Pages

Monday 9 September 2024

Ishq E Nadan Novel By Nazia Zaman Complete Romantic Novel

Ishq E Nadan By Nazia Zaman New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

 Ishq E Nadan Novel By Nazia Zaman Complete Romantic Novel

Novel Name: Ishq E Nadan 

Writer Name: Nazia Zaman 

Category: Complete Novel

ہاتھوں میں وہ سرخ قیمتی شرارہ تھامے بینش بیگم گم صم نظروں سے برہان کو دیکھ رہی تھیں جو زمین پر اوندھا لیٹا ' ہاتھوں میں چہرہ ٹکائے بڑی دلچسپی سے سامنے بکھری مختلف رنگوں کی چوڑیوں کے انبار کو دیکھ رہا تھا جبکہ اس کے پہلو میں بیٹھی انجم عرف انجو اپنی دیگر جویلری چیک کر رہی تھی کہ شاید کوئی جویلری اس کے مہندی اور سرخ رنگ کے لباس سے میچ کرجائے ۔

"پھپھو آپ کے پاس کوئی ریڈ یا مہندی کلر کے موتی وغیرہ والی جویلری ہوگی جو میرے۔۔۔۔۔۔۔" بےدھیانی میں پوچھتے ہوئے جیسے ہی انجو نے بینش بیگم کے چہرے کی طرف دیکھا اسے چپ لگ گئی ۔ بینش بیگم کا چہرہ اپنے آنسئوں کو روکنے کی کوشش میں سرخ ہو رہا تھا ۔ بینش بیگم کی بھرائی ہوئی نظروں کے تعاقب میں انجو نے برہان عرف باری کی طرف دیکھا جو اپنی ماں کی حالت سے بےخبر چوڑیوں سے چھیڑچھاڑ میں مگن تھا ۔

"پھپھو ! آپ پر کوئی زبردستی تو نہیں کر سکتا ، آپ منع کردیں نا ۔" یہ کہتے ہوئے سولہ سالہ انجو کے لہجے میں شرمندگی نمایاں تھی ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہی تو اس کے ماں باپ بینش بیگم پر دوسری شادی کے لیئے دن رات دبائو ڈال رہے تھے ۔ ان کا سکون سے کھانا پینا تک حرام کر رکھا تھا اس شادی کرلو شادی کرلو کہ شور نے ۔۔۔! انجو عاقل بالغ اور حساس لڑکی تھی ۔ اپنی پھپھو کی بےبسی محسوس تو کر سکتی تھی لیکن ان کے لیئے کچھ کرنے سے قاصر  تھی ۔۔۔!!

بینش بیگم انجو کی بات پر پھیکا سا مسکرادیں ۔ اور ہاتھ میں پکڑا شرارہ بیڈ پر رکھ کے اٹھ کر انجو اور برہان کے پاس کارپٹ پر بیٹھ گئیں ۔ برہان نے بس ایک سرسری نظر ان پر ڈالی اور پھر سے اپنے سابقہ مشغلے میں مگن ہوگیا ، جبکہ انجو پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہوگئی تھی ۔

"انجو۔۔۔۔۔ وعدہ کرو کہ میرے باری کا خیال رکھوگی ؟" انجو کا ہاتھ تھام کر انہوں نے اپنے لبوں سے لگا کے پوچھا ۔

بہت عزیز تھی بینش بیگم کو اپنی اکلوتی بھتیجی ۔۔۔!

انجو کی عادت و اطوار اور دیگر شوق بلکل ان کے جیسے ہی تھے ، وہ دونوں پھپھو بھتیجی کم اور سہیلیاں زیادہ تھیں ۔

"پکا وعدہ !" بینش بیگم کے گالوں پر پھسلتے آنسو اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے انجو نے لمحے کی دیر کیئے بغیر وعدہ کر لیا تھا ۔

سرخ چوڑیوں کو ایک طرف جمع کرتے ہوئے برہان نے اس وعدے پر مسکراتی ہوئی ایک نظر انجو پر ڈالی تھی ۔

"اسے کبھی اکیلا مت کرنا ۔ بہت خیال رکھنا اس کا انجو ۔۔! میں اپنی ساری دنیا تمہارے حوالے کر کے جا رہی ہوں ، میری دنیا کا خیال رکھنا !" بینش بیگم کے خاموشی سے بہتے آنسئوں نے سسکیوں کی صورت اختیار کرلی تھی ۔ انجو کی آنکھیں بھی چھلکنے کو تیار ہوگئیں ۔ آنسئوں کا ریلا حلق میں اتار کر انجو نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے بینش بیگم کو گلے سے لگا لیا ۔

"جانتی ہو ! جب میں نے اسے بتایا میں اسے چھوڑ جائوں گی تب یہ بہت رویا تھا ، لیکن جب میں نے کہا کہ میرے جانے کے بعد انجو تمہارا پہلے سے زیادہ خیال رکھے گی ، تب فوراً ہی یہ خوشی سے ناچنے لگا ۔ میرے جانے کے غم سے زیادہ اسے تمہارے ساتھ مزید وقت گزارنے کی خوشی ہے۔۔۔ اسی لیئے میں تم سے کہہ رہی ہوں ، بلکہ ریکویسٹ کر رہی ہوں ۔ باری کو کبھی اکیلا مت کردینا۔۔! عریش کی اپنی ہی مصروفیات ہیں ۔ بھابھیوں اور بھائیوں کا تمہیں بھی پتہ ہے ! اس لیئے بس ایک تم ہی سے امید لگا سکتی ہوں میں انجو ۔" باری کی طرف دیکھتے ہوئے بینش بیگم سرگوشیانہ انداز میں بول رہی تھیں ۔ بات کے آخر میں انہوں نے انجو کے شانے سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو انجو ان کا چہرہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں تھام کر بولی "وعدہ پھپھو ! میں باری کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گی ۔ صرف آپ کے لیئے ہی نہیں اپنے لیئے بھی ۔ میں بھی تو پیار کرتی ہوں باری سے۔۔۔!" انجو کے لہجے سے جھلکتی سچائی نے بینش بیگم کے بےقرار دل کو کچھ پرسکون کیا اور وہ انجو اور برہان کا سر چومتی ڈھیلے ڈھالے انداز میں اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ شام کے تقریباً ساڑھے سات تک ان کا نکاح تھا اور اس وقت سوا چھہ ہو رہے تھے ۔

شرارہ اٹھا کر انجو کے کمرے سے نکلتے نکلتے وہ برہان کی چیخ پر گھبرا کر یکدم پلٹی تھیں ۔ برہان کی انگلی میں شاید کوئی ٹوٹی چوڑی کھب گئی تھی جسے دیکھ کر بھی بینش بیگم اس کی طرف نہیں دوڑی تھیں کیونکہ انجو حواس باختہ سی ہوتی اس کا ہاتھ تھام کر باتھروم لے جا رہی تھی ۔ اس منظر نے انہیں ایک گونا سکون عطا کیا تھا ۔ انہوں نے انجو سے غلط آس نہیں لگائی تھی ۔ وہ واقعی برہان سے بہت محبت کرتی تھی ۔ برہان کی پیدائش پر بینش بیگم تازہ تازہ بیوگی کے غم کا شکار ہوتی شدید بیمار ہوگئی تھیں ۔ تب آٹھ سالہ حساس سی انجو نے اپنی عمر کے حساب سے جو بن پڑا ، وہ ان کی خوشی اور راحت کے لیئے کیا تھا ۔ برہان شروع سے ہی ان کی بنسبت انجو کے قریب رہا تھا ، یہی وجہ تھی کہ ماں کے جانے کا سن کر وہ افسردہ تو ہوا تھا لیکن ویسی حالت نہیں ہوئی تھی جو عموماً بچوں کی ماں کی غیر موجودگی میں ہوجاتی ہے ۔

نم مسکراتی نظروں سے اب انجو کو برہان کی انگلی پر پٹی کرتے دیکھ کر وہ مدھم سا مسکراتے ہوئے پلٹ گئیں ۔ اور پھر وہ چلی گئیں۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

شہر کراچی کا یہ چار کمروں والا درمیانہ سا گھر  عبدالرحمان آفندی کا تھا ۔ عبدالرحان آفندی اور ان کی بیگم کئی سال پہلے ہی اس فانی دنیا کو خیرآباد کہہ گئے تھے ۔ پچھلے کئی سالوں سے اس گھر میں ان کے دو بیٹے اشفاق اور آفاق صاحب اپنی بیگمات جنت بیگم اور صباء بیگم کے ساتھ رہائش پزیر تھے ۔ دونوں بھائیوں کی بےضرر سی اکلوتی بہن بھی تھیں بینش بیگم ! جن کی صحیح وقتوں میں شادی بھی کردی گئی تھی لیکن شادی کے محض ڈیڑھ سال بعد بائس سال کی عمر میں بیوگی کی چادر اوڑھے وہ بھائیوں کی دہلیز پر لوٹ آئی تھیں ۔ ہاں یہ گھر بھائیوں کا ہی تھا ! ماں باپ کے چلے جانے کے بعد سے ان کا بھی اس گھر پر جیسے حق ختم ہوگیا تھا ۔ اس وقت جب وہ واپس بھائیوں کے گھر آئیں ، برہان ان کی کوکھ میں تھا ۔ سسرال والوں نے ان پر منحوس کا ٹھپہ لگا کر دوبارہ پلٹ کر نہ ان کی طرف دیکھا ، نہ اپنے پوتے کے بارے میں ہی جاننے کی کوشش کی ۔

بینش بیگم کی دونوں بھابیا ہی روائتی بھابیاں ثابت ہوئی تھیں جبکہ دونوں بھائی اپنی بیگمات کے ذہنوں سے سوچنے کے عادی تھے ۔

اشفاق صاحب اور جنت بیگم کا ایک ہونہار بیٹا عریش تھا جو اس وقت فرسٹ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا اور آفاق صاحب اور صباء بیگم کی ایک ہی بیٹی انجم تھی جس کا دعویٰ تھا کہ بینش بیگم سے سب سے زیادہ پیار وہ ہی کرتی ہے ۔۔!

اور پھر بینش بیگم تھیں جن کا ایک ہی آٹھ سالہ بیٹا برہان تھا ۔ بلا کا شرارتی اور خودسر ۔۔!

عریش بہت کم گو تھا ۔ کبھی موڈ ہوتا تو محفل کا حصہ بن جاتا ورنہ کتابوں میں گم ہی پایا جاتا ۔ عریش بیچارہ اکثر برہان کی شرارتوں کا شکار ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر ہی چڑ کر برہان کو "چھوٹا جن" کہا کرتا تھا اور اس چھوٹے جن کو قابو میں صرف انجو ہی کر سکتی تھی ۔

عریش کیونکہ شروع سے ہی کتابی کیڑا رہا تھا سو انجم سے اس کی کوئی خاص دوستی نہیں رہی تھی ۔ ایسے میں ننھے سے برہان کے آجانے سے انجم کو ایک دوست ، بھائی اور گڈا مل گیا تھا ۔ وہ برہان کے نخرے اٹھاتے نہ تھکتی تھی ۔

ایسی ہی تلخ و شیریں زندگی گزرتی جا رہی تھی کہ ایک دن آفاق صاحب کے باس عدیل عالم ان کے گھر ڈنر پر چلے آئے اور بیش بیگم کو پہلی ہی نظر میں پسند کر بیٹھے ۔

وہ خود بھی دو بیٹیوں کے باپ تھے ، سابقہ بیوی سے علیحدگی ہوچکی تھی اور ان دنوں وہ دوسری شادی کا ارادہ بھی رکھتے تھے ۔ سرخ و سفید رنگت ، تیکھے نقوش اور اداس آنکھوں والی بینش بیگم انہیں ایسی پسند آئیں کہ بیش بیگم کے لاکھ انکار پر بھی انہوں نے اپنے قدم پیچھے نہ کیئے ۔

دوسری طرف آفاق صاحب کو بھی شادی ہوجانے کی صورت میں پرموشن کا لالچ دے دیا اور شادی نہ ہونے کی صورت میں جاب سے ہاتھ دھونے کی دھمکی بھی دے ڈالی ۔

پھر کیا تھا ! آفاق صاحب اور صباء بیگم نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بینش بیگم کو "ہاں" کہنے پر مجور کر ہی دیا ۔

بینش بیگم کو اعتراض صرف اس بات پر تھا کہ عدیل عالم برہان کو رکھنے ہر راضی نہیں تھے ۔ اوپر سے ان کا اصل بزنس لندن میں تھا ۔ اکلوتے بیٹے کو چھوڑ کر وہ اتنی دور ہرگز نہیں جانا چاہتی تھی لیکن چھوٹے بھائی اور بھابی کی دن رات کی دھونس دھمکی اور بڑے بھائی بھابی کی خاموشی نے انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ پھر عدیل عالم نے ان سے وعدہ بھی کیا تھا وہ برہان کے لیئے اکائونٹ کھلوا کر اس میں بہت سے پیسے بھیج دیا کریں گے جن کی بدولت برہان قدرے بہترین زندگی گزار سکتا تھا ۔۔۔!

پھر انجو سے ڈھیروں وعدے لے کر وہ بھاری دل اور بھیگی آنکھیں لیئے عدیل عالم اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ جہاز میں سوار ہوگئیں ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

"اے لڑکے ! کیا ہوا ہے ؟ کیسی لگ رہی ہوں میں ؟؟" آئینے میں نظر آتا اپنا گلابی لباس میں جگمگاتا وجود دیکھتے ہوئے اس نے اچانک پلٹ کر برہان سے پوچھا جو بیڈ کی پائنتی پر بیٹھا ، گردن اٹھائے ایک ٹک اسے تک رہا تھا ۔ انجو کے سوال کرنے پر اس نے زور و شور سے اثبات میں سر ہلایا اور مسکرادیا لیکن پھیکا سا۔۔۔

پھر کچھ دیر بعد ہی چھوٹے سے لائونج میں منگنی کی سادہ سی تقریب شروع ہوچکی تھی ۔ جھینپا ہوا سا عریش سفید کرتے میں ملبوس تھا جبکہ اس کے پہلو میں ستارہ آنکھیں لیئے بیٹھی انجم بےبی پنک چوڑی دار پاجامے اور ٹخنوں تک آتے فراک میں ہلکی پھلکی سی جویلری پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی ۔

انجو کی دو سہیلہاں بھی اس تقریب میں ہنستی چہچہاتی رونق لگا رہی تھیں جبکہ عریش کا اکلوتا معصوم سا دوست پلس خالہ زاد کزن بڑا بیبا بچہ بنا عریش کے دوسری طرف بیٹھا تھا ۔ خاندان کے چند بڑے جو اس تقریب میں مدعو تھے ، اس چھوٹے سے جوڑے کو دعائیں دے رہے تھے اور برہان۔۔۔۔

وہ الجھن بھری نظروں سے صوفے پر بیٹھا عریش اور اس کے پہلو میں بیٹھی انجم کو دیکھ رہا تھا ۔ اسے اپنا آپ بلکل خالی خالی لگ رہا تھا لیکن کیوں ؟ آٹھ سالہ برہان اس وقت اپنے اندر کا خالی پن سمجھنے سے قاصر تھا لیکن آٹھ سال بعد۔۔۔۔!!!!

آٹھ سال بعد گھر میں ہورہی انجم اور عریش کی شادی کی تیاریاں دیکھتے ہوئے سولہ سالہ برہان جان گیا تھا کہ کیوں اسے اپنا اندر خالی خالی لگ رہا تھا۔۔۔ یہ خالی پن دل کا خالی پن تھا ۔۔!!

اس وقت برہان اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ میں چمکتی عریش اور انجم کی منگنی کی تصویر ساکت نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ اس کے ٹیبل پر دھرے ہاتھ میں ہلکی سی لرزش تھی اور چہرہ اندرونی کرب کا چیخ چیخ کر اظہار کر رہا تھا ۔ اچانک ہی برہان کا ضبط ٹوٹا تھا اور اس نے لیپٹ ٹاپ پھینکنے کی نیت سے اٹھایا تھا کہ عین اسی وقت جانی پہچانی سی خوشبو اور کھنکتی ہوئی ہنسی نے اسے ساکت کردیا تھا ' پھر جلدی سے اس نے اپنے چہرے کے تاثرات پر کنٹرول کرتے ہوئے لیپ ٹاپ بند کردیا اور کتاب کھول لی ۔ یہ سب اس نے لمحے میں کیا تھا ۔ پیچھے کھڑی انجم نے کچھ حیرت سے اس کی یہ جلد بازی ملاحظہ کی تھی ۔

"کیا ہوا باری ؟؟؟" لیپ ٹاپ میں کیا ہے ؟ کیا چھپا رہے تھے ؟" مشکوک لہجے میں پوچھتے ہوئے انجم نے لیپ ٹاپ اٹھانا چاہا لیکن اٹھا نہیں سک کیونکہ برہان نے راستے میں ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ، اور انجم کے مرمریں ہاتھ کا لمس اسے اپنے آپ میں کنفیوژ کرگیا تھا ۔ جلدی سے انجم کا ہاتھ چھوڑ کر وہ خود لیپ ٹاپ اٹھا کر رائٹنگ ٹیبل سے اٹھ کھڑا ہوا اور بغیر انجم کی طرف دیکھے بیڈ پر جا بیٹھا ۔

انجم اس کے رویے پر دنگ رہ گئی تھی ۔

"کیا بات ہے باری ؟" انجم نے اس کے سیاہ ہلکے گھنگریالے بالوں والے سر پر ہاتھ رکھا ۔ اس کا انداز مشفق تھا لیکن برہان نے تڑپ کر اس کا ہاتھ اپنے سر سے جھٹک دیا ۔ یوں جیسے وہ ہاتھ نہ ہو بچھو ہو ۔

اس بار انجم کے چہرے پر واضع تشویش لہرائی تھی ۔ وہ برہان کے سامنے ہی بیڈ پر بیٹھ گئی ۔

"باری تم۔۔۔۔ کیا ہوا ہے تمہیں ؟ میں نوٹ کر رہی ہوں کئی دنوں سے تمہارا رویہ بہت عجیب ہو رہا ہے ۔"

"اور پوچھنے کا وقت آپ کو اب ملا ہے ؟" بھیبچے بھینچے غصیلے لہجے میں پوچھتا وہ بیڈ پر سے بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔ لیپ ٹاپ اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا ۔

"باری تمہیں بھی پتہ ہے گھر میں کتنا اٰدھم مچا ہے ۔ کتنے کام پڑے ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔"

"جب شادی ہوئی نہیں ہے اور آپ مجھ سے اتنی دور ہوگئی ہیں ۔ جب شادی ہوجائیگی ، تب تو آپ مجھے بلکل ہی بھول جائیں گی ۔۔۔! نہ کریں آپ شادی ۔۔۔!!!" اچانک پلٹ کر وہ مٹھی بھینچ کے بھرائی آواز میں بولا تھا ۔

"ارے۔۔۔۔۔ اس لیئے ناراض ہو ؟ یار دیکھو ایک تو میں تمہارے لیئے اس کتابی کیڑے سے شادی کر رہی ہوں تاکہ اپنا وعدہ نبھا سکوں اور کبھی تمہیں اکیلے چھوڑ کر نہ جائوں ۔ الٹا تم مجھ سے ہی خفا ہو رہے ہو ۔۔۔!" ہلکے پھلکے دوستانہ انداز میں کہتے ہوئے انجم نے برہان کا چہرہ جانچا لیکن جب برہان نہ آگے سے مزید کچھ بولا اور نہ ہی اس کے چہرے کے عجیب تاثرات میں کوئی فرق آیا تب انجم نے اس کا شانہ پکڑ کر اپنی طرف گھمایا ۔ ایک بار پھر برہان نے اس کا ہاتھ بدتمیزی سے جھٹکا تھا لیکن اس بار انجم اگنور کرگئی ۔

"دیکھو باری ! شادی تو ایک دن سب کی ہونی ہی ہے ۔ بس یہ کچھ دنوں۔۔۔۔۔۔"

"آپ میرے کمرے سے نکل جائیں ۔" انجم کی بات کے درمیان برہان سرد انداز میں گویا ہوا ۔

انجم نے برہان کو یوں دیکھا جیسے اسے سننے میں غلطی ہوئی ہو ۔

"میں کہہ رہا ہوں آپ میرے کمرے سے نکل جائیں ۔ گیٹ لوسٹ !" تھوڑا سا جھک کر وہ انجم کی الجھن بھری آنکھوں میں اپنی سرد نظریں گاڑ کر ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا ۔

"برہا۔۔۔۔۔"

"نکل جائیں ! پلیز چلی جائیں یہاں سے۔۔۔ دوبارہ میرے سامنے مت آئیے گا ۔۔۔! سنائی نہیں دے رہا آپ کو ؟؟؟؟ پلیز جائیں جائیں جائیں یہاں سے ۔۔! جائیں !"

انجم کیا جاتی وہ تو برہان کے اس انداز ہر فریز ہوگئی تھی ۔ برہان نے خود ہی چیخ چیخ کر کہتے ہوئے لیپ ٹاپ بیڈ پر پٹخا اور انجم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے کمرے سے باہر نکال کر دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا ۔

دروازے کے باہر کھڑی انجم بےیقینی سے پھیلی نظروں سے اپنے منہ پر بند دروازے کو دیکھ رہی تھی جبکہ دروازے کے دوسری طرف برہان ' دروازے سے پشت ٹکائے ، ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑے چھوٹے بچے کی طرح ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا ۔ اس کے رونے کی آواز باہر حیران پریشان کھڑی انجم کی پریشانی میں اور اضافہ کر گئی اور وہ دروازے پر دستک دیتے ہوئے برہان کو پکارنے لگی لیکن اندر روتے ہوئے برہان کے کانوں میں اس کی آواز چبھ رہی تھی ۔ اپنے دونوں کان ڈھک کر برہان نے اپنی ٹانگیں سکیڑ لیں ۔ اس کے رونے میں شدت آگئی تھی ۔

صباء بیگم شور سن کر تقریباً دوڑتی ہوئی اوپری پورشن میں آئی تھیں جہاں ایک الگ ہی تماشہ لگا ہوا تھا ۔ انجم برہان کے کمرے کے باہر دستک دیتی اسے پکار رہی تھی جبکہ برہان کے کمرے سے سوائے برہان کے رونے کے کوئی اور آواز نہیں آ رہی تھی ۔ یہ منظر اتنا حیرت انگیز نہیں تھا ، برہان اور انجم کے درمیان یہ روٹھنا منانا چلتا رہتا تھا ۔ جس چیز نے صباء بیگم کو پریشان کیا تھا وہ تھا ان تین مہمان خواتین کا ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر انجم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کانا پھوسی کرنا ۔

صباء بیگم خون کے گھونٹ پیتے ہوئے انجم کا بازو تقریباً دبوچ کر اسے نچلے پورشن میں لیجانے لگیں ۔ انجم اس افتاد پر ہڑبڑا گئی تھی اور بار بار مڑ کر برہان کے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔

"امی کیا ہوگیا ہے ؟ بازو تو چھوڑیں میرا۔۔۔ مجھے برہان سے بات کرنے دیں ، وہ رو رہا ہے ، پتہ نہیں کیا بات ہے ! اس طرح تو وہ کبھی نہیں رویا ۔۔۔!!" انجم کے مستقل زور آزمائی کرنے پر صباء بیگم نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑ دیا لیکن اس کے کمرے میں پہنچنے کے بعد ۔

"میری بات غور سے سنو انجو ! اب ہر وقت باری باری کی گردان کرنا چھوڑ دو ۔ باری اب بچہ نہیں رہا جو تم یوں اس کے پیچھے دودھ کے گلاس لے کر بھاگتی رہو یا اسے منانے میں ہلکان ہوتی رہو ۔ تم سے زیادہ قد نکال لیا ہے اس نے اب یہ سب اچھا نہیں لگتا ۔۔!" صباء بیگم بھی اپنی جگہ ٹھیک ہی تھیں ۔ اکلوتی بیٹی کی شادی سر پر تھی ، وہ کوئی الٹی سیدھی باتیں افواہیں برداشت نہیں کرسکتی تھیں ۔

لیکن انجم صباء بیگم کی باتوں پر ساکت رہ گئی تھی ۔ بہت عجیب سا لگ رہا تھا اسے یہ سب سن کر ۔

"امی ! ایسی بات کیسے کرسکتی ہیں آپ ؟ باری کتنا بھی بڑا ہوجائے ، میرے لیئے تو بچہ ہی رہے گا اور آپ۔۔۔۔۔"

"باری تمہارے لیئے صرف بچہ ہے ، یہ تم سمجھتی ہو ، میں سمجھتی ہوں ، باری بھی سمجھتا ہوگا لیکن لوگ نہیں سمجھتے ! لوگ صرف وہی سمجھتے ہیں جو انہیں نظر آتا ہے ۔ میں مزید اس بارے میں کچھ نہیں بولنا چاہتی ، تم سمجھدار ہو ، خود ہی بہتر سمجھ سکتی ہو ۔۔! عریش بھی جب تک کزن ہے ، تمہارا ہر وقت باری باری کرتے رہنا برداشت کرلیتا ہے ' مگر شوہر بن کر اس کی مینٹلٹی خود ہی بدل جائے گی ، اس لیئے تم ابھی سے احتیاط کرنی شروع کردو ۔ میں ماں ہوں تمہاری انجو ! تمہیں کچھ غلط کرنے کے لیئے تو نہیں کہونگی نا بیٹا ؟" بات کے اختتام پر صباء بیگم کا لہجہ خود بہ خود نرم ہوگیا ۔ وجہ انجم کی آنکھوں میں جمع ہوتا پانی تھا ۔

انجم سخت حیران تھی ، کیا یہ وقت بھی آنا تھا ؟ وہ چھوٹا سا گڈا کیا واقعی اتنا بڑا ہوچکا تھا کہ لوگ اس کی ذات کو برہان سے منصوب کر کے الٹے سیدھے قصے گڑھتے ؟

صباء بیگم اسے مزید سمجھا بجھا کر اس کے کمرے سے نکل گئیں لیکن انجم نے مزید کچھ بھی نہیں سنا تھا ۔ وہ ابھی بھی شاک اور عجیب سی شرمندگی کا شکار تھی ۔

"اگر باری ایسی کوئی الٹی سیدھی بات سن لے تو کتنا ہرٹ ہو ۔ ہمارا رشتہ تو کتنا پاکیزہ سا ہے ۔ اف۔۔۔۔!!! لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا ، لیکن ایک پاکیزہ سے رشتے کو بدنام کرنے کا حق لوگوں کو کس نے دیا ؟؟؟" گہرے ملال میں گھری انجم بوجھل دل لیئے مایوں کا لباس اٹھا کر واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔ "میں عریش سے بات کروں گی ۔ عریش بھلا کچھ الٹا سیدھا کیوں سوچے گا ؟ وہ ہمیشہ سے اسی گھر میں رہتا ہے ، باری اور میرے رشتے سے واقف ہے ۔ امی بھی بس۔۔۔ کچھ زیادہ ہی منفی سوچنے لگی ہیں ۔" ڈیسنٹ سے عریش کے خیال پر انجم کے لب بےساختہ مسکرا دیئے ۔

چینج کرنے کے بعد  اپنے دراز بالوں کی چوٹی گوندھتے ہوئے اس کے چھوٹے سے گول ہونٹوں پر کوئی خوبصورت گیت گنگنا رہا تھا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

انجم کو مایوں بیٹھے کتنے دن گزر چکے تھے برہان کو کوئی اندازہ نہیں تھا ۔ بلکہ اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا ! وہ کمرے میں قید ہو کر رہ گیا تھا ۔ عریش سمیت بہت سے کزنز نے کئی بار ' رات دیر تک جمنے والی محفلوں میں اسے شرکت کی دعوت دی تھی لیکن وہ ہر دعوت ٹھکرا دیتا تھا ۔ عریش کو تو کئی بار باقاعدہ کھری کھری سنا چکا تھا ۔

برہان 9 سال چھوٹا تھا عریش سے پھر بھی برہان کی شخصیت میں حاوی ہوجانے والی کوئی بات تھی اور وہ فطرتاً غصے کا کافی تیز بھی تھا ، سو بچپن سے ہی خاموش طبع عریش سے لڑتا بھڑتا رہا تھا ، اسی وجہ سے عریش نے بھی اس کے بیہیو پر توجہ نہیں دی تھی ۔

اب بھی عریش اسے اپنے دیگر کزنز کے ساتھ گروپ ڈانس کی پریکٹس کرنے کے لیئے لے جانے آیا تھا لیکن برہان نے عریش کو زبردستی اپنے کمرے سے باہر نکال کر اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے لاک کر لیا اور دروازے سے اپنی پشت ٹکا کر مٹھیاں بھینچے گہری گہری سانسیں لینے لگا ۔ عریش کی شکل دیکھ کر اسے شدید غصہ آ رہا تھا اور عریش پر غصے سے زیادہ اپنی بےبسی پر رونا آ رہا تھا ۔

برہان خاموش رہ کر ، انجم سے دور اپنے کمرے تک محدود رہ کر خود کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے صرف انجم کی عادت ہے ، اور عادت کوشش کرنے سے چھوٹ بھی جاتی ہے ۔ یہاں محبت وحبت جیسا کوئی جذبہ نہیں ہے ۔ یہ صرف اس کے بالغ ہوتے ذہن کی خرافات ہیں مگر ، ہر گزرتا دن اس کی دھڑکن کی رفتار دھیمی کر رہا تھا ۔ ہر گزرتا لمحہ اسے باور کروا رہا تھا کہ ہاں۔۔۔۔ محبت تو یہ واقعی نہیں تھی ، یہ تو عشق تھا جو اسے اندر سے ختم کر رہا تھا ۔۔۔!

"لیکن میں اتنی جلدی ختم نہیں ہونا چاہتا ۔ مگر میں کروں تو کیا کروں ؟ میں انجو سے اظہار کردوں تو انجو کا کیا رسپونس ہوگا ؟ وہ بہت ہرٹ ہوگی۔۔۔ ہاں وہ ہرٹ ہوجائیگی ۔ وہ تو مجھے بچہ سمجھتی ہے لیکن میں بچہ ہوں تو نہیں ۔ ماما کے بھیجے کتنے سارے پیسے ہیں میرے بینک اکائونٹ میں ۔ عریش بھائی کو سالوں لگ جائیں گے اتنا پیسا جمع کرنے میں مگر۔۔۔۔ مگر انجو کو پیسے سے کوئی غرض تھوڑئی ہے ۔ میں کیا کروں ؟ یا اللہ میں کیا کروں ؟ مجھے کوئی راستہ دکھائیں میں کیا کروں ؟؟ ایک بات تو طے ہے کہ جو ہو رہا ہے میں وہ ہونے نہیں دوں گا ۔۔! میں انجو کو کسی اور کا ہوتے برداشت نہیں کر سکتا ، وہ بھی عریش بھائی کے ساتھ ! نو نیور ، میرا تو جینا مشکل ہوجائیگا انجو کو اسی گھر میں عریش بھائی کے ساتھ دیکھ کر ۔ اوہ خدا میں کیا کروں ؟؟؟ میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے ، میں اپنی فیلنگز خود تک نہیں رکھ سکتا ۔ اپنی فیلنگز صرف خود تک رکھیں تو میں اندر ہی اندر گھل کر ختم ہوجائوں گا ۔ مجھے انجو پر اپنے دل  کا حال کھولنا ہی ہوگا ۔ پھر آگے انجو کی مرضی ۔۔۔! لیکن اگر انجو نے انکار کردیا تو ؟ ہاں انجو کی مرضی مگر۔۔۔ مگر میں انکار نہیں سننا چاہتا اور مثبت جواب انجو دے گی نہیں ۔ کیا مصیبت ہے !!!  مجھے صرف انجو کی عادت ہے اور کچھ نہیں ۔ صرف عادت۔۔۔۔ جان لیوا عادت !"

بیڈ پر بظاہر بلکل گم صم پڑے برہان کے دل و دماغ میں طوفان برپا تھا ۔ آنکھ کے کنارے اتنی بار بھیگ چکے تھے کہ اب کناروں پر نادیدہ زخم سے محسوس ہو رہے تھے ۔ آنکھیں رو رو کر تھک چکی تھیں لیکن آنسئوں کا اسٹاک ختم ہی نہیں ہو کے دے رہا تھا ۔

"مبارک ہو تم کو یہ شادی تمہاری۔۔۔

سدا خوش رہو تم دعا ہے ہماری۔۔۔

تمہارے قدم چومے یہ دنیا ساری۔۔۔"

"کس الو کے پٹھے نے یہ گانا لگایا ہے ؟" جھٹکے سے اٹھ کر برہان چیخا لیکن ڈیک پر فل والیوم میں چلتے گانے کی آواز میں برہان کی زخمی دہاڑ دب گئی تھی ۔

بیڈ کی چادر تکیے وغیرہ جنونی کیفیت میں زمین پر پھینکنے کے بعد برہان ہارے ہوئے سے انداز میں دھپ سے اونھا بیڈ پر گرا اور پھر سے گھٹی گھٹی سسکیاں بھرتے ہوئے رونے لگا ۔ رونے کے سوا فلحال اس کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

پانچ دن ہوچکے تھے اسے مایوں میں بیٹھے ۔ کیونکہ عریش بھی گھر میں ہی ہوتا تھا سو انجم کے کمرے سے نکلنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ انجم کو یوں کمرے میں بند ہو کے رہنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا اگر ایک بار برہان اس سے مل کر اپنی خیریت کا یقین دلا جاتا ۔ عجیب مشکل میں پھنسی تھی وہ ۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلے اس سے شیئر کرنے والا برہان یقیناً اس بار کسی بڑی مشکل کا شکار تھا اور قسمت کی ستم ظریفی یہ تھی کہ انجم اس کی مدد کرنے سے قاصر تھی ۔

"نہ جانے کیا پریشانی تھی اسے ؟ کس طرح رو رہا تھا وہ ۔ ایک بار مل ہی جائے ، کمرے میں بند ہو کر رہ گیا ہے ۔ ایسی بھی کیا بات ہے ؟" کزنز سے برہان کے رویے کے متعلق انجم کو سن گن ملتی رہتی تھی ۔ جسے جان کر وہ اور پریشان ہوگئی تھی ۔ زمین پر آڑھی ترچھی سوئی ہوئی اپنی کزنز کو ٹاپ کر انجم کھڑکی تک پہنچی اور ایک پٹ کھول کر دروازے سے سر ٹکا کر گہری گہری سانسیں لینے لگی ۔ کھلی فضاء کے زریعے وہ اپنے پریشان ذہن کو کچھ سکون دینا چاہتی تھی جب اس کی نظر صحن میں تنہا بیٹھے برہان پر پڑی ۔ دودھیا چاندنی میں انجم برہان کو باآسانی دیکھ سکتی تھی ۔ وہ جو دن بھر کمرے میں بند رہتا تھا ، اس سرد ترین موسم میں رات کے ڈھائی بجے ، ہلکی سی ٹی شرٹ پہنے صحن میں تنہا بیٹھا کوئی دیوانہ لگ رہا تھا ۔ یہ نارمل لوگوں والی حرکت تو نہیں تھی ۔۔!

اپنا زرد فراک سنبھالے انجم دبے قدموں کمرے سے نکل گئی ، چوروں کی طرح اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے وہ تیز تیز دھڑکتے دل اور بےآواز قدموں کے ساتھ چلتی برہان کے سر پر پہنچ گئی ۔ گہرے خیالات میں گم برہان نے کسی کی موجودگی محسوس کر کے چونک کے سر اٹھا کر سامنے دیکھا ، اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا ۔ دودھیاں چاندنی میں انجم کا زرد دوپٹے کے ہالے میں قید چہرہ بہت افسانوی سا لگ رہا تھا ۔ برہان بےاختیاری میں ایک ٹک اسے دیکھے گیا ، چونکا وہ تب جب انجم نے اس کا شانہ تھپتھپایا ۔

"میں کیا پوچھ رہی ہوں باری ؟ کیا بات ہے ؟ کیوں پریشان ہو ؟ تمہاری پریشانی محھے بھی پریشان کر رہی ہے بچے ۔۔۔! میری زندگی کا یہ سب سے خوشگوار وقت ہے لیکن میں خوش نہیں ہو پا رہی ۔ تمہاری تمہاری پریشانی مجھے ڈسٹرب رکھتی ہے ۔ پلیز مجھ سے شیئر کرو ۔ میں کچھ نہ بھی کرسکی تب بھی تمہارے لیئے دعا تو کر ہی سکتی ہوں ۔" برہان کے الجھے بکھرے بالوں کو اپنی مخروطی انگلیوں سے سنوارتے ہوئے انجم اسے اپنے ساتھ کا یقین دلا رہی تھی ۔

جواب میں برہان کچھ بھی نہیں بولا تھا ، بس پل بھر کے لیئے بیچارگی سے مسکرا دیا تھا ۔ جیسے کہہ رہا ہو "جاننے کے بعد آپ اور زیادہ پریشان ہوجائیں گی ، اس لیئے انجان ہی رہیں تو بہتر ہے ۔"

"باری۔۔۔! اب تم مجھے غصہ دلا رہے ہو ۔ اپنی انجو آپی سے بھی اب باتیں چھپائوگے تم ؟" غصے سے بولتی انجم یکدم چپ سی ہوگئی تھی ۔ کچھ ایسی ہی غضبناک نظروں سے برہان نے اسے دیکھا تھا ۔

"آپی نہیں ہیں آپ میری انجو !" اٹھ کر انجم کے مقابل آتے ہوئے برہان انگلی اٹھا کر باور کراتے لہجے میں بولا تھا ۔

مختصر سے جملے میں کیا پیغام پوشیدہ تھا یہ انجم کے لیئے سمجھنا کچھ مشکل نہیں تھا ۔ اخفاظوں سے زیادہ برہان کا انداز جتاتا ہوا تھا ۔

چھناکے کی آواز سے انجم کے اندر کچھ ٹوٹا تھا ۔ انجم شاکی نظروں سے برہان کو دیکھے جا رہی تھی جس کی شہد رنگ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور ان سرخ آنکھوں میں جنون ، بےبسی ، غصہ ، آنسو ، وارننگ ، کیا کچھ نہیں تھا۔۔۔!!!

"بر۔۔۔۔۔ برہان۔۔۔۔!"  انجم لرزتی آواز میں بامشکل بول سکی ۔

"آج سے ہمیشہ یاد رکھیئے گا انجو ! آپی نہیں ہیں آپ میری ! اور نہ میں کوئی فیڈر پیتا بچہ ہوں ۔" سلگتے لہجے میں ایک ایک لفظ چبا کر کہتا برہان ' جبڑے بھینچے تیز تیز قدم اٹھاتا صحن سے چلا گیا ۔ اور پیچھے انجم گویا زلزلوں کی ضد میں تھی ۔ وہ تو کل تک دوسروں کی بدلتی ذہنیت دیکھ کر ہی افسردہ تھی ، آج برہان نے بھی اپنی بدلتی فیلنگز اس پر عیاں کر دی تھیں ۔ 

وقت اتنا کیسے بدل گیا تھا ؟ وہ تو انجو آپی تھی ، باری کی انجو آپی ۔۔۔! کب کہاں کس لمحے برہان کے دل میں اس کے لیئے الٹے سیدھے خیالات نے جنم لے لیا تھا ؟

اپنا سینا سہلاتے ہوئے انجم تخت پر برہان کی چھوڑی جگہ پہ گر سی گئی ۔ کھلی فضاء میں بھی اب انجم کے لیئے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا ۔

"یہ کیا کہہ گیا ہے باری ؟ وہ ایسا ویسا کچھ کیسے سوچ سکتا ہے ؟ اف۔۔۔!" زیرلب بڑبڑاتے ہوئے انجم کی آنکھوں سے کئی آنسو ٹوٹ کر گرے تھے ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

شور شرابے کی وجہ سے صبح اس کی آنکھ کھلی تھی ۔  آنکھوں کو مسلتے ہوئے وہ جیسے ہی اٹھ کر بیٹھی اس کی نظریں بینش بیگم پر پڑیں اور ساکت رہ گئیں ۔

شادی کے بعد سے بینش بیگم دوبارہ پاکستان نہیں آئی تھیں ۔ ہاں ہر ہفتے سکائپ پر بات ضرور ہوجاتی تھی لیکن جو بات روبرو ملنے میں ہے وہ ان وڈیو کالز میں کہاں ۔۔!

دو دن پہلے ہی اس کی بینش بیگم سے فون پر بات ہوئی تھی ۔ اس وقت بینش بیگم نے پاکستان آنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا لیکن آج اچانک۔۔۔

"پھپھو۔۔!!" خوشی کی زیادتی سے انجم چیخ پڑی تھی ، اور پھر بیڈ سے اچھل کر تقریباً ان کی گود میں سوار ہوگئی تھی ۔ کمرے میں موجود باقی لڑکیاں اور خواتین اس کے بچگانہ انداز پر ہنس پڑی تھیں ۔

پھر بہت دیر تک بینش بیگم اور انجم ایک دوسرے سے چپکی روز و نیاز کرتی رہیں ۔ جب کسی کے گلا کھنکھارنے پر دونوں چونک کر الگ ہوئیں ۔

"ارے لو میں بلکل سب کو بھول بھال گئی ۔ انجو اس کے بارے میں سنتی تو رہتی ہو ۔ بچپن میں ملی بھی تھیں ۔ یہ علینہ ہے ۔  عالیا کی شادی ہوگئی ہے وہیں ، تو وہ ساتھ نہیں آسکی ۔" بینش بیگم کے لہجے میں عدیل عالم کی بیٹیوں کے لیئے کوئی سوتیلا پن نہیں تھا ۔ ویسی ہی شفقت تھی جیسی انجم کے لیئے ہوتی تھی ۔ اور دوسری طرف علینہ بھی تھوڑی موڈرن لیکن فرینڈلی سے لڑکی تھی ، لیکن اس کی آنکھوں میں عجیب سی اداسی تھی ' جیسے وہ بہت روتی رہتی ہو ۔۔۔۔

انجم کو علینہ سے مل کر خوشی ہوئی تھی ۔

اس وقت انجم برہان کا رات کو کیا گیا اظہار بلکل بھلائے بیٹھی تھی جب کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آتا برہان انجم کو رات کی قیامت خیز گھڑی یاد دلا گیا تھا ۔ انجم کا چہرہ خود بہ خود سپاٹ ہوگیا تھا اور وہ اجنبی سی بن کر کارپٹ کے ڈیزائن پر انگلی پھیرنے لگی جبکہ درحقیقت انجم دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ ابھی برہان اس سے اپنی باتوں کی معافی مانگے اور کہے کہ میں نے تو مذاق کیا تھا ۔۔!

لیکن برہان نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا ۔ وہ بھی انجم سے زیادہ سپاٹ چہرہ بنائے بینش بیگم کو جنت بیگم کا بلاوا پہنچا رہا تھا ۔ بینش بیگم ' انجم کو "ابھی آتی ہوں" کا اشارہ دیتی کمرے سے نکل گئیں جبکہ برہان ایک گہری نظر انجم پر ڈالتا بینش بیگم کے پیچھے ہی نکل گیا ۔

اسے آج اپنے کمرے سے نکلنا ہی پڑا تھا ۔ ایک وجہ تو بینش بیگم کی آمد تھی ، جبکہ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ انجم کے تاثرات دیکھنا چاہتا تھا ۔ شاید انجم کے چہرے پر اس کے اظہار نے کچھ رنگ بکھیرے ہوں ، لیکن انجم تو بلکل بیگانی ہوگئی تھی ۔۔۔!!

افسردہ سا برہان تھوڑی دیر سب کے درمیان رہنے کے بعد دوبارہ اپنے کمرے میں قید ہوگیا تھا ۔ نیچے ہوتا شور شرابہ ، خوشی کے شادیانے اس کی برداشت سے باہر ہو رہے تھے ۔

اوندھا لیٹا وہ خالی خالی نظروں سے موبائل میں چمکتی اپنی اور انجم کی تصویر دیکھ رہا تھا جب دروزے پر ہلکی سی دستک دے کر بینش بیگم اندر داخل ہوئیں ۔

برہان نے ان کے آنے پر کوئی رسپونس نہیں دیا تھا ، جیسے ان کی اچانک پاکستان آمد پر بھی نہیں دیا تھا ۔

فون پر بھی اس کی باتیں بہت رسمی سی ہوتی تھیں جیسے دیار غیر میں مقیم کسی رشتے دار سے لوگ کرتے ہیں ۔ "موسم کیسا ہے ؟ ماحول کیسا ہے ؟" اور بس۔۔۔!

بینش بیگم کو لگ رہا تھا وہ ان سے ناراض ہے ، اور اب وہ اسے منانا چاہتی تھیں ۔ بینش بیگم وہیں بیڈ پر اس کے پاس بیٹھ گئیں ۔ برہان نے موبائل اسکرین لاک کر کے موبائل سائڈ رکھ دیا ۔ وہ بینش بیگم کی طرف دیکھ نہیں رہا تھا لیکن ان ہی کی طرف متوجہ تھا ۔

"باری ! ناراض ہو مجھ سے ؟"

"میں اپنی قسمت سے ناراض ہوں ماما ۔"

"ایسی بات کیوں کر رہے ہو تم باری ؟ کیا ہوا ہے میرے بیٹے ؟" برہان کے الفاظوں سے زیادہ برہان کے لہجے نے بینش بیگم کو پریشان کیا تھا ۔

"ماما۔۔۔ ماما مجھے اپنے ساتھ لے چلیں ماما ۔۔! میں یہاں رہا تو مر جائونگا ۔ مجھے گھٹن ہو رہی ہے یہاں اس گھر میں ۔ پلیز ماما انکل کو فورس کریں ۔ میرے لیئے بات کریں ان سے ماما پلیز ، انکل کے بھیجے سارے پیسے ابھی بھی اکائونٹ میں ہیں ۔ بلکل تھوڑے سے یوز کیئے ہیں میں نے ۔ ان سے کہیں وہ سارے پیسے واپس لے لیں اور مجھے اپنے ساتھ لے جائیں ۔ میں وعدہ کرتا ہوں میں وہاں جا کر الگ ہوجائونگا ، آپ لوگوں پر بوجھ نہیں بنوں گا ۔ بس مجھے آپ لوگ اپنے ساتھ لے جائیں تاکہ میں چاہ کر بھی واپساس گھر میں نہ آ سکوں ۔۔۔۔"

"باری باری باری !  کیا ہوا ہے تمہیں  ؟کسی سے جھگڑا ہوا ہے ؟ کیا گھر میں کسی نے کچھ کہا ہے ؟"  بینش بیگم برہان کے جنونی انداز میں بولتے چلے جانے پر حواس باختہ ہوگئی تھیں ۔

برہان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر کر انہوں نے پریشانی سے پوچھا تھا ۔ جواباً برہان کے رونے میں شدت آگئی تھی ۔ اس کا کھلتا ہوا گندمی چہرہ سرخ ہوگیا تھا ۔

"ان۔۔۔۔ انجو کی شادی ہو رہی ہے ماما !" برہان بھاری آواز میں بامشکل بولا ۔

"دھت ! اس لیئے اس طرح رو رہے ہو ؟ ڈرا کر رکھ دیا مجھے ۔ ارے باولے وہ کہیں نہیں جا رہی شادی کر کے ۔ یہیں رہے گی ہمیشہ ۔" بینش بیگم نے یوں کہا جیسے وہ اسے کوئی خوش خبری سنا رہی ہوں ۔

"اسی لیئے تو میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں ، کیونکہ انجو شادی کر کے یہیں رہیں گی ۔ میں انہیں عریش بھائی کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتا ماما ۔ ماما انجو آپ کی بات کبھی نہیں ٹالتیں ، وہ آپ سے بہت پیار کرتی ہیں ۔ آپ ان سے کہیں نا کہ وہ عریش بھائی سے شادی نہ کریں ۔ ان سے کہیں وہ مجھ سے شادی کرلیں ۔ میں بہت محبت کرتا ہوں ان سے ۔ پلیز انہیں روکیں نا ۔" برہان آنسئوں سے تر چہرہ لیئے بینش بیگم کے دونوں ہاتھ پکڑے ، بیڈ سے اتر کر ان کے قدموں میں بیٹھا ان کی منتیں کر رہا تھا جبکہ بینش بیگم کی حالت انجم سے مختلف نہیں تھی ۔ وہ لٹھے کی مانند سفید چہرہ لیئے برہان کو دیکھے چلی جا رہی تھیں ۔ برہان کا انداز اتنا شدید تھا کہ وہ برہان کو جھٹلا بھی نہیں سکیں ۔

"آپ کچھ بول کیوں نہیں رہیں ؟ بتائیں مجھے ، بات کریں گی نا انجم سے ؟ روک لیں گی نا یہ شادی آپ ؟"

"بب۔۔۔ باری۔۔۔ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو ؟ دماغ خراب ہے تمہارا ؟ کتنی بڑی ہے وہ تم سے۔۔۔ آٹھ سال بڑی ! اور تم بچے ہو ابھی ۔ ایسی بات سوچ بھی کیسے سکتے ہو ؟ شرم نہیں آئی تمہیں ؟ چھوٹا بھائی سمجھتی ہے انجم تمہیں اور۔۔۔۔۔"

"ان کے سمجھنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ میں نامحرم تھا ، نامحرم ہوں ! اور سولہ سال کا انسان بچہ نہیں ہوتا ، آج کے دور میں تو بلکل بھی نہیں ۔ جب انجو سولہ سال کی تھیں تب آپ بھی تو ان سے اپنے سارے سیکرٹس شیئر کرتی تھیں نا ۔ وہ آپ کی باتیں سمجھا کرتی تھیں نا ؟ پھر میں سولہ سال کی عمر میں بچہ کیسے ہوگیا ؟ خیر اس بحث کو جانے دیں ، آپ مجھے بس اتنا بتائیں آپ انجو کو روکیں گی شادی کرنے سے یا نہیں ؟"

"نہیں ! ہرگز نہیں۔۔۔ یہ بات ہی فضول کی ہے تم نے ۔ کوئی سن لے تو کیا سوچے ۔ تم تو اپنے ٹین ایج کے فیز سے نکل کر اپنی یہ باتیں یاد کر کے ہنسا کروگے اور انجو کی ساری زندگی برباد ہوجائیگی ۔ طعنے دیا کریں گے لوگ اسے ۔ اپنی عزت کی پروہ نہ سہی ، انجو کی عزت کے لیئے ہی خدارا خاموش ہوجائو اس سے پہلے کہ معاملہ کسی کے کان میں پڑے ۔"  برہان کا بازو پکڑے بینش بیگم سخت لہجے میں بولی تھیں ۔

جذباتی ہوتا برہان ان کی باتوں اور انداز پر یکدم بلکل ساکت ہوگیا پھر استہزایہ مسکرایا ۔ "میں بھی پاگل ہوں جو آپ سے امید لگا لی ۔ پہلے ماں ہونے کا کونسا حق ادا کیا ہے آپ نے جو اب آپ میری خوشی کی پروہ کرتیں ۔" سرد لہجے میں کہتے ہوئے برہان ان کی پکار ان سنی کرتا ہوا کمرے سے نکل گیا اور پیچھے بینش بیگم اپنا سر تھام کے بستر پر گر سی گئیں ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

دن پر دن گزرتے جا رہے تھے ۔ یہاں تک کے شادی کا دن آن پہنچا ۔ برہان جو اتنے وقت سے انجم کو میسجز پر میسجز بھیج کر اسے اپنے احساسات کا یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا ، اس امید پر کہ شاید انجم اس کی باتیں سمجھ جائے ' اب شادی کا دن سر پہ پہنچ جانے کے بعد ایک آخری کوشش کے طور پر تنہائی ملتے ہی انجم کے روبرو ہوا تھا ۔

انجم جو بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر اپنے کمرے میں تنہا بیٹھی اپنا درد سے پھٹتا سر دبا رہی تھی ، برہان کو اپنے کمرے میں دیکھ کر لب بھینچ کر رہ گئی ۔

بہت پیارا تھا اسے یہ چھوٹا سا لڑکا ۔ اس کی بدلتی سوچوں نے انجم کا دل اور مان تو توڑے تھے لیکن وہ اس جذباتی لڑکے سے نفرت نہیں کر سکتی تھی ۔

اس وقت انجم کے چہرے پر برہان کے لیئے نرم سےتاثرات ابھرے تھے ۔ جو بھی تھا ، آج تو اس کی شادی ہو ہی جانی تھی ' پھر برہان بھی تھوڑا بڑا ہوجاتا تو سنبھل ہی جاتا ۔

دوسری طرف برہان جو دلہن بنی انجم کو ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا ، اچانک آگے بڑھ کر اس کے سامنے ایک گھٹنا ٹیک کر بیٹھ گیا اور خواب کی سی کیفیت میں بولنے لگا ۔

"اول تو میں کوئی چھوٹا بچہ  نہیں ہوں انجو ۔۔! لیکن اگر آپ مجھے بچہ سمجھتی ہیں تو کچھ دیر کے لیئے مجھے بچہ مت سمجھیں ، پلیز میری عمر نظر انداز کر کے میری باتوں پرغور کریں انجو ! یہ کوئی اتنی ناممکن بات نہیں ہے ۔ ہمارا دن رات کا ساتھ ہے ، ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں ہمراز ہیں ۔ یاد ہے ایک بار آپ نے مجھے کہا تھا کہ دوستی میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ؟ پھر محبت میں یہ قید کیوں ؟ یقین کیجیئے انجو ، مجھ سے زیادہ اور کوئی نہیں چاہ سکتا آپ کو ۔"

برہان کی باتوں پر انجم کو جھرجھری سی آئی تھی ۔ لیکن اس نے ظاہر یوں کیا جیسے کچھ سنا نہ ہو اور ہلکے پھلکے لہجے میں بولی ۔ " کپڑے کیوں نہیں چینج کیے تم نے ؟ جائو جلدی سے چینج کر کے آئو ، بال سنوارو ۔ کیا ملنگوں والا حال بنا رکھا ہے ۔"

اپنی فیلنگز کے جواب میں انجم سے اپنے حال پر کمنٹ سن کر برہان کے نقوش یکدم تن گئے ۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا دروازہ کھول کر بینش بیگم اندر داخل ہوئیں اور انجم اور برہان کو مقابل پا کر چونک سی گئیں ۔

"پھپھو دیکھیں ذرا اسے ۔ گھر کا لڑکا ہی گھر کی شادی میں اس طرح سے گھومے گا تو۔۔۔۔"

"میں آپ سے کیا کہہ رہا ہوں انجو ! میرے حال کی فکر چھوڑ  دیں ۔ میرا حال سنور جائیگا اگر آپ سنواریں گی تو ۔" انجم کی بات کے درمیان برہان اپنی ازلی خود سری سے بولا ۔

انجم اور بینش بیگم دونوں گڑبڑا گئیں ۔ برہان کی آواز اونچی ہوگئی تھی اور گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا ۔ کوئی سن لیتا تو !

"باری اسی وقت نکلو یہاں سے ۔"  بینش بیگم غصہ ضبط کرتے ہوئے بولیں ۔

"آپ بیچ میں مت بولیں ، آپ کو حق نہیں ہے ' کیونکہ آپ میری ماں نہیں صرف عدیل عالم کی بیوی ہیں ۔"  ڈریسنگ ٹیبل پر ہاتھ مار کر وہاں رکھا سارا سامان نیچے گراتے ہوئے وہ اس بار پوری قوت سے دہاڑا تھا ۔

اور بس یہاں انجم کا صبر ختم ہوا تھا اور اس کا ہاتھ پوری قوت سے اٹھا اور برہان کے گال پر نشان چھوڑ گیا تھا ۔

تھپڑ کی گونج کے بعد کمرے میں لمحہ بھر کے لیئے ایسا سناٹا چھایا تھا کہ تنکا بھی گرتا تو آواز واضع سنائی دیتی ۔ پھر برہان اچانک انجم کے قریب ہو کر بھینچے لہجے میں بولا ۔ "تو آپ کا آخری جواب ناں ہے ؟"

"ہاں کا سوال ہی نہیں اٹھتا ۔!" انجم بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر اسی کے لہجے میں گویا ہوئی ۔ جواب میں برہان استہزایہ مسکراتے ہوئے ایک ایک نظر بینش بیگم اور انجم پر ڈالتا کمرے سے باہر نکل گیا ۔

پیچھے انجم اور بینش بیگم بھرائی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

نکاح کی گھڑی آن پہنچی تھی ۔ انجم کچھ دیر پہلے رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے اس وقت افسردہ سی بیٹھی تھی جبکہ صحن میں بیٹھا عریش برہان کی غیرموجودگی کو شدت سے نوٹ کرتے ہوئے ، خود ہی برہان کو بلانے اس کے کمرے کی طرف دوڑا تھا ۔

عریش اپنے جذبات ظاہر کرنے میں کنجوسی دکھا جاتا تھا لیکن اس کے دل میں اپنی فیملی کے لیئے بےحد محبت تھی ۔ برہان اس کے لیئے چھوٹے بھائی کی ہی طرح تھا ۔ اس کا بگڑنا ، غصہ کرنا ، پریشان کرنا ۔ یہ چیزیں اسے بہت پسند تھیں ۔ نہ جانے کن پریشانیوں میں تھا برہان ' جو گھر کی شادی سے بیگانہ ہوا پڑا تھا ۔

عریش کم از کم نکاح میں اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا ۔ باقی برہان کی پریشانی کی وجہ وہ شادی کے جھنجٹ سے فری ہونے کے بعد پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔

ہنستا مسکراتا عریش جیسے ہی برہان کے کمرے میں داخل ہوا ، اندھیرے نے اس کا استقبال کیا ۔

بورڈ پر ہاتھ مار کر عریش نے ایک ساتھ کئی بٹن دبا ڈالے ۔ کمرہ روشنیوں میں نہا گیا اور اندر کا منظر عریش کو ٹھٹھکا گیا ۔ اگلے ہی پل عریش برہان تک پہنچا تھا جو بیہوشی کی حالت میں آدھا بیڈ پر اور آدھا زمین پر پڑا تھا ۔ عریش کے ہاتھ پیر مزید پھول گئے تھے برہان کے نزدیک پڑی نیند کی گولیوں کی خالی شیشی دیکھ کر ۔!  "باری ؟ باری بیٹا آنکھیں کھولو ، پلیز باری اٹھو !  یہ کیا کر لیا ہے تم نے بیوقوف لڑکے ؟ باری ؟؟؟" حواس باختہ حالت میں عریش اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے اسے اٹھانے لگا ، جسے ظاہر ہے نہیں اٹھنا تھا ۔

برہان کا سر احتیاط سے بیڈ پہ رکھنے کے بعد عریش نیچے دوڑ پڑا تھا ' سب کو بتانے کے لیئے ۔

کچھ ہی دیر بعد پورے گھر میں ہڑبونگ مچ گئی تھی ۔ برہان کے نیند کی گولیاں کھا کر سوسائڈ کرنے کی خبر پر کئی معنی خیز نظریں ٹکرائی تھیں ۔ کوئی افسوس کر رہا تھا ، کوئی حیران ہو رہا تھا ، کوئی چسکے لے رہا تھا ، تو کوئی نئی جنریشن کے جذباتی پن سے نالاں بڑبڑا رہا تھا جبک کمرے میں نکاح خواں کی منتظر بیٹھی انجم کو یوں لگا جیسے کسی نے اس کے جسم سے روح کھینچ لی ہو ۔

گھر کا ایک بیٹا زندگی موت کی کشمکش میں ہو اور دوسرا شادیانے بجا رہا ہو ' یہ کہاں ممکن تھا ۔

سو نکاح ٹل چکا تھا۔۔۔

عین نکاح کی گھڑی برہان کا یہ اقدام بہت سے لوگوں کو بہت کچھ سمجھا گیا تھا ۔ لوگ تو پہلے ہی شادی کی تیاریوں کے دوران برہان کے رویئے کی وجہ سے چونک گئے تھے ، اب شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی ۔ گوسپ بازار گرم ہوچکا تھا ۔ کئی جاننے والے جو دوسرے شہر سے آئے تھے اور گھر میں ہی ٹھہرے ہوئے تھے ' ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے اس معاملے پر بحث کرتے رہتے ۔

گھر اتنا بڑا تو تھا نہیں کہ ایک طرف کی دوسری طرف کو سنائی نہ دیتی ۔

انجم نے اگرچہ خود کو کمرے میں قید کر لیا تھا لیکن کوئی نا کوئی فقرہ اس کے کان میں پڑ ہی جاتا ، اور پھر وہ خود سے نظریں تک نہ ملا پاتی ۔

"نا میں نہیں کہتی تھی کوئی نا کوئی چکر تو ضرور ہے ۔ اتنا لمبا تڑنگا وہ لڑکا ہوگیا اور وہ بنو معصوم بنی بچوں کی طرح ساتھ لگائے رکھتی تھی ۔" 

"میسنی ہے صباء کی لڑکی ! سب سمجھ رہی تھی ، لڑکے کی نظریں ، پھر بھی ڈرامے کر رہی تھی نادانی کے ۔"

"بھئی میں اسی لیئے سسرال جاتے ہی الگ ہوگئی تھی ، جوائنٹ فیملی سسٹم نری مصیبت ہے ۔ جب بچے بڑے ہونے لگیں تب الگ ہوجانا ہی بہتر ہے ، ورنہ ایسا ہی کوئی تماشہ ہونے کا امکان ہے ۔"

"ارے بینش کا لڑکا تو بہت چھوٹا ہے ۔ ہمارے سامنے کی بات ہے ، ہر وقت آپی آپی کرتا رہتا تھا بھولا سا ۔ انجم ہی مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگتی ۔ اتنے بڑے لڑکے سے ایسی بےتکلیفیاں !"

"عریش بڑا سیدھا لڑکا ہے ، چونچلے نہیں اٹھاتا ہوگا منگیتروں والے جب ہی دل پشوری کے لیئے اس بچے سے لگی رہتی تھی ۔ بچہ پھر بچہ ہے ، بہک گیا ۔ یہ تو ہونا تھا ۔"

"یہ آج کل کے بچوں کے دماغ خراب ہوگئے ہیں ۔ فلموں ڈراموں کا اثر ہے یہ اور کچھ نہیں ۔"

"آپ کی بھی بیٹیاں ہیں ، اس طرح کسی کی بیٹی پر انگلیاں مت اٹھائیں ۔ اصل قصہ کیا ہے کسی کو معلوم نہیں ۔ صرف مفروضوں کی بنیاد پر بچی پر کیچڑ اچھالنا ٹھیک نہیں ۔"

جتنے منہ اتنی باتیں ۔ بہت سے لوگ انجم کے حق میں بھی بول رہے تھے لیکن انجم کے ذہن پر صرف وہ جملے نقش ہو رہے تھے جو اس کے کردار کو داغدار کر رہے تھے ۔ وہ جو شروع شروع میں برہان کے اس اقدام پر مجرمانہ احساسات میں گھری برہان کی زندگی کے لیئے دعائیں مانگ رہی تھی ، اب لوگوں کی باتیں سن کر برہان سے شدید نفرت محسوس کر رہی تھی ۔

پھر اگلے دن برہان کی جان بچ جانے کی خوش خبری بھی آگئی ۔ اندر کہیں انجم کے دل کو اس خبر سے سکون پہنچا تھا لیکن بظاہر وہ اپنے احساسات خود ہی ماننے سے انکاری ہو رہی تھی ۔ اور جب اگلی شام برہان گھر لوٹ آیا اس نے تب بھی ایک بار جا کر برہان کی حالت جاننے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ یہاں تک کہ اس کے کانوں سے برہان کے چیخنے چلانے کی آوازیں ٹکرانے لگیں ۔

"آپ لوگوں نے اس بار مجھے بچا لیا لیکن بار بار تو نہیں بچاسکتے ۔ قدرت بار بار مہربان نہیں ہوتی ۔ آپ لوگ کیا سمجھ رہے ہیں میں ہار مان جائوں گا ؟ خوفزدہ ہوگیا میں موت سے ؟ جی نہیں ! میرا رہا سہا خوف بھی ختم ہوگیا ہے ۔ میں پھر سے کوشش کرونگا مرنے کی ۔ تب تک کرتا رہوں گا جب تک مر نہیں جاتا ۔" بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے برہان ، نقاہت زدہ سا چلا رہا تھا ۔

بینش بیگم تو برہان کی وجہ سے کسی کے سامنے نظریں اٹھانے کے قابل نہیں رہی تھیں ، اس وقت بھی بیڈ کے کونے پر بیٹھی زمین پر کسی غیر مرئی نقطے کو گھورے جا رہی تھیں 

اور باقی سب دنگ نظروں سے برہان کی ڈھٹائی دیکھ رہے تھے ۔

صباء بیگم ناگوار نظروں سے بینش بیگم کو گھور رہی تھیں ۔ ان کے دل میں بہت بھڑاس تھی لیکن وہ نکال نہیں سکتی تھیں ۔ بینش بیگم کو یہ طعنہ دینے کے لیئے ان کا دل مچل رہا تھا "یہ پرورش کی ہے اپنے بیٹے کی ؟" لیکن وہ دینے سے قاصر تھیں ۔ بینش بیگم کی دوسری شادی کرانے میں سب سے زیادہ پیش پیش تو وہی تھیں ۔

"جتنا ذلیل کروا سکتے تھے کروا چکے ہو اب اور کیا چاہتے ہو ؟ کھل کر بتائوگے کہ کیا وجہ تھی اس انتہائی قدم کی ؟" اشفاق صاحب نے سخت غصیلے لہجے میں پوچھا تھا ۔ گھر میں مہمانوں کی بنائی گئی باتیں تو وہ بھی سن رہے تھے لیکن سب کچھ برہان کے منہ سے جانے بغیر وہ گھر کے بچوں پر شک نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

سب کے سامنے اتنے واضع سوال پر پل بھر کے لیئے برہان چپ سا ہوا پھر ایک نظر بینش بیگم پر ڈال کر گویا ہوا ۔ "میں انجو سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔"  اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے برہان پہلی تھوڑا جھینپا تھا ۔

سب کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں جبکہ بینش بیگم کا سر اور جھک گیا ۔

"اے لڑکے ، کیا بکواس کی ہے تونے ؟" صباء بیگم برہان کو تھپڑ لگانے آگے بڑھی تھیں لیکن آفاق صاحب نے انہیں بازو سے پکڑ کر روک لیا ۔

"میں انجو سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔" اس بار برہان بغیر کسی ہچکچاہٹ کے صباء بیگم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ۔ پھر چہرہ سیدھا کر کے سب پر نظریں ڈالتے ہوئے مزید گویا ہوا ۔"آپ انجو سے کہیں وہ ابھی مجھ سے نکاح کرلیں ، پھر میں خود کو ان کے قابل ثابت کر کے دکھائوں گا ۔ اگر آج نکاح نہ ہوا۔۔۔۔۔ تو آئی سویئر میں اس بار سوسائڈ کی ایسی کوشش کرونگا کہ بچنے کا کوئی امکان نہیں رہ جائیگا ۔"

اس بات پر بینش بیگم نے تڑپ کر اپنا سر اٹھایا تھا ۔ اکلوتی اولاد تھا وہ ان کی ۔ ان کے سامنے بیٹھ کر اتنی بےرحمانہ بات کیسے کر سکتا تھا وہ ؟

"میں نے راہ فرار اختیار کرنے کی بھی کوشش کی تھی ۔ لیکن کہیں ان کے ہزبینڈ برا نہ مان جائیں ، انہوں نے انکار کردیا تھا ۔" برہان نے طنزیہ نظروں سے بینش بیگم کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔ "اب آگے آپ لوگوں کی مرضی ہے ۔ میری ماں تو مجھ سے الگ کر ہی دی ، اب میری زندگی بھی چھیننا چاہیں تو جلدی بتادیں ۔ دوسرے شہروں میں بسنے والے رشتے دار ابھی یہیں موجود ہیں ، ہاتھ کے ہاتھ میرے جنازے شرکت کر کے چلے جائینگے ' ورنہ بعد میں پھر سے خرچہ کر کے آنا پڑے گا ۔" اتنی دل دہلاتی باتیں برہان یوں کر رہا تھا جیسے موسم کے حال پر تبصرہ کر رہا ہو ۔ کمرے میں موجود تمام لوگ سانس روکے اسے دیکھ رہے تھے ۔ آفاق صاحب اندر ہی اندر کچھ نادم ہوئے تھے ۔ شاید اگر وہ بینش بیگم کی شادی نہ کرواتے یا عدیل عالم کی منتیں ہی کر لیتے کہ وہ برہان کو رکھنے کے لیئے راضی ہوجائیں ' تو بینش بیگم برہان کی بہتر پرورش کر کے اسے وہ بننے سے روک دیتی جو وہ بن چکا تھا ۔

"دیکھو برہان ، تمہارا مطالبہ بلکل فضول ہے ۔ تم کتنا وقت لگائوگے خود کو انجم کے قابل ثابت کرنے کے لیئے ؟اور  انجم تب تک کیا کرے گی ؟"

"میرا انتظار کرینگی ۔" آفاق صاحب کی بات پر برہان کمال بےشرمی سے بولا تھا ۔

"ارے اس لڑکے کا دماغ چل گیا ہے ۔ میری مانو تو اسے پاگل خانے چھوڑ آئو اور عریش اور انجم کا نکاح کروائو ۔ ہم کوئی کروڑپتی تو نہیں ہیں ۔ اتنا خرچہ ہوگیا ہے ساری تیاریوں میں ۔ یہ لاکھوں یونہی ضائع تو نہیں جانے دینگے ۔" صباء بیگم کینہ توز نظروں سے برہان کو گھورتے ہوئے بولیں ۔

"آپ لوگ ایسا کر کے دیکھیں ۔ چند ہزار کا خرچہ اور کر کے میرے جنازے کی بھی تیاریاں کرلیجئے گا پلیز۔۔۔" برہان دہاڑا تھا ۔

"سارا اثر فلموں کا ہے ۔ ڈائلاگز سنو ذرا اس چھٹانک بھر کے لڑکے کے ۔"  جنت بیگم جل کر بولیں ، پھر صباء بیگم کی طرف طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں ۔ "اتنی بڑی حرکت اس نے ایسے ہی تو نہیں کر لی ۔ "دوسری" طرف سے کوئی اشارہ تو ملا ہوگا اسے ۔" یہ انڈائریکٹ انجم کے کیریکٹر پر حملہ تھا ۔

اس سے پہلے صباء بیگم غصے میں انہیں کوئی جواب دیتیں ، برہان بولا ۔ "انجو اگر مجھے کوئی اشارہ دیتیں تو میں اس حد تک نہ جاتا ۔ انجو کو بیچ میں مت لائیں ۔" اس کے یوں انجم کی سائڈ لینے پر جنت بیگم ابرو اچکا کر استہزایہ مسکرائیں ۔

پھر سب نے ہی بہت دیر تک ڈانٹ ڈپٹ کے ، پیار محبت سے ، ہر طرح سے برہان کو سمجھانے کی کوشش کر لی لیکن برہان اپنی ضد پر اڑا رہا ۔ تب اشفاق صاحب طویل سانس خارج کر کے گویا ہوئے ۔ "اس لڑکے کا دماغ خراب ہوچکا ہے ۔ یہ نہیں ماننے کا ۔ صباء تم انجم کو تمام صورتحال کھل کر بتائو ۔ اس سے اس کی مرضی پوچھو ۔ اگر وہ ہاں کہتی ہے تو ۔۔۔۔۔؟"

"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ اشفاق بھائی  ؟ انجم اگر اس کے مرنے مارنے کی دھمکی سے ڈر کر ہاں کر بھی دیتی ہے تب بھی یہ شادی کتنی بےجوڑ ہے ۔ لوگ کیا کہینگے ؟ یہ لڑکا کب کسی قابل ہوگا ؟ تب تک انجم کیا میرے سینے پر مونگ دلتی رہیگی ؟ کل کلاں برہان صاحب اپنے بچپنے سے نکل جائیں اور اس رشتے کو نبھانے سے انکار کردیں پھر ؟ میری بیٹی تو رل جائیگی ۔"

صباء بیگم کے خدشے بجا تھے ۔ آفاق صاحب اپنی بیوی کے خدشوں سے متفق نظر آ رہے تھے جبکہ برہان معاملہ تھوڑا بہت اپنے حق میں ہوتے دیکھ کر جلدی سے بولا ۔ "آپ لوگ ایک بار ان سے بات تو کر کے دیکھیں ۔ اور میں اس رشتے کو لے کر کتنا حساس ہوں یہ میں الفاظوں میں بتائوں گا تو آپ لوگ نہیں سمجھیں گے ۔ یہ بات آپ لوگوں کو وقت ہی سمجھائے گا ۔"

"اور اگر تمہاری دھمکیاں بھی بےاثر رہیں اور انجو نے انکار کردیا تو ؟" کب سے خاموش بیٹھی بینش بیگم نے ڈبڈبائی نظروں سے اپنے جوان ہوتے خوبرو بیٹے کو دیکھتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں پوچھا ۔ 

یہ عمر تو وہ ہوتی ہے جب انسان نئے نئے خواب سجاتا ہے ، ان کی تعبیر پانے کی جستجو کرتا ہے ۔ اس عمر میں ان کا اکلوتا بیٹا کیسا روگ لگا بیٹھا تھا ۔

"یہ صرف دھمکیاں نہیں ہیں ، میں ایسا کرونگا ماما !" برہان ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا ۔ اسے لگ رہا تھا کہ اگر بینش بیگم اس کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر انجم کو فورس کرینگی تو انجم مان جائیگی ۔ انجم بہت پیار کرتی تھی بینش بیگم سے ، اور بینش بیگم برہان سے ۔۔!

بینش بیگم نے برہان کی بےحسی پر دو تین گہری گہری سانسیں بھر کر اپنا رونے کی وجہ سے بگڑتا تنفس بحال کیا اور جھٹکے سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئیں ۔ ان کا رخ انجم کے کمرے کی طرف تھا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

نہ جانے بینش بیگم نے ایسا کیا کہا تھا جو انجم نکاح کے لیئے تیار ہوگئی تھی ۔ لوگوں کی باتیں ایک بار پھر زور و شور سے شروع ہوچکی تھیں ۔ اپنے اندازے درست ثابت ہونے پر کچھ لوگ بڑے خوش بھی نظر آ رہے تھے۔۔۔

نکاح کی سادہ سی کاروائی کے دوران انجم گویا روبوٹ بنی بیٹھی تھی ۔ مشینی انداز میں نکاح کی کاروائی مکمل کرلینے کے بعد انجم نے بدلحاظی سے سب کو کمرے سے نکل جانے کو کہا تھا ۔ اس کے کمرے میں ڈیرہ ڈالے ، اسی کی ذات پر باتیں بناتی خواتین گال پیٹتی ناک بھوں چڑھائے اس کے کمرے سے نکل گئیں ۔

جھکے کندھوں کے ساتھ بینش بیگم سب سے آخر میں کمرے سے نکل رہی تھیں جب انجم نے انہیں پکارا ۔ بینش بیگم رکی تھیں لیکن پلٹی نہیں تھیں ۔

"میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں پھپھو ، اور آپ نے میرے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ۔" انجم کی آواز رونے کی وجہ کپکپا رہی تھی ۔ اس کے ذہن سے وہ منظر نہیں ہٹ رہا تھا جب بینش بیگم اس سے منتیں کرتے کرتے اچانک اس کے قدموں میں بیٹھتی بولی تھیں ۔ "وہ میرا ایک ہی بیٹا ہے انجو ، وہ اپنی جان کا دشمن ہو رہا ہے ۔ اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں بھی مرجائوں گی انجو ، میرے کیئے "ہاں" کہہ دو ۔!"

بینش بیگم کی بات سے زیادہ وہ ان کے یوں پیر پکڑ لینے پر ہڑبڑا گئی تھی ۔ ایسا تو وہ مر کر بھی نہیں چاہتی تھی ۔ وہ تو مذاق میں کسی بچے کو بھی اپنے پیر چھونے نہیں دیتی تھی اور بینش بیگم نے۔۔۔۔۔۔

یہ انجم کے لیئے مرجانے کا مقام تھا ۔ اسے برہان سے اور نفرت محسوس ہوئی ۔ اپنی ضد میں اس نے اپنی ماں کو کتنا بےبس کردیا تھا !

"اس خودغرض انسان کی وجہ سے پھپھو آپ نے مجھے میری نظروں میں ہمیشہ کے لیئے گرا دیا ۔ سب لوگوں کے طعنے ایک طرف اور آپ کی وہ حرکت ایک طرف ۔ اس کے لیئے نہ میں کبھی آپ کو معاف کرونگی اور نہ ہی اس ذلیل انسان کو !" حلق میں آنسئوں کا گولہ پھنسے ہونے کی وجہ سے انجم بہت مشکل سے بول پا رہی تھی ۔

" نکاح میں نے کر لیا ہے کیونکہ بقول آپ کے ورنہ وہ مر ور جائیگا ۔۔! اب آپ اپنا وعدہ نبھائیں گی اور برہان کو اپنے ساتھ لےجائینگی ۔ میں دوبارہ اسے کبھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔" انجم کا لہجہ سخت گستاخ اور تلخ تھا ۔ بینش بیگم منہ سے کچھ بھی کہے بغیر ایک پھیکی سی مسکراہٹ انجم پر ڈال کر کمرے سے نکل گئیں ۔ ان کی مسکراہٹ میں اتنی بےبسی ، اتنی تکلیف تھی کہ انجم اپنا سینہ تھام کر زمین پر گرتی چلی گئی ۔

"آئی ایم سوری پھپھو ! آئی ایم ویری سوری۔۔۔۔ میں کیا کروں میں بھی بےبس ہوں ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔ لوگ میرے کردار پر باتیں بنا رہے ہیں پھپھو ۔ میں تماشہ بن کر رہ گئی ہوں ۔" ہچکیوں کے ساتھ روتے ہوئے وہ اپنی ہتھیلی سے پیشانی پیٹے جارہی تھی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

صرف ایک نکاح نہیں ہوا تھا ! برہان اور انجم کے ساتھ عریش اور علینہ کا نکاح بھی کردیا گیا تھا۔۔۔۔

جیسے ہی انجم نے نکاح کے لیئے ہاں کہا ، وہیں جنت بیگم نے شادی کی تیاری میں لگنے والے اپنے لاکھوں روپیوں کا رونا شروع کردیا ، تب ہر چیز سے بظاہر لاتعلق نظر آنے والے عدیل عالم نے اچانک ہی ایسی بات کہہ دی کہ بینش بیگم سمیت سب کو ہکا بکا کردیا ۔

"آپ لوگ بھی کافی خرچہ کرچکے ہیں ، یہ ساری تیاریاں دوبارہ کرنا بہت مشکل ہوگا آپ لوگوں کے لیئے ۔ اگر آپ لوگ مائنڈ نہ کریں تو میں اپنی چھوٹی بیٹی کا نام آپ لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ میں ہمیشہ سے اپنی بیٹیوں کی شادی پاکستان میں کرنا چاہتا تھا ۔ عالیہ کا نصیب وہیں تھا وہ وہاں بس گئی ہے لیکن علینہ کے لیئے میں پاکستان میں ہی کوئی اچھا گھرانہ ڈھونڈ رہا تھا ۔ عریش بہت اچھا بچہ ہے سلجھا ہوا ۔ مجھے بہت پسند آئی اس لڑکے کی نیچر ۔ اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو ؟"

"ارے بھائی صاحب ، مجھے تو علینہ بیٹی پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی ۔ یہ تو مجھے وہ نظر بہت دیر سے آئی جب میں عریش کی شادی کی تیاریوں میں الجھی تھی ، ورنہ میں خود آپ سے بات کرتی علینہ بیٹی کے لیئے ۔" جنت بیگم خوشی سے پھٹتی آواز میں بولیں ۔ ان کی تو گویا لوٹری نکل آئی تھی ۔

علینہ برطانوی نژاد ارب پتی باپ کی بیٹی تھی ۔ باپ کے پاس جو بھی کچھ تھا وہ دونوں بیٹیوں کو ہی ملنا تھا ۔ جنت بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا ناچنا شروع کردیں ۔ کہاں وہ لاکھوں کو رو رہی تھیں ، کہاں قدرت نے ارب پتی بہو بیٹھے بیٹھے نصیب میں لکھ دی تھی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

عریش ہاسپٹل کے بعد اپنے کچھ کاموں میں مصروف ہوگیا تھا ۔ جب تک وہ گھر لوٹا تھا ، گھر کے حالات نے پلٹا کھا لیا تھا ۔ اور اس خبر نے تو اسے دم بخود کردیا تھا کہ انجم برہان سے نکاح کے لیئے تیار ہوگئی ہے ۔ اس پر حیرت کا ایسا پہاڑ ٹوٹا تھا کہ اسے کچھ ہوش ہی نہ رہا جنت بیگم کیا کہہ رہی ہیں ۔ عریش نے بلکل غائب دماغی کی کی کیفیت میں نکاح کی کاروائی مکمل کی تھی اور ہوش میں وہ تب آیا جب عدیل عالم نے اسے نکاح کی مبارک باد دیتے ہوئے علینہ کا خیال رکھنے کی تلقین کی تھی ۔

"علینہ ؟ کون علینہ ؟ اوہ وہی جس سے میں نے نکاح کر لیا ہے ، لیک یہ ہے کون ؟ اچھا۔۔۔ بینش پھپھو کی سوتیلی بیٹی ؟ کیا میں نے اس سے نکاح کرلیا ہے ؟ لیکن کیوں اور کیسے ؟ میرے دل میں تو انجم بستی ہے ۔ بچپن سے۔۔۔۔ میں نے کیسے نکاح کر لیا ؟ انجم نے کیسے برہان سے نکاح کرلیا ؟ کیا انجم مجھ سے محبت نہیں کرتی تھی ؟ یہ سب کیا ہوگیا ؟ یہ سب تو نہیں ہونا تھا ۔" صوفے پر ساکت بیٹھا عریش دھندلائی نظروں سے مبارک سلامت کرتے لوگوں کو ٹکر ٹکر گھورتا اندر ہی اندر بڑبڑا رہا تھا ۔ وہ چیخنا چاہ رہا تھا لیکن اس کے بولنے کی صلاحیت جیسے گم ہوگئی تھی ۔ اپنی پیشانی سے نادیدہ پسینہ صاف کر کے عریش تقریباً دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں بھاگا تھا ۔ سب نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا تھا جبکہ عدیل عالم لب بھینچ کر رہ گئے تھے ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

کمرے کا دروازہ کھلنے پر علینہ ' جو بیڈ پ سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھی چونک کر دروازے کی طرف متوجہ ہوئی اور عدیل عالم کو اندر آتے دیکھ کر جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"ڈیڈ یہ سب کیا ہے؟ آپ اس طرح اچانک میری شادی کیسے کرسکتے ہیں ؟ میں کہاں سے آگئی اس سب میں ۔ یہ غلط ہے۔۔۔۔" علینہ اپنی ہی الجھن میں بولے چلی جا رہی تھی ۔ اپنی پریشانی میں وہ عدیل عالم کے سرد تاثرات نوٹ نہیں کرسکی تھی ۔ مسلسل بولتے ہوئے چپ علینہ کو تب لگی جب عدیل عالم کے زناٹے دار تھپڑ نے اسے زمین پر گرا دیا ۔

"ڈیڈ ؟؟؟" بےیقینی اتنی تھی کہ علینہ اس تھپڑ پر رو تک نہیں سکی ۔ بس حیرت زدہ نظروں سے گال پر ہات رکھے انہیں دیکھتی چلی گئی ۔

"تم کیا سمجھتی تھیں ؟ تم میرا منہ کالا کروگی اور مجھے خبر نہیں ہوگی ؟ منع کیا تھا میں نے تمہیں اس ذلیل لڑکے کے ساتھ گھومنے سے ! کیا تھا نا ؟ پھر میری بات سمجھ کیوں نہیں آئی تمہارے ؟ میں جو اس لڑکے کو ریجیکٹ کر رہا تھا تو صرف اسی وجہ سے کیونکہ مجھے پہلی ہی نظر میں اندازہ ہوگیا تھا وہ کس قماش کا لڑکا ہے ۔ میں نے "کلاس" کی بات کی تھی ، تمہیں یاد ہے ؟ اس سن آف بچ کو میں نے اس لیئے رجیکٹ نہیں کیا تھا کہ وہ کنگلا ہے ۔ کلاس بھی ایک چیز ہوتی ہے جو پیسے کی محتاج نہیں ہوتی ۔" عدیل عالم مٹھیاں بھینچے' بھینچی آواز میں دہاڑے ۔ ان کے غصے کا اظہار ان کی گردن اور پیشانی کی ابھری رگیں بخوبی کر رہی تھیں ۔

"ڈیڈ۔۔۔۔ ڈیڈ آئی ایم سوری ڈیڈ ! میں ولید سے محبت کرتی تھی ، اس سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا اس کے ارادوں کا ۔" شرمندگی کی وجہ سے علینہ ان کی طرف دیکھ تک نہیں پا رہی تھی ۔ وہیں زمین پر بیٹھی نظریں جھکائے روتے ہوئے اپنی صفائی دینے لگی ۔ اس کی اچانک شادی کروانے کے پیچھے یہ وجہ ہوگی ، علینہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔

"مجھے تو اندازہ تھا نا ۔ تب ہی میں تمہیں اس سے دور رہنے کو کہتا تھا بیوقوف لڑکی ۔" اشتعال کی کیفیت میں عدیل عالم نے ایک بار پھپڑ مارنے کی نیت سے ہاتھ اٹھایا لیکن پھر ضبط کر کے مٹھی بھینچتے بیڈ پر بیٹھ گئے۔ 

"تمہیں پتہ ہے نا مجھے میری ایگو کتنی عزیز ہے ؟ اپنی بیٹی کا نام یوں چھوٹے موٹے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے مجھے کتنی شرمندگی ہوئی تھی تم سوچ بھی سکتی ہو ؟ خیر۔۔۔۔ اپنی عزت بچانے کے لیئے میں نے اپنی ایگو ہرٹ کرلی ، کیونکہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ اب اگر تمہاری وجہ سے میری عزت پر ایک حرف بھی آیا تو میں برداشت نہیں کروں گا ۔ اپنے اور عریش کے رشتے کو تاعمر نبھائو اور میری عزت بچائو ، سمجھیں ؟ اگر تمہاری وجہ سے کوئی تماشہ ہوا تو یاد رکھنا علینہ ! میں تمہیں زندہ زمین میں گاڑ دوں گا ۔" علینہ کا جبڑا ایک ہاتھ سے جکڑ کر اس کا جھکا چہرہ اٹھائے عدیل عالم چبا چبا کر بولے تھے ۔

پھر اپنی بات مکمل کر کے علینہ کا چہرہ ایک جھٹکے سے چھوڑ کر وہ کمرے سے نکل گئے تھے جبکہ علینہ دونوں ہاتھ مضبوطی سے منہ پر جمائے اپنی آہوں کا گلہ گھونٹنے لگی ۔

ولید نے اس کے ساتھ جو بھی کیا تھا اس کی خبر صرف عالیہ کو تھی ، پھر عدیل عالم کو یہ سب کیسے پتہ چلا ؟ کیا عالیہ نے بتایا ہے ۔ یہ ضروری بات نہیں تھی ۔ اصل بات یہ تھی کہ اس کے جان لٹانے والے باپ کو اس بات کی خبر ہوچکی تھی اور اب وہ اس سے نفرت محسوس کر رہے تھے ۔ انہوں نے بلاشبہ پہلی بار علینہ سے اس لہجے میں بات کی تھی '  تھپڑ تو دور کی بات تھی ۔

چہرہ گھٹنوں میں چھپائے وہ روئے چلی جا رہی تھی ۔

"ماما آئی لو یو سو۔۔۔۔۔ مچ ! سو سو سو مچ ! آپ اس دنیا کی بیسٹ مدر ہیں ۔"  بینش بیگم کے گلے لگا وہ بلکل بچوں کی طرح خوش ہو رہا تھا جیسے کوئی بچہ اپنا من پسند کھلونا پانے پر خوش ہوتا ہے ۔

"اگر اس نے انجو کو بھی کھلونا ہی سمجھ لیا تو ؟ کھلونے ایک مخصوص عمر تک ہی دل لبھاتے ہیں ۔" بینش بیگم اس کی پشت تھپتھپاتے ہوئے گم صم سی سوچ رہی تھیں ۔

"اور ماما ، آئی ایم ویری سوری ۔ میں بہت ہارش ہوگیا تھا ۔ کتنی بدتمیزی کی آپ سے مگر میں کیا کرتا ، مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ' میرا خود پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔۔۔ اچھا آپ بتائیں نا آپ نے ایسا کیا کہا انجو سے کہ وہ فوراً مان گئیں ۔" بینش بیگم کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیئے ، برہان جگمگ ہوتی آنکھوں کے ساتھ پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھا ۔

جواب میں بینش بیگم کتنی ہی دیر تک کچھ بول نہیں سکی تھیں ۔ ان کی نظروں کے آگے وہ منظر فلم کی طرح چلے جا رہا تھا جب وہ انجم کے قدموں میں بیٹھ گئی تھیں ۔ بینش بیگم ذہنی اذیت کی انتہا پر تھیں اس وقت ۔ برہان نے خودکشی کی کوشش کر کے انہیں سخت خوفزدہ کردیا تھا ۔

انہیں اندازہ تھا اس لمحے انجم پر گزرنے والی قیامت کا ! قدموں میں انجم کے وہ بیٹھی تھیں ، لیکن اپنی نظروں میں خود انجم گر گئی تھی اس پل ۔

"ماما آپ چپ کیوں ہیں ؟ بتائیں نا کیا کہا تھا آپ نے انجم سے ؟" برہان جاننے کے لیئے بیقرار ہو رہا تھا ۔

"بس یہی وعدہ کیا کہ برہان خود کو تمہارے قابل ثابت کرے گا ۔ ایسا بن کر لوٹے گا کہ تم چاہ کر بھی اسے رجیکٹ نہیں کرسکو گی ۔" پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے بینش بیگم بیڈ سے اٹھنے لگیں جب برہان نے ان کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے انہیں واپس بیٹھنے پر مجبور کردیا ۔

"کیا مطلب ہے "ایسا بن کر لوٹے گا" سے ؟ کہاں سے لوٹوں گا میں ؟" برہان کے بگڑ کے پوچھنے پر بینش بیگم نے بےساختہ ہی ٹھنڈی سانس خارج کی ۔ ابھی ایک امتحان انہیں اور سر کرنا تھا۔۔!!

"برہان ! تم نے جو کچھ بھی کیا اس نے ہم سب کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ عدیل بھی تمہیں ساتھ' انگلینڈ لے چلنے پر راضی ہوگئے ہیں ۔ دیکھو وہاں تمہارے ترقی کرنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں ۔ تم جتنے جلدی جتنے زیادہ کامیاب ہونگے ، اتنی جلدی انجم کے مان جانے کے امکان ہیں ۔ فلحال وہ بہت غصے میں ہے ، اسے سنبھلنے کا کچھ وقت دو ۔ محبت میں اتنی دھونس دھمکی نہیں چلتی ! کچھ اسپیس دینا ہی پڑتا ہے ۔ ہر معاملے میں اپنی مرضی چلائوگے تو سب کے دل سے اتر جائوگے ۔۔! میں جانتی ہوں ، بلکہ پریقین ہوں کہ ابھی انجو غصے میں ہے لیکن تم سے نفرت نہیں کرتی ، میں بھی نہیں چاہتی وہ تم سے نفرت کرے ۔ مجھے تم دونوں عزیز ہو ، میں تم دونوں کو ہی خوش دیکھنا چاہتی ہوں کسی ایک کو نہیں ! پلیز باری۔۔۔۔  اب کوئی ضد مت کرنا ۔" بات کے اختتام پر بینش بیگم نے اپنے ہاتھ برہان کے ہاتھوں سے نکال کر برہان کے ہاتھ منتی انداز میں تھام لیئے تھے ۔

برہان چپ سا رہ گیا.۔۔۔ اس کے تاثرات سے ظاہر تھا وہ اندر ہی اندر کوئی جنگ لڑ رہا تھا ۔

"لیکن ماما۔۔۔۔ میں قریب رہ کر انہیں منانے کی کوشش کر سکتا ہوں ۔ اتنی دور جائوں گا تو کیسے منائوں گا ؟"

"کبھی کبھی دوری ہی ہمیں کسی کی اپنے دل میں اہمیت کا احساس دلاتی ہے ۔ جو چیز ہمارے پاس موجود ہو ، ہمیں اس کی کمی کیسے محسوس ہو سکتی ہے ؟" بینش بیگم نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے بولیں ۔ اس بار جواب میں برہان کچھ نہ کہہ سکا بس سر جھکائے غیر مرئی نقطے کو گھورنے لگا ۔

بینش بیگم نے تھوڑی دیر تک انتظار کیا کہ شاید برہان کچھ بولے ، لیکن جب برہان خاموش ہی رہا تب اس کی خاموشی اور گم صم تاثرات کو رضامندی سمجھتے ہوئے پرسکون سی ہو کر اس کی پیشانی چومتے ہوئے اس کے کمرے سے نکل گئیں ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

اسے اپنے جذبات کا اظہار لفظوں سے کرنا نہیں آتا تھا لیکن اس کا دل ہر وقت انجم کی باتیں کیا کرتا تھا ۔

ہاں وہ ہر وقت کتابوں میں گھسا رہتا تھا ، سب کی نظروں میں وہ کتابی کیڑا تھا ۔ مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ جو بھی کتاب پڑھ رہا ہوتا تھا ، اس کتاب میں کہیں انجم کی کھلکھلاتی ہوئی تصویر بھی موجود ہوا کرتی تھی ۔۔۔!

عریش کو لگتا تھا محبت کا اظہار اتنا ضروری نہیں تھا ۔ انجم اس کے دل میں بستی تھی اور ایک دن سب کی رضامندی سے اس کی زندگی میں بھی آجانے والی تھی ، سو عریش نے تمام اظہار صحیح وقت کے لیئے سنبھال رکھے تھے لیکن آج جب وہ صحیح وقت آتے آتے رہ گیا تھا تب عریش کو احساس ہو رہا تھا کہ ایک بار !

کم از کم ایک بار وہ انجم پر اپنے دل کا حال کھول دیتا تو یقیناً انجم برہان سے نکاح نہ کرلیتی ۔ آنکھ سے بہتے آنسئوں کو صاف کر کے عریش نے اپنے پاس رکھی انجم کی چوتھی اور آخری تصویر بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈسٹ بن میں پھینک دی تھی ۔

اس کام سے فارغ ہو کر عریش کارپٹ سے اٹھ کر ایک بار پھر صوفے پر جا بیٹھا ۔ سامنے ہی جہازی سائز بیڈ آدھے کمرے کو گھیرے ہوئے تھا ۔

کمرے کی سجاوٹ جوں کی توں تھی لیکن سارے پھول کچھ مرجھا سے گئے تھے ۔ کیوں نہ مرجھاتے ؟ جس کی آمد کی خوشی میں وہ کھلے جا رہے تھے وہ تو آئی ہی نہیں تھی ۔

خالی خالی نظروں سے بیڈ کو گھورتے ہوئے وہ بیڈ سے پھول وغیرہ ہٹانے کے لیئے اٹھا ہی تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر جنت بیگم اندر اندر داخل ہوئیں ۔ سر جھٹک کر عریش دروازے سے نظریں ہٹانے ہی والا تھا کہ جنت بیگم کے پیچھے چلی آتی علینہ کو دیکھ کر وہ شاک رہ گیا ۔ علینہ کے اپنے کمرے میں آنے سے زیادہ وہ علینہ کے حلیے پر شاکڈ تھا ۔

علینہ نے وہی عروسی لباس زیب تن رکھا تھا جو انجم کے لیئے لیا گیا تھا ۔ جسے انجم کل پہن بھی چکی تھی ۔

وہی تمام جویلری وغیرہ بھی پہن رکھی تھی ۔ البتہ برائڈل میک اپ نہیں کیا ہوا تھا ۔ گھر میں ہی شاید ہلکا پھلکا میک اپ کیا گیا تھا جبکہ شولڈر کٹ بال شانوں پر بکھرے تھے ۔

عریش اتنا حیرت زدہ تھا کہ فوری طور پر کچھ بول بھی نہیں سکا اور آنکھیں پھاڑے جنت بیگم سمیت اور بھی تین چار خواتین اور لڑکیوں کو ' علینہ کو احتیاط سے  اپنے بستر پہ بٹھاتے دیکھتا رہا ۔

ٹھیک ہے نکاح ہوگیا تھا لیکن یہ سب کچھ ' کچھ زیادہ ہی جلدی ہو رہا تھا ۔ اسے مینٹلی طور پر اس رشتے کو قبول کرنے کا وقت تک نہیں دیا گیا تھا ۔

"امی۔۔۔!" عریش کے حلق سے بمشکل آواز برامد ہوئی تھی ۔

جنت بیگم دیگر خواتین سے نظریں چراتے ہوئے عریش کے قریب ہوئیں اور بہت دھیمی آواز میں گویا ہوئیں ۔ "دیکھو عریش ، آج نہیں تو کل تمہیں اس رشتے کو قبول کرنا ہی ہے ' تو پھر آج کیوں نہیں ؟ علینہ بہت پیاری بچی ہے ۔ "گوری میموں" والا کوئی نخرہ نہیں ہے اس میں ۔ مجھے یقین ہے بہت جلد یہ تمہارا دل جیت لے گی ۔ تم جتنی جلدی اسے اپنائوگے اتنی جلدی اپنے "ماضی" کو بھلا پائوگے ۔"

"ماضی کو تب تو بھلایا جا سکتا ہے جب ماضی ذہن پر سوار ہو ۔ جو ماضی دل میں بسا ہو اسے کیسے بھلا سکتا ہے کوئی ؟ وہ بھی اتنی جلدی۔۔۔۔!!" عریش سوچ کر رہ گیا لیکن زبان سے کچھ نہیں بولا ۔ جنت بیگم عریش کا شانہ تھپک کر باقی خواتین کو ساتھ لیئے کمرے سے باہر چلی گئیں اور وہ ٹھنڈی سانس بھر کر صوفے کی طرف بڑھ گیا ۔

آمنے سامنے صوفے اور بیڈ پہ بیٹھے عریش اور علینہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے مکمل اجتناب برت رہے تھے ۔ عریش اپنی انگلیاں یوں چٹخا رہا تھا جیسے اس سے ضروری کام اس دنیا میں کوئی اور نہ ہو جبکہ علینہ بیڈ پر بکھری گلاب کی پتیوں کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو ۔

بہت دیر تک مہکے ہوئے سے کمرے میں گمبھیر قسم کی خاموشی چھائی رہی پھر عریش نے پیشانی سے نادیدہ پسینا صاف کر کے علینہ کی جانب نظریں اٹھائیں ، عین اسی وقت علینہ نے بھی اپنی لانبی پلکوں کے جھالر اٹھائے تھے ۔ نظروں سے نظریں ملیں اور پھر جھک گئیں ۔ عریش کو کچھ حیرت سی ہوئی ۔ برطانیہ میں پلی بڑھی لڑکی سے وہ اتنے مشرقی انداز کی توقع نہیں کر رہا تھا ۔

سر جھٹک کر عریش نے تمام سوچوں کوکچھ دیر کے لیئے پس پشت ڈال دیا اور مکمل طور پر علینہ کی طرف متوجہ ہوا ۔ اس بیچاری کا کیا قصور تھا ؟ اسے کب تک یوں انتظار میں بٹھائے رکھتا ؟

"تم ! کیا نام ہے تمہارا ؟ ایم سوری میرے ذہن سے نکل گیا ۔" عریش شاید اس صدی کا پہلا دلہا تھا جو اپنی دلہن کا نام بھولے بیٹھا تھا ۔

"علینہ۔۔۔ لیکن مجھے پیار سے عینا کہتے ہیں ۔" دوسری طرف علینہ بھی شاید خود کو کافی حد تک سنبھال چکی تھی ۔ لیکن خود کو پراعتماد ثابت کرنے کے چکر میں وہ کچھ اوور ہوگئی تھی ۔ بھلا عریش کو کیا کہ اسے پیار سے کیا کہتے ہیں ؟

عریش نے ایک پل کو علینہ کی طرف آنکھیں پھاڑ کر دیکھا ، پھر لبوں پر در آتی مسکراہٹ سمیٹتے ہوئے صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ "عینا ! تم جانتی ہو کہ ہماری شادی کن حالات میں ہوئی ہے ؟ قدرت نے ہمارا جوڑا بنا رکھا تھا ، ہمیں کیسے بھی کبھی بھی ملنا ہی تھا ، میں یہ مانتا ہوں لیکن میں مینٹلی طور پر بہت الجھا ہوا ہوں ۔ پلیز ڈونٹ مائنڈ ، مجھے وقت دو ۔ یقیناً تمہیں بھی کچھ وقت چاہیے ہوگا ؟ میری طرح تمہارے لیئے بھی یہ سب بلکل اچانک ہوگا ؟ سو۔۔۔۔۔ ؟؟"

"جی۔۔۔ میں سمجھ رہی ہوں ۔" علینہ کا دل تو عریش کی بھاری آواز میں "عینا" سن کر ہی بےہنگم انداز میں دھڑکنا شروع ہوگیا تھا ۔ وہ خود میں سمٹتی چور نظروں سے عریش کو دیکھتے ہوئے اتنا ہی کہہ سکی ۔

"اوکے تو اب تم چینج کر کے آرام سے سوجائو ۔ یہ بیگ شاید تمہارا ہی ہے ؟" جنت بیگم کے ساتھ آئی ایک لڑکی سیاہ رنگ کا بڑا سا بیگ بھی کمرے میں لائی تھی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عریش نے پوچھا تھا ۔ جواباً علینہ نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا اور چھن چھن کرتی بیڈ سے اتر گئی ۔

اب وہ اپنے بیگ سے نائٹ ڈریس نکال رہی تھی جبکہ عریش ایک بار پھر صوفے پر بیٹھتا آنکھوں پر بازو رکھ چکا تھا ۔ نہ جانے یونہی بیٹھے بیٹھے اسے کتنی دیر گزر چکی تھی کہ کچھ گرنے کی آواز پر وہ چونک کر سیدھا ہوا ۔ علینہ نے جلدی سے نیچے گرنے والا سامان سمیٹ کر واپس ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا جو اس کا ہاتھ لگنے سے گر گیا تھا ۔

اب وہ ایک بار پھر اپنے آدھے بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی جبکہ آدھے بالوں کی چھوٹی سی چوٹی ایک شانے پر موجود تھی ۔ اور عریش جو ایک ٹک علینہ کو دیکھے جا رہا تھا ، اسے مڑتے دیکھ کر یکدم ہوش میں آتا سٹپٹا کر چہرہ موڑ گیا تھا ۔

گھٹنوں سے ذرا نیچے آتی فراک نما گلابی نائٹی کافی نہیں تھی شاید جو علینہ نے اپنے کندھوں تک آتے بالوں کی بھی دو چھوٹی چھوٹی چوٹیاں بنالی تھیں ، پھر ساتھ ہی معصوم سے نقوش والا میک اپ سے پاک گلابی چہرہ۔۔۔۔ وہ بلکل بچی لگ رہی تھی عریش کو ۔

اپنے بالوں کی سوتے وقت عادتاً دو چوٹیاں بنانے کے بعد علینہ جب پلٹی تب عریش کو چہرہ دوسری طرف موڑے پایا ۔ انگلیاں چٹخاتے ہوئے علینہ بیڈ کی طرف بڑھتے بڑھتے رک گئی ۔ بیڈ پر پھول ہی پھول بکھرے تھے ، وہ سوتی کیسے ؟ اور صوفہ چھوٹا سا تھا ، عریش کے لمبے چوڑے وجود کے لیئے تو بہت ہی زیادہ چھوٹا ۔ ممکن تھا عریش اس سے صوفے پر سونے کی توقع کر رہا ہو ۔۔!

گومگو کی کیفیت میں جب علینہ ایک ہی جگہ جمی کھڑی رہی تب عریش کو دوبارہ اس کی طرف دیکھنا پڑا ۔ پھر علینہ کی نظروں کا رخ اور چہرے کی الجھن سمجھتے ہوئے وہ اٹھا اور بیڈ کی طرف بڑھ گیا ۔ پھر بیڈ سے تکیے کشنز اور کمبل اٹھا کر کارپٹ پر پھینکے اور چادر احتیاط سے سمیٹ کر کونے میں رکھے ڈسٹ بن میں جھاڑ دی ۔ پھر چادر واپس بچھانے لگا تو علینہ نے بھی دوسری طرف سے چادر سیٹ کرنی شروع کردی ، اس دوران عریش اس کے حلیے کی وجہ سے اس سے نظریں چراتا رہا ۔۔

پھر تکیے وغیرہ واپس سیٹ کرنے کے بعد الماری سے اپنے سادہ سے ٹرائوز اور شرٹ نکال کر عریش واشروم میں گھس گیا اور علینہ کمبل میں ۔

سختی سے آنکھیں میچے علینہ سونے کے جتن کر ہی رہی تھی کہ بیڈ پر عریش کو لیٹتا محسوس کر کے ٹھٹھک کر اس نے آنکھیں کھول لیں ۔ بیڈ کے بلکل آخری سرے پر عریش دوسری طرف کروٹ کیئے لیٹ گیا تھا ۔ علینہ اسے آنکھیں پھاڑے یوں دیکھے جارہی تھی جیسے عریش دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہو یا اس نے دنیا کا کوئی انوکھا ترین کام کر ڈالا ہو بیڈ پر لیٹ کے ۔

کافی دیر تک حیران رہنے کے بعد علینہ کے لب بےساختہ مسرا دیئے ، لیکن اپنی مسکراہٹ محسوس کرنے کے بعد علینہ کے نہ صرف ہونٹ سکڑ گئے تھے ، بلکہ آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں ۔

"کیا یہ سوکالڈ کہاوت سچ ہے کہ نکاح کے دو بولوں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے ، دلوں میں محبت پیدا ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ سچ ہی ہوگی ، تب ہی تو مجھے عریش سے اجنبیت محسوس نہیں ہو رہی ۔۔۔!! اگر ایسا ہی ہونا تھا ، میرے دل میں عریش کے لیئے یوں چند لمحوں میں جگہ بنانی تھی ، تو آخر کیوں پہلے میرا دل ولید کے لیئے مچل رہا تھا ؟ شاید اس کی پرسنالٹی اور باتوں کی وجہ سے۔۔۔۔ لیکن اب اس انکشاف کا کیا فائدہ ؟ میرا بہت بڑا نقصان ہو ہی چکا ہے ۔ میرا گندہ وجود عریش جیسے شخص کے قابل نہیں ہے ۔۔! اگر کبھی عریش کو یہ بات پتہ چل گئی تو عریش کیا کرینگے ؟؟؟ میرے اللہ میرا پردہ رکھیئے گا ۔" عریش کی پشت کو دھندلائی نظروں سے تکتے ہوئے علینہ کا دل مختلف خدشات اور خوف میں گھرا تھا ۔ دماغ سوچوں کی آماج گاہ بنا ہوا تھا ۔

دوسری طرف کروٹ کیئے عریش بھی اپنے دل میں بسے ماضی سمیت اپنے حال میں آنے والی اس تبدیلی کو لے کر الجھا ہوا تھا، نیند اس کی سیاہ گہری آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ برہان اور انجم کی طرح آج رات عریش اور علینہ پر بھی نیند کی دیوی کے مہربان ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے ۔

انجم ہنوز کمرے میں قید تھی اور جب تک مہمان گھر میں ٹھہرے تھے اس کا کمرے میں ہی قید رہنے کا ارادہ تھا ۔ دوسری طرف عریش اور علینہ کے رات ہونے والے ولیمے کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ برہان جو شادی کی تمام تقریبات میں اجنبیوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھے ہوئے تھا ' اس کی ولیمے کی تیاری میں پھرتیاں مثالی تھیں ۔ بہت بار برہان کا سامنا عریش سے بھی ہوا تھا لیکن عریش نے غلطی سے پڑ جانے والی پہلی نظر کے بعد دوبارہ برہان کی طرف نہیں دیکھا تھا ، اور عریش کی یہ بیگانگی برہان نے بہت زیادہ فیل کی تھی ۔

یہ سچ تھا کہ عریش اور برہان کے درمیان کبھی بھی بہت دوستی نہیں رہی تھی لیکن عریش نے کبھی اسے اس طرح اگنور بھی نہیں کیا تھا ۔ برہان نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ عریش کو بعد میں منائے گا ضرور لیکن پھر ولیمہ بھی گزر گیا ۔ عدیل عالم اور بینش بیگم اسے بلوانے کا وعدہ کرتے واپس برطانیہ چلے گئے اور دھیرے دھیرے باقی مہمانوں نے بھی اپنے گھروں کی راہ لے لی لیکن عریش نے برہان کو بات کرنے کا موقع تک نہیں دیا ! یہی کام انجم بھی کر رہی تھی ۔ مہمانوں کے جانے کے بعد وہ کام کاج کی غریض سے کمرے سے باہر نکلنے لگی تھی لیکن جیسے ہی نظریں برہان پر پڑتیں وہ پل بھر میں دوبارہ اپنے کمرے میں قید ہوجاتی ۔

یونہی چھپتے چھپاتے روٹھے روٹھے سے دن پر دن گزرتے ایک مہینہ ہوگیا ۔ برہان کو عدیل عالم کے اثر رسوخ کی وجہ سے جلد ہی برطانیہ کا بلاوہ آگیا اور اس خبر نے انجم کو اندر تک پرسکون کردیا ۔ اپنے ہی گھر میں چھپ چھپ کر رہتے ہوئے وہ تھک گئی تھی ۔

اگلی صبح برہان کو انگلینڈ کا سفر شروع کرنا تھا ۔ آج رات وہ ہر صورت عریش اور انجم سے بات کرنا چاہتا تھا ، لیکن وہ کیا بات کرتا کیسے شروع کرتا ؟ ان سوچوں میں گھرا برہان لائونج میں گم صم بیٹھا تھا جب کسی کی موجودگی محسوس کر کے چونک کر گردن موڑ کر دیکھنے لگا ۔ انجم بھی جو اپنی ہی جھونک میں سر درد کی وجہ سے کچن میں چائے بنانے جا رہی تھی برہان کو لائونج میں بیٹھے دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گئی اور پھر تیزی سے واپس کمرے کی طرف جانے لگی لیکن برہان پھرتی سے اٹھ کر اس کا ہاتھ تھام کر روک چکا تھا ۔ صرف ایک پل کے لیئے اس کی جرات پر انجم کی آنکھوں میں حیرت نظر آئی لیکن اگلے ہی پل اس نے دوسرے ہاتھ کا تھپڑ برہان کے چہرے پر رسید کردیا تھا ۔

برہان کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا نہ جانے غصے کی وجہ سے یا شرمندگی کی وجہ سے ، لیکن وہ گہری سانس بھر کر ضبط کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں گویا ہوا تھا ۔ "میں کل جا رہا ہوں انجو ! پتہ نہیں کب تک واپسی ہو ۔"

"میری خواہش ہے تمہاری واپسی کبھی نہ ہو ۔" انجم دانت پر دانت جمائے سرد انداز میں گویا ہوئی ۔

"پہلے کچھ آپ کی خواہش کے مطابق ہوا ہے جو اب ہوگا ؟" برہان زیادہ دیر تک اپنی نیچر پر کنٹرول نہیں کر سکا اور تپانے والی مسکراہٹ لبوں پر سجا کے بولا ۔

"تم کبھی نہیں بدل سکتے ۔ پھپھو کی وجہ سے میں تمہارے ضدیں اور بدتمیزیاں برداشت کرتی رہتی تھی ۔ اب سوچتی ہوں تھپڑ لگانے چاہیے تھے مجھے تمہیں ۔" غصے کی زیادتی سے ہولے ہولے لرزتے ہوئےانجم کا بس نہیں چل رہا تھا جادو کی کوئی چھڑی گھمائے اور وقت واپس پیچھے موڑ دے جب بینش بیگم برہان کو اس کے حوالے کر کے گئی تھیں اور وہ ننھے سے برہان پر محبتیں نچھاور کرنے کی جگہ ظلم کے پہاڑ توڑ کر برہان کے دل میں اپنے لیئے نفرت بھردے ۔۔۔!

"مجھے تھپڑ لگانے سے آپ میرے معصوم دل میں اپنا خوف تو بٹھا سکتی تھیں لیکن نفرت نہیں۔۔ محبت تو مجھے آپ سے ہونی ہی تھی پھر چاہے۔۔۔۔۔۔"

"میرا ہاتھ چھوڑو برہان !"  برہان کی فضول باتوں سے عاجز آتی انجم تڑخ کر اس کے بات کاٹتے ہوئے بولی ۔

"پہلے یہ بتائیں آپ مجھے مس کرینگی ؟"

"میں شکرانے کے نفل ادا کرونگی !"

"میری زوجیت میں آنے کی خوشی میں ؟"

"بہت ہی گھٹیا ہو تم !"

"آپ کا ہی ہوں ، ایسا اچھا نہیں لگتا تو اپنی مرضی کا بنادیں ۔" برہان کے برجستہ معنی خیز جملوں اور مضبوط گرفت نے انجم کو ایک بات اچھی طرح سمجھا دی تھی کہ سولہ سال کا لڑکا واقعی بچہ نہیں ہوتا ! اس نے واقعی بڑی غلطی کی تھی برہان کو بچہ سمجھ کر ۔

برہان کے مضبوط ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے انجم کا چہرہ ٹھنڈے موسم میں بھی پسینے سے تر ہوگیا تھا جبکہ آنکھوں میں اپنے مان سمیت بہت کچھ ٹوٹ جانے کا غم نمی بن کر چمکنے لگا تھا ۔

برہان نے انجم کی بڑی بڑی غلافی آنکھوں میں آنسو جھلملاتے دیکھے تو نادم ہوتے ہوئے انجم کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔ انجم ہاتھ چھوڑ دینے پر بغیر اس کی طرف دیکھے اپنے کمرے میں جانے لگی جب برہان کی پکار پر غیر ارادی طور پر رک گئی لیکن پلٹی نہیں ۔

"پلیز انجم میرے خطوط کا جواب ضرور دیجیئے گا ۔ مجھے پتہ ہے آپ کو خط لکھنا اور پڑھنا بہت پسند ہے ، میں آپ کو خط بھیجا کرونگا اور۔۔۔۔۔۔"

"برہان پلیز جائو !!! احسان کرو میری ذات پر اور کبھی واپس نہ آنے کے لیئے جائو ! بلکہ میری طرف سے مر جائو ۔۔! تم نے مجھے دنیا فیس کرنے کے قابل نہیں چھوڑا ، میں تمہیں اپنا سب سے اچھا دوست سمجھتی تھی لیکن تم میرے دشمن نکلے ۔ مجھے زندگی میں کبھی کسی سے اتنی زیادہ نفرت محسوس نہیں ہوئی جتنی تم سے ۔ کبھی واپس مت آنا ۔۔!" انجم کے الفاظ زہریلے تھے لیکن الفاظوں سے زیادہ زہر اس کے لہجے میں تھا ، اور لہجے سے بھی زیادہ زہر انجم کی اس ایک نظر میں تھا جو وہ برہان پر ڈالتی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔

برہان ساکن کھڑا انجم کے کمرے کے بند دروازے کو تکتا رہ گیا ۔ اس وقت برہان کو یوں لگا تھا کہ اس نے اپنی انجو کو پایا نہیں ہے ، بلکہ کھو دیا ہے ۔۔! شاید ہمیشہ کے لیئے۔۔۔۔

برہان کی ایک اور رات پھر آنکھوں میں کٹی تھی ۔ گھر کے در و دیوار سے جڑی اپنی اور انجو کی یادوں کو وہ رات کے سناٹے میں چلتے پھرتے ، ہنستے کھلکھلاتے دیکھتا رہا ۔۔ یہاں تک کہ اس کے جانے کی گھڑی آگئی ۔ آفس کے لیئے نکلتے عریش نے بس ایک اچٹتی نظر بیگ تھامے کھڑے برہان پر ڈالی پھر بغیر کچھ کہے آگے بڑھ گیا ۔ عریش کی اس اچٹتی نظر میں اتنی اجنبیت تھی کہ برہان اس سے گلے ملنے کی خواہش دل میں ہی دبا گیا ۔ ٹیکسی میں بیٹھنے تک برہان کی آس قائم رہی کہ شاید ابھی انجم اسے الوداع کہنے آجائے لیکن انجم کو نہ آنا تھا ، نہ وہ آئی ۔

بھرائی نظریں اور بھاری دل لیئے وہ اپنی سیٹ پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔ ڈرائیور کے پہلو میں بیٹھے آفاق صاحب اور برہان کے برابر میں جگہ سنبھالے اشفاق صاحب نے افسوس بھری نظریں برہان پر ڈال کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور افسوس سے سر ہلا کر رہ گئے ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

قے کر کر کے وہ بےحال ہوگئی تھی ۔ منہ ٹاول سے صاف کر کے جب وہ نڈھال سی واشروم سے باہر آئی تو جنت بیگم کو کمرے میں اِدھر اُدھر چکراتے پایا ۔ علینہ کو واشروم سے باہر آتے دیکھ کر وہ تیزی سے علینہ کی طرف بڑھیں اور اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر چٹا چٹ چوم ڈالا ۔ علینہ ہڑبڑا کر رہ گئی  تھی لیکن کچھ بول نہیں سکی تھی ۔

"میں بہت دنوں سے تمہاری طبیعت نوٹ کر رہی ہوں علینہ ! میرا تجربہ کہتا ہے کوئی خوشی کی بات ہے ۔ چلو بیٹا چل کر ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں ایک بار ، کنفرم کر لیتے ہیں ۔"

"کک کیا ؟ کیا کنفرم کرلیتے ہیں ؟" علینہ کا رنگ اڑ گیا تھا جنت بیگم کی بات سن کر ۔ اپنے اندر آنے والی تبدیلی کا احساس اسے بھی ہو رہا تھا ۔

"یہی کہ شاید تم ماں بننے والی ہو ۔" جنت بیگم نے اس کی تھوڑی چھو کر پیار سے کہا پھر ڈاکٹر کے پاس چلنے کا کہتی کمرے سے باہر نکل گئیں ۔ ان کے انداز میں بڑی ترنگ تھی جبکہ علینہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے خوفزدہ سی دیوار سے پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی ۔ جس بات کا اسے خوف تھا وہی ہوئی آخر۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

صباء بیگم اور انجم لائونج میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں جب خوشی سے تقریباً اچھلتے ہوئے جنت بیگم اندر داخل ہوئیں اور باری باری صباء بیگم اور انجم کو بھینچ کر گلے لگا لیا ۔ ان کے ہر ہر انداز سے ان کی بےپناہ خوشی جھلک رہی تھی جبکہ مرے مرے قدموں سے اندر داخل ہوتی علینہ کے چہرے پر زمانوں کی تھکن تھی ۔

"کیا بات ہے جنت بھابی ؟ بڑی خوش نظر آرہی ہیں ! کہاں گئی تھیں علینہ کو لے کر ؟" صباء بیگم نے مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر پوچھا ۔

"مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی مل گئی ہے صباء ! اپنی انجم پھپھو بننے والی ہے ۔" جنت بیگم نے خاموش کھڑی انجم کو بےوجہ گھسیٹنا ضروری سمجھا ۔ انجم اس خوشی کے موقعے پر بھی ان کے فطری آگ لگاتے انداز پر افسوس سے سر ہلا کر رہ گئی ۔

ہاں وہ اپنی زندگی کی الجھنوں کی وجہ سے ہنسنا بولنا گھلنا ملنا چھوڑ چکی تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے دل میں عریش کے لیئے کوئی خاص جذبہ یا علینہ کے لیئے کوئی جیلسی تھی ۔

سالوں چلنے والی منگنی کی وجہ سے جو تھوڑے بہت جذبات عریش کے لیئے دل میں پنپ رہے تھے وہ اس ایک مہینے میں دم توڑ چکے تھے ۔

"اچھا ؟ ارے واہ ، بہت مبارک ہو آپ کو بھابھی ۔ تمہیں بھی بہت مبارک ہو علینہ بیٹا ۔" چہرے پر جبری مسکراہٹ سجائے صباء بیگم نے مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑی علینہ کے سر پر ہاتھ پھیرا پھر چائے لانے کا بہانہ کرتی پیر پٹختے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔

گہری سانس بھر کر انجم ' جنت بیگم کی مذاق اڑاتی نظروں کو اگنور کرتے ہوئے علینہ کی طرف بڑھ گئی ۔ "بہت مبارک ہو علینہ ! اب تمہیں اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہے ، اوکے ؟"

انجم کے نرمی سے سر سہلانے پر علینہ کا دل بھر آیا ، علینہ کا دل شدت سے چاہا کہ انجم کے گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردے لیکن علینہ ایسا صرف سوچ ہی سکتی تھی ۔ پھیکا سا مسکراتے ہوئے وہ جنت بیگم کے کہنے پر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تب انجم نے بھی جنت بیگم کی بےوجہ طنز کرتی نظروں سے بیزار ہو کر اپنے کمرے میں جانے میں ہی عافیت جانی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

عریش پھٹی پھٹی نظروں سے جنت بیگم کو دیکھے جا رہا تھا جو خوشی خوشی اسے علینہ کی پریگننسی کی خوش خبری سنا رہی تھیں ۔ اپنی خوشی میں وہ عریش کے چہرے کے تاثرات پر دھیان نہیں دے سکی تھیں ۔

"سچ کہوں تو مجھے تیری طرف سے اتنی جلدی خوش خبری ملنے کی امید نہیں تھی ، لیکن اللہ نے میری دعائیں قبول کر ہی لیں ۔ اللہ تم دونوں کی جوڑی سلامت رکھے آمین ۔ ہائے ایسی گدگدی ہو رہی ہے مجھے یہ سوچ سوچ کر ، میں دادی بننے والی ہوں ۔ ہاہاہاہاہا ہائے۔۔۔۔ بھئی اب صحیح والی بوڑھی ہوگئی ہوں میں ۔" عریش کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے جنت بیگم اس پر اپنی فیلنگز آشکار کر رہی تھیں یہ جانے بغیر کہ وہ کچھ سن بھی رہا ہے یا نہیں ۔

بہت دیر تک خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھے رہنے کے بعد اچانک ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا تو جنت بیگم نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا اور پریشانی سے پوچھنے لگیں ۔ "کیا ہوا ؟"

"میں۔۔۔ علینہ سے مل آئوں ؟" بامشکل اپنا سخت لہجہ نارمل کر کے کہتے ہوئے وہ جنت بیگم کے جواب کا انتظار کیئے بغیر ان کے کمرے سے نکل گیا ۔

زمین پر دھمک پیدا کرتا وہ غصے میں مٹھیاں بھینچے کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ لاک کر کے روتے روتے سوجانے والی علینہ کو جھنجوڑ کر جگایا ۔

عریش کا انداز اتنا وحشیانہ تھا کہ علینہ کو لگا جیسے زلزلہ آگیا ہو ۔ گھبرا کر اٹھنے کے بعد علینہ سہمی نظروں سے عریش کی طرف دیکھنے لگی جو کہیں سے بھی وہ نرم خو کیئرنگ سا عریش نہیں لگ رہا تھا ۔

غصے سے ابھرتی رگیں ، سرخ چہرہ ، کسے ہوئے جبڑے ۔ علینہ کو یوں لگا جیسے آج اس کی زندگی کا آخری دن ہو ۔

"پانچ منٹ ہیں تمہارے پاس ! ایک لفظ جھوٹ نہیں ، سچ سچ بتائو یہ امی کیا کہہ رہی تھیں ؟ کس کا گند میرے سر تھوپ رہی ہو ؟ جلدی پھوٹو !" عریش کا انداز اتنا قطعی تھا کہ علینہ ایک سینکڈ کو بھی رکے بغیر اپنی تمام کہانی اس کے گوش گزار کر گئی ۔

"ولید۔۔۔ ولید اور میں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔ میں ولید سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن ڈیڈ نے اسے رجیکٹ کر دیا تھا ۔ پھر جب ہم پاکستان آ رہے تھے اس سے ایک رات پہلے اس نے مجھے ملنے کے لیئے بلایا اور۔۔۔۔ میرا یقین کیجیئے عریش میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں ، پلیز مجھے اس طرح مت دیکھیں میں اپنی نظروں میں گر جائونگی ۔ میرا کوئی قصور نہیں ہے میرا یقین کیجیئے پلیز ۔" غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے بولتے ہوئے جیسے ہی علینہ نے بھیگی نظریں اٹھا کر عریش کو دیکھا ، تب عریش کے چہرے کے نفرت انگیز تاثرات پر وہ منتی انداز میں سسکتے ہوئے بولی ۔ وہ ان آنکھوں میں اپنے لیئے نفرت برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔

عریش کچھ پل اس کی منت سماجت خونخوار نظروں سے دیکھتا رہا پھر خود کو بہت روکنے کے باوجود بھی اس کا ہاتھ خلا میں اٹھتا علینہ کے گال پر اپنا نشان چھوڑ گیا ۔ علینہ ایک جھٹکے سے بیڈ پر اوندھے منہ گری تھی ، یہ تھپڑ بلاشبہ عدیل عالم کے تھپڑ سے زیادہ بھاری تھا ' کیونکہ یہ تھپڑ علینہ کے دل پر بھی پڑا تھا ۔

"جب رنگ رلیاں مناسکتی ہو تو شادی بھی کرلینی تھی اس ذلیل شخص سے ۔ میرے سر پہ مصیبت کی طرح کیوں نازل ہوئی ہو ؟ مجھے آخر کس چیز کی سزا دی ہے ؟ اپنے باپ کو بتاتیں کہ کس حد تک پہنچ گئی ہو تم ، کروا دیتے وہ تمہاری شادی اس کمینے سے ۔" عریش کو اندازہ نہیں تھا کہ عدیل عالم سب جان چکے ہیں تب ہی بولا تھا ۔ علینہ نے بھی اس کی غلط فہمی دور کرنی ضروری نہیں سمجھی ورنہ یہ اور شرمندگی والی بات ہوتی کہ عدیل عالم نے سب جان کر بھی ایک سادہ سے لڑکے کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ۔

"دیکھو علینہ ابھی بھی کچھ بگڑا نہیں ہے ۔ پلیز میرا ضبط مت آزمائو میرا ظرف اتنا بڑا نہیں ہے ۔ اپنے باپ کو سب کچھ بتائو ، طلاق لو اور چلی جائو میری زندگی سے ۔" بھینچی آواز میں کہتے کہتے آخر میں عریش کی آواز بہت اونچی ہوگئی ۔

علینہ تیز سے اٹھی اور عریش کے منہ پر اپنا چھوٹا سا ہاتھ دھر دیا ۔ "پلیز عریش کوئی سن لے گا ۔ پلیز مجھے رسوا مت کریں ، آپ تو میرا لباس ہیں نا ؟ میری کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرنے والے۔۔۔۔۔۔"

"تو تم مانتی ہو کہ کوتاہی تم سے ہوئی تھی ؟" علینہ اور بھی کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن عریش اس کا ہاتھ جھٹک کر حلق کے بل چیخا تھا ۔ علینہ کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہوگیا ۔ علینہ اس وقت ہاتھ پیر چھوڑ اونچی آواز میں رونا چاہ رہی تھی لیکن یہ رونے یا سکتے میں جانے کا وقت نہیں تھا ۔ اسے عدیل عالم کی عزت اور اپنا اور عریش کا رشتہ بچانا تھا ہر صورت !

"عریش میں کبھی آپ سے کسی چیز کا شکوہ نہیں کرونگی ، کبھی کچھ نہیں مانگوں گی ۔ جس حال میں رکھیں گے رہوں گی ۔ پلیز مجھ سے اپنا نام مت چھینیں ، مجھے رسوا مت کریں پلیز عریش۔۔۔! پلیز۔۔۔۔۔۔" علینہ نے پہلے اپنے ہاتھ عریش کے سامنے جوڑے پھر اپنی پیشانی اپنے بندھے ہاتھوں پر ٹکائی اور عریش کے قدموں میں بیٹھتی چلی گئی ۔ اس کی ٹانگوں میں ہمت نہیں رہی تھی اس کا بوجھ سہارنے کی ۔

" مجھے میری حدود پتہ ہیں عریش، میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں ولید کی باتوں میں آگئی اور اس پر اعتبار کرنے لگی ۔ میں بدکردار نہیں ہوں ۔"

"بدکردار نہیں ہو تو کسی نامحرم کے بلانے پر رات کو اس سے ملنے کیسے جا سکتی ہو تم ایڈیٹ ! اٹھارہ سال کی لڑکی ہو تم کوئی نادان بچی تو ہو نہیں ۔ ہاتھ مت لگائو مجھے ۔" علینہ نے زمین پر بیٹھے بیٹھے بےاختیاری میں عریش کا ہاتھ تھام لیا تھا جسے عریش نے فوراً جھٹک دیا تھا ۔ عریش کا انداز کراہت آمیز تھا ۔

"کل بات کرو اپنے باپ سے ، بتائو اسے اپنی کارستانی اور دفعہ ہوجائو میری زندگی سے ۔"  یہ سچ عریش کی برداشت سے باہر تھا ۔ علینہ بہت معصوم لگی تھی عریش کو ۔ پتہ نہیں محبت ہوئی تھی یا نہیں لیکن علینہ کی سنگت اسے اچھی لگنے لگی تھی ۔ جلد ہی وہ علینہ کو اس کے تمام حقوق دینے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن۔۔۔۔

"نہیں میں کہیں نہیں جائونگی ۔ میری پرورش آپ کی پھپھو نے کی ہے ، مجھے معلوم ہے ہمارے رشتے کی اہمیت ! آپ کے بغیر زمانہ مجھ پر تھوکے گا ، میرے ڈیڈ میری جان لے لینگے ، پلیز عریش مجھ سے اپنا نام مت چھینیں ۔ آپ کو مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی پرامس ! پلیز عریش پلیز۔۔۔"

"تو تم یہ چاہتی ہو کہ میں اپنا نام تمہارے نام سے الگ نہ کروں اور تمہارے اس گناہ کو بھی اپنے سر لے کر اپنے نام سے معتبر کردوں ؟" عریش کا انداز استہزایہ تھا لیکن آنکھوں میں جیسے مرچیں بھر گئی تھیں ۔

اس طنزیہ سوال پر علینہ کچھ بول نہیں سکی بس برستی ہوئی التجائیا نظروں سے عریش کو دیکھتی رہی ۔

پھر کافی دیر تک کمرے میں سوائے گھڑی کی ٹک ٹک کے اور کوئی آواز نہیں گونجی ۔ بہت دیر تک سر ہاتھوں میں گرائے رہنے کے بعد عریش نے سر اٹھا کر ناگوار نظروں سے علینہ کو دیکھا جو ہنوز زمین پر بیٹھی بےآواز آنسو بہا رہی تھی پھر بیڈ سے اٹھ کر ایک طویل سانس کے زریعے اپنے اندر کی کچھ گھٹن نکالتے ہوئے سرد لہجے میں گویا ہوا ۔ "تم مجھ سے جو چاہتی ہو علینہ وہ میرے ظرف سے بہت زیادہ ہے ۔ میں خود کو رحم دل نہیں بلکہ بےغیرت محسوس کرونگا ایسا کرتے ہوئے ، لیکن میں ایسا کروں گا اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کے لیئے ! مگر خبردار جو کبھی میرے رویئے کو لے کر تمہاری زبان سے کوئی حرف شکایت نکلا ! سمجھیں ؟" دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں مضبوطی سے بھینچے عریش اپنی خون چھلکاتی آنکھیں علینہ کی نم نظروں میں گاڑ کر پوچھنے لگا ۔ علینہ نے مرے مرے انداز میں سر ہاں میں ہلا دیا ۔ عریش کی آنکھوں سے چھلکتی نفرت اور لہجے کی کراہت علینہ کو بتا رہی تھی کہ آگے کی زندگی بہت مشکل ہونے والی تھی ۔

برہان کو برطانیہ گئے چار مہینے گزر چکے تھے ، ان چار مہینوں میں اس نے انجم کو پانچ سے چھہ خط بھیج دیے تھے ۔ جن کو انجم نے نہ پڑھا تھا نہ پھینکا تھا بس لفافے میں ہی بند دراز میں ڈال لیا تھا ۔

برہان کو بھی اندازہ تھا شاید کہ انجم اس کے خط نہیں پڑھنے والی جب ہی اپنا احساس دلاتے رہنے کے لیئے برہان نے واٹس ایپ پر انجم کو اپنے پورے کالج اور کالج بننے والے دوستوں سے لے کر لندن کے اس ہر راستے کی تصویریں بھیج دی تھیں جہاں اس کا کچھ دیر رکنا ہوتا ۔

اور عدیل عالم کے پورے گھر سے لے کر گھر میں کام کرنے والی تینوں میڈز کی بھی تصاویر بھیج دی تھیں ۔ کالج کا دن بور گزرتا تو اسے میسج کر کے بتا دیتا "بیکار دن انجو ! آپ ساتھ ہوتیں تو ہم کرکٹ کھیلتے ۔" کوئی گورا ' پاکستانی ہونے کی وجہ سے اس پر ٹیڑھی آنکھ ڈالتا تو اپنے محب وطن احساسات اسے لکھ بھیجتا ۔

انجم کو ڈھیروں تصاویر اور ویڈیوز کی وجہ سے یوں لگنے لگا جیسے وہ بھی لندن میں ہی موجود ہو ۔

ہاں انجم برہان کی بھیجی تصاویر دیکھتی تھی ، اس کے میسجز بھی پڑھتی تھی لیکن کبھی جواب نہیں دیا تھا ۔ بہت بار انجم کا دل چاہا برہان کو بلاک کر دے لیکن چڑچڑاہٹ کا شکار ہوتی وہ فون آف کر کے سائڈ رکھ دیتی لیکن بلاک نہیں کرتی ۔ بہت چاہنے کے باوجود بھی وہ ایسا کر نہیں پا رہی تھی اور یہ چیز انجم کو پریشان کر رہی تھی ۔ وہ کیوں اپنا دل سخت نہیں کر پا رہی تھی برہان کے لیئے ؟ جب اس کا نمبر تک بلاک کرنا اس کے اختیار میں نہیں تھا تو وہ اسے اپنی زندگی سے بےدخل کیسے کر سکتی تھی ؟؟؟

"اف برہان ! تم نے مجھے کس امتحان میں ڈال دیا ہے ؟ میں تم سے نفرت نہیں کر پا رہی لیکن۔۔۔۔ لیکن اس رشتے کو قبول کرنا بھی میرے لیئے بلکل ناممکن ہے ۔" غصے میں موبائل آف کر کے سائڈ رکھنے کے بعد انجم دل ہی دل میں ایک بار پھر برہان سے شکوے شکائتیں کر رہی تھی جب کمرے کے دروازے کو دھاڑ سے کھول کر بڑبڑاتی ہوئی صباء بیگم اندر داخل ہوئیں ۔ انجم لیٹے سے بیٹھ گئی اور صبا بیگم کو بھی بیٹھنے کی آفر کی ۔ "بیٹھیں امی۔۔۔ کیا ہوا ؟"

"ارے بس کردو بی بی ، بیٹھیں امی کیا ہوا۔۔۔ ہنہہ ۔۔!!  بڑی ہی کوئی فرمانبردار بیٹی ہو میری جیسے ۔" غصے میں کہتے ہوئے صباء بیگم اس کی دی گئی جگہ پر بیٹھ بھی گئیں پھر چند لمحوں تک خاموش رہ کر اپنا غصہ کچھ ٹھنڈا کرتے ہوئے گویا ہوئیں ۔ "وہ لڑکی کوئی انوکھا کام کر رہی ہے بچہ پیدا کر کے جو بھابی کی اکڑ ہی کم نہیں ہو رہی ۔ اوپر سے مجھے ایسے دیکھتی ہیں ، ایسے جملے کستی ہیں کہ۔۔۔۔۔"

"ارے امی تائی امی کی تو عادت ہے ۔" انجم صباء بیگم کی بات کے درمیان ہلکے پھلکے انداز میں بولی ۔

"ان کی عادت ہے بولنے کی لیکن میری عادت نہیں ہے چپ کر کے سننے کی ۔ تمہاری وجہ سے مجھے یہ کرنا پڑتا ہے ۔ کتنا روک رہی تھی میں کہ نہ کرو اس چھٹکے میاں سے شادی ، نہ کرو ! نہ کرو ! لیکن نہیں ۔۔! پھپھو جان نے کہہ دیا بس اب تو ہر صورت یہ کام کرنا ہے ماں اور ماں کی منتیں جائیں بھاڑ میں ۔ انگریزوں میں دفعہ ہوگیا ہے وہ ، وہاں کا ماحول کتنا بیہودہ ہے کچھ اندازہ ہے ؟ آتے ہوئے اگر کسی گوری کو ساتھ ٹنگا لایا پھر ؟ یا وہاں کے کھلے ڈلے ماحول نے اگر اس کے دماغ میں گندگی بھردی پھر ؟ خیر گندگی تو ویسے ہی بہت بھری ہے۔۔۔! دیکھ انجو ، اپنی پھپھو کو سمجھا کہ وہ اس لڑکے پر زور زبردستی کر کے تجھے طلاق دلوادیں ۔ صحیح وقت میں تیری شادی کردوں بیٹا میں پھر سکون سے مر سکونگی ۔ میری سانس سینے میں اٹکی رہتی ہے وہ لڑکا کیا بن کر لوٹے ؟ کب لوٹے ؟ کیا اس کے دل میں تیری نام نہاد محبت تب بھی ایسے ہی قائم رہے گی ؟ اگر واپس آ کر اسے اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوا اور اس نے تجھے چھوڑنے کی بات کردی پھر ؟ تیری ساری جوانی کیا صرف اس لڑکے کے انتظار میں گزر جائیگی ؟ انتظار بھی ایسا جس کا ثمر ملنے کا کوئی پکا یقین بھی نہیں ہے ۔" یہ باتیں نئی نہیں تھیں ۔ صباء بیگم تقریباً ہر دس پندرہ دن بعد مختلف الفاظوں میں یہی باتیں کیا کرتی تھیں اور انجم چپ چاپ سنتی رہتی تھی اور اندر ہی اندر آنسو جمع کرتی رہتی تھی ۔ پھر تنہائی میسر ہونے پر جمع شدہ آنسو بہا لیا کرتی تھی ۔ اس وقت بھی وہ بظاہر سپاٹ چہرہ اور خشک آنکھیں لیئے بیٹھی صباء بیگم کی باتیں سن رہی تھی لیکن دل اس کا خون کے آنسو رو رہا تھا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

"عریش میں دیکھ رہی ہوں تم آدھی رات تک باہر بیٹھے آفس کے کام میں لگے رہتے ہو ۔ سارا دن ویسے ہی تمہارا آفس میں گزرتا ہے ۔ اس بچی کو بلکل وقت نہیں دے رہے ہو جو تمہاری نسل کو پروان چڑھانے کے لیئے اتنی تکلیفیں جھیل رہی ہے ۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے ایسے وقت میں عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ کی کتنی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک تو وہ اتنی کم عمر ، اوپر سے پہلی بار کی پریگننسی ۔ ڈاکٹر نے بہت احتیاط کرنے کو کہا ہے ۔ سن رہا ہے تو ؟؟ کیا لیپ ٹاپ کو غصے سے گھورے جا رہا ہے ؟ ایسا کیا کہہ دیا میں نے جو دانت کچکچا رہا ہے ہیں ؟" عریش کے اندر اٹھتے طوفان سے انجان جنت بیگم اس کے سر پر چپت رسید کر کے اسے ڈپٹ رہی تھیں ۔

عریش نے بالوں میں تیز تیز انگلیاں چلا کر اپنے اندر اٹھتی اشتعال کی لہروں کو کنٹرول کیا پھر جبراً مسکراتے ہوئے بولا ۔ "امی میں سوچ رہا ہوں کیا آپ تب بھی اپنی بہو کی پریگننسی کو لے کر اتنی ہی حساس ہو رہی ہوتیں اگر وہ کوئی رئیس زادی نہ ہوتی ، ایک عام سے گھرانے کی لڑکی ہوتی ؟"

جنت بیگم بیٹے کے منہ سے ایسا کڑوا سا سچ سن کر تلملا کر رہ گئیں پھر بات اسی پر الٹتے ہوئے بولیں ۔ "میں خوب سمجھ رہی ہوں تمہاری بات کا مقصد کیا ہے ؟ دیکھو عریش ' انجم کے بارے میں سوچنا چھوڑدو ۔ انجم سے لاکھ درجے اچھی ہماری علینہ ہے  اس کی قدر کرو ۔ ماشاءاللہ ہماری علینہ کم عمر بھی ہے اس انجم سے ، اور خوبصورت بھی ہے۔۔۔۔"

"اور امیر بھی ہے۔۔!"  جنت بیگم کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی عریش جل کر کہتا جنت بیگم کو بھی سرتاپا جلا گیا ۔ اس سے پہلے کہ جنت بیگم عریش کو کچھ کہتیں ، وہ اپنا لیپ ٹاپ اور دیگر سامان سمیٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

اس کی زندگی میں اتنا تکلیف دہ موڑ آ چکا تھا جس کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ کڑھتا رہتا تھا ۔ ایسے میں انجم یا اس سے جڑے جذبات کے بارے میں سوچنے کا فلحال اس کے پاس بلکل وقت نہیں تھا ۔ وہ یوں بھی ایک پریکٹیکل انسان تھا ۔ اپنی پہلی پہلی ادھوری محبت اسے شاید ہمیشہ یاد رہنے والی تھی لیکن ادھوری محبت کو دل کا روگ بنانے والوں میں سے نہیں تھا عریش !

اسے جنت بیگم کی یہ بات بلکل پسند نہیں آئی تھی کہ وہ ایک معصوم لڑکی کو بےوجہ اپنے ہی بیٹے کے ساتھ جوڑ کر بدنام کرنے کی کوشش کف رہی تھیں ۔ لڑکی بھی وہ جو کسی کے نکاح میں تھی ۔۔!

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

جب عریش کمرے میں داخل ہوا تب کمرہ خالی تھا ۔ علینہ واشروم میں تھی شاید ، سو عریش کے تنے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑے اور وہ لیپ ٹاپ اور فائلز رائٹنگ ٹیبل پر رکھ کے کھڑکی کی طرف بڑھ گیا ۔ گرمیاں ابھی شروع ہوئی تھیں ، عموماً راتیں اتنی گرم نہیں ہوتی تھیں لیکن آج رات بہت حبس تھا ۔ کمرے کی اکلوتی کھڑکی کھول کر عریش نے تازہ ہوا میں چند گہری سانسیں لیں اور بیڈ پر جا کر چت پڑ گیا ۔

آنکھیں موندے عریش گہری نیند کی وادی میں دھیرے دھیرے اتر ہی رہا تھا کہ کچھ گرنے کی آواز پر پٹ سے آنکھیں کھول لیں اور گردن موڑ کر علینہ کی طرف دیکھنے لگا جو سخت خفت زدہ سی ، ڈریسنگ ٹیبل سے نیچے گر جانے والا سامان اٹھا رہی تھی ۔

عریش کو یہ لمحہ ایک بھولا بھٹکا پل یاد دلا گیا ۔ عریش کی خمار آلود نظریں علینہ پر سے ہٹنے سے انکاری ہو رہی تھیں ۔ وہی معصوم چہرہ ، وہی دو  چوٹیاں ، وہی گلابی فراک نما نائٹی ، اور نائٹی سے جھانکتے دودھیا سڈول بازو اور ٹانگیں ۔ عریش کو یوں لگا جیسے ان دونوں کے درمیان وہ اذیت ناک چار مہینے کبھی آئے ہی نہ ہوں ۔ علینہ آج پہلی بار اس کے کمرے میں آئی ہو اور پہلی بار ہی اس نے گھبراہٹ میں ڈریسنگ ٹیبل سے سامان گرا دیا ہو ۔ وہ بےخودی کی کیفیت میں علینہ کو دیکھے چلا جا رہا تھا جو اس کی نظروں سے جذبذ ہوتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے بیڈ تک پہنچی تھی ۔ عریش کی کچھ کہتی ہوئی نظروں سے نظریں چراتے ہوئے علینہ جلدی سے دوسری طرف کروٹ کر کے لیٹ گئی اور آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگی جب عریش نے اس کا بازو تھام کر اسے نرمی سے سیدھا کر دیا اور اس پر چھا گیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

اگلی صبح بڑی ترو تازہ سی تھی یا صرف اسے ہی لگ رہی تھی ، علینہ سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔ خوشی خوشی عریش کا مخصوص ناشتہ "توس ، آملیٹ اور کافی" بنا کر جب علینہ کمرے میں داخل ہوئی تب عریش اپنی تیاری مکمل کر کے آفس کا بیگ چیک کر رہا تھا ۔ علینہ کے آنے پر ایک سرسری نظر اس پہ ڈال کر عریش دوبارہ بیگ کی طرف متوجہ ہوگیا جبکہ علینہ ناشتے کی ٹرے ٹیبل پر دھر کر عریش کے قریب چلی آئی اور اس کا بازو تھام کر لاڈ سے گویا ہوئی ۔ "آج آپ جلدی آئیں گے نا ؟"

عریش نے علینہ کی حرکت پر سرد نظروں سے اس کی خوشی اور امید سے روشن ہوتی آنکھوں میں جھانکا پھر جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوا کر ناگواری سے بولا ۔ "کسی خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے محترمہ ! بندہ بشر ہوں ، بشری کمزوریاں بھی موجود ہیں ۔ مجھے میسر صرف تمہارا ناپاک وجود ہی ہے ، تو میں اور کیا کر سکتا ہوں ؟ ہرگز۔۔۔ ہرگز بھی کسی خوش گمانی میں مت رہنا ۔۔!" انگلی اٹھا کر قطیعت سے کہتا عریش ' ناشتہ کیئے بغیر ہی بیگ اٹھائے کمرے سے نکل گیا تھا اور پیچھے کھڑی علینہ سانس روکے دھندلائی نظروں سے کمرے کے بند دروازے کو تکتی رہ گئی ۔

اچانک ہی بےجان سی ہوتی وہ گرنے لگی تھی کہ بروقت اس نے رائٹنگ ٹیبل کا سہارا لیا تھا ۔ لب سختی سے بھینچے وہ اپنی رونے کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کرنے لگی کیونکہ آگے بھی اسے یہی کرنا تھا ۔

بہت بےرحمی سے عریش نے اس کی امید توڑی تھی ۔ اب مشکل ہی تھا کہ علینہ دوبارہ کبھی فخر سے خود سے نظریں ملا سکے ۔۔!

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

برہان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ان کے لب مسکرادیے ۔ کتاب میں گھسا وہ بڑی دلجمعی سے پڑھنے میں مگن تھا جب بینش بیگم کو کمرے میں آتے دیکھ کر بھرپور انداز میں مسکرا دیا ۔

"بڑی پڑھائیاں ہونے لگی ہیں ، حالانکہ پاکستان میں جب تک تھے تب تک تو بس شکائتیں ہی آتی رہتی تھیں اسکول سے۔" برہان کے برابر میں بیٹھتے ہوئے انہوں نے برہان کی کتاب اٹھالی اور یونہی ورق گردانی کرنے لگیں ۔

"پہلے میری کامیابی یا ناکامی اتنے معنی جو نہیں رکھتی تھی ۔" برہان مسکراتے ہوئے بولا ۔ بینش بیگم کی مسکان ذرا سمٹ گئی ۔

"باری ! مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اچانک تمہارے جذبات انجم کے لیئے کیسے بدل گئے کہ تم اس کے لیئے آخری حد تک چلے گئے ؟" یہ سوال بینش بیگم کو کب سے الجھا رہا تھا ۔

جواب میں برہان کافی دیر تک الفاظوں کو ترتیب دیتا رہا پھر ٹھنڈی سانس بھر کر گویا ہوا ۔ "ماما ، انجو کے لیئے ہمیشہ سے میرے یہی جذبات تھے ۔ لیکن پہلے پہل میں بہت چھوٹا تھا ، نادان تھا ! اپنے جذبوں کو کوئی  نام دینے سے قاصر تھا ۔ شروع شروع میں بس ایسا ہوا کرتا تھا کہ انجو کی ناراضگی پر مجھ سے کھایا پیا نہیں جاتا تھا ، مجھے ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا اچھا لگتا تھا اور ان کا عریش بھائی سے تھوڑا سا بات کرنا بھی جیلس کردیتا تھا ، لیکن اپنی فیلنگز مجھ پر ٹھیک طرح ظاہر نہیں ہو رہی تھیں ، میں اپنی فیلنگز کو کوئی نام نہیں دے پا رہا تھا ۔ پھر۔۔۔۔ پھر جب ان کی شادی عریش بھائی سے باقاعدہ فکس کردی گئی ، شادی کی تیاریاں میرے سامنے ہونے لگیں تب مجھے اندازہ ہوا اپنے جذبے کا ، اور دل میں پل رہے اس جذبے کے نام کا !" جواب دے کر برہان نے بینش بیگم کی طرف دیکھا جو ایک ٹک اسے ہی دیکھے جا رہی تھیں ۔ اس کے دیکھنے پر پھیکا سا مسکرادیں ۔

بینش بیگم سوچنے لگیں کہ برہان جو اتنی سی عمر میں ایسے جذبوں کا شکار ہوگیا تھا ، اتنی بڑی بڑی باتیں کر رہا تھا ، کہیں نا کہیں اس سب میں ان کا اپنا قصور بھی تھا ۔ جس عمر میں بچے کو ماں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، وہ اسے چھوڑ کر پردیس آ بسی تھیں ۔ وہ محبت اور توجہ کو ترستا ہوگا ، جو انجم اسے دیتی ہوگی ۔ پھر کیوں نہ انجم اس کے دل میں کوئی خاص مقام حاصل کرتی ۔

"لیکن باری۔۔۔۔ انجم بہت بڑی ہے تم سے ۔ تم جب بھرپور جوان ہوجائوگے ' انجم تیس بتیس تک پہنچ چکی ہوگی ۔ کیا تب بھی تمہارا دل اس کے لیئے ایسے ہی دھڑکے گا ؟ اگر بعد میں تم اس سے بیزار ہوئے تو ؟ انجم کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو تم ۔"

"اوہ پلیز ماما ! تیس بتیس چھوڑ پینتیس بھی کوئی زیادہ نہیں ہوتے ۔ وہ تیس بتیس سال کی عمر میں بھی مجھ سے اتنی ہی بڑی رہینگی جتنی ابھی ہیں ۔ اگر مجھے اس چیز کی پروہ ہوتی تو میں کبھی ان سے نکاح نہ کرتا ۔ اور ماما ! علینہ آپی مجھ سے صرف دو سال بڑی ہیں ، جب ان کی چوبیس سال کے عریش بھائی سے شادی پر کسی کو کوئی اشو نہیں ہے تو آخر میرے اور انجم کے نکاح پر سب کو اتنے خدشات کیوں ؟ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کر لیا تھا ، پھر میں نے تو صرف محبت کی ہے ۔ یہ عمر کوئی فیڈر میں دودھ پینے کی یا ماں کے پلو سے چپکے رہنے کی نہیں ہوتی ۔ یہ ہمارا معاشرہ ہے۔۔۔ ہمارے معاشرے کی غلط روایات ہیں جنہوں نے ایک پچیس سال تک کی غیر شادی شدہ لڑکی کو بوڑھی عورت اور انڈر ٹین ایج لڑکے کو بچہ سمجھ لیا ہے۔۔۔۔!!! پلیز ماما ! میں وضاحتیں دے دے کر تھک گیا ہوں ۔ باقی سب وقت کے ساتھ ساتھ میرے جذبوں کی سچائی سے واقف ہوجائیں گے لیکن آپ کم از کم میری فیلنگز پر شک نہیں کریں ۔" دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے برہان بہت سنجیدگی سے بات کر رہا تھا ۔ برہان کے لہجے کی سچائی ، لفظوں کی پختگی اور چہرے کی سنجیدگی نے بینش بیگم کو بہت عرصے بعد اندر تک پرسکون کر دیا تھا ، ورنہ ان کے خدشات شاید واقعی کبھی ختم نہیں ہونے تھے ۔ بےساختہ مسکراتے ہوئے انہوں نے برہان کا سر چوم لیا اور کافی لانے کا کہتے ہوئے جلدی سے اس کے کمرے سے نکل گئیں ۔ اب انہیں فون پر صباء بیگم کو یقین دلانا تھا ' برہان کےسچے جذبات کا ! کیونکہ صباء بیگم تقریباً ہر دس دن بعد وڈیو کال کر کے طلاق کا مطالبہ کردیتی تھیں ۔ یقیناً اب بینش بیگم ' صباء بیگم کو دلائل اور یقین کی بنیاد پر راضی کر سکتی تھیں ، کیونکہ آج بینش بیگم کو خود بھی برہان پر اعتبار آگیا تھا ۔

چھہ سال بعد۔۔۔۔

۔

۔

۔

۔

۔

چھہ سال پر لگا کر اڑے تھے لیکن عریش علینہ اور انجم پر یہ چھہ سال بہت بھاری گزرے تھے ۔

عریش کا غصہ اور چڑچڑاپن کافی زیادہ بڑھ چکا تھا ۔ اس کی وہ نرم خوئی تو اب خواب لگنے لگی تھی ۔ عریش زیادہ تر باہر ہی رہتا ، جب شام ڈھلے گھر لوٹتا تو علینہ کو ایک پل سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا ۔ ہر وقت چیخ چلا کر اپنا چھوٹے سے چھوٹا کام علینہ سے کروایا کرتا تھا ۔

جنت بیگم' عدیل عالم کی طرف سے ہر مہینے آنے والے قیمتی تحائف کی وجہ سے حتی المقدور کوشش کرتی تھیں علینہ کا خیال رکھنے کی لیکن عریش کے آگے ان کی بھی نہیں چلتی تھی ۔ وہ بس افسردگی سے اس چھوئی موئی گڑیا سی لڑکی کو حالات کی تلخیاں سہتے ہوئے ، ایک مکمل مشرقی عورت کے روپ میں بدلتے دیکھتی رہتیں ۔

بھرا بھرا جسم ، زرد رنگت ، بےرونق آنکھیں ، آنکھوں کے نیچے حلقے ، پچکے ہوئے گال ، ہر وقت ڈری سہمی سی۔۔۔

آخری بار پارلر وہ اپنے ولیمے پر ہی گئی تھی ۔ گھر میں قیمتی میک اپ کا سامان موجود تھا ، پیسہ بھی کافی تھا ، جو عدیل عالم اس کے بینک اکائونٹ میں بھجواتے رہتے تھے ۔ اور نہ ہی عریش نے کبھی اسے پارلر وغیرہ جانے سے روکا تھا ! لیکن عریش نے ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ اور طنز کے تیر مار کے علینہ کا دل مار دیا تھا ۔ مرے ہوئے دل کے ساتھ ، علینہ آخر کس کے لیئے اپنی کیئر کرتی ۔ جب دیکھنے والے کو کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔۔!

ننھے آیان کے دنیا میں آجانے کے بعد سے وہ اپنی طرف سے پوری کوشش میں لگی رہتی کہ آیان کو عریش سے دور ہی رکھے ۔ اور یہ سب اس کے لیئے بہت مشکل ہوجاتا تھا کیونکہ اسے یہ احتیاط گھر میں سب کے سامنے کرنی پڑتی تھی ۔ کیونکہ سب کی نظروں میں تو عریش اور آیان باپ بیٹے تھے ، سو ان میں محبت بھری شرارتیں ہونی چاہیے تھیں ، لیکن علینہ تو حقیقت جانتی تھی نا ۔ سو علینہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتی تھی کہ آیان عریش کے سامنے کم سے کم آیا کرے ۔

اب رہی بات انجم کی تو اس کے روز و شب بےنام سی بےکلی میں کٹتے تھے ۔ برہان ہر دن ، اپنی ایک نئی تصویر لے کر اسے ضرور بھیجتا تھا جسے دیکھ کر انجم کو اپنی بڑھتی عمر کا احساس شدت سے ہوا کرتا تھا ۔

وہ بائیس سالہ بھرپور لڑکا کسی بھی لڑکی کا ارمان ہوسکتا تھا ۔ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ ، ذہانت سے روشن آنکھیں ، ورزشی جسم ، قد اس کا پہلے ہی اچھا تھا ، اب تو وہ چھ فٹ کے عدیل عالم  سے بھی زیادہ اونچا نظر آتا تھا تصاویر میں ۔

انجم تو جانتی تھی برہان کتنا پیارا ہوچکا ہے لیکن برہان نہیں جانتا تھا کہ اس کی انجو کے بالوں میں چاندی کے تار چمکنے لگے ہیں جنہیں صباء بیگم نے زور زبردستی کر کے رنگا تھا ۔۔! اس کی انجو نے راتوں کو رو رو کر اپنی نظر کمزور کر لی ہے اور اب نظر کا نفیس چشمہ اس کی سیاہ غلافی آنکھوں کی سنجیدگی بڑھا دیتا تھا ۔ ہاں صباء بیگم کی دن رات کی زبردستی کیئر نے اس کا رنگ و روپ زیادہ گھٹنے نہیں دیا تھا لیکن پھر بھی ! تیس سال نہ سہی ۔ برہان کی انجو چھبیس ستائیس سال کی ضرور لگتی تھی ۔ جب برہان یہ سب جان جائیگا کیا تب بھی وہ انجو سے محبت کا دعویدار رہے گا ؟ اس سوال کا جواب انجم خود سے دن میں کئی بار پوچھتی ، اور جو جواب اس کا منفی خیالات سے بھرا ذہن اسے دیتا اس جواب پر ایک بار پھر رونا شروع کردیتی ۔۔!

یہ تھی اس گھر میں بسے تین بوجھل دلوں کے چھہ سال کی رواداد۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

"پاپا اسلام علیکم ، یہ دیکھیں میں نے ماما پاپا اور اپنی ڈرائنگ بنائی ہے ۔"

عریش آفس سے ابھی ابھی لوٹا تھا اور لائونج کے صوفے پر بیٹھا چلا کر علینہ کو پکارنے ہی والا تھا کہ آیان کہیں سے دوڑتا ہوا آیا اور عریش کے سامنے اپنی بچگانہ ڈرائنگ فخر سے پھیلا کر داد طلب نظروں سے عریش کو دیکھنے لگا ۔ آیان کو دیکھ کر عریش نے لب بھینچ لیئے ۔ اس سے پہلے کہ عریش کوئی رسپونس دیتا ، علینہ کمرے سے تیزی سے نکلی اور آیان کو عریش سے دور کر کے اپنے ساتھ لگا لیا ۔

"بیٹا پاپا ابھی تھکے ہوئے ہیں نا ! بعد مین دکھانا ڈرائنگ ، ابھی جائو اپنے کلرز سمیٹو ، سارے کمرے میں کلرز  بکھرے ہوئے ہیں ۔" علینہ نے عریش کے پاس ہی رک کر آیان کو کمرے کی طرف دھکیلا تھا ۔ آیان ہونٹ لٹکا کر کمرے کی طرف جاتے جاتے پلٹا ، عین اسی وقت عریش نے بھی اس کی طرف دیکھا تھا جس پر آیان نے بڑی جاندار مسکراہٹ عریش کی طرف اچھالی پھر خود بھی اچھل کر عریش کی گود میں چڑھا اور عریش کے دونوں گالوں پر پیار کر کے عریش کو حیران اور علینہ کو پریشان چھوڑ کر کمرے میں بھاگ گیا ۔

"آئی ایم سوری ۔۔!" علینہ مری مری آواز میں بولی ۔ عریش نے سر جھٹک کر سانس خارج کی ، پھ کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اطلاعی گھنٹی پر علینہ کو چائے بنانے کا کہتا ہوا لائونج سے باہر نکل گیا ۔

علینہ نے چائے کے لوازمات نکال کے سامنے رکھے ہی تھے کہ کچن کی صحن میں کھلنے والی کھڑکی سے اس نے بینش بیگم کو گھر کے اندر آتے دیکھا ، پھر سوٹڈ بٹڈ عدیل عالم اور عالیہ بھی اندر داخل ہوئے تھے ، اور سب سے آخر میں لمبا چوڑا خوبرو سا برہان اندر آیا تھا ۔ چائے کی پتی کا ڈبا علینہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا تھا ۔ علینہ تقریباً دوڑتے ہوئے صحن میں پہنچی تھی اور سیدھی جا کر عدیل عالم کے سینے سے لگ گئی تھی ۔

اتنے لمبے عرصے بعد اپنوں کو دیکھا تھا ، علینہ کا خود پر کوئی اختیار نہیں رہا تھا اور وہ باقاعدہ ہچکیوں سمیت رونا شروع ہوگئی تھی اس بات سے انجان کہ عدیل عالم ، بینش بیگم اور عالیہ کتنی حیرت سے اس کا حلیہ ملاحظہ کر رہے تھے ۔ عدیل عالم پر تو ایسا سکتہ ہوا تھا اپنی شہزادیوں جیسی بیٹی کا ایسا حال دیکھ کر کہ وہ اپنے بازو تک علینہ کے گرد حمائل نہ کر سکے تھے ۔ اس سارے ماحول سے الگ برہان عریش کی طرف ہچکچاتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ شاید عریش خود ہی اپنے بازو پھیلا کر اسے سینے لگنے کی دعوت دے دیگا لیکن عریش سب سے سلام دعا کر کے ایک طرف کو سینے پر بازو لپیٹے برہان کو بلکل اگنور کیئے کھڑا رہا ۔

برہان کی مسکراہٹ عریش کے سرد رویئے کو دیکھ کر سمٹتی چلی گئی اور پھر وہ بھاری دل لیئے دو قدم پیچھے ہوگیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھول کر وہ دبے پائوں رائٹنگ ٹیبل تک آیا تھا جہاں انجم کھلی کتاب پر سر رکھے سو رہی تھی ۔ گلابی ہونٹ ادھ کھلے تھے جبکہ سامنے کھلی کھڑکی سے آتی تیز ہوا کے باعث لانبی پلکوں کا جھالر دھیرے دھیرے  ہل رہا تھا ۔

برہان دم بخود سا اس دشمنِ جاں کو دیکھتا رہ گیا تھا جس نے اس کی لاکھ منتوں پر بھی اپنی ایک تصویر تک اسے نہیں بھیجی تھی ۔

"ویسے اچھا ہی ہوا جو نہیں بھیجی تھی ، ورنہ میرا وہاں رہنا مشکل ہوجاتا اور میں پاکستان بھاگ آتا ۔۔!" دل میں بڑبڑاتے ہوئے بےساختہ مدھم سا ہنس کر برہان انجم کے گال کو اپنی دو انگلیوں سے سہلانے لگا ۔ انجم نے سوتے میں ہی چہرے کے زاویے بگاڑ کر برہان کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور پھر چونک کر پٹ سے آنکھیں کھول لیں اور پھر آنکھیں ہی نہیں منہ بھی حیرت سے کھولے اپنے سامنے کھڑے برہان کو تکنے لگی جس نے اس کے یوں یک ٹک دیکھنے پر اپنا ایک ہاتھ سینے پر رکھ لیا اور پھر تھوڑا سا جھک کر دائیں آنکھ دبا کے انجم کو سٹپٹانے پر مجبور کر دیا ۔ یقین و بےیقینی کی کیفیت میں انجم نے ٹیبل پر دھرا اپنا چشمہ اٹھا کر آنکھوں پر لگایا تھا اور برہان کی موجودگی کا یقین آجانے کے بعد  انجم کے چہرے کے تاثرات خود بہ خود ہی تن گئے تھے اور وہ ایک سرتاپا گھوری برہان پر ڈال کر کرسی سے اٹھ کر کمرے سے نکلنے کے لیئے مڑی ہی تھی کہ برہان نے اس کا بازو تھام کر دوبارہ اپنے سامنے کھڑا کر لیا اور اپنی شہد رنگ آنکھیں سکیڑ کر انجم کے چشمے کا جائزہ لینے لگا ۔ انجم نے جذبذ ہوتے ہوئے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن۔۔۔۔۔۔

پہلے جب وہ ایک سولہ سالہ لڑکے کی گرفت سے اپنا بازو نہیں چھڑوا سکی تھی تو بھلا آج اس بائس سالہ باڈی بلڈر کی گرفت سے کیسے چھڑوا سکتی تھی ۔

برہان ایک ہاتھ سے ہنوز انجم کا بازو پکڑے دوسرے ہاتھ سے زبردستی اس کا چشمہ اتار کر اپنی انکھوں پر لگا کے پلکیں پٹپٹا کر پوچھنے لگا ۔ "کیا یہ چشمہ مجھ پہ بھی اتنا ہی اچھا لگ رہا ہے جتنا آپ پر ؟"

انجم نے جھنجلا کر اپنا چشمہ واپس لینا چاہا لیکن برہان نے اپنے دوسرے ہاتھ سے انجم کا دوسرا ہاتھ تھام لیا ۔ انجم نے برہان کی ڈھٹائی پر تلملاتے ہوئے اپنا وہ ہاتھ برہان کے گال پر رسید کرنا چاہا جس کا بازو برہان نے تھام رکھا تھا لیکن برہان نے پھرتی سے انجم کا بازو چھوڑ کر وہ ہاتھ بھی تھام لیا ۔

"نو انجو ! مجھے معلوم ہوا کہ شوہر کو تھپڑ مارنے سے بہت گناہ ملتا ہے ۔ میں آپ کو گناہ کیسے کمانے دے سکتا ہوں ؟"

"شوہر تم جیسا ہو تو اسے جان سے مارنا بھی جائز ہے ۔" اپنے دونوں ہاتھ چھڑوانے کی کوشش میں ہلکان ہوتے ہوئے انجم بھینچی آواز میں چیخی ۔

"ایک ہی بار اچھی طرح چیخ چلا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں نا ، پھر ہنسی خوشی ساتھ ساتھ رہنا شروع کرتے ہیں ۔ اتنا تو مجھے بھی اندازہ ہے کہ اگر خدا نہ خاستہ مجھے کچھ ہوگیا تو سب سے زیادہ رونا بھی آپ کو ہی ہے ، بلکہ ممکن ہے آپ میرے پیچھے پیچھے ہی جنت میں چلی آئیں ۔" برہان باتوں کو بڑھاوا دینے کی پوری کوشش کر رہا تھا ۔ پیار بھری نہ سہی ، جلی کٹی ہی سہی ، باتیں تو ہوں ان کے درمیان ۔ کتنا تڑپتا تھا وہ پردیس میں اپنی انجو سے باتیں کرنے کے لیئے ۔

"تمہارے اعمال ہیں جنت میں جانے والے ؟" انجم کلس کر بولی ۔

"گویا میرے پیچھے پیچھے آنے والی بات سے انکاری نہیں ہیں آپ ؟؟" شوخی سے پوچھتے ہوئے برہان نے اپنے ہاتھوں میں قید انجم کے دونوں ہاتھوں کو باری باری چوم لیا پھر چشمے کے اوپر سے جھانکتے ہوئے ابرو اچکا کر بولا ۔"تھپڑ نہ مارنے کا وعدہ کریں گی ، تو ہاتھ چھوڑ دونگا میں آپ کے !"

جواب میں انجم کچھ نہیں بول سکی تھی ۔ برہان کی جرات نے اسے نظریں اٹھانے تک کے قابل نہیں چھوڑا تھا ، ایسے میں وہ بولنے کی ہمت کہاں سے لاتی ؟؟ انجم بس خاموش رہ کر ، نم جھکی نظروں اور سرخ چہرے کے ساتھ اپنے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی رہی ۔

برہان کچھ دیر تک اس کی زور آزمائی ملاحظہ کرتا رہا ، پھر نرمی سے اس کے ہاتھ چھوڑ دیے ۔ انجم نے ہاتھ آزاد ہوتے ہی دروازے کی طرف دوڑ لگائی تھی لیکن برہان نے ایک بار پھر اس کی کلائی تھام کر روک لیا تھا ۔ انجم درزیدہ نظروں سے ایک بار پھر شکنجے میں پھنس جانے والی اپنی کلائی کو دیکھ کر رہ گئی ۔

"اب آپ مجھ سے مزید نہیں بھاگ سکتیں انجم ! مجھے یقین ہے میں آپ کے ساتھ کے قابل ہو کر لوٹا ہوں ۔ میں نے آپ سے بہت دور رہ کر بھی خود کو آپ کا وفادار رکھا ہے ، اب آپ کو بھی مجھے اپنانا ہی ہوگا ۔" اپنی آنکھوں سے چشمہ اتار کر انجم کے ہاتھ میں پکڑا کے برہان نے انجم کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔  انجم سرپٹ دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی تھی ۔

باہر لائونج میں سب ہی موجود تھے ۔ اور خوش گپیوں میں مگن تھے ، پھر جیسے ہی سب کی نظر انجم پر پڑیں سب چپ سے ہو کر اسے دیکھنے لگے ۔ انجم اپنے آپ میں سمٹ گئی تھی سب کے یوں بغور دیکھنے پہ ۔

"اسلام علیکم۔۔۔!!" انجم سلام کر کے وہاں سے بھی بھاگنے والی تھی کہ بینش بیگم کی پکار پر اسے رکنا پڑا تھا ۔

"پھپھو سے نہیں ملوگی انجو ؟ ابھی تک ناراض ہو ؟؟" بینش بیگم کے لہجے میں افسردگی نمایاں تھی ۔ انجم نے ایک ناراض نگاہ ان پر ڈالی ، لیکن ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوڑتے ہوئے بینش بیگم تک پہنچی اور ان کے سینے لگ گئی ۔ بینش بیگم نے بھی انجم کے گرد بازو لپیٹ کر اسے خود میں بھینچ لیا تھا ۔

ٹیبل پر چائے کی ٹرے رکھتی صباء بیگم نے مطمئین نظروں سے پھپھو بھتیجی کی یہ محبتیں دیکھی تھیں پھر زبردست سی گھوری سے برہان کو نوازا تھا جو انجم کے کمرے سے نکل رہا تھا ۔ برہان نے جو اپنی مامی پلس ساس کو خود کو گھورتے پایا تو بیچارگی سے مسکرا دیا اور نظریں چرانے لگا ۔

"اب ہمارا مہینے بھر کے لیئے پاکستان میں ہی رہنے کا ارادہ ہے ۔ تو میں چاہتا ہوں یہ مہینہ میں اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ گزاروں ۔ اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو کیا میں عینا کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائوں ؟" عدیل عالم کی گمبھیر آواز اچانک ہی لائونج میں گونجتی سب کو اپنی طرف متوجہ کر گئی ۔ عدیل عالم کے الفاظ اگر چہ اجازت طلب تھے لیکن لہجہ فیصلہ سناتا ہوا' الارمنگ سا تھا ۔

عدیل عالم کے پہلو سے چپکی علینہ نے حیرت بھری نظروں سے عدیل عالم کو دیکھنے کے بعد عین سامنے سامنے صوفے پر بیٹھے عریش کو دیکھا تھا ۔ عریش اسے ہی دیکھ رہا تھا ، اس کے دیکھنے پر نظروں کا زاویہ بدلتے ہوئے عدیل عالم سے گویا ہوا ۔

"کیوں نہیں انکل ! آپ ضرور لے کر جائیں ۔"

"لے کر تو میں ضرور جائوں گا بیٹے ! پھر بھی اجازت دے کر مان بڑھانے کا شکریہ ۔" عدیل عالم کی آنکھوں میں عریش کے لیئے محسوس کن سرد مہری تھی ، جسے محسوس کر کے عریش لب بھینچ کر رہ گیا ۔

ڈنر سب نے مل کر کیا تھا ، جس کے بعد علینہ اور آیان کے ساتھ ، عدیل عالم کے پرزور اسرار پر عریش بھی ان کے ساتھ ہی چلا گیا تھا کیونکہ کل ویسے بھی سنڈے تھا ، آفس نہیں جانا تھا ۔ اور اتنا اندازہ تو عریش کو اب تک کے ان کے رویے سے ہو ہی گیا تھا کہ عدیل عالم اس سے کچھ بات کرنا چاہ رہے ہیں ۔ اور رہا برہان تو وہ گھر پہ ہی رک گیا تھا ۔

کچھ دیر لائونج میں بیٹھ کر باتیں کرتے رہنے کے بعد ، بڑھتی سردی کے باعث سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تب برہان بھی اپنے بیگز اٹھائے اپنے کمرے میں چلا آیا تھا جو کچھ دیر پہلے ہی انجم سیٹ کر کے گئی تھی ۔

اپنے کمرے میں آ تے کے ساتھ ہی اسے کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا ۔ اپنے احساسات کا ادراک ہونے پر انجم سے بدتمیزی سے بات کر کے اسے اپنے کمرے سے نکال دینا ۔ غم و غصے کی انتہائی حالت میں نیند کی ڈھیروں گولیاں نگل لینا ۔

اپنی غلط حرکتیں یاد کر کے ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے برہان نے بیگز ایک کونے میں رکھ دیے اور موبائل بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے خود  دھپ سے بیڈ پہ اوندھا گر گیا ۔ کچھ دیر اوندھے پڑے رہنے کے بعد وہ سیدھا ہوا اور موبائل اٹھا کر واٹس ایپ کھول لیا ۔ اب برہان کے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ تھی جبکہ انگوٹھا ٹکاٹک کچھ ٹائپ کر رہا تھا ۔

دوسری طرف انجم شاید برہان کے میسج کی ہی منتظر واٹس ایپ کھولے بیٹھی تھی ۔ برہان کا میسج آجانے پر انجم کے چہرے کے زاویات تو بگڑے تھے لیکن اس نے میسج کھول لیا تھا ۔

"آپ نے بال کیوں کٹوائے انجو ؟ یہ ہیئر کٹ اگرچہ آپ پہ جچ رہا ہے اور میرے دل پر بجلیاں گرا رہا ہے ، لیکن مجھے آپ کے لمبے بال ہی پسند ہیں ۔۔! اس لیئے کوشش کریں کہ انہیں جلد از جلد دوبارہ بڑھالیں ۔ کہیں تو میں آپ کے بالوں میں مالش کردیا کروں ؟"

میسج پڑھ کر انجم نے ٹھنڈی سانس خارج کی اور فون سائڈ رکھ دیا ۔ پھر کروٹ کے بل لیٹتے ہی انجم کی آنکھوں میں جمع آنسو ، لڑی کی صورت نکلتے ہوئے تکیہ بھگونے لگے ۔

اس کے خدشات غلط ثابت ہوئے تھے ۔ برہان واپس بھی آ گیا تھا اور اس کے جذبات میں بھی کوئی بدلائو نہیں آیا تھا ، بلکہ اب بچے سے نوجوان بن جانے کے باعث اس کے پر پرزے بھی بہت زیادہ نکل رہے تھے ۔ مگر انجم کا دل اب بھی بےاطمینان تھا ۔ ان چھہ سالوں میں ہر آیا گیا مہمان انجم اور برہان کا ذکر ضرور لے بیٹھتا تھا ۔ انجم کو ان کی نظروں میں استہزاء واضع نظر آتا تھا ۔ لوگوں کی طنزیہ باتیں وہ کبھی نہیں بھولنے والی تھی ۔ جب انجم کا ذہن ہر وقت لوگوں کی منفی باتوں سے بھرا رہتا تھا تو کوئی خوشگوار خیال کیسے اس کے دل میں اپنی جگہ بناتا ؟؟؟

ایک بار پھر موبائل کا اسکرین روشن ہوا تھا ۔ انجم نے چڑ کر موبائل آف کردیا اور آنکھیں سختی سے میچے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

عالم ولا پہنچ کر بینش بیگم اپنے کمرے میں اور عالیہ آیان کو ساتھ لیئے اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں ۔ جبکہ عریش اور علینہ کو عدیل عالم اپنے ساتھ  اپنی وسیع و عریض لائبریری میں لے آئے تھے ۔ 

عدیل عالم اپنی مخصوص نشست سنبھال چکے تھے جو ایک بڑی سی قیمتی گلاس کی ٹیبل کے پیچھے رکھی تھی ۔ اور علینہ سائڈ میں رکھے ایک سنگل صوفے پر بیٹھ گئی تھی جبکہ عریش عدیل عالم کی نشت کے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گیا تھا ۔ کافی دیر تک کمرے میں گمبھیر خاموشی چھائی رہی پھر عدیل عالم نے دائیں ابرو اچکا کر عریش کو دیکھا ۔ عریش صوفے کے ہتھے پر کہنی ٹکائے غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا ۔

"مجھے تم ایک بہت ہی میچور لڑکے لگے تھے عریش ، اور تم نے مجھے اتنا ہی مایوس کیا ہے ۔"

عریش نے جواباً اپنی خاموش نظریں ان کے چہرے پر ٹکادیں لیکن نہ اس بات کا مقصد پوچھا اور نہ کوئی وضاحت دی ' جس پر عدیل عالم اشتعال میں آتے پھٹ پڑے تھے ۔

"میں سینکڑوں بار پاکستان آیا لیکن آفس کے کام سے فارغ ہو کے واپس چلا جاتا ، کیونکہ مجھے یقین تھا میں نے اپنی بیٹی کو ایک سمجھدار شخص کے سپرد کیا ہے جو کبھی ڈانٹے گا بھی تو صحیح بات پر ! میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میری بیٹی کو شہزادیوں کی طرح رکھو ، کیونکہ شہزادیوں کی طرح رکھنا صرف بادشاہ کے بس کی بات ہوتی ہے کسی دو کوڑی کے مرد کی نہیں ۔۔! مگر تم نے میری بیٹی کا حال ایک عام سی مشرقی عورت سے بھی زیادہ بدتر کردیا ہے ۔ دیکھو اسے اور بتائو کیا یہ وہی لڑکی ہے جو چھہ سال پہلے میں نے تمہارے حوالے کی تھی ؟ تمہارے ماں سے زیادہ خراب حلیہ ہو رہا ہے اس کا ! تمہارے کزن سے کتنی چھوٹی ہے یہ لیکن بڑی لگ رہی ہے اس سے ۔۔! مجھے یقین ہے اس نے سارا دن بالوں میں برش نہیں کیا ہے ، اور مجھے یہ بھی یقین ہے تم نے اس بات پر توجہ تک نہیں دی ہوگی ۔! مجھے بتائو کیا سارے پاکستانی شوہر اتنے بےحس ہوتے ہیں یا یہ بےحسی صرف تم ہی میں موجود ہے ؟؟ میری یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھالو عریش ! عینا لاوارث نہیں ہے ۔ اس کا باپ اور باپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسی کا ہے ۔ اگر تم میری بیٹی کی قدر نہیں کر سکتے تو طلاق دے دو اسے اور اپنا بیٹا بھی خود ہی پالو ۔ میں اپنی بیٹی کی شادی کسی قدردان سے کروا۔۔۔۔۔۔"

"آپ ہوتے کون ہیں میرے سامنے بیٹھ کے میری بیوی کی دوسری شادی کی بات کرنے والے ؟؟؟  آپ اس کے باپ ضرور ہیں لیکن مجھ سے زیادہ حق نہیں رکھتے آپ اس پر !" اچانک ہی عدیل عالم کی بات کے درمیان عریش بھینچی آواز میں غرایا تھا ۔

ایک پل کو عدیل عالم گنگ ہوئے ، پھر تلملا کر بولے ۔ "جب یہ بات برداشت نہیں ہوتی تو آخر یہ حال کیوں بنایا میری بیٹی کا ؟؟؟ اپنی بیٹی کو میں تم جیسے دو کوڑی کے مرد کو نہیں سونپ سکتا ۔ ابھی میری بیٹی کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں ہے ایک اچھا قدردان شخص اسے آرام سے مل سکتا ہے ۔ کیا میں اپنی بیٹی کو ساری زندگی تم جیسے بےحس شخص کی دسترس میں رلنے کے لیئے چھوڑ دوں ؟ میری بیٹی تمہارے گھر اور بچے کو سنبھالنے میں خود کو بھول جائے اور تم بھی اس کی ذات سے بےپروہ ہوجائو یہ میری برداشت سے باہر ہے مسٹر عریش اشفاق ! ڈائیورس دو اسے اور۔۔۔۔۔۔"

"ڈیڈ !!!" علینہ جو دم سادھے عدیل عالم کی گھن گرج اور عریش کے دبے دبے غصے کو دیکھ رہی تھی اچانک تڑپ کر چیخی تھی ۔ عدیل عالم اور عریش کی نظریں ایک ساتھ اس کی طرف اٹھی تھیں ۔

علینہ کا چہرہ آنسئوں سے تر تھا ۔ اس کا باپ اس کے داغ دار ماضی سے واقف تھا اور کافی عرصہ اس کی طرف سے بےپروہ  اور ناراض رہ کر اسے سزا بھی دے ڈالی تھی ۔ لیکن اب اسے اس حال میں دیکھ کر ان کا دل تڑپ گیا تھا اور وہ عریش پر یہی سوچ کر برس رہے تھے کہ علینہ کے ماضی کے بارے میں عریش کو کیا معلوم ؟ اور عریش شاید یہ سوچ کر برداشت کر رہا تھا کہ عدیل عالم علینہ کے ماضی سے لاعلم ہیں ۔

اسے حیرت صرف عدیل عالم پر تھی ۔ وہ جانتی تھی وہ ضد پر آجائیں تو انہیں کوئی نہیں سمجھا سکتا تھا ۔ اگر واقعی انہوں نے عریش پر دبائو ڈال کر علینہ کی دوسری شادی کروادی تو ؟

عریش تو شاید خوشی میں شادیانے بجائے گا اور علینہ جیتے جی مرجائے گی ۔ اس بےپروہ ستمگر کے بغیر جینا کہاں ممکن تھا اب؟ عدیل عالم ایسا کر کے عریش کے ساتھ نہیں اپنی بیٹی کے ساتھ ظلم کرنے والے تھے ۔

بےساختہ ہی علینہ نے ایک فیصلہ کیا اور گویا ہوئی ۔ "ڈیڈ آپ جانتے ہی کیا ہیں ؟ عریش جو کر رہے ہیں وہی بہت ہے ، بلکہ ان کا احسان ہے ۔ آیا۔۔۔۔۔"

"تم چپ رہوگی ؟ سسر صاحب جب کہیں کے لینڈ لارڈ ہوں تب وہ غریب داماد سے اسی طرح بات کرتے ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں ' میں سن رہا ہوں نا ! بات ہمارے درمیان ہی رہنے دو ۔ تم بول کر بات کو بڑھاوا مت دو ۔ چپ ہی رہو یا روتی رہو بس !"

"تم ہوتے کون ہو میری بیٹی کو روتے رہنے کا کہنے والے ؟؟" عدیل عالم عریش کی بات ختم ہوتے کے ساتھ ہی بھڑک اٹھے ۔

"اس کا ہزبنڈ ۔" عریش اطمینان سے بولا ۔

اب وہ دونوں دوبارہ اپنی بحث میں لگ چکے تھے جبکہ علینہ دم بخو سی عریش کو تکے جا رہی تھی ۔ اس کا باپ جو اس کے ماضی سے واقف تھا وہ اپنی طرف سے اس پر پردہ ڈال دینے کے بعد شیر ہو رہا تھا جبکہ عریش آج بھی اس کا پردہ رکھنے کی کوشش میں ا کے باپ کے سامنے خاموش تھا ۔ آخر کیا چیز عریش کو اس کی سچائی بتانے سے روک رہی تھی ؟ یہاں تھا ہی کون اس کے باپ کے سوا ؟ منہ پھاڑ کر علینہ کا سچ بتا کر عریش آرام سے عدیل عالم کو اپنے سامنے ہمیشہ کے لیئے جھکا سکتا تھا ، لیکن وہ چپ تھا ، کیوں ؟؟؟؟

علینہ عدیل عالم کو آیان کی حقیقت بتانے والی تھی جسے سمجھتے ہوئے عریش نے اسے گھرک کر چپ کروا دیا تھا ۔ اس نادان لڑکی کا پردہ رکھنا چاہا تھا اس کے باپ سے بھی ، لیکن کیوں ؟؟؟

علینہ کی جھلملاتی نظریں عریش پہ جمی رہیں جو عدیل عالم کے ہنوز بڑبڑاتے رہنے کے باوجود انہیں "گڈ نائٹ" کہتا ہوا علینہ کا ہاتھ تھامے اسے بھی اپنے ساتھ لیئے لائبریری سے نکل گیا ۔ پیچھے عدیل عالم عریش کے یوں بات کے درمیان ہی اٹھ کے چلے جانے پر تلملا کر رہ گئے تھے ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

لائبریری سے باہر آ کر عریش نے علینہ کا ہاتھ چھوڑ دیا اور آگے بڑھ کر ہال میں رکھے صوفے کی پشت تھام کے اپنی آنکھیں موندے اپنے اندر اٹھتا اشتعال کا طوفان کنٹرول کرنے لگا ۔ پیچھے کھڑی علینہ سانس روکے عریش کی چوڑی پشت کو تکتی جا رہی تھی ، تکتی جا رہی تھی ۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر ساون برسنا شروع ہوگیا ۔

ان چھہ سالوں کے عرصے میں اگر عریش اس سے بےپروہ رہا تھا تو اس نے بھی کب اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ؟

عریش نے اسے ایک بار دھتکارا تھا تو وہ دس بار اور کوشش کرتی ۔ وہ کوئی پرایا تو نہیں تھا ، شوہر تھا اس کا ، پھر جھجک یا انا کیسی ؟ جبکہ رشتے میں یہ تنائو اس کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہی تھا ۔۔!

وہ عریش سے ڈرتی رہی تھی ان چھہ سالوں میں ۔ اپنی محبت ثابت کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی تھی اس نے ؟

جو طنز کرتا تھا تنہائی میں کرتا تھا ، زمانے میں تو عریش نے اسے کبھی رسوا نہیں کیا تھا ۔

ہاں عریش آیان پر محبتیں نچھاور نہیں کرتا تھا ، اس کے ساتھ کھیلتا نہیں تھا ، لیکن عریش نے اسے اپنا نام دیا تھا ، کسی چیز کی کمی نہیں ہونےدی تھی ۔ کبھی جب آیان بیمار ہوتا تو اپنی نیند کی قربانی دے کر راتوں کو اسے ڈاکٹرز کے کلینک لے کر بھاگتا تھا ۔ جب کبھی آیان اس کے سینے پر سونے کی ضد کرتا تو عریش نے کبھی ہاں نہیں کہا تھا لیکن انکار بھی نہیں کیا تھا ، اور آیان مزے سے اس کے سینے پر لیٹ کر سوجاتا ۔

کیا عریش نے واقعی اس پر ان چھہ سالوں میں ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے تھے یا یہ ایک بار دھتکارے جانے کی شرمندگی تھی جو اسے خود سے بےپروہ کر چکی تھی ۔

عریش غلط کر رہا تھا تو صحیح وہ بھی نہیں کر رہی تھی ۔ علینہ نے دل میں اعتراف کیا اور چھوٹے چھوٹے بےآواز قدم اٹھاتے ہوئے عریش کے پیچھے جا کھڑی ہوئی ۔

"جو شخص اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی مجھ سے اور میرے بیٹے سے اپنے نام کا سہارا نہیں چھین رہا وہ مانگنے پر محبت کا سہارا کیوں نہیں دے گا ؟ اگر نہیں بھی دے گا تو میں زبردستی لے لونگی ۔ اس بار ڈروں گی یا گھبرائونگی نہیں ۔۔! کیونکہ مجھے پتہ ہے یہ شخص اس دنیا کا سب سے اچھا انسان ہے ، یہ مجھے کبھی رسوا ہونے کے لیئے تنہا نہیں چھوڑے گا ۔۔" لمبے عرصے بعد پرسکون ہو کر مسکراتے ہوئے علینہ نے عریش کے شانے پر ہاتھ رکھا تھا ۔ عریش نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور علینہ کی طرف مڑا ۔

"آئی لو یو ۔۔!" عریش کے سینے سے لگتے ہوئے علینہ نے مسکرا کر کہتے ہوئے سکون سے اپنی آنکھیں بند کرلیں جبکہ لبوں کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی تھی ۔ اور عریش! وہ ہونق سا علینہ کا سر تکنے لگا ۔ اس کا دماغ شدید خراب ہو رہا تھا ، آیان کا ذکر چھیڑنے پر وہ علینہ کو ڈانٹنا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز حلق میں ہی گھٹ گئی تھی ۔ وہ کچھ کہنے کے قابل نہیں رہا تھا ۔ محبت کا یہ اچانک اظہار اسے سن کر گیا تھا ۔ ان کے درمیان قربتیں عام تھیں لیکن نہ جانے اس ہگ میں کیا بات تھی کہ عریش کی پیشانی کے بل غائب ہوتے چلے گئے تھے ۔

"آئیں ، یہاں اسٹول پہ بیٹھیں انجو ! میں آپ کے روز چمپی کرونگا تو بال بہت جلد دوبارہ بڑے ہوجائینگے ۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا مجھے آپ کے لمبے بال پسند ہیں ؟"

دوپہر کا وقت تھا ، انجم لنچ سے فارغ ہو کر لائونج میں بیٹھی ٹیوی دیکھ رہی تھی جب برہان ایک اسٹول اور تیل کی شیشی لیئے وہاں چلا آیا اور صوفے پر بیٹھ کے اسٹول اپنے سامنے رکھ کے انجم سے مخاطب ہوا ۔

جواب میں انجم نے اسے یوں دیکھا جیسے برہان کا دماغ چل گیا ہو جبکہ اپنے کمرے سے نکلتی ہوئی جنت بیگم کا ہاتھ بےساختہ ہی اپنے سینے پر جا پڑا تھا بےباکی کے اس کھلے مظاہرے پر ۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتیں انجم گویا ہوئی تھی ۔ "برہان بند کرو یہ چیپ باتیں کرنا ۔"

"کیوں اس میں برا کیا ہے ؟ بیوی کاخیال رکھنا اچھی بات ہے اور۔۔۔۔"

"ہاں بلکل اچھی بات ہے ، جبکہ بیوی بھی آٹھ سال بڑی ہو ۔" اس سے پہلے برہان اپنی بات مکمل کرتا ، جنت بیگم طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے ٹھمک ٹھمک چلتی کچن میں گھس گئیں ۔ برہان نے ایک گھوری کچن میں غائب ہوتی جنت بیگم پر ڈالی پھر انجم کی طرف دیکھا ۔ انجم تیزی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ، پھر بھی برہان کی نظر سے انجم کی آنکھوں میں چمکتی نمی چھپ نہیں پائی تھی ۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گیا ۔

"ایسے کیسے چلے گا ؟ جب گھر کے لوگ ہی باتیں بنانا بند نہیں کرینگے تو باہر والوں کو تو حیسے مفت موقع مل جائیگا ۔" بیزاری سے سوچتے ہوئے برہان نے سر ہاتھ میں گرا لیا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

سب ہی کہیں نہ کہیں گئے ہوئے تھے ۔ اس دن گھر میں صرف برہان اور صباء بیگم تھے جب کوئی دور کی عزیزہ اچانک ہی چلی آئی تھیں اپنی بیٹی کی شادی کا کارڈ لے کر ۔ شادی میں آنے کی تاکید اتنی نہیں کی تھی جتنی برہان کی ٹوہ لی تھی ۔ عمر میں بہت زیادہ نہ ہوتیں تو برہان لحاظ نہ کرتا لیکن ان کی عمر کے باعث کچھ سخت سست سنانے سے رہ گیا ۔ جاتے جاتے بھی وہ صباء بیگم سے مخاطب ہوئی تھیں ۔ "بہت اچھی بات ہے باری واپس آگیا ہے ۔ ورنہ سچ کہوں تو خاندان میں کسی کو امید نہیں تھی باری کی واپسی کی ۔ اب انجو کی رخصتی کر ہی دو صباء ! چار پانچ سال اور۔۔۔ پھر جتنا بھی میک اپ کروالے ، بڑی عمر کے اثرات واضع ہو ہی جائینگے انجو کے چہرے پر ! اچھا بھئی میں چلتی ہوں ، آنا نہ بھولنا ، سب کو آنا ہے ، اچھا ! خدا حافظ ۔" وہ اور بھی نہ جانے کیا کیا کہنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن برہان کی غضبناک نظروں پر گڑبڑاتے ہوئے الوداعی کلمات ادا کرتی گھر سے باہر نکل گئیں ۔ صباء بیگم نے بےساختہ ہی دل میں شکر ادا کیا تھا کہ انجم اپنی سہیلی کے گھر گئی ہوئی تھی ، ورنہ خاتون کی باتیں سن کر دو دن تک سوگ میں کمرے میں بند پڑی رہتی ۔

"دوسروں کی زندگی میں لوگوں کو اتنی دلچسپی کیوں ہے آخر ؟ لوگ جس حال میں بھی خوش ہیں انہیں رہنے دیں ۔ جب انہیں کسی چیز کی تکلیف نہیں ہو رہی تو آخر کیا حق پہنچتا ہے انہیں ایسی باتیں کرنے کا ؟؟" برہان خاتون کے جانے کے بعد زور سے گیٹ کا چھوٹا دروازہ بند کر کے بولنا شروع ہوا تو لائونج میں صوفے پر گرنے کے بعد ہی چپ ہوا ۔

صباء بیگم نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا پھر بگڑ کر بولیں ۔ " تم ایک بار سن کر غصہ ہوگئے ہو ! میری بچی نے چھہ سالوں میں کتنی بار ایسی بکواس سنی ہے ، تم سوچ سکتے ہو اس پر کیا گزرتی ہوگی ؟ برہان ! دو مہینوں کے اندر اندر میں رخصتی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ لیکن میں یہ چاہتی کہ انجو روتی دھوتی رخصت ہو۔۔۔۔۔۔"

"رخصتی میں تو سب لڑکیاں روتی ہیں ۔" رخصتی کی بات پر برہان کا کچھ دیر پہلے کا سارا غصہ اڑن چھو ہوگیا اور وہ دانت نکوس کر صباء بیگم کی بات کے درمیان بول اٹھا ۔

"میری بات پوری سنو جذباتی لڑکے ! کوشش کرو انجو کو اپنے ساتھ کا احساس دلانے کی ، اس کا اعتبار جیتنے کی ۔ اور لوگوں کی باتوں کو جوتے کی نوک پر رکھنا سکھائو اسے ۔ میری بچی نے بہت تکلیفیں سہی ہیں ان چھہ سالوں میں ، میں اسے کھل کر ہنستے دیکھنے کے لیئے ترس گئی ہوں ۔ وہ ان لوگوں کی باتیں سوچ کر پریشان ہو رہی ہے جن کا اس کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، اور ہماری محبتیں اسے نظر نہیں آ رہیں ۔ بس منفی باتوں کو سوچتی رہتی ہے کڑھتی رہتی ہے۔۔۔۔۔" بولتے بولتے صباء بیگم کی آواز رندھ گئی اور وہ دوپٹہ منہ پر رکھ کے سسکنے لگیں ۔ برہان حیران نظروں سے انہیں روتے دیکھنے لگا ۔ بینش بیگم کی زبردستی دوسری شادی کروانے کی وجہ سے برہان کو صباء بیگم بہت پتھر دل اور بری لگنے لگی تھیں لیکن آج انہیں انجم کے دکھ پہ یوں روتے دیکھ کر اسے احساس ہوا تھا ، اولاد کا دُکھ واقعی سب سے بڑا دکھ ہوتا ہے ۔ ظالم سے ظالم انسان بھی ، جب اپنی اولاد پر آئے تو رو پڑتا ہے ۔

"سمجھ رہے ہو نا تم میری بات ؟ میں رخصتی کی تیاریاں شروع کر رہی ہوں ، تم انجم کے دل سے "لوگ کیا کہینگے" کا ڈر باہر نکالو ۔! مجھے میری بیٹی دوبارہ ہنستی مسکراتی چاہیے ۔" کافی دیر تک سسکتے رہنے کے بعد قدرے سنبھل کر صباء بیگم اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے بولیں ۔

"یس میڈم ، مشن اسٹارٹ !! ٹارگٹ انجو کے چہرے پر ہنسی اور دل میں باری کے لیئے محبت ۔" برہان صباء بیگم کو فوجی انداز میں سیلوٹ مارتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور شرارت سے بولا ، پھر ان کے گھورنے پر ہنستے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

پیچھے صباء بیگم افسوس سے سر ہلا کے بڑبڑاتی رہ گئیں ۔ "اس کا بچپنہ کبھی نہیں جائیگا ۔"

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

شادی میں شرکت کی وجہ سے علینہ بھی واپس گھر آگئی تھی اور اس وقت پورا گھر الٹ پلٹ ہو رہا تھا ۔ ہو کوئی اپنی تیاری میں مگن اِدھر اُدھر دوڑتا پھر رہا تھا ۔ کسی کے کپڑے ابھی تک پریس نہیں ہوئے تھے تو کسی کے جوتے غائب تھے ۔ کسی کو عین وقت پر یاد آیا تھا کہ کپڑوں کی میچنگ جویلری نہیں موجود ، اور اب دوسروں کی جویلری کنگھالتا پھر رہا تھا ۔ علینہ چونکے کچھ دیر پہلے ہی گھر لوٹی تھی سو وہ ابھی باتھ لے کر باتھ گائون میں باتھروم سے باہر آئی تھی جہاں عریش سفید کرتے کی آستینیں فولڈ کیئے بیزار سا چینل سرچ کر رہا تھا ۔ علینہ کے سراپے پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر ، نظریں واپس ٹیوی اسکرین پر ٹکا کے گویا ہوا ۔ "جلدی کرو  ، سب تقریباً تیار بیٹھے ہیں ۔"

"جی !" سعادت مندی سے کہتے ہوئے علینہ نے وہ دو جگمگاتے سوٹ الماری سے نکالے جو وہ پہننے کا ارادہ رکھتی تھی ۔ دونوں سوٹ ویلوٹ کلر کے تھے جو عریش کا پسندیدہ رنگ تھا ، لیکن ان میں سے کسی ایک کا انتخاب وہ نہیں کر پا رہی تھی ۔ "عریش ! ان میں سے کونسا پہنوں ؟ غرارہ اچھا لگے گا مجھ پر یا یہ فراک ؟" علینہ کے یوں بےتکلیفی سے غیرضروری سوال پوچھنے پر عریش نے تعجب سے اسے دیکھا ۔

"تمہاری آنکھیں سلامت ہیں اور شیشہ بھی سامنے ہے ۔ خود فیصلہ کرو ، جو چاہو پہنو ۔" عریش تو علینہ کی توقع کے مطابق بگڑ کر ہی بولا تھا ۔ لیکن علینہ عریش کی توقع کے برعکس نہ روئی تھی نہ ڈری تھی ، بلکہ مسکراتے ہوئے بولی تھی ۔ "میں آپ کے لیئے تیار ہو رہی ہوں تو آپکی پسند کے لحاظ سے تیاری کرنی چاہیے نا ؟"

"میرے لیئے کیوں تیار ہو رہی ہو ؟ کیا میرا ولیمہ ہے ؟" عریش بڑبڑاتے ہوئے اٹھا اور پلک جھپکتے میں کمرے سے باہر نکل گیا ۔ پیچھے علینہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی ، پھر دھیرے سے ہنس پڑی ۔

"میں جان گئی ہوں عریش ، آپ کا دل پتھر نہیں ہوا ہے ۔ یہ بس پتھر کا ایک خول ہے جس کے اندر اب بھی وہ کیئرنگ لونگ دل موجود ہے اور مجھے اس پتھر کے خول کو توڑ کے اس دل کو حاصل کرنا ہے ، جو میں ضرور کرلونگی ۔" دل میں مصمم ارادہ کرتے ہوئے علینہ دلکشی سے مسکرائی اور فراک اٹھا کر کمرے کا دروازہ لاک کرنے چل پڑی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

علینہ کو عالم ولا سے گھر چھوڑنے آنے والی گاڑی ڈرائیور سمیت یہیں موجود تھی اور ایک چھوٹی سی گاڑی پہلے ہی گھر میں موجود تھے ۔ اس وقت سب گھر کے باہر کھڑے "کون کہاں بیٹھے" کا فیصلہ کر رہے تھے جبکہ جنت بیگم پہلے ہی عدیل عالم کی لگژری کار میں نشست سنبھالے اکڑ کر بیٹھ چکی تھیں ۔ اور عریش نے اپنی چھوٹی سی کار کی ڈرائونگ سیٹ سنبھالی ہوئی تھی جب جھٹکے سے دروازہ کھول کر ، اس کے پہلو میں خوشبوئیں لٹاتی علینہ آیان کو گود میں لیئے ، دھپ سے آ کر بیٹھ گئی پھر عریش کی طرف دیکھ کر دلکشی سے مسکرا اٹھی ۔ عریش جو ایک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا ، علینہ کے مسکرانے پر اپنی بےخودی پر گڑبڑاتے ہوئے نظریں چرا گیا ۔ علینہ نے گود میں چڑھے آیان کو پچھلی سیٹ پر بٹھا دیا پھر نچلا لب کچلتے ہوئے چور نظروں سے عریش کو دیکھنے لگی جو موبائل پر مصروف نظر آنے کا بھرپور تاثر دے رہا تھا ۔

"پاپا ماما کتنی پیاری لگ رہی ہیں نا ؟" آیان آگے ہو کر عریش سے مخاطب ہوا تو عریش ایک اچٹتی نظر علینہ پر ڈال کر گلا کھنکھار کے رہ گیا ۔

پھر کچھ لمحوں بعد ہی انجم بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی ۔ انجم کے انداز میں دبا دبا غصہ تھا ، اس سے پہلے علینہ انجم سے اس کے غصے کی وجہ پوچھتی ' برہان جلدی سے پچھلی طرف کا دوسرا دروازہ کھول کر درمیان میں بیٹھے آیان کے دوسری طرف بیٹھ گیا ۔ اور تقریباً چلا کر بولا ۔ "عریش بھائی جلدی سے دروازوں پر لاک لگائیں !" برہان کا انداز ایسا ہاتھ پیر پھلانے والا تھا کہ عریش نے بھی کچھ پوچھے یا سوچے بغیر جلدی سے اس کے کہے پر عمل کرڈالا ۔

"کیوں ، کیا بات ہے باری ؟" علینہ نے پریشانی سے پوچھا ۔

"یہ محترمہ یہاں سے بھی نکل کر بھاگ جاتیں ۔۔!" برہان منہ بسور کر انجم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔ علینہ مسکرا کر رہ گئی جبکہ عریش سر جھٹک کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا ، کیونکہ تمام بڑے اس لگژری کار میں سوار ہوچکے تھے ۔ انجم بھی دوسری گاڑی کو بھرتے دیکھ کر بےبسی سے سینے پہ بازو لپیٹ کے رہ گئی ۔

کچھ دیر تک سفر خاموشی سے کٹتا رہا پھر برہان بولا ۔ "شادی ہال تو کافی دور ہے ، بہت دیر لگ جائیگی پہنچنے میں ۔  اتنا لمبا سفر اس طرح چہرے لٹکا کر خاموشی سے تو نہیں کاٹا جا سکتا ۔ کم از کم میں تو نہیں کاٹ سکتا ! کوئی گانا شانا چلائیں عریش بھائی ۔" آخر میں برہان نے عریش کا شانہ تھپتھپایا ۔ عریش نے جھنجلا کر اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔

"چلیں پھر ہم خود ہی گا لیتے ہیں ۔ کیا خیال ہے عینا بھابی ؟" برہان کے بھابی کہنے پر عریش اور علینہ دونوں چونکے تھے ۔

"ہاں کیوں نہیں !" علینہ ایک مسکراتی نظر عریش پر ڈالتے ہوئے گویا ہوئی ۔

"چلیں پھر آپ شروع کریں ۔" برہان کے کہنے پر علینہ گڑبڑا گئی ۔

"نہیں ، تم شروع کرو ، کوئی ماحول بنائو ۔ پھر میں بھی گائوں گی ۔"

"ارے ماحول کی کیا بات کی ہے آپ نے ۔ صنم پہلو میں ہے ، دیکھتی جائیے گاتی جائیے ۔" برہان کے شرارتی انداز میں کہنے پر علینہ کی ہنسی بےساختہ تھی ۔

"یس ماما گائیں نا ۔۔! پھر میں بھی گائونگا ۔" آیان کے چہک کر فرمائش کرنے پر برہان سمیت انجم کے لب بھی مسکرادیے ۔ 

"بس بھئی ہمارے شہزادے کی خواہش ہے ۔ انکار کی کوئی گنجائش نہیں ، اب تو گانا ہی پڑیگا ۔" برہان کے کہنے پر عریش نے چہرے کے تاثرات ضرورت سے زیادہ سنجیدہ کرلیئے اور توجہ مکمل طور پر ڈرائیونگ کی جانب مبزول کرلی لیکن درحقیقت عریش کا رواں رواں سماعت بن چکا تھا ۔

علینہ کچھ دیر تک تو انگلیاں چٹخاتی رہی ، پھر ایک گہری نظر جب عریش پر ڈالی تب بےساختہ ہی اس کے لب گنگنا اٹھے تھے ۔

"دل دھڑکے میں تم سے ، یہ کیسے کہوں ۔ کہتی ہے میری نظر شکریہ۔۔۔۔ ہو۔۔ کہتی ہے میری نظر شکریہ۔۔۔۔

تم میری امنگوں کی شب کے لیئے ، آئے ہو بن کے صحر شکریہ۔۔۔۔ کہتی ہے میری نظر شکریہ۔۔" علینہ آگے بھی گانا چاہتی تھی مگر شرم کا شدید حملہ اچانک اس پر ہوا اور علینہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر جھینپ کے ہنس پڑی جبکہ برہان کے ساتھ انجم کے ہاتھ بھی بڑے ساختہ سے انداز میں تالیاں بجانے لگے تھے ۔ اور عریش۔۔۔۔ عریش کا دل اتنی زوروں سے دھڑکا تھا کہ تالیوں کے شور کے باوجود عریش اپنے دل کی دھک دھک باآسانی سن سکتا تھا ۔ ایک درزیدہ سی نظر علینہ پر ڈال کر عریش لب بھینچ کے رہ گیا ۔

"اچھا بھئی اب میری باری !" برہان اونچی آواز میں بولا پھر لہک لہک کر گانے لگا ۔ "میرے پہلو والی سیٹ پہ ایک چشمش چاند بیٹھا ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ وہ ہم سے ، کچھ اکھڑا اکھڑا رہتا ہے ۔"

"چشمش چاند" پر عریش کے لب پل بھر کے لیئے پھیلے تھے جبکہ علینہ اور آیان دونوں تالیہ پیٹتے ہوئے ساتھ ساتھ ہنس بھی رہے تھے ، اور انجم مکمل طور پر کھڑکی سے باہر دوڑتی سڑک کو گھورنے لگی تھی ۔

"تھینک یو ، تھینک یو سو مچ !" برہان ہاتھ ہلا ہلا کر یوں بول رہا تھا جیسے دنیا بھر کا میڈیا اس کے سامنے ہی ہو ۔

"اب میں؟؟؟؟؟" آیان ہونٹ لٹکا کر بولا ۔

"ہاں ہاں بلکل ، اب آپ جناب ! سب خاموش ہوجائو اب ہمارا شہزادہ گائے گا ۔" برہان نے سب کو گھور کر کہا ، پھر اندازہ ہوا کہ سب پہلے ہی چپ ہیں ۔ بس وہ خود ہی بولے جا رہا ہے ، سو اپنے لبوں پر انگلی رکھ کر آیان کو گانے کا اشارہ دیا ۔

"جانیاں۔۔۔ دل سے ملالے دل ۔۔!

جانیاں دل سے ملالے دل ۔۔!

جسٹ چیوں چیوں ! جسٹ چیوں چیوں۔۔۔۔۔! اپنی دھن میں معصوم سی آواز میں گاتا آیان' گاڑی میں گونجتے ان چاروں کے جناتی قہقوں کی وجہ سے ڈر سے اچھل کر چپ ہوگیا اور حیران پریشان نظروں سے ان سب کو دیکھنے لگا ۔

اس نے پہلی بار عریش کو اس طرح ہنستے دیکھا تھا ۔ اس کی انجو پھپھو بھی بہت کم یوں ہنسا کرتی تھیں ، جبکہ اس کہ ہمیشہ گم صم رہنے والی ماما بھی آج الگ ہی چھب دکھا رہی تھیں ۔ آیان سخت حیران تھا کہ ایسا کیا کردیا تھا اس نے جو سب یوں ہنس رہے تھے ۔

"جج۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔۔!!! ججس۔۔۔۔۔ جسٹ چیوں چیوں نہیں جسٹ چل چل !" برہان ہنسی سے دہرا ہوتے ہوئے بامشکل ہنسی کے درمیان بولا تھا پھر یکدم قدرے سنبھل کر اس نے موبائل کیمرہ جیب سے نکال کے انجم کی ایک تصویر کھینچ ڈالی ، جو منہ پر ہاتھ رکھے اپنی ہنسی کنٹرول کر رہی تھی ۔ فلیش لائٹ چہرے پہ پڑنے پر انجم نے یکدم سنجیدہ ہو کر برہان کو دیکھا اور بغیر آواز کے ، صرف ہونٹ ہلا کر برہان کو تصویر ڈیلیٹ کرنے کو کہا تھا ۔ جواباً برہان نے چیلنجنگ انداز میں ابرو اچکا کر موبائل اسکرین پر لب رکھ دیئے ۔ انجم اس بےباکی پر جھجھری لے کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی جبکہ برہان اب آیان کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہا تھا ۔ برہان کی تعریف کچھ ایسی تھی کہ عریش سارا راستہ اپنی ہنسی کنٹرول کرتا رہا جبکہ انجم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہی کہ شادی میں بہت سارے جاننے والے ہونگے ۔ برہان اور اسے ساتھ دیکھ کر ان کے کیا تاثرات ہونگے ؟؟؟  کیونکہ چھہ سال کے عرصے میں وہ سب سے یہی سنتی رہی تھی کہ "باری نہیں لوٹیگا !"

سب سے مل ملا کر انجم کونے میں رکھی ایک کرسی پر خاموشی سے بیٹھی موبائل میں مگن تھی جب اپنے نام پر اس کے کان کھڑے ہوگئے ۔ "یہ آفاق بھائی کی لڑکی انجم ہے نا ؟"

"ہاں۔۔۔ وہی لگ رہی ہے ۔"

"کتنا گہرا میک اپ کر رکھا ہے ۔ پہلی نظر میں تو پہچانی ہی نہیں جارہی ۔"

"وہ بیچاری بھی کیا کرے ، میاں اتنا کم عمر ہے ۔ اب اس کے ساتھ کی لگنے کے لیئے یہ سب تو کرنا ہی پڑے گا ۔" نہ جانے یہ ہمدردی تھی یا طنز ۔

"مجھے لگتا ہے باری پچھتا رہا ہے ۔ بچپنے میں غلطی کردی اس نے ۔ ذرا دیکھیں تو سہی ، جب سے آیا ہے فرخندہ آپا کی فاریہ کے ساتھ چپکا ہوا ہے ۔ فاریہ کے ساتھ جوڑی تو ویسے جچ رہی ہے باری کی ۔۔!" اس بات پر انجم نے اپنی آنسئوں سے جھلملاتی نظریں اٹھا کر اِدھر اُدھر گھمائیں ۔ جلد ہی انجم کو برہان نظر آگیا ، کسی بات پر زور سے ہنستے ہوئے ۔ برہان کے ساتھ ایک نازک سی لڑکی بھی تھی ۔ جوڑی واقعی خوبصورت تھی !! انجم کے لیئے آنسئوں کو بہنے سے روکنا مشکل ہوگیا ۔ حلق میں نمکین پانی کا گولا سا اٹک گیا تھا ۔

"ایسے بھی مت بولو بھئی ! شادی ہوگئی ہے اب اللہ انجو اور باری کی جوڑی سلامت رکھے ۔ لیکن باری کے ساتھ واقعی زیادتی ہوگئی ہے ۔ اس نے اپنی نادانی میں خود ہی اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی ہے ۔ ابھی تو پھر بھی عمر اتنی زیادہ نمایاں نہیں ہو رہی لیکن چند سال بعد بلکل بڑی عمر کی لگنے لگے گی ۔ کتنی بھی مین ٹین رہ لے ۔"  یہاں انجم کی بس ہوگئی تھی ۔ وہ جھٹکے سے کرسی سی اٹھی اور ایک اچٹتی نظر ان خواتین پر ڈال کے تیز تیز قدم اٹھاتی ہال سے باہر نکل گئی ۔

جب سے اس نے ہال میں قدم رکھا تھا ، لوگوں کی نظروں میں اپنے اور برہان کے رشتے کے حوالے سے استہزاء ہی دیکھا تھا لیکن اب اتنے واضع الفاظ میں ایسی باتیں سن کر وہ مزید ضبط نہیں کر سکی تھی اور ہال سے باہر آ کر چہرہ ہاتھوں میں دیے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی ۔ روتے ہوئے اسے اچانک لگا کہ کوئی اسے پکار رہا ہے ۔ پکارنے والا شاید اس کے قریب دوڑتا ہوا آ رہا تھا اور اب آواز واضع تھی ۔ اور آنے والا کون ہوسکتا تھا برہان کے سوا ؟

"انجو آپ باہر کیوں آئی ہیں ؟ کیوں رو رہی ہیں انجو ؟ دیکھیں کتنی سردی ہے ، اندر چلیں شاباش ۔ انجو پلیز اندر چلیں ، سردی بہت بڑھ گئی ہے ۔ رونا بند کریں پلیز انجو ! بات کیا ہے ؟" انجم کے چہرے سے اس کے ہاتھ زبردستی ہٹاتے ہوئے برہان نے اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کرنے چاہے تھے لیکن انجم نے بدتمیزی سے اس کے ہاتھ جھٹک دیے تھے ۔ برہان کے ہاتھ کی پشت پر انجم کا ناخن بہت زور سے لگا تھا لیکن برہان نے توجہ نہیں دی تھی ۔

"کیا بات ہے ؟ کسی نے کچھ کہا ہے ؟ آپ اس طرح کیوں رو رہی ہیں کچھ بتائیں تو سہی !" ہوا سے اڑتے انجم کے بال سمیٹتے ہوئے برہان سخت پریشان لگ رہا تھا ۔

"اتنے اچھے مت بنو ، تم سے زیادہ برا کوئی نہیں ہے ، یہ میں جانتی ہوں ۔ تم نے مجھ سے میری زندگی کے سنہری سال چھین لیئے ، تمہاری وجہ سے میں نے زندگی کا خوشگوار ترین پریڈ انتظار میں گزار دیا ۔ تم بہت ظالم ہو ، مجھ پر ظلم کیا ہے تم نے ! مت کرو اچھے ہونے کی اداکاری ۔ تمہاری وجہ سے مجھے اپنی زندگی کا باقی حصہ لوگوں کی باتیں سنتے ہوئے گزارنا پڑے گا ۔ امتحان پر امتحان ، تمہاری وجہ سے ۔ میں تھک گئی ہوں مجھے معاف کردو ، رحم کرو مجھ پر اور جان چھوڑو میری ۔ میں اپنی باقی کی زندگی لوگوں کی باتیں سنتے ہوئے نہیں گزار سکتی ۔ نہیں۔۔۔ گزار۔۔۔۔ سکتی ! سنا تم نے ؟ نہیں گزار سکتی میں باتیں سنتے ہوئے اپنی ساری زندگی ۔ اپنا تماشہ گوارا نہیں ہے مجھے ۔ تم نے کل غلطی کی ، لوگ اسے تمہاری نادانی کہتے ہیں ، تم کل نادان تھے ۔ تمہیں اپنی ساری زندگی مجھ جیسی ایجڈ لڑکی کے ساتھ گزارنی پڑے گی ، آج تم بیچارے ہو ! میں کل بھی تماشہ تھی ، میں آج بھی تماشہ ہوں ۔ نہیں چاہیے مجھے تمہاری ایسی سوکالڈ محبت جو ساری زندگی کے لیئے مجھے تماشہ بنادے ۔ اگر تم واقعی مجھ سے محبت کے دعویدار ہو تو طلاق دو مجھے ! میں ایسے شخص کے ساتھ شادی کرونگی جس کی سنگت میں میرا تماشہ نہ بنے ۔ چپ کیوں کھڑے ہو ؟ طلاق دو مجھے ! محبت کے دعویدار ہو نا تو طلاق دو مجھے !! کرتے ہو محبت تو میری یہ خواہش پوری کرو اور طلاق دو مجھے ۔ آزاد کردو مجھے !!" یہ صرف ان خواتین کی باتوں کا غصہ نہیں تھا ، یہ چھہ سال کی گھٹن تھی۔۔۔۔۔۔۔ جسے آج نکلنے کا بہانہ مل گیا تھا ۔

برہان جو جبڑے سختی سے کسے انجم کو چیختے اور ساتھ ہی روتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ انجم کی طلاق دو کی رٹ پہ اشتعال میں آتے ہوئے انجم کے بازو تھام کر اسے ایک جھٹکے سے اپنے قریب کرچکا تھا ۔

انجم کی آواز یکدم غائب سی ہوگئی تھی ۔ انجم بس ساکت نظروں سے برہان کی سرخ سپاٹ آنکھوں میں دیکھے جا رہی تھی ، پھر اچانک ہی انجم نے اپنی نظریں جھکالیں جبکہ سسکیاں ہنوز جاری تھیں ۔

برہان نے اپنا چہرہ ذرا سا ترچھا کر کے انجم کی جھکی نظروں میں جھانکنا چاہا پھر چہرہ مزید نیچے جھکا کر انجم کے کان کی لو چوم کر سلگتے لہجے میں گویا ہوا ۔ "محبت نہیں ہے عشق ہے مجھے ! محبت میں مجبوب کی خوشی کے لیئے 

 قربانی کی گنجائش ہوتی ہے لیکن عشق بہت ضدی ہوتا ہے انجو ! اسے محبوب کی محبت سمیت پورا محبوب بھی چاہیے ہوتا ہے ! اور لوگوں کی باتوں کی خوب کہی آپ نے ۔ آپ مجھ سے شادی کر کے کسی سوکالڈ ایج فیلو سے شادی کرینگی ، لوگ تب بھی باتیں بنائینگے کہ اتنا اچھا خاصہ لڑکا چھوڑ کر دوسری شادی کر لی انجو نے !" بھینچے لہجے میں کہہ کر برہان نے اپنے لب انجم کی کنپٹی سے لگادیئے ، اور پھر لگائے ہی رکھے ۔

کتنی ہی دیر تک انجم جنبش تک دینے کے قابل نہیں رہی ، بس سانس روکے اپنی اور عریش کی دھڑکنیں سنتی رہی جب اچانک ہی کوئی گاڑی پارکنگ میں آ کر رکی تھی ۔ انجم ہوش میں آتی تیزی سے پیچھے ہوئی اور تقریباً دوڑتے ہوئے ہال کے گیٹ کی طرف بڑھی ۔ ٹھنڈی سانس خارج کرتا برہان بھی اس کے پیچھے ہی تھا ۔

انجم ٹیکسی رکوا کر اس میں بیٹھی ہی تھی کہ برہان بھی اس کے پہلو میں آدھمکا ۔ انجم تلملاتے ہوئے دوسری طرف سے نکلنے لگی لیکن برہان نے انجم کا بازو تھام کر ٹیکسی ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ دیا ۔

"نہیں ! مجھے کہیں نہیں جانا ۔ چھوڑو مجھے تم ، میں منہ توڑدونگی تمہارا ۔ ہمت کیسے ہوئی تمہاری مجھے ہاتھ لگانے کی ۔" انجم کے چیخنے پر ٹیکسی ڈرائیور مشکوک نظروں سے برہان کو دیکھنے لگا ۔

"اے لڑکے تم کون ہو ؟ نیچے اترو ، کیوں پریشان کر رہے ہو بہن جی کو ؟"

"ارے سالے صاحب ! آپ کا بہنوئی ہوں میں ۔ آپ کی بہن جی ذرا سی کھسکی ہوئی ہیں سو۔۔۔۔"

"بہنوئی ؟؟ پاگل سمجھ رکھا ہے ؟ بڑی ہیں بہن جی تم سے ۔" ٹیکسی ڈرائیور کے کہنے پر انجم جو اپنا بازو برہان سے چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ، یکدم ساکت ہوگئی اور اگلے ہی پل اپنے چہرے پہ دونوں ہاتھ رکھ کر دوبارہ رونا شروع ہوگئی ۔ برہان نے ٹیکسی ڈرائیور کو ایسی قاتلانہ نگاہوں سے دیکھا کہ ٹیکسی ڈرائیور گڑبڑاتے ہوئے مزید کچھ کہے بغیر ٹیکسی اسٹارٹ کرنے لگا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

گھر پہنچتے کے ساتھ ہی انجم جھٹکے سے ٹیکسی سے باہر نکل گئی تھی جبکہ برہان ٹیکسی ڈرائیور کو نمٹا کر گیٹ تک پہنچا تھا اور پھر وہاں منہ چڑاتے تالے کو دیکھ کر سر کھجا کر رہ گیا ۔ اسے یاد آیا چابی تو عریش کے پاس تھی ۔ ہال بہت دور تھا ، اتنی آرام سے آنا جانا بھی ممکن نہیں تھا اور سب کے آنے تک گھر کے باہر کھڑے رہنا بھی مشکل تھا ۔ نچلا لب کچلتے ہوئے برہان نے انجم کی طرف دیکھا جو ہر چیز سے بےنیاز بنی ، گیٹ سے کندھا ٹکائے ، رخ دوسری طرف کیئے سسک رہی تھی ۔

"چابی نہیں ہے انجو !"

"دفعہ ہوجائو ۔۔" برہان بیچارہ تو ضروری بات کر رہا تھا لیکن انجم نے بھڑکنا ضروری سمجھا ۔

"ان کا دماغ تو پورا خراب ہے ۔ مجھے خود ہی کچھ سوچنا پڑے گا ۔" بڑبڑاتا ہوا برہان گیٹ کا جائزہ لے رہا تھا کہ آیا وہ اور انجو اسے پار کر سکتے ہیں یا نہیں ، جب اس کے فون پر آفاق صاحب کی کال آنے لگی ۔

"اسلام علیکم ؟ جی آفی ماموں ؟" کال پک کر کے برہان بولا ۔

"وعلیکم سلام ، تم اور انجو کہاں ہو ؟ علینہ بتا رہی تھی تم دونوں ہال سے باہر نکلے تھے ۔"

"دراصل ماموں۔۔۔۔ انجو کی طبیعت کچھ خراب ہوگئی تھی تو میں انہیں گھر لے آیا ، لیکن گھر آ کر یاد آیا ' چابی ہمارے پاس نہیں ہے ۔"

برہان کی بات سن کر آفاق صاحب گم صم سے رہ گئے پھر مدھم آواز میں گویا ہوئے ۔ "جب بھی کسی تقریب میں جاتی ہے ، اس کی یہی حالت ہوجاتی ہے ۔ پھر بہت سمججھاتے ہیں میں اور اس کی ماں کہ ہمیشہ دنیا سے کٹ کر تو نہیں رہا جا سکتا ' تب جا کر راضی ہوتی ہے ۔ اچھا خیر۔۔۔۔۔ رکو میں آتا ہوں یا عریش کو بھیجتا ہوں چابی لے کر ۔" آفاق صاحب افسوس بھرے انداز برہان کو بتاتے بتاتے یکدم سنبھلے تھے ۔

"ارے نہیں آفی ماموں ۔ ایسے تو بہت دیر ہوجائیگی ، ہال اور گھر کے درمیان فاصلہ بہت ہے ۔ میں انجو کو عدیل انکل کے گھر لیجاتا ہوں ؟ ان کا گھر اتنا دور نہیں ہے ؟" برہان کو اچانک عدیل عالم کا خیال آیا تو بول اٹھا ۔

"دیکھ لو بیٹا ، وہ بڑے لوگ ہیں ' مائنڈ نہ کرجائیں یوں رات گئے جانے پر ۔" آفاق صاحب گومگو کا شکار ہوئے ۔

"اوہو مامو ڈونٹ وری ! اتنے سال میں ان کے ساتھ رہا ہوں ۔ اتنا مجھے اندازہ ہوگیا ہے وہ جتنے برے لگتے ہیں اتنے برے ہیں نہیں ۔" برہان کی آخری بات پر آفاق صاحب نے بےساختہ اپنی مسکراہٹ دبائی تھی ۔

پھر الوداعی کلمات ادا کر کے برہان فون بند کرتا انجم کی طرف پلٹا ۔ انجم کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ۔ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے برہان انجم کی طرف بڑھا ۔ "چلیں انجو ! عدیل انکل کے گھر چلنا ہے ۔" کہتے ہوئے برہان نے انجم کا ہاتھ تھامنا چاہا جو انجم نے بےدردی سے جھٹک دیا ۔ برہان کچھ دیر تک لب بھینچے انجم کو گھورتا رہا پھر آس پاس کا جائزہ لیا ۔ گلی بلکل خالی تھی ۔ اگلے ہی پل ایک زوردار چیخ مارتی انجم برہان کے بازئوں میں تھی ۔

"چھوڑو ! چھوڑو مجھے نیچے اتارو۔۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی  مجھے چھونے کی ۔۔!  بدتمیز لڑکے نیچے اتارو مجھے ' میں تمہاری جان لے لونگی ۔ برہان یہ تم مین روڈ کی طرف کیوں جا رہے ہو ؟ پلیز چھوڑو مجھے کوئی دیکھ لے گا ۔ برہان پلیز نیچے اتارو مجھے ۔" غصے سے برہان کے شانے پہ مکے اور تھپڑ رسید کرتے ہوئے بولتی ہوئی وہ برہان کو مین روڈ کی طرف بڑھتے دیکھ کر منتوں پر اتر آئی تھی ۔

"ہاں تو اچھی بات ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا دیکھے ۔" برہان ڈھٹائی سے بولا اور قدموں کی رفتار بھی تیز کردی ۔

"برہان پلیز چھوڑو ، مجھے نیچے اتارو پلیز.۔۔۔ میں چل رہی ہوں ۔" انجم کی گلوگیر آواز میں کی گئی منت پر اس بار برہان کچھ نہیں کہہ سکا اور انجم کا سر چومتے ہوئے اسے نیچے اتار دیا ۔ نیچے اترتے کے ساتھ ہی انجم نے دوپٹے کے کنارے سے اپنا سر صاف کیا تھا ۔ انجم کے اس بچپنے پر برہان اپنی مسکان چھپاتا رہ گیا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

عدیل عالم کہیں گئے ہوئے تھے ۔  عالم ولا میں صرف عالیہ موجود تھی جس نے بہت خوش اخلاقی سے ان دونوں کا استقبال کیا تھا ۔ انجم کافی کے دور کے دوران اپنا چہرہ ترچھا کیئے اپنے ضدی آنسئوں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی تھی ۔ اس کی کافی بھی کپ میں جوں کی توں پڑی ٹھنڈی ہو رہی تھی ۔ عالیہ نے بغور انجم کی بکھری بکھری حالت کا جائزہ لیا پھر باتیں کرنے کا ارادہ مفقود کرتے ہوئے انجم کو گیسٹ روم میں لے گئی ۔ جب گیسٹ روم سے باہر آئی تب برہان کو اپنے سر پر ہولے ہولے مکے مارتے دیکھا ، حالانکہ انجم کی موجودگی تک وہ کافی ہنسی مذاق کر رہا تھا ۔

"باری ! کیا ہوا ہے ؟" عالیہ نے برہان کا سر تھپتھپاتے ہوئے پوچھا ۔

"وہ چاہتی ہیں میں انہیں آزاد کردوں ، یعنی وہ چاہتی ہیں میں جینا چھوڑدوں !" برہان سر اٹھا کر کانپتی آواز میں بولا تھا ۔ کچھ دیر پہلے کی زندہ دلی کا اس کے چہرے پر نام و نشان تک نہیں تھا ۔

"ایسا کیا ہوا ہے ؟ عالیہ الجھ کر پوچھتی ہوئی اس کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی ۔

"کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ کچھ لوگوں نے باتیں بنادی ہونگی ، لوگوں کا اور کام ہی کیا ہے باتیں بنانے کے سوا ؟ لوگوں کی باتیں سن کر خود پر خوشیاں حرام کرلینا کہاں کی عقل مندی ہے ؟" برہان تقریباً چیخا تھا ۔ شاید کمرے میں بند انجم کو سنانا مقصود تھا ۔

"تم اپنا خون مت جلائو ۔ تم خود بھی ان دیسی لوگوں کی فطرت سے واقف ہو ، تم نے فیصلہ کیا تھا نا تم انجو آپی کو رخصت کر کے لندن لےجانے کا ۔ بس صبر رکھو جب تک رخصتی نہیں ہوجاتی ۔ ایک بار انجو آپی اس ماحول سے باہر نکل گئیں پھر زیادہ وقت نہیں لگے گا انہیں تمہاری محبت پر یقین کرنے میں ۔"

"میں نے ان کی آنکھوں میں ایسی نفرت دیکھی ہے کچھ دیر پہلے عالیہ آپی ، آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کیا گزری تھی میرے دل پر ! مجھے لگتا ہے میرے مرنے کے بعد ہی انہیں یقین آئیگا میری محبت کا ۔ جو چیز بغیر مانگے فراوانی سے مل رہی ہو اس کی اہمیت کا اندازہ ایسے ہی کہاں ہوتا ہے ؟" برہان اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے پتھردلی سے بولا ۔

"زیادہ بکواس نہیں کرو اچھا !" عالیہ نے مرنے کی بات پر دہشت زدہ ہوتے ہوئے اسے ڈپٹا ، پھر نرمی سے بولی ۔ "تم بس ڈٹ جائو ، لڑکیوں کا دل موم کی طرف ہوتا ہے ۔ بظاہر سخت ! لیکن ذرا سی آنچ سے پگھل جاتا ہے ۔ وہ تم پہ غصہ کرسکتی ہیں لیکن تم سے نفرت نہیں کرسکتیں ، تم اپنی محبت سے ان کا دل جیت سکتے ہو ۔ اور تم صباء آنٹی سے بات کرو ۔ دو مہینے نہیں اسی مہینے رخصت کریں انجو آپی کو ۔ کونسا کوئی جہیز وہیز بننا ہے ؟ تمہارا گھر وہاں آلریڈی سیٹ ہے ۔ میں بھی یہاں تیاریاں شروع کردیتی ہوں ۔" عالیہ چٹکی بجا کر مزے سے بولی ۔

"وہ اس طرح زبردستی رخصت کیئے جانے پر رخصتی کے وقت کوئی پنگا نہ کردیں ۔" برہان کی الجھنیں ہنوز قائم تھیں ۔

"او کوئی نہیں ، تم بھی تو اس بیچاری کے عین نکاح کے وقت پنگا کر کے بیٹھ گئے تھے ۔ وہ بھی آخر کو تمہای ہی پسلی سے بنی ہے ۔ کھینچ تان کر زبردستی اسے رخصت کروا لائینگے ہم ۔ ویسے تم اکیلے ہی کافی ہو ، نہیں ؟" عالیہ کے شرارتی انداز میں کہنے پر برہان آخر کار مسکرا ہی دیا ۔

"میں ذرا ایک نظر ان پر ڈال آئوں ؟ غصے کی کافی تیز ہیں بچپن سے ہی ۔ کم آتا ہے ، لیکن جب آتا ہے ، طوفان لے آتا ہے ۔" ہنس کر کہتے ہوئے برہان انجم کے کمرے کی طرف بڑھا اور دروازہ تھوڑا سا کھول کر اندر جھانکا ۔ اگلے ہی پل برہان کی سانس سینے میں اٹک گئی تھی ۔ بیڈ سے ٹیک لگائے نیم بیہوشی کی حالت میں پڑی کراہتی ہوئی انجم کی کلائی خون سے لت پت تھی ۔ خون بڑی روانی سے اس چکنے فرش پر پھیلتا جا رہا تھا ۔

"انجو !!! انجو ؟؟؟ آنکھیں کھولیں ۔ یہ کیا ' کیا آپ نے ؟؟" برہان چیخ کر اس کی طرف دیوانہ وار بڑھا تھا ۔ عالیہ بھی شور سن کر کمرے میں دوڑی چلی آئی تھی ، اور کمرے کا منظر دیکھ کر حواس باختہ ہوتی ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہنے کے لیئے بھاگ گئی ۔

"مم میں۔۔۔ میں خودکشی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ نہیں کرنا چاہتی تھی امی ! اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے کون ختم کرنا چاہتا ہے ؟ یہ۔۔۔ یہ لوگ ہوتے ہیں جو مجبور کردیتے ہیں۔۔۔۔ اور پھر بعد میں حرام موت مرنے پر جہنمی ہونے کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کسی بھی حال میں سکون نہیں ہے لوگوں کو ۔۔۔!!"

اسپتال کے اس کمرے میں اس وقت صرف صباء بیگم اور انجم موجود تھے ۔ جب انجم مکمل طور پر ہوش میں آگئی تب صباء بیگم نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں صرف اتنا پوچھا تھا کہ "کیوں ؟؟؟" اور جواباً انجم بھرائی آواز میں اتنا کہنے کہ بعد چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر سسکنے لگی ۔

"انجو ! جب تمہیں خود بھی اندازہ ہے کہ لوگوں کو کسی حال میں چین نہیں ہے تو پھر آخر کیوں کیا یہ تم نے ؟؟ باتیں بنانے والوں کی فکر اتنی ہے تمہیں کہ خود کی فکر کرنے والوں کو بھول گئی تم ؟ ایک بار میرا اور اپنے ابو کا ہی سوچ لیا ہوتا ! ایک ہی اولاد ہو تم ہماری۔۔۔ ہمارا جینا مرنا تم سے جڑا ہے ۔ خدا نہ خاستہ تمہیں کچھ ہوجاتا تو کیا ہم جی پاتے ؟ نہیں !!! ہم بھی مرجاتے ۔ ہمیں مارنا چاہتی ہو تم ؟ اپنے ماں باپ کو ؟؟ کچھ لوگوں کی وجہ سے ؟؟" صباء بیگم نے کوشش کی تھی کہ انجم کی طبیعت کے پیش نظر غصہ نہ کریں لیکن بولتے بولتے آخر میں وہ چیخ پڑی تھیں ۔

"آئی ایم سوری امی ! میں واقعی خودکشی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ میں اس وقت بہت غصے میں تھی ، بہت جذباتی ہو رہی تھی ! ایکسڈنٹلی مجھ سے گلاس ٹوٹ گیا تب میں غیر ارادی طور پر کلائی کاٹ بیٹھی ۔ میں نے برہان اور عالیہ کو بھی پکارا تھا فوراً لیکن کمرہ سائونڈ پروف تھا شاید ۔ خودکشی میں کبھی بھی نہیں کرنا چاہونگی ، بس وہ کمزور لمحہ تھا ! آئی ایم سوری۔۔۔۔۔ آپ لوگوں کا خیال نہ ہوتا تو ان چھہ سالوں کے دوران ہی میں خود کو ختم کرلیتی ، اتنی باتیں نہ جھیلتی ۔ لیکن میں زندہ ہوں ، لوگوں کی باتیں سن رہی ہوں ، سہہ رہی ہوں ۔ صرف آپ لوگوں کی وجہ سے ہی تو۔۔۔!!" غیر مرئی نقطے کو اپنی دھندلی نظروں سے گھورتے ہوئے انجم دنیا جہان سے بیزار لہجے میں کہہ رہی تھی ۔

"انجو ! مجھے بتائو تم کیا چاہتی ہو ؟ اپنی پھپھو کی محبت اور سب کچھ بھول جائو ، سب کچھ !! صرف اپنی خوشی اور سکون کو مدنظر رکھ کر بتائو ، کیا چاہتی ہو تم ؟ کیا باری سے طلاق چاہتی ہو ؟؟؟" صباء بیگم انجم کا چہرہ اپنے نرم ہاتھوں کے پیالے میں لیئے بھیگی آواز میں پوچھ رہی تھیں ۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا انجم کی خوشی کو افضل رکھنے کا ! پھر کوئی روٹھے یا مرے انہیں کوئی پروہ نہیں تھی ۔

انجم کا سانس سینے میں اٹک گیا تھا صباء بیگم کی آخری بات پر ۔ "باری سے طلاق ؟" انجم دل میں بڑبڑائی ۔

"کیا میں واقعی یہ چاہتی ہوں ؟؟ کیا لوگ پھر باتیں بنانا بند کردینگے یا طلاق کو اشو بنا کر انہیں مزید گوسپ کا موقع مل جائیگا ؟" خود سے پوچھتے ہوئے انجم نے خالی خالی نظروں سے صباء بیگم کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔ "امی میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ لوگ باتیں بنانا چھوڑدیں ۔ ہماری زندگی سے اگر دوسروں کا کوئی نفع نقصان نہیں جڑا ، تو نہ بنائیں وہ باتیں !" انجم کی بات نے جہاں صباء بیگم کو انجم کے دل کی ڈھکی چھپی خواہش سمجھا دی تھی وہیں دروازے کے باہر سانس روکے کھڑا برہان بےساختہ ہی سکون کی گہری سانس بھر کے رہ گیا تھا ۔ 

انجم کے اس انتہائی اقدام کے بعد مشکل ہی تھا کہ کوئی بھی زبردستی انجم کو یہ رشتہ نبھانے کے لیئے مجبور کرتا ۔ طلاق تو برہان تب بھی نہ دیتا انجم کو لیکن سب کی مخالفت پر وہ تنہا ضرور پڑ جاتا ۔ نہ کبھی انجم کا دل جیت پاتا اور نہ ہی ساتھ حاصل کر پاتا ۔۔! آج انجم نے جس طرح ڈھکے چھپے لفظوں میں اس رشتے کو جاری رکھنے کی خواہش کی تھی اس نے اندر سے بری طرح ٹوٹتے بکھرتے برہان کو دوبارہ مضبوط بنادیا تھا ۔ بالوں میں انگلیاں چلا کر وہ مدھم سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے اندر داخل ہوگیا ۔ صباء بیگم اور انجم نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔ انجم نے فوراً ہی لب بھینچ کر چہرہ موڑ لیا جبکہ صباء بیگم گہری سانس بھرتی اٹھ کھڑی ہوئیں ۔

"شام تک انجو ڈسچارج ہوجائیگی اسپتال سے ۔ ہم گھر واپس جا کر مزید کسی ایسے تماشے کا انتظار نہیں کرسکتے ! آج ابھی اسی وقت یہاں آپس میں بات کر کے فیصلہ کرو کہ تم لوگ چاہتے کیا ہو ؟ اس کمرے سے تم لوگ کوئی حتمی فیصلہ کیے بغیر نہیں نکل سکتے ، اور یاد رکھنا برہان ! خبردار جو انجم کو ایموشنلی ٹارچر کیا تم نے ۔ صرف سکون سے بات چیت کے ذریعے کوئی فیصلہ کرو ۔ میں انتظار کر رہی ہوں باہر !" سنجیدگی سے کہنے کے بعد ایک گہری نظر برہان اور انجم پر ڈالتیں وہ کمرے سے باہر نکل گئیں ۔

صباء بیگم کے جانے کے بعد کافی دیر تک دونوں میں سے کوئی کچھ نہیں بولا تھا ۔ انجم بس کھڑکی سے نظر آتی عمارات کو گھورتی رہی ، اور برہان ٹکٹکی باندھے انجم کا زرد رویا رویا چہرہ دیکھتا رہا ۔ کافی دیر بعد بوجھل سی سانس خارج کر کے برہان اس اسٹول پر بیٹھ گیا جہاں کچھ دیر پہلے صباء بیگم بیٹھی تھیں ۔

"لسن انجو ! لوگ باتیں بنانا کبھی نہیں چھوڑینگے یہ بات آپ بھی اچھی طرح جانتی ہیں ۔ پھر لوگوں کی وجہ سے خود پر خوشیاں حرام کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ لوگ باتیں تب ہی بناتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ سامنے والے پر آپکی باتوں کا اثر ہو رہا ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔"

"پلیز چپ کرجائو ، مجھے کچھ مت سمجھائو ! میں نے کبھی کسی کی بات کا رسپونس کسی کے سامنے نہیں دیا ، لوگ پھر بھی باتیں بناتے ہیں ۔ وہ آنٹیاں بھی میرے پیٹھ پیچھے باتیں بنا رہی تھیں ۔ انہیں کیا پتہ میں سن رہی ہوں یا نہیں ! مجھ سے زیادہ میک اپ تھوپ کر بیٹھی تھیں وہ ، لیکن باتیں وہ میرے میک اپ پر کر رہی تھیں ۔ تم سے جڑنے کے بعد میرے ہر انداز ، میری ہر چیز کو تمہارے حساب سے پرکھا جائیگا ۔ میری خوشی میرے جذبات کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہے گی ۔"

"مگر میرے لیئے صرف آپکی خوشی اور آپ کے جذبات اہمیت رکھتے ہیں ۔ صرف میرے لیئے ہی نہیں ، ماموں اور مامی کے لیئے بھی ! یہ لوگ نہیں آپ خود ہیں جو اپنی خوشیوں کی دشمن بن رہی ہیں ، لوگوں کی باتوں کی وجہ سے ۔ پلیز انجو ایک بار مجھ پہ بھروسہ کر کے دیکھیں۔۔۔۔ ایک بار میرا تھام کے محبت کی دنیا میں چل کر تو دیکھیں۔۔۔!! آپ بےپروہ ہوجائینگی اس دنیا سے اور دنیا والوں کی باتوں سے ۔۔!" انجم کا سرد ہاتھ اپنے پرحدت ہاتھ میں تھام کر برہان نے انجم کے ہاتھ کی انگلیاں اپنے لبوں سے لگالی تھیں ۔ بےساختہ ہی جھرجھری لے کر انجم نے اپنا ہاتھ برہان کے ہاتھ سے چھڑوایا تھا جو برہان نے آرام سے چھوڑ دیا تھا ۔ لیکن نظریں ایک پل کے لیئے بھی انجم کے چہرے سے نہیں ہٹائی تھیں ۔

"انجو ۔۔۔!!" جب بہت دیر تک انجم آگے سے کچھ نہیں بولی ، تب برہان اس کے گالوں پر خاموشی سے لڑھکتے آنسئوں کو صاف کرتے ہوئے گمبھیر آواز میں پکار بیٹھا ۔

"میں نے ہمیشہ تمہیں اپنا بھائی سمجھا تھا اور تم۔۔۔"

"توبہ توبہ استغفار ! اب آپ یہ باتیں لے بیٹھیں ۔۔! لسن انجو ، میں کبھی بھی آپ کا بھائی نہیں رہا تھا ۔ ہمارے مذہب میں کزنز کے رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ۔ کزنز سے بھی ویسا ہی احتیاط لازم ہے جیسا دیگر نامحرموں سے ۔ اگر آپ مجھے اپنا بھائی سمجھتی رہی تھیں تو یہاں آپ غلط کر رہی تھیں ۔۔! ہاں۔۔۔۔ میں جب تک بچہ تھا آپ مجھے بچوں کی ٹریٹ کرسکتی تھیں لیکن بھائی ؟؟؟ انجو کزنز کے رشتے کی مذہب میں کوئی اہمیت نہیں لیکن آپ بضد ہیں کہ میں نے آپ کا مان توڑا ہے ، آپ نے مجھے بھائی سمجھا تھا اور میں الگ ہی محبت پال بیٹھا ! اور۔۔۔۔ اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی سے شادی جائز ہے ہمارے دین میں ، بلکہ نبوی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہے ، اس پر آپ کو اعتراضات ہیں ۔ ہمارے دین نے تو اپنے بندوں کے لیئے بہت آسانیاں رکھی ہیں ، لیکن ہم بضد ہیں کہ معاشرے کے بنائے اصولوں پر ہی چلیں گے اور اپنی زندگی مشکل بنائیں گے ۔" برہان بہت فرصت سے انجم کو سمجھا رہا تھا ۔ وہ خود بھی چاہتا تھا آج آر یا پار ہو ہی جائے ۔ انجم سمجھے یا نہ سمجھے ، برہان انجم کو چھوڑنے والا تو نہیں تھا لیکن انجم کی خوشی کا تعلق انجم کے جواب سے ہی تھا ۔

انجم کچھ دیر تک ایک ٹک برہان کی طرف دیکھتی رہی پھر الجھن آمیز لہجے میں گویا ہوئی ۔ "مگر برہان ، میرا دل نہیں مانتا ۔ تمہیں دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے ۔ تمہارے ساتھ ساری زندگی گزارنے کا تصور ہی طبیعت عجیب کردیتا ہے ۔"

"آہ۔۔۔ یعنی انجو ، کوئی نہ کوئی اعتراض آپکو اٹھانا ضرور ہے ؟ پہلے لوگ کیا کہینگے ؟ پھر بھائی سمجھتی تھی ! اور اب عجیب لگتا ہے۔۔۔ ایک کام کریں مجھے اپنے تمام اعتراضات ایک کاغز پر لکھ دیں تاکہ میں تفصیل سے آپ کو سب کے جواب دیتا جائوں ۔" برہان کے چڑ کر گھورنے پر انجم خجل سی ہو کر سر جھکا گئی ۔

"یہاں دیکھیں انجو !" برہان نے انجم کی تھوڑی تلے انگلی رکھ کر انجم کا چہرہ اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑ دیں ۔ "میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں اگر میری سنگت آپ کو اچھی نہیں لگتی تو میں آپ کو فورس نہیں کرونگا اپنے ساتھ ساری زندگی نہ چاہتے ہوئے بھی گزارنے کے لیئے ۔ ہاں میں آپ کو طلاق نہیں دونگا لیکن آپ چاہیں تو اپنے سکون اور خوشی کے لیئے مجھ سے الگ رہ سکتی ہیں ۔ لیکن اس سے پہلے آپ کو مجھے ایک موقع دینا ہوگا ! مجھے میری محبت پر یقین ہے یہ آپ کو مجھ سے دور نہیں جانے دے گی ، لیکن ایک موقع تو دیں ۔ میرے ساتھ رہیں ، مجھے جانیں ! میری محبت کو سمجھیں ۔"

"اگر میں تمہارے ساتھ بھی خوش نہیں رہ سکی اور الگ ہونا چاہا ، تو تم زبردستی مجھے اپنے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کروگے ؟" انجم جیسے کسی فیصلے پر پہنچ گئی تھی ۔

"بلکل نہیں !" برہان کو سو فیصد یقین تھا خود پر بھی اور اپنی محبت پر بھی ۔ جب ہی جھٹ انجم کا وعدے کے لیئے بڑھایا گیا ہاتھ تھام لیا تھا ۔

"اب رخصتی کی تیاری شروع کردی جائے ؟" ذرا آگے کو جھک کر برہان شریر انداز میں بولا تو انجم نظریں چراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا کے رہ گئی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رخصتی فقط ایک ہفتے بعد طے پائی تھی ۔ سب کچھ بخیر و خوبی نمٹ گیا تھا کیونکہ نہ تو جہیز بنانا تھا اور نہ کوئی شادی ہال بک کرانا تھا ، کیونکہ انجم نے رخصتی سادگی سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ برہان بھی ولیمے پر تمام کسر نکالنے کا ارادہ کرتے ہوئے راضی ہوگیا تھا ۔ یہ ایک ہفتہ گویا پر لگا کر اڑا تھا ، اور کیونکہ تقریب گھر میں ہی تھی تو خاص مہمانوں کے سوا کسی کو مدعو بھی نہیں کیا گیا تھا ۔

جو مہمان آئے تھے وہ لوگ تقریب کا لحاظ کرتے ہوئے یا انجم کی خودکشی کی کوشش کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ذومعنی بات کہنے سے اجتناب برت رہے تھے ۔ کھانے کے دور کے بعد انجم برہان کی سنگت میں عالم ولا چلی گئی اور پیچھے صباء بیگم شکرانے کے نوافل اداد کر کے انجم اور برہان کے لیئے دعائیں کرنے لگیں ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

انجم کو اپنا دل حلق میں اٹکا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ موم بتیاں ، گلاب ، اور مدھم سی زرد روشنی۔۔۔ کمرے کا ماحول بہت رومانوی تھا اور یہ سارا ماحول اس کی گھبراہٹ میں کئی گنا اضافہ کر رہا تھا ۔

بار بار ذہن کے پردے پر برہان کا سراپہ لہراتا وہ بھی بچپن والا ! اور انجم کی الجھن میں اضافہ کرنے لگتا ۔

"میں برہان سے کہونگی مجھے کچھ وقت دے ۔ ایک تو اتنی جلدی رخصتی کروادی پھر گھر سے مجھے یہاں لے آیا ۔" قیمتی سامان سے سجے کشادہ کمرے کو گھورتے ہوئے انجم بیڈ سے اتری ہی تھی کہ کلک کی آواز سے دروازہ کھلا اور برہان نے اپنی گردن اندر نکالی ، پھر پورا کا اندر چلا آیا ۔

"کیا ہوا ؟ کھڑی کیوں ہیں آپ انجو ؟" انجم کے سجے سنورے سراپے کو اپنی آنچ دیتی نظروں میں بسائے برہان نرمی سے پوچھ رہا تھا ۔ یا شاید شروع کرنے کا بہانہ تھا یہ ۔

"تو کیا اب میں اپنی مرضی سے کھڑی بھی نہیں ہوسکتی ؟" انجم برہان کی نظروں اور لہجے سے جذبذ ہوتی تیزی سے بولی ۔

"یار آپ تو آج بھی لڑنے کے فل موڈ میں ہیں ۔ کم از کم آج تو پیار سے بات کرلیں ۔" برہان کے لبوں سے مسکراہٹ جدا نہیں ہو رہی تھی ۔ دونوں ہاتھ اٹھا کر ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے ، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا وہ باتوں کے دوران انجم کی جانب یوں بڑھ رہا تھا کہ انجم کو احساس بھی نہ ہو ۔

"مجھ سے نہیں ہوتی پیار سے بات ! یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا اور آئندہ مجھ سے الٹے سیدھے مطالبے مت کرنا ۔" انجم کو اپنا چہرہ تپتپا محسوس ہو رہا تھا اور یہی بات اسے چڑا رہی تھی ۔ وہ کیوں نارملی بات نہیں کر پا رہی تھی ؟

"الٹے سیدھے مطالبے ؟؟؟" برہان معنی خیزی سے بڑبڑایا ۔ "نہیں نہیں ڈونٹ وری ، میں کوئی الٹا سیدھا مطالبہ کبھی نہیں کرونگا ۔ اپنے طالبات خود ہی پورے کرلونگا ، ہاں ! پیار سے بات کروانا میرے بس میں نہیں ہے فلحال ' لیکن مجھے یقین ہے ایک دن آپ وہ بھی ضرور کرینگی ۔" اپنا کلاہ اتار کر انجم کی کمر میں ڈالتے ہوئے برہان نے جھٹکے سے انجم کو اپنے قریب کھینچا تھا ۔ انجم کا اوپر کا سانس اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا ۔ یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا تھا ، اسے سنبھلنے کا موقع تک نہیں ملا تک نہیں ملا تھا ۔ کچھ لمحے معنی خیز سی خاموشی کی نظر ہوئے تھے ، پھر انجم نے اپنے لرزتے ہوئے ہاتھ برہان کے سینے پر رکھتے ہوئے درمیان میں کچھ فاصلہ قائم کیا تھا ۔

"بب برہان۔۔۔۔"

"شش ! مجھے پتہ ہے آپ مجھ سے وقت مانگیں گی ۔ لیکن کیا چھہ سال کافی نہیں ہوتے ؟ چھہ سال تک رونے بسورنے کی جگہ میرے خواب سجائے ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی ۔" احتیاط سے انجم کو بیڈ پہ بٹھا کر برہان ایک گھٹنا ٹیک کر زمین پر بیٹھ گیا اور نرمی سے انجم کے آنسو صاف کرنے لگا ۔ "کتنا روتی ہیں آپ۔۔۔ میں تو روزانہ آپ کے آنسئوں سے ہی نہا لیا کرونگا ، پانی کی بچت ہوجائیگی ۔"

"برہان پلیز۔۔۔۔" جب برہان انجم کی چوڑیاں اتارنے لگا ' تب انجم کلائیاں کھینچ کر دبے دبے غصے میں بولی ۔

"انجو پلیز۔۔۔۔ جب تک آپ میری عملی محبت نہیں دیکھیں گی آپ کے خدشات دور نہیں ہونگے ۔ چھہ سال میں اتنا اندازہ تو مجھے بھی ہوگیا ہے کہ آپ خالی خولی لفاظی محبت پر اعتبار کرنے والی نہیں ہیں ۔۔!" چوڑیاں بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے برہان نے چہرہ ترچھا کر کے انجم کو دیکھا اور شرارت سے بائیں آنکھ دبائی ۔ انجم نے بری طرح سٹپٹا کر اپنی رونکھی نظریں برہان پر سے ہٹائی تھیں جس کی بےباکیاں آج عروج پر تھیں ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

عریش کپڑے چینج کر کے ہلکا پھلکا سا ہو کر بیڈ پر لیٹا کمبل خود پر ڈال ہی رہا تھا کہ موبائل کے جگمگاتے سکرین نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔ سامنے علینہ کا میسج جگمگا رہا تھا جو مختصر سی بارات کا حصہ بنتی عالم ولا لوٹ گئی تھی ۔

لب بھینچ کر عریش نے علینہ کا میسج کھولا تھا ۔ "Miss You So Much Hubby, Good Night" ساتھ میں ڈھیر سارے دل بھی بنے ہوئے تھے ۔ عریش کے بھینچے لب وا ہوئے تھے ۔ کتنی ہی دیر تک وہ آنکھیں پھاڑے اس میسج کو پڑھتا رہا ، پھر نظریں علینہ کے پہلے بھیجے گئے میسجز پردوڑنے لگیں جن کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی ۔ عریش کے پاس یہ فون دو سالوں سے تھا اور اس میں گنتی کے چند میسجز علینہ کے عریش کے لیئے تھے ، اور اس سے بھی آدھے اور روکھے میسجز عریش نے علینہ کو بھیجے تھے .  

علینہ:"Aaj Ammi  ko Doctor ke pas le ke jana hai ."

عریش: "Ok"

علینہ: Ayan ke Bal boht barh gaye hain, isey Barber ke pas le jaen"

عریش: "hmm"

علینہ: "Abhi tak ae nahi, kia dinner bahar hi karenge ?"

عریش: "Yes"

"علینہ: Aata, Tmamtr, Ghee Aur Piaz Lete Aiyega"

عریش: "Acha"

باقی دس بارہ میسجز بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔ کئی میسجز کا عریش نے جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا ۔ "اتنی خشک باتیں !!!" بےساختہ ہی عریش کے لبوں سے پھسلا تھا ۔ ان تمام میسجز کے درمیان یہ "Miss You So Much Hubby, Good Night" کا میسج بہت اجنبی لگ رہا تھا ۔ بیڈ کرائون سے پشت لگائے اپنی داڑھی میں انگلیاں چلاتے ہوئے عریش نے "Are You Ok ?" لکھ کر بھیجنا چاہا تھا ، لیکن پھر سر جھٹک کر لکھا ہوا مٹا کے فون سائڈ ٹیبل پر رکھتے رکھتے رکا اور نہ جانے دل میں کیا سمائی کہ علینہ کے آج رات بھیجے گئے میسج کو چھوڑ کر باقی سارے میسجز ڈیلیٹ کر ڈالے ۔  یوں۔۔۔۔ جیسے اسی میسج سے شروعات ہوئی ہو !

موبائل سائڈ ٹیبل پر رکھ کے عریش ٹھیک سے لیٹ گیا اور چہرے پر بازو دھر کے نہ جانے کس سے اپنی مسکراہٹ چھپانے لگا ؟ دوسری طرف علینہ کو بھی یقین تھا کہ کم از کم آج رات تو عریش کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملنے والا تھا ، سو وہ بھی موبائل رکھ کر لبوں پر مطمئین سی مسکراہٹ سجائے سونے کے لیئے لیٹ گئی تھی ۔

ولیمے کی تقریب اپنے عروج پر تھی ۔ اسٹیج پر سلور گائون کے ساتھ دوپٹہ سر پہ ڈالے ، ڈائمنڈ جویلری میں جگمگاتی انجم بلاشبہ آج رخصتی کے دن سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔!

رخصتی کے دن کم مہمانوں کے باوجود اس کے چہرے پہ گھبراہٹ اور ڈھیروں وسوسوں کی پرچھائی تھی لیکن آج ولیمے میں جیسے آدھا شہر امڈ آیا تھا ' اس کے باوجود انجم کافی پراعتماد نظر آ رہی تھی ۔ اپنی یہ تبدیلی خود انجم نے پتہ نہیں محسوس کی تھی یا نہیں لیکن برہان ، بینش بیگم اور صباء بیگم سمیت تقریباً سب نے ہی محسوس کی تھی اور اندر سے پرسکون ہوگئے تھے ۔۔۔

خیر و عافیت کے ساتھ ولیمے کی تقریب بھی آخر کار اختتام پزیر ہوئی ۔ اور اس وقت انجم گھر واپس جانے کے لیئے عریش والی گاڑی میں بیٹھی ہی تھی کہ برہان یکدم گاڑی میں گھستا انجم کے کان میں سرگوشیانہ بولا تھا ۔ "نیند پوری کرلیجیئے گا اپنی !!"

"زیادہ بکواس نہیں کرو ، اچھا !" بری طرح جھینپ کر انجم نے ایک تھپڑ برہان کے شانے پر رسید کیا تھا ۔ ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے برہان پیچھے ہوگیا تب صباء بیگم برہان کا ست تھپکتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔ صباء بیگم کے بعد جنت بیگم بھی بیٹھ گئی تھیں ۔ ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے عریش نے ایک خاموش نگاہ اپنی ساتھ والی خالی سیٹ پر ڈالی اور پھر علینہ کو دیکھا جو باہر کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ نظروں سے نظریں ملیں تو علینہ نے چاہا کہ عریش اسے گھر چلنے کے لیئے کہے ' جبکہ عریش منتظر تھا کہ ابھی علینہ خود ہی اندر بیٹھ جائیگی ، لیکن اس وقت دونوں سر جھٹک کر رہ گئے جب اشفاق صاحب نے عریش کے پہلو والی سیٹ سنبھال لی ۔

ایک آخری نگاہ علینہ پر ڈال کر عریش نے کار اسٹارٹ کردی تھی ۔ گاڑی کے اسٹارٹ ہوتے ہی انجم نے غیر ارادی طور پر برہان کی طرف دیکھا تو برہان نے اپنی دو انگلیوں کو لبوں سے لگا کر انجم کی طرف فائر کرنے کا اشارہ کیا ۔ برہان کے پیچھے ہی کھڑی بینش بیگم نے شوخی کے اس کھلے عام مظاہرے پر فوراً ہی برہان کے سر پر چپت رسید کردی تھی ۔ انجم کے لبوں پر بکھرنے والی مسکراہٹ بےساختہ تھی ۔ سر جھٹک کر اس نے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا ۔ کھڑکی کے شیشے میں انجم اپنا مسکراتا ہوا چہرہ آرام سے دیکھ سکتی تھی ۔ انجم کو یہ مسکراہٹ بہت اجنبی مگر اچھی لگی تھی ۔ شیشے میں نظر آتے اپنے غیر واضع سے عکس پر ہاتھ پھیرتی انجم غیر ارادی طور پر برہان کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔ پھر یونہی سوچوں میں گم یہ سفر تمام ہوا اور منزل آگئی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

عریش کا سر بہت زیادہ درد کر رہا تھا ۔ اسے صبح سے حرارت تھی اور بخار کی حالت میں وہ کافی نخریلا ہوجایا کرتا تھا ۔ پھر اتنی بھرپور تقریب میں شرکت کے بعد لمبی ڈرائیو نے اس کا دماغ کچھ زیادہ ہی گرما دیا تھا ۔ نیلے تھری پیس سوٹ کی کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکنے کے بعد بیڈ پر دھپ سے بیٹھ کے جوتے اتارے ۔ ایک جوتا اِدھر اور ایک جوتا اُدھر پھینکنے کے بعد وہ اپنے ان ہی کپڑوں میں کمبل میں گھس گیا اور آنکھیں موند کر منہ بناتے ہوئے بڑبڑایا ۔ "دیکھ بھی رہی تھی کہ میں ڈائون ہو رہا ہوں مگر آ نہیں سکتی تھی ۔ اب اس وقت کس سے بولوں مجھے کھانے کو کچھ ہلکا پھلکا بنا کر دے۔۔۔" یونہی تپا تپا سا جھنجلاتا ہوا وہ نیم غنودگی میں تھا جب ٹھنڈے سے نازک ہاتھ کا لمس عریش کو اپنی تپتی پیشانی پر محسوس ہوا ۔ عریش نے اپنی آنکھیں کھولنی چاہیں لیکن فوراً ایسا کر نہیں پایا تھا بس تصدیق کرتے انداز میں بڑبڑایا تھا "عینا ؟"

عریش کا ٹمپریچر چیک کر کے بیڈ سے اٹھتی علینہ ٹھٹھک کر مڑی تھی ۔ چھہ سال پہلے عریش نے جب پہلی بار اسے عینا کہا تھا تب بھی علینہ کا دل اتنی زور سے نہیں دھڑکا تھا جتنی زور سے اس وقت دھڑکا تھا ۔ ہلکے سے کرل ہوئے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے علینہ جواباً مدھم سی ہنکار بھر کے رہ گئی ۔

وہ ہال میں بھی عریش کی طبیعت ڈائون محسوس کر رہی تھی اور عریش نے ٹھیک سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا ۔ پھر عریش کے گاڑی لیجانے کے بعد عدیل عالم کی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ یہی سوچ کر پریشان ہوگئی تھی کہ عریش کا خیال کون رکھے گا ؟ جنت بیگم خود سینکڑو بیماریوں کی شکار ، دوائوں کے ذریعے سویرے سوجایا کرتی تھیں ۔ اور تب علینہ نے گھر واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اور اب عریش کی طبیعت دیکھ کر علینہ نے شکر ادا کیا تھا کہ اس نے بروقت صحیح فیصلہ کرلیا تھا ۔

عریش کی گھڑی اور موزے اتار کر علینہ نے اس کا کمبل درست کیا اور سوپ بنانے کے خیال سے کمرے کی لائٹس آف کرتی باہر نکل گئی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

انجم اپنا ڈریس چینج کر کے اس وقت ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنا میک اپ صاف کر رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھٹکھٹائے جانے پر حیران سی ہو کر دروازے کی طرف بڑھ گئی ، پھر درواز کھولتے کے ساتھ ہی انجم کا منہ بھی کھل گیا ۔ سوئے ہوئے آیان کو اپنے کاندھے پر ڈالے برہان لبوں پر شریر مسکراہٹ سجائے کھڑا تھا ۔ انجم کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی برہان مزے سے اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا ' پھر آیان کو بیڈ پر لٹانے کے بعد خود بھی یوں ڈھیر ہوگیا جیسے پہاڑ سر کر کے آیا ہو ۔

"تم یہاں کیا کر رہے ہو برہان ؟" انجم کا لہجہ خود بہ خود ہی روکھا سا ہوگیا تھا ۔

"لیٹا ہوا ہوں ۔۔!" برہان کی طرف سے ترنت جواب آیا ۔

"میرا مذاق کا موڈ نہیں ہے ۔"

"پھر کس چیز کا موڈ ہے ؟" کہنی کے بل ذرا سا اٹھتے ہوئے برہان نے اپنی دونوں بھنویں نچا نچا کر پوچھا ۔

جواب میں انجم کچھ نہیں بولی اور سینے پر بازو لپیٹ کے سنجیدگی سے اسے گھورنے لگی ۔ برہان نے اس گھوری پر گھبرانے کی انتہائی اوور ایکٹنگ کی اور حلق تر کرتے ہوئے بولا "عریش بھائی کو شاید بخار ہے ، سو عینا بھابی اپنے مجازی خدا کی فکر میں ہلکان یہاں چلی آئی ہیں ۔ تو میں بھی ساتھ میں یہ سوچ کے چلا آیا کہ کہیں انجو مجھے یاد نہ کر رہی ہوں !"

"جان چھوڑوگے تو یاد آئوگے نا ؟" انجم بڑبڑائی ۔

"لیکن جان ! ابھی میں نے آپ کو پکڑا کہاں ہے ؟؟؟" معصومیت سے پلکیں پٹپٹاتے ہوئے شرارت سے کہتا برہان انجم کو جھینپنے پر مجبور کر گیا تھا ۔

"تم سے بات کرنی ہی فضول ہے ۔ اٹھو یہاں سے ، اس سنگل بیڈ پر تین لوگ نہیں سو سکتے ۔ میں تمہارا بستر لگادیتی ہوں نیچے ، تمہارے کمرے میں تو کچھ مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں ۔" الماری کی طرف بڑھتے ہوئے انجم مصروف انداز میں بولی ۔

"میں زمین پر سوئوں گا ؟" برہان صدمے سے چیخ پڑا ۔

"نہیں تو کیا میرے سر پر سوئوگے ؟" انجم پلٹ کر بھنائی ۔

"نہیں ، آپ میرے سینے پر رکھ کے' بلکہ آدھا دھڑ مجھ پہ رکھ کے سوجائیں ، تو ہم تینوں سو سکتے ہیں اس بیڈ پر !" برہان کا انداز بظاہر پرسوچ تھا لیکن وہ کن اکھیوں سے انجم کو بھی دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ یقیناً شرم سے لال ٹماٹر ہو رہا تھا لیکن وہ زبردستی اپنے چہرے پر غصے بھرے سنجیدگی سجائے ہوئے تھی ۔

"آجائیں انجو !" اپنے دونوں بازو پھیلائے برہان آنکھیں موندے بولا ۔ شاید اسے نیند آنے لگی تھی ۔ انجم ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے برہان کے کھلے بازو اگنور کر کے اپنا بستر نیچے لگانے لگی ، پھر بستر بچھا کر اپنا باقی ماندہ میک اپ صاف کیا اور لائٹ آف کر کے اپنے زمینی بستر پر لیٹ گئی ، پھر جیسے ہی انجم نے دوسری طرف کروٹ لی برہان کے مضبوط بازئوں نے اس کے گرد نرم سا حصار بنا دیا ۔

"برہان !!" انجم کی دھیمی آواز میں جھنجلاہٹ تھی ۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے انجو ! آپ نے لائٹ بند کردی ہے ، کتنا اندھیرا ہوگیا ہے یہاں ۔ مجھے چڑیلیں اٹھا کر لے گئیں تو ؟ میں تو آج لگ بھی بہت ڈیشنگ رہا ہوں ۔" برہان کے خوف کے کیا ہی کہنے تھے ۔ انجم اپنے سر پر ہاتھ مار کے رہ گئی لیکن اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی جو اندھیرے میں برہان کی نظروں سے چھپ گئی تھی ۔

"اگر لے کر چلی بھی گئیں تو تمہاری انجو انجو کی رٹ سے بیزار ہو کر واپس چھوڑ جائینگی ۔" آنکھیں موندے سونے کی کوشش کرتے ہوئے انجم بڑبڑائی تھی ۔

"یعنی چڑیلوں کا دل بھی میری محبت دیکھ کر نرم پڑ سکتا ہے لیکن آپ کا۔۔۔۔۔۔۔"

"چپ ہونے کا کیا لوگے ؟" برہان کی لایعنی باتوں سے عاجز ہو کر انجم جھنجلائی ۔

"جو لوں گا آپ وہ دینگی نہیں ۔" منہ بنا کر بولتا وہ انجم کے چہرہ جھٹکے سے موڑنے پہ ' اندھیرے کے باوجود انجم کے تاثرات کا درست اندازہ لگاتے ہوئے گڑبڑا کر بولا ۔ "کمبل کی بات کر رہا ہوں میں !"

ٹھنڈی سانس بھر کر انجم نے کمبل اس پر بھی ڈال دیا اور سر تکیے پر گرا کر آنکھیں بند کرلیں ۔ "گڈ نائٹ !" کانوں سے ٹکراتی گمبھیر آواز پر وہ مسکرا کر رہ گئی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

عریش کو سہارا دے کر بٹھاتے ہوئے علینہ کو اندازہ تھا کہ عریش کی طبیعت اتنی خراب تھی نہیں جتنی وہ ظاہر کر رہا تھا ۔ چھہ سال کے عرصے میں بہت کم عریش بیمار ہوا تھا لیکن جب بھی ہوا تھا ، علینہ کو تگنی کا ناچ نچا دیا تھا اس کے نخروں نے !

سوپ پلاتے ہوئے وہ خاموشی سے عریش کی باتیں برداشت کر رہی تھی جو کہہ رہا تھا سوپ میں فلاں چیز کیوں نہیں ہے ؟ ڈھماکا چیزکیوں نہیں ہے ؟ الا بلا چیزیں ہونے چاہیے تھیں ۔ تم ایک پھوہڑ عورت ہو ۔ ذرا سا کام نہیں ہوتا تم سے ! اور بھی نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔ علینہ سوپ کا پیالہ ' ڈھیروں صبر کے گھونٹ بھرنے کے بعد خالی کروانے کے بعد کامیاب ہو ہی گئی تھی ۔ سائڈ ٹیبل پر رکھی دوائی عریش کو دینے کے بعد علینہ اٹھنے لگی تھی کہ عریش نے اپنا پرحدت ہاتھ علینہ کے ہاتھ پر دھر دیا ۔ "اب کہاں جا رہی ہو ؟" وہی لڑتا جھگڑتا انداز ! علینہ سمجھ نہیں پائی اسے خوش ہونا چاہیے عریش کے روکنے پر یا رونا چاہیے ۔

"میں کہیں نہیں جا رہی ، یہیں ہوں ۔" علینہ بیچارگی سے بولی ۔

"تو کوئی احسان کر رہی ہو ؟" منہ بنا کر کہتے ہوئے عریش سر تکیے پر گرا کر لیٹ گیا ۔ ایک ہاتھ اب بھی علینہ کے ہاتھ پر ہی دھرا تھا ۔

کچھ دیر اسی حالت میں گزر گئی ۔ عریش آنکھیں موندے پڑا رہا اور علینہ بیڈ کے کنارے ٹکی رہی ، پھر جب علینہ کو عریش کے سوجانے کا اندازہ ہوگیا تب احتیاط سے اٹھنے لگی لیکن اسے اٹھتا محسوس کر کے عریش نے اس کے ہاتھ پہ اپنے ہاتھ کا دبائوم بڑھاتے ہوئے بامشکل آنکھیں کھول کر علینہ کو گھورا ۔ "مجھ سے اتنا بھاگتی کیوں ہو ؟ سر دبائو میرا ۔"

اس آرڈر پر علینہ ' اپنی قیمتی ساڑھی کا پلو بےدردی سے اپنے گرد لپیٹ کر گویا آستینیں چڑھا کر میدان میں اتر گئی اور دل جمعی سےعریش کا سر دبانے میں مشغول ہوگئی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد عریش کی بھاری آواز کمرے میں دوبارہ گونجی تھی ۔ "تمہیں مجھ پہ غصہ آتا ہے ؟؟"

"جی۔۔۔" ایک پل کو علینہ تھمی تھی ، پھر اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا ۔

"پھر اظہار کیوں نہیں کرتی ہو ؟"

"میں اظہار کرنے سے ڈرتی تھی ۔"

"تم مجھ سے ڈرتی ہو ؟"

"تھی !"

"تھی ؟؟؟"

"جی۔۔۔"

"اب نہیں ڈرتیں ؟"

"نہیں !"

"کیوں ؟"

"اب غصے سے زیادہ آپ پر پیار آتا ہے اس لیئے ۔"

اس بار عریش فوراً کچھ نہیں بول سکا ۔ لیکن کچھ دیر بعد مدھم آواز میں بولا ۔ "اب ؟؟؟"

"جی اب !"

"پھر کبھی اظہار کیوں نہیں کیا ؟؟؟"

"میں ڈرتی تھی !" علینہ جواب دے کر بےساختہ مسکرائی تھی ۔ عریش بھی اپنی مدھم ہنسی روک نہیں سکا تھا ۔

"غصے کے اظہار سے بھی ڈرتی تھیں ، محبت کے اظہار سے بھی ڈرتی تھیں ۔ اتنا ڈرائونا ہوں کیا میں ؟"

"غصے میں بن جاتے ہیں ڈرائونے ۔"

"تو تم غصہ دلایا ہی مت کرو نا !"

"میں تو کچھ کرتی ہی نہیں ۔ آپ پھر بِھی غصہ کرتے ہیں ۔"

"اسی لیئے تو غصہ کرتا ہوں ، کیونکہ تم کچھ کرتی نہیں ۔۔!" عریش کے پرشکوہ انداز پر اس بار علینہ چپ سی ہوگئی تھی ۔

"احساس ہوگیا ہے مجھے ۔" علینہ کی دھیمی آواز گونجی ۔

"کس بات کا ؟"

"کہ آپ اتنے ڈرائونے بھی نہیں ہیں ۔" علینہ کی اس بات پہ ایک بار پھر دونوں مسکرائے تھے ۔

"تو پھر اظہار کرتی رہا کرو ۔"

"غصے کا یا پیار کا ؟"

"دونوں کا !" اپنا سر علینہ کی گود میں رکھتے ہوئے وہ مزے سے بولا ۔

"آئی لو یو ۔" علینہ نے بھی اظہار کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔ عریش نے اپنے چہرے کے آگے بازو کیا تھا ، شاید جھینپ گیا تھا وہ ۔ علینہ کو اس لمحے عریش بڑا کیوٹ لگا تھا ۔ جھک کر علینہ نے بےساختہ اس کے گھنے بالوں والے سر پر اپنے لب رکھ کر ہٹا لیئے تھے ۔

"آیان کو مجھ سے دور مت رکھا کرو عینا ۔ میں بہت ایکسپریسو نہیں ہوں لیکن مجھے اس کی پروہ ہے ۔ میں کسی ایک کی سزا دوسرے معصوم کو نہیں دیتا ۔ اور تم نے بھی اپنی بےوقوفی کی کافی سزا کاٹ لی ہے ، سو آئندہ نہ خود مجھ سے ڈرنا ' اور نہ آیان کو مجھ سے ڈرانے کی کوشش کرنا !" عریش نہ جانے کس موڈ میں تھا جو یہ سب کہہ گیا تھا ۔ عریش کا بخار ہمیشہ ہی علینہ کی شامت لاتا تھا لیکن آج ایک ایک خوبصورت زندگی کی نوید بن کر آیا تھا ! کچھ دیر تک شکوے شکائتیں کرنے کے بعد عریش نے اس کی جان بخشی تو علینہ نے چینج کرنے کے بعد ، صبح شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا مصمم ارادہ کرتے ہوئے عریش کے کھلے بازئوں میں پناہ لے لی ۔۔۔

وہ وقت ! جب اس کا دل پہلی بار انجم کے لیئے دھڑکا تھا ۔ اور وہ وقت ! جب علینہ نے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا ۔ عریش ان دونوں لمحات کا تجزیہ کر رہا تھا ، اور ٹھیک دس منٹ بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ چاہنے سے زیادہ چاہے جانے کا احساس دل کو چھو لیتا ہے ۔ اور اگر آپ کو چاہنے والا آپ کا شریکِ حیات بھی ہو ، تو قدرت دل میں خود بہ خود اس کے لیئے محبت پیدا کردیتی ہے ۔

انجم سے جڑے جذبات اب خواب بن گئے تھے ۔ اس کا آج اور آنے والا کل اور اس کی ہمیشہ رہنے والی محبت علینہ تھی۔۔۔!! یقیناً علینہ انجم کے مقابلے میں اس کے لیئے بہترین تھی ! وہ بہتر مانگتا تھا ، خدا نے اسے بہترین سے نوازا تھا ۔

خدا کی ہر کرنی میں کوئی راز تو ہوتا ہے۔۔۔ جو ہوتا ہے اچھے کے لیئے ہوتا ہے ۔ آج عریش کو اس بات کا مقصد بھی سمجھ آ گیا تھا ۔

علینہ کے اندھے اعتبار کا نتیجہ آیان۔۔۔۔ جسے وہ دھتکار بھی سکتا تھا لیکن دھتکار نہیں پایا تھا ۔ کیوں دھتکار نہیں پایا تھا اور کیوں آیان اس کی پرسکون ہوتی زندگی میں اچانک چلا آیا تھا ؟ آج اپنی رپورٹس پڑھ کے عریش جان گیا تھا۔۔۔ کل تک وہ آیان کی پروہ کرتا رہا تھا لیکن آج اپنی رپورٹس ہاتھ میں پکڑے اسے آیان سے محبت محسوس ہوئی تھی ۔ بےپناہ محبت !

آیان کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی اولاد کی خواش شدید ہوتی تھی ۔ ایک انی سی گڑی رہتی تھی عریش کے دل میں آیان کو لے کر ۔ لیکن سال پر سال بیت گئے ، اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی تھی ۔ سو علینہ سے پہلے اس نے اپنا چیک اپ کروانا بہتر سمجھا تھا ۔ اور نتیجہ وہی نکلا تھا جس کا اسے خوف تھا ۔ وہ باپ بننے کی صلاحیت سے محروم تھا ۔ ڈاکٹر کی زبانی یہ خبر سن کر عریش کو افسردہ ہوجانا چاہیے تھا لیکن وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا وہ کیوں افسردہ نہیں ہوا تھا اور فقط سر ہلا کر کیوں اٹھ کھڑا ہوا تھا  ؟؟

اسپتال کی عمارت سے باہر نکلنے تک اس کی نظروں کے سامنے آیان کا چہرہ گھومتا رہا اور کانوں میں اس کی معصوم سی آواز گونجتی رہی ۔ "جسٹ چیوں چیوں" بےساختہ ہی قہقہ لگاتا وہ آس پاس کھڑے لوگوں کو حیران پریشان کر گیا تھا ۔

ہاتھ میں موجود رپورٹس پھاڑ کر کچرے کے ڈھیر میں پھینکے کے بعد عریش گاڑی میں بیٹھا اور ایک طویل سانس خارج کی ۔ "اف۔۔۔ ڈاکٹر کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں باپ نہیں بن سکتا ؟ میں آلریڈی ایک کیوٹ بچے کا باپ ہوں ۔" سر جھٹک کر کہتے ہوئے عریش کھل کر ہنس دیا لیکن اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے تھے ۔ یہ آنسو شکرگزاری کے تھے ۔ اگر جو وہ آیان کو نہ اپناتا ؟ اس ننھی سی بےقصور جان کو دنیا میں ہی نہ آنے دیتا ؟ یا علینہ کو ہی بےآبرو کردیتا زمانے کے سامنے ۔ تو خود کیا حاصل ہوتا اسے اس وقت ؟؟؟  لیکن اس نے صبر کیا ، برداشت کیا ، اور قدرت نے اسے انعام میں جان چھڑکنے والی بیوی اور ایک پیارا سا بیٹا عطا کردیا تھا ۔۔!

پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ عریش نے گاڑی عالم ولا کے راستے پہ ڈال دی تھی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

جیسے ہی عریش اندر داخل ہوا ، آیان ہر بار کی طرح اس کی آمد پر اچانک کسی کونے سے برامد ہوا اور سلام کر کے دانت نکال کر کھڑا ہوگیا ۔ آگے بڑھتے عریش کے قدم یکدم ساکت ہوئے اور اگلے ہی پل عریش نے آیان کو کمر سے پکڑ کر اپنے سر سے بھی اونچا کر کے گھما ڈالا تھا ۔ سیڑھیاں اترتی علینہ اور لائبریری سے باہر آتے عدیل عالم نے حیرت سے یہ منظر دیکھا تھا ۔ باپ اور بچے کے درمیان ایسا کھیل عام تھا لیکن نہ جانے کیا بات تھی اس منظر میں کہ عدیل عالم رک کر دیکھے چلے جا رہے تھے جبکہ سیڑھیوں کے درمیان رکی علینہ گویا اسٹیچو بن گئی تھی ۔ کوشش کے باوجود وہ ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکی تھی ۔ یہ منظر دیکھنے کی اسے خواہش ضرور تھی لیکن اسے امید نہیں تھی کہ وہ یہ منظر کبھی دیکھ بھی پائیگی۔۔۔۔ اور رہا آیان تو وہ تو خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا ۔ عریش اسے کبھی بھی ڈانٹتا نہیں تھا لیکن اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ کبھی اس کے ہٹلر پاپا نے اسے اس طرح اپنے ساتھ کھلایا ہو ۔ خوشی سے چیخیں مارتے ہوئے وہ اس وقت عریش کے گردن کے گرد ہاتھ لپیٹ کر عریش سے چیک گیا تھا جب عریش نے اسے نیچے کیا تھا ۔

عریش نے بھی اپنے بازئوں کا نرم سا حصار بنا کر اپنی نم ہوتی آنکھیں موند لی تھیں ۔ سیڑھیوں پر کھڑی علینہ کی حیران پریشان مورت میں اچانک ہی جان پڑ گئی اور وہ خوشی سے چیختی آواز میں پوچھنے لگی ۔ "میں بھی آئوں ؟؟"

عریش نے چونک کر علینہ کو دیکھا پھر دل شکن انداز میں مسکراتے ہوئے اپنا ایک بازو علینہ کے لیئے پھیلا دیا ۔

علینہ تیز تیز سیڑھیاں اترتی عریش کے بازو میں سما گئی ۔ عدیل عالم گلا کھنکھارتے ہوئے واپس لائبریری میں گھس گئے ۔ انہیں یہ بات الجھا رہی تھی اس منظر میں ایسا بھی کیا تھا کہ وہ ساکت ہو کر دیکھے چلے جا رہے تھے ۔!

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

ایک ماہ مکمل ہوتے ہی عالیہ ، بینش بیگم اور عدیل عالم واپس انگلینڈ جانے کے لیئے تیار ہوگئے تھے جبکہ برہان انجم کا بلاوہ آنے تک پاکستان میں ہی رہنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔

دیسی روایات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت تقریباً سب ہی لوگ ایئر پورٹ پر انہیں رخصت کرنے کے لیئے موجود تھے ۔ اشفاق صاحب سے مل ملا کر عدیل عالم عریش کی گردن پکڑ کے اسے ذرا سائڈ لے گئے تھے ۔ "برخوردار ! میری بیٹی شاید مجھے مطمئین کرنے کے لیئے اچانک اپنا اتنا خیال رکھنے لگی ہے ، لیکن یہ مت سوچنا میں مطمئین ہو کر چلا جائونگا اور پھر سے بیگانہ ہوجائونگا ۔ میں روز عینا سے وڈیو کال پر بات کرونگا اور اگر مجھے اس کی حالت پھر سے پہلے جیسی نظر آئی تو اسے ہمیشہ کے لیئے اپنے ساتھ لے جائونگا ۔"

"جی۔۔۔!" زور شور سے سر ہلا کر کہتے ہوئے عریش نے فرمانبرداری کا بھرپور مظاہرا کیا تھا ۔ پھر مزید بولا ۔ "مجھے یقین ہے آپ کو ایسا کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑے گی ۔"

"نہ ہی پڑے تو بہتر ہے ۔" عدیل عالم اپنے ازلی مغرور انداز میں کہتے ہوئے برہان کی طرف بڑھ گئے ۔

"جب تک پاکستان میں ہو ، عالم ولا میں ہی رہنا ۔ یہ نہیں کہ اپنی انجو بی بی کی خوشی کے لیئے اسے ہر دوسرے دن اس کی ماں کے گھر لے جا کر خود بھی ہر وقت اپنے سسرال میں پڑے رہو ۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔" عدیل عالم برہان کی "انجو انجو کی رٹ سے بیزار سے ہوتے ہوئے بولے تو برہان نے منہ بنا کر سر اثبات میں ہلا دیا لیکن وہ وعدہ نہیں کر سکا تھا ۔

پھر علینہ کو بہت دیر تک اپنے سینے سے لگائے رکھنے کے بعد اسے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتے عدیل عالم ' بینش بیگم اور عالیہ کے ہمراہ جہاز میں سوار ہوگئے ۔

انہیں رخصت کر کے برہان اور انجم بھی سب سے اجازت لے کر عالم ولا کے لیئے نکل گئے اور انہیں جاتے دیکھ کر عریش ہونٹ سکیڑ کر سر کھجانے لگا ۔ علینہ نے نظروں ہی نظروں میں عریش سے اس کے الجھے ہوئے سے رویے کی وجہ پوچھی تھی ۔

"باری سے بات کرنا چاہ رہا ہوں لیکن موقع نہیں مل رہا ۔" گردن مسلتے ہوئے عریش جھینپے ہوئے سے انداز میں یوں بولا ، جیسے غلطی کا اعتراف کر رہا ہو ۔

"ارے۔۔۔ یہ کونسا مشکل ہے ؟ جلدی سے جائیں اور اسے گلے سے لگالیں ۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔ اب جلدی جائیں وہ گاڑی میں بیٹھ رہا ہے ۔" علینہ آخر میں تیز آواز میں بولی جس پر عریش گڑبڑا گیا اور پھر علینہ پر ایک گھوری ڈال کر اونچی آواز میں برہان کو پکار بیٹھا ۔ برہان جو گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ بند کرنے والا تھا چونک کر عریش کو دیکھتا باہر نکل آیا ۔

"جی عریش بھائی ؟" برہان کافی حیران لگ رہا تھا ۔

"امم۔۔۔۔ ڈنر آج سب مل کر کرتے ہیں ؟" عریش چاہ کر بھی اتنے عرصے بعد اچانک ہی برہان کے گلے نہیں لگا سکا تھا ۔ کچھ اور سمجھ نہیں آیا تو کھڑے کھڑے ڈنر کا بہانہ گھڑ لیا ۔

"سسر صاحب سے جان چھوٹنے کی خوشی میں ؟؟" آنکھیں سکیڑ کر شرارت سے پوچھتا برہان بےساختہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا تھا ۔ عریش کی مسکراہٹ بھی بےساختہ تھی ۔ اب یہ بچپن تو تھا نہیں جو ہنسنے کے بعد فوراً ہی بےفکری سے گلے لگ جاتے ۔ کچھ وقت لگنا تھا ' پھر سب کچھ پہلے جیسا ، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بہتر ہوجانے والا تھا ۔ اسی امید کے ساتھ عریش برہان کا شانہ تھپک کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا جہاں علینہ ، آیان ، جنت بیگم اور اشفاق صاحب اس کے منتظر تھے ۔ برہان وہاں کھڑا تب تک عریش کو دیکھتا رہا جب تک عریش گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی وہاں سے بھگاتا نہیں لے گیا ۔ پھر سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے خود بھی گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا ۔

"دوستی ہوگئی ؟؟" سارا معاملہ بغور ملاحظہ کرتی انجم نرم سے لہجے میں پوچھنے لگی ۔

"نہیں لیکن ہوجائیگی ، انشاء اللہ ۔ جب آپ کو مجھ سے محبت ہوسکتی ہے تو عریش بھائی اور میری دوستی بھی ہوسکتی ہے ۔"

"تم سے کس نے کہا مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے ؟" انجم فوراً چڑ گئی تھی ۔

"نہ مانیں ! مگر میں تو محسوس کر رہا ہوں ۔" گہری نظریں انجم پر ڈالتا وہ پریقین لہجے میں بولا تھا ۔

"کرتے رہو محسوس ، اور ہوتے رہو خوش ۔ میری بلا سے ۔" اکھڑے لہجے میں بول کر انجم برہان سے نظریں چراتے ہوئے کھڑکی سے باہر بھاگتے مناظر دیکھنے لگی ' اور برہان ایک پل کو لب بھینچنے کے بعد دھیرے سے ہنستے ہوئے گنگنانے لگا ۔

"دل تو پاگل ہے ، دل دیوانہ ہے ۔۔!" شاید وہ خود کا مذاق اڑا رہا تھا ۔ بظاہر مسکرا رہا تھا لیکن آنکھیں گم صم تھیں ۔ انجم نے چہرہ موڑ کر بغور ان شہد رنگ آنکھوں کی اداسی کو دیکھا پھر گردن واپس کھڑکی کی طرف گھمالی ۔

"آئی ایم سوری باری۔۔۔ لیکن میں خود کو تمہارے قابل نہیں سمجھتی ۔ آج تم افسردہ ہو ! ایک سال بعد مجھے یقین ہے میرے رویے کی وجہ سے تم مجھ سے بیزار ہو کر مجھے چھوڑ دوگے۔۔۔ اور یہی ہم دونوں کے لیئے بہتر بھی ہوگا ۔" آنکھ کے کنارے سے بہتا پانی چپکے سے صاف کرتی انجم افسردگی سی مسکرا کر رہ گئی ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

ایک سال بعد۔۔۔۔

مقام لندن ۔۔!

۔

۔

۔

۔

"تمہیں میری ایک بار کی بات سمجھ نہیں آتی ؟ جب آتے ہو چیزیں بکھیر دیتے ہو !" برہان کے جوتے ، موزے ، ٹائی اور دیگر بکھراوا سمیٹتے ہوئے انجم عادتاً ساتھ ساتھ اسے باتیں بھی سنا رہی تھی جو ڈھیٹ بنا بیڈ پر آڑھا ترچھا لیٹا ٹیوی پر نیوز دیکھ رہا تھا ۔ "اتنے ڈھیٹ کیوں ہو تم ؟" برہان کی بکھیری چیزیں ان کے مقامات پر رکھنے کے بعد انجم بیڈ پر ٹکتے ہوئے پہلے کی بنسبت نرمی سے گویا ہوئی مگر چہرے پر دبا دبا غصہ ہنوز قائم تھا ۔ برہان آنکھیں گھما کر رہ گہا لیکن کچھ بولا نہیں ، جس پر انجم کا غصہ پھر سے عود کر آیا تھا ۔ "برہان !!"

"آپ سے کم ہی ڈھیٹ ہوں میں ۔" بھنا کر کہتا وہ چینج کرنے کی نیت سے بیڈ سے اٹھا ہی تھا کہ انجم نے اس کا بازو پکڑ کے اسے اپنی طرف گھما ڈالا ۔ برہان بھی ڈھیلا سا ہو کر گھوم گیا ۔

"میں نے کیا ڈھٹائی دکھائی ہے ؟" انجم کے تلملا کے پوچھنے پر وہ چپ ہی رہا تھا ۔ "اب چپ کیوں ہو بتائو میں نے کب کہاں ڈھٹائی دکھائی ہے ؟ ایک تو میری زندگی مشکل بناتے ہو ، الٹا الزام بھی لگاتے ہو۔۔!"

"آپ پر میری محبت بےاثر ہے تو مجھ پر بھی آپ کا غصہ بےاثر ہے ۔! آپ ہی کا شوہر ہوں میں بھی ۔" جھٹکے سے بازو چھڑوا کر بدلحاظی سے کہتا وہ جانے لگا جب انجم کی بات پر ٹھٹھک کر رکا تھا ۔

"ایسے کب تک چلے گا باری ؟ تم اور میں ، دو الگ دنیائوں کے باسی ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی اپنی دنیا میں واپس چلے جائیں ۔ مجھے تمہاری یہ "محبت کی دنیا" راس نہیں آرہی ۔" انجم کہہ کر خاموش ہوگئی تھی ۔ برہان بھی کافی دیر تک کچھ نہیں بول پایا تھا اس اچانک بات پر لیکن جب وہ انجم کی طرف مڑا ، تب چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی ۔

"اب مجھے سمجھ آگیا ہے۔۔۔ آخر کیوں آپ اس ایک سال میں مجھ سے بےوجہ چڑتی رہیں۔۔۔ آپ چاہتی تھیں آپ میرے دل سے اتر جائیں ؟ ہے نا ؟" سرد مسکراہٹ کے ساتھ پوچھتے ہوئے برہان نے یکدم انجم کا بازو جکڑ کر اپنے قریب کیا تھا ۔ اس کی انگلیاں انجم کو سلاخوں کی ماند اپنے بازو میں گڑتی محسوس ہو رہی تھیں ۔ "مسئلہ لوگوں کا نہیں تھا ، آپ کے اپنے ذہن میں منفی سوچوں کی بھرمار تھی ! ایک سال تک آپ میری محبت کا احساس کرنے کی جگہ میرے دل میں اپنے لیئے نفرت بھرنے کی کوشش کرتی رہیں ؟ انجو سیریسلی ؟؟؟ اتنی نیگٹوٹی کیسے ہوسکتی ہے آپ میں ؟؟" انجم کا بازو جھٹکے سے چھوڑ کر اب وہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا ۔

"دیکھو باری۔۔۔۔ تمہیں زبردستی اس رشتے کو قائم رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا ، میں سب سنبھال لونگی ۔ تم جب فقط ایک سال میں اتنے بیزار ہوگئے ہو مجھ سے تو سوچوں آگے کی زندگی تمہارے لیئے اور میرے لیئے بھی ، کتنی مشکل ہوجائیگی !" انجم نے بہت لمبے عرصے جعد برہان سے اتنی نرمی سے بات کی تھی ۔ لیکن جو بات کی تھی وہ برہان کو بلکل اچھی نہیں لگی تھی ۔

"آپ کو کب لگا انجو !! کب کہاں کس لمحے لگا کہ میں آپ سے بیزار ہوگیا ہوں ؟؟" اپنی شرٹ کے دو اوپری بٹن کھول کر برہان گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے شدید غصے اور افسوس کے ملے جلے انداز میں بولا تھا ۔

"کیا مجھے نظر نہیں آ رہا ؟ ہر وقت منہ پھلائے رہنے لگے ہو ۔ جان بوجھ کر مجھے غصہ دلانے والی حرکتیں کرتے ہو اور۔۔۔۔"

"آپ کو بیزاری اور افسردگی میں فرق نہیں پتہ انجو ؟ آپ میرے ساتھ رہ کر ، میری اتنی محبت کے باوجود بھی ناخوش رہینگی تو کیا میں افسردہ نہیں ہوں گا ؟ میں جب کچھ ایسا کرتا ہوں جس سے آپ کو مجھ سے محبت ہوجائے آپ تب بھی مجھ پہ توجہ نہیں دیتیں ۔ تو میں الو کا پٹھا ! صرف آپ کی توجہ کے لیئے اب آپ کو غصہ دلانے والی حرکتیں کرنے لگا ہوں تاکہ کسی صورت آپ مجھ پر توجہ تو دیں۔۔۔ لیکن آج مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کی ایک ایک رگ میں نیگٹوٹی بھری ہوئی ہے ۔ میں اپنا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں یا دل نکال کر آپ کی ہتھیلی پر دھر دوں ، آپ نے خوش نہیں ہونا !!! مجھے یقین نہیں آ رہا انجو یہ آپ ہیں ؟؟؟ بجائے اس ایک سال میں ' میرے ساتھ مل کر ہماری زندگی کو جنت بنانے کی کوشش کرتیں ، آپ ہماری زندگی عذاب بنانے کی کوشش میں جتی رہیں۔۔۔" اس وقت برہان افسوس کی انتہا پر تھا جو اس کی آنکھوں میں جمع آنسو اس کے گالوں پر بہہ نکلے تھے ۔

انجم سانس روکے ساکت نظروں سے اس چھہ فٹ کے مرد کو آنسو بہاتے دیکھ رہی تھی ۔ نہ جانے اپنے لیئے یا اپنی وجہ سے ! دونوں صورتیں ہیں افسوسناک تھیں ۔

"ایک بات یاد رکھیئے انجو ! آپ کی ان حرکتوں سے میری محبت کبھی ختم نہیں ہوسکتی لیکن مر ضرور سکتی ہے ۔ ایک انسان جس کے اندر محبت کا جذبہ ہی مرا ہوا ہو کیا وہ زندوں میں شامل ہوسکتا ہے ؟ آپ یہ سب کر کے مجھے اور میری محبت کو مار رہی ہیں انجو ! اور کچھ نہیں کر رہیں ۔اور ہاں۔۔۔۔ میں نے آپ سے ایک سال کا وعدہ کیا تھا لیکن اس صورت میں کہ اگر آپ خوش نہ رہیں ۔ لیکن اس ایک سال میں ' میں ہی ٹوٹ رہا ہوں اور میں ہی مر رہا ہوں ، آپ تو مزے میں ہیں اور مجھے مزید ٹوٹتا بکھرتا دیکھ کر اور بھی مزے کرینگی !! رائٹ ؟؟؟ ٹھیک ہے اگر آپ کی خوشی اسی میں ہے تو ایسے ہی سہی !" اپنے آنسو صاف کر کے ایک پرشکوہ نظر گم صم کھڑی انجم پر ڈالتا برہان کمرے سے ، اور پھر فلیٹ سے بھی باہر نکل گیا جبکہ انجم کو اس وقت شدت سے احساس ہوا تھا اپنی غلطی کا۔۔۔۔ اپنے خالی ہاتھ رہ جانے کا۔۔۔۔! اگر برہان کی محبت مر گئی تو اس کے خود کے پاس کیا رہ جائیگا ؟ وہ تو بچپن میں برہان کے توتلا کر کہی باتیں بھی سمجھ جایا کرتی تھی ، پھر کیسے اتنے سالوں میں یہ نہیں سمجھ سکی کہ برہان اسے کتنا چاہتا ہے ۔ برہان کی خوشی اس کی خوشی میں تھی پھر کیا فائدہ ہوا اپنی بیوقوفی میں ایک سال اور یونہی ضائع کروا کر ؟ اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسائے وہ کتنی ہی دیر تک خود پر افسوس کرتی رہی تھی ، پھر آنسئوں سے تر چہرہ اٹھا کر آستین سے صاف کیا اور برہان کے لیئے اس کی پسندیدہ ڈش بنانے کی نیت سے کچن میں گھس گئی ۔ آج وہ اپنی ہر غلطی کی معافی مانگ لیگی اور اسے یقین تھا برہان اسے معاف بھی کردے گا ۔ کیونکہ اس کی محبت اب بھی سانسیں لے رہی تھی ۔

"اتنی بیوقوف کیسے ہوسکتی ہوں میں ؟ کل کے خدشوں کے پیش نظر میں نے اپنا آج بگاڑ لیا اور برہان کا بھی ۔" کھانا بناتے ہوئے وہ خود پر جتنا افسوس کرتی کم تھا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

ڈنر ٹیبل پر سجا کر ایک نظر آٹھ بجاتی گھڑی پہ ڈال کر انجم اپنے کمرے میں گئی اور ایک بار پھر قد آدم آئینے میں دائیں بائیں مڑ کر اپنی تیاری ملاحظہ کی ۔ یہ کہنیوں تک آتی آستینوں اور بوٹ گلے والا  سیاہ گائون برہان چار مہینے پہلے اس کے لیئے لایا تھا جو انجم نے کبھی نہ پہننے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن انسانی ارادوں کی اہمیت ہی کیا ہے ؟ ہونا تو وہی ہے جو منظورِ خدا ہے ۔ میک اپ کی طرف سے مطمئین ہو کر وہ اپنے سلکی بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے واپس کمرے سے باہر آئی اور سوا آٹھ بجاتی گھڑی کو خفگی سے دیکھتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔ چہرہ ہاتھ پر ٹکائے وہ برہان کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی اور سوچتے سوچتے کب نو بج گئے اسے اندازہ ہی نہیں ہوا ۔ وہ تو جب ٹیبل پر پڑا فون جگمگانے لگا تب وہ ہوش میں آتی فون کی طرف متوجہ ہوئی اور جلدی سے نام دیکھے بغیر کال رسیور کرلی ۔ اس کا خیال تھا برہان ہی ہوگا مگر دوسری طرف سے بینش بیگم تھیں ۔ "ہیلو انجو ؟ تم اور باری خیریت سے تو ہو نا ؟" بینش بیگم کے انداز نے انجم کو ٹھٹھکا دیا ۔ وہ بےاختیار کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"کیوں کیا بات ہے پھپھو ؟"

"مجھے بس یہ بتادو کہ تم لوگ گھر میں ہی ہو نا؟؟"

"میں گھر میں ہی ہوں ، باری باہر ہے ۔ اب مجھے بتائیں کیا ہوا ہے ؟؟" دل پر ہاتھ رکھے انجم تیزی سے اِدھر اُدھر چکرانے لگی ۔

"کب سے باہر ہے ؟"

"پھپھو ہوا کیا ہے ؟؟" بینش بیگم کے سوال در سوال پر انجم جھنجلا کر بولی ۔

"تم لوگوں کے علاقے میں کچھ شدت پسندوں نے حملہ کردیا ہے ۔ چن چن کر صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ میں نے تو جب سے یہ خبر۔۔۔۔۔" بینش بیگم اور بھی کچھ کہہ رہی تھیں لیکن انجم کا ذہن سن ہوگیا تھا ۔ تیزی سے آگے بڑھ کر اس نے کھڑکی کھول کے باہر جھانکا تھا ۔ دھواں ، پولیس کی گاڑیاں ایمبولینسز اور لوگوں کا شور عروج پر تھا ۔ انجم دنگ رہ گئی تھی ، وہ اتنی بےخبر تھی ۔! مرے مرے انداز میں پیچھے ہو کر انجم نے کھڑکی بند کردی تھی اور ساتھ ہی فون بھی ۔ بیبنش بیگم اسے دلاسے دے رہی تھیں اور خود کو بھی لیکن اس وقت وہ کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھی ۔ گھبراہٹ ہی اتنی زیادہ تھی ۔ "یا اللہ باری کو اپنی امان میں رکھیئے گا ۔" دل سے بےساختہ دعا نکلی تھی ۔ پھر وہ ناخن کترتے ہوئے بہت دیر تک جلے پیر کی بلی بنی گھومتی رہی اور وقتاً فوقتاً گھڑی کو گھورتی رہی لیکن پندرہ منٹ بعد اس کی بس ہوگئی تھی ۔ اپنا سیاہ اسکارف لپیٹتے ہوئے وہ گھر سے باہر نکلی اور دیوانہ وار برہان کو پکارتے ہوئے دوڑنے لگی ۔ گائون اور ہیل کی وجہ سے اسے بھاگنے میں مشکل ہو رہی تھی جب اچانک ہی ایک سفید فام شخص اس کے سامنے آتا اس کا اسکارف بےدردی سے کھینچتے ہوئے اپنی زبان میں مغلظات بکنے لگا ۔ انجم کو سانس لینے میں دشواری ہونے لگی جب ایک زوردار پنچ اس سفید فام شخص کو زمین بوس کرگیا تھا ۔ اس سے پہلے کے وہ شخص اٹھ کر دوبارہ کوئی حرکت کرتا دو پولیس آفیسرز اسے قابو میں کر چکے تھے ۔ دوسری طرف برہان کو صحیح سلامت دیکھ کر انجم کی جان میں جان آئی تھی اور وہ بےاختیار سی ہو کر برہان کے سینے لگ گئی تھی ۔

"آپ باہر کیوں آئیں ؟؟ حالات دیکھ رہی ہیں ؟ پھر بھی واپس نہیں جا رہیں ۔ کیوں آپ۔۔۔۔"

"تمہارے لیئے !" برہان کی غصے سے تیز تیز چلتی زبان کو انجم کے بھیگے سے جواب نے بریک لگا دی تھی ۔ حلق تر کر کے برہان پولیس کے اشارے پر سر ہلاتے ہوئے انجم کو ساتھ لے کر ایک طرف کو بڑھنے ہی لگا تھا کہ انجم کا وجود بےجان ہوتا اس کے بازئوں میں جھول گیا ۔ برہان کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے ۔ فوراً انجم کو اپنے بازئوں میں اٹھاتے ہوئے وہ ایمبولینسس کی طرف بڑھا تھا ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

جتنا وہ گھبرایا ہوا تھا ' ڈاکٹر کی دی گئی اطلاع پر اتنا ہی خوش بھی ہوگیا تھا ۔ اس کے ہونٹوں کے کنارے گویا کانوں کو چھو رہے تھے ۔ گالوں پر ڈمپل سجائے جب وہ روشن روشن آنکھیں لیئے انجم کے قریب پہنچا تب انجم لب بھینچ کر چہرہ موڑ گئی ۔ برہان کی مسکراہٹ کچھ سمٹ گئی ۔

"جب اتنا ناپسند ہوں میں تو باہر کیوں آئی تھیں میرے لیئے ؟"

"میں باہر اس لیئے آئی تھی کیونکہ مجھے پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا ۔ تم وہاں موجود ہونے کے باوجود اندر کیوں نہیں آرہے تھے مجھے بتائوگے ؟" آنکھوں سے بھل بھل بہتے آنسئوں کے ساتھ وہ دانت کچکچاتے ہوئے چیخی تھی ۔

"آپ کو تو میرے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق پڑتا نہیں ۔ پھر موت بھی ایک دن آنی ہی ہے ، تو میں نے سوچا نیکی کرتے ہوئے مرجائوں ۔ لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا میں ۔" غمزدہ انداز میں پہلیاں بجھاتے ہوئے وہ انجم کی گھوری پر منہ بناتے ہوئے سیدھا بولا ۔

"سوپر مین ہو تم ؟؟ لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا ! بچے ہو بچے ہی بن کے رہا کرو ۔"

"اب تو میں ابا بننے والا ہوں انجو ! کم از کم اب تو لفظ "بچے" کا طعنہ مارنا چھوڑدیں مجھے ۔" دبی دبی شرارت سے کہتا وہ انجم کا چہرہ سرخ کرگیا تھا ۔

چہرہ دوسری طرف گھما کر انجم نے اپنے آنسو صاف کیئے اور لمبی سانس بھر کر گویا ہوئی ۔ "آئی ایم سوری باری۔۔۔۔"

"جی ؟؟" باری کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہو ۔

"باری مجھے معاف کردو ۔ مجھے بس۔۔۔ مجھے بس یقین نہیں آتا تھا کہ میں اتنی خوش قسمت بھی ہوسکتی ہوں ۔ مجھے بےلوث محبت کے وجود پر بھی یقین نہیں تھا اس لیئے میں تم پر بھی یقین نہیں کرسکی ۔ مگر اب۔۔۔۔"

"مگر اب ؟؟" برہان نے جھک کر انجم کی بھیگی نظروں میں جھانکا تھا ۔

"مگر اب کی بات اور ہے ۔ تمہاری محبت پر اعتبار ہے مجھے لیکن آج مجھ پر میری محبت بھی کھلی ہے ۔ یا یوں کہہ لو میں نے اپنے جذبات سے نظریں چرانے کے بجائے آج اعتراف کر لیا ہے ۔ اب اگر تم مجھ سے خود بھی دور ہونا چاہوگے تو میں نہیں ہونے دونگی ۔" برہان کی کھڑی ناک کھینچتے ہوئے وہ مسکرا کر بولی تھی ۔ برہان کی ہنسی بےساختہ تھی ۔

"کون کافر دور ہونا چاہتا ہے ؟ ہم تو مرینگے بھی آپ کی بانہوں میں ۔" جھک کر انجم کے کندھے میں منہ دے کر وہ اس سے چپک گیا تھا ۔ کچھ دیر پہلے کا خوف اب بھی اس کے دل میں چبھ رہا تھا ۔

"بکواس نہیں ۔" برہان کے شانے پر رکھا ہاتھ انجم نے اس کی پشت پر مارا تو وہ ڈھٹائی سے ہنس دیا لیکن دور نہیں ہوا ۔ انجم نے بھی اسے پیچھے کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ اس کا اپنا دل بھی آج فضول خدشوں میں گھرنے کے بجائے برہان کی محبت کو محسوس کرنے کا خواہاں تھا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

The End

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq E Nadan Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq E Nadan written by Nazia Zaman . Ishq E Nadan by Nazia Zaman is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment