Pages

Sunday 15 September 2024

Humnava Mere Novel by Saba Naveed Complete Romantic Novel

Humnava Mere By Saba Naveed New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Humnava Mere Novel by Saba Naveed Complete Romantic Novel 

Novel Name: Humnava Mere

Writer Name: Saba Naveed 

Category: Complete Novel


کبھی کبھی زندگی انسان کو عجیب موڑ پر لے آتی ہے انسان سوچتا کچھ ہے اور زندگی آ کے اُسے ایسا تھپژ مارتی ہے کہ وہ سمجھ نہیں پاتا اسکے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔

دسمبر کی یخ بستہ رات میں وہ تنہا بارش میں کھڑی اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی جس محبت کے لیے وہ ساری دنیا سے لڑتی آٸ اُُس محبت نے أُسے کیا دیا؟ زلت،رسواٸ،ہجر کا غم أور ہمیشہ کے لیے ایک ایسا روگ جو بس اسکے مٹنے پر ہی ختم ہونا تھا۔ 

اپنے گلے میں موجود اسکے نام کا پینڈنٹ اُتار کے اس نے دور پھینکا اور اپنی بربادی پر چیخ چیخ کے رونے لگی لیکن وہاں اسکی سننے والا کوٸ نہیں تھا بارش زوروشور سے برس رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ آسمان بھی اسکی حالت پر ماتم کناں ہے اس برستی یخ بارش میں اسے کوٸ بھی دیکھ کے پاگَل ہونے کا گمان کر سکتا تھا لیکن کوٸ بھی تکلیف اسکی اس بربادی سے بڑی نہیں تھی۔ اپنی سرخ ہوتی نظریں اُٹھا کے وہ بس اتنا بولی 

”میرا رب بڑا بہت بڑا ہے اگر وہ رحیم ہے تو جبار بھی ہے وہی انصاف کرے گا میرا“ 

آسمان کو دیکھ کے وہ مسلسل یہ بولتی چلی گٸ۔

                  ❤..........................................❤

”رک جاو پلیز تم ایسے نہیں جا سکتی “

وہ مسلسل اُس پری کو آوازیں دے رہا تھا اور وہ بنا مڑے اس سے دور جا رہی تھی۔

”حاشر بیٹے اُٹھ جاو اپکے بابا جان کب سے ٹیبل پر اپکا انتظار کر رہے ہیں“۔ 

مسسز صوفیہ ہمدانی نے اسکے کمرے کے پردے ہٹاتے ہوے کہا ۔ انکی آواز پر وہ اُٹھا اور انکے دونوں ہاتھ چوم کے آنکھوں سے لگاۓ اسکے اس پیار پر مسسز ہمدانی مسکرا دی 

” اسلام و علیکم گڈمارننگ أمی جان آپ چلے میں بس ریڈی ہو کر آیا “ 

حاشر نے اُٹھتے ہوے کہا 

”اُوکے بیٹا جلدی آنا میں زرا اس لڑکی کو دیکھ لو اتنی بڑی ہوگٸ ہے مجال ہے جو لڑکیوں والے طورطریقے ہو“ 

مسسز ہمدانی نے حاشر کو اسکی لاڈلی کے بارے میں بتاتے ہوے کہا

” امی جان پلیز جانے دیں نا بچی ہے سمجھ جاۓگی اور اسے کہیں تیار ہو جاۓ آج میں خوداپنی گڑیا کو کالج چھوڑنے جاوُ گا “

حاشر نے مسکراتے ہوے ان سے کہا

”حاشر یہ تمہارے لاڈ پیار کا نتیجہ ہے جو وہ کسی کی سنتی نہیں“

مسسز ہمدانی نے آنکھیں دکھاتے ہوے بولا اور کمرے سے نکل گٸ۔ 

حاشر نےآنکھیں موندے اُس پری کا چہرہ یاد کرنا چاہا جو ہمیشہ کی طرح دھندھلا گیا۔ 

” کون ہو تم اور کہاں ہو“ 

 اتنا سوچ کر وہ اپنے کپڑے نکالتا فریش ہونے چلا گیا۔

                    ❤...........................................❤

یہ ہے ہمدانی ہاٶس جہاں سب کا آپس میں پیار مثالی ہے 

اس گھر کے سربراہ ہیں وقار ہمدانی۔ ان کی بیگم صوفیہ ہمدانی بہت ہی سوفٹ نیچر کی خاتون ہیں۔ وقار ہمدانی کی پہلی بیوی کی وفات کے بعد صوفیہ بیگم نے انکے بیٹے اور گھر کو بہت اچھے سے سنبھالا تھا۔ 

حاشر ہمدانی اس گھر کا بڑابیٹا جس کو صوفیہ بیگم نے ہمیشہ اپنی سگی اُولاد سے بڑھ کے چاہا تھا۔ حاشر بھی صوفیہ بیگم سے بہت محبت کرتا اور بہت عزت کرتا۔حاشر ایم بی اے کے بعد ہمدانی گروپز آف انڈسٹریز کا بزنس سنبھال رہا ہے۔

پھر آتی ہیں اس گھر کی لاڈلی فاٸقہ ہمدانی حاشر سے سات سال چھوٹی اور آئی سی ایس پارٹ۔2 کی سٹوڈنٹ ہے۔ اس کی شرارتی حرکتوں سے تنگ صوفیہ بیگم اکثر اُسے ڈانٹی اور حاشر بچاتا۔

یہ ہے وقار ہمدانی کی چھوٹی سی خوشحال فیملی۔

                  ❤...........................................❤

سرمد صاحب اور انکی بیگم ناشتہ کرنے بیٹھے ریان کا انتظار کر رہے تھے۔ سرمد صاحب کوفت سے بار بار گھڑی میں ٹاٸم دیکھ رہے تھے ۔

”بیگم آپ کے صاحب زادے کی صبح ہوتی بھی ہے یا نہیں “ انہوں نے غصے سے اپنی بیوی سے پوچھا جو شرمندہ سی چپ چاپ بیٹھی تھیں۔

”السلام علیکم گڈ مارننگ ماما “ ریان نے آتے ہی ماں کے ماتھے پر محبت سے بوسہ دیا انہوں نے پیار سے جواب دیا۔

”اگر آپ کو نظر کا مسئلہ نہیں توبرخوردار یہاں ہم بھی بیٹھے ہیں“ سرمد صاحب نے طنز سے کہا

”جب سامنے والے کو ہم نظر ہی نہ آئے توہمارے سلام دعا کی کیا ویلیو ان کی نظر میں“ ریان نے انہی کا لہجہ اپناتے ہوئے کہا

”دیکھ رہی ہے بیگم یہ ہے آپ کی تربیت کا نتیجہ باپ سے کیسے بات کرنی ہےاس بات کی تمیزتک نہیں ہے اس کوآپ کےبےجا لاڈ پیار نے ہی بیگارا ہے “سرمد صاحب غصے میں ناشتے کی ٹیبل سےاٹھ کے چلے گے

”سنیے ناشتہ تو کرتے جائیں“ مسسز سرمد نے التجا کی

”نہیں شکریہ آپ اپنے لاڈلے کوناشتہ کروائیں“ اتنا کہہ کے وہ باہر نکل گئے

”کیوں تم جواب دیتے ہوانہیں بابا تمہارے مت الجھا کرو ان سے“ مسسز سرمد نےہلکا سا ڈانٹتے ہوئے کہا

”او ماما جانے دے نا آپ ناشتہ کریں“ ریان نے انہیں رلیکس کرتے ہوئے کہا

”اچھا ماما میں کالج جارہا ہوں آج فرسٹ ڈے ہےلیٹ ہونا مناسب نہیں لگتا“ ریان نے کھڑے ہوتے کہا 

” اوکے بیٹا فی امان اللہ“ مسسز سرمد نے پیار سے کہا

ریان انہیں خدا حافظ کہتا گاڑی کی چابیاں لے کر باہر نکل آیا۔

                 ❤...........................................❤

”گڈ مارننگ “ فائقہ نے ڈاٸننگ ہال میں داخل ہوتے ہوئے کہا 

”فائقہ آپ سے کتنی بار کہا ہےسلام کیا کریں “ مسسز ہمدانی نے فائقہ کو ٹوکتے ہوئے کہا

”اوو! سوری ماما السلام علیکم “فائقہ نے شرمندہ ہو کر کہا 

وعلیکم السلام اٹھ گٸ ہماری گڑیا“ حاشر اور وقار  ہمدانی صاحب نے بیک وقت کہا

گڑیاآپ ناشتہ کر کے ریڈی ہوجایٸں آج آپ کو کالج میں ڈراپ کر دوں گا“ حاشر نے ناشتہ کرتے ہوئے فائقہ سے کہا

”اوکے بھائی جان لیکن ان ہٹلرکی جانشین کو کچھ مت بتائے گا“ فائقہ نے مسسز ہمدانی کی طرف دیکھتے ہوئےسرگوشی میں کہا

 ”میڈم لگتا ہے آپ نے پھر کوئی نیا کارنامہ سرانجام دیا ہے” حاشر نے رازدارانہ انداز سے پوچھا

”آپ دونوں خاموشی سے ناشتہ کریں یہ باتیں بعد میں کیجئے گا فائقہ بھائی کو ناشتہ کرنے دو باتوں میں مت لگاؤ“ مسسز ہمدانی نے دونوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا

” اور فائقہ بھائی کو بالکل تنگ مت کرنااور کالج میں کسی سے جھگڑا مت کرنانہ ہی کوئی ایسی شرارت کرناجس کے بعدمیں آپ چھپاتی پھریٸں “مسسز ہمدانی کی بات پرفائقہ نے حیرانی سےان کی طرف دیکھا

”ماما آپ کو کیسے پتا چلا“ فاٸقہ نے حیرانی سے مسسز ہمدانی سے پوچھا۔ حیران تو حاشر اور ہمدانی صاحب بھی تھے

”بیٹے ہم آپ کی ماں ہے آپ کی ساری حرکتوں کواچھے سی جانتے ہیں اور ویسے بھی آپ کے کالج کی ایک ٹیچرہماری بہت اچھی دوست ہیں ہمیں انہوں نے بتایا کہ آپ کی شرارتیں کتنے عروج پر جا رہی ہیں“ مسسز ہمدانی نے فائقہ کو گھورتے ہوئے کہا

”ماما ہوا کیا ہےہمیں بھی تو کوئی کچھ بتاۓ“ حاشر نے مسسز ہمدانی سے پوچھا

”بیٹے کچھ خاص نہیں بس آپ کی لاڈلی نے ایک نیو ٹیچر کوواش روم میں بند کردیا “ مسسز ہمدانی نے طنزیہ لہجے میں حاشر کو بتایا 

حاشر اور ہمدانی صاحب حیرانی سےفاٸقہ کو دیکھنے لگے اور ایک بلند قہقہہ لگا کے ہنس پڑے ۔ فاٸقہ بھی منہ نیچے کیے شرمندہ سی ہنسی ہنسنے لگی۔ 

”یہ سب آپ لوگوں کے لاڈ پیار کا نتیجہ ہےیہ نہیں کہ اس کو سمجھائیں آپ دونوں اس کے ساتھ مل کرہنس رہے ہیں ٹھیک ہے جو دل میں آتا ہے کریں آپ لوگ میں اب کچھ نہیں بولا کرو گے “مسسز ہمدانی نےغصے سے ان سب کو دیکھتے ہوۓ کہا

”ارے ماما آپ کیوں ناراض ہو رہی ہےآج کے بعدآپ کوشکایت کا موقع نہیں ملے گا “ حاشر نے پیار سے 

مسسز ہمدانی کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا

”جی ماما پکا اب میں کوٸ شرارت نہیں کروں گی آپ بے فکر رہیں“ فاٸقہ نے معصوم سی شکل بنا کے کہا

ابھی وہ لوگ یہی باتیں کر رہے تھے کہ ساتھ والے پڑوسی   سے آنٹی اور انکے ساتھ انکا دس بارہ سال کا بیٹا تھا 

”السلام علیکم صوفیہ بھابھی ایک چھوٹی سی گزارش ہے کل اپکی فاٸقہ میرے حماد کا کڑکٹ بیٹ لے آٸ تھی اسکو کہہ دیں آپ کے دے دے نہیں تو حماد نے رو رو کے میرا دماغ خراب کر دینا ہے“ مسسز بختاود نے مسسز ہمدانی سے کہا۔ انکی بات پر سب نے گھور کر فاٸقہ کو دیکھا جو حماد کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی اور حماد اپنی ماں کے پیچھے چھپ رہا تھا۔ 

”فاٸقہ جاٶ حماد کا بیٹ دو اسے“ مسسز ہمدانی نےفاٸقہ کو سختی سے کہا

فاٸقہ نے بیٹ لا کے دیاتو وہ دونوں چلے گۓ

حاشر نے فاٸقہ کو باہر جانے کا اشارہ کرتا مسسز ہمدانی کے سامنے کھڑا ہوا اور فاٸقہ چپکے سے باہر بھاگ گٸی 

”دیکھ لیۓ آپ نے اپنی لاڈلی کے کارنامے اب اس جوان جہان لڑکی کے محلے میں سے شکایتیں بھی آیٸں گٸ“ مسسز ہمدانی نے طنزیہ لہجے میں کہا

”اچھا بیگم ہم تو دفترچلتے “ ہمدانی صاحب جلدی سے کہتے ہوئے نکلے

”اس گھر میں تو میری کوئی سنتا ہی نہیں ہے“ مسزہمدانی ناراض ہوتے ہوئے کہا

”اوکے ماما آپ غصہ مت کریں شام میں ملتے ہیں خدا حافظ۔“ حاشر یہ کہتا تیزی میں باہر نکلا 

مسزہمدانی نے خدا حافظ کہتے ہوئے کچن کارخ لیا۔

                 ❤...........................................❤

”آپ آگیۓدیکھیں یہ غلط بات ہےآپ مجھے اور اپنے چھوٹے سے بیٹے کو چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھےہم نے آپ کا بہت انتظار کیااور آپ اب آرہے ہیں ہم آپ سے بہت ناراض ہیں“ حرم اپنے سامنے کھڑے اپنے محبوب شوہر سے پوچھ رہی تھی

”دیکھو میں تمہیں سمجھانے آیا ہوں تمہیں اپنا اور ہمارے بیٹے کا بہت خیال رکھنا ہے میں یہ ذمہ داری تمھیں سونپ کے جا رہا ہوں“ اتنا کہتے ہی وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا اور حرم گھبرا کر نیند سے جاگی اپنے ارد گرد کے ماحول کوسمجھنے میں اسے تھوڑا وقت لگاجیسے ہی اس سےسہی سے سمجھ آیا اس کی تکلیف پھر سےہری ہوگی۔وہ ابھی بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ اس کے ساتھ یہ سب کیسے ہوگیا ابھی تواس کی زندگی میں خوشیاں نےقدم ہی رکھا تھاکہ اتنا بڑا حادثہ ہو گیایہ یہ سوچ کر کہ حرم کے آنسوپھر سے رواں ہوگئے۔

” یا اللہ یہ کیسی آزمائش ہے مجھ پر۔ اتنی بڑی آزمائش میں کیسے پورا اتر پاؤں گی۔مجھے اپنی فکر نہیں ہےلیکن میرا چھوٹا سا بیٹاکیسے بنا باپ کے ساری زندگی گزارے گا۔یا میرے معبودمجھے صبر دے مجھے اس آزمائش میں پورا اترنے کی توفیق عطا فرما بے شک تو سب سے بڑا مددگار ہے“ آنسوؤں سے تر چہرہ لیےحرم اپنے خدا سے دعا کرنے لگی۔

لوگوں کی باتوں نےحرم کی رات کی نیند تک چھین لی کوئی کہتا تھا کہ یہ منہوس ہے تو کوئی کہتا کہ یہ ڈاٸن ہے پہلے اپنے ماں باپ کھا گئی اور اب اپنے شوہر کو ہی کھا گئی ہے اس کی ساس نے دھکے دے کےاسے گھر سے باہر نکال دیا۔وہ روتی ہوئی اپنے بھائی کی دروازے پر آئی تب بھابھی نے ہزار باتیں سناٸیں۔ بھائی نے رہنے کے لیے چھت تو دے دی مگر بھابھی کے طنز اتنے تھے کہ اس دکھوں کی ماری کی جان ہلاکان کرتے۔

”محترمہ اگر اٹھ گئی ہو تو اپنا تشریف کا ٹوکرا باہر لے آؤ میں تمہارے باپ کے ملازم نہیں جو تمہیں پکا پکا کے کھلاؤ“ بھابھی نےزور سے دروازہ کھولتے ہوئے حرم کو سنادی ۔

”جی بھابھی بس میں آہی رہی تھی“ حرم نے جلدی سے کہا 

”بڑی مہربانی جلدی باہر آٶ اور ناشتہ بناٶ تمہارے بھائی دکان پر جانے سے بیٹھے ہیں پتہ نہیں کیسے سبز قدم لائی ہے اچھے خاصے شوہر کو کھا کر ہمارے سروں پر آکر بیٹھ گئےاس کو بھی دیکھواور اس کے بچے کو بھی اتنی مہنگائی ہے بھلا اپنے بچے پالے یا یتیم خانہ کھول لیں“ حرم کی بھابھی نے حقارت سے دیکھتے ہوئے اسے کہا اور کمرے سے چلی گٸ ۔حرم اپنی قسمت پر آنسو بہانے لگے اور اپنے بچے کو سینے سے لگا کرپیار کرنے لگے

”میرے مولا میرا انصاف تو ہی کرے گا میں تو تیری معمولی سی بندی ہوں کیسے لوگوں کے طنز کے تیر برداشت کرو“ حرم نے روتے ہوئے کہا

اللہ بہت غفور الرحیم ہےاپنے بندوں پر اس کی رحمت ہمیشہ برقرار رہتی ہے بے شک اللہ سب کی پریشانیاں اور تکلیفوں کو ان کے لیے آزمائش بنا کر بھیجتا ہے تاکہ اس کے نیک بندے اسی سے مدد مانگے اور اسی سے رجوع کرۓ

”بہت غلط بات ہےفائقہ یہ امید نہیں تھی مجھےآپ سے آپ نے ٹیچر کے ساتھ کیا کیا اور تو اور آپ کی آج کی شکایت محلے سے سن کے مجھے حیرت ہو رہی ہے آپ کیا 

کرتی پھر رہی“ حاشر کار ڈرائیو کرتے ہوئے فاٸقہ کو سمجھانے کی ناکام کوشش کرنے لگا

”کیا ہوگیا ہے بھاٸی ہم تو بس مذاق کر رہے تھے وہ تو غلطی سے میں واشروم کا دروازہ باہر سےلاک کر دیا اور کھولنا بھول گئی۔ رہی بات اس حماد کے بچے کی اس کو تو اب میں نہیں چھوڑنا اس کی ہمت کیسے ہوٸی سب کے سامنے مجھ سے بیٹ مانگے اب میں اس کا بیٹ بھی توڑو گی اور اسکے دانت بھی“  فاٸقہ نے مزے سے چاکلیٹ کھاتے کہا

”نو فاٸقہ اب آپ کچھ نہیں کرے گی پلیز میں نے ماما سے پرومس کیا ہے“ حاشر نے اس سے ریکویسٹ کی

”بھائی آپ ٹینشن مت لیں اب کسی کی مجال نہیں ہوگی میری شکایت ماما تک لانے کی۔ اب میں پکا بندوست کرو گی“ حاشر فائقہ کی بات پر سر پکر کے بیٹھ گیا 

” میری پیاری گڑیا اس بار سب کو معاف کر دو میرے کہنے پر“ حاشر نے ایک آخری کوشش کی 

نہیں بھاٸی آپ اس خطرے سے دور رہے“ حاشر نے حیرت سے اپنی بہن کو دیکھا جو چھوٹے پیکٹ میں بڑا دھماکہ تھی

”بھاٸی بھاٸی پلیز گول گپے کھانے ہے“ فاقہ نے فرماٸش کی

”گڑیا یہ کوٸی ٹاٸم ہے گول گپے کھانے کا...... نو آپ سیدھا کالج چلے“ حاشر نے فاٸقہ کو منع کردیا۔ فاٸقہ منہ بنا کے بیٹھ گٸ 

”اچھا گڑیا موڈ اوف مت کرو وعدہ رات میں اپنی بہن کو گول گپے  بھی کھلاٶ گا اور آٸس کریم بھی“  حاشر نے فاٸقہ کا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کے کہا۔ اسے اپنی بہن کی اداسی کہاں برداشت تھی۔ 

“ Thank you bhaiya you are best brother in the world ❤”  فاٸقہ نے خوشی سے جواب دیا اور !اسکی بات پر حاشر مسکرا دیا

اتنی دیر میں فاٸقہ کا فون بجا اور وہ چیخ ہی پڑی

” سحر میں تمہارا خون پی جاٶ گی مجھے کسی بھی حال میں وہ چھوٹے پٹاخے چاہیئے یار نیو ٹیچر کا مزہ بھی تو لگانا انکو بھی تو پتا چلے ہم کیا چیز ہیں۔ تم کسی بھی حال میں میرے پٹاخے ڈھونڈھ کے لاٶ “ فاٸقہ کی بات سن کے حاشر پہلے حیران ہوا اور پھر سر پکڑ کے رہ گیا۔

”میں بس پہنچ ہی رہی ہوں تم میرے پٹاخے نہ لاٸی تو اپنی موت سے پہلےوالی آخری خواہش سوچ لینا “ اتنا کہہ کے فاٸقہ نے کال بند کر دی۔

”کیا ہوا بھاٸی ایسے کیوں دیکھ رہے آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں کچھ نہیں ہوگا بس تھوڑی راگنگ کریں گے“ فاٸقہ نے حاشر کی حیران پریشان شکل دیکھتے ہوئے کہا 

”نو فائقہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے راگنگ جونیئرز کی کرو تو سمجھ بھی آتا ہے یہ ٹیچرز کی رگنگ کون کرتا ہے“ حاشر نےفائقہ کوسمجھانے والےانداز میں کہا 

”بھائی آپ کو پتہ تو ہےجو کوئی نہیں کرتا وہ دی گریٹ فائقہ کرتی ہے“ فخریہ انداز  میں فاٸقہ نے اپنی بات کی۔

حاشر تاسف سے نہ میں سر ہلا گیا کیونکہ وہ بھی جانتا تھاکہ فائقہ کا کچھ نہیں ہوسکتا۔

”گڑیا آپ کا کالج آگیا ہے اپنا بہت زیادہ خیال رکھنا اور پلیز کم شرارت کرنا “ حاشر پیار سے اسےسمجھانا ضروری سمجھا 

”اوکے بھائی آپ پریشان مت ہوں “ فاٸقہ نے گاڑی سے اُترتے ہوے کہا اور کالج گیٹ کی طرف چل دی۔ اسکے جاتے حاشر بھی آفس کے رستے گاڑی موڑ دی۔

                   💗۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💗  

حرم نے جلدی جلدی میں ناشتہ بنا کر سب کو دیا اور حمزہ (حرم کا بیٹا) کے لیۓ دودھ بنانے کے لگی۔ بھابھی کیچن میں آٸی اور اسکے ہاتھ سے فیڈر چھین لیا۔

”بی بی تم کو کیا لگتا ہے پیسے درختوں پر لگتے ہیں کیا یاجو بھر بھر کے فیڈر بناتی ہو دودھ فری میں آتاہے

جاٶ جان چھوڑو ہماری نہیں ہے دودھ “ رآٸیمہ (حرم کی بھابھی) نے دودھ فریج میں رکھ کے لاک کر دیا

”بھابھی پلیز حمزہ بہت رو رہا ہے دودھ  کےعلاوہ  میں اسےکچھ نہیں دے سکتی“ حرم نے منت کرتے کہا

”تو بی بی جاٶ جہاں مرضی سے لاٶ ہمارا سر درد نہیں اور رات کی روٹی ہے کھانی ہو تو کھالو ہمارا سر مت کھاؤ “ رآٸیمہ نے بہت دھتکار سے بولا ۔ حرم کی آنکھوں سے کٸی بےآواز آنسوں گرے۔

”رآٸیمہ حرم کو دودھ دے دو“ حرم کے بھاٸی داودنے اپنی بیوی سے کہا۔ 

”کیوں داود رات کو تو پیسوں کا رونا رو رہے تھے اب بہن کی بڑی محبت جاگ رہی“ رآٸیمہ نے طنزیہ انداز میں کہا

”تمہیں میں نے جتنا کہا ہے تم اتنا کرو مجھ سے زیادہ سوال جواب مت کرو “ داؤد نے سخت لہجے میں کہا 

”ہمم! جاٶ جو مرضی کرتے پھرو ایک تو سر پر آکر بیٹھ گٸی اوپر سے عیش پورے ہیں“ رآٸیمہ نے غصے سے فریج کی چابی پھینکی اور کچن سے باہر چلی گٸی۔

”شکریہ بھائی میں آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتی لیکن بھابھی ہمیشہ ناراض رہتی ہیں آپ پلیز مجھے کہیں جاب ڈھونڈ دےتا کہ میں کم از کم اپنا اور حمزہ کا خرچہ اٹھالو“ داؤد جانے لگا تو حرم نے اس سے کہا

”حرم تم کیسےکرو گٸ اور حمزہ کو کون سنبھالے گا وہ بہت چھوٹا ہے اسے تمہاری ضرورت ہے اپنی بھابھی کی باتوں کو رہنے دو اسے عادت ہے“ داود نے حرم کو سمجھانا چاہا اپنی بیوی کی عادت سے وہ واقف تھا۔

”بھاٸی آپ پلیز جاب کا کر دے میں مینیج کرلوگی “ حرم نے وہی بات دہرائی 

”ٹھیک ہے میں پتا کرتا ہو۔ اللہ تمہارے لیے آسانیاں کرے“ داود حرم سے کہتاچل دیا ۔ چاہتا تو وہ بھی یہی تھا کیوں کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اسے حرم اور اس کا بیٹا بوجھ لگ رہےتھے۔

بھائی کے جاتے ہیں حرم کی آنکھ میں قید آنسوں چہرے پر بہہ گۓ اور وہ بےآواز روتے حمزہ کے لیۓ دودھ بنانے لگی۔ 

سات سال پہلے انکا گھر ایک خوشحال گھرانہ تھا جہاں داٶد اور حرم دونوں اپنے امی بابا کے ساتھ سکون اور خوشیوں بھری زندگی گزار رہے تھے ۔ لیکن وقت کب ایک جیسا رہتا ہے حرم کے بابا ایک دن آفس سے آرہے تھے کہ انکی گاڑی ٹرک سے ٹکرا گئی اور وہ موقعے پر ہی دم تور گۓ انکے گھر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزرتا چلا گیا ۔

دو سال بعد داٶد کی رآٸیمہ سے شادی ہوگی شروع شروع تو رآٸیمہ سب کے ساتھ گھل مل کر رہی مگر حرم کی ویلیو گھر میں دیکھ کر اس سے نفرت کرنے لگی ۔ ایک صبح حرم نماز پڑھنے کے لئے اٹھی تو اپنی امی کے کمرے میں گئی کیونکہ آج وہ نہیں اُٹھی تھیں ورنہ سب سے پہلےوہ جاگ جاتی تھیں۔ حرم نے انہیں جا کر جگانا چاہا لیکن ان کا ٹھنڈا پڑتا وجود دیکھ کر حرم کے پیروں تلے زمین کھسک گٸی وہ بھاگی ہوی گی اور داؤد کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا داؤد انہیں لے کر ہسپتال گیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔ حرم کے اُوپر قیامت ٹوٹ پڑی تھی وہ تو نہ زندہ میں تھی نہ مردہ میں۔ کچھ دنوں بعد ہی بھابھی نے اپنے تیور دکھانا شروع کر دیے حرم سے سارے گھر کا کام کرواتی اور بہت ظلم کرتی ۔ حرم سارا سارا دن اور ساری ساری رات اپنے ماں باپ کو یاد کر کے روتی رہتی۔ کچھ دنوں بعد ہی داٶد کے ایک دوست کے گھر سے حرم کے لئے رشتہ آیا اتنا اچھا رشتہ دیکھ کے رآئیمہ جل بُھن گٸی ۔ داٶد نے انھے ہاں کردی اس طرح کچھ عرصے بعد حرم کی شادی ہوگٸی 

علی بہت اچھا انسان تھا اس نے حرم کو بہت خوش رکھا  کچھ بھی عرصے میں حرم کو اپنی زندگی جنت لگنے لگی شادی کے ایک سال بعد حرم اور علی کی زندگی میں حمزہ نے آ کر انہیں مکمل کردیا لیکن شاید حرم کی زندگی میں خوشیوں کی مدت بہت کم تھی ایک دن علی کا کسی سے جھگڑا ہوگیا اور بندے نے علی کو گولی مار دی اور علی بھی چلاگیا 

                  💗....................................💗

حاشر آفس میں داخل ہوا اور آفس بواۓ سے ایک کپ کافی کا کہتا اپنے کیبن میں چلا گیا۔ آنکھیں موندے وہ چٸیر کی بیک سے ٹیک لگاگیا۔ آنکھیں موندتے ہی اس پری وش کا سراپا اسکے سامنے لہرا گیا اور ایک پرسکون سی مسکراہٹ اسکے خوبرو چہرے پر آگٸ۔

”کون ہو تم اور کہاں ہو کیوں میرے خوابوں اور خیالوں میں ٹہر کے رہ گٸی ہو“ حاشر نے خودکلامی کرتے کہا

خیریت پوچھو 

کبھی تو کیفیت پوچھو

تمہارے بن دیوانے کا کیاحال ہے

دل میرا دیکھو

نہ میری حیثیت پوچھو

تیرےبناایک دن جیسے

سو سال ہے

انجام ہےیہ میرا

ہونا تمہے ہے میرا 

جتنی بھی ہو دوریاں 

فلحال ہیں

یہ دوریاں فلحال ہیں 

اپنی سوچوں کے محور میں گم حاشرکو پتا ہی نہیں چلا کہ کوئی اس کے کیبن میں بھی داخل ہوا ہے۔رمشاء خاموشی سے اندر آٸی اور اس کے کان کے پاس آکرچلاٸی

”اکیلے اکیلے مسکرایا جا رہا ہے کیوں جی کیا بات ہے اپنی دوست سے بھی شیئر نہیں کروگے بتاؤ بتاؤ کن خیالوں میں گم ہو“رمشاءکی آواز پر حاشر گھبرا کر ہوش میں آیا

”میں سوچ ہی رہا تھا کہ آج کل چڑیل نظر نہیں آرہی لے حاشر کر لے یاداور اپنے سر پر نازل کر لے اس کو۔ یار تمہے تمہارے گھر چین نہیں ہے“ حاشر نے رمشاء کو چڑاتے ہوۓ کہا

”او مسٹر زیادہ اتراؤ مت میں تمہارے نہیں اپنے ماموں جان کے آفس آٸی ہو“ رمشاء نے منہ بناتے ہوئے کہا   

”اچھا چلو ناراض نہیں ہو بتاو کیا لوگی چاٸے یا کافی“ حاشر نے اس سے پوچھا 

”نووے حاشر میرا آج لنچ پلان ہے تمہارے ساتھ تو یہ چاۓ کافی تم رہنے دو ۔ہم لنچ کرے گے پھر شاپنگ اور لاسٹ مجھے ممانی سے بھی ملنا ہے“ رمشاء نے اپنا پلان بتاتے ہوے کہا

”یار سوری آج بہت کام ہے مجھے میں نہیں جاسکتا کہیں“ حاشر نے معزرت کرتےہوۓبولا

نہیں حاشر مجھے کچھ نیہیں سننا “ رمشاء نے زد کرتے کہا

”یار پلیز ابھی کے لیۓ سوری لیکن پرومس ویک اینڈ پر تم میں اور فاٸقہ چلے گے “ حاشر نے ریکویسٹ کرتے  

ہوۓ کہا  

”اوکے لیکن صرف تم اور میں تیسرا کوٸی نہیں“  رمشاء نے فاٸقہ کے ذکر پر ناگواری دکھاتے ہوئے بولا ۔ رمشاء کے اس طرح کہنے پر حاشر کو عجیب لگا لیکن فلحال وہ خاموش رہا۔ تھوڑی دیرادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد حاشر ایکسکیوز کرتا کسی کام سے جانے لگا تو رمشاء بھی اسے باۓ کرتی نکل گٸی اور اسکے جاتے ہی حاشرنے سکھ کا سانس لیا۔ 

                    💗۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💗

ریان کا کالج میں آج فرسٹ ڈے تھا وہ اپنے انکل وہاج کے بہت اسرار پر صرف دو ماہ کے لیے انکی جگہ اس کالج میں پڑھانے آیا تھا۔ اُنہیں کسی بہت ضروری کام سےملک سے باہر جانا تھا۔ ابھی وہ کالج میں داخل ہی ہوا تھا کہ اچانک ایک نازک وجود اس سے بری طرح ٹکرا گیا۔ ٹکراؤ اتنا شدید تھا کہ ایک دم ریان بھی گھبرا گیا یہ طوفان کہاں سے آگیا۔

”آپ کے چہرے پر آنکھیں لگیں ہے یا بٹن جو اپکو سامنے سے آتی لڑکی نظر نہیں آ رہی“

فائقہ نے غصے میں سامنے کھڑے اونچے لمبے لڑکے سے پوچھا

ریان نےحیران ہوتےاس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو خود تیز گام بنے آ کے اس سے ٹکراٸ تھی 

”محترمہ آپکا اپنے بارے میں کیا خیال ہے آپ خود دوڑ لگاتی آرہی تھیں آپکو کسی نے چلنا نہیں سکھایا کیا“ 

ریان نے بھی بنا کسی لحاظ کے فائقہ کو سنا دی-فائقہ نے آنکھیں بڑی کرتے سامنے کھڑے ہینڈسم سے لڑکے کو گھور کے دیکھا 

”شکل سے تو آپ تمیزدار شخص لگے تھے تبھی میں نے آپکی غلطی ہونے پر بھی آپ سے ادب سے بات کی لیکن آپکو تو عزت راس ہی نہیں“

فائقہ نے آنکھیں دیکھاتے ریان کو اُلٹا سنا دی۔ ریان تو اسکی اس تمیز پر غش کھا کر گرنے کو تھا۔ 

ریان نے مذید کوٸ بحث کرنا مناسب نا سمجھا اور دوسری طرف سے گزر کے جانے لگا کہ ایک دم فاٸقہ سامنے کھڑی ہو گٸ

”تمہاری اتنی مجال مجھے یعنی مجھے فاٸقہ ہمدانی کو اگنور کر کے جا رہے جانتے ہو میں کون ہومیں یہاں موسٹ سینٸر سٹوڈنٹ ہوں اور اس کالج میں میری بہت چلتی ہے“

فاٸقہ نے اتراتے ہوۓ کہا

”جی نہیں مجھے آپ کو جاننے میں کوئی انٹرسٹ نہیں البتہ میں یہ بتا دو میں اپکا نیو میتھ ٹیچر ہوں“ 

اس کی بات پر فائقہ کا رنگ اڑ گیا

”آ آپ سرریان ہیں؟“ فاٸقہ نے ہکلاتے ہوئے پوچھا            ”نہیں محترمہ میں ایک نابینا انسان ہواور میرے چہرے پر آنکھیں نہیں بٹن لگے ہوئے ہیں“

ریان نے دانت پیستے ہوے کہا۔ یہ کہتےہی ریان آگے بڑھ گیا اور فاٸقہ اپنی کم عقلی پر سر پکر رہ گٸ۔

”یار فاٸقہ مجھے تمہارے وہ بمب پٹاخے نہیں ملے“ سحر نے آتے ہی فائقہ سے بےزار آواز میں کہا 

” تم جہنم میں چلی جاؤ تم سے ایک کام بولا تھا نہ وہ بھی نہیں ہوا اور صبح صبح میرا دماغ خراب ہو گیا ہے“ فائقہ نے سحر کو سناتے ہوے کہا

”اچھا مجھے تو بتاؤ ہوا کیا ہے؟“ سحر کے پوچھنے پر فاٸقہ کو اپنی تازی تازی بےعزتی یاد آگئی 

”چل یار میں تجھے کلاس میں بتاتی ہوں نیو ہٹلر کی پہلی کلاس ہے لیٹ ہوکر مزید عزت نہیں کروانی مجھے“ یہ کہتے ہی فاٸقہ اور سحر کلاس کی طرف چل دی۔

حرم حمزہ کا فیدڑ بنا کر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی اس کے پیروں تلے زمین کھسک گٸی ۔ حمزہ بیڈ سے نیچے گرا ہوا تھا اور بلک بلک کر رو رہا تھا۔ حرم نے بھاگ کر آتے حمزہ کو اپنی گود میں بھر لیا اور چپ کروانے لگی۔ ‏حرم آج کے واقعے کے بعد بہت پریشان ہو گئی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اگر وہ حمزہ کے ساتھ نہ رہی تو اسے کون سنبھالے گا لیکن اگر وہ حمزہ کے ساتھ رہتی ہے تو جاب کیسے کر سکتی ہے؟ 

”یا اللہ مuیرے لئے آسانیاں فرما مجھ میں مزید تکلیف برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے مجھے اپنی نہیں اپنی اولاد کی فکر ہے میرے لیے کوئی راستہ نکال دے اللہ میں بہت بے بس اور مجبور ہوں “ حرم نے بےآواز آنسو بہاتے ہوئے اللہ سے فریاد کی۔

اچانک ہی حرم کے ذہن میں ثریا خالہ (ان کی پڑوسن) کا خیال آیا ۔ خالہ ثریہ کی اپنی تو کوئی اولاد نہیں تھی انہوں نے ہمیشہ حرم اور داؤد کا خیال رکھا تھا اور بہت پیار کیا تھا۔ حرم نے سوچ لیا تھا وہ ان سے بات کرکے دیکھے گی اسے امید تھی کہ اس کی غیر موجودگی میں اللہ کے بعدخالہ ثریا ہی اس کے بیٹے کا خیال رکھ سکتی ہیں۔ 

”میں خالہ ثریا سے بات کرتی ہو انہیں جا کے اپنی ساری مجبوری بتاؤں گی اور پھر جاب کے لیے اپلائی کرتی ہوں “ حرم نے سوتے ہوئے حمزہ کو پیار کرتے ہوئے ایک مضبوط ارادے سے کہا اور رات کی روٹی اچار سے کھانے لگی اس کے بھائی اور بھابھی نے اس کو رہنے کے لیے چھت دے رکھی تھی اس کے لیے یہی بہت تھا۔

ماں سے زیادہ طاقتور اس دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ اپنی اولاد کی خاطرایک ماں دنیا کے ہر خطرے سے اکیلے لڑ سکتی ہے اور اپنی اولاد کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے 💗

حرم نے کمرہ سمیٹ کر ساری صفائی کی اور کیچن صاف کرنے چلی گی وہ حمزہ کے سوتے سوتے ہی سارا کام ختم کردینا چاہتی تھی تاکہ دوبارہ حمزہ کی طرف سے لاپرواہی نہ ہو سکے 

کیونکہ وہ جانتی تھی اس کے بچے کا خیال رکھنے والا اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ناجانے لوگ زمین پر خدا بن کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں۔ مطلب کے لئے آپ اور بعد میں سانپ۔۔۔

یہ مطلب کی دنیا ہے

یہاں سنتا نہیں فریاد کوئی

ہنستے ہیں تب لوگ

جب ہوتا ہے برباد کوئی

                  💗....................................💗

فاٸقہ اور سحر کلاس میں آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گٸی

”کیا ہوا جو تم باہر غصے میں کھانے کو دود رہی تھی“ سحر نے کلاس میں اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا  کیونکہ فاٸقہ کا موڈ ابھی تک خراب تھا

”یار میری آتے ہی سر ریان سے ٹکڑ ہوگی ہے “ فائقہ نے بےزار آواز میں کہا اور اس نے سحر کو باہر ہونے والی ساری بحث کے بارے میں بتا دیا

واٹ! سر ریان وہی سر ریان جو آج سے ہماری میتھ کی کلاس لیں گے“ سحر نےحیران ہوتے فاٸقہ سے پوچھا 

”ہاں انہیں سے اور یار تو کیوں ہر چیز کو اپنے سر پر سوار کرتی ہے چل کیا کرنا میں خودی دیکھ لوں گی“ فاٸقہ نے سحر کو کہا

اتنی دیر میں ریان کلاس میں داخل ہوا اور جاکر ڈائس پر کھڑا ہوگیا 

”اسلام علیکم گڈمارننگ کلاس میں ریان احمد آپ کا نیو میتھس ٹیچر ہوں وجاہت سر کی جگہ آج سے فائنلز تک آپ کی کلاسس میں لوں گا امید کرتا ہوں میں آپ کی اور آپ سب میری توقعات پر پورا اتریں گے تو پلیز آپ سب سے ریکویسٹ ہے کہ اپنا اپنا انٹروڈکشن کروادیں“ ریان نے اپنا انٹرو کیا اور باری باری پوری کلاس کا انٹرو لیا 

”اوکے کلاس آج کے لیکچر میں ہم بیسک ٹوپک ڈسکس کریں گے “ اتنا کہہ کر ریان کلاس کو بیسک ٹوپک ایکسپلین کرنے لگا 

”یار فائقہ تو اتنے ہینڈسم گڈ لکنگ سر سے کیوں پنگالیا دیکھ نہ یار پڑھاتے بھی کتنا اچھا ہے میں تو آج سے ہی کی فین ہوگی“ سحر نے ریان کو دیکھتے ہی فدا فدا انداز میں کہا۔ ریان کی پرسنلٹی سے صرف سحر نہیں بلکہ پوری کلاس کی لڑکیاں ہی مرعوب ہوٸی تھی۔۔

”سحر تم اندھی ہو گئی ہو یا تمہارے اس موٹے چشمے کا نمبر بھر گیا ہے یہ کڑوا کریلا یہ سڑا ہوا کدو تمہیں کہاں سے ہینڈسم لگ رہا ہے منہ سے ہی ڈریگن کی طرح آگ اُگل رہا تھا مجھے تو ایسا لگ رہا تھا مجھے کچا ہی کھا جائے گا“ فائقہ نے اپنی باہر ہونے والی بیعزتی یاد کرتے ہوۓ چڑ کر کہا 

”تو کلاس آج بس اتنا ہی۔ مس فاٸقہ آپ ہمیں بتایٸں آج کے لیکچر میں میں نے کیا بتایا“ ریان نے لیکچر کے اختتام پر فاٸقہ سے سوال کیا۔وہ لیکچر کے دوران مسلسل اسکی حرکات سے ڈسٹرب ہوا تھا۔

”جی٠٠٠٠ جی کیا میں بتاٶ“ فاٸقہ نے چونک کے پوچھا 

”جی بلکل آپ ہی غالباً فاٸقہ آپ کا ہی نام ہے“ ریان نے طنزیہ لہجے میں کہا

”بٸی سوری سر مجھے ایک لفظ سمجھ نہیں آیا اور آپکی ہی غلطی ہے“ فاٸقہ نےالزام الٹا اسکے سر ڈالتے کہا

”واٹ! میری غلطی؟ لیکچر کے دوران اپنی دوست سے باتیں آپ کررہی تھیں“ ریان نے غصے سے دانت پیستے کہا  پہلےتووہ اسکی بات پر حیران ہوا پھر سمجھ آنے پر اسکا  دماغ گھوم گیا

”جی سر آپکی غلطی آپ اگر باہر مجھ سے نہ ٹکراتے تو ابھی وہ قصہ سنانے کی بجائے میں لیکچر پر فوکس کرتی“ فاٸقہ نے معصوم شکل بناتے کہا

”بہت ہی عجیب اور بےشرم ہیں آپ تو کوٸ ادب لحاظ ہی نہیں“ ریان فاٸقہ سے یہ کہہ کے کلاس سے جانے لگا تو پیچھے سے فاٸقہ کی آواز پر رک کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا

” سر سر سنیے پلیز ۔ آہم آہم ارض کیا ہیے 

وہ ہمیں بے شرم کہتے ہیں تو کہتے رہے

امی کہتی ہے جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے “ 

فاٸقہ کی بے تکی شاعری پر پوری کلاس قہقہ لگا کے ہنس پڑی اور ریان غصے سے لال پیلا ہوتا واک آٶٹ کرگیا۔ 

”ویلکم دی کالج سر ریان احمد“ فاٸقہ نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا 

                💗........................................💗

مسسز ہمدانی دوپہر میں لاؤنچ میں بیٹھی چاٸے پیتے ہوے ٹی وی دیکھ جب ان کے فون پر ان کی نند صبیحہ بیگم کی کال آٸی 

”السلام علیکم کیسی ہیں آپا آپ کتنے دن ہوگۓ آپ نے چکر بھی نہیں لگایا رمشا اور احسن کی سنائیں کیسے ہیں بچے“ مسسزہمدانی نے خوش دلی سے ان کی خیریت دریافت کی

”ارے واہ کال بھی میں نے کی اور شکوے بھی مجھ سے تم لوگ کون سا پوچھ لیتے ہو بیوہ بہن اور اسکی اولاد کو ہم نے چکر نہیں لگایا تو صوفیہ نہ تم نے رابطہ کیا نہ وقار نے تم لوگوں نے تو سوچھا ہوگا اچھا ہے جان چھوٹی رہے“ صبیحہ بیگم نے خوب دل کی بھراس نکالی 

”نہیں آپا ایسی کوٸی بات نہیں آپکو تو پتا آپکے بھاٸی اور حاشر دونوں کتنا مصروف ہوتے ہیں نہیں تو ہم ضرور چکر لگاتے “ صوفیہ بیگم نے جلدی سے اپنی صفائی پیش کی کہ کہیں کال ہی نہ بند کر دیں

”تم تو رہنے ہی دو اور حاشر فاٸقہ کو ناجانے کیا کیا کہا ہے ہمارے بارے میں وہ تو ایسے سلوک کرتے جیسے ہم اپنے نہیں غیر ہوں آج بھی رمشاء حاشر کے آفس گی تھی مگر مجال ہے جو میری بچی کے لئے ذرا وقت نکال سکے“ جہاں بیگم سخت بدگمان ہوتے ہوئے بولی 

”رمشاء آفس گٸی تھی آپا آپ گھر بھیج دیتی میں لے جاتی سے جہاں اس نےجانا تھا “ صوفیہ بیگم کو ان کی بات کچھ عجیب لگی 

”کیا بھیج دیتی میری بچی تو اتنے چاہوں سے گٸ تھی کہ حاشر کے ساتھ کہیں باہر گھوم پھر آئے گی اور تم سے مل لے گی آخر وہ تم سب سے اتنا پیار جو کرتی ہے مگر حاشر صاحب نے تو صاف صاف کہہ دیاکہ میرے پاس وقت نہیں ہے بیچاری اتنا سامنہ لے کر گھر واپس آگئی برا مت منانا صوفیہ مگر تمہاری اولاد میں ذرا لحاظ نہیں ہے“ صبیحہ بیگم مسسز ہمدانی کو طنزیہ لہجے میں بولی 

”آپا جان ایسی کوئی بات نہیں ہے ضرور حاشر کو کوٸی ضروری کام ہوگا نہیں تو آپ جانتی ہیں ہمارا حاشر کتنا فرماں بردار ہے میں آپ سے معذرت کرتی ہوں“ صوفیہ بیگم نے دھیمے لہجے میں کہا

”ہمم ٹھیک ہے دیکھتے ہیں ان کی فرمابرداری خیر رکھتی ہوں لگاؤں گی ایک دو دن میں چکر اور وقار سے بولنا کہ کبھی خود بھی بہن کو یاد کر لیا کرے خدا حافظ “ خدا حافظ کہتے کہتے بھی صبیحہ بیگم طنز کرنا نہ بھولیں

”اوکے اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ“ صوفیہ بیگم نے نرم لہجے میں کہا 

آج رمشاء کا سیدھا حاشر کے آفس میں جانا صوفیہ بیگم کو بہت عجیب لگا وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی۔

                  💗......................................💗

فاٸقہ اور سحر  کلاس سے باہر نکلی تو انھیں فہد اور باسط اپنی طرف آتے نظر آئے 

” السلام وعلیکم کیسی ہو لڑکیوں “ باسط نے آتے ہی  فاٸقہ اور سحر کو دیکھتے کہا

”سحر ان دونوں سے کہو کہ اپنی شکل یہاں سے گم کرے نہیں تو میں نے ان کے دانت توڑدینے ہیں “ فاٸقہ نے دونوں کو غصے سے گھورتے ہوئے بولا 

” ارے ہمارے گینگسٹر کو کیوں اتنا غصہ آیا ہوا ہے آج “ فہد نے سحر سے پوچھا 

”ایک تو صبح صبح فائقہ کی لڑائی ہوگئی اور تم دونوں بھی آج اتنی لیٹ آئے ہو “ سحر نے بھی ناراض لہجے میں بولا 

”اتنی ہمت کس میں جو فائقہ سے لڑ پڑا “ باسط نے حیرانی سے پوچھا 

”سحر مجھے ان دونوں سے کوئی بات نہیں کرنی ہے ان کو کہو دفع ہو جاٸیں یہاں سے “ فاٸقہ خونخوار لہجے میں بولا 

”یار فائقہ ریلی سوری لیکن ہمارا آج نیو سر کا لیکچر لینے میں کوٸی انٹرسٹ نہیں تھا یہ ہم دونوں آج ناشتہ کرنے چلے گئے“ فہد کی بات پر فاٸقہ اور سحر نے غصے سے ان دونوں کو گھورا 

”ایک تو تم دونوں لیٹ ہو دوسرہ ہم دونوں کے بغیر تم دونوں باہر ناشتہ کرنے بھی گۓ بہت اچھی بات اب سارا دن تم دونوں مجھے اپنی شکل مت دکھانا “ یہ کہتے ہی فائقہ وہاں سے پیر پٹکتے چلی گئی 

” یار سحر رکو تو تم تو میری بات سنو ۔اچھا یار چلو  سوری سوری آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا “ جب سحر بھی جانے لگی تو فہد نے اسے روکتے ہوئے کہا

” سحر ویسے کچھ بتاؤ تو کیا ہوا ہے صبح صبح جو فاٸقہ کا غصہ کم ہی نہیں ہو رہا “ باسط نے سحر سے پوچھا

” میڈم صبح صبح کسی پر روب جھاڑ کر اپنی خوب بےعزتی کروا آٸی ہیں “ سحر نے ان دونوں کو بتایا

” کسی پرروب جھاڑنا سمجھ آتا ہے یہ تو فائقہ روز کرتی ہے مگر ایسا کون تھا جس نے فاٸقہ کی بےعزتی کر دی“ فہد اور باسط نے حیرانگی سے پوچھا 

” وہ کوئی اور نہیں ہمارےنیو ٹیچر سر ریان ہیں جن پر ہماری فائقہ فضول کا روب جھاڑ رہی تھی“ سحر کی بات پر دونوں پہلے حیران ہوئے اور پھر ہنسنے لگے 

” یار اپنی فاٸقہ کا بھی بڑا جگرہ ہے سب کو ٹھکانے پر رکھتی ہے“ باسط نے ہنستے ہوۓ کہا 

” اچھا یار سحر آگے تو بتاؤ پھر کیا ہوا “ فہد نے سحر سے پوچھا ۔

سحر انہیں صبح ہونے والی لڑائی کے بعد سے لے کر کلاس کے ایند تک کا سارا قصہ سنا گٸ 

اس کی بات سن کر وہ دونوں ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگئے ان کے ساتھ سحر بھی ہنس پڑی 

” چلو یار فائقہ کو دیکھتے ہیں اب کس کو ٹکریں مار رہی ہے کس کی کمبختی لائی ہے “ فہد نے ہنستے ہوئے کہا

” ہاں چلو لیکن پلیز اب اس کے سامنے بالکل مت ہنسنا ورنہ آج تم دونوں کے ہاتھ پاؤں سلامت نہیں رہیں گے “ سحر نے دونوں سے بولا تو وہ اثبات میں سر ہلا گۓ 

وہ لوگ کینٹین کی طرف گئے تو دور سے ہی انہیں فائقہ نظر آئی جو فرسٹ ایئر کے ایک چشمش بچے کو دو چار چپیڑے مارکر کچھ کہہ رہی تھی

” باجی دیکھیں وہاں بہت رش ہے میں کیسے جاؤں اور اگر میں وہاں کھڑا گیا تو میری کلاس مس ہو جائے گی“ فائقہ زبردستی اس لڑکے کو برگر لینے بھیج رہی تھی لیکن وہاں رش دیکھ کر وہ لڑکا ٹال مٹول کر رہا تھا 

” ایک دن تمہاری کلاس مس ہو جاۓ گی تو کوئی طوفان نہیں آ جائے گا جاؤ جلدی سے برگر پکڑ کے لاٶ“ فائقہ نے زبردستی اس لڑکے کو بھیجتے ہوئے بولا 

” فائقہ کیوں مظلوم لوگوں پر گنڈاگردی دکھاتی ہو “   فہد نے شرارتی انداز میں اسے چھیرا 

” فہد میرے ہاتھوں مر مرا نہ جانا تم“ فائقہ غصے میں فہد سے بولیں 

” چلو یار صبح کے لیے سوری اب نیکسٹ ٹائم ایسا نہیں ہوگا “ فہد اور باسط دونوں نے کان پکرتے کہا 

” تم دونوں میرے دوست میرے کراٸم پارٹنرز ہو اس لئے آج معاف کیا “ فاٸقہ نے نرم پڑتے بولا 

” بہت شکریہ ملکہ عالیہ بہت شکریہ “ باسط کے ایسا کہنے پر وہ چاروں ہنس پڑے 

حاشر شام میں تھکا ہوا ہے آفس گھر واپس آیا تو صوفیہ بیگم اور وقار صاحب لان میں بیٹھے شام کی چائے پیتے ہوۓ آپس میں باتیں کر رہے تھے 

حاشر سلام کرکے انکے ساتھ ہی بیٹھ گیا صوفیہ بیگم نے حاشر کی طرف مسکرا کر دیکھا اور پانی کا گلاس اسے پکڑایا حاشر نے شکریہ کہتے ہوے ان کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تھام لیا۔ یہ دیکھ کر وقار صاحب نے مسکراتے ہوے اللہ کا شکر ادا کیا بیشک صوفیہ بیگم ان کے گھر اور بیٹے کے لیے بہترین انتخاب تھیں 

” بھٸ بیگم بیٹے کے آتے ہی آپ ہمیں تو بھول ہی جاتی ہیں “ وقار صاحب نے مزاخیہ انداز میں کہا

” آپ تو رہنے ہی دیں کیا حال کر دیا ہے میرے بچے کا اتنا کام کروا رہے ہیں اس سے دیکھیں کتنا کمزور ہو گیا ہے “ 

صوفیہ بیگم نے ناراض ہوتے ہوے کہا

” شیر بیٹا ہے ہمارا آپ کیوں فکر کرتی ہیں “ حاشر اور وقار صاحب انکی پریشانی پر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے 

” ماما میری تھکاوٹ تو آپکے پیارے پیارے ہاتھوں کی چاۓ پی کے ہی ختم ہو جانی “  حاشر نے ان کے یاتھ چوم کر مسکراتے ہوے کہا

” اوکے بیٹا آپ فریش ہو جاٶ میں آپ کے لیے چاۓ تیار کرواتی ہوں اور ساتھ کباب بھی فراٸی کرواتی ہوں“ صوفیہ بیگم نے پیار سے کہا

” حاشر میری بیگم کا سارا پیار اور توجہ تو تم لے گۓ اب ہم کیا کریں “ وقار صاحب نے مظلومیت سے کہا 

” بابا آپ اخبار پڑھیں“ حاشر کی بات پر تینوں ہنس پڑے 

” ماما گڑیا کدھر ہے نظر نہیں آرہی “  حاشر نے فاٸقہ کے بارے میں پوچھتے کہا

” بیٹے آپکو تو انکا پتا ہے اپنے کمرے میں بیٹھی کوٸی نیو شرارت ہی سوچ رہی ہوں گی “ صوفیہ نے حاشر سے کہا

” اوکے ماما میں فریش ہو کرآتا ہوں اور گڑیا سے بھی مل لیتا ہوں “ حاشر یہ کہتا ہوا اندر چلا گیا

صوفیہ بیگم اندرجانے لگی تو یاد آنے پر وقار صاحب سے بولی 

” آپا کو کال کر لیں وہ آج مجھ پر شدید ناراض ہو رہی تھیں “ صوفیہ بیگم وقار صاحب سے کہتی کیچن میں چلی گٸی 

وقار صاحب نے اپنی بڑی بہن صبیحہ بیگم کو کال ملائی دو سے تین بیل پر انہوں نے کال ریسیو کی

” السلام علیکم آپا جان کیسی ہیں آپ “ وقار صاحب نے خوش دلی سے ان کی خیریت دریافت کی

” آگئ یاد تمہیں بہن کی مجال ہے جو پوچھ لو کہ بہن ٹھیک بھی ہے  کسی چیز کی ضرورت تو نہیں لیکن نہیں تم تو اپنے بیوی بچوں میں اتنے مصروف ہو کہ بہن کو بھول ہی گئے ہو“ صبیحہ بیگم نے وقار صاحب کو طنزیہ لہجے میں کہا

” نہیں آپا ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ تو جانتی ہیں کہ میں کتنا مصروف رہتا ہوں “ وقار صاحب تہمل سے بولے 

” رہنے دو بھاٸی تم اور تمہاری مصروفیت “ صبیحہ بیگم منہ بناتے ہوئے بولی

” اچھا اچھا آپا جان آپ ناراض مت ہو ہم اس ویک اینڈ پر کہیں باہر کا پلان کرتے ہیں“ وقار صاحب نے تجویز پیش کی 

” بھائی رہنے دو ہم کہاں گھٹنوں کے درد کے ساتھ باہر جاتے اچھے لگے بچوں کو بھیج دیں گے بس اور مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے میں چکر لگاتی ہوں دو چار دن میں امید کرتی ہوں کہ تم مجھے مایوس نہیں کرو گے“ صبیحہ بیگم نے وقار صاحب سے بولیں 

” جی آپا آپ کا اپنا گھر ہے سو دفعہ آٸیں اور آپ کے لیے تو جان حاضر ہے جو آپ کہیں گی ہمارے سر آنکھوں پر“ وقار صاحب نے ادب سے کہا

” اچھا چلو ٹھیک ہے خدا حافظ ملتے ہیں پھر “ صبیحہ بیگم نے فون رکھتے ہوئے کہا

” جی آپا خدا حافظ اپنا خیال رکھیے گا فی امان اللہ “ وقار صاحب نے ان سے کہا اور کال بند کردی۔

                     💓.................................💓

صوفیہ بیگم چاٸے لے کر حاشر کی کمرے میں چلی گئی انہوں نے سوچا ہوا تھا کہ حاشر کے آتے ہی اس سے بات کریں گی لیکن باہر وقار صاحب کی وجہ سے کر نہ پاٸی 

وہ صوفہ پر بیٹھی اس کا انتظار کرنے لگی

حاشر فریش ہو کر باہر نکلا تو اس نے صوفیہ بیگم کو انتظار کرتے ہوئے پایا۔

” مما آپ نے کیوں زحمت کی اُوپر آنے کی آپ مجھے کہہ دیتی میں نیچے آ جاتا “ حاشر نے ان سے کہا

” اپنے بچوں کا کام کرکے تو مجھے سکون ملتا ہے اس میں زحمت کیسی بیٹا “ صوفیہ بیگم نے اس کے بال درست کرتے ہوئے کہا

” آپ تو دنیا کی سب سے اچھی مما ہیں “ حشر نے ان سے لاڈ کرتے ہوئے کہا

” ویسے بیٹا میرا آپ کے کمرے میں آنے کا مقصد آپ سے ایک ضروری بات پوچھنا تھا“ انہوں نے حاش سے کہا 

” جی جی مما پوچھیے آپ“

” بیٹے وہ مجھے پتا چلا کہ آج رمشاء آپ کے آفس آئی تھیں “ صوفیہ بیگم نے حاشر سے پوچھا 

” جی مما آئی تھی لیکن میں بہت مصروف تھا اور فضول باہر جانے کی ضد لگائے بیٹھی تھی لیکن خیریت ہے آپ نے پہلی دفعہ ایسا کچھ پوچھا ہے “ حاشر رمشاء کے ذکر سے بے زار ہو کر بولا 

” بیٹے مجھے آپ کا پتا ہے لیکن رمشاء کا ایسے بنا مقصد آنا مجھے بہت عجیب لگا اور آپا کا کچھ اس انداز میں کہنا کہ آپ رمشاء کو ٹائم نہیں دیتے “ صوفیہ بیگم حاشر سے بولیں

” مما ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ کو رمشاء کی عادت کا پتہ تو ہے اور پھپھو بھی اس کو نہیں روکتی“ حاشر اپنی ماں کی پریشانی دیکھتا بولا 

” نہیں بیٹے میں نے بس پوچھا کہ اگر کوئی ایسی بات ہے تو آپ مجھے بتا سکتے ہیں میں آپ کی پھپھو سے خود بات کرونگی “ صوفیہ بیگم نے حاشر سے کہا

” نہیں مما ایسا ہو ہی نہیں سکتا آپ کو پتہ ہے میری اور رمشا کی نیچر میں زمین آسمان کا فرق ہے “ حاشر نے ہنستے ہوئے کہا

” بیٹا بری بات ایسے نہیں کہتے تمہاری کزن ہے وہ “ صوفیہ بیگم نے مصنوعی غصے سے کہا

” لیکن مما آپ کا بیٹے کتنا چارمنگ ہے وہ کیا کبھی رمشاء چھپکلی سے شادی کرے گا“ حاشر نے مزاحیہ لہجے میں کہا

” اتنی پیاری بچی تو ہے کیوں تنگ کرتے ہو اسے لیکن ایک بات تو ہے میرا بیٹا تو لاکھوں میں ایک ہے “ یہ کہتے ہوئے دونوں ماں بیٹا ہنس پڑے

                    💓.................................💓

حرم شام کے وقت روٹیاں بنا رہی تھی جب اسے حمزہ کے رونے کی آواز آئی وہ بھاگی بھاگی کمرے میں گئیں تو حمزہ بلک بلک کررو رہا تھا اس نے حمزہ کو گود میں لیا اور فیڈر پلانے لگی ۔ فیڈر پیتے ہی حمزہ سوگیا ۔

حرم کو کچھ جلنے کی بو آئی وہ بھاگی ہوٸی کچن میں گٸی تو روٹی جل کر راکھ ہو چکی تھی حرم ایک دم پریشان ہوگٸی اتنی دیر میں رآئمہ کچن میں آٸی تو کچن میں دھواں دیکھا اور اسکی نظر سامنے جلی روٹی پر پڑی تو غصے سے آگ بگولا ہوگٸی ۔

” واہ بی بی واہ کوٸی کام ڈھنگ سے کرنا آتا بھی ہے یا بس مفت کی روٹیاں توڑنی آتی ہیں“ رآٸمہ نے جلی ہوٸی روٹی حرم کے سامنے کرتے ہوے پوچھا

حرم شرمندگی سے سر جھکا گٸی 

” دیکھو بی پی تمہارے ماں باپ یا وہ تمہارا شوہر تمہارے لیے جائیدادیں نہیں چھوڑ کے گئے جو تم ہر چیز خراب کرتی ہو میرے شوہر کا معمولی سا کام ہے ہمیں بخش دو تم“ رآٸمہ حرم کو سناتی گٸی 

” بھابھی معاف کیجیے گا حمزہ رو رہا تھا تو میں جلدی میں اندر چلی گٸ تو دھیان نہیں رہا“ حرم نے کہا

” جاٶ جاکر بیٹھ جاٶ اپنے بیٹے کے پاس کام خراب کروانے سے اچھا میں خود کر لو “ رآٸمہ نے حرم کو غصے سے جھاڑ دیا

” بھابھی سب تیار میں بس کھانا لگا دیتی ہے “ حرم نے جلدی میں کہا

” حرم مجھے مزید غصہ مت دلاٶ چلی جاٶ یہاں سے “ رآٸمہ نے قدرے اونچی آواز میں بولا 

حرم وہاں سے چلی گٸی کمرے میں آکر اپنے بیٹے کو پیار کرنے لگی۔ نہ چاہتے ہوے بھی کٸ آنسوں اسکی آنکھوں سے بہہ گۓ ۔ وہ وضو کر کے عشاء کی نماز پڑھنے لگی 

جب نماز پڑھ کے فارغ ہوی اور دعا کے لۓ ہاتھ اُٹھاۓ تو اسکی آنکھوں سے مسلسل آنسوں بہنے لگے وہ دل کھول کر رو پڑی تھی جیسے سارا غبار آنسوں کے ذریعہ نکل ہی ہو

 ” جب انسان زبان سے کچھ کہہ نہ پاۓ تو رو لیا کرے بےشک اللہ تو سب جانتا ہے “

                    💓.................................💓

” مما فاٸقہ کدھر ہے جب سے میں گھر آیا ہو نظر ہی نہیں آرہی “ حاشر اور وقار صاحب اور صوفیہ بیگم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا فاٸقہ کی غیر موجودگی کا پوچھا

” السلام علیکم بھیا آپ نے مجھے یاد کیا اور میں حاضر “ فاٸقہ سیڑھیاں اترتے ہوئے بولی

” وعلیکم السلام کیسا گزرا دن آپ کا گڑیا “ حاشر نے فاٸقہ سے پوچھا 

” ہمیشہ کی طرح بہت اچھالیکن بھائی آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نہ “ فائقہ نے دھیمی آواز میں کہا

” جی جی گڑیا سب یاد ہے “ حاشر نے مسکراتے ہوئے کہا

” تو پھرچلے بھائی“ فائقہ نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا

” اوکے گڑیا چلو“ فاٸقہ کے ساتھ حاشر بھی کھڑا ہوا

”آپ دونوں اس وقت کدھر جا رہے ہیں“ صوفیہ بیگم سوالیہ انداز میں پوچھا

” مما ہم بس آئسکریم کھا کر آ رہے ہیں “ حاشر بولا 

” کوٸی ضرورت نہیں ہے فاٸقہ بھاٸی سارا دن تھکا ہوا آتا ہے اور آپ کی نٸ فرماٸشیں کوٸی کہیں نہیں جارہا “ صوفیہ بیگم کی بات پر فائقہ نے مایوسی سے حاشر کو دیکھا 

” مما میں کوئی نہیں تھکااور گڑیا کی خواہشات ہم نے نہیں پوری کریں گے تو کون کرے گا اور کچھ آپ کو بھی پاپا کے ساتھ اکیلے وقت گزارنے کا ٹائم مل جائے گا “ حاشر نے شرارتی انداز میں کہا 

” ویسے حاشر بیٹا بالکل ٹھیک کہا آپ نے چلیں میں بیگم جانے دے بچوں کو “ وقارصاحب نے بچوں کی طرف داری کرتے بولا 

” ٹھیک ہے مگر آپ لوگ جلدی واپس آئیے گا اور فائقہ کچھ الٹا سیدھا مت کیجئے گا “ صوفیہ بیگم اجازت دیتے ہوئے فاٸقہ کو سمجھانا نہ بھولیں

اجازت ملتے ہی حاشر اور فائقہ باہر نکل گئے 

” بھائی دیکھیں پہلے میں نے گول گپے کھانے ہے پھر آئس کریم کھانی ہے اور آپ اتنے لیٹ ہوگئے میں نے جھولے بھی لینے تھے“ فائقہ نے اپنی فرمائشوں کی لسٹ بتاتے ہوئے کہا 

اوکے گڑیا اوکے جو آپ نے کھانا ہو کھا لیجیے گا “ حاشر نے مسکراتے ہوئے کہا

 حاشر نے گاڑی ایک آئس کریم پارلر کے سامنے روکی اور گاڑی سے اتر کر اپنا اور فاٸقہ کا فیورٹ فلیور لینے چلا گیا فائقہ گاڑی سے باہر آ کر کھڑی ہوگٸی 

” اوئے ہوئے کتنی حسین ہو تم سبحان اللہ ماشاء اللہ“ فائقہ کے پاس سے دو لڑکے جملے کستے ہوئے گزرے

” کس کو بولا کس کو بولا کس کو چھیڑ رہے ہو تمہاری تو ایسی کی تیسی زمین سے پوری طرح نکلے نہیں اور کرتوت دیکھو ان کے “ فائقہ نے غصے سے ان کو دیکھتے ہوئے بولا

” ہائے دیکھو آواز بھی کتنی حسیں ہےہاۓ مر جاؤں“ ان میں سے ایک منچلے لڑکے نے کہا

” رک کمینے تجھے میں مارتی ہو اب دیکھ تیرے دل کی حسرت پوری کر کے چھوڑو گی آج “ یہ کہتے ہی فائقہ نے پاس پڑی اینٹ اُٹھاٸ ۔ یہ دیکھتے ہی وہ دو لڑکے ڈر گٸے 

” او پاگل عورت اینٹ نیچے رکھو“ دوسرے والے نے ڈر کر کہا

” ابے خلائی مخلوق تو نے پاگل کس کو بولا تو ہوگا پاگل تیرے اگلے پچھلے سارے پاگل اور عورت عورت کس کو بولا دیکھ تو نہیں بچتا “ فائقہ نے اِینٹ اُٹھاۓ ان کے پیچھے دوڑ لگادی 

آگے سے حاشر کو اتا دیکھ وہ دونوں لڑکے حاشر کے پیچھے چھپ گئے 

” بھائی بھائی ان پاگل آنٹی سے ہمیں بچاؤ “ حاشر حیران پریشان دیکھنے لگا 

” بھائی آگے سے ہٹ جائیں آج میں ان دونوں کا خون پی جاؤں گی “ فائقہ نے غصے سے بولا 

” باجی باجی پلیز ہمیں معاف کر دو توبہ ہماری جو آئندہ کسی لڑکی کو کچھ کہیں“ لڑکوں نے کان پکڑتے کہا

” گڑیا گڑیا بس جانے دو انہیں“ حاشر نے فاٸقہ سے کہا اور اینٹ لے کر ایک طرف رکھ دی۔

” شکر مناؤ اگر آج میرے بھائی نہ ہوتے نہ ساتھ میرے تو تم لوگوں کو تو میں بتاتی بھاگو یہاں سے“ فائقہ فرضی کالر کھڑے کیے اور وہ لڑکے شکر مناتے چلے گۓ

” گڑیا یہ سب کیا تھا یہ اتنی گنڈاگردی کہاں سے آگئی آپ نے “ حاشر ابھی بھی حیران پریشان کھڑا اپنی بہن کے کچھ دیر پہلے والے رویہ کو سمجھنے لگا 

” نہیں بھائی ایسی کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے بس یہ دی گریٹ فاٸقہ کا اپنا اسٹاٸل ہے “ فائقہ نے لاپرواہی سے کہا

” فائقہ آپ کا تو وہی حساب ہے ہم تو ڈوبیں گے صنم ساتھ سب کو ہی لے ڈوبیں گے“ حاشر میں فاٸقہ سے کہا

” نہیں بھائی یہ مجھ پر سوٹ نہیں کررہا ہونا یہ چاہیے

”ہم تو بگڑیں گے دوست 

ساتھ سب کو بگاڑ کے چھوڑیں گے 

فاٸقہ کی بات پر دونوں قہقہہ لگا کر ہنس دی

آج صبح ہی صبح فہد اور باسط ان دونوں سے پہلے ہی کالج پہنچ چکے تھے ۔ کلاس شروع ہونے میں صرف دس منٹ تھے لیکن فائقہ اور سحر ابھی تک کالج نہیں پہنچی تھی اور وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے ان دونوں کا انتظار کر رہے تھے 

” یار اگر ان دونوں کی جگہ آج ہم لیٹ ہو جاتے ہیں نہ توفاٸقہ نے ہماری ہڈی پسلی ایک کردینی تھی لیکن ان ملکہ عالیہ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا“ باسط نے اکتاتے ہوئے کہا

” یار باسط کہہ تو تو سہی رہا ہے لیکن تمہیں اس کی عادت کا پتا تو ہے جو بھی بول دے لیکن دل کی صاف ہے“ فہد نے بولا 

اتنی دیر میں ان کو دور سے سحر آتی دکھائی دی

” سوری یار آج تھوڑی لیٹ ہو گئی ہو “ سحر بولی 

” نہیں نہیں سحر تم لیٹ تھوڑی ہو تم تو بالکل ٹائم پر آئی ہو “ باسط نے طنز کیا

” او باسط پلیز تنگ مت کرو ایک تو صبح صبح گاڑی خراب ہوگئی دوسرا فاٸقہ کال نہیں اٹینڈ کر رہی “ سحر ان دونوں سے بولی

” یار ابھی تک فائقہ نہیں آئی ہم نے کل بھی کلاس نہیں لی آج لیٹ ہوئے تو بہت انسلٹ ہو گئی اور فائقہ کے بغیر چلے گئے تو وہ ہماری ہڈیوں کا سرمہ بنائے گی“ فہد ان دونوں سے بولا 

” یار پانچ منٹ اس کا ویٹ کرلیتے ہیں  نہیں تو ہم کلاس میں چلتے ہیں “ سحر نے بولا

” ویسے آپس کی بات ہے بھنڈی آج تم کیوں تیکھی مرچی بنی ہوئی ہو“ باسط نے سحر کو چھڑتے ہوئے کہا

” شٹ اپ باسط منہ بند کر کے کھڑے ہو یہاں “ سحر نے چڑتے ہوئے کہا

” یار پانچ منٹ سے اوپر ٹائم ہو گیا ہے فائقہ نہیں آئی پتہ نہیں اس نے آنا بھی ہے یا نہیں ہم کلاس میں چلتے ہیں“ فہد بولا 

” ہمم! فہد صحیح کہہ رہا ہے چلو“ سحر نے فہد کی بات کی تائید کی اور وہ تینوں کلاس میں چلے گۓ ۔

❤❤❤❤❤❤❤

حمزہ کو صبح سے بخار تھا نا وہ دودھ پی رہا تھا اور نہ ہی وہ سو رہا تھا اس کو لے کر حرم بہت پریشان تھی پریشانی میں رآٸیمہ کے پاس گئی 

” بھابھی حمزہ کو صبح سے بخار ہے وہ مسلسل رورہا ہے

پلیز آپ مجھے کچھ پیسے دے دے میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہوں“ حرم نے کہا

” لو تمہیں کیا لگتا ہے بی بی یہاں میں پیسے جمع کرتی پھر رہی ہوں کہاں سے دوں تمہیں پیسے جاؤ کوئی پیسے نہیں ہے“ رآٸیمہ بےزار بولی 

” بھابی پلیز ابھی مجھے اشد ضرورت ہے میرا بچہ بخار میں تپ رہا ہے میں آپ کو جلد واپس کر دوں گی“ حرم نے منت کرتے ہوئے کہا

” ابھی تمہارے پاس پھوٹی کوڑی نہیں ہے تو واپس کہاں سے کروں گی جاٶ جاٶ دماغ مت کھاؤ “ رآٸیمہ یہ کہتی کمرے میں چلی گٸ

حرم کمرے میں آئی تو حمزہ کچھ بخار سے اور کچھ رو رو کے شدید لال ہو چکا تھا حرم پریشانی میں سوچتی رہی ایک دم اس کی نظر اپنے ہاتھ میں انگوٹھی پر پڑی یہ انگوٹھی علی نے اسے حمزہ کی پیدائش کے وقت تحفے میں دی تھی اس کی آنکھوں میں آنسوں آگۓ لیکن اس میں سوچنے میں وقت ضائع کئے بنا حمزہ کو اٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس چل دی 

وہ پریشانی میں اپنے دھیان چل رہی تھی اور اپنے گزرے حالات سوچ رہی تھی اس کے ذہن میں علی کی آواز گونجی ” علی آپ اتنا مہنگا تحفہ کیوں لائے ہیں جتنی آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں میری پرواہ کرتے ہیں اس کے آگے تحفوں کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اس خوبصورت تحفے کے لیے شکریہ “ حرم مسکرا کر علی سے بولی 

” بیگم جان کوئی مہنگا نہیں ہے لیکن آپ کے ہاتھوں میں جا کے اس انگوٹھی کی قیمت بڑھ گئی ہے“ علی نے اسکا ہاتھ تھامتے بولا

حرم انہی سوچوں میں گم تھی کہ اسکو کو پتہ ہی نہیں چلا سامنے سے گاڑی آ رہی ہے 

”محترمہ یہ کوئی پارک نہیں ہے اتنا بڑا روڈ ہے اور اب یہاں پر ٹہلتی پھر رہی ہیں سامنے فٹ پاتھ نظر نہیں آرہا آپکو یا پھر مرنے کا زیادہ شوق ہے“ حاشر گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک اس کی گاڑی کے آگے ایک لڑکی آگٸی جس کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ 

ایک دم حاشرگھبرا کر گاڑی سے نیچے اترا لیکن لڑکی اور بچے کو صحیح سلامت دیکھ کےشکر کا سانسس لیا۔ 

”دیکھیے معاف کیجیے گا مگر میرے دھیان نہیں گیا“ حرم نے حاشر سے کہا اسکی بات پر حاشر کو اس لڑکی کی لاپرواہی پر شدید غصہ آیا 

”واہ واہ کیا کہنے آپ کے میڈم اگر مرنا ہے تو اکیلے مرے کسی کے بچے کو کیوں ساتھ لے کر گھوم رہی ہیں پہلے اپنے آپ کو سنبھالنا سیکھ لیں پھر دوسروں کے بچوں کو باہر لایا کریں“ حاشر نے حرم کو غصے میں خوب سنا دی

”دیکھیں میں نے آپ سے معافی مانگ لی نااور نا تو آپ کی گاڑی کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے اور خدا کا شکر ہے ہم بھی ٹھیک ہیں رہی بات کسی کے بچے کی تو آپ کو کسی پہ تنقید کرنے کا حق نہیں ہے جب کہ آپ کوکچھ پتا ہی نہ ہو یہ کسی کا نہیں میرا اپنا بیٹا ہے“ پہلے حرم چپ کر کےسنتی رہی لیکن جب بات اس کے بیٹے کی تو اس نے بھی حاشر کو جواب دینا ضروری سمجھا

”واٹ! یہ بے بی آپ کا ہے دیکھ کر تو ایسا لگ رہا ہے جیسے بے بی کو بےبی ہو گیا ہو“ حاشر نے پہلے حیران ہوتے اور پھر ہنستے ہوئے کہا

”انتہاٸی کوٸی ویلے انسان ہے آپ“ یہ کہتے حرم غصے سے چل دی 

حاشر کی نظر حمزہ پر پڑی تو وہ ایک دم پریشان ہوگیا لیکن اسے سمجھ نہ آٸ یہ لڑکی ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے جیولری شاپ میں کیوں جا رہی ہیں 

” دیکھیے آپ کے بیٹے کو بہت بخار ہو رہا ہے آپ پہلے اس کو ڈاکٹر کو دکھا دیں بعد میں شاپنگ کر لیجئے گا “ ناچاہتے ہوئے بھی حاشر بول پڑا

” دیکھیے آپ کو مسئلہ کیا ہے آپ اپنے کام سے کام رکھے مجھے زیادہ پتہ ہے مجھے کیا کرنا ہے “ حرم وہاں سے چل دی ۔ مگر حاشر مسلسل تجسس کا شکار رہا اس لیے وہ اس کے پیچھے گیا کچھ ہی لمحوں میں اس کو سارا معاملہ سمجھ آگیا حاشر کو اپنے بلاوجہ بولنے پر بہت افسوس ہوا 

حرم انگوٹھی بیچ کر پیسے لیتے ہوئے حمزہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کے چل دی ۔ حاشر جیولری شاپ میں گیا 

” اسلام علیکم سر ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں“ وہاں ایک لڑکے نے پوچھا 

” وعلیکم اسلام ابھی ایک لڑکی یہاں ایک انگوٹھی سے بیچ کرگٸ ہے پلیز آپ مجھے وہ دے سکتے ہیں“  حاشر نے اس سے پوچھا

” جی جی سر کیوں نہیں “ اس لڑکے نے حرم کی دی ہوٸ انگوٹھی حاشر کو دکھائی 

” اوکے آپ یہ مجھے پیک کر دیں “ حاشر نے کہا

” سر آپ پیمنٹ کردیں “ حاشر نے پیمنٹ کی اور انگوٹھی لے کر نکل گیا

سارے رستے وہ اس لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا اور انگوٹھی دیکھ کر مسکرا دیا۔ 

💗 Beginning of New Love Story 💗

❤❤❤❤❤❤❤❤

فاٸقہ کلاس شروع ہونے کے آدھے گھنٹے بعد کالج پہنچی

کیونکہ آج فائقہ کی آنکھ بہت لیٹ کھولی تھی۔ 

” آج تو ہٹلر نے مجھے بہت سنانی ہے وہ تو ویسے ہی مجھ کو دیکھ کر کھانے کو دوڑتا ہے “ فاٸقہ بولتی ہوی جا رہی تھی ایک تو لیٹ ہو گئی دوسرا وہ تینوں بھی اسکے بغیر کلاس میں چلے گۓ تھے 

” بے وفا دوست ان کو تو میں کبھی معاف نہ کرو میرے بغیر ہی ہٹلر کی کلاس میں چلے گئے“ فائقہ کلاس روم کے باہر کھڑی سوچ رہی تھی کے اندر کیسے جائے 

پھر اس نے ہمت کرکے اندر جانے کا سوچا 

” ایکسکیوز می سر کیا میں اندر آ سکتی ہوں پلیز؟ “ فائزہ نے دروازے میں کھڑے کھڑے ریان کو مخاطب کیا

ریان جو پوری توجہ سے کلاس کو کچھ ٹوپک سمجھا رہا تھا اس کا دھیان فائقہ کی طرف گیا جو ریڈ کلر کی گھٹنوں تک آتی شرٹ کے ساتھ جینز پہنے گلے میں مفلر کے سٹاٸل میں اسٹالر اوڑھے معصوم شکل بنا کر پوچھ رہی تھی۔ ریان جب کلاس میں انٹر ہوا اس نے اس پٹاخے کی غیر موجودگی پر شکر ادا کیا لیکن اب اسے دیکھ کر وہ بےزار ہوا 

” مس فاٸقہ یہ ٹاٸمنگ ہے کلاس کی؟ “ ریان نے اس سے پوچھا کیونکہ کلاس صرف 20 منٹ کی رہ گٸ تھی 

” سر سوری لیکن میرا کوئی قصور نہیں ہے میری صبح آنکھ ہی نہیں کھلی “ فائقہ نے بڑے آرام سے ریان کو کہا ۔ ریان تو اس کی ہٹ دھرمی پر عش عش کرتا رہ گیا

” مس فاٸقہ کا جب آپ فیل ہو جائیں گی نہ تب میرا بھی کوئی تصور نہیں ہوگا “ ریان دانت پیستے بولا 

وہ جب سے اس کالج میں آیا تھا یہ لڑکی مسلسل اسے زچ کر رہی تھی 

” سر اب میں اتنی بھی گئی گزری نہیں ہو“ فائقہ نے منہ بناتے ہوئے کہا

” یہ کوئی طریقہ نہیں ہے آپ کلاس میں بہت لیٹ آٸ ہیں میں آپ کو اندر آنے کی اجازت نہیں دے سکتا آپ جا سکتی ہیں“ ریان نے سختی سے کہا

” ٹھیک ہے سر لیکن پھر آپ کو ایک کام کرنا پڑے گا میرے گروپ کو بھی کلاس سے باہر بھیج دیں “ فاٸقہ مزے سے بولی 

 فاٸقہ کی بےتکی بات پر ریان نے اسے گھور کر دیکھا دوسری طرف فہد باسط اور سحر سر پکر کر رہ گۓ 

” آپ کی وجہ سے میں کلاس کے باقی سٹوڈنٹس کو کیوں نکالوں “ ریان کو غصہ آیا 

” پھر مجھے اندر آنے دے نہ“ فاٸقہ نے معصوم شکل بناتے کہا ریان کو پتا تھا کہ اس نے فضول بحث کرتے رہنا ہے اس لیے اس نے اسے اندر آنے دیا 

” تھینک یو سو مچ سر “ فاٸقہ نے دانت دیکھاتے کہا اور اپنی جگہ جا کر بیٹھ گٸ 

” تم تینوں تو مجھے باہر ملو “ فاٸقہ تینوں کو گھورتے بولی  

” یار سوری پلیز “ سحر بولی 

” سحر میری پیاری دوست تم تو ٹاٸم نکال کے مر جاٶ اور ان دونوں کو بھی جہنم کے دروازے تک ڈراپ کر دینا “ فاٸقہ دانت پیس کے بولی 

” مس فاٸقہ میں نے آپ کو اندر آنے کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ آپ سب کو دسٹرب کریں“ ریان بولا 

” سر مجھے ایک بات بتاٸیں میں بھلا آپ کو کچھ کہتی ہو کوٸ آپکو غصے کے ٹاٸم میں ہی نظر آتی “ فاٸقہ ریان سے بولی ۔ ریان تو اسکی حرکتوں سے تنگ آچکا تھا ابھی ریان کچھ بولتا ہی کہ فاٸقہ بول پڑی 

” اچھا چلے سر چھوڑیں آپ مجھے یہ ایک سوال کا جواب بتا دیں پلیز “ پہلے تو ریان کا دل کیا منع کر دے لیکن استاد تھا اسلیے اسکا فرض تھا 

” اوکے پوچھیے “ ریان نرمی سے بولا 

” سر آپ بہت انٹیلیجنٹ ہیں ہمیں پتا ہے آپ یہ بتاٸں کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی یا انڈا “ فاٸقہ کے سوال پر پوری کلاس دبی دبی ہنسی ہنسنے لگی 

” مس یہ کیسا سوال ہے “ ریان نے سختی سے پوچھا 

” سر آپ جواب دیں نہ مجھے سوچ سوچ کے ساری رات نیند نہیں آتی کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی یا انڈا اس لیے تو میں لیٹ ہو جاتی صبح “ فاٸقہ ایسے بول رہی تھی جیسے کہ اس سے زیادہ اہم کوئی سوال ہی نہیں

 ” مس فاٸقہ آپکے ان فالتو سوالوں کا کوٸ جواب نہیں“ ریان سنجیدگی سے بولا

” تو کلاس آج کے واقعے سے آپ کو کیا سبق ملتا ہے

جہاں آپ کی ضرورت نہ ہو

وہیں بیٹھےرہیں اور جنھیں مسئلہ ہے انہیں اور تپائیں“ فائقہ نے سچ میں ریان کو تپاتے ہوئے بولا 

پوری کلاس اس کے بات پر ہنسنے لگی 

ریان کو اس پر شدید غصہ آیا وہ اسے غصے سے گھورتا رہا اور اتنا کہا

وہ فاٸقہ کو گھورتا وہاں سے چلا گیا

” ارے واہ ہماری ببر شیرنی تمہاری ٹکر کا تو کوئی نہیں “ فہد فائقہ سے بولا

 ”تم سب پہلی فرصت میں دفع ہو جاؤ یہاں سے “ فائقہ گھورتے ہوئے ان تینوں سے بولی 

”یار فاٸقہ ہم نے قسم سے تمہارا بہت ویٹ کیا تھا سحر بتاؤ نہ “ باسط نے بولتے ہوئے سحر کو اشارہ کیا

” فائقہ یہ دونوں مجھے اپنے ساتھ لے آئے میں تو تمہارا سچ میں انتظار کر رہی تھی “ سحر نے فوراً پارٹی بدل لی

” اوئے بھنڈی تمہیں تو اللہ پوچھے تم کتنی چلاک ہو “ باسط اور فہد دانت پیس کے بولے 

” جاٶ جاؤ تم لوگ مجھے اپنے دوست پر بہت اعتبار ہے “ فائقہ بھی سحر کی طرف ہوگٸ اور دونوں وہاں سے نکل گٸ ۔ فہد اور باسط ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہ گۓ

” چلاک لومڑیاں “ باسط بولا اور دونوں کینٹین کی طرف چلے گئے

❤❤❤❤❤❤❤

” مما آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں اتنا “ ریان کال پر اپنی ماں کو تسلی دیتے بولا 

”بیٹا کیسے پریشان نہ ہوں تم تو اپنے بابا کو جانتے ہو انہیں صرف اور صرف اپنے کام سے پیار ہےاور وہ آئیں گے بھی نہیں اور اگر میں ان سے پوچھے بغیر چلی گئی تو وہ بہت غصہ کریں گے “ مسز سرمد پریشانی میں بولی 

” مما میں ان سے کہ کہہ دو گا کہ میں لے کر گیا تھا اور تو اور آپ مجبوری میں جا رہی ہیں شوق سے نہیں“ ریان غصے سے میں بولا

” دیکھو بیٹا میں سوچ رہی ہوں کہ تمہارے بابا کو بتا کے جاتے ہیں “ مسز سرمد ریان سے بولی۔ 

” آپ انکو بتاٸیں بھی تو انکا جواب وہی ہو گا اس وقت سارہ کو آپکی ضرورت ہے “ ریان ان سے بولا  

” ٹھیک ہے ریان آپ آجاٶ تب تک میں ریڈی ہو جاتی “ مسز سرمد نے کہہ کے کال بند کر دی 

وہ جانے ہی لگا تھا کہ سامنے اسے فاٸقہ نظر آٸ جو سامنے چوکیدار بابا کو پتا نہیں کیا کیا جوک سنا کر ہنسا رہی تھی 

ریان کو اندازہ ہوا کہ وہ ہے ہی ایسی اسکا مقصد کسی کو کوٸی نقصان پہنچانا نہیں ہوتا وہ تو بس اپنی شرارتی حرکتوں سے سب کو ہنسانا جانتی ہے 

شاید یہی تو زندگی ہے جوزندگی آج تک وہ جیتا آیا ہے وہ تو کچھ بھی نہیں تھی خوش رہنا اور ہنسنا مسکرانا تو وہ بھول ہی گیا تھا 

کہیں نہ کہیں اسے یقین سا تھا کہ یہ لڑکی اسے دوبارہ جینا سیکھا دے گی

فاٸقہ کی شرارتیں سوچتے اسکے چہرے پر خود بہ خود مسکراہٹ بکھر گٸ اور اسے اندازہ ہی نہیں ہوا فاٸقہ چپکے سے اسکے پیچھے آکر کھڑی ہو گٸ 

” سحر یہ کدو سڑا ہوا کریلا مسکراتا بھی ہے “ فاٸقہ سحر سے بولی 

” شٹ اپ فاٸقہ سر تمہیں کہا سے یہ کدو کریلا لگتے اتنے تو ہینڈسم ہیں تم تو باگل ہو “ سحر اسکی بات پر منہ بناتے بولی ۔ فاٸقہ نے آنکھیں چھوٹی کرتے اسے دیکھا

” باسط تمہیں سہی کہتا ہے بھنڈی تبھی تو تمہیں اپنی برادری کا بندہ اچھا لگ رہا ۔ واہ واہ بھنڈی کدو کریلا “ فاٸقہ سحر کا مزاق بناتے بولی

اتنا کہتے وہ ریان کی طرف گٸ 

کدو سر او سوری سوری ریان سر وہ نہ میں کہنا تھا لڑائی لڑاٸی معاف کریں اللہ کا گھر صاف کریں“ فاٸقہ نے معصوم شکل بناتے کہا 

ریان نے پہلے اسے دیکھا پھر سوچا ہوسکتا کوٸی شرارت ہو تو اسنے تھوڑا سختی سے دیکھا 

” اب کون سی نٸ شرارت ہے آپ کی فاٸقہ “ ریان نے پوچھا

”سر آپ سے شرارت کرنے کی ہمت ہوسکتی میری؟ “ فاٸقہ بولی ۔ فائقہ اس ٹاٸم بہت معصوم لگی تھی 

چھوٹی سی یہ پیاری لڑکی ستواں ناک اور بڑی آنکھوں کے ساتھ اس کے دل میں اُترتی محسوس ہوٸی ۔ شرارت کرکے ہنستے اسکی چمکتی رنگت میں سرخی گھلنے لگتی جو اسے مزید پرکشش بناتی ۔ ریان اسے دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ اسے اسکی شرارت کا پتہ ہی نہیں چلا 

” سر بتاٸیں نہ معاف کیا “ فاٸقہ بولی 

” اوکے “ ریان یہ کہتا مڑا اور لڑکھڑا کر رہ گیا دیکھا تو اسکے شوز کے تسمے آپس میں بندھے ہوۓ تھے اسے فاٸقہ کی ساری گیم سمجھ آگٸ اس نے مڑ کر دیکھا تو فاٸقہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی 

” بدھو بنایا بڑا مزہ آیا “ فاٸقہ اسے زبان چڑھاتے یہ کہتے بھاگ گٸ 

آج پہلی بار اسے فاٸقہ کی شرارت پر غصہ نہیں بلکہ ہنسی آرہی تھی اور وہ اپنے اندر اس تبدیلی پر حیران تھا

حرم حمزہ کو جب سے ڈاکٹر کو دیکھا کر لاٸی تھی وہ بہت پریشان تھی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ حمزہ کی ڈاٸٹ اچھی نہیں لیکن رآٸیمہ تو اسے دو وقت دودھ ہی مشکل سے دیتی تھی اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے 

حمزہ کو دودھ پلایا اور دوا دی تو وہ سو گیا 

اللہ نے اس کے بیٹے کو بہت صبر دیا تھا وہ عام بچوں کی طرح تنگ نہیں کرتا تھا لیکن اب حرم کو جاب کی اشد ضرورت تھی اسے کسی بھی حال میں اپنے بیٹے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جاب کرنی ہی تھی 

حرم اٹھی اور اس نے وضو کر کے نماز ادا کی اور روتے ہوۓ دعا کرنے لگی شاید اللہ کو حرم کا رونا اور صبر پسند آگیا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد داٶد اس کے کمرے میں آیا 

” کیسی ہو حرم “ داٶد اپنی بہن کی حالت دیکھ کے دکھ سے بولا 

” بھاٸی حمزہ کی طبیعت بہت خراب ہے اس کی پریشانی میں کیسی ہو سکتی ہیں ڈاکٹر نے کہا ہے اس کی ڈائٹ کا خیال رکھنا ہے اور دوسری ضروریات کا بھی اور سارے حالات آپ کے سامنے ہے بھائی “ حرم نے پریشانی سے اپنے بھائی کو بولا

” میں جانتا ہوں اور تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے “ داٶد کی بات پر حرم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

” تمہاری جاب کی بات ہوگٸ ہے میرا دوست جہاں کام کرتا ہے اسکے باس کو اسسٹنٹ کی ضرورت ہے اور صبح تمہارا وہاں انٹرویو ہے “ داٶد نے حرام کو کہا 

” شکریہ بھائی میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی “ حرم نے تشکر بھرے انداز میں کہا

” نہیں شکریہ کر کے شرمندہ نہ کرو حرم اپنے بھاٸی کو معاف کر دینا اسکے ہوتے ہوۓ تمہیں یہ حالات دیکھنے پر رہے “ داٶد شرمندہ سا بولا 

” نہیں بھاٸی اس میں آپ کا تو کوئی قصور نہیں یہ سب تو میری قسمت کا لکھا ہے آپ نے اور بھابھی میں جتنا کیا ہے میرے لئے بہت ہے میں وہ احسان کبھی ادا نہیں کر سکتی آپ نے ہی مجھے رہنے کے لیے چھت دی ہے نہیں تو میں کہاں جاتی “ حرم داٶد کو شرمندہ دیکھتے بولی 

” اللہ تمہارے لیے آسانیاں کرے میری بہن“ داٶد اسکے سر پر ہاتھ رکھ کے کہتا کمرے سے چلا گیا 

حرم نے دل سے اللہ کا شکر ادا کیا اب اسے بس خالہ ثریا سے بات کرنی تھی 

💗💗💗💗💗💗💗💗

حاشر کالج کے باہر کھڑا فاٸقہ کا انتظار کر رہا تھا اسے دور سے فاٸقہ آتی نظر آئی جو اپنی دوست سے کسی بات پربحث کر رہی تھی سحر کی نظر حاشر پر پڑی 

” فائقہ وہ دیکھو حاشر بھائی کھڑے تمہارا انتظار کر رہے ہیں کل ملتے ہیں پھر اللہ حافظ “ سحر یہ کہتے ہوئے فائقہ سے ملی 

” اوکے سحر کل ملتے ہیں پھر اللہ حافظ “ یہ کہتے ہی فائقہ حاشر کی طرف آگٸ 

” السلام علیکم بھاٸی آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں اس ٹائم “ فاٸقہ حاشر کو سلام کرتے ہوئے شرارت سے بولی

” وعلیکم السلام کیوں جی میں اپنی گڑیا کو لینے نہیں آ سکتا اپنی بہن کے لیے تو میرے پاس ٹائم ہی ٹائم ہے“ حاشر بھی اسکے انداز میں بولا 

” میں تو چاہتی ہوں کے آپ مجھے روز لینے آئے اور روز مجھے واپسی میں آئس کریم بھی کھلائیں“ فائقہ نے مزے سے ہنستے ہوئے کہا 

” جی جی میڈم ضرور “ حاشر مسکرا کر بولا

” ایکسکیوزمی حاشر ہمدانی ؟ “ دونوں کسی کی آواز پر متوجہ ہوئے

” ریان تم یہاں “ حاشر ریان کو پہچانتے ہوئے بولا اور دونوں آپس میں خوشی سے گلے ملے 

” آفٹر آ لانگ ٹاٸم حاشر ہمدانی میرے سامنے کھڑا ہے “ ریان نے خوشی سے کہا 

” ریان تم ہی غائب ہوگئے تھے یونیورسٹی کے بعد اور آج یہاں پر واہ اتفاق تو کمال ہے “ حاشر نے ریان سے کہا 

” یار میں یہاں پر ٹیچر ہو کچھ ٹاٸم کے لیے اور تمہارا یہاں آنا کیسے ہوا “ ریان نے حاشر کو بتایا

” او سوری تمہیں میں اپنی سسٹر سے ملوانا بھول گیا اسے ہی لینے آیا تھا اس سے ملو یہ ہے میری چھوٹی بہن فاٸقہ ہمدانی اور گڑیا یہ میرا بہت اچھا دوست ریان ہے ہم ساتھ یونی میں ہوتے تھے “ حاشر نے دونوں کا آپس میں تعارف کروایا فائقہ کا تو اپنی شرارت یاد کر کر کے خون خشک ہورہا تھا 

” حاشر آپ کی سسٹر کو تو میں بہت اچھے سے جانتا ہوں صرف میں ہی نہیں پورا کالج ہی جانتا ہے کیوں مس فاٸقہ “ ریان نے مسکراتے ہوۓ کہا 

” فائقہ آج تو گٸی تو نہیں بچتی سرریان نے بھائی کو ساری تیری کرتوتیں بتا دینی ہے “ فاٸقہ نے دل میں خود کو ملامت کی 

” کیا مطلب “ حاشر نے سوالیہ انداز میں ان دونوں کو دیکھ کے بولا ۔ حاشر کی بات پر ریان نے فائقہ کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں معصومیت دیکھ کر ریان کو اپنا دل ان آنکھوں میں ڈوبتا محسوس ہوا مشکل سے نظر چڑاتے وہ حاشر سے بولا 

” کچھ خاص نہیں یار مس فاٸقہ میری ہی سٹوڈنٹ ہیں“ ریان نے حاشر سے بولا

” یار یہ تو بہت اچھا ہو گیا فائقہ آپ کو پتہ ہے ریان ہمیشہ سے ایک بریلینٹ سٹوڈنٹ رہا ہے اور یقینا آپ کو بہت اچھا گائیڈ کرے گا مجھے تو سن کر بہت خوشی ہوئی کے ریان آپ کے ٹیچر ہیں“ حاشر نے ریان کی تعریف کرتے کہا

” خاک اچھے ہیں شدید کڑوے کریلے ہیں یہ تو “ فائقہ نے منہ میں بڑبراتے ہوئے کہا جو ریان نے سن لیا 

” جی جی؟ مس فاٸقہ آپ نے کچھ کہا؟ “ ریان ہنسی دباتے ہوۓ اس سے پوچھا 

” نہیں نہیں تو سر میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا جی بھائی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں سر ریان تو بہت اچھا پڑھاتے ہیں“ فاٸقہ جلدی سے زبردستی ہنستے ہوئے کہا فاٸقہ کی اس حالت پر ریان کو بہت ہنسی آرہی تھی

” اچھا کسی دن چکر لگاؤ گھر “ حاشر نے ریان کو گھر آنے کی دعوت دی اس کی بات پر فائقہ برا سا منہ بنا گٸی

” ہاں ہاں ضرور اب تو چکر لگانا ہی پڑے گا “ ریان فاٸقہ کے ایکسپریشن پر اسے زچ کرتے بولا 

” اوکے پھر ملتے ہیں اللہ حافظ “ حاشر ریان سے بغلگیر ہوتے ہوئے بولا

” اوکے خدا حافظ “ ریان میں حاشر سے کہا تو فاٸقہ شکر ادا کرتی گاڑی میں بیٹھ گٸ ریان کی نظروں نے دور تک حاشر کی گاڑی کا پیچھا کیا اور پھر وہ اپنے گھر کے راستے کی طرف نکل گیا 

کبھی درد سی کبھی زرد سے 

زندگی بے نام تھی

کہیں چاہتے ہوئے مہرباں

بات بڑھ کے تھامتی 

گاڑی میں ہلکا ہلکا میوزک چل رہا تھا عاطف اسلم کا یہ گانا آج ریان کو اپنے دل کی آواز لگ رہی تھی

اک وہ نظر اک وہ نگاہ 

روح میں شامل اس طرح

بن گیا افسانہ ایک بات سے پہلی دفعہ

پالیا ہے ٹھکانا

باہوں کی بے پناہ

ریان فاٸقہ کی خوبصورت آنکھوں کو تصور میں لاتا مسرت سے یہ بول گنگنانے لگا 

سنا ہے سنا ہے

یہ رسمِ وفا ہے

جو دل پہ نشہ ہے

وہ پہلی دفعہ ہے

”فاٸقہ ہمدانی “ فائقہ کی نٹ کھٹ شرارتیں یاد کرتے ریان اسکا زیرِ لب نام دہراتا مسکرا دیا 

💗💗💗💗💗💗💗💗

” السلام علیکم آئیے آپا کیسی ہیں آپ ؟“  صوفیہ بیگم  کھانے کی تیاری کر رہی تھی جب انہیں ملازم نے آکر صبیحہ بیگم اور ان کے دونوں بچوں کے ساتھ آمد کی اطلاع دی ۔ وہ ملازمہ کو کچھ ہدایات کرتی ڈرائنگ روم کی طرف چلی گئی جہاں وہ لوگ بیٹھے تھے اور خوش دلی سے ان سب کا استقبال کیا

” وعلیکم السلام ٹھیک ہوں تم سناؤ کیسی ہو اور بچوں کی سناؤ اور فاٸقہ ابھی تک آئی نہیں “ صبیحہ بیگم نے اِدھر اُدھر نظریں دوراتے کہا اور صبیحہ بیگم نے اپنے ساتھ بیٹھی رمشا کو گھور کر دیکھا جو مسلسل موبائل یوز کر رہی تھی اور اسکا سلام نہ کرنا صوفیہ کو بھی محسوس ہوا

” او سوری ممانی مجھے پتا نہیں چلا اسلام علیکم کیسی ہیں آپ ؟“ رمشا نے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوۓ کہا 

” بیٹے میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں اور آپ کی یونیورسٹی کیسی جا رہی ہے “ صوفیہ بیگم نے خوش دلی سے پوچھا

” جی ممانی سب اچھا جا رہا ہے یہ حاشر کب تک آئے گا “

رمشا نے ان سے پوچھا 

” بس وہ فائقہ کو لینے گیا ہے لنچ ہم سب ساتھ کریں گے میں آپ کے ماموں کو بھی کال کر کے بلا لیتی ہو آپا آپ احسن کو بھی ساتھ لے آتی “ صوفیہ بیگم رمشا کو کہتی  اپنی نند سے انکے بیٹے کا پوچھنے لگی 

” ارے صوفیہ رہنے دو تمہیں تو آج کل کے بچوں کا پتا ہی ہے کہاں سنتے ہیں ماں باپ کی اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی پارٹی وارٹی کرنے گیا ہے “ صبیحہ بیگم بولی

” نہیں آپا آپ اس کا کسی اچھے کالج میں ایڈمیشن کروائیں اس کو غلط صحبت سے دور رکھے آپ آج حاشر سے بات کر لیں وہ اس کا ایڈمیشن فائقہ کے کالج میں کروا دے گا اور ویسے بھی آپا آج کل کے بچوں میں ہمارا حاشر بھی تو ہے ماشاءاللہ سے کتنا ذمہ دار ہے ہر کام سنبھال رکھا ہے “ صوفیہ بیگم نے خوشی سے حاشر کی بات کی حاشر کے ذکر پر ان کے چہرے پر اطمینان اور خوبصورت سی مسکان تھی 

” ہاں ہاں آتا ہیں تو کرتی ہوں بات “ صبیحہ بیگم نے بات کو سر سے ٹالتے ہوئے کہا 

وہ لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ داخلی دروازے سے فائقہ اور حاشر آتے نظر آئے

” السلام علیکم پھوپھو جانی اسلام علیکم رمشا آپا “ فائقہ نے آتے ہی چہکتے ہوئے سلام کیا 

” وعلیکم السلام لڑکی اپنے اندر کوئی طور طریقے لاؤ   یہ کیا اچھلتے کودتے چلتی رہتی ہو “ صبیحہ بیگم نے فاٸقہ کو ڈانٹ کے رکھ دیا

” دیکھو فائقہ اب میں تم سے اتنی بھی نہیں بڑی پھر آپا آپا کیوں کہتی ہو مجھے “ رمشا نے سختی میں بولا

” اسلام علیکم پھوپھو فاٸقہ ابھی بچی ہے بڑی ہوگی تو سمجھ جائے گی اور رمشا پلیز تم فائقہ سے اس طرح بات مت کیا کرو وہ تمہیں عزت دینے کے لئے آپا بولتی ہے“ حاشر کو ان کی باتوں سے اپنی بہن کا اترا چہرہ کیسے برداشت تھا وہی تو ان کے گھر کی رونق تھی تبھی اس نے رمشا اور صبیحہ بیگم کو ٹوک دیا

” نہیں نہیں حاشر بیٹا ہمارا وہ مطلب تو نہیں تھا فائقہ تو ہماری ہی بیٹی ہے بس ویسے ہی سمجھا رہی تھی جیسے میں اپنی رمشا کو کہہ دیتی ہوں اچھا بیٹا برا مت بناؤ “ صبیحہ بیگم فوراً شہد کی طرح میٹھا لہجہ اپناتے بولی 

” نہیں پھوپھو آپ بڑی ہیں آپ کا احترام ہم سب کے لیے

 لازم ہے بس گڑیا گھر کی لاڈلی ہے نا اس لیے“ حاشر نے صبیحہ بیگم کو کہا تاکہ وہ اس کی بات سے شرمندہ نہ ہوں ۔ رمشا نے نفرت سے منہ پھیرا

” مما میں چینج کر کے آتی ہوں“ فائقہ مشکل سے اپنے آنسو روکتے کمرے کی طرف چل دی 

” حاشر بیٹے آپ بھی فریش ہو جاؤ لنچ سب ساتھ کریں گے آپ کے بابا بھی آتے ہونگے “ صوفیہ بیگم ماحول کی تلخی کو کم کرتے بولیں 

” مما پھوپھو ایکسٹریملی سوری میں آپ لوگوں کے ساتھ لنچ نہیں کر سکتا میری بہت اہم میٹنگ ہے میں چلتا ہوں میں بس فائقہ کو ڈراپ کرنے آیا تھا “ حاشر یہ کہتا وہاں سے چلا گیا ویسے بھی فائقہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر حاشر کو بہت دکھ ہو رہا تھا اس کا سارا موڈ خراب ہو چکا تھا 

” اچھا آپا آپ اور رمشا آجائیں میں کھانا لگاتی ہوں “ صوفیہ بیگم یہ بولتے کچن کی طرف چلی گئی

” ماما ان ماں بیٹی کا تو کچھ کرنا پڑے گا دیکھیں حاشر کو کیسے غلام کیا ہوا ہے اور اس فاٸقہ چڑیل نے حاشر کو بالکل اپنا ڈرائیور ہی بنایا ہوا ہے “ رمشا نفرت سے بولی

” صحیح کہہ رہے ہو تم ان کا کوئی بندوبست کرنا ہی پڑے گا “ صبیحہ بیگم اپنے شاطر دماغ میں سوچتی ہوٸ بولیں

❤❤❤❤❤❤❤

حاشر واپس آفس میں آ کر بیٹھا تو اس کا سر شدید درد سے پھٹا جا رہا تھا اس نے آفس بواۓ کو ایک کپ چائے بنانے کا کہا اور ساتھ سر درد کی گولی لی

” اکرم صاحب کو اندر بھیجیں “ اس نے انٹر کام کرکے اپنے مینیجر کو بلایا

” جی سر آپ نے بلایا مجھے “ اکرم صاحب اندرآتے ادب سے بولے

” میں نے آپ سے ایک کام کہا تھا اسسٹنٹ والا وہ ہو گیا ہے “ حاشر نے ان سے پوچھا

” سر کل ہم نے کچھ لوگوں کو انٹرویو کے لئے بلایا ہے آپ انٹرویو کر کے ان میں سے کوئی بھی فائنل کر لیجئے گا “ اکرم صاحب حاشر سے بولے 

” جی چلیں ٹھیک ہے اوکے آپ جا سکتے ہیں شکریہ “ حاشر نے انہیں جانے کا کہا

حاشر آنکھیں موندے کچھ دیر کے لیے بیٹھ گیا اس کو ایک دم انگوٹھی کا خیال آیا اس نے اپنے دراز سے وہ انگوٹھی نکال کے دیکھی

” یار آج میں نے کیا کر دیا پتا نہیں وہ لڑکی کتنی مجبور اور پریشان ہوگی “ حاشر کو اپنے آج والے مذاق پر ابھی تک افسوس ہو رہا تھا

حاشر اسکے بارے میں سوچنے لگا اس نے تہیہ کر لیا تھا اگر اب کبھی بھی وہ لڑکی اس کے سامنے آئی تو وہ اس سے معافی مانگ لے گا 

حرم کو یاد کرتے اسے اس کا خوبصورت غصے میں لال ہوا چہرہ یاد آیا ۔ خوبصورتی تو اس نے بہت دیکھی تھی لیکن اتنی معصومیت جیسے وہ تو اس دنیا میں پہلی بار نکلی ہو یا کوٸ ایسی بچی جو بھیڑ میں اپنی ماں سے جدا ہوگی ہو  نہ چاہتے ہوۓ بھی وہ حاشر کے حواس پر سوار ہوگٸ تھی

” ڈریمی گرل “ بےساختہ حاشر کے لبوں سے یہ لفظ پھسلا

السلام علیکم آپا کا کیسی ہیں آپ ماشااللہ آج تو ہمارے گھر میں تو رونق لگی ہوئی ہے “ وقار صاحب جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے سامنے اپنی بہن صبیحہ بیگم کو دیکھ کر خوشی سے بولے

” وعلیکم سلام بس رہنے دو اوپر سے محبت مت دکھاؤ بہن کے لیے جانتی ہوں سب میں “ صبیحہ بیگم نے منہ بناتے ہوۓ کہا

” ارے آپا کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ “ وقارصاحب حیرانگی سے بولے

”  بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں میں نہ کوئی خیر خیریت نہ تم لوگ ہمارے گھر آتے ہو نہ پوچھتے ہو یہ کیسی محبت ہوئی “  صبیحہ بیگم ناراضگی سے بولی 

” آپا آپ تو جانتی ہیں کہ کتنی مصروفیت ہے اس لیے بہت مشکل ہوجاتا “ قار صاحب نے انہیں قائل کرتے کہا

” اب بہن سامنے آگٸی ہے تو آپا آپا یہ تو اور کبھی یاد نہیں آتی خیر چھوڑو کیا شکوے کرنے میں تو بڑی ہوں نا مجھے ہی سب کا خیال کرنا ہے “صبیحہ بیگم بولیں

” رمشاء بیٹا تم سناؤ کیسی ہو اور کیا مصروفیات ہیں آج کل “ وقار صاحب نے پوچھا

” جی ماموں میں بالکل ٹھیک ہوں اور کچھ نہیں بس گھر کے کام اور امی کا خیال رکھتی ہے اسی میں سارا وقت گزر جاتا “ رمشاء کچھ زیادہ ہی اچھا بنتے بولی 😂 اسکی بات پر صبیحہ بیگم نے گھور کر اسے دیکھا لیکن بولی تو اسکی جھوٹی تعریف میں ہی 

” ہاں بھئی ماشاءاللہ میری بیٹی نے تو سارا گھر سنبھالا ہوا شکر ہے آج کل کی لڑکیوں کی طرح کالج کا بہانہ کر کے سیر سپاٹوں پر نہیں جاتی “ صبیحہ بیگم نے ڈرائنگ روم میں آتی فاٸقہ کو دیکھ کر طنزیہ کہا 

” ماشاء اللہ آپا بہت اچھی بات ہے لیکن بچوں کا پڑھنا بھی ضروری ہے اچھے مستقبل کے لیے لڑکے اور لڑکی دونوں کی تعلیم ضروری ہے اور کالج سے کون جاتا ہو گا بچوں کو پڑھائی کی ہی اتنی ٹینشن ہوتی اب فائقہ اور حاشر کو ہی دیکھ لیں حاشر کتنے اچھے سے بزنس دیکھ رہا اور فاٸقہ کی تعلیمی قابلیت بھی سب کے سامنے ہے “ وقار صاحب سکون سے بولے انکی بات سن کے فاٸقہ محبت سے اور رمشاء بےزاریت سے انہیں دیکھنے لگی 

” السلام علیکم بابا جانی مما آپ سب کو بلا رہی ہیں کھانا لگ گیا آپ سب آجاٸیں“ فاٸقہ وقار صاحب کو سلام کرتے سب سے بولی 

” وعلیکم اسلام اوکے گڑیا چلیں آٸیے آپا رمشاء بیٹےچلو“      یہ کہتے وہ سب کھانا کھانےکے لیے اوٹھ گٸے

❤❤❤❤❤❤❤❤

حرم کو جب سے داٶد نے جاب کا بتایا تھا وہ تب سے ہی خوش لیکن پریشان بھی تھی اسے حمزہ کی بہت ٹینشن تھی تبھی وہ دو گلیاں چھوڑ کے  اپنے پرانے محلے خالہ ثریہ کے گھر آٸ اس نے دروازہ کھٹکایا اور تقریبا پانچ منٹ بعد دروازہ کھلا

” ماشااللہ آج میری بیٹی گھر آئی ہے آج اپنی بوڑھی ماں کیسے یاد آگئی “ خالہ ثریا نے حرم کو گلے لگاتے بولا ان کی بات پر حرم شرمندہ ہوئی

یہ تو سچ بات ہے کہ انسان وقت پڑنے پر ہی دوسروں کو یاد کرتا ہے چاہے کوئی کسی سے کتنا بھی خلوص اور محبت کر لے اور جو کچھ لوگ بناکسی مطلب کے آپکو یاد رکھیں وہ بہت انمول ہوتے ہیں 

” السلام علیکم خالہ کیسی ہیں آپ “ حرم انکے گھر داخل ہوتے بولی 

” بیٹی تم تو جانتی ہو مجھے اکیلی بوڑھی کا کیا حال ہوگا بس شکر الحمداللہ گزر رہی ہے زندگی “ خالہ ثریا حرم سے کہتی ہوئی بولی

” جی خالہ اکیلے زندگی کاٹنا بہت مشکل ہے “ حرم میں کرب سے کہا اسکی بات پر خالہ ثریا بھی افسردہ ہوں گٸ

” بس بیٹی صبر کرو اللہ تمہارے حق میں بہتر کرے گا اپنے لیے نہیں تو اپنے بیٹے کے لئے تمہیں اس دنیا کے سامنے کھڑا رہنا پڑے گا “ خالہ ثریا حرم کے سر پر پیار دیتی بولی 

” خالہ آپ سے ایک بات کرنی تھی “ حرم نے جھجکتے ہوئے بولا 

” بیٹا ماؤں سے بات کرتے ہوئے بھی کوئی شرماتا ہے بولو کیا بات ہے “ خالہ ثریا اس کی جھجک محسوس کرتے  ہوئے بولی 

 حرم نے انہیں اپنی ساری بات بتا دیں کہ کیسے رآئیمہ کو اس کا رہنا پسند نہیں اور کے بچے کے اخراجات پورے کرنا داٶد کے بس میں نہیں اس لیے وہ جاب تلاش کر رہی

” دیکھو بیٹا حرم تم اس دنیا کو نہیں جانتی یہ درندے تمہں نوچ کھائیں گے ابھی بھی سوچ لو “ خالہ ثریا  سوچتے ہوئے بولی

” خالہ میرے لیے جاب کرنا بہت ضروری ہے میں نے بہت سوچ کر فیصلہ لیا ہے “ حرم بولی 

” ٹھیک ہے بیٹی اللہ تمہارے لئے آسانیاں پیدا کرے حمزہ کو تم میرے پاس چھوڑ جایا کرنا میری بھی تنہائی دور ہو جاۓ گی “ خالہ ثریا کے کہنے پر حرم کے دل سے بوجھ اُتر گیا 

” بہت بہت شکریہ آپ کا خالہ میں بہت مشکور ہوں آپ کی میرے دل سے بہت بڑا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے “ حرم میں ان کے ہاتھ چومتے کہا

” ارے جا پگلی ماٶں کو کون ایسے کہتا “یہ کہتے ہی خالہ ثریا حرم کے گلے لگ گئی

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ریان اور مسز سرمد جب ہسپتال پہنچے تو سارہ کو پہلے ہی آپریشن تھیٹر میں لے کے جا چکے تھے سعد کوریڈور میں پریشان حالت میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا

ان دونوں کو دیکھ کے وہ ان دونوں کی طرف بڑھا 

” اسلام علیکم آنٹی شکر ہے آپ آ گئی “ سعد ان سے بولا 

” وعلیکم السلام بیٹے سارہ کیسی ہے “ مسز سرمد پریشان ہوتی اپنی بیٹی کے بارے میں پوچھنے لگی

” ابھی آپریشن تھیٹر میں لے کر گۓ ہیں آپ دعا کریں“ سعد پریشانی میں ان سے بولا 

” سعد بھاٸی آپ پریشان مت ہوں اللہ سب خیر کرے “ ریان سعد کو ریلیکس کرتا بولا 

تقریبا ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر آٸی اور اس کے ہاتھ میں  کمبل میں لپیٹا ایک ننھا وجود تھا 

” مبارک ہو بہت آپ کا پیارا سا بیٹا ہوا ہے “ ڈاکٹر نے مسکرا کر سعد کو بچہ پکڑاتے ہوئے کہا 

” ڈاکٹر میری مسسز کیسی ہیں“ سعد نے فوراً پوچھا 

” ماشااللہ ماں اور بچہ دونوں صحت مند ہے آپ کی مسسز ٹھیک ہیں کچھ دیر تک ہم انہیں روم میں شفٹ کرتے ہیں تو آپ مل سکتے ہیں “ ڈاکٹر نے کہا

” تھینک یو سو مچ ڈاکٹر “ ریان نے ڈاکٹر سے کہا اور وہاں سے چلی گئی

” آنٹی بہت بہت مبارک ہو آپ دعا سے سب ٹھیک ہے اور آپ نانی بن گئی ہیں “ سعد نے بچہ مسسز سرمد کو پکڑاتے ہوئے کہا

” بیٹا آپ کو بھی بہت بہت مبارک ہو “ مسسز سرمد نے بچے کو پیار کرتے ہوٸے کہا

” میں بھی تو ماموں بنا ہو مجھے بھی تو کوئی مبارک باد دو “ ریان منہ بناتے ہوۓ بولا

” جی جی ماموں جان مبارک ساری آپ کو ہی“ مسز سرمد کے ایسے بولنے پر سب ہنس پڑے 

❤❤❤❤❤❤❤❤

کھانا کھانے کے بعد سب باتیں کرنے لگے تب صبیحہ بیگم وقار صاحب سے مخاطب ہوکے بولی

” دیکھو وقار آج میں تم سے بہت ضروری بات کرنے آئی ہوں اور میں کوئی انکار نہیں سُنو گی“ صبیحہ بیگم بولی

” جی جی آپا آپ حکم کریں “ وقار صاحب نے اپنی بہن سے بہت محبت سے پوچھا

” اصولً تو یہ بات تمہیں کرنی چاہیے تھی لیکن میں کر دیتی ہوں میں چاہتی ہوں کہ ہم رمشاء اور حاشر کی بات پکی کردیں “ صبیحہ بیگم نے اپنی بات بولی

ان کی بات پر وقار صاحب حیران ہوکر صوفیہ بیگم کی طرف دیکھنے لگے جو خود بھی حیران تھیں 

” آپا آپ ہمیں کچھ وقت تو دے سب سے پہلے حاشر سے پوچھنا بنتا ہے “  انکی بات پر صوفیہ بیگم بولی

” دیکھو صوفیہ میں اپنے بھائی سے بات کر رہی ہو میں نہیں چاہتی کے کوٸی درمیان میں بولے اور اور تم کون سا حاشر کی سگی ماں ہوں جس سے پوچھنا ضروری ہے“

صبیحہ بیگم کو صوفیہ بیگم کا بولنا پسند نہیں آیا تبھی انہوں نے بنا لحاظ کیے صوفیہ بیگم کو سنا دی 

ان کی بات پر صوفیہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے فائقہ کو اپنی پھوپھو کی سوچ پر بہت افسوس ہوا اور وقار صاحب کو شدید غصہ آیا 

” آپا آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ بھی جانتی ہیں کہ صوفیہ نے ہمیشہ حاشر کو اپنی سگی اولاد سے بڑھ کر پیار کیا ہے “ وقار صاحب ان سے بولے

” تو وقار بیٹے کی شادی کی بات کر یہ انکاری کیوں ہے“  صبیحہ بیگم لہجہ نرم کرتے بولی

” آپا صوفیہ نے انکار نہیں کیا بس وہ حاشر کی رضامندی  پوچھنے کا کہہ رہی ہیں اور میں بھی یہی کہوں گا کہ پہلے بچوں کی رضامندی ضروری ہے “ وقار صاحب رسان سے بولے 

” ابھی تو بہت بڑی بڑی باتیں کر رہے تھے اور اب بہن کی عزت کا کوٸی خیال نہیں کہ میں خود چل کر آٸی ہوں اور تم صاف انکار کر رہے “ یہ کہتے ہی صبیحہ بیگم جھوٹا رونے لگی 

” آپا پلیز آپ روۓ نہیں رمشاء ہماری بھی بیٹی ہے حاشر کے گھر آتے ہی میں اس سے پوچھ لوگا اور مجھے امید ہے کہ میرا بیٹا کبھی بھی انکار نہیں کرے گا “ وقار صاحب صبیحہ بیگم کو تسلی دیتے ہوئے بولے

” ٹھیک ہے مجھے پوچھ کر بتاؤں میں آج یہاں سے اقرار سنے بنا نہیں جاٶ گی “ صبیحہ بیگم بولی 

انکی بات پر وقار صاحب گہرا سانس لے کر رہ گئے اور صوفیہ بیگم وہاں سے اٹھ کر چلی گئی

❤❤❤❤❤❤❤❤

” سر پلیز اس فاٸل پر سائن کر دیں “  اکرم صاحب حاشر کے آفس میں آتے ہوۓ بولے

” اکرم صاحب فلحال میں آج لیٹ ہو رہا ہوں کل صبح کرتا ہوں “ حاشر اپنا موبائل اٹھاتے ہوۓ آفس سے باہر نکل گیا 

نومبر کی شام میں ہلکی ہلکی بارش موسم کو حسین بنارہی تھی حاشر نے آنکھیں بند کر کے گہرا سانس لیا اسے یہ سب بہت حسین لگتا تھا 

ایک سرد ہوا کا جھونکا حاشر سے ٹکرایا تو وہ جھرجھری لیتا کار میں بیٹھ گیا ۔ ابھی وہ کار سٹارٹ کرنے ہی لگا تھا کہ اسے فاٸقہ کا میسج موصول ہوا 

” بھاٸی آج آپ چاکلیٹ آٸس کریم اور گول گپوں کے ساتھ گھر آٸیے گا نہیں تو آپکی گڑیا پکا کٹی ہو جاۓ گی“ فاٸقہ کا میسج پڑھتے وہ مسکرا دیا 

اسکو اوکے کہتا وہ فاٸقہ کی فرماٸشی چیزیں لینے لگا 

ابھی وہ گھر جانے کے لیے کے گاڑی میں بیٹھنے ہی لگا تھا اسکو ایک لڑکی نظر آٸی جب غور کیا تو وہ حرم تھی 

حاشر جلدی سے اس کی طرف جانے لگا تاکہ اپنے کل کے رویے کے لیے معافی مانگ سکے 

حرم اپنے دھیان میں حمزہ کا دودھ اور کچھ ضرورت کی چیزیں لیتے ہوۓ وہاں سے جانے لگی سامنے سے آتے حاشر سے ٹکڑا گٸی حاشر نے بروقت حرم اور حمزہ کو تھام لیا اور گرنے سے بچایا 

جب حرم نے زمین پر ساری چیزیں پھیلی پڑی دیکھی تو اسے اس آدمی پر بہت غصہ آیا لیکن جب اس نے سر اٹھا کر حاشر کی طرف دیکھا تو اس کا غصہ آسمان کو چھو گیا 

” آپ کو کیا مسئلہ ہے کل بھی آپ کی وجہ سے میرا اور میرے بیٹے کا نقصان ہوتے ہوتے بچا ہے اور آج بھی آپ کے ٹکراؤ میرا سارا سامان ضاٸع ہوگیا ہے حد ہے “ حرم سامان زمین پر پھیلا دیکھے غم و غصے کی حالت میں بولی 

ایک تو اس کےپاس اتنے پیسے موجود نہیں تھے کہ دوبارہ سے کچھ لے سکے اور حمزہ کو دودھ اور دوائیوں کی بہت ضرورت تھی اب اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے

” دیکھیں ریلی سوری میرا آپکو تکلیف پہنچانے کا کوٸی مقصد نہیں تھا یہ اچانک سے ٹکراٶ ہوگیا مجھے بھی سمجھ نہیں پلیز معافی چاہتا ہوں“ حاشر بہت شرمندہ ہوتے ہوئے بولا

”دیکھیے ہر کوئی آپ کی طرح امیر کبیر خاندان سے نہیں ہوتا کچھ لوگوں کے لیے کچھ پیسے ہی بہت اہم ہوتے ہیں جو میرے تو برباد ہوگۓ اب آپ کے سوری کامیں کیا کر سکتی ہوں آپکا سوری میرے نقصان کی بھرپاٸی نہیں کر سکتا “ حرم سخت لہجے میں حاشر کو سناتی گئی

” میں معذرت چاہتا ہوں لیکن میں جان بوجھ کر نہیں کیا “ حاشر نے حرم سے کہا

” مجھے آپ کو کچھ نہیں کہنا تھا کہ آپ کے لیے ان چیزوں کا کوئی مول نہیں لیکن میرے لیے اس وقت یہ چیزیں بہت قیمتی تھی “ نا چاہتے ہوئے بھی حرم بھرائے لہجے میں بولتی چلی گٸی وہ کبھی کسی کے سامنے مظلوم نہیں بننا چاہتی تھی لیکن آج اس کا ضبط جواب دے گیا تھا

اتنا کہتے حرم زمین پر جھکی اپنا پھیلا سامان اکھٹا کر نے لگی ۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسوں بہتے دیکھ حاشر شرمندگی میں ڈوب گیا

ایک خیال آتے ہی حاشر پاس میڈیکل سٹور تک گیا 

” بھائی ابھی ایک لڑکی یہاں سے کچھ سامان لے کر گٸی ہے وہ جلدی سے پیک کردیں “ حاشر نے جلدی سے وہاں سامان لیا اور موڑا تو حرم جا چکی تھی 

حاشر جلدی سے وہاں آیا اور وہاں موجود ایک پھل فروش کے پاس گیا 

” بابا جی یہاں ایک لڑکی کی کھڑی ہوئی تھی جس کے پاس ایک بچہ تھا آپ نے دیکھا ہے وہ کس طرف کی ہے “ حاشر نے جلدی میں ان سے پوچھا بابا جی نے سامنے گلی کی طرف اشارہ کیا تو وہ ان کا شکریہ ادا کرتا جلدی سے وہاں سے چل دیا

اسے دور سے ہی حرم جاتی ہوئی نظر آئیں اس نے اسکا پیچھا کیا تو وہ ایک گھر میں داخل ہوگی اب مشکل یہ تھی کہ حاشر اسکا سامان اس تک کیسے پہنچاۓ

تبھی اسے اس گھر سے 6 7 سالہ بچہ نکلتا تو نظر آیا اس سے اس بچے کو اپنے پاس بلایا 

” بیٹا وہ جو آنٹی ابھی اندر گئی ہیں یہ ان کا سامان ہے یہ ان کو دے آؤ“ حاشر نے بچے کو سامان دیتے ہوئے 

” ابھی تو میری حرم  پھوپھو اندر گٸی ہیں ان کو سامان دینا ہے یہ انکل “ اس بچے نے حاشر سے پوچھا

” جی بیٹا اُنھیں کو دینا ہے جن کے پاس ایک بچہ بھی تھا “ حاشر نے فوراً سے کہا

” لیکن انکل آپ کون ہے ؟ “ بچے نے اپنی طرف سے سمجھ داری سے پوچھا

حاشر نے کچھ سوچا اور پھر بولا

” بیٹا ان سے کہنا میڈیکل سٹور والے انکل تھے وہ اپنا سامان بھول گئی تھیں اسی لیے میں دینے آگیا “ 

” اوکے انکل میں دے دوگا “ بچہ یہ کہتا سامان لے کے اندر چلا گیا

کچھ دیر حاشر وہاں کھڑا رہا اچانک اس کے موبائل پر گھر سے کال آنے لگی ۔ گھر آرہا ہوں کا میسج سینڈ کرتے اس نے موبائل پاکٹ میں رکھا اور وہاں سے چل دیا 

یہ لڑکی مسلسل حاشر کو متوجہ کر رہی تھی 

حاشر بھی نہیں جان پا رہا تھا ایسا کیوں ہے ہاں بس اسے اسکا یوں رونا اچھا نہیں لگا تھا 

وہ دوسری بار نہ چاہتے ہوۓ بھی اسکی دل آزاری کر بیٹھا تھا جس کا اسے بہت افسوس تھا 

” حرم💗“ گاڑی میں بیٹھتے حاشر نے زیرِ لب اسکا نام پکارا اور پھر سر جھٹکتے گھر کی رہ لی

خیالوں میں لاکھوں باتیں 

یوں تو کہہ گیا

بولا کچھ نہ تیرے سامنے

ہوئے نا بیگانے بھی

تم ہو کے اور کہ

دیکھو تم نہ میرے ہی بنے

افسوس ہوتا ہے دل یہ روتا ہے

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” ہماری اجازت کے بغیر کیسے گٸی آپ “ ریان اور مسسز سرمد گھر میں داخل ہوۓ تو انکا سامنا سرمد صاحب سے ہوگیا

” آپ کو بہت بہت مبارک ہو آپ نانا جان بن گۓ ہیں “ مسسز سرمد خوشی سے بتاتی بولی 

” آپ سے ہم نے کچھ پوچھا ہے “ سرمد صاحب غصے سے بولے۔ مسسز سرمد نے اشارے سے ریان کو چپ رہنے کا بولا جو غصے میں تھا

” سارہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی اور سعد بہت پریشان تھا اسلئے ایمرجنسی میں جانا پڑا “ مسسز سرمد نے ڈرتے ہوۓ بولا 

” تو آپ نے کال کرکے بتانا ضروری نہیں سمجھا نہ تو میرا انتظار کرنا “ سرمد صاحب اونچی آواز میں بولا 

” میں نے آپ کو کال کی تھی لیکن آپ کا نمبر بند جا رہا تھا اسی لیے پھر میں ریان کے ساتھ چلی گٸ“ مسسز سرمد سے کہا

واہ واہ آپ بھی اپنے بچوں کی طرح ہٹ دھرم ہوگٸ ہیں“ سرمد صاحب بولے 

” بس کرے آپ آپکا کوئی حق نہیں بنتا سوال کرنے کا“ ریان غصے میں بولا 

” بہت ہی بد تمیز ہو باپ سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے تمہیں“ سرمد صاحب غصے میں دھاڑے 

” جی ہاں نہیں ہیں جب آپ اپنے بچوں سے محبت نہیں کرسکتے تو ہم سے بھی توقع مت رکھے “ یہ کہتا ریان اپنے کمرے میں چلا گیا 

سرمد صاحب پیچھے غصے میں بیچ و تاب کھاتے رہ گۓ ۔

حاشر شام میں گھر داخل ہوا تو اس نے سب کو اپنا منتظر پایا۔ ڈرائنگ روم میں آتے وہ سب بڑوں کو سلام کرتا وقار صاحب کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا

” اور پھر سناؤ میرے شیر میٹنگ کیسی رہی “ وقار صاحب نے حاشر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اس سے پوچھا

” الحمداللہ سب اچھا رہا “ حاشر مسکراتا ہوا بولا 

” لو بیٹا پانی “ صوفیہ نے حاشر کو پانی کا گلاس پکڑاتے کہا 

” شکریہ مما فائقہ کہاں ہے نظر نہیں آرہی “ حاشر نے شکریہ کہتے فاٸقہ کا پوچھا

” بیٹا یہی اپنے روم میں ہوگی یا باہر لان میں آپ فریش ہو جاؤ میں آپ کے لئے چائے بنوآتی ہے “ صوفیہ بیگم حاشر سے کہتی ہوئی وہاں سے اٹھی

” ہاں بیٹا جاؤ فریش ہو جاؤ پھر تم اور رمشاء باہر ڈنر کر آنا رمشاء کب سے تمہارے انتظار میں بیٹھی ہے “ صبیحہ بیگم حاشر سے بولی

” جی پھوپھو میں فاٸقہ کو بھی کہتا ہوں وہ تیار ہو جاتی ہے “ حاشر بولا تو فاٸقہ کے زکر پر رمشاء سخت چڑ کر حاشر سے بولی اسکا یوں بولنا وقار صاحب اور حاشر دونوں کو اچھا نہیں لگا

” نہیں حاشر ڈنر پلان بس تمہارا اور میرا تھا اور کوئی تیسرا نہیں“ رمشاء بولی 

” رمشا فاٸقہ کوئی تیسرا پرسن نہیں میری بہن اور تمہاری کزن ہے “ حاشر رمشاء کے لہجے میں بولا

” ٹھیک ہے پھر تم اپنی بہن کو ہی لے جاؤ میں نہیں جاتی “ رمشاء چڑ کر بولی 

” ٹھیک ہے میرا تو ویسے بھی کوٸی پلان نہیں تھا

 ایز یور وش “ یہ کہتا حاشر وہاں سے اٹھ گیا اور رمشاء تلملا کر رہ گٸی 

رمشا کے اس لب و لہجے پر وقار صاحب کو بہت ہی حیرانگی ہوئی مگر وہ بولے کچھ نہیں 

❤❤❤❤❤❤❤❤

” پھوپھو یہ آپ کا سامان ہے ایک انکل باہر دے کر گۓ ہیں“ داؤد کا بیٹا طلحہ حرم کو سامان دینے آیا

” طلحہ بیٹے یہ سامان آپ کو کس نے دیا “ حرم نے حیران ہوتے ہوئے طلحہ سے پوچھا

” کوئی انکل تھے کہہ رہے تھے آپ سامان دکان پر بھول آٸ تھی تو وہ دینے آۓ تھے “ طلحہ بولتا ہوا سامان حرم کو پکڑا کر وہاں سے چلا گیا

پہلے حرم حیران ہوٸی پھر اسے سمجھ آٸ کہ یہ کون دے کر گیا ہے پہلے تو حرم کو بہت غصہ آیا لیکن پھر اسے ان چیزوں کی اشد ضرورت تھی اور اسے یاد آیا نہ چاہتے ہوۓ بھی وہ اسے بہت باتیں سنا گٸ تھی اب وہ شرمندہ ہورہی تھی 

حمزہ کے رونے کی آواز پر وہ اٹھی اسے دودھ بنا کے پلایا اور دوا پلا کر سلانے لگی تو حمزہ کو اپنی طرف مسکراتے دیکھ وہ اسے پیار کرنے لگی 

” اچھا تو حمزہ جناب کو کھیلنا ہے کیوں جی سونا نہیں ہے بےبی کو “ حرم مسکراتے ہوئے حمزہ کے ساتھ کھیلنے لگی اور حمزہ کھلکھلا کر ہنس دیا 

” حرم میں تمہیں اور حمزہ کو کبھی تکلیف نہیں ہونے دوں گا میرے ہوتے ہوۓ کبھی تمہاری آنکھ میں آنسو نہیں آئے گا یہ وعدہ ہے میرا تم سے اور ہمارا بیٹا جو خواہش کرے گا ہم دونوں مل کر اسے پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے “ حمزہ کی پیدائش کے دو دن بعد علی نے حرم کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا تھا

” علی آپ کیوں اتنا جلدی چلے گئے آپ کو تو پتا تھا آپ کے بغیر ہم اکیلے ہو جائے گیں کاش آپ آج ہمارے ساتھ ہوتے تو ہمیں یہ سب دیکھنا نہ پڑتا “ حرم کرب سے آنکھیں موندے سوچنے لگی

اسنے آنکھیں کھولے دیکھا تو حمزہ سوگیا تھا اس نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے اسے لٹایا اور خود بھی سونے کے لیے لیٹ گٸ 

کل کا دن اسکے لیے بہت اہم تھا کیوں کہ کل اس نے جاب کے لیے جانا تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کل کا دن اسکی زندگی میں نیا موڑ لانے والا ہے

❤❤❤❤❤❤❤❤

ہمدانی ہاٶس میں خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا 

پھر چاۓ کا دور چلا جس کے ساتھ فاٸقہ کی ہلکی پھلکی شرارتوں پر وقار صاحب اور حاشر ہنسنے لگتے 

تو کبھی صوفیہ بیگم ہلکا سا ڈانٹ دیتی جبکہ رمشاء اور صبیحہ بیگم بےزار منہ بناۓ بیٹھی تھی 

” وقار اگر بیٹی کے لاڈ پورے ہو گۓ ہو تو وہ بات کر لے جو ہم سب کرنے بیٹھے ہیں “ صبیحہ بیگم طنزیہ لہجے میں فاٸقہ کو دیکھتے ہوۓ بولی 

صوفیہ بیگم کے اشارے پر فاٸقہ اپنے کمرے میں چلی گٸ

” کیسی بات پھوپھو کون سی بات “ حاشر نے سوالیہ انداز میں سب کو دیکھتے بولا

” برخودار آپ سے ایک بات پوچھنی تھی امید کرتے ہیں آپ ہمیں انکار نہیں کریں گے “ وقار صاحب دھیمے لہجے میں حاشر سے پوچھنے لگے

” جی بابا آپ کا حکم سر آنکھوں پر آپ کہیے پلیز “ حاشر  کے یہ بولنے کی دیر تھی رمشاء کے چہرے پر ایک شاطرانہ مسکراہٹ آٹھری جو صوفیہ بیگم کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی 

” حاشر ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری اور رمشاء کی بات پکی کر دی جاۓ کیا تمہیں ہمارا یہ فیصلہ منظور ہے؟ “ وقارصاحب کے کہنے کی دیر تھی حاشر کو لگا ساتوں آسمان اسکے سر پر آ گرے ہو اس کے حیرانگی سے صوفیہ بیگم کی طرف دیکھا جو خود بھی بےبس کھڑی تھی ۔

” بابا یہ فیصلہ بہت بڑا ہے مجھے سوچنے کے لیے کچھ ٹاٸم چاہیے میں یہ فیصلہ اتنی جلدی نہیں لے سکتا “ حاشر نے سنجیدگی سے کہا

” لو سن لو دیکھ لیا وقار اپنی فرماں بردار اولاد کو تم تو اسکی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اس نے تو صاف منہ پر انکار کر دیا ہے “ صبیحہ بیگم وقار صاحب کو دیکھتی اونچی آواز میں بولی 

” پھوپھو میں نے ایسا کچھ نہیں کہا اور نہ ہی میں انکار کیا ہے نہ ہی اقرار بس تھوڑا وقت مانگا ہے کیونکہ آج تک میں نے رمشاء کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا “ حاشر نے صبیحہ بیگم کو تسلی دینے کے لیے کہا 

”اب تک نہیں دیکھا تو اب دیکھ لو کس نے منع کیا ہے“ رمشا سب کے سامنے تیزی میں بولی وقار صاحب اور صوفیہ بیگم کے ساتھ ساتھ سب کے سامنے اس کے اس طرح بولنے پر حاشر بھی شرمندہ ہوا 

صبیحہ بیگم نے زور سے اسکا ہاتھ دبایا تو اسے اپنے بےباک جملے کا احساس ہوا 

” آپا حاشر سہی کہہ رہا ہے اس نے انکار تو نہیں کیا نہ بس تھوڑا وقت مانگا ہے جو اسکا حق بھی ہے “ وقارصاحب صبیحہ بیگم سے بولے 

” ٹھیک ہے وقار اگر تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں لیکن تھوڑا جلدی جواب دینا ہمیں لٹکانا مت میری بیٹی کا ایک سے ایک رشتہ ہے یہ تو بھاٸی کی محببت لے آٸی یہاں تک “ صبیحہ بیگم منہ بنا کر بولی 

” انشااللہ سب اچھا ہی ہوگا آپا “ وقار صاحب بولے 

حاشر مزید 2 منٹ وہاں بیٹھا اور پھر ایکسکیوز کرتا وہاں سے اُٹھ گیا اور پیچھے رمشاء تلملا کر رہ گٸ

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حرم صبح اٹھی نماز ادا کر کے کیچن میں آٸی اور جلدی جلدی کام سمیٹنے لگی آج اس نے انٹرویوکے لیے جانا تھا

جلدی میں ناشتہ بنا کر وہ حمزہ کے لیے دودھ گرم کرکے وآپس کمرے میں آٸی اور حمزہ کو چینج کروانے لگی 

حمزہ کو دودھ پلانے کے بعد وہ جلدی جلدی حمزہ کی  ضرورت کی چیزیں اپنے بیگ میں رکھ کر جانے لگی 

” یہ صبح صبح کس کی اجازت سے کہاں کہ سیر سپاٹوں پر جا رہی ہو یہ کوٸی طور طریقے ہیں تمہارے “ رآٸیمہ کمرے سے نکلتے ہی حرم کو سنانے لگی 

” بھابھی وہ میں حمزہ کو خالہ ثریا کی طرف چھوڑ نے جا رہی ہو آج مجھے ایک جاب کے لیے انٹرویو دینے جانا ہے “ حرم رآٸیمہ سے بولی 

” میرے گھر میں ایسے کھیل چل رہے ہیں اور مجھے ہی نہیں پتا بلاتی ہو نہ میں تمہارے بھائی کو وہ بھی تو دیکھے بہن نوکری کے بہانے سیر سپاٹوں پر جارہی ہے “ رآٸیمہ طنزیہ لہجے میں کہتی داؤد کو آواز دینے لگی 

” رآٸیمہ کیوں تم صبح صبح شور مچانے لگی ہو “ دآٶد کمرے سے اُٹھ کے آتا ہوا بولا

” یہ تو آپ اپنی بہن سے پوچھے نہ کہ کدھر کی تیاری ہے کون سی نوکری کہاں کی نوکری “ رآٸیمہ ہاتھ نچاتے ہوۓ بولی 

” دیکھو رآٸیمہ اپنی حد میں رہو حرم جہاں جا رہی ہے مجھے سب پتا ہے اور جس نوکری پر یہ جا رہی ہے وہ میں نے ہی بتاٸی ہے تو جب تک تمہیں کچھ پتہ نہ ہونا فضول بولا بھی مت کرو “ داؤد رآٸیمہ کو جھڑکتا ہوا بولا 

” حرم بچے تم جاؤ اللہ کی امان میں “ داٶد بولا تو حرم وہاں سے نکلتی چلی گٸی اور رآٸیمہ کھڑی جلتی کڑتی رہی 

حرم گھر سے نکلی اور  خالہ ثریا کی طرف گٸ اور حمزہ کو خالہ ثریا کو پکڑا کر بس سٹاپ کے لیے نکل گٸ 

ابھی وہ کچھ کچھ دور بس سٹاپ پر ہی کھڑی تھی کہ اچانک ایک گاڑی آکر اسکے پاس رکی 

حرم نے چونک کر گاڑی کی طرف دیکھا تو گاڑی سے نکلتے ہوۓ شخص کو دیکھ کر منہ موڑ لیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” بھائی پلیز جلدی کریں نہ مجھے کالج کے لئے دیر ہو رہی ہے “ فائقہ نے ڈائننگ ٹیبل پر آتے ہی شور مچانا شروع کردیا 

” گڑیا بیٹھو ناشتہ تو کر لو “ حاشر اس کو ہوا کے گھوڑے پر سوار دیکھتا ہوا مسکرا کر بولا 

” نہیں بھائی نہیں اگر میں لیٹ ہو گئی تو آپ کا دوست اور میرا ٹیچر ہے نہ وہ تو آج مجھے کچاچبا جاۓ گا “ فاٸقہ جلدی جلدی جوس کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئے بولی

” فائقہ تمیز سے بیٹھ کے ناشتہ کرو اور بھائی کو بھی چین سے ناشتہ کرنے دو “ مسسز ہمدانی غصے سے بولی 

بس ماما میں تو ناشتہ کر چکا ہوں بس اب ہم چلتے ہیں“ حاشر فاٸقہ کی رونی صورت دیکھتے ہوئے بولا اور یہ کہتے دونوں خدا حافظ کہتے باہر نکل گۓ

” ویسے میں سہی کہتی ہوں آپ نے اور حاشر نے فاٸقہ کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لڑکی زات ہے کل کو بیاہ کر جاۓ گی تو کون دیکھے گا اتنے نخرے “ مسسز ہمدانی وقار صاحب سے بولی 

” کیوں بیگم آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں ہم اپنی بیٹی کے لیے کوئی شہزادہ ہی ڈھونڈ کر لائیں گے جو ہماری بیٹی کے ناز نخرے پورے کرے گا اسے خوش رکھے گا اور آپ کیوں فکر کرتی ہیں ہمارا حاشر ہے نہ وہ اپنی بہن کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہے گا وہ اپنی گڑیا کے لیے ہمسفر بھی بہت اچھا چُنے گا “ وقار صاحب صوفیہ بیگم کو تسلی دیتے ہوئے بولے ۔ ان کے لہجے میں اپنے دونوں بچوں کے لئے محبت ہی محبت تھی

” اللہ پاک ہمارے بچوں کے نصیب اچھے کرے “ صوفیہ بیگم نے دل سے دعا کی اور وقار صاحب آمین کہتے ہیں مسکرا دیے 

❤❤❤❤❤❤

” بھائی ویسے یہ سر ریان آپکے دوست کیسے بنے آپ اتنے اچھے ہیں اتنے سوفٹ مزاج کے ہیں اور وہ تو ہٹلر ہیں توبہ “ فاٸقہ حاشر سے ریان کی بات کرتے ہوئے بولی

” نہیں گڑیا اتنا اچھا تو ہے وہ ہمیشہ کلاس میں آؤٹ سٹینڈنگ پوزیشن رہی ہے اس کی مجھے تو بہت خوشی ہے کہ آپ کا ٹیچر ہے “ حاشر مسکراتے ہوۓ بولا تو فاٸقہ منہ پھولا کر بیٹھ گٸ 

” بہت اچھے ہیں نہ جیسے سب کے سامنے ڈانٹ دیتے ہیں کدو کریلا کہیں کے “ فاٸقہ جل کر بولی 

” تو گڑیا جیسا سٹوڈنٹ ویسا ہی ٹیچر اب کوٸی تو آپکی ٹکر کا ہونا چاہیئے نہ “ حاشر ہنسی دباتا فاٸقہ کو چڑاتا ہوا بولا 

اچانک حاشر کی نظر بس اسٹینڈ پر کھڑی لڑکی پر گٸی 

وہ ایک نظر میں حرم کو پہچان گیا 

” گڑیا دو منٹ میں آتا ہوں “ فائقہ کو یہ کہتا وہ گاڑی سے اترا اور حرم کی طرف چل دیا 

حرم نے جب اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو رخ موڑ گئی

” ایکسکیوز می کیا آپ کی مدد کر سکتا ہوں “ حاشر نے حرم کے پاس جا کر پوچھا

” جی نہیں بہت شکریہ آپ کا جتنی مدد آپ میری اب تک کر چکے ہیں بہت ہے“ حرم سختی سے بولی 

” کل کے لیے سوری میں نے جان بوجھ کر آپ کا نقصان نہیں کیا تھا نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ تھا “ حاشر اپنی صفائی میں بولا 

” دیکھیں کل جو ہونا تھا ہو گیا اس وقت مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی میں آگے لیٹ ہو رہی ہوں آپ جا سکتے ہیں “ حرم یہ کہ کر چند قدم آگے بڑھی کہ اچانک ایک بڑا سا پتھر اس کے پاؤں کے نیچے آیا اور وہ لڑکھڑا گئی 

ابھی وہ گرتی ہی کہ اچانک حاشر نے اسکا ہاتھ تھام لیا 

فائقہ گاڑی میں بیٹھی یہ دیکھ کر مسکرانے لگی

” آپ ٹھیک ہے لگی تو نہیں آپ کو “ حاشر نے گھبرا کر حرم سے پوچھا

” جی نہیں آج صبح صبح ہی آپ کی شکل دیکھ لی ہے تو کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے سب “ حرم چڑ کے حاشر سے بولتی اپنا ہاتھ چھڑا کر وہاں سے چلی گئی

اور حاشر ہکابکا اس کی شکل دیکھتا رہ گیا 

” بھائی وہ جاچکی ہیں آپ ہوش کی دنیا میں واپس آ جائے اور مجھے کالج ڈراپ کر آئے “ فائقہ گاڑی سے نکلتی حاشر کے کان میں آ کر بولی اور ہنسنے لگی

” ہاں ہاں چلو میں میں تو اس کی مدد کرنے آیا تھا مگر لگتا ہے کسی کے ساتھ نیکی کرنی ہی نہیں چاہیے “ حاشر جلدی میں بولتا گاڑی میں بیٹھ گیا

” ویسے بھائی وہ تھی کون جو آپ کو اتنی کھڑی کھڑی سنا گئی ویسے جو بھی تھا تھی تو بہت پیاری اور معصوم سی “ فائقہ حرم کی تعریف کرتی حاشر سے بولی

ایک پل کے لئے حاشر کی نظروں کے سامنے حرم کا نازک سراپا لہرایا 

اسکا غصے سے سرخ چہرہ یاد کرکے حاشر کے لبوں پر خود بخود مسکان آگئی 

”  مجھے تو لگ رہا ہے دال میں کچھ کالا ہے میرے پیارے شریف سے بھیا پہلے تو گاڑی سے نکل کر کسی لڑکی کی ہیلپ کے لیے گئے واہ واہ اور پھر خودی خودی مسکرایا جا رہا ہے “ فاٸقہ شرارت سے بولی

” میری پیاری گڑیا جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہے “ حاشر اس کے سر پر چپت لگاتا بولا 

” ٹھیک ہے ٹھیک ہے اب آپ اپنی بہن سے چھپائیں گے لیکن مما سے کیسے چھپائے گے “ فاٸقہ زبان چڑھاتے بولی 

” اچھا میڈم کیا بتائیں گی آپ مما کو “ حاشر فاٸقہ سے بولا

” میں ماما کو بتاؤں گی کہ بھائی نے باہر ہی ایک پیاری سی بھابھی پسند کرلی ہے اور ہمیں بتایا تک نہیں “ فاٸقہ بولی تو حاشر اپنا سر پیٹ گیا 

” توبہ میرے اللہ مما تمہیں سہی کہتی ہے ہر وقت تیز گام بنی رہتی ہو پہلے پوری بات تو جان لیا کرو اس لڑکی کا ایک عدد بیٹا بھی ہے جسے تم اپنی بھابھی بنا بیٹھی ہو “ حاشر مسکراتا ہوا اسے بتانے لگا 

” بھائی آپ مذاق کر رہے ہیں اس لڑکی کے ساتھ تو کوئی بچہ نہیں تھا اور اس کی ایج تقریبا میرے جتنی ہی ہوگی “ فائقہ حیران ہوتے ہوئے حاشر سے پوچھنے لگی 

” ہاں فرسٹ ٹائم مجھے بھی اسے دیکھ کر بہت حیرانگی ہوئی تھی “ یہ کہتا حاشر فاٸقہ کو اپنی اور حرم کی پہلی ملاقات کے بارے میں بتانے لگا 

” ھاھاھا واقعی بھاٸی بےبی کا بےبی ھاھا پھر وہ آپ سے سہی چڑتی ہے “ فاٸقہ ہنستے ہوۓ کہنے لگی تو حاشر بھی اسکی بات پر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ہنس پڑا 

” ویسے بھائی جو بھی ہے رمشا آپا سے تو بہت کیوٹ ہے یہ کاش یہ میری بھابھی بن جاتی ہے آپ دونوں ساتھ کتنے اچھے لگتے ہیں “ فائقہ نے دل سے کہا

” چلو گڑیا اب بس بھی کرو “ حاشر فاٸقہ کو چپ کرواتا ہوا بولا  

لیکن آگے کیا ہونے والا تھا یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا بس دور کھڑی قسمت ان کی باتوں پر مسکرا دی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

  فائقہ کالج میں انٹر ہوٸی فہد باسط اور سحر اس کے انتظار میں ہہی کھڑے تھے فائقہ کو دیکھتی سحر اسکی طرف آ گٸی

” کیوں آج کیوں میرے انتظار میں کھڑے ہوۓ ہو جاٶ جاکر بیٹھو اچھے سٹوڈنٹ بن کے “ فاٸقہ باسط اور فہد کو منہ چڑھا کر بولی 

” دیکھو یار اب بس بھی کر دو “ فہد التجایہ انداز میں بولا

” تیکھی مرچی پلیز معاف کردو “ باسط بھی دانت نکالتا بولا 

”باسط تم تو یہ اپنے سبزیوں کے خاندان کو مجھ سے دور ہی رکھو “ فائقہ چڑ کر باسط سے بولی

” اچھا چلو کوئی تنگ نہیں کرے گا تمہیں اب تم معاف کر دو اور دوستی کر لو پلیز “ سحر فاٸقہ سے بولی

” پہلے ان دونوں سے کہو اب یہ دونوں غداری نہیں کریں گے اگر دونوں وعدہ کرتے ہیں تو میں معاف کر دو گی “ فاٸقہ شان بے نیازی سے بولی

” جی جی ملکہ عالیہ اب آپ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرے گا اکیلے کلاس میں جانے سے بہتر ہے آپ کی خاطر گردنیں کٹوالی جائے “ باسط شرارتاً بولا

” نہیں اس کی ضرورت نہیں پڑے گی اب تم دونوں غداری کرو تو سہی اپنے ہاتھوں سے گلا دباٶ گی “ فاٸقہ ہنس کے کہنے لگی 

” ویسے میں نے تم سب کو ایک ضروری بات بتانی تھی “ فاٸقہ منہ بناتے ہوئے بولنے لگی

” کونسی ضروری بات “ وہ تینوں حیرانگی سے یک زبان ہو کر بولے 

” جو اپنے سر کدو کریلا ہیں نہ سر ریان یہ میرے بھاٸی کے بہت اچھے والے دوست ہیں “ فاٸقہ بےزاریت سے بولی 

” اچھا مطلب اب فائقہ دی گریٹ سرریان سے کوئی پنگا نہیں لے گی “ باسط مسکراہٹ دباتے بولا 

” نہ بیٹا نہ تم فائقہ کو اتنا ایزی مت لو پنگے تو میں پورے پورے لو گی بس دیکھو اب آگے آگے ہوتا ہے کیا “  فائقہ مزے سے بولنے لگی 

” کون کس کو کب دیکھے گا یہ آپ لوگ بعد میں ڈیسائڈ کیجیے گا اب آٸی تھنک کلاس ٹائم ہو رہا ہے تو ضروری ہے کہ کلاس میں چلیں “ فائقہ اپنے آپ میں مگن بولی جارہی تھی جب پیچھے سے ان سب کو سرریان کی آواز آئی 

” جی جی سر ہم کلاس میں ہی جا رہے تھے “ فہد جلدی سے بول پڑا تو ریان جانے لگا 

” یہ سر کب نازل ہوۓ “ فائقہ سحر کے کان میں گھستے ہوئے بولی

” مس فاٸقہ میں تب ہی نازل ہوا ہوں جب آپ اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑھ دی تھی “ ریان نے مڑ کر فائقہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

”ہوو ہاۓ سر آپ نے سن لیا “ فائقہ اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی ریان کو اس کی حرکت پر ہنسی آگٸ 

لیکن وہ اس کے سامنے ہنس کر اپنی شامت نہیں لانا چاہتا تھا 

” جی مس فاٸقہ میں سن بھی سکتا ہوں میں دیکھ بھی سکتا ہوں اور میں بول بھی سکتا ہوں مجھے تو لگتا ہے اس دن آپ نے جیسے مجھے نابینا سمجھا تھا آج بہرہ  سمجھ کے بیٹھی ہیں “ ریان تیوری چڑھاتا بولا

فائقہ کے مسلسل ریان سے درگت بنتے دیکھ سحر فہد اور باسط بمشکل اپنا قہقہ روکے کھڑے تھے جب سے سر ریان اس کالج میں آئے تھے فائقہ کی کم اور ان کی زیادہ چل رہی تھی 

” چلیں اب آپ سب کلاس میں چلیں “ ریان یہ کہتا کلاس میں چلا گیا تو وہ سب بھی اسکے پیچھے چل دے 

❤❤❤❤❤❤❤❤

حاشر آفس آیا تو آتے اکرم صاحب سے اسکی ملاقات ہوٸی وہ ان سے آج کا شیڈول پتا کرتا اپنے کیبن کی طرف چل دیا 

وہ اپنے آفس میں آ کر بیٹھا اور کچھ فاٸلز چیک کرنےلگا 

تھوڑی دیر بعد اکرم صاحب کے کیبن میں آئے 

”سر وہ جن جن کو انٹرویو کے لئے کہا تھا وہ لوگ آگئے ہیں آپ کہتے ہیں تو انٹرویو شروع کریں “ 

اکرم صاحب حاشر سے پوچھتے ہوئے بولے

” اکرم صاحب میں نے تو آپ سے کہا تھا اور خود ہی کسی کو ڈیسائڈ کر لیتے مجھے تو آج بہت ضروری کام ہے“ حاشر مصروف انداز میں بولا 

” سر میں نے اس لیے آج کا رکھا ہے کہ آپ خود سلیکٹ کرلیں اور دیکھ لیں کہ کون اس سیٹ کی اہلیت رکھتا ہے “ اکرم صاحب بولے 

” ٹھیک ہے آپ دس منٹ تک انٹرویو اسٹارٹ کیجیے گا “ حاشر ان سے بولا 

” جی سر بہتر “ یہ کہتے اکرم صاحب کیبن سے باہر چلے گئے اور حاشر خان انڈسٹریز کی فاٸل دیکھنے لگا 

اچانک موبائل پر میسج کی آواز پر وہ متوجہ ہوا 

صوفیہ بیگم کے میسج پر اسکے لب خود بہ خود مسکرا دیے

انھوں نے اسے ناشتہ کرنے اور دوپہر کا کھانا ٹھیک سے کھانے کی سخت تاکید کی تھی

اس کے ذہن میں رات والا واقعہ آگیا رمشاء کا رشتہ اور اس کا بےباکی سےکہنا حاشر کو سخت نا پسند لگا تھا 

اس نے کبھی ایسی لڑکی کو ترجیح نہیں دی تھی جو گھر جوڑنے کی بجائے توڑنے کی کوشش کرے اس کی آٸیڈیل تو ہمیشہ سے ایک معصوم اور سادہ سی صاف دل کی لڑکی رہی تھی

اس سوچ کے آتے ہی حاشر کے زہن میں حرم کی صورت آٸی 

بلکل غیر ارادی طور پر وہ رمشاء اور حرم کا موازنہ 

کرنے لگا لیکن پھر سر جھٹک کر اپنے کاموں میں لگ گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤

” کلاس آج تک کے لیکچر تک لے کر جتنے بھی ٹاپکس آپ کو اس منتھ میں نے کروائے ہیں کل میں ان کا ایک چھوٹا سا ٹیسٹ رکھنا چاہتا ہوں “ ریان لیکچر کے کےاختتام میں بولا

ریان کی بات پر سب متوجہ تھے سواۓ اسکے جسکا فوکس وہ چاہتا تھا اس نے اپنے بارے میں لڑکیوں کے منہ سے بہت تعریفیں سنی تھی مگر یہ لڑکی عجیب تھی اسے بس شرارتوں میں انٹرسٹ تھا اور یہی چیز اسے سب میں منفرد بناتی تھی 

” سحر تم جانتی ہو اس دفعہ میں نے کیا کرنا ہے میں نے اس بار منہ پر جھنڈہ بھی بنانا ہے اور گرین اور واٸٹ غبارے بھی لگانے ہیں پوری کلاس میں اور بڑا والا پرچم بھی لہرانا ہے پھر اونچا سا وہ گاٸیں گے 

شکریہ پاکستان۔۔۔۔۔۔ پاکستان شکریہ “ 

فاٸقہ مسلسل اپنی دھن میں بولی جا رہی تھی اور سحر کبھی فاٸقہ کی اور کبھی ریان کی شکل دیکھ رہی تھی

” مس فاٸقہ آپ کونسی ضروری بات کررہی ہے ذرا آپ پوری کلاس کو بتانا پسند کریں گی “ ریان کی آواز اپنے قریب سے سن کے فاٸقہ اچھل پڑی 

ریان مشکل سے اپنا قہقہ ضبط کیے کھڑا پوچھ رہا تھا 

” ہاۓ اللہ جی سر آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا ابھی میرا دل بند ہوجاتا اللہ معافی “ فاٸقہ منہ بناتے بولی 

” تو پلیز اپنا دھیان کلاس پر رکھا کریں نا ادھر ادھر کی باتوں پر نہیں “ ریان اس سے بولا 

” سر مجھے پتا ہے آپکو ٹیسٹ ہی لینا ہے نہ تو آپ لے لیجئے گا ابھی فلحال ہمیں 14 اگست کی تیاری کا سوچنے دیں “ فاٸقہ کی بات پر ریان ہکا بکا اس کی شکل دیکھنے لگا 

” آپ کو ایک راز کی بات بتاؤ “ فاٸقہ رازدارانہ انداز میں 

ریان سے بولی تو ریان نے سوالیہ انداز میں اسکی طرف دیکھا 

” یار کی گلی میں 14 اگست کو 

جھنڈا لگانا بھی عشق ہے 😂 “ فاٸقہ کے شعر پر پوری کلاس میں قہقہ گونجا 

دیکھنے میں جتنی معصوم لگتی تھی لیکن تھی اتنی ہی پٹاخہ ۔ ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ فاٸقہ بول پڑی 

” سر ایک شرط پر ہم ٹیسٹ دیں گے اگر آپ وعدہ کریں کہ ہمارے ساتھ آپ بھی پارٹیسپیٹ کریں گے 14 اگست کے فنکشن میں“ فاٸقہ مسکراتے بولی 

” اوکے ٹھیک ہے “ فائقہ کی دل موہ لینے والی صورت دیکھتے ہوئے ریان سے انکار نہیں ہوا اور اسنے ہامی بھر لی 

” واہ سر جی تسی گڑیٹ ہو “ فاٸقہ کے شرارت سے کہنے پر سب ہنسنے لگے 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حرم جب آفس پہنچی تو وہاں کافی تعداد میں لوگ انٹرویو کے لیے بیٹھے تھے حرم ان سب کو دیکھتے ہوئے کنفیوز ہونے لگی 

سب ایک سے بڑھ کر ایک بیٹھے تھے پہنیں اوڑھنے سے لے کر تعلیمی قابلیت میں بھی سب اس سے بہت بہتر تھے 

لڑکیوں نے تو اپنے چہروں پر میک اپ کی کتنی تہیں جما رکھی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جاب کے لیے نہیں رشتے کے لیے آٸی ہیں

حرم وہیں سائیڈ پر ہو کر بیٹھ گئی جب ایک درمیانی عمر کا شخص اس کے پاس آیا اور اس سے اس کی تعلیمی قابلیت اور تجربہ پوچھنے لگا 

” جی تو آپ کی کوالیفکیشن کیا ہے اور کس فیلڈ میں آپ کے پاس ایکسپیرینس ہے “ اکرم صاحب حرم سے پوچھنے لگے 

” جی وہ میں نے بس ایف ایس سی کی ہے اور ایکسپیرینس تو کسی فیلد میں نہیں “ حرم کنفیوز ہوتے ہوئے بولی 

” دیکھو بیٹا شاید آپ کو نہیں پتا لیکن ہمیں ایم بی اے کوالیفاٸیڈ پرسن ریکواٸرڈ ہے اور 2 سال ایکسپیرینس ہونا لازم ہے “ اکرم صاحب بولے تو انکی بات پر حرم پریشان ہو کر انھیں دیکھنے لگی 

اس کے لیے یہ جاب بہت ضروری تھی کیونکہ مزید وہ حالات افورڈ نہیں کر سکتی تھی آج وہ جس طرح بسوں کے دھکے کھاتی آٸی تھی یہ وہی جانتی تھی اور رستے میں اسکی جوتی تک ٹوٹ گٸی تھی 

اکرم صاحب کی بات پر وہ آنسو ضبط کرتی کھڑی رہی 

انکو اس پر ترس آگیا 

” ٹھیک ہے بیٹا انٹرویو دے دو اللہ تمہارے لیے بہتر کرے گا ہو سکتا کوٸی نہ کوٸی حل نکل آۓ“ اکرم صاحب اس سے کہتے وہاں سے چل دیے 

❤❤❤❤❤❤❤

 یہ کوٸی دسواں انٹرویو تھا مگر سب کے پاس ڈگری تو تھی مگر اس قابل کوٸی بھی نہیں لگا 

لڑکیاں تو جیسے سب فیشن شو میں آئی تھی وہ تو کوفت کا شکار ہو گیا تھا 

” اکرم صاحب بس اب آپ خود ہی کوئی ڈیسائڈ کر لیں ان میں سے مجھے تو کوئی اس قابل نہیں لگا اور پلیز آپ باقی دیکھ لیں کل “ حاشر کوفت سے اکرم صاحب سے بولا 

” سر ہم نے یہ سب فائنل کرکے بلاۓ تھے جو کوالیفائیڈ اور ایکسپیرینسڈ تھے “ اکرم صاحب شرمندگی سے 

بولے 

” ٹھیک ہے پھر آپ دیکھ لیں میری خان انڈسٹریز سے ایک امپورٹنٹ میٹنگ ہے “ حاشر اٹھتا ہوا بولا 

” سر ایک لاسٹ لڑکی ہے اور میری ریکویسٹ ہے اسکا انٹرویو آپ ہی لیں اسکو صرف آپ ہی سلیکٹ کرسکتے “ انکی بات پر حاشر نے سوالیہ انداز میں انکی جانب دیکھا 

” مطلب ؟ آپ بھی سلیکشن کر سکتے ہیں تو اس لاسٹ پرسن کے لیے میں کیوں ؟ کچھ سمجھا نہیں“ حاشر موبائل پر میٹنگ شیڈول چیک کرتا ان سے پوچھنے

 لگا 

” سر وہ لڑکی صرف انٹر کوالیفاٸیڈ ہے اور ایکسپیرینس بھی نہیں ہے اسے “ اکرم صاحب کی بات پر پہلے وہ حیران ہوا پھر بولا 

” اکرم صاحب کیا ہوگیا ہے مجھے ایک پی اے چاہیے جو کم از کم اتنی کوالیفاٸیڈ تو ہو جو تمام معاملات ٹیک اور کرسکے آپکے سامنے میں ماسٹرز کوالیفاٸیڈ کو ریجیکٹ کرچکا ہو کیونکہ ایک ریسپونسبل پرسن چاہیئے اس سیٹ پر تو آپ کیسے کہہ سکتے میں ایک انٹر پاس لڑکی سلیکٹ کرلو “ حاشر حیران ہوتا پوچھنے لگا 

” سر وہ مجھے اس قابل لگی ہے تبھی تو آپ سے ریکویسٹ کر رہا ہو پلیز آپ انٹرویو کر لیں “ اکرم صاحب حاشر سے اصرار کرنے لگے 

ان کے اتنا کہنے پر حاشر نے ہامی بھر لی 

اکرم صاحب باہر آۓ تو حرم کی طرف چل دیے 

حرم مسلسل پریشان بیٹھی ہوٸی تھی اور دعا کر رہی تھی 

” بیٹا آپ جاٶ اندر اب آپ کی باری ہے انٹرویو کی “ 

اکرم صاحب آ کر حرم سے بولے 

” سر لیکن آپ کے بوس نے تو اتنے کوالیفاٸڈ لوگوں کو ریجیکٹ کر دیا ہے تو میں کیسے “ حرم پریشانی میں بولی 

” ہاں لیکن بیٹا ہمت نہیں ہارنی چاہیے جاٶ اللہ بہتر کرے گا اللہ آپ کے لیے آسانیاں کرے “ اکرم صاحب بولے 

ان شفیق سے شخص کا شکریہ ادا کرتے حرم ہمت کرتی حاشر کے آفس میں چلی گٸی 

حرم ڈرتے ہوۓ آفس میں داخل ہوٸی حاشر رخ موڑے کسی سے فون پر بات کر رہا تھا

حاشر نے پلٹ کر دیکھا اور اسی وقت حرم نے بھی اس کی طرف دیکھا دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر شدید حیران ہوۓ

” آپ “ دونوں بیک وقت بولے 

حرم ڈرتے ہوۓ آفس میں داخل ہوٸی حاشر رخ موڑے کسی سے فون پر بات کر رہا تھا

حاشر نے پلٹ کر دیکھا اور اسی وقت حرم نے بھی اس کی طرف دیکھا دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کیر شدید حیران ہوۓ

” آپ “ دونوں بیک وقت بولے 

حاشر حرم کر حیرانگی سے دیکھنے لگا

حرم نے جب حاشر کو دیکھا تو فوراً موڑ کر جانے لگی 

مگر حاشر کی آواز پر روکنا پڑا 

” دیکھیے مس او سوری مسسز آپ یہاں انٹرویو کے لیے آٸی ہیں تو آپ یہاں سے انٹرویو دیے بنا کیوں جارہی ہیں“ حاشر سنجیدہ لہجہ اپناتا ہوا بولا 

” میں اس جاب کے لیے کوالیفاٸیڈ نہیں ہو اس لیے کیونکہ میرے سامنے ہی آپ نے اتنے کوالیفاٸیڈ لوگ ریجیکٹ کیے ہیں “ حرم اپنا لہجہ مضبوط کرتے بولی 

” جی بلکل بٹ ان کی ریجیکشن کی وجوہات تھی اور میں کوالیفاٸیڈ ہونے سے زیادہ اس سیٹ کے لیے ایک ریسپونسبل پرسن کو پریفر کروں گا تو پلیز آٸیے “ حاشر اسے ایکسپلین کرتا ہوا بولا 

اسکی بات پر ناچاہتے ہوۓ حرم کو بیٹھنا پڑا 

حاشر نے دیکھا کے وہ مسلسل کنفیوز ہورہی ہے حاشر کے سامنے نظریں جھکاۓ بیٹھی وہ لگاتار اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی اسکی حرکت پر حاشر کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ پھیل گٸ 

حاشر نے پانی کا گلاس حرم کی طرف بڑھایا تو وہ اسکی طرف دیکھنے لگی 

”  دیکھیں آپ اپنی انگلیاں بعد میں توڑ لیجئے گا پہلے پانی پی لیں “ حاشر نے ہلکا سا مسکراتے کہا 

” نہیں وہ کچھ نہیں تھینک یو “ حرم کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے 

اور حاشر کے ساتھ اپنا صبح والا برتاؤ یاد کر کے حرم کو یقین تھا کہ یہ جاب تو اسکے ہاتھ سے نکل ہی گٸی ہے 

” ویسے آپ نے تو مجھے بتایا تھا کہ آپ کا بیٹا ہے تو اپنے بیٹے کو چھوڑ کر آپ جاب ڈھونڈھ رہی ہیں وجہ پوچھ سکتا ہوں جہاں تک مجھے اندازہ ہے تو آپکا بیٹا بہت چھوٹا ہے اور اسے سب سے زیادہ ماں کی ضرورت ہوتی ہے تو آپ کیسے مینیج کریں گی “ حاشر کے ذہن میں مسلسل یہ سوال چل رہا تھا تو اس نے پوچھ لیا 

” اس وقت میری سب سے زیادہ نیڈ ایک اچھی جاب ہےباقی سب میں مینج کر لوں گی “ حرم بولی 

” ٹھیک ہے پھر آپ کل سے جوائن کر سکتی ہیں “ حاشر بولا تو حرم اس کو حیرانگی سے دیکھنے لگی

اور اچانک کھڑی ہو گئی اس کے یوں کھڑے ہونے پر حاشر نے چونک کر سوالیہ نظروں سے حرم کو دیکھا 

” دیکھئے سر مجھے جاب کی  ضرورت ہے لیکن کسی کے ترس کی نہیں تو اگر آپ یہ سب کسی ترس کی صورت میں کر رہے ہیں تو آئی ایم سوری مجھے یہ جاب نہیں  چاہیئے“ حرم نے سخت لہجہ اپناتے بولا 

” آپ نے بالکل غلط اندازہ لگایا ہے میں آپ کو ہرگز بھی ترس کھاکر ہاٸر نہیں کر رہا مجھے اس سیٹ کے لئے ایک قابل پرسن چاہئے جو اپنے کام کے ساتھ رسپونسبل ہو اور آپ مجھے اپنے کام کے ساتھ سنسیٸر لگ رہی ہیں اس لئے میں آپ کو سلیکٹ کر رہا ہوں “ حاشر نے نہایت سنجیدہ لہجہ اپناتے ہوئے کہا 

” ٹھیک ہے تھنک یوتو کیا میں کل سے جوائنینگ دے سکتی ہو ؟ “ حرم اب نرم لہجے میں بولی 

” جی آپ اکرم صاحب سے ساری ڈیٹیل لے لیں اینڈ موسٹ ویلکم “ حاشر مسکرا کر بولا 

حرم شکریہ کرتی جانے لگی کہ حاشر بول پڑا 

” اگر آپ برا نہ مناۓ تو میں آپ سے کیا ایک بات پوچھ سکتا ہوں “ حاشر سوالیہ انداز میں بولا 

” جی کہیے “ حرم بولی 

” آپ کے ہسبنڈ کدھر ہوتے ہیں کیوں کہ جو کام آپ کرتی ہیں وہ تو ان کے کرنے والے ہیں “  حاشر کی بات پر حرم کے چہرہ پر سایہ سا لہرا گیا 

” میرے ہسبینڈ کی ڈیتھ ہوچکی ہے وہ اس دنیا میں نہیں ہیں “ حرم ضبط سے بولی 

” او ایم ریلی سوری مجھے اندازہ نہیں تھا سو سوری “ حاشر شدید شرمندگی سے بولا 

” کوئی بات نہیں اور سر جن کا کوئی نہیں ہوتا نا خدا کے بعد انہیں اپنے سب کام خود کرنے پڑتے ہیں “ حرم یہ کہتی وہاں رکی نہیں اور چلی گٸی 

جبکہ حاشر حیران پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ افسردہ ہوگیا 

 ” کاش یہ میری بھابھی بن جاتی آپ دونوں ساتھ کتنے اچھے لگتے “ حاشر کے کانوں میں فائقہ کی آواز گونجی 

نہ چاہتے ہوئے بھی حاشر مسکراتا ہوا حرم کے بارے میں سوچتا چلا گیا واقعی یہ لڑکی اس کو اپنا اسیر کرتی 

جا رہی تھی لیکن یہ تو وقت نے فیصلہ کرنا تھا کون کس کی زندگی میں شامل ہونے والا ہے اور کس کی زندگی میں ساری عمر کی جدائی لکھ دی گئی ہے 

❤❤❤❤❤❤❤❤  

موسم نے کروٹ لی اور کالی گھٹا کی طرح پورے آسمان پر بادل چھا گئے تھوڑی دیر میں ہی موسم اتنا خوشگوار ہوگیا سب اپنی کلاس سے باہر گراؤنڈ میں نکل آئے 

تیز ہواؤں نے اپنا رخ بدلا اوررم جھم کرتی ٹھنڈی بارش کی بوندیں برسنا شروع ہوگٸی 

جو لوگ موسم انجوائے کرنے باہر کھڑے تھے وہ سب گیلے ہونے سے بچنے کے لیے کوریڈور کی طرف چل دیے 

” چلو فائقہ بارش تیز ہو رہی ہے تم بھیگ جاٶ گی “ سحر فاٸقہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی 

” سحر تمہیں کیا ہو گیا ہے خود تو تم زندگی سے بےزار  ہو مجھے تو بارش انجواۓ کرنے دو “ فاٸقہ ہاتھ چھوڑاتی تیزی سے گراؤنڈ کے بیچوں بیچ بھاگ گئی 

” اوۓ سحر یہ فاٸقہ کیا کر رہی ہے “ باسط سر پر ہاتھ مارتے بولا

 ”اپنی مرضی“  اس کی بات پر فہد اور سحر دونوں یک زبان ہوکر بولے 

پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے 

” واہ جی واہ بڑی بات ہے ایک لہجہ ایک بات وہ بھی ساتھ ساتھ 

یہ کون سا سین چل رہا ہے ہم ساتھ ساتھ ہیں والا یا کچھ کچھ ہوتا ہے والا “  

باسط شرارت سے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا

” باسط یقینا عنقریب تم میرے ہاتھوں سے ضائع ہو جاؤ گے اپنی بکواس بند رکھا کرو “ سحر اسے گھور کر بولی 

” لو میں نے کیا غلط کہا کسی کے سامنے بھی تم دونوں ایسے بولو گے تو تم لوگوں کو لوبرڈز تصور کرنا تو بنتا ہے نہ “ باسط سحر سے دور ہوتے بولا 

” فہد میں اس کو اب گنجا کر دوں گی اس کو کہو چپ کر جائے فضول مت بولے “ سحر غصے میں بولی 

” باسط یار نہ تنگ کر “ فہد سحر کو اپنی آنکھوں میں بھرتا بولا 

” واہ واہ واہ صحیح کہتے ہیں دوست دوست نہ رہا تو اس کی خاطر مجھ سے لڑ رہا ہے اپنے جگری یار سے دیکھ پیار میں پڑگیا ہے تو تو لو بہن اوہ سوری اب تو تم بھابھی ہو معافی دینا پلیز میرے یار کا خیال رکھنا میں تو چلا “ باسط فل اوور ایکٹنگ کرنے لگا لیکن جیسے ہی سحر کو خونخوار تیور لیے اپنی طرف بڑھتے دیکھا وہاں سے دوڑ لگا دی 

” چلو سحر غصہ چھوڑو تمہیں تو اس کی عادت ہے نہ فائقہ کی میل کاپی ہے وہ “ فہد اس سے بولا 

” تم بھی مجھے مت بلاٶ میں نے دیکھا تھا تم بھی اس کی باتوں پر ہنس رہے تھے “ سحر فہد سے ناراضگی میں بولی اور وہاں سے چل دی

” یار وہ باتیں ہی ایسی کر رہا تھا کہ ہنسی آجائے اب میرا کیا قصور ہے میری بات تو سنو “ فہد اس کے پیچھے بھاگتا ہوا کہنے لگا

” جاٶ اب کیوں میرے پیچھے آرہے ہو جاٶ جاکر ہنسوں مجھ پر اس باسط کے ساتھ مل کر “ سحر منہ بناکر بولی 

” یار کیا ہو گیا ہے میں کیوں ہنسوں گا تم پر تم تو ہمارے گروپ میں سب سے زیادہ اچھی اور سمجھدار ہو “ فہد اسکے سامنے کھڑا ہوتا بولا 

پیلے اور گلابی امتزاج کے ڈریس پر گلابی رنگ کا ڈوپٹہ اُوڑھے غصے اور کچھ ہوا کی خنکی سے سرخ ہوتی ناک چڑھاتی اور ایک ہاتھ سے اپنی چوٹی سے نکلتے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی وہ فہد کے دل میں گھر کر گٸی 

فہد بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھتا گیا 

” ہاں ہاں تم لوگوں کو کچھ کہتی نہیں ہو نا اس لئے تم سب میرا مزاق اُڑاتے کہ یہ تو پاگل ہے “ سحر ناراضگی سے بولی 

” کس نے کہا کہ تم پاگل ہو کوٸی کہہ کے تو دکھاۓ 

تم تو معصوم ہو پاکیزہ ہو نرم دل ہو اور کبھی کبھی جو یوں روٹھتی ہو کمال لگتی ہو “ فہد جزب میں اسے دیکھتا چلا گیا 

سحر تو حیرت سے اسکی شکل دیکھتی رہ گٸی سمجھ آنے پر سرخ چہرہ جھکاۓ وہ ساٸیڈ سے نکل کر جانے لگی تو فہد نے اسکی نازک کلاٸی تھام لی اور اسکے کان کے قریب ہوتے بولا 

” سہی کہتا ہے باسط پیار میں تو میں پڑ ہی گیا ہو اب یہ آپ پر ہے محترمہ کہ آپ کب ہمارے دل کی سن کر ہمیں قبول کرتی ہیں “ فہد کی بات پر سحر ہاتھ چُھڑواتے شرماتی وہاں سے بھاگتی چلی گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤

بارش زور و شور سے برس رہی تھی ہوا بھی بہت سرد ہو گٸی تھی کیونکہ سردی کی آمد آمد تھی مگر مجال ہے جو فاٸقہ کو کوٸی پرواہ ہو 

بارش میں بھگتی وہ سب فراموش کئے اپنی ہی دھن میں مگن بارش انجواۓ کر رہی تھی بارش تو جیسے اسکی کمزوری تھی اپنے اردگرد کی پرواہ کیے بغیر وہ بس بھگتی جا رہی تھی 

ریان اپنی لاسٹ کلاس لیے باہر آیا تو اس کا فون بج اٹھا سارہ کالنگ لکھا دیکھے کال ریسیو کی 

” کیسی ہو چڑیل میرا پیارا گڈا کیسا ہے “ ریان شرارت سے بولا ۔ ماں اور اسکی چھوٹی بہن سارہ ہی تو اسکا کل کاٸنات تھی وہ ان دونوں سے بہت پیار کرتا تھا 

” واہ واہ بھاٸی بہن چڑیل اور بھانجا گڈا یہ تو غلط ہے نہ “ سارہ آگے سے بولی 

” توبہ توبہ کیسی لڑکی ہو تم یار اپنے بیٹے سے ہی جیلس ہو رہی ہو کیسی ماں ہو “ ریان سارہ کو چڑاتے ہوۓ بولا 

” نہیں جی ہرگز نہیں میرا بیٹا تو میری جان ہے میرا شہزادہ ہے “ سارہ اپنے بیٹے کو پیار کرتے بولی 

” اہم اہم ماں کا پیار واہ جی واہ میری بہن تو سہی ممتا دیکھا رہی کہیں میں غش کھاکر گر نہ جاٶ “ ریان شرارتاً مزاق میں بولا 

” جی جی بچو ابھی جتنا ہنسنا ہے ہنس لیں ایک بار بھابھی آگٸ نہ پھر ان سے پوچھیے گا کتنا پیار ہوتا ہے اولاد سے “ سارہ بول رہی تھی اچانک ریان کی نظر گراؤنڈ میں بارش میں بھیگتی فاٸقہ پر گٸ

بچوں کی طرح بارش کے پانی سے کھیلتی وہ اسے اتنی معصوم اور پیاری لگی کے وہ یک ٹک اسے دیکھتا چلا گیا

اورنج کرتے اور واٸٹ پاجامہ میں واٸٹ اور اورنج امتزاج کا ڈوپٹہ خود پر پھیلاۓ وہ اسے ایک حسین پری ہی تو لگی 

سارہ کال پر بولتے بولتے کب کی کال بند کر چکی تھی مگر یہاں ہوش کسے تھا نہ بارش میں بھیگتی فاٸقہ کو اور نہ اسے تکتے ریان کو  

” یار یہ پٹاخہ تو واقعی پٹاخہ ہے دیکھ کتنی آٸٹم لگ رہی “ ریان سے کچھ دور کھڑے دو لڑکے خباثت سے فاٸقہ کو دیکھتے کہنے لگے انکی بات پر ریان نے غصے میں مٹھیاں کسی 

” ہاں یار ہاتھ تو آتی نہیں مگر خیر ایسے ہی دیکھ کر انجواۓ کر لیتے “ دوسرا خباثت سے کہتا ہاتھ پر ہاتھ مار کے ہنسنے لگا اور یہاں ریان کی بس ہوٸی تھی 

وہ ان دونوں کے سر پر جا کر کھڑا ہو گیا سرخ ہوتی آنکھوں لیے مٹھیاں کسے وہ غصے سے انھیں گھورنے لگا پروفیسر کو دیکھ کر دونوں لڑکوں کے چہروں کے رنگ اڑ گئے اور وہ فوراً وہاں سے رفو چکر ہو گۓ 

ریان وہاں سے سیدھا گراؤنڈ میں گیا اور فاٸقہ کا ہاتھ پکڑ کے وہاں سے لے کر اسے چل دیا اور لا کر پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھاتا دوسری طرف سے آ کر ڈراٸیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا 

فاٸقہ تو پہلے اس کے ہاتھ پکڑنے پر ہی حیران پریشان ہوٸی تھی کہ اسکے یوں گاڑی میں بیٹھانے پر حیرت سے اسے تکنے لگی 

” سوری مجھے آپ کو ایسے نہیں لانا چاہیئے تھا لیکن دیکھیں شوق اپنی جگہ اور یوں باہر سب کے سامنے بھیگ کر “ ریان اسکے بھیگے سراپے سے نظریں چڑاتا ہوا بات ادھوری چھوڑ گیا 

فاٸقہ اس کی بات پر جی بھر کے شرمندہ ہوٸی اسکو شدید غصہ آیا بچپنے میں وہ کیسی غلطیاں کر جاتی ہے فن اور مستی میں وہ یہ تک بھول گٸ تھی کہ وہ کہاں کھڑی ہے اور اب وہ شرمندگی سے ریان سے بھی نظر نہیں ملاپا رہی تھی 

” تھی۔۔تھینک یو سر اور سس۔سوری “ فاٸقہ کچھ ٹھنڈ سے کپکپاتی اور کچھ جھجھکتے ہوئے ریان کو بنا دیکھے بولی 

” نو سوری بس نیکسٹ تھوڑا خیال کیجیے گا ماحول کا “  ریان اسکی شرمندگی کم کرنے کے لیے نارمل لہجے میں بولا اور یہاں گاڑی میں پڑی اپنی جیکٹ فاٸقہ کی طرف بڑھا دی

فاٸقہ نے پہلے منع کرنا چاہا مگر سردی سے کپکپی تاڑی ہوتا دیکھ اس نے اسکے ہاتھ سے تھام لی

ریان کے ہاتھ سے جیکٹ پکرتے فاٸقہ کے ہاتھ کی نازک انگلیاں ریان کے ہاتھوں کو چھوگٸ ❤

دونوں کے دل نے ایک ساتھ ایک بیٹ مس کی اور بیک وقت ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا 😍

سردی سے سرخ ہوتا چہرہ لیے ناک سے سڑ سڑ کر کے آنکھیں چھوٹی ہوتی اور کپکپاتے سرخ ہونٹ لیے فاٸقہ نے جب ریان کو دیکھا تو ریان اس کی آنکھوں میں ڈوب سا گیا اور آج وہ پوری طرح اس شرارتی سی لڑکی پر دل ہار بیٹھا تھا 

             ””” ہاں ریان پوری طرح فاٸقہ کی محبت

                      میں گرفتار ہو گیا تھا ““

ریان کے مسلسل یوں دیکھنے پر فاٸقہ گھبراتی ہوٸی نظریں جھکا گٸ 

ریان کو یہ پل زندگی کے حسین پل لگے 

فاٸقہ ریان کی جیکٹ پہنتی رخ موڑ گٸ ریان مشکل سے اسکے لبوں سے نظریں چڑاتا ڈراٸیو کرنے لگا 

فاٸقہ کا دل اس معنی خیز خاموشی میں عجیب لے پر دھڑک رہا تھا اس نے اس معنی خیز خاموشی کو توڑنے کے لیے پلیٸر آن کیا تو ایک رومینٹک سونگ پلے ہو گیا

رم جھم یہ ساون 

پھر برساتیں لے آیا ہے

خود چل کے آیا ہے

سارے شہر میں صرف

ہم کو بھیگایا ہے

رم جھم یہ ساون

پھر برساتیں لے آیا ہے

گانے کے بولوں کو سن کے ریان کے چہرہ پر مسکان آگٸ ایسا لگتا تھا جیسے سارا جہان صرف اسکی محبت کی گواہی دے رہا ہو

پہلی محبت ہے

اور پہلی یہ بارش ہے

بھر لوں باہوں میں

آسمان کی نوازش ہیں 

کتنا خوش ہے

دیکھو نہ یہ آسمان 

ہے خوش نصیبی میری 

سارے زمانے میں

جو ہمسفر تو نے

مجھکو بنایا ہے

رم جھم یہ ساون

پھر برساتیں لے آیا ہے

فاٸقہ تو میوزک پلیئر آن کرکے ہی پچھتاٸی تھی ریان اسکی حالت پر بمشکل اپنا قہقہ روکے بیٹھا تھا مزید سنگر صاحب کچھ گوہر افشانی کرتے فاٸقہ نے پلیٸر بند کردیا 

” مس فاٸقہ آپکا گھر آگیا “ ریان گاڑی روکتے ہوۓ بولا 

” تھینک یو سر “ فاٸقہ نے بولتے ہوۓ اسکی جیکٹ اسکی طرف بڑھاٸی 

” کوٸی بات نہیں “ ریان نے کہا اور فاٸقہ گاڑی سے اتر کر جانے لگی پھر مڑی 

” سر آجاٸیں اندر بھاٸی آتے ہی ہوگے “ فاٸقہ نے اسے گھر آنے کی دعوت دی 

” نہیں پھر کبھی سہی کیوں کہ آج تو فاٸقہ دی گڑیٹ بھی بھیگی بلی بنی ہوٸی ہے “ ریان نے شرارتاً کہا تو فاٸقہ ہنس کر اندر چلی گٸ اور ریان بھی گھر کی طرف چل دیا 

حرم کو حاشر کے آفس سے نکل کے بس سٹاپ تک پیدل ہی جانا تھا اور بس سٹاپ کوٸی 15 سے 20 منہ کی واک پر تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ حرم کی جوتی ٹوٹ چکی تھی جس سے اسے پیدل چلنے میں دشواری کا سامنا تھا

اس وقت اسے کچھ سمجھ نہ آیا اس نے اپنی جوتی اتار کر ہاتھ میں پکڑی اور اسکے سٹیپ جوڑنے لگی تبھی اسکے پاٶں کے بلکل قریب آ کر ایک باٸیک رکی حرم ڈر کر پیچھے ہوٸی 

حرم نے نظر اٹھا کر دیکھا تو کوٸی بہت ہی بدتمیز اور آوارہ ٹائپ کے دو لڑکے اسکی طرف مسکراتے دیکھ رہے تھے حرم فوراً سے جوتا ہاتھ میں پکڑے تیزی سے آگے چلنے لگی 

” ارے ارے کہاں جا رہی ہو آٶ بیٹھو میں چھوڑ آتا ہوں ریکھو تمہارے حسین پاٶں خراب ہوجاۓ گے بنا جوتے کے تمہارا تو جوتا ہی ٹوٹ گیا “ منچلا سا لڑکا حرم کے پیچھے باٸیک چلاتے ہوئے بولا 

حرم کی تو خوف سے ٹانگیں کپکپانے لگی وہ مزید تیزی سے چلنے لگی زیادہ پیدل چلنے سے ویسے ہی اس کے پاؤں میں چھالے بن چکے تھے مگر اس وقت وہ پرواہ کیے بنا بس بھاگنے کے انداز میں چلنے لگی 

ایک دم ان دونوں لڑکوں نے حرم کے آگے باٸیک روک کر اسکا نکلنے کا رستہ بند کر دیا اور باٸیک سے اتر کر حرم کی طرف بڑھنے لگے 

”ارے رکو تو کدھر جا رہی ہو بات سنتی جاٶ “ وہ دونوں حرم کا راستہ روکتے ہوۓ بولے 

” یااللہ میں کیا کروں کدھر جاٶ میرے مالک میری حفاظت فرما “ حرم گھبراہٹ میں دل میں دعا کرنے لگی 

اسکا دل اس وقت سوکھے پتے کی طرح کپکپانا شروع ہوگیا تھا 

” دیکھیے پلیز مجھے جانے دیں میں آپ کا کیا بگاڑا ہے “ حرم کپکپاتی ہوٸی آواز میں بولی 

اسکی بات پر وہ دونوں ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہنسنے لگے 

”ہم تو تمہیں کہہ رہے ہیں آٶ ہم چھوڑ آتے ہیں“ اتنا کہتے وہ آگے بڑھے ہی تھے کہ ایک گاڑی انکے پاس آ کر رکی 

حاشر جو گھر جانے کے لیے آفس سے نکلا ہی تھا دور سے ایک لڑکی اور دو لڑکوں کو دیکھ کر چونکا غور کرنے پر اس نے دیکھا لڑکی تو حرم تھی وہ گاڑی اسی طرف موڑ لایا جب پاس آیا تو سارا ماجرا سمجھ آنے پر اسکا دماغ گھوم گیا 

گاڑی روک کر وہ گاڑی سے نکل کر حرم کے آگے اسکی ڈھال بن کر کھڑا ہوگیا 

حاشر کو دیکھ کر حرم کی جان میں جان آٸی 

” اوۓ ہیرو کیا تکلیف ہے چل نکل ہٹ یہاں سے “ حاشر سے ہو لڑکا کہتا اسے ہاتھ سے پیچھے کرنے لگا 

” آپ جا کر گاڑی میں بیٹھیں حرم “ حاشر نے حرم سے کہا تو حرم حیرانگی سے اسکی طرف دیکھنے لگی 

” اوۓ چل نکل یہاں سے اتنی آسانی سے یہ حسین مال ہم تو تجھے لے کر جانے نہیں دیں گے “ دوسرا لڑکا یہ خباثت سے بولا 

” میں نے کہا جاٸیں آپ گاڑی میں بیٹھیں “ حاشر کے غصے میں چیخ کے کہنے پر حرم کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور وہ بھاگ کر گاڑی میں بیٹھ گٸ 

” اب بول چل بول “ حاشر اس لڑکے کا جبڑا سختی سے پکڑتے ہوۓ بولا جب دوسرا لڑکے نے حاشر کا گریبان پکڑا 

حاشر نے پہلے اپنا گریبان پکڑا دیکھا پھر ایک زوردار تمانچہ اس لڑکے کے چہرہ پر مارا وہ جا کر زمین پر گڑا 

دوسرے کو حاشر نے لگاتار پانچ سے چھ مکے مارے اسکے منہ ناک سے خون بہنے لگا 

اچانک دوسرے لڑکے نے آکر حاشر کے کان کے پاس ایک لکڑی کا ڈنڈا سا مارا تو حاشر کے کان سے خون بہہ کر اس کی سفید شرٹ لال کر گیا 

حاشر نے لال ہوتی آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا تو وہ الٹے پاٶں بھاگ گیا جب کے زمین پر پڑا ہوا لڑکا مشکل سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگا تو حاشر نے اسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا 

” آج کے بعد کسی بھی لڑکی کی عزت پر آواز کسنے یا  ہاتھ بڑھانے سے پہلے یہ سبق یاد رکھنا کہ تم جیسوں کے لیے پولیس سے پہلے ہم جیسے عزت دار مرد موجود ہیں “ حاشر اس سے یہ کہتا ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ کر گاڑی کی طرف بڑھا جہاں حرم آنکھیں بند کیے دعائیں کررہی تھی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

فاٸقہ مسلسل تین گھنٹوں سے سحر کو کال کرنے لگی ہوٸی تھی اور وہ تھی کہ کال ریسیو ہی نہیں کر رہی تھی اب فاٸقہ فل تپ کے اسے کوٸی دو سو سے زاٸد میسجیز میں گالیوں کی بوچھاڑ کر چکی تھی 

” اللہ کرے تیرا بیڈ ٹوٹ جاۓ تو گٹر میں گر جاۓ تیرے سارے بیسکٹ چاۓ میں ڈوب کے خودکشی کر لے “ فاٸقہ اسکے کال کرتے ہی غصے سے بولنے لگی 

” ہاں ہاں بولو فاٸقہ کیا ہوا میں سو رہی تھی “ سحر نیند سے بھری آواز میں کال بیک کرتی بولی 

” ارے واہ میڈم سو رہی تھی مجھے تو لگا تھا میڈم اس جہان سے کوچ کر گٸ ہیں تھوڑی دیر میں آنٹی کال کر کے کہیں گی کہ سحر جہنم رسید ہوگٸ ہے “ فاٸقہ کا غصہ کسی طور پر کم نہیں ہو رہا تھا

” اچھا یار سوسوری بتا اب “ سحر ہنستے ہوۓ بولی 

” سحر دیکھ یہ اپنی بتیسی بند کر لے نہیں تو میں تیرے سارے دانت توڑ دوں گی “  فاٸقہ اسکے ہنسنے پر چیخ کے بولی 

” اچھا اچھا پکا سوری چل اب بتا بھی دے اب نہیں ہنستی “ سحر اٹھتی اپنا جوڑا بناتے بولی 

” ابھی بھی میں بتاٶ تجھے نہیں یاد “ فاٸقہ تیوری چڑھاتی پوچھنے لگی 

” اوو سوری سوری یار میں بھول گٸ تھی کہ کل کے لیے مارکیٹ جانا ہے بس آرہی ہو میں تو تیار رہی “ سحر جلدی سے بولی 

” میں تیار ہو تو اگر دس منٹ میں نہ پہنچی تو یقین کر پھر میں جو تیرے ساتھ کرو گی نہ تو گھڑی دیکھنا بھول جاۓ گی “ 

” یار آ رہی ہوں ماں میری “ سحر یہ کہتی کال کٹ کر گٸ

سحر واقعی دس منٹ میں پہنچ گٸ تھی 

” چلو چلو “ فاٸقہ فوراً گاڑی میں بیٹھتی سحر کے ساتھ قریبی مارکیٹ میں گٸ 

” یار فاٸقہ بس کرو تم نے بارات لے کر جانی ہے “ سحر حیرانگی سے فاٸقہ کی شاپنگ دیکھ رہی تھی 

فاٸقہ نے ہر ساٸز کے چھوٹے بڑے ہر قسم کے کوٸی 6 6 باجے لیے تھے اور جتنے غبارے لیے تھے اس سے زیادہ ہرے اور سفید رنگ لیے تھے 

عجیب عجیب ماسک لے کر وہ سب ماسک پہن کر چیک کر رہی تھی

اب فاٸقہ میڈم پٹاخوں کی دکان پر کھڑی ہر قسم کے پٹاخوں کے دو دو پیکٹ لے کر ایسے خوش ہورہی تھی جیسے پتا نہیں کون سا خزانہ مل گیا ہو 

” فاٸقہ یار تم یہ کیا کر رہی ہو“ سحر چڑ کر بولی 

” جشنِ آزادی کی تیاری “ فاٸقہ اس کو دانت دیکھا کر کہتی وہاں سے سیدھا ہری عینک لینے چلی گٸ اور سحر سر پیٹ کر رہ گٸ

❤❤❤❤❤❤❤❤

” شکریہ سر وہ لوگ اچانک آگۓ پتا نہیں کہاں سے میں بہت ڈر گٸ تھی “ حاشر کے آتے ہی حرم بولنا شروع

 ہوگٸ 

” دیکھئے مس آپکو یوں سناٹے میں کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی “ حاشر نے بولا تو حرم شرمندگی سے منہ نیچے کر گٸی 

حاشر کی نظر اسکے پاٶں پر پڑی تو وہ جی بھرکر شرمندہ ہوا اسکو یوں بولنے پر ہمشہ وہ ایسے ہی بول پڑتا تھا 

 حاشر نے گاڑی سٹارٹ کی اور سیدھا ایک نزدیک شاپ پر گیا اور وہاں سے فاٸقہ کے ساٸز کی ایک خوبصورت اور سادہ سی سینڈل لاکر حرم کو دی 

” تھینک یو سر لیکن مجھے نہیں چاہیئے “ حرم نے فوراً انکار کرتے اسے واپس کی 

” دیکھیں میں آپ پر کوٸی احسان نہیں کر رہا جب مجھے مدد کی ضرورت ہوگی تو آپ کر دیجیے گا “ حاشر رسان سے بولا 

” سر لیکن پلیز “ حرم نے انکار کرنا چاہا 

” مس پلیز یہ میرا آرڈر ہے آیز آ باس سمجھ کر رکھ لیں“ حاشر یہ کہتا ڈراٸیونگ کرنے لگا 

ناچاہتے ہوے بھی حرم نے رکھ لیے اچانک حرم کی نظر اسکی شرٹ پر پڑی تو وہ خون دیکھ کر گھبرا گٸ 

” سر سر آپ کو چوٹ لگی ہے پلیز ڈاکٹر پر چلیں ایم سوری میری وجہ سے آپکو چوٹ آٸی “ حرم اس سے بولی 

” نہیں میں ٹھیک ہو آپ اپنا ایڈریس بتاٸیں “ حاشر سنجیدگی سے بولا 

” نہیں سر بہت شکریہ لیکن آپ بس یہی اتار دیں مجھے سامنے ہی سٹاپ ہے “ حرم فوراً بول اٹھی 

” اوکے ٹھیک ہے “ حاشر کو بھی یہی مناسب لگا وہ اسے وہاں اتارتا آگے بڑھ گیا اور حرم بس میں سوار ہوگٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کالج میں جشنِ آزادی کی تیاری زور و شور سے جاری تھی ہر طرف خوبصورتی سے سجاوٹ کی گٸ تھی واٸٹ اور گرین کلر کے غباروں کو بڑی نفاست اور منفرد انداز میں سجایا گیا تھا

ہر طرف واٸٹ اور گرین کلر کے ڈریسس پہنے سب اپنی اپنی ایکٹیوٹیز میں مصروف تھے کچھ لڑکیوں نے خوبصورت سے ڈریس کے ساتھ ہاتھوں میں ہری چوڑیاں پہن رکھی تھیں تو کچھ نے اپنی بسند سے برسلیٹ اور بینڈز وغیرہ پہن رکھے تھے 

اگر کوٸی سب سے الگ ڈھنگ میں تیار ہوا تھا تو وہ تھی      

                           ” دی گڑیٹ فاٸقہ “ 

واٸٹ کلر کی فراک کے ساتھ گرین کلر کا کیپری پاجامہ پہنے گلے میں لڑکوں کی طرح گرین مفلر لپیٹے چہرہ 

میک اپ کی بجاۓ جھنڈوں سے بھرا ہوا تھا اور تو اور بالوں کی دو پونیاں بناٸے ایک پر واٸٹ اور دوسری پر گرین کلر کا غبارہ باندھے اپنے منہ سے بڑا باجا بجاتی سب کا جینا دوبھر کر رہی تھی اور کالج کے کچھ منچلے اور کچھ بےچارے ڈرپوک سٹوڈنٹس کو زبردستی اپنے گینگ میں شامل کرتی باجے بجوا رہی تھی 

” یار اگر آج قائداعظم  زندہ ہوتے نہ تو وہ فاٸقہ کو دیکھ کر یہ ضرور سوچتے یار کس قوم کو آزادی دلادی “ 

باسط اس باجے کی آواز سے شدید تپ کر بولا 

” ہاں اور قائد اعظم کبھی نہ کہتے

       ہم لاۓ ہیں طوفان سے کشتی نکال کر 

       اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر 

کیونکہ تو انھیں پتا ہوتا کہ بچے تو بس پاں پاں ہی کریں  گے “ فہد بھی اسکی بات سن کر بولا 

ان دونوں کی بات پاس کھڑی سحر ہنس پڑی 

” یار تم دونوں جانتے تو ہو اسے وہ فاٸقہ ہی کیا جو نارمل انسانوں والے کام کر لے “ سحر بولی 

فہد گرین اور باسط واٸٹ شرٹ پہنے ہوے تھے اور سحر گرین کلر کی فراک میں بال کھولے بہت پیاری لگ رہی تھی 

” اہم اہم سیم سیم “ باسط ان دونوں کو دیکھتا شرارت سے بولا 

” شٹ اپ باسط “ سحر اسے گھور کر بولی

” اچھا چلو تم دونوں ایک دوسری کی تعریف کرو میں فاٸقہ سے تنگ لوگوں کی دکھی داستان سن کے آیا “ باسط کہتا وہاں سے چلا گیا 

” آج کوٸی بہت حسین لگ رہا ہے  لگتا ہے آج آزادی کے دن میرا دل ہمیشہ کے لیے کسی کا غلام ہو جاۓ گا “ فہد محبت سے سحر کو دیکھتے ہوۓ بولا 

” رکو کھولے رہنے دو تم پر کھولے بال بہت سوٹ کر رہے ہیں “ سحر بال سمیٹ کے باندھنے لگی تو فہد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روک دیا 

سحر شرما کر ہاتھ پیچھے کیا فہد ابھی اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ 

” پاں پاں پاں پاں پاں “ کی آواز پر دونوں ڈر گۓ 

” فہد یار دل دل پاکستان ہوتا ہے 

دل دل سحر جان نہیں “ فاٸقہ انکے کان کے پاس باجا بجانے کے بعد بولی  

”اور یار رانجھے نے اگر بانسری کی جگہ یہ باجا بجایا ہوتا نہ تو ہیر کا ابا بھی کہہ دیتا 

                جا لے جا ہیر تے چھڈ ساڈی جان “ 

فاٸقہ یہ کہتی بھاگتے چلی گٸی 

فاٸقہ تیزی میں بھاگی اور سامنے سے آتے ریان سے ٹکرا گٸ ریان نے ہاتھ پکڑ کر گرنے سے بچایا اور اسے سیدھا کھڑا کیا لیکن اسکا حال دیکھ کر ریان چکرا گیا 

” فاٸقہ یہ آپ کیا بنی ہوٸی ہیں “ ریان حیرانگی سے بولا 

” سر بٸ کیا ہے آپ ہر بار ٹکر مار دیتے ہیں اور میرا باجا بھی گرا دیا “ فاٸقہ اپنا باجا اٹھاتی بولی 

” واٹ یار آپ آپ کیا بچی ہیں “ ریان حیران سا فاٸقہ کے ہاتھ میں باجا دیکھ کر بولا 

” سر آپ نے کہا تھا آپ میرے ساتھ آج پوری طرح پارٹیسپیٹ کریں گے “ فاٸقہ بولی 

” جی کہا تھا اور کروں گا بھی بتاٸیں کیا کرنا ہے “ ریان بولا تو فاٸقہ کی آنکھوں میں شرارت چمکی 

” یہ لیں یہ بجائیں “ فاٸقہ اسکے ہاتھ میں بڑا سا باجا تھماتی بولی تو سب انکی طرف دیکھنے لگے 

” نو نو نو یہ نہیں “ ریان کو باجوں سے سخت چڑ تھی 

” سر یہ پھر بہت غلط بات ہے وعدہ خلافی “ فاٸقہ ناراضگی سے بولی 

” اچھا لاٸیں “ ریان نے اسکا ناراض لہجہ محسوس کرتے کہا 

” پاں پاں پاں “ ریان نے باجا بجایا تو فاٸقہ خوشی سے اچھلتی تالیاں بجانے لگی

” شکریہ پاکستان ۔۔۔۔ پاکستان شکریہ “ فاٸقہ ریان سے شرارت سے کہنے لگی تو اسکی بات سب ہنسنے لگے

” چلو میرے ساتھیوں پاکستان زندہ آباد 

         پاں پاں پاں  پاں پاں پاں “

 فاٸقہ یہ کہتی اپنے گینگ کے ساتھ وہاں سے نکل گٸ

” اس سے تو شیطان بھی پناہ مانگے تو تو گیا ریان “ ریان خود سے کہتا ہنس دیا  

❤❤❤❤❤❤❤

حرم آفس سے سیدھا خالہ ثریا کی طرف آئی اس نے وہاں سے حمزہ کو لینا تھا حرم نے دروازہ کھٹکھٹایا 

” ارے کون آگیا اس وقت آ رہی ہو بیٹا روکو زرا “ خالہ بولی 

” السلام علیکم خالہ حمزہ نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا “ حرم گھر میں داخل ہوتے بولی 

” ارے نہیں بیٹا اس نے تو میرا دل لگاٸی رکھا بہت ہی اچھا بچہ ہے بلکل اپنی ماں جیسا “ خالہ حرم کے سر پر پیار دیتے بولی 

” بہت شکریہ خالہ آپ کا اگر آپ نہ ہوتے تو میں کیا کرتی میں ساری زندگی آپ کا احسان چکا نہیں سکو گی “ 

حرم تشکر بڑے لہجے میں کہنے لگی 

” یہ تو بہت غلط بات کی ہے تم نے اپنوں پر بھی کوئی احسان کرتا ہے بلکہ حمزہ تو میری تنہائی کا ساتھی بن گیا ہے آج دن کیسے گزرا مجھے تو پتہ بھی نہیں چلا “ 

خالہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولی 

” اچھا تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمہاری نوکری کا کیا بنا “ خالہ نے حرم سے پوچھا

” الحمدللہ خالہ اللہ نے اپنا فضل و کرم کیا ہے مجھے نوکری مل گئی ہے کل سے انشاءاللہ جوائننگ ہے “ حرم نے خالہ کو مسکراتے ہوئے بتایا 

” ماشاءاللہ ماشاءاللہ اللہ تمہارے لئے آسانیاں کرے بیٹی “ خالہ نے دعا دی 

” اچھا تم بیٹھو میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے دال چاول بنائے ہیں تمہاری پسند کے اور ساتھ ہری چٹنی بھی بنائی ہے تو رکو میں لے کر آتی ہوں “ خالہ حرم سے بولتی ہوئی اٹھی

” نہیں نہیں خالہ بہت شکریہ بس اب میں گھر چلو گی “ حرم نے انکا ہاتھ پکڑ کی واپس بیٹھانا چاہا 

” چپ کر کے بیٹھو کھانا کھائے بنا کہیں نہیں جاؤں گی “ خالہ اسے ڈپٹ کر بولی 

” خالہ پھر آپ بیٹھیں میں کھانا نکال کر لیتی ہوں “ حرم کہتی کیچن میں بڑھ گٸ اور کھانا ڈال لاٸی 

” خالہ اب میں چلتی ہوں بہت ٹائم ہوگیا ہے صبح آفس جانے کی بھی تیاری کرنی ہے اور آپ کے نواسے کو بھی چھوڑنے آنا ہے “ حرم کھانا کھانے کے بعد سارا کیچن  سمیٹ کر جانے کے لیے کھڑی ہو کر بولی 

” چلو ٹھیک ہے بیٹا خیر سے جاؤ اللہ زندگی میں ہمیشہ خوش رکھے جیتی رہو “ خالہ اس کے سر پر پیار دیتی ہوئی بولی

” خوشیاں تو جیسے روٹھ ہی گئی ہے مجھ سے خالہ اب تو بس سکون چاہیے وہ بھی میسر نہیں میرے نصیب میں تو خوشیاں اور سکون جیسے ختم ہو گیاہو “ حرم دکھی لہجے میں بولی 

” بری بات بیٹا اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے مایوسی کفر ہے “ خالہ نے سمجھایا تو وہ جی خالہ کہتی وہاں سے نکل پڑی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ریان گھر آیا تو سرمد صاحب مسسز سرمد پر کسی بات کو لے کر غصہ کر رہے تھے ریان کو شدید غصہ آیا 

” مما السلام علیکم پلیز ایک کپ چائے بنوا کر مجھے کمرے میں بھیجوا دیں “ ریان یہ کہتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا ہی تھا کہ پیچھے سے سرمد صاحب کی آواز پر اسے روکنا پڑا 

” جی سرمد صاحب بولیے “ ریان جواب میں بولا 

” یہ کیا طریقہ ہے باپ سے بات کرنے کا کوئی شرم لحاظ ہے باقی یا نہیں “ سرمد صاحب غصے سے کھڑے ہوۓ 

” میری ماں کی ہر وقت تزلیل کرتے ہوئے آپ کو یاد نہیں آتا کہ کوئی لحاظ رکھنا ہے تو پھر آپ مجھ سے کیوں امید رکھتے ہیں کہ میں کسی کا لحاظ رکھو گا ہوں تو آپ کا ہی خون نہ “ ریان غصے میں پھٹ پڑا 

” یہ تربیت کی ہے تم نے سلمیٰ انکی بیٹی ماں بن گٸ مگر اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ باپ کو بھی بتا دے فون کر کےاور بیٹا وہ تو باپ کو باپ ماننے سے ہی انکاری ہے یہ عزت ہے میری اس گھر میں “ سرمد صاحب غصے سے سلمیٰ بیگم کو بولے 

” ریان اپنے بابا سے معافی مانگو “ سلمیٰ بیگم سختی میں ریان کو بولی 

” ماما لیکن “ ریان آگے کچھ بولتا ہی کہ وہ سلمیٰ بیگم کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر چپ کر گیا

” مجھے معاف کردیں سوری “ ریان ضبط سے کہتا کمرے میں چلا گیا 

” یہی تمیز تم انہیں شروع سے سکھاتی نہ تو آج یہ نوبت نہ آتی بات کرتی ہو ہممم“ سرمد صاحب سلمیٰ بیگم کو سناتے ہوئے وہاں سے چلے گئ

پیچھے وہ ہمیشہ کی طرح باپ اور بیٹے کی لڑائی میں آنسوں بہاتی کیچن میں چلی گٸی 

❤❤❤❤❤❤❤❤

ریان کالج سے بہت خوش آیا تھا فائقہ کی شرارتیں دھیرے دھیرے اس کے دل میں گھر کرتی چلی گئی اور کب وہ اس کے پیار میں گرفتار ہو گیا یہ اسے پتہ ہی نہیں چلا 

آج فائقہ کی وجہ سے کالج کے جشن آزادی فنکشن میں جتنا اسکا موڈ اچھا ہوگیا تھا گھر آکر اسکو جو حالات دیکھنے کو ملے وہ اسکا موڈ شدید خراب کر گۓ 

غصے میں شاور کے نیچے کھڑا وہ ٹھنڈے پانی سے مسلسل خود کو بھیگا چکا تھا مگر اس کا غصہ کسی طور بھی کم نہیں ہو رہا تھا سلمیٰ بیگم چائے لے کر اس کے کمرے میں آئی اور وہی بیٹھ گٸ 

ریان کپڑے چینج کر باہر نکلا تو اس نے ماں کو بیٹھے دیکھا مگر غصے میں سلمیٰ بیگم کو اگنور کرتا ڈریسنگ  پر پڑا برش اٹھا کر بال برش کرنے لگا 

” بیٹا اپنی ماں کو معاف کر دو وہ مجبور ہے میں جانتی ہوں میں کبھی بھی تم لوگوں کے حق میں بات نہیں کر سکی ہمیشہ تم لوگوں سے ہی معافی منگواٸی ہے بنا کسی غلطی کے “ سلمیٰ بیگم اسکے آگے ہاتھ جوڑتی بولی  

ریان نے ان کے جڑے ہوئے ہاتھ دیکھے تو تڑپ کر ان ہاتھ کھولتا ان کے قدموں میں بیٹھ گیا 

” مما کیوں کر رہی ہیں مجھے کوٸی گلہ نہیں آپ سے “ ریان ان کے ہاتھ چومتے بولا 

سلمیٰ بیگم اسکا پیار دیکھتی نم آنکھوں سے مسکرا دی وہ ایسا ہی تھا اپنی ماں سے بےلوث محبت کرنے والا 

” اچھا تو ہر بات بعد میں اب مجھے یہ بتاؤ کہ میرا بیٹا کس بات پر ماشااللہ اتنا خوش تھا کہ خوشی کی چمک اس کی آنکھوں سے نظر آ رہی تھی “ سلمیٰ بیگم نے بڑے پیار سے ریان سے پوچھا 

ریان حیران پریشان ان کی شکل دیکھنے لگا کہ ان کو کیسے پتا چلا اور سلمیٰ بیگم اس کی آنکھوں میں سوال دیکھتی مسکرانے لگی

” بیٹا جی ماں ہو آپکی بچہ کب کیا چاہتا کیا کرتا سب پتا ہوتا ہے ماں کو “ سلمیٰ بیگم اسکو ہلکی سی چپت لگا کر بولیں

” اچھا تو بتاٶ اب “ سلمیٰ بیگم ریان سے بولی تو ریان نے آج کا سارا واقعہ انھیں بتایا فاٸقہ کے زکر پر ریان کی چمکتی آنکھیں سلمیٰ بیگم سے پوشیدہ نہ رہی 

”لگتا ہے میرے بیٹے کو اس گڑیا شرارتیں بہت پسند آگٸ ہیں “  سلمیٰ بیگم کی بات پر ریان خجل سا ہوکر مسکرانے لگا 

” نہیں مما بس میں تو ویسے ہی بتا رہا “ ریان نظریں چڑاتا بولا 

” اچھا واقعی چلو اچھی بات ہے میں نے سوچا ہے کہ وہ تمہاری خالہ کی بیٹی ہے نہ زینب اس سے تمہاری بات کرو اب تو تم کہہ بھی دیا ایسا کچھ نہیں تو کروں بات “ سلمیٰ بیگم نے جان پوچھ کر ریان سے کہا 

انکی بات پر ریان کا رنگ اُڑ گیا اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے اسنے خودی تو انکار کیا تھا 

” مما وہ۔۔۔ وہ میں “ ریان ہکلاتا ہوا بولا 

” ھاھاھا کیا بیٹا جی آپ تو کہہ رہے ایسی کوٸی بات نہیں اب کیا ہوا “ سلمیٰ بیگم ہنستے ہوئے سے بولیں 

” جی مما وہ پتا ہی نہیں چلا مگر اچھی بات تو یہ ہے آپ خودی سمجھ گٸ ہے “ ریان مسکراتا بولا 

” بیٹا جی آپکی ماں ہوں اور اگر کوٸی لڑکی میرے موڈی بچے کو ہنسا سکتی وہ کچھ بھی کر سکتی اب تو میرا بھی دل کر رہا ملنے کا فاٸقہ سے “ سلمیٰ بیگم ریان سے بولیں 

” جی مما انشاءاللہ ضرور تھینک یو سو مچ آپ دنیا کی سب سے اچھی مما ہیں بس یہ خالہ والا نہیں کرنا کچھ “ ریان سلمیٰ بیگم سے کہتا ہوا ہنس پڑا تو سلمیٰ بیگم بھی اسکے بال خراب کرتی مسکرا دیں 

❤❤❤❤❤❤❤

” میں طوطا میں طوطا ہرے رنگ کا ہوں اوو نہیں فاٸقہ پاگل یہ کیا گا رہی ہے تو طوطا تھوڑی ہے “ فاٸقہ بولتے ہوۓ کلاس میں جا رہی تھی جب رک کے اپنے سر پر چپت لگاتی بولی 

” تتلی اڑی اڑ نہ سکی بس میں چڑھی ۔۔۔۔ جا فاٸقہ تیرا دماغ گھوم گیا ہے ۔ ہٹلر کی کلاس میں جارہی اللہ کا نام لے کر جا کہیں آج پھر بولتی نہ بند کروا دے “ فاٸقہ خود سے کہتی کلاس میں چلی گٸ 

” سحر یہ کلر بہت اچھا لگ رہا ہے تم پر “ فہد سحر کو محبت سے تکتا بولا 

” فہد پلیز چپ کر جاؤ فائقہ آ رہی ہے اگر تم نے اس کے سامنے کچھ بول دیا پھر تمہیں اس کا پتہ ہی ہے “ سحر فہد کو آنکھیں دکھا کر بولی

” صحیح بات ہے یار اس کا تو وہ پاں پاں نہیں بھولتا مجھے توبہ سارے رومینس کا بیڑا غرق کیا تھا اسے نے “ فہد شدید بد مزہ ہوتے بولا تو سحر ہنسنے لگی 

” ہیلو دوستو کیا باتیں ہو رہی ہیں اور سحر کی بچی تو فاٸقہ کی بجائے فہد کے ساتھ نظر آنے لگی ہے “  فائقہ آتے ہی بولی 

” فائقہ کچھ آداب ہوتے ہیں تمیز ہوتی ہے “ ابھی فہد ہی بول ہی رہا تھا کہ

” فاٸقہ کو کیا پتا وہ کیا ہوتے ہیں “ فاٸقہ آگے سے بول پڑی 

” اچھا چلو مجھے ایک بات بتاؤ تم تمہیں کبھی کسی سے محبت ہوئی ہے “ سحر کے لاکھ آنکھیں دکھانے کے باوجود بھی فہد فاٸقہ سے پوچھنے لگا

اس کے بعد پر فائقہ کا سوچ میں پڑ گئی اور اس کی آنکھوں کے سامنے بارش والا منظر آیا کہ کس طرح ریان اسکو پروٹیکٹ کرتا گھر چھوڑ کر آیا تھا لیکن ساتھ ہی اس نے توبہ توبہ کی کیونکہ ریان تو انتہائی سنجیدہ انسان ہے وہ اور محبت نہ نہ وہ تو فاٸقہ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک آئے یہ خیال آتے ہی اس نے جھرجھری لی

” نو نو کڑوا کریلا “ فائقہ میں منہ میں بربڑاتے بولی 

” کیا کہہ رہی ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی “ فہد بولا 

” فہد پہلی بات کے مجھے محبت نہیں ہوتی نہ اوہ بھائی میرے بس کی بات نہیں ہے یہ اور دوسری بات مجھے یہ بتاؤ تمہارے دماغ میں یہ بات کہاں سے آئی “ فائقہ مشکوک نظروں سے فہد کو دیکھتے ہوئے بولی 

” نہیں میں نے تو بس ویسے ہی بات کی ہے نارمل “ فہد یہ بولتا ہوا باسط کی طرف متوجہ ہو گیا

” السلام علیکم کلاس جی تو سب تیار ہیں ٹیسٹ کے لیے“ ریان نے آکر کہا فاٸقہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی 

” سر سر یہ تو چیٹنگ ہے “ فائقہ چونک کے بولی

” مس فاٸقہ یہ آپ کی ہی شرط تھی کہ میں اگر آپ لوگوں کے ساتھ پارٹیسپیٹ کرتا ہوں تو آپ ٹیسٹ بھی دیں گے لیکن اگر اب آپ ٹیسٹ نہیں دیتے تو چیٹنگ میری طرف سے نہیں آپ کی طرف سے ہے “ ریان فائقہ کو دیکھتے ہوئے بولا 

ریڈ کلر کی لانگ شرٹ کے ساتھ وائٹ کیپری پہنے گلے میں ریڈ کلر کا ڈوپٹہ اور بالوں میں رنگ برنگی اونچی سی پونی باندھے سرخ ناراض چہرہ لیے کھڑی بالکل لال رنگ میں لال ٹماٹر لگ رہی تھی

” لیکن سر ایک دل تو دے دیں “ فاٸقہ بے دھیانی میں بول گٸ اسکی بات ریان کے ساتھ ساتھ پوری کلاس نے مڑ کر حیرانگی سے اس کی شکل دیکھی 

” ہو سوری سوری مجھے پتا نہیں چلا میں کیا بول گئی “ فاٸقہ اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتی بولی 

” کلاس چلیں سب ٹیسٹ دیں “ ریان اپنی ہنسی دباتا کلاس کی طرف متوجہ ہو گیا اور فائقہ شرمندہ ہو کر بیٹھ گئی

❤❤❤❤❤❤❤❤

” یار میں تو سمجھ رہی تھی یہ سڑو کڑوا کریلا کدو کھڑوس سر صحیح ہو گئے ہیں لیکن انھوں نے تو میری امیدوں پر پانی پھیر دیا بلکہ بالٹی پھینک دی “ فاٸقہ ٹیسٹ دے کر کلاس سے باہر نکلتے ہوئے سحر سے بولی

” یار سر اتنا اچھا تو سمجھاتے ہیں اگر تم عام روٹین میں لیکچر پر توجہ دیتی تو تمہیں اتنی ٹینشن نہیں لینی پڑتی “ سحر اس سے بولی 

” سحر تمہیں پسند ہیں نہ بہت جاٶ انکے پاس بیٹھ جاٶ“ فاٸقہ چڑ کر بولی 

” فائقہ تم سحر کو غلط مشورے نہ دیا کرو اور سحر تم کم تعریفیں کیا کرو کسی کی “ فہد ناراضگی سے سحر کو دیکھ کے بولا 

” چپ کر جاٶ جو فہد مجھے آج بہت شدید دکھ لگا ہوا ہے اتنا گندا ٹیسٹ تو میں کبھی بھی نہیں دیا آ جائیں گے کلاس میں اور بولنے لگ جائیں گے چلو بچو ٹیسٹ بندہ پوچھے ان کو کوئی کہے سر کدو کریلا رحم کھاؤ ہم پر 

ایک پاں پاں کیا کر لیا سمجھ رہے ہیں فاٸقہ دی گڑیٹ کچھ نہیں بولے گی “ فاٸقہ اپنا دکھ سنانے لگی 

” اللہ کرے سر ریان  کی جوتی ٹوٹ جائے یہ منہ پر صابن لگائیں اور پانی چلا جائے انکی امی ان کی پھینٹی لگائی ان کے کمرے میں چوہا آ جائے آج ان کو کھانے میں ٹینڈے ملیں یہ کسی شادی میں جائیں اور کھانا ختم ہو جائے

کیا ہے سحر کیوں مجھے فضول اشارے کر رہی ہو کون سا پیچھے طوفان ن ن ۔۔۔۔۔۔ “ فاٸقہ اپنی دھن میں بولی جا رہی تھی سحر کے اشارے پر جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو ریان ہاتھ باندھ کے کھڑا تھا 

” جی جی مس فاٸقہ بولیں “ اسکی بات پر جب فاٸقہ نے سحر کی طرف دیکھنا چاہا دیکھتی تو تب جب وہ وہاں ہوتی وہ دونوں تو ریان کو دیکھ کر ہی بھاگ گۓ تھے 

 ” سر وہ میں تو کہہ رہی تھی کہ آپ کتنا اچھا پڑھاتے ہے نا اور آپ کتنے سویٹ ہیں نا “ فاٸقہ نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا

” نہیں تو میں تو سڑو ہوں کڑوا کریلا ہوں میں تو اور کیا بولا تھا ہاں ہاں میری جوتی ٹوٹ جائے میری امی میری پھینٹی لگائیں “ ریان نے مسکراہٹ دباتے خجل ہوتی فاٸقہ سے کہا

” ویسے فاٸقہ آپ تو کلاس میں میرا دل مانگ رہی تھی پھر بھی اتنی تعریفیں “ ریان نے شرارت سے مسکراتے ہوئے شرمندہ کھڑی فاٸقہ کو کہا 

اسکی بات پر فاٸقہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی 

” منہ بند کرلیں مکھی چلی جائے گی “ ریان نے اسکا منہ بند کرتے کہا 

” میں سڑو ہوں کڑوا کریلا ہوں لیکن اتنا بھی برا نہیں ہوں“ ریان کہتا ہوا مسکرا کے جانے لگا 

” اور ہاں جو دل مانگ رہی وہ تو کب کا دے دیا ہے “ 

ریان جاتے جاتے مڑ کر فاٸقہ سے بولا

فاٸقہ حیران پریشان اسکی بات پر کھڑی سوچتی رہ گٸ ایک دم خیال آنے پر شرارتی مسکراہٹ اسکے خوبصورت چہرے پر بکھر گٸ 

” اچھا تو سر بھی کسی کی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوبے ہیں چل فاٸقہ نیو مشن پر لگ جا “ فاٸقہ خودی سے اندازہ لگاتی اپنی دھن میں بولتی کینٹین کی طرف چل دی جہاں اس کے دغا باز دوست فاٸقہ بہادر لڑکی بقول فاٸقہ کے چھپ کر بیٹھے تھے 

حمزہ ساری رات سے بخار میں تپ رہا تھا آج حرم کا آفس میں پہلا دن تھا لیکن حمزہ کی حالت دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئی تھی اور اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ حمزہ کو اس حالت میں چھوڑ کر کیسے جاۓ اس نے حمزہ کو تیار کیا اور دودھ پلا کر خالہ کی طرف چلی گٸ

” السلام علیکم خالہ خالہ دیکھیں حمزہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو رہی روزانہ اسے بخار ہو جاتا ہے اب آپ ہی بتائیں آج آفس میں میرا فرسٹ ڈے ہے اور یہ رات سے بخار میں تپ رہا ہے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی آپ بتائیں میں کیا کروں “ حرم نے پریشانی سے خالہ ثریا سے کہا

” بیٹا تم پریشان نہ ہو چادر لو اور میرے ساتھ چلو پہلے ہم حمزہ کو ڈاکٹر کے پاس دیکھا آتے ہیں پھر تم دفتر چلی جانا میں دیکھ لوں گی حمزہ کو “ خالہ نے حرم کو کہا اس نے گھڑی میں ٹاٸم دیکھا دس بج رہے تھے اور آفس اسے گیارہ بجے تک جانا تھا 

” جی خالہ چلیں “  حرم اور خالہ حمزہ کو لے کر ڈاکٹر پر گئے کلینک پر بہت رش تھا ڈاکٹر نے اس کو چیک کرکے کچھ تو ادوایات دی گھر پہنچتے تک گیارہ بج گۓ 

حرم پریشانی اور جلدی میں حمزہ اور خالہ کو گھر تک چھوژتی بس سٹاپ تک گٸ لیکن بس نکل چکی تھی اور اگلی بس آدھے گھنٹے تک آنی تھی حرم پہلے دن ہی لیٹ ہونے پر سخت پریشان تھی 

اتنی دیر میں رکشہ سے دو عورتیں نکلی اور اسکی طرف بڑھی وہ کوٸی اور نہیں اسکی ساس اور نند تھی 

” دیکھو زرا ہمارا بیٹا کھا گٸ اور سیر سپاٹے نہیں ختم ہو رہے اسکے منحوس کرم جلی کہیں کی “ اسکی ساس اسکے سر پر کھڑی ہو کر بولی 

” ہاں امی دیکھا میں کہتی تھی نہ اسکو کوٸ دکھ نہیں بھاٸی کا اب اپنے حسن کے جال کسی اور کو پھنسا رہی ہوگی دفع کریں اسکو چلے “ وہ دونوں ماں بیٹی اسکو جلی کٹی سنانے لگی 

” جس طرح تو نے میرا بیٹا چھینا اللہ تجھ سے تیرا بیٹا بھی چھین لے پھر پتا لگے گا تجھے “ اپنی ساس کی بات پر حرم نے دہل کر انکی طرف دیکھا کوٸی کیسے اپنی اولاد کی اولاد کو کہہ سکتا ہے یہاں حرم کی بس ہوٸ 

” بس آنٹی ایک لفظ اور نہیں آپ جب تک میرے بارے میں بول رہی تھی میں چپ کر کے سن رہی تھی مگر میرے بیٹے کے بارے میں ایک لفظ بھی مت بولیے گا کیسی دادی ہیں آپ اپنے مرحوم بیٹے کی آخری نشانی کے لیے کیسے بول سکتی ہیں آپ “ حرم غصے اور غم کے ملے جلے تاثرات لے کر بولی 

” چلیں امی کیوں اس بدتمیز کے منہ لگتی ہیں “ یہ کہتی دونوں ماں بیٹی وہاں سے چلی گٸ اور حرم میں تو کھڑے ہونے کی سکت باقی نہ رہی وہ وہی بیٹھتی چلی گٸ اور آنسو تواتر اسکا چہرہ بھگونے لگے 

❤❤❤❤❤❤❤❤

حاشر صبح ناشتے کی ٹیبل پر آیا تو سب پہلے سے موجود تھے اور وقار صاحب تو اپنی لاڈلی ہیں باتوں سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے 

” السلام علیکم وا جی وا آج تو بڑے لوگ سب سے پہلے موجود ہیں کیا کہنے “ سب کو سلام کہتا فاٸقہ کو دیکھ کر بولتا وہ جوس پینے لگا تو فاٸقہ کھلکھلا کر ہنس دی 

” کیونکہ آج مجھے اپنے بھائی کے ساتھ کالج جانا ہے “ فائقہ کی بات پر وہ مسکرانے لگا 

” جی جی ضرور جو میری گڑیا کا حکم اور کچھ “ حاشر فاٸقہ سے کہنے لگا تو فاٸقہ مسکرا کر نفی میں سر ہلاگٸ

” حاشر بیٹا آپ کی پی اے فاٸنل ہو گئی ہے “ وقار صاحب نے ناشتہ کرتے ہوئے حاشر سے پوچھا 

” جی بابا کل ہی فائنل کیا ہے “ وقار صاحب کے پوچھنے پر حاشر کی نظروں کے سامنے حرم کا چہرہ آیا تو وہ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا 

” او اچھا چلو گڈ اور بیٹا وہ آپ نے ابھی تک اپنی پھوپھو کے سوال کا جواب نہیں دیا رمشا کے لیے “ وقار صاحب نے اس سے پوچھا

رمشا کے ذکر پر حاشر اور فاٸقہ دونوں شدید بدمزا ہوئے حاشر کو سخت کوفت ہوتی تھی اس بےباک لڑکی سے 

” بابا حاشر بھائی کے لئے رمشا آپا نہیں اچھی بھائی اتنے اچھے ہیں اور آپا وہ ہر کسی کے ساتھ عجیب ہیں

 آئی ڈونٹ لائک ہر “ فاٸقہ حاشر سے بولی 

” فاٸقہ یہ کیا بدتمیزی ہے بڑوں کے بیچ میں بولنے کا حق آپ کو کس نے دیا خاموشی سے ناشتہ کریں اور اپنے کالج جائیں یہ بڑوں کی بات ہے ہم سب خود کر لیں گے آپ ان معاملات سے دور رہا کریں “ صوفیہ بیگم نے فائقہ کو شدید ڈانٹ دیا 

” مما پلیز ‏آپ فاٸقہ کو مت ڈانٹیں بابا میں معذرت چاہتا ہوں میں نے بہت سوچا لیکن رمشا ایز لائف پارٹنر میرے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکتی اس کا لائف سٹائل مجھ سے بالکل چینج ہے اور فاٸقہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے میں نے بھی کبھی ایسی لڑکی اپنی واٸف کے لحاظ سے نہیں سوچی “ حاشر رسان سے بولا 

” میں بہت شرمندہ ہوں کے میں نے آپ کی بات سے انکار کیا مگر بابا میں نہیں کر سکتا امید کرتا ہوں آپ پھوپھو کو سمجھا دیں گے “ حاشر سنجیدگی سے بولا 

” ٹھیک ہے بیٹا جیسے آپ کی مرضی “ وقار صاحب سوچتے ہوۓ بولے 

” بابا کیا آپ پلیز خان انڈسٹریز کے ساتھ میٹنگ کرلیں گے مجھے آفس میں کچھ بہت ضروری کام ہیں “ حاشر ان سے پوچھنے لگا 

” اوکے بیٹا میں دیکھ لو گا “ وقار صاحب بولے 

” چلو گڑیا آپ کو کالج ڈراپ کرکے مجھے آفس جانا ہے اوکے مما بابا اللہ حافظ “ حاشر کہتا باہر چلا گیا 

❤❤❤❤❤❤❤

” میرے سب سے پیارے اور اچھے بھیا کا موڈ خراب ہے “ فائقہ نے سنجیدگی سے ڈرائیو کرتے حاشر کو دیکھ کر کہا

” نہیں میری پیاری گڑیا میرا موڈ خراب نہیں بس تھوڑا برا لگ رہا ہے بابا کو منع کرنے پر “ حاشر نے فائقہ کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا

” بھائی آپ نے کچھ غلط نہیں کہا شادی ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اور آپ نے بالکل اچھا فیصلہ لیا ہےیہ فیصلہ لینا آپ کا ہی حق ہے “ فاٸقہ اس سے بولی

” ارے ارے ہماری گڑیا اتنی سمجھداری والی باتیں بھی کرتی ہے مجھے تو آج پتہ چلا “ حاشر نے فاٸقہ کو چھیڑتے کہا  

” لو بھائی اب اتنی بھی بات نہیں ہے ہاں میں شرارت ضرور کرتی ہو مگر مجھے پتا ہوتا ہے کہاں پر سنجیدہ رہنا ہے اور اپنے بھائی کے لئے تو میری جان بھی حاضر ہے تو پھر یہ تو ماما کی چھوٹی سی ڈانٹ تھی “ فائقہ محبت بھرے لہجے میں حاشر سے کہنے لگی

” مجھے پتا ہے میری گڑیا مجھ سے بہت پیار کرتی ہے اور میرے لئے سب سے فائٹ بھی کر سکتی ہے تو پھر رمشا چڑیل کس کھیت کی مولی ہے “ حاشر نے بولا 

حاشر کی بات پر دونوں بہن بھائی ہاتھ پہ ہاتھ مار کے ہسنے لگے یہ نہیں تھا کہ وہ دونوں کسی کا مذاق بناتے تھے بس وہ اپنی پھوپھو بچوں کو جانتے تھے جن کی عادت تھی رنگ میں بھنگ ڈالنے کی 

” بھائی ویسے آپ ہمارے لئے کوئی بھابھی ڈھونڈے نہ وہ اس دن والی لڑکی جیسی معصوم سی پیاری سی چھوٹی سی “ فائقہ حرم کو یاد کرتے ہوئے بولی 

فائقہ کی بات پر حاشر کو یاد آیا آج حرم کا آفس میں فرسٹ ڈے تھا اور اگر وہ فائقہ کو یہ بات بتاتا تو یقینا فائقہ نے گاڑی میں ہی ناچنا شروع کر دینا تھا اپنی سوچ پر خود ہی مسکراتا گیا 

” بھائی ویسے ایک بات تو بتائیں وہ جو آپ کے دوست اور میرے کھڑوس کدو کریلا ٹیچر ہیں ان کا کوئی افیٸر ہے کیا “ فائقہ نے حاشر رازدانہ انداز میں پوچھا 

” گڑیا یہ آپ کس قسم کی بات کر رہی ہیں ماما نے سن لیا نا تو پھر آپ کو پتا ہے کیا ہوگا اور ویسے بھی جس ٹیچر کی آپ بات کر رہی ہیں نہ یونیورسٹی میں لڑکیاں اس کے پیچھے پیچھے ہوتی تھی اور وہ کسی کو لفٹ ہی نہیں کراتا تھا وہ ایسا نہیں ہے اور آپ کیوں پوچھ رہی ہے پھر سے کوئی نئی شرارت کرنی ہے کیا؟ “ حاشر مشکوک نظروں سے اسے دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا

” نہیں نہیں بھائی میں نے کیوں کوئی شرارت کرنی ہے“ یہ کہتی ہیں کہ چپ کر کے بیٹھ گئی اور حاشر ڈرائیونگ پر دھیان دینے لگا

❤❤❤❤❤❤❤

حاشر آفس پہنچا تو اسے کہیں بھی حرم نظر نہیں آٸی وہ اندر اپنے آفس میں جاکر بیٹھ گیا 

وہ کشمکش کا شکار تھا کہ کہیں پرانی اتفاقیہ ملاقاتوں کی وجہ سے وہ اس جاب سے انکار ہی نہ کردے کیونکہ انکی کبھی اچھے حالات میں ملاقات نہیں ہوٸی تھی اس نے اکرم صاحب کو بلایا 

” اسلام علیکم سر آپ نے مجھے بلایا “ اکرم صاحب اندر آتے بولے 

” جی وعلیکم السلام اکرم صاحب وہ لڑکی نہیں آئی جس کو میں نے فائنل کیا تھا کل پی اے کے لیے “ حاشر نے ان سے پوچھا 

” نہیں سر پتا نہیں کیوں مگر ابھی تک تو وہ نہیں آئی میں بھی حیران ہوں کہ کیوں نہیں آٸی اسکو تو جاب کی کافی ضرورت بھی تھی “ اکرم صاحب اس سے بولے 

” اچھا چلیں ٹھیک ہے آپ جائیں اپنا کام کریں “ حاشر ان سے کہتا کام کی طرف متوجہ ہوگیا 

حرم جب آفس پہنچی تو اس کو آتے آتے ساڑھے بارہ کے قریب وقت ہو چکا تھا وہ بہت پریشان تھی پہلے دن ہی لیٹ ہونے پر ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوٸی 

اکرم صاحب وہاں سے گزر رہے تھے ان کی نظر حرم پر پڑی تو وہ اسکی طرف آگۓ

” بیٹا آپ تو مجھے خاصی سمجھدار لگی تھیں مگر آپ نے پہلے ہی دن بہت غیر زمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے “ اکرم صاحب اس سے بولے 

” مجھے بہت شرمندگی ہے اور میں بہت معذرت خواہ ہوں مگر میرے بیٹے کی طبیعت بہت خراب تھی “ 

حرم نے ان سے بولا 

” اچھا بیٹا جاٶ سر تمہارا پوچھ رہے تھے ان سے معذرت کر لینا جاٶ “ اکرم صاحب کہتے چلے گۓ 

” سر کیا میں اندر آسکتی ہوں “ حرم نے دروازہ کے پاس  آتے ڈرتے ڈرتے اجازت مانگی

” مس آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے آپ اندر آچکی ہیں“ 

حاشر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

” سس۔سوری سر ریلی سوری “ حرم جی بھر کے شرمندہ ہوتی نم لہجے میں بولی

بس سٹاپ پر جو ہوا اس کے بعد باربار حرم کا دل بھر رہا تھا زندگی کس دوراہے پر آگٸ تھی 

” کس لیے “ حاشر نے اسکا نم لہجہ محسوس کرتے نرمی سے کہا 

” میں پہلے ہی دن بہت لیٹ آئی ہو اور بنا اجازت اندر آگٸ سوری سر لیکن میرے بیٹے کو بہت بخار تھا “ حرم نے نظریں جھکاۓ کہا 

” کوٸی بات نہیں بس نیکسٹ ٹاٸم تھوڑا دھیان کیجیے گا اب کیسی طبیعت ہے آپکے بیٹے کی “ حاشر لہجے میں نرمی سموۓ اس سے بولا 

حاشر کے اس طرح احساس کرنے اور حمزہ کی طبیعت  پوچھنے پر حرم نے حیرانگی سے آنکھیں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا اسی وقت حاشر نے بھی اسکو دیکھا اور اسکے کیے نظریں چڑانا مشکل ہوگٸ

حرم کی آنسوں سے تر لال انگارہ سوجھی آنکھیں اور سرخ ناک اسکی معصومیت اور خوبصورتی کو چار چاند لگا گٸ تھی کوٸی روتے میں بھی اتنا حسین لگ سکتا ہے 

حاشر بنا پلکیں جھپکاۓ اسکی طرف دیکھا گیا 

حرم تو ویسے ہی احساس اور نرمی کو ترسی ہوٸی تھی اسکے نرمی سے کہنے پر اسکی آنکھوں میں روکے آنسوں تواتر بہنے لگے یہاں تک کے وہ ہچکیوں سے رو دی

حاشر جو اسکو دیکھنے میں محو تھا اسکے یوں پھوٹ پھوٹ کر ہچکیوں سے رونے پر گھبرا کر کھڑا ہوگیا 

” دیکھیں پلیز روۓ نہیں میں تو کچھ کہا بھی نہیں “ حاشر اسکے رونے پر پریشان ہوتے بولا 

” اچھا آپ آپ پلیز چپ کریں آپ ادھر بیٹھیں “ 

حاشر نے اسکو کرسی پر بیٹھاتے ہوۓ کہا 

” آپ یہ پکڑیں اپنا فیس صاف کریں اور پانی پیٸں “

 اس نے زبردستی اسے پانی پلایا تو وہ تھوڑا ریلکس ہوتی چپ ہوٸی 

” اچھا مجھے بتاٸیں کیا پریشانی ہے آپ اب یہاں ہمارے سٹاف کا حصہ ہے آپ بتا سکتی ہیں “ حاشر نرمی سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوا بولا

” سر مجھے لگا آپ ڈانٹیں گے مجھے یا یا کہیں مجھے فاٸر ہی نہ کر دیں جاب سے “ حرم معصومیت سے بولی 

حاشر تو اس کے معصوم انداز پر فدا ہی ہو گیا کیا واقعی وہ ایسی تھی اگر وہ ایسی معصوم ہی رہی تو یہ دنیا تو اسے نوچ کھاۓ گی 

” دیکھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں مجبوری ہر کسی کو آسکتی ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اب آپ جائیں اور اکرم صاحب سے کہیں وہ آپ کو آپ کا کام سمجھا دیں گے “ حاشر نرمی سے اسے کہنے لگا تو وہ جی کہتی وہاں سے جانے لگی

” تیھنک یو سر “ جاتے جاتے وہ مڑ کر بولی تو حاشر نرمی سے سرہلا گیا 

ہاں ہنسی بن گۓ 

ہاں نمی بن گۓ 😢

تم میرے آسماں 💗

میری زمیں بن گۓ ❤

❤❤❤❤❤❤❤

” نہیں فاٸقہ نو نو ہم تمہاری کسی شرارت کا حصہ نہیں بنے گے لاسٹ ٹاٸم بھی بہت ڈانٹ پڑی تھی “ فہد کانوں کو ہاتھ لگاتا بولا

“ God blast you Fahad  ”

 فاٸقہ نے دانت پیس کر کہا اسکی بات پر سحر فہد باسط منہ کھولے اسے دیکھنے لگے 

” کیا کیوں دیکھ رہے ہو ایک تو آویں اس ڈرپوک کو کہہ دیا میں میرا ساتھ تو میرا پیارا دوست باسط دے گا کیوں باسط “ فاٸقہ فہد کو منہ چڑھاتے ہوۓ بولی 

” نہ نہ مجھے معاف کرو تمہارا پلان فیل ہوگیا نہ تو تم نے فہد کو تو بس کہا ہے نہ مجھے تو سچ میں بمب لگا کر بلاسٹ کر دو گی پتا ہے مجھے تمہارا “ باسط کانوں کو ہاتھ لگاتا بولا 

” توبہ توبہ اتنے بزدل دوست توبہ کبھی سوچا نہیں تھا کہ یہ نوبت آۓ گی“  فاٸقہ نارض ہوکر اٹھ کر چلی گٸ 

” یار حد ہے تم دونوں سے انتہائی بزدل ہو دونوں میری دوست کو ناراض کر دیا نہ نہ آٶ ساتھ ہم خودی کر لیں گے جو کرنا ہوا “ سحر ان دونوں پر ناراض ہوتے بولی 

” اوو بہن معاف کر دو اسکے خطرناک پلان کا حصہ بنے سے اچھا ہے میں چھت سے چھلانگ لگا لو مگر نہ باجی اوو سوری بھابھی مجھے کنوارہ نہیں مرنا “ 

باسط ہاتھ جوڑتا بولا 

”سحر میں تو کہتا ہوں تم بھی اس معاملے سے دور رہو یہ فائقہ تو خود مرے گی تمہیں بھی مروائے گی “ 

فہد سحر سے بولا

” فہد باسط تم دونوں نہ داٸیں جاٶ نہ باٸیں جاٶ سیدھا بھاڑ میں جاٶ چل سحر “  فاٸقہ ان دونوں کو چیخ کر بولتی سحر کو لے کر وہاں سے چلی گٸ 

” بھاٸی یہ نہیں سدھرے گی “ باسط فہد کو دیکھتا بولا تو فہد بھی اسکی بات پر اثبات میں سر ہلا گیا 

ریان اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا مسلسل فائقہ کے خیالوں میں گم تھا اس کی شرارتیں اس کی چہچہانا اس کا مسکرانا سب ہی تو ریان کو اپنا اسیر کر گیا تھا

ریان جو کہ کبھی لڑکیوں کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا تھا ایک شوخ سی معصوم لڑکی کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو گیا تھا

 ہاں فائقہ ہی تھی جو اس کی زندگی میں رنگوں کو بھرنے والی لڑکی تھی نہیں تو زندگی میں تلخ مزاجی اسکی شخصیت کا حصہ بن چکی تھی 

ریان فاٸقہ کے خیالات میں اتنا گم تھا کہ اسے اپنے پیچھے کھڑی سارہ کا علم نہیں ہوا

” میرے پیارے بھیا کن خیالات میں گم ہیں آپ کہیں کوئی بھابھی تو نہیں مل گی آپ کو “ سارہ ریان کے پاس آتے ہوئے بولی

” کیوں میڈم کیا آپ کو اپنا بھائی آزاد اچھا نہیں لگ رہا“ ریان مسکراتے ہوئے سارہ سے پوچھنے لگا

” سچ بتاؤ تو آپ مجھے ایسے بالکل اچھے نہیں لگ رہے اب میں چاہتی ہوں کہ میری پیاری سی بھابھی گھر آجائے اور آرش کے لئے پیاری سی ممانی کیوں بے بی مما صحیح کہہ رہی ہیں نہ “ سارہ ریان سے بات کرتی ہوئی گود میں لیے آرش کی طرف متوجہ ہوئی

سارہ کی بات پر آرش مسکرانے لگا اور خوشی سے ہاتھ پاؤں مارنے لگا اس کو دیکھ کے ریان اور سارہ مسکرا دیئے

” دیکھ لے بھائی اب تو آرش نے بھی اپنی خواہش بتا دی اب آپ تھوڑا جلدی کریں “ سارہ ریان سے بولی 

” اب تو ہمارے لٹل چیمپیئن نے کہہ دیا ہے اب تو ماموں کو گھوڑی چڑھنا ہی پڑے گا “ ریان مسکرا کر کہتا آرش کو پیار کرنے لگا 

” او بھائی اپنے لٹل چیمپئن سے پہلے اپنی چھوٹی بہن کو اور اسکی ماں کو بھابھی تو دیکھا دیں “ سارہ نے ریان سے کہا

” یقینا مما نے تمہیں بتا دیا ہے ایسے ہی نہیں تم بھاگی   چلی آئی نہیں تو اپنے شوہر کے بغیر تمہارا دل کہاں لگتا ہے “ ریان نے آنکھیں دکھاتے کہا تو سارہ جھینپتے ہوئے مسکرانے لگی 

” بھائی جو بھی ہے میں اور مما آپ کے لیے بہت خوش ہیں ہماری دل سے دعا ہے کہ جو لڑکی آپ کی زندگی میں آئے وہ آپ کی زندگی کو جنت بنا دے “ سارہ محبت سے بولی تو ریان اسکے سر پر پیار دیا 

” چلیں چلیں اب بہانے نہیں ماریں بھابھی دکھائے مجھے“ سارہ جلدی سے بولی

” او میری پیاری بہن کہاں سے دکھاؤ میرے پاس آپ کی کوئی پکچر نہیں میں آپ کا ٹیچر ہوں اور اپنی سٹوڈنٹ سے پیکچر مانگتا اچھا لگوں گا “ ریان بولا

” واٹ ریلی بھائی آپ کی سٹوڈنٹ مطلب لڑکی چھوٹی سی ہے ھاھاھا میرے بھائی کو ایک چھوٹی سی لڑکی نے قابو کر لیا واہ اچھا ذرا بتائیں تو کیسے ہواسب “ سارہ ایکسائٹڈ ہوکر ریان سے پوچھنے لگی 

ریان چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے فائقہ کے بارے میں سارہ کو بتانے لگا کبھی وہ اس کی شرارتیں بتاتا تو وہ دونوں قہقہ لگا کر تو کبھی اس کی معصومیت سے متاثر ہوتے ہوۓ لمحے بتاتا ریان آنکھوں کی چمک اور اس کے لہجے میں فائقہ کیلئے محبت صاف ظاہر تھی 

سارہ نے دل ہی دل میں ریان کی محبت کے لئے دعا مانگی اور مسکراتے ہوئے اپنے بھائی کو دیکھ کر اس کی نظر اتارنے لگی 

مگر کون جانتا تھا یہ مسکراہٹ ہمیشہ قائم رہے گی بھی یا نہیں ؟ ریان کی محبت کو منزل ملتی بھی ہے یا نہیں؟ زندگی کب کیا موڑ لینے والی تھی یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا 

❤❤❤❤❤❤❤❤

” کیسے کیسے انکار کر سکتا ہے وہ میرے لئے میں اسے نہیں چھوڑوں گی “ جب سے وقار صاحب نے صبیحہ بیگم کو حاشر کے انکار کا بتایا تھا رمشا پاگلوں کی طرح چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی 

” رمشا میری بچی میری جان رکو میں بات کروں گی “ صبیحہ بیگم بےقابو ہوتی رمشا کو سنبھالتے ہوئے بولی

” کیا ماما کیا کریں گی آپ آپ کے منہ پر آپ کے بھائی نے انکار کیا ہے یہ عزت ہے آپ کی مگر میں اپنی بےعزتی کا بدلہ لئے بغیر خاموش نہیں بیٹھوں گی “ رمشا زخمی ناگن کی طرح پھنکارتی بولی 

” نہیں رمشا مجھے ایک دفعہ بات کرنے دو ابھی تم “ صبیحہ بیگم بول ہی رہی تھی 

” نہیں ماما آپ کو جو کرنا ہے آپ کریں لیکن میں ان دونوں کو نہیں چھوڑوں گی میں جانتی ہوں حاشر نے فائقہ کے کہنے پر انکار کیا ہے “ رمشا نفرت سے انکی بات کاٹتے بولی 

” مجھے بھی یہ لگتا ہے کہ یہ سب ان دونوں ماں بیٹی کا ہی کیا دھرا ہے “ صبیحہ بیگم بولی 

” بس اب آپ دیکھیں میں ان کے ساتھ کیا کروں گی “ رمشا شاطرانہ مسکراہٹ لیے بولی 

❤❤❤❤❤❤❤❤

حرم آج وقت پر آفس پہنچ گٸ تھی اکرم صاحب نے کافی حد تک حرم کو کام سمجھا دیا تھا اور وہ آج کافی حد تک مطمئن بھی تھی

حاشر آفس آیا اس کی نظر حرم کے کیبن پر پڑی پیلے رنگ کے سادہ سے شلوار سوٹ میں سفید دوپٹے کو اچھی طرح سر پر لیے بالکل سادہ اور معصوم چہرے میں وہ اسے بہت پاکیزہ لگی حاشر بنا پلکیں جھپکائیں اس کو دیکھتا گیا اور قدم خود بخود اس کے کیبن کی طرف چل دیے 

” اسلام علیکم سر “ حرم اس کو کیبن میں دیکھ کر کھڑی ہوئی اور نظریں جھکا کر اس کو سلام کیا 

” وعلیکم السلام کیسا جا رہا ہے کام کوئی مسئلہ مسائل تو درپیش نہیں آپ کو ؟ اور آپ کے بیٹے کی طبیعت اب کیسی ہے؟ “ حاشر نے اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر سوال کیا

” جی جی سر الحمدللہ اکرم صاحب نے مجھے سارا کام سمجھا دیا ہے آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا اور  الحمداللہ اب میرا بیٹا بھی بہت بہتر ہے شکریہ “ حاشر کے پوچھنے پر حرم بولی 

” چلیں ماشاء اللہ گڈ آپ آج کی میٹنگ کا شیڈول مجھے بتا دیں اور پلیز میرے آفس میں ایک کپ کافی بھیج دیں “ حاشر حرم کو ایک نظر دیکھتا ہوں وہاں سے چلا گیا 

” بھیا حاشر صاحب کہہ رہے ہیں کہ ایک کپ کافی ان کے آفس میں بھیج دیں “ حرم آفس بواۓ سے کہہ کے جانے لگی 

” باجی میں ذرا وقار صاحب کا کام کر رہا ہوں اگر آپ مہربانی کریں تو یہ کافی آپ حاشر سر کو پہنچا دیں گے“ وہ لڑکا حرم سے بولا 

” جی ٹھیک ہے مجھے دیے دیں میں انہیں کے آفس جا رہی ہوں میں دیے دوگی 

حرم بولتے ہوۓ کپ لیتے چلی گٸ 

” جی آجاٸیں “ حاشر نے بنا دیکھے اندر آنے کی اجازت دی حرم کافی کی کپ اس کو دینے لگی حاشر پوری طرح مصروف انداز میں بنا دیکھے کپ کی طرف ہاتھ بڑھایا  کب ہاتھ میں آنے کی بجائے حرم کے ہاتھ پر الٹ دیا گرم گرم کافی حرم کے ہاتھ کو جلا گئی 

”سسی “ بمشکل اپنی چیخ روکتی حرم درد سے سسک اٹھی حاشر نے اسکی طرف دیکھا اور گھبرا کر کھڑا ہوتا اسکا ہاتھ تھام گیا 

” ایم سوری ریلی سوری مجھے پتا نہیں لگا “ حاشر نے حرم کی طرف دیکھ کرکہا جس کی آنکھیں تکلیف کو ضبط کرنے کے چکر میں شدید سرخ ہو رہی تھیں کچھ حاشر کے ہاتھ میں اسکا ہاتھ اسے شدید الجھن میں ڈال رہا تھا  

”کک۔ کوئی بات نہیں سر “ حرم حاشر سےاپنا ہاتھ چھڑاتی یہ کہتی اپنے آنسو روکتی کی باہر کی طرف جانے لگی 

” ایک منٹ رکیں “ حاشر فرسٹ ایڈ باکس میں سے کریم لاکر اس کے شدید سرخ ہوتے ہاتھ پر لگانے لگا 

” سر پلیز میں لگا لوں گی شکریہ  “  حرم جھجھکتے ہوئے ہوۓ کہتی اسکے ہاتھ سے کریم لیتی نکل گٸ 

حاشر بے دھیانی میں اسکا ہاتھ پکرنے پر شدید خجل ہوا 

حاشر اپنا وہ ہاتھ دیکھنے لگا جس میں حرم کا ہاتھ تھا اور اس نے اچانک دل کے کہنے پر وہی ہاتھ اپنے لبوں سے لگا لیا جیسے اس میں حرم کا ہاتھ ہو اپنی حرکت پر وہ خود بھی حیران ہوتا مسکرانے لگا 

ہوا ہیں آج پہلی بار❤

جو ایسے مسکرایا ہوں❤

تمہے دیکھا تو جانا یہ❤

کے کیوں دنیا میں آیا ہوں❤

یہ جان لیکر کے جاں میری💗

تمہے جینے میں آیا ہوں💗

میں تم سے عشق کرنے کی💗

اجازت رب سے لایا ہوں💗

❤❤❤❤❤❤❤

” دیکھو وقار یہ زیادتی ہے میری بیٹی کے ساتھ حاشر کیسے انکار کر سکتا ہے رمشا نے رو رو کر حال برا کر لیا ہے اپنا “ صبیحہ بیگم ہمدانی ہاٶس آ کر وقار صاحب اور صوفیہ بیگم کے سامنے بولی 

” آپا آپ پلیز پریشان نہ ہو تحمل رکھیں ہم رمشا کے لئے بہت اچھا رشتہ ڈھونڈ لیں گے “ صوفیہ بیگم انکا ہاتھ تھامتے بولی تو صبیحہ بیگم نے پہلے انہیں گھور کے دیکھا اور انکا ہاتھ جھٹک دیا

” تم تو ہم دونوں بہن بھائی کے معاملے سے دور رہو  ساری آگ تمہاری ہی لگائی ہوئی ہے “ صبیحہ بیگم غصے میں بولی 

” آپا آپ یہ کیسی بات کر رہی ہیں میں یا صوفیہ کیوں ایسا چاہیں گے رمشا ہمارے لیے فاٸقہ جیسی ہے “ وقار صاحب کو صبیحہ بیگم کی بات بالکل اچھی نہیں لگی

” تو پھر وقار تم نے ہماری رمشا کے لئے انکار کیوں کیا “

صبیحہ بیگم نے پوچھا

” آپا ہم نے ہرگز انکار نہیں کیا یہ حاشر کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے“ وقار صاحب رسان سے بولے 

” دیکھو وقار بھائی کی محبت میں میں اپنی اولاد سے ہاتھ نہیں دھو سکتی کچھ کرو اس سے پہلے کہ رمشا کچھ کرلے “ صبیحہ بیگم وقار صاحب کے سامنے جھوٹی  موٹی کا رونے لگی 

” آپا آپ پلیز پریشان نہ ہوں میں حاشر سے دوبارہ بات کرتا ہوں “ وقار صاحب پریشانی سے بولے 

صوفیہ بیگم نے وقار صاحب کی طرف دیکھا انکی نظروں میں التجا دیکھ کر وہ چپ کر گٸ مگر کسی کے پیچھے وہ کبھی بھی حاشر کی زندگی برباد ہونے نہیں دے سکتی تھیں 

❤❤❤❤❤❤❤❤

” یار فاٸقہ تمھیں کیا ہے دیکھو میری بہن اگر ہم پکڑے گئے نہ تو بہت زلالت ہوگی “ سحر اس سے بولی 

” سحر یار کچھ بھی نہیں ہوگا او بھائی مارو سارے ٹینشن دوست مجھے کیوں مل گۓ ہیں “ فاٸقہ سر پر ہاتھ مارتے بولی 

” چلو کلاس میں چلیں “ فہد اور باسط ان کے پاس آتے ہوئے بولے

فائقہ چہرے پر مسکراہٹ لیے ان دونوں کے سامنے کھڑی ہوگٸ فہد اور باسط دونوں دو قدم دور ہو کر مشکوک نظروں سے اس کی شکل دیکھنے لگے 

” دیکھو میرے پیارے راج دلارے دوستو عرض کیا ہے آہم! 

               تھوڑے سے نوڈلز تھوڑا سا پاستہ

                میری مدد کروا دو اللہ کا واسطہ “ 

فائقہ مظلوم و معصوم شکل بناتے ہوۓ ان دونوں سے بولی 

پہلے تو وہ دونوں کو غور سے سنتے رہے پھر اس کے بعد کے شعر پر دونوں ہاتھ پہ ہاتھ مارتے قہقہ لگا کر ہنس پڑے سحر بھی ہنسنے لگی 

” اچھا چلو بتاؤ کیا کام ہے “ فہد کے ہامی بھرنے پر فاٸقہ خوشی سے اچھلنے لگی  

” زیادہ نہیں بس ہمیں سر ریان کی شادی کروانی ہے “ فاٸقہ بولی 

” او میڈم یہ کام آپ ان کی امی کو کرنے دیں آپ کیوں رشتے والی باجی بن رہی ہیں “ باسط اس سے بولا 

” باسط پاگل میری بات تو سنو “ فاٸقہ باسط کو ڈانٹ کر بولی 

” مجھے لگتا ہے کہ سر کسی کو پسند کرتے ہیں اور ان کے گھر والے ظالم سماج بن کر انھیں انکی محبوبہ سے دور کر رہے ہیں تبھی تو وہ اتنے کھڑوس ہیں “ فائقہ اپنی طرف سے سمجھ داری سے بولی

” ہاں ایک تم ہی تو رہ گٸ ہو ساری دنیا کا درد تمہارے دل میں والی “ باسط کے بولنے پر فائقہ نے ہاتھ میں پکڑی بک اسکے کے سر پر دے ماری

” مجال ہے جو تم سے دو منٹ چپ رہا جائے ہر وقت ہر وقت ٹانگ اڑاتے رہو گے بیچ میں “ فائقہ اس کو آنکھیں دکھاتے ہوئے بولی 

” چلو فاٸقہ چھوڑو اس کو تم اپنا پلان بتاؤ “ سحر اس سے بولی 

فاٸقہ نے اپنی ساری پلاننگ ان سب کو بتاٸ اس کی پلاننگ سن کر فہد اور باسط کے ساتھ ساتھ سحر بھی سر پکڑ کے بیٹھ گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” اچھا ماما میں چلتی ہوں بھاٸی کہہ رہے تھے وہ چھوڑ آتے ہیں “ سارہ اپنا ہینڈ بیگ اٹھاتی ہوٸی بولی 

” بیٹا تمہارے بابا آتے ہی ہوں گے مل کر چلی جانا “

 سلمیٰ بیگم اس سے بولی 

” ماما دل بہت ہے کہ ان سے ملو لیکن جب اپنی اولاد کو دیکھو تو دل سخت کرنا پڑتا بابا نے تو اسے دیکھا تک کیا پوچھا بھی نہیں ماما دنیا تو کہتی ہے اولاد سے زیادہ اولاد کی اولاد پیاری ہوتی ہے مگر بابا کو نہ کبھی اپنی اولاد پیاری تھی اور نہ اولاد کی اولاد “ سارہ نم لہجے میں سلمیٰ بیگم سے بولی 

” بیٹا میں تمہارا دکھ سمجھ سکتی ہوں مگر تمہارے بابا دل سے نہیں کرتے ایسا “ سلمیٰ بیگم کے ایسا کہنے پر سارہ نے انکی طرف دیکھا 

” ماما یہ آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی کہ بابا کو بس کام سے پیار ہے خیر میں آپ سے التجا کرتی بھاٸی کی خوشیوں میں کسی کو مت آنے دیجیے گا ان کے چہرے کی مسکان مت چھینے دیجیے گا کسی کو میں چلتی ہوں اب اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ “ سارہ سلمیٰ بیگم سے کہتی ہوٸی نکل گٸ 

” اللہ کرے سارہ جو تم کہہ کر گٸ ہو سب ویسا ہی رہے “ سلمیٰ بیگم نم لہجے میں دعا کرنے لگی 

   ” اوو ہیلو میری چڑیل اتنی چپ چپ خیر تو ہے سعد بھاٸی کی کلاس لینے کا ارادہ تو نہیں “ سارہ جب سے گاڑی میں آکر بیٹھی تھی خاموش تھی اسکی خاموشی محسوس کرتے ریان نے اس سے پوچھا 

” جی نہیں جی میں انکی بہت عزت کرتی ہوں اور خیال بھی اس لیے ایسی کوٸی بات نہیں “ سارہ ہنستے ہوۓ بولی 

” پھر میری بہن تم علامہ اقبال بنی کیا سوچ رہی تھی “ ریان نے ااے چھیڑتے کہا 

” ارےے واہ تبدیلی فاٸقہ کے ساتھ رہ رہ کر بھاٸی کو بھی مزاق کرنا آگیا “ سارہ نے شرارت سے کہا تو ریان مسکرا دیا 

” بھاٸی بس دعا کرتی ہوں آپ ہمیشہ خوش رہیں آپ کی محبت کو منزل ملے اور بھاٸی کچھ بھی ہوجاۓ آپ اپنی محبت حاصل کر کے رہیے گا “ سارہ ریان کو دیکھتے بولنے لگی 

” انشااللہ میری بہن ہے نہ میرے لیے دعا کرنے کے لیے “ ریان اسکے سر پر پیار دیتے بولا  

” بھاٸی وہ دیکھیں دو لڑکیاں آٸی تھنک وہ لڑکے انھیں پریشان کر رہے “ سارہ سامنے دیکھتی بولی 

” یہ تو فاٸقہ ہے “ سارہ کے کہنے پر جب ریان نے سامنے دیکھا تو پریشانی سے بولتا گاڑی ساٸیڈ پر کرتا اسکی طرف چل دیا سارہ بھی اسکے ساتھ چل دی 

” اوو بھاٸی لوگ سنو میری بات بہت پتے کی بات ہے زندگی میں کام آۓ گی لڑکی کو گھورنے کا کوٸی فاٸدہ نہیں کیوں کہ لڑکی پسند ہو یا تو آنکھ مارو یا سیدھا  آٸ لو یو بول دو پھنس گٸ تو جھولے لال نہیں تے فیر تواڈے بوتھے لال  بیٹا ہمت کرو ہمت اوۓ کہاں بھاگ رہے “

 فاٸقہ جو اپنی دھن میں مزے سے اپنی سمجھداری کے جھنڈے گاڑھ رہی تھی بنا پیچھے مڑے بولی گٸ اور پیچھے ریان اسکی باتوں پر سارہ کے سامنے جی بھر کے شرمندہ جبکہ سارہ مزے سے سنتی اپنا قہقہ روکے کھڑی تھی 

” دیکھا لڑکی تم آویں ڈر رہی تھی بھاگ گۓ نہ جاٶ گھر جاٶ تم اپن دیکھ لے گا “ وہ دونوں لڑکے جو ریان کو دیکھ کر بھاگے تھے فاٸقہ کو اپنی بہادری لگ رہی تھی اور یہاں سارہ کا ضبط کرنا ختم ہوا اور وہ قہقہ لگاتی ہنس پڑی 

” سس۔سر آ۔۔آپ یہاں“  فاٸقہ جو کسی کی ہنسی پر مڑی تھی ریان کو دیکھ کر ہونَق رہ گٸ 

” مس فاٸقہ آپ واقعی نہیں سدھرے گی “ ریان نفی میں سر ہلاتا بولا 

” شی از سو کیوٹ یار “ سارہ اسکی پھولے پھولے گلابی گالوں پر پیار کرتی گاڑی میں جاکر بیٹھ گٸ 

” اب آپ کسی سے پنگا نہیں لے گی سیدھا گھر جاٸیں گی“ ریان اس سے کہتا چلا گیا 

” اوو یار سر نے تو شادی کی ہوٸی ہے اور انکا تو بیٹا بھی ہے اب لگتا ہے مشن اور بھی سخت ہوگیا “ 

فاٸقہ اپنے سے اندازہ لگاتی ہوٸی کہنے لگی 

بقول فاٸقہ کے اس سے زیادہ سمجھدار کوٸی ہے ہی نہیں 

” اسلام علیکم مما “ حاشر آفس سے گھر آیا تو صوفیہ بیگم ڈرائنگ روم میں بیٹھی اس کا انتظار کرتی ملی 

” وعلیکم السلام کیسا گزرا دن آپ کا “ صوفیہ بیگم پیار سے پوچھنے لگی

” بس مما کیا بتاؤں اتنا مصروف یہاں تک کہ لنچ کا بھی ٹائم نہیں ملا آپ پلیز جلدی سے کچھ کھانے کو دے دیں بہت زور کی بھوک لگی ہے “ حاشر تھکا تھکا بولا 

” حاشر یہ تو بہت ہی غلط بات ہے کھانا کیوں نہیں کھایا بیٹے کام اپنی جگہ مگر اپنی صحت تو دیکھو ویسے بھی کتنا کمزور ہوگۓ ہو “ صوفیہ بیگم پریشانی سے بولی 

” میری پیاری مما میں بلکل فٹ ہوں دیکھیں میری طرف“ حاشر نے کہا تو صوفیہ بیگم نے اپنے خوبرو بیٹے کی طرف دیکھا سرخ سفید رنگت کھڑے نین نقوش اور مناسب قد کے ساتھ وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا صوفیہ بیگم نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری

” کوٸی نہیں جلدی سے فریش ہوجاٶ میں کھانا لگواتی ہوں “ صوفیہ بیگم اسے کہتی وہاں سے جانے لگی 

” ماما آپ کو کوئی بات کرنی تھی مجھ سے “ حاشر ان سے پوچھنے لگا 

” جی بیٹا مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی تھی مگر اب سب سے پہلے آپ کھانا کھاٸیں پھر کوئی بات کریں گے “ صوفیہ بیگم اس سے بولی 

” جی مما ٹھیک ہے اور گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے گڑیا نظر نہیں آرہی “ حاشر نے نظر دوڑاتے پوچھا 

” آپ کی گڑیا اپنی دوست سحر کی طرف گٸ تھی واقعی توبہ ہے اس لڑکی سے ناک میں دم کرکے رکھا ہوا ہے سب کے “ صوفیہ بیگم بولی 

” ماما یہی تو رونق ہے ہمارے گھر فاٸقہ نہ ہوتو گھر سونا سونا لگتا “ حاشر محبت سے بولا 

” بیٹا جی ایک نہ ایک دن ہر لڑکی کو اپنے گھر جانا ہی ہوتا ہے اس گھر میں تو وہ مہمان ہے “ صوفیہ بیگم مسکراتے بولی 

” جی ماما لیکن ہم ایسا لڑکا ڈھونڈ لیں گے جو فائقہ کو ڈھیروں خوشیاں دے اس کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہ آنے دے اور وہ ہم سے بھی بڑھ کر فاٸقہ کا خیال رکھے “ حاشر دھیمے لہجے میں بولا

” انشاءاللہ بیٹا میری تو دعا ہے میرے دونوں بچوں کے نصیب بہت اچھا ہو “ صوفیہ بیگم اسکے سر پر پیار دیتی وہاں سے چلی گٸ

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” اوئے سحر تمہیں پتا ہے ایک اتنی بڑی نیوز ہے میرے پاس “ فاٸقہ جوش میں بولی 

” بہن اب تم کس سے لڑ آئی ہو “ سحر بکس ریک میں بکس رکھتے ہوۓ بولی 

” بات تو سنو میں کسی سے لڑی نہیں بلکہ اب تو سرریان کی شادی بھی کروانے کی ضرورت نہیں “ فاٸقہ رازداری سے بولی 

” یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے وقت رہتے ہیں اسے سمجھ آگیا “ سحر دونوں ہاتھ دعا کی طرح اٹھاتے ہوۓ بولی تو فاٸقہ اپنا ماتھا پیٹ گٸ 

” سحر تم میں باسط کی روح کہاں سے آگئی ہے ابھی تو وہ بھی زندہ ہے “ فاٸقہ بولی 

” کیا مطلب تمہاری بات کا “ سحر ناسمجھی سے پوچھا 

” مطلب یہ کہ دو منٹ اپنا منہ بند رکھو اور میری بات پوری سنو میں کہہ رہی ہوں کے سرریان کی شادی کروانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور ایک بچے کے باپ ہیں “ فاٸقہ بولی تو سحر حیرانی سے دیکھنے لگی 

” نہیں تو فائقہ سر تو بہت ینگ ہیں اور تو اور وہ حاشر  بھیا کے دوست بھی ہیں اگر ایسا ہوتا تو بھیا اس دن ان سے پوچھتے نہ “ سحر اسکی طرف دیکھ کر بولی 

” بس یہی یہی عادت زہر لگ رہی ہے پتا نہیں کیا بیماری ہے بیچ میں بولی جاۓ گی جا دفع ہو میں نہیں بتانا اب“ فاٸقہ سحر سے چڑ کر بولی 

” اچھا سوری فاٸقہ اب نہیں بولوں گی بولو تم “ سحر کان پکڑتے بولی 

” ہاں تو میں کہہ رہی تھی سر نے شادی کی ہوٸی مگر چھپ کر اب ہمارا ٹارگٹ مزید سخت ہوگیا ہم سر کی محبت کو قربان ہونے نہیں دیں گے ان کی مدد کریں گے تاکہ وہ سب کو بتا سکیں بے چارے ظالم سماج سے ڈرتے ہیں نہ مگر اب فاٸقہ دی گڑیٹ انکے ساتھ ہے چاہے کریلے کی طرح کڑوے ہیں مگر ہیں تو سر ہی نہ “ 

فاٸقہ جوش سے بولتی خود کو ہیروئن سمجھتے بولی 

” یا اللہ کہاں پھنس گٸ ہو میں صحیح کہتے ہیں فہد اور باسط کسی دن یہ خود بھی مرے گی اور ہمیں بھی مروا کے دم لے گی “ سحر تو اسکی عجیب حرکتوں سے تنگ آتے ہوۓ بولی 

” چل یار اتنا دماغ لگایا ہے میں نے کچھ کھلا ہی دے اب“ فاٸقہ سحر کے بیڈ پر لیٹتے بولی 

” جی میڈم فرماٸیں کیا کھانا پسند کریں گی آپ “ سحر اٹھتے ہوۓ پوچھنے لگی 

” تیرے دماغ کے علاوہ کچھ بھی چلے گا “ فاٸقہ مزے سے بولی اور سحر تاسف سے سر ہلا گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” ھاھاھا یار بھاٸی واقعی کمال ہے فاٸقہ “ سارہ نے جب سے فائدہ کی باتیں سنی تھیں مسلسل ہنسی جارہی تھی 

” یہ اسکا سارے دن کا کام ہے پتا نہیں کیا بنے گا میرا “ 

ریان شرمندہ سی ہنسی ہنس کے بولا 

” السلام علیکم آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ہمارے گھر“ 

سعد گھر میں داخل ہوا تو ریان سے بغلگیر ہوتے ہوۓ بولا 

” وعلیکم السلام کیسے ہیں سعد بھائی آپ “ ریان 

خوش اخلاقی سے بولا 

” آپ دونوں بیٹھے میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں “ 

سارہ کہتی کیچن میں چل دی 

” جی تو ریان صاحب کیا ارادہ ہے شادی کا “ سعد مسکراتے بولا 

” ویسے آپ دونوں میاں بیوی کو مجھ سے زیادہ میری شادی کی ٹینشن ہے “ ریان مسکرا کر بولا

” میں تو چاہتا ہوں کہ جلدی جلدی تم بھی قیدی بنو تو پتا چلے بیوی نام کس چیز کا ہے “ سعد مظلومیت سے بولا تو ریان ہنسنے لگا 

” جی جی کس چیز کا نام ہے بیوی بتائیں ذرا کون سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہوں میں آپ پر “ سارہ چاۓ بناکر لاتے ہوۓ بولی 

” ارے ارے بیگم جان میری پوری بات تو سنیں میں تو کہہ رہا تھا بیوی بہت اچھی ہوتی ہے بہت پیاری ہوتی ہے اور بہت خیال رکھنے والی ہوتی ہے اور شادی شدہ زندگی تو بہت اچھی ہوتی ہے “ سعد کے کہنے پر سارہ نے گھور کر اسکی طرف دیکھا 

ان دونوں کی چھوٹی سی دنیا کی خوبصورت نوک جھونک انجواۓ کرتا ریان ہنسنے لگا اور دعا کرنے لگا کہ فاٸقہ کے ساتھ اس کی زندگی بھی ایسے ہی خوشیوں سے بھر پور ہو 

” آپ جانتے ہیں بھیا نے ہمارے لیے بھابھی پسند کرلی ہے“ یہ کہہ کے سارہ ہنسنے لگی 

” ارے واہ سالے صاحب بڑے چھپے رستم نکلے آپ تو “ سعد ریان کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے بولا

” اور بھابھی پتا کیسی ہیں ایک بالکل ہی شرارتی سی بچی کی طرح ھاھا “ سارہ قہقہ لگا کر بولی 

” کیا مطلب “ سعد ناسمجھی سے پوچھنے لگا 

تو سارا نے اسے شروع سے لے کر اب تک ساری باتیں اور جو راستے میں فاٸقہ سے جو  اس کی پہلی ملاقات ہوئی تھی وہ بھی ساری روداد سنادی 

” یار واقعی یقین کرنا ممکن نہیں ریان جیسے سنجیدہ اور سوبر انسان کو پیار بھی ہوا تو کسی پٹاخہ لڑکی سے“ سعد کا ہنس ہنس کے برا حال تھا 

” سعد ذرا سوچیں لوگ اپنے بچوں کو شرارتوں سے منع کرتے ہیں بھائی اپنی بیگم کو منع کرتے کیسے لگے گے“ سارہ کی بات پر تینوں ہنسنے لگے 

” تم دونوں میاں بیوی میرا مذاق نہیں اڑاٶ “ ریان مصنوعی خفگی سے بولا 

” اچھا سارہ سعد بھاٸی میں چلتا ہوں “ ریان نے ان سے اجازت مانگی 

” روکو یار آج ہمارے ساتھ کھانا کھا کر جانا تھوڑی 

گپ شپ بھی ہو جاۓ گی “ سعد اسے روکتے ہوۓ بولا 

” نہیں سعد بھاٸی پھر کبھی آج اجازت دیں اوکے سارہ خدا حافظ “ ریان ان سے کہتا نکل گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” میری بات سن داٶد کے سامنے اچھا بن کے رہی ان کے سامنے کوٸی ایسی حرکت نہ کری کہ وہ میری بات نہ مانے “ رآٸیمہ اپنے کزن ماجد سے بولی 

” ارے تو فکر نہ کر اس بلبل کے لیے تو میں کچھ بھی کر جاٶ ویسے وہ ہے کدھر نظر نہیں آرہی “ ماجد میں سے پان تھوکتے بولا 

ماجد رآٸیمہ کا خالہ زاد کزن تھا جس میں ہزاروں براٸیاں ایک ساتھ ہی پاٸی جاتی تھی جوا شراب زنا اس کے لیے کوٸی بڑی بات نہ تھی پہلی بیوی چھوڑ کر چلی گٸ تھی اور دوسری بیوی کی ڈیلیوری کے ٹاٸم دونوں ماں بچے کی موت ہوگٸ تھی  رآٸیمہ چاہتی تھی حرم کے نکاح اسکے ساتھ پڑھا کر اسے چلتا کرے اس لیے اس نے ماجد کو گھر بلایا تھا 

” نوکری کے نام پر پتا نہیں کیا آوارگی کرتی پھرتی ہے آتی ہی ہوگی “  رآٸیمہ نخوت سے بولی 

” ویسے رآٸیمہ تیری یہ نند ہے بڑی حسین مجھے مل گٸ تو بس بات بن جانی “ ماجد خباثت سے بولا 

” اچھا بس بس اتنی بھی حسین نہیں بس مردوں پر ڈورے ڈالتی ہے “ رآٸیمہ جل کر بولی 

” وہ تو تو بھی ڈالتی تھی پہلے مجھ سے عشق لڑایا اور پھر شادی اس داٶد سے کر لی پتا نہیں اتنا اچھا بندہ کیسے تیرے چنگل میں پھنس گیا “ ماجد منہ میں سگڑیٹ دباتا بولا  

” بس اپنا منہ بند رکھو تمھے اس لیے نہیں بلایا میں کہ میرا گھر خراب کرو بس اس حرم کو پکڑو اور چلتے بنو تمہارا بھی فاٸدہ میرا بھی “ رآٸیمہ اسے آنکھیں 

دیکھاتی بولی 

” اسلام علیکم بھابھی “ حرم گھر میں داخل ہوتی بولی اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی حمزہ اسکی گود میں سویا ہوا تھا اور سیدھا ہاتھ جلنے کے باعث شدید تکلیف میں تھا وہ جلد از جلد حمزہ کو لٹا کر ہاتھ پر کریم لگانے کا سوچ رہی تھی 

” اوو بی بی یہ کیا طریقہ ہے کوئی آیا گیا نظر آتا بھی ہے یا نہیں اندھی ہو کیا مہمان کو سلام دعا کچھ بھی نہیں“ رآٸیمہ سخت تیور لیے بولی 

” سوری بھابھی وہ میں “  حرم کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہے اس آدمی کے گھورنے سے اسے عجیب لگ رہا تھا 

” چلو جاٶ کھانا بناٶ میرا کزن آیا ہے اور ہاں کچھ میٹھے میں بھی بنانا “ رآٸیمہ اس سے بولی 

” جی بھابھی “ حرم رآٸیمہ سے کہہ کر کمرے میں حمزہ کو لیٹانے چلی گٸ

” واہ رآٸیمہ یہ تو پہلے سے بھی کہیں زیادہ حسین ہو گئی ہے اب تو اس کو حاصل کر کے میری لاٹری ہی نکل آنی ہے “ ماجد مکار ہنسی ہنس کے بولا 

” ہاں ہاں میں بھی چاہتی ہوں جلد از جلد بوجھ کی گٹھڑی ہمارے سروں سے اتر جائے تم نے داؤد کے سامنے حرم کے ساتھ ساتھ حمزہ کو بھی اپنانے کی بات کرنی ہے تب بھی کہیں جا کے داؤد راضی ہوں گے “ 

رآٸیمہ اس کو سمجھاتے بولی 

” ہاں ٹھیک ہے تو فکر مت کر آج تیرے شوہر کو مجھ سے اچھا بندہ کوئی بھی نہیں لگے گا “ ماجد خباثت سے ہنستا ہوا بولا اور رآٸیمہ کے چہرہ پر ایک شاطرانہ مسکراہٹ آگٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤

” تم تو وہی ہو نا ہاں تم ہی ہو روکو سنو میری بات ٹھہر جاؤ “ 

حاشر ایک دم نیند سے جاگتا ہوا بولتا ہے آج بہت دن بعد وہ لڑکی اسکے خواب میں آٸی تھی مگر اتنے عرصے بعد بھی وہ اس کی شکل نہیں دیکھ سکا تھا وہ لڑکی اس کے خوابوں کا حصہ بہت پہلے سے تھی مگر اسکا چہرہ آج بھی چھپا ہوا تھا مگر آج اس کی جھلک کچھ جانی پہچانی لگ رہی تھی

” کون ہو تم کہاں دیکھا ہے میں نے کچھ سمجھ نہیں آرہا“ حاشر ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک زہن میں آنے پر حیران رہ گیا 

” حرم 💓 “ بے ساختہ حاشر کے منہ سے حرم کا نام نکلا 

” ہاں حرم ہی ہو سکتی ہے میری زندگی میں آنے والی وہ واحد لڑکی ہے جس کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے ہاں بس یہی ہے کیوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیار میں گرفتار ہوتا جا رہا ہوں “ 

حاشر خود سے باتیں کرنے لگا 

” مگر اس کی زندگی میں اتنی پریشانیاں ہیں کیا وہ میرا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا چاہے گی بھی یا میری محبت سے انکاری ہو جائے گی “ حاشر سوچنے لگا 

” میں اس کی زندگی میں رنگ بھر دوں گا

 اس کے سارے دکھوں کو سمیٹ لوں گا

اس کی زندگی میں خوشیاں واپس لاٶں ہوگا

ہاں میں اس کا ساتھ مرتے دم تک نبھاٶں ہوگا “ 

حاشر مسکراتا ہوا عزم سے بولا 

” حاشر بیٹا آپ سو گۓ تھے میں نے کھانا لگایا آپکے لیے مگر آپ تو سو گۓ اب فریش ہوجاٸیں آپکے بابا بھی آگۓ ہیں سب مل کر کھاتے “ مسسز ہمدانی حاشر سے بولتی ہوٸی جانے لگی 

” مما ایک بات کر سکتا “ حاشر نے ان سے سوال کیا 

” جی بیٹا ضرور آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے بولو“  مسسز ہمدانی پیار سے پوچھنے لگی 

” مما اگر میں کبھی کوئی فیصلہ کرو تو آپ میرا ساتھ دے گی اس میں یقین کریں گی مجھ پر “ 

حاشر سوالیہ انداز میں بولا 

” ہاں جی میری جان میں جانتی ہوں میرا حاشر کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کرے گا اور میں ہمیشہ اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑی رہو گے چاہے مجھے دنیا سے لڑنا کیوں نہ پڑے “ صوفیہ بیگم کے اس طرح مان اور محبت سے کہنے پر حاشر چاہت سے انکا ہاتھ تھام گیا 

” ماں تو ماں ہوتی ہے نا سب کی ماں بہت اچھی ہوتی ہے کیونکہ وہ ماں ہوتی ہے مگر آپ میرے لیے دنیا اور آخرت دونوں کی جنت ہیں مما آپ اس دنیا کی سب سے اچھی ماں ہے میں تو کبھی آپ کا دینا نہیں دے سکوں گا “  

حاشر نم لہجے میں بولا اس کے بات پر صوفیہ بیگم کی بھی آنکھیں بھر آیٸں 

” ایکسکیوز می اگر یہاں ماں بیٹا اِموشنل سین ختم ہوگیا ہو تو نیچے آجاٸیں میں اور بابا کب سے آپ لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں اب تو میرے پیٹ کے چوہے بھی خودکشی کر چکے ہیں اس سے پہلے میں بھوک سے بےہوش ہو آپ لوگ آجااااا اچھا اچھا مما جا رہی ہوں“ 

فائقہ کمرے میں آتی نون سٹاپ بولنا شروع ہوگی صوفیہ بیگم پر نظر پڑتے ہی اس کی زبان کو بریک لگی 

” ویسے شادی کر کے تو بیٹیاں رخصت ہوتی ہیں مگر بھاٸ مما کا پیار آپکے لیے دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کچھ دنوں بعد آپ نے رخصت ہونا ہو“ یہ کہتی فاٸقہ رکی نہیں اور وہاں سے دوڑ لگا دی 

” اس لڑکی نے قسم کھائی ہوئی ہے نہ سدھرنے کی“ صوفیہ بیگم تاسف سے سر ہلا کر بولی اور حاشر ہنس دیا 

” السلام علیکم بابا کیسے ہیں آپ “ حاشر ڈائننگ روم میں آتا ہوا بولا

” وعلیکم اسلام میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سناؤ اور کام کیسا جا رہا ہے انشاءاللہ ایک آدھ دن میں بھی چکر لگاؤں گا “ وقار ہمدانی حاشر سے بولے 

” بابا کام تو صحیح جا رہا ہے انشاءاللہ جلد سارے کنسٹرکشن کے کنٹڑیکٹ ہمیں ہی ملیں گے “ حاشر بولا 

” ماشاءاللہ ماشاءاللہ میرا بیٹا تو مجھ سے بھی زیادہ قابل ہے کام کو بہت اچھے سے چلا رہا ہے “ 

وقار صاحب فخر سے بولے

” نہیں بابا اب اتنی بھی بات نہیں ہے “ حاشر اپنی تعریف پر ہنس کے بولا 

” ماشاء اللہ ہمارا بیٹا ہے ہی اتنا قابل ہر چیز کو اچھے سے مینیج کر لیتا ہے “ صوفیہ بیگم بھی تاٸید میں 

سر ہلا کر بولی 

” بیٹا آپ سے بس ایک ضروری بات کرنی تھی مجھے “ 

وقار صاحب تھوڑا ٹہر کر بولے 

” جی جی بابا بولیں “ حاشر انکی طرف متوجہ ہوتا بولا 

” بیٹا آج آپ کی پھوپھو آئی تھیں انکو بہت چاہ ہے کہ آپکا اور رمشا کا رشتہ ہوجاۓ “ وقار صاحب حاشر کی طرف دیکھ کر بولے

” بابا معذرت چاہتا ہوں میرا آج بھی جواب وہی ہے جو کچھ دن پہلے تھا میں رمشا کو اپنا ہمسفر نہیں بنا سکتا وہ کسی بھی طرح سے میری آئیڈیل پر پورا نہیں اترتی سب سے بڑی بات وہ اپنی ضد اور بدتمیزی میں کسی کا لحاظ نہیں کرتی “ حاشر سنجیدگی سے بولا 

” بیٹا ابھی اس میں بچپنا ہے شادی کے بعد سب لڑکیاں ٹھیک ہو جاتی ہیں آپ اسے ایک موقع تو دے کر دیکھو“ وقار صاحب بولے 

” بابا میں آپ کی کسی سے بات پر کبھی انکار نہ کرو آپ

 کے لیے ایک زندگی کیا ہزار زندگیاں قربان کر دوں لیکن بابا پھوپھو اور رمشا مما کے ساتھ بھی سلوک اچھا نہیں رکھتے اور فاٸقہ بچپنا تو ہماری فاٸقہ میں بھی ہے اور بابا جو فاٸقہ میں ہے نا وہ بچپنا ہے  “ 

حاشر بولتا ہوا ٹہرا 

” مگر جو بچپنا آپ رمشا میں کہہ رہے ہیں نہ وہ بچپنا نہیں شاطرانہ انداز ہیں اور کوئی میری ماں کے ساتھ بدتمیزی کرے یا میری بہن کو ڈی گریڈ کرے تو کیا میں ایسی لڑکی کو برداشت کر پاٶں گا “ 

حاشر کی ان سب باتوں کا وقار صاحب خاموش ہو گئے

” بابا میں پھپھو کی فیلنگ سمجھ سکتا ہوں مگر میں آپ سے بہت معافی چاہتا ہوں کیونکہ میں ایسی کسی لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا جو میرے والدین اور میری بہن کی عزت کرنا نہ جانتی ہو ایکسکیوز می“  

یہ کہتا حاشر ٹیبل سے اُٹھ گیا 

” بیٹا کھانا تو سہی سے کھاتے جاؤ“ مسسز ہمدانی پیچھے سے بولی 

” بس ماما اتنی ہی بھوک تھی کل ایک میٹنگ ہے اسکی تیاری بھی کرنی ہے “ حاشر اپنی جگہ سے اٹھتا بولا 

” اور بابا جانی بات بس اتنی ہے کہ میں فاٸقہ اور مما کو اپنی جان سے زیادہ پیار کرتا اور وہ دونوں بھی مجھے سب سے آگے رکھتی ہیں لیکن پھوپھو ابھی بھی ہمیں سگا سوتیلا سمجھتی ہیں “

 یہ کہہ کر حاشر وہاں روکا نہیں اور صوفیہ بیگم کے ساتھ ساتھ فاٸقہ کی بھی آنکھیں بھاٸی کی محبت پر بھر آٸیں 

❤❤❤❤❤❤❤❤

” کیسی ہو خوبصورت لڑکی “ حرم کام میں مگن روٹیاں توے پر ڈال رہی تھی کہ اچانک پیچھے سے کسی کی آواز پر ڈر کے دو قدم پیچھے ہوٸی 

پیچھے کھڑے ماجد کا حلیہ دیکھ کر حرم کو ابکائی آنے لگی 

” ماجد بھاٸی آپکو کچھ چاہیے تھا “ حرم دو قدم پیچھے ہوتی بولی 

” ارے بھاٸی تو مت بولو اور مجھے کیا چاہیے ہونا تمہارا ہی دیدار کرنے آیا ہوں تم کیا دور دور بھاگ رہی “

 ماجد حرم سے کہتا اسکی طرف بڑھا 

” دیکھیں ممم میں کھکھاناا لگااا رہی ہوں آآپ جاٸیں “ 

حرم پیچھے ہوتی ڈر کر بولی 

” ماجد یہاں کیا کر رہے ہو “ رآٸیمہ کی آواز پر حرم کی جان میں جان آٸی 

” کچھ نہیں بس پانی پینے آیا تھا تو حرم سے اسکے شوہر کا افسوس کرنے لگ گیا “ ماجد رآٸیمہ سے بولا 

” تم چلو میں لادیتی ہوں پانی “ رآٸیمہ اسے آنکھیں دیکھاتی بولی تو وہ باہر نکل گیا 

” کھانا بن گیا ہے تو لگا دو تمہارے بھاٸی بھی آتے ہی ہوگے “ رآٸیمہ حرم سے بولی 

” جی جی بھابھی لگا رہی “ حرم اس سے کہتی کام میں مصروف ہو گٸی 

جلا ہوا ہاتھ گرمی میں چولہے کے سیک کی وجہ سے شدید درد کرنے لگا کٸ جگہ پر چھالے پڑ گۓ اور کچھ حصہ شدید سرخ ہوگیا تکلیف کے باعث بار بار آنکھوں میں آنسوں آرہے تھے 

” تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ماجد داؤد کے آنے کا وقت ہے 

کس نے بولا کہ کیچن میں جاٶ “ 

رآٸیمہ ماجد کو دبی دبی آواز میں بولی 

” رآٸیمہ دیکھ اس بلبل کے پیچھے تو نے مجھے لگایا ہے اب میں تیرا راستہ صاف کر رہا تو مجھے ہی بول رہی “ 

ماجد رآٸیمہ سے بولا 

” ہاں تو وہاں کوشش کرو جہاں بات بنے گی بنتی بات مت بگاڑ دینا “ رآٸیمہ اس سے بولی 

” اوو چھمک چھلو تو کیوں غصہ کر رہی کب آنا ہے تیرے شوہر نے “ ماجد بولا 

” ماجد میں نے تمہیں پہلے بھی کہا ہے میں نے یہاں تمہیں میرا گھر برباد کرنے کے لیے نہیں بلایا اس لئے اپنی زبان سنبھال کر بات کیا کرو “ 

رآٸیمہ اپنے آس پاس دیکھتی بولی 

” السلام علیکم “ داٶد گھر میں داخل ہوتا ہوا بولا 

رآٸیمہ کے اس موالی کزن کو دیکھ کر داٶد کے ماتھے 

پر بل پڑگۓ 

”وعلیکم السلام داٶد بھائی کیسے ہیں آپ “ ماجد کھڑا ہوتا بولا 

” ٹھیک “ داٶد یک لفظی جواب دیتا کمرے میں چلا گیا 

” بھابھی کھانا لگ گیا ہے “ حرم رآٸیمہ سے کہتی تیزی سے اپنے کمرے میں چلی گٸ اسے اس ماجد کی نظروں سے عجیب گھن محسوس ہورہی تھی 

سہی کہتے ہیں سر پر ساٸبان نہ ہو تو عورت کی مثال ایک بنا دھکے گوشت کی طرح ہوتی ہے جسے جھپٹنے کی تاک میں ہر کتا ہر بھیڑیا بیٹھا ہوتا ہے 

حرم کے لیے بھی زندگی تنگ پڑتی جا رہی تھی اسے اپنے بھاٸی کے گھر میں بھی تحفظ میسر نہیں تھا اسے رآٸیمہ اور ماجد کی باتوں اور ماجد کی نظروں سے گھن آرہی تھی اسے یہاں اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا 

” یا اللہ میں کیا کروں میں کہاں جاٶ میرے مالک تو تو ستر ماٶں سے زیادہ پیار کرتا ہے میری مشکل دور کردے میری عزت کی حفاظت فرما “  

حرم حمزہ کو خود میں بھینچے مسلسل روتے ہوۓ بولی 

میری سانسیں مجھے دے دیں😓

خدارا مجھ کو جینے دے 😢

میری فریاد سن لے تو 💔

❤❤❤❤❤❤❤❤

وقار صاحب کافی دیر سے خان انڈسٹریز کے ویٹنگ روم میں بیٹھے تھے وقار صاحب میٹینگ کے وقت کے مطابق پہنچ چکے تھے مگر سرمد صاحب کا کوٸی آتا پتا نہیں تھا اب تو انہیں بھی سخت کوفت ہورہی تھی

” ایکسکیوز می سرمد صاحب کب تک آٸیں گے مجھے اور بھی بہت کام ہیں “ وقار صاحب انکی اسسٹنٹ سے پوچھنے لگے 

” سر وہ بس سر آتے ہوں گے پلیز تھوڑا انتظار کرلیں “ اسکے کہنے پر وقار صاحب بیٹھ گۓ 

سرمد صاحب آۓ اور سیدھا کسی کو سلام دعا کرتے اپنے کیبن میں چلے گۓ وقار صاحب کو انکی یہ حرکت بلکل پسند نہ آٸی 

” پلیز آپ ان سے پوچھ لیں کہ میٹنگ سٹارٹ کریں ہمیں اور بھی کام ہیں “ وقار صاحب اب کے تھوڑی سختی سے بولے 

” جی جی “ یہ کہتی انکی اسسٹنٹ ان کے کیبن میں چلی گٸ

” سوری سر وہ سر کو آج کوٸی میٹنگ نہیں کرنی “ 

پانچ منٹ بعد وہ لڑکی باہر آ کر شرمندہ سا بولی 

” دیکھیے یہ تو کوٸی طریقہ نہیں ہوا حد ہے صبح سے ٹاٸم ویسٹ کیا ہے “وقار صاحب سختی سے بولے 

” آپ جائے اور مجھے ان سے پوچھ کر بتائیں کہ مجھے ان سے بات کرنی ہے “ وقار صاحب بولے 

” مسٹر ہمدانی لگتا ہے آپکو سمجھ نہیں آتی آپ کو بولا نہ میری اسسٹنٹ نے کہ مجھے آج میٹنگ نہیں کرنی تو نہیں کرنی “ سرمد صاحب باہر آتے ہوۓ بولے 

” دیکھے سرمد صاحب یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے آپ نے خود ہی آج کا دن فائنل کیا تھا تو اب “ 

وقار صاحب بھی انھی کے لہجے میں بولے 

” مگر اب میں ہی کہہ رہا ہو کہ مجھے نہیں کرنی میٹنگ بلکہ آپ کی کمپنی کے ساتھ کام ہی نہیں کرنا اب آپ جاٸیں ہمارے آفس کا ماحول مت ڈسٹرب کریں “ 

سرمد صاحب اکھڑ لہجے میں بولے 

” اب تو مجھے بھی آپ کی کمپنی کے ساتھ کوئی کام نہیں کرنا جن لوگوں کو وقت اور رزق کی قدر نہیں ہوتی نہ انکے ساتھ نا کام کرنا ہی بہتر ہے اور تکبر ہمیشہ منہ کے بل گراتا ہے “ وقار صاحب یہ کہہ کر روکے نہیں اور وہاں سے نکلتے چلے گۓ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” اوو بلے بلے مزہ آجانا اب تو “ فاٸقہ مسلسل بھنگڑے ڈالتی ہوٸی بولی 

” فاٸقہ بس کرو یار کیا ہوگیا ہے تم کوٸی بچی ہو یا پہلی دفعہ ٹرپ پر جا رہی ہو “ سحر اس کو دیکھتی بولی 

” باجی سحر اقرار عرف زندگی سے بےزار 

تم جاٶ لائبریری میں بیٹھ کر کتابوں میں سر مارو “ فاٸقہ سحر سے بولی 

” ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے سحر تھوڑی بڑی ہو جاؤ فائقہ تم بھی اب “ فہد اس سے بولا 

” اچھا امی جی ابو جی “ فاٸقہ دونوں کو دانت دیکھاتے بولی اچانک اسکی نظر ریان پر پڑی 

” سحر چل چل سر ریان آرہے پلان شروع کرو “ فاٸقہ خود درخت کے پیچھے چھپتی بولی 

” اسلام علیکم سس۔۔سر وہ ایک کام تھا “ سحر ریان کے سامنے کھڑی ڈرتے ہوۓ بولی اسے ڈر تھا کہ کہیں فائقہ کے چکروں میں پکڑی گئی تو اس کی بھی درگت بن جانی  

” جی جی سحر بولیے “ ریان اسکی طرف متوجہ 

ہوتے ہوۓ بولا 

” سر وہ میرا موبائل دو منٹ دے دیں آپکا موبائل گھر رہ گیا ہے میں کال کرنی ہے “ سحر گھبراہٹ میں الٹا بول گٸ 

سحر کی بات پر جہاں ریان نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا وہی فائقہ نے اپنا سر پیٹ لیا کہ کہیں یہ پھنسا ہی نہ دے 

” کیا مطلب “ ریان نے ناسمجھی سے پوچھا 

” سوری سوری سر میرا مطلب ہے کہ میرا موبائل گھر رہ گیا ہے مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے “

سحر سنبھل کر بولی 

” جی اوکے آپ کر سکتی ہیں نو ایشو “ ریان موبائل اسکی طرف بڑھاتا بولا 

” تھینک یو سر تھینک یو سو مچ میں ابھی دیتی ہوں “ 

سحر موبائل لیتی بولی اور ریان کلاس میں چلا گیا 

” سحر شاباش “ فاٸقہ اس سے کہتی ریان کا واٹس ایپ چیک کرنے لگ گٸ جلد ہی اسے اس لڑکی کی ڈی پی نظر آٸی اور سارہ کے ساتھ سماٸلی والے ایموجی دیکھ کے فاٸقہ شرارتی سا ہنسنے لگی 

” فائقہ جلدی کرو “ سحر گھبرا کر پیچھے دیکھتی بولی 

” ہاں ہاں بس کر رہی ہوں “ فائقہ جلدی سے سارہ کا نمبر اپنے موبائل میں کاپی کرتی بولی 

” مشن کمپلیٹ “ فاٸقہ جوش سے کہتی بولی 

” اچھا تم جاؤ اور سر کو ان کا موبائل واپس کرو میں آج کلاس میں نہیں آٶ گی کیوں کہ اگر میں آ گٸ تو سر سوچیں گے تم میرا موبائل بھی تو یوز کرسکتی تھی “ 

فاٸقہ اس سے کہتی کینٹین کی طرف چل دی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” داٶد آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے “ 

رآٸیمہ کھانا کھاتے ہوۓ ماجد کو اشارہ کرتے داٶد سے بولی 

” بولو کیا کہنا ہے “ داؤد پانی پیتا اسکی طرف متوجہ ہوتا ہوا اس سے بولا 

” اب آپ تو جانتے ہیں حالات کیسے ہیں ہم کب تک حرم اور اسکے بیٹے کی ذمہ داری اٹھا سکتے اسکو باپ اور حرم کو شوہر کی ضرورت ہے “ رآٸیمہ داٶد کو رسان سے کہنے لگی 

” تم کہنا کیا چاہتی ہو حرم ہم پر بوجھ تو ہے نہیں اور اب تو وہ جاب بھی کر رہی ہے اب کیا مسلہ ہے “ 

داٶد کو رآٸیمہ کا ماجد کے سامنے بولنا زرا اچھا نہیں لگا 

” ساری زندگی جاب تھوڑی نہ کرے گی ابھی جوان جہان ہے اب بس شادی کر دیتے ہیں اسکی “ رآٸیمہ بولی 

” اچھا تو کوٸی اچھا لڑکا ہے تمہاری نظر میں جو اس کو خوش رکھ سکے “ داٶد اس سے پوچھنے لگا 

” ہاں ہے نہ ہمارا ماجد دیکھیں کتنا اچھا ہے اور تو اور حرم کے ساتھ ساتھ اسکے بیٹے کو بھی اپنانے کے لیے تیار ہے “ رآٸیمہ جوش سے بولی 

” شرم آنی چاہیے تمہیں رآٸیمہ یہ موالی انسان تمہیں اس قابل لگتا ہے ایک بیوی چھوڑ گٸ دوسری مر گٸ شراب جوا سب اسکے لیے عام ہے اس گھٹیا انسان کو میں اپنی پھول جیسی بہن دو گا سوچنا بھی مت “ 

داٶد تیش میں آتا ہوا ان دونوں کو سنا گیا 

” واہ واہ میرے کزن میں ہزار براٸیاں نظر آرہی ہیں اپنی بہن کون سا دودھ کی دھُلی ہے “  رآٸیمہ ہاتھ نچاتے بولی 

” رآٸیمہ اپنی زبان کو لگام دو “ داٶد چیخ کر بولا شور سن کر حرم بھی کمرے سے باہر آگٸ

” کیوں کیا غلط کہہ رہی میں پہلے علی پر ڈورے ڈالے پھر سبز قدم والی اسے کھا گٸ اور اب نوکری کے بہانے نہ جانے کس کس کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہے “ 

رآٸیمہ بے بنیاد بات پر حرم پر کیچڑ اچھالتے بولی 

حرم تو رآٸیمہ کی بات اور سوچ پر سکتے میں آگٸ 

” تم تم کیا کر رہے ہو کھڑے دفع ہو جاٶ میرے گھر سے زلیل آدمی تمہاری ہمت کیسے ہوٸی میری بہن پر نظر رکھنے کی “ داٶد ماجد کا گریبان پکڑے اسے گھر سے باہر کیا 

” آۓ بڑے بہن کے سگے دیکھتی ہوں کون بیاہ کر لے کر جاتا ہے اسے کون سا شہزادہ آۓ گا تمہاری داغدار بہن بیانے کے لیے “ 

رآٸیمہ داٶد سے کہتی حرم کو حقارت سے دیکھتی وہاں سے چلی گٸ 

حرم میں تو جیسے کھڑے رہنے کی سکت نہ بچی وہ صوفہ کو تھامتے نیچے بیٹھتی چلی گٸ کون جانتا کہ وہ کتنی پاکیزہ ہے کتنی معصوم ہے ؟ 

ہاں وہ مجبور ضرور ہے اور سب اسکی اس بےبسی کا ہی تماشہ بنارہے اسکی مجبوری کا فاٸدہ اٹھا رہے 

ہر طرف رش اور شور تھا شادی والے گھر میں کان پڑے آواز نہیں آرہی تھی اور حاشر بے چین ہوتا حرم کو تلاش کر رہا تھا حرم آج آفس نہیں آٸی تھی تو حاشر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسکے گھر چلا آیا تھا مگر یہاں آ کر جو خبر اسے سننے کو ملی تھی وہ اس کے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی تھی 

” دیکھیے مجھے حرم سے ضروری ملنا ہے آپ پلیز مجھے بتائیں گی وہ کدھر ہے “ حاشر پاس کھڑی لڑکی سے پوچھنے لگا 

” حرم تو اپنے کمرے میں تیار ہو رہی ہے آپ وہی چلے جاٸیں ملنا ہوا تو وہ بتا دیں گی آپ کو “ 

وہ لڑکی جلدی میں کہتی وہاں سے چلی گٸ

حاشر چاروں طرف دیکھتا ہوا حرم کا کمرہ ڈھونڈنے لگا جب ایک بند دروازہ سے بچے کے رونے کی آواز آٸی اس نے اس کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے حرم کی آواز پر اسے ڈھیروں تسلی ملی 

” حرم “ حمزہ کو سلاتے ہوۓ مصروف انداز میں اس نے اندر آنے کی اجازت دی مگر حاشر کی آواز پر وہ 

چونک کر پلٹی اور حیرانگی سے حاشر کو تکنے لگی 

حاشر تو حرم کا نوخیز حسن دیکھ کر مبہوت رہ گیا 

دلہن کے سرخ جوڑے میں ہلکا سے میک اپ کے ساتھ بالوں کی چٹیا بناۓ درمیان کی مانگ میں مانگ ٹیکا لگاکے اور نتھ پہنے جو اسکی چھوٹی سی ناک پر خوب جچ رہی تھی وہ مکمل دلہن کے روپ میں کوٸی حور ہی تو لگ رہی تھی حاشر یک ٹک اسے تکتا گیا 

” سر آپ یہاں کیوں آۓ ہیں “ حرم حاشر سے سپاٹ 

لہجے میں بولی

” حرم پلیز تم یہ شادی نہ کرو پلیز میں میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ تم میرے دل میں بہت اونچا مقام رکھتی ہو میں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں وہ انسان تمہارے قابل نہیں ہے “ حاشر اس سے منت کرتے بولا 

” سر اب بہت دیر ہوچکی ہے “ حرم نے حاشر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا 

حرم کی آنکھوں میں موجود تکلیف اور دکھ سے آۓ 

آنسوں بتا رہے تھے کہ وہ کتنی مجبوری میں یہ فیصلہ کر رہی ہے اس کی آنکھوں میں تکلیف دیکھ کر حاشر کے دل کے ہزار ٹکڑے ہوئے 

” حرم نکاح کا وقت ہوگیا تم تیار ہو “ ایک لڑکی آتی بولی حرم کے اثبات میں سر ہلانے پر حاشر لڑکھڑا کر رہ گیا 

قاضی صاحب اور کچھ لوگ کمرے میں آۓ انکے پوچھنے پر حرم نے ایک دکھ بھری نظر حاشر پر ڈالی اور سر 

جھکا گٸ 

” قبول ہے “ حرم کے ان الفاظ پر حاشر کو اپنا دل بند 

ہوتا محسوس ہوا اور وہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا 

” نہیییییں “ حاشر چیخ کر کہتا نیند سے جاگا اسے اپنا سانس روکتا محسوس ہوا وہ پسینے سے شرابور ہوتا دل پر ہاتھ رکھ گیا خواب میں بھی یہ سوچ کر اسکی جان نکل گٸ تھی وہ اب کسی قیمت پر بھی حرم کو کھو نہیں سکتا تھا 

” یااللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے یہ سب ایک بھیانک خواب تھا انشااللہ ایسا کچھ نہیں ہوگا میں ہونے ہی نہیں دوں گا “ حاشر پانی پیتا ہوا گہرہ سانس لے کر بولا

” مجھے جلد از جلد تمھے اپنا بنانا ہے حرم تم صرف میری ہو صرف حاشر ہمدانی کی 💓 “ 

حاشر جنون سے کہتا کھڑکی میں کھڑا چاند کو تکنے لگا 

ہاں حرم اسکا جنون ہی تو بن گٸ تھی

اب اس بھیانک خواب کے بعد اسے نیند کہاں آنی تھی 

” حرم ❤ “ زیرِلب حرم کا نام لیتے ہو آنکھیں موند کر اسکو سوچنے لگا 

خوابوں کا کب تک لوں سہارا 💓

اب تو تو آبھی جا خدارا 😓

میری یہ دونوں پاگل آنکھیں 😻

ہر پل مانگے تیرا نظارہ 😘

سمجھاٶں اسکو کس طرح 💓

ان پر میرا بس نہیں چلتا 😢

حالِ دل تجھ کو سناتا ❤

دل اگر یہ بول پاتا 😍

باخدا تجھ کو ہے چاہتا جاں 😘

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” حرم بیٹا اٹھو رونا بند کرو تمہارا بھاٸی ہے تمہارے ساتھ “ داؤد حرم کے سر پہ ہاتھ رکھتا ہوا بولا 

” بھاٸی بھابھی ایسا کیسے کہہ سکتی ہیں “ حرم نم لہجے میں داٶد کی طرف دیکھ کر بولی 

” تمہیں پتا ہے نہ وہ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتی وہ تم سے ویسے ہی جلتی ہے کچھ تم اچھی جاب کرنے لگ گٸ ہو اسکی باتوں کو دل پر لینے کی کوٸی ضرورت نہیں ہے “ داؤد حرم کو تسلی دیتے ہوئے بولا

” نہیں بھائی یہ تو بھابھی نے میری ذات پر کیچڑ اچھالا ہے کیوں بھاٸی کیوں میری پاکدامنی پر سوال اٹھ رہے ہیں “ حرم روتے ہوۓ پوچھنے لگی 

” بیٹا یہ دنیا بہت ظالم ہے ایک اکیلی عورت کو کبھی بھی جینے نہیں دیتی میں بھی بہت مجبور ہوں بس تم سے بہت شرمندہ ہوں نہیں تو کبھی بھی تمہیں یہ نوبت نہ دیکھنی پڑتی “ داؤد شرمندہ سے لہجے میں بولا

” نہیں بھائی آپ نے جتنا کیا بہت ہے اگر آج آپ نہ ہوتے تو میں کہاں جاتی “ حرم داٶد کو شرمندہ دیکھ کر بولی 

” حرم تمہارے لیے کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر شادی کردیتا کم ازکم سکون سے رہ تو سکوگی نہ اس کے ساتھ مگر ایک بچہ کی ماں کو کوئی اچھا رشتہ ملنا بہت مشکل ہے “ داٶد اس سے بولا 

” بھائی میرا بیٹا میری زندگی ہے جان ہے وہ میری اگر اتنا کچھ سہنے کے باوجود آپ کی بہن زندہ سلامت کھڑی ہے نا توصرف اپنے بیٹے کی وجہ سے اس کے علاوہ تو میری زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں “ 

حرم دکھ سے اپنے آنسو صاف کرتی بولی

” دیکھو حرم میں جانتا ہوں مگر بیٹا زندگی ایسے تن تنہا نہیں گزرتی ابھی تمہیں زندگی کا ایک لمبا سفر طے کرنا ہے “ داٶد حرم کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگا 

” مگر بھائی میں کسی ایسے شخص سے ہرگز شادی نہیں کروں گی جو میرے بچے کو باپ کا پیار نہ دے سکے اور اتنا ظرف کسی میں نہیں ہوتا بھائی کہ کسی غیر کی اولاد کو اپنا لے “ یہ کہتی وہ کمرے میں چلی گٸ اور داٶد دروازہ تکتا رہ گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤ 

” وقار وقار میں لٹ گٸ برباد ہوگٸ ہاۓ “ 

رات کے 2 بجے کے قریب وقار صاحب کے نمبر پر صبیحہ بیگم کی کال آئی کال اٹینڈ کرتے ہیں وقار صاحب کو صبیحہ بیگم کی چیخ چلا کر رونے کی آواز آٸی 

” یا اللہ خیر آپا کچھ بتائیں تو کیا ہوا ہے آپ ٹھیک تو ہے“ وقار صاحب کے پریشانی سے بولنے پر صوفیہ بیگم بھی گھبرا کر اٹھ گٸ 

” وقار میں تمہیں کہتی تھی بولو نہ کہتی تھی نہ میری بچی کو کچھ ہو جائے گا دیکھو اس نے نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں تمہیں اور تمہارے گھر کے کسی فرد کو معاف نہیں کروں گی “ صبیحہ بیگم روتے ہوئے بولنے لگی 

” آپا یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں کدھر ہے رمشا اور کیسے اس نے اتنا بڑا قدم اٹھا لیا آپ آپ مجھے بتائیں کدھر ہیں آپ لوگ “ وقار صاحب پریشانی سے بولے 

” ہم ہوسپیٹل ہیں جلدی آ جاؤ مجھ سے نہیں دیکھی جاتی میری بیٹی کی یہ حالت “ یہ کہتے ہی صبیحہ بیگم نے فون کاٹ دیا 

” وقار مجھے بتائیے کیا ہوا ہے کیا کہہ رہی تھی آپا “ 

صوفیہ بیگم پریشانی کے عالم میں بولی 

” دیکھ لیا بار بار نا کا نتیجہ اگر آج رمشا کو کچھ ہوگیا نہ تو میں کبھی بھی حاشر کو معاف نہیں کروں گا اس نے مجھے اپنی بہن کے آگے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا“ 

وقار صاحب غصے اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات سے بولے 

” وقار کیا ہوگیا ہے کیا بول رہے ہیں آپ حاشر نے کیا کیا اور مجھے بتائیں رمشا کو کیا ہوا ہے “ صوفیہ بیگم گھبرا کر بولی 

” رمشا نے نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے دعا کرو کہ اسے کچھ نہ ہو میں اسپتال جا رہا ہوں “ وقار صاحب صوفیہ بیگم کو کہتے جانے لگے 

” رکیں وقار میں بھی چلتی ہوں آپ کے ساتھ “ 

صوفیہ بیگم ان کے پیچھے جاتی ہوٸی بولیں 

” نہیں صوفیہ تم صبح حاشر کے ساتھ آ جانا آپا کا تو پتا ہے نہ وہ پریشانی میں غصے میں تمہیں کچھ بھی کہہ دیں گے پہلے مجھے وہاں کی صورتحال دیکھنے دو “ 

یہ کہتے وقار صاحب وہاں سے نکل گئے اور پیچھے صوفیہ بیگم پریشانی سے سر تھامے بیٹھ گٸیں

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” کیا بات ہے مما کیا ایکٹنگ کی ہے آپ نے داد دینی چاہیے آپ کو “ رمشا مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے صبیحہ بیگم سے بولی

” اب کیا کروں تمہارے ڈرامے کو سچ بھی تو ثابت کرنا ہے اتنی ایکٹنگ تو بنتی تھی “ صبیحہ بیگم بولی 

” ہاں مما آپ کے اس طرح کہنے سے تو ماموں کو یقین 

آہی گیا ہوگا “ رمشا بولی 

” ہاں ہاں ابھی آتا ہی ہوگا تم بھی جا کے بیڈ پر لیٹ جاؤ 

بس اس ڈرامے کو سچ سمجھ لے تو بات بن جانی بس اب پھنسا مت دینا “ صبیحہ بیگم رمشا سے بولی

” نہیں مما اس بار تو پورے پکے کام کیے ہیں میں نے ماموں آج حاشر سے میرا رشتہ کرکے ہی جائیں گے“ 

رمشا سوچتے ہوۓ بولی 

” اچھا تم نے اپنی دوست کو سمجھا دیا ہے نا کہ اس نے کیا کہنا ہے “ صبیحہ بیگم اس سے بولی 

” مما فکر کیوں کرتی ہیں آپ دیکھتی جائیں آپ اب جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے نا تو انگلی ٹیڑھی کرنی ہی پڑتی ہے ڈاکٹر ماموں کو اتنا کریٹیکل کرکے بتائیں گے میری کنڈیشن کے ماموں حاشر کو میرے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر ہی دیں گے “ 

رمشا چال باز انداز لیے بولی 

” رمشا جلدی جلدی لیٹ جاؤ ماموں آ رہے ہیں “ احسن کمرے میں داخل ہوتا بولا 

” ہائے میری بچی رمشا ہوش کر بیٹا دیکھ تیری ماں کتنی پریشان کھڑی ہے میری معصوم بچی تو نے یہ کیا کیا اب میں کیا کروں گی “ صبیحہ بیگم وقار صاحب کو اندر آتے دیکھ کر اونچی اونچی بین کرنے لگی 

” آپا آپ پریشان نہیں ہوں انشاءاللہ ہماری بچی کو کچھ نہیں ہوگا “ وقار صاحب انھیں دلاسہ دیتے ہوئے بولے

” دیکھو تو تو وقار کیا حالت ہو گئی ہے میری بچی کی “ 

صبیحہ بیگم بول ہی رہی تھی کہ ڈاکٹر اندر آیا 

” دیکھیں آپ کے پیشنٹ کی کنڈیشن بہت نازک ہے اور تو اور ان کو منٹلی اسٹریس بہت زیادہ ہے کوشش کیجئے ان کو خوش رکھیں کیونکہ اگر یہ پہلی دفعہ خودکشی کی کوشش کر سکتی ہیں تو ایسے پیشنٹس بعد میں بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شاید دوبارہ ان کو بچانا ممکن نہ ہو “ 

ڈاکٹر کی بات سن کر وقار صاحب شدید پریشان ہوگئے 

” جی جی ڈاکٹر تھنک یو اب کیسی کنڈیشن ہے ہماری بچی کی “ وقار صاحب نے پوچھا 

” ہم نے ان کا معدہ واش کردیا ہے اور اب یہ خطرے سے باہر ہیں لیکن آپ کو ان کے خوش رہنے کا بہت دھیان رکھنا پڑے گا ان کو کسی بھی قسم کی ٹینشن اور دکھ سے دور رکھنا پڑے گا آپ سب وہی کریں جو یہ چاہتی ہیں “ ڈاکٹر سنجیدگی سے بولا

” جی اوکے شکریہ بہت بہت ہم انہیں گھر کب لے کے جا سکتے ہیں “ وقاص صاحب نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا 

” جی آپ صبح تک لے کر جا سکتے ہیں “ ڈاکٹر یہ کہتا اس کی فائل ان کو پکڑاتا چلا گیا  

” حح۔حاششر “ رمشا جھوٹی بے ہوشی کی حالت میں حاشر کا نام پکارتے بولی 

” دیکھا دیکھا وقار ابھی بھی وہ اس حال میں بھی حاشر کا نام پکار رہی ہے اور حاشر نے کیا حال کر دیا میری بچی کا “ صبیحہ بیگم وقار صاحب سے بولی 

” یہ دیکھو وقار تمہارے سامنے میری جھولی ہے میرے بھاٸی اپنی بہن کا مان رکھ لو میری بیٹی کی خوشیاں دے دو میں ہاتھ جوڑتی ہوں “ صبیحہ بیگم پہلے وقار صاحب کے سامنے جھولی پھیلا تے اور پھر ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی 

” آپا آپ پلیز ایسے نہیں کریں میں وعدہ کرتا ہوں اب وہی ہوگا جو رمشا چاہے گی رمشا ہی ہمارے گھر کی بہو بنے گی دیکھتا ہوں کون منع کرتا ہے “ 

وقار صاحب یہ کہتے ہوئے روم سے باہر چلے گئے

رمشا نے آنکھیں کھول کر صبیحہ بیگم کو مسکرا کر دیکھا صبیحہ بیگم بھی سر ہلاتی مسکرانے لگی 

ان دونوں ماں بیٹی کو اپنی چال کامیاب ہوتی نظر آرہی تھی مگر ہونا تو وہی تھا جو نصیب میں لکھا تھا کوئی کتنی بھی چالیں چل لے جب کایا پلٹنی ہو پلٹ ہی جانت ہے 

❤❤❤❤❤❤❤❤

” السلام علیکم ماما کیسی ہیں آپ اور بابا کدھر ہیں نظر نہیں آرہے ہیں آج طبیعت ٹھیک ہے آپ کی “ 

حاشر ڈائیونگ ٹیبل پر آتا صوفیہ بیگم کو سلام کرتے ہوئے وقار صاحب کی غیر موجودگی میں پریشانی سے ان کا پوچھتے ہوئے بولا

” بیٹا وہ تمہارے بابا رات سے ہوسپٹل میں ہے “ 

صوفیہ بیگم کے بتانے پر حاشر پریشانی سے کھڑا ہوا 

” کیوں ماما کیا ہوا آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا“ 

حاشر پریشان لہجے میں بولا 

” بیٹا آپ کی پھوپھو کی کال آئی تھی رمشا نے نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی کنڈیشن بہت کریٹیکل ہے “ صوفیہ بیگم حاشر کو ناشتہ دیتے ہوئے بولی 

” واٹ ماما یہ کیا کیا ہے رمشا نے عجیب بے وقوف لڑکی ہے یہ “ حاشر غصے اور پریشانی میں بولا 

” بیٹا پلیز یہ وقت غصہ کرنے کا نہیں ہے تحمل سے کام لو آپ کی پھوپھو ویسے ہی ہم سے بہت ناراض ہیں “ 

صوفیہ بیگم حاشر کو سمجھاتے ہوۓ بولیں 

” جی ماما لیکن اسے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھانا چاہیے بچی تو نہیں ہے نا “ حاشر بولا 

” اچھا اب تم غصہ نہیں کرو اور جلدی سے ناشتہ کرلو پھر مجھے ہوسپیٹل بھی لے جانا “ صوفیہ بیگم اس سے بولیں تو وہ اثبات میں سر ہلا گیا 

” السلام علیکم ماما بھائی ۔۔۔۔ ماما بابا کدھر ہیں “ 

فائقہ نیچے آتی ہوئی صوفیہ بیگم اور حاشر کو سلام کرکے وقار صاحب کا پوچھنے لگی 

” فائقہ آپ کی رمشا آپا کی کچھ طبیعت خراب ہے تو ہوسپیٹل ایڈمٹ ہیں آپ کے بابا رات سے وہی ہیں اور اب میں اور حاشر بھی وہاں ہی جارہے ہیں “ 

صوفیہ بیگم سلام کا جواب دیتی اس سے بولی 

” واٹ رمشا آپا کو کیا ہوا کل ہی تو وہ مجھے پاس والی مارکیٹ میں ملی تھیں تب تو بالکل ٹھیک تھیں “ 

فائقہ کے ایسے کہنے پر حاشر اور صوفیہ بیگم نے چونک کر اسکی طرف دیکھا 

” کیا مطلب فاٸقہ کس کے ساتھ تھی رمشا “ 

حاشر نے کچھ سوچتے ہوۓ پوچھا 

” پتہ نہیں بھائی کوئی ایک دو لڑکی اور کچھ لڑکے تھے ان کے ساتھ شاید شاپنگ کرنے آئی تھی مگر ماما انہیں ہوا کیا ہے “ فائقہ کے پوچھنے پر حاشر میں اسے ساری بات بتا دی

” واٹ واقعی کل تک تو بلکل ٹھیک لگی تھی وہ مجھے تو ایسے اچانک خودکشی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی بھائی “ فاٸقہ کے بولنے پر حاشر سوچ میں پڑگیا 

” فائقہ بس بھی کرو تم ہر بات کی کھال اتارنے کیوں بیٹھ جاتی ہو جب ہم جائیں گے تو سمجھ آ جائے گی اور ویسے بھی وہ بچی جان بوجھ کر تھوڑی ایسا قدم اٹھائے گی “ صوفیہ بیگم فاٸقہ سے بولیں 

” مگر ماما “ فاٸقہ نے کچھ بولنا چاہا مگر صوفیہ بیگم نے اس کو اشارے سے منع کردیا 

” بس فاٸقہ مزید کوئی بات نہیں چپ کر کے ناشتہ کرو “ 

صوفیہ بیگم تھوڑا سختی سے بولیں تو فائقہ خاموش ہوگئی 

مگر فائقہ کی بات پر حاشر کو کچھ تو کھٹکا لگا تھا وہ جانتا تھا رمشا کو اپنی جان کتنی پیاری ہے وہ کبھی بھی اپنے ساتھ ایسا کچھ نہیں کر سکتی وہ اسی سوچ میں پڑ گیا کہ اگر ایسا ہے تو سچ ہے کیا؟ جو ان کو دکھایا جارہا ہے وہ؟ یا کچھ اور ہی؟ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” رآئیمہ تیرا مشورہ تو الٹا ہی پڑ گیا بال بال جان بچا کر بھاگا ہوں تیرے شوہر سے اور اس نے صاف انکار کر دیا ہے “ ماجد فون پر رآئیمہ سے بات کرتے بولا 

” میں تو خود حیران ہوں کہ داؤد میں اتنا دم کہاں سے آگیا بہت سائیڈ لے رہا تھا نہ اپنی بہن کی اب دیکھ میں اس کے ساتھ کیا کروں گی “ رآئیمہ نفرت سے پھنکاری 

” ارے جا رآئیمہ تو کیا کرے گی تو نے تو مجھے بھی سنہرے خواب دکھا کر چکنا چور کر دیے “ 

ماجد سگریٹ کا دھواں ہوا میں اُڑاتا بولا 

” میں تو ابھی بھی اپنی بات پر قائم ہوں حرم کو تو میں تیری دلہن بنا کر چھوڑو گی یہ گھی تو سیدھی انگلی سے نکلنے سے رہا اب دیکھ میں اس کی انگلیوں کے ساتھ اس کا ہاتھ بھی مڑور دو گی “ 

رآئیمہ شاطرانہ انداز لیے بولی 

” ارے نہیں رآئیمہ اس حسینہ کا ہاتھ نہ توڑ دینا “ 

ماجد کے بے وقوفی سے کہنے پر رآئیمہ نے اپنا سر پیٹا

” یہ جو تمہارا پرانا ریکارڈ ہے نہ اور کچھ یہ جو تمہاری بیوقوفیاں ہیں ان کی وجہ سے مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑرہا ہے نہیں تو داؤد کیوں انکار کرتے “ 

رآئیمہ اس کو جھڑک کر بولی 

” پرانا ریکارڈ تیرا کونسا دودھ کا دھلا ہے میری بلبل “ 

ماجد بھی خباثت سے بولا 

” ماجد بکواس بند کر کے میری بات سنو نہیں تو جاٶ مرو تم میں تو اسے کسی کے ساتھ بھی بیاہ دو “ 

رآئیمہ اس سے بولی 

” اچھا اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ کرنا کیا ہے اب “ ماجد نے اس سے پوچھا 

رآئیمہ نے ماجد کو اپنی ساری چال بتاتے اور شاطرانہ مسکراہٹ چہرہ پر لیے حرم کی داٶد کے ساتھ لگی تصویر کے دو ٹکڑے کر دیے 

” ویسے رآئیمہ تیرے شاطرانہ دماغ کی تو داد دینی پڑے گی تو تو سب کو بیچ کھائے خیر اتنا کمال کا آئیڈیا تجھے آیا کہاں سے “ ماجد اسکو داد دیتے بولا 

” دیکھو ماجد کسی کو برباد کرنے کیلئے نہ بس ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے شدید نفرت میں حرم سے شدید نفرت کرتی ہوں اس کو خوش دیکھ کرنہ میرا کلیجہ جلتا ہے تو جب کسی کے لیے اتنی نفرت ہونا دل میں تو ایسے شاطرانہ خیالات آتے ہی رہتے ہیں “ 

رآئیمہ نفرت سے بولی 

” تو حرم سے اتنی نفرت کرتی کیوں ہے آخر اس نے کیا بگاڑا ہے تیرا معصوم سی تو لگتی ہے “

 ماجد نے اپنے ذہن میں گھومتے سوال کو رآئیمہ کے سامنے رکھا 

” دیکھو ماجد تم جیسے نکارہ مفت خورے اور نکھٹو لوگوں کے لئے بس اتنا ہی ہے کہ آم کھاؤ گٹھلیاں مت گنو

یہ نہ ہو کہ دونوں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھو اس لئے جتنا تمہیں کہا ہے بس اتنا کرو “ 

ماجد سے یہ کہتے ہی رآئیمہ نے فون بند کر دیا

” گھمنڈی کہیں کی پتا نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے لنگوڑ کی ماسی “  

ماجد فون کو دیکھ کر بولا اور باہر نکل گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” السلام علیکم آپا کیسی طبیعت ہے اب رمشا کی “ 

صوفیہ بیگم حاشر کے ساتھ ہسپتال آٸی اور صبیحہ بیگم سے رمشا کی خیریت دریافت کرنے لگی 

” کیسی ہوگی اس قابل چھوڑا ہے میری بچی ہو کیا بگاڑہ تھا میری بچی نے تمہارا جو تم نے ہمارا رشتہ ٹھکرا دیا

صوفیہ صرف تمہاری وجہ سے آج میری بچی اس حال میں ہے اگر اسے کچھ بھی ہوا تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی “ 

صبیحہ بیگم صوفیہ بیگم کو کھڑی کھڑی سنانے لگی 

” آپا کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ رمشا میری اپنی بچی ہے میں کیوں چاہوں گی کہ وہ اس حال میں پہنچے“ 

صوفیہ بیگم دکھ سے بولی 

” جانے دو بس کرو یہ جھوٹے ڈرامے مت کرو ہمارے سامنے تم نا حاشر کو ورغلاتی نا وہ اس رشتے سے انکار کرتا اور نہ آج میری بیٹی کی یہ حالت ہوتی “ 

صبیحہ بیگم غصے سے بولیں

” آپا اس سب میں حاشر کا کیا قصور ہے اس نے تو طریقے سے اپنی پسند ناپسند بتائی ہے اور اسکی زندگی اس کو گزارنی ہے یہ اس کا حق ہے بیوقوفی تو رمشا نے کی ہے

اسے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا “ 

صوفیہ بیگم بولی تو ان کی بات پر صبیحہ بیگم تلملا کر رہ گئی 

” واہ واہ دیکھ رہے ہو وقار تمہاری بیوی ابھی بھی میری بچی کو قصور وار ٹھہرا رہی ہے تم نے تو دیکھا ہے کس طرح رمشا حاشر کے لیے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے اوریہ یہاں آ کر اسی کی برائی کر رہی ہے “ 

صبیحہ بیگم وقار صاحب کے سامنے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے بولی 

” نہیں آپا میرا ایسا ہرگز کوئی مطلب نہیں تھا “ 

صوفیہ بیگم اپنی صفائی میں بولنے لگی 

” بس کرو بی بی بس کرو اگر یہ تمہاری اپنی بیٹی کیساتھ ہوا ہوتا تھا پھر میں دیکھتی “ صبیحہ بیگم کی  بات پر صوفیہ بیگم نے دل پر ہاتھ رکھا اور حاشر کی بھی یہاں بس ہوئی تھی 

” بس پھوپھو بس کریں اگر رمشا کو کچھ ہوا ہے نہ تو یہ سراسر اس کی غلطی ہے ہم میں سے کسی کا قصور نہیں

آپ کو مما سے ایسے بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور رمشا کے رشتے کے لیے میں نے خود انکار کیا تھا نہ کہ میرے گھر والوں نے مجھے کچھ کہا تھا “ 

حاشر غصے میں بولا 

” حاشر بیٹے آپ پلیز چپ رہو میں بات کر رہی ہو نا “ 

صوفیہ بیگم مزید بحث بھرتی دیکھ گھبرا کر بولی

” نہیں مما یہ آپ سے بات نہیں کر رہیں یہ آپ کی انسلٹ کر رہی ہیں جو میں بلکل برداشت نہیں کروں گا “ 

حاشر غصہ سے بولا 

” بس “ وقار صاحب کے غصے سے اونچی آواز میں بولنے پر سب انکی طرف متوجہ ہوۓ 

” میں نے فیصلہ کر لیا ہے “ وقار صاحب کی بات پر حاشر اور صوفیہ بیگم ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے

” حاشر کو رمشا سے شادی کرنی ہی پڑے گی اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے “ وقار صاحب کی بات پر صوفیہ بیگم اور حاشر انھیں بے یقینی سے دیکھنے لگے 

” بابا آپ یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں میری رضامندی  کے بغیر “ حاشر بے یقینی سے ان کی طرف دیکھ کر بولا

” میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں اگر تمہیں اپنے ماں باپ کی عزت کا اتنا ہی پاس ہے تو اس فیصلے پر رضامندی دے دو “ وقار صاحب سنجیدگی سے بولے 

” اور اگر میں آپ کے اس فیصلے پر راضی نہ ہو تو “ 

حاشر ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا

” تو میں سمجھوں گا کہ میرا کوئی بیٹا ہی نہیں تھا چلے جانا یہاں سے اور کبھی زندگی اپنی شکل مجھے مت دکھانا “ وقار صاحب کے اتنے سخت فیصلے پر حاشر لڑکھڑا کر رہ گیا 

صوفیہ بیگم آنکھوں میں آنسو لیے کبھی بے یقینی سے وقار صاحب اور کبھی دکھ سے ٹوٹے بکھڑے حاشر کو دیکھنے لگی حاشر اپنے قدم پیچھے کی طرف لیتا لمبے ڈگ بھرتا ہسپتال سے چلا گیا اور صوفیہ بیگم پاس پڑی کرسی پر ڈھے گٸ 

اس وقت دو لوگوں کے چہرہ پر فتح کی چمک اور شاطرانہ مسکراہٹ تھی ایک ہسپتال کے کمرے میں بیڈ پر لیٹی رمشا اور دوسری وقار صاحب کے پیچھے کھڑی صبیحہ بیگم ۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

حاشر رش ڈراٸیونگ کرتا آفس پہنچا اسکو اپنا دماغ ماٶف ہوتا محسوس ہو رہا تھا بار بار وقار صاحب کے جملے اسکے منہ پر تمانچے کی طرح لگ رہے تھے اسکو اپنا سر شدید درد ہوتا محسوس ہو تو وہ اپنی دو انگلیوں سے اپنی سر مسلنے لگا 

” بابا کیسے کیسے آپ نے مجھے اتنا بے مول کر دیا کیسے میری فیلنگز میری پسند نہ پسند کیا کچھ میٹر نہیں کرتی کیوں بابا کیوں اپنے بیٹے کی ایک بار بات تو سن لیتے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے “ 

حاشر دکھ سے کہتا اپنا سر ہاتھوں میں تھام گیا 

حرم کو کچھ فاٸلز پر حاشر کے ساٸن چاہیے تھے جسکی اپروول ابھی ضروری تھی اس نے حاشر کے آفس کا دروازہ ناک کیا اور مگر دو سے تین دفعہ ناک کرنے پر بھی  اجازت نہ ملنے پر وہ اندر آگٸ حاشر کو سر تھامے بیٹھا دیکھ وہ پریشانی سے اسکی طرف بڑھی 

” سر آپ ٹھیک ہیں ؟ “ حرم کی آواز سن کر حاشر کو اپنا دماغ پرسکون ہوتا محسوس ہوا جیسے کسی نے جلتے انگارو پر ٹھنڈہ پانی ڈال دیا ہو 

حاشر نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو یک ٹک اسکی طرف تکتا رہ گیا اس حسین پری کو جب بھی وہ دیکھتا وہ اسے اپنی اپنی سی لگتی بلکل دل کے قریب 

سیاہ لباس میں ڈوپٹہ سر پر اچھی طرح اوڑھے اسکی دودھیا رنگت مزید کِھل اٹھی تھی کچھ اسکے چہرے کی معصومیت اور پاکیزگی اسے انمول بناتی تھی 

حرم حاشر کی لہو رنگ آنکھیں دیکھتی گھبرا گٸی اسے لگا کہ وہ غصے میں ہے اور پریشان بھی ۔ 

اسکے یوں دیکھنے پر حرم کو لگا اس نے اندر آ کر غلطی کردی ہے 

” سس۔۔سوری سر و۔۔وہ میں اپکی طبیت کا پوچھنے اور ساٸن کروانے اندر آگٸ می۔۔میں جاتی ہو سوری “ 

حرم ڈرتے ہوۓ کہتی وہاں سے جانے لگی تو حاشر نے آگے بڑھ کر اسکی نازک کلاٸی تھام لی 

حرم کی تو مانو جان ہی نکل گٸ ویسے ہی حلق سے آواز نکلنا نا ممکن لگ رہا تھا اب تو جیسے وہ چکرا کر رہ گٸ 

” غلطی تو آپ سے ہوئی ہے یوں بنا اجازت آنے کی “ 

حاشر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا بولا 

” سس۔۔سوری سر “ حرم ڈرتے ہوۓ کہتے سر جھکا گٸ 

دو آنسوں اسکی آنکھوں سے بہتے گال پر آگۓ جن کو حاشر نے قیمتی موتیوں کی طرح چن لیا حرم آنکھیں کھولے حیرت سے اسے تکنے لگی 

کیا نہیں تھا حاشر کی آنکھوں میں عزت چاہت محبت 

کھونے کا ڈر اور پانے کا جنون حرم زیادہ دیر تک اسکی نظروں کی تاب نہ لاتے نظریں جھکا گٸ 

” کیا آپ ایسے ہی ہر جگہ داخل ہو جاتی ہیں بنا پوچھے بنا اجازت لئے بتاٸیں “ حاشر لو دیتی نظروں سے اسے تکتا پوچھنے لگا 

” نہی۔۔۔نہیں سر پلیز میرا ہاتھ چھوڑے مجھے جانا ہے اب غلطی نہیں ہوگی “ حرم اس سے ہاتھ چھڑواتے بولی 

” اتنی بڑی غلطی کہ بعد میں آپ کو سزا دیے بغیر کیسے جانے دو “ حرم کو اسکی بات پر اسکی دماغی حالت پر شک ہونے لگا 

” سر آفس ہی تو آٸی ہو کون سا ایسا جرم کر دیا میں وہ بھی آپ جواب نہیں دے رہے تھے اس لئے میں پریشانی میں اندر آ گئی ہے “ حرم غصے سے بولی 

” ہاں بنا اجازت ہی تو آٸی ہیں آپ میری زندگی میں میرے دل میں “ حاشر اسکے قریب ہوتا اسکو کہنے لگ 

اسکی بات پر حرم کو اپنی دھڑکن روکتی محسوس ہوٸی 

” ہاں حرم میں بہت چاہتا ہو تمہیں اتنا شاید کوٸی بھی نہ چاہے میں محبت کرنے لگا ہو تم سے زندگی بن گٸ ہو تم میری “ حاشر حرم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا اُس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر بولا 

حرم تو جیسے اس کی بات سن کر سن ہی رہ گٸ تھی اس میں تو کچھ بولنے کی سکت ہی نہ بچی وہ سانس روکے

بس حاشر کی بات سن رہی تھی جو اسکے سر پر بمب کی طرح لگی تھی 

” پلیز حرم انکار مت کرنا میری چاہت سچی ہے میں مر جاٶں گا پلیز حرم میں تمھے اپنانا چاہتا ہوں تم سے شادی کرناچاہتا ہوں “ حاشر یہ بولتا گیا مگر حرم کو اپنے قدم پیچھے لیتے دیکھ وہ گھبرا کر کھڑا ہوا 

حرم بے یقینی سے اسے دیکھتی پیچھے کی طرف قدم لینے لگی حاشر نے اسکی طرف بڑھ کر اسے کچھ کہنا چاہا مگر حرم نے بنا کسی چیز کی پرواہ کیے حاشر کے منہ پر زور دار تھپڑ دے مارا اسے بھی نہیں اندازہ ہوا اپنے شدید ردِ عمل پر مگر تب تک اسکا ہاتھ اٹھتا حاشر کے چہرہ پر نشان چھوڑ گیا تھا 

حاشر حیران پریشان بے یقینی سے حرم کی طرف دیکھنے لگا اسے حرم کے اتنے شدید ردِ عمل کی توقع نہیں تھی 

مگر حرم کی آنکھوں میں غصہ دکھ اور نفرت دیکھ کر حاشر کا دل کٹ کے رہ گیا 

” کیا سمجھ کیا رکھا ہے آپ لوگوں نے ایک اکیلی عورت کو کوٸی شوپیس یا کوٸی کھلونا کے جس کا جب دل چاہا آیا کھیلا توڑا اور چلا گیا “ 

حرم روتے ہوۓ کہنے لگی 

” کیوں کیوں مجھے میری زندگی نہیں جینے دیتا کوئی 

ہر کوٸی اپنی طاقت کا روب مجھ پر ہی کیوں دِکھاتا 

بولیں کیا سوچا تھا آپ نے کہ اپنے چار پیسے کی نوکری پر استعمال کریں گے ٹیشو پیپر کی طرح میرا کیونکہ میں مجبور ہو نہیں حاشر ہمدانی بھول ہے آپکی یہ پڑی ہے آپکی نوکری نہیں کرنی مجھے جا رہی ہو میں “ 

حرم کے الفاظ پر حاشر کو اپنا دل چیڑتا محسوس ہوا

مگر آخری بات پر تو اسے لگا جیسے وہ سانسبھی 

نہیں لے پاۓ گا 

یہ سب کہہ کر حرم بنا حاشر کی سنے باہر کی طرف بھاگتی چلی گٸ 

میرے دل دے ٹکڑے💔

سینے وچ بکھرے😢 

اک نام تیرا ہی لیندے رہ گئے💓 

اوو تو اک وی سنی نا😓

تینوں ترس نہ آیا 😭

اسی درد جدائی سہندے رہ گئے💔

ہو جینا بڑا مشکل ہو وے😓

دن رات دل رووے😭

اینا وی کوئی ستائے نہ ربا 🙏💔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” سحر تم نے اپنی شاپنگ پوری کرلی “ فاٸقہ ایکساٸٹیڈ ہوتے سحر سے پوچھنے لگی 

” میڈم شاپنگ کی کیا ضرورت ہے ہم دو دن کے ٹرپ پر جا رہے ہیں بس ہنی مون پر نہیں “ سحر اسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہنس کر بولی

” یار تم مجھے آج پہلے ایک بات بتا دو تم زندگی سے اتنی بے زار کیوں رہتی ہو “ فاٸقہ منہ بناتے اس سے پوچھنے لگی 

” فائقہ اس کا ایک حل ہے بس “ ابھی سحر کچھ بولتی کہ فہد اسکے ساتھ آکر بیٹھ گیا 

” وہ کیا ہو سکتا ہے فہد “ فاٸقہ سوالیہ انداز میں اس سے پوچھنے لگی

” میڈم کی شادی کر دی جائے “ فہد مزے سے بولا تو سحر کے ساتھ ساتھ فائقہ بھی حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی 

” فہد پاگل واگل تو نہیں ہو گۓ ابھی کون سا شادی کی عمر ہے “ فاٸقہ اس سے بولی 

” ارے بیٹا لڑکیاں اپنے گھر کی جتنی جلدی ہو جائے اتنا اچھا ہے “ فہد بڑے بزرگوں کی طرح بولا

” سحر اس کو دفع کرو چلو ہم اپنے پلین کو پایا تکمیل تک پہنچاٸیں “ فاٸقہ سحر کا ہاتھ پکڑتے ساٸیڈ پر چلی گٸ 

ریان کو آج صبح سے فائقہ نظر نہیں آئے گی وہ بے چینی سے اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا آج ٹرپ کی وجہ سے کوٸی کلاس نہیں تھی سب اپنی اینٹری کروا رہے تھے 

ریان اپنی بے چینی پر مسکرا رہا تھا کہ جو حرکتیں کبھی اس نے یونیورسٹی اور کالج میں نہیں کی تھی وہ آج ایک ٹیچر بن کے کر رہا تھا واقعی کسی نے سچ کہا ہے محبت کچھ بھی کروا سکتی ہے 

ریان ابھی گراؤنڈ میں داخل ہوا کہ اسے دور سے ہی فہد اور باسط بیٹھے نظر آئے اسے یقین تھا کہ فائقہ کے بارے میں ان دونوں کو ضرور پتا ہوگا 

” ویسے آپس کی بات ہے تیری جو سڑی ہوٸی بھنڈی ہے نا  یہ نہ کسی دن اس تیکھی مرچی کے ساتھ رہ رہ کر بہت برا مرے گی “ باسط فہد سے بولا 

” باسط سحر کا نام تمیز سے لیا کرو “ فہد برا مناتا بولا 

” ایکسکیوز می فہد “ ریان نے فہد کو مخاطب کیا 

” جی سر کوٸی کام آپ ہمیں بلا لیتے “ فہد کھڑا ہوتا ریان سے بولا 

” نہیں یار بس مجھے بتا دو اگر آپ نے فائقہ کو کہیں دیکھا ہے یہ اس کے کچھ نوٹس ہیں میرے پاس جو اسے دینے تھے “ ریان دل کی بات کو گھوماتا ہوا فہد کے سامنے سنجیدگی سے بولا

” سر یہ آپ مجھے دے دیں میں فائقہ کو دے دوں گا “ 

فہد جانتا تھا کہ فاٸقہ باجی کوٸی نیا کارنامہ ہی کر رہی ہے اور وہ بھی ریان کے بارے میں ہی تبھی بات گول کر گیا 

” وہ اچھا لیکن آپ مجھے بتا دیتے مجھے اس سے بات بھی کرنے تھی کوئی “ ریان منہ بسورتے ہوۓ بولا اسے 

تو بس اپنی چیلی میلی کو دیکھنا کی چاہ تھی 

” جی جی سر کیوں نہیں آییے آپ کو میں لے جاتا ہوں “ 

باسط فہد کو آنکھ مارتے بولا 

” باسط تو پاگل ہو گیا ہے کیا تجھے پتہ تو ہے فاٸقہ سر کے بارے میں ہی کچھ پتہ کر رہی ہے ارے بھائی اگر اسے  پتہ چل گیا نہ کہ تو اور میں سر کو اسکے پاس لے کر گۓ تو کل اس کالج میں ہماری قبریں بنے گی “ فہد باسط کے کان میں کہتا بولا 

” وہ جو باجی فائقہ ہیں وہ بچیں گی تب ہی ہماری قبریں بنے گی نہ ابھی تو چِل کر وہ سب کی درگت بناتی ہے آج موقع ہے اسکی بنواتے “ باسط مزے سے دانت 

دِکھاتے بولا 

” چلیں سر میں لے چلتا ہوں آپ کو لائبریری کے پاس ہے وہ “ باسط ریان کو لیتا فاٸقہ اور سحر کے پاس چل دیا تو فہد بھی انکے پیچھے ہو لیا 

” یار سحر یاد کرنا کیا نام تھا اس کا صائمہ سونیا سومیا رضیا “ فاٸقہ نمبر ڈھونڈتے ہوۓ بولنے لگی 

” فائقہ حد کرتی ہوں نام تم نے دیکھا پڑھا تم نے نمبر سیو کیا اب تمہیں ہی نہیں یاد جلدی کرو تم اب “ 

سحر بےزار ہوتی بولی 

” آگیا آگیا آگیا بھٸ آگیا “ فاٸقہ چیخ کر بولی 

” کون قلفی والا “ سحر کی بات پر فاٸقہ نے اپنے سر پر

ہاتھ مارا 

” اوو میری سیدھی سادی بونگی دوست نام یاد آگیا 

سارہ “ فاٸقہ بولی 

” چلو پھر جلدی جلدی کال کرو “ سحر بولی تو فاٸقہ نے کال ملاٸی تین سے چار بیلز کے بعد کال ریسیو کی گٸ 

” السلام علیکم جی کون “ دوسری طرف سے سارہ نے پوچھا 

” وعلیکم السلام نام میں کیا رکھا ہے بس سمجھے آپکے ویل ویشرز ہیں “ فاٸقہ خود کو سرف ایکسل کی ہیروئن سمجھتے ہوئے بولی 

” فائقہ یہ زیادہ ڈاٸیلوگ مت مارو جلدی جلدی پوائنٹ پر آؤ “ سحر آنکھیں دِیکھا کر بولی 

” جی کیا میں سمجھی نہیں آپ کی بات “ سارہ نے نہ سمجھی سے سوالیہ انداز میں پوچھا 

” دیکھیں آپ کچھ بھی مت سمجھے آپ مجھے یہ بتائیں کہ ریان احمد کو آپ جانتی ہیں نا “ سحر کے آنکھیں دکھانے پر فاٸقہ بولی 

” جی جی بہت اچھے سے اتنی زندگی گزری ہے میرا تو سب سے خاص اور پیارا رشتہ ہے ان سے “ سارہ محبت سے بولی 

” دیکھا میں تو پہلے ہی کہتی تھی محبت کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے آپ بالکل فکر مت کیجئے گا آپ کی محبت ضرور کامیاب ہوگی میں کبھی بھی آپ کی محبت کو راٸیگاہ نہیں جانے دو گی آپ بالکل ٹینشن مت لیجئے گا میں سر ریان سے بھی بات کروں گی انکو اب آپکے لیے ہمت کرنی پڑے گی اور آپ دونوں کے گھر والوں کو ہر حال میں ماننا پڑے گا کے اپکے گھر والوں اور سسرال والوں کو آپ کی شادی اور بچے کو قبول کرنا ہی پڑے گا 

اب انصاف ہوگا اب کچھ نہیں چھپایا جائے گا “

فائقہ جب بولنا شروع ہوئی تو نون سٹاپ شروع ہوگی سحر سے مسلسل اشارہ کرتے ہوئے بتا رہی تھی کہ پیچھے دیکھ مگر وہ تو بس اپنی دھن میں بولتی چلی جا رہی تھی دوسری طرف سارہ بھی حیران اور پریشان اسکی باتیں سن رہی تھی 

” باجی ذرا ایک منٹ رکیے گا یہ میری دوست آخری دم لے رہی ہے میں اس کو ٹھیک کرلو زرا “ فاٸقہ نے سارہ سے کہہ کر فون کان سے ہٹایا 

” سحر کیا تکلیف ہے بات نہیں کرنے دینی کون سے کیڑے کاٹ رہیے ہیں تمہیں عجیب پاگل ہو تم پتا بھی ہے میں سر ریان کی بیوی ڈھونڈھنے کے مشن پر ہو کیا کیا ہے پیچھے “ فاٸقہ سحر پر شروع ہوگٸ 

” پیچھے وہی کھڑا ہے جس کی بیوی ڈھونڈھنے کے مشن پر آپ زوروشور سے لگی ہیں “ 

ریان کی آواز پر تو فاٸقہ کی آواز حلق میں اٹک گئی جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسکی جیسے ہوائیاں 

ہی اُڑ گٸ

” ہائے اللہ جی میں پھر پکڑی گٸ ہووو “ فاٸقہ رونے والا منہ بنا کر بولی 

” جی آپ پکڑی گٸ “ ریان بمشکل اپنی ہنسی دبا کر بولا 

” سر وہ نہ میرا کوٸی قصور نہیں ہوتا میں معصوم ہو “ 

فاٸقہ ہونٹ نکلاتے معصوم شکل بناتے بولی 

” جی تو مس معصوم آپ سے کس نےکہا میری شادی ہوٸی ہوٸی ہے وہ بھی چھپ کر واہ واہ “ 

ریان فاٸقہ سے پوچھنے لگا

” وہ سر آپ نے کہا تھا نہ اس دن کہ دل تو دے چکا ہوں اور پھر وہ پیاری سی لڑکی بھی آپکے ساتھ تھی اور وہ بےبی بھی تھا نہ تو مجھے یہی لگا “ 

 فاٸقہ ایک سانس میں بولتی چلی گٸ سحر فہد اور باسط فائقہ کی درگت بنتے دیکھ اپنی قہقے روکے بہت مشکل سے کھڑے تھے 

” میڈم وہ میری بہن تھی توبہ فاٸقہ حد کرتی ہیں آپ “ 

ریان تاسف سے سر ہلا کر بولا 

” ہوو سوری اللہ جی سوری سر جی فاٸقہ تم کتنی بدھو ہو بھلا سر اب سچی توبہ میں کم از کم آپ کے ساتھ پنگا نہیں لینا “ اسکی بات پر سب کھکھلا کر ہنسے 

” اور وہ جو دل کی بات تھی نا جب آپ نے کہا تھا کلاس میں کہ ایک دل دے دیں اور میں نے بولا تھا دل تو دے چکا ہوں “ ریان فاٸقہ کے قریب ہوتا بولا تو فاٸقہ نے اسکی بات پر اثبات میں سر ہلایا 

ریان نے اتنا کہہ کر ایک گہری سانس لی اور دو منٹ روکا فاٸقہ سمیت وہ تینوں بھی ریان کی طرف متوجہ تھے  

” فاٸقہ میرا مطلب بس یہ تھا کہ جو دل جانے انجانے میں آپ مانگ رہی ہیں وہ دل میں بہت پہلے ہی فائقہ ہمدانی کے نام کر چکا ہوں “ ریان یہ کہتا وہاں سے مسکرا کر چلا گیا پیچھے فاٸقہ اور وہ تینوں حیرانگی سے ریان کی بات سمجھنے لگے 

” دیکھو ماجد تم وہیں رہنا وہاں سے کہیں مت جانا وہ وہیں اسی راستے سے آتی ہے “ 

رآٸیمہ ماجد سے بولی 

” ٹھیک ہے میں وہیں کھڑا ہوں مگر یہ تو بتا کہ وہ آئے گی کب تک “ ماجد بےزار ہوتا بولا 

” بس تھوڑا انتظار کرو آتی ہی ہوگی “ رآٸیمہ شاطرانہ انداز لیے بولی 

” ویسے میری بات سن کیوں نہ آج رات اسے میں اپنے پاس ہی رکھ لو تھوڑا اسکا حسن ہم بھی دیکھ لیں “ 

ماجد خباثت سے ہنستا ہوا رآٸیمہ سے بولا

” تم جو مرضی کرو بس آج رات کو لڑکی گھر نہیں آنی چاہیے اس بات کا بہت خیال رکھنا “ 

رآٸیمہ اس سے بولی 

” ارے میری بلبل تو فکر کیوں کرتی ہے آج رات کیا تو کہے تو اسے آنے ہی نہ دو “ ماجد قہقہ لگا کر بولا 

” بس بس جتنا کہا ہے اتنا کرو “ رآٸیمہ اس سے منہ بناتے ہوۓ کہنے لگی 

” ویسے اس کو اغوا کروانے سے تیرا کیا فائدہ ہوگا “ 

ماجد رآٸیمہ سے بولا 

اس کی بات پر رآٸیمہ قہقہ لگا کر ہنسی کیونکہ وہ تو جانتی تھی اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے کسی کو اغوا کروانا کیا وہ تو جان سے مروا بھی سکتی تھی 

” دیکھو ماجد میری بات کو غور سے سنو جب ایک جوان جہان لڑکی ساری رات گھر سے غاٸب رہتی ہے نا تو اس کے سگے ماں باپ بھی اس پر یقین نہیں کرتے داٶد تو پھر اس کا بھائی ہے مجھے بس داٶد کا اس پے سے یقین ہٹانا ہے “ رآٸیمہ نفرت سے بولی 

” اور اس سے کیا ہوگا “ ماجد نے اس کی بات پر حیرانگی سے پوچھا 

” تمہارا فاٸدہ “ رآٸیمہ مسکرا کر بولی لیکن ماجد سمجھنے سے قاصر تھا 

” بہت ہی بیوقوف انسان ہو تم ظاہر سی بات ہے جب داؤد کا بھروسہ اس پر سے اٹھ جائے گا تو داٶد حرم کا تم سے رشتہ کرنے پر کیوں منع کریں گے بلکہ وہ تو تمہارے شکر گزار ہوں گے کہ ان کی داغ لگی بھگوڑی بہن کو تم اپنا رہے “ 

رآٸیمہ اپنے شاطر دماغ کی چال اسے بتاتے بولی 

” واہ رآٸیمہ ماننا پڑے گا تجھے تو تو بہت ہی شاطر قسم کی عورت ہے تیرا بس چلے تو تو دنیا کو بیچ کھائے “ 

ماجد اسے داد دیتے بولا 

” اسی شاطرانا انداز کو سمجھداری کہتے ہیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے “ 

 رآٸیمہ ماجد سے بولی 

مگر کون جانتا تھا کہ برائی کی رسی اللہ تعالی خود ہی دھیلی چھوڑ دیتے ہیں لیکن انسان یہ سمجھتے نہیں ہیں

اور دوسروں کے ساتھ مسلسل غلط کرتے جاتے ہیں مگر جب ان کی پکڑ ہوتی ہے تو ان کو کوئی بھی نہیں بچا سکتا نہ دنیا میں نہ آخرت میں...........

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حرم روتے ہوئے حاشر کے آفس سے نکلی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اور اپنے اس 

شدید رد عمل پر اسے خوف بھی آ رہا تھا کہ اب نہ 

جانے حاشر کیا کرے گا یہ سوچ کر اس نے جلد از جلد وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا 

” بیٹا تم رو کیوں رہی ہو اور کدھر جا رہی ہوں سب خیر تو ہے نا “ اکرم صاحب نے اس کو پریشان دیکھا تو اس کے پاس آتے ہوۓ بولے 

” بیٹا کچھ بتاؤ تو حاشر صاحب نے کچھ کہا ہے کیا میں بات کرو ان سے “ حرم کو مسلسل روتے ہوئے دیکھا 

اکرم صاحب نے پریشانی سے اس سے پوچھا

” نہیں انکل بس آج اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے جس عورت کے سر پر باپ یا شوہر کا سایہ نہ ہو اس کی اس دنیا میں کوئی نہیں حیثیت نہیں ہے “  

حرم تلخی سے بولی

” اچھا چلو تم پانی پیو یہاں بیٹھو کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ تم بالکل میری بیٹی جیسی ہو“ اکرم صاحب اس سے بولے 

” نہیں انکل فلحال آپ مجھے جانے دے میرا جانا ہی صحیح ہے “ یہ کہتے حرم رکی نہیں باہر نکلتی چلی گئی

حاشر ٹوٹا بکھرا زمین پر بیٹھا تھا اور مسلسل اسکی آنکھوں سے آنسوں بہے جا رہے تھے جس لڑکی کو اس 

نے اتنا چاہا وہ کیسے اسکے جزبات دو کوڑی کے کر

گٸ 

” جا رہی ہوں میں “ حرم کے یہ الفاظ حاشر کے دماغ میں گونجے تو اسے اپنی دھڑکن رکتے محسوس ہونے لگی

وہ تیزی میں اٹھتا ہوا باہر نکلا حاشر کی بکھری حالت دیکھ کر اکرم صاحب پریشانی سے اسکے پاس آۓ 

پہلے حرم کا روتے ہوئے حاشر کے آفس سے نکلنا اور اب حاشر کی حالت دیکھ کر اکرم صاحب کو کچھ سمجھ نہ آیا 

” سر کیا ہوا آپ اتنے پریشان “ اکرم صاحب اس کو دیکھتے ہو پوچھنے لگے 

” وہ کچھ نہیں اکرم صاحب وہ مس حرم کدھر گٸ ہیں“ 

حاشر خود کو کمپوز کرتا بولا 

” سر وہ بہت روتے ہوۓ باہر نکلی ہیں “ اکرم صاحب کے بتاتے ہی حاشر فوراً باہر کی طرف گیا 

وہ مسلسل روتی ہوٸی بس سٹاپ تک جا رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے مگر وہ جاب چھوڑ آٸی تھی 

” کیوں اللہ پاک کیوں اتنی آزمائش مجھ پر ہی کیوں “ 

حرم روتے ہوۓ یہ الفاظ کہتی چلی جا رہی تھی 

اچانک ایک گاڑی آکر ہے حرم کے پاس روکی حرم دو قدم پیچھے ہوئی گاڑی سے نکلنے والے شخص کو دیکھتے ہی حرم اسکی نیت پہچان گئی حرم نے تیزی میں اپنے قدم پیچھے کی طرف لینے شروع کیے مگر ماجد نے ہاتھ بڑھا کر اسکی کلاٸی پکڑی اور رومال اسکے منہ پر رکھ دیا

حرم نے ہاتھ پاؤں چلا کر خود کو چھڑوانے کی بہت کوشش کی مگر کچھ ہی دیر میں اسے اپنا دماغ ماٶف 

ہوتا محسوس ہوا اسے سامنے سب دھندھلا سا گیا اور 

ہوش و ہواس سے بےگانی ہوگٸ 

” اوۓ جلدی جلدی ڈالو گاڑی میں کوٸی نہیں ہے یہاں 

کوٸی آگیا تو مسلہ ہو جانا ہے جلدی کرو “ 

ماجد اپنے ساتھ لڑکے کو بولا 

وہ دونوں بےہوش حرم کو اٹھاتے گاڑی میں ڈالنے لگے 

حاشر حرم کو ڈھونڈتا ہوا باہر آیا ابھی وہ تھوڑا آگے 

ہی گیا تھا کہ اسے دو لڑکے کسی لڑکی کو گاڑی میں 

ڈال رہے تھے تھوڑا آگے جا کر دیکھا تو اسے حرم کا آنچل نظر آیا تو اسے کچھ غلط ہوتا محسوس ہوا 

” روکو “ حاشر بھاگ کر آتا ہوا کہنے لگا 

” اوۓ چل چل جلدی کر جلدی چلا گاڑی “ ماجد اپنے 

ساتھ موجود لڑکے سے بولا تو وہ گاڑی دوڑا کر لے گیا 

حاشر تیزی سے گاڑی کی طرف آیا اور سٹارٹ کر کے 

انکی گاڑی کے پیچھے جاننے لگا وہ گاڑی کافی آگے کو 

جا چکی تھی 

حرم کو لے کر حاشر کی پریشانی دوگنی ہو گٸ تھی 

یقین کچھ بہت غلط تھا اسے ہر حال میں حرم کو 

بچانا تھا 

” یا اللہ میری حرم کی حفاظت کیجیے گا “ 

حاشر کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

جب سے ریان بول کر گیا تھا فاٸقہ کی تو جیسے آواز

ہی گھوم ہوگٸ تھی اسے سمجھ نہیں آیا یہ سب کیا 

ہوا تھا جبکہ اسکے سب دوست ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ 

ہو رہے تھے 

” فائقہ حد کرتی ہو ویسے خود کو دنیا کی سب سے سمجھدار لڑکی سمجھتی ہو اور سیدھی سیدھی بات 

نہیں سمجھ سکی “ فہد فاٸقہ سے بولا 

” شٹ اپ فہد “ فاٸقہ منہ بنا کر بولی 

” یار فاٸقہ فہد نے غلط کب کہا ویسے مزے کی سٹوری 

ہوگی انکی مس پٹاخہ اور مسٹر کھڑوس “ 

باسط اسے چڑاتا بولا 

” میری چپ کا ناجائز فاٸدہ نہ اٹھاٶ تم دونوں “ 

فاٸقہہ ان دونوں کو گھور کر بولی 

” یار پلیز میری دوست کو تنگ نہیں کرو اچھا اسے 

زندگی میں پہلی بار شرمانے تو دو “ 

سحر نے فاٸقہ کو تنگ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا

” سحر باجی آپ تو چپ ہی کرجاٸیں میں تنگ کرنے پر 

آٸی تو تم رو رو کے باجے بجاٶ گی “ 

فاٸقہ دانت پیس کے بولی مگر اچانک چہک کر کہنے لگی 

” اوۓ باجے سے یاد آیا باجہ بھی لے چلیں ساتھ مزہ 

آۓ گا نہ “ فائقہ جوش سے بولی 

” نووووووووو “ فائقہ کی بات پر وہ تینوں چیخ کر بولے

فاٸقہ نے اپنی دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ لئے

” میرے باجے سے اتنی تکلیف اور خود اپنے باجے بجاتے  کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا ہے کان پھاڑ رہے ہو چیخ کر “ 

فاٸقہ تیوری چڑھاتے بولی 

” تم لے کے آٶ باجہ بیٹا تمھے ہم سر ریان کے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا دیں گے “ باسط اسے وارن کرتے بولا

” بولا ہے نہ نہیں لوٶ گی بوتے شوخے نہ بنو “ فاٸقہ چڑکر 

منہ بناتے بولی تو باسط نے فہد کو آنکھ ماری 

” I miss you bajay 😢 ” 

فاٸقہ خود سے بولی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” آپ کو ہر حاشر سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا بیٹا ہے وہ ہمارا ساری زندگی کا سوال ہے اس کی اور فیصلہ لینے کا سب سے زیادہ حق حاشر 

کا ہی ہے “ صوفیہ بیگم سخت لہجے میں بولی 

” صوفیہ بس کرو میں فیصلہ لے چکا ہوں تم نے حالت دیکھی تھی نہ بچی کی پتا نہیں کون سی نیکی کام آگئی کہ وہ خیر خیریت سے گھر آگئی ہے اگر رمشا کو کچھ ہوجاتا تو میں ساری زندگی آپا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ پاتا “ 

وقار صاحب بولے تو ان کی بات پر صوفیہ بیگم نے دکھ سے ان کی طرف دیکھا

” آپ کو اپنے بچے کی آنکھوں میں تکلیف نظر نہیں آئی 

یہ رمشا کی محبت تو نہیں یہ تو رمشا کی ضد ہوئی

حاشر کو حاصل کرنے کی “ 

صوفیہ بیگم کی اس بات پر وقار صاحب ان کی طرف دیکھنے لگے 

” کوئی کسی کے لیے جان بھی دے دے تب بھی کیا اس کی محبت ثابت نہیں ہوتی “ وقار صاحب نے ان سے پوچھا 

” وقار صاحب جان دینے نہ دینے کی بات نہیں بات ہے

کسی کے دل میں جگہ بنانے کی بچپن سے اب تک رمشا حاشر کے دل میں کیوں جگہ نہیں بنا سکی آپ کو نہیں لگتا کہ کوئی وجہ تو ہوگی “ 

صوفیہ بیگم کی بات پر ایک وقت کے لئے وقار صاحب کو بھی اپنا فیصلہ غلط لگا مگر دوسرے لمحے ہی 

صبیحہ بیگم کی بات یاد آتے سخت پڑ گۓ 

” صوفیہ بیگم یہ میرا اٹل فیصلہ ہے اس گھر کی بہو صرف رمشا ہی بنے گی حاشر نے انکار کیا تو میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا “ 

وقار صاحب کھڑے ہوتے بولے اور مڑ کر اپنے کمرے میں جانے لگے لیکن صوفیہ بیگم کی بات پر پلٹ کر حیرانی سے انھیں تکنے لگے

” آپ کے اس فیصلے نے اگر میرے بچے کی خوشیاں چھین لی تو میں اور آپی (حاشر کی ماں) آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے کبھی بھی نہیں “

یہ کہہ کر صوفیہ بیگم رکی نہیں اور وقار صاحب 

ساکت رہ گۓ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” واہ رمشا بہت بڑی ماسٹر مائنڈ ہو تم کیا گیم چلی ہے تم نے کہ ماموں کے فرشتوں کو بھی تم پر شک نہ ہو“ 

احسن رمشا کے کمرے میں آتا بولا 

” بس احسن اب تم دیکھتے جاؤ ہمدانی گروپ آف انڈسٹریز کی مالکن بننے سے مجھے کوئی نہیں 

روک سکتا “ رمشا اترا کر بولی 

” لیکن ایک مسلہ تمہارے سامنے ابھی بھی ہے وہ فائقہ“ 

احسن اس سے بولا

” تم پریشان کیوں ہوتے ہیں احسن اس گھر میں جا کر سب سے پہلے میں نے اس فاٸقہ کا ہی پتہ صاف 

کروانا ہے “ رمشا شاطرانہ مسکراہٹ لئے بولی

” ایک آئیڈیا ہے میرے پاس “ احسن سوچ کے بولا 

” بولو “ رمشا سوالیہ انداز میں احسن سے پوچھنے لگی 

” فاٸقہ کو کیوں تمہاری بھابھی بنا دیں “ احسن مسکرا کر بولا 

” واٹ کیا کہہ رہے ہو پاگل واگل تو نہیں ہوگۓ تمہاری اس بیوی کا کیا ہوگا پھر جو سب سے چھپا کر رکھی ہوٸی ہے حاشر تمھے جہنم واصل کر دے گا “ 

رمشا دانت پیس کر بولی 

” پہلے تحمل سے میری بات تو سن لو تم کوٸی ایسا کھیل رچنا کے سب خود اس سے میری شادی کرنے پر

 مجبور ہو جاٸیں “ احسن رمشا کو دیکھ کر بولا 

” مطلب کیا ہے تمہارا “ رمشا کے پوچھنے پر وہ مسکراتا ہوا سوچنے لگا 

” ہم ماحول کو کچھ ایسا بنا لیں گے کسی لڑکے کو ہائر کر کے اس کے ساتھ فائقہ کا افیر دیکھا دے گے بعد میں جب لڑکی پکڑی جاتی ہے عزت بچانے کے لیے اسکی شادی ہی کرنی ہوتی ہے اس سے شادی کے میں ہامی بھر لوں گا 

میرے ایسا کرنے پر ماموں اور حاشر دونوں میرے کے شکر گزار رہے ہیں نہ کہ مجھ پر شک کریں گے“

احسن اپنا شاطرانہ دماغ چلا کر بولا 

” واہ واہ آج تو ثابت ہو گیا تم میرے ہی بھاٸی ہو “ 

رمشا اسے داد دے کر بولی 

” ہاں یہ خرافات تمہی سے تو سیکھی ہیں “ 

رمشا سے کہتا وہ قہقہ لگا کر ہنسا 

” شام میں دوستوں کے ساتھ کیا پلان ہے سب 

پوچھ رہے تھے “ احسن اس سے پوچھنے لگا 

” اوکے میں آجاٶ گی ویسے بھی اس بیماری کے ڈرامے

نے بور کر دیا ہے “ رمشا بےزار ہوکر بولی 

” اوکے “ یہ کہتا کر احسن اس کے کمرے سے چلا گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” چلیں سب جلدی کریں پہلے ہی بہت لیٹ ہوگٸ ہے “ 

مس تانیہ سب اسٹوڈنٹس سے بولی 

” میم بس دو منٹ میری دوست آتی ہی ہوگی “ سحر بس میں چڑھتے ہوۓ بولی 

” دیکھیں پہلے ہی بہت لیٹ ہو گئی ہے آپ کی دوست کو ٹائم کا اندازہ ہونا چاہیے تھا عجیب اسٹوڈنٹس ہیں آج کل کے “ مس تانیہ چڑ کر بولی 

” کیا ہوا مس تانیہ آپ غصے میں کیوں ہیں “ 

ریان آ کر ان سے پوچھنے لگا تو وہ مسکراتے ہوۓ بولی 

” کچھ نہیں سر ریان میں تو بس پوچھ رہی تھی سب 

آگۓ ہیں “ ریان کے سامنے بناوٹی مسکراہٹ لاتے ہوۓ کہا 

مس تانیہ کے اس طرح رنگ بدلنے پر سحر تاسف سے سر ہلا کر وہاں سے چلی گئی 

ریان نے پوری بس میں نظر دوراٸی مگر فاٸقہ کہیں بھی نہیں تھی ریان کا دل ایک دم بوجھل سا ہوگیا وہ بوجھل دل سے بس سے نیچے اتر کے کھڑا ہوگیا 

اس ٹرپ میں جانے کے لیے ریان نے خود ہامی بھری تھی نہیں تو سر راٶف جا رہے تھے ریان کو جاتا دیکھ تانیہ بھی فوراً تیار ہوگٸ تھی اور ان کے ساتھ بی ایس کے سر خاور بھی تھے 

” سر ریان چلیں “ مس تانیہ نے باہر کھڑے ریان سے کہا 

ریان بےزار سا ہوتا کہہ کر اندر گیا اور بس سٹارٹ ہوگٸ

” روکوووووو میں آگٸ “ فاٸقہ بھاگ کر آتی ہوٸی بولی 

فائقہ کے آواز پر ریان فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے کی طرف گیا اور فاٸقہ کی طرف ہاتھ بڑھایا 

فائقہ پہلے تو تیزی میں ہاتھ تھامنے لگی مگر جب اس نے ریان کو دیکھا اور اسکی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ کر فائقہ اپنی نظریں جھکا گٸ اور اپنے ہاتھ میں پکڑا سامان ریان کی طرف بڑھا دیا 

” آٸیے آرام سے “ ریان کو فائقہ کا یوں ہاتھ پیچھے کرنا اچھا نہیں لگا وہ اس کا سامان پکڑتا اس سحر کے آگے والی سیٹ کے پاس رکھ کر خود مس تانیہ کے ساتھ بیٹھ گیا فاٸقہ کو جانے انجانے میں ریان کا مس تانیہ کے ساتھ بیٹھنا اچھا نہیں لگا 

” سر ریان کو دیکھو ذرا فاٸقہ کے پیچھے کیسے لٹو ہوئے پھر رہے ہیں اور باجی فاٸقہ کے بھاٶ ہی ختم نہیں 

ہو رہے “ فہد سحر کے ساتھ بیٹھ کر ان پر تبصرہ کرنا 

شروع ہو گیا 

” نہیں فہد مجھے تو کچھ اور ہی نظر آرہا ہے “ سحر دلچسپی سے فائقہ کی شکل دیکھتے ہوئے بولی جس کی نظریں مسلسل مس تانیہ کے ساتھ بیٹھے ریان پر تھی

” کتنے فلرٹ ہیں سر توبہ عجیب دل فائقہ ہمدانی کے نام کر چکا ہوں کیسے بول رہے تھے مجھے اور اب اس طرح چپک کر مس تانیہ کے ساتھ بیٹھے ہیں “ 

فائقہ غصے میں اسکی نکل اتار کر کہتی اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گٸ 

اس کی آواز پیچھے بیٹھے فہد اور سحر تک آسانی سے گئی تھی فہد تو حیرانی سے تکنے لگا اور سحر مسکرا دی

” دیکھا فہد میں کہہ رہی تھی نہ آگ دونوں طرف برابر کی لگی ہے “ سحر مسکرا کر فہد سے بولی 

” میڈم یہاں تو کل سر نے اپنے دل کا حال بتایا اور آج فائقہ کے بھی دل میں فییلنگز آنے لگی اور یہاں کی آگ  کا کیا بنے گا جو برسوں سے لگی ہوئی ہے مگر محترمہ کو

ہماری طرف دھیان دینے کی فکر ہی نہیں“ 

فہد اپنے دل پر ہاتھ رکھتا ہوا ٹھنڈی آہ بھر کے بولا 

” فہد تم بھی بیوقوف ہی رہنا “ سحر تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بولی

” کیا مطلب بھئی میں کیوں بے وقوف ہوا “ فہد سوالیہ انداز میں پوچھنے لگا 

” تمھیں نہیں پتہ کیا جب لڑکی کوئی جواب نہ دے یعنی نہ کوئی انکار کرے اور نہ اقرار تو اسکا مطلب کیا ہوتا؟“ 

سحر کی بات پر فہد ابھی بھی ناسمجھی سے اسے تک 

رہا تھا 

” اوہوووو واہ واہ سحر بھابھی ہمارے فہد کو پریم کے سبق پڑھا رہی ہیں ویسے فہد ہو تم بیوقوف ہی جب 

لڑکی انکار نہ کرے اور خاموش رہے اسکا مطلب جواب میرے بھائی کے حق میں ہی ہے “ 

باسط پیچھے بیٹھتے ہوئے اچانک سے سحر کی بات سن کر بولا 

اس کی بات پر سحر نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لئے دوسری طرف منہ کر لیا اور فہد کا تو بس نہ چلے 

بھنگرا ڈالنا شروع کر دے 

” ہماری تو کشتی پار لگ گٸ ہے “ فہد مسکرا کر بولا 

” ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ فائقہ کی کشتی ڈوبی ہوئی ہے اس کا کون سا کیڑا مر گیا ہے جو ایسے بیٹھی ہے “ 

باسط فاٸقہ کو دیکھ کر بولا 

” وہ دیکھو سامنے سر ریان “ سحر نے اسے ریان کی طرف 

متوجہ کرواتے ہوۓ ساری بات بتا دی 

” اووو تو مس تانیہ اس وقت ولن کا رول پلے کر رہی ہیں 

انکو تو ہم بتاتے “ باسط کہتا سیٹ سے اٹھا 

” میم وہ ہماری ایک دوست کی تھوڑی طبیعت خراب 

ہے کیا آپ پاس بیٹھ جاٸیں گی اسکے “ 

باسط کے ایسا کہنے پر فہد میں گھور کر باسط کو دیکھا

کیونکہ وہ مس تانیہ کو سحر کے ساتھ بیٹھانے کا ارادہ 

کرتا گیا تھا  

” تو اپنی دوست کو کہنا تھا نہ کہ آتی ہی نہ اگر طبیعت خراب تھی تو میں کوئی ڈاکٹر ہوں “ 

مس تانیہ جو ریان سے باتیں کرنے میں مگن تھی شدید 

بے زار ہو کر بولی 

” نہیں آپ ہماری ٹیچر ہیں ہم آپ کی ذمہ داری پر آئے ہیں اس لیے آپ کو چلنا ہی ہوگا “ 

باسط بھی دانت دکھاتا اس کو زچ کرنے کے انداز میں

 ڈھیٹ بن کر کھڑا رہا 

” جائیں مس تانیہ آپ کو جانا چاہیے یہ بچے اور بچیاں ہماری ذمہ داری ہے ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے “ 

ریان جو کب سے اس کی اپنے منہ سے اسکی اپنی ہی تعریف سن کر پک گیا تھا اس نے بھی یہ موقع غنیمت جانا 

اس سے پہلے کہ مس تانیہ سحر کے پاس بیٹھنے سے منع کرتی ریان کی بات پر انہیں چپ کرنا پڑا اور ریان کے سامنے اچھا بننے کے لیۓ باسط کو گھورتی ان کی سیٹس کے پاس آگیئں 

” فائقہ تم جاؤ مس تانیہ کی سیٹ پر بیٹھ جاؤ تمہاری سیٹ پر وہ بیٹھیں گی “ باسط نے بےزار سی بیٹھی ہوئی فائقہ کو کہا

” لیکن کیوں میں اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہوں “ 

فاٸقہ اس سے بولی 

” کبھی تو اپنے دماغ سے کام لیا کرو دیکھو میم کھڑی ہوئی ہیں استاد کی عزت میں تمام طالب علم کو کھڑے ہونا چاہیے اور تم ہو کے سیٹ سے ہی نہیں اٹھ رہی

چلو اٹھو جلدی اور جاؤ جا کر مس کی سیٹ پر بیٹھو“ 

باسط فاٸقہ کو آنکھیں دکھاتے ہوئے بولنے لگا

فائقہ باسط کو گھورتے ہوئے اٹھی اور آکر ریان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی ریان اپنے موبائل میں بزی تھا

نظر اٹھا کر ساتھ والی سیٹ پر دیکھا تو فائقہ کو دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئی فائقہ تو مسلسل اپنے ہاتھ کی انگلیاں مڑوڑنے تو کیا توڑنے ہی والی تھی

” خوش آمدید میرے دل کی ملکہ “ ریان سرگوشی میں کہتا ہوا اس کی طرف تکنے لگا فائقہ شرم سے سرخ ہو گئی اس کے گال دہکنے لگے وہ تو نظر اٹھا کر بھی کہی نہیں دیکھ رہی تھی

ریان کو یہ سفر اسکی زندگی کا ایک خوبصورت سفر محسوس ہو رہا تھا جیسے آج سے پہلے وہ اتنا خوش کہیں نہیں گیا ہو اور شاید اس سفر میں فائقہ کے دل میں بھی ریان کی محبت کی کونپل پھوٹنے والی تھی 

ریان نے باسط کوئی اشارہ کرتے ہوئے تھینک یو کہا 

باسط نے مسکرا کر سر خم کرتے ہوئے آنکھ مار دی

 تیری چاہتوں میں کتنا تڑپے ہیں😓

ساون بھی کتنے تجھ بن برسے ہیں😢

زندگی میں میری ساری جو بھی کمی تھی😒

تیرے آ جانے سے اب نہیں رہی😻

سدا ہی رہنا تم میرے قریب ہو کے😘

چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے🙈

ملے ہو تم ہم کو بڑے نصیبوں سے😘😘

ریان فائقہ کے ساتھ بیٹھنے پر گانا گننانے لگا فاٸقہ تو ریان کی خوبصورت آواز کے سحر میں گم ہوگئی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

یااللہ میں کہاں ڈھونڈو حرم کو کدھر چلے گئ ہے وہ 

گاڑی “ حاشر مسلسل سڑک پر گاڑی دوڑاتا ہوا بولا

حاشر سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا تھا اس کو اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کس طرف جائے اس کے دو راستے نکلتے تھے اچانک حاشر کے ذہن میں ایک خیال آیا کوئی بھی کسی کو اغوا کرکے یا کوئی واردات کرکے آبادی والی سائیڈ پر نہیں جائے گا اور دوسرا رستہ 

گنجان آباد تھا جہاں کچھ تعمیراتی کام ہو رہے تھے 

حاشر نے گاڑی اس طرف موڑ لی وہ مسلسل اللہ سے دعا 

کرتا جا رہا تھا کہ بس حرم خیر خیریت سے اسے مل جائے اسے کچھ بھی نہ ہو

” ابے اوئے آج تو بال بال بچ گئی وہ سوٹ بوٹ والا صاب جو تھا وہ ہمیں دیکھ لیتا تو اس نے تو ہمیں پولیس کے آگے ڈلوا دینا تھا “

 ماجد اور اس کا دوست حرم کے بے ہوش وجود کو اٹھا کر ایک طرف رکھتے بولے 

” ہاں کہہ تو تو سہی رہا ہے “ ماجد کے دوست نے اس کی بات پر ہامی بڑھتے ہوئے کہا

ماجد حرم کو لے کر ایک پرانی فیکٹری میں آیا تھا جو 

شاید کچھ عرصہ پہلے جل کر تباہ کن حالت میں آگٸ 

تھی اسے یقین تھا کہ جو بھی یہاں آئے گا وہ اس فیکٹری کی حالت اور آس پاس کا سناٹا دیکھ کر واپس لوٹ جائے گا 

” ویسے ماجد اس دفعہ تو مال تو بڑا کمال کا لایا ہے“ 

ماجد کا دوست بے ہوش حرم کو  دیکھ کر خباثت سے بولا 

” ہاں یار اس بلبل پہ تو میری کب سے نظر تھی مگر کمبخت اس کی شادی ہو گئی مگر دیکھ اسے میرے 

پاس آنا ہی تھا بیچاری کو پتا بھی نہیں ہے کس کے 

ہتھے چڑھ گئی ہے یہ اب تو یہاں اس کو کوئی 

بچانے والا بھی نہیں آئے گا “ 

ماجد حرم کو دیکھتا ہوا اپنے دوست سے بولا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کے ہنسنے لگے 

اچانک حرم کو اپنے کانوں میں کچھ آواز سنائی دینے لگی مگر اس کا ذہن بھی بھی ہوش میں آنے کو تیار نہیں تھا اسے ابھی بھی اپنا ذہن ماؤف ہوتا محسوس ہو رہا تھا حرم نے زبردستی اپنی بوجھل آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر اپنے سامنے ماجد کو دیکھ کر حرم کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی 

” مم۔۔ ماجد بھائی آآپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں “ 

حرم نے ڈرتے ہوئے ماجد سے پوچھا 

” ارے جانے من بھائی بول کر کیوں میرا دماغ خراب کرتی ہو اور تم کیا آپ بچی ہو جو تمہیں پتا نہ چلے کہ تمہیں اغوا کرکے کیوں لایا گیا ہے“ 

ماجد قہقہ لگا کر ہنستا حرم کو ہراساں کرنے لگا

” میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں دیکھیں پلیز مجھے جانے دے میرا بیٹا وہ میرا بیٹا میرا انتظار کر رہا ہوگا

پلیز مجھے جانے دیں وہ رو رہا ہوگا“ 

حرم ان کے سامنے روتے ہوئے ہاتھ جوڑنے لگی

” کیوں جانے دوں کل جب اتنے عزت سے تیرے اس بھائی سے تیرا رشتہ مانگا سب تو تم لوگوں نے انکار کر دیا 

اب اپنی بےعزتی کا بدلہ لیے بغیر تو نہ جانے دوں گا “ 

ماجد اسکے بال پکڑ کر بولا حرم درد سے بلبلا اٹھی 

” دیکھو پلیز معاف کر دو میں تمہارے پاؤں پڑتی مجھے معاف کر دو مجھے جانے دو “ حرم روتے ہوۓ بولی 

” ‏نہ نہ نہ بھول ہیں تیری میری بلبل آج تو ساری رات تو ادھر ہی رہے گی تیرا وہ حال کروں گا کل تیرا بھائی گڑگڑاتا ہوا مجھ سے معافی مانگے گا اورتجھ سے میری شادی کرے گا “ 

حرم کو یہ کہتا ماجد حرم کے سر سے دوپٹہ اتارنے لگا 

حرم تیزی سے دھکا دیتی ہوئی اسے دوسری طرف بھاگ گئی مگر دوسری طرف راستہ بند کر حرم کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا 

” اے میرے مالک میری عزت و آبرو کی حفاظت فرما آپ نے سات بند دروازوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کی 

مدد فرماٸی میرے اللہ میری مدد فرما “ 

حرم روتے ہوئے اونچی آواز میں اللہ تعالی سے دعا کرنے لگی اچانک حرم کو اپنے سامنے ایک بڑا سا ڈنڈا نظر آیا

وہ بنا وقت ضائع کیے ڈنڈا اٹھا کر ماجد کے کندھے پر مار گئی اور اس کے دوست کی ٹانگ پر مارتی باہر کی طرف بھاگنے لگیں 

” اوئے پکڑ سال**** کو “ ماجد تیش میں چیخ کر بولا 

حرم ننگے پاؤں ننگے سر تیزی سے روڈ پر بھاگنے لگیں 

اس کو آس پاس کچھ نظر نہیں آ رہا تھا وہ اندھادھند بھاگی جا رہی تھی اچانک ایک گاڑی کے سامنے آئی تو وہ ڈر کر پیچھے کی طرف ہوئی 

حاشر تیزی میں اس طرح آیا تھا جب اس نے ایک لڑکی کو بھاگتے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا قریب آ کر دیکھا تو 

 تو حرم کو دیکھ کر حاشر کی جان میں جان آئی مگر حرم کا حال دیکھ کر حاشر کی آنکھوں میں خون اتر آیا 

وہ جلدی سے گاڑی سے اترا 

” حرم حرم آپ ٹھیک ہیں یہ سب کس نے کیا بتاؤ مجھے“ 

حاشر کو دیکھ کر حرم میں اپنے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا بے ساختہ اس کے بازو سے لگ کر رونے لگی 

حاشر نے حرم کو چپ کرایا اور اس کے اپنے بازو سے پیچھے کرتا ہوا اس پر اپنا کوٹ ڈالنے لگا حرم نے حاشر کے کوٹ کو کسی قیمتی متاع کی طرح خود سے لپیٹ لیا 

” اوۓ ہیرو ہٹ آگے سے نہیں تو ابھی تیرا قصہ ختم کر دیں گے “ ماجد کی آواز پر حرم سہم کر حاشر کے پیچھے ہوئی 

” بہت بڑی غلطی کردی تم لوگوں نے اب تم دونوں نے اپنی موت کو خود دعوت دی ہے “ 

حاشر کہتا ان دونوں پر ٹوٹ پڑا اس نے ان کو مار مار کے آدھ موا کر دیا تھا حرم ہراساں کھڑی پیچھے حاشر کا یہ روپ دیکھ رہی تھی اور جو آج اس نے حاشر کے ساتھ کیا اس پر شدید شرمندگی تھی 

” ہمت ہمت کیسے کی تم لوگوں نے حرم کو ہاتھ لگانے کی بولو “  حاشر چیخ کر کہتا ماجد کی ناک کی ہڈی توڑ گیا 

ماجد کا دوست پیچھے سے ایک اینٹ اٹھا لایا اور حاشر کی طرف بڑھنے لگا یہ دیکھ کر حرم کی جان نکل رہی ہے

” سررر “ حرم کی چیخ پر حاشر نے مڑ کر پیچھے دیکھنا چاہا کہ ایک دم اسے کوئی چیز بہت بری سر پر لگتی محسوس ہوٸی 

حاشر کو ایک دم اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا اسے سمجھ نا آٸی کہ ایک دم اسکے ساتھ کیا ہوا پھر بھی وہ ہمت کرتا ماجد دوست کی ٹانگ پکڑ کراس کو گرا گیا

وہ دونوں مار کھا کھا کر بلکل بے جان ہو چکے تھے حاشر وہاں سے اٹھا اور حرم کی طرف بڑھنے لگا جانے لگا ہر ملک دیکھا کہ حاشر کے کان کے پیچھے سے شدید خون بہ رہا ہے وہ بہت پریشان ہوگی

حرم پہلے ہی خوب ڈری ہوئی تھی اور حاشر کو شدید غصے میں دیکھ کر وہ بہت گھبرا گئی تھی ایک دم اسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا اور وہ زمین بوس ہونے ہی والی تھی جب حاشر نے ہاتھ بڑھا کر کو تھام لیا 

حرم ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتے ہوئے حاشر کی باہوں میں جھول گئی اور حاشر اسے احتیاط سے تھام کر 

باہوں میں بھرتا ہوا گاڑی میں لے آیا حرم کا ٹھنڈا پڑتا ہوا وجود حاشر کو تشویش میں مبتلا کر گیا 

حاشر جلدی سے گاڑی چلاتا کر ہوسپٹل کی طرف جانے لگا مگر تھوڑا دور جاتے ہی حاشر کو اپنے سر میں شدید درد ہوتی اور چکر آتے محسوس ہوئے ساٸیڈ پر گاڑی روکتا ہوا اپنے سر کو تھام گیا مگر چوٹ شاید زیادہ شدید لگی تھی کچھ دیر میں حاشر بھی ہوش 

کھو بیٹھا 

” آج لوگ کچھ خاموش خاموش ہیں وجہ جان سکتے 

ہیں ہم کیا ؟ “ ریان فاٸقہ کو نظروں میں بھرتا بولا 

” تو سر آپ کے ساتھ بیٹھ کے میں کون سے گپے مارو

ایک تو باسط کو پتا نہیں کون سا مسلہ پڑا ہے “ 

فاٸقہ چڑ کر بولی 

” تو فائقہ کیا ہوا وہاں بیٹھے یا یہاں بس تو ایک ہی ہے نا“ ریان نے ہنسی دباتے کہا 

”  پتا نہیں ان سڑو سر کو کیا ہوگیا ہے پہلے اتنی سڑی سڑی باتیں کرتے تھے اب اور عجیب ہوگۓ ہیں “ 

فاٸقہ منہ میں بڑبڑانے لگی 

” جی کچھ کہا آپ نے “ ریان اس سے پوچھنے لگا

” نہیں سر آپ کی شان میں کوئی قصیدہ نہیں پڑھ رہی

آپ بے فکر رہیں “ فاٸقہ اس سے بول کے رخ موڑ گٸ 

” پڑھ بھی لیں تو کوئی برائی نہیں ہم تو ویسے ہی آپ سے اپنے بارے میں سننا چاہتے “ 

ریان فدا فدا انداز میں بولا 

” میری پیاری دوست فائقہ تم تو میں شکر گزار ہوگی نا 

میں نے کباب میں سے ہڈی جو نکال دی “ 

باسط فاٸقہ اور ریان کے پاس بیٹھتا ہوا بولا 

” باسط تم جیسے دوستوں کے لیے ایک خوبصورت شعر ہے میرے پاس سنو 

میسر ہو اگر تیرے بال

تو میں تیرا حلیہ بگاڑ دو

تجھے گنجا بنا دو “ 

فائقہ کا شعر سن کر ریان اور باسط کا قہقہ گونجا 

” سر اس آفت کو آپ ہی سنبھالیں میں تو چلا “ 

باسیط ان سے کہتا اپنی سیٹ پر چلا گیا

” ایسے خوبصورت شعر ہماری شان میں بھی پڑھ دیا کریں ہمارے لیے تو آپ کوئی شعر نہیں پڑھتی “ 

ریان فاٸقہ کو محبت سے کہنے لگا 

” آپ کو وہ شعر بھول گیا جو میں نے فرسٹ کلاس میں پڑھا تھا جو نئے شعر کی گنجائش باقی ہے “ 

فائقہ نے آنکھیں بڑی کر کے پوچھا 

       ” تمہاری ان خوبصورت آنکھوں کو دیکھ کر 

                                  ملکہِ دل 

           میرے دل کا دماغ خراب ہونے لگتا ہے 

ریان فاٸقہ کو تنگ کرتا ہوا بولا

” سر دیکھیں میں آپ کو ایک بہت اہم بات سمجھانا چاہتی ہوں عشق بہت بری بلا ہے

عشق کا سمندر بھی عجیب سمندر ہے

اگر جو آپ ڈوب گئے تو عاشق  

اگر اللہ خیر کرے بچ گئے تب بھی دیوانے

خدانخواستہ اگر تیرنے کی کوشش کی تو آپ شوہر بن جائیں گے “

 فاٸقہ دانت پیس روانگی میں بولتی چلی گٸ مگر آخری بات بولنے کے بعد ریان کی طرف سے کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ بہت زیادہ ہی بول گٸ ہے اپنی کم عقلی پر اس نے اپنا سر پیٹ لیا 

” ھاھاھا “ ریان کا چھت پھاڑ کر قہقہ گونجا تو سب اپنے سنجیدہ اور سوبر سے پروفیسر کو حیرت سے دیکھنے لگے 

” یا اللہ یہ جو میری زبان ہر وقت چلتی ہے نا اس کو تھوڑی سی کاٹ دیں ہر بار شرمندہ ہیں کرواتی ہے “ 

فاٸقہ رونی صورت بنا کر بولتی ہوٸی ریان کی طرف سے اپنا رخ موڑ کر سیٹ سے ٹیک لگاتے آنکھیں موند گٸ

💓💓💓💓💓💓💓💓💓

” رمشا کدھر جا رہی ہو اس وقت “ صبیحہ بیگم  رمشا کو رات میں باہر جاتے دیکھ کر بولا

” ماما دوستوں کے ساتھ کچھ پلان ہے وہی جا رہی ہوں“ 

رمشا موبائل میں دیکھی مصروف انداز میں بولی

” آج ہی کیا ہوگیا ہے اگر تمہارے ماموں یا حاشر نے دیکھ لیا تو مسلہ ہوجاۓ گا “ 

صبیحہ بیگم پریشانی سے بولی 

” نہیں ماما اور پلیز آپ یوں ٹوکا نہ کریں ویسے بھی اب 

جو چال میں چلنی تھی چل لی “ 

یہ کہہ کر رمشا وہاں سے نکل گٸ 

” ارے رمشا بیٹا آپ کیسی ہو “ خاور صاحب ( وقار صاحب کے پڑوسی) نے رمشا کو دیکھ کر بولا 

” جی “ رمشا انھیں پہچان نہیں سکی 

” بیٹا میں “ ابھی وہ بول ہی رہے تھے کہ رمشا کی بات 

کاٹتے بولی 

” دیکھئے انکل ابھی میں بہت مصروف ہو اور کہیں بہت ضروری جانا ہے اب جو کوئی بھی ہیں پھر کبھی ملیں گے“ رمشا بدتمیزی سے کہتی وہاں سے چلی گٸ 

” خاور آپ کیوں اس بدتمیز لڑکی سے بات کر رہے تھے “ 

مسز خاور نے رمشا کی بات سن کر کہا 

” نہیں وہ کل مجھے وقار بتا رہا تھا کہ اس کی بھانجی ہوسپٹل ایڈمیٹ ہے مگر یہ تو کہیں سے بھی بیمار نہیں لگ رہی “ خاور صاحب سوچتے ہوئے بولے

” ہاں ویسے بھابھی نے بھی مجھے بتایا تھا کہ کوئی زیادہ مسئلہ ہوا تھا اسے مگر مجھے تو کچھ اور ہی لگ رہا ہے “ مسز خاور بولی 

” چلو خیر سب کے اپنی زندگی ہمیں کیا چلو “ 

خاور صاحب کہتے ہوئے گاڑی گھر کی طرف موڑ گۓ 

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

حاشر کو کافی دیر بعد ہوش آیا اس کا سر بہت شدید 

چکرا رہا تھا اس نے اپنی بوجھل ہوتی آنکھوں زبردستی کھولنے کی کوشش کی کچھ دیر میں اسے ماحول سمجھ 

آنے لگا وہ کسی ہوسپٹل کے بیڈ پہ تھا ایک دم حرم کا خیال آتے وہ تیزی سے اٹھا مگر سر میں اٹھتی درد کی 

شدید لہر دوڑ گٸ 

” دیکھئے آپ پلیز اٹھیے نہیں میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں“ 

نرس اسکو ہوش میں آتا دیکھ بول کر باہر چلی گٸ 

” دیکھئے آپ پلیز لیٹے رہیں آپ کو شدید آرام کی ضرورت ہے آپ سر پر جو چوٹ لگی ہے کافی گہری ہے“ 

ڈاکٹر نے تحمل سے حاشر کو بتایا 

” ڈاکٹر میرے ساتھ “ حاشر بمشکل بولا 

” جی جی آپکی مسز بالکل ٹھیک ہیں بس وہ کچھ زیادہ سٹریس لے چکی ہیں شاید ایکسیڈنٹ کا تبھی انھے ہوش نہیں آ رہا مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے جلد ہوش جائے گا “ 

ڈاکٹر کی کہنے پر حاشر کی جان میں جان آٸی 

” لیکن ہم یہاں تک آئے گا کیسے “ حاشر نے ڈاکٹر سے پوچھا 

” شاید آپ کی کوئی نیکی اللہ تعالی کو بہت پسند آ گئی ہے اس نیکی کے صلے میں ایک رحم دل انسان آپ دونوں کو یہاں چھوڑ گیا “ 

ڈاکٹر چہرے پر شفیق مسکراہٹ سجائے بولے حاشر نے بھی دل ہی دل میں دعا کی

” سر پلیز مجھے اپنی مسز سے ملنا ہے “ حاشر ان سے بولا  تو وہ سر ہلاتے حاشر کو اپنے ساتھ روم میں لے گۓ 

” او میرے خدایا صبح کے چار بج رہے میں کیا کروں گا حرم کو بھی ہوش نہیں آرہا “ ڈاکٹر کے جانے کے بعد حاشر حرم کے بیڈ کے پاس بیٹھا تو اچانک اس کی نظر وال کلاک پر گٸ 

اچانک حرم کے وجود میں ہل چل ہوٸی اور اس نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی دماغ میں ابھی بھی وہ 

خطرناک واقعہ گھوم رہا تھا بمشکل آنکھیں کھولنے کے بعد اس نے حاشر کا چہرہ دیکھا اور فوراً سے اُٹھ گٸ 

” سر پلیز مجھے گھر جانا ہے میرا حمزہ رو رہا ہوگا “ 

حرم ممتا لیے لہجے میں بولی 

” پلیز حرم ریلیکس کریں آپ سٹریس مت لیں آپ سٹریس سے بےہوش ہوٸی تھی “ 

حاشر بولا 

” مگر سر بہت وقت ہو گیا ہے میری زندگی میں پہلے ہی بہت مشکلات ہیں آپ نے میری اتنی مدد کی اس کے لیے بہت شکریہ مگر ایک چھوٹا سا احسان اور کر دیں گھر لے چلیں پلیز “ حرم اس سے التجا کرتے بولی 

” اوکے چلیں “ حاشر کہتا جانے لگا مگر اچانک حرم لڑکھڑا سی گٸ مگر بروقت حاشر نے اسے گرنے سے 

بچایا 

حرم نے گھبرا کر زور سے آنکھیں میچ لی اور حاشر تو 

اس معصوم پری کے گھبراۓ گلابی چہرہ کو تکتا رہ گیا 

حرم کے لمبے گھنے سیاہ بال اسکی پشت پر بکھر گۓ تھے

گلاب سے لبوں کو زور سے دانتوں میں دباۓ وہ حاشر 

کا دل دھڑکا گٸ حاشر بنا اردگرد کی پرواہ کیے بس مگن 

اسکو دیکھی جارہا تھا اسکی پیاسی ترسی ہوٸی آنکھیں 

جیسے سراب ہو گٸ ہوں 

آنکھیں کہتی ہیں بیٹھے تو میرے روبرو💓

تجھ کو دیکھوں عبادت کرتا رہوں💓 

تیرے سجدوں میں دھڑکے دل یہ میرا💓

میری سانسوں میں چلتا ہے بس ایک تو💓

عشق دا رنگ تیرے مکھڑے تے چھایا💓 

جدوں دا میں تکیا اے چین نہیں آیا💓

کنا سونا 😍😍

کنا سونا تینوں رب نے بنایا💓

جی کرے ویکھ دا رواں💓

کنا سونا تینوں رب نے بنایا💓

” میں تمہیں کبھی نہیں کھو سکتا میری سانسوں میں بستی ہو تم “ بے ساختہ سرگوشی میں حاشر لبوں سے یہ الفاظ نکلے 

ان الفاظ پر حرم نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور حاشر کی آنکھوں میں جزبات کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دیکھ کر 

واپس پلکیں گرا لی حاشر اس منظر سے مسمراٸز ہوتا 

بے خود سا ہونے لگا مگر صبح والا واقعہ یاد کرکے فوراً حرم سیدھا کھڑا کرتا دو قدم دور ہوا 

” احتیاط سے چلیں ہر جگہ تھامنے والے نہیں ملتے “ 

سپاٹ لہجے میں جتانے والا انداز لیے حاشر بولا اور چلا گیا حرم بھی شرمندہ سی ہوتی اسکے پیچھے چل دی 

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓  

” تم سب کا تو الگ سے حساب ہوگا ہر جگہ مجھے اکیلا چھوڑ جاتے ہو ہمیشہ میں اکیلی پھنستی ہیں “ 

فاٸقہ بس سے اتر کر سحر سے بولی 

” یار حد کرتی ہو اب یہاں تو تم اکیلی ہی پھنسوگی نہ“ 

سحر مزاخیہ لہجے میں بولی تو نہ چاہتے ہوۓ بھی فاٸقہ  بھی ہنس پڑی 

لڑکے سب وہاں روکنے کا انتظام کر رہے تھے انکا ارادہ آج رات یہی ٹہرنے کا تھا دسمبر کے اولین دن تھے ہوا میں خنکی سب تو ٹھٹرے پر مجبور کر رہی تھی سحر اور فاٸقہ دونوں نے 

خود کو شال سے اچھی طرح کور کر رکھا تھا 

سحر سے بات کرنے کے بعد فاٸقہ نے نظر سامنے کی طرف 

دوراٸی ریان ریڈ شرٹ پر بلیک کلر کی جیکٹ پہنے جینز کے پاٸنچے تھوڑا سا فولڈ کیا وہ مصروف انداز میں کسی 

لڑکے کو کچھ کہہ رہا تھا ماتھے پر پڑے بال اسے مزید دلکش بنا رہے تھے فاٸقہ یک ٹک اسے دیکھے گٸ 

آج شاید وہ اسے زیادہ ہی ہینڈسم لگا تھا یا اتنے عرصے میں فاٸقہ نے غور ہی آج کیا تھا اس نے بھی ریڈ اور بلیک کنٹراس کی فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ پہنے 

خود کو بلیک چادر سے کور کیا ہوا تھا بال کھولے گلابی

لبوں پر لپ گلوز لگاۓ گھنی پلکوں کو مسکارے سے مزید 

گھنا کیے  وہ آج بہت پیاری لگ رہی تھی 

” اہم اہم نظر نہ لگا دینا ہمارے سر کو “ سحر اس کی 

نظروں کا تعاقب کرتے شرارتی لہجے میں بولی 

” میں کیوں نظر لگانی پاگل نہیں بنا کرو تم سحر “ 

فاٸقہ اسکو گھور کر بولی 

” مطلب کہ میڈم کا دل آگیا ہے واہ جی واہ محبت کے م کو مستی والا م سمجھنے والی فاٸقہ محبت کرنے لگی “ 

سحر کے شرارت سے کہنے پر فاٸقہ کے چہرہ پر گلال آگیا 

فائقہ کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اسے بھی شاید ریان سے محبت ہونے لگی ہے مگر وہ سمجھنے سے انکاری تھی 

لیکن آج مس تانیہ کا ریان کے ساتھ بیٹھنا اسے ذرا پسند نہیں آیا تھا تبھی مگر جب باسط نے تانیہ کو اٹھا کر اسکی جگہ پر فائقہ کو بٹھایا اور ریان کی وہ معنی خیز جملے یاد کر کے فائقہ کو دل میں ڈھیروں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا 

” چلو بہنوں او سوری اب تو تم دونوں بھابھیاں ہو چلو بھابھی نمبر 1 اور بھابھی نمبر 2 آپکی خدمات کے لیے 

ہم خادموں نے بندوست کر دیا ہے “ 

باسط ان دونوں سے آ کر بولا دونوں نے گھور کر اس کی طرف دیکھا اور جانے لگی 

” او بھائی نمبر 2 او اچھا اچھا سوری یار فاٸقہ وہ تم وہاں جاٶ سر ریان نے سپیشل تمہارے لیے وہ واٸٹ والا 

کیمپ سپیشل تمہارے لیے لگایا ہے “ 

باسط کی بات پر فائقہ نہیں اپنے دائیں طرف دیکھا تو وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ایک انتہاٸی خوبصورت 

سفید رنگ کا کیمپ لگا تھا اور باقی سب سے الگ لگ رہا 

تھا رات کے اس پہر کچھ چاند کی روشنی کیمپس کے درمیان جلتی آگ نے ماحول کو بہت حسین بنا ڈالا تھا 

فائقہ بے ساختہ قدم اٹھاتے ہوئے ریان کے کیمپ کی طرف چلی گئی اسے یہ منظر بہت حسین لگ رہا تھا کچھ

 نٸ نٸ چاہت کا خمار تھا جو ان دونوں کو ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہا تھا فائقہ کے آنے پر ریان دو قدم بڑھا کے اس کی طرف آیا اسی لمحے میں فائقہ نے اس کی طرف دیکھا 

کبھی شرارت کبھی معصومیت کبھی چاہت💓

اے دلربا 😻😘

ہم دل نہ دیتے تو کہاں جاتے 😍 “

ریان کے بے ساختہ بولنے والے الفاظ اسکا دل دھڑکا گۓ 

” فاٸقہ آپ کیا کر رہی ہیں یہاں چلے اپنے فرینڈز کے پاس جا کر بیٹھے یہاں ٹیچر بیٹھیں گے کیوں سر ریان “ 

تانیہ جو دور تھے ان کو یوں ایک دوسرے کو تکتا دیکھ رہی تھی جل کر فوراً ریان کے پاس آئی اور سخت لہجے میں فائقہ کو بولنے لگی 

” مس تانیہ آپ سے کس نے کہا کہ یہاں آپ بیٹھے گی 

یہاں پر فائقہ کو میں نے خود بلایا ہے اور فائیقہ ہی یہاں  بیٹھیں گی آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوگٸ ہے آپ کہیں اور بیٹھ جاٸیں “ 

ریان تانیہ کے آنے پر سخت بدمزہ ہوا تبھی سخت لہجے میں اسے سنا گیا تانیہ غصے میں پیر پٹختے ہوئے وہاں سے چلی گئی 

” اچھا ہوا چلی گٸ یہاں تو فاٸقہ ہی بیٹھی گی “ 

فاٸقہ حق سے کہتی ہوئی وہاں بیٹھ کے ریان کو اسکا یوں بولنا بہت اچھا لگا 

” چلیں ہم سب ایک گیم کھیلتے ہیں گیم یہ ہے کہ ہم ایک سونگ لگاٸیں گے یہ بال سونگ ختم ہونے پر جس کے ہاتھ میں ہو گی تو وہ اپنے دل کی سچ بات بتائے گا “ 

فہد کھڑے ہو کر ایک بال ہاتھ میں پکڑے بولا

” ڈن “ سب یک آواز ہو کر بولے 

سب سے پہلی باری باسط کی آٸی وہ مزے سے کھڑا ہوا 

اور اپنے دل کی بارت بولنے لگا

” میرا بچپن سے ایک خواب تھا کہ میں ایک بہت بڑا سنگر بنو اگر آپ سب کہتے ہیں تو میں آپ سب کو ایک 

اچھا سا گانا سناٶ “ 

باسط دانت دکھاتے ہوئے بولا

” ہاں ہاں باسط ضرور سناؤ “ سب نے اسکی بات پر کہا 

مگر جب باسط گانا گانا شروع ہوا تو سب نے پہلے دہل کے دل پر ہاتھ رکھا پھر اپنے پھٹتے کانوں پر 

” اللہ کا واسطہ باسط چپ کر جاؤ تمہارے اس پھٹے ہوۓ ڈھول جیسے سپیکر نے ہمارے کانوں کے پردے پھاڑ دیے ہیں جیان تو فضول ہی بد نام ہے ڈوریمون میں تو تمہیں ہونا چاہیے تھا “ 

فاٸقہ اٹھ کر زور سے اسکا بازو ہلا کر بولی 

” بدزوق بے وفا لڑکی “ اپنی بےعزتی پر باسط منہ بنا کر بیٹھ گیا 

گیم پھر شروع ہوٸی اب باری فہد کی آٸی تھی وہ کھڑا 

ہوا اور سیدھا ریان کے پاس گیا اس نے ریان کے کان میں 

کچھ کہا تو ریان نے اسکا کندھا تھپتھپا کر اسے اوکے کا 

اشارہ دیا سب نہ سمجھی سے دیکھنے لگے 

فہد واپس آیا اور سحر کو اشارہ کیا لیکن سحر نے نو لفٹ کا بورڈ منہ پر لگایا ہوا تھا وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھی فہد ناراض ہوتا وہاں سے چلا گیا تو سحر پریشانی 

سے اٹھی اسکے ایسا کرنے پر ریان اور باسط مسکرانے 

لگے 

” آ جا بھاٸی تیری بندی اٹھ گٸ ہے “ باسط نے فہد کو آواز لگاٸی تو فہد دوڑتا ہوا واپس آگیا 

” تھوڑا صبر نہیں تم میں فہد فٹافٹ ناراض ہو جاتے “ 

سحر اسکو آنکھیں دیکھاتے بولی 

” سحر میں آج ایک بات کہنی ہے تہمل سے سننا “ 

فہد نے سنجیدہ ہوتے کہا 

” کیا “ سحر جو سمجھ رہی تھی وہ اپنے دل کی بات کرے گا مگر اسے ضرورت سے زیادہ سنجیدہ دیکھ کر 

گھبرا سی گٸ 

” مجھے معاف کرنا میرے گھر والے میرے لیے پیاری سی لڑکی ڈھونڈھ چکے ہیں “ 

فہد کی بات پر سحر کی آنکھوں آنسوں ٹپ ٹپ گرنے لگے 

اسے اپنا دل روکتا محسوس ہوا 

” ہاں تو یہ بات مجھے کیوں بتا رہے ہو مجھے کیوں بلایا یہاں  “  سحر نے آنسوں ضبط کرتے ہوئے کہا

” کیوں کہ میں چاہتا ہوں میری دلہن سب سے پہلے تم دیکھو اس لیے “ فہد نارمل لہجہ اپناتے ہوۓ بولا 

” فہد یہ بات غلط ہے یہ تم کیا کر رہے ہو “

فاٸقہ پریشانی سے سب دیکھتے ہوۓ بولی 

” فاٸقہ انہیں بات کرنے دیں آپ پلیز “ ریان فاٸقہ کے پاس آکر بولا 

” لیکن سر “ فاٸقہ نے کچھ بولنا چاہا تو ریان کے اشارہ 

پر خاموش ہوگٸ 

” اچھا ٹھیک ہے ایسے تو ایسے ہی سہی دکھاٶ “ 

سحر ضبط سے بولی آنسوں روکنے کی کوشش میں

سحر کی آنکھیں اور ناک شدید سرخ ہورہی تھی 

فہد نے موبائل میں دیکھا اور زبردستی اپنی ہنسی روکتا ہوا موبائل سحر کے آگے کر دیا سحر نے پہلے فہد کی طرف دیکھا اسے بالکل خوش اور مطمئن دیکھ کر 

سحر نے گہری سانس لے کر موبائل میں دیکھا مگر یہ کیا 

آپنی اور فہد کی جشن آزادی والے دن کی تصویر دیکھ 

کر وہ حیران پریشان فہد کی طرف دیکھنے لگی

 فہد کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر سحر کو ساری گیم سمجھ آگٸ اس نے گھور کر فہد کو دیکھا ایک بار پھر

اس پکچر کو دیکھا یہ خوبصورت سی تصویر تھی 

جس میں فہد سحر کے کان کے قریب آ کر کچھ کہہ رہا تھا اور سحر کے چہرے پر ایک شرمیلی مسکان تھی 

” فہد تم انتہا کے بدتمیز انسان ہو فائقہ تمھیں بالکل ٹھیک کہتی ہے God blast you “ 

یہ کہہ کر سحر نے زور سے بال فہد کو دے ماری

سحر کی بات پر سب ہنسنے لگ گۓ 

سحر مڑ کر جانے لگی تو فہد نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے 

روکا اور اپنے گھر ویڈیو کال ملاٸی جس میں فہد کے والدین اور اسکے بہن بھاٸی سب منتظر بیٹھے تھے 

” بھائی اور کتنا انتظار کروانا ہے اب ہمیں ہماری بھابھی سے ملوا دیں پلیز “ فہد کی بہن بےصبری سے بولی 

” ہاں بھاٸی ملوا دیں جلدی میں نے میچ کھیلنے جانا ہے 

دوست ویٹ کر رہے مگر کہیں بھابھی کو سب سے پہلے یہ چڑیل نہ دیکھ لے اس لئے یہاں بیٹھا ہوا ہے “

پیچھے سے فہد کا بھاٸی بھی بولا 

” ہٹو تم دونوں سب سے پہلی اپنی بہو میں دیکھو گی 

فہد ملواٶ نہ ہمیں پرسوں سے انتظار کروا رہے ہو “ 

فہد کی امی محبت اور چاہت سے بولی ان سب کے اس

قدر پیار اور فہد کے اس طرح اسے عزت دینے پر سحر 

نے نم آنکھوں میں تشکر بھرے اسے دیکھا  

” یہ دیکھیں “ فہد نے یہ بول کر کیمرہ سحر کی طرف کر 

دیا تو سب نے دیکھ کر ماشااللہ کہا تو سحر جھینپ گٸ 

اس نے اپنا موبائل باسط کو پکڑایا اور خود سحر کے آگے 

گھٹنوں کے بل بیٹھ کر تھوڑا سر جھکاتے پھر محبت 

بھری آنکھوں سے اسے تکتے ہوۓ بولا 

” میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیا تم فاٸقہ کے بچوں کی خالہ بننے کے ساتھ ساتھ ممانی بننا پسند کرو گی “ 

فہد میں محبت سے سحر کو پرپوز کرتے ہوۓ آخر میں 

شرارتاً کہا تو سحر اور فاٸقہ دل کھول کر مسکرا دی 

سحر کے ہاں کہنے کے اور فہد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے 

پر سب نے تالیاں بجاٸیں اور خوب ہوٹنگ کی سب نے 

ان دونوں کو مبارک دی 

” بہت بہت مبارک ہو میری جان “ فاٸقہ نے دل سے مبارک دیتے ہوۓ کہا 

فائقہ کو اتنا خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ دیکھ کر ریان کو بھی بہت خوشی ہوٸی تھی اور وہ کچھ سوچتا 

ہوا اسکی طرف دیکھ کر مسکرا دیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤

” کیا کہہ رہے ہو ماجد تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا“ 

رآٸیمہ غصے سے پھنکاری 

” میں کیا کرتا اتنی کوشش کی اسکو پکڑنے کی مگر 

اسکا یار اسے بھگا کر لے گیا “ 

ماجد اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا 

” ایسے کیسے بھاگ سکتی ہے وہ تم سے ایک کام کہا تھا

ماجد حد ہے تم سے وہ بھی نہیں ہوسکا “ 

رآٸیمہ چیخ کر بولی 

” اتنا ہی تھا تو تم خود کر لیتی اتنی آسان نہیں ہوتا

 اسکا یار بڑی کوٸی تگڑی پارٹی تھی اتنا مارا ہے کمینے 

نے کہ چلا بھی نہیں جارہا “ 

ماجد کراہتے ہوۓ بولا 

” دیکھو ماجد اگر وہ صبح ہونے سے پہلے گھر آگٸ تو 

بنا بنایا کھیل بگڑ جاۓ گا ڈھونڈو اسے “ 

رآٸیمہ غصے سے پاگل ہوتی بولی 

” رآٸیمہ دیکھ میں اسے ہر جگہ ڈھنونڈھ چکا ہوں وہ 

نہیں ملی اب جو کرنا ہے تجھے ہی کرنا ہے “ 

ماجد اس سے بولا 

” اب کیا کروں میں تم کچھ کرو “ رآٸیمہ غصے اور پریشانی میں 

سب بھولے چال پر چال سوچ رہی تھی 

” رآٸیمہ وہ پہلے ہی میرا چہرہ دیکھ چکی ہے اب دیکھ 

تو کچھ کر نہیں تو ہمارا سارا پول کھول جاۓ گا “ 

ماجد نے بتانے پر رآٸیمہ بیڈ پر دھرم کر کے گری 

” ماجد تمہارا بیراغرق ہوجاۓ اتنے منحوس ثابت ہوگے 

تم مجھے پتا ہوتا کبھی تمہیں کہتی ہی نہ “ 

رآٸیمہ چیخ کر سر پکڑتے بولی 

” واہ نخرا کس بات کا ہے تیرا ہی کام تھا نہ اب بھگت 

مجھے کوٸی خاص دشمنی نہیں تھی تیری نند سے آٸی 

بڑی “ ماجد نے بھی غصے میں کہہ کر کال کٹ کردی 

رآٸیمہ پریشانی میں ادھر ادھر ٹہلنا شروع ہوگٸ براٸی 

کرتے ہوۓ لوگوں کو انجام کی فکر نہیں ہوتی اور 

رآٸیمہ جیسے لوگ اللہ کو بھولے بیٹھے ہوتے ہیں مگر 

وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے جب 

پکڑ ہوتی ہے ساری اکڑ خود بہ خود نکل جاتی ہے 

رآٸیمہ بھی انہی میں سے ایک تھی جو سب کا برا اور 

بس اپنا اچھا سوچتی تھی وہ بس بے بس اور بے آسرا 

حرم کو تکلیف دینے کی نت نٸ چالوں میں لگی رہتی تھی مگر وہ بھول گٸ تھی کہ اگر کوٸی کسی کے لیے 

کھڈہ کھودتا ہے تو وہ خود ہی اس میں گرتا ہے 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حاشر اور حرم جس وقت حرم کے گھر پہنچے تھے دن کا 

اجالا بڑھ گیا تھا حرم بہت خوفزدہ تھی مگر سب سے 

زیادہ پریشانی اسے حمزہ کی تھی 

” سر پلیز آپ مجھے یہیں اتار دیں آگے دو گلیاں چھوڑ 

کر میرا گھر ہے میں چلی جاٶ گی “ 

حرم حاشر سے ڈرتے ڈرتے بولی 

” نہیں حرم میں آپ کو خود آپکے گھر چھوڑ کے آؤں گا آپ کا ایسے اکیلے جانا مناسب نہیں “ 

حاشر نے حرم کا حلیہ دیکھتے ہوۓ کہا کیوں کہ حرم بنا 

ڈوپٹے اسکی جیکٹ میں تھی 

” لیکن سر آپ کا جانا بھی آپ پر ہزار سوالوں کو اٹھا دے گا اور میں نہیں چاہتی آپ کو فضول میں اس سب میں

گھسیٹا جائے “ حرم اپنے حلیے پر نظر ڈال کر شرمندہ ہوتے ہوئے بولی 

” حرم میں اتنا کم ظرف نہیں ہوں جو ہوا میری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا میں آپ کی پاکیزگی کا واحد گواہ 

ہوں میرا آپکے ساتھ جانا آپ کے لیے بہتر ثابت ہوگا آپ 

یقین کریں “ 

حاشر کے نرمی سے بولنے پر حرم خاموش ہوگٸ مگر 

اسکا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا 

وہ ابھی گلی میں داخل ہوٸی تھی کہ سب لوگ اسے بہت عجیب عجیب اور حقارت کی نظروں سے گھور رہے تھے 

وہ تیزی میں گھر کی طرف بڑھی 

رآٸیمہ کی آواز گھر کے باہر تک آرہی تھی حرم تیزی میں

گھر کے اندر گٸ رآٸیمہ اسکو دیکھتے ہی اسکی طرف 

بڑھی اور اسے بالوں سے پکڑ کر اس پر برس پڑی 

” بد چلن آوارہ عورت تجھے عزت سے اس گھر میں اس

لیے رکھا تھا کہ تو ہماری عزت داغدار کرے “ 

رآٸیمہ حرم کے بال پکڑ کر بولی 

” بھابھی میری بات سنے “ حرم درد سے بلبلا کر بولی 

” چپ کر تو منہ توڑ دو گی تیرا “ رآٸیمہ اسکو غصے 

سے بولی 

گھر کے اندر داخل ہوتے حاشر نے جب یہ سب دیکھا تو 

فوراً حرم کی طرف آیا اور اسکو رآٸیمہ سے چھڑاتا ہوا 

پیچھے کرنے لگا 

” یہ کیا جہالت ہے یہ کوٸی طریقہ ہے کم از کم اسکی 

بات تو سنے “ حاشر سختی سے بولا 

” ساری رات رنگ رلیاں منانے کے بعد اب کیوں آٸی ہے

اور اپنے اس یار کو کیوں لاٸی ہے “ 

رآٸیمہ کے اس طرح بولنے پر حاشر نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کسیں 

داٶد اپنا سر پکڑے صوفے پر بیٹھا تھا حرم بھاگ کر اسکے پاس گٸ اور اسکو روتے ہوۓ کہنے لگی تبھی 

داٶد کا ہاتھ اٹھا اور حرم کے چہرے پر نشان چھوڑتا 

چلا گیا 

اتنے شدید ردِ عمل پر ایک وقت کو رآٸیمہ بھی ڈر کر 

پیچھے ہوٸی حرم بے یقینی اور آنسوں بھری نظروں سے داٶد کی طرف دیکھنے لگی جسکی آنکھوں میں اپنے لیے 

نفرت حقارت بےحسی اور بےاعتمادی دیکھ کر حرم کا 

دل کٹ کر رہ گیا 

محلے میں طرح طرح کی باتیں سننے اور رات سے حرم 

کے لیے پریشان ہوتے ہوۓ خالہ نے حمزہ کو گود میں 

لیا اور انکے گھر آگیں مگر یہاں کا منظر دیکھ کر وہ 

شدید پریشان ہوگیں 

” دیکھیے آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں ہماری بات سنے “ 

حاشر آگے بڑھ کر بولا 

” بس لڑکے میں مولوی کو بلاتا ہوں تم نکاح کرو اور لے کر چلتے بنو اس کو “ داٶد نے ہاتھ بڑھا کر اسے چپ کرواتے ہوۓ کہا 

داؤد کی بات پر حرم میں تڑپ کر اس کی طرف دیکھا

اسکا بھاٸی اتنا بےحس ہو جائے گا یہ تو اس نے  کبھی سوچا ہی نہ تھا

” میں حرم سے نکاح کیوں کروں حد ہے جب ایسا کچھ ہے ہی نہیں تو کیوں کروں “ حاشر سختی سے بولا 

اپنی اتنی سبکی پر حرم کے آنسوں ٹوٹ کر گرے 

” ٹھیک ہے تو پھر رآٸیمہ بلاٶ ماجد کو ہم ابھی اس سے 

اس لڑکی کا نکاح کر کے اسکو دفع کرتے ہیں “ 

داٶد کی بات پر حرم دہل کر رہ گٸ 

حمزہ مسلسل رات سے رو رہا تھا اب ماں کو دیکھ کر 

بار بار اسکی طرف لپک رہا تھا حرم بھاگ کر اسکی 

طرف آٸی اور خالہ سے حمزہ کو پکڑتے اس سے لپٹ کر

رو دی اور یہی وقت تھا جس نے حاشر کو فیصلہ لینے 

پر مجبور کردیا تھا 

” ٹھیک ہے میں راضی ہوں اس نکاح پر “ حاشر کے کہنے 

پر حرم نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا 

رآٸیمہ نے پہلے بےیقینی سے حاشر کی طرف اور پھر 

نفرت سے حرم کی طرف دیکھا جسکی زندگی برباد کرنے 

میں اسنے جوٸی کسر نہیں چھوڑی تھی 

دس منٹ بعد داٶد مولوی صاحب کو بلا لایا اور ایک  لمحے میں حرم اور حاشر ایک مضبوط رشتے میں بندھ گۓ حرم بلکل ساکت بیٹھی تھی ایجاب و قبول کے مراحل کب کیسے انجام پاۓ اسے کچھ ہوش نہیں تھا 

ایک پل نے اسکی زندگی بلکل بدل کر رکھ دی تھی 

حاشر بھی عجیب سی کیفیت سے دوچار تھا وہ حرم کو 

بہت چاہتا تھا مگر یہ سب اس نے خواب میں بھی تصور 

نہ کیا تھا ایک منٹ نے سب بدل کر رکھ دیا تھا 

حاشر نے ساتھ بیٹھی اپنی شریکِ حیات اپنی متاعِ جان کو دیکھا جو بلکل ساکت سی بیٹھی تھی اسے دل و جان 

سے اس لڑکی کی زندگی پر افسوس ہوا جس کی زندگی میں شاید خوشیوں سے ہزار گنا زیادہ دکھ تھے 

اس ایک پل میں اس نے خود سے وعدہ کیا 

” وعدہ کرتا ہوں کہ مرتے دم تک اسکا ساتھ نہیں چھوڑوں گا اور اسے اتنی خوشیاں دوں گا جو تمہاری 

تمام تکالیف کا مداوہ کردیں گے “ 

حاشر عزم کرتے ہوۓ کھڑا ہوا حرم کی گود سے حمزہ 

کو پکڑ کر حرم کا ہاتھ تھام کر خالہ کے پاس آیا 

”آپ بڑی ہیں آپ اجازت دیں میں اپنی بیوی اور بیٹے کو گھر لے جانا چاہتا ہوں “ حاشر خالہ کے سامنے سر جھکاتے ہوۓ بولا 

” ہاں بیٹا جاٶ لے جاٶ اللہ تم دونوں جو ڈھیروں خوشیاں دے “ خالہ  دونوں کو دعائیں دیتیں ہوٸی بولی تو حرم 

انکے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی 

حرم نے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہوۓ مڑکر دیکھا مگر داٶد کے منہ موڑنے پر آنسوں پیتے حاشر کا 

ہاتھ تھامتے باہر نکل گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” تو میڈم کیسا لگا پھر ہمارا انداز آپ کو “ فہد سحر کے 

ساتھ بیٹھتے ہوۓ بولا 

” بہت بےکار “ سحر منہ بناتے ہوۓ بولی اسکی بات پر 

فہد نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا 

” کیوں بھٸ یہ کیا بات ہوٸی اب “ فہد چڑ کر بولا 

” یہ سرپراٸز تھا تمہارا جان نکال دی تھی میری دل کیا 

اس چڑیل کا منہ نوچ لوں جسے تم اپنی دلہن بول رہے 

تھے “ سحر آنکھیں گھوما کر بولی 

” چلو بہن نیکی اور پوچھ پوچھ اب جلدی سے یہ نیک کام کرو اپنے منہ کو جنگلی بلی کی طرح نوچنا شروع کرو “ باسط فہد کی دوسری طرف سے منہ نکال کر بولا 

” حد ہے باسط تمہارا ہر دفعہ ہماری بات میں ٹانگ اڑانا 

ضروری ہے “ سحر چڑ کر بولتے ہوۓ وہاں سے اُٹھ کر 

چلی گٸ 

” بہت ہی منحوس لگے ہو تم باسط “ فہد آنکھیں دیکھاتے ہوۓ بولا  

گیم دوبارہ شروع ہوٸی اور اب کی بار بال ریان کے پاس

رکی ریان تو جیسے اسی انتظار میں تھا وہ فوراً مسکراتے ہوۓ کھڑا ہوا اور بس کی طرف بڑھا فاٸقہ اسکی طرف متوجہ تھی 

ریان بس میں سے اپنا گٹار اٹھا لایا اور بیچ و بیچ ایک 

کرسی رکھتے اس پر بیٹھ گیا  فاٸقہ کو اپنی طرف دیکھتا دیکھ مسکرا کر گٹار کی دھن بجاتا بولا

 ” فاٸقہ یہ صرف آپکے لیے “ محبت سے فاٸقہ کو تکتے 

ہوۓ ریان بولا تو فاٸقہ کے چہرے پر بھی رونق سی 

آگٸ تھی 

تیرے در پے آکے تھم گئے

نینا نمازی بن گئے

ایک دوجے میں یوں دھل کے

عاشقانہ آیت بن گئے 

میں اور تم 

خوبصورتی سے گٹار کی دھن پر پر گانے کے بول بولتا 

کبھی فاٸقہ کو دیکھتا اور کبھی مسکرا کر آنکھیں بند کرتا ریان اپنی ساحرانہ آواز میں سب پر چھا گیا تھا

کیسے دل لگائی کر گئے

روح کی رباعی بن گئے

خالی خالی دونوں تھے جو

تھوڑا سا دونوں بھر گئے 

میںاور تم 

فاٸقہ تو بلکل ریان کی آواز کے سحر میں ڈوب گٸ تھی 

ریڈ شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ پہنے وہ بلکل مگن انداز

میں گنگناتا اسے اپنے دل و دماغ پر قابض ہوتا محسوس 

ہورہا تھا 

چلو جی آج صاف صاف کہتا ہوں 

اتنی سی بات ہے مجھے تم سے پیار ہے

یوں ہی نہیں میں تم پہ جان دیتا ہوں

اتنی سی بات ہے مجھے تم سے پیار ہے

گانے کے بول ختم ہونے پر سب نے کھڑے ہو کر تالیاں بجاٸیں اور خوب ہوٹنگ کی 

ریان قدم بڑھاتا فاٸقہ کی طرف بڑھا اور گھٹنوں کے بل 

بیٹھتا ایک خوبصورت سی انگھوٹھی ہاتھ میں لیے 

اس کے آگے کرتا تھوڑا سر جھکاتے اور پھر آنکھوں میں

مان اور محبت بڑھ کر فاٸقہ سے بولا 

” Faiqa Hamdani Will You Marry Me 🙈💗” 

ریان کے ایسا کہنے پر فاٸقہ پہلے تو بہت کنفیوز ہوٸی 

مگر وہ فاٸقہ ہی کیا جو سیدھا جواب دے دے 

” ایک شرط پر ہاں بولوں گی “ فاٸقہ مزے سے اتراتے 

ہوۓ بولی 

” ہیں کیا لڑکی کیا ہے اتنا اچھا تو پرپوز کر رہے سر 

تمہیں نخرے کیوں کر رہے “ باسط چلا کر بولا تو فاٸقہ 

نے گھور کر اسے دیکھا 

” مجھے میرے سٹاٸل میں پرپوز کریں “ 

فاٸقہ کے ایسا بولنے پر ریان سوچ میں پر گیا مگر کچھ 

سوچ کر بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے بولا 

” کیا آپ ساری زندگی دن رات مجھے ستانے کا ٹھیکہ 

اٹھانا پسند کریں گی “ ریان کے ایسا بولنے پر سب کا 

قہقہ گونجا فاٸقہ دل کھول کر ہنسی 

” اوکے مگر میں عشق کرنے کے لیے تو نہیں ہاں ناک میں دم کرنے کے لیے ضرور پیدا ہوٸی ہوں “ 

فاٸقہ شرارت سے کہتی اپنا ہاتھ ریان کے ہاتھ میں پکڑا 

گٸ ریان کے رنگ پہنانے پر سب نے خوب زوروشور سے 

تالیاں بجاتے انہیں مبارک باد تھی 

” مجھے تم سے پیار ہے “ گانے کی آخری لاٸن ریان نے 

فاٸقہ کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوۓ اسکے کان کے قریب 

ہوتے سرگوشی میں کہے تو فاٸقہ اسکی آنکھوں میں 

دیکھ کر مسکرا دی 

حرم گاڑی میں بیٹھے مسلسل بے آواز رو رہی تھی حاشر 

کار ڈراٸیو کرتا بار بار اسکی طرف دیکھ رہا تھا مگر 

فلحال وہ اپنے گھر والوں کا رویہ سوچتے ہوۓ شدید 

پریشان تھا ناجانے آگے کون سا طوفان کھڑا ہونے والا تھا 

وہ دونوں بلکل خاموش تھے بولنے کے لیے شاید کچھ بچا ہی نہ تھا گاڑی میں صرف حرم کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی 

حمزہ جو حرم کی گود میں کافی دیر سے سو رہا تھا 

اچانک اٹھا اور رونے لگ گیا گاڑی میں خاموشی کو حمزہ 

کے رونے کی آواز نے توڑا تھا دونوں حمزہ کی طرف 

متوجہ ہوۓ حرم مسلسل اسے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی مگر حمزہ مسلسل روئے جا رہا تھا 

” یہ اتنا کیوں رو رہا ہے کیا ہوا اسے “ حاشر نے پریشان 

ہوتے ہوۓ پوچھا 

” وہ “ حرم بول کر رک گٸ حرم بھی شدید پریشان تھی 

سب اتنا اچانک ہوا حمزہ کی کوٸی چیز تک نہ لے سکی 

تھی اور اب حاشر کو کہنا اسے بہت عجیب لگ رہا تھا 

مگر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کرے تو کیا کرے 

” کیا ؟ آپ ایزیلی مجھے بتا سکتی ہیں “ حاشر نرمی 

سے بولا 

” وہ وہ  سب اتنا اچانک ہوا میں حمزہ کی کوٸی چیز نہیں لے سکی اب اسے ببھ۔۔بھوک لگ رہی ہے “ 

حرم شرمندہ سی جھجھکتے ہوئے بولی 

حرم کے بتانے پر حاشر کو اپنی کم عقلی اور لاپرواہی 

پر شدید افسوس ہوا کم از کم اسے یہ تو یاد رکھنا چاہیے

تھا ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی ہے  

” ایم ریلی سوری میرے زہن سے بلکل نکل گیا آپ دو 

منٹ ویٹ کریں میں ابھی آیا “  

حاشر جی بھر کر شرمندہ ہوتا ہوا بولا اور گاڑی روک کر 

باہر چلا گیا 

حاشر حمزہ کے لیے دودھ ڈاٸمپر فیڈر اور ڈھیر ساری 

ضرورت کی اشیا کے ساتھ ساتھ بچوں کے کھانے کی 

کافی ساری چیزیں لیتا جانے لگا جب اسے یاد آیا کہ 

حرم بھی کل سے بھوکی ہے 

وہ حرم کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں لیتا ہوا گاڑی میں آیا حرم اسکے ہاتھوں میں اتنا سب دیکھ کر حیران 

سی دیکھنے لگی 

” یہ فلحال میں یہ چیزیں لے آیا ہوں جو مجھے سمجھ آیا اس کے علاوہ کچھ منگوانا ہے تو آپ مجھے بتا دیں 

میں لے آتا ہوں “ حاشر کچھ چیزیں گاڑی کی بیک سیٹ پر رکھتا ہے دودھ اور پانی کی بوتل حرم کو پکڑاتا ہوا

کہنے لگا 

” ابھی کیا باقی رہتا ہوگا آپ پوری دکان تو خرید لاۓ 

ہیں سر بہت شکریہ مگر اتنے سب کی ضرورت نہیں تھی“ حرم حاشر کے ہاتھ سے سامان لیتے ہوئے بولی 

” نہیں وہ کبھی بےبی کی چیزیں نہیں لی نا تو اتنا آئیڈیا نہیں تھا اس لئے بس کچھ چیزیں لے آیا “ 

حاشر بولتے ہوئے ایک شاپر سے کچھ چیزیں نکالنے لگا 

” حمزہ بےبی یہ کھاٶ گے مزے کی جیلی ہے “ حاشر حمزہ 

کے سامنے کچھ چیزیں کرتا بولا

 حاشر کے ایسا کرنے پر بےساختہ حرم مسکرانے لگی 

” سر یہ ابھی بہت چھوٹا ہے اتنے چھوٹے بچے یہ سب نہیں کھا سکتے “ حرم ہنسی ضبط کرتے بولی 

لبوں کو بھینچے ہنسی ضبط کرتے باٸیں گال پر پڑتا ڈمپل 

حاشر کو دیوانہ کرگیا حاشر یک ٹک اسے تکتا جارہا تھا 

حرم نے جب حاشر کو مسلسل خود کو تکتا پایا تو کنفیوز

سی ہوتے حمزہ کا دودھ بنانے لگ گٸ مگر کچھ نروسنس 

اور کچھ کمفرٹیبل نہ ہونے پر بار بار پانی فیڈر میں جانے 

کی بجاۓ اسکے کپڑوں پر گری جارہا تھا 

حاشر نے اس کے ہاتھ سے پانی کی بوتل پکڑی اور کھول 

کر دی حرم نے اسکی مدد بھی شکریہ کہہ کر حمزہ کو 

دودھ پلایا تو حمزہ دودھ پیتے ہی سوگیا تب جا کر حرم

نے سکھ کا سانس لیا 

” حرم آپ بھی کچھ کھا لیں پلیز آپ نے کل سے کچھ نہیں کھایا “ حاشر نے ایک بیگ اسکی طرف بڑھاتے 

ہوۓ کہا 

” نہیں سر شکریہ میرا بلکل بھی دل نہیں ہے کچھ کھانے 

کا آپ کھالیں آپ بھی کل سے میری وجہ سے خوار ہو رہے ہیں آپ نے بھی کچھ نہیں کھایا “ 

حرم بولتے ہوۓ شرمندہ ہوٸی 

” پلیز حرم آپ ویسے شرمندہ نہ ہوں جو ہوا اس میں 

آپکا تو کوٸی قصور نہیں تھا یہ سب قسمت میں لکھا 

تھا “ حاشر حرم کو دیکھ کر بولا 

” نہیں سر میری وجہ سے آپ کو یہ سب دیکھنا پڑا ہے 

ورنہ آپ کیوں ایک بیوہ اور ایک بچے کی ماں سے نکاح 

کرتے مگر سر بہت جلد میں اپنا بندوست کر لوں گی 

زیادہ دیر آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی جلد ہی آپ کو اس رشتے سے آزادی دے دوں گی “ 

حرم حاشر کو دیکھے بنا بولتے چلی گٸ چپ تو وہ تب ہوٸی جب حاشر نے غصے سے ایک گاڑی کو بریک لگاتے ہوئے اس کی کلاٸی پکڑی 

” آج تو یہ بات کی ہے مسز حرم حاشر ہمدانی آج کے بعد ایسا بولنا تو دور کی بات سوچنا بھی مت ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا “ حاشر غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں 

سے اسے گھورتا ہوا بولا 

” رہی بات اس رشتے اور شادی کی تو میں پہلے بھی آپ سے شادی کرنا چاہتا تھا آپ ہی تھپڑ مار گٸ تھی بے شک ایسے نہیں سوچا تھا کہ ایسے شادی ہو مگر میری نیت تب بھی پاک ہی تھی مگر شاید اللہ کو ہمارا آپس میں رشتہ بننا ایسے ہی منظور تھا “ 

حاشر حرم کو ڈرتا دیکھ نرم لہجے میں بولا 

” اور حمزہ صرف آپ کا بیٹا نہیں ہے یہ اب میرا بھی بیٹا ہے اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا میرا فرض ہے اور آپ میری بیوی ہیں آپکا خیال بھی مجھے ہی رکھنا ہے 

مگر ہمارے رشتے کو ختم کرنے کی بات کرکے اپنی اور میری دل آزاری مت کریں “ حاشر کرب سے بولا

حرم نے نظریں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا کیا نہیں تھا اس کی نظروں میں مان محبت چاہت اپنی قدر و عزت 

جنون اپنائیت سب ہی تو تھا 

وہ حرم کی خاطر ہر ایک سے لڑتا آیا تھا ہر مشکل میں

کہیں نہ کہیں اسکا ساتھ دیتا آیا تھا اللہ نے اسے حرم 

کے لیے فرشتہ ہی تو بنا کر بھیجا تھا حرم کو اس وقت اپنے نصیب پر رشک ہونے لگا تھا اللہ نے اسے حاشر کی صورت میں اس کے صبر کا بہت خوبصورت پھل دیا تھا 

ایسا لائف پارٹنر شاید ہی کسی کو ملے حرم اپنے رب کی 

رضا میں دل سے راضی ہوگٸ تھی 

حرم کافی دیر بنا پلکیں جھپکائے اس کو دیکھتی رہی

حاشر نے جب اسے اپنی طرف اتنی محویت سے تکتا پایا 

مسکراتے ہوے چٹکی بجاتا اسے ہوش میں لایا

” مسز گھر جا کر تسلی سے دیکھ لیجئے گا اب آپ کا ہی ہو ایک اکلوتا شوہر🙈 “ 

حاشر کے شرارت سے کہنے پر حرم خجل ہوتی نظریں جھکا گی 

” اچھا پلیز اب کچھ کھالیں اتنی بات تو رکھ سکتی ہے میری “ حاشر کے کہنے پر حرم نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا 

” حرم پلیز ٹھیک ہے میں سمجھ سکتا ہوں اتنی جلدی 

اس رشتے کو قبول کرنا آسان نہیں مگر کیا ہوا ہم دوست

تو بن سکتے ہیں نا “ 

حاشر کے اتنے مان سے کہنے پر حرم نم آنکھوں سے اثبات میں سر ہلا گٸ 

” فرینڈز ؟ “ حاشر نے حرم کی طرف ہاتھ بڑھاتے کہا 

حاشر کے ہاتھ بڑھانے پر حرم نروس سی ہوتی سوچ 

میں پڑ گٸ حرم کو سوچوں میں گم دیکھ کر حاشر ہاتھ 

پیچھے کرنے ہی والا تھا کہ حرم نے اس کا ہاتھ تھام لیا

حاشر مسکرا دیا 

گاڑی اپنی منزل پر رواں تھی اور وہ دونوں اپنی 

نٸ زندگی کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں ہزار مشکلات 

کے باوجود بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر راستے 

آسان ہونے کی امید قاٸم تھی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” یااللہ میرے بچے کی حفاظت فرما ناجانے کہاں ہے یااللہ اسکو خیر خیریت سے گھر بھیج دے “ 

صوفیہ بیگم ساری رات سے پریشان تھی زندگی میں 

پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ حاشر پوری رات گھر نہیں آیا تھا صوفیہ بیگم باہر لان میں آئیں بے چینی سی محسوس کرتی وہ مین ڈور تک چلی گٸ 

سامنے ہی انکے پڑوسی خاور صاحب کی بیوی فاطمہ انکو دیکھ کر انکی طرف آٸی صوفیہ بیگم بھی انہیں

 ہی دیکھ رہی تھی 

” السلام علیکم صوفیہ بھابھی کیا ہوا آپ کچھ پریشان 

لگ رہی ہیں “ فاطمہ نے آکر ان سے پوچھا 

کسی کا سہارا ملنے پر صوفیہ بیگم کی آنکھیں نم ہوگٸ 

فاطمہ تو ویسے بھی انہیں بہنوں کی طرح لگتی تھیں 

” فاطمہ میں بہت پریشان ہو ساری رات گزر گئی ہے میرا حاشر ابھی تک نہیں آیا“ 

صوفیہ بیگم پریشانی سے بولی

” اچھا آپ پریشان نہیں ہوں آجائے گا وہ آپ مجھے بتائیں کیا پریشانی ہے شاید میں کوئی حل نکال سکوں “ 

فاطمہ انہیں تسلی دیتے ہوئے بولی 

صوفیہ بیگم نے ساری بات فاطمہ کو بتائیں شروع سے کیسے رمشا نے پہلے رشتہ بھیجوآیا اور پھر انکار کرنے پر خودکشی کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے وقار صاحب اور حاشر کے درمیان رنجش آگٸ 

” صوفیہ بھابھی حاشر نے اس چالباز لڑکی کو انکار کر کے بہت اچھا کیا حاشر ماشااللہ سمجھدار بچہ ہے “ 

فاطمہ کے ایسا بولنے پر صوفیہ بیگم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا 

صوفیہ بیگم کی حیرانی دور کرنے کے لیے فاطمہ نے کل اپنی اور خاور کی رمشا سے ہوٸی ملاقات کے بارے میں بتایا 

” صوفیہ بھابھی وہ مجھے کہیں سے بھی بیمار نہیں لگی تھی وہ تو ایسے بہت تیار تھی کہیں جانے کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی سازش تھی یہ سب کرنا “ 

فاطمہ بیگم کے بولنے پر صوفیہ بیگم فائقہ اور حاشر کی باتوں کو یاد کر کے غور کرنے لگی 

” پلیز کوشش کریں اپنے بچوں کو ان لوگوں سے دور رکھیں اچھا بھابھی آپ پریشان نہ ہوں حاشر آجائے گا میں پھر چکر لگاؤں گی “ 

یہ کہہ کر صوفیہ بیگم اندر آ گئی ہیں اور ناشتے کی تیاری کروانے لگی 

حاشر حرم اور حمزہ کو لیے گھر میں داخل ہوا صوفیہ بیگم حاشر کی گاڑی کی آواز پر خوشی سے باہر کی طرف آئیں مگر حاشر کے ساتھ ایک لڑکی اور بچے کو دیکھ کر 

وہ حیران و پریشان کھڑی رہ گٸ مگر حاشر کے سر پر لگی پٹی دیکھ کر فوراً پریشانی سے اس کی طرف بڑھی

” حاشر بچے کہاں تھے آپ ساری رات اور یہ کیا ہوا ہے آپ کو آپ ٹھیک تو ہو نا اور یہ “ 

صوفیہ بیگم پریشانی سے حاشر کو پوچھتے ہوئے بعد میں حرم کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے لگی 

” مما پریشان نہیں ہوں آپ اور یہ آپکی بہو اور پوتا ہے“ 

حاشر نے مسز ہمدانی کو اپنی خیریت بتانے کے بعد حرم اور حمزہ کا تعارف کروایا

” حاشر یہ کیا کہہ رہے ہو ایسا کیسے ہو سکتا “ 

صوفیہ بیگم پر تو مانو حیرت کو پہاڑ گر گیا ہو کیونکہ 

وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی حاشر بنا کسی کو بتائے اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا 

” مما یہی سچ ہے میں نے سوچا اب چھپانے کا کیا فاٸدہ 

یہ وجہ ہے میرا رمشا کے رشتے سے انکار کرنے کی اس لیے میں اپنی بیوی اور بیٹے کو لے آیا ہوں “ 

اب کی بار صوفیہ بیگم کے ساتھ ساتھ حرم نے بھی حیران کن نظروں سے حاشر کو دیکھا کہ وہ جھوٹ کیوں

بول رہا 

” مگر حاشر اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے ہم سے تو بات کرتے اتنے ٹاٸم سے پوچھ رہے مگر تم نے سب کیوں چھپایا شادی تو شادی تمہارا بچہ بھی ہے وقار صاحب 

کو پتہ چلا تو ناجانے کیا طوفان کھڑا ہوجانا یہ کیا کیا 

تم نے حاشر “ 

صوفیہ بیگم حاشر کو پریشانی سے کہتے اپنا سر پکڑے 

صوفے پر ڈھے گٸیں 

” واہ برخوردار واہ بہت اچھے بہت نام روشن کیا ہے تم نے اپنے ماں باپ کا “

 وقار صاحب کی گرجدار آواز پر صوفیہ بیگم کے ساتھ ساتھ حرم بھی کانپ گٸ 

” بابا پلیز میری بات سنے آپ میرا آپ کو ہرٹ کرنے کا ارادہ بلکل نہیں تھا “ 

حاشر بولتا ہوا ان کے قریب آیا مگر وقار صاحب نے ہاتھ بڑھا کر روک دیا 

” تم نے ہمیں کہیں منہ دکھانے قابل نہیں چھوڑا حاشر “ 

وقار صاحب کے کرب سے کہنے پر حاشر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ گیا 

” بابا پلیز ہوسکے تو مجھے معاف کر دیجیےگا میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا “ 

حاشر بکھرے ہوۓ لہجے میں بولا حاشر کی حالت دیکھ کر حرم کا دل کٹ کر رہ گیا یہ سب کی وجہ وہی تو تھی 

وہ بنا آواز آنسو بہانے لگی 

” میرا فیصلہ ابھی بھی وہی ہے تم اپنے بیوی بچے کو لو اور جاٶ یہاں سے مرگیا میرا بیٹا میرے لیے “ 

وقار صاحب کے سختی سے کہنے پر صوفیہ بیگم نے دہل کر دل پر ہاتھ رکھا

” بس وقار صاحب بس آپ کو اتنا بڑا فیصلہ کرنے کا حق نہیں دوں گی میں سوتیلی ہی سہی مگر ماں ہوں میں حاشر کی “ صوفیہ بیگم کے سخت لہجے میں بولنے پر حاشر اور وقار نے حیرت سے صوفیہ بیگم کی طرف دیکھا 

” کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے پوری سچائی جان لیجئے گا یہ نہ ہو کہ آپ بعد میں پچھتاتے رہ جاٸیں “ 

صوفیہ بیگم کے اس شدید ردِعمل پر وقار صاحب ساکت رہ گے اور حاشر بھی حیران رہ گیا 

” حاشر بہو کو لے کر کمرے میں جاٸیں آپ “ 

حاشر سے کہتی صوفیہ بیگم وہاں سے چلی گٸ اور حاشر حمزہ اور حرم کو لے کر کمرے میں آ گیا 

صوفیہ بیگم نے آج سے پہلے ایسا نہیں کیا تھا ان کا 

یہ رویہ وقار صاحب کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرگیا تھا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” نہیں حاشر تم ایسا کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ “ 

رمشا غصے سے پاگل ہوتی چیخی 

” رمشا بیٹا پلیز اپنے آپ کو سنبھالو “ 

صبیحہ بیگم شدید پریشانی سے بولی 

” نہیں ماما میں جان سے مار دوں گی دھوکا کیا ہے اس نے میرے ساتھ “ رمشا چیزیں زمین پر پھینکتے بولی 

” حاشر ہمدانی اب تم دیکھو تمہارے ساتھ میں کیا کروں 

گی میری زد اور محبت دیکھی نہ اب نفرت دیکھو گے 

تم “ رمشا زخمی ناگن بنے پھنکاری 

جب سے وقار صاحب نے کال کر کے صبیحہ بیگم اور رمشا کو حاشر کی شادی اور بیٹے کا بتایا تھا تب سے 

رمشا شدید تیش میں تھی اسکی اتنی بڑی چال بھی 

ناکام ہوگٸ تھی 

لوگ سازشیں کرتے وقت سوچتے نہیں کہ اوپر ایک زات سب دیکھ رہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ہونا وہی ہے 

جو اللہ کی زات نے چاہنا ہے انسان کے بس میں تو کچھ بھی نہیں 

صبح پانچ بجے کا وقت تھا ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا ماحول میں خنکی پیدا کر رہی تھی سورج کی ہلکی پھلکی کرنے 

نیلے آسمانوں کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگا رہی تھی پرندوں کی چہچہاہٹ گونج رہی تھی قدرتی خوبصورتی نے ماحول میں مزید خوبصورتی بخش دی تھی 

ریان ساری رات نہیں سویا تھا شاید محبت مل جانے کا سرور ہی ایسا تھا وہ اپنے کیمپ سے باہر آیا اور فائقہ کے نمبر پر میسج کیا دو تین میسیج کے بعد بھی جب ریپلائی نہ آیا تو اس نے ڈائریکٹ کال کی 

فائقہ جو گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہی تھی عجیب 

ہر براہٹ میں اٹھی لیکن موبائل پر سر ریان کالنگ دیکھ

کر فوراً سے ہوش میں آئی 

” یار کیا اس ٹائم سر کو کیا ہے کیوں کال کر رہے ہیں آگے اتنا لیٹ سوٸی تھی مجھے اتنی نیند آ رہی ہے “ 

فائقہ نے یہ کہتے ہوئے کال ریسیو کی اور موبائل کان سے لگایا 

” فائقہ پلیز تھوڑی دیر کے لیے باہر آئیں گی “ 

ریان اپنے لہجے میں محبت اور مٹھاس بھرتا ہوا بولا

” کیوں سر اس ٹاٸم کیا کام ہے آپ کو “ 

فاٸقہ نیند سے بھری آواز میں بولی 

” آئی ایم سوری میں نے آپ کی نیند ڈسٹرب کی مگر اب آپ کی نیند کھل گٸی ہے تو تھوڑی دیر آجائے نا پلیز “ 

ریان کے اتنا اصرار کرنے پر فائقہ نے اپنے ساتھ لیٹی سحر کو دیکھا پھر بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے بولی 

” ٹھیک ہے آجاتی ہوں “ فائدہ یہ کہتی کال بند کرتے اپنے دوپٹے کو مفلر کی طرح اُڑھے باہر چلی گئی

” جی سر بولیں “ فائقہ نے آکر ریان سے پوچھا تو ریان اس کا ہاتھ پکڑے تھوڑا آگے لے آیا 

یہ ایک خوبصورت پہاڑی علاقہ تھا تھوڑا آگے جا کے خوبصورت سرسبز چھوٹا سا باغ سا بنا ہوا تھا 

صبح صبح کی ٹھنڈی ہوا اور ان کے خوبصورت پھولوں

پرمسرت خوشبو سے فائقہ کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہونے لگا 

ریان اس کو وہاں سے لیتا تھوڑا آگے آیا جہاں ایک خوبصورت چشمہ بہہ رہا تھا وہاں وہ دونوں ایک بڑے سے پتھر پہ بیٹھ گۓ 

” میں نہیں جانتا فائقہ کب کیسے کیوں میں تو شاید محبت کا مطلب بھی نہیں جانتا تھا لیکن اب میری زندگی میں محبت سب سے اہم ہے “ 

ریان نے بولنا شروع کیا 

” میں اپنی ساری زندگی اپنی محبت کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں آپ وہ واحد ہیں جس نے مجھے سر تک پاؤں بدل دیا مجھے نہیں یاد کہ میں کبھی اتنا مسکراتا ہنستا بھی تھا میں تو بہت سنجیدہ رہتا تھا “ 

ریان نے بولتے ہوۓ اسکا ہاتھ تھاما 

” مجھے تو سہی سے بتانا بھی نہیں آتا کہ میں آپ سے کتنی محبت کرتا ہوں مگر جو جو لفظ میں بول رہا ہوں 

وہ صرف میرے دل کی آواز ہے میرے بس میں تو کچھ بھی نہیں “ 

ریان جزب سے بولا تو فاٸقہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا ریان کی طرف دیکھا اچانک دونوں کی نظروں کا ملاپ ہوا ریان کی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتی محبت دیکھ کر فائقہ نے شرم سے نظریں جھکا لیں 

” کبھی آپ کی شرارتیں مجھے زچ کرتی تھی مگر پھر

آپ کی وہی شرارتیں میری زندگی کا خوبصورت حصہ 

بن گٸ آپ کی شرارتیں میرے جینے کی وجہ بن گٸ“ 

ریان محبت سے بولتا چلا گیا 

میں بارش کی بولی سمجھتا نہیں تھا 💗

ہواٶں سے میں یوں اُلجھتا نہیں تھا 💗

ہے سینے میں دل بھی ❤❤

کہاں تھی مجھے یہ خبر 😍

کہیں پہ ہو راتیں🌃

کہیں پہ سویرا 🌇

ٹہر جا ٹہر جا😞

یہ کہتی ہیں تیری نظریں😍

کیا حال ہو گیا ہے یہ میرا 🙈

آنکھیں میری ہر جگہ 😍

ڈھونڈھے تجھے بےوجہ ❤

یہ میں ہوں یا کوٸی اور ہے میری طرح🙈

کیسے ہوا کیسے ہوا😉

تو اتنا ضروری کیسے ہوا😚😍

ریان کتنی دیر مسلسل فاٸقہ کو تکتا رہا ناجانے سب کچھ 

پانے کے بعد بھی عجیب ڈھرکا سا لگ رہا تھا اسے کہ کہیں فاٸقہ اس سے دور نہ ہو جاۓ شاید اب وہ فاٸقہ 

کو خود سے دور کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا 

” سر بس بھی کریں اب کیا آپ گھوری جا رہے ہیں اوپر سے اتنی مشکل باتیں کیوں کرتے ہیں آپ مزید اگر کچھ 

گھوما پھرا کر کہا نہ تو میں اس خوبصورت چشمہ میں 

آپ کو دھکا دے کر چلی جاٶ گی پھر آرام سے سردی میں

اپنی قلفی جمنے دیجیے گا “ 

فاٸقہ اپنی ٹون میں واپس آتے بولی ایک تو نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں اور دوسرا شدید سردی میں ایک شال اُڑھے فاٸقہ کپکپانا شروع ہوگٸ تھا 

” میڈم آپ لڑے نہیں یہ لیں یہ میری جیکٹ پہن لیں “

ریان نے مسکراتے ہوۓ اپنی جیکٹ اتار کر فاٸقہ کو دی 

” جی تو آپ نے کہا کہ سیدھی بات کروں اوکے لیکن ایک شرط پر “ ریان کے ایسا کہنے پر فاٸقہ نے سوالیہ انداز 

میں اسکی طرف دیکھا 

” آپ اب مجھے سر نہیں کہیں گی “  ریان منہ بناتے بولا 

” آپ میرے حاشر بھییا کے دوست ہیں تو کیا میں آپ کو 

بھی بھیی۔۔۔۔۔ “ 

فاٸقہ شرارتاً کہنے ہی لگی تھی جب ریان کے تیوری چڑھانے پر آدھی بات پر روک گٸ 

” اوکے اوکے سر اوو سوری ر۔رریان آپ سیدھا سیدھا 

بتاٸیں مجھے بہت نیند آ رہی ہے “

فاٸقہ خمار زدہ آنکھیں لیے بولی 

” سیدھی بات یہ ہے کہ میڈم میں اس ٹرپ سے جانے کے 

بعد اپنے گھر والوں کو آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں 

منظور ہے “ 

ریان کی بات پر فاٸقہ کی نیند بھک کر کے اُڑ گٸ ریان کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں میں اپنے لیے سچے اور کھڑے جزبات دیکھ کر وہ نظریں جھکا گٸ 

” ریان یہ کچھ زیادہ ہی صاف اور سیدھا بول دیا ہے 

آپ نے “ فاٸقہ ریان سے یہ کہتی شرماتے ہوۓ وہاں سے بھاگ گٸ 

” روحِ من میرا جواب تو دیتی جاٶ “ ریان نے مسکراتے 

ہوۓ اسے پیچھے سے اونچی آواز میں کہا 

ان کی محبت اور چاہت کو دیکھ کر ان کی قسمت دور 

کھڑی افسردہ رہ گٸ ۔ کون جانتا تھا آگے کب کیا کیسے 

ہونا تھا ؟ جو محبت کی کونپلیں ان کے دلوں میں پھوٹ رہی ہیں ان کا ملاپ ممکن بھی تھا یا نہیں ؟ یہ تو وقت 

ہی جانتا تھا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” بال بال بچ گۓ ہیں ہم ماجد جان نکل رہی تھی میری تو“ رآٸیمہ ماجد سے بولی 

” خود کو بچا لیا مگر میرا کیا کیا تو نے میرے ہاتھ سے تو وہ خوبصورت چڑیا گٸ “ 

ماجد منہ بناتے ہوے رآٸیمہ سے بولا 

” ماجد شکر مناٶ کہ تمہیں بچا لیا میں نے ورنہ سڑتے تم 

جیل میں “ رآٸیمہ غصے سے بولی 

” اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد بھی مجھے کیا ملا “ 

ماجد اپنے دکھ سنانے لگ 

” ویسے بڑی چلاک تھی جو اتنی اُونچی جگہ ہاتھ مارا 

اتنی امیر پارٹی تھا وہ لڑکا اک دم میری آنکھیں پھٹی 

کی پھٹی رہ گٸ“  رآٸیمہ نفرت سے بولی 

” کہہ تو تم سہی رہی ہو مگر جو بھی میرا کیا بنا“ 

ماجد نے اپنا رونا شروع کیا 

” بہت ہی کوٸی ڈھیٹ ہو تم ایک تو تمہیں بچایا مگر 

تمہاری سوٸی وہی اڑی ہے “

رآٸیمہ ماجد کو باتیں سناتے بولی 

” کیا کیا بی بی چل اپنا کام کر تو اپنے آپ کو بچایا بس 

تجھے پتا تھا اگر وہ کچھ بولی تو میرے ساتھ تو بھی 

جیل میں سڑے گی ورنہ تم تو مرتے کو پانی نہ پیلاٶ“

ماجد رآٸیمہ کو طنز کرتا بولا 

” مرو تم احسان فراموش انسان دفع ہو جاٶ اب میرے گھر کے آس پاس بھی مت نظر آنا “ 

رآٸیمہ غصے سے بولتی فون رکھ گٸ

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

حاشر حرم کو لیے کمرے میں آگیا حرم صوفے پر بیٹھی 

تھی اور مسلسل کشمکش کا شکار بھی حاشر بھی سر

تھامے بیٹھا تھا ایک دن میں زندگی کیا سے کیا ہوگٸ تھی 

” سر مجھے آپ سے بات کرنی ہے “ حرم ہمت کرتے بولی 

تو حاشر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

” سر یہ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے آپ پلیز میری خاطر اپنے گھر والوں کو ناراض مت کریں “ 

حرم نے شرمندہ ہوتے ہوۓ حاشر سے کہا 

” آپ سے کس نے کہا میں آپ کی وجہ سے کر رہا دیکھے 

حرم ایسا کچھ نہیں ہے میں آپ کی وجہ سے کچھ نہیں 

کررہا آپ کی اور حمزہ کی زمہ داری مجھے دل سے قبول 

ہے آپ مت سوچیں یہ “ 

حاشر حرم کی آنکھوں میں نمی دیکھتا ہوا بولا

” سر آپ کے گھر والے سمجھ رہے ہیں کہ آپ نے انہیں دھوکا دیا ہے آپ نے پہلے شادی کی ہوئی تھی اور یہ آپ کا بیٹا ہے آپ اپنے والدین کو سچ کیوں نہیں بتا دیتے آپ کا تو کوئی قصور نہیں آپ نے تو میری مدد کی ہے بس “ 

حرم الجھن کا شکار ہوتے بولی 

” کیوں کہ میں چاہتا ہوں آپ کو میرے گھر میں ہر طرح سے عزت اور مقام ملے میرے گھر والے بہت اچھے ہیں وقت آنے پر میں انہیں سچ بتا دوں گا “  

حاشر اسے تسلی دیتے ہوۓ بولا 

” کسی غیر کے بچے کی خاطر آپ اپنے گھر والوں کے سامنے کیوں برے بننا چاہتے ہیں “

حرم چڑ کر بولی 

” مسز حرم حاشر ہمدانی آج میں آپ کو پہلی اور آخری دفعہ وارن کر رہا ہوں حمزہ کو غیر کہنا بند کریں یہ میرا 

بیٹا ہے حمزہ حاشر ہمدانی اس کو اس گھر میں وہی مقام ملے گا جو اس گھر کی پہلے اور بڑے پوتے کو ملنا چاہیے یہ بات اب آپ مت بھولیے گا “ 

حاشر حرم کو سختی سے گھورتا ہوا بولا 

حرم تو حاشر کے اس انداز پر دنگ رہ گئی کوٸی کسی 

کے لیے اتنا کیسے کر سکتا تھا ہر بڑھتے لمحے کے ساتھ 

حرم کے دل میں حاشر کی قدر بڑھ رہی تھی 

” حرم آپ فریش ہو جاٸیں میں ناشتہ بھیجواتا ہوں آپ ناشتہ کر کے آرام کر لیجیے گا ساری رات سے جاگ رہی ہیں آپ “ حاشر بول کر باہر جانے لگا 

” سر تھینک یو “ حرم کی آواز پر جاتے ہوۓ حاشر نے 

پلٹ کر دیکھا 

” میڈیم پلیز اب سر سر بند کر دیں اب آپ بیگم ہیں میری سچی پرومس کبھی بھی آپ کے حاشر کہنے پر 

برا نہیں مانو گا“ 

حاشر مسکرا کر کہنے لگا 

” سنیے حا۔شرر وہ ناشتہ ہم ساتھ کریں گے “ 

حرم میں ججھکتے ہوئے حاشر سے کہا 

” ارے یہ سورج کہاں سے طلوع ہوا ہے اتنے جھٹکے ایک ساتھ ہاۓۓۓ کہیں کوٸی خواب تو نہیں “

حاشر شرارتاً بولا تو حرم خجل سی ہو کر حمزہ کی طرف 

مڑ گٸ اور حاشر ہنستا باہر نکل گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” السلام علیکم مما کیسی ہیں آپ “ فاٸقہ خوش باش سی گھر داخل ہوتے صوفیہ بیگم کو دیکھتے ہوئے بولی

” وعلیکم السلام کیسا رہا آپ کا ٹرپ بیٹا “ 

فاٸقہ کے چہرے پر رونق دیکھ کر صوفیہ بیگم دل ہی دل میں ماشااللہ بولتے ہوۓ پوچھنے لگی 

” بہت اچھا میری پیاری مما جان اتنا اچھا تو آج سے پہلے 

کبھی نہیں رہا “ فاٸقہ ریان کو زہن میں لاتی ہوٸی بولی 

” چلو ماشااللہ اچھی بات ہے لنچ تیار ہونے والا ہے آپ 

فریش ہوجاٶ “ صوفیہ بیگم فاٸقہ سے بولی 

” اچھا اوکے مما مگر آپ کچھ پریشان کیوں لگ رہی ہیں“ 

فاٸقہ غور کرتی ہوٸی بولی 

” بیٹا آپ فریش ہو جاٶ پھر بات کرتے ہیں “ 

صوفیہ بیگم کے کہنے پر فائقہ اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی 

اپنے کمرے میں جاتے ہوۓ اس نے حاشر کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھا تو حاشر سے ملنے کے لیے اسکے روم 

کی طرف چل دی 

مگر جب اندر حاشر کے بجاۓ ایک لڑکی اور بچے کو دیکھا تو حیرانگی سے اندر کی طرف چل دی مگر جو  لڑکی تھی اسے دیکھ کر وہ اور زیادہ حیران و پریشان ہوگٸ کیونکہ یہ وہی راستے والی لڑکی تھی 

حرم نے بھی جب اپنی ہم عمر لڑکی کو کمرے میں آتے 

دیکھا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوٸی کیونکہ وہ اس لڑکی کو نہیں جانتی تھی کہ یہ کون ہے 

” آپ “ فائقہ کی حیرانگی کسی طور پر بھی ختم نہیں 

ہو رہی تھی 

” جی میں وہ حاشر سر اوو سوری حاشر کی مسز ہوں 

میں نے آپ کو نہیں پہچانا شاید آپ مجھے نہیں جانتی میں آج ہی اس گھر میں آئی ہوں “ 

حرم فاٸقہ سے بولی 

” مطلب بھاٸی کی بیوی مطلب بھابھی واٹ از دس یار 

میں دو دن ٹرپ پر کیا گٸ میرے بھاٸی کی شادی ہی کردی مجھے بتایا تک نہیں بھابھی جان سوری میں 

آپ سے بعد میں ڈیٹیل میں ملتی ہوں ابھی زرا گھر والوں سے انویسٹیگیشن تو کر لوں ویسے میں آپکی 

اکلوتی نند ہوں فاٸقہ ہمدانی “ 

فاٸقہ حرم سے جلدی میں سب کہتی اس کی سنے بغیر نیچے کی طرف بھاگتی چلی گٸ 

” مما مما کہاں ہیں آپ اور بھاٸی کہاں ہیں یہ کیا ہے بٸ“ 

فاٸقہ کی آواز پر صوفیہ بیگم کیچن سے باہر آٸی 

” کیا ہوا ہے فائقہ آپ اتنا شور کیوں مچاۓ جا رہی ہے آرام سے بات کرتے ہیں “ صوفیہ بیگم اسے ٹوٹتے ہوئے بولی 

” مما دس از ناٹ فیئر “ فاٸقہ روٹھ کر بولی 

” مگر مما میں حیران ہوں ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ میری بھابھی کیسے بن سکتی ہیں “ 

فاٸقہ کے حیرانگی سے کہنے پر صوفیہ بیگم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا 

” کیا مطلب ہے یہ حاشر کی ہی بیوی اور بیٹا ہے اس نے 

شادی کی ہوٸی تھی میں بھی اس سے بہت خفا ہوں میں 

اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے اس نے پوچھنا تو کیا بتانا بھی گوارہ نہیں کیا “ 

صوفیہ بیگم سنجیدگی سے بولیں 

” نہیں مما بھاٸی کا بیٹا نہیں مما میں وہی تو پوچھ رہی ہوں “ فائقہ حیرانگی سے پوچھنے لگی

” کیا کہنا کیا چاہتی ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی بولنا ہے صاف صاف بولو “ 

صوفیہ بیگم میں ناسمجھی سے پوچھا تو فاٸقہ صوفیہ بیگم کو شروع سے لے کر اس کی حرم سے ملاقات تک کی بات بتائیں کہ کیسے حاشر حرم سے ملا اور وہ حرم کو کیسے جانتی 

” مگر حاشر نے یہ کیوں بولا کہ وہ لڑکی اسکی بیوی ہے اور وہ بچہ بھی اسی کا “ 

صوفیہ بیگم سوچتے ہوۓ بولی 

” اسی بات پر تو میں بھی حیران ہوں مما اور بھابھی بھی تو یہی کہہ رہی تھی ابھی کہ وہ بھییا کی بیوی ہیں “ فاٸقہ بھی حیران سی بولی 

” سچ کہہ رہی ہے وہ بھی اور میں بھی “ 

حاشر کی آواز پر صوفیہ بیگم اور فاٸقہ نے مڑ کر دروازے کی جانب دیکھا 

” مگر بھاٸی اس دن آپ نے جو بتایا وہ “ 

فاٸقہ الجھن کا شکار ہوتے پوچھ بیٹھی 

” گڑیا وہ بھی سچ تھا “ حاشر کی بات پر وہ دونوں کشمکش کا شکار ہوگٸ 

” حاشر اب جو بھی بات ہے ہمیں سب سچ سچ بتاٶ

ابھی اسی وقت “ صوفیہ بیگم کے کہنے پر حاشر ایک گہرا سانس لیتا ہوا انہیں سب کچھ بتاتا چلا گیا 

” یہ سچ تھا بس میں چاہتا تھا کہ اس بچے کو ہمارے گھر وہی پیار اور توجہ ملے جو ایک بچے کو اسکے اپنے گھر ملتی ہے صرف اور صرف یہی وجہ تھی میرے جھوٹ بولنے کی “ 

حاشر سب بتاتا ہوا آخر میں بولا 

” مجھے فخر ہے اپنے بیٹے پر میں جانتی تھی کہ میرا بیٹا کبھی بھی کوئی غلط قدم اٹھا ہی نہیں سکتا جو بھی ہوا اس کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ ضرور ہوگی “ 

صفیہ بیگم دو قدم چل کر آتی ہیں حاشر کے سر پر پیار کرتے ہوئے بولی 

” ہاں بھییا آپ تو واقعی میں ہمارے سپر ہیرو ہیں آپ 

نے جس طرح ایک لڑکی کو بچایا اسکا ساتھ دیا آپ واقعی ایک مثال ہو “ 

فاٸقہ کے دل سے تعریف کرنے پر حاشر مسکرا دیا 

” رہی بات حمزہ کی وہ تو ہمارا پوتا ہے بیٹا جی ساری 

نیکیاں اکیلے اکیلے ہی کرنی ہیں کیا “ 

صوفیہ بیگم کے ہلکے پھلکے انداز میں بولنے پر حاشر کو اپنے دل سے بوجھ اترتا محسوس ہوا

” تھینک یو مما مگر بابا وہ تو ہرگز نہیں مانے گے “ 

حاشر کے پریشانی سے کہنے پر فاٸقہ بھی پریشان ہو کر

صوفیہ بیگم کی طرف دیکھنے لگی 

” بیٹا اللہ پر بھروسہ رکھو جلد سب کچھ سب کے سامنے آجاۓ گا پھر تمہارے بابا خود تم پر فخر کریں گے “ 

صوفیہ بیگم حاشر کا کندھا تھپتھپاتے ہوۓ بولی تو وہ 

بھی اثبات میں سر ہلا گیا  

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” السلام علیکم واہ جی واہ فوجیں آٸی ہوٸی ہیں “ 

ریان گھر میں داخل ہوا تو سارہ کو سلمیٰ بیگم کے ساتھ 

بیٹھا دیکھ خوش دلی سے بولا 

” وعلیکم السلام وعلیکم السلام آییے جی آییے “ 

سارہ بھی اسی کے انداز میں بولی 

” مما دیکھ رہی ہیں ماشااللہ ہمارے بھاٸی جی کتنے 

ہنس مکھ سے ہوگۓ ہیں جو ہمیشہ کڑوا کریلا بنے 

رہتے تھے “ سارہ ریان کو تنگ کرتے ہوۓ بولی 

” بھٸ یہ تو ہماری پیاری ہونے والی بہو کی بدولت ہے 

اچھا ہے نہ وہ ہمارے گھر کو بھی پُر رونق بنا دے گی

آکر “ سلمیٰ بیگم محبت سے بولی 

” پیاری مما جان ابھی سے بہو بنا لیا دوسری طرف سے تو جواب ملے یہ نا ہو لڑکی انگیجڈ نکلے “ 

سارہ ریان کو چھیڑنے کے انداز میں بولی 

” دیکھیں مما یہ کیسی بہن ہے بسنے سے پہلے ہی دل توڑنے والی باتیں کر رہی ہے “ 

ریان مصنوعی خفگی سے بولا 

” سارہ مت تنگ کرو بھائی کو “ سلمیٰ بیگم سارہ کو 

ڈپٹ کر بولی تو وہ ریان کے چڑنے پر کھلکھلا کے ہنس پڑی

” بس بھٸ اب تو ہم نے جانا اور اپنی بہو لے آنی ہے آکر 

ہمارے گھر کا سونا پن دور کرے “ 

سلمیٰ بیگم سے بولنے پر ریان نے حیرت سے انکی طرف دیکھا 

” مما میں آپ سے یہی کہنے لگا تھا تھینک یو سو مچ مما 

ریلی لو یو “ ریان خوشی سے اٹھ کر سلمیٰ بیگم کے قدموں میں آکر بیٹھتا ان کے ہاتھ چوم گیا 

” بیٹا جی ہم ماں ہیں آپ کی “ سلمیٰ بیگم اس کے سر پر پیار کرتے ہوئے بولی 

” ایک منٹ ایک منٹ مطلب ہماری چلبلی سی شرارتی سی بھابھی نے ہاں کر دی “ 

سارہ کے حیرانی سے پوچھنے پر ریان نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ مسکراتے ہوۓ اپنے بھاٸی کی خوشیوں کی دعا کرنے لگی 

ریان بہت خوش تھا سب کچھ بہت اچھے سے ہورہا تھا 

اسے اسکی محبت بھی مل گٸ تھی اور خوشیاں بھی 

” شکریہ جانِ جاناں “ ریان نے میسج لکھ کر ساتھ دل والا ایموجی بنا کر فاٸقہ کو سینڈ کیا 

” کس لیے “ سوچنے والے ایموجی کے ساتھ جواب آیا 

” میری زندگی میں آ کر اسے حسین بنانے کے لیے 

میری چاہت اور میری محبت کو اپنانے کے لیے “ 

ریان نے دل والے ڈھیروں ایموجیز کے ساتھ لکھ کر بھیجا 

” سر یہ آپ کے دل ڈیسکو دیوانے کیوں بن گۓ ہیں “ 

ہنسنے والے ایموجی کے ساتھ فاٸقہ نے لکھ کر بھیجا 

اسکی بات پر ریان قہقہ لگا کر ہنسنے لگا اسے فاٸقہ سے ایسے ہی جواب کی تواقع تھی اس نے فاٸقہ کے نمبر پر کال ملاٸی جو دو رنگ ہونے کے بعد اٹھا لی گٸ تھی 

” السلام علیکم جی جناب کیا ہو رہا تھا “ 

ریان کے محبت بھرے لہجے پر فاٸقہ جھینپ سی گٸ 

” وعلیکم السلام میں تو بس یوہی بیٹھی تھی آپ کا میسج آگیا “ فاٸقہ اس سے بولی 

” مطلب ہمیں یاد کیا جارہا تھا ناٹ بیڈ “ ریان نے شرارتاً کہا تو فاٸقہ نے حیرانگی سے موبائل کان سے ہٹا کر دیکھا 

” میں آپ کو بلکل یاد نہیں کر رہی بس سوچ رہی صبح اس ازلان سے بدلا کیسے لینا “ 

فاٸقہ کی بات پر ریان نے سر پکڑ لیا 

” فاٸقہ بس بھی کیا کریں کیا کرتی ہیں آپ “ ریان ہنس کے بولا تو فاٸہ منہ بنا گٸ 

” بھٸ سر یہ تو کوٸی بات نہ ہوٸی نہ آپ ابھی بھی دادا گیری سوری سر گیری دیکھا رہے “ 

فاٸقہ چڑ کر بولی تو اسکی بات پر ریان زور سے ہنسا 

” سر گیری یارر ھاھاھا کمال کرتی ہیں آپ کہاں سے لاتی ہیں ایسے الفاظ “ ریان مسلسل ہنستے ہوۓ پوچھنے لگا 

” ریان کام بتاٸیں کال کیوں کی “ اس کو مسلسل ہنستا دیکھ فاٸقہ ڈاٸریکٹ مدعے پر آٸی 

” جی تو وہ میں بتانا تھا کہ کل میری فیملی آپ کے گھر آنا چاہتی ہے ہمارے رشتے کی بات کرنے کے لیے “ 

ریان کی بات سن کر فاٸقہ کے چہرے پر گلال بکھر گیا 

” ریان زیادہ جلدی نہیں ابھی گریجویشن تو کر لوں میں“ 

فاٸقہ ہلکی سی آواز میں بولی 

” فاٸقہ میں آپ کو پڑھائی سے کب روکا جتنا دل چاہے پڑھ لیجیے گا مگر میری دسترس میں آکر کیوں کہ اب میں زیادہ دیر آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا “ 

ریان کے ایسے بولنے پر فاٸقہ کے چہرے پر شرمیلی مسکان بکھر گٸ 

” ویسے میری جانِ جاناں شرماتے ہوۓ کیسی لگتی ہے یہ میرا دلِی ارمان ہے کہ چلبلی شرارتی سی فاٸقہ کو شرماتے ہوۓ دیکھوں “ ریان اسے تنگ کرتے ہوۓ بولا 

” ریان تنگ نہیں کریں اور بھاٸی سے خود بات کریں 

اللہ حافِظ “ 

جلدی سے کہہ کر فاٸقہ نے کال بند کردی اور اپنے ڈھرکتے دل کو محسوس کرتے شرمانے لگی 

فاٸقہ کے شرم اور حیا سے گلال ہوتا چہرہ سوچ کر ریان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گٸ اس نے اپنے موبائل میں 

پکچرز نکالی سب سے پہلے اسکی اور فاٸقہ کی تھی جس میں ریان مسکرا کر فاٸقہ سے کچھ کہہ رہا تھا اور فاٸقہ

نظریں جھکاۓ کھڑی تھی 

” روحِ من آپ بس میری زندگی ہیں “ ریان فاٸقہ کی تصویر پر لب رکھتا ہوا کہنے لگا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” ارے ارے میرا بےبی جاگ رہا ہے بابا پاس آٶ گے “ 

حاشر جاگنگ سے واپسی پر کمرے میں داخل ہوا حمزہ کو جاگتے دیکھ اسکے پاس بیٹھ کر کہا 

حمزہ حاشر کو دیکھ کر کھکلھلا کر ہنسنے لگا اور ہاتھ پاٶں مارنے لگا تاکہ حاشر اسے گود میں اٹھا لے 

حاشر نے اسے گود میں اٹھا کر چٹاچٹ چومنا شروع کردیا حمزہ منہ بسورتے ہوئے اسے دیکھنے لگا 

واشروم سے ہاتھ دھو کر نکلتی حرم نے یہ منظر بہت دلچسپی سے دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں آنسوں آگۓ تھے کل سے اب تک حرم کو یقین ہوگیا تھا کہ حاشر حمزہ کو کبھی بھی سگے باپ کی کمی محسوس ہونے نہیں دے گا وہ اللہ کے بعد اس شخص کی بہت شکرگزار تھی جس نے اسے تب سہارہ دیا جب کچھ بھی نہیں تھا اسکے پاس نہ ہی کوٸی اپنا نہ پرایا 

” بےبی وہ دیکھو آپکی مما ہمیں چپکے چپکے دیکھ رہی ہیں ہووو حمزہ کی مما ہمیں آپ سامنے آکر بھی دیکھ سکتی ہیں فکر نہ کریں آپ کے ہی ہیں ہم “ 

حاشر حرم کو دیکھتا شرارتاً بولا تو حرم خجل سی ہوتی انکے پاس آکر بیٹھ گٸ 

” آپ بتا دیں آپ کے کپڑے نکال کون سے کپڑے نکالوں آپ کو آفس جانے میں دیر نہ ہوجاۓ “ 

حرم نے حاشر سے پوچھا تو اسے خوشگوار سی حیرت ہوٸی 

” بیگم جو آپ کا دل کرتا ہے نکال دیں بندہ راضی خوشی پہن لے گا خیر آج میں آفس نہیں جاٶ گا آج ہم شاپنگ پر جاٸیں گے “ 

حاشر نے حرم کو اپنا آج کا پلان بتاتے ہوۓ کہا 

” سر سوری حاشر وہ مجھے کچھ نہیں چاہیے آپ ویسے ہی بہت کرچکے ہیں شکریہ “ 

یہ کہتی حرم اٹھ کر اسکے کپڑے نکالنے جانے لگی جب حاشر نے اسکی کلاٸی تھام کر اسے روکا 

” آپ کو میں نے پہلے بھی بتایا ہے اور اب دوبارہ بتا رہا ہوں کہ آپ اور حمزہ میری زمہ داری ہو اور مجھے یہ زمہ داری دل و جان سے قبول ہے “ 

حاشر نے حرم کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ اسکی آنکھوں میں جھانکتے دیکھا 

” حاشر میرے ہر برتاٶ کے لیے مجھے معاف کردیں اللہ جانے آپ میری کس نیکی کا صلہ ہیں بہت شکریہ آپ کا 

میں ساری زندگی آپ کا احسان نہیں بھولوں گی “ 

حرم نے آنسوں سے بھری آنکھوں سے حاشر کو دیکھتے ہوۓ کہا 

حاشر نے اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوں صاف کیے اور اسکو اپنے قریب کرتے اپنے رشتے کی پہلی محبت بھری نشانی اسکے ماتھے پر ثبت کی   

حرم تو اس اچانک افتاد پر بوکھلا سی گٸ ابھی وہ سمبھلی بھی نہ تھی جب حاشر نے باری باری اپنے ہونٹ

اسکی نم آنکھوں پر رکھ دیا 

حرم زور سے آنکھیں میچ کر سانس کو روکے کھڑی تھی 

حاشر کی ان جسارتوں سے حرم کا سانس خشک ہوگیا تھا گلے میں جیسے کانٹے چب رہے ہوں 

حاشر تو اس کے خوبصورت اور معصوم سے چہرے پر شرم و حیا دیکھتا مبہوت رہ گیا گوری رنگت شرم سے لال ٹماٹر کی طرح ہوگٸ تھی 

” وو۔۔ہ  مم۔میں مجھے آنٹی بلا رہی تھی “ 

حرم ہکلاتے ہوئے کہتی فوراً باہر کی طرف بڑھ گٸ 

” حرم آپ اگر مما کو مما کہیں گی تو مجھے بہت اچھا فیل ہوگا اور مما کو بھی “ 

حاشر کی بات پر حرم مڑ کر اسکو دیکھتی اثبات میں 

سر ہلاتے باہر چلی گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” السلام علیکم حاشر کیسے ہو یار “ 

ریان نے حاشر کو کال ملاٸی 

” وعلیکم السلام میں الحمداللہ فٹ تم سناٶ “ 

حاشر نے خوش اخلاقی سے کہا 

” میں بھی ٹھیک یار ایک کام تھا تھوڑا عجیب لگ رہا مگر امید کرتا ہوں تم سمجھو گے “ 

ریان تھوڑا جھجک کر بولا 

” ہاں یار بولو میں تمہیں جانتا ہوں تم کبھی کوٸی غلط 

بات تھوڑی کرو گے بولو “ 

حاشر کے ایسا کہنے پر ریان کو تھوڑی ڈھارس ملی 

” یار وہ میری بہن سارہ فاٸقہ سے ملی تھی اسے فاٸقہ اچھی لگی اس نے مما کو بتایا تو میرے گھر والے تمہارے گھر آنا چاہتے ہیں “ 

ریان گہرا سانس لیتا بولتا گیا 

” کس لیے “ حاشر لہجے کو سنجیدہ بناتے بولا 

” وہ میرے لیے فاٸقہ کا ہاتھ مانگنا چاہتے ہیں “ 

ریان نے تھوڑا ٹہر کے کہا 

” ریان تمہاری ہمت کیسے ہوٸی میری بہن کا ہاتھ

 مانگنے کی “ حاشر غصے میں بولا 

” حاشر میری بات تو سنو یار “ ریان حاشر کے اس ٹون میں بات کرنے پر شدید پریشان ہوگیا 

” یہ کیا طریقہ ہے مجھ سے میری بہن کا ہاتھ مانگ رہے 

ہو کچھ تو لحاظ کرو “ حاشر سنجیدگی سے بولا 

” حاشر یار تم جو سمجھ رہے ہو وہ بات نہیں ہے پلیز ایک بار میری بات تو سن لو “ ریان سر پکڑتا بولا 

” یہ کیا بھٸ ہاتھ مانگنے کی کیا تک بنتی پوری بہن مانگو “ حاشر ریان سے کہتا قہقہ لگا کر ہنس پڑا 

” حاشر کے بچے جان نکال دی تھی میری تم نے “ 

ریان گہرا سانس لیتا بولا 

” ھاھاھا سوری یار مزہ آرہا تھا تمھے تنگ کرنے میں کیسے سانسیں خشک ہوگٸ تھی تمہاری “ 

حاشر ہنستے ہوۓ لوٹ پوٹ ہوا 

” سہی اپنی بہن کے بھاٸی ہو حاشر کے بچے چھوڑو گا نہیں تمہیں میں “ ریان دانت پیستے بولا 

” دیکھو یار مجھے جو مرضی کہو میرے بیٹے کو نہیں“ 

حاشر ہنستے ہوۓ بولا 

” ہییں کون سا بیٹا کس کا بیٹا “ ریان نے حیرت سے حاشر کو پوچھا 

” میرا بیٹا حمزہ حاشر ہمدانی “ 

حاشر نے یہ کہتے ہوئے ہیں ان کو ساری بات بتا دی کہ کیسے وہ حرم سے ملا اور اب تک سب 

” مجھے تو فاٸقہ نے کچھ بھی نہیں بتایا اس بارے میں“ 

ریان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوۓ کہا 

” یار اس کو تو خود آج پتہ چلا ہے وہ بھی بہت ناراض ہو رہی تھی “ حاشر خجل ہوتا بولا 

” تم اس کے اکلوتے بھائی ہو اسکا ناراض ہونا بھی جاٸز ہے مگر تم نے بہت اچھا کیا دل خوش ہو گیا دوست تم جیسے لوگ ہی دنیا میں ہوں تو کوٸی عورت بےسہارہ اور کوٸی بچہ یتیم نہ کہلاۓ فخر ہے تم پر دوست “

ریان خوش دلی سے بولا 

” چل یار بس کر اتنی بھی کوٸی بات نہیں ہے “ 

حاشر اپنی تعریف پر خجل ہوا 

” چل بتا اب کب آرہے ہیں تیرے کے گھر والے “ 

حاشر نے اس سے پوچھا 

” بس یار آج ہی انشااللہ “ ریان مسکراتا ہوا بولا 

” اوکے ضرور انتظار رہے گا میں مما کو بتا دوں چلو 

اللہ حافِظ “ حاشر نے ریان سے کہا 

” چل اوکے تھینک یو یار لویو اللہ حافِظ “ 

ریان پرسکون لہجے میں کہتا کال ڈسکنکٹ کرگیا ریان کے دل سے ایک بوجھ سرک گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” آنٹی میں کچھ ہیلپ کرواٶ آپ کی “ حرم کیچن میں آتی صوفیہ بیگم کو دیکھتے ہوۓ بولی 

” ارے نہیں نہیں بیٹا کل ہی تو شادی ہوٸی ہے ابھی سے تھوڑی کام شروع کروانا میں اکلوتی بہو ہو میری آپ ابھی تو خوب ناز اٹھانے میں “ 

صوفیہ بیگم کے محبت سے بولنے پر حرم نم آنکھوں سے 

مسکرانے لگی 

صوفیہ بیگم کو حاشر کی پسند بہت اچھی لگی تھی حرم انہیں بہت معصوم اور سادہ لگی حاشر اور حرم کی 

جوڑی ساتھ بہت خوبصورت لگتی تھی انہیں وہ اپنے 

بیٹے کی خوشی اور پسند پر دل سے راضی تھیں 

” تھینک یو آنٹی اتنی محبت دینے کا آپ کو دیکھ کر ایسے لگتا مجھے میری ماں مل گٸ ہو “ 

حرم ان کے ہاتھ تھامتی بولی 

” اگر ماں ہوں تو حاشر اور فاٸقہ جیسے مما بولو نو آنٹی 

اوکے ؟ “ صوفیہ بیگم کے یوں مان سے کہنے سے حرم اثبات میں سر ہلا گٸ 

” حاشر حاشر “ باہر سے کسی کے زور زور سے چیخ کر حاشر کو بلانے پر حرم اور صوفیہ بیگم بیک وقت

 متوجہ ہوٸیں 

” یہ تو رمشا کی آواز ہے “ یہ بول کر صوفیہ بیگم تیزی سے کچن سے باہر کی طرف گٸیں ان کے پیچھے حرم بھی باہر آگٸ 

” رمشا بیٹا ایسے کیوں چلا رہی ہو بیٹھو حاشر آتا ہی ہوگا نیچے ابھی “ صوفیہ بیگم رمشا کے پاس آتے ہوئے بولی 

” آپ کو بلایا نہیں نہ تو برائے مہربانی اپنے کام سے کام رکھیں میرے معاملات میں ٹانگ مت اڑاٸیں “ 

رمشا نہایت بد تمیزی سے صوفیہ بیگم سے بولی ان کے پیچھے کھڑی حرم بھی حیرت سے اس بدتمیز لڑکی کو دیکھنے لگی 

” مائنڈ یور لینگویج رمشا “ حاشر نیچے اترتا ہوا بولا 

اسکے پیچھے حیران پریشان فائقہ بھی تیزی میں نیچے اتری 

” تم نے مجھے بیوقوف بنایا ہوگا دھوکا دیا ہے مجھے تم نے میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گی “ 

رمشا زخمی ناگن بنی پھنکاری 

” کون سا دھوکا مس رمشا اپنی حد میں رہو زبان سنبھال کر بات کرو میں اب شادی شدہ ہوں اور رہی بات بے وقوفی کی تو بیوقوف تو تم ہو ہی میرے پیچھے ہاتھ دھو کر تم پڑی تھی میں نہیں میں نے تو کبھی تم سے ایسی کوٸی بات نہیں کی اور میں اپنی حرم کو بہت چاہتا ہوں تم جاسکتی ہو“ 

حاشر نے لہجے کو خطرناک حد تک سنجیدہ کرتے رمشا 

کو خوب کھڑی کھڑی سنا دی  

” کیوں جائیں ہم دھوکا تو دیا ہے میری بیٹی کو تم سب نے مل کر میں انصاف لیے بنا نہیں جاٶ گی “ 

صبیحہ بیگم گھر میں داخل ہوتی بولی 

” آپا آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ کو تو رمشا کو سمجھانا چاہئے اب ہمارا حاشر نہ صرف شادی شدہ بلکہ اس کا ایک بیٹا بھی ہے “ 

صوفیہ بیگم ان سے بولی 

” یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے تم بھی نہیں چاہتی تھی کہ میری بیٹی میرے بھائی کے گھر آئے اور خوش رہے 

تمہارا تو سوتیلا بیٹا ہے نہ اس لیے تم تو چاہتی ہو گی کوئی بھی راہ چلتی لڑکی اٹھا کر اس کی بیوی بنا دو جو کبھی تمہارے سامنے سر نہ اٹھاۓ “

صبیحہ بیگم کی بات پر صوفیہ بیگم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا 

” نہیں مما آپ کو کیا لگتا یہ یہ لڑکی میری برابری کرے گی میری رمشا کی اسکی اوقات ہے کیا ایسی لڑکی کو 

تو میں ملازمہ بھی نہ رکھوں بہت ہی لو ٹیسٹ ہے حاشر تمہارا کوٸی ٹکر کی تو لاتے “ 

رمشا حرم کو حقارت سے دیکھتی بولی 

حرم تو جیسے سر اٹھانے کے قابل نا رہی تھی اسے اس وقت اپنی شدید سبکی محسوس ہو رہی تھی اس کے چہرے پر موجود کرب اور آنکھوں میں تکلیف کی شدت سے آنسوں دیکھ کر یہاں حاشر کی بس ہوٸی تھی 

” بس “ حاشر کے غصے سے دھارنے پر رمشا اور صبیحہ بیگم ایک دم خاموش ہوگئے  

” آپ لوگوں کی عزت اسی میں ہے کہ ابھی اسی وقت ہمارے گھر سے چلے جاٸیں اور رمشا تمہاری اطلاع کے لئے بتا دوں کہ اوقات کی بات حرم کی نہیں بلکہ اوقات تمہاری نہیں جو حرم حاشر ہمدانی کے برابر کھڑی ہو سکو “ 

حاشر دو قدم چل کر حرم کے پاس آکر اسکو گرد اپنے بازو حائل کرتا بولا 

” دیکھ لوں گی حاشر تم سب کو دیکھ لوں گی “ 

رمشا یہ سب دیکھ کر کہتے ہوۓ پیر پٹختی باہر چلی گٸ 

صبیحہ بیگم بھی ان سب کو گھور کر کے رمشا کے پیچھے چلی گئیں 

صوفیہ بیگم تو وہی صوفے پر سر پکڑ کر بیٹھ گٸیں 

حرم حاشر کے حصار سے نکلتی کیچن میں چلی گٸ 

حاشر صوفیہ بیگم کے آگے گھٹنوں بل بیٹھا 

” مما کیوں پریشان ہو رہی ہیں آپ “ حاشر انکے ہاتھوں 

پر اپنے ہتھ رکھتا تسلی آمیز لہجے میں بولا 

” تم نے دیکھا نہیں حاشر وہ رمشا کیا کچھ کہہ کر گٸ بہو بےچاری پر کیا گزر رہی ہوگی “ 

صوفیہ بیگم حرم کے لیے دکھی ہوتی بولی 

” مما اسے سنبھالنے والا میں ہوں نہ ہاتھ تھاما ہے تو زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ نبھاؤ گا ابھی آپ اسکی ٹینشن نہ لیں پلیز آپ بس آج آنے والے مہمانوں کی تیاری کریں“ 

حاشر صوفیہ بیگم کو ریلیکس کرتے ہوئے کہنے لگا

” کون مہمان “ صوفیہ بیگم سوالیہ انداز میں حاشر کی طرف دیکھ کر بولیں 

” میرا دوست ریان ہے نہ جو فاٸقہ کا کلاس ٹیچر ہے اسکی فیملی آنا چاہتی ہے ہماری فاٸقہ کا ہاتھ مانگنے “ 

حاشر نے کہا تو صوفیہ بیگم کے چہرے پر پہلے حیرانگی اور پھر خوشی کے ملے جلے تاثرات آگۓ 

” بیٹا یہ تو اچھی بات ہے ریان تو بہت ہی پیارا اور 

سوبر سا بچہ ہے میں تیاری کرتی ہوں اور وقار صاحب سے بھی بات کرتی ہوں“ 

صوفیہ بیگم مطمئن لہجے میں بولیں

” اوکے مما میں حرم اور حمزہ کو دیکھ لوں زرہ “ 

حاشر صوفیہ بیگم کو کہتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا اور وہ ناشتہ لگوانے لگیں 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” سارہ کے بابا بات کرنی تھی آپ سے “ سلمیٰ بیگم سرمد صاحب کا خوشگوار موڈ دیکھتے ہوئے بولی

” ہاں بولو “ سرمد صاحب نے بھی بلکل نارمل لہجے

 میں کہا

” وہ ہم ریان کے رشتے کے لیے جانا چاہتے ہیں ریان کسی 

کو پسند کرتا ہے بہت پیاری بچی ہے “ 

سلمیٰ بیگم سرمد صاحب کو بتانے لگی 

” واہ بیگم آپ کے بچے بھی کمال ہیں سارہ نے بھی اپنی پسند ڈھونڈھ کر بتا دی اور آپ کے صاحب زادے نے بھی 

ہماری تو کوٸی حیثیت ہی نہیں “ 

سرمد صاحب طنزیہ ہنسی ہنس کر بولے 

” نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ تو بس “ ابھی انکی بات پوری بھی نہیں ہوٸی تھی جب سرمد صاحب بولے 

” اب صفائیاں دینے سے بہتر ہے کہ مدعے کی بات پر آؤ “ 

سرمد صاحب سنجیدہ ہوکر بولے 

” بیٹے کا رشتہ کرنا تو آپ کا جانا ضروری ہے پلیز چلیں“ سلمیٰ بیگم کے کہنے پر پہلے تو وہ انکار کرنے لگے پھر 

کچھ سوچ کر ہامی بھر لی 

” ٹھیک ہے کب جانا “ سرمد صاحب صوفے سے کھڑے ہوتے وقت پوچھنے لگے 

” آج ہی کچھ دیر تک چلیں گے “ سلمیٰ بیگم کے کہنے پر 

 وہ اثبات میں سر ہلاتے کمرے میں چلے گۓ 

یہ منظر اندر آتے ریان نے دیکھا تو وہ دل سے خوش ہوا 

ہر چیز سہل ہوتی نظر آرہی تھی

مگر کون جانے جیسا نظر آۓ ضروری نہیں کہ ویسا ہی ہو

آگے کیا ہونے والا تھا یہ کون جانتا تھا محبت مل جانا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ہمدانی ہاٶس میں سب ناشتہ کر رہے تھے صرف حمزہ کا کھلکھلانا پورے ہال میں گونج رہا تھا جس پر 

صوفیہ بیگم اور فاٸقہ بار بار ہنسنے لگتے تو کبھی حاشر 

اسکو پیار کرنے لگتا نہ چاہتے ہوۓ بھی وہ چھوٹا سا بچہ 

وقار صاحب کی توجہ بار نار اپنی طرف کھینچ رہا تھا 

” سنیے آپ سے ایک بات کرنی تھی “ صوفیہ بیگم وقار صاحب سے مخاطب ہو کر بولی 

” جی بولیں میں سن رہا ہوں “ وقار صاحب بولے 

” حاشر کے دوست ریان کی فیملی ہمارے گھر آنا چاہتی ہے ہماری فاٸقہ کے لیے “ 

صوفیہ بیگم کی بات پر فاٸقہ خجل سی ہوتی اٹھ کر 

حرم کے پاس آٸی 

” بھابھی آپ ناشتہ کریں حمزہ کو مجھے دے دیں میں کھیل لوں گی اسکے ساتھ “ 

فائقہ حرم سے حمزہ کو لیتی ہال سے باہر چلی گٸ 

فائقہ کے اچانک یوں شرما کے جانے پر وہاں موجود سب نفوس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی 

” جی آپ بلا لیں اچھے لوگ ہیں “ وقار صاحب کہتے

 وہاں سے اٹھ کر باہر آۓ جہاں فاٸقہ حمزہ کے ساتھ کھیل رہی تھی 

فاٸقہ کبھی ڈوپٹے کے پیچھے سے جھانک کر دیکھتی 

کبھی منہ پُھلا کر دیکھاتی فاٸقہ کے ایسا کرنے پر حمزہ 

زور زور سے ہاتھ مارتا ہنسنے لگتا ان کے گھر میں اس 

بچے کی کیلکاریوں نے بہت رونق لگا دی تھی 

وقار صاحب اسے مسکرا کر دیکھتے اپنے کمرے کی طرف 

چل دیے 

” ہم آرہے ہیں اپنی دلہنیا لینے تیار رہیے گا “ 

موبائل کے وائبریٹ کرنے پر فائقہ نے میسج کھول کر دیکھا تو ریان نے یہ لکھ کر ڈھیر سارے دل بنا کر بھیجے تھے 

” آپ میری زندگی کا وہ واحد حصہ ہو 

جس پر قاٸم میری ہر خوشی کا حصہ ہو 

میں چاہوں چاہنے والوں سے بھر کر 

کچھ ہماری کہانی کا ایسا اک انوکھا قصہ ہو  

فاٸقہ نے اپنی دلی کیفیت کو شاعری میں لکھ کر ریان کو سینڈ کردی 

حرم اپنے کمرے میں بیٹھی رمشا کی باتیں یاد کرتے

 روۓ جا رہی تھی وہ جانتی تھی کہ اسکی واقعی 

کسی سے برابری نہیں تھی ایک تو وہ مڈل کلاس گھرانے 

سے تعلق رکھنی والی سادہ سی لڑکی اوپر سے بیوہ تھی

دوسری طرف رمشا جو حاشر کی پھوپھو کی اکلوتی اور اتنے بڑے خاندان کی بیٹی تھی 

یہ سب محسوس کرتے حرم کو شدّت سے رونا آیا اور وہ 

پھوٹ پھوٹ کر رو دی نا جانے قسمت میں اور کتنی زلت

اور دکھ باقی رہتے تھے 

” بھابھی یہ حمزہ کو بھوک “ فاٸقہ کو جو حمزہ کو لے کر 

حرم کے پاس آٸی تھی حرم کو روتا دیکھ اپنی بات ادھوری چھوڑ گٸ حرم نے فاٸقہ کو دیکھ کر جلدی سے اپنے آنسوں صاف کیے 

” بھابھی آپ رو کیوں رہی ہیں “ فاٸقہ اسکے پاس بیٹھتے 

پریشانی سے بولنے لگی 

” بھابھی یہ رمشا آپا ایسی ہی ہیں میں جانتی ہوں آپ

ان کی وجہ سے دکھی ہوٸی ہیں آپ پلیز ان کی باتوں 

پر غور نہیں کریں “ 

فاٸقہ حرم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولی 

” نہیں ایسی بات نہیں ہے فاٸقہ بس وہ یوہی مجھے میری امی کی یاد آگٸ تھی “ 

حرم زبردستی مسکراتے ہوۓ بولی 

” بھابھی یہ تو صاف جھوٹ ہے میں تو سمجھتی تھی 

آپ پری ہیں بلکل معصوم اور چھوٹی سی مگر آپ تو 

جھوٹ بول رہی مطلب آپ پری نہیں ہیں “ 

فاٸقہ کے بچوں کی طرح کہنے پر حرم بےساختہ مسکرا 

دی جس پر فاٸقہ نے سکھ کا سانس لیا 

” یہ ہوٸی نہ بات حمزہ دیکھو کتنی کیوٹ مما ہیں آپ کی اور مسکراتے اور پیاری لگتی ہیں “ 

فاٸقہ کے کہنے پر حرم جھینپ گٸ 

” بھٸ حمزہ کی پھوپھو بھی تو کتنی پیاری ہیں ماشااللہ 

اور آج تو حمزہ کے پھوپھا جی بھی آنے والے “ 

حرم کے ایسے کہنے پر فاٸقہ شرمانے کی بجاۓ قہقہ لگا کر ہنس پڑی تو حرم بھی حیرت سے اسے دیکھنے لگی 

” سوری بھابھی بس یہ پھوپھا سنا تو ہنسی آگٸ بات پتا ہے کیا ہے جو حمزہ کے پھوپھا ہیں نہ ان پر بس ایک نام سوٹ کرتا جو میں رکھا “ 

فاٸقہ شرارتاً بولی تو حرم نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا 

” ان کا نام ہے سڑیل کدو کریلا جی “ 

فاٸقہ کے نام سن کر حرم بھی ہنس پڑی 

حرم کو یہ چھوٹی سی چلبلی لڑکی بہت اچھی لگی تھی

اس گھر میں رونق ہی تو تھی فاٸقہ اور اخلاقی لحاظ سے تو سب بہت اچھے تھے تبھی حرم کے ساتھ ساتھ حمزہ بھی جلد سب میں گھل مل گیا تھا 

” واہ جی یہاں تو نند بھابھی خوب گپے لگا رہی ہیں“ 

حاشر کمرے میں آتا ان دونوں کو دیکھتا بولا 

” نہیں جی آپ کی بیگم کی تعریف کر رہی تھی اور انہیں بتا رہی تھی وہ روتے بلکل اچھی نہیں لگتی “

فاٸقہ حرم کو آنکھ مارتے بولی 

” ہاں یہ بات تو سچ کی ہے میری بیگم ہے تو حسین پری بس روتے ہوۓ نہیں اچھی لگتی “ 

حاشر حرم کا نازک سراپہ اپنی آنکھوں میں بھرتے بولا 

” چلو بےبی ہم چلتے ہیں کہیں آپ کے مما بابا کی پراٸویسی ڈسٹرب ہوگٸ تو آٸندہ بھابھی کے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیں گے مجھے “

فاٸقہ نے حمزہ کو گود میں لے کر شرارت بولتے ہوئے باہر کا رخ لیا اسکی بات پر حاشر قہقہ لگاتا ہنسا اور حرم سٹپٹا کر رہ گٸ 

” آپ کو کیا ہوا حرم سوری لگتا فاٸقہ نے زیادہ تنگ کر

 دیا آپ کو “ حاشر حرم کو دیکھ کر بولا 

” نہیں نہیں فاٸقہ تو بہت اچھی ہے بہت پیاری سی ہے 

دل لگا کر رکھنے والی کسی کو بھی بور نہ ہونے دے “

حرم اسکی دل سے تعریف کرتی بولی 

” مسز بات سنے آپ یہ جو آپ کو اچھی پیاری لگ رہی نہ 

اسکو آپ جانتی نہیں کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور کر دے یہ اسکی شرارتیں ایسی ایسی ہیں کہ شیطان بھی 

کہے باجی آپ جیتی میں ہارا “ 

حاشر حرم کو فاٸقہ کے بارے میں بتاتے بولا اسکی آخری بات پر حرم بھی ہنس دی 

” اچھی لگتی ہو ہنستے ہوۓ ہنستی رہا کرو “ 

حاشر حرم کو محبت سے دیکھتا بولا تو حرم ایک دم سنجیدہ ہوگٸ 

” نہیں حاشر مجھے خوشی راس نہیں آتی میں نہیں چاہتی ہنسنا بولنا مسکرانا کہیں میری زندگی کی تاریکی 

آپ کی خوشیاں نہ نگل لے اور نا ہی میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھ پر ترس کھاٸیں “ 

حرم اپنا رخ موڑ کر کرب سے بولی 

اس کی تکلیف حاشر کو اپنے دل میں ہوتی محسوس ہوٸی وہ جانتا تھا لوگوں نے جتنا زہر حرم کی زندگی 

میں گھول دیا ہے اسے کم کرنے میں ابھی وقت درکار 

تھا 

حاشر نے بنا سوچے حرم کا بازو اپنی طرف کھینچتے اسکا رخ موڑ کر اسے اپنا حصار میں لیتا اسے اپنے

 سینے سے لگا گیا حرم جو بہت مشکل سے ضبط کیے کھڑی تھی حاشر کا سہارا پاتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی 

حاشر نے اسے زور سے خود میں بھینچ لیا اور اسے رونے 

دیا وہ چاہتا تھا حرم دل کھول کر ایک دفعہ ہی اپنی تکلیف آنسوں میں بہا دے 

حرم جب بہت سا رو لی تب اسے اپنی پوزیشن کا خیال ہوا تو وہ شرمندہ سی ہوتی رونے سے اور شرم سے سرخ

ہوتا چہرہ لیے حاشر کے حصار سے نکلنے لگی 

حاشر نے اس کے گرد اپنا حصار مزید تنگ کردیا اور حرم کے فرار کے سب راستے بند کر دیے حرم کی تو مانو جیسے سانسیں سینے میں اٹک کر رہ گٸ  

” جانِ جاناں اب راہِ فرار ممکن نہیں آج ہماری محبت ہماری دسترس میں ہے ہمارے ہوش اُڑا کر اب چاہ کر بھی دور مت جانا ورنہ انجام کی زمہ دار آپ خود ہوگی “ 

حاشر حرم کی پشت اپنے سینے سے لگاۓ اسکے کانوں میں محبت بھری سرگوشی کرتے ہوۓ اسکی کان کی لو کو ہلکا سا اپنے دانتوں میں دباتا اسکا روم روم کانپنے پر مجبور کر گیا 

” حاااحاشش۔شر پلیز “ حرم کی شرم و جھجک سے آواز 

بھی حلق میں اٹک کر رہ گٸ تھی 

” ششش “ حاشر حرم کا رخ اپنی طرف موڑتا اسکے کانپتے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھتا اسے خاموش کروا گیا 

حرم سختی سے اپنی آنکھیں میچے کپکپاتے لبوں اور شدید سرخ ہوتے خوبصورت سے چہرے کے ساتھ حاشر کی باہوں میں کھڑی حاشر کو مسمراٸز کر گٸ 

حاشر بے خود سا ہوتا اسے اپنے قریب کر گیا حرم کے 

شرم و حیا سے گلال ہوتے چہرے کو تکتا ٹھوڑی سے پکڑے اس کے گالوں پر اپنی محبت کا لمس چھوڑتا وہ حرم کی جان خشک کر گیا 

حرم کو اپنا دل پسلیاں توڑ کر باہر آتا محسوس ہوا تھا

اسے اس قدر بوکھلاہٹ ہو رہی تھی کہ ابھی کچھ دیر 

پہلے والا واقعہ اسکے دماغ سے پوری طرح نکل گیا تھا 

حاشر چاہتا بھی یہی تھا کہ حرم کے دماغ سے سب نکل جاۓ اور وہ ریلیکس فیل کرے مگر اب اسے خود پر بند باندھنا نا ممکن لگ رہا تھا 

” روحِ من آپ میری زندگی ہو میری خوشی ہو میرا سکون ہو مجھے آپ سے محبت ہوٸی ہے آپ میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری عورت ہیں آپ پر ترس کیوں کھانا میں آپ کو ہی نا کھا جاٶ “ 

حاشر بے خود سا ہوتا حرم سے اظہارِ محبت کرتا آخر میں 

معنی خیزی اس کے گلابی لبوں کو دیکھتا بولا 

حاشر کی نظروں کا مرکز دیکھتے حرم سانس روکے کھڑی تھی حاشر کا تو اسے آزاد کرنے کا کوٸی موڈ نہیں تھا 

اور حاشر ان گلاب کی پنکھڑیوں کو چھونا چاہتا تھا محسوس کرنا چاہتا تھا حاشر اپنے دل کی پرزور خواہش پر لبیک کہتا حرم کے لبوں پر جھکتا اسکی سانسوں کو اپنی سانسوں میں قید کر گیا 

کتنے ہی لمحے اس معنی خیز خاموشی میں گزر گۓ اب تو مانو حرم کا سانس بند ہونے ہی والا تھا جب اچانک دروازے کی دستک پر حاشر جی بھر کر بدمزہ ہوا اور حرم کو آزادی نصیب ہوٸی 

حاشر دروازہ کی طرف بڑھا تو حرم فوراً سے اپنا شدت سے لال گلابی چہرہ لے کر اپنے تیزی سے ڈھرکتے دل کو سنبھالتی واشروم میں بند ہوگٸ 

حاشر کی نظروں سے اسکی یہ حرکت پوشیدہ نہ رہی کھل کر مسکراتا دروازے پر کھڑی صوفیہ بیگم کی طرف 

متوجہ ہوگیا تھا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” سارہ جلدی کرو بھٸ تم جانتی ہو نہ اپنے بابا کو انہوں نے ابھی واویلا مچا دینا ہے وہ کب سے انتظار کر رہے گاڑی میں “ 

سلمیٰ بیگم سارہ کو اترتے دیکھ بولی 

” سوری امی بس یہ آپ کا نواسہ جو ہے نا تنگ کرتا رہتا کبھی کچھ کبھی کچھ “ 

سارہ اپنے بیٹے کو سلمیٰ بیگم کی گود میں دیتے بولی 

” اب یہ لڑکا کہاں رہ گیا ہے “ سلمیٰ بیگم ریان کی وجہ سے کھڑی تھی جب وہ انہیں اترتا نظر آیا بلیو جینز پر واٸٹ کلر کی شرٹ پہنے بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا 

” ماشاءاللہ “ ریان کو دیکھ کر سلمیٰ بیگم اور سارہ نے بے ساختہ بولا 

” ویسے بھاٸی آپ کا جانا ضروری تھوڑی ہے آپ گھر بیٹھے نہ “ سارہ ریان کو چھیڑتے بولی

” بہن تمہارا جانا بھی ضروری نہیں پھر تم میرے ساتھ گھر بیٹھو “ ریان نے دانت دیکھاتے کہا تو سارہ منہ چڑانے لگی 

” بس بس بعد میں لڑ لینا دونوں ابھی چلو دیر ہو رہی ہے“ سلمیٰ بیگم دونوں کو ڈپٹ کے بولتی گاڑی میں

جا کر بیٹھ گٸ 

ریان کی خوشی کا کوٸی ٹھکانا نہیں تھا اسکی محبت اور اسکی چاہت بہت جلد اسکی ہونے جا رہی تھی فاٸقہ کا اپنے نام سے منسوب ہونے کا سوچ حاشر کی دل کو ڈھیروں سکون ملا تھا 

” میں آرہا ہوں اپنی چاہت کو اپنا بنانے “ 

حاشر فاٸقہ کو میسج کرتا بولا 

دوسری طرف فاٸقہ واٸٹ کلر کی لانگ فراک پہنے بالوں کی ڈھیلی سی چوٹی اور گلابی لبوں پر ہلکا سا 

لپ گلوس لگاۓ آنکھوں میں کاجل لگاتے آج پہلی بار سہی سے لڑکیوں والا تیار ہوٸی بہت پیاری لگی 

” جی آٸیے آپ کے انتظار میں پلکیں بچھاۓ بیٹھے ہیں ہم تو کب سے “ فاٸقہ نے شرارت سے رپلاۓ کیا 

میں نے چھوڑے ہیں باقی سارے راستے

بس آیا ہوں تیرے پاس رے 

میری آنکھوں میں تیرا نام ہے پہچان لے

سب کچھ میرے لیے تیرے بعد ہے

سو باتوں کی اک بات ہے

میں نہ جاٶں گا کبھی تجھے چھوڑ کے

یہ جان لے 

اوو کرم خدایا ہے تیرا پیار جو پایا ہے 

تجھ پہ مر کے ہی تو مجھے جینا آیا ہے

اوو تیرے سنگ یارااا 

ریان ایک رومینٹک سی ویڈیو فاٸقہ کو واٹس ایپ کی  جس میں عاطف اسلم کی پرسوز آواز میں گانا چل رہا تھا یہ لاٸنز اسے اپنی دلی فیلینگز کی عکاسی کرتی محسوس ہو رہی تھی 

فاٸقہ تو مسرور سی ہوتی کوٸی 8 سے 10 دفعہ اس ویڈیو کو دیکھ چکی تھی اسے اپنے بچپنے پر ہنسی بھی آٸی کہاں وہ ہر وقت شرارت اور مستی کرتے ملتی تھی اور کہاں آج ریان کی محبت میں پور پور ڈوب گٸ ہے 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” السلام عليكم آییے پلیز آپ “ حاشر ریان اور اسکی فیملی کو اندر لاتے ہوۓ بولا 

” وعليكم السلام کیسے ہو بیٹا آپ ریان بہت زکر کرتا ہے

آپ کا “ سلمیٰ بیگم پیار سے حاشر کے سر پر ہاتھ پھیرتی بولی 

” جی آنٹی الحمد لله آپ سب بیٹھیں میں مما بابا کو بلا کر لاتا ہوں “ حاشر ان سے خوشدلی سے بولتا وقار صاحب اور صوفیہ بیگم کو بلانے چلا گیا 

” مما آجاٸیں ریان کی فیملی ویٹ کر رہی “ 

حاشر صوفیہ بیگم کے کمرے میں آتا بولا 

” جی صوفیہ آپ جاٸیں ایسے انتظار کروانا اچھا نہیں لگتا میں ریڈی ہو کر آتا ہوں  “ 

وقار صاحب کے کہنے پر صوفیہ بیگم ڈراٸینگ روم میں 

آتی سب سے ملی 

” بھٸ آنٹی جی ہماری بھابھی تو بلا دیں “ سارہ نے صوفیہ بیگم سے بولی 

” جی جی بیٹا کیوں نہیں بلواتی ہوں حرم بیٹا جاٶ فاٸقہ کو لے آٶ “ صوفیہ بیگم اپنے ساتھ بیٹھی حرم سے بولی 

حرم یلو اور واٸٹ امتزاج کے شلوار سوٹ میں سر پر اچھے سے پنک کلر کا ڈوپٹہ ٹکاۓ حاشر کی موجودگی میں شرم سے گلال ہوتے چہرے میں بہت حسین لگ رہی تھی 

” ماشاءاللہ آپ کی بہو تو بہت پیاری ہے “ 

سلمیٰ بیگم نے حرم کو دیکھ کر کہا تو حرم اپنی تعریف پر جھینپتے وہاں سے چلی گٸ 

حرم فاٸقہ کو لے کر نیچے آٸی تو سب سے پہلے ریان کی نظر اس پر پڑی وہ مبہوت ہوتا بنا پلکیں جھپکاۓ اسے 

تکتا گیا واٸٹ کلر کا لونگ فراک پہنے سر پر اچھے سے

 ہم رنگ ڈوپٹہ اُوڑھے وہ سہج سہج کر چلتی اس کے دل 

میں براجمان ہوگٸ 

” ماشاءاللہ ماشاءاللہ بھابھی جی ہماری بہو بھی چاند کا ٹکرا ہے “ صوفیہ بیگم فاٸقہ کے سلام کرنے پر کھڑے ہوکر اسکا ماتھا چوم کر بولی اور اپنے پاس بیٹھا لیا 

” السلام عليكم انکل “ فاٸقہ نے نظریں جھکاتے 

سرمد صاحب کو سلام کیا 

” وعليكم السلام بیٹا “ سرمد صاحب نے بھی خوشدلی سے جواب دیا 

” سارہ مجھے بتاٶ یہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے فاٸقہ تو فاٸقہ بلکل نہیں لگ رہی کہیں لڑکی تو نہیں بدل دی “  فاٸقہ کو اس طرح جھجکتے اور شرمیلے انداز میں بیٹھا دیکھ بے یقینی سے ریان حیرانگی سے سارہ سے پوچھنے لگا تو سارہ قہقہ لگا کر ہنس دی 

” السلام عليكم “ وقار صاحب ڈراٸینگ روم میں اونچی آواز میں سلام کرتے ہوۓ داخل ہوۓ 

اسی وقت وقار صاحب اور سرمد صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دونوں کے چہرے پر سختی در آٸی مگر 

وقار صاحب ماحول کی مناسبت دیکھتے بیٹھ گۓ 

دوسری طرف سرمد صاحب ایک دم کھڑے ہو گۓ 

 سلمیٰ بیگم اور سارہ ریان کے ساتھ ساتھ سب ہی انہیں

حیرت سے دیکھنے لگے 

” اٹھو چلو یہاں سے ہم اس گھر میں شادی نہیں کریں گے“ سرمد صاحب کے ان الفاظ نے ریان اور فاٸقہ کے سر 

پر بمب پھؤڑ دیا 

” لیکن بابا کیوں “ ریان حیران پریشان کھڑا ہوتا بولا 

” جن لوگوں کو بزنس کرنے کی تمیز نہیں وہ رشتے میں کیا خاک لحاظ کریں گے ہمیں نہیں بیاہ کر لے کر جانی انکی بیٹی “ 

سرمد صاحب وقار صاحب کو دیکھ کر بولے اور یہاں وقار صاحب کی برداشت کی حد ہوٸی 

” ہمیں بھی اپنی پھول جیسی بیٹی آپ جیسے ناقدرے لوگوں کو نہیں دینی جو وقت کی قدر نہ کریں وہ رشتوں کی بھی نہیں کرسکتے “ 

وقار صاحب بھی انکی ٹون میں بولے 

” چلو یہاں سے سمجھ نہیں آتی “ سرمد صاحب کے غصے سے بولنے پر سلمیٰ بیگم اور سارہ ان کے پیچھے باہر نکل گۓ

فاٸقہ کے چہرے پر پریشانی اور آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر ریان کو اپنا دل رکتا محسوس ہوا 

” فاٸقہ اندر جاٶ بیٹا “ وقار صاحب کے کہنے پر فاٸقہ نے تڑپ کر ریان کو دیکھا 

” مگر بابا “ فاٸقہ نے بولنا چاہا 

” فاٸقہ جاٶ تو جاٶ “ وقار صاحب کے غصے سے کہنے پر فاٸقہ ڈرتی اور روتی اندر کی طرف بھاگ گٸ 

” انکل پلیز “ ریان ابھی بولا ہی تھا جب وقار صاحب نے ہاتھ بڑھا کر اسے روک دیا 

حاشر ریان کو تسلی دیتا فلحال جانے کا کہنے لگا پریشان تو وہ بھی بہت ہوگیا تھا اس ساری سیچویشن سے مگر 

ابھی بات سنبھالنا ضروری تھا 

ریان اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے نکلتا چلا گیا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کچھ پل پہلے وہ کتنا خوش خوش آیا تھا اور اب ایک ہارے ہوۓ جواری کی طرح قدم واپس لے رہا تھا

محبت مل جانے کے سرور اور خوشی سے کہیں زیادہ 

اسکو کھو دینے کا ڈر بڑا ہوتا ہے اور آج یہ ڈر اور درد 

اسے اپنے دل میں ہوتا محسوس ہو رہا تھا

میں نےمحسوس کی ہے اپنی جان جسم سے جدا ہوتے

میں نے اپنی محبت ہاتھوں میں بھر کر گواٸی ہے

ریان بہت غصے میں گھر داخل ہوا اور سامنے سلمیٰ بیگم اور سارہ پریشان بیٹھی تھی اسے اس حال میں دیکھ کر دونوں مزید پریشان ہوگٸ تھی 

ریان سیدھا سرمد صاحب کے کمرے میں گیا اور جا کر ان کے سامنے کھڑا ہوگیا سرمد صاحب جو اپنے دھیان میں 

آفس کا کام کررہے تھے ریان کو آتا دیکھ کھڑے ہوگۓ 

” کیوں کیوں کیا ایسا سرمد صاحب آپ نے کیوں آپ نے

میری خوشی برباد کی “

ریان غم و غصے سے پاگل ہوتا چیخا اسکی آواز سن کر سارہ اور سلمیٰ بیگم بیگم بھی کمرے میں آگٸیں 

” حد میں رہو لڑکے تمہارا باپ میں ہوں میرے باپ بننے کی کوشش مت کرو “ 

سرمد صاحب روب سے بولے 

” باپ باپ ہیں آپ کیسے باپ ہیں آپ جو اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کی خوشیوں کو آگ لگا دے “ 

ریان رنجیدہ ہوا 

” بابا بھاٸی بلکل سہی کہہ رہے ہیں آپ نے بہت غلط کیا بھاٸی کے ساتھ “ 

سارہ بھی دکھ سے بولی 

” لڑکی زبان سنبھالو اپنی اور ہر وقت یہاں پڑے رہنے سے اچھا ہے اپنے گھر رہا کرو بڑا کوٸی لڑکا پسند کیا تھا نہ اپنے لیے کیا سکون سے رکھ نہیں سکتا تمہیں چار دن کا 

بھوت تھا بس اتر گیا “ 

سرمد صاحب سخت لہجے میں سارہ سے بولے تو سارہ

حیرانی سے آنکھوں میں آنسوں لیے باہر چلی گی

” سرمد صاحب بیٹی ہے وہ کیسے شخص ہیں آپ “ 

سلمیٰ بیگم ملامتی نظروں سے انہیں دیکھ کر بولی 

” واہ بچوں کی شیری پر بڑے پر نکل آۓ ہیں نہ تمہارے بھی “ سرمد صاحب طنز سے بولے 

” نہیں آج ہی تو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے ہمیشہ اپنے بچوں پر آپ کو فوقیت دی مگر آج آپ نے میرے بچے کی خوشی برباد کردی “ 

سلمیٰ بیگم کے کاٹ دار لہجے پر سرمد صاحب نے حیرت سے دیکھا 

” نہیں مما یہ کبھی نہیں بدل سکتے یہ ہمیں خوش دیکھ ہی نہیں سکتے ان کو بس اپنا کام اور پیسہ پیارا ہے کسی کی محبت چاہت کی کوٸی قدر نہیں ہے انہیں “ 

ریان غصے سے بولا 

” زبان کو لگام دو لڑکے ہاں نہیں کروں گا میں تمہاری شادی اس لڑکی سے جو کر سکتے ہوکر لو تمہاری دوکوڑی 

کی محبت کے پیچھے اپنی ریپوٹیشن خراب نہیں کرنی 

بہت بنتا ہے نہ اسکا باپ منہ پر انکار ہوا لگ پتا گیا ہوگا“ 

سرمد صاحب غرور سے بولے 

” خدا کا خوف کھاٸیں کچھ ہر چیز پیسہ دولت انا نہیں 

ہوتی کبھی کبھی ہمارا غرور اور تکبّر ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتا پھر جب اللہ کی پکڑ ہوتی ہے نہ تو انسان کی ساری اکڑ چٹکیوں میں نکل جاتی ہے خدا کا خوف

 رکھیں نہیں تو وہ دن دور نہیں جب اپکا غرور و تکبّر اور یہ انا بھرم سب مٹی میں مل جاۓ “ 

ریان تاسف سے بولا 

” رریان “ سرمد صاحب شدید غصے نے دھاڑتے ریان کے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ مار دیا سلمیٰ بیگم نے دہل کر اپنے دل پر ہاتھ رکھا

” بس یہی تو کر سکتے ہیں آپ جو کرنا ہے کریں آپ میں بھی فاٸقہ سے شادی کر کے دکھاؤ گا آپ کو “ 

ریان لہو رنگ آنکھوں سے گھور کر بولتا باہر جانے لگا 

” ٹھیک ہے تم شوق سے اس لڑکی سے شادی کرو جس وقت تم اس لڑکی کو اپنی بیوی بناٶ گے میں تمہاری ماں کو طلاق دے دوں گا “ 

سرمد صاحب سفاکیت سے کہتے باہر نکل گۓ ان کے ادا کیے گۓ الفاظ پر ریان کے قدموں تلے زمین نکل گٸ 

سلمیٰ بیگم تو یہ سب سن کر صوفے پر ڈھے سی گٸ 

ان کی ساری زندگی کی محنت محبت اور وفا کو کیسے 

سرمد صاحب نے برباد کر دیا تھا 

” مما “ اس سے پہلے کے سلمیٰ بیگم چکرا کر صوفے سے گرتی ریان نے چیخ کر کہتا آگے بڑھ کر انہیں تھام گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” بابا یہ سب کیا تھا پلیز مجھے تو کچھ بتاٸیں “ 

سب کے جانے کے بعد حاشر وقار صاحب سے بولا 

” بتانا کیا ہے سب کچھ تمہارے سامنے ہے خان انڈسٹریز 

انہی کی ہے مجھے پتا ہوتا پہلے ہی انکار کردیتا “ 

وقار صاحب کے بتانے پر حاشر سب سمجھ گیا تھا 

” مگر بابا اس اتنی سی بات پر ہم رشتہ تو ختم نہیں 

کرسکتے اس میں ہماری گڑیا کی خوشی ہے “ 

حاشر وقار صاحب کو سمجھاتے ہوۓ بولا 

” جی وقار حاشر بلکل سہی کہہ رہا ہم بات کر لیتے ہیں

ریان اچھا لڑکا ہے “ 

صوفیہ بیگم بھی بولی 

” مما کھانا لگ گیا ہے آپ سب آجاٸیں “ حرم سب کو بلاتے ہوۓ بولی

 گھر کے سے سب ہی پریشان تھے حرم کو بھی بہت عجیب لگ رہا تھا پہلے حاشر کا مسلہ اور اب فاٸقہ کی 

شادی میں رکاوٹ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کیا ہونے والا ہے اور کیا نہیں 

” تھینک یو بیٹا مجھے تو اس سب میں یاد نہیں رہا “ 

صوفیہ بیگم تشکر بھرے انداز میں بولی 

” حرم فاٸقہ کو بھی کہہ دو پلیز “ حاشر فاٸقہ کی طرف سے شدید پریشان ہوتا بولا 

” وہ میں دو بار کہہ چکی ہو وہ کہہ رہی ہیں انہیں نہیں کھانا کچھ بھی “ 

حرم پریشانی میں بولی 

” السلام عليكم “ ابھی وقار صاحب کچھ بولتے کہ سحر کے گھر میں آتے سلام کرتی سحر سب توجہ اپنی طرف مبذول کروا گٸ 

” وعليكم السلام آٶ بچے “ صوفیہ بیگم پیار سے بولی حاشر کے ساتھ کھڑی حرم کو دیکھ کر سحر حیران ہوٸ 

وقار صاحب ڈاٸینگ روم میں چلے گۓ 

” آنٹی یہ “ سحر اشارے سے ہوچھنے لگی 

” بیٹا یہ آپ کے حاشر بھاٸی کی مسز ہیں “ 

صوفیہ بیگم کی بات پر سحر کے سر پر بمب پھٹا 

” یہ کب ہوا کیسے ہوا بھابھی کہاں سے ملی “   

سحر بنا رکے سوالوں کی پوچھاڑ کرنے لگی 

سحر کو پوچھنے پر صوفیہ بیگم نے ساری بات اسے بتا دی سحر حیران رہ گٸ کہ ایک دن میں کیا سے کیا ہوگیا 

تھا وہ بھی فاٸقہ کے لیے بہت پریشان ہوگٸ تھی 

” سوری آنٹی مجھے زرا اندازہ نہیں تھا میں تو مٹھائی لاٸی تھی کہ سب سے پہلے گڈنیوز فاٸقہ کو دوں پرسوں

میری اور فہد کی انگیجمنٹ ہے “ 

سحر شرمندہ ہوتی بولی

” نہیں نہیں بیٹا بہت مبارک ہو آپ کو اللہ نصیب اچھے کرے خوش رہو “ صوفیہ بیگم اسے پیار کرتے بولی 

” آنٹی پلیز میں فاٸقہ سے ملنا چاہتی ہوں “ 

سحر نے ان سے پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا گٸ

” فاٸقہ دروازہ کھولو میں سحر “ سحر کے بولنے پر فاٸقہ نے اچھے سے آنسوں صاف کرتے دروازہ کھولا 

سحر نے زندگی میں پہلی بار فاٸقہ کو اس حال میں دیکھا تھا روٸی ہوٸی سوجھی آنکھیں جن میں اداسی 

نے بسیرا کر لیا تھا اس بکھری بکھری حالت میں اسے فاٸقہ کہیں سے بھی شوخ سی فاٸقہ نہیں لگی سحر کا اسکا یہ حال دیکھ کر دل کٹ کر رہ گیا سہی کہتے ہیں 

محبت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی 

” فاٸقہ یہ کیا حال بنا لیا ہے یار “ 

سحر فاٸقہ کا ہاتھ تھام کے بولی تو فاٸقہ دکھ سے ہنس دی 

” میں نے حال کیا بنانا میری قسمت نے بنا دیا ہے اگر بتا ہوتا کہ محبت کا انجام ایسا ہوگا تو کبھی دل نہ لگاتی “ 

فاٸقہ کے بولنے پر دو آنسوں ٹوٹ کے اسکی آنکھوں سے گرے 

” نہیں میری جان سب سہی ہو جاۓ گا پلیز تم ریلیکس کرو “ سحر پیار سے پچکارتے ہوۓ بولی 

” نہیں سحر میں نے دیکھا ہے سب میں جانتی ہوں اب بابا کبھی نہیں مانے گے سحر میری محبت ادھوری رہ گٸ ہے سحر اور یہ ادھوراپن مجھے کھا جاۓ گا “ 

فاٸقہ کہتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی اسکی اس حالت ہر باہر کھڑے حاشر کو اپنے دل میں تکلیف اٹھتی محسوس 

ہوٸی تھی 

” اچھا تم بتاٶ آج صبح خیریت تھی یا مما نے بلایا “ 

فاٸقہ آنسوں صاف کرتے بولی 

” وہ میری اور فہد کی بات پکی ہوگٸ ہے پرسوں انگیجمنٹ ہے “ سحر نے اسے بتایا

” واہ ماشااللہ بہت خوشی ہوٸی “ 

فاٸقہ نے خوشدلی سے کہا 

” فاٸقہ اس طرح کام نہیں چلے گا تمہیں میرے ساتھ شاپنگ پر بھی جانا ہے اور پرسوں تک میرے گھر بھی رکنا ہے “ سحر اسے آنکھیں دکھاتے بولی 

” سحر تمہاری طرف رکنا اور شاپنگ پر جانا تو ممکن نہیں مگر میں پرسوں آنے کی بھرپور کوشش کروں گی “ 

فائیقہ زبردستی اپنے لہجے کو ہشاش بناتے ہوئے بولی 

” فاٸقہ یار یہ تو غلط بات ہے تم اب ایسے کرو گی “ 

سحر خفگی سے بولی 

” سحر پلیز ضد نہ کرو سارے حالات تمہارے سامنے ہیں پلیز “ فاٸقہ کے التجائیہ انداز پر کہنے پہ سحر اس کی حالت سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” حاشر یہ چاۓ آپ کے لیے “ حرم کمرے میں آتی حاشر کو چاۓ کا کپ پکراتے بولی 

” تھینک یو اور ایم ریلی سوری حرم اس سب کے لیے “ 

حاشر شرمندہ سا بولا 

” سوری کس لیے حاشر مجھے پتا ہے سب گھر میں کتنی پریشانی ہے اور اس میں آپ سب کا تو کوٸی قصور نہیں ہے نہ تو آپ کیوں شرمندہ ہوتے ہیں “ 

حرم اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے بولی مگر صبح والا 

سین یاد کرکے حرم سرخ چہرہ لیتے خجل ہوتی وہاں سے اٹھ کر جانے لگی جب حاشر نے اس کا ہاتھ تھام کر واپس اپنے پاس بٹھا لیا

” حرم آپ میرے لیے باعثِ سکون بن گٸ ہیں اب میں چاہ کر بھی آپ سے دور نہیں جاسکتا اپنے اندر اس گلٹ کو ختم کردیں کہ آپ کسی سے کم ہیں پلیز “ 

حاشر حرم کے بال کانوں کے پیچھے کرتا ہوا بولا 

” و۔وہ  مم۔میں حمزہ کو دیکھ لوں زرا “

حرم حمزہ کا بہانہ کرتی اٹھ کر جانے لگی 

” بیگم ہمارا پیارا بیٹا سامنے سو رہا ہے تو اسکو دیکھ کر آپ نے کیا کرنا ہے آپ ہمیں دیکھیں ہم تو جاگ رہے ہیں“ 

حاشر حرم کو اپنے حصار میں لیتا بولا تو حرم بوکھلا سی گٸ 

حرم نے نظریں اُٹھا کر حاشر کو دیکھا مگر اسکی آنکھوں میں جزبات کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دیکھ کر دوبارہ اپنی پلکیں جُھکا لی

 حاشر مسکرا کر اسکے ماتھے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرگیا اسے حرم کا شرمایا سا روپ بہت بھاتا تھا اسکا شرمانا جھجھکنا اور کترانا حاشر کو مزید اپنی طرف ماٸل کرتا تھا 

” آج میں اپنے فیصلے پر بہت مطمٸن ہوں جس کے ساتھ کی میں نے تمنا کی اس نے ہر حالات میں میرا ساتھ نبھایا آپ کو پانا ناممکن سا لگتا تھا مگر میری محبت آپ کے لیے بڑھتی ہی چلی گٸ میڈم کے زور دار تھپڑ کے باوجود “ 

حاشر حرم کے چہرے کو ٹھوڑی سے پکڑ کر اونچا کرتا ہوا بولا تو حرم اسکی آخری بات پر شرمندہ ہوگٸ 

” یہ بات میں نے آپ کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں کی جانِ جاناں بس آپ کے لیے اپنی محبت اور شدت بیان

 کر رہا ہوں اس سے اندازہ لگا لیں آپکے حصول کی خواہش اور میری لگن اتنی سچی تھی کہ آج آپ میرے پاس میری محرم کے روپ میں موجود ہو"

حاشر محبت سے اسکے دونوں ہاتھوں پر اپنے لب رکھتا بولا 

حاشر کی باتوں اور جسارتوں پر حرم کے جسم کا سارا خون اسکے چہرے پر سمٹ آیا تو اور اسکی یہی ادائیں 

حاشر کو اپنا دیوانہ بنا رہی تھیں 

حاشر بےخود سا ہوتا حرم کی کمر کے گرد بازو حاٸل کیے اسے اپنے اوپر گرا گیا حرم نے سختی سے آپنی آنکھوں 

کو میچ لیا حاشر نے اسکے لال ہوتے گالوں پر اپنا لمس چھوڑا اور پھر گالوں سے ہوتا اسکی بند آنکھوں کو چوم گیا حرم مزمت کرتی خود کو اس سے چھڑواتی کھژی ہوگٸ حاشر اسکی پشت اپنے سینے سے لگاتا اسکی کان کی لو چوم گیا 

” اس جھجھک و شرم نے مجھے آپ کا دیوانہ بنا دیا ہے “ 

حاشر سرگوشی میں کہتا اسکا رخ اپنی طرف موڑتا اسکےنرم و ملاٸم ہونٹوں پر جھک گیا اور حرم کی سانسوں کو اپنی سانسوں میں الجھا گیا 

ان معنی خیز لمحوں کے اثر میں حاشر بری طرح جکڑنا شروع ہوگیا تھا حرم  کی قربت اسے مدہوش کر رہی تھی 

حرم جتنی مزمت کرتی وہ اتنا ہی جنونی ہوتا جاتا

حاشر کا لمس حرم کو جھلسا رہا تھا اسے اپنی سانسیں رکتی اور سر چکرتا محسوس ہونے لگا حرم کو بےحال ہوتا دیکھ حاشر اس پر ترس کھاتا پیچھے کو ہٹا تھا 

حرم تیز تیز سانس لیتی اپنا  بگڑا تنفس بحال کرنے لگی 

اسے اپنے ہونٹوں پر شدید جلن محسوس ہورہی تھی 

مگر حاشر سے نظریں ملانے کی سکت نہ تھی 

” حاشر پلیز مجھے کچھ وقت چاہیئے پلیز “ حرم بوکھلا کر بولی ابھی وہ ٹھیک سے سنبھلی نہیں تھی جب حاشر اسکو پھر سے تھام گیا 

” اوکے جاٸیں آپ آرام کریں “ حرم کی بات سنتے حاشر جھٹکے سے پیچھے ہوا 

حاشر کا ایک دم پیچھے ہونا حرم کو اچھا نہیں لگا 

حاشر زیادہ ہی سنجیدہ ہوتے ہوۓ جا کر بیڈ پر حمزہ کی 

دوسری ساٸیڈ پر لیٹ گیا حاشر کے اس طرح سنجیدہ 

ہونے پر حرم پریشان ہوگٸ 

” سنیے وہ “ حرم کی آواز پر حاشر نے آنکھوں سے ہاتھ 

ہٹاتے ہوۓ سوالیہ انداز میں دیکھا 

” آپ ناراض ہوگۓ ہیں “ حرم کے معصومیت سے پوچھنے 

پر حاشر کو اس پر ٹوٹ کے پیار آیا 

” جانِ حاشر میں آپ سے بلکل ناراض نہیں ہوں اور سچ بات یہی ہے ہم ہمارے رشتے کا آغاز تب ہی کریں گے جب آپ کی دلی منظوری شامل ہوگی مجھے آپ کی مرضی سب سے زیادہ عزیز ہے “ 

حاشر تھوڑا اٹھ کر تکیہ سے ٹیک لگاتے مسکرا کر بولا 

حاشر کے کہنے پر حرم آ کر اپنی جگہ پر لیٹ گئی مگر سونے کی بجاۓ چوری چوری نظروں سے حاشر کو دیکھنے لگی 

اسکا شوہر دن با دن اس کے دل میں اپنی جگہ بناتا جا رہا تھا وہ دن دور نہیں تھا جب حرم بھی پوری طرح اس کی محبت میں گرفتار ہوجاۓ 

” ایک ہی تو دل ہے کتنی بار جیتیں گے آپ “ 

حرم دلی دل میں حاشر سے مخاطب ہوتے بولی 

” بیگم جان سو جاٸیں اب آپ مجھے یوں چوری چوری سے دیکھنا بند کریں ورنہ آپ پر رحم کھانا مشکل ہوجانا اور آپ پر رحم کرنے کا مطلب ہے آج رات خود پر جبر کرنا جو میں ہمیشہ سے آپ کو دیکھ کر خود پر کرتا آیا ہو تو پلیز اب آپ مجھ پر رحم کریں “ 

حاشر کے شرارت سے آنکھیں کھول کر کہنے پر حرم نے جھٹ سے آنکھیں بند کرلی حاشر مسکراتا نفی میں سر

ہلاگیا 

خواب ہے تو نیند ہوں میں❤

دونوں ملے رات بنے❤

روز یہی مانگو دعا❤

تیری میری بات بنے❤

بات بنے۔۔۔۔۔ ❤

میں رنگ شربتوں کا❤

تو میٹھے گھاٹ کا پانی ❤

مجھے خود میں گھول دے تو❤

میرے یار بات بن جانی❤

حاشر نے اپنے پاس سوۓ ہوۓ حمزہ اور حرم کو دیکھا 

اس کے دل میں جانے انجانے میں ہی سہی مگر حمزہ کے لیے سگے باپ کی طرح محبت تھی وہ اسکے گال پر پیار کرتا ہوا محبت سے اسے تکنے لگا 

پھر حرم کو دیکھا یہ لڑکی کب اسے محبت کرنا سیکھا 

گٸ اسے پتا ہی نہ چلا تھا حرم کو پانا اس کو ناممکن سا لگتا تھا مگر اب یہ لڑکی اس کی دسترس میں اسکی 

بیوی بنے پورے حق سے براجمان تھی 

میں نے تو دھیرے سے❤

نیندوں کے دھاگے سے❤

باندھا ہے خواب کو تیرے❤

میں نا جہاں چاہوں❤

نہ آسماں چاہوں❤ 

آجا حصے میں تو میرے❤

تو ڈھنگ چاہتوں کا❤

میں جیسے کوئی نادانی❤

مجھے خود سے جوڑ دے تو❤

میرے یار بات بن جانی❤

حاشر بنا پلکیں جھپکاۓ اسے کتنی دیر تک تکتا گیا وہ 

اتنی معصوم اور پاکیزہ لگی تھی کہ دل کیا ساری دنیا سے چھپا لے اسے حاشر نے ہاتھ بڑھا کر حرم کی چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا اور پورے حق سے اپنے حلال رشتے کی مہرِ محبت اس کے ماتھے پر شدّت سے ثبت کی 

اور سکون سے آنکھیں موند گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤  

” دیکھا میں تو کہتی تھی نظر رکھو اولاد پر دیکھا بےجا 

پیار اور لاڈ کا نتیجہ ہے معاف کرنا وقار تمہارے دونوں بچوں نے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تمہیں“ صبیحہ بیگم وقار صاحب کو طنز کرتے ہوئے بولی 

” آپا ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ لوگ رشتہ ہی لائے تھے 

اب اس میں ہماری فائقہ کا تو کوئی قصور نہیں نہ رہی بات حاشر کی تو میں نے اس کو معاف کیا ہی کہاں ہے “ 

وقار صاحب بولے 

وقار صاحب کے کل فون کرنے پر صبیحہ بیگم اور ان کے گھر والوں کو فائقہ کے رشتے کے بارے میں پتہ چلا تو آج صبح ہی صبح صبیحہ بیگم اور رمشا ہمدانی ہاٶس آگۓ تھے تاکہ جلے پر نمک چھڑک سکیں اور اپنا پتہ بھی پھینک سکیں 

” ماموں حاشر نے میرے ساتھ بلکل اچھا نہیں کیا اس سڑک چھاپ لڑکی کو مجھ پر فوقیت دی ہے “ 

رمشا وقار صاحب سے بولی 

” وقار ایک بار تو تم نے ہمارا بھرم توڑ دیا اب میں اس امید سے آئی ہوں کہ اس بار تم ہمیں خالی ہاتھ نہیں 

لوٹاٶ گے “

 صبیحہ بیگم کے ایسا بولنے پر وقار صاحب نے سوالیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا اور ڈرائنگ روم میں آتی صوفیہ بیگم نے بھی حیرانگی سے ان کی بات سنی 

”آپا آپ کہنا کیا چاہتی ہیں کھل کر کہیں مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی “ وقار صاحب نے ناسمجھی سے بولتے ہوئے صبیحہ بیگم سے پوچھا 

” بھٸ رمشا کی دفعہ جو ہوا سو ہوا مگر میں ہمیشہ سے اپنے بھائی کی اولاد کو عزیز رکھا ہے اب میں ایک ہی شرط پر معاف کروں گی اگر تم فائقہ کو میرے احسن کیے لیے دے دو میں فائقہ کو اپنے احسن کی دلہن بنانا چاہتی ہوں “ 

ان کی بات پر جہاں وقار صاحب حیران ہوۓ وہیں صوفیہ بیگم کے سر پر بھی حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے 

وہ دونوں بے یقینی سے صبیحہ بیگم کی طرف دیکھنے لگے 

” آپا آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں آپ تو جانتی ہیں کہ احسن کوئی کام تو کرتا نہیں ہے اور اسکی پڑھائی بھی پوری نہیں ہے “ صوفیہ بیگم اندر آکر بولی 

” تو کیا ہوا اپنے ماموں کے ساتھ ان کا بزنس دیکھ لے گا 

اور ویسے بھی شادی سے پہلے سب لڑکے غیر ذمہ دار ہوتے ہیں شادی ہو جانے کے بعد سب ٹھیک ہوجاتے ہیں کیوں وقار “ 

صبیحہ بیگم کے بولنے پر رمشا شاطرانہ انداز میں مسکراٸی 

” لیکن آپا میں ایسے اپنے بچوں کا فیصلہ نہیں کرسکتی 

پہلے آپ احسن سے کہیں کوئی کام وغیرہ کریں کوئی بزنس یا کوئی جاب کرے اور اپنے بچوں کی رضامندی کے بغیر تو میں کبھی بھی آپ کے رشتے پر ایگری نہیں کروں گی “ صوفیہ بیگم کے بولنے پر دونوں ماں بیٹی نے منہ بنا کر انہیں گھورا

” دیکھو وقار اس بار اگر تم نے انکار کیا یا میرا بھرم توڑا 

تو میں آج کے بعد بھول جاؤں گی کہ میرا کوئی بھائی بھی ہے میں تم سے سارے رشتے ختم کر کے چلی جاؤں گی “ صبیحہ بیگم وقار صاحب کو ایموشنل بلیک میل کرتے بولی 

” پھوپھو آپ ایسا کیسے کہہ سکتی ہیں آپ کو پتہ ہے آپ کا احسن کوئی کام کرنا دور کی بات اس کی صحبت بھی کیسی ہے میں اپنی بہن کے لئے ایسے لڑکے کو کبھی ترجیح نہیں دوں گا“ 

حاشر اندر داخل ہوتا بولا 

” بس حاشر یہ فیصلہ میں تمہارے لئے نہیں بلکہ اپنی بیٹی کے لئے کر رہا ہوں تم نے تو جو نافرمانی کرنی تھی وہ کرلی اب ہمارے گھریلو معاملات سے دور رہو اور میں جانتا ہوں کہ مجھے اپنی بیٹی کے لیے کیا فیصلہ کرنا ہے کیا نہیں تمہارے لائے ہوئے رشتے کو تو کل ہم نے دیکھ لیا نہ کیا بنا عجیب رسوائی اب وہی فیصلہ ہوگا جو میں چاہوں گا “ 

وقار صاحب درشتی سے بولے 

” بابا آپ میری غلطی کی سزا فائقہ کو نہیں دے سکتے آپ اتنا بڑا فیصلہ اس کی رضامندی کے خلاف ہرگز نہیں کر سکتے “ حاشر انکے پاس آکر بولا 

” تمہیں ایک بات کی سمجھ نہیں آتی آپا آپ تیاری کریں

ہم اس جمعہ کو فاٸقہ اور احسن کا نکاح کریں گے اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے میں نہیں چاہتا کہ دیر کرنے یا رضامندی کے چکر میں بیٹھنے پہ فاٸقہ بھی نافرمانی پر اتر آۓ “ 

وقار صاحب کے بولنے پر حاشر نے پریشانی سے صوفیہ بیگم کی طرف دیکھا جو خود بھی دکھ سے وقاص صاحب کو دیکھ رہی تھی 

فائقہ جو وقار صاحب کے بلانے پر ڈرائنگ روم میں آرہی تھی ساری بات سن کر روتے ہوئے الٹے قدم لیتی اپنے کمرے میں چلی گئی 

” ریان پلیز ریان کچھ کرو پلیز “ فاٸقہ نے روتے ہوۓ ریان کو میسیج کیا اور بیڈ پر لیٹتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ریان ساری رات سے گھر نہیں گیا تھا سرمد صاحب کے الفاظ ہتھوڑے کی طرح اس کے سر پر برس رہے تھے

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے آگے کنواں تھا تو پیچھے کھائی 

جب اس سے فائقہ کا میسج رسیو ہوا تو اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے اس نے اتنا بے بس اور مجبور کبھی بھی خود کو محسوس نہیں کیا تھا وہ فاٸقہ کے سامنے بھی بہت شرمندہ تھا جس کے لئے وہ کچھ کر نہیں پا رہا تھا

 اچانک وہ حتمی فیصلہ کرتا اپنے موبائل سے سحر کا نمبر ملانے لگا سحر نے ریان کے نمبر سے آتی کال دیکھ کر فوراً رسیو کی 

” السلام علیکم سحر مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے“ ریان ضبط کرتا بولا 

” وعلیکم السلام جی سر بولیں میں سن رہی ہو کیا بات کرنی ہے آپ کو “ سحر اس کے لہجے میں تکلیف محسوس کرتے رسان سے بولیں

” سحر کل فاٸقہ آپ کی انگیجمنٹ میں آ رہی ہے کیا “ 

ریان نے بےچینی سے پوچھا 

” سر میں نے بہت کہا ہے مگر اس کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا نہیں ہے کہ وہ کہیں بھی آئے گی یا جائے گی “ 

سحر اس سے بولی 

” پلیز سحر میرا فائقہ سے بات کرنا بہت ضروری ہے اور یہ بات آمنے سامنے ہی ہو سکتی ہے “ 

ریان جلدی میں بولا 

” ٹھیک ہے سر میں پوری کوشش کروں گی آپ پریشان نہیں ہوں کل انشاء اللہ آپ دونوں مل کر اپنے سارے معاملات کو سہی کرلیں “ 

سحر کے بولنے پر ریان شکریہ کرتا کام ڈسکنکٹ کرگیا 

کون جانتا تھا کہ کل یہ ملاقات صحیح ہونے والے ہیں یا مزید بگڑ جانے والے ہیں یا شاید فائقہ اور ریان کی کہانی کا اختتام ہونے والا ہے کیا پتہ ان کی محبت ان کی فیملیز کی انا کی بھینٹ چڑھنے والی ہے 

کتنا بےبس کردیتی ہے یہ رسمِ محبت ہمیں 

ناجینے دیتے نہ مرنے دیتے ہیں لوگ ہمیں

” بس اب دیکھنا تم سارے حساب برابر کروں گی تم سے حاشر ہمدانی “ 

رمشا آنکھوں میں نفرت لیے بولی 

” سہی کہہ رہی ہو رمشا اس نے کس طرح تمہیں ریجیکٹ کیا ہے ایک ایک کر کے بدلہ لیں گے اس کی بہن 

سے تل تل کر مرے گا تب “ 

احسن اپنے چہرے پر مکرو مسکان سجاتا بولا 

” بس احسن تم بہت دھیان رکھنا نکاح ہونے سے پہلے کسی کو تمہارے بیوی بچوں کی بھنک بھی نہیں لگنی چاہیے “ رمشا اسے تنبیہ کرتے بولی 

” تم کیوں فکر کرتی ہو کسی کو شک تک نہیں ہونا “ 

احسن ٹی وی اون کرتا ریلیکس انداز میں بولا 

” میں تو سوچ رہی ہو شادی کرتے ہی تم اسے طلاق دے

دینا مرنے والی ہو جاۓ گی “ 

رمشا مکرو ہنسی ہنس کر بولی 

” نا نا رمشا پورا ایک مہینہ رکھیں گے اسے مگر نوکرانی بنا کر سارے حساب نہیں چکتا کرنے “ 

احسن آنکھ مارتا بولا 

” احسن رمشا چلو بازار شادی کی بہت سی تیاریاں کرنی ہے بس تین دن ہیں “ 

صبیحہ بیگم کمرے میں داخل ہوتی بولی 

” مما کون سی شاپنگ کیسی شاپنگ آپ کی بھتیجی اس سب کے قابل نہیں ہے “ احسن اپنی ماں سے روکھے انداز میں بولا 

” ہاں مما احسن بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے یہاں ہم اسے بسنے سے پہلے ہی اجاڑنے کی تیاری کررہے اور آپ بہو والے چاہ محسوس کر رہی “ 

رمشا بھی اسی انداز میں بولی 

صبیحہ بیگم حیرت سے ان دونوں کو دیکھنے لگی انہوں نے یہ تو نہیں سوچا تھا کہ ایسا بھی کچھ ہو ہاں پہلے دن سے ہی صوفیہ کے خلاف ہوتی تھی مگر فاٸقہ کا تو ان کا اپنا خون تھی لاکھ اختلافات سہی مگر وہ اسکی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتی تھی

” یہ تم دونوں کیا بول رہے ہو ایسا کیوں “ 

صبیحہ بیگم حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں سے بولی 

” مما آپ ان سب سے دور رہیں پلیز جو کرنا خود کریں ہم اس سب میں شامل نہیں ہوگے “ 

رمشا اکُتا کر بولی 

” رمشا مما ٹھیک کہہ رہی ہیں اب رشتہ کیا ہے تو نبھانا بھی پڑے گا “ احسن صبیحہ بیگم کے پاس کھڑا ہوکر بولا 

رمشا بھی اس کی کایا پلٹ پر حیران رہ گٸ مگر احسن کے اشارہ کرنے پر سمجھ گٸ 

” جی جی مما سہی ہی کہہ رہی ہیں آپ نبھانا تو پڑے گا 

آپ باہر انتظار کریں میں ابھی پرس لے کر آتی ہوں پھر چلتے ہیں شاپنگ پر “ 

رمشا چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ لیے بولی 

” ہاں ہاں چلو “ ان دونوں کی بات سن کر صبیحہ بیگم کو کچھ تسلی ہوٸی 

” رمشا بیوقوف ابھی بنی بنائی بات بگڑ جاتی مما کی سگی بھتیجی ہے وہ مما کے سگے بھائی کی بیٹی اگر ان کے سامنے اپنا پلان کھول دیا تو کہیں مما انکار نہ کر دیں“ احسن اپنا شاطر دماغ چلا کر بولا 

” ہاں احسن تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو شادی تک ہمیں بالکل سہی چلنا پڑے گا تاکہ کسی کو ہمارے پلان پر شک نہ ہو اب میں چلتی ہوں یہ نہ ہو مما پھر آجائے “ 

رمشا احسن سے کہتی باہر نکل گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” فاٸقہ بچے کچھ تو کھا لو کیا حال بنا لیا ہے آپ نے اپنا ایسے تو اچھی بات نہیں ہے نہ “ 

صوفیہ بیگم فاٸقہ کے کمرے میں آکر بولی 

” مما میں ٹھیک ہو بس ناشتہ کرنے کا دل نہیں کر رہا “

فاٸقہ اپنے لہجے کو بشاش کرنے کی ناکام کوشش کرتی بولی 

فاٸقہ کی حالت دیکھ کر صاف صاف لگ رہا تھا کہ وہ ریان کو کتنا چاہتی ہے مگر بتا نہیں رہی اپنی اس شرارتی اور خوش اخلاق ہنستی بولتی بیٹی کو اس 

حال میں دیکھ کر صوفیہ بیگم کا دل خون کے آنسوں

 رونے لگا تھا 

” بچے میں آپ کے بابا سے بات کروں  گی “ 

ان کا اتنا کہنے کی دیر تھی کہ فاٸقہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی صوفیہ بیگم سے اسکی یہ حالت نہیں دیکھی گٸ 

وہ بھی نم آنکھیں لیے باہر چلی گٸ 

” مما کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں فاٸقہ تو ٹھیک ہے نا“

حاشر نے صوفیہ بیگم کو روتے دیکھا تو پریشان ہوتا ان کے پاس آیا 

” بیٹا کچھ کرو فاٸقہ کا تو کوٸی حال ہی نہیں اور احسن جتنا لاپروا ہے مجھے نہیں لگتا یہ فیصلہ ہماری فائقہ کے لئے بلکل بھی سہی نہیں “ 

صوفیہ بیگم پریشانی سے بولی 

” مما آپ بالکل بھی فکر نہیں کریں میں ضرور کوٸی نہ کوٸی حل نکالوں گا “ 

حاشر انہیں تسلی دیتے ہوۓ بولا 

” یار فاٸقہ میں اتنی دیر سے تمہیں کال کر رہی ہو تم کال کیوں رسیو نہیں کر رہی “ 

فاٸقہ کے کال اٹھانے پر سحر بولی 

” کچھ نہیں یہی تھی “ فاٸقہ ہلکی آواز میں بولی 

” فاٸقہ کیا ہوا ہے تم روٸی ہو “ سحر پریشان ہوتی بولی 

” نہیں تم پریشان مت ہو کیوں میری وجہ سے پریشان ہو کر اپنی لائف کا اتنا اچھا دن خراب کر رہی ہو“ 

فاٸقہ اس سے بولی 

” اوو ہماری پٹاخہ کیا ہو گیا ہے کیوں اداس محبوبہ بنی ہو چلو جلدی تیار ہو جاٶ ہماری انگیجمنٹ پر آنے کی “ 

فہد کی آواز پر فاٸقہ نے چونک کر موبائل میں دیکھا 

” ہاں فاٸقہ فہد بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے تم ایسے رہو گی تو کیسے چلے گا “

سحر اس سے بولی 

” تم دونوں ساتھ ہو ؟ “ فاٸقہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا 

” ہاں میں اور باسط فاٸقہ کو سیلون سے لینے آۓ ہیں “ 

فہد اس سے بولا 

” چلو جلدی سے ریڈی ہو جاٶ تم اور ہال پہنچو ہمارے سواگت اوو سوری استقبال کے لیے “ 

باسط مزاخیہ لہجے میں بولا 

” میں کوشش کرتی ہوں مگر کچھ کہہ نہیں سکتی “ 

فاٸقہ الجھے ہوۓ لہجے میں بولی 

” نہیں فاٸقہ جلدی تیار ہو “ تینوں نے بول کر کال بند کردی 

فائقہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس کھڑی ہوگٸ ہوا کے اک سرد جھونکا آکر اس سے ٹکرایا تو فاٸقہ آنکھیں موند گٸ 

آنکھیں بند کرتے ہی ریان کا ہنستا ہوا چہرہ اسکی نظروں کے سامنے آگیا اسکی محبت بھری باتیں یاد آتے آنسو تواتر اسکے چہرے کو بھگونے لگے 

” میں نے تمہیں تیار ہونے کو کہا تھا اور تم یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو یار حد ہے ویسے “ 

فاٸقہ سحر کی آواز پر حیرت سے پلٹی 

سحر بےبی پنک سنڈریلا فراک کے ساتھ ہم رنگ لاٸٹ سی جیولری پہنے ہلکے سےپنک میک اپ اور سر پر سلور کراٶن رکھے نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی 

” ماشااللہ بہت پیاری لگ رہی ہو سحر اور تم یہاں کیوں 

آگٸ“ فاٸقہ اسکے گلے لگ کر اسکو پیار کرتے بولی 

” اپنی بیسٹ فرینڈ کو لینے دیکھو فاٸقہ کتنا پیار کرتی ہے سحر تم سے دلہن بن کر بھی آگٸ تمہیں لینے “ 

حرم روم میں آتے بولی 

” ہاں بھابھی اسے کہیں نہ جلدی تیار ہو جاۓ نیچے فہد اور باسط ہمارا انتظار کر رہے ہیں “ 

سحر عجلت میں بولی 

” فاٸقہ جاٶ ریڈی ہو جاٶ شاباش وہ اتنے پیار سے تمہیں 

لینے آٸی ہے “ حرم کے کہنے پر فاٸقہ تیار ہونے چلی گٸ 

نیوی بلیو کلر کا فراک پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے موبائل اور بیگ پکڑ کر شال اوڑھتی وہ بہت پیاری لگی مگر اسکی آنکھوں کی چمک جو ہر دم اس کی شخصیت کا خاصہ تھی کہیں کھو گٸ تھی 

فاٸقہ کا اتنا تیار ہونا بھی غنیمَت تھا اسکے ریڈی ہوتے 

ہی وہ دونوں باہر کی طرف نکل گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

سب ایک ساتھ ہال میں داخل ہوۓ پہلے فہد اور سحر کی شاندار انٹری ہوئی دونوں کی جوڑی بہت حسین لگ رہی تھی اور خوبصورت سے سجے سٹیج پر بیٹھے جس کے پیچھے لکھا  “ Made for each other ”  سب کو بہت اچھا لگ رہا تھا 

فاٸقہ اور باسط ان کے ساتھ ساتھ ہی تھے مگر رسم کے ٹاٸم وہ دونوں نیچے اتر آۓ تھے فاٸقہ کو ایک دم بہت شدید چکر آیا بروقت باسط نہ تھامتا وہ زمین بوس ہوجاتی 

” فاٸقہ ٹھیک تو ہو تم “ باسط پریشانی سے اسے پکڑتا پوچھنے  لگا سحر نے فہد اور باسط کو سب کچھ بتایا تھا مگر فاٸقہ کی حالت دیکھ کر دونوں کو زیادہ دھچکا لگ تھا 

” باسط پلیز مجھے کہیں بٹھا دو تم پریشان نہیں ہو میں ٹھیک ہوں “ فاٸقہ اس سے بولتی لاسٹ ٹیبل پر بیٹھ گٸ

” اچھا ٹھیک ہے تم یہاں بیٹھو میں تمہارے لئے جوس  لاتا ہوں “ باسط یہ کہتا وہاں سے چلا گیا 

 ” فاٸقہ “ ریان کی آواز پر فاٸقہ نے چونک کر دیکھا اور نم آنکھوں سے اسکی طرف بڑھی 

 ہال میں سب سے الگ ایک کونے میں نیوی بلیو کلر کی فراک پہن کر بالوں کو کھلا چھوڑے جو بار بار اس کے چہرے کو چھو رہے تھے خوبصورت سی شال اپنے گرد لپیٹے اداس سی بیٹھی وہ کہیں سے بھی فاٸقہ نہیں لگ رہی تھی آنکھوں میں اداسی اور رونے کی وجہ سے سرخی اس کے سوگوار حسن کو مزید نکھار رہے تھے مگر

زرد پڑتا چہرہ دیکھ کسی کو بھی اسکی معصومیت پر 

ترس آجاۓ 

فاٸقہ جو ہر جگہ رونق ہوتی تھی ہر محفل کی جان ہوا کرتی تھی آج وہی لڑکی اس پُررونق ماحول میں بھی 

گم سم بیٹھی تھی جیسے یہاں ہو ہی نہ ریان کا دل فاٸقہ کو اس حالت میں دیکھ کر کٹ کے رہ گیا 

” ریان آپ مجھے امید تھی کہ آپ ضرور کوئی حل نکال لیں گے پلیز بتائیں آپ نے اپنے بابا کو منا لیا ہے نہ پلیز ریان میں بھی اپنے بابا سے بات کروں گی “ 

فاٸقہ آنکھوں میں بہت امید بھرے بولی 

فاٸقہ کی بات پر ریان کا دل درد سے پھٹ سا گیا تھا اس کا لہجہ میں اسکی آنکھوں میں جو امید تھی وہ ریان کی ہی تو دلاٸی ہوٸی تھی وہ کتنا غلط کرگیا تھا اس معصوم کے ساتھ 

” ریان بولیں نہ پلیز ریان میرا دم گھٹ جاۓ گا ورنہ پلیز بولیں میرا مزید امتحان مت لیں “

فاٸقہ روتے ہوۓ ریان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی بولی 

ہال کا یہ حصہ قدرے الگ تھلگ تھا اور یہاں لوگ بھی نہ ہونے کے برابر تھے تبھی کوٸی ان دونوں کی طرف متوجہ نہ ہوا تھا 

ریان نے نرمی سے اپنا ہاتھ فاٸقہ کے ہاتھ سے الگ کیا اور تھوڑا دور ہوکر کھڑا ہوتا اپنا سر جھکا گیا اس نے ایک بار 

بھی نظر اٹھا کر فاٸقہ کو نہیں دیکھا تا کہ کہیں فاٸقہ کی محبت اسکا فیصلہ نہ بدل دے 

” ہو سکے مجھے معاف کر دینا فاٸقہ میں تم سے شادی نہیں کرسکتا “ ریان ضبط کی انتہا پر بولا 

ریان کی رگیں ضبط کرنے پر بند ہونے کے قریب تھی 

آنکھیں بھی اس قدر ضبط پر شدید سرخ ہورہی تھی اور دل کے تو مانو ہزار ٹکرے ہو گۓ تھے اسے ان الفاظ پر اپنی زندگی ختم ہوتی محسوس ہوٸی 

فاٸقہ جو ایک آخری امید لیے اس کے سامنے کھڑی تھی ریان کے الفاظ پر اس کے قدم دگمگا گۓ آنسوں تھے کہ سانسوں کے ساتھ ساکت رہ گۓ فاٸقہ بے یقینی سے 

ریان کو دیکھتی رہ گٸ اسکا دل کیا چیخ چیخ کر روۓ 

کہ کیوں کیوں کیا اسکے ساتھ کیوں محبت کے وعدے کیے کیوں چاہت پر یقین کروایا مگر آواز تھی کہ جیسے 

حلق کے نکلنے پر انکاری ہوگۓ  

ہم انکار کرتے کرتے دل لگا بیٹھے 💔 

تم اقرار کرتے کرتے ہمیں گنوا بیٹھے. 💔

ریان اس سے نظریں ملاۓ بنا جن قدموں سے آیا تھا واپس چلا گیا فاٸقہ کی ٹانگوں میں تو جیسے کھڑے ہونے کی سکت ہی باقی نہ رہی تھی 

فاٸقہ بنا آس پاس دیکھے اپنا سامان وہیں پڑا چھوڑ ہال سے باہر کی طرف بھاگی تھی آنسوں سے آنکھیں بار بار 

دھندلا رہی تھی ہال سے تھوڑا آگے آتے ہی فاٸقہ کو بڑی طرح سے چکر آیا تو وہ وہی سڑک پر بیٹھ گٸ 

اسکا ہاتھ خود با خود اپنے گلے میں موجود خوبصورت 

سے پینڈنٹ پر گیا جس پر فاٸقہ ریان بہت سٹاٸلش کر کے لکھا ہوا تھا یہ پینڈنٹ ریان نے اسے اس رات دیا تھا جب اپنے دلی جزبات کو اس پر عیاں کیا تھا وہ پل یاد کر کے فاٸقہ مزید شدت سے رو دی

 کیا تھی وہ اپنی موج مستی میں مگن ہر کسی کی خوشی میں خوش مگر محبت نے کیا حال کر دیا تھا 

اسکا اپنی اس قدر بےقدری پر فاٸقہ بہت بری طرح ٹوٹ کر بکھر گٸ تھی 

کبھی کبھی زندگی انسان کو عجیب موڑ پر لے آتی ہے انسان سوچتا کچھ ہے اور زندگی آ کے اُسے ایسا تھپژ مارتی ہے کہ وہ سمجھ نہیں پاتا اسکے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔

دسمبر کی یخ بستہ رات میں وہ تنہا بارش میں سڑک پر بیٹھی  اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی جس محبت کے لیے وہ ساری دنیا سے لڑتی آٸ اُُس محبت نے أُسے کیا دیا؟ زلت،رسواٸ،ہجر کا غم أور ہمیشہ کے لیے ایک ایسا روگ جو بس اسکے مٹنے پر ہی ختم ہونا تھا۔

اپنے گلے میں موجود اسکے نام کا پینڈنٹ اُتار کے اس نے دور پھینکا اور اپنی بربادی پر چیخ چیخ کے رونے لگی لیکن وہاں اسکی سننے والا کوٸ نہیں تھا بارش زوروشور سے برس رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ آسمان بھی اسکی حالت پر ماتم کناں ہے اس برستی یخ بارش میں اسے کوٸ بھی دیکھ کے پاگَل ہونے کا گمان کر سکتا تھا لیکن کوٸ بھی تکلیف اسکی اس بربادی سے بڑی نہیں تھی

 اپنی سرخ ہوتی نظریں اُٹھا کے وہ بس اتنا بولی 

”میرا رب بڑا بہت بڑا ہے اگر وہ رحیم ہے تو جبار بھی ہے وہی انصاف کرے گا میرا“ 

آسمان کو دیکھ کے وہ مسلسل یہ بولتی چلی گٸ

کچھ ہی پل میں اسے اپنے اندر سے بلکل ہمت ختم ہوتی محسوس ہوٸی اور وہ بری طرح زمین پر گر کر 

ہوش وحواس سے بیگانہ ہوگٸ 

میری زندگی کو آباد کیا

پھر زندگی کو برباد کیا

تیرے لفظوں نے مجھے توڑ دیا

پھر تو نے مجھ کو چھوڑدیا

 جب کرنا تھا برباد پیا

تو کیوں مجھ کو آباد کیا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ریان کی اپنی حالت بھی فاٸقہ سے کچھ مختلف نہیں تھی وہ بھی جب سے فاٸقہ کو سب کہہ کر نکلا تھا اسکا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا شدت غم سے دماغ کی شریانے پھٹ رہی تھی

” کیوں میرے ساتھ ہی کیوں “ 

ریان سٹرینگ پر زور سے ہاتھ مارتا بولا 

” فاٸقہ مجھے کبھی معاف مت کرنا دعا کرو میں مر جاٶ 

مجرم ہوں میں تمہارا قاتل ہوں میں تمہاری خوشیوں کا 

دعا کرو میں مر جاٶ “

ریان چیخ کر روتا بولا 

کچھ راستے منزلوں کو چھو کر موڑ جاتے ہیں 

کچھ ناتے جڑتے جڑتے ہی ٹوٹ جاتے ہیں 

حیرانی ہوتی ہے آنکھیں جو روتی ہیں 

اس شہر میں ہم سفر ہے چھوٹا

دل جگر بھی خود سے کیوں ہے روٹھا

میرے پیار کے محل کا ہر اک کانچ ٹوٹا

ریان مسلسل روتا جا رہا تھا کون کہتا ہے مرد نہیں روتا 

اس سے اسکا سکون اسکی محبت چھین کر دیکھو اس کی جان جاتی دیکھو گے اور وہ تو اپنی زندگی میں اپنی منزل کے بہت قریب آکر خالی ہاتھ رہ گیا تھا کچھ دن پہلے اسے لگتا تھا کہ سب آسان تھا سب پالیا تھا مگر 

اب اسے پتا چلا تھا کہ محبت پانا کتنا مشکل تھا مگر جو چیز اسے اسے تکلیف دے رہی تھی وہ تھی فاٸقہ کی آنکھوں میں درد و تکلیف جو اسے چین نہ لینے دے رہی تھی 

تڑپاتی ہے تیری باتیں اور 

یادیں تیری رلاتی ہیں

دل روتے روتے رکتا ہے

 تو روح بکھر سی جاتی ہے 

اب کس سے روٹھیں اور 

کسے ہم اب منائیں 

بیٹھے ان یادوں کو 

من ہی من میں دوہرائے

ریان رش ڈراٸیو کرتا مین روڈ پر نکل آیا رونے اور ضبط سے شدید سرخ ہوتی آنکھیں بار بار آنسوں آنے سے دھندلا رہی تھی جنون دکھ تکلیف سب ایک ساتھ اس پر حاوی ہوا تھا 

اچانک آنکھوں کے سامنے تیز روشنی آٸی اور آنکھیں چندھیا گٸ سامنے سے آتے ٹرک نے بہت بری طرح اس کی گاڑی کو ہٹ کیا اور گاڑی ہوا میں اُڑ کر دور جاگری 

ریان کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوٸی اور جسم سے بلکل جان نکل گٸ اتنی ہمت نہ رہی سامنے دیکھ سکے آنکھیں بند ہونے سے پہلے ایک آخری منظر جو اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا وہ فاٸقہ کا روتا ہوا 

زرد چہرہ تھا 

” فاٸقہ “ زیرِ لب فاٸقہ کا نام دہراتے اسکی سانسوں اور ہمت نے اسکا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ ساکت بے سدھ وہی گر گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

فاٸقہ نے بہت مشکل سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی 

سر تھا کہ شدید بھاری ہو رہا تھا اور اسکی ہمت بلکل  جواب دے گٸ تھی 

” شکر الحمد لله آپ کو ہوش آیا جان نکال دی آپ نے 

بچے ہماری “ صوفیہ بیگم پریشانی سے اسکے سر پر ہاتھ 

پھرتے بولا 

” بیٹا واقعی آپ نے کیوں یہ حال بنا لیا اپنا اگر باسط نہ دیکھتا آپ کو روڈ پر تو خداناخواستہ کیا ہوجاتا “ 

وقار صاحب بھی پریشانی سے بولے 

” جی انکل اسکی طبیعت نہیں تھی اس کو کس نے کہا تھا بارش میں باہر نکل جاۓ “ 

باسط بھی اسے گھور کر بولا 

” بابا آپ سے ایک بات کرنی ہے پلیز “ 

حاشر اپنی بہن کی ناساز حالت دیکھ کر بولا 

”بولو “ فاٸقہ کی طبیعت دیکھتے ہوۓ وقار صاحب 

نرمی سے بولے 

” پلیز آپ پھوپھو کو انکار کردیں احسن کے ساتھ شادی 

نہیں کرسکتی ہماری گڑیا “ 

حاشر کی بات پر وقار صاحب گہری سوچ میں پر گۓ 

” نہیں بھاٸی ایسی کوٸی بات نہیں ہے بابا انکار نہیں 

کریں گے بابا مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے “ 

فاٸقہ سپاٹ لہجے میں حاشر سے بولتی وقار صاحب 

سے مخاطب ہوٸی 

” بابا میں احسن سے شادی کرنے کے لیے دل سے راضی 

ہوں اور خوش بھی “ 

فاٸقہ کی بات سن کر وہاں موجود سب نفوس کو سانپ سونگھ گیا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤ 

فاٸقہ کے جواب پر سب ساکت ہوگۓ تھے کسی کو فاٸقہ 

سے اس جواب کی تواقع نہیں تھی وقار صاحب کو بھی نہیں اس لیے وہ بھی حیرانی سے اسکو دیکھنے لگے 

” دیکھو بچے کوٸی زور زبردستی نہیں ہے اس لیے آپ بغیر ڈرے اور بنا کوئی ٹینشن لیے بتا سکتی ہو وہی ہوگا 

جس میں میری بیٹی کی خوشی ہے “ 

وقار صاحب کو لگا کے فاٸقہ ان کے فیصلے کی وجہ سے

اندر ہی اندر گھٹ رہی ہے تبھی وہ اسے پیار سے پچکارتے 

ہوۓ بولے 

” ہاں فاٸقہ پلیز اپنے ساتھ ظلم نہیں کرو ہم سب آپ کے 

ساتھ ہیں گڑیا “ 

حاشر نے بلکل مردہ حالت میں بیٹھی اپنی بہن کو کہا 

” بابا بھاٸی احسن سے شادی کرنے کا فیصلہ میرا اپنا ہے میں اس فیصلے پر دل سے راضی ہو اور میں بہت خوش

بھی ہوں تو آپ سب سے میری گزارش ہے کہ مزید سوالات کر کے آپ سب اپنا ٹاٸم ویسٹ کررہے ہیں“ 

فاٸقہ بےلچک لہجے میں بولی 

 اس کا یوں سپاٹ انداز میں بولنا سب کو ٹھٹھکنے پر 

مجبور کر گیا کیوں کہ فاٸقہ تو وہ لڑکی تھی اپنی ایک عام سی چیز لینے پر اتنا واویلا مچاتی تھی وہ آج اپنی زندگی کے اتنے اہم فیصلہ پر ایک دم سے کیسے مان گٸ 

” بابا پلیز آپ پھوپھو کو منع نہیں کریں گے اور جتنا جلدی ہو سکے تیاریاں کریں “ 

فاٸقہ نے جب دیکھا کہ وقار صاحب کچھ کہنے لگے ہیں 

اس نے ساتھ ہی اپنی بات رکھی اور کمفرٹ منہ تک اوڑھ گٸ جیسے اب کسی سے کوٸی بات نہیں کرنی 

وقار صاحب اور صوفیہ بیگم پریشانی میں اٹھ کر باہر 

چلے گۓ جب کے حرم حاشر اور باسط تینوں کشمکش کا 

شکار ہوگۓ 

” بھاٸی بات سنیں “ باسط نے حاشر کو باہر آنے کا اشارہ کیا جب کے حرم فاٸقہ کے پاس چلی گٸ 

” بھائی فائقہ بھی سر ریان کو بہت چاہتی ہے یہ بات ہم سب بہت اچھے سے جانتے ہیں یہ پلیز آپ پتا کریں 

کہ فاٸقہ اتنا بڑا فیصلہ لینے پر کیوں مجبور ہو رہی ہے “ 

باسط پریشانی سے بولا 

” میں بھی کافی دیر سے ریان کا نمبر ٹراٸی کر رہا ہوں مجھے خود سمجھ نہیں آرہا کہ ریان کدھر غائب ہے اس کا تو نمبر بھی نہیں لگ رہا “ 

حاشر پریشانی سے بولا 

” حاشر بھائی آپ پریشان نہیں ہوں میں سر ریان سے رابطہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں آپ پلیز یہاں سب سنبھالے اور کوشش کریں فاٸقہ کی احسن سے شادی نہ ہو ورنہ بہت کچھ غلط ہوجاۓ گا “ 

باسط حاشر کے کندھے پر ہاتھ رکھتا بولا 

” باسط تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو احسن کسی بھی لحاظ سے ہماری فائقہ کے قابل نہیں ہے میں آخری وقت تک کوشش کروں گا کہ فائقہ کی شادی احسن سے نہ ہو“ 

حاشر کے بولنے پر باسط اثبات میں سر ہلانےلگا 

” اچھا حاشر بھائی بہت ٹائم ہوگیا ہے اب میں چلتا ہوں

” فائقہ میں جانتی ہوں کہ تم جاگ رہی ہو پلیز مجھ سے تو بات کرو دیکھو میں پوری کوشش کروں گی جو مجھ سے ہوسکا کروں پلیز “ 

حرم کی بات پر فاٸقہ کے بہتے آنسو اور روانی سے بہنے لگے 

” پلیز فاٸقہ اگر میں تمہاری بھابھی نہ ہوتی تمہاری بہن ہوتی تب بھی تو تم مجھ سے شیئر کرتی تو پلیز ابھی 

بھی کچھ پل کے لیے اپنی بہن سمجھ کر دل ہلکا کرلو “ 

حرم اسکے چہرے سے کمفرٹ ہٹاتے بولی 

فاٸقہ اٹھ کر حرم کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی

حرم نے اسے دل کھول کر رونے دیا اور اسکی پیٹھ سہلانے لگی 

” فاٸقہ چلو بس کرو یہ پانی پیو “ تھوڑی دیر بعد حرم اسکو چپ کرواتی پانی پلانے لگی 

”چلو رونا بند کرو اور جلدی سے مجھے بتاٶ کہ کیا ہوا ایسا جو تم نے ریان کو چھوڑ احسن کا انتخاب کیا “ 

حرم تشویش سے بولی 

” بھابھی ایسی کوٸی بات نہیں ہے میں احسن کے لیے 

خود دل سے راضی ہوں “ 

فاٸقہ نظریں چڑاتے ہوۓ بولی 

” اگر ایسی کوٸی بات نہیں ہے تو یوں نظریں چڑانے کا 

کیا مقصد ہے سچ وہ ہوتا جو آنکھوں میں دیکھ کر بولا 

جاۓ نہ کہ نظریں چڑا کر “ 

حرم کی بات پر فاٸقہ کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ آگٸ 

” بھابھی جب مان ٹوٹے اور محبت چھوٹے تو نظریں اٹھاٸی نہیں جاتی “ 

فاٸقہ کے لہجے میں موجود درد حرم صاف محسوس 

کرسکتی تھی 

” مگر فاٸقہ ہر بات کا ہر مسلہ کا کوٸی حل ہوتا ہے تم ہمیں بتاٶ نہ ہم کریں گے کچھ نہ کچھ “ 

حرم اسکے چہرے کو ٹھوڑی سے پکر کے بولی 

” بھابھی مانگی گٸ محبت اور مانگی ہوٸی توجہ صرف 

عزت نفس کی توہین کرواتی ہے اور کچھ نہیں کیونکہ

محبت بس کرنا آسان ہے مگر ہر کسی میں اسے نبھانے کا حوصلہ نہیں ہوتا اور میرے لیے عزت نفس سے اوپر کچھ نہیں میری محبت بھی نہیں “ فاٸقہ سپاٹ لہجے میں کہتی دوبارہ سے کمفرٹ سر تک لیے رخ موڑ گٸ 

حرم فاٸقہ کے ان الفاظ پر اور اسکے لہجے پر لرز کر رہ گٸ مطلب ضرور بہت کچھ غلط تھا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” ریان ابھی تک نہیں آیا یااللہ میں کیا کروں کال بھی رسیو نہیں کررہا “ 

سلمیٰ بیگم پریشانی سے بولی 

” کیا ہوا کس کا انتظار کر رہی ہو “ 

سرمد صاحب کافی دیر سے دیکھ رہے تھے سلمیٰ بیگم

پریشانی سے ٹہل رہی 

” آپ کو کیا پرواہ ہے آپ نے تو ویسے ہی کوٸی کسر نہیں چھوڑی تھی میرے بچے کا سکون برباد کرنے میں“ 

سلمیٰ بیگم سخت لہجے میں بولی 

” زبان کو لگام دو سلمیٰ بیگم “ سرمد صاحب غصے سے بولے  

” کیوں رہو چپ ساری زندگی چپ رہنے برداشت کرنے پر ہی بات یہاں تک پہنچی ہے اب میں اپنے بچوں کے حق کے لئے چپ نہیں رہوں گی “ 

سلمیٰ بیگم انہی کے لہجے میں بولی 

” تم “ ابھی سرمد صاحب کچھ بولتے کے ان کا فون بج اٹھا تو وہ اسکی طرف متوجہ ہوگۓ 

” جی بلکل ریان احمد میرا ہی بیٹا ہے “ 

ریان کے زکر پر سلمیٰ بیگم فوراً متوجہ ہوٸی مگر آگے سے جو خبر سننے کو ملی وہ سرمد صاحب کی دنیا ہلا گٸ موبائل انکے ہاتھ سے چھوٹ نیچے گرا 

” سرمد صاحب ککیا ہوا کککیا کہہہ رہے ہیں کہاں ہے میرا بچہ ٹھیک تو ہے نہ “ 

  سلمیٰ بیگم گھبرا کر پوچھنے لگی 

” سلمیٰ تم سہی کہہ رہی تھی میں کھا گیا اپنے بچے کو 

اسکی خوشیوں کو “ 

سرمد صاحب زمین پر بیٹھ کر بولے 

” سرمد صاحب کچھ تو بولے پلیز کہاں ہے میرا بچہ میرا دل بند ہوجاۓ گا “ 

سلمیٰ بیگم ان کو جھنجھوڑتے ہوۓ بولی 

” مما “ سارہ کی بھرائی آواز پر دونوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا 

” سارہ کیا ہوا دیکھو ریان پتا نہیں کہاں ہے تمہارے بابا

بتا بھی نہیں رہے “ 

سلمیٰ بیگم سارہ کو کہنے لگی جب سارہ نے روتے ان کے

گلے لگ گٸ 

” مما بھ۔ھبھاٸی “ سارہ بھرائی آواز میں بولی 

” آپ دونوں جلدی چلیں پلیز سعد باہر انتظار کر رہے ہیں 

ہمیں ہسپتال جانا ہے بابا پلیز “ 

سارہ کی بات پر سلمیٰ بیگم کے پیروں تلے زمین کھسک گٸ 

” مما پلیز چلیں ابھی “ سارہ ان دونوں کو بمشکل لے 

کر ہسپتال کی طرف روانہ ہوٸی 

جہاں ریان اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا اب 

کون جانے اسکی زندگی تو فاٸقہ کو جانے انجانے میں توڑنے کے بعد ہی ختم ہو چکی تھی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” ڈاکٹر پلیز بتائیں کہ ریان کی کیا کنڈیشن ہے “ 

سعد پریشانی سے پوچھنے لگا 

”دیکھیے فلحال کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہے ان کے دماغ میں بہت گہری 

چوٹ آٸی ہے “ ڈاکٹر تشویش سے بولا 

” دیکھو ڈاکٹر میرے بچے کو کچھ نہیں ہونا چاہیے 

میں پانی کی طرح پیسہ بہانے کو تیار ہوں “ 

سرمد صاحبصاحب پریشانی سے ڈاکٹر سے بولے

” دیکھیے سرمد صاحب ہر چیز پیسہ نہیں ہوتا اور 

میں بہت معذرت چاہتا ہوں کیونکہ آپ کے بیٹے کو بچانا 

ممکن نہیں لگ رہا اب اللہ کے سواۓ ایسی کوٸی ذات 

نہیں جو اسے بچا سکے آپ بس دعا کریں جتنی ہوسکے “ 

ڈاکٹر کی بات پر وہاں موجود تمام نفوس کو سانپ سونگھ گیا 

” انکل پلیز سنبھالیے خود کو آپ ایسے کریں گے تو سارہ

اور آنٹی کو کون سنبھالے گا “ 

ڈاکٹر کی بات پر سرمد صاحب لڑکھڑا کر رہ گئے تو سعد انہیں سنبھالتا ہوا بولا 

” نہیں سعد میں ہی قصوروار ہوں اپنے بیٹے کی اس حالت کا میں ہی قصوروار ہوں ایک ماں کی ممتا اجاڑنے کا میں ہی قصوروار ہوں ایک بہن سے اس کیا بھاٸی اسکا مان چھیننے کا “ 

سرمد صاحب روتے ہوۓ بولے 

” اب کوئی فائدہ نہیں سرمد صاحب میرے بچے کے ساتھ جو آپ نے کیا اللہ پوچھے گا آپ سے اللہ پوچھے گا بسسس “ سلمیٰ بیگم لہجے میں نفرت بھر کر بولیں 

” مما پلیز پلیز وقت ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرا کر کچھ وصول نہیں ہوگا دعا کریں کہ بھائی موت کے منہ سے واپس نکل آئے “ 

سارہ اپنے ماں باپ کو دیکھتے بولی 

دو دن پہلے جس گھر میں خوشیاں چہک رہی تھی وہ گھر آج ماتم کی شکل اختیار کرگیا تھا سرمد صاحب کی 

انا نے انکے بچے کو ان سے چھین لیا تھا اور وہ زندگی 

اور موت کے دوراہے پر آگیا تھا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

”کیا تکلیف ہے تمہیں ماجد کیوں مجھے فون پر فون کرتے رہتے ہو “

 رآٸیمہ دھیمی آواز میں غراٸی کیونکہ اندر داٶد اور بچے سو رہے تھے 

” دیکھ تیرا کام تو نکل گیا نا میرا کیا فائدہ ہوا میں تو مفت میں پِٹا بھی ہوں اور وہ بلبل بھی ہاتھ سے نکل گٸ“ ماجد دوسری طرف سے بولا 

” تو اب اس میں میں کیا کر سکتی ہو غلطی بھی تو تمہاری تھی کیوں نکلنے دیا اسے وہاں سے “ 

رآٸیمہ الٹا اس پر رکھ کر بولی 

” ارے واہ میری غلطی واہ واہ “ ماجد اس بے بولا 

” دیکھو ماجد میں تو یہی چاہتی تھی کہ تمہاری شادی حرم سے ہو جائے میں بھی اس کو اتنے بڑے گھرانے میں دیکھ کر خوش نہیں ہو مگر غلطی تو تمہاری تھی نا 

اگر تم نے اس کو اغوا کیا اور کسی نے دیکھ بھی لیا تو  اسے کسی ایسی جگہ رکھنا چاہیے تھا جہاں کسی کوشش کی نہ جائے جب اس بندے نے تم لوگوں کو دیکھا تو تمہارے پیچھے آنا اور کسی لڑکی کو بچانا تو تھا نا اس نے اب ہر کوٸی تمہاری طرح نہیں ہوتا “ 

رآٸیمہ روانگی میں بولتی چلی گٸ 

” ہاں ہاں جانتی ہوں سب میری پلیننگ تھی اغوا کرنے سے لے کر اس کو گھر رات نہ آنے تک کی مگر سارا پلین الٹا پڑ گیا “ 

رآٸیمہ جانے انجانے میں اپنے سارے گناہ قبول کر گٸ 

وہ نہیں جانتی تھی اسکی الٹی گنتی شروع ہوگٸ ہے 

پیچھے کھڑے داٶد کی زور زور سے تالیاں بجانے پر جب رآٸیمہ پیچھے مڑی تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گٸ 

” داٶد وہ میری بات سنیں “ رآٸیمہ اپنی صفاٸی دینے کے لیے آگے بڑھی جب داؤد نے زور دار تھپڑ اسکے منہ پر رسید کیا تو وہ چکرا کر رہ گٸ 

” بس رآٸیمہ بس “ داؤد نفرت سے بولا 

” میری پاک باز بہن کے ساتھ تم نے کیا نہیں کیا اپنے موالی کزن کے ساتھ مل کر “ 

داؤد غصے میں بولا 

” اور میں کتنا منہوس اور بد نصیب بھائی ہوں جس نے اپنی ہیرے جیسی بہن کی قدر تو کیا اس پر اعتبار کرنے کی بجائے تم جیسی ناگن پر اعتبار کیا “ 

داٶد نفرت سے پھنکارا اتنی دیر میں پولیس بھی اندر 

داخل ہوٸی 

” انسپکٹر صاحب کی گرفتار کرلیں اس عورت کو اس نے میری بہن کو ناصرف اغوا کروانے بلکہ اسے اور اس کے شوہر کو مروانے کی بھی کوشش کی ہے “ 

داؤد کے پولیس سے بولنے پر رآٸیمہ داؤد کے پاٶں پڑگٸ 

” نہیں داؤد مجھے معاف کردو پلیز میرے بیٹے کی خاطر“  رآٸیمہ داؤد کے پیروں میں گری کہنے لگی جب 

کونسٹیبل نے اسے پکڑا 

” روکیں “ داؤد کے روکنے پر رآٸیمہ خوشی سے اسکی طرف بڑھی 

” وہیں رک کر میری بات سنو رآٸیمہ میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں تمہیں طلاق دیتا ہوں تمہیں طلاق دیتا ہوں لے جائیں اس منہوس عورت کو یہاں سے “ 

داؤد کے بولنے پر رآٸیمہ ساکت رہ گٸ اور پولیس اسے 

وہاں سے گھسیٹتے لے گٸ 

براٸی جتنی مرضی بڑی ہوجاۓ اچھاٸی کے آگے اسے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑتے ہیں اور سچ کبھی چھپتا نہیں ہے 

اپنا آپ سہی وقت پر ظاہر کروا دیتا ہے 

اور یہی سب رآٸیمہ کے ساتھ ہوا تھا نے حرم کی اچھائی کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا جس کی وجہ سے اسے اب منہ کی کھانی پڑی تھی اور حرم کو ہمیشہ غلط ثابت کرنے پر اسکا یہ انجام ہوا تھا کہ آج اسکی پکڑ ہوگٸ تھی اب دنیا اور آخرت دونوں میں اسکا بچنا ممکن نہیں تھا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” حاشر آپ ابھی تک سوۓ نہیں “

 صبح پانچ بجے جب حرم کی نماز پڑھنے کے لیے آنکھ کھلی تو اس نے حاشر کو کھڑکی میں کھڑے دیکھا

” نہیں وہ بس نیند نہیں آئی “ حاشر اپنے آنسوں حرم سے چھپاتا ہوا بولا

” حاشر جب آپ نے مجھے کہا تھا کہ ہم میرے ہر دکھ درد کے ساتھی ہے تو پھر میں کیوں نہیں “ 

حرم اسکا رخ اپنی طرف موڑ کر بولی 

” حاشر پلیز میں جانتی ہوں آپ فائقہ کی وجہ سے پریشان ہیں اس طرح کسی چیز کا کوئی حل نہیں نکلتا آپ یہاں کھڑے رو رہے ہیں وہ وہاں رو رہی ہے حل نکالنے کے لیے تحمل سے سوچنا پڑتا ہے“

حرم حاشر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پرسکون لہجے میں بولی 

” حرم تم جانتی ہو سب تمہارے سامنے ہے سب وہ احسن 

ہماری گڑیا کے قابل نہیں ہے “ 

حاشر حرم کو دیکھ کر بولا 

” میں جانتی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں گا فاٸقہ اس رشتے سے خوش نہیں ہے “ حرم اس سے بولی 

” تو تم ہی بتاو حرم کیا حل ہے اس سب کا “ حاشر پریشان سے اسکی طرف دیکھ کر بولا 

” سب سے پہلے جو بات مجھے لگتی ہے وہ یہ ہے کہ فیملیز کی رنجش کی بنا پر فاٸقہ اور ریان میں بہت 

بڑی بات ہوگٸ ہے “ 

اسکی بات پر حاشر نے حیرانی سے اسے دیکھا 

” جی حاشر میں سچ کہہ رہی ہوں ہمیں سب سے پہلے 

ریان سے رابطہ کرنا پڑے گا وہی کچھ بتاۓ گا فاٸقہ تو کچھ نہیں بتا رہی “ 

حرم کے بولنے پر حاشر سوچ میں پڑ گیا 

” اب سوچنا چھوڑیں نماز پڑھیں اللہ ہماری فاٸقہ کے لیے بہت اچھا کرے گے آپ نے بہت بڑی نیکی کی ہے ایک یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر اللہ کبھی آپ کی بہن کو مشکل میں نہیں پڑنے دے گے “ 

حرم اسے تسلی دیتے بولی 

” نیکی کا صلہ تو آپ ہے میرے لیے “ 

حاشر اپنی مخلص شریک حیات کو محبت سے دیکھ کربولا اور اسکے ماتھے پر محبت کی مہر ثبت کرتا نماز ادا کرنے مسجد چلا گیا 

حرم بھی گلابی چہرہ لیے مسکراتی اپنے رب کے حضور سجدہ دینے کی تیاری کرنے لگی جس نے اسکی زندگی خوشیوں اور نیک ہمسفر سے پرنور کر دی تھی 

” السلام عليكم کیسے ہو بھٸ وقار “ 

صبیحہ بیگم وقار صاحب کو کال کرتے ہوئے خوشدلی 

سے  بولیں 

” وعليكم السلام الحمد لله آپا جان آپ سناۓ کیسی ہیں“ 

وقار صاحب ان سے بولے 

” بھئی مجھے تو جب سے پتہ چلا ہے کہ فاٸقہ نے خوشی 

سے رشتہ قبول کر لیا میں تو خوشی سے تیاریوں 

میں لگی ہوئی ہو “ 

صبیحہ بیگم مسکرا کر بولی 

 ” ماشااللہ جی آپا خیر سے سب ہوجاۓ بس اب “ 

وقار صاحب کچھ بےچینی سے بولے 

” وقار تم پریشان کیوں ہوتے ہو اپنی بھتیجی کو میں بہو نہیں بیٹی بنا کر رکھوں گی “ 

صبیحہ بیگم کے لہجے میں سچاٸی تھی 

” ان شاءاللہ آپا آپ بتاٸیں بچے کیسے ہیں اور کدھر ہیں جب سے رشتہ پکا ہوا ہے احسن سے میری بات نہیں ہوئی“ 

وقار صاحب احسن اور رمشا کے متعلق پوچھتے بولے 

وقار صاحب کے پوچھنے پر صبیحہ بیگم گڑبرا کر رہ گئی

کیونکہ احسن جو آج صبح نشہ میں دھت گھر آیا تھا 

وہ اب تک سویا پڑا تھا 

” وہ تو وہ ہاں گھر نہیں ہے آتا تو میں کہتی ہوں تمہیں 

کال کرے گا “ 

صبیحہ بیگم کا جھجک کرکہنا وقار صاحب کو ٹھٹھکنے

پر مجبور کر گیا 

” اچھا میں بتانا چاہتی تھی کہ میں فاٸقہ کی شادی کا جوڑا دینے آنا چاہتی ہوں کل نکاح ہے تو اس لیے میں 

ابھی آٶ گی “ 

صبیحہ بیگم کے بولی 

” جی جی آپا ضرور آٸیں آپ کا ہی گھر ہے میں ذرا آفس ہوں صوفیہ فاٸقہ سب گھر ہے آپ چلی جاٸیں “ 

وقار صاحب ان سے بولے 

” اچھا چلو ٹھیک ہے “ صبیحہ بیگم وقار صاحب سے کہتی کال بند کر گئی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” آپا اس سب کی کیا ضرورت تھی آپ کیوں تکلفات میں پڑیں “ صوفیہ بیگم زبردستی مسکراتے بولی 

اس رشتے پر ان کے گھر میں کوٸی دل سے راضی تو تھا نہیں 

” بھئی تم لوگ تو خوش نہیں ہو مگر میرے بیٹی کی شادی ہے اور میں تو رسم و رواج پورے کروں گی “ 

صبیحہ بیگم منہ بنا کر بولی 

” نہیں نہیں آپا ایسی کوئی بات نہیں ہے بس وہ میں نے 

آپ کی طبیعت کی وجہ سے کہا “ 

صوفیہ بیگم ان سے جلدی میں بولی 

” اچھا خیر یہ بہو کہاں پے تمہاری کوٸی ادب لحاظ ہے

اس میں یا نہیں بڑی پھوپھی ساس کو پھوٹے منہ سلام 

کرجاۓ “ 

صبیحہ بیگم طنزیہ لہجے میں صوفیہ بیگم سے بولی

” نہیں آپا وہ کھانے کی تیاری کر رہی ہے ماشااللہ بہت 

پیاری بچی ہے سارا گھر سنبھال لیا ہے مجھے تو سب 

کاموں سے آزادی مل گٸ ہے “ 

صوفیہ بیگم حرم کی تعریف کرتے ہوئے بولی

” ہاں بہن تم تو خوش ہوگی ہی تم نے تو کبھی نہیں چاہا کہ رمشا اس گھر میں آئے تبھی تم نے ہمیشہ حاشر کو ہمارے خلاف ہی رکھا “ 

صبیحہ بیگم طنز کرتے بولی تو صوفیہ بیگم گہرا سانس بھرتے بولی 

” نہیں آپا رمشا میری بیٹی ہی ہے آپ بیٹھے میں فائقہ کو بلا کر لاتی ہوں “ 

اتنا کہہ کر وہ فاٸقہ کے کمرے میں چلی گٸ

” فائقہ تمہاری پھوپھو آئی ہیں تمہاری شادی کا جوڑا لے  کر نیچے آجاٶ “ صوفیہ بیگم اداسی سے بولی 

” جی ماما ٹھیک ہے آپ جائیں میں آ رہی ہوں “ 

فاٸقہ ان سے بولتی اپنی کتابیں بند کرتی کھڑی ہوٸی 

” فائقہ میری جان ابھی بھی وقت ہے ایک بار سوچ لو ہم بات کر لیں گے “ صوفیہ بیگم آخری امید لیے بولی 

” نہیں ماما اب یہ فیصلہ نہیں چینج ہوگا یہ میرا آخری 

فیصلہ ہے “ فاٸقہ کے بےلچک لہجے میں کہنے پر صوفیہ بیگم نا امید ہوتی نیچے اتر آئیں 

” السلام علیکم پھوپھو “ فائقہ ڈرائنگ روم میں آتی صوفیہ بیگم کے پاس بیٹھ کر بولی

” وعلیکم السلام میری پیاری بہو کیسی ہے دیکھو میں کتنا خوبصورت جوڑا لائی ہوں تمہارے لیے میری بہو یہ پہن کر بالکل چاند کا ٹکڑا لگے گی“ 

صبیحہ بیگم اس کے سامنے سرخ رنگ کا خوبصورت  جوڑا رکھ کر بولی 

فائقہ نے مردہ نظروں سے جوڑے اور پاس پڑی خوبصورت سی چیزوں کو دیکھا جو سوہاگ کی نشانی کہلائی جاتی ہیں مگر اسکے لیے کفن کے معنی رکھتی تھی 

اس کی محبت کا کفن ریان کی محبت کو اپنے سینے میں دبا کر کسی اور کے ہونے کا کفن کسی ناپسند شخص کو اپنی زندگی میں شامل کرنے پر پہنے جانے والا کفن 

فائقہ نے ڈبڈباٸی نظروں سے سب چیزوں کو دیکھا 

نا چاہتے ہوئے بھی ریان کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے اسے اپنے دل میں اک گہرا درد محسوس ہونے لگا

اور سانس لینے میں دشواری ہونے لگی 

” یا میرے خدایا مجھے صبر دے وہ شخص جو مجھے دھتکار کر چلا گیا میں کیوں اسے یاد کرکے تکلیف سہہ 

رہی ہوں “ 

فاٸقہ دل ہی دل میں بولی 

” کیا ہوا فائقہ چپ کیوں ہو چیزیں پسند نہیں آئی کیا “ 

صبیحہ بیگم کے پوچھنے پر فائقہ چونک کر ہوش میں آئیں 

” نہیں نہیں پھوپھو بہت اچھی ہیں میں ذرا بھابھی کے ساتھ کچن میں کچھ کام دیکھ کے آتی ہوں “ 

فائقہ صبیحہ بیگم سے کہتی اٹھ کر کچن میں چلی گئی

” صوفیہ فاٸقہ کی طبیعت ٹھیک ہے مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی “ صبیحہ بیگم صوفیہ بیگم سے پوچھنے لگی 

” جی آپ اچھا ٹھیک ہے بس یہ موسمی بخار ہے کل بارش میں بھیگ گئی تھی “ 

صوفیہ بیگم تسلی امیز انداز میں ان سے بولی تاکہ وہ 

کسی بات پر شک نہ کریں 

مگر دل ہی دل میں صوفیہ بیگم فائقہ کے لیے بہت پریشان تھی اور دعا گو بھی

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” دیکھو نبیل تم نے میری یہ تصویریں میری بے ہوشی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر لی تھی میں تمہیں جان سے مار دوں گی ابھی کے ابھی یہ ڈیلیٹ کرو “ 

رمشا اپنے ایکس بوائے فرینڈ سے چیخ کر بولی 

” ارے ارے ڈارلنگ اتنا غصہ ابھی تو وہ ویڈیو بھی ہے

وہ سب تو تمہارے ہوش میں ہی ہوا تھا نا “ 

نبیل خباثت سے ہنستے ہوئے رمشا سے بولا 

” دیکھو نبیل اب جب میرا تم سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں تو پھر ان سب کا کیا فائدہ “ 

رمشا معاملہ خراب ہوتے دیکھ گھبرا کر بولی 

” کیوں کیوں فائدہ نہیں ہے میرا تو بہت فائدہ ہے “ 

نبیل کے جواب پر رمشا تپ گٸ 

” اچھا تو کیا کیا کر لو گے آخر اکھاڑ کیا لوگے تم میرا 

میں تم پر کیس کروا دوں گی تمہیں جیل میں ڈلوا دوں گی پھر سڑتے رہنا “ 

رمشا نبیل کو دھمکی دیتے ہوئے بولی 

” ٹھیک ہے جاؤ جو کرنا ہے کرو مگر تمہارے ساتھ جو میں کروں گا نہ اس کا حساب تو تم کسی سے نہیں لے سکتی وہ کیا نام ہے تمہارے اس کزن کا جس کی خاطر تم نے مجھے بلاک کیا تھا ہاں وہ حاشر میں اسے یہ سب کچھ سینڈ کر دیتا ہوں پھر جو تم لوگ پلاننگ کر رہے ہو نہ کہ اس سے تمہاری شادی ہو یا تمہارے بھائی کی اس کی بہن سے شادی ہو تو بےبی یہ سب نہیں ہوگا ہونا تو دور کی بات وہ لوگ تو تمہارے منہ پر تھوکے گے بھی نہیں “ 

نبیل نفرت سے بولا 

” دیکھو نبیل تم ایسا کچھ نہیں کرو گے میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے “ 

رمشا تلملا کر رہ گٸ 

” بے بی یہی تو تم کرتی ہوں سب کا بنا بنایا کام بگاڑ کر 

مکر جاتی ہو “ 

نبیل بھی اسی لہجے میں بولا

” دیکھو نبیل پلیز ایسا کچھ مت کرنا تم جو چاہتے ہو میں وہ کرنے کو تیار ہوں “ 

رمشا اس کے ترلو پہ آتے بولی

” گڈ اب آئی نہ تم پوائنٹ پر اب کل تم مجھ سے ملو گی اسی فلیٹ پر جہاں ہم ملتے ہیں مجھ سے ملو تو میں تمہاری ساری پکس اور ویڈیوز ڈلیٹ کر دوں گا “ 

نبیل بھی خباثت سے بولا

” نبیل پلیز کل نہیں ہو سکتا کل میرے بھائی کی شادی ہے مگر میں پرومس کرتی ہوں پرسوں میں تم سے ضرور ملوں گی “ 

رمشا بے چارگی لہجے میں سموۓ اس سے بولی

” چلو ڈارلنگ ٹھیک ہے مگر پرسوں سے لیٹ ہوا تو پھر “ 

ابھی نبیل کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ رمشا جلدی سے بولی 

” نہیں نہیں میں کہہ تو رہی ہو میں تم سے ضرور ملوں گی وعدہ ہے میرا “ 

رمشا گھبراتے ہوئے بولی

” چلو ٹھیک ہے بے بی ٹیک کیئر “ 

نبیل کے آوارگی سے کہنے پر رمشا نے برا سا منہ بنایا 

” ایک بار بس ایک بار تم سے اپنی پک اور ویڈیو ڈیلیٹ کروا دو پھر تمہیں بتاؤں گی بہت بہت غلط کیا ہے تم نے مجھ سے پنگا لے کر اپنی موت کو خود بلایا ہے “ 

رمشا نفرت سے پھنکارتی سگریٹ کو کش لگانے لگی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” ہم نے بہت کوشش کی مگر معاف کیجیے گا ہم ریان کو نہیں بچا سکے “ 

ڈاکٹر کے یہ الفاظ بجلی بن کر سب کے سر پر گرے 

” رررریان “ فاٸقہ چیخ مار کر نیند سے اٹھی دل تھا کہ اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ ایسا لگا کہیں بغیر ہی نہ آجائے 

” یا اللہ پاک پلیز ریان کی حفاظت کیجیے “ 

فائقہ بے چین ہوٸی اور ریان کے حق میں دعا کرنے لگی 

نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنا فون پکڑا اور ریان کے نمبر پر کال ملائی ایک بار دو بار تین بار مگر نمبر مسلسل بند 

” یا اللہ پاک یہ کیسی بے چینی ہے اور اتنا برا خواب “ 

فاٸقہ نے بولتے ہوٸی سر تھاما جانے انجانے میں اس کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے مگر وہ حیران تھی کہ

یہ سب کیوں ہورہا 

اتنی دیر میں حرم اس کے کمرے میں آٸی اور فائقہ کو روتا دیکھ کر گھبرا گٸ 

” فائقہ کیا ہوا آپ کیوں رو رہے ہو کیوں پریشان ہو مجھے بتاؤ “ حرم اسکے پاس آکر بولی 

” بھابھی وہ وہ“ رو رو کر فاٸقہ کی ہچکی بند گٸ تھی 

گھبراہٹ میں اس سے بولا بھی نہیں جارہا تھا 

” فائقہ پلیز خاموش ہو جاؤ رو نہیں اور مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے “ حرم اس کی پیٹھ تھپتھپاتے بولی 

” بھابھی میں نے خواب میں دیکھا ہے ررریان رریان ٹھیک نہیں ہیں میرا بہت دل گھبرا رہا ہے “ 

اسکی بات پر حرم بھی پریشان ہوگٸ 

” دیکھو فائقہ احسن سے شادی کرنے کا فیصلہ تمہارا اپنا تھا شاید اسی وجہ سے تمہیں بے چینی اللہ خیر کرے ریان ٹھیک ہوگے “ 

حرم اسے تسلی دیتے بولی 

” مگر بھابھی یہ سب “ فاٸقہ بولتے بولتے رک گئی 

” اگر تمہیں یہ شادی نہیں کرنی تو پلیز ابھی بھی حاشر کو بتا دو وہ کچھ نہ کچھ تو کرہی لیں گے “ 

حرم اس سے بولی 

” نہیں بھابھی ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ شاید برا خواب تھا جس سے میں ڈر گئی “ 

فائیقہ سپاٹ لہجے میں بولی 

مگر فاٸقہ “ حرم بولی 

” بھابھی آپ کسی کام سے آئی تھی “ 

فائقہ اپنے اوپر سنجیدگی کا خول دوبارہ چڑھا کر ہوئے بولی

” وہ مما کہہ رہی تھی کہ نکاح عصر سے پہلے ہے تو 

آپ تیار ہو جاٸیں “ 

حرم بے دلی سے بولی 

” ٹھیک ہے میں تیاری کرتی ہوں “ 

فاٸقہ حرم سے کہتی فریش ہونے چلی گٸ 

شاور کھول کر فاٸقہ ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑے ہوکر 

آنسو بہانے لگی نا جانے کیوں مگر بےچینی بڑھتی ہی 

چلی جارہی تھی 

سچ کہتے ہیں محبت کرنے والے دو جسم ایک جان کی مانند ہوتے ہیں اگر تکلیف ایک کو ہو تو دوسرا بھی بےچین رہتا ہے 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” سارہ دیکھو ڈاکٹر کچھ بھی نہیں بتا رہے جاؤ سعد سے کہو کہ ان سے پیچھے میرا بچہ کیسا ہے “ 

سلمیٰ بیگم روتے ہوۓ بولی  

” مما سعد گئے تھے پوچھنے لیکن ڈاکٹر فلحال کچھ نہیں بتا رہے پلیز آپ روۓ نہیں دعا کریں نہ “ 

سارہ بھی نم آنکھوں سے بولی 

” سارہ پلیز آنٹی کو کچھ کھلاٶ ان کی طبیعت بگڑ رہی 

ہے “ سعد پریشانی سے بولا 

” بیٹا جاٶ ڈاکٹر سے میرے بچے کے بارے میں پوچھو میرے دل کو چین نہیں پڑ رہا “ 

وہ ماں تھی کیسے چین آتا انہیں 

” ڈاکٹر ڈاکٹر پلیز بتائیں ریان کی کنڈیشن کیسی ہے کچھ امپروومنٹ ہوٸی یا نہیں “ 

سرمد صاحب بےچینی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھے

” ہمیں بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کے آپ کے پیشنٹ کی کنڈیشن مسلسل خراب ہوتی جارہی ہے ان کا علاج سمجھ سے باہر ہوتا جارہا ہے وہ تو جیسے خود کو ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں وہ خود ہی ہوش میں نہیں آنا چاہتے ان کے ذہن پر کچھ بہت بھاری اثر پڑا ہے“ 

ڈاکٹر شدید پریشانی سے بولا 

ان کی بات سن کر جہاں سرمد صاحب بینچ پر گر سے گئے دوسری طرف سلمیٰ بیگم بے ہوش ہوگٸ 

” نرس انہیں چیک کریں ہری اپ آپ سب میں سے فائقہ کون ہے آپ کے پیشنٹ بےہوشی میں بار بار ان  ذکر کر رہے ہیں اگر وہ یہاں نہیں ہے تو جلدی بلا لیں پیشنٹ کے پاس زیادہ وقت نہیں“ ڈاکٹر نرس کو سلمیٰ بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا اور ساتھ ہی ان سب کو بتایا 

سرمد صاحب ڈاکٹر کی بات سنتے چونک کر کچھ سوچنے لگے اور فوراً وہاں سے اٹھ کر باہر کی طرف چل دیے 

سرمد صاحب نے سوچ لیا تھا کہ فائقہ اور اس کے گھر والوں سے معافی مانگ کر فاٸقہ کو ریان کی زندگی 

میں لے آٸیں گے 

” مجھے اپنے بچے کی زندگی بچانے کے لئے کچھ بھی کرنا پڑا میں ضرور کروں گا اپنی انا کو مار ڈالوں گا چاہے مجھے وقار کے پیروں میں گر کے معافی ہی کیوں نہ مانگنی پڑے “ 

سرمد صاحب خود سے کہتے گاڑی کا روخ فائقہ کے گھر کی طرف موڑ گۓ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

صبیحہ بیگم اپنے کچھ قریبی رشتہ داروں اور احسن رمشا کے ساتھ وقار صاحب کے گھر آئی تھی نکاح کی تقریب جلدی کی وجہ سے چھوٹے پیمانے پر کی جا رہی تھی اس لیے زیادہ لوگ نہیں تھے

حاشر اور وقار صاحب نے نکاح کی ساری ارینجمنٹ 

اپنے گھر کے لان میں کی تھی جو بہت خوبصورتی اور دلکشی سے سجایا گیا تھا جس کو  دیکھنے والی ہر نظر سراہے بنا نا رہی 

” چلو بھئی صوفیہ اب ہماری بہو کو بلا لو تاکہ نکاح کی رسم ادا کی جائے نہیں تو زیادہ وقت ہو جائے گا “ 

صبیحہ بیگم خوشی سے چہکتے ہوئے بولی رمشا اور احسن ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر شاطرانہ ہنسی ہنسنے لگے 

” جی آپا میں بلواتی ہوں جاؤ بیٹا حرم جاکر فائقہ کو دیکھو تیار ہوگئی ہے تو لے آؤں “ 

صوفیہ بیگم نے حرم کو کہا تو حرم اثبات میں سر ہلا 

کر وہاں سے چلی گٸ 

” رمشا یار یہ حاشر کی بیوی بھی پوری آفت ہے کیا حسین لڑکی ہے اسے دیکھ کر تو میرا ایمان ڈگمگا رہا ہے“ 

احسن حرم کو دیکھ کر خباثت سے بولا 

” اتنی بھی کوئی حسین نہیں ہے اپنی رال ٹپکانا بند کرو یہاں ہم تمہاری شادی کرنے آئے ہیں“ 

رمشا حرم کی تعریف پر چڑ کر احسن سے بولی 

” چل تو فکر کیوں کرتی ہے بہن تو پھسالی تو اب اس حرم کو راستے سے ہٹانے اور فاٸقہ کے بھائی کو پٹانا اتنا بھی مشکل نہیں ہے “ 

احسن اسے تسلی دیتے ہوئے بولا 

” کہہ تو تم بالکل ٹھیک رہے ہو “  

رمشا بھی کچھ سوچ کر مسکرا دی

بیوٹیشن کے مہارت سے کئے گئے میک اپ نے اور ریڈ بلڈ کلر کے جوڑے میں ہمیشہ سے سادہ رہنے والی فائقہ پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا مگر ایسی خوبصورتی کا کیا فائدہ جب دل ہی مردہ ہو 

” ماشاءاللہ بہت حسین برائیڈل لگ رہی ہیں آپ اپنے کریئر میں اتنی خوبصورت دلہن آج میں پہلی بار دیکھ رہی ہو کچھ یہ آپ کی آنکھوں میں اداسی کے ڈوڑے 

امیزنگ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ “ 

بیوٹیشن دل سے فائقہ کی تعریف کرتے بولیں 

” مردہ لوگوں کی بھی کوئی تعریف کرتا ہے میں بھی پہلی بار دیکھ رہی ہوں “ 

فائقہ کی بات پر بیوٹیشن حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی 

” فائقہ آپ تیار۔۔۔۔ ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے چلیں اب “ حرم کمرے میں آتی فائقہ سے پوچھنے ہی لگی تھی کہ جب فاٸقہ پر نظر پڑی تو بے ساختہ تعریف کر اٹھی 

” جی بھابھی چلے “ فائقہ مردہ قدم لیے حرم کے ساتھ چل دی 

حرم فائقہ کو لے کر نیچے اتری تو سب فائقہ کو دیکھ کر مبہوت رہ گئے صوفیہ بیگم نم آنکھوں سے فائقہ کو دیکھتی اس کے نصیب کے لئے دعا کرنے لگی حرم میں فاٸقہ کو لاکر احسن کے ساتھ بیٹھا دیا دونوں کے صفوں کے درمیان ایک خوبصورت پردہ لگا ہوا تھا 

” چلے مولوی صاحب نکاح شروع کرواٸیں بچوں کا “ 

وقار صاحب کے بولنے پر مولوی صاحب نے اثبات میں 

سر ہلایا 

” رک جائیں یہ نکاح نہیں ہو سکتا “ 

حاشر کی آواز پر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے احسن اور رمشا نے جب حاشر اور باسط کے ساتھ موجود لڑکی اور دو بچوں کو دیکھا تو ان کے رنگ فق ہو گئے 

” یہ کیا بدتمیزی ہے حاشر “ 

وقار صاحب غصے سے بولتے ہوئے حاشر کی طرف بڑھے

” بابا یہ کوئی بدتمیزی نہیں ہے بد تمیزی چالاکی دھوکا تو آپ کا بھانجہ دے رہا ہے ہم سب کو اور میری پھول سی بہن کو “ 

حاشر شدید غصے میں بولا 

” کہنا کیا چاہتے ہو صاف صاف کہو “ 

صبیحہ بیگم بھی اٹھ کر ان کے پاس آتے ہوئے بولی 

” پھوپھو آپ کا بیٹا ہمیں دھوکہ دے رہا ہے اور اس کا ثبوت یہ دیکھیں یہ لڑکی احسن کی بیوی ہے بلکہ یہ دو بچے بھی احسن کے ہیں آپ لوگوں کو یقین نہیں مجھے نکالا اور یہ تصویریں پڑی ہے “ 

حاشر نکاح نامہ اور تصویریں ٹیبل پر رکھ کے بولا

” جی انکل آنٹی حاشر بھاٸی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں 

یہ احسن نہ صرف شادی شدہ ہے بلکہ بہت سے غلط کاموں میں ملوث بھی ہے “ 

باسط بولا 

حاشر اور باسط کی سب باتیں سن کر اور سارے ثبوت دیکھ کر وقار صاحب اور صبیحہ بیگم سب کو پکڑ کے بیٹھ گئے 

صوفیہ بیگم اور حرم کو آج پھر سے حاشر پر فخر ہو رہا تھا کیوں کے وقت رہتے اس نے سب کچھ سنبھال لیا تھا فائقہ کو بچا لیا تھا فائقہ تو ویسے ہی مردہ حالت میں بیٹھی تھی جیسے اس سب سے اسے کوئی فرق نہ پڑتا ہو 

” ماموں کی حاشر کی چال ہے یہ جان بوجھ کر میرے بھائی کو پھسارہا ہے “ 

رمشا حاشر کو نفرت سے دیکھ کے بولے 

حاشر نے زور سے اس کا بازو پکڑ کے رخ اپنی طرف کیا اور کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا سب حیرانی سے حاشر کو دیکھنے لگے

” تم اپنی بکواس بند کرو تمہارے کرتوت تو کسی کو دکھانے کے لائق ہی نہیں ہے تمہارے  پرانے بواۓ فرینڈ

 نے مجھے تمہاری سب تصویریں اور اور ویڈیوز دکھا دی ہیں فی الحال میں اتنا بے غیرت نہیں ہوں کہ اپنے باپ اور پھوھو کے سامنے وہ چیزیں دکھا کر اپنا بھی سر شرمندہ کرو “ 

حاشر شدید نفرت اپنے لہجے میں بھر کر رمشا سےبولا

رمشا تو اس سب باتوں پر ساکت رہ گئی اور صبیحہ بیگم کا سر مزید شرم سے جھک گیا

حاشر غصے سے سٹیج کی طرف بڑھا اور گریبان سے احسن کو پکڑ کے نیچے اتارتا دو مکے اس کے منہ پر

 رسید کر گیا 

” تم دونوں بہن بھائی دفع ہو جاؤ یہاں سے میں تم دونوں کو جان سے مار دوں گا “ 

حاشر خونخوار لہجے میں گرج کے بولا تو ان دونوں 

نے فوراً وہاں سے بھاگنے کی کی 

سرمد صاحب جب وہاں پہنچے اور فاٸقہ کو دلہن بنا دیکھ ان کو آخری امید بھی ٹوٹتی نظر آئیں مگر وہاں

 کے حالات پر غور کرنے سے انہیں کچھ غلط ہونے کا امکان ہوا اور انکا اندازہ بلکل ٹھیک نکلا تھا 

” آپ اب کیا لینے آۓ ہیں “ ان کو دیکھ کر وقار صاحب 

تیوری چڑھاتے بولے 

مگر سرمد صاحب کی آنکھوں میں آنسو اور شرمندہ 

ہوکر جھکتا سر دیکھ کر حیران رہ گۓ 

” مجھے معاف کر دیں پلیز میری غلطی کی وجہ سے 

آج میرا بچہ اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے “ 

سرمد صاحب وقار صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑتے آخری 

بات فاٸقہ کو دیکھ کر بولے 

ان کی بات پر سب کے سر پر بمب گر گیا 

” انکل انکل کیا ہوا ریان کو “ 

فاٸقہ ان کی بات پر روتے ہوۓ سٹیج سے بھاگتے آٸی 

سرمد صاحب نے نم آنکھوں سے اس بچی کو دیکھا 

واقعی وہ ان دونوں کی زندگی برباد کررہے تھے 

سرمد صاحب نے یہاں سے جانے کے بعد سے لے کر اب تک کی ساری بات ان سب کو بتا دیا 

فاٸقہ سر تھام کر رہ گٸ تو یہ وجہ تھی ریان کی اور 

وہ ریان کو ہی غلط سمجھ بیٹھی تھی 

” پلیز انکل آپ مجھے ریان کے پاس لے چلیں “

فاٸقہ کے کہنے پر سرمد صاحب اسے فوراً لے کر ہسپتال 

کے لیے نکل گۓ تا کہ جلد از جلد پہنچ جاٸیں 

فاٸقہ مسلسل روتے ہوۓ دعاٸیں کر رہی تھی سرمد صاحب کا سر فاٸقہ کو اس حال میں دیکھ کر مزید شرم 

سے جھک گیا تھا وہ کتنا غلط کر گۓ تھے فاٸقہ اور ریان 

کے ساتھ اس بات کا اندازہ انہیں اب ہوا تھا جب سب 

کچھ ہاتھ سے نکل چکا تھا بس اب کوٸی معجزہ ہی تھا 

جو ریان کو بچا سکے 

” اللہ پاک پلیز ریان کو کچھ نا ہو پلیز اللہ انہیں ٹھیک 

کردیں ورنہ میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاٶ گی “ 

فاٸقہ دل ہی دل میں بولی 

ریان کا چہرہ بار بار فاٸقہ کو نظر آرہا تھا راستے سگنل

پر گاڑی روکی تو فاٸقہ کی نظر ایک بابا جی پر پڑی جو 

بےبسی کی صاف تصویر تھے ان کے چہرے پر رقم درد 

اور ان کی آنکھوں سے چھلکتے آنسوں ان کی مجبوری 

کا پتا دے رہے تھے 

فاٸقہ گاڑی سے اتر کر ان کے پاس گٸ اور جا کر بیٹھ گٸ

بابا جی نے سوالیہ نظروں سے اسکو دیکھا

سرمد صاحب نے حیرانی سے دیکھا اور اسکے پیچھے چلے گۓ 

” بابا جی میں بہت پریشان ہو اگر انہیں کچھ ہوگیا تو 

میں کبھی خود کو معاف نہیں کرپاٶ گی محبت کے مسافر تو ہم دونوں تھے نہ تو میں نے تنہائی کی جنگ 

لڑنے انہیں اکیلا کیوں چھوڑ دیا “

فاٸقہ ٹرانس میں بولتی چلی گٸ 

” دیکھو بیٹی ہر چیز میں اس مالک کی مصلحت ہوتی ہے وہ جانتا ہے کب کیا بہتر اس لیے اس سے دعا کرو 

جو تمہارے حق میں بہتر ہے وہ ہوجاۓ “ 

بابا جی فاٸقہ کے سر پر ہاتھ رکھتے بولے 

” مگر بابا جی میں تو محبت میں شراکت کرنے چلی تھی اور اس انسان کو توڑ چکی تھی جس نے مجھ سے بہت 

محبت کی“ 

فاٸقہ ان سے بولتی 

” بیٹی تم جاٶ اللہ کے حضور سجدہ کرو انشااللہ تمہاری 

مراد پوری ہوگی “ 

بابا جی نے اس کو دعا دیتے بولے

فاٸقہ چپکے سے پانچ ہزار کے کچھ نوٹ ان کے پاس رکھے 

وہاں سے اٹھ گٸ سرمد صاحب فاٸقہ کے گرویدہ ہوگۓ تھے بابا جی نے جب اپنی گدی کے پاس دیکھا تو اس بچی کے لیے دل سے دعا نکلی تھی اور شاید یہی دعا 

تھی جو فاٸقہ اور ریان کا برا وقت کھینچ کر لے گٸ تھی 

فاٸقہ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی اندھا دھند وارڈ کی 

طرف بھاگی ہسپتال میں موجود تمام لوگ حیرت سے 

اسکی طرف دیکھ رہے تھے جو دلہن بنی بنا رکے بھاگی چلی جا رہی تھی 

فاٸقہ جیسے ہی داخل ہوٸی سامنے سلمیٰ بیگم اور سارہ 

خوشی سے گلے لگ رہی تھی فاٸقہ ان کی طرف بھاگتے 

ہوۓ گٸ 

” آنٹی ریان کدھر ہیں پلیز مجھے بتاٸیں “ 

فاٸقہ نے روتے ہوۓ پوچھا 

” فاٸقہ بچے آپ کی بس آپ کی وجہ سے ہمارے ریان کو

ہوش آگیا ہے “ 

سلمیٰ بیگم اس کے ماتھے پر پیار کرتے بولی ان کی بات 

پر فاٸقہ نے بے یقینی سے ان کیطرف دیکھا 

” آنٹی بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں بھابھی وہ کہتے ہیں نہ 

کسی کے قدم اچھے ثابَت ہوتے ہیں بلکل آج آپ کو ہم سب ریان کی لک مان گۓ ہیں “ 

سعد کے کہنے پر فاٸقہ نے شکر کا گہرا سانس لیا 

اب جا کر اسکا رکا سانس باحال ہوا تھا 

” ڈاکٹر کیا ہم ریان سے مل سکتے ہیں “ 

سلمیٰ بیگم نے ڈاکٹر سے پوچھا 

” جی مگر فلحال صرف ایک ہی فرد مل سکتا ہے “ 

ڈاکٹر کے کہنے پر سلمیٰ بیگم نے فاٸقہ کو اشارہ کرتے جانے کا کہا 

فاٸقہ تشکر امیز انداز میں ان کی طرف دیکھتے 

آٸی سی یو میں چلی گٸ اندر جا کر فاٸقہ کا دل دہل 

گیا تھا ہر لمحے اسکے ساتھ ہنستا مسکراتا ریان آج 

مشینوں میں بری طرح جکڑا ہوا تھا 

فاٸقہ کی آنکھوں میں آنسو اُمد آۓ تھے اس نے ریان 

کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو ریان کی پلکوں میں ہلکی 

سے جنبش ہوٸی 

ریان نے ہلکے ہلکے اپنی آنکھیں کھول کر فاٸقہ کی طرف 

 دیکھا تکلیف کے اثرات ریان کے چہرے سے صاف نظر

آرہے تھے فاٸقہ کو دلہن کے لباس میں دیکھ کر اسے اپنا 

وہم سمجھتا سر جٹھک گیا 

” کیوں فاٸقہ کیوں میں نے تمہارے ساتھ اتنا غلط کیا 

ابھی بھی تم میرے گمان میں آرہی ہو “ 

ریان تکلیف کی شدت سے بولتا آنکھیں میچ گیا اور 

دو آنسوں اسکی پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکلے 

” بہت چالاک بنتے ہیں نہ آپ سامنے سچ میں بیٹھی 

ہوٸی لڑکی کو خواب سمجھ رہے ہیں “ 

فاٸقہ اپنے آنسو پونچھتی تیوری چڑھا کر بولی 

ریان نے آنکھیں کھول کر حیرت سے اسے دیکھا بمشکل 

اپنا ہاتھ بڑھاتا فاٸقہ کو ہاتھ کو چھو کے محسوس کرنے لگا فاٸقہ نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا 

ریان کی آنکھوں سے قطار در قطار آنسوں بہنے لگے 

فاٸقہ کا بھی خود پر بندھا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ دونوں

بےتحاشہ رونے لگے باہر سے دیکھتے وقار صاحب اور

 سرمد صاحب یہ منظر دیکھتے شرمندہ رہ گۓ تھے 

ان دونوں کی آنکھیں بھی نم تھی جب حاشر نے آکر دونوں کے کندھے پر ہاتھ رکھا 

” مجھے معاف کردیں وقار صاحب اس قابل تو نہیں 

ہوں مگر میں اپنی اولاد کے ساتھ ہمشہ نا انصافی کرتا 

آیا ہوں اب اور نہیں کرسکتا میرے کیے کی سزا ریان

اور فاٸقہ کو نہیں ملنی چاہیے “ 

سرمد صاحب شرمندہ لہجے میں وقار صاحب سے بولے 

” بھاٸی بھی کبھی بھاٸی سے معافی مانگتا ہے بھلا 

چلو یار سارے گلے شکوے دور کرتے ہم ایک دوسرے سے 

گلے لگتے “ 

یہ کہتے وقار صاحب شرمندہ کھڑے سرمد صاحب سے بغلگیر ہوگۓ 

” سلمیٰ ہوسکے تو مجھے معاف کردینا جانتا ہوں ساری 

زندگی تمہیں ٹارچر ہی کیا ہے میں نے مگر پھر بھی اگر 

ہوسکے تو معاف  کر دینا “ 

سرمد صاحب سلمیٰ بیگم کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے

” اپنے بچے کی زندگی کی خاطر میں نے آپ کو معاف کیا

بس اب آئندہ کبھی بھی بچوں کے ساتھ نا انصافی مت کیجئے گا “ 

سلمیٰ بیگم ان کے جوڑے ہاتھ کھولتے ہوئے بولی

” بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں اللہ نے مجھے اس رحمت سے نوازا تو میں نے اس کی اتنی ناقدری کی ہمیشہ 

مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ کیسے تم سے معافی مانگ سکوں سارہ مجھے تو اللہ بھی معاف نہیں کرے گا “ 

سرمد صاحب زندگی میں پہلی بار سارہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے نم لہجے میں بولے

” نہیں بابا ایسی بات نہیں ہے اللہ بہت غفور و رحیم ہے

وہ جانتا ہے ندامت کے آنسو اور آج آپ کی بدولت سب کچھ واپس صحیح ہوگیا ہے غلطیاں تو سب سے ہوتی ہے 

آپ بھی ہم جیسے انسان ہیں فرشتے تو نہیں “ 

سارہ نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لئے محبت سے کہا تو سرمد صاحب کے دل میں آج سے پہلے 

کبھی بھی ایسا احساس نہیں جاگا تھا 

وہ اپنے خدا کے لاکھ بار شکر ادا کرتے نہ تھکتے جس نے  انہیں اتنی اچھی شریک حیات کے ساتھ ساتھ ایک اچھی اور سلجھی ہوئی اولاد سے نوازا تھا 

” چلیں اب آپ سب ایموشنل سین بند کریں اور جلدی سے مٹھائی منگوائے ہم آج ہی ریان اور فاٸقہ بھابھی

کے دن فکس کردیتے ہیں “ 

سعد کے بولنے پر سب نے اس کی بات پر اکتفا کیا 

” چلیں ٹھیک ہے پھر میں مٹھائی لے کر آتا ہوں “ 

وقاص صاحب کے ہاں میں سر ہلانے پر حاشر بولا 

حرم محبت سے صوفیہ بیگم کے گلے لگی اور پھر صوفیہ بیگم اور حرم سارہ اور سلمیٰ بیگم کے گلے لگ گئی 

” مما میں نے بولا تھا نہ جس بچی کے ماں باپ اتنے میں نیک ہوں اور وہ دونوں بہن بھائی کی نیکی سے پیچھے نہ رہنے والے ہوں اللہ کے ایسے بندوں کے ساتھ تو غلط ہو ہی نہیں سکتا “ 

حرم صوفیہ بیگم سے بولیں تو سب اسکی بات پر اثبات میں سر ہلاتے مسکرا دیے 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” آپ ایک دفعہ صحیح ہوجائیں آپ کی ہڈیوں کا سرمہ تو میں اب خود بناؤں گی اپنے ہاتھوں سے “ 

فائقہ آنسو پونچھتی ریان سے تیوری چڑھا کر بولی

” لیکن فائقہ کیوں میرا کیا قصور سب میں “ 

ریان نے حیرانی سے اس سے پوچھا

” نہیں تو تیس مار خان بننے کو کس نے کہا تھا آپ کو

اتنے آپ مجنوں رہتے نہیں ایسے گندی گاڑی کون 

چلاتا ہے آپ تو جرمانہ عائد ہونا چاہیے بڑے کوئی ٹیچر بنے پھرتے تھے “ 

فاٸقہ کے چڑ کر بولنے پر ریان ہنس دیا 

” ارے نہیں یار تمہارا دل دکھا کر نکلا تھا بس اسی کی سزا ملی “ 

ریان نے لیٹے لیٹے فائقہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا 

” اچھا تو یہ بھی میرا قصور ہے دل بھی میرا دکھایا اور تیمارداری اپنی کروا رہے ہیں آپ ایک دفعہ صحیح ہوجائیں چن چن کے بدلے “ 

فائقہ ریان کو گھور کر بولی 

” او میری پیاری بہن گنڈاگردی بعد میں کر لینا ابھی ریان  سے ملنے کے لیے باہر لائن لگی ہے “ 

حاشر کی آواز پر فاٸقہ خجل ہوتی باہر چلی گٸ 

” ہاں یار تو تو جان ہی نکال دی تھی ہماری “ 

حاشر ریان کے پاس کھڑا ہوتا ہے بولا 

” تھینک یو یار تو جس طرح سب کیا میں کبھی بھی تیرا احسان نہیں جٹا سکوں گا مجھے فائقہ نے سب کچھ بتا دیا ہے “ ریان تشکر آمیز لہجے میں حاشر سے بولا 

حاشر کے پیچھے وقار صاحب اور سرمد صاحب بھی اندر داخل ہوئے سرمد صاحب شرمندگی سے دروازے پر ہی رک گئے

” چلو شیر جلدی جلدی اٹھ جاؤ تمہاری اور فائقہ کی مہندی ہے اگلے جمعے “ 

وقار صاحب ریان کے سر پر ہاتھ رکھ کے بولے

” واو اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا کہ آپ سب میرے ایکسیڈنٹ پر راضی ہوجائیں گے تو میں سب سے پہلے یہی کرواتا “ 

ریان شرارتی لہجے میں بولا 

” بہت فضول بولتے ہو ریان اپنی ماں کا تو خیال کرتے میری جان پر بن گئی تھی “ 

سلمیٰ بیگم نم آنکھیں لیے اس کے پاس آ کر بیٹھی ہے

” ارے مما میں بالکل ٹھیک ہوں یہ دیکھیں فٹ ہوں “ 

ریان محبت سے انہیں دیکھتا بولا تو وہ مسکرا دی 

” بابا اندر آجاٸیں پلیز “ 

ریان کے کہنے پر سرمد صاحب اندر آگۓ 

” شکریہ بابا اس سب کے لیے مجھے فاٸقہ نے سب بتا دیا 

کیسے آپ نے سب مینیج کیا “

ریان سرمد صاحب سے بہت محبت سے بولا 

” سب خراب بھی میں نے ہی کیا تھا مگر الحمد لله

 شکر اس پاک ذات کا جس نے وقت رہتے مجھے سمجھا 

دیا سب کچھ “ 

سرمد صاحب آنسو صاف کرتے بولے 

” چلیں اب سب تیاریوں پر لگ جاٸیں آخر فاٸقہ اوو سوری فاٸقہ دی گریٹ کی شادی ہے “ 

ریان اور حاشر کے شرارت سے کہنے پر سب قہقہ لگ کر ہنس پڑے 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” تمہاری ہمت کیسے ہوٸی تمہیں میں جان سے مار دوں 

گی “ رمشا نبیل کے سامنے کھڑے ہوکر غصہ سے بولی 

” اووو بےبی میں نے تو تمہیں کہا تھا مگر تم تھی کہ 

مانتی نہیں اب بھگتو “ 

نبیل خباثت سے بولا 

” میں تم پر کیس کردوں گی جان سے مار دوں گی

 تمہیں میں “ 

رمشا نفرت سے پھنکاری 

” چلو جانِ من مار دو نہ جان سے ہم تو فدا ہو رہے “ 

نبیل خباثت سے کہتا اسکا ہاتھ پکرنے لگا جب رمشا نے 

کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا 

” سا*** تیری اتنی مجال “ 

نبیل اسکا بازو اپنی طرف کھینچنے لگا رمشا اسے دھکا 

دیتی باہر بھاگی 

” پولیس پولیس بچاٶ یہ انسان درندہ غلط ہے مجھے 

تنگ کررہا “ 

سامنے سے آتی پولیس کی گاڑی کو دیکھ کر رمشا بولی 

” اوو بی بی چلو تمہارے کرتوت سب کو پتا ہے “ 

لیڈیز کانسٹیبل کی بات پر رمشا نے آنکھیں پھاڑ کر اس کی طرف دیکھا 

” جی جی آفیسر اریسٹ کر لے اسے یہ میرے گھر سے 

چوڑی کر رہی تھی جب دیکھا تو بھاگ گٸ “ 

نبیل پیچھے آکر بولا 

” بلکل سر اس طرح کی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں سب

ویڈیوز دیکھی ہیں ہم نے “ 

پولیس کی بات پر اسے اپنا دماغ پھٹتا محسوس ہوا 

رمشا نے چھپٹ کر پولیس آفیسر کے ہاتھ سے گن چھینی 

اور نبیل کی طرف کر کے گولی چلا دی نبیل بازو پر 

گولی لگنے سے کراہ کر رہ گیا تو رمشا سامنے اندھا دھندھ 

بھاگنے لگی 

” روکو نہیں تو ہم گولی چلا دیں گے “ 

پولیس کی بات کو ان سنا کرے رمشا بھاگتے چلی گٸ 

مگر ایک دم اس کی کمر میں شدید گرم چیز محسوس 

ہوٸی پھر دونوں ٹانگوں میں وہ لڑکھڑا کر وہی ڈھے گٸ 

اور اس طرح رمشا کی براٸی نے اسے ختم کرکے رکھ دیا 

براٸی کی عمر چاہے کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن اس براٸی کا انجام اس سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک ہوتا ہے جس طرح رمشا کا ہوا 

ہمشہ اس نے سب کا برا چاہا سب کے ساتھ برا ہی کیا پہلے حاشر حرم اور پھر فاٸقہ کے ساتھ کبھی اسے 

اپنی غلطی پر پچھتاوا نہیں ہوا تو اس کو مہلت کیسے 

ملتی اسکی براٸی اسے ہی کھا گٸ 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” شکر الحمد لله سب ٹھیک ہو گیا “

حاشر حرم سے بولا جو حمزہ کو سلا کر بیڈ پر لٹا رہی تھی 

” دیکھا میں نے بولا تھا نہ آپ سے کہ ہماری فاٸقہ کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہوسکتا “ 

حرم مسکرا کر اسکی طرف دیکھتے بولی 

” تھینک یو حرم تمہارا سپورٹ کرنا بہت معنی رکھتا ہے 

میرے لیے تم میرا سکون ہو “ 

حاشر آگے بڑھتا اسکا ماتھا چوم کر بولا 

” چلیں بس بس آپ چینج کر لیں مجھے بھی بہت نیند 

آرہی ہے “ 

حرم کی بات پر حاشر نے مظلومانہ شکل بنا لی 

” یار تھوڑا تو رحم کھا لو مجھ معصوم پر شادی شدہ ہونے کے باوجود سنگل ہونے والی فیلینگز آتی اب تو “ 

حاشر کے مظلومیت سے کہنے پر حرم کھلکھلا کر ہنس پڑی 

” بہت ہنسی آرہی نہ ابھی بتاتا ہوں رک جاٶ “ 

حاشر نے کھینچ کر حرم کو اپنی باہوں میں بھرا اور اسکے گلابی گالوں پر اپنے دہکتے لب رکھ دیے حرم کے گلے میں گلٹی ابھر کے معدوم ہوٸی 

” ہنسوں نہ اب ہنس لو “ 

حاشر اسکی کان کی لو کو اپنے دانتوں سے کاٹتے بولا 

” سسی “ حرم نے آنکھیں میچ کر سسکاری بھری 

” جانِ جاناں آپ کی یہی ادا ہمیں بہکنے پر مجبور کر دیتی ہے اب میرا کیا قصور بھلا “ 

حاشر کے معصوم شکل بنا کے کہنے پر حرم نے آنکھیں 

پھاڑ کر اسکو دیکھا 

” ہاۓۓ یہ قاتلانہ آنکھیں “ 

حاشر یہ کہتا اسکی دونوں آنکھوں پر لب رکھتا اسکو 

دوبارہ آنکھیں میچنے پر مجبور کر گیا 

حاشر اس کے تھڑ تھڑ کانپتے ہونٹوں کو دیکھتا بےخود 

ہوگیا اور اپنی دل کی مراد پوری کرتا اسکے نازک لبوں 

پر اپنے لب رکھتا اسکی سانسیں روک گیا 

پھر اسکی گردن پر جھکتا اپنی محبت کی نشانی ثبت کرتا اسکو دیکھنے لگا جو آنکھیں میچے گلاب چہرہ لیے اسکی باہوں میں تھڑ تھڑ کانپ رہی تھی 

” چلو آج کے لیے اتنا ہی بہت ہے جاناں یہ نا ہو حمزہ کی مما بےہوش ہوجاٸیں “ 

شرارت سے کہتا وہ اس سے پیچھے ہوتا اپنا ناٸٹ ڈریس لیتا ڈریسنگ روم میں چلا گیا 

پیچھے حرم اپنے دھڑکتے دل بے قابو پاتی جا کر حمزہ کے ساتھ لیٹ کر منہ تک کمفرٹ اوڑھ گٸ 

” مما یہ دیکھیں کتنا خوبصورت جوڑا ہے نہ “ 

سارہ سلمیٰ بیگم کو اونلاٸن ایک خوبصورت عروسی 

جوڑا دیکھاتے بولی 

” نا جی نا میں تو خود بازار جا کر اپنی بہو کا جوڑا لاؤں گی بلکہ ہر شاپنگ جی جان سے کروں گی بھٸ میری اک 

اکلوتی بہو ہے “ 

سلمیٰ بیگم محبت سے بولی 

” تو بیگم چلیں بہو کی شاپنگ کے لیے “ 

اندر داخل ہوتے سرمد صاحب نے سلمیٰ بیگم سے کہا 

” واہ جی واہ ابھی بھابھی آٸی نہیں پہلے ہی میرے مما بابا مجھے بھول گئے “ 

سارہ مصنوعی خفگی لیے بولی 

” ارے اپنی چڑیا کو کیسے بھول سکتے بلکہ تم بھی چلو نہ ہمارے ساتھ شاپنگ پر اپنی اور ہمارے پیارے نواسے کی بھی شاپنگ کرلینا بلکہ سعد کو بلا لو سب اکٹھے ڈنر کریں گے “ 

سرمد صاحب پلان بناتے بولے 

” مجھے بھی تو بتاٸیں کہاں کی تیاری کی جارہی ہے “ 

ریان کو مکمل ٹھیک ہوۓ تقریباََ ہفتہ ہوچلا تھا تبھی سب 

جلدی جلدی تیاریوں میں لگے تھے 

” آپ کو تو پتا نہیں ہے نہ جیسے پرسوں فاٸقہ بھابھی 

کو مایوں بیٹھانے جانا ہے بھاٸی “ 

سارہ ریان سے بولی 

” تو کیا میں بھی جاٶں گا مایوں میں “ 

ریان دانت نکالتے بولا 

” جی نہیں جی آپ بس ایک ہی بار جاٸیں گے “ 

سارہ ہاتھ جھاڑتے بولی 

” کیوں بھٸ میری دلہن میری شادی میں کیوں نا جاٶں“ 

ریان منہ بناتا بولا 

” چلو بس کرو جانا نہیں شاپنگ پر “ 

سلمیٰ بیگم دونوں کو ڈپٹ کر بولی 

سرمد صاحب تو اپنے بچوں کی نوک جھوک پر خوب لطف اندوز ہورہے تھے انہوں نے ساری زندگی یہ خوبصورت لمحات ضائع کیے تھے مگر اب وہ اپنے بچوں

کی ہر خوشی میں شامل ہوکر اسے دوبالا کرنا چاہتے تھے 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

 جنوری اس سرد رات میں حرم اپنے گرد اچھے سے شال لپیٹے اپنے گزرے دنوں کے بارے میں سوچ رہی تھی آج اسے شدت سے اپنے بھاٸی کی یاد آرہی تھی جس کی وجہ سے اسکی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں 

” حرم یار کدھر ہو حمزہ نے رو رو کر برا حال “ 

حاشر حمزہ کو بہلاتا اوپر چھت پر آیا تو حرم کی کچھ سردی سے اور رونے سے سرخ ہوتی ناک اور نم آنکھوں 

کو دیکھ کر ٹھٹک کر اپنی بات ادھوری چھوڑگیا 

” جی جی حاشر میں نیچے ہی آرہی تھی لاٸیں دیں حمزہ کو مجھے اسے بھوک لگی ہوگی “

حاشر کی آواز پر حرم جلدی سے اپنا چہرہ پونچھ کر بولی 

” حرم آپ کیوں رو رہی ہے جب آپ کو اکیلے دیکھو آپ 

کبھی بھی خوش نہیں دیکھاٸی دیتی مجھے “ 

حاشر سپاٹ لہجے میں بولا 

” نہیں تو نہیں حاشر میں رو نہیں رہی “ 

حرم اپنی صفاٸی میں بولنے لگی 

” بس کریں حرم پلیز آپ کیوں ایسا کر رہی ہیں اپنے ساتھ بھی اور میرے ساتھ بھی میں آپ کو جتنا خوش

رکھنے کی کوشش کرتا ہوں آپ مجھے اتنا ہی مایوس کردیتی ہیں بتاٸیں مجھے حرم میں ایسا کیا کروں جو آپ یوں اداس رہنا رونا چھوڑ دیں “ 

حاشر بنا رکے بولتا چلا گیا وہ اپنی جگہ بلکل درست تھا 

اس نے ہر ممکن کوشش تو کی تھی اسے خوش رکھنے کی 

” بھابھی بھاٸی “ 

حرم ابھی حاشر سے کچھ کہنے ہی لگی تھی جب اچانک 

فاٸقہ کی آواز پر دونوں نے مڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

” سوری میں نے ڈسٹرب کردیا مگر وہ بھابھی آپ کے بھاٸی آپ سے ملنے آۓ ہیں آپ دونوں پلیز نیچے آجاٸیں 

وہ ویٹ کر رہے ہیں “ 

فائقہ کی بات پر حاشر اور حرم میں چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا حرم تیزی سے فاٸقہ کے ساتھ 

نیچے اتر گٸ اور حاشر تاسف سے سر ہلا گیا 

” السلام عليكم کیسے ہیں بھاٸی “ 

حرم کے نم لہجے میں پوچھنے پر داٶد کا سر مزید شرم 

سے جھک گیا 

” جانتا ہوں میں اس قابل تو نہیں ہوں کے تم مجھے معاف کر دو میں نے بلاوجہ بلا کسی بات کے نا صرف تم پر شک کیا بلکہ تم پر ہاتھ بھی اٹھایا اور تمہارا اعتبار نہ کرنے پر آج میں تمہارے سامنے شرمندہ کھڑا ہوں میری بہن ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا “ 

داؤد آنکھوں میں آنسو لیے حرم کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑتا ہوا بولا 

” نہیں بھائی اس سب میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے آپ کو جو دکھایا گیا آپ نے تو اسی پر یقین کرنا تھا نہ“ 

حرم میں نے آگے بڑھ کر داؤد کے جوڑے ہاتھ کھول دیے 

” اور آپ میرے بڑے بھائی ہیں ہمیشہ سے جتنا آپ نے مجھے پیار کیا ہے اگر آپ نے ہاتھ اٹھا بھی لیا تو کیا ہوگیا میرے دل میں آپ کے لیے کوئی بدگمانی نہیں تھی میں نے آپ کو اسی دن معاف کر دیا تھا “ 

حرم نے روتے ہوۓ داؤد کی سینے سے لگ کر کہا 

” آنٹی انکل آپ کا بیٹا دنیا کا سب سے اچھا اور نیک بچہ ہے میں نے آج تک ایسا لڑکا کوئی بھی نہیں دیکھا اس نے نہ صرف ایک بے سہارا لڑکی اور اس کے یتیم بچے کو 

اپنایا بلکہ ہر گرم سرد ہوامیں اسکی ڈھال اسکا ساتھ 

بنا رہا “ 

داٶد صوفیہ بیگم اور وقار صاحب کو دیکھ کر بولا 

” بہت بہت شکریہ حاشر آپ کا میں آپ کا احسان کبھی 

نہیں بھول سکتا “ 

داٶد کہتا حاشر کے گلے لگ گیا حاشر نے بھی کھلے دل سے اسے اپنایا 

وقار صاحب ان انکشاف پر دنگ رہ گۓ مطلب ان کے بیٹے 

نے کبھی کوٸی نافرمانی کی ہی نہیں تھی بلکہ اچھاٸی 

کی نٸ جیتی جاگتی مثال تھا وہ 

” حاشر فخر ہے مجھے تم پر میرے بیٹے “ 

وقار صاحب حاشر کا ماتھا چوم کر اسے گلے لگا کر بولے 

حاشر کے ساتھ ساتھ صوفیہ بیگم اور فاٸقہ کے دل سے بھی ایک بوجھ سرک گیا تھا حرم بھی مسکرا کر دیکھ رہی تھی کہ آج اسکا شوہر سب کے سامنے سرخرو ہوگیا 

تھا 

سہی کہا جاتا ہے 

اچھاٸی کا بول بالا 

براٸی کا منہ کالا 

رمشا احسن رآٸیمہ سب نے کتنی ہی چالیں چلی مگر کیا 

بنا سب کا بد سے بد ترین انجام ہوا جس کے وہ سب 

مستحق تھے 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

” میری ساس نے آج مجھے بھیجا 

میری ساس نے آج مجھے بھیجا 

یہ پیلا جوڑا یہ پیلا جوڑا 

یہ ہری ہری چوڑیاں “ 

فاٸقہ لہک لہک کر گاتی مایوں کے لیے تیار ہورہی تھی 

جب کہ سحر اسکی حرکتوں سے تنگ آ کر ساٸیڈ پر بیٹھ گٸ تھی 

” سحر فاٸقہ ریڈی ہوگٸ ہےتو لے کر چلیں اسے “

حرم کمرے میں داخل ہوتے بولی 

” بھابھی کہیں سے لگ رہی ہے یہ مایوں کی دلہن بھلا 

دیکھیں زرا شرمانا تو دور کی بات جھجھک بھی ناپید 

ہے اس لڑکی میں “

سحر فاٸقہ کی طرف اشارہ کرتے بولی 

” کہہ تو تم بلکل ٹھیک رہی ہو مگر کیا کرسکتے ہیں میڈم نے ہر چیز اپنے طریقے سے کرنی ہے “ 

حرم مسکرا کر بولی 

یلو کلر کے گوٹے والے جوڑے پر اپنے لمبے گھنے بالوں کی 

خوبصورت چٹیا کیے کانوں میں آویزے ڈالے اور لبوں پر پنک گلوس کے ساتھ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ لیے حرم بہت پیاری لگ رہی تھی 

سحر بھی پیلا جوڑا پہنے کلاٸیوں میں بھر بھر کے چوڑیاں پہنے اور بالوں کو کھلا چھوڑ کر سادہ سے 

میک اپ میں بہت پیاری لگ رہی تھی 

فاٸقہ دی گریٹ اپنے سسرال سے آۓ پیلے شرارے اور کرتی پہنے پھولوں کے گہنوں سے خود کو سجاۓ میک اپ سے پاک چہرے میں انتہا کی حسین لگ رہی تھی 

” شکر ہے مجھے لگا تم خوشی میں میک اپ نہ کرلو “ 

سحر شکر کا سانس لیتے بولی 

” ارے سحر مایوں کی دلہن کہاں میک اپ کرتی اور 

مجھے تو شرم ہی بہت آرہی ہے “ 

فاٸقہ ڈوپٹے کا پلو منہ میں لے کر شرمانے کی ایکٹنگ کرتی بولی تو حرم اور سحر ایک دوسرے کو دیکھ کر 

ہنس پڑے 

” چلو لڑکیوں سہاگ کے ڈوپٹے کی چھاٶں میں فاٸقہ کو باہر لے آٶ “ 

صوفیہ بیگم کی آواز پر سحر اور حرم کے ساتھ موجود 

کچھ لڑکیاں فاٸقہ کو لیے باہر آگٸ 

مگر یہ کیا باہر آتے ہی یہ کیا ہوا ؟ ڈھول پٹاخے مطلب 

فاٸقہ دی گریٹ کی کمزوری ۔۔۔۔۔۔

فاٸقہ خود پر ضبط کیے بڑی مشکل سے سر جھکاۓ آنے 

لگی آج اسے دنیا کا سب سے مشکل ترین کام دلہن بننا 

لگ رہا تھا 

گلی کے بچے اور کچھ منچلی لڑکیاں بھنگڑا ڈال رہے تھے

اب ہوٸی تھی فاٸقہ دی گریٹ کی برداشت ختم وہ ڈوپٹے 

سے نکل کر ان سب کے ساتھ مل کر بھنگرا ڈالنے لگ گٸ 

دھم دھم دھم دھوم دھوم “ 

فاٸقہ اس طرح مگن ہو گٸ تھی کہ ایک منٹ کے لیے وہ

واقعی بھول گٸ اسکی اپنی شادی تھی 

صوفیہ بیگم تو اپنا سر تھام کر رہ گٸ سلمیٰ بیگم اور 

سارہ بھی مزے سے فاٸقہ کو دیکھ رہے تھے 

” اچھا بھاٸی بس کریں چلو فاٸقہ رسم کرنی ہے “

صوفیہ بیگم فاٸقہ کو آنکھیں دیکھاتی ڈھول والے سے 

بولی 

رسم خیروعافیت سے ہوگٸ تھی اپنے نیچر کے مطابق چہکتی اور پھولوں سے مہکتی فاٸقہ سب کو بہت پیاری 

لگی کچھ بچپنا لیے کچھ شرارتوں میں وہ سب کو اپنا 

گرویدہ کرگٸ تھی 

” چلیں بھابھی اب ہم چلتے ہیں مہندی پر ملاقات ہوگی“ 

سارہ فاٸقہ کو پیار سے گلے لگاتی بولی 

حرم مٹھاٸی کا ٹوکڑا لیے باہر کی طرف آرہی تھی جب اچانک اسکا پاٶں مڑا ابھی وہ گرتی ہی کہ دو ہاتھوں

اسے تھام لیا حرم نے اوپر دیکھا تو کسی غیر کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکھ کر جھٹکے سے پیچھے ہوٸی 

یہ منظر سامنے سے آتے حاشر نے دیکھا تو اس کو اپنی 

آنکھیں جلتی محسوس ہوٸی مٹھیاں بھینچے وہ ان دونوں کی طرف بڑھا 

” آپ ٹھیک ہیں لگی تو نہیں آپ کو “ 

وہ لڑکا شاید فاٸقہ کے سسرال والوں کے ساتھ تھا مگر وہ 

پوچھنے کے ساتھ ساتھ مسلسل حرم کو ٹکٹکی باندھے 

دیکھ رہا تھا اور یہ چیز حاشر کی برداشت سے باہر تھی 

” بہت شکریہ آپ کا اپنی مسسز کو میں خود لے جاٶ گا 

آپ جاییے کھانا وغیرہ کھاٸیں پھر آپ لوگوں نے نکلنا بھی ہو گا “ 

حاشر زبردستی مسکراتا حرم کے گرد بازو حاٸل کرتا اس لڑکے کو جتانے والے انداز میں بولا 

” اووو تو یہ مس نہیں مسسز ہیں خیر خیال کریں ان کا“ 

اس لڑکے کے تو مانو ارمانوں پر اوس ہی گر گٸ تھی 

حرم تو سہمی سی کھڑی کبھی حاشر کو اور کبھی اس لڑکے کو دیکھ رہی 

” جی بلکل یہ میری مسسز ہیں اور ہمارا پیارا سا بیٹا بھی ہے آپ نے بتایا نہیں بھاٸی کو جاناں “ 

حاشر لہجے میں محبت سموتا بولا تو وہ لڑکا ہنکارا بھر 

کے وہاں سے چلا گیا 

حاشر حرم سے تھوڑا دور ہوا مگر حرم کے نوخیز حسن کو دیکھ وہ دنگ رہ گیا ہمیشہ سادہ سی رہنے والی حرم 

آج خوبصورت سا تیار ہوۓ اسے چاروں شانے چت کرنے 

پر مجبور کرگٸ تھی 

معصومیت سے پاکیزہ سا چہرہ لیے وہ حاشر کو حیرانگی 

سے تک رہی تھی حاشر تو مانو اپنے ہوش ہی کھو چلا تھا 

” وہ۔۔وہ میں باہر ہی آرہی تھی اور پاٶں سلپ ہوگیا تو دھیان نہیں گیا وہ لڑکا پتا نہیں کہاں سے آیا سچ مجھے 

کچھ نہیں پتا “ 

حرم شدید گھبراہٹ کا شکار ہوتے حاشر سے بولی 

” حرم حرم پلیز ریلیکس کیا ہوگیا ہے ایزی رہیں آٸی نو ایوری تھنگ بٹ پلیز آپ ریلیکس رہو “ 

حاشر کے مسکرا کر کہنے پر حرم کا رکا سانس بہال ہوا 

” حرم مجھے آپ پر پورا اعتبار ہے میں جانتا ہوں آپ کو 

اور ہم تو ایک دوسرے کے شریک حیات ہیں زندگی کے 

اس خوبصورت سے سفر کو مزید حسین کرنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے سے پیار کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے 

پر اعتبار بھی کرنا چاہیے “ 

حاشر کی بات پر حرم نے محبت و تشکر کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ حاشر کی جانب دیکھا 

” ویسے جانِ جاناں میں کچھ کہنا ہے آپ سے “

حاشر کے کہنے پر حرم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

” میرے دل کو آپ کے دل کی ضرورت ہے اس دل میں 

میرے نام کی ڈھرکن جگا لیں “ 

حاشر کے محبت سے بولنے پر حرم نظریں جھکا کرجانے لگی 

” یہ تو اب زیادتی ہے اب تو کوٸی جواب دیتی جاٶ “ 

حاشر کی بات پر حرم کھلکلا کر ہنس دی 

” میرا دل بھی آپ کی محبت پر ماٸل ہوگیا ہے آپ کی چاہت نے مجھے چاہت پر یقین کرنا سیکھادیا ہے آپ میرے دل میں ایک خاص مقام بنا چکے ہیں اور “ 

حرم جذب سے کہتی کہتی ٹہر گٸ تو حاشر بےچین ہوا 

” اور ۔۔۔ “ حاشر نے بےتابی سے پوچھا 

” اور تو میں آپ کو پرسوں بتاٶ گی “ 

حرم حاشر کو شرارت سے کہتی اسے ٹھینگا دیکھاتی

بھاگتی چلی گٸ 

حاشر مسکرا کر نفی میں سر ہلا گیا آخر کار حاشر کی محبت اور سچاٸی نے سب کچھ ٹھیک کردیا تھا وقت 

رہتے حاشر نے سب سنبھال لیا تھا 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

لان کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا گیندے کے پھولوں کی لڑیاں چاروں طرف لگاۓ گلاب اور موتیے کے پھولوں کا کمبینیشن کیے ہر چیز پرفیکٹ لگ رہی تھی ہر دیکھنے والی آنکھ سراہے بنا نہ رہی 

لان کے اینٹرس پر خوبصورت اور سٹاٸلش سا فاٸقہ ویڈز ریان لکھا ہوا تھا جس کے پیچھے مہارت سے فاٸقہ اور ریان کے آج کے فنکشن کے ڈریس کے مناسبت سے تصویر بناٸی گٸ تھی جو سبکی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی تھی 

ہر ٹیبل کو فاٸقہ کی فرماٸش کے مطابق ایسے لگایا 

گیا تھا کہ ہر طرف سے ڈانس فلور سہی سے نظر آۓ 

 اور ہوتا بھی کیوں نہ شادی کس کی تھی فاٸقہ دی گریٹ کی اور تو اور مہندی تو ہمیشہ سے فاٸقہ کا 

من پسند فنکشن رہا تھا آج تو بھٸ شادی اسکی مہندی اسکی تو وہ کہاں پیچھے رہتی 

” فاٸقہ سہی کہتے ہیں حاشر توبہ لڑکی شادی ہے تمہاری 

تھوڑی بڑی ہوجاٶ “ 

حرم کمرے میں داخل ہوتے بولی 

” بھابھی پلیز نہ یہ لاسٹ سٹیپ چیک کر لیں پکا پھر میں آرام سے تیار ہوجاٶں گی “ 

فاٸقہ حرم کی منت کرتے بولی 

” اوۓۓۓ بھالو اوو سوری حماد دیکھ میری ساٸیکل تیار ہوگٸ “ 

فاٸقہ کی بات پر حرم نے حیرت سے اسے دیکھا 

” کیا مطلب فاٸقہ کون سی ساٸیکل “ 

حرم نے حیرانگی سے پوچھا 

” بھابھی یہ تو اپُن کا سٹاٸل ہے سرپراٸز کے لیے تیار رہیں اور جاٸیں جلدی سے پیاری پیاری تیار ہوکر بھییا پر بجلی گراٸیں “ 

فاٸقہ کے شرارت سے کہنے پر حرم کے گال دہک گۓ 

” اوووو بھابھی بلش کر رہی ہیں “ 

فائقہ حرم کو تنگ کرتے ہوئے بولی 

” چپ کرجاٶ کل بتاٶ گی تمہیں میں تم تو زیادہ شرماٶ گی دیکھنا سارا تنگ کل کروں گی “ 

حرم آنکھیں دیکھاتے ہوۓ بولی تو فاٸقہ قہقہ لگا کر ہنس دی حرم نے آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھا 

” بھابھی جس دن میں شرما گٸ نہ آپ کو پورا حق ہوگا 

میرا نام بدل کے نبیلہ شکیلہ یا عقیلہ کوٸی بھی نام رکھ لیں “ 

اسکی بات پر حرم مسکرا کر نفی میں سر ہلاتی وہاں سے نکلی اور اپنے کمرے میں آگٸ حمزہ کو تیار کرکے وہ سلا چکی تھی واشروم سے پانی گرنے کی آواز پر حرم کو اندازہ ہوا حاشر شاور لے رہا ہے 

وہ اپنا ڈریس اٹھا کر ڈریسنگ روم میں چلی گٸ ڈریس پہن کے وہ شدید کوفت کا شکار ہورہی تھی کیونکہ کرتی 

کی زپ اسکے بالوں میں پھنس گٸ تھی ابھی وہ نکال ہی رہی تھی کہ واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز پر جھٹ سے بیڈ پر پڑا اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر اپنے اوپر اچھے سے اوڑھ لیا 

حاشر ٹاول سے بال رگڑتا باہر آیا تو حرم گرین کرتی کے ساتھ اورنج رنگ کے لہنگے میں خود کو کور کیے کھڑی تھی دبلی پتلی سی حرم پر لہنگا الگ ہی چھب دکھلا رہا تھا حاشر مبہوت رہ گیا مگر حرم کا کوفت اور تکلیف زدہ چہرہ دیکھ حاشر اسکے پاس آیا 

” کیا ہوا حرم ایسے کیوں کھڑی ہیں آپ “

حاشر اس سے پوچھنے لگا مگر حرم کے کچھ نا بولنے پر حاشر نے اسکی طرف دوبارہ دیکھا 

حرم کے بال بری طرح زپ میں پھنسے ہوۓ تھے حاشر نے حرم کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا 

” نہی۔۔نہیں میی۔۔میں کر لوں گی آپ جاٸیں “ 

حرم جھجھکتے ہوئے بولی اس حالت میں کھڑی وہ ویسے ہی شرم سے پانی پانی ہوگٸ تھی 

حاشر نے جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا اور اسکی پشت اپنے سینے سے لگاۓ اسکے بال زپ سے نکالنے لگا حرم کس کے مٹھیاں بند کیے لبوں کو بھینچے اور آنکھوں کو میچ کر سانس روکے کھڑی تھی 

” لیں میڈم ہوگیا “ 

حاشر کی آواز پر اسکی جان جان میں آٸی مگر اگلے ہی لمحے اسکی جان نکل گٸ 

جب حاشر اسکی دودھیا گردن پر جھکتا اپنا لمس اسکی روح میں اتارنے لگا حرم مزحمت کرتی حاشر کو پیچھے کرنے لگی تو حاشر کے جزبات میں اور شدت آگٸ 

حاشر اسکی گردن پر اپنا لمس چھوڑتا اسکو کمر سے تھامے اپنے مزید قریب کرگیا پھر اسکے کپکپاتے لبوں پر 

جھکتا خود کو سیراب کرنے لگا حرم کو اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوٸی جب حاشر کو احساس ہوا کہ حرم 

حواس کھو رہی ہے تو اسے سیدھا کھڑا کرتا اسکے دونوں

لہو چھلکاتے گالوں پر اپنا لمس چھوڑے اسکا ماتھا چوم گیا اور مسکراتا پیچھے ہوگیا 

” پرفیکٹ اب تو میری حسین سی بیوی کو کسی

 میک اپ کی بھی ضرورت نہیں “ 

حاشر اسے آٸینے کے سامنے کھڑا کرتا بولا 

حرم کی آنکھیں مسلسل بند تھی اور جسم شدّت سے کپکپا رہا تھا اسکے لبوں پر تو جیسے قفل لگ گیا ہو 

” اچھا میں اب چلتا ہوں یہ نا ہو اپنی بیگم کو تیار کرنے میں فاٸقہ کی مہندی نکل جاۓ “ 

حاشر شرارت سے کہتا باہر چلا گیا 

حرم نے آہستہ سے آنکھیں کھول کر آئینے میں خود کو دیکھا واقعی بنا کسی سنگھار کے اس پر ٹوٹ کے روپ آیا تھا اور یہ روپ اسکے پیا کی محبت کا تھا جس میں وہ 

کِھل اٹھی تھی 

” شکریہ حاشر مجھے اور میری زندگی کو اتنا خوبصورت بنانے کے لیے “ 

حرم شرماتے ہوۓ مسکرا کر کہتی تیار ہونے لگی 

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

مہندی رنگ کے کرتے کے ساتھ واٸٹ پاجامہ پہنے بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے ریان بہت ہینڈسم لگ رہا تھا کچھ اس کے چہرے پر اپنی محبت مل جانے کی جو رونق تھی وہ الگ ہی چھب دیکھلا رہی تھی 

” ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت پیارا لگ رہا ہے ہمارا بیٹا “ 

صوفیہ بیگم ریان کی بلاٸیں لیتی بولی 

” آنٹی ہم بھی تو آۓ ہیں اور پیارے پیارے بن کے آۓ ہیں 

ہمیں نو لفٹ دس از ناٹ فیٸر “ 

سارہ کے مصنوعی خفگی سے کہنے پر صوفیہ بیگم نفی میں سر ہلاتی اسے گلے لگا گٸ 

” آپ سب آگۓ بھاٸی صاحب کہاں ہیں “ 

صوفیہ بیگم کے پوچھنے پر سلمیٰ بیگم نے کندھے اچکاۓ 

” مما بابا بھی پتا نہیں کہاں ہیں “

 حاشر صوفیہ بیگم کے پاس آ کر بولا 

” اچھا چلے آپ سب بیٹھیں ہم فائقہ کو بلاواتے ہیں ابھی آ جائیں گے کسی کام سے گئے ہوں گے دونوں “ 

صوفیہ بیگم کے کہنے پر سب بیٹھ گۓ

” حرم بیٹا جاؤ دیکھو اگر فاٸقہ تیار ہے تو اس کو لے آؤ “ 

صوفیہ بیگم کے کہنے پر حرم اثبات میں سر ہلاتی چلی گٸ مگر پانچ منٹ بعد حرم پریشانی سے باہر آٸی 

” مما فائقہ تو روم میں ہے ہی نہیں “

حرم کے کہنے پر صوفیہ بیگم سمیت سب پریشان ہوگئے

ریان کی تو جیسے جان ہتھیلی پر آگٸ سو وسوسے دل میں آنے لگے 

" اوئے سائیڈ مارو نہیں تو بائیک چڑھا دوں گی " 

اچانک ہی سب لاٸٹس بند ہوٸی اور اینٹریس پر فوکس لاٸٹ پڑی سب نے حیرانگی سے اینٹریس کی طرف دیکھا جہاں سے فائقہ کی آواز آئی تھی 

ایک ساٸیڈ پر سرمد صاحب اور دوسری ساٸیڈ پر وقار صاحب رنگ برنگی گلاسس لگاۓ ہوۓ مہندی کے تھیم کے مطابق سجی ہوئی سائیکلوں پر بیٹھے ہوئے آرہے تھے 

ان دونوں کے درمیان دلہن جی مطلب فاٸقہ پنک اور پیلے پھولوں سے سجی خوبصورت سی ساٸیکل پر بڑے سٹاٸل  سے پنک کلر کے گلاسس لگاۓ بیٹھی تھی 

مہندی رنگ کے لہنگے کے اوپر یلو اور پنک پنک سی کرتی کے ساتھ پھولوں کے زیور پہنے میک اپ سے پاک چہرہ 

 جو بس دیکھنے میں ہی معصوم تھا اندر سے سب سے زیادہ شرارتی تھا لیے سب کے حیران چہروں کو دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی 

” لیٹس گو پیارے پیارے پاپاز 😂 “ 

سرمد صاحب اور وقار صاحب سے کہتی وہ ڈانس فلور 

پر ڈاخل ہوٸی 

سرمد صاحب نے حیران کھڑی سلمیٰ بیگم کے آگے ہاتھ 

بڑھایا اور تھام کر انہیں ڈانس فلور پر لے آۓ جب اچانک گانا چلنا شروع ہوا اور سرمد صاحب سلمیٰ بیگم کا ہاتھ تھامے فاٸقہ کے سکھاۓ گۓ سٹیپس لینے لگے 

روپ ہے تیرا سونا سونا

سونی تیری پائل پائل

روپ ہے تیرا سونا سونا

سونی تیری پائل

سرمد صاحب ساتھ ساتھ گانے کے بول دھرانے لگے تو 

سلمیٰ بیگم شرماتے جھجھکتے ان کا ساتھ دینے لگیں

چھنچھنا چھن ایسے چھنکے

کردے سب کو گھائل

ہے کہہ رہا آنکھوں کا کاجل

عشق میں جینا مرنا

سے شوا شوا

ماہیا سے شوا شوا

ماہیا سے شوا شوا

ماہیا سے شوا شوا

سرمد صاحب پرجوش ہوتے خوشی سے سٹیپ لیتے ہوۓ 

ڈانس کررہے تھے سب ینگ بچوں کے ہوٹنگ کرنے پر 

سلمیٰ بیگم شرماتی نیچے اتر آٸی تو سرمد صاحب فاٸقہ کے سامنے کندھے اچکا گۓ فاٸقہ کے انہیں اشارے سے 

گڈ کہنے پر وہ بھی ہنستے اتر آۓ 

وقار صاحب صوفیہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود انہیں ڈانس فلور پر لے آئے وہ نا نا کرتی رہ گٸ اور فاٸقہ کو آنکھیں دیکھانے لگی سب جانتے تھے کہ یہ ساری شرارت اسی کی ہے ریان آنکھوں میں محبت سموۓ اپنے ساتھ بیٹھی اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس میں اسکی جان بستی تھی کیسے فاٸقہ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا 

وہ تو سب کی زندگی میں خوشیاں لے آٸی تھی 

ریان محویت سے فائقہ کو دیکھ رہا تھا جب فائقہ نے اسے کونی مار کے اس کی توجہ سامنے صوفیہ بیگم اور وقار صاحب کی جانب سے دلائی 

ناں وہ اکھیاں روحانی کہیں😻 

ناں وہ چہرہ نورانی کہیں 😘

کہیں دل والی باتیں بھی ناں❤

 ناں وہ سجری جوانی کہیں 🙈

جگ گھومیاں تھاڑے جیسا نا کوٸی 😍

جگ گھومیاں تھاڑے جیسا نا کوٸی 😍

وقار صاحب اپنے ساتھ کھڑی صوفیہ بیگم کا ہاتھ تھامے اس گانے کو محسوس کرتے سٹیپس لینے لگے اور پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھامتے گانے لگے ان کے اس طرح کرنے پر سب ہوٹنگ کرنے لگے صوفیہ بیگم تو شرم سے بےحال ہورہی تھی 

ناں تو ہنسنا رومانی کہیں 😌

ناں تو خوشبو سہانی کہیں 😙

ناں وہ رنگلی اداٸیں دیکھی😍 

ناں وہ پیاری سی نادانی کہیں 😻

جیسی تو ہے ویسی رہنا 💗😻

جگ گھومیاں تھاڑے جیسا نا کوٸی😍 

جگ گھومیاں تھاڑے جیسا نا کوٸی 😍

وقار صاحب صوفیہ بیگم کو گھماتے ہوۓ بولے اور وہ گھوم کے انکی ہاہوں میں آٸیں تو سب تالیاں اور سیٹیاں 

بجانے لگے صوفیہ بیگم شرماتی جا کر سلمیٰ بیگم کے پاس بیٹھ گٸ تھی 

” تو جیسے کہ آپ سب کو فاٸقہ دی گریٹ کی گریٹ مہندی میں بہت مزہ آرہا ہو گا اب باری ہے میری پیاری سے نند کیوٹ سی بھابھی اور بہنوں جیسی دوست کی “ 

فاٸقہ اناٶنس کرتی نیچے اتری سارہ اور سحر تو فوراً تیار ہوگٸ تھی مگر حرم جھجھکتے ہوئے حاشر کی طرف دیکھنے لگی جس نے اسے اشارہ کیا تو وہ بھی ان کے ساتھ چلی گٸ 

بلے بلے نی ٹور پنجابن دی 💗

ہو جوتی کھل دی مروڑا نیو چل دی 💗

ٹور پنجابن دی 💗

تینوں ان لاٸنز پر ہلکے ہلکے سٹیپ لینے لگی تھی 

رات کی رنگینی دیکھو کیا رنگ لائی ہے 😍

ہاتھوں کی مہندی بھی جیسے کھل کھلائی ہے ❤

مستیوں نے آنکھ یوں کھولیں 😻

جھومتی دھڑکن یہی بولی 💗💗 

تینوں گول گھوم کر کبھی آگے کو سٹیپ لیتی کبھی پیچھے کو موو کرتی ایک جیسے مووز کرنے لگی یہ ساری محنت ان سب سے فاٸقہ نے کرواٸی تھی تبھی تینوں بنا رکے ایک ساتھ ایک جیسے سٹیپس لے رہی تھیں 

بلے بلے ناچے ہے یہ باورا جیا ❤

سارہ سعد کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالتی گھوم کر بولی 

بلے بلے لے جاۓ گا سانورا پیا 😻

سحر بھی فہد کے کبھی داٸیں اور کبھی باٸیں طرف جاتے گھوم کر بولی 

جلے جلے نینوں میں جیسے پیار کا دیا 😍

حرم حاشر کے سامنے چوڑیوں سے چھنکتے ہاتھ لاتے ہوۓ 

محبت سے اسکی آنکھوں میں جھانک کر گانے کے بول کہتی سٹیپس لینے لگی 

سب نے اس شاندار سی پرفارمینس پر خوب ہلا گلا کیا تھا سب نیچے اتر آۓ تھے کیونکہ اب باری تھی سپیشل کپل کی مطلب دلہن دلہا کی 

 تیرے نال جینے مرنے دی تیاری اۓ😰

تیرے نام کیتی زندگی میں ساری اۓ 😍

میں تہ تیرے لٸ چھڈی دنیا ساری وے😢

ریان گھٹنوں کے بل فاٸقہ کے سامنے جھکتا اپنی فیلنگز کو گانے کی صورت میں بتانے لگا اسکا نم لہجہ اور نم آنکھیں اس کے دل میں فاٸقہ کی محبت اور فاٸقہ کا مقام صاف ظاہر کررہے تھے ناچاہتے ہوۓ بھی فاٸقہ کی آنکھیں بھی نم ہوگٸ 

اک بات کہوں تجھ سے 

تو پاس ہے جو میرے 

سینے سے تیرے سر کو لگا کہ 

سنتی میں رہوں نام اپنا 

فاٸقہ اسکو اپنے مقابل کھڑا کرتی اسکی آنکھوں سے  آنسوں صاف کرتی اسکے دل پر ہاتھ رکھتی مسکرا کر گنگنا اٹھی 

سب ان کی محبت کو دیکھ کر رشک کر اٹھے 

" یار پلیز اچھے اچھے پوز بنائیں نہیں تو بہت مارو گی میری شادی کا فوٹو شوٹ خراب نہیں ہونا چاہیے " 

فائقہ سڑ سڑ کرتی ریان کو ڈپٹ کر بولی تو وہ بھی ہنس پڑا 

” ماشاءاللہ “ 

بےساختہ وقار صاحب اور سرمدصاحب نے ماشاءاللہ کہا 

” دیکھیں صوفیہ بھابھی کتنے پیارے لگ رہے ہیں ہمارے بچے اللہ انہیں ایسے خوش رکھے “ 

سلمیٰ بیگم کی بات پر صوفیہ بیگم اپنی نم آنکھیں پونچھ کر مسکراتی اثبات میں سر ہلا گٸ  

” جانتی ہو حرم میں نے ہمیشہ سے یہی چاہا تھا میری گڑیا کو جو بھی لڑکا ملے وہ اسے مجھ سے بھی زیادہ اس سے پیار کرے اسکا خیال کرے کوٸی تکلیف وہ میری بہن تک آنے نا دے اور آج ریان کو دیکھ کر میں اللہ کا لاکھ بار شکر گزار ہوں کیونکہ ریان بلکل ویسا ہی ہے “ 

حاشر اپنی آنکھ کا کونا صاف کرتا ہوا بولا تو حرم نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر حوصلہ دیا 

کِھل گٸ میری قسمت 

پا کے تیری یہ چاہت 

ہم پہ مہرباں دو جہاں

” شکر الحمد لله “ فاٸقہ اور ریان دونوں نے یک زبان ہوکر کہا اور مسکرا دیے 

اس طرح ایک خوبصورت سی شام کا اختتام ہوا 

صبح صبح ہی ہر طرف گہما گہمی شروع ہوگٸ تھی آخر ہمدانی ہاٶس کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی کی شادی تھی

فاٸقہ کی بارات کے ساتھ ہی حاشر اور حرم کا ریسپشن رکھا گیا تھا


” لڑکی اٹھ بھی جاٶ تمہاری شادی ہے آج یااللہ کیسے سو رہی ہے “

سحر فاٸقہ کو جھنجوڑ کر جگاتے بولی


” یار سحر دفع ہوجاٶ سونے دو مجھے میں شادی کے ٹاٸم

پر تیار ملو گی “

فاٸقہ نے نیند سے بھرائے لہجے میں کہا


” بہن یہ کوٸی کالج کی پارٹی نہیں یا تمہارا برتھڈے نہیں تمہاری شادی ہے شادی “

سحر کے اتنا بولنے پر بھی فاٸقہ کے کان پر جوں تک نہ

رینگی وہ کمفرٹ منہ تک اوڑھے سوٸی رہی


” سحر ابھی تک فاٸقہ اٹھی نہیں مما بار بار پوچھ رہی ہیں ناشتہ بھی کرنا اور پارلر بھی جانا میڈم نے کل مہندی بھی نہیں لگاواٸی ابھی مہندی بھی لگنی ہے “

حرم کمرے میں داخل ہوتی حیرانی سے بولی


” بھابھی میں کب سے کوشش کررہی ہوں مگر یہ اٹھنے کا نام نہیں لےرہی ہے “

سحر نے بیچارگی سے کہا


حرم نے کچھ سوچ کے مسکراتے ہوۓ سحر کو چپ رہنے

کا اشارہ کیا اور فاٸقہ کے قریب بیٹھ گٸ


” ارے ارے سلمیٰ آنٹی آپ اوپر کیوں آگٸ فاٸقہ کو بس

لا رپے ہم “

حرم کی بات سن کر فاٸقہ فٹ آنکھیں کھولتے اٹھ کر بیٹھ گٸ تھی


” السلام عليكم ممی ووووہ “

فاٸقہ فوراً بولتے دروازہ پر دیکھنے لگی جب وہاں

سلمیٰ بیگم دور دورتک نہیں تھی اور حرم سحر کے ہاتھ

پر ہاتھ مار کے ہنس رہی تھی


” بھابھی یہ چیٹینگ ہے “

فاٸقہ منہ بناتے بولی


” جی نہیں اب اٹھ جاٶ نیچے سب بلا رہے “

حرم اس سے کہتی کمرے سے چلی گٸ


” ویسے حیرت کی بات ہے فاٸقہ دی گریٹ کو اپنی ساس کا اتنا ڈر “

سحر شرارت سے کہنے لگی


” بہن یہ تیری بھول ہے دیکھیں ریان سارا دن میری ویڈیوز بنایا کریں گے اور میری ساسو ممی سٹوری پر یہ لکھ کر لگایا کریں گی میری سویٹی میری پریٹی

میری کیوٹی بہو “

فاٸقہ کے شرارت سے بولنے پر دونوں کا قہقہ گونجا


” بہن تیرا کچھ نہیں ہونا اللہ رحم کرے تیرے بچوں پر

جن کی ماں تم نے بننا ہے “

سحر ہنستے ہوۓ بولی


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


” باجی زرا ان پھول بوٹوں کو جلدی بنا دیں نہ میں تھک گٸ ہوں مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے “

فاٸقہ بےزار لہجے میں مہندی والی سے بولی


” ماشااللہ آپ کے ہاتھوں پر مہندی بہت جچ رہی ہے میڈم“ وہ لڑکی دل سے تعریف کرتی بولی


” بہن ایک بات بتاٶ سچی سچی “

فاٸقہ اس لڑکی سے رازدانہ انداز میں بولی


” جی پوچھیے “ لڑکی نے جواب دیا


” یہاں کہیں آس پاس بریانی ملے گی کیا “

فاٸقہ دانت نکالتے بولی


” میڈم آپ کا میک اپ سٹارٹ کرنا ہے چلیں “

دوسری لڑکی آتی بولی


” بسسسسس “ فاٸقہ کے بولنے پر سب اسکی طرف متوجہ ہوۓ


” مجھے پہلے کچھ کھانا ہے کھانا ہے کھانا ہے نہیں تو میں تیار ہی نہیں ہونا جاٶ “

فاٸقہ کے زد لگانے پر حرم کے ساتھ ساتھ بیوٹیشن بھی سر پکڑ کے بیٹھ گٸ


” پلیز جاٸیں اور اسے کچھ منگوا دیں نہیں تو اس نے ہم سب کا دماغ کھا جانا ہے “

سحر کی بات پر سب اس اس بھوکی دلہن کو دیکھنے لگے جو اب تک 3 4 الریڈی کھا چکی تھی


” ہاں تو اب کیا دلہن ہوں تو بھوکی مر جاٶں “

فاٸقہ منہ بناتے ہوۓ بولی


” اب اتنی بھی آپ بھوکی نہیں فاٸقہ میڈم “

سحر اور حرم نے یک زبان ہوتے کہا تو وہاں موجود سب ہنسنے لگ گۓ


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


” حاشر آپ حرم اور فاٸقہ کو پک کرکے لے آنا ہم ہال کے لیے نکلتے ہیں ریان کی فیملی نکل چکی ہے “

صوفیہ بیگم بلیو کلر کا سوٹ پہنے سر پر اچھے سے ڈوپٹہ ٹکاۓ بہت پیاری لگ رہی تھی


” ماشااللہ مما آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں لگتا فاٸقہ اور حرم تیار پارلر سے تیار ہو کر بھی پھیکی پڑجاٸیں گی “

حاشر شرارتی لہجے میں بولا


” بہت شریر ہو لڑکے چلو ہمارا پوتا ہمیں دو ہم نکل رہے ہیں “

صوفیہ بیگم نے جھینپ کر حاشر سے کہا

حاشر اور حمزہ دونوں نے گرے کلر کے پینٹ کوٹ میں لاٸٹ پرپل شرٹ کے ساتھ ٹاٸی لگاۓ بہت ہی پیارے لگ رہے تھے صوفیہ بیگم ان کی بلاٸیں لینے لگی


” ماشااللہ میرا بیٹا اتنا ہینڈسم اور پوتا اتنا کیوٹ ہے تو

میں بھی تو پیارا لگنا ہی تھا “

صوفیہ بیگم حاشر سے حمزہ کو لے کر پیار کرتے ہوۓ بولی


” اچھا مما آپ جاٸیں بابا انتظار کر رہے ہوں گے میں بھی

پارلر کے لیے نکلتا ہوں “

حاشر ان سے کہتا ان کے ساتھ باہر بڑھا


” ماشااللہ کتنی پیاری ہیں آپ اتنی معصوم سی اور کیوٹ سی “

بیوٹیشن کے مہارت سے کیے گۓ میک اپ میں حرم کا دودھیا رنگ مزید نکھر آیا تھا خوبصورت سی پرپل میکسی جس پر گرے رنگ کے موتیوں کا کام ہوا ہوا تھا

اس کے ساتھ ہلکا سا ڈاٸیمنڈ کا نیکلس پہنے وہ آسمان

سے اتری نازک سی پری لگ رہی تھی


بیوٹیشن کے کہنے پر حرم جھینپ گٸ مگر جب خود کو آٸینہ میں دیکھا تو اپنا حسین سراپا دیکھ وہ بھی ہکابکا

رہ گٸ تھی


” مسسز حرم آپ اور میڈم فاٸقہ کو لینے آۓ ہیں باہر“

ایک لڑکی اندر آکر بولی


” بھابھی فاٸقہ کو تو ابھی ٹاٸم لگے گا آپ جاٸیں بس گاڑی بھیجوا دیجیے گا “

سحر کے کہنے پر حرم اثبات میں سر ہلاتی باہر چلی گٸ


باہر کھڑا حاشر جو کسی سے کال پر بات کر رہا تھا ایک دم سہج سہج کر چل کے اسکی طرف آتی حرم کو دیکھتا مبہوت رہ گیا وہ یک ٹک بنا پلکیں جھپکاۓ اسے دیکھتا گیا اسے آس پاس کی ہوش ہی نہ رہی جب حرم نے آکر

اسکے سامنے چٹکی بجاٸی


” حاشر بس بھی کریں پبلک پلیس ہے گھر جا کر دیکھ لیجیے گا میں آپ کے ساتھ گھر ہی جانا ہے “

حرم مصنوئی خفگی سے بولی


” جاناں دل تو یہی کر رہا ہے کہ آپ کو گھر لے جاٶ اور روم سے کم از کم دس دن تک نکلوں ہی نا “

حاشر کے فدا فدا انداز میں کہنے پر حرم سر سے لے کر پاٶں تک سرخ ہوگٸ


” حاشر بس بھی کریں “ حرم نظریں جھکاۓ جھینپ کر بولی


” ابھی شروع ہی کہاں کیا ہے جو بس کردوں “

حاشر کے شرارتاً کہنے پر حرم نے اپنا ماتھا پیٹ لیا


” حاشر چلیں بس اب ہال چلیں سب انتظار کر رہے ہوں گے حمزہ بھی تنگ نہ کر رہا ہو “

حرم حاشر سے کہنے لگی


” جی جی ملکہِ دل جو حکم “

حاشر عاجزانہ انداز میں بولا تو حرم مسکرا دی


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


حاشر حرم ایک ساتھ ہال میں انٹر ہوۓ سب کی نظروں

کا مرکز بنے وہ دونوں بہت مکمل لگ رہے تھے حاشر نے آگے بڑھ کر صوفیہ بیگم سے حمزہ کو لیا اور حرم کا ہاتھ

تھامے حمزہ کو گود میں لیے سٹیج تک آیا


ہر کوٸی ان کی جوڑی کو رشک سے دیکھ رہا تھا جو ناصرف مکمل اور خوبصورت لگ رہے تھے بلکہ ہر خوشی غم کے ساتھی بھی معلوم ہوتے تھے


حاشر کا آگے بڑھ کر حمزہ کو پکرنا اور حرم کا ہاتھ مضبوطی سے تھامنا حاشر کا مقام حرم کے دل میں سب

سے اونچا کر گیا تھا ساری دنیا کے سامنے حمزہ کو اپنانے

کے اس انداز پر حرم حاشر کو نم آنکھوں میں تشکر بھرے انداز سے دیکھنے لگی


صوفیہ بیگم اور وقار صاحب فخر سے اپنے بیٹے کو دیکھ

رہے تھے جس نے ہمیشہ ان کا سر بلند کیا ان کو عزت دلواٸی تھی داٶد بھراٸی آنکھوں سے حرم کا مقام حاشر کی زندگی میں دیکھتا ان کی داٸمی خوشیوں کے لیے دعا کرنے لگا


” بھابھی ہماری بہو کب آۓ گی ہم تو رہ تکتے رہ گۓ ہیں“

سلمیٰ بیگم نے صوفیہ بیگم سے پوچھا


” سحر فاٸقہ کدھر رہ گۓ “

صوفیہ بیگم کے پوچھنے پر سحر نے انٹرس کی طرف اشارہ کیا جہاں فاٸقہ مزے سے گلاسس لگاۓ پوز بناۓ کھڑی تھی


” لیڈیز اینڈ جینٹل مین کل میں اپنے پسندیدہ فنکشن پر پرفارمنس نہیں دے پاٸی کیونکہ آپ سب جانتے ہیں میرے دولہے راجہ نے ایموشنل سین کریٹ کر دیا تھا تو کیا ہوا اپنی فاٸقہ دی گرہٹ کے لیے زور دار تالیاں بجاٸیں

کیونکہ اپنی شاندار پرفارمنس آج دیکھاٶ گی میں “

فاٸقہ ہاتھ میں ماٸیک پکڑے بنا رکے بولنا شروع ہوگٸ


ڈیپ ریڈ کلر کا لہنگا چولی پہنے سر پر اچھے سے پن اپ کیا گیا ڈوپٹہ بھاری جیولری اور خوبصورت سے میک اپ میں وہ اپسرا لگ رہی تھی ناک میں پہنی گول نتھ جس کے نیچے ریڈ کلر کا موتی جو اس کے سرخ لپ سٹک سے سجے ہونٹوں کو بار بار چھوتا اپنی قسمت پر نازاں اور ریان کا حریف بنا ہوا تھا آنکھوں پر رنگ برنگی دل شیپ کی گلاسس لگاۓ فاٸقہ حد سے زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی

مگر دلہن بننے کے باوجود میوٹ ہرگز نہیں تھی


” کیوں دلہے راجہ کیا کہتے ہیں “

فاٸقہ گلاسس نیچے کرتی آنکھ مارتی بولی تو ریان ہنستا ہوا اپنا سر پیٹ گیا


ہیں وہ ہینڈسم سونا سب سے

میرے دل کو گیا لے کر

میری نیند چرا لی اس نے

اور خواب گیا دے کر

اب یہ نینا بولے یار

بولے یہی لگاتار

کوئی چاہے کتنا روکے کرونگی پیارررررر


بار بار ریان کی طرف اشارہ کرتے فاٸقہ مہارت سے سونگ کی لاٸنز پر سٹیپ کرنے لگی لاسٹ سٹیپ پر پیچھے جاتے وہ گلاسس اتارتی دو منٹ کے لیے رکی


میرے سٸیاں سپر سٹار

میرے سٸیاں سپر سٹار

میں فین ہوٸی ان کی

اوو میرے سٸیاں سپر سٹار


فاٸقہ ریان کی بلاٸیں لینے والے انداز میں گانے کے ساتھ ڈانس کے سٹیپ کرنے لگی ریان کے ساتھ ساتھ سب ہی ہنستے ہوۓ دیکھنے لگے فاٸقہ کا اعتماد دیکھنے لاٸق تھا بنا جھجھکے بنا رکے اس نے شاندار طریقے سے اپنا ڈانس مکمل کیا بلکہ لاسٹ سٹیپس میں ریان نے بھی اسکا ساتھ دیا تھا


” چلو بچو بس کرو اب نکاح کا ٹاٸم ہے اب بہت دیر ہورہی ہے “ وقار صاحب کے کہنے پر فاٸقہ کو براٸیڈل روم میں لے گۓ اور ریان وہی سٹیج پر بیٹھ گیا مگر جاتے جاتے فاٸقہ نے ایک نیا شوشا چھوڑ دیا


” ایک منٹ ایک منٹ میری کچھ شرطیں ہیں “

فاٸقہ کے اس وقت شرطوں کی بات کرنے پر سب حیرانگی سے اسکی طرف متوجہ ہوۓ


” بیٹا کون سی شرط “ سرمد صاحب نے حیرت سے پوچھا


” ریان سر اوو اب تو ریان بھاٸی آپ ٹینشن نہ لیں اسکی کوٸی بے تکی شرط ہی ہوگی سمجھ لیں آپ آج بیوی نہیں ایک افلاطون بچی ساتھ لے کر جا رہے ہیں جو کھڑے کھڑے کسی کو بھی تگنی کا ناچ نچوا دے “

باسط ریان کے کان میں گھس کر بولا تو ریان نے اثبات میں سر ہلا دیا


” انکل دیکھیں جو یہ آپ کے بیٹے ہیں نہ یہ بہت کھڑوس ٹیچر رہ چکے ہیں اس لیے میں اپنی سیفٹی

کے لیے پہلے ہی انتظام کرنا چاہتی “

فاٸقہ کی بات پر ریان نے گھور کے اسے دیکھا


” اچھا تو کیا شراٸط ہیں ہماری بیٹی کی “

سرمد صاحب کے کہنے پر فاٸقہ نے ایک پیپر ان کے سامنے رکھ دیا جس کو پڑھ کے انہیں اپنی ہنسی روکنا دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا


” سرمد صاحب بتایے بھی آخر لکھا کیا ہوا “

سب نے حیرت سے ان سے پوچھا


” جی تو ہماری بیٹی نے لکھا ہے

محترم مجازی خدا !

اگر آپ مجھ جیسی حسین عقلمند اچھی اور سیدھی سادھی سی بیوی چاہتے ہیں تو میری ان شراٸط پر عمل کریں جو درج زیل ہیں

روزانہ میرے لیے کوکومو لیز کُڑکوڑے لاٸیں گے

روزانہ آٸسکریم اور گول گپے کھیلانے لے کر جاٸیں گے

روزانہ میں جھولے لینے جاٶ گی زیادہ نہیں بس 5 6 ہی

جب میں ناراض ہوگی تو آپ سو دفعہ نہیں زیادہ ہو گیا بس پچاس دفعہ سوری کریں گے

روزانہ میری اچھی اچھی پکس اور ویڈیوز بناٸیں گے

مجھے باٸیک ریسنگ پر منع نہیں کریں گے

میں جتنی مرضی شرارت کر لوں مگر آپ روزانہ کہیں گے بیگم آپ گریٹ ہو “

فاٸقہ کی ساری شرطیں سننے کے بعد ہال میں موجود

سب لوگوں کا زوردار قہقہ گونجا


” اوکے میڈم آپ کی تمام شراٸط منظور ہیں “

ریان نے ساٸن کرتے ہوۓ کہا تو فاٸقہ خوشی سے تالیاں

بجانے لگی اور براٸیڈل روم میں چلی گٸ


” فاٸقہ ہمدانی ولد وقار ہمدانی آپ کا نکاح ریان احمد ولد سرمد احمد کے ساتھ حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ راٸج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے “

مولوی صاحب کے پوچھنے پر ایک پل کو تو جیسے فاٸقہ تھم سی گٸ ہو شرارتیں چہچہانا سب اپنی جگہ مگر یہ وقت تو ہر لڑکی کے لیے مشکل ہوتا ہے


” جی قبول ہے “ فاٸقہ نے دھیمی اور نم آواز میں کہا

وقار صاحب صوفیہ بیگم اور حاشر تینوں کی آنکھیں

بار بار نم ہورہی تھی ان کے گھر کی رونق ہمیشہ کے لیے

پراٸی ہورہی تھی


” فاٸقہ ہمدانی ولد وقار ہمدانی آپ کا نکاح ریان احمد ولد سرمد احمد کے ساتھ حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ راٸج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے “

مولوی صاحب نے وہی الفاظ دہرائے


” قبول ہے “

فاٸقہ نے بھراٸی آواز میں کہتے نظر اٹھا کر اپنے ماں باپ اور بھاٸی کو دیکھا


” فاٸقہ ہمدانی ولد وقار ہمدانی آپ کا نکاح ریان احمد ولد سرمد احمد کے ساتھ حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ راٸج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے “

مولوی صاحب نے پوچھا


” ج۔جی قب۔قبول ہے “

اب کی بار فاٸقہ کا ضبط ٹوٹا تھا آنسوں سے آواز حلق سے نکلنا بہت مشکل لگ رہا تھا


نکاح نامے پر ساٸن کرتے فاٸقہ کے ہاتھ کپکپاگۓ کیونکہ اس پر ساٸن کرنے کے بعد اس کے باپ کا نام ہٹ کر کوٸی اور اسکی زندگی کا حکمران بننے جا رہا تھا فاٸقہ لرز کے رہ گٸ کٸ آنسوں ٹوٹ کر گرے وقار صاحب اور حاشر نے آکر فاٸقہ کے سر پر ہاتھ رکھا تو اسے بہت ڈھارس ملی اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنا آپ ریان ہمدانی کے نام کیا اور وقار صاحب کے گلے لگ کر رو دی تو وہاں موجود سب کی آنکھیں نم ہوگٸ


ریان کی طرف سے ایجاب و قبول کے بعد فاٸقہ کو سٹیج پر لایا گیا جو کچھ دیر پہلے والی فاٸقہ تو بلکل نہیں لگ رہی تھی بلکل خاموش سر جھکاۓ آرہی تھی


ریان نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھامے اسے اپنے ساتھ محبت سے کھڑا کیا اور پھر اسکا سرخ گھونگھٹ پلٹا

ڈوپٹہ پر لکھا ریان کی دلہن پڑھ کر ریان کے چہرے پر خودبخود ایک خوبصورت سی مسکراہٹ ابھر آٸی

” میری دلہن “ ریان فاٸقہ کا گھونگھٹ پلٹتے ہوۓ اسکے ماتھے پر اپنے رشتے کی پہلی مہر ثبت کرتا بولا

آس پاس تمام لوگ ہوٹنگ کرنے لگے ریان نے ہاتھ میں ماٸیک تھامے گنگنانا شروع کیا فاٸقہ نرم سی مسکراہٹ چہرے پر لیے اسے تکنے لگی

رب سے مانگی تھی میں نے وہ دعا ہو تم

تحفہ خدا کا میری جاں ہو تم

ریان فاٸقہ کو گلاب کا پھول پکڑاتا جھک کر بیٹھتا اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چومتا بولا

میرے بنا میں رہنے لگا ہوں

تیری ہوا میں بہنے لگا ہوں

جانے میں کیسے تیرا ہوا ہوں

مجھے تو لگتا ہے میں شاید

تیرے دل کی دعا ہوں

تجھ کو جو پایا تو جینا آیا

اب یہ لمحہ ٹہر جاۓ تھم جاۓ

بس جاۓ ہم دونوں کے درمیاں

ہاں تجھ کو جو پایا تو جینا آیا

ریان کی ساحرانہ آواز نے ایک سما باندھ دیا تھا سب فاٸقہ کی قسمت پر رشک کر رہے تھے کہ اسے کتنا چاہنے

والا انسان ملا تھا

حاشر نے غیر محسوس انداز میں حرم کے گرد اپنے بازوں

کا حصار بنایا

بہت مشکلات کے باوجود مگر سب محبت کرنے والے مل گۓ تھے اور اب جدا ہونا ممکن نہ تھا محبت سچی ہو تو

مشکلات جتنی بھی آٸیں منزل مل جاتی ہے

جس طرح فاٸقہ اور ریان ایک ہوگۓ تھے حاشر اور حرم کی زندگی بھی رنگوں سے بھر چکی تھی

گھر آنے کے بعد کٸ رسومات ہوٸی جن میں فاٸقہ نے بھرپور حصہ لیا مگر اب وہ بہت زیادہ تھک گٸ تھی

صوفیہ بیگم اسے روم میں چھوڑ گٸ تھیں فاٸقہ بیڈ

کے کراٶن سے ٹیک لگاۓ ریان کا انتظار کرنے لگی مگر دس منٹ بعد کی فاٸقہ تھک کے منہ بنانے لگی


” پتا نہیں یہ کدو کریلا سر سوری سرتاج کب آٸیں گے اتنے ہیوی ڈریس اور جیولری نے جان ہلکان کردی ہے خود تو زرا سی شیروانی پہنی ہے “

فاٸقہ خود سے بولی


” بسس فاٸقہ تیری برداشت جواب دے گٸ ہے یہ نا ہو کہ تو نیند میں پاگل ہو کر ٹکریں مارے چل بیٹا سو جا چل شاباش دیکھی جاۓ گی “

فاٸقہ خود سے بولتی بیڈ کراٶن کے ساتھ دو تکیے لگاکر اس سے ٹیک لگاتی آنکھیں موند گٸ


ریان فارغ ہو کر خوشی خوشی کمرے میں داخل ہوا آج اس کے چہرے سے مسکراہٹ جدا نہیں ہورہی تھی فاٸقہ ہی تو اس کے ہنسنے مسکرانے جینے کی وجہ تھی خیر وہ بھول رہا تھا اس کا جینا حرام کرنے کی وجہ بھی اسکی زوجہ محترمہ ہی تھی جو مزے سے سامنے بیڈ پر پھیل کر خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی


ریان نے جب فاٸقہ کو گہری نیند میں دیکھا تو اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا حیرت کی بات ہے کوٸی دلہن اپنی ہی برات پر ایسے ریلیکس کیسے سو سکتی بنا اپنے شوہر کا انتظار کیے مگر وہ تو فاٸقہ تھی جو کوٸی نہیں کرتا وہ

محترمہ فاٸقہ کرتی تھی


” چل ریان بیٹا تو بیوی نہیں لایا بچی گود لی ہے آج سے تگنی کا ناچ ناچنے کے لیے تیار ہو جا “

ریان خود سے ہنس کر سر کھجاتے بولا


فاٸقہ سوتے ہوۓ بہت پیاری اور معصوم لگ رہی تھی سرخ لہنگے میں خوبصورت سا میک اپ اور جیولری پہنے وہ شہزادی لگ رہی تھی جو ریان کے دل میں راج کرتی تھی اسکا اپنے کمرے اپنے بیڈ پر حق سے سونا ریان کو ایک خوش کن احساس سے دوچار کرگیا ریان اس کے پاس بیٹھ کر محویت سے اسے تکتا گیا


ریان کی نظریں بار بار اسکے لپ سٹک سے سجے سرخ ہونٹوں پر جا رہی تھی جن پر فاٸقہ کی نتھ کا موتی چمکتا اسکی توجہ اپنی طرف مزید کھینچ رہا تھا ریان نے نرمی سے اسکی ناک پر پہنی نتھ چھونے لگا فاٸقہ کے چہرے پر محبت سے ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگا پھر تھوڑا جھکتا اس کے ماتھے پر لب رکھتا اپنی محبت کی مہر ثبت کرگیا


مگر وہ حیران تھا فاٸقہ کی اتنی پکی نیند پر جو کسمساٸی تک نا تھی ریان کو ہنسی بھی بہت آرہی تھی

مطلب کوٸی اتنی گہری نیند کیسے سو سکتا ہے ریان نے جان بوجھ کر ایک پھول کی کلی اٹھا کر فاٸقہ کے کان کے پاس پھیرنے لگا فاٸقہ تھوڑا کسمساتی ہونٹوں کے مختلف زاویے بنا کر ماتھے پر بل ڈالتی کروٹ بدل کر لیٹ گٸ


اب ریان کی بس ہوٸی تھی مطلب وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی بلکہ مزید پھیل کر لیٹ گٸ تھی ریان نے بھی اب اسے جگانے کی ٹھان لی تھی اور کچھ سوچ کر مسکراتا ہوا اسکے قریب ہوا پھر جھک کر اپنے لب اس کے لبوں پر رکھ گیا


فاٸقہ کو نیند میں جب اپنے اوپر بوجھ سا اور سانس بند ہوتا محسوس ہوا تو وہ فوراً سے ریان کو دھکا دیتی ہربڑا کر اٹھ گٸ


” ہاۓ اللہ جی چھت گرگٸ مجھ پر نہیں اللہ جی آج تو مجھ معصوم کی شادی ہوٸی ہے ابھی تو ولیمہ بھی نہیں ہوا “

فاٸقہ ہربڑاہٹ میں اٹھتی بولنے لگی


” واٹ چھت ریٸلی فاٸقہ میں آپ کو چھت لگ رہا “

ریان صدمے کی کیفیت میں بولا


” اوو سوری سر اوو ریان وہ مجھے ایک دم نیند میں لگا

کہ چھت گر گٸ مجھ پر مطلب ایک دم بوجھ سا اور آپ کی ہی غلطی یہ آپ کیا کر رہے تھے “

فاٸقہ فوراً سیدھا ہوتے بولی


” میں وہی کر رہا تھا جو ہر شوہر کرتا ہے مگر آپ بیوی والا ایک کام بھی نہیں کر رہی آپ نے تو سچ میں قسم کھاٸی ہوٸی ہے ہماری ویڈنگ ناٸٹ برباد کرنے کی بھلا یہ بھی کوٸی طریقہ ہوا فاٸقہ آپ سو گٸ کم از کم میرا انتظار تو کرتی میں نے تو سکون سے دیکھا بھی نہیں “

ریان ناراضگی دیکھاتا منہ بناتے بولا


فاٸقہ سمجھ آنے پر جی بھر کے شرمندہ ہوٸی اور اسے ہنسی بھی بہت آٸی مگر ریان کا پھولا منہ دیکھ کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنے لگی


” اچھا نا سوری دیکھیں نا میں تھک گٸ تھی نہ پلیز

اور ویسے بھی مجھے نیند بہت آتی اور بس موڈ سہی کریں قسم سے ایسے شکل بنا کر بلکل آلو لگ رہے ہیں بہت مشکل سے اپنی ہنسی روکی ہوٸی میں “

فاٸقہ ریان کو مناتے ہوۓ بولی


” واہ بیگم واہ کیا کہنے آپ کے “

ریان منہ بنا کر بولا مگر فاٸقہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی کہ زیادہ دیر اس سے ناراض نہیں رہ پایا


” چلیں اب میری پیاری سی شکل دیکھ لی نا اب وہ دیں مجھے وہ یار کیا ہاں شکل دیکھاٸی “

فاٸقہ نے منہ دیکھاٸی کی رسم کی آتمہ رولتے ہوۓ کہا

اسکی بات پر ریان تو غش کھا گیا


” فاٸقہ یار منہ دیکھاٸی بولتے ہیں “

ریان رونی صورت بناتے بولا


” ہاں ہاں ایک ہی بات ہے دے دیں ناں “

فاٸقہ ریان کے آگے مہندی لگی ہتھیلی پھیلا کر بولی


” یہ لیں میری پیاری سی بیگم آپ کی منہ دیکھاٸی “

ریان نے ایک مخملی ڈبہ اس کے ہاتھ پر رکھا


فاٸقہ نے کھول کر دیکھا تو خوبصورت سا ڈاٸیمنڈ کا R شیپ کا پینڈنٹ تھا اسکی چمک اور خوبصورتی سے فاٸقہ مبہوت رہ گٸ


” بہت خوبصورت ہے ریان بہت زیادہ پیارا ہے تھینک یو “

فاٸقہ دل سے تعریف کرتے بولی


” میں پہنا دوں ؟ “ ریان نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا


” جی “ فاٸقہ نے نظریں جھکاۓ دھیمے لہجے میں کہا


ریان اسے ڈریسنگ کے آٸینے کے آگے کھڑا کرتا اسے وہ پینڈنٹ پہنانے لگا فاٸقہ کی پتلی لمبی صراحی دار دودھیا گردن پر پینڈنٹ خوب جچ رہا تھا دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو آٸینے میں دیکھا


” ماشااللہ “ دونوں کے منہ سے بے ساختہ ایک ساتھ ماشااللہ نکلا تھا دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیے سب سے اپنی جوڑی کی تعریف تو ان دونوں نے سنی تھی مگر خود دیکھنے کے بعد واقعی دونوں کو لگا کہ وہ ایک دوسرے کا مکمل خلاصہ ہیں


” بہت شکریہ ریان بہت خوبصورت تحفہ ہے “

فاٸقہ ریان کی طرف دیکھتی دل سے بولی


” نہیں جانم یہ تحفہ آپ کے آگے بلکل پھیکا پر گیا ہے مگر آپ نے پہن کر اسکی قیمت دس گنا بڑھا دی ہے “

ریان پشت سے فاٸقہ کو حصار میں لیتا اسکے کندھے پر سر ٹکاتا بولا


” بہت خوبصورت لگ رہی ہو اتنی خوبصورت کہ دل کر رہا تمہیں کہیں دور لے جاٶ اور چھپا لوں سب سے بلکل اپسرا لگ رہی ہو میرے دل کی ملکہ “

ریان اس کی کان کی لو چومتا بےخود سا ہوکر سرگوشی میں بولنے لگا فاٸقہ کی تو مانو زبان تالو سے چپک گٸ تھی


” اگر محبت کے تمام الفاظ یکجا کر کے بھی لکھ دیے جاٸیں نہ تب بھی میں بیان نہیں کرسکتا مجھے آپ سے کتنی محبت ہے “

ریان اس کی دونوں کلاٸیوں پر اپنے دہکتے لب رکھتا بولا


” ڈر گیا تھا میں محبت کر کے تمہیں کھونے سے بہت ڈر گیا تھا مجھ پر میری سانسیں تنگ ہوگٸ تھی مجھے لگ رہا تھا کہ تمہیں کھو دیا تو مر “

ریان جزب سے کہنے لگا جب اچانک اسکے آدھے الفاظ اس کے منہ میں رہ گۓ فاٸقہ نے اپنا حناٸی ہاتھ اسکے لبوں پر رکھ کر اسے مزید بولنے سے روکا


” برا وقت تھا وہ ختم ہوگیا ہے اب اسے یاد کر کے اس حیسین وقت کو مت خراب کریں اور خبردار آج کے بعد ایسی بات اپنی زبان سے نکالی “

فاٸقہ شدت سے اسکے سینے سے لگتی بولی


” ٹھیک ہے جانِ من “

ریان اس کے مانگ ٹیکے پر ہونٹ رکھتا مسکرا کر بولا


اتنا کہہ کر ریان نے اپنے ہونٹ اسکی کان کی لو پر رکھے

فاٸقہ نے زور سے آنکھیں میچ لی


ریان نے اس کا بھاری دوپٹہ اس سے جدا کیا اور اسکے کانوں کو بھاری جھمکوں سے آزاد کرنے لگا پھر اسکا مانگ ٹیکا اتار کر ساٸیڈ پر رکھتا محبت سے فاٸقہ کا شرمایا سا روپ دیکھنے لگا

ریان کو اپنے دل کی من مانی کرنے کا ہر موقع مل گیا۔کچھ ہی دیر میں وہ فاٸقہ کے گلے سے وہ بھاری ہار دائیں کلائی میں پہنے بھاری کنگن اس سے جدا کر چکا تھا اور اب باٸیں ہاتھ میں پہنی چوڑیاں اتار رہا تھا


وہ فاٸقہ کے بال بھی کھولتا اسکی ناک پر پہنی نتھ کو محبت سے چھونے لگا وہ نتھ فاٸقہ کے لال گلابی چہرے پر خوب جچ رہی تھی


” مجھے تمہاری یہ نتھ بہت اچھی لگ رہی ہے نگاہیں کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے آج تک کچھ اتنا خوبصورت نہیں دیکھا اتنا مکمل کے دل کر رہا ہے کہ بس یہ موتی تمہارے چہرے پر چمکتا رہے “

ریان محبت سے کہنے لگا فاٸقہ نے کنفیوز ہوتے لبوں کو دانتوں میں دبانا شروع کردیا یہ دیکھ کر ریان آنکھوں میں جنون اترا تھا۔


"جان ہمت کیسے ہوئی میری ملکیت کو چھونے کی۔"


اتنا کہہ کر ریان نے اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور جان کا آزار بنتی اس نتھ کو راستے سے ہٹاتے ہوئے انتہائی شدت سے اسکے ہونٹوں پر جھک گیا فاٸقہ نے گھبرا کر اسکا گریبان اپنی مٹھی میں جکڑا اور اپنے ہونٹوں پر اسکی شدت کو برداشت کرنے لگی۔


جھٹکے سے اس نتھ کو فاٸقہ کی ناک سے جدا کر کے وہ مکمل طور پر اسکی سانسوں پر قابض ہو گیا اور فاٸقہ اپنا کپکپاتا وجود اس میں چھپانے لگی۔


ریان نے اسے اپنی باہوں میں بھرا اور لا کر بیڈ پر بیٹھا دیا فاٸقہ شدت سے کانپ رہی تھی شدید سرخ ہوتا چہرہ بند آنکھیں اور کپکپاتے لب ریان کے جزبات کو مزید اکسا رہے تھے


"اتنی جلدی گھبرا گئی فاٸقہ دی گریٹ مطلب کہ ڈون ہیں آپ تو سب کی آج کیا ہوا “

ریان نے بولتے ہوۓ اسکی کرتی کندھے سے ہٹا کر وہاں اپنے ہونٹ رکھے تو فاٸقہ گھبرا کر اسکی جانب پلٹی اور اس کے سینے میں چھپ گئی


فاٸقہ نے ایک بار بھی آنکھیں کھول کر ریان کی طرف نہیں دیکھا تھا

اس شرارتی سی لڑکی کو آج یوں شرماتا دیکھ ریان مسکرا دیا اور بیڈ پر لیٹ کر اسے خود پر گرا لیا۔


فاٸقہ نے اس سے دور ہونا چاہا تو ریان مڑ کر اس پر حاوی ہو گیا اور اسکی نازک گردن پر جھک گیا۔


اپنی گردن پر ریان کی جان لیوا شدت کو محسوس کرتے فاٸقہ اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی ریان اس کے ماتھے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتا اسے اپنی محبت کی بارش میں بھیگانے لگا فاٸقہ نے بھی مزحمت کا فاٸدہ نا ہوتے دیکھ مزحمت چھوڑ کر خودسپردگی کا انداز اپنا لیا


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


” اووف بہت تھک گیا ہوں “

حاشر کمرے میں آتا ہوا بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹتا بولا


” وہ حمزہ کو لے آٸیں مما کو تنگ کرے گا وہ “

حرم نے جھجھکتے ہوئے کہا


” بیگم جان آج سہی معنی میں ہماری سہاگ رات ہے تو مما نے آپ سے زیادہ سمجھداری دیکھاٸی ہے “

حاشر معنی خیز لہجے میں بولا


حاشر کی بات پر حرم سرخ ہوتے چہرہ لیے نظریں چرا لیں حاشر نے بنا پلکیں جھپکاۓ اسے دیکھا آج تو اسکی چھب ہی نرالی تھی حاشر کی نظریں اس پر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی اور ان سب میں سب سے پیارا اس کا یوں شرمانا تھا حاشر تو بار بار ضبط کھو رہا تھا


” مممیں۔۔میں چینج کر کے آتی ہوں “

حرم اسکی بولتی پرشوق نگاہوں سے بھاگتی ہوٸی بولی


” ملکہِ دل ابھی تو میں جی بھر کے دیکھا بھی نہیں ابھی سے ہی چینج “

حاشر نے منہ بسورتے ہوئے کہا


” اور ہمیں پرسوں کوٸی کچھ کہہ رہا تھا کہ میں بتاٶ گی کون کہہ رہا تھا کیا کہہ رہا تھا “

حاشر حرم کی شرم سے دوہری ہوتی حالت پر اسے تنگ کرتا بولا


” وہ میں میں “

حرم سے کوٸی بات نہیں بن پارہی تھی


” جاناں بہت حسین ہیں آپ دل کرتا آپ کو دیکھتا رہوں

میری زندگی میں آکر اسے اتنا خوبصورت بنانے کا شکریہ آپ میرا کل سرمایہ ہیں “

حاشر جذب سے بولا


” نہیں حاشر میں نہیں آپ آپ اس دنیا کے سب سے اچھے انسان ہیں آپ نے بنا کسی مطلب کے سب کے ساتھ اچھا کیا جبکہ میں نے آپ کے ساتھ ہمیشہ روڈ بیہیو کیا ہے مجھے معاف کردیں آپ انمول ہیں اور میں اس دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہوں جو مجھے آپ کا ساتھ ملا “

حرم آنکھوں میں حاشر کا چہرہ بھرتے بولی


” آپ کو کوٸی بھی اچھی لڑکی مل سکتی تھی مگر آپ نے مجھے اپنایا میں ناصرف بیوہ بلکہ ایک بچے کی ماں بھی ہوں یہ جانتے ہوۓ بھی آپ نے حمزہ کو وہ پیار دیا جو شاید سگا باپ بھی نا دے سکے مجھے اور حمزہ کو اپنے گھر میں اور اس معاشرے میں جو مقام آپ نے دلوایا ہے اس احسان کا بدلہ تو میں کبھی نا اتار پاٶ جب علی ہمیں چھوڑ کر چلے گۓ تو میں بہت بکھر گٸ تھی اور اسکے بعد میرے اپنوں کے رویے نے مجھے بلکل ہی توڑ دیا تھا تب آپ نے مجھے اپنایا اور سہارا دیا محبت سے سمیٹا مجھے “


حرم اسکی آنکھوں میں دیکھتی اسکا تھام کر اپنے لبوں سے لگاتی بولی


” جی حاشر آپ کی محبت نے مجھ میں چاہت کے رنگ بھر دیے ہیں میں آپ سے محبت کرنے لگی ہوں آپ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی میں “

حرم اپنے دلی جزبات حاشر کے سامنے عیاں کرنے لگی


” میں بھی آپ سے بہت محبت کرتا ہوں جاناں “

حاشر نے اسے اپنے حصار میں لے کر اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ کر کہا


حاشر کے یوں قریب آنے پر حرم کی دھرکنیں بےترتیب ہونے لگی وہ جھجک کر تھوڑا پیچھے ہوٸی


” ابھی بھی اجازت نہیں ہے کیا “

حاشر نے سوالیہ انداز میں اس سے پوچھا


” نہیں میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا “

حرم کے جھٹ سے بولنے پر حاشر اپنی مسکراہٹ روکنے لگا


"جاناں آپ کا حسن یہ ہنر جانتا ہے کیسے اپنا آپ منوایا جائے۔ حاشر ہمدانی کو آپ نے تسخیر کرلیا ہے اسی وجہ سے آپ یہاں پر موجود ہو۔ آپ کے دکھوں کے سارے رنگ اتار کر اپنی محبت کے رنگ چڑھا دینا میں اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ مگر آج رات میں آپ پر صرف اپنی محبت کا رنگ چڑھانے کا ارادہ رکھتا ہوں"

حاشر حرم کا ہاتھ تھامے کھڑا ہوا اور اپنا دوسرا ہاتھ، اس کے دوسرے ہاتھ کی طرف بڑھایا جیسے تھوڑی جھجھک کے بعد حرم نے تھاما تو حاشر نے اس کو سہارا دے کر کھڑا کیا


حاشر کے آخری جملے سے حرم کے ہاتھ آہستہ آہستہ کانپ رہے تھے جس کو حاشر بخوبی محسوس کر سکتا تھا وہ حرم کا ہاتھ تھامے اسے ڈریسر کے پاس لے کر آیا اس کا ہاتھ چھوڑ کر، ڈریسر کی دراز سے ایک چھوٹی سی ڈبیہ نکالی جس میں وہی رنگ موجود تھی جو علی نے اسے دی تھی جسے مجبوی میں اسے بیچنا پڑا تھا


” یہ رنگ تو “ حرم حیرانگی سے حاشر کی طرف دیکھتی ہوئی اپنی بات ادھوری چھوڑ گئی


” ہاں یہ وہی رنگ ہے اور یہ اس دن سے میرے پاس ہے مگر ایک خوبصورت موقع کی تلاش تھی اور آج سے زیادہ اچھا موقع تو کوٸی ہو نہیں سکتا میری حرم کی کوٸی بھی قیمتی چیز اس سے کیسے جدا ہو سکتی “

حاشر محبت سے اسکے ہاتھ میں وہ رنگ پہناتا بولا


” اور یہ میری خوبصورت اور معصوم سی دلہن کی منہ دیکھاٸی “

حاشر نے اپنے اور حرم کے نام کا خوبصورت سا گولڈ کا پینڈنٹ حرم کو پہناتے ہوۓ کہا


” تھینک یو حاشر بہت خوبصورت ہے “

حرم پینڈنٹ کو چھو کر بولی


باری باری اس کا سارا زیور اتارنے کے بعد حاشر نے وارڈروب سے نائٹ ڈریس نکال کر حرم کو تھمایا


"جاؤ چینج کرکے آؤ"

حاشر اس کے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا

جوکہ یقیناً نائٹ ڈریس کو دیکھ کر سرخ ہوچکا تھا

حرم نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر حاشر کے ہاتھوں نائٹ ڈریس لیا


"آپ کے ہاتھ میں لگی مہندی کا رنگ زیادہ گہرا ہے یا میری محبت کا اس کا اندازہ آپ کو بخوبی صبح تک ہو جائے گا"

وہ اس کی ہتھیلی کو چومتے ہوئے کہنے لگا

حرم ناچاہتے ہوۓ بھی وہ پہنے ڈریسنگ روم میں چلی گٸ تھی


اتنا چھوٹا اور کھلا نائٹ ڈریس وہ کہیں سے بھی اس قابل نہیں تھا کہ اس کو پہن کر روم سے باہر جایا جائے حرم نے تیسری بار دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر واپس ہٹایا

حرم کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نائٹ ڈریس کو کس طرح گھٹنوں سے کھینچ کر نیچے تک لایا جائے کندھوں پر موجود باریک اسٹیپ کو کس طرح پھیلا کر وہ بازوں کو ڈھانکے حرم نے بیچارگی سے سوچا اور دل کو تھوڑا مضبوط کر کے اپنی آنکھیں بند کرتی ہوئی دروازے کا ہینڈل گھمایا


بیڈ روم کے اندر داخل ہونے کے ساتھ ہی اس نے اپنی آنکھیں کھولیں مگر حاشر کو خود کو تکتا پا کر واپس سے اندر چلی گٸ


لیمپ کی مدہم روشنی کمرے کے ماحول خوابناک بنارہی تھی حاشر مسکرا کر آگے بڑھا اور خود کو ڈوپٹے سے کور کر کے کھڑی حرم کو گود میں بھرتا بیڈ تک لے آیا اور بیڈ پر بیٹھا دیا


اس کے ہاتھ پاؤں یخ ہو رہے تھے مگر اس کی وجہ اے۔سی کولنگ ہرگز نہیں تھی حاشر اس کا گھبرانا جھجھکنا نوٹ کر رہا تھا


"ریلیکس جاناں کھا نہیں جاٶں گا بس ہمارے حمزہ کے لیے بہن بھی تو لانی ہے نہ "

وہ اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکتا ہوا کہنے لگا حرم حاشر کی بات پر خود کو ریلیکس تو کیا کرتی مزید نروس ہونے لگی


حرم اس کی سانسوں کی گرمائش اپنی گردن پر محسوس کر کے خود میں سمٹنے لگی اور احتجاجاً حاشر کی شرٹ شولڈر سے پکڑ لی


آگے کی مزید پیش و رفت پر حرم نے مضبوط سے بیڈ شیٹ کو مٹھی میں جکڑ لیا اتنی ہی نرمی سے حاشر نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر اسے ریلیکس کیا اس کا شرمانا جھجھکنا اور خود میں سمٹنا دیکھ کر حاشر نے لیمپ کی مدہم روشنی کو بھی بند کردیا


اب وہ اپنے انداز میں نرمی لائے ہوئے اپنی اس پر محبت کی بارش کر رہا تھا


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


فاٸقہ کی آنکھ صبح سات بجے ہی کھل گٸ تھی کچھ نئی جگہ ہونے کی وجہ سے اسے صحیح سے نیند نہیں آئی تھی ریان گہری نیند میں سو رہا تھا


” یار میں کیا کروں اتنی بھوک لگ رہی ہے اور یہ مزے سے سو رہے ہیں “

فاٸقہ خود سے کہتی بولی


” سوتے ہیں تو سوتے رہیں میں بھی فریش ہو کر باہر جاتی ہوں آنٹی ہی کچھ کھانے کو دے دیں گی “

فاٸقہ اپنے کپڑے نکالتی شاور لینے چلی گٸ


جب وہ شاور لے کر باہر آئی تب بھی ریان مست ہو کر سو رہا تھا فائقہ کو اس پر شدید غصہ آیا وہ بالوں کو ڈرائے کرتی تیار ہونے لگی جب اچانک اس کے ذہن میں ایک شرارت آٸی وہ اپنی میک اپ کی کچھ چیزیں لئے ریان کی طرف بڑھی


ریان کا اچھی طرح میک اپ کرنے کے بعد فاٸقہ نے اس کے بالوں کی تین چار چھوٹی چھوٹی پونیاں کر دی

اپنے کارنامے پر اس کی اپنی ہنسی چھوٹ گئی اور زور زور سے ہنسنے لگیں


ہنسی کی آواز پر ریان کی آنکھ کھلی اپنے سامنے فاٸقہ کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھ اسے آج کی صبح بہت حسین لگ رہی تھی اس حسین صبح کا پہلا ساٸیڈ افیکٹ کچھ ہی دیر میں اسے ملنے والا تھا جس سے وہ بے خبر تھا

ریان نے فاٸقہ کا ہاتھ کھینچ کر اسے اپنے اوپر گرایا


” گڈ مارننگ ماۓ لونگ واٸفی “

ریان فاٸقہ کی کان کی لو کو دانتوں سے کاٹتا بولا تو وہ سسکاری بھر کر رہ گٸ

جب اچانک دروازے پر دستک ہونے پر فاٸقہ اس کے اوپر سے اٹھی ریان نے جا کر دروازہ کھولا


” بھاٸی یہ یہ کیا “

دروازہ کھولتے ہی اس کی نظر سارہ اور حرم پر پڑی جو ریان کو دیکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی پیچھے کمرے میں بیٹھی فاٸقہ کا بھی یہی حال تھا


” کیا اتنا کیوں ہنس رہے سب “

ریان نے حیرانگی سے ان تینوں کو دیکھ کر کہا


” جاٸیں ریان بھاٸی جا کر اپنی بیگم کی پہلی صبح کا کارنامہ دیکھیں آٸینے میں “

حرم کے کہنے پر ریان نے خود کو آٸینے میں دیکھا تو وہ ہکا بکا رہ گیا


” فاٸقہ یہ کیا ہے “

ریان صدمے کی کیفیت میں بولا


” آپ کی بیگم ہے سب مہان

یور لو یور جان “

فاٸقہ ریان کو کہہ کر انگوٹھا دیکھاتی کمرے سے بھاگ گٸ


” اس لڑکی کا کچھ نہیں ہو سکتا میرے اللہ میری حفاظت فرماٸیے گا “

ریان بے چارگی سے کہتا ہنس پڑا


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

پنک کلر کی سینڈریلا فراک پہنے ریان کے ساتھ انٹر ہوتی فاٸقہ بہت خوش اور پیاری لگ رہی تھی دونوں کی جوڑی چاند سورج کی جوڑی کی طرح چمک رہی تھی خوشی اور سکون فاٸقہ اور ریان دونوں کے چہرے پر صاف ظاہر تھا

” انکل پیاری پیاری پکچرز اور مووی بنایے گا تا کہ میرے بچے دیکھ کر کہیں مما کتنی کیوٹ ہماری “

فاٸقہ فوٹو سیشن کے درمیان مسلسل بول رہی تھی

” میم آپ پلیز دو منٹ چپ کر جاٸیں ورنہ ہر پک میں آپ کے فیس ایکسپریشن عجیب لگیں گے “

ایک لڑکا ریکویسٹ کرنے کے انداز میں بولا توفاٸقہ کا منہ بسورتے ہوئے چپ کر کے بیٹھ گئے تھے

” لیڈیز اینڈ جینٹل مینز یہ سونگ میری کیوٹ سی سویٹ سی واٸف کے نام “

ریان کی آواز پر سب اسکی طرف متوجہ ہوۓ

ہمنوا میرے تو ہے تو میری سانسیں چلیں

بتا دے کیسے میں جیوں گا تیرے بنا 

ہمنوا میرے تو ہے تو میری سانسیں چلیں

بتا دے کیسے میں جیوں گا تیرے بنا 

ریان فاٸقہ کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کھڑا کرتا گانے کے بول گنگنانا شروع ہوا

ہر وقت دل کو جو ستاۓ 

ایسی کمی ہے تو 

میں بھی نا جانوں یہ کہ 

اتنا کیوں لازمی ہے تو 

نیند جا کے نا لوٹی 

کتنی راتیں دھل گٸ 

اتنے تارے گنے کہ 

انگلیاں بھی جل گٸ 

ریان فاٸقہ کو آنکھوں میں بھرتے ہوۓ گانے لگا

ریان کی آواز میں جادو تھا واقعی ہمیشہ کی طرح آج بھی اس نے ایک سما باندھ دیا تھا وہاں کھڑی ہر لڑکی فاٸقہ کی قسمت پر رشک کر رہی تھی جسے اتنا پیارا ہینڈسم اور چاہنے والا ہمسفر ملا تھا

ہمنوا میرے تو ہے تو میری سانسیں چلیں 

بتا دے کیسے میں جیوں گا تیرے بنا 

ہمنوا میرے تو ہے تو میری سانسیں چلیں

بتا دے کیسے میں جیوں گا تیرے بنا 

ریان فاٸقہ کا ہاتھ پکڑے اسے گول گول گھماتے ہوا گانا گنگنا رہا تھا سب نے زور و شور سے تالیاں بجاٸی

” ہمنوا میرے تو ہمیشہ میرے ساتھ رہے “

فاٸقہ نے ریان کے کان کے پاس سرگوشی کرتے ہوۓ کہا

کیمرے کی آنکھ نے اس منظر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ

کرلیا

حاشر بھی حرم کے گرد بازو حاٸل کیے کھڑا تھا اور اسکی گود میں حمزہ کھیل رہا تھا حرم کے چہرے کے رنگ حاشر کی محبت کا ثبوت دے رہے تھے

” ہمنوا میرے تو میری زندگی میں شامل رہے “

حرم نے حاشر کے شولڈر پر سر ٹکا کر کہا تو حاشر نے اس کی پیشانی پر لب رکھ دیے

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Humnava Mere Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Humnava Mere  written by Saba Naveed .Humnava Mere  by Saba Naveed is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment