھا اور حیران بھی کہ کل تک تو فدیان ٹھیک تھا اچانک اسے کیا ہوگیا ۔ 

جواب میں فدیان نے بس اتنا کہا کہ گھر واپس آکر اسے اصل قیدیوں والی فیلنگ آرہی ہے۔ اس لیے وہ پھر سے بیمار ہورہا ہے۔یہ گھر میں رہنا اس کے بس کی بات نہیں تو وہ جب گھر سے نکلے گا تو خود ہی ٹھیک ہوجاۓ گا۔ 

درمان نے بھی اس کی بات کو سچ سمجھ لیا۔ اور اسے مشورہ دیا کہ اگر گھر میں وہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا تو اچھا ہے جہاں دل کرے وہاں چلا جاۓ۔

بیماری اور خاموشی اس پر حاوی ہوتی اچھی نہیں لگتی۔

فدیان نے بھی اس کی بات مان لی۔ تاکہ اسے مزید کوئ شک نہ ہو۔ ناکام عاشق بن کر وہ زرلشتہ کے کردار پر انگلی اٹھنے نہیں دے سکتا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"تو سمجھتا کیا ہے خود کو آخر درمان ۔!!! میں چپ ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ تیرے دل میں جو آیا تو وہ کرتا رہے گا ۔!!"

دروازہ دھرام سے کھلا اور دیار غصیلے تاثرات سنگ درمان کے کیبن میں آیا۔ ابھی دوپہر ہوئ تھی اور درمان اپنے کام میں مصروف تھا ۔ 

دیار کو اچانک وہاں آتا دیکھ کر وہ بھی بوکھلا کر کھڑا ہوگیا۔کہ یہ راکٹ اس وقت یہاں کیوں لینڈ کرگیا۔

"دیار اب کیا کردیا ہے میں نے جو تو دروازے توڑ رہا ہے۔ یہ تیری آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہورہی ہیں ۔ تو کب سے غصہ کرنے لگا۔ آرام سے بیٹھ جا پھر بات کرتے ہیں ۔۔!!"

درمان آگے بڑھا۔ دیار کا چہرہ دیکھ کر اسے عجیب لگا تھا۔ وہیں دیار نے آگے بڑھ کر ایک مکہ اس کے منہ پر مارا۔ جو اس افتادہ کے لیے تیار نہیں تھا۔ تبھی پیچھے ٹیبل کی طرف گرا۔ دیار تو سچ میں اس کا منہ توڑنے والا تھا۔

"تو نے میری بہن کی زندگی عزاب کرکے رکھی اور تو چاہتا ہے میں بیٹھ کر تجھ سے بات کروں ۔ درمان بیٹھ کر بات کرنے والے دن اب گۓ۔ آج تو میں تیری جان ہی نکالوں گی۔ جو قتل کے الزام مجھ پر لگے ہیں اب تک۔ اب سارے سچ کروں گا۔ تونے میری بہن کو مارا کیسے۔۔۔!!"

دیار چیخا ۔ زرلشتہ کی خراب حالت دیکھ کر جو لاوا اس کے اندر پل رہا تھا سارے کی زد میں درمان آگیا ۔

جس نے حیران ہوکر ابھی پیچھے اٹھ کر دیکھا ہی جب ایک اور مکہ اس کے منہ پر دیار نے دے مارا ۔

اب کی بار اسے اپنا جبڑا ہی ٹوٹتا محسوس ہوا۔

"دانت توڑے گا کیا تو اب میرے۔ منحوس میں شوہر ہوں تیری بہن کا۔ مانا تجھے درمان سے مسئلہ ہے پر اپنے بہنوئ کی تو عزت کرلے۔ 

بقلی دانت لگوانے میں مجھے دلچسپی نہیں ہے۔ ہوش میں آ دیار ۔۔۔!!!"

خود کو سنبھال کر درمان بھی چیخا۔  پر دیار سننے والا نہیں تھا۔ ؤہ آگے بڑھا تو اس دفعہ درمان فورا وہاں سے ہٹ کر کرسی کے پیچھے ہوگیا۔

"میں منہ توڑوں گا تیرا ۔ تیری شکل ایسی کردوں گا کہ تو خود اپنے آپ کو آئینے میں نہیں دیکھے گا۔۔۔۔!!!  اور میں یہاں زرلشتہ کا بھائ ہونے کی حیثیت سے کھڑا ہوں ہمت ہے تجھ میں تو بچ مجھ سے۔۔۔!!!"

دیار نے پہلی بار اسے مارا تھا ۔اسے احساس ہوا اس کا ہاتھ کتنا بھاری ہے۔

"بیوہ ہوجاۓ گی زرلشتہ۔۔!!! خدا سے ڈر دیار ۔میرے مستقبل کے بچے تیرا گریبان پکڑیں گے کہ آخر ہمارے باپ کا قصور کیا تھا جو تونے اس کے پیارے پیارے دانت توڑ دیے۔۔۔!!!

میری مان تو ادھر کرسی پر بیٹھ کرونا ابھی مکمل نہیں گیا۔ کہیں کہیں سے پھر نکل رہا ہے۔ دیار سوشل ڈسٹینسنگ مینٹین رکھ۔۔!!!"

وہ پیچھے کی طرف قدم لینے لگا۔ جب دیار نے ہاتھ مار کر اس کی کرسی پیچھے کی طرف گرادی۔

" تیرے جیسا منحوس شوہر ہونے سے اچھا ہے کہ وہ بیوہ ہی ہوجاۓ۔ اور تو کیوں پاگلوں کی طرح بول رہا ہے۔ ہمت ہے تو آ آج دو دو ہاتھ ہوہی جائیں۔۔۔!! 

یاد رکھ تیرے بچے پہلے تیرا گریبان پکڑیں گے جب میں انہیں بتاؤں گا کہ تو ان کی ماں کو مارتا تھا۔کمینے انسان وہ معصوم کیا بگاڑ رہی تھی تیرا جو تونے اس کی ہنسی ہی چھین لی۔ میری بہن اب کوئ ضد نہیں کرتی ۔ کوئ فرمائش نہیں کرتی۔۔!!! آج تو میں تجھے اسی گلاس وال سے باہر پھینکوں گا۔۔!!!"

 دیار نے کف لنکس فولڈ کیے ۔ اس کے خطرناک تاثرات دیکھ درمان نے تھوک نگلا۔

اس نے تو زرلشتہ کو مارا ہی نہیں تھا اور اس کا یہ سنگدل بھائ اسے قتل کرنے والا تھا۔ اس کا شدت سے دل چاہا کہ کہیں سے زرلشتہ آجاے اور اپنے آئیڈیل بھائ کو جنگلی روپ دیکھ لے۔ تاکہ اسے پھر کبھی کیوٹ پٹھان نہ کہے۔

"اووووو غصے کی نئ نئ دکان ۔پہلے بہن سے تو پوچھ لیتا کہ میں نے اسے مارا بھی ہے یا نہیں ۔ دیکھ پاگل انسان اگر مجھے کچھ ہوا تو تیری بہن تیرا بھی لحاظ نہیں کرے گی۔ رک میں تیرا وہم ابھی دور کرتا ہوں ۔ مجھے دو منٹ کی زندگی دے دے۔ تاکہ میں تجھے وضاحت دے سکوں۔اگر تو پھر بھی مطمئن نہ ہوا تو بھلے مجھے چوک پر لٹکا دینا۔۔!!"

ڈر کر درمان نے فورا ہاتھ کھڑے کیے۔ جیسے سرینڈر کرچکا ہو۔ دیار اس کی بہکی بہکی اپنی بہن جیسی باتیں سن کر حیران تھا ۔اصولا تو درمان کو جواب میں اسے مارنا چاہیے تھا نا کہ صفائ دینی چاہیے تھی۔

درمان نے بغیر رکے اسے کچھ دن پہلے ہوا سارا واقعی بتادیا ۔کہ زرلشتہ کی حالت میں اس کا قصور نہیں ہے تو اسے مارنے سے وہ پرہیز کرے۔

دیار نے سب سنا مگر اس کے تاثرات ویسے کے ویسے تھے۔

درمان بچتا بچاتا اپنی جگہ پر آیا اور جھک کر اپنی کرسی اٹھائ۔

سالے کے ہاتھوں پٹنا اسے عجیب نہیں بہت عجیب لگا تھا۔

"یہ تو زرلشتہ کی مرضی ہوگی کہ وہ تیرے ساتھ رہے یا نہ رہے۔ یہ مار تو ڈیزرو کرتا تھا۔ اب مر یہیں مین جارہا ہوں۔ تیری شکل دیکھنے کا مجھے کوئ شوق نہیں ۔۔!!"

ہاتھ مار کر دیار نے ساری فائلیں نیچے پھینکیں پھر غصے سے پھنکار کر جانے لگا جب درمان نے جھنجھلا کر اپنے بال مٹھی میں دبوچے پھر ایک ہی لمحے میں اس تک پہنچا۔

"یہاں آہی گیا ہے اور مجھے مار کر تیرے دل کو ٹھنڈ پڑ ہی گئی ہے تو ذرا بیٹھ یہاں ۔مجھے مدد چاہیے تھی تیری۔۔!! بس دو منٹ کا کام ہے زرا بیٹھ۔تو اگر نہ بھی آتا تو کچھ دنوں میں میں خود ہی تیرے پاس آنے والا تھا۔ "

اسے بازو سے دھکیل کر درمان نے کرسی پر بٹھایا ۔ پھر فورا اپنی کرسی پر آکر بیٹھا ۔ پورا جبڑا دکھ رہا تھا اس کا۔ 

"میں اب تیری مدد کروں گا ۔!!! اچھا مزاق ہے"

دیار نے طنز کیا۔ درمان نے اپنے خون آلود ہونٹ کو انگوٹھے سے صاف کیا۔ پھر تگڑی گھوری سے اسے نوازا ساتھ میں زیر لب 'شوخا" بھی کہا۔

"میری بہن سے نکاح کرنے کے لیے راضی ہوجا ۔ مجھے پتہ ہے تو منع اس لیے کررہا ہے کیونکہ تو میری بہن کو جرگے میں نہیں لانا چاہتا۔ پر میری بہن کو ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے نام کی ضرورت ہے جس کے ہوتے کوئ اس کی طرف بری نظر بھی نہ اٹھائے۔ اور وہ نام ایک شوہر کا ہی ہوسکتا ہے۔"

درمان نے لفظوں پر زور دیا تو دیار کے چہرے کا رنگ اڑا ۔ یہ تو وہ کبھی نہ کرتا۔ اس نے مٹھیاں بھیچیں۔

"تو اپنی بہن کی حفاظت مجھ سے بہتر کرلے گا۔ یہ بات ذہن سے نکال دے۔ میں نہیں کروں گا کوئ نکاح۔۔!!"

دیار اٹھنے لگا۔ جب درمان کی اگلی بات سن کر جہاں تھا وہیں رک گیا ۔

"میرا نام اس کو وہ تخفظ نہیں دے سکتا جو تیرا نام دے گا۔ ایک بار اگر تیرا نام اس کے نام سے جڑ گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاۓ گی۔ پھر اسے کوئ خطرہ نہیں ہوگا۔  دیار بات میری نہیں ہے میری بہن کی ہے۔ہماری رنجش کو ایک طرف رکھ کر تو اطمینان سے سوچ ۔۔!!"

درمان کے لہجے میں امید تھی تبھی دیار واپس بیٹھ گیا۔ وہ خود ایک بہن کا بھائ تھا کیسے اس کی مجبوری کا مزاق بناتا۔ اس پوری دنیا میں ایک واحد رشتہ شوہر کا ہوتا ہے جس کا بس نام ملنے کے بعد ہی عورت محفوظ ہوجاتی پے۔ پھر چاہے وہ صرف نام ہی کیوں نہ ہو ۔ وہ اسے دنیا کی بری نظروں اور برے لوگوں سے بچا لیتا ہے۔

"وہ یشاور جسے جرگے نے علاقہ بدر کیا ہے مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں میری بہن سے بدلہ نہ لے لے ۔۔!! اگر اس نے طاقت کے زور پر صرف مجھے نیچا دکھانے کے لیے اسے اپنے نام سے جوڑ لیا۔ تو وہ بے قصور نفرت کی بھینٹ چڑھ جاۓ گی۔ مجھے اس دلاور خان اور یشاور کی گری ہوئ سوچ پر پہلے ہی شک ہے۔ وہ کمینہ پہلے بھی بس مجھ سے حسد کی وجہ سے اسے اغواہ کرنے کی کوشش کرچکا ہے۔ دیار تو التجا سمجھ لے میری بات اور کرلے اس سے نکاح ۔ وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ جاۓ گی۔ 

انکار مت کرنا۔ کیونکہ اس دلاور سے صرف تو اسے بچا سکتا ہے۔۔ !!!"

درمان کا لہجہ ملتجانہ ہوا۔تبھئ دیار نے گہرا سانس خارج کیا ۔ پھنس تو وہ گیا تھا۔ پوری طرح سے۔ یہاں آیا تو زرلشتہ کا حساب لینے تھا پر درمان اس کے سر پر سہرا سجا کر واپس بھیجنے والا تھا۔

"تو کس بات کا بدلہ لے رہا ہے مجھ سے ۔!!! دنیا میں ہزاروں رشتے مل جائیں گے تجھے تو میں ہی کیوں۔۔!!! اور ونی والا مسئلہ میں حل کردوں گا ۔تجھ پر بات نہیں آۓ گی بابا جان اپنا فیصلہ خود ہی واپس لے لیں گے۔ پر ونی نہیں۔۔ !!!"

دیار نے بے بسی سے کہا۔اس کی آنکھوں میں بھی التجا تھی پر درمان نے تو قسم کھائی تھی کہ آج دیار کو مناکر پی چھوڑے گا ۔

اسے نرم پڑتا دیکھ کر درمان نے لب بھینچے ۔

"تو سنبھال لے گا اسے۔ تجھ سے بہتر انسان اس کے لیے ہمیں مل ہی نہیں سکتا۔ دیار بات اس کی عزت کی ہے ۔ ورنہ میں التجا نہ کرتا ۔۔!!"

دیار وہاں سے اٹھ گیا۔ انکار کرنا اس کی غیرت نے آج گوارہ نہ کیا۔ جہاں کسی کو اس کی ضرورت تھی تو وہ کیوں پیچھے ہٹتا۔

"ٹھیک ہے میں راضی ہوں ۔۔!! تیرے جیسا کم ظرف نہیں ہوں میں جو کسی کی بہن کا لحاظ ہی نہ کروں ۔ بے فکر رہ تیرا بدلہ اس سے نہیں لوں گا۔۔!! اب کچھ نہ کہنا ۔ جارہا ہوں میں ۔۔!!!"

دیار نے جس بے دلی سے یہ فیصلہ کیا تھا وہی جانتا تھا۔ ونی کی رسم کو ماننا ۔ کسی کی عزت نفس مجروح کرنا اسے گوارہ تو نہیں تھا۔ پر امان دینے میں اگر کسی کی عزت محفوظ ہوجاتی تو وہ اس کے لیے بھی تیار تھا۔

وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔ درمان نے اس کے جاتے ہی سکون کا سانس لیا کہ چلو یہ مسئلہ تو حل ہوگیا۔ 

"بہت بھاری ہاتھ ہے اس کا۔ پاگل کہیں کا۔ "

اس نے درد سے کراہتے کہا پھر اٹھ کر اپنی فائلز جمع کرنے لگا۔ جو دیار پھینک کر گیا تھا۔۔

دیار بھی طوفان ہی ہے اس کا اندازہ آج ہوگیا تھا درمان کو ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"مما ۔۔!! کہاں گئیں ہیں آپ۔۔!! میں کھوگئ ہوں ۔ کہاں جاؤں اب۔۔!!"

لوگوں کے ڈر سے ایک سہما ہوا وجود دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ حجاب سے نظر آتا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ آنکھوں میں انتہا کا خود تھا۔ اسے لوگوں کے بیچ نکلنے سے بھی ڈر لگتا تھا۔ اور یہاں وہ بیچاری اتنے بڑے مال میں تنہا کھو چکی تھی۔

"مما۔۔۔!!!! " اس نے منہ کے آگے ہاتھ رکھا اور سسک پڑی ۔ 

لوگ سکون سے وہاں سے گزر رہے تھے۔ کسی کو ہو فرق نہیں پڑتا تھا کہ یہاں کوئ سہما کھڑا ہے۔ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے یہی پوچھ لیا جاۓ۔

اور معصومہ تو بس بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔ جب وہاں سے گزرتے ایک شخص نے اسے ناسمجھی سے دیکھا ۔ بھلا دیوار کے ساتھ کھڑے ہوکر رونے کی کوئ وجہ ۔

"لٹل گرل۔۔!!! آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں ۔ اور رو کیوں رہی ہیں۔ کسی نے کچھ کہا ہے کیا آپ سے۔۔؟؟؟"

 اس شخص نے اپنا فون پاکٹ میں رکھا پھر ناسمجھی سے اس کے رونے کی وجہ پوچھی۔ جس نے چونک کر سامنے دیکھا جہاں تقریبا چوبیس سے پچیس سال کی عمر کا شخص کھڑا تھا۔ 

معصومہ نے معصومیت سے آس پاس دیکھا۔

"میں کھوگئ ہوں۔ م۔مما نہیں مل رہیں مجھے۔ میرے پاس ف۔فون بھی نہیں ہے۔ میں کیا کروں ۔۔!!"

اس نے منہ کے سامنے سے ہاتھ ہٹایا اور روتے ہوۓ کہا۔جب فدیان نے اتنی سی بات پر اسے روتا دیکھ کر بھنویں سکیریں۔

"نمبر یاد ہے ان کا۔ مجھے بتاؤ میں بات کروادیتا ہوں تمہاری ۔ اگر اتنا ہی ڈر لگتا تھا تو تمہیں اپنی مما کے ساتھ ہی رہنا چاہیے تھا نا۔ نمبر بتاؤں میں کال کردیتا ہوں۔۔!!!"

فدیان نے فراخدلی کی انتہا کردی۔ جواب میں معصومہ کے رونے میں مزید تیزی آگئ۔ اسے کیا پتا تھا کہ وہ یوں کھو جاۓ گی اگر پتہ ہوتا تو نمبر یاد ہی کرلیتی۔

"م۔مجھے نہیں آتا نمبر۔۔!!!!!!! بھائ مجھے میری مما کے پاس ج۔جانا ہے۔۔!!! ہیلپ کردیں پلیز۔۔!!"

معصومہ نے اٹک کر کہا۔ اس کی سیاہ رات کی تاریکی کا منظر پیش کرتی آنکھوں نے ریکوئسٹ کی تھی۔ جب یہ بھائ والا لفظ سن کر فدیان کے ہاتھ سے فون چھوٹتا چھوٹتا گرا ۔

"لٹل گرل یہ بھائ والا مزاق میرے ساتھ نہ کرنا۔ میری ایک بہن ہے اور میں اس کے ساتھ ہی خوش ہوں ۔مزید ایک بہن کی خواہش نہیں ہے مجھے۔ تمہارا جہیز بنانے کی اتنی بڑی ذمہ داری میں اکیلا کیسے ادا کروں گا۔ نہ بابا نہ مجھے اتنی روندو بہن نہیں چاہیے ۔۔!!!

اور میڈم  آپ اتنی بڑی ہوگئ ہیں آپ کو نمبر ہی نہیں پتہ ۔ بس رونے کا پتہ ہے تو روتی ہی جارہی ہیں۔ تم انسان ہی ہو نہ یا کوئ چڑیل ہو جو مجھے اپنے قبضے میں کرنے آئ ہے۔

دیکھو اگر تم چڑیل ہو تو کر لو مجھے اپنے قبضے میں ویسے بھی میں تازہ تازہ لاحاصل محبت کے مرض میں پڑا ہوں ۔اچھا ہے کوئ نیا ایڈونچر مل جاۓ گا مجھے۔۔!!"

فون فدیان نے واپس رکھ دیا ۔ پھر اس کے روندو چہرے کو بغور دیکھتے ہوۓ اس نے مسکراہٹ دبائی ۔ جبکہ اس کی کوئ بات اس وقت اس معصوم سی معصومہ کو سمجھ نہیں آئ تھی۔ اس نے سہمی نظروں سے مقابل کی نیلی آنکھیں دیکھیں۔

"سمجھ نہیں آیا۔ ک۔کیا کہا آپ نے پھر سے بتادیں۔۔۔!!!"

اس نے آنکھیں جھپک کر آنسوؤں کو نکلنے کا راستہ دیا۔ جب فدیان نے کوفت سے نظریں پھیریں کہ کوئ اتنا کیسے رو سکتا ہے۔

"بس کرائنگ گرل مزاق کررہا تھا میں ۔ اور تمہیں تو وہ بھی سمجھ نہیں آیا۔ پتہ نہیں تمہارے گھر والے کیسے برداشت کرتے ہوں گے تمہیں ۔ عجیب کوئ آنسوؤں کی ٹنکی ہو تم۔۔!!!"

فدیان کے چہرے پر بیزاریت چھائ ۔ اسی لمحے سبرینہ بیگم وہاں آگئیں جو خود پورے مال میں اسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ 

وہ معصومہ کی تنہائ سے تنگ آکر اسے مال میں لائ تھیں جب ڈریس دیکھتے دیکھتے انہیں پتہ ہی نہ لگا کہ کب معصومہ لوگوں کے خوف سے ان سے دور ہوگئ ۔

جب انہیں اندازا ہوا تو وہ فورا اسے ڈھونڈنے لگیں ۔ یہاں انہوں نے جب معصومہ کو دیکھا تو سکون کا سانس لیا۔ 

اور فورا اسے گلے لگالیا۔ جو ماں کے آتے ہی پھر سے روکے لگی تھی۔ 

"معصومہ میری جان کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔ ریلیکس مما یہیں ہیں ۔۔!!! بس میرا بچہ اب نہیں رونا آپ نے۔۔!!!"

انہوں نے متفکر لہجے میں اسے چپ کروانا چاہا ۔ جو بس روتی ہی جارہی تھی ۔

"اسی لیے کہتے ہیں اپنے بچوں کے نام سوچ سمجھ کر رکھیں ۔ ناموں کا اثر انسان کی شخصیت پر بھی ہوتا ہے۔ آنٹی جی اس بچی کا نام بدل کر کوئ تیز طرار نام رکھیں اس کا تاکہ یہ بولنا ہی سیکھ لے۔ اور اس کا دھیان خود بھی رکھا کریں زمانہ ٹھیک نہیں ہے ۔ اگر کچھ ہوگیا تو بعد میں پچھتاتی پھریں گی آپ۔۔!!"

ان دونوں کا ایموشنل ڈرامہ دیکھ کر فدیان نے ان کے بیچ بولنا ضروری سمجھا۔ جب سبرینہ بیگم نے سخت نظر اس پر ڈالی جس نے زبان دانتوں تلے دبا کر مسکراہٹ روکی۔

"چلو معصومہ ہم گھر چلتے ہیں ۔۔!! پھر کبھی آجائیں گے۔۔!!!"

معصومہ کو پچکارتے ہوئے وہ جانے لگیں جب فدیان کا دل قہقہہ لگانے ہو چاہا ۔

ماں لوگوں کو ڈرانا جانتی ہے اور بیٹی تو لوگوں سے بغیر کسی کے ڈراۓ ہی ڈرتی ہے ۔

"کرائنگ گرل۔۔!!!! اگلی دفعہ اپنے بابا یا بھائ کے ساتھ آنا ۔ مما کے ساتھ نہ آنا کہیں پھر سے کھوگئ تو مسئلہ ہو جاۓ گا ۔ ہر بار میں کمپنی دینے نہیں آؤں گا ۔!!"

اس نے ہانک لگائی پر سبرینہ بیگم نے جواب نہیں دیا تھا۔

وہ خاموشی سے چلی گئیں ۔ان کے جاتے ہی فدیان بھی اپنا کام کرنے چلا گیا۔ وہ یہاں ریلیکس ہونے آیا تھا پر اس روندو لڑکی کو دیکھ کر اس کا سٹریس تو کہیں اڑ ہی گیا۔

وہ الگ بات تھی کہ اسے روندو لوگ پسند نہیں تھے ۔ پر یہ لڑکی عجیب سے بھی عجیب لگی اسے۔

زرلشتہ کو اپنے گھر آۓ ہوۓ چار دن ہوچکے تھے۔ اس بیچ اس نے کسی سے بھی پہلے کی طرح بات نہیں کی تھی ۔ اپنے کام سے کام رکھتی زیادہ تر وقت لان میں گزارتی ۔نہ اس نے کسی سے کوئ ضد کی نہ کسی کو تنگ کیا۔ نہ ہی کوئ فرمائش کی۔ البتہ درمان وہ واحد انسان تھا جس سے وہ لڑ بھی لیتی تھی اور دل کھول کر باتیں بھی کرلیتی تھی۔آخر درمان نے اسے اپنا عادی جو بنادیا تھا اب اس کے بغیر زرلشتہ کا گزارہ مشکل تھا۔ 

وہ اب بھی دیار کے علاؤہ سب سے ناراض تھی جنہوں نے اسے سر سے بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا تھا۔ لیکن باقیوں کی طرح اس کی خاموش سزا کا مستحق دیار بھی ٹھہرا تھا۔

وہ یہاں موجود بھی تھی اور نہیں بھی تھی۔ اب سب بھی اس کی سزا سے تنگ آچکے تھے ۔وہ اگر کوئ شکوہ کرتی تو سب کو اسے منانے کا موقع مل جاتا پر یہ خاموش احتجاج جان لیوا تھا سب کے لیے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

بہراور درانی ابھی کمرے سے باہر نکلے تھے جب انہیں زرلشتہ سامنے لاؤنج میں اکیلی بیٹھی نظر آئ۔ 

لائٹ پرپل کلر کی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے بالوں میں کیوٹ سا بنی ہیئر بینڈز لگاۓ ۔ایک تکیہ گود میں رکھے وہ فون پر مصروف تھی۔ اس کا حلیہ پہلے جیسا ہی تھا۔ انہیں خوشگوار سی حیرت نے آگھیرا ۔ جیسے ان کی وہی نٹ کھٹ سی بیٹی پھر سے واپس آگئ ہو۔

ہمت کرکے وہ آج زرلشتہ سے بات کرنے کے لیے اس کے پاس چلے ہی گۓ۔ 

"بچے ..!!! بابا سے ابھی تک ناراض ہو؟"

انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو زرلشتہ نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ جن کے چہرے پر تھکن تھی۔ اس کی ناراضگی برداشت کرتے کرتے وہ بھی تھک گۓ تھے۔ مانا ان سے غلطی ہوئی تھی پر اس کی خاموشی بہت بڑی سزا تھی ان کے لیے۔

"میں آپ سے ناراض نہیں ہوسکتی آپ بابا ہیں میرے۔ بے فکر رہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔۔!!!"

زرلشتہ نے عام سے انداز میں ان کے وہم کو دور کرنا چاہا پھر فون آف کرکے اپنے پاس رکھ لیا۔ اور تکیہ بھی سائیڈ پر رکھ دیا۔ 

بہراور درانی خاموشی سے اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گۓ۔وہ باپ تھے جانتے تھے وہ ناراض ہے پر بتانا ہی نہیں چاہتی ۔

"پر میری شہزادی ناراض ہے مجھ سے ۔ میں جانتا ہوں۔ تبھی تو پچھلے چار دن سے نہ تم نے مجھ سے بات کی نہ کوئ فرمائش کی۔ نا کوئ ضد کی۔نہ پیار کیا نہ لاڈ اٹھواۓ۔ ورنہ میری شہزادی تو اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھتی تھی جب تک اپنے بابا کو اپنے پیچھے خوار نہ کر دے۔جو تم کررہی ہوں وہ ناراضگی کا سنگین سٹیج ہے۔ لگتا ہے اب بابا کی صورت دیکھنا بھی گوارہ نہیں تمہیں ۔۔!!!"

بہراور درانی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔ پھر اس کے زخمی چہرے کو دیکھ کر انہیں تکلیف ہوئ۔ اپنی معصوم سی بچی کو اس حال میں انہوں نے خود پہچایا تھا۔ 

اسے دیکھ کر افسوس سے کہتے انہوں نے جواب چاہا۔ اپنے بابا کو اس حال میں دیکھنا زرلشتہ کو مزید گوارہ نہیں تھا۔ سرمئ آنکھوں میں نمی چمکی۔ اسے تو بس پیار بٹورنے کی عادت تھی یہ ناراض ہونا یا خفا رہنا اسے کہاں پسند تھا ۔

"ہوگیا احساس آپ کو کہ میں آپ سے ناراض ہوں۔ میں نے آپ سے بات نہیں کی۔کوئ ضد نہیں کی۔ بہت جلدی نہیں اندازا ہوگیا آپ کو۔ ابھی بھی کیوں آۓ ہیں آپ میرے پاس دو دن بعد میں واپس چلی جاتی نہ تب میرے سسرال آکر مجھ سے بات کرتے۔۔۔!!!"

وہ نروٹھے پن سے بولی ۔ پھر اپنی آنکھوں کو رگڑ کر چہرے پر خفگی سجائ۔ اسے ناراضگی جتاتا دیکھ کر بہراور درانی نے معصوم سی صورت بنائ۔

"اب تو ہوگیا ہے نا احساس ..!!! ڈانٹ کیوں رہی ہو اب۔۔!!! مجھےڈر لگ رہا ہے زرلش۔۔!! اپنے بابا کو ڈراؤ تو مت۔۔ !!!"

انہوں نے مصنوعی خوف ظاہر کیا ۔ تو جواب میں زرلشتہ نے آنکھیں سکیڑ کر انہیں دیکھا۔ جو ڈر کا مظاہرہ کرتے ذرا پیچھے ہوگۓ ۔

"جب تک میں چپ تھی تب تو بڑے مزے میں تھے آپ۔ کہ چلو اچھا ہے پیسے بچ رہے ہیں میرے۔نہیں تو بہت خرچہ کروادیتی یہ میرا۔۔!!! اب میں بول رہی ہوں تو آپ کو ڈر لگ رہا ہے ۔۔!!!

آپ بھول گۓ تھے کہ ہم صرف باپ بیٹی نہیں دوست بھی ہیں۔ مجھ سے آپ کی خفگی برداشت نہیں ہوتی۔ آپ نے مجھے اگنور کیا۔ مجھے یاد بھی نہیں کیا۔ بھول گۓ آپ مجھے۔ آپ ورلڈز بیسٹ بابا نہیں ہو ۔ آپ کو میرا درد نہیں دکھتا۔ اب میں بھی بات نہیں کروں گی آپ سے۔ !!!!"

زرلشتہ نے تیز لہجے میں کہا پھر آخر میں خود ہی روتے ہوۓ منہ پھیر گئ۔دل کا غبار نکال دیا تھا اس نے۔ بہراور درانی نے اب کی بار کان پکڑے۔ باپ بیٹی کی یہ میٹھی سی لڑائ دور کھڑے دیار اور رخمینہ بیگم نے بھی دیکھی۔ جو خود اسکے شکوے سن رہے تھے۔کتنا یاد کیا تھا انہوں نے اس کی باتوں کو۔۔ !!!!

"میں جانتا ہوں میں بیسٹ بابا نہیں ہوں پر تمہارا بابا تو ہوں نا میں ۔مجھے معاف کردو زرلش۔۔!!! کوئ سزا دے دو پر ناراض نہ رہو۔۔!!"

انہوں نے التجا کی۔تو زرلشتہ نے کن اکھیوں سے انہیں دیکھا پھر منہ بناکر ان کے دونوں ہاتھ کانوں سے ہٹاۓ۔

"بس کردیں آگے ہی میرے پاس تھوڑی سی نیکیاں ہیں۔جو بڑی مشکل سے جمع کی ہیں میں نے ۔ وہ بھی چلی جائیں گی کہ یہ لڑکی کو اپنے باپ کو کان پکڑوا رہی ہے یہ اس قابل ہی نہیں کہ ہم اس کے پاس رہیں ۔

اور پلیز آپ نے رونا نہیں ہے بہت عجیب لگیں گے آپ۔ کہیں مما آپ سے ڈر کر آپ کو چھوڑ ہی نہ دیں۔۔!!!"

زرلشتہ نے ان کے دونوں ہاتھ باری باری چومے تو وہ ہلکا سا مسکراۓ۔یہ اس کا محبت جتانے کا انداز تھا خاص ان کے لیے۔۔!!!

"بچے تمہاری مما تو خود بغیر میک اپ کے مجھے ڈرا دیتی ہیں ۔تم پریشان نہ ہو انہیں عادت ہے آئینہ دیکھنے کی۔۔!! اور میں چونکہ باپ تمہارا ہوں تو روتے ہوۓ بھی پیارا ہی لگوں گا۔ پر تمہاری ماں سچ میں بغیر میک اپ کے ڈراؤنی لگتی ہے۔ کبھی صبح صبح آکر دیکھنا اسے۔ پھر مجھے بتانا کون ذیادہ پیار ہے "

انہوں نے رخمینہ بیگم کو وہاں کھڑا دیکھ لیا تھا ۔تبھی زرلشتہ کو بھی آنکھوں سے پیچھے کی طرف اشارہ کیا۔جیسے کہہ رہے ہوں وہ وہی کھڑی ہے۔ زرلشتہ نے سمجھ کر ہونٹوں کو گول شیپ دی ۔ جیسے اب کچھ نیا کرنے جارہی ہو وہ ۔

"آپ جیسا تو پھر کوی ہے ہی نہیں نا۔ !! بڈی ویسے میرے جانے کا کوئ دکھ تو نہیں لیا آپ نے ۔ میں تو سمجھیں تھی کہ آپ کی داڑھی اور سر کے بال سفید ہوگۓ ہو گۓ ہوں گے۔ آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ گۓ ہوں گے ۔ پر آپ تو مزید ہینڈسم ہوگۓ ہیں۔ دیار لالہ کو ٹکر دے رہے ہیں آپ ۔۔۔!!!  کہیں تو دوسری مما میں ڈھونڈ لوں اپنے لیے۔ !!"

ان کے ہاتھ چھوڑ کر ان کے سیاہ بالوں کو شرارت سے بگاڑ کر وہ ان کے سینے سے لگ گئ جنہوں نے اس کے سر پر بوسہ دے کر نرمی سے اس کے گرد حصار باندھا۔ اسی پیار کو تو یاد کیا تھا زرلشتہ نے اور انہوں نے بھی ۔ 

باپ بیٹی کی محبت ایسی ہی ہوتی ہے بے لوث ۔۔!!! کہ بیٹی بس ایک نظر پیار کی دیکھ کر بڑے سے بڑے جرم معاف کرسکتی ہے ان کے۔ یہاں تو وہ بھی جانتی تھی کہ اس کے بابا مجبور تھے۔ جو ہوا وہ غلط تھا پر ضروری تھا۔اس کے بھائ کی زندگی کے لیے۔

"ویسے بابا جانی آپ نے وہ میک اپ والی بات میری سگی ماں کے بارے میں کی ہے یا پھر وہ دوسری مما کے بارے میں کہہ رہے تھے آپ..!!  اووو یہ میں نے کیا کہہ دیا اس گھر میں دوسری مما کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا مجھے۔ یہ تو سیکرٹ ہے ٹاپ سیکرٹ...!!!! "

اس نے جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہا تاکہ رخمینہ بیگم آسانی سے سن لیں ۔ حیران تو دیار بھی ہوا کہ یہ دوسری مان کہاں سے آگئ۔

رخمینہ بیگم کے چہرے پر ناسمجھی چھائ ۔ یہ دوسری مان کا کیا قصہ ہے آخر۔۔ !!!

دراب آفریدی کو تو خود جھٹکا لگا کہ انہوں نے یہ خفیہ نکاح کب کیا ہے۔

"بیٹا کون سی سیکنڈ وائف ..!!!! میری زندگی میں ایک ہی چڑیل ہے بس۔ وہ ہے تمہاری ماں ۔اس کے علاؤہ کوئ حسینہ میری زندگی میں نہ کبھی آئ ہے نا اس کے ہوتے آۓ گی۔۔!!"

انہوں نے لفظوں پر زور دیا کیونکہ اپنی بیوی کا غصے سے لال ہوتا چہرہ وہ دیکھ چکے تھے ۔زرلشتہ کا آج اپنی ماں کو بھی بخشنے کا کوئ ارادہ نہیں تھا ۔

تبھی صورتحال سے مخظوظ ہوتے زرلشتہ نے ان کے سینے پر ٹھوڑی ٹکا کر انہیں معصومیت سے دیکھا۔

"پر مجھے سیکنڈ مما پسند ہیں نا ۔۔۔!!؛ ان کی گرین آئیز ، کرلی ہیئر ، بات کرنے کا انداز اور وہ تو مجھ سے پیار بھی بہت کرتی ہیں۔سویٹ سی ہیں وہ آپ کی بھی تو جان ہے ان میں ۔۔۔!!!

بابا جان۔۔۔!! آج کا ڈنر ہم ان کے ساتھ ہی کریں گے پلیز۔۔۔!!!!"

زرلشتہ نے جیسے انہیں یاد دلایا تھا کہ جناب آپ کی ایک اور بیوی ہے میں نے کہہ دیا ہے تو وہ ہے۔۔!!!

لمحے کے لیے ایک ہری آنکھوں والی پری انہیں بھی لگا ان کے نکاح میں ہے۔ پر وہ ہے کہاں۔۔!!! 

دیار تو حیران تھا پر رخمینہ بیگم کا ضبط جواب دے گیا۔ تو وہ غصے سے ان باپ بیٹی کو گھورتے ہوئے ان کے سر پر پہنچیں۔

"یہ کس چڑیل کا ذکر اتنے پیار سے کررہے ہیں آپ دونوں میرے ہی گھر میں میرے ہی صوفے پر بیٹھ کر۔۔!!! بہراور درانی کس کی اجازت سے آپ مجھ پر سوتن لاۓ ہیں۔۔!!!"

وہ تقریبا چیخیں تو بہراور درانی نے نہ میں سر ہلایا کہ میں بے قصور ہوں۔

"میری جازت سے ...!!! انہوں نے وہ شادی میری خوشی کے لیے کی ہے ۔آپ کیوں اتنا اوور ری ایکٹ کررہی ہیں کونسا وہ سیکنڈ مما کو اس گھر میں لے آۓ ہیں۔ بابا جان اٹھیں یہاں سے۔ ہم ان کے صوفے سے اٹھ کر باہر سڑک پر جاکر سیکنڈ مما کی باتیں کریں گے پھر دیکھتے ہیں یہ کیسے روکتی ہیں ہمیں۔۔!!!"

زرلشتہ نے زہریلی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائ ۔ پھر اپنے بابا سے دور ہوکر انہیں اٹھنے کا اشارہ کیا جو بیچارے بیوی سے اتنا ڈرے ہوئے تھے کہ اٹھنے بھی لگے جب رخمینہ بیگم نے کھانے والی نظر ان پر ڈالی ۔ ان کا تو حلق ہی خشک ہوگیا ۔سارے علاقے کو اپنے اشاروں پر چلانے والے بہراور صاحب اپنی ہی بیوی سے ڈرتے تھے۔ بات عجیب تھی پر سچ یہی تھا۔

"بیٹھے رہیں یہیں دونوں ۔ ٹانگیں توڑ دوں گی میں اگر یہاں سے ہلے بھی آپ لوگ تو۔ اور تم زرلش۔۔!! زرا شرم نہ آئ تمہیں اپنے باپ کے کالے کرتوتوں میں اس کا ساتھ دیتے ہوۓ ۔کون ہے وہ چڑیل بتاؤ مجھے۔۔!!"

انہوں نے جھک کر اس کا کان پکڑا ۔ جس نے درد کے باوجود آنکھیں گھماکر یوں ظاہر کیا مجھے فرق ہی نہیں پڑا۔

ہر دیار جو دور کھڑا تھا اس کی جان لبوں پر اگئ۔

"مما چھوڑیں اسے۔ وہ پہلے ہی بیمار ہے۔ حال تو دیکھیں اس کا۔ اس کے سر پر اب بھی پٹی بندھی ہے۔ اپنے شوہر سے پوچھیں جو پوچھنا ہے میری بہن کو ہاتھ نہ لگائیں ۔۔!!"

وہ ایک لمحے میں ان تک پہنچا اور ان کے ہاتھ سے اس کا کان آزاد کروایا ۔ رخمینہ بیگم کو اپنی حرکت کا اندازہ اس کا سرخ کان دیکھ کر ہوگیا پر سب شاکڈ بھی تھے کہ یہ ذرا سی خراش پر رونے والی لڑکی آج سکون سے کیوں بیٹھی ہے۔ جواب تھا اس نے درد سہنا سیکھ لیا پے۔

" چڑیل نہیں حسینہ ہے وہ ۔ بہت حسین ۔۔۔!!! اور شرم کیسی بابا نے نکاح کیا ہے کونسا کوئ جرم کیا ہے۔ اور میں صرف ملی نہیں تھی بلکہ مہمانوں کو مٹھائ کھلا کر آئ تھی۔ لالہ جان آپ بھی تو وہاں تھے نا بتائیں نہ انہیں "

دیار کے حصار میں بیٹھے ہوۓ بھی اس نے انہیں چڑانا ضروری سمجھا جنہوں نے صدمے سے اب بہراور درانی کو دیکھا۔

جو رحم کی بھیک مانگ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہو بیگم قسم لے لو میں بھی نہیں جانتا کہ میں دوسرا نکاح کرچکا ہوں ۔

زرلشتہ کا اشارہ سمجھ کر دیار بھی مدھم سا مسکرایا ۔ 

"میرے شہزادے ہم نے بس مٹھائ تو نہیں کھلائ تھی بھنگڑا بھی ڈال کر آۓ تھے۔ !! یاد ہے نا تمہیں کہ لوگ کتنی ستائشی نظروں سے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ کہ اللہ ایسی اولاد سب کو دے جو اپنے باپ کی خوشی میں اس سے زیادہ خوش ہیں۔"

دیار نے بھی مہر لگادی ۔ تو زرلشتہ مسکراکر اس کے حصار سے نکلی پھر انہیں جتاتی نظروں سے دیکھا۔

رخمینہ بیگم کا بس نہ چلا اپنے شوہر کو گھر سے باہر پھینک دیں جو ناجانے کب سے یہ بات ان سے چھپا رہے تھے۔

"بیگم یہ دونوں فتنہ پھیلارہے ہیں۔ میں نے صرف یہ شادی والا گناہ مطلب شادی کی غلطی میرا مطلب ہے کہ بس ایک چڑیل ہے میرے نکاح میں ۔ آپ کے علاؤہ میں کسی حسینہ کو نہیں جانتا۔ میں نے کبھی کسی حسینہ کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا۔۔!!"

انہوں نے مسکین صورت بنائ ۔ جواب میں رخمینہ بیگم نے دو حرف بھیجے ان کی اس مسکینیت پر۔

وہ چڑیل اور کوئ اور عورت حسینہ ۔۔!!

کیا انصاف تھا ان کے شوہر کا جو خود کو خود پھنسا رہے تھے ۔

"دیار مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ یہ تو ہے ہی پاگل جو باپ کے پیچھے پاگل ہوگئ ہوگی۔ لیکن تم تو سمجھدار ہو ماں کا گھر کیوں خراب کیا تم نے۔ !!!! میرا دل کررہا ہے تمہیں دو کھینچ کر لگاؤں بیوقوف لڑکے باپ کا نکاح کروا آۓ ہو تم ۔ذرا شرم نہیں آرہی تمہیں ۔

یا اللہ مجھے صبر دے ۔ میرا تو شوہر بھی بے وفا نکلا اور اولاد بھی نکمی اور بے حس نکلی۔۔۔!!!"

انہوں نے اپنا سر پکڑا اور دوسرے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ یہ انکشاف بہت بڑا تھا کہ وہ سالوں سے بیوقوف بن رہی ہیں۔ ان کا شوہر کسی اور کا بھی ہے ۔ وہ یہ صدمہ کیسے سہیں گی۔۔

 بہراور درانی نے آخری بار بیٹی سے اشاروں میں پوچھا کی کیوں مجھے مروانا چاہتی ہوں ۔

وہ سچ میں چڑیل ہی ہے مار دے گی مجھے۔

زرلشتہ نے کندھے اچکاۓ کہ میرا کیا جاتا ہے آپ کی بیوی ہے آپ جانے ۔

"بابا آپ کیوں ڈر رہے ہیں ان سے۔ آپ علاقے کے سردار ہیں سردار ۔ تو سر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتائیں کہ آپ نے دوسری شادی کرلی ہے۔ جیسے تصویروں میں ہنس رہے تھے ویسے ہی ہنسیں ۔۔!!!

لالہ جان آپ بھی دوسری مما کو میسج کردیں کہ ہم آج کا ڈنر ان کی طرف ہی کریں گے۔ بہت ٹائم ہوگیا ہے ان کے ہاتھ کے کباب کھاۓ ہوۓ۔ !!!"

ماں کو تپانے میں زرلشتہ نے کسر نہ چھوڑی۔ دیار بہت مشکل سے سنجیدہ بیٹھا تھا ورنہ اپنی ڈرامہ کوئین بہن کو ایوارڈ دینے کو اس کا دل چاہا۔ بہراور درانی تو اپنی متوقع درگت کے بارے میں سوچ سوچ کر حلقان تھے جو رخمینہ بیگم کے ہاتھوں ان کی بنتی اس سوتن والی بات پر۔

وہیں رخمینہ بیگم نے تنبیہی نگاہ زرلشتہ پر ڈالی جسے ابھی بھی فرق نہیں پڑا تھا۔

"زرلشتہ باز آجاؤ۔۔۔!! ورنہ مار کھاؤ گی مجھ سے۔ !!"

انہوں نے دانت پیسے۔ 

"کیوں باز آؤں۔۔!! آپ جب مجھے مارتی ہیں تب تو احساس نہیں ہوتا آپ کو کسی بات کا اب جب مجھے پیاری سی مما مل گئ ہیں تو آپ کو غصہ آرہا ہے۔ بابا جان انہوں نے نا مجھے مارا تھا نکاح سے پہلے۔ اور دھمکیاں بھی دی تھیں۔

 میرے کیوٹ پٹھان کے لاحاصل رہنے کی ذمہ دار بھی یہی ہیں۔ اتنی زور سے انہوں نے میرا بازو پکڑا تھا نا کہ میں درد سے روپڑی بجاۓ چپ کروانے کے انہوں نے مجھے منہ بند کرنے کو کہا۔ اور نکاح والے دن بھی یہ مجھے گاڑی تک کھینچ کر لے گئ تھیں۔ مجھے اتنی ظالم مما نہیں چاہیئیں۔ہم نیو مما کے ساتھ رہیں گے اب سے۔ "

ساری شکایتیں رونی صورت بناکر اپنے باپ اور بھائ کو لگا کر اس نے ضدی انداز میں نیا فیصلہ سنایا ۔ وہ دونوں اس نۓ انکشاف پر صدمے میں گۓ کہ رخمینہ بیگم نے زرلشتہ کو ڈرا کر اسے نکاح کے لیے راضی کیا تھا۔ ساتھ میں مارا بھی تھا۔۔!!

"آپ نے میری بیٹی کو مارا ہے۔ سیریسلی میری بیٹی کو آپ نے ٹارچر کیا ہے ۔!!"

بہراور درانی تصدیق چاہتے تھے۔ رخمینہ بیگم سوتن والا ٹاپک ایک طرف کرکے اس انکشاف پر سر جھکاگئیں مطلب تھا ہاں ۔۔!!

"تو میں کیا کرتی اگر پیار سے بات کرتی تو یہ کبھی نہ مانتی۔ نا ہی میرا دل اسے ظالموں کے حوالے کرنے کو چاہتا تبھی مجھے سختی کرنی پڑی ۔ میں خود اس وقت سے تکلیف میں ہوں۔ روز مجھے وہی سب ستاتا ہے ۔ دل کرتا ہے کہ کچھ ایسا ہوجاۓ جس کے بعد یہ مجھے واپس مل جاۓ۔۔!!'

پچھلا منظر یاد کرکے ان کی آنکھوں سے ایک آنسو گرا۔ اتنے عرصے سے وہ روز خود کو کوستی تھیں کہ کاش تب زرلشتہ کو اپنے پاس رکھ لیتیں تو آج ان کا سکون بھی قائم ہوتا۔

وہ آنسو زرلشتہ کی نظروں سے مخفی نہ رہ سکا۔ وہ انہیں تنگ کررہی تھی پر تکلیف دینے کا اس کا ارادہ نہیں تھا۔

"اگر ایسی بات ہے تو پھر ٹھیک ہے میں دوسری کیا تیسری اور چوتھی مما بھی لانے کو تیار ہوں زرلشتہ کے لیے۔ "

اس اعتراف کے بعد بہراور درانی نے بھی گویا فیصلہ سنادیا۔ 

پر اگلے ہی پل زرلشتہ ان دونوں کے درمیان سے اٹھ کر اپنی ماں کے پاس جاکر بیٹھ چکی تھی۔

"خبردار اگر آپ نے ایسا کچھ سوچا بھی تو ۔ میں مزاق کررہی تھی آپ تو سیریس ہی ہوگۓ۔ ملکہ جزبات آپ بھی چپ کر جائیں۔ آپ کا شوہر بس آپ کا ہی ہے۔ میرے ہوتے ہوئے میری مما کی جگہ کوئ بھی ایری گیری چڑیل نہیں لے سکتی ۔"

اتنی جلدی تو گرگٹ رنگ نہیں بدلتے جتنی جلدی زرلشتہ نے پارٹی بدلی ۔سارا فساد مچا کر وہ اب ماں کی آغوش میں سر رکھ چکی تھی۔ اور ان کا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر دبانے کا اشارہ کررہی تھی۔

 جنہوں نے جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔ پتہ انہیں بھی تھا اس کے مزاق کا لیکن انہوں نے بھی یونہی ظاہر کیا کہ وہ بھی شاکڈ ہیں۔ جو زرلشتہ کررہی تھی وہ بھی چاہتی تھیں کہ بس وہ خوش رہے۔

"دیکھا میری بیٹی کو بس میرا احساس ہے۔ باقی یہ باپ بیٹا تو پرائی شادی پر عبداللہ دیوانہ والا حساب ہیں۔ "

انہوں نے دیار کو گھورا جو کندھے اچکا گیا کہ میرا کوئ قصور نہیں ہے ۔

بہراور درانی بھی لب بھینچ گۓ اب رخمینہ بیگم کے لیے پتہ لگوانا مشکل تھا کہ یہ خاموشی شادی نہ ہونے کی ہے یا پھر زرلشتہ کے پارٹی بدلنے کی۔

"لالہ جان ۔۔!!! جلدی سے برگر ،پیزا، آئس کریم ، پاستہ ، چاکلیٹس جو جو منگوا سکتے ہیں منگوالیں ۔ بابا کے ارادوں پر پانی پھرنے کی خوشی میں آج میری طرف سے دعوت ہوگی ۔ 

بل اپنے ذاتی کارڈ سے ادا کردیجۓ گا ۔ اب میں بل دینے کے لیے اپنے شوہر کو یہاں بلاتی اچھی نہیں لگوں گی ۔میری تو زبان تھک گئ ہے یہ دوائیاں کھا کھا کر ۔ اب سے نو پرہیز صرف پارٹی ہوگی ۔ دو دن کے لیے میں یہاں ہوں تو یہ دو دن ہم یادگار بنائیں گے۔ پھر پرسوں تو میں نے چلے ہی جانا ہے۔ !!"

اس نے آنکھیں بند کیں پھر ہاتھ اٹھا کر نیا حکم جاری کیا۔ سر دبانے سے اسے سکون مل رہا تھا۔ واپس جانے والی بات سن کر لاؤنج میں خاموشی چھاگئ۔

"کیا مطلب ہے تمہارا کہاں جاؤ گی تم دو دن بعد۔ یہ تمہارا گھر ہے سکون سے یہاں رہو۔ ابھی تو میں نے اپنی بیٹی کے لیے کوئ کیوٹ پٹھان بھی ڈھونڈنا ہے ۔تم نہیں ہوگی تو کیسے ڈھونڈوں گا میں ۔۔ !!!"

بہراور درانی نے سختی سے کہا۔ زرلشتہ نے ان کی بات خاموشی سے سنی پھر آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا۔ واپس جانے کا دل اس کا بھی نہیں کررہا تھا پر درمان کو چھوڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا اس کے لیے۔

"بابا جانی کیوں گنہگار بنانا ہے آپ نے مجھے ایک کیوٹ پٹھان کی تلاش کرواکر ۔ میں شادی شدہ ہوں ۔ اور دو دن بعد اپنے سسرال جاؤں گی ۔ مجھ پر سر نہ کھائیں ایک عدد شیرنی اپنے برابر میں بیٹھے شیر کے لیے ڈھونڈیں میں خوش ہوں اپنی زندگی میں ۔

آپ کیوں رک گئیں دبائیں نہ مزہ آرہا تھا مجھے۔"

انہیں اپنا فیصلہ سنا کر اور ان کی تصحیح کرکے زرلشتہ نے آخر میں رخمینہ بیگم کو سر دبانے کو کہا جنہوں نے اس کے زخم دیکھ کر بغیر کچھ کہے اس کا سر دبانا شروع کردیا۔

اس کا فیصلہ سن کر وہ بھی خاموش ہوگئے ۔جانتے تھے نہ طلاق آج تک ان کے ہاں ہوئ ہے نہ ہی مستقبل میں ہوگی ۔تبھی انہوں نے اس کی خوشی میں خوش ہونے کا فیصلہ کرلیا ۔

دیار نے بھی نکاح کے لیے رضامندی دے دی تھی تو انہیں اب ان دونوں کی طرف سے کوئ ٹینشن نہیں تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ کی پسندیدہ چیزیں منگواکر سب نے خوب مزہ کیا۔ ویڈیو گیم کا مقابلہ بھی ہوا جس میں ہمیشہ کی طرح زرلشتہ بازی لے گئ  پھر اکٹھے سب نے مووی دیکھی۔ زرلشتہ اور دیار کے بچپن کی یادیں ہنسی مزاق میں تازہ کی گئیں ۔

رات کے گیارہ بجے تھک ہار کر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گۓ۔ 

زرلشتہ نے فون کو اداسی سے دیکھا۔ جیسے کسی کا انتظار تھا اسے۔ ابھی وہ ٹیرس پر کھڑی تھی۔ کچھ سوچ کر اس نے کال ہسٹری چیک کی کہ شاید کال آئ ہو پر اسے پتہ نہ لگا ہو ۔ لیکن اس کے چہرے پر چھائ مایوسی بتاگئ کی جس کا اسے انتظار تھا اس نے صبح سے خبر بھی نہیں لی اس کی۔

اسے شدید نیند آرہی تھی ۔  پر سونے کا دل نہ کیا اس کا۔

"اکتا گۓ ہیں وہ مجھ سے ۔ابھی پانچ دن بھی نہیں ہوئے اور انہوں نے منہ پھیر لیا۔ وہ میرے کیوٹ پٹھان ہیں ہی نہیں اب بھی ظالم پٹھان ہیں وہ۔ پر میں تو دوست بھی تھی نا ان کی۔ اتنے لاپرواہ وہ کیوں ہیں آخر..!!"

زرلشتہ اداس ہوئ ۔چہرے پر ناراضگی کے ہلکے سے تاثرات تھے۔ پیشانی پر بکھرے بالوں کو اس نے آج پنز میں قید کرنے کی بجاۓ آزاد چھوڑا تھا جو دائیں طرف جھول رہے تھے۔ 

"مجھے سوجانا چاہیے۔۔!! میں کیوں جاگ رہی ہوں ۔ انہیں میری یاد نہیں آئ تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں ان کا انتظار کرتی رہوں۔"

اس نے جیسے خود کو سمجھایا تھا۔ پھر فون کو مٹھی میں دبوچ کر آنسو روکنے کی سعی کرنے لگی۔

"میری مصیبت فون کو کیوں گھور رہی ہے  اس معصوم نے کیا بگاڑا ہے آخر تمہارا ۔۔۔!!"

ایک بھاری مگر مدھم آواز زرلشتہ کے کانوں میں پڑی۔  اسی آواذ کے ساتھ ہی کسی نے شال اس کے شانوں پر پھیلا دی۔ وہ جو رونے کی تیاری پکڑ رہی تھی اس آواز اور جانی پہچانی خوشبو کو پہچان کر چونک اٹھی اور پلٹ کر پیچھے دیکھنے لگی۔

اسے لگا یہ کوئ خیال ہے ۔درمان اس کے سامنے کھڑا تھا ۔

"آپ یہاں ۔۔!!" وہ بے آواز سی سرگوشی کرگئ۔ 

"جی میں یہاں۔۔!! کوئ مسئلہ ہے کیا آپ کو ۔ میں اپنی بیوی سے ملنے آیا ہوں ۔ جو میکے آکر یہاں کی ہی ہوکر رہ گئ ہے۔ جسے یاد بھی نہیں کہ حال ہی میں اس نے مجھے اپنا دوست بنایا ہے۔ جو اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ۔۔!!"

شال اس کے گرد سیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ درمان نے شکوہ بھی کیا ۔

 زرلشتہ کی آنکھیں حیرت سے پوری طرح کھل چکی تھیں۔ درمان کیسے اس کے گھر میں آگیا وہ بھی سیدھا اس کے کمرے میں ۔۔!!!

"آپ سچ میں آۓ ہیں یا یہ کوئ میرا وہم ہے۔کہیں آپ فون سے تو نہیں نکل آۓ۔ یہ فون کیا جادوئی فون ہے۔ کسی کو یاد کرو اور وہ ٹیلیپوریٹ ہوکر آپ کے سامنے آجاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بتادیں کہیں میں کبھی مریم نواز کا نام لوں اور وہ بھی فون سے نکل کر میرے سامنے آجاۓ بہتر پنجاب کے نعرے لگاتی ہوئ۔ 

ہم تو خیبر پختونخوا میں رہتے ہیں نا یہاں تو خان کی حکومت ہے کہیں خان مجھے اپنی مخالف پارٹی ہمارے صوبے میں بلانے پر اپنے ساتھ والی جیل میں نہ ڈال دے۔۔!!!

دیکھیں درمان مجھے قیدی نمبر 805 ، 806، 807 کچھ نہیں بننا۔ تو جلدی سے میرا وہم دور کریں۔ !!"

 زرلشتہ نے فون کا تفصیلی جائزہ لیا جو دکھنے میں تو جادوئی نہیں تھا۔ تبھی درمان نے اس کے ہاتھ سے فون لیا اور اپنی پاکٹ میں ڈال لیا۔

"زرلشتہ میں انسان ہوں کوئ جن نہیں ہوں۔ اور میرے ہوتے مجھ پر توجہ دو نا کہ اس فون کو دیکھتی رہو۔ میری مصیبت۔۔!! میں باعزت طریقے سے گھر میں آیا ہوں دروازے کے راستے۔ راستہ بالکل صاف تھا تمہارا بھائ سکون سے سویا ہوا ہے ۔گارڈز گیٹ کے باہر سوۓ ہوۓ ہیں۔ نہ مجھے کسی نے روکا نہ میں نے کسی کو ٹھوکا. دل تک سے ملنے کو کیا اور میں یاد سے حقیقت بن کر تمہارے سامنے آگیا ۔!!"

اول جملہ سنجیدگی سے اور باقی کی باتیں اس نے فخر سے بتائیں۔ وہیں زرلشتہ نے اب ایک انگلی سے اس کے کندھے کو چھوا۔ جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو یہ کوئ خواب نہیں ہے۔ پھر اس نے ٹیرس سے جھک کر نیچے دیکھا۔

"فلموں میں ہیرو پائپ کے راستے اپنی ہیروئن سے ملنے آتے ہیں۔ یعنی چھپ چھپا کر کہیں ہیروئن کے گھروالوں کو خبر نہ ہوجاۓ۔ اور ایک آپ ہیں جو دروازے کے رستے بنا کسی سے ڈرے یہاں تک آۓ ہیں۔ اور آتے وقت میرے گھر والوں کے کمروں میں بھی جھانک کر آۓ ہیں۔ آپ کی دیدہ دلیری کو سلام !!"

زرلشتہ اب بھی شاکڈ تھی۔ اس کی حیرانگی سے مخظوظ ہوتے درمان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے واپس اس کے کمرے میں لے آیا۔ جہاں کی کلر تھیم اور سیٹنگ سے اول تو وہ بھی شاکڈ رہ گیا تھا کہ کہیں وہ کسی فیری لینڈ میں تو نہیں آگیا۔ سب شاندار تھا یہاں ۔

تب اسے احساس ہوا زرلشتہ اتنی معصوم کیوں ہے کیونکہ اسے پالا ہی شہزادیوں کی طرح گیا ہے۔ 

"چور راستے سے وہ آتے ہیں جن کے تعلق کا کوئ نام نہ ہو۔جو اگر پکڑے جائیں تو بات کردار پر آجاۓ۔ میری مصیبت ۔!!! میرا اور تمہارا تعلق نا ہی بے نام ہے نا مجھے تمہارے ساتھ دیکھ کر کوئ تمہارے کردار پر بات کرے گا۔ 

ہاں وہ تمہارا نیک نام بھائ میرا منہ ضرور توڑ دے گا۔ لیکن میں سہہ لوں گا ۔ آخر ہونے والا بہنوئ جو ہے وہ میرا۔ میری وشہ کے مستقبل کی بات ہے کمپرومائز کرنا تو جائز بھی ہے"

اسے صوفے پر بٹھا کر درمان خود بھی اسی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔درمان کے چہرے پر پڑا نشان وہ چھپاکر آیا تھا اب اگر وہ اپنی بیوی کو بتاتا کہ وہ اپنے سالے سے پٹ کر آیا ہے تو یہ اس کی بے عزتی ہوتی۔ تبھی یہ بات چھپانا اسے مناسب لگا۔ لفظ بہنوئ سن کر زرلشتہ نے ناسمجھی سے سر کو جنبش دی جیسے اسے وضاحت کی ضرورت ہو۔

"تمہارے نیک نام،شریف النفس، عزت دار، تابع دار،فرمانبردار،غیرت مند,نیک سیرت،خوش شکل، سڑا ہوا مزاج، غصے کی دکان،پاگل اور سرپھرے بھائ کا سکون دیکھتے ہوۓ جرگے نے اس کا سکون چھیننے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

یعنی اس کے گلے میں کوئ آفت ڈالی۔ جیسے میرے گلے میں مصیبت ڈالی کر میرا دل نرم کرنے کا گناہ کیا گیا ہے ویسے ہی جلد تمہارا بھائ بھی دیواروں سے ٹکڑیں مارے گا۔ ہر کسی پر چیخے گا  بیوی کے سامنے منتیں کرے گا ۔ بس یہ سمجھ لو پرسوں تمہارے بھائ کی زندگی میں ٹوسٹ آنے والا ہے۔ وشہ اور اس کا نکاح ہے پرسوں ۔۔!!"

باتوں کو گول گول گھماکر آخر میں اس نے صاف لفظوں میں زرلشتہ کو نکاح والی بات بتادی جو پہلے تو مزید حیران ہوئ پھر اچانک اس کے چہرے پر الوہی سی چمک آگئ۔

"وشہ کا نکاح لالہ کے ساتھ ہوگا ۔درمان آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ وشہ میری بھابھی بنیں گی۔ درمان آپ نہیں جانتے میں کتنی خوش ہوں۔میری تو شروع سے ہی نظر تھی وشہ پر ۔ میری خواہش تھی کہ ان کا نکاح میرے بھائ کے ساتھ کردیا جاۓ۔ بہت پیارا کپل بنے گا ان کا۔ میری خواہش پوری ہوگئ ۔پر لالہ نے تو مجھے بتایا ہی نہیں اس بارے میں ۔ میں انہیں مبارک باد دے کر آتی ہوں۔!!!"

زرلشتہ چہک کر اٹھی جب درمان نے فورا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا۔

"مصیبت رک جاؤ ابھی۔ بڑی مشکل سے وہ لارڈ صاحب مانے ہیں۔کہیں انکار ہی نہ کردیں۔اور تم نے یہ خواہش کب دل میں پالی تھی۔ کیا کیا منصوبے بناتی پھررہی ہو تم۔۔!!"

درمان نے اسے مصنوعی غصے سے گھورا تو اسے اندازا ہوا وہ کیا بتاگئ ہے اسے۔ اب درمان کے سوالوں کا جواب دینے کا اس کا موڈ نہیں تھا۔ پر یہ مصیبت لفظ اسے زہر لگا۔

فوراً سے پہلے اس کے چہرے پر اداسی چھائی۔ سرمئ نین کٹوروں میں پانی بھرا۔ 

"آپ کو میں اتنی بری کیوں لگتی ہوں۔اتنا تنگ کیوں ہیں آپ مجھ سے۔۔!!"

آنسو گالوں پر پھسلے ساتھ ہی وہ درمان کو بھی تڑپاگئ ۔ان آنکھوں میں آنسو اب اس سے بھی برداشت نہیں ہوتے تھے۔

"ایسا کیوں سوچ رہی ہو تم۔ میں اگر تنگ ہوتا تو تمہارے جانے کے بعد سکون سے سورہا ہوتا۔ نہ کہ یہاں تمہارے گھر آکر تمہارے سامنے بیٹھا ہوتا۔ تم پہلے ہی بہت مشکل سے ٹھیک ہوئ ہو۔ دوبارا رو کر خود پر ظلم نہ کرو پلیز ۔۔!!! 

ہوا کیا ہے آخر ۔!!"

درمان نے فورا اس کے آنسو پونچھے پھر اسے اپنے حصار میں قید کرگیا۔  درمان کی محبت اور یہ احساس بالکل الگ تھا۔ زرلشتہ کو یہ شخص اب اپنی باتوں سے اپنے ہر انداز سے سکون دینے لگا تھا۔ وہ کبھی اتنا بھی اچھا ہوسکتا ہے زرلشتہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

"پھر آپ مجھے مصیبت کیوں کہہ رہے ہیں۔ میں کیا مصیبت ہوں ۔۔!!"

اس انوکھے سے احساس کو جھٹک کر زرلشتہ نے اب اپنی خفگی کی وجہ اسے بتائ۔

اس بات کو سن کر درمان ہلکا سا مسکرایا ۔

"تم مصیبت ہی ہو۔ جو بغیر بتاۓ میری زندگی میں طوفان کی طرح آئ۔ پھر میری زندگی بدل کر رکھ دی تم نے۔ لوگ مصیبت سے تنگ آتے ہیں پر مجھے تو یہی مصیبت اچھی لگتی ہے۔

یہ مصیبت اب مجھ پر ہی مسلط رہنی چاہیے ۔ دیکھو میں جن ہوں نا تو مجھے مصیبت بھی اچھی لگنے لگی ہے۔ ہمارا کپل یونیک ہے۔ ظالم جن اور کیوٹ مصیبت کی جوڑی ۔۔!!"

اس کی وضاحت بھی الگ تھی۔ زرلشتہ خود ہی اس کے حصار سے نکلی  رونے سے اس کی آنکھیں فورا ہی سرخ ہوگئ تھیں۔

"ظالم جن۔۔!! ہنہہ۔۔!!"

اسے دیکھ کر زرلشتہ نے زیر لب کہا پھر ہنہہ کہہ کر بات ختم کی۔

درمان سن تو چکا تھا پر ہنسنے کا مطلب بات کو طول دینا تھا۔ تو اس نے سنجیدگی میں بہتری جانی۔

" زخم تو پہلے سے اب بہتر ہے تمہارا۔ میڈیسن کھالی تھی نا تم نے ۔ یا ویسے ہی گھوم رہی ہو"

اس نے انگوٹھے سے اس کے زخم کو نرمی سے سہلا کر اندازا لگایا کہ وہ ٹھیک ہوئ ہے یا نہیں ہوئ۔ گال پر لگا زخم بھر گیا تھا تبھی اس نے اب میڈیسن کا پوچھا ۔ 

زرلشتہ نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔

"اچھا تم سو جاؤ۔ میں چلتا ہوں اب۔ رات کافی ہوگئ ہے۔ تمہیں سونا چاہیے ۔۔!!"

درمان تسلی کرکے اٹھنے لگا جب زرلشتہ نے اس بار اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا ۔

"بیٹھے رہیں یہیں۔ جب میں سوگئی تب چلے جائیے گا۔ ایک تو آپ خود کو ہیرو ہی سمجھنے لگے ہیں ۔ شکل دکھا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ کیا مسئلہ ہے درمان آپ ظالم سے کیوٹ کیوں نہیں بن جاتے۔۔!!"

زرلشتہ نے خفگی سے کہا پھر اس کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موند گئ۔ جواب میں وہ دلکشی سے مسکرایا۔ محبت دونوں طرف برابر تھی۔ اور جتانے کا انداز بھی یکسر مختلف ۔

درمان نے نرمی سے اسے خود سے لگایا۔ پھر مسکراہٹ مزید گہری ہوئ۔

"اللہ ایک نہ ایک دن تمہارے کیوٹ پٹھان کی روح کو مجھ میں ٹرانسفر کردے گا۔ پھر تمہارا یہ شکوہ بھی دور ہو جائے گا۔ چھوٹی سی مصیبت ۔۔!!"

مسکراتے ہوۓ درمان نے سوچا۔زرلشتہ کچھ ہی دیر میں سوگئی ۔دن میں اچھل کود کرکےوہ پہلے ہی تھکی ہوئ تھی تبھی اسے جلدی نیند آگئ۔ درمان تب تک وہیں بیٹھا رہا۔

"مصیبت تم آئ تو میری مرضی سے نہیں تھی پر اب جانے تو میں تمہیں نہیں دوں گا۔فلحال تو مجھے جانا ہے کہیں میرا وہ افلاطون سالا میرا منہ پھر سے نہ توڑ دے۔ اتنی مشکل سے تو نشان مندمل ہوا ہے۔ توبہ وہ اور اس کا ہاتھ ۔!!

ذرا لحاظ نہیں رہا اس میں۔۔!!"۔

درمان نے اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا پھر اس کے ہاتھ میں قید اپنا ہاتھ دیکھا ۔تو اس کا فون نکال کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔

 وہ کچھ دیر تک اس کے پاس ہی بیٹھا رہا اور واپس چلا گیا۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment