Pages

Friday 27 September 2024

Mehram E Junoon Novel By Mahnoor Shehzad Complete Romantic Novel

Mehram E Junoon By Mahnoor Shehzad New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mehram E Junoon Novel By Mahnoor Shehzad Complete Romantic Novel 

Novel Name: Mehram E Junoon

Writer Name: Mahnoor Shehza

Category: Complete Novel

گرمیوں کی راتیں تھی گھڑی رات کے ایک بجا رہی تھی اسلام آباد کے ڈیفینس میں موجود یہ کوٹھی جہاں اسوقت گہرا سناٹا سا چھایا ہوا تھا شاید ہر شخص اپنے کمرے میں سونے میں مصروف تھا گھر میں تاریکی سی چھائی ہوئی تھی۔

وہ معصوم اپنے کمرے میں سمٹی ہوئی آنکھیں بند کیے بےچین سی سونے کی کوشش کررہی تھی

تبھی کوئی دبے قدموں سے چلتا اس کے کمرے کو ان لاک کرکے اندر بڑھا قدموں کی چاپ سنتے ہی اس ننھی جان کا خون خشک ہوگیا وہ زور سے آنکھیں میچ گئی۔

"مجھے معلوم ہے تم جاگ رہی ہو"

وہ ننھی جان اپنے اس قدر قریب سے یہ آواز سن کر خوفزدہ سی اپنی خوبصورت امبر رنگ کی بڑی آنکھیں کھول کر نظریں سامنے کر گئی  جہاں وہ شخص چہرے پر وحشت لیے حوس بھری نظروں سے اسے گھور رہا تھا اس معصوم کی آنکھوں میں خوف صاف لہرایا۔

"ممم۔۔۔میرے قریب مت آنا تم"

وہ خوفزدہ سی بیڈکراؤن کی جانب کھسکتے لڑکھڑاتے ہوئے ہمت سے بولی وہ شخص قہقہ لگا کر ہنسنا۔

"مجھے تمہارے قریب آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے"

چہرے پر کمینی مسکراہٹ سجائے اس کی جانب بڑھتے ہوئے کہنے لگا وہ خوفزدہ سی نفی میں سر ہلا رہی تھی آنکھوں سے آنسو ایک ایک کرکے گال پر بہ رہے تھے

"ن۔۔ننہیں پلیزز "

وہ روتے ہوئے منت بھرے لہجے میں اس سے التجا کرنے لگی مگر وہ بےرحم انسان سے ہمدردی کی امید لگارہی تھی

"خاموش"

غصے سے اسے جھڑکتا وہ اس کے قریب آکر اس کے سینے سے دوپٹہ اتار کر زمین پر پٹک گیا وہ زور سے رونے لگی۔ وہ شخص اس کے چہرے کے قریب چہرہ لانے لگا جب اس نے روتے ہوئے اپنا چہرہ دوسری سمت کرلیا سامنے موجود اس درندے کے چہرے پر ناگواریت سی چھائی تھی اور وہ اس کے منہ پر زور سے ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالتا اس کا منہ اپنے سامنے کر گیا ضحی نے پوری طاقت سے اسے خود سے دور کرنے کیلئے اپنے موم جیسے ہاتھ اسکے وجود پر رکھے وہ شخص مسکرادیا اور اس کے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لیتا اوپر کرکے اسے نیچے گرے دوپٹہ سے باندھ گیا اور اس کی گردن پر جھکنے لگا جب ضحی پیروں کو زور زور سے ہلانے لگ گئی چہرے پر سختی سجائے وہ اسے دیکھنے لگا جو نفرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی وہ اس کے پیروں پر بھی وہی عمل دوہراتا اس کے قریب آیا اور اس کی گردن پر تشدد کرنے لگ گیا وہ بےبس روتی رہی چیختی رہی مگر اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔

کچھ دیر بعد اس کے بازوؤں اور پیروں کو کھول کر چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسے دیکھنے لگ گیا 

"تم انسان کہلانے کے قابل نہیں ہو تم حیوان ہو حیوان سنا تم نے میں تمہاری اصلیت سب کو بتادوں گی دیکھنا تم "

وہ روتے ہوئے اسے شعلہ برستی نگاہوں سے دیکھتی آہستہ آواز میں کہنے لگی جس پر وہ شخص چہرے پر ڈھٹائی سے مسکراہٹ سجا گیا 

"کس کو بتاؤ گی اپنی دادی کو ہاں جو تم سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی ہے یا پھر اپنی پھوپھو جس کا بس چلے وہ تمہیں آج ہی ختم کردے بولو یا پھر اپنے باپ کو جو تمہیں کچھ سال پہلے یہاں چھوڑ کر اپنی نئی بیوی کے ساتھ خوش ہے ہاں؟؟"

وہ پرسکون انداز میں اسے دیکھتے ہوئے اس کی بےبسی کا 

مذاق اڑاتا کہنے لگا وہ بس نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگ گئی

"جس کو بھی بتاؤ گی خود پھنسو گی بہتری یہی ہے خاموش رہو ٹھیک ہے آج کے لیے کافی تھا کل پھر ملاقات ہوگی"

وہ اس کے چہرے پر ہاتھ ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا جب ضحی نے اس کا ہاتھ فوراً جھٹکا اور وہ مسکرا کر چلا گیا۔

اس شخص کے جاتے ہی وہ بیڈ کراؤن سے لگ کر خود میں سمٹتی زاروقطار رونے لگ گئی دماغ بلکل ماؤف ہوچکا تھا زور زور سے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر رہی تھی نشان اب زخم میں تبدیل ہوگئے اور ان میں سے خون بہنے لگ گیا مگر اسے پرواہ کہاں تھی

ڈیڑھ گھنٹہ وہ ایک ہی جست میں بیٹھی آنسو بہاتی رہی اور اچانک اس کی آنکھیں خودبخود بند ہونے لگ گئی وہ اسی طرح نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔

                               ________________

سوئزر لینڈ کی خوبصورت سڑک پر وہ تیز قدم اٹھائے جیب میں ہاتھ ڈالے تیزی سے چل رہا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا وجود سے ٹکرا رہی تھی وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب اچانک کسی وجود سے ٹکرایا نظر اٹھا کر اس نے سامنے دیکھا 

"آئی ایم سوری"

وہ عورت کو دیکھ کر احتراماً ایسکیوز کرنے لگا جو غصے سے اسے دیکھ رہی تھی

"ہاؤ ڈئیر یو تم مجھے چھو کیسے سکتے ہو ہاں بدتمیز"

وہ عورت غصے سے سرخ چہرہ لیے اسے دیکھتے ہوئے انگریزی میں بولی جس پر سامنے موجود شخص کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے 

"میں نے جان کر کچھ نہیں کیا ہے"

وہ اپنے غصے پر قابو پاتا تھوڑے ٹھنڈے لہجے میں جواب دینے لگ گیا۔

"میں تم جیسوں کو بہت اچھے سے جانتی ہوں"

وہ عورت مزید بدتمیزی کرتی اسے کہنے لگی اوراق سرد نگاہوں سے دیکھنے لگ گیا۔

"میں بھی تم جیسی عورتوں کو بہت اچھے سے جانتا ہوں اور تم جیسے عورتوں سے ٹکرانا تو دور بات کرنا بھی میں اپنی بےعزتی سمجھتا ہوں"

اوراق انتہائی سخت لہجے میں اسے جواب دیتا بغیر اس کی سنی آگے کی جانب بھاری قدم بڑھا گیا وہ عورت بس اسے جاتا دیکھنے لگ گئی

اوراق اسماعیل بیگ تھا جو سٹیٹ فارورڈ تھا لوگوں کے منہ پر ہر بات کرنے والا آدمی تھا۔۔

                            ___________________

ڈائننگ ٹیبل پر وہ ناشتہ لگا رہی تھی ادیبہ بیگم اور ان کی بیٹی عارفہ محترمہ وہاں موجود تھے جو چہرے پر بیزاری سجائے اسے دیکھ رہے تھے وہ نہیں جانتی تھی آخر اس کا قصور کیا ہے جو۔ اس گھر میں موجود ہر شخص اس سے نفرت کرتا ہے اور نہ وہ کسی سے پوچھنے کا حق رکھتی تھی خاموشی سے کیے جانے والا سلوک کو وہ برداشت کرتی رہتی تھی وہ ناشتہ لگا رہی تھی تبھی عارفہ محترمہ کے شوہر عاقب صاحب ڈائننگ ٹیبل پر تشریف لائے دونوں بیٹوں کے باہر کے ملک کے جانے کے بعد ادیبہ بیگم نے اپنی بیٹی کو اپنے پاس بلوا لیا تھا عاقب صاحب کے آتے ہی ضحی کے ہاتھ رک گئے مگر عاقب صاحب کرسی کھسکا کر بیٹھتے ناشتہ شروع کر گئے وہ بھی خاموشی سے ناشتہ لگا کر وہاں سے چلی گئی۔۔

"صبح صبح اس منہوس کا چہرہ دیکھنا پڑتا ہے مجھے"

ادیبہ بیگم اسے جاتا دیکھ منہ بنائے کہنے لگی عاقب صاحب نے انہیں دیکھا

"مجھے بولنا تو نہیں چاہیے لیکن آپ بلاوجہ ہی اس معصوم بچی کے ساتھ اس طرح سلوک کرتے ہیں تکلیف ہوتی ہوگی اسے"

عاقب صاحب فوراً سے ادیبہ بیگم کی بات پر مایوس سے بولے جس پر انہوں نے اسے دیکھا

"بلاوجہ میں کسی سے نفرت نہیں کرتی ہوں خیر تم ناشتہ کرو"

ادیبہ بیگم فوراً سے اسے جواب دیتے ساتھ اپنی پلیٹ پر نظریں مرکوز کر گئی۔

"گڈ مارننگ"

وہ پینٹ اور شرٹ میں ملبوس کو کھولے لائٹ سے میک ایپ میں تیکھے نقوش کی خوبصورت لڑکی تھی ڈائننگ پر آتے ہی مسکرا کر ان سب پر نظر ڈالتی کہنے لگی

"گڈ مارننگ بیٹا"

عاقب صاحب مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے جس پر وہ مسکرادی ادیبہ بیگم اور عارفہ محترمہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔

                              __________________

سوئزر لینڈ میں اسوقت رات ہورہی تھی اور تھوڑی تھوڑی سردی بھی پھیلی ہوئی تھی 

"تو تم نے فیصلہ کرلیا ہے تم پاکستان جارہے ہو"

انیتا محترمہ کھانا کھاتے ہوئے اپنے بیٹے پر ایک نظر ڈال کر پوچھنے لگی

"جی کیونکہ مجھے اپنا ملک دیکھنا ہے"

وہ فوراً سے انہیں جواب دینے لگا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی 

درمیانی رنگت بڑھی ہوئی بئیرڈ تیکھے نقوش ڈارک براؤن آنکھیں مغرور ناک سیاہ گردن تک آتے بال کسرتی جسامت وہ دیکھنے میں بہت سجیلا اور ہینڈسم نوجوان تھا۔

"میں بھی چلوں مام کی طبیعت بہت خراب ہے"

انیتا محترمہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گیا

"جیسے آپ کو ٹھیک لگے"

اوراق کھانے میں مصروف سا انہیں جواب دینے لگا وہ مسکرادی اور دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگ گئے۔۔۔

اوراق پانچ سال کا تھا جب اسماعیل صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اور ان کے کچھ سال بعد ہی انیتا محترمہ اپنے بیٹے کو لیے سوئزر لینڈ آ گئی تھی یہاں انہوں نے اسماعیل صاحب کا بزنس دیکھا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ اوراق کی دیکھ بھال بھی کرتی تھی۔۔

                             _________________

ضحی کچن میں بیٹھی سبزیاں کاٹنے میں مصروف تھی اور ماسی کچن صاف کررہی تھی

"ماسی یہ دنیا کے لوگ اس قدر ظالم کیوں ہوتے ہیں؟؟"

ضحی ماسی کو دیکھتے ہوئے لہجے میں مایوسی سجائے بولی جس پر ماسی نے اسے دیکھا 

"دنیا کے لوگوں میں جب احساس ختم ہو جائے نا تو وہ جانور سے بدتر کہلائے جاتے ہیں ضحیٰ"

ماسی اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بتانے لگی وہ کچھ پل انہیں دیکھتی رہی 

"میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہونا تھا میں واقع منہوس ہوں کیا؟؟"

ضحی آنکھوں میں نمی سجائے انتہائی مایوسی سے بولی جس پر ماسی فوراً اس کے پاس آئی 

"نہ میری بچی تو تو میری پیاری سی بچی ہے ایسے نہیں بولتے بس اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو بہت آزماتا ہے اور پھر ان کے صبر کا پھل ضرور دیتا ہے"

ماسی اسے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں سمجھانے لگی جس پر ضحی خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔

"ماسی ماسی"

تبھی عارفہ محترمہ کی آواز پر وہ ادھر سے اٹھتی باہر کی طرف بڑھ گئی ضحی آنسوؤں کو اپنے اندر اتارتی سبزی کاٹنے میں مصروف ہوگئی

تبھی لیزا کچن میں داخل ہوئی نظر ضحی پر گئی ضحی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا

"ضحی کیسی ہو"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی ضحی نے سر اثبات میں ہلا دیا 

"ماسی آئے تو انہیں کہنا فریش جوس مجھے بنادیں"

وہ مسکراتے ہوئے ضحی ہو دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی اور لیزا کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

                             _________________

وہ مغرب کی نماز ادا کررہی تھی تبھی فون بجا دعا مانگتی چہرے پر ہاتھ پھیر کر اس نے نظریں فون کی جانب کی جائے نماز لپیٹ کر گھبراتے ہوئے فون کی طرف بڑھتی فون اٹھا کر کان سے لگایا

"اسلا۔۔اسلام و علیکم"

کانپتے لبوں سے اس نے دھیمے لہجے میں بولا دوسری طرف موجود شخص آواز پہچاننے کی کوشش کرنے لگا

"وعلیکم السلام"

اوراق کی بھاری آواز جیسے ہی ضحی کے کان سے ٹکرائیں اس کی ہارٹ بیٹ یکدم تیز ہوگئی 

"کون؟"

اوراق نے فوراً پوچھنا چاہا اس سے پہلے وہ اپنا نام بتاتی ادیبہ بیگم اس کے سر پر پہنچتی اس کے ہاتھ سے فون کھینچ گئی وہ سہم کر ان کی جانب دیکھ کر اپنے کمرے میں بھاگ گئی

"اسلام و علیکم کیسے ہو اوراق بیٹا"

ادیبہ بیگم ضحی کو سخت گھوری سے نوازتی خوشگوار لہجے میں پوچھنے لگی

"میں ٹھیک ہوں دادو یہ کون تھا؟"

اوراق نے وہی سوال ادیبہ بیگم سے پوچھا جس پر انہوں نے ایک نظر فون پر ڈالی 

"تمہاری چھوٹی کزن ضحی تھی"

ادیبہ بیگم برا سا منہ بنا کر اسے بتانے لگی اور اس کی آنکھوں کے سامنے اچانک ضحی کا پچپن والا چہرہ آیا۔

ادیبہ بیگم اور اوراق کے بیچ کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی پھر وہ فون رکھتی ضحی کے کمرے میں گئی جہاں وہ گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی

"اے تیری اتنی ہمت کہ تو میری اجازت کے بغیر فون اٹھائے ہاں"

ادیبہ بیگم ضحی کو منہ دبوچ کر غصے سے بولی وہ بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگ گئی

"دادو"

ضحی نے کچھ بول گ کیلیے منہ کھولا تو انہوں نے اس نے ہونٹوں کو زور سے دبا دیا درد سے وہ آنکھیں میچ گئی

"اپنی زبان سے خبردار جو مجھے دادو بولا تو منہوس ہے سناتو نے"

ادیبہ بیگم چیخ کر اسے تکلیف پہنچاتی کہنے لگی وہ آنکھوں میں آنسو لیے انہیں دیکھ رہی تھی

"کیا کررہی ہیں آنٹی آپ چھوڑیں اسے "

تبھی عارف صاحب کمرے میں داخل ہوتے فوراً سے ادیبہ بیگم کو اس سے دور کرتے ہوئے تھوڑے خفگی سے بولے 

"صحیح کررہی ہوں اس کے ساتھ "

وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر عارف صاحب انہیں دیکھنے لگ گئے

"چلیں آپ پلیزززز کیا کررہی ہیں آپ اس بچی کے ساتھ "

وہ ادیبہ بیگم کو باہر کی طرف لاتے ہوئے بولے ادیبہ بیگم بولتی چکی گئی اور ضحی کمرے میں گھنٹوں میں منہ دیے آنسو بہاتی چلی گئی۔۔۔

                             _________________

رات کے کھانے میں میز پر موجود گہری خاموشی سی چھائی ہوئی تھی

"اوراق اور انیتا پاکستان آرہے ہیں کل"

ادیبہ بیگم نے بات کا آغاز کرتے ہوئے خاموشی توڑی سب نے انہیں دیکھا

"ادھر آئیں گے؟"

عارفہ محترمہ فوراً سے پوچھنے لگ گئی ادیبہ بیگم نے انہیں دیکھا

"ظاہری سی بات ہے اور کدھر جائیں گے"

ادیبہ بیگم تھوڑا خفگی سے اسے جواب دینے لگی جس پر وہ منہ بنا گئی

"میں نے ویسے ہی پوچھا تھا اماں آئیں ان کا گھر ہے"

عارفہ محترمہ منہ بنائے جواب دیتی کھانا کھانے لگ گئی

"عارف تم جاکر انہیں لے آنا ائیرپورٹ سے"

ادیبہ بیگم عارفہ صاحب کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گئی جس پر اثبات میں سر ہلا گئے۔

"ٹھیک ہے"

وہ مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ کر بولے اور پھر ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کر چلے گئے لیزا بھی کھانا ختم کرتے ہی خاموشی سے اٹھ کر چل دی۔

"اماں میں تو اس لیے ایسے پوچھ رہی تھی مجھے پریشانی ہورہی ہے"

عارفہ محترمہ اپنے شوہر اور بیٹی کے جاتے ہی فوراً ان کے پاس آتی کہنے لگ گئی

"کیوں؟"

ادیبہ بیگم ناسمجھنے والے انداز میں سوالیہ نظروں سے دیکھتی پوچھنے لگی

"کیونکہ وہ منہوس ضحی ہے نا یاد ہے کچھ مہینوں پہلے لیزا کا رشتہ آیا تھا کیسے جان کر آ گئی تھی اندر اور پھر اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے چلا گیا سمجھ رہی ہو میری بات آپ اوراق آرہا ہے"

عارفہ محترمہ بات کا مطلب تفصیلی انداز میں سمجھاتے ہوئے بولی جس پر ادیبہ بیگم سوچ میں پڑ گئی

"اب کیا کروں؟"

ادیبہ بیگم عارفہ محترمہ کو دیکھتی فوراً سے پوچھنے لگ گئی

"یہ کر اسے وحید بھائی کے پاس بھجوا دے ہمیں بھی سکون مل جائے گا "

عارفہ محترمہ انہیں مسکراتے ہوئے مشورہ دینے لگ گئی 

"وحید نہیں رکھ سکتا اپنے پاس کچھ سوچتی ہوں"

ادیبہ بیگم فوراً سے اسے جواب دیتے ہوئے پانی پینے لگ گئی عارفہ محترمہ خاموشی سے اپنی والدہ کو دیکھ رہی تھی

                             __________________

"ضحی ضحی"

لیزا کمرے میں آتے ہی اسے پکارنے لگی جو بیڈ پر خاموش بیٹھی تھی

"جی"

وہ نظریں اٹھا کر آہستہ آواز میں اسے جواب دیتی پوچھنے لگی 

"تم آج کمرے سے باہر ہی نہیں نکلی میں نے دیکھا ہے تم مغرب کے بعد کمرے میں ہی رہی ہو"

لیزا لہجے میں فکر لیے اس کے پاس آتی پوچھنے لگی ضحی نے اسے دیکھا

"بس ویسے ہی"

وحی نظریں جھکائے اداسی سے جواب دیتی زمین کو تکنے لگ گئی

"ضحی کیا ہوا ہے نانو یا مام میں سے کسی نے کچھ بولا ہے"

لیزا اس کے پاس بیٹھتے ہوئے فکرمند سی پوچھنے لگ گئی جس پر وہ فوراً نفی میں سر ہلا گئی

"نہیں بس ویسے ہی ماں کی یاد آ گئی"

وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گئی جس پر لیزا بھی اداس ہوئی 

"اچھا تم اداس مت ہو"

وہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھتی پیار سے بولی ضحی اسے دیکھنے لگ گئی

"ضحی میں نے تمہیں کتنی دفعہ بولا ہے اتنے بند گلے اور ٹوئٹ بازو مت پہنا کرو تمہیں گھٹن محسوس نہیں ہوتی"

وہ فوراً سے اس کے ڈریس کو دیکھتی خفگی سے بولی ضحی نے اسے دیکھا چہرے پر اچانک پریشان کن تاثرات سج گئے

"مم۔مجھے ایسے ہی پسند ہیں اور عادت بھی ہوگئی ہے"

وہ کنفیوز سی ہوتی اپنے بازو پر ہاتھ رکھے جواب دینے لگ گئی جس پر وہ خاموش ہوگئی

"تمہاری مرضی چلو اب اپنا موڈ ٹھیک کرو"

لیزا اسے کہتے ساتھ کمرے سے چلی گئی اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی

"کتنا آسان ہوتا ہے بول کر چلے جانا جس پر گزرتی یہ صرف اسی انسان کو معلوم ہوتا ہے لیزا "

وہ اسے جاتا دیکھ دل میں بولتی سر جھٹک کر رہ گئی۔۔

                             ___________________

اگلا سارا دن وہ باہر نہیں نکلی تھی اور کسی نے پلٹ کر اس سے پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔ 

تبھی عارف صاحب گھر میں داخل ہوئے ان کے ساتھ ہی اوراق اور انیتا محترمہ موجود تھی اوراق کو دیکھ ادیبہ بیگم بےحد خوش ہوئی اور عارفہ محترمہ اور لیزا تو بس اس کی خوبصورتی پر اس سے نظریں نہ ہٹا سکی۔۔

"میرا بچہ"

ادیبہ بیگم آگے بڑھتی اس کے گلے سے لگ کر محبت سے کہنے لگ گئی اوراق ہلکا سا مسکرادیا۔۔

وہ باری باری دونوں سب سے ملے اور پھر ڈائننگ ٹیبل پر ڈنر کیلیے چل دیے۔

ضحی خاموشی سے اٹھ کر وضو کرنے کے غرض سے باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔

"اوراق تو ماشاءاللہ ہی بہت ہی خوبصورت ہوگیا"

عارفہ محترمہ مسکراتے ہوئے اسے بولی جس پر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"شکریہ پھوپھو"

اوراق مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ پانی کا گلاس لبوں سے لگا گیا اور لیزا کی نظریں اسی پر مرکوز تھیں 

کھانے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی ہورہی تھی اچانک اوراق کا فون بجا۔

"ایسکیوز می کال ضروری ہے میں بس آتا ہوں"

اوراق نظریں فون سکرین پر مرکوز کرتا فوراً سے بولتا کرسی کھسکا کر اٹھ کھڑا ہوا اور ڈائننگ ہال سے باہر کی طرف بڑھ گیا

کال سن کر وہ فارغ ہوا اور اندر کی طرف بڑھنے لگا جب ٹی وی لاؤنچ کی دائیں طرف ایک دروازہ کھلا تھا اس کی نظر اس دروازے کی طرف گئی اور پھر نظر اس لڑکی پر گئی جو جائے نماز پر بیٹھی نماز ادا کررہی تھی اوراق کے قدم خودبخود اس سمت اٹھتے چلے گئے وہ اس کمرے کے پاس پہنچا اور اس کے باہر ہی قدم روک گیا نظر ضحی پر گئی جو نماز ادا کررہی تھی اوراق اسماعیل بیگ کی نظریں ضحی پر جم سی گئی وہ ساکت سا کھڑا اسے نماز ادا کرتا دیکھتا رہا ضحی نے سلام پھیرا اور  نظریں اپنے بائیں طرف دوہرائی ایک انجان وجود کو اپنی نظروں کے سامنے پاکر وہ خوفزدہ سی ہوگئی۔۔۔

اوراق کی نظریں ضحیٰ پر ہی تھیں جب وہ چہرے پر ہاتھ پھیر کر جائے نماز لپیٹ کر دروازے کی جانب بڑھی چہرے پر خوف ابھی بھی موجود تھا 

"ڈرو نہیں میں تمہارا کزن اوراق ہوں اس دن کال پر میں ہی تھا"

اوراق اسے خوفزدہ دیکھ کر فوراً سے بتانے لگا ضحیٰ کو کل کا منظر یاد آیا آنکھوں میں مزید خوف سا چھانے لگا

"تم اس کمرے میں رہتی ہو"

اوراق اس کے کمرے میں نظر ڈالتا پوچھنے لگا ضحیٰ اثبات میں سر ہلا کر کمرے کا دروازہ بند کرگئی اوراق پریشان نظروں سے اسے دیکھتا رہ گیا اوراق کو لگا ضحیٰ نے دروازہ اس کے منہ پر دے مارا وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا ضحیٰ دروازہ بند کرتی جائے نماز جگہ پر رکھ کر بیڈ پر آ گئی۔

اوراق واپس ڈائننگ ٹیبل پر آیا تو سب لوگ وہی موجود تھے

"ضحیٰ کیوں نہیں ہے دادی یہاں؟"

اوراق ادیبہ بیگم پر نظریں جمائے پوچھنے لگا ادیبہ بیگم کی مسکراہٹ سمٹ گئی

"وہ اپنی مرضی کی مالک ہے جب دل کرے گا کھانا کھائے گی"

انیتا بیگم فوراً سے جھوٹ بولتی کھانا کھانے لگ گئی اوراق خاموش ہوگیا۔

کھانے کے بعد اوراق اور ادیبہ بیگم کمرے میں آرام کرنے کیلیے چلے گئے۔

ادیبہ بیگم ضحیٰ کے کمرے کی جانب بڑھی اور دروازے پر دستک دی 

"کون"

ضحی دھیمے لہجے میں پوچھنے لگی 

"دروازہ کھولو"

ادیبہ بیگم کی آواز سنتے ہی وہ فوراً سے اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھ کر دروازہ کھولنے لگ گئی۔

"صبح نا کچن میں دیکھو تم بہت آرام کرلیا ہے مہمان آئے ہیں"

ادیبہ بیگم اسے خونخوار نظروں سے دیکھتی غصے سے کہنے لگی وہ بس اثبات میں سر ہلا گئی اور ادیبہ بیگم وہاں سے چلی گئی 

ضحیٰ نے پورا دن کچھ نہیں کھایا تھا اور کسی نے بھی پلٹ کر اس سے کھانے کو نہیں پوچھا تھا اس کی آنکھوں میں ایک ایک کرکے آنسو بہنے لگے اور وہ دروازہ بند کرکے دروازے سے لگتی زاروقطار رونے لگ گئی۔۔

                           _________________

اوراق جاگنگ کرنے کیلیے نیچے کی جانب بڑھا اور نظر ضحیٰ کے دروازے پر ڈالی وہ بند تھا اوراق سر جھٹک کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔

ضحیٰ اسی طرح رات کو دروازے سے لگی روتے ہوئے سو گئی تھی اچانک اس کی آنکھ کھلی اور نظر گھڑی پر ڈالی جہاں سات بج رہے تھے ضحیٰ اٹھ کر باتھروم کا رخ کرتی فریش ہوکر دوپٹہ شانوں پر ڈال کر تیزی سے کمرے سے باہر کی طرف بڑھی  وہ تیزی سے کچن کی جانب بڑھ رہی تھی سامنے موجود شخص کو آتا دیکھ قدم روک گئی عاقب صاحب مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہے تھے ساتھ ہی عارفہ محترمہ بھی تھیں جو اسے ناگوار نظروں سے دیکھ رہی تھی

"گڈ مارننگ ضحیٰ بچے"

عاقب صاحب مسکراتے ہوئے ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے وہ بس خاموش رہی وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل کی جانب بڑھ گئے

ضحیٰ اور ماسی کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی اوراق تبھی جاگنگ سے واپس آیا اور پانی پینے کیلیے کچن کی جانب بڑھا

"تم پراٹھا دیکھنا ضحیٰ میں بس پلیٹس لگا کر ابھی آئی"

ماسی ضحیٰ سے کہتے ساتھ پلیٹیں اٹھا کر کچن سے باہر کی جانب بڑھ گئی تبھی اوراق کچن میں داخل ہوا نظر ضحیٰ پر گئی ضحیٰ نے بھی اسے دیکھ اور نظریں واپس پراٹھے پر کرگئی

ضحیٰ کو کھڑے کھڑے اچانک چکر سے آنے لگے وہ اس سے پہلے زمین پر گرتی اوراق جو اسے ہی دیکھ رہا تھا فوراً آگے بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں لے گیا ضحیٰ آنکھیں بند کیے اس کی باہوں میں موجود تھیں۔

"دادی مام"

اوراق اسے اپنی باہوں میں تھامے سب کو پکارنے لگا جس پر انیتا محترمہ اور ادیبہ بیگم پریشانی سے کچن کی جانب بڑھے لیزا بھی پیچھے گئی 

"کیا ہوا اوراق"

انیتا محترمہ فوراً فکرمند سی پوچھنے لگی سامنے کا منظر دیکھ لیزا کے چہرے پر سختی سی آ گئی

"پتہ نہیں مام یہ بےہوش ہوگئی"

اوراق انیتا محترمہ کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا انیتا محترمہ اس کے پاس آکر اس کا باڈی ٹمپریچر دیکھنے لگی جو بہت ٹھنڈا ہوا ہوا تھا

"اوراق تم اسے روم میں لے چلو اور ڈاکٹر کو کال کرو اسکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے"

انیتا محترمہ اوراق کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی اوراق نے فوراً اسے اپنی گود میں لیا اور کچن عبور کرکے ٹی وی لاؤنچ سے گزرنے لگا عاقب صاحب اور عارفہ محترمہ حیرانگی سے اوراق کو جاتا دیکھ رہے تھے اوراق اسے کمرے میں لاکر بیڈ پر لٹا گیا۔

"انکل ڈاکٹر کو کال کریں"

اوراق عاقب صاحب کو کمرے میں آتا دیکھ فوراً سے کہنے لگ گیا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا کر فون جیب سے نکالنے لگ گئے 

"ڈاکٹر آرہا ہے اسے کیا ہوا ہے"

عاقب صاحب ڈاکٹر کو فون کرنے کے بعد پوچھنے لگے 

"پتہ نہیں میں کچن میں گیا تو اسے چکر آیا یہ گرنے والی تھی میں نے تھام لیا"

اوراق انہیں کچن میں ہوا سب بتانے لگا  جس پر وہ خاموش ہو گئی 

کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر وہاں موجود تھا اور ضحیٰ کا چیک ایپ کررہا تھا اوراق انیتا محترمہ عاقب صاحب اور لیزا موجود تھے ادیبہ بیگم عارفہ محترمہ وہاں سے چلے گئے تھے

"کچھ نہ کھانے کی وجہ سے یہ بےہوش ہوگئی ہیں کمزور ہونے کی وجہ سے ان کی خوراک کا خیال رکھا کریں"

ڈاکٹر انیتا محترمہ کو دیکھتے ہوئے بتانے لگی جس پر وہ سر کو خم دے گئی

"میں چلتا ہوں پریشان ہونے کی بات نہیں ہے کچھ دیر تک ہوش آجائے گا"

ڈاکٹر کہتے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور عاقب صاحب انہیں باہر تک چھوڑنے کیلیے بڑھ گئے اوراق کی نظریں ضحیٰ پر تھیں

"ہزار دفعہ بولا ہے ضحیٰ کچھ کھا لیا کرو لیکن مجال ہے جو یہ سن لے"

لیزا فوراً سے ضحیٰ پر ایک نظر ڈالتی کہنے لگی اوراق اسے ایک نظر دیکھ کر خاموشی سے وہی کھڑا رہا 

"کیا پورا دن یہاں کھڑا ہونے کا ارادہ ہے"

لیزا اوراق کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھنے لگی اوراق نے ایک نظر اسے دیکھا وہ اپنی اس کیفیت سے خود بھی انجان تھا وہ بس خاموش رہا۔

ضحیٰ نے پلکوں پر جبنش دی اور آنکھیں کھول کر نظر کمرے میں دوہرانے لگ گئی اوراق انیتا محترمہ اور لیزا کو کمرے میں موجود پاکر وہ پریشان ہوئی۔

"ضحیٰ بچے اب کیسی ہے طبیعت"

انیتا محترمہ نرم لہجے میں محبت سے پوچھنے لگی جس پر وہ انہیں دیکھنے لگ گئی۔

"اچھی ہوں"

ضحیٰ مسکراتے ہوئے جواب دینے لگی وہ سر کو خم دے گئی

"ماسی جائیں ناشتہ لے کر آئیں ضحیٰ کیلیے"

ماسی کو موجود پاکر فوراً سے انیتا محترمہ کہنے لگی وہ اثبات میں سر ہلا کر چلی گئی۔

"مام آپ اسے ناشتہ کروا کر خود بھی باہر آکر کرلیجیۓ گا"

اوراق انیتا محترمہ سے کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گیا اور ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی۔

                             _________________

"ماں میں نے کہا تھا بندوبست کرلے اس لڑکی کا ایک ہی رات میں دیکھو کیسے اپنے پیچھے رکھنے لگی اسے"

عارفہ محترمہ جلتے ہوئے منہ بنائے کہنے لگی ادیبہ بیگم بھی خاموش بیٹھی تھی

"اتنی جلدی نہیں ہوسکتا بندوبست"

ادیبہ بیگم فوراً سے جواب دینے لگی 

"ٹھیک ہے جب وہ اوراق اور بھابی کو سب سچائی بتائے گی پھر بیٹھی رہنا "

عارفہ محترمہ انہیں ڈرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی جس پر وہ خاموش ہو گئی

"اچھا کچھ کرتی ہوں"

ادیبہ بیگم تھوڑا گھبراتے ہوئے کہنے لگی جس پر عارفہ محترمہ فوراً ان کے قریب ہوئی

"شادی کردو اس کی کسی بھی انسان سے جان بھی چھوٹ جائے اور ڈر بھی نہیں رہے گا"

عارفہ محترمہ فوراً سے مشورہ دیتے ہوئے کہنے لگی جس پر ادیبہ بیگم اسے دیکھنے لگ گئی

"کرتی ہوں شمائلہ سے بات"

ادیبہ بیگم سوچتے ہوئے کہتی چائے کا کپ اٹھا گئی عارفہ محترمہ کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

                               __________________

مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد ضحیٰ لان میں کھلی فضاء لینے کیلیے آ گئی وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر آسمان کو دیکھنے لگی 

"کیسی ہے طبیعت"

اوراق کی آواز اپنے عقب سے سن کر وہ ایکدم گھبرائی اور پیچھے کو کھسکی

"انسان ہی ہوں میں"

اوراق اسے اس طرح خوفزدہ دیکھ فوراً سے کہنے لگ گیا ضحیٰ نے ایک نظر اس پر ڈالی 

"نہیں اچانک آنے پر ڈری"

ضحیٰ پلکیں چھپکاتی دوسری طرف دیکھ کر جواب دینے لگی

"طبیعت کیسی ہے"

اوراق نے ایک بار پھر اس سے پوچھا ضحیٰ نے پھر اس پر نظر ڈالی اس کی زندگی میں یہ پہلا شخص آیا تھا جو اس کی طبیعت پوچھ رہا تھا

"بہتر ہوں"

ضحیٰ اسے مختصر سا جواب دے گئی وہ اس کی والی سیڑھی پر اس کے ساتھ آکر بیٹھا اوراق کی بازو ضحیٰ کی بازو سے مس ہوئی ضحیٰ کی ہارٹ بیٹ تیز ہوگئی وہ تھوڑا دور ہو گئی۔

"تم ایسے ہی خاموش طبیعت کی ہو"

اوراق دو منٹ کی خاموشی کے بعد اسے پھر مخاطب کرتا پوچھنے لگا 

"آپ مجھ سے بات کیوں کررہے ہیں"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی اوراق بھی اسے دیکھنے لگا 

"کیا مطلب"

اوراق ناسمجھ والے انداز میں کہنے لگا ضحیٰ نظریں جھکا گئی

"مجھ سے کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا جب آپ بات کررہے ہیں تو پوچھنا تو پڑے گا نا کیوں کررہے ہیں"

ضحیٰ نظریں جھکائے بھیگی آواز میں اسے کہنے لگی اوراق دو پل اسے دیکھتا رہ گیا 

"یوں سمجھو مجھے تم سے بات کرنے کا دل کررہا ہے"

اوراق اسے مسکراتے ہوئے جواب دینے لگا ضحیٰ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا

"میں رونے کی وجہ جان سکتا ہوں"

اوراق اس کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو پاکر فوراً سے پوچھنے لگا

"ضحیٰ ماموں کا فون ہے"

تبھی لیزا وہاں آتی ضحیٰ کو مخاطب کرکے کہنے لگی ضحیٰ کے چہرے پر ایکدم مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ فوراً اٹھ کر اندر کی جانب بھاگی اوراق اور لیزا اسے جاتا دیکھنے لگ گئے

"جب بھی ماموں کا فون آتا ہے وہ اسی طرح خوش ہوتی ہے"

لیزا اوراق کے پاس آتے ہوئے اسے بتانے لگی اوراق نے ایک نظر اسے دیکھا

"تو چاچو اسے اپنے پاس کیوں نہیں رکھتے ؟"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں پوچھنے لگا 

"مجھے نہیں معلوم"

لیزا نفی میں سر ہلا کر اسے بتانے لگ گئی جس پر اوراق سر کو خم دے گیا

"تم کافی ہینڈسم ہوگئے ہو لاسٹ ٹائم ہم چھ سال پہلے سوئٹزرلینڈ ہی ملے تھے تب اتنے نہیں تھے"

لیزا دوستانہ انداز میں اس سے کہنے لگی جس پر وہ بس مسکرایا۔

                            ___________________

"ٹھیک ہے ڈیڈ میں آپ کا ویٹ کروں گی اللہ حافظ"

ضحی کہتے ساتھ فون رکھ گئی ادیبہ بیگم ساتھ ہی کھڑی تھی فون بند ہوتے ہی وہ وہاں سے چلی گئی اور ضحیٰ انہیں جاتا دیکھ پانی پینے کیلیے کچن کی جانب بڑھ گئی 

پانی پی کر کچن سے باہر نکلتی ٹی وی لاؤنچ میں داخل ہوئی اچانک لائٹ چلی گئی اور پورے گھر میں اندھیرا سا چھا گیا ضحی کے بڑھتے قدم ایکدم رکے اس نے نظریں ارد گرد گھمائی ہر جگہ اندھیرا پھیل گیا تھا وہ ایکدم خوفزدہ سی ہوگئی ماتھے پر پسینہ آنے لگا ہاتھ پیر پھول گئے وہ کپکپاتے وجود کے ساتھ ساکت سی خوفزدہ نظریں لیے کھڑی تھی تبھی اچانک قدموں کی آواز پر اس کا خوف مزید بڑھ گیا

"ممم۔۔۔۔میرے پاس مت آنا سمجھیں۔۔۔۔ تم ورنہ میں چیخوں گی"

ضحی کانپتے ہونٹوں سے ہمت لیے خوفزدہ سی اسے دھمکی دینے لگی جب وہ اس کے عقب میں آکر کھڑا ہوا اس کی سانسوں کی گرم تپش اپنی گردن پر محسوس کرتی وہ سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگ گئی اس کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر رخسار پر گرے سانس روکے وہ آنسو بہانے لگی 

"مت چھونا مجھے مت چھونا پلیززز نہیں نہیں"

ضحی آنسو بہاتی خوف سے اسے روکنے کی کوشش کرنے لگی پیچھے موجود شخص پریشان نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اچانک ضحیٰ کے رونے میں تیزی آ گئی 

"میرے قریب مت آنا پلیزززززز میں تمہارے آگے"

ضحی روتے ہوئے آنکھیں بند کیے سسک کر بےبسی سے بول رہی تھی

"ضحی پاگل ہو تم ہاں"

اوراق اسے جھنجوڑ کر ہوش میں لاتا تھوڑا سرد لہجے میں کہنے لگا وہ اچانک آنکھیں کھول کر آواز پہچاننے کی کوشش کرنے لگی 

"ریلیکس میں ہوں اوراق کوئی نہیں ہے تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے"

اوراق اس کے قریب چہرہ لائے اس کے کان میں جھک کر سرگوشیانہ انداز میں بولتا اس کی دھڑکنیں بےترتیب کرگیا اس میں سے قلون کی آتی خوشبو ضحی کی دھڑکنیں مزید تیز کر گئی وہ اس کے چہرے پر نظریں جھکائے ہوئے تھی جبکہ وہ اسے نارمل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔

اچانک ٹی وی لاؤنچ روشن ہوگیا اور ضحیٰ نے اس سے نظریں ہٹا کر ارد گرد دیکھا وہ اس سے دور ہوتی فوراً سے اندر کی جانب بڑھ گئی اوراق اسے جاتا دیکھنے لگ گیا ضحیٰ کا یہ عمل اوراق کے ذہن میں بہت سے سوال پیدا کر گیا تھا اوراق اس کے کمرے کی جانب نظریں کیے ہوئے تھا۔

سب نے مل کر رات کا ڈنر کیا ضحیٰ ہمیشہ کی طرح وہاں موجود نہیں تھی

ڈنر کرنے کے بعد لیزا اوراق کے کمرے کی جانب بڑھی اور دروازہ ناک کیا 

"آجاؤ"

بھاری آواز جیسے ہی کانوں سے ٹکرائی وہ مسکراتے ہوئے اندر آ گئی

"اوراق آئسکریم کھانے چلیں"

لیزا اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی اوراق نے مڑ کر اسے دیکھا

"ٹھیک ہے ضحیٰ کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں"

اوراق فوراً سے ہامی بڑھتے ہوئے بولا لیزا اسے دیکھنے لگ گئی

"وہ نہیں جائے گی"

لیزا فوراً سے اسے بتانے لگی اوراق کمرے سے باہر آ گیا لیزا بھی اس کے پیچھے آئی 

"پوچھنے میں کیا حرج ہے"

اوراق اسے سنجیدگی سے بولتا زینے اتر کر نیچے آیا لیزا خاموشی سے اس کے پیچھے آنے لگی 

ٹی وی لاؤنچ میں ادیبہ بیگم عارفہ محترمہ اور انیتا محترمہ بیٹھی باتیں کررہی تھی

"مام میں لیزا اور ضحیٰ آئسکریم کھانے جارہے ہیں "

اوراق انیتا محترمہ کو دیکھتے ہوئے بتانے لگا ادیبہ بیگم نے اسے دیکھا

"نہیں ضحیٰ نہیں جائے گی"

ادیبہ بیگم فوراً سے بولتی انیتا محترمہ اور اوراق کو خود کو دیکھنے پر مجبور کر گئی 

"کیوں دادی؟"

اوراق آئبرو اچکائے فوراً سے پوچھنے لگا جس پر ادیبہ بیگم گھبرائی

"نہیں میرا مطلب جاتی نہیں ہے نا بدتمیزی کرے گی تم سے خوامخواہ بہت بدتمیز ہے"

ادیبہ بیگم فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے بات گھما کر کہنے لگی ۔

"بدتمیزی کرے گی تو میں ہینڈل کرلوں گا"

اوراق انہیں صاف انداز میں جواب دینے لگا لیزا اور اوراق ضحیٰ کے کمرے کی جانب بڑھ گئے اور ادیبہ بیگم بس منہ ہی بنا کر رہ گئی

وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو ضحیٰ عشاء کی نماز ادا کررہی تھی اوراق نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی اس کے چہرے سے صاف واضح تھا کہ وہ بہت دیر سے مسلسل رو رہی ہے

"ضحیٰ ہمارے ساتھ آئسکریم کھانے چلو"

اوراق سینے پر بازو باندھے اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے کہنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"آئسکریم کھانے"

ضحیٰ اوراق کی جانب دیکھتی کچھ حیران سی بولی جس پر وہ سر کو خم دے گیا 

"پر دادی"

ضحیٰ نے کچھ بولنے کیلیے لب کھولے اوراق نے اسے ٹوک دیا 

"دادی سے پرمیشن لے لی ہے میں نے"

اوراق فوراً سے اسے بولا جس پر وہ خاموش ہوگئی۔

وہ تینوں آئسکریم پارلر موجود تھے ضحیٰ تھوڑی تھوڑی ڈری ہوئی تھی اوراق اس کے چہرے پر موجود ہر تاثر پر بہت غور کررہا تھا

"میں اسٹابری کھاؤں گی"

لیزا فوراً سے اوراق کو بتانے لگی ضحیٰ خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی تھی

"ضحیٰ تم کون سا فلیور کھاؤ گی؟"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے نارمل انداز میں پوچھنے لگا ضحیٰ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا

"چاکلیٹ"

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے جواب دیا۔

"اوہ مریم"

لیزا کی نظر اپنی دوست پر گئی تو وہ فوراً سے مسکرا کر کہنے لگی 

"ایسکیوز می میں ابھی آتی ہوں"

لیزا کہتے ساتھ اٹھ  کر وہاں سے چلی گئی اوراق ایک نظر اسے جاتا دیکھ کر ضحیٰ پر واپس نظریں جما گیا 

"کتنے وقت بعد باہر نکلی ہو"

اوراق نے ایک اور سوال ضحیٰ سے پوچھا 

"چار سال کی تھی تب"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے اسی کے انداز میں جواب دے گئی اوراق کو واقع حیرانگی ہوئی اسوقت اس کی عمر انیس سال تھی

"اس کے بعد کبھی نہیں نکلی "

اوراق بےیقینی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ضحیٰ نفی میں سر ہلا گئی

"گھومنے کیلیے آخری بار چار سال کی عمر میں آئی تھی لیکن کالج آتی جاتی تھی لیکن بس کالج کالج سے گھر"

ضحیٰ فوراً سے اسے دیکھتی لہجے میں ناچاہتے ہوئے اداسی سجائے کہنے لگی جس پر وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔

"شکر ہے ضحیٰ تم باہر نکلی ورنہ جب بھی میں نے تمہیں کہا تم ڈرتی رہتی تھی "

لیزا اس کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی اوراق جیسے جیسے اس کے متعلق جان رہا تھا وہ بس پریشان یا حیران ہورہا تھا۔

آئسکریم کھانے کے بعد وہ لوگ واپس گھر کیلیے چل دیے

                              _________________

رات کے پہر سب لوگ اپنے کمرے میں سونے کیلیے چل دیے تھے اوراق اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا ضحیٰ کے متعلق سوچ رہا تھا لائٹ جانے پر اس کا ری ایکشن پھر باہر جانے پر اس قدر گھبرانا اسے سوچ میں مبتلا کر گیا تھا کمرے میں عجیب سا محسوس کرتا وہ لان میں جانے کا سوچنے لگا وہ کمرے سے باہر نکل کر نیچے آیا تو نظر عاقب صاحب پر گئی جو اپنے کمرے سے باہر نکل رہے تھے

"انکل آپ اسوقت"

اوراق انہیں باہر موجود دیکھ پوچھے بغیر نہ رہ سکا

"بس بیٹا وہ دل عجیب سا ہورہا تھا نیند بھی نہیں آرہی تو سوچا کچھ دیر لان میں چہل قدمی کرلوں"

عاقب صاحب اوراق کو دیکھتے ہوئے بتانے لگے 

"یہ تو اچھا ہے میں بھی وہی جارہا ہوں کمپنی مل جائے گی"

اوراق انہیں دیکھتے ہوئے دوستانہ انداز میں بولا جس پر وہ مسکرادیے اور وہ دونوں لان کی جانب بڑھ گئے 

اوراق اور عاقب صاحب ڈیڑھ گھنٹہ ٹہلتے ہوئے مسلسل بات چیت کررہے تھے

"عاقب بہت دیر ہوگئی ہے صبح آفس بھی جانا ہے آکر سوجائیں"

تبھی عارفہ محترمہ آتی عاقب صاحب کو مخاطب کیے بولی جس پر وہ اوراق کو دیکھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے اوراق بھی سونے کیلیے چلا گیا۔

                         ___________________

ہمیشہ کی طرح صبح وہ ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھی اور سب لوگ موجود تھے 

"وحید آرہا ہے آج کل فون پر بتایا تھا اس نے"

ادیبہ بیگم کی بات پر ضحیٰ کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اوراق کی نظر فوراً اس پر گئی اسے یہاں آئے تین دن گزر گئے تھے اس نے ضحیٰ کو دوسری بار مسکراتا پایا تھا پہلی بار اس کے والد کی کال پر اور دوسری ان کی آمد پر ضحیٰ کی نظر اس پر گئی خود کو پاتا دیکھ وہ فوراً پلکیں چھپکا گئی اور وہاں سے جانے لگی 

"ضحیٰ بیٹا ہمارے ساتھ بیٹھو ناشتہ کرو"

انیتا محترمہ کی بات پر اس کے بڑھتے قدم رکے اس نے مڑ کر انہیں دیکھا اور پھر ادیبہ بیگم پر نظر ڈالی جو قہر برسی نگاہ اس پر ڈالے ہوئے تھیں

"نہیں میں نے کرلیا ہے"

ضحیٰ چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے نرم لہجے میں جواب دیتی وہاں سے چلی گئی 

سب لوگ خاموشی سے ناشتہ شروع کر گئے۔

کچھ دیر بعد وحیدر صاحب پہنچ چکے تھے اور ضحیٰ انہیں دیکھ کر بہت خوش تھی باری باری سب ان سے ملے تھے 

دوپہر کے کھانے میں وحید صاحب کیلیے خاص کھانے کا انتظام تھا کھانا کھانے کے بعد سب لوگ ٹی وی لاؤنچ میں موجود تھے اور گپ شپ کررہے تھے

"میرا یہاں آنے کا خاص مقصد ہے"

وحید صاحب ضحیٰ کو اپنے پاس بٹھائے سب کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے

"کیا مقصد؟"

ادیبہ بیگم فورا سے وحید صاحب سے پوچھنے لگی 

"میری بیٹی کی اب شادی کی عمر ہے تو میں نے سوچا اس کی شادی کردی جائے بہت اچھا رشتہ ہے "

وحید صاحب مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگ گئے جس پر ضحیٰ سمیت سب نے حیرت سے انہیں دیکھا ضحیٰ کے چہرے ایکدم خوف سا چھانے لگا وہ گھبراتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آ گئی

ضحیٰ کمرے میں آتی پریشان سی باتوں کو سوچ رہی تھی وہ شادی کیلیے ہرگز تیار نہیں تھی 

"یہ تو بہت اچھا سوچا تصویر تو دیکھاؤ ذرا ہمیں"

ادیبہ بیگم خوشی سے وحید صاحب کو دیکھتی کہنے لگی وحید صاحب نے جیب سے فون نکالا اور اس کی تصویر نکال کر دیکھائی اوراق نے بھی فون پر نظر ڈالی ایک اچھی خاصی عمر کا آدمی تھا اوراق نے ایک نظر وحید صاحب پر ڈالی اور اٹھ کر ضحیٰ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا 

                            _________________

ضحیٰ کی نظر اوراق پر گئی  جو سرد نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا

"ایک بات بتاؤ"

اوراق اس کے قریب آتا اسے دیکھ کر کہنے لگا ضحیٰ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی

"جی"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی 

"تم کسی بھی انسان سے شادی کرلو گی جسے آج تک نہ تم نے دیکھا ہوگا نہ بات کی ہوگی ہاں"

اوراق حیران سا اس سے پوچھنے لگ گیا 

"میرے ڈیڈ نے پسند کیا ہے میرے لیے "

ضحیٰ اوراق کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دینے لگی اوراق اس کی معصومیت پر سر پیٹ کر رہ گیا 

"ضحیٰ بےشک تمہارے ڈیڈ نے تمہارے لیے پسند کیا تمہیں پتہ بھی ہے وہ اپنی عمر جتنے شخص سے تمہاری شادی کررہے ہیں تم کرلو گی"

اوراق اسے حیرانگی سے دیکھتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگا

"آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ایسا نہیں ہوگا"

ضحیٰ اس کی بات پر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی اوراق اسے دیکھ رہا تھا

"آپ یہ سب کیوں کررہے ہیں کیوں مجھے بتانے آرہے ہیں "

ضحیٰ فوراً سے اسے دیکھتی خفگی سے پوچھنے لگی 

"مجھے تمہاری فکر ہے ضحیٰ "

اوراق اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے اسے صاف لفظوں میں بول گیا ضحیٰ اسے دیکھنے لگی 

"آپ کوئی نہیں ہوتے میری فکر کرنے والی میری فکر مت کریں اور میں تو خوش ہوں میری اس گھر سے جان چھوٹ"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے جلد بازی میں بولتی ایکدم خاموش ہوئی اوراق اسے دیکھنے لگا

"آپ جائیں یہاں سے پلیزز"

ضحیٰ اسے باہر کی جانب جانے کا اشارہ کرنے لگ گئی اوراق خاموشی سے چلا گیا..

                             __________________

"شکر ہے ماں جان چھوٹ رہی ہیں آپ کی اور میری ورنہ دیکھا ہے نا تین دن میں اوراق کو اپنے پیچھے لگا لیا جتنی معصوم بنتی ہے اتنے ہے نہیں"

عارفہ محترمہ ادیبہ بیگم کے پاس بیٹھی شکر ادا کرتی بولی جس پر ادیبہ بیگم مسکرادی 

"صحیح بول رہی ہے بلکل لیکن اب تو جان چھوٹ رہی ہے نا اس سے اور میں نے لڑکا دیکھا ہے وحید سے دو تین سال چھوٹا ہی ہوگا"

ادیبہ بیگم ہنستے ہوئے عارفہ محترمہ سے کہنے لگی جس پر وہ بھی ہنس دی 

تبھی وحیدر صاحب ان دونوں کے پاس آکر بیٹھے 

"بہت اچھا سوچا ہے تم نے اپنی بیٹی کیلیے کب کرنی ہے شادی"

ادیبہ بیگم انہیں بیٹھا دیکھ فوراً سے پوچھنے لگ گئی جس پر وحید صاحب نے انہیں دیکھا

"اسی جمعے کو نکاح کردوں گا"

وحید صاحب فوراً سے بتانے لگ گئے جس پر ادیبہ بیگم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

"بلکل صحیح نیک کام میں دیری کیسی"

ادیبہ بیگم مسکراتے ہوئے بولی وحید صاحب اور عارفہ بھی مسکرا دیے۔

اگلے دن وحید صاحب ضحیٰ کو نکاح کی شاپنگ کروانے کیلیے چل دیے ضحیٰ اوراق کی باتوں کو سوچ رہی تھی لیکن اگلے پل وہ اس گھر میں گزرا اپنا وقت یاد کرتی اپنے والد کے فیصلے پر رضامند ہوگئی اور خاموشی سے اپنے ڈیڈ کے ساتھ شاپنگ کرنے لگ گئی۔

شاپنگ کروانے کے بعد انہوں نے ضحیٰ کو اچھے سے ریسٹورنٹ سے کھانا کھلایا اور پھر وہ لوگ واپس گھر آ گئے 

گھر میں تیاریاں ضحیٰ کے نکاح کی تیاریاں ہورہی تھی وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی اچانک یہ سب ہونا اسے حیران اور پریشان ضرور کررہا تھا مگر اب وہ اس قید خانے سے رہائی چاہتی تھی

اوراق خاموشی سے سب تیاریوں کو ہوتا دیکھ رہا تھا اس نے ضحیٰ سے بات کرنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن ضحیٰ نے اس کی نہیں سنی تھی مگر وہ اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونا دینا چاہتا تھا کیوں اس بات سے وہ خود بھی انجان تھا 

اوراق نے جیب فون نکال کر نمبر ڈائل کیا اور فون کان سے لگا گیا 

"مجھے دو آدمی چاہیے ہیں"

اوراق کہتے ساتھ فون بند کرتا لبوں پر مسکراہٹ سجا گیا

جمعہ کا دن تھا اور آج نکاح ہونا تھا اور گھر میں نکاح کی تقریب کے انتظام ہورہے تھے اور ان میں بڑھ چڑھ کر اوراق بھی حصہ لے رہا تھا وہ باہر خوفزدہ چہرہ لیے کپکپاتے وجود کے ساتھ خاموش بیٹھی اوراق کو پریشان سی دیکھ رہی تھی جو کل اسے اس نکاح سے منع کررہا تھا اور آج اسی نکاح کا انتظام کررہا تھا۔

نماز کے بعد گھر میں سادگی سے نکاح کی تقریب رکھی گئی تھی جس میں صرف گھر کے لوگ ہی موجود تھے۔

"لیزا جاؤ بیٹا ضحیٰ کو کمرے میں لے جاؤ اور اسے تیار کرواؤ"

انیتا محترمہ ہریرا کو مخاطب کرتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی

"جی اچھا ممانی"

لیزا اسے کہتے ساتھ ضحیٰ کا ہاتھ تھامتی اسے کمرے میں لے جانے لگی۔

"ضحیٰ تم ڈریس چینج کرلو پھر تمہارا میک ایپ کرتی ہوں "

وہ اسے ڈریس تھماتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی جس پر ضحیٰ خاموشی سے اس کے ہاتھ سے ڈریس لیتی چینج کرنے کیلیے چلی گئی

کچھ دیر بعد وہ سفید رنگ کے ڈریس میں ملبوس جس پر نفیس سا کام ہوا ہوا تھا سیاہ بال کھلے ہوئے پشت پر پھیلے ہوئے تھے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے ڈریسنگ کے سامنے موجود کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔

لیزا اسے لائٹ سا میک ایپ کرکے تیار کرنے لگ گئی تیار کرنے کے بعد ضحیٰ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا سفید رنگ کے ڈریس میں لائٹ سے میک ایپ ہونٹوں پر ریڈ لپسٹک لگائے جیولری پہننے ائیر رنگز پہنے وہ بہت ہی حسین لگ رہی تھی مگر چہرہ بجھا بجھا سا رہا تھا

"تم بہت پیاری لگ رہی ہو ضحیٰ"

لیزا اس کا عکس مرر میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگی ضحیٰ بمشکل لبوں پر مسکراہٹ سجا گیا 

                              ___________________

سب لوگ تیار ہو چکے تھے نکاح شروع ہونے والا تھا تبھی ضحیٰ انیتا محترمہ اور عارفہ محترمہ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے چلتے ہوئے باہر کی جانب آئی اس کی نظریں سامنے گئی سامنے بیٹھے اچھی خاصی عمر آدمی کو دیکھ وہ اپنے والد کو دیکھنے پر مجبور ہوگئی تھی ایسا تو کوئی غیر کے ساتھ بھی نہیں کرتا جو اس کا اپنا باپ اس کے ساتھ کرنے جارہا تھا اسے اپنے وجود سے مزید نفرت سی ہونے لگ گئی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے اسٹیج کی جانب بڑھنے لگی اوراق کی نظر اس پر گئی سفید رنگ کے جوڑے میں وہ اسوقت حسین لگ رہی تھی کہ اوراق کی اس پر سے نظر ہٹانا بےحد مشکل ہورہا تھا وہ اسٹیج پر آئی اور سامنے بیٹھ گئی وحید صاحب کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجی ہوئی تھی ضحیٰ نے ادیبہ بیگم اور عارفہ محترمہ کی جانب دیکھا جو بےحد خوش نظر آرہی تھی مگر قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔

"مولوی صاحب نکاح شروع کریں"

وحید صاحب مولوی صاحب کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے جس پر وہ سر کو خم دیتے نکاح شروع کرنے لگے۔

"ضحی وحید ملک آپ کا نکاح"

مولوی صاحب ابھی بول رہے تھے جب کسی نے بیچ میں ٹوکا۔

"کوئی نکاح نہیں ہورہا ہے آپ جاسکتے ہیں"

وہ مولوی صاحب کو گن دیکھاتے ہوئے باہر کی طرف اشارہ کرتا بولا جس پر مولوی صاحب سمیت وہاں موجود سب لوگ گھبرا گئے۔

"کیا بدتمیزی ہے یہ"

وحید غصے سے اس کے پاس آکر کہنے لگے اوراق نے انہیں دیکھا اور داڑھی پر اپنا ہاتھ پھیرا۔

"ہمت کیسے ہوئی"

وہ وحید صاحب کو دیکھتے ہوئے سرد لہجہ اختیار کیے آنکھوں میں سرخی لیے پوچھنے لگا وحید صاحب اسے دیکھنے لگے۔

"بیٹی ہے میری"

وہ بھی لہجے میں سختی لیے اسے بتانے لگے ضحیٰ پریشانی سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔

"اور بیوی ہے میری"

وہ ضحیٰ پر ایک نظر ڈال کر وحید صاحب سے کہنے لگے جس پر وحید صاحب کو حیرانگی اور غصہ دونوں آیا نہ صرف وحید صاحب بلکہ وہاں موجود ہر شخص کو حیران کر گیا۔

"میری بیٹی کا سوچا بھی نہ تو تیرا حشر بگاڑ دوں گا"

وہ غصے سے تیش میں چیخے وہ  آنکھوں کی سرخ مزید گہری کرتا انہیں دیکھنے لگا۔

"غصہ کم سسر جی بی پی ہائے ہوجائے گا"

وہ سنجیدہ تاثرات سجائے وحید صاحب سے کہتے ساتھ گن دیکھاتا اسٹیج کی طرف بڑھا 

سب ایک دم کھڑے ہوگئے اور پریشانی سے اسے دیکھنے لگے۔

"اگر آپ کی بیٹی ہے تو ?

اگر آپ کی بیٹی ہے تو میری امانت ہے"

ضحیٰ کا ہاتھ مضبوطی سے اپنی گرفت میں لیتا وہ وحید  صاحب سے کہتے ساتھ اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا سب بس پریشان سے دیکھ رہے تھے۔

"اوراق یہ سب کیا ہے"

انیتا محترمہ پریشان سی اسے دیکھتی کہنے لگی

"مام میں بعد میں بتاتا ہوں"

"وحید صاحب کیا آپ نے میری بےعزتی کرنے کیلیے مجھے یہاں بلایا ہے ہاں"

عظمت صاحب غصے سے کھڑے ہوتے وحید صاحب کو مخاطب کرتے پوچھنے لگے وحید صاحب جواباً خاموش رہے۔

"میں آپ کے ساتھ ہوئی ہوئی ڈیل کو کینسل کرتا ہوں"

عظمت صاحب سرد لہجے میں کہنے لگے ضحیٰ کو اوپر پہاڑ سا ٹوٹا وہ بےیقینی سے وحید صاحب کو دیکھنے لگی اس کا باپ اسے بیچ رہا تھا اس نے مڑ کر اوراق کو دیکھا جو اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔

"بےشرم لڑکی شرم آنی چاہیے توبہ ہے پہلے تیری ماں نے بھی میرے بیٹے کو اپنے جال میں پھنسایا اور تو نے بھی اپنے باپ کی عزت کا جنازہ نکال دیا"

ادیبہ بیگم غصے سے ضحیٰ کی طرف بڑھ کر اسے بالوں سے پکڑ کر اسے چیخ کر کہنے لگی ضحیٰ کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگ گئے اوراق نے فوراً ادیبہ بیگم کا ہاتھ تھاما اور ضحیٰ کو اپنے پیچھے چھپایا

"دادی بس اب نہیں اب آپ اس کے ساتھ کچھ بُرا نہیں کرسکتی ہیں میری بیوی ہے اب یہ اور اگر کسی نے میری بیوی پر نظر بھی ڈالی تو میں کوئی لحاظ نہیں کروں گا"

اوراق ادیبہ بیگم کو دیکھتے ہوئے انتہائی سرد لہجے میں کہنے لگا۔

"واہ میاں ہمارے گھر میں کھڑے ہوکر ہمیں ہی گنڈہ گردی دیکھا رہے ہو"

عاقب صاحب بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے غصے سے کہنے لگے ضحیٰ اوراق کے پیچھے خوفزدہ سی کھڑی تھی۔

"صحیح کہ رہے ہیں آپ مام اور تم پیکنگ کرو ہم لوگ جارہے ہیں"

اوراق عاقب صاحب پر نظریں مرکوز کیے بولا انیتا محترمہ اور ضحیٰ اسے دیکھنے لگ گئی۔

"ممم۔۔ممیں"

ضحیٰ اوراق کی جانب دیکھتی گھبراتے ہوئے پوچھنے لگی اوراق نے نظر گھما کر اسے دیکھا

"ظاہری سی بات زوجہ محترمہ آپ میری بیوی ہیں جہاں میں آپ وہاں "

اوراق انتہائی نرم لہجے میں اس پر نظریں مرکوز کیے کہنے لگا ضحیٰ شرمندگی سے نظریں جھکا گئی ادیبہ بیگم عارفہ محترمہ اور ہریرا کو شدید غصہ آیا وہ سرد نگاہوں سے اسے دیکھنے لگ گئے

"نہیں نہیں اماں کو بس غصہ آ گیا ہے آپ لوگ جب تک گھر کا انتظام نہیں ہوتا یہاں رہ سکتے ہیں"

عارفہ محترمہ فوراً سے اوراق اور انیتا محترمہ کے پاس آتے ہوئے کہنے لگ گئی جس پر ادیبہ بیگم عاقب صاحب لیزا حیران ہوئے۔

"کوئی نکاح نہیں ہورہا ہے سب لوگ یہاں سے چلے جائیں "

اوراق سب لوگوں پر نظر ڈالتا انہیں بولا سب لوگ آہستہ آہستہ وہاں سے جانے لگ گئے۔

اوراق سب کو نظر انداز کرتا ضحیٰ  کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں لیتا وہاں سے اسے لے جانے لگا ہر کوئی اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔

                             ________________

اوراق اسے اپنے کمرے میں لایا اور بیڈ پر بٹھایا ضحیٰ بیڈ بیٹھی آنسو بہانے میں مصروف تھی۔

"اب تم یہاں سے مت ہلنا اور رونا بند کرو"

اوراق اسے انگلی دیکھا کر تھوڑے سخت لہجےمیں بولا جس پر وہ گھبرا کر اثبات میں سر ہلا کر سر مزید جھکا گئی اوراق کمرے سے باہر کی جانب آیا۔

اوراق انیتا محترمہ کے کمرے میں آیا جو وہاں پریشان کھڑی تھی

"یہ سب کیا ہے اوراق"

انیتا محترمہ اسے پریشان سی دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔

"آپ نے دیکھا نہیں مام آپ کے بھائی کیسے انسان سے اس کا نکاح کروا رہے تھے"

اوراق انیتا محترمہ کو دیکھتے ہوئے بولا 

"بیٹا وہ اس کی بیٹی ہے اس کی مرضی جو کرے"

انیتا محترمہ اسے دیکھتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کرنے لگ گئی

"نہیں مام جو غلط ہے وہ غلط اور میں نے شادی تو کرنی تھی آج نہیں تو کل پھر وہ آپ کے بھائی کی بیٹی ہے"

اوراق فوراً سے انیتا محترمہ کو جواب دینے لگا جس پر وہ خاموش ہوگئی

"ایسا نہیں ہے بیٹا مجھے اس بچی سے کچھ نہیں ہے لیکن یہ سب جو ہوا وہ غلط ہے بیٹا یہ سب ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا لوگ قبول نہیں کریں گے اس رشتے کو"

انیتا محترمہ اسے ایک پھر سے سمجھانے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر اوراق تو کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا

"مجھے کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کو قبول ہے نا میرے لیے بہت ہے نام"

اوراق انہیں سنجیدگی سے بولا جس پر وہ سر کو خم دے گئی

"اور دنیا کی باتوں کا سامنا میں خود کروں گا اب کوئی ضحیٰ کو کچھ نہیں بول سکتا ہے کیونکہ میں ہوں محافظ اب اس کا"

"آپ سوجائیں اب پریشان نہ ہو کچھ نہیں ہوگا"

اوراق انہیں دھیمے لہجے میں کہتے ساتھ کمرے سے چلا گیا وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی۔

"ٹھیک کہتی تھیں آپ مام وہ شکل پر معصومیت کا نقاب لپیٹا ہوا تھا وہ جتنی معصوم بنتی ہے اتنی ہے نہیں دیکھیں اس نے اوراق کو فوراً ہی مجھ سے چھین لیا"

لیزا روتے ہوئے عارفہ محترمہ کو دیکھتی بولی وہ پریشان سی اسے دیکھنے لگ گئی

"اور آپ نے کیوں گھر میں رکھا ہے "

لیزا انہیں دیکھتے ہوئے نم آنکھوں سے خفگی سے بولی جس پر عارفہ محترمہ کے چہرے پر شاطر مسکراہٹ سجا گئی

"رونے کی ضرورت نہیں ہے میری بچی میں نے انہیں کسی خاص مقصد سے یہاں روکا ہے میری بیٹی"

عارفہ محترمہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی لیزا انہیں دیکھتی رہی۔

                              ___________________

اوراق کمرے میں واپس آیا اور نظر ضحیٰ پر کوئی وہ بلکل اسی طرح بیٹھی تھی جیسے وہ اسے چھوڑ کر گیا 

"تم سب کی بات ایسے ہی مانتی ہو"

اوراق کی آواز پر ضحیٰ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اوراق کی نظریں اسی پر مرکوز تھیں

"کک۔۔ککیا مطلب"

ضحیٰ پریشان سی اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی اوراق کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی

"آپ کو شرم آنی چاہیے آپ کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے دادی پھوپھو سب کتنا ناراض ہورہے تھے"

ضحیٰ اپنے ہاتھوں سے آپس میں کھیلتے ہوئے پریشان سی اسے دیکھ کر بتانے لگ گئی اوراق اسے سن رہا تھا

"تمہارا میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے اس آدمی سے تمہاری جان چھڑوا کر اتنے ہینڈسم نوجوان سے تمہارا نکاح ہوا ہے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے شوخیہ لہجے میں بولا ضحیٰ بس اسے دیکھتی رہ گئی جو بےحد پرسکون تھا۔

(رات کے پہر اوراق ضحیٰ کے کمرے میں آیا رات کے پہر اسے دیکھ کر ضحیٰ کو حیرانگی ہوئی۔

"میرے ساتھ چلو"

اوراق ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے کہنے لگا ضحیٰ اسے پریشان سی دیکھنے لگی۔

"ککک۔۔۔ککہاں"

ضحیٰ کپکاتے لبوں سے اسے دیکھتی پوچھنے لگ گئی۔

"بس چلو تم"

اورااق اسے دیکھتے ہوئے تھوڑا سختی سے کہنے لگا ضحیٰ نفی میں سر ہلا گئی

"میں نے جاؤں گی وہ بھی اتنی رات کو"

ضحیٰ خوفزدہ سی اسے منع کرتی دور ہونے لگی اوراق اسے دیکھنے لگ گیا۔

"ضد مت کرو میرے ساتھ چلو تمہارے لیے کررہا ہوں کچھ غلط نہیں کررہا ہوں"

اوراق اسے اب کی بار تھوڑا سرد لہجے میں بولا ضحیٰ سہم گئی اور ڈر کر اس کے ساتھ چل دی 

اوراق اسے اپنے ساتھ ایک مسجد میں لے آیا جہاں دو لوگ موجود تھے وہ پریشان سی اوراق کو دیکھ رہی تھی

"اوراق آپ کہاں لائے ہیں مجھے یہ کیا کررہے ہیں آپ"

ضحیٰ اوراق کو دیکھتے ہوئے بہت پریشانی سے پوچھنے لگی 

"مجھ سے نکاح کرو گی"

اوراق اس کے آگے ہتیھلی پھیلائے پوچھنے لگا ضحیٰ اسے دیکھنے لگ گئی

"آآآ۔۔۔آپ کیا بول رہے ہیں"

ضحیٰ حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی اوراق آگے بڑھ کر اس کے سر پر دوپٹے کرنے لگا ضحیٰ اسے بس دیکھ رہی تھی

"میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے کہنے لگا ضحیٰ بس خاموشی سے اسے دیکھتی رہ گئی اور ضحیٰ بس خاموشی سے اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور دونوں کا نکاح ہوگیا۔

ضحیٰ اوراق پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھی اوراق نے اس کے سامنے چٹکی بجائی وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور نظریں جھکا گئی۔

”بھوک لگی ہے کیا تمہیں ؟“

اوراق اسے دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں پوچھنے لگا ضحیٰ نے اثبات میں سر ہلا دیا ضحیٰ نے صبح بس ناشتہ کیا تھا اس کے بعد اسے کچھ اور کھانے کا نہ تو وقت ملا تھا اور نہ کسی نے لاکر دیا تھا۔

”میں ہم دونوں کیلیے کچھ کھانے کیلیے لاتا ہوں“

اوراق اسے کہتے ساتھ اٹھ کر واپس کمرے سے باہر سے آیا جہاں انیتا محترمہ نیچے کی جانب بڑھ رہی تھی

”مام میرے اور ضحیٰ کیلیے کھانا روم میں بھجوا دیں "

اوراق کی آواز پر انیتا محترمہ نے پلٹ کر اسے دیکھا جس پر وہ سر کو خم دیتی نیچے کی جانب بڑھ گئی۔

اوراق واپس کمرے میں آیا تو ضحیٰ بیڈ پر ہی بیٹھی تھی اوراق کو واپس آتا دیکھ وہ پریشان ہوئی۔

"مام کھانا لارہی ہیں تب تک تم ایزی ہوجاؤ کپڑے چینج کرلو"

اوراق اس کے کپڑوں پر نظر ڈالتے ہوئے بولا جس پر ضحیٰ سر کو خم دیتی وہی بیٹھے ہوئے ائیر رنگز اتارنے لگ گئی مگر جلدی اور کنفوثن میں ائیر رنگز نہیں اتر رہے تھے اوراق اپنا ہاتھ اس کے کان کے جانب لے جاتے ہوئے نرمی سے کان سے ائیر رنگ اتار گیا ضحیٰ اپنی سانس روکے نظریں جھکا گئی گال سرخ ہونے لگ گئے اوراق نے دوسرے کان کا ائیر رنگ بھی بہت نرمی سے اتار دیا اور نظر ضحیٰ کے چہرے جس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا وہ اس کی جانب تھوڑا کھسکتا اپنے ہاتھ اس کی گردن پر لے گیا اس کی خوشبو ضحیٰ کے ناک سے ٹکرائی تو ضحیٰ ہمیشہ کی طرح بےبس سی ہوگئی اس نے آنکھیں زور سے میچ لی اور ہاتھوں کا دباؤ ٹانگوں پر دینے لگی اوراق نے اس کے نیکلیس کی ڈوری کھولنے کیلیے چہرہ اس کے چہرے کے قریب کیا جیسے ہی داڑھی ضحیٰ کی گال سے چھوئی ضحیٰ کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی ڈوری کھولتا وہ اس کی گردن سے نیکلیس الگ کرنے لگا اور نظریں اس کے چہرے پر مرکوز کرگیا اس کے چہرے کے ہر نقوش کو غور سے دیکھنے لگا ضحیٰ آنکھیں ںند کیے تیز ہوتی ہارٹ بیٹ کے ساتھ بےبس سی بیٹھی تھی اس کا وجود ہلکا ہلکا کپکپا رہا تھا اوراق کی نظر اس کے ہونٹوں پر گئی اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تبھی دروازے پر دستک ہوئی اوراق نے دروازے پر نظر ڈالی جو کوئی بھی تھا اسے اس کا آنا ناگوار گزار تھا مگر اٹھ کر خاموشی سے دروازے کی جانب بڑھ گیا ضحیٰ نے سکھ کا سانس لیا اور چینج کرنے کیلیے وہ اٹھ کر باتھروم کی جانب بڑھ گئی 

"ممانی نے کہا ضحیٰ اور اوراق کیلیے کھانا لے جاؤ تو میں نے سوچا میں کیوں نہ لے آؤ"

لیزا ہاتھ میں ٹرے لیے اوراق کو دیکھ چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولی جس پر اوراق نے اسے اندر آنے کیلیے جگہ دی۔

"شکریہ"

لیزا نارمل انداز میں اوراق سے کہتے ساتھ اندر کی جانب آ گئی "ضحیٰ کہاں ہے؟"

لیزا ضحیٰ کو موجود نہ پاکر فوراً سے پوچھنے لگی 

"چینج کرنے گئی ہوگی"

اوراق اسے سپاٹ انداز میں جواب دینے لگ گیا لیزا نے ایک نظر اسے دیکھا سیاہ شلوار قمیض میں وہ اسوقت بہت ہی زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا

"کیا کھانا کھلا کر جانے کا ارادہ ہے؟"

اوراق اسے کھڑا پاتا فوراً سے کہنے لگا لیزا ایکدم گھبرائی

"نہیں میں جارہی ہوں"

لیزا فوراً سے بولتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی لیزا کے جاتے ہی اوراق نے دروازہ واپس بند کرلیا

_______________

ٹی وی لاؤنچ میں سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے 

"کچھ کیوں نہیں بولا تم نے اپنی بیٹی کو ہاں بولو ہمارس منہ کسی کو دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا"

ادیبہ بیگم سر پکڑے ہوئے وحید صاحب کو دیکھتی کہنے لگی وحید صاحب خاموش بیٹھے تھے

"ماں مجھے کیا پتہ ان کے بیٹے نے ایسی کیا پٹی پڑھائی کہ وہ رات و رات اس سے نکاح کیلیے رضامند ہوگئی"

وحید صاحب فوراً سے ادیبہ بیگم کی جانب دیکھ کر کہنے لگے 

"چھوٹی بچی نہیں ہے تمہاری بیٹی انیس سال کی ہے اور جتنی معصوم شکل سے دیکھتی ہے اتنی ہی چالاک ہے ورنہ ایسا قدم اٹھانے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچتی"

ادیبہ بیگم ایکدم غصے سے بھڑکتی اونچی آواز میں کہنے لگی وحید صاحب خاموش ہوگئے

"نہیں ماں نہ غلطی اوراق کی ہے نہ ضحیٰ کی ان کی قسمت آپس میں جوڑی ہوئی تھی"

انیتا محترمہ نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے بولا جس پر ادیبہ بیگم نے ایک نظر اس پر ڈالی

"سب کی باتیں ہیں لوگوں کو کیا جواب دو گے ہاں یہ جو اتنی عزت بنی ہوئی ہے اس سوسائٹی میں کیا عزت رہ جائے گی "

ادیبہ بیگم انیتا محترمہ کو دیکھتی فوراً سے پوچھنے لگی انیتا محترمہ نے انہیں دیکھا

"اس سے عزت تو کہیں خراب نہیں ہوئی میرا بیٹے نے نکاح کیا ہے کوئی جرم نہیں جس سے بےعزتی ہوگی"

انیتا محترمہ صاف لفظوں میں انہیں جواب دے گئی ادیبہ بیگم انہیں بس دیکھتی رہ گئی

"لیکن بھابی نکاح کا طریقہ غلط تھا اگر ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے تو بولتے ہمیں نہ کرواتے نکاح پھر یہ قدم اٹھانا بنتا تھا "

عارفہ محترمہ انہیں دیکھتے ہوئے تحمل بھرے لہجے میں سمجھانے کی سعی کرنے لگ گئی جس پر انیتا محترمہ خاموش ہوگئی۔

"میرے خیال سے یہ بات یہی ختم کردیجیے چاہیے اور سب رات ہوچکی ہے اس موضوع پر بات کرتے کرتے صبح دیکھتے ہیں سب کو سوجانا چاہیے "

عقب صاحب فوراً سے بات کو ختم کرتے کہنے لگے وحید صاحب سب سے پہلے آٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے ادیبہ بیگم بھی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی اور باری باری سب وہاں سے چل دیے۔

______________

"میں رکھ آتی ہوں"

ضحیٰ کھانا کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر فوراً سے کہنے لگی 

"بلکل تاکہ نیچے تمہاری پھوپھو یا دادی جو تمہارے نیچے اترنے کے انتظار میں ہیں تمہارے نیچے جاتے ہی تم پر پھٹ پڑے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا ضحیٰ کے ہونٹوں پر ایکدم چپ لگ گئی

"سائیڈ پر رکھ دو صبح ملازم اٹھا لے گا"

اوراق اسے فوراً سے کہتے ساتھ گھڑی اتار کر جوتے اتارنے لگا ضحیٰ اسے دیکھ رہی تھی

"آ۔۔۔۔آاآپ کہاں سوئے گے"

ضحیٰ تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی اوراق نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا

"کیا مطلب میں کہاں سو گا؟"

اوراق بدلے میں ضحیٰ پر نظریں مرکوز کیے پوچھنے لگا

"ممم۔میرا مطلب کاؤچ پر یا بیڈ پر"

ضحیٰ نظریں جھکائے بات کا مطلب سمجھاتے ہوئے بولی۔

"میں بیڈ پر سو گا"

اوراق سینے پر بازو فوراً سے جواب دینے لگ گیا 

"ٹٹ۔۔۔ٹھیک ہے میں کاؤچ پر چلی جاتی ہوں"

ضحیٰ فوراً سے کہتے ساتھ تکیہ اٹھا کر بیڈ سے نیچے اترتی کاؤچ کی جانب بڑھنے لگی جب اوراق نے اس کی بازو اپنی گرفت میں لی ضحیٰ ایکدم گھبرا سی گئی

"کوئی ضرورت نہیں ہے کاؤچ پر سونے کی واپس بیڈ پر جاؤ "

اوراق اسے دیکھتے ہوئے حکم صادر کرنے والے انداز میں کہنے لگا ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا

"نہیں میں کاؤچ پر زیادہ کمفرٹیبل سو سکتی ہوں"

ضحیٰ نظریں جھکائے اسے جواب دینے لگ گئی اوراق نے اسے اپنے تھوڑے قریب کیا

"میں نے کیا بولا ہے"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں جمائے فوراً سے بولا ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا

"م۔۔مجھے آپ کے ساتھ سونے میں ڈر لگے گا"

ضحیٰ نظریں جھکائے خوفزدہ سی اسے جواب دینے لگ گئی 

"کیا لگے گا؟"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھنے لگا 

"ڈر"

ضحیٰ فوراً سے اسے جواب دینے لگی اوراق کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"اتنا خوفناک تو نہیں ہوں میں"

اوراق اسے دیکھتا جان کر کہنے لگا ضحیٰ فوراً نفی میں سر ہلا گئی

"م۔۔۔مجھے اکیلے سونے کی عادت کے تو اس لیے"

ضحیٰ بات کو گھماتی اسے کہنے لگی اوراق نے اسے بیڈ پر بٹھایا 

"تم بیڈ پر ہی سو گی بیچ میں کشنز رکھ لیتی ہے اگر تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے"

اوراق سنجیدہ لہجے میں اسے کہتے ساتھ بیچ میں کشنز رکھنے لگا ضحیٰ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"ضحیٰ سوجاؤ"

اوراق اسے بیٹھا دیکھ کہتے ساتھ خود لیٹ گیا ضحیٰ ایک نظر اس پر ڈالتی تکیہ واپس رکھ کر لیٹ گئی۔

"گڈ نائٹ"

اوراق اس کی جانب رخ کرتا مسکرا کر کہنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا ہلکا سا مسکرا کر پلکیں چھپکا گئی۔

________________

"دیکھا کیسی تیز نکلی ہے وہ"

عارفہ محترمہ کمرے میں آتے ہی عاقب صاحب کو دیکھتی کہنے لگ گئی

"صحیح کہ رہی ہو تم"

عاقب صاحب ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولے جس پر عارفہ محترمہ ان کے پاس آکر بیٹھی

"آپ ہی کہتے تھے معصوم ہے اس بچی کے ساتھ کچھ نہ کیا کرو اس کی ماں بھی نہیں ہے"

عارفہ محترمہ فوراً سے انہیں بولی عاقب صاحب انہیں دیکھ رہے تھے

"میں تو اسلیے بولتا تھا بن ماں کے بچی ہے اور باپ نے بھی دوسری شادی کرلی مجھے کیا معلوم تھا تین دن میں اوراق کو اپنے پیچھے لگا لے گی"

عاقب صاحب فوراً سے اپنی صفائی میں بولتے ہوئے کہنے لگ گئے

"یہ جو ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں اتنی ہی چالاک ہوتی ہے"

عارفہ محترمہ غصے سے کہتے ساتھ وارڈروب کی جانب بڑھ کپڑے لیتی باتھروم کا رُخ کرگئی۔

___________________

اوراق کی اچانک آنکھ کھلی تو نظر اپنے ساتھ ڈالی ضحیٰ وہاں موجود نہیں تھی اوراق کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ پریشان سا کمرے میں نظر دوہرانے لگا تبھی نظر اس پر گئی جو جائے نماز پر بیٹھی آنکھوں میں آنسو لیے دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے خدا سے گفتگو کررہی تھی اوراق نے نظر گھما کر کھڑکی کی جانب دیکھا ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔

اوراق اٹھ کر اس کے پاس آیا ضحیٰ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا آنسوؤں سے تر چہرہ لیے اسے دیکھنے لگ گئی

"رونے کی وجہ جان سکتا ہوں؟"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے مصنوعی خفگی سجائے پوچھنے لگا 

"عادت ہے مجھے رونے کی"

ضحیٰ اسی پر نظریں جمائے اداس لہجے میں بولی اوراق نے اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کے چہرے پر رکھ کر آنسوؤں کو صاف کیا ضحیٰ اس کا نرم لمس محسوس کرتی آنکھیں بند کر گئی

"اب نہیں رو گی تم سمجھیں"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے پیار سے بولا وہ خاموشی سے اسے تک رہی تھی

"ناشتہ کرنے چلیں"

فریش وغیرہ ہونے کے بعد تیار ہوتا اوراق اسے دیکھ کر کہنے لگا جو خاموشی بیڈ پر بیٹھی تھی اچانک نیچے جانے پر خوفزدہ سی ہوئی چہرے خوف صاف واضح نظر آیا۔

"کیا ہوا؟"

اوراق اسے پریشان دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگا 

"نیچے۔۔کیسے دادی پھوپھو آپ کی مام"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے ہچکچاتی کہنے لگ گئی اوراق اس کے ساتھ آکر بیٹھا

"میری مام تو کچھ نہیں بولیں گے ہاں ہٹلر دادی اور چڑیل پھوپھو تو بہت کچھ بولیں گے"

اوراق اس کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے مزے سے کہنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا اس کی بات پر ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی

"ہٹلر دادی"

وہ مسکراتے ہوئے اسے کہنے لگی جس پر اوراق بھی  مسکرادیا اور اثبات میں سر ہلا گیا 

"میں ساتھ ہوں بےفکر رہو کوئی تمہاری طرف بری نظر بھی نہیں ڈالے گا"

اوراق اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہمت دیتا کہنے لگا ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا

"آپ یہ سب کیوں کررہے ہیں میرے لیے"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے پر مجبور سی ہوگئی اوراق نے بھی اس کے چہرے پر نظریں کرگیا

"تم سمجھ لو میں اپنے لیے کررہا ہوں"

اوراق فوراً سے اسے جواب دے گیا ضحیٰ پلکیں جھکا گئی

"آپ کو پتہ ہے آپ بہت اچھے ہیں"

ضحیٰ اس کی دل سے تعریف کرتے ہوئے کہنے لگی اوراق اس کی معصومیت پر مسکرایا 

"مجھے نہیں معلوم میں تو اللہ کا گہنگار بندہ ہو تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں"

وہ عام سے انداز میں جواب دیتے ہوئے کہتا کھڑا ہوا ضحیٰ بھی کھڑی ہوگئی اور دونوں کمرے سے باہر کی طرف بڑھ گئے۔

ڈائننگ ایریا میں جیسے ہی قدم رکھا ادیبہ بیگم عارفہ محترمہ عاقب صاحب حیدر صاحب اور لیزا موجود تھیں 

"بیٹھو صحیح"

اوراق کرسی کھسکا کر اسے بیٹھنے کا کہنے لگا ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا اور خاموشی سے کنفیوز سی بیٹھ گئی ساتھ والی کرسی اوراق سنبھال گیا۔

ادیبہ بیگم تیز نظروں سے ضحیٰ کو دیکھنے لگی عارفہ محترمہ نے بھی قہر برستی نگاہ ان دونوں پر ڈالی۔

"دادی اور پھوپھو اپنی خوبصورت آنکھیں ناشتے پر رکھیں مجھے معلوم ہے میری بیوی خوبصورت ہے اسے بعد میں دیکھ لیجیے گا"

اوراق ان دونوں کی نظریں ضحیٰ پر پاکر بڑے اطمینان سے انہیں سنا گیا ضحیٰ کو یکدم کھانسی ہوئی ادیبہ بیگم اور عارفہ محترمہ اپنے ناشتے پر نظریں کرگئی۔

"تم ٹھیک ہو ضحیٰ"

اوراق اس کی پیٹ تھپتھپاتے ہوئے فکرمند سا کہنے لگا وہ بےیقین سی اوراق کو دیکھ رہی تھی۔

                          __________________

"ضحیٰ بچے میں تو تمہارے لیے بڑی خوش ہوں "

ماسی ضحیٰ کو کچن میں اپنی خوشی بتانے لگی ضحیٰ نے انہیں دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دی

"میں نہیں کہتی تھی کہ اللہ جنہیں بہت آزمائش دیتا ہے اور پھر ان کی ہر آزمائش کو یکدم ختم کرکے آسانیاں اور خوشیوں میں تبدیل کردیتاہے"

وہ ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی ضحیٰ سر کو خم دے گئی

"جی ماسی"

ضحیٰ بس یہی کہ سکی جس پر ماسی مسکرائی

تبھی عارفہ محترمہ کچن میں داخل ہوئی ضحیٰ کا بازو پکڑ کر اس کی کمر پر بازو لائے دبانے لگ گئی ضحیٰ کے چہرے پر اچانک تکلیف دہ تاثرات نمودار ہوئے۔

"بھولنا مت تم آج بھی ہمارے گھر میں بیٹھی ہو اور اوراق کو بہت اچھا سمجھتی ہو وہ تم پر ترس کھا کر تم سے نکاح کرگیا ہے سمجھیں زیادہ خوش فہمیاں نہ پال لینا تم"

عارفہ محترمہ تیز لہجے میں بولتی اسے مزید تکلیف دینے لگ گئی

"پپ۔۔پھوپھو مجھے چھو۔۔۔۔چھوڑیں"

ضحیٰ آنسوؤں کو ضبط کرتی تکلیف دہ لہجے میں کہنے لگ گئی جس پر عارفہ محترمہ اسے جھٹکے سے چھوڑتی کچن سے چلی گئی اور وہ نم آنکھوں سے اپنی بازو کو دیکھنے لگ گئی۔

"بیٹا تم کمرے میں چلی جاؤ"

ماسی محبت بھرے لہجے میں اسے کہنے لگی ضحیٰ خاموشی سے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

                            ___________________

ضحیٰ کمرے میں داخل ہوئی تو نظر اوراق پر گئی اس کے ذہن میں عارفہ محترمہ کی باتیں گردش کرنے لگی اوراق نے گردن موڑ کر اسے دیکھا

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو"

اوراق اسے خود کو دیکھتا پاکر نفی میں سر ہلا گئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی 

"پھوپھو ٹھیک تو کہ رہی تھی مجھے ترس ہی کھایا اور میں اس سب کو اوراق کی پسند سمجھ رہی تھی تم بھی کتنی بیوقوف ہو ضحیٰ وہ مجھ جیسی لڑکی سے محبت کریں گے"

ضحیٰ عارفہ محترمہ کی باتوں کو سوچتے ہوئے خود سے دل میں کہنے لگ گئی۔

"اگر محبت  ہوتی اظہار یا تعریف کچھ تو کرتے وہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے تم پر ایک بار پھر کسی نے ترس کھایا ہے"

ضحیٰ بیڈ شیڈ پر نظریں جمائے مایوسی سے ذہن میں خود سے سوچنے لگ گئی

"ضحیٰ"

اوراق کی آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی اور سر اٹھا کر اسے دیکھا

"کیا سوچ رہی ہو کچھ بولا ہے کسی نے"

اوراق اس کے چہرے پر پریشان کن تاثرات دیکھ فوراً سے پوچھنے لگ گیا 

"نن۔۔نہیں"

ضحیٰ گھبرا کر جلدی سے نفی میں سر ہلاتی جواب دے گئی

"تم ایسے ڈریسز کیوں پہنتی ہو"

اوراق نے اس کے کپڑوں پر غور کرتے ہوئے ائبرو اچکائے پوچھا ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا

"مجھے ایسے کپڑے پہننا پسند ہے"

ضحیٰ اس سے نظریں چراتی جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگ گئی جس پر اوراق خاموش ہوگیا۔

تبھی دروازے پر دستک ہوئی اوراق نے دروازہ کھولا 

"ضحیٰ باجی کو انیتا بیگم بلارہی ہیں"

ملازمہ انیتا محترمہ کا پیغام بتاتے ساتھ وہاں سے چلی گئی اوراق نے ضحیٰ کو دیکھا 

"مام بلارہی ہیں تمہیں"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ سر کو خم دیتی دوپٹہ پھیلا کر لیتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی اوراق اسے جاتا دیکھنے لگ گیا اس کا خوف اب کچھ کم ہوجانا چاہیے تھا مگر اس کا خوف ویسے ہی برقرار تھا اور اوراق کو سمجھ نہیں آیا وہ اس قدر خوفزدہ آخر رہتی کیوں ہے اس کا خوفزدہ رہنا اوراق کو پریشان کرجاتا تھا۔

                             _________________

"آپ نے بلایا مجھے"

ضحیٰ دروازے پر دستک دیتی آہستگی سے انیتا محترمہ کی جانب دیکھ کر پوچھنے لگی 

"جی بیٹا آؤ"

انیتا محترمہ مسکراتے ہوئے اسے اندر بلاتی کہنے لگی ضحیٰ اندر کی جانب چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے بڑھی 

"بیٹھو مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہے"

انیتا محترمہ نرمی سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتی بولی ضحیٰ خاموشی سے بیٹھ گئی

"اوراق میرا بیٹا ہے اس کی تربیت میں نے کی ہے اور مجھے یقین ہے اس نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی یہ قدم اٹھایا ہوگا تمہارے نصیب میں شاید وہی تھا میں جب سے آئی ہوں میں نے تمہیں دیکھا ہے نہ تو تم بولتی ہو نہ ہنستی ہو اور بہت گھبرائی اور ڈری ہوئی رہتی ہو مجھے نہیں معلوم ایسا کیوں ہے لیکن اوراق اور تمہارا جو رشتہ اب جڑ گیا اسے سچے دل سے نبھانا اور جب کبھی لگے یہ رشتہ ختم ہورہا ہے جھک جانا لڑکی کمپرومائز کرتی ہے لڑکا بھی کرتا ہے مگر لڑکی زیادہ کرتی ہے اگر گھر بچانے کی بات آئی ہے تو وہ لڑکی بچا سکتی ہے لڑکا نہیں اوراق حساس ہے جذباتی بھی ہے غصہ بھی ہے مگر بہت اچھا ہے ہر ایک کا احساس کرنے والا کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتا میں نے تمہیں دل سے جیو تسلیم کرلیا ہے اب تم نے اس رشتے کو نبھانا ہے اوراق کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کرسکتا اس نے تم سے نکاح کیا یقیناً اسے تم پسند آئی ہوگی اور تمہارے ساتھ غلط ہوتا دیکھ اس نے ایسا قدم اٹھایا اس کے علاؤہ بہت سے طریقے تھے تمہارے نکاح کو روکنے کے مگر اس نے نکاح کا ہی چنا مرد اگر عورت سے نکاح کررہا ہے تو یقیناً وہ اس سے محبت کرتا ہے ورنہ مرد کبھی نکاح نہیں کرتا مرد اپنی محبت کو ہی نکاح کی شکل دیتا ہے یاد رکھنا "

انیتا محترمہ تحمل بھرے لہجے میں اسے سمجھانے لگی ضحیٰ ان کی باتیں سن رہی تھی

"یہاں کوئی بھی تم دونوں کے نکاح سے خوش نہیں ہے نہ ہی ماں نہ عارفہ اور نہ ہی تمہارے ڈیڈ اسی لیے وہ کچھ بھی بولے ان کی باتوں پر دھیان نہ دینا اللہ سے دعا کرتی رہنا اور منفی سوچنے کے بجائے اچھا سوچنا سمجھ رہی ہو نا"

وہ مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی اسے مخاطب کرنے لگی ضحیٰ اثبات میں سر ہلا گئی 

"اور تم بہت پیاری ہو ماشاءاللہ"

وہ مسکراتے ہوئے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے کہنے لگی ضحیٰ کے لبوں پر ہلکی سی شرمیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی

"اہم اہم"

اوراق کمرے میں داخل ہوتا کھانسنے لگ گیا انیتا محترمہ اور ضحیٰ دونوں کی نظر اس پر گئی 

"حیرت ہے ساس بہو کی بہت صلح ہے خیریت ہے نا مام"

اوراق ان کے پاس کھڑا ہوتا ضحیٰ کو نظروں کو حصار میں لیے فورا سے مزاحیہ انداز میں کہنے لگا 

"وہ میری بہو نہیں بیٹی ہے اور آگے تمہاری سوچ ہے "

انیتا محترمہ اوراق پر ایک نظر ڈالتی ضحیٰ کو پیار سے دیکھتی کہنے لگی ضحیٰ اوراق کی نظریں خود پر محسوس کرتی نظریں جھکا گئی

"ضحیٰ تم انڈین ڈرامے دیکھتی ہوگی تمہیں معلوم ہوگا ساس کیسی ہوتی ہے"

اوراق ضحیٰ کو دیکھتا تنگ کرنے کیلیے کہنے لگا 

"نہیں میں ڈرامے نہیں دیکھتے نہ دیکھیں ہیں کبھی اور اگر انہوں نے مجھے اپنی بیٹی کہا ہے تو میرے لیے یہ میری ماں ہے"

ضحیٰ انیتا محترمہ کو دیکھتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر بولی انیتا محترمہ جواباً مسکرادی اوراق ان دونوں کو دیکھنے لگ گیا 

"مطلب کافی مضبوط بونڈ بن گیا ہے بیٹی ماں کا"

اوراق ان دونوں کو دیکھ کر کہنے لگا جس پر انیتا محترمہ مسکرا دی 

"بلکل"

وہ اسے مسکراتے ہوئے جواب دینے لگ گئی اوراق مسکرادیا ضحیٰ کے ہونٹوں پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ نمودار تھی 

تبھی لیزا کمرے کی جانب بڑھی ان تینوں کو مسکراتا دیکھ لیزاا کے قدم وہی رک گئے 

"ارے لیزا بچے آؤ"

انیتا محترمہ لیزا کو دیکھتی فوراً سے کہنے لگی 

"سوری ڈسٹرب کیا لیکن آپ کو مام اور دادی بلارہی ہیں"

لیزا ایکسکیوز کرتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی انیتا محترمہ سر کو خم دیتی اٹھ کر نیچے کی جانب بڑھنے لگی لیزا نے ایک نظر اوراق پر ڈالی جو ضحیٰ پر ہی نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا لیزا خاموشی سے کمرے سے باہر آ گئی۔

                             ___________________

"آپ کہیں جارہے ہیں"

ضحیٰ کمرے میں داخل ہوئی اوراق کو تیار دیکھ فوراً سے پوچھنے لگ گئی اوراق نے مڑ کر اسے دیکھا

"مجھے کام ہے تھوڑا رات کو دیر ہو جائے گی تم سوجانا ٹھیک ہے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے بتاتا خود پر پرفیوم چھڑکنے لگ گیا 

"اور نیچے مت جانا کچھ چاہیے ہو ملازم یا سامنے ہی مام کا روم ہے ان سے بول دینا"

اوراق فوراً سے اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی

"خیال رکھنا اپنا"

اوراق اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ کمرے سے باہر چلا گیا ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی 

ضحیٰ کا دل کیا وہ اسے جانے سے روک لے کیونکہ اس کے ساتھ ہونے سے وہ اب تک اتنی ہمت سے کھڑی تھی اس کے جانے کا سنتے ہی دل گھبرانے لگ گیا تھا مگر وہ جا چکا تھا ضحیٰ فوراً روم لاک کرتی بیڈ پر بیٹھ گئی 

"کچھ نہیں ہوگا ضحیٰ ریلیکس کچھ نہیں ہوگا"

ضحیٰ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی 

تبھی دروازے پر دستک ہوئی ضحیٰ نے خوف بھری نگاہوں سے دروازے کی جانب دیکھا

"ککک۔۔کون"

ضحیٰ دروازے پر نظریں کیے خوفزدہ سی پوچھنے لگی 

"ضحیٰ میں ہوں لیزا"

لیزا کی آواز سنتے ہی ضحیٰ کو تھوڑا سکون ملا وہ کھڑی ہوکر دروازے کی جانب بڑھی اور دروازہ کھولا 

"اوراق کو جاتا دیکھا تو سوچا تم سے کچھ بات کرلو جب سے تمہارا نکاح ہے بات ہی نہیں ہوئی ہماری امید کرتی ہوں ڈسٹرب نہیں کیا میں نے تمہیں"

لیزا مسکرا کر اسے دیکھتی نارمل انداز میں کہنے لگی ضحیٰ نفی میں سر ہلا گئی

"بیٹھو"

ضحیٰ اسے اشارہ کرتے ہوئے بیٹھنے کا کہنے لگی لیزا فوراً سے بیٹھ گئی

" تمہاری کہانی تو بلکل کسی فلم کی طرح بن گئی ویسے جو بھی ہوا اچھا ہوا اتنے بڈھے انسان سے نکاح ہورہا تھا تمہارا دیکھو بیٹھے بیٹھے اوراق جیسا ہینڈسم اور اتنا ویل سیٹیلڈ شخص مل گیا ہے تمہیں"

لیزا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر بولی ضحیٰ سر کو خم دے گئی

"تم نے جو کچھ فیس کیا ہے نا اتنا تو تم ڈزرو کرتی تھی بس میری دعا ہے تم خوش رہو ہمیشہ"

لیزا اسے دیکھتی مسکراتے ہوئے کہنے لگی ضحیٰ ہلکا سا مسکرا دی

"ویسے جس لڑکی کی بھی اوراق جیسے شخص سے شادی ہو وہ بہت خوش نصیب لڑکی ہوگی اور تم بہت خوش نصیب ہو "

لیزا اسے دیکھتی فوراً سے بولی ضحیٰ نے اسے دیکھا

"آپ اوراق کو پسند کرتی تھی ؟"

ضحیٰ ناچاہتے ہوئے بھی یہ سوال اس سے ہوچھ گئی لیزا نے اسے دیکھا

"نہیں نہیں تم نے ایسا کیوں پوچھا "

لیزا فوراً سے نفی میں سر ہلاتی کہنے لگی ضحیٰ اسے دیکھ رہی تھی

"آپ کو جو چیز پسند آتی ہے اسی کی تعریف کرتی بس اس لیے پوچھ لیا"

ضحیٰ اسے اپنے پوچھنے کی وجہ بتانے لگ گئی لیزا ہنس دی 

"ارے نہیں تم بےفکر رہو وہ تمہارا شوہر ہے میں بس ایک فارمل بات کررہی تھی "

لیزا فوراً بات سنبھالتی کہنے لگی ضحیٰ سر کو خم دے گئی 

"جی لیکن آپ اتنی تعریف اپنے شوہر کی کیجیے گا دوسروں کے نہیں "

ضحیٰ لیزا کو صاف لفظوں میں بولی لیزا اسے دیکھتی رہ گئی

"واہ بھائی تم تو ابھی سے جیلس ہونے لگ گئی ہو اوکے اوراق جیجو ناؤ ہیپی"

لیزا فوراً سے ہنس کر مذاق میں بات کر گئی ضحیٰ کے ہونٹوں پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوگئی

"چلو تم نے نماز پڑھنی ہوگی اور میں نے یونیورسٹی کا کچھ کام میں چلتی ہوں "

لیزا فوراً سے اسے کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی طرف بڑھ گئی ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی۔

لیزا کے جانے کے بعد کچھ دیر وہ یوں ہی بیٹھی پچھلے دنوں میں جو سب ہوا وہ سوچتی رہی اور پھر وہ ساری سوچوں کو جھٹکتی وضو کرنے کیلیے باتھروم کی جانب بڑھ گئی وضو کے بعد کمرے میں  آکر نماز پڑھی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے بوہ خدا سے گفتگو کرتی رہی اور پھر جائے نماز کو لپیٹ کر جگہ پر رکھتی وہ بیڈ پر آئی آنکھوں میں نیند دور دور تک نہیں تھی وہ سونے کی کوشش کرتی رہی مگر اسے نیند نہیں آرہی تھی

                           ___________________

"کوئی کتاب لے آتی ہوں اپنے کمرے سے"

ضحیٰ خود سے کہتے ساتھ ہمت پیدا کیے دبے قدموں سے چلتی نیچے کی جانب بڑھی اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے ڈرا سے کتاب نکالی اور پلٹی سامنے موجود شخص کو دیکھ اس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا اور وجود کپکپانے لگا وہ تیز قدم اٹھائے کمرے سے نکلتی اوپر کی جانب بڑھ گئی وہ شخص بھی اس کے پیچھے آیا ضحیٰ کو اپنے نیچے جانے پر شدید پچھتاوا ہوا اس کے چہرے خوف صاف واضح تھا کمرے میں داخل ہوتے ہی ضحیٰ نے دروازہ بند کرنا چاہا مگر اس شخص نے دروازہ پکڑ لیا اور کمرے میں گھس آیا ضحیٰ کا ایک سانس آیا دوسرا گیا 

"کیا لگا تجھے تو نکاح کر مجھ سے بچ گئی نہیں نہیں اتنا آسان نہیں ہے آج تو تیرا شوہر بھی نہیں بہت دن ہوگئی تیرے قریب نہیں آیا "

وہ شخص دروازہ بند کرتا اسے حوس بھری نگاہوں سے دیکھتا چہرے پر خباسی مسکراہٹ سجائے ہلکی آواز میں کہنے لگا 

"ممم۔۔۔۔میرے قریب نہ آنا چئ"

اس سے پہلے ضحیٰ اونچی آواز میں چیختی اس انسان نے ضحیٰ کا منہ دبوچ لیا ضحیٰ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے گئے اس کی گردن کے گلے میں موجود وحشیانہ انداز میں بٹن کھولنے لگی گیا وہ اس کی گرفت میں مچلتی نکلنے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ وحشی درندہ بےرحم انسان اس کو اپنی قید میں لیے ہوئے تھا  گلے کا بٹن کھلتے ہی اسے زور سے دیوار سے لگاتا وہ اس کی گردن پر جھک گیا اور منہ پر مزید دباؤ دے دیا ضحیٰ چیختی چلاتی رہی مگر اس کی آواز کوئی نہیں سن سکا اس کے گلے میں شدید درد ہوا اسے لگا وہ سانس نہیں لے سکے گی 

"مجھے تیرے قریب آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے بولا تھا نا میں نے"

وہ گردن سے منہ نکالتا اسے دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگا ضحیٰ خوفزدہ سی ہوگئی

"ضحیٰ"

دروازے کو ناک کرتا اوراق نے اسے پکارا ضحیٰ خوفزدہ سی دروازے کو دیکھنے لگ گئی اور وہ شخص بھی گھبرایا اسے ویسے ہی چھوڑتا وہ کھڑکی کی جانب بڑھ کر پھلانگ گیا ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگی وہ ماؤف ذہن کے ساتھ پھر دروازے کی جانب دیکھنے لگ گئی تبھی اوراق دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگیا 

"ضحیٰ"

اوراق اسے دیکھ پریشان سا پکارنے لگ گیا ضحیٰ اس کی جانب بڑھتی سینے سے آ لگی اوراق ایکدم ساکت ہوگیا اس کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔

ضحیٰ اس کے سینے میں منہ چھپائے سسک رہی تھی اوراق ہوش میں آیا 

"ضحیٰ کیا ہوا ہے"

اوراق اس کا چہرہ اوپر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے پریشان سا پوچھنے لگا ضحیٰ نے روتے ہوئے اسے دیکھا سر چکرایا بےہوشی کی حالت میں دوبارہ اس کے سینے سے آ لگی اوراق اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹا گیا اور اس پر کمفرٹر ڈالنے لگ گیا

"ضحیٰ ویک اپ"

اوراق اس کی گال سہلاتے ہوئے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ ویسے ہی لیٹی رہی اوراق نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا بھرا ہوا گلاس اٹھایا اور ضحیٰ کے چہرے پر پانی چھڑکا ضحیٰ نے پلکوں پر جبنش دی اور کمرے میں نظر گھمائی

"ضحیٰ آر یو اوکے"

اوراق اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے اسے کہنے لگا اس کی آواز سنتے ہی ضحیٰ نے گردن اس کی جانب موڑی اور ہلکا سا سر ہلا دیا 

"کیا ہوا تھا؟"

اوراق نے فوراً اس سے سوال کیا ضحیٰ کا چہرہ یکدم پھر سفید پڑنے لگ گیا۔

"وو۔۔ووہ میں نے وہاں کسی کو دیکھا تھا مجھے ایسا لگا وہاں کوئی ہے اس لیے ڈر گئی تھی"

ضحیٰ گھبراتے ہوئے جھوٹ بولتی کہنے لگی اوراق نے ایک نظر کھڑکی پر ڈالی اور پھر ضحیٰ کی جانب دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو پھر بہنے لگے تھے 

"ضحیٰ"

اوراق اس کے قریب آتا اس کے آنسو صاف کرنے لگا ضحیٰ اس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔

"میں نے کہا تھا نا خود کو مضبوط بناؤ اتنی سی بات پر کون روتا ہے ہاں"

اوراق نرمی سے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ اس کے سینے میں محفوظ محسوس کرتی اس کی شرٹ کو مزید مضبوطی سے پکڑ گئی

"کبھی کبھی الفاظ نہیں ہوتے ہیں کیفیت بیان کرنے کو 

بس دل کرتا ہے کوئی سمجھ لے ،سنبھال لے،خود میں سمیٹ لے"

وہ اوراق کے سینے میں منہ چھپائے اسی طرح سو گئی اوراق اس کی حالت اور خوفزدہ چہرے کو دیکھ پریشان سا پوری رات اس متعلق سوچتا رہا ضحیٰ کی یہ حالت اسی واقع میں بہت پریشان کررہی تھی۔۔

سورج کی شعاعیں وال کلاک سے ٹکراتی ہوئ کمرے میں آئی ضحیٰ کے چہرے پر پڑتے ہی اس کی نیند سے آنکھ کھلی ضحیٰ آنکھوں میں مسلتی اپنے ہمراہ نظر گھما گئی اوراق کے کندھے میں سر رکھے وہ روتے روتے ہی سو گئی تھی اس کے چہرے پر یکدم شرمندگی سی چھائی اور وہ فوراً دور ہوئی رات کا منظر یاد کرتے ہی اس نے اوراق کی جانب دیکھا 

"کیا سوچ رہیں ہوں گے میرے بارے میں"

ضحیٰ اس کے چہرے پر نظریں جمائے دل میں سوچنے لگی 

"کتنی پاگل ہوں میں کاش نیچے نہ جاتی تو یہ سب نہ ہوتا"

ضحیٰ خود کو کوستے ہوئے اسی پر نظریں مرکوز کیے مایوس سی دل میں بولی 

"گڈ مارننگ"

اوراق اسے خود کو دیکھتا پاکر مسکرا کر نارمل انداز میں بولا ضحیٰ ہوش میں آئی 

"کیسی ہے طبیعت"

اوراق اس کا ہاتھ پکڑے فکرمند سا پوچھنے لگا ضحیٰ اسے دیکھ رہی تھی

"بہتر ہوں"

ضحیٰ نظریں جھکائے دھیمے لہجے میں ہمیشہ کی طرح جواب دے گئی

"سوری رات کیلیے"

ضحیٰ شرمندگی سے نظریں اسی طرح جھکائے اوراق سے کہنے لگی اوراق نے اسے دیکھا جو پریشان لگ رہی تھی

"لیکن تمہارا تھینکیو"

اوراق اٹھ کر بیٹھتے ہوئے چہرے پر آئے ضحیٰ کے بال کان کے پیچھے کرتا کہنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"تھینکیو کیوں؟"

ضحیٰ فوراً سے اس سے سوال کرنے لگ گئی اوراق کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی

"میری رات خوبصورت بنانے کیلئے اور میری شرٹ گیلی کرنے کیلیے"

اوراق شوخ لہجے میں اسے بولا ضحیٰ پلکیں چھپکا گئی اس کے گال سرخ ہوئے 

"تمہیں کسی نے بتایا ہے کیا کہ تم شرماتے ہوئے اور بھی خوبصورت لگتی ہو"

اوراق اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے محبت بھرے لہجے میں بولا ضحیٰ کے گالوں کی سرخی مزید گہری ہوئی اوراق کی مسکراہٹ بھی اسی طرح گہری ہوئی۔

                          ___________________

ناشتہ کرنے کے بعد اوراق انیتا محترمہ کے کمرے میں موجود تھا 

"تمہیں ایک مشورہ دوں کچھ دن اسے اس گھر سے دور لے جاؤ"

انیتا محترمہ اوراق کو مشورہ دیتے ہوئے کہنے لگی اوراق نے انہیں دیکھا

"مگر کہاں"

اوراق نے فوراً سے ان سے پوچھنا چاہا 

"ہمارا فام ہاؤس ہے یہاں تم ڈرائیور سے ایڈریس پوچھ کر اسے لے جاؤ اور جاننے کی کوشش کرو یہ ڈر کیوں ہے کس لیے کیا پتہ وہ تمہیں بتا دے کچھ؟"

انیتا محترمہ اسے دیکھتے ہوئے مسئلے کا حل بتاتی کہنے لگی 

"ٹھیک کہ رہی ہیں آپ مام میں آج ہی اسے ادھر لے جاتا ہوں"

اوراق ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہنے لگا وہ اثبات میں سر ہلا گئی

"آپ بھی چلیں ہمارے ساتھ"

اوراق فوراً سے انہیں بولا انیتا محترمہ نے اسے دیکھا

"تم دونوں کچھ وقت اکیلے گزارو بدھو"

انیتا محترمہ اپنے بیٹے کو دیکھتی افسوس سے کہنے لگی اوراق سر کو خم دے گیا اور شکریہ کرتا کمرے سے چلا گیا۔

"اللہ تعالیٰ بس سب کچھ اچھا ہو"

انیتا محترمہ اسے جاتا دیکھ کر خود سے کہنے لگ گئی۔

                            __________________

"مجھے تو ضحیٰ کوئی خوش نہیں لگ رہی ہے"

عارفہ محترمہ ادیبہ بیگم کے پاس بیٹھی بولی جس پر ادیبہ بیگم نے اسے دیکھا

"وہ زیادہ شروع سے نہیں بولتی مگر چہرے پر اطمینان برقرار ہے دو دن سے اس کے تو مطلب اوراق اس کے ساتھ بہت اچھا رہ رہا ہے"

ادیبہ بیگم فوراً سے عارفہ محترمہ کو ٹوکتے ہوئے بولی جس پر وہ انہیں دیکھنے لگ گئی

"ماں کچھ بھی کریں یہ شادی زیادہ دیر مت چلنے دیں"

عارفہ محترمہ ادیبہ بیگم کو امید بھری نظروں سے دیکھتی بولی

"اوراق میری لیزا کے ساتھ جچے گا ضحیٰ کیساتھ نہیں"

عارفہ محترمہ کی دلی بات ہونٹوں پر فوراً آ گئی جس پر ادیبہ بیگم نے اسے دیکھا

"بول تو تم ٹھیک رہی ہو بلکل"

 ادیبہ بیگم عارفہ محترمہ کی بات پر ہامی بڑھتے ہوئے کہنے لگی جس پر وہ سر کو خم دے گئی

"بےفکر رہو اب یہ شادی زیادہ وقت نہیں رہے گی"

ادیبہ بیگم چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ سجائے عارفہ محترمہ کو امید دلا گئی وہ بھی مسکرادی۔۔

                            _________________

"ضحیٰ"

اوراق کمرے میں آتے ساتھ اسے پکارنے لگا ضحیٰ جو ظہر کی نماز ادا پڑھ کر اٹھی تھی فوراً اسے دیکھا 

"چلو میرے ساتھ ہم شاپنگ پر چل رہے ہیں"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگا ضحیٰ نے پریشانی سے اسے دیکھا

"شاپنگ پر لیکن کیوں؟؟"

ضحیٰ اسے دیکھتی فوراً سے پوچھنے لگ گئی اوراق اس کے سوال پر بس دیکھتا رہ گیا

"کوئی سوال نہیں"

اوراق اس کا ہاتھ تھامے اسے بولتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھا 

"اوراق لیکن"

ضحیٰ نے کچھ بولنے کیلیے لب کھولے مگر اوراق اسے خاموش کروائے نیچے کی جانب بڑھا 

"کہاں جارہے ہو تم دونوں"

ادیبہ بیگم اوراق اور ضحیٰ کو نیچے آتا دیکھ فوراً سے پوچھنے لگ گئی دونوں کے قدم رک گئے 

"شاپنگ پر"

اوراق مختصر سا جواب دے کر رکا نہیں باہر کی جانب بڑھ گیا 

"آپ کیسے اس طرح بات کرلیتے ہیں دادی سے"

ضحیٰ اس کے ساتھ چلتی چہرے پر انتہائی معصومیت سجائے اس سے پوچھنے لگ گئی اوراق نے ایک نظر اس پر ڈالی 

"منہ سے"

وہ اسے صاف جواب دے گیا ضحیٰ شرمندگی سے سر جھٹک گئی 

"خیر چھوڑو نا تم یہ سب "

اوراق اس کا موڈ آف نہ کرتے ہوئے فوراً سے کہتے ساتھ گاڑی میں بٹھاتا خود فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا گارڈ نے گیٹ کھولا اور اوراق گاڑی سٹارٹ گراج سے باہر نکال گیا۔۔

 چند منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ ایک مال کے باہر گاڑی روک گیا ضحیٰ نے ایک نظر اس عمارت پر ڈالی اوراق گاڑی سے باہر نکل کر اس کی جانب بڑھا اور اسے دیکھا جو نروس سی بیٹھی تھی

"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ساتھ ہوں تمہارے"

اوراق جھک کر اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا اور گاڑی سے باہر نکل آئی 

ضحیٰ اور اوراق مال کے اندر داخل ہوئے وہ مال شاید پہلی دفعہ آئی تھی جس طرح وہ ہر ایک چیز کو دیکھ رہی تھی اوراق اسے دیکھ کر مسکرایا وہ دونوں شاپ کی جانب بڑھے اوراق ضحیٰ کیلیے ڈریسز پسند کرنے لگ گیا 

"مم۔۔مجھے نہیں چاہیے میرے پاس ہیں"

ضحیٰ فوراً سے اسے روکتی کہنے لگی اوراق نے اسے دیکھا

"دیکھیں ہیں میں نے کتنے ڈریسز ہیں تمہارے پاس"

اوراق اسے دیکھتا تھوڑا خفگی سے کہتا اس کے ساتھ ایک ڈریس لگایا 

"مجھے ایسے ڈریسز نہیں پسند گگ۔۔گلے بند والے پسند ہیں"

ضحیٰ فوراً سے اوراق کے ہاتھ میں موجود ڈریس دیکھ گھبرا کر بولی اوراق نے اسے دیکھا اوراق وہ ڈریس واپس رکھ گیا اور ضحیٰ کی پسند کے مطابق ڈریس پسند کرنے لگا ۔

شاپنگ کرنے کے بعد وہ دونوں فوڈ کوٹ میں آگئے

"کیا کھاؤں گی"

اوراق ایک ٹیبل پر بیٹھتا اسے دیکھ فورا سے پوچھنے لگا 

"نہیں کچھ نہیں گھر چلتے ہیں"

وہ کنفیوز سی آس پاس نظر گھمائے اسے کہنے لگ گئی

"میں جو بھی بولتا ہوں تم انکار کرتی ہوں کیوں"

اوراق اب چہرے پر بھرپور سنجیدگی سجائے اسے کہنے لگا ضحیٰ نے فوراً اسے دیکھا

"نن۔۔۔نہیں آپ پلیززز غلط مطلب مت لیں بس ابھی تو ناشتہ کیا ہے دس بجے اس لیے میں نے کہا"

ضحیٰ اسے سنجیدہ دیکھ فوراً سے وضاحت دیتے ہوئے کہنے لگ گئی

"چلو پھر شیک پی لیتے ہیں "

اوراق مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے بولا جس پر ضحیٰ سر کو خم دے گئی اوراق کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ کرسی کھسکا کر کھڑا ہوا ضحیٰ نے اس کا ہاتھ تھام لیا اوراق نے اسے دیکھا

"کک۔۔۔کہاں جارہے ہیں "

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے گھبرائے ہوئے پوچھنے لگی 

"شیک لینے جارہا ہوں"

اوراق فوراً سے اسے جواب دینے لگ گیا ضحیٰ نے ہاتھ چھوڑ دیا اور سر جھکا گئی اوراق خاموشی سے شیک شاپ کی جانب بڑھ گیا۔

شیک پیتے ہوئے وہ واپس گھر کی جانب بڑھ گئے تھے ضحیٰ کا اوراق کے ساتھ وقت بہت اچھا گزرا تھا اس کا موڈ اب بہت بہتر تھا دونوں ہنستے ہوئے گھر میں داخل ہوئے جب ضحیٰ کی نظر سامنے موجود شخص پر گئی اس کے قدم وہی رک سے گئے  چہرے کی مسکراہٹ سمٹ گئی

"اسلام و علیکم اوراق کیسے ہو"

صماد مسکراتے ہوئے اوراق کو دیکھتا اس کی جانب بڑھ کر سلام کرنے لگا 

"وعلیکم السلام"

اوراق گلے لگے اسے جواب دینے لگا صماد نے ضحیٰ کو مسکرا کر دیکھا جو ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھی

"میں نے سنا ہے تم نے ضحیٰ سے نکاح کرلیا اتنا اچانک"

صماد اوراق سے الگ ہوتا فوراً سے کہنے لگ گیا اوراق نے ایک نظر ضحیٰ پر ڈالی اور مضبوطی سے اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا ضحیٰ ہوش میں آئی

"میں نے سوچا نیک کام میں دیری کیسی"

اوراق اسے فوراً سے صاف لفظوں میں جواب دیتا مسکرا کر ضحیٰ کی جانب دیکھنے لگ گیا 

"مبارک ہو ضحیٰ"

صماد ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ سجائے بولا ضحیٰ جواباً خاموش رہی۔

صماد عارفہ محترمہ کا بیٹا تھا جو زیادہ تر کام میں مصروف ہونے کے باعث اپنے آفس کے قریب ایک فلیٹ میں رہتا تھا ہفتے ہفتے بعد وہ گھر میں سب سے آکر مل لیا کرتا تھا

"چلو بعد میں ملاقات ہوتی ہے"

اوراق اسے کہتے ساتھ ضحیٰ کو اپنے ساتھ لیے اوپر کی جانب بڑھ گیا صماد اسے جاتا دیکھنے لگ گیا ضحیٰ نے مڑ کر ایک نظر اس پر ڈالی 

                         ___________________

ڈنر کے وقت گھر کے تمام افراد موجود تھے شام کی فلائٹ سے وحید صاحب ضحیٰ سے ملے بغیر واپس جا چکے تھے صماد کی نظریں نان سٹاپ ضحیٰ پر جمی ہوئی تھی اس کی نظروں سے ضحیٰ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی وہاں سے چلی گ

اوراق نے اسے جاتا دیکھا 

"شاید بھوک نہیں ہے اسے"

اوراق کہتے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا ڈالتا کرسی کھسکا کر اوپر کی جانب بڑھ گیا لیزا اسے جاتا دیکھنے لگی 

"واقع بہت لکی ہے ضحیٰ"

لیزا اسے جاتا دیکھ دل میں کہتی کھانا کھانے میں مصروف ہوگئی 

اوراق کمرے میں داخل ہوا نظر ضحیٰ پر گئی جو بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اوراق کی جانب دیکھا

"مجھے بھوک نہیں تھی اس لیے میں اٹھ کر آگئی"

ضحیٰ اس کے ہاتھ سے ڈش لیتی فوراً سے بولی اوراق اس کے سامنے آکر بیٹھا 

"تم نے صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے کھانا کھانے کے بعد ویسے بھی ہم دونوں نے نکلنا ہے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے کہتا بتانے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"کہاں؟؟"

ضحیٰ نے فوراً پوچھا اوراق کھانا کھانے لگ گیا 

"یہ سرپرائز ہے"

اوراق اس کے کان کے قریب لب لائے سرگوشیانہ انداز میں کہنے لگا اوراق کے قریب آنے پر اس کی دھڑکن تیز ہوئی۔

دونوں نے مل کر کھانا کھایا اس کے بعد مل کر ہی پیکنگ کرلی 

اوراق نے گھڑی پر نظر ڈالی دس بج چکے تھے اسوقت سب گھر والے اپنے روم میں۔ موجود ہوتے تھے 

"مام سے مل کر نکلنا چاہیے ہمیں"

اوراق ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہتا کمرے سے باہر کی جانب آتا انیتا محترمہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا 

"ارے اوراق اور ضحیٰ آؤ"

انیتا محترمہ ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر مسکراتے ہوئے اندر آنے کا کہنے لگی دونوں اندر بڑھے 

"مام میں آپ کی بہو کو کچھ دنوں کیلیے لے کر جارہا ہوں خیال رکھیے گا اپنا"

اوراق انیتا محترمہ سے ملتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ بھی ملی اور وہ چل دی کچھ وقت ضحیٰ اس گھر سے دور ہی جانا چاہتی تھی اسی لیے اس نے اوراق کیساتھ جانے میں بہتری سمجھی۔

وہ دونوں نیچے آئے اور باہر کی جانب بڑھ گئے ڈرائیور کار پہلے سے نکالے ہوئے تھا اوراق اس سے ایڈریس سمجھتا سر کو خم دیتا گاڑی میں بیٹھ گیا 

"گھنٹے کا سفر ہے تو تم اگر سونا چاہو تو سو سکتی ہو"

اوراق گاڑی سٹارٹ کرکے گھر سے کچھ فاصلے پر لائے ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے بولا جو ونڈو سکرین سے باہر دیکھ رہی تھی۔

"نہیں مجھے نیند نہیں ارہی ہے"

ضحیٰ اسے جواب دیتے ساتھ ایک گہرا سانس لے گئی ضحیٰ کو محسوس ہوا کہ جیسے وہ قید خانے سے باہر نکل آئی ہو جب اس نے آج صماد کو گھر میں دیکھا دل مٹھی میں آ گیا تھا لیکن اوراق نے اس کی یہ پریشانی بھی ختم کردی تھی کچھ وقت ہی سہی وہ سکون میں تو تھی۔

"کیا سوچ رہی ہو"

اوراق اس پر ایک نظر ڈالتا سامنے سڑک پر واپس نظریں کیے بولا 

"نہیں کچھ نہیں"

ضحیٰ فوراً سے جواب دیتی۔ سر سیٹ سے ٹکا گئی 

"تم واقع میں بہت کم بولتی ہو یقین آ گیا ہے مجھے"

اوراق فوراً سے اسے کہنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"بچپن سے کسی سے اتنی بات نہیں ہوئی شاید اس وجہ سے"

ضحیٰ اسے دیکھتے جواب دینے لگی اوراق نے اسے دیکھا

"تمہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے تمہارا بچپن بہت ہی برا گزرا ہے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے افسردہ سا بولا ضحیٰ کے ہونٹوں پر اداس مسکراہٹ نمودار ہوئی

"لوگوں کا بچپن یادگار ہوتا ہے میرا بچپن اذیت تھا میرے لیے"

ضحیٰ آنکھوں میں آئی نمی کو اپنے اندر اتارے اسے جواب دیتی خاموش کروا گئی

کچھ دیر ہی گزری تھی ضحیٰ مزے سے سورہی تھی اوراق اسے دیکھ مسکرادیا 

گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اوراق نے بریک پر پاؤں رکھا اور فام ہاؤس کو دیکھا.

ضحیٰ شاور لے کر کمرے میں آئی سرخ رنگ کی ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس بالوں بھیگے بال پشت پر موجود تھے وہ ٹاول ہاتھ میں لیے ڈریسنگ کے سامنے آکر کھڑی ہوتی ٹاول کی مدد سے بال سکھانے لگ گئی تبھی اوراق کمرے میں داخل ہوا نظر اس پر گئی سر تا پیر اسے دیکھنے لگا سرخ رنگ اس کی دودھیانہ رنگت میں بےحد جچ رہا تھا اوراق پلک چھپکائے اسے دیکھنے میں مصروف تھا اوراق کے قدم خودبخود اس کی جانب بڑھتے چلے گئے ضحیٰ نے مرر میں اس کا عکس دیکھا اس کے ہاتھ ایکدم رکے اس نے چہرہ موڑا وہ اس کے عقب میں موجود تھا اسے اپنے اتنے قریب محسوس کرکے ضحیٰ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی تھی

"تمہارے اوپر ریڈ کلر بہت حسین لگ رہا ہے"

اوراق مرر سے اس کا عکس دیکھتے ہوئے رومانوی لہجے میں بولتا اس کی ہارٹ بیٹ مس کروا گیا۔

"تھ۔۔۔تھینکیو"

ضحیٰ ہچکچاتے ہوئے نظریں جھکائے شکریہ ادا کرنے لگ گئی اوراق نے اپنی انگلیاں اس کی کمر کی جانب بڑھائی اور اس کی کمر پر موجود چند بال آگے کر گیا ضحیٰ سوکھے پتے کی مانند لرزی اس کا دل مانو مٹھی میں آ گیا 

"اوراق"

ضحیٰ اسے مزید قریب آتا دیکھ فوراً سے اس کی جانب رخ کرتی اسے پکارنے لگ گئی اوراق نے اسے دیکھا

"پلیززز"

ضحیٰ بےبس نظروں سے اسے دیکھتی بولی اوراق نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی اور دو قدم پیچھے ہوا

"سوری"

اوراق یہ لفظ بولتا کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گیا ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی

"کیوں آخر کیوں ہمیشہ میں اس شخص کو ہرٹ کردیتی ہوں"

ضحیٰ ہاتھوں میں ناخن چباتی غصے سے کہنے لگ گئی۔

ضحیٰ بال سکھا کر گلے کی۔ دوپٹہ اوڑھتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھی نظر ٹی وی لاؤنچ ہر صوفے پر بیٹھے اوراق پر گئی اوراق نے اسے نہیں دیکھا تھا ضحیٰ اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی وہ ٹی وی سکرین پر نظریں مرکوز کیے ہوا تھا

"آپ مجھے انڈرسٹینڈ کریں میرے لیے یہ سب بہت اچانک ہے"

ضحیٰ اوراق کی جانب دیکھتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگ گئی

"جب تمہارا دل ہوتا ہے مجھے اپنے قریب رکھنے کا میں موجود ہوتا ہوں اور تمہیں خود کے قریب آنے سے نہیں روکتا لیکن جب کبھی تمہارے نزدیک آنے کی کوشش کروں تو تم ایسے ری ایکٹ کرتی ہو جیسے میں کون ہوں"

اوراق لہجے میں سختی لیے اسے دیکھے بغیر کہنے لگا ضحیٰ اسے دیکھنے لگی 

"میں ڈر جاتی ہوں تب آپ کے پاس آتی ہوں"

ضحیٰ نے اسے دیکھتے ہوئے آہستگی سے بولا اب کی بار اوراق نے اسے دیکھا

"کیوں ڈرتی ہوں کوئی وجہ بھی تو ہو نا"

اوراق اس کی جانب سوالیہ نظریں کیے کہنے لگا ضحیٰ نظریں جھکا گئی

"مجھے خواب آتے ہیں"

ضحیٰ سر جھکائے جھوٹ بولتے ہوئے بتانے لگی اوراق اسے دیکھ رہا تھا

"لنچ کرنے چلیں"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے نارمل انداز میں بولا ضحیٰ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا

"کہاں؟"

ضحیٰ نے فوراً سے اس سے پوچھا اوراق نے اسے دیکھا

"جہاں میں لے کر جاؤں گا لیٹس گو"

اوراق اس کا ہاتھ تھامتا اٹھ کھڑا ہوا ضحیٰ خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگ گئی

وہ دونوں پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ایک ریسٹورنٹ میں پہنچے اور اندر بڑھتے ایک ٹیبل پر آ گئے اوراق نے ضحیٰ کیلیے چئیر پیچھے کی ضحیٰ اس پر بیٹھ گئی اور اوراق بھی اپنی کرسی سنبھال گیا

"یہ بہت خوبصورت ہے"

ضحیٰ ریسٹورنٹ پر نظر ڈالتی مسکرا کر اسے بتانے لگی اوراق بھی ہلکا سا مسکرایا 

"کیا کھاؤ گی"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگا ضحیٰ کی نظریں مینیو پر تھیں مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا منگوائے اس نے مایوسی سے اوراق کی جانب دیکھا 

"ایسے کریں لارج اپنا سپیشل پیزا لے آئیں"

اوراق ویٹر کی جانب دیکھتے ہوئے آرڈر دیتا کہنے لگا ویٹر سر کو خم دیتا چلا گیا ضحیٰ اسے دیکھنے لگ گئی

("ضحیٰ میں نے پیزا آرڈر کیا ہے تم کھاؤ گی"

لیزا ضحیٰ کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ضحیٰ نے ایک نظر اس پیزے پر ڈالی اور پھر لیزا پر ڈالی 

"کوئی ضرورت نہیں ہے جو چاول بچے ہوئے ہیں وہی کھاؤ چلو"

تبھی عارفہ محترمہ فوراً غصے سے اسے منع کرتی بولی جس پر ضحیٰ خاموشی سے کچن کی جانب بڑھ گئی)

"تم ٹھیک ہو"

اوراق اس کی نظریں مسلسل خود پر کیے فوراً سے پوچھنے لگا

"ہممم"

ضحیٰ ہوش میں آتی اثبات میں سر ہلا گئی اوراق اسے دیکھنے لگا 

"تھینکیو"

ضحیٰ اوراق کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالتی اسے کہنے لگی اوراق نے اسے دیکھا

"کس لیے"

اوراق نے ایک نظر ہاتھ پر اور پھر ضحیٰ پر ڈالے پوچھا 

"ہر چیز کیلیے"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر جواب دینے لگ گئی اوراق مسکرادیا۔

کچھ دیر بعد پیزا آ گیا تھا اوراق نے ایک سلائز حِنزہ کی پلیٹ میں اور ایک اپنی پلیٹ پر رکھا چھڑی اور کانٹا اٹھا کر وہ پیزا کھانا کھانے لگ گیا ضحیٰ بھی اسے دیکھتی چھٹی اور کانٹا اٹھا گیا الٹے ہاتھ میں کانٹا اور سیدھے ہاتھ میں چھڑی پکڑے وہ اوراق کی طرح کھانے کی کوشش کررہی تھی مگر وہ نہیں کھا پارہی تھی اوراق نے ایک نظر اسے دیکھا ضحیٰ ہلکا سا مسکرائی اور کھانے کی کوشش کرنے لگی مگر نہیں کھا سکی اس نے ایک ہجر کوشش کی اس بات بھی ناکام رہی اسے رونا آنے لگا تبھی اوراق نے چھڑی کانٹا سائیڈ پر رکھا اور ہاتھ سے اٹھا کر کھانے لگ گیا ضحیٰ اسے دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ سے کھانے لگ گئی

دونوں نے مل کر پیزا کھایا اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتے رہے

"میں واشروم سے ہوکر آیا "

اوراق ہاتھ صاف کرتا ضحیٰ سے کہتے ساتھ اٹھ کر باتھروم کی جانب بڑھ گیا ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی۔

"جتنا خوش رہنا ہے رہ لو جیسے ہی اوراق کو سچائی معلوم ہوگی وہ تمہیں ایک سکینڈ لگائے بغیر چھوڑ دے گا"

ضحیٰ اپنے قریب سے یہ آواز سنتی فوراً گھبرا کر مٹی مگر وہ شخص پیٹ کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا ضحیٰ خوفزدہ نظروں سے اسے جاتا دیکھنے لگ گئی

"آخر کیوں پیچھا نہیں چھوڑتا یہ شخص میرا"

ضحیٰ اسے جاتا دیکھ غصے سے کہتے ساتھ سر جھٹک گئی تبھی اوراق آیا

"چلیں"

اوراق بل ہے کرتا اسے دیکھ کر پوچھنے لگا ضحیٰ اثبات میں سر ہلا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور دونوں باہر کی جانب بڑھ گئے۔

__________________

"اماں ہم تو انہیں الگ کرنے والے تھے نا تو پھر یہ سب کیا ہوا"

عارفہ محترمہ پریشانی سے ادیبہ بیگم کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر ادیبہ بیگم اسے دیکھنے لگ گئی

"میں کیا کرسکتی ہوں اب جب تک واپس گھر نہیں آ جاتے کچھ نہیں ہوسکتا "

ادیبہ بیگم فورا سے جواب دینے لگ گئی جس پر عارفہ منہ بنا کر رہ گئی

"کچھ بھی مت کریں آپ لوگ جو کرنا ہے میں خود کرلوں گی میں ضحیٰ کو اوراق کی زندگی سے نکال کر ہی دم لوں گی"

تبھی لیزا کمرے میں داخل ہوتی فوراً سے بولی دونوں نے اسے دیکھا

"تم کیا کرو گی"

عارفہ محترمہ فوراً سے پوچھنے لگی لیزا چہرے پر مسکراہٹ سجا گئی

"یہ بس آپ مجھ پر چھوڑ دیں"

لیزا مسکراتے ہوئے انہیں دیکھتی کہنے لگی جس پر عارفہ محترمہ مسکرادی

"جو بھی کرنا دھیان سے کرنا یہ نہ ہو کہ تم خود ہی اس جال میں پھنس جاؤ"

ادیبہ بیگم انہیں فوراً سے سمجھاتی کہنے لگی جس پر وہ دونوں سر کو خم دے گئی

_________________

ضحیٰ پورے راستے سے کر سب کمرے میں بیٹھی مسلسل اس شخص کی کہی بات سوچ رہی تھی

"ضحیٰ کافی بنادو گی"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا اور سر کو خم دیتی اٹھ کر کچن کی جانب بڑھی 

ضحیٰ کافی بنانے میں مصروف تھی اس کے ذہن میں وہ سب باتیں گردش کرنے لگ گئی

"میرے علاؤہ تمہاری زندگی میں کوئی دوسرا مرد نہیں آئے گا جو آئے گا تمہاری حقیقت جانتے ہی یا تو تمہیں طلاق دے دے گا یا چھوڑ جائے گا"

اس شخص کے کہے گئے الفاظ کانوں میں گونجنے لگے ضحیٰ چکرانے لگ گیا

"اوراق م

بھی مجھے چھوڑ دیں گے"

ضحیٰ نم آنکھیں لیے خود سے کہنے لگی اچانک اس کی نظر گلاس پر گئی اور اس نے گلاس ہاتھ میں لیا 

کانچ کی آواز ٹوٹنے پر اوراق فوراً باہر آیا اور کچن کی جانب بڑھا 

"ضحیٰ"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فکرمند سا پکارنے لگا ضحیٰ کی آنکھوں سے ایک ایک کرکے آنسو بہتا گل پر گر رہا تھا وہ بےتاثر سی کھڑی تھی۔

"ضحیٰ آر یو میڈ"

اوراق اس کا بازو پکڑتا پکارنے لگا اس کے ہاتھ سے خون بہ رہا تھا

"نووو ڈونٹ ٹچ می چھوڑیں مجھے دور رہیں مجھ سے"

ضحیٰ اوراق سے اپنا ہاتھ چھڑواتی زور سے چلائی وہ پریشان سا اسے دیکھنے لگ گیا 

"مجھے معلوم ہے سب کی طرح آپ بھی مجھے چھوڑ جائیں گے مت بنائیں مجھے اپنی عادت "

ضحیٰ بےبسی سے روتے ہوئے اسے بولتی زمین پر بیٹھتی چلی گئی

"ایسا کبھی نہیں ہوگا میں نے تمہارا ہاتھ تھاما ہے اور اپنی آخری سانس تک یہ ہاتھ تھامے رکھوں گا "

اوراق اس کے پاس آکر بیٹھتا اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے کہنے لگا ضحیٰ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگ گئی

"میں آپ کو کھونے سے ڈرنے لگی ہوں اوراق"

ضحیٰ سسک کر اس کی شرٹ کو مضبوطی سے جکڑے بولتی اس کے سینے سے لگ گئی اوراق کے لبوں پر  مسکراہٹ نمودار ہوئی اوراق اس کے چہرے سے بال ہٹاتا اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹوں کا نرم لمس چھوڑ گیا 

"تم مجھے کبھی نہیں کھو گی کیونکہ میں تمہیں اب خود سے دور کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا بیکوز یو آر مائی ہارٹ بیٹ"

اوراق اس کے کان کے قریب لب لائے رومانوی لہجے میں بولتا ضحیٰ کی ہارٹ بیٹ مس کروا گیا

"اٹھو روم میں چلو"

اوراق اسے پیار سے کہتے ساتھ اٹھانے لگا ضحیٰ اس کے ساتھ چلتی ہوئی کمرے میں آئی اوراق نے فرسٹ ایڈ باکس اٹھایا اور  ضحیٰ کے ہاتھ پر پٹی کرنے لگ گیا

"اچانک کیا ہوا ایسا ہاں"

اوراق ضحیٰ کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ضحیٰ نفی میں سر ہلا گئی اوراق نے بھی زیادہ اسرار نہیں کیا کیونکہ اسکی حالت بلکل ٹھیک نہیں تھی۔

اوراق بینڈچ کرتا اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ضحیٰ بلکل خاموش بیٹھی تھی

"ضحیٰ تمہیں کیوں ڈر لگتا کوئی خاص وجہ"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں پوچھنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"مام کی ڈیتھ کے بعد مجھے ایسے خوفزدہ خواب آتے ہیں"

ضحیٰ اسے فوراً سے دیکھتی کہنے لگی اوراق اسے دیکھنے لگ گیا 

"خودبخود تو نہیں ایسے خوفزدہ خواب آتے ہیں کوئی وجہ تو ہوتی ہے کوئی ڈراتا ہے تمہیں"

اوراق اس کی جانب دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں پوچھنے لگا ضحیٰ اسی دیکھ بیڈ سے اتر گئی

"اوراق کیا آپ پلیززز کسی اور ٹوپک پر بات کریں گے"

ضحیٰ اسے دیکھتی تھوڑے اکتائے ہوئے لہجے میں بولی اوراق نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ پر دوبارہ بٹھایا 

"تمہیں ٹرسٹ ہے مجھ پر"

اوراق اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامے پوچھنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا گئی

"میرا تمہیں یہاں لانے کا خاص مقصد ایک دوسرے سے باتیں شئیر کرنا تھا مجھے تمہارا یہ خوف پریشان کردیا ہے مجھ سے شئیر کرو ضحیٰ ہم مل کر سلوشن نکالیں گے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے پیار سے کہنے لگا ضحیٰ اسے دیکھنے لگی ایک پل کیلیے اس نے سوچا اوراق کو سب بتا دے اچانک ریسٹورنٹ میں اس شخص کی کہی بات ذہن میں آئی 

"اوراق ایسا کچھ نہیں ہے میں آپ کو بتا چکی ہوں مام کی ڈیتھ کی وجہ سے ہے آپ پریشان نہ ہو پلیززز "

ضحیٰ اسے دیکھتی فوراً سے جواب دینے لگ گئی جس پر اوراق اسے دیکھنے لگ گیا 

"تم کہ رہی ہو تو مان لیتا ہوں لیکن وجہ کیا ہے وہ میں ضرور ڈھونڈوں گا"

اوراق اسے کہتے ساتھ ایک اور پریشانی میں مبتلا کرتا اٹھ کر باتھروم کی جانب بڑھ گئی

"میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے اللہ"

صحیح آنکھوں میں آئی نمی کو ضبط کرتی آنکھیں بند کیے کرب سے بولی۔۔

________________

وہ سب لوگ رات کا ڈنر کررہے تھے انیتا محترمہ بھی موجود تھی 

"ویسے مام بہت وقت نہیں ہوگیا ہے اوراق اور ضحیٰ کو گئے"

عارفہ محترمہ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا جس پر عارفہ محترمہ نے اسے دیکھا

"ہم کہاں بولیں کسی کو بیٹا وہ اپنی ماں کو یاد نہیں رکھے ہوا"

عارفہ محترمہ جان کر انیتا محترمہ کی جانب دیکھتی کہنے لگ گئی جس پر لیزا اپنی ماں کی کہی بات پر مسکرائی

"وہ مجھے ہر وقت یاد رکھتا ہے اور تین دفعہ کالز کر چکا ہے"

انیتا محترمہ مسکراتے ہوئے عارفہ محترمہ کو دیکھتی بولی

"اور ویسے بھی ان دونوں کی شادی ہوئی ہے کچھ وقت ساتھ گزار لیں گے کوئی مسئلہ نہیں ہے"

لیزا فوراً سے بیچ میں مداخلت کرتی کہنے لگی انیتا محترمہ مسکرادی 

اور وہ لوگ خاموشی سے کھانا کھانے لگ گئے ان سب میں عاقب صاحب بلکل ہی خاموش کھانے میں مصروف تھے

_________________

"اوراق کیا کررہے ہیں آپ"

ضحیٰ اوراق کی کب سے کچن میں دیکھتی پوچھنے لگ گئی

"پاستہ بنا رہا ہوں تمہارے لیے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگا ضحیٰ اس کے پاس آکر کھڑی ہوئی فام ہاؤس میں آنے سے ضحیٰ اوراق کے قریب جانے سے گھبراتی نہیں تھی

"میں کوئی ہیلپ کردوں"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگ گئی

"تمہارے ہاتھ میں درد ہورہا ہوگا"

اوراق اس کے زخمی ہاتھ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے فکرمند سا کہنے لگ گیا 

"نہیں اتنا نہیں کے"

ضحیٰ فوراً سے جواب دینے لگ گئی اوراق اسے بازوؤں سے تھامے اسے اپنے آگے کرگیا ضحیٰ تھوڑا کنفیوز ہوئی

"پکڑو چمچ"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا ضحیٰ نے چمچ میں پکڑ لیا اوراق نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا 

"چمچ مسلسل ہلاتی جاؤ"

اوراق اسے ساکت کھڑا پاکر گھبراتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ نے مڑ کر ایک نظر اسے دیکھا اس کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی اس کی گرم سانسیں ضحیٰ کی گردن پر محسوس ہورہی تھی اور اس کی سٹرونگ خوشبو ضحیٰ کو بےبس کررہی تھی اوراق اس کے اور اپنے بیچ ایک انچ کا فاصلہ بھی ختم کرتا اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا

"اااوراق آگے کیا کرنا ہے"

ضحیٰ کنفیوز سی ہوتی اسے دیکھ کر کہنے لگی اوراق ہوش میں آیا اور چکن اس میں ڈالنے لگ گیا 

"شیف اوراق اسماعیل بیگ آپ کو پاستہ بنانا سیکھا رہا ہے سیکھو اگلی دفعہ تم بناؤ گی"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے شوخ لہجے میں کہنے لگا ضحیٰ ہنس دی 

"تمہیں معلوم ہے تمہاری مسکراہٹ بہت حسین ہے"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں جمائے مسکراتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ کی گال سرخ ہوگئی ہو شرمندہ سی پلکیں چھپکا گئی 

"نن۔۔۔نہیں"

ضحیٰ کانپتے ہوئے اسے جواب دینے لگ گئی اوراق نے اس میں بوائل پاستہ ڈال دیا 

"ہمارا پاستہ ریڈی ہے مسز"

وہ اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ چولہا بند کرگیا 

"ٹھیک ہے میں ہاتھ دھو لوں"

ضحیٰ فوراً سے بازو کے نیچے سے نکلتی کہتے ساتھ کچن کی جانب بڑھ گئی ضحیٰ مسکرادی

پاستہ کھانے کے بعد وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو ضحیٰ مرر وال کے پاس جاکر کھڑی ہوئی باہر آہستہ آہستہ بارش ہورہی تھی وہ اس بارش پر نظریں جمائے ہوئے تھی اس کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر لہرایا 

"بارش میں تمہارا وجود اور بھی کمال لگتا ہے"

اس شخص کے کہے گئے الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں ضحیٰ کی آنکھوں میں نمی سی آئی 

"تمہیں بارش پسند ہے"

اوراق کی آواز اس قدر قریب سے سن کر وہ گھبراتے ہوئے مڑ کر اسے دیکھنے لگ گئی 

"ج۔۔جی"

ضحیٰ کنفیوز سی اسے جواب دیتے ساتھ پھر مرر وال ہر نظریں کرگئی

"بھیگنا نہیں چاہو گی؟"

اوراق اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے گھمبیر لہجے میں پوچھنے لگا 

"نہیں"

ضحیٰ نے فوراً سے اسے جواب دیا وہ پریشانی سے اسے دیکھنے لگ گیا 

"مجھے بھیگنا سے خوف محسوس ہوتا ہے بارش میں بس دیکھنا پسند ہے"

ضحیٰ اسے پریشان نظروں سے خود کو دیکھتے ہوئے جواب دینے لگی جس پر اوراق اسے دیکھنے لگ گیا 

"چلو چلیں باہر"

اوراق اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے بولا ضحیٰ اسے پریشان نظروں سے دیکھنے لگ گئی

"نہیں اوراق مجھے نہیں جانا"

ضحیٰ ڈرتے ہوئے اس سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی سعی کرتے ہوئے کہنے لگی 

"شش"

اوراق اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ اسے خاموش کروا گیا 

"میں ہوں تمہارے ساتھ"

اوراق اپنے لب اس کے کان کے قریب لاتا گھمبیر لہجے میں بولا ضحیٰ اس کی گھمبیر آواز اور خوشبو سی نروس سی ہوگئی وہ اوراق کیساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے لان کی جانب بڑھی اب بارش پہلے سے تیز ہوچکی تھی وہ دونوں لان میں آئے اور دونوں پورے بھیگ گئے ضحیٰ خوفزدہ سی کھڑی تھی

"آنکھیں بند کرو ضحیٰ"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں کہنے لگا ضحیٰ آنکھیں بند کر گئی

"گہرا سانس لو"

اوراق اس کے بالوں کو ٹھیک کرتا اس کے چہرے کے نقوش پر نظریں مرکوز کیے بولا ضحیٰ نے ویسا ہی کیا 

"اب آنکھیں کھولو"

اوراق کے کہنے پر ضحیٰ نے آنکھیں کھولیں اور نظر اوراق پر گئی جو اسی کو تک رہا تھا ضحیٰ کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوئی اب وہ پہلے کی طرح خوفزدہ نہیں تھی

"ڈانس کرو گی میرے ساتھ"

دامیر اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا محبت بھرے لہجے میں پوچھنے لگا ضحیٰ نے کانپتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا اوراق نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھا اور دوسرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا اور وہ دونوں آہستہ آہستہ ڈانس کرنے لگ گئے اوراق اور ضحیٰ کی نظریں ایک دوسرے پر مرکوز تھیں اوراق نے اپنے اور اس کے بیچ کے فاصلے کو مزید کم کیا اس کے مزید قریب آنے پر ضحیٰ کے دل کی دھڑکنیں بےترتیب سی ہوئی اوراق نے گھما کر اسے اپنے حصار میں لیا ضحیٰ کی پشت اس کے سینے سے ٹکرائی اور اوراق کی نظر اس کی سفید گردن پر گئی جہاں چند گیلی  لٹھیں موجود تھی اوراق نے  ان بالوں کی لٹھوں کو اپنی انگلیوں کی مدد سے اٹھانا چاہا اس کا لمس جیسے ہی ضحیٰ نے گردن پر محسوس کیا وہ ننھی جان سوکھے پتے کی مانند لرز سی گئی اور آنکھیں بند کر گئی۔ اوراق نے جھک کر اس کی گردن پر نرمی سے اپنے ہونٹوں کا لمس محسوس کروایا ضحیٰ کی جان پر بن گئی

"ضحیٰ میں نے تم سے زیادہ حسین لڑکی اپنی زندگی میں نہیں دیکھی"

اوراق رومانوی لہجے میں اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتا بولتا اس کی حالت غیر کر گیا اوراق نے اس کا رخ اپنی جانب کیا جو بامشکل اپنے پیروں پر کھڑی تھی اس کا رخ اپنی جانب کرتے تھوڑی پر ہاتھ رکھ چہرہ اوپر کیا وہ آنکھیں بند کیے اس کے سہارے پر کھڑی تھی اچانک بجلی کڑکنے کی آواز پر وہ خوفزدہ سی اس کے سینے سے لگ گئی ہمیشہ کی طرح اوراق کی ہارٹ بیٹ اس کے گلے سے مس ہوئی اوراق اس کی کمر کے گرد مضبوط حصار قائم کرتا مسکراگیا۔

"ااا۔۔اوراق روم میں چلیں"

ضحیٰ اس کے سینے سے لگی کانپتے لبوں سے کہنے لگی 

"روم میں کیوں جانا ہے "

اوراق لہجے میں شوخ پن لیے پوچھنے لگا ضحیٰ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا

"سونے کیلیے"

وہ معصومیت سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گئی اوراق اپنی ہنسی بمشکل ضبط کرسکا اور اسے اسی طرح اپنے ساتھ لگائے وہ کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

وہ چینج وغیرہ کرکے کمرے میں واپس آئی اوراق بیڈ پر بیٹھا تھا نظریں اس پر گئی وہ سیاہ رنگ کے ڈریس میں ملبوس وہی بین والا گلہ پہنے پورے بازوؤں پہنے سائیڈ پر دوپٹہ کیے بیڈ کی جانب بڑھی 

"ایک بات پوچھوں ضحیٰ"

اوراق اسے بیڈ پر بیٹھا دیکھ سنجیدگی سے پوچھنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"تم یہ ڈریسنگ ویسے خوشی سے کرتی ہو یا کوئی وجہ ہے؟"

اوراق اس کی ڈریسنگ پر ایک نظر ڈالتا فوراً سے کہنے لگا ضحیٰ کے چہرے کا رنگ ایکدم اڑ گیا وہ اسے دیکھنے لگ گئی

"بب۔۔۔بتایا تو تھا مجھے ایسے کپڑے پہننا پسند ہیں"

ضحیٰ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے جواب دینے لگی 

"میں چہرے پڑھنے میں کوئی مہارت نہیں رکھتا لیکن بڑے سے بڑا بیواقوف انسان بھی تمہارے چہرے سے صاف محسوس کرسکتا ہے تم جھوٹ بول رہی ہو"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں جمائے انتہائی سنجیدہ لہجے میں بولا 

"مجھے نیند آرہی ہے"

ضحیٰ اس کی کہی بات پر گھبراتے ہوئے نظریں جھکائے کہتے ساتھ بیڈ پر لیٹنے لگی جب اوراق نے اسے اپنے قریب کیا 

"ضحیٰ تمہیں گھر سے فام ہاؤس لانے کا مقصد صرف ہم دونوں ایک دوسرے سے سب شئیر کریں ایک دوسرے کو سمجھیں مجھے پریشان کردیا ہے اچانک تم یوں خوفزدہ ہوجانا پھر تم نارمل ہوجاتی پھر کچھ وقت بعد گھبرانے لگ جاتی ہو ایسا صرف دادی اور پھوپھو کے رویے کی وجہ سے یا کچھ اور"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے پریشان سا پوچھنے لگا ضحیٰ نے اسے بیچ میں ٹوکا 

"کچھ اور سے کیا مطلب ہاں"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی اوراق نے اسے دیکھا

"میں آپ کو وجہ بتا چکی ہوں مام کی ڈیتھ بات خوفزدہ رہنے لگ گئی پھر دادی پھوپھو کی ڈانٹ مار سے مزید خوفزدہ رہنے لگ گئی اور کوئی بات نہیں ہے مجھے سونا ہے"

ضحیٰ اسے کہتے ساتھ خود پر بلینکٹ ڈالتی لیٹ گئی اور اس اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا 

_____________

"کب تک آئیں گے یہ دونوں آج چار دن ہوگئے ہیں اتنا زیادہ قریب رہنا ٹھیک نہیں ہے"

لیزا بیڈ پر لیٹے چھت کو تکتے ہوئے خود سے کہنے لگ گئی اور گھڑی پر نظر ڈالی 

"کچھ کرنا ہوگا لیزا تمہیں"

لیزا سوچتے ہوئے خود سے کہنے لگ گئی اور چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجا گئی

"سوری میری پیاری ممانی جان مگر کیا کروں آپ کے بیٹے کو یہاں لانے کیلیے ایسا کرنا بہت ضروری ہے"

لیزا چہرے پر مسکراہٹ سجائے خود سے ہمکلام ہوتے ہوئے مسکراتی ہنس دی 

"واہ لیزا واہ تم کمال کی ایکٹر ہو یار"

وہ مسکراتے ہوئے خود کو داد دیتے ہوئے بلینکٹ ڈالتی سونے لگ گئی۔ 

_______________

ضحیٰ کی آنکھ کھلی اوراق پر نظر گئی جو بیڈکراؤن سے ٹیک لگائے اسی پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا 

"گڈ مارننگ"

ضحیٰ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگ گئی اوراق کے ہونٹوں پر بھی ہلکا سا مسکرا گیا 

"مارننگ"

وہ اسے دیکھتے ہوئے پیار سے کہنے لگا ضحیٰ بھی اٹھ کر بیڈکراؤن سے ٹیک لگا گئی

"آپ سوئے نہیں ہیں کیا"

ضحیٰ اس پر نظریں ڈالے پوچھنے لگ گیا جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گیا 

"نیند نہیں آئی"

اوراق جواب دینے لگ گیا ضحیٰ کے چہرے پریشان تاثرات سج گئے 

"کیوں کیا ہوا؟؟"

ضحیٰ اسے دیکھتی فکرمند سا پوچھنے لگی اوراق نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب کیا 

"اوراق آپ پوری رات وہی بات سوچتے رہے ہیں"

ضحیٰ اندازہ لگاتی اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے بولی 

"تم مجھے سوچنے پر مجبور کرچکی ہو"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے اسے کہنے لگ گیا 

"اوراق آپ بےفکر رہیں ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہے ہیں پلیزز ہم اس متعلق بات نہیں کرتے نا"

ضحیٰ اسے دیکھتی چہرے پر اداسی سمائے اسے کہنے لگی اوراق نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر لب رکھے ضحیٰ آنکھیں بند کر گئی اس کی پیار بھرا لمس محسوس کرکے ضحیٰ کو سکون سا محسوس ہوا تھا

"آپ فریش ہو جائیں میں ناشتہ ریڈی کرتی ہوں"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ اٹھ کر واشروم کی جانب بڑھنے لگ گئی 

وہ فریش ہوکر کچن کی جانب بڑھ گئی اوراق فریش ہونے کیلیے واشروم کی جانب بڑھ گیا 

_______________

لیزا صبح ناشتے کیلیے نیچے کی جانب بڑھ رہی جب نظر انیتا محترمہ پر گئی جو سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی 

"تھینکیو اللہ"

وہ ہنستے ہوئے بولتی تیزی سے انیتا محترمہ کی جانب بڑھ گئی

"کیسی ہیں ممانی"

لیزا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگ گئی جس پر انیتا محترمہ نے مسکرا کر اسے دیکھا

"میں الحمداللہ ٹھیک"

انیتا محترمہ اسے دیکھتے ہوئے جواب دیتی سیڑھیاں اترنے لگی چار سیڑھیاں باقی تھیں جب لیزا نے انیتا محترمہ کو دھکا دینا چاہا

"لیزا"

اس سے پہلے وہ انہیں دھکا دیتی انیتا محترمہ مڑ کر اسے پکارنے لگی 

"جی"

لیزا چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجائے پوچھنے لگی انیتا محترمہ نے اسے دیکھا 

"میں فون اٹھانا بول گئی اپنا اوراق کی کال آرہی ہے"

انیتا محترمہ اسے کہتے ساتھ اوپر کی جانب بڑھ گئی اور وہ لیزا بس گھور کر رہ گئی

"کوئی نہیں آج یہ کام کرکے ہی رہوں گی"

لیزا خود سے کہتے ساتھ زینے اتر کر نیچے کی جانب بڑھ گئی اور انیتا محترمہ اپنے روم کی جانب چلی گئی 

وہ روم کی جانب بڑھی اوراق کی کال آرہی تھی انہوں نے فوراً کال اٹینڈ کی 

"اسلام و علیکم"

اوراق کی آواز آئی وہ مسکراتے ہوئے اسے سلام کا جواب دینے لگ گئی اوراق ان کی طبیعت وغیرہ پوچھ کر خیال رکھنے کی تنبیہہ کرتا فون بند کرگیا۔

__________________

ضحیٰ کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہوئے تھی 

"نہیں ضحیٰ اب تم نے کسی کو بھی ظاہر نہیں کرنا تم پریشان نہیں ہو اوراق کیساتھ اپنا بونڈ مضبوط کرلو اللہ بہتر کریں گے"

ضحیٰ رات میں یہ فیصلہ کرتی ناشتہ بناتے ہوئے دل میں۔ سوچنے لگ گئی

"ناشتہ ریڈی نہیں ہوا کیا"

اوراق کی آواز پر اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اسے بلکل اپنے پیچھے موجود پاکر ضحیٰ گھبرا گئی اور تیل کی گرم چھینٹیں ہاتھ میں آئی 

"آہہہہ"

ضحیٰ کو اچانک جلن سی محسوس ہوئی تو اس نے ایک سسکی لی اوراق پریشان سا اسے دیکھنے لگ گیا 

"تم پاگل ہو کیا کرتی ہو ضحیٰ تم اپنا زخمی ہاتھ تو پیچھے رکھتی"

اوراق اس کا ہاتھ تھامے خفگی سے کہتے ساتھ اس کے ہاتھ پر نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگ گیا 

"آپ کے اپنے پیچھے موجود پاکر میں ڈر گئی تھی"

ضحیٰ اسے دیکھتی معصومیت سے بتاتے ساتھ رونے لگ گئی اوراق پریشان سا اسے دیکھنے لگ گیا 

"ضحیٰ رو کیوں رہی ہو"

اوراق اسے روتا پاکر پریشانی سے اسے دیکھتا بولا جس پر ضحیٰ سسکیاں لینے لگ گئی

"جلن ہورہی ہے"

ضحیٰ نم آنکھوں سے اسے دیکھتی رونے کی وجہ بتانے لگ گئی  اوراق نے اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے ان پر لب رکھ گیا ضحیٰ اسے دیکھنے لگ گئی دل نے ایک بیٹ مس کی اور اوراق نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا

"اب ٹھیک ہے"

اوراق پیار بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ضحیٰ شرما کر پلکیں چھپکا گئی اس کی اس حرکت پر اوراق کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لاتا باری باری اس کی آنکھوں پر لب رکھ گیا 

"تمہاری آنکھیں بہت حسین ہیں اور مجھے ان حسین آنکھوں پر نمی نہیں پسند ضحیٰ"

اوراق مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر انتہائی پیار سے بولتا اسے مزید سرخ کر گیا ضحیٰ کب بھینچ کر رہ گئی

"نن۔۔۔ناشتہ"

ضحیٰ اس کی نظریں مسلسل خود پر پاکر فوراً سے کہنے لگی 

"میں دیکھتا ہوں"

اوراق اسے کہتے ساتھ کچن کی طرف بڑھ گیا ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی۔

ضحیٰ اور اوراق نے مل کر ناشتہ کیا اور پھر وہ دونوں ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے ٹی وی دیکھنے لگ گئے 

_______________

"تمہیں پریشانی نہیں ہورہی ہے پانچ دنوں سے وہ دونوں وہاں ہیں"

عارفہ محترمہ لیزا کی جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگی لیزا انہیں دیکھنے لگ گئی

"کیا کروں پھر میں ممانی بھی کمرے سے باہر نہیں نکلی دوپہر کا کھانے کے بعد میں نے سوچا انہیں گرا دوں گی اسی بہانے وہ واپس سجائے گا لیکن نہیں ہو پایا"

لیزا پریشانی سے ناخن کتراتے ہوئے اسے دیکھ کر بتانے لگ گئی

"لیزا وہ دونوں پانچ دن سے ساتھ ہیں اور وہ لوگ بہت قریب آ چکے ہوں گے تمہیں لگتا ہے تم انہیں الگ کر سکو گی"

عارفہ محترمہ پریشانی سے اسے دیکھتے ہوئے سوچتی پوچھنے لگی 

"اس دفعہ نہیں مام وہ ہر دفعہ جو مجھے پسند آتا تھا لے لیتی تھی لیکن اس بار اوراق کو میں اپنا بنا کر رہوں گی بےشک اس کیلیے ضحیٰ کی جان بھی لینی پڑ جائے مجھے"

لیزا آنکھوں میں نفرت لیے حسرت سے کہنے لگی عارفہ محترمہ نے اس کی جانب دیکھا 

"انشاء اللہ میری بچی تو پریشان نہ ہو"

عارفہ محترمہ پیار سے اسے دیکھتی گلے لگا گئی اور لیزا بھی اس کے گلے لگ گئی

"کیا ہوا لیزا کو"

عاقب صاحب کمرے میں داخل ہوتے لیزا کو اداس دیکھ کر پوچھنے لگے 

"کچھ نہیں"

عارفہ محترمہ فوراً سے عاقب صاحب کی جانب دیکھتی پوچھنے لگی 

"طبیعت ٹھیک ہے اس کی"

عاقب صاحب پریشان سے اس کی جانب آتے اس کے سر پر ہاتھ رکھے بولے 

"میں بلکل ٹھیک ہوں ڈیڈ"

وہ مسکراتے ہوئے عاقب صاحب سے لگتی پیار سے بولی جس پر انہیں سکھ کا سانس آیا۔

"آجاؤ ڈنر کرلو"

عاقب صاحب کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئے لیزا میں ان کی جان بستی تھی

"تم خود کو نارمل کرکے باہرآ  جاؤ لیزا"

عارفہ محترمہ کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی اور لیزا باتھروم کا رخ کر گئی

_______________

وہ دونوں لان کے جھولے پر بیٹھے باتیں کررہے تھے 

"اوراق ہم گھر واپس جب جائیں گے"

ضحیٰ اسے دیکھتی پوچھنے لگی اوراق اس کی بات پر دیکھنے لگ گیا 

"یہاں رہنا اچھا نہیں لگ رہا"

اوراق اسے دیکھتا فوراً سے پوچھنے لگ گیا ضحیٰ نفی میں سر ہلا گئی 

"آپ بھی نا بات کا ہمیشہ غلط مطلب لیتے ہیں میں آنٹی کی وجہ سے کہ رہی تھی وہ آپ کے ساتھ آئیں تھی"

ضحیٰ فوراً سے اسے دیکھتی پوچھنے کی وجہ بتانے لگی جس پر اوراق مسکرادیا 

"میں نے مام کو کہا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ وہ ہم دونوں کچھ وقت اکیلے گزارنا چاہیے شاید وہ دادی بننے کے خواب دیکھ رہی ہیں"

اوراق اس کے قریب آتا دیکھ تھوڑا شوخ لہجے میں بولا ضحیٰ تھوڑا کھسکی 

"اوراق آپ ایسی باتیں نہ کیا کریں"

ضحیٰ سرخ چہرہ کیے نظریں جھکائے فوراً سے اسے کہنے لگ گئی اوراق کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی

"اگر تم صرف بات پر ایسے شرماؤ گی تو جب میں پریکٹیکل کروں گا تو معاملہ بہت سنگین ہو جائے گا"

اوراق اس کے کان کے قریب گھمبیر لہجے میں بولنے لگا ضحیٰ اس کی بات پر شرم سے پانی پانی ہوگئی 

"اوراق "

ضحیٰ اسے خفگی سے پکارتی وہاں سے جانے لگی اوراق نے اس کی کلائی تھام کر اپنے قریب کیا 

"آج نہیں تو کل یہ سب تو ہوگا "

اوراق اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے کہنے لگا 

"چھی اوراق آپ ایسی سوچ رکھتے ہیں بےشرم"

ضحیٰ اسے غصے سے دیکھتی بولتی اس سے دور ہوئی اوراق قہقہ لگا کر ہنسا ضحیٰ غصے سے وہاں سے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی اوراق اسے جاتا دیکھنے لگ گیا

کمرے میں اندھیرا سا چھایا ہوا تھا اور وہ دونوں کمرے میں گہری نیند سونے میں مصروف تھے 

"چچچ۔۔۔چچھوڑو نہیں قریب نہی۔۔نہیں آنا"

ضحیٰ نیند میں بےچین سی خوفزدہ سی بڑبڑائی اوراق جو اس کے بلکل ساتھ سویا ہوا تھا اس کے بڑبڑانے میں نیند میں خلل پیدا ہوا 

"دد۔دور رہو مجھ نو نو نو"

وہ نیند میں پریشان کن تاثرات سجائے پیسنے سے شرابور چہرہ لیے زور سے چیخنے لگی اوراق پریشان سا اس کے بےچین وجود اور خوفزدہ چہرے کو دیکھنے لگا 

"ضحیٰ"

اوراق اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے نرمی سے اسے پکارنے لگا ضحیٰ نے یکدم خوف سے آنکھیں کھولیں اور اوراق اپنے سامنے موجود پایا

"شناس بند ہورہا ہے گھٹن ہورہی ہے مجھے "

ضحیٰ پسینے سے بھرا وجود لیے چہرہ انتہا کا سرخ ہوا ہوا وہ زور سے اپنا گلہ کھولنے لگ گئی اوراق پریشان سا اسے دیکھنے لگ گیا 

"آرام سے"

اوراق اس کے ہاتھ اپنے قید میں لیتا آرام سے اس کا گلہ کھولنے لگ گیا ضحیٰ چہرے پر خوفزدہ تاثرات سجائے اسے دیکھنے لگی اوراق نے اس کے گلے کا بٹن کھولا اور نظر کندھے پر گئی جہاں زخم کے نشان تھے ضحیٰ ہوش میں آتی فوراً سے اپنا گلہ بند کرنے لگ گئی 

"ضحیٰ"

اوراق اس پر ایک نظر ڈالتا فوراً سے پکارنے لگ گیا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"ن۔۔۔نہہیں"

ضحیٰ بدک کر روتے ہوئے نفی میں سر ہلا گئی اوراق نے اسے اپنے قریب کیا اس کی سٹرونگ خوشبو ناک سے ٹکراتے ضحیٰ کی جان پر بن گئی وہ زور سے آنکھیں میچ گئی

اوراق نے نرمی سے اس کے کندھوں سے شرٹ سڑکی نظر سرخ نشانات پر گئی اور پھر اوراق نے گردن سے تھوڑی نیچے کرتا وہاں نشانات دیکھنے لگ گیا اور ضحیٰ ہر نظر گئی جو آنکھیں بند کیے بےبس سی بیٹھی تھی اس کی رخسار پر آنسو گر رہے تھے

"یہ سب کیا ہے ضحیٰ ؟"

اوراق نے اسے دیکھتے ہوئے لہجے میں پریشانی لیے پوچھنے لگا ضحیٰ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا 

"کس نے کیا یہ سب"

اوراق اس کے جسم پر نشانات دیکھتا ایک اور سوال کرنے لگ گیا 

"ایسا لگ رہا ہے کسی نے تشدد کیا ہے"

اوراق اس کے زخموں پر نظریں گاڑھے کہنے لگا ضحیٰ بس خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی تھی

"جواب دو ضحیٰ "

اوراق انتہائی سرد لہجے میں اسے خاموش بیٹھا کر بولا ضحیٰ سہم کر رہ گئی

"مم۔۔میری کوئی غلطی نہیں ہے اوراق"

ضحیٰ سسکتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی اوراق اسے دیکھ رہا تھا

"کس نے کیا بتاؤ گی"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں گاڑھے پوچھنے لگا ضحیٰ کے چہرے کا رنگ سفید پڑ گیا اور وہ بس اسے دیکھتی رہ گئی

"جواب دو ضحیٰ"

اوراق اسے جھنجھوڑ کر فوراً سے بولا وہ اسے دیکھنے لگی 

"آپ غلط سمجھ رہے ہیں دادی اور پھوپھو مجھے مارا کرتی تھی اسی کے نشان ہیں"

ضحیٰ اسے دیکھتی فوراً سے آنسو صاف کرتی جواب دینے لگ گئی

"یہ مار کے نشانات نہیں ہے بےوقوف سمجھ رکھا ہے مجھے یہ کسی نے تمہیں فیزیکل ٹارچر کیا ہے ویسے نشانات ہے"

اوراق اس کے جھوٹ پر مزید غصہ ہوتا سخت لہجے میں کہنے لگا ضحیٰ اسے دیکھ رہی تھی

"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے یقین کریں میرا آپ غلط سمجھ رہے ہیں"

ضحیٰ فوراً سے اسے دیکھتی سمجھانے کی کوشش کرنے لگ گئی 

"کب سے یہ سب برداشت کررہی ہو"

اوراق اس کے چہرے پر نرمی سے پوچھنے لگا ضحیٰ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا

"میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں دادی نے مجھے مارا تھا بس یہ وہی نشان ہیں آپ غلط سمجھ رہے ہیں"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے نم آنکھوں سے اپنی بات کا یقین دلانے لگ گئی اوراق اپنا چہرہ قریب کرکے  اس کی آنکھوں میں باری باری جھکتا نرم لمس محسوس کروا گیا ضحیٰ آنکھیں بند کر گئی اور اوراق نے اسے زور سے گلے سے لگا گیا ضحیٰ اس کے سینے میں منہ دیے تھوڑی پرسکون ہوئی تھی اوراق نے اس کے گلے کا بٹن بند کرگیا

___________________

انیتا محترمہ ناشتہ کرنے کیلیے سیڑھیاں اترتی نیچے کی جانب جارہی تھی لیزا بھی نیچے آئی اور نظر ان پر گئی لیزا نے بغیر ادھر ادھر دیکھے انہیں دھکا دے دیا 

"ممانی"

انیتا محترمہ کے زمین پر گرتے ہی لیزا زور سے چیخی سب لوگ پریشانی سے اکٹھے ہوگئے 

"انیتا کیا ہوا اسے"

ادیبہ محترمہ اسے زمین پر پڑا دیکھ پریشانی سے بولی۔

"پتہ نہیں شاید پیر مڑ گیا"

لیزا پریشانی سے ادیبہ بیگم کی جانب دیکھتی بتانے لگی ادیبہ بیگم اسے دیکھنے لگ گئی

"سچ میں پیر مڑا ہے یا پھر تم نے کچھ"

ادیبہ بیگم اسے تفتیشی لہجے میں پوچھنے لگی لیزا انہیں دیکھنے لگ گئی

"دادی آپ کو لگتا ہے میں ایسی ہوں "

لیزا انہیں دیکھتی فوراً سے کہنے لگ گئی جس پر ادیبہ بیگم خاموش ہوگئی

"خیر ڈاکٹر کو کال کرو اور اوراق کو بھی"

ادیبہ بیگم اسے کہتے ساتھ فون کی جانب بڑھ گئی ادیبہ بیگم نے اوراق کو کال کی اور لیزا نے ڈاکٹر کو کال کردی 

____________________

"کیسے گری ہیں آنٹی "

وہ دونوں گاڑی میں موجود تھے ضحیٰ پریشان سی اوراق سے پوچھنے لگی اوراق نے اسے دیکھا

"سیڑھیوں سے گری ہیں مام "

اوراق اسے جواب دیتے ساتھ گاڑی کی اسپیڈ مزید تیز کرگیا 

"اوراق دھیان سے جلد بازی میں کچھ اور نہ ہو جائے"

ضحیٰ اسے تیز رفتار سے گاڑی چلاتا دیکھ کر فوراً سے کہنے لگی اوراق نے اسے دیکھا

"ضحیٰ وہاں موجود کسی انسان میں احساس نہیں ہے مجھے فکر ہے مام کی"

اوراق اسے فوراً سے وجہ بتانے لگ گیا ضحیٰ نے اسے دیکھا بات تو وہ ٹھیک کررہا تھا وہ خاموش ہوگئی

باقی پورا راستہ خاموشی سے طہ ہوا اور گاڑی بیگ ہاؤس کے باہر آکر رکی اوراق فوراً سے گاڑی سے باہر نکلا ضحیٰ بھی اتری اور ڈرائیور کو کیز دیتا اندر کی جانب بڑھ گیا ضحیٰ بھی اندر کی جانب بڑھی 

"اسلام و علیکم اوراق"

ادیبہ بیگم اسے موجود پاکر مسکرا کر بولی اوراق نظر انداز کرتا اوپر کی جانب بڑھ گیا ضحیٰ نے ایک نظر ادیبہ بیگم کو دیکھا اور وہ بھی اوراق کے پیچھے بڑھ گئی

"میرا کام تو ہوگیا"

لیزا ان دونوں کو گھر میں دیکھ چہرے پر خوشی کے تاثرات سجائے کہنے لگی 

اوراق اور ضحیٰ انیتا محترمہ کے کمرے کی جانب بڑھے جہاں وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی

"مام کیسی ہیں آپ کیسے گر گئی"

اوراق کمرے میں داخل ہوتا انہیں بیڈ پر دیکھ فکرمند سا پوچھنے لگا 

"میں ٹھیک ہوں بیٹا بس شاید پیر مڑ گیا میرا پتہ ہی نہیں چلا اچانک سے ہی گری"

انیتا محترمہ اوراق کو دیکھتے ہوئے بتانے لگی جس پر اوراق نے انہیں دیکھا

"دھیان سے اترنا تھا نا مام آپ بلکل دھیان نہیں رکھتی اپنا"

اوراق ان کے ہیر پر موجود چوٹ کو دیکھ فوراً سے کہنے لگا انیتا محترمہ مسکرادی 

"تم ہو نا میرا خیال رکھنے کیلیے"

انیتا محترمہ پیار سے کہنے لگ گئی جس پر اوراق سر کو خم دے گیا 

"آنٹی انشاء اللہ آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں گی"

ضحیٰ انہیں دیکھتی دھیمے لہجے میں بس یہی بول سکی 

"انشاء اللہ"

وہ اسے مسکرا کر دیکھتی جواب دینے لگ گئی

"ممانی میں آپ کیلیے سوپ لائی ہوں یہ پی کر آپ اچھا محسوس کریں گے"

لیزا ہاتھ میں ڈش لیے کمرے میں داخل ہوتی فوراً سے بولی اوراق نے ضحیٰ نے اس کی جانب دیکھا 

"شکریہ بیٹا"

انیتا محترمہ لیزا کو دیکھتے ہوئے بولی جس پر وہ ہلکا سا مسکرا گئی

"میں پلادوں آپ کو آپ خود تو نہیں پی سکیں گے"

لیزا ان کی جانب بڑھتے ہوئے کہنے لگی جب ضحیٰ نے لیزا کی ہاتھ سے ڈش تھام لی 

"آپ پریشان نہ ہو لیزا میں ہوں میں پلادوں گی"

ضحیٰ فوراً سے اسے دیکھ کر کہتے ساتھ بیڈ کی جانب بڑھتی انیتا محترمہ کے پاس بیٹھ گئی لیزا بس اسے دیکھتی رہ گئی

"ہمم لیزا ضحیٰ پلا دے گی مجھے"

انیتا محترمہ بھی لیزا سے کہنے لگی جس پر وہ خاموش ہوگئی اوراق نے انیتا محترمہ کو احتیاط سے بٹھا کر پشت کے پیچھے کشن رکھ دیا ضحیٰ ان کے تھوڑا مزید قریب ہوئی اور انہیں سوپ پلانے لگ گئی 

"تم دونوں کا وقت کیسا گزرا"

انیتا محترمہ ضحیٰ پر نظریں جمائے پوچھنے لگی ضحیٰ نے ایک نظر اوراق کی جانب دیکھا اور پھر انیتا محترمہ کی جانب دیکھا 

"اچھا گزرا ہے"

ضحیٰ بس یہی بول سکی جس پر انیتا محترمہ ہلکا سا مسکرا گئی

"مام ابھی آپ ہمیں چھوڑیں اور جلدی سے ٹھیک ہوں"

اوراق انیتا محترمہ کا دھیان ہٹاتا کہنے لگا جس پر وہ سر کو خم دے گئی

ضحیٰ انہیں سوپ پلانے کے بعد ٹشو سے چہرہ صاف کرتی انہیں میڈیسن کھلانے لگ گئی

"شکریہ بیٹا"

وہ مسکراتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھتی بولی ضحیٰ ہلکا سا مسکرا دی 

"یہ تو میرا فرض ہے"

وہ سر جھکائے انہیں کہنے لگی جس پر وہ جواباً مسکرا گئی۔۔

________________

ضحیٰ اپنے روم میں کھڑی کھڑکی سے باہر نظریں جمائے کچھ سوچنے میں مصروف تھی 

"اہم"

اوراق اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوتا کھانسنے لگ گیا ضحیٰ نے پلٹ کر اسے دیکھا

"تمہیں بھوک نہیں لگ رہی ہے کیا"

اوراق اس کے بال کان کے پیچھے کرتا پوچھنے لگ گیا 

"نہیں"

ضحیٰ ایک لفظ کا جواب اسے دیکھنے لگ گئی اوراق پریشان سا اسے دیکھنے لگ گیا 

"صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا تو بھوک کیسے نہیں ہے"

اوراق اس کا ہاتھ تھام کر اسے دیکھ کر پوچھنے لگا ضحیٰ اسے دیکھ رہی تھی

"مجھے نیچے نہیں جانا"

ضحیٰ اسے فوراً سے وجہ بتانے لگی اوراق اسے دیکھنے لگ گیا 

"ہم نیچے نہیں جائیں گے میں ماسی کو کہتا ہوں وہ اوپر دے جائیں مام کے روم میں"

اوراق فوراً سے اسے بولا ضحیٰ مسکرا گئی

"آپ آنٹی کے روم میں جائیں میں ماسی کو کہتی ہوں"

ضحیٰ اسے جواب دیتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی اوراق اسے جاتا دیکھنے لگ گیا آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے کو قریب ہورہے تھے

اوراق انیتا محترمہ کے کمرے میں موجود تھا تبھی ضحیٰ ہاتھ میں ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی

"کھانا شروع کریں"

ضحیٰ ٹیبل پر ٹرے رکھتی اسے دیکھتی کہنے لگ گئی اوراق اٹھ کر صوفے کی جانب بڑھ گیا اور ضحیٰ ایک پلیٹ میں تھوڑا سا سالن نکال کر اور روٹی رکھتی انیتا محترمہ کو دینے لگ گئی تینوں نے مل کر کھانا کھایا باہر کھڑی لیزا یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی

"ہنس لو ضحیٰ ہنس لو بس کچھ ہی دن ہیں"

لیزا اسے حسد بھری نگاہوں سے دیکھتی دل میں بولتی وہاں سے چلی گئی 

کھانا کھانے کے بعد ضحیٰ برتن رکھنے کیلیے نیچے کی جانب بڑھی ادیبہ بیگم اور عارفہ محترمہ نے اسے دیکھا وہ انہیں نظر انداز کرتی کچن کا رخ کر گئی وہ کچن میں برتن رکھتی کچن سے باہر نکلی جب نظر عاقب صاحب پر گئی

"آج کیسے یاد آ گئی تمہیں اس گھر کی"

عاقب صاحب ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے فوراً سے طنزیہ لہجے میں بولے ضحیٰ خاموشی سے سائیڈ سے گزرتی چلی گئی اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی

"آکڑ تو دیکھو"

عاقب صاحب اسے جاتا دیکھ کر فوراً سے بولتے کمرے کا رخ کر گئی۔۔

_______________

ضحیٰ ڈرا سے سلیپنگ پلز اوراق تبھی کمرے میں داخل ہوا نظر اس پر گئی ضحیٰ کو اس کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا وہ دوا ہاتھ میں لیتی پانی کا گلاس اٹھا کر  دوا گلے میں انڈیل گئی 

"تمہیں کیا ہوا ہے ضحیٰ"

اوراق اسے میڈیسن کھاتا دیکھ فوراً سے پوچھنے لگ گیا 

"کک۔۔۔کچھ نہیں"

ضحیٰ کا منہ کی جانب بڑھتا گلاس یکدم رک گیا اور اسے دیکھ کر جواب دینے لگ گئی

"دوائی کھائی ہے تم نے کوئی کس چیز کی"

اوراق فوراً سے اس کے پاس آتا کہنے لگا ضحیٰ کھڑی ہوگئی

"نہیں وہ تو سر میں درد ہورہا تھا بس درد کی میڈیسن کھارہی تھی"

چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ کر بولی اوراق نے ڈرا کھول کر میڈیسن نکالی 

"یہ سلیپنگ پلز ہیں ضحیٰ"

اوراق اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا ضحیٰ اسے پریشان سی دیکھنے لگ گئی 

"وہ خواب آتے ہیں نا مجھے تو نیند اڑ جاتی ہے اسی لیے نیند کی گولی کھا لیتی ہوں"

ضحیٰ اسے دیکھتی نارمل انداز میں جواب دینے لگ گئی

"خوابوں سے بچنا کا حل نیند کی گولی نہیں ہے اپنے ڈر سے لڑنا سیکھو ضحیٰ"

اوراق چہرے پر خفگی سجائے اسے دیکھ کر بولا ضحیٰ اسے دیکھنے لگ گئی

"نہیں ہوں میں اتنی مضبوط کہ میں ہر چیز لڑنا سیکھو میری لائف آپ جیسی نہیں تھی مجھے کسی نے نہیں سیکھایا کہ خود کیلیے آواز اٹھانی ہے ڈر سے لڑنا ہے سب ترس کھاتے تھے اور میرا ضمیر بس یہی کہتا تھا کہ ڈر سے ڈرنا ہے اور اپنے لیے آواز ہرگز نہیں اٹھانی ہے آپ نہیں سمجھ سکتے مجھے"

ضحیٰ اسے دیکھتے لہجے میں تکلیف لیے کہنے لگی اوراق اسے دیکھنے لگ گیا 

"تم مجھے سمجھانے کی کوشش کرو خود کو میں تمہیں سمجھنا چاہتا ہوں "

اوراق اسے اپنے قریب کیے کہنے لگا ضحیٰ اسے دیکھ رہی تھی

"جب معلوم ہوگا نا تو خود ہی چھوڑ جائیں گے"

ضحیٰ اسے بولتے ساتھ دور ہوتی باتھروم کا رخ کرگئی اوراق اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔

ضحیٰ واشروم سے باہر آئی نظر کمرے میں دوہرائی اوراق وہاں موجود نہیں تھا ضحیٰ خاموشی سے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی 

"میں جتنا سب نارمل کرنا چاہتی ہوں اتنا ہی سب غلط ہوجاتا ہے ہر چیز انہیں معلوم ہوجاتی ہے"

ضحیٰ سر جھٹکے لہجے میں مایوسی سجائے خود سے کہنے لگ گئی 

"میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی ہوں لیکن میں سب بتاؤں گی تو کھو دوں گی آپ کو پھر یہ لوگ میرے ساتھ بہت برا پیش آئے گے میں بہت مجبور ہوں کیا کروں گی"

ضحیٰ بیڈکراؤن سے ٹیک لگائے پریشان سی خود سے کہنے لگ گئی

تبھی اچانک میسیج ٹون کی آواز آئی ضحیٰ نے پریشانی سے پورے کمرے میں نظر ڈالی 

"اوراق فون روم میں ہی بھول گئے ہیں کیا"

ضحیٰ چہرے پر تجسس لیے خود سے بولتی فون اٹھا کر دیکھنے لگی سکرین آن ہوئی

"میں ٹی وی لاؤنچ میں تمہارا انتظار کررہا ہوں اگر تم نہ آئی نیچے تو میں اوراق کو سب حقیقت بتادوں گا بہتر ہے نیچے آکر ملو"

ضحیٰ میسیج ریڈ کرکے گھبرائی اور فون کو دیکھنے لگی شاید یہ وہی رکھ کر گیا تھا اس کے وجود سے جان نکلنے لگی وہ گہرا سانس لیتی خود کو دوپٹہ سے ڈھکتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھی 

ضحیٰ نے ہر جگہ نظر دوہرائی اندھیرا ور سناٹا سا چھایا ہوا تھا وہ دبے قدموں سے سیڑھیاں اترتی ٹی وی لاؤنچ میں آئی

"کیسی ہو ضحیٰ"

ضحیٰ اپنے عقب سے آواز سن کر خوف سے کانپنے لگ گئی اور آنکھیں زور سے میچ گئی 

"تمہیں کیا لگا تم مجھ سے بچ جاؤ گی"

عاقب صاحب اس کے سامنے آتے اسے دیکھ کر چہرے پر خباسی مسکراہٹ سجائے کہنے لگے 

"اگر مجھے اوراق کو کھونے کا ڈر نہیں ہوتا تو اسے تمہاری اصلیت خود بتاتی میں"

ضحیٰ آنکھیں کھولے نفرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتی کہنے لگی عاقب صاحب ہنسنے لگ گئے 

"اتنی محبت کرنے لگی ہو تم اوراق سے"

وہ اس کے وجود پر نظریں گاڑے سرد لہجے میں پوچھنے لگا 

"بہت زیادہ مجھے وہ انسان اپنا محافظ لگتا ہے وہ انسان عورت کی عزت کرنا جانتا ہے تمہاری طرح گٹھیا نہیں جو اپنی بیٹی کی عمر کیساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کرے"

ضحیٰ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے جواب دینے لگ گئی عاقب نے اس کی گردن دبوچ ڈالی 

"اپنا زبان سنبھال کر ورنہ معلوم ہے نا میں کیا کرسکتا ہوں"

عاقب اسے دیکھتا وحشی انداز میں بولتا اسے گھبرانے پر مجبور کر گیا۔

"کیا فائدہ ایسی محبت کا ضحیٰ وحید بیگ اوراق کو جس وقت تمہاری اصلیت معلوم ہوگی وہ تمہیں چھوڑ دے گا"

عاقب اس کی گردن پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اسے بولا ضحیٰ دو قدم پیچھے ہوئی

"آج بھی میں تجھے چھو سکتا ہوں سمجھیں"

عاقب اسے دیکھتی سختی سے بولا ضحیٰ آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھ رہی تھی

"تم حیوان ہو بےغیرت ہو اللہ تمہارا اصلی چہرہ سب کے سامنے لے کر آئے گا"

ضحیٰ لفظوں پر زور دیے اسے دھمکانے لگی عاقب بس ہنستا چلا گیا

اوراق جو لان سے اندر آیا ضحیٰ کو وہاں موجود پاکر ٹھوڑی حیرانگی ہوئی  اوراق کو دیکھ کر ضحیٰ اپنی جگہ ساکت ہو گئی اور عاقب صاحب اپنی جگہ ساکت ہوگئی وہ دونوں گھبرائے ہوئے چہرے لیے اوراق کو دیکھنے لگ گئے 

"وہ میں پانی پینے آئی تھی تو انکل مل گئے آنٹی کی طبیعت کا پوچھ رہے تھے میں وہی بتا رہی تھی"

ضحیٰ اوراق کو دیکھتی چہرے پر نارمل تاثرات سجائے ایک بار پھر پوچھ گئی

"میں نے تو کچھ نہیں پوچھا "

اوراق سپاٹ سے انداز میں کہتے ساتھ روم کی جانب بڑھ گیا عاقب صاحب بھی اپنے روم کی طرف بڑھ گئے ضحیٰ اوراق کے پیچھے آئی 

اوراق کمرے میں آتے بیڈ پر سو گیا ضحیٰ کی نظر اس پر گئی اس کے نظر انداز کرنے اور رویے سے معلوم ہوگیا کہ وہ ضحیٰ سے ناراض ہے ضحیٰ خالی نظروں سے اوراق کو دیکھنے لگ گئی۔

ضحیٰ وضو کرکے جائے نماز بچھاتی دو نفل کی نیت باندھ کر نماز شروع کر گئی دو نفل ادا کرنے کے بعد سلام پھیرتی وہ دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے خدا مانگنے لگ گئی آنکھوں سے آنسو ایک ایک کرکے بہتے چلے گئے 

"میری مشکل آسان فرما میرے مالک مجھ پر رحم کھا میرے سے ایسا کون سا گناہ ہوگیا ہے جس کی سزا مجھے اس صورت مل رہی ہے مجھے معاف فرما دے میں جھوٹ بولنا نہیں چاہتی لیکن مجھے مجبوراً بولنا پڑھ رہا ہے میں تیرے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں مجھ پر ترس کھا لے میرے مالک میری مشکلیں آسان فرما دے"

ضحیٰ دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے آنکھوں میں آنسو لیے خدا سے گفتگو کرنے لگ گئی وہ بہت دیر جائے نماز پر بیٹھی اللہ سے گفتگو کرتی دل کو بہلاتی رہی جب وہ تھوڑا بہتر محسوس کرنے لگی تو سجدہ کرکے جائے نماز سے اٹھ گئی اور نظر اوراق پر گئی وہ سونے میں مصروف تھا ضحیٰ اس کے چہرے کے قریب آتی اس کے ماتھے پر لب رکھ کر کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اسے دیکھتے دیکھتے کب ضحیٰ کی آنکھ لگی اسے معلوم ہی نہیں ہوا اور وہ اسی طرح ہی سو گئی

__________________

دروازے پر دستک ہونے پر اوراق کی آنکھ کھلی اس کی نظر ضحیٰ پر گئی جو اس کی جانب چہرہ کیے گہری نیند سونے میں مصروف تھی اوراق کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے آرام سیدھا کرکے تکیے پر سر رکھ دیا اور اس پر بلینکٹ ڈالتا اسے دیکھنے لگ گیا 

"گڈ مارننگ"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں بولتا بیڈ سے اتر کیا اور گلاس وال کے آگے کرٹن دیتا وہ کمرے میں اندھیرا کر گیا۔

فریش وغیرہ ہوکر وہ اسے ڈسٹرب کیے بغیر کمرے سے باہر چلا گیا نظر ماسی پر گئی 

"ماسی میرا ناشتہ بھی مام کے روم میں لے آئیں"

اوراق ماسی کو نرم لہجے میں بولتا انیتا محترمہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا 

"گڈ مارننگ مام"

وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے انہیں دیکھتا بولا 

"مارننگ"

وہ مسکراتے ہوئے اسے جواب دینے لگ گئی

"آپ نے ناشتہ کرلیا"

اوراق انیتا محترمہ کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگ گیا جس پر وہ سر کو خم دے گئی

"تو میڈیسن بھی کھا لیں"

اوراق انہیں میڈیسن دیتے ہوئے بولا انیتا محترمہ خاموشی سے کھانے لگ گئی

"کیسی ہیں ممانی آپ کی طبیعت اب"

لیزا کمرے میں ناک کرکے اندر آتی پوچھنے لگی جس پر انیتا محترمہ نے اسے دیکھا

"بہتر ہے "

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی جس پر لیزا سر کو خم دے گئی 

"اوراق کوئی ناراضگی ہے کیا مجھ سے جب سے آئے ہو نہ تو کوئی بات کی ہے اور نہ نیچے آئے ہو"

لیزا اوراق کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھنے لگی اوراق نے گردن موڑ کر اسے دیکھا

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس مام کی وجہ سے"

اوراق اسے نارمل انداز میں جواب دیتے ساتھ کہنے لگا جس پر لیزا خاموش ہوگئی 

"ممانی آپ دھیان رکھیے گا اپنا"

لیزا کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی 

"کچھ معلوم ہوا ضحیٰ اتنا ڈری ڈری کیوں رہتی ہے"

لیزا کے جاتے ہی انیتا محترمہ اوراق کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی 

"دادی اور پھوپھو اسے مارا کرتی تھی مام"

اوراق لہجے میں افسردگی لیے انیتا محترمہ کو بتانے لگا 

"بیچاری بچی کیساتھ بہت ظلم ہوتا رہا ہے"

انیتا محترمہ ضحیٰ کا سوچ کر پریشانی سے بولی 

"وہ بہت گھبرائی ہوئی رہتی بلکل خوفزدہ بچی کی طرح اسے خوفناک خواب آتے ہیں دادی اور پھوپھو اسے مزید ڈرایا کرتی تھی اور پھر اسے کسی کا پیار نہیں ملا اور اس کا کبھی کبھی بی ہیو بلکل نارمل ہوتا ہے میرے ساتھ لیکن کبھی کبھی وہ بہت عجیب ہوجاتی ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے میں نے اسے بولا ہے میں تمہیں جاننا چاہتا ہوں مگر وہ کہتی ہے جب جانیں گے تو چھوڑ جائیں گے کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے مجھے مام"

اوراق انیتا محترمہ سے ایک ایک بات شئیر کرتے ہوئے بولا جس پر انیتا محترمہ پریشان ہوئی 

"بیٹا تم اسے خود سمجھنے کی کوشش کرو"

انیتا محترمہ اسے الجھتا دیکھ کر فوراً سے کہنے لگی 

"میں کوشش کررہا ہوں"

اوراق انہیں دیکھتا کہنے لگا تبھی ماسی ناشتہ لیے کمرے میں داخل ہوئی اور اوراق کی جانب دیکھا

"اوراق صاحب آپ کا ناشتہ "

ماسی مسکراتے ہوئے اوراق کو دیکھتی کہنے لگی جس پر وہ سر کو خم دیتا ٹیبل کے قریب جاکر بیٹھتا ناشتہ کرنے لگ گیا۔

___________________

"لیزا اتنا آسان بھی نہیں ہے اوراق کو اپنی طرف کرنا وہ تمہیں دیکھنا تو دور تم سے بات بھی نہیں کرتا"

عارفہ محترمہ اسے دیکھتی فوراً سے کہنے لگی جس پر لیزا نے انہیں دیکھا

"صحیح بول رہی ہیں آپ مجھے کچھ تو کرنا ہوگا "

لیزا سوچتے ہوئے خود سے کہنے لگ گئی عارفہ محترمہ اسے دیکھ رہی تھی

"لیزا تمہیں جو کرنا ہے جلدی کرو بیٹا "

عارفہ محترمہ اسے دیکھتی کہنے لگی جس پر لیزا نے مسکرا کر انہیں دیکھا

"بےفکر ہوجائیں مام میں نے کچی گولیاں نہیں کھیلی لڑکے کو اپنی طرف کیسے متوجہ کرنا ہے مجھے بہت اچھے سے یہ کام کرنا آتا ہے"

لیزا مسکرا کر عارفہ محترمہ کو دیکھتی کہنے لگی جس پر وہ مسکرادی

"معلوم ہے مجھے بس اب تم اپنا کام دیکھاؤ یہ نہ ہو یہ زیادہ قریب آجائیں "

عارفہ محترمہ اسے سمجھاتے ہوئے کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی اور وہ انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی

_________________

ضحیٰ اپنے ناشتے کے برتن نیچے رکھنے کیلیے تو نظر عاقب صاحب پر گئی جو اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے ضحیٰ خوفزدہ سی گھبرا کر کچن کی جانب بڑھ گئی عاقب صاحب بھی اس کے پیچھے کچن میں آئے ضحیٰ انہیں کچن میں موجود پاکر پریشان سی ہوئی

"خبردار جو اوراق کو کچھ بھی بتانے کی کوشش کی انجام کی ذمہدار تم ہوگی اس کی جان لے سکتا ہوں یا پھر اس کی ماں کی بھی میرا ویسے بھی کوئی بھروسہ نہیں "

عاقب صاحب اسے دیکھتے ہوئے دھمکی دیتے ساتھ کچن سے چلے گئے ضحیٰ انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی 

"میری مشکل اسان کر میرے مالک"

ضحیٰ گہرا سانس لیتی برتن رکھتی اوپر کی جانب بڑھ گئی

ضحیٰ انیتا محترمہ کے کمرے کی جانب بڑھی اس کے قدم رکھتے ہی اوراق کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گیا 

"کیسی طبیعت ہے آنٹی آپ کی"

ضحیٰ اوراق کو جاتا دیکھ کر انیتا محترمہ سے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے پوچھنے لگی 

"بہتر ہوں میں"

وہ مسکراتے ہوئے اسے جواب دینے لگ گئی ضحیٰ ان کے پاس آکر بیٹھ گئی 

"میڈیسن کھائے ہے آپ نے"

ضحیٰ انہیں دیکھتی پوچھنے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی اور اسے دیکھنے لگ گئی

"ضحیٰ تم نئی دلہن ہو بیٹا اتنا سادہ نہیں رہتے تیار رہا کرو اوراق کو بھی اچھا لگے گا"

انیتا محترمہ اسے بلکل سادہ بیٹھا دیکھ فوراً سے کہنے لگی ضحیٰ نے انہیں دیکھا

"میں ایسے ہی ٹھیک ہوں"

ضحیٰ انہیں دیکھتی بس یہی بول سکی جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گئی

"بلکل بھی نہیں ابھی جاؤ اور تیار ہوکر آؤ جلدی سے"

انیتا محترمہ اسے فوراً سے حکم دینے کا بولی ضحیٰ سر کو خم دیتی خاموشی سے کمرے کی جانب بڑھ گئی 

_________________

اوراق کمرے میں آیا اسے لگا ضحیٰ کمرے میں موجود نہیں ہوگی لیکن نظر سامنے گئی لائٹ پرپل کلر کا لانگ فراک زیب تن کیے بالوں کی آگے سے فرنچ بنا کر پیچھے والے بالوں کو پشت پر پھیلائے لائٹ سا میک ایپ کیے وہ اوراق کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ہنر رکھتی تھی ضحیٰ نے مرر سے نظر اس پر ڈالی اور اس کی نظریں خود پر موجود پاکر نظریں جھکا گئی یہ ڈریس اوراق نے ہی اسے لے کر دیا تھا اوراق کے قریب سے گزرتی وہ بیڈ سے ہم رنگ کا دوپٹہ اٹھا کر سائیڈ پر لیتی اپنا عکس شیشے میں دیکھنے لگی 

"کیسی لگ رہی ہوں میں"

ضحیٰ اس کی جناب رخ کرتی نظریں جھکائے پوچھنے لگی اوراق خاموشی سے اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا اوراق کے کوئی جواب نہ دینے پر وہ خاموشی سے کمرے سے باہر کی جانب بڑھنے لگی جب اوراق نے اس کی کلائی اپنے ہاتھ میں لی اور گرفت مضبوط کرتا اسے اپنی جانب کھینچا ضحیٰ اس کے بےحد نزدیک آ گئی اوراق اس کی خوشبو کو خود میں اتارنے لگا ضحیٰ اپنے سانس روکے اسے دیکھنے لگ گئی

"تم اس ڈریس میں بلکل ظالم پری لگ رہی ہو مسز"

اوراق اس کے کان کے قریب لائے اس کی کمر کے گرد بازو حائل رومانوی لہجے میں بولتا اس کی حالت غیر کرگیا وہ زور سے آنکھیں میچ گئی اوراق اسے اسی طرح چھوڑتا کمرے سے چلا گیا اس کے جانے کا احساس ہوتے ہی ضحیٰ نے آنکھیں کھول کر اس بند دروازے کو دیکھا آنکھوں میں نمی سی چھائی مگر وہ اپنے اندر اتارتی چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجا گئی 

"آپ زیادہ دیر مجھ سے خفا نہیں رہ سکیں گے اوراق دیکھ لیجیے گا"

ضحیٰ دل میں خود کو تسلی دیتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی 

وہ تیار ہوکر انیتا محترمہ کے کمرے کی جانب بڑھی اسے دیکھ انیتا محترمہ مسکرا گئی 

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو "

وہ پیار سے اسے دیکھتی بولی جس پر ضحیٰ بھی مسکرائی اور کچھ دیر انہیں کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گئی۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ نماز ادا کرنے کیلیے کمرے میں واپس آ گئی نماز ادا کرکے دعا مانگتی وہ اٹھی اسے اس اکیلے کمرے میں گھٹن سی محسوس ہونے لگی وہ بیلکونی میں چکی گئی اس نے نظر نیچے لان پر ڈالی اوراق اور لیزا پر گئی جو دونوں ٹہلتے ہوئے مسکرا کر باتیں کررہے تھے ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر ضحیٰ کو حد سے زیادہ برا لگا وہ اداس نظروں سے انہیں دیکھتی اندر کی جانب بڑھ گئی اس کے اندر جاتے ہی اوراق نے سر اٹھا کر بیلکونی میں دیکھا اور مسکرا گیا 

"لیزا سے کچھ زیادہ ہی فری ہیں"

بیڈ پر بیٹھی وہ منہ بسور کر خوف سے کہنے لگی اور نیچے لان میں جانے کا ارادہ کرتی وہ کمرے سے باہر نکلی 

وہ ٹی وی لاؤنچ میں پہنچی تو عاقب کی نظر اس پر گئی اسے اس قدر تیار دیکھ کر عاقب صاحب چہرے پر کمینگی مسکراہٹ سجا گئے اس پاس نظر گھماتے اسے کھینچ کر اس کے پرانے کمرے میں لے آئے 

"اوہو آج تو کمال کا حسن سجایا ہوا ہے"

عاقب حوس بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا کہنے لگا ضحیٰ کا دل کیا وہ خود کو ختم کرکے اس کی نظریں اپنے وجود پر محسوس کرتی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے جسم میں کانٹے چھب رہے ہوں عاقب صاحب ضحیٰ کے قریب آنے لگے ضحیٰ نے نظریں ارد گرد گھمائی گلاس موجود پاکر اس نے فوراً ہاتھ میں تھاما 

"قریب نہ آنا میرے ورنہ میں سچ میں ماردوں گی"

ضحیٰ سرخ آنکھیں لیے عاقب کو دیکھتی کہنے لگی عاقب گھبرا گیا 

"پاگل ہو گئی ہے کیا"

عاقب گھبراتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوتا اسے دیکھ کر بولا 

"مجھے چھونے میرے قریب آنے کا حق صرف اوراق کا ہے سمجھا پیچھے"

ضحیٰ اسے دیکھتی آنکھوں میں غصہ لیے پیچھے کی طرف اشارہ کرنے لگی اور وہ اس کی ہمت دیکھ کر حیران ہوئے 

"اتنی ہمت تیری تو"

عاقب ہمت کرتا آگے بڑھنے لگا جب ضحیٰ گلاس اس کے قریب لے آئی وہ ڈر کر پیچھے ہوا 

"کیونکہ اب مجھے محبت ہوگئی ہے اور ایسے انسان سے ہوئی ہے جس نے مجھے اپنا محرم بنایا ہے لیکن آج تک میرے قریب نہیں آیا حق ہونے کے باوجود محبت اچھے اچھے کو ہمت دے دیتی ہے "

ضحیٰ اس کے چہرے پر نظریں جمائے اپنے لفظوں پر زور دیتی کہتے ساتھ گلاس وہی چھوڑ کر کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی عاقب اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔

ضحیٰ کمرے سے باہر نکلی نظر لیزا اور اوراق پر گئی وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے اندر آرہے تھے

"اوراق مجھے بات کرنی "

ضحیٰ اس کے پاس آتی اسے دیکھ کر پکارنے لگی 

"میں ابھی مام کے پاس جارہا ہوں بعد میں"

اوراق اسے دیکھے بغیر بولتے ساتھ اوپر کی جانب بڑھ گیا ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی اور لیزا خاموشی سے اپنے روم کی طرف بڑھ گئی

"وہ ٹھیک تو کررہے ہیں میرے ساتھ میں اسی سب کے قابل ہوں"

ضحیٰ اوراق کو جاتا دیکھ کر نم آنکھوں سے بولتی سر جھٹکتی اوپر کی جانب بڑھ گئی۔

ضحیٰ کپڑے چینج کرتی بیڈ پر مایوسی سجائے بیٹھی اوراق نے اسے آج پورا دن نظرانداز کیا تھا اور اسے اس کی ناراضگی پریشان کررہی تھی ضحیٰ نے نظر اٹھا کر وال کلاک پر ڈالی جہاں دس بج چکے تھے مگر وہ ابھی تک کمرے میں نہیں آیا تھا ضحیٰ نماز پڑھنے کیلیے بیڈ سے اترتی واشروم کی جانب بڑھ گئی وضو کرکے کمرے میں آئی کبرڈ سے جائے نماز اٹھا کر جائے نماز زمین پر بچھاتی نماز ادا کرنے لگ گئی۔

ضحیٰ نماز ادا کرکے بھی فارغ ہوگئی تھی اس نے دروازے کی جانب دیکھا اوراق نہیں آیا تھا ضحیٰ مرجھایا ہوا چہرہ لیے جائے نماز لپیٹ کر جگہ پر رکھتی بیڈ پر آکر بیٹھ گئی 

تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اوراق کمرے میں داخل ہوا ضحیٰ نے اس کی جانب دیکھا مگر اس نے ضحیٰ کی جانب نہیں دیکھا تھا

"اوراق"

اس کا مسلسل نظر انداز کرنا اب ضحیٰ کی برداشت سے باہر ہوچکا تھا اس نے اسے کمرے میں آتا دیکھ کر فوراً سے پکارا اوراق اسے نظر انداز کرتا باتھروم کی جانب بڑھنے لگا جب ضحیٰ نے اس کی بازو تھامی اوراق کے بڑھتے قدم رکے اس نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے دیوار سے پن کرگیا وہ اچانک اتفاد پر بھوکلا سی گئی اوراق اس کے قریب آتا اس کے اور اپنے بیچ ایک انچ کے فاصلے کو بھی ختم کرگیا ضحیٰ کی نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں 

"تم۔ سے میر نظر انداز کرنا برداشت نہیں ہوا اور دور ہونے کی باتیں کرتی ہو ہاں"

اوراق اس کے بائیں ہاتھ میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں گھساتا اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے گھمبیر لہجے میں بولا ضحیٰ کی اوپر سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی۔

"اوراق اسماعیل بیگ کو جب کچھ پسند سجاتا ہے تو وہ ہمیشہ آخری سانس اس کی پسند بن کر رہ جاتا ہے"

اوراق اپنے لب اس کے کان کے قریب لاتا اپنی جھلسا دینے والی گرم سانسوں کی تپش اس کی گردن پر محسوس اس کے حواس معطل کرگیا جس پر ضحیٰ اوراق کے ہاتھ میں دیے اپنا ہاتھ کو دبا گئی 

"ممم۔۔مجھے بس خوف سا رہتا ہے آج تک جن لوگوں سے محبت کی وہ سب مجھے چھوڑ کر چلے گئے اسی لیے بس"

ضحیٰ نم آنکھوں سے اسے دیکھتی وضاحت دینے لگی اوراق نے اس کے چہرے پر اپنا ہاتھ نرمی سے رکھا

"تم سے محبت کی ہے میں نے تم سے دور ہونے کا تو جواز پیدا نہیں ہوتا مائی ہارٹ بیٹ"

رومانوی لہجے میں بولتا وہ اس کی حالت مزید غیر کر گیا ضحیٰ آنکھیں زور سے میچ گئی اس کی دھڑکن کی آواز اوراق کو صاف سنائی دے رہی تھی اور اس کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر چہرے پر محظوظ مسکراہٹ سجا گئی۔

"مگر تمہیں یہی لگتا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا"

اوراق اس سے دور ہوتا فوراً سے کہنے لگ گیا جس پر ضحیٰ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اوراق اس کی سنے بغیر کاؤچ پر لیٹتا سو گیا ضحیٰ اسے خالی نظروں سے دیکھنے لگ گئی

__________________

فجر کے وقت وہ جائے نماز پر بیٹھی آنکھوں میں آنسو لیے رو رہی تھی سسکیاں کی آواز پر اوراق کی نیند میں خلل پیدا ہوا اور نظر ضحیٰ پر گئی

"اللہ تعالیٰ مجھے صبر دے میرے مالک میری مشکلیں آسان فرما اوراق مجھ سے ناراض ہیں ان کی ناراضگی ختم کردیں"

ضحیٰ دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے روتے ہوئے دعا مانگ رہی تھی اوراق دو پل اسے دیکھتا رہ گیا وہ تو صرف اسے تھوڑا تنگ کررہا تھا مگر وہ تو اس قدر سنجیدہ ہوگئی تھی

"اوراق تمہیں اب اور زیادہ اسے تنگ نہیں کرنا چاہیے "

اوراق اس کی پشت پر نظریں جمائے دل میں کہنے لگ گیا

"نہیں تھوڑا تو تنگ کرنا چاہیے"

اوراق اپنے کیے فیصلے پر فوراً سے نفی کرتا واپس لیٹ گیا ضحیٰ جائے نماز رکھتی ایک نظر اس پر ڈال کر بیڈ کی جانب بڑھ گئی۔

"کیا میں اوراق کو سب حقیقت بنا دوں"

ضحیٰ بیڈ پر بیٹھی دل میں خود سے ہمکلام ہونے لگ گئی

"نہیں نہیں وہ نفرت کرنے لگیں گے مجھ سے اور میں ان کی نفرت برداشت نہیں کرسکتی"

ضحیٰ فوراً سے نفی میں سر ہلاتی بےبس سی  بولی 

وہ بیڈ پر بہت دیر سے بیٹھی مسلسل سوچوں میں قید تھی۔ 

__________________

"مام مام آپ کو پتہ ہے کیا"

لیزا خوشی سے چہکتے ہوئے عارفہ محترمہ کو پکارنے لگی جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گئی

"کیا ہوا بہت خوش لگ رہی ہو"

عارفہ محترمہ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی 

"مام کل اوراق نے ضحیٰ کو بری طرح نظرانداز کیا میری آنکھوں کے سامنے"

لیزا خوشی سے انہیں دیکھتی بتانے لگی جس پر عارفہ محترمہ مسکرائی 

"یعنی تمہارا پلان کامیاب ہورہا ہے اسی طرح  کرتی رہو ان دونوں کو خود سے بہت دور کردو تاکہ وہ آسانی سے تمہاری طرف ہو جائے"

عارفہ محترمہ اسے پیار کرتے ہوئے شاباش دیتی سمجھانے لگی 

"ابھی شروعات ہے مام آگے دیکھیں میں کیا کرتی ہوں"

وہ مسکراتے ہوئے بولی جس پر عارفہ محترمہ بھی مسکرادی 

"چلو ناشتہ کرنے کیلیے چلو"

عارفہ محترمہ اسے کہتے ساتھ باہر کی جانب بڑھ گئی لیزا بھی ان کے پیچھے آئی 

عارفہ محترمہ لیزا ادیبہ بیگم اور عاقب صاحب ہی ناشتے پر موجود تھے ضحیٰ اوراق انیتا محترمہ کے پاس اوپر ہی ناشتہ کررہے تھے

"عاقب سننے میں آیا ہے کام میں لاس ہورہا ہے"

ادیبہ بیگم اسے دیکھتے ہوئے جس پر عاقب صاحب انہیں دیکھنے لگے 

"نہیں نہیں ایسا تو کچھ نہیں"

عاقب صاحب گھبرا کر جواب دینے لگے ادیبہ بیگم نے اس کی جانب دیکھا 

"ایسا ہی ہونا چاہیے اگر تمہارے سسر کام تمہیں دیا ہے تو اسے ایمانداری اور اچھے سے کرنا سمجھیں "

ادیبہ بیگم فوراً سے اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کہنے لگی جس پر عاقب صاحب تھوک نگلتے اثبات میں سر ہلا گئے۔

___________________

ضحیٰ برتن رکھنے کیلیے نیچے کی جانب بڑھ رہی تھی اوراق اس سے پہلے ہی نیچے اترا تھا لیزا جو اچانک چکر سے آئے وہ گرنے لگی اوراق نے اسے سنبھالا لیزا لبوں پر ہلکی سی مسکان سجا گئی ضحیٰ سیڑھیاں اترتی نیچے آئی یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی وہ غصے سے دونوں کو نظر انداز کرتی کچن کی جانب بڑھ گئی

"ٹھیک ہے مانا اوراق مجھے تنگ کرنے کیلیے لیزا کے قریب ہورہے ہیں تو لیزا کیوں ان کے اس قدر قریب ہورہی ہے ہاں"

وہ کچن میں برتن رکھتے ہوئے فوراً سے سوچنے لگی 

"میری بلا سے بے شک جو مرضی کریں میں ویسے بھی کب کس کیلیے اہمیت رکھتی ہوں"

مایوسی سے بولتے ساتھ برتن رکھتی وہ اوپر کی جانب دوبارہ بڑھنے لگی 

"ساری زندگی ہمارے ٹکڑوں پر پلی ہو اور اب میڈیم کو دیکھو مزاج ہی نہیں ملتے"

ادیبہ بیگم نے اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی ضحیٰ نے ان کی جانب دیکھا

"یہی تو چاہتی تھی آپ کہ میں آپ سے نہ بات کیا کروں تو اب نہیں کررہی ہوں تب بھی آپ کو مسئلہ ہے مجھ سے"

پہلی بار ضحیٰ بدتمیزی سے جواب دیتی آگے کی جانب بڑھ گئی لیزا کا غصہ وہ ادیبہ بیگم کر نکال گئی تھی وہ بس حیرانگی سے اسے جاتا دیکھنے لگ گئی.

________________

ضحیٰ کمرے میں آئی اوراق تیار ہورہا تھا ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا اور خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی۔

"آئسکریم کھانے جارہا ہوں لیزا کے ساتھ چلنا ہے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں پوچھنے لگا ضحیٰ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا

"نہیں آپ جائیں لیزا کے ساتھ "

ضحیٰ تھوڑا سخت لہجے میں بولی اوراق خاموشی سے کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گیا

"دوبارہ پوچھا بھی نہیں "

ضحیٰ منہ بنائے اسے جاتا دیکھ رونی شکل بنائے کہنے لگی 

"کیا ہوا اوراق ضحیٰ نے کیا کہا آئسکریم کا"

لیزا اس کے پاس آتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی جس پر اوراق نے اسے دیکھا

"اس نے منع کردیا ہے لیزا تم دادی اور پھوپھو کے ساتھ شاپنگ پر چلی جاؤ پھر کبھی سہی"

اوراق اسے کہتے ساتھ بغیر اس کی سنے باہر کی جانب بڑھ گیا مجبوراً لیزا کو ادیبہ بیگم اور عارفہ محترمہ کیساتھ شاپنگ پر جانا پڑا اوراق بھی کسی کام سے باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔

شام کے وقت عاقب صاحب گھر میں داخل ہوئے تو گھر میں بہت خاموشی سی تھی 

"آنٹی اور عارفہ کہاں ہے؟"

عاقب صاحب انہیں دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگ گیا 

"وہ تو شاپنگ پر گئے ہیں اور اوراق صاحب کو بھی کام تھا کوئی"

ملازم فوراً سے عاقب صاحب کو بتانے لگ گیا جس پر چہرے پر مسکراہٹ سجا گئے اور کمرے کی جانب بڑھے فریش وغیرہ ہوکر وہ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ کر ضحیٰ کے کمرے کا رخ کر گئے۔۔

_________________

عاقب صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو ضحیٰ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال سلجھا رہی تھی مرر سے اس کا عکس دیکھتی مری آنکھوں میں خوف سا لہرایا

"تم تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی"

ضحیٰ اسے دیکھتی سخت لہجے میں پوچھنے لگ گئی

"کل بہت غصہ آرہا تھا نا آج تو کوئی بھی نہیں ہے تمہیں بچانے کیلیے"

عاقب صاحب چہرے پر گٹھیا مسکراہٹ سجائے اس کے وجود پر نظریں گاڑھے بولے ضحیٰ کا خوف سے وجود کانپنے لگا مگر وہ خود کو مضبوط دیکھا رہی تھی

"میرے قریب مت آنا ورنہ بہت برا کروں گی"

ضحیٰ اسے شہادت والی انگلی دیکھائے وارن کرنے والے انداز میں کہنے لگی 

"ہاہاہا دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی تمہارے قریب آنے سے"

عاقب صاحب ہنستے ہوئے اسے کہنے لگ گئے ضحیٰ گھبراتے ہوئے اسے دیکھنے لگ گئی

"اللہ تعالیٰ مدد کریں میری"

 ضحیٰ خوف سے دعا مانگتی اسے دیکھ رہی تھی عاقب صاحب اس کے قریب آرہے تھے

اوراق ٹی وی لاؤنچ میں داخل ہوا سیڑھیاں عبور کرتا وہ کمرے کی جانب بڑھنے لگا

"ننن۔۔نہہیں۔۔۔نہیں پلیززز میرے قریب مت آنا"

اوراق کمرے دروازہ کھولنے ہی والا تھا ضحیٰ کی روتی ہوئی آواز کانوں سے ٹکرائی ماتھے پر بل نمودار ہوئے اور وہ ایک ہی جھٹکے میں دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا سامنے کا منظر دیکھ کر وہ اپنی جگہ ساکت ہوگیا عاقب صاحب اور ضحیٰ دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا اوراق کو موجود پاکر اوراق صاحب اپنی جگہ منجمند ہوگئے اور ضحیٰ سانس روکے اوراق کو دیکھ رہی تھی 

"بےغیرت گھٹیا انسان"

اوراق سرخ آنکھیں لیے غصے سے اسے بولتا اس کی جانب عاقب صاحب گھبرا گئے 

"ضحیٰ کو ٹارچر کرے گا بدتمیزی کرنے کی کوشش کرے گا چھوئے گا تجھے تو جان سے ماردوں گا"

اوراق اس کا گریبان پکڑتا غصے سے پاگل ہوتا اپنی سرخ آنکھیں اس پر گاڑھے چیخ کر بولا عاقب صاحب کے ہونٹ آپس میں جڑ گئے ضحیٰ خوف سے کپکپانے لگ گئی۔

"تیری بیٹی کی عمر کی ہے وہ میں تجھے اتنا اچھا آدمی سمجھتا رہا مگر تو تو انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں نکلا "

اوراق اس کا گلہ دبوچ کر سخت تیور لیے غرایا 

"ضحیٰ ہی میر"

عاقب صاحب نے کچھ بولنے منہ کھولا ہی تھا کہ اوراق نے اسے فورا خاموش کروا دیا 

"جسٹ شیٹ ایپ میری بیوی کا نام اپنی گندی زبان سے لینے کی جرات بھی مت کرنا اور اب ضحیٰ اوراق بیگ اکیلی نہیں ہے اس کا شوہر اسکی حفاظت کرے گا"

عاقب صاحب کے چہرے پر سرخ سرد نگاہیں گاڑھے لفظوں پر زور دیے اسے دھکا دے کر کمرے باہر کی جانب کیا وہ غصے سے دیکھتا گھبرا کر وہاں سے چلا گیا 

اوراق فوراً ضحیٰ کی جانب بڑھا ضحیٰ نظریں جھکا گئی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہ رہے تھے اوراق نے اس کے آنسو پونچھ کر تھوڑی پر ہاتھ رکھ اس کا چہرہ اوپر کیا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"کب سے ٹارچر کررہا ہے یہ تمہیں"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگا ضحیٰ کچھ دیر خاموش رہی 

"چچ۔۔چچھ سال سے"

ضحیٰ کانپتے ہوئے لبوں سے اسے سسکتے ہوئے جواب دینے لگ گئی

"میں نے جب جب پوچھا تم نے تب تب جھوٹ بولا اتنا سا بھی اعتبار نہیں تھا تمہیں مجھ پر اس ڈر سے کہ میں تم سے دور ہوجاؤ گا یہ چھوڑ جاؤ گا"

اوراق اس کے چہرے پر اپنی نظریں جمائے شکوہ کیے کہنے لگا ضحیٰ روتے اثبات میں سر ہلا گئی

"اور اس نے کہا تھا وہ آپ کی جان بھی لے لے گا"

ضحیٰ اس کے سینے میں منہ چھپائے اسے بتانے لگی اوراق نے نرمی اس کے چہرے سے بال ہٹائے

"کچھ نہیں بگاڑ سکتا وہ میرا میں آج ہی اس کی حقیقت پورے گھر کے سامنے لاؤں گا"

اوراق غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے بولا ضحیٰ نے فوراً سر اٹھا کر اسے دیکھا

"نن۔۔نہیں کوئی یقین نہیں کرے گا میں نے پہلے بتانے کی کوشش کی تھی دادی کو دادی نے بہت مارا تھا مجھے اور یقین بھی نہیں کیا تھا جب تک ثبوت نہیں ہوگا تب تک کوئی یقین نہیں کرے گا"

ضحیٰ اوراق کی جانب دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی اوراق اسے دیکھ رہا تھا کیا کچھ برداشت نہیں کیا تھا ضحیٰ نے وہ ننھی معصوم جان کے تو اس قدر دشمن تھے اس گھر میں کہ وہ صحیح خوفزدہ گھبرائی ہوئی اور کمزور لڑکی تھی اوراق نے اس کے چہرے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور نرمی سے اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹوں کا لمس محسوس کروایا ضحیٰ آنکھیں بند کر گئی 

"ضحیٰ اپنی شرٹ کے گلے کا بٹن کھولو"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا ضحیٰ اسے دیکھتی نفی میں سر ہلا گئی

"ضحیٰ کھولو"

اوراق اسے پھر سے کہنے لگا ضحیٰ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی اوراق نے اس کے بالوں کو آگے کیے اور اس کی شرٹ کا گلہ کھولا ضحیٰ آنکھیں زور سے بند کر گئی اوراق نے اس کا آگے بین تھوڑا نیچے کیا اور گردن پر موجود نشانات دیکھ کر اسے اس معصوم پر ترس سا آیا اور وہ اسے دیکھنے لگ گیا 

"چپ چاپ یہ زیادتی برداشت کرتی رہی ہو خود کیساتھ"

اوراق اس کے نشانات کو دیکھتا اسے کہنے لگا ضحیٰ زاروقطار آنسو بہانے میں مصروف تھی اوراق نے جھک کر اس کی گردن پر اپنے ہونٹوں کا لمس محسوس کروایا اس کے ہر زخم پر نرمی سے ہونٹ رکھے ضحیٰ سوکھے پتے کی مانند لرز سی گئی اور اس نے مضبوطی سے اوراق کو کندھوں سے تھام لیا۔

"تمہیں چھونے کا اختیار صرف اور صرف تمہارے شوہر کے پاس موجود ہے "

اوراق اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالتا اس کے بازو کا بٹن کھول کر انہیں اوپر کرنے لگ گیا ضحیٰ خاموشی کھڑی بس آنسو بہانے میں مصروف تھی اوراق نے اس کے ہاتھ میں موجود نشان دیکھے ایک پل کیلیے اس کا دل کیا کہ وہ عاقب کو ابھی کہ ابھی دفنا دے  نرمی سے اس کے بازوؤں پر بھی لمس محسوس کروانے لگ گیا۔

"اب تمہیں نہ تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت ہے نہ اس کی زیادتیاں برداشت کرنے کی ضرورت ہے تم پر جو بھی وار کرنے کا سوچا گا تمہارے ڈھال بن کر تمہیں بچاؤ گا"

اوراق اسے دیکھتے رومانوی لہجے میں بولتا اسے ہاتھوں سے تھام کر بیڈ پر بٹھانے لگا ڈرا سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اس میں سے ائنٹمنٹ کریم نکالتا اس کے زخموں پر لگانے لگا 

"آیہ"

ضحیٰ کی جلن سی محسوس ہوئی وہ منہ سے ایک سسکی نکلی اوراق کے ہاتھ رک گئے اور وہ پھوکا مار کر اس کی گردن پر کریم لگانے لگ گیا ضحیٰ اسے دیکھ رہی تھی اس کی گردن اور بازوؤں پر کریم لگانے کے بعد فرسٹ ایڈ باکس واپس رکھ کر اسے اپنے حصار میں لے گیا ضحیٰ اس کے حصار میں آتے ہی سکون پا گئی 

"مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے اوراق"

ضحیٰ اس کے سینے پر سر رکھے آہستگی سے اسے اظہار کرنے لگی اوراق کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"مجھے تو تمہیں دیکھتے ہی محبت ہوگئی تھی"

اوراق اس کے بالوں کو کان کے پیچھے کرتا کہنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا اور شرما کر نظریں جھکا گئی۔

"تم یہی بیٹھو میں کھانا لے کر آتا ہوں"

اوراق اسے کہتے ساتھ اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گیا ضحیٰ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی اور آج بہت وقت بعد ضحیٰ نے سکھ کا سانس لیا تھا وہ کس قدر گھبرا رہی تھی اوراق کو حقیقت بتانے سے اللہ تعالیٰ خود ہی اس کے سامنے حقیقت لے آئے اور اوراق نے بغیر کسی قسم کی وضاحت لیے اس پر یقین کرلیا ضحیٰ کیلیے یہی بہت تھا۔

کچھ دیر بعد وہ کمرے میں آیا وہ ویسے ہی بیٹھی تھی ضحیٰ کی نظر اس پر گئی ہاتھ میں ٹرے لیے وہ اس کے پاس آیا 

"آنٹی نے کھا لیا کھانا"

ضحیٰ اوراق کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی اوراق بیڈ پر ٹرے عکھ کر اس کے سامنے بیٹھا 

"انہیں بھی دے آیا ہوں اب تم کھاؤ"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ جواب دیتا نوالہ بنا کر اس کی جانب کیا ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے کھانے لگ گئی ضحیٰ نے ایک نوالہ بنا کر اوراق کے منہ کی جانب کیا اوراق نے کھا لیا ضحیٰ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی

"تھینکیو"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی اوراق نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

"میرے پر یقین کرنے کیلیے"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر بولی اوراق نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا 

"ضحیٰ میاں بیوی کے رشتے میں سب سے زیادہ بھروسہ ہونا چاہیے بھروسہ ہے تو رشتہ مضبوط ہے بھروسہ نہیں ہے تو رشتہ کبھی مضبوط نہیں ہوسکتا"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگا 

"میں بس ڈرتی تھی آپ کی نفرت سے آپ مجھے کریکٹرلیس نہ سمجھیں"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے وضاحت دینے لگی اوراق اسی پر نظریں جمائے ہوئے تھا

"دنیا کا کوئی انسان بھی مجھے آکر یہ بولتا کہ تم کریکٹر لیس ہو تو میں ان پر کبھی بھی یقین نہ کرتا تھا"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے جواب دے گیا ضحیٰ کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سج گئی اور ان دونوں نے مل کر کھانا کھایا تھا آج بہت وقت بعد ضحیٰ کو سکون کی نیند آنی تھی

__________________

عاقب صاحب پریشانی سے کمرے میں ٹہل رہے تھے 

"اگر اوراق نے سب کو حقیقت بنا دی میں تو گیا"

وہ کمرے میں ٹہلتے ہوئے خوفزدہ سے خود سے کہنے لگے 

"افف وہ کہاں سے ٹپک پڑا تھا مجھے کیسے نہیں پتہ لگا"

وہ خود کو کوستے ہوئے ہمکلام ہوتے ہوئے بول رہے تھے 

"کیا ہوگا اب"

وہ ماتھے پر سلوٹیں لیے کاؤچ پر بیٹھ گئے 

تبھی عارفہ محترمہ کمرے میں داخل ہوئی نظر عاقب صاحب پریشان دیکھ کر انہیں پریشان ہوئی

"کیا ہوا ہے عاقب آپ ٹھیک ہیں"

عارفہ محترمہ اس کے پاس آتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی 

"ہمم ٹھیک ہوں آپ کہاں گئی تھی"

عاقب صاحب چہرے پر نارمل تاثرات سجائے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگ گئے۔ 

"شاپنگ کرنے کیلیے"

عارفہ محترمہ اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گئی وہ سر کو خم دے گیا اور وہ گہرا سانس لے گئی 

__________________

فجر کے وقت اوراق کی آنکھ کُھلی تو نظر ضُحیٰ پر گئی جو ناجانے کب سے جائے نماز پر بیٹھی دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھی اوراق اسے دیکھ رہے تھے

”کیا مانگ رہی تھی اللہ سے"

اوراق ضحیٰ کو نظروں کے حصار میں لیے پوچھنے لگا 

" خدا کا شکر ادا کررہی تھی "

ضحیٰ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر بتانے لگی اوراق اسی پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا 

"اور کس چیز کیلیے ؟؟"

اوراق آئبرو اچکائے ایک اور سوال کرنے لگ گیا 

"آپ جیسا ہمسفر میرے نصیب میں دیا اس کا شکر ادا کیا"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ برقرار رکھے اسے جواب دینے لگ گئی اور وہ بیڈ پر آ گئی۔

"اچھا جی"

اوراق اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہنے لگ گیا جس پر  ضحیٰ کے گال سرخ ہوگئے وہ اچانک اسے اپنے نزدیک کرتا تھا جس سے وہ شرما جایا کرتی تھی 

"آپ کی آنکھ کیسے کھلی ؟؟"

ضحیٰ اس کے حصار میں نظریں جھکائے پوچھنے لگی اوراق نے اس کے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا

"اچانک ہی"

اوراق اسے جواب دینے لگا ضحیٰ نے اس کی طرف دیکھا 

"آپ کو میرے بال پسند نہیں ہیں کیا"

ضحیٰ معصومیت سے اس کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھنے لگی 

"مرد اپنی پسندیدہ عورت کو چھونے والی ہواؤں کا بھی دشمن ہوتا مسز"

اوراق اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے گھمبیر لہجے میں جواب دینے لگ گیا ضحیٰ پلکیں جھکا گئی 

"مجھے تمہارے بال بہت پسند ہیں مگر جب یہ تمہارے چہرے آتے ہیں نا تو مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا جس پر ضحیٰ مزید سر جھکا گئی۔اوراق اس کی گردن پر اپنا نرم لمس محسوس کروانے لگ گیا ضحیٰ آنکھیں زور سے میچ گئی 

ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے بالوں کی چوٹی بنانے میں مصروف تھی اوراق فریش ہوکر اس کے عقب میں آکر کھڑا ہوا ضحیٰ اسے پیچھے موجود پاکر حرکت کرے ہاتھ روک گئی اور نظر مرر سے اس کا عکس دیکھنے لگ گئی

"تم پر وائٹ کلر بہت جچ رہا جانم"

اوراق اس کے قریب آتا گھمبیر لہجے میں بولتا اس کی سانس سینے میں اٹکا گیا ضحیٰ کے گال سرخ ہوگئے۔ 

"اگر تم اتنی سی بات پر اس قدر شرماؤ کی تو میری شدتیں کیسے برداشت کرو"

اوراق مرر سے اسے دیکھتے ہوئے گہری نظریں جمائے کہنے لگا ضحیٰ اپنے پیر کے پاؤں تک سرخ ہوگئی 

"آج رات جب واپس گھر آؤ تو تمہیں اپنے لیے سجا پاؤ کیونکہ آج میں تمہیں اپنی محبت کا اظہار پریکٹیکل طریقے سے کرکے بتاؤں گا"

اوراق شوخ لہجے میں آنکھ دبا کر کہنے لگ گئی جس پر ضحیٰ پلکیں جھکا گئی

"ن۔۔ناشتہ"

ضحیٰ اس کی بےباک باتوں سے لال گلابی ہوتی بامشکل بول سکی اوراق مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گیا اور وہ دونوں کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئے 

اوراق اور ضحیٰ ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھ رہے تھے لیزا جو اپنے روم سے باہر نکلی ان دونوں کو ساتھ مسکراتا دیکھ وہ حسد سے ان دونوں کو دیکھنے لگی

"اوراق"

ضحیٰ اس کے قریب کرنے پر اسے پکارنے لگی اوراق بھی مسکرا رہا تھا

"کل تک تو اوراق ضحیٰ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور اب ایسا کیا ہوگیا ہے؟؟"

لیزا دل میں سوچتے ہوئے تھوڑی پریشان سی بولی اور وہ دونوں انیتا محترمہ کے روم کی جانب بڑھ گئے 

ان دونوں کے چہرے پر اطمینان اور خوشی دیکھ کر وہ مسکرادی 

"گڈ مارننگ آنٹی"

ضحیٰ انیتا محترمہ کے پاس آتی مسکرا کر کہنے لگی 

"مارننگ بیٹا"

وہ بھی پیار سے اسے کہنے لگی اوراق اور وہ دونوں ان کے پاس بیٹھے باتیں کررہے تھے

"اللہ تم دونوں کو ہمیشہ ایسے ہی خوش رکھے"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی جس پر ضحیٰ شرما کر نظریں جھکا گئی اور اوراق نے ضحیٰ کی جانب دیکھا

"میں ناشتہ لے کر آتی ہوں"

ضحیٰ یہ کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی اس کے جاتے ہی اوراق نے انیتا محترمہ کو دیکھا 

"آپ کا پیر کیسا ہے اب مام"

اوراق ان کے پیر پر نظر ڈالتے ہوئے فکرمند سا پوچھنے لگا 

"ٹھیک ہے لیکن ابھی درد ہے تھوڑا سا"

وہ اسے جواب دینے لگی جس پر اوراق اثبات میں سر ہلا گیا 

"آپ جیسے ہی ٹھیک ہوں گی ضحیٰ اور آپ کو لے کر واپس لندن چلا جاؤں گا"

اوراق انہیں دیکھتے ہوئے فوراً سے بتانے لگا جس پر انیتا محترمہ پریشان سی اسے دیکھنے لگی 

"کوئی بات ہے اوراق"

انیتا محترمہ اسے غصے میں دیکھ کر فوراً سے پریشان ہوتی پوچھنے لگی 

"مام ضحیٰ اس گھر میں بلکل بھی سیو نہیں ایک درندہ اس گھر میں موجود عاقب جو اس کیساتھ ذبردستی زیادتی کرنے کی کوشش کرتا رہتا اسے فیزیکل ٹارچر کرتا رہا ہے اور جب اس نے دادی کو یہ سب بتایا تو دادی نے اسے بہت مارا اور یقین بھی نہیں کیا اس کا میں ایسے گھر میں اپنی بیوی کو نہیں رکھ سکتا ہوں"

اوراق انیتا محترمہ کو ہر ایک بات سے آگاہ کرتا انہیں پریشان کرگیا 

"تو خوفزدہ رہنے کی یہ وجہ تھی اس بچی کی"

انیتا محترمہ لہجے میں افسردگی سجائے اسے کہنے لگی جس پر وہ سر کو خم دے گیا 

"اللہ اس بچی کو صبر دے آمین"

وہ دل سے دعا کرتے ہوئے بولی اوراق نے بھی سر کو خم دیا 

"ضحیٰ کو دیر نہیں ہوگی میں دیکھ کر آتا ہوں"

اوراق کہتے ساتھ اٹھ کر کمرے سے باہر کی جانب بڑھا اور زینے اتر کر نیچے آیا ٹی وی لاؤنچ میں نظر عاقب پر گئی جو ضحیٰ کا راستہ روکے کھڑا تھا 

"تم نے بلکل اچھا نہیں کیا تمہیں چھوڑوں گا"

عاقب اس کی جانب بڑھنے کیلیے قدم اٹھانے ہی لگا کہ ضحیٰ کے سامنے اوراق کسی ڈھال کی طرح آکر کھڑا ہوتا سرد انگارہ برستی نگاہیں اس پر ڈال گئی 

"پیچھے آج کے بعد یہ نظریں بھی ضحیٰ پر پڑی تو دیکھنے کا قابل نہیں چھوڑوں گا تمہیں"

اوراق سخت لہجے میں غراتے ہوئے کہتے ساتھ ضحیٰ کا ہاتھ تھام کر اسے اوپر کی جانب لے جانے لگا ضحیٰ نے مسکراتے ہوئے اوراق کو دیکھا اور عاقب صاحب بس غصے سے ان دونوں کو دیکھے جارہے تھے

"اس نے میری حقیقت سب کو کیوں نہیں بتائی آخر کیا وجہ ہے؟؟"

عاقب صاحب پریشانی سے خود سے سوچتے ہوئے کہنے لگے اور پھر خاموشی سے ڈائننگ کی جانب بڑھ گئے۔۔

____________________

ضحیٰ کمرے میں موجود ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی اوراق ناشتے سے کچھ دیر بعد ہی چلا گیا تھا اور اب تک واپس نہیں آیا تھا یہ پانچ گھنٹے ضحیٰ نے اس کے بغیر کیسے گزارے تھے بس ضحیٰ ہی جانتی تھی تبھی دروازہ کھلا اور اوراق آتا دیکھائی دیا 

"کیا کررہی ہو "

اوراق اس کے پاس آتے ہوئے اسے بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگا 

"کچھ نہیں آپ کہاں گئے تھے"

ضحیٰ اسے دیکھتی فوراً سے پوچھنے لگی اوراق نے اس کے سامنے شاپر بیگ کیا 

"میں تمہارے لیے لایا ہوں ابھی مجھے کسی کام سے جانا ہے رات میں واپس آکر میں تمہیں خود کیلیے تیار دیکھنا چاہتا ہوں اور اگر تم میرے لیے تیار رہی تو میں سمجھ جاؤ گا تم مجھے میرا حق دینے والی ہو"

اوراق اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے اسے دیکھتے ہوئے بولا ضحیٰ بس خاموشی سے کھڑی رہی اوراق چلا گیا 

اوراق کے جانے کے بعد ضحیٰ نے شاپر بیگ سے ڈریس نکالا اس میں ایک پنک کلر کا لانگ فراک تھا وہ اس ڈریس اشتیاق سے دیکھنے لگی اور نظر وال کلاک پر ڈالی جو ساڈھے چار بجا رہی تھی۔

کچھ دیر بعد ضحیٰ نے تیار ہونے کیلیے باتھروم کا رخ کیا شاور وغیرہ لے کر وہ کمرے میں واپس آئی اور اس نے تولیے کی مدد سے اپنے بال سکھانے لگ گئی اچانک اس کے سامنے وہ خوفناک راتیں فلیش بیگ کی طرح لہرائی اس کے چہرے کی مسکراہٹ یکدم سمٹ گئی 

"کیا میں اوراق کے قابل بھی ہوں نہیں ہوں میں ان کے قابل"

ضحیٰ آنکھوں میں نمی لیے لہجے میں افسردگی سجائے کہنے لگا

"لیکن مزید انہیں ناراض نہیں کرسکتے ہیں ان کیلیے تیار ہوں گی میں"

ضحیٰ فوراً سے خود سے کہتے ساتھ ہلکا سا میک ایپ کرنے لگ گئی میک ایپ کرنے کے بعد ڈریس چینج کرنے لگ گئی پنک ڈریس وہ بےحد پیاری لگ رہی تھی ضحیٰ نے بال پشت پر پھیلائے چہرے پر مسکراہٹ سجانے کی کوشش کرنے لگی اس نے وال کلاک پر نظر ڈالی جہاں آٹھ بج رہے تھے وہ اوراق کا انتظار کرنے لگی پانچ منٹ بعد دروازہ ناک ہوا ضحیٰ اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھی دروازہ کھلا اوراق کی جگہ لیزا کو موجود پاکر اسے تھوڑی حیرت ہوئی

"واؤ لیزا تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو لیکن اتنی تیاری خیریت تو ہے نا؟؟"

لیزا اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہتے ساتھ اندر آنے لگی 

"جج۔جی اوراق لائے تھے اور اُنہوں نے مجھے یہ پہننے کا بولا تھا"

ضحیٰ تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اسے بتانا ضروری سمجھنے لگی 

"اوہ اچھا"

لیزا چہرے کے تاثرات نارمل رکھے بس یہی بول سکی 

"اوراق آتے ہی ہوں گے اگر آپ کو کوئی بات کرنی ہے تو صبح کرلیں گے"

ضحیٰ اسے فوراً سے بول گئی لیزا نے ایک نظر اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا گئی اور کمرے سے چلی گئی

"اگر جو میں سوچ رہی ہوں آج رات اگر وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو میرا کر مقصد ناکام ہوجائے میں اوراق کو آج کسی بھی حالت بھی ضحیٰ کے قریب نہیں جانے دے سکتی میں انہیں قریب کرکے ان کا رشتہ مزید مضبوط نہیں کرسکتی مجھے تو الگ کرنا ہے انہیں"

لیزا اپنے کمرے میں آتی پریشانی سے ٹہلتے ہوئے خود سے بولتی چلی گئی ۔۔۔

___________________

ضحیٰ بیڈ پر بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی تبھی دروازہ کھلا اوراق کمرے میں داخل ہوا اس کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی ضحیٰ کا دل بہت زور سے دھڑکا اور وہ اپنے ہاتھ گھبراہٹ کے مارے مسلنے لگ گئی اوراق کی نظریں اس پر گئی تو وہ اپنی جگہ جم سا گیا پنک کلر میں وہ آسمان میں اتری خوبصورت پر لگ رہی تھی ضحیٰ نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور دوبارہ اپنی پلکیں جھکا گئی اوراق کی نظریں مسلسل خود پر محسوس کرتی وہ ننھی سی جان مزید گھبرا گئی اوراق اس کے قریب آتے ہوئے اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا 

"تم اسوقت سیدھا میرے دل میں اتر رہی ہو مائی ہارٹ بیٹ"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں جمائے محبت پاش لہجے میں بولتا ضحیٰ کے گال سرخ کروا گیا ضحیٰ نروس سی بیٹھی تھی اوراق اس کے آتا اس کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر اس کی پیشانی پر اپنے پیار کی مہر لگا دی ضحیٰ اپنی غیر حالت کیساتھ اس کے لمس کو محسوس کرکے اس کی سانس سینے میں اٹک گئی

"آج تم میری شدتیں برداشت کرنے کیلیے تیار ہو جائے مسز"

وہ اسے دیکھتے ہوئے شوخ لہجے میں کہتے ساتھ اس کے ہونٹوں پر فوکس کرتا ان پر شدت سے جھک گیا 

سورج کی شعاعیں گلاس وال سے ٹکراتی روشنی کمرے میں آنے لگی اوراق نیند سے جاگا آنکھیں کھول اپنی سائیڈ پر نظر ڈالی ضحیٰ کو اپنی باہوں میں پرسکون سا سوتا پاکر اس کے لب مسکرادیے وہ اس کی شرٹ میں ملبوس مزے سے سورہی تھی اوراق نے جھک کر اس کی سفید پیشانی پر لب رکھ دیے وہ تھوڑا سا کسمسائی اور اس کے سینے میں مکمل منہ چھپا گئی شاید شرما رہی تھی اوراق اس کی حرکت پر مسکرا گیا 

"ضحیٰ"

اوراق اس کے بالوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اسے پکارنے لگ گیا

"ہممم"

وہ سینے میں منہ دیے سر کو ہلاتے ہوئے پوچھنے لگی 

"دیر ہوگئی ہے اٹھ جاؤ مام ویٹ کررہی ہوگی ہمارا"

اوراق اسے محبت پاش لہجے میں بولتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا جس پر ضحیٰ اس کے سینے سے منہ ہٹاتی وال کلاک پر نظر ڈال گئی جہاں گھڑی دس بجا رہی تھی ضحیٰ نے ایک نظر اس پر ڈالی اس کے چہرے پر موجود حیا اور شرم اوراق اس کے چہرے پر اپنی محبت کا رنگ صاف دیکھ سکتا تھا وہ مسکرا گیا اور ضحیٰ نظریں جھکاتی باتھروم کا رخ کر گئی کچھ دیر میں وہ فریش ہوکر سفید رنگ کے خوبصورت سے ڈریس میں ملبوس بےحد پیاری لگ رہی تھی اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال بنارہی تھی اوراق نے اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں لیا ضحیٰ کے حرکت کرتے ایکدم رکے اور اس نے سر اٹھا کر مرر سے اسے دیکھا اور لال ہوتی وہ نظریں جھکا گئی 

"صبح سے تم مجھ سے نظریں چرا رہی ہو خیریت ہے نا مسز"

اوراق اس کے کان کے قریب لاتا گھمبیر آواز میں بولتا کان کی لو چوم گیا ضحیٰ کا دل سینے میں اٹک گیا

"اا۔۔۔اوراق آنٹی ویٹ کررہی ہیں"

ضحیٰ آنکھیں بند کیے بمشکل اپنے لفظ مکمل کرسکی اوراق اس کی حالت سے محفوظ ہوتا نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ لیے کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گیا 

"اوہو خوبصورت کپل کی مارننگ ہوگئی ہے"

لیزا ان دونوں کے سامنے آتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی  ضحیٰ کے چہرے کی مسکراہٹ برقرار تھی اور چہرے پر موجود شرم و حیا کسی کو بھی سب بتانے کیلیے واضح تھی 

"جی ہوگئی ہے"

ضحیٰ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر جواب دینے لگ گئی جس پر لیزا بمشکل مسکرا سکی 

"ضحیٰ مجھے تم سے بات کرنی تھی کل بھی آئی تھی لیکن تم نے میری بات نہیں سنی تم فری ہوکر روم میں آجانا "

لیزا اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی لیزا وہاں سے ہٹ گئی اور وہ دونوں انیتا محترمہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئے 

"یعنی میرا شک بلکل ٹھیک نکلا"

لیزا نم آنکھوں سے ضحیٰ کو جاتا دیکھ دل میں بولتی کمرے کا رخ کر گئی۔

ضحیٰ اور اوراق انیتا محترمہ کے کمرے کی جانب آئے جہاں وہ بیڈ پر بیٹھی اپنا پیر موو کرنے کی کوشش کررہی تھی دونوں نے انہیں دیکھا

"کیا ہوا مام"

اوراق انہیں دیکھتے ہوئے تھوڑا فکرمند سا پوچھنے لگا جس پر وہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرائی 

"بیٹا لیٹے لیٹے تھک گئی تھی سوچا تھوڑا موو کروں ایسا تو نہیں ٹھیک ہونے والا پیر"

انیتا محترمہ اوراق کو دیکھتے ہوئے بتانے لگی جس پر وہ ان کے پیروں کے پاس جھک کر بیٹھتے ہوئے آرام سے آرام پاؤں کو  حرکت دینے لگا پہلے پہلے انہیں درد ہوا اور پھر درد کم ہونے لگ گیا 

"اب بہتر ہیں آپ آج واک بھی کیجیے گا"

اوراق انہیں دیکھتے ہوئے تنبیہہ کرنے لگا وہ اثبات میں سر ہلا گئی 

تبھی ماسی ناشتے کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی اور مسکراتے ہوئے رکھ کر چلی گئی اوراق ضحیٰ اور انیتا محترمہ نے مل کر ناشتہ شروع کیا۔

___________

اتوار ہونے کی وجہ سے عاقب صاحب آج گھر پر تھے وہ لوگ ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے چائے پی رہے تھے 

"مجھے الطاف کا فون آیا تھا کہ کمپنی سے پیسے غائب ہورہے ہے اور کمپنی کا لاس پر لاس ہوئے جارہا ہے"

ادیبہ بیگم پریشانی سے عاقب صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی لبوں پر جاتا کہ یکدم رکا عاقب صاحب نے پریشانی سے اسے دیکھا 

"میں اپنی پوری کوشش کرتا ہوں لیکن دوسری کمپنی کے پروڈکٹس اپنے ہمیشہ اچھے ہوتے ہیں ایک بھی ورکر کام کا نہیں ہے"

عاقب صاحب اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے انہیں جواب دینے لگے 

"اس طرح تو کمپنی بند ہو جائے گی کوئی اچھے ورکر ڈھونڈوں اور پیسے جو چوری ہورہے ہیں وہ کیا"

ادیبہ بیگم انہیں تفتیشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی عاقب صاحب جواباً خاموش رہے 

"دیکھو عاقب اگر مجھے معلوم ہوا نا کہ ان سب کے پیچھے ہاتھ تمہارا تو میں تمہارے ساتھ وہ کروں گی نا تم یاد رکھو گے صرف اپنی بیٹی اور نواسی  کی وجہ سے تمہیں برداشت کیا ہوا ہے میں نے"

ادیبہ بیگم سرد لہجے میں وارن کرنے والے انداز میں کہنے لگی عاقب صاحب تھوک نگل گئے 

"نہیں مام عاقب ایسے نہیں ہے "

عارفہ محترمہ فوراً سے ان کی حمایت میں بولنے لگی ادیبہ بیگم طنزیہ مسکرا گئی 

______________

ضحیٰ جب فارغ ہوئی تو لیزا سے بات کرنے کیلیے اس کے کمرے کی جانب بڑھی وہ کمرے میں داخل ہوئی تو رونے کی آواز آئی 

"لیزا آپ رو رہے ہیں"

ضحیٰ پریشانی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی لیزا نے اسے دیکھا اور فوراً آنسو صاف کرنے لگ گئی

"تم کب آئی سوری مجھے پتہ نہیں چلا"

لیزا فوراً سے اسے کہنے لگ گئی ضحیٰ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا 

"کوئی بات نہیں آپ مجھے بتائیں آپ کیوں رو رہی ہیں"

ضحیٰ نرمی سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے دیکھ کر بولی 

"ضحیٰ تم مجھے غلط مت سمجھنا میں ایسا نہیں چاہتی تھی لیکن تمہیں یاد ہوگا ایک دفعہ تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ آپ اوراق کو پسند کرتی ہو اس دن میں نے تم سے جھوٹ بولا ضحیٰ صرف تمہارے لیے اور مجھے لگا اوراق بھی تمہیں پسند کرتا ہے مجھ سے صرف وہ دوستی تک محدود ہوگا تمہیں یہ بھی یاد ہوگا جب وہ یہاں آیا تھا تو وہ میرے ساتھ بہت فری تھا اور میں ہی اسے تمہیں ساتھ لے جانے کا بولا کرتی تھی لیکن جب تم دونوں کا نکاح ہوا میں اپنے ذہن سے اوراق کا خیال نکال چکی تھی لیکن جب وہ فارم ہاؤس واپس آیا وہ واپس مجھ سے فری ہونے لگا محبت ایسا جذبہ ہوتا انسان اپنے من پسند شخص کو قریب آنے سے نہیں روک سکتا تھا وہ اس دوران بھی میرے قریب آتا رہا اب میرے بس میں نہیں ہے کچھ میں اسے تمہارے ساتھ نہیں دیکھ سک رہی ہوں ضحیٰ وہ تمہیں یا مجھے مجھے نہیں معلوم وہ کس کو چیٹ کررہا ہے "

لیزا روتے سسکتے ہوئے اسے جھوٹی باتیں بتانے لگی ضحی کچھ پل کیلیے ساکت ہوگئی مگر اس کی حالت دیکھ وہ اسے کہیں سے بھی چھوٹی نہیں لگ رہی تھی

"ضحیٰ میاں بیوی کے رشتے میں سب سے ضروری اعتبار ہونا چاہیے "

اوراق کی کہی بات ضحیٰ کے ذہن میں فوراً گردش کرنے لگ گئی 

"نہیں آپ جھوٹ بول رہی ہیں اوراق آپ کو کبھی بھی پسند نہیں کرسکتے اور نہ کیا ہے وہ تو آپ سے صحیح طریقے سے بات بھی نہیں کرتے بس دو دن اس لیے آپ کے کلوز ہوئے کیونکہ میں نے انہیں ناراض کردیا تھا اسی وجہ سے صرف مجھے احساس دلانے کیلیے وہ آپ سے باتیں کرنے لگ گئے"

ضحیٰ اسے دیکھتی فوراً سے غصے سے کہنے لگی لیزا اسے دیکھنے لگ گئی 

"ضحیٰ وہ بہت گٹھی"

لیزا ابھی بول رہی تھی جب ضحیٰ نے تھپڑ اس کی گال پر دے مارا لیزا حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی 

"میری ایک بات دھیان سے سن لیں آپ مجھے بہت عزیز ہیں لیکن اوراق میرے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں میں ان کو آپ کا نہیں ہونے دوں گی وہ صرف میرے ہیں اور میرے ہی رہیں گے آنکھ بند کر کے اعتبار کرتی ہو آج کے بعد ایسے بکواس اوراق کے متعلق کی تو مجھ سے زیادہ برا کوئی نہیں ہوگا"

ضحیٰ شہادت والی انگلی دیکھائی اسے وارن کرنے والے انداز میں کہتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی لیزا سرخ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی 

"تم نے مجھے تھپڑ مار کر اچھا نہیں کیا ہے ضحیٰ"

وہ اسے جاتا دیکھ نفرت بھرے لہجے میں بولتی گال پر ہاتھ رکھ گئی 

ضحیٰ غصے سے کمرے سے باہر آرہی تھی جب نظر انیتا محترمہ پر گئی

"آنٹی آپ کہاں جارہی ہیں"

ضحیٰ فوراً سے ان کے پاس آتے ہوئے  دیکھ کر پوچھنے لگی 

"میں لان میں واک کرنے جارہی تھی اوراق نے بولا تھا نا"

انیتا محترمہ مسکراتے ہوئے ضحیٰ کو بتانے لگی ضحیٰ نے فوراً سے اسے تھاما 

"آپ میرے ساتھ چلیں پلیزز"

ضحیٰ ان کو احتیاط سے اپنے ساتھ انہیں لیتی لان کی جانب  بڑھ گئی  

وہ دونوں ٹہل رہے تھے اور باتیں وغیرہ کررہے تھے انیتا محترمہ اب بہت بہتر نظر آرہی تھی

______________ 

عاقب صاحب کچھ دیر پارک میں ٹہلنے کیلیے چل دیے ان کا دم گھٹ رہا تھا کہ تبھی کسی نے پیچھے سے ان کے منہ پر رومال رکھ دیا وہ گھبرائے مگر کچھ دیر کی مزاحمت کے بعد وہ بےہوش ہوکر زمین پر ڈھے گئے اس شخص نے اسے گاڑی میں ڈال دیا اور گاڑی میں بٹھا کر گاڑی سڑک پر دوہرا گیا۔۔

کچھ دیر کی ڈرائیو کے بعد وہ انہیں ایک سنسان سی جگہ پر لاکر کرسی پر بٹھاتے اسے رسیوں سے باندھ گئے وہ بےسدھ سا کرسی پر بیٹھا ہوا تھا

"سر کام ہوگیا ہے"

آدمی نے فون نکال کر نمبر ڈائل کیا اور فون کان سے لگاتے ہوئے بولا دوسری طرف اوکے کا جواب آیا اور فون بند ہوگیا 

اور اس سنسان خاموش جگہ پر کسی کے قدموں کی آواز صاف سنایی دی وہ چلتے ہوئے اس کے پاس آکر بیٹھتا اس کے چہرے پر پانی زور سے پھینک گیا عاقب بھوکلا کر پوری آنکھیں کھول کر گہرا سانس لینے لگ گیا اور نظریں ارد گرد گھمانے لگ گیا ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور بلکل کوئی انسان علاؤہ تھا عاقب صاحب کو خوف سا محسوس ہونے لگ گیا ان کی سانس رک سی گئی اور انہوں نے نظریں سامنے کی جانب کی 

"کیا ہوا ڈر لگ رہا ہے"

بھاری آواز کانوں سے ٹکراتے ہی وہ مزید خوفزدہ ہوگئے 

"ککک۔۔۔۔ککون ہو تم"

عاقب خوفزدہ سا کپکپاتے لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے 

"شششش آج تو اپنے کیے گئے انتہائی گٹھیا جرم کی سزا دے گا"

وہ  اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اس کے قریب آئے کہتا ان کا وجود کانپنے پر مجبور ہوگیا 

"کککک۔۔۔کون سا جرم"

عاقب ہمت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگ گیا 

"ایک جرم ہو تو بتاؤ میرے باپ کی جان لینے والا تو میرے دادا کو قتل کرنے والا تو میری بیوی  کیساتھ زیادتی کرنے والا تو اتنے جرم بہت ہیں یا اور بتاؤ ؟؟"

سامنے موجود شخص اپنے لفظوں پر زور دیے غصے سے غرایا اور عاقب بےیقین سا سامنے موجود شخص جو دیکھنے لگ گیا وہ کون تھا کیا وہ اوراق تھا نہیں لیکن اوراق کو یہ سب کیسے معلوم ہوسکتا ہے وہ تو تب صرف سات سال کا تھا

"تو میری ماں اور میری بیوی کی آنکھوں میں آنسو لایا تیرا وہ حشر کروں گا کہ تو آئندہ کبھی برا سوچنے سے پہلے بھی کانپنے لگ جائے گا"

اوراق کہتے ساتھ گن اس کی گردن پر رکھتا اس کی روح تک کو کانپنے پر مجبور کر گیا 

"اوراق اسماعیل بیگ سیدھا اور شریف آدمی سیدھے اور شریف لوگوں کیلیے ہ اور وحشی تجھ جیسے درندوں کیلیے ہے"

وہ اسے سفاک لہجے میں کہتے ساتھ زوردار قہقہہ لگا گیا عاقب کو اپنی موت صاف نظر آرہی تھی اوراق نے اس کے جبڑے جو زور سے دبوچ دیا وہ درد سے کراہنے لگے 

"شروع ہوجاؤ"

وہ اپنے سامنے کھڑے آدمی کو حکم دیتے ہوئے کہنے لگا جس پر وہ ایک لوہے کا راڈ اٹھا کر اس کے سر پر دے کر مار گیا عاقب کا دماغ گھوم کر رہ گیا 

"آہہہہ"

عاقب کی زوردار چیخ نکلی اور یہ چیخ سنتے ہی اوراق کو سکون سا ملا 

"رکو مت"

اوراق کی گرج دار آواز پر وہ دونوں سہم گئے اور وہ شخص اسے بغیر رکے راڈ مارتا گیا عاقب مسلسل چیختا چلا گیا اور اس کی چیخیں سن کر اوراق چہرے پر مسکراتے ہوئے اس کی چیخوں پر مسکراتے ہوئے سر گھمانے لگ گیا جیسے اس کی روح کو بےحد سکون مل رہا ہو۔

اوراق گھر میں داخل ہوا ادیبہ بیگم عارفہ محترمہ انیتا محترمہ تینوں ٹی وی لاؤنچ میں موجود تھی اور ضحیٰ کچن سے باہر نکلی  اوراق کی نظر اس پر گئی تو وہ مسکرایا مگر ضحیٰ اسے سنجیدگی سے دیکھتی دوسری طرف دیکھنے لگ گئی اوراق انیتا محترمہ کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا ضحیٰ کھڑی تھی

"ضحیٰ بیٹھو"

اوراق اسے کھڑا دیکھتے ہوئے اپنے ساتھ خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتا کہنے لگا وہ خاموشی سے اس کیساتھ آکر بیٹھ گئی وہ لوگ چائے پی رہے تھے تبھی عاقب صاحب آتے دیکھائی دیتا 

"عاقب کیا ہوا آپ کو"

عارفہ محترمہ پریشانی سے کھڑی ہوتی چہرے پر موجود زخم کے نشان اور سر پر پٹی بندھی دیکھ کر پوچھنے لگی سب لوگ پریشانی سے عاقب کو دیکھنے لگے عاقب نے اوراق کی جانب دیکھا

"کیا ہوا انکل کیسے ہوا"

اوراق فوراً سے عاقب کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھنے لگا جس پر وہ خوفزدہ سے اسے دیکھنے لگ گئے 

"خبردار جو منہ سے سچ نکالا ورنہ تیرا سچ بھی میں بتادوں گا"

اوراق اسے دھمکاتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگا جس پر عاقب گھبرا کر رہ گیا

"آکسیڈنٹ ہوا تھا"

عاقب صاحب اوراق کو دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گئے 

"کیسے ہوا یا اللہ اتنی چوٹیں آئی ہیں"

عارفہ محترمہ پریشان ہوتی عاقب صاحب کے پاس آتی کہنے لگی 

انیتا محترمہ خاموشی سے کمرے کی جانب بڑھنے لگی ضحیٰ انہیں سہارا دیتی ان کے ساتھ چل دی 

"پتہ نہیں کیسے ہوگیا آکسیڈنٹ"

اوراق ادیبہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولتے ساتھ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا اور ادیبہ بیگم خاموش کھڑی تھی 

انیتا محترمہ کو کمرے میں لٹا کر ان پر بلینکٹ ڈال گئی وہ اسے دیکھ کر مسکرادی 

"میڈیسن آنٹی"

ضحیٰ انہیں دوا دیتی پانی کا گلاس تھما کر بولی اوراق کمرے میں داخل ہوا 

"میں عشا ادا کرلوں آپ آرام کریں"

ضحیٰ اوراق کو نظر انداز کرتی کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی طرف چلتی اپنے کمرے میں آ گئی اوراق اسے جاتا دیکھنے لگ گیا

___________________

وہ عشا کی نماز ادا کرکے فارغ ہوئی تھی تو اوراق کو بیڈ پر موجود پایا

"یہاں آکر بیٹھو"

اوراق اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے اپنے پاس آنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا وہ خاموشی سے اس کے پاس آکر بیٹھ گئی

"کیا بات ہے کیوں نظرانداز کررہی ہو مجھے؟"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں جمائے پریشان سا پوچھنے لگا 

"اوراق ایک بات پوچھوں مجھے یقین ہے آپ پر مگر میں آپ کو منہ سے سن کر خود کو تسلی دینا چاہتی ہوں"

ضحیٰ اوراق کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی 

"ضحیٰ بولو کیا پوچھنا ہے"

اوراق فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے بولا جس پر ضحیٰ نے ایک گہرا سانس لیا

"آپ لیزا کے بہت قریب ہوئے کیا اور لیزا کو پسند کرتے تھے؟؟"

ضحیٰ اوراق پر نظریں جمائے اسے دیکھتی سنجیدہ لہجے میں پوچھتی اوراق کو غصہ دلا گئی 

"آر یو میڈ کیا بول رہی ہو تم"

اوراق سرد لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ کی نظریں اس پر تھیں 

"میں نے جواب مانگا کے ہاں یا نہ میں "

ضحیٰ فوراً سے اسے یاد دہانی کروانے لگی اوراق اسے دیکھنے لگ گیا

"نہیں بلکل نہیں میرے خیال سے میں اعتراف کرچکا ہوں پہلی ہی نظر میں مجھے تم اچھی لگی تھی "

اوراق فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے اپنی وضاحت دینے لگا ضحیٰ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"مجھے یقین تھا آپ پر بس تسلی کررہی تھی "

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گئی

"تم سے کس نے بولا یہ سب "

اوراق سنجیدہ تاثرات چہرے پر سجائے فوراً سے پوچھنے لگا

"لیزا نے"

ضحیٰ اسے فوراً سے بتانے لگی اوراق سر کو خم دے گیا 

"میں تب یہی سوچ رہی تھی یقین تھا مجھے آپ ہر لیکن سوچیں تو آتی ہی ہیں نا انسان کے ذہن میں"

ضحیٰ چہرے پر معصومیت سجائے اسے بتانے لگی اوراق نے اسے اپنے حصار میں لیا 

"اپنے چھوٹے دماغ پر اتنا زور مت ڈالو مائی ہارٹ بیٹ"

اوراق اس کے بالوں پر لب رکھے اسے پیار سے کہنے لگا اور اس کے حصار میں آتے ہی اسے تحفظ سا محسوس ہوا وہ مسکرا کر اسے دیکھنے لگ گئی

"آپ وہ انسان ہیں اوراق جب میں بلکل بجھ چکی تھی آپ نے مجھے پھر بھی قبول کیا تھا"

ضحیٰ اس پر محبت بھری نظریں جمائے دل میں خود سے بولی 

"کیا دیکھ رہی ہو"

اوراق آئبرو اچکائے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا جس پر ضحیٰ ہوش میں آئی اور پلکیں جھکا گئی۔

______________

ضحیٰ کمرے میں نماز ادا کررہی تھی تبھی اوراق کمرے سے باہر نکل کر لیزا کے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کرتا سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے اس کی جانب بڑھا 

"اوراق"

لیزا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر پکارنے لگی اوراق نے اس کی گردن دبوچ کر اسے دیوار سے لگایا 

"میں نے مسکرا کر تن سے دو باتیں صرف اس لیے کی کہ تم مجھے ایک اچھی لڑکی لگی تھی مگر مجھے نہیں معلوم تھا یہ معصوم چہرے کے پیچھے اتنا گٹھیا چہرہ چھپا ہے تم نے میرے خلاف ضحیٰ کو باتیں کرکے بہت بڑی غلطی کردی ہے "

اوراق گردن پر مضبوط گرفت کیے سرد آنکھیں سے اسے گھورتا جنونی انداز میں بولتا اس کی سانس روک گیا 

"اا۔۔۔ا"

وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولنے کی بمشکل کوشش کرتی اپنا ہاتھ اسکی گردن سے ہٹانے لگی مگر ناکام رہی لیزا کی آنکھیں مزید بڑی ہوتی گئی اوراق نے جھٹکے سے گردن کو چھوڑا لیزا گہرے گہرے سانس لینے لگ گئی

"آج کے بعد اگر میری ضحیٰ جو میرے خلاف کرنے کی کوشش کی تو تمہاری جان اپنے ہاتھ سے لوں مائنڈ اٹ"

وہ اسے نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتا شہادت والی انگلی دیکھائے وارن کرنے والے انداز میں کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب چل دیا لیزا کی آنکھوں سے بےتحاشہ آنسو بہتے ہوئے گال پر گر گئے اور وہ زور زور سے روتی چلی گئی

"تم میرے تھے تم اس ضحیٰ کے کیسے ہوسکتے ہو وہ گندی ہے بہت زیادہ گندی"

لیزا روتے ہوئے غصے سے بولتی ڈریسنگ پر موجود تمام چیزوں کو زمین پر پٹک گئی 

"تمہیں میرا ہی بننا ہوگا ضحیٰ کو تمہاری زندگی سے میں ہی نکالوں گی اوراق تن دیکھنا"

لیزا مرر پر نظریں جمائے نم آنکھوں سے خود سے بولتی ہلکا سا مسکرا گئی 

________________

"ایک بات پوچھوں اوراق"

ضحیٰ اور اوراق ٹیرس پر کھڑے چائے پی رہے تھے ضحیٰ نے اسے دیکھتے ہوئے اجازت مانگی 

"تم پوچھتی کیوں ہو ڈیریجٹ بولا کرو بس"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ سر کو خم دے گئی

"اس شخص کا وہ حال آپ نے کیا ہے نا "

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی اوراق نے اس کی جانب دیکھا 

"ہممم"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے سر کو خم دے گیا ضحیٰ کے چہرے پر اچانک خفگی چھا گئی۔۔

"آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں کیسے لے سکتے ہیں اوراق آپ اسے پولیس کے حوالے کر دیتے آپ کو یہ سب کرنے کا حق نہیں تھا" ضحیٰ فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے بولی اوراق خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔

"مجھے پورا حق تھا اس نے میری بیوی کو تکلیف پہنچائی تھی"

اوراق ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے غصے سے جواب دینے لگا ضحیٰ ایکدم خاموش ہو گئی۔۔

"تمہیں کیا لگا تھا حقیقت جاننے کے بعد بھی میں کچھ نہیں کروں گا میرا تو دل کررہا تھا اس کی جان لے لوں مگر میں چاہتا وہ اپنا گناہ اپنے منہ سے قبول کرے"

اوراق اس کے پاس آتے ہوئے اسے دیکھ کر چہرے پر سنجیدگی سجائے بتانے لگا۔۔

"اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا"

ضحیٰ اسے دیکھتی مایوس لہجے میں کہنے لگی اوراق نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔

"ہوگا جب اس انسان کی بہت قیمتی چیز اس سے دور ہوتی ہے نا تو اسکی روح تک کانپ جاتی ہے ایسا ہی کچھ میں کرکے اس کی سچائی سب کے سامنے لاؤں گا تمہارے مجرم کو اپنے ہاتھوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کروں گا ڈونٹ وری"

اوراق اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے دیکھتے ہوئے بولا ضحیٰ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھنے لگ گئی۔۔

"میرے پاس الفاظ نہیں آپ کا شکر ادا کرنے کے آپ ایک معجزہ کی طرح میری زندگی میں آئے ہیں"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے اسے بولی اوراق نے جھک کر اسکی پیشانی پر لب رکھ دیے ضحیٰ اس کا پیار بھرا لمس محسوس کرتے ہی آنکھیں بند کر گئی۔۔

___________________

ضحیٰ کچن میں کھڑی شاید انیتا محترمہ اور اوراق کیلیے کچھ کھانے کا بنانے میں مصروف تھی تبھی لیزا کچن میں داخل ہوئی

"ضحیٰ"

لیزا اسے دیکھتے ہوئے پکارنے لگی ضحیٰ نے اسے دیکھا

"جی"

ضحیٰ سپاٹ لہجے میں جواب دیتی کھانے بنانے میں مصروف رہی 

"آئی ایم سوری مجھے تم سے ایسا نہیں بولنا چاہیے"

لیزا نظریں جھکائے اسے دیکھتے ہوئے بولی ضحیٰ نے اسے دیکھا

"نہیں کوئی بات نہیں"

وہ اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ سیلیڈ بنانے کیلیے سبزیاں کٹ کرنے لگ گئی 

"لیکن ایک بات تم دھیان سے سن لو اوراق میرے لیے ہی بنا ہے اور میں اسے اپنا بنا کر رہوں گی اب مزید اچھی بننے کی اداکاری مجھ سے نہیں ہوتی ہے"

لیزا اسے دیکھتے ہوئے کرسی کھسکا کر اس کے پاس بیٹھتے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کہنے لگی ضحیٰ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا

"بولنے سے کیا ہوتا ہے آپ بول رہی ہیں میں نے انہیں اپنا بنا لیا ہے "

ضحیٰ چہرے پر اطمینان برقرار رکھے مسکرا کر کہتی لیزا کو غصہ دلا گئی 

"بہت زبان چلنے لگی ہے تمہاری"

لیزا غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ضحیٰ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"یہ سب مجھے اوراق نے سیکھایا ے اپنے حق کیلیے لڑنا چاہیے آپ بھی تو ہمیشہ لڑتی آئی ہے نا اپنے لیے تو اب میں بھی اپنے لیے لڑوں گی"

ضحیٰ سبزیاں کاٹتے ہوئے اسے دیکھتی جواب دیتی لیزا کو مزید ثپا گئی

"میں ایسے تمہیں اوراق کی زندگی سے نکالوں گی جسے ویٹ اینڈ واچ "

لیزا چٹکی بجا کر اسے دیکھتے ہوئے بولی ضحیٰ کے چہرے پر سنجیدہ تاثرات سج گئے 

"خیالی پلاؤ بنانے سے انسان کسی کو نہیں روک سکتا اب جو کچھ بھی کریں گی آپ کا ہی نقصان ہوگا میرا کچھ نہیں جانے والا "

ضحیٰ اسے دیکھتی مسکراتے ہوئے مزاحیہ انداز میں کہنے لگ گئی لیزا خاموشی سے اسے گھورنے لگ گئی۔

"ضحیٰ کچن میں کیا کررہی ہو"

تبھی اوراق کچن میں داخل ہوتا ضحیٰ کو پکارتے ہوئے بولا لیزا اور ضحیٰ دونوں نے اسے دیکھا

"میں پلاؤ بنا رہی تھی آپ کے اور آنٹی کیلیے"

ضحیٰ اوراق کو دیکھتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے جواب دینے لگی اوراق لیزا کو مکمل نظرانداز کرتا اس کے پاس آیا 

"تم کچھ نہیں بنارہی ہو چلو روم میں میرے ساتھ ماسی کرلیں گے یہ"

اوراق اس کے ہاتھ چھڑی لے کر ٹیبل پر رکھتا اس کا ہاتھ تھام کر بولا ضحیٰ نے ایک نظر لیزا پر ڈالی جس کو اپنا ہونا بےکار سا لگ رہا تھا

"اوراق میں اپنی خوشی سے آپ کیلیے بنارہی ہوں بس تھوڑی دیر میں تیار ہوجائے گا پھر میں آپ اور مام مل کر کھائیں گے"

ضحیٰ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر جواب دینے لگی اوراق اسے دیکھنے لگ گیا

"اور جو میرا دل نہیں لگ رہا ہے روم میں اس کا کیا"

اوراق اس کے کان کے قریب لب لائے سرگوشی کرتے ہوئے کہنے لگا ضحیٰ مسکرا کر پلکیں جھکا گئی لیزا اٹھ کر غصے سے واک آؤٹ کر گئی 

"تو پھر آپ یہاں بیٹھ جائیں"

ضحیٰ اسے دیکھتی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی اوراق اثبات میں سر ہلا گیا 

"گڈ آئیڈیا"

وہ مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا ضحیٰ بھی کرسی کھسکا کر بیٹھتی سبزیاں کاٹنے لگ گئی اوراق اس ہر نظریں جمائے مسلسل اسے دیکھ رہا تھا اس کے مسلسل دیکھنے پر ضحیٰ ہنسنے لگ گئی

"اوراق آپ مجھے مت دیکھیں میں کنفیوز ہورہی ہوں"

ضحیٰ سرخ گال لیے اس سے نظریں چراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی 

"تم اپنا کام کرو اور مجھے میرا کرنے دو نا "

اوراق چہرے پر ہاتھ رکھے اسے نظروں کے حصار میں لیے جواب دینے لگ گیا ضحیٰ خاموشی سے پلیٹ اٹھا کر چولہے کی جانب بڑھ گئی اوراق اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا عارفہ محترمہ جو وہاں سے گزر رہی تھی اوراق اور ضحیٰ کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں حسد سی چھائی

"یہ لڑکی جو کسی کے سامنے بول نہیں سکتی آج کیسے حق سے کچن میں کھڑی ہے اور اوراق کو دیکھو کیسے بےشرم ہے استغفِرُاللہ کسی کا خیال ہی نہیں "

عارفہ محترمہ دل میں ان دونوں کو دیکھتی کہتے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔

ضحیٰ اوراق اور انیتا محترمہ نے مل کر کھانا کھایا 

"ضحیٰ بچے کھانا بہت مزے کا بنا ہوا تھا"

انیتا محترمہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی ضحیٰ بھی مسکرا گئی

"تھینکیو آنٹی"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی جس پر وہ بھی مسکرادی 

کھانا کھانے کے بعد ضحیٰ برتن رکھ کر واپس کمرے کی جانب بڑھنے لگی تبھی نظر عاقب صا پر گئی جس کی حالت کل سے بہتر تھی ضحیٰ اسے دیکھ کر تھوڑا سا گھبرائی اور وہاں سے بھاگتی ہوئی روم کی جانب بڑھ گئی عاقب اسے جاتا دیکھنے لگ گیا 

"اس کو ہاتھ لگایا تو اس پاگل انسان نے میرا ہاتھ کاٹ دینا ہے"

عاقب اسے گھبراتے ہوئے جاتا دیکھ کر خود سے کہتے ساتھ پانی پینے لگ گیا 

ضحیٰ کمرے میں داخل ہوئی تو اوراق بیڈ پر بیٹھا تھا ضحیٰ اسے دیکھ کر مسکرادی 

"کہاں جارہی ہو"

اوراق اسے جاتا دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگ گیا 

"وضو کرکے نماز پڑھنے لگی ہوں"

ضحیٰ مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گئی اوراق خاموشی سے اثبات میں سر ہلا گیا۔

ضحیٰ نے وضو کرکے نماز پڑھنا شروع کردی کچھ دیر میں وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی اور دعا کیلیے ہاتھ اٹھا گئی وہ پندرہ منٹ سے مسلسل دعا مانگ رہی تھی ضحیٰ نے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور مسکرادی 

"ضحیٰ"

اوراق نے اسے دیکھتے ہوئے پکارا ضحیٰ نے بھی اس کی جانب دیکھا 

"جی؟"

ضحیٰ مسکرا کر فوراً سے پوچھنے لگ گئی 

"اتنی لمبی کیا دعا مانگ رہی تھی ؟؟"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے پریشان سا پوچھنے لگ گیا جس پر ضحیٰ مسکرا گئی 

"میں اپنے اللہ کا شکر ادا کررہی تھی ہر وقت کرنا چاہیے نا ان کا شکر ادا"

ضحیٰ جائے نماز لپیٹ کر جگہ پر رکھتی اسے جواب دینے لگ گئی اور سر سے دوپٹہ سڑک کر وہ ڈریسنگ کے سامنے آکر کھڑی ہوئی اور ہاتھوں میں لوشن لگانے لگ گئی

"تم بھی مجھ سے دور کیوں بھاگ رہی ہو"

اوراق بیڈ سے اتر کر پیچھے آتا اسے باہوں میں بھرے اسے دیکھتے ہوئے خفگی سے بولا 

"نہیں تو"

ضحیٰ فوراً سے اسے جواب دینے لگ گئی اوراق نے اسے دیکھا

"جی ایسا ہی ہے اسی لیے تو میرے پاس آ ہی نہیں رہی ہو تم"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گیا جس پر ضحیٰ مڑ کر اسے دیکھنے لگ گئی

"آپ غلط سوچ رہے ہیں اوراق ایسا نہیں ہے"

ضحیٰ چہرے پر معصومیت سجائے اسے کہنے لگی اوراق اسے دیکھ رہا تھا

"تو پھر مجھے کس کرو"

اوراق اس کے ہونٹوں کے قریب اپنی گال کرتے ہوئے بولا

"کس؟؟"

ضحیٰ آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھنے لگ گئی اوراق نے اسے دیکھا

"دیکھا تم مجھ سے دور ہی رہنا چاہ رہی تھی"

اوراق چہرے پر سنجیدگی سجائے اسے کہتا جانے لگا 

"نن۔۔نہیں نہیں میں کرتی ہوں کس"

ضحیٰ اس کی ناراضگی کا سوچتے ہی گھبراتے ہوئے کہتی گال پر لب رکھ گئی اوراق کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"میں تو صرف ٹیسٹ لے رہا تھا تمہارا کہ میں تمہارے لیے کتنا امپورٹنٹ ہوں"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگ گیا جس پر ضحیٰ اسے دیکھنے لگ گئی

"آپ میرے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اس دنیا میں سب سے زیادہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہونا کبھی "

ضحیٰ اوراق کا ہاتھ تھامے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگ گئی اور اس کے سینے پر سر رکھ گئی

"خیریت تو ہے نا"

اوراق اس کے گرد مضبوط حصار قائم کرتا بولا جس پر ضحیٰ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگ گئی

"لیزا مجھے کہتی ہے وہ آپ کو مجھ سے چھین لے گی اوراق"

ضحیٰ اسے سر اٹھا کر  اداس نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی اوراق نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھا 

"میں نے بھی کہ دیا آپ صرف میرے ہیں"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے معصومیت سے مسکرا  کر کہنے لگ گئی اوراق بھی مسکرا گیا اور اس کی ناک کو پیار سے چھو دیا ضحیٰ آنکھیں بند کرگئی

"میرے خیال سے سو جانا چاہیے اس سے پہلے ارادہ بدل جائے"

اوراق شوخیہ لہجے میں بولتا اسے اسی طرح بیڈ کی جانب بڑھ گیا 

_____________

انیتا محترمہ کے ساتھ ناشتہ کرنے کیلیے ضحیٰ برتن رکھنے کیلیے نیچے کی جانب بڑھنے لگی اچانک اسے چکر آئے اس سے پہلے وہ گرتی ماسی کو لیزا کے روم سے باہر آرہی تھی ضحیٰ کو تھاما 

"ضحیٰ تم ٹھیک ہو بیٹا"

وہ اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگی ضحیٰ نے سر پر ہاتھ رکھ کر ان کی جانب دیکھا 

"پتہ نہیں اچانک چکر آ گئے"

ضحیٰ ماسی کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گئی 

"تم یہ برتن مجھے دو اور روم میں آرام کرو"

ماسی اسے دیکھتے ہوئے بولی جس پر وہ برتن انہیں دیتے ساتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔

وہ بیڈ پر آکر بیٹھ عجیب سی حالت ہورہی تھی اسے الٹی سی محسوس ہورہی تھی سر بہت برا چکرا رہا تھا 

تبھی اوراق کمرے میں داخل ہوا اور نظر اس پر گئی 

"ماسی بتارہی تھی کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا ہوا ہے تمہیں"

اوراق اس کے پاس آتے ہوئے فکرمند سا پوچھنے لگ گیا 

"پتہ نہیں سر چکرا رہا ہے وومٹنگ بھی ہورہی ہے"

ضحیٰ آنکھیں بند کیے اوراق کو جواب دینے لگ گئی وہ بھی پریشان ہوا

"ڈاکٹر کو کال کرنی چاہیے تم کھانا تو کھا رہی ہو نا ضحیٰ تم کوئی میڈیسن تو نہیں لے رہی ہو؟"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے فکرمند سا فون جیب سے نکال کر اس سے پوچھنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھ کر نفی میں سر ہلا دیا 

"میں کوئی میڈیسن نہیں لے رہی ہوں"

ضحیٰ فوراً سے اسے بتانے لگ گئی اور اوراق کے نے ڈاکٹر کو کال ملا کر فون کان سے لگا لیا 

کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر گھر پہنچ چکی تھی اور ضحیٰ کا چیک ایپ کررہی تھی 

"گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے مسٹر اوراق شی از فائن آپ دونوں پیرینٹس بننے والے ہیں"

ڈاکٹر اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ حیران کر گئی اور اوراق نے ایک نظر ڈاکٹر اور پھر ضحیٰ کی جانب دیکھا جو خود بھی حیران تھی 

"ماشاءاللہ ماشاءاللہ "

انیتا محترمہ اس کے ماتھے کو چوم کر محبت سے کہنے لگ گئی اوراق بھی مسکرا گیا اور ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے کیلیے چلا گیا

"تھینکیو سو مچ ڈاکٹر"

اوراق ان کو دیکھتے ہوئے کہنے لگ گیا جس پر ڈاکٹر مسکرادی 

"آپ نے ان کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہے یہ آپ کے بےبی کیلیے اچھا ہے"

ڈاکٹر اسے تنبیہہ کرتے ہوئے بولی اوراق سر کو خم دے گیا لیزا جو اوپر کی جانب آرہی تھی بچے کا ذکر سن کر قدم رک گئے 

"کون سا بچہ کس کا"

لیزا فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ڈاکٹر چلی گئی اوراق نے اسے دیکھا

"ضحیٰ اور میرا بےبی"

اوراق اسے دیکھتا اس کے اوپر آسمان گرا کر کمرے کی جانب بڑھ گیا 

_______________

ضحیٰ بیڈ پر لیٹی سرخ گال لیے ہاتھ چٹکا رہی تھی اوراق نے مسکرا کر اسے دیکھا 

"اہم"

اوراق کھانستے ہوئے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلا گیا ضحیٰ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا

"سارے مبارکباد تمہیں دے رہا ہے اصل کریڈٹ مجھے جاتا ہے"

اوراق اسے تنگ کیلیے شرارتی انداز میں کہنے لگ گیا ضحیٰ ہیر کے ناخن تک سرخ ہوگئی

"اوراق تنگ نہ کریں مجھے"

ضحیٰ نظریں جھکائے شرماتے ہوئے اسے بولی اوراق مسکرا گیا اور اس کے پاس آکر اسے اپنے حصار میں لیتا اس کے گال پر لب رکھ گیا 

"تھینکیو تھینکیو سو مچ"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگ گیا ضحیٰ بھی اسے دیکھنے لگ گیا 

"یور ویلکم"

ضحیٰ نظریں جھکائے دھیمے لہجے میں بولی اوراق بھی سر کو خم دے گیا 

"بس ہم کچھ دنوں تک یہاں سے جارہے ہیں"

اوراق اس کے بال ٹھیک کرتے ہوئے کہنے لگ گیا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"کہاں؟"

ضحیٰ فوراً سے پریشان سی اس سے پوچھنے لگ گئی

"میں تمہیں سب سے دور اپنے ساتھ صرف رکھنا چاہتا ہوں ہم جلدی لنڈن جارہے ہیں بس عاقب کی اصلیت سامنے لے آؤں اور تمہیں ساتھ لے جاؤں گا"

اوراق اسے پیار سے دیکھتا بولا ضحیٰ مسکرا گئی 

"ہممم مجھے بھی یہاں نہیں رہنا مزید"

ضحیٰ اس کے سینے پر سر رکھتی فوراً سے بولی اوراق مسکرا گیا

______________

"یہ سب کیا ہے وہ کیسے ماں بن سکتی ہے"

عارفہ محترمہ پریشان سی بولی جس پر لیزا روتے ہوئے انہیں دیکھنے لگ گئی 

"مام مجھے کچھ نہیں معلوم مجھے کسی طرح اس کے بچے کو ختم کردوں گی میں اسے کسی کا نہیں ہونے دوں گی"

لیزا غصے سے عارفہ محترمہ کو دیکھتی بولی جس پر عارفہ محترمہ نے اسے دیکھا

"لیزا تم پاگل ہورہی ہو تم کسی کی اولاد کو ختم نہیں کروں گی تم بھول جاؤ اوراق کو"

عارفہ محترمہ فوراً سے اسے جھڑکتے ہوئے کہنے لگ گئی لیزا نے انہیں دیکھا

"آپ کو کیوں اس سے ہمدردی ہورہی ہے ہاں"

لیزا انہیں دیکھتی اونچی آواز میں بولی عارفہ محترمہ اسے دیکھنے لگ گئی

"ہمدردی نہیں ہورہی ہے مجھے لیکن تم قاتل نہیں بنو گی تم قتل نہیں کرو گی کسی کا"

عارفہ محترمہ اسے دیکھتی وارن کرنے والے انداز میں کہنے لگ گئی 

"میں اوراق کو اپنا بنا کر ہی رہوں گی مام بےفکر رہیں آپ"

لیزا عارفہ محترمہ کو دیکھتے ہوئے چیخ کر بولتی باتھروم کی جانب بڑھ گئی 

"اللہ اسے عقل دے پاگل پن میں کچھ نقصان ہی نہ کر بیٹھے"

عارفہ محترمہ دل میں خود سے بولتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی

"عاقب"

ادیبہ بیگم ان کے کمرے میں آتے ہوئے اسے دیکھ کر پکارنے لگی عاقب نے انہیں دیکھا

"کیا حالت کی ہوئی ہے کمپنی کی ہاں آدھے ورکرز چھوڑ کر جا چکے ہیں کتنا پروفٹ ہوتا ہے وہ کہاں ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اسے بند کرہی دینا چاہیے "

ادیبہ بیگم چیخ کر عاقب کو دیکھتی غصے سے بولی جس پر عاقب گھبرا گیا 

"وہ سارے ورکرز چور تھے میں نے اس لیے انہیں آفس سے نکال دیا کیونکہ سارا پروفٹ انہوں نے چوری کرلیا تھا "

عاقب صاحب بہت صفائی سے جھوٹ بولتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا

"وہ تمہارے سسر کے وفادار ورکرز تھے پچھلے پندرہ سال سے وہ اسی آفس میں جاب کررہے تھے وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے ہیں کہاں ہے پیسے سارے"

ادیبہ بیگم چلا کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی عاقب خاموش ہوگیا عارفہ بھی پریشانی سے عاقب کو دیکھنے لگ گئی 

"عارفہ اپنے شوہر سے کہو جتنا پیسہ اس نے کھایا ہے نا وہ سارا مجھے دے دے ورنہ میں اسی پولیس کے حوالے کرتے ہوئے بلکل نہیں سوچوں گی"

ادیبہ بیگم اپنی بیٹی عارفہ کو دیکھتے ہوئے تپ کر بولی 

"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے سنا آپ نے میں نے ایسا کچھ نہیں کیا "

عاقب صاحب پریشانی سے چیخ کر کہنے لگ گئے ادیبہ بیگم سنی ان سنی کرتی وہاں سے چلی گئی

"عارفہ وہ مجھے پولیس کے حوالے کردیں گے تم کچھ بولتی کیوں نہیں ہو"

عاقب پریشان ہوتا انہیں دیکھ کر کہنے لگ گیا عارفہ ان کے پاس آئی 

"آپ پریشان نہ ہو عاقب میں بات کروں گی مام کو"

عارفہ محترمہ انہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگی جس پر وہ خاموش ہوگئے 

_______________

"اوراق بس میں بہت کھا چکی ہوں مزید نہیں"

ضحیٰ اوراق کا ہاتھ پکڑ اسے روکتے ہوئے بولی اوراق اسے دیکھنے لگ گیا

"یہ لاسٹ ہے اس کے بعد نہیں"

اوراق اسے دیکھتا فوراً سے بولا جس پر ضحیٰ اسے دیکھنے لگ گئی

"نہیں بلکل نہیں اوراق یہاں تک فل ہوچکی ہوں"

ضحیٰ اسے گردن تک اشارہ کرتی بولی اوراق اسے دیکھ کر مسکرا گیا 

"بس لاسٹ"

اوراق اسے کہتے ساتھ چمچ اس کی جانب کرگیا ضحیٰ خاموشی سے کھا گئی 

"اب بس اب کچھ بھی نہیں"

ضحیٰ اسے فوراً سے منع کرتے ہوئے نفی میں سر ہلا گئی اوراق سر کو خم دے گیا 

"خوش ہوجاؤ ضحیٰ جتنا ہونا ہے بس دو دن کی خوشی اپنے ہاتھوں سے تمہاری ان خوشیوں کو آگ لگاؤں گا"

لیزا باہر کھڑی اسے حسد بھری نگاہوں سے دیکھتی دل میں بولتی وہاں سے چلی گئی ضحیٰ اور اوراق مسکرا کر باتیں کرنے میں مصروف ہوگئی 

جب سے یہ خبر سنی تھی اوراق تو ایک پل کیلیے بھی ضحیٰ سے دور نہیں ہورہا تھا اسوقت بھی وہ ابھی فریش ہوکر روم میں  آئی تھی

"آجاؤ ناشتہ لے آیا ہوں میں"

اوراق ٹیبل پر ناشتہ رکھتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا جس پر ضحیٰ نے اسے دیکھا

"اوراق آنٹی کے ساتھ کرتے ہیں نا ان کے روم میں"

ضحیٰ اسی دیکھتی فوراً سے بولی اوراق نے اسے دیکھا 

"میں آ گئی ہوں"

انیتا محترمہ مسکراتے ہوئے کمرے میں آتی ضحیٰ کو دیکھ کر بولی ضحیٰ مسکرا گئی 

"اب تو مام آ گئی ہے نا چلو پھر ناشتہ کریں"

اوراق اسے بٹھاتے ہوئے فوراً سے بولا انیتا محترمہ بھی اس کیساتھ بیٹھ گئی اور اوراق بھی کرسی کھسکا کر ان کے سامنے بیٹھ گیا 

"یہ بہت ہیوی ہے میں پورا کبھی بھی نہیں کھا سکوں گی"

ضحیٰ پراٹھا ہاف فرائی انڈا دیکھ کر فوراً سے گھبرا کر کہنےلگی 

"بیٹا کچھ ٹائم آپ کو ہیوی کھانا کھانا ہوگا بےبی کی ہیلتھ کیلیے"

انیتا محترمہ نرم لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی جس پر ضحیٰ سر کو خم دے گئی اور مجبوراً وہ یہ ناشتہ کرنے لگ گئی پراٹھا انڈا اس نے بہت ہی مشکل سے مکمل کیا جب اوراق نے اس کے سامنے دودھ کا گلاس کردیا 

"نہیں میں یہ نہیں پینے والی میں فل ہوچکی ہوں اوراق"

ضحیٰ آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھتی فوراً منع کرتی جواب دینے لگ گئی 

"پینا تو ہوگا اس کے بعد ہم شام میں کھانا کھائیں گے پکا"

اوراق اسے دیکھتا کہتے ساتھ اس کے لبوں سے دودھ کا گلاس لگا گیا انیتا محترمہ مسکرا گئی اور ضحیٰ منہ بسور کر اسے دیکھنے لگ گئی 

"موٹا کرکے رکھ دیں گے آپ مجھے"

ضحیٰ دودھ پی کر اس پر ایک خفگی بھری نگاہ ڈال کر بولی 

"چلو اب تم آرام کرو تھوڑی دیر"

انیتا محترمہ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے بولی ضحیٰ نے انہیں دیکھا

"آنٹی ابھی تو اٹھی ہوں بلکل"

ضحیٰ انیتا محترمہ کو دیکھتی فوراً سے بتانے لگ گئی اوراق مسکرادیا 

"اچھا چلو نیچے واک کرنے چلتے ہیں"

اوراق اسے منہ لٹکائے بیٹھا کر فوراً سے بولا ضحیٰ خوش ہوگئی اور وہ دونوں نیچے کی جانب بڑھ گئے انیتا محترمہ برتن اٹھاتی دونوں کے پیچھے آئی ضحیٰ کو اسوقت خود پر حد سے زیادہ رشک آرہا تھا اس کا کہنا تھا کہ کہیں اس کی ہی نظر نہ لگ جائے

اوراق اور ضحیٰ لان میں داخل ہوئے اور ٹہل رہے تھے اوراق نے ضحیٰ کو دیکھا جو باہر آکر پرسکون نظر آرہی تھی

"اگر تم موٹی ہوگئی پھر"

اوراق فوراً سے اسے تنگ کرنے کیلیے بولا ضحیٰ نے اسے دیکھا 

"تو پھر کیا میں آپ کو اچھی نہیں لگوں گی میں تو کم کھارہی ہوں آپ ہی مجھے کھلائی کھلائی جارہے ہیں میں موٹی ہوں گی تو قصور آپ کا ہے میں موٹی ہوں چھوٹی ہوں کالی ہوجاؤ اب آپ کو میرے ساتھ ہی رہنا ہے"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے نام سٹاپ بولتی چکی گئی اوراق سر کو خم دیتا رہا 

"جی جی بلکل"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا ضحیٰ ہنس دی 

"جی جی"

ضحیٰ بھی اسی کے انداز میں کہنے لگ گئی اور اوراق اور وہ مسکرا کر اسے دیکھنے لگ گئے

__________________

"کیا بول رہے ہو تم"

ادیبہ بیگم فون کان سے لگائے پریشان سی بولی 

"مام میں ٹھیک بول رہا ہوں آپ یہ والی کمپنی بند کردیں بہتر یہی ہے ورنہ باقی کا جتنا پیسہ بچا ہے عاقب وہ بھی ہڑپ کرکے آپ لوگوں کو سڑک پر کردے گا"

وحید صاحب غصے سے ادیبہ بیگم سے بولے جس پر وہ خاموش ہوکر فون بند کر گئی 

"میں نے ایک انجان لڑکے بھی اتنا اعتبار کرکے غلطی کردی ایک تو اسے اپنے گھر میں رکھا کمپنی اس کے حوالے کردی "

ادیبہ بیگم پچھتاتے ہوئے انداز میں خود سے بولی 

"عاقب باہر آؤ عاقب"

ادیبہ بیگم کی اونچی آواز پر عاقب اور عارفہ محترمہ گھبرا کر باہر نکلے 

"اسے تو میں جان سے ماردوں گی کیا کیا ہے تم نے میرے ساتھ تم نے اپنا بنا کر ڈنک مارا ہے مجھے سارے پیسے ہڑپ کر لیے میرے میرے ہاتھوں تمہیں کوئی نہیں بچائے گا"

ادیبہ بیگم غصے سے عاقب کو آتا دیکھ چیخ کر بولی عارفہ محترمہ گھبرا گئی لیزا بھی نیچے آئی 

"نانی میرے بابا ایسے نہیں ہیں سنا آپ نے"

لیزا فوراً سے عاقب صاحب کے پاس آتے ہوئے فوراً سے بولی جس پر ادیبہ بیگم نے اسے دیکھا

"تمہارا یہ باپ ایک نمبر کا گٹھیا ہے"

ادیبہ بیگم غصے سے بولی عاقب صاحب خاموش کھڑے سن رہے تھے

"مام اب آپ زیادتی کررہی ہیں"

عارفہ بھی فوراً بول پڑی انہوں نے ان دونوں کو دیکھا

"تم لوگ میرے ٹکڑوں پر پلنے والے لوگ سنا تو میرے سامنے زیادہ زبان مت چلاؤ "

ادیبہ بیگم غصے سے تینوں کی طرف اشارہ کرتی بولی انیتا محترمہ اوپر سے کھڑی یہ سارا تماشا دیکھ رہی تھی

"اب آپ ہماری ٹکڑوں پر پلنے والی ہے کیونکہ میں نے 80 پرسنٹ شئیرز اپنے نام کروا لیے ہیں بہت بڑی غلطی کردی آپ نے مجھ پر اندھا اعتبار کرکے"

عاقب ہنستے ہوئے فوراً سے بولا عارفہ محترمہ اور لیزا نے عاقب صاحب کو دیکھا 

"عاقب"

عارفہ محترمہ بےیقینی سے دیکھتی پکارنے لگ گئی ادیبہ بیگم کی حالت خراب ہوئی وہ صوفے پر ڈھے گئی

"ڈیڈ مجھے آپ سے ایسی کسی چیز کی امید نہیں تھی "

لیزا بھی خفا نظروں سے عاقب کو دیکھتی بولی عارفہ محترمہ بھی خفگی سے اسے دیکھ رہی 

"میں نے ہمارے لیے کیا ہے بیٹا تاکہ ہم لوگ پرسکون زندگی گزار سکیں"

عاقب صاحب فوراً سے سمجھانے کیلیے کہنے لگے 

"جو دوسروں کا سکون برباد کرتے ہیں عاقب وہ کبھی بھی پرسکون نہیں رہ سکتے"

انیتا محترمہ نیچے آکر اسے دیکھ غصے سے بولی لیزا اور عارفہ نے بھی اسے دیکھا اور عاقب نے تھوک نگلی 

"انہیں روم میں لے کر چلیں یہ نہ ہو زیادہ طبیعت خراب ہو جائے"

انیتا محترمہ ادیبہ بیگم کی جانب بڑھتی عارفہ سے بولی وہ بھی سر کو خم دیتے ہوئے فوراً سے ان کے پاس آئی اور دونوں نے انہیں سہارا دے کر اٹھایا اور وہاں سے چلے گئے 

"بیٹا میرا غلط ارادہ نہیں تھا صرف تمہارے لیے اور تمہاری مام کیلیے کیا ہے"

عاقب صاحب لیزا کو اپنی جانب دیکھتا پاکر فوراً سے بولے لیزا وہاں سے چلی گئی 

___________________

اوراق کسی کام کے لیے باہر گیا ہوا تھا ضحیٰ کو پانی کی شدید طلب ہورہی تھی اوراق نے اسے نیچے جانے سے منع کیا تھا لیکن وہ کیا کرتی اسے پانی پینا تھا وہ جگ اٹھا کر کمرے سے باہر کی طرف بڑھی لیزا جو روم میں جارہی تھی ضحیٰ کو اوراق کے بغیر اکیلا دیکھ وہ رک گئی ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی 

"میرے خیال سے اس سے اچھا موقع نہیں ہے ضحیٰ کو نقصان پہنچانے کا"

لیزا چہرے پر مسکراہٹ سجائے دل میں بولتی اس کی جانب بڑھنے لگی  ضحیٰ چلتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگی مگر اس سے پہلے ہی لیزا واس اٹھا کر اس کی طرف بڑھی اور ادھر ادھر دیکھ اس کے سر پر دے مارا ضحیٰ کی چیخ نکلی اور سر چکرایا لیزا گھبرا کر واس جگہ پر رکھتی کمرے کی جانب بھاگ گئی

"اللہ تعالیٰ بس سیڑھیوں سے گر جائے تو کام ہو جائے گا"

وہ کمرے میں آکر دعائیں کرتی کہنےگ گئی ضحیٰ زمین پر گر گئی اور اس کے سر سے خون بہنے لگا چیخ کی آواز پر انیتا محترمہ فوراً باہر آئی

"ضحیٰ بچے"

انیتا محترمہ اسے زمین پر یوں پڑا دیکھ کر پریشانی سے پکارنے لگی مگر وہ بےسدھ سی زمین پر پڑی تھی انیتا کی چیخ کر لیزا اور عارفہ محترمہ کمرے سے باہر آئی عارفہ محترمہ اوپر آئی اور لیزا بھی چہرے پر نقلی پریشان سجائے وہاں پہنچی 

"اسے کیا ہوا ہے؟"

عارفہ پریشانی سے انیتا کو دیکھتی پوچھنے لگ گئی 

"پتہ نہیں میں جب آئی تو یہ اس طرح بےہوش پڑی تھی"

انیتا محترمہ پریشانی سے ہلکان ہوتی بولی لیزا بھی پریشان کھڑی تھی

"میں اوراق کو کال کرتی ہوں"

انیتا محترمہ اسے دیکھ کر فوراً سے کہنے لگ گئی جس پر عارفہ محترمہ سر کو خم دے گئی انیتا محترمہ کمرے کی جانب بڑھ گئ خون دیکھ کر عارفہ محترمہ نے سر اٹھا کر لیزا کو دیکھا 

"یہ کام تمہارا ہے نا"

عارفہ محترمہ اسے دیکھتی فوراً سے پوچھنے لگی لیزا گھبرا گئی 

"نن۔۔۔ننہیں"

وہ کانپتے ہوئے لبوں سے جواب دینے لگ گئی عارفہ محترمہ اسے دیکھنے لگ گئی

"تمہاری ماں ہوں تمہیں یہ کرتے ہوئے ذرا شرم نہیں آئی"

عارفہ محترمہ پریشانی سے کہتے ساتھ ضحیٰ کو دیکھنے لگ گئی 

"اوراق آرہا ہے اسے اٹھا کر روم میں لے چلتے ہیں"

انیتا محترمہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتی فوراً سے کہنے لگ گئی عارفہ محترمہ ان کے ساتھ ضحیٰ کو کمرے کی جانب بڑھ گئی

کچھ دیر میں اوراق گھر میں داخل ہوا اور سیدھا کمرے میں آیا ضحیٰ کو بےہوش دیکھ کر اسے بےحد پریشانی ہوئی تھی

"کس کی حرکت ہے یہ بلاوجہ تو سر پر چوٹ نہیں لگ سکتی ہے "

اوراق اس کی حالت دیکھ غصے سے چیختا بولا لیزا عارفہ محترمہ اور انیتا محترمہ گھبرا گئی

"بیٹا میں نے ڈاکٹر کو کال کی ہے وہ بس آتی ہوں گی"

امہات محترمہ فوراً سے بولی جس پر اوراق سر کو خم دے گئی

"لیزا اگر اس کے پیچھے تمہارا ہاتھ ہوا نا تو اللہ کی قسم تمہارا جو حشر کروں گا تمہاری سوچ سے بھی بدتر ہے"

اوراق شعلہ برستی نگاہیں لیزا پر گاڑھے دل میں کہنے لگ گیا لیزا اس کی نظریں خود پر محسوس کرکے تھوک نگل گئی 

ڈاکٹر آ چکی تھی اور وہ ضحیٰ کا چیک ایپ کررہی تھی

"ان کے سر پر کسی نے کوئی چیز ماری ہے بے بی کو کچھ نہیں ہوا شکر ہے"

ڈاکٹر معائنہ کرنے کے بعد اوراق کی جانب دیکھنے لگ گئی اوراق اثبات میں سر ہلا گیا 

"آپ ان کا بہت خیال رکھیں اور ان کی کئیر حد سے زیادہ کریں اللہ حافظ"

ڈاکٹر کہتے ساتھ وہاں سے چلی گئی عارفہ محترمہ بھی چلی گئی انیتا محترمہ وہی بیٹھی رہی اور لیزا باہر کی جانب بڑھ گئی 

"تم نے ضحیٰ کو تکلیف پہنچا کر بہت بڑی غلطی کردی ہے لیزا اپنے انجام کیلیے تیار ہوجاؤ"

اوراق اسے باہر آتا دیکھ طیش میں سرخ آنکھیں لیے بولا جس پر لیزا خاموشی سے روم کی جانب بڑھ گئی 

اوراق روم میں داخل ہوا تو ضحیٰ کو بےہوش بیڈ پر آیا 

"مام آپ جائیں میں ہوں"

اوراق انہیں دیکھتے ہوئے بولا انیتا محترمہ سر کو خم دے گئی  اور کمرے سے چلی گئی 

"ضحیٰ آنکھیں کھولو نہ مجھے تمہیں آنکھیں بند کیے لیٹا دیکھ کر بےچینی ہورہی ہے"

اوراق اس کے بال ٹھیک کرتا پیار سے بولتے ساتھ اس کی پیشانی پر لب رکھ گیا 

ضحیٰ جو رات کے پہر جاکر ہوش آیا تھا اسے اپنا سر بہت بھاری بھاری سا لگ رہا تھا اس نے بشمکل اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی بائیں جانب نظر ڈالی اوراق کو بیٹھا دیکھ اس کی پریشانی کم ہوئی

"ضحیٰ کیسا فیل کررہی ہو درد تو نہیں ہورہا ہے"

اوراق اسے ہوش میں آتا دیکھ کر فوراً سے سوال کرنے لگ گیا ضحیٰ اسے دیکھنے لگ گئی 

"کیا ہوا ٹھیک ہو نا"

اوراق اس کے گال پر ہاتھ رکھے پیار سے پوچھنے لگا ضحیٰ اثبات میں سر ہلا گئی

"جب منع کیا تھا میں نے تو کیوں کمرے سے باہر گئی تھی "

اوراق اسے دیکھتے ہوئے تھوڑی سختی سے پوچھنے لگا ضحیٰ چہرے پر معصومیت سجا گئی

"پپ۔۔پیاس لگی تھی بس اس لیے لیکن پتہ نہیں کیسے میں گر گئی ایسا لگا جیسے کسی نے میرے سر پر کچھ مارا ہے"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے پریشان سے انداز میں بتانے لگ گئی جس پر اوراق اسے دیکھنے لگ گیا 

"تمہارا شک ٹھیک ہے لیزا کی حرکت ہے یہ"

اوراق اسے صاف لفظوں میں بتا گیا اور ضحیٰ کی آنکھیں نم ہوگئی 

"میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ لیزا میرے ساتھ کرے گی زندگی میں وہ ہمیشہ مجھے سپورٹ کرتی آئی ہیں لیکن اب وہ بھی میرے ساتھ ویسا سلوک کررہی ہیں افسوس ہے"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے لہجے میں اداسی سجائے اسے دیکھ کر بولی اوراق اسے دیکھ رہا تھا

"تم بےفکر رہو کل تک میں ہر اس انسان کو خون کے آنسو رولاؤں گا جس کی وجہ سے تمہاری آنکھوں میں آنسو آئے ہیں"

اوراق اس پر نظریں جمائے دل میں کہنے لگ گیا ضحیٰ اسے نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی

"ابھی آرام کرو رات بہت ہوگئی ہے صبح ہم بات کریں گے"

اوراق اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیے لبوں سے لگاتا بولا ضحیٰ مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگ گئی اوراق اس کے پاس آکر اسے باہوں میں قید کرلیا ضحیٰ اس کی باہوں میں آتی پرسکون سی ہوگئی۔

________________

"مام عاقب لیزا روم میں موجود نہیں ہے وہ صرف روم میں ہی نہیں میں گھر کہ ہر جگہ دیکھ چکی ہوں مگر وہ کہیں بھی نہیں ہے اتنی صبح صبح وہ کہاں جاسکتی ہے"

عارفہ محترمہ پریشان ہوتی ان دونوں کو دیکھ کر بولی عاقب صاحب فوراً کھڑے ہوگئے 

"دھیان سے دیکھو کہاں جاسکتی ہے وہ"

عاقب صاحب بےحد پریشانی سے کہنے لگے 

"میں دیکھ چکی ہوں ہر جگہ نہیں ہے وہ کہیں"

عارفہ محترمہ فوراً سے جواب دینے لگ گئی انیتا محترمہ ابھی نیچے آئی تھی عارفہ ہی باتیں سن کر پریشانی ہوئی 

"کہاں گئی لیزا ؟؟"

انیتا محترمہ نے فوراً سے پوچھا جس پر عارفہ محترمہ نے انہیں دیکھا اور پریشانی سے نفی میں سر ہلا گئی

"بھاگ گئی ہوگی اپنے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ"

اوراق نیچے آتا عاقب پر نظریں جمائے فوراً سے بولا عاقب نے اسے دیکھا 

"تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کرو"

عاقب غصے سے تیز لہجے میں اوراق سے بولا انیتا محترمہ نے بھی اسے دیکھا

"اوراق کیا بات کررہے ہو تم"

انیتا محترمہ نے اسے جھڑکتے ہوئے بولا جس پر وہ انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کرگیا 

"اپنی بیٹی پر صرف بات سن کر آپ کو اتنا غصہ آیا ہے تو دوسری کی بیٹیاں ٹشو پیپر ہے ہاں؟؟"

اوراق اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجا کر بولا عاقب گلے میں تھوک نگل گیا

"کیا بول رہے تم اوراق کس کی بیٹی کو انہوں نے ٹشو پیپر سمجھا ہے ہاں؟؟"

عارفہ محترمہ فوراً سے اوراق سے کہنے لگ گئی

"نہیں میں تو ایک بات کررہا ہوں اور میں نے آپ کے شوہر کا نام تو نہیں لیا "

اوراق کہتے ساتھ باہر کی جانب بڑھنے لگا 

"اوراق کہاں جارہے ہو بیٹا ہے؟؟"

انیتا محترمہ پریشان سی اسے دیکھتی پوچھنے لگ گئی 

"کام ہے ضحیٰ کو بریک فاسٹ میڈیسن دے کر آرام کرنے کیلیے لٹا دیا ہے آپ تھوڑی دیر بعد دیکھ لیجیے گا میں گھنٹے میں واپس آرہا ہوں"

اوراق انیتا محترمہ کو بتاتے ساتھ بھاری قدم لیے باہر کی جانب بڑھ گیا عاقب صاحب اسے جاتا دیکھنے لگ گئے 

"کہیں اوراق ضحیٰ کیساتھ کی گئی زیادتی کا بدلہ لیزا کی صورت"

عاقب صاحب سوچتے ہوئے بھی بری طرح کانپ گئے اور نفی میں سر ہلا گئے 

"یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے عاقب علی تم جو میرے ساتھ کرتے ہو نا دیکھنا ایک دن تمہیں اپنے کیے پر صرف پچھتاوا ہوگا اور مجھ سے معافی کی امید مت رکھنا "

ضحیٰ کے کہے گئے الفاظ کانوں سے ٹکراتے وہ آنکھیں زور سے میچ گئے 

"کیا کردیا میں نے "

وہ خوفزدہ سے کانپتے ہوئے خود سے بولے

"میں لیزا کیساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دوں گا اوراق ایسا کبھی بھی نہیں کرے گا"

عاقب خود سے کہتے ساتھ فوراً سے گھر کی سے باہر کی جانب بڑھنے لگ گئے 

"کہاں جارہے ہیں عاقب"

عارفہ فوراً سے اسے دیکھتی پوچھنے لگی عاقب نے مڑ کر انہیں دیکھا

"لیزا کو ڈھونڈنے جارہا ہوں"

عاقب صاحب جواب دیتے ساتھ باہر کی جانب بڑھ گئے 

"اللہ تعالیٰ میری لیزا کی حفاظت کرنا"

عارفہ محترمہ دعا کیلیے ہاتھ اٹھاتی کہنے لگی اور ادیبہ بیگم کے پاس بیٹھ گئی

_______________

"کیسی ہے طبیعت اب بیٹا"

انیتا محترمہ ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جس کا سر تھوڑا بھاری ہورہا تھا

"بہتر ہوں"

وہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے جواب دینے لگی اور انیتا محترمہ کو دیکھا جو پریشان لگ رہی تھی

"کیا ہوا آنٹی آپ پریشان لگ رہی ہے سب ٹھیک ہے"

ضحیٰ فوراً سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگ گئی انیتا محترمہ نے اسے دیکھا

"صبح سے دوپہر ہونے کو ہے لیزا کا کچھ بھی معلوم نہیں ہے پتہ نہیں کہاں چلی گئی گارڈز ڈرائیور سب سے پوچھا ہے لیکن وہ کہ رہے ہیں انہوں نے نہیں دیکھا"

انیتا محترمہ ضحیٰ کو پریشانی کی وجہ بتانے لگ گئی ضحیٰ انہیں دیکھ رہی تھی

"لیزا نہیں ہے"

ضحیٰ پریشان سی انیتا محترمہ کو دیکھتی پوچھنے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی

"تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ جہاں بھی ہے مام آپ ریسٹ کریں میں آ گیا ہوں"

اوراق کمرے میں داخل ہوتا فوراً سے بولا انیتا محترمہ اسے دیکھنے لگ گئی

"اوراق تم نے ایسا کیوں بولا ہے بیٹا کہ کسی لڑکے کیساتھ بھاگ گئی ہو وہ بچی ایسی تو نہیں ہے"

انیتا محترمہ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی اوراق نے انہیں دیکھا

"مام میں صرف عاقب کو خوفزدہ کرنا چاہ رہا تھا اور کچھ نہیں"

اوراق انہیں دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گیا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا کر کمرے سے چلی گئی اوراق نے ضحیٰ کی جانب دیکھا

"اوراق آپ نے لیزا کیساتھ کچھ"

ضحیٰ اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے دیکھتی پوچھنے لگ گئی اوراق نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا

"ضحیٰ تم اس معاملے سے دور رہو میں جو کررہا ہوں کرنے دو"

اوراق اسے دیکھتا سرد لہجے میں کہنے لگ گیا ضحیٰ اداس نظروں سے اسے دیکھنے لگ گئی

"اوراق آپ ضحیٰ کیساتھ کچھ غلط مت کیجیے"

ضحیٰ ابھی بول رہی تھی جب اوراق نے غصے سے اسے دیکھا 

"ضحیٰ آر یو میڈ"

اوراق غصے سے تیز لہجے میں بول کر اسے پریشان کر گیا ضحیٰ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے 

"سوری سوری اوراق میرا وہ مطلب نہیں تھا"

ضحیٰ اس کا ہاتھ پکڑ کر فوراً سے بولی اوراق اسے دیکھ رہا تھا

"ضحیٰ میں نے کہا نا یقین رکھو مجھ پر"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولا ضحیٰ اثبات میں سر ہلا گئی  اوراق اس کے پاس آکر بیٹھا 

"مجھے صرف اور صرف عاقب کے کیے کی سزا اسے دینی ہے"

اوراق اس کا ہاتھ تھام کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگ گیا ضحیٰ خاموشی سے سر کو خم دے گئی 

دوپہر سے شام ہوگئی تھی لیکن لیزا کا کچھ معلوم نہیں تھا ہر ایک کی پریشانی بڑھتی چلی جارہی تھی تبھی عاقب صاحب مرجھایا ہوا چہرہ لیے گھر میں واپس لوٹے 

"لیزا ملی کیا"

عارفہ فوراً سے ان کی جانب بڑھتی بےتاب سی پوچھنے لگی جس پر وہ نفی میں سر ہلا گئے تبھی اوراق اور ضحیٰ نیچے آتے دیکھائے دیے عاقب غصے سے اوراق کو دیکھنے لگ گیا 

"بتا میری بیٹی کو کہاں کیڈنیپ کرکے رکھا ہے ہاں بول"

عاقب صاحب غصے سے س کا گریبان پکڑے بےبسی سے پوچھنے لگے اوراق انہیں دیکھنے لگ گیا اس کی آنکھیں چمک رہی تھی

"آپ پاگل ہیں"

اوراق غصے سے اپنے کالر سے اس کے ہاتھ جھٹک کر بولا 

"عاقب ہوش کریں آپ اس بچے پر کیوں الزام لگا رہے ہیں"

عارفہ محترمہ انہیں پیچھے کرتی بولی عاقب نے انہیں دیکھا

"کیونکہ مجھے یقین ہے یہ کام اسی کا ہے"

عاقب صاحب اوراق کر سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگے عارفہ محترمہ نے اوراق کو دیکھا 

"اچھا میں ایسا کیوں کروں گا؟؟"

اوراق سینے اتر کر اس کے پاس آکر سینے پر بازو باندھے کہنے لگا 

"مم۔مجھے کیا معلوم "

عاقب صاحب گھبراتے ہوئے کندھے اچکائے اسے بولے 

"تو پھر بغیر کسی بات یا ثبوت کے الزام لگانا بند کریں"

اوراق انہیں کہتے ساتھ ضحیٰ کا ہاتھ نرمی سے تھام کر لان کی جانب بڑھ گیا 

"وہ کیوں کرے گا ایسا آپ بھی نا"

عارفہ محترمہ عاقب کو خفگی سے دیکھتی بولی جس پر سر جھٹک گئے 

"سر کا درد کم ہوا؟؟"

اوراق ضحیٰ کو دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں پوچھنے لگا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"جی"

وہ سنجیدگی سے اسے جواب دینے لگ گئے 

"کب تک اسی انداز میں بات کرنی ہے مجھ سے"

اوراق اب کی بار سخت لہجے اختیار کیے سوال کرنے لگ گیا ضحیٰ نے اسے دیکھا

"اوراق اس میں لیزا کا کوئی قصور نہیں ہے"

ضحیٰ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی جب اوراق نے اسے ٹوک دیا 

"اور ریلی میرے خیال سے کل تم اس کی وجہ سے ہی تکلیف میں تھی اس کی وجہ سے تمہاری آنکھوں میں آنسو آئے تھے اور میرے لیے یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو آئے جو کوئی تمہیں تکلیف یا آنسو دے گا اسے اپنے کیے کی سزا بھگتنے پڑے گی انڈرسٹینڈ"

اوراق اسے اپنے قریب کیے لہجے میں شدت لیے بولتا ضحیٰ کو بھی ایک پل گھبرانے میں مجبور کرگیا 

"ایک بات یاد رکھنا ضحیٰ تم جنون بن چکی ہو میرا"

اوراق سینے سے لگائے محبت سے کہنے لگ گیا ضحیٰ اپنی سانس روک گئی 

_______________

عاقب صاحب پریشانی سے ٹی وی لاؤنچ میں ٹہل رہے تھے ادیبہ بیگم بھی پریشان بیٹھی تھی عارفہ محترمہ رو رہی تھی انیتا محترمہ انہیں چپ کروا رہی تھی ضحیٰ نے ان سب کے پاس رکنا چاہا مگر اوراق اسے زبردستی روم میں لے آیا اس نے انیتا محترمہ کو بھی اوپر آنے کا بولا مگر وہ اس کی بات کو نظر انداز کر گئی 

"تمہارا بیٹا بہت بےحس ہوگیا ہے انیتا"

ادیبہ بیگم شکوہ کرتے ہوئے بولی انہوں نے ادیبہ بیگم کو دیکھا 

"میں بےحس ہوں آپ بےحس نہیں ہے چودہ سال سے آپ ضحیٰ کیساتھ جو کرتی آئی ہیں وہ بےحسی نہیں ایک دفعہ بھی اس معصوم پر ترس نہیں کھایا آپ نے کتنا مارتی تھی اسے آپ کی اپنی پوتی تھی نا تو ایسا کیوں اگر وہ لیزا آپ کی نواسی تھی تو وہ آپ کی پوتی تھی اتنا فرق سمجھ نہیں آیا کیونکہ اس کے پاس ماں باپ نہیں تھے لیزا کے پاس ماں باپ تھے اس وجہ سے"

اوراق نیچے آتا ادیبہ بیگم کو دیکھتے ہوئے فوراً سے غصے سے بولا ادیبہ بیگم اسے دیکھنے لگ گئی

"کان بھرے ہیں اس نے تمہارے اوراق"

ادیبہ بیگم اسے دیکھتی گھبرا کر کہنے لگ گئی اوراق طنزیہ لہجے میں مسکرایا 

"ارے وہ تو معصوم ہے اس نے آج تک آپ لوگوں کیلیے پھر بھی کوئی بری بات نہیں منہ سے نکالی ابھی بھی وہ کمرے میں بیٹھی نماز میں لیزا کیلیے دعا کررہی ہے جس کی وجہ سے کل اسے تکلیف پہنچی اس کے پر واس مارنے والی لیزا ہی تھی لیکن اس کا دل اس قدر معصوم اور سادہ ہے وہ لوگوں سے چاہ کر بھی نفرت نہیں کرسکتی لیکن مجھے اس گھر کے ہر فرد سے نفرت ہے کیونکہ وہ میری ضحیٰ کی آنکھوں میں آنسو کا سبب بنے ہیں"

اوراق ان سب کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے چیخ کر بولتا سب کو گھبرانے پر مجبور کرگیا

"اوراق چپ لیزا نہیں ہے وہ پہلے سب پریشان ہیں "

انیتا محترمہ اس کے پاس آتے ہوئے نرمی سے بولی جس پر وہ ایک نظر انیتا محترمہ پر ڈال کر کمرے میں واپس چلا گیا 

"ضرور کسی لڑکے کے ساتھ پیچھے والے دروازے سے بھاگی ہوگی ورنہ اچانک کوئی ایسے کیسے غائب ہو سکتا ہے"

ملازمہ کچن میں کھڑی دوسری ملازمہ کو بتانے لگی عاقب کے کانوں سے یہ آواز ٹکرائی

"صحیح بول رہی ہو دس بج چکے ہیں کوئی آتا پتا نہیں استغفر اللہ "

دوسری ملازمہ بھی فورآ سے کہنے لگ گئی عاقب صاحب کا دل کیا وہ خود کے ساتھ کچھ کر جائیں۔

رات بھی اسی طرح پریشانی سے گزر گئی مگر لیزا کا کچھ معلوم نہیں ہوا سب لوگوں کی پریشانی مزید بڑھنے لگ گئی سابق صاحب صبح ہوتے ہی گاڑی میں بیٹھ کر پھر سے لیزا کی تلاش میں نکل گئے 

"عاقب کہاں گیا ہے"

ساتھ والے گھر سے آدمی نکلتے ہوئے گارڈ سے پوچھنے لگ گیا 

"بیٹی غائب ہے کل سے انہیں کی تلاش میں پھر رہے ہیں"

گارڈ اس آدمی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگ گیا وہ بڑی آنکھیں کیے اسے دیکھنے لگ گیا 

"بیٹی غائب ہوگی کیڈنیپ ہوئی ہے یا بھاگ گئی"

اس آدمی نے فوراً سے پوچھا گارڈ نے اسے دیکھا

معلوم نہیں کوئی کیڈنیپ کرتا تو کچھ معلوم ہوتا اچانک ہی غائب ہوئی ہے"

گارڈ انہیں دیکھتے ہوئے فوراً سے بتانے لگ گیا جس پر وہ حیرانگی سے وہاں سے چلا گیا۔۔

________________

"کون ہو تم لوگ پلیزز مجھے جانے دو کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا میرے مام ڈیڈ پریشان ہورہے ہوں گے"

لیزا روتے ہوئے کرسی پر رسیوں سے بندھی چیختی بولی 

"آواز ہلکی "

لیزا کے کانوں سے جانی پہچانی آواز ٹکرائی اس نے فوراً سے نظریں اٹھا کر دیکھا اپنے سامنے اوراق کو موجود پاکر وہ ساکت رہ گئی وہ بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی

"میں نے بولا تھا ضحیٰ کو اتنی سی بھی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ بہت برا سلوک کروں گا "

اوراق اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہنے لگ گیا لیزا اسے دیکھنے لگ گئی

"مار لیتے لیکن اس طرح نہ کرتے ایک رات گزر گئی ہے ہم جس سوسائٹی میں رہتے ہیں وہاں بیٹی ایک رات غائب رہے تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں میرے ماں باپ مر جائیں گے ایسا نہ کرو اوراق میرے ساتھ"

لیزا روتے ہوئے اوراق کو دیکھتے ہوئے کہنے لگ گئی اوراق اسے دیکھ رہا تھا

"تمہیں کلئیر کرنا میرا کام ہے لیزا مگر تم اپنے کیے کی سزا تو بھگ لو"

اوراق اسے فوراً سے بولتے ساتھ اسے دیکھنے لگ گیا 

"کیڈنیپ کیوں کیا ہے"

لیزا چیخ کر پوچھنے لگی اوراق نے سرد آنکھوں سے اسے دیکھا

"تاکہ تمہارے باپ کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لا سکوں سنا "

اوراق اسے دیکھتے ہوئے انتہائی زور سے چلایا لیزا سہم کر رہ گئی 

"ڈیڈ کا کون سا چہرہ"

لیزا اسے دیکھتی فوراً سے پوچھنے لگ گئی جس پر اوراق اس کے پاس آکر بیٹھا 

"تمہارا باپ ایک نمبر کا گٹھیا کمینہ اور انتہائی کمظرف آدمی ہے میرے باپ کو مجھ سے چھینا ہے اس نے میری بیوی کو اپنی حوس کا نشانہ"

اوراق غصے سے سرخ آنکھیں لیے اسے دیکھتے ہوئے تکلیف سے بتانے لگا لیزا نے اسے بیچ میں ٹوک دیا 

"چپ ہوجاؤ چپ میرے ڈیڈ ایسے نہیں ہیں"

لیزا چلا کر اسے خاموش رہنے کا بول گئی اوراق قہقہ لگا کر ہنسا

"آج رات تک تمہارا باپ اپنے منہ سے اپنے گناہوں کو مانے گا دیکھنا "

اوراق اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے مسکرا کر کہتے ساتھ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا 

"اوراق مجھے کھولو مجھے کھول کر جاؤ تم پلیززز۔ ایسا مت کرو آج کے بعد ضحیٰ کے ارد گرد بھی نہیں نظر آؤ گی اوراق"

لیزا چیخ چیخ کر بےبس سی اسے پکار رہی تھی اوراق نے اس کی رسیاں کھول دی 

وہ سب لوگ ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے ہوئے عارفہ محترمہ کا بیٹا لیزا کی غیر موجودگی کا سن کر اپنے ہوسٹل سے گھر واپس آ گیا اور وہ بھی بےحد پریشان تھا 

تبھی دو عورتیں گھر میں داخل ہوئی عارفہ محترمہ ادیبہ بیگم عاقب اور صماد انہیں دیکھنے لگ گئے 

"اسلام و علیکم"

وہ مسکراتے ہوئے سلام کرنے لگ گئی جس پر عارفہ محترمہ انہیں پہچان کر سلام کا جواب دے گئی اور بیٹھنے کا کہنے لگی 

"سنا ہے لیزا بچی ایک رات سے غائب ہے خیریت ہے"

عورت عارفہ کی جانب دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی عاقب صاحب کو اس عورت کی باتوں سے اپنا سر اٹھانا مشکل لگا 

"پتہ نہیں کہاں چلی گئی کس نے کیا ہے میری بچی کو کیڈنیپ کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے رپورٹ کا بول رہی ہوں تو عاقب لکھوانے ہی نہیں جارہے ہیں"

عارفہ محترمہ اپنی پریشانی ظاہر کرتی کہنے لگی 

"برا مت ماننا عارفہ اتنی لاپرواہی بھی اچھی بات نہیں ہے لڑکی اچانک سے غائب ہوگئی اور تمہیں معلوم نہیں ہے اگر کیڈنیپ ہوتی تو کیڈنیپرز کا گھر میں آنا کوئی تو دیکھا مانو یا نہ مانو اپنی مرضی سے گئی ہے جہاں بھی گئی ہے"

وہ عورت فورآ سے عارفہ کی جانب دیکھتی بولی عارفہ محترمہ بس اس عورت کو دیکھتی رہ گئی"افسوس کی بات یہ ہے کہ تم اس سوسائٹی میں رہتے ہوئے بھی سوچ نہیں بدل سکی اپنی"

عارفہ محترمہ غصے سے اس عورت پر پھٹ پڑی جس پر وہ عورت انہیں دیکھنے لگ گئی

"سوسائٹی جو بھی ہو ایک رات گھر سے غائب رہنا ہمارے یہاں غیر مناسب سی بات ہے ایک رات کیا اب تو ڈیڑھ دن ہوگیا ہے"

وہ عورت بھی غصے سے بولتی اٹھ کر وہاں سے چلی گئی عاقب صاحب ان سب کے دوران خاموش بیٹھے تھے

"رپورٹ کیوں نہیں کرتے ہیں آپ ہماری بچی نہ جانے کس حال میں ہوگی "

عارفہ محترمہ روتے ہوئے عاقب صاحب کو دیکھتی بولی مگر وہ خاموش بیٹھے تھے

تبھی اوراق گھر میں داخل ہوا عاقب سمیت تمام گھر والوں کی نظر اس پر گئی عاقب صاحب صوفے سے آتے کر فوراً اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھ جوڑ گئے اوراق سمیت سب نے پریشانی سے عاقب کو دیکھا 

"مجھے معاف کر دو اوراق میرے کیے کی سزا میری بیٹی کو مت دو اس کا کوئی قصور میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑے بیٹھا ہوں"

عاقب صاحب ہاتھ جوڑے میں بےبس سے روتے ہوئے التجائے لہجے میں بولے جس پر سب کی پریشانی مزید گہری ہوگئی 

"کیا کررہی ہیں آپ عجیب حرکت ہے میں کیوں رکھوں گا لیزا کو ہاں؟"

اوراق نارمل انداز میں انہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگا عاقب نے اس کی جانب دیکھا

"تم نے ہی کیا ہے یہ میں جانتا ہوں "

عاقب صاحب اپنی بات پر ڈٹے اسے بولے سب خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے

"کیوں کروں گا کوئی وجہ بھی تو کوئی وجہ"

اوراق ابھی بول رہا تھا جب عاقب نے اسے ٹوک دیا 

"وجہ ہے وجہ یہ ہے میں نے تمہاری بیوی ضحیٰ کیساتھ زیادتی کی ہے وجہ یہ ہے کہ میں نے تمہارے باپ کو مارا صرف جائیداد کی خاطر تم یہ سب اس لیے کررہی ہو اسی وجہ سے تم یہ سب کررہے ہو چھوڑ دو میری بیٹی کو وہ معصوم ہے اس کی کوئی غلطی نہیں ہے"

عاقب صاحب روتے ہوئے اونچی آواز میں اپنے گناہ اپنے منہ سے بتا کر سب کو حیران کر گئی اوراق نے سب کی جانب دیکھا

"جی ہاں یہی اصلیت میں آپ سب کے سامنے لانا چاہتا تھا ضحیٰ کو لاوراث سمجھ کر ناجانے کس قدر اسے تکلیف پہنچائی خوفزدہ کیا اور ضحیٰ نے ہمت کرکے یہ بات دادی آپ کو بتائی بھی تو آپ نے اسے ہی مارنا شروع کردیا یہ کہاں کا انصاف ہے میرے باپ کو مارنے والا یہ تھا اس کا مقصد صرف جائیداد ہڑپ کرنا تھی اور آپ سب لوگ اس انسان کو فرشتہ سمجھتے تھے "

اوراق سینے پر بازو باندھ عارفہ اور ادیبہ بیگم جو دیکھ کر تلخ لہجے میں بولا  عارفہ محترمہ اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی اور ادیبہ بیگم بھی صوفے پر ڈھے گئی

"بےغیرت انسان تم نے انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں ہو "

عارفہ چیخ کر کہتے ساتھ اس طرف بڑھ کر عاقب کی گال پر زوردار تھپڑ مار گئی 

"ہاں ہوں میں بےغیرت گھٹیا بہت گٹھیا شاید ضحیٰ کیا اللہ بھی مجھے معاف نہ کرے حوس اور پیسے کی لالچ میں میں اندھا ہوگیا تھا"

عاقب خود کو تھپڑ مارتے ہوئے پاگلوں کی طرح بولا تبھی لیزا گھر میں داخل ہوئی عاقب صاحب کی نظر لیزا پر گئی

"لیزا میری بچی تم"

عاقب اس کے پاس آکر اسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر کہنے لگے مگر لیزا نے انہیں ہاتھ کے اشارے روک دیا 

"میں آپ کی بیٹی نہیں ہوسکتی میں آپ جیسے حیوان کی بیٹی نہیں ہوسکتی ہے آج تک میں سب سے زیادہ آپ سے محبت کرتی آئی تھی لیکن آج آج مجھے آپ سے سب سے زیادہ نفرت ہورہی ہے میرا دل کررہا ہے جان سے ماردوں آپ کو آپ اتنے گٹھیا اتنے برے ہوسکتےہیں مجھے یقین نہیں ہورہا ہے نفرت ہے مجھے آپ سے یہ سب جاننے کے بعد میرا دل کررہا ہے اپنی جان لے لوں"

لیزا آنکھوں میں آنسو لیے روتے ہوئے انہیں چیخ کر بولی اپنی بیٹی کی آنکھوں میں نفرت دیکھ کر انہیں بےحد تکلیف ہوئی

شور کی آواز ہر ضحیٰ پریشانی سے نیچے کی جانب بڑھ گئی 

"لیزا شکر ہے آپ ٹھیک ہیں اور صحیح سلامت گھر آ گئی آپ کو کچھ ہوا تو نہیں ہے نا"

ضحیٰ لیزا کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے خوشی سے بولی لیزا نے اسے دیکھا اور خاموشی سے اس کے پیروں میں بیٹھ گئی 

"مجھے معاف کردو ضحیٰ مجھے معاف کردو خون کا کچھ اثر تو ہونا تھا مجھ پر میں ایسی نہیں ہوں لیکن میری ماں کی تربیت اور میرے باپ کی خون کی وجہ سے شاید میں نے ایسا کیا میں وعدہ کرتی ہوں میں آج کے بعد تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچاؤں گی مجھے ایک دفعہ معاف کردو"

لیزا روتے ہوئے ضحیٰ کو دیکھ کر بولی ضحیٰ نے فوراً سے اسے کندھوں سے اٹھایا 

"میرے دل میں ہوئی شکوہ یا شکایت نہیں ہے میں خفا ہوں ہی نہیں آپ سے ایک آپ ہی تو تھی جو مجھ سے پیار سے بات کیا کرتی تھیں مجھ سے باتیں کرتی تھی"

ضحیٰ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر فوراً سے بتانے لگی لیزا اسے دیکھنے لگی 

"تم بہت اچھی ہو بہت"

لیزا اس کے گلے سے لگ گئی اور ضحیٰ مسکرا گئی اوراق اسے دیکھ رہا تھا

"ضحیٰ"

عاقب نے اسے پکارا ضحیٰ نے اس کی زبان سے اپنا نام سنا اور اس کا دل کیا وہ ختم ہو جائے 

"نام بھی مت لینا اپنی زبان سے میرا آج میرے اللہ نے تمہارا اصل چہرہ ہر ایک کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے اور مجھ سے معافی کی امید مت رکھنا عاقب علی"

ضحیٰ مڑ کر سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے چیخ کر بولی عاقب شرمندگی سے سر جھٹک گیا 

"تم تو گٹھیا تھے لیکن تمہارا بیٹا بھی تمہاری طرح گٹھیا تھا اس نے تمہیں میرے ساتھ زبردستی کرتے دیکھ لیا تھا تمہیں روکنے کے بجائے وہ مجھے کریکٹرلیس کہتا تھا مجھے تکلیف دیتا تھا تم اور تمہارا بیٹا ایک جیسے ہو اگر میں دنیا میں کسی سے سب سے زیادہ نفرت کرتی ہوں وہ تم کو اور تمہارا صماد ہے میرے دل میں چاہ کر بھی تم دونوں کیلیے نرمی پیدا نہیں ہوسکتی ہے"

ضحیٰ آنکھوں میں آنسو لیے صماد پر ایک نظر ڈالتی اوراق نے سرخ آنکھوں سے صماد کی جانب دیکھا جو خاموشی سے سر جھٹک کر کھڑا تھا 

"لیکن میرا اللہ انصاف ضرور کرتا ہے اس لیے انہوں نے کسی معجزے کی طرح میری زندگی میں اوراق کو بھیج دیا اور آج انہیں کی وجہ سے میں اتنی مضبوط اور بےخوف تمہارے سامنے کھڑی ہوں"

ضحیٰ مسکراتے ہوئے اوراق کو دیکھ کر بولی اوراق اس کی جانب بڑھ گیا اور اسے اپنے ساتھ لگایا یہ سب باتیں سننے کے بعد ادیبہ بیگم اپنے دل پر قابو نہ رکھ پائیں اور ان کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے 

"دادی"

سب لوگ پریشانی سے ان کی جانب بڑھے ضحیٰ نے بھی انہیں پکارا 

ہوسکے۔۔۔ تو مجھے معاف ۔۔۔کر دینا ۔۔۔۔ضحیٰ "

ادیبہ بیگم رک رک بمشکل ضحیٰ کو دیکھ کر کہنے لگی ضحیٰ کی آنکھوں میں نمی آگئی اور وہ نفی میں سر ہلانے لگ گئی

"دادی آپ معافی مت "

ابھی ضحیٰ بول ہی رہی تھی جب ادیبہ بیگم کی آنکھیں بند ہوگئی اور ہر کوئی اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔

__________________

دو سال بعد

"فاتح بےبی ماما کا پیارا بےبی اب کپڑے پہنے گا"

ضحیٰ پیار سے اسے دیکھ کر بولتے ساتھ اس کی شرٹ اتارنے لگی وہ ہنس رہا تھا

"چلو بھائی میرا بیٹا تو ہیرو بن گیا ہے اب آپ کے ڈیڈ کے آنے کا وقت ہے تو ہم باہر چلتے ہیں"

ضحیٰ مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ کمرے سے باہر آئی ٹی وی لاؤنچ میں انیتا محترمہ بیٹھی ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھی اسے دیکھ کر مسکرادی 

"فاتح دادی کی جان"

انیتا محترمہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ اپنی گود میں لے گئی اور ضحیٰ نے سامنے موجود مرر سے خود پر نظر ڈالی پرپل کلر کے ڈریس میں ملبوس آدھے بالوں میں کیچڑ لگائے گلے میں دوپٹہ لیے لائٹ سے میک ایپ وہ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی وہ ہلکا سا مسکرا گئی 

تبھی دروازے پر بیل بجی اور ضحیٰ دروازے کی طرف بڑھی دروازہ کھولتے ہی سامنے اوراق کو موجود پاکر وہ مسکرادی 

"اسلام و علیکم"

وہ مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگاتا مکمل اس کا جائزہ لے کر بولا ضحیٰ نے مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور وہ دونوں ٹی وی لاؤنچ کی جانب بڑھے انیتا محترمہ کو سلام کرنے کے بعد اوراق نے فوراً سے فاتح کو گود میں اٹھا لیا ضحیٰ اسے مسکرا کر دیکھنے لگی 

"اوراق پہلے فریش ہو جائیں میں کھانا لگا رہی ہوں "

ضحیٰ اسے کہتے ساتھ فوراً سے کچن کی جانب بڑھ گئی اوراق فاتح کو واپس انیتا محترمہ کو دیتا روم کی جانب بڑھ گیا 

اوراق ضحیٰ اور انیتا محترمہ کو دو سال پہلے ہی لندن واپس لے آیا تھا اپنے مجرم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کرکے اور عارفہ محترمہ کو ان کی والدہ کا گھر واپس دلوا کر لیزا اور عارفہ محترمہ اپنے اسی گھر میں اکیلی رہ گئی تھی کیونکہ عاقب کو بیس سال کی جیل ہوئی تھی اور صماد شرمندگی کے باعث ان سے ملنے نہیں آتا تھا۔۔

ڈنر کرکے فاتح انیتا محترمہ کے روم میں ہی ان کے ساتھ ہی تھا

"ہے تو صرف ایک سال کا مگر حرکتیں دیکھیں ذرا"

ضحیٰ بکھرے کمرے پر نظر ڈال کر بولی اوراق نے اسے دیکھا اور اسے پیچھے سے حصار میں لیا ضحیٰ اب اس کی عادی ہوچکی تھی

"اوراق کام کرنے دیں"

ضحیٰ اسے دیکھ کر فوراً سے بولی اوراق نے اس کی گال پر لب رکھ دیے 

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو"

اوراق اسے دیکھتے ہوئے رومانوی لہجے میں بولا ضحیٰ نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا 

"میں آپ کو کب نہیں لگتی؟؟"

ضحیٰ نے مسکراتے ہوئے اس سے فورآ سے بولا اوراق نے اس کا رخ اپنی طرف کیا 

"ہر وقت ہر پل کوئی ایسا لمحہ نہیں ہے جب اوراق کو اس کی ضحیٰ پیاری نہ لگی ہو روتے ہوئے ہنستے ہوئے غصے میں ہمیشہ حسین لگتی ہو اور لگتی آؤ گی"

اوراق اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولتے ساتھ اس کے ہونٹوں کو اپنی قید میں لے گیا ضحیٰ کی سانس سینے میں اٹک گئی 

"بہت بےشرم ہیں آپ"

ضحیٰ اسے پیچھے کرتے ہوئے خفگی سے بولی اوراق ہنس دیا 

"اس کا ثبوت یہ صاحب زادے ہیں"

اوراق تبھی فاتح کو اندر آتا دیکھ کر شوخیہ لہجے میں بولتا اسے گود میں لے گیا ضحیٰ شرما گئی 

__________________

"میں کمینہ آدمی ہوں میں بےغیرت ہوں"

عاقب جیل میں بیٹھا خود کے بال نوچتے ہوئے چیخ کر بول رہا تھا

"او پاگل خاموش رہ"

ساتھ موجود آدمی اونچی آواز میں کہنے لگا عاقب نے غصے سے اسے دیکھا 

"میں کمینہ ہوں بےغیرت ہوں بولوں گا کیا کرے گا تو ہاں"

عاقب مزید اونچی آواز میں چلا کر بولا ساتھ موجود پاگل آدمی اسے غصے سے مارنے لگ گیا 

"اور مار جان لے لے میری"

عاقب مار کھاتے ہوئے چیخ کر کہنے لگا اور وہ شخص اسے اس کے حال پر چھوڑ کر ایک سائیڈ ہوگیاعاقب اونچا اونچا رونے لگ گیا اسے دو سال ہوگئے تھے جیل میں رہتے تھے اور ان دو سالوں میں لیزا اور عارفہ دونوں ایک بار بھی اس سے ملنے نہیں آئے تھے وہ لیزا کو پکارتا رہتا مگر وہ نہیں آتی تھی اس کا دماغ کام کرنا بند کرچکا تھا 

لیزا اور عارفہ محترمہ اس گھر میں اب اکیلی رہتی تھی جو انسان کرتا ہے آخر میں بھگتا بھی ہے اور ایسے ہی ہوا تھا لیزا نے اپنی اسٹڈیز شروع کردی اور وہ پورا دن گھر میں ہوتی تھی اسی وجہ سے وہ خدا کے قریب ہوگئی تھی ادیبہ بیگم کو اس دنیا سے گئے دو سال ہوچکے تھے ان کی کمی عارفہ کو شدت سے محسوس ہوتی تھی اور اس گھر میں عجیب گھٹن سی محسوس ہوتی تھی ہر وقت خاموشی خاموشی سی چھائی ہوتی تھی لیزا زیادہ تر گھر سے باہر ہی ہوا کرتی تھی شام کے وقت وہ گھر واپس آیا کرتی تھی

__________________

ضحیٰ بیڈ پر لیٹی اوراق اور فاتح پر نظر ڈال کر مسکرادی 

"میں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ برا وقت دیکھا ہے اللہ نے اوراق کو میرے صبر کا تحفہ بنا کر میری دنیا میں بھیجا ان کے آتے ہی آہستہ آہستہ زندگی سنوارنے لگ گئی اور آج میں اتنی پرسکون اور خوش صرف اپنے اللہ اور ان کی وجہ سے بس میری خوشیوں کو کبھی نظر نہ لگے اور زندگی سے آج ایک اور بات سیکھ لی ہے بےشک جتنی مرضی مشکل میں ہو اللہ پر ہمیشہ اعتبار کرنا وہ اپنے بندے کو اتنی آزمائش دیتا جتنی وہ برداشت کرتا ہے اور اس کے بعد اس کی زندگی کو رنگوں سے بھر دیتا ہے"

ضحیٰ چہرے پر مسکراہٹ سجائے اوراق پر نظریں جمائے دل میں کہنے لگی 

"ضحیٰ بےوجہ مت سوچواور سوجاؤ "

اوراق کی نیند میں ڈوبی آواز سے وہ مسکراتے ہوئے لیمپ آف کرتی آنکھیں بند کر گئی وہ دونوں اپنی زندگی میں بےحد خوش تھے

اختتام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mehram E Junoon Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mehram E Junoon written by Mahnoor Shehzad. Mehram E Junoon by Mahnoor Shehzad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment