Pages

Monday 2 September 2024

Mere Ishq Se Agy By Fatima Ahmad New Complete Romantic Novel

Mere Ishq Se Agy By Fatima Ahmad  New  Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mere Ishq Se Agy By Fatima Ahmad  New  Complete Romantic Novel 

Novel Name: Mere Ishq Se Agy

Writer Name:  Fatima Ahmad  

Category: Complete Novel

یہ کیا تک ہے ۔۔۔ فرید کو فریدے ۔۔۔۔ نور کو نوری ۔۔۔ رشید کو شیدے 

انسان کی اچھی خاصی شخصیت ان ناموں کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے ۔۔۔۔  فرید جو کہ اب پڑھ لکھ گیا تھا تو اسے ناموں کا یوں بگاڑنا بالکل بھی پسند نہیں تھا ۔۔۔ اسی وجہ سے کافی خفا تھا وہ ۔۔۔۔۔

نی تے تو کونسا شاہ رخ خان ہے ۔۔۔۔ جو تیری شو خراب ہو جانی ہے ۔۔۔۔ رہے گا تو تو وہی گاؤں میں رہنے والے کمالے کا بیٹا ناں

اماں نے اپنے بیٹے کو اس کی اوقات بتائی تھی

اماں بس ابا سے کہہ دے مجھے فریدے نہ بولا کرے۔۔۔ فرید نام کو لیکر کافی سنجیدہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔ 

تو کیا ہو گیا پیار سے بولتا ہے ناں تجھے۔۔۔۔۔۔ اماں نے وجہ بیان کی

ابا میں نور سے شادی نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ فرید کو اپنی وہ پیاری سی مگر ان پڑھ گوار کزن بالکل بھی پسند نہیں تھی ۔۔۔ 

کیوں ۔۔۔  ابا نے بھی حیرت اور غصے سے آنکھیں پھیلائیں تھی  ۔۔۔۔

بس نہیں کر سکتا  ۔۔۔۔  اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا تھا

میری زندگی میں تو ایسا ممکن نہیں ۔۔۔۔ فرید کا باپ اپنا فیصلہ سنا چکا تھا 

فریدے میں نے کہہ دیا بس ۔۔۔۔ تیری شادی ہو گی تو نوری سے ۔۔۔

باپ نے بھی قسم ہی کھائی تھی فرید کی شادی اپنی بھتیجی سے کروانے کی ۔۔۔  

اماں میں نے نور سے شادی نہیں کرنی ۔۔۔ میں کہاں اور وہ کہاں  ۔۔۔ وہ اپنی معصوم سی منگیتر جو کہ اس کی چچا ذاد بھی تھی اسے کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا 

وہ تیری بچپن کی منگ اے ۔۔۔ فرید کی ماں جانتی تھیں کہ یہ شادی تو ہو کر ہی رہے گی ۔۔۔ اسی وجہ سے اپنے بیٹے کو سمجھانے لگیں ۔۔۔۔

 تو اماں ۔۔۔ تو نے اور ابا نے کونسا مجھ سے پوچھ کر کیا تھا یہ رشتہ ۔۔۔ وہ گاؤں کی گوار میں پڑھا لکھا بندہ ۔۔۔۔ تجھے خود نہیں ترس آتا اپنے فرید پر ۔۔۔۔ فرید اپنی ماں سے گلہ کرنے لگا ۔۔۔۔ 

 میرے بچے وہ نوری جو ہے ناں بہت سمجھدار ہے ۔۔۔ گھر کا سارا کام کر لیتی ہے 

بڑوں کا بھی ادب کرتی ہے ۔۔۔ اور تو اور تجھے بھی پسند کرتی ہے ۔۔۔ اس کی اماں فرید کو نور کی خوبیاں گنوانے لگیں ۔۔۔۔ 

اور میں میرا کیا ۔۔۔ میں تو جانور ہوں ناں جس سے چاہے مجھے باندھ دے  ۔۔۔  فرید جیسے رو دینے کو تھا ۔۔۔ 

ناں ناں میرے بچے ایسی گل نہیں اے ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرید کی ماں بھی فرید کی خوشی چاہتی تھیں مگر ۔۔۔ اپنے شوہر کے ہاتھوں مجبور تھیں ۔۔۔ اسی لئے اپنے بیٹے کو ہی سمجھا رہی تھیں ۔۔۔۔ 

بس چھوڑ دے اماں تجھے تو اپنے بیٹے سے ہی پیار نہیں ۔۔۔۔۔۔ فرید کافی دلبرداشتہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔

فرید کو شروع ہی سے پڑھنے کا بہت شوق تھا ہر کلاس میں پہلی پوزیشن لیتا تھا ان کے گاؤں میں صرف آٹھویں تک سکول تھا ۔۔۔ پھر آٹھویں کے بعد تعلیم جاری رکھنے کے لیے فرید کو دوسرے گاؤں جانا پڑتا تھا ۔۔۔ لیکن اس گاؤں میں بھی کالج نہ تھا تو اسی وجہ سے اسے لاہور کے کالج۔۔۔ میں داخلہ لینا پڑا لاہور ان کے گاؤں سے کوئی پانچ گھنٹے کے فاصلے پر واقع تھا ۔۔۔۔  فرید روزانہ گاؤں نہیں جا سکتا تھا اس لیے مہینے میں صرف ایک بار گھر آ جاتا تھا ۔۔۔۔ جہاں اس کے گھر والے اس کی گھر آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ۔۔۔ وہاں کوئی اور بھی تھی جو سارا مہینہ اس کی واپسی کی راہ تکتی رہتی

اور وہ تھی نور جسے ہر کوئی نوری کہہ کر بلاتا سواۓ فرید کے ۔۔۔ وہ اول تو اسے بلاتا ہی نہیں تھا لیکن اگر مجبوری میں بات کرنی پڑ جاتی تو اسے نور کہہ کر ہی بلاتا تھا ۔۔۔ اور اسی وجہ سے نور کو اپنا نام بھی اچھا لگنے لگا تھا ۔۔۔ وہ سچ میں دیوانی تھی فرید کی ۔۔۔

اور وہ بھی اسے فرید ہی کہتی تھی کہ وہ جانتی تھی کہ فرید کو نہیں پسند کہ کوئی اس کا نام بگاڑے ۔۔۔۔۔

فرید کو گاؤں کا ماحول بالکل پسند نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اور خاص طور پر تب سے جس وقت سے اس نے شہر کا ماحول دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ نور سے نفرت کرتا تھا ۔۔۔ بلکہ نور صرف اسے اپنی شریکِ حیات کے طور پر قبول نہ تھی ۔۔۔۔ وہ ہمیشہ سے ایک پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ جو کہ نور نہیں تھی 

فرید سکالرشپ پر پڑھ رہا تھا ۔۔۔ اس کے باپ کو فرید کا بہت کم خرچہ اٹھانا پڑ رہا تھا کیوں کہ وہ اتنا محنتی تھا کہ فرسٹ ٹائم کالج جاتا اور سیکنڈ ٹائم میٹرک کے بچوں کو 

اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھاتا 

یوں تو فرید کے والد خود کو خوش قسمت والد سمجھتے تھے کہ ان کا بیٹا نا صرف قابل تھا بلکہ فرمانبردار بھی تھا ۔۔۔۔ لیکن فرید کی شادی کے معاملے میں اکثر پریشان ہو جایا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے بھائی کو زبان دی تھی کہ وہ نوری کا رشتہ اپنے بیٹے فرید کے لیے لیں گے ۔۔۔۔ جس پر فرید رضامند نہ تھا ۔۔۔۔

جاری ہے

#میرے_عشق_سے_آگے

#ازقلم_فاطمہ_احمد_قسط2

فریدے کی ماں ۔۔۔۔ فرید کے والد نے فرید کے متعلق شاید کوئی خاص بات کرنی تھی تو کب سے ہی آوازیں لگا رہے تھے ۔۔۔۔۔

جی آ رہی ہوں ۔۔۔۔ وہ اپنا کام ختم کر کے کچن سے فارغ ہوئیں اور اپنے شوہر سے پوچھنے لگیں ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے فرید کے ابا ۔۔۔۔

ابھی تک تو کچھ ہوا نہیں لیکن اگر ہم اسی طرح ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے ناں تو ہو جاناں ہے کام ہمارا ۔۔۔  وہ کافی غصے میں لگ رہے تھے 

کیا کہہ رہے ہو فرید کے ابا ۔۔۔۔ پہیلیاں نہ بجھواو سیدھے سیدھے بات کرو ۔۔۔ فرید کی ماں سوالیہ نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھنے لگیں ۔۔۔۔

میں کہہ رہا تھا کہ فرید کا کالج کا رزلٹ آنے والا ہے ۔۔۔ اس بار اسے ایسے نئیں جانے دینا شہر ۔۔۔۔  جب سے فرید نے نور سے شادی سے انکار کیا تھا۔۔۔ کمال صاحب بہت پریشان رہنے لگے تھے ۔۔۔۔

 کیا مطلب ۔۔۔۔ وہ اب بھی نہیں سمجھی تھیں ۔۔۔۔ 

فریدے کی ماں تجھے شہر کی لڑکیوں کا نئیں پتہ ۔۔۔۔ وہ جیسے آنے والے وقت سے خوفزدہ تھے ۔۔۔۔ 

وہ ویسے بھی اس رشتے سے خوش نہیں ۔۔۔ اگر خوش نہیں تو نہ کر یہ رشتہ کل کو نوری بھی بد دعائیں دے گی ہمیں ۔۔۔۔۔  فرید کی ماں نے موقع دیکھتے ہی اپنے دل کی بات کہہ دی ۔۔۔۔ 

نئیں فریدے کی ماں سارے گاؤں کو پتہ ہے یہ فریدے کی منگ اے ۔۔۔۔۔

میری عزت کا سوال ہے ۔۔۔۔ برادری والے سوال کریں گے ۔۔۔۔۔

تو کمائی میری کھا رہی ہے اور زبان اپنے بیٹے کی بول رہی ہے ۔۔۔

وہ اب اپنی بیوی پر سخت برہم تھے ۔۔۔۔ جو کہ بیٹے کی سائیڈ لے رہی تھی 

نہیں فرید کے ابا ۔۔۔میں تو بس ۔۔۔ ان کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان کے شوہر نے ان کی بات کاٹ دی ہے ۔۔۔۔۔

بس یہ میرا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔۔ 

اور اگر تجھے نہیں قبول تو میں زہر کھا لیتا ہوں یا کسی کنویں میں چھلانگ لگا لیتا ہوں ۔۔۔ 

تو بھی سن لے ۔۔۔ فریدے کی شادی نوری سے ہی ہونی ہے بس ۔۔۔۔  

وہ پورے گاؤں میں مشہور تھے کہ وہ اپنے قول کے بہت پکے تھے ۔۔۔۔ ایک بار زبان دے دیتے تو پھر کبھی اپنی بات سے نہیں پھرتے تھے ۔۔۔  اور یہ بات پورا گاؤں جانتا تھا۔۔۔۔ اور اب تو ویسے بھی معاملہ بھائی کی بیٹی کا تھا ۔۔۔۔ 

فرید بہت خوش تھا ۔۔ پورے پنجاب میں اس کی آٹھویں پوزیشن تھی اور اپنے کالج میں پہلی ۔۔۔۔ پورے گاؤں میں مٹھائی بانٹی تھی

فرید بہت خوش تھا ۔۔۔ مگر اسے کیا پتہ تھا کہ اس کی ساری خوشی اب غم میں بدلنے والی ہے ۔۔۔۔۔

جا فرید میرے بچے ۔۔۔۔ نوری سے بھی تھوڑی دیر بات کر لے ۔۔۔ آخر وہ تیری منگ اے ۔۔۔۔ اماں نے فرید کو سمجھانے کی کوشش کی

 بھاڑ میں گئی منگ ۔۔۔ فرید نور کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں تھا ۔۔۔

اس نے مٹھائی کو منہ تک نہیں لگایا ۔۔۔ کہہ رہی تھی فرید خود مٹھائی لے کہ آۓ گا تو کھاؤں گی ۔۔۔۔ فرید کی ماں مٹھائی لے کر گئی ۔۔۔ مگر نور نے چکھی تک نہیں تھی  

اماں تجھے پتہ تو ہے ۔۔۔۔ فرید نے اپنی ماں کو بے بسی سے دیکھا 

سنا نہیں تیری ماں کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔۔ جا اپنے چاچے کے گھر مٹھائی دے کے آ فرید کے والد واقعی غصے میں تھے ۔۔۔ 

کیوں بھجوائی نہیں مٹھائی چاچے کے گھر ۔۔۔۔ فرید نے انجان بننے کی کوشش کی ۔۔۔

تو اتنا بھولا نہ بن ۔۔۔۔ ہم نے بھجوائی تھی ۔۔۔ نوری کے لیے تو خود لے کے جا ۔۔۔۔  

ویسے بھی بیس دن بعد تیرا نکاح ہے ۔۔۔ کمال صاحب نے فرید کے سر پر بم پھوڑا تھا 

 ابا میں نے ۔۔۔ فرید اپنی بات پوری بھی نہیں کر سکا ۔۔۔۔ کہ کمال صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا ۔۔۔۔۔

بس میں نے کہہ دیا ۔۔۔ شادی ہے تیری بیس دن بعد ۔۔۔۔ وہ حتمی فیصلہ دیتے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے ۔۔۔۔۔

اور ٹھیک بیس دن بعد نوری ۔۔۔۔ فریدے کی دلہن بن کر فریدے کے گھر آ گئی تھی ۔۔۔۔

فرید بیٹا جا نوری انتظار کر رہی ہو گی ۔۔۔۔ فرید کی ماں فرید کے پاس آئی تھیں ۔۔۔

تو کرتی رہے انتظار ۔۔۔۔ مزہ چکھ لے مجھ سے شادی کا ۔۔۔۔۔ ساری زندگی میری ایک نظر کے لیے ترسے گی ۔۔۔۔ دیکھوں گا بھی نہیں اسے ۔۔۔۔۔فرید کا غصہ اب بھی کم نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔

میرے بچے ایسا مت کر ۔۔۔۔۔ تجھے میری عزت کا واسطہ ۔۔۔۔۔فرید کی ماں نے اپنی چادر فرید کے قدموں میں ڈال دی ۔۔۔۔۔

اماں تو پاگل ہو گئ ہے کیا ۔۔۔۔۔ فرید نے چادر واپس اپنی ماں کو اوڑھائی ۔۔۔ ٹھیک ہے اماں جیسے تو چاہے گی ویسا ہی ہو گا ۔۔۔۔

فریدے کی ماں ۔۔۔۔ فرید کے والد نے فرید کے متعلق شاید کوئی خاص بات کرنی تھی تو کب سے ہی آوازیں لگا رہے تھے ۔۔۔۔۔

جی آ رہی ہوں ۔۔۔۔ وہ اپنا کام ختم کر کے کچن سے فارغ ہوئیں اور اپنے شوہر سے پوچھنے لگیں ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے فرید کے ابا ۔۔۔۔

ابھی تک تو کچھ ہوا نہیں لیکن اگر ہم اسی طرح ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے ناں تو ہو جاناں ہے کام ہمارا ۔۔۔  وہ کافی غصے میں لگ رہے تھے 

کیا کہہ رہے ہو فرید کے ابا ۔۔۔۔ پہیلیاں نہ بجھواو سیدھے سیدھے بات کرو ۔۔۔ فرید کی ماں سوالیہ نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھنے لگیں ۔۔۔۔

میں کہہ رہا تھا کہ فرید کا کالج کا رزلٹ آنے والا ہے ۔۔۔ اس بار اسے ایسے نئیں جانے دینا شہر ۔۔۔۔  جب سے فرید نے نور سے شادی سے انکار کیا تھا۔۔۔ کمال صاحب بہت پریشان رہنے لگے تھے ۔۔۔۔

 کیا مطلب ۔۔۔۔ وہ اب بھی نہیں سمجھی تھیں ۔۔۔۔ 

فریدے کی ماں تجھے شہر کی لڑکیوں کا نئیں پتہ ۔۔۔۔ وہ جیسے آنے والے وقت سے خوفزدہ تھے ۔۔۔۔ 

وہ ویسے بھی اس رشتے سے خوش نہیں ۔۔۔ اگر خوش نہیں تو نہ کر یہ رشتہ کل کو نوری بھی بد دعائیں دے گی ہمیں ۔۔۔۔۔  فرید کی ماں نے موقع دیکھتے ہی اپنے دل کی بات کہہ دی ۔۔۔۔ 

نئیں فریدے کی ماں سارے گاؤں کو پتہ ہے یہ فریدے کی منگ اے ۔۔۔۔۔

میری عزت کا سوال ہے ۔۔۔۔ برادری والے سوال کریں گے ۔۔۔۔۔

تو کمائی میری کھا رہی ہے اور زبان اپنے بیٹے کی بول رہی ہے ۔۔۔

وہ اب اپنی بیوی پر سخت برہم تھے ۔۔۔۔ جو کہ بیٹے کی سائیڈ لے رہی تھی 

نہیں فرید کے ابا ۔۔۔میں تو بس ۔۔۔ ان کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان کے شوہر نے ان کی بات کاٹ دی ہے ۔۔۔۔۔

بس یہ میرا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔۔ 

اور اگر تجھے نہیں قبول تو میں زہر کھا لیتا ہوں یا کسی کنویں میں چھلانگ لگا لیتا ہوں ۔۔۔ 

تو بھی سن لے ۔۔۔ فریدے کی شادی نوری سے ہی ہونی ہے بس ۔۔۔۔  

وہ پورے گاؤں میں مشہور تھے کہ وہ اپنے قول کے بہت پکے تھے ۔۔۔۔ ایک بار زبان دے دیتے تو پھر کبھی اپنی بات سے نہیں پھرتے تھے ۔۔۔  اور یہ بات پورا گاؤں جانتا تھا۔۔۔۔ اور اب تو ویسے بھی معاملہ بھائی کی بیٹی کا تھا ۔۔۔۔ 

فرید بہت خوش تھا ۔۔ پورے پنجاب میں اس کی آٹھویں پوزیشن تھی اور اپنے کالج میں پہلی ۔۔۔۔ پورے گاؤں میں مٹھائی بانٹی تھی

فرید بہت خوش تھا ۔۔۔ مگر اسے کیا پتہ تھا کہ اس کی ساری خوشی اب غم میں بدلنے والی ہے ۔۔۔۔۔

جا فرید میرے بچے ۔۔۔۔ نوری سے بھی تھوڑی دیر بات کر لے ۔۔۔ آخر وہ تیری منگ اے ۔۔۔۔ اماں نے فرید کو سمجھانے کی کوشش کی

 بھاڑ میں گئی منگ ۔۔۔ فرید نور کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں تھا ۔۔۔

اس نے مٹھائی کو منہ تک نہیں لگایا ۔۔۔ کہہ رہی تھی فرید خود مٹھائی لے کہ آۓ گا تو کھاؤں گی ۔۔۔۔ فرید کی ماں مٹھائی لے کر گئی ۔۔۔ مگر نور نے چکھی تک نہیں تھی  

اماں تجھے پتہ تو ہے ۔۔۔۔ فرید نے اپنی ماں کو بے بسی سے دیکھا 

سنا نہیں تیری ماں کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔۔ جا اپنے چاچے کے گھر مٹھائی دے کے آ فرید کے والد واقعی غصے میں تھے ۔۔۔ 

کیوں بھجوائی نہیں مٹھائی چاچے کے گھر ۔۔۔۔ فرید نے انجان بننے کی کوشش کی ۔۔۔

تو اتنا بھولا نہ بن ۔۔۔۔ ہم نے بھجوائی تھی ۔۔۔ نوری کے لیے تو خود لے کے جا ۔۔۔۔  

ویسے بھی بیس دن بعد تیرا نکاح ہے ۔۔۔ کمال صاحب نے فرید کے سر پر بم پھوڑا تھا 

 ابا میں نے ۔۔۔ فرید اپنی بات پوری بھی نہیں کر سکا ۔۔۔۔ کہ کمال صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا ۔۔۔۔۔

بس میں نے کہہ دیا ۔۔۔ شادی ہے تیری بیس دن بعد ۔۔۔۔ وہ حتمی فیصلہ دیتے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے ۔۔۔۔۔

اور ٹھیک بیس دن بعد نوری ۔۔۔۔ فریدے کی دلہن بن کر فریدے کے گھر آ گئی تھی ۔۔۔۔

فرید بیٹا جا نوری انتظار کر رہی ہو گی ۔۔۔۔ فرید کی ماں فرید کے پاس آئی تھیں ۔۔۔

تو کرتی رہے انتظار ۔۔۔۔ مزہ چکھ لے مجھ سے شادی کا ۔۔۔۔۔ ساری زندگی میری ایک نظر کے لیے ترسے گی ۔۔۔۔ دیکھوں گا بھی نہیں اسے ۔۔۔۔۔فرید کا غصہ اب بھی کم نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔

میرے بچے ایسا مت کر ۔۔۔۔۔ تجھے میری عزت کا واسطہ ۔۔۔۔۔فرید کی ماں نے اپنی چادر فرید کے قدموں میں ڈال دی ۔۔۔۔۔

اماں تو پاگل ہو گئ ہے کیا ۔۔۔۔۔ فرید نے چادر واپس اپنی ماں کو اوڑھائی ۔۔۔ ٹھیک ہے اماں جیسے تو چاہے گی ویسا ہی ہو گا ۔۔۔۔

فرید اپنی شادی سے پہلے ہی لاہور جا کر یونیورسٹی میں ایڈمیشن کروا چکا تھا ۔۔۔۔۔ شادی کے بعد ایک ہفتے تک وہ گاؤں میں رہا ۔۔۔۔ پھر لاہور چلا گیا ۔۔۔۔ نوری جانتی تھی کہ فرید اسے پسند نہیں کرتا مگر وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی ۔۔۔۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اسکا ہمسفر بن چکا تھا ۔۔۔۔ تم مجھے بےشک نا چاہو فرید مگر میں مرتے دم تک تمھاری رہوں گی ۔۔۔۔ نور خود سے کہتی کمرے سے باہر نکل گئی تھی ۔۔۔ 

نوری کہاں ہے ۔۔۔۔ اس کی ساس اسے بلا رہی تھی

جی تائی جان ۔۔۔۔ نور اپنی ساس کی آواز سن کر ان کے پاس آئی تھی 

ادھر آ میرے پاس بیٹھ ۔۔۔۔ ساس نوری سے شاید کوئی بات کرنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔ 

جی بولیں کیا ہوا ۔۔۔۔ نور اب پوری طرح سے اپنی ساس کی طرف متوجہ تھی

 ایک بات بتا ۔۔۔۔ فرید تیرے ساتھ کیسا ہے ۔۔۔۔ اس کی ساس جانتی تھیں کہ فرید نور کو پسند نہیں کرتا تب ھی سوال کیا تھا اس سے 

وہ ۔۔۔۔ وہ تو بہت اچھا ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔  نور کچھ گھبرا گئی 

اگر تجھ پر غصہ کرے تو میری دھی برا نہ مانییں ۔۔۔۔۔ وہ نور کو سمجھانے لگیں 

تائی تجھے کیا پتہ میں فرید سے بہت محبت کرتی ہوں ۔۔۔۔ پھر وہ مجھ سے محبت کرے یا نا کرے ۔۔۔۔ مجھے فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ نور فرید سے بہت خفا تھی مگر پھر بھی کوئی گلہ نہیں کیا 

نور کی ساس جانتی تھی کہ نور خوش نہیں ہے ۔۔۔ مگر وہ صرف دعا کرنے کے علاؤہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔ 

فرید جس یونیورسٹی میں تھا وہ غریبوں کے پڑھنے کی جگہ نہیں تھی ۔۔۔۔ وہاں صرف پیسے والے لوگ ہی پڑھتے تھے ۔۔۔۔ مگر فرید اسکالرشپ پر پڑھ رہا تھا ۔۔۔۔ اور اپنے دوسرے اخراجات وہ اکیڈمی میں پڑھا کر پورے کرتا تھا ۔۔۔۔ اس لیے اسے مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔۔۔۔ بس اس کی زندگی میں ایک کمی تھی اور وہ تھی پڑھی لکھی شریک حیات ۔۔۔۔ جو اسے نہ مل سکی تھی ۔۔۔۔۔۔

کلاس ختم ہو چکی تھی ۔۔۔۔ اور وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا 

ایکسکیوز می ۔۔۔۔ اسے کسی لڑکی نے مخاطب کیا تھا شاید 

فرید نے جو سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی اس کے سامنے تھی ۔۔۔۔ 

پہلے تو فرید کو غلط فہمی ہوئی کہ شاید وہ کسی اور سے مخاطب ہے فرید نے اپنے دائیں بائیں دیکھا ۔۔۔۔ تو اسے کوئی اور نظر نہ آیا ۔۔۔۔

 میں آپ ہی سے بات کر رہی ہوں ۔۔۔۔ اس لڑکی نے فرید کو ادھر ادھر نظریں گھماتے ہوئے دیکھا تو فرید کی طرف اشارہ کیا 

  جی مجھ سے ؟ فرید کو اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی اس سے بات کر رہی تھی ۔۔۔ 

 وہ میں ایک ہفتہ لیٹ آئی تھی تو میری کلاسز مس ہو گئیں ہیں ۔۔۔

اگر آپ مجھے نوٹس دے دیں گے تو آپ کی شکر گزار ہوں گی ۔۔۔۔

وہ اس کے سر پر سوار ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔

میں آپ کو کل دے دوں گا ۔۔۔۔ فرید نے جیسے اس سے جان چھڑائی تھی ۔۔۔۔۔

 نوٹس مانگنا تو صرف بہانا تھا ۔۔۔۔ اس لڑکی کو اس لڑکے کی سادگی اور ذہانت بھا گئی تھی ۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ وہ لڑکیوں سے بالکل بات نہیں کرتا تھا ۔۔۔ اور شاید کوئی لڑکا بھی اس کا دوست نہیں تھا ۔۔۔۔۔ آج کے دور میں بھی اتنے سادہ اور شریف لوگ ہیں 

وہ فرید کے بارے میں سوچتی مسکرانے لگی ۔۔۔۔۔ 

فرید کا فون بجا تھا ۔۔۔۔۔ فرید کی ماں کا فون تھا

ہیلو اماں ۔۔۔ فرید کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی ۔۔۔

ہاں میرا بچہ کیسا ہے تو ۔۔۔۔ شہر جا کر ہمیں بھول ہی گیا ۔۔۔ اس کی ماں نے فرید سے گلہ کیا تھا ۔۔۔

نہیں اماں قسم سے پڑھائی بہت سخت ہے ۔۔۔ پھر پڑھانے بھی تو جاتا ہوں ناں تو اسی لئے وقت ہی نہیں ملتا ۔۔۔۔ فرید انھیں اپنی روٹین کے بارے میں بتانے لگا

ہماری تو چل خیر ہے ۔۔۔۔

اس کو ہی فون کر لیا کر جو ہر وقت تیری راہ تکتی ہے ۔۔۔۔ وہ اسے نور کے بارے میں بتانے لگیں۔۔۔۔

اماں تو میں کیا کروں ۔۔۔۔۔ اسے نور کا نام سننا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا 

یہ نوری سے بات کر اداس ہو گئی ہے تیرے بغیر ۔۔۔۔ اماں نے نوری کو فون دیا 

نوری نے دھڑکتے دل کے ساتھ موبائل لیا ۔۔۔

اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔ ہیلو کیسا ہے تو فرید ۔۔۔۔ بڑی چاہت سے پوچھا تھا اس نے فرید سے ۔۔۔۔

ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ فرید کی بیزاریت اس کے لہجے سے ہی عیاں تھی 

 میرا حال نہیں پوچھے گا ۔۔۔۔؟ نور نے فوراً سے شکوہ کیا تھا فرید سے

تجھے کیا ہونا ۔۔۔ اماں ابا ہیں ناں تیرے پاس ۔۔۔ فرید کو کوئی دلچسپی نہیں تھی نور میں ۔۔۔۔ 

ساری دنیا بھی ہو نہ میرے پاس تو تیری جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔۔۔۔ نور اس کی بے رخی پر جیسے رو دینے کو تھی ۔۔۔۔

نور ابھی میں مصروف ہوں پھر بعد میں بات کرتا ہوں ۔۔۔۔۔

فرید فون بند کر چکا تھا ۔۔۔۔۔ اور نور موبائل کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے سارا قصور موبائل کا ہو ۔۔۔۔۔

#میرے_عشق_سے_آگے_ 

#از_قلم_فاطمہ_احمد 

#قسط4

فرید میں ساری دنیا سے لڑ سکتی ہوں بس ایک تجھ سے نہیں لڑ سکتی ۔۔۔ مجھے پتہ تھا تو مجھے پسند نہیں کرتا ۔۔۔ لیکن اس دل سے مجبور ہو گئی ۔۔۔۔۔ اب میں ہی بھگت رہی ہوں جانے کب تک سہنا پڑے گا یہ سب مجھے ۔۔۔۔ وہ یہ سب سوچتے ہوئے کچن میں کام کر رہی تھی ۔۔۔۔ کھانا پکاتے ہوئے شاید کسی چیز کی ضرورت پڑی تھی اٹھ کر جیسے ہی مڑی تو اس کی ساس اس کے سامنے تھیں ۔۔۔۔

تو رو رہی تھی نوری ۔۔۔۔ اس کی ساس نے اس کا آنسوؤں سے لبریز چہرہ دیکھا تو انھیں خود بھی بہت تکلیف ہوئی تھی ۔۔۔۔ نور ان کو بالکل بیٹیوں کی طرح عزیز تھی

نہیں ۔۔۔ نہیں تو ۔۔۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ اپنے شوہر کو یاد کرتے ہوئے آنسوؤں سے رو رہی تھی ۔۔۔۔ 

تو پھر یہ خوشی کے آنسو ہیں کیا ۔۔۔ مجھے پتہ ہے تو فرید کی وجہ سے رو رہی ہے ۔۔۔ 

اس کی ساس جانتی تھیں کہ فرید نے اسے اب تک وہ عزت نہیں دی جو نور کا حق تھا 

نہیں اماں ۔۔۔ اس نے نہ میں سر ہلایا

یہ نہیں نہیں کیا لگایا ہے ۔۔۔۔۔

تو جانتی تھی کہ تو شادی کر کہ رسک لے رہی تھی ۔۔۔ مگر تو نے پھر بھی کی شادی ۔۔۔۔ اب کی ہے نہ تو بیوی بن کے دکھا ۔۔۔۔ مظلومیت کا رونا روتی رہے گی نہ تو کوئی تیرا ساتھ نہیں دے گا ۔۔۔۔۔ یہ دنیا بڑی ظالم ہے ۔۔۔ گرتے کو ایک دھکا تو اور دے دیتی ہے مگر سہارہ نہیں دیتی ۔۔۔۔ وہ نور کو سمجھانے لگیں 

تو کیا کروں میں ۔۔۔ وہ بیچارگی سے اپنی ساس کی طرف دیکھ رہی تھی

اب یہ بھی مجھے بتانا پڑے گا ۔۔۔۔ کہ تجھے کیا کرنا چاہیے ۔۔۔ 

انھیں اپنی بہو کی معصومیت پر بہت پیار آ رہا تھا ۔۔۔۔۔

اس کو اپنی موجودگی کا احساس دلا ۔۔۔ اس سے کہہ کہ تجھے موبائل لا کر دے ۔۔۔ فرمائیشیں کر اس سے ۔۔۔ اسے احساس دلا کہ وہ اب شادی شدہ ہے ۔۔۔ وہ جب آتا ہے تو ذرا اچھی سی تیار ہو جایا کر  ۔۔۔۔ وہ اسے ساس بن کر نہیں ماں بن کر سمجھا رہی تھیں 

وہ تو میری طرف دیکھتا ہی نہیں ۔۔۔ نور کی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں 

 دیکھے گا کیوں نہیں دیکھے گا 

بس تو ذرا ہمت سے کام لے ۔۔۔۔ یاد رکھنا اگر کہیں بھی تو ہمت ہار گئی تو اس دن تو اسے کھو دے گی ۔۔۔ نور کی ساس جانتی تھیں کہ نور میں حوصلہ بہت کم تھا اس لیے اسے ہمت دلا رہی تھیں 

اللّٰہ نہ کرے۔۔۔ نوری فوراً سے بول پڑی ۔۔۔

اللّٰہ نے سب کچھ کرنا ہوتا تو انسان کو آزمائش کے لیے اس دنیا میں نہ بھیجتا ۔۔۔۔ اور اس وقت ہم سب جنت میں مزے کر رہے ہوتے ۔۔۔ نا کہ اس دنیا میں دھکے کھا رہے ہوتے ۔۔۔۔ سمجھ آئی ۔۔۔ وہ اپنی بہو کو سمجھا رہی تھیں ۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ تو اس سے لڑ ۔۔۔ جو کام لڑائی سے نہیں ہو سکتے ۔۔۔ وہ پیار سے تو ہو سکتے ہیں ناں ۔۔۔

تو اس کی بیوی ہے ۔۔۔ تیرا حق ہے اس پر ۔۔۔۔ اس کے سامنے جھوٹے آنسو بھی بہانا پڑے تو خیر ہے ۔۔۔۔ اگر اس کے پیچھے سے سچے آنسو بہاتی ہے تو سامنے تھوڑی ادا کاری کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔ وہ نور کو فرید کے ساتھ خوش دیکھنا چاہتی تھیں ۔۔۔۔ 

تائی جان ۔۔۔ لیکن اگر اسے پتہ چل گیا تو ۔۔۔ نور کو اب بھی فرید کا ڈر تھا 

کون بتائے گا اسے ۔۔۔ ساس نے اسے مسکرا کر پوچھا تو 

ان کی اس بات پر وہ دونوں ہی ہنس پڑیں ۔۔۔

اور ہاں آئندہ تو مجھے تائی نہیں کہے گی اماں کہے گی ۔۔۔ ساس نے تنبیہ کی تھی 

نوری کو سمجھ نہیں آئی تھی ۔۔۔ وہ سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھنے لگی 

فرید کے سامنے ۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے ۔۔۔ اگر تو اس کے سامنے مجھے اپنی ماں جیسی عزت دے گی تو بہت خوش ہو گا وہ ۔۔۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ فرید نور کے بارے میں سوچے تو اسی لئے اسے زبردست مشوروں سے نواز رہی تھیں 

میں آپ کو ویسے بھی اپنی ماں جیسا ہی سمجھتی ہوں ۔۔ نور نے اپنی ساس سے کہا تو انھوں نے کہا کہ 

مجھے پتہ ہے ۔۔۔۔ لیکن جسے نہیں پتا اسے بھی تو بتانا ہے ناں۔۔۔۔۔۔ 

اور تاۓ کو ابا کہوں ۔۔۔۔۔ نور معصومیت سے پوچھ رہی تھی 

ظاہر سی بات ہے ۔۔۔۔۔ اب اس کی ساس بھی اس کے سوالوں سے بیزار ہونے لگی تھیں 

خود اپنی عقل سے بھی کام لیا کر ۔۔۔ میں ہر وقت تیرے ساتھ نہیں ہوں گی ۔۔۔۔اس بار جب وہ آۓ گا تو تو کپڑے لینے اس کے ساتھ بازار جاۓ گی ۔۔۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ نور اور فرید کچھ وقت ساتھ گزاریں ۔۔۔۔ 

 لیکن تائی جان میرے پاس بہت سارے کپڑے ہیں ۔۔۔ نور نے کچھ سوچتے ہوئے انھیں بتایا ۔۔۔۔

تو واقعی عقل کی اننی ہے ۔۔۔۔ تو فرید کو یہی بتاۓ گی کہ تیرے پاس کپڑے نہیں ہیں ۔۔۔۔ اس کے ساتھ وقت گزار اسے اپنی موجودگی کا احساس دلا ۔۔۔ کل کو تیرے بچے ہوں گے تو ان کی ضرورتیں کون پوری کرے گا ۔۔۔۔ ابھی سے فرید کو عادت نہ پڑی تو بعد میں تجھے بہت مشکل ہو گی ۔۔۔۔ میری دھی تجھے یہ باتیں کوئی نہیں بتاۓ گا ۔۔۔۔ 

وہ اس کی کم عقلی پر سر پیٹ کر ہی رہ گئیں ۔۔۔

وہ لائیبریری میں بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا 

کہ ایک لڑکی کی آواز پر جو اس نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔ تو وہی لڑکی تھی 

تھینک یو ۔۔۔ آپ نے مجھ پر ٹرسٹ کیا ۔۔۔ مجھے نوٹس دئیے ۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے فرید کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔۔

یو آر ویلکم ۔۔۔۔ فرید نے اس کی طرف بغیر دیکھے کہا ۔۔۔۔

اور کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔ آپ نوٹس رکھ دیں ۔۔۔۔

ایکسکیوزمی ۔۔۔۔ اس لڑکی نے فرید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کیا میں یہاں بیٹھ جاؤں ؟ ۔۔۔۔۔ 

نہیں ۔۔۔۔ فرید نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا تھا ۔۔۔۔

 مجھے آپ سے بات کرنی تھی ۔۔۔ وہ لڑکی فرید سے کچھ کہنا چاہتی تھی شاید 

مگر میں لڑکیوں سے بات نہیں کرتا ۔۔۔۔ اب کی بار فرید نے اسے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔۔۔۔

 میں آپ سے گپیں لگانے نہیں آئی ۔۔۔۔ وہ انتہائی ڈھیٹ تھی یا پھر بے وقوفی ۔۔۔

میں نے کہا ناں میں لڑکیوں سے بات نہیں کرتا ۔۔۔۔ شاید فرید کی آواز اور لہجہ دونوں ہی بہت سخت تھے ۔۔۔۔

 اور لائیبریرین فوراً سے ان کی طرف آئی تھی ۔۔۔ آپ لوگوں کو اگر لڑنا ہے تو باہر جا کر لڑیں ۔۔۔۔۔۔۔

یہ لائیبریری کے رولز کے خلاف ہے کہ آپ یہاں سٹڈیز کے علاؤہ کچھ اور کریں ۔۔۔۔ ڈسکشن کے لیے آپ کینٹین میں جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

نیکسٹ ٹائم ایسا کیا تو فائن لگے گا ۔۔۔۔۔

لائبریرین نے ان دونوں کو اچھی خاصی جھاڑ پلا دی تھی ۔۔۔۔

فرید میں ساری دنیا سے لڑ سکتی ہوں بس ایک تجھ سے نہیں لڑ سکتی ۔۔۔ مجھے پتہ تھا تو مجھے پسند نہیں کرتا ۔۔۔ لیکن اس دل سے مجبور ہو گئی ۔۔۔۔۔ اب میں ہی بھگت رہی ہوں جانے کب تک سہنا پڑے گا یہ سب مجھے ۔۔۔۔ وہ یہ سب سوچتے ہوئے کچن میں کام کر رہی تھی ۔۔۔۔ کھانا پکاتے ہوئے شاید کسی چیز کی ضرورت پڑی تھی اٹھ کر جیسے ہی مڑی تو اس کی ساس اس کے سامنے تھیں ۔۔۔۔

تو رو رہی تھی نوری ۔۔۔۔ اس کی ساس نے اس کا آنسوؤں سے لبریز چہرہ دیکھا تو انھیں خود بھی بہت تکلیف ہوئی تھی ۔۔۔۔ نور ان کو بالکل بیٹیوں کی طرح عزیز تھی

نہیں ۔۔۔ نہیں تو ۔۔۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ اپنے شوہر کو یاد کرتے ہوئے آنسوؤں سے رو رہی تھی ۔۔۔۔ 

تو پھر یہ خوشی کے آنسو ہیں کیا ۔۔۔ مجھے پتہ ہے تو فرید کی وجہ سے رو رہی ہے ۔۔۔ 

اس کی ساس جانتی تھیں کہ فرید نے اسے اب تک وہ عزت نہیں دی جو نور کا حق تھا 

نہیں اماں ۔۔۔ اس نے نہ میں سر ہلایا

یہ نہیں نہیں کیا لگایا ہے ۔۔۔۔۔

تو جانتی تھی کہ تو شادی کر کہ رسک لے رہی تھی ۔۔۔ مگر تو نے پھر بھی کی شادی ۔۔۔۔ اب کی ہے نہ تو بیوی بن کے دکھا ۔۔۔۔ مظلومیت کا رونا روتی رہے گی نہ تو کوئی تیرا ساتھ نہیں دے گا ۔۔۔۔۔ یہ دنیا بڑی ظالم ہے ۔۔۔ گرتے کو ایک دھکا تو اور دے دیتی ہے مگر سہارہ نہیں دیتی ۔۔۔۔ وہ نور کو سمجھانے لگیں 

تو کیا کروں میں ۔۔۔ وہ بیچارگی سے اپنی ساس کی طرف دیکھ رہی تھی

اب یہ بھی مجھے بتانا پڑے گا ۔۔۔۔ کہ تجھے کیا کرنا چاہیے ۔۔۔ 

انھیں اپنی بہو کی معصومیت پر بہت پیار آ رہا تھا ۔۔۔۔۔

اس کو اپنی موجودگی کا احساس دلا ۔۔۔ اس سے کہہ کہ تجھے موبائل لا کر دے ۔۔۔ فرمائیشیں کر اس سے ۔۔۔ اسے احساس دلا کہ وہ اب شادی شدہ ہے ۔۔۔ وہ جب آتا ہے تو ذرا اچھی سی تیار ہو جایا کر  ۔۔۔۔ وہ اسے ساس بن کر نہیں ماں بن کر سمجھا رہی تھیں 

وہ تو میری طرف دیکھتا ہی نہیں ۔۔۔ نور کی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں 

 دیکھے گا کیوں نہیں دیکھے گا 

بس تو ذرا ہمت سے کام لے ۔۔۔۔ یاد رکھنا اگر کہیں بھی تو ہمت ہار گئی تو اس دن تو اسے کھو دے گی ۔۔۔ نور کی ساس جانتی تھیں کہ نور میں حوصلہ بہت کم تھا اس لیے اسے ہمت دلا رہی تھیں 

اللّٰہ نہ کرے۔۔۔ نوری فوراً سے بول پڑی ۔۔۔

اللّٰہ نے سب کچھ کرنا ہوتا تو انسان کو آزمائش کے لیے اس دنیا میں نہ بھیجتا ۔۔۔۔ اور اس وقت ہم سب جنت میں مزے کر رہے ہوتے ۔۔۔ نا کہ اس دنیا میں دھکے کھا رہے ہوتے ۔۔۔۔ سمجھ آئی ۔۔۔ وہ اپنی بہو کو سمجھا رہی تھیں ۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ تو اس سے لڑ ۔۔۔ جو کام لڑائی سے نہیں ہو سکتے ۔۔۔ وہ پیار سے تو ہو سکتے ہیں ناں ۔۔۔

تو اس کی بیوی ہے ۔۔۔ تیرا حق ہے اس پر ۔۔۔۔ اس کے سامنے جھوٹے آنسو بھی بہانا پڑے تو خیر ہے ۔۔۔۔ اگر اس کے پیچھے سے سچے آنسو بہاتی ہے تو سامنے تھوڑی ادا کاری کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔ وہ نور کو فرید کے ساتھ خوش دیکھنا چاہتی تھیں ۔۔۔۔ 

تائی جان ۔۔۔ لیکن اگر اسے پتہ چل گیا تو ۔۔۔ نور کو اب بھی فرید کا ڈر تھا 

کون بتائے گا اسے ۔۔۔ ساس نے اسے مسکرا کر پوچھا تو 

ان کی اس بات پر وہ دونوں ہی ہنس پڑیں ۔۔۔

اور ہاں آئندہ تو مجھے تائی نہیں کہے گی اماں کہے گی ۔۔۔ ساس نے تنبیہ کی تھی 

نوری کو سمجھ نہیں آئی تھی ۔۔۔ وہ سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھنے لگی 

فرید کے سامنے ۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے ۔۔۔ اگر تو اس کے سامنے مجھے اپنی ماں جیسی عزت دے گی تو بہت خوش ہو گا وہ ۔۔۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ فرید نور کے بارے میں سوچے تو اسی لئے اسے زبردست مشوروں سے نواز رہی تھیں 

میں آپ کو ویسے بھی اپنی ماں جیسا ہی سمجھتی ہوں ۔۔ نور نے اپنی ساس سے کہا تو انھوں نے کہا کہ 

مجھے پتہ ہے ۔۔۔۔ لیکن جسے نہیں پتا اسے بھی تو بتانا ہے ناں۔۔۔۔۔۔ 

اور تاۓ کو ابا کہوں ۔۔۔۔۔ نور معصومیت سے پوچھ رہی تھی 

ظاہر سی بات ہے ۔۔۔۔۔ اب اس کی ساس بھی اس کے سوالوں سے بیزار ہونے لگی تھیں 

خود اپنی عقل سے بھی کام لیا کر ۔۔۔ میں ہر وقت تیرے ساتھ نہیں ہوں گی ۔۔۔۔اس بار جب وہ آۓ گا تو تو کپڑے لینے اس کے ساتھ بازار جاۓ گی ۔۔۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ نور اور فرید کچھ وقت ساتھ گزاریں ۔۔۔۔ 

 لیکن تائی جان میرے پاس بہت سارے کپڑے ہیں ۔۔۔ نور نے کچھ سوچتے ہوئے انھیں بتایا ۔۔۔۔

تو واقعی عقل کی اننی ہے ۔۔۔۔ تو فرید کو یہی بتاۓ گی کہ تیرے پاس کپڑے نہیں ہیں ۔۔۔۔ اس کے ساتھ وقت گزار اسے اپنی موجودگی کا احساس دلا ۔۔۔ کل کو تیرے بچے ہوں گے تو ان کی ضرورتیں کون پوری کرے گا ۔۔۔۔ ابھی سے فرید کو عادت نہ پڑی تو بعد میں تجھے بہت مشکل ہو گی ۔۔۔۔ میری دھی تجھے یہ باتیں کوئی نہیں بتاۓ گا ۔۔۔۔ 

وہ اس کی کم عقلی پر سر پیٹ کر ہی رہ گئیں ۔۔۔

وہ لائیبریری میں بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا 

کہ ایک لڑکی کی آواز پر جو اس نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔ تو وہی لڑکی تھی 

تھینک یو ۔۔۔ آپ نے مجھ پر ٹرسٹ کیا ۔۔۔ مجھے نوٹس دئیے ۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے فرید کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔۔

یو آر ویلکم ۔۔۔۔ فرید نے اس کی طرف بغیر دیکھے کہا ۔۔۔۔

اور کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔ آپ نوٹس رکھ دیں ۔۔۔۔

ایکسکیوزمی ۔۔۔۔ اس لڑکی نے فرید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کیا میں یہاں بیٹھ جاؤں ؟ ۔۔۔۔۔ 

نہیں ۔۔۔۔ فرید نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا تھا ۔۔۔۔

 مجھے آپ سے بات کرنی تھی ۔۔۔ وہ لڑکی فرید سے کچھ کہنا چاہتی تھی شاید 

مگر میں لڑکیوں سے بات نہیں کرتا ۔۔۔۔ اب کی بار فرید نے اسے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔۔۔۔

 میں آپ سے گپیں لگانے نہیں آئی ۔۔۔۔ وہ انتہائی ڈھیٹ تھی یا پھر بے وقوفی ۔۔۔

میں نے کہا ناں میں لڑکیوں سے بات نہیں کرتا ۔۔۔۔ شاید فرید کی آواز اور لہجہ دونوں ہی بہت سخت تھے ۔۔۔۔

 اور لائیبریرین فوراً سے ان کی طرف آئی تھی ۔۔۔ آپ لوگوں کو اگر لڑنا ہے تو باہر جا کر لڑیں ۔۔۔۔۔۔۔

یہ لائیبریری کے رولز کے خلاف ہے کہ آپ یہاں سٹڈیز کے علاؤہ کچھ اور کریں ۔۔۔۔ ڈسکشن کے لیے آپ کینٹین میں جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

نیکسٹ ٹائم ایسا کیا تو فائن لگے گا ۔۔۔۔۔

لائبریرین نے ان دونوں کو اچھی خاصی جھاڑ پلا دی تھی ۔۔۔۔

فرید نے فزکس کی کلاس میں ٹیچر کے پوچھنے پر سب کچھ ایکسپلین کیا تھا ۔۔۔۔ جس سے ٹیچر بہت متاثر ہوئی تھیں ۔۔۔۔

جس طرح فرید محنت کرتے ہیں میرا خیال ہے سب ہی کو میں ہی پڑھاتی ہوں ۔۔۔۔ فرید کو الگ سے لیکچر نہیں دیتی ۔۔۔۔ ٹیچر شاید تھوڑی غصے میں تھیں ۔۔۔۔ 

میم ہم بھی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔ کسی سٹوڈنٹ سے فرید کی تعریف برداشت نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔

جی میں کوشش کرنے کی بات نہیں کر رہی ہوں ۔۔۔۔ جو محنت کرتا ہے تو اس کی محنت نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔ آپ لوگ وہ بتا دیتے ہیں جو آپ لوگوں کو یاد ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور جو یاد نہیں رہتا اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی آپ لوگوں کو ۔۔۔۔ آپ سب بہت اچھے ہیں ۔۔۔ لیکن اگر آپ لوگ فرید کی طرح محنت کریں تو آپ نہ صرف اس یونیورسٹی کا بلکہ اپنے ملک کا نام بھی روشن کریں گے ان شاءاللہ ۔۔۔۔ ٹیچر یہ کہتے ہوئے کلاس سے نکل چکی تھیں ۔۔۔۔ 

 کچھ لوگوں نے فرید کی حوصلہ افزائی کی ۔۔۔ لیکن کچھ لوگوں کو حسد ہونے لگا فرید سے ۔۔۔۔ لیکن چاہے جو بھی تھا ۔۔۔۔ دوست ہو یا دشمن ہر کوئی فرید کی تعریف کرتا تھا ۔۔۔۔ کوئی اس کے سامنے اور کوئی اس کے پیچھے ۔۔۔۔۔ 

ایکسکیوزمی ۔۔۔۔ اس لڑکی نے پھر سے فرید کو مخاطب کیا تھا ۔۔

فرید نے اس لڑکی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تھا ۔۔۔۔ جی فرمائیں

 ۔good luck اتنا کہہ کر وہ رکی نہیں تھی بھاگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ 

فرید کو اس کی اس حرکت پر ہنسی آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے کافی ڈھیٹ ہے ۔۔۔۔۔۔ یا پھر کم عقل ۔۔۔ وہ خود سے کہتا کلاس روم سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

ہیلو اماں کیا حال ہے ۔۔۔۔ فرید نے فون کیا تھا ۔۔۔۔

ٹھیک ہوں تو سنا کیا حال ہے ؟۔۔۔۔۔ اس کی اماں بہت خوش تھیں بیٹے کی آواز سن کر

میں ٹھیک ہوں اماں وہ میں نے یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا کہ اس بار میں گاؤں نہیں آ سکتا ۔۔۔۔ 

کیوں ۔۔۔۔ اماں تو پریشان ہی ہو گئی تھیں 

کیوں کے میرے ٹیسٹ شروع ہو گئے ہیں ۔۔۔۔

فرید نے نا آنے کی وجہ بتائی تھی ۔۔۔۔۔

#میرے_عشق_سے_آگے_قسط6

#از_قلم_فاطمہ_احمد

سٹیٹس کی کلاس تھی ۔۔۔۔ 

فراز احمد سٹیٹس کے ٹیچر تھے ۔۔۔۔۔

اگر کچھ سمجھ نہ آئی ہو تو آپ لوگ پوچھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

آپ لوگوں کو کوئی بھی پرابلم ہو تو  میرا واٹس ایپ نمبر آفس کے باہر نوٹس بورڈ پر لکھا ہے ۔۔۔۔ آپ لوگ مجھ سے مدد لے سکتے ہیں ۔۔۔

اور ابھی بھی کلاس کا ٹائم ختم ہونے میں تقریباً دس منٹ ہیں اگر ابھی بھی آپ کو کچھ پوچھنا ہو تو ۔۔۔۔ آپ پوچھ لیں ۔۔۔۔۔ کیوں کہ اسی ٹاپک سے ریلیٹڈ میں آپ کو ایک اسائنمنٹ دینے والا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ جب اپنے سٹوڈنٹس سے بات کر رہے تھے تب ہی فرید نے انھیں مخاطب کیا تھا 

سر مجھے میتھس ٹیچر نے بلایا تھا ۔۔۔۔ کیا میں جا سکتا ہوں ۔۔۔۔ 

 ۔۔۔ جی جائیے ۔۔۔۔ سر فراز نے جانے کی اجازت دے دی 

میتھس ٹیچر باہر کوری ڈور میں ہی کھڑے کسی سے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔ فرید کو دیکھ کر اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔ فرید ان کے پاس گیا تو انھوں نے کسی شخص سے فرید کا تعارف کروایا تھا ۔۔

سر یہ فرید ہیں ۔۔۔ اس یونیورسٹی کا چمکتا ستارہ ۔۔۔۔

  اوہ تو آپ ہیں فرید ۔۔۔۔ انھوں نے فرید سے نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ خوشی سے گلے لگا لیا تھا ۔۔۔۔ فرید کو سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ یہ اتنی شاندار شخصیت کا مالک کون تھا اور اس کے ٹیچر نے اس کا ان سے تعارف کیوں کروایا ۔۔۔۔

 فرید شاید آپ کو پتہ نہیں ہے ۔۔۔۔ یہ ہماری یونیورسٹی کےڈیین ہیں ۔۔۔۔ سر وجاہت ۔۔۔۔ 

میتھس کے ٹیچر نے فرید کا پرنسپل سے تعارف کرواتے ہوئے اسے بتایا تھا

اوہ سوری سر میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔۔۔ فرید نے وضاحت دی ۔۔۔۔ آپ پہچانتے بھی کیسے ۔۔۔۔ میں بھی آپ ہی کی طرح یہاں نیا ہوں ۔۔۔۔ بلکہ آپ تو پھر بھی شاید کچھ مہینوں سے یہاں آ رہے ہیں مگر ۔۔۔۔ میں پہلے کسی اور کالج میں پرنسپل تھا ۔۔۔۔ یہاں میری ابھی ٹرانسفر ہوئی ہے ۔۔۔۔ ویسے یہاں اس  یونیورسٹی میں مجھے لوگ اتنا نہیں جانتے ہوں گے جتنا آپ کے بارے میں جانتے ہیں ۔۔۔۔  

ہر بندہ ہی آپ کی تعریف کر رہا ہے ۔۔۔۔ آپ کا نام پوزیشن ہولڈرز میں  ۔۔۔ آپ کا نام بریلینٹ سٹوڈنٹس میں ۔۔۔آپ کا  نام پر زبان پر ہے ۔۔۔  ہر ٹیچر آپ کا ذکر کرتا نظر آیا ۔۔۔۔ شاید آپ کوئی جادو گر ہیں ۔۔۔۔ وہ فرید کی اتنی تعریف کر رہے تھے کہ

فرید کچھ شرمندہ ہو گیا ۔۔۔۔ اس کی اتنی زیادہ اور اتنے کھلے دل سے تعریف آج تک کسی نے بھی نہیں کی تھی ۔۔۔۔ 

نہیں سر ایسی بات نہیں ۔۔۔۔ فرید بس ہلکا سا مسکرا دیا ۔۔۔۔

 ہاہاہا جیتے رہو خوش رہو بیٹا اللّٰہ آپ کو بہت ساری کامیابیاں دے ۔۔۔۔ آمین ۔۔۔۔ 

چلو آپ جاؤ بیٹا ۔۔۔ میں آپ کا زیادہ ٹائم نہیں لوں گا ۔۔۔۔ انھوں نے فرید کی بہت حوصلہ افزائی کی تھی ۔۔۔۔ 

او کے تھینک یو سر اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔ فرید بھی ان سے ملنے کے بعد کافی خوش دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔

واپسی پر ایک دو دوستوں نے فرید کو چھیڑا تھا ۔۔۔۔ واہ بھئی واہ کیا بات ہے ۔۔۔۔ پرنسپل آپ سے ملنے کے طلب گار تھے ۔۔۔ ہم غریبوں کو کون منہ لگاتا ہے ۔۔۔۔ فرید کیا کہتا بس ہنس دیا ۔۔۔۔  

یار میں چلا گیا تھا تو بعد میں سر نے اسائنمنٹ کے بارے میں کچھ بتایا تو نہیں 

فرید کو اپنی پڑھائی کی بہت فکر تھی ۔۔۔۔ 

ہاں دو دو سٹوڈنٹس ملکر اسائنمنٹ بنائیں گے ۔۔۔ کلاس فیلو نے فرید کو بتایا 

دو دو مطلب ؟ ۔۔۔ فرید کو سمجھ نہیں آئی تھی ان کی بات 

مطلب یہ کہ آپ کا نام اس حسینہ کے ساتھ ہے جسے آپ لفٹ ہی نہیں کرواتے ۔۔۔۔ کسی لڑکے نے معلومات میں اضافہ کیا تھا ۔۔۔ اشارہ اسی لڑکی کی طرف تھا جو آج کل فرید کے پیچھے پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔

کون حسینہ ۔۔۔۔ فرید حیران سا انھیں دیکھنے لگا 

 وہی جو تیری دیوانی ہے ۔۔۔ ایک لڑکے نے آنکھ دباتے ہوئے فرید کو آخری کیا تھا 

 یار فضول باتیں مت کرو میں شادی شدہ ہوں ۔۔۔۔ فرید کو ان لڑکوں کی بات پر بہت غصہ آیا تھا مگر ضبط کر گیا ۔۔۔۔۔

کیا واقعی ۔۔۔۔ اس کے دوست حیران رہ گئے ۔۔۔۔ تو نے کبھی بتایا نہیں ۔۔۔ وہ لوگ فرید سے شکوہ کرنے لگے ۔۔۔ میں یہاں گھر کی باتیں ڈسکس کرنے نہیں آتا پڑھنے آتا ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر جیسے ہی فرید جانے لگا تو پیچھے سے آواز آئی تھی ۔۔۔ اسلام میں چار کی اجازت ہے ۔۔۔۔ فرید نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور افسوس سے سر ہلاتا وہاں سے نکل گیا  ۔۔۔

فرید ۔۔۔۔ وہ کینٹین میں چاٹ کھا رہا تھا تب ہی اسے کسی نے مخاطب کیا تھا ۔۔۔

 فرید نے مڑ کر دیکھا وہی کھڑی تھی اس کے سامنے ۔۔۔۔ 

جی آ جائیے ۔۔۔۔ بیٹھیں پلیز ۔۔۔۔ فرید نے ن چہرے ہوئے بھی اسے بیٹھنے کی آفر کر دی

وہ اس کی خوش اخلاقی پر کافی حیران تھی ۔۔۔۔

 آپ بیٹھیں میں آتا ہوں ۔۔۔۔ فرید وہاں سے چلا گیا 

وہ ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ وہ اس سے کیا کہے گی ۔۔۔۔ اتنے میں فرید چاٹ اور کولڈرنک اس کے لیے لے آیا اور اس کے سامنے رکھ دی ۔۔۔۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔۔۔۔ آپ کے لیے لایا ہوں کھا لیجئے ۔۔۔۔ فرید نے اس کی حیرت کو بھانپتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ 

لیکن یہ صرف اس لیے کہ میں کھا رہا تھا تو آپ آ گئیں ۔۔۔ آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو میں اس کے لیے بھی یہی کرتا آپ کھا لیں پھر بات کرتے ہیں ۔۔۔۔ 

آپ مجھ سے فری ہونے کی کوشش کرتی ہیں مگر میں آپ کو بتا دوں کہ میں شادی شدہ ہوں ۔۔۔ اس لئے کوئی غلط فہمی اپنے دل میں نہ رکھئے گا ۔۔۔۔ فرید نے اسے فوراً سے وضاحت دی تھی 

 مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا بس مجھے آپ سے دوستی کرنی ہے ۔۔۔۔ وہ لڑکی اب بھی بضد تھی فرید سے دوستی کرنے پر ۔۔۔۔

 فرید کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔

دوستی مگر کیوں ۔۔۔۔ فرید اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

بس مجھے آپ اچھے لگتے ہیں ۔۔۔۔ اس نے بھی فرید سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیا 

 تو آپ یہ کہنے آئی ہیں مجھ سے ۔۔۔۔ فرید کو اس کی بات پر بہت حیرت ہوئی تھی کہ وہ لڑکی ہو کر ایسے بے شرموں کی طرح ایک لڑکے سے پانی پسندیدگی کا اظہار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

ہاں یہ بھی اور یہ بھی کہ کل اسٹیٹس کی کلاس نہیں ہے تو اس ٹائم پر ہم فری ہوں گے تو اسائنمنٹ کے بارے میں کچھ ڈسکس کر لیں گے ۔۔۔۔ وہ تو خوش تھی کہ اسائنمنٹ کے بہنے وہ فرید کے ساتھ کچھ وقت بتا لے گی ۔۔۔۔

اس کی ضرورت نہیں فرید نے صاف جواب دے دیا ۔۔۔۔ 

وہ حیران سی اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

 میں اسائنمنٹ خود اکیلے ہی بنا لوں گا آپ کو اس سے ریلیٹڈ چارٹس بھی بنا کر دے دوں گا ۔۔۔۔ آپ صرف اس میں ڈیٹا انٹر کر دیں گی ۔۔۔۔

کل اسٹیٹس کی کلاس کے ٹائم پر میں آپ کو دے دوں گا ۔۔۔۔

اب آپ جا سکتی ہیں ۔۔۔۔ فرید نے اسے ٹکا سا جواب دے دیا تھا ۔۔۔۔

فرید نے اگلے دن اسے چارٹس دے دئیے تھے ۔۔۔۔ وہ چارٹس لے کر جانے ہی والی تھی کہ فرید نے اسے مخاطب کیا تھا ۔۔۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔ آپ سے سر نے کچھ پوچھ لیا تو اسائنمنٹ کے بارے میں کیا بتائیں گی آپ ؟۔۔۔

 یہی کہ آپ نے بنائی ہے اور میں نے ان چارٹس میں ڈیٹا انٹر کیا ۔۔۔۔ اس لڑکی نے بڑی سادگی سے جواب دیا تھا

 فرید کو اس پر ہنسی آ گئی تھی جانے وہ بہت معصوم تھی یا بہت نالائق مگر جو بھی تھی ۔۔۔۔تھوڑی لوننی تھی ۔۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا آپ یہاں بیٹھ جائیں میں آپ کو اس کے بارے میں بتا دیتا ہوں ۔۔۔۔ اور پھر فرید نے اسے اسائنمنٹ کے بارے میں سب کچھ سمجھا دیا تھا ۔۔۔۔ وہ میں نے آپ کو اسائنمنٹ بنانے میں اس لئے شامل نہیں کیا ۔۔۔ کیوں کہ میں اپنے طریقے سے کام کرتا ہوں ۔۔۔۔ پھر اس میں مجھے کسی کی مداخلت پسند نہیں ۔۔۔ بس اس لیے آپ کے ساتھ ملکر نہیں بنائی ۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔

فرید نے اسے اسائنمنٹ میں شامل نہ کرنے پر اس سے معذرت کر لی تھی 

فرید جانے ہی لگا ۔۔۔۔ تب ہی اس نے مخاطب کیا

آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا ۔۔۔۔

کونسی بات ۔۔۔۔۔ فرید کو اس کی بات سمجھ ہی نہیں آئی 

وہ دوستی والی ۔۔۔۔۔ اس لڑکی نے ڈرتے ہوئے کہا

میں یہاں دوستیاں کرنے اور نبھانے نہیں آیا ۔۔۔۔

پڑھنے آیا ہوں ۔۔۔۔ وہ یہ بول کر رکا نہیں تھا ۔۔۔۔۔

ہیلو اماں مجھے پورے ہفتے کی چھٹی مل گئی ہے ۔۔۔۔

فرید بہت خوش تھا ۔۔۔۔ کہ اسے چھٹی مل گئی تھی ۔۔۔

سچ ؟ ۔۔۔۔ تو آ رہا ہے ۔۔۔۔ اماں خوشی سے چہکنے لگیں ۔۔۔۔

ہاں بس کل گاؤں پہنچ جاؤں گا ۔۔۔۔۔

تیری طبیعت ٹھیک ہے ناں  اماں ۔۔۔۔۔

فرید کو پانی ماں کی بھی فکر رہتی تھی 

ہاں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔ وہ فرید سے بات کر کہ بہت خوش ہو جاتی تھیں 

گھر میں سب کیسے ہیں ۔۔۔۔۔  فرید سب کے بارے میں پوچھنے لگا 

سب ٹھیک ہیں اور نوری بھی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ اماں نے اب نور کا کر کرنا ضروری سمجھا تو خود سے ہی اس کے بارے میں بتا دیا 

نوری کہاں ہے ؟۔۔۔۔۔ نور کا نام سنا تو اسے نور کا خیال آ ہی گیا

وہ تو نہیں ہے ۔۔۔۔ اماں نے فرید کو بتایا

نہیں ہے مطلب ۔۔۔۔ کہاں ہے ۔۔۔ فرید کو حیرت ہوئی تھی کہ وہ گھر میں نہیں تھی 

وہ اپنے میکے گئی ہے ۔۔۔۔۔ اماں نے اسے بتایا کہ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی گئی تھی 

تو مجھے کیوں نہیں بتایا ۔۔۔۔۔ فرید کو جانے کیوں اتنا غصہ آ گیا تھا 

تو گھر میں کب ہوتا ہے ۔۔۔۔ اماں اس کے غصے سے ڈر گئیں تو الٹا اسے ہی الزام دینے لگیں 

تو فون کر کے تو پوچھ سکتی ہے نہ مجھ سے ۔۔۔۔

آج تو فرید کو نور پر فضول میں ہی غصہ آ رہا تھا

اس کے پاس فون نہیں ہے ۔۔۔۔ اماں نے وضاحت دی ۔۔۔

اور ہو بھی تو ہر وقت تو تو مصروف رہتا ہے تیرے پاس بات کرنے کا ٹائم ہی نہیں 

ہوتا ۔۔۔۔۔ فرید کی ماں کو فرید کا نور کے بارے میں یوں استفسار کرنا کچھ اچھا نہیں لگا تھا ۔۔۔ کیونکہ وہ ویسے بھی نور کو زیادہ پوچھتا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔ اور آج خوامخواہ میں رعب جھاڑ رہا تھا 

لیکن پھر بھی وہ میری بیوی ہے ۔۔۔۔ جہاں جانا ہو مجھ سے پوچھنا اس کا فرض بنتا ہے ۔۔۔۔ فرید کو نور کا بغیر اجازت کے اپنے میکے جانا اچھا نہیں لگا تھا

تو اتنا غصے میں کیوں ہے ۔۔۔۔۔ اس کی اماں بھی اب زچ ہو گئی تھیں 

بس اماں کہہ دیا ناں ۔۔۔۔ وہ پتہ نہیں کس بات کا غصہ اپنی ماں پر نکال رہا تھا 

یہ کہہ کر فرید نے فون ہی بند کر دیا ۔۔۔۔ اور فرید کی ماں حیران تھیں کہ اس سے پہلے تو فرید نے اس لہجے میں کبھی بات نہیں کی

پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا ہے شہر کی ہوا لگ گئی ہے شاید اسے ۔۔۔

لیکن شکر ہے نوری کا تو پوچھا ناں ۔۔۔ ورنہ خبر ہی نہیں لیتا اس کی 

وہ اسی بات کو سوچ کر خوش ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔

سٹیٹس کی کلاس تھی ۔۔۔۔ 

فراز احمد سٹیٹس کے ٹیچر تھے ۔۔۔۔۔

اگر کچھ سمجھ نہ آئی ہو تو آپ لوگ پوچھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

آپ لوگوں کو کوئی بھی پرابلم ہو تو  میرا واٹس ایپ نمبر آفس کے باہر نوٹس بورڈ پر لکھا ہے ۔۔۔۔ آپ لوگ مجھ سے مدد لے سکتے ہیں ۔۔۔

اور ابھی بھی کلاس کا ٹائم ختم ہونے میں تقریباً دس منٹ ہیں اگر ابھی بھی آپ کو کچھ پوچھنا ہو تو ۔۔۔۔ آپ پوچھ لیں ۔۔۔۔۔ کیوں کہ اسی ٹاپک سے ریلیٹڈ میں آپ کو ایک اسائنمنٹ دینے والا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ جب اپنے سٹوڈنٹس سے بات کر رہے تھے تب ہی فرید نے انھیں مخاطب کیا تھا 

سر مجھے میتھس ٹیچر نے بلایا تھا ۔۔۔۔ کیا میں جا سکتا ہوں ۔۔۔۔ 

 ۔۔۔ جی جائیے ۔۔۔۔ سر فراز نے جانے کی اجازت دے دی 

میتھس ٹیچر باہر کوری ڈور میں ہی کھڑے کسی سے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔ فرید کو دیکھ کر اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔ فرید ان کے پاس گیا تو انھوں نے کسی شخص سے فرید کا تعارف کروایا تھا ۔۔

سر یہ فرید ہیں ۔۔۔ اس یونیورسٹی کا چمکتا ستارہ ۔۔۔۔

  اوہ تو آپ ہیں فرید ۔۔۔۔ انھوں نے فرید سے نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ خوشی سے گلے لگا لیا تھا ۔۔۔۔ فرید کو سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ یہ اتنی شاندار شخصیت کا مالک کون تھا اور اس کے ٹیچر نے اس کا ان سے تعارف کیوں کروایا ۔۔۔۔

 فرید شاید آپ کو پتہ نہیں ہے ۔۔۔۔ یہ ہماری یونیورسٹی کےڈیین ہیں ۔۔۔۔ سر وجاہت ۔۔۔۔ 

میتھس کے ٹیچر نے فرید کا پرنسپل سے تعارف کرواتے ہوئے اسے بتایا تھا

اوہ سوری سر میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔۔۔ فرید نے وضاحت دی ۔۔۔۔ آپ پہچانتے بھی کیسے ۔۔۔۔ میں بھی آپ ہی کی طرح یہاں نیا ہوں ۔۔۔۔ بلکہ آپ تو پھر بھی شاید کچھ مہینوں سے یہاں آ رہے ہیں مگر ۔۔۔۔ میں پہلے کسی اور کالج میں پرنسپل تھا ۔۔۔۔ یہاں میری ابھی ٹرانسفر ہوئی ہے ۔۔۔۔ ویسے یہاں اس  یونیورسٹی میں مجھے لوگ اتنا نہیں جانتے ہوں گے جتنا آپ کے بارے میں جانتے ہیں ۔۔۔۔  

ہر بندہ ہی آپ کی تعریف کر رہا ہے ۔۔۔۔ آپ کا نام پوزیشن ہولڈرز میں  ۔۔۔ آپ کا نام بریلینٹ سٹوڈنٹس میں ۔۔۔آپ کا  نام پر زبان پر ہے ۔۔۔  ہر ٹیچر آپ کا ذکر کرتا نظر آیا ۔۔۔۔ شاید آپ کوئی جادو گر ہیں ۔۔۔۔ وہ فرید کی اتنی تعریف کر رہے تھے کہ

فرید کچھ شرمندہ ہو گیا ۔۔۔۔ اس کی اتنی زیادہ اور اتنے کھلے دل سے تعریف آج تک کسی نے بھی نہیں کی تھی ۔۔۔۔ 

نہیں سر ایسی بات نہیں ۔۔۔۔ فرید بس ہلکا سا مسکرا دیا ۔۔۔۔

 ہاہاہا جیتے رہو خوش رہو بیٹا اللّٰہ آپ کو بہت ساری کامیابیاں دے ۔۔۔۔ آمین ۔۔۔۔ 

چلو آپ جاؤ بیٹا ۔۔۔ میں آپ کا زیادہ ٹائم نہیں لوں گا ۔۔۔۔ انھوں نے فرید کی بہت حوصلہ افزائی کی تھی ۔۔۔۔ 

او کے تھینک یو سر اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔ فرید بھی ان سے ملنے کے بعد کافی خوش دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔

واپسی پر ایک دو دوستوں نے فرید کو چھیڑا تھا ۔۔۔۔ واہ بھئی واہ کیا بات ہے ۔۔۔۔ پرنسپل آپ سے ملنے کے طلب گار تھے ۔۔۔ ہم غریبوں کو کون منہ لگاتا ہے ۔۔۔۔ فرید کیا کہتا بس ہنس دیا ۔۔۔۔  

یار میں چلا گیا تھا تو بعد میں سر نے اسائنمنٹ کے بارے میں کچھ بتایا تو نہیں 

فرید کو اپنی پڑھائی کی بہت فکر تھی ۔۔۔۔ 

ہاں دو دو سٹوڈنٹس ملکر اسائنمنٹ بنائیں گے ۔۔۔ کلاس فیلو نے فرید کو بتایا 

دو دو مطلب ؟ ۔۔۔ فرید کو سمجھ نہیں آئی تھی ان کی بات 

مطلب یہ کہ آپ کا نام اس حسینہ کے ساتھ ہے جسے آپ لفٹ ہی نہیں کرواتے ۔۔۔۔ کسی لڑکے نے معلومات میں اضافہ کیا تھا ۔۔۔ اشارہ اسی لڑکی کی طرف تھا جو آج کل فرید کے پیچھے پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔

کون حسینہ ۔۔۔۔ فرید حیران سا انھیں دیکھنے لگا 

 وہی جو تیری دیوانی ہے ۔۔۔ ایک لڑکے نے آنکھ دباتے ہوئے فرید کو آخری کیا تھا 

 یار فضول باتیں مت کرو میں شادی شدہ ہوں ۔۔۔۔ فرید کو ان لڑکوں کی بات پر بہت غصہ آیا تھا مگر ضبط کر گیا ۔۔۔۔۔

کیا واقعی ۔۔۔۔ اس کے دوست حیران رہ گئے ۔۔۔۔ تو نے کبھی بتایا نہیں ۔۔۔ وہ لوگ فرید سے شکوہ کرنے لگے ۔۔۔ میں یہاں گھر کی باتیں ڈسکس کرنے نہیں آتا پڑھنے آتا ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر جیسے ہی فرید جانے لگا تو پیچھے سے آواز آئی تھی ۔۔۔ اسلام میں چار کی اجازت ہے ۔۔۔۔ فرید نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور افسوس سے سر ہلاتا وہاں سے نکل گیا  ۔۔۔

فرید ۔۔۔۔ وہ کینٹین میں چاٹ کھا رہا تھا تب ہی اسے کسی نے مخاطب کیا تھا ۔۔۔

 فرید نے مڑ کر دیکھا وہی کھڑی تھی اس کے سامنے ۔۔۔۔ 

جی آ جائیے ۔۔۔۔ بیٹھیں پلیز ۔۔۔۔ فرید نے ن چہرے ہوئے بھی اسے بیٹھنے کی آفر کر دی

وہ اس کی خوش اخلاقی پر کافی حیران تھی ۔۔۔۔

 آپ بیٹھیں میں آتا ہوں ۔۔۔۔ فرید وہاں سے چلا گیا 

وہ ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ وہ اس سے کیا کہے گی ۔۔۔۔ اتنے میں فرید چاٹ اور کولڈرنک اس کے لیے لے آیا اور اس کے سامنے رکھ دی ۔۔۔۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔۔۔۔ آپ کے لیے لایا ہوں کھا لیجئے ۔۔۔۔ فرید نے اس کی حیرت کو بھانپتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ 

لیکن یہ صرف اس لیے کہ میں کھا رہا تھا تو آپ آ گئیں ۔۔۔ آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو میں اس کے لیے بھی یہی کرتا آپ کھا لیں پھر بات کرتے ہیں ۔۔۔۔ 

آپ مجھ سے فری ہونے کی کوشش کرتی ہیں مگر میں آپ کو بتا دوں کہ میں شادی شدہ ہوں ۔۔۔ اس لئے کوئی غلط فہمی اپنے دل میں نہ رکھئے گا ۔۔۔۔ فرید نے اسے فوراً سے وضاحت دی تھی 

 مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا بس مجھے آپ سے دوستی کرنی ہے ۔۔۔۔ وہ لڑکی اب بھی بضد تھی فرید سے دوستی کرنے پر ۔۔۔۔

 فرید کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔

دوستی مگر کیوں ۔۔۔۔ فرید اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

بس مجھے آپ اچھے لگتے ہیں ۔۔۔۔ اس نے بھی فرید سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیا 

 تو آپ یہ کہنے آئی ہیں مجھ سے ۔۔۔۔ فرید کو اس کی بات پر بہت حیرت ہوئی تھی کہ وہ لڑکی ہو کر ایسے بے شرموں کی طرح ایک لڑکے سے پانی پسندیدگی کا اظہار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

ہاں یہ بھی اور یہ بھی کہ کل اسٹیٹس کی کلاس نہیں ہے تو اس ٹائم پر ہم فری ہوں گے تو اسائنمنٹ کے بارے میں کچھ ڈسکس کر لیں گے ۔۔۔۔ وہ تو خوش تھی کہ اسائنمنٹ کے بہنے وہ فرید کے ساتھ کچھ وقت بتا لے گی ۔۔۔۔

اس کی ضرورت نہیں فرید نے صاف جواب دے دیا ۔۔۔۔ 

وہ حیران سی اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

 میں اسائنمنٹ خود اکیلے ہی بنا لوں گا آپ کو اس سے ریلیٹڈ چارٹس بھی بنا کر دے دوں گا ۔۔۔۔ آپ صرف اس میں ڈیٹا انٹر کر دیں گی ۔۔۔۔

کل اسٹیٹس کی کلاس کے ٹائم پر میں آپ کو دے دوں گا ۔۔۔۔

اب آپ جا سکتی ہیں ۔۔۔۔ فرید نے اسے ٹکا سا جواب دے دیا تھا ۔۔۔۔

فرید نے اگلے دن اسے چارٹس دے دئیے تھے ۔۔۔۔ وہ چارٹس لے کر جانے ہی والی تھی کہ فرید نے اسے مخاطب کیا تھا ۔۔۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔ آپ سے سر نے کچھ پوچھ لیا تو اسائنمنٹ کے بارے میں کیا بتائیں گی آپ ؟۔۔۔

 یہی کہ آپ نے بنائی ہے اور میں نے ان چارٹس میں ڈیٹا انٹر کیا ۔۔۔۔ اس لڑکی نے بڑی سادگی سے جواب دیا تھا

 فرید کو اس پر ہنسی آ گئی تھی جانے وہ بہت معصوم تھی یا بہت نالائق مگر جو بھی تھی ۔۔۔۔تھوڑی لوننی تھی ۔۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا آپ یہاں بیٹھ جائیں میں آپ کو اس کے بارے میں بتا دیتا ہوں ۔۔۔۔ اور پھر فرید نے اسے اسائنمنٹ کے بارے میں سب کچھ سمجھا دیا تھا ۔۔۔۔ وہ میں نے آپ کو اسائنمنٹ بنانے میں اس لئے شامل نہیں کیا ۔۔۔ کیوں کہ میں اپنے طریقے سے کام کرتا ہوں ۔۔۔۔ پھر اس میں مجھے کسی کی مداخلت پسند نہیں ۔۔۔ بس اس لیے آپ کے ساتھ ملکر نہیں بنائی ۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔

فرید نے اسے اسائنمنٹ میں شامل نہ کرنے پر اس سے معذرت کر لی تھی 

فرید جانے ہی لگا ۔۔۔۔ تب ہی اس نے مخاطب کیا

آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا ۔۔۔۔

کونسی بات ۔۔۔۔۔ فرید کو اس کی بات سمجھ ہی نہیں آئی 

وہ دوستی والی ۔۔۔۔۔ اس لڑکی نے ڈرتے ہوئے کہا

میں یہاں دوستیاں کرنے اور نبھانے نہیں آیا ۔۔۔۔

پڑھنے آیا ہوں ۔۔۔۔ وہ یہ بول کر رکا نہیں تھا ۔۔۔۔۔

ہیلو اماں مجھے پورے ہفتے کی چھٹی مل گئی ہے ۔۔۔۔

فرید بہت خوش تھا ۔۔۔۔ کہ اسے چھٹی مل گئی تھی ۔۔۔

سچ ؟ ۔۔۔۔ تو آ رہا ہے ۔۔۔۔ اماں خوشی سے چہکنے لگیں ۔۔۔۔

ہاں بس کل گاؤں پہنچ جاؤں گا ۔۔۔۔۔

تیری طبیعت ٹھیک ہے ناں  اماں ۔۔۔۔۔

فرید کو پانی ماں کی بھی فکر رہتی تھی 

ہاں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔ وہ فرید سے بات کر کہ بہت خوش ہو جاتی تھیں 

گھر میں سب کیسے ہیں ۔۔۔۔۔  فرید سب کے بارے میں پوچھنے لگا 

سب ٹھیک ہیں اور نوری بھی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ اماں نے اب نور کا کر کرنا ضروری سمجھا تو خود سے ہی اس کے بارے میں بتا دیا 

نوری کہاں ہے ؟۔۔۔۔۔ نور کا نام سنا تو اسے نور کا خیال آ ہی گیا

وہ تو نہیں ہے ۔۔۔۔ اماں نے فرید کو بتایا

نہیں ہے مطلب ۔۔۔۔ کہاں ہے ۔۔۔ فرید کو حیرت ہوئی تھی کہ وہ گھر میں نہیں تھی 

وہ اپنے میکے گئی ہے ۔۔۔۔۔ اماں نے اسے بتایا کہ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی گئی تھی 

تو مجھے کیوں نہیں بتایا ۔۔۔۔۔ فرید کو جانے کیوں اتنا غصہ آ گیا تھا 

تو گھر میں کب ہوتا ہے ۔۔۔۔ اماں اس کے غصے سے ڈر گئیں تو الٹا اسے ہی الزام دینے لگیں 

تو فون کر کے تو پوچھ سکتی ہے نہ مجھ سے ۔۔۔۔

آج تو فرید کو نور پر فضول میں ہی غصہ آ رہا تھا

اس کے پاس فون نہیں ہے ۔۔۔۔ اماں نے وضاحت دی ۔۔۔

اور ہو بھی تو ہر وقت تو تو مصروف رہتا ہے تیرے پاس بات کرنے کا ٹائم ہی نہیں 

ہوتا ۔۔۔۔۔ فرید کی ماں کو فرید کا نور کے بارے میں یوں استفسار کرنا کچھ اچھا نہیں لگا تھا ۔۔۔ کیونکہ وہ ویسے بھی نور کو زیادہ پوچھتا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔ اور آج خوامخواہ میں رعب جھاڑ رہا تھا 

لیکن پھر بھی وہ میری بیوی ہے ۔۔۔۔ جہاں جانا ہو مجھ سے پوچھنا اس کا فرض بنتا ہے ۔۔۔۔ فرید کو نور کا بغیر اجازت کے اپنے میکے جانا اچھا نہیں لگا تھا

تو اتنا غصے میں کیوں ہے ۔۔۔۔۔ اس کی اماں بھی اب زچ ہو گئی تھیں 

بس اماں کہہ دیا ناں ۔۔۔۔ وہ پتہ نہیں کس بات کا غصہ اپنی ماں پر نکال رہا تھا 

یہ کہہ کر فرید نے فون ہی بند کر دیا ۔۔۔۔ اور فرید کی ماں حیران تھیں کہ اس سے پہلے تو فرید نے اس لہجے میں کبھی بات نہیں کی

پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا ہے شہر کی ہوا لگ گئی ہے شاید اسے ۔۔۔

لیکن شکر ہے نوری کا تو پوچھا ناں ۔۔۔ ورنہ خبر ہی نہیں لیتا اس کی 

وہ اسی بات کو سوچ کر خوش ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔

اماں یہ پیسے ۔۔۔۔۔۔ فرید نے اپنی ماں کے ہاتھ میں رقم تھما دی تھی 

کس چیز کے پیسے ۔۔۔۔۔ ماں حیران سی پوچھنے لگی 

اماں میں نے کبھی نوری کو کچھ خرید کر نہیں دیا ۔۔۔۔ 

تو اسے دے دینا یہ پیسے جو لینا ہوا خرید لے گی ۔۔۔۔۔

فرید کو بھی اب نور کا احساس ہونے لگا تھا ۔۔۔ 

تو خود لے جا ناں اسے بازار ۔۔۔۔ خوش ہو جائے گی ۔۔۔۔۔

ماں کی آنکھوں میں بڑی آس دکھائی دی تھی فرید کو ۔۔۔۔۔

میرے بچے اسے سامان اور چیزوں کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ اسے تو بس تیری ضرورت ہے ۔۔۔۔ اس بار اسے لاہور لے جا سیر کروا کے لے آ ۔۔۔۔ فرید کی اماں نے موقع غنیمت جان کر اس سے اپنی دل کی بات کہہ دی 

 اماں وہاں کدھر رہے گی وہ ۔۔۔۔۔  فرید اپنی اماں کی اس خواہش پر حیران ہی تو رہ گیا تھا ۔۔۔۔ 

تیرے ساتھ اور کدھر ۔۔۔ فرید کی اماں نے اسے مسئلے کا فوری حل بتایا ۔۔۔۔ 

ماں کے جواب پر فرید نے اپنا سر پیٹ لیا تھا ۔۔۔۔ اماں میں لڑکوں کے ہاسٹل میں رہتا ہوں ۔۔۔۔ وہاں لڑکیاں نہیں رہ سکتیں ۔۔۔۔ 

اچھا تو پھر کوئی گھر کراۓ پر لے لینا ۔۔۔۔۔  فرید کی اماں کو لگتا تھا جیسے فرید وہاں بہت مزے کی زندگی گزار رہا ہو گا ۔۔۔۔ جب ہی اسے اپنے مفید مشوروں سے نواز رہی تھیں 

اماں تو فضول کی بحث کیوں کر رہی ہے 

وہاں شہر میں کیسے رہے گی ۔۔۔۔ فرید کو غصہ آ گیا ۔۔۔۔

اچھا اچھا غصہ نہ کر ۔۔۔۔ چل شہر میں نہیں ۔۔۔۔ گاؤں میں تو لے جا سکتا ہے ناں ۔۔۔۔ جا اسے بازار لے جا ۔۔۔۔ وہ اپنی بہو کو خوش دیکھنا چاہتی تھیں ۔۔۔ اسی لئے فرید کو اسے بازار لے جانے کا کہا 

نوری جو کھڑی کب سے ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی ۔۔۔۔ بول ہی پڑی اماں رہنے دے بس اس کا دل نہیں ہے تو میں کیا کروں گی جا کر 

یہ بول کر نوری اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔۔۔۔۔ 

دیکھ ناراض ہو گئی ۔۔۔۔۔ جا منا لے ۔۔۔۔۔ اماں کو نور کا یوں ناراض ہونا اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔

 مجھے نہیں آتا منانا ۔۔۔ فرید نے جیسے بیزاری ظاہر کی ۔۔۔۔

چل نور بازار چل ۔۔۔۔۔ فرید کمرے میں آیا تو نور سے تیار ہونے کے لیے کہا

 میں نے نہیں جانا ۔۔۔ نور ناراض ہو گئی تھی 

سنا نہیں تو نے ۔۔۔۔ شوہر ہوں تیرا ۔۔۔۔ جیسا کہہ رہا ہوں ویسا کر ۔۔۔۔۔

نور ررر۔۔۔ فرید نے اسے مخاطب کیا ۔۔۔۔ 

جی ۔۔۔ نور نے فرید کی طرف دیکھا 

چادر ذرا بڑی لینا ۔۔۔۔۔ فرید نور کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

اچھا ۔۔۔۔ ویسے بڑی ہی لیتی ہوں ۔۔۔۔ نور نے بھی اسے دو بدو جواب دیا ۔۔۔

پتہ ہے وہ جو تو شادی سے پہلے میلے میں گھوم رہی تھی ۔۔۔۔ تیرے دوپٹے کا پتہ ہی نہیں تھا کدھر جا رہا تھا ۔۔۔۔ فرید کی آنکھوں میں وہ منظر گھوم گیا جب وہ شادی سے پہلے میلے میں ادھر سے ادھر بھاگ رہی تھی ۔۔۔۔ 

 تو نے کب دیکھا فرید ۔۔۔ نور نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔۔۔۔

آپ' کہا کر ۔۔۔۔ میں تیرا شوہر ہوں تمیز سے بات کیا کر ۔۔۔ یہ تو تڑاک پسند نہیں مجھے ۔۔۔۔ اب جلدی سے تیار ہو کر باہر آ جا ۔۔۔۔۔ اور ہاں پردہ بھی کر لینا ۔۔۔۔ کھلے منہ کے ساتھ باہر نہ آنا ۔۔۔۔ ورنہ نہیں لے جاؤں گا ۔۔۔۔ فرید پہلی بار نور کے ساتھ بازار جا رہا تھا تو خود بھی تھوڑا جھجھک رہا تھا ۔۔۔ تب ہی اسے اتنی ہدایتیں دے رہا تھا ۔۔۔۔  

نوری حیران تھی آج تو واقعی وہ اس کا شوہر ہی بن گیا تھا ۔۔۔۔ 

چوڑیاں پسند آئی تھیں نور کو ۔۔۔۔ فرید چوڑیاں لینی ہیں میں نے

خرید لے ۔۔۔۔  فرید نے جیب سے پیسے نکلتے ہوئے کہا

تو پہنا دے ناں ۔۔۔۔۔ نور نے بڑی حسرت سے فرید کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔

پاگل تو نہیں ہے بس خرید لے گھر جا کر خود پہن لینا ۔۔۔۔ فرید کو اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ یوں سر عام اسے سب کے سامنے چوڑیاں پہناتا ۔۔۔ سو انکار کر دیا ۔۔۔۔ 

 تو پہنا دے ناں ۔۔۔۔ نور بھی ضد کرنے لگی ۔۔۔۔

فرید نے نور کو غصے سے دیکھا تھا ۔۔۔ 

دکاندار فرید کی عمر کا تھا ۔۔۔۔ اسے مستی سوجھی 

تو کہتی ہے تو میں پہنا دیتا ہوں ۔۔۔۔ اپنی تھوڑی کو چھوتے اس نے نور کو آفر کی تھی ۔۔۔

فرید کا تو خون ہی کھول گیا 

آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔۔۔۔۔ اس لڑکے کی وہ دھنائی دی کہ ارد گرد کے سارے لوگ اکٹھے ہو گئے اور چوڑیاں بھی اٹھا اٹھا کر پھینکیں  ۔۔۔۔ 

نور تو پریشان ہی ہو گئی ۔۔۔۔۔ 

فرید نور کا ہاتھ پکڑ کر اپنی موٹر سائیکل تک لایا اور پھر ایسی تیز رفتاری سے چلائی کہ جیسے موٹر سائیکل نہ چلا رہا ہو جہاز اڑا رہا ہو ۔۔۔۔۔

 نور نے تو کلمہ ہی پڑھ لیا اسے لگا یہ اس کی زندگی کا آخری دن تھا ۔۔۔۔۔ 

گھر آ کر فرید نے وہ ہنگامہ مچایا کہ اس کے ماں باپ اور نور خود حیران تھی کہ فرید کو آخر ہو کیا گیا ہے ۔۔۔۔

 اماں میں کہتا تھا ناں ۔۔۔۔ تو نے زبردستی بھیجا اسے میرے ساتھ بازار ۔۔۔۔ دیکھ اس کی وجہ سے کتنا ہنگامہ ہو گیا ہے ۔۔۔۔ آئندہ یہ گھر سے قدم بھی مجھ سے پوچھ کر نکالے گی ۔۔۔۔ میں جب گھر میں نہیں ہوں گا یہ کہیں نہیں جاۓ گی ۔۔۔۔ اپنے ماں باپ کے گھر بھی نہیں ۔۔۔۔ سن لیا تو نے ۔۔۔۔ وہ یہ بول کر کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔ اور دروازہ اندر سے بند کر دیا ۔۔۔۔ 

ماں پیچھے گئی تھیں فرید کے ۔۔۔۔ جیسے ہی دروازہ کھڑکایا ۔۔۔ فرید نے دروازہ کھول کر اپنی ماں سے کہا اماں فکر نہ کر خود کشی نہیں کر رہا ۔۔۔ بس تھوڑی دیر کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ دے ۔۔۔۔

جاری ہے

#میرے_عشق_سے_آگے_قسط8

#از_قلم_فاطمہ_احمد 

دیکھ لے شیدے کی ماں یہ تیرا بیٹا کیا گل کھلا کے آیا ہے 

کمالے کی نوں (بہو) کو چوڑیاں پہنا رہا تھا ۔۔۔۔ فر مار وی کھائی اے 

اس دکان دار لڑکے کا باپ اس کی اس حرکت پر سخت برہم تھا ۔۔۔۔ 

کیا کہ رہے ہو شیدے کے ابا ۔۔۔ رشید کی ماں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔۔۔۔ 

اس کا منہ ویکھ لے سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا ۔۔۔ رشید کے ابا نے اپنے بیٹے کے منہ کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔

 ہاۓ ہاۓ میرا بچہ ۔۔۔ کس نے مار دیا میرے بچے کو ۔۔۔ وہ فکر سے پوچھنے لگیں ۔۔۔ 

شکر کر جان سے نہیں مار دیا ۔۔۔ جوان خون ہے ۔۔۔ شکر کر فریدے کے ہاتھ اس ٹائم کوئی چاقو یا پستول نہیں تھی ورنہ ہم سب آج اس کو دفنانے کی تیاری کر رہے ہوتے ۔۔۔

وہ اپنی بیوی کو ساری تفصیل بتانے لگے ۔۔۔۔

 شیدے کے ابا کبھی تو کچھ سوچ سمجھ کہ بولا کر ۔۔۔ ان کی بیوی کو اپنے شوہر کی بات کچھ اچھی نہیں لگی ۔۔۔۔ 

ہاں تو کہا تھا اماں تجھے کہ میرے لیے نوری کا رشتہ مانگ لے تو نے نئیں مانگا ۔۔۔ اس کا شوہر نخرے دکھا رہا تھا تو میں نے کہہ دیا لا میں پہنا دیتا ہوں ۔۔۔۔ اس میں غصے والی کونسی بات تھی ۔۔۔ بولا ہی تھا ناں پہنائی تو نہیں تھیں ۔۔۔ رشید بھی صحیح کا لفنگا تھا ۔۔۔۔ تب ہی اسے اپنی غلطی نظر ہی نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔

اوہ اس کھوتے دے پتر نو چپ کرا 

اس فریدے نے تو چھوڑ دیا ۔۔۔ کہیں میرے ہاتھ سے یہ ضائع نا ہو جاۓ ۔۔۔۔

رشید کے ابا غصے سے چلانے لگے ۔۔۔۔

اماں میں کل ہی شہر جا رہا ہوں قسم سے اگر مزید ایک دن اور رہا ناں تو اس بےغیرتے رشید کی بوٹیاں کر دینی ہیں میں نے ۔۔۔ فرید کا غصہ اب بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔۔۔۔

وہ تو  میرے پاس آیا تھا ۔۔۔ کہہ رہا تھا فریدے نے میری چوڑیوں کا جتنا نقصان کیا ہے وہ پورا کرے ۔۔۔۔ فرید کے باپ نے بتایا ۔۔۔

ابا تو نے سن کیسے لی اس کی بات ۔۔۔۔ مجھ سے بات کرواتا اس کی 

 فر اپنے پیروں پر گھر نہیں جا سکتا تھا ۔۔۔ وہ تو اس کی دکان پر لوگوں نے اسے میرے ہاتھ سے بچا لیا ورنہ قتل ہی ہو جانا تھا میرے ہاتھ سے اس شیدے کا ۔۔۔ سارا گاؤں آج اس کے جنازے میں شریک ہوتا ۔۔۔ فرید کا بس نہیں چل رہا تھا اس رشید کو اپنے ہاتھوں سے قتل ہی کر ڈالتا ۔۔۔۔

اور توں فر کہاں ہوتا ۔۔۔ جیل کی ہوا کھا رہا ہوتا ۔۔ اس کی ماں بھی فرید کا غصہ دیکھ کر پریشان ہو گئ تھیں  ۔۔۔ 

جہاں بھی ہوتا لیکن اس گاؤں کے سب لوگوں کے لیے سبق ہوتا کہ کسی کی ماں بہن کو چھیڑنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے ۔۔ فرید اب بھی غصے سے بول رہا تھا 

لیکن میں تو تیری گھر والی ہوں ناں ۔۔۔ نوری صدا کی کم عقل ۔۔۔ اس نے فرید کو بتانا ضروری سمجھا ۔۔۔ 

اوہ اماں تو اس کو تو چپ کرا لے ۔۔۔ ورنہ شاید ۔۔۔۔ فرید نے نور کی اس فضول بات  پر اپنا سر ہی پیٹ لیا  ۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ بول ہی نہیں پایا تھا ۔۔۔ فرید کے خیال میں ساری فساد کی جڑ نور ہی تھی ۔۔۔ نہ نور کو ساتھ لے جاتا اور نا ہی اتنا بڑا ہنگامہ ہوتا ۔۔۔۔

دیکھ لے شیدے کی ماں یہ تیرا بیٹا کیا گل کھلا کے آیا ہے 

کمالے کی نوں (بہو) کو چوڑیاں پہنا رہا تھا ۔۔۔۔ فر مار وی کھائی اے 

کیا کہ رہے ہو شیدے کے ابا ۔۔۔ رشید کی ماں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کا منہ ویکھ لے سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا

 ہاۓ ہاۓ میرا بچہ ۔۔۔ کس نے مار دیا میرے بچے کو ۔۔۔ وہ فکر سے پوچھنے لگیں ۔۔۔ شکر کر جان سے نہیں مار دیا ۔۔۔ جوان خون ہے ۔۔۔ شکر کر فریدے کے ہاتھ اس ٹائم کوئی چاقو یا پستول نہیں تھی ورنہ ہم سب آج اس کو دفنانے کی تیاری کر رہے ہوتے ۔۔۔ شیدے کے ابا کبھی تو کچھ سوچ سمجھ کہ بولا کر ۔۔۔ 

ہاں تو کہا تھا اماں تجھے کہ میرے لیے نوری کا رشتہ مانگ لے تو نے نئیں مانگا ۔۔۔ اس کا شوہر نخرے دکھا رہا تھا تو میں نے کہہ دیا لا میں پہنا دیتا ہوں ۔۔۔۔ اس میں غصے والی کونسی بات تھی ۔۔۔ بولا ہی تھا ناں پہنائی تو نہیں تھیں ۔۔۔ اوہ اس کھوتے دے پتر نو چپ کرا 

اس فریدے نے تو چھوڑ دیا ۔۔۔ کہیں میرے ہاتھ سے یہ ضائع نا ہو جاۓ ۔۔۔۔

اماں میں کل ہی شہر جا رہا ہوں قسم سے اگر مزید ایک دن اور رہا ناں تو اس بےغیرتے رشید کی بوٹیاں کر دینی ہیں میں نے ۔۔۔ 

وہ تو  میرے پاس آیا تھا ۔۔۔ کہہ رہا تھا فریدے نے میری چوڑیوں کا جتنا نقصان کیا ہے وہ پورا کرے ۔۔۔۔ فرید کے باپ نے بتایا ۔۔۔

ابا تو نے سن کیسے لی اس کی بات ۔۔۔۔ مجھ سے بات کرواتا اس کی 

 فر اپنے پیروں پر گھر نہیں جا سکتا تھا ۔۔۔ وہ تو اس کی دکان پر لوگوں نے اسے میرے ہاتھ سے بچا لیا ورنہ قتل ہی ہو جانا تھا میرے ہاتھ سے اس شیدے کا ۔۔۔ سارا گاؤں آج اس کے جنازے میں شریک ہوتا ۔۔۔ اور توں فر کہاں ہوتا ۔۔۔ جیل کی ہوا کھا رہا ہوتا ۔۔ اس کی ماں نے اسے بتایا تھا ۔۔۔ جہاں بھی ہوتا لیکن اس گاؤں کے سب لوگوں کے لیے سبق ہوتا کہ کسی کی ماں بہن کو چھیڑنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے ۔۔

لیکن میں تو تیری گھر والی ہوں ناں ۔۔۔ نوری صدا کی کم عقل ۔۔۔ اس نے فرید کو بتانا ضروری سمجھا ۔۔۔ اوہ اماں تو اس کو تو چپ کرا لے 

ورنہ شاید ۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ بول ہی نہیں پایا تھا ۔۔۔ فرید کے خیال میں ساری فساد کی جڑ نور ہی تھی ۔۔۔ نہ نور کو ساتھ لے جاتا اور نا ہی اتنا بڑا ہنگامہ ہوتا ۔۔۔۔

فرید ۔۔۔۔ فزکس کے ٹیچر فرید سے مخاطب تھے ۔۔۔

جی سر ۔۔۔ فرید اپنی سیٹ سے اٹھ گیا تھا ۔۔۔

اگلے ہفتے آپ کو ایک پریزنٹیشن دینی ہو گی ۔۔۔۔ ٹیچر نے پریزنٹیشن کے لیے فرید کا نام دیا تھا ۔۔۔۔ 

سر مگر میں نے کبھی بھی نہیں دی ۔۔۔۔ فرید پریشان ہو گیا

دی نہیں ہے ۔۔۔ مگر اٹینڈ تو کی ہے ناں ۔۔۔ سر نے فرید کو لا جواب کر دیا ۔۔۔۔

مگر سر ۔۔۔ فرید نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو ٹیچر نے اس مزید کچھ کہنے سے منع کر دیا یہ کہہ کر کہ  ۔۔۔ آپ کا نام پرنسپل نے دیا ہے ۔۔۔

اسلام آباد سے ٹیم آ رہی ہے ۔۔۔ جتنے بھی بریلینٹ سٹوڈنٹس ہیں ان کا نام دیا گیا ہے ۔۔۔ جن میں آپ بھی شامل ہیں ۔۔۔ اگر کوئی پرابلم ہے پریزنٹیشن سے ریلیٹڈ تو آپ مجھے آفس میں آ کر مل لیں ۔۔۔ سر یہ کہہ کر رکے نہیں تھے ۔۔۔ کلاس سے جا چکے تھے ۔۔۔

وہ بھی اٹھ کر کوریڈور میں آ گیا تھا

 واہ بھئی واہ کیا بات ہے ۔۔۔۔ آپ کی تو بڑی ہی ڈیمانڈ ہے ۔۔۔ فرید کا ایک دوست جو زبردستی فرید کا دوست بن گیا تھا ۔۔۔ اسے چھیڑنے لگا ۔۔۔۔ 

یار ایک تجھے ہر وقت مستی سوجھی ہوتی ہے ۔۔۔۔ میری تو جان پر بن جاتی ہے ۔۔۔ تم لوگ سمجھتے ہو بہت آسان کام ہے ۔۔۔ فرید زچ ہو گیا تھا 

ہاہاہاہا ۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔ فرید کا دوست زور زور سے ہنسنے لگا 

 اب یار تو ہنس کیوں رہا ہے ۔۔۔ فرید بہت بیزار تھا اس زبردستی کی دوستی سے ۔۔۔۔ 

یار میں اس ڈیمانڈ کی بات نہیں کر رہا ۔۔۔۔ برھان نے کچھ بتانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ 

فرید کو اب بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ برھان کس کے بارے میں بات کر رہا تھا ۔۔۔۔ یار صاف صاف بتا کیا کہنا چاہ رہا ہے تو ۔۔۔ فرید نے برھان سے پوچھا

وہ دیکھ ۔۔۔ برھان نے کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی

فرید نے جو سامنے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ تو وہی لڑکی ان کے پاس آ رہی تھی ۔۔۔۔ 

یار تم لوگ اپنے ذہن کو صاف نہیں رکھ سکتے ۔۔۔۔ فرید کو بہت غصہ آیا تھا برھان کی بات پر ۔۔۔۔ 

اتنے میں وہ لڑکی بھی ان دونوں کے قریب آ چکی تھی ۔۔۔۔

 اچھا یار اجازت ۔۔۔ برھان  نے اس لڑکی کو دیکھ کر وہاں سے کھسکنا چاہا ۔۔۔۔ 

رک تو کہاں جا رہا ہے ۔۔۔ فرید کچھ کنفیوژ ہو گیا تھا ۔۔۔۔ یار مجھے زرا کچھ کام ہے ۔۔۔ میں ملتا ہوں تجھ سے تھوڑی دیر میں ۔۔۔۔ وہ آنکھوں آنکھوں میں اس لڑکی کی طرف اشارہ کر کہ غائب ہو گیا ۔۔۔

 ایکسکیوزمی ۔۔۔ فرید سے مخاطب تھی وہ ۔۔۔ 

یس فرید نے اس کی طرف بغیر دیکھے کہا

وہ مجھے آج کی کلاس کے بارے میں پوچھنا تھا میں نے اٹینڈ نہیں کی ۔۔۔ وہ لڑکی فرید کو بتانے لگی ۔۔۔ 

تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔۔۔

فرید نے بیزاریت ظاہر کی ۔۔۔ 

وہ آپ مجھے بتا دیں کہ سر نے کیا پڑھایا ۔۔۔۔ وہ فرید سے لیکچر کے بارے میں پوچھنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔ 

مس پہلی بات یہ کہ میں نے آپ کو لیکچر سمجھانے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ ۔۔۔ کلاس میں اور بھی بہت سے لوگ ہیں جن سے آپ لیکچر کے بارے میں پوچھ سکتی ہیں

فرید غصے میں وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔ 

کیوں کہ صرف ایک برھان نہیں تھا جو اس کے بارے میں بات کر رہا تھا ۔۔۔ سب ہی لوگ پیچھے سے فرید اور ماہا کے بارے میں چہ مگوئیاں کرنے لگے تھے ۔۔۔۔ وہ تو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی گناہگار بن گیا تھا ۔۔۔۔ 

وہ غصے میں خالی کلاس روم میں جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ گھر جاؤ تو وہ نور اور یہاں آؤ تو یہ ماہا ۔۔۔۔ چلو نور کی تو سمجھ میں آتی ہے ۔۔۔

یہ کس وجہ سے میرے پیچھے پڑ گئی ہے ۔۔۔۔ فرید کو پہلے کم ٹینشن تھی پریزنٹیشن کی ۔۔۔۔ جو ایک اور بلا سر پر سوار ہو گئی تھی 

زبردست فرید مجھے آپ سے جتنی امید تھی اس سے کہیں زیادہ اچھا آپ نے پرفارم کیا ۔۔۔۔ اور اب اس پریزنٹیشن کا اصل مقصد میں آپکو بتاتا ہوں ۔۔۔۔ دراصل ہر سال پاکستان سے کچھ سٹوڈنٹس جو بہت قابل ہوتے ہیں ۔۔۔ انہیں یہ موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔ وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ۔۔۔ باہر جائیں یعنی سکالرشپ پر پڑھیں ۔۔

آپ کیا کہتے ہیں ۔۔۔ یہ سنہری موقع ہر کسی کو نہیں ملتا ۔۔۔۔ پرنسپل فرید کو آفس میں بلا کر اسے اس سب کے بارے میں بتا رہے تھے ۔۔۔۔

سر میں آپ کا اور اپنے اساتذہ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ لوگوں نے مجھے اس قابل سمجھا ۔۔۔ مگر میں ایک ایسا انسان ہوں جو خود غرض نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں ۔۔۔۔ میری ایک بہن ہے اس کی شادی ہو چکی ہے ۔۔۔ اور میں خود بھی شادی شدہ ہوں ۔۔۔ سر میں اپنی فیملی کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا ۔۔۔

فرید نے پرنسپل کی آفر کو ٹھکرا دیا ۔۔۔ 

Are you sure?

پرنسپل نے حیرانگی ظاہر کی ۔۔۔۔

فرید میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک بار پھر سوچ لیجئے ۔۔۔۔ پرنسپل حیران تھے کے فرید نے اتنی بڑی آفر کو رد کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگایا تھا ۔۔۔ 

سر میں ایک بار سوچوں یا دس بار ۔۔۔۔ میں ایک منٹ میں آپ کو جواب دوں یا ایک ہفتے میں ۔۔۔۔ میرا ہمیشہ یہی جواب ہو گا ۔۔۔۔۔

سر میں اپنے ملک میں رہ کر ہی بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور ویسے بھی میری یہی سوچ ہے کہ اگر آپ محنتی ہوں اور آپ کے اندر کچھ پا لینے کا جزبہ ہو تو آپ کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔۔۔فرید نے پرنسپل کو صاف جواب دے دیا ۔۔۔۔

فرید میں آپ کے لیے دعا گو ہوں ۔۔۔ کیوں کہ میں نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں ۔۔۔ جو صرف اپنا مستقبل ہی دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن کسی کا احساس نہیں کرتے ۔۔۔۔ پرنسپل فرید سے بہت متاثر تھے ۔۔۔

سر میرے والدین نے مجھ پر ہمیشہ احسانات کئے لیکن کبھی نہیں جتایا ۔۔۔ خدا کی قسم انہیں میری کمائی کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔

وہ تو بس مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔ اگر انہیں میری خوشیاں اتنی عزیز ہیں تو ۔۔۔ پھر میں کیوں نہ ان کا خیال کروں ۔۔۔

اور جب انہیں میری دولت کی ضرورت نہیں تو مجھے بھی دولت اور پیسے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔۔۔ انسان بس اتنا کما لے کہ عزت سے جی سکے ۔۔۔۔ بس شرط ہے کہ جو کمائے رزق حلال ہو ۔۔۔۔ فرید اپنی ان باتوں سے پرنسپل کو بہت متاثر کر چکا تھا ۔۔۔۔

ٹھیک ہے فرید آپ جیسا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ وہی کریں ۔۔۔۔ ان شاءاللہ کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی ۔۔۔۔ 

           best of luck

پرنسپل واقعی فرید سے بہت متاثر ہو چکے تھے ۔۔۔۔ 

                                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اکیڈمی سے باہر ہی آیا تھا ۔۔۔ کہ فرید کا فون بجا تھا

فرید کی اماں کا فون تھا ۔۔۔ ہاں اماں بول سلام دعا کے بعد وہ اپنی ماں سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔

فرید نوری رو رہی ہے ۔۔۔ اماں نے بتایا 

تو میں کیا کروں ۔۔۔ اماں تو چپ کرا دے اسے ۔۔۔ فرید نور کی بچوں والی حرکتوں سے بہت پریشان تھا ۔۔۔۔

پوچھے گا نہیں کیوں رو رہی ہے ۔۔۔۔ اماں نور کے لیے فکر مند تھیں ۔۔۔۔

 اچھا اب بتا بھی دے کہ کیا ہوا ہے اسے ۔۔۔ میری بات کرا اس سے اماں ۔۔۔۔ فرید چاہتا تھا کہ نور سے خود پوچھ لے ۔۔۔۔

وہ نہیں کرے گی تجھ سے بات ۔۔۔ وہ شاید یہ بتانا چاہ رہی تھیں کہ نور اس سے ناراض تھی ۔۔۔۔

 کیوں نہیں کرے گی ۔۔۔۔ میں اس کا شوہر ہوں ۔۔۔۔ اب کی بار فرید کو بھی غصہ آ گیا ۔۔۔

ہر کام لڑائی جھگڑے اور بدتمیزی سے نہیں کروایا جاتا فرید کبھی کبھی محبت سے بھی بات کر لیا کر اس سے ۔۔۔ فرید کی ماں اسے احساس دلانا چاہ رہی تھیں 

 اماں ہوا کیا ہے اسے 

وہ تو نے منع کیا نہ اسے باہر جانے سے تو اس لیے ۔۔۔۔

اماں نے فرید کو نور کی ناراضگی کی وجہ بتائی تھی ۔۔۔

#میرے_عشق_سے_آگے_قسط10

#از_قلم_فاطمہ_احمد 

وہ نور سے بات کر کے فارغ ہی ہوا تھا ۔۔۔ جیسے ہی پلٹا ۔۔۔ پیچھے وہی کھڑی تھی ۔۔۔ اس نے افسوس سے سر ہلایا تھا ۔۔۔ اسے نظر انداز کر کے جانے ہی لگا کہ اس کی آواز پر رک گیا ۔۔۔۔ یہ آپ کے نوٹس وہیں رہ گئے تھے ۔۔۔۔ میں نہ آتی صرف یہ دینے آئی ہوں ۔۔۔ اس نے قریب پڑی کرسی پر وہ نوٹس رکھے اور چلی گئی ۔۔۔۔

اس کا فون بجا تھا  ۔۔۔ اس نے جیسے ہی فون کی سکرین پر نظر ڈالی ۔۔۔۔ اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔۔۔ آنکھیں مسلنے کے بعد پھر سے فون کی سکرین کو دیکھا اور پھر بھی یقین نہیں آیا تو پھر خود کو چٹکی کاٹی ۔۔۔ اور پھر بھی وہی نمبر تھا ۔۔۔۔ اپنے آپ کو نارمل کرتے اس نے کال ریسیو کی تھی ۔۔۔ ہیلو 

اسلام وعلیکم ۔۔۔ اور سلام کے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی وہ اپنی باتیں کرنا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔۔ جی وہ میں فرید بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔

جانتی ہوں ۔۔۔ یہ بول کر وہ خود ہی پھنس گئی ۔۔۔ مگر شاید وہ کسی اور ہی پریشانی میں تھا ۔۔۔ اس لیے اس کی بات پر غور ہی نہیں کر سکا ۔۔۔ وہ میں بہت پریشان ہوں ۔۔۔ کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں ۔۔۔۔ اس کی آواز سے بھی پتہ چل رہا تھا کہ وہ کچھ پریشان تھا ۔۔۔۔

وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی تھی ۔۔۔ پھر حیرت سے فون کو دیکھا جیسے وہ فون نہ ہو فرید ہو ۔۔۔ کککک۔۔ کیا مطلب

مدد میں آپ کی ۔۔۔ اس کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکل رہے تھے 

جی پلیز اگر آپ کر سکتی ہیں تو بتا دیں ورنہ میں کچھ اور بندوبست کر لیتا ہوں ۔۔۔۔ وہ واقعی پریشان لگ رہا تھا ۔۔۔۔ 

جی جی کیوں نہیں آپ بتائیں تو سہی ۔۔۔ پھر جو فرید نے اسے سب کچھ بتایا تو وہ کچھ سوچتے ہوئے رضامند ہو گئی ۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے آپ ذرا جلدی بتا دیتے تو شاید کچھ ہو جاتا مگر ابھی بھی میں کوشش کرتی ہوں ۔۔۔ میں دس منٹ میں آپ کو بتاتی ہوں ۔۔۔۔ ماہا نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا تھا ۔۔۔۔

وہ اپنے گاؤں واپس آ گیا تھا ۔۔۔ مہندی کے فنکشن میں وہ سجی سنوری کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ پھر ایسے خوبصورت اور سٹائلش کپڑے اس نے پہلی بار ہی زیب تن کئے تھے ۔۔۔۔ وہ اپنے دل   کی دھڑکنوں کو کنٹرول میں کرتے اس پر سے نظریں ہٹا گیا تھا ۔۔۔

فرید ۔۔۔ اس کی ماں نے آواز دی ۔۔۔ 

جی اماں ۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا ۔۔۔

 یہاں بیٹھا کیا کر رہا ہے ۔۔۔ جا تصویر کھنچوا لے ۔۔۔ اس کی اماں نے اسے سٹیج پر نور کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

اماں میں کیا کروں گا ۔۔۔ اسے ان سب چیزوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔۔۔ 

اسی لیے منع کر دیا ۔۔۔

فرید کبھی تو عقل سے کام لیا کر ۔۔۔ تو اس گھر کا داماد ہے ۔۔۔ جا نوری انتظار کر رہی ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ تصویر بنوا لے ۔۔۔۔ اماں نے فرید کو زبردستی بھیجا تو وہ چلا گیا ۔۔۔

نور نے گرے اور پنک کلر کے کومبینیشن  کا ہلکی ایمبرائیڈری والا سوٹ پہنا تھا  ۔۔۔ آنکھوں میں کاجل ڈالے ہلکا پھلکا میک اپ اور لائیٹ پنک کلر کی لپ اسٹک لگاۓ وہ کسی سے بات کرتے مسکرا رہی تھی

کیا واقعی یہ نور ہی ہے ۔۔۔ پہلے تو کبھی بھی اتنی پیاری نہیں لگی 

یا پھر میں نے ہی توجہ نہیں دی اس پر ۔۔۔ پھر سے دل میں ایک خیال آتے ہی وہ ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتا ہوا نور کے پاس پہنچ گیا تھا ۔۔۔

اور پھر تصویریں کھنچوانے کے بعد وہ جیسے ہی جانے لگا تو ۔۔۔ نور نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکنیں پھر سے بے ترتیب ہونے لگیں تھیں ۔۔۔ اور پھر نور کا بھائی بھی وہاں آ گیا تھا ۔۔۔

اور پھر سب ڈانس کرنے لگے ۔۔۔۔ اسے بھی مجبوراً نور اور دوسرے کزنز کا ساتھ دینا پڑا کہ اگر چلا جاتا تو پھر بہت سے سوال اٹھتے ۔۔ نور اور فرید کے رشتے پر ۔۔۔ اور وہ ایسا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔ 

 اچانک سے کوئی کزن نور سے ٹکرائی تھی اور پھر وہ گر ہی جاتی اگر فرید اسے نا سنبھالتا ۔۔۔۔ ایک بار پھر سے فرید اس کو محویت سے دیکھنے لگا تھا ۔۔۔۔ 

وہ نور سے بات کر کے فارغ ہی ہوا تھا ۔۔۔ جیسے ہی پلٹا ۔۔۔ پیچھے وہی کھڑی تھی ۔۔۔ اس نے افسوس سے سر ہلایا تھا ۔۔۔ اسے نظر انداز کر کے جانے ہی لگا کہ اس کی آواز پر رک گیا ۔۔۔۔ یہ آپ کے نوٹس وہیں رہ گئے تھے ۔۔۔۔ میں نہ آتی صرف یہ دینے آئی ہوں ۔۔۔ اس نے قریب پڑی کرسی پر وہ نوٹس رکھے اور چلی گئی ۔۔۔۔

اس کا فون بجا تھا  ۔۔۔ اس نے جیسے ہی فون کی سکرین پر نظر ڈالی ۔۔۔۔ اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔۔۔ آنکھیں مسلنے کے بعد پھر سے فون کی سکرین کو دیکھا اور پھر بھی یقین نہیں آیا تو پھر خود کو چٹکی کاٹی ۔۔۔ اور پھر بھی وہی نمبر تھا ۔۔۔۔ اپنے آپ کو نارمل کرتے اس نے کال ریسیو کی تھی ۔۔۔ ہیلو 

اسلام وعلیکم ۔۔۔ اور سلام کے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی وہ اپنی باتیں کرنا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔۔ جی وہ میں فرید بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔

جانتی ہوں ۔۔۔ یہ بول کر وہ خود ہی پھنس گئی ۔۔۔ مگر شاید وہ کسی اور ہی پریشانی میں تھا ۔۔۔ اس لیے اس کی بات پر غور ہی نہیں کر سکا ۔۔۔ وہ میں بہت پریشان ہوں ۔۔۔ کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں ۔۔۔۔ اس کی آواز سے بھی پتہ چل رہا تھا کہ وہ کچھ پریشان تھا ۔۔۔۔

وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی تھی ۔۔۔ پھر حیرت سے فون کو دیکھا جیسے وہ فون نہ ہو فرید ہو ۔۔۔ کککک۔۔ کیا مطلب

مدد میں آپ کی ۔۔۔ اس کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکل رہے تھے 

جی پلیز اگر آپ کر سکتی ہیں تو بتا دیں ورنہ میں کچھ اور بندوبست کر لیتا ہوں ۔۔۔۔ وہ واقعی پریشان لگ رہا تھا ۔۔۔۔ 

جی جی کیوں نہیں آپ بتائیں تو سہی ۔۔۔ پھر جو فرید نے اسے سب کچھ بتایا تو وہ کچھ سوچتے ہوئے رضامند ہو گئی ۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے آپ ذرا جلدی بتا دیتے تو شاید کچھ ہو جاتا مگر ابھی بھی میں کوشش کرتی ہوں ۔۔۔ میں دس منٹ میں آپ کو بتاتی ہوں ۔۔۔۔ ماہا نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا تھا ۔۔۔۔

وہ اپنے گاؤں واپس آ گیا تھا ۔۔۔ مہندی کے فنکشن میں وہ سجی سنوری کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ پھر ایسے خوبصورت اور سٹائلش کپڑے اس نے پہلی بار ہی زیب تن کئے تھے ۔۔۔۔ وہ اپنے دل   کی دھڑکنوں کو کنٹرول میں کرتے اس پر سے نظریں ہٹا گیا تھا ۔۔۔

فرید ۔۔۔ اس کی ماں نے آواز دی ۔۔۔ 

جی اماں ۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا ۔۔۔

 یہاں بیٹھا کیا کر رہا ہے ۔۔۔ جا تصویر کھنچوا لے ۔۔۔ اس کی اماں نے اسے سٹیج پر نور کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

اماں میں کیا کروں گا ۔۔۔ اسے ان سب چیزوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔۔۔ 

اسی لیے منع کر دیا ۔۔۔

فرید کبھی تو عقل سے کام لیا کر ۔۔۔ تو اس گھر کا داماد ہے ۔۔۔ جا نوری انتظار کر رہی ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ تصویر بنوا لے ۔۔۔۔ اماں نے فرید کو زبردستی بھیجا تو وہ چلا گیا ۔۔۔

نور نے گرے اور پنک کلر کے کومبینیشن  کا ہلکی ایمبرائیڈری والا سوٹ پہنا تھا  ۔۔۔ آنکھوں میں کاجل ڈالے ہلکا پھلکا میک اپ اور لائیٹ پنک کلر کی لپ اسٹک لگاۓ وہ کسی سے بات کرتے مسکرا رہی تھی

کیا واقعی یہ نور ہی ہے ۔۔۔ پہلے تو کبھی بھی اتنی پیاری نہیں لگی 

یا پھر میں نے ہی توجہ نہیں دی اس پر ۔۔۔ پھر سے دل میں ایک خیال آتے ہی وہ ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتا ہوا نور کے پاس پہنچ گیا تھا ۔۔۔

اور پھر تصویریں کھنچوانے کے بعد وہ جیسے ہی جانے لگا تو ۔۔۔ نور نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکنیں پھر سے بے ترتیب ہونے لگیں تھیں ۔۔۔ اور پھر نور کا بھائی بھی وہاں آ گیا تھا ۔۔۔

اور پھر سب ڈانس کرنے لگے ۔۔۔۔ اسے بھی مجبوراً نور اور دوسرے کزنز کا ساتھ دینا پڑا کہ اگر چلا جاتا تو پھر بہت سے سوال اٹھتے ۔۔ نور اور فرید کے رشتے پر ۔۔۔ اور وہ ایسا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔ 

 اچانک سے کوئی کزن نور سے ٹکرائی تھی اور پھر وہ گر ہی جاتی اگر فرید اسے نا سنبھالتا ۔۔۔۔ ایک بار پھر سے فرید اس کو محویت سے دیکھنے لگا تھا ۔۔۔۔ 

نور کے بھائی کی شادی تھی ۔۔۔ اور اس نے شادی میں شرکت کرنے  سے انکار کر دیا تھا ۔۔۔۔ کہ فرید اسے منع کر کے گیا تھا ۔۔۔ کہ وہ گھر سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالے گی ۔۔۔ جب فرید نے اسے فون پر بھائی کی شادی میں جانے کی اجازت دی تو ۔۔۔ نوری نے کہا کہ وہ اس وقت تک شادی میں نہیں جاۓ گی جب تک فرید بھی شادی میں شرکت نہ کر لے ۔۔۔ اور فرید کو آخر کار نوری کی بات ماننی ہی پڑی ۔۔۔ لیکن پھر بھی نوری اس سے ناراض تھی ۔۔۔ فرید کی ماں کا کہنا تھا کہ تو شہر سے اس کے لیے کپڑے خرید کر لے آ ۔۔۔ مگر فرید کو لیڈیز کی شاپنگ کرنے کا کوئی آئیڈیا نہیں تھا ۔۔۔ وہ نوری کا پہلے ہی بہت دل دکھا چکا تھا ۔۔۔ اور اب مزید اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ لیکن اب وہ کیسے بازار جا کر کپڑے خریدتا ۔۔۔ کہ صبح اسے گاؤں کے لئے روانہ ہونا تھا ۔۔۔۔ پھر جو اس کے ذہن میں نام آیا تھا وہ ماہا کا تھا ۔۔۔ حالانکہ فرید نے کبھی اس سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی تھی ۔۔۔ 

مگر اب اس سلسلے میں صرف ماہا ہی تھی جو اس کی مدد کر سکتی تھی ۔۔۔۔ مگر وہ کچھ کنفیوژ تھا ۔۔۔ کہ پتہ نہیں ماہا کا کیا ری ایکشن ہو گا ۔۔۔ اور سات سے آٹھ بجے تک وہ یہی سوچتا رہا کہ وہ ماہا کو کال ملاۓ یا نہیں ۔۔۔ مگر کچھ سوچتے ہوئے اس نے ماہا کو کال ملا دی تھی ۔۔۔ اور پھر اس نے فرید کو بازار سے کپڑے لا کر دینے کی رضامندی دے دی تھی ۔۔۔۔ فرید کا کہنا تھا کہ ماہا پیسوں کی فکر نہ کرے جتنے کے بھی آئیں گے وہ اسے دے دے گا 

اور پھر ماہا نے فرید کو رات ساڑھے دس بجے کپڑے لا کر دے دیئے تھے ۔۔۔ فرید نے پیسوں کا پوچھا تو وہ یہ کہہ کر ٹال گئی کہ جب وہ گاؤں سے واپس آئے گا تو پیسوں کا بھی حساب کتاب ہو جاۓگا

شادی اور ولیمے کا فنکشن بھی ہو گیا تھا ۔۔۔۔ اور آج جب ولیمے کے بعد نوری نے اپنے میکے میں مزید رہنے کے لیے فرید سے اجازت مانگی تو ۔۔۔ فرید نے صاف جواب دے دیا ۔۔۔ کہ نوری پچھلے ایک ہفتے سے وہیں تھی اور اب بھی گھر جانے کا دل نہیں تھا اس کا ۔۔۔۔ فرید رہنے دے ناں ۔۔۔ نوری جیسے رو دینے کو تھی ۔۔۔ اچھا رہ جا ۔۔۔ فرید نے اسے اجازت دے دی تھی ۔۔۔ اور وہ رک بھی گئی تھی ۔۔۔۔ فرید کا موڈ سخت خراب تھا کہ جس کی وجہ سے وہ چھٹی لے کر آیا تھا اسے اس کی فکر ہی نہیں تھی ۔۔۔۔ اور صبح آٹھ بجے وہ اپنے گھر سے شہر کے لیے روانہ ہو گیا تھا ۔۔۔ 

نوری کو بتایا تو نے ۔۔۔۔ اماں نے فرید سے سوال کیا جب وہ جانے لگا ۔

نہیں اماں بس اس کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ وہ آۓ گی تو تو اسے بتا دینا ۔۔۔۔ مجھے مزید چھٹی نہیں مل سکتی ۔۔۔۔ 

وہ اداس دل کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔

ماہا ۔۔۔۔ برھان نے اسے پکارا تھا ۔۔۔۔اس نے مڑ کر دیکھا تھا 

فرید نہیں آیا نظر نہیں آ رہا کہیں ۔۔۔ نہیں اس نے دس دن کی چھٹیاں لیں تھیں ۔۔۔ دو تین دن میں آ جاے گا ۔۔۔۔ 

ماہا تمھارے کہنے پر میں نے اس سے دوستی کی مگر یقین کرو میں تمھارا بہت شکر گزار ہوں کہ تمھاری وجہ سے مجھے اتنا اچھا دوست ملا ۔۔۔۔ برھان واقعی فرید کی دوسری پر بہت شکر گزار تھا ۔۔۔۔

بس برھان مجھ سے دور رہا کرو اگر فرید کو پتہ چل گیا ناں کہ تم میرے بھائی بنے ہو تو قسم سے وہ ہم دونوں سے ناراض ہو جاۓ گا ۔۔۔۔ ماہا جانتی تھی کہ فرید بہت سیدھا سادہ سا بندہ تھا اور وہ یہ بات کبھی بھی برداشت نہ کرتا کہ ۔۔۔ برھان اور ماہا آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

لیکن فرید تو برھان سے ملنے کے خیال سے اس کے پاس آ رہا تھا ۔۔۔۔ اسے درخت کی آڑ میں کھڑی ماہا نظر ہی نہیں آئی تھی ۔۔۔

جیسے ہی وہ ان کے پاس آیا تو وہ دونوں ہی ڈر گئے تھے ۔۔۔۔

دونوں کے چہروں کے رنگ اڑ گئے تھے ۔۔۔ وہ وہ فرید تو نے تو تین دن بعد آنا تھا نہ ۔۔۔ برھان اس سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔ 

ہاں مگر جلدی آ گیا ۔۔۔ فرید نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔

خیریت تو پریشان لگ رہا ہے ۔۔۔ فرید نے برھان سے استفسار کیا تھا 

نہیں یار کچھ نہیں ۔۔۔ فرید برھان سے باتیں کرنے لگا ۔۔۔

 ایکسکیوزمی میں آتی ہوں مجھے ذرا کام ہے 

وہ پریشان سی ہو کر وہاں سے نکل گئی ۔۔۔

 اور پھر فرید برھان سے گپ شپ کرنے لگا ۔۔۔۔

 فرید حیران تھا کہ برھان نے فرید کے سامنے کبھی ماہا سے بات نہیں کی تھی ۔۔۔ مگر آج یہ دونوں اس طرح باتیں کر رہے تھے جیسے آپس میں بڑی دوستی ہو 

خیر مجھے اس سے کیا ۔۔۔۔ وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا

میرے عشق سے آگے

قسط 12

از قلم فاطمہ احمد 

ماہا ۔۔۔۔ اس کی ماں نے اسے پکارا تھا ۔۔۔ 

جی مما کہیں ۔۔۔۔ وہ حیران سی اپنی مما کو دیکھنے لگی ۔۔۔

یہاں بیٹھو میرے پاس ۔۔۔ وہ اسے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے خود بھی وہیں صوفے پر بیٹھ گئی تھیں 

 ۔۔۔۔ جی مما کہیں کوئی خاص بات کرنی ہے آپ کو ۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی

ہاں تمھارے پاپا کے دوست کے بیٹے کا رشتہ آیا ہے ۔۔۔ شام میں وہ لوگ تمھیں دیکھنے آ رہے ہیں ۔۔۔۔ بہت اچھی فیملی ہے ۔۔۔۔ وہ بہت خوش لگ رہی تھیں ۔۔۔ 

مگر مما ابھی میں پڑھ رہی ہوں ۔۔۔۔ ماہا اس اچانک افتاد پر پریشان ہو گئ تھی ۔۔۔

 تو ابھی کون سا ہم نے تمھاری شادی کرنی ہے ۔۔۔۔ ابھی منگنی کر لیں گے ۔۔۔ اور پھر کچھ عرصے بعد شادی ۔۔۔۔ اس کی مما نے اسے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔

نہیں مما ابھی کچھ بھی نہیں ۔۔۔ اس نے صاف انکار ہی تو کر دیا تھا 

وجہ ۔۔۔ اس کی ماں نے اس سے انکار کی وجہ پوچھی تھی ۔۔۔

بس کوئی وجہ نہیں مما ۔۔۔۔ وہ اپنی ماں سے نظریں چرا گئی تھی

وجہ وہ فرید تو نہیں ہے ناں ۔۔۔۔ اس کی ماں نے اسے صاف الفاظ میں جتایا تھا ۔۔۔۔ کہ وہ جانتی تھیں کہ آج کل ماہا کیوں اتنی بدل گئی تھی ۔۔۔۔ غصہ اب اسے آتا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔ بہت خوش مزاج ہو گئی تھی ۔۔۔ بات بات پر مسکرانے لگی تھی ۔۔۔۔ 

میں جانتی ہوں تمھارے خوش رہنے کی وجہ وہ فرید ہی ہے ناں ۔۔۔ ورنہ جس ماہا کو میں جانتی ہو وہ تو کسی سے کبھی سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتی تھی 

تم وہی ہو ناں جو ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اب تم اتنا بدل گئی ہو کہ نوکروں سے بھی ہنس ہنس کر بات کر رہی ہوتی ہو ۔۔۔۔ جس فرید کے پیچھے تم اپنا آپ بھلا بیٹھی ہو ناں وہ ایک شادی شدہ انسان ہے ۔۔۔۔ اور پھر وہ تم میں کوئی دلچسپی بھی نہیں لیتا ۔۔۔۔ انھیں ماہا کا فرید میں دلچسپی لینا کچھ خاص پسند نہیں تھا ۔۔۔۔۔

آپ کیسے کہہ سکتی ہیں یہ سب ۔۔۔۔ وہ اپنی ماں سے اب سوال کرنے لگی ۔۔۔۔

 تمھارا بھائی جو بنا پھرتا ہے نہ اس نے مجھے سب بتایا ہے ۔۔۔۔ لیکن اس نے جو کچھ کیا وہ تمھاری بھلائی کے لیے کیا ۔۔۔۔ وہ صحیح کہتا ہے کہ تم ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہو ۔۔۔۔ اور شک تو مجھے پہلے ہی ہو گیا تھا مگر اس رات ساڑھے آٹھ بجے جب اس کا فون آیا اور اس وقت تمھیں بخار بھی تھا ۔۔۔۔ کیسے تم اس کی خاطر ۔۔۔۔ بستر چھوڑ کر بازار کے لیے نکل پڑیں ۔۔۔

تم وہی ہو ناں کہ اگر ہم کھانے کے دوران تم سے تمھارے مزاج کے خلاف بات کر دیتے تھے تو تم کھانا چھوڑ دیتی تھیں ۔۔۔ اب کیا ہوا بتاؤ ۔۔۔۔ وہ تمھیں اتنا اچھا لگنے لگا کہ اب تمھیں ساری دنیا حسین لگتی ہے ۔۔۔ اور تم نے اس سے پیسے بھی نہیں لئے ناں ۔۔۔۔ وہ جو تم اس کی بیوی کے لیے سوٹ خرید کر لائی تھیں ۔۔۔۔ دس ہزار کا تو تھا ہی وہ سوٹ ۔۔۔۔ اور جو جیولری تم نے خریدی وہ الگ تھی ۔۔۔۔ وہ اسے سب بتا رہی تھیں ۔۔۔۔ 

مما آپ کب سے پیسوں کا حساب کرنے لگیں ؟۔۔۔ اسے اپنی ماں کا یوں سوال کرنا کچھ پسند نہیں آیا تھا ۔۔۔۔ 

جس کے اپنے ہونے کا یقین ہو نہ تو لاکھوں روپے بھی انسان خرچ کر دے مگر بات جب عزت کی ہو تو ۔۔۔ پھر سوچ لو کہ ایسے تعلق رکھنے سے بدنامی کے علاوہ اور کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کو حقیقت بتا رہی تھیں مگر اسے ان کی یہ باتیں کب سمجھ آنے والی تھیں ۔۔۔۔ کہ دل اب اسے چاہنے لگا تھا ۔۔۔۔۔

ماہا یونیورسٹی کے لان میں بیٹھی شائد کوئی اسائنمنٹ بنا رہی تھی

ایکسکیوزمی ۔۔۔۔ کسی نے مخاطب کیا تھا اسے ۔۔۔۔ اور وہ کیسے اس کی آواز نہ پہچانتی ۔۔۔۔ یک دم ہی اپنی جگہ سے اٹھ گئی ۔۔ فرید آیا تھا اس سے بات کرنے ۔۔۔۔ وہ میں نے آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا اس دن آپ میرے کام آئیں ۔۔۔۔ فرید کا موڈ آج کافی اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

نہیں نہیں کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ ماہا کا دل تو آج بلیوں اچھل رہا تھا کہ فرید خود اس سے بات کرنے اس کے پاس آیا تھا ۔۔۔ ماہا ۔۔۔۔ فرید نے اسے پھر سے پکارا تھا ۔۔۔ اور فرید کے منہ سے اپنا نام سن کر ماہا کو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔ پہلی بار ہی تو فرید نے ماہا کو اس کے نام سے مخاطب کیا تھا ۔۔۔۔ جی کہئیے ۔۔۔۔ ماہا نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا ۔۔۔ وہ آپ مجھے پیسے بتا دیں اس دن بھی جلدی میں نہ دے سکا ۔۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں ۔۔۔۔ فرید نے اپنا والٹ نکالا تھا ۔۔۔۔

نہیں فرید رہنے دیں ۔۔۔ پیسوں کی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ وہ سوٹ اور جیولری میری طرف سے آپ کی وائف کے لیے تحفہ سمجھ لیں ۔۔۔۔ ماہا نے پیسے لینے سے صاف انکار کر دیا 

 نہیں نہیں ایسے تو نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ فرید کچھ خجل سا ہوا ۔۔۔۔ 

نہیں فرید میں نے وہ سوٹ پیسے لینے کی نیت سے نہیں دیا تھا ۔۔۔۔

ماہا اب بھی پیسے لینے کے لیے رضامند نہیں تھی ۔۔۔۔

بس پھر ٹھیک ہے میں اگلی بار آپ سے اپنا کوئی کام نہیں کہوں گا ۔۔

فرید کے لہجے میں اب سنجیدگی تھی ۔۔۔۔ اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا

وہاں سے چل گیا تھا ۔۔۔۔ 

اور وہ چاہ کر بھی اسے روک نہ پائی کہ وہ اگر اسے روکتی تو پھر اسے فرید سے پیسے لینے پڑتے ۔۔۔۔ جو کہ اسے بالکل منظور نہیں تھا ۔۔۔۔ 

فرید لائبریری کی طرف جا رہا تھا کہ اسے برھان نے آواز دی ۔۔۔۔ فرید نے برھان کی آواز پر اسے مڑ کر دیکھا مگر پھر برھان سے منہ موڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔ اسے کیا ہوا ہے برھان کچھ سوچتے ہوئے پریشان ہو گیا ۔۔۔۔ 

فرید نے گھر کال ملائی ۔۔۔ تو نور نے فون اٹھایا ۔۔۔۔ کیسی ہے نور  ۔۔۔ اب وہ بھی نور کو چاہنے لگا تھا ۔۔۔۔ 

میں ٹھیک ہوں ۔۔۔  تو سنا کیسا ہے کیسی چل رہی ہے تیری پڑھائی ۔۔۔۔ نور نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے ۔۔۔۔ 

میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ وہ حال احوال کرتا اس سے باتیں کرنے لگا ۔۔۔ پھر اپنی اماں سے بھی بات کر کے اس نے فون بند کر دیا ۔۔۔۔ آج اس کے دل کو ایک آس تھی کہ نور اس سے پوچھے گی کہ فرید تو مجھے بتائے بغیر کیوں چلا گیا تھا ۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اسے تو اب فرید کی پرواہ بھی نہیں رہی تھی ۔۔۔۔ فون کرتا تو دس ہزار فرمائشیں کر دیتی ۔۔۔۔ اور آج تو اس نے ٹچ اسکرین موبائل کی فرمائش کر دی تھی ۔۔۔۔ فرید کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ وہ اتنے زیادہ اخراجات برداشت کر پاتا ۔۔۔ مگر وہ نور کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے موبائل دینے کی رضامندی دے دی ۔۔۔۔ 

فرید ۔۔۔۔ برھان نے اسے آواز دی تھی ۔۔۔۔ جب فرید خالی کلاس روم میں  بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔ فرید نے اس کی طرف دیکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔ اور کتاب پڑھنے میں مگن  رہا ۔۔۔۔ جیسے اسے برھان کی آواز ہی نہ سنائی دی ہو ۔۔۔۔ 

یار فرید تو مجھ سے ناراض ہے ۔۔۔۔ برھان اب اس کے سر پر کھڑا اس سے سوال کرنے لگا ۔۔۔۔ ناراض اس سے ہوا جاتا ہے جس سے کوئی واسطہ یا تعلق ہوتا ہے ۔۔۔۔ فرید نے سر اٹھاۓ بنا ہی برھان کو جواب دیا تھا ۔۔۔۔ 

یار تو کیا کہنا چاہ رہا ہے صاف صاف بتا ۔۔۔ برھان کچھ پریشان سا دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔ 

فرید نے اب کی بار سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔ بتانا تو نے مجھے ہے میں نے نہیں ۔۔۔ فرید نے بہت کچھ جتایا تھا اسے ۔۔۔۔ بتا کتنے پیسے دیتی ہے تجھے ماہا ۔۔۔۔ مجھ سے لے لے ۔۔۔ فرید کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا ۔۔۔ 

 فرید اب تو زیادتی کر رہا ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔ برھان کو غصہ آ گیا ۔۔۔۔

 اچھا وہ جو تو اس کے ساتھ بیک سنیک بار پر آئسکریم کھانے گیا تھا وہ ۔۔۔۔ فرید نے تو جیسے اس کے چھکے چھڑا دئیے تھے ۔۔۔۔

یار وہ زبردستی لے گئی تھی  ۔۔۔۔ بھائی مانتی ہےمجھے وہ اپنا ۔۔۔ 

برھان کچھ شرمندہ سا دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔۔

اور کتنی لڑکیوں کا بھائی بنا ہے ۔۔۔۔ اور کتنے پیسے کما لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔

فرید نے اسے آج باتوں باتوں میں بہت ذلیل کیا تھا ۔۔۔۔ 

نہیں قسم سے  ۔۔۔۔ ابھی برھان اپنی بات بھی مکمل نہیں کر پایا تھا 

کہ فرید نے پھر سے بولنا شروع کیا اور وہ جو حیا ہے ۔۔۔ اس کا بھی تو تو بھائی بنا ہے ناں ۔۔۔۔ 

برھان کا شرمندگی کے مارے منہ سرخ ہو گیا تھا ۔۔۔۔ نہیں یار وہ میری دور کی کزن ہے تو بس ۔۔۔۔ برھان کے پاس صفائی دینے کے لیے الفاظ ہی نہیں بچے تھے ۔۔۔۔ 

برھان آئندہ مجھ سے دور رہنا ۔۔۔۔ فرید یہ بول کر جانے ہی والا تھا کہ برھان نے اسے آواز دی ۔۔۔۔ یار ایک بار میری بات سن لے پھر جو چاہے فیصلہ کر لینا ۔۔۔۔ فرید رک تو گیا تھا مگر بیٹھا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔

جلدی بول ٹائم نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔۔ فرید گھڑی میں ٹائم دیکھنے لگا ۔۔۔۔ 

وہ ماہا تجھے پسند کرتی تھی ۔۔۔ اور تو اسے لفٹ ہی نہیں کرواتا تھا ۔۔۔۔ تو اس نے مجھ سے کہا ۔۔۔۔ پہلے تو میں نے اسے انکار کیا مگر پھر اس پر رحم آ گیا ۔۔۔۔ لیکن قسم سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا آج تک اس سے ۔۔۔۔۔ لیکن عید پر اس نے خود مجھے ایک سوٹ گفٹ کر دیا تھا ۔۔۔۔ میں نے انکار بھی کیا لیکن وہ نہیں مانی  ۔۔۔ پھر مجھے لینا پڑا ۔۔۔۔

 اور وہ جو حیا ہے نہ ۔۔۔ وہ میری کزن ہے ۔۔۔ اس کا منگیتر اسی یونی میں ہے ۔۔۔ تو بس اسے شک تھا اس پر ۔۔۔۔۔ تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس کے بارے میں پتہ لگاؤں کہ کہیں وہ کسی لڑکی کے چکر میں تو نہیں ۔۔۔۔ برھان نے اسے ساری تفصیل بتائی ۔۔۔ 

وقت تیزی سے گزرتا گیا ۔۔۔۔ اور نور دو جڑواں بچوں کی ماں بن گئی 

ایک بیٹا اور ایک بیٹی ۔۔۔ بیٹی نور سے ملتی تھی البتہ بیٹا فرید سے مشابہت رکھتا تھا ۔۔۔۔ فرید بہت خوش تھا اس نے اپنے تمام دوستوں کو مٹھائی کھلائی تھی ۔۔۔۔ اسے جیسے ہی بچوں کی اطلاع ملی تھی وہ فوراً سے سیٹ کروا کہ گاؤں کے لئے روانہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے   گاؤں میں پندرہ دن گزارے تھے ۔۔۔۔ حالانکہ اس کی پڑھائی کا بہت حرج ہو چکا تھا ۔۔۔ مگر خوشی ہی ایسی تھی کہ وہ اس خوشی کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر سکتا تھا ۔۔۔۔ وہ جب سے واپس لاہور آیا تھا 

بہت خوش دکھائی دیتا تھا ۔۔۔۔ اسے جب بھی موقع ملتا وہ نور کو فون کرتا اور پھر ویڈیو کال پر اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ۔۔۔

اسے اب اپنی اولاد دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز تھی ۔۔۔۔ فرید تجھ سے میں نے بات کرنی تھی ۔۔۔۔ نور تھی فون پر ۔۔۔۔ کیا بول بھی 

فرید جانتا تھا کہ آج بھی اس نے کوئی نہ کوئی فرمائش ہی کرنی ہو گی ۔۔۔۔ بچوں کے لیے جھولے خریدنے ہیں ۔۔۔۔ نور تو پاگل تو نہیں ہو گئی ۔۔۔ جھولے اور جن جھولوں کی تو بات کر رہی ہے پتہ ہے ایک کی قیمت تیس ہزار ہے ۔۔۔ اور پھر دو دو جھولے ۔۔۔۔ میں درخت سے پیسے توڑ کر نہیں لاتا ۔۔۔۔ پڑھائی کا خرچہ بھی خود اٹھاتا ہوں گھر بھی بھیجتا ہوں بہت محنت سے پیسے کماتا ہوں اور تیری فرمائیش ہی ختم نہیں ہوتیں ۔۔۔۔ اور پھر ایک جھولا بہت ہے ۔۔۔ دو دو کیا کرنے ہیں ۔۔۔۔ فرید اس کی گنواروں والی سوچ پر اپنا سر ہی تو پیٹ کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔ تو دو بچے ہیں ناں نور کب ہر ماننے والی تھی ۔۔۔۔ نور دیکھ یہ بچے بڑے ہو جائیں گے تو پھر جھولے بیکار ۔۔۔ فرید پہلے ہی اتنے اخراجات سے پریشان تھا ۔۔۔ اب مزید اس کے سر پر بم پھوڑا تھا نور نے ۔۔۔۔ تو ہمارے اور بچے ہو جائیں گے ناں تو ان کے لیے بھی ضرورت ہو گی ۔۔۔۔ کوئی اور وقت ہوتا تو فرید بہت ہنستا ۔۔۔۔ لیکن اس وقت فرید کا غصہ سوا نیزے پر تھا ۔۔۔۔ یہ تو تجھ سے سنبھلتے نہیں ۔۔۔ یہ کہتے فرید نے غصے سے فون ہی بند کر دیا تھا  ۔۔۔۔ اور بچوں کا سوچتے فرید کو جھرجھری سی آ گئی ۔۔۔۔ کہ ان کے اخراجات پورے ہوتے نہیں اور بچے ۔۔۔۔ وہ اس سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں سکا تھا ۔۔۔۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوری بہت زیادہ لاپرواہ سی ہو گئی تھی فرید کی طرف سے ۔۔۔۔ وہ اتنے دنوں بعد جب گھر جاتا تو اس کی آؤ بھگت کرنے کی بجائے اپنے اخراجات اور خواہشات کا رونا ہی روتی رہتی ۔۔۔۔ اور جب سے دونوں بچے اس دنیا میں آئے تھے ۔۔۔۔ نوری کو اب بالکل فرصت نہیں ملتی تھی ۔۔۔۔ وہ اپنی اس زندگی سے بیزار ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ اس کا دل چاہتا کہ نور اس سے بات کرے اس کا خیال رکھے اس کی پسند کے کھانے بنائے ۔۔۔۔ مگر اب تو یہ حال تھا کہ جب وہ گھر جاتا تو پانی پینے سے لے کر کپڑے دھونے تک وہ اپنے سارے کام خود ہی کیا کرتا ۔۔۔۔ اسے پسند نہیں تھا کہ اس کی ماں نوری کے ہوتے ہوئے اس کی خدمتیں کریں ۔۔۔۔ اسے اب اگر کسی کو دیکھ کر خوشی اور سکون ملتا وہ اس کے ماں باپ یا پھر اس کی اولاد تھی ۔۔۔۔ اب اس نے بھی نوری کے منہ لگنا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔  وہ جانتا تھا کہ ایک گنوار کے منہ لگ کر وہ خود ہی بے عزت ہو جائے گا

اسے بہت حیرت ہوتی کہ شادی سے پہلے اور شادی کے کچھ عرصے بعد تک نوری اس پر مرتی تھی ۔۔۔ اس کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھی۔۔۔۔ کپڑے دھو کر استری کر دیتی تھی ۔۔۔ چار سے پانچ سوٹ اس کے استری کر کے لٹکائے ہوتے تھے ۔۔۔۔ مگر جانے کیوں اب اس کو فرید کی پرواہ ہی نہیں رہی تھی ۔۔۔ یا پھر وہ فرید سے محبت ہی نہیں کرتی تھی ۔۔۔ پر جو بھی تھا ۔۔۔۔ فرید اس صورت حال کو سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔۔۔ 

فرید کو جب غصہ آ جاتا تو وہ غصے کو دبا کر نہیں رکھ سکتا تھا وہ منافق نہیں تھا ۔۔۔ جب تک غصے کا اظہار نہ کر دیتا اسے سکون نہیں ملتا تھا ۔۔۔۔ جب اس دن برھان کو فرید نے بہت ذلیل کیا تھا تو ۔۔۔ پھر برھان بہت شرمندہ تھا ۔۔۔۔ اس نے کئی بار فرید سے معافی مانگی ۔۔۔ مگر فرید کا یہی کہنا تھا کہ غلطی اور گناہ کی معافی ہوتی ہے مگر غداری کی کوئی معافی نہیں ہوتی ۔۔۔۔ اور اسی وجہ سے وہ ماہا کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا ۔۔۔۔ فرید محبت کرنے والا انسان تھا ۔۔۔ لیکن اسے کہیں سے بھی بدلے میں محبت نہیں ملتی تھی سواۓ اس کے ماں باپ کے ۔۔۔۔ نور کو فرید کی ضرورت نہیں رہی تھی اور برھان نے دوستی کی آڑ میں اس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا ۔۔۔۔ اور وہ ماہا جس کے لئے وہ اپنے دل میں شاید کوئی نرم گوشہ رکھتا تھا ۔۔۔۔ اس نے بھی فرید کا مزاق اڑایا تھا ۔۔۔۔۔

اس کی آنکھوں میں نمی در آئی تھی ۔۔۔۔ مگر سن گلاسز لگاتے وہ چھپا گیا تھا ۔۔۔۔ اب تو ماں کا فون آ جاتا تھا تو وہ ان سے بات کر لیتا تھا مگر نور خود سے کبھی بھی فرید سے بات کرنے کی تمنا نہ کرتی 

آج تو حد ہی ہو گئی جب فرید نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ نور کو فون دیں تو نور نے بات کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔۔۔۔ وہ ابھی بھی کسی خواہش کے پورے نہ ہونے پر فرید سے خفا تھی ۔۔۔۔ فرید کی ماں کے لاکھ کہنے پر بھی اس نے شوہر سے بات نہیں کی تھی ۔۔۔

پھر فرید نے بھی خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا ۔۔۔۔۔

تو کیا چاہتی ہے نور ۔۔۔ وہ وہاں کتنی محنت کر رہا ہے اور تو اس سے بات بھی نہیں کرتی ۔۔۔۔ ساس آج نور پر سخت برہم تھیں ۔۔۔۔ 

اماں تو اسے کس نے کہا ہے کہ شہر جا کر پڑھے یہیں رہے زمینوں پر کام کرے اور کون سا وہ میری خواہشات پوری کرتا ہے ۔۔۔۔ جب بھی کچھ مانگو تو کہتا ہے کہ پیسے نہیں ہیں ۔۔۔۔ اس سے اچھی تو میں شادی سے پہلے تھی ۔۔۔۔ میرے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی میری خواہشات پوری ہو جاتی تھیں ۔۔۔ نور تو مجھ سے کس طرح بات کر رہی ہے ۔۔۔۔ اماں میرے سر میں درد ہے میں نے بہت سے کام کرنے ہیں ۔۔ میں مزید بحث نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ وہ یہ بول کر پیر پٹختی 

اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔ جہاں شاید دونوں بچے ان کی تیز آوازوں کے باعث جاگ چکے تھے اور منہ پھاڑے رو رہے تھے ۔۔۔۔۔

تم لوگ بھی اپنے خاندان پر گئے ہو ۔۔۔۔ کاش مجھ پر ہی چلے جاتے 

وہ اونچا اونچا بول کر اپنی ساس کو پتا نہیں کیا بتانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ ہاں دونوں تجھ پر ہی چلے جاتے تب تجھے پتہ چلتا ساس منہ میں بڑبڑاتے اپنے کام میں مصروف ہو گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔

فرید صحیح کہتا تھا گنوار گنوار ہی رہتا ہے ۔۔۔۔ اس میں شعور کی کمی نہیں ہے بلکہ سرے سے ہے ہی نہیں ۔۔۔۔ مگر پہلے تو وہ ایسی نہیں تھی ۔۔۔ جانے کیوں اب اتنی خود سر اور بدتمیز ہو گئی ہے وہ یہ سوچتے ہانڈی میں چمچ چلانے لگیں کہ بچوں کی پیدائش کے بعد اب نور کے پاس کھانا پکانے کی فرصت نہیں رہی تھی ۔۔۔۔۔ نور کی ذمے داریاں بہت محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔۔۔۔ اس کا کام تھا بچوں کا خیال رکھنا نھیں صاف ستھرا رکھنا ۔۔۔۔ صبح ناشتہ بنانے کے بعد گھر کی صفائی کرنا اور بس پھر اس کو بچوں کے کاموں سے فرصت نہیں ملتی تھی ۔۔۔ اس کی ساس نے بھی اب نور کو کچھ بھی کہنا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ وہ ڈرتی تھیں کہ کل کلاں کو کچھ ہو گیا تو ان کے شوہر اور فرید انہیں الزام دیں گے ۔۔۔۔ اسی لئے اب وہ بہت کچھ سہہ جاتیں ۔۔۔ مگر منہ سے ایک لفظ بھی نہ بولتیں ۔۔۔۔ اور ان ماں بیٹے کی شرافت کا نا جائز فائدہ اٹھا رہی تھی نور ۔۔۔۔۔ 

جب فرید صبح سو کر اٹھا تو دل بہت بوجھل تھا آج تو اتوار کا دن تھا اور یونیورسٹی بھی نہیں جانا تھا پھر اکیڈمی بھی بند تھی ۔۔۔۔ یہ سب سوچ کر فرید اور اداس ہونے لگا کہ چلو یونی ورسٹی اور اکیڈمی میں ٹائم ہی پاس ہو جاتا تھا مگر آج تو اس کا اپنی پڑھائی کرنے کا بھی دل نہیں تھا ۔۔۔  فون بجا تھا اس کا ۔۔۔۔ برھان ک نمبر تھا 

پہلے سوچا کہ نہیں اٹھاتا پھر سوچا کہ شاید کوئی کام ہو ۔۔۔۔ اس وجہ سے فون ریسیو کر لیا ۔۔۔۔ فرید شکر تو نے فون تو اٹھایا ۔۔۔۔ برھان نے شکر کا کلمہ پڑھا ۔۔۔۔ کوئی کام ہے تو بتا ۔۔۔ فرید سنجیدہ تھا ۔۔۔۔ یار کوئی خاص کام نہیں بس کہیں چلتے ہیں ۔۔۔۔ کہاں فرید نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔۔۔ سی ویو جائیں گے تھوڑی باتیں کر لیں گے یار ۔۔۔۔ وہ فرید کو بتانے لگا تو فرید نے اس کی بات کاٹتے کہا کہ ہاں اور پھر ساری خبریں اس ماہا کو ۔۔۔ ابھی فرید کی بات بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ برھان نے کہا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ جائے گی ۔۔

فرید حیران ہوا ۔۔۔ یار وہ ہم لڑکوں کی گیدرنگ میں کیا کرے گی ۔۔

یار ماہا اور اس کے گھر والے بہت کھلے ذہن کے لوگ ہیں اور اس کی فیملی میں یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی ۔۔۔۔ بس تو تیار رہنا ہم شام چار بجے نکل جائیں گے برھان یہ کہتا جلدی سے فون بند کر چکا تھا کہ اسے ابھی بھی یہ ڈر تھا کہ فرید کہیں ان کے ساتھ جانے سے انکار ہی نہ کر دے ۔۔۔۔۔ اور اس کی اس جلدی پر فرید کی مسکراہٹ کافی گہری ہو گئی تھی ۔۔۔ کہ وہ دل کا برا نہیں تھا اور اس نے خود بھی سوچا تھا کہ برھان اب اتنی بار معافی مانگ چکا تھا تو فرید خود بھی شرمندہ تھا کہ اسے برھان کو اس طرح سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔ مگر چلو اچھی بات ہے ۔۔۔۔ اب کچھ بھی الٹا سیدھا کرنے سے پہلے وہ دونوں اب دس بار سوچیں گے ۔۔۔

فرید کچھ سوچتا ۔۔۔۔ فریش ہونے باتھ روم میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔

پھر اس نے جا کر ہوٹل سے ناشتہ کیا اور پھر بازار سے کچھ چیزیں لینے کے لیے چلا گیا ۔۔۔۔ وہ ابھی بازار میں ہی تھا کہ برھان کا فون آیا تھا فرید نے اس سے بات کی تو برھان نے اسے کہا کہ وہ تیار ہو جائے

فرید نے حیرانگی سے برھان کو ٹوکا کہ چار بجے نکلنا تھا اور ابھی تو صرف ایک بجا تھا ۔۔۔ اور میں ابھی بازار میں ہوں فرید نے اسے بتایا تھا ۔۔۔۔ تو بتا کہاں ہے ہم تجھے وہیں سے پک کر لیں گے ۔۔۔۔ فرید کو غصہ تو بہت آیا مگر کنٹرول کر گیا ۔۔۔۔ کہ وہ وقت کا بہت پابند تھا  مگر اب وہ ان دونوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے ان کی بات مان لی ۔۔۔ ماہا اپنی گاڑی میں آئی تھی برھان کے حالات فرید جیسے ہی تھے مگر وہ بھی فرید کی طرح ہی سکالرشپ پر پڑھ رہا تھا ۔۔۔۔ ماہا کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر برھان بیٹھا تھا جب ماہا نے فرید کے پاس گاڑی روکی ۔۔۔۔ برھان جیسے ہی ان کی طرف آیا تو ماہا اتر کر پیچھے بیٹھ گئی اور پھر ڈرائونگ سیٹ برھان نے سنبھال لی اور۔ اس کے ساتھ فرید بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ پھر ماہا کے پلین کے مطابق ان تینوں نے ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور پھر شاپنگ کرنے نکل گئے ۔۔۔۔۔ اور پھر سی ویو کی راہ لی ۔۔۔۔ فرید سی ویو نہیں جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔ مگر پھر برھان نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ نہ گیا تو وہ اور ماہا اس سے ناراض ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔ بس پھر آج کا دن فرید نے برھان اور ماہا کے نام کر دیا تھا ۔۔۔۔ کہ آج تو اسے بھی ان دونوں کے ساتھ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ سی ویو پر وہ لوگ ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے تب ہی برھان کا دل کیا برگر کھانے کو تو برھان برگر لینے کے لیے تھوڑی دور چلا گیا ۔۔۔۔۔ اب فرید صحیح معنوں میں پریشان تھا کہ وہ لڑکی اس کے ساتھ یوں اکیلی حالانکہ ارد گرد بہت سے لوگ تھے مگر پھر بھی وہ کچھ کنفیوژ سا ہو گیا ۔۔۔۔۔ اچانک ہی اس نے فرید کو مخاطب کرتے ہوئے خاموشی توڑی تھی ۔۔۔۔۔ فرید جو اپنی نظر اس پر جانے سے روک رہا تھا ۔۔۔۔ یوں اچانک اس کی طرف دیکھا تو عجیب سے احساس نے آن گھیرا ۔۔۔۔۔ اس نے بڑی بڑی آنکھوں میں کاجل لگایا ہوا تھا ۔۔۔۔ ہلکے میک اپ کے ساتھ لائیٹ سی لپ اسٹک لگاۓ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اسے ڈریسنگ کا سینس تھا ۔۔۔۔۔ وہ ماڈرن ضرور تھی مگر بے ہودہ نہیں تھی ۔۔۔۔ اس نے کبھی بھی قابلِ اعتراض ڈریسنگ نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔ آج بھی اس نے بلیک گٹھنوں تک آتی قمیص کے ساتھ بلیک ٹراؤزر پہنا تھا دوپٹہ سائڈ پر ڈالے وہ بہت نکھری نکھری سی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ اب تک ماہا نے سن گلاسز لگاۓ تھے مگر اب جو سن گلاسز ہٹا کر اس کی طرف دیکھا تو فرید دیکھتا ہی رہ گیا تھا ۔۔۔۔ فرید ۔۔۔۔۔ اس نے پھر سے اسے مخاطب کیا 

خیریت فرید آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ خجالت سے ماہا کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔۔۔۔ نن نہیں کچھ نہیں ۔۔۔۔ آپ نے ہی مجھے مخاطب کیا تھا ۔۔۔ فرید نے کچھ ہوشیاری سے کام لیتے اپنے تاثرات چھپانا چاہے ۔۔۔۔ اب ماہا کیا کہتی بس بات بدل کر اس سے اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھنے  لگی

ایک ہفتہ گزر چکا تھا مگر فرید نے گھر فون تک نہیں کیا تھا ۔۔۔ فون کر کے بھی کیا فائدہ ۔۔۔ کسی کو میری ضرورت ہی نہیں ۔۔۔ وہ یہ سوچتے خود پر افسوس کرنے لگا ۔۔۔۔ پچھلی بار بھی جب اس نے نور سے بات کی تو بات کا اختتام جھگڑے پر ہوا تھا ۔۔۔۔ اتنی بد تمیزی کی تھی نور نے کہ فرید کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کا منہ توڑ دے 

اور اسی وجہ سے وہ پچھلے دو دن سے نا صرف یونیورسٹی سے چھٹیاں کر رہا تھا بلکہ اکیڈمی بھی نہیں جا رہا تھا ۔۔۔۔

آج تیسرا دن تھا اور آج بھی بس وہ ہوسٹل میں آرام کر رہا تھا ۔۔۔

فون بجا تھا ۔۔۔۔ اس کا دل کیا کہ فون بھی اٹھا کر دیوار سے دے مارے مگر ۔۔۔ پھر ریسیو کر لیا ۔۔۔۔ فرید کیسا ہے تو ۔۔۔۔ برھان تھا فون پر ۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ فرید نے بے دلی سے جواب دیا ۔۔۔۔

پھر یونی ورسٹی کیوں نہیں آ رہا ۔۔۔۔ بس یار موڈ نہیں ۔۔۔۔

برھان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا ۔۔۔۔ کہ فرید کہہ رہا تھا کہ پڑھنے کا موڈ نہیں ۔۔۔۔ وہ تو کتابی کیڑا تھا ۔۔۔ مگر آج اس کے منہ سے یہ الفاظ سنتے اسے کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا تھا ۔۔۔۔ 

ابھی میں یونیورسٹی میں ہوں پھر بعد میں آتا ہوں ۔۔۔۔ برھان نے جیسے ہی فون بند کیا ۔۔۔ تو پاس کھڑی ماہا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ کیا ہوا فرید کو ۔۔۔ ٹھیک تو ہے ناں وہ ۔۔۔۔ ماہا جانے کیوں اس کے لیے اتنی پریشان ہو جاتی تھی ۔۔۔۔ پتہ نہیں جب ملوں گا تو ہی پتہ چلے گا ۔۔۔۔ میں بھی جاؤں گی تمھارے ساتھ اس سے ملنے ۔۔۔۔ ماہا بے صبری ہو رہی تھی ۔۔۔۔ نہیں ماہا ایسے اچھا نہیں لگتا

وہ تم سے ابھی تک اتنا بے تکلف نہیں ۔۔۔ ایسے ہی اس نے تمھیں کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا تو پھر ۔۔۔ تمھارا دل برا ہو جاۓ گا ۔۔۔۔

اچھا چلو پھر جب ملو تو اس سے میری طرف سے بھی پوچھ لینا 

ماہا نے کچھ سوچتے برھان کی بات مان لی تھی ۔۔۔۔ 

ماہا کی مما نے اسے بہت منع کیا تھا کہ وہ برھان اور فرید کے ساتھ باہر نہ جاۓ ۔۔۔ کہ ماہا ان کی اکلوتی بیٹی تھی ۔۔۔۔ اور وہ اس کے لیے کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھیں ۔۔۔۔ 

جب اس نے ان دونوں کے ساتھ باہر جانے کا ذکر کیا تو ۔۔۔ اس کی مما راضی ہی نہیں تھیں ۔۔۔۔ بیٹا نہ میں برھان کو ذاتی طور پر جانتی ہوں ۔۔۔۔ اور نا ہی فرید کو ۔۔۔۔ تمھیں کیا پتہ کوئی کیسا ہے ۔۔۔۔

وہ اپنی بیٹی کو سمجھا رہی تھیں ۔۔۔۔ مگر مجال ہے کہ اسے کچھ سمجھ آ جائے ۔۔۔ جب ماہا نہیں مانی تو اس کی مما نے کچھ سوچتے ہوئے ماہا کو فرید اور برھان کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تھی 

ماہا حیران تھی کہ اس کی مما اتنی آسانی سے کیسے مان گئیں ۔۔۔۔

مگر پھر جہاں جہاں وہ لوگ گئے تو ماہا نے محسوس کیا کہ کوئی ان لوگوں کو فالو کر رہا تھا ۔۔۔۔ پھر جب سی ویو پر تھے تو اس نے برھان اور فرید سے تھوڑا دور جا کر ۔۔۔ فون پر اپنی مما سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ جو ان کو فالو کر رہا ہے وہ انہیں کا بھیجا ہوا بندہ ہے ۔۔۔ کہ وہ اپنی بیٹی کے معاملے میں کسی پر بھی اعتبار نہیں کر سکتی تھیں ۔۔۔۔ اب اسے سمجھ آئی تھی کہ س کی مما نے اسے اجازت کیسے دے دی ۔۔۔۔

برھان اور فرید کسی پارک میں بیٹھے تھے ۔۔۔۔ آج فرید بہت خاموش تھا ۔۔۔۔ کیا ہوا یار کچھ تو بتا ۔۔۔۔ برھان کو اس کی خاموشی اچھی نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔ فرید اس سے نظریں ملاۓ بنا اسے جواب دے رہا تھا ۔۔۔۔ برھان نے اس ک چہرہ پکڑ کر اپنی طرف کیا تھا ۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر بات کر ۔۔۔۔ 

فرید کی آنکھیں سرخ تھیں جیسے سویا نا ہو کئیں دن سے ۔۔۔۔۔

یار بتا دے قسم سے کسی سے نہیں کہوں گا وعدہ ۔۔۔۔برھان اس کی منتیں کرنے لگا ۔۔۔۔ 

اور پھر فرید آہستہ آہستہ اسے اپنے اور نور کے بارے میں سب بتاتا چلا گیا ۔۔۔۔ اور فرید کی باتیں سننے کے بعد برھان نے دل ہی دل میں نور کی عقل پر دس بار لعنت بھیجی تھی ۔۔۔ اتنا اچھا شوہر اور پھر بھی کوئی قدر نہیں ۔۔۔۔ اب اسے فرید کے لئے ماہا ہی سہی لگ رہی تھی ۔۔۔۔

یار ایک بات کہوں ۔۔۔۔ برھان نے فرید سے پوچھا تھا 

ہاں بول ۔۔۔۔ فرید اب بھی پریشان ہی تھا 

یار تو اپنی زندگی اپنے مطابق جی ۔۔۔۔اور برھان کی اس بات پر فرید نے اسے حیرانگی سے دیکھا تھا ۔۔۔۔ تو راضی نہیں تھا پھر بھی شادی کی ۔۔۔ تو نے اس کی ہر خواہش پوری کی ۔۔۔۔ پھر بھی وہ تجھ سے راضی نہیں ہے تو ۔۔۔ تو اپنی بیوی سے پوچھ لے اگر وہ تیرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو طلاق دے دے ۔۔۔ برھان پتہ نہیں کیا کچھ کہہ گیا تھا ۔۔۔۔ فرید نے اس کی طرف غصے سے دیکھا تھا ۔۔۔۔ یار شادی اور طلاق کوئی مذاق نہیں ہے ۔۔۔۔ یہ سچ ہے کہ میں شادی کے لیے راضی نہیں تھا ۔۔۔ مگر شادی کے بعد میں نے اسے دل سے قبول کیا ۔۔۔۔ اسے اپنا مانا ۔۔۔۔ اور اب میرے بچے بھی ہیں ۔۔۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے طلاق نہ دے لیکن اگر زندگی تجھے موقع دے رہی ہے تو اپنے سکون اور خوشیوں کا سوچ ۔۔۔۔ دوسری شادی کر لے ماہا سے

فرید نے حیرت سے دیکھا تھا فرید کو ۔۔۔۔ یار میں اس کی زندگی کیوں برباد کروں ۔۔۔۔ ہاں ٹھیک کہا تو نے اس کی زندگی کیوں برباد کرے گا ۔۔۔ مگر جو خود برباد ہونے کے لیے تیار ہو تو ۔۔۔۔ برھان اول فول بکے جا رہا تھا ۔۔۔۔ کیا مطلب ہے تیرا یار ۔۔۔۔ فرید کی  سمجھ سے باہر تھیں اس کی باتیں ۔۔۔۔ دیکھ تسلی سے بات سن میری ۔۔۔۔ ماہا تجھ سے محبت کرتی ہے ۔۔۔۔ تجھے پتہ ہے جس دن ہم تینوں گئے تو کیوں گئے ۔۔۔ فرید اب بھی اسے حیرت سے دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔۔

اس دن تیری سالگرہ تھی ۔۔۔۔ اس لیے ماہا کی خواہش تھی کہ وہ تیرے ساتھ وہ دن گزارے مگر شاید وہ ڈر کے مارے تجھ سے کچھ کہہ نہیں پائی ۔۔۔۔ اور میں نے بھی نہیں کہا ۔۔۔۔ مگر شاید تو آج کل پریشان رہتا ہے تو تجھے اس لیے اپنی سالگرہ کا دن ہی یاد نہیں رہا 

اور وہ جو شرٹ تجھے دی تھی ناں وہ اصل میں ماہا نے تیرے لیے 

خریدی تھی مگر مجھے کہا کہ میں تجھے اپنے نام سے دے دوں ۔۔۔۔

تیری بیوی کو تو یاد نہیں آیا کہ تجھے ایک کال یا میسیج ہی کر دے 

میں تجھے یہ نہیں کہہ رہا کہ ماہا کے لیے نور کو چھوڑ دے ۔۔۔۔ لیکن اگر تجھے اپنی زندگی میں سکون چاہیے تو ایک بار ماہا کے بارے میں ضرور سوچ لینا ۔۔۔۔ کہ اس نے کتنے ہی رشتوں کے لیے منع کر دیا صرف تیری خاطر ۔۔۔۔ اور ویسے بھی یہ کوئی ناجائز یا غلط نہیں شریعت نے اجازت دی ہے دوسری شادی کی ۔۔۔۔ اگر تیرا ارادہ ہو تو ماہا کی طرف ہاتھ بڑھا لینا ۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے وہ تجھے کبھی مایوس نہیں کرے گی ۔۔۔۔ فرید اس کی باتیں سن کر عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہو گیا تھا ۔۔۔۔ ساری رات آنکھوں میں ہی کٹ گئی ۔۔۔۔ کیا واقعی مجھے نئے سرے سے اپنی زندگی کی شروعات کرنی چاہیے ۔۔۔

کیا برھان صحیح کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ ہاں وہ بالکل صحیح کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔

مجھے اپنے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ۔۔۔۔ میں بھی انسان ہوں ۔۔۔

میں قربانیاں دینے کے لیے تو پیدا نہیں ہو ناں اور جب یہ زندگی موقع دے رہی ہے تو میں کیوں نا اس سے فائدہ اٹھاؤں ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ یہ وقت گزر جاۓ ۔۔۔۔ اور ماہا مجھ سے ناراض ہو جاۓ ۔۔۔

میں کل ہی اس سے بات کروں گا ۔۔۔۔۔ میرا بھی تو حق ہے کہ ۔۔۔ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزاروں ۔۔۔۔ اور ویسے بھی اب نور کو میری ضرورت ہی نہیں رہی ۔۔۔ اسے ویسے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ جب میں اس کے پاس جاتا ہوں تو ۔۔۔ اسے میری ضرورت نہیں ہوتی مجھے کچھ سمجھتی ہی نہیں ۔۔۔۔ میرا رہا سہا سکون بھی نور نے ہی برباد کیا ہے ۔۔۔ کہہ دوں گا اس سے کہ برداشت کر سکتی ہے تو کر لے ورنہ ۔۔۔۔ طلاق لینا چاہے تو بھی اس کی مرضی ۔۔۔۔ بچے میں خود سنبھال لوں گا ۔۔۔۔ یہ سب سوچتے ہوئے اسے کافی عرصہ بعد بہت سکون کی نیند آئی تھی ۔۔۔۔ کہ خوشیاں اب اس کی منتظر تھیں

وہ دونوں سمندر کی لہروں کو دیکھتے ساتھ چلتے چلتے پانی کی طرف بڑھنے لگے تھے ۔۔۔ پانی کی لہریں ان کے پیروں کو چھوتے پھر واپس چلی جاتیں ۔۔۔ یہ سب ان دونوں ہی لوگوں کو بہت محظوظ کر رہا تھا ۔۔۔۔ ماہا کو ہمیشہ سے  ہی یہ جگہ بہت پسند تھی اور یہ منظر بہت اچھا لگتا تھا ۔۔۔۔ مگر جب آپ اپنے من پسند شخص کے ساتھ ہوں تو شاید تپتی دھوپ بھی بارش کی پھوار کی سی لگنے لگتی ہے ۔۔۔۔ وہ شخص جس کو دیکھتے ہی وہ اپنا دل دے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ آج تین سالوں میں پہلی بار وہ اس کے ساتھ تھی آج پہلی بار اس شخص نے اس کی طرف پہلا قدم بڑھایا تھا ۔۔۔۔ اور آج پہلی بار ہی ماہا کو لگ رہا تھا کہ اس کے پاس الفاظ ہی ختم ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ کچھ کہنے کے لیے بچا ہی نہیں ۔۔۔۔ وہ گہری سوچ میں اس کے ساتھ خاموشی سے چل رہی تھی ۔۔۔۔ تب ہی تو فرید نے اسے پکارا تھا ۔۔۔۔ ماہا ۔۔۔ ماہا تب ہی فرید کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔۔۔۔ جی 

آپ کو شاید نہیں پتہ یا پھر پتہ ہو گا کہ میری اور نور کی شادی میں میری مرضی شامل نہیں تھی ۔۔۔۔ جانتی ہوں ۔۔۔۔ ماہا کے یوں کہنے پر فرید نے اسے حیرت سے دیکھا تھا ۔۔۔ آپ کیسے جانتی ہیں ۔۔۔۔

کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ۔۔۔۔ میں آپ سے بات کرنے آتی تھی اور آپ خالی کلاس روم میں شاید نور پر خفا ہو رہے ہوتے تھے یا پھر لڑ رہے ہوتے تھے ۔۔۔۔ میں نہیں جانتی کس بات پر مگر مجھے افسوس ہوتا تھا بہت ۔۔۔ کئ بار سوچا کہ آپ سے پوچھوں مگر پھر ہمت ہی نہیں ہوئی ۔۔۔۔ ایسا نہیں ہے ماہا کہ میں نے اسے قبول نہیں کیا ۔۔۔یہ بھی سچ ہے کہ شادی سے پہلے میں اس شادی کے لیے رضامند نہیں تھا ۔۔۔ مگر پھر قسمت کا لکھا سمجھ کر نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ ۔۔۔۔ اس سے محبت بھی کی اس کی ہر خواہش بھی پوری کی ۔۔۔۔ میں مجبور ہوں اسے چھوڑ نہیں سکتا ۔۔۔ صرف اس لیے نہیں کہ مجھ پر میرے یا اس کے ماں باپ کا دباؤ ہے ۔۔۔۔ بلکہ اسلئے بھی کہ وہ میرے بچوں کی ماں ہے اور شاید اسلئے بھی کہ میں نے اسے دل سے چاہا ہے 

میں چاہ کر بھی اس سے لڑ نہیں سکتا ۔۔۔ پہلے لڑتا تھا مگر اب چھوڑ دیا لڑنا اس سے ۔۔۔۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔۔۔۔ ماہا میں جھوٹ نہیں بولتا ۔۔۔۔ اور آج بھی نہیں بولوں گا ۔۔۔ میں نے آپ سے کبھی محبت نہیں کی ۔۔۔۔ آج بھی صرف آپ کی ہی خوشی کے لئے یہاں آیا ہوں آپ کے ساتھ ۔۔۔ آپ کوئی بھی غلط فہمی نہ رکھنا اپنے دل میں میرے لیے ۔۔۔ آپ میں ۔۔۔۔ اور مجھ میں بہت فرق ہے ۔۔۔۔ میں ایک چھوٹے سے گاؤں کا غریب خاندان سے تعلق رکھنے والا لڑکا اور آپ کہاں ایک امیر گھرانے کی لڑکی ۔۔۔۔ آپ میرے ساتھ کبھی بھی نہیں رہ سکتیں ۔۔۔ اور میں پہلے ہی ایک رشتے میں بندھا ہوں ۔۔۔ وہ ہی سہی نبھا نہیں پا رہا ۔۔۔۔ تو آپ کو کیسے خوش رکھ سکوں گا ۔۔۔

وہ ڈوبتے سورج کو دیکھتے بولتا چلا گیا ۔۔۔۔ اب جو اس کی طرف گردن موڑ کر دیکھا تو وہ سر نیچے کیے بے آواز رو رہی تھی ۔۔۔۔ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔۔۔۔ آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں ۔

کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں ۔۔۔ میں معافی چاہتا ہوں اگر میں نے کچھ غلط کہہ دیا آپ سے ۔۔۔۔ مم مجھے معاف کر دیں قسم سے میرا آپ کو رولانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔۔۔ پلیز چپ ہو جائیں ۔۔۔ اس نے ٹشو پیپر اپنی جیب سے نکال کر اس کی طرف بڑھایا تو ۔۔۔۔ وہ اسے نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔۔ وہ اس کے پیچھے آیا تھا ۔۔۔۔ ماہا پلیز آپ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔۔ اگر میری کوئی بات آپ کے دل کو بری لگی ہے تو ۔۔۔ مجھے سزا دے دیں مگر پلیز اس طرح خاموش مت رہیں ۔۔۔ کچھ کہنا ہے تو کہہ دیں مگر ایسے مت روئیں ۔۔۔۔۔۔

کچھ نہیں فرید میرا خیال ہے ہمیں گھر چلنا چاہیے اب ۔۔۔۔ اور جو کچھ آپ نے مجھ سے کہا وہ ایک حقیقت ہے مگر پھر بھی میں آپ سے محبت کرتی ہوں اور ہمیشہ کرتی رہوں گی ۔۔۔۔ میں اپنے دل کو نہیں سمجھا سکتی ۔۔۔۔ جتنا آپ نے مجھے بے عزت کیا ہے ناں فرید اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کا ق'ت'ل میں اپنے ہاتھوں سے کر دیتی ۔۔۔ میں نے کبھی اپنے مما بابا کی کوئی بات برداشت نہیں کی ۔۔۔ لیکن آپ کا مجھ پر غصہ کرنا،  مجھے اس طرح سے جھڑک دینا اور مجھے نظر انداز کر دینا یہ سب میں نے پتہ ہے کیوں سہہ لیا فرید  ۔۔۔ کیونکہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔ اور ہمیشہ آپ کی منتظر رہوں گی ۔۔۔۔ میں نے ایسا نہیں کہا کہ آپ میری خاطر نور کو چھوڑ دیں مگر ۔۔۔۔ ایک بار پلیز میرے بارے میں بھی سوچ کر دیکھیں ۔۔۔ میں آپ کے بنا جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ کہ مجھے آپ سے عشق ہے ۔۔۔۔ 

میں آج گھر سے نکلتے ہوئے بہت خوش تھی کہ آپ کے ساتھ میرا دن بہت اچھا گزرے گا ۔۔۔۔ مگر آپ نے میری امیدوں پہ پانی پھیر دیا ۔۔۔

اچھا ایک بار پھر سے سوری ۔۔۔۔ اپنا موڈ ٹھیک کر لیں ۔۔۔۔ ورنہ آئسکریم میں اکیلے ہی کھا لوں گا ۔۔۔ اور آپ بیٹھ کر میرا منہ دیکھ رہی ہوں گی ۔۔۔ وہ اندر سے بہت خوفزدہ ہو گیا تھا کہ اس نے اس معصوم سی لڑکی کا دل توڑ دیا تھا ۔۔۔۔ وہ تو شاید اب زندگی سے ہی خوفزدہ رہنے لگا تھا جو اسے جینی ہی نہیں آ رہی تھی ۔۔۔۔۔ 

مجھے نہیں کھانی آئسکریم ۔۔۔۔ ماہا اب بھی ناراض تھی ۔۔۔۔۔

مگر مجھے تو کھانی ہے ۔۔۔۔ فرید نے اسے منانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے کھا لیں آپ ۔۔۔۔۔ ماہا نے فرید کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔اچھا آئیں تو سہی میرے ساتھ مجھے آئسکریم کھاتے دیکھ لینا صرف ۔۔۔۔

ماہا نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کی طرف موڑ دی ۔۔۔۔

فرید نے ویٹر سے ایک آئسکریم لانے کے لیے کہا ۔۔۔۔ اور پھر آئسکریم کھانے لگا ۔۔۔۔ ماہا نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا تھا ۔۔۔ مگر پھر اپنے موبائل میں مگن ہو گئی ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کی نمی فرید کو صاف دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک سے فرید نے ماہا سے آئسکریم کھانے کے لیے کہا جو کہ ویٹر ابھی کچھ ہی سیکنڈز پہلے رکھ کر گیا تھا ۔۔۔۔ ماہا نے کہا یہ بھی آپ خود ہی کھا لیں ۔۔۔۔ فرید نے اب تک اپنی آئسکریم ختم بھی کر دی تھی ۔۔۔

آئسکریم کی طرف ہاتھ بڑھاتے فرید نے کہا اچھی آفر ہے ۔۔۔۔ اور فوراً سے ہی ماہا نے آئسکریم اٹھا لی اسے لگا کہ کہیں فرید اس کے لیے منگوائی ہوئی آئسکریم بھی نہ کھا جائے ۔۔۔۔ اس کی اس حرکت پر فرید کی مسکراہٹ کافی گہری ہو گئی تھی ۔۔۔۔ جسے ماہا نے بھی محسوس کیا تھا ۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اور آئسکریم نہیں منگوا سکتی تھی ۔۔۔ بس یہ آئسکریم اس کے لیے اس لیے سپیشل تھی کہ وہ اس کے لیے فرید نے منگوائی تھی ۔۔۔۔ اور یہ بات فرید بھی بہت اچھے سے جانتا تھا ۔۔۔۔ آئسکریم کھانے کے بعد ماہا کے منہ پر آئسکریم لگ گئی تھی ۔۔۔۔ تو فرید نے اپنی جیب سے وہی ٹشو پیپر نکال کر ماہا کو دیا جو وہ کچھ دیر پہلے واپس اپنی جیب میں رکھ چکا تھا 

پھر جب فرید کی نظر ٹیبل پر پڑے ٹشو پیپر کے سٹاک پر پڑی تو شرمندگی سے واپس رکھنے لگا تو یک دم ہی ماہا نے اس سے ٹشو پیپر لے کر اپنے پرس میں رکھ لیا ۔۔۔۔ اور ٹیبل سے ٹشو پیپر اٹھا کر منہ صاف کرنے لگی ۔۔۔۔ فرید نے اس کی اس حرکت پر اسے حیرت سے دیکھا تھا ۔۔۔۔ میرا خیال ہے کافی دیر ہو گئی ہے اب ہمیں چلنا چاہیے ۔۔۔۔۔ وہ اپنا پرس اٹھاتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھی ۔۔۔۔

وہ کافی دن بعد گھر جا رہا تھا ۔۔۔۔جہاں اسے ماہا کا دل توڑ دینے پر  دکھ ہو رہا تھا وہاں اس کا دل اس بات پر مطمئن تھا کہ اس نے نور کے ساتھ کبھی کوئی نا انصافی نہیں کی تھی ۔۔۔۔ اب بھی پیسے نہ ہونے کے باوجود اس نے نور اور بچوں کے لیے بہت ساری شاپنگ کی تھی ۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی ازدواجی زندگی اب سکون سے گزرے مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی بیوی اب اس سے کبھی بھی راضی نہیں ہونے والی ۔۔۔۔ 

نور یہاں آ میرے پاس بیٹھ ۔۔۔۔ میری بات سن ۔۔۔۔ دیکھ میں اتنے عرصے بعد آتا ہوں تھوڑی دیر مجھ سے بات کر لیا کر ۔۔۔۔ فرید میں بہت تھک گئی ہوں رات بھر جاگتی رہی ہوں دونوں بچے رات بھر جاگتے رہے اور پھر دن بھر کپڑے دھوۓ اور دوسرے کام کئے ۔۔۔۔ میں آرام کرنا چاہتی ہوں کچھ دیر ۔۔۔۔۔ تو باہر جا اماں سے کر لے باتیں ۔۔۔

نور تو میری بیوی ہے ۔۔۔۔ تو مجھے نہیں سمجھے گی تو اور کون سمجھے گا ۔۔۔۔ تجھے کیوں سمجھ نہیں آتی ۔۔۔ مجھے تیری ضرورت ہے ۔۔۔۔ فرید پیچھے ہٹ میرا دماغ خراب نہ کر فرید جو اسے بازؤوں سے تھامے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔ نور اسے ہٹاتی کمرے سے باہر نکل گئی تھی ۔۔۔۔

فرید اسے حیرت زدہ ہو کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔ 

اماں اماں ۔۔۔۔ وہ غصے سے اپنی ماں کون آوازیں دینے لگا

کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔ ایسے کیوں چلا رہا ہے فرید 

اماں اسے سمجھا ۔۔۔۔ یہ میری طرف دیکھتی بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ 

اگر میں نے دوسری شادی کر لی نہ تو بعد میں پھر پچھتاۓ گی یہ ۔۔۔

ہاں ہاں کر لے دوسری شادی ۔۔۔۔ تجھ جیسے کنگلے سے شادی کون کرے گا ۔۔۔۔ نور فرید سے زیادہ تیز آواز میں چلانے لگی ۔۔۔۔۔ اب میں تجھے کر کے دکھاؤں گا دوسری شادی ۔۔۔۔ فرید یہ کہتا باہر چلا گیا 

فرید نے اپنے بیٹے کو اٹھایا اور صحن میں چار پائی پر جا کر سو گیا 

کہ جب فرید گاؤں آتا تو فرید کا بیٹا اس سے ایک پل بھی دور نہیں رہتا تھا ۔۔۔۔ لیکن بیٹی نور کے پاس رہتی تھی زیادہ تر ۔۔۔۔ 

صبح ہوتے ہی وہ شہر کے لیے نکل گیا ۔۔۔۔

وہ یونیورسٹی سے ایک ہفتے کی چھٹی لے کر آیا تھا لیکن دوسرے ہی دن گاؤں سے واپس شہر آ گیا تھا ۔۔۔۔۔ 

وہ یونیورسٹی کے لان میں بیٹھا تھا ۔۔۔ تب ہی برھان اس کے پاس آیا تھا ۔۔۔۔ یار تو گاؤں نہیں گیا تھا ۔۔۔۔ واپس آ گیا ہوں ۔۔۔۔ کیوں ؟ کیا ہوا فرید بتا نہ ۔۔۔۔ نور نے تجھے کچھ کہا اس سے لڑائی ہوئی کیا ۔۔۔

یار ماہا کہاں ہے ۔۔۔۔ فرید نے پوچھا تھا برھان سے 

 وہ نہیں آئی آج یونیورسٹی ۔۔۔۔

کیوں ۔۔۔۔۔

وہ تیری خاطر آتی ہے ۔۔۔۔۔

آج تو نے نہیں آنا تھا تو اس نے بھی چھٹی کر لی ۔۔۔۔۔

یونیورسٹی سے واپس آ کر فرید نے ماہا کو کال ملائی تھی ۔۔۔۔۔ مگر رسپانس نہیں آ رہا تھا 

پھر اس نے بھی اپنا فون سائلنٹ پر رکھ دیا اور آنکھیں موندے لیں کہ وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا 

ماہا بازار گئی تھی ۔۔۔۔ اور اپنا سیل فون گھر پر ہی بھول گئی تھی ۔۔۔

جب واپس آئی تو کافی تھک گئی تھی ۔۔۔۔ اس لیے موبائل کا خیال ہی نہیں رہا اور سو گئی ۔۔۔۔ جب شام میں اٹھی تو موبائل کا خیال آیا 

دیکھا فرید کی 6مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ فوراً سے اسے فون کیا مگر جواب ندارد ۔۔۔۔ پریشان ہی ہو گئی ۔۔۔۔ کہ کہیں وہ کسی مصیبت میں تو نہیں ۔۔۔۔ کہ اب فون نہیں اٹھا رہا ۔۔۔۔ اس نے برھان کو فون کیا ۔۔۔۔ برھان کو ساری تفصیل بتائی ۔۔۔۔ برھان فرید کے ہاسٹل پہنچ گیا ۔۔۔۔ فرید اسے دیکھ کر حیران تھا ۔۔۔۔ یار خیریت کوئی بات کرنی تھی تو فون کر لیتا ۔۔۔ یہاں کیوں آ گیا ۔۔۔۔۔ فون تو اٹھا نہیں رہا اور اب اس ماہا نے مجھے بھیجا ہے تیرے پاس ۔۔۔۔ اوہ سوری فون سائلنٹ پر کر کہ میں سو گیا تھا ۔۔۔۔ فرید دیکھ تجھے کتنا چاہتی ہے وہ ۔۔۔۔ اور ایک تو ہے کہ جسے اس کی قدر ہی نہیں ۔۔۔۔

ابھی بھی وقت ہے سوچ لے ۔۔۔۔ یہ موقع بار بار نہیں ملے گا ۔۔۔۔

مما میں فرید سے محبت کرتی ہوں اور اسی سے شادی کروں گی ۔۔۔۔

تم پاگل مت بنو ۔۔۔ وہ کون ہے کیا ہے ۔۔۔۔ تم نہیں جانتی اسے ۔۔۔۔

مما میں بہت اچھے سے جانتی ہوں اسے ۔۔۔۔اس کے بارے میں ساری معلومات ہیں میرے پاس ۔۔۔۔ اپنی معلومات اپنے پاس رکھو ۔۔۔۔ اور آئندہ میں تمھارے منہ سے اس فرید کا نام نہ سنوں ۔۔۔ سمجھی تم 

میں کبھی نہیں سمجھوں گی ۔۔۔ سنا آپ نے ۔۔۔ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گی ۔۔۔۔ اور اگر وہ مجھے نہ ملا تو میں اپنی جا`ن دے دوں گی ۔۔۔۔ ماہا میری بچی میری جان تمھیں کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔ وہ اسود اب بھی تمھارا منتطر ہے ۔۔۔۔ کہتا ہے کہ ماہا نہیں ملی تو کبھی شادی نہیں کرے گا ۔۔۔۔ پہلے بھی وہ لوگ آنا چاہ رہے تھے ۔۔۔۔ تمھاری وجہ سے منع کیا ان لوگوں کو ۔۔۔۔ وہ بہت چاہتا ہے ماہا تمھیں ۔۔۔۔ آج میں نے ان لوگوں کو بلایا ہے گھر ۔۔۔۔۔

مما آپ کیا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ میں م'ر جاؤں خو'دک'شی کر لوں ۔۔۔۔ 

میرے دل کی حالت آپ نہیں جانتیں مما ۔۔۔۔ وہ آپ کے لیے معمولی ہو گا مگر میرے لیے بہت خاص ہے ۔۔۔ میرے دل کے بہت قریب ہے وہ ۔۔۔۔ اور کیا آپ نہیں سمجھتیں کہ یہ فیصلے زبردستی کے نہیں ہوتے ۔۔۔۔ یہ تو دل کے سودے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ جو ہر کسی سے نہیں کئے جاتے ۔۔۔۔ آپ کی بابا سے پسند کی شادی تھی نہ ۔۔۔ آپ نے بھی تو بابا کے لیے اپنے گھر والوں کی مخالفت کی تھی ناں ۔۔۔ منگنی توڑ دی تھی ناں بچپن کی ۔۔۔۔ آپ نے بھی تو محبت کی تھی ناں ۔۔۔

پھر آپ کو میری محبت کیوں نہیں دکھائی دیتی ۔۔۔۔ 

وہ الگ بات تھی ۔۔۔ 

کیوں الگ بات تھی ۔۔۔

تمھارے بابا کسی اور سے جڑے ہوئے نہیں تھے ۔۔۔۔ 

اب فرید بھی راضی ہونے لگا ہے ۔۔۔۔ تو آپ نہیں مان رہیں ۔۔۔۔

دیکھا یہی فرق ہے ۔۔۔۔ فرید راضی ہونے لگا ہے ۔۔۔۔ مجبوری میں ۔۔۔ ورنہ محبت نہیں کرتا وہ تم سے ۔۔۔۔ تمھارے بابا نے مجھ سے محبت کی تھی ۔۔۔۔ مجھے دل سے چاہا تھا ۔۔۔۔ 

مما مجھے فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ میرے لیے یہی کافی ہے کہ میں اس سے محبت کروں ۔۔۔۔ 

لیکن زندگی گزارنے کے لیے یہ سب کافی نہیں ہوتا ماہا ۔۔۔۔ 

مما مجھے کچھ نہیں سننا ۔۔۔۔

میں جا رہی ہوں اماں ۔۔۔۔ نور نے اطلاع دی تھی اپنی ساس کو 

کدھر جا رہی ہے توں۔۔۔۔ ساس پریشان ہی تو ہو گئی تھیں 

اپنے گھر ۔۔۔ وہ نخرے سے جواب دیتی اپنا سامان سمیٹنے لگی ۔۔۔

شادی کے بعد لڑکی کا سسرال ہی اس کا اصل گھر ہوتا ہے ۔۔۔۔

ہاں دیکھ لیا ۔۔۔۔ اسی لئے دوسری شادی کی دھمکی دے رہا تھا مجھے 

نور تو بھی تو غلط کرتی ہے نہ اس کے ساتھ ۔۔۔۔ وقت نہیں دیتی اسے ۔۔۔۔ اسے تیری ضرورت ہے کبھی بیٹھ جایا کر اس کے پاس ۔۔

بس اماں مجھے تیری باتیں نہیں سننی ۔۔۔ جا رہی ہوں اپنے باپ کے 

گھر ۔۔۔۔ وہ غصہ کرتی اپنے بچوں کو اٹھاتی گھر سے نکل گئی تھی 

میکہ کون سا دور تھا اسی گلی میں تھا ۔۔۔ سو وہ چلی گئی

جب بھائیوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں ناں تو وہ باپ کا گھر نہیں رہتا بھائیوں کا گھر بن جاتا ہے اور پھر ان گھروں میں بہنوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی خاص کر اس وقت جب وہ اپنے شوہروں سے لڑ کر میکے جاتی ہیں ۔۔۔ نور کی ساس یہ بات صرف سوچ ہی سکی تھیں ۔۔

کہہ نہیں پائیں ۔۔۔۔ کہ وہ جانتی تھیں کہ اب نور کو کچھ سمجھ نہیں آنے والا ۔۔۔ اسی لئے انہوں نے اب چپ سادھ لی ۔۔۔۔۔

وہ دکھی دل کے ساتھ آج اپنی ماں کے گھر آئی تھی ۔۔۔۔ اس کی ماں اسے دیکھ کر پریشان ہو گئ تھیں ۔۔۔۔ کیا ہوا نوری تو ایسے کیوں آ گئی ۔۔۔ اماں وہ فرید وہ وہ دوسری شادی کر رہا ہے 

کیا دوسری شادی ۔۔۔۔ اس کی ماں بے ہوش ہوتے ہوتے بچیں 

میں فرید کو نہیں چھوڑوں گی ۔۔۔۔ میری بچی کا کیا حال کر دیا اس نے ۔۔۔ کہتی تھی میں نور کے ابے سے کہ ناذیہ (نور کی بھابھی اور خالہ زاد بھی ) کے بھائی سے کر دے اس کی شادی مگر نہیں مانا وہ ۔۔۔۔ اماں کیا باتیں کر رہی ہے تو ۔۔۔۔ ناذیہ کا بھائی جو کہ نور کو سخت زہر لگتا تھا پتہ نہیں کیوں نور کے لیے اس کی ماں کو وہ بہت پسند تھا ۔۔۔۔ ناذیہ اس وقت اپنے میکے گئی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اسی لئے اس لڑائی کو ہوا دینے کے لیے ابھی کوئی نہیں تھا ۔۔۔ کہ اگر وہ ہوتی تو ایک گھنٹے کے اندر اندر شاید نور کی طلاق بھی کروا دیتی ۔۔۔۔۔

نور کا باپ جو سب کچھ سن رہا تھا ۔۔۔ بڑے تحمل سے نور سے پوچھا تھا ۔۔۔ کیسی ہے میری دھی ( بیٹی) 

آپ تو ایسے آرام سے بیٹھے ہو نور کے ابا کہ جیسے بیٹی کو بہت خوش رکھا ہے ان لوگوں نے ۔۔۔۔ نور کی ماں کا غصہ سوا نیزے پر تھا

کیا ہوا نور ۔۔۔ نور کا باپ کافی سمجھدار تھا ۔۔۔۔

وہ فرید دوسری شادی کر رہا ہے ۔۔۔۔ کیوں ؟  بڑے ہی تحمل سے سوال پوچھا گیا تھا ۔۔۔۔ جس پر نور اور اس کی ماں جیسے تلملا کر رہ گئی تھیں ۔۔۔۔ اسے پتہ ہو گا کہ کیوں ۔۔۔۔ نور نے جیسے لا علمی ظاہر کی

جب تجھے نہیں پتہ تو پھر کسے پتہ ہونا چاہیئے ۔۔۔۔ وہ شادی کر رہا ہے تو اسی کو پتہ ہو گا ناں ۔۔۔۔ اب کہ نور نے مظلوم بننے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ اچھا مجھے بتا کیا کیا تیرے ساتھ فرید نے ۔۔۔۔ نور کے باپ نے نور سے جب سوال کیا تو نور ہکا بکا رہ گئی کہ اب وہ کیا جواب دیتی ۔۔۔ وووہ وہ لڑتا ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔ اچھا کس بات پر لڑتا ہے نور کے باپ نے بھی آج بات کی جڑ تک پہنچنا ہی تھا ۔۔۔ کہ بیشک وہ خود کو کتنا ہی نارمل ظاہر کرتے مگر اندر ہی اندر انہیں اپنی بیٹی کا غم کھا رہا تھا ۔۔۔۔ کس بات پر ۔۔۔ کس وجہ سے لڑتا ہے ۔۔۔

بس بغیر وجہ کے ہی لڑتا ہے ۔۔۔۔ اچھا بتا آخری لڑائی کس بات پر ہوئی 

اب کی بار نور بہت بری طرح پھنس گئی تھی ۔۔۔۔ 

پتہ نہیں ابا وہ کہہ رہا تھا کہ تو مجھے پسند نہیں میں دوسری شادی کروں گا ۔۔۔۔ اب تو نور نے جھوٹ بولا تھا ۔۔۔۔ 

اچھا چل یہ بتا تیری ضرورتیں پوری کرتا ہے یا نہیں ۔۔۔۔ وووہ وہ ابا

وہ وہ کیا کر رہی ہے بتا ۔۔۔۔ کیا چیز ہے جو تجھے لا کر نہیں دی ۔۔۔۔۔

سب کچھ ہے میرے پاس ۔۔۔۔۔ نور سٹپٹا گئی تھی اب کے بار ایک اور سوال پوچھا گیا تھا ۔۔۔۔  وہ آتا ہے تو تو اس کے سارے کام کرتی ہے ۔۔۔۔ ن نن نہیں ابا وہ اپنے سارے کام خود ہی کر لیتا ہے تو ۔۔۔۔۔ میں کیا کروں ۔۔۔۔ تو جب بیوی اپنے شوہر کے کام نہیں کرے گی تو وہ دوسری ہی ڈھونڈے گا ناں ۔۔۔۔ نور کے ابا آپ اپنے بھتیجے کی طرف داری نہ کیا کرو ۔۔۔۔ تو چپ کر کے بیٹھ جا ۔۔۔۔ میں نے باپ ہو کر اس کی غلطی پکڑ لی ۔۔۔۔ تو کیسی ماں ہے جو اپنی بیٹی کی غلطیاں تجھے نظر نہیں آتیں ۔۔۔۔ اور یہ سب پٹیاں جو تجھے ناذیہ پڑھاتی ہے ناں ۔۔۔۔ سب مجھے پتہ ہے ۔۔۔۔ میں نے سنی تھیں اس کی باتیں ۔۔۔۔۔

اب چل میں تجھے چھوڑ کر آؤں ۔۔۔۔ نور کے ابا بہت غصے میں تھے ۔۔

نن نہیں مجھے نہیں جانا ۔۔۔۔ نور نے جانے سے انکار کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

نور میں تیرا باپ ہوں ۔۔۔۔ اگر اس وقت تیرا بھائی اور وہ تیری بھابھی گھر میں ہوتی نہ تو تیرا اچھا خاصہ تماشا بن چکا ہوتا چل اب۔۔۔۔۔

نور کے ابا نے اس کے بیٹے کو گود میں اٹھایا تھا ۔۔۔۔ بیٹی نور کی گود میں تھی ۔۔۔۔ 

وہ لوگ دروازے سے داخل ہوئے تو ۔۔۔۔ فرید کی ماں صحن میں بیٹھیں چاول صاف کر رہی تھیں ۔۔۔۔ ان دونوں کو دیکھا تو اٹھ کر کھڑی ہو گئیں ۔۔۔۔ آئیں بھائی صاحب ۔۔۔۔ بڑے دنوں بعد آئے ہمارے گھر ۔۔۔۔ فرید کی ماں کے کسی انداز سے انھیں نہیں لگا کہ اتنی بڑی بات ہو گئی تھی ۔۔۔۔ فرید کی بیٹی اپنی دادی کی دیوانی تھی ۔۔۔۔ نور کی گود سے اتر کر فوراً دادی کے پاس آ گئی ۔۔۔۔ میری بچی مل آئی اپنی نانی سے ۔۔۔۔ نور کے ابا جو فرید اور نور کے جھگڑے کے بارے میں بات کرنے آئے تھے ۔۔۔۔ اب کیا کہتے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔۔۔۔

اچھا بھابھی میں چلتا ہوں پھر ۔۔۔۔ بیٹھیں چائے بناتی ہوں آپ کے لیے وہ اٹھنے ہی لگیں کہ نور کے ابا نے منع کر دیا ۔۔۔۔ نہیں جب میرا بھائی گھر پر ہو گا پھر آؤں گا ۔۔۔۔ یہ کہتے وہ ان کے گھر سے چلے گئے تھے ۔۔۔۔ 

نور کی ساس نے نور سے کوئی بات نہیں کی ۔۔۔۔ وہ جانتی تھیں کہ نور اب کسی کی بات نہیں سنتی البتہ وہ دونوں بچوں کو لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔ 

اماں تو مجھے معاف کر دے ۔۔۔۔ نور اپنی ساس سے پاس آئی تھی ۔۔۔ جو اس وقت صحن میں بیٹھیں اپنے پوتے کے لیے سویٹر بن رہی تھیں ۔۔۔۔ نور کی ساس  نے سر اٹھا کر نور کو دیکھا اور پھر ایسے نور کو نظر انداز کر دیا کہ جیسے اس کی بات ہی نہ سنی ہو 

اور پھر سے اپنے کام میں لگ گئیں ۔۔۔۔ نور کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی ۔۔۔ کہ وہ اپنی ساس سے کیا کہتی کہ جتنی بد تمیزی اس نے اپنی ساس سے کی تھی ۔۔۔ ان کی جگہ کوئی اور عورت ہوتی تو شاید وہ نور کو اب تک طلاق ہی دلوا چکی ہوتی ۔۔۔ مگر یہ تو نور کی تائی کا ظرف تھا کہ جو کچھ بھی نور اپنی ساس یا شوہر سے کہتی 

ان تمام باتوں کا ذکر کبھی بھی نور کی ساس نے اپنے شوہر سے نہیں کیا تھا ۔۔۔۔ وہ تو سارا دن اپنے بھائی کے ساتھ ان کی زمینوں پر ہوتے تھے ۔۔۔۔ انھیں پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ نور ان کے پیچھے ان کی بیوی سے کتنی بد تمیزی کرتی تھی ۔۔۔۔ اور نور خود بھی اپنے تایا سے ڈرتی تھی اس لیے اس کی کبھی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ اپنے تایا کے سامنے چوں بھی کرے ۔۔۔۔

اور شاید نور اس بات سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھی کہ نور کے تایا اس سے اور اس کے والد سے کتنی محبت کرتے تھے ۔۔۔۔ اسی بات کا نور فایدہ اٹھاتی تھی ۔۔۔۔ لیکن اس سب کے پیچھے اصل کہانی کچھ اور تھی ۔۔۔۔ 

فرید جب پانچ سال کا تھا تو اس کے چچا کے گھر میں بیٹی کی پیدائش ہوئی ۔۔۔۔ چونکہ فرید کے ابا اپنے بھائی سے بہت محبت کرتے تھے تو اسی وجہ سے انھوں نے اپنے بیٹے فرید کے لیے نور کا رشتہ مانگ لیا اور بھائی نے بھی انھیں مایوس نہ کیا اور نور کا رشتہ فرید سے طے کر دیا ۔۔۔۔ اور یہ بات پورے گاؤں میں مشہور ہو گئی کہ نور فرید کی منگ ہے ۔۔۔۔ دوسری طرف نور کی خالہ اور ان کے شوہر کچھ لالچی قسم کے لوگ تھے ۔۔۔ انھوں نے سوچا کہ نور کے والد کی بہت زیادہ زمیںنیں ہیں تو ہم اپنے بیٹے کا رشتہ نور سے کر دیں گے تو نور کو بھی وراثت میں کچھ نہ کچھ مل جائے گا ۔۔۔ ابھی نور کی خالہ اور ان کے شوہر یہ سارے منصوبے بنا ہی رہے تھے ۔۔۔  پتہ چلا کہ نور کا رشتہ اس کے تایا نے اپنے بیٹے فرید کے لیے مانگ لیا ہے ۔۔۔۔۔

اپنی بیٹی ناذیہ کا رشتہ تو پہلے ہی چالاکی سے وہ نور کے بھائی سے کر چکی تھیں ۔۔۔ مگر اب کی بار ان کی ساری چالاکیاں دھری کی دھری رہ گئیں ۔۔۔ بظاہر تو انھوں نے ایسا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا کہ جس سے لگتا کہ وہ اس رشتے سے خوش نہیں مگر ۔۔۔ مگر اندر ہی اندر وہ اس رشتے کے جڑ جانے پر جلتی کڑھتی رہتیں ۔۔۔ وقت گزرتا رہا اور نور کی خالہ کے بیٹے نے نہ ہی پڑھا اور نہ ہی کوئی کام کرتا تھا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف فرید کی قابلیت کی پورے گاؤں میں دھوم مچی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور لوگ جب بات کرتے تو بس فرید کی مثال دیتے کہ دیکھو ۔۔ بیٹا ہو تو فرید جیسا ۔۔۔ اور یہ سب تعریفیں جہاں بہت سے لوگوں کو حسد میں مبتلا کر دیتیں وہیں نور کی خالہ جب اپنے بیٹے کے کرتوت دیکھتیں تو ان سے فرید کا اتنا قابل ہونا ہضم نہ ہوتا ۔۔۔  جب نور کی شادی فرید سے ہو گئی تو انھوں نے اپنے دل میں ٹھان لی تھی کہ نور اور فرید کی طلاق کروا کہ وہ نور کا رشتہ اپنے بیکار بیٹے سے کر دیں گی ۔۔۔۔ اور پھر اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی بیٹی کو بھی اس سازش کا حصہ بنا لیا ۔۔۔۔ پہلے پہل تو ناذیہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش تھی مگر پھر اس کی ماں اسے ہر وقت یہ بتاتیں کہ دیکھ تیرا شوہر تو چٹا ان پڑھ ہے ۔۔۔ فرید کی طرح پڑھ لیتا تو اس کی بھی ویسی ہی تعریفیں ہوتیں ۔۔۔۔ اب تو ناذیہ کو بھی افسوس ہونے لگا تھا اپنی قسمت پر ۔۔۔۔ جہاں وہ اپنے شوہر کو بے نقط سناتی وہیں وہ ہر وقت نور کو بھڑکاتی کہ دیکھ تیرا شوہر تو تیری خواہشات ہی پوری نہیں کرتا ۔۔۔۔ یہ سچ تھا کہ نور کے باپ اور بھائی کے پاس بہت پیسہ تھا ۔۔۔۔ جو کہ زمینوں سے آتا تھا ۔۔۔۔ اور پھر لڑائی نہ ہو اس ڈر سے نور کا بھائی اپنی بیوی ناذیہ کو مہنگی مہنگی چیزیں منگوا کر دیتا ۔۔۔ جس پر وہ نور کو بھڑکاتی کہ دیکھ تیرا شوہر اتنا کنگلا ہے کہ وہ تیری چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری نہیں کر سکتا

ایسی پڑھائی کا کیا فائدہ کہ وہ تیری ضروریات ہی پوری نہ کر سکے 

زمینوں پر کام کرے اچھی آمدنی ہو گی   ۔۔۔ 

اگر وہ تیری خواہشات پوری نہیں کرتا ناں تو تو بھی اس کے کام نہ کیا کر ۔۔۔وہ اسے فرید کے خلاف بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی 

 ایک دن جب نور اپنی ماں سے ملنے گھر گئی تو پتہ چلا کہ نور کی ماں بازار گئی تھیں ۔۔۔ تو نازیہ اسے پھر سے بھڑکانا شروع ہو گئی

نہیں ناذیہ وہ میرا شوہر ہے ۔۔۔۔۔ نور کو اپنی بھابی کی باتیں کچھ اچھی نہیں لگی تھیں ۔۔۔۔

پاگل اپنی قدر کروا ۔۔۔۔ اسے بتا کہ تو کتنا کام کرتی ہے ۔۔۔۔ بچے بھی سنبھالتی ہے ۔۔۔۔ ناذیہ اپنی دال نہ گلتے دیکھ کر پھر سے شروع ہو گئی ۔۔۔۔ 

اور اپنی ساس کو بھی زیادہ سر چڑھانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ گھر کا زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ تیری ذمہ داری تھوڑی ہے ۔۔۔ تیرا شوہر یہاں ہوتا نہیں ۔۔۔ تو بس اپنا اور اپنے بچوں کا کام کیا کر ۔۔۔۔۔

ناذیہ یہ سب کہتی جانچتی نظروں سے اس کے تاثرات دیکھنے لگی 

لیکن اگر فرید ناراض ہو گیا تو ۔۔۔۔ نور کو اب بھی ڈر تھا فرید کے روٹھ جانے کا ۔۔۔ کتنی مشکل سے تو وہ نور سے شادی کے لیے راضی ہوا تھا اور اب ۔۔۔۔ ناذیہ اس کو فرید سے دور ہونے کا کہہ رہی تھی ۔۔۔

نہیں ہوتا ناراض ۔۔۔۔ اس نے کہاں جانا اس کنگلے کے پاس ہے کیا 

وہ لاپرواہی سے کہتی اسے فرید کے خلاف اکسانے لگی ۔۔۔۔ 

میں تو تیری بہتری کے لیے کہتی ہوں ۔۔۔۔ اب یہ باتیں خالہ سے نہ کہہ دینا وہ سمجھے گی کہ میں تجھے غلط پٹیاں پڑھا رہی ہوں ۔۔۔۔۔

ناذیہ نے اسے کچھ بھی نور کو اپنی ماں کو بتانے سے منع کرتے ہوئے اپنا بچاؤ کیا ۔۔۔۔ 

آۓ گا تیرے پاس ہی ۔۔۔ اور اس بار جب آۓ نہ تو اس کو اپنے قریب نہ آنے دینا ۔۔۔۔ وہ نور کو مسلسل بھڑکا رہی تھی ۔۔۔

مگر کیوں ناذیہ ۔۔۔۔ نور پریشان ہی ہو گئی تھی ۔۔۔۔

ذرا عقل کر ۔۔۔ وہ جو تجھ سے لڑتا ہے ناں ۔۔۔۔

 تیرے پاس آنے کے لے تیرے پیروں میں گر جائے گا ۔۔۔۔ ناذیہ چاہتی تھی کہ اب کی بار جب فرید آئے تو نور کو فارغ ہی کر جاۓ ۔۔۔۔ تا کہ وہ اپنے نکھٹو بھائی کا رشتہ نور سے کر دے ۔۔۔ جسے کم از کم اس گاؤں میں تو کوئی بھی رشتہ دینے کے لیے رضامند نہیں تھا ۔۔۔۔ اور پھر اس بہانے نور کو کچھ زمیںنیں دلوا کر وہ اپنے بھائی کی آمدنی کا کچھ بندوبست کر دے ۔۔۔ 

ماہا ۔۔۔۔ ماہا یونیورسٹی کے لان میں بیٹھی تھی ۔۔۔ آج شاید فرید اور برھان دونوں ہی یونی نہیں آئے تھے ورنہ دونوں میں سے کوئی نہ کوئی تو ماہا کے ساتھ ضرور ہوتا ۔۔۔ مگر آج وہ دونوں نہیں تھے تو وہ اکیلی ہی لان میں بیٹھی کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھی کہ کسی کے پکارنے پر جب ماہا نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بہت ہینڈسم نوجوان وہاں کھڑا تھا ۔۔۔ 

آپ کون ۔۔۔۔ ماہا نے اسے شخص کو پہچاننے کی کوشش کی تھی ۔۔۔

مگر یاد نہیں آ رہا تھا کہ اسے پہلے کہاں دیکھا تھا اس نے ۔۔۔۔۔

میں اسود ۔۔۔۔ اس نے گلا کھنکارتے ہوئے ماہا سے اپنا تعارف کروایا تھا

اوہ اچھا سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔۔۔۔ وہ کچھ شرمندہ سی ہوئی تھی ۔۔۔ کیونکہ وہ ایک دو بار اسود سے مل چکی تھی مگر شاید ملے ہوئے بھی دو سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔۔۔۔ اس لیے نہیں پہچانا

ہاں اگر انسان کا من پسند بندہ ہو تو وہ اسے آنکھیں بند کر کے بھی پہچان سکتا ہے لیکن اگر  ۔۔۔۔ خیر چھوڑیں ۔۔۔ آپ سنائیں کیسی ہیں آپ ۔۔۔۔ وہ اپنا جملہ ادھورا چھوڑے ماہا سے حال احوال کرنے لگا ۔۔۔۔

اس کا اشارہ فرید کی طرف تھا ۔۔۔۔ لیکن ابھی وہ ماہا کو کچھ بھی کہنے کا حق نہیں رکھتا تھا ۔۔۔ اس لیے بات بدل گیا تھا ۔۔۔۔

اسود کو یہ ساری باتیں ماہا کی ماں نے بتائی تھیں کہ ماہا اب فرید کے حق میں فیصلہ دے چکی تھی اور اب بہت جلد وہ دونوں شادی کرنے والے تھے ۔۔۔۔ اسود نے ماہا کی ماں سے کئی بار انکار کی وجہ پوچھی مگر ہر بار وہ ٹال گئیں ۔۔۔ مگر اب کی بار ماہا کی مما اسود کی ضد کے آگے ہار مان گئیں ۔۔۔ اور سب بتا دیا ماہا اور فرید کے بارے میں ۔۔۔۔ لیکن اسود کو کسی کل چین نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔ وہ ایک بار ماہا سے مل کر خود بات کرنا چاہتا تھا اور آج جب وہ اس کی یونیورسٹی پہنچا تو وہ اسے لان میں ہی بیٹھی نظر آ گئی تھی

جی آپ کو کوئی خاص بات کرنی تھی ۔۔۔۔ اسود کے چہرے کے تاثرات ماہا کو کوئی اور ہی کہانی سنا رہے تھے ۔۔۔۔ حالانکہ ماہا جانتی تھی کہ وہ اس سے کیا بات کرنے آیا ہو گا ۔۔۔۔ مگر پھر بھی انجان بنتی اسود سے سوال کرنے لگی ۔۔۔۔۔ 

میں آپ سے پوچھنے آیا ہوں کہ آپ نے اس رشتے سے انکار کیوں کیا 

اسود بہت سنجیدہ تھا ۔۔۔۔

میری زندگی ہے میری مرضی میں جس سے بھی شادی کروں یہ میرا حق ہے اور میں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں ۔۔۔۔ ماہا نے اسود کو ٹکا سا جواب دے دیا ۔۔۔۔ 

جتنی محبت آپ فرید سے کرتی ہیں ناں میں اس سے کئی زیادہ محبت آپ سے کرتا ہوں ماہا ۔۔۔۔ وہ خود کو روک رہا تھا کتنے مہینوں سے ۔۔۔ مگر آج وہ اس لڑکی کے سامنے بے بس ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ 

آپ کیسے میری محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔۔۔۔ براے مہربانی میرے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں ۔۔۔ یہ ہم دونوں کے حق میں بہت بہتر ہو گا ۔۔۔۔۔ ماہا یہ سب کہتی وہاں سے جانے لگی تو اسود کی آواز پر اس کے قدم کچھ پل کے لیے رک گئے ۔۔۔۔ 

میں ساری زندگی آپ کا منتظر رہوں گا ۔۔۔۔۔اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو ماہا کو مڑ کر دیکھنے پر مجبور کر گیا ۔۔۔۔۔ 

مگر پھر وہ اسود کو نظر انداز کرتے تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔۔ 

فرید آج گاؤں پہنچا تھا ۔۔۔۔ اس کی ماں ہمیشہ کی طرح اس کے لیے بہت فکر مند تھی ۔۔۔ آج بھی انھوں نے فرید کے آنے سے پہلے ہی اس کا پسندیدہ کھانا تیار کر لیا تھا ۔۔۔۔ نور کو فرید کے آنے کا پتہ ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ 

نور نے اپنی ساس سے کہا بھی کہ وہ خود کھانا بنا لے گی ۔۔۔ مگر نور کی ساس نے اس ڈر سے نور کو کھانا بنانے سے منع کر دیا کہ فرید کا موڈ پہلے ہی نور سے سخت خراب تھا ۔۔۔ اب اگر اس نے نور کے ہاتھ کا بنا کھانا کھانے سے انکار کر دیا تو فرید بھوکا رہ جائے گا ۔۔۔۔ 

اور پھر فرید نے بھی اپنی ماں کو منع کیا تھا کہ وہ نور کو فرید کے گاؤں واپس آنے کے بارے میں نہ بتاۓ ۔۔۔ اسی وجہ سے فرید کی ماں نے فرید کے بارے میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا نہ نور سے اور نہ ہی اپنے شوہر سے ۔۔۔۔ 

فرید جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اس کا بیٹا خوشی سے اس کی طرف بھاگتا ہوا گیا کہ ابھی اس نے نیا نیا چلنا سیکھا تھا ۔۔۔۔ فرید کی تو جان تھی اپنے بچوں میں ۔۔۔۔ فرید نے فوراً سے بیٹے کو اٹھا کر پیار کیا تھا ۔۔۔ نور اپنے کمرے میں اپنی بیٹی کے کپڑے بدل رہی تھی تب ہی اسے لگا کہ جیسے فرید آیا ہو ۔۔۔۔ جلدی سے بیٹی کو کپڑے پہنا کر ۔۔۔ اسے گود میں اٹھایا اور باہر گئی تو دیکھا وہ بیٹے کو پیار سے چوم رہا تھا ۔۔۔۔ 

سلام کیا تھا ۔۔۔ نور نے فرید کو 

وعلیکم السلام کہہ کر وہ اپنی ماں کے پاس چلا گیا ۔۔۔۔ 

کیسا ہے میرا پتر ۔۔۔۔ فرید کی ماں اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش تھیں ۔۔۔  میں نے تیری پسند کا کھانا بنایا ہے ۔۔۔ بریانی اور قورمہ 

وہ اپنے بیٹے کو خوشی سے بتا رہی تھیں ۔۔۔

اماں تو بھی نہ بس اتنا خرچہ کیوں کر لیتی ہے ۔۔۔ ایک ڈش ہی کافی تھی ۔۔۔ بریانی بنا لیتی ۔۔۔ قورمہ پھر بن جاتا ۔۔۔۔ وہ اپنے گھر کے حالات سے بہت اچھی طرح سے واقف تھا ۔۔۔ اسی لئے فضول خرچی کرنے سے اپنی ماں کو منع کرتا تھا ۔۔۔ نور کو تو وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تھا ۔۔۔ سارا زور اس کا بس اپنی ماں پر ہی چلتا تھا ۔۔۔۔

کوئی نئیں پتر ۔۔۔۔ یہ خرچے میرے بیٹے کی خوشی سے زیادہ تو نہیں نہ ۔۔۔۔ وہ واقعی اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتی تھیں ۔۔۔۔ 

نور بھی آئی تھی اپنی ساس کے پاس ۔۔۔۔ اماں کچھ کام ہے تو بتا دے ۔۔

وہ بات تو اپنی ساس سے کر رہی تھی مگر ۔۔۔ دیکھ فرید کی طرف رہی تھی ۔۔۔۔ 

اماں اس سے کہہ یہاں سے چلی جائے ۔۔۔ میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا ۔۔۔۔ اگر یہ نہیں گئی یہاں سے تو میں چلا جاؤں گا ۔۔۔۔ اور صرف اس کمرے سے ہی نہیں بلکہ ابھی کہ ابھی واپس لاہور چلا جاؤں گا ۔۔۔ وہ یہ کہتے ہوئے اٹھنے ہی لگا کہ ۔۔۔۔ نور روتے ہوئے بولی ۔۔۔ آپ مت جائیں فرید میں جا رہی ہوں ۔۔۔۔ اور نور تقریباً بھاگتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی

کوئی اور وقت ہوتا تو فرید اس کے اس جملے پر بہت حیران ہوتا 

'آپ مت جائیں میں چلی جاتی ہوں'

اتنا غصہ نہ کیا کر فرید ۔۔۔ بس چھوڑ دے معاف کر دے ۔۔۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے ۔۔۔ فرید کی ماں اسے سمجھانے لگیں ۔۔۔

اماں ابھی مجھے کھانا کھانے دے ۔۔۔۔ مجھ سے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ۔۔۔ میرا موڈ خراب نہ کر ۔۔۔۔ فرید نے اپنی ماں کو نور اور اس کے متعلق کوئی بھی بات کرنے سے منع کر دیا ۔۔۔۔

اچھا اچھا چل کھا کھانا ۔۔۔۔ بتا مجھے کیسا بنا ہے سب ۔۔۔۔۔

وہ اپنے بیٹے کے تیور دیکھتے ہوئے موضوع بدل گئیں ۔۔۔۔۔

واہ اماں قسم سے ایسی لذت تو شہر کے کسی بڑے ہوٹل کے کھانے میں بھی نہیں ملتی جو تیرے ہاتھ کے بنائے کھانوں میں ہوتی ہے ۔۔۔۔

وہ کھانا کھاتے ہوئے اپنے ماں کے بنائے کھانوں کی دل کھول کر تعریف کرنے لگا ۔۔۔۔ 

ماہا تم کیا چاہتی ہو ۔۔۔۔ ماہا کے پاپا نے آج اسے اپنے کمرے میں بلایا تھا ۔۔۔۔ اور اب اس سے اس سارے معاملے کے بارے میں پوچھ رہے تھے ۔۔۔۔ 

کیا مطلب پاپا ۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے پاپا اس سے کیا پوچھ رہے ہیں مگر انجان بن گئی ۔۔۔۔ 

میرا خیال ہے میری بیٹی اتنی نا سمجھ نہیں ہے کہ ایک گوالے کے بیٹے کو اپنا ہمسفر بنا لے ۔۔۔۔ ان کے لہجے میں فرید کے لیے ناگواری جھلک رہی تھی ۔۔۔۔

پاپا یہ سچ ہے کہ وہ ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ مگر وہ ایک بہت اچھا انسان ہے ۔۔۔۔ اس میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو ایک انسان میں ہونی چاہئیں ۔۔۔۔ وہ پڑھا لکھا ہے ۔۔۔ بہت مہذب ہے ۔۔۔ وہ کبھی کسی سے لڑتا تک نہیں پاپا ۔۔۔۔ اور ان سب چیزوں سے بھی  بڑھ کر یہ کہ وہ مجھے پسند ہے ۔۔۔۔ آج ماہا کو اپنے پاپا کا لحاظ بھی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔ جو بھی تھا لیکن کبھی بھی اپنی شادی اور پسند کے بارے میں اس نے اس طرح بے باکی سے اپنے پاپا سے بات نہیں کی تھی ۔۔

اپنی مما سے تو وہ بہت کچھ کہہ جاتی تھی ۔۔۔ مگر اپنے پاپا سے وہ اتنی زیادہ بے باکی سے کبھی بات نہیں کرتی تھی ۔۔۔ انھیں بہت حیرت ہوئی تھی کہ ایک لڑکے کی محبت کی خاطر اسے اپنے باپ کا لحاظ بھی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔ 

جانتی ہو ماہا لوگ دوستی بھی اپنے لیول کے لوگوں میں کرتے ہیں ۔۔۔ ایک ریڑھی والا کبھی بھی ایک افسر سے دوستی نہیں کرتا ۔۔۔۔ اور تم ایک ایسے لڑکے سے شادی کر رہی ہو جو تمھارے اخراجات برداشت کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا  ۔۔۔ اس کا گاؤں سے تعلق رکھنا ایک الگ بات ہے مگر وہ شادی شدہ ہے ۔۔۔۔ اور اس کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے اخراجات اٹھا سکے ۔۔۔ تمھیں کیا سنبھالے گا ۔۔۔۔ وہ اسے قائل کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔۔ 

پاپا مجھے فرید پسند ہے ۔۔۔ اگر وہ مجھے نہ ملا تو قسم کھاتی ہوں 

جان دے دوں گی اپنی ۔۔۔۔ پھر کرتے رہیے گا فخر اپنی دولت پر ۔۔۔۔۔

یہ سب کہتے ہوئے وہ کمرے سے نکل چکی تھی ۔۔۔۔ 

فرید صحن میں اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔۔ وہ جب اپنے بچوں میں مگن ہوتا تو اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وقت کس طرح گزر جاتا ۔۔۔۔ وہ اپنے بیٹے کے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔۔۔۔ شاید پکڑم پکڑائی کھیل رہا تھا ۔۔۔ تب ہی اس کے سسر گھر میں داخل ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

نور سے فرید کے تعلقات جیسے بھی تھے مگر فرید کے چچا نے فرید کو ہمیشہ عزت دی تھی ۔۔۔۔ اور فرید بھی اپنے چچا سے بہت محبت کرتا تھا ۔۔۔ اپنے چچا کو دیکھ کر فرید نے انھیں اٹھ کر سلام کیا گلے ملا ۔۔۔۔ اور حال احوال کرنے لگا ۔۔۔۔ 

بظاہر تو سب ٹھیک تھا لیکن  نور کے باپ کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں ۔۔۔۔ جب سے نور نے فرید کی دوسری شادی کے بارے میں اپنے ماں باپ کو  بتایا تھا۔۔۔۔ 

آج بھی وہ اپنے بھائی سے اسی موضوع پر بات کرنے آئے تھے ۔۔۔ تو دیکھا کہ فرید بھی گھر آیا ہوا تھا ۔۔۔۔ انھیں سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح فرید سے بات کریں کیوں کہ فرید نے آج تک ان سے کبھی اونچی آواز میں بات تک نہیں کی ۔۔۔ اور پھر اب اس سے داماد کا رشتہ بھی تھا ۔۔۔۔ تو بات کرتے جھجھک رہے تھے ۔۔۔۔ 

اتنے میں فرید کے ابا بھی گھر میں داخل ہوئے ۔۔۔ بھائی کو دیکھ کر انھیں بہت خوشی ہوئی ۔۔۔۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگے تو فرید اٹھ کر جانے لگا کہ فرید کے سسر نے اسے مخاطب کیا ۔۔۔

ادھر بیٹھ پتر ۔۔۔ مجھے ایک بات کرنی ہے تجھ سے ۔۔۔۔ انھوں نے فرید کو پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ 

اتنے میں فرید کے ابا کسی کام سے کمرے سے باہر چلے گئے شاید فرید کی ماں نے انھیں بلایا تھا ۔۔۔۔

جی چچا بولو کیا بات کرنی ہے آپ نے ۔۔۔۔ فرید کو لگ رہا تھا جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے ۔۔۔۔ 

وہ تیری اور نوری کی لڑائی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اس نے اگر کچھ غلط کہہ دیا ہے تو میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں ۔۔۔۔ سر پھری ہے نادان ہے بالکل اپنی ماں کی طرح ۔۔۔۔ وہ جیسے رو دینے کو تھے ۔۔۔۔۔

چچا میں نے اس سے کبھی لڑائی نہیں کی ۔۔۔ آپ پوچھ لو اپنی بیٹی سے ۔۔۔۔ اور اس کے سارے خرچے میں اٹھاتا ہوں جو کچھ کہتی ہے لا کر دیتا ہوں ۔۔۔۔ لیکن اپنی اوقات سے زیادہ خرچہ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔

آپ سمجھا دو اپنی بیٹی کو ۔۔۔۔ فرید کے لہجے سے  کڑواہٹ سی چھلک رہی تھی ۔۔۔۔ 

نہیں وہ نوری کہہ رہی تھی کہ تو دوسری شادی کا کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

وہ اب اپنے اصل موقف کی طرف آۓ تھے ۔۔۔۔ 

ہاں بلاؤ چچا اپنی بیٹی کو ۔۔۔ پوچھو اس سے کہ اس نے مجھے دوسری شادی کرنے کا نہیں کہا ۔۔۔۔ اب کی بار فرید کی آواز کچھ تیز ہو گئی تھی ۔۔۔۔ 

نئیں بیٹا وہ تو نا سمجھ ہے ۔۔۔۔ ان کے لہجے میں صرف اور صرف بے بسی تھی ۔۔۔۔ 

تو چچا پھر آپ لوگوں کو اس کے سمجھدار ہونے کا انتظار کرنا چاہئے تھا ۔۔۔۔ پہلے اسے سکھا دیتے کہ ایک بیوی کو اپنے شوہر سے کس طرح بات کرنی چاہیے ۔۔۔ اور پھر اس کی شادی کرتے ۔۔۔۔ 

مجھے میری ایک کلاس فیلو پسند ہے ۔۔۔ میں اسی سے شادی کروں گا 

چچا ۔۔۔ اگر یہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو اس کو اپنی سوکن کو برداشت کرنا ہو گا ۔۔۔۔ اور اگر آپ لوگوں کو یا آپ کی بیٹی کو کوئی اعتراض ہے تو مجھے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ نور طلاق لینا چاہے تو نور کی اپنی مرضی۔۔۔۔

بچے میں رکھ لوں گا ۔۔۔ میں اتنا گیا گزرا نہیں کہ بچوں کے اخراجات برداشت نہ کر سکوں ۔۔۔ فرید نے اپنے چچا کا کوئی لحاظ نہ رکھتے ہوئے بہت کچھ کہہ دیا تھا ۔۔۔۔ فرید بیٹا ایسا نہ کرنا میں تو جیتے جی ہی مر جاؤں گا ۔۔۔ ان کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہونے لگی ۔۔۔۔

وہ اپنے دل پہ ہاتھ رکھے وہیں چارپائی پر ڈھیر ہو گئے ۔۔۔۔۔۔ 

چاچا چاچا ۔۔۔۔ کیا ہوا اٹھو ۔۔۔۔ فرید گھبرا گیا ۔۔۔۔۔ 

نور ررر ۔۔۔ نور ۔۔۔۔ فرید اور زور سے چلانے لگا ۔۔۔۔ 

نور بھاگی بھاگی وہاں پہنچی اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے تھے ۔۔۔۔۔

جا پانی لا کر دے ۔۔۔۔۔ فرید بہت ڈر گیا تھا ۔۔۔۔

اتنے میں فرید کے ابا بھی آ گئے ۔۔۔۔ اپنے بھائی کی یہ حالت دیکھ کر وہ بھی بہت پریشان ہو گئے تھے۔۔۔۔ مگر ابھی انھیں پتہ نہیں تھا کہ نور کے ابا کو کیا ہوا ہے ۔۔۔ وہ لوگ انھیں سہارہ دیتے ہوئے۔۔۔۔ گاؤں کے قریبی کلینک لے گئے  ۔۔۔۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا ۔۔۔ 

 ڈاکٹر نے فی الحال کچھ دوائیں دے دی تھیں ۔۔۔۔ مگر مکمل علاج ان کا شہر میں ہی ہونا تھا ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں مگر پھر بھی پراپر چیک اپ کے لیے شہر جانا لازمی ہے ۔۔۔۔ 

اور پھر اگلی صبح وہ لوگ نور کے ابا کو لے کر لاہور روانہ ہو گئے ۔۔۔۔۔

فرید کے چچا کچھ بھی نہیں بول رہے تھے انھیں جیسے چپ ہی لگ گئی تھی ۔۔۔۔ فرید بھی منہ سے ایک لفظ نہیں نکال رہا تھا ۔۔۔۔ فرید کے ابا اس سے پوچھ پوچھ کر تھک گئے تھے مگر مجال ہے کہ فرید نے انھیں کچھ بتایا ہو ۔۔۔ فرید کی ماں کو سب باتوں کا علم تھا پھر بھی اپنے شوہر سے کچھ نا کہا ۔۔۔۔ جب انھوں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا تو انھوں نے کہا کہ میں تو کچن میں کام کر رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں سنا ۔۔۔ اب تو فرید کے ابا بھی تھک ہار کر چپ ہو گئے تھے مگر ان کو اند ہی اندر کوئی بات تنگ کر رہی تھی کہ کچھ ہوا ضرور تھا ۔۔۔ مگر کوئی بھی انھیں بتانے کے لیے رضامند نہیں تھا ۔۔۔۔۔ 

ماہا میں تمھاری شادی فرید سے کرنے کے لیے تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے ۔۔۔۔ ماہا کے پاپا اس کی ضد کے آگے ہار مان گئے تھے ۔۔۔۔۔۔

کیا شرط پاپا ؟ ۔۔۔۔ ماہا سوالیہ نظروں سے اپنے پاپا کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔ 

فرید تم سے شادی کرنے سے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دے ۔۔۔۔۔ 

انھوں نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

مگر پاپا ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے ماہا کچھ کہتی ۔۔۔ اس کے پاپا نے اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ اگر منظور ہے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں ۔۔۔ میں تمھاری شادی فرید سے کبھی بھی نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔ 

ماہا بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں واپس آ گئی تھی ۔۔۔۔۔

اب وہ فرید کو کیا بتاتی کہ اس کے والدین نے شادی کے لیے کیا شرط رکھ دی تھی ۔۔۔۔۔ 

میں پھر بھی فرید سے بات کروں گی ۔۔۔ ویسے بھی تو نور اور فرید آپس میں خوش نہیں ۔۔۔ تو وہ اگر طلاق دے دے تب بھی کیا حرج ہے ۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے ماہا کچھ مطمئن سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔

ماہا نے فرید کا نمبر ملایا ۔۔۔۔ فون ہی بند جا رہا تھا ۔۔۔۔۔

جانے کیوں دل بے چین سا تھا ۔۔۔۔۔ لگ رہا تھا کچھ غلط ہونے والا ہے

مگر پھر بھی اپنے وسوسوں کو جھٹکتے وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور آنکھیں موند لیں ۔۔۔ 

لاہور پہنچنے کے بعد فرید کے چچا کو ہسپتال میں داخل کر دیا گیا تھا ۔۔۔ ڈاکٹرز نے طبعی معائنہ کرنے کے بعد کچھ ٹیسٹ لکھ کر دئے تھے ۔۔۔۔ فرید کے والد بھی ساتھ تھے ۔۔۔ مگر فرید نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے والد کو چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے بے آرام کرے ۔۔۔۔

اس لیے اس نے برھان کو ہسپتال بلا لیا تھا ۔۔۔۔ اور اس کے ہسپتال آ جانے کے بعد ۔۔۔ فرید کو کافی حوصلہ ملا تھا ۔۔۔۔ 

شکریہ یار تو آ گیا ۔۔۔۔ برھان کو دیکھتے ہی فرید کی جان میں جان آئی تھی ۔۔۔۔ یہ کیسی غیروں والی بات کی ہے تو نے فرید ۔۔۔ دوست بھی کہتا ہے اور پھر شکریہ بھی ادا کر رہا ہے ۔۔۔۔ برھان نے خفگی ظاہر کی ۔۔۔۔ 

اچھا یار تو یہ دوائیں لا کر دے ۔۔۔ میں تو تھک چکا ہوں ۔۔۔۔ فرید نے ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوائیوں کی پرچی برھان کو تھماتے ہوئے کہا 

تو بس فکر نہ کر یار برھان آ گیا ہے کوئی بھی پریشانی ہو تو مجھے کہہ سکتا ہے ۔۔۔۔ برھان نے فرید کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

فرید رات بھر کا جاگا ہوا تھا ۔۔۔ اور اب اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ اور کر سکے ۔۔۔۔ اسی لئے تھوڑی دیر بیٹھے بیٹھے ہی آنکھیں بند کیں تھیں ۔۔۔ کہ اس کا فون بجا تھا ۔۔۔ فون جیب سے نکال کر دیکھا تو اسی کا نمبر اسکرین پر جگمگا رہا تھا ۔۔۔ جو آج کل حواسوں پر چھائی ہوئی تھی ۔۔۔۔ تھکاوٹ کے باوجود بھی چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی ۔۔۔۔ جیسے ہی فون ریسیو کیا تب ہی سامنے سے فرید کو اپنے ابا آتے دکھائی دئے تھے ۔۔۔۔ ابھی تو ماہا سے سلام دعا ہی ہوئی تھی کہ ابا آ گئے ۔۔۔ میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے فرید نے کال ڈسکنیکٹ کر دی ۔۔۔۔ 

یہ تیرے چہرے کا رنگ کیوں اڑ گیا ۔۔۔۔ فرید کے ابا نے فرید کے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔۔۔ 

نن نہیں ابا ویسے ہی بس ساری رات سویا نہیں تو بس اس لیے تھکاوٹ ہو رہی ہے ۔۔۔۔ فرید اپنے ابا کی طبیعت سے بہت اچھی طرح واقف تھا ۔۔۔ کہ اس کے ابا فطرتاً بہت جذباتی تھے ۔۔۔۔ اسی لئے وہ ابھی انھیں اس معاملے کے بارے میں آگاہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ اسی لئے اپنے ابا کو کچھ بھی بتانے سے گریز کیا  ۔۔۔ ابھی تو ان کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ان کے بھائی کی حالت کا ذمہ دار فرید ہی تھا ۔۔۔ ورنہ اب تک تو وہ آسمان ہی سر پر اٹھا چکے ہوتے ۔۔۔۔ اور فرید ابھی فی الحال کوئی ہنگامہ نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔ 

کسی کا فون تھا ۔۔۔۔ فرید کے ابا نے اس سے پوچھا تھا 

ہاں ابا میرے دوست کا فون تھا ۔۔۔۔ فرید اپنے ابا کے یوں سوال کرنے پر کچھ گھبرا گیا تھا ۔۔۔۔ پھر بند کیوں کر دیا مجھے دیکھ کر ۔۔۔۔ اس کے ابا بھی آج بال کی کھال نکال رہے تھے ۔۔۔۔ ابا بتایا تو ہے تھک گیا ہوں اسے کہہ دیا ابھی آرام کرنا چاہتا ہوں بعد میں بات کروں گا ۔۔۔

فرید نے کچھ جھنجھلا کر جواب دیا تو اس کے ابا نے اس سے مزید کوئی سوال نہ کیا ۔۔۔۔ اچھا اچھا تو جا وہاں جا کر آرام کر لے مریض کے کمرے میں ہے جگہ ۔۔۔۔ اس کے ابا نے فرید کو آرام کرنے کا کہا 

نہیں ابا وہ میرا دوست گیا ہے دوائیاں لینے ابھی آ جائے گا ۔۔۔۔ تو پھر میں کر لوں گا آرام ۔۔۔ جب تک آپ بیٹھ جاؤ چاچا کے پاس۔۔ فرید ابھی فی الحال سونا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔ ایک تو اسے فرید سے کچھ بات کرنی تھی اور پھر ماہا کو بھی صورت حال سے آگاہ کرنا تھا ۔۔

اسی لئے اپنے ابا کو ہی چچا کے پاس جانے کا کہہ دیا ۔۔۔۔ 

جب سے نور کے ، تایا اور فرید اس کے ابا کو لاہور کے لیے لے کر نکلے تھے تب سے ہی نور کا دل بہت بے چین تھا ۔۔۔۔ اسے کسی کل چین نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔ جلے پاؤں کی بلی کی طرح وہ گھر میں چکر لگا رہی تھی ۔۔۔ کی ہو گیا ہے نوری ۔۔۔ بیٹھ جا سکون سے ۔۔۔۔ ابھی ہوئی تھی بات فرید سے کہہ رہا تھا کہ سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تیرے باپ کی طبیعت بھی اب کافی بہتر ہے ۔۔۔۔ نور کی ساس اسے تسلی دینے لگیں 

اماں وہ بات نہیں ہے ۔۔۔۔ نور کے چہرے سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کسی بات کو لے کر بہت پریشان تھی ۔۔۔۔ پھر کیا بات ہے ۔۔۔ نور کی ساس اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔

اماں مجھے نہیں پتہ لاہور جانا ہے مجھے ۔۔۔۔۔ نور ایسے کہہ رہی تھی جیسے لاہور دوسری گلی میں ہو ۔۔۔۔ توں پاگل تو نئیں ہو گئی ۔۔۔۔۔ 

ساس نے نور کو ایسے دیکھا جیسے نور نے کوئی بہت عجیب بات کر دی ہو ۔۔۔۔ اماں اگر فرید نے دوسری شادی کر لی تو میں کیا کروں گی 

اب نور نے اپنی ساس کو اصل وجہ بتائی تھی ۔۔۔۔ تو تیرے وہاں جانے سے کیا ہو گا وہ دوسری شادی نہیں کرے گا کیا؟  ساس نے نور سے الٹا سوال کیا تھا ۔۔۔ نہیں اماں اگر آج نہیں گئی نا میں وہاں تو مجھے لگتا ہے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فرید کو کھو دوں گی ۔۔۔۔ اس نے اپنے خدشات ظاہر کیے ۔۔۔۔ فرید غصہ نہیں کرے گا ۔۔۔ فرید کی ماں اب بھی لاہور جانے کے لیے رضامند نہیں تھیں ۔۔۔۔ 

اماں میں تیرے پیر پڑتی ہوں ۔۔۔ نور آنسوؤں سے رو رہی تھی ۔۔۔۔

فرید کی ماں نے نور کو بچپن سے بہت چاہا تھا ۔۔۔ وہ شروع سے رہتی ہی ان کے گھر تھی ۔۔۔۔۔ کبھی کبھی تو وہ صبح ان کے گھر آ جاتی اور رات کو جاتی ۔۔۔۔ وہ جب سے پیدا ہوئی تھی اس نے اپنے گھر میں شاید کم ہی وقت گزارا تھا ۔۔۔۔ زیادہ وقت تو اس کا اپنے تایا کے گھر ہی گزرتا تھا ۔۔۔ پہلے پہل تو فرید بھی نور کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا مگر جب اسے پتہ چلا کہ وہ اس کی منگیتر ہے تو پھر تھوڑا گریز کرنے لگا تھا نور سے ۔۔۔۔ اور ویسے بھی اسے نور شریک حیات کے طور پر قبول نہیں تھی ۔۔۔۔ اسی لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ نور سے دور ہونے لگا تھا مگر اسے کیا پتہ تھا کہ قسمت اسے نور کے اتنا ہی قریب لے جائے گی جتنا وہ اس سے دور بھاگتا تھا ۔۔۔

نور کی ساس کو نور بیٹیوں کی طرح عزیز تھی ۔۔۔۔ اسے روتا دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ اچھا چپ کر جا ۔۔۔۔ تیاری کر ہم نکلتے ہیں لاہور کے لیے ۔۔۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی نور کی بات مان گئیں اور لاہور جانے کی تیاری کرنے لگیں ۔۔۔ مگر فرید سے اس بارے میں انھوں نے کوئی بات نہ کی ۔۔۔ فرید کی ماں نے اسے فون کر کے بس اتنا پوچھا کہ وہ لوگ کب تک گاؤں واپس آئیں گے ۔۔۔۔ اور جب فرید نے کہا کہ دو یا تین دن لگ سکتے ہیں تو پھر انھوں نے نور سے کہا کہ وہ لاہور جانے کے لیے تیاری کرے ۔۔۔۔ 

ابھی صبح کے گیارہ بجے تھے ۔۔۔۔ نور کی ساس نے نور کے بھائی سے کہا کہ وہ انھیں لاہور جانے والی بس میں بٹھا دے ۔۔۔ جس پر وہ حیران ہوا تو وہ کہنے لگیں کہ نور اپنے ابا کی طبیعت کی وجہ سے پریشان ہے تو ہمیں لازمی جانا ہے اور وہ فرید کو ابھی فی الحال ان کے لاہور جانے کے بارے میں نہ بتاۓ ۔۔۔ جب وہ پہنچنے والے ہوں گے تو خود بتا دیں گے ۔۔۔۔۔ 

نور نے بھی اپنی ماں کو فرید کو کچھ بھی بتانے سے منع کر دیا تھا ۔

وہ دونوں لاہور کے لیے روانہ ہو گئیں ۔۔۔۔ جب لاہور پہنچنے میں ایک گھنٹہ تھا تو فرید کی ماں نے اسے فون کر کے بتایا کہ وہ لاہور پہنچ رہی ہیں ۔۔۔

جس پر نہ صرف فرید حیران ہوا بلکہ اسے شدید غصہ بھی آیا۔۔۔۔

اماں تجھے کیا ضرورت تھی ۔۔۔ پہلے پوچھ تو لیا ہوتا ۔۔۔۔ میں تجھے کہاں رکھوں گا ۔۔۔۔  وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا ۔۔۔۔

جہاں تو رہتا ہے ۔۔۔ ہم بھی وہیں رہ لیں گے ۔۔۔ اس کی ماں نے ایسے کہا جیسے وہ کوئی افسر لگا تھا اور حکومت کی طرف سے اسے رہنے کے لیے کوئی بنگلہ ملا ہوا تھا ۔۔۔۔ 

اوہ اماں تجھے سمجھ کیوں نہیں آتی ۔۔۔۔ میں لڑکوں کے ہاسٹل میں رہتا ہوں ۔۔۔۔ اور پھر تو اس نور کو بھی اٹھا لائی بچوں کے ساتھ ۔۔۔

اماں تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ۔۔۔ ایک بار مجھ سے پوچھ تو لیتی ۔۔۔

یہ مشورہ بھی تجھے نور نے ہی دیا ہو گا ۔۔۔۔ بات کرا میری نور سے 

سیدھا کرتا ہوں میں اسے ۔۔۔ اسے سب سمجھ آ گئی تھی کہ یہ سارا کیا دھرا نور کا ہی تھا ۔۔۔

نئیں نئیں پتر اس نے ایسا کچھ نئی کہا وہ تو میں لے آئی اسے ساتھ 

فرید کی ماں فرید کے غصے سے ڈر گئ تھیں ۔۔۔ 

اماں اب بتا میں تجھے رکھوں گا کہاں ۔۔۔۔ فرید کے دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب تھیں ۔۔۔۔۔ 

اب تو ہم پہنچنے والے ہیں ۔۔۔ واپس تو نئیں نہ جا سکتے ۔۔۔۔ بس اب تو اڈے پر پہنچ جانا ہمیں لینے ۔۔۔ یہ کہہ کر انھوں نے کال ڈسکنیکٹ کر دی ۔۔۔۔ 

وہ جیسے ہی بات کر کہ پلٹا ۔۔۔۔ برھان اس کے سامنے تھا ۔۔۔۔ کیا ہوا یار کیوں اتنا غصہ کر رہا ہے ۔۔۔۔ برھان نے فرید کو پریشان دیکھا تو اس سے پوچھا ۔۔۔۔ 

اب میں ان دونوں کو کہاں رکھوں گا ۔۔۔ پھر بچے بھی ساتھ ہیں ۔۔۔

اس طرح کی حرکتیں کرتی ہے یہ نور ۔۔۔ برھان اب تو مجھے بتا کہ ایسی بیوی کے ساتھ گزارہ ہے بھلا ۔۔۔۔ فرید اور بھی بہت کچھ بول رہا تھا نور کے بارے میں ۔۔۔۔ 

یار تو یہیں ٹھہر میں انھیں لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔ فرید نے برھان سے ہسپتال میں ہی رکنے کے لیے کہا ۔۔۔۔ اور ان دونوں کو لینے کے لیے جانے ہی لگا کہ برھان نے اسے اپنی گاڑی کی چابی دی جو اس نے ابھی کچھ مہینے پہلے قرض لے کر خریدی تھی ۔۔۔۔ 

برھان کا شکریہ ادا کرتے وہ وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔۔ 

دونوں بچے راستے میں ہی سو گئے تھے ایک کو فرید نے گود اٹھایا اور دوسرے کو نور نے ۔۔۔ جب فرید ان دونوں کو ہسپتال لایا تو ۔۔۔ فرید کے ابا اور چچا دونوں ہی فرید کی ماں اور نور کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔۔۔ تم دونوں کیوں آ گئی ہو ۔۔۔ فرید کے ابا نے پوچھا تھا ۔۔۔۔ وہ نور کا دل گھبرا رہا تھا ۔۔۔۔ وہ اپنے باپ کی وجہ سے بہت پریشان ہو گئ تھی ۔۔۔۔۔ فرید کی ماں نے وضاحت دی ۔۔۔۔ نور تجھے کب عقل آئے گی ۔۔۔۔ نور کے باپ نے نور کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔ نور شرمندگی سے نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔ کہ اس کے پاس اس بات کے لیے کوئی وضاحت نہیں تھی کہ وہ یہاں کیوں آئی جبکہ فرید نے سب کو بتا دیا تھا کہ نور کے ابا کی طبیعت بالکل ٹھیک تھی ۔۔۔۔ 

فرید کیا کہتا ۔۔۔۔ بے بسی سے سارا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

نور ہسپتال کے کمرے سے باہر آ گئی ۔۔۔۔ جہاں برھان کھڑا فرید کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔ نور کو وہ پہلے دیکھ چکا تھا ۔۔۔ مگر نور نے خود بات نہیں کی اس سے تو برھان نے بھی نور سے بات نہیں کی ۔۔۔۔

نور نے سوچا شاید فرید کا یہ دوست اس کی کوئی مدد کر سکتا ہے تو اس نے برھان کو سلام کیا ۔۔۔۔ برھان نے سلام کا جواب دیا تو نور نے فوراً سے ماہا کے بارے میں پوچھا ۔۔۔۔ جس پر برھان نے اسے ساری تفصیل بتا دی ۔۔۔ آپ مجھے اس کا نمبر دے سکتے ہیں ۔۔۔ نور نے برھان سے نمبر مانگا تو وہ کچھ کنفیوژ ہو گیا ۔۔۔۔ لیکن اگر فرید ناراض ہو گیا تو ۔۔۔۔ برھان نے فرید کی ناراضگی کا خدشہ ظاہر کیا

آپ دے دیں پلیز فرید کو پتہ نہیں چلے گا ۔۔۔۔ نور کے اتنا کہنے پر برھان نے اسے ماہا کا نمبر دے دیا ۔۔۔۔ مگر اس سب کا انجام برھان کو کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔۔

فرید باہر آیا تو اسے لگا کہ نور برھان سے بات کر رہی تھی ۔۔۔۔ کیا ہوا کوئی مسئلہ ہے کیا ۔۔۔۔ فرید نے نور سے پوچھا ۔۔۔

نہیں کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔۔ نور فرید کے یک دم وہاں آنے سے گھبرا گئی تھی ۔۔۔۔۔

یار وہ بھابھی کہہ رہی تھیں کہ انھیں پیاس لگی ہے ۔۔۔۔ برھان نے وضاحت دی ۔۔۔ جس پر فرید کو بالکل بھی یقین نہیں آیا تھا ۔۔۔۔

نور تو جا کمرے میں ۔۔۔ وہاں رکھا ہے پانی ۔۔۔ فرید نور کو حکم دیتا ہوا برھان کے ساتھ ہسپتال سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔۔ 

یار تو ان دونوں کے رہنے کا بندوست کر دے پیسوں کی فکر نہ کر 

فرید بہت پریشان تھا کہ وہ دونوں اب کہاں رہیں گی ۔۔۔۔

یار میرے گھر میں رہیں گی اور کہاں رہیں گی ۔۔۔ میری امی ہیں میرے بیوی بچے ہیں ایک کمرہ تو دے ہی سکتا ہوں تیری فیملی کو 

برھان نے پیشکش کی تھی ۔۔۔ جسے برھان نے رد کر دیا ۔۔۔۔ یار میں تیرے اور احسانات نہیں لے سکتا ۔۔ فرید پہلے ہی برھان سے بہت شرمندہ تھا کہ اس نے برھان سے پیسے بھی ادھار لئے ہوئے تھے اور اب برھان اسے گھر کی آفر کر رہا تھا ۔۔۔۔ 

زیادہ نخرے نہ دکھا ۔۔۔ غیر نہیں ہوں ۔۔۔ بھائی جیسا ہوں ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے برھان نے اسے مزید کچھ کہنے سے منع کر دیا تھا 

نور تجھ سے کیا بات کر رہی تھی ۔۔۔ فرید جانتا تھا کہ نور کو چین نہیں آنے والا تب ہی برھان کی کلاس لے رہا تھا ۔۔۔

یار قسم سے اس نے مجھے کہا کہ وہ اس بات سے واقف ہے کہ تو دوسری شادی کر رہا ہے ۔۔۔ تو اس نے مجھ سے ماہا کے بارے میں پوچھا ۔۔۔ برھان فرید کے سامنے مجرم بنا کھڑا تھا 

اور تو نے بتا دیا ۔۔۔ فرید کا دل چاہ رہا تھا ۔۔۔ برھان کا سر پھاڑ دیتا 

تو تو چوکیدار بننے کی بجائے چور بنا ہوا ہے ۔۔۔۔ فرید نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں  ۔۔۔

اور کیا بتایا تو نے نور کو ۔۔۔۔ فرید غصے سے پاگل ہو رہا تھا

نہیں اور کچھ نہیں کہا میں نے بھابھی سے ۔۔۔ 

برھان فرید کے غصے سے ڈر گیا اور  نور کو ماہا کا فون نمبر دینے والی بات فرید سے چھپا گیا ۔۔۔۔۔ 

پکی بات ہے ناں ؟۔۔۔ اور تو کوئی بات نہیں کی نہ تو نے نور سے ۔۔۔

فرید اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

نہیں یار بتا تو رہا ہوں ۔۔۔۔ برھان فرید کو کھو دینے سے بھی ڈرتا تھا

اس لیے یہ بات چھپانے میں ہی عافیت جانی ۔۔۔۔ 

برھان اگر مجھے پتہ چلا نہ کہ تو نے نور کو اور بھی کچھ بتایا تھا تو قسم سے وہ دن ہماری دوستی کا آخری دن ہو گا ۔۔۔۔ غصے سے بولتا ہوا فرید تن فن کرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔

برھان کی قسمت کا ستارہ آج صحیح معنوں میں گردش کر رہا تھا 

برھان کا سیل فون بجا تھا ۔۔۔ ماہا کی مما کا نمبر فون کی اسکرین پر جگمگا رہا تھا ۔۔۔۔ برھان نے گہری سانس لیتے ہوئے کال ریسیو کی

جیسے ہی وہ ماہا کے گھر میں داخل ہوا تو ۔۔۔ کام والی ماسی نے اسے ڈرائینگ روم میں بیٹھا دیا ۔۔۔۔ وہ پہلے بھی ایک دو بار یہاں آ چکا تھا مگر پہلے وہ ماہا سے ملنے آیا تھا ۔۔۔۔ مگر آج تو ماہا کے پاپا نے اسے ملنے کے لیے گھر بلوایا تھا ۔۔۔۔ ماہا شاید گھر پر نہیں تھی ۔۔۔

وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ڈرائنگ روم کا جائزہ لینے میں مصروف تھا کہ اچانک سے ماہا کے پاپا ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے ۔۔۔۔

وہ انھیں دیکھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا تھا ۔۔۔۔ سلام دعا کے بعد ماہا کے پاپا اپنے اصل موقف کی طرف آئے تھے ۔۔۔۔ 

بیٹا مجھے ماہا کی مما نے بتایا کہ آپ ماہا اور فرید کے معاملے سے واقف ہو ۔۔۔۔ وہ برھان کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ۔۔۔

جی انکل وووہ ہ ۔۔۔ برھان کے پاس الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے ۔۔۔

بیٹا مجھے آپ کی مدد چاہیے ۔۔۔ وہ سگار پیتے اسے اپنے پلین کے بارے میں بتانے لگے ۔۔۔۔ 

انکل فرید مجھ سے پہلے ہی بہت ناراض ہے ۔۔۔ اگر میں نے اب مزید اس کو بتاۓ بغیر کوئی قدم اٹھایا نا تو وہ مجھ سے تعلق ختم کر لے گا ۔۔۔۔ برھان اب مزید کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا ۔۔۔۔

نہیں بیٹا اسے پتہ بھی نہیں چلے گا ۔۔۔ تم صرف مجھے وہ بتا دو جو میں تم سے پوچھ رہا ہوں ۔۔۔۔ وہ یہ کہتے ہوئے برھان کو دیکھنے لگے 

آج فرید اور اس کی فیملی ماہا کے گھر میں موجود تھی ۔۔۔۔ 

کیوں کہ فرید کی اماں اور نور ماہا کے پاپا کے سامنے ذرا جھجھک رہی تھیں تو انھیں ماہا اور اس کی مما کے ساتھ دوسرے کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا ۔۔۔۔ 

ماہا کے پاپا ایک بہت سمجھدار انسان تھے ۔۔۔۔ وہ بنا سوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے ۔۔۔ اسی لئے انھوں نے برھان سے فرید کی فیملی کے بارے میں پوچھا تھا ۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ فرید کی فیملی سے ملکر خود بات کریں ۔۔۔۔ 

تب ہی انھوں نے فرید کے گاؤں جانے کا ارادہ کیا اور برھان کو اس لیے بلایا کہ وہ فرید کا ایڈریس انھیں دے ۔۔۔ مگر جب برھان نے انھیں بتایا کہ فرید کی فیملی اس کے چچا کی بیماری کے سلسلے میں یہیں لاہور آئی ہوئی تھی تو ان کا کام اور بھی آسان ہو گیا ۔۔۔

وہ برھان کے ساتھ خود ہاسپٹل پہنچے تھے اور فرید کی فیملی سے مل کر انھیں گھر کھانے پر بلایا تھا ۔۔۔ پہلے تو فرید کے گھر والوں نے انکار کیا مگر پھر ان کے اصرار پر وہ لوگ مان گئے تھے ۔۔۔۔ 

ماہا نور کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ یوں تو نور بہت خوب صورت تھی ۔۔۔۔ مگر چونکہ وہ پڑھی لکھی نہیں تھی اور پھر گاؤں میں رہنے کی وجہ سے اس کے ہر انداز سے پینڈو پن جھلکتا تھا ۔۔۔۔ 

وہ اس کا خود سے موازنہ کرتے ہوئے دل ہی دل میں فرید کی قسمت پر ماتم کرنے لگی ۔۔۔۔ مگر بظاہر اس سے بہت اچھا سلوک کر رہی تھی 

دوسری طرف نور ماہا کے اتنا کانفیڈینٹ ہونے پر بہت زیادہ جھجھک رہی تھی ۔۔۔۔ وہ ماہا سے کوئی بھی بات نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔

 وہ میں آپ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔ نور نے چہرہ جھکائے ماہا سے درخواست کی تھی ۔۔۔ اکیلے میں مطلب ماہا سمجھی نہیں تھی ۔۔۔۔

ماہا کے پاپا نے کھانا لگانے کے لیے کہا تھا ۔۔۔۔ فرید اس کے ابا اور چچا ماہا کے پاپا کے ساتھ بیٹھے تھے ۔۔۔ جبکہ خواتین الگ کمرے میں تھی 

کھانا کھانے کے بعد ماہا کے پاپا نے فرید اور ماہا کے معاملے پر ان سب سے بات کی تھی ۔۔۔۔ اور فرید کے ابا تو ایسے تھے کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں ۔۔۔ انھیں اب تک کسی معاملے کا علم ہی نہیں تھا اور اس میں سب سے زیادہ کمال ان کی بیگم کا تھا ۔۔۔۔ کہ نہ تو آج تک انھوں نے نور اور فرید کی کسی لڑائی کا ذکر اپنے شوہر سے کیا اور نہ ہی یہ دوسری شادی والی بات کی ہوا لگنے دی انھیں ۔۔۔۔ اور دوسرا یہ کہ نور اور فرید کی جب بھی لڑائی ہوتی اس وقت فرید کے ابا گھر پر موجود ہی نہیں ہوتے ۔۔۔۔ اور چونکہ فرید کی اماں اپنے شوہر کے غصے اور جذباتی پن سے خوب واقف تھیں اس لیے کبھی کچھ نہیں بتایا انھیں ۔۔۔۔ اور پھر وہ سوچتی تھیں کہ ایک نہ ایک دن سب کچھ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا اسی لئے کبھی بھی اپنے شوہر سے کسی بات کا ذکر تک نہیں کیا تھا ۔۔۔۔  پر جو کچھ بھی تھا کمال ظرف تھا ان کا کہ سب کچھ سہتی چلی گئیں مگر زبان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا کبھی ۔۔۔۔ 

فرید کے ابا تو ہونق سے سب کے چہرے باری باری دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

کیا یہ سچ ہے فرید ۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ گئے تھے ۔۔۔۔

وہ ابا ۔۔۔۔ فرید کے پاس آج الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے ۔۔۔۔

وہ وہ کیا کر رہا ہے جو پوچھ رہا ہوں بتا مجھے ۔۔۔۔ فرید کے ابا کو بہت دکھ ہوا تھا ۔۔۔۔ وہ رو دینے کو تھے اب 

جی ابا سچ ہے ۔۔۔ فرید نے سر جھکائے اپنا جرم قبول کیا تھا ۔۔۔۔۔

تو نے ہمیں یہاں ذلیل کروانے کے لیے بلایا ہے ۔۔۔۔ وہ تقریباً دھاڑے تھے 

ماہا کے پاپا نے آگے بڑھ کر انھیں سہارا دیا اور صوفے پر بٹھایا تھا 

آپ بیٹھ جائیں ۔۔۔۔ کسی نے آپ کو بے عزت کرنے کے لیے نہیں بلایا یہاں ۔۔۔۔ میں نے آپ لوگوں کو یہاں بات کرنے کے لیے بلایا تھا ۔۔۔۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا آپ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں جو فرید چاہتا ہے ۔۔۔۔ کیوں کہ میں اپنی اکلوتی بیٹی کو کسی جہنم میں نہیں دھکیل سکتا ۔۔۔ اور اب جس طرح کے حالات ہیں تو سوچیں ۔۔۔۔ میں کیا میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ فرید جیسے شخص کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ دیتا ۔۔۔۔ 

نور دونوں بچوں کو اپنی ساس کے حوالے کر کے ماہا کے ساتھ باہر لان میں آگئی تھی ۔۔۔۔ وہ دونوں ہی خاموش تھیں ۔۔۔۔ پھر وہ چلتے چلتے جا کر لان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئیں ۔۔۔۔ 

ماہا ۔۔۔۔ نور نے ماہا کو پکارا جو شاید سامنے پڑی ٹیبل کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔ نور نے ماہا کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے ۔۔۔۔ نور کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔۔۔۔ آنکھیں سرخ انگارا ہو گئی تھیں رونے کی وجہ سے ۔۔۔۔

ماہا اپنی جگہ سے اٹھ کر نور کے پاس آئی تھی ۔۔۔۔ کیا ہوا نور آپ اس طرح کیوں رو رہی ہیں ۔۔۔۔ ماہا نے نور کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔

آپ کو اللّٰہ کا واسطہ میرے فرید کو میرا رہنے دیں ۔۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ ان سے بہت محبت کرتی ہیں مگر وہ میرے بچوں کا باپ ہے 

میں اس کے بغیر نہیں جی سکتی ۔۔۔۔ میں نے اسے بچپن سے چاہا ہے 

میں اس کے بنا مر ہی جاؤں گی ۔۔۔۔ 

اس رب کا واسطہ آپ کو ۔۔۔۔ میرے فرید کو اللّٰہ کے واسطے چھوڑ دیں ۔۔۔۔ میں ساری زندگی آپ کی احسان مند رہوں گی ۔۔۔

نور اتنا رو رہی تھی کہ اب اس سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا 

اچھا آپ روئیں تو مت ۔۔۔۔ ماہا اسے اس طرح روتا دیکھ کر گھبرا گئی تھی ۔۔۔۔ ماہا نے اسے پانی پلایا تھا ۔۔۔۔ 

خود ماہا کے دل پر کیا گزر رہی تھی یہ تو وہی جانتی تھی ۔۔۔۔ آج اگر نور کو اس طرح روتے ہوئے نہ دیکھتی تو ۔۔۔ وہ کبھی بھی اپنا فیصلہ نہ بدلتی ۔۔۔ مگر وہ اس معصوم سی لڑکی کو اس طرح روتے ہوئے دیکھ کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئی ۔۔۔۔ 

نور میں صرف ایک بات جاننا چاہتی ہوں ۔۔۔ ماہا کو اب بھی کچھ باتیں سمجھ نہیں آئی تھیں ۔۔۔۔ 

جی پوچھیں ۔۔۔۔ نور ماہا سے نظریں جھکا کر بات کر رہی تھی  ۔۔۔۔

آپ میری طرف دیکھ کر بات کریں نور ۔۔۔ ماہا کو اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ نور اس سے اس طرح نظر جھکا کر بات کرے ۔۔۔۔۔ 

نور نے جیسے ہی نظر اٹھائی ۔۔۔ پھر سے آنسوؤں کا ریلا امڈ آیا تھا ۔۔۔ جنھیں نور نے دوپٹے سے صاف کیا تھا 

مجھے تو یہ پتہ تھا کہ آپ دونوں کے آپس میں تعلقات صحیح نہیں تو اسی وجہ سے میں نے فرید کے بارے میں زیادہ سوچنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ ماہا نور سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ کیا ان دونوں کے آپس کے تعلقات صحیح تھے بھی کہ نہیں ۔۔۔۔

جی ماہا آپ نے صحیح سنا تھا ۔۔۔ مگر اس میں بھی سارا قصور میرا ہی تھا ۔۔۔۔ میری بھابھی مجھ سے جلتی تھی اور وہ میری طلاق کروانا چاہتی تھی ۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ میری طلاق ہو جاۓ اور پھر وہ اپنے آوارہ بھائی کا رشتہ مجھ سے کر دے ۔۔۔۔ 

وہ مجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی تھی میں بھی اس کی باتوں میں آ گئ

نور اسے روتے ہوئے سب بتانے لگی ۔۔۔۔ 

تو اب اگر میں فرید سے شادی نہ کروں تو کیا آپ فرید سے پھر دوبارہ کبھی نہیں لڑو گی ؟۔۔۔۔ ماہا نور کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

نہیں جی میری توبہ قسم سے اگر فرید مجھے مارے بھی نا تو ایک لفظ بھی نہیں بولوں گی ۔۔۔۔ وہ معصومیت سے ماہا کو بتانے لگی ۔۔۔

ارے نہیں نہیں وہ کیوں ماریں گے آپ کو ۔۔۔۔ ماہا نے یہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما اور اندر کی طرف بڑھ گئی جہاں سب بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔ 

فرید کے ابا نے اس کی ماں کو بلایا تھا ۔۔۔۔ ان سے اس سارے معاملے کے بارے میں پوچھا تو فرید کی ماں نے ۔۔۔ ساری باتوں کی تائید کی 

جس پر فرید کے ابا کو شدید غصہ آیا تھا ۔۔۔۔ 

اگر توں مجھے پہلے بتا دیتی نہ تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی ۔۔۔۔ میں پہلے ہی فرید کا اپنے ہاتھوں سے قت"ل کر دیتا ۔۔۔۔ 

ان کا غصہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔ 

ماہا کے پاپا شرمندہ ہو رہے تھے کہ وہ ان کے سامنے ہی اپنی بیوی اور بیٹے کی کلاس لے رہے تھے ۔۔۔۔ کیونکہ انھوں نے کبھی خود بھی ماہا کے سامنے اپنی بیگم کو غصے سے دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔ 

لڑنا تو بہت دور کی بات تھی ۔۔۔۔ اور وہ چاہ رہے تھے کہ بنا کسی جھگڑے کے مسلہ حل ہو جائے 

ابھی فرید کے ابا مزید کچھ کہتے اس سے پہلے ہی ماہا اور نور ہاتھ پکڑے وہاں آئی تھیں ۔۔۔۔ 

میں آپ سب سے معافی مانگتی ہوں ۔۔۔۔ میرے دل میں فرید کا جو مقام ہے وہ اور کسی کا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ آپس میں خوش نہیں اس وجہ سے میں نے فرید سے شادی کا سوچا تھا ۔۔۔

مگر میں اتنی ظا"لم نہیں کہ اپنی خوشیوں کی وجہ سے نور کا گھر خراب کر دوں ۔۔۔۔۔ یہ میری بہن جیسی ہے ۔۔۔۔ نور اگر آپ کا دل میری وجہ سے دکھا تو میں آپ سے معافی مانگتی ہوں ۔۔۔۔ ماہا کے معافی مانگنے پر نور نے ماہا کو خوشی سے گلے لگایا تھا ۔۔۔۔ بہت شکریہ آپ نے میرا فرید مجھے واپس دے دیا ۔۔۔۔ نور کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا ۔۔۔

فرید اور اس کے چچا خاموش بیٹھے تھے 

ماہا کے پاپا نے فرید کے ابا سے معافی مانگی ۔۔۔۔۔ میرا مقصد صرف بات کرنے کا تھا ۔۔۔۔ ہر انسان کو اللّٰہ نے عزت دی ہے اور کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی تذلیل کرے ۔۔۔ تو میں ایسا کیسے کر سکتا تھا ۔۔۔۔ پھر بھی اگر میری طرف سے یا میری بیٹی کی وجہ سے آپ لوگوں کو تکلیف پہنچی ہو تو میں آپ لوگوں سے معافی مانگتا ہوں ۔۔۔ فرید کے ابا نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ تھام لئے اور روتے ہوئے انھیں گلے لگا لیا ۔۔۔۔۔ سب ہی آج بہت خوش تھے سوائے ماہا کے ۔۔۔۔

جب فرید اور اس کے گھر والے سب چلے گئے تو ماہا خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔۔۔ ماہا کی مما سے اس کے پاپا نے کہا کہ وہ جا کر ماہا کو سنبھالیں ۔۔۔۔ اتنا تو وہ اپنی بیٹی کو جانتے ہی تھے کہ ان کی بیٹی کتنی دکھی تھی اس ٹائم مگر اس وقت کا دکھ اس دکھ سے بہت بہتر تھا جو اسے فرید سے شادی کرنے کے بعد ملتا 

اس لیے کہیں نہ کہیں وہ مطمئن بھی تھے ۔۔۔۔ 

وہ اپنی بیٹی کے کمرے میں آئی تھیں ۔۔۔۔ ماہا آنکھوں پر ہاتھ رکھے اپنے بیڈ پر لیٹی تھی ۔۔۔ اس کی مما اس کے پاس آ کر بیٹھیں تو وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔ سر جھکا ہوا تھا ۔۔۔۔ ویسے ہمیشہ اتنا بولتی رہتی تھی مگر آج تو اس کی زبان پر جیسے قفل ہی لگ چکا تھا ۔۔۔ 

میری بچی کیا ہوا ہے اتنی اداس کیوں ہو ۔۔۔ وہ ماہا کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے اس سے پوچھنے لگیں ۔۔۔۔

مما ۔۔۔ ماہا روتے ہوئے اپنی ماں کے گلے لگ گئی تھی ۔۔۔ مما میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں ۔۔۔ نہیں رہ سکتی اس کے بغیر ۔۔۔ اس کی جگہ میرے دل میں کوئی نہیں لے سکتا ۔۔۔ میں نے اس سے عشق کیا ہے مما ۔۔۔۔ میں نے ان چار سالوں میں صرف اور صرف اسی کے بارے میں سوچا ہے ۔۔۔۔ میں مر جاؤں گی اس کے بغیر ۔۔۔ وہ زارو قطار رو رہی تھی ۔۔۔۔ اس کے پاپا بھی کمرے میں آ گئے تھے ۔۔۔ وہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔ میری بچی مجھے تمھارے دکھ کا اندازہ ہے 

مگر جو کچھ بھی ہوا اس میں ہم سب کے لیے بہتری تھی ۔۔۔ اب میں چاہتا ہوں تم زندگی میں آگے بڑھو ۔۔۔ اپنے لیے کچھ سوچو ۔۔۔۔ 

اسود آج بھی تمھارا منتطر ہے ۔۔۔۔ تم اچھی طرح سوچ کر جواب دینا 

انھوں نے ماہا کے سر پر پیار کیا اور وہاں سے چلے گئے ۔۔۔۔۔

ماہا آج دلہن بنی بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔وہ ویسے بھی بہت حسین تھی مگر آج تو اس پر الگ ہی روپ آیا تھا اپنے کمرے میں بیٹھی وہ اس شخص کا انتظار کر رہی تھی جسے کچھ گھنٹوں پہلے ہی ماہا کو سونپ دیا گیا تھا ۔۔۔  ۔۔۔

کسی کو چاہنے کا احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے ۔۔۔ مگر چاہے جانے جانے کا احساس کیا ہوتا ہے ۔۔۔  یہ بات آج اس کی سمجھ میں آئی تھی ۔۔۔۔ وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تھا ۔۔۔ ماہا کا جھکا ہوا سر مزید جھک گیا تھا ۔۔۔ وہ ماہا کے پاس آ کر بیٹھا ۔۔۔۔ اس نے سلام کیا تو ۔۔۔

ماہا نے سلام کا جواب دیا مگر شاید اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ وہ خود بھی اپنی آواز نہیں سن پائی ۔۔۔ آج سارا کانفیڈینس پتہ نہیں کہاں چلا گیا تھا ۔۔۔ 

وہ اس کی کیفیت سمجھ گیا تھا کہ ماہا پریشان تھی ۔۔۔ 

کیسی ہیں آپ ماہا ۔۔۔۔ ماہا کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس نے پوچھا تھا ۔۔۔

ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں ۔۔۔ اب کی بار ماہا نے بھی ہمت کر کے اس سے پوچھ ہی لیا ۔۔۔۔ 

ماہا میں جانتا ہوں کہ آپ کی زندگی میں مجھ سے پہلے کوئی اور تھا ۔۔۔۔ لیکن میں اس دل کا کیا کروں جو آپ کے علاؤہ کسی اور کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا ۔۔۔ اس دل کو ہمیشہ سے آپ کی خواہش رہی 

اگر آپ مجھے نا ملتی تو میں کبھی شادی نہ کرتا ۔۔۔ ساری زندگی ایسے ہی گزار دیتا ۔۔۔۔ پچھلے چار سال میں نے کتنی تکلیف میں گزارے آپ کو نہیں بتا سکتا ۔۔۔ آپ کے گھر جب رشتہ بھیجا تو آپ لوگوں کی طرف سے انکار ہو گیا ۔۔۔۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی

میں نے اپنی مما سے کہہ دیا تھا کہ اگر ماہا نہیں ملی مجھے تو پھر میں کبھی شادی نہیں کروں گا ۔۔۔ اور دیکھیں میری محبت سچی تھی ۔۔۔ میں نے آپ کو پا لیا ۔۔۔۔ 

 اوہ باتوں باتوں میں یاد ہی نہیں رہا آپ کی منہ دکھائی نہیں دی ۔۔۔۔ پھر گوڈ کی چین نکال کر اس کی طرف بڑھا دی ۔۔۔۔ 

ماہا نے بھی اس کے ہاتھ سے چین لے لی تھی ۔۔۔ 

مجھے کچھ وقت چاہیے ۔۔۔۔ ماہا اپنے شوہر سے کہتے ہوئے جھجھک رہی تھی ۔۔۔ مگر کہہ گئی ۔۔۔ 

میں نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ میں ساری زندگی آپ کا انتظا کر سکتا ہوں ۔۔۔۔  آج بھی میں اپنے قول سے نہیں پھرا ہوں ۔۔۔

مجھے آپ کی خوشی عزیز ہے ۔۔۔۔ جب آپ کا دل چاہے ۔۔۔۔آپ ہاتھ بڑھا لینا میں آپ کا ہاتھ تھام لوں گا ۔۔۔۔ 

بہت اچھی لگ رہی ہیں ۔۔۔ رات کافی ہو گئی ہے چینج کر لیں پھر صبح اٹھنا بھی ہے ۔۔۔ وہ یہ کہتا سائیڈ روم کی طرف بڑھ گیا تھا

اور ماہا یہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ فرید کے حق میں فیصلہ دیتی تو آج یہ خوشیاں اور سکون اس کے مقدر میں نہ ہوتا 

اس نے اپنے عشق کی قربانی دی تھی ۔۔۔ اس رب کے عشق کی خاطر کہ اس کے عشق سے آگے اس کے رب کا عشق تھا ۔۔۔ اس کے عشق سے معتبر اس کے رب کا عشق تھا جو اپنے بندوں سے ایک ماں سے بھی ستر گناہ زیادہ محبت کرتا ہے ۔۔۔ 

اور پھر اپنے والدین کے کہنے پر اس نے  اسود سے شادی کے لیے  رضامندی دے دی تھی 

فرید جب اپنی فیملی کے ساتھ گاؤں پہنچا تو سب ہی بہت خوش تھے ۔۔۔۔اور خاص طور پر نور ۔۔۔ فرید اب بھی خفا خفا سا تھا 

وہ کسی سے بھی بات نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔ اس کی ماں اس کے دل کی کیفیت سمجھتی تھیں ۔۔۔۔ اسی لئے نور کو سمجھا رہی تھیں کہ وہ صبر سے کام لے ۔۔۔ 

فرید کی ماں نے اسے سمجھایا تھا کہ جو کچھ بھی ہوا تھا اس میں نور کا کوئی قصور نہیں تھا ۔۔۔ لحاظہ وہ نور کے ساتھ اپنا رویہ صحیح رکھے ۔۔۔۔ فرید جب اپنے کمرے میں گیا تو نور بچوں کو سلا رہی تھی ۔۔۔۔ فرید کرسی پر ہی بیٹھ گیا تھا 

نور بچوں کو سلا کر فرید کے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔ 

سو جا نور ۔۔۔۔ کیوں آئی ہے یہاں ۔۔۔۔ اس نے نور سے منہ پھیر لیا تھا 

مجھے معاف کر دے فرید ۔۔۔ نور آنسوؤں سے رو رہی تھی ۔۔۔۔

وہ فرید کے قدموں میں بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔

کیا کر رہی ہے نور اٹھ ۔۔۔ نیچے کیوں بیٹھی ہے ۔۔۔۔ اس نے بازوؤں سے پکڑ کر نور کو اٹھایا تھا ۔۔۔۔ 

فرید میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔ میں تجھ سے بہت محبت کرتی ہوں ۔۔۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی اب ایسا دوبارہ کبھی نہیں ہو گا ۔۔۔۔ نور کے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے ۔۔۔۔ 

فرید نے اسے پانی پلایا تھا ۔۔۔۔ 

نور میں بھی تجھ سے بہت محبت کرتا ہوں ۔۔۔ آئیندہ ایسا کیا نہ تو پھر میں ۔۔۔ وہ اتنا کہہ کر چپ ہو گیا تھا 

نور نے اس کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔ پھر کیا 

پھر میں اپنے بچوں کو لے کر لاہور چلا جاؤں گا ۔۔۔ پھر روتی رہنا یہاں میرے لیے ۔۔۔۔ اس نے نور کو تنگ کرنا چاہا ۔۔۔۔

اچھا تو پھر میں بھی آپ کے پیچھے لاہور چلی جاؤں گی جیسے ابھی گئی ۔۔۔ نور کی اس بات پر وہ دونوں ہی ہنسنے لگے ۔۔۔ 

کہ اب خوشیاں ان کی منتظر تھیں ۔۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mere Ishq Se Agy Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novelMere Ishq Se Agy written by Fatima Ahmad . Mere Ishq Se Agy by Fatima Ahmad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment