Pages

Friday 23 August 2024

Sulagti Mohabbat By Aiman Raza New Complete Romantic Novel

Sulagti Mohabbat By Aiman Raza New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sulagti Mohabbat By Aiman Raza Complete Romantic Novel 

Novel Name Sulagti Mohabbat

Writer Name: Aiman Raza

Category: Complete Novel

"او ماڑا ہم کو رنگ برنگا چوڑیاں بوت پسند ھے

وہ جو اپنی امی کے لیے گاؤں میں لگنے والے سالانا میلے سے شال لینے آیا تھا سنفِ نازک کے مردانہ ٹچ کے ساتھ بولی جانے والی گلابی اردو سنتے اسنے اپنا قہقہ بمشکل ضبط کیا..

"او ماڑا ہم کو انکا کھنک بوت بھاتا ہے دیکھو تو کتنا اچھا لگ رہا ہے مارے ہاتھوں پر"...

اس لڑکی نے اپنی سفید ملائی جیسی کلائیوں میں پہنی چوڑیاں چھنکا کے دکھائیں جو پیچھے کھڑے شخص کے دل کے تار ہلا گئیں تھیں...

اس شخص کے دل میں اس مسٹر پٹھانی کو دیکھنے کی چاہ جاگی جس پر اسنے لبیک کہتے ہوئے فوراً مڑ کے دیکھا جہاں ایک لڑکی گہرے نیلے رنگ کا پٹھانی فراک پہنے سر پر دپٹہ پیچھے کے طرف گرائے دونوںرنگ برنگی  چوڑیوں سے بھرے ہاتھ چہرے کے سامنے کیے ہلا رہی تھی...

جس سے اسکا من موہنا چہرہ چھپ گیا تھا اور اس شخص کے دل کو اس دلربا کا چہرہ دیکھنے کی بےچینی ہوئی تھی....

تبھی اس دلربا نے اپنے حسین چہرے سے ہاتھ ہٹانے شروع کیے سب سے پہلے اسکی چاندنی سے چمک لی ہوئی آنکھیں نمودار ہوئیں جسے دیکھ کر اس شخص کے دل نے ان آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنے کی خواہش شدت سے پکڑی اسکے بعد ہاتھ اور نیچے گئے تو اسکی ناک میں پہنی گئی ہیرے کی نتھ نے اسکی توجہ کھینچی دل اس نتھ کو چھونے کے لیے مچل گیا اور پھر ہاتھ مکمل ہٹے تو اسکے گلاب کی پنکھڑی جیسے نازک لبوں نے اسکے دل میں کہرام مچا دیا .

اگر اسے دنیا کا حسین شاہکار کہا جائے تو تم نا ہو گا..

اس شخص کا دل تو اسکی آنکھیں دیکھ کر ہی گرویدہ ہو گیا تھا کجا کہ اب پورا چہرہ دیکھنے سے اس میں اپنا کچھ رہا ہی کہاں تھا سب اس پری پیکر کا ہو چکا تھا...

زماڑا (خانہ خراب) تم ہم کو کیوں گھر رہا ہے تمہارے گھر ماں بہن نہیں اس لڑکی کی جب اس پر نظر پڑی تو فوراً آگے ہوتے گھورتے ہوئے پوچھا...

دو منٹ کے لیے تو وہ بھی گڑبڑا گیا....

ہے نا ماں بہن تو ہے مگر بیگم نہیں ہے اس نے شوخ لہجے میں کہا جو اس پری پیکر کے اوپر سے گزر گیا ...

خانہ خراب کا بچہ سیدھا سیدھا بات کرو ہم کو الٹا بات سننے کا عادت نہیں ہم پٹھان ہے پٹھان اس لڑکی نے فخر سے اپنے سینے پر دستک دیتے کہا....

اسکی اس ادا پر تو وہ شخص گرنے والا ہو گیا پہلی محبت کا سنا تو تھا مگر وہ بھی اسکا شکار ہو گا یہ آج پتا چلا تھا....

"تم پھر ہم کو ان ٹچ بٹنوں سے گھور رہا ہے ہم بتا رہا ہے ہم انکو نکال کے بنٹے کھیلے گا" وہ آگے ہو کر اس ہر جھپٹی تو اسکی ہم جولیوں نے فوراً اسکو بازوؤں سے تھاما اور وہ ایک دم پیچھے ہوا کہ کہیں وہ واقعی اسکی آنکھیں نا نکال دے اور وہ ہمیشہ کے لیے اس پری پیکر کو دیکھنے سے محروم نا رہ جائے ابھی تو اسنے محبت کا زائقہ چکھا تھا اور اس سے زرا سی دوری پر بھی دل آمادہ نہیں تھا وہ پل میں وہاں سے غائب ہوا تھا اور وہ لڑکی ہاتھ ملتے رہ گئی ....

وہ بس ایک ملاقات میں اسکا نام ہی جان پایا تھا ...

وفا..

وفا خان اسنے زیرِ لب نام دہرایا....اور دہراتا گیا..

اسکے محبوب کا نام اسے کیوں نا بھاتا...

                  ************

وہ اپنی دوستوں کے ساتھ ساتھ والے گاؤں کے باغ میں آئی تھی. یہ باغ اتنا حسین تھا کہ وہ چاروں لڑکیاں اکیلے اپنے گاؤں کی سرحد پار کر کے اس بڑے سے عالیشان باغیچے میں آئیں تھیں وجہ اسکی خوبصورتی تھی. یہ باغ تین ایکڑ زمین پر پھیلا تھا جہاں ہر قسم کے پھل تھے جو بیرونی ملک سے منگوائے گئے تھے اور ہر قسم کے رنگ برنگے خوبصورت پھول اس باغ کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے.

اس باغ میں برگد کے موٹے درخت سے سفید پھولوں کا بڑا جھولا لٹک رہا تھا جس پر اس وقت وہ پری وش بیٹھی کھلکھلا رہی تھی اور اسکی دوستیں اسے جھولا جھلا رہی تھیں.

وہ چاروں اس وقت نقاب میں تھیں جن کی بس آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں...

او ہو آج تو پریاں باغ میں اتر آئی ہیں دو لوفر لڑکے انکے گرد چکر لگاتے ہوئے بولے تو وہ فوراً جھولے سے نیچے اتری...

یہ کیا بدتمیزی ہے کیسا بے غیرت مرد ہے تم اگر ہمیں پتا ہوتا کہ یہاں کا مرد ایسا ذلیل ہے تو ہم کبھی یہاں نا آتا...

 آئے ہائے کیا انداز ہے یار یہ تو مجھے تیکھی مرچ لگ رہی ہے دوسرے لڑکے نے پہلے لڑکے کے ہاتھ پر تالی مارتے ہوئے کہا...

 مزہ تو چکھ کے ہی آئے گا اس سے پہلے کے وہ لڑکا آگے بڑھتا کسی کی دھاڑ نے اسکے قدم ہی روک دیے....

کیا ہو رہا ہے یہاں....

سب نے پلٹ کر دیکھا تو ایک نوجوان سفید شلوار میں کندھوں پر مردانہ شال لیے ہلکی ہلکی مونچھوں میں بلکل وڈیرا لگ رہا تھا.. اس نوجوان کو دیکھ کر دونوں لڑکے ادب سے کھڑے ہو گئے....

اس نوجوان نے نیلی آنکھوں والی لڑکی کو دیکھا جو اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی ان نیلی آنکھوں میں دیکھ کر اس نوجوان کو لگا کہ وہ ان میں ڈوب جائے گا اس لیے فوراً سے بیشتر نظریں ہٹائیں....

 کیا بات ہے محترمہ آپ ہمارے باغ میں کیا کر رہی ہیں اس نوجوان نے تمیز سے دریافت کیا...

 ہم تو یہاں اس خوبصورت باغ کی خوبصورتی کو دیکھتا ہوا اندر آ گیا تھا مگر ہمیں کیا پتا تھا کہ اس گاؤں کا لوگ نہایت چھچھورا ہیں....

 اس لڑکی نے تنفر سے کہا...

 اس کی بات پر اس نوجوان نے دونوں لڑکوں کو کڑی نگاہوں سے دیکھا...

 یہ میں کیا سن رہا ہوں کیا ہمارے گاؤں کے اصول نہیں پتا تم دونوں کو.. 

کرمو لے جاو ان دونوں کو اور سخت سے سخت سزا دو تاکہ یہ کسی بھی لڑکی کی طرف نظر اٹھا کے نہ دیکھ سکیں اس نے دھاڑ کر کہا جس پر کرمو بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا اور ان دونوں کو گھسیٹتے ہوئے لے گیا جب کہ وہ دونوں معافیاں مانگتے رہے مگر اس نوجوان کی نظر میں رحم نظر نہ آیا... وہ جیسے ہی پیچھے مڑ اس لڑکی سے مخاطب ہونے لگا تو وہاں خالی جگہ دیکھ کر حیران رہ گیا اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر کوئی نظر نہ آیا وہ اس سنہری موقعے کے ہاتھ سے نکل جانے پر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا...

وہ نیلی دلربا آنکھیں اس کے ذہن میں بیٹھ گئی تھیں...

           ***************

" ارے او لالے کی جان کیسا ہے تم "

وفا جو حویلی میں غصے سے بھری داخل ہوئی تھی اپنے جڑواں بھائی زریاب کو دیکھتے ہی اس کا غصہ اڑن چھو ہو گیا تھا اور وہ اس کے گلے جا لگی تھی۔۔۔

 زریاب نے وفا کے پیار سے گلے لگنے پر دونوں ہاتھ اس کے اطراف میں مائل کیے اور اسے سینے سے لگایا ۔۔۔

کل کائنات تھی وہ اس کی ایک لاڈلی بہن جس کا ہر نخرہ وہ سر آنکھوں پر رکھتا تھا۔۔۔۔

 باقی سب تو ٹھیک ہے وکیل صاحبہ مگر یہ آپ اپنی گلابی اردو کب درست کریں گی زریاب نے اس کی اردو کی ٹانگیں توڑنے پر مذاق اڑایا جس پر وہ منہ پھلا کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

 لالے کی جان یہ مت بھولو کہ تم صرف ہم سے پانچ منٹ بڑا ہے وفا نے اسے آنکھیں دکھاتے کہا جس پر زریاب نے بمشکل اپنی مسکراہٹ سے ضبط کی۔۔۔

 ہم تو بس بہانا ہے خوشی تو کسی اور چیز کا ہے تمہیں۔۔۔

 وفا نے آنکھیں نچاتے کہا تو زریاب نے اسے نہ سمجھی سے دیکھا۔۔۔

 تم بھابھی سے بات کرنا چاہتا ہے اس لیے ہمارے ارد گرد منڈلا رہا ہے وفا نے آنکھ میچ کر شرارت سے کہا تو وہ اسکے پیچھے لپکا جب کہ وہ کھکھلاتی ہوئی اوپر بھاگ گئی۔۔۔۔

 نیچے آؤ پھر بتاتا ہوں تمہیں زریاب نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔

 ہم بھابی کو شادی سے پہلے ہی تمہارے خلاف کردے گا پھر ہم دیکھتا ہے تم کیا کرتا ہے۔۔۔

وفا نے پھر سر نکال کر جھانکتے ہوئے کہا لیکن اب کی بار زریاب کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ وہ گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہوئی تھی پیچھے زریاب اپنی بہن کی مردانہ ٹچ والی اردو پر مسکرا کر رہ گیا وہ جانتا تھا کہ اس کی آنے والی بیوی سے اس کی بہن ابھی سے بہت پیار کرنے لگی ہے۔۔۔۔

خان حویلی میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔۔۔ ملازم یہاں سے وہاں انتظام کی بھاگ دوڑ سنبھال رہے تھے۔۔۔۔

خان حویلی کہ تین پورشن تھے جن میں تین بھائی ابراھیم صاحب اور انکی بیوی نائمہ, ان سے چھوٹے ثاقب صاحب اپنی بیوی شہناز اور سب سے جھوٹے ناصر صاحب اپنی بیوی عصمت کے ساتھ رہتے تھے۔ ابراھیم صاحب کا ایک بیٹا اسفندیار اور اس سے دو سال چھوٹی بیٹی نور تھی۔ ثاقب صاحب کا ایک بیٹا مومن اور چھوٹی بیٹی سحر تھی جو گھر بھر کی لاڈلی تھی ۔ اسفندیار اور مومن ہم عمر تھے کیونکہ ثاقب اور ابراھیم صاحب کی شادی اکٹھی ہی ہوئی تھی۔ مومن اور سحر کی ایک سوتیلی بہن اجالا بھی تھی جو اپنی ماں کی وفات کے بعد سے انکے ساتھ ہی رہتی تھی ۔ناصر صاحب کا ایک بیٹا عمر اور دو بیٹیاں نازیہ اور شازیہ تھیں عمر اپنی بہنوں کی نسبت ہنس مکھ تھا جبکہ وہ دونوں ہمیشہ نک چڑی رہتی تھیں۔۔۔

 کل خان حویلی کی لاڈلی بیٹی سحر کی مہندی تھی۔۔۔

 جبکہ اس کا بھائی مومن  حویلی کے لاؤنج میں اپنا سامان باندھے کھڑا تھا۔۔۔

 بیٹا تم کیوں جا رہے ہو تمہاری بہن کی شادی ہے کیا جانا ضروری ہے۔۔

 شہناز بیگم نے اپنے خوبصورت بیٹے کی آنکھوں ہی آنکھوں میں نظر اتارتے ہوئے پوچھا۔۔۔

 جی اماں جان اگر میرا امتحان نہ ہوتا تو میں کبھی نہ جاتا میرا اور اسفندیار کا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ ہمارا آنے والا مستقبل انہی امتحانوں پر منحصر ہے۔۔۔

 اور پھر مومن اپنی بہن کے سر پر پیار دیے ان سب کو الوداع کر اسفندیار کے ساتھ کینیڈا جا چکا تھا۔۔۔

           *************

اسفند یار اور مومن پیپر دے کر باہر آیے تو مومن کے فون پر رنگ ٹون بجی۔۔۔ پندرہ بیس تصویریں اکٹھی ہی مومن کے فون پر آئیں تھیں جو یقیناً سحر کی مہندی کی ہی تھیں۔ ان تصویروں میں زریاب کی بھی تصویریں تھیں مومن پہلے بھی زریاب سے ایک دو دفعہ مل چکا تھا اور اسے وہ بہت پسند آیا تھا تب ہی جا کر یہ رشتہ منظور ہوا تھا۔۔۔

 مومن تصویریں آگے کر رہا تھا جب اسفندیار کے کہنے پر وہ ایک تصویر پر رکھا۔۔۔

 ایک منٹ رکو مومن مجھے یہ تصویر دیکھنی ہے۔۔۔ مومن نے آرام سے موبائل اس کے ہاتھ میں تھما دیا جس میں سحر کے ساتھ اور بھی کئی لڑکیاں موجود تھیں جن میں سے ایک لڑکی کا دوپٹا اس کی آنکھیں ڈھانپ رہا تھا مگر اس کے ہونٹ اور ناک میں لگی ہیرے کی نتھ نظر آ رہی تھی .جن پر اسفندیار ٹھٹکا وہی ہونٹ وہی تیکھی ناک اور اس میں چمکتی وہی نتھ یہ محض شک نہیں بلکہ  یقیناً وہی تھی۔۔۔

 مگر وہ سمجھ نہ سکا کہ اس حسینہ کا یہاں کیا کام اور نا سمجھی کہ انداز میں مومن کو اس کا فون واپس تھما دیا مگر وہ تصویر اپنے فون پر سینڈ کرنا نہ بھولا۔۔

 اسے اب بھی یاد تھا کہ آنے سے پہلے وہ اس کے گھر رشتہ بھجوا آیا تھا اب اس کا جواب مثبت آتا یا نہیں یہ تو ان ہی پر منحصر تھا۔۔۔۔۔

               *********

شادی کی رات جب زریاب اندر آیا تو سحر کو اپنا انتظار کرتا پایا ۔ اسکے حنائی ہاتھ زریاب کا دل دھڑکا گئے تھے جبکہ زریاب کی آمد سے سحر کے دل کی رفتار تیز ہو چکی تھی۔

زریاب نے بیڈ پر بیٹھنے کے ساتھ سلام کیا جس کا جواب سحر نے نازک سی آواز میں دیا جو بمشکل ہی زریاب سن پایا۔

جب زریاب نے سحر کا گھونگٹ اٹھایا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ اسکے منہ سے بےساختہ ماشااللّٰہ نکلا تھا۔۔۔

جبکہ سحر کی گھنی پلکیں شرم سے کپکپانے لگیں۔۔۔

زریاب نے آگے بڑھ کر اسکا ٹھنڈا پڑتا حنائی ہاتھ پکڑا اور دھیرے سے چوم لیا۔۔۔۔

ریلکس سحر گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ میری ہمسفر ہیں مجھ پر یقین کر سکتی ہیں۔۔سحر اسکی بات پر ریلیکس ہو کر بیٹھی اور سر ہلا دیا۔۔۔

آپ کے یہاں جواب دینے کا رواج نہیں جو بار بار سر ہلا رہی ہیں زریاب نے شرارت سے کہا تو وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی جس پر زریاب قہقہ لگاتا ہنس دیا آپ نے تو ابھی سے بیویوں والے کام شروع کر دیے زریاب نے اسکے گھورنے کی طرف اشارہ کرتے کہا تو وہ خجل ہوتی سر جھکا گئی۔۔۔

سحر آپ میری شریکِ حیات ہیں میری روح, میں چاہتا ہوں آپ میرے گھر والوں سے ویسی ہی محبت کریں جیسے میں کرتا ہوں اور خاص کر وفا ,کوشش کی جیے گا اسے آپ کی زات سے کوئی تکلیف نا پہنچے اسے بہت پیار کی جیے گا کیونکہ وہ بھی آپ کو بہت چاہتی ہے۔ وہ دل ہے میرا میں جانتا ہوں کہ ہم جڑواں ہیں مگر پھر بھی میں اسکو بڑے بھائیوں کی طرح پیار کرتا ہوں اور وہ بھی مجھے بڑے بھائیوں والا ہی مان دیتی ہے۔ زریاب کی آنکھوں میں وفا کا زکر کرتے ہوئے ہلکی نمی کے ساتھ بےپناہ محبت تھی۔۔۔۔۔

سحر نے وفا پر رشک کیا جسکا بھائی اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔۔۔

میں کوشش کروں گی کہ اپکا دل کبھی روٹھنے نا دوں میں آپ کے دل کو خود سے زیادہ سمبھال کر رکھوں گی اسنے خالص جزبے سے کہا۔۔۔سحر کا اشارہ زریاب کے دل(وفا) کی طرف تھا۔۔۔

سحر کی آنکھوں میں سچے جزبے دیکھ زریاب دل و جان سے مسکرا دیا۔۔۔۔

میں شکر گزار ہوں محترمہ زریاب نے ایک ہاتھ پیٹ پر رکھ کر زرا جھکتے ہوئے کہا تو سحر کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔

جبکہ زریاب نے اسکو محبت سے اپنی پناہوں میں سمیٹ لیا اور اسکے پور پور کو اپنی محبت اور جزبوں سے معتبر کرنے لگا۔۔۔

چاند ان دونوں کے ملن پر مسکرا دیا۔۔۔۔

               *************

اسفندیار انتظار ہی کرتا رہ گیا مگر نہ اس پری وش کی کوئی دوسری تصویر ملی نہ ہی وہ اسے کہیں دکھی۔ شاید صرف اسکی ایک ہی تصویر تھی ۔ وہ بےچین ہی رہا اسکا دل جانتا تھا وہ وہی تھی مگر وہ انکے گھر کیوں آئی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اسکی والدہ بات کر آئی ہیں مگر وہ اس سے انجان تھی ۔۔۔

اسفند اس بارے میں اپنی ماں سے بات کرنے کا سوچ چکا تھا مگر اسے پیپرز کی وجہ سے وقت نا ملا اور ایک ماہ پلک جھپکتے گزر گیا۔۔۔

                **************

دوسری طرف مومن کو وہ سمندری آنکھیں بھولتی نہیں تھیں جنہوں نے اسکے دن کا سکون اور رات کی نیند چرا لی تھی۔ اسنے سوچ لیا تھا کہ پاکستان جاتے ہی وہ پہلا کام اس لڑکی کو ڈھونڈنے کا کرے گا۔۔۔

بہت جلد میں تمہارے پاس ہوں گا اسنے بند آنکھوں میں چھائی اس نقاب والی لڑکی سے مخاطب ہوتے کہا۔۔۔۔

                  *************

اس ایک ماہ میں وفا اور سحر کی گہری دوستی ہو گئی تھی۔ سحر جان چھڑکنے لگی تھی اس پر۔ زریاب کو مل کر تنگ کرنا انکا معمول بن چکا تھا۔۔۔

پہلے شرارتوں میں بس وفا ہوتی تھی مگر اب سحر اسکی ساتھی بن چکی تھی۔۔۔

ہر روز وہ کچن میں گھس کر کوئی نت نئے ایکسپیریمنٹ کرتیں اور سب سے پہلے زریاب پر ایپلائی کرتیں۔۔ اور وہ بےچارہ دہائیاں دیتا رہ جاتا۔۔۔۔

زریاب بھی روز کام سے آ کر ان دونوں کو باہر گھمانے لے جاتا۔۔۔

وہ سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے جب وفا کے جانے کا وقت آ گیا۔۔۔

وفا ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کینیڈا جا رہی تھی اسکے بابا اور ماما نے لاکھ سمجھایا مگر اسکی ایک ہی رٹ تھی کہ وہ باہر سے ہی ڈگری کمپلیٹ کرے گی۔۔

جس میں زریاب نے اسکا بھرہور ساتھ دیا تھا۔۔۔

اب جانے کے وقت اسکے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے جو وہ سحر کے گلے لگ کے بہا رہی تھی جبکہ سحر بھی بچوں کو ہیچھے چھوڑے رونے کا ریکارڈ لگا رہی تھی۔۔۔اور زریاب ان دونوں کو گھور رہا تھا جو لوگوں کی پرواہ کیے بچڑی ہوئی بہنوں کی طرح گلے لگی ہوئی تھیں۔۔۔

اب بس بھی کرو یار تم تو ایسے رو رہی ہو جیسے تمہاری رخصتی ہے وفا نے کلس کر زریاب کو دیکھا۔۔۔

لالہ امارے متھے مت لگو ام کو غصہ آ جائے گا وہ روتی آنکھوں سے ناک پھلا کر بولی تو سب ہنس دیے زریاب نے ہنستے ہوئے اسے گلے سے لگایا اور اسکا ماتھا چوما میری جان کبھی بھی تمہیں لگے کہ تمہیں میری ضرورت ہے بس ایک بار پکارنا میں آ جاؤں گا زریاب نے پیار سے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تو وفا کا دل کیا اپنے بھائی کی چھاؤں میں چھپی رہے۔۔۔

تم بوت اچھا ہے لالے کی جان وفا نے چمکتی آنکھوں سے زریاب کو کہا۔۔۔

تو زریاب نے شرارت سے اس سے پوچھا ۔۔۔ اچھااا تو تم میرے لیے کیا کر سکتی ہو۔۔۔زریاب کو شرارت سوجھی تو اسنے لگے ہاتھوں پوچھ لیا۔۔ جبکہ سب اسکو گھورنے لگے اور وہ کندھے اچکا کر رہ گیا۔۔۔

وفا نے دو پل کو اسے دیکھا اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

اگر ام کو تمہارے لیے اپنا جان بھی گروی رکھنا پڑا تو ام اپنا جان بھی خوشی خوشی دے دے گا اور اف تک نہیں کرے گا یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں چٹانوں جیسی مضبوطی تھی جسے دیکھ سب ہی گھر والے ششدر رہ گئے۔۔۔

کون جانتا تھا اسکے یہ الفاظ حقیقت کا روپ دھار لیں گے اب ان میں کتنی سچائی تھی یہ تو وقت نے بتانا تھا۔۔۔

اور زریاب اسے دیکھتا ہی رہ گیا جو اس سے پیار کی انتہا کر بیٹھی تھی زریاب کا دل کیا اسے سینے میں چھپا لے اور کہیں جانے نا دے۔۔۔

لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکا جہاز اڑام بھر چکا تھا۔۔۔    

وفا آ کر ابھی اپنی سیٹ پر بیٹھی ہی تھی کہ ساتھ والی لڑکی بول پڑی۔۔۔

میرا نام عیشل ہے اور پیار سے مجھے سب عیش بلاتے ہیں اپکا نام کیا ہے۔۔

وفا نے مڑ کر اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا جو جینز شرٹ میں سلکی کالے بال دونوں اطراف پھلائے بہت خوبصورت لگ رہی تھی جبکہ وفا اسکے مقابلے میں کرتا شلوار پر حجاب لپیٹے باوقار لگ رہی تھی۔۔۔

امارا نام لالہ رخ خان ہے۔۔۔

واوو یار تم کتنی کیوٹ ہو اور کتنا پیارا بولتی ہو اس لڑکی نے وفا کے قدرتی سرخ و سفید پھولے پھولے گال کھینچتے ہوئے کہا تو وفا خوامخوا شرما گئی۔۔۔۔

تم کینیڈا میں کہاں جا رہی ہو۔۔۔

ٹورنٹو میں ایل ایل بی کا لاسٹ ائیر کرکے ڈگری لینا ہے بس۔۔۔۔

وفا کا کہنا تھا کہ وہ جھٹ بولی۔۔۔ملاؤ ہاتھ میں بھی اسی یونی میں پڑھتی ہوں خوب جمے گی ہماری جب مل بیٹھیں گی دو دیوانیاں عیشل نے سر دھنتے کہا تو وفا کھلکھلا کر ہنس دی جبکہ عیش فدا فدا نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو سادگی میں بھی قیامت کی ادا رکھتی تھی۔۔۔۔

                 *************

جب وہ جہاز سے باہر آئی تو یخ بستہ ہواؤں نے اسکا استقبال کیا ۔۔۔

او ماڑا ویلکم می ٹورنٹو وفا نے دونوں بازو کھولتے ہوئے چہک کر کہا تو پیچھے آتی عیشل اسکے پٹھانی انداز پر ہنس دی۔۔۔

انکا سٹے ایک ہی ہوسٹل میں تھا وہ دونوں ہوسٹل کے کمرے میں جاتے ہی ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں اور پھر کیا تھا دونوں دھڑام سے بیڈ پر گریں اور سو گئیں لمبی فلائٹ نے انہیں تھکا دیا تھا اس لیے پھر انہیں کسی چیز کی ہوش نہ رہی۔۔۔۔

              ***************

وفا جب عیشل کے ساتھ یونیورسٹی میں داخل ہوئی تو بلند عمارت اور اسکی خوبصورتی دیکھ دنگ رہ گئی۔۔۔۔

اوئے ماڑا اتنا بڑا یونیورسٹی یہ تو ہماری چار یونیوسٹیوں کا برابر ہے وفا نے حیرت سے منہ کھولتے کہا جبکہ عیشل اسکی معصومیت پر مسکرا دی۔۔۔

رخ یار تم کتنی سویٹ ہو دل کرتا ہے تمہیں کھا جاؤں عیشل نے اسکا گال کھینچتے کہا تو وہ اسکو گھور کر رہ گئی۔۔۔

کیوں ماڑا ام کوئی لڈو یا برفی ہے جو تم ام کو کھائے گا۔۔۔۔

اسنے ہاتھ نچاتے کہا تو ۔۔۔۔

ہاں تم میری برفی ہو رخ بلکل گوری چٹی برفی عیشل کی بات پر وفا اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگی جو اسے فدا فدا نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

یار ایک بات تو بتاؤ تمہارے ڈاکومینٹس پر تو تمہارا نام وفا لکھا ہے پھر تم نے مجھے لالہ رخ کیوں بتایا۔۔۔۔۔

او ماڑا وہ تو امارا بھائی ام کو وفا بلاتا ہے اور بابا کو لالہ رخ نام پسند تھی اس لیے انہوں نے امارا ڈاکومینٹس میں نام لالہ رخ رکھوائی۔۔

لیکن میں تمہیں رخ ہی بلاوں گی سویٹ سا لگتا ہے اور یار زرا اپنے بھائی کے بارے میں تو بتاؤ وہ بھی تمہاری طرح پیارا ہی ہوگا زرا سیٹنگ ہی کرا دو عیشل نے آنکھ مارتے کہا تو وہ اسے کڑے تیوروں سے دیکھنے لگی۔۔۔

ام ابھی اسکا شادی ہی کروا کر آ رہا ہے۔۔۔

ارے پھر تو گئی بھینس پانی میں۔۔۔

عیشل کو افسوس ہوا۔۔۔۔

چلو تمہارا بھائی تو نہیں پٹا یونیورسٹی دیکھنے کے بہانے ہی کوئی گورا منڈا پٹ جائے گا عیشل نے اپنے اپ کو تھپکی دیتے کہا تو وفا نفی میں سر ہلا گئی کہ اسکا کچھ نہیں ہو سکتا پھر کیا تھا ان دونوں نے وہ دن اس بلند یونی کی خاک چھانتے او سوری مطلب گھومتے ہوئے گزارا۔۔۔۔

                  *************

اسفندیار اور مومن گراؤنڈ میں بیٹھے اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کر رہے تھے جب اسفندیار کو گمان گزرا کہ اسنے وفا کو دیکھا ہے اسنے سر جھٹک کر پھر دیکھا جب اسے پلر کے پیچھے کسی لڑکی کی چادر کا پلو نظر آیا ۔ دیارِ غیر میں چادر عجیب بات تھی۔اس سے پہلے کے وہ دیکھنے اٹھتا کہ وہ وفا تھی کہ نہیں مومن نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔

کیا بات ہے اسفند۔۔۔۔

کچھ نہیں میں ابھی آیا اسفندیار مومن کی طرف دیکھ کر دوستوں سے اکسکیوز کرتا اس جانب آیا مگر اب نا وہاں کوئی وجود تھا نہ پلو۔۔۔

کیا وہ وہی تھی دل سے آواز آئی۔۔۔مگر وہ یہاں کیا کرنے آئے گی دماغ نے دل کی بات کو رد کیا۔۔۔

اور وہ چند لمحے وہیں کھڑا محسوس کرتا رہا کہ وہ یہاں تھی بھی کے نہیں۔۔۔۔

                ***************

اگلے دن عیشل کو کچھ کتابیں لینی تھیں تو وہ وفا کو تھوڑی دیر گراؤنڈ میں رکنے کا کہہ کر خود کے لیے کتابیں لینے لائبریری چلی گئی جب اس نے ایک جگہ لوگوں کا مجمع دیکھا تو وہ بھی تجسس کے مارے آگے بڑھ کر دیکھنے لگی جہاں ایک گوری لڑکی اپنے گھٹنے کے بل بیٹھی ہاتھ میں گلاب لیے لڑکے کے آگے بیٹھی تھی اور تعجب کی بات لڑکے کا شلوار قمیض میں ہونا تھا۔۔۔

 Will you be my boyfriend?

 اس لڑکی نے مغروریت سے کہا وہ مغرور ہوتی بھی کیوں نہ اس لڑکے کے لئے تو  ساری یونی کی لڑکیوں کا دل دھڑکتا تھا ہر کوئی اس لڑکے کے آگے بچھنے کو تیار تھیں مگر یہ لڑکا کسی لڑکی کی طرف دیکھنا بھی اپنی توہین سمجھتا تھا۔۔۔

سارا مجمع یس یس کی آوازیں لگانے لگا۔۔۔۔

 وہ لڑکی بھی پر امید تھی کہ پوری یونی کے سامنے تو وہ مومن انکار کرنے سے رہا اور وہ انکار کرتا ہی کیوں وہ کوئی عام لڑکی تھوڑی تھی وہ تو اس یونیورسٹی کی سب سے ہاٹ لڑکی روزی تھی۔۔۔۔

 "نو"

 اس کے ایک لفظ سے پوری یونی میں خاموشی چھا گئی۔ سارے حیران کن نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے اور روزی کا چہرہ توہین سے سرخ پڑ چکا تھا۔ کب اسے کسی نے انکار کیا تھا جو یہ لڑکا اسے اس کی اوقات دکھا گیا تھا اور وہ پورے مجمع میں شرمندہ ہو کر رہ گئی تھی مگر اسے یہ کون بتاتا شرمندہ اسے اس لڑکے کے انکار پر نہیں بلکہ اپنی حرکت پر ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔

 ہمارے مذہب میں عورتوں کا ایک مقام ہے اور انہیں مردوں کے قدموں میں جھکانا نہیں بلکہ ان کی عزت سمجھا جاتا ہے اور میرے نزدیک ایک لڑکی کو اپنی عزت کی حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ اپنی عزت کا اشتہار سرِ بازار لگاتے رہنا چاہیے۔۔۔

 اس نے سرد مگر شائستہ انگریزی میں یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی جب کہ وفا کے دل میں اس کے الفاظ گھر کر گئے اسے ایسے ہی مرد پسند تھے جو اپنی عورتوں کی عزت کرنا جانتے ہو اور انہیں مقام دلانا بھی۔۔۔

 اس کی بات ختم ہوتے ہی وفا نے تالیاں بجانا شروع کردی جس کی دیکھا دیکھی سب بھی تالیاں بجانے لگے اور اسکی بات کو سراہنے لگے جن میں زیادہ مسلمان شامل تھے۔ روزی  تن فن کرتی ہوئی وہاں سے گزر گئی۔۔۔

 جبکہ مجمعے کی بھیڑ میں مومن نے انہیں دو نیلی آنکھوں کو دیکھا جنہیں وہ یہاں دیکھنے کی امید بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔

 ہاں وہ اس کی آنکھوں کا دھوکہ نہیں بلکہ وہی آنکھیں تھیں۔۔۔۔

 وہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے اس کی طرف بڑھا سب لوگ اس سے ہاتھ ملا رہے تھے مگر وہ سب کو نظر انداز کرتا اسی کی طرف بڑھ رہا تھا کیونکہ وہ اسے کسی قیمت پر اب کھونا نہیں چاہتا تھا مگر ایک دھکا , ایک دھکا لگنا تھا کہ وہ لڑکھڑایا اور جب وہ سمبھلا تو وہ سمندری آنکھیں کہیں نہیں تھیں اس نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھا مگر نہ اسے وہ ملنا تھا نہ وہ ملی۔۔۔۔

 وہ غصے سے مٹھیاں بھینچتا رہ گیا اور بھیڑ کو چیرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔

 دوسری طرف عیشل وفا کو وہاں سے کھینچ لائی تھی جبکہ وفا کے ذہن میں ہے ابھی تک مومن کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔۔۔

وفا رات بھر مومن کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی تھی ۔ ایسا ہی ہمسفر تو چاہتی تھی وہ اپنی زندگی میں جو نا صرف عورت زات کی عزت کرے بلکہ اسکو مقام بھی دلوائے ۔ وہ بلکل بھول چکی تھی کہ وہ پاکستان میں اس سے ایک ملاقات کر چکی ہے مگر آج کے واقعے نے اسکے ذہن پر گہری چھاپ چھوڑی تھی اور آگے جا کر یہ کیا رنگ لانے والی تھی اس سے وہ خود بھی انجان تھی۔۔۔۔

                    ***********

وفا اپنے لیکچرز لینے کے بعد یونی کے گراؤنڈ میں عیشل کا انتظار کر رہی تھی جب اسے یوں ہی پھرتے ہوئے یونی کے زرا سنسان حصے میں بہت خوبصورت پھول نظر آئے تو وہ فوراً وہاں چلی آئی اور انکی خوبصورت خشبو سونگھنے لگی۔۔۔۔

ساتھ ہی بیگ میں سے فون نکال کر وہ کھٹاکھٹ دو چار تصویریں بھی کھینچ چکی تھی۔۔۔

what a beautiful scene a gorgeous rose with roses

جب پیچھے سے مردانہ آواز پر وہ پلٹی۔۔۔

وہ لڑکا سیدھا سیدھا اس پر لائن مار رہا تھا جسکا اندازہ وفا کو اسکی آنکھوں خباثت دیکھتے ہو چکا تھا۔۔۔۔

پھر کیا تھا پٹھانوں کے خون نے جوش مارا۔۔

Dont you have any manners....

وفا غصے سے بولی کوئی شک نہیں تھا کہ وہ اسے دو چار جھڑ دیتی مگر ابھی وہ اکیلی تھی اور دور ایک دو لوگ ہی تھے جو اپنے کاموں میں مصروف تھے۔۔۔۔

Baby don't waste my time and give me a kiss...

وہ یہ کہتے ہی وفا کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگا۔۔۔اس ہٹے کٹے آدمی سے وفا اپنے ہاتھ چھڑوا نہیں پا رہی تھی اس لیے "ہیلپ" "ہیلپ" چلانے لگی۔ کاش کوئی تو اسکی مدد کو آ جاتا کسی کو اپنی مدد کے لیے نا آتا دیکھ وہ رونے کو ہوئی ۔ ہاتھا پائی میں چادر ڈھلک کر کندھے پر آ گئی تھی۔ ناک رونے کی وجہ سے لال ہو گئی تھی جیسے ہی وہ بدمعاش اسے چھونے کے لیے اسکے قریب جھکا اسنا شدت سے اللہ کو یاد کیا۔۔۔۔

اور پھر "ٹنننننننن" اور اس لڑکے کی کراہنے کی آواز پر آنکھیں کھولیں تو ایک لڑکا اس بدمعاش پر جھکے اسے بری طرح پیٹ رہا تھا۔۔۔۔

اسفندیار جو گراؤنڈ کی پرسکون گوشے پر زرا کال سننے آیا تھا ایک نسوانی آواز کو مدد کے لیے چلاتے سنا تو فوراً وہاں آیا جہاں ایک لڑکا مہرون چادر میں لپٹی لڑکی سے زبردستی کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ ایک مسلمان لڑکی کو یوں بےیارومدد گار دیکھ اسکا خون کھول اٹھا اور اس لڑکے کو کھینچ کر بری طرح پیٹنے لگا۔۔۔

بس کرو وہ مر جائے گی وفا نے اس لڑکے کو بےہوش ہوتا دیکھ اسفند کو جیکٹ سے پکڑ کر کھینچا جو اسکی آواز پر ساکن ہو چکا تھا۔۔۔وہ اٹھا اور دھیرے دھیرے اس کی طرف پلٹا اور اپنے خواب کو حقیقت میں بدلتا دیکھ اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔

وفا اسکے منہ سے دھیرے سے اسکا نام نکلا جو وفا کے کانوں سے مخفی نا رہا۔۔۔۔

او ماڑا تم امارا نام کیسے جانتی ہے وفا نے اسکو مشقوق نظروں سے دیکھا جو کہیں دیکھا دیکھا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔

اہاااں وہ زور سے اچلھی تم تو وہی مشٹنڈی ہے جسنت ام کو گاؤں میں چھیڑا تھا۔۔۔۔

مشٹنڈی سیریسلی! اپنے لیے مشٹنڈی کا لفظ سن اسفند صدمے سے گرنے والا ہو گیا۔۔۔۔

خدا کے لیے رحم کریں پٹھانی جی۔۔۔ میرا جینڈر مت چینج کریں۔۔۔۔

تم امارا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آ گیا۔۔۔

وفا نے اسکی بات کو اگنور کرتے اپنی جھاڑی۔۔۔

محترمہ میں یہاں چار سال سے زیرِ تعلیم ہوں میرے خیال سے آپ نئی آئی ہیں۔۔۔۔

وفا نے بھی بادل نخواستہ حامی بھری۔۔۔۔

شکریہ۔۔۔وہ کچھ دیر بعد بولی تو اسفند جو اسکا چہرہ حفظ کر رہا تھا چونکا۔۔۔

شکریہ کس لیے اسنے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔۔

امارا عزت بچانے کے لیے۔۔۔۔

یہ تو میرا فرض تھا جب جب آپ کسی خطرے میں ہوں گی تب تب خدا مجھے اپکی حفاظت کے لیے بھیجے گا اسفند نے والہانہ انداز میں کہا تو وفا کمر پر ہاتھ ٹکاٰے اسے گھورنے لگی ۔۔۔

اسفند نے اسکی یہ ادا بھی دل میں اتاری۔۔۔۔

وفا تم یہاں کیا کر رہی ہو عشل بھاگتے ہوئے آئی اور زمین پر پڑے لڑکے کو دیکھ ماجرا سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

جسے اسفند نے سب کچھ بتایا۔۔۔

چلو چلیں۔۔۔ وفا نے عیشل کو چلنے کو کہا تو وہ آگے آ کر کھڑا ہوا۔۔۔

اپنا نمبر تو دیتی جائیں۔۔۔

کیوں تم امارا ماما ہے جو تم کو اپنا نمر دیں۔۔۔

جو بھی ہو آپ دیارِ غیر میں ہیں یہاں آپ کو بہت سے گندی ذہنیت کے لوگ ملیں گے اور ضروری نہیں کہ آپ ہر دفعہ انکا مقابلہ کر لیں اس لیے ایمرجنسی کے لیے نمبر لکھوا دیں۔۔۔۔

وفا نے کچھ سمجھ کے سر ہلایا اسکے لیے آج کا ہی واقعہ کافی تھا اور ویسے بھی یہ اچھا بندہ تھا اسکے بھائی نے اسے لوگوں کی پرکھ سکھائی تھی اسنے اسفند کی آنکھوں میں اپنے لیے احترام ہی دیکھا تھا اس لیے اسے بغیر چوں چراں کے نمبر لکھوا دیا۔۔وہ بیچاری یہ نا سمجھ پائی کے عشق کی پہلی سیڑھی احترام ہے اگر زرا غور سے اسکی آنکھیں پڑھتی تو پہچان لیتی۔۔۔۔

چلو عیش اور تم اب ام کو بار بار مسج کر کے مشٹنڈیوں والا حرکت مت کرنا۔۔۔۔

اسنے پہلے عیش کو چلنے کا کہتے بعد میں اسفند سے مخاطب ہوتے کہا جس پر عیش کا اسے مشٹنڈی بلانے پر ہنسی کا فوارہ نکلا وہیں اسفند سر ہلا کر رہ گیا اسکی یہ جینڈر بدلنے کی عادت اسکے دل پر لگتی تھی۔۔۔۔۔

                             ******

وفا کو گئے ایک ماہ گزر چکا تھا اور ایک ماہ بعد ہی سحر کو اس کے امید سے ہونے کی خبر ملی تھی جس سے پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی تھی زریاب کے پاؤں تو خوشی کے مارے زمین پر ہی نہیں ٹک رہے تھے۔۔۔

 اس کا بس چلتا تو وہ سحر کو زمین پر پاؤں بھی نہ رکھنے دیتا اس نے سحر کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا ہوا تھا۔۔۔

 ابھی وہ کام سے واپس آیا تو سحر کو ایک بیگ میں کچھ کاسمیٹکس اور ضروری چیزیں رکھتے دیکھا تو فورا اس کے پاس آیا سحر میں نے تم سے کہا بھی تھا کہ تم کوئی کام نہیں کروں گی تو پھر یہ کیا ہے اس نے پیار سے سرزنش کی۔۔۔

 زریاب آپ کا بس چلے تو آپ مجھے بیڈ سے نیچے ہی نہ اترنے دیں۔ یہ بھی کچھ ضروری چیزیں ہیں جو وفا کی ضرورت کے لئے ہیں اس کا گزارا نہیں ان کے بغیر اس لیے میں وہ چیزیں پیک کر رہی تھی جو اس کو بھجوانی ہے۔۔۔

   زریاب سحر کی وفا سے اتنی محبت پر نہال ہوا۔ اس نے اس کے کہے کہ مطابق اس گھر کو اچھی طرح سنبھالا ہوا تھا اور اس کے گھر کے افراد سے اتنا ہی پیار کرتی تھی جتنا کہ اپنے گھر والوں سے۔۔۔ تو وہ کیوں اس کا گرویدہ نہ ہوتا۔۔۔۔

ادھر آؤ ادھر بیٹھو تم تھک چکی ہو گی اس نے پیار سے اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے اسے بیڈ پر بٹھایا۔۔۔

 میں تمہارا کن لفظوں میں شکریہ ادا کروں سحر کہ تم نے میرے گھر کو اتنی اچھی طرح سنبھالا اور میرے اپنوں کو اتنا ہی پیار دیا جتنا اپنے گھر والوں کو۔۔۔زریاب نے اسے پیار سے دیکھتے کہا تو سحر فوراً بولی۔۔

 ارے اس میں شکریہ کی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض تھا میں نے جو بھی کیا آپ کی محبت میں کیا اور وفا تو میری بہن سے بڑھ کر ہے۔ آپ کی طرح میرے لئے وہ میری بیٹی ہی ہے میں ہمیشہ خود سے بڑھ کر اس کا بھلا پہلے سوچوں گی میرا یقین رکھیے گا اس نے ذریاب کا ہاتھ تھامتے کہا تو زریاب نے محبت سے اسکی پیشانی کو معتبر کیا۔۔۔۔

           ************

وفا آج جلدی جلدی میں اپنی کلاس لینے جا رہی تھی جب آگے سے آتے ہوئے مومن سے ٹکرائی جسکے نتیجے میں اسکی اسائنمنٹ ہوا میں لہرا کر ادھر ادھر بکھر گئی۔۔۔۔

وفا نے ایک نظر مومن کو دیکھا یہ تو وہی تھا اسے سخت سست سنانے کی بجائے وہ جلدی سے جھکتی اپنے پیجز اکٹھے کرنے لگی۔۔۔مومن جو سمجھا تھا کوئی لڑکی اس سے بات کرنے کے بہانے اس سے ٹکرائی ہے کیونکہ بہت سی لڑکیاں مومن سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی تھیں۔۔۔

 غصہ اسے اس لڑکی کے چادر میں ہونے پر آیا تو کیا یہ ایک مسلمان لڑکی ہو کر اس طرح کی اوچھی حرکتیں کر رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے ڈپٹتا اور اس کی عزت افزائی کرتا وہ اسے نیچے سے پیجز اٹھاتا دیکھ ٹھٹکا کیونکہ وہ اس سے بات کیے بغیر اپنے پیجز اٹھانے میں مصروف تھی نہ ہی اسے مڑ کے دیکھا تھا

 تو کیا یہ لڑکی اس سے غلطی سے ٹکرائی تھی وہ اس کے سامنے جھکا جیسے ہی اس کی مدد کرنے لگا اس کی نظر اس پر پڑی وہی آنکھیں۔وہ وہیں ساکن ہوا تھا اتنے دنوں کی تلاش آج ایسے مکمل ہوئی تھی یہ اسے پتا نہ تھا۔

 "آپ" اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا...

"جی"

 مقابل کی آواز پر وفا نے اپنی گھنی پلکوں کی جھالر اٹھا کر اسے دیکھا اور یہی دیکھنا مومن کہ دل میں تیر کی طرح لگا....

 کتنا انتظار کیا تھا مومن نے ان جھیل سی آنکھوں میں ڈوبنے کے لیۓ اور جب وہ آنکھیں سامنے تھیں تو اس کا دل چاہا کہ وہ ان میں پوری طرح ڈوب جائے کہ اسے وہاں سے نکلنا نصیب نہ ہو۔۔۔۔

 اس کی محویت کو دیکھ وفا ٹھٹھکی۔۔۔" جی" ...

 آپ تو وہی ہیں جو میرے باغیچے میں آئی تھیں۔۔۔

 مومن نے اسے یاد کرانے کی کوشش کی جس پر وفا ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

 پھر اچانک اس کے ذہن میں جھماکا ہوا اور اسے وہ دو چھچھورے لڑکے یاد آگئے۔۔۔۔

 اور مومن کی وڈیرہ لک بھی یاد آئی تھی۔ جب اس نے پہلی دفعہ مومن کو دیکھا تھا تو وہ اسے کوئی سخت گیر وڈیرہ ہی لگا تھا۔ جس کی سخت نظروں نے ہی ان لڑکوں کی بولتی بند کر دی تھی۔۔۔

وفا نے یاد آنے پر سمجھ کر سر ہلایا.. تب تک وفا اپنے کاغذات بھی اکٹھے کر چکی تھی...

 وہ دونوں اکٹھے ہی کھڑے ہوئے اور وفا اسے سوری کہتے ہوئے اپنی کلاس میں چلی گئی کیونکہ اسے دیر ہو رہی تھی پیچھے وہ کتنی دیر تک اس دروازے کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ اندر گئی تھی...

 اسے اپنی زندگی کا حاصل مل چکا تھا اب بس اسے حاصل کرنا باقی تھا۔۔۔

 کیا وہ اس کا ساتھ قبول کر لے گی اس کے دل نے سوچا۔۔۔۔

 اگر نہ بھی کرے گی تو تب بھی وہ اسے حاصل کر کے ہی رہے گا اس کے  دماغ نے فوراً دلیل دی۔۔۔

 مگر اس دلیل پر دل کرلایا کبھی زبردستی بھی رشتے ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔

 اب دل اور دماغ کی جنگ میں جیت کس کی ہونی تھی یہ تو وقت کے ساتھ ہی پتہ چلنا تھا۔۔۔۔

               **********

وقت گزرتا گیا وفا کی مومن سے ملاقاتيں ہوتی رہیں ۔ جانے انجانے میں وہ ایک دوسرے کے کافی قریب آ چکے تھے لیکن ابھی تک کسی نے بھی ایک دوسرے کو فون یا میسج نہیں کیا تھا ملاقات بھی سرسری ہوتی نہ ہی وہ اس بارے میں بات کرتے کہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں مومن کئی دفعہ اسے آزما چکا تھا۔ جب کبھی وہ دوستوں میں بیٹھتا تو وہ پاس سے ایسے گزر جاتی جیسے جانتی ہی نہ ہو۔ اس کی یہی ادا مومن کو  متاثر کرتی تھی ۔ وہ کب چاہتا تھا کہ اسکی ملکیت کو کوئی اور بھی دیکھے۔۔

دوسری طرف اسفند بھی وفا کو وقتاً فوقتاً میسجز کرتا رہتا

 کبھی وہ پریشان ہوتی تو اسفند کا مسج خودبخود آ جاتا جس پر وہ بھی کبھی کبھار حیران ہوتی کہ اسکو کیسے پتا چل جاتا تھا کہ اس وقت وہ مصیبت میں ہے۔۔۔

اسکے مشوروں پر چل کر آج تک وفا کو مدد ہی ملی تھی۔۔۔۔

                   *************

گل میں کچھ دنوں کے لیے لندن جا رہا ہوں ۔

مومن نے وفا کو مخاطب کرتے ہںوۓ کہا۔۔۔وہ وفا کو گلِ لالہ کے نام سے ہی جانتا تھا۔ وہ اب تک اسکے اصل نام سے ناواقف تھا اور نہ ہی وفا نے اسے بتایا تھا کیونکہ وفا کو مومن کے منہ سے گل کہنا ہی پسند تھا۔۔۔

 مگر کیوں۔۔۔وفا نے بےچینی سے پوچھا

پاپا کا بزنس دیکھنے۔۔۔مومن نے اسے جواب دیا

کیا جانا ام سے بھی زیادہ ضروری ہے۔۔۔

اسنے آنکھوں میں آنسو لیے کہا تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔۔۔

گل تم ایسے کرو گی تو کیسے چلے گا تمہیں ایک سردار کی بیوی بننا ہے۔ اسکے لیے تمہیں مضبوط ہونا ہوگا اپنے احساسات پر بند باندھنا ہوگا۔ تبھی جا کر تم اپنی محبت حاصل کر سکو گی۔ اسنے وفا کی چادر کا پلو اسکی پیشانی تک کرتے ہوۓ کہا اور اسکی چادر پر بوسہ دیا ۔ اب جتنی جلدی ہو سکے مجھے الوداع کہو اور اب تمہاری آنکھوں میں مجھے آنسو نظر نہ آئیں ورنہ مجھے یہ وہاں بھی بےسکون کرتے رہیں گے۔

مگر وفا اسے یہ نہ کہ سکی کے محبت میں جزبات پر بند نہیں باندھا جاتا کیونکہ یہ تو بڑی بےپرواہ ہوتی ہے۔ اسکی بات سن کر گلِ لالہ نے سر ہلایا اور اپنے آنسو صاف کیے۔۔۔

اور اسے مسکراتے ہوئے خداحافظ کہا۔۔۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسکی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا پیچھے وہ اسکی خوشبو کے حصار میں ہی خود کو مکمل محسوس کرنے لگی تھی۔ مگر کب تک۔۔۔۔

                    ***********

کیا تمہارا کوئی رشتہ آیا تھا۔۔۔

اسفند کے میسج پر وفا نے اچنبھے سے فون کو گھورا ۔۔۔

ہاں مگر تم کو کیسے پتا کہ امارا رشتہ آیا تھا ۔۔۔وفا نے مشکوک ہوتے اے مسج کیا۔۔۔

کچھ نہیں بس ویسے ہی۔۔۔

کچھ دیر بعد بھابی نے بھی اسے رشتے کے متعلق بتایا تھا جسے سن کر وہ پریشان ہو گئی تھی اسنے کچھ وقت مانگا تھا۔۔۔

وہ کیسے مومن کی جگہ کسی اور کو دے سکتی تھی کبھی نہیں وہ ایسا کر ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ تو دھوکہ ہوتا مومن سے بھی اور اسکے شریکِ حیات سے بھی۔

وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی جب اچانک اسے اسفند کی بات یاد آئی۔۔۔ کہیں یہ اسفند۔۔۔ او ماڑا۔۔۔ یہ کیا ہو گیا۔۔۔

جیسے جیسے وہ سوچتی جا رہی تھی۔کڑی سے کڑی ملتی گئی۔۔

اسفند کا گاؤں میں ملنا۔ اسے دیارِ غیر میں بچانا۔ اسکی ہر جگہ مدد کرنا۔ اسکی آنکھوں میں وہ بے نام لا محدود جزبہ یعنی محبت تھا۔۔۔

افففف وہ کیوں نا سمجھ سکی۔۔۔

یہ تو بوت غلط ہو گئی اب ام کیا کرے۔ ام اسکو کیسے بتائے گا ۔ کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ وہ تو بوت پہلے ہی کسی اور کو دل دے چکا ہے۔۔۔

وفا کی آنکھوں سے اسفند کے لیے آنسو نکلنے لگے تھے۔۔۔

اسنے بار ہا اسفند سے پوچھا تھا کہ وہ کس لڑکی سے محبت کرتا ہے مگر وہ ہر بار یہ کہ کر ٹال دیتا کہ جب تک وہ لڑکی خود اسکی بےلوث محبت کو نہیں پہچانے گی تب تک وہ خود سے کبھی اظہار نہیں کرے گا۔ اور وفا اسکی بےتحاشہ محبت دیکھ کر رشک کرتی تھی اس لڑکی پر اور اسکا بھی دل کرتا کہ مومن بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتا ہو جتنی اسفند اس لڑکی سے کرتا ہے۔ مگر اب آگاہی وفا کا دل چیر رہی تھی ۔۔۔اسے کیسے بھی کر کے اسفند کو سچائی بتانی تھی جو تلخ تھی اور ازیت بھری بھی۔۔۔

اسفند ام کو تم سے ملنا ہے کل یونی گراؤنڈ میں 11 بجے۔ اسنے کانپتے ہاتھوں سے میسج لکھ کر اسفند کے نمبر پر سینڈ کیا اور بےدم ہوتے بیڈ پر گری۔۔۔

                  ************

اسفند نے اسکا میسج صبح پڑھا تھا اور تب سے وہ بےچین تھا۔ اب بس بہت ہوا میں اب اور یہ بات اپنے تک نہیں رکھ سکتا۔ میں وفا کو اپنی محبت سے آج ہی آگاہ کروں گا۔ اسنے آنکھوں میں محبت کے جگنو لیے سوچا اور تیار ہو کر یونی کے لیے نکل پڑا اس بات سے بےخبر کے اسکا دل کتنی بری طرح ٹوٹنے والا ہے۔۔۔۔

                    ************

وفا کو گراؤنڈ میں درخت کے نیچے بیٹھا دیکھ وہ فوراً اس تک پہنچا۔۔۔

سلام پٹھانی صاحبہ کیسی ہیں۔۔۔

اسنے شوخ ہوتے کہا۔۔۔

جسکے جواب میں وہ مسکرا بھی نا سکی۔۔

کیا اسکے جواب کے بعد وہ اس چہرے کو ایسے ہی چہکتا دیکھ سکے گی۔۔۔دل نے نفی کی تھی۔۔۔

اسفند ام کو تم سے ضروری بات کرنا ہے۔۔۔

مجھے بھی ۔۔۔اسفند نے بےتابی سے کہا۔ وفا خوب سمجھ گئی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔۔۔

مگر شاید امارا اس بات کے بعد تم وہ بات بھول جائے۔۔۔

کچھ تو تھا اسکے لہجے میں جو اسفند چونکا۔۔۔

کیا بات ہے وفا کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ۔۔۔

اسنے پریشانی سے پوچھا۔۔۔

وہ تم تھے نہ جس نے امارے گھر رشتہ بھیجا۔۔۔

او۔۔۔ اس نے جیسے سمجھ کر سر ہلایا۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے اسنے شرارت سے سر جھکا کر ہاتھ پاکٹ میں ڈال کر ایک پاؤں سے زمین کھرچتے پوچھا۔۔۔

ام کسی سے پیار کرتا ہے۔۔۔

وفا نے کہا تو وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا اسکی بات اسفند کے سر پر سے گزر گئی۔۔۔

کیا مطلب۔۔۔

مطلب یہ کہ ام مومن سے پیار کرتا ہے۔۔۔

وفا نے اسکے سر پر دھماکہ کیا۔۔۔

مومن یعنی۔۔۔میرا۔۔۔۔کزن۔۔۔مومن۔۔۔

اسکے الفاظ جیسے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے جیسے اس وقت وہ خود ٹوٹا تھا۔۔

اسفند اماری بات۔۔۔

نہیں پلیز وفا مجھے سمجھنے تو دو وہ محبت جو میں تمہاری آنکھوں میں دیکھتا تھا وہ میرے لیے نہیں بلکہ میرے کزن مومن کے لیے تھی۔۔

اسنے گھٹنوں کے بل گرتے ہوۓ کہا ۔۔۔آنسو مسلسل اسکی آنکھوں سے بہتے اپنی قیمت کھو رہے تھے۔۔۔

وفا بھی اسکے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گئی تھی۔۔۔

ام کو معاف کر دو ام یہ سب نہیں چاہتا تھا۔۔۔وفا نے ہچکیوں کے بیچ روتے کہا۔۔

ایک منٹ وفا مجھے یقین تو کر لینے دو کہ وہ محبت تو میری تھی ہی نہیں جسے میں اپنا عشق سمجھ بیٹھا تھا۔۔۔

اسکا زخموں سے چور لہجہ وفا کو بری طرح رلا گیا۔۔۔

وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھا۔۔۔

کہاں جا رہی ہے تم۔۔۔

وفا نے اسکی حالت کے پیشِ نظر فوراً پوچھا۔۔۔

اسنے اپنی سرخ بہتی آنکھوں سے وفا کو دیکھا جیسے آخری بار اپنی محبت کو نظروں میں اتار رہا ہو ۔ چاہے پھر موقع ملے نہ ملے۔۔۔

تم میرے جگر جیسے بھائی کی محبت ہو۔۔۔جسے اسنے خود بھی مجھ پر عیاں نہ کیا۔۔تو میں کیسے اسکی محبت اس سے چھین سکتا ہوں۔

اب سے تم میرے لیے معتبر اور احترام کے قابل ہو۔۔۔

اسفند کی آواز میں ٹوٹے کانچ کی کرچیاں تھیں۔۔جو وفا کے دل کو اندر تک لہو لہان کر گئی تھیں۔۔۔

اسفند۔۔۔اسکے منہ سے فوراً اسکا نام نکلا۔۔۔

یوں میرا نام نہ لو کہیں میرا دم نہ نکل جائے اور محبوب کی آنکھوں کے سامنے جان نکلنے کا شرف شاید مجھے بخشا نہیں گیا۔۔۔

جا کہاں رہی ہے تم بتا کہ تو جاؤ۔۔

وہ اسکے پیچھے لپکتی تڑپ کر بولی۔۔۔

وہاں ہی جہاں اپنی محبت کو قتل کر کے اپنے ہاتھوں دفنا سکوں۔۔۔

اسفی۔۔۔وفا کے منہ سے روتے ہوئے نکلا۔۔۔

کتنی چاہ تھی اسے یہ نام وفا کے منہ سے سننے کی اور پوری بھی کب ہوئی جب وہ کسی اور کی ہو چکی تھی۔۔۔

اسنے پلٹ کر وفا کو دیکھا جو خود بھی اسکے غم میں شریک اسکی طرح ہی رو رہی تھی۔۔۔

محبت نہ سہی مگر اسفند سے وفا کا دل کا رشتہ تھا جسے وہ جھٹلا نہیں سکتی تھی۔۔۔

اگر تم میرے بھائی کی پسند نا ہوتی تو خدا قسم تمہیں چرا کر اتنی دور لے جاتا جہاں کسی کی رسائی ممکن نا ہوتی اور ایسا کرنے سے مجھے تم بھی نہ روک پاتی۔۔۔

وہ آخری بار مڑ کر اسے دل میں اتار کر بس کرب سے اتنا ہی بولا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔

کیونکہ اب آنسو اسکی آنکھوں کو دھندلا کر رہے تھے اور دل پھٹ رہا تھا 

لگ رہا تھا جیسے ابھی جان نکل جائے گی۔ اسلیے سب چھوڑ اپنی محبت کو زندہ دفنانے چلا گیا جسکے لیے بہت جگرا چاہیے تھا۔ جانے انجانے میں وہ مومن کے لیے بہت بڑی قربانی دے چکا تھا۔ اپنی محبت کو زندہ قربان کر چکا تھا پیچھے وفا بھی اسکے دکھ پر رو پڑی مگر وہ یہ جان نہیں پائی کہ اسے ٹوٹتے دیکھ تکلیف اسکے دل میں کیوں ہو رہی تھی۔ سانس اسے کیوں نہیں آ رہی تھی۔۔۔

ایک ہفتہ بیت چکا تھا اسے اسفندیار کو دیکھے نہ ہی اسے آنا تھا اور نہ ہی وہ آیا.

 وفا اسے ایک دفعہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ ٹھیک بھی ہے کہ نہیں لیکن اس نے تو اس کے میسجز تک کا بھی رپلائی نہیں کیا تھا۔۔۔ اس کے دوستوں کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہفتے سے یونیورسٹی نہیں آرہا سبھی اس کے لیے پریشان تھے۔۔۔

 یا اللّٰہ کیا ام نے اس کے ساتھ کچھ غلط کر دیا کیا۔۔۔ ام کیا کرتا اللّٰہ اس دل میں تو پہلے ہی مومن بسا ہے پھر اسفند کو جگہ کیسے دیتا۔۔۔ تو ہی بتا کے ام کہاں غلط ہے۔ کیا ام نے مومن کی محبت چن کر غلط کِیا کیا۔۔۔

 وفا اللّٰہ کے سامنے گِڑگڑا رہی تھی۔۔۔

 جب سے اس نے اسفند کا دل توڑا تھا اسے کسی پل چین نصیب نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔

                ********

آج یونیورسٹی میں سینئرز کی فیر ویل پارٹی تھی اسفندیار اور مومن کی بھی آج آخری پارٹی تھی مگر مومن کسی کام میں بزی ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نہیں آیا تھا اور نہ ہی اسفندیار کو کسی نے دیکھا تھا۔۔۔

 یونیورسٹی میں بھانت بھانت کے لوگوں کا ہجوم لگا ہوا تھا ہر کوئی یہاں وہاں نک سک سے تیار ہو کر پھر رہا تھا۔۔۔

 کئی جگہ تو لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے گھوم رہے تھے۔۔۔ ایسے میں وفا عیشل کے ساتھ اس پارٹی میں آئی خود کو بہت ان کمفرٹیبل فیل کر رہی تھی۔۔۔۔

 ان کا بھی لاسٹ ائیر ہو چکا تھا وہ صرف اپنا سرٹیفیکیٹ لینے آئی تھیں لیکن ان کی پریکٹس ابھی ایک سال کی باقی تھی۔۔۔

اگر سرٹیفیکیٹ نہ لینا ہوتا یا اسفند سے ملنے کی آخری امید نہ ہوتی تو وہ کبھی نہ آتی۔۔۔۔

پورے ہجوم میں بس وہی تھی جو چادر میں لپٹی تھی۔۔۔

              ***********

انہیں سرٹیفیکیٹ مل چکا تھا ۔ انہوں نے ہر جگہ دیکھ لیا تھا مگر اسفند وہاں کہیں نہیں تھا۔ اب وہ تھک ہار کر واپس جانے لگیں تھیں کہ ایک دم میوزک بدلہ اور کسی انڈین نے بلیو ہے پانی پانی لگا دیا۔ جس پر سب ناچنے لگے۔ اس سب کے دوران دھکم پیل میں عیشل کا ہاتھ وفا کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

وفا اور عیشل ایک دوسرے کو پکارتیں ایک دوسرے کے پاس پہنچنے کی کوشش کرنے لگیں مگر رش کی وجہ سے ایک دوسرے کے پاس پہنچ نہیں پا رہی تھیں۔۔۔ جوں ہی دو تین لڑکے وفا کے پاس آتے اسے ڈانس کی آفر کرنے لگے تو وہ قدم ہٹاتی پیچھے ہونے لگی یہاں تک کہ وہ سویمنگ پول کے پاس پہنچ گئی جس کی گہرائی آٹھ فیٹ تھی۔۔۔۔

اچانک وہ ایک لڑکی سے ٹکرائی جس نے اسے گھور کر دیکھا اور دھیرے دھیرے اسکے طرف بڑھنے لگی۔۔۔

                *************

جی ہاں وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ روزی تھی۔۔۔

تو وہ تم ہو جس کی خاطر اس مومن نے مجھے انکار کیا۔۔۔روزی نے اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے کہا تو وہ ایک قدم پیچھے ہوئی اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

تمہاری خاطر اسنے مجھے ٹھکرایا۔ہے کیا تم میں, تمہارے اس سو کالڈ تمبو میں۔۔۔۔

روزی نے حقارت سے اسکو دیکھتے اس پر چلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

ایک دم میوزک بند ہوا اور سب انکی طرف متوجہ ہو گئے اور تماشہ دیکھنے لگے۔۔۔

لسٹن۔۔۔وفا نے اسے بعض رکھنا چاہا مگر وہ پھر بدتمیزی پر اتر آئی۔۔۔

اور اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر اسے پیچھے دھکیلنے لگی ۔۔۔

مومن صرف میرا ہے صرف روزی کا میں اسے کسی اور کا نہیں ہونے دوں گی کبھی نہیں۔ چاہے اسکے لیے مجھے تمہاری جان ہی کیوں نا لینی پڑے۔۔۔

اسکی آنکھوں میں سفاکیت,نفرت اور جنون دیکھ وہ ٹھٹکی۔۔۔

خود کو سارے مجمع کا مرکز بنا دیکھ اسکا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ آخر کار وہ مومن کی محبت کی وجہ سے زلیل ہو ہی گئی تھی۔

listen to me....

وفا نے اسے سمجھانے کی ناکام سے کوشش کی۔۔۔

روزی نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اس سے ایک قدم کے فاصلے پر پول کو ۔۔۔

کچھ سوچ کے اسکے چہرے پر شاطر مسکراہٹ آ گئی۔۔۔

وہ آگے بڑھی اور دونوں ہاتھ وفا کے کندھے پر جمائے۔۔۔

مومن کو میں صرف ایک ہی صورت پا سکتی ہوں اگر ہم میں تم باقی نا رہو اسنے کسی خبطی عورت کی طرح وفا کو کہا اور اس کو کچھ بھی سوچنے سمجھنے کا موقع دیے بغیر پول میں پھینک دیا۔۔۔۔

"چھڑاااااپ" کی آواز سے پانی میں ارتعاش پیدا ہوا۔۔۔اور وفا اسکے اندر ڈوبتی چلی گئی۔۔۔۔

"لالہ رخ" عیشل ایک چیخ کے ساتھ پول کی طرف لپکی اور اسے آوازیں دینے لگی۔۔۔۔

وفا نے بہت ہاتھ پیر مارے ۔۔۔پانی اسی ناک, کان, گلے میں گھستا چلا جا رہا تھا۔ اسکی سانسیں اٹک رہی تھیں۔۔۔۔

ٹھنڈے یخ پانی نے اسکے ہاتھ ,پاؤں جما دیے تھے یہاں تک کہ اسکے ہلتے ہاتھ پاؤں ساکت ہونے لگے اسکی چادر اس سے جدا ہو کر پول کی سطح پر آ گئی۔۔۔

عیشل وفا کی چادر دیکھ ڈر کے مارے بری طرح چلانے لگی۔۔۔

somebody  help...

کوئی تو مدد کرو اسے تیرنا نہیں آتا عیشل نے سسکتے ہوئے پورے مجمع سے فریاد کی مگر سارے کان بند کیے بس تماشہ انجوائے کر رہے تھے۔ روزی کے خلاف جانے کی ان میں ہمت کہاں تھی۔ بس روزی ہی تھی جس کے چہرے پر قارون کے خزانے کو پا لینے جیسی چمک تھی۔۔۔۔

عیشل پھر وفا کو آوازیں دینے لگی۔۔۔۔

"رخ"۔۔۔

وفا کی سانسیں اب تھمنے لگیں تھی۔ ایک شدید درد کی لہر اسکے جسم میں پھیل گئی تھی۔ اسکی آنکھیں بھاری ہونے لگیں تھیں۔ آنکھیں بند ہونے سے پہلے دو مہربان ہاتھوں کو اسنے خود کو اسکی باہوں میں سمیٹتے دیکھا تھا اور پھر اسکا دماغ بلکل معاؤف ہو گیا اور ذہن پر تاریکی چھا گئی پھر اسے کچھ یاد نہ رہا۔۔۔۔۔

                   ************

اسفندیار جس نے وفا کو نہ دیکھنے کا عہد کیا تھا دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا وہ پارٹی میں وفا کو آخری بار دیکھنے کھنچا چلا آیا تھا۔۔۔

اور پھر اسے سمیر اپنے ایک خاص دوست سے بھی پتا چلا تھا کہ وفا اسکا پوچھنے یہاں آئی تھی تو یہ بات سن کر وہ اس کو دیکھنے کے لیے پہلے سے زیادہ بے چین ہوا تھا۔

سمیر اسکی بےچینی اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔ وہ اسفندیار کی محبت سے اچھی طرح واقف تھا اور اسکے لیے اسے دلی دکھ تھا ۔ کیونکہ وہ خود گواہ تھا اسکے عشق کا اسکی بےلوث محبت کا ۔ اسکے بس میں ہوتا تو وہ اسکی محبت کو سب سے چھین لاتا مگر مقابل بھی مومن انکا سب سے اچھا دوست تھا۔ بس یہیں آ کر انکے ہاتھ بندھ جاتے۔ 

ابھی بھی اسفند وفا کو آخری دفعہ دیکھنے لپکا تھا جب اسنے ایک جگہ رش لگا تھا۔ وہ وہاں سے ایسے ہی گزر جاتا مگر عشل کی آواز نے اسے حیرت میں ڈال دیا جو سب سے مدد مانگ رہی تھی۔ ہو نا ہو وہ عشل کی ہی آواز تھی۔ 

                  ************

عشل نے سب کی سفاکی پر آخری امید بھی کھو دی تھی۔ جب بھیڑ کو چیرتا ہوا ایک نوجوان بلیک ٹیکسیڈو میں بغیر کسی کو دیکھے بھاگتے ہوئے آیا اور اپنا کوٹ اتار کر پھینکتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگا گیا۔

اس آدمی کے آنے کی امید تو اس وقت کسی نے نہیں کی تھی ۔

عیشل نے بھی اس نوجوان کی پشت ہی دیکھی تھی مگر دل ہی دل میں اسکو دعائیں دینے لگی جو اسکی دوست کی زندگی بچانے پانی میں کودا تھا۔۔۔۔

اور پھر جب وہ اسکی بےہوش دوست سمیت پانی سے نکلا تو اس نوجوان کی شکل دیکھ عیشل بھی حیران رہ گئی۔۔۔۔

تم۔۔۔ اسکے منہ سے بس یہی نکلا۔۔۔

اسفند نے جب عیشل کی آواز سنی تو وہ بِھیڑ کو چیرتے ہوئے آگے بڑھا اس نے ایک نظر عیشل کو دیکھا اور اس کے آس پاس وفا کو ڈھونڈنے کے لئے نظر دوڑائی مگر اسے وفا کہیں نظر نہ آئی پول کے سطح پر لہراتی چادر کو دیکھ کر اس کا دل مٹھی میں آگیا تھا اسے لمحہ لگا تھا سمجھنے میں کہ وہ چادر کس کی ہے اس کی جان سے عزیز ہستی اس وقت پانی کی گہرائیوں میں تھی اس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنا کوٹ اتار کر پھینکا اور پانی میں چھلانگ لگا گیا۔۔۔۔

وہ جیسے ہی پانی میں گیا ٹھنڈے پانی نے اس کے اعصاب سے جھنجھوڑ دیے تھے۔۔۔

 اسے کچھ لمحے لگے تھے پانی میں دیکھنے میں لیکن جب اس نے وفا کو نیچے زمین سے لگتے دیکھا تو وہ تیر کی تیزی سے تیرتا ہوا اس تک جا پہنچا تھا۔۔۔

 اس کے بے جان ہوتے وجود کو دیکھ کے اسفند کو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔

 اس نے وفا کو جھنجھوڑا اس کا منہ تھپتھپایا مگر اس کے بےجان وجود میں ذرا سی بھی جنبش نہ ہوئی۔۔۔۔

 وہ جتنا جلدی ہو سکا تھا اسے پانی سے لے کر نکلا تھا۔۔۔۔

 اس کے ایک جھٹکے سے نکلنے پر وفا کے گیلے لمبے بالوں کی آبشار جھٹکے سے اس کے منہ پر لگی تھی وہ ایک پل کے لئے میسمرائز ہوا مگر وہ پل صرف ایک پل ہی تھا کیونکہ یہ منظر نہ صرف اس نے بلکہ وہاں موجود ہر ایک نامحرم نے دیکھا تھا۔ یہ بات اسے طیش دلا گئی۔۔۔۔

وہ جس نے کبھی اپنے بالوں کی نمائش نہیں کی تھی ہمیشہ خود کو ڈھک کر رکھا تھا آج کیسے وہ سب نامحرموں کے سامنے سر عام ہو گئی تھی یہی بات اس کی دل میں تکلیف کا باعث بن رہی تھی وہ فورا سے وفا کو پانی سے باہر لے کر نکلا اور اسے باہر زمین پر لِٹایا۔۔اور کسی کے بھی دیکھنے سے پہلے اسے اپنے کوٹ سے ڈھکا۔۔۔۔

 عیشل۔۔۔اسنے اشارے سے عیشل کو پکارا اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر عیشل فوراً آگے آئی اور اپنے دونوں ہاتھوں کا دباؤ وفا کے سینے پر ڈالتے ہوئے اس کی سانس لینے میں مدد کرنے لگی اس کے دونوں ہاتھوں کا دباؤ جب وفا کے سینے پر پڑتا تو تھوڑا سا پانی اس کے منہ سے نکل کر باہر گرتا۔۔۔۔

اسفند نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا روزی کی گردن دبوچتے ہوئے اسے پلر کے ساتھ لگایا۔۔۔

"ہمت کیسے کی, ہمت کیسے کی اسے چھونے کی" اسفند ایک دم اس پر دھاڑا تو اسکی جان حلق میں اٹک گئی۔ ششدر تو باقی سب بھی تھے کیونکہ آج تک کسی نے بھی اسفند کا یہ ہارش روپ نہیں دیکھا تھا وہ تو بڑا پولایٹ سا ٹھنڈی نیچر کا بندا تھا پھر آج اسے یوں اچانک کیا ہو گیا۔۔۔

میرا  گلا۔۔۔ روزی نے لال ہوتے منہ سے اٹک اٹک کر کہا۔۔۔۔ساتھ اپنے ہاتھوں سے اسکے ہاتھ ہٹانے کی کوشش جاری رکھی۔۔۔۔

"اگر اسے کچھ بھی ہوا تو اگلی سانس میں تمہیں لینے نہیں دوں گا" اسنے ایک ایک لفظ چباتے روزی کو خون رنگ آنکھوں سے دیکھتے کہا۔۔۔

تو روزی کی سانسیں تنگ ہونے لگیں۔۔۔۔

گلے پر ابھی بھی اسفند کی فولادی گرفت تھی۔۔۔

اسفند جلدی کرو اسے ہسپتال لے کر چلو۔۔۔۔

"دعا کرو وہ بچ جائے کیونکہ اسکی سانسوں سے اب تمہاری سانسیں جڑی ہیں۔ اگر دنیا کے کسی بھی کونے میں تم چھپ بھی گئی تو تمہیں زندہ زمین میں گاڑنے میں مجھے وقت نہیں لگے گا۔۔۔۔

اسنے ایک ہی جھٹکے میں روزی کو پھینکا جو سیدھا کھانستی ہوئی پلر سے جا لگی پسلی اور سر میں اتنی زور کی چوٹ آئی کہ اسے لگا وہ کبھی سانس نہیں لے پائے گی۔۔۔۔

اسفند بغیر وقت ضائع کیے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر باہر کی طرف بھاگا تھا جو بھی تھا اسے وفا کی زندگی سب سے عزیز تھی

                        ********

وہ دونوں ڈاکٹر کے باہر آنے کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔۔۔

اسفند کی سانسیں الگ اٹکیں تھیں۔۔۔

کہنا آسان تھا کہ اسنے اپنی محبت دفنا دی مگر اپنے عشق کا کیا کرتا

اپنے دل کا کیا کرتا جو وفا کی طرف بار بار چلا جاتا تھا۔ وہ تو ایک ہفتہ بمشکل گزار پایا تھا اسے دیکھے بغیر 

زندگی کیسے گزار پاتا۔۔۔۔

اور اب وہ ملی بھی تو کس حالت میں تھی  

ڈاکٹر کے باہر آنے پر وہ انکی طرف لپکا۔۔۔۔

ڈاکٹر۔۔۔وہ۔۔۔

"یس شی از فائن ناؤ"

ڈاکٹر کے الفاظ اسکے سلگتے دل پر ٹھنڈی پھوار کی طرح پڑے تھے۔۔

وہ دونوں جلدی سے اندر گئے 

جہاں وفا نقاہت زدہ سی لیٹی تھی جبکہ اسکے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی۔ اسکی یہ حالت دیکھ اسفند کو اپنے دل میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوئيں تھیں۔۔

"رخ کیسی ہو میری جان" عیشل نے بےتابی سے پوچھا جبکہ اسنے اسکے جواب میں ایک نظر اسفند کو دیکھا جسکی بےچینی اور بےتابیاں اسکی آنکھوں سے عیاں ہو رہی تھیں۔۔۔

"ام ٹھیک ہے اب"

"ام کو تم نے پچایا نہ" وفا نے عیشل کو جواب دیتے اسفند سے پوچھا۔۔۔

ایک دوست کو دوست نہیں بچائے گا تو کون بچائے گا اور ویسے بھی میں ابھی دھرتی کا بوجھ کم نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

اسنے جلد ہی اپنے اوپر شوخی کا خول چڑہاتے شرارت سے وفا کو کہا۔۔۔۔

وفا اسکی بات سن کر مسکرا دی۔۔۔

او ماڑا کہاں کہاں نہیں ام نے تم کو ڈھونڈی اور اب تم ام کو ملی ہے۔۔۔۔

وفا کی بشاشت اسے دیکھ لوٹ آئی تھی۔اسے اپنا دوست جو مل گیا تھا۔۔۔

لیکن میں اور مومن کل واپس جا رہے ہیں اسنے اپنا دکھ چھپاتے مسکراتے ہوئے بتایا۔۔۔۔

مگر کیوں ام یہاں ایک سال کیسے رہے گا۔۔۔وفا کی آنکھیں جھٹ آنسوؤں سے بھری تھیں۔۔۔جسے دیکھ اسفند بےچین ہوا۔۔۔

ایسی بھی بات نہیں ہم رابطے میں رہیں گے نا تم ٹینشن مت لو میں ملنے آتا جاتا رہوں گا۔۔۔

مگر وفا کی اداسی کم نا ہوئی۔۔۔

"ام کیسے یقین کر لے تم آئے گی آخر تم بھی تو مومن کی دوست ہے جب اسکو وقت نہیں ملے گی تو تمہیں کیسے ملے گی"

وفا نے ناک پھلاتے کہا۔۔۔

اسفند اسکی معصومیت پر جی جان سے فدا ہوا۔۔۔

وہ ایک سردار کا بیٹا ہے جبکہ میں ٹھہرا ویلا۔۔۔

تم جب مجھے یاد کرو گی ملکہ کا غلام حاضر ہو جائے گا اسنے اٹھ کر وفا کہ آگے ایک ادا سے جھکتے کہا تو وہاں تینوں کے قہقے گونج گئے۔ اس بات سے انجان کے شاید یہ انکے ساتھ آخری حسین لمحے تھے۔۔۔۔

                **************

وفا کو جب خبر ملی کہ وہ پھپھو بن گئی ہے تو اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا ۔ او ماڑا ام کیسے اتنی دیر نکالے گا اسے دیکھے بغیر امارا پیارا سا چھوٹو۔۔۔ وفا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اڑ کے اپنے بھتیجے شہرام سے ملنے چلی جاتی مگر ابھی اسکی پریکٹس رہتی تھی ۔ جسکے باعث وہ ویڈیو کال سے ہی دل بہلاتی۔۔۔

                *************

مومن اکثر لالہ رخ سے فون پر بات کرتا۔۔۔

آج پتا نہیں کیا سوجھی کہ وہ وفا سے پوچھ بیٹھا۔۔۔

رخ تمہیں مجھ سے محبت کیوں ہوئی۔۔۔

اسکے سوال پر وفا کچھ دیر چپ ہو گئی۔۔۔

کیا ہو اچپ کیوں ہو گئی۔۔۔مومن کے پوچھنے پر وہ ہوش میں آئی۔۔۔

ام نے تم سے محبت تمہارا عورت کے لیے عزت و احترام دیکھ کر کیا ہے۔۔جب تم غیر عورت کو اتنا عزت دیتا ہے تو ام کو کتنا عزت دے گا یہی سوچ ام کو تم سے زیادہ سے زیادہ محبت کرواتا ہے۔۔۔

بس یہی وجہ تھی ۔۔۔مومن حیران ہوا۔۔۔

ہاں۔۔۔

ٹھیک ہے اور تم نے اپنی اردو پر دھیان دیا کہ نہیں جب تک تم اپنی اردو ٹھیک نہیں کرو گی تو تم آگے کیسے بڑھو گی۔۔۔

 مومن نے اس سے کہا

 ام بہت کوشش کرتا ہے مگر ام سے نہیں ہوتا ام کیا کرے کہاں جائے۔۔۔

 دیکھو رخ ہمیں کبھی بھی کسی کو کوئی موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ ہمیں کسی مقام پر ہرا سکے۔ اگر دشمن ہماری کمزوری جان جائے تو وہ ہمیں آسانی سے ہرا سکتا ہے جب اس کے پاس ہماری کوئی کمزوری ہی نہیں ہوگی تو وہ ہمیں ہرائے گا کیسے اپنی ہر کمزوری کو اپنی طاقت بنا لو۔۔۔

 رات دیر تک اس کی مومن سے بات ہوتی رہی تھی جوں ہی مومن کی کال بند ہوئی۔ اسفند کی کال آنا شروع ہوگئی جسے وفا نے فورا اٹینڈ کیا تھا۔۔۔۔

 او ماڑا کیسی ہے تم۔۔۔

 وفا پرجوش لہجے میں بولی تو اسفند نے اتنے دنوں بعد اس کی آواز سن کر اپنے دل کو پر سکون ہوتا محسوس کیا۔۔۔۔

 میں تو ٹھیک ہوں تم بتاؤ تم کہاں بزی تھی۔ وہ مومن کی کال آ گیا تھا۔ وہ ام کو کہہ رہا تھی کہ ہم کو اپنی اردو ٹھیک کر لینا چاہیے ورنہ ام کو مقابل کبھی بھی ہرا سکتا ہے۔۔۔

 اسفند کو مومن کی یہ بات بہت بری لگی۔۔۔

 ایسی کوئی بات نہیں وفا تم جیسی ہو ویسی ہی ٹھیک ہو ہمیں کبھی بھی کسی کے کہنے پر اپنی شخصیت نہیں بدلنی چاہیے جو شخص آپ کو پیار کرتا ہے وہ آپ کو آپ کی خامیوں سمیت اپناتا ہے۔ تم خود اتنی مضبوط بن جاؤ کہ کسی کو تم پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔۔۔۔

 اسفندیار کی باتوں نے وفا کے دل پر اثر کیا تھا کچھ دیر بات چیت کے بعد کال بند ہو گئی اور وہ ان دونوں کے مشورے کو سوچنے لگی کہ کون صحیح تھا اور کون غلط....

              **********

مومن اور اسفند کی ایک پھپھو تھیں جو اپنے بیٹے قاسم کے ساتھ ابراڈ رہتی تھیں مگر اب ایک ہفتے سے ان کی حویلی میں مقیم تھیں۔ ان کا بیٹا قاسم بہت ہی عیاش طبیعت کا مالک تھا جو دیار غیر میں رنگینیوں میں کھو کر اپنا اصل بھول چکا تھا۔۔۔

مگر اسکی حقیقت سے سب حویلی والے انجان تھے اور یہ بے خبری کیا رنگ لانے والی تھی یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا۔۔۔۔

          *************

 میں نے کچھ نہیں کیا میرا یقین کرو میں نے کہا نہ میں نے کچھ نہیں کیا زریاب چلا رہا تھا مگر کوئی بھی اس کی بات کا یقین نہیں کر رہا تھا۔۔۔

 سحر اپنے آپ کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی جو اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔

 زریاب مجھے آپ پر پورا یقین ہے میں جانتی ہوں آپ نے کچھ نہیں کیا زریاب زریاب۔۔۔

 رات کے پہر سحر کی چیخیں سن کر زریاب نے فورا سائڈ لیمپ آن کیا اور سحر کو اٹھانے لگا "سحر کیا ہوا اٹھو"۔۔۔۔

زریاب کے اٹھانے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔۔۔

اور خواب سمجھ کر شکر کا سانس لیا۔۔۔

زریاب اپ ٹھیک ہیں آپ کو پتا ہے میں کتنا ڈر گئی تھی۔ یہ سوچ ہی اتنی جان لیوا تھی کہ اسکا زریاب اس سے دور ہو رہا تھا۔۔۔

میں ٹھیک ہوں سحر مجھے کچھ نہیں ہوا اسنے ایک نظر بےبی کاٹ میں لیٹے اپنے بیٹے شہرام کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔۔

تو سحر کا دل پرسکون ہوا مگر کب تک اسکے دل میں انجانا سا ڈر بیٹھ گیا تھا مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ یہی ڈر اسکے سامنے حقیقیت بن کر آ کھڑا ہوگا اور وہ کچھ نہیں کر پائے گی۔۔

اسفندیار اور مومن کو گئے چھ ماہ بیت چکے تھے۔ وقت بہت تیزی سے گزرا تھا۔ وفا مومن کی کچھ دیر پہلے آنے والی کال کے بابت سوچ رہی تھی۔ مومن بضد تھا کہ وہ اسے گھر والوں کے بارے میں بتائے تا کہ وہ رشتہ لے جا سکے مگر حیا ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی کیونکہ وہ اپنی پریکٹس کمپلیٹ کرنا چاہتی تھی۔ ان دونوں کی دوری نے انہیں مزید نزدیک کر دیا تھا۔ اب مومن کا اسکے بغیر گزارا ناممکن تھا تبھی وہ وفا سے اپنی بات منوانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر وفا بضد تھی جسکی وجہ سے وہ خاموش ہو جاتا ۔ وہ پتا نہیں کتنی دیر اور انہیں سوچوں میں ڈوبی رہتی جب باہر دروازہ ناک ہوا۔

اسنے دروازہ کھولا تو وارڈن اسے خط پکڑا گئی۔ جسے وہ اپنی حیرت چھپاتے ہوئے اندر لے گئی ساتھ میں ایک ڈبہ بھی پیک تھا۔ آج کے زمانے میں خط نے اسے حیرت میں ڈال دیا تھا۔

اسنی گفٹ پیک سامنے رکھتے ہوئے خط کو غور سے دیکھا ۔ جس پر open with smile کا ٹائٹل تھا ۔ جوں ہی اسنے خط کھولا ۔ سامنے پہلی لائن میں اسفند کا نام جگمگا رہا تھا۔

اسنے دلچسپی سے پہلی سطر پڑھنا شروع کی۔

اسلام و علیکم !

کیسی ہو مس پٹھانی۔ امید ہے ٹھیک ہی ہو گی۔ جسکے مجھ جیسے دوست ہوں وہ کیسے برے حال میں ہو سکتا ہے۔ 

اس بات پر وہ کھل کر ہنسی۔۔۔

اب تم سوچ رہی ہو گی ۔ میں نے اتنی دیر رابطہ کیوں نا کیا کیونکہ میں تمہیں خط لکھنا چاہتا تھا اور خط ملنے کا مزہ تو تب ہے جب لمبے عرسے تک بات نہ ہوئی ہو۔ 

اور ایک بات اس پیکٹ میں موتی چور کے لڈو ہیں امی نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں۔ تم نے کہا تھا نہ کہ تمہیں لڈو بہت پسند ہیں تبھی۔ تمہاری پسند کی چیزیں امی سے بنوائیں۔۔۔

اسے اب بھی یاد تھا کہ اسنے ایک دفعہ اسفند کو کہا تھا کہ اسے خط لکھنے اور ریسیو کرنے کا بہت شوق ہے۔ میرا بہت دل کرتا ہے پرانے زمانے کی طرح مجھے بھی کوئی خط لکھے۔ میں بھی کسی کے خط کا انتظار کروں۔ میں بھی اس خط سے اسکی خلوص اور محبت محسوس کروں۔

آج اسفند سے ملنے والے خط کو ہیار سے وفا نے آنکھوں سے لگایا اور ایک لمبی سانس کھینچ کر اسکی خوشبو محسوس کرنی چاہی۔

کتنا منفرد ہوتا ہے نہ وہ احساس جب کوئی اپکی پسند کا خیال رکھے اور اپکی چھوٹی سی چھوٹی بات کو بھی اہميت دے۔ 

اسکی آنکھیں اسفند کی اتنی محبت پر نم ہو گئیں اور آنسو خط پر گر کر اپنے نشان چھوڑ گئے۔۔۔

اسنے آگے پڑھنا شروع کیا۔۔۔

اب رونے نہ لگنا مجھے پتا تھا تم رونے لگو گی۔۔۔

(وفا اسکے اتنی درست اندازے پر ششدر رہ گئی) اب اسکو کون بتاتا سچے عاشق دور بیٹھے محبوب کے دل کا حال جان لیتے ہیں۔۔۔

اب باقی باتیں بعد میں کھاؤ, خوش رہو, اور کھانے کے بعد مجھے کال کرو کیوں اب میرا نمبر تمہیں بند نہیں ملے گا۔ ویسے بھی کافی عرصے سے کسی خوبصورت دوشیزہ کی کال نہیں آئی۔۔۔۔

تمہاری چھچھوری گنڈی۔۔۔۔😜

اسفند۔۔۔

آخری لائن پڑھ کر وہ کتنی دیر ہنستی رہی۔ اسنے وہ خط بارہا پڑھا۔۔۔

آج کا دن اسکے لیے یادگار بن گیا تھا۔۔۔۔

                     **********

آج یونیورسٹی میں کلچرل ڈے تھا جہاں سب اپنی اپنی ثقافت کا لباس پہنے یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔ایسے میں عیشل فل پنجابن بنی ہوئی تھی۔ پٹیالہ چلوار کمیز کے ساتھ اپنے بالوں کو پراندہ ڈالے گول گول گھما رہی تھی۔

جبکہ اسنے ضد کر کے وفا کو پٹھانی لال رنگ کا فراک پہنایا تھا جو سینے سے فل ڈھاگوں کی کڑھائی سے بھرا ہوا تھا۔  جبکہ ماتھے پر خوبصورت سی ماتھا پٹی سجائے بالوں کو دپٹے سے اس طرح کور کیا گیا تھا کہ اس کا ایک بھی بال نظر نہیں آرہا تھا۔

 وفا کے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی اس کو ہلکا پھلکا تیار کر چکی تھی اور اتنے میں ہی وہ دلوں کا چین لوٹ رہی تھی۔۔۔۔

 آج بالکل وہ ایک پٹھانی گلاب لگ رہی تھی۔

جو بھی ان کے پاس سے گزرتا ایک دفعہ تو لازمی مڑ کر انکو دیکھتا جبکہ لڑکیاں تو اسکا گال چھو کر تعریف بھی کر جاتیں جس پر اسکے گولوں پر گلال ٹوٹ کر بکھرتا۔۔۔

 ہائے یار تم کتنی خوبصورت لگ رہی ہو۔۔عیشل نے  فدا ہوتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔ چلو ایک دو تصویر زرا مومن بھائی کو تو بھیج دو۔۔۔

 مگر وفا نے اسے گھوری دکھا کر چپ کرا دیا اور وہ دونوں گراؤنڈ میں چلی گئیں۔۔۔۔

 جہاں اسٹیج پر سب اپنے اپنے کلچر کو ریپریزنٹ کر رہے تھے۔۔۔

               *********

مومن کمرے میں کھڑا اپنے کچھ دن والی پہلے والی باتیں یاد کر رہا تھا جو اسفندیار اور اس کے درمیان ہوئی تھیں۔۔۔۔

 اسفند یار تم نے بتایا نہیں کہ تم جس لڑکی کو پسند کرتے تھے اس کا کیا بنا کہاں ہے وہ۔۔۔ مومن نے اسفندیار سے دریافت کیا تو وہ کچھ پل کے لیے گڑبڑا گیا اور پھر بولا۔۔۔۔

 وہ اب میری نہیں رہی وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی اس لیے میں نے اس کی خوشی کو اپنی خوشی جانا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا کیونکہ میں اسے دکھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔۔

 اسفندیار نے جب ٹوٹے لہجے میں کہا تو مومن کو اس کی آواز کرب زدہ لگی۔۔۔۔

 کیوں تو ایسا کیوں کہہ رہا ہے اگر تیری جگہ میں ہوتا تو اسے اٹھا لاتا کیونکہ جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے۔۔۔ تو نے اسے کسی اور کے لئے چھوڑا ہی کیوں۔۔۔۔

 مومن نے غصے سے اسے پوچھا۔۔۔۔

 میں صرف اس سے پیار ہی نہیں کرتا تھا بلکہ اب تو وہ میرا عشق بن چکی ہے اور تمہیں تو پتہ ہے عشق لا محدود ہوتا ہے جس میں کوئی حد نہیں ہوتی اور میں اسے حد بند نہیں کرنا چاہتا تھا۔  جہاں وہ ایک قیدی کی طرح رہے اور کھل کر نا جی پائے میں اسے آزادی فراہم کرنا چاہتا تھا جہاں وہ خود بھی خوش رہے اور اس کی خوشی میں,میں خوش رہوں۔

 بہت قسمت والے ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں ان کا پیار نصیب ہوتا ہے اسفدیار نے مومن کی طرف دیکھتے رشک آمیز لہجے میں کہا۔۔۔۔

 مومن کو اسکی سوچ بڑی اعلی ظرف لگی۔۔۔

 خیر تم بتاؤ تمہاری محبت کا کیا سین ہے۔خوش ہو تم۔۔؟

 خوش, خوشی تو بہت چھوٹا لفظ ہے میں تو بہت زیادہ خوش ہوں جسے میں نے چاہا اسے میں نے پا لیا ۔۔۔۔

مومن میری ایک بات یاد رکھنا جو چیز آسانی سے مل جائے اس پر ہمیشہ شکر کرنا چاہیے کیا پتا وہ کتنی کٹھنائیوں اور قربانیوں کے بعد آپ تک آئی ہو کیونکہ محبت میں آزمائش شرط ہے اور پھر چاہے وہ شادی سے پہلے ہو یا شادی کے بعد۔۔۔۔

اسفندیار وہ میرا سب کچھ ہے اس کے لیے میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں۔۔۔

 اس کے لہجے سے اسفند کو خوف محسوس ہوا۔

 مومن یہ تمہاری محبت نہیں تمہارا جنون ہے جو تمہارے لہجے میں بولتا ہے۔ دھیان رکھنا کہیں یہی جنون تمہاری محبت کے لیے آزمائش نہ بن جائے۔

 وعدہ کرو مجھ سے کبھی اپنی محبت پر کوئی آنچ نہ آنے دو گے۔ کیونکہ اگر محبت ایک دفعہ کھو دو تو وہ دوبارہ آپ کی زندگی کا رخ نہیں کرتی۔۔۔

 اسفندیار نے مومن کے آگے ہاتھ بڑها کر وعدہ لینا چاہا جس پر مومن نے ایک آئیبرو اچکا کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔

 وعدہ رہا اپنی محبت پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا مومن نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے وعدہ کیا ۔

مگر اسفندیار یہ بھول گیا تھا کہ وعدے تو ٹوٹنے کے لیے ہوتے ہیں۔۔۔۔

 اچھا تم نے تو مجھ سے وعدہ لے لیا مگر تم مجھے کیا دے سکتے ہو مومن نے اسے شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا جس پر اسفندیار ہولے سے مسکرا دیا اور بولا۔۔۔۔

 میں نے تو تمہیں اپنی سانسیں(وفا) دے دیں ہیں اور کیا چاہتے ہو مجھ سے... اسفندیار کے لہجے میں ہلکا سا شکوہ تھا ۔۔۔ مومن سمجھا اسفند یار اپنی دوستی کی بات کر رہا ہے جس پر اس نے اسفندیار کو گلے لگا لیا۔۔۔۔۔

 میں نے تو تمہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی وجہ اپنا عشق دے دیا ہے مومن تم کیا جانو میں نے تمہارے لئے کونسی قربانی دی ہے اسفندیار دل میں بولا اور ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔

  مومن کو اپنی کچھ دن پہلے کی باتیں یاد آئیں تو وہ چونکا کاش اسفندیار کو بھی اس کی محبت مل جاتی تو وہ یوں تنہا نہ ہوتا اسنے سر جھٹکا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

            ***********

یار کیا بتاؤں سحر کا شوہر کتنا ہینڈسم ہے میں جب بھی اس سے مل کر آتی ہوں تو میری نظریں تو اس کے شوہر سے ہی نہیں ہٹتیں۔۔۔۔

 یار کیا بتاؤں میرا دل کرتا ہے کہ میں سحر کو ہٹا کے خود اس کی جگہ فٹ ہو جاؤں۔ جس سے زریاب صرف میرا ہو جائے صرف میرا۔( اجالا جو کہ سحر اور مومن کی سوتیلی بہن تھی اپنے فون پر اپنی دوست سے راض و نیاز کرنے میں مگن تھی)..

وہ یہ بھول بیٹھی تھی کہ وہ اپنی بہن سے حسد کر رہی ہے چاہے وہ سوتیلی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔

 باہر موجود شخص نے اس کی لفظ با لفظ گفتگو سنی تھی اور اسے اپنا اگلا مہرہ چکا تھا۔۔۔( اپنے شیطانی عمل کو سوچ کر اس کے چہرے پر شیطانیت بھری مسکان چھاہ گئی تھی)....

          **************

وفا اور عیشل فنکشن اینجوائے کر رہی تھیں جب ایک لڑکے نے وفا کو سٹیج پر آ کر اپنے کلچر کی زبان میں گانا بولنے کا کہا۔۔۔۔

جس پر وہ دونوں ششدر رہ گئیں۔۔۔

سبھی آہستہ آہستہ وفا کا نام پکارنے لگے تھے وہاں سب وفا کو لالہ رخ کے نام سے جانتے تھے۔۔۔

پلیز رخ کم اون دا سٹیج۔۔۔۔

بار بار اپنے نام کی پکار پر وفا کا جسم بری طرح کپکپانے لگا جبکہ عیشل بھی پریشان ہو گئی۔۔۔۔

رخ کول ڈاؤن کچھ نہیں ہوتا اٹس جسٹ آ سونگ ۔۔۔اتنی دیر میں وفا پر سپاٹ لائٹ آ ٹہھری اب بچنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔۔۔۔

اسے کھڑا ہونا پڑا۔۔۔سبکی نظریں اس پر ہی تھیں۔۔

جب اسنے روزی کو اپنی طرف تمسخرانہ نظروں سے دیکھتے پایا لمحہ لگا تھا اسنے سمجھنے میں کہ یہ روزی کی ایک چال ہے تا کہ وہ سب کے سامنے اسے نیچا دکھا سکے۔۔۔۔

غصے سے وہ سرخ پڑ گئی پٹھانوں کا غصہ عود کر آیا اور وہ تن فن کرتی سٹیج پر پہنچی ساتھ عیشل بھی تھی۔ مگر سٹیج پر پہنچتے ہی اسکا سارا کانفیڈنس بری طرح ڈاؤن ہوا۔۔۔۔۔

اتنے لوگوں کے سامنے اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔عیشل نے وفا کے کہنے پر ایک پشتو بیک گراؤنڈ میوزک لگوایا اور نیچے اتر گئی۔

جبکہ سب بار بار اسکا نام پکار رہے تھے۔ وہ اب بھی چپ تھی۔ رخ یو کین ڈو اٹ بولو۔۔۔عیشل چیخی۔۔۔ وفا کو لگا وہ گر جائے گی جب اپنے پاس سے مردانہ آواز پر وہ چونکی۔۔۔

"لرشا پخاور تا کمز طور ملا رورہ تازہ تازہ گلونہ درے سلور ملا رورہ"

مردانہ خوبصورت آواز میں اس نوجوان نے گانے کی پہلی لائن بولی۔۔۔

"تم"۔۔۔

حیرت سے اسکے منہ سے بس یہی نکلا۔۔

"لرشا پخاور تا کمز طور ملا رورہ تازہ تازہ گلونہ درے سلور ملا رورہ"

مردانہ خوبصورت آواز میں اس نوجوان نے گانے کی پہلی لائن بولی۔۔۔

"تم"۔۔۔

حیرت سے اسکے منہ سے بس یہی نکلا۔۔

اسفند کو یہاں دیکھ اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔اسفند اسکی حیرانگی پر دل کھول کر مسکرایا اور اسے آگے گانے کا اشارہ کیا جسے سمجھ کر اسنے فوراً گانا شروع کیا۔۔۔

"لرشا پخاور تا کمز طور ملا رورہ تازہ تازہ گلونہ درے سلور ملا رورہ"

اسکی خوبصورت سریلی آواز چاروں طرف بکھری تو لوگ حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھنے لگے۔۔۔

اس کی آواز کی مٹھاس اور جادو نے لوگوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا جو وہ سب جواباً ہوٹنگ کر کے اسے سراہ رہے تھے۔۔۔۔

جبکہ وفا اسفند کے آنے سے پرجوش ہوتی چارو سو اپنی آواز کا جادو چلا رہی تھی۔۔۔

" لیلیٰ چی چیرتا قدم کیڑے او چیرتا قدم کیڑے باجور گلونہ" 

"ہلتا گدار کے تازہ کیگئی زیر گلونہ کمز طور او طور او طور ملا رورہ"

اسفند نے وفا کو دیکھ کر گاتے ہوئے کہا اور ہلکے ہلکے کندھوں کو ہلاتے اسکے گرد چکر کاٹنے لگا۔۔۔

"تازہ تازہ گلونہ درے سلور ملا رورہ

لرشا پخاور تا کمز طور ملا رورہ"

وفا نے بھی اسکے ساتھ گاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

خوشی اسکے چہرے سے ٹپک رہی تھی ۔ عیشل نے تو بےساختہ اسکی بلائیں لے ڈالیں اور اسکے پورے گانے کی ویڈیو بنائی وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔۔۔

جب وہ دونوں گا کر نیچے آئے تو سب انکی تعریف کرنے لگے۔۔۔

مگر وہ روزی کو گھورنا نہ بھولا تھا۔۔۔

جبکہ روزی جل کے سیاہ ہوئی وہ جب بھی وفا کو نقصان پہچانے کی کوشش کرتی اسفند ہر بار اسکی ڈھال بن جاتا۔۔۔۔

تم یہاں کیا کر رہے میرا مطلب رہا ہے ۔۔۔

وفا کے اسفند سے پوچھنے پر پہلے وہ اسکے صحیح تلفظ پر ٹھٹکا جب اسنے دوبارہ اپنی ٹون میں آتے کہا۔۔۔۔

وفا تم ایسے کیوں بول رہی ہو۔۔۔عیشل نے اس سے ناسمجھی سے پوچھا تو اسنے اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے اشارہ کیا جسے سمجھ کر اسنے سر ہلایا۔۔

اسفند چونکا کیا مطلب۔۔۔۔

ارے کچھ نہیں تم بتاؤ تم اچانک کہاں سے ٹپک پڑے ۔۔۔۔عیشل نے فٹافٹ اسفند کا دیہان بھٹکایا ورنہ وہ جان جاتا کہ وفا اردو بولنا سیکھ چکی ہے۔۔۔

وفا مشکل میں ہو اور میں نہ آوں ایسا ہو نہیں سکتا اسنے فرضی کالر جھاڑ کر کہا تو وہ تینوں ہی ہنس دیے۔۔۔

وفا نے اسفند کو پیار سے دیکھا جو ہر مشکل میں اسکے ساتھ شانہ با شانہ کھڑا رہتا تھا۔۔۔

او ماڑا کہاں جاتا ہے۔۔۔۔اسفند کو جاتا دیکھ وفا پوچھنے لگی۔۔۔

یہ تو بس تمہیں سرپرائز دینے آیا تھا ابھی فلائٹ ہے میری پاکستان کی انشااللّٰہ اب پاکستان میں ہی ملاقات ہو گی۔۔۔۔

اسفند جانتا تھا وفا دو ہفتے بعد پاکستان لوٹ رہی ہے تبھی کہا اور الوداعی کلمات کہ کر انسے ملتے پاکستان کے لیے نکل پڑا۔۔۔۔

مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ قسمت اگلے دو دن کے اندر اندر اسکی ملاقات وفا سے کتنے برے حالات میں کروانے والی ہے۔۔۔

پیچھے وفا اسے جاتا دیکھ مسکرا دی یہ آخری دو ہفتے وہ عیشل کے ساتھ گھوم پھر کر گزارنا چاہتی تھی مگر اب اسے یہ موقع ملنا تھا یا نہیں یہ تو وقت بتانے والا تھا۔۔۔۔

                  *************

آج ایک ہفتے بعد مومن وفا کو کال کر رہا تھا کیونکہ پچھلے ہفتے اسکی دستاربندی تھی جسکی مصروفیت کی وجہ سے ایک ہفتہ کہاں گیا پتا ہی نہ چلا اب وہ وفا کو منا رہا تھا۔۔۔۔

"یار میں واقعی مصروف تھا مومن نے چہرے پر جہاں بھر کی معصومیت لاتے کہا تو وفا زرا سا پگھلی جو اس سے اتنی دیر بعد بات کرنے پر منہ پھلائے بیٹھی تھی۔۔۔۔"

"ماڑا سچ سچ بتاؤ کہیں تم نے شادی تو نہیں رچا لیا اگر ایسا ہوا تو ام تمہارے سر پر ایک بال نہیں چھوڑے گا"

وفا کی جیلسی سے بھرپور آواز اور آنکھیں چھوٹی کر کے مشقوق لہجے میں پوچھنے پر مومن کے قہقہوں کا ایک ناتھمنے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔

"او مائے گاڈ شادی ہا ہا ہا ہا رخ سیریسلی ہا ہا ہا"

تم منہ پھاڑ کے کیوں ہنس رہا ہے جبکہ ام نے اتنا سیریس بات کیا ہے۔۔۔

اسنے رخ کے بگڑتے موڈ پر بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے وفا سے پوچھا۔۔۔۔

ویسے رخ اگر میں تمہارے بعد دوسری شادی کر لوں تو کیا کرو گی تم مومن نے وفا کو چڑاتے آنکھ مارتے پوچھا تو اسکی سوچ کے مطابق وفا غصے سے لال ٹماٹر بن گئی۔۔۔۔

تم نے ایسا سوچا بھی کیسے وہ چیخی تو مومن نے پھر قہقہ لگایا۔۔۔

بتاؤ نا رخ کیا کرو گی مومن نے پھر اسے زچ کیا لیکن وفا کی آنکھوں میں سرد مہری چھا گئی تھی۔

" با خدا مومن اگر تم نے کبھی دوسری شادی کا سوچا بھی نا تو ام تمہیں ایسا چھوڑے گا کہ تم تا قیامت کسی کو چھوڑنے لائق نہیں بچے گا" 

پہلی دفعہ مومن نے وفا کے انداز میں جنون دیکھا تھا۔۔۔

"ریلیکس رخ آئی واز جسٹ کڈنگ لیکن یہ کیسی سزا ہوئی تم بدلہ بھی تو لے سکتی ہو"۔۔۔

"امارے نزدیک چھوڑ دینا ہی سب سے بہتر بدلہ ہے کیونکہ اول تو وہ آپ کی محبت نہیں جو آسانی سے کسی اور کی ہو جائے اور دوسرا چھوڑنا اسکی لیے ایسی سزا بنے گا کہ وہ کسی اور کو بھی اپنا نہیں پائے گا"

                 **************

مومن رات کو ایک بجے حویلی لوٹ رہا تھا جب ایک انجان نمبر سے اسے اطلاع ملی جو اسکے ہوش اڑا گئی اسنے آؤ دیکھا نہ تاؤ گاڑی ریورس گھمائی اور فل سپیڈ میں اپنے ڈیرے پر گیا جہاں ایک قیامت خیز منظر اسکا منتظر تھا ۔ وہ جیسے ہی ڈیرے میں اپنے کمرے میں آیا اپنے سالے کو اپنی سوتیلی بہن اجالا کے اوپر جھکے پایا جبکہ اجالا کو اتنی قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ اسکا خون کھول اٹھا اور وہ ایک ہی جست میں زریاب تک پہنچتا اسکو پے در پے مکوں اور جوتوں کی نوک پر رکھا غصہ اسکے اعصاب پر بری طرح چھا گیا تھا۔۔۔۔

بھائی میری بات سنیں آپ غلط سمجھ رہیں میں نے کچھ نہیں کیا زرہاب نے منہ سے خون صاف کرتے کہا۔۔۔۔۔

سالے میں یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی تجھ پر یقین کروں گا میں تجھے زندہ جلا دوں گا۔۔۔

شور سن کر اسکے ملازم بھی جاگ گئے تھے اور فوری طور انہوں نے اسفند کو بلایا جس نے بمشکل مومن کو زریاب سے جدا کیا جو غصے میں اسکی جان لینے کے در پر تھا۔۔۔۔

مومن ہوش کر یہ ہماری سحر کا شوہر ہے۔۔۔

شوہر مائے فوٹ اسنے ہمارے گھر کی عزت پر نقب لگائی کیسے۔۔۔

اسکی دھاڑ سے سارا کمرہ گونج اٹھا اسفند چاہ کر بھی زریاب کی مدد نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔

جیسے تیسے کر کہ اسنے مومن کا دیہان اجالا کی طرف کروایا جس پر درندگی کی اعلی مثال قائم کر دی گئی تھی اس کے کپڑے سارے پھٹ چکے تھے جبکہ منہ اور گردن پر دانتوں کے نشان واضح تھے ۔ مومن کو اپنا سینہ پھٹتا محسوس ہوا جو بھی تھا بےشک وہ اسکی سوتیلی بہن تھی مگر مومن سحر اور اجالا سے ایک جیسی محبت ہی کرتا تھا اسنے فوراً اجالا کو اٹھاتے ہسپتال کی طرف دوڑ لگائی جسکی سانسیں وقت کے ساتھ ساتھ سست پڑ رہی تھیں۔۔۔

جبکہ اسفندیار زخمی زریاب کو جیسے تیسے اسکے گھر لیکر روانہ ہوا۔۔۔

                   ***********

مومن تم ایسا کچھ نہیں کرو گے وہ ہماری سحر کا شوہر ہے ۔ اسفند نے مومن کو گرکھا جو انتہائی قدم اٹھانے کا سوچ چکا تھا۔ 

"اب تو یا خون کے بدلے خون یا عزت کے بدلے عزت"۔۔۔۔

اسنے خون آشام نظروں کو دیوار کی طرف ٹکاتے کہا۔۔۔

جبکہ اسفند اسکے ارادے سن کر دہل گیا۔۔۔

جب سے زریاب لہولہان ہو کر گھر آیا تھا طاہر صاحب اور صائمہ بیگم اپنے بیٹے کی حالت دیکھ خون کے آنسو رو رہے تھے۔

جبکہ سحر اسکے زخموں پر مرہم رکھ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"کتنی بے رحمی سے مارا ہے لالہ نے وہ ایک دفعہ آپ کی بات سن تو لیتے"

کوئی بات نہیں سحر اگر اسکی جگہ کوئی بھی غیرت مند بھائی ہوتا تو اپنی بہن کی بکھری حالت اور ایک نامحرم کو دیکھ وہ غلط ہی سمجھتا۔۔۔۔

مگر تم بتاؤ کیا تمہیں یقین ہے کہ میں نے تمہاری بہن کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔۔۔

زریاب کے پوچھنے پر سحر کے زہن میں چھم سے رات کا منظر آیا جب زریاب رات کے ایک بجے ایک فون کال پر افراتفری میں نکلا تھا۔۔۔

"مجھے آپ پر آپ کی محبت پر خود سے زیادہ یقین ہے میں کبھی مان ہی نہیں سکتی کہ میرے زریاب مجھے دکھ دینے کا سبب بنیں گے"

اسکی باتیں سن زریاب کو اتنی بری حالت میں بھی سکون محسوس ہوا۔۔۔۔

مگر مجھے نہیں لگتا کہ اب کچھ ٹھیک ہو گا میرے خاص ملازم نے مجھے اطلاع دی ہے کہ پرسو جرگہ بیٹھ رہا ہے مومن کسی طور نرم نہیں پڑ رہا وہ زریاب کو سزا دلوانا چاہتا ہے۔۔۔۔

اور جرگہ میں دو ہی سزائیں ہیں خون کا بدلہ خون یا عزت کے بدلے عزت۔۔۔۔۔

طاہر صاحب نے تشویش سے کہا۔۔۔جن کی بات پر صائمہ بیگم بری طرح رو دیں۔۔۔

طاہر صاحب کچھ بھی کی جیے میرے بچوں پر آنچ بھی نہیں آنی چاہيے۔۔۔۔

جب کہ زریاب کی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیاں تھیں۔۔۔

وہ مر کر بھی وفا کو ان کے حوالے نا کرتا ابھی تو شکر تھا کہ وہ باہر تھی ورنہ کیا ہوتا یہ سوچ کر ہی اسکا دل کانپ گیا۔۔۔۔

                 ************

مومن اور اسفند رات سے آئی سی یو کے باہر جلے پیر کی بلی کی طرح گھوم رہے تھے۔۔۔

ان دونوں کو کسی طور چین نہیں آ رہا تھا۔۔۔

دروازے کے پیچھے دونوں کی ہی عزیز ہستی تھی۔۔۔

مومن کا غصہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ شریانیں غصے کی زیادتی سے پھٹنے کے قریب تھیں۔۔

اور اسفند مومن کو دیکھ دیکھ کر گھبرا رہا تھا ۔ اسکی بےچینی کم ہونے پر ہی نہیں آ رہی تھی۔ اسے لگا اس کا دل سحر کی وجہ سے گھبرا رہا ہے مگر وہ اس بات سے انجان تھا کہ اس کے دل گھبرانے کی وجہ یہ ماحول نہیں بلکہ اسکی عزیز ترین ہستی ہے جسکا اندازہ اسے آنے والے وقت میں ہونے والا تھا۔

ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی دونوں تیر کی تہزی سے ڈاکٹر تک پہنچے تھے۔۔۔

ڈاکٹر کیا ہوا اجالا ٹھیک تو ہے نا اسفندیار نے بےچینی سے پوچھا کیونکہ آنے والا وقت اجالا کی صحت یابی پر ہی منحصر تھا۔۔۔

اور مومن اسکے الفاظ تو جیسے کہیں کھو گئے تھے۔ جنہوں نے زبان کا ساتھ تک نا دیا تھا۔ جبکہ دل الگ پریشانی سے بند ہونے کے قریب تھا۔۔۔

ڈاکٹر نے دونوں نوجوانوں کو تاسف سے دیکھا۔

رت جگے کی سرخی ان دونوں کی آنکھوں سے واضح تھی۔

ڈاکٹر کو بتاتے ہوئے دلی دکھ ہوا۔۔

آئی ایم ویری سوری۔۔۔۔۔

یہ الفاظ دونوں پر بجلی بن کر گرے تھے۔

یہ سننا تھا کہ اسفندیار بند آنکھوں سے کرسی پر ڈھے گیا۔۔۔

اور مومن اسکی حالت کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی تھی۔

کچھ دیر بعد جب اسکے حواسوں نے کام کیا تو اسکی آنکهوں میں سلگتی ہوئی آگ بھڑک اٹھی تھی اور یہ آگ بدلے کی آگ تھی جسکی زد میں نجانے کتنی زندگیاں آنے والی تھیں۔

اسکو جاتا دیکھ اسفندیار روک بھی نا پایا کیونکہ اب زریاب کو مومن کے قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا ۔ وہ خود بھی نہیں۔۔۔

                 *************

مومن سحر کو لینے آیا تھا اتنا سب کچھ ہونے کے بعد وہ اپنی بہن کو اس دھوکے باز کے ساتھ کبھی نہیں رہنے دے سکتا تھا۔

وہ گاڑی میں بیٹھا ہارن پر ہارن بجا رہا تھا کیونکہ وہ کسی صورت اندر جا کر زریاب کی شکل نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔

سحر اسکی گاڑی دیکھ فوراً باہر کر طرف بھاگی اور تیزی سے اسکے پاس باہر آئی لالہ آپ یہاں۔۔۔

سحر چلو میں تمہیں لینے ْآیا ہوں اب اس مجرم کے ساتھ میں تمہیں ایک پل نہیں برداشت کر سکتا فوراً گاڑی میں بیٹھو مومن نے لب بھینچ کر کہا۔۔۔

مگر لالہ زریاب بے قصور ہیں انہوں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔

اسکی بات پر مومن کا دماغ بھک سے اڑا۔۔۔

کیا بکواس کر رہی ہو سب جانتے بوجھتے اپنی بہن کے مجرم کا ساتھ دے رہی ہو شرم آنی چاہیے تمہیں۔۔۔۔۔

بس لالہ بار بار انہیں مجرم مت کہیے جب انہوں نے جرم کیا ہی نہیں تو کیسا مجرم۔۔۔

سحر بھی زریاب کی گواہی میں بولی آج نہ بولتی تو شاید وہ ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے زریاب سے جدا ہو جاتی۔۔۔

او تو اس نے تمہیں بھی کوئی جھوٹی کہانی سنا کر اپنے جال میں پھانس لیا۔مومن نے اس کے پیچھے زریاب کو دیکھتے کہا۔۔۔۔

تم میرے ساتھ چل رہی ہو یا نہیں ,میری ایک بات یاد رکھنا سحر اگر آج تم میرے ساتھ نہ گئی تو خان حویلی کے دروازے تم پر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔۔۔

لالہ پلیز ایسا تو مت کہیں میں آپ دونوں میں سے کسی کو نہیں چھوڑ سکتی ۔۔۔

سحر نے تڑپ کر کہا۔۔۔۔۔

سحر آ رہی ہو یا نہیں۔۔۔مومن دھاڑا۔۔۔

لالہ میری بات۔۔۔۔"ہاں یا نا "

سحر کی بات کاٹ کر چیخا۔۔۔۔

نہیں۔۔۔جواب دیتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔

مومن کی آنکھوں میں اسکا جواب سن کر حیرت ابھری پھر بےیقینی۔۔۔

اب سے ہم سمجھیں گے کہ خان حویلی کی دوسری بیٹی بھی مر گئی۔۔۔۔

یہ کہتے ہی مومن نے ایک نفرت بھری نگاہ زریاب پر ڈالی اور تیز رفتار سے گاڑی دوڑاتا نکلتا چلا گیا۔۔۔

جبکہ سحر بے بسی سے مومن کی دھول اڑاتی گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔۔

زریاب نے فوراً آ کر اسے گلے سے لگایا۔۔۔

                   *********

شاہ صاحب کچھ کریں میری بیٹی پتا نہیں کس حال میں ہو گی مومن بھی فون نہیں اٹھا رہا ۔۔

شہناز بیگم نے روتے ہوئے ثاقب صاحب سے کہا۔۔

بےشک اجالا انکی سوتیلی بیٹی تھی مگر اسے انہوں نے ہی پالا تھا اور زیادتی کا نام سن انکو اپنا کلیجہ پھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔

اگر میری بیٹی کو کچھ بھی ہوا تو سحر کا لہاز کیے بغیر میں زرہاب کو زندہ زمین میں دفن کر دوں گا۔ میں ایسے ہی اسے بخشنے والا نہیں۔۔۔

اسکا فیصلہ تو اب جرگہ ہی کرے گا۔۔۔ان کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔۔۔۔

                    **********

مومن آتش فشاں بنا حویلی پہنچا تھا اسنے آتے ہی اجالا کی حالت کے بارے میں سب کو بتا دیا تھا۔

یہ سن کر شہناز بیگم اپنے ہوش و حواس کھوتے زمین پر گر پڑیں جبکہ انکی جیٹھانی اور دیورانی روتے ہوئے ان کو سمبھالنے لگیں۔ انکی حویلی کا شیرازہ ایک دم بکھر کے رہ گیا تھا۔

گاؤں میں یہ بات آگ کی طرح پھیلی تھی۔

اور مومن وہ تو زریاب کے خون کا پیاسہ ہوا پھر رہا تھا۔ ساری حویلی کے فرد سمیت ملازموں کو بھی زریاب سے نفرت ہو گئی تھی۔ طھوٹی چچی تو زریاب اور اسکے گھر والوں کو منہ بھر بھر کے بد دعائيں دے بیٹھیں تھیں۔

یہ دو دن پلک جھپکتے گزرے تھے جرگہ میں سبھی معزز لوگوں سمیت پورا گاؤں جمع تھا۔۔۔

جن میں سے ایک معزز فرد بولا۔۔

خان حویلی والوں کا کہنا ہے کہ ملزم زریاب بن طاہر خان نے انکی بیٹی اجالا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔۔۔کیا یہ سچ ہے۔۔؟

نہیں رومی صاحب یہ جھوٹ ہے میں بے قصور ہوں۔ مجھے پھنسایا جا رہا ہے۔

زریاب بےبسی سے بولا۔۔۔

کمینے جرگے میں جھوٹ بولتا ہے میں تیری کھال ادھیڑ دوں گا۔۔" 

مومن اسکے جھوٹ بولنے پر طیش میں اتا اس پر جھپٹا جسے بمشکل ہی اس سے الگ کیا گیا۔۔۔۔

کیا گواہ ہے آپ کے پاس کے آپ نے بدکاری نہیں کی معزز رومی نے زریاب سے پوچھا۔۔۔

میرے پاس کوئی گواہ نہیں رعمی صاحب لیکن اس بات کا بھی کوئی گواہ نہیں کہ میں نے بدکاری کی ۔۔۔

وہ اپنی بےگناہی پر چلایا۔۔۔۔

گواہ ہے۔۔۔مومن چلایا۔۔۔

جس پر سب نے حیرت سے پھٹی نظروں سے اسے دیکھا جس کے اشارے پر دو کسانوں کو حاظر کیا گیا۔۔۔

صاحب جی ہم جو کہیں گے سچ کہیں گے کیونکہ ہمارے گھروں میں بھی عزت ہے ہم کسی کو یوں بغیر انصاف کے نہیں دیکھ سکتے۔۔۔

ان میں سے ایک چلایا۔۔۔

یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔زریاب دھاڑا۔۔۔

صاحب ہم نے خود اس ہوس پرست انسان کو ڈیرے پر اجالا بیبی کو زبردستی لاتے اور ان سے بدسلوکی کرتے دیکھا۔ ہم نے فوراً ۔۔مومن صاحب کو فون کیا۔۔۔لیکن جب تک وہ آئے یہ بھیڑیا اپنا کام کر چکا تھا دوسرے شخص نے زریاب کو بھری محفل بیں شرمندہ کر دیا تھا۔۔۔

لوگ زریاب کو برا بھلا کہنے لگے۔۔۔

یہ جھوٹ ہے میں نے کچھ نہیں کیا میری بات کا کوئی یقین کیوں نہیں کرتا۔۔۔۔وہ چیخا چلایا مگر بےسود۔۔۔

گواہوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جرگہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یا زریاب کو خون کے بدلے میں قتل کر دیا جائے یا اسکی بہن کو ونی کے طور پر خان حویلی رخصت کر دیا جائے۔۔۔۔

کبھی نہیں میں کبھی اپنی بہن کو نہیں دوں گا وہ دھاڑا۔۔۔

زریاب کے دھاڑ پر مومن نے اسے گردن سے دبوچا اور نیچے پٹخا ۔۔۔تیری موت تو میرے ہاتھوں لکھی ہے۔ لوگ اسے پیچھے ہٹا رہے تھے مگر وہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔

رک جائیں مومن خان ابھی فیصلہ نہیں ہوا طاہر صاحب نے کہا تو لوگوں نے مومن کو اس پر سے اٹھایا۔۔۔

آپ کیا کہ رہے ہیں ڈیڈ میں مرتا مر جاؤں گا مگر اپنی بہن کو اس بھیڑیے کے حوالے نہیں کروں گا جو سچ کو نہیں پہچان سکتا۔۔۔میں جانتے بوجھتے اسے اس سائکو کے حوالے کر کہ اسکی زندگی جہنم نہیں بناؤں گا ۔۔۔۔

زریاب نے نفرت آمیز لہجے میں مومن کو دیکھتے کہا جسے بمشکل اسفند نے قابو کیا ہوا تھا۔۔۔۔

اسکی باتیں سن کر مومن کو آگ لگ گئی۔۔۔

اگر یہی بات ہے تو ٹھیک ہے مجھے اسکی بہن چاہیے میں بھی دیکھتا ہوں اب تو اپنی بہن کو کیسے بچاتا ہے مومن پھنکارا تو زریاب اپنی بہن کا نام سن تڑپ اٹھا جب معزز رومی نے وفا کو جرگہ میں بلانے کا کہا۔۔۔

وہ یہاں نہیں ہے معزز رومی وہ دیارِ غیر ہے اور ویسے بھی میں بےقصور ہوتے ہوئے بھی اپنی جان دینے کو تیار ہوں تو میری بہن کو بیچ میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے۔۔۔

اسکی تڑپ کسی طور کم نا ہو رہی تھی۔۔۔

لیکن میں اب تمہاری بہن کو ہی ونی کی رسم کے طور پر لوں گا اور تمہارا بدلہ اس نازک جان سے لوں گا اور اسکی بدتر حالت دیکھ کر تم کتنا تڑپو گے میں ابھی سے اندازہ لگا سکتا ہوں۔۔۔۔مومن نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے آرام سے بیٹھتے کہا۔۔۔کیونکہ اب وہ سمجھ چکا تھا کہ زریاب کی بہن وہ طوطہ ہے جس میں زریاب کی جان ہے۔۔۔

اب وہ اپنی ذلت کا بدلہ اس نامعلوم سے لینے کے در پر تھا۔۔۔۔

نہیں کبھی نہیں میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا مرد کا بچہ ہے تو مجھے ابھی مار دے یوں بز دلوں کی طرح عورتوں سے کیوں انتقام لیتا ہے۔۔۔

اسکی بات پر مومن نے آو دیکھا نا تاؤ اپنے ملازم سے گن جھپٹی اور عین اسے دل پر رکھ کے دھاڑا۔۔۔

تو لے مر جا۔۔۔۔

"رکیے اگر سزا دینی ہے تو مجھے دی جیے میرے بھائی کو نہیں میں ونی میں جانے کے لیے تیار ہوں کیونکہ خون کا بدلہ خون ہوتا ہے جو میرے بھائی نے کیا ہی نہیں اور عزت کے بدلے عزت ۔ "

اس سے پہلے کے وہ فائر کرتا ایک صنفِ نازک کی مضبوط آواز پر اسکی ریوالور پر گرفت ڈھیلی پڑی۔۔۔۔۔۔۔

اس آواز پر تین لوگوں کے دل دھڑکنا بھول گئے تھے۔۔۔

وفا جو عیشل کے ساتھ کہیں نکلنے کی تیاری کر رہی تھی فون بجنے پر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔بھابی کالنگ دیکھ کر اسنے فٹ فون اٹھایا اور سلام جھاڑا۔۔۔

او ماڑا کیسا ہے ہمارا برفی۔۔۔اسنے شوخ لہجے میں پوچھا تو جواباً سحر کی سسکیاں سن وہ ٹھٹک گئی۔۔۔۔

کیا ہوا ہے بھابی وہ فوراً سنجیدہ ہوئی۔۔۔۔

وفا پلیز زریاب کو بچا لو۔۔۔۔

سحر نے زریاب کی لہولہان حالت کو سدھارنے کے بعد فوراً وفا کو کال ملائی تھی۔۔۔

اور اس سب واقعے کو سن کر وفا کو اپنا جسم بے جان ہوتا محسوس ہوا۔۔۔

اسکے لالے پر کسی نے ہاتھ اٹھایا بھی کیسے وہ وہاں ہوتی تو اس ہاتھ کو جڑ سے اکھاڑ دیتی۔۔۔۔

وفا معاملے کی سنگینی کے باعث ارجنٹ فلائٹ لے کر ایک دن بعد پہنچی تھی جہاں اسے پتہ چلا کہ جرگہ بیٹھ چکا ہے۔

وہ بغیر دیر کیے جرگے کے طرف روانہ ہوئی جہاں فیصلے کی گھڑی تھی۔

وہاں پہنچ کر وفا نے جو دیکھا وہ اسکی سانسیں کھینچ لینے کے مترادف تھا ۔ اپنے محبوب کو یوں اپنے بھائی پر تشدد کرتا دیکھ اسکی سانسیں تنگ ہونے لگیں۔۔۔

اور پھر جو ہوا اسکی وفا نے کبھی زندگی میں امید نہیں کی تھی۔

وہ مومن جسے اسنے چاہا ہی عورتوں کی عزت کرنے والے کی بنا پر تھا آج وہی دھڑلے سے جرگے میں سینہ ٹھوک کر اسکی عزت کی دھجیاں اڑا رہا تھا۔ 

یہ تو وہ مومن تھا ہی نہیں جس سے اسنے محبت کی تھی۔ یہ تو کوئی اور ہی جنونی شخص تھا جو عورت زات کا تقدس بھلائے ونی کی نیچ رسم میں اسکی ڈیمانڈ کر رہا تھا۔ وفا کی یقین کی عمارت دھڑ دھڑ کرتی گرتی چلی گئی۔۔۔

"میں تمہاری بہن کو ذلیل کر کہ اپنی بہن کی عزت کا بدلہ لوں گا پھر دیکھوں گا کہ تم زندہ کیسے بچتے ہو" مومن کے ان الفاظوں نے وفا کی محبت پر پہلے ضرب لگائی تھی۔۔۔۔۔

وہ اس سے زیادہ اپنی محبت کی توہين برداشت نہیں کر پائی تھی۔ اس سے پہلے کہ مومن اپنا آپا کھو کر زریاب کے دل کو گولیوں سے چھلنی کرتا ۔۔۔۔

اسنے بے ساختہ اونچی آواز میں اسے روک دیا۔۔۔

اسے لمحہ لگا تھا فیصلہ کرنے میں وہ اپنے بےقصور جان سے عزیز بھائی کو یوں مٹی میں ملتے نہیں دیکھ سکتی تھی سو خود کو اس پر قربان کر دیا۔۔۔۔

اسکی آواز پر پورے میدان میں خاموشی چھا گئی۔

مومن نے صنفِ نازک کی آواز پر اس سمت دیکھا تو ایک نازک سی لڑکی کو چادر سے اپنا چہرہ ڈھکا دیکھ وہ چونکا ۔۔۔

آواز کچھ جانی پہچانی تھی۔۔۔

اسنے سر جھٹکا پھر اسنے تمسخرانہ نظروں سے دیکھتے زریاب کا گریبان ایک جھٹکے سے چھوڑا اور معزز رومی کو مولانا کو بلانے کا کہا۔۔۔۔

مولوی کو بلائیے میں نکاح ابھی کروں گا جس نے جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لے۔۔۔

اسکی آنکھوں میں جیت دیکھ زریاب تڑپ کر وفا کی جانب بھاگا۔۔۔وہ کیسے نہ پہچانتا اپنی ماں جائی کو ۔۔۔

اسنے وفا کا رخ پلٹا جس سے وفا کی پیٹھ جرگے کی طرف ہو گئی ۔۔۔۔

وفا یہ تم کیا کر رہی ہو جاؤ یہاں سے میں کسی طور ایسا نہیں ہونے دوں گا میں مرتا مر جاؤں گا مگر تمہیں اس بھٹی میں نہیں جھونکوں گا۔۔۔

اسنے بہتی آنکھوں کو زبردستی صاف کرتے وفا کو دھکیلتے کہا جو ٹس سے مس نا ہوئی۔۔۔

کہا تھا نہ لالہ کے اگر تمہارے لیے جان بھی گروی رکھنی پڑی تو کر گزروں گی کیوں کہ تم دل ہے میرا اگر دل دھڑکے گا تو ہی میں زندہ رہوں گی نہ اور اگر تمہیں کچھ ہوا تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گی کیونکہ تم جڑواں ہو میرے اسنے زریاب کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں پیار سے تھامتے کہا اور پیاسی نگاہوں سے اسے دیکھتی اپنی آنکھوں کی پیاس بجھانے لگی پتہ نہیں پھر کب اس چہرے کو جی بھر کر دیکھ سکے گی یہ سوچتے ہی اسکے آنسو ٹوٹ کر اسکے چہرے پر بکھرتے چلے گئے۔۔۔۔

"کیا تم بھی ان سب کی طرح مجھے مجرم قرار دے چکی ہو" زریاب نے شکوہ کرتی آنکھوں سے پوچھا تو فوراً نفی میں سر ہلا گئی ۔۔۔۔

جس دن میرا میرے لالے پر سے اعتبار اٹھا اس دن میرا اس دنیا میں آخری دن ہوگا۔ اسنے ایک جزب سے کہا تو وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔۔۔

تو پھر کیوں اس ظلم کو سہنے جا رہی ہو میں تم پر ایک کڑی نگاہ برداشت نہیں کر سکتا کجا کہ ظالمانہ سلوک کبھی نہیں۔۔۔

زریاب نے شدت سے نفی کی۔۔۔

 جب اسفند کے آنے پر وہ اسکی طرف دیکھنے لگا۔۔۔

                 **************

اس مجمع میں ایک اسفند بھی تھا جو اس نسوانی آواز پر ٹھٹکا اور پھر سناٹوں میں گھرا رہ گیا۔۔۔۔

وہ کیسے نا پہچانتا اس آواز کو یہ تو اسکے محبوب کی اواز تھی جسے اسنے پوری عمر سننے کی چاہ کی تھی مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔

بے شک وہ حسینہ پردے میں تھی مگر وہ تو اسے جھکی نگاہوں سے ہی پہچان چکا تھا۔

وہ بھی کوئی عاشق ہوا جو اپنے محبوب کی موجودگی نہ پہچان سکے۔

اسکے اعصاب سن ہو چکے تھے اسنے بمشکل خود کو ہوش دلایا وہ کبھی بھی وفا کو اپنی جان خطرے میں ڈالنے نہیں دے سکتا تھا بے شک مقابل اسکا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔

وہ فوراً سے لوگوں کی پرواہ کیے بغیر اس تک پہنچا جو اپنے بھائی کے سینے لگی اپنا غم غلط کر رہی تھی۔۔۔۔

وفا یہ کیا بےوقوفی ہے۔۔۔۔وہ اسکے قریب پہنچ کر اسکا ایک بازو دبوچ کر اسے اپنے سامنے کرتے دھیمے مگر سرد لہجے میں غرایا۔۔۔

وفا سن سی اسے دیکھنے لگی اسنے کبھی اسفند کو غصے میں نہیں دیکھا تھا کجا کہ اسکا سرد لہجہ۔۔۔۔

زریاب بھی الجھن سے اسفند کو دیکھنے لگا اپنے مخالفین کے بندے کی آنکھوں میں وفا کے لیے فکر دیکھ اسکا ماتھا ٹھنکا۔۔۔

تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم خود کو کس کھائی میں دھکیل رہی ہو ۔۔۔

میں تمہیں یوں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔

اسکا لہجہ کانپتا ہوا اور آنکھیں ضبط کے باوجود نم تھیں۔۔۔۔

جانتی بھی ہو مومن کی جنونیت کو وہ ادھیڑ کے رکھ دے گا تمہیں اور مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں کہ تمہیں لہولہان دیکھ سکوں۔۔۔

پلیز ابھی بھی پیچھے ہٹ جاؤ اسنے منت کی ۔۔۔اسے وفا کی انکھوں میں آر یا پار کی تحریر نظر آ رہی تھی۔۔۔۔

اسکا دل کیا کسی طرح وفا کو غائب کر دے۔۔۔

اب ایسا ممکن نہیں اسفند جنگ شروع ہو ہی چکی ہے تو آخری سانس تک مقابلہ کروں گی کیونکہ میں خان حویلی کسی کی محبت نہیں بلکہ کسی بے قصور قاتل کی بہن بن کر جا رہی ہوں۔۔۔

اسکا اشارہ مومن کی محبت کی طرف تھا جسے اسفند باخوبی سمجھ چکا تھا۔۔۔

جب وہ بولی تو اسکے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔۔۔۔

لیکن زریاب اسفند کی بے چینی کی وجہ جان چکا تھا اور اسے ایک نئی راہ دکھی تھی

                  *************

میں تیار ہوں اپنی بہن کو ونی میں دینے کے لیے لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔

زریاب کی آواز پر میدان میں سناٹا چھا گیا۔۔۔

بولو کیا بات ہے معزز رومی بولے۔۔۔۔

اگر میری بہن کو خان حویلی ہی ونی کر کے لے جایا جا رہا ہے تو میں چاہتا ہوں میری بہن کا نکاح خان حویلی کے بیٹے مومن سے نہیں بلکہ اسفندیار خان سے ہو گا۔۔۔

اسکی آواز خان حویلی والوں پر بم بن کر گری تھی۔

زریاب کی بات نے مومن کی انا پر کاری ضرب لگائی تھی کہ وہ بلبلا اٹھا۔۔۔

نہیں ایسا ممکن ہی نہیں وہ جواباً دھاڑا۔۔۔

کیوں کیوں ممکن نہیں زریاب نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔۔

کیونکہ بہن میری مری ہے۔۔۔۔اسکی اس بات پر جرگہ بلکل متفق تھا اس لیے زریاب کی لاکھ کوششوں اور منتوں کو نظر انداز کیے ۔

وفا کو مومن کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا۔۔۔

"مومن یہ تو کیا کر رہا ہے ایسا مت کرو ورنہ بہت پچھتائے گا تو"

 اسفند وفا کی طرف سے انکار سن کر فورا مومن کی طرف بھاگ کر آیا تھا کہ اسے آنے والے پچھتاوں سے بچا سکے مگر مومن اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔۔۔

" اسفندیار خان ایک اور لفظ مطلب ایک اور لفظ نہیں "مومن نے تندہی نظروں سے اسے تنبیہ کی۔۔۔

 مومن ایک دفعہ میری بات سن لے اور اس نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے اس کا رخ اپنی جانب موڑا مگر مومن جھٹکے سے وہ بازو چھڑا چکا تھا اور غصے سے دھاڑا۔۔۔

" بس کر دے سب جانتا ہوں میں اجالا تیری بہن نہیں ہے اس لئے تو یہ سب کہہ رہا ہے اگر یہی سب تیری بہن کے ساتھ ہوتا تو تب میں تجھ سے پوچھتا"۔۔

 مومن کی اتنی سخت بات پر اسفندیار سکتے کی زد میں آگیا وہ کب سوچ سکتا تھا کہ مومن بھی اس سے کوئی ایسی بات کر سکتا ہے اجالا اس کی بھی تو بہن تھی کیا ہوا جو وہ اسکی سگی بہن نہیں تھی لیکن اس کی بہن جیسی تو تھی وہ تو اس کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔

 لفظ سارے جیسے کہیں کھو گئے تھے۔

 چونکا تو وہ تب جب ان دونوں کا نکاح شروع ہوا۔۔۔

 وفا کی طرف سے نکاح قبول ہو چکا تھا اب مومن کی باری تھی۔۔۔۔

 مومن خان ولد ثاقب خان کیا آپ کو وفا خان ولد طاہر خان سے نکاح بعوض پانچ لاکھ روپے حق مہر قبول ہے۔۔۔

 اس سے پہلے کہ مومن قبول ہے کہتا اسفندیار پھر ایک دفعہ مومن کے کان میں جھک کر کہنے لگا۔۔۔

" مومن بس ایک دفعہ میری بات سن لو مجھے وفا کے بارے میں تمہیں کچھ بتانا ہے کہ وفا کوئی اور نہیں بلکہ تمہاری"۔۔۔۔

" جسٹ شٹ اپ اسفند سٹے اوے فرام می۔۔۔۔"

قبول ہے تین دفعہ کہتے ہی اسنے زریاب کو تمسخرانہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

 اس سے پہلے کہ اسفند مومن کو بتاتا کہ وفا ہی گل رخ ہے مومن نے دھاڑ کر اسے چپ کروا دیا جس پر اسفند لب بھینچ کر رہ گیا۔۔۔

 ویسے بھی مومن کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے زریاب نے مومن کی جگہ اسفندیار کا نام لیا۔۔۔۔

 یہ بات اس کی انا پر کوڑے کی طرح لگی تھی جس کا غصہ وہ اسفندیار پر نکال رہا تھا۔۔۔۔

 مگر اسفند کی بات نہ سن کر وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔

 اسفندیار کا دل تقریباً بند ہونے کے قریب تھا

اسفندیار خود پر جبر کر کر وفا کو مومن کے حوالے تو کر سکتا تھا مگر اس پر کسی قسم کا ظلم برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔

 اس نے سرخ آنکھوں سمیت آسمان کی طرف ایک نگاہ ڈالی اور اپنے رب سے دعا کی تھی اب اس کی دعا کتنی قبولیت کا درجہ پاتی یہ تو خدا ہی جانتا تھا۔۔۔

*************

لالے تمہیں بےگناہ ثابت نہ کیا تو مجھے اپنی بہن مت کہنا ۔ یہ وعدہ ہے میرا میں اگر مر بھی گئ تو بھی لوٹوں گی یا غازی بن کر لیکن آنا مجھے تمہارے پاس ہی ہے بس ایک بات کہوں گی مجھ پر یقین رکھنا اتنا کہتے ہی وہ زور سے زریاب کے گلے لگی۔۔۔

 زریاب نے بھی کس کر اسے گلے لگایا جیسے اس سے اسکی کوئی قیمقی چیز چھن جانے کا ڈر ہو اور وہ اسے چھوڑنا نہ چاہتا ہو ۔ وفا نے زبردستی خود کو اس سے الگ کیا اور طاہر صاحب کے گلے لگی۔ 

بابا روئیں تو مت آج آپ کی بیٹی کی رخصتی ہے۔۔۔

اسنے طاہر صاحب کے آنسو صاف کرتے کہا۔۔۔

ہنس کر رخصت کریں مجھے کیونکہ میں رونے نہیں رلانے جا رہی ہوں۔۔۔

اسنے روتے روتے ہنس کر ایک آنکھ مرتے کہا تو وہ بہتی آنکھوں سے اپنی بیٹی کے تسلی دینے کے انداز پر مسکرا دیے۔۔۔

بابا میں واپس ضرور آؤں گی فکر مت کریں آپ کے پاس اپنی جان چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ بس اسکی حفاظت کی جیے گا۔۔۔

وفا نے زریاب کو نظروں میں رکھ کر کہا۔۔۔

پیچھے ثاقب صاحب نے اسکو ہاتھ سے کھینچتے انسے الگ کیا اور گاڑی میں پٹخا۔۔۔آج انہیں پتہ لگا تھا کہ انکی بیٹی واقعی بڑی ہو گئی ہے۔۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ وفا خان سے وفا مومن خان بن کر زبردستی ہی سہی خان حویلی گھسیٹتی چلی گئی۔۔۔۔

                  ***********

تینوں گاڑیاں ایک قطار میں خان حویلی کے آگے آ کر رکی تھیں۔ جن میں سے ایک سے مومن دوسری سے اسفند جب کے تیسری سے ثاقب خان وفا کو کھینچتے ہوئے نکلے جس نے اپنی چادر کو مٹھی سے پکڑے اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا۔  مومن تو کسی کو دیکھے بغیر ناک کی سیدھ میں جلتا ہوا جاکر اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔  اسے تو اپنے آپ پر غصہ ہی بہت تھا وہ کرنے کیا گیا تھا اور کیا کر آیا تھا وہ تو زریاب کو مارنے گیا تھا تو پھر اس کی بہن کو کیسے لے آیا۔

 سب صحیح چل رہا تھا پھر زریاب کا اسے غصہ دلانا اور اس کا غصہ میں آ کر اس کی بہن ڈیمانڈ کرنا سب کچھ غلط ہوگیا تھا۔  وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا اسے اپنے آپ پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔

 پیچھے ثاقب صاحب نے وفا کو لاکر شہناز بیگم کے قدموں میں پٹخا۔۔۔

 یہ کون ہے ثاقب صاحب اور مومن اتنے غصے میں کیوں گیا ہے۔۔۔

 شہناز بیگم کو جو حالات نظر آرہے تھے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھیں۔

 انہوں نے ونی میں اپنی بہن دے دی ہے۔ اب اس کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے وہ آپ پر منحصر ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھیے گا کہ یہ ہماری بیٹی کے نیچ قاتل کی بہن ہے۔ اس کی اوقات اس حویلی کے ملازمین سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے انہوں نے سرد لہجے میں شہناز بیگم کو وارن کیا اور اپنے کمرے میں چلے گئے ۔۔۔

پیچھے ان کے دونوں بھائی ابراہیم اور ناصر صاحب تاسف سے سر ہلاتے رہ گئے پتا نہیں یہ بھائی ان کا کس پر چلا گیا تھا وہ دونوں تو بہت رحم دل تھے۔۔۔

 "میرا لالہ قاتل نہیں ہے"

اپنے بھائی کے بارے میں اتنے گھٹیا الفاظ سن کر اس کی بس ہو چکی تھی وہ خود پر تو بات سن سکتے تھے مگر اپنے جڑواں بھائی پر کبھی بھی نہیں۔  آخر ضبط کرتی کرتی وہ بول ہی پڑی تھی۔۔۔

 گرنے سے اس کی ہتھیلیاں چھل چکی تھیں جب کہ آنکھیں رونے ہونے کے باعث سرخ پڑ چکی تھیں۔۔۔

 "کیا کہا ایک تو ہماری بیٹی کھا گئی اوپر سے بکواس کرتی ہے" عصمت بیگم نے پیچھے سے آ کر اس کے بال دبوچتے ہوئے اسے کھڑا کیا اور منہ پر رکھ کر تھپڑ مارا۔۔۔

چٹاخ۔۔۔

 اس کا نازک گال سنسنا اٹھا تھا۔۔۔ دماغ سن ہو گیا تھا۔ آنسو بکھرتے چلے گئے۔۔۔

بول, بول  اپنے منہ سے کہ تیرا بھائی بے غیرت ہے جو دوسروں کی عزت پر نظر ڈالتا ہے۔۔۔۔

" بس بہت ہوگیا بہت کہہ لیا آپ نے بہت سن لیا میں نے "

اس نے عصمت بیگم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کہا جس ہاتھ سے انہوں نے اس کے بال دبوچے ہوئے تھے۔۔۔۔

 میں پہلے بھی کہہ چکی تھی اور اب بھی کہہ رہی ہو میرے بھائی نے کچھ نہیں کیا میرا بھائی بے قصور ہے۔ 

 اگر اب آپ نے ایک لفظ بھی میرے بھائی کے خلاف کہا تو میں بھول جاؤں گی کہ آپ عمر میں مجھ سے بڑی ہیں۔۔۔۔

" کیا کیا کرلو گی تم بولو کیا کر لو گی ایک تو تمہارے بھائی نے میری معصوم بیٹی مار دی اور اوپر سے تم ہمیں تیور دکھا رہی ہو" شہناز بیگم نے اس کا رخ اپنی طرف پلٹ کر دو چار تھپڑ اس کے منہ پر جھڑ دیے۔۔۔

 وفا کا منہ پوری طرح سوھ چکا تھا بلکہ ایک طرف سے اس کا ہونٹ پھٹ چکا تھا۔

 بال کھینچے جانے کی وجہ سے الجھ گئے تھے مکمل وہ ایک قابل رحم حالت میں لگ رہی تھی۔۔۔

 عصمت اور شہناز بیگم نے اسے دھنک کر رکھ دیا تھا مگر اس کے لبوں پر ایک ہی بات جاری تھی کہ اس کا بھائی بے قصور ہے جو ان دونوں کے طیش میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔۔۔

نعیمہ بیگم سے اور نہ دیکھا گیا تو  وہ فورا وفا کے آگے آ گئی اور اسے اپنی  نرم آغوش میں چھپا لیا۔۔۔

 کیا کر رہی ہیں آپ شہناز,عصمت بس کریں ماردے گی کیا اسے۔۔۔ انہوں نے اپنی دیورانیوں کا روکا جو وفا کی جان لینے کے در پر تھیں۔ انہیں کسی طرح بھی نہ رکتا دیکھ عمر فوراً آگے آیا اور ان دونوں کو پکڑ کر پیچھے کیا۔۔۔

 کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو کچھ تو خدا کا خوف کریں وہ بھی انسان ہیں۔۔۔۔

 عمر کو ان دونوں پر افسوس ہوا جو خدا کا خوف بھلائے اس  بے قصور کو اذیت میں مبتلا کر رہی تھیں اور نازیہ شازیہ جو یہ دیکھ کر انجوائے کر رہی تھیں عمر نے ڈانٹ کر ان دونوں کو کمرے میں بھیجا۔۔۔

 اسے اپنی دونوں بہنوں پر بھی افسوس ہوا جو بالکل اپنی ماں پر گئی تھیں۔۔۔

 نعیمہ بیگم بہت مشکل سے وفا کو مومن کے کمرے میں چھوڑ آئیں۔۔۔

 آپ نے مجھے ان سے کیوں بچایا نعیمہ بیگم جو وفا کو بیڈ پر صحیح طریقے سے بٹھا رہی تھی اس کی بات پر چونکی۔۔۔

 اب اسے کیا بتاتیں کہ وہ تو ان کے لاڈلے اکلوتے بیٹے کی پسند تھی پھر وہ اسے کیوں نہ پسند کرتیں مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔

 میں سمجھ گئی آپ اسفند کی ماما ہے نا۔۔۔

 اس کے اتنے صحیح اندازے پر وہ حیران ہوئیں۔۔۔

 حیران مت ہوں اسنے اپنے زخمی لب سے خون صاف کرتے کہا۔۔۔

 اس حویلی میں آنے سے پہلے مجھے رحم کی امید صرف دو لوگوں سے ایک اسفند اور ایک اس کی ماں سے۔۔۔

 میں کسی کو فرسٹ ایڈ باکس دے کر بھجواتی ہوں وہ کچھ دیر تو اسے نم آنکهوں سے دیکھتی رہی تھیں جب برداشت نہ ہوا تو بشکل بولتے ہوئے باہر کی طرف چلی گئیں۔۔۔

 پیچھے وہ زخموں سے چور اپنے لب بھینچ کر رہ گئی۔۔۔۔۔

                   ***********

مومن جو واشروم میں شاور کے نیچے اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہا تھا فریش ہو کر باہر نکلا تو اپنے کمرے میں ایک وجود کا اضافہ دیکھ اسکے ماتھے پر تیوری چڑھی۔۔۔

وہ اسکی طرف بڑھا اور اسکے عین مقابل آیا۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتا سامنے وجود کے چہرے پر نظریں پڑتے ہی وہ سن رہ گیا۔۔۔۔۔...

                  *******

اس سے پہلے کہ وہ اسے کھری کھری سناتا... اس کا لال سوجا ہوا چہرہ دیکھ کر رکا....

 نظریں ہونٹوں سے ہوتی ہوئی ناک تک گئیں ناک سے نتھ تک, ہیرے کی نتھ سے آنکھوں تک اور آنکھوں پر آکر نظریں تھم چکی تھیں۔۔۔

  اس کا ایک ایک نقش گل رخ سے چرآیا ہوا تھا۔ تو کیا یہ گل رخ تھی اور یہاں آتے ہی اس کی سانس سینے میں اٹک گئی۔۔۔

 وفا بھی مومن کو سامنے پا کر اٹھ کر اس کے مقابل آ گئی اور اس کی آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں ڈالے دیکھنے لگی۔۔۔

 یوں لگتا تھا جیسے ابھی اس کی آنکھوں سے خون چھلک پڑے گا۔۔۔

 دونوں ہی پلک جھپکنے سے قاصر تھے جیسے اگر کسی ایک نے بھی پلک جھپکی تو گناہ ہو جائے گا۔۔۔

"گل رخ تم یہاں کیا کر رہی ہو...

 اور یہ سب کیا ہے کس نے کیا ہے یہ سب تمہارے ساتھ "

اس نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر غصے سے لب بھینچتے کہا ۔۔۔

اسے بیڈ پر بیٹھا کر فرسٹ ایڈ باکس لے کے آیا۔۔۔

" ارے واہ زخم بھی خود ہی دیتے ہو اور پھر مرہم بھی خود ہی رکھتے ہو یہ کون سی طرز ہے مسیحائی کی"

 وفا کی کرب ناک آواز نے کمرے کا سکتا توڑا اور مومن کے ہاتھ اس کے چہرے پر مرہم رکھتے ٹھٹک کر رک گئے۔۔۔۔

 کیسی باتیں کر رہی ہوں اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

 میں کیسی باتیں کر رہی ہوں یا تم سمجھنا نہیں چاہتے۔۔۔

 وفا نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا جس پر مومن اسے ماتھے پر بل ڈالے دیکھنے لگا۔۔۔

 غور سے دیکھو پہچانا نہیں مجھے میں کون ہوں۔۔۔

 وفا نے اسے ایک آئی برو طنزیہ اچکاتے کہا۔۔۔۔

 اس کا لہجہ اور اس کی آنکھیں مومن کو ایسی بات سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے جو وہ سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔

 ایک دم دنیا جہاں کی حیرت امنڈ آئی تھی اس کی آنکھوں میں ۔۔۔

"تم زریاب کی..."

 اس سے آگے مومن سے کچھ بولا نہیں گیا...

 ہاں میں ہی ہوں زریاب کی بدبخت بہن جسے تم ونی میں لائے۔۔۔

 وفا ہی جانتی تھی اس نے یہ لفظ اپنے منہ سے کیسے ادا کیے تھے۔۔۔

 مومن جھٹکے سے پیچھے ہوا تھا جیسے کسی اچھوت چیز کو چھو لیا ہو۔۔۔

" نہیں ایسا نہیں ہو سکتا تم, تم کیسے ہو سکتی ہو اس کی بہن اس کی بہن کا نام تو وفا تھا"۔۔۔

" وفا میرا ہی دوسرا نام ہے مومن وفا" نے تمسخرانہ انداز اپناتے ہوئے کہا۔۔۔

 اگر مجھے ذرا سا بھی علم ہو تاکہ تمہیں اس کی بہن ہو تو میں کبھی تمہیں ونی کی رسم میں نہ مانگتا۔۔۔۔

 وفا اس کی بات سن کر ایک دم ہنسنا شروع ہوئی اور ہنستی ہی چلی گئی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں سے ہنستے ہنستے آنسو بہنے لگے اور وہ نیچے گھٹنوں کے بل جھک گئی۔۔۔۔

" پتا نہیں چلا مومن کیسے پتا نہیں چلا....؟ تم ہی تم تو مجھ سے محبت کے دعویدار تھے تو تم مجھے دیکھ کر بھی نہ جان پائے کہ میں کوئی اور نہیں بلکہ تمہاری محبت ہوں, جب اسفند یار مجھے ایک نظر میں دیکھ کر پہچان سکتا ہے تو پھر تم کیوں نہیں ۔۔۔"

تو تم پھر کون سی محبت کی سیڑھی پر کھڑے ہو جہاں ایک محبت کرنے والا اپنی چاہت کو ہی نہیں پہچان سکا۔۔۔۔۔

 اب تو وفا کی آنکھوں سے آنسو بھی ختم ہوچکے تھے۔۔۔۔

مومن کو لگا اس کی نسیں پھٹ جائیں گی۔۔ اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتا وفا اس کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔۔۔

 مجھے اپنا جواب چاہیے مومن۔۔۔۔۔

" تم تو وہ مومن ہی نہیں جس سے میں نے محبت کی۔۔"

 جس مومن کو میں جانتی تھی وہ تو عورتوں کی عزت کرتے نہیں تھکتا تھا لیکن آج میں نے جس مومن کو جرگہ میں دیکھا اس نے تو اپنی ہی محبت کی عزت کی دھجیاں اڑا دیں۔۔۔۔

 وفا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

" تمہارا بھائی قاتل ہے میری بہن کا اس نے میری بہن کی عزت لوٹی بتاؤ اس بات کا کیا جواب ہے تمہارے پاس"۔۔۔

مومن نے اس کے دونوں بازوں کو سختی سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا تو وفا کو لگا مومن کی انگلیاں اس کے بازو میں دھنس جائیں گی۔۔۔۔

 اس نے ضبط سے اپنے لبوں کو دانتوں تلے بھینچ لیا۔۔۔

 مجھے اپنے بھائی پر آنکھ بند کرکے یقین ہے نہ وہ ایسا تھا نہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔۔۔۔

 اس کے اتنے یقین پر مومن کی آنکھوں سے لہو چھلکنے لگا۔۔۔

" تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں میں نے اپنی آنکھوں سے اس کو یہ سب اپنی بہن کے ساتھ کرتے دیکھا اور میں اپنی کیفیت بیان نہیں کرسکتا لیکن تم ,تم اپنے بھائی پر ہی یقین رکھو اس نے وفا کو ایک جھٹکے سے زمین پر چھوڑتے ہوئے کہا اور باہر نکلتا چلا گیا".....

 پیچھے وفا اپنے شکستہ وجود کے ساتھ اپنی قسمت کی ستم ظریفی پر آنسو بہانے لگی جس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا اب تو صبح کا سورج اس کے لیے کیسی نئی آزمائشیں لانے والا تھا یہ تو صبح ہی بتا چلنا تھا۔۔۔۔

           *************

دوسری طرف نعیمہ بیگم جب اسفندیار کے کمرے میں آئیں تو گھُپ اندھیرے اور سگریٹ کے دھویں نے انکا استقبال کیا کہ وہ ایک دم منہ کے آگے ہاتھ کرتی کھانسنے لگیں۔۔۔۔

انہوں نے فوراً تمام لائٹیں آن کیں۔۔۔۔

لائٹ آن ہونے سے ایک دم کمرہ روشن ہو گیا۔۔۔۔

جب انکی نظر بیڈ کے ساتھ نیچے لگ کر بیٹھے اسفندیار کو بےحال دیکھا تو انکا کلیجہ منہ کو آ گیا۔۔۔۔

اسفند ۔۔۔ اسفند بیٹے یہ کیا حال بنا لیا تم نے میرے چاند وہ فوراً چیزوں پر سے پھلانگتی جو اسفند کے غصہ کی نظر ہو چکیں تھی) ہوئی اس تک پہنچی اور اسکا جھکا سر اٹھا کے کہا۔۔۔۔

کمرہ تو وہ تہس نہس کر چکا تھا جبکہ خود کا حال بھی مختلف نہ تھا۔۔۔

خون رنگ آنکھیں, سلوٹ زدہ شلوار کمیز, گریبان کھلا ہوا, بال بکھرے ہوئے تھے۔۔۔۔

وہ ایک ہارا ہوا انسان لگ رہا تھا جس کی دنیا ہی لُٹ گئی ہو۔۔۔۔

کیوں امی کیوں۔۔۔۔

اسکے منہ سے بس ٹوٹے لفظوں میں یہی نکلا تھا۔۔۔

اسکی امی اسکا یہ حال دیکھ کر رو دیں وہی تو جانتی تھیں کہ انکا بیٹا اس لڑکی سے عشق کرتا ہے۔۔۔۔۔

"آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ زریاب وفا کا بھائی ہے یہ بات مجھ سے کیوں چھپائی"

اسکی آواز میں اتنا دکھ اتنا کرب تھا کہ انہیں لگا انکا دل پھٹ جائے گا۔۔۔۔

بیٹا مجھے معاف کر دو مجھے لگا تم برداشت نہیں کر پاؤ گے۔۔۔۔۔انہوں نے روتے ہوئے کہا تو وہ طنزیہ ہنسی ہنس دیا۔۔۔۔

"تو میں اب کونسا خوش ہوں دیکھیں مجھے غور سے دیکھیں سلگ رہا ہوں میں میرا انگ انگ سلگ رہا ہے میں چاہ کے بھی اپنی محبت کو نہیں بچا پایا جسکی خوشیوں کے لیے اسے چھوڑا تھا وہ خوشیاں عزاب بن گئیں اسکے لیے اور میں کچھ نہ کر سکا کیوں۔۔۔۔۔۔"

وہ دھاڑا تو نعیمہ بیگم کانپ اٹھیں۔۔۔۔

اگر آپ مجھے پہلے بتا دیتیں تو میں کچھ کر لیتا بچا لیتا اپنی زندگی کو مگر اب میں کیا کروں گا ۔۔۔۔کیسے بچاؤں گا اسے ۔۔۔ان سب کے ظلم سے۔۔۔۔

وہ ایک دم اٹھ کر بالوں میں میں ہاتھ پھیرتے ادھر ادھر چکر کاٹنے لگا اور ایسا کرتا وہ کوئی پاگل ہی لگ رہا تھا۔۔۔۔۔

نعیمہ بیگم اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھ بےبسی سے رو دیں۔۔۔۔

"میں ایسا کرتا ہوں ابھی اس سے مل کر آتا ہوں ایسے مجھے چین نہیں آئے گا ,عجیب سی بےچینی ہے جیسے وہ دکھ میں ہو"....

اسنے اپنا سینہ مسلتے کہا۔۔۔۔

اس بات سے انجان کے دونوں کی روحیں تو آپس میں ملی ہیں زخم محبوب کو ملے تو درد عاشق کو ہوتا ہے۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتا نعیمہ بیگم نے اسے روکا۔۔۔

امی مجھے جانے دیں مجھے مت روکیں اسنے سرخ آنکھوں سے کہا تو نعیمہ بیگم نے لب بھینچے اور کہا۔۔۔۔

وہ اس حالت میں نہیں کہ تم سے مل سکے ۔۔۔۔

کیوں آپ ایسے کیوں کہ رہی ہیں اور نظریں کیوں چرا رہی ہیں امی میری طرف دیکھ کر بات کریں اسفند نے انکا منہ اپنی طرف کرتے کہا۔۔۔۔

شہناز اور, عصمت نے مل کر اسے بہت مارا ہے اور وہ اس حال میں نہیں کہ تم اسے دیکھ سکو۔۔۔۔

اسکے ہاتھ ایک دم بےجان ہو کر انکے کندھوں سے گرے۔۔۔۔

"وہ دونوں مل کر آپ کے بیٹے کی زندگی کی سانسیں تنگ کرتی رہیں اور آپ نے کچھ نہ کیا" 

اسنے خالی آنکھوں سے انہیں دیکھتے کہا۔۔۔۔۔

بیٹا ایسی بات نہیں عمر اور میں نے بمشکل اسے چھڑایا اور اسے مومن کے کمرے میں چھوڑ آئے ہیں ۔ اب تمہارا وہاں جانا ٹھیک نہیں انہوں نے اسفندیار کو دبے لفظوں میں سمجھایا۔۔۔

اسفندیار کے لفظ جیسے کہیں کھو گئے۔۔۔

تو مطلب ایک اور عزیت میں چھوڑ آئیں اسے۔۔۔

"لیکن میری ایک بات سن لیں امی میں اسکے ساتھ اس حویلی میں کوئی ظالمانہ سلوک برداشت نہیں کروں گا اگر کسی نے اسے کوئی تکلیف پہنچائی تو اسکا زمہدار وہ خود ہو گا"۔۔۔۔

اسنے دروازے پر مکا مارتے کہا اور تن فن کرتا نکل گیا۔۔۔۔۔۔

                 **************

صبح کا سورج نئی آزمائشیں لے کر آیا تھا وفا کے لیے ۔ وہ جو رو رو کر نڈھال سی زمین پر لیٹی تھی۔ دسمبر کے ماہ میں ٹھنڈا یخ پانی پورے جسم پر پڑتے ہی ہڑبڑا کر اٹھی۔ جسم الگ ٹھنڈ کے مارے کپکپانے لگا۔۔۔

"اٹھو مہارانی صاحبہ تم دلہن بن کر نہیں آئی جو یوں آرام فرما رہی ہو ونی میں آئی ہو تم ہماری باندھی بن کر چل اٹھ اور حویلی والوں کے لیے ناشتہ بنا" 

عصمت بیگم نے اس کمزور جان کو نخوت سے جھنجوڑ کر رکھ دیا جسکا جسم بخار میں تپ رہا تھا۔۔۔۔

اب وہ اتنے بڑے کچن میں ملازمین کے بیچ کنفیوز کھڑی تھی کیونکہ پراٹھے اسے بنانے نہیں آتے تھے۔۔۔ جب ہی ایک لڑکی جسکا نام نوری تھا فوراً آگے بڑھی۔۔۔۔

ادی آپ رہنے دیں میں بنا دیتی ہوں آپ کی طبيعت خراب ہے اسنے وفا کا سوجا ہوا سرخ منہ دیکھتے ہمدردی سے کہا اور فٹافٹ ناشتہ بنانے لگی جبکہ وفا نے چائے کا پانی چڑہایا۔۔۔

اور تشکرانہ نظروں سے نوری کو دیکھا جو اپنی معصوم سی بیگم صاحبہ پر فدا نظر آ رہی تھی۔۔۔۔

باہر کھانے کی سربراہی کرسی پر مومن بیٹھا تھا کیونکہ حال ہی میں وہ سردار بنا تھا جبکہ سب بڑے اسکے اطراف اور باقی کزن بھی لائن میں بیٹھے تھے۔۔۔۔

خان حویلی کا یہ اصول تھا کہ تین وقت کا کھانا وہ سب اکٹهے ہی کھاتے تھے۔ کیونکہ یہ ان کے بزرگوں کا اصول تھا۔۔۔

اسفندیار بھی مارے بندھے ہی اپنی امی کے اتنے اصرار پر وہاں بیٹھا تھا کیونکہ وہ یہ سب تماشہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔

"ارے او منحوس کہاں مر گئی ناشتہ کہا تھا یا پائے جو اتنی دیر لگا رہی ہے " عصمت بیگم کی پھٹکار سنتے وہ کانپتے ہاتھوں سے چائے کی ٹرے پکڑے نوری کے ساتھ آئی۔۔۔

اور سب کو چائے سرو کرنے لگی۔۔۔

سب کا اسکو دیکھ کر منہ بن چکا تھا جبکہ اسفند جہاں تھا وہیں رہ گیا۔۔۔۔

اس چاند سے چہرے کا اتنا برا حال۔۔۔اسکا یہ حال اسکا دل چیر گیا تھا نوالہ جیسے حلق میں اٹکا تھا۔۔۔۔

غوطہ لگتے ہی فوراً سب اسکی طرف متوجہ ہوئے جو اب پانی پی رہا تھا۔۔۔

جب شازیہ نے سب کا دیہان اسفند پر دیکھا تو وفا کے پاؤں میں ٹانگ اڑائی جو عصمت بیگم کے لیے چائے ڈال رہی تھی۔۔۔۔

اسکا ہاتھ لڑکھڑایا اور تھوڑی سے چائے کے چھینٹے انکا نفیس سوٹ داغ دار کر گئے۔۔۔۔

"ارے کم زات منحوس ماری تجھے میرے ہی کپڑے ملے تھے"۔۔۔

انہوں نے بغیر کسی کا لہاز کیے اسکے منہ پر الٹے ہاتھ کا تھپڑ مارا جس پر وہ لڑکھڑا کر پیچھے گری۔۔۔۔

مومن نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی اور ایک لفظ منہ پر نہ لایا۔۔۔اسفند کا خون مومن کو دیکھ کر کھولنے لگا جو اپنی محبت کی رسوائی پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا۔۔۔

عصمت بیگم نے بغیر اسکی پروا کیے کپ میں بچی گرم چائے اسکے ہاتھ اور پاؤں پر پھینک دی جو اسکا ہاتھ اور سفید پاؤں جلا کر سرخ کر گئی۔۔۔

آہہہہہہ"

اسکی دردناک چیخوں سے حویلی گونج اٹھی۔۔۔

"بس" اسفند ایک دھاڑ سے اٹھا جس کی بدولت اسکی کرسی پیچھے جا گری اور اسکی آگے کی پلیٹس نیچے گر گئیں۔۔۔

"بس بہت ہو گیا سمجھتے کیا ہیں آپ سب آپ لوگوں کے سینے میں دل نہیں جو دھڑکتا ہے یا پتھر فٹ ہے جسی اس معصوم کا کوئی خیال ہی نہیں " 

اسنے خون رنگ آنکھوں سے سب کو دیکھتے کہا۔۔۔

جو سب ہونکوں کی طرح اسکا چہرہ تک رہے تھے۔۔۔۔

"نوری"

"نوری"

اپنی آواز کی پکار پر وہ دوڑی چلی آئی۔۔۔۔

نوری فوراً انہیں کمرے میں لے کر جاؤ اور مرہم پٹی کرو۔۔۔

اسکی بات پر سب لوگوں کے منہ پر غصہ چھلکنے لگا۔۔۔۔جبکہ وفا نے اسے تشکر آمیز نظروں سے دیکھا جسے دیکھتے وہ نظریں چرا گیا۔۔۔

وہ پہلے تو کچھ نہ کر سکا تھا اسکے لیے مگر اب اسنے سوچ لیا تھا اسکے ہوتے ہوئے وہ کسی کو بھی وفا کو نقصان پہنچانے نہیں دے گا۔

نوری جب وفا کو لے گئی تو اسفندیار وہاں سے جانے لگا۔ جب مومن کی بات نے اسکے قدم روکے۔۔۔۔

"اسفندیار میں اس گاؤں کا سردار ابھی زندہ ہوں۔ جب میں اس کا شوہر ہو کر نہیں بولا تو تم کیوں بولے یہ بڑوں کا معاملہ ہے بہتر ہے تم ان سب سے دور رہو "

اسنے وارننگ دیتے لہجے میں کہا تو اسفند پلٹا اور اسکے قریب آیا۔۔۔۔

مجھے معاف کی جیے گا سردار مومن صاحب کے میں نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔ To hell with your restrictions and bloody vani rasam

اسکی بات پر سب غصے سے کھڑے ہوئے۔۔۔

اسفند زبان سمبھال کر بات کرو ...ثاقب صاحب دھاڑے۔۔۔تم گاؤں کے سردار سے بات کر رہے ہو۔۔۔۔

"مجھے معاف کی جیے گا چاچا میں سردار صاحب کو اپنا بھائی سمجھ بیٹھا تھا مگر مجھے کیا علم تھا کہ یہ تو کٹھور سردار ہیں جنہیں اپنی انا اپنے رشتے سے زیادہ عزیز ہے"۔۔۔

اسنے بھی بھگو بھگو کے ماری۔۔۔

"میرا دم گھٹتا ہے یہاں۔ خدا کی قسم جس دن میری مجبوری ختم ہوئی اس دن خود یہاں سے سارے رشتے ختم کر کے چلا جاؤں گا اور نہ ہی تب کوئی مجھے روک سکے گا اور نہ ہی کوئی سردار حکم چلا پائے گا "۔۔۔ اسنے مومن کو طنزیہ نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔

اسکی بات پر سارے گڑبڑا گئے اور اسے ٹھنڈا کرنے لگے۔۔۔

جب کے مومن اسے گھوریوں سے نواز رہا تھا جسنے اسے بھائی اور جگری یار سے سیدھا سردار بنا دیا تھا۔۔۔۔

"اسفند ہم آرام سے بیٹھ کے بات کرتے ہیں"۔۔۔مومن نے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔

"کیا تمہیں واقعی یقین ہے کہ میں تمہاری بات سنوں گا" مومن اسفندیار نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔۔

"یقین کرو جس دن میری مجبوری ختم ہوئی وہ دن میرا اس حویلی میں آخری دن ہوگا اور تم پچتاتے رہ جاؤ گے۔۔۔۔

مومن کو اس لمحے وہ کوئی اور ہی شخص لگا"۔۔۔

"کہا تھا نہ اپنی محبت کا خیال رکھنا مگر تم وعدہ وفا نہ کر پائے اب بھول جاؤ تمہارا کوئی دوست تھا"

اسفندیار نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

             *****************

نوری جیسے ہی اسکی مرہم پٹی کر کے گئی تھی عصمت نے اسے پھر بلوا لیا تھا۔۔۔

"مردوں کو قابو کرنا تو اچھی طرح آتا ہے تم جیسی نیچ لڑکیوں کو جیسا بھائی ویسی بہن"

اسکے آتے ہی عصمت بیگم نے اسپر نشتروں کی برسات کر دی تھی جس سے اسکی روح گھائل ہو کر رہ گئی تھی مگر ابھی صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔

یہ برتن دیکھ رہی ہو یہ سب رات کے کھانے سے پہلے دھل جانے چاہیے۔۔۔۔اگر ان میں سے ایک بھی بچا تو رات کے کھانے تک تم نہیں بچو گی۔۔۔۔۔

اسنے ایک نظر اپنے سامنے لگے برتنوں کے ڈھیر کو دیکھا۔ ایسا  لگ رہا تھا انہوں نے جان بوجھ کر یہ دھلے برتن دھونے والے کیے ہیں تاکہ اسے عزیت دے سکیں کیونکہ پورا سنک اور تینوں شیلو گندے برتنوں سے بھری تھیں۔۔۔

اسنے ایک نظر اپنے جھلسے ہاتھوں کو دیکھا جن پر بڑے بڑے سرخ پانی والی آبلے پڑے تھے اور پھر برتنوں کو۔۔۔

اسنے خدا کا نام لیا اور لگی برتن دھونے۔۔۔۔

بمشکل ہی سہی لیکن وفا نے رات تک جیسے تیسے کر کے سارے برتنوں کا ڈھیر دھو دیا تھا مگر صرف وہی جانتی تھی کہ اسے یہ سب کرنے میں کتنی تکلیف ہوئی اور اب تو اس کے ہاتھ کسی کام کے نہیں رہے تھے۔ہاتھوں پر پڑے پانی کے آبلے پھٹ چکے تھے اور ان میں سے پانی رس رہا تھا۔۔۔۔۔

 آنسو بہہ بہہ کہ آنکھیں سوج کی تھیں۔۔۔

 بخار کی تپش سے ہلکان ہوتی وہ کبھی ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو قابو کرتی اور کبھی پانی پی کر اپنا پیٹ بھرتی۔۔۔

 بھوک سے اسے اب چکر آنا شروع ہو گئے تھے۔۔۔۔

 جب اس سے باہر کھانا لگانے کا بلاوا آیا۔۔۔ تو وہ اپنی ساری ہمت جمع کر کے اٹھی اور نوری کے ساتھ مل کر باہر ٹیبل پر کھانا لگانے لگی اس کا یہ حال دیکھ کر شازیہ,نازیہ,عصمت بیگم اور شہناز بیگم بہت خوش تھیں۔۔۔

 کھانا سرو کرتے وقت بھی اس کے ہاتھ کپکپاہٹ کا شکار تھے۔۔۔۔

یہ کون ہے بھئی۔۔۔۔

قاسم جو آج ہی شہر سے آیا تھا وفا کو اوپر سے نیچے تک دلچسپی سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔

"ہنہہہہ" ونی میں آئی یے کم زات۔۔۔ نائلہ بیگم(اسفند اور مومن کی پھپھو)... تنفر سے بولیں۔۔۔

قاسم کے لب اووو کہ انداز میں کھلے اور ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔

وفا اسکی گہری اور بےباک نظروں سے الجھن کا شکار تھی جبھی اپنے گرد لی چادر بار بار درست کرتی۔۔۔

کسی نے نوٹ کیا ہو یا نہیں مگر اسفندیار اسکی بےچینی بھانپ چکا تھا۔۔۔

 مومن کو وفا کے ہاتھ دیکھ تشویش نے آن گھیرا مگر وہ زبان پر خاموشی کا پہرا بیٹھاے کھانا کھانے لگا۔۔۔۔

 لیکن جب وہی ہاتھ اسفند کے آگے آئے تو اس کا دل دکھ سے بھر گیا۔۔۔۔۔

 وہ چاہ کر بھی اپنی آنکھوں میں نمی آنے سے نہ روک سکا۔۔۔۔

 بھوک پل میں مری تھی۔۔۔

 اور اس نے اپنی پلیٹ کی آگے ہاتھ کرکے اسے کھانا ڈالنے سے روک دیا تو وہ اچھنبے سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔

 اسفند کی نظریں مسلسل اس کے ہاتھوں کی طرف تھی جب کہ سبھی ہاتھ روکے اسے دیکھنے لگے۔۔۔۔۔

 آپ اپنے کمرے میں جائیں۔۔۔۔ اسفند کی بات پر اس نے کچھ کہنا چاہا۔۔۔

" مگر"

 میں نے کہا نہ آپ اپنے کمرے میں جائیں اس حویلی میں ملازمین کی کمی نہیں ہے غصہ ضبط کرنے کے باوجود اس کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔۔۔۔

 اسے وفا کی طبیعت کے ساتھ ساتھ اس کی الجھن بھی سمجھ آگئی تھی جو وہ بار بار قاسم کی نظروں سے محسوس کر رہی تھی تبھی اسے منظر سے ہٹانا ہی بہتر سمجھا۔۔۔۔۔

 اس کے ہٹتے ہی سارے اسفندیار کو گھورنے لگے جبکہ اس کی گھورتی نظریں قاسم پر تھیں جو ہربڑا کر نظریں جھکا گیا۔۔۔۔

 اس کے غصے کی وجہ سے کوئی کچھ نہ بولا لیکن وہ صرف اپنی پلیٹ میں چمچ ہلاتا رہا بھوک تو ویسے بھی مر گئی تھی اور پھر کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر چلا گیا۔۔۔۔

            ************

رات کے بارہ بج چکے تھے۔ حویلی میں ہو کا عالم تھا ۔ سب ہی اتنی سردی میں اپنے کمروں میں دبکے ہوئے تھے۔ ایسے میں وفا سروینٹ کوارٹر میں۔ زمین پر ایک پتلی چادر پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اکڑوں بیٹھی تھی۔ ہاتھ اور پاؤں جلن کے مارے بے حال تھے۔ آنسو بےلگام ہوتے اسکی آنکھوں سے ٹپکتے جا رہے تھے۔ وقفے وقفے سے اسکی سسکی کی آواز گونج رہی تھی۔ درد کے مارے اسکا برا حال ہو چکا تھا۔۔۔

ایسے میں اپنے کمرے کے باہر قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ وہ ٹھٹکی۔۔۔

کوئی دبے پاوں اندر داخل ہوا۔۔۔۔

وفا نے آرام سے اپنی آنکھیں موندھ لی تھیں۔۔۔

"برداشت کیوں نہیں ہوتا تم سے آخر کار چلے آئے"

وہ جیسے اسکی موجودگی سے واقف تھی تبھی آنکھیں بند کر کہ ہی پہچان لیا تھا کہ آنے والا کوئی اور نہیں اسفند ہے۔۔۔۔

وہ بھی اپنے نئے کلف لگے سوٹ کی پروا کیے بغیر اس سے کچھ دور سامنے کی دیوار سے لگ کر اکڑوں بیٹھ گیا۔۔۔

نظریں جھکی ہوئی تھیں۔۔۔۔

"تم کچھ کہتی کیوں نہیں کیوں چپ چاپ سہتی ہو یہ سب ظلم جس وفا کو میں جانتا ہوں وہ ایسی تو نہ تھی"

اسفندیار نے دکھ سے کہا۔۔۔۔

"ہنہ جس وفا کو تم جانتے تھے اسے اسکی محبت پر ناز تھا,بلکہ کامل یقین تھا جبکہ یہاں آتے ہی وہ یقین پل میں مسمار ہو چکا ہے ایک برباد ہوئی عمارت کی طرح پھر کہاں کی بہادری کہاں کا انصاف ہم تو اپنی ہی محبت کے ڈسے ہیں"

اسنے تمسخرانہ انداز میں کہا جبکہ اسفند کو اسکی بات میں تمسخر سے زیادہ شکستہ حالی نظر آئی تھی۔۔۔

کیا تھی وہ اور کیا سے کیا بن گئی تھی۔۔۔

"وفا تمہیں سب کا ہمت سے مقابلہ کرنا ہو گا"

"ہا ہا ہا ہا میری محبت نے ہی مجھے یوں منہ کے بل گرایا ہے کہ اٹھنے کی سکت نہیں پھر کہاں کا مقابلہ کیسا مقابلہ" ۔۔۔۔

اسکا قہقہ بھی اسکی طرح کھوکھلا ہو چکا تھا۔۔۔

تو تم زریاب کو گناہگار مانتی ہو۔۔۔

اسفند کی بات پر اسنے تڑپ کر اسے دیکھا۔۔۔

"تو پھر یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیسے ہار مان سکتی ہو, اسے بے قصور ثابت کرنے کے لیے لڑو"

اسفند کی بات اسکے دل کو جا کر لگی تھی وہ سیدھی ہو بیٹھی۔۔۔

"تم اپنی بہن کے عزت کے لوٹیرے کا ساتھ دے رہے ہو" 

اسکے سوال میں تفتیش سے زیادہ حیرت تھی۔۔۔

"تم اپنے بھائی کو عزت کا لوٹیرا سمجھتی ہو"اسفندیار نے آئیبرو اٹھا کر سوال کیا تو وہ فوراً بولی۔۔۔۔

"کبھی نہہں میں مر کر بھی یقین نہیں کر سکتی کہ زریاب ایسا کر سکتا ہے مجھے اس پر پورا یقین ہے لیکن تم کیوں میرا ساتھ دے رہے ہو تم کیوں اسے بےقصور سمجھتے ہو ۔ تم تو وہاں نہیں تھے نہ , نہ تم نے دیکھا جبکہ مومن کہتا ہے اسنے یہ سب دیکھا تم پھر بھی میرا ساتھ دے رہے ہو"

وفا نے یقین سے کہتے ہوئے حیرت میں اس سے سوال کیا۔۔۔۔

تو وہ سر جھکا کر مسکرا دیا۔۔۔۔

جیسے تمہیں اپنی محبت پر یقین ہے ویسے ہی مجھے اپنی محبت پر یقین ہے اگر تم کہتی کہ زریاب وہاں نہیں گیا تھا میں تب بھی یقین کر لیتا کیونکہ مجھے تم پر اندھا یقین ہے" اسنے ٹہر ٹہر کر ایک ایک لفظ ادا کیا جو وفا کو کسی اور جہاں لے جا چکا تھا اور کتنے احسان کرے گا یہ لڑکا اس پر ۔۔۔۔

وہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔۔۔

اسکی محبت سچی تھی تبھی وہ اسے نہ پا کر بھی سکون میں ہے جبکہ میں اور مومن ہم میں سے کسی کی محبت میں اتنا صدق نہیں تھا کہ ہماری محبت کامل ہو سکتی ۔۔۔۔

وفا اسفند کو دیکھ کر دل میں بولی۔۔۔

چونکی تو تب جب نوری مرہم لے کر آئی اور اسے لگانے لگی۔۔۔

درد ضبط کرتے اسے منہ سے کبھی سسکی کبھی آہ نکل رہی تھی جو اسفندیار کے دل میں درد کی لہر برپا کر دیتی۔۔۔۔

وہ چاہتا تو اسکی مرہم پٹی خود بھی کر سکتا تھا مگر اسے وفا کی عزت زیادہ عزیز تھی مگر اس دل کا کیا کرتا جو ہر وقت وفا کی طرف ہمکتا تھا۔۔۔

پھر نوری بھی تو اسکے حال سے واقف تھی۔ وہ اسے ہمیشہ بہنوں کی طرح ٹریٹ کرتا تھا ۔ جب ہی وفا کے بارے میں بھی نوری کا سارا علم تھا۔۔۔

جب اس سے وفا کا درد برداشت نہ ہوا تو وہ جانے لگا جب وفا کے لفظوں نے اسکے قدم زنجیر کیے۔۔۔۔

پہلی دفعہ ہوا ایسا کہ مجھے چوٹ لگی اور تم نے آنکھ اٹھا کر مجھے دیکھا بھی نہیں۔۔۔

اسکی بات پر وہ تڑپ کر پلٹا ۔۔۔۔

"ایسا نہیں ہے وفا بس ڈرتا ہوں تمہیں دیکھ کر میری نظریں کوئی گستاخی نا کر بیٹھیں۔۔۔۔اور ویسے بھی اب تم کسی کی امانت ہو میرے پاس ایسا کوئی حق بچا ہی نہیں جس کی بنا پر تمہیں نظر بھر کر دیکھ سکوں"

"اور سنا تو ہوگا تم نے ادب و احترام پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔۔۔"

اسنے اپنے بازو سے زبردستی آنکھوں سے بےلگام ہوتے آنسو پونچھتے کہا۔۔۔۔

"چلتا ہوں اس سے پہلے کہ کچھ اور بول دوں جو بولنا نہیں ویسا بھی آج کل منہ سے دل کی بات ہی نکل جاتی یے خدا حافظ اپنا خیال رکھنا اور کھانا کھا لینا"

"اسفی" اسکی ہلکی سی آواز پر اسفند کا دل کیا سب چھوڑ چھاڑ کر اسکے پاس یہیں رہ جائے۔۔۔

"تم بھی کھانا کھا لینا حیران مت ہو اچھی طرح جانتی ہو تمہیں, محبت نہ صحیح تم سے دل کا رشتہ ہے پتا ہے مجھے کہ میرے جاتے ہی تم کھانا کھائے بغیر اٹھ گئے ہو گے "

اسفند کو حیران ہوتے دیکھ اسنے بات مکمل کی ۔۔۔۔

اسفند اسکی بات پوری ہوتے ہی نکلتا چلا گیا کیونکہ کچھ دیر اور رکتا تو جا نہ پاتا۔۔۔

پیچھے وفا نم آنکھوں سے اس رستے کو دیکھتی رہی جہاں سے وہ گزرا تھا۔۔۔۔

                    ***********

جیسے ہی اسفند کمرے میں گیا مومن کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ ٹہلتے ٹہلتے نیچے آیا تو نوری کو کچن میں رات کے اس پہر دیکھ کر چونکا ...

 نوری تم رات کے اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔

 نوری جو وفا کی مرہم پٹی کر کے اسے کھانا کھلا کر ابھی کچن میں برتن رکھنے آئی تھی مومن کی آواز پر ہڑبڑا کر مڑی۔۔۔

جی! وہ وفا بی بی کو کھانا کھلا کر ان کے جھلسے ہوئے ہاتھوں پر مرہم لگا کر یہ بس برتن رکھنے آئی تھی میں جا رہی ہوں"

 اس نے فورا کہا اور چلتی بنی اس سے پہلے کہ وہ جاتی مومن نے اسے روکا اور کہا۔۔۔۔

" وفا کو میرے کمرے میں بھیج دو"

 "جی " 

اس نے حیرت سے پوچھا کیوں کہ صبح ہی شہناز بیگم نے وفا کو سرونٹ کوارٹر میں شفٹ کرایا تھا۔۔۔

 اور اسے مومن کے کمرے میں جانے کی پابندی لگائی تھی اس وجہ سے وہ پورا منہ اور آنکھیں کھول مومن کو حیرت سے تکنے لگی جس پر اس نے اسے جھڑک دیا ۔۔۔۔

"جتنا کہا ہے اتنا کرو وفا کو میرے کمرے میں بھیجو جھڑک کر یہ کہتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور نوری وفا کو مومن کا پیغام دینے چلی گئی۔۔۔۔

                ************

یہ دو دن زریاب نے سولی پر لٹک کر گزارے تھے اسے کسی پل چین نہیں آ رہا تھا اس کی بہن اتنی مشکل میں تھی تو وہ کیسے نرم بستر پر لیٹ سکتا تھا۔وہ مسلسل اذیت کا شکار تھا۔۔۔۔

 اب اس کی بس ہو چکی تھی اگر وہ اور صبر کرتا تو یقیناً اس کی نسیں  پھٹ جاتیں۔ اس نے سوچ لیا تھا اب آر یا پار ۔۔۔

اب وہ اپنی بہن کو وہاں نہیں رہنے دے سکتا تھا کیونکہ اس نے مومن کی آنکھوں میں جو آگ دیکھی تھی اس نے کسی کو تو جلا کر راکھ کرنا تھا ۔ مگر وہ وفا کو اس سلگتی آگ سے بچانا چاہتا تھا مگر وہ اس بات سے انجان تھا کہ وہ اس سلگتی آگ میں پہلے ہی جھلس چکی ہے۔۔۔۔

 وہ غصے میں گاڑی کی چابی لے کر باہر نکلا تھا طاہر صاحب اور اس کی والدہ نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ رکا نہ ہی وہ سحر کی کسی منت سماجت پر رکا تھا۔۔۔۔

 اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر وہ وفا کو نہ لا سکا تو خود کو ہی ان کے حوالے کردے گا۔۔۔۔

 وہ جیسے ہی گاڑی لے کر نکلا تھا آدھے راستے میں اس کی گاڑی کا ٹائر برسٹ ہو گیا اور ایک جھٹکے سے اسکی گاڑی رکی تھی ۔۔۔

جیسے ہی وہ ٹائر دیکھنے باہر نکلا کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھ کر اسے بے ہوش کر دیا تھا اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔

 جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ جیل میں تھا جہاں اس پر جسمانی ریمانڈ ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

 پولیس والوں نے اس پر ڈنڈے برسا برسا کر اس کے جسم کو لہولہان کر دیا تھا۔۔۔۔۔

 وہ چلا چلا کر پوچھتا رہا کہ اس کا قصور کیا ہے مگر سارے منہ بند کیے بس اپنا کام کر رہے تھے۔۔۔۔۔

 اس نے درد سے آنکھیں بند کیں تو چھن سے اس کی آنکھوں کے سامنے وفا کا چہرا لہرایا اس کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔۔۔۔

 اسے بس اس بات کی خوشی تھی کہ اگر اس کی بہن دکھ میں تھی تو سکھ میں وہ بھی نہ تھا۔۔۔۔

               ********

 زریاب جیل میں ہے اس کی خبر کانوں کان کسی کو نہیں ہونی چاہیے خاص کر اسفندیار کو اگر اس کو ذرا سی بھی بھنک لگ گئی تو وہ اس کو نکلوانے کی سر توڑ کوشش کرے گا اس لیے میں نے تمہیں اس کام کے لیے چنا اس شخص نے سامنے بیٹھے شخص پر ہاتھ رکھ کے کہا تو وہ شیطانی مسکراہٹ لئے سر ہلا گیا۔۔۔

 جبکہ زریاب ان دونوں کو دیکھ ساری کارستانی سمجھ گیا کہ وہ اس حالت تک کس کی بدولت پہنچا۔

لیکن دکھ اسے اس بات کا تھا کہ وفا کو وہ پھر بھی رہا نہ کرا پایا۔۔۔۔

" اگر مجھے ہی قید کرنا تھا تو پھر وفا کو کیوں مانگا ہم سے" 

زریاب دھاڑا۔۔۔

باہر کھڑے ان دونوں میں سے ایک شخص مسکرادیا جلتی مسکراہٹ۔۔۔۔۔

اتنی رات کو مومن کا بلاوا وفا کو تشویش میں مبتلا کر چکا تھا وہ جیسے ہی کھٹکھٹا کر اندر آئی تو مومن نے اسے دروازہ بند کرنے کا کہا...

 دروازہ بند کرکے وہ اگلے حکم کی منتظر تھی...

 "یہاں آؤ" دو لفظی جواب میں مومن نے اسے اپنے قریب بلایا.

 جو  صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا اور ایک ٹانگ مسلسل ہل رہی تھی جو اس کی ذہنی کیفیت کے ابتر ہونے کا شکار تھی۔۔۔

 رات کے اس پہر ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر کوئی کچھ بھی سوچ سکتا تھا اور جو سوچ وفا کے ذہن میں چل رہی تھی وہ, وفا سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔

شام سے مومن غصے میں بھرا پھر رہا تھا کیونکہ اسکی اسفند سے پہلی دفعہ بول چال بند ہوئی تھی اور وجہ وفا تھی اب اس کا غصہ تو وفا پر ہی نکلنا تھا نا ۔۔۔

اس لیے رات کے اس پہر اسے اذیت دینے کے لیے بلایا تھا۔۔۔

وہ اس وقت وفا کو بس زریاب کی بہن کی طرح سوچ رہا تھا اس کے علاوہ اس کے دل میں کوئی جذبہ نہ تھا۔۔۔۔۔

وہ ایک دم اٹھ کے کھڑا ہوا اور وفا کے ارد گرد چکر لگانے لگا اور طنزیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔

" تمہیں کیا لگا تم اپنے اوپر معصومیت کا چولا اوڑھ کر لوگوں سے ہمدردی لیتی پھرو گئی اور میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا"۔۔۔۔

"مطلب کیا ہے تمہاری اس بات کا"۔۔۔

وفا لب بھینچ کر بولی۔۔۔

"تم جو اسفند کے سامنے معصومیت اور مسکین بننے کا ڈرامہ کرتی ہو کیا میں انجان ہوں اس سب سے۔ ہنہہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ یہ, تم کیا سمجھی میرا جگری یار تم پر ترس کھا کر میرے مقابل اتر آئے گا تو میں تمہیں ایسے ہی چھوڑ دوں گا نہ وفا بی بی نا"۔۔۔

"میری محبت گل رخ تم صرف اس حویلی کے باہر تھی لیکن جس دن تم نے اس حویلی کی دہلیز پار کی, اس دن سے تم میرے لیے صرف ایک لونڈی ہو دل بہلانے کا سامان جس سے دل تو بہلایا جا سکتا ہے مگر محبت نہیں کی جا سکتی"....

وفا ہی جانتی تھی اسکی باتوں نے وفا کے دل کا کیا حال کیا, اسے کیسے لہولہان کیا۔۔۔۔

"تو تم بھی نکلے نا ایک پست زہنیت کے وڈیرے جسے صرف جسموں سے محبت ہے"

وفا کی بات مومن کو کوڑے کی طرح لگی جس پر وہ بلبلا اٹھا اور وفا کو بالوں سے کھینچ کر اپنے مقابل کیا۔۔۔۔

"بہت زبان نہیں چلنے لگی میرے آگے پہلے تو مجھے آپ کہا کرتی تھی اب تم پر آ گئی"۔۔۔

اسکے طنزیہ لہجے پر وہ تمسخرانہ انداز میں مسکرائی۔۔۔۔

"آپ پہلے تمہیں میں اس لیے کہتی تھی کہ تم میری محبت تھے ۔ جس کے لیے احترام واجب تھا۔ مگر اب تم میرے لیے صرف ایک وڈیرے ہو جس کی عزت میری نظر میں دو کوڑی کی بھی نہیں جو اپنی عزت کو عزت نہ دے سکے"

وفا کی بات ختم ہوتے ہی مومن نے اسکے لبوں کو اپنی دسترس میں لیا اور اس پر اپنے غصے کی شدت لوٹانے لگا۔۔۔۔

وفا نے اسے پیچھے کرنا چاہا تو مومن نے اسکے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف موڑ دیے ۔۔۔

وفا تکلیف سے بلبلا اٹھی مگر مومن نے اس پر رحم نا کھایا بلکہ اور اسکی سانسیں تنگ کر دیں۔۔۔۔

وفا کے حواس سن ہو چکے تھے اس سے پہلے کے وہ گرتی مومن پیچھے ہٹا ۔۔۔۔وہ کھانستی ہوئی نیچے بیٹھ گئی اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔۔۔

دوسرے ہاتھ سے ہونٹوں کو رگڑتے خون صاف کیا اور رگڑتی گئی۔۔۔

تاکہ اس بے رحم کا لمس مٹا سکے۔۔۔

"ہنہ میرا لمس مٹانے کی کوشش اچھی تھی لیکن تب کیا کرو گی جب تمہاری مرضی کے خلاف تمہاری روح میں سرایت کروں گا آئی ایم ڈیم شیور تڑپو گی تم"

اسکی مسکراہٹ سے اس وقت وفا کو کراہیت محسوس ہوئی۔۔۔۔

"یو نو واٹ مومن تم سے محبت کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی مجھے شرم محسوس ہوتی ہے کہ میں نے تم جیسے پتھر دل سے محبت کی جو محبت کے م سے بھی واقف نہیں جو سمجھتا ہے بستر پر اچھے ہونے سے وہ عورت کو اپنا غلام بنا لے گا ۔ بٹ یو آر ہائلی مسٹیکن مرد وہ نہیں جو بستر پر اچھا ہو مرد وہ ہے جو اپنی عورت کو تحفظ فراہم کرے جو تم مجھے نہ کر سکے"

مومن کو وفا کی باتوں نے سر تا پیر جھلسا دیا تھا اسنے مومن کو اسکا ایسا رخ دکھایا تھا جس میں اسکی شکل نہایت کراہیت آمیز تھی۔۔۔۔جو مومن برداشت نہ کر سکا ۔۔۔

اسنے کمرے سے باہر جاتی وفا کو کمر سے پکڑ کر اندر کھینچا اور کمرہ لاک کرتے اسے بیڈ پر پٹخا۔۔۔

اور اپنے بٹن کھولنے لگا۔۔۔۔اسنے جانے انجانے میں مومن کی مردانگی کو چیلنج کر دیا تھا۔۔۔اور وہ انا کا مارا شخص اب اپنی محبت کو بری طرح روندھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔

وفا اسکے ارادے دیکھ ڈر گئی ۔ وہ جیسے ہی بیڈ سے اٹھنے لگی مومن نے اسکے دونوں ہاتھوں کو بیڈ سے لگا کر اس پر تشدد شروع کیا۔۔۔۔

"کہاں جا رہی تھی , ابھی تو تمہیں پوری رات اپنی کہی ہوئی باتوں پر پچھتانا ہے, اب تمہیں پتا چلے گا کہ میں اصل مرد ہوں یا نہیں"

وفا بری طرح بلکنے لگی تھی۔۔۔

"ایسا مت کرو مومن میری محبت کو دفن مت کرو , میں مر جاؤں گی, میری محبت کی اتنی بڑی سزا مت دو مجھے کہ دوبارہ تمہیں اس نگاہ سے نہ دیکھ پاؤں"

" نا نا نا ڈارلنگ اب تو میں تم پر ایسی مہر لگاؤں گا کہ تم میرے علاوہ کسی کو سوچو گی بھی نہیں دیکھنا تو دور کی بات ہے"

مومن نے اسکو بری طرح جگہ جگہ سے نوچتے ہوئے کہا۔۔۔۔

وہ جنونیت میں اس پر ظلم ڈھاتے ہوئے بھی یہ چاہتا تھا کہ وفا صرف اس سے محبت کرے اسے چاہے اس بات سے انجان اسکا یہ فعل وفا کے دل سے اسکی محبت ختم کر دے گا۔۔۔

وفا کی مزاحمت کرتے ہاتھ بے جان ہوتے جا رہے تھے ۔ جسم کا پور پور زخمی ہو چکا تھا۔

"خدارا مومن رک جاؤ میری محبت مر جائے گی"

اسکی کانپتی ہوئی سرگوشی پر مومن ایک لمحے کو رکا لیکن پھر کان بند کیے مکمل مدہوش ہوتا چلا گیا اور وفا کو اپنی جنونیت دکھانے لگا۔۔۔

صبح کے پانچ بجے اسنے وفا کی جان بخشی کی اور اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔

اگر کبھی نفس کے ہاتھوں مجبور ہو ڈارلنگ تو کہیں باہر منہ مارنے کی بجائے میرے کمرے میں آ جانا میں سمجھ جاؤں گا اور تمہیں تمہاے حق سے نوازوں گا آخر کار محبت ہو تم میری"

یہ کہتے ہوئے وہ اس پر سے ہٹا وفا نے نیم بےہوشی میں اسکے یہ الفاظ سنے اور پھر وہ ہوش و خرد سے بے گانہ ہوتی چلی گئی۔۔۔۔

مومن اس بات سے انجان مزے کی نیند لوٹنے لگا کہ اسنے وفا کی محبت پر کاری ضرب لگائی ہے ۔

 جس سے وفا کی محبت اپنی موت آپ مر گئی تھی۔ اب جو بچا تھا وہ خالی جسم تھا بغیر کسی احساسات کہ یا شاید اب جان باقی ہی نہ رہی تھی اسکے وجود میں یہ تو سورج نکلنے پر پتا چلنا تھا۔۔۔۔

              **************

صبح سب ملازموں کو کام کرتا دیکھ عصمت بیگم کی ماتھے پر تیوری چڑھی۔۔۔

"ارے یہ کمبخت ونی کہاں گئی سورج سر پر ہے اور اس مہارانی کی نیندیں نہیں پوری ہو رہیں , ہماری نیندیں اڑا کر یہ کمبخت اپنی نیندیں پوری کر رہی ہے"

ان کے چلانے پر سب ہی انکی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔

اے نوری جا جا کر اس بلا کو لے کر آ۔۔۔ نائلہ بیگم پھنکاریں۔۔۔

بی بی جی وہ تو رات سے مومن صاحب کے کمرے میں ہیں۔۔۔۔

"کیا کیا کیا یہ میرے گناہ گار کان کیا سن رہے ہیں دیکھ رہی ہیں بھابی آپ کیسے اس کم زات نے ہمارے بیٹے پر بھی جادو کر دیا آپ کے منع کرنے کے با وجود وہ لڑکی مومن کے کمرے میں گئی۔۔۔

نائلہ بیگم نے اپنی نند شہناز بیگم کو دیکھتے سینہ پیٹتے کہا۔۔۔۔

شہناز بیگم کا چہرہ غصے سے بھر گیا۔۔۔۔

جاؤ نوری فوراً اس لڑکی کو بلا کر لاؤ۔۔۔شہناز بیگم نے غصے سے کہا تو وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی۔۔۔۔

آج آ جائے صحیح یہ دیکھنا میں کیسے اسکی چمڑی ادھیڑتی۔۔۔۔

                   ***********

نوری کے دروازہ کھٹکھٹانے پر مومن کی آنکھ کھلی۔۔۔

کون ہے ۔۔۔ وہ اندر سے ہی غصے سے چیخا۔۔۔

صاحب جی میں نوری۔۔۔وہ بیگم صاحبہ وفا بی بی کو بلا رہی ہیں۔۔۔۔

وہ جو ابھی بھی نیند میں تھا وفا کے بابت سن کر اسکی نیند بھک سے اڑی اور اسنے فوراً پلٹ کر اپنے بازو میں دیکھا جہاں وفا پور پور زخمی حالت میں پڑی ہوئی تھی۔ اسکی رنگت خطر ناک حد تک سفید پڑ چکی تھی۔۔۔

مومن فوراً اٹھا اور اسے جھنجوڑا ۔۔۔

گل رخ , گل رخ اٹھو۔۔۔

وفا کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی جبکہ اسکا سرد جسم محسوس کرتے مومن کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔

"گل رخ میری جان آنکھیں کھولو دیکھو میری طرف"

 اسنے کانپتے لہجے میں کہ کر اسکا منہ تھپتھپایا اس امید میں کہ وہ اٹھ جائے گی مگر بے سد۔۔۔

اگر وفا مومن کا یہ فکرمند لہجہ دیکھ لیتی تو شاید خوشی سے مر جاتی مگر دیر ہو چکی تھی۔۔۔

"او مائے گاڈ یہ میں نے کیا کر دیا اپنے ہاتھوں اپنی ہی محبت کو ادھیڑ دیا اسنے دونوں ہاتھ سے اپنے بال پکڑ کر نم آنکھوں سے خود کو کوسا اسے خود سے شدید نفرت ہو رہی تھی"۔۔۔

وفا کا خیال آتے وہ فوراً ڈاکٹر کا کال کرتا اسے بلانے لگا۔۔۔

"وفا میری جان اٹھو پلیز معاف کر دو میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا میں پاگل ہو گیا تھا غصے سے, نہیں سمجھ سکا کہ اب بھی تمہیں جان سے بڑھ کر چاہتا ہوں"

اسنے وفا کو جھنجوڑتے کہا تو وفا کہ جسم پر اپنے وحشی پن کے نشان دیکھ کر اپنے منہ پر تھپڑ مارنے لگا۔۔۔

یہاں تک کے منہ لال پڑ گیا۔۔۔ زخمی ہاتھوں سے خون نکلنے لگا۔۔۔۔

اسنے اپنے ہاتھوں کو دیکھا ۔۔۔۔۔

تو اسے وہ لمحہ یاد آیا جب وفا کے ہاتھ جلے تھے تو اسنے اپنے کمرے میں جا کر اپنے بھی ہاتھ زخمی کر لیے تھے یہاں تک کہ اسکے ہاتھ خون سے بھر گئے تھے۔۔۔۔

وہ بے شک سب کے سامنے سردار بن کر وفا سے نفرت کرتا مگر اند سے وہ اب بھی وہی مومن تھا جو اسکی تکلیف پر تڑپ کر خود بھی اپنے آپ کو عزیت دیتا۔۔۔۔

مگر کل اسکے بد ترین غصہ اسکی عقل کھا گیا تھا اور وہ , وہ فعل سر انجام دے گیا جس کے لیے وہ خود کو کبھی معاف نہ کر پاتا۔۔۔

دروازہ کھٹکنے پر وہ اپنا حلیہ درست کرتا اٹھا اور وفا کا وجود کمفرٹر سے ڈھک کر دروازہ کھولا جہاں شہناز بیگم غصہ لیے اندر داخل ہوئیں اور بغیر اسے دیکھے وفا کی طرف بڑھیں تاکہ اسے بالوں سے کھینچ کر نیچے لے جا سکیں مگر وفا کو دیکھ کر انکے بھی قدم ٹھٹھک کر رکے۔۔۔۔

 اسکی اتنی بری حالت دیکھ کر انکا ہاتھ بےساختہ دل پر گیا اور انہوں نے حیرت زدہ نظروں سے مومن کو دیکھا جیسا اس سب کی امید نہ ہو۔۔۔

وہ آہستہ آہستہ اس تک گئیں اور تھوڑی سے شیٹ ہٹا کر دیکھا تو اسکے جسم پر جگہ جگہ اپنے بیٹے کے حیوانیت کے نشان دیکھ کر کپکپا اٹھیں۔۔۔۔

انہیں بے ساختہ اس لڑکی پر ترس آیا۔ بے شک وہ بھی اس سے نفرت کرتیں تھیں۔ مگر اسکی یہ حالت انکا بھی دل چیر گئ تھی۔۔۔۔

انکے بیٹے نے بھی تو وہی کیا جس کے بدلے میں یہ لڑکی یہاں آئی تھی۔۔۔

اسکا سفید پڑتا جسم نیلے پڑتے ہونٹ۔ مدھم سانسیں۔ انکو انکا رب یاد دلا گئی تھیں۔ کیا وہ اتنی سفاک ہو گئی تھیں کہ دوسروں کی بیٹی سے بھی خود حساب لینے چلیں تھیں۔

وہ فوراً پیچھے ہوئیں۔ انکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا ۔ وہ مومن کی طرف گئیں اور رکھ کر اسکے منہ پر تھپڑ مارا۔

"تم میں اور زریاب میں آج کوئی فرق نہیں رہا"...

مومن شرمندگی سے نظریں جھکا گیا۔۔۔۔

اگر اسے کچھ ہو گیا تو میرے سے نظریں مت ملانا۔۔۔

مومن جتنی دفعہ خود کو کوستا کوس چکا تھا۔۔۔

ڈاکٹر نے جب اسکا چیک اپ کیا تو مومن کو تاسف سے دیکھنے لگی۔۔۔۔

میں نے دوائیاں دے دیں ہیں۔ اور بے ہوشی کا ڈوز بھی کیونکہ یہ جتنی تکلیف میں ہیں ۔ انکا ہوش میں نا آنا ہی اچھا ہے۔۔۔۔"

ویسے ایک بات کہنا چاہوں گی مومن تمہاری دوست ہونے کی حیثیت سے جو تم نے آج اس بے ضرر لڑکی کے ساتھ کیا ہے شاید ہی وہ لڑکی اب تمہیں معاف کر سکے کیونکہ جو جسم پر جو تم نے زخم دیے ہیں وہ تو شاید مندمل ہو جائیں مگر جو زخم روح پر لگے ہوں انکی کوئی معافی نہیں ہوتی۔۔۔۔"

مومن سوچوں میں ڈوبا وفا کو دیکھ رہا تھا جو دنیا جہاں سے بے خبر بے ہوش تھی۔ 

اب پتا نہیں ہوش میں آ کر اسکا کیا ری ایکشن ہوتا۔۔۔۔

                 **************

رات ہونے کو آئی تھی مگر وفا کمرے سے باہر نہ نکلی۔۔۔

 تو اسفندیار کو تشویش ہوئی۔۔۔

 ایسا تو کوئی دن نہیں گزرا تھا جب گھر کے بڑوں نے مل کر اس سے کوئی کام نہ لیا ہو تو پھر آج کیسے وہ نظر نہیں آرہی۔۔۔

 دل ہی دل میں خیریت کی دعا کرتے اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی مگر بے سود وہ اسے کہیں نظر نہ آئی۔۔۔۔

 کسی سے پوچھ کر وہ اس کا کردار بھی مشکوک نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس طرح خاموشی میں ہی بہتری جانی۔۔۔

 رات جب سب اپنے کمرے میں چلے گئے تو اس نے نوری کو اپنے کمرے میں بلایا اور وفا کا پوچھا تھا جس کے جواب میں اس نے کہا۔۔۔۔

 وہ اسفند لالہ وفا بی بی تو آج اپنے کمرے سے باہر نہیں آئیں ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔۔۔

 لیکن میں تو سرونٹ کوارٹر لے کے آ رہا ہوں وہاں تو وہ موجود نہیں ہے۔۔۔۔

 جی وہ وہاں نہیں ہیں اس نے گڑبڑاتے ہوئے کہا۔۔۔

 تو پھر کہاں ہیں اس نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

 وہ جی جب آپ رات کو چلے گئے تھے تو مومن لالہ نے اسے اپنے کمرے میں بلایا ۔۔۔۔

 اتنا کہتے ہی وہ رک گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی جیسے بولنا نہ چاہتی ہو۔۔۔

 میں منتظر ہوں نوری اپنی بات مکمل کرو اس نے غصے سے کہا تو وہ فر فر شروع ہوگی۔۔۔۔

 کہ کیسے جب وہ رات کو وہاں سے گیا تو مومن نے وفا کو کمرے میں بلایا اور اس کے بعد کیا کیا ہوا ۔۔۔

اس کی ایک ایک بات سنتے ہی اسفندیار کی آنکھوں میں سرخی بڑھنے لگی یہاں تک کہ اس نے سائیڈ پر پڑا ہوا ڈیوکوریشن پیس ہاتھ مار کر نیچے پھینکا کہ نوری کی چیخ نکل گئی اور اسفند کا ہاتھ زخمی ہوگیا۔۔۔۔

" یہ تم نے اچھا نہیں کیا مومن اس کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی"....

 اس کی خون رنگ آنکھیں دیوار پر لٹکی ہوئی اپنی اور مومن کی تصویر کی طرف گئیں۔۔۔۔

 جسے دیکھتے ہوئے وہ چبا چبا کر بول۔۔۔

            ************

وفا کو شام میں ہوش آچکا تھا تب سے مومن اس کی کیئر کر رہا تھا کبھی کوئی دوائی دیتا تو کبھی کوئی, کبھی کھانا کھلاتا تو کبھی زخموں پر پٹی کرتا۔۔۔

 جبکہ وفا توصرف سامنے والی دیوار کو گھورے جا رہی تھی۔۔۔

 تب سے اب تک اس نے اپنی زبان سے ایک لفظ نہ کہا تھا نہ ہی مومن کی طرف دیکھا تھا نہ ہی کوئی بات کی تھی اس کی خاموشی مومن کو بری طرح چبھنے لگی تھی تب ہی اس نے بولنے میں پہل کی۔۔۔۔

 "میں وہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا جو کل رات ہمارے درمیان ہوا۔۔۔

 اگر تم مجھے غصہ نہ دلاتی اور میری انا کو ٹھیس نہ پہنچاتی تو ایسا کبھی نہیں ہوتا بہرحال آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔"

 اس کے بولنے پر وفا نے ایک نظر اس کو دیکھا جس کے چہرے پر شرمندگی تو تھی مگر پچھتاوا نہیں تھا۔۔۔۔۔

"محبت میں انا نہیں ہوتی اور جس محبت میں انا ہو, وہ محبت نہیں ہوتی"

وفا نے خالی آنکھوں سے دیکھتے شکستہ لہجے میں مومن کو کہا۔۔۔۔

جو اسکے لفظوں پر تڑپ کر اسے دیکھنے لگا تو کیا اسکی انا نے وفا کی محبت بھی ختم کر دی تھی۔۔۔۔

اسفندیار دو دن سے وفا سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ اسے دیکھ کر کترا کے نکل جاتی اور وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا آج ایک ہفتے بعد اسے وفا سے بات کرنے کا موقع مل ہی گیا تھا۔۔۔۔

 وہ جانے لگی تو وہ ایک دم اس کے آگے آ کر رک گیا۔

 وفا میری بات سنو یوں کب تک کترائی پھرتی رہو گئی مجھ سے۔۔۔۔ جبکہ قصوروار بھی میں ہوں۔۔۔

 اسفند کے کہنے پر وفا نے اسے زخمی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

" اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں یہ تو میرے نصیب کا لکھا ہے جو مجھے مل رہا ہے"۔۔۔

 وہ الگ بات ہے کہ میں نے اپنے ماں باپ کا چنا رشتہ چھوڑ کر اپنی محبت کو ترجیح دی تو اس کی سزا تو مجھے ملنی ہی تھی۔۔۔۔

 "لیکن وفا کب تک خاموش رہ کر خود پر ظلم برداشت کرو گی ایک نہ ایک دن تمہیں آواز اٹھانی ہی پڑے گی اور وہ دن چاہے آج کا ہی کیوں نہ ہو"۔۔۔۔

 تم جانتی ہو تمہاری چپ میری بھی تکلیف کا باعث بن رہی ہے خدا کے لیے آپنے لیے کچھ کرو کیونکہ جب تک ہم خود اپنے لئے کچھ نہیں کریں گے کوئی ہمارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔

 اس نے وہاں سے نکلتے ہوئے اسفند کے آخری فقرے پر غور کیا اور سر جھٹک کر چلی گئی۔۔۔۔

                  *******

وہ کچن میں کام کر رہی تھی کہ جبھی شازیہ کی آواز آئی۔۔۔

"او لڑکی میرے لیے کافی لے آؤ"...

 جو باہر مصروف انداز میں صوفے پر بیٹھی ہوئی اپنے ناخنوں پر نیل پالش لگا رہی تھی۔۔۔۔۔

" اور میرے لیے پکوڑے بھی کر لینا کیونکہ میرا موڈ آج پکوڑوں کا ہو رہا ہے ساتھ ہری چٹنی لانا نہ بھولنا"۔۔۔۔

 وفا نے جیسے ہی ان دونوں کی آواز سنی تو برتن پٹخ کر شیلو پر رکھے۔ ان دونوں نے اس کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔۔۔۔

 اس عرصے میں ان دونوں لڑکیوں نے اس کو تگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیا تھا اور آج وفا کی بس ہو چکی تھی آخر کب تک برداشت کرتی وہ انکی منمانیاں۔۔۔۔۔

 اور پھر صبح سے اس کے ذہن میں اسفندیار کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ جس پر عمل درآمد کرنے کا اس نے سوچا اور اس کے ذہن میں ایک شیطانی سوچ آئی اور اسنے اس سوچ پر فوراً عمل کیا۔۔۔۔

"اے کمبخت کہاں مر گئی"

 آدھے گھنٹے تک جب وہ باہر نہ گئی تو شازیہ تلملاتی ہوئی کچن کے دروازے سے اندر داخل ہو کر اسکی کلاس لینے لگی کہ اس کا پاؤں پھسلا اور وہ منہ کے بل نیچے گر کر زمین کو سلامی دے گئی۔

جس کو دیکھتے ہی وفا کا قہقہ بےساختہ تھا اور باقی ملازمین بھی اس کی حالت دیکھ سر جھکائے ہنسنے لگے۔۔۔

"ہائے امی مر گئی میں "

شازیہ نے کلپ کر دہائی دی اور نازیہ کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔۔۔۔۔

" ارے کہاں ہو شازی تمہیں تو اس کلموہی کو لانے بھیجا تھا تو پھر آ آ آ آ آ ....."

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی وہ بھی دھڑام سے زمین پر گرے تیل کی وجہ سے شازیہ کے اوپر ہی گر گئی جس کے باعث ان دونوں کا سر ٹکرا گیا اور پھر ان دونوں کی چیخیں تھیں۔۔۔۔۔

" ہائے اماں میری ٹانگ"

 نازیہ نے اپنا رونا رویا۔۔۔۔

 ان دونوں کی ہی کمر, ٹانگیں اور بازو اچھے خاصے ڈیمج ہو چکے تھے جو وفا کے  دل میں لڈو پھوٹنے کا کام کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔

 جس کا اندازہ اس کے چہرے پر کھنکتی ہنسی سے ہو رہا تھا۔۔۔۔

 جو شاید ہی اس  حویلی کے در و دیوار نے پہلی دفعہ سنے تھے۔۔۔۔

 اسفند یار جو وہاں سے گزر رہا تھا اس کے قہقہے پر فوراً کچن کی طرف گیا۔۔۔۔

 کتنی دیر بعد اس نے وفا کو یوں کھل کر ہنستے دیکھا تھا آج تو اس کی دلی مراد بر آئی تھی۔ اس کا دل وفا کو خوش دیکھ کر بے حد خوش ہو چکا تھا اور شازی اور نازی کو نیچے گرا دیکھ اس کی ساری کارستانی سمجھ گیا۔۔۔۔۔

 اسفندیار کو دروازے میں کھڑا دیکھ وفا نے معصومیت سے دونوں کندھے اچکائے۔۔۔

" کہ جیسے میں نے کچھ نہیں کیا یہ ان کا اپنا قصور تھا"

 جس پر اسفند نے سر دھنتے ہوئے شرارتی انداز میں اسے اشارہ کیا۔۔۔۔

جیسے کہنا چاہ رہا ہوں جیسے میں تمہیں جانتا ہی نہیں اور سر جھٹک کر ہنستے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔

 جو بھی تھا وہ بہت خوش تھا۔اب اسے یقین تھا پرانی وفا جلد لوٹ آئے گی مگر کئی لوگوں کو خوشیوں کے لیے بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔

                *********

ڈیرے پر اسفندیار اپنے ایک دوست سے ملنے آیا تھا۔ جب مومن نے اسکا راستہ روکا۔۔۔۔

اسفندیار مومن کو دیکھ کر اسکے قریب سے نظر انداز کر کے گزر جانا چاہتا تھا مگر مومن کے راستے میں آنے سے اسے رکنا پڑا۔۔۔۔

"ایسی بھی کیا ناراضگی اسفند کے تم نے دو ماہ سے مجھ سے بات ہی نہیں کی"

مومن کے شکوئے پر اسفند نے لب بھینچے ۔۔۔ویسے ہی اسے مومن کی وفا سے کی گئی بدتمیزی پر غصہ تھا ۔ اسنے پھر جواب دیے بغیر نکلنا چاہا تھا تو مومن پھر اسکے راستے میں حائل ہوا۔۔۔

تم جواب دیے بغیر نہیں جا سکتے اسنے کڑے تیوروں سے کہا۔۔۔۔

"میرے راستے سے ہٹ جائیے سردار صاحب کیونکہ میں ایک سخت گیر وڈیرے سے بات کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا جو اپنی بیوی کو عزت نہ دے سکے۔۔۔۔"

اسنے جب کہا تو اسکا لہجہ برف کی طرح سرد جب کے آنکھیں مومن کو نگلنے کے در پر تھیں۔۔۔۔

مومن ششدر رہ گیا۔۔۔

بھلا زریاب کو کیسے پتا چلا اس بات کا۔۔۔

اسکو حیرت میں دیکھ۔۔۔

اسفند بولا۔۔۔۔

حیران مت ہو میں بھی اسی حویلی میں رہتا ہوں جس میں تم اور ایسی باتیں چھپائے نہیں چھپتیں۔۔۔۔

اسنے مومن کو دیکھ کر طنز کیا۔۔۔

"اسفند تم ایسے تو نہ تھے"

مومن نے اسکا آگ برساتا لہجہ سن کر کہا۔۔۔

ہنہہہ میں بھی تمہیں ایسا نہیں سمجھتا تھا مومن لیکن اس خون بہا کی نیچ رسم نے مجھے تمہارا اصل رنگ بھی دکھا دیا اب مجھے تمہارے ساتھ ایسے رویے پر کوئی پچھتاوا نہیں اور اگر تم چاہتے ہو ہم پہلے جیسے ہو جائیں تو دوبارہ وہی مومن بن جاؤ جو سب کا اپنا تھا اور گل رخ کی محبت تھا"....

وہ اسے حیران چھوڑ کر جا چکا تھا ۔۔۔۔

                       ********

اے لڑکی جا زرا میرے بیٹے کے بھی کمرے میں چائے دے آ بے چارا صبح سے سر درد کا شکار ہے۔۔۔۔

نائلہ بیگم نے وفا کو گھورتے ہوئے آرڈر دیا جیسے وہ ان کی زر خرید غلام ہو۔۔۔

وفا جو سب مہمانوں کو لاؤنج میں چائے ڈال کر دیکھ رہی تھی انکی بات پر چونک کر انہیں دیکھا۔۔۔

"میں" اسنے عجیب بے زاری سے کہا۔۔۔۔

نہیں تو اور کیا تیرے نوکر جا دفعہ ہو لے کر جا اور باہر باغ کی صفائی کرنا آ کر۔۔۔

وفا نا چاہتے ہوئے بھی قاسم کے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔

اسے یہ بندہ شروع دن سے ہی زہر سے بھی بدتر لگتا تھا جو ہر وقت اسے حوس بھری نظروں سے دیکھتا رہتا کبھی اکیلے میں اس پر شوخ فقرے کستا۔۔۔۔

وہ جتنا اسے اگنور کرتی وہ اور جان کر اسکے ارد گرد منڈلاتا۔۔۔۔

انہی سوچوں میں وہ اسکے کمرے کے باہر پہنچ گئی اور زہر کا گھونٹ پیتے دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔

اندر سے اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہوئی۔۔۔

وہ جو بیڈ پر آڑے ترچھے انداز میں لیٹا تھا وفا کو اندر آتے دیکھ بجلی کی تیزی سے اٹھا۔۔۔

ارے واہ آئیے سرکار آئیے قدم رکھیں ہمارے مہ خانے میں ۔ ناچیز بے چینی سے اپکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔"

اسنے اوباش انداز میں اسے آنکھ مارتے کہا تو وہ جی جان سے سلگ اٹھی۔۔

وہ فوراً آگے بڑھ کر میز پر چائے رکھ کر جانے کے لیے پلٹی۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ جاتی قاسم نے فوراً اسکی کلائی پکڑی۔۔۔

"ارے اتنی بھی کیا جلدی ہے جانے من زرا اس نا چیز کا دل ہی خوش کر جاؤ تھوڑی سے کرم نوازی کر دو مجھ پر اسنے جھٹکے سے اسے قریب کرتے اسکے ہونٹوں کو فوکس کرتے کہا۔۔۔۔

تو وہ اسے جھٹکنے لگی۔۔۔۔

کمینے انسان پیچھے ہٹو میں تمہاری پرائيویٹ پراپرٹی نہیں جسے تم ہتھیانے کے چکروں میں ہو۔۔۔

اس سے پہلے کر وہ ہاتھ اسکے گلابی چہرے پر پھیرتا اسنے تنفر سے سر پیچھے جھٹکا۔۔۔

"یہی ایک یہی ادا مجھے تمہارا دیوانہ کرتی ہے یہ جو تم مجھ سے دور جاتی ہو بھاؤ کھاتی ہو غرور کرتی ہو ۔ یہ تو تم پر جچتا بھی ہے جانِ جگر۔۔۔اور یہی چیزیں مجھے تمہارے لیے اور بےقرار کرتی ہیں"

اس سے پہلے کے وہ اس پر جھکتا وفا نے آؤ دیکھا نا تاؤ سیدھا رکھ کر ایک گھٹنا اسکے ٹانگوں کے درمیان مارا کہ وہ بلبلا کر رہ گیا اور اسے چھوڑا اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا درد سے۔۔۔۔۔۔۔

"تمہاری اتنی اوقات نہیں کے کہ مجھے اپنی دسترس میں لے سکو تم جیسا ناپاک انسان صرف جہنم میں جانے کے لیے بنا ہے"

وفا اس پر لعنت بھیجتے جا چکی تھی۔۔۔

ہا ہا ہا میری جلیبی کتنی دیر بھاگو گی مجھ سے۔ پا کر تو میں تمہیں رہوں گا۔ پہلے ہی بہت پاپڑ بیلے ہیں تمہارے لیے۔۔۔۔

                     **********

حویلی میں نازیہ کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ اس لیے وفا کا نیچے دیر سے آنا کسی نے اتنا نوٹ نہ کیا۔

 مہمانوں سے ہے ویلی بھری پڑی تھی۔

ارے عصمت تم نازیہ کی شادی پہلے کر رہی ہو جب کہ شازیہ بڑی ہے۔۔۔

 عصمت بیگم کی خالہ زاد بہن کی بات پر سارے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے جب عصمت بیگم نے راز کھولا۔۔۔۔

 ارے شازیہ کی شادی تو ہمارے سردار مومن سے طے ہے نا کیوں باجی انہوں نے شہناز بیگم کو اپنی طرف متوجہ کرتے کہا تو وہ بھی مسکرا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگی۔۔۔۔

 جب کہ مہمانوں کو میٹھا سرو کرتی وفا کے ہاتھ کپکپائے تھے ان کی اس بات پر۔۔۔۔

"لیکن  یہ ونی بھی تو اس کے نکاح میں ہے نا"

 ایک عورت نے پوچھا۔۔۔۔

 "ہے تو یہ اس کے نکاح میں مگر ہمارا مومن اس سے کوئی تعلق قائم نہیں کرے گا اس کی حیثیت اس حویلی میں بس ایک نوکر کی سی ہے اور نوکر ہی رہے گی یہ کم زات انہوں نے وفا کو نخوت سے دیکھا اور اسے بھیج دیا جب کہ وہ اپنے آنسو کا گلا گھونٹتی رات دیر تک کام کرنے کے بعد اپنے کمرے میں پہنچی تھی جہاں مومن اس کا پہلے سے منتظر تھا۔۔۔۔۔۔

                    **********

کہاں تھی تم۔۔۔؟

مومن کی کڑک آواز نے اسکا استقبال کیا۔۔۔

وفا جو پہلے ہی ضبط کی انتہا پر تھی مومن کے دیکھ کر اسکے زخم اور ہرے ہو گئے۔۔۔

میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے۔۔۔

مومن نے کہا تو وفا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔۔

میں کام کر رہی تھی نیچے اور کہاں جا سکتی ہوں۔۔۔۔

اسنے استحزایہ لہجے میں کہا۔۔۔۔

اچھا کام کر رہی تھی کیا تمہیں یقین ہے اسنے اوپر سے نیچے تک وفا کو دیکھتے کہا۔۔۔۔

تو وفا جھنجلا گئی۔۔۔۔

"یقین تو مجھے یہ بھی نہیں تھا کہ آپ کا رشتہ شازیہ سے طے تھا پھر آپ نے مجھ سے محبت کے جھوٹے وعدے کیوں کیے"۔۔۔

وفا نے آخر اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔۔۔

"میں اپنے ہر فیصلے میں خود مختار ہوں نا ہی آج تک مجھ پر کوئی فیصلہ تھوپ پایا ہے نہ ہی میں کبھی اپنی مرضی کے خلاف گیا ہوں "۔۔۔۔

اسنے سرد لہجے میں وفا کی بولتی بند کی۔۔۔۔

وفا بھی اسکا جواب سن کر خاموش ہو گئی تو یہ صرف بڑوں کی مرضی تھی تو مومن ایسا کچھ نہیں کرے گا یہ سوچ کر وفا کو تسلی ہوئی۔۔۔

مومن وفا کے قریب آیا۔۔۔

اگر تم کام کر رہی تھی تو یہ کلائی پر انگلیوں کے نشان کیسے آئے۔۔۔

اسنے تفتیشی لہجے میں کہا۔۔۔۔۔

وفا ہڑبڑا گئی ۔۔۔۔

اگر وہ مومن کو قاسم کے بارے میں بتاتی تو کیا وہ یقین کرتا کبھی نہیں۔۔۔

اس لیے اسنے جھوٹ کا سہارا لیا۔۔۔

وہ کچھ نہیں نوری نے ہی زور سے پکڑ لیا تھا۔۔۔۔

چچ چچ چچ تم مجھ سے جھوٹ کب سے بولنے لگی ۔۔۔

اسنے تمسخر سے کہا۔۔۔۔

اسکی بات پر بادل زور سے گرجے موسم اچانک خراب ہوا تھا بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔۔۔۔

کیا مطلب وفا نے کہا۔۔۔۔

یہی کہ تم قاسم کہ کمرے میں کیوں گئی۔۔۔

کیا میں تمہارے حق میں کوتاہی برت رہا ہوں۔۔۔

اسنے ایک ایک لفظ چباتے کہا۔۔۔

تو وفا صدمے میں گھری اسے دیکھنے لگی۔۔۔

مومن یہ کیا بکواس کر رہے ہو پتا بھی ہے کہ تم مجھ پر کونسا الزام لگا رہے۔۔۔۔

"چلاو مت میرے پر بس مجھے اتنا بتاؤ کہ تم اتنی رات کو قاسم کے کمرے میں کیا کر رہی تھی"۔۔۔۔۔

 اور یہ تمہارے ہاتھ پر اس کے نشان کیسے پڑے اس نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا جو وفا کے دل میں خنجر کی طرح اترے تھے۔۔۔

 خدارا بس کرو مومن میری محبت کو گالی مت دو۔۔۔۔

وہ روتے وہ نیچے بیٹھ گئی تھی مگر مومن کے سر پر تو غصہ سوار تھا جو اس کی عقل کو کھا جاتا تھا۔۔۔۔۔

 اس نے بغیر اس کا لحاظ کیے اس کا ہاتھ پکڑ کر بالکنی سے باہر نکال دیا ۔ جہاں بونداباندی نے تیز بارش کا روپ دھار لیا تھا۔۔۔۔

 اور سلائیڈنگ ڈور بند کر دیا یہاں تک کہ پردے بھی آگے کردیئے تاکہ وفا کو دیکھ نہ سکے نہ اسے اندر بلا سکے۔۔۔

 مومن مومن یہ کیا کر رہے ہو پلیز دروازہ کھولو اس نے ادھر ادھر اندھیرے میں دیکھ کے کہا بارش نے اسے پل میں بھگو کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔

 ٹھنڈی بارش میں وہ کپکپانے لگی تھی۔۔۔۔

مومن کان بند کیے بیڈ پر لیٹ گیا اور اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے۔۔۔

 اور کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے پتہ ہی نہ چلا باہر وفا سردی میں ٹھٹھرتی ہوئی کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے مسلسل دروازہ بجا رہی تھی مگر مومن پر کوئی اثر نہ ہوا ۔۔۔

چچھ گھنٹے بود وفا ٹھنڈ سے نیلی پڑ چکی تھی۔۔

 اب تو اس کی سانسیں بھی تھمنے لگی تھیں اس کے حواس بمشکل قائم تھے۔۔۔۔

 اسفند جو فجر کی نماز کے بعد ابھی اپنی بالکنی میں آیا تھا اپنے ساتھ مومن کی بالکنی میں دیکھا جہاں اسے ایک وجود کا گمان گزرا جو مومن ک بالکنی کا دروازہ بجا رہا تھا مگر جب اسے سمجھ آئی تو اس کے سر پر پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔۔۔

 وہ فوراً کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنی بالکنی سے مومن کی بالکنی میں چھلانگ لگا گیا اور فٹافٹ وفا کو پکڑا جو بیہوش ہو کر ابھی گری تھی نیچے اس کا وجود سرد پڑ چکا تھا ۔۔۔۔

 اس نے ایک نظر مومن کی بند دروازے کو دیکھا اسے لمحہ لگا تھا سمجھنے میں کہ اسے باہر بند مومن نے ہی کیا ہے۔۔۔۔

" اس کی تو میں"

 اس سے پہلے کہ وہ غصے سے بالکنی کا دروازہ توڑتا اس کی نظر وفا پر پڑی جو بے جان ہو رہی تھی اس نے وفا کو جلدی سے اپنے کندھے پر ڈالا اور بمشکل اپنی بالکنی میں چھلانگ لگا پایا اور اسے کمرے میں لے کر آیا جہاں اس نے نوری کو بلایا اور اس کے کپڑے تبدیل کرنے کا کہا وہ کمرے سے باہر جا چکا تھا اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا مومن اتنا کیسے گر سکتا ہے یہ سوچ اس کے دماغ کو ہلا کر رکھ گئی تھی۔۔۔۔

صبح مومن کی آنکھ کھلی تو وہ کسلمندی سے اٹھا کچھ لمحوں بعد اسے ہوش آیا تو جو خیال اسے پہلے آیا وہ وفا کا تھا۔ اسے یاد آیا کہ کیسے وہ برستی بارش میں وفا کو بالکنی میں بند کر آیا تھا۔ ارادہ تو اسکو تھوڑی دیر بند کرنے کا تھا مگر پھر کب اسکی آنکھ لگی پتا ہی نہ چلا۔۔۔

وہ بجلی کی سی تیزی سے بالکنی کی طرف بڑھا اور فوراً بالکنی کا دروازہ وا کیا۔۔۔

اور ادھر ادھر پاگلوں کی طرح دیکھتا وفا کی تلاش کرنے لگا۔

مگر وفا وہاں ہوتی تو اسے ملتی نا۔۔۔

وہ وفا کو وہاں نا پا کر پاگل ہو اٹھا تھا وفا کہاں جا سکتی تھی۔ اسے آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی۔۔۔۔

دروازہ تو بند تھا پھر وہ کہاں گئی۔۔۔۔

اسفند کی بالکنی بھی اونچائی پر تھی وہ وہاں بھی نہیں جا سکتی تھی۔۔۔

پھر کہاں گئی ۔۔۔

وہ فوراً باہر بھاگا۔۔۔۔

نوری نوری۔۔۔۔

وہ نیچے آتے ہی چلایا۔۔۔۔

سب اسکی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔۔۔

وفا کہاں ہے۔۔۔

وہ چلایا ساتھ ساتھ آگے بڑھ کر کچن بھی دیکھ آیا تھا وہ وہاں بھی نہیں تھی۔۔۔۔

سارے ناشتہ کرتے اسکی بے چینی واضح طور پر دیکھ رہے تھے جبکہ اسفند سر نیچے کیے ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔

جیسے اسے خبر ہی نا ہو کے پاس کیا ہو رہا ہے۔۔۔

"برخودار اس پر کیوں چلا رہے وہ تمہاری وہ دو کوڑی کی بیگم نیچے تشریف نہیں لائی"۔۔۔

ثاقب صاحب نے تزحیک آمیز لہجے میں اس پر طنز کیا۔۔۔۔

مگر گئی کہاں وہ اسفند نے پوری حویلی چھان لی تھی جہاں اسکے ہونے کا امکان تھا مگر ناکامی کے سوا اسکے ہاتھ کچھ نہ آیا۔۔۔۔

وہ تھک ہار کر صوفے پر بیٹھ چکا تھا سر ہاتھوں میں گرائے آنکھوں میں پشیمانی کے آنسو تھے۔۔۔۔

باقی کسی ملازم کو بھی وفا نہیں ملی تھی۔۔۔

کہاں گئی یہ کم زات عصمت بیگم غصے سے بڑبڑائیں۔۔۔

کہیں بھاگ تو نہیں گئی یہ کلموہی ۔۔۔نائلہ بیگم غصے سے بھڑکیں۔۔۔

جبکہ شہناز بیگم بھی پریشان نظر آ رہی تھیں۔۔۔

مہمان بھی منہ میں انگلیاں دبائے سارا معاملہ ملاحظہ کر رہے تھے۔۔۔۔۔

تبھی ڈاکٹر کی آواز پر خاموشی ٹوٹی۔۔۔۔

مسٹر اسفند کہاں ہیں مجھے انہوں نے بلایا ہے۔۔۔۔

ڈاکٹر کی آواز پر اسفند ناشتہ کر کے ہاتھ صاف کرتا اٹھا اور اس لیڈی ڈاکٹر کے پاس آیا۔۔۔۔

"جی میں نے ہی بلایا تھا آپ نوری کے ساتھ اوپر جائیے پیشنٹ میرے کمرے میں ہے اسے جا کر چیک کی جیے کہ اس میں سانسیں باقی ہیں یا نہیں اگر باقی ہیں تو بدقسمتی سے کتنی دیر کے لیے"۔۔۔

اسفندیار نے مومن کو دیکھتے طنز کیا جو لہمحے میں معاملے کی طہ تک پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوری ڈاکٹر کو لیے اوپر چلی گئی۔۔۔۔

"تو اسکا مطلب گل رخ تمہارے کمرے میں ہے مومن بے چینی سے اسکی طرف بڑھا"۔۔۔۔

تمہیں اس سے کیا۔۔۔ 

اسفند نے بےتاثر آنکهوں سے دیکھتے اس سے دریافت کیا۔۔۔۔

کیا مطلب اس سے کیا ...

وہ بیوی ہے میری میں صبح سے اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہوں اور تم اسے کمرے میں چھپائے بیٹھے ہو۔۔۔

مومن نے غراتے ہوئے اسفندیار کا گریبان پکڑا۔۔۔

جسکے نتیجے میں ایک زور دار مکا اسفندیار نے مومن کے منہ پر رسید کیا تھا کہ وہ کراہ کر پیچھے گرا۔۔۔

جب وہ اٹھا تو اسکی آنکھوں میں حیرت تھی اسنے حیرت سے اپنے منہ سے نکلتا خون صاف کیا۔۔۔۔

تمہاری اتنی ہمت کے تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ۔۔۔۔

مومن کا ازلی غصہ بھی عود کر آیا اور منٹوں میں وہ دونوں بری طرح گتھم گتھا ہو چکے تھے۔۔سب انکو دیکھ بری طرح ڈر کر پیچھے ہوئے۔۔۔

دونوں ہی کسی سے کم نہیں تھے ایک سے بڑھ کر ایک تھے دونوں لمحوں میں لہولہان ہو گئے تھے۔۔۔۔

جبکہ اسفند ابھی بھی باز نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔

اسنے مومن کو ایک دھکا دیا جو وہ منہ کے بل پیچھے گرا۔۔۔۔

"کیا کہ رہا تھا کمینے بیوی ہے تیری بیوی کے ساتھ کوئی یہ سلوک کرتا ہے وہ دھاڑا"

آپ لوگ جو صبح سے اسے اپنی بیوی کے لیے پریشانی دیکھ رہے تھے وہ پریشانی نہیں تھی بلکہ پشیمانی تھی۔۔۔۔

وہ سب مہمانوں کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔

"رات کو اسنے اپنی بیوی کو بالکنی میں ٹھٹھرتی بارش میں بند کر دیا تھا کہ صبح تک وہ نیلی پڑ گئی اسکی سانسیں تھم چکیں تھیں" ۔۔۔۔

اور اب کمینے تیری محبت امنڈ رہی ہے اسکے لیے یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ مر گئی ہے یا اگر زندہ ہے بدقسمتی سے تو کدھر ہے ۔۔۔

اسنے مومن کا گریبان کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔۔۔

اسکی اس بات پر مومن کی نظریں شرم سے جھک گئیں۔۔۔۔

جبکہ سب مہمان آپس میں باتیں بنانے لگے۔۔۔

سب حویلی والے حیرت سے مومن کو دیکھ رہے تھے جیسے اتنی سفاکیت کی امید نا ہو۔۔۔۔

اسفندیار کی خون رنگ آنکھیں مومن پر ہی گڑی تھیں۔۔۔

"یہ ہے آپ کا نام نہاد سردار جو اپنی عورت کو موت کے منہ میں دھکیل سکتا ہے وہ آپ سب کی عزتوں کی حفاظت کیسے کرے گا"۔۔۔۔۔۔

اسنے مومن پر طنز کیا تو سب آنکھوں میں شکوہ لیے اسے دیکھنے لگے۔۔۔ 

اس سے پہلے کے وہ اور مومن کی درگت بناتا ڈاکٹر کی آواز نے اسکا ہاتھ روکا۔۔۔

"مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ جسنے بھی اس کمزور لڑکی کی یہ حالت کی ہے اسے شرم سے ڈوب مرنا چاہیے اسکا نہیں تو کم از کم اپنی اولاد کا ہی خیال کر لے۔۔۔

سب ڈاکٹر کی بات پر حیرت میں گھرے اسکا منہ تکنے لگے۔۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔۔نائلہ بیگم حیرت سے بولیں۔۔۔

"یس شی از تھری منتھس پریگننٹ" ۔۔۔۔

اور نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا کہ انکا بچہ نہایت کمزور ہے اگر آپ نے انکو خوش نا رکھا اور ایسے ہی ان پر ظلم کرتے رہے تو اپنی آنے والی نسل سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔۔۔۔

ڈاکٹر تاسف سے کہتی جا چکی تھی۔۔۔۔

پچھے سب حیرت میں گھرے رہ گئے۔۔۔

جبکہ اسفند نے مومن کا گریبان جھٹکا۔۔۔۔

"جا تیری اولاد کی وجہ سے تجھے معاف کیا اب آئندہ کوئی غلطی مت کرنا اگر کی تو یہ بات یاد رکھنا تجھ سے تیرا سب کچھ چھین لوں گا سب کچھ ۔۔۔

اور تو خالی ہاتھ رہ جائے گا"۔۔۔

اسنے مومن کے منہ پر ہلکے ہلکے تھپڑ مارتے کہا ۔۔۔۔

"تم اسکی اتنی طرف داری کیوں کر رہے ہو میاں"۔۔۔۔

نائلہ بیگم تنک کر بولیں۔۔۔

"کیونکہ میں انسان ہوں اور میرے سینے میں دل ہے جو کسی پر ظلم برداشت نہیں کر سکتا اسنے بھی کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا"۔۔۔

"خیریت ہے میاں کہیں تمہیں بھی تو اسنے کوئی جھانسا تو نہیں دے رکھا"۔۔۔۔

عصمت بیگم زومعنی انداز میں بولیں تو اسنے مٹھیاں بھینچ کر اپنے آپ کو کچھ سخت کہنے سے روکا۔۔۔۔

"میں آپ کو جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا"۔۔۔

اسکی اس بےعزتی پر عصمت بیگم جل بھن گئیں۔۔۔

"امی , بابا میں جا رہاں ہوں میری ایک خاص مہمان آ رہی ہیں ۔۔اسکے لیے کمرہ تیار کروا دی جیے گا۔۔۔خاص مطلب خاص مہمان۔۔۔۔

اور اگر اسے کسی نے کوئی بھی بات کی یا زرہ سا بھی طنز کیا تو میں بھول جاؤں گا کہ اس سے میرا کوئی رشتہ ہے"۔۔۔ 

اسنے ایک تنقيدی نگاہ سب پر ڈالتے کہا۔۔۔

اور نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

مومن کے دل میں جو زرا شک اسفند کو لے کر آیا تھا وفا کے بابت اسکے کسی خاص لڑکی کو لانے کی بات سنتے ہی دل صاف ہو گیا۔۔۔۔

مطلب اسفند اپنی محبت کو لا رہا ہے۔۔۔۔

وہ اسکے لیے خوش ہوا۔۔۔

مگر اسکی تو شادی ہو گئی تھی۔۔۔

ہو سکتا یے طلاق ہو گئی ہو۔۔۔۔

اسنے اپنے ذہن سے ہی جواب گھڑا۔۔۔۔

"لگتا ہے نعیمہ باجی آپ کے بیٹے نے کوئی پسند کر لی ہے"۔۔۔عصمت بیگم نے زو معنی انداز میں کہا۔۔۔۔

عصمت مجھے میرے بیٹے کی پسند پر پورا بھروسہ ہے اگر وہ کسی کو پسند کرتا ہے تو اسکی خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔۔۔۔

انہوں نے ایک ہی بات میں انہیں لاجواب کیا اور اوپر وفا کے پاس چلی گئیں۔۔۔۔

                    **********

مومن صبح کا نکلا رات کو حویلی آیا تھا۔ کیونکہ وہ اپنے اندر ہمت نہیں جٹا پایا تھا وفا کا سامنا کرنے کی۔ اسلیے اسکے سونے کے بعد ہی آیا تھا۔۔۔۔

رات کے دو بجے کا وقت تھا جب وفا کی آنکھ پیاس کے باعث کھلی۔ دائیں طرف نظر گئی تو مومن کو اپنے پاس سوئے دیکھ تاسف سے سر ہلا گئی۔

معافی مانگنا تو یہ شخص اپنی توہين سمجھتا تھا۔۔۔اسنے مومن کو دیکھ کر سوچا۔۔۔

اور پانی کی تلاش میں نگاہ دوڑائی جو آج وہ رکھنا بھول گئی تھی۔ 

وہ آہستہ سے بستر سے اٹھی اور دروازہ کھول کے باہر نکلی باہر ہو کا عالم تھا۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے کیچن میں جاتی اسے ایک ہیولا محتاط انداز میں نیچے تہ خانے میں جاتا نظر آیا۔۔۔

جانے سے پہلے ہویلے نے احتياط سے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔

وہ فوراً پلر کے پیچھے ہوئی۔۔۔۔

دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ جیسا ابھی باہر نکل آئے گا۔۔۔۔وہ دبے قدموں نیچے آئی اور تہ خانے کے اندر داخل ہوئی۔۔۔

اسنے یہ راستہ پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ حیرت سے چاروں اطراف میں نظریں دوڑائے جگہ کو دیکھتی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔

جب اسنے ایک سمت سے غرانے کی آواز سنی جیسے کوئی شخص کسی کو ہراساں کر رہا تھا۔۔۔۔

وہ ایک سلاخوں والے دروازے کے قریب پہنچی جہاں سے آواز آ رہی تھی۔ مردانہ آواز سن کر وہ ششدر رہ گئی تھی۔ اسنے تصدیق کے لیے زرا سا جھانک کر دیکھا تو قاسم کسی لڑکی پر جھکا نظر آیا۔۔۔۔

اسنے بمشکل خود کو چیخنے سے روکا۔۔۔

قاسم نے اس لڑکی جو کہ زخمی حالت میں تھی اسکا منہ دبوچتے کہا۔۔۔۔

آج میں اپنا دل خوش کرنے تیرا پاس آیا ہوں چل فٹافٹ بغیر کسی مزاحمت کے میری رات رنگین کر۔۔۔۔

خدارا مجھے چھوڑ دو ۔ رحم کرو۔۔۔

آگے سے وہ لڑکی گڑگڑائی۔۔۔

وفا کو اپنے گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹکتا محسوس ہوا۔۔۔

"چھوڑ دوں ہنہہہ میں نے تو اس حویلی کی لڑکیوں کو نہیں چھوڑا تو تجھے کیسے جانے دوں۔۔۔اسنے قہقہ لگاتے سفاکی سے کہا۔۔۔

ایک وہ اجالا بھی بڑا گڑگڑائی تھی سالی مگر ایک پل لگا تھا مجھے اسکی اکڑ نکالنے میں۔۔۔۔۔

اور الزام اس بچارے زریاب پر لگا دیا میں نے۔اسنے سینہ ٹھوکتے کہا۔۔۔

کیا اب تک مجھے کوئی پکڑ پایا۔کتنی سفائی زریاب کو پھنسا کر۔ اس پر الزام لگوا کر اسے قصوروار ٹہرایا۔۔۔۔

اور وہ بچارا اپنی بہن دے کر بھی آج اس کم عقل مومن کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے اپنے ناکردا گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے۔۔۔۔

اسنے ہنستے ہوئے غرور سے کہا۔۔۔۔

جبکہ لفظ با لفظ اسکی سچائی سنتی وفا سناٹوں کی زد میں آ گئی ٹانگیں بری طرح کپکپائی تھیں۔ مٹھی بھینچ کر منہ پر رکھی اور چیخ کو ضبط کیا۔۔۔۔

خود کو گرنے سے پچانے کے لیے بمشکل دیوار کا اسرا لیا۔۔۔۔

اندر وہ شخص درندہ بنا اس پر ٹوٹ چکا تھا اور وہ باہر کھڑی سسکیاں دبا رہی تھی۔۔۔۔

اندر لڑکی پانی پانی کی فریاد کر رہی تھی۔۔۔

جب وہ باہر نکلنے لگا وفا فوراً لڑکھڑاتے ہوئے باہر بھاگی اور دروازے کی اوٹ میں چھپ گئی جب وہ چلا گیا۔۔۔۔

تو وفا اسکے جانے کا یقین کرتی پانی گلاس میں لیے تہ خانے میں گئی۔۔۔۔

سنو ۔۔۔

اسکی پکار پر اس لڑکی نے بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔

یہ لو پانی۔۔۔۔

پانی دیکھ کر وہ خود کا گھسیٹتے ہوئے دروازے تک گئی۔۔۔۔

وفا نے گلاس اسکے منہ کو لگا کر پانی پلایا۔۔۔

آپ کون۔۔۔اسنے لڑکھڑاتے کہا۔۔۔

ایک بدقسمت بہن جو خون بہا میں آئی ہے۔۔۔

مگر تم یہاں کیسے آئی۔۔۔

بی بی جی ۔ ہم ملازموں سے بھلا کون کچھ پوچھتا ہے۔۔۔بس اپنا دل بہلانے کے لیے اٹھا لاتے ہیں اور جب سانس گھٹ جائے تو لاش ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔۔۔

اسنے سسکتے ہوئے کہا۔۔۔

ایسا کیوں کہتی ہو۔۔۔ میں ہوں نہ تمہیں یہاں سے نکال لوں گی۔۔۔۔

وفا کی بات پر اسنے آنکھوں میں چمک لیے اسے دیکھا۔۔۔۔

کیا واقعی ۔۔۔اسنے حسرت سے کہا اب تو مہینوں ہو گئے تھے سورج دیکھے۔۔۔

ہاں میں تمہیں نکالوں گیں اسکے لیے تمہیں میری مدد کرنی ہوگی۔۔۔۔

اسنے ہامی بھری تو وفا اسے اپنا لاحِ عمل سنانے لگی۔۔۔۔۔

                        ********

صبح مومن کو اپنے ضروری کام سے جانا پڑا تھا جس کے باعث وہ وفا کی غیر موجودگی محسوس نہیں کر پایا تھا۔

دوسری طرف وفا کا یہ سوچ سوچ کر سر پھٹا جا رہا تھا کہ زیاب سلاخوں کے پیچھے کیسے پہنچ گیا۔ کیا اسفندیار بھی اس سب باتوں سے انجان ہے یا وہ بھی سب جانتا ہے۔۔۔

اب اسے صرف اسکے آنے کا انتظار تھا۔۔۔

وہ انہیں سوچوں میں تھی ۔ جب باہر سے شور کی آواز پر وہ کچن کے دروازے تک گئی جہاں اسفندیار لاونج میں ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ جبکہ سب بڑے بھی پاس ہی بیٹھے تھے۔وہ ان سب سے انکا تعارف کروا رہا تھا۔۔۔۔۔

اور وفا وہ جہاں تھی وہیں رہ گئی تھی۔ یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی تھی ۔ اور کیوں آئی تھی۔اسکے پیچھے اسفندیار کا کیا مقصد تھا۔ اسفند یار کی نظر کچن پر گئی تو وفا کو بےییقن نظروں سے خود کی طرف تکتا پایا۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ اس لڑکی کی نظریں اس پر پڑتیں وہ فٹافٹ کچن کی اوٹ میں ہوئی۔۔۔

"میرا خیال ہے اب تمہیں آرام کرنا چاہيے "

اسفند کی بات پر اس لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا اور کمرے میں جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

"آپ لوگوں سے مل کر اچھا لگا ویسے بہت گرمی ہے یہاں اسنے ایک ہاتھ جھلاتے ہوئے کہا۔۔۔ اب میں آرام کروں گی ۔۔۔

اسنے نخوت سے کہتے ہوئے ایک بازو میں ہینڈ بیگ ڈالا۔۔۔اور دوسرے ہاتھ سے گلاسس بالوں میں ٹکائے اور ٹُپ ٹُپ کرتی والک آؤٹ کر گئی۔۔۔۔

واہ بھابھی کیا نخرہ ہے اسکا۔۔۔

نائلہ بیگم نے اپنی بھابیوں کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔۔

لیکن ہے تو کافی ماڈرن عصمت بیگم نے دلچسپی لیتے کہا۔۔۔

وہ دل ہی دل میں اسے عمر کے لیے پسند کر چکیں تھیں۔۔۔۔

                       *********

وہ سب سے نظریں بچا کر کچن میں آیا تھا۔۔۔

جہاں وفا رخ موڑے مٹھیاں بھینچ کر کھڑی تھی۔جیسے اپنی اندرونی کیفیت کو کنٹرول کر رہی ہو۔۔۔

وفا۔۔۔۔اسفند کی آواز سنتے ہی اسنے سوال کیا مگر پلٹ کر نہ دیکھا۔۔۔

اسے یہاں کیوں لائے۔۔۔

وفا میری بات۔۔۔۔

میں نے کہا وہ یہاں کیسے پہلمچی آخر مقصد کیا ہے تمہارا۔۔۔۔

وہ مڑے بغیر سرد لہجے میں بولی۔۔۔

معاف کرنا وفا تم تو زندگی بھر اب اپنے لیےنہیں بولو گی مگر مجھے تمہارے بچے کا خیال ہے۔۔۔اب وقت آ گیا ہے کہ مومن اپنی محبت قبول کر لے اور اس لیے مجگے اسکی ضرورت پڑی۔۔۔۔

وفا جانتی تھی اسفند ہمیشہ سے ہی اسکے لیے آسانیاں لاتا آیا ہے۔اسے ہر غم سے دور رکھنا چاہتا ہے اور اسکی زندگی کو خوشیوں سے بھرنا چاہتا ہے چاہے اسکے لیے خودکانٹوں پر ہی کیوں نا چلنا پڑے۔۔۔۔

"زریاب جیل میں ہے اسکے بارے میں تم کیا کہو گے"

وہ کہتے ہوئے جھٹکے سے پلٹی تاکہ اسفند کے چہرے پر سچ تلاش کر سکے کہ وہ زریاب کی قید سے واقف تھایا نہیں۔۔۔۔

لیکن جو ایکسپریشنز اسے اسفند کے چہرے پر دیکھنے کو ملے تھے اسنے وفا کے یقین کو مہر لگا دی تھی۔۔۔۔

وفا اسفند کے چہرے کو دیکھتے ہی جان گئی تھی کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔

کیا ۔۔کیا مطلب۔۔۔زریاب اور جیل میں۔۔مگر کب کیسے۔۔۔

اسفند جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا۔۔۔۔

اسنے ادھر ادھر دیکھ کر وفا کو کچن کے پچھلے دروازے سے بیک یارڈ لے گیا۔ یہ حویلی کے باغ کے پیچھے کا حصہ تھا جہاں ایک کچن کا راستہ جاتا تھا ۔ یہاں گھنے درخت ہی درخت تھے۔۔۔

"اب بتاؤ مجھے یہ سب تم کیسے جانتی ہو"

اسفند کی الجھن کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔

اسنے وفا کی طرف دیکھا جن میں عجیب سا سرد تاثر تھا۔۔۔

اسفند چند لمحے غور سے اسے دیکھتا رہا پھر حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔

ایک خیال بجلی کی طرح اسکے ذہن میں آیا تھا۔۔۔۔

"نہیں, کیا واقعی تمہیں پتہ چل چکا ہے کہ قتل کس نے کیا"....

وفا کی خاموشی اسے اسکا جواب دے گئی تھی۔۔۔۔جو سرخ آنکھوں سے ایک طرف نظریں ٹکائے کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔۔

اسکی آنکھوں میں نفرت صاف دیکھی جا سکتی تھی۔۔۔۔۔

"وفا کون ہے وہ"

اسفند نے اسے جھنجوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

"قاسم" اس ایک لفظی جواب میں کتنی نفرت کتنی شدت تھی کہ اسفند بتا نہیں سکتا تھا۔۔۔۔

اسفند کچھ لمحوں کے لیے دنگ رہ گیا۔۔۔۔

قاسم اپنا قاسم۔۔۔۔اسفند نے تصدیق کے لیے پوچھا۔۔۔۔

"کیوں یقین نہیں آیا کہ تمہاری پھپھو کا بیٹا ایک ہوس پرست قاتل بھی ہو سکتا ہے جو گھر کی عزت لوٹنے کے بعد مجھے ٹارگٹ کر رہا ہے"...

وفا کی آخری بات پر اسفند نے مٹھیاں بھینچ کر اپنا غصہ ضبط کیا۔۔۔۔

"اگر تم کہ رہی ہو تو یقيناً سچ ہی کہ رہی ہو گی "اسفند نے ایک پیر سے پتھر کو دور ٹھوکر مارتے کہا۔۔۔۔

وفا اسے دیکھ کے رہ گئی جو اسکی ہر لفظی بات کو سچ مان لیتا تھا بنا کسی ثبوت کے یقین کر لیتا تھا۔ کیسی محبت تھی اس بےغرض شخص کی۔۔۔۔

وفا کا دل اسکی طرف جھکتا جا رہا تھا۔۔۔۔

اسنے بےساختہ نظریں چرائیں۔۔۔

"لیکن زریاب کو جیل میں کس نے ڈالا"۔۔۔۔۔

"مومن نے" وفا چبا چبا کر بولی تو اسفندیار غصے سے اندر جانے لگا تا کہ اسفند کی عقل ٹھکانے لگا سکے۔۔۔۔

"رکو اسفند یہ وقت غصے سے کام لینے کا نہیں بلکہ دماغ سے کام لینے کا ہے"

وفا کے روکنے پر وہ بمشکل رکا ۔۔۔

"ٹھیک ہے پھر میں لائر ہائر کرتا ہوں پتا نہیں انہوں نے زریاب کے ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا۔۔۔آئی ایم شیور اسفند نے اسے ٹارچر سیل میں رکھا ہو گا تا کہ وہ جرم کا اعتراف کر لے"

اسکی بات سن کر وفا کا دل دکھ سے بھر گیا جس بھائی کے لیے اسنے اپنی ہستی مٹا دی تھی تا کہ اس تک کوئی غم نہ پہنچے ۔ اسکی ناکام محبت نے ہی اسکے بھائی کی زندگی دوزخ بنا دی تھی اور اسکے لیے وہ مومن کو کبھی معاف نہیں کرنے والی تھی۔۔۔۔

اسنے سوچوں کو ترک کیا اور اسفند کا سیل لے کر کال کاٹی ۔جو لائر کو کال ملا چکا تھا۔ وفا کے کال کاٹنے پر حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔

وفا نے تاسف سے سر ہلایا۔۔۔

"ہم ایسا نہیں کر سکتے اسفند۔ سب کی نظریں تم پر ہیں ۔ کیونکہ میرے لیے اس حویلی میں سٹینڈ تم ہی لیتے ہو۔ سب سمجھ جائیں گے کہ تم نے زریاب کی مدد کی ہے اور اس طرح وہ تمہارے بھی خلاف ہو جائیں گے جو میں نہیں چاہتی"۔۔۔

اسفند اس پیاری لڑکی کو دیکھ کے رہ گیا جو اس حالت میں بھی اپنے دوست کی پرواہ کر رہی تھی۔۔۔۔

تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہيے ۔۔۔اسفند نے پوچھا۔۔۔

"تم کسی کے بھی علم میں لائے بغیر خفیہ طریقے سے بابا سے ملو گے اور انہیں تمام حالات سے آگاہ کرو گے۔ وہ لائر ہائر کریں گے۔اس طرح تمہارا نام بھی نہیں آئے گا۔ کیونکہ اگر ہمارے دشمن یہ بات جان گئے کہ تم اس کھیل میں ملوث ہو۔ وہ تمہیں راستے سے ہٹا دیں گے اور مجھے تمہاری آخر تک ضرورت ہے۔۔۔۔

اسفند نے اس لڑکی کو غور سے دیکھا جو اتنی چھوٹی عمر میں نہایت سنجیدہ اور سمجھدار ہو گئی تھی۔۔۔۔

"میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں"

اسفند نے ہر بار کی طرح اسے مان بخشا۔۔۔۔

وفا نے سرشاری سے سر ہلایا۔۔۔

"اللہ کے بعد تم سے ہی امید ہے مجھے جسنے مجھے کبھی بکھرنے نہیں دیا"

وفا نے نم آنکھوں سے مسکراتے  کہا۔۔۔۔

تو اسفند شانے اچکا گیا۔۔۔۔

"اب کیا کر سکتے ہیں ہر کوئی میری طرح ہینڈسم ہونے کے ساتھ سخی دل تو نہیں ہوتا نہ۔۔۔۔"

اسنے شوخی سے کہا تا کہ وفا کا موڈ تبدیل ہو جائے۔۔۔

اور واقعی وفا اسکے اتنی دیر بعد اپنی ٹون میں آنے پر ہنس دی۔۔۔۔

"اب آگے کا کیا پلین ہے"

اسفند نے سنجیدہ ہوتے پوچھا۔۔۔

"بساط بچھ چکی ہے۔ دشمن اپنا مہرہ چل چکا ہے۔ اب ہمیں اپنی چال چلنی ہے اور آخر تک انکا مقابلہ کرنا ہے تا کہ انکو شہ مات دے سکیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو کے کہاں سے برباد ہوئے"

اسنے سرد لہجے میں کہا تو اسفند نے سمجھ کر سر ہلایا۔۔۔۔

"اسفند مجھے ایک ہائی کوالٹی فون چاہیے جو اندھیرے میں بھی سب کچھ دن کے اجالے کی طرح کیپچر کرنے کی صلاحيت رکھتا ہو تا کہ قاسم کے گناہ کا ایطراف ریکارڈ کر سکیں۔۔۔"

ٹھیک ہے میں جلد ہی کچھ کرتا ہوں۔۔۔۔

وفا پھر اسفند کو بتانے لگی کہ اسنے کہاں اور کیسے قاسم کو دیکھا اور سنا جسے اسفند دیہان سے سن رہا تھا کیونکہ یہ آگے چل کر کیس میں کام آنے والا تھا۔۔۔۔۔۔

                    **********

حویلی میں آج مایوں کی رسم تھی تبھی پوری حویلی کو روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ نازیہ کے لیے پھولوں کا جھولا سجایا گیا تھا۔ جہاں وہ بالوں میں پھول لگائے گردن اکڑا کر بیٹھی تھی۔ جیسے وہ پتہ نہیں کس جہان کی ملکہ ہو۔ سب باری باری آتے اور اسے ابٹن لگا کر رسم کرتے۔

عیشل اسفندیار کے ساتھ کھڑی شوق سے سب رسمیں ہوتی دیکھ رہی تھی۔ جی ہاں وہ باہر سے آنے والی لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ وفا کی دوست عیشل تھی۔

اسفند نے اسے فنکشن کی مناسبت سے کرتی اور گھاگرہ لا دیا تھا جسے زیبِ تن کیے وہ چار چاند لگا رہی تھی۔

سب خواتین کی نظریں اس پر ہی تھیں۔

وفا بھی اس سے نظر بچا کر سب کو سرو کر رہی تھی۔ وہ ابھی تک اسکے سامنے نہیں آئی تھی۔ 

سب تقریباً رسم کر چکے تھے۔ جب مومن اندر داخل ہوا۔ تو سب کی ستائشی نظریں اس پر اٹھیں۔ سفید کرتے شلوار میں وہ نہایت وجیح لگ رہا تھا۔ اسفند کے دیے زخم بھی منہ پر شان سے جگمگا رہے تھے۔ جسے دیکھ اسفند تمسخر سے مسکرا دیا۔۔۔

عیشل ابھی پانچ منٹ پہلے ہی واشروم گئی تھی سو اسے نہ دیکھ سکی۔ مومن نے رسم کی اور اسے خوش رہنے کی دعائيں دیں۔۔۔۔

فنکشن ختم ہوتے ہی سب ینگ جنریشن نیچے لاونج میں بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔ جسکی وجہ سے سب انجوائے کر رہے تھے۔ ان کے کزن اور دوست بھی وہاں شامل تھی جن میں کچھ لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل تھیں۔۔۔

اسفند کو سنجیدہ بیٹھے دیکھ مومن ٹھٹکا۔ اسے وہ لڑکی اب تک نہیں دکھی تھی جس کے بارے میں وہ آج سب سے سن رہا تھا۔ چونکا تو وہ تب جب ایک چلبلی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔۔

ہیلو ایوری ون ۔۔۔۔ عیشل نے سب کو پرجوشی سے سلام کیا۔۔۔۔جسکا جواب سب نے کورس میں دیا۔۔۔۔

وہ چلبلی لڑکی ایک شام میں سب کو اپنا دیوانہ بنا چکی تھی۔۔۔۔

اب بھی سب اسکے آنے پر خوش ہوئے کے کوئی نہ کوئی تو شغل میلہ لگے گا۔۔۔۔

جیسے ہی وہ بیٹھی اسکی نظر سامنے مومن پر پڑی تو وہ کرنٹ کھا کر اچھلی اور حیرت سے مومن کو دیکھنے لگی۔ وہ آہستہ آہستہ اسکے قریب گئی اور اسے چھو کر یقین کیا کہ وہ یہاں ہے یا محظ اسکا وہم ہے۔

اسکے ہونے کا یقین کر کے وہ زور سے چلائی۔۔۔۔

آآآآآ۔۔۔۔ جیجو آپ سچ میں یہاں ہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا وہ پرجوشی سے بولی۔۔۔۔

مومن تو اسے دیکھ پتھر کا بن گیا تھا۔۔۔

جبکہ باقی سب اسکی چیخ سن کر ہڑبڑا گئے اور اب انکی گفتگو دلچسپی سے سننے لگے۔۔۔۔۔۔

کیا تم اسے جانتی ہو ۔۔۔۔اسفند نے سرد مہری سے کہا۔۔۔۔

ہاں افکورس یار۔۔۔۔جب میں تمہارے ساتھ ہوتی تھی تو میرے جیجو میری بیسٹ فرینڈ کے ساتھ ہوتے تھے۔۔۔۔

واٹ۔۔۔۔سب حیرت سے چیخے مومن اور لڑکی کے ساتھ۔۔۔

آپ سب حیران کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔ بتائیں جیجو کے آپ میری بیسٹی سے محبت کرتے ہیں اور شادی کرنے والے تھے۔ پر پتا نہیں کیا ہوا کہ وفا جلد بازی میں پاکستان آ گئی اور اسکا مجھ سے کوئی کانٹیکٹ بھی نہیں پر آپ سے تو ہو گا نہ۔۔۔۔ آخر آپ کی محبت جو ہے۔۔۔۔

اسنے مومن کو چھڑتے کہا جو جواب میں کچھ بول بھی نہ پایا۔۔۔

"ہنہہہ یہ شخص اور محبت ۔کیا مزاق کر رہی ہو ۔ یہ تو بہت خود غرض آدمی ہے۔ بھلا محبت کیسے کر سکتا ہے"۔۔۔۔

اسفندیار طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔

ایک دم فضا میں اسفند کی بات سن خاموشی چھا گئی۔۔۔

ہاؤ روڈ اسفند جیجو کی محبت کی تو میں خود گواہ ہوں ۔ وہ وفا پر جان چھڑکتے تھے۔۔۔

اسنے اسفند کو یقین دلایا۔۔۔

باقی سب بھی حیرانی سے مومن کو دیکھ رہے تھے لیکن وہ سب اس بات سے انجان تھے کہ گل رخ ہی وفا ہے۔۔۔۔

"اور پتا ہے یہ سب سے زیادہ عورتوں کی رسپیکٹ کرتے تھے تبھی تو وفا نے انہیں چنا"

اسکی بات پر مومن نے بے ساختہ نظرییں چرائیں۔۔۔

"لیکن اسفند جیجو تمہارے گھر میں کیسے" عیشل نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔

"کزن ہے میرا بدقسمتی سے"

اسفند تم کب سے اس طرح طنز کر رہے ہو کیا مسئلہ ہے۔۔۔۔عیشل نے تنک کر پوچھا۔۔۔

مجھ سے کیا پوچھتی ہو ان سب سے پوچھو جو یہاں بیٹھے ہیں کہ آپ کے ماہان جیجو آپ کی بیسٹی کو دھوکا دیے بہت شان سے شادی رچا بیٹھے ہیں اور سونے پر سہاگا یہ کہ اس عورت کو بھہ غلام بنا رکھا ہے۔۔۔۔

اس نے مومن کو کاٹ دار نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔

ہاہاہاہاہا ۔۔۔ ویری فنی تم نے کہا اور میں نے مان لیا۔۔۔

عیشل نے ہنس کر اسفند کو چڑایا ۔ وہ اب بھی نہیں مان رہی تھی ۔۔۔۔

میں مان ہی نہیں سکتی کہ دی گریٹ اسفند جیجو ایک دھوکے باز اور کم ظرف ہیں۔۔۔

اسنے بغیر لگی لپٹی کے کہا۔۔۔

یہ سچ کہ رہے ہیں۔۔۔مومن کی شادی ہو چکی ہے ایک ونی سے لیکن اسکی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ انکی شادی مجھ سے ہونے والی ہے۔۔۔ شازیہ نے گردن اکڑا کر کہا۔۔۔

عیشل جسنے ابھی چائے کا کپ پکڑا تھا اسکا ہاتھ لرزا۔۔۔۔

اچھا تو بلاؤ اسکو تا کہ مجھے یقین آ سکے۔۔۔

شازیہ نے گل رخ کو آواز دے کر بلایا۔۔۔۔

اے کمبخت لڑکی زرا باہر آ۔۔۔ وہ اس وقت عیشل کو کہیں سے بھی پڑھی لکھی لڑکی نہ لگی۔۔۔

مومن اٹھ کر جانے لگا تو عیشل نے اسکے آگے آ کر اسے روکا۔۔۔

جیجو رکیں یہ سب تو جھوٹ بول رہے ہیں آپ ایسا نہیں کر سکتے مجھے یقین ہے۔۔۔

وفا جو کیچن کے کونے پر کھڑی اپنے آنسو روک رہی تھی شازیہ کے دوبارہ بلانے پر مرے قدموں سے باہر بڑھی۔۔۔۔

یہ رہی وہ لڑکی۔۔۔ شازیہ نے وفا کا ہاتھ پکڑتے عیشل کے آگے دھکا دیا۔۔۔

 جبکہ اسکا چہرہ دیکھ کر عیشل کے ہاتھوں سے جان نکل گئی اور چائے کا کپ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر کر چکنا چور ہو گیا۔۔۔۔

وفا۔۔۔اسکے منہ سے بس اتنی سی سرگوشی نکلی۔۔۔۔

وہ بھاگ کر اسکے پاس گئی اور اسے چھو کر دیکھنے لگی۔۔۔۔

وفا یہ تم ہو ۔۔یہ کیا حلیہ بنا لیا ہے تم نے اپنا۔۔یہ سب کس نے کیا تمہارے ساتھ۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ساتھ وفا کو بے چین نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

 جسکا سرخ رنگ کملا کر پیلا پڑ چکا تھا۔۔۔

وہ وفا کے گلے لگ کر بری طرح رو دی جبکہ رو تو وفا بھی رہی تھی۔۔۔۔

باقی سب منہ کھولے تماشہ دیکھ رہے تھے کہ اتنی ماڈرن لڑکی یوں ایک ونی جسکے کپڑوں کا رنگ تک اڑ چکا تھا اسکے گلے لگی ہوئی تھی بغیر اپنے برینڈڈ کپڑوں کی پرواہ کیے۔۔۔۔۔

اسنے وفا کو جھٹکے سے دور کیا تو وفا نے لہو رنگ آنکھوں سے اسکو دیکھا جو اسکی سچی ہمدرد تھی۔۔۔

اسکی نظروں میں اتنی بےبسی تھی اتنا دکھ اتنی عزیت تھی کہ عیشل کو اپنا دل پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

اسکیی کوئی بہن نہیں تھی تبھی تو وفا کو وہ بہنوں سے بڑھ کر چاہتی تھی ۔ اب اسکی تکلیف پر خود بھی تڑپ اٹھی تھی۔۔۔

کس نے۔۔۔عیشل نے وفا کے کندھے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے دو لفظوں میں اسکو تکلیف دینے والے کے بابت پوچھا۔۔۔۔

جس پر اسنے مومن کی طرف نگاہیں گاڑ دیں اور عیشل اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتی مومن پر چیل کی طرح جھپٹی تھی اور ایک سے بڑھ کر ایک تھپڑوں کی برسات کر دی تھی۔۔۔۔

                       *********

زریاب کو ٹارچر سیل سے عام سیل میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ طاہر صاحب اس سے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔۔۔

ابو۔۔

جی میرا بیٹا ۔۔۔وہ زریاب کے پکارنے پر تڑپ کر بولے۔۔۔

آپ سب کو علم کیسے ہوا کہ میں یہاں تھا کیونکہ مومن اور اس بغیرت قاسم کے علاوہ تو کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔

وفا نے بتایا۔۔۔وہ آنکھوں میں نمی لیے بولے۔۔۔

تو زریاب حیرت میں گھِر گیا۔۔۔۔

وفا نے کیسے بتایا وہ تو وہاں ہے۔۔۔

اسنے اسفند کے ہاتھ پیغام بھجوایا اور یہ بھی کہا کہ برے دن جلد ختم ہونے والے ہیں اور ظالم پکڑ میں آنے والے ہیں ۔۔۔

اپنی بہن کی مضبوط باتیں سن وہ نم آنکھوں سے مسکرا دیا اور اسکی آزمائشوں کو ختم کرنے کی دعا کرنے لگا ۔ اس سے بے خبر کے کہ اس پر کتنی بڑی آزمائش آنے والی ہے جو اسے توڑ کر رکھ دے گے۔۔۔۔

اسفند نے آگے بڑھ کر ایک دفعہ بھی عیشل کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ اسکا غبار اسی طرح نکلنا تھا۔ 

"کیا پاگل ہو گئی ہو پیچھے ہٹو"

مومن نے اسے جھٹکے سے پیچھے کیا۔۔۔

"ہاں ہاں ہاں میں پاگل ہو گئی ہوں۔ جو تمہاری محبت دیکھ کر دعا کرتی تھی کہ اللّٰہ سب لڑکیوں کو تم جیسے ہمسفر سے نوازے مگر مجھے کیا پتہ تھا میں انکے لیے دعا نہیں بلکہ انکو بد دعا دے رہی تھی۔

تم جیسے کم ظرف انسان کا ساتھ کسی کے لیے بھی بددعا سے بدتر ہو گا"

وہ مومن پر چلائی جو اب اسے گھور رہا تھا آنکھوں میں ہلکی پشیمانی تھی۔۔۔

مگر انا آگے آ چکی تھی۔۔۔

"تمہاری دوست کا بھائی میری بہن کا قاتل ہے"

وہ اس پر دھاڑا۔۔۔

"شرم سے ڈوب مرو مومن یہ تم کہ رہے ہو ۔ ایسی نیچ سوچ تمہاری ہے۔ تف ہے تم پر ۔ تم اس لائق ہی نہ تھے کہ میری پھول جیسی دوست سے محبت کر سکو۔ اگر اسکے بھائی نے قتل کیا بھی ہوتا تب بھی اگر تم نے اس سے سچا پیار کیا ہوتا تو یوں اسے بے حال نہ کرتے دیکھو اسے وہ پہلے جیسی رہی ہی کب ہے"

عیشل مومن سے بھی دگنی آواز میں چیخی۔۔۔

مومن نے ایک نظر وفا کو دیکھا جسکی بہتی آنکھیں اسکی زات کے لیے لڑتی اپنی دوست پر تھیں۔۔۔۔

"تم کیسے بات کر سکتی ہو ایسے میرے ہونے والے شوہر سے"

تماشہ دیکھنے کے بعد شازیہ کو ہوش آیا تو وہ فوراً نمبر بنانے کے لیے عیشل کو جلی کٹی سناتی پیچھے دھکیلنے لگی۔۔۔

"اور تم دفعہ ہو شکل غائب کرو منحوس "

اور وفا کو کھری کھری سنانے لگی جسکے جواب میں عیشل نے گھما کے تھپڑ رکھ کر اسکے منہ پر مارا کہ وہ پیچھے کو گری اور ہونکوں کی طرح منہ پر ہاتھ رکھے عیشل کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

"اپنی ڈول کو ہاتھ لگانے والے کا میں ہاتھ توڑ دیتی تھی باہر تو تم کس کھیت کی مولی ہو۔ اگر تم نے ایک اور بار اس پر حکم چلایا تو تمہارا منہ توڑ دوں گی".

وہ نیچے گری شازیہ پر دھاڑی اور سب کو وارن کرتی نظروں سے دیکھتی وفا کو لے کر اپنے کمرے میں چلے گئی۔۔۔۔

"کیا شیرنی تھی یہ" ...

ان کے ایک کزن نے سراہتے ہوئے کہا تو عمر اسکو جاتا دیکھ پرسوچ انداز میں مسکرا دیا۔۔۔۔

"ہاں بولڈ آؤٹ تو اچھا کیا ہے اس تیکھی مرچ نے"

 اسنے اپنی داڑھی کھجاتے معصومیت سے کہا تو سب کزن دبی دبی ہنسی ہنس دیے جبکہ شازیہ وہاں سے تن فن کرتی نکل گئی۔۔۔۔۔

                    **********

"توبہ کیا حال بنا دیا ہے تمہارا سکن کتنی ڈل ہو گئی ہے۔ تم دیکھنا انکا کیا حال کرتی میں میری دوست کو تڑپایا ہے نہ۔ اب انکو میں نے تگنی کا ناچ نہ نچایا تو میرا نام بھی عیشل نہیں"۔۔۔۔

اسنے وفا کی کمزور حالت دیکھ کر جلتے کڑھتے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا۔۔۔۔

تو وفا اسکے انداز پر ہنس دی۔۔۔

"تم نہیں جانتی عیشل اسفند نے تمہیں یہاں لا کر میرے پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔۔۔

تمہیں یہاں دیکھ کر میرا دل اتنا خوش ہے کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی"۔۔۔۔

اسنے دلی خوشی سے عیشل کو اپنی باہوں میں بھینچتے کہا تو عیشل بھی نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔۔۔

"کیا ابھی کسی نے میری تعریف کی"

اسفند نے دروازے سے سر ٹیڑھا کر کے اندر جھانکتے کہا۔۔۔۔

تو وہ دونوں ہنس دیں۔۔۔۔

"اے مسٹر تمہاری یہ ہم دونوں کی باتیں چھپ چھپ کر سننے والی عادت کب جائے گی"

عشل نے مصنوعی تیور دکھاتے پوچھا۔۔۔

تو وفا بھی دلچسپی سے اسفند کے جواب کی منتظر ہوئی۔۔۔

"او ماڑا جب تک امارا باتوں سے اس چاند جیسا چہرے پر بہار رہے گا ام تب تک ایسا اوٹ پٹانگ ہرکتیں کرتا رہے گا"

اسنے وفا کے چہرے کو نظروں میں رکھ کر وفا کے پہلے جیسے انداز میں کہا تو کمرہ انکی کھلکھلاہٹوں سے گونج اٹھا۔۔۔

اسفند نے وفا کو ہنستے دیکھ دل سے اسکی دائمی خوشیوں کی دعا کی۔۔۔

قسمت نے اداسی سے انکے مسکراتے چہروں کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔

                    **********

اب روز رات کا معمول بن گیا تھا وفا روز بلاناغہ تہ خانے میں اس لڑکی سے ملنے جاتی اور اسکی مرہم پٹی کر کے اسے کھانا کھلاتی۔

اب وہ لڑکی بھی وفا سے مانوس ہو گئی تھی۔

وفا اسے سب سمجھا چکی تھی کہ قاسم کو اپنی باتوں میں لا کر سچائی کیسے اگلوانی تھی۔ 

اب انہیں صرف ایک موقع کی تلاش تھی جو انہیں جلد میسر آنے والا تھا لیکن اس سے پہلے ایک آزمائش وفا پر اترنے والی تھی جس سے وہ انجان تھی۔

                    **********

سب ملازم حویلی کے کام کاج کر رہے تھے۔

عیشل زیادہ تر وفا کو ساتھ ہی رکھتی تا کہ کوئی اس سے زیادہ کام نہ کروا سکے۔

"یہ تم کہاں منڈلاتی رہتی ہو مہارانی پیٹ سے کیا ہوئی کام کرنا ہی بھول گئی۔ تم کوئی انوکھی ماں نہیں بننے والی ۔کبھی کام کو بھی ہاتھ لگایا کرو"

وفا جو عیشل کے پاس بیٹھی سیب چھیل رہی تھی عصمت بیگم کی آواز پر ہڑ بڑا کر اٹھی۔۔۔

عیشل نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا۔۔۔اور میٹھے لہجے میں بولی۔۔۔۔

"ارے آنٹی آپ یہاں آئیں بیٹھیں نہ مجھے تو اس حویلی میں ایک آپ ہی اچھی لگیں ہیں۔ ایک آپ کا فیشن سینس اور اوپر سے بولنے کا انداز میں واقعی متاثر ہوئی ہوں ۔ آپ تو کہیں سے گاؤں کی نہیں لگتیں"

عیشل نے انکو مسکا لگایا اور وہ مکھن کی طرح پھسل کے اسکے ہاتھ میں آ گئیں۔۔۔۔

"کیا واقعی بیٹا تمہیں ایسا لگتا ہے۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے ۔ میں بھی شہر کے نت نئے ڈیزائنر کپڑے پہنتی ہوں"

انہوں نے اپنے بالوں کو ایک ہاتھ سے سیٹ کرتے کہا ۔۔۔۔

تو وفا کے پیٹ میں ہنسی روکنے کے چکر میں مڑوڑ اٹھنے لگے۔۔۔

"ہاں آنٹی آپ کی بات ہی الگ ہے اور وہ نائلہ آنٹی تو آپ کے آگے کچھ نہیں لگتیں جبکہ وہ تو باہر سے آئیں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے وہ جلتی ہیں آپ سے۔ "

عیشل نے لگے ہاتھ ان دونوں میں پھوٹ پڑوانی چاہی جو دونوں اکٹھی مل جاتیں تو وفا کا جینا حرام کیے رکھتیں۔۔۔

"صحیح کہا تم نے میں نے بھی نوٹ کیا ہے آپا جلتی ہیں مجھ سے"

وہ واقعی اسکی باتوں میں آ گئیں تھیں۔۔۔

"ویسے آنٹی آپ کی بیٹی کی شادی ہے ہزار لوگوں کا آنا جانا ہو گا میں سوچ رہی تھی ۔ لوگوں کی نظروں میں آپ کی عزت بنے۔۔۔

اسنے نہایت معصومیت سے کہا۔۔۔۔

تو وہ فوراً بولی۔۔۔

"اسکے لیے مجھے کیا کرنا چاہئے بیٹا"۔۔۔۔

"آنٹی آپ کو اسکے لیے اس ونی میں آئی لڑکی کو اچھے کپڑے دینے ہوں گے پہننے کے لیے تاکہ لوگوں میں آپ کا نام بنے ۔کہ کبھی اس حویلی کی کسی اور عورت نے جس کا خیال نہ کیا اسکا خیال آپ کر رہی ہیں۔ اس طرح آپ سبکی نظروں میں عظیم بن جائیں گی"

عصمت بیگم بھی جاگتی آنکھوں سے اپنی عزت کے خواب دیکھنے لگیں۔۔۔

"یہ تو بلکل صحیح کہا تم نے بیٹا یہ تو میں نے سوچا ہی نہ تھا"

انہوں نے بھولپن سے منہ پر انگلی رکھتے کہا۔۔۔

تو وفا عیشل کے سازشی باتوں کو دیکھ کے رہ گئی۔

"جی آنٹی کپڑے بھی میں نے اسکے منگوا لیے ہیں بس آپ نے سب سے یہ کہنا ہے کہ اسے یہ سب آپ نے دلایا پھر دیکھنا آپ کا کتنا نام ہوتا سب میں۔۔۔۔

"ہائے شکریہ بیٹا کتنا خیال ہے تمہیں میرا"

وہ تو پھولے نہ سما رہی تھیں

"جی آنٹی آپ فکر ہی نا کریں میں ہوں نا سب سمبھال لوں گی۔۔۔

اسنے شاطرانہ انداز میں کہا جسے وہ بلکل سمجھ نہ سکیں جبکہ وفا اسکی چال پر عش عش کرتی رہ گئی۔۔۔

"اب دیکھ نا مومن میں تمہیں وفا کا وہ روپ دکھاؤں گی جس سے تم اسے پانے کے لیے تڑپو گے".

عیشل نے پرسوچ انداز میں وفا کو دیکھتے سوچا۔۔۔

اب اسکو ہی کچھ کرنا تھا۔۔۔۔۔

                     ***********

سب تیاریاں ہو گئیں تھیں اور مہندی کی رسمیں بھی جب وفا نروس سے نیچے آئی اورنج کلر کے کام والے لہنگے میں وہ سر پر پنک دپٹا ٹکائے بغیر کسی پیک اپ کے بھی کئی لوگوں کا چین لوٹ گئی تھی۔۔۔

عصمت بیگم تو سب کو بتاتے نہیں تھک رہی تھیں کہ وفا کو یہ کپڑے انہوں نے لے کر دیے جس پر سب انہیں سراہتے۔۔۔

دراصل وہ سراہ انکو نہیں وفا کو رہے تھے جو اس لہنگے میں سوگوار حسن لیے سب سے منفرد اور خوبصورت لگ رہی تھی۔

جبکہ عصمت بیگم حقیقت سے انجان تعریفوں کا مزا لے رہی تھیں جبکہ نائلہ بیگم انکی اس حرکت پر انہیں غصے سے گھور رہی تھیں۔۔۔۔۔

اور عصمت بیگم بیچاری یہ سمجھ رہی تھیں کہ وہ انکی خوبصورتی سے جل رہی ہیں۔۔۔

                    ********

مہندی کے بعد سب ینگ جنریشن باہر لان میں بون فائر کرنے لگے اور سونے پر سہاگہ ساتھ باربی کیو بھی تھا ۔ جسکی وجہ سے سب انجوائے کر رہے تھے۔ ان کے کزن اور دوست بھی وہاں شامل تھی.

مومن اور اسفند آمنے سامنے بیٹھے تھے جبکہ عمر ان دونوں کو دیکھ شرارت سے مسکرا دیا۔۔۔۔

کیوں نہ ہم سب ٹرتھ اینڈ ڈیئر کھیلیں گائز۔۔۔اسنے سبکو مخاطب کرتے کہا تو سب فوراً ہاں میں سر ہلانے لگے۔ اسفند اور مومن نے پہلو بدلا یہ گیم ان دونوں کی فیوریٹ تھی اور زیادہ تر وہ دونوں ساتھ ہی کھیلتے تھے۔۔۔

"ارے ہمارے لیے رکو "

عیشل نے وفا کا ہاتھ پکڑ کر آتے ہوئے کہا۔۔۔

"آپ کے لیے تو ہم عمر بھر انتظار کر سکتے ہیں "

عمر نے کہا تو سب نے ہوٹنگ کی جبکہ عیشل اسکے پاس سے گزرتی اسے ٹھرکی کہ کر ہنہہ کر کے گزر گئی۔۔۔۔۔

اور وفا کو اس لہنگے میں دیکھ دو لوگ نظریں جھکانا بھول گئے تھے۔۔۔۔

وہ لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی۔۔۔

اور وفا کو اس لہنگے میں دیکھ دو لوگ نظریں جھکانا بھول گئے تھے۔۔۔۔

وہ لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی۔۔۔

عیشل اسفندیار کے پاس ایک کرسی گھسیٹ کر لائی اور وفا کو اس پر بیٹھایا اور ساتھ والی کرسی پر خود بیٹھ گئی۔

اسفند نے غور کیا وفا کی طرف دیکھنے والا وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ مومن کی نظریں بھی یک ٹک اسی پر تھیں۔

وہ اسکا محرم تھا جو اسے دیکھنے کا حق رکھتا تھا مگر وہ تو اسکے لیے نامحرم تھا پھر نظر بھر کر کیسے دیکھ لیتا ۔ یہ سوچ آتے ہی اسنے فوراً سے بے شتر وفا پر سے نظریں ہٹا لیں تھیں۔ وہ اسے پیار بھری نظروں سے چھو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ اسکا حق نہیں تھا۔

وہ اتنے میں ہی خوش تھا کہ وفا ان سب کے بیچ کھل کر سانس لے رہی ہے اور یہ اللہ کے بعد عیشل کی محبت کا نتیجہ تھا۔

"اچھا تو کیا کر رہے تھے آپ لوگ ہم بھی کھیلیں گے"

عیشل نے تجسس سے پوچھا۔۔۔

"ہم شعر و شاعری کا مقابلہ کرنے لگے تھے اب آپ آ گئی ہیں تو آپ بھی ہمارا ساتھ دیں".

عمر نے چہک کر کہا۔۔۔

"واہ کیا زمانہ آ گیا ہے مالک اور نوکر اب ساتھ بیٹھ کے انجوائے کیا کریں گے"

شازیہ نے منہ بگاڑ کر طنز کیا۔۔۔

"شازیہ" عمر نے اسے سرزنش کی۔۔۔

اس سے پہلے کے اسفند کچھ کہتا عیشل بولی۔۔۔

"اسفندیار کیا تم نے انہیں بتایا نہیں کہ باہر میرا پسندیدہ مشغلہ لوگوں کی لمبی زبانیں کاٹنا تھا مجھے لگتا ہے یہاں کے لوگوں کے زبانیں بہت لمبی ہو گئی ہیں کترنی پڑیں گی"

عیشل نے بازو چڑھاتے کہا۔۔۔۔

تو شازیہ کے چہرے کی ہوایاں اڑ گئیں۔

"میں تو مزاق کر رہی تھی میں نے گل رخ کو تو کچھ نہیں کہا "

اسنے ہڑبڑاتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لیے تو سب دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے اسکی اڑی رنگت دیکھ کر۔

"میں نے کب کہا کہ میں نے تمہاری زبان کاٹنی ہے کیسا لگا میرا مزق"

اسکی بات پر سب کے قہقے گونج اٹھے۔۔

باٹل گھماتے ہی جس پر باٹل کی ٹاپ رکی وہ شعر بولے گا۔۔۔۔

سب سے پہلے باٹل مومن پر رکی۔۔۔

سب کی پر زور فرمائش پر اسنے بولنا شروع کیا۔۔۔

"کسی کو جب کہیں کرنا ہو گھائل

یہی بنتی ہیں تلوار آنکھیں"

اسنے وفا کو نظروں میں رکھ کر کہا تو خوب شور اٹھا شازیہ جل کر خاک ہو گئی۔۔۔

اب باری اسفند کی تھی۔۔۔

"اسفندیار اب تم شعر کہو گے اپنی محبت کے لیے"

عیشل نے فرمائش کی جو مومن کو سراسر اپنے لیے لگی کہ شاید وہ اسے اپنے لیے شعر کہنے کا کہ رہی ہے۔۔

"نہیں میں نہیں کہ سکتا مجھے حق نہیں"

اسکی آواز میں رنجیدگی سب نے صاف محسوس کی۔۔۔

تو کیا اسفند بھائی بھی کسی سے محبت کرتے تھے۔۔۔۔

ان میں سے ایک کزن بولا۔۔۔۔

"ایسی ویسی میں خود گواہ ہوں" کہ اسفند جیسی محبت نہیں بلکہ عشق کوئی نہیں کر سکتا"

عیشل کی بات پر سب ہوٹنگ کرنے لگے ان سب کو یہی لگا اسفند عیشل سے پیار کرتا ہے۔۔۔

"وفا نے بیٹھے بیٹھے پہلو بدلا"

لیکن عیشل کے زور دینے پر اسے بولنا پڑا۔۔۔

"اسکی آنکھیں سے عشق ہے مجھے کیونکہ ان میں سورج کی طرح خواب چمکتے ہیں

ہاں پھول اور چاند سا ہے وہ تبھی تو اسے پانے کی سب چاہ کرتے ہیں"

شعر کے اختتام پر سب نے تالیوں کا طوفان اٹھا دیا ۔۔۔

وفا کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔۔

اب دوبارہ بوتل گھومنے پر اسکا رخ وفا کی طرف تھا جو پہلے ہی بوتل کو منہ اپنی طرف دیکھتے نفی میں سر ہلا کر منع کرنے لگی۔۔۔

"وفا کوئی بہانا نہیں چلے گا"

عیشل نے گرکھا۔۔۔۔

"رہنے دو بہن جن کے دل مر جائیں پھر کہاں انہیں یہ محفلیں پسند آتی ہیں"۔۔۔۔

نازیہ نے طنز کے تیر چلائے۔۔۔۔

"دل مرتا نہیں ہے دل کو مار دیا جاتا ہے ظالم لوگ مار دیتے ہیں"

وفا نے مومن کو اپنی نظر میں لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔

ماحول ایک دم کشیدہ ہوا تھا۔۔۔۔

وفا تم بولو۔۔۔۔

عیشل نے اس سے کہا تو وہ اسکی بات رد نہ کر پائی۔۔۔

"ضروری تو نہیں کہ کچھ توڑنے کے لیے پتھر ہی اٹھائیں

لہجہ بدل کر بولنے سے بھی دل ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔"

وفا کو اپنی تبیعت خراب محسوس ہو رہی تھی تو وہ اٹھ کر اندر چلی گئی وہ اٹھی تو عیشل اور اسفندیار بھی اٹھ گئے۔۔

پھر آہستہ آہستہ انکی محفل بھی برخاست ہو گئی۔۔۔۔

                  ***********

یہ اگلے دن کی بات ہے جب وہ سب شازیہ کی شادی سے فارغ ہوئے ۔

"دروازہ کھولیں مجھے اندر جانے دیں خدا را مجھے لالہ سے ملنا ہے"

سب شور سن کر حویلی سے باہر نکل آئے تھے جہاں سحر حویلی کے باغ میں چیخ چیخ کر اندر جانے کی فریاد کر رہی تھی۔ 

شہناز بیگم اپنی بیٹی کی آواز سن کر تڑپ گئ تھیں۔۔۔

مگر کسی کی اس کی طرف جانے کی جرات نہیں ہوئی ۔ سب کو ثاقب صاحب نے منع کر رکھا تھا جبکہ مومن نے سحر کے حویلی آنے پر پابندی لگا دی ہوئی تھی۔

وہ اندر تو آ چکی تھی مگر دو عورتوں نے اسے پکڑ رکھا تھا۔

"لالہ پلیز رحم کریں کیوں اتنے سنگ دل بنے بیٹھیں ہیں۔ میں تو سمجھی تھی کہ زریاب کہیں ہم سے ناراض ہو کر چلے گئے ہیں مگر مجھے کیا پتہ تھا میرا سگا بھائی ہی میرے شوہر کو قید کیے بیٹھا ہے"

اسنے زارو قطار روتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

مومن نے فوراً وفا کی طرف دیکھا کہ اس کے یہ خبر سن کر کیا تاثرات ہیں۔۔۔۔

لیکن وفا کی آنکھوں میں بھری اپنے لیے نفرت دیکھ کر مومن کے دل کو کچھ ہوا۔

بے شک اسنے منہ سے کچھ نہیں کہا تھا مگر اسکی آنکھوں میں نفرت کی تحریر سب کہ گئی تھی۔۔۔۔

مگر وہ کچھ نہیں کر سکا۔۔۔۔

"سحر واپس لوٹ جاؤ قاتل کو سزا مل کر رہے گی بار بار منت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں قاتل کے لیے کل بھی وہی اصول تھا اور آج بھی میں ایسے لوگوں کا معاف نہیں کیا کرتا"

اسنے سر جھٹک کر دل پر پتھر رکھتے کہا۔۔۔

تو سحر بے یقینی سے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔۔۔

"تو پھر وفا کو کیوں قید کر رکھا ہے آپ نے قاتل تو آپ کے پاس ہیں اس کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں۔ کیا حال بنا دیا ہے اسکا آپ نے اپ جانتے بھی ہیں اسکے بھائی نے اسے کبھی سخت نظروں سے بھی نہیں چھوا اور آپ نے اسکی حالت غیر کر دی ۔"

وہ بھی وفا کی حالت دیکھ کر انگارے چبائے بولی اسنے بھی وفا کو ماں ایک بہن کی طرح چاہا تھا۔

"سحر یہاں سے نکل جاؤ ایک قاتل کی بیوی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں "

ثاقب صاحب سفاکیت سے بولے تو شہناز بیگم رو دیں۔۔۔۔

" ظالم ہیں آپ لوگ ۔ جو مظلوم لوگوں پر ظلم کرتا ہے اسے کبھی خوشیاں نصیب نہیں ہوتیں ۔ آپ ایک نہیں بلکہ دو بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں اللہ کے قہر سے ڈریں۔۔۔۔"

چیخ چیخ کر اسکا گلا بیٹھ گیا تھا۔۔۔

پتھر بنی وفا میں ایک دم حرکت آئی اور وہ دھیمے قدموں سے اس تک بڑھنے لگی . آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی طرح بکھرنے لگے تھے۔ یہاں تک کے وہ سحر تک پہنچ گئی۔

سحر جب اس کو گلے لگانے لگی تو انہیں دو عورتوں نے اسے پیچھے کیا اور وفا کا ہاتھ پکڑنے لگیں جب وہ دھاڑی۔۔۔

"ہاتھ مت لگانا ورنہ جڑ سے اکھاڑ کر پھنک دوں گی"

اسنے اس عورت کو دھکا دیتے کہا جو دور جا گری۔۔۔۔

سب حیرت کا مجسمہ بنے اسے دیکھنے لگے جو جب سے یہاں آئی تھی لبوں پر قفل لگائے بیٹھی تھی مگر آج اسکی دھاڑ کسی شیرنی سے کم نہیں تھی۔۔۔۔۔

وہ عورتوں کو پیچھے کر کے سحر کے گلے لگ گئی۔۔۔۔

سحر بھی اسکے گلے لگی اسکا غم غلط کرنے لگی۔

سحر اور وفا دونوں ہی ایک دوسرے سے زریاب کی خوشبو محسوس کر رہی تھیں۔ کیونکہ وہ دونوں ہی زریاب کے وجود کا حصہ تھیں۔۔۔

"مومن دیکھ کیا رہے یو الگ کرو انہیں اور سحر کو روانہ کرو یہاں سے نائلہ بیگم نخوت سے بولیں۔۔۔۔

تو مومن نے آگے بڑھ کر ان دونوں کا الگ کیا۔۔۔

"لالہ رک جائیں مجھے اسے محسوس تو کر لینے دیں یہ بلکل میرے زریاب کی پرچھائی ہے اس سے مجھے زریاب کی خوشبو آتی ہے"

سحر بلکتے ہوئے بولی۔۔۔۔

"اس لیے تو مجھے اسکے وجود سے نفرت ہے"

وہ بھی نفرت سے وفا کو دیکھ کر بولا ۔۔۔

وفا تو اسکے پل پل رنگ بدلنے پر حیران تھی۔۔۔

"جاؤ یہاں سے"

مومن نے سحر کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کا راستہ دکھایا

مگر وہ وفا کو نا چھوڑنے پر بضد تھی اور مومن اسے الگ کرنے پر۔۔۔۔

وفا سحر کے گلے لگی اور بولی۔۔۔۔

"آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے نا بھابھی تو گھر جائیے میں سب سمبھال لوں گی بس کچھ دن اور لالہ آپ کے پاس ہوں گے"

سحر نے بے یقینی سے اسے دیکھا یہ وہ کیا کہ رہی تھی۔۔۔

بھلا ان ظالموں کی قید سے وہ خود کو اور زریاب کو کیسے آزاد کروا سکتی تھی۔۔۔

"بس کچھ دن انتظار"

اسنے سحر کی آنکھوں میں دیکھتے زور دیتے کہا تو سب اسکی طرف متوجہ ہوئے اور سحر نے آرام سے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا اور واپس چل دی۔۔۔

اسے وفا پر یقین تھا خود سے زیادہ کیونکہ وہ زریاب کے وجود کا حصہ تھی۔۔۔۔

باقی سب حیرت میں گھرے کھڑے تھے بھلا وفا کی بات کا کیا مطلب تھا۔۔۔

اس سے پہلے کہ مومن اس سے پوچھتا وہ اسے اگنور کرتی اندر حویلی میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔

پیچھے مومن خود کو نظر انداز کیے جانے پر پیچ و تاب کھاتا رہ گیا۔۔۔۔۔

                         *******

کچھ دن بعد۔۔۔۔

صبح کا وقت تھا سب اپنے کاموں میں مشغول تھے۔ آج کل سب بیچ بیچ میں ہی کسی چیز کی تیاریاں کر رہے تھے۔ بات بظاہر تو کچھ نہیں تھی۔ مگر بڑوں کی تیاریاں اور معنی خیز نظریں کچھ بڑے کارنامے کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔

اسفندیار نے سب کو کام میں لگے دیکھا تو وفا کو کچن میں اکیلا کام کرتے دیکھ اس طرف گیا۔۔۔

وفا۔۔۔۔

اسکی آواز پر وفا بوکھلا گئی۔۔۔

اسفند تم یہاں کیا کر رہے ہو تمہیں پتا ہے نا کسی نے دیکھ لیا تو بات کا بتنگڑ بنا دیں گے۔۔۔۔

وفا نے نظریں اطراف میں گھماتے کہا۔۔۔

"وفا مومن نے سب لائر خرید لیے ہیں تمہارے ابو جسے بھی ہائر کرتے ہیں یا تو بک جاتا ہے یا اسے دھمکیاں دے کر بھگا دیا جاتا ہے کوئی کیس لڑنے کے لیے تیار نہیں ۔ بس ایک لائر میرا دوست ہے وہ بھی تب جائے گا جب فرسٹ ہیرنگ ہو گی۔ کیونکہ اس سب سے پہلے مومن کو خبر بھی ہو گئی تو وہ اسے بھی راستے سے ہٹوا دے گا۔۔۔۔

اسفند کی ساری باتیں سن وفا کے دل کو کچھ ہونے لگا ۔ پریشانیوں نے تو اسکی راہ ہی گھیر لی تھی۔ اسفند مجھے کچھ وقت چاہئیے سوچنے کے لیے ورنہ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔۔۔۔

اسکا بی پی لو ہونے لگا تھا اور یہ اسکے بچے کے لیے بھی نقصان دہ تھا۔۔۔

اسفند نے فوراً نوری کو بلوا کر اسے کمرے میں بھجوایا۔۔۔

                  ***********

رات ہو چکی تھی مگر اس کی تبیعت اب بھی نہیں سمبھلی تھی۔ وہ اپنا سر پکڑے بیٹھی تھی جبکہ نوری اسکے پاوں دبا رہی تھی جو زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے سوج چکے تھے۔۔۔

جب شازیہ ایک ٹور سے چلتی ہوئی اندر آئی۔

"ہنہ کروا لو جتنی خدمتیں کروانی ہیں جب میں مومن کی بیوی بنوں گی تو سب سے پہلے تمہیں ذلیل کر کے یہاں سے نکالوں گی اور اپنی زاتی نوکرانی بنا کر رکھوں گی۔ کیونکہ تمہارا فرض ہو گا اپنے شوہر کی من چاہی بیوی کی خدمت کرنا"

اسنے اکڑتے ہوئے کہا۔۔۔تو وفا کا دماغ مزید خراب ہوا۔۔

"آخر تم کہنا کیا چاہتی ہو مومن تم سے شادی کبھی نہیں کرے گا ".

وفا نے لب بھینچ کر کہا تو شازیہ کا قہقہ گونجا۔۔۔

"چچ بہت بھولی ہو تم تمہارا اوپس سوری میرا ہونے والا شوہر مومن ابھی اپنی شادی کی شیروانی خرید کر لایا ہے چاہو تو جا کر پوچھ لو"

اسکے اتنے یقین سے کہنے پر وفا کے قدم ڈگمگائے۔۔۔

وہ باہر کو لپکی اسکا ارادہ مومن سے استفسار کرنے کا تھا جو اسے سیڑھیوں کی قریب ہی مل گیا اس سے پہلے کہ وہ سیڑھیاں اترتا وفا نے اسے روکا۔۔

"مومن یہ شازیہ کیا کہ رہی کہ تم اس سے شادی کر رہے ہو کہ دو کہ یہ جھوٹ ہے۔ "

مومن نے اپنی محبت کو دیکھا جو پتا نہیں کتنے عرصے بعد اس سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔

مگر اسکے سوال میں وہ خاموش رہا ۔۔۔

"بولو بھی خدارا کچھ بولو تمہاری خاموشی یہ چیخ چیخ کر کہ رہی ہے کہ تم بے وفائی کر چکے ہو"

اسنے روتے ہوئے ہچکیوں کے ساتھ کہا تو مومن نے بمشکل ضبط کیا۔۔۔۔

"ہاں کر رہا ہوں میں شادی سبھی کرتے ہیں اگر میں نے کر لی تو کونسی بڑی بات ہے جو تم یوں واویلہ کر رہی ہو۔ مت بھولو کہ تم ونی میں آئی ہو مجھ سے پوچھنے کا حق نہیں رکھتی"

اسنے سب کو نیچے جمع دیکھ لیا تھا تبھی جی کڑا کرتا بھولا۔۔۔۔

"دھوکے باز آخر دھوکا دے ہی دیا نہ تم نے۔ آج تک تم نے مجھے دیا ہی کیا تھا سوائے دکھوں اور تکلیفوں کے جو یہ تکليف بھی مجھے دینے چلے ہو۔ ابھی بھی باز آ جاؤ میں آخری دفعہ کہ رہی ہوں ۔ ورنہ کبھی تمہاری طرف پلٹ کر نہیں آؤں گی"

وفا نے اسکا گریبان جھنجوڑتے کہا۔۔۔

"میری مرضی میں جس کے پاس مرضی جاؤں اور تمہیں بھی تا قیامت نہیں چھوڑوں گا تا کہ تم دوسروں تک چلی جاو ہنہہہ کبھی نہیں۔ "

مومن نے ایک اور وار کیا تھا اس پر اسکی عزت پر۔۔۔۔

جس پر وہ مومن کو تماچہ مار چکی تھی منہ پر۔۔۔۔

"میں ہی غلط تھی میری محبت ہی غلط تھی جو تم جیسے غلیظ ذہنیت کے آدمی کو ہیرا سمجھ بیٹھی اور اصل ہیرے کو گنوا دیا تف ہے تم پر"  

اسنے مومن کے کالر جکڑتے کہا جو مومن کو غصے کی آخری حد پر لے گئے ۔۔۔

"آآآآآ مر کر بھی نہیں چھوڑوں گا تمہیں میرے نام پر ہی مرو گی تم "

اسنے وفا کے دونوں بازو جھنجوڑتے کہا آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔۔۔۔

"اور میری بیوی کا کردار تم سے لاکھ درجے بہتر ہو گا"

یہ آخری کاری ضرب لگائی تھی مومن نے جس نے وفا کو پورا توڑ دیا تھا۔۔۔

"میری بد دعا ہے تمہیں وہ بیوی ملے جس کا کوئی کردار نہ ہو ۔ تم نے مجھ پر شک کیا ہے نا تو اب دیکھنا خدا بھی تمہیں طوائف سے نوازے گا".....

اسنے آنسو بہاتے چیخ کر بد دعا دی۔۔۔۔جو عرش پر جا پہنچی تھی۔۔۔۔

مومن نے غصے سے اسے پیچھے دھکیلا اور پلٹ کر جانے لگا جب وفا کی درد ناک چیخوں سے پوری حویلی گونج اٹھی تھی۔۔۔

مومن کے دھکا دینے سے وفا پیٹ کے بل سیڑھیوں سے گرتی چلی گئی ۔۔۔

اس معصوم نے پیٹ پر بازو لپیٹ کر اپنے اندر پل رہی ننھی زندگی کو بچانے کی ایک ناکام سے کوشش کی تھی۔۔۔۔

"وفا"

اسفند وفا کو گرتا دیکھ فوراً سیڑھیاں پر بھاگا اور اسے آدھی سیڑھیوں میں جا لیا۔۔۔۔

وفا آنکھیں کھولو۔۔۔۔

اسفند کی آواز وہ آخری آواز تھی جو اسکے ذہن نے تاریکی میں ڈوبنے سے پہلے سنی۔۔۔

سیڑھیوں پر خون بہتا چلا گیا جو سیڑھیوں کو سرخ کر چکا تھا ۔۔۔۔موت کے رنگ جیسا۔۔۔۔۔۔

اُدھر وفا گری تھی اِدھر کال کوٹھری میں ہاتھوں میں سر تھامے بیٹھا زریاب پریشان ہو اٹھا۔۔۔

ایک دم عجیب سی بیچینی نے اسے گھیر لیا تھا۔ دل بے ساختہ تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔۔۔

"دھک دھک دھک دھک"

 اسے لگ رہا تھا دل سینے کی دیواروں سے سر پٹخ پٹخ کر باہر آ جائے گا۔

"یا اللّٰہ میرا دل کیوں اتنا بے چین ہے ایسا تو تب ہی ہوتا ہے جب ہم دونوں(وفا اور زریاب) میں سے ایک مشکل میں ہوتا ہے۔۔۔۔

وہ بےچینی سے ادھر ادھر ٹہلنے لگا ۔ دل زیادہ بے تاب ہونے لگا تو خدا کے حضور جھک کر اپنی عزیز جان بہن کے لیے دعا کرنے لگا۔۔۔۔

وہ جانتا نہیں تھا کہ وفا کتنی بڑی مشکل میں ہے مگر اسکا دل اسے اطلاع کر رہا تھا اور وہ اپنی بہن کو خدا کی امان میں دے بیٹھا تھا۔۔۔

وہ دو دل ایک جان تھے اگر چوٹ ایک کو لگتی تو تڑپ دوسرا جاتا تھا ۔ اب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔۔۔

                    ***********

وفا وفا اٹھو آنکھیں کھولو ۔۔۔۔

اسفند نے اسکا منہ تھپتھپاتے کہا اسکا اتنا خون دیکھ کر اسفند کی جان حلق میں آ گئی تھی اور چیخیں تو عیشل کی بھی نکل گئی تھیں۔

اسفند جلدی کرو اٹھاؤ اسے ہسپتال لے کر چلو اسنے اسفند کا کندھا جھجنوڑ کر کہا جسکی خود وفا کے ساتھ جان نکلتی جا رہی تھی۔

اسنے ہوش کی دنیا میں قدم رکھتے فوراً وفا کو باہوں میں بھرا۔۔۔

"سردار مومن خان اگر وفا کو کچھ بھی ہوا تو تمہاری جان اپنے ہاتھوں سے لوں گا اور اس بار مجھے تمہاری جان لینے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا تم بھی نہیں۔

یہ کہتا وہ وہاں سے وفا کے لے کر نکلتا چلا گیا پیچھے ہی عمر , عیشل اور شازیہ بیگم بھی نکلی تھیں کیوں نہ جاتی بات انکے وارث کی جو تھی۔۔۔۔

پیچھے مومن خالی ہاتھ کھڑا رہ گیا تھا خساروں میں گھرا سوچ رہا تھا کہ وہ اپنا کتنا بڑا نا قابلِ تلافی نقصان کر چکا تھا۔۔۔۔

اور جو باقی بچے تھے وہ تو تھے ہی بے ضمیر لوگ وفا کے مرنے سے نہ انکو کوئی فرق پڑا تھا نہ پڑنا تھا۔

                       ******

ڈاکٹرز افرا تفری میں آئی سی یو کے اندر باہر جا رہے تھے اور باہر کھڑے اسفندیار کی جان لبوں پر آئی تھی۔ وہ کبھی ادھر ٹہلتا تو کبھی ادھر عیشل اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے تسلی دے رہی تھی۔

ڈاکٹرز کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے رہے تھے۔آذانوں کی آواز پر اسفند بے اختیار وہاں سے قریبی مسجد میں گیا اور خدا کے آگے جھک گیا اور اسکے سامنے سب دکھ آنکھوں سے آنسوؤں کے ذریعے بہا دیے۔۔۔۔

"یا اللہ میں بہت گناہ گار بندہ ہوں نہیں جانتا کہ جو کر رہا ہوں وہ صحیح ہے یا غلط مگر میرے رب مجھے وہ واپس لوٹا دے ۔ اس کے نکاح کے بعد کبھی دل میں اسکا خیال نہیں لایا مگر آج تجھ سے اسکی زندگی کی بھیک مانگتا ہوں ۔ میرے رب میرے کریم مولا اپنے حبیب کے صدقے مجھے اسکی زندگی لوٹا دے۔ میں جانتا ہوں میں غلط کر رہا ہوں مگر اس کا یہاں فل وقت کوئی نہیں جو اس کے حق میں دعا کر سکے۔ "

روتے روتے اسکی ہچکی بندھ گئی چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا مگر وہ سجدے میں گرا رہا ۔

فجر کی اذان سے وہ یہاں تھا صبح کے نو بج چکے تھے جب اسے عیشل کی کال آئی اور اسنے وفا کے خطرے سے باہر ہونے کی خوش خبری سنائی۔ وہ سجدائے شکر بجا لایا اور فوراً ہسپتال کی طرف بھاگا جہاں اسکا عشق منتظر تھا۔۔۔۔

                 *************

آئی سی یو میں اس وقت ہولناک سی خاموشی تھی بیچ بیچ میں بس عیشل کی سسکیاں وقفے وقفے سے گونج رہی تھیں جو بے جان سی وفا کے پاس بیٹھی اپنی جان سی پیاری دوست کو یوں سکتے میں دیکھ اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ رہی تھی ۔ جو ساکت سی سٹریچر پر پڑی کسی غیر مرئی نکتے کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں بے تاثر سی دیوار پر گاڑیں تھیں۔

ڈاکٹر نے جب انہیں اطلاع دی تھی کہ وہ اسکے بچے کو نہیں بچا پائے ۔ تب سے اب تک وہ ایک لفظ نہیں بولی تھی نہ ہی آنکھوں سے کوئی آنسو نکلا تھا۔ لبوں پر قفل لگ چکا تھا۔

شہناز بیگم سے تو اسکی یہ حالت برداشت نہ ہوئی تھی وہ عمر کے ساتھ واپس حویلی روانہ ہو چکیں تھیں۔۔۔۔

عیشل نے لاکھ کوشش کی کہ وہ کچھ بولے یا اپنی اولاد کو کھونے کے غم میں رو لے مگر بے سد۔۔۔۔

وہ وفا کو ہی دیکھ رہی تھی جب دھاااااڑ کی آواز سے دروازہ کھولتا اسفندیار اندر داخل ہوا سانسیں پھولی ہوئی تھیں جو اسکے بھاگ کے آنے کی گواہ تھیں۔۔۔

اسکی بےچین نظریں وفا کا طواف کر رہی تھیں جسکے سر پر پٹی بندھی تھی رنگت پیلی پڑ چکی تھی آنکھوں کے گرد کچھ ہی دیر میں سیاہ ہلکے پڑ چکے تھے۔ ہاتھوں پر ڈرپ لگی تھی۔۔۔۔

وفا کو ایک طرف مسلسل دیکھتے پا کر اسے اسکے ساکت ہونے کا گماں ہوا۔۔۔۔

اسے ایک دم کسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔۔۔اسنے نا چاہتے ہوئے بھی عیشل کو دیکھا جو نفی میں سر ہلاتی اسے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔

جس نے اسفندیار کے بد ترین خدشات پر یقین کی مہر لگا تھی۔ وفا کا ایک اور نا قابلِ تلافی نقصان ہو چکا تھا۔ وہ بےجان قدموں سے آگے بڑھا اور وفا کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔

"وفا " اسنے بہت پیار سے پکارا تھا اسے۔۔۔

تیسری دفعہ بھی جب اسنے جواب نا دیا تو اسفند نے اسکا کندھا جھنجھوڑا ۔۔۔

وفا۔۔۔۔

اسکی آنکھوں میں ایک دم حرکت پیدا ہوئی اسنے اسفندیار کی طرف دیکھا ۔۔۔ان آنکھوں میں شناسائی کی کوئی رمق باقی نہیں تھی۔ اسفندیار کے دل پر اس وقت آرے چلے تھے۔۔۔

ایک آنسو بے ساختہ پھسلا اور وفا کے چہرے پر گرا۔۔۔۔

جس نے وفا کے اندر ہل چل پیدا کی اور وہ پلکیں جھپکتے اسفندیار کو دیکھنے لگی۔۔۔

احساسات پر جمی برف پگھلنے لگی تھی۔۔۔

ایک کے بعد ایک آنسو اسکے رخسار بھگوتے چلے گئے۔۔۔۔

اسفندیار کے لمس نے اسکو حال میں لوٹا دیا تھا اور پھر وہ ضبط کے سارے بندھن توڑتی اسفندیار کو اپنے نذدیک پا کر اسکے دونوں ہاتھوں پر سر ٹکاتی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی کہ اسنے اپنے ساتھ ساتھ عیشل اور اسفندیار جیسے مضبوط مرد کو بھی رلا دیا تھا۔۔۔۔

"اسفند میرا بچا میرا جگر کا ٹکڑا اب نہیں میرے پاس ۔ میں کہاں جاؤں کیسے برداشت کروں یہ دکھ نہیں برداشت ہوتا مجھ سے۔ لگتا ہے کوئی مجھے آری سے کاٹ رہا ہے کوئی میرا دل نوچ کر لے گیا یے"

وہ تڑپتی بلکتی زوروں سے تکیے پر سر پٹخنے لگی۔۔۔۔

اسفند کو لگا وفا کا دکھ سن کر اسکا دل پھٹ جائے گا اسکے سینے میں ایک دم درد اٹھا تھا۔۔۔

"مجھے نہیں جینا اور, مجھے میرے بچے کے پاس جانا ہے کوئی مجھے میرا بچہ لا دو "

وہ چیخ رہی تھی اپنے آپ کو بری طرح نوچ رہی تھی کہ وہ خود کو زخمی کر بیٹھی۔۔۔

عیشل اور اسفند دو مل کر بھی اس زخمی ماں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تھے۔۔۔

"میں کبھی معاف نہیں کروں گی مومن کو ۔ قاتل ہے وہ میری اولاد کا۔ سب چھین لیا اسنے مجھ سے۔ وہ بھی تڑپے گا روئے گا"

نرس نے بڑی مشکل سے اسے قابو کرتے اسے انجیکشن لگایا تھا۔۔۔۔

اور وہ یہ آخری بات کہتے ہوش کھوتی چلی گئی۔۔۔

                      *********

مومن رات سے ڈیرے پر تھا صبح ہونے کو آئی تھی مگر اسکے وجود میں ہل چل نا ہوئی۔ وہ جانتا تھا وہ اپنی محبت کا قتل کر چکا ہے اور یہ زہر اسے اندر ہی اندر کاٹ رہا تھا۔

وہ اپنے اندر ہمت جمع کرتا اٹھا اور اس ہسپتال کی طرف روانہ ہوا جہاں اسکی بیوی اسکی کھوئی محبت رنج و غم کی عملی تحریر بنی ہوئی تھی۔

 وہ نہیں جانتا تھا وہاں جا کر اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا مگر وہ وفا کا حال بھی جاننا چاہتا تھا ۔ اس لیے لاکھ کوششوں کے باوجود خود کو وہاں جانے سے نا روک سکا۔۔۔۔۔۔۔

                   ***********

وارڈ میں اس وقت چار نفوس تھے عیشل, عمر ,اسفندیار اور وہ بے بس وفا۔۔۔

جو اپنے اندر کا غبار نکال کر اب ایک پتھر کی مورت بنی پڑی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے کمپلیٹ بیڈ ریسٹ بتایا تھا۔

عیشل پاس بیٹھی اسے سیب چھیل کر دے رہی تھی۔ وہاں چار لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی پن ڈراپ سائلنس تھی۔

جب مومن آہستہ سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا اور اسے دیکھ سب کے تاثرات تیزی سے بدلے۔۔۔

وہ سر جھکائے وفا کے پاس کھڑا ہو گیا تھا اور اسفند کی آنکھوں میں اس وقت خون اتر آیا تھا ۔ وہ سب کا لحاظ کیے بغیر اس پر جھپٹا اور اسے دیوار کے ساتھ ٹکا کر پے در پے مکوں کر برسات کرتا چلا گیا۔

یہاں تک کہ اسکا خون بری طح بہنے لگا۔۔۔

وفا ابھی بھی چپ تھی جیسے اسے کوئی فرق نا پڑا ہو۔۔۔

عمر نے آگے بڑھ کر اسے چھڑانا چاہا تو اسفندیار نے اسے بھی پیچھے دھکا دے دیا۔۔۔

"تجھ جیسا ظالم باپ میں نے آج تک نہیں دیکھا جو اپنی ہی اولاد کا قاتل ٹہرا تو, تو سانپ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا"

اسفند نے اسکے سر میں گلدان کی بوتل توڑتے کہا۔۔۔۔

اور مومن سر پکڑ کر نیچے گرتا چلا گیا۔۔۔۔

"میرا بچا "

اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔۔کیا اسکا بچہ اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔ کیا وہ ایک قاتل بن چکا تھا۔ پچھتاؤں کے ناگ اسے ڈسنے لگے تھے۔۔۔

اسفندیار کو پھر بھی چین نا آیا تو اسے زمین پر پھینکتے کمیز کی جیب سے اپنی بندوق نکالی اور مومن پر تان لی۔۔۔۔

"اپنی اولاد کے قاتل کو جینے کا کوئی حق نہیں"

اسفندیار کے کہنے پر اور مومن پر بندوق تاننے پر سب کی چیخ نکلی تھی۔۔۔

اسنے گن لوڈ کی اس سے پہلے کہ وہ گن چلاتا وفا کے لفظوں نے اسکے ہاتھوں کو زنجیر کیا تھا۔۔۔۔

"تمہیں میری قسم اسفندیار گولی مت چلانا "

اسفندیار نے ضبط سے آنکھیں میچیں اور تن فن کرتا باہر چلا گیا۔۔۔۔

وہ بھلا اپنے بھائی کی بے گناہی ثابت کیے بغیر مومن کو مرنے کیسے دے سکتی تھی۔ جنگ شروع جس وجہ سے ہوئی تھی ختم اسے ہی کرنی تھی مگر مومن کو پچھتاوں میں چھوڑ کر

مومن لڑکھڑا کر اٹھا۔۔۔

"تم جانتے ہو مومن کہ ایک بیوی تو شاید اپنے شوہر کو معاف کر دے مگر ایک ماں ہونے کے ناطے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی"

وفا نے ایک دفعہ بھی اسکے چہرے کو نہیں دیکھا تھا مومن جو اس سے معافی مانگنے لگا تھا ۔ اسکی اس بات پر لب بھینچ کر رہ گیا۔۔۔۔

"پتہ ہے کیا تمہارے آنے سے پہلے میں بہت روئی کہ مجھ سے خدا نے میری اولاد چھین لی مگر اب میں سوچتی ہوں کہ اللّٰ نے ٹھیک ہی کیا پتا ہے کیوں؟؟؟؟..."

وفا نے اس پر ایک بہت عام سی نگاہ ڈالتے کہا۔۔۔

وہ بھی جواب سننے کو بےچین تھا ساتھ عیشل اور عمر بھی۔۔۔۔

"ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ وہ بیٹا تھا یعنی ایک لڑکا ۔ اگر وہ اس دنیا میں آ جاتا تو شاید دوسرا مومن پیدا ہوتا ۔ اس لیے اللّٰ نے اسے واپس لے لیا تا کہ وہ دوسرا مومن بن کر کسی لڑکی کی زندگی نا اجاڑ دے یہ سوچ کر مجھے صبر آ گیا۔"

وفا نے اپنی بہتی آنکھوں کو ایک دفعہ پھر صاف کرتے کہا اور مومن ذلت کی اتہا گہرایوں میں اترتا چلا گیا۔۔۔

الفاظ کہیں کھو گئے تھے۔ وہ نیچے بیٹھتایہ الفاظ اس کو کوڑے کی طرح لگے تھے ۔ یہ باتیں گالی تھیں اسکے لیے۔

وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا ۔۔۔۔۔

عیشل ان سے کہو باہر جا کر جتنا چاہے روئیں مگر میری نظروں سے دور ہو جائیں۔ 

یہ سننا تھا کہ وہ وارڈ سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔

             **************

کچھ دن بعد وفا واپس حویلی لوٹ آئی تھی جہاں اسے ہر قسم کے تانے سننے پڑتے۔ وہ سب کچھ ضبط کر رہی تھی کیونکہ ابھی ثبوت انکے ہاتھ نہیں لگا تھا۔ 

آج وہ لوگ منتظر تھے کہ کب کاشف وہاں جائے تہ خانے میں اور اپنا گناہ قبول کرے ۔

آج وفا کی طبيعت کچھ گری گری سے تھی اس لیے وہ کمرے سے باہر نا نکلی تھی۔۔۔

اسفندیار عیشل کے کام کے سلسلے میں اسے لے کر دو تین دن سے باہر تھا۔

جب اچانک نیچے شور اٹھا وہ نیچے گئی تو نیچے کا سماں ہی بدلا ہوا تھا ۔۔۔۔

حویلی پوری طرح سجی ہوئی تھی اور سامنے سٹیج پر بیٹھے مومن اور شازیہ ابھی نکاح سے فارغ ہوئے تھے۔۔۔۔

وہ ساکت آنکھوں سے اسے دیکھے گئی جب ان سب کی نظریں بھی وفا پر پڑیں۔۔۔۔

"لو آ گئی منحوس نظر لگانے "

نائلہ بیگم بھڑکیں۔۔۔منہ تو باقی سب کا بھی بگڑا تھا۔۔۔

"تو کر ہی لی تم نے شادی"

وفا نے بمشکل اپنے لفظوں کو زبان دی۔۔

"میرا یہ کرنا ضروری تھا کیونکہ میں سردار ہوں اور میری نسل میری خاندانی بیوی سے ہی چلنی تھی۔ اس لیے مجھے شادی کرنی پڑی"

مومن نے نظریں چراتے کہا وہ کیسے بتا دیتا کہ ثاقب صاحب نے قسمیں وعدے دے کر اس سے یہ سب کرایا۔۔۔۔

"مومن تم نے تو ابھی اپنے بچے کا کفن بھی میلا نہیں ہونے دیا اور اسکی میت پر اپنی سیج سجا لی۔۔۔"

وفا کی آنکھیں بے ساختہ آنسوؤں سے جھلملائی تھیں۔۔۔

"میں بھی آخر کس سے کہ رہی ہو ایک بےوفا اور قاتل بھلا میری بات کا مطلب کیسے سمجھے گا"

اسنے کہتے ہوئے سر جھٹکا

"جانتے ہو یہ آخری امید تھی جو میری تم سے بندھی تھی اچھا کیا جو تم نے یہ بھی توڑ دی کیونکہ اب جو میں کروں گی اسکا مجھے ذرا بھی ملال نہیں ہو گا"

اسکی آنکھوں میں اسکی محبت کی قبر آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی۔

مومن نے پوچھنا چاہا کہ وہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر اس سے پہلے ہی وفا شازیہ کہ طرف مڑ گئی۔۔۔۔

"تمہیں کیا لگتا ہے تم نے اسے پا لیا اب حکومت تمہاری ہو گی۔ ہا ہا ہا ہا ۔۔۔"

وفا نے طنزیہ کہتے آخر میں ایک کھوکلا سا قہقہ لگایا۔۔

"جو اپنی محبت کا نہ ہو سکا وہ تمہارا کیا ہوگا۔ جو اپنی محبت کو عزت نہ دے سکا تمہارا حال تو اس سے بھی بد تر کرے گا۔ مگر کوئی بات نہیں تم دونوں ایک دوسرے کو ہی ڈیزرو کرتے ہو"

وفا نے تنفر سے کہا۔۔۔۔

"مطلب کیا ہے تمہارا" شازیہ دبا دبا سا چلائی۔۔۔۔

اسکی بات پر وفا تمسخرانہ سا مسکرائی اور بولی ۔۔۔

"ایک چال تم نے چلی میرا بچہ مجھ سے چھین کر اور ایک میں چلوں گی مگر ابھی نہیں بہت جلد "

یہ کہتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اس سے زیادہ اسکی سکت نہیں تھی۔۔۔

                  ***********

مومن کو یہ شادی ایک عزاب لگ رہی تھی گھٹن ہو رہی تھی اسے اس لیے وہ آج کہ رات ڈیرے پر چلا گیا تھا ۔ سب ہی اسے روکتے رہ گئے مگر وہ نہ رکا یہ شازیہ کے لیے شکستِ فاش تھی۔

رات کا پہر تھا۔ حویلی کہ باہر کتے بھونکے کی آواز آ رہی تھی ۔ ایسے میں ایک سایہ دبے قدموں اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے مومن کے کمرے کی طرف بڑھا ۔ اس سے پہلے کے وہ دروازہ کھولتا دروازہ خدبخود کھل گیا اور شازیہ نے اسے اندر کھینچ لیا۔۔۔۔

"کہاں تھے تم جان میں کب سے تمہارے انتظار میں تڑپ رہی تھی" ۔

شازیہ نے بے باکی سے کہا۔۔۔۔

"اب تو آ گیا ہوں نا سویٹ ہارٹ چلو اپنی گولڈن نائٹ سپنڈ کرتے ہیں اسنے خباثت سے کہتے اسکو باہوں میں اٹھاتے دروازہ بند کیا تھا۔۔۔۔

کوئی تھا جو یہ سب دیکھ رہا تھا اور وہاں سے خاموشی کی چادر اوڑھے ہٹ گیا۔۔۔

وہ شکستہ قدموں سے کمرے میں واپس آئی تھی اور دروازہ بند کر کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اس وقت ضبط کی کونسی انتہا پر تھی مگر اب اس کی بس ہو چکی تھی۔

 یہ تو وہ مومن تھا ہی نہیں جس سے اس نے محبت کی تھی۔ یہ تو کوئی اور ہی سنگدل ہرجائی تھا جسے وفا کو دکھ دے کر خوشی ملتی تھی۔ وہ آج جی بھر کر رو رہی تھی۔ مومن نے اسکے ساتھ کیا کیا نا کیا تھا۔۔۔۔ 

پہلے اس کے اوپر ظلم و ستم کی انتہا کردی, پھر اس کے کردار کو نشانہ بنایا جو کوئی بھی عورت برداشت نہیں کرتی, اس کی اولاد کی جان لے لی, اور اب اس کی دوسری شادی نے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے مترادف کام کیا تھا۔ اس کا یہ کاری وار اس کے سب پچھلے زخموں کو ہرا کر گیا تھا۔ وہ آج پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی تاکہ وہ آئندہ کسی بھی ملنے والے زخم پر آنسو نہ بہا سکے اور اتنی مضبوط بن جائے کہ اسے کوئی توڑ نہ سکے بلکہ وہ دوسروں کو توڑ کر رکھ دے۔۔۔

 آج رات اس کی آنکھوں سے سارے آنسو بہہ نکلے تھے اور جو بچا تھا وہ سلگتا ہوا انتقام تھا۔

"یہ تم نے اچھا نہیں کیا مومن آخر کس کس چیز کا بدلہ چکاؤ گے۔ بس بہت ہو گیا بہت کر لیا تم نے بہت سہ لیا میں نے۔ اب تک تم نے اپنے پیار میں ڈوبی گل رخ دیکھی تھی مگر اب تم وہ وفا دیکھو گے جو دشمنوں کی  ہاتھ لگائے بغیر کھال ادھیڑ دیتی ہے"

وہ اپنے آنسو ہاتھ سے صاف کرتی ایک عظم سے اٹھی۔

 اب وہ تیار تھی دشمنوں کو ہرانے کے لیے, ان کے پاؤں تلے سے زمین کھینچنے کے لیے۔ اور یہ بساط مومن کو کس دوراہے پر لانے والی تھی یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا کہ وہ کس قدر اونچائی سے منہ کے بل گرنے والا تھا۔

             ************

عیشل کھلی ہوا میں سانس لینے کے لئے باہر حویلی کے باغیچے میں آئی تھی۔ مومن اور شازیہ کی شادی کو دو ہفتے گزر چکے تھے اسے آج بھی یاد تھا جب وہ اور اسفند واپس آئے تھے تو انہوں نے ان کی شادی کا جان کر کتنا واویلا کیا تھا۔ اب تو عیشل بھی نہیں چاہتی تھی کہ وفا ایک پل بھی مومن کے ساتھ رہے ان سب کو انتظار تھا تو بس اگلے مہرے کا۔۔۔۔

 وہ انہی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی جب عمر نے گلا کھنکھار کے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔

" بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں"

 اس نے بہت لہک کے شعر پڑھا تھا۔۔۔

" اور کئی لوگوں کے چھتروں کے آثار نظر آتے ہیں"

 عیشل نے بھی اس کے کانچ کے پھول کو پتھر دے مارا تھا کہ وہ بلبلا اٹھا۔۔۔۔

"محترمہ دیکھیں اب آپ ہم سے بدتمیزی سے پیش آرہی ہیں ہم نے تو شعر ویسے ہی کہا تھا کون سا آپ کو کہا جو آپ نے ہمیں یہ کہہ ڈالا"

" ہم بھی ہوا سے باتیں کر رہے تھے ہم نے کب آپ کو کہا جو آپ یوں دل پر لے بیٹھے ہیں"

  عیشل نے بھی اس کو دوبدو جواب دیا۔۔۔

 کچھ بھی تھا عیشل کو اب اس کی مسخریاں پسند آنے لگی تھی۔۔۔ عمر جب بھی عیشل کے پاس ہوتا ہے اس کے لبوں پر مسکراہٹ رہتی تھی۔۔۔۔

"ویسے ایک بات کہنی آپ سے"

 عمر نے شریر لہجے میں پوچھا۔۔۔

 وہ جان گئی تھی کہ اب وہ کوئی مسخری چھوڑنے والا ہے۔۔۔

"اہم محترمہ ماریے گا مت وہ ہم نے پوچھنا تھا کہ کیا آپ ہمارے مسقبل کے بچوں کی ماں بننا پسند کریں گی"

وہ یہ کہتے ہی تیزی سے پیچھے ہوا کہ کہیں وہ کوئی گملا اٹھا کے ہی نہ مار دے۔

وہ جو اسکی بات غور سے سن رہی تھی اسکی بات کا ذو معنی مفہوم سمجھ کر کان کی لوؤں تک سرخ پڑ گئی اور اپنی حیا چھپانے کے لیے ادھر ادھر کوئی چیز اسے مارنے کے لیے ڈھونڈنے لگی جسے دیکھ وہ گدھے کے سر سے سینگھ کی طرح غائب ہوا۔۔۔۔

اور وہ اسکے جاتے ہی منہ ہاتھوں میں چھپا کر شرما دی۔۔۔۔

"وہ پوچھنا یہ تھا کہ میں ہاں سمجھوں"

وہ پھر چھلاوے کی طرح نمودار ہوا تھا۔۔۔

جس پر بےساختہ ڈر کر اسکا دل اچھل کر حلق میں آ گیا اور وہ کیاری میں سے ایک پتھر اٹھائے اسکے پیچھے بھاگی تھی یہاں تک کہ وہ حویلی کے اندر پہنچ گئے۔۔۔۔

اب کے وہ گیا تو عیشل کی نظر وفا پر پڑی جو گہری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی جیسے اسکے اندر کا حال جان لینا چاہتی ہو۔۔۔

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو وفا"اسنے بال کان کے پیچھے اڑیستے اپنے آپ کو کمپوز کرنے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔۔۔

"یہی کہ میری دوست اتنی سمجھدار کب سے ہو گئی کے اپنی محبت مجھ سے چھپانے لگی"

وفا نے سنجیدگی سے کہا تو اسکی جان پر بنی۔۔۔۔

"وفا ایسی بات نہیں ہے ۔ ایسا کچھ نہیں وہ تو بس ہم دوست ہیں".

عیشل نے نظریں چراتے کہا تو وفا اسکی کوشش پر مسکرا دی۔۔۔

وہ آگے عیشل کے قریب گئی اور اسکو دونوں ہازوؤں سے تھام کر بولی۔۔۔۔

"تمہیں کیا لگا کہ میں نہیں سمجھ پاؤں گی کہ عمر اور تم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو۔ تم شاید نہیں جانتی لیکن میں بتا دوں اب میں پہلے جیسی وفا نہیں رہی جو بات کے سامنے ہوتے ہی بھی انجان رہوں۔ اس حویلی میں آنے کے بعد سے تو میں لوگوں کے دل کی بات تک جان لیتی ہوں تم تو پھر میری بیسٹ فرینڈ ہو۔بھلا تمہارے دل کہ بات سے کیسے انجان رہتی "

اسنے اسکو چہرہ ہاتھوں میں تھامتے کہا۔۔۔

"اور رہی بات میری تو تم میری وجہ سے اپنی محبت مت چھوڑو عیشل ۔ سچی محبت پانا اج کل کے دور میں بہت مشکل ہے جدھر ہر کوئی چہرے پر نقاب اوڑھے گھومتا ہے۔عمر سچ میں تم سے محبت کرتا ہے ۔ میں خود گواہ ہوں اسکی۔ وہ اس حویلی کے مردوں جیسا نہیں بلکہ اسفند کی طرح ہی حساس ہے ۔ تم یقیناً خوش رہو گی"

اور میری دلی خواہش ہے تم اپنی محبت پا لو آخر کسی کو تو اسکی محبت ملے میری چھوڑو۔۔۔۔اسنے بجھے دل سے کہا۔۔۔۔

اور جب تک اسفند میرے ساتھ ہے بے فکر ہو جاؤ وہ سب ٹھیک کر دے گا۔۔۔۔

وفا نے بڑی بہنوں کی طرح اسے سمجھاتے کہا تو وہ نم آنکھوں سے اسکے گلے لگ گئی وہ وفا کے لیے خوش تھی کہ اب وہ مومن کی جھوٹی محبت بھول گئی تھی اور اب اسکی باتوں میں بھی اسفند کا ذکر شامل ہونے لگا تھا۔۔۔۔

                       *********

آخر وہ رات آ ہی گئی تھی جب شیطان صفت قاسم آج پھر تہ خانے میں آیا تھا اس لڑکی کو جسمانی عزیت دینے کیونکہ آج کل اسے کوئی لڑکی جو میسر نہیں تھی اور اوپر سے زریاب کیس کی کل ہیئرنگ تھی جسکی وجہ سے وہ زرا ڈپریس تھا تبھی اپنی حوس کو بجھانے وہ آج پھر اس معصوم جان پر ظلم کرنے آیا تھا اس بات سے انجان کہ وہ آج یہاں آ کر خود اپنے لیے گڑھا کھود چکا تھا۔۔۔۔

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا اندر بیٹھے وجود کی آنکھیں پٹ سے کھلی تھیں ۔ وہ جانتی تھی آج اسے کیا کرنا ہے تبھی جب قاسم اسکے کپڑے سرکانے لگا تو اسنے بولنا شروع کیا۔۔۔۔

"آج اپ کو باہر کسی نے منہ نہیں مارنے دیا جو میری یاد آ گئی"

اسنے طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ ہنسا۔۔۔۔

"ہاں میری رانی وہ کیا ہے نہ تو ہے ہی اتنی خوبصورت کے اب تک تجھ سے دل نہیں بھرا"

قاسم نے خباثت سے کہا۔۔۔

"ہنہ آپ کی اوقات اتنی ہی ہے کہ حویلی کی نوکرانی کے ساتھ رات گزاریں"

اسنے قاسم کو غصہ دلانا چاہا۔۔۔۔

"ارے اوقات کی بات تو مت ہی کر جانِ من جب میں نے اس حویلی کی بیٹی کو نہیں چھوڑا تو تو کیا چیز ہے"

اسنے اس پر اپنی حیثیت واضح کرنی چاہی۔۔۔

"اچھا ایسا بھی کیا کر دیا آپ نے اور حویلی کی کوئی بیٹی اتنی پاگل نہیں کے آپ کے چنگل میں پھنس جائے"

اسنے تمسخرانہ انداز میں کہا تو قاسم نے غصے سے اسکے کندھے سے کمیض ہٹاتے وہاں دانت گاڑے۔۔۔

"تو جانتی نہیں ابھی ڈارلنگ قاسم کس بلا کا نام ہے یوں چٹکیوں پر نچایا ہے میں نے اس اجالا کو زریاب بن کر کہ وہ مکھن کی طرح پھسلتی ہوئی میرے ہاتھ میں آ گئی"

اسنے اپنی عیاری واضح کی۔۔۔۔

"پہلے اس سے زریاب بن کر فون پر رابطے کیے پھر اسے اپنے جال میں پھنسایا اور مومن کے ڈیرے پر بلایا وہ بیچاری مجھے زریاب سمجھ اپنی عزت داؤ پر لگائے ڈیرے پر پہنچ گئی"

اسنے رال ٹپکاتے کہا۔۔۔۔

"پھر کیا کیا تم نے" اس لڑکی نے حیرت سے ہوچھا۔۔۔

"پھر"

اسکی آنکھوں میں اس واقع کو سوچ کر شیطانیت بھری چمک ابھری ۔۔۔۔

"پھر میں نے اسے کمرے میں لے جا کر اسکی نام نہاد عزت کو تار تار کر دیا , وہ روتی رہی چلاتی رہی مگر مجھے تو اپنی ہوس یعنی اسکے جسم کی طلب تھی تو میں نے وہی کیا اسے جگہ جگہ سے نوچا اسکی روح میں اتر گیا اور وہ بیچاری چیختی چلاتی اپنی لٹی عزت کے واسطے دیتی رہ گئی ہاہاہاہاہاہا"

اپنے راز سے پردہ فاش کرتے اسنے بےہنگم قہقہ لگایا تھا اور باہر کھڑا شخص آنکھوں میں خون لیے اندر کی طرف قدم بڑھانے لگا جب اسکے ساتھی نے اسے ایسا کرنے سے روکا اور اسکے ہاتھ پکڑ لیے۔۔۔۔

"لیکن پھر سب زریاب کو قاتل کیوں سمجھتے ہیں"

اس لڑکی نے اس پہیلی کی آخری کڑی بھی پوچھ ڈالی تھی جس پر وہ مکرو شخص عیاری سے مسکرایا۔۔۔۔۔

"جب میں نے اس بے بس کٹپتلی کی عزت لوٹی تو زریاب کو کال کر کے وہاں بلاچکا تھا کیونکہ میرا اگلا ہدف اسکی بہن وفا تھی جسکا نوخیز سراپا میری آنکھوں میں بس گیا ہے۔۔۔

"تبھی اسکے محافظ کو راہ سے ہٹانے کے لیے الزام زریاب پر لگا دیا اور وہ بیچارا جو اجالا کو بچانے آیا تھا میرے کہنے پر اجالا نے آخری سانسوں میں زریاب کو مجرم قرار دیا اپنی لٹی ہوئی عزت بچانے کے لیے تا کہ میں اسکی عریاں تصویریں نیٹ پر نا ڈال دوں تھی ویسے کمال کی سالی"

اسنے بے شرمی سے کہتے اجالا کا جسم یاد کرتے گالی بکی۔۔۔

"اور وہ گھامڑ مومن بھی میری باتوں میں آ کر زریاب کو اپنی بہن کی عزت کا لٹیرا سمجھ بیٹھا اور اسے حوالات میں بند کروا ڈالا۔۔۔

اسنے اپنی ساری گناہ کی پوٹلی آج اس لڑکی پر واضح کر دی تھی اور اپنے کام میں مگن ہو گیا جس کے لیے وہ یہاں آیا تھا

اور اس راز کی ساری پہیلیاں سلجھ گئی تھیں باہر کھڑے لوگ ثبوت سمیت وہاں سے جا چکے تھے اور وہ اندر ظالم کی قید میں پھنسی لڑکی شاید آخری بار عزیت سہ رہی تھی کیونکہ اب اس فرعون کو کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔۔۔۔

                      ********

صبح کا سورج نئی امنگیں لے کر طلوع ہوا تھا۔ شاہ حویلی کی سارے مرد حضرات کورٹ میں جمع تھے۔۔۔

اسفند زریاب کی طرف سے جانا چاہتا تھا لیکن وفا نے اسے منع کر دیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ دوسری پیشی تک کسی کو بھی اسفند پر شک ہو تبھی اسکے ترلے منتیں کرتے اسے مومن کی طرف سے بھیجا۔۔۔

کمرہ عدالت پُر ہو چکا تھا جج صاحب بھی آ چکے تھے ۔ زریاب کو کٹہرے میں پیش کیا گیا ۔ وفا اور عیشل کمرے میں ساتھ بیٹھی اسفند کے ساتھ ویڈیو کال پر موجود تھیں ۔ زریاب کو دیکھ کر وفا کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔۔۔

زریاب کا وکیل اسفند کا دوست ابھی تک نہیں پہنچا تھا جبکہ اسکا ساتھی وکیل بھی پریشان کھڑا تھا ۔ جب کوئی کمرہ عدالت میں اطلاع لے کر آیا کہ زریاب کے وکیل کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے اور وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔ مومن اور ثاقب صاحب کے لبوں پر بے ساختہ تمسخرانہ مسکراہٹ آئی تھی اور اسفندیار انکو دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ یہاں بھی بازی وہ لے گئے تھے۔۔۔۔۔

اسفندیار غصے سے مٹھیاں بھینچ کر رہا گیا وفا اور عیشل کا ڈر کے مارے دل حلق میں آ گیا تھا۔۔۔۔

طاہر صاحب آج یوں پھر اپنی اولاد کو بےبس دیکھ آنسو نہ روک سکے۔۔۔۔۔

اسفندیار کسی بھی طرح ایک بریک لو"

وفا نے فوری طور پر اسفند کو کہا اور کال کاٹ کر وظیفہ کرنے لگی منہ میں۔۔۔۔۔

دوسری طرف اسفند کے وکیل نے جج صاحب سے بریک کی درخواست کی تھی سبھی جانتے تھے زریاب کے وکیل کی یہ کوشش بےکار تھی کیونکہ اب انکو کوئی لائر نہیں ملنے والا تھا جو انکا کیس لڑتا۔۔۔۔

پنتالیس منٹ کا وقفہ گزر چکا تھا سب اپنی جگہوں پر واپس براجمان ہو گئے تھے مگر زریاب کے وکیل کو آنا تھا نہ وہ آیا۔۔۔۔

اسفندیار کا دل دکھ سے بھر گیا ایک دفعہ پھر برائی کی جیت ہو رہی تھی۔۔۔۔

"مائے لارڈ اور انتظار کر کے اس کیس کو لٹکانا وقت کا ضیاع ہے میری درخواست ہے کہ ملزم زریاب کو سزائے موت دی جائے"

زریاب نے آنکھیں بند کر کے خود کو ایک ناکردہ گناہ کی سزا سہنے کے لیے تیار کیا۔۔۔

جج صاحب بھی انتظار سے تنگ آ گئے تھے تبھی فیصلہ لیتے ہوئے بولے۔۔۔۔

"آپ لوگوں نے کورٹ کا وقت ضائع کیا آپ کے پاس ملزم کو بچانے کے لیے کوئی گواہ کوئی ثبوت نہیں عدالت سب دلیلیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زریاب بن طاہر کو پھانسی۔۔۔۔۔"

"رکیے مائے لارڈ میں ہوں لائر میرے بغیر میرے موؤکل کو سزا نہیں سنائی جا سکتی"

عدالت کے دروازے سے زریاب کے وکیل نے قدم اندر رکھتے ہوئے کہا تھا اور زریاب کے وکیل کو دیکھتے نہ صرف خان حویلی کے افراد سمیت مومن پر بجلی گری تھی بلکہ اسفندیار اور زریاب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹھی رہ گئیں تھیں۔۔۔۔

"رکیے مائے لارڈ میں ہوں لائر میرے بغیر میرے موؤکل کو سزا نہیں سنائی جا سکتی"

عدالت کے دروازے سے زریاب کے وکیل نے قدم اندر رکھتے ہوئے کہا تھا اور زریاب کے وکیل کو دیکھتے نہ صرف خان حویلی کے افراد سمیت مومن پر بجلی گری تھی بلکہ اسفندیار اور زریاب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں۔۔۔۔

سفید اجلی شلوار کمیز میں اوپر جیٹ بلیک کوٹ پہنے سر پر سفید دپٹہ ٹکائے وہ مضبوط قدم رکھتی اندر داخل ہوئی۔۔۔

اسکی بات نے وہاں کھڑے سب لوگوں کو ساکت کر دیا تھا۔۔۔

اسفندیار اسے اس مقام پر دیکھے بہت خوش ہوا اسے تو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وفا بھی لائر کی ڈیگری کمپلیٹ کر کے آئی تھی۔ زریاب بھی آنکھوں میں نمی اور خوشی کے جگنو لیے اپنی بہن کو یوں کامیاب اور مضبوط بنا دیکھ رہا تھا اس بات سے انجان کے اس مقام پر پہنچنے تک اسنے زندگی کی کئی خاص لوگوں اور رشتوں کو کھو دیا تھا۔۔۔

اور سب خان حویلی کے مرد حضرات غصے سے اپنی جگہ سے اٹھے۔ جبکہ مومن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ وفا کو کیا سے کیا کر دے۔۔۔۔

وفا نے ان سب کو جلتی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا تھا جس سے وہ سب جل بھن گئے۔ اسکے یہاں تک پہنچنے کی امید کسی نے نہیں کی تھی۔

وفا کی جلتی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔۔۔

مومن تن فن کرتا اسکے پاس آیا اور دھاڑا۔۔۔۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو ہمارے گھر کی عورت کبھی کورٹ نہیں آئی نکلو یہاں سے ابھی"

اسنے وفا کے بازو پر اپنی گرفت سخت کرتے کہا وفا کو لگا اسکا بازو ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔

"مسٹر مومن خان آپ میرے شوہر صرف گھر تک تھے یہاں کورٹ میں آپ میری مخالف پارٹی سے ہیں جس نے میرے موؤکل پر بے بنیاد الزام لگایا ہے ۔ تو ایسی فضول باتیں کر کے آپ صرف میرا اور کورٹ کا وقت ضائع کر رہے ہیں"

اسنے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا اور جھٹکے سے اسکا بازو الگ کیا مومن تو اسکی جرات پر دنگ رہ گیا تھا۔۔۔

"تم یہ اچھا نہیں۔۔۔۔"

اس سے پہلے کے وہ اسے اور سخت سست سناتا جج صاحب نے اسے ٹوک دیا۔۔۔

"آرڈر آرڈر جناب آپ اپنی جگہ پر بیٹھیے اور آپ اپنی کاروائی شروع کی جیے۔۔۔۔"

اسنے پہلے مومن کو بیٹھنے اور وفا کو کیس لڑنے کا کہا۔۔۔۔

خان حویلی کے سارے مرد وفا کو خون آشام نظروں سے دیکھ رہے تھے سوائے عمر اور اسفند کو جو وفا کو یہاں دیکھ خوش تھے۔۔۔

"لیٹ دا گیم بیگینز"

اسفند نے مسکراتی آنکھوں سے وفا کو دیکھتے دل میں کہا۔۔۔۔

"آپ محترمہ"

اس سے پہلے کے مومن کا وکیل وفا کو کچھ کہتا وفا نے بیچ میں اسے ٹوک دیا۔۔۔

"محترمہ وفا خان نام ہے میرا"

اسنے وکیل کو اپنے نام سے آگاہ کیا اور مومن اسکے اپنے ادھورے حوالے پر بمشکل خود کو کنٹرول کیے بیٹھا تھا۔ وفا نے تو مومن کے نام کا حوالہ ہی اپنے نام کے ساتھ سے ہٹا دیا تھا۔۔۔

"تو محترمہ کیس صاف ہے زریاب خان مجرم ہیں آپ صرف اس ملزم کو بچانا چاہ رہی ہیں"

اس وکیل نے وفا پر طنز کرتے کہا۔۔۔۔

"سب سے پہلے تو میں کہنا چاہوں گی جج صاحب جس وقت اجالا کی عزت لوٹی گئی تو میرے موؤکل اس وقت اپنے گھر اپنی شریکِ حیات کے ساتھ موجود تھے ۔ جس کو ثابت کرنے کے لیے میں انکی بیوی سحر صاحبہ کو کٹھہرے میں بلانا چاہوں گی۔۔۔۔"

اسنے سحر کا بلوایا سب سحر کو عدالت میں دیکھ ایک بار پھر حیران ہوئے۔۔۔۔

"آپ بتانا پسند کریں گی کہ اس رات کیا ہوا تھا"

وفا نے سحر سے اس سیاہ رات کے بابت پوچھا۔۔۔

"جی اس رات میں اور میرے شوہر سوئے ہوئے تھے جب ایک فون کال کے آنے پر وہ چلے گئے۔ فون سن کر وہ بہت پریشان ہو چکے تھے۔ جب میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ مجھے آ کر بتایں گے۔۔۔"

سحر نے ہر ایک بات حرف بحرف بتائی۔۔۔

"ٹھیک سے یادکر کے بتائیے کیا وقت ہوا تھا تب۔۔"

وفا نے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔

"مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ 2:45 کا وقت تھا"

غور کی جیے جج صاحب بار بار یہ سننے کو مل رہا ہے کہ 2:45 کا وقت تھا جبکہ ڈاکٹرز کی رپورٹ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اجالا سے زیادتی 2 بجے کی گئی تھی۔ یہ اجالا کی میڈیکل رپورٹ اور زریاب خان کے فون کال کی ہسٹری ہےکہ وہ فون کال کب آئی اور یہ انکے گھر کی سی سی ٹیوی ہے کہ وہ رات 2:50 پر گھر سے نکلے یعنی فون کال سننے کے ٹھیک پانچ منٹ بعد۔۔۔

وفا نے سارے ثبوت جج صاحب کو پکڑائے جو چشمہ درست کرتے ثبوت ملاحظہ کرنے لگے۔۔

اور پھر پین سے پیپر پر پوانٹ نوٹ کرتے گئے۔۔۔۔

"آپ کچھ کہنا چاہیں گے اس بارے میں"

 جج صاحب نے مومن کے وکیل سے دریافت کیا جو ابھی تک ششدر سے ثبوتوں کو دیکھ رہے تھے انہوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ کھیل یوں پلٹ جائے گا۔۔۔

"میرے خیال میں میرے معزز وکیل کو اس وقت پانی کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے جج صاحب "

وفا نے اپنے مخالف وکیل پر طنز کرتے کہا تو اسفند سر نیچے کر کے اپنی ہنسی دبانے لگا کیونکہ اب وہ جانتا تھا وفا کا ڈیول موڈ آن ہو چکا تھا اب اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔۔۔

مومن ہاتھ کی مٹھیاں بھینچ کر اپنے اشتعال کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

"یہ لڑکی کیا کر رہی ہے مومن "

ثاقب صاحب مومن کو غصے سے کہنے لگے۔۔۔۔

"جج صاحب یہ صرف اصل مجرم کو چھپا کر میرے بے قصور موؤکل کو جان کر سوچی سمجھی سازش میں پھنسا رہے ہے"

وفا نے ان سب کو ایک نظر نفرت سے دیکھتے کہا۔۔۔

زریاب بس خاموش سا وفا کی کاروائی دیکھ رہا تھا وہ تو بس اپنی لختِ جگر کو اپنے گلے سے لگا کر سکون محسوس کرنا چاہتا تھا ۔۔۔

"محترمہ اگر یہ قاتل نہیں تو پھر کون ہیں"

اس وکیل نے بھی وفا کو آڑے ہاتھوں لینا چاہا۔۔۔

"اگر ثابت یہ نہیں ہوا کہ یہ بے قصور ہیں تو ثابت یہ بھی نہیں ہوا کہ زریاب ہی قاتل ہے"

وفا نے ایک ایک لفظ چباتے کہا ۔۔۔۔

"مومن صاحب نے خود دیکھا ہے"

اس وکیل نے دلیل دی۔۔

"غلط بلکل غلط مومن صاحب تب وہاں پہنچے جب واردات ہو چکی تھی ۔ یہ انہوں نے کب دیکھا کہ زریاب نے ہی زیادتی کی دیکھا نہیں نہ تو پھر یہ گواہی بھی ویلیڈ نہیں"

وفا نے آئی برو اچکاتے کہا۔۔۔۔

ماحول ایک دم گرم ہو چکا تھا کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ کیس اتنا پیچیدہ ہو گا جتنا وفا نے اسکو بنا دیا تھا۔۔۔۔

قاسم کے پسینے چھوٹ رہے تھے اب تو وہ عدالت سے اٹھ کر باہر بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کہیں شک اس پر نا جائے۔۔۔

"بہت ہو گئی بکواس زریاب ہی مجرم ہے تم اسے بے گناہ ثابت نہیں کر سکتی"

مومن اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا چیخا۔۔۔۔

"آرڈر آرڈر خاموش ہو کر بیٹھیے ورنہ آپ کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا۔"

جج صاحب نے مومن کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔

"جج صاحب محترمہ وفا خان مجرم زریاب خان کی بہن ہیں تب ہی انہیں بے قصور ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ اپنے زاتی رشتے کے لیے یہ کسی دوسری عورت کو انصاف ملنے سے روک رہی ہیں"

مقابل وکیل نے اس پر طنز کرتے کہا تو کمرہ عدالت میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔۔۔

" جی جج صاحب میرے معزز وکیل صاحب نے بلکل صحیح فرمایا میں زریاب خان کی بہن ہوں لیکن اگر زریاب خان واقعی مجرم ہوتے تو میں خود انہیں سزا دلواتی اور اجالا کو انصاف مگر یہاں تو مجرم کو ہی سرے سے چھپایا جا رہا ہے اور میں نہیں چاہتی کے کرے کوئی اور بھرے کوئی"

وفا نے مجمع کو دیکھتے ہوئے کہا تو قاسم کو سانپ سونگھ گیا کیا وفا جانتی تھی کہ اجالا سے زیادتی اسنے کی مگر کیسے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا ضرور یہ لڑکی ان سب کو پھنسانا چاہ رہی تھی۔۔۔۔

"جج صاحب میری آپ سے درخواست ہے کہ زریاب کو اجالا قتل کیس میں پھانسی کی سزا دی جائے اور عدالت کا وقت ضائع ہونے سے بچایا جائے"

جج صاحب نے انکے کہے پر غور کیا اور وفا کو دیکھا۔۔۔۔

آپ کچھ کہنا چاہیں گی۔۔۔۔

"جی جج صاحب میں یہ کہنا چاہوں گی کہ جب انہوں نے زریاب کی سزا مجھ سے لے لی ہے تو پھر کس بات کی پھانسی"

وفا نے طنزیہ نظروں سے سب کو دیکھتے کہا تو جج صاحب الجھے کیا مطلب۔۔۔۔

"مطلب یہ کہ جج صاحب اگر زریاب قاتل تھا زانی تھا تو وہ زریاب کو سیدھا جیل میں کیوں نہیں پٹخ دیے انہوں نے ونی کی قبیح رسم پر عمل کرتے ہوئے ایک اور بے قصور کو قاتل کے کیے کی سزا کیوں دی"

جواب ہے کوئی آپ کے پاس نہیں نہ ۔۔۔۔۔

جج صاحب حیرت سے منہ کھولے انہیں دیکھ رہے تھے۔۔۔

اگر سزا وار زریاب ہے تو یہ سب حویلی کے مرد حضرات بھی ہیں انہیں بھی سزا دی جائے وفا کے کہنے پر سب مرد حضرات گڑبڑا گئے۔۔۔

"جج صاحب میری ساتھی وکیل کیس کو کسی اور جانب لے کر جا رہی ہیں"

وکیل نے اسے بیچ میں ٹوکا۔۔

کیس کو تو اپنے اب تک گھمایا ہے صحیح راہ میں تو اب میں لے کر جا رہی ہوں مگر افسوس آپ کو پتنگے لگ گئے ہیں۔۔"

اسکی اتنی صاف بے عزتی پر وہ تلملا کر رہ گئے۔۔۔۔

"جج صاحب میں مومن خان کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہوں گا اجازت ہے"

مومن کے وکیل نے اجزت مانگی۔۔۔

"اجازت ہے"

"تو مومن صاحب جب ان وہاں پہنچے تو سماں کیسا تھا "

اسکے وکیل نے پوچھا تو اسنے اس رات کا منظر واضح کیا۔۔۔

"جب میں وہاں پہنچا تو زریاب اجالا پر جھکا ہوا تھا۔۔۔۔اسنے اتنا بولا تھا کہ اسکی نسیں پھٹنیں لگی تھیں اپنی بہن کا زکر کرتے ۔۔۔۔اجالا نے زریاب کا گریبان دبوچ رکھا تھا۔۔۔اور جب میں نے اجالا سے پوچھا تو اسنے زریاب کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ یہ سب اسنے کیا۔۔۔۔"

"کیا آپ نے زریاب کو کوئی نازیبہ حرکت کرتے دیکھا"

وفا نے پوچھا۔۔

"نہیں مگر وہ اسکے اوپر"

"آپ نے دیکھا یا نہیں ہاں یا نا"

وفا نے اسے بیچ میں ٹوکتے کہا۔۔۔

"نہیں"

اسنے لب بھینچتے کہا۔۔۔

"ویری گڈ تو آپ کو کیسے پتا کہ زریاب ہی مجرم ہے یہ بھی تو ہو سکتا ہے اجالا نے جھوٹ بولا ہو"

وفا نے اسے تیز نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔

"شٹ اپ جسٹ شٹ اپ ایک بھی لفظ بولا تو زبان کھینچ لوں گا"

مومن دھاڑا۔۔۔

"ایسا بھی تو ہو سکتا ہے وہاں زریاب سے پہلے اجالا کے ساتھ کوئی اور ہو اور اسنے زریاب پر الزام لگا دیا"

وفا بنا رکے بولتی چلی گئی۔۔۔۔

"میں نے کہا یہیں رک جاؤ"

مومن چیخا۔۔۔

یا ایسا بھی تو ہو سکتا ہے اجالا نے اسے پھنسایا ہو"

وفا کے کہنے پر اب مومن اسکا گلا پکڑ کر دبانے لگا ۔۔۔

وفا کا دم گھٹنے لگا تھا۔۔۔۔

"اس لیے کہتے ہیں مومن صاحب عزت کو عدالت میں لاؤ گے تو پگڑی تو پیروں میں گرے گی"

اسنے گھٹتی سانسو کے بیچ سرخ ہوتے منہ سے کہا۔۔۔۔

حوالداروں نے فوراً وفا کو اس سے چھڑایا تھا وہ ایک دم کھانسنے لگی۔۔۔

"آرڈر آرڈر آپ کو وکیل پر حملہ کرنے کی صورت اندر کیا جا سکتا ہے سو بیہیو"

جج صاحب غصے سے گرجے۔۔۔

"جج صاحب وکیل صاحبہ مرحومہ اجالا بیگم پر کیچڑ اچھال رہی ہیں اس کے لیے انہیں سختی سے وارن کیا جائے اور کیس لٹکانے کی بجائے مجرم کو سزا دی جائے"

مومن کا وکیل اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے فوراً معاملے میں کودا کیونکہ معاملہ گمبھیر ہو چکا تھا۔۔۔

"وفا صاحبہ مرحومہ پر کوئی الزام نہ لگایا جائے "

جج صاحب نے تنبیح کی۔۔۔

"کونسی مرحومہ جج صاحب جو مری ہی نہیں کبھی جو آج بھی زندہ ہیں جنہیں سب کی نظروں سے چھپا کر رکھا گیا ہے"...

وفا نے اپنے سرخ گلے پر ہاتھ رکھتے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے مومن کو تیش بھری نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔۔

اسکے گردن پر مومن کی انگلیوں کے نشان چھپ چکے تھے۔۔۔۔

اور اسکی بات پر کمرہِ عدالت میں موت کا سا سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔۔۔

اور مومن کی حالت تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی تھی۔۔۔

"کونسی مرحومہ جج صاحب جو مری ہی نہیں کبھی جو آج بھی زندہ ہیں جنہیں سب کی نظروں سے چھپا کر رکھا گیا ہے"...

وفا نے اپنے سرخ گلے پر ہاتھ رکھتے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے مومن کو تیش بھری نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔۔

اسکے گردن پر مومن کی انگلیوں کے نشان چھپ چکے تھے۔۔۔۔

اور اسکی بات پر کمرہِ عدالت میں موت کا سا سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔۔۔

اور مومن کی حالت تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی تھی۔۔۔

سبھی لوگ ہونکوں کی طرح منہ کھولے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر کسی کے ہاتھ کوئی سرا نہیں آ رہا تھا۔

اسفندیار بھی دنگ نظروں سے وفا کو دیکھ رہا تھا کے وہ یہ کیا کہ رہی تھی۔

کیا اجالا واقعی زندہ تھی۔۔۔۔

"محترمہ وفا صاحبہ کیا آپ وضاحت کریں گی کہ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں"

جج صاحب کا تو دماغ ہی گھوم چکا تھا۔۔۔۔

"جج صاحب میری ساتھی وکیل مرحومہ اجالا پر بے بنیاد الزام لگا رہی ہیں"....

وکیل نے ہڑبڑا کر کہا۔۔۔۔

"جج صاحب یہی سچ ہے ۔ جس اجالا کو بنیاد بنا کر یہ لوگ زریاب خان کو سزا دینا چاہ رہیں ہیں وہ مری ہی نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ انکی سانسیں چل رہی ہیں۔ لیکن وہ میو ہسپتال میں کوما میں ہیں ۔ یہ رہی انکی رپورٹس اور انکی تصویریں کچھ ثبوت کے طور پر"

وفا نے تمام ثبوت جج صاحب کے حوالے کرتے کہا۔۔۔

جو ایک ایک ثبوت پر غور کر رہے تھے۔ یہ سب کچھ انکے گماں بھی نہ تھا۔

سب حیرت بھری نظروں سے مومن کو دیکھ رہے تھے۔مومن ایک مجسمے کی صورت کٹہھرے میں کھڑا تھا۔

"مومن خان صاحب کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ نے جھوٹ بول کر عدالت کو ایکسپلوائٹ کیوں کیا "

جج صاحب غصے سے بولے مومن کے وکیل کو بھی مومن سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ کچھ ایسا چھپائے گا۔۔۔۔

"لیکن جج صاحب آج میری بہن کی حالت ہے وہ اسی خبیث کی وجہ سے ہے جسکی وجہ سے وہ زندوں میں رہی نہ مردوں میں۔ اس لیے یہ ہی ذمہ دار ہے"

وہ چیختے ہوئے بولا مومن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے زریاب کا گلا گھونٹ دے۔۔۔۔

وقت بہت ہو چکا تھا ۔ اگلی پیشی پرسوں کی تھی۔۔۔۔

اس سے پہلے کے جج صاحب اٹھتے وفا بولی۔۔۔

"جج صاحب میری درخواست ہے کہ خان حویلی کے تمام مرد حضرات پر کہیں جانے کی پابندی لگا دی جائے جب تک قاتل ثابت نہیں ہو جاتا۔۔۔"

اسکی اس بات پر تمام لوگ تلملا کر رہ گئے جبکہ جج صاحب کو بھی یہی مناسب لگا انہوں نے خان حویلی کے سارے مردوں پر کچھ حوالدار تائنات کر دیے جو انکی حویلی کہ باہر پہرہ دیں گے اور انہیں کہیں جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔۔۔۔

جج صاحب جا چکے تھے اس سے پہلے کے وفا زریاب لوگوں کے پاس جاتی مومن اسکا بازو دبوچتے اسے گھسیٹتے باہر لے گیا اور اسے گاڑی میں جا کر پٹخا۔۔۔اور تیزی سے گاڑی دوڑائی اسفندیار کو اسکے تیور ٹھیک نہیں لگ رہے تھے اس لیے وہ بھی فل سپیڈ سے گاڑی دوڑاتا انکے پیچھا لپکا کہ کہیں وہ وفا کو نقصان نہ پہنچا دے۔۔۔۔

                     **********

خان حویلی میں ساری خواتین اس وقت دعا کر رہی تھیں کہ فیصلہ انکے حق میں ہو۔ ان میں سے کسی کا دیہان وفا کی طرف نہیں گیا تھا کہ وفا وہاں ہے بھی کہ نہیں۔ عیشل بھی دل ہی دل میں وفا کی کامیابی کی دعا گو تھی۔ آخر اسی نے تو وفا کو یہاں سے نکلنے میں مدد دی تھی۔ عیشل کا بھائی کیف اسکے کہنے پر وفا کو کورٹ لے گیا تھا یہاں تک کہ اجالا کہ ثبوت بھی اسی نے اکٹھے کیے تھے۔

سب لوگ اسی کشمکش میں تھے جب مومن وفا کو گھسیٹتے ہوئے اندر آیا اور شہناز بیگم کے قدموں میں پھینکا۔۔۔

"کیا ہوا مومن تم اتنے غصے میں کیوں ہو اور اسکو کہاں سے لائے ہو "

شہناز بیگم نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

" آج ہم کیس نہیں جیت پائے اور وہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے صرف اور صرف اس کی وجہ سے جس نے اپنے بھائی کا کیس لٹکا کر دو دنوں کی مہلت اور لے لی ہے"۔۔۔

 "کیا مطلب یہ کیسے اور مہلت لے سکتی ہے"

 نائلہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

 کیونکہ پھوپھو یہ کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ وکیل ہے زریاب کی وکیل اس نے نفرت اسے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔۔

 وفا کو اٹھنے میں دقت ہوئی تھی کیونکہ مومن کہ یوں پھینکنے پر اس کے پاؤں میں موچ آ چکی تھی وہ لڑکھڑا کر کھڑی ہوئی۔۔۔۔

" تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس قاتل کی سائڈ لینے کی بولو"

 مومن نے اس کے منہ پر غصے سے ایک تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔

 "کیونکہ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی ہوتا ہے اور میں تم لوگوں کی طرح ظالم نہیں بن سکتی".

 مومن نے اس کی بات پر وفا کو ایک اور تھپڑ رسید کیا تھا جس سے اس کا گال سنسنا اٹھا۔ عیشل نے آگے آنے کی کوشش کی تو شازیہ اور نازیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا تاکہ وہ آگے جا کر وفا کو بچانا پائے اور ان کا مزا کرکرا نہ ہو جائے۔۔۔

مومن تم چاہے جتنا مرضی مجھے مار لو مگر تم حقیقت بدل نہیں سکتے تم ظالم تھے ظالم ہو تم بہروپیہ ہو جو اپنے ساتھ دو چہرے لیے پھرتا ہے۔ وہ مثال تمہارے لئے ہی بنی ہے نام مومن اور کرتوت کافرانا مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی پشیمانی نہیں ہو رہی اس کی بات سن کر مومن اور طیش میں آ گیا۔ اس نے وفا کو بالوں سے دبوچا اور اس کا منہ اپنے سامنے کیا۔۔۔

 اچھا تمہیں میں ظالم لگتا ہوں تو اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ظلم کرنا کہتے کسے ہیں۔ اس نے وفا کو زمین پر پھینکتے کہا۔۔۔۔۔

لاؤنج میں ہی صوفے پر عمر کے کچھ کپڑے پریس کیے ہوئے پڑے تھے جن کے قریب اس کی بیلٹس بھی رکھی ہوئی تھیں۔۔۔

 مومن نے ان میں سے ایک بیلٹ اٹھائی اور اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر وفا کے ارد گرد چکر لگانے لگا۔۔۔

 وفا بس تندہی نظروں سے اسے گھور رہی تھی اور یہی بات مومن کی آنا پر کاری ضرب لگا رہی تھی کہ اس کو پھر بھی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔

 مومن کا ہاتھ بے ساختہ اٹھا اور اٹھتا ہی چلا گیا ایک کے بعد ایک کاری ضرب وہ وفا کے جسم پر لگا رہا تھا وفا کی دردناک چیخوں سے پوری حویلی گونج اٹھی تھی۔۔۔

 عیشل الگ رو رہی تھی اور مومن کو واسطے دے رہی تھی کہ وفا کو بخش دے مگر وہ تو اس وقت فرعون بیٹھا تھا جس پر اس کی کسی بات کا اثر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔

" مومن خدارا وفا کو بخش دو پلیز اسے چھوڑ دو اس پر ہاتھ مت اٹھاؤ کچھ تو خدا کا خوف کرو"

 عیشل روتے ہوئے گڑگڑائی۔۔۔

 وفا کا جسم لہولہان ہو چکا تھا کمیض جسم سے چپک چکی تھی۔۔۔

" اب مانگو معافی مجھ سے اور کہو کہ تم زریاب کا کیس نہیں لڑو گی تبھی یہ ہاتھ رکے گا۔۔۔ مومن نے تکبرانہ لہجے میں کہا۔۔۔ مگر وفا بھی ڈھیٹ بنی مار کھاتی جا رہی تھی مگر لبوں سے ایک لفظ بھی معافی کا ادا نہ کیا کیونکہ وہ حق پر تھی۔۔۔

 شازیہ اور نعیمہ بیگم نے بھی مومن کو کافی دفعہ روکنے کی کوشش کی مگر اس کی ایک ہی دھاڑ نے انہیں پیچھے کر دیا تھا۔۔۔۔

 وفا کا ہونٹ پھٹ چکا تھا موہ پر نیل پڑ چکے تھے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا اس وقت وہ قابل رحم حالت میں لگ رہی تھی جو کسی بھی وقت ہو ہوش کھو سکتی تھی۔۔۔۔

 مومن سانس لینے کے لیے رکا تو وفا لڑکھڑاتے لہجے میں بولی۔۔۔

" کیوں مومن خان بس اتنا ہی دم تھا تم میں ابھی تو تمہیں اپنے بہت سے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہے تمہاری جان مجھ سے اتنی جلد نہیں چھوٹے گی اس نے تمسخرانا ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔ 

جس نے مومن کے تن بدن میں آگ لگا دی اور اس کا ہاتھ ایک دفعہ پھر بلند ہوا تھا وفا کے جسم کو ضرب لگانے کے لئے مگر وہ بیلٹ بیچ میں ہی کسی نے اپنے ہاتھ پر روک لی تھی اس نے روکنے والے کو دیکھا تو اسفندیار کو مقابل پایا جو خون رنگ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا اس نے ایک ہی جست میں اس کے ہاتھ سے بیلٹ کھینچتے ہوئے اسے مکا رسید کیا جس سے مومن لڑکھڑا کر پیچھے جا کے گرا۔۔۔۔۔

عمر نے آکر عیشل کو شازیہ اور نازیہ کے ہاتھوں آزاد کروایا تھا جو بھاگ کر وفا کے پاس گئ اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر اسے ہوش دلانے لگی اور اس کے زخموں سے بہتے خون کو اپنے دوپٹے سے صاف کرنے لگی۔۔۔

 اسفندیار سے وفا کی حالت دیکھی نہ گئی اور وہ مومن پر پل پڑا اور مکوں کی برسات کرتا چلا گیا۔۔۔

 وہ اس کے اوپر بیٹھ چکا تھا اور اسے پوری طرح قابو کرتا اس کے منہ کا نقشہ بگاڑ چکا تھا۔۔۔

" کمینے تو نے ہاتھ کیسے لگایا وفا کو میں تیرا ہاتھ توڑ کے رکھ دوں گا "

اس نے مومن کا بازو ایک دوسری  طرف موڑتے ہوئے کہا جس سے کڑک کی آواز آئی تھی اور اس کے ہاتھ کی ہڈی اپنی جگہ سے ہل چکی تھی۔۔۔

" مومن کی ایک درد ناک چیخ نکلی تھی اس نے اپنی دونوں ٹانگوں سے اسفندیار کو پیچھے دھکیل دیا۔۔۔

" سالے تو تجھے کس بات کی مرچیں لگ رہی ہیں میں اپنی بیوی کے ساتھ جو مرضی کروں" اس نے درد سے کراہتے ہوئے کہا....

" جب تک یہ سب تیرے پر نہیں بیتے گی تو کسی انسان کا درد نہیں سمجھ سکے گا۔۔۔ اور یہ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں پرسوں تو اسی بات پر پچھتائے گا, روئے گا اور یہ سن کر تیری حالت پر سب سے زیادہ خوش ہونے والا میں ہی ہوں گا ۔۔۔

اسفندیار نے اس کو دیکھ کے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔۔

 مومن نے اس کی طرف دیکھتے بندوق تان لی تھی۔۔۔۔

 اور اس کی دیکھا دیکھی اسفند نے بھی اس پر بندوق تان لی تھی۔۔۔۔

 دونوں فریق اس وقت ایک دوسرے کے آمنے سامنے ایک دوسرے پر بندوق تانے کھڑے تھے جس کو دیکھ کر وہاں کھڑے سب لوگوں کے دل دہل گئے۔۔۔۔۔

عیشل جو وفا کو کمرے میں لے کر جا رہی تھی وفا کو رکتے دیکھ خود بھی رک گئی۔ وفا کا دل دھک سے رہ گیا تھا اسفندیار کو مومن کے نشانے پر دیکھ کر وہ سٹل ہو چکی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مومن رحم نہیں کھائے گا۔

 لیکن یہاں بھی مومن نے اپنی سفاکی دکھا دی تھی اس کی بندوق سے گولی چلی تھی اور اسفند کا بازو چیرتے ہوئے چلی گئی تھی وہ ایک دم لڑکھڑا کر پیچھے کو گرا تھا۔

 اس کو گولی لگتے دیکھ وفا کے جسم سے جان نکل گئی تھی وہ بھی لڑکھڑا کر نیچے گری تھی اور اسفندیار کے پاس پہنچنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

"اسفند "

اس کے منہ سے کپکپاتے ہوئے  اسفندیار کا نام نکلا تھا گولی چلتے دیکھ سب خواتین کی چیخ نکلی تھی۔۔۔

 نعیمہ بیگم لپک کر اس کے پاس آئی تھیں۔ جو اپنا خون اپنے ہاتھ سے دبا رہا تھا۔۔۔

 ثاقب صاحب نے اسفند کو جھٹکے سے اپنی طرف موڑ کے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا تھا جو انہیں بھی غصے سے کھول کر دیکھ رہا تھا اور پھر بندوق وہیں پھینکتے غصے سے باہر کی طرف نکل گیا۔۔۔۔

" اسفند کیا تم ٹھیک ہو تمہیں زیادہ تو نہیں لگی۔ کیا بہت درد ہو رہا ہے۔وفا کے فکر سے بھرپور لفظ جن میں محبت پنہاں تھی کو وہاں کھڑے ہر شخص نے محسوس کیا اور اسکی حالت دیکھ سب ششدر رہ گئے۔۔۔۔

وفا میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا مجھے بس گولی لگ گئی ہے دیکھو میں ٹھیک ہوں عیشل تم وفا کو کمرے میں لے کر جاؤ اور اس کی مرہم پٹی کرو۔۔۔

 اس نے پہلے وفا کو دلاسہ دیتے ہوئے پھر عیشل سے وفا کو لے جانے کا کہا جو فوراً ہی اسے وہاں سے لے کر چلی گئی تھی۔۔۔ 

 اور عمر فورا اسفندیار کو ہسپتال لے گیا جو کہ آنے والے معاملات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔

               *********

 زریاب کو دوسری جیل میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں بہت سی آسائشیں تھیں۔ بے شک آج وفا نے قاتل کا نام نہیں لیا تھا نہ ہی کسی کو کورٹ میں قاتل کے بارے میں کچھ بتایا تھا مگر پھر بھی زریاب اس کی آنکھوں میں دیکھ کر جان گیا تھا کہ وہ قاتل سے واقف ہے ۔ پھع کیوں اسنے عدالت میں ذکر نہیں کیا یہی چیز دریافت کو پریشان کر رہی تھی کہیں وفا کی جان خطرے میں تو نہیں تھی۔ کیا خطرہ لاحق تھا اسے یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔۔

لیکن وہ اس بات سے انجان تھا کہ بے شک وفا قاتل کے بارے میں جانتی تھی مگر زریاب یہ نہیں جانتا تھا کے پیشی کا وقت ختم ہونے والا ہے اور اگر آخر وقت پر وفا قاسم کا نام لے لیتی تو قاسم ضرور پیشی کے بعد اپنے لیے کوئی بیک اپ پلان تیار کرکے رکھ لیتا۔ جس کا وفا قاسم کو بالکل بھی موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔

 اس لئے آج وفا نے قاسم کو ذرا سا بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ ہی قاتل ہے تاکہ قاسم فرار نہ ہو جائے۔ وفا تو ایک ہی دن میں اس پر قیامت لانے کا ارادہ رکھتی تھی جس کی قاسم کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔۔۔

 اور وہ آنے والے کل سے انجان اپنی جیت کا جشن منا رہا تھا۔۔۔۔۔

               *******

آج پیشی کا دن تھا۔ سبھی کمرہِ عدالت میں جمع ہو چکے تھے۔ جب پٹیوں میں لپٹی وفا کو آتے دیکھ جج صاحب کچھ حیرت کا شکار ہوئے۔ وفا کی حالت بہت بری تھی مگر وہ آج کسی بھی حال میں کیس جیتنا چاہتی تھی یہاں تک کہ اس سے کھڑا بھی صحیح سے نہیں ہوا جارہا تھا۔ مگر پھر بھی وہ زریاب کے لئے آج یہاں موجود تھی اور زریاب اس کی حالت کو دیکھ کر تڑپ گیا تھا۔ اسے جاننے میں ایک لمحہ لگا تھا کہ وفا کی یہ حالت کس نے کی ہوگی۔

 مومن کا ایک ہاتھ فریکچر ہوچکا تھا جسے اسفندیار نے پرسوں توڑا تھا اس وجہ سے اس کے بھی ایک ہاتھ پر پلاسٹر بندھا تھا۔۔۔

" محترمہ وفا خان آپ کی حالت ٹھیک نہیں اور پھر بھی آج آپ یہاں تشریف لائیں ہیں آپ کی یہ حالت کس نے کی"۔۔۔

 جج صاحب نے کاروائی کرنے سے پہلے پوچھا۔۔۔

وفا ان کی بات سن کر تلخی سے مسکرائی۔۔۔

 "جج صاحب میری یہ حالت میرے نام نہاد شوہر نے کی ہے جو اپنی انا میں آ کر باقی سب کو خاک سمجھنے لگ گئے ہیں لیکن وہ اس بات سے انجان ہیں کہ جب اللہ کسی ظالم کی رسی دراز کرتا ہے تو عذاب بھی سخت ہی دیتا ہے۔۔۔۔

 جج صاحب نے افسوس سے سر جھٹکا اور انہیں کارروائی شروع کرنے کی تلقین کی۔۔۔

" جج صاحب میں معذرت سے کہنا چاہوں گا کہ میری ساتھی وکیل کے پاس کل کی طرح آج بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہوگا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ قاتل کوئی اور ہے اور یہ سراسر زریاب کو بچانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں"

 مومن کے وکیل نے وفا پر طنز کرتے کہا۔۔۔

 وفا نے دلچسپی سے اس کی بات ملاحظہ کی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب جو دلیلیں وہ دینے لگی ہے اس کے بعد اس وکیل کو اپنی وکالت پر ہی شک ہونے لگے گا۔۔۔۔

" مائی لارڈ آج میں بغیر عدالت کا وقت ضائع کئے سیدھے راستے پر آنا چاہونگی جسے سن کر وکیل صاحب ضرور تھوڑی دیر کے لئے لڑکھڑا جائیں گے اس لیے میں نے ان سے درخواست ہے کہ کر سنبھال لیجئے کیونکہ آنے والے وقت میں آپ کو جھٹکے ضرور لگیں گے"

 اس نے شرارت سے آنکھ میں میچتے کہا تو وکیل صاحب ہڑ بڑا کر رہ گئے۔

" جج صاحب یہ بات آج کی نہیں ہے بلکہ کئی دن پہلے کی ہیں اجالا صاحبہ آج نہیں یہ لوگ مرحومہ بنا چکے تھے اپنی ہی بہن کے شوہر پر ڈالتی تھیں۔ مگر کبھی انہیں دریا کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ ایک دن انہیں ان کے فون پر ایک ان نون نمبر سے میسج آیا جس میں اس شخص نے خود کو زریاب کہہ کر متعارف کروایا۔ ان دونوں کی باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔۔۔"

 اس کی باتوں پر مومن کا خون کھول رہا تھا۔۔۔

" وہ شخص دن کو دن کہتا تو وہ دن بعد بھی وہ شخص رات کو رات کہتا تو اجالا اس کی بات پر یقین کر لیتی تھیں وہ اس کے عشق میں اتنا ڈوب چکی تھی کہ اسے اپنی عزت کی پرواہ نہ رہی۔۔

اور ایسے ہی ایک رات وہ اپنی عزت کی پرواہ کئے بغیر اس شخص سے ملنے چلی گئی....

" یہ کیا بکواس ہے یہ سراسر جھوٹ ہے اور میری بہن پر الزام ہے. میں تمہاری جان لے لوں گا جھوٹی عورت اپنے بھائی کو بچانے کے لیے تم اس طرح کی الزام نہیں لگا سکتی میری بہن پر"

 مومن اپنے ہاتھ کی پرواہ کیے بغیر اس کی طرف لپکا جسے حوالداروں نے راستے میں ہی روک لیا۔۔۔۔

 "مومن صاحب عزت کو اگر عدالت میں لائیں گے تو پگڑیاں تو سروں سے اتر کر پیروں میں گریں گی ہی"...

وفا نے لفظ لفظ کو حقارت سے ادا کیا۔۔۔۔

"ابجیکشن مائے لارڈ وفا صاحبہ خود اعتراف کر رہی ہیں کہ رابطہ کرنے والا زریاب ہی ہے مگر ساتھ ہماری اجالا صاحبہ پر الزام تراشی بھی کر رہی ہیں"

وکیل نے ٹانگ اڑاتے کہا۔۔۔

"ابجیکشن اوور رولڈ"

جج صاحب نے چشمے کے اوپر سے دیکھتے کہا اور وفا کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

"جی تو جج صاحب جیسے ہی اجالا وہاں پہنچی زریاب نامی کوئی شخص تو وہاں انہیں نظر نہ آیا مگر انکے خاندان کے ہی فرد نے انکی عزت ضرور لوٹ لی تھی جسے وہ اپنے بھائی جیسا سمجھتے تھے"

سب فرد سانس روکے اسکے اگلے لفظ ادا کرنے کے انتظار میں تھے۔ بے چین تو مومن بھی ہو اٹھا تھا۔۔۔

"جی ہاں جج صاحب وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ انکا پھپھو زاد قاسم خان ہے"

وفا نے قاسم کی طرف اشارہ کرتے چیخ کر کہا یہاں تک کے اسکے گلے میں خراشیں پڑ گئیں۔۔۔

اور قاسم کا رنگ سفید پڑ گیا جیسے کوئی مردہ قبر سے اٹھ کر سامنے آ گیا ہو۔۔۔۔

عدالت میں موت کا سا سناٹا چھا گیا کہ سب کی سانسیں رکی تھیں۔۔۔

قاسم کا رنگ اڑ چکا تھا ہواس باختہ ہو چکے تھے۔ کچھ سوجھائی نہ دے رہا تھا تبھی ہڑ بڑا کر باہر کو بھاگا۔ تبھی ساتھ کھڑے پولیس اہلکاروں نے اسکی گردن پر ہتھڑ رسید کرتے اسکے دونوں بازوؤں سے قابو کیا۔

اور زبردستی گھسیٹتے ہوئے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔۔۔۔

"میں نے کسی سے کوئی زیادتی نہیں کی یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں تو اس رات باہر تھا"

وہ چیخ چیخ کر بےگناہی ثابت کر رہا تھا جبکہ وفا اسکو جلاتی ہوئی مسکراہٹ سے دیکھ رہی تھی جس سے وہ اور زچ ہو رہا تھا۔۔۔

"جج صاحب اب یہ سب دیکھ کر تو مجھے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ مجرم کون ہے"

جج صاحب نے سمجھ کر سر ہلایا۔۔۔

مومن کا دل دھک دھک کر رہا تھا آنے والا وقت سوچ کر جبکہ ثاقب صاحب کے دل میں درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔

"کیا ثبوت ہے آپ کے پاس"

مومن کے وکیل نے پوچھا تو وفا نے اسے تندہی نظروں سے گھورا۔۔۔

"جج صاحب قاسم خان نے نہ صرف اجالا سے زیادتی کی ہے بلکہ اور بھی کئی لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا کیوں کہ انہیں سیڈیوس کرنے کی بیماری ہے"

وفا نے نفرت سے کہا۔۔۔

"یہ جھوٹ ہے الزام ہے مجھ پر"

قاسم دھاڑا اسے موت اپنے قریب پھٹکتی محسوس ہو رہی تھی۔

"جج صاحب میں انکی ہوس کی چشم دید گواہ کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہوں گی"

وفا نے قاسم کی بکواس سرے سے ہی نظرانداز کرتے گواہ کو بلانے کی اجازت چاہی۔۔

"اجازت ہے"

جج صاحب کی اجازت پر اسفند اس کال کوٹہری والی ملازمہ کو لیے حاظر ہوا جسکو دیکھ قاسم مرنے والا ہو گیا۔۔

اور مومن بھی اپنی حویلی کی پرانی ملازمہ کو لمحے میں پہچان گیا جو کچھ عرصے سے غائب تھی۔۔۔

وہ کٹہرے میں آئی اور اول سے آخر تک سب کہانی کہ سنائی جو شروع سے اس پر بیتی تھی کہ وہ کال کوٹہری میں کیسے پہنچی اور قاسم نے کس کس طرح کس کے ساتھ زیادتی کی۔۔۔

"یور آنر یہ جھوٹ بھی تو ہو سکتا ہے ۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اسے خرید لیا ہو"

وکیل صاحب نے طنزیہ کہا تو وفا نے واہ کے انداز میں آئیبرو اچکایا۔۔۔

"میں جانتی تھی قانون اندھا ہوتا ہے آج دیکھ بھی لیا "

وفا نے وکیل صاحب کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا تو وہ تلملا کر رہ گئے یہ لڑکی انہیں ناکوں چنے چبوا رہی تھی۔۔۔۔

"بہر حال جج صاحب یہ رہا قاسم کا منہ زبانی اعتراف جس میں یہ خود اپنے منہ سے اجالا سے کی گئی زیدتی کا اعتراف کر رہا ہے"

وفا نے جج صاحب کو ویڈیو دیتے کہا ۔۔۔

جسکو عدالت میں لگی ایل سی ڈی پر پلے کیا گیا۔۔۔

جیسے جیسے ویڈیو چل رہی تھی خان حویلی کے لوگ زمین میں گڑتے چلے گئے۔ مومن کے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔۔۔

سچ نہایت کراہیت آمیز حالت میں اسکے سامنے آ کھڑا ہوا تھا ۔ جہاں صاف دکھ رہا تھا کہ مجرم کوئ اور نہیں بلکہ قاسم ہے۔۔۔

                       ********

"نہیں یہ میں نہیں ہوں"۔۔۔۔

قاسم نے سچائی کھلتی دیکھ ہکلا کر کہا۔۔۔

"تیری تو" مومن بغیر کسی کا لہاز کیے اس پر پل پڑا یہاں تک کہ اسکے بازو میں درد کی لہریں اٹھنے لگیں۔۔۔

عمر نے بمشکل اسکو قابو کیے۔۔۔

اسفمدیار نے تو نخوت سے اس سے نظریں ہی موڑ لیں۔۔۔

"تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت قاسم خان کو پھانسی کی سزا سناتی ہے اور زریاب خان کو باعذت بری کرتی ہے۔ عدالت زریاب خان سے معافی طلب کرتی ہے کہ انہیں مجرم سمجھ کر جیل میں رکھا گیا۔۔"

جج صاحب نے فیصلہ سنایا تو وفا نے خوشی کے احساس سے آنکھیں موند لیں اور رب کا شکر ادا کیا۔۔۔

زریاب کٹہرے سے نیچے اترا تو وفا نے خوشی کے جزبات سمیت اسے گلے لگا لیا اور پھر دونوں نے مل کر جزبات کا سمندر (آنسوؤں) کی صورت بہا دیا تھا انکو دیکھ سب کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔۔

جج صاحب بھی انکے اس جزباتی ملن پر مسکرا دیے انہوں نے آج تک بہت سے کیس دیکھے تھے مگر ایک بہن کو بھائی کا کیس لڑتے(ایک بہن کو بھائی کی حفاظت کرتے) پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔۔

                     **********

مومن آج اپنی بنائی گئی اونچی عمارت سے نیچے گرا تھا کہ وہ وفا سے آنکھیں ملانے کے  قابل نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔

جج صاحب میں ایک اور فیصلہ آج ساتھ ہی چاہتی ہوں میں پورے ہوش و ہواس میں مومن خان سے خلاع کا مطالبہ چاہتی ہوں یہ رہے خلع کے پیپرز میں چاہتی ہوں کہ آج ہی یہ پیپیرز سائن کر کے مجھے اس نام نہاد مالک اور نوکر کے رشتے سے آزاد کر دیں۔۔۔۔"

جج صاحب نے غور سے پیپرز ملاحضہ کیے۔۔۔۔۔

اور مومن کی تو وفا سے علیحدگی کی بات پر جان ہی نکل گئی تھی۔ نفرت کی پٹی ہٹی تھی تو مومن کی پرانی محبت زندہ ہو اٹھی تھی۔۔۔

"نہیں گل رخ نہیں مجھے معاف کر دو"

وہ ہڑبڑا کر وفا کے پاس آیا اور اسے منت کرنے کے انداز میں کہا۔۔۔۔

وہ شکستہ حال اسکے سامنے کھڑا تھا۔ جیسے سب کچھ کھو چکا ہو بچا ہی کیا تھا اسکے پاس نہ محبت, نہ یقین نہ عزت۔۔۔۔۔

"بس ایک موقع دے کر دیکھو گل رخ میں تمہاری زندگی خوشیوں سے بھر دوں گا۔ تمہیں زمین پر قدم رکھنے نہیں دوں گا۔ تمہیں رانی بنا کر رکھوں گا بلیو می"

اسنے اسکے دونوں بازوؤں کو تھامتے کسی جنونی شخص کی طرح وفا کو احساس دلاتے کہا۔۔۔۔جیسے اسے پانے کی ہر ممکن کوشش کر لینا چاہتا ہو۔۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہا ! اسکی باتوں پر وہ ہنس دی نہایت کھوکلی ہنسی ۔ تم ایک موقع کی بات کرتے ہو مومن میں نے تمہیں ہزار موقع دیے مگر تم نے کیا کیا ۔ میں محبت سمجھ کر تمہیں موقع دیتی رہی اور تم میری محبت کا مذاق بناتے رہے اور کیا کہ رہے ہو قدم زمین پر رکھنے نہیں دو گے تم تب کہاں تھے جب میں ٹھٹھرتی رات میں ٹھنڈی زمین پر سکڑ کر سوتی تھی۔

مومن کو پچھتاوں کے ناگ ڈسنے لگے۔۔۔

"اور کیا کہ رہے تھے اسنے سوچنے کی ایکٹنگ کرتے کہا رانی بنا کر رکھو گے۔ تو تم تب کہاں تھے۔ جب تمہارے یہ نام نہاد رشتے مجھ سے نوکرانیوں کی طرح کام کروا رہے تھے بشمول تم بھی۔ تب کہاں گئی تھی تمہارے سو کالڈ محبت۔ اتنے مہینوں کا لاوا آج وفا کے اندر سے نکل رہا تھا۔۔۔

کونسا ایسا کراہیت آمیز کام ہو گا جو ان بے ضمیروں نے مجھ سے نہیں کروایا۔۔۔

وہ سرخ آنکھوں سے دھاڑی۔۔۔

ان سب کے سر ندامت سے جھک گئے۔۔

اور وفا کے گھر والے اسکے اتنے صبر پر رو دیے۔۔۔

"افسوس میں ورق ورق تمہارے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھی جس میں تمہاری محبت رقم تھی مگر تم مجھے پڑھ نہ پائے".

اسنے سرخ بہتی آنکھوں سے اسے اسکی اوقات یاد دلائی۔

"اور کیا کیا تم نے ایک زندہ لڑکی کو مردہ قرار دے کر صرف اور صرف اپنے بدلے کیے مجھے اور میرے بھائی کو بدلے کی بھٹی میں جھونک دیا۔ تم نے سب کو یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ وہ ہسپتال میں ہے وہ مری نہیں ۔اسفند بھی یہ بات اس لیے نہیں جانتا کہ اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر نے تمہیں یہ میریکل بتایا اور تم نے سوچا کیوں نا اس چیز کا فائدہ اٹھایا جائے۔۔

اس لیے تم نے اپنے خاندان والوں کو بھی اس چیز کی بھنک نہیں لگنے دی نہ ہی اسکی ماں کو جو اسکی یاد میں روتی رہی۔ مومن تم رحم کے قابل ہی نہیں تمہیں تو اپنے تکبر اور غرور سمیت مر جانا چاہيے "

مومن گھٹنوں کے بل گرا تھا۔

"گل رخ" اسکے منہ سے فقت یہی نکلا۔۔۔

"گل رخ"

اس سے پہلے کہ مومن اس سے کچھ کہتا وفا نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا۔۔۔

"مومن تم کیا چاہتے ہو علیحدگی یا معافی "

وفا نے اسے دو اپشن دیے جو اس جیسے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں تھے۔۔۔

"گل رخ "

"ٹھیک ہے تو ان پیپرز پر سائن کر دو سمجھو میں نے تمہیں معاف کیا یہ کچھ پراپرٹی پیپرز ہیں اور...."

اس سے پہلے کے وفا آگے بولتی مومن نے فوراً پیپرز سائن کرنے شروع کیے۔۔۔

اسکی افراتفری دیکھ وفا نے اسے روکا۔۔۔

مومن صاحب ایک دفعہ پڑھ لی جیے۔۔۔

لیکن اسنے بغیر پڑھے ہی سائن کر دیے۔۔۔

"دیکھا آپ نے جج صاحب کہ مومن خان نے ہورے ہوش و ہواس میں پراپرٹی کے علاوہ خلع کے پیپرز بھی سائن کر دیے۔۔۔"

اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا اسنے وفا کو سب کے سامنے خلع دی تھی۔ وہ جتنا خود کو کوستا اتنا کم تھا۔ وہ اپنی زندگی سے ہیرے نکال کر کوئلے بھر بیٹھا تھا۔

سب کچھ صاف تھا۔ انکی علیحدگی سب کے سامنے ہوئی تھی۔ سب گواہ تھے اس چیز کے۔ وفا نے پیپرز اکٹھے کیے اور جج صاحب کو دیے اور اپنی فیملی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر نکلتی چلی گئی۔۔۔

مومن اسکی گاڑی کے پہچھے بھاگا تھا اپنا سب کچھ کھو دینے کے بعد ۔۔۔۔

گل رض رک جاؤ , رک جاؤ گل رخ۔۔۔۔۔

وہ بھاگتے بھاگتے چِلا رہا تھا یہاں تک کے وہ گر کر زخمی ہو گیا۔ لیکن وفا نے پلٹ کر تک نہ دیکھا کیونکہ وہ اسے بہت پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ چکی تھی۔۔۔۔

                     **********

وفا کے گھر میں عید کا سماں تھا۔ آج طاہر صاحب کے گھر کے دونوں چاند جو آنگن میں اتر آئے تھے۔ وفا کی امی صائمہ بیگم سے زیادہ خوش تو شاید ہی کوئی ہوتا۔۔۔

سحر بھی خوشی کے آنسو لیے انہیں خوش دیکھ رہی تھی۔ مگر زریاب کے پاس جانے کی اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی۔

"بھئی ہماری بیٹی سحر صبح سے تیاریوں میں لگی ہوئی ہے ۔ تم نے تو اسکو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا۔ ادھر آؤ سحر"۔۔۔

انہوں نے زریاب کی توجہ سحر کی طرف دلوائی جو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسکے نزدیک آئی صائمہ بیگم انکو کچھ وقت کے لیے تنہا چھوڑ کر چلی گئیں تھیں۔

زریاب نے اپنی گود سے اپنے بیٹے کو نیچے اتارا۔۔۔اور اسکے قریب ہوا۔۔۔۔

"سامنے کیوں نہیں آ رہی تھی " اسنے اسے والہانہ انداز میں تکتے کہا۔۔۔

"وہ میں وہ ۔۔۔۔"

" وہ میں کیا تم کیا سمجھی مومن کے کیے کی سزا میں تمہیں دوں گا "

زریاب نے سحر کے اٹک اٹک کر بات کرنے پر کہا تو اسنے آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"زریاب پلیز مجھے معاف کر دیں میرے خاندان کی وجہ سے آپ سب کو اتنی تکلیف سے دوچار ہونا پڑا"

اسکے رو کر کہنے پر زریاب سو سو جان سے قربان ہوا۔۔۔

"میری جان تمہیں کس نے کہا مجھے تم سے گِلا ہے میں تم سے زرا بھی مایوس نہیں ۔ میری غیر موجودگی میں جس طرح تم نے میرے گھر والوں کو سمبھالا اسکے لیے میں شکر گزار ہوں تمہارا۔۔۔۔"

اسنے سحر کا منہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھام کر پیشانی پر بوسہ دیتے کہا۔۔۔۔

"جو مومن نے کیا وہ اسکا فعل تھا جسکی بدولت میں اسکو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ اسنے میرا دل (وفا) نوچ لیا ہے جسکا کوئی کفارا نہیں"

اسنے دکھی دل سے کہا وفا کے لیے اسکا دل پھٹ رہا تھا۔ اسنے جو جو سہا تھا وہ سن کر اسکا دل کیا کہ وہ اپنی ہستی مٹا دے جو وہ یہاں اپنی بہن کو بچانے کے لیے موجود نہیں تھا۔۔۔۔

"زریاب میں نے آپ کو بہت یاد کیا ہر وقت ہر لمحہ مجھے کاٹنا عزاب لگتا تھا آپ کے بغیر"

سحر نے زریاب کے سینے سے لگتے کہا جسکو زریاب نے اپنے سینے میں کسی انمول متاع کی طرح بھینچ لیا"۔۔۔۔۔

"اب کہیں نہیں جاؤں گا نہ تمہیں چھوڑ کر نہ وفا کو".....

                        *******

وفا کی عدت کو ڈھائی ماہ بیت چکے تھے۔ وہ بس ایک کمرے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ اسکی یہ حالت دیکھ زریاب کا دل کٹتا تھا ۔ اسکی چڑیا کی طرح چہچہاتی بہن خاموش ہو کر رہ گئی تھی۔

زریاب آج اسکے کمرے میں آیا تھا جو بالکنی میں کھڑی کر باہر نجانے کیا تلاش کر رہی تھی۔

"وفا"

زریاب کی آواز پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔۔۔

"ارے بھائی آؤ نا"۔۔۔۔

"وفا کیا ہو گیا ہے تمہیں اب پہلے کی طرح نا بات کرتی ہو نا ہنستی کھیلتی ہو ۔ تمہیں ایسا دیکھ کر دل دکھتا ہے میرا میری جان"

زریاب کرب زدہ لہجے میں بولا۔۔۔

"میرے لالے کیوں پریشان ہوتے ہو ۔ میرا لہجہ تو میں نے باہر ہی بدل لیا تھا البتہ مضبوط مجھے یہاں کی آزمائشوں نے بنا دیا جس میں اسفند نے میرا پورا پورا ساتھ دیا اور رہی بات میرے حال کی تو یہ معاشرہ لاڈلوں کا بہت برا حال کرتا ہے۔۔۔۔"

زریاب جہاں اسکی اتنی گہری باتوں پر دکھی ہوا تھا تو اسفندیار کے زکر پر بری طرح چونکا۔۔۔

پہلی دفعہ وفا نے وہاں کے کسی شخص کا زکر اچھے لفظوں میں کیا تھا۔۔۔۔

زریاب اسفندیار سے ملنا چاہتا تھا مگر اسکی مصروفيات کی وجہ سے مل نہیں پایا تھا۔ اب جب کل اسفندیار نے کہا تھا کہ وہ زریاب سے ملنا چاہتا ہے اسکے گھر تو اسنے خوشدلی سے اسے اجازت دے دی تھی۔

اب تو وہ کل کے انتظار میں تھا کہ وہ زریاب کے آنے کا مقصد جان سکے۔۔۔۔

                    **********

اسفندیار کا استقبال وفا کے گھر بہت عمدہ طریقے سے کیا گیا تھا۔۔۔

ایک پر لطف سا کھانا کھانے کے بعد اسفندیار نے اپنے آنے کا موضوع بیان کیا۔۔

"اہم میں جانتا ہوں کہ اب جو میں بات کرنے والا ہوں اسکے لیے مجھے اپنے گھر سے کسی بڑے کو لانا چاہيے تھا مگر میں پہلے وفا اور آپ سب کی مرضی جاننا چاہتا تھا۔

"میں وفا سے شادی کرنا چاہتا ہوں"

اسنے ہچکچاتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا شاید ہی وہ کبھی اتنا نروس ہوا جتنا اب تھا۔

اسکی بات پر لاونج میں خاموشی چھا گئی اور سبکی نظروں نے معنی خیز سا مطالبہ کیا۔

"نہیں میں اپنی بیٹی کو وہاں دوبارہ نہیں بھیجوں گی جہاں اسنے اتنے ظلم سہے ۔"

صائمہ بیگم نے ڈرتے ہوئے فکرمندانا لہجے میں کہا۔۔۔

جس پر زریاب نے انکے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر روکا۔۔۔

"کوئی ایک وجہ بتا دو کہ وفا کی شادی ہم تم سے کر دیں"

اسفندیار جو صائمہ بیگم کی بات پر مایوس ہو چکا تھا زریاب کی بات پر کچھ حوصلہ ہوا۔۔۔۔

"کیونکہ میں اسے بہت خوش رکھوں گا"

اسفند کی بات پر زریاب نے کہا۔۔۔

"وہ تو اور بہت سے لوگ بھی کر سکتے ہیں تم اپنی بات کرو"

اسکی بات پر اسفندیار خاموش ہو کر رہ گیا۔۔۔

"محبت کرتے ہو اس سے"

زریاب کی بات پر اسفندیار نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔

"حیران مت ہو تمہاری محبت میں اب نہیں بلکہ اس روز ہی جان گیا تھا جب وہ ونی میں گئی تھی اور تمہاری محبت اب کی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے شاید جب تم لوگ باہر تھے تبھی تم اسے چاہنے لگے تھے"

اسکی بات پر اسفندیار نے اپنی نظریں جھکا لی تھیں۔۔۔۔

"میں بھی چاہتا ہوں کہ وفا اپنے حصے کی خوشیاں پائے تا کہ وہ اپنے پچھلے سب غم بھلا دے اور اس بات کو یقینی صرف تم ہی بنا سکتے ہو اور یہ میں نے وفا کی آنکھوں سے جانا ہے۔ مجھے میری بہن کی خوشی سب سے عزیز ہے"

اسنے اپنے باپ کی طرف دیکھتے اجازت طلب انداز میں کہا تو اسکے والدین بھی اپنی بچی کی خوشیوں کے لیے راضی ہو چکے تھے۔۔۔

جس پر اسفندیار مسرور ہو اٹھا۔۔۔

"میں کن لفظوں میں آپ کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے مجھے میری زندگی سے نواز دیا ہے"

اسفندیار نے خوشی کے باعث نم لہجے میں کہا تو باقی سب بھی ہنس دیے۔

"اس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اگر میری بہن کی آنکھوں میں ایک آنسو بھی آیا۔۔۔۔"

زریاب نے وارننگ دیتے لہجے میں کہا۔۔۔

"تو آپ میری جان لے لی جیے گا" اسفندیار نے فوراً اسکی بات اچکتے کہا۔۔۔۔

تو محفل گلِ گلزار ہو گئی۔۔۔۔۔

"لیکن میں وفا سے ایک دفعہ پردے کے پیچھے سے ہی بات کرنا چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تو۔۔۔۔

اسکی بات پر زریاب نے سر ہلاتے سحر کو اشارہ کیا جو وفا کو مردان خانے میں لے گئی جہاں اسکے اور اسفندیار کے درمیان پردہ حائل تھا۔۔۔۔

اتنی لمبی خاموشی کو توڑتے اسفندیار نے ہی پہل کی ۔۔۔

"کیسی ہو وفا"

"اللّٰہ کا شکر بلکل ٹھیک تم کیسے ہو اور مورے کیسی ہیں"

"میں ٹھیک ہوں اور مورے بھی"

لیکن تم نے تو جانے کے بعد پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔۔۔

"میں پچھلی باتوں کو بھلانا چاہتی ہوں اسفند اور اسکے لیے یہی بہتر ہے کہ حال میں جیا جائے"

اسفند نے سمجھ کر سر ہلایا۔۔۔

اسکی خاموشی پر وفا کا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔

"خاموش کیوں ہو گئے کیا میری کوئی بات بری لگ گئی"

وفا نے بے تابی سے پوچھا وہ تو اسکا محسن تھا بھلا وہ اسکا دل کیسے دکھا دیتی۔۔۔

"نہیں تمہارا کہا کبھی برا لگا ہے جو اب برا لگے گا لیکن ہاں میں تمہارے لیے نکاح کا پیغام لایا ہوں"

اسکی بات پر وفا کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔۔۔

اسکا دل کیا کہیں چھپ جائے ۔

دل کی دھڑکن حد سے سوا ہوئی بھلا وہ اتنی خوش قسمت تھی کہ اسفندیار جیسا شاہ بخت شوہر اسکے نصیب میں ہوتا وہ تو اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی تھی۔

"اسفندیار میں جانتے بوجھتے تمہارے لیے ایک برتی ہوئی لڑکی سیلکٹ نہیں کر سکتی۔۔۔۔تمہیں پورا حق ہے خوشیوں پر۔۔۔۔

اس لیے بہتر یے تمہیں وہ لڑکی ملے جسکی زندگی میں پہلے کوئی مرد نہ آیا ہو"۔۔۔۔

وفا نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر کہا۔۔۔۔۔

"سچ کہتے ہیں محبوب سے ظالم اس دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ جب تک وہ عاشق کی رگ رگ میں اپنے لیے بےسکونیاں نہ دیکھ لے تب تک اس پر وصل حلال نہیں کرتا"

اسفندیار نے سر جھکا کر کرب سے آنکھیں میچتے کہا مگر دل میں ایک میٹھی سی کسک تھی۔۔۔

"بہر حال مجھے تمہارے ماضی سے کوئی غرض نہیں مجھے تمہارا حال خوبصورت بنانا ہے میں امی کو بھیجوں گا رشتہ پکا کرنے اور ٹھیک ایک ماہ بعد ہمارا نکاح مقرر ہوگا اور اس دن میں تمہیں بتاؤں گا کہ میری شریکِ حیات اس دنیا کی کس قد شفاف اور پاک محبت ہے عشق ہے میرے لیے ۔ تب تک لیے میرے لیے اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔

یہ کہتا اسفندیار اسے حیران پریشان چھوڑ کر جا چکا تھا جبکہ دوسری طرف کھڑا زریاب اپنی پسند پر دل سے سرشار ہوا یہی تھا وہ شخص جو وفا کو اس دنیا کی تمام خوشیاں دے سکتا تھا اب اسے کوئی شک و شبہ  نہیں رہا تھا۔۔۔۔

ایک ہفتے بعد نعیمہ بیگم آ کر رشتہ پکا کر گئی تھیں اور وفا کو بہت سارا پیار دے گئی تھیں۔ وفا کو سحر سے پتا چلا تھا کہ زریاب کی خواہش ہے وہ اسفندیار سے شادی کرے ۔ تو اسکا لالہ اسکے دل کی بات جان ہی گیا تھا۔ وہ کیسے بھول گئی تھی کہ وہ دو دل ایک جان تھے۔ یہ ماہ کیسے چٹکیوں میں گزرا پتہ ہی نہ چلا۔۔۔۔

آناً فاناً ہوئی تھیں اسکی نکاح کی تیاریاں۔ اسفندیار چاہتا تھا پہلے انکا نکاح ہو جائے۔ تاکہ وہ وفا کے حقوق اس پر اچھی طرح واضح کر دے اور اسے حویلی واپس لے جانے تک کچھ وقت بھی مل جائے وفا کو سیٹل ہونے میں۔ 

اسفندیار نے اپنے والدین کو پہلے ہی اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ وہ حویلی والوں کو نکاح کے بابت کچھ نہیں بتائیں گے اور وہ بھی اسفندیار کی خواہش کا احترام کرتے مان گئے تھے۔

 مانتے بھی کیوں نہ اتنی دیر بعد تو انکے بیٹے کی زندگی میں بہار آئی تھی جسکی وجہ سے چوبیس گھنٹے اسکے چہرے پر شادابی رہتی تھی۔۔۔۔

تین دن بعد ان دونوں کا نکاح تھا جس سے صرف عمر,عشل اور نوری ہی واقف تھے جو کہ ان کے نکاح میں شریک ہونے جا رہے تھے۔

عیشل اور عمر کا پچھلے ہفتے ہی نکاح ہوا تھا اور انہوں نے بھی اپنا ریسیپشن اسفندیار لوگوں کے ساتھ ہی کرنے کا سوچا تھا جب وہ نکاح کو ایکسپوز کرتے سب کے سامنے۔۔۔

                    *********

اسفندیار کے تو اس ماہ سے رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے۔ بڑا خوشگوار سا پھرتا تھا۔  جو بھی اس سے کچھ پوچھتا تو جواب دینے کی بجائے کہیں کھویا سا رہتا تھا یہ حالت تو اس کی سب نے ہی نوٹ کی تھی۔۔۔۔

 اب بھی وہ رات کے اس پہر کمرے میں کھڑا اپنی بالکنی سے چاند کو دیکھ رہا تھا جب عمر اس کے کمرے میں داخل ہوا اور اس کے اس طرح چاند کو تکنے پر شرارت سے مسکرایا اور اس کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔

" اہم اہم کچھ لوگ تو چاند میں ہی اپنا دلدار تلاش کر لیتے ہیں اور آپ کی حالت ان لوگوں سے مختلف نظر نہیں آرہی لالہ اور کل تو یہ چاند باقاعدہ آپ کی دسترس میں آنے والا ہے۔۔۔"

 اس نے اسفندیار کو دیکھتے ایک آنکھ میچتے کہا جو اس کی بات پر ہڑبڑا سا گیا تھا اور اس کی بات کا پس منظر سمجھ اس کو مصنوعی غصے سے گھورنے لگا۔۔۔

"مطلب کیا ہے تمہاری اس بات کا "

اسفندیار نے ایک آئی برو اچکاتے پوچھا۔۔۔۔

" ارے بات کو مت بدلیے سچ بتائے گا یہ جو آپ کے چہرے پر گلو ہے اس خوبصورتی کا راز  وفا بھابھی ہیں نا۔۔۔۔"

 اسفندیار نہ چاہتے ہوئے بھی عمر کی بات پر کھل کھلا کر ہنس دیا تھا اس کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

 عمر نے اس کو یوں خوش ہوتے دیکھ دل سے اس کی دائمی خوشیوں کی دعا کی تھی جو شاید عرش پر پہنچنے کا وقت آ چکا تھا۔۔۔۔

                     **********

مومن کا حال تو اب کسی ہارے ہوئے جوہری کی طرح تھا جو اپنی تمام جمع پونجی لٹا چکا ہو۔ اب اس کا زیادہ تر وقت اپنے ڈیرے پر ہی گزرتا تھا جہاں اس کو پچھتاوں کے ناگ ڈستے رہتے اپنا سارا دامن خالی ہی لگتا تھا۔۔۔۔ 

جب وفا پاس تھی تو اسکی قدر کی نہیں لیکن جب وہ اس کی زندگی سے نکل کر گئی تو اس کی عادت سی ہونے لگی تھی۔ اسکے بغیر حویلی ویران لگتی تھی۔ یہاں تک کہ اسے ہر جگہ وفا دکھائی دینے لگتی۔ وہ اس سے معافی مانگنے کے لیے تڑپتا تھا اس سے ملنے کے لیے مگر وقت اور حالات دونوں ہی اسے اجازت نہیں دیتے تھے۔۔۔

 وہ کئی بار اس کے دہلیز پر گیا تھا اس سے معافی مانگنے مگر زریاب نے جھڑک کر اس کو حویلی کے باہر سے ہی لوٹا دیا تھا۔ اس کے اندر محبت سلگ رہی تھی وفا کو نہ پانے کی وفا کو کھو دینے کی۔۔۔۔

اور اس محبت کو سلگایا بھی تو اسنے اپنے ہاتھوں ہی تھا نا۔۔۔۔

اسے آج بھی اپنے کیے  گئے مظالم یاد تھے مگر وہ وقت کو کسی بھی طرح واپس نہیں پلٹ سکتا تھا جہاں سب پہلے کی طرح ہوجاتا۔۔۔

 وہ اب بھی اجالا کو دیکھنے ہاسپٹل جاتا تھا اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی یہ سب انہی کے کئے گئے مظالم کا نتیجہ تھا جو اب تک ان کے در پر کوئی خوشی تک نہیں آئی تھی۔۔۔۔

                *********

قاسم کو سزا کے مطابق پھانسی ہو چکی تھی۔ اس کی موت پر نائلہ بیگم تڑپ تڑپ کر رو رہی تھیں اور منہ بھر بھر کر وفا کو بد دعاؤں سے نوازا تھا۔ وہ یہ بھول گئی تھیں کہ دوسروں کو دکھ دے کر وہ کبھی اپنے لئے خوشیاں نہیں خرید سکتی تھیں۔ انہوں نے جتنے دکھ کسی کی بیٹی کو دیے تھے آج اس سے کہیں زیادہ دکھ وہ اپنی جھولی میں سمیٹ چکی تھیں اپنی اولاد کو کھو کر۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اولاد کی تربیت ماں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ جیسے چاہے بچے کو ڈھال لیتی ہے۔ اگر انہوں نے آج قاسم کی اچھی تربیت کی ہوتی تو نہ ہی وہ کئی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کرتا اور نہ ہی اتنی جلدی یوں موت کو گلے لگا لیتا۔۔۔۔

لیکن وہ اب بھی اپنی غلطیوں کو ماننے سے انکاری تھیں وہ اب بھی وفا کو ہی قصوروار سمجھتی تھیں اور یہی ان کی سب سے بڑی بھول تھی کہ آنکھوں دیکھی سچائی دیکھ کر بھی وہ انجان بن رہی تھیں۔ ہوتے ہیں نہ کچھ لوگ اپنے آپ کی ہی کرنے والے جب تک وہ خود ہدایت نہ لینا چاہیں تب تک  کسی کی بات ان پر اثر نہیں کرتی۔۔۔۔

 یہی حال نائلہ بیگم کا بھی تھا۔۔۔۔۔

               **********

نکاح کی تیاریاں تو اس ایک ماہ میں آناً فاناً ہوئی تھیں کہ وفا دیکھتی ہی رہ گئی۔ وفا کو تو اسفندیار سے اتنی جلدی کی امید ہی نہ تھی جتنی جلدی اس نے سب کے کر دیکھایا تھا۔۔۔

 اسفندیار کے ایک ایک عمل سے دکھ رہا تھا کہ وہ اس رشتے سے کتنا خوش ہے اس کو کتنی چاہت ہے اس رشتے کی اور کتنی بیتابی وہ سبھی پر واضح کر چکا تھا اس ایک ماہ کے عرصے میں۔ وفا تو بس حیران تھی اپنی قسمت پر کہ خواہشیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں۔۔۔

 اس نے تو مومن کے  تجربے کے بعد سے سوچ لیا تھا کہ وہ کبھی کسی شخص کے لیے بھی اپنے دل کے دروازے نہیں کھولے گی لیکن اسفندیار نے نہ صرف اس کے دل کے دروازے پر دستک دی تھی بلکہ بڑی شان سے بے دھڑک اندر چلا آیا تھا۔۔۔۔

  اب وہ آنے والے کل کے دن کی منتظر تھی جو یقیناً اس کی زندگی میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں لانے والا تھا۔۔۔۔۔

                    *****

نکاح کا دن بھی آ پہنچا تھا۔ وفا کے گھر کو پورے سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ سحر اور صائمہ بیگم تو گھنچکر کر بنی ہوئی تھیں۔۔۔

 سحر بھی آج بیبی پنک کام والے  فراک میں زریاب کا دل دھڑکا رہی تھی۔ وہ کہیں سے بھی ایک بچے کی ماں نہ لگتی تھی بلکہ وفا جتنی ہی لگتی تھی۔

 زریاب کا بارہا دل کیا کہ وہ اس سے ملے اور اس کی تعریف کریے مگر آج کام کے باعث سحر نہ اس کو وقت دے پا رہی تھی نہ ہی اپنے بیٹے کو۔۔۔

 اور اپنے لارڈ صاحب کو بھی زریاب کے ہاتھوں میں دیا ہوا تھا جو بڑی شان سے سفید شلوار کمیز میں گردن اکڑائے ادھر ادھر کی تیاریاں دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

اب سحر سب کام نپٹا کر وفا کے کمرے کی طرف چل دی تھی تا کہ اسکی تیاری دیکھ سکے۔۔۔

وہ بہت خوش تھی کہ بے شک مومن سے اسکی شادی نہیں ہوئی تو کیا ہوا اسفندیار بھی تو اسکا ہی لالہ تھا۔

جیسے ہی اسنے وفا کے کمرے کا دروازہ کھولا وہ وفا کی حالت دیکھ ششدر رہ گئی۔۔۔۔

                       ********

قاسم تو پہلے ہی جا چکا تھا جو شازیہ کی تعریف کرکے اسے سراہتا تھا۔ وہ کیا گیا تھا اس کی زندگی سے تو سارے رنگ ہی ختم ہوگئے تھے۔ اس کے ساتھ رہتے رہتے شازیہ کو بھی بدکاری کی عادت ہو گئی تھی اور مومن کی تو بات ہی الگ تھی وہ تو جیسے شادی کر کے بھول ہی گیا تھا کہ اس کی ایک عدد بیوی گھر میں بھی ہے شازیہ تو اس سے شادی کر کے پچھتائی تھی۔

 نہ مومن گھر آتا تھا نہ اسے وقت دیتا تھا نا اسے نظر بھر کر دیکھا تھا تعریفی کلمات تو دور کی بات ہے۔ وہ تو بس ہر وقت وفا وفا کرتا رہتا تھا۔ جیسے اس کی زندگی شروع ہی وفا سے ہو کر اور ختم بھیوفا پر ہی ہوتی ہے۔۔۔۔

 یہ بات شازیہ کی انا پر کاری ضرب کی طرح لگ رہی تھی کہ اس کے ہوتے ہوئے اس کا شوہر کسی اور لڑکی کی طرف متوجہ ہے۔ اس کے اتنے حسین ہونے کا کیا فائدہ ہے لیکن جب یہ سوچا کہ وفا تو اس سے کہیں زیادہ خوبصورت تھی تو وہ یہ سوچ کر جل بھن جاتی۔۔۔۔

وہ رات کو طرح طرح کی بے ہودہ نائٹیز پہن کر مومن کا ناتظار کرتی تا کہ اسے ورغلا سکے مگر مومن بھی ایک سرسری نظر ڈالنا بھی اس پر گوار نا کرتا اور ضروری فائل لے کر ڈیرے پر چلا جاتا۔۔۔

" اس وفا نے تو میرا جینا حرام کر کے رکھ دیا ہے مومن کو تو اس وفا کے سوا اب کوئی نظر ہی نہیں آتا اس کو تو میں نہیں چھوڑوں گی چاہے اس کے لیے مجھے اس سے مروانا ہی کیوں نہ پڑے میں اسے مومن کی نظروں میں مار کر ہی دم لوں گی۔۔۔۔

 پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔۔۔

 شازیہ نے شاطرانہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا لیکن اس کی یہ مکروہ منصوبہ بندی باہر کھڑی نوری نے لفظ با لفظ سن لی تھی اور وہ یہ ساری کاروائی یقیناً وفا کو بتانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔۔

                   *****

 سحر کمرے میں آئی تو وفا کو ویسی ہی عام حالت میں دیکھ کر اس کا غصہ سوا نیزے پر پہنچا...

 وفا تم ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئی یہ کیا طریقہ ہے باہر مہمان آ چکے ہیں اور تم ابھی تک ویسے ہی کھڑی ہو۔۔۔۔

 وفا کو اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ سحر غصے سے زریاب کے پاس گئی اور اسے وفا کے پاس بھیجا۔۔۔

 وہ جیسے ہی وفا کے کمرے میں داخل ہوا تو اسے بھی حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔۔۔

" وفا کیا ہوا تم تیار کیوں نہیں ہوئی۔ سب ٹھیک ہے نہ۔تم اس شادی سے خوش تو ہو نا"

زریاب اس کے پاس جا کر بیٹھتا ہے اور اس کی ٹھوڑی کو اپنی دو انگلیوں سے اوپر کرتے ہوئے اس سے پوچھتا ہے۔۔۔۔

 جب وفا کا چہرہ زریاب کے روبرو ہوا تو وفا نے اپنی سرخ آنکھیں اٹھا کر زریاب کی آنکھوں میں ڈالیں اور جو وفا کی آنکھوں میں زریاب کو دیکھنے کے لئے ملا تھا اسے جان زریاب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا اور وہ سناٹوں کی زد میں آ گیا۔۔۔۔

 بس اس کے منہ سے حیرت سے یہی نکلا تھا ۔۔۔

"وفا"

 کیونکہ وفا کے ارادے سے خطرناک لگ رہے تھے۔۔۔۔

"وفا تمہاری آنکھیں عام نہیں رہیں۔۔۔ تم , تم ان سے انتقام لینے کا سوچ رہی ہو"۔۔۔۔

زریاب نے اسکی آنکھیں پڑھ کر حیرت سے سوال کیا جس کے جواب نے وفا نے لب بھینچ کر نظریں چرائیں۔۔۔۔

"لالہ وہاں کے لوگ آج بھی ویسے ہیں بلکل نہیں بدلے میں سمجھی تھی کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ گئے ہوں گے مگر میں غلط تھی لاتوں کے بھوت باتوں سے بھی مانے ہیں کبھی"

اسنے تنفر سے کہا۔۔۔۔

"تو کیا تم اسفند سے شادی صرف انتقام۔۔۔۔"

"نہیں لالے ایسا ہر گز نہیں میں سچ میں اپنے آپ کو دنیا جہاں کی خوش نصیب لڑکی تصور کرتی ہوں جسکا بخت اسفندیار کے ساتھ جڑنے جا رہا ہے لیکن میں انکو بھی سدھار کر ہی دم لوں گی اور تمہیں تو پتا ہے لالے کی جان جب وفا کوئی چیز ٹھان لے تو اپنی جی جان لگا دیتی ہے"

اسنے فوراً زریاب کی بات کاٹتے اسکی غلط فہمی دور کی۔۔

جس پر زریاب خوشی سے پھولے نہیں سمایا۔۔۔

"ویل ڈن میری جان خوش رہو اور زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب ہو ہمیشہ"

زریاب نے اسے گلے لگاتے دعا دی۔۔۔۔

"لیکن تم نے لباس کیوں نہیں بدلہ"

زریاب نے تشویش سے کہا۔۔۔۔

"یہ بھی آپ کے ہونے والے سالے صاحب کی کرم نوازی ہے جسنے فرمائش کی ہے کہ میں اسکی پسند کا لباس پہنوں"

وفا نے ہنستے ہوئے بتایا تو زریاب بھی ہنس دیا۔۔۔

جب نوری اور عیشل وفا کے نکاح کا جوڑا لیے اندر دھاوا بولتی ہوئی آئيں ۔۔۔

"زریاب بھائی پلیز آپ جائیے باہر تاکہ ہم ابنی دلہن کو تیار کر لیں جن کے انتظار میں ہمارے جیٹھ جی پل پل گن رہے ہیں کہ کب انہیں دیدارِ یار نصیب ہو"

عیشل نے چہکتے ہوئے اسفندیار کی بیتابیاں بتائیں جو عروج پر تھیں جسے سن کر وفا کے گال سرخ پڑ گئے۔۔۔

 جیسے ابھی خون چھلک پڑے گا اسکے شرمانے کا یہ انداز دیکھ زریاب اپنی ہنسی بمشکل ضبط کیے باہر نکل گیا۔۔۔

اور باہر نکل کر قہقہ لگایا بہت دیر بعد ہی صحیح اسنے اپنی بہن کو اتنا خوش دیکھا تھا اور اسکا دل اس بات پر سرشار تھا۔۔۔۔

اندر وہ دونوں اپنے ہاتھوں کی پھرتی دکھاتی وفا پر اپنے ہنر کے جوہر دکھانے لگیں۔۔۔

اور وفا کو اسکا ڈریس دے کر باتھروم میں دھکیلا وہ تو بس ارے ارے ہی کرتی رہ گئی۔۔۔

                 ***********

دوسری طرف اسفندیار کا دل پنجرے میں قید بے چین پنچھی کی طرح تڑپ رہا تھا اپنی دلربا کو دیکھنے کے لیے۔آخر یہ ہجر کب ختم ہو گا۔۔۔۔

اسفندیار نے کوفت سے سوچا۔۔۔۔

آج وہ اپنے فارم ہاؤس میں ہی تیار ہو رہا تھا جہاں عمر اور اسکے چند دوست شانہ با شانہ تھے اور اسکی پتلی حالت دیکھ اس پر کوئی نہ کوئی شگوفا چھوڑ دیتے جس پر وہ بس انہیں گھورتا رہ جاتا۔۔۔۔

اسفندیار جب واش روم سے تیار ہو کر نکلا تو عمر اور اسکے باقی کے دوست اسے دل میں سراہے بغیر نہ رہ سکے۔۔۔۔

اسفند لالہ آپ تو چھا گئے آج میلہ لوٹ لیا آپ نے ۔۔۔ دس بارہ لڑکیاں تو گرا ہی دیں گے آج آپ اپنے وجیح حسن سے۔۔۔۔

عمر نے اسکی وکھرے سٹائل میں تعریف کرتے کہا جس پر سب دوستوں نے قہقہ لگاتے ہوئے ہامی بھری۔۔۔

اسفندیار نے خود کو شیشے میں دیکھا تو دو پل کو خود بھی ٹھٹھک کر رہ گیا۔۔۔

"فرینچ کٹ بیئرڈ جو آج ہی بنوائی تھی سفید کرتا شلوار پر سلور گولڈن مکس واسکٹ جو خود اسنے وفا کے ڈریس کے ساتھ میچ کر کے بنوائی تھی۔۔۔ سلیقے سے بنے بال ۔۔۔نیلی آنکھوں میں کچھ پا لینے کی چمک ۔۔۔

آج اسکی آنکھوں میں وہی پرانی چمک لوٹ آئی تھی جو کبھی پہلے ہوا کرتی تھی۔۔۔

مختصر یہ کہ وہ ایک وجاہت سے بھرپور حسن رکھنے والا مشرقی مرد لگ رہا تھا۔۔۔

جسکی مثاليں 

لوگ یونانی دیوتا کے طور پر دیتے تھے۔۔۔۔

"وفا اب غم کے بادل چھٹ چکے ہیں بہت جلد تمہاری بے رنگ زندگی کو مختلف رنگوں سے بھر دوں گا جہاں تمہاری ہر خواہش میری سر آنکھوں پر ہو گی تمہاری ہر بات میرے لیے سب سے اہم ہو گی ۔ تمہاری ہر ہنسی میری خوشی کی وجہ ہو گی"۔۔۔

جب ہم ایک دوسرے کے محرم ہوں گے اسنے دل میں وفا سے مخاطب ہوتے کہا اور سرشاری سے مسکرا دیا۔۔۔۔

نعیمہ بیگم اور ابراھیم صاحب ان سب کو دیری کا احساس دلانے آئے تو اسفندیار کو یوں خوش و خرم دیکھ دونوں کی آنکھیں خوشی سے نم ہوئیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔۔۔

نعیمہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسکی نظر اتاری اور اسکی پیشانی چوم کر اسے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا جبکہ ابراھیم صاحب نے اسے گلے لگایا۔۔۔

"برخدار بڑے چہک رہے ہو مت بھولو شادی کے بعد تمام شوہروں کی چہچہاہٹ منمناہٹ میں بدل جاتی ہے"

ابراھیم صاحب نے بڑے خوش گوار موڈ میں اسے چھیڑا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دیا۔۔۔

"مجھے یہ منمناہٹ زندگی بھر کے لیے خوشی خوشی قبول ہے"

اسکی بات پر سبکا قہقہ گونجا تھا۔۔۔۔

"یہ تو ابھی سے جورو کا غلام نکلا"

ابراھیم صاحب کی بات پر نعیمہ بیگم نے انہیں ٹھوکا دیا۔۔۔۔

"جی بلکل اللّٰہ کا شکر ہے اپنے ابا حضور پر گیا ہوں"

اسکی ابراھیم صاحب کو بات شہد میں لپیٹ کے مارنے پر ایک بار پھر مہفل کھلکھلاہٹوں سے گونج اٹھی جبکہ ابراھیم صاحب نے اپنی کھسیاہٹ دور کرنے کے لیے اسفندیار کا کان کھینچا اور اسکی دہایوں کو عمر نے فوراً کیمرے کی آنکھ میں قید کیا۔۔۔۔۔

وہ سب بے انتہا خوش تھے کہ پرانا اسفندیار لوٹ آیا تھا۔۔۔۔

                      ******** 

وفا جوں ہی باتھ روم سے باہر نکلی۔ اسکو دیکھ نوری اور عیشل دنگ رہ گئے تھے۔ اتنی خوبصورتی , اتنی شادابی تھی اسکے چہرے پر کے وہ دونوں لمحوں کے لیے کھو ہی گئی تھیں۔۔۔۔

سفید شارٹ کرتی میں سلور اور گولڈن امتزاج کا کام نفاست سے کیا گیا تھا جو اسکی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا جبکہ ساتھ سفید اور گولڈن شرارے میں وہ ایک دم پریستان کی پری لگ رہی تھی۔ جو راستہ بھٹک جانے پر دنیا میں آ گئی ہو۔۔۔

آنکھوں کی تو بات ہی آج الگ تھی۔ایسا لگتا تھا نیلی سمندری آنکھوں پر سورج کی کرنیں اتر آئیں ہوں۔ گولڈن آئی میک اپ نے اسکی آنکھوں کو آج کئی گنا سنوار دیا تھا جبکہ ناک میں پہنی بڑی نتھ اسکے مصنوعی سرخ رنگ سے سجے ہونٹوں سے ٹکراتی ہوئی شرارت کر رہی تھی۔۔۔۔

کانوں میں بڑی بڑی بالیاں جیسے چاند کی چاندنی کی طرح جگمگا رہی تھیں اور اسکے ہاتھوں میں کھنکتی چوڑیاں زندگی سے بھرپور احساس دلاتی تھیں۔۔۔۔

وہ مکمل ایک حسن کا پیکر لگ رہی تھی جس پر آج ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔ آتا بھی کیوں نہ آج وہ اپنے سچے پیار اپنے ہونے والے محرم کے لیے سجی تھی۔ جسکی خوبصورتی اسکے انگ انگ سے واضح ہو رہی تھی۔۔۔۔

وہ دونوں اسے ایسے ہی دیکھی جاتیں اگر سحر آ کر انہیں ہوش نہ دلاتی۔۔۔۔

وفا بھی انکی نظروں سے کنفیوز ہو چکی تھی۔۔۔

"ماشااللہ میری جان تو آج پریوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ۔ کسی کی نظر نہ لگے تمہیں"

سحر نے اسکی نظر اتارتے اسکی بلائیں لی۔۔۔

چلو لڑکیوں لے کر چلو وفا کو۔۔۔۔

"کدھر نکاح تو یہیں ہے نہ کمرے میں"

سحر کے کہنے پر وفا نے حیرت سے کہا۔۔۔۔

"جی نہیں بنو رانی دلہے راجہ کا فرمان ہے کہ وہ اپنی بیگم صاحبہ کہ منہ سے تین دفعہ قبول ہے بزاتِ خود اپنے کانوں سے سن کر اپنی زندگی کی نوید کا احساس کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو نیچے بلایا جائے"

سحر نے من و عن سے اسفندیار کا پیغام دیتے ہوئے اسے چھیڑا۔۔۔۔

جس پر وفا جھینب کر ہنس دی اور باقی بھی ہنستے ہوئے اسے اطراف سے تھامتے ہوئے نیچے لے جانے لگیں۔۔۔۔

                     *********

اب نیچے کا منظر کچھ یوں تھا کہ حال کے لاونج کے درمیان سفید پھولوں کا ایک پردہ سجایا گیا تھا جسکے ایک طرف مرد حضرات تھے تو دوسری طرف خواتین۔۔۔۔

اسفندیار کو دیکھا جائے تو اسکی بیچینی عروج پر تھی۔۔۔

"بھائی صاحب صبر کریں کیونکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے"

عمر نے اسکی بےتابی پر چوٹ کرتے کہا تو سب قہقہ لگا کر ہنس دیے۔۔۔

مگر اسفندیار کے دل کا حال تو وہ خود ہی جانتا تھا جو اپنی شریکِ حیات کو دیکھ کر ہی چین میں آنا تھا۔۔۔

"آ گیں بھابی"

عمر نے شوشا چھوڑا۔۔۔۔

"کدھر کدھر "

اسفند کے بوکھلانے پر ایک دفعہ پھر محفل زعفران ہوئی۔۔۔۔۔

جس پر اسفندیار تلملا کر رہ گیا۔۔۔۔

"آ گئیں بھابھی "

عمر نے وف کو آتے دیکھ کہا۔۔۔

"جھوٹ مت بولو"

اسفندیار نے سر جھٹک کر کہا۔۔۔

"اس بار سچ میں آ گئیں ہے لالے"

اسنے اسفندیار کا کندھا جھنجھوڑا جو مولوی صاحب کے نکاح پڑھانے پر ہوش میں آیا اور ہمہ تن گوش ہو کر اس طرف کے بول سننے لگا۔۔۔

"کیا آپ کو اسفندیار خان ولد ابراھیم خان سے سکہِ رائج الوقت پانچ لاکھ نکاح قبول ہے"

مولوی صاحب کے سوال پر اسفندیار کی دھڑکنیں بےتاب ہوئی تھیں۔۔۔۔

اور وفا کی خاموشی پر بےچین۔۔۔۔

"قبول ہے"

یہ دو بول سننے تھے کہ اسفندیار کی رگ رگ میں ٹھنڈک اترتی چلی گئی ۔۔۔۔

کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔

"جی قبول ہے"

وفا نے آنکھیں میچتے خود کو پرسکون کرتے کہا۔۔۔

"کیا آپ کو قبول ہے"

"قبول یے"

تا عمر قبول ہے آخری سانس تک با خوشی قبول ہے ۔۔۔یہ اسنے اپنے دل میں کہا تھا اور فوراً دستخط کرتے اپنی زندگی کے سارے حقوق اسفندیار کے نام کر دیے۔۔۔

 کیونکہ اسے یقین تھا یہی تھا اسکا ہمسفر جسکا ساتھ وہ دوسرے جہاں تک چاہتی تھی۔۔۔

ایک آنسو ٹپکا تھا وفا کی آنکھ سے اور یہ تھا شکر کا آنسو اپنے رب کی نعمتوں کا۔۔۔

                  ***********

اس طرف وفا نے نکاح قبول کیا تھا تو دوسری طرف مومن جو ڈیرے پر وفا کی تصویر کو دنیا جہاں بھلائے تک رہا تھا اسکا دل ایک دم بےچین ہونے لگا۔۔

"یہ کیسی بےچینی ہے میرا دل کیوں اتنا گھبرا رہا ہے"

اسنے ادھر ادھر ٹہلتے کہا۔۔۔۔۔

"کہیں گل رخ کو تو کچھ.... نہیں ایسا نہیں ہو سکتا وہ ٹھیک ہو گی"

اسنے اپنے آپ کو تسلی دی لیکن یہ کافی نہیں تھی اسلیے چابی لے کر گاڑی دوڑاتا وفا کے گھر کی طرف گیا۔۔۔

جہاں اسے اندر تو نہیں جانے دیا مگر یوں معلوم ہو رہا تھا کہ اندر تقریب ہے۔۔۔۔

"کچھ بھی ہو جائے گل رخ تمہیں میں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا"۔۔۔۔

وہ دل میں اپنے آپ سے کہتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

 مگر وہ اس بات سے انجان تھا کے وہ اب گل رخ نہیں بلکہ وفا اسفندیار خان بن چکی ہے۔۔۔۔

 اس کا بویا گیا بیج کیا پھل کھلانے والا تھا یہ تو قدرت ہی جانتی تھی۔۔۔۔

                    **********

وفا کے نکاح قبول کرنے کے بعد اب مولوی صاحب اسفندیار سے پوچھ رہے تھے کیا آپ کو نکاح قبول ہے۔۔۔

" قبول ہے" اس نے آنکھیں بند کر کے مسرت سے کہا

 کیا آپ کو قبول ہے۔۔

" دل و جان سے قبول ہے "

اس نے پھر ایک دفعہ اپنے دل  کو کہتے سنا...

 جس پر سب مسکراہٹ دبانے لگے۔۔۔۔

کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔۔۔

" نہ صرف اس جہان میں بلکہ اس جہان کے لیے بھی قبول ہے جہاں شریک حیات کا ساتھ ابدی ہو گا"۔۔۔۔

 اسفندیار کے آخری کلمات نے سب کو دنگ کر دیا تھا اور اس کے آخری کلمات پر سب طرف گلاب کے پھولوں کی برسات ہوئی تھی جس نے سارے لاونج کو اپنی خوشبو سے معطر کر دیا تھا۔۔۔۔

 وفا اس کے آخری وعدے میں کھوئی ہوئی تھی چونکی تو وہ تب جب اسفندیار درمیان سے پھولوں کا پردہ ہٹا کر اس کی طرف آیا اور اسے دونوں کندھوں سے تھام کر سامنے کھڑا کیا۔۔۔۔

 اسفندیار نے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے لب اس کی پیشانی پر رکھے اور اس کی پیشانی کو اپنے لمس سے معطر کیا اس کی اس حرکت پر سب نے ہوٹنگ شروع کر دی۔۔۔۔۔

 جبکہ وفا کو شرم سے کہیں چھپنے کی جگہ نہ ملی تو اس نے اسفندیار کے سینے کو ہی اپنی پناہ گاہ سمجھتے اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپایا۔۔۔

 جسے فوراً عیشل نے اپنے فون کے کیمرے میں قید کیا۔۔۔۔

                   ******

نکاح کے بعد وفا اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑی اپنے آپ کو تک رہی تھی اور اب اپنی نئی زندگی سے پچھلی زندگی کا موازنہ کر رہی تھی کہ کسی کے گلا کھنکارنے کی آواز پر پیچھے مڑی۔۔۔

" اسفند تم" اس کے منہ سے حیرت سے بس یہی نکلا....

" جی میں ماہ بدولت"

 اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکتے ہوئے کہا تو وہ فورا تیز قدموں سے اس کی طرف بڑھی۔۔۔۔

" آپ یہاں کیا کر رہے ہیں کوئی دیکھ لے گا فوراً باہر جائیں"

 وفا نے اس کے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

" ابھی مجھے تمہیں چھو کر یقین تو کر لینے دو کہ تم سچ میں حقیقت ہو میرا کوئی خواب نہیں"

 اس نے سرگوشی میں کہتے ایک جھٹکے سے وفا کو کمر سے پکڑتے اپنے سینے سے لگاتے کہا۔۔۔

جبکہ اسکی سرکتی انگلیوں کو اوپر کی جانب بڑھتے دیکھ وفا  کی جان لبوں پر آئی تھی۔۔۔۔

"اسفند"

اسفندیار کی انگلیوں کی گستاخیاں محسوس کرتے وفا کے منہ سے کپکپاتے ہوئے اسکا نام نکلا تھا ۔۔۔

اسفند کی انگلیاں سرکتے سرکتے اسکے چہرے سے ہوتی اسکی نیلی زندگی سے بھرپور آنکھوں پر ٹھہر چکی تھیں۔۔۔۔

"یہ آنکھیں جن پر میں پہلے دن ہی اپنا دل وار بیٹھا تھا۔ جنہیں دیکھ میں ایک دن بھی انکو یاد کیے بغیر سو نہ پایا۔ مجھے زندگی کا احساس دلاتی ہیں تمہاری یہ خوبصورت آنکھیں۔ ان میں اپنا عکس دیکھنے کی کتنی چاہ تھی مجھے۔ مگر پھر یہ زندگی سے روشن آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی اور اسکے ساتھ جڑی میری ہنسی بھی "

اسفندیار نے کھوئے لہجے میں کہا وفا نے دونوں ہاتھوں سے اسکے ہاتھ تھام لیے۔۔۔۔

"مگر آج ان آنکھوں پر اور ان میں نظر آتے عکس پر میرا پورا حق ہے ۔ جنہیں دیکھ آج میں بن پیے بہک رہا ہوں۔۔"

اسنے محبت اور جزبات سے لبریز لہجے میں کہتے اسکی دونوں آنکھوں پر باری باری اپنے لب رکھے اور کئی دیر وہیں رکا رہا ۔۔۔۔

وفا کانپ سی گئی تھی اسکی اتنی قربت پر کہاں دیکھا تھا اسکا یہ روپ..۔۔۔

اسفندیار نے اسکی آنکھوں سے لب ہٹائے تو نظر بڑی سی نتھ کے ہالے پر گئی۔۔۔۔

"مجھے آج یہ میری رقیب معلوم ہو رہی ہے جو بڑے استحاق سے تمہارے لبوں کو چھو رہی ہے جنکی نرماہٹ کو جزب کرنے کا حق صرف میرا ہے"۔۔۔۔

اسفندیار نے وفا کے سرخ رنگ سے سجے لابوں کو انگوٹھے سے سہلاتے کہا۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وفا اسکے اتنی بے باکی پر اسکے قدموں میں ڈھیر ہوتی وہ پوری شدت سے اسکے سرخ لبوں پر جھکا تھا اور ان پر اپنی نئی داستان رقم کرنے لگا تھا۔۔۔۔

وفا کی ساری جان اسکے لبوں میں آ ٹکی تھی۔۔۔اسنے کس کے اسفندیار کے کرتے کو جکڑا۔۔۔۔اگر اسفندیار نے اسے کمر سے نہ تھام رکھا ہوتا تو وہ یقیناً زمین بوس ہوئی ہوتی۔۔۔۔

کتنے لمحے بیت گئے دونوں ہی اس بات سے انجان تھے کیونکہ دونوں ہی مکمل طور پر ایک دوسرے میں کھو چکے تھے دنیا جہاں کی خبر بھلائے جنہیں صرف ایک دوسرے سے غرض تھا۔۔۔

اب اور سانس لینا وفا کے لیے دوبھر تھا۔ اسفندیار اسکا خیال کرتا آہستہ سے پیچھے ہٹا تو دونوں بھیگے لبوں سے گہرے سانس بھرتے ایک دوسرے سے سر ٹکا گئے۔۔۔۔

وفا کا چہرہ تو یوں سرخ تھا جیسے کسی نے سرخ رنگ پھینک دیا ہو۔۔۔

"کتنی چاہ تھی مجھے تمہیں اپنے رنگ میں رنگنے کی لیکن پہلے یہ حق حاصل نہیں تھا جو آج محرم بن کر ملا اور دیکھو آج تمہارے چہرے پر میری قربت کے رنگ کتنے حسین لگ رہیں ہیں۔۔"

اسفندیار نے بوجھل سے لہجے میں کہتے فون نکال کر فوراً کھٹا کھٹ دو چار تصویریں وفا کے ساتھ اسی بکھری حالت میں لے لیں جس کے چہرے پر اسفند کی محبت کے رنگ تھے۔۔۔۔

وفا تو ہڑبڑا کر رہ گئی ۔۔۔۔

"اسفند"

اسنے منمناتے لہجے میں کہا۔۔۔۔

"جی جانِ اسفندیار ایسے مت پکارو ورنہ پھر ان لبوں کو انعام کے طور پر اپنی دسترس میں لے لوں گا۔۔۔

اسفندیار نے اس سے پیار سے سر ٹکراتے کہا تو وہ فٹافٹ اسکے گریبان میں منہ چھپا گئی۔۔۔

"واہ بھئی ہم سے چھپ کر ہم میں ہی پناہ لے رہی ہیں آپ باخدا کہیں ہم آپ کی اس ادا پر بہک کر آج ہی نہ رخستی کرا لیں"...

اسکے اتنے بے باک اظہار پر وفا کی بولتی ایسی بند ہوئی تھی کہ اسفند کا قہقہ اسکی حالت پر پورے کمرے میں گونج اٹھا۔۔۔۔

وفا نے اسے گھورتے ہوئے مکوں کی برسات کر دی۔۔۔

اور پلٹ کر جانے لگی جب اسفندیار نے اسکا ہاتھ کھینچا جسکے کے باعث اسکی کمر جھٹکے سے اسفندیار کے سینے سے ٹکرائی جس پر دونوں کے دل بےساختہ دھڑک اٹھے۔۔۔۔

بڑا میٹھا سا احساس تھا ایک دوسرے کی تیزی سے دھڑکتی ہوئی دھڑکنوں کو سننا جو آپ کے محبوب کے ہی نام کا راگ الاپ رہی ہوں۔۔۔۔

"کدھر چلی"

اسفندیار نے وفا کے جوڑے کو آہستہ سے کھولتے کہا جسکے باعث اسکے لمبے بال کسی آبشار کی طرح کمر پر بکھر گئے ۔۔۔

اسفندیار نے اسکے بالوں میں منہ گھساتے ایک گہرا سانس کھنچا اور انکی خوشبو کو اندر اتارا۔۔۔

وفا کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں۔۔۔۔

اسفند نے آہستہ سے اسکی گردن سے بال ہٹاتے اسکی گردن پر اپنے سلگتے لب رکھے۔۔۔۔جس پر وفا جی جان سے کانپ گئی۔۔۔

اسکے لب گردش کرتے وفا کے نیم عریاں کندھے تک آ پہنچے تھے۔۔۔۔

وفا نے کس کر مٹھیاں بھینچیں۔۔۔۔

اسفندیار تو اس پیاسے کی طرح خود کو سیراب کر رہا تھا جیسے آج ہی صحرا سے لوٹ کر پیاس بجھا رہا ہو جو مٹ ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔

وہ لوگ ایسے ہی ایک دوسرے میں کھوئے رہتے اور اسفند اسکی جان پر بنائی رکھتا اگر دروازہ نہ کھٹکتا ۔۔۔۔

"ارے دلہے میاں باہر کا رخ کرو تم تو آج ہی رخستی کے چکروں میں ہو۔ ملاقات کا وقت ختم ہوا۔۔۔۔"

عیشل نے شرارت سے اسفندیار کو تنگ کیا۔۔۔

عیشل کی آواز نے دونوں کو حال میں لا پٹخا تھا۔۔۔

اور اسفندیار نے بمشکل ہی اپنے منہ زور جزبات پر بندھ باندھا تھا۔۔۔۔

اور وفا کی بکھری حالت کو گہری نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

"کچھ دن میں آوں گا تم کو تمہی سے چرانے اور تم دل سے اجازت دو گی میری جان"

اسفندیار نے اسے ماتھے پر لب رکھتے کہا اور باہر کھڑی عیشل اور نوری سے پہلو بچاتا باہر چلا گیا جبکہ انکی شرارتی نظروں نے وفا کو شرمندہ کر دیا تھا کہ وہ ہنس کر چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔۔۔۔

آج اسفند بولا تھا اور وفا سن رہی تھی۔ چاہے جانے کا احساس کتنا دلکش ہوتا ہے اسنے یہ اسفندیار سے جانا تھا۔۔۔۔۔

                  ***********

ہسپتال میں وینٹیلیٹر پر لیٹے اجالا کے وجود میں ہلچل ہوئی تھی۔ پہلے انگلیوں میں پھر پلکیں کپکپائی تھیں اور آہستہ آہستہ اسنے آنکھیں کھولنا شروع کی تھیں۔

جبکہ دھڑکنیں تیز ہونے لگی تھیں۔ ہسپتال کی سفید درو دیوار دیکھ کر سمجھ نہ سکی کہ وہ یہاں کیوں ہے۔

جبکہ نرس جو اسے چیک کرنے آئی تھی۔ اسکی بگڑی حالت اور اسے ہوش میں دیکھ کر باہر ڈاکٹر کو بلانے لپکی ۔۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر نے آ کر اسے چیک کیا اور سکون آوار انجیکشن دیا تھا۔ خان حویلی میں اجالا کے ہوش میں آنے کی خبر سن کر سب میں بجلی بھر گئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ساتھ آگے پیچھے کئی گاڑیاں نکلی تھی ہسپتال کی طرف۔۔۔۔۔

اجالا سے کوئی سوال جواب نہیں کیا گیا تھا اور مومن کے کہنے پر اس قصے کو وہیں ختم کر دیا گیا تھا۔ جبکہ اسفندیار اسے دیکھ کر رہ گیا۔ جسنے اپنی بہن کو بغیر کسی سوال کے معاف کر دیا تھا وہ اپنی محبت کو معاف کیوں نہ کر سکا۔۔۔۔

                          ******

اسفندیار کم ہی اس جگہ پر ہوتا تھا جہاں مومن آ جاتا وہ وہاں سے نکل جاتا تھا۔ یہ بات سب جانتے تھے۔ آج کل حویلی میں اسفندیار کی شادی کی تیاریاں اچانک شروع ہوئی تھیں اور سب سمجھ نہ سکے کہ نعیمہ بیگم نے اتنی جلدی بغیر انہیں بتائے بہو ڈھونڈ کیسے لی۔۔۔۔

شادی کی تیاریوں میں عیشل پیش پیش تھی۔ جبکہ مومن اسکو دیکھ سوچ رہا تھا کہ اگر اسفند عیشل سے پیار نہیں کرتا تھا تو کس سے کرتا تھا۔ اگر عیشل سے شادی نہیں کی تو وہ کون خوش نصیب ہے جو اسکی زندگی میں داخل ہونے جا رہی تھی۔ 

آج کل مومن انہیں سوچوں میں گم تھا۔۔۔

بھولے سے بھی اسکے ذہن میں وفا کا خیال نہیں آیا تھا ۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جسکو وہ خوش نصیب کہ رہا تھا وہ اسکی اپنی ہی سابقہ بیوی تھی۔۔۔

                    *********

نعیمہ تم نے تو چٹ منگنی پٹ بیاہ رچانے کی سوچی۔ ہم سے لڑکی کا مشورہ تک نہیں لیا اور کل مہندی آ پہنچی ہے۔ نعیمہ بیگم جو اپنے پورشن کو پیلے اور سفید پھولوں سے سجوا رہی تھیں شہناز بیگم اور نائلہ بیگم کی بات پر ٹھٹھک کر رکیں۔۔۔۔

"معاف کرنا شہناز مگر تم نے بھی وفا یا شازیہ کی بارے میں مجھ سے کوئی رائے نہیں لی تھی تو پھر میں کیسے لے لیتی اور ویسے بھی میرے اسفندیار کی پسند کوئی گئی گزری نہیں بلکہ وہ بہت اعلی خاندان کی لڑکی ہے, نہایت سگھڑ , اچھے پہننے اوڑھنے کا ڈھنگ, بات کرنے کا سلیقہ یہاں تک کہ میں یقین سے کہ سکتی ہوں میرا اسفندیار خوش نصیب ہے جسے اس لڑکی جیسا گوہرِ نایاب ملا ہے۔ وہ دونوں ایک ساتھ ہی جچیں گے"

"جبکہ شازیہ نے تو تمہاری کبھی مدد ہی نہیں کی کسی کام میں۔ میرا نہیں خیال کے اسنے کچن کے اندر جھانک کر بھی دیکھا ہو"

نعیمہ بیگم نے بھی طنز کے تیر چلائے تھے اور وفا کی اتنی تعریفیں کی کہ وہ دونوں شازیہ کی حڈ حرامی کا سن کر شرمندہ ہو گئیں بات تو سچ ہی تھی۔۔۔

جبکہ نعیمہ کی بہو کی تعریفیں سن کر ان کے بھی دل میں اسے دیکھنے کا تجسس چھا گیا تھا جو شادی والے دن ان پر بم کی طرح گرنا تھا۔۔۔۔

                     *********

مہندی کا دن بھی آ پہنچا تھا ۔ سب اسفندیار کو مہندی لگا رہے تھے جبکہ وہ ہنس ہنس کر سب سے مہندی لگوا رہا تھا۔ اسکے چہرے سے اسکی اندرونی خوشی واضح ہو رہی تھی۔

شازیہ جو اسکو یوں خوش دیکھ رہی تھی اور اپنے ہونے والی بیوی کی اتنی تعریفیں کرتی سن رہی تھی جل کر رہ گئی جو اسے بھی کبھی کبھی طعنے کے لپیٹ میں لے لیتا تھا۔۔۔

"اسفند ایسے بھی کیا گوہر جڑے ہیں تمہاری بیوی میں جسے تم اتنا چھپا کر رکھ رہے ہو نہ نام بتا رہے ہو کہیں دیکھنے کے قابل ہی تو نہیں وہ جسے تم دکھا نہیں رہے"

شازیہ بھی آخر کب تک برداشت کرتی جلی کٹی سنا ہی ڈالی تھی اسنے ۔ اسکی بات پر حال میں ایک دم خاموشی چھا گئی تھی۔ جبکہ اسفندیار کی مسکراہٹ میں زرہ برابر بھی کمی نہ آئی تھی۔۔۔۔

"نایاب چیزیں ہمیشہ چھپا کر رکھی جاتی ہیں تا کہ انکو کسی کی کالی نظر نہ لگے اور رہی بات دیکھنے کے قابل کی تو فکر مت کریں شادی کے دن اسکی خوبصورتی کو دیکھ کر سب سے بڑا صدمہ آپ کو ہی لگنے والا ہے آئی ایم ڈیم شیور بھابھی"

اسنے شروع میں شریر انداز میں کہ کر آخر میں بھابی کھینچ کر کہا تو وہ پیر پٹخ کر رہ گئی۔۔۔

اسفندیار نے سیدھا سیدھا اسے کالی نظر کہا تھا اور کسی نے اسکو کچھ کہا بھی نہیں۔۔۔

"دیکھتے ہیں "

اسنے جل کر کہا جس پر اسفندیار کندھے اچکا کر رہ گیا۔۔۔

اس سے پہلے کے مومن اسے ابٹن لگاتا اسفند نے عمر کو خفیف سا اشارہ کیا جس پر حال کی تمام لائٹس دو منٹ کے لیے بند ہو گئیں اور جوں ہی لائٹ آن ہوئی اسفند اپنی جگہ سے غائب تھا۔۔۔۔

"ارے اسفندیار کہاں گیا"

سب پریشان ہو اٹھے۔۔۔

"ارے وہ تو گئے"

عمر نے سر مارتے کہا۔۔۔

"کہاں"

سب نے اکٹھے پوچھا۔۔۔۔

"بھابھی کو ابٹن لگانے"

وہ یہ کہتے ہی باہر کو بھاگ گیا تا کہ باقی سب اسکی درگت نہ بنا دیں۔۔۔۔

جبکہ عیشل دانت پیس کر رہ گئی جسے اسفند بغیر لیے ہی چلا گیا تھا وہ بھی سب سے نظریں بچاتی وفا کے گھر کو نکل گئی تھی۔۔۔۔۔

                  ************

وفا کے گھر کی بات کی جائے تو وہاں محفل جوش و خروش سے جاری تھی وفا کے ہاتھوں پر مہندی لگ رہی تھی۔ جبکہ پاس ہی لڑکیاں ڈھولکی بجا رہی تھیں۔۔۔

زریاب نے کسی کو بھی وفا کے چہرے پر ابٹن لگانے سے منع کیا تھا جسکی وجہ سب سمجھنے سے قاصر تھے جب ایک من چلی بولی۔۔۔۔

"کیا بات ہے بھئی کہیں اپنے سیاں جی کا انتظار تو نہیں کہ وہ آئیں اور ابٹن لگائیں۔ "

اسکی بات پر سب لڑکیوں نے زور و شور سے تصدیق کی تھی۔۔۔۔

جبکہ وفا کو کہیں چھہنے کی جگہ نہ ملی۔۔۔

"تو اپ بلا لیں مگر افسوس جیجا جی تو آنے سے رہے انکی تو خود کی مہندی ہے ہماری دلہن کو ایسے ہی کام چلانا پڑے گا"۔۔۔۔۔

ایک اور لڑکی نے اچانک سر پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔

"ارے ایسا کہاں ممکن ہے ہماری دلہن بلائے اور ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر نہ آئیں ایسا ہو سکتا ہے بھلا"

اسفندیار کے ایک دم محفل میں نمودار ہو کر شریر لہجے میں پوچھنے پر لڑکیاں ہڑبڑا اٹھیں۔۔۔۔

"اووووو جیجو یہاں کیسے یہاں لڑکوں کا آنا منع ہے"

لڑکیوں نے زور و شور سے اسکے آنے کی نفی کی۔۔۔۔

"جی ہاں پرائے لڑکوں کا مگر دلہے پر یہ حد لازم نہیں ہوتی اسنے وفا کے قریب پہنچ کر اسے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کرتے کہا۔۔۔۔۔

جس پر پھر ایک بار زور و شور سے ہوٹنگ ہوئی تھی۔۔۔۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے اسنے سب کے سامنے اپنے گالوں پر لگے ابٹن کو وفا کے گال سے اپنا گال ٹکراتے اسے چہرے پر اپنے چہرے سے ابٹن لگایا ۔۔۔۔۔

جس پر ایک دفعہ پھر محفل میں تالیاں اور قہقے گونج اٹھے۔۔۔

"وارہ رے مولا ہماری ایسی قسمت کہاں"

سحر نے شریر لہجے میں انکو چھیڑا جس پر دونوں جھینپ گئے۔۔۔۔

لیکن سحر ہڑبڑائی تو تب جب پیچھے سے دو ہاتھوں نے اسکی دونوں گال پر بھر کر ابٹن لگائی اور وہ نہ نہ کرتی رہ گئی جب اسنے پلٹ کر دیکھا تو زریاب کو دیکھ کر گھورتی رہ گئی۔۔۔

"کیوں بیگم ہم ہیں تو کیا غم ہے ہم آپ کی ساری خواہشیں پوری کریں گے"

زریاب نے اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے کہا تو لڑکیوں کی شریر نظریں خود پر دیکھتی وہ شرما کر بھاگ گئی۔۔۔۔

جبکہ وفا ابھی تک اسفند کو حیرت سے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اسے اندر آنے کسنے دیا جبکہ اسفند نے اسکی سوچ پڑھ کر اسے آنکھ مارتے زریاب کی طرف اشارہ کیا جسنے انکے دیکھنے پر تھمبز اپ کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔

وفا اسکی حرکت پر ہڑبڑا کر رہ گئی اور اسے گھور کر دیکھا جبکہ زریاب کو اسفند کے ساتھ ملے دیکھ وہ تاصف سے سر ہلا گئی کہ انکا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔

پھر عیشل کے آنے اور محفل میں رنگ جمانے پر سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔۔۔۔

یوں مہندی کا اختتام خوبصورت انداز میں ہوا ۔ اسفند نے بہت کوشش کی کہ وہ وفا سے اکیلے میں مل سکے مگر عیشل نے اسکی سب کوششوں پر بالٹی بھر کر پانی پھیر دیا۔۔۔

وفا اسفند کے تلملانے پر قہقہ لگا کر رہ گئی جبکہ اسفند نے منہ پر ہاتھ پھیر کر اسے وارن کیا۔۔۔

"کل آنا تو میرے پاس ہی ہے بچو"...

اور یوں وہ بنا ملے ہی حویلی واپس لوٹ آیا تھا جہاں سب کی ڈانٹ نے اسکا استقبال کیا جو اکیلے ہی دلہن کے ساتھ رسم کر آیا تھا جس پر وہ کھسیا کر رہ گیا اور آنے والے کل کے بارے میں سوچنے لگا جو بہت خوشگوار تھا۔۔۔۔

                        ******

شادی کا دن آ پہنچا تھا جسکا انتظار اسفندیار نے برسوں سے کیا تھا۔ آج اسکے دل کی دھڑکن اسکی زندگی اسکے گھر اسکے کمرے میں شریکِ حیات کی حیثیت سے آ رہی تھی۔۔۔

اسفندیار ایک ایک پل گن رہا تھا اور خود سے عہد کر رہا تھا کہ وفا کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا۔ مگر ابھی ایک آزمائش باقی تھی۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ لوگ انہیں الگ کر پاتے ہیں یا سفند اور وفا بنیں گے ایک دوسرے کی طاقت۔۔۔۔

نعیمہ بیگم کمرے میں آئیں تھیں اور اسفندیار کو بلیک شیروانی پر مہرون کلا پہنے دیکھ اسکی نظر اتاری ۔۔۔

"ماشااللہ بہت خوبرو لگ رہا یے میرا بیٹا ۔اللہ تمہیں ہمیشہ ایسا ہی رکھے"

انہوں نے دل سے اسے دعا دی جس پر وہ مسکرا کر رہ گیا۔۔۔۔

اور پھر خان حویلی کا قافلہ نکلا تھا میرج حال کی طرف ۔ جس میں ڈھول پر بھنگڑا ڈالتے ہوئے عمر پیش پیش تھا۔۔۔۔۔

بارات پہنچ چکی تھی۔ دلہے کو سٹیج پر بٹھایا جا چکا تھا اب انتظار تھا تو بس دلہن کا۔۔۔۔

"دلہن کی ماں کہاں ہے نعیمہ بھابھی"

نائلہ بیگم کا تجسس عروج پر تھا۔۔۔

بس آ رہی ہوں گی۔۔۔نعیمہ بیگم نے انہیں دلاسہ دیا وہ جانتی تھیں سب سے بڑا جھٹکا انہیں لگنے والا تھا۔

ثاقب صاحب طاہر صاحب کو یہاں دیکھ حیرت کا شکار ہوئے تھے جبکہ طاہر صاحب نے یوں ظاہر کیا جیسے انہیں دیکھا ہی نہ ہو جبکہ اسفند اور ابراھیم صاحب سے وہ خوش دلی سے ملے تھے۔۔۔۔

مومن جو سٹیج پر جا رہا تھا سحر کو وہاں دیکھ کر ٹھٹکا۔۔۔۔

بھلا سحر کا یہاں کیا کام۔ لیکن جب دلہن کے آنے کا شور اٹھا تو اسکا سر مکینکی انداز میں پیچھے مڑا جہاں دلہن اپنے بھائی کے بازو میں ہاتھ ڈالے سہج سہج کر آ رہی تھی۔ جسے دیکھ سب کو ہی حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔

لیکن مومن , مومن تو سناٹوں کی زد میں آ گیا تھا۔ وفا کو دلہن کے روپ میں دیکھ کر۔۔۔

آج اسے اپنے خسارے کا شدت سے احساس ہوا تھا کہ اسنے کیا کھویا کیا پایا تھا ۔دل کے پہلو میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی تھی اور منظر دھندلا ہوا تھا۔۔۔۔

وفا کو برائڈل روم پہنچا دیا گیا تھا۔ جہاں زریاب اور اسکی والدہ پہلے سے موجود تھے۔ دونوں کے منہ سے بے ساختہ ماشاللہ نکلا تھا وفا لگ کی اتنی خوبصورت رہی تھی۔۔۔۔

اناری سرخ عروسی لہنگا, بالوں میں مانگ ٹیکا سجا کر سر پر کام سے بھرا دپٹا خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔

آج تو اس پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔ میک اپ نے اسکے تیکھے نین نقش کو اور ابھار دیا تھا کہ کوئی بھی آسانی سے گھائل ہو جاتا۔

اس کی مسکراہٹ آج دل موہ لینے والی لگ رہی تھی۔۔۔۔

آج بھی اسنے چاند کے ہالے کی مانند سونے کی نتھ پہنی تھی جو اسکی خوبصورت کو چار چاند لگا رہی تھی۔

جبکہ گلے میں نو لکھا ہار پہنایا گیا تھا۔

صائمہ بیگم نے فوراً اسکی گردن کے پیچھے نظر کا ٹیکا لگایا کہ کہیں اسے کوئی بری نظر نہ لگ جائے۔۔۔

وفا کا دلہنہ روپ دیکھ زریاب کی آنکھیں ایک دم نم ہوئیں تھی۔ آج اسکی بہن پرائی ہونے جا رہی تھی مگر اس بار اسے یقین تھا کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں جا رہی ہے۔

وفا ایک دم آگے بڑھ کر زریاب کے گلے لگی۔ اسکا دل گھبرا رہا تھا اور وہ زریاب کے گلے لگی اپنا ڈر دور کر رہی تھی۔

زریاب نے اسے سر پر پیار دیا اور اسکو باہر لے جانے کے لیے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔ دونوں جانتے تھے باہر کن حالات کا سامنا کرنا پڑنا تھا۔ اس لیے زریاب نے وفا کو (میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں) والی نظروں سے دیکھا تو وفا نے گہرا سانس لے کر خود کو باہر جانے کے لیے تیار کیا۔

وفا نے زریاب کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے چہرے پر بڑی سی مسکان سجائے قدم باہر بڑھائے ۔ جہاں سب اسے حیرت میں گھرے دیکھ رہے تھے۔مومن کے پاس سے گزرتے اسنے یوں اسے نظر انداز کیا جیسے دیکھا ہی نہ ہو۔۔۔۔

اور سامنے اپنے ہمسفر پر نظر پڑتے ہی وہ ہر چیز بھول گئی تھی۔ بس یاد تھی تو اسکے ہمسفر کی دلکش مسکراہٹ جو اپنا ہاتھ پھیلائے اسکا منتظر تھا۔ وفا آج بڑی شان سے اپنے جان سے عزیز بھائی کی ہمراہی میں اسفندیار اپنے شریک حیات کی طرف قدم بڑھا رہی تھی۔ آج اسکے دل میں کسی چیز کا ڈر نہ تھا۔ اسکا ایک ایک قدم اسے اسکے روشن مسقبل کے قریب لے جا رہا تھا جسکی اسنے کبھی مومن کے ساتھ خواہش کی تھی مگر قبول اسفند کے ساتھ ہوئی تھی اور اس بات کی وفا کو زیادہ خوشی تھی۔۔۔

بے شک ہمارا رب ہمیں بہتر کی بجائے بہترین سے نوازتا ہے۔ اسکا آج وفا کو یقین ہو چلا تھا۔ اسکے قدم سٹیج کے قریب آ رکے تھے۔۔۔۔۔۔۔

                    *********

اسفندیار جو بے تابی سے وفا کا انتظار کر رہا تھا۔ وفا کو زریاب کا ہاتھ تھامے سہج سہج کر آتے دیکھ اسکی سانسیں رکی تھیں۔۔۔۔

اسنے دیارِ غیر میں بیش بہا حسن دیکھا تھا مگر جو حسن وہ آج دیکھ رہا تھا وہ ان سب پر بھاری تھا۔۔۔۔۔

اسے سرخ رنگ میں دیکھ اسفند کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئیں۔ اسکا دل کیا کہ زمانے کی پرواہ کیے بغیر اسے کہیں چھپا کر لے جائے۔ جہاں صرف وہ دونوں ہوں۔۔۔۔

اسکے سرخ لب دیکھ اسفند کو اپنا گلا سوکھتا ہوا محسوس ہوا۔ اسکی پیاس شدت اختیار کر گئی تھی جو شاید انکی نرمی محسوس کر کے ہی مٹنی تھی۔

اسنے فوراً نظریں ہٹائیں مگر لمحے کی دیر میں نظریں پھر اس پری پیکر کا طواف کر رہی تھیں۔۔۔۔

کمبخت دل اسکو پانے کی چاہ میں تڑپ رہا تھا۔ وہ لاکھ پہرا بٹھا رہا تھا مگر دل ڈھول کی طرح سینے میں بج رہا تھا۔ ایک طرف اسے پانے کی خوشی تھی تو دوسری طرف وقت گزرنے کی بےچینی۔۔۔۔

کب یہ ظالم وقت ختم ہو اور وہ اسکی دسترس میں ہو۔۔۔۔۔

وفا کو سٹیج کے قریب رکتا دیکھ وہ بغیر کسی کی پرواہ کیے نیچے اترا اور اسکی طرف ہاتھ پھیلایا۔۔۔۔

اسکا پھیلا ہاتھ دیکھ کر وفا نے اپنا کپکپاتا ہاتھ اسکی چوڑی ہتھیلی پر رکھ دیا جو اسکے ہاتھ میں چھپ سا گیا تھا۔۔۔۔

اسفند نے فوراً جھکتے اسکے نرم و نازک ہتھیلی پر اپنے سلگتے لب رکھے۔۔۔

سب کی موجودگی میں اسکی اتنی بےباکی پر وہ جی جان سے کانپ گئی۔۔۔۔

سب نے اسفندیار کی اس شوخ حرکت پر زوروشور سے تالیاں بجائیں اور ہوٹنگ کی۔۔۔۔۔۔

اسفندیار نے مضبوطی سے اسکا ہاتھ تھامتے اسے اپنے سنگ سٹیج پر چڑھایا۔ اسکا بس چلتا تو وہ اسے باہوں میں اٹھا لیتا۔ مگر جانتا تھا اس حرکت پر وفا اسے بغیر دلہے ہونے کا لہاظ کیے گنجا کر سکتی ہے۔ اس لیے شرافت کا مظاہرہ کیا مگر۔۔۔

فوٹوشوٹ میں اسنے تمام کسر نکالی تھی۔ کبھی کمر پر ہاتھ رکھتا قریب کھینچ لیتا تو کبھی ایسے پوز بناتا کہ ادی جان پر بن آتی۔۔۔۔

آج اسکی انگلیوں کی گستاخیاں عروج پر تھیں۔ جس نے وفا کو بوکھلائے رکھا تھا اور ستم تو یہ تھا کہ وہ اسے گھور بھی نہیں پا رہی تھی۔ اگر کبھی گھور کر دیکھ بھی لیتی تو وہ آگے سے آنکھ مار کر اسے نظریں جھکانے پر مجبور کر دیتا۔۔۔۔

اسنے جیسے ہی اسکی پیشانی پر لب رکھے ۔ فیمیل فوٹوگرافر نے کلک کی آواز سے اس خوبصورت منظر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا۔

انہیں دیکھ کئی لوگوں کے دل سلگ رہے تھے جن میں شازیہ پیش پیش تھی۔۔۔۔

                       *********

سحر تاسف سے مومن کو دیکھ رہی تھی جو دھندلائی آنکھوں سے وفا کو اسفندیار کے نزدیک جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔

سحر کا دل اسکے لیے دکھ رہا تھا جو بھی تھا وہ بھائی تجاممھا اسکا مگر جو اسنے بویا تھا آج وہ وہی کاٹ رہا تھا۔۔۔

"کیا ہوا لالہ دل سلگ رہا ہے آپ کا, درد ہو رہا ہے ۔۔۔چچ چچ چچ کیا آپ نے سوچا ہے کہ کبھی ایسا ہی درد وفا کو بھی ہوا ہو گا۔۔۔ جب اپنے اسکے سامنے کسی اور کو اپنایا تھا۔ ابھی وفا آپ کی محرم نہیں تو آپ کو اتنا دکھ ہو رہا ہے۔۔۔

مگر ستم تو یہ تھا کہ جب آپ نے شازیہ سے شادی کی تب وہ آپ کی محرم تھی مگر آپ نے اس پر رحم نہ کیا۔۔۔

تو دیکھیں آج خدا نے بھی آپ پر رحم نہ کیا ۔ کہا تھا نہ میں نے کہ اتنا ظلم کریں جتنا خود سہ سکیں اور دیکھیں آج اپ تنہا رہ گئے کوئی نہیں ہے آپ کے پاس نہ آپ کا دوست نہ آپ کی محبت"

سحر کی باتیں مومن کے دل میں زہریلے تیر کی طرح پیوست ہوئی تھیں۔۔۔۔

وہ تو یہ کہتی چلی گئی مگر مومن سمبھل نہ سکا۔۔۔۔

"نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا میری گل رخ مجھے چھوڑ کر کسی اور کو نہیں چاہ سکتی۔ وہ تو صرف میری ہے۔ مجھ سے محبت کرتی ہے تو پھر وہ اسفند سے شادی کیسے کر سکتی ہے"

اسکا دل سلگ کر ریزہ ریزہ ہو رہا تھا۔ محبت تو کب کی سلگ گئی تھی۔ مگر محبت کو سلگانے والا بھی وہی تھا۔۔۔۔

اسکو لگا اسکے گرد آکسیجن ختم ہو گئی ہے اسنے کرتے کے بٹن کھولے اور کھینچ کھینچ کر سانس لینے لگا۔۔۔

 اسفندیار کو یوں وفا کے ہاتھ کو یوں لبوں سے چھوتے دیکھ اسے لگا کہ کسی نے اسکا سینہ چھلنی کر دیا ہو۔ اسے لگا وفا اس سے بے وفائی کر رہی ہے۔ مگر وہ یہ بھول بیٹھا تھا کہ بے وفائی کا مرتکب تو وہ خود ٹہرا تھا۔

وہ خود اپنی محبت کا قاتل تھا مگر قصور وار وفا کو سمجھ رہا تھا نادان۔۔۔۔

اس سے یہ سب دیکھا نہ گیا تو وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔

اسکے ذہن میں کیا چل رہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔

                        *******

سب سے زیادہ جلن کا شکار تو اس وقت شازیہ ہو رہی تھی جو وفا کو وہاں برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسکو بھسم کر دیتی۔۔۔

"اماں یہ سب کیا ہے وفا کیسے آ گئی دوبارہ "

اسنے عصمت بیگم پر چلاتے کہا۔۔۔

"مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ نعیمہ بھابھی نے کونسی گیم کھیلی ہے ہمارے ساتھ"

وہ تو خود ہونکوں کی طرح سارا منظر دیکھ رہی تھیں جو ناقابل یقین تھا۔۔۔

"اماں میں بتا رہی ہوں حویلی کی مالکن صرف میں ہوں اگر اس وفا نے بیچ میں ٹانگ اڑائی تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی"

اسنے سرخ ہوتی آنکھوں میں نفرت لیے کہا۔۔۔

تو عصمت بیگم اسکے عزائم سن ڈر گئیں۔۔۔۔

"یہ کیا کہ رہی ہو"

انہوں نے بےیقینی سے کہا۔۔۔

"سچ کہ رہی ہوں اچھا ہوا یہ خود چل کر جال میں آ گئی ۔ اب اسے رستے سے ہٹانے میں کوئی مشکل نہیں آئے گی۔۔۔"

اسنے اپنے خطرناک ارادے سے انہیں آگاہ کیا اور وہاں سے ہٹتی چلی گئی۔

اب اسکی نفرت کیا رنگ لانے والی تھی۔ یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔ جو کبھی ایک سا نہیں رہتا۔۔۔۔

                  ************

اجالا حسد بھری نظروں سے زریاب اور سحر کو دیکھ رہی تھی۔ وہ جو قاسم کو زریاب سمجھ کر اپنی عزت لٹوا بیٹھی تھی۔ اسکی عقل ابھی بھی نہ کھلی تھی۔

زریاب کو دیکھ اسکے دل میں ایک بار پھر اسے پانے کی چاہ انگڑائی لے کر اٹھی۔۔۔

"زریاب صرف میرا ہے صرف اور صرف میرا ۔ میں کبھی اسے تمہارا نہیں ہونے دوں گی سحر۔ بے شک اسکے لیے مجھے تمہیں رستے سے ہی کیوں نہ ہٹانا پڑے۔ مجھے زریاب کی دوسری بیوی بننا بھی منظور ہے"

وہ ناپاک ارادے لیے ایک بار پھر انکی زندگی تباہ کرنے کے لیے تیار تھی۔ 

ایک بار پھر انکی زندگی آندھیوں کی زد میں آنے والی تھی مگر اس بار وفا تیار تھی۔

                    **********

اسفندیار نے زرا دیر کے لیے بھی وفا کا سٹیج پر ہاتھ نہیں چھوڑا تھا جبکہ وفا اسے گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔ سبکی معنی خیز نظریں اسے شرم سے دوچار کر رہی تھیں۔۔۔۔

"اسفند میرا ہاتھ چھوڑو سب کیا سوچیں گے"

وفا نے آہستہ سے جھکتے کہا تو اسفند چوڑا ہوا۔۔۔

"تم لوگوں کو چھوڑو وہ تو کچھ نہ کچھ سوچتے رہتے ہیں۔ اگر انکی باتیں بھی ہم سوچیں گے تو وہ کیا سوچیں گے۔ تم بس اپنے سیاں پر دیہاں دو"

اسفندیار نے اسکا ہاتھ سینے سے لگاتے کہا۔۔۔

سب کو دبی دبی ہنسی ہنستے دیکھ وفا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا اور اسنے کس کے ایک کوہنی اسفندیار کے پہلو میں رسید کی تھی۔ جس سے اسکا پہلو اچھی طرح سیکا جا چکا تھا۔۔۔

اسفندیار بلبلا کر رہ گیا۔۔۔

"وفا یہ تو نے کیا کیا"

اسنے کمر کو سہلاتے کہا جہاں سے ابھی تک تپش نکل رہی تھی جبکہ عیشل کا اسے دیکھ قہقہ نکلا جو بےساختہ تھا۔ عمر کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔۔۔

اسفندیار ان دونوں کو دیکھ دانت کچکچا کر رہ گیا۔۔۔۔۔

کھانے کے بعد دودھ پلائی کا دور شروع ہوا جس میں عیشل ہی آگے لگ کر اسفندیار کی جیب لوٹنے کے چکروں میں تھی۔

اسکی باتوں نے اسفندیار کا دماغ گھوما کر رکھ دیا تھا۔ وہ اسکو گھور کر رہ گیا تھا جو ایک لاکھ سے ایک پائی بھی کم نہیں کر رہی تھی۔

اسنے عمر کو اشارہ کیا جو ہاتھ جوڑ کر اپنا پہلو بچا گیا کہ بھائی تم ہی سمبھالو۔۔۔۔

اسفندیار کی درگت بنتی دیکھ وفا اپنی ہنسی بمشکل کنٹرول کر رہی تھی جو نکلنے کے چکروں میں تھی۔

جس سے اسفندیار بخوبی واقف تھا۔۔۔۔

"اسفند تم اتنے کنجوس کیسے ہو سکتے ہو کیا تم اپنی بیوی کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے"

عیشل نے اسے تنگ کرتے کہا۔۔۔۔

"انکے لیے تو ہم اپنی جان بھی دے سکتے ہیں یہ پیسے کیا چیز ہیں۔ یہ تو ہمارے لیے لاکھوں کڑوڑوں سے بھی انمول ہیں جنہیں ہم دل کی سلطنت میں ملکہ بنا کر رکھیں گے"

اسفندیار نے وفا کو جان نثار نظروں سے دیکھتے کہا اور عیشل تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے اسکو ایک لاکھ سمیت گولڈ کی بریسلیٹ گفٹ کی۔۔۔۔۔

ایک بار پھر لڑکیوں نے حال کو اپنے زوروشور سے سر پر اٹھایا تھا۔۔۔۔

وفا اسفند کی ہر بات کو دل میں اترتا محسوس کر رہی تھی۔ وہ اتنی انمول نہیں تھی جتنا اسے اسفندیار کی چاہت نے بنا دیا تھا اور وہ اس پر اللّٰہ کا جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا۔۔۔۔

رخستی کا شور اٹھا تھا اور وفا جاتے سمے زریاب کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی شاید آخری دفعہ۔۔۔۔

پھر اسفندیار اسکا ہمیشہ خیال رکھنے کا وعدہ کرتا وفا کو خوشی خوشی رخصت کرا کر خان حویلی لے گیا تھا۔۔۔۔

                  ***********

اسکا استقبال پورے دھوم دھڑکے سے کیا گیا تھا یہی وہ عمارت تھی جو اسکی سسکیوں کی گواہ تھی اور شاید آج سے یہ اسکی خوشیوں کی گواہ بننے جا رہی تھی۔۔۔

نائلہ بیگم جو خود پر کب سے ضبط کر رہی تھیں کسی کا لحاظ کیے بغیر اندر چلی گئیں۔

عصمت بیگم اور شہناز بیگم نے بھی رکنا ضروری نہ سمجھا۔۔۔

جبکہ نعیمہ بیگم ان سب کو نظر انداز کیے عیشل کے ساتھ وفا کو لیے اپنے پورشن میں آئیں جو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔

وفا کو اسفندیار کے کمرے میں سیج میں بٹھایا گیا تھا۔ اسفندیار کا کمرہ صرف سفید گلابوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔

اسفندیار جانتا تھا کہ وفا کو سفید رنگ سے عشق تھا اور اسفند کو وفا سے۔۔۔۔

عیشل بھی اسے بٹھا کر جا چکی تھی۔

آنے والے لمحات کو سوچتے ہتھیلیاں نم ہوئی تھیں۔۔۔

اسکا دل یکبارگی دھڑکا جب اسفندیار ہلکی سی دستک دیتا اندر داخل ہوا اور پلٹ کر دروازہ لاک کیا جس سے وفا کا دل ڈھول کی طرح بجنے لگا۔۔۔

اسفندیار کا اسکی طرف بڑھتا ایک ایک قدم اسکے دل کی دنیا میں ہلچل پیدا کر رہا تھا۔۔۔

چونکی تو وہ تب جب اسفندیار بلکل اسکے سامنے بیڈ پر نیم دراز ہوا۔۔۔۔

"کیا سوچ رہی ہو یہی نہ کہ میرے ساتھ زندگی کا نیا آغاز کیسے کرو گی"

اسفندیار کے اسکی سوچ کو صحیح پڑھ لینے پر عہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"یوں مت دیکھو کوئی گدتاخی کر بیٹھوں گا ویسے بھی ان آنکھوں سے عشق ہے مجھے"....

اسفندیار نے دھیرے سے اسکی نیلی آنکھوں کو چھو کر کہا۔۔۔۔

تو وفا کی پلکیں کپکپا گئیں۔۔۔

"اسفند ایک دفعہ پھر سوچ کیا تم مجھ جیسی لڑکی کے ساتھ زندگی گزار لو گے جو تمہارے قابل۔۔۔۔"

"ہشششش"

اس سے پہلے کے وفا بات پوری کرتی اسفند نے اسکے لبوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کرا دیا۔۔۔۔

"کون کس کے قابل ہے یہ بعد کی باتیں ہیں فلحال تو یہ جان لو کہ اسفندیار کی ذات تمہارے بغیر ادھوری ہے۔ تم روح ہو میری۔ روح کے بغیر بھی کوئی مکمل ہوا ہے"

وفا اسکی بات پر اندر تک سرشار ہو گئی تھی۔۔۔

"تمہاری منہ دکھائی دینا تو میں بھول ہی گیا"

اسنے فوراً جیب میں سے مخملی ڈبی نکالی جس میں ہیرے کی باریک سی نتھ جگمگا رہی تھی۔

اسنے نتھ نکال کر وفا کی پہنی گئی نتھ کو اتارا اور اس ہرے کو اسکی تیکی ناک کی زینت بنایا۔۔۔

اور اس پر لب رکھے۔ وفا کا دل ایک دم تیزی سے دھڑک اٹھا۔۔۔۔

پھر ہیروں سے جڑی موتیوں کی پایل نکال کر اسکے پاؤں کی ذینت بنائی۔۔۔"بہت خوبصورت "

وفا کے منہ سے ایک دم نکلا۔۔۔

اسفند نے پایل پہنا کر لب اسکی پایل پر رکھے تو وفا نے فوراً پاؤں کھینچا۔۔۔

"تمہارے جسم کا کوئی حصہ بھی میرے لیے غیر اہم نہیً جانِ اسفند "

اسنے وفا کے ہاتھ تھامتے کہا۔۔۔۔

"جانتہ ہو میں نے یہ منہ دکھائی کیوں دی"

کیوں۔۔

"کیونکہ تمہاری ناک میں نتھ مجھے تمہاری قربت کے لیے اکساتی ہے اور پایل سے مجھے احساس ہو گا کہ تم میرے لیے سجی ہو"

میں چاہتا ہوں یہ چیزیں مجھے تم میں الجھائے رکھیں اور کہیں متوجہ نہ ہونے دیں تاکہ میں تم میں کھویا رہوں"

اکسے اس قدر پیارے اظہار پر وفا کی آنکھیں نم ہوئیں اور وہ اسکے گلے لگ گئی۔۔۔۔

"کیا خوبصورت اظہار ہے بھئی شکریہ کا مگر ہم خود آپ سے اپنا حق وصول کریں گے"

ادفند نے وفا کو اپنے گلے لگے دیکھ شریر لہجے میں کہا۔۔۔۔

اور اسے کندھوں سے تھام کر سامنے کیا اور اسکے زیورات اتارنے لگا۔۔۔۔

اسکا ہر ایک لمس وفا کے جسم میں کپکپی طاری کر رہا تھا۔۔۔۔

اسفند نے تمام روشنیاں بھجا دیں اور اس پر جھکا۔۔۔۔

پہلے اپنے سلگتے لبوں سے اسکی آنکھوں کو معطر کیا پھر ناک اور پھر ضبط کا بندھن توڑتے ہوئے وفا کے سرخ بھرے لبوں پر شدت سے جھکا تھا اور سانسوں کا تبادلہ لرنے لگا۔۔۔

وفا کی جان اسفند کی اتنی قربت پر لبوں میں آئی تھی۔ جب اس سے سانس نہ لی گئی تو اسنے اسفند کو جھنجوڑا جو کسی اور ہی جہاں میں جا چکا تھا اب اسے کہاں کسی کی پرواہ تھی۔۔

جب اسکی سانس پھولنے لگی تو وہ زرا سا اٹھ کر وفا کے سرخ چہرے پر اپنے قربت کے رنگ دیکھنے لگا۔۔۔

پھر کندھوں سے کب اسنے وفا کی روح تک کا سفر کیا پتا ہی نہ چلا۔۔۔۔

رات گہری ہونے کے ساتھ ساتھ اسفند کی شدتیں بھی عروج پر تھیں ۔ جن سے کبھی وفا گھبرا جاتی تو کبھی شرماتی۔۔۔

وقت بیتنے کے ساتھ ساتھاسفندیار وفا کی روح میں اترتا چلا گیا اور دونوں کو ایک کر دیا تھا جہاں سے انکو جدا کرنا ممکن نہ تھا۔۔۔۔

آخر عشق کے فراق میں تڑپتی دو روحوں کا ملن ہو چکا تھا۔ جس پر قسمت بھی خوش تھی۔

مگر آنے والی آزمائش میں کیا وہ ایک ساتھ رہ پائیں گے یا دوریاں انکا مقدر ٹہریں گی۔

آج کی صبح بہت حسین تھی خاص کر وفا کے لیے۔وہ کسمسا کر اٹھی تو اپنے آپ کو اسفندیار کی باہوں کی مضبوط گرفت میں پایا۔

ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اسفند نیند میں بھی اسکی حفاظت کر رہا ہو کہ کوئی وفا کو اس سے جدا نہ کر دے۔ آج کئی سالوں بعد وفا کو اتنی گہری سکون کہ نیند میسر ہوئی تھی۔ورنہ وہ تو آج سے پہلے بھول ہی گئی تھی نیند کہتے کسے ہیں۔۔۔۔

اسنے پہلے اپنے ارد گرد اسفند کی گرفت دیکھی اور پھر ایک نظر اسفند کو جو خود سکون سے اسے تکیہ سمجھ اتنے زور سے سینے میں بھینچ کر سویا تھا۔۔۔۔

اسنے اٹھنا چاہا تو اسفند نے گرفت اور مضبوط کر دی۔اسنے مشقوق آنکھوں سے اسفند کو دیکھا کہ آیا وہ سچ میں سویا ہے یہ محظ اسے تنگ کر رہا ہے۔

مگر اسکے چہرے کی معصومیت دیکھ وہ کھو ہی گئی تھی۔ بند آنکھوں پر لمبی پلکیں۔

(تمہاری اتنی لمبی پلکیں کیوں ہیں) اسنے سوتے ہوئے اسفندیار کی پلکوں کو ہلکے سے چھو کر محسوس کرتے کہا۔۔۔

پھر نظر اسکی مغرور کھڑی ناک پر گئی۔ جس پر اسنے کالج میں کبھی غصہ نہیں دیکھا تھا مگر جب بھی وہ وفا کے لیے لڑتا۔غصہ اپنی ناک پر سجائے رکھتا۔۔۔

وفا نے اسکی اونچی مغرور ناک کی ٹپ کو چوما۔۔۔۔

 اسفندیار کے دل میں گدگدی سی ہوئی۔ وہ جو وفا کے کسمسانے پر ہی اٹھ گیا تھا۔ وفا کی کاروائیوں کو اپنی ترچھی آنکھوں سے دیکھتے اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔

وفا کو لگا جیسے اسفند مسکرایا ہو۔ اسنے غور سے اسفند کو دیکھا جسکا چہرہ سیکنڈز میں سپاٹ ہوا تھا۔۔۔۔

وفا نے اسکی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلا کر دیکھا کہ کہیں وہ جاگ تو نہیں رہا۔ اسفند کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوتے دیکھ۔ اب اسکی نظر اسفند کے لبوں پر گئی تھی جو سختی سے آپس میں پیوست تھے۔

"کسنے سوچا تھا کہ مجھے تم سے یوں پیار ہو جائے گا کہ تمہاری پناہوں میں آ کر میں دنیا بھول بیٹھوں گی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اپنی زندگی کو ایک لفظ میں بیان کرو تو میں یقیناً تمہارا نام لوں گی اسفند"

وفا نے اسکے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر, اپنے ہاتھوں پر ٹھوڑی ٹکاتے اسے جان نثار نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔۔

جبکہ اسفند کا بند آنکھوں سے دل کیا کہ وہ اسکے خوبصورت لبوں کو معطر کر دے جسنے اتنا خوبصورت اور دلکش اظہار کیا تھا جو وفا اسکے اٹھے ہونے ہر تو کبھی نہ کرتی۔۔۔۔

وہ ابھی بھی ویسے پڑا رہا وہ وفا کے دل کی باتوں کو جاننا چاہتا تھا۔۔۔۔

"اور پھر آتے ہیں یہ لب"

اسنے اپنی شہادت کی انگلی کو اسکے لبوں پر ہلکے سے پھیرتے کہا۔۔۔۔

اسفندیار کی رات کی جنون خیزیاں سوچ کر اسنے بےساختہ جھرجھری لی۔شکر ہے وہ ابھی سویا تھا ورنہ وفا کا شرم سے گلنار چہرہ دیکھتا تو پتا نہیں کیا کرتا۔۔۔

"دل کرتا ہے ان لبوں کو۔۔۔"

وفا سے شرم کے باعث بولا نہ گیا تو اپنے لب دانتوں تلے دبا گئی جبکہ جو اسفند اسکی بات سننے کے لیے بےچین تھا اسنے وفا کی کمر پر گرفت سخت کرتے اسے آگے بولنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

اور وفا کو لمحہ لگا تھا سمجھنے میں کے وہ اٹھا ہوا ہے بس جان کر سوتا بن رہا ہے۔۔۔

"اسفند کے بچے جھوٹے کہیں کہ تم جاگ رہے تھے"

اسنے اسفندیار کے سینے پر مکوں کی برسات کرتے کہا جس پر اسفندیار کا کب سے ضبط کیا ہو قہقہ چھوٹا تھا۔۔۔۔

وفا منہ بسورتی ہوئی کمفرٹر میں چھپ گئی تھی۔ یہ وہ کیا کہنے چلی تھی۔ اسکا دل کیا شرم سے ڈوب مرے۔۔۔

"وفا میری جان چھپ کیوں رہی ہو میں آگے بھی سننا چاہتا ہوں کہ تم میرے لبوں کو کیا۔۔۔۔"

اسنے شرارت سے وفا کو چھیڑتے بات ادھوری چھوڑی جو اور اندر گھسی تھی۔۔۔

"چھونا چاہتی ہو ہے نہ"...

اسکے بات مکمل کرنے پر وفا کمفرٹر کے اندر سے جھنجھلائی یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔

"ہاہاہاہا"

اسفند کا اپنی معصوم بیوی کی شرم دیکھ پھر قہقہ نکلا تھا مگر اب کی بار وہ وفا کو کمفرٹر سے باہر نکالنے کی جدوجہد بند کرتا خود کمفرٹر میں گھسا تو وفا ہڑبڑا کر رہ گئی۔۔۔۔

اسنے بغیر وفا کی پرواہ کیے اسکے لبوں کو شدت سے اپنی دسترس میں لیا جبکہ وہ اسکا کندھا دبوچ کر رہ گئی۔۔۔

کچھ ہی منٹوں میں اسنے وفا کی سانس سوکھا دی تھی۔۔۔

وہ ہٹا تو وفا گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔

"میری بیوی کوئی خواہش کرے اور اسفند پوری نہ کرے یہ تو اس جہاں میں ممکن نہیں"...

اسفندیار نے دھیمے سے کہتے اسکے سر کے ساتھ سر ٹکرایا تو وہ اسکے سینے میں چھپ گئی جس پر اسفند نے زیرِ لب مسکراتی اسکے بالوں کو چوما۔۔۔۔

"چلو اٹھو فریش ہو جاؤ"

پہلے وفا فریش ہو کر آئی اور پھر اسفند۔ اب وہ دونوں نیچے جانے کے لیے تیار تھے۔۔۔

وفا نے ہلکے نیلے رنگ کا کلیوں والا فراک زیبِ تن کیا تھا, کانوں میں جھمکے اور لائٹ پنک لپسٹک لگائے بالوں پر نیلا ہی دپٹا ٹکائے وہ نیچے جانے کے لیے بلکل تیار تھی۔ اس نے آئينے میں خود پر آخری نگاہ ڈالی تو اپنے پیچھے نمودار ہوتے اسفندیار اور اپنے ایک ساتھ دکھتے عکس پر نظریں ٹہر سی گئیں۔۔۔

"پرفیکٹ"

اسفند کے منہ سے بےساختہ نکلا تھا۔ اسنے وفا کو اپنی جانب موڑا اور جھک کر اسکی نتھ کو لبوں سے چوما مگر اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ ٹھٹکا۔۔۔۔

"اسفند تم نے تو میری جھولی کو خوشیوں سے بھر دیا ہے مگر میں تمہیں کچھ بھی نہیں دے پائی۔۔۔"

وفا نے افسوس سے سر جھکاتے کہا۔۔۔

"دے سکتی ہو نہ"

اسفند نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔

"کیا"

وفا نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھتے پوچھا۔۔۔

"او ماڑا ام کو امارا پہلے والا وفا لوٹا دو او ماڑا ام خوش ہو جائے گی ام کو اور کچھ نہیں چاہیے۔۔۔"

اسفند نے وفا کے پرانے لہجے میں ایک سٹائل سے وعدہ لینے کے لیے ہاتھ آگے کیا تو وفا کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔

"امارا وعدہ ہے لالے کی جان ام تم کو اپنا زندگی کا آخری سانس تک چاہے گا اور پہلے جیسا بن جائے گا"

اسنے بھی اپنے ازلی انداز میں واپس آتے سینے پر ہاتھ ٹھوکتے اسکے ہاتھ میں ہاتھ دھرتے کہا اور اس سے سر ٹکرایا جس پر وہ دونوں ہی جی جان سے ہنس دہے اور نیچے کی طرف بڑھے جہاں وفا کی فیملی ناشتہ لے کر موجود تھی۔۔۔

                      *******

نیچے زریاب اور سحر کو دیکھتے وفا انکے گلے لگ کر ملی اور اسفند بھی زریاب سے گلے لگ کر ملا۔ وہ سب وہیں بیٹھ گئے جب نعیمہ بیگم نے انہیں ناشتے کے لیے بلایا۔۔

وہ سب ناشتے کے ساتھ ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ جب وفا کی نگاہ اجالا پر گئی۔ جو یک ٹک زریاب کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔

وفا کی اب تک اجالا سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن اب اسکو زریاب کی ہی طرف دیکھتے پا کر وہ کھٹکی تھی۔

کچھ تو تھا جس سے وہ لا علم تھی مگر کیا ۔۔

اسفند جو وفا کو کچھ کہنے لگا تھا اسے ایک ہی جانب دیکھتے پا کر اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اجالا کو زریاب کو بڑی گہری نظروں سے دیکھتا پا کر وہ بھی ٹھٹکا۔۔۔

اسنے وفا کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تو وہ چونکی۔اسنے آنکھوں ہی آنکھوں میں ٹھیک ہوں کا اشارہ کرتے اسفند کو مطمئن کیا۔۔۔۔

مگر وہ جانتا تھا کہ وفا کے دماغ میں کچھ تو چل رہا ہے جو وہ بعد میں جاننے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔

                   **********

ولیمے کا انتظام بہت شاندار انداز میں کیا گیا تھا۔ اسفند نے سب کچھ اپنی نگرانی میں کروایا تھا۔ مومن دو دن سے لاپتہ تھا ۔

جبکہ شازیہ وفا کو اتنی اہمیت ملتی دیکھ جل, کڑھ رہی تھی۔۔۔

اسنے اپنے گھٹیا عزائم میں اجالا کو بھی شامل کر لیا تھا۔

اب وہ دونوں کیا چال چلتیں۔ سب ہی اس سے بےخبر تھے۔۔۔۔

ایک دم لائٹس آف ہوئیں اور سپاٹ لائٹ میں اسفند اور وفا کی بہت خوبصورت انداز میں اینٹری ہوئی انکے ارد گرد شعلہ بازی شروع ہو چکی تھی۔

جبکہ وفا سلور گرے میکسی میں آسمان سے اتری کوئی پری لگ رہی تھی جو اس وقت سبکی نگاہ کا مرکز تھی جو اپنے شہزادے اسفندیار کے ساتھ چلتی شانہ با شانہ سٹیج تک پہنچی جہاں سروخ پھولوں کی پھوار نے انکا استقبال کیا۔۔۔۔

ان دونوں کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ وہ دونوں بار بار ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تو سب زوروشور سے ہوٹنگ کرتے جس پر وفا جھٹ نظریں ہٹاتی جبکہ اسفندیار کھسک کر اور وفا کے پاس ہو جاتا۔۔۔۔

ایسے ہی مزاح مستی میں خوبصورت فنکشن کا اختتام ہوا اور وہ سب حویلی واپس لوٹ آئے۔۔۔۔

                   **********

یہ اگلے دن کی بات ہے جب اسفند اور وفا ناشتے کے لیے ٹیبل پر نیچے آئے۔ آج تو مومن بھی ان میں موجود تھا مگر اسکا حال دیکھنے سے ہی کافی برا لگ رہا تھا سرخ سوجی ہوئی آنکھیں۔

کمیز کے بٹن کھلے ہوئے , بخار کی شدت سے سرخ چہرہ۔اسکی اندرونی حالت چیخ چیخ کر بیان کر رہا تھا۔

وہ ان دونوں کو دیکھ ضبط نہ کرتے اٹھنے لگا تو شازیہ نے کس کے اسکے ہاتھ پر ہاتھ دھرا اور اسے اٹھنے نہ دیا۔۔۔۔

جبکہ ان دونوں کے بیٹھتے ہی نائلی بیگم جو کہ قاسم کی موت کا قصوروار وفا کو سمجھتی تھیں تلملا کر اٹھیں۔۔۔۔

"بس بہت ہو گیا بھائی صاحب میں اپنے بیٹے کی قاتل کے ساتھ بیٹھ کر کھانے نہیں کھا سکتی نکالیں اسے باہر"

نائلہ بیگم نے تن فن کرتے ثاقب صاحب کو کہا جو خود بھی اسفندیار کی شادی سے خوش نہیں تھے۔۔۔۔۔

اسفندیار نے سر اٹھا کر انہیں غصے سے دیکھا جبکہ سب کھانے سے ہاتھ روک چکے تھے۔

ایک وفا ہی تھی جو آرام سے ناشتہ کر رہی تھی۔ جیسے کسی اور کی بات کی جا رہی ہو۔ وہ مزے سے جوس کا گلاس پیتی اسفندیار کے لیے بھی ڈال گئی جو پھپھو کو کچھ سخت کہنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔

وفا کے انداز پر وہ ٹھٹکا ۔۔۔۔

تو مطلب پرانی وفا واہس آ گئی تھی۔وفا نے اپنا وعدہ وفا کر دیا تھا۔

لیکن پھر سب سمجھ کر خود بھی مزے سے ناشتہ کرنے لگا جیسے ان دونوں کے علاوہ وہاں کوئی ہو ہی نہ۔۔۔۔

کبھی وہ ایک دوسرے کو کچھ پاس کرتے کبھی کچھ۔ جبکہ نائلہ بیگم کو خود کو نظر انداز کیے جانے پر آگ ہی لگ گئی۔۔۔۔

"بھائی دیکھ رہے ہیں آپ میری تو اس حویلی میں کوئی عزت ہی نہیں کہنے کو تو میں اس گھر کی بیٹی ہوں مگر اہميت آپ اس کل کی آئی لڑکی کو دے رہے ہیں۔ انہوں نے ٹسوے بہاتے کہا تو تینوں بھائی انہیں دلاسہ دینے لگے۔ اب تو انکا بیٹا بھی نہیں رہا تھا۔ وہ تینوں ہی انکا سہارا تھے۔۔۔

"مجھے نہیں پتا بھائی اسے نکالیں ورنہ میں خود دھکے مار کر اسے نکالوں گی اپنی حویلی سے"

اس سے پہلے کے اسفند کچھ کہتا ۔ وفا نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ دھرتے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

"اسفند تم ناشتہ کرو لوگوں کی باتوں میں دیہان مت دو۔ ویسے بھی آنٹی کی عمر ہو گئی ہے۔ کچھ بھی بولنے لگیں ہیں۔ میں نے انکی فضول ترین باتوں کا مائنڈ نہیں کیا۔۔۔۔ویسے بھی میں کونسا اپنی حویلی چھوڑ کر کہیں جا رہی ہوں, ہاں اگر کسی اور کو میرے یہاں رہنے پر اعتراض ہے تو وہ یہاں سے جا سکتا ہے۔"

اسکی اتنی صاف بےعزتی پر عیشل کا ایک دم قہقہ نکلا تھا جو وہ کھانسی میں چھپا گئی۔۔۔

جبکہ نائلہ بیگم تن فن کرتی اسکے پاس آئیں۔۔۔

"تیری اوقات کیا ہے لڑکی تجھے دو منٹوں میں نکال سکتی ہوں اپنی حویلی سے اگر ایک دفعہ بھی زبان چلائی تو"

انہوں نے تیز لہجے میں کہا۔۔۔۔

وفا نے انکے اتنے تیز بولنے پر اپنے کان میں انگلی پھیری جیسے انکی آواز اسے ناگوار گزری ہو اور آرام سے ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتی انکے مقابل آئی۔۔۔۔

اسکا انداز صاف مزاق اڑاتا تھا جس پر نائلہ بیگم کا منہ اہانت سے سرخ ہوا۔۔۔

"بہو مت بھولو وہ پھپھو ہے سب کی اور تم سے عمر میں بڑی ہیں۔ تمہیں انہیں کچھ بھی کہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا"

ثاقب صاحب اس پر گرجے تو نائلہ بیگم خوش ہوئیں۔۔۔۔

آپ سے تو میں بعد میں بات کرتی ہوں پہلے ان سے دو دو ہاتھ کر لوں تو جی پھاپے کٹنی او سوری پھپھو جی میری زبان پھسل گئی آپ بتائیں یہ حویلی کس کی ہے..؟

وفا نے ایک بار پھر انکے عزت کی دھجیاں بڑے میٹھے مگر تلخ لہجے میں اڑائیں تھیں۔۔۔

"میرے بھائیوں کی اور کسکی"

انہوں نے غرور سے گردن اکڑاتے کہا ۔۔۔۔

"کیا واقعی"

اسنے دلچسپ انداز میں پوچھا تو ثاقب صاحب غرور سے بولے۔۔۔۔

"یہ حویلی اس گاؤں کے سردار مومن خان کی ہے اور کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ میری بہن کو یہاں سے نکال سکے مگر ہم ضرور گستاخ لوگوں کو نکال سکتے ہیں۔۔۔۔"

ثاقب صاحب نے اسے دیکھتے ذومعنی لہجے میں دھمکی دی کہ وہ جب چاہیں اسے نکال سکتے ہیں۔۔۔

وفا نے ایک آئیبرو اچکا کر انکے انداز کو دیکھا اور انہیں داد دی واہ۔۔۔۔

وہ بلکل انکے سامنے والی کرسی پر آئی جہاں عمر بیٹھا تھا۔۔۔۔

"عمر پلیز"

اسنے عمر سے تھوڑی دیر کے لیے اسکی کرسی مانگی جو بلکل ثاقب صاحب کے سامنے تھی۔۔۔

"شیور بھابھی " وہ یہ کہتا اپنی جگہ خالی کرتا اٹھا اور وفا اسکی جگہ پر ثاقب صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے عین انکے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔۔

اسفند بھی اسکا شاہانہ انداز دیکھ دلچسپی سے سیدھا ہو بیٹھا کہ اب اسکی بیوی کیا گل کھلانے والی ہے۔۔۔۔

"تو کیا کہ رہے تھے آپ کہ آپ مجھے اور میرے شوہر کو جب چاہے اس حویلی سے نکال سکتے ہیں"

وفا نے انگلی گول گھما کر اس حویلی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔

"کوئی شک"

ثاقب صاحب طنزیہ لہجے میں بولے۔۔۔

"شک نہیں بلکہ یقین کرنے کی ضرورت ہے آپ کو کیونکہ آپ کو جس نے بھی یہ اطلاع دی ہے کہ اس حویلی کا مالک مومن ہے یہ غلط اطلاع ہے تصحیح کی جیے چچا جان اپنی"

اسنے ثاقب صاحب کو طنزیہ چچا جان چباتے ہوئے کہا۔۔۔۔

جس پر ثاقب صاحب طیش میں آ کر کھڑے ہوئے۔۔۔

"مطلب کیا ہے تمہاری ان باتوں کا لڑکی۔ میرا ضبط مت آزماؤ کے تمہیں اس حویلی سے دھکے مار کر باہر نکالوں"

انہوں نے منہ سے جھاگ اڑائی۔۔۔۔

نعیمہ بیگم نے کچھ کہنا چاہا تو اسفند نے مسکراتے ہوئے انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

تو وہ مخمصے کا شکار ہوئیں۔۔۔۔

وفا ثاقب صاحب کی نکالنے والی بات پر تمسخرانہ مسکرائی۔۔۔۔۔

"کیا واقعی ہے کسی میں اتنی ہمت کے وہ مجھے اس حویلی سے نکال سکے "

اسنے ایک آئی برو اچکاتے طنزیہ کہا تو ثاقب صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور انہوں نے دھاڑتے ہوئے مومن کو وفا کو حویلی سے باہر نکالنے کا کہا جو بت بنا بیٹھا تھا جسکی محبت اب زندہ ہوئی تھی۔جب وفا کی محبت دم توڑ گئی تھی۔

"ارے وہ کون ہوتا ہے مجھے نکالنے والا کیا مومن تم بھی نہ تم نے ان سب کو بتایا نہیں ابھی تک۔۔۔"

وفا نے دونوں کوہنیاں میز پر رکھ ہتھیلیوں پر اپنا منہ ٹکاتے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے پوچھا۔۔۔

تو مومن اتنے ماہ بعد اسکے یوں سیدھا اس سے مخاطب ہونے پر خوشگوار حیرت میں ڈوب گیا جبکہ ثاقب صاحب کے ساتھ سبھی حویلی والے حیرت سے مومن کو دیکھنے لگے جو وفا میں کھویا تھا جبکہ اسفند بھی ناسمجھی سے وفا کو دیکھ رہا تھا۔ وفا مومن سے کیا پوچھ رہی تھی۔ وہ خود بھی اس بات سے انجان تھا اور جاننا چاہتا تھا جب وفا ثاقب صاحب کے سامنے آتی بولی۔۔۔

"اس حویلی سے مومن تو کیا کوئی بھی مجھے نہیں نکال سکتا کیونکہ۔۔۔۔"

اسنے تمسخرانہ ہنسی ہنستے ثاقب صاحب کا مزاق اڑایا جو آنکھیں پھاڑے معاملہ سمجھنے میں لگے تھے۔۔۔۔

مومن نے آپ سب کو بتایا نہیں کہ اس حویلی کا اصلی مالک وہ نہیں میں ہوں۔۔۔وفا اسفندیار خان۔۔۔"

اسنے اپنے سینے پر دستک دیتے کہا تو ثاقب صاحب پیچھے کو لڑکھڑائے۔۔۔۔

"یہ جھوٹ یے"...

اسفندیار بھی سب کی طرح حیرت کا شکار تھا۔ سب ہی حیرت زدہ تھے کہ مومن نے جائیداد وفا کے نام کیوں کی۔۔۔۔

"ہوگا مومن اس گاؤں کا سردار مگر اس حویلی کی اصلی مالکن میں ہوں اور اسکی وجہ آپ کا بیٹا ہے چاہے تو پوچھ سکتے ہیں آپ اس سے مجھے کوئی اعتراض نہیں"....

مومن یہ کیا کہ رہی ہے۔۔۔؟ 

سب سے بڑا صدمہ تو شازیہ کو لگا تھا جبکہ مومن خاموشی سے نگاہیں جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔

"مومن بدبخت تم کچھ بولتے کیوں نہیں کہ جو یہ لڑکی بول رہہ ہے وہ محض ایک بکواس کے سوا کچھ نہیں"

ثاقب صاحب مومن کا گریبان پکڑ کر دھاڑے۔۔۔۔

"یہ سب سچ ہے بابا جان"

اسنے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو انہوں نے مومن کو رکھ کر ایک تھپڑ رسید کیا۔۔۔

"بدبخت تو نے ہمارے اباواجداد کی محنت کو پل بھر میں دو کوڑی کا کر دیا اور اسے کسی باہر والی کے نام کر دیا اور ہم سے مشورہ تک نا کیا"۔۔۔۔

وہ بےبسی سے بولے۔۔۔۔

"مومن تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ضرور اسنے تم سے دھوکے سے سائن لیے ہوں گے۔ یہ حویلی صرف ہماری ہے۔ اے لڑکی کاغذات واپس کر"....

نائلہ بیگم چیل کی طرح وفا پر جھپٹیں جنہیں اسفندیار نے بیچ میں ہی روک لیا تھا۔۔۔

"چچ چچ چچ برا لگا , درد ہوا , مجھے بھی ہوتا تھا جب آپ لوگ مجھ سے نوکروں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے۔ مگر کہتے ہیں نہ وقت ایک سا نہیں رہتا تو اب بھی وقت بدل چکا ہے۔ اس حویلی کی حکمران میں ہوں,جسے چاہے چٹکیوں میِں باہر نکال سکتی ہوں۔۔۔۔

اسنے چٹکی بجاتے کہا۔۔۔

"مگر نکالوں گی نہیں ورنہ آپ میں اور مجھ میں کیا فرق رہ جائے گا "

اسنے انہیں تمسخر سے دیکھتے کہا۔۔۔۔

"تم ایک نمبر کی دھوکے باز ہو میرے شوہر کو خوبصورتی کے جال میں پھنسا کر جائداد لوٹی ہے تم نے۔ ہم تم پر کیس کریں گے"...

شازیہ اسکے سامنے تن فن کرتی آئی اور اسکا ہاتھ بھینچتے کہا۔۔۔۔

"ہنہہ خوشفہمی ہے تمہاری مجھے تمہارے شوہر کو جال میں پھنسانے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ میرا خود کا شوہر اس قابل ہے کہ میری ہر منہ سے نکلنے والی خواہش کو جھٹ پورا کر دے رہی بات جائداد کی تو آپ سب مجھ پر کوئی کیس نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کے لارڈ صاحب مومن خان نے پوری عدالت سمیت جج صاحب کے سامنے کاغذات پر سائن کرتے پورے ہوش و حواس میں جائداد مہرے نام کی ہے اور اسکے گواہ تو چچا جان آپ خود بھی ہیں۔۔۔"

وفا نے شازیہ کو جھٹکتے کہا۔۔۔

وفا کے منہ سے ساری سچائی سننے کے بعد وہ کرسی پر ڈھے گئے۔ اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا کیونکہ ثاقب صاحب کے سامنے ہی مومن نے بھری عدالت میں وفا کے دیے گئے پیپرز سائن کیے تھے۔۔۔۔

"کہا تھا نہ مومن سوچ سمجھ کر سائن کرنا مگر یور بیڈ لک بازی پلٹ گئی"

اسنے پلٹ کر مومن کو آنکھ مارتے کہا جو یوں اپنے بےوقوف بننے پر غصے سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

پھر وہ شازیہ کے پاس آئی جو مالکن سے نوکرانی بننے کے صدمے میں تھی۔۔۔

"افسوس ہوا تمہارے لیے تم تو خود کو ملکہ سمجھ بیٹھی تھی مگر افسوس اوقات تمہاری نوکرانی سے بھی گئی گزری ہے"

اسنے شازیہ کو جلاتے اسکا شانہ تھپکتے کہا جو سرخ منہ کے ساتھ اسے کچا چبانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔

"او میں تو ڈر گئی"

اسنے اسکی خونخوار نظروں کو دیکھ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے کہا تو اسفند کا قہقہ نکلا تھا۔۔۔

"یہ جائداد میرے کسی کام کی نہیں میں اسے تایا جان کے حوالے کر دیتی مگر مجھے یقین ہے کہ اسکے بعد انکی زندگی کی کوئی گیرنٹی نہیں۔"

اسنے ابراھیم صاحب کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔

نا بابا نا"....

اسفند آج ہم نے آوٹنگ پر جانا تھا نہ چلو چلیں۔۔۔

اسفند بھی اٹھ کر اسکے پاس آیا اور وہ نکلنے لگے جب عیشل بھی بھاگ کر انکے پاس آئی۔۔۔۔

"کیا بات ہے جیجو جانے کی اتنی جلدی وہ بھی کیلے کیلے۔ عمر اور میں بھی ساتھ چل رہے ہیں"

اسنے شرارت سے اسفندیار کو چھیڑتے کہا جس پر وہ اسے گھور کر رہ گیا۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ وفا کو دیکھتا انہیں ساتھ لے جانے سے منع کرتا وفا کندھے اچکا کر عشل کے ساتھ باہر نکل گئی۔۔۔

"عمر باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا ہے"۔۔۔۔

وفا یہ کہتے ہی یہ جا وہ جا۔۔۔۔

اسفندیار منہ کھولے اسے جاتے دیکھنے لگا ۔۔۔

اسکا مطلب یہ اسکی بیوی کی ملی بھگت تھی جو اب جاتے ہوئے اسے مڑے بغیر دو انگلیاں دیکھاتے ویکڑی کا اشارہ کر رہی تھی۔ وہ بھی بنا دیر کیے باہر لپکا۔۔۔۔

جبکہ انکے جانے بعد پیچھے سب اپنا ٹوٹا دل لیے کمرے میں بند ہو گئے جبکہ نائلہ بیگم کا بین جاری تھا۔۔۔۔۔

                   ************

وہ چاروں ہوٹل کے اوپن ایریا میں بیٹھے آرڈر کا ویٹ کر رہے تھے جب عیشل نے وفا سے پوچھنا شروع کیا۔۔۔۔

"وفا یہ جائداد کا کیا ماجرا ہے۔ تم نے بازی پلٹی تو پلٹی کیسے میں تو اب تک حیران ہوں"

عیشل نے آنکھیں بڑی کرتے پوچھا تو وہ کھلکھلا کر ہنسی جبکہ باقی تینوں اسے غور سے سننے لگے۔۔۔

"جب مومن نے مجھ سے معافی مانگی تھی تب میں نے اس سے کچھ پراپرٹی پیپرز سائن کروائے تھے جن میں خلع کے کے پیپرز بھی تھے۔

میں نے مومن کو کہا تھا کہ وہ ہوش و حواس میں پیپرز سائن کرے مگر اسکی بدقسمتی کہ لیں یا ہماری خوشقسمتی کہ اسکے حواس اس وقت اتنے معطل تھے کہ اسنے دھڑا دھڑ پیپرز سائن کر کے خود کے ہی پیروں پر کلہاڑی مار لی

 اور جہاں تک بات ہے پراپرٹی کی مجھے اسکی ضرورت نہیں۔ میں اسے بابا جان (اسفندیار کے بابا ابراھیم) کے نام کروا چکی ہوں مگر حویلی والے اس بات سے انجان ہی رہیں گے تاکہ بابا جان کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو"....

"ویلڈن"

عمر نے تالیاں بجاتے کہا تو اسنے سر تسلیم خم کر کے داد وصول کی۔۔۔

اسفندیار اسے ابھی بھی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"کیا"

وفا نے انجان بنتے پوچھا۔۔۔۔

" "وفا اس پراپرٹی پر تمہارا حق تھا تم نے اس پراپرٹی کو بابا کے نام کیوں لگایا"

 اسفند نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

" کیونکہ ہم میں کوئی الگ نہیں کوئی پرایا نہیں ہم سب ایک ہیں تو چاہے میرے نام ہو یا بابا کے ایک ہی بات ہے"

 وفا نے کچھ اور کہنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔

 "وفا ویسے ایک بات ہے کہ جب تم نے پھپھو کو پھاپےکٹنی کہا تو مجھے بہت مزہ آیا تھا"...

 عیشل نے قہقہ لگاتے کہا جبکہ اسفند اور عمر اسے گھور کر رہ گئے کیونکہ تھیں تو وی ان کی پھپھو ہی نہ جب کہ عیشل زبان دانتوں تلے دبا کر رہ گئی اور وفا کا قہقہ گونجا تھا۔۔۔۔

 "عمر کہنا تو نہیں چاہیے لیکن شازیہ اور نازیہ کہیں سے بھی تمہاری بہنیں نہیں لگتیں"۔۔۔۔

 عیشل نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔

" ویسے یہ بات بھی کہنی تو نہیں چاہیے لیکن بیوی تو تم بھی میری کہیں سے نہیں لگتی کہاں میں معصوم اور کہاں تمہاری ٹر ٹر کرتی زبان"۔۔۔

 اس نے بھی دوبدو جواب دیا تھا جس پر عیشل تلملا کر رہ گئی۔۔۔۔

 جبکہ اس کی بات پر ان سب کا مشترکہ قہقہ گونجا تھا۔۔۔۔

               *********

مومن آج پھر ڈیرے پر شراب پی کر مدہوش پڑا تھا۔۔۔

" گل رخ یہ تم نے میرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا تم نے مجھے دھوکا دیا وہ بھی میری نظروں میں نظریں ڈال کر اس کی سزا تمہیں ملے گی میں تمہیں اس دنیا سے چھین لوں گا اور تمہیں یقین دلاؤں گا کہ میرے سے زیادہ تمہیں کوئی نہیں چاہ سکتا۔۔۔۔

 مومن نے غرور سے کہا۔۔۔۔

 جب کہ وہ یہ بھول چکا تھا وفا کی محبت تو کب کی مر گئی تھی اب تو وہ اسفندیار کے عشق کے رنگ میں رنگ چکی تھی۔۔۔

" گل رخ تمہیں میرا ہونا ہی ہوگا میں تمہارے اندر موجود اپنی محبت جگا کر ہی رہوں گا اس کے لیے چاہے مجھے تمہارے اور اپنے درمیان تمام دوریاں ہی کیوں نہ مٹانی پڑیں میں مٹا دوں گا اور پھر اسفندیار بھی تمہیں نہیں اپنائے گا جب کہ میں تمہیں شان سے قبول کروں گا وہ بھی سب کے سامنے"

 اس نے نشے میں چور اپنی منصوبہ بندی طہ کر لی تھی مگر وہ اللہ کے کاموں سے انجان تھا۔۔۔۔

              **********

 اسفند تمہیں یاد ہے نہ کل ہم نے امی کے گھر جانا ہے مکلاوے کی رسم کے لئے۔۔۔

 جی جان اسفند مجھے سب کچھ یاد ہے کبھی ہم بھی آپ کی باتوں کو بھول سکتے ہیں مگر آپ ہمیں ضرور بھول رہی ہیں اس نے وفا کا ہاتھ کھینچ کر اس کو اپنے اوپر گرایا۔۔۔۔

 وفا ہلکی سی چیخ مار کے اس کے اوپر گری اور دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر خود کو اٹھانا چاہا مگر اسفند نے اسے اپنی محبت بھری گرفت میں لے لیا تھا اور اس پر جھکتا چلا گیا یہاں تک کہ اس نے تمام روشنیاں بھجا دیں اور چاند ان کو دیکھ کر مسکرانے لگا مگر قسمت ایک اور آزمائش لیے کھڑی تھی۔۔۔۔

                ********

شازیہ جلے پیر کی بلی کے انداز میں ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی۔ اس کا غم کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وفا اس پوری حویلی کی مالکن کیسے بن سکتی ہے۔۔۔

 اجالا نے اسے الجھن سے دیکھا جو یہاں وہاں مارچ کرتی اس کی بھی نظریں گھما رہی تھی۔۔۔۔

" کیا تم ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتی تمہیں ادھر ادھر چکر لگاتے دیکھ میری آنکھیں ایک جگہ سے ہل گئی ہیں مگر ابھی تک تمہاری ٹانگوں میں پانی نہیں پڑا"

 اجالا نے اکتائے ہوئے لہجے میں شازیہ پر طنز کیا۔۔۔

" تم اتنی آرام سے کیوں بیٹھی ہو کیا تم کچھ نہیں کرنا چاہتی کیسے تم وفا کو اس پوری حویلی کی مالکن بنے ہوئے دیکھ سکتی ہو۔ تم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر اتنا چل کیسے ہو سکتی ہو جب کہ بازی ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔۔۔"

شازیہ چبا چبا کر بولی۔۔۔

" یہی فرق ہے تم میں اور یہی فرق ہے مجھ میں تم جذبات سے سوچتی ہو جبکہ میں دماغ سے "

اس نے اپنے دماغ پر دستک دیتے کہا تو شازیہ اسے اچنبے سے دیکھنے لگی۔۔۔

" تم کہنا کیا چاہتی ہو"

 شازیہ نے حیرت سے پوچھا

" یہی کہ جتنا ہوشیار وفا اپنے آپ کو سمجھتی ہے اتنی وہ ہے نہیں ایک بازی اس نے جیتی اور اگلی بازی ہم جیتیں گے اور وہ منہ کھولے دیکھتی رہ جائے گی".....

" ایسا کیا سوچا ہے تم نے "

شازیہ نے اس سے دلچسپی سے پوچھا۔۔۔۔

" کل وفا اپنے گھر جا رہی ہے اور ہم پرسوں اسے مکلاوے کے لیے لینے جائیں گے"

" لیکن کیوں اور ہمیں کون لے کر جائے گا"

اجالا کی بات ختم ہوتے ہی شازیہ نے ہے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔

" جانا تو ہم دونوں کو پڑے گا کیوں کہ اگر ہم نہ گئے تو ہمارا پلان سکسیس فل نہیں ہو پائے گا اور اس بات کو یقینی تم بناؤ گی اور جانے کا انتظام بھی تم کرو گی کیونکہ میں جانتی ہوں تم ایکٹنگ میں سوا سیر ہو"

 اجالا نے شازیہ کو آنکھ مار کے کہا۔۔۔

" وہ تو میں کر ہی لوں گی مگر ہم وہاں جا کر کریں گے کیا"

 شازیہ نے جھنجھلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔

" وہاں کی ایک نوکرانی کو پیسے دے کر ہم خرید لیں گے اور اس سے میں زریاب کو ایک کمرے میں بلاواوں گی یہ کہہ کر کے سحر نے بلایا ہے اور جب زریاب کمرے میں آ جائے گا تو میں اپنے کپڑے پھاڑ کر اس پر یہ الزام لگا دوں گی کہ اس نے میرے سے زبردستی کی کوشش کی ہے اور پھر کیا ہے میرا نکاح ہو جائے گا"

 اور وفا کے بھائی پر ایک اور الزام لگ جائے گا جس سے وہ کسی سے نظر ملانے لائق نہیں رہے گی گھر میں بھی اسے تانے ہی ملیں گے۔۔۔۔

شازیہ اس کے پلین پر عش عش کر اٹھی۔۔۔

" یہ ہوئی نہ بات اب دیکھنا کیسے وفا کی عزت کو ہم سب کے سامنے دو کوڑی کا کرتے"....

 شازیہ نے شیطانی لہجے میں کہا۔۔۔

" اور مومن بھائی تو کریں گے ہی میرا یقین کیونکہ ان کی بہن جو ہوں میں اور اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی"

 اس نے اپنا مکروہ منصوبہ بتاتے کہا جس پر وہ دونوں آنے والے وقت سے انجان ہنس پڑیں جو وفا کے لیے بہت ہی کٹھن ثابت ہونے والا تھا۔۔۔۔

                  ******

اسفند یار اور وفا,وفا کے گھر رہنے آگئے تھے۔۔

 وہاں کھانا کھانے کا دور چلا اور پھر اسفند زریاب سے باتیں کرنے لگا۔ رات دیر تک وہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے پھر اسفند وفا کو کمرے میں آنے کا اشارہ کرتا وفا کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔

 جس پر وفا اسے زبان چڑاتی رہ گئی جب کہ وہ اس کو گھور کر کمرے میں چلا گیا۔۔۔

 وہ کافی دیر سے وفا کا انتظار کرتا رہا مگر وفا تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی آخر کار اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور وہ کمرے سے باہر نکلنے لگا جب وفا کمرے میں داخل ہوئی تو وہ اس سے ناراضگی کا اظہار کرتا بالکنی میں چلا گیا۔۔۔۔

 جبکہ وفا اسے منانے کا سوچتی اس کے پیچھے چل پڑی جہاں وہ چاند کو تک رہا تھا۔۔۔۔

وفا نے اسے پکارا مگر وہ چاند کو دیکھتا رہا اس نے پلٹ کر دیکھا  نہیں یہ ناراضگی کا صاف اظہار تھا۔۔۔

" اسفند"

 وفا دو قدم اور آگے بڑھ گئی اور بولی۔۔۔

"اسفندیار اب میری طرف دیکھو کی بھی نہیں اتنی ناراضگی"۔۔۔

 اسفند کے دل نے تو پہلی پکار پر ہی اس کی طرف ہمکنا شروع کردیا تھا مگر وہ دوسری طرف منہ کیے کھڑا رہا وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وفا اسے کس انداز میں مناتی ہے۔۔۔۔

 تیسری پکار پر بھی وہ جب وہ کچھ نہ بولا تو وفا نے اس کی پشت کو گھور کر دیکھا اور اس کے بالکل قریب آ کر اس کے کان میں جھک کر بولی۔۔۔

 "اسفی اگر میں تمہارے اتنے قریب بھی آ جاؤ تب بھی نہیں بولو گے"

 اس نے پیچھے سے آ کر اسے کس کر گلے لگاتے کہا۔۔۔

 اسفندیار کے ضبط کی انتہا بس یہاں تک ہی تھی۔۔۔

 اس نے وفا کا ہاتھ کھینچ کر آگے کرتے اسے جھٹکے سے اپنے سینے میں بھینچا اور اس کے لبوں پر شدت سے جھکا یہاں تک کہ اس کی سانسیں اپنی سانسوں میں انڈیل لیں تھیں۔۔۔۔

 یہاں تک کہ وفا کی سانسیں سینے میں اٹکنے لگیں۔۔۔

 وہ جھٹکے سے اس سے الگ ہوا۔۔۔

" میرے عشق تم سے ایک وعدہ چاہتا ہوں کبھی مجھے چھوڑ کر مت جانا میرا یقین کرنا کروگی نا"

 اس نے پتا نہیں کس اندیشے کے تحت پوچھا۔۔۔

" کروں گی بےانتہا کروں گی اور زندگی کی آخری سانس تک صرف تمہیں پر یقین کروں گی"

 وفا نے اس کو یقین کا مان بخشا تھا جس پر دونوں ایک دوسرے سے سر ٹکائے مسرت سے آنکھیں بند کر گئے۔۔۔۔

                 *******

 صبح نعیمہ بیگم جب عیشل کے ساتھ ان لوگوں کو لینے آئیں تو ان کے ساتھ شازیہ,مومن اور اجالا کو دیکھ کر وہ سب حیران تھے مگر انہوں نے پوچھنا ضروری نہ سمجھا۔۔۔

 وہ سب کھانا کھا رہے تھے جب اجالا نے جان بوجھ کر اپنے ڈریس پر کولڈرنک گرا لی اور سحر کے ساتھ گیسٹ روم کے واشروم چلی گئی۔۔۔۔

 اسفند اور وفا باہر باغیچے میں باتیں کرنے اور چہل پہل کرنے نکل پڑے۔۔۔

 جبکہ عیشل مومن اور نعیمہ بیگم اندر ان سب کے ساتھ بیٹھے تھے جہاں کام والی نے زریاب کو سحر کے کمرے میں بلانے کا پیغام دیا۔۔۔۔

دوسری طرف اجالا نے سحر کو اپنے لئے ایک ڈریس لانے بھیج دیا تھا۔۔۔۔ اور خود کمرے کی لائٹ بند کرکے اپنے آستین کا بازو پھاڑ دیا۔۔۔۔

 جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو اندھیرے نے اس کا استقبال کیا اور اجالا کی چیخ پر وہ ہر بڑا کر لائٹ آن کر گیا جہاں اجالا کو اس حالت میں دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا۔۔۔۔

 اور غصے سے فوراً چادر لے کر اس کی طرف بڑھا تھا۔۔

                    ****

 دوسری طرف  اسفندیار اور وفا جو باہر چہل قدمی کر رہے تھے اجالا کے چیخنے کی آواز پر اندر کو بھاگے جہاں سب کمرے میں داخل ہوئے۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ سب حیران تھے۔۔۔

اجالا نے اندر آنے والے کے دیکھ چیخنا شروع کر دیا تھا۔۔۔

مگر جوں ہی سامنے والے نے کمرہ روشن کیا اجالا کے سر پر ساتوں آسمان ٹوٹ پڑے تھے زریاب کی جگہ مومن کو دیکھ کر, جو خود اسکی حرکت پر حیران پریشان کھڑا تھا۔ اسے لمحہ لگا تھا سمجھنے میں کہ کمرے میں اکیلی اجالا نے کیا پلین کر رکھا ہے۔ باہر ملازمہ کا زریاب کو بلانا اور اب یہ سب اسکا دماغ گھوم چکا تھا۔۔۔۔

وہ فوراً آگے بڑھا اور غصے سے اپنے تن سے چادر اتار کر اجالا پر لپیٹی اور اسے کس کر تھپڑ رسید کیا۔۔۔

"شرم آنی چاہیے تمہیں اپنی پہلی غلطی سے ہی سیکھ جانا چاہیے تھا مگر تم ابھی تک نہیں سدھری تف ہے تم پر"

مومن نے اسکا بازو دبوچ کر کہا ۔۔۔۔

شازیہ ابھی تھپڑ سے ہی نہ سمبھلی تھی کہ مومن کی فولادی گرفت پر بلبلا کر رونے لگی اسے لگا اسکا بازو جڑ سے اکھڑ جائے گا۔۔۔

سب ہی اندر آ گئے تھے اور وہ بغیر کسی کی طرف دیکھتا اسکو گھسیٹ کر لیتا نکلتا چلا گیا ۔

پیچھے وفا بھی ان سب سے معازرت کرتی۔ حویلی والوں کے ساتھ نکلتی چلی گئی۔۔۔

سب ہی معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر سمجھ کسی کو کچھ نہ آیا تھا۔

شازیہ بھی ناخن چبائے جا رہی تھی۔

" انہوں نے تو زریاب کو بھیجا تھا پھر مومن وہاں کیسے پہنچا یہ انکی سمجھ سے باہر تھا"۔ 

"پتا نہیں اس اجالا کا کیا ہوا ہو گا کہیں اسنے میرا نام نہ لے لیا ہو پلیز اللّٰہ مجھے بچا لے مومن تو جاتے وقت ہی اتنا خونخوار لگ رہا تھا".....

وہ منہ ہی منہ میں صورتوں کا ورد کرنے لگی۔

جب وہ سب حویلی پہنچے تو سب بڑے پریشان حال کھڑے تھے۔

"کیا ہوا ہے شہناز مومن بچی کو یوں کیوں لے آیا "

نعیمہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔

"پتا نہیں کیا ہوا بھابھی گھر سے تو سب ٹھیک ہی نکلے تھے آپ بتائیں وہاں کیا ہوا جو وہ اتنے غصے میں آیا"...

شہناز بیگم نے انسے پوچھا تو انہوں نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔۔۔۔

پندرہ منٹ بعد مومن نہایت غصے میں سرخ منہ کے ساتھ اجالا کے کمرے کا دروازہ دھاڑ سے بند کرتا ہوا نکلا اور ان سبکے پاس آتا ہوا بولا۔۔۔

"دو دن تک نہ اسکے کمرے کا دروازہ کھلنا چاہیے نہ ہی اسکو کوئی کھانا دے گا اگر کسی نے بھی میری بات سے اختلاف کیا تو اپنی بری حالت کا ذمہدار وہ خود ہو گا"

وہ غصے سے سب پر تنقيدی نگاہ ڈال کر بولا۔۔۔

"مومن بیٹا ہوا کیا ہے"

شہناز بیگم کی بات پر اسکے باہر جاتے قدم ساکت ہوئے اور وہ بغیر مڑے بولا۔۔۔

"معاف کی جیے گا امی اگر آپ نے اجالا کی صحیح تربیت کی ہوتی تو آج مجھے اسکی بدکرداری کے شرمناک مظاہرے کسی غیر کے گھر نہ دیکھنے پڑتے جس سے میں اپنے آپ سے نظر ملانے کے قابل بھی نہیں رہا"

وہ کرب سے کہتا حویلی سے نکلتا چلا گیا پیچھے شازیہ بیگم گم صم کھڑی رہ گئیں جبکہ ثاقب صاحب کے دل میں درد کی لہر اٹھی تھی جسے ضبط کرتے وہ کمرے میں بند ہو گئے تھے۔

 شازیہ نے اپنی گلو خلاصی پر چین کی سانس لی۔۔۔۔

اب وہ اجالا سے کل ہی ملنے کا سوچتی اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ اسفندیار پرسوچ نظروں سے وفا کو دیکھ رہا تھا جو اوپر جا رہی تھی نہ ہی اسنے آج کچھ کہا تھا نہ ہی کسی قسم کا ری ایکشن دیا تھا۔۔۔

                     *********

دو دن بعد شازیہ اجالا سے اس کے کمرے میں ملنے آئی تھی مگر وہاں اجالا کا سوجا ہوا سرخ چہرہ اور بکھرے بال دیکھ کر وہ بھی ڈر گئی تھی۔۔۔۔

" ارے اجالا یہ کیا ہوا کس نے کیا"

 شازیہ نے اس کی ابتر حالت دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

اسکے سوال پر وہ بہت تمسخرانہ ہنسی ہنستے ہوئے بولی۔۔۔

" اور کون کرسکتا ہے تمہارے سامنے ہی تو بھائی مجھے گھسیٹتے ہوئے لے کر آئے تھے اور یہاں کمرے میں لا کر انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا شازیہ مجھ پر اپنی بہن پر"۔۔۔

 اس نے سرخ سوجی ہوئی آنکھوں سے نفرت لئے کہا۔۔۔

" اور یہ سب اس وفا کی وجہ سے ہوا ہے اگر وہ میرے سامنے ہوتی تو میں اسے مار ڈالتی کاش زریاب اس کا بھائی نہ ہوتا"...

 اس نے نفرت سے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا جب کہ شازیہ اس کی ساری رام کتھا دانتوں میں انگلیاں دبائے سن رہی تھی۔۔۔۔

" مگر میں اب تک یہ نہیں سمجھ سکی جب میں نے بلایا زریاب کو تھا تو وہ مومن بھائی کیسے پہنچے کس نے بھیجا انہیں زریاب کی جگہ تم تو باہر ہی تھی نہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا وہاں بولو"۔۔۔

 اس نے شازیہ کو جھنجھوڑتے ہوئے پاگل ہوتے کہا جو کہ اس کے اس طرح ہاتھ لگانے پر پوری طرح ہل لگی تھی۔۔۔۔

" چھوڑو مجھے چھوڑو کیا پاگل ہوگئی ہو میں بھلا کیسے بتا سکتی ہوں میرے سامنے تو بس ملازمہ نے زریاب کو بلایا تھا لیکن مومن کے فون پر میسج آنے سے وہ اٹھ کر اندر چلا گیا تھا میں نہیں جانتی کہ آگے کیا ہوا"... شازیہ نے بادل نخواستہ سچائی بیان کی۔۔۔

 دونوں کی ہی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا وہ ابھی اسی کشمکش میں تھیں جب وفا گلا کھنکارتے ہوئے اندر آئی۔۔۔۔

"میں کچھ کہوں کیا"۔۔۔۔

 اس نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے پوچھا۔۔۔

 دونوں ہی اسے اس کمرے دیکھ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھیں۔۔۔۔

" ویسے بہت افسوس ہوا تم لوگوں کی غلیظ پلین پر پانی پھر جانے کا مگر کیا کرتی میں بات جو میرے بھائی کی تھی جسے کوئی بات تو کیا کوئی بری نگاہ سے بھی دیکھے میں برداشت نہیں کر سکتی اور یہاں تو تم سیدھا سیدھا میرے بھائی پر ہراساں کرنے کا الزام لگانے جا رہی تھی۔اللہ یہ کیسے برداشت کرتی میں, تو میں نے تمہاری ہی بازی تم پر الٹ دی کیسی لگی میری چال"۔۔۔

 اس نے ان دونوں کو آنکھ مارتے اوپر سے نیچے تک جلا کر راکھ کر دیا تھا۔۔۔

 "کیا ابھی بھی نہیں سمجھے تو میں بتاتی ہوں جب تم نے اس رات کو یہ پلاننگ کی تھی تو میں نے تم دونوں کی باتیں سن لی تھیں اور تم لوگوں کے آنے سے پہلے ہی میں نے اپنے ملازموں کو یہ بات سمجھا دی تھی کہ اگر کوئی لالچی لڑکی آپ لوگوں کو لالچ دے تو اس کی باتوں میں خود بھی مت آنا اور نہ کسی کو آنے دینا اور دیکھو انہوں نے ایسا ہی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس ملازمہ نے زریاب کو بلایا تو تھا مگر تمہارے نہیں سحر کے کمرے میں اور مومن کو کس نے بلایا یہ تم لوگ ابھی بھی نہیں سمجھ سکے ہو گے چلو وہ بھی میں بتاتی ہوں۔۔۔

 مومن کو میں نے اپنے فون سے میسج کیا تھا کہ وہ گیسٹ روم میں آجائے۔

جہاں تم اپنا مکروہ چہرہ لیے کھڑی تھی مقصد صرف تمہیں اور تمہارے بھائی کو احساس دلانا تھا کہ دوسروں کی عزت کتنی اہم ہوتی ہے اور میرا خیال ہے اس واقعہ سے تم دونوں اچھی طرح جان گئے ہو گے کہ ایک عزت ہی ہے جس سے انسان دوسروں کی نظر میں مقام حاصل کرسکتا ہے مگر تمہیں دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ رسی جل گئی مگر بل پھت بھی نہیں گئے۔۔۔

 بہتر ہے کہ سنبھل جاو ورنہ گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو مجھے انگلی ٹیڑھی کرنی بھی آتی ہے اس نے شازیہ اور اجالا کو تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اور وارننگ دیتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔

 پیچھے ان لوگوں کا وفا کی باتوں سے انگ انگ سلگ چکا تھا۔۔۔

                ********

جیسے ہی وہ ان کے کمرے سے باہر نکلی تھی اسفندیار اسے ہاتھ سے کھینچتا ہوا کمرے میں لے کے آیا تھا اور اسے کمرے میں لاتے ہی دیوار کے ساتھ پن کیا اور بولا۔۔۔

" اے لڑکی کیا تمہیں کبھی کسی نے بتایا ہے کہ تم خوبصورت ہو"۔۔۔

 اس نے وفا کو والہانہ انداز میں تکتے ہوئے کہا۔۔۔

" ہاں ہے ایک سر پھرا عشق جس کی نظریں مجھے بتاتی ہیں کہ میں اس کے لیے کتنی خوبصورت ہوں اور یقین مانو اس کے علاوہ مجھے کسی کی تعریف چاہیے بھی نہیں کیونکہ اس کا ساتھ ہی میرے لئے تاحیات ہے"....

 وفا نے اس کے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے اس کے سر سے سر ٹکراتے کہا۔۔۔

 اسفندیار اس کے اتنے خوبصورت اظہار پر اس کے ہونٹوں پر جھکا تھا اور گھونٹ گھونٹ اس کی سانسیں پینے لگا تھا۔۔۔

" راحت جان ہو تم میری"۔۔۔ اسفندیار نے اسے ایک ہی سطر میں وفا کو سرخرو  کیا تھا جس پر وہ اندر تک سرشار ہوگئی اور اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔

 آنے والے کل سے انجان جو نہایت ہی سازشوں بھرا تھا۔۔۔

                    ****

دن گزرتے گئے اسفندیار اور وفا کی محبت دن بدن بڑھتی چلی گئی جسے دیکھ مومن کی آنکھوں میں مرچیں بھرنے لگیں تھیں۔

 اس کا دل درد سے پھٹت تھا۔۔ اسے رہ رہ کر اپنے خسارے کا احساس ہوتا تھا اب تو وہ راتوں میں بھی اندھیرے میں سر پٹختا رہتا تھا روتا تھا وہ وفا کے لیے مگر وہ خالی ہاتھ ہی رہ گیا تھا۔۔

 نہ اسے کچھ ملنا تھا نا اسے کچھ ملا تھا وہ ایک قاتل تھا اپنی اولاد کا وہ قاقل تھا اپنی محبت کا وہ قاتل تھا اپنی بیوی کے اعتبار کا مگر وہ پھر بھی وفا کی چاہ کئے بیٹھا تھا اور ایسے ہی ایک دن اسے موقع ملا تھا جب اسفند اور وفا کا جھگڑا ہوا تھا۔ ناراضگی کی وجہ سے اسفندیار حویلی سے باہر چلا گیا تو وہ وفا کو اپنے کمرے میں زبردستی کھینچ لایا تھا اور اس کے سامنے سراپا سوال بن کر کھڑا تھا۔۔۔۔

" مومن یہ کیا بدتمیزی ہے"...

 وفا اس پرچیخی۔۔۔۔

" بدتمیزی نہیں ہے محبت ہے یہ میری جیسے تم بدتمیزی کا نام دے رہی ہو نظر نہیں آتا پل پل سلگ رہا ہوں میں تمہاری محبت میں مگر تمہیں تو خیال ہی نہیں میرا تم تو بس اس اسفند کے آگے پیچھے پھرتی رہتی ہو کبھی میرا احساس کیا"۔۔۔

 آج مومن نے بھی چیخ چیخ کر اس پر اپنے دل کا حال بیان کر ڈالا تھا۔۔۔

" دیکھو خالی ہاتھ رہ گیا میں کچھ نہیں بچا میرے پاس معاف کر دو مجھے پاس آجاؤ میرے بھر دو میری زندگی کو محبت سے اپنی موجودگی سے میری تنہائیوں کو پر کر دو تا کہ ہم دونوں پھر سے ایک ہو جائیں اسفندیار کو زندگی سے نکال باہر کرو وہ تمہارا نہیں ہے نہ ہی تم سے سچا پیار کرتا ہے دیکھا اب بھی تم سے منہ موڑ کر چلا گیا تم میری ہو تمہیں چاہنے کا حق صرف میرا ہے یاد کرو تم سے 

سچی محبت صرف میں نے کی ہے اس نے نہیں یاد کرو تم صرف مجھ سے محبت کرتی ہو اسنے وفا کا چہرہ اپنے ہاتھوں کی پیالیوں میں تھامتے ہوئے کہا جس پر وفا اس کے لہجے میں کھو سی گئی تھی۔

 باقی کچھ یاد نہ رہا تھا بس یاد تھا تو مومن اس کی محبت اور اس کی باتیں۔۔۔۔

" تم سچ کہہ رہے ہو مومن اسفندیار مجھ سے پیار نہیں کرتا۔ میں نے دیکھا ہے تمہاری آنکھوں میں پچھتاوا اور میرے لیے محبت دیر سے ہی سہی مگر تم نے مجھ سے محبت کر ہی لی اور سچ تو یہ ہے کہ میں بھی اسفند سے محبت نہیں کرتی"۔۔۔۔۔۔۔

 اس نے مومن کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکتے ہوئے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا جو بےلگام ہوتے چہرے پر بکھرتے چلے جا رہے تھے اسنے تو کبھی معمن کو ایسا دیکھنا نہی  چاہا تھا۔۔۔

اسنے مومن کو دیکھا جو گھٹنوں کے بل بیٹھا رو رہا تھا جبکہ وفا کی بات پر حیرت سے اپنا سر اٹھاتے اسے دیکھنے لگا رونا تو وہ بھول ہی گیا تھا۔۔۔

                 *******

بہت مونگ دل لی تم ہمارے سینے پر وفا جتنی بھی عیاشیاں تم نے کرنی تھی کر لیں مگر اب ہماری باری ہے۔۔۔۔

 شازیہ نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

" کیا مطلب کیا مقصد ہے تمہارا اور ایسی بھی کون سی چال ہے جس سے وفا شاروں شانے چت ہو سکتی ہے"...

 اجالا نے تجسس سے پوچھا اسے بھی وفا کے ہارنے کا بےصبری سے انتظار تھا۔۔۔

" تم جانتی ہو وہ وفا کچھ بھی سہ سکتی ہے مگر اپنے شوہر میں شراکت برداشت نہیں کرسکتی جیسے اس نے مومن میں نہیں کی تھی مگر اب جب اس کا اپنا شوہر اسے دھوکا دے گا کسی دوسری عورت کے ساتھ تو وہ مکمل طور پر ٹوٹ جائے گی"..... اس نے شاطرانہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا جب کہ اجالا منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

" مگر اسفندیار  اسے دھوکا کیوں دے گا وہ تو اسے بہت چاہتا ہے بہت پیار کرتا ہے "..

اجالا نے ناسمجھے سے کہا۔۔۔

"کس نے کہا کہ اسفند اسے دھوکا دے گا دھوکہ تو ہم وفا کی آنکھوں کو دینگے وہ بھی وہ بھی اسفندیار کی لاعلمی کو ہتھیار بنا کر پھر دیکھنا یوں وفا اسے چھوڑے گی اور ان کی محبت کا محل پل میں مسمار ہو جائے گا وفات چاہے کتنا بھی اپنے شوہر پر یقین رکھتی ہو مگر دیتی ہمیشہ عورت کا ہی ساتھ ہے۔۔۔

 وہ دونوں تیار تھیں اپنا ایک نیا شیطانی لاحہ عمل لے کر جو وفا کی زندگی کو طوفانوں کی زد میں لانے والا تھا۔۔۔۔

  وفا نہیں جانتی تھی کہ اس بار وہ کس قدر بری طرح ٹوٹنے والی ہے کہ کبھی وہ دوبارہ کسی پر اعتبار نہیں کر پائے گی۔۔۔۔

ہاں تم نے صحیح سنا مومن میں اسفندیار سے محبت نہیں کرتی نہ ہی اسفند مجھ سے پیار کرتا ہے"

وفا کی بات پر مومن کا دل خوش فہم ہوا تھا مگر اگلی بات پر اسکے ارمانوں پر اوس پڑی تھی جب وفا نے کہا تھا۔۔۔۔

"تم تو سمجھتے ہو بس تم ہی محبت کے لائق ہو باقی سب تو اس دنیا میں محض دل لگی کے لیے آئے ہیں ہے نہ تم نہیں سمجھو گے مومن میں اور اسفندیار محبت کو کب کا پیچھے چھوڑ کے عشق کی معراج چھو آئے ہیں اور تم اب تک محبت کی رٹ لگائے بیٹھے ہو افسوس ہوا دیکھ کر".....

"مگر تم نے مجھے مسج کیا تھا اپنے گھر وہ کیا تھا"

مومن نے ٹوٹے لہجے میں کہا۔۔۔

"وہ تو تمہاری آنکھیں کھولنے کی بس ایک چھوٹی سی کوشش تھی جس سے دیکھو تمہاری بہن کا سچ تو سامنے آ ہی گیا اور یقیناً تم اب اپنے علاوہ دوسروں کی عزت کو بھی وہی مقام دو گے جو اپنوں کی عزت کو دیتے ہو"

وفا نے اس پر آخری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا جو اپنی سلگتی محبت کا ماتم منا رہا تھا۔

"تم پچھتاؤ گی وفا اسفندیار خان تم نے ایک سچی محبت کو ٹھکرایا ہے تم بہت بری چوٹ کھاؤ گی دیکھنا تم"

مومن کے تڑپ کر کہنے پر وفا کے باہر کے طرف نکلتے قدم زنجیر ہوئے مگر وہ پلٹی نہیں دل بے ساختہ رکا تھا مگر پھر لہجے میں چٹانوں کی سختی لیے بولی۔۔۔

"ضرور پچھتاتی اگر اپنے محرم کی محبت کو ٹھکراتی , نا محرم کی محبت کو محرم کے لیے ٹھکرانے پر بندہ کبھی چوٹ نہیں کھاتا بلکہ چوٹ کھانے سے بچ جاتا ہے اگر یہ چوٹ مجھے یونی میں لگی تھی جسکا پچھتاوا مجھے آج تک ہے تم سے محبت پر جسے میں نے سزا کے طور پر بھگتا ہے تم سے شادی کے بعد اور اسہی سزا نے مجھ سے میرا بچہ چھین لیا اگر آج مجھ سے تم اپنا مقام میری زندگی میں پوچھو گے تو وہ بس میرے بچے کا قاتل ہے اور کچھ نہیں"

آنسوؤں کی گرھیں پڑنے لگیں تھیں وفا کے گلے میں جسکو بمشکل اسنے ضبط کرتے مومن کو چبا چبا کر کہا۔ آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔۔۔۔

یہ کہتے ہی وہ جا چکی تھی پیچھے مومن اسکے لفظوں کی وجہ سے سناٹوں کی زد میں رہ گیا تھا۔ وفا کے الفاظ مومن کا سینہ چیر گئے تھے مگر یہ اٹل حقیقت تھی کہ وہ ہی اپنے بچے کا قاتل تھا اور پھر وہ دھاڑیں مار مار کر رویا تھا اپنے پچھتاوے پر اپنی محبت کی قبر پر اپنے بچے کے نقصان پر آخر وہ کس کس بات پر روتا اب رونا ہی اسکا مقدر تھا۔۔۔۔

                    *********

اسفندیار جو مومن کے کمرے کے پاس سے گزر رہا تھا اندر وفا اور مومن کی باتیں سن کر رک گیا تھا اور وفا کے ایک ایک لفظ نے اس کو اندر تک جہاں سرشار کیا تھا وہیں اس کے بچے کا سن کر اس کو بھی نئے سرے سے دکھ ہوا تھا...

 اب اس لیے اس کی کوشش یہی تھی کہ وہ وفا کو دنیا کی ہر خوشی سے نوازے...

 وہ چاہتا تھا وفا ہمیشہ خوش رہے اسے کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو اس نے جتنے دکھ جھیلے ہیں اس سے کہیں زیادہ خوشیاں اس کا مقدر بن جائیں

                       ******

عمر تمہیں نہیں لگتا کہ ہمیں وفا اور اسفندیار کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے اور ویسے بھی ان کی تین دن بعد ویڈنگ انیورسری ہے...

 ہاں عیشل یہ ایک اچھا خیال ہے  ہم انہیں بالکل سرپرائز دیں گے فنکشن کی تیاری بھی چھپ کر ہی کریں گے تاکہ انہیں کسی بات کا علم نہ ہو اور جب ایک دم انہیں سرپرائز ملے تو وہ زیادہ خوش ہوں گے عمر نے بھی اس کے ارادے پر حامی بھری۔۔۔

"کیا خیال ہے ویسے ہم کیا سرپرائز دیں انہیں "

عمر نے پرسوچ انداز میں کہا تو عیزل بھی ٹھوڑی پر انگلی ٹکائے بڑھے بوڑھوں کی طرح سوچنے لگی جب اسکے دماغ میں جھماکا ہوا۔۔۔

"آئیڈیہ"

وہ اچانک بولی تو عمر اسکے انداز پر ڈر کر اچھلا۔۔۔

"کیا کیا اور زرا آرام سے بولو نازک دل کا بندہ ہوں کہیں پھڑک گیا تو"

عمر کے انداز پر اسکا قہقہ بےساختہ تھا۔۔۔

"وہ یہ کہ میرے نازک میاں جی ہم اسفند اور وفا کی یونی سے لے کر اب تک کی تمام یادوں کو ویڈیو اور پکس کی صورت میں ایل سی ڈی پر پلے کریں گے جس سے انکی پرانی یادیں تازہ ہو جائیں گی"۔۔۔۔

اسنے پہلے عمر کے دونوں گالوں کا کھینچتے پھر دونوں ہاتھ اشتیاق سے ٹھوڑی کے نیچے ٹکاتے کہا تو وہ سچ میں اسکی ذہانت کا قائل ہوا۔۔۔

"ارے واہ یہ تو بیسٹ گفٹ رہے گا مگر ایک منٹ اسفند اور وفا یونی میں ایک دوسرے سے کب ملے"

عمر نے پہلے چہک کر کہتے پھر مشقوق انداز میں عیشل کو سر سے پیر تک دیکھتے کہا جس نے دانتوں تلے زبان دبائی اپنی جلد بازی پر۔۔۔

وہ کچھ نہیں اس نے ہڑبڑاتے ہوئے کہا جب کہ عمر نے اس کو کھسکتے دیکھ بازو سے پکڑ کے اپنے آگے بٹھایا۔

" نا نا اصل میں ایسے نہیں جانے دوں گا تمہیں آج تو سچائی بتانی ہی پڑے گی جب تک تم مجھے یہ نہیں بتا دیتی میں تمہیں جانے نہیں دوں گا "۔۔۔

عمر نے اس کو دونوں ہاتھوں سے گھیرتے ہوئے کہا عیشل بری پھانسی تھی۔۔۔۔

 اب تو خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی اس لئے ساری کہانی الف تا یہ بتا دی۔ کہ اسفند اور وفا سب سے پہلے کہاں کب اور کیسے ملے تھے اور یونی میں ان کی کتنی بار ملاقات ہوئی جسے سن کر عمر بھی حیران رہ گیا۔۔۔

" کیا یہ میں کیا سن رہا ہوں اسفند بھائی اور وفا ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے اور کئی دفعہ ان کی تکرار بھی ہوئی تم نے مجھے بتانا بھی ضروری نہ سمجھا اس نے عیشل کو کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

" وہ دوست ہی کیا جو دوست کے راز نہ رکھے اگر میں یہ سب تمہیں پہلے بتا دیتی تو میں اپنی دوستی کا حق ادا نہ کر پاتی"

 عیشل نے بڑے پیار سے اس کو سمجھایا۔۔۔۔

" کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں"

 عمر نے نہ سمجھی سے پوچھا تو اس نے کہا۔۔۔

" کہ اگر میں حویلی والوں کے سامنے یہ ظاہر کر دیتی کہ اسفند اور وفا ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں تو ان دونوں کے لئے ہی مشکلات کھڑی ہوسکتی تھی مومن تو پہلے ہی اس پر شک کرتا تھا اور اگر اس کو یہ پتہ چل جاتا کہ وہ پہلے بھی ایک دوسرے سے ملے ہیں تو وہ اسفندیار اور وفا کو بھی شک کے دائرے میں لا کھڑا کرتا اور اسکی زندگی اور جہنم بنا دیتا۔ اس لیے جانتے بوجھتے بھی جب اسفند مجھے یہاں لایا تو میں کچھ نہ بولی"....

 عمر واقعی اپنی بیوی کی عقلمندی کا قائل ہوا تھا اور آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا تھا جس پر وہ نا نا کرتی رہ گئی لیکن اب اس کے پاس عمر کے حصار میں آنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔۔۔۔

                        *******

مومن کو یوں غم میں ڈوبے دیکھ شازیہ کے ذہن میں ایک خرافاتی آئیڈیا آیا تھا۔ جس پر اس نے عمل کرتے ہوئے جوس میں نشے کی دوا میں ملائی تھی اور وہ مومن کو پلا دی تھی جس سے اسے پیتے ہوئے بالکل بھی پتا نہ چلا۔۔۔۔

 اور وہ اپنی محبت کے غم کے نشے میں چور سارا جوس پی گیا۔ جس کے بعد سے اسے نشہ چھانے لگا تھا اور پھر کچھ یاد نہ رہا۔۔۔

 وہیں شازیہ ذہن میں نئی چال لیے کھڑی تھی۔ اپنے آپ کو بچانے کا یہ سنہری موقع تھا۔ اس نے نہ صرف رات کو مومن کو اپنے قابو میں کر لیا بلکہ اپنے حسن کی رعنائیاں دکھاتے ہوئے اسے اپنے آپ میں مدہوش کر لیا تھا اور مومن بیچارہ اس کو وفا سمجھ کر اس کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا گیا۔۔۔

 ان لمحات میں بھی اس کے منہ سے بس وفا کا نام نکل رہا تھا جو شازیہ کے دل پر جلتی آگ کا کام کر رہا تھا۔۔۔

" بس آج کی رات ہے مومن  پھر تمہارے دل و دماغ پر صرف شازیہ ہی ہو گی صرف اور صرف شازیہ"...

 اس نے مومن کی گلے میں باہوں کا ہار ڈالتے ہوئے اس کے قریب تر ہوتے ہوئے کہا اور پھر وہ ایک دوسرے میں کھوتے چلے گئے اور رات اداسی سے قطرہ قطرہ پگھلتی چلی گئی۔۔۔

 شازیہ اپنی جیت پر سرشار تھی کہ اب کوئی بھی نہیں جان پائے گا کہ اس نے شادی سے پہلے بھی کسی غیر مرد سے جنسی تعلقات بنائے تھے۔۔۔۔۔

 سارے ثبوت مٹ چکے تھے اور باقی بچا تا گناہ۔۔۔

 صبح جب مومن اپنا درد سے پھٹتا ہوا سر پکڑ کر اٹھا تو شازیہ اور خود کو بستر پر بےلباس نہایت ہی قابلِ اعتراض  حالت میں پایا۔۔۔

 اپنی اور شازیہ کی حالت دیکھ کر اسے لمحہ لگا تھا سمجھنے میں کہ رات ان دونوں کی ازدواجی زندگی شروع ہوچکی ہے اور یہ چیز مومن کو اپنے آپ سے اور بھی زیادہ نفرت کرنے پر مجبور کر رہی تھی وہ بغیر شازیہ پر ایک نظر بھی ڈالے واشروم میں گھس کر فریش ہوا اور باہر نکل گیا تھا۔ پیچھے شازیہ جلتی بھنتی رہ گئی جس کا شوہر ہوش میں آتے ہی اس سے کوسوں دور ہو چکا تھا۔۔۔۔

" اب بس وفا اپنی الٹی گنتی گننا شروع کر دو تمہاری خوشیوں کے دن بس اتنے ہی تھے".

 اس نے نفرت سے سوچا۔۔۔

                     **********

اسفندیار جو وفا کو مومن کے کمرے سے یوں دکھی ہو کر نکلتا ہوا دیکھ رہا تھا فوراً اس کی خوشی کا سامان کرتے ہوئے اس کے لیے پسندیدہ سفید گجرے لے آیا۔

 جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو وفا کھڑکی سے سر ٹکائے باہر آسمان پر کچھ تلاش کر رہی تھی۔۔۔

" کیا سوچ رہی ہو"۔۔۔

 اس نے وفا کو پیچھے سے اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے کہا اس کے یوں اچانک آ جانے پر وہ چونکی تھی۔۔۔

" اسفند تمہیں کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں دکھی ہوں۔ جب میں غمگین ہوتی ہوں تب ہی تم کسی سایہ دار درخت کی طرح مجھ پہ چھاؤں کر دیتے ہو"۔۔

 اس نے نم آنکھوں سے اسفندیار کو دیکھتے ہوئے کہا جس نے پیار سے اپنے لبوں سے اس کے چہرے پر سے آنسو چنے۔۔۔۔

" وفا تمہارا دل میرے دل کے ساتھ جڑ چکا ہے ہمارا دل ہی کیا بلکہ ہماری روح بھی آپس میں جڑی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بندہ تکلیف میں ہو اور دوسرے کو خبر نہ ہو یہ تو سراسر عشق کی توہین ہے جس میں محبوب تکلیف میں ہو اور عشق انجان رہے ایسا ممکن نہیں اور پھر میں نے تو برسوں پہلے سے تمہاری چاہت کی ہے لمحہ لمحہ تمہیں دعاؤں میں مانگا ہے پھر میں تم سے کیسے غافل رہ سکتا ہوں"

 اسفندیار نے اس کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر سامنے کرتے کہا اس کی آنکھوں میں محبت و عشق کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر وفا صاف دیکھ سکتی تھی اور اس میں کوئی کھوٹ نہیں تھی۔ اب تو وفا بھی جانتی تھی کہ وہ چاہے عشق میں کونسی معراج پہ ہی کیوں نہ پہنچ جائے وہ اسفند کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔

" وفا تم میرے دل کی وہ دھڑکن ہو جو میرے دل کی دنیا کو زندگی سے سیراب کرتی ہے۔ اسی لئے تو تم میری زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو۔ جس کے بغیر میری زندگی کے کوئی معنی نہیں"...

 اسفندیار کے اتنے خوبصورت لفظوں کو وفا نے اپنے دل میں اترتا پایا اور اس کے سینے سے لگ گئی جہاں اس کا سکون تھا۔۔۔

" چلو چلو اب یہ آنسو صاف کرو اور آنکھیں بند کرو"۔۔۔۔

 اسفند کے کہنے پر وفا آنکھیں بڑے کی اسے دیکھنے لگی۔۔۔

" میں جب بھی تم سے آنکھیں بند کرنے کو کہتا ہوں تو تم آنکھیں زیادہ کیوں کھول لیتی ہو "...

اسفند نے گھورتے ہوئے پوچھا تو وہ ہنس کر آنکھیں بند کر گئی جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اسفندیار اس کی دونوں کلائیوں کو سفید گجروں کے پھولوں سے سجا چکا تھا جس نے اسکی کلائیوں کو چار چاند لگا دیے تھے وفا نے مسکرا کر آنکھیں بند کرکے ان کی مہک کو دل میں اتارا۔۔۔۔

 اس کی خوشی اس کے چہرے سے دیکھی جا سکتی تھی جو اپنا غم بھول کر اسفند کی دی ہوئی خوشی میں کھو چکی تھی اس نے پیار بھری آنکھوں سے اسفند کو دیکھا اور بس اتنا ہی کہا۔۔۔

" اور تو کچھ نہیں بس اتنا کہنا چاہوں گی تم سے کہ اللہ تعالی نے مجھے اس دنیا میں تمام آزمائشوں  کا اجر تمہاری صورت میں نام کی طرح عطا کیا ہے جس پر میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے"....

"بس ایک وعدہ چاہیے تم سے"

"وہ کیا"

وفا کے آنکھیں پٹپٹانے پر اسفند اچھنبے سے بولا۔۔۔

"یوں ہی میری حفاظت کرو گے مجھے کبھی دھوکا نہیں دو گے اور اپنے آپ کو میرے لیے سمبھال کر رکھو گے۔ کسی کو بھی خود کو نقصان پہنچانے نہیں دو گے بلکہ جو تمہیں نقصان پہنچائے گا اسکا منہ توڑ کر رکھ دو گے"

 یہ کہتے ہی وہ آنکھیں موند کر اسفند کے سینے سے سر ٹکا گئی اور وہ دونوں بند آنکھوں سے مسکرا دیے قسمت کے فیصلے سے انجان۔۔۔۔

                       ********

یہ ان کی ویڈنگ نائٹ سے ایک رات پہلے کی بات ہے جب شازیہ اور اجالا رات کے ایک بجے شازیہ کے کمرے میں اپنا شیطانی پلین سرانجام دے رہی تھیں۔۔۔۔

" کیا تمہیں یقین ہے شازیہ کے اسفندیار رات کے ایک بجے کچن جاتا ہے"

 اجالا نے شازیہ سے کنفرم کرنے کے لئے پوچھا تھا کہ ان کی محنت رائیگاں نہ جائے۔۔۔

" ہاں اجالا میں سو پرسنٹ یقین سے کہہ سکتی ہوں کے اسفند رات ایک بجے ہی پانی لینے اپنے کمرے سے نکلتا ہے اور یہ میں ایک مہینے سے نوٹ کر رہی ہوں"....

 شازیہ نے بھی کمرے سے باہر جھانکتے ہوئے کہا جہاں اسفند کمرے سے نکلتے ہوئے اسے کچن کی طرف جاتا دکھائی دیا۔۔۔

" اجالا اسفند باہر آچکا ہے فٹافٹ جاؤ اور اپنے کمرے میں چھپ جاؤ اب تو میں وفا کی خوشیوں کو اگ لگا کر ہی دم لوں گی جس سے اسفند اور وفا کی دنیا برباد ہوکر رہ جائے گی اور اس کے پاس تنہا رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا"....

 شازیہ نے اپنا نہایت ہی گرا ہوا منصوبہ اجالا کو بتایا۔۔۔

" کیا تمہیں واقعی لگتا ہے شازیہ کے اسفند تمہاری باتوں میں آئے گا مجھے نہیں لگتا اور تمہاری بات پر یقین کون کرے گا کہ اس نے تمہارے ساتھ بدتمیزی کی ہے"....

" اس کی فکر تم مت کرو یہ دیکھو میرا حسن کیا کم لگ رہا ہے اگر اسفند نہ بھی     بہکا تو میں چیخ چیخ کر سب کو یہاں پر بلا لوں گی کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے"۔۔۔

 شازیہ نے اپنی آنکھوں میں گلیسرین لگاتے ہوئے کہا اور اپنے ہونٹوں پر لگی ہوئی لپ سٹک کو پھیلا لیا اور اجالا کو باہر نکال دیا تھا۔۔۔

 کسی کے چیخنے کی آواز پر اسفند شازیہ اور مومن کے مشترکہ کمرے کی طرف گیا جہاں وہ شازیہ نہایت ہی بےہودہ حالت میں تھی۔۔۔

اس نے اسفندیار کو کرتے سے کھینچ کر اپنے اوپر گرا لیا۔۔۔

اسفند کے تو ذہن میں بھی کچھ نہ آیا کہ یہ اس نے کیا کیا ہے وہ اپنے آپ کو شازیہ پر سے اٹھانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا جب کمرہ کھول کر پورے خاندان والے اچانک کمرے میں آئے تھے جہاں شازیہ نازیبہ حالت میں اسفندیار کے نیچے دبی ہوئی تھی اور اسفند اس کے اوپر گرا ہوا تھا اس کی گردن پر شازیہ کے لپ سٹک کے نشان تھے۔

شازیہ کی بکھری حالت دیکھ پورا خاندان ششدر رہ گیا اور مومن کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ وفا بھی پریشان حال کھڑی تھی۔۔۔۔

شازیہ بھاگ کر جلدی سے روتی ہوئی مومن کے پیچھے جا چھپی تھی۔

"مومن اس نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے اور مجھ سے بدسلوکی کی ہے"...

اسنے نکلی آنسو بہاتے تمام نوٹنکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

 اس کی بات پر اسفند چیخ کر بولا ۔۔۔

"نہیں یہ سب جھوٹ ہے یہ جھوٹ بول رہی ہے "

مگر کسی نے اس کی بات پر یقین نہ کیا "اسفند یار تمہیں شرم آنی چاہیے اپنی بہن کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے شرم سے ڈوب مرو" ثاقب صاحب میں جھاڑتے ہوئے کہا جب کہ مومن نے اس کی سچائی بغیر سنے اس پر مکوں کی برسات کردی۔۔۔۔

 نائلہ بیگم نے بغیر کچھ سنے اسفند کو دہائیاں اور کوسنے دینے شروع کر دیے تھے۔۔۔

مومن نے اسفندیار کی ابتر حالت کر کے اسے وفا کے قدموں میں پھینکا اور وفا سے کہا۔۔۔۔

" یہی ہے نا وہ جس کی خاطر تم نے مجھے ٹھکرایا تھا جس کا خود کا کردار ہی اتنا گرا ہوا نکلا۔ دیکھو غور سے اسے میرا کردار اس سے تو اچھا ہی ہے جو اپنے ہی گھر پر کم از کم نقب تو نہیں لگاتے۔ اب بولو کیا کہنا چاہو گی تم اپنے اس نام نہاد عاشق کے لیے"۔۔۔۔

 مومن نے وفا کے پاس آ کر اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

 جب خیر وفا نے اس دیار کی حالت پر کس کے مٹھیاں بھیجی تھی اور اس میں دیکھنے کی سکت باقی نہ رہی تو وہ رخ پلٹ گئی تھی۔ وہ ابھی تک ثاقب تھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسی حالت سے بھی سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔اسفندیار کی تو جان پر بن آئی تھی وفا کو یوں منہ موڑے دیکھ وہ لڑکھڑا کر اٹھا تھا۔۔۔۔

" وفا یہ سب جھوٹ ہے میرا یقین کرو میں مرتا مر جاؤں گا مگر کبھی تمہیں دھوکا نہیں دوں گا"۔۔۔۔

 اسفند کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وفا کو کھونے کے ڈر سے اپنی جان نکلتا محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔

 وفا نے جھٹکے سے رخ پلٹ کر اسے دیکھا۔ اس کی بہتی سرخ آنکھیں اسفندیار کا سینہ چھلنی کر گئی تھیں۔۔۔۔

 اور اسفندیار کی جان صحیح معنوں میں تب نکلی تھی جب وفا کی آنکھوں میں اس نے اپنے لیے بےیقینی دیکھی تھی وہ سو بار ٹوٹا تھا اور اپنے قدموں میں گرا تھا۔۔۔۔

" مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی اسفندیار خان تم نے تو میرے وعدے کا بھی مان نہ رکھا اور مجھے سب کے سامنے رسوا کر دیا"۔۔۔۔

 وفا نے لفظ لفظ چباتے ہوئے کہا اور دھیمے قدموں سے اس کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔

 یہاں تک کہ وہ اس کے قریب پہنچ گئی جو اپنے گھٹنوں میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔۔

 اس کی دائیں طرف ہی شازیہ کھڑی زہرخند مسکراہٹ سے وفا اور اسفندیار کو دیکھ رہی تھی آنسو تو کب کے سوکھ چکے تھے۔۔۔۔

 اس نے اسفندیار کو دونوں بازوؤں سے تھا م کر اٹھایا اور جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔

" کیوں کیا تم نے ایسا میرے ساتھ کم از کم اپنے وعدے کا ہی پاس رکھ لیتے"۔۔۔۔

 وفا یہ کہتے ہوئے کتنے کرب سے گزری تھی یہ وہی جانتی تھی اس کا اپنا دل پھٹ رہا تھا اور پھر وہ ہوا تھا جس کی کسی نے بھی امید نہ کی تھی۔ وفا کا ہاتھ اٹھا تھا اور اس کے منہ پر تھپڑ کا نشان چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔

 اسفندیار حیرت سے پھٹی آنکھوں سے وفا کو دیکھ رہا تھا جیسے اس سے ہر چیز کی امید ہو بس اسی کی نہیں۔۔۔

 باقی سب بھی ششدر کھڑے وفا کو ایسا کرتا دیکھ رہے تھے۔۔۔

" وفا تم نے"۔۔۔ اسفندیار حیرت اور دکھ سے بس اتنا ہی کہ پایا۔۔۔۔۔

جی ہاں وہ تھپڑ کسی اور کو نہیں بلکہ شازیہ کو پڑا تھا وہ بھی کرارا والا۔ جس سے شازیہ کا گال دھک کے سرخ ہو چکا تھا جبکہ سنسناہٹ اب بھی باقی تھی۔

"ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے اسفندیار پر تہمت لگانے کی"

وفا نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں اپنے سینے پر دستک دیتے کہا۔۔۔

شازیہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔۔

سب ہی پریشان حال کھڑے معاملہ سمجھنے میں لگے تھے مگر پلے کچھ نہ پڑا۔۔۔۔

وفا یہ تم کیا کر رہی ہو کیا پاگل ہو گئی ہو تم قصوروار تمہارا شوہر ہے تم نے میری بیوی پر ہاتھ اٹھایا بھی کیسے"۔۔۔۔

 مومن نے تن فن کرتے اس تک پہنچتے اس کو جھٹکے سے اپنی طرف پلٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔

" ارے واہ مومن صاحب دیکھ کر اچھا لگا کہ آپ بیوی کی قدر کرنا جان ہی گئے مگر افسوس کے آپ پھر بھی غلط ہیں آپ نے تو شاید قسم کھا لی ہے سچ کو نا دیکھنے کی خیر رہی بات اسفندیار کی تو اس کے اور میرے معاملے میں بولنے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے نہ میں نے آپ کو ایسا کوئی حق دیا ہے"۔۔۔ 

اس نے مومن کے دونوں بازو کو جھٹکتے ہوے کہا اور اسفندیار کی طرف پلٹی جو اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"  ایک ہی وعدہ لیا تھا اسفند تم سے تم وہ بھی نہ نبھا سکے میں نے تم سے کہا تھا کہ اگر کوئی تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو تم اس کا منہ توڑ دو گے تو کیوں نہیں توڑا تم نے اس کا منہ جب اس نے یہ بد فعال تمہارے لئے اپنے منہ سے نکالے تو ایک تھپڑ مار کر تبھی اس کا منہ بند کر دیتے تاکہ نہ ہی بولنے لائق رہتی نہ ہی ایسا کچھ سوچتی۔۔

 اس نے اسفندیار کو غصے سے گرکھتے ہوئے کہا جو دل ہی دل میں اللہ کا شکر بجا لایا تھا جس نے اسے اتنی اچھی شریک حیات سے نوازا تھا جس کو اس پر پورا یقین تھا۔۔۔۔۔

"آنکھیں میری بند ہیں یا تمہاری جو یہ سب دیکھ کر بھی اپنے شوہر پر اندھا یقین کر رہی ہو"۔۔۔۔

مومن کے طنز پر وہ استہزیہ انداز میں ہنسی۔۔۔

"اندھا یقین تو مجھے تم پر بھی تھا تم نے کونسے تیر مار لیے "

وفا کی بات پر مومن کو صحیح آگ لگی تھی 

"مطلب کیا ہے تمہاری اس بات کا"۔۔۔۔

"مطلب یہ کہ مکافات کا وقت ہے مومن"

مومن کی نا سمجھی پر وفا نے لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔۔

"ابھی بھی نہیں سمجھے چلو میں بتاتی ہوں یاد تو ہو گا تمہیں یہی وہ لوگ ہیں جنکے سامنے تم نے مجھے بدکردار کہا تھا اور یہ بھی کہ تمہیں مجھ سے اچھے اور صاف کردار کی بیوی ملے گی جو میں کبھی نہیں بن سکتی یہی کہا تھا نہ تم نے "۔۔۔۔۔

اسنے آئی برو اچکاتے کہا تو مومن کو بہت کچھ غلط ہونے کا اندیشہ ہوا۔۔۔۔

"وفا میری بات سنو میرا وہ مطلب نہیں تھا"

مومن بوکھلایا۔۔۔

"خاموش آج تم چپ رہو گے اور میں بولوں گی جیسے اس دن تم بولے تھے۔ کیا کہا تھا میں بدکردار ہوں تو سنو میں نہیں حقیقت میں تمہاری بیوی بدکردار ہے"

اسنے مومن کو چپ کراتے کہا۔۔۔۔

"اے لڑکی خبردار جو میری بیٹی کو کچھ کہا"

عصمت بیگم چیخیں۔۔۔

"کیوں بہت مرچیں لگ رہی ہیں اپنی بیٹی پر بات آئی تو میں بھی تو لڑکی تھی مجھ پر بھی تو جھوٹی تہمت لگائی تھی تب کوئی آپ میں سے کیوں نہ بولا"

وفا نے ایک ایک پر دکھ بھری نگاہ ڈالتے کہا۔۔۔۔

"کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کہ میری بیوی بدکردار ہے "

مومن ضبط سے بولا۔۔۔۔

اسکی بات سن وفا کمرے میں گئی اور کچھ پیپرز لے آئی۔۔۔

"اگر تم نے میرے اسفندیار پر اتنا گندہ الزام نہ لگایا ہوتا تو تمہارا مکرہ چہرہ میں کبھی سامنے نہ لاتی مگر تم نے مجھے مجبور کیا ہے"۔۔۔

وفا نے شازیہ کو خون آشام نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔

جو آنے والے وقت کا سوچتی لرز رہی تھی کہ پتا نہیں وفا کس راز کی بات کر رہی تھی۔۔۔

"یہ لو دیکھو اپنی بیوی کی ابارشن کی ریپورٹس"

وفا نے مومن کے ہاتھ میں رپورٹس پھینکتے کہا جو پھٹی آنکھوں سے رپورٹس دیکھ رہا تھا۔

اسنے بےیقینی سے شازیہ کو دیکھا وہ خود بھی جانتا تھا کہ وہ شادی کہ بعد پہلی دفعہ کل ہی تو شازیہ کہ قریب ہوا تھا وہ بھی لاعلمی میں پھر شازیہ کس سے پریگنینٹ ہوئی۔۔۔

شازیہ کو لرزا طاری ہو گیا تھا۔۔۔۔

"یہ جھوٹ ہے سراسر جھوٹ ہے مومن یہ تمہیں میرے خلاف بھڑکا رہی ہے"

شازیہ نے مومن کا چہرہ بوکھلاتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں تھامتے کہا۔۔۔۔

 جو بس ساکن نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا پھر وفا کی طرف پلٹتے ہوئے بولا۔۔۔

"یہ رپورٹس جھوٹی بھی تو ہو سکتی ہیں میں کیوں یقین کروں ان پر"۔۔۔۔

مومن کی بات پر وفا نے بےیقینی سے اسے دیکھا اور پھر دکھ سے ہنس دی۔۔۔

"یہی تو بات ہے مومن جب سچ پر یقین کرنا ہو تو تم آنکھیں بند کر لیتے ہو جب یقین نا کرنا ہو تو ایک سچے انسان کی بھی عزت دو کوڑی کی کر دیتے ہو جھوٹ پر یقین کر کے"

وفا نے تالی بجاتے ہوئے کہا۔۔

"پوچھ رہے تھے نہ تم اس دن ایسا کیا ہے اسفندیار میں جو مجھ میں نہیں تو وہ ہے مجھ پر اندھا یقین۔۔

 جب سب میرے خلاف کھڑے تھے تو یہ ایک تھا جو صرف مجھ پر یقین رکھتا تھا میرے لیے لڑا مجھے انصاف دلوایا اور یہاں تک کہ مجھ سے بے لوث محبت چھوڑ عشق کیا جو تم شوہر کا رتبہ حاصل کر کے بھی نہ کر پائے۔ ہیرا ہے اسفندیار ہیرا تم جیسا کوئلا نہیں جو اپنے ہی منہ پر کالک مل لے۔"

اسنے طنزیہ انداز میں مومن کو کہتے شازیہ کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔

"جانتے ہو وہ بچہ کس کا تھا جو اسنے ضائع کرایا نہیں جانتے اوووو وہ بچہ قاسم کا تھا"۔۔۔

اسنے شروع میں سنسنی پھیلاتے آخر میں سب پر بم پھوڑا تھا۔ مومن تو مومن اسفندیار بھی ششدر رہ گیا تھا جسے وفا نے اس بات سے انجان رکھا تھا۔۔۔

"اے کم زات میرے مرحوم بیٹے کو بخش دے کیوں اس پر جھوٹے الزام لگا رہی ہے۔ بدکردار تو تو اور تیرا شوہر ہے"۔۔۔

نائلہ بیگم نے اسے کھری کھری سناتے کہا۔۔۔۔

"میں کیسے مان لوں یہ سچ ہے"

مومن کی بات پر وفا نے تاسف سے سر جھٹکتے موبائل پر دو چار بٹن پریس کرتے وہ ویڈیو نکالی جس میں قاسم اور شازیہ نہایت نازیبہ لباس میں ایک دوسرے کی باہوں کی آغوش میں سارا سچ بیان کر رہے تھے جسے سن کر غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی۔۔۔۔

مومن کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر نیچے گرا تھا۔ اسنے شازیہ کو ایسی نظروں سے دیکھا کہ اسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔

پھر کیا تھا ایک کے بعد ایک تھپڑ مومن نے شازیہ کے منہ کی ذینت بنا دیے تھے کہ اسکا گال تھپڑوں سے لال پڑ چکا تھا ہونٹ کا کنارہ پھٹ کر خون بہ نکلا انکے بیچ کوئی بھی نہ آیا تھا۔

"تم نے میرے نکاح میں رہتے مجھے دھوکا دیا بدزات میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا دوسروں کا گند تم میرے پر منڈھنے چلی تھی تو سنو میں مومن خان تمہیں پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں , طلاق دیتا ہوں , طلاق دیتا ہوں۔۔۔

اسنے شازیہ کو بےحال کرتے عصمت بیگم کے

 قدموںمیں پھینکا تھا جنہوں نے روتے ہوئے اسے اٹھایا۔جو بلکل ساکن ہو چکی تھی اپنی تمام دنیا لٹوانے کے بعد۔۔۔

 مومن کا سانس پھول چکا تھا۔۔۔۔

"اب بتاؤ مومن کیسا لگا وقت نے بھی کیسا تمہارے لفظوں کا جوتا تمہارے منہ پر مارا ہے مجھے بدکردار کہنے کے چکروں میں تم نے ایک بدکردار لڑکی کو ہی اپنی عزت بنا لیا مگر وہ کیا ہے نہ یو بوتھ ڈیزرو ایچ ادر"۔۔۔۔

وفا کے یوں صاف کہنے پر مومن زمین میں گڑ گیا۔۔۔۔۔

"کیا کیا نہ یاد آیا تھا اسے خود کا وفا کو ذلیل کرنا, بدکردار کہنا اور پھر دھتکار دینا مگر وقت نے اسے وہ سب واپس لوٹایا تھا بلکہ وفا کو سرخرو بھی کیا تھا"۔۔۔۔

اسکا دل کیا ڈوب کر مر جائے ۔۔۔

"وفا مجھے معاف"۔۔۔۔

"To hell with your mafi"

تم جیسے لوگوں کے منہ سے تو معافی بھی گالی لگتی ہے معافی مجھ سے نہیں بلکہ میرے شوہر سے مانگو جس پر تم نے سب کے سامنے بہتان لگایا ہے"

وفا کے کہنے پر وہ شکستہ قدموں سے اسفند کے سامنے گیا اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا۔۔۔

"اسفندیار میں جانتا ہوں میں تمہارے ساتھ بہت غلط کر چکا ہوں مگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔ تم تو بڑے ظرف والے ہو نہ"

اسفندیار کے آگے مومن گڑگڑایا تو اسفند نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا کہ وہ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔۔۔۔

"تم میرے جگری یار تھے مومن مگر تمہاری انا نہ صرف ہماری دوستی کھا گئی بلکہ تمہاری محبت بھی۔ میں تو شاید پھر بھی تمہیں اپنی طرف سے معاف کر دوں لیکن جو تم نے میری وفا کے ساتھ کیا اسکے لیے تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا"۔۔۔۔

یہ کہتا وہ جا چکا تھا جبکہ ثاقب صاحب وہیں بےہوش ہو کر گر پڑے اور انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔۔۔۔

ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وہ کمزور ہو کر رہ گئے تھے۔ انہوں نے وفا سے اپنے کیے کی معافی مانگی تھی۔ جس نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ان سب کو معاف کر دیا تھا۔

                  ***********

آج اسفند اور وفا کی شادی کی پہلی سالگرہ تھی۔ جسکی وجہ سے عمر اور عیشل نے حویلی کو دلہن کی طرح سجایا تھا۔

عیشل نے وفا کو بہانے سے ریڈ فراک دے کر ٹرائے کرنے بھیجا۔ جب وہ کپڑے بدل کہ آئی تو اسکا ہاتھ تھام کر آئينے کے سامنے بٹھاتی اسکے نا نا کرنے کے باوجود اسے پیارا سا تیار کر گئ۔۔۔۔

ہاتھوں میں چوڑیاں تھیں جو ہر تھوڑی دیر بعد کھن کھن کرتیں۔

اسکے لاکھ پوچھنے کے باوجود بھی عیشل نے اسے کچھ نہ بتایا تھا اور آنکھوں پر پٹی باندھتے اسے حال میں لے آئی تھی۔ یہی کچھ عمر نے اسفندیار کے ساتھ کیا تھا۔

اب حال یہ تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔

تمام لائٹس آف تھیں بس ایک سپاٹ لائٹ کی روشنی ان دونوں پر پڑھ رہی تھی۔

عیشل کے تین گنتے ہی دونوں نے اپنی اپنی آنکهوں سے پٹی اتاری تو نظر ایک دوسرے پر جا پڑی اور وہیں تھم گئیں نظریں بھی اور سانسیں بھی۔۔

یہ لمحہ طویل تھا مگر تھا فسوں خیز دونوں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ایک دوسرے تک پہنچے تھے۔

چونکے تو تب جب پیچھے پروجیکٹر پر وفا کی کھلکھلاتی ہوئی آواز گونجی۔۔

"او ماڑا ام کو رنگ برنگا چوڑیاں بوت پسند اے"

یہ تب کا منظر تھا جب اسفند نے پہلی دفعہ وفا کو دیکھتے اس منظر کو فون میں قید کیا تھا۔۔۔

دونوں ہی اس منظر کو دیکھ ہنس دیے۔وفا نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا جسنے اسکی پہلی ملاقات کو سمبھال رکھا تھا۔

منظر بدلا اور اچانک وہ منظر آیا جب وفا بیٹھی اسفند کا خط پڑھ رہی تھی۔ منظر بدلتے گئے انکے پیار کی کہانی چلتی گئی۔ پھر وہ منظر آیا جب اسفند نے وفا کو ڈوبنے سے بچایا تھا۔۔۔

اسکی پوزیسیونیس یہاں صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ سب حیران پریشان کھڑے یہ دلچسپ تحفہ ملاحظہ کر رہے تھے۔ تو اسفند اور وفا ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے۔

اور پھر چلا تھا آخری منظر جہاں دونوں سٹیج پر کھڑے پشتو گانا گا رہے تھے۔

جنکی جوڑی دیکھنے میں چاند سورج کو مات دے رہی تھی۔۔۔۔

لوگوں نے انکی اس پیار بھری داستان پر خوب ہوٹنگ اور ہلا گلا کیا۔

جس پر وفا کے گال سرخ ہڑ چکے تھے۔ اسفندیار نے بےاختیار اسکا ہاتھ تھامتے اسکی چوڑیوں پر لب رکھے تھے اور وہاں تالیوں کا سیلاب گونج اٹھا تھا جبکہ وفا نے فوراً شرم سے دہری ہوتے اسفند کے سینے میں منہ چھپایا تھا۔۔۔۔

                   ***********

سب نے ان دونوں کو ساتھ رہنے اور سدا خوش رہنے کی دعائیں دی تھیں۔

"اٹینشن پلیز میں چاہتی ہوں اسفندیار خان اپنی زوجہ کے لیے کچھ قیمتی الفاظ یہاں سٹیج پر آ کر بیان کریں"۔۔۔۔

عیشل کے بلانے پر اسفندیار سب لوگوں کی بھرپور تالیوں میں سٹیج پر آیا اور وفا کی طرف دیکھ کر کہنا شروع ہوا۔۔۔۔

" کبھی سوچا نہیں تھا جس ہستی کی چوڑیوں کی کھنک میرے دل میں بس گئی وہ ہی ہستی میرے دل کی دھڑکن بن جائے گی جس کے بغیر جینا محال ہو جائے گا۔ بے شک بہت سی آزمائشوں کے بعد ہی سہی مگر اپنے صبر کی بنیاد پر میں نے اپنے عشق اپنی وفا کو پا ہی لیا اور میری خدا سے یہی خواہش ہے کہ مجھے آخری سانس بھی اسے تکتے ہوئے آئے تاکہ اس کا چہرہ میں تاعمر اپنی آنکھوں میں بسا سکوں"۔۔۔۔

 اسفندیار کی اتنی محبت بھری باتوں پر پورا حال نہ تھمنے والی تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔۔۔۔

 جبکہ وفا جو اسفند کے شروع کی باتوں پر اپنے آپ کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی اس کی آخری بات پر ایسے لگا جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں بھینچ کر نچوڑ دیا ہوں۔۔۔۔

 اس کا دل دکھ سے بھر گیا تھا وہ تو اپنی زندگی اسفند کے بغیر اب تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کجا کے جدائی۔۔۔۔۔

 اپنی آخری بات پر وفا کی نم ہوتی آنکھیں دیکھ کر وہ لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس تک پہنچا تھا اور اس کی آنکھوں کی نمی کو اپنے پوروں سے سمیٹ کر پیشانی کو اپنے لبوں سے معطر کیا تھا۔۔۔۔۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یہ بات منہ سے نکالنے کی۔ تمہاری جان تو میں اپنے ہاتھوں سے لوں گی"۔۔۔

وفا نے اسفند کے سینے پر اپنے نازک ہاتھوں سے مکے برساتے سوں سوں کرتے کہا۔۔۔

تو وہ جان نسار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔

"کیا اتنا چاہتی ہو تم مجھے"

اسنے وفا سے سر ٹکراتے پوچھا۔۔۔

"اس سے بھی زیادہ کہ اگر سانس تمہاری بند ہو گی تو دھڑکن میری رک جائے گی"

اسکی بات پر اسفند کا دل کیا اسکے لب چوم لے مگر لوگوں کا لحاظ کرتے اسکے گال پر ہلکا سا کس کرتے فوراً پیچھے ہوا۔ جبکہ وفا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی جسنے لوگوں کا لحاظ کیے بغیر ہی امران ہاشمی بننے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔

اسکی اس حرکت پر سب نے زور و شور سے ہوٹنگ کی تھی جبکہ وفا شرمائی تو اسفند کھسیا کر رہ گیا۔۔۔۔

محفل اپنے عروج پر تھی ملنے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ جب وفا کے فون پر بیل ہوئی سیگنل صاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی۔۔۔

"ہیلو ہیلو کون"

اسنے فون کان سے لگاتے کہا وہ اس وقت سب سے اوپری سیڑھی پر کھڑی تھی۔ جب اسفندیار کی اس پر نظر پڑی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے تھے۔

فون پر جب کوئی نہ بولا تو وفا نیچے کی جانب اترتی کہ اجالا نے اچانک پیچھے سے آتے اسے دھکا دینا چاہا۔

اسفندیار جسکی نظریں وفا پر ہی تھیں۔

وہ اسکے پیچھے اجالا کے برے ارادے دیکھ چیخا۔۔۔

"وفا"

اسفند کے اس طرح چیخنے پر نہ صرف سارے وفا کی طرف متوجہ ہوئے تھے بلکہ وفا بھی جھٹکے سے پلٹی تھی۔

اور اجالا جو اسے دھکا دے رہی تھی۔ وفا کے اچانک مڑنے پر اسکا توازن بگڑا اور وہ سر کر بل سیڑھیوں سے گرتی چلی گئی۔۔۔

بہت ساری دل سوز چیخیں گونجی تھیں۔ جبکہ اسفندیار کی بھی سانسیں تھمی تھیں جب اسنے وفا کو لڑکھڑا کر پیچھے گرتا دیکھا تھا۔۔۔۔

وفا"۔۔۔

سب کے دل بند ہوئے تھے اس لمحے۔۔۔۔

                      ********

اجالا کو بچانے کے چکر میں وفا کا بھی توازن بگڑا تھا اور وہ بھی لڑکھڑاتی ہوئی پیچھے کو ہوئی جب شازیہ نے اسکا ہاتھ پکڑتے اسے گرنے سے بچایا۔

مگر اجالا سر کے بل گرتی چلی گئی۔ جس کے باعث اسکے سر پر شدید چوٹ آئی تھی اور خون بہنے لگا تھا۔

دوسری طرف وفا حیرت میں گھری شازیہ کو اپنا ہاتھ تھامے دیکھ رہی تھی جسنے اسے گرنے سے بچایا تھا۔اسنے کم از کم شازیہ سے یہ توقع نہیں کی تھی۔

اسکا سانس ڈر کے مارے پھول چکا تھا جو وہ سیدھے کھڑی ہوتی بحال کرنے لگی تھی۔

عمر فوراً اجالا کو لیتا ہسپتال کی طرف بھاگا تھا جبکہ اسفندیار دو دو سیڑھیاں پھلانگتا وفا تک پہنچا اور اسے ہر طرف سے چھو کر دیکھنے لگا۔ 

"وفا تم ٹھیک ہو نہ تمہیں کہیں لگی تو نہیں"

اسنے بغور اسکا جائزہ لیتے کہا دھڑکنیں ڈر کے مارے سست ہوئی تھیں کہ اگر اجالا کی جگہ وفا ہوتی تو وہ کیسے جی پاتا۔

"میں ٹھیک ہوں اسفند مجھے کچھ نہیں ہوا ریلیکس"

وفا نے اسفند کے ہاتھ تھامتے اسے پر سکون رہنے کا کہا۔۔۔۔۔

اسنے پلٹ کر شازیہ کا شکریہ ادا کیا جو عدت کے باوجود اسکی جان بچانے باہر آ گئی تھی۔۔۔۔

سب مہمانوں کے جانے کے بعد شازیہ نے ان سب کو بتایا کہ کیسے اسنے اجالا کو پھپھو سے فون پر بات کرتے سن لیا تھا۔جب وہ شیطانی عمل تیار کر رہی تھی۔

وقت کی ایسی چوٹ لگی تھی کہ شازیہ راہِ راست پر آ گئی تھی جسکا یقین وہ وفا کی جان بچا کر سب کو دلا چکی تھی۔

اسنے اپنا سب کچھ حسد میں کھو دیا تھا۔ بچا ہی کیا تھا اسکے پاس۔ اب اس نے سوچ لیا تھا کہ تمام وقت وہ اللہ سے معافی مانگ کر گزارے گی۔

اسکو تو اللہ نے سیدھی راہ دکھا دی تھی مگر اجالا اب بھی باز نہ آئی تھی۔ اسنے سوچا وہ زریاب سے دور ہے تو وہ وفا کو کیسے خوش رہنے دے سکتی ہے تبھی اسنے گھٹیا منصوبہ بناتے وفا کو دھکا دیا۔

 مگر توازن بگڑنے کے باعث وفا کی جگہ اسکا خود کا پیر پھسلا اور وہ گرتی چلی گئی۔ 

اللہ نے اسکو اسکے کیے کی سزا دے دی تھی۔ تب ہی تو جب اسے یسپتال لے کر جایا گیا۔ علاج کے بعد ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو چکی ہیں اور ہمیشہ کے لیے ابنارمل یعنی پاگل ہو چکی ہیں۔

شہناز بیگم اپنے بچوں کی بری قسمت دیکھ جتنا روتی اتنا کم تھا۔

رہی بات نائلہ بیگم کی تو انکی سازشی فطرت سے ہر کوئی واقف تھا۔ سب بڑوں نے باہمی فیصلہ کرتے انہیں کہیں اور فلیٹ لے دیا تھا۔ جہاں وہ اپنا وقت باقی عورتوں کے ساتھ گزارتیں اور انکی کن سن لیتیں۔ حویلی سے نکلنے سے پہلے انہوں نے لاکھ واویلا کیا تھا مگر سب نے انہیں نکال کر ہی دم لیا۔۔۔۔

                     ***********

مومن وفا کی ویڈینگ نائٹ پر ہی جان گیا تھا کہ اسفندیار اور وفا ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے بس اسے ہی دیر سے علم ہوا۔

وہ لاکھ اپنے دکھ پر پچتاوا کرتا روتا اتنا کم تھا۔ جو اسنے بویا تھا وہ تو اسکو کاٹنا ہی تھا۔

اسنے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ سرداری چھوڑ کر لنڈن مقیم ہو جائے گا کم از کم وہ وہاں جا کر ہی وفا کی یادوں سے نجات پا لیتا جو اسے اکٹوپس کی طرح جکڑا رکھتی تھیں۔

اسنے سرداری اسفندیار کے نام کر دی تھی۔

آخری بار جانے سے پہلے وہ وفا سے اسکے کمرے میں ملنے آیا تھا جہاں اسفند اور وفا دونوں اسے دیکھ چونکے تھے۔

"خیریت یہاں کیسے آنا ہوا"

وفا کے پوچھنے پر وہ دکھ سے مسکرایا۔

ایک وقت ایسا تھا جب وہ بے دھڑک وفا کے کمرے میں چلا آتا تھا مگر وقت نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ کمرے کا مالک اور اس میں رہنے والے مکین سے رشتہ دونوں ہی بدل گئے تھے۔

"کچھ نہیں بس جانے سے پہلے تم سے ملنا چاہتا تھا۔ مجھے تو تم لوگوں کی اینی ورسری کے دن پتا چلا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو یونی سے جانتے ہو"

اسکے لہجے میں ہلکا سا شکوہ تھا

"کبھی موقع ہی نہیں ملا نہ تم نے پوچھا نہ میں نے بتایا "

وفا نے کندھے اچکائے۔۔۔

"اور بھئی تم نے تو میری ہی بیوی ہتھیا لی اگر اتنی پسند تھی تو مجھ سے کہ دیتے تمہیں بھی اس جیسی ڈھونڈ دیتا تم بھی خوش رہتے اور مجھے بھی خالی ہاتھ رہ جانے کا پچھتاوا نہ ہوتا"

مومن کے لہجے میں کرب اور پچھتاوا شدت سے بول رہا تھا۔۔۔

"اس سے کیا کہتے ہو مجھ سے پوچھو نہ تم چھوڑنے کی بات کرتے ہو اسنے تو اپنا عشق تک اپنی دوستی کے نام کر دیا تھا"

وفا کی بات پر مومن حیرت سے اسے دیکھنا لگا۔۔۔

"نہیں سمجھے چلو میں بتاتی ہوں"

وفا رک جاؤ۔۔۔۔

اسفند نے وفا کو ٹوکا۔۔۔

"نہیں اسفند اسے بھی تو پتا چلے کہ ہم نے کیا کیا قربانیاں دی ہیں اسکے لیے۔ دیکھ رہے ہو اس شخص کو جسے کسی زمانے میں تم جگری یار کی طرح چاہتے تھے۔

 یہ مجھ سے تم سے بھی کئی پہلے سے محبت کرتا تھا۔ جس میں کوئی غرض شامل نہیں تھی۔ بے پناہ چاہتا تھا مجھے۔ ہماری ملاقات باہر نہیں بلکہ پاکستان میں ہوئی تھی اور اسنے اپنی سچی محبت کا ثبوت دیتے میرے گھر رشتہ بھجوا دیا تھا"

مومن ششدر سا وفا کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔

"اور سب سے بڑا ستم پتہ ہے کب ہوا جب ایک دن یہ مجھ سے یونی میں اظہارِ محبت کے لیے آیا"

وفا نے سنسنی پھیلاتے کہا۔۔۔

"تو پتا ہے میں نے اس سے کیا کہا"

مومن کی دھڑکن سست ہوئی تھی۔۔۔

"میں نے اس سے کہا جس سے میں محبت کرتی ہوں وہ تو تم ہو ہی نہیں بلکہ میں تو تمہارے بھائی جیسے دوست کو دل دے بیٹھی ہوں مومن یعنی تمہیں پتہ ہے کتنی تکلیف سے گزرا تھا یہ نہیں مگر تمہیں کیسے پتا ہو گا تمنے تھوڑی کبھی کسی سے سچی محبت کی ہے".

اسکی بات پر مومن نے تڑپ کر اسے دیکھا تھا۔۔۔

وہ بھی تو اب سچی محبت سے واقف ہو گیا تھا۔۔۔۔

"اور بس یہیں نہیں ہوئی اس دن تمہارے دوست کی موت ہوئی تھی۔ اسکے جزبوں کی اسکی لگن کی اسکی روح کی۔ میرے سامنے یہ گھٹنوں کے بل گرا تھا۔ وہ لڑ سکتا تھا اپنے پیار کے لیے مگر وہ نہیں لڑا پتا ہے کیوں کیونکہ مقابل اسکا بھائی تھا جسے وہ سب سے زیادہ چاہتا تھا جس کے لیے اسنے اپنے پیار کی قربانی دی تھی دیتا ہے کوئی آج کل کہ اس سفاک زمانے میں اپنے پیار کی قربانی نہیں کبھی نہیں لیکن اسنے دی کس کے لیے تمہارے لیے"

وفا نے اسکے سینے پر دستک دیتے کہا جو درد بھری نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

"تم نے اسی دوست اسی بھائی کی محبت کا وہ حال کیا کہ زمانہ دیکھتا رہ گیا اسکی آنکھوں کہ سامنے اسکی محبت کے چیتھڑے اڑاتے رہے تم جس نے بہت مان سے کبھی تمہیں اپنی محبت اپنی زندگی سونپی تھی"

وفا نے اسے حقیقیت کا آئينہ دکھایا جو بہت ہی قریح اور کڑوا تھا مگر سچ پر مبنی تھا۔۔۔

مومن کو یاد آیا جب اسفند نے شادی سے پہلے ایک دن اس سے وعدہ لیا تھا کہ اپنی پسند پر کامل یقین رکھنا کبھی اسے چھوڑنا مت نہ دغا دینا مگر وہ اپنی محبت کو اپنے ہاتھوں روندھ بیٹھا تھا۔۔۔

"کسی میں نہیں ہوتی اتنی برداشت کہ اپنی محبت کو کسی اور کے پہلو میں دیکھے مگر یہ شخص اسنے اسفند کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔ صبر سے دیکھتا رہا دل تو اسکا بھی پھٹتا ہو گا مگر اسنے لاکھ پہرے بیٹھائے ایک دفعہ بھی مجھ پر وہ نگاہ نہ ڈالی جس سے اسے تمہارے آگے شرمندہ ہونا پڑے ہمیشہ مجھے تمہارے رشتے کی وجہ سے عزیز جانا اور تم اسکی محبت سمجھ ہی نہ پائے اور کل تک اس پر شک کر بیٹھے۔۔۔"

"ایک بات یاد رکھنا مومن صبر کرنے والوں کو ہی منزلیں ملتی ہیں۔ اگر میں بھی تمہاری طرح ہوتی بدلے کی آگ میں جلتی تو میرا مقدر آج اسفندیار نہ ہوتا جس جیسے شوہر کی آج ہر لڑکی تمنا کرتی ہے"

اسنے جب یہ کہا تو اسکی آنکھوں میں فخر تھا غرور تھا اسفندیار کے لیے جو اس پر جچتا بھی تھا وہ یہ کہ کر جا چکی تھی ان دونوں کو تنہا چھوڑے۔۔۔

"میرے بھائی میرے دل مجھے معاف کر دینا آج تک میں تیرے دل کی بات نہ جان پایا میں اچھا دوست تو کیا بھائی بھی نہ بن پایا لیکن تو نے ان دونوں رشتوں میں مثال قائم کی ہے۔۔

 کاش میں بھی تجھ جیسا ہوتا لیکن وقت ابھی بھی نہیں گزرا میں کوشش کروں گا اسفند تو نہیں خیر تجھ جیسا ضرور بنوں جسکے لیے مجھے تنہائی کی ضرورت ہے اللہ سے نزدیکی کی ضرورت ہے"

اسنے آنسو پونچھتے اسفندیار کو کس کے گلے لگایا جیسے مل بھی پائے گا یا نہیں اسفند نے بھی تمام گلے مٹاتے اسے زور سے گلے لگایا۔۔۔

"مت جا یار"

اسفند کے کہنے پر مومن نم آنکھوں سے مسکرایا

"ابھی تو پہلی سیڑھی ہے آگاہی کی دوست جلد ملیں گے"

وہ اس سے خدا حافظ کیے نکل پڑا تھا اپنے نئے سفر پر۔۔۔۔

                            ****

وقت کا پہیا رکتا نہیں چلتا رہتا ہے۔ اجالا کو پاگل خانے شفٹ کر چکے تھے کیونکہ وہ مکمل پاگل ہو گئی تھی۔ سب کو انکے کیے کی سزا مل چکی تھی۔ شازیہ بھی سیدھی راہ پر آ گئی تھی اور پچھلے مہینے ہی اسکی دوسری شادی کر دی گئی تھی۔ مومن نے لنڈن میں اسلامک سینٹر جوائن کر لیا تھا جہاں وہ حفظ کر رہا تھا۔

حویلی کی بات کی جائے تو عمر اور عیشل کے ٹوینز ایک سالہ بچے ۔۔۔ ریہان اور ایشا سب کو ننھی شرارتوں سے اپنی طرف متوجہ کیے رکھتے۔

وفا کی پہلی ہریگنیمسی کا آخری مہینہ تھا۔ اسفندیار اسکا بہت خیال رکھتا یہاں تک کہ زمین پر ل پاؤں بھی رکھنے نہ دیتا تھا۔

غموں کے بادل چھٹ چکے تھے۔

وفا لان میں آہستہ آہستی چہل قدمی کر رہی تھی۔ جب اسفند نے اسے ہلکے سے باہوں میں بھرا۔۔۔

"اسفی"

وفانے کھلکھلاتے کہا تو اسفند نے اسکی پیشانی چومی۔۔۔

"جی اسفی کی جان"....

"دیکھیں سب خوش ہیں۔ آخر کار ہمارا پیار جیت گیا"

اسنے خوشی سے کہا۔۔۔

"جی میری جان یہ تو اللہ کا کرم ہے"

اسفند نے اسکی ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔۔

"ہاں بے شک لیکن آپ کی بدولت بھی"

"وہ کیسے "

اسنے تعجب سے پوچھا۔۔۔

"وہ ایسے کہ اگر آپ اپنی محبت کو سلگائے نہ رکھتے تو وہ کبھی عشق کا درجہ نہ پاتی بس اسی لیے ہم آج ساتھ ہیں اور انشاللہ سارھ رہیں گے جنت میں بھی"

اسکی بات پر اسفندیار سرشاری سے مسکرایا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اسکے پیٹ میں تیز درد کی لہر اٹھی تھی اور وہ کراہتے ہوئے گری تھی۔۔۔

اسفند ایک دم بوکھلاگیا تھا اور فوراً اسے لیے ہسپتال کی طرف دوڑا باقی سب بھی آگے پیچھے نکلے تھے۔۔۔

کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد وفا نے ایک سنہری و سرخ لڑکی کو جنم دیا تھا۔

جو اسفندیار کی گود میں آتے ہی ٹکر ٹکر آنکھیں پٹپٹا کر اسے دیکھنے لگی۔۔

ڈاکٹرز کے مطابق یہ بچی پیدائش کہ بعد ایک بار بھی نہیں روئی تھی بلکہ تیکھے نین نقش سے سب کو گھور رہی تھی کہ مقابل بھی بوکھلا جائے۔

ڈاکٹرز نے پہلا ایسا کیس دیکھا تھا۔۔۔

اسفند نے وفا کو اتنے پیارے تحفے پر ایک ہیرے کا لاکٹ گفٹ کیا تھا جس میں اسنے فوری طور پر تازہ بنی ہوئی اپنی بچی کے ساتھ تینوں کی تصویر لگائی تھی۔۔۔

"بھائی نام تو بتائیں اسکا"

عمر کی بےتابی پر وہ بولا۔۔

"افق , افق اسفندیار خان نام ہے میری شہزادی کا"

اسنے غرور سے کہا تو سب مسکرا دیے تھے افق کے اسفند کو ننھا سا مکا مارنے پر۔۔۔

حیرت تو تب ہوئی جب وہ افق اور وفا کو ہسپتال سے گھر لے جانے لگے تو راستے میں ایک درویش نے انکا رستہ روکا۔۔

"اس بچی کا بخت بہت بلند ہے مگر افسوس سب سے پہلی چوٹ یہ کسی اپنے قریبی رشتے سے کھائے گی ٹوٹے گی یہ بہت برا مگر پھر افق کی طرح چھائے گی حق ہا"

وہ یہ کہتا جا چکا تھا جبکہ سب پیچھے پریشان ہو چکے تھے افق کی آنے والی زندگی کو سوچ کر کہ اسکی زندگی مشکل ہونے والی تھی اور یہی بات سب کے دل ہولا گئی تھی۔ کیا ہونا تھا اس کا مقدر یہ تو اللہ جانتا تھا۔۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sulagti Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Mohabbat written by Aiman Raza. Sulagti Mohabbat by Aiman Raza is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment