Pages

Monday 5 August 2024

Malal E Ulfat By Zarmeen Kashf New Complete Romantic Novel

Malal E Ulfat By Zarmeen Kashf New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Malal E Ulfat by Zarmeen Kashf Complete Romantic Novel 

Novel Name: Malal E Ulfat 

Writer Name: Zarmeen Kashf

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

فیصل آباد شہر کی خوبصورت سڑک پر اس وقت بہت سی گاڑیاں موٹر سائیکل اور دیگر سورایاں سفر میں تھیں ان میں سے ایک نمایاں سفر کرتا وہ موٹر سائیکل پر سوار خوبصورت نوجوان اپنے کام کی طرف روانہ تھا۔

چمکتا ہوا سورج اس کی موٹر سائیکل کے ساتھ ساتھ ہی سفر کر رہا تھا تیز دھوپ اس کے سفید رنگ سے ٹکراتی ہوئی اس کی خوبصورتی کو مانند کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی تھی اس کی شربتی چمکدار آنکھیں اپنے راستے پہ منظم تھیں گاڑیوں کی آوازیں اور تیز دھوپ اس کے راستے کی روز کی ساتھی تھیں ۔

اب وہ اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا ۔ اس نے اپنی بائیک کو پارک کیا اور بائیک سے اترا اپنے سلکی اور ریشمی بال جو کہ بہت ہی عمدہ کٹ کئے گئے تھے انکو اپنے ہاتھوں کی پیاری انگلیوں سے سیٹ کرتے ہوئے  بائیک کی چابی نکال کر چلنے لگا ۔ وہ  سکائی بلیو ڈریس شرٹ گلے میں بلیک ٹائی لگائے اور بلیک ڈریس پینٹ میں ملبوس لڑکا عثمان تھا ۔( عثمان لڑکوں میں نمایاں صورت کا حامل تھا دیکھنے میں ایسا خوبرو نوجوان کہ کوئی بھی لڑکی اسے دیکھ کر اپنا دل ہار دے ہنستا تو جیسے سورج کی کوئی کرن چمکتی ہوئی نظر آتی اچھی قد و قامت نا ہی بہت لین نا ہی بہت ہیلتھی نارمل جسامت جیسے کہ کوئی (مسٹر پرفیکٹ)

  وہ ایک بہت بڑی لائبریری کے سامنے موجود تھا اور بائیک سے اترنے کے بعد کچھ ہی دیر میں اسکے اندر داخل ہونے والا تھا کہ اچانک سے دوسری بائیک بھی آکے پارکنگ ایریا میں رکی ۔ ارے احسن تم اس وقت آرہے ہو؟ عثمان نے اپنے دوست احسن کو آتے دیکھ اس سے پوچھا۔

وہ نوجوان عثمان کے ساتھ ہی اس لائبریری میں کام کرتا تھا وہ لائبریرین  تو تھے ہی ساتھ ہی بہت اچھے دوست تھے ۔ 

ہاں یار کیا بتاؤں آج ذرا سا لیٹ ہوگیا ۔ لیکن تم بھی تو ابھی آرہے ہو کیا بات خیریت ؟ احسن نے واپس سوال کردیا۔

میں نے تو بہت کوشش کی جلدی پہنچنے کی اب کیا کروں راستہ ہی اتنا لمبا ہے جلدی ختم ہی نہیں ہوتا وہ یہ کہہ کر ہنسنے لگا ۔ 

اب وہ دونوں اس عمارت کے اندر داخل ہوئے ۔

__________________________________________

امی مجھے لگتا ہے کہ مجھے کسی بیرون ملک چلے جانا چاہیے اس ملک میں کوئی فیوچر نہیں ہے میرا صبح سے کام پہ جاؤ شام کو واپس آؤ اور اتنی محنت کر کے بھی کمائی چند ہزاروں کی عثمان کھانے کے میز پر بیٹھا اپنی امی سے بات کر رہا تھا ۔ 

دیکھو عثمان میرے سامنے یہ فضول باتیں مت کیا کرو

تمہیں پتہ بھی ہے کہ مجھے تمہارا میری نظروں سے دور جانا برداشت نہیں پھر کیوں یہ بات بار بار کرتے ہو تم کہیں نہیں جاؤ گے جو ہے جتنا ہے کافی ہے کونسا تم اکیلے ہمارے گھر کے کمانے والے ہو ابھی تمہارے ابو ہیں اور بڑے بھائی بھی تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ کام بھی تم اپنی مرضی سے کر رہے ہو

سعدیہ بیگم بڑے نرم لہجے میں عثمان سے کہہ رہی تھی۔

اور ویسے بھی ہم تو چاہتے ہیں تم ابھی اور پڑھو اپنی تعلیم مکمل کرو پھر فیوچر کا سوچنا انہوں نے اپنی بات مکمل کی۔

یعنی اب میں پڑھائی بھی کروں ساتھ؟ عثمان نے حیرت سے انکی جانب دیکھا ۔

جی تم پڑھائی کرو ابھی تو صرف ( بی ایس سی) کی تھی تم نے اور یہ جاب شروع کر دی تم ماسٹرز کر لو عثمان ۔ اسکی بڑی بہن( نور)نے میز کی طرف آتے ہوئے اس سے کہا ۔ اب وہ بھی کھانے کے لیے بیٹھ چکی تھی

دیکھو ماسٹرز کرو گے تو باہر نا بھی گئے تمہاری ادھر ہی جاب پہ پروموشن ہو جائے گی ۔ اس نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

ہاں کہہ تو آپ ٹھیک ہی رہی ہیں آپی لیکن میں جاب کے ساتھ پڑھائی کیسے کروں گا اس نے اپنی بہن سے کہا ۔

اس میں کیا مسئلہ ہے بہت سے لوگ شام کی کلاسز میں داخلہ لیتے ہیں تم بھی لے لو جاب کا ٹائم زرا کم کروا لواسکے بعد ایوننگ کلاسز میں داخلہ لے کر اپنی پڑھائی شروع کر دو ساتھ ساتھ اسکی بہن نے اسے مشورہ دیا ۔

ہممم ٹھیک ہے کرتا ہوں کچھ ۔ وہ کہتے ہوئے کھانا کھانے لگا ۔

___________________________________________

دن بہت تیز رفتاری سے گزر رہے تھے زندگی اپنے معمول کے مطابق گزر رہی تھی ۔

کچھ ہی دِنوں میں عثمان نے ماسٹرز کرنے کے لیے اپلائی کرنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکا داخلہ بھی ایوننگ کلاسز میں ہوگیا ۔

وہ یونیورسٹی میں اس کا پہلا دن تھا ۔ عثمان ذرا انٹرو ورٹ قسم کا انسان تھا وہ زیادہ لوگوں سے ملنا جلنا گھلنا ملنا پسند نہیں کرتا تھا یا شاید کرنا ہی نہیں چاہتا تھا ۔ 

وہ کلاسز اٹینڈ کرنے کے بعد کیمپس کے باغیچے میں آکر بیٹھ گیا وہ اس وقت اپنے موبائل پہ سکرالنگ کرنے میں مصروف تھا  وہ کچھ دیر ادھر بیٹھا  موبائل سے نظر ہٹا کر ارد گرد گھومتے پھرتے سٹوڈنٹس کو دیکھتا رہا اور پھر گھر چلا گیا ۔

__________________________________________

اب وہ اپنے گھر کے مین گیٹ پر تھا ۔ اس نے بائیک سے اتر کر خود ہی دروازہ کھولا اور بائیک گھر کے اندر داخل کی بائیک کو گیراج میں کھڑا کیا جہاں اس کے والد  اکبر  صاحب کی گاڑی بھی موجود تھی وہ بھی گھر آچکے تھے ۔ 

وہ اب لاؤنج میں داخل ہوا سامنے ہی اس کو سعدیہ بیگم نظر آئیں ۔

کیسا رہا یونیورسٹی میں پہلا دن ۔ عثمان کی امی نے اسے پیار کرتے ہوئے پوچھا ۔

بہت اچھا رہا امی بہت اچھا پڑھاتے ہیں تمام ٹیچرز مجھے بہت مزہ آیا سب کے لیکچرز میں ۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا آج پہلے دن ہی ۔ عثمان نے خوشی کا اظہار کیا ۔

ابو آگئے ؟ اس نے امی سے پوچھا ۔

جی بیٹا آگئے ہیں وہ فریش ہونے گئے تم بھی جاؤ فریش ہو جاؤ میں کھانا لگاتی ہوں اس کی امی نے اسے تلقین کی ۔

وہ اپنا یونی بیگ کندھے پہ اٹھائے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوا۔۔۔

___________________________________________

رات کے 9 بج رہے تھے وہ تمام گھر والے کھانے کی میز پر موجود تھے ۔ جن میں اس کی بڑی بہن نور بڑا بھائی سعد  خود عثمان اسکی چھوٹی بہن نمرہ  اور امی ابو دونوں شامل تھے

دستر خوان نہایت سلیقے سے ترتیب دیا گیا تھا جیسا کہ عثمان کی امی انتہائی سلیقہ شعار خاتون تھیں

جی تو برخوردار کیسا رہا یونیورسٹی میں پہلا دن  اس کے ابو نے نوالہ لیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

جی ابو بہت اچھا رہا ۔۔۔۔۔

تو امید ہے کہ دل لگ جائے گا پڑھائی میں؟

جی ابو کیوں نہیں لگے گا انشاء اللہ میں مایوس نہیں کروں گا آپ کو۔۔۔۔۔۔

یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ تم پڑھائی میں کافی اچھے ہو اسکے بڑے بھائی نے بھی بات میں حصہ ڈالا ۔۔۔۔

نہیں بھائی اب ایسی بھی بات نہیں آپ سے تو کم ہی ہوں ۔۔۔ عثمان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔

وہ سب خوشی خوشی ساتھ کھانا کھا رہے تھے ۔۔۔۔

___________________________________________

اس وقت رات کے 2 بج رہے تھے ہر طرف سناٹا تھا گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ۔۔۔

عثمان کو رات دیر تک جاگنے کی عادت تھی وہ اس وقت بھی کچھ سوچوں میں گم تھا ۔۔۔۔۔

زندگی کتنی تیزی سے آگے بڑھتی ہے اور ذہن ۔۔۔۔۔  ذہن وہیں کا وہیں اٹکا رہتا ہے ۔۔۔ کاش جیسے وقت گزرتا ہے ہمارے ذہن سے سب خیالات بھی مٹ جائیں کچھ باقی نا رہے ۔۔۔۔ وہ اس وقت اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔۔۔۔

نہیں عثمان اگر خیالات مٹنے لگیں تو بہت سی اچھی یادوں سے بھی انسان محروم رہ جائے ۔۔۔۔۔

یہ یادیں ہی تو ہوتی ہیں جو ہم سے ہمارا سکون چھین لیتی ہیں ۔۔۔۔۔

لیکن یادیں ہی تو ہمارے جینے کی وجہ بھی ہوتی ہیں ہم ان یادوں کے سہارے ہی تو کسی کو اپنے دل میں ذہن میں محفوظ رکھتے ہیں ۔۔۔۔ 

عثمان خود سے ہی مکالمہ کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔

وہ روز صبح حسبِ معمول اپنے کام پہ روانہ ہوتا تو شام کو یونیورسٹی کلاسز اٹینڈ کرنے کے لیے جاتا۔۔۔۔۔

دن گزر رہے تھے ۔ عثمان کی بھی یونیورسٹی میں سب سے جان پہچان بڑھنے لگی ۔ اس کے حلقہ احباب میں اضافہ ہونے لگا۔۔۔۔

 یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس کی چہل پہل تھی سب ہی اپنے اپنے گروہوں میں تقسیم کھڑے باتیں کرنے میں مصروف تھے ۔۔۔۔ 

عثمان کوریڈور میں کھڑا اپنے موبائل پہ نظر جمائے کچھ دیکھ رہا تھا۔۔۔ 

اسلام وعلیکم!..... وہ سیاہ عبایا میں ملبوس نیوی بلیو حجاب کئے لڑکی عثمان سے مخاطب ہوئی۔۔۔

والیکم سلام ۔۔۔۔ عثمان نے موبائل سے نظر ہٹا کرایک نظر  اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ جی کہئیے کیا بات ہے

کیا آپ مجھے انگلش لٹریچر ڈیپارٹمنٹ کا راستہ بتا سکتے ہیں میں نئی ہوں یہاں آج میرا پہلا دن ہے اور مجھے کلاسز کے بارے میں نہیں معلوم ۔۔۔۔ اس نے نہایت سلیقے سے عثمان سے پوچھا۔۔۔۔۔

ویسے تو میں بھی سیم سبجیکٹ کا سٹوڈنٹ ہوں اور ابھی کچھ ہی دیر میں کلاس شروع ہونے والی ہے چلیں میں آپ کو راستہ بتاتا ہوں ۔۔۔۔ اب عثمان کی نظر جھکی ہوئی تھی اور وہ بنا اسے دیکھے اس کو یہ سب کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

جی ٹھیک ہے آپ مجھے بتا دیں بلکہ ساتھ لے جائیں ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ 

وہ دونوں کلاس کی طرف چل پڑے ۔۔۔۔ عثمان آگے چل رہا تھا اور وہ لڑکی عثمان کے پیچھے۔۔۔۔۔

شکر ہے کسی نے تو بنا دیکھے نظر جھکا کر بات کی ورنہ تو سب ایسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے ہیں جیسے نظروں سے ہی کھا جائیں گے ۔۔۔ وہ اس کے پیچھے چلتی ہوئی سوچ رہی تھی ۔۔۔۔

لیں جی آگیا کلاس روم۔۔۔۔ عثمان نے بڑے سے کمرے کے سامنے رکھتے ہوئے کہا جسکے ماتھے پر انگلش لٹریچر کا بورڈ بھی لگا ہوا تھا۔۔۔۔۔

بہت بہت شکریہ آپ کا مسٹر امممم۔۔۔۔ وہ کہتے ہوئے رکی۔۔۔۔۔ آپ کا نام تو مجھے پتا ہی نہیں ۔۔۔۔۔

میرا نام عثمان اکبر ہے ۔۔۔۔ اس نے شائستگی سے کہا۔۔۔

جی تو بہت شکریہ آپ کا مسٹر عثمان ۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

شکریہ کی کوئی بات نہیں مس۔۔۔۔ 

مشعل ۔۔۔۔ عثمان کی بات ابھی منہ میں ہی تھی کہ وہ فوراً سے بول پڑی۔۔۔۔ میرا نام مشعل ہے 

جی ٹھیک ہے مس مشعل اب آپ جا سکتی ہیں کلاس میں ۔۔۔۔عثمان یہ کہہ کر خود بھی کلاس میں داخل ہو گیا۔۔۔۔ 

کچھ دن تک کلاسز کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا ۔۔۔۔۔ مشعل کی یونی میں کافی لڑکیوں سے اچھی جان پہچان ہو گئی تھی۔۔۔۔ وہ ہے ہی ایسی خوش اخلاق تھی کہ جلد ہی سب سے آشنا ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔

ایک دن کلاس ختم ہونے کے بعد سبھی سٹوڈنٹس کلاس سے باہر نکل رہے تھے ۔۔۔۔۔ 

رنگ برنگی دنیا میں وہ کچھ الگ تھلگ تھی ۔۔ وہ اپنا چھوٹو سا میرون رنگ کا بیگ کندھے پہ اٹھائے یونی کے گارڈن کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔ مشعل کی نظر چاروں طرف گھوم رہی تھی وہ وہاں کی چہل پہل دیکھ کر حیران تھی کہ کیسے سبھی خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔ 

مشعل یونی کے گارڈن میں آکر بیٹھ گئی اور بیگ سے ایک کتاب نکالی جو کہ ایک ناول تھا ۔۔۔۔ وہ ادھر بیٹھے اس کتاب کو کھول کر پڑھنے میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔  

ہیلو ! ۔۔۔۔ اس لڑکے نے مشعل سے مخاطب ہوکر کہا ۔۔۔۔

جی بولیں ۔۔۔۔۔ مشعل نے کتاب سے نظر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

میرا نا رستم ہے ۔۔۔ میں آپکا کلاس میٹ ہوں شاید آپ نے  مجھے کلاس میں دیکھا ہو۔۔۔۔۔ وہ اس کے سامنے والے بینچ پر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔

جی نہیں میں نے آپ کو نہیں دیکھا ۔۔۔۔ اس نے بلا تاثر کہا ۔۔۔ اور نا ہی میں نے آپ سے نام پوچھا ہے آپ کا۔۔۔۔

کوئی بات نہیں آپ نے نہیں پوچھا تو میں بتا تو رہا ہوں کہ میں کلاس فیلو ہوں آپ کا ۔۔۔۔۔

جی بہتر اور کچھ؟؟ ۔۔۔۔ مشعل نے اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔

اور بھی بہت کچھ اگر آپ سے دوستی ہو جائے تو ۔۔۔۔۔ رستم نے اپنے ٹھرک پن کا مظاہرہ کیا ۔۔۔۔۔

بس دکھا دی اپنی اوقات کمینے لعنتی کہیں کا اکیلی لڑکی دیکھی نی کہ آگئے رال ٹپکانے ۔۔ مشعل دل میں کہتے ہوئے اسے گھور رہی تھی ۔۔۔۔ 

کیوں پوری یونی ورسٹی میں آپ کو میں ہی ملی ہوں کہ دوستی کی جائے جائے بھئی اپنا کام کریں پڑھنے آئی ہوں میں دوستیاں کرنے نہیں ۔۔۔۔۔ 

یہاں تو سب دوست ہوتے ہیں جب ساتھ پڑھتے ہیں تو دوستی تو ہوتی ہے نا میڈم ۔۔۔۔ رستم اسے تنزیہ انداز میں کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ 

ہوتی ہے لیکن لڑکیوں کی لڑکیوں کے ساتھ دوستی ہوتی ہے اور لڑکوں کی لڑکوں کے ساتھ ۔۔۔ مشعل نے پھر سے کہا ۔۔۔۔

جی تو آپ کا مطلب کہ لڑکے لڑکی میں دوستی نہیں ہوتی؟ ہم تو جتنے لوگ ہیں کلاس میں سب دوست ہیں خواہ وہ لڑکیاں ہیں یا لڑکے ۔۔۔۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ اگر لڑکا لڑکی دوست ہوں تو کچھ غلط ہی ہو ان کے درمیان ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ضروری نہیں کہ کچھ غلط ہو ۔۔ مانتی ہوں میں اس بات کو ۔۔۔۔ لیکن ہمارے دین میں کہاں لکھا ہے کہ لڑکے کو لڑکی کا دوست ہونا چاہیے ۔۔۔ اور کیا ہمارے معاشرے میں کسی لڑکے لڑکی کی دوستی کو ایکسپٹ کیا جاتا ہے ؟....  مشعل میں پھر سے ایک سکالر کی روح بیدار ہو چکی تھی۔۔۔ 

مانتی ہوں کچھ لیڈ کلاس لوگوں میں اس بات کو بہت عام سمجھا جاتا ہے اور خاص کر آجکل کا نظام تعلیم ہی ایسا ہے کہ ہمیں نا چاہتے ہوئے بھی مخالف جنس کے ساتھ پڑھنا ہوتا ہے بات بھی کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔ لیکن جب بھی بات آتی ہے ہمارے معاشرے میں دوستی کی تو اگر کوئی لڑکا لڑکی دوست ہیں تو کسی سے ذکر بھی کرنے پہ سب سے پہلے جملہ آتا ہے۔۔۔۔ اوووو تو آپ دوست ہیں ۔۔۔۔ بس دوست ہی ہیں؟۔۔۔۔۔

یہ باتیں بھی پھر آپ جیسے لبرل لوگ ہی کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ اور چلیں مان لیا کہ ایسی کوئی بات بھی نہیں ہوتی  تو بھی آپ مجھے بتائیں آپ خود ایک مرد ہیں کیا کوئی لڑکا صرف پڑھائی کی حد تک یا انسانیت کی حد تک کسی لڑکی سے دوستی کا کہتا ہے؟؟؟؟ مشعل نے مشکوک انداز میں رستم کو دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔۔

نہیں بلکہ 100 میں سے 99 لڑکے لڑکیوں سے صرف مخالف جنس کی قربت میں رہنے کے لیے اور دلی تسکین کیلئے ہی ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں ۔۔۔ اور انکی دوستی کو پیار میں یا کشش میں بدلتے بھی دیر نہیں لگتی۔۔۔۔۔ بعد میں کوئی لڑکی یہ کیوں کہتی ہے کہ فلاں انسان نے مجھے دھوکہ دے دیا میری فیلنگ ہرٹ کردی ۔۔۔۔ پہلے کیا پتا نہیں ہوتا کہ سامنے والے انسان کو ہم خود ہی چانس دے رہے ہوتے ہیں اپنے جذبات تک رسائی ہم اسے خود ہی دیتے ہیں ۔۔۔۔  اللّٰہ پاک نے عورت کو یہ صلاحیت عطا کر رکھی ہے کہ وہ ایک ہی نظر میں پہچان لیتی ہے کہ کوئی اگر اسکے قریب ہے تو کیوں ہے پھر کیسے ہم خود ہی بیوقوف بن سکتے ہیں ۔۔۔۔ اس نے رستم کو اچھا خاصا لیکچر دے دیا۔۔۔۔۔

اوکےےےےےے بی بی سانس تو لے لو ۔۔۔۔ رستم حیران تھا ۔۔۔۔ ایک ہی سانس میں اتنا کچھ سنا دیا وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔ 

میں نہیں مانتی یہ دوستی کو ٹھیک ہے مجبوری ہے پوری طرح عمل نہیں کر پار ہے ہم لوگ دین پہ دنیا داری بھی ساتھ رکھی ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ کسی سے بھی دوستی کرتے رہیں ۔۔۔۔  آپ نے آکے مجھ سے ییلو ہائی کی مجھ سے مخاطب ہوئے کیا میں نے واپسی آپکو کوئی گولی مار دی اس بات پہ۔۔۔۔۔ نہیں نا تو کیا اتنا کافی نہیں کہ کوئی انسانیت کے ناطے بات کر رہا ہے کچھ پوچھ رہے ہیں تو جواب بھی دے رہا ہے۔۔۔۔۔ 

وہ تو ٹھیک ہے لیکن دوستی سے زرا بات چیت میں اضافہ ہو جاتا ہے بندہ اور بھی بات کر سکتا ہے دکھ سکھ بانٹ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ رستم نے اسکی بات کا جواب بڑی دیدہ دلیری سے دیا ۔۔۔۔۔۔۔

کیا یہ دوستی کرنا فضول میں فری ہونا سب ضروری ہے ؟؟؟؟... 

یا یوں کہوں کہ ایک ٹرینڈ ہے کہ یونی میں سب ساتھ ہیں تو لڑکیاں بھی تو دوست ہونی چاہیئے تا کہ کہہ سکیں فلاں ہماری دوست ہے ۔۔۔۔۔ اس بات سے کوئی بھی میرے خیالات کو دھکیانوسی کہے یا جو بھی لیکن لڑکیوں کے لئیے کسی کی دوست کہلانا اچھی بات نہیں ہے ۔۔۔۔۔ مشعل بنا رکے سب کہے جا رہی تھی۔۔۔۔

اچھا میری ماں بس کرو میں معذرت کرتا ہوں آپ سے۔۔۔ رستم نے ہار مانتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ آپ سے  دوستی کا دوبارہ نہیں کہوں گا آئی اپولو جائز اوکے۔۔۔۔۔۔۔

جی بہتر ہے,لیکن میں کوئی معذرت نہیں کروانا چاہتی آپ سے بس ایک بات بتائی ہے کہ آپ لوگوں نے یہ عجیب بات اپنائی ہوئی ہے مہربانی فرما کر اس سوچ کو زرا کم کریں ۔۔۔۔۔۔ اب آپ جا سکتے ہیں مشعل نے دوبارہ کتاب کھولتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

آفت ہے بھئی آفت ہے یہ لڑکی۔۔۔۔۔۔ رستم منہ میں بڑبڑاتے ہوئے چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

___________________________________________

امی کھانا بنا ہوا ہے نا مشعل اس وقت یونی سے واپس گھر آچکی تھی ۔۔۔۔۔۔ اپنے کمرے سے چینج کرنے کے بعد اب وہ کچن میں پہنچ گئی تھی ۔۔

جی بیٹا بن گیا ہوا ہے کھانا تم بیٹھو میں لگاتی ہوں ۔۔۔

نہیں امی آپ جائیں جا کر بیٹھیں میں خود کھا لوں گی آپ بتائیں آپ چائے پئیں گی؟۔۔۔۔۔ 

چلو ٹھیک ہے چائے بنا لینا پھر میرے لیے ۔۔۔۔ کہتے ہوئے سمرین بیگم لاؤنج کی طرف روانہ ہوئی۔۔۔۔ 

یہ معمول ہی تھا کہ مشعل یونی سے آکر اپنا سارا کام خود ہی کرتی تھی اور ساتھ گھر کا بھی۔۔۔۔۔ 

مشعل نے اپنے لیے پلیٹ میں چاول ڈالے ساتھ رائتہ اور سلاد لیا ۔۔۔۔ اور ایک سائیڈ پر رکھ دیے ۔۔۔۔۔ پتیلی میں فریج سے نکال کر دودھ ڈالا اور دو کپ چائے بنانے کیلئے رکھ دی۔۔۔۔۔ ابھی چولہا نہیں جلایا تھا ۔۔۔۔

مشعل بیٹا کھانا کھا لو چائے بعد میں بن جائے گی نا ۔۔۔ اس کی امی نے آواز دی ۔۔۔۔۔

جی امی آرہی ہوں بس ۔۔۔۔۔ اس نے اپنے کھانے کی پلیٹ اٹھائی اور جا کہ صوفے پر رکھ دی واپس کچن میں گئی اور پانی کا گلاس بھرا اور لے کر واپس آکر امی کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ مشعل نے بسم اللّٰہ پڑھ کر کھانا شروع کیا ۔۔۔۔ ایک نوالا منہ میں ڈالا اور چباتے ہوئے بات کرنے لگی ۔۔۔۔۔

امی ابو نہیں آئے ابھی ؟؟؟۔۔۔۔

نہیں ابھی وقت ہے انکے آنے میں تم کھانا کھاتے ہوئے مت بولا کرو کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں ۔۔۔۔ اسکی امی نے اسے ٹوکا۔۔۔۔ چپ کر کے کھانا کھا لو پہلے ۔۔۔۔۔

اچھا نا تھوڑی سی ہی تو بات کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہوئے ہنسی ۔۔۔۔ 

میں کہاں زیادہ بولتی ہوں آپ کو پتا تو ہے امی۔۔۔۔۔

ہاں ہاں تم تو بولتی ہی نہیں ۔۔۔۔ جیسے مجھے پتا نہیں ہے تمہارا ۔۔۔۔ اسکی امی نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔

اب آپ شروع نا ہوجانا کہ میں بہت بولتی ہوں۔۔۔۔ مشعل نے کھانا ختم کیا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ زیادہ بولنے پہ آپ مجھے لیکچر دیں بہتر ہے کہ میں آپ کیلئے چائے بنا کر لاتی ہوں ۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی ۔۔۔۔۔

 مشعل گنگناتے ہوئے بڑے موڈ میں چائے بنا رہی تھی ۔۔۔ کچھ ہی منٹوں میں چائے بنا کر اس نے دو کپوں میں ڈالی اور اپنی امی کے پاس لے آئی ۔۔۔ وہ دونوں ماں بیٹی چائے پینے لگیں ۔۔۔۔۔۔

اتنے میں صالح صاحب بھی آگئے۔۔۔۔۔ ارے واہ چائے پی جارہی ہے ۔۔۔ انہوں نے آتے ہی کہا۔۔۔۔۔

جی آگئے آپ ۔۔۔۔۔۔ سمرین بیگم نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

 نہیں ابھی راستے میں ہوں تھوڑی دیر تک پہنچ جاؤں گا ۔۔۔۔۔ وہ ہنسنے لگے ۔۔۔۔

ابو آپ بھی نا آپکی یہ مزاک کرنے کی عادت ہمارا دل لگائے رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔ 

لیکن تمہاری امی کو یہ عادت بلکل بھی پسند نہیں ۔۔۔ وہ اب بھی ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔ دیکھو کیسے منہ بنا لیتی ہیں ۔۔۔۔۔

میں نے کب منہ بنایا ہے بھلا آپ بھی نا۔۔۔۔۔ جاؤ مشعل اپنے ابو کیلئے پانی لاؤ ۔۔۔۔۔۔

اسکے ابو صوفے پہ بیٹھ گئے اور مشعل پانی لینے چلی گئی ۔۔۔۔۔ پانی پلانے کے بعد اس نے پوچھا۔۔۔۔۔۔

ابو کھانا گرم کروں آپ کے لیے۔۔۔۔۔

جی بیٹا میں پہلے فریش ہو لوں پھر کرنا ۔۔۔۔۔

___________________________________________

جسے دیکھو بس دوستی کر لو دوستی کر لو اور کوئی کام ہی نہیں رہ گیا اس دنیا میں ۔۔۔۔ مشعل رات کے وقت اپنے سٹڈی ٹیبل پر موجود ہاتھ میں پنسل گھماتے ہوئے خود سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔۔ سامنے کتابیں رکھی تھی ۔۔۔۔۔ 

بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی اتنے سے دنوں میں کتنے زیادہ لوگوں نے ایک ہی بات مجھ سے کی دوستی کر لو دوست بن جاؤ ۔۔۔۔ کیوں بن جاؤں میں بھلا دوست 

جب کہ میری لڑکیاں دوست بھی تو ہیں ۔۔۔۔ پھر مجھے کیا پڑی ہے لڑکوں سے دوستی کرنے کی۔۔۔۔۔۔

زندگی میں لوگوں کا کوئی مقصد ہی نہیں رہا آجکل لوگ پڑھائی کو بھی تفریح سمجھنے لگے ہیں ۔۔۔ 

شاید یہی وجہ ہے ہمارے ملک کی خستہ حالی کی کہ یہاں تعلیم شعور نہیں دے رہی بلکہ آزاد خیال بنانے کے نام پہ ہماری ثقافت ہی ختم کرتی جا رہی ہے ۔۔۔ 

لوگ اپنا ورثہ سنبھالتے ہیں اور ہم اپنا اسلامی نظام اپنا پاکستانی ورثہ سب ویسٹرن ممالک کی نظر کر رہے ہیں ۔۔۔۔

ہماری قوم کے لوگ ہر شعبے میں بے ایمانی رشوت خوری کر رہے ہیں ۔۔۔۔ جہاں ملک کے حکمران کرسی کی جنگ آپس میں ہی لڑتے رہیں گے وہاں کوئی بھی نظام ٹھیک کیسے ہو پائے گا ۔۔۔۔ مشعل گہری سوچ میں گم تھی ۔۔۔۔ 

اب تو گنتی کے چند ہی لوگ بچے ہیں جو پڑھ لکھ کر کچھ سیکھنا چاہتے ہیں یا کچھ بننا چاہتے ہیں ورنہ تو سب کیلئے اب تعلیم گاہیں بھی تفریح کا سامان ہی بن گئی ہیں ۔۔۔۔

کاش کہ جو ہمارے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے سوچا تھا آج ہم نوجوان اسی پہ عمل کر رہے ہوتے ۔۔۔۔

کہنے کو تو ہم آزاد ہیں لیکن میرے خیال میں ہم آج بھی غلام ہیں انگریزوں نے ہمارا ملک تو چھوڑ دیا لیکن ہمیں اب بھی اپنی غلامی میں مصروف رکھا ہے آدھے سے زیادہ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں وہاں کام کرتے ہیں اپنے ملک میں رہنا یا کام کرنا پسند نہیں کرتے ۔۔۔۔ کریں بھی کیسے ملک کا نظام ہی ایسا ہے جو محنت کرتے ہیں ان کو کچھ ملتا بھی تو نہیں ۔۔۔۔

اور باقی کی آدھی نوجوان نسل انگریزوں کی بنائی ٹک ٹاک پر مصروف عمل ہے ۔۔۔۔

اس دنیا میں کچھ اچھا ہے ہی نہیں مشعل دفعہ کرو تم ۔۔۔۔ تم کیوں سوچ رہی ہو ۔۔۔۔ تمہارے پاس کونسا جادو کی چھڑی ہے جو گھماؤ گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔ وہ خود سے کہتے ہوئے کتاب کھول کر پڑھنے لگی۔۔۔۔۔

عثمان غیر معمولی شخصیت کا حامل تھا ۔۔۔ یونی میں لڑکیاں اس کی صورت کو دیکھ کر ہی زیادہ تر اس کی قربت میں رہنا پسند کرتی تھیں ۔۔۔۔ 

عثمان سب کے ساتھ ایک حد تک محدود رہتا تھا نا کسی سے زیادہ فرینک ہونا نا ہی الگ تھلگ رہنا وہ اپنے لہجے اپنے ملنے جلنے میں سب سے تناسب رکھتا تھا ۔۔۔۔

وہ اور مشعل ایک ہی کلاس میں تھے تو اکثر آمنا سامنا بھی ہوتا رہتا تھا۔۔۔۔۔

جیسے کہ مشعل زرا باقی کلاس فیلوز سے الگ تھی ۔۔۔ عثمان بھی اس سے اس لحاظ سے ہی برتاؤ کیا کرتا تھا۔۔۔۔۔ 

اس روز بھی وہ  بیٹھی کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔ لیکن اس دن وہ کہانی اپنے پاس بیٹھی ہوئی کچھ لڑکیوں کو سنا رہی تھی ۔۔۔۔ 

تو یہ تھی حیا سلیمان جو بہت سے آپشنز ملنے کے باوجود بھی جہان سکندر کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھی۔۔۔۔۔ کیونکہ محبت میں آپشنز نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ مشعل بہت پر ذوق انداز میں اپنی کلاس فیلوز سے کہانی شئیر کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

واہ کیا بات ہے ۔۔۔۔۔۔ عثمان نے سراہتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ جو کچھ ہی فاصلے پر کھڑا اسکی باتیں سن رہا تھا۔۔۔۔۔

یہ کہانی تو بہت اچھی ہے مشعل ۔۔۔۔۔ یہ کونسا ناول ہے ۔۔۔۔۔۔۔ عثمان نے مشعل سے سوال کیا ۔۔۔۔

یہ ہے "جنت کے پتے "  میں ایسے تھوڑے بہت ناولز پڑھ چکی ہوں جنکی سٹوری بہت دلچسپ ہو ۔۔۔۔ اور کچھ سکھانے والی بھی۔۔۔۔۔۔ مشعل نے عثمان کو جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔

مجھے بھی سننے میں اچھی لگی ہے کہانی تو ۔۔۔ آئی ایم سوری لیکن میں تب سے یہاں کھڑا آپ کی بات سن رہا تھا ۔۔۔۔ مجھے بھی کافی دلچسپی ہے ناولز میں ۔۔۔۔ 

جی کوئی بات نہیں اسمیں سوری کیوں یہ تو زوق کی بات ہے ۔۔۔۔۔مشعل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ عثمان سے کہا۔۔۔۔۔

مشعل کو عثمان سے مخاطب ہونے میں چڑ نہیں ہوتی تھی وہ اسے دوسروں سے کچھ الگ دیکھتی تھی تب سے جب سے اس نے مشعل کو کلاس کا راستہ بتاتے نظر جھکا رکھی تھی۔۔۔۔۔

اچھا پہلی دفعہ سنا ہے کسی لڑکے کو ناولز میں دلچسپی ہے ۔۔۔۔ ارسہ نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔ جو مشعل کے ساتھ ہی بیٹھی تھی ۔۔۔۔

ارے پہلی دفعہ کیوں ہوتا ہے بہت سے لڑکے ناولز میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ نمرہ نے اچانک سے کہا ۔۔۔۔

بلکل ٹھیک کہا نمرہ بی بی نے اور میں بھی انہیں لڑکوں میں سے ہوں ۔۔۔۔ عثمان کہتے ہوئے ہنس دیا ۔۔۔۔

عثمان آپ پیر کامل پڑھنا بہت اچھا ناول ہے گمراہی سے ہدایت کی طرف سفر ہے امید کرتی ہوں آپ کو بہت پسند آئے گا ۔۔۔۔ مشعل ایکسائٹڈ تھی ۔۔۔۔۔

جی نام تو سنا ہے چلیں انشاء اللہ وقت ملا تو ضرور پڑھوں گا ۔۔۔۔ بہت شکریہ آپ کا ۔۔۔۔ 

میں زرا کینٹین کی طرف جارہا تھا ۔۔۔ آپ لوگ کریں باتیں میں چلتا ہوں ۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گیا۔۔۔۔۔

ایسے ہی ہماری باتوں میں ٹانگ اڑانے کے لیے آگیا تھا کوئی دلچسپی نہیں ہوگی اسے ناولز میں ۔۔۔۔ ارسہ نے تنزیہ انداز میں کہا۔۔۔۔۔

ارے نہیں عثمان مجھے ایسا نہیں لگتا کہ جان کہ بس گپیں لگانے کے لیے کسی سے فضول میں بات کرے ۔۔۔ وہ الگ ہے زرا سب سے۔۔۔۔۔۔ مشعل نے اپنی رائے دی۔۔۔۔۔

ہاں نا عثمان تو سب سے الگ ہے دیکھو نا کتنا ہینڈسم ہے ۔۔۔۔۔ یہ پیاری پیاری آنکھیں ہیں اسکی کِھلتا ہوا چہرہ گلابی رنگ گبرو جوان ہے سچی میرا تو دل آگیا اس پہ۔۔۔۔۔ نمرہ نے رومانوی انداز میں کہا ۔۔۔۔۔

شرم کر لو تم تھوڑی وہ کسی کی طرف نہیں دیکھتا نا ہی اس میں ایسا کچھ ہے تو تم کو بھی شرم کرنی چاہیے نمرہ ۔۔۔۔ مشعل زرا سخت ہوئی۔۔۔۔۔

ارے یار جب پیار کیا تو ڈرنا کیا اور کیسی شرم ۔۔۔۔۔ نمرہ نے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔۔

کوئی حال نہیں تمہارا پاگل ہو تم بلکل نمرہ ۔۔۔ چلو اٹھو دفع ہو جاؤ ہمارے لیے کچھ کھانے کو لاؤ ۔۔۔۔ مشعل نے ہنستے ہوئے کتاب اس کے کندھے پر ماری ۔۔۔۔۔

ہائے کینٹین پہ جاؤں عثمان بھی وہیں گیا ہے ۔۔۔۔ میں ابھی جاتی ہوں ۔۔۔۔ محبوب سے دوسری ملاقات ہو جائے گی۔۔۔۔۔ نمرہ نے پھر سے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔

سدھر جاؤ تم نِمیییییی ۔۔۔۔۔ ارسہ بولی ۔۔۔۔۔۔۔

اوکے آئی ایم گوئنگ ۔۔۔۔۔۔ میں چلی میں چلی سوہنے یار کی گلی نمرہ کھکھلاتے ہوئے کینٹین کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ 

پاگل ہے یہ لڑکی بلکل ۔۔۔۔ مشعل ہنس رہی تھی ۔۔۔۔۔

___________________________________________

 ہائے عثمان!.....  اریج عثمان کے آفس میں داخل ہوئی۔۔۔۔

ہیلو!..... عثمان نے سرسری سا دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

کیسے ہو ۔۔۔۔۔ وہ بہت خوش تھی اس کی خوشی اسکی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔۔۔۔ اس نے لال رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اسے لگتا تھا کہ یہ رنگ اس پہ بہت جچتا ہے۔۔۔۔۔

میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں ۔۔۔۔ عثمان نے کوئی خاص ری ایکشن نا دیا ۔۔۔۔

کیسی لگ رہی ہوں میں؟۔۔۔ وہ اپنی تعریف سننا چاہتی تھی۔۔۔۔ 

 جیسی آپ روز لگتی ہیں ویسی ہی لگ رہی ہیں اس نے بنا دیکھے ہی کہا۔۔۔۔۔

لیکن تم نے تو مجھے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں عثمان ۔۔۔۔ اس نے پھر سے توجہ دلائی۔۔۔۔۔۔

میں نے دیکھا ہے آپ کو اریج ایسی بات نہیں ۔۔۔ عثمان نے اسے ایک نظر دیکھا ۔۔۔۔۔

آپ بیٹھیں کیا لیں گی آپ چائے یا کافی؟۔۔۔ اس نے اپنی کولیگ سے بیٹھنے کا کہا۔۔۔۔

نہیں میں چائے یا کافی بعد میں لوں گی پہلے مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔۔ اریج نے کہا

جی کہیں کیا بات کرنی ہے سب خیریت ہے ؟۔۔۔۔۔

ہاں سب خیریت ہے عثمان کیا ہم دوست ہیں ؟۔۔۔۔ اریج نے سوال کیا۔۔۔۔

جی ہم دوست ہیں اریج اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے۔۔۔۔ عثمان نے دھیمے لہجے میں جواب دیا

کیا ہم بہت اچھے دوست ہیں عثمان ؟؟۔۔۔ اریج نے پھر سے سوال کیا ۔۔۔۔۔

کیا آپ بھی عجیب بات کر رہی ہیں ہم بہت اچھے دوست ہیں ۔۔۔۔۔ عثمان مسکرایا 

اور اگر میں دوستی سے زیادہ کچھ ایکسپیکٹ کروں تو۔۔۔۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ عثمان نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔

مطلب یہ کہ میں صرف آپ کی دوست نہیں سمجھتی خود کو ۔۔۔ مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے عثمان ۔۔۔۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔۔

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں اریج میں نے کبھی آپ کو دوست سے بڑھ کر کچھ نہیں سمجھا۔۔۔۔ عثمان کا رنگ اڑ چکا تھا۔۔۔۔۔

میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا آپ کے بارے میں ۔۔۔۔

تو اب سوچ لو نا ۔۔۔۔ اس نے عثمان کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

اب کیوں سوچوں گا جب میرے دل میں ایسا کچھ ہے ہی نہیں تو ۔۔۔۔ آپ پلیز مجھے معاف کریں ۔۔۔۔۔

اریج کی ساری ایکسائٹمنٹ ریزہ ریزہ ہو چکی تھی۔۔۔۔ مطلب کہ آپ نے مجھے کبھی دوست سے بڑھ کر کچھ سمجھا ہی نہیں ؟۔۔۔۔۔ 

نہیں ۔۔۔۔۔

تو اب میں تو آپ کو دوست سے بڑھ کر سمجھتی ہوں نا عثمان ۔۔۔۔۔ اریج اسے گھور رہی تھی ۔۔۔۔۔

اس میں میرا کوئی قصور نہیں اریج آپ میری کولیگ ہیں میں نے آپ کو اچھی دوست سمجھا ہے بس۔۔۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔۔۔ اگر آپ کو مجھ سے اس سے زیادہ کوئی امید ہے تو آپ یہ جان لیں کہ میری کوئی دوستی بھی نہیں ہوگی آپ سے ۔۔۔۔ میری زندگی میں محبت نام کا لفظ میٹر نہیں کرتا مس اریج ۔۔۔۔

عثمان کا لہجہ اب سخت تھا۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے اٹ مینز کے آپ مجھے  ریجیکٹ کر رہے ہیں ۔۔۔۔ اریج کو غصہ آرہا تھا اپنے سوٹ کی طرح اسکا چہرہ بھی غصے سے لال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

جی میں آپ کو نہیں آپ کے اس پیار کو میرے لیے یہ وقتی فیلنگ کو ریجیکٹ کر رہا ہوں (ناؤ یو مے لیو) عثمان نے بلا تاثر کہا ۔۔۔۔۔

اریج غصے میں اسکے آفس سے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔۔

عثمان حیرت زدہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ اریج اب تک کی چوتھی لڑکی تھی جس نے اسے پرپوز کیا تھا ۔۔۔۔ لیکن وہ ایسے کوئی بھی ریلیشن شپ میں نہیں آنا چاہتا تھا ۔۔۔۔

عجیب ہے ہماری فیملیز الگ ہیں کاسٹ الگ ہیں پھر بھی مجھے پرپوز کرنے کا کیا فائدہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کوئی ایسا سیاپا نہیں چاہتا ۔۔۔۔ پھر بھی ۔۔۔۔۔ وہ منہ میں بڑبڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن لوگوں کو لگتا ہے کہ فیوچر کا سوچو نا سوچو وقتی محبت کر کے ضرور ٹائم پاس کر لو بعد میں کوئی مانے یا نا مانے ۔۔۔۔۔  

ویسے بھی تم نے بس اپنے کرئیر پہ فوکس کرنا ہے عثمان تمہارے لیے کوئی محبت نہیں تمہیں کسی سے محبت نہیں ہو سکتی اب ۔۔۔ عثمان خود کو ہی کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ ہاں کوئی محبت نہیں ہوگی اب مجھے کسی سے۔۔۔۔۔ 

___________________________________________

اوئے بوکھے چل اب جانا نہیں ۔۔۔۔ احسن نے عثمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو ابھی کام ختم کر کے آفس سے باہر نکل رہا تھا۔۔۔۔۔۔

کہاں جانا نہیں کیا کہہ رہے ہو؟۔۔۔۔ عثمان نے حیران کن طور پر پوچھا۔۔۔۔۔

ہاں تمہیں تو جیسے اب یاد ہی نہیں شرط لگی تھی نا اپنی کہ پاکستان میچ جیتے گا تو تم پزا کھلاؤ گے اور اگر ہارے گا تو میں۔۔۔۔۔۔ اب پاکستان تو میچ جیت گیا اب چلو پزا کھلانے لے کے جاؤ مجھے۔۔۔۔ احسن یاد دلاتے ہوئے ڈیمانڈ کر رہا تھا۔۔۔۔۔

ہاں کھلانا تو ہے لیکن یونی جانا ہے ابھی مجھے رات کو فری ہوکر کال کر دوں گا تجھے آجائی اوکے ۔۔۔۔۔ عثمان نے اسے بولا۔۔۔۔۔۔

چل ٹھیک ہے تُو پہلے کر لے پڑھایاں فیر کھاتے ہیں پزا ۔۔۔۔ بخشوں گا تو نہیں رات کو نا بھی کال کی تو گھر پہنچ جاؤں گا میں یاد رکھی۔۔۔۔۔ احسن ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

ہاں بابا نہیں بھاگتا میں کھلا کے ہی جان چھوٹے گی مجھے پتا ہے اچھی طرح تیرا ایک نمبر کے بُکھڑ ہو تم ۔۔۔۔۔ عثمان نے ہنستے ہوئے اپنی بائیک سٹارٹ کی اور چل دیا۔۔۔۔۔۔

تم رات کو ملو پھر بتاتا ہوں تمہیں کتنا بُکھڑ ہوں میں ۔۔۔۔۔۔ احسن نے اونچی آواز میں کہا ۔۔۔۔۔

یار خضر کل کلاس میں  Oedipus Rex والی سٹوری پڑھائی گئی تھی ۔۔۔۔ اور ہم نے تو کل کلاس ہی مس کر دی تھی اب ہم آج کلاس میں کچھ کیسے بتا پائیں گے اگر کوئی سوال کر لیا سر نے۔۔۔۔۔۔۔ عثمان اپنے دوست سے بات کر رہا تھا وہ دونوں کلاس کے باہر کھڑے تھے۔۔۔۔۔

ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو لیکن پڑھے بنا تو کوئی معلومات نہیں آ سکتی پگلے۔۔۔۔ خضر نے اسے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

کیوں نہیں مل سکتی معلومات بس معلومات لینے کی چاہ ہونی چاہیئے ۔۔۔۔ دیکھنا تم ابھی معلومات مل جائے گی۔۔۔۔ عثمان نے خضر کو ایکسائٹڈ ہو کر کہا۔۔۔۔

وہ کیسے ۔۔۔۔ خضر نے سوال کیا ۔۔۔۔۔

وہ ایسے کہ چلو مشعل کے پاس جاتے ہیں وہ بہت انٹرسٹ لے کر سب پڑھتی ہے اسے ضرور اس بابا جی اوئڈپس کے بارے میں سب پتہ ہوگا۔۔۔۔۔ عثمان اسے یونی کے گارڈن کی طرف لے گیا جہاں مشعل اکثر فری وقت میں بیٹھا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔

ہائے مشعل ۔۔۔۔۔ عثمان نے مشعل کو مخاطب کیا ۔۔۔ جو بڑے آرام سے اپنے موبائل پہ نظر جمائے کچھ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ 

ہائے ۔۔۔۔۔ مشعل نے موبائل سے نظر ہٹا کر انہیں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا ۔۔۔۔ عثمان نے پوچھا۔۔۔۔

نہیں نہیں ۔۔۔ بلکل نہیں ۔۔۔ جی کہیں کیا بات ہے۔۔۔۔ مشعل نے موبائل لاک کر کے سائیڈ پر رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔

کیا ہم یہاں بیٹھ سکتے ہیں آپ کے پاس ۔۔۔۔ عثمان نے اجازت چاہی۔۔۔۔۔

جی بلکل بیٹھیں ۔۔۔۔۔۔

مشعل یہ خضر ہے نا اس کو کچھ بھی انفارمیشن نہیں لٹریچر کی ۔۔۔۔ کل جو سبق ہمیں کلاس میں پڑھایا گیا تھا وہ مجھے اس کے بارے میں سب جاننا ہے کیونکہ کلاس مس ہو گئی تھی ہم سے۔۔۔۔۔  اور پڑھ کے سمجھنے کیلئے تو میرے پاس وقت نہیں ابھی۔۔۔ میں نے سوچا آپ سے پوچھ لوں آپ تو پڑھنے کا کافی ذوق رکھتی ہیں تو آپ ہمیں بھی بتائیں گی کہ کیا ہے یہ اوئڈپس ریکس۔۔۔۔۔۔ عثمان نے اس کے ساتھ والے بینچ پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ ساتھ ہی خضر بھی بیٹھ گیا۔۔۔۔۔

میں ناول پڑھتی ہوں انہیں پڑھنے کا شوق ہے کتابیں اتنی بھی دھیان سے نہیں پڑھتی آپ مجھے اتنی لائق نا سمجھیں ۔۔۔۔ وہ ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔

وہ تو ہمیں معلوم ہے کہ آپ کتنی لائق ہیں ۔۔۔۔ اب پلیز ہمیں اوئڈپس بابا کی کہانی سنا دو ورنہ آج ہمیں کلاس میں بلکل بلینک بیٹھنا ہوگا۔۔۔۔۔ خضر نے ریکوئسٹ کی۔۔۔۔۔۔

اچھا اچھا سنا دیتی ہوں لیکن ہو سکتا ہے میں کہیں غلطی کر جاؤں ۔۔۔۔ میں نے بھی زیادہ کوئی دھیان سے نہیں پڑھا سرسری سا ریڈ کیا تھا ۔۔۔۔ 

چلیں کوئی بات نہیں آپ جو بھی ہے سمجھا دیں ہمیں تھوڑی بہت معلومات مل جائے گی۔۔۔۔۔

بیسکلی اوئڈپس ریکس ایک پلے ہے ۔۔۔۔ جو کہ سپوکلس نے لکھا ہے اور اس کی کیٹیگری جو ہے وہ ٹریجڈی ہے۔۔۔۔۔۔ مشعل انکو بتانے لگی۔۔۔۔۔۔

اوئڈپس ریکس ایک بادشاہ تھا اس کہانی کا مین تھیم ہے قسمت ۔۔۔ اس کہانی میں اس بادشاہ کی شادی اپنی ہی ماں سے ہو جاتی ہے وہ بھی بنا علم کے اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس کی شادی اس کی ماں سے ہو رہی ہے ۔۔۔۔ 

اوہ ! اپنی ماں سے شادی؟ ۔۔۔۔ خضر نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔

ہاں اپنی ماں سے شادی ۔۔۔۔ کیونکہ اسے کچھ پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ عورت اس کی اپنی ماں ہے۔۔۔۔ مشعل نے جواب دیا ۔۔۔۔

اچھا تو یہ سب ہوا کیسے تھا۔۔۔۔۔ عثمان اب کیوریس ہو کر  پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

جی تو جب یہ بادشاہ بہت چھوٹا تھا اس کے گھر پہ پیشگوئی کی گئی تھی۔۔ اس وقت میں ایسے ہی کیا جاتا تھا کہ جب بچہ پیدا ہوتا تو اس کے فیوچر کے بارے میں بتایا جاتا تھا ۔۔۔۔

تو تب اس کے فیوچر کے بارے میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جب وہ بڑا ہوگا تو اپنے باپ کو خود قتل کرے گااور اپنی ماں سے شادی کرے گا ۔۔۔۔۔

اچھا پھر۔۔۔۔۔ عثمان اور خضر بہت دھیان سے مشعل کی بات سن رہے تھے۔۔۔۔۔۔

پھر یہ کہ اس کے بابا نے اسکو شاید کسی جنگل میں چھوڑ دیا تھا اور وہ کسی کو مل گیا ۔۔۔ وہ مرا نہیں لیکن جب بڑا ہوا تو ایکسیڈنٹلی اس نے اپنے باپ کو قتل کیا جب کے وہ یہ بات نہیں جانتا تھا کہ جسکو اس نے مار دیا وہ اسکا باپ تھا ۔۔۔۔ اور پھر جواسکی ماں تھی وہ کوئی رانی تھی اور اب بیوہ ہو چکی تھی ۔۔۔۔ اس کا ہی رشتہ اوئڈپس ریکس کیلئے آیا اور ایسے اس کی شادی اس کی ماں کے ساتھ ہی ہوگئی ۔۔۔۔

اوہ یہ کیا ہوگیا ۔۔۔۔ عثمان نے اچانک سے کہا ۔۔۔۔۔

جی ایسا ہی ہوا تھا ۔۔۔۔ جیسے کہ قسمت کا بہت اثر ہوتا ہے تو تب بھی ایسا ہی ہوا انہوں نے قسمت کا لکھا ٹالنے کیلئے ہی اپنے بیٹے کو خود سے دور کردیا لیکن جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا ۔۔۔۔ مشعل نے کہانی مکمل کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

لیکن مشعل کیا انہیں بعد میں بھی کبھی پتا نہیں چلا ؟۔۔۔۔ خضر نے سوال کیا ۔۔۔۔

ہاں پتا چل گیا تھا تب پھر جو (جوکاسٹا) تھی یعنی اس کی ماں اس نے خود کو پھانسی لگا لی اور خود اوئڈپس ریکس نے اپنی آنکھیں نوچ ڈالی اور اندھا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ مشعل کے منہ پر افسردگی طاری ہوئی۔۔۔۔۔

اوہو کتنی عجیب سٹوری ہے یہ تو ۔۔۔۔ عثمان نے کہا ۔۔۔۔

ہاں ہے تو عجیب و غریب ۔۔۔۔۔ لیکن کیا کریں ہمارے نصاب کا حصہ ہے ۔۔۔ وہ پھر سے مسکرائی ۔۔۔۔۔

چلو بھئی بہت شکریہ آپ کا مس مشعل اب میں زرا چلتا ہوں مجھے ڈین آفس میں کام تھا تھوڑا ۔۔۔۔ خضر یہ کہتے ہوئے وہ سے چلا گیا ۔۔۔۔۔۔

ویسے یہ قسمت بھی کیا عجیب چیز ہے نا۔۔۔۔ عثمان نے افسردہ ہوکر کہا ۔۔۔۔۔ اب اس کی قسمت میں لکھا گیا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہوگا لیکن اس کے ماں باپ نے سب بدلنے کی کوشش میں سب ویسے ہی کروا دیا۔۔۔۔

ہاں قسمت عجیب چیز ہے لیکن یہی سب سے اہم بھی ہے اگر قسمت اچھی تو سب اچھا اگر قسمت خراب تو سب خراب ۔۔۔۔۔ مشعل سر جھکائے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ ہم کتنی ہی کوشش کیوں نا کر لیں اپنی قسمت کو بدل نہیں سکتے۔۔۔۔۔

لیکن دعائیں قسمت بدل دیتی ہیں مشعل یہ تو سب کہتے ہیں ۔۔۔۔ عثمان نے کہا۔۔۔۔

ہو سکتا ہے بدل دیتی ہوں لیکن میرا کبھی ایسا کوئی ایکسپیرینس نہیں رہا۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے جو قسمت میں لکھا ہو ہوکر ہی رہتا ہے ۔۔۔۔ خواہ انسان کتنی ہی دعا کیوں نا مانگ  لے کیوں کہ اللّٰہ کو پتا ہوتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے اس لیے وہ ہمیں وہی عطا کرتا ہے ۔۔۔۔۔ بس ہمیں قسمت سے زد نہیں لگانی چاہیے جیسے اللّٰہ کو منظور ہو ویسے ہی مان لینا چاہیے ۔۔۔۔۔

ہاں ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔ بہت  دعائیں مانگنے کے باوجود بھی کبھی کچھ چیزیں زندگی میں نہیں مل پاتیں۔۔۔۔ عثمان کے لہجے میں اب افسردگی تھی۔۔۔۔

تو ایسا کیا ہے جو آپ کو دعائیں مانگنے پہ بھی نہیں ملا عثمان ؟۔۔۔۔ مشعل نے اس سے سوال کیا ۔۔۔۔ لگتا ہے کہ آپ کو کچھ ایسا نہیں ملا جوآپ پانا چاہتے تھے۔۔۔۔۔مشعل نے اندازہ لگایا ۔۔۔۔۔

جی ایسا ہی کچھ سمجھ لیں ۔۔۔۔ عثمان نے کہا

سمجھ کیا لوں آپ کچھ بتائیں گے تبھی تو سمجھوں گی نا کچھ۔۔۔۔ اگر آپ کو برا نا لگے تو آپ بتا سکتے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔۔۔۔ مشعل نے پوچھا۔۔۔۔

بس تھا کچھ جو بہت دعائیں کر کے بھی نہیں ملا۔۔۔۔ عثمان اس وقت بہت افسردہ تھا۔۔۔۔۔

کیا نہیں ملا عثمان ۔۔۔ مشعل نے اس کی طرف غور سے دیکھا ۔۔۔۔۔

بس ہے تھا نا کچھ پھر کبھی بتاؤں گا۔۔۔۔  عثمان نے بات ختم کی۔۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے پریشان نا ہوں جب آپ کو بہتر لگے تب بتانا ۔۔۔۔ مشعل نے اسے ریلیکس ہونے کا کہا۔۔۔۔۔۔

وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ عثمان کتنا معصوم اور سادہ دل ہے۔۔۔

___________________________________________

کیا یار کہاں رہ گئے تھے تم کب سے انتظار کر رہا تھا میں ۔۔۔۔ خضر عثمان سے بات کررہا تھا جو کہ اب کلاس کے اندر بیٹھے تھے لیکچر سٹارٹ ہونے میں ابھی وقت تھا۔۔۔۔

وہ میں مشعل کے ساتھ بات کررہا تھا مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ تم نے مجھے بھی کہا تھا کہ تمہارے پیچھے آنا ہے ڈین آفس۔۔۔۔۔۔ سوری یار۔۔۔۔۔ عثمان نے معذرت کی۔۔۔۔۔

ہاں اوڈپس کی کہانی سنتے سنتےاپنی ہی کہانی بنانے لگ گئے تم ادھر بیٹھے ۔۔۔۔ وہ ہنسنے لگا ۔۔۔۔ 

نہیں اپنی کیا کہانی بنانی تھی بس ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔۔ 

ویسے وہ مشعل کسی کو منہ نہیں لگاتی ۔ تم سے اتنی باتیں کرتی ہے ہم سے تو ٹو دی پوائنٹ بات کرتی ہے اور بس۔۔۔۔۔ تم نے کافی دوستی کر لی اس سے۔۔۔۔۔ خضر تنزیہ انداز میں کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ 

ارے نہیں ایسا مت کہو وہ تو دوستی کرنے کے خلاف ہے ۔ وہ تو جسٹ ایس اے کلاس فیلو مجھ سے بات کر لیتی ہے ۔۔۔۔ بہت عزت کرتا ہوں میں اسکی ۔۔۔۔ کافی نائس گرل ہے ۔۔۔۔ اچھا اخلاق ہے ۔۔۔۔ سینسیبل بھی ہے۔۔۔ تم بھی اگر سیدھی انسانوں والی بات کرو کبھی اس سے تو دیکھنا کبھی برا رسپانس نہیں ملے گا ۔۔۔۔ وہ سب کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ عثمان خضر کے سامنے اس کی تعریف کر رہا تھا ۔۔۔ اور میں اسکا دوست نہیں ہوں نا ہی یہ بات اسکے سامنے کرنا اگر وہ مجھ سے ٹھیک طرح بات کر ہی لیتی ہے تو تم بدگمان نا کر دینا ۔۔۔ ضروری نہیں کہ ہم میں دوستی ہی ہو انسانیت بھی کسی چیز کا نام ہے اور ہم کلاس فیلوز ہیں میرے لیے یہی کافی ہے ۔۔۔۔۔

مشعل بھی کلاس میں داخل ہو چکی تھی اور وہ خود کو متوجہ ظاہر کیے بنا عثمان اور خضر کی تمام باتیں سن چکی تھی۔۔۔۔۔۔

اس نے اچانک سے اپنی کتاب نیچے گرائی۔۔۔۔۔ 

اوہ ۔۔۔۔ وہ کہتے ہوئے نیچے جھکی ۔۔۔۔  کلاس سٹارٹ تو نہیں ہوئی نا ۔۔۔۔۔اپنی کتاب اٹھاتے ہوئے اس نے کہا ۔۔۔۔

 وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔

نہیں نہیں ابھی 5 منٹ ہیں ۔۔۔۔۔ خضر نے جھٹ سے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔

چلو ٹھیک ہے میں تو بھاگتے ہوئے آ ئی کہ کہیں کلاس شروع نا ہو گئی ہو۔۔۔۔ مشعل کہتے ہوئے اپنی سیٹ کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔ 

___________________________________________

ہاں جی سب تمہاری جان کو سکون ہے ؟۔۔۔۔ عثمان نے احسن سے پوچھا۔۔۔۔۔

وہ دونوں فورک اینڈ نائف میں پزا کھانے کیلئے آئے ہوئے تھے۔۔۔۔۔

ہاں اب میری جان میرے دل گردے سب سکون میں ہیں ۔۔۔۔ احسن نے پزا کا سلائس منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں بند کر کے فوڈ انجوائے کر رہا تھا۔۔۔۔ 

بُکھڑ کہیں کے ۔۔۔۔ عثمان ہنستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

ایسے کھا رہے ہو جیسے کبھی پہلے پزا نہیں کھایا ۔۔۔۔ عثمان نے بھی پزا کھانا شروع کیا ۔۔۔۔ 

تم جو بھی کہو لیکن انکا ٹیسٹ افففف۔۔۔۔۔۔ میں تو جب بھی کھاتا ہوں ایسے ہی لگتا ہے جیسے پہلی دفعہ ہی کھا رہا ہوں اور آخری دفعہ بھی ہاہاہاہا ۔۔۔ اس کے بعد کبھی نہیں ملے گا ۔۔۔۔ احسن ہنس رہا تھا۔۔۔۔۔

ہاں جو صدیوں سے بھوکے ہوتے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔ عثمان نے کہتے ہوئے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔

چپ کر کے کھاؤ ۔۔۔۔ اور مجھے بھی کھانے دو۔۔۔ احسن نے پھر سے بائٹ لی ۔۔۔ اور کولڈ ڈرنک اٹھا کر پینے لگا۔۔۔۔

وہ دونوں دوست پزا لوور تھے ۔۔۔۔ اس لیے اکثر وہاں آیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔

___________________________________________

 ادھر رات کا کھانا کھا کر مشعل اپنے گھر میں برتن سمیٹ رہی تھی وہ گنتی کے تین ہی لوگ تھے گھر میں ۔۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔۔۔۔۔

برتن سمیٹنے اور دھونے کے بعد وہ چائے بنا کر اپنے امی اور ابو کے کمرے میں لے گئی ٹرے میں تین کپ چائے تھی۔۔۔۔ اس نے جا کر دروازے پر دستک دی ۔۔۔۔ 

آجاؤ بیٹا ۔۔۔۔ صالح صاحب نے اسے اندر آنے کا کہا۔۔۔۔۔

وہ چائے لے کر اندر داخل ہوئی ۔۔۔ یہ لیں ابو چائے اس نے اپنے ابو اور پھر اپنی امی کے سامنے ٹرے کی انہوں نے اپنا اپنا کپ اٹھا لیا ۔۔۔ مشعل بھی اپنا کپ اٹھا کر قریب ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ چائے پینے کے بعد اس نے کچھ دیر تک اپنی امی کے پاؤں دبائے اور ان دونوں سے باتیں کرتی رہی۔۔۔۔۔۔ 

 سب سارے کام سے فری ہوکر مشعل اب اپنے کمرے میں آچکی تھی ۔۔۔۔۔

جیسے کہ اسکی ایوننگ کلاسز ہوا کرتی تھیں ۔۔۔ اس لیے پڑھائی وہ دن ٹائم میں ہی کر لیا کرتی تھی ۔۔۔۔

رات کو مشعل جلدی سو جاتی تھی۔۔۔۔۔ کیونکہ جلدی سونا صبح جلدی اٹھنا یہ سب اس کی روٹین میں شامل تھا ۔۔۔۔۔

عثمان کتنا اچھا ہے نا ۔۔۔۔ مشعل اپنے بستر پر لیٹے سوچ رہی تھی ۔۔۔۔۔  

وہ دوسرے لوگوں کی طرح بلکل بھی نہیں ہے ۔۔ اس نے باقی لڑکوں کی طرح مجھ سے کسی دوستی کی بھی توقع نہیں رکھی۔۔۔۔۔  اس میں کچھ تو الگ ہے۔۔۔ جو میں بھی اس سے بات کرتے ہوئے بہت کمفرٹیبل ہوتی ہوں۔۔۔۔  مشعل صالح آج تمہارا یہ پوائنٹ آف ویو  ثابت ہو ہی گیا کہ 100 میں سے جو%1 لڑکے بنا کسی غرض کے کسی سے منسلک ہوتے ہیں بنا مطلب بنا کسی لالچ عثمان انہیں میں سے ہے ۔۔۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔۔۔ 

 اس خوبصورت چہروں کے دور میں ، میں ابھی بھی اچھے کردار اور خوبصورت دل پہ مرنے والی لڑکی ہوں۔۔۔۔۔۔

اسکی سوچ کی گاڑی ابھی چلنا شروع ہوئی تھی۔۔۔۔ کہ اسکی آنکھوں پہ نیند طاری ہو گئی ۔۔۔۔ مشعل سوچتے سوچتے سو گئی ۔۔۔۔۔۔۔

مشعل کونسا ڈریس پہن رہی ہو آج ۔۔۔۔ مبین نے مشعل سے پوچھا ۔۔۔۔ مبین مشعل کی خالہ زاد تھی۔۔۔۔ وہ دونوں اس وقت اپنے ماموں کے گھر موجود تھیں ۔۔۔۔

وہاں وہ اپنے ماموں زاد بھائی کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے آئی تھیں ۔۔۔۔

سب رشتہ دار بھی آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

میں جو لے کر آئی ہوں ساتھ وہی پہنوں گی تم بھی نا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بھلا۔۔۔ مشعل نے ہنستے ہوئے مبین سے کہا۔۔۔۔۔

ہاں پہنو گی تو وہی میرا پوچھنے کا مقصد تھا کہ مجھے بھی دکھاؤ وہ ڈریس ۔۔۔۔۔ مبین نے بات واضح کی۔۔۔۔۔

او اچھا تو ایسے کہو نا ۔۔۔۔ مشعل نے اسے اپنا سوٹ دکھایا۔۔۔۔ 

وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے سوٹ دکھا رہی تھیں اور شام کے بارے میں پلاننگ کر رہی تھیں ۔۔۔۔

__________________________________________

یار آج کتنی گرمی ہے نا ۔۔۔ چلو آج پول پہ چلتے ہیں زرا گرمی سے تو بچیں گے کچھ دیر ۔۔۔۔۔

عثمان اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔۔۔۔۔

آج چھٹی کا دن ہے اور گرمی بھی کافی ہے سو مزہ آئے گا کیا خیال ہے ۔۔۔۔۔۔

ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو ۔۔۔ چلو چلتے ہیں ۔۔۔ فرمان نے ایکسائٹڈ ہو کر کہا۔۔

وہ لوگ سب گاڑی میں بیٹھے اور  پول پہ جانے کیلئے روانہ ہوئے۔۔۔۔۔

انہوں نے اس دن جس بھی پول کا رُخ کیا تقریبا سب پہ ہی بہت رش ملا گرمی کی شدت سے لوگ اپنی تسکین کے لیے گھر سے باہر آئے ہوئے تھے ۔۔۔ کچھ ہے بھی اتوار کا دن تھا سبھی کو چھٹی ہوتی ہے تو سب فری بھی ہوتے ہیں تفریح کرنے کو۔۔۔۔

عثمان اور اس کے دوستوں نے کافی جگہیں دیکھیں ۔۔۔۔ لیکن ان کو سب جگہوں پر رش ملا ۔۔۔۔۔۔

ان سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم نہر پر نہانے جائیں گے اب ۔۔۔۔۔ ان کے شہر میں ایک چھوٹی اور خوبصورت منظر پیش کرتی نہر تھی جہاں لوگ اکثر تفریح کو جایا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔

عثمان اور اس کے دوست اب وہاں پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔

چلو بھئی آگئی ہماری منزل اترو گاڑی سے۔۔۔۔ انس نے سب سے کہا ۔۔۔۔۔

وہ سب گاڑی سے اتر گئے سب تو نہر میں نہانے کے لئے چھلانگیں لگاتے ہوئے اتر گئے ۔۔۔۔ لیکن عثمان کنارے پر ہی کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔

 کیا ہوا عثمان یار آ نہیں رہے تم ؟۔۔۔۔ فرمان نے عثمان سے پوچھا۔۔۔۔۔۔ 

نہیں میں نہیں نہانے والا نہر میں ۔۔۔۔ عثمان نے انکار کیا ۔۔۔۔۔

کیوں جی اب تمہیں کیا بیماری ہے ۔۔۔۔ انس بولا ۔۔۔۔

میرا رنگ کالا ہو جاتا ہے نہر میں نہانے سے ۔۔۔۔ عثمان نے عجیب سی وجہ پیش کر دی۔۔۔۔۔۔

ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔ وہ سارے دوست قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسے۔۔۔۔۔

یہ کیا لاجک ہے عثمان ۔۔۔۔۔۔۔ 

ہاں نا میں ایک دفعہ اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں گاؤں گیا تھا وہاں پہ دو تین دفعہ نہر میں نہانے گیا تو میرا رنگ خراب ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ عثمان خود بھی ہنس رہا تھا ۔۔۔

 وہ سارے اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے اور وہ ہنس رہا تھا۔۔۔۔۔۔

چلو مرضی تمہاری ۔۔۔۔۔ وہ سب کہہ کر خود انجوائے کرنے لگے۔۔۔۔۔۔

عثمان اور اس کے دوست جب وہاں سے گھر واپس جانے لگے تو اس نے فرمان اور انس سے کہا کہ چلو مجھے زرا کام ہے ادھر جانا ہے تم دونوں کو ساتھ جانا ہوگا۔۔۔۔انہوں نے باقی دوستوں کو گھر روانہ کیا اور خود الگ سے کہیں چل دیے ۔۔۔۔۔

عثمان اپنے ان دو دوستوں کو لے کر سوِمننگ پول پہ پہنچ گیا ۔۔۔۔ 

یہ کیا ہے عثمان ۔۔۔۔ انس نے اسے حیرت سے دیکھا ۔۔۔۔

یہ پول ہے اور میں نہیں نہانا چاہتا تھا اس نہر میں ۔۔۔۔ وہ کہتے ہوئے ہنسنے لگا ۔۔۔۔۔۔

تم تھوڑے سٹکے ہوئے نہیں ہو؟۔۔۔۔ فرمان نے عثمان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

نہیں الحمدللہ میں بلکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ عثمان ابھی بھی ہنستا جارہا تھا۔۔۔۔۔ 

یہاں اب رش بھی نہیں ہے دیکھو اب ہم انجوائے کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

چلو لیٹس انجوائے ۔۔۔۔۔۔۔

وہ تینوں شام تک ادھر رہے اور شام کو کھانا کھانے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ 

آج تو بہت مزہ آیا ۔۔۔۔ ایک ہی تو دن ملتا ہے چھٹی کا وہ بھی اکثر گھر کے کسی کام میں یا کوئی اسائنمنٹ وغیرہ بنانے میں گزر جاتا ہے ۔۔۔۔۔ عثمان کھانا کھاتے ہوئے بات کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

آج شکر ہے کوئی کام نہیں تھا یونی کا بھی کام کر چکا تھا میں اور بھی کوئی کام نہیں تھا ۔۔۔۔۔

چلو اچھی بات ہے تمہارے ساتھ ساتھ ہماری بھی آؤٹنگ ہو گئی ۔۔۔۔۔ ورنہ ہم بھی کہاں آجکل ایسے باہر جا پاتے ہیں جابز وغیرہ سے فرصت ہی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ فرمان نے نوالا ختم کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

___________________________________________

سالگرہ کی تقریب ختم ہو چکی تھی وہ لوگ سارے فنکشن کے بعد اب رات گئے باتوں میں مصروف تھے ۔۔۔۔

مشعل کو اچانک سے کچھ خیال آیا ۔۔۔۔ اوہ میری اسائنمنٹ ۔۔۔۔ ابھی تو مکمل بھی نہیں ہوئی اور جمع بھی کروانی تھی کل ۔۔۔۔ وہ اپنے ذہن میں سوچ رہی تھی ۔ ۔۔

اب کیا کروں ۔۔۔ اگر جمع نا ہوئی تو بہت انسلٹ ہوگی میری ۔۔۔۔۔ وہ پریشان ہو گئی۔۔۔۔ 

کیا ہوا مشعل ۔۔۔۔ مبین اسکے پاس ہی بیٹھی تھی ۔۔۔ اس نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔۔

یار مجھے اسائنمنٹ ملی ہوئی تھی بنانے کو اور میں نے مکمل نہیں کی تھی اور ادھر آ گئی آج سب کل گھر جا کر مکمل کیسے کروں گی پھر پرنٹ نکلوانے ہیں شام تک شام کو یونی جانا ہے اور سبمٹ کروانی ہے ۔۔۔۔

اوہ تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے کسی کلاس فیلو سے کہہ دو ۔۔۔۔  وہ مکمل کر کے سینڈ کردے پھر تم جب صبح گھر جاؤ گی تب بس پرنٹ نکلوا لینا کام ختم ۔۔۔۔۔ مبین نے اسے مشورہ دیا ۔۔۔

ہاں یہ خیال ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ مشعل کے چہرے سے تھوڑی پریشانی کم ہوئی۔۔۔۔۔۔

وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔۔ اب وہ موبائل پہ نمبر ڈائل کرنے لگی ۔۔۔۔۔ 

اس نے اپنی دوست صائمہ کو کال کی ۔۔۔۔۔ جب کہ اس نے انکار کردیا یہ کہتے ہوئے کہ اس کی اپنی اسائنمنٹ بھی نہیں بنی ۔۔۔۔۔ 

وہ پریشان ہو گئی کہ اب کیا کروں ۔۔۔۔ ہاں جنید بھائی سے کہتی ہوں وہ تو مجھے اپنی بہن کہتے ہیں اور انکو تو یہ اسائنمنٹ بنانی بھی نہیں تھی وہ فری ہونگے ۔۔۔۔

پھر اس نے جنید کو کال کی اسلام وعلیکم جنید بھائی اس نے اس سے بھی وہی سوال کیا لیکن اس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میری تو طبیعت نا ساز ہے ۔۔۔۔

جی ٹھیک ہے کوئی بات نہیں آپ آرام کریں اللّٰہ آپکو صحت دے۔۔۔۔ کہتے ہوئے اس نے کال کٹ کر دی۔۔۔۔۔

کوئی کسی کے کام نہیں آتا منہ پہ اچھے بننے والے لوگ زرا سا کام پڑنے پہ ہاتھ نہیں پکڑاتے بعد میں ۔۔۔۔ مشعل افسردہ ہوکر رہ گئی ۔۔۔۔۔

یہ دنیا کا اصول ہے کہ  اگر کسی کو آپ کی ضرورت ہے اور آپ اس کیلئے کچھ کرو تو سب آپ سے خوش ہیں آپ کے ساتھ ہیں ۔۔۔ لیکن جیسے ہی کبھی آپکو ضرورت پڑی یا آپ نے کچھ ایکسپیکٹ کر لیا تو سارے رشتے سارے تعلقات دُم دبا کر بھاگ جاتے ہیں ۔۔۔۔

اس نفسا نفسی کے دور میں پھر بھی کچھ لوگ ابھی بھی باقی ہیں جو اپنے ساتھ دوسروں کا بھی بھلا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور ایسے گنتی کے چند ہی لوگ رہ چکے ہیں ۔۔۔۔۔

ہاں عثمان کو کال کرتی ہوں شاید وہ مدد کر دے۔۔۔۔ مشعل کو اچانک سے عثمان کا خیال آیا ۔۔۔۔ 

لیکن وہ کیوں کرے گا مدد باقی سب نے نہیں کی تو وہ بھی کوئی بہانا کر کے ٹال ہی دے گا تو کیا فائدہ اپنی بے عزتی کروانے کا مشعل ۔۔۔۔۔

لیکن ایک دفعہ پوچھنے میں کیا ہرج ہے بھلا ۔۔۔۔ مشعل نے ہمت کی اور عثمان کو کال کی ۔۔۔۔۔

اسلام وعلیکم!۔۔۔۔۔ عثمان 

والیکم سلام!۔۔۔۔۔ عثمان نے مشعل کو نمبر سیو ہونے کی وجہ سے پہچان لیا تھا ۔۔۔  جی مشعل کہیں ۔۔۔۔۔

وہ میں نے کہنا تھا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہے تھوڑا تو میری اسائنمنٹ ہالف ہوئی ہے ۔۔۔ اور میں اسوقت گھر پہ نہیں ہوں کیا آپ میری اسائنمنٹ مکمل کر دیں گے صبح تک سینڈ کر دیں گے مکمل کر کے ؟۔۔۔۔۔ مشعل نے ہچکچاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

لیکن ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے میں آپ سے بس پوچھ رہی ہوں اگر آپ زرا بھی مصروف ہیں تو آپ مجھے بتا دیں میں خود کر لوں گی۔۔۔۔۔

نہیں نہیں مصروف کیسا ۔۔۔ آج چھٹی ہی ہے میں کر دوں گا آپ مجھے جتنا کام کیا ہوا وہ بھیج دیں میں باقی کا کر دیتا ہوں۔۔۔۔۔ عثمان نے خوشی سے ہاں کر دی ۔۔۔۔

تھینکس آ لوٹ عثمان آپ کو نہیں پتا آپ نے میری کتنی بڑی ٹینشن دور کر دی میں سوچ رہی تھی آپ نے بھی انکار کردیا تو میں کیسے مکمل کروں گی ۔۔۔۔۔ مشعل کے دل کو تھوڑا سکون ملا ۔۔۔۔۔۔۔

نہیں تھینکس کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔ آپ نے کسی اور سے بھی کہا تھا کیا۔۔۔۔ عثمان نے مشعل سے پوچھا ۔۔۔۔

جی آپ سے پہلے بھی ایک دو لوگوں کو کہا لیکن ٹائم نہیں تھا ان کے پاس ۔۔۔۔۔۔ 

اچھا مشعل آئیندہ ایسے نہیں کرنا آپ کو کوئی کام ہو تو آپ مجھ سے کہہ دیا کرو ۔ میں کر دوں گا ۔۔۔۔ ایسے ہی کسی سے مدد مانگنے کی ضرورت نہیں آپکو۔۔۔۔ عثمان نے تھوڑا کنسرن دکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

جی ٹھیک ہے لیکن میں خود ہی کر لیتی ہوں  لیکن آج زرا مجبوری تھی۔۔۔ اس لیے کہنا پڑا ۔۔۔۔۔ لیکن آپ کا بہت شکریہ عثمان آپ نے میری مدد کرنے کا کہا۔۔۔۔ مشعل بہت خوش ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ 

بعض اوقات ہم بہت سے برے تجربات کا سامنا کر چکے ہوتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ دنیا میں سب لوگ ایک جیسے ہیں ۔۔۔ ہم کسی پہ بھروسہ نہیں کرتے ۔۔۔۔ لیکن کچھ لوگ اپنے الگ ہونے کا احساس دلا ہی دیتے ہیں ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے ۔۔۔ دنیا مطلبی ہے لیکن دنیا میں ہر انسان مطلبی نہیں ۔۔۔۔۔کبھی کبھی ہم بنا کسی  رشتے کے بھی کسی سے بہت زیادہ اٹیچ ہو جاتے ہیں کچھ اجنبی لوگ بہت اپنے سے لگتے ہیں ۔ 

بہت شکریہ عثمان آپ نا مکمل کرتے میری اسائنمنٹ تو آج میری بہت انسلٹ ہو جاتی ۔۔۔۔۔ مشعل اس کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔ وہ دونوں اس دن یونی میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔

اس میں شکریہ کی کیا بات ہے ہم کلاس فیلوز ہیں ایک دوسرے کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے ۔۔۔۔ عثمان نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

یہ تو آپ کہہ رہے ہیں نا ۔۔۔۔ سب نہیں سمجھتے اس بات کو لوگ کام کرتے ہوئے احسان جتاتے ہیں اور تو اور کبھی تو ایسے منہ موڑتے ہیں جیسے ہم نے پتہ نہیں کونسا پہاڑ توڑنے کا کہہ دیا ہو۔۔۔۔  اس لیے آپ کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے آپ نے اپنے قیمتی وقت سے میرے لیے وقت نکال کر میرا کام کیا ۔۔۔۔ حالانکہ آپ نے مجھے بتایا بھی تھا پہلے کہ آپ ساتھ جاب بھی کرتے ہیں تو آپ کے پاس تو فری ٹائم ہی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔

نہیں ایسی کوئی بات نہیں مشعل اب بار بار شکریہ کہہ کر شرمندہ نا کریں۔   میرے پاس فری ٹائم تھا تب۔۔۔۔ اور آج اگر میں نے آپ کا کام کیا ہے اگر کبھی مجھے ضرورت پڑی تو آپ کر دینا سمپل ۔۔۔۔۔۔ عثمان نے بات ختم کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔

چلیں ٹھیک ہے یہ بھی اب جب آپ کو کوئی کام ہو تو ضرور بتانا آپ ۔۔۔۔۔۔  اب عید کی چھٹیاں ہونے والی ہیں مشعل نے ٹاپک تبدیل کیا ۔۔۔۔۔ آپ کیا کریں گے ان چھٹیوں میں ۔۔۔۔۔ 

میں تو جی بھر کے نیند پوری کروں گا۔۔۔۔ اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ اور آنکھیں کھول کر ہنسنے لگا ۔۔۔۔ اب بھئی یہی تو چھٹیاں ملتی ہیں کیا کروں پھر ۔۔۔۔۔۔ 

ہاں سب تقریباً اب سو کر ہی عید گزارتے ہیں لیکن بکرا عید تو لڑکوں کی گوشت بنانے اور بانٹنے کی زمہ داری ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ مشعل نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔

ہاں ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ لیکن میں پہلے دن قربانی کے بعد گوشت بانٹ کے پھر دو دن فری ان دنوں میں بکرے گائے بیل یہ سب ذبح ہونے سے پہلے بھاگتے دیکھوں گا۔۔۔۔۔۔ عثمان مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا۔۔۔۔۔ 

کیا مطلب ۔۔۔۔ مشعل نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔۔ 

مطلب یہ کہ جب جانور زبح کرنے کے لیے لے جاتے ہیں اور وہ اچانک سے بھاگ جاتے ہیں مجھے وہ دیکھنے کا بہت شوق ہے ۔۔۔۔۔۔ 

وہ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی ۔۔۔۔۔ پاگل ہو آپ یہ چیز کس کو پسند ہوتی ہے بھلا۔۔۔۔۔۔ 

مجھے پسند ہے نا بس ۔۔۔۔ عثمان بھی ہنس رہا تھا ۔۔۔۔ میں تو سپیشل ڈھونڈتے ہوئے جاتا ہوں کہ کہیں ایسا سین ملے پھر ۔۔۔۔۔۔

اوہ عثمان آپ بھی نا کیا بچوں والی حرکتیں ہیں ۔۔۔۔ وہ سبھی بھی ہنس رہی تھی ۔۔۔۔۔

بہت مزہ آتا ہے کبھی دیکھنا آپ ایسا سین ۔۔۔۔ عثمان نے مشعل سے بھی ایسا کرنے کو کہا۔۔۔۔۔ 

وہ دونوں اس بات پہ بہت ہنسے۔۔۔۔۔۔ 

کوئی حال نہیں آپ کا عثمان ۔۔۔۔۔۔ 

 اچھا عثمان آپ نے مجھے کہا تھا  آپ بتائیں گے کہ کیا ہے جو آپ کو بہت دعائیں مانگنے کے باوجود بھی نہیں ملا۔۔۔۔۔۔ مشعل نے پرانی بات دہرائی ۔۔۔۔۔

عثمان ہنستے ہنستے رک گیا اچانک سے چہرے کی ہنسی آتی اور ایک دم سے اس کا چہرہ ہر احساس سے خالی نظر آنے لگا۔۔۔۔۔

کیا ہوا عثمان مشعل نے پریشان ہو کر پوچھا۔۔۔

کچھ خاص نہیں ۔۔۔۔ بس ایسے ہی ۔۔۔۔ عثمان خاموش ہو رہا۔۔۔۔

نہیں کچھ تو ایسا ہے نا جو آپ کو ایک دم اداس کر گیا ۔۔۔۔ پلیز بتائیں ۔۔۔۔ وہ اسرار کرنے لگی۔۔۔۔

ہے بھئی میری محبت کی کہانی۔۔۔۔۔ وہ جو تھی وہ ملی نہیں مجھے بہت دعائیں کی تب بھی نہیں ۔۔۔۔۔ وہ افسردہ تھا۔۔۔۔۔ 

اچھا وہ سننے کے لیے بے تاب تھی۔۔۔۔ کون تھی وہ؟ کہاں ہے اب ؟کیا ہوا تھا؟ مشعل نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی ۔۔۔۔۔

ارے ارے بس بس پھر کبھی بتاؤں گا ۔۔۔۔ عثمان نے اسے روکا۔۔۔۔۔ ابھی نہیں

ابھی کیوں نہیں بتائیں نا عثمان ۔۔۔۔

ابھی نہیں مشعل ابھی زرا حوصلہ جمع کر لوں پھر بتاؤں گا ۔۔۔۔ 

اچھا تو حوصلہ کب جمع ہوگا۔۔۔۔ مشعل نے پھر سے سوال کیا ۔۔۔۔

جب بھی ہو گیا بتا دوں گا ۔۔۔۔ عثمان نے ٹال دیا ۔۔۔۔۔ 

اچھا عثمان آپ اسی لیے لڑکیوں سے اتنا ریزرو رہتے ہیں کیا؟۔۔۔۔ مشعل نے اس سے پھر سوال کیا ۔۔۔۔۔

نہیں ریزرو نہیں رہتا ۔۔۔ بس ایک بات ہے کہ وہ نہیں تو کوئی اور بھی نہیں ۔۔۔۔۔ ہاں اب کبھی محبت نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔ عثمان نے بلا تاثر کہا ۔۔۔۔۔۔

لیکن عثمان جو ملی ہی نہیں آپکو آپکی ہوئی ہی نہیں اس کیلئے باقی ساری دنیا سے منہ موڑ لینا بھی تو ٹھیک نہیں ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے اللّٰہ نے آپ کے لیے کچھ بہتر سوچ رکھا ہو۔۔۔۔ مشعل نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے جانتا ہوں یہ سب ۔۔۔ اور دنیا سے منہ نہیں موڑا جو ہوگا آگے کی زندگی میں امید ہے بہتر ہوگا لیکن مشعل کسی نے جب کسی کو اتنی شدت سے چاہا ہو مانگا ہو پھر اسے سنبھلنے میں دوبارہ محبت کا احساس جاگنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے ۔۔۔۔ اور وہ وقت پتا نہیں کتنا ہوتا ہے کچھ لوگ جلدی سنبھل جاتے ہیں اور کچھ کو صدیاں بیت جاتی ہیں سنبھلنے میں ۔۔۔۔۔ 

___________________________________________

عید مبارک لڑکی  کیسی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ نمرہ نے مشعل کے گلے ملتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ جو اس وقت مشعل کے گھر پہ آئی تھی اس سے ملنے ۔۔۔۔۔۔

خیر مبارک تمہیں بھی بہت بہت عید مبارک ۔۔۔۔۔۔ مشعل نے مسکراتے ہوئے اسے کہا۔۔۔۔۔۔۔

مجھے تو لگا تھا تم نہیں آؤ گی اور میری عید بوریت میں گزرے گی ۔۔۔۔۔ 

ایسا ہوسکتا ہے بھلا میں عید کے دن تم سے ملنے نا آؤں ۔۔۔۔ تم نے تو زحمت کرنی نہیں ہوتی مجھے ہی آنا پڑتا ہے پھر ۔۔۔۔۔ نمرہ نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

ایسی بھی بات نہیں میں بھی تو آتی ہوں اکثر ۔۔۔۔۔ مشعل ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔

ہاں ہاں میڈم آتی ہو تم بھی اور مجھے یاد بھی نہیں کہ لاسٹ ٹائم کب تم آئی تھی۔۔۔۔۔۔ نمرہ نے منہ بنایا۔۔۔۔۔

اچھا چلو دفعہ کرو اس بات کو ۔۔۔۔ تم بتاؤ کیا کھاؤ گی پھر بیٹھ کر باتیں کریں گے ۔۔۔۔ 

یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بھلا یار مجھے تو بہت بھوک لگی ہے تو یہ کولڈ ڈرنکس والے چکر میں نا پڑنا سیدھا کھانا کھلاؤ ۔۔۔۔ نمرہ نے بے دھڑک کہا۔۔۔۔۔

جی جی ضرور میں ابھی کھانا لگاتی ہوں میں بھی تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی مل کر کھانا کھاتے ہیں ۔۔۔۔ مشعل کہتے ہوئے کھانا لینے چلی گئی۔۔۔۔۔

وہ لوگ سب ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں ۔۔۔۔۔ 

نمرہ بار بار اپنے موبائل پہ میسج کرتی اور نوالا لیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہے نِمی کاسے بات کر رہی ہو مجھ سے بات کرو ۔۔۔۔۔ مشعل زرا اریٹیٹ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

سوری یار ہاں بس ہو گئی ختم عید وغیرہ کی مبارکباد ہورہی تھی ۔۔۔۔ نمرہ نے موبائل رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

اچھا ۔۔۔ کس سے ؟۔۔۔۔ مشعل نے اسے پوچھا ۔۔۔۔۔

وہ ہے نا اپنے کلاس فیلو جنید ۔۔۔ ان سے ۔۔۔۔۔۔ وہ میرے اچھے دوست ہیں ۔۔۔۔ نمرہ نے بتایا ۔۔۔۔۔ میرے تو کیا کافی ساری لڑکیوں کے بہت اچھے دوست ہیں ۔۔۔۔ وہ کہتے ہوئے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔

جنید بھائی ؟۔۔۔۔ مشعل نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔ تم جنید بھائی کی بات کررہی ہو سچ میں؟؟؟؟۔۔۔۔۔

ہاں نا اسی کی بات کررہی ہوں ۔۔۔۔۔ 

لیکن وہ تو رامین سے محبت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ریلیشن شپ میں ہیں ۔۔۔۔ مشعل کی آنکھیں حیرت انگیز طور پر نمرہ کو دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔

ہاں لیکن انکا کہنا ہے کہ محبت اپنی جگہ دوستی اپنی جگہ ۔۔۔۔ وہ تو سب سے ہی بات کر لیتے ہیں سب کو دوست بنا لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ نمرہ نے منہ میں نوالا ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

ہمممم۔۔۔۔۔ یہ تو کوئی بات نا ہوئی۔۔۔۔۔ چلو خیر مجھے کیا۔۔۔۔ مشعل نے کہتے ہوئے کھانے پر دھیان دیا۔۔۔۔۔۔

کھانا ختم کرنے کے بعد دونوں نے ساتھ مل کر کچھ تصویریں بنائی ۔۔۔۔ شام ہونے پہ نمرہ اپنے گھر چلی گئی ۔۔۔۔۔

رات کا وقت تھا مشعل پھر سے اپنے بستر پر لیٹے سوچ رہی تھی ۔۔۔۔

کسی سے محبت کرنا اور پھر ساتھ کسی اور سے دوستیاں رکھنا اور ان سے بھی باتیں کرنا۔۔۔۔ یہ تو محبت میں خیانت ہوتی ہے پھر جنید بھائی کیوں اپنی محبت میں خیانت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

ایک طرف عثمان ہے۔۔۔۔ جنکو اپنی محبت ملی بھی نہیں اور اس کی یاد میں بھی وہ کسی اور کو شامل نہیں کرتے ۔۔۔۔ 

وفاداری تو محبت میں لازم ہے ۔۔۔۔ 

جب محبت ہو اور محبوب میسر بھی ہو ۔۔۔۔ پھر کسی اور کی طرف توجہ کیسے جا سکتی ہے۔۔۔۔ وہی ہماری کل کائنات ہونا چاہیے ۔۔۔۔ 

محبت نہیں کرتے یہ لوگ محبت کے نام پہ جذبات کی توہین کرتے ہیں۔۔۔۔۔ مشعل کو جنید پہ غصہ آرہا تھا ۔۔۔۔

وہ خود بھی عشقِ واحد پہ یقین رکھنے والی لڑکی تھی۔۔۔۔ عثمان اسے بہت اپنے جیسا لگنے لگا تھا۔۔۔۔۔ 

عثمان بیسٹ ہیں ۔۔۔۔ کسی ایک کے ہوکر رہنے والے ۔۔۔۔ سچی محبت کرنے والے۔۔۔۔۔ وہ عثمان کو سوچ کر مسکرائی۔۔۔۔۔

 انکے پہلے سیمسٹر کے فائنل امتحانات کا آج آخری دن تھا ۔۔۔۔

سب سٹوڈنٹس پیپر دے کر کمرہ امتحان سے باہر نکل رہے تھے ۔۔۔۔۔ ان میں عثمان اور مشعل بھی تھے۔۔۔۔۔ وہ لوگ کمرہ امتحان سے باہر جا کر کتابیں کھول کر دیکھ رہے تھے کہ کیا کر کے آئیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ عثمان غصے میں تھا ۔۔۔۔ کتاب دیکھ کر خود کو ضبط کر رہا تھا۔۔۔۔

کیسا ہوا پیپر مشعل نے عثمان کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔۔

ہاں بس ٹھیک ہی ہو گیا ۔۔۔۔ کیا بتاؤں ٹھیک بھی کیا ایسا ہوا کہ میں نے پیپر کی بہت اچھی تیاری نہیں کی تھی۔۔۔ اور لاسٹ ٹائم تک مجھے یہی تھا کہ جاب سے گھر جاؤں گا ایک دفع دہراؤں گا اور پھر پیپر دوں گا جا کے۔۔۔۔  

اب جب کہ جاب سے گھر آیا تب تک زرا بھی ٹائم نہیں تھا کہ روائز کر سکوں۔۔ پھر ایسے ہی آگیا۔۔۔ عثمان بنا رُکے بولتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ پھر جب میں نے پیپر دیکھا تو اتنا عجیب سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ آ کہاں سے گیا ہے ۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے بلکل ہی نہیں وہ جو میں نے پڑھا تھا۔۔۔۔ خیر اللّٰہ کا نام لے کر پیپر شروع کیا ۔۔۔۔ ایک دو سوال لکھے جو لگا کے بہت ٹھیک طرح آتے ہیں 

وہ بولتے جا رہا تھا اور مشعل مسلسل مسکرا رہی تھی

ہاں تو پھر جب سارا پیپر کر لیا تب دیکھا کہ شاید میں نے یہ دو سوال غلط لکھ دیے دوبارہ کٹ کر کے کچھ اور لکھ دیے ۔۔۔۔ اور مطمئن ہو گیا کہ چلو سارا پیپر ٹھیک ہو گیا ہے۔۔۔۔ اور اب جب کتاب دیکھی تو پتا چلا کہ جو سوال میں نے کٹ کر کے دوبارہ لکھے وہ تو میں نے ٹھیک ہی لکھے تھے بعد میں جو لکھا وہ غلط تھے۔۔۔۔ اب مجھے اتنا غصہ آرہا ہے خود پہ ۔۔۔۔

مشعل قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔ 

آپ ہنس رہی ہیں مشعل ؟۔۔۔ عثمان نے مشعل کو عجیب نظروں سے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔۔۔

ہاں تو اور کیا کروں ۔۔۔۔ وہ اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس سے نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

عثمان آئی ایم سوری ۔۔۔۔۔۔ مگر یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن آپ کی یہ عادت ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھر سے کھلکھلا کر ہنسی ۔۔۔۔۔۔

عثمان کو اس کے ہنسنے پہ ہی ہنسی آ گئی کیا ہوا ہے ۔۔۔ بتائیں بھی تو کچھ ۔۔۔۔۔ کیوں ہنسی جا رہی ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔۔

اچھا آپ غصہ نا ہوں آپ کا رزلٹ مڈز میں بھی اچھا تھا اب بھی اچھا ہی ہوگا۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔۔

 یہ دلاسہ دے رہی ہیں آپ یا مزاق اڑایا ہے ۔۔۔۔۔ عثمان کی ہنسی غائب ہوئی۔۔۔۔۔۔۔

نہیں نہیں کوئی مزاق نہیں اڑا رہی بس آپ کی اس عادت پہ ہنس رہی ہوں ۔۔۔۔ اس نے مکمل ہنسی روک کر کہا۔۔۔۔ انشاء اللہ اچھا رزلٹ ہوگا عثمان آپ فکر نا کریں کچھ نہیں ہوتا تھوڑا بہت غلط ہو ہی جاتا ہے ۔۔۔۔۔

جی آمین اللّٰہ کرے اچھا ہی ہو۔۔۔  لیکن آپ بتائیں نا کیوں ہنس رہی ہیں۔ آپ ۔۔۔۔ عثمان نے پھر سے مشعل سے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔۔۔۔۔

عثمان آپ کو پتا ہے آپ کی ایک عادت ہے ۔۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ 

کونسی عادت ۔۔۔۔ عثمان نے پوچھا ۔۔۔۔۔

آپ  سےجب بھی کوئی بات پوچھتی ہوں آپ اس کو بہت لمبا کر کے بتاتے ہیں ۔۔۔۔ چھوٹی سی بھی بات ہو تو آپ اس کو مکمل تمہید باندھتے ہوئے بیان کرتے ہیں ۔۔۔۔ وہ پھر سے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔

عثمان بھی ہنس رہا تھا ۔۔۔ اچھا مجھے نہیں پتا کہ میں ایسا کرتا ہوں۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔۔

ہمیں خود تھوڑی پتا ہوتا ہے کہ ہماری کیا عادت ہے دوسرے لوگوں کو پتا چلتا ہے نا کیوں کہ وہ ہمیں سنتے ہیں دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ مشعل نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

آپ کو یاد ہے جب ایک مرتبہ آپ سے میں نے پوچھا تھا کہ آپ آج یونی ورسٹی کیوں نہیں آئے تب آپ نے مجھے کیسے بتایا تھا۔۔۔ وہ پھر قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔۔ 

کیا ہوا تھا مجھے نہیں یاد عثمان نے مسکراتے ہوئے کہا آپ ہی بتائیں کہ کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ 

وہ اسے یاد دلانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ سارا منظر مشعل کے ذہن میں گردش کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ 

(ہیلو عثمان ۔۔۔۔۔ آپ آج یونی نہیں آئے کیا ہوا ہے آپ ٹھیک ہیں؟۔۔۔۔ مشعل نے عثمان کو کال کی اور پوچھنے لگی۔۔۔۔۔

جی میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ بس آج زرا کام زیادہ تھا آفس میں کوئی میٹنگ بھی ہے شام کو ۔۔۔۔ اسی لیے نہیں آیا۔۔۔۔ عثمان نے بولنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ 

وہ کیا ہے نا کہ میں صبح کام پہ گیا تھا 4 5 بجے واپس آیا ہوں اس کے بعد آکر زرا شاور لیا اور کھانا بنا رہی تھی آپی ۔۔۔۔۔۔ اور آپ کو پتا آلو گوشت بنے تھے ۔۔۔۔ اور آلو گوشت میرا پسندیدہ سالن ہے ۔۔۔۔میں گھر کے فرسٹ فلور پہ تھا اور کھانا اوپر بن رہا تھا آپی مجھے نیچے کھانا دے کر گئی ۔۔۔۔۔ میں نے دو روٹیاں کھائیں لیکن میری بھوک ہی ختم نہیں ہوئی پھر میں نے اوپر جانا بھی ضروری نہیں سمجھا آپی کو کال کی کہ اور روٹی اور سالن بھیجو ۔۔۔۔ وہ پھر سے اور لے کر آئی میں نے ساڑھے تین روٹیاں کھائیں ۔۔۔۔ پھر مجھے سکون ہوا ۔۔۔۔۔ وہ مسلسل بولتے جا رہا تھا ۔۔۔۔ 

اور مشعل مسلسل اسکی بات سن کر ہنس رہی تھی ۔۔۔۔

اور اب میں نے کھانا تو کھا لیا ہے اب دوبارہ آفس والوں نے بلایا ہے کہ میٹنگ کا ٹائم 7 بجے کا ہے اب میں دوبارہ جاؤں گا کچھ دیر بعد ۔۔۔۔۔ عثمان نے اپنی بات ختم کی ۔۔۔۔۔۔

مشعل نے ہنستے ہوئے کہا جی ٹھیک ہے آپ کی بس خیریت دریافت کرنی تھی ۔۔۔۔ چلیں اب آپ جائیں آپ کی میٹنگ ہے۔۔۔۔ 

آپ ہنس کیوں رہی ہیں ۔۔۔۔ عثمان نے مشعل سے پوچھا ۔۔۔۔

بس ایسے ہی اوکے اب آپ جائیں ۔۔۔۔ اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔ 

چلیں ٹھیک ہے اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔ کہتے ہوئے دونوں نے فون رکھا۔۔۔۔۔)

سارا واقعہ سنتے ہوئے اب مشعل کے ساتھ عثمان بھی قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسنے لگا ۔۔۔۔۔ 

ایسے آپ نے کافی دفع کیا ہے عثمان ۔۔۔۔ مجھے آپ کی اس عادت پہ بہت ہنسی آتی ہے ۔۔۔۔۔

 But your style is very cute ۔۔۔

مشعل نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔

تھینکس فار دی کمپلیمینٹ ۔۔۔۔۔  عثمان نے شکریہ ادا کیا ۔۔۔۔۔

ہر بات پہ شکریہ ادا نا کیا کریں۔۔۔۔۔ 

اچھا۔۔۔۔۔۔

ہاں جی۔۔۔۔۔۔

___________________________________________

اس دن عثمان کا برتھ ڈے تھا ۔۔۔۔ وہ صبح سویرے اٹھا ۔۔۔۔ وضو کیا ۔۔۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ صبح کی سیر کو نکل گیا ۔۔۔۔۔ گھر واپس آکر اپنا موبائل دیکھا تو بہت سے برتھ ڈے وشز کے میسجز اسے موصول ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔۔  ریپلائے کرنے کے بعد اس نے شاور لیا اور کام پہ جانے کو تیار ہوگیا ۔۔۔۔ ناشتہ کرنے کے لیے وہ اب ناشتے کی میز پر موجود تھا۔۔۔۔ 

ہیپی برتھڈے بھائی اس کی دونوں بہنوں نے مل کر ایک آواز میں کہا ۔۔۔۔۔ جو ادھر ہی بیٹھی ناشتے کے انتظار میں تھیں ۔۔۔۔۔ 

تھینک یو سو مچ ۔۔۔۔ سوکھا ہی وش لاؤ میرا گفٹ عثمان نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔

کونسا گفٹ بھائی دیتے ہیں گفٹ بہنیں تھوڑی۔۔۔۔ نور نے بھنویں اچکاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

کیوں جی آپ تو مجھ سے بڑی ہیں آپ تو گفٹ دے سکتی ہیں ۔۔۔۔ عثمان اور اس کی بہنوں میں پیار بھری تکرار ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔

جی نہیں بھائی چھوٹے بھی ہوں تو بڑے ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔ کیوں امی ؟۔۔۔ نور نے امی کو بھی گفتگو میں شامل کیا۔۔۔۔۔۔

جی جی ایسا ہی ہے عثمان ۔۔۔۔ امی نے ناشتے کی ٹرے لاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھو تمہارا گفٹ ناشتہ۔۔۔۔۔ 

یہ کونسا گفٹ ہے بھئی ۔۔۔۔۔ یہ تو مجھے روز ملتا ہے۔۔۔۔

یہی گفٹ ہے کیونکہ ناشتہ میں نے نہیں ان دونوں نے بنایا ہے تمہاری پسند کا۔۔۔۔۔ امی نے اسے بتایا ۔۔۔۔

اچھا جی واہ کیا بات ہے ۔۔۔۔۔ چلو مان لیا کہ یہ گفٹ ہی ہے کیونکہ مہارانیوں خود ناشتہ تیار کیا وہ بھی میرے لیے ۔۔۔۔۔۔ عثمان ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔

ہاں تو اور کیا ابھی آپ نے کام پہ روانہ ہو جانا ۔۔۔ واپس آکر یونی چلے جانا ہے شام کو واپس آکر پڑھنے کا ٹائم ہوگا تو ہمیں سیلیبریشن کا موقع تو ملنا نہیں نا ہی آپ ہمارے ساتھ وقت گزارتے ہیں آکر سیدھا اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ اسکی چھوٹی بہن نے کہا۔۔۔۔

ہاں بس اسی لیے ہم نے تمہارے لئے صبح ہی ناشتہ بنا کے کام تمام کر دیا۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔۔ نور ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔

جی بہت مہربانی آپ کی اتنی عنایت فرمائی آپ نے وہ سب ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔۔

امی ابو اور بھائی چلے گئے ؟۔۔۔۔ عثمان نے ناشتہ شروع کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔۔

جی بیٹا وہ چلے گئے ۔۔۔ تم ناشتہ کرو۔۔۔۔۔۔ وہ سب ناشتہ کرنے لگے ۔۔۔۔۔

___________________________________________

Many happy returns of the day Usman sir 

آفس پہنچنے پر سٹاف کے پہلے شخص نے اسے وش کیا۔۔۔۔۔۔

اریج بھی پھولوں کا گلدستہ لیے اس کے سامنے آئی ۔۔۔۔ ہیپی برتھڈے عثمان ۔۔۔۔۔ اس نے حسرت بھری نگاہوں سے عثمان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

بہت شکریہ آپ کا عثمان نے ایک نظر اسے دیکھا اور نظر جھکا کر کہا ۔۔۔۔۔۔

اس کا دن بہت اچھا جا رہا تھا ۔۔۔۔ عثمان بھی کافی خوش تھا۔۔۔۔۔

___________________________________________

وہ سارا پلان کر چکی تھی کہ کیسے سب  کے ساتھ مل کر عثمان کو سرپرائز دے گی۔۔۔۔ 

مشعل اس کا برتھڈے منانے کے لیے کافی دن سے پلاننگ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ 

قسمت سے اس دن وہ لیکچر بھی فری تھا۔۔۔۔ جس سے عثمان بلکل بے خبر تھا۔۔۔۔۔ 

وہ لوگ کلاس میں ساری تیاری کے ساتھ عثمان کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ 

گائز عثمان آرہا ہے ارسہ نے باہر دیکھتے ہوئے سب کو آگاہ کیا جسے کلاس کے دروازے پر نظر رکھنے کو کہا گیا تھا ۔۔۔۔۔

عثمان جیسے ہی کلاس میں داخل ہوا مشعل نے اچانک سے پارٹی بومبر چلایا جس سے نکلتے ہوئے وہ ڈیکور عثمان کے ارد گرد اڑ رہے تھے۔۔۔۔ اور ساتھ  ہی دوسری طرف سے خضر نے سنو سپرے اڑائی ۔۔۔۔۔۔ 

بار بار دن یہ آئے 

بار بار دل یہ گائے 

تم جیو ہزاروں سال

یہی ہے آرزو

ہیپی برڈے ٹو یو 

ہیپی برڈے ٹو یو

کلاس میں وہ سب مل کر گنگناتے ہوئے عثمان کا استقبال کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ 

عثمان کے چہرے پر الگ ہی خوشی نمایاں تھی۔۔۔۔۔ مسکراتے ہوئے اس کی شربتی چمکدار آنکھیں اور بھی خوبصورت لگ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ 

تھینک یو تھینک یو ۔۔۔۔۔ عثمان نے خوشی سے کہا۔۔۔۔۔

سب کو مشعل نے اب چپ ہونے کا کہا۔۔۔۔۔ چلیں اب کیک کاٹتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ 

اوہ کیک بھی؟۔۔۔۔ عثمان نے خوشی سے پوچھا۔۔۔۔۔

جی کیک بھی ۔۔۔۔۔۔

اس نے کلاس میں ایک میز پر کیک سجا کر رکھا تھا ۔۔۔۔ عثمان نے کیک کاٹا ۔۔۔۔ کلاس میں پھر سے ہیپی برتھڈے کی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔۔ 

عثمان نے کیک سب دوستوں کو کھلایا ۔۔۔۔۔۔ 

وہ بہت خوش تھا ۔۔۔۔۔  بہت بہت شکریہ آپ سب کا ۔۔۔۔ میرا برڈے اتنا خاص بنانے کے لیے ۔۔۔۔۔ 

ہم سب کو بھی مشعل نے ہی بتایا کہ آپ کی سالگرہ ہے آج سو کریڈٹ گاس ٹو مشعل ۔۔۔۔۔  ارسہ نے بتایا ۔۔۔۔۔

نہیں نہیں کوئی کریڈٹ نہیں چاہیئے ۔۔۔۔ یہ ہم سب نے مل کر کیا آپ کیلئے ۔۔۔۔ سو کریڈٹ گاس ٹو آل آف اس

مشعل نے خوش ہو کر کہا۔۔۔۔۔

اگین تھینک یو سو مچ گائز اٹس مینز آ لوٹ فار می ۔۔۔۔ عثمان نے سب کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔۔۔

بہت شکریہ مشعل ۔۔۔۔ عثمان اسکا شکریہ ادا کر رہا تھا میرا آج کا دن بہت خاص بنا دیا آپ سب نے۔۔۔۔۔ عثمان اور مشعل پھر سے یونی کے گارڈن میں آکر بیٹھ گئے تھے۔۔۔۔۔۔ 

اس میں شکریہ کیسا ۔۔۔ مجھے خوشی ہوئی خود بھی آپ کا برڈے سیلیبریٹ کر کے۔۔۔۔۔۔ مشعل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بات کی۔۔۔۔۔

اچھا عثمان آج ہمارے پاس کافی وقت فری ہے ابھی کوئی کلاس بھی نہیں تو اب آپ مجھے سب بتائیں گے اپنی زندگی کے بارے میں ۔۔۔۔ مشعل نے ایکسائٹڈ ہو کر کہا۔۔۔۔۔ 

ابھی بتاؤں ؟؟۔۔۔۔

جی ابھی بتائیں کوئی بہانا نہیں چلے گا آج ۔۔۔۔۔۔ مشعل نے اسرار کیا۔۔۔۔۔

او کے بتاتا ہوں ۔۔۔۔ لیکن پتا نہیں میں بتا پاؤں گا کہ نہیں ٹھیک سے۔۔۔۔ عثمان نے ہچکچاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

کیوں نہیں بتا پائیں گے ۔۔۔۔۔ مشعل نے اسے حیرت سے دیکھا ۔۔۔۔۔

میں زرا جذباتی سا ہو جاتا ہوں وہ سب سوچ کے ۔۔۔۔۔ 

اچھا اچھا کوئی بات نہیں آپ بتائیں جب آپ کو عجیب فیل ہو ہم بات سٹاپ کر دیں گے ۔۔۔۔۔ جسٹ بی ریلیکس آپ آرام سے بتائیں۔۔۔۔۔۔ مشعل اسے سننے لگی 

اچھا تو سنو پھر ۔۔۔۔۔ عثمان نے اپنی محبت کا قصہ بیان کرنا شروع کیا اور وہ سناتے ہوئے ایک دم سے اسی دور میں واپس  کھو گیا۔۔۔۔۔۔۔ سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دن ہفتے کا تھا تاریخ نومبر کی 23 تھی سال 2019 ۔۔۔۔ گھر میں شادی پہ جانے کی تیاری کی چہل پہل تھی ۔۔۔۔۔

عثمان کے ابو کے کسی رشتہ دار کے بیٹے کی شادی تھی۔۔۔۔۔ 

 امی جلدی کریں اب آ بھی جائیں ۔۔۔۔ سعد نے گاڑی کی طرف جاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔۔ نمرہ اور نور کو بھی لے آئیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان کے والد اکبر صاحب پہلے ہی گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔

اس کی امی اور دونوں بہنیں  کچھ ہی دیر میں آ گئیں ۔۔۔۔ عثمان کہاں ہے اس نے نہیں جانا انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔ 

گاڑی میں اور جگہ ہی کہاں ہے امی ہماری کار میں بس پانچ ہی سیٹس ہیں ۔۔۔۔ سعد کہتے ہوئے ہنسنے لگا ۔۔۔۔ 

وہ تو ٹھیک ہے لیکن عثمان نے جانا نہیں کیا ؟۔۔۔ اسکی امی نے پھر سے سوال کیا ۔۔۔۔۔

آپ فکر نا کریں وہ اور چاچو بائیک پہ آ جائیں گے انہوں نے کہا ہے ۔۔۔۔ سعد نے کہتے ہوئے ڈرائیو کرنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔

وہ لوگ کچھ ہی دیر میں شادی والے گھر پہنچ چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔

ادھر عثمان شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا ۔۔۔۔ اس نے بہت سادہ سی میرون سے شیڈ کی شلوار قمیض زیب تن کر رکھی تھی ۔۔۔۔ وہ اس سادہ سے لباس میں بھی خاصا پیارا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔

عثمان تیار نہیں ہوئے ابھی؟۔۔۔۔ خالد چاچو نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔۔۔۔۔ کب سے انتظار کر رہا ہوں تمہارا تمہاری تیاری ہی ختم نہیں ہو رہی ۔۔۔۔۔

میری کیسی تیاری دیکھیں میں تیار بس عثمان نے جلدی سے اپنی گھڑی کلائی پر باندھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ 

اور وہ دونوں بھی جانے کےلئے روانہ ہوئے ۔۔۔۔۔ 

مہندی کی تقریب میں سب رشتہ دار موجود تھے ۔۔۔۔ 

عثمان ایک انتہائی شرمیلا سا لڑکا تھا ادھر گنتی کے چند رشتہ داروں سے سلام کے بعد باقی سب سے ملنے کی بجائے وہ ایک طرف کھڑا تقریب کا نظارہ ہی کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ 

___________________________________________

اگلے دن بارات لے جانے کیلئے سب تیاریوں میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔  بچوں کی بھاگ دوڑ ۔۔۔۔ بڑوں کے کام اور عورتوں کی تیاریاں سب زور و شور سے جاری تھا ۔۔۔۔۔ 

 ___________________________________________

اب بارات ایک بڑے سے میرج ہال میں پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔۔ ایک طرف دروازے پر لڑکیوں کی قطار ہاتھوں میں پھولوں کی پلیٹیں لیے کھڑی بارات کا استقبال کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔ ان میں  سب لڑکیوں کی تیاری کا کوئی جواب نہیں تھا لیکن ان خوبصورت چہروں میں بھی ایک نمایاں چہرہ موجود تھا جو پرپل فراک پہنے ہوئے کھکھلاتے ہوئے بارات پہ پھول پھینک رہی تھی۔۔۔۔۔۔ 

عثمان بھی باراتیوں سمیت میرج ہال میں داخل ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ کالا کرتا پاجامہ پہنے ہوئے ساتھ ویسٹ کوٹ میں۔۔۔۔ اس دن بھی لڑکوں میں سب سے زیادہ پیارا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ 

عثمان ہمیشہ کی طرح نظر جھکائے ہوئے ہی لڑکیوں کے پاس سے گزر گیا ۔۔۔۔۔ نا جانے اسے اس دن بھی دیکھتے ہوئے کتنوں کے دل دھڑکے ہونگے ۔۔۔۔۔

عثمان ان لڑکوں میں سے نہیں تھا جو ایسی تقریبات میں آگے بڑھ بڑھ کر ہر بات میں حصہ لے ۔۔۔۔ وہ بہت خاموش طبع اور شرمیلا تھا۔۔۔۔۔۔

 ماشاءاللہ عثمان تو کتنا بڑا ہو گیا ہے اکبر صاحب ۔۔۔۔۔۔بہت چھوٹا سا تھا جب اسکو دیکھا تھا اس کے بعد تو کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ اس کےوالد کے کوئی رشتے دار ان کے قریب آکر کھڑے تھے۔۔۔۔۔ وہ عثمان کو دیکھتے ہوئے بہت خوش ہو رہے تھے۔۔۔۔

بس جمیل بھائی زندگی کی مصروفیات ہی اتنی ہو جاتی ہیں ابھی تو یہ شادی بیاہ کی تقریبات میں ہی سب سے ملنے کا موقع ملتا ہے ویسے کہاں کوئی کسی سے ملنے آتا ہے اب۔۔۔۔۔ اس کے ابو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔۔

اور عثمان بیٹا کیا کرتے ہو تم ۔۔۔۔ انہوں نے عثمان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔ 

جی انکل میں پڑھائی کر رہا ہوں میری بی ایس سی چل رہی ہے ۔۔۔۔۔ عثمان نے نہایت ادب سے جواب دیا ۔۔۔۔۔

ویری گڈ ۔۔۔۔۔ اللّٰہ پاک کامیاب کرے آمین ۔۔۔۔ جمیل صاحب نے دعا دی ۔۔۔۔۔۔ 

اور بیٹے آگے کا کیا پلان ہے انہوں نے بات مزید آگے بڑھائی۔۔۔۔۔ 

آگے انشاء اللہ ماسٹرز کروں گا ۔۔۔۔۔ عثمان نے کہا

بہت اچھی بات ہے دل لگا کے پڑھا کرو ۔۔۔۔ 

وہ لوگ ادھر کھڑے کافی دیر باتیں کرتے رہے ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں کھانا لگ چکا تھا شادی کا کھانا کھانے کے بعد ۔۔۔ عثمان اور اس کے کچھ کزنز اسٹیج پہ موجود تھے جہاں دلہا دلہن کو ساتھ بٹھایا گیا تھا اور ادھر  دولہا کی سالیاں دودھ پلائی کی رسم کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔

 دولہا اور سالیوں میں شگن کے پیسوں پہ ہنسی مذاق ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ 

یہ دودھ کا گلاس ہے یا آب حیات اس کے ہم کیوں پچاس ہزار دیں بھلا ۔۔۔۔ سب کزنز میں سے ایک نے کہا۔۔۔۔

یہ آب حیات ہی سمجھیں آپ ۔۔۔۔ دولہا بھائی کے پینے کے بعد بچتا ہوا تھوڑا سا آپ بھی پی لینا چہرے پر زرا نور آجائے گا ۔۔۔۔۔۔ وہ پرپل فراک میں ملبوس لڑکی جسکا نام مائرہ تھا ہاتھ میں سجاوٹ سے بھرپور دودھ کا گلاس لیے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ سب اس کی بات پہ ہنسنے لگے ۔۔۔۔۔۔

ہمارے منہ پہ تو پہلے ہی بہت نور ہے آپ سب لڑکیوں کو ضرور دودھ پینا چاہیے شاید پھر اتنے میک اپ کی ضرورت نا پڑے دولہا کے کزن کی بات پہ سب کھلکھلا کر ہنس دیے ۔۔۔۔۔۔ 

 عثمان ادھر بھی ایک سائیڈ پہ کھڑا تھا ۔۔۔۔ وہ کسی بات میں حصہ نہیں لے رہا تھا ۔۔۔۔۔ سب کے ہنسنے پہ عثمان زرا دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔۔۔۔۔ 

مائرہ ۔۔۔۔ ادھر آنا زرا بیٹا مائرہ کی امی نے اسے آواز دی ۔۔۔۔۔۔

اس نے جلدی سے دودھ کا گلاس دوسری لڑکی کو پکڑایا اور بات سننے چلی گئی ۔۔۔۔ اب مائرہ کی جگہ کوئی اور تھی ۔۔۔۔۔

عثمان بھائی آپ  بہت چپ چپ ہیں آپ بھی کچھ بولیں یہ تو بہت زیادہ ڈیمانڈ کر رہی ہیں ہم تو پچاس ہزار نہیں دیں گے  شارب نے عثمان کو بھی گفتگو میں شامل کیا۔۔۔۔  

کوئی بات نہیں صدقہ سمجھ کر دے دیں بھائی ۔۔۔۔ عثمان نے آگے آتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ 

بھائی ہم آپ کو خیرات لینے والی لگتی ہیں؟۔۔۔۔ اس لڑکی نے منہ بنایا ۔۔۔۔۔ 

چلو بھئی اب یہ مذاق کرنا بند کرو سب رخصتی میں دیر ہو رہی ہے لڑکی کے ابو نے آکر بات ختم کروائی ۔۔۔۔۔ 

چلو کیا یاد کرو گی تم لوگ یہ لو اپنا شگن ۔۔۔۔۔ دولہا نے پیسے نکال کر انکو دیے ۔۔۔۔۔۔ 

واووو دولہا بھائی دی گریٹ ۔۔۔۔۔ لڑکی نے گلاس انکو تھما دیا اور پیسے لے کر خوش ہونے لگی۔۔۔۔۔۔

ولیمے کا دن بھی گزر گیا شادی کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا ۔۔۔۔ دن نارمل روٹین پہ آگئے عثمان کا روز کالج آنا جانا شروع ہوگیا ۔۔۔۔۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے تین ماہ گزر گئے۔۔۔۔۔۔ 

اس دن 9 مارچ 2020 کو کچھ ایسا ہوا جس نے عثمان کی زندگی میں ایک ہلچل مچادی وہ دن ۔اسکے لئے بہت اچھا تھا یا بہت برا یہ فیصلہ وہ آج تک نا کر پایا ۔۔۔۔۔۔

محبت کبھی بھی چپکے سے ہمارے دل میں آ بستی ہے ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔  زندگی میں بہت سے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں کسی سے اچھی دوستی ہو جاتی ہے تو کسی سے بہت لگاؤ ۔۔۔۔ اور کبھی کبھی اچانک سے کوئی اچھا لگنے سے وہ دل میں گھر کر لیتا ۔۔۔۔ کوئی ہمارے دل میں یوں بس جاتا ہے کہ ہم اس کی محبت کے گرویدہ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ 

 آپ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟۔۔۔۔ عثمان نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے سب کو ساتھ بیٹھے دیکھ پوچھا۔۔۔۔۔ جو گھر کی ایل سی ڈی پہ کچھ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

ہم لوگ شادی کی فلم دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ نور آپی نے اسے بتایا۔۔۔۔۔۔

او اچھا شادی کی مووی آ بھی گئی ؟۔۔۔۔۔ عثمان نے خوش ہوکر کہا

اتنا وقت گزر گیا یہ تو آج ابو انکی طرف گئے تھے تب لے آئے پتا نہیں کب سے بن کے آگئی تھی۔۔۔۔۔ نور نے وضاحت کی ۔۔۔۔۔۔

اب تو آپ لوگوں نے دیکھ لی ہوگی مجھے بھی دے دیں میں لیپ ٹاپ میں ہی دیکھ لوں گا۔۔۔۔۔ عثمان نے سوال کیا

ہاں ہم نے تو دیکھ لی تم نکال لو یو ایس بی اور دیکھ لینا خود ہی لیپ ٹاپ میں ۔۔۔۔ اس کے والد نے کہا۔۔۔۔۔

عثمان یو ایس بی اپنے کمرے میں لے گیا ۔۔۔۔۔ لے جاکر اس نے ٹیبل پر رکھ دی۔۔۔۔ اور خود فریش ہو کر کھانا کھانے چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ 

کھانا کھا کر اب عثمان اپنے کمرے میں آ چکا تھا ۔۔۔۔ اس نے لیپ ٹاپ آن کیا اور یو ایس بی لگائی۔۔۔۔۔۔ ویسے میں شادی کی مووی دیکھ کر کیا کروں گا اس نے سوچا ۔۔۔۔۔ چلو خیر ہے کچھ شغل میلا ہی سہی دیکھوں تو سب شادی میں کیسے لگ رہے تھے تب تو غور نہیں کیا ۔۔۔۔ وہ خود سے بات کرتے ہوئے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پہ  انگلیاں چلانے لگا۔۔۔۔۔۔

( محبت کا طوفان بھی کتنی خاموشی سے ہماری زندگی میں آتا ہے اور پھر اپنے ساتھ ہمارے بہت سے جذبات بہا کر لے جاتا ہے)  عثمان کی زندگی میں بھی یہ طوفان آنے ہی والا تھا ۔۔۔۔۔ 

وہ لیپ ٹاپ آن کرتے ہوئے ایک ایک سٹیپ اپنی زندگی میں آنے والے اس طوفان کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔

لیپ ٹاپ کی روشنی اس کے چہرے پر پڑتے ہوئے اسے روشن کر رہی تھی۔۔۔۔۔ 

عثمان اب شادی کی مووی اوپن کر چکا تھا وہ پلے ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔

مہندی کی تقریب کی ویڈیو چل رہی تھی عثمان نے فارورڈ کرتے ہوئے اس بارات پہ لے گیا۔۔۔۔۔۔

بارات پہ پھول پھینکتے ہوئے استقبال کو اس نے فارورڈ کرتے ہوئے گزار دیا ۔۔۔۔۔ یہاں تو سب میں ۔ میں ہوں ہی نہیں کہیں خود کی ویڈیو دیکھتا ہوں جہاں دودھ پلائی کی رسم ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ 

سین دودھ پلائی کی رسم پر آ رکا عثمان بڑے غور سے اب سارے سین دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ 

دلہن کے پاس ایک لڑکی پرپل فراک پہنے کھڑی تھی ۔۔۔۔ 

وہی تو تھی جو دودھ پلائی کی رسم ادا کر رہی تھی ۔۔۔۔ 

وہ سین عثمان کی آنکھوں میں کچھ الگ ہی چمک پیدا کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ 

اس کے کھلے ریشمی بال ہلکی سرخ لپ اسٹک اور لبوں پہ سجی وہ مسکان ۔۔۔۔۔ عثمان اسکو دیکھتے ہی رہ گیا ۔۔۔۔۔۔ 

جب میں وہاں تھا یہ لڑکی تو دودھ پلائی کی رسم نہیں کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ عثمان کے ذہن میں خیال آیا ۔۔۔۔ ہاں تب کر رہی ہوگی جب میں نہیں تھا میں تو بعد میں آیا تھا ۔۔۔۔۔۔ 

عثمان نے وہ سین دو تین دفعہ دہرا کر دیکھا۔۔۔۔۔۔

وہ مسکراہٹ نے اسے موہ لیا تھا۔۔۔۔ 

عثمان نے اسے دیکھنے کے لیے فلم کا پہلا پارٹ دوبارہ چلایا مہندی کی تقریب میں اسے ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔ لیکن وہ مہندی کی تقریب میں کہیں بھی نہیں تھی۔۔۔۔ ولیمے کی تقریب میں بھی دیکھا تو اس میں بھی کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔۔

عثمان نے پھر سے بارات کا وہ سین نکالا اور دیکھنے لگا۔۔۔۔ وہ جیسے جیسے اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا اس کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ یہ کتنی پیاری لگ رہی ہے ۔۔۔۔۔ وہ دل میں کہہ رہا تھا ۔۔۔ شادی پہ تو کہیں نظر نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔ 

(وہ تھا اس کا آغازِ محبت لو ایٹ فرسٹ سائیٹ وہ بھی ایک شادی کی تقریب میں نہیں بلکہ شادی کی تقریب کی مووی میں)

عثمان نے وہ مووی بند کی لیپ ٹاپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔۔

آنکھیں بند کرتے ہی اسکا چہرہ سامنے تھا۔۔۔۔۔ وہ ایک دم سے آنکھیں کھول کر اٹھا ۔۔۔۔۔۔

 یہ کیا عثمان ۔۔۔۔۔ تم کو آنکھیں بند کرنے پہ بھی وہ نظر آرہی ہے ہے ۔۔۔۔ 

ہاں اتنا زیادہ ایک ہی سین کو دیکھو گے تو آنکھوں کے سامنے تو آئے گا۔۔۔۔ اس نے خود کو سمجھاتے ہوئے دوبارہ سے لیٹتے ہوئے آنکھیں بند کیں ۔۔۔۔ خود ہی نظر سے ہٹ جائے گا یہ منظر پیاری ہے اتنی بھی پیاری نہیں ہے  ۔۔۔ لیکن اس کی مسکراہٹ تو اس سے بھی زیادہ پیاری ہے ۔۔۔۔ توبہ کرو عثمان یہ کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔اس نے خود سے کہا اور سونے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح عثمان حسبِ معمول اٹھا تیاری کی کالج گیا ۔۔۔۔۔۔  لیکن کچھ تو تھا جو اس دن بدلا بدلا تھا۔۔۔۔۔ اس کا دن بہت بے چینی میں گزر رہا تھا ۔۔۔۔ وہ ہنستا ہوا چہرہ اسکی آنکھوں میں بار بار گردش کر رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ کسی کو بھی ہنستا ہوا دیکھتا تو اسے وہی معصوم اور پیاری مسکان سجے لب نظر آتے۔۔۔۔۔ 

یہ کیا ہو رہا ہے عثمان تم کیوں اسے اتنا اپنے ذہن پہ سوار کر رہے ہو۔۔۔۔وہ خود سے پورا دن مکالمہ کرتا رہا 

وہ تمہیں اچھی لگی ہے اس لیے تمہارے ذہن پہ سوار ہے ۔۔۔۔ نہیں بہت سے چہرے پیارے لگتے ہیں ایسے تھوڑی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن پھر وہ ہی چہرہ بار بار آنکھیں اپنے سامنے کیوں لا رہی ہیں ۔۔۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے بس سوچ رہے ہو تم عثمان اس نے خود کو سمجھایا اور اپنی پڑھائی پہ فوکس کیا۔۔۔۔۔ وہ گھر آیا تو اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی نظر لیپ ٹاپ پہ تھی۔۔۔۔۔ 

نہیں عثمان تم مت سوچو اس کے بارے میں اس نے اپنا دھیان ہٹایا اور چینج کرنے چلا گیا ۔۔۔۔۔ 

دن گزرا رات آئی تو عثمان نے کسی کام سے لیپ ٹاپ کھولا ۔۔۔۔۔ 

لیپ ٹاپ آن کرتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ بس اب دوبارہ نہیں دیکھوں گاوہ ویڈیو اپنا کام کروں گا اور لیپ ٹاپ بند ۔۔۔۔۔۔۔

لیکن جب محبت کی کشش ہمیں کھینچتی ہے تو انسان خود کو جتنا بھی روکے وہ کھنچتا چلا جاتا ہے ۔۔۔۔

عثمان نے کام کر کے لیپ ٹاپ بند کرنے کی بجائے پھر سے وہی مووی پلے کر لی پھر سے اسی سین پہ آکر رکا بار بار اسے دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد سو گیا۔۔۔۔۔

اب وہ دن میں سب کام حسبِ معمول کرتا تھا ۔لیکن اسے رات کا انتظار ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔ عجیب تھا کہ اس کا پور دن اسی سوچ میں گزرتا کہ کب رات ہو اور وہ اسے اس ویڈیو میں دیکھ سکے ۔۔۔۔۔ 

رات ہوئی تو عثمان پھر سے اپنا لیپ ٹاپ لیے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ وہی ویڈیو دیکھ رہا تھا مجھے اس لڑکی سے محبت ہو گئی ہے وہ خود سے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن نہیں شاید بس اسے دیکھنا اچھا لگتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر صرف اسے دیکھنا اچھا لگتا ہے تو کیوں اسے پانے کی حسرت سی ہونے لگی ہے کیوں میں سارا دن مصروفیت کے باوجود بھی اس انتظار میں رہتا ہوں کہ میں رات کو اس کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ سکوں ۔۔۔۔۔ ہاں مجھے واقعی اس سے محبت ہو گئی ہے ۔۔۔۔ نہیں تمہیں کیسے محبت ہوسکتی ہے عثمان نا تم اسے جانتے ہو نا کبھی دیکھا بس ویڈیو میں دیکھ کر محبت ۔۔۔۔۔ نہیں ایسے نہیں ہوتی محبت ۔۔۔۔  وہ خود سے ہی جھگڑ رہا تھا۔۔۔۔ 

(جب کسی کو محبت ہوتی ہے تو وہ خود سے ایسے ہی تکرار کرتا ہے ہر ممکن کوشش کہ محبت کے حصار میں نا آ جائے انسان خود سے کہتا ہے کہ نہیں مجھے محبت نہیں ہو سکتی لیکن محبت کہتی ہے کیوں بھئی تمہیں محبت کیوں نہیں ہو سکتی تو پھر محبت اسے ہو کر دکھاتی ہے ۔۔۔۔۔۔)

عثمان سچ مچ اس مسکراہٹ کا گرویدہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔

عثمان دن بہ دن اسکی محبت میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا رات بھر جاگتے ہوئے اسکی ویڈیو ہی دیکھتا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔ اسے دیکھتے ہوئے کب صبح ہوتی اسے پتا ہی نہیں چلتا ۔۔۔۔۔

عجیب دل کی حالت ہو رہی ہے لیکن ایسے صرف اسے دیکھتے ہوئے تو زندگی نہیں گزار سکتے تم عثمان وہ پھر سے اپنے آپ سے ہی باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔ 

لیکن کہوں کس سے کہ کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔ کسے بتاؤں کہ مجھے پیار ہو گیا کسی سے ۔۔۔۔۔ 

کون ہو جو میری بات اس تک پہنچائے اسے میرا بنائے ۔۔۔۔۔

میں آج چاچو سے سب بات شئیر کر دوں گا ۔۔۔۔ آخر وہی تو ہیں مجھے سمجھنے والے جن سے میں اپنے دل کی بات کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔

اچانک سے اسے خیال آیا ۔۔۔۔

(عثمان اپنے دوستوں میں بھی بہت کم فرینک تھا کبھی کسی سے کچھ شئیر کرنے کی عادت نہیں رکھتا تھا)

ہاں میں چاچو سے بات کروں گا وہ ضرور میرے لیے کچھ کریں گے۔۔۔۔۔آخر کار ہوگی تو وہ کوئی رشتہ دار ہی جو شادی میں اتنا اہم کردار ادا کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔۔

شام کا وقت اور عثمان پارک میں ٹہلنے کیلئے گھر سے باہر آیا ہوا تھا۔۔۔۔۔ 

ہاتھ میں موبائل فون کو پکڑے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔۔۔۔

بی ریلیکس عثمان کوئی اتنی بڑی بات نہیں تم کر سکتے ہو وہ اپنے آپ کو سمجھا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

اسلام وعلیکم!۔۔۔۔۔ چاچو ۔

عثمان نے ہمت جٹا کر کال کی ۔۔۔۔۔

والیکم سلام ۔۔۔۔ کیسے ہو مانی ۔۔۔۔۔ اسکے چاچو نے خوشی سے بات کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

میں ٹھیک چاچو آپ کیسے ہیں ؟۔۔۔۔ 

میں بھی ٹھیک ٹھاک ۔۔۔۔ آج بڑے دن بعد یاد کیا اپنے چاچو کو ۔۔۔۔ کہاں گم رہتے ہو؟؟۔۔۔۔

بس چاچو گم تو نہیں پڑھائی میں مصروف تھا آج سوچا آپ سے بات کر لوں ۔۔۔۔۔

اچھا تو بس فارغ وقت میں ہی یاد آئی میری ۔۔۔۔۔ اس کے چاچو ہنسنے لگے ۔۔۔۔

نہیں نہیں ایسی بھی بات نہیں ۔۔۔۔ آپ کو تو ہمیشہ یاد رکھتا ہوں ۔۔۔ اور آج تو آپ سے کچھ بات بھی کرنی تھی۔۔۔۔۔  

جی جی بولو کیا بات کرنی تھی ۔۔۔۔ اس کے چاچو نے پوچھا۔۔۔

بتاؤں کہ نہیں ۔۔۔۔۔ عثمان سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔۔

کیا ہوا عثمان بولو کیا بات ہے اس کو تھوڑی دیر خاموش پا کر چاچو نے پھر سے سوال کیا ۔۔۔

نہیں کچھ نہیں چاچو بس ایسے ہی ۔۔۔۔ کوئی بات نہیں تھی جب آپ ملیں گے تب بتاؤں گا عثمان نے بات ٹال دی ۔۔۔۔

اچھا چلو کوئی بات نہیں میں نے آنا ہی ہے کچھ دن تک تم لوگوں کی طرف پھر بات کر لیں گے۔۔۔۔۔ 

انکے درمیان کچھ دیر بات ہوئی اور پھر فون رکھ دیا گیا ۔۔۔۔۔

چاچو کو مل کر ہی سب بتاؤں گا ۔۔۔۔ عثمان نے موبائل جییب میں رکھتے ہوئے خود سے کہا۔۔۔۔۔

___________________________________________

سب رمضان المبارک کے پہلے روزے کی افطاری کے بعد اکھٹے بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔۔

یہ لو جی سب چائے پی لو نور ہاتھ میں بڑی سی ٹرے جس میں بہت سارے چائے کے کپ تھے  لیے لاؤنج میں داخل ہوتے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ 

واہ واہ بیٹا یہ تو بہت اچھا کیا چائے کی بہت طلب ہو رہی تھی اس وقت اکبر صاحب نے نور کو شاباش دی ۔۔۔۔۔

جی جی جانتی ہوں اب ویسے بھی سارا دن آپ نے چائے تو پی نہیں اس وقت تو ایسا ہونا ہی تھا۔۔۔۔۔ اس نے چائے کا پہلا کپ ہی اپنے ابو کے سامنے پیش کیا ۔۔۔۔

نور نے سب کو چائے دی اور خود بھی صوفے پہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔ 

نور جیسی چائے بنا ہی نہیں سکتا کوئی ۔۔۔ ماشاءاللہ اس کے ہاتھ میں بہت لذت ہے کھانا بھی کمال تھا ۔۔۔۔انکے چاچو اویس نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ جو کہ ان کے گھر افطاری پہ مہمان تھے۔۔۔۔۔ 

توبہ کریں چاچو جان یہ بول کر آپ اس کو ہوا نا دیں یہ شوخی ہو جاتی ہے۔۔۔۔ سعد ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔

ہاں ہاں تم سے میری تعریف ہضم نہیں ہوتی ۔۔۔۔ جل کُکڑے۔۔۔۔۔ 

سب گھر والے ہنسنے لگے ۔۔۔۔۔۔

نمرہ تم نہیں کچھ بول رہی ۔۔۔ اس کے چاچو نے چھوٹی بہن کو مخاطب کیا ۔۔۔۔۔

آپ سب کی باتیں سن رہی ہوں چاچو ۔۔۔ اس کے لہجے میں تھکاوٹ تھی ۔۔۔۔۔۔

نمرہ کی تو حالت مُردوں والی ہوئی ہے بھوک سے بیچاری کا برا حال تھا سارا دن ۔۔۔۔ ہاہاہاہا عثمان نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

جی نہیں ایسی بھی بات نہیں اب ۔۔۔۔ اس نے فوراً سے خود کو چست کرتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔۔ 

ایسی ہی بات ہے سارا دن بکریوں کی طرح چرتی رہتی ہو آج پہلے روزے میں ہی ڈھیر ہو گئی ۔۔۔۔۔ عثمان پھر سے ہنسا۔۔۔۔۔۔

اور آپ خود آپ خود بھی بے ہوش ہونے والے تھے افطاری کے وقت تک ۔۔۔۔ اپنا یاد نہیں اس نے جوابی کارروائی کی ۔۔۔۔۔۔

ہاں اب بیچاری کوور نہیں کر پا رہی اس لیے الٹا مجھ سے ایسے کہہ رہی ہے ۔۔۔۔ وہ اسے چڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔

بس کرو مانی کیوں بہن کو تنگ کرتے رہتے ہو اس کی والدہ نے اسے روکا ۔۔۔۔۔ 

میں کہاں تنگ کر رہا ہوں یہ ہے ہی بکری ۔۔۔۔۔ بکری کی طرح سارا دن چرتی نہیں آپ خود بتائیں ۔۔۔۔۔۔ وہ اور زیادہ ہنسنے لگا ۔۔۔۔۔۔

نا کریں امی آپ میں خود سیلف ڈیفنس کرنا جانتی ہوں میں ان کو بتاتی ہوں زرا میں کونسی بکری ہوں ۔۔۔۔ نمرہ نے مغرور انداز میں کہا ۔۔۔۔۔

سیلف ڈیفنس کے سپیلنگ بھی آتے ہیں تمہیں ۔۔۔۔۔عثمان نے اسے چڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ 

ہاں جی آتے ہیں آپ سے تو زیادہ ہی آتے ہیں ۔۔۔۔۔ 

وہ سارے گھر والے انکی باتوں پہ ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔

___________________________________________

اچھا عثمان تم نے اس دن کہا تھا کہ تم نے مجھ سے کوئی بات کرنی ہے کیا بات تھی ۔۔۔۔۔ اسکے چاچو اور وہ اب عثمان کے کمرے میں بیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔ کیونکہ جب بھی اسکے چاچو آتے تو وہ عثمان کے ساتھ ہی اسکے کمرے میں ٹہرتے تھے ۔۔۔۔۔

جی چاچو بات تو بہت ضروری ہے لیکن سمجھ نہیں آتی کہ کیسے کروں ۔۔۔۔ کہاں سے شروع کروں اور کیا کہوں۔۔۔۔۔ عثمان کنفیوژن کا شکار تھا۔۔۔۔۔

جیسے بھی کرنی ہے کرو اس میں سوچنے والی کیا بات ہے ۔۔۔۔ بات ہی تو کرنی ہے اور ایسی بھی کیا بات ہے جو تم کہہ نہیں پا رہے ۔۔۔۔ 

چاچو وہ مجھے نا ۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہوئے ہچکچا رہا تھا ۔۔۔۔۔

کیا مجھے نا؟۔۔۔۔ بولو عثمان ۔۔۔۔۔

وہ مجھے نا ایک ۔۔۔۔۔۔ 

ایک لڑکی پسند ہے یہ کہنا چاہتے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔اس کے چاچو نے اس کی بات مکمل کر دی۔۔۔۔۔ 

جی چاچو یہی کہنے لگا تھا ۔۔۔۔ آپ کو کیسے پتا عثمان حیران ہوا۔۔۔۔۔۔

بھئی ہم بھی اس دور سے گزرے ہیں سب معلوم ہے اسکے چچا ہنسنے لگے ۔۔۔۔۔ تو بتاؤ کون ہے وہ جو میرے بھتیجے کو پسند آگئی ہے ۔۔۔۔۔۔

یہی تو نہیں پتا کہ کون ہے وہ ۔۔۔۔ یہ تو آپ پتا کر کے بتائیں گے نا۔۔۔۔۔۔ اس نے چاچو سے کہا۔۔۔۔۔

میں پتا کر کے کیسے بتا سکتا ہوں میں کوئی جاسوس ہوں؟۔۔۔۔ وہ ہنسنے لگے ۔۔۔۔۔

آپ ہی کر سکتے ہیں چاچو ۔۔۔۔ کیونکہ جہاں میں نے اسے دیکھا اس کے بارے میں آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کون ہے ۔۔۔۔ اس نے چاچو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ وہ حسرت بھری نگاہوں سے انکو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

اچھا اچھا ۔۔۔ تو پھر بتاؤ کہاں دیکھا ہے اسے ۔۔۔۔ 

وہ جہاں ہم شادی پہ گئے تھے ۔۔۔۔۔ اس نے سارا واقعہ اپنے چاچو کے گوش گزار کیا ۔۔۔۔۔۔

اچھا تو یہ ماجرہ ہے ۔۔۔۔۔ اس کے چاچو سن کر ہنس دیے ۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو کوئی بات نہیں کرتا ہوں میں پتا کے کون ہے وہ پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے چچا نے اسے حوصلہ دیا۔۔۔۔۔۔۔

جب سے چاچو گئے ہیں انہوں نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں عثمان کو شدت سے اپنے چاچو کے رابطے کا انتظار تھا۔۔۔۔۔۔ 

دو دن ہو گئے ابھی تک انہوں نے نا کال کی نا خود آئے ۔۔۔۔ وہ جانتے بھی ہیں کے میں کتنی بے صبری سے انتظار میں ہوں ۔۔۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں سٹڈی ٹیبل پر موجود سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔

اچانک سے اسکے موبائل کی رنگ بجی۔۔۔۔۔ عثمان نے فوراً موبائل فون پکڑا۔۔۔۔۔۔

ہیلو عثمان ۔۔۔۔ چاچو اویس نے عثمان کو کال کی ۔۔۔۔

جی چاچو۔۔۔۔۔ وہ جلدی سے بولا ۔۔۔۔۔ میں دو دن سے انتظار کر رہا تھا چاچو آپ بھی نا کہاں غائب ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔ 

ارے ارے ۔۔۔۔ دیکھو تو زرا کتنا بے چین ہے میرا لاڈلا اس کے چاچو ہنسنے لگے ۔۔۔۔۔۔

چاچو تنگ نا کریں نا پلیز بتائیں کچھ پتا چلا اس کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔۔ عثمان نے بے صبری سے پوچھا۔۔۔۔۔

جی جی چل گیا پتا ۔۔۔۔۔ وہ تمہاری دادی اماں کے ماموں کی بیٹی کی بیٹی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے چاچو نے رشتہ داری بیان کی ۔۔۔۔۔

اوہ! اتنا دور کا رشتہ ۔۔۔۔ عثمان انکی بات پہ ہنسا ۔۔۔۔ چاچو ان شارٹ بتائیں ۔۔۔۔۔۔

ان شارٹ یہ کہ ۔ وہ ہماری رشتہ دار ہی ہے تو تمہاری شادی اس سے ہو سکتی ہے۔۔۔۔ وہ بتاتے ہوئے خوش تھے ۔۔۔۔۔۔

عثمان کی آنکھوں میں چمک آئی ۔۔۔۔ اس کا دل باغ باغ ہو گیا ۔۔۔۔ تھینک یو سو مچ چاچو نام کیا ہے اسکا ۔۔۔۔ عثمان نے خوشی سے پھر سوال کیا ۔۔۔۔۔۔

نام ۔۔۔۔۔۔ نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں اسکا ۔۔۔۔۔ اس کے چاچو نے جیسے ساری خوشی سے آدھی چھین لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

کیا چاچو آپ بھی نام تو پتا کرنا چاہیے تھا نا۔۔۔۔۔ عثمان زرا افسردہ ہوا۔۔۔۔۔ لیکن خیر ہے اب بس یہ پتا چل گیا کہ وہ ہمارے رشتے داروں میں سے ہے ۔۔۔۔۔۔ اب آپ خیال رکھیے گا چاچو ۔۔۔۔۔ میں بی ایس سی کے بعد فوراً جاب تلاش کروں گا پھر آپ میرے لیے اسکا ہاتھ مانگیں گے نا ؟۔۔۔۔۔۔۔ عثمان خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

جی میرا بچہ ۔ ہم ایسے ہی کریں گے اب فلحال تم اپنی پڑھائی پہ فوکس کرنا اور انشاء اللہ تمہاری خوشی پوری کرنے کی ہم پوری کوشش کریں گے ۔۔۔۔۔

لیکن چاچو ابھی کسی سے بھی ذکر مت کرنا آپ میں چاہتا ہوں کہ میں اس قابل ہو جاؤں پہلے پھر ہی سب سے بات کروں گا ۔۔۔۔۔ آپ بھی تب ہی میری سپورٹ کرنا ۔۔۔۔۔ 

چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔۔۔ پھر بات کریں گے زرا کام ہے مجھے اب ۔۔۔۔۔۔کہتے ہوئے چاچو نے کال کٹ کی ۔۔۔۔۔۔

جی اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔۔۔۔

جب محبت ہوتی ہے تو ہمیں ہر موسم سہانا لگتا ہے ہر رنگ کھلا کھلا لگتا ہے الفت کا احساس ہمارے دل کے کونے کونے کو روشنا  دیتا ہے ۔۔۔۔

عثمان کا ہر دن اپنی محبت کو پانے کے جذبے سے سر شار تھا۔۔۔۔۔۔ 

___________________________________________

اے میرے اللّٰہ تُو اپنے بندوں کو  ڈھیروں رحمتوں اور نعمتوں سے نوازتا ہے کسی کو کم تو کسی کو زیادہ عطا کیا گیا ہے میرے رب مجھے جو اس خوبصورت احساس کی عطا ہوئی ہے میں بہت خوش ہوں ۔۔۔ میرے رب میں تیری بنائی حد توڑ کر اپنی محبت حاصل نہیں کرنا چاہتا میرے اللّٰہ میں نے نیک اور اچھے دل سے اپنی محبت کو پانے کا ارادہ کیا ہے مجھے میری محبت میرے نکاح میں عطا کردے میرے اللّٰہ ۔ عثمان فجر کے وقت جائے نماز بچھائے اللّٰہ کے حضور دعا کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

 میرے اللّٰہ میں تیرے بنائے طریقے پہ چلتے ہوئے اس کے گھر نکاح کا پیغام بھیجنا چاہتا ہوں تو مجھے میرے اس نیک ارادے میں کامیاب کرنا ۔۔۔۔

اے میرے اللّٰہ تُو کاتبِ تقدیر ہے ۔۔ تو جسے چاہے تقدیر میں لکھ سکتا ہے تو ہر قسمت کی لکیر کا رخ موڑ سکتا ہے میرے رب مجھے مایوس مت کرنا ۔۔۔۔

میرے دل میں اس کی محبت تو نے ڈالی ہے اب اس کو پایا تکمیل تک پہنچانے میں میری مدد کرنا ۔۔۔۔ آمین 

اس نے منہ پہ دونوں ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ کلمات پڑھے۔۔۔۔۔

___________________________________________

عثمان بڑے خوش دکھائی دے رہے ہو آج خیریت ہے کالج پہنچنے پہ  شاہ میر نے اسے جب بہت چہکتا ہوا پایا تو اس سے پوچھا۔۔۔۔ 

ہاں تو انسان کو خوش ہی رہنا چاہیے نا ۔۔۔۔۔ عثمان نے مسکراتے ہوئے کہا اب کیا تمہاری طرح سڑی ہوئی شکل بنا کے گھومتا رہوں ۔۔۔۔۔

میں کب سڑی ہوئی شکل بنا کے گھومتا ہوں وہ اچانک سے اس پہ بگڑا ۔۔۔۔۔۔ 

ارے ارے چِل کر یا مزاق کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے اسے کندھے پہ تھپکی دی ۔۔۔۔۔۔ چلو کلاس میں چلتے ہیں ۔۔۔۔ خوش رہا کرو جیسے میں رہتا ہوں وہ کہتے ہوئے ہنسنے لگا ۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں اب کلاس میں جا چکے تھے ۔۔۔۔۔۔

محبت تو محبت ہوتی ہے یہ کرنی نہیں پڑتی بس ہو جاتی ہے اور جب محبت ہو جاتی ہے تو سب کچھ اچھا لگتا ہے محبوب کا چہرہ ہر پل تصور میں رہتا ہے کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا وہ ایک شخص ہمارے حواسوں پہ سوار رہتا ہے 

کتنا خوبصورت احساس ہے نا یہ محبت دل عجیب سی خوشی محسوس کرتا رہتا ہے اس کے بارے میں سوچ کر بھی ۔۔۔۔۔ عثمان کلاس میں بیٹھا بھی اسی کے خیالوں میں گم تھا ۔۔۔۔۔۔۔

عثمان ۔۔۔۔۔۔ عثمان ۔۔۔۔۔۔ ٹیچر نے دو دفع آرام سے آواز لگائی ۔۔۔۔۔۔ 

عثمان ۔۔۔۔۔ اب انکی گرج دار آواز پوری کلاس کے ساتھ ساتھ عثمان کے کانوں میں گونجی تھی ۔۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔ سر ۔۔۔۔۔ عثمان ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔

کہاں دھیان ہے تمہارا میں کب سے دیکھ رہا ہوں تمہیں ۔۔۔۔۔ وہ غصے میں تھے۔۔۔۔ بتاؤ میں نے کیا پڑھایا ہے ابھی ۔۔۔۔۔۔ 

وہ سر ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔۔ وہ آپ ۔۔۔۔۔ پڑھا رہے تھے ۔۔۔۔۔ عثمان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا بتائے ۔۔۔۔ کیونکہ اس نے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ وہ تو اپنے ہی خیال میں مگن تھا۔۔۔۔۔۔۔

اب تم کیا بتاؤ گے جب تمہیں پتا ہی نہیں کہ میں کیا پڑھا رہا تھا تم تو کلاس میں مینٹلی پریسینٹ ہی نہیں اٹھو اور چلے جاؤ کلاس سے باہر ۔۔۔۔۔ سر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔۔۔۔۔

سوری سر وہ مجھے پتا نہیں چلا آئی ایم سوری ۔۔۔۔ اب پورا دھیان دوں گا ۔۔۔۔ عثمان شرمندہ ہوا۔۔۔۔۔۔

اوکے بیٹھو اور اپنا دماغ ادھر حاضر رکھو ۔۔۔۔ سوری ایکسیپٹ کرتے ہوئے سر نے اسے اپنی سیٹ پر بیٹھ جانے کا کہا۔۔۔۔۔

___________________________________________

وہ اس رات بھی اپنا لیپ ٹاپ لیے بیڈ پر بیٹھا وہی حسین چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا دل کرتا ہے تم میرے سامنے ہو میں تم سے اظہارِ محبت کروں وہ اس کی صورت پہ سین پاؤز  کیے ہوئے اسکی تصویر سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

تم ہمیشہ کیلئے میری ہو جاؤ جب تم میری شریکِ حیات بن کے آؤ  میں تمہیں بتاؤں کہ اے روح من مجھے تم سے کتنی محبت ہے  میں تمہیں ہر طرح سے اپنی  تمہارے لیے محبت کا احساس دلاؤں تم خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی محسوس کرو میں ہر دن تم سے الگ انداز میں تم سے اپنی محبت کا اظہار کروں ۔

میرے دل کی سلطنت کی تم اکلوتی ملکہ ہو کر تم میرے ساتھ میں ایک ایک پل میری محبت پہ رشک کرو یہاں تک کہ تمہیں میری سانس سانس اپنے لیے محبت لگے۔۔۔۔۔

وہ اسے دیکھ کر یہ کہتے ہوئے محسوس کررہا تھا جیسے وہ لڑکی اس کو سن رہی ہے عثمان کے چہرے پر الگ ہی چمک تھی۔۔۔۔۔۔ 

___________________________________________

کہاں گئی وہ ویڈیو ۔۔۔۔۔ وہ بہت بے چینی سے اپنے لیپ ٹاپ کا ہر فولڈر چیک کر رہا تھا۔۔۔۔۔ 

اس کی انگلیاں لیپ ٹاپ کے بٹنوں پہ تیزی سے چل رہی تھیں ۔۔۔۔۔

کہاں چلی گئی ویڈیو عثمان کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔۔۔۔ وہ کافی دیر تک لیپ ٹاپ کے ہر فولڈر کو بار بار دیکھتا رہا لیکن ویڈیو اس کو نا ملی۔۔۔۔۔۔۔۔

آپی۔۔۔۔ اس نے اپنی بہن کو آواز دی ۔۔۔۔۔ جو اس وقت کچن میں کام کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔۔

آواز دینے پہ کوئی ریسپانس نا ملا تو عثمان فوراً سے کچن میں چلا گیا ۔۔۔۔۔

آپی میرے لیپ ٹاپ سے کس نے چھیڑ چھاڑ کی ہے؟۔۔۔۔۔ 

اس نے غصے سے پوچھا۔۔۔۔۔ 

کیوں عثمان کیا ہو گیا اتنے غصے میں کیوں ہو؟۔۔۔ اس کی بہن نے بڑے آرام سے اسکا غصہ اگنور کیا۔۔۔۔۔

آپی میری کچھ ضروری فائلز ڈیلیٹ ہو گئی ہیں آپ جلدی بتائیں کس نے لیپ ٹاپ استعمال کیا تھا۔۔۔۔۔ عثمان اپنے غصے کو ظبط نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔

تمہاری ضروری فائلز ؟۔۔۔۔ ا کی بہن کے چہرے پر ہلکی سی پریشانی آگئی۔۔۔۔۔ لیکن میں نے تو بس اس میں سے وہ شادی کی مووی ڈیلیٹ کی ہے اور دوسری مووی ٹرانسفر کی بس ..... 

سچ میں ۔۔۔ میں نے تو اور کسی فولڈر کو چھیڑا ہی نہیں ۔۔۔۔ 

آپ نے مووی بھی ڈیلیٹ کی ہے؟۔۔۔۔ عثمان نے حیرت زدہ ہو پوچھا ۔۔۔۔۔ چھپانے کی کوشش کی کہ جیسے اسے پتا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔

ہاں مووی ڈیلیٹ کر دی اسکی کونسا کوئی ضرورت تھی بس ایسے ہی سٹوریج فل میں اضافہ ہی تھا ۔۔۔۔ لیکن سچ میں میں نے کچھ اور ڈیلیٹ نہیں کیا عثمان ۔۔۔۔ انہوں نے وضاحت دی۔۔۔۔۔

آپ نے نہیں کیا تو کیا جن بھوت کر گئے ۔۔۔ نا آپ لیپ ٹاپ یوز کرتیں نا میری فائلز ڈیلیٹ ہوتیں ۔۔۔۔ عثمان اپنے ہاتھ بھینچ کر رہ گیا۔۔۔۔۔ 

وہ غصے میں ادھر سے چلا گیا واپس اپنے کمرے میں ۔۔۔۔۔

 عثمان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیسے اس ویڈیو کو واپس لائے اس کے دل میں جیسے ہلچل مچی ہوئی تھی۔۔۔۔ غصہ بے چینی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی ۔۔۔۔۔

ایک ہی ذریعہ تھا اسے دیکھنے کا وہ بھی نہیں رہا وہ سوچ کر افسردہ ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔

کوئی بہت محبوب چیز  جب اچانک سے ہمارے ہاتھ سے چھوٹتی ہے تو پھر ساری زندگی ہمیں اپنے ہاتھوں کی گرفت پہ بے اعتبار کر جاتی ہے۔۔۔۔

وہ جانتا ہی نہیں تھا کہ یہ اس کی محبت اس سے دور ہونے کی ابتدا تھی۔۔۔۔۔۔

عثمان کا غصہ اب ٹھنڈا ہو چکا تھا کچھ دن بھی گزر گئے تھے اس نے خود کو سمجھا لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

 میں جدید زمانے میں شدید محبت کرنے والا انسان ہوں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم مجھے نظر آتی ہو کہ نہیں تم تو میری آنکھوں میں بستی ہو ۔۔۔۔۔ 

وہ رات کے اس پہر پھر سے اسکی یادوں میں مگن تھا۔۔۔۔ وہ اب تصور میں اس سے باتیں کیا کرتا تھا ۔۔۔۔

یہ دنیا مجھے اجنبی سی لگتی ہے بس تمہیں سوچنا تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ تمہاری آنکھیں تمہاری مسکراہٹ یہ منظر میری آنکھوں میں ایسے بسے ہیں کہ اب مجھے دنیا کا ہر منظر بیزار کرتا ہے ۔۔۔۔ 

دیدار اسکا میں آج تلک فقط تصور ہی میں کرتا ہوں۔۔

جی بھر کر دیکھوں گا اسے آج ہر روز یہ سوچا کرتا ہوں۔۔

پھر جب اسکی صورت میری ان آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔۔

میں اسکی آنکھوں کے کالے کاجل میں ڈوب جایا کرتا ہوں ۔۔

بمشکل  اسکے کاجل  کی گہرائی سے جب  میں باہر  نکلتا  ہوں۔۔

جیسے صحرا میں مسافر کوئی ایسے اسکی زلفوں میں کھویا کرتا ہوں۔۔

پھر جب یہ نظر میری اسکے ہونٹوں پر آکر رک سی جایا کرتی ہے۔۔

ہوکر دنیا سے بے خبر میں اسکے لبوں کی سرگوشی سنا کرتا ہوں۔۔

اسکے چہرے کی مسکراہٹ حال میرے دل کا کچھ یوں کرتی ہے۔۔

وہ کون ہے کہاں ہے نہیں معلوم پر میری ہے یہ گمان کرتا ہوں۔۔

دیدار  اسکا  میں  آج  تلک  فقط  تصور   ہی  میں  کرتا  ہوں ۔۔

اک دن تو آئے گی وہ روبرو میرے بس یہ امید کرتا ہوں۔۔

وہ اس کیلئے شاعری لکھنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ لکھتا بھی کیوں نا محبت میں انسان جو احساس جو جذبات سیدھے الفاظ میں کہہ نہیں سکتا وہ شاعری بنا کر بیان کرنے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔

___________________________________________

عثمان کیسی تیاری ہے ایگزامز کی سعد عثمان سے مخاطب تھا ۔۔۔۔۔ وہ دونوں بھائی اس وقت گھر کی چھت پہ کھڑے ہاتھ میں چائے کے مگ لیے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ 

اچھی تیاری ہے بھائی انشاء اللہ اچھے ہونگے ایگزامز مجھے پورا یقین ہے ۔۔۔۔ عثمان نے کہتے ہوئے چائے کی ایک سپ لی۔۔۔۔۔۔

چلو اچھی بات ہے پھر تو کہ تم اتنے یقین سے کہہ رہے ہو کہ اچھے ہونگے ۔۔۔۔۔ وہ جان کر خوش ہوئے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر آگے کا کیا پلان ہے تمہارا کیا سوچا ہے ؟۔۔۔۔۔

ایگزامز جیسے ہی ختم ہونگے تو اپنے لیے جاب تلاش کروں گا ۔۔۔۔۔ 

عثمان نے اپنا ارادہ بتایا تو اس کا بھائی تھوڑا شاک ہوا۔۔۔۔۔۔ کیا عثمان تم جاب کرو گے کیوں ابو اور میرے ساتھ کام نہیں کرو گے کیا؟۔۔۔۔  اور کام تو سبھی بعد کی باتیں ہیں تمہیں تو ابھی آگے پڑھنا چاہیے ۔۔۔۔۔

نہیں بھائی کافی ہے اتنی پڑھائی میں آگے نہیں پڑھنا چاہتا اب ۔۔۔۔ اور میں جاب کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ مجھے اپنا کریئر بنانا ہے ۔۔۔۔۔۔ انڈیپنڈنٹ ہونا ہے ۔۔۔۔۔۔ 

جاب کر کے کونسا کرئیر بنے گا عثمان تم بھی نا ۔۔۔۔۔ اس کا بھائی ہنسنے لگا ۔۔۔۔ ابھی تم چھوٹے ہو اس لیے تمہارا دماغ کام نہیں کرتا الٹی سیدھی باتیں نا کیا کرو ابھی بس پڑھائی پہ دھیان دو۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے وہ چائے پینے لگے ۔۔۔۔۔۔۔

آپ کو کیا پتا بھائی میں کیا سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔ مجھے کوئی پڑھائی نہیں کرنی اب میں نے تو اب شادی کرنی ہے اسے اپنا بنانا ہے وہ اپنے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ 

کیا ہوا کدھر گم ہو گئے چائے بس دیکھنے کے لیے ہاتھ میں ہے کیا ؟۔۔۔۔۔ اس کے بھائی نے اسے متوجہ کیا ۔۔۔۔۔

جی جی پی رہا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

___________________________________________

 سردیوں کی شامیں الگ ہی منظر پیش کرتی ہیں عجیب اداس اور خاموش ۔۔۔ لیکن بہت راحت بخش بھی۔۔۔۔۔۔

لیکن بعض اوقات کچھ شامیں ایسی آتی ہیں کہ پوری زندگی ہی اداس کر جاتی ہیں ۔۔۔۔

یوں تو محبت سب کے ہی نصیب میں ہونا لکھی ہوتی ہے لیکن محبت کی خوشی کو حاصل کرنا ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔

ستمبر کا مہینہ عثمان کیلئے بہت ہی برا ہونے والا تھا ۔۔۔۔۔ 

اس دن دو ستمبر 2021 کو عثمان اپنے کالج سے واپس آکر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اب کھانا کھا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ 

کھانے کی میز پر وہ اکیلا نہیں تھا اس کے چاچو بھی انکی طرف آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔

اور کیسی جا رہی ہے پڑھائی عثمان ۔۔۔۔ چاچو نے کھانا کھاتے ہوئے بات کی ۔۔۔۔۔

اچھی جا رہی ہے چاچو بس کچھ وقت میں امتحانات آ جائیں گے اسکے بعد فری ہوکر جاب تلاش کروں گا ۔۔۔۔۔۔ عثمان نے جواب دیا ۔۔۔۔۔

اچھا تو بی ایس سی ختم ہو رہی ہے اب ؟۔۔۔۔ 

جی چاچو ۔۔۔۔ اور پھر کیا کرنا ہے آپ کو پتا ہی ہے نا؟۔۔۔۔ عثمان نے ان کو آنکھ مارتے ہوئے کہا اور ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائی۔۔۔۔۔۔

اس کے چاچو بمشکل مسکرائے۔۔۔۔۔ ہاں ہاں پتا ہے مجھے ۔۔۔۔۔۔ 

عثمان نے کھانا کھایا اور پھر اکیڈمی جانے کیلئے تیار ہونے لگا۔۔۔۔۔وہ تیار ہوکر جانے ہی والا تھا کہ اس کے چاچو پھر سے اس کے سامنے آئے ۔۔۔۔۔

عثمان کہاں جا رہے ہو؟۔۔۔۔ اس کے چچا نے اسے باہر جاتے دیکھ پوچھا۔۔۔۔۔

چاچو اکیڈمی جا رہا ہوں کیوں خیریت آپ کو کوئی کام تھا؟۔۔۔۔۔ 

نہیں کام تو کوئی نہیں بس مجھے بھی راستے میں چھوڑتے ہوئے جانا گھر۔۔۔۔۔ انہوں نے ساتھ جانے کا کہا۔۔۔۔

جی ٹھیک ہے چلیں میں لے چلتا ہوں ۔۔۔۔۔ عثمان نے کہا اور وہ دونوں باہر کی طرف چل پڑے ۔۔۔۔۔

عثمان یار تم سے ایک بات کہنی تھی.... اس کے چاچو نے ہلکی سی آواز میں کہا ۔۔۔۔۔ 

وہ دونوں اب بائیک پر سوار سڑک پر روانہ تھے۔۔۔۔۔۔

جی چاچو کہیں ۔۔۔۔۔۔ عثمان نے ادب سے پوچھا۔۔۔۔۔

سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے بتاؤں ۔۔۔۔۔ اویس چاچو کا لہجہ کسی ناگہانی آفت کی پیش گوئی کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

چاچو اب آپ مجھے پریشان کر رہے ہیں ایسا بھی کیا ہے کہ آپ کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے کریں بات ۔۔۔۔۔ جلدی بتائیں ۔۔۔۔ وہ بائیک چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔

یار میں وہ لڑکی کی امی سے ملا تھا کل اچانک سے کسی رشتہ دار کی طرف ۔۔۔۔۔ اس کے چاچو تمہید باندھتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

او واہ ۔۔۔۔ پھر کیا ہوا آپ تو میری ساسو ماں سے مل کر آئیں ہیں اس میں اتنا جھجکتے ہوئے بتانے کی ضرورت نہیں جلدی جلدی بتائیں عثمان ہنس رہا تھا ۔۔۔۔۔

 عثمان اس کی امی نے مجھے بتایا کہ ہم نے اپنی بڑی بیٹی کی منگنی کر دی ۔۔۔۔۔ اسکے چاچو نے افسردہ ہوکر کہا ۔۔۔۔

اچھا تو اسکی کوئی بڑی بہن بھی ہے جسکی منگنی ہوئی ۔۔۔۔ عثمان نے بے ساختہ کہا۔۔۔۔۔۔

نہیں کوئی بڑی بہن نہیں بلکہ وہ خود ہی سب سے بڑی ہے اس کی ہی منگنی ہوئی عثمان ۔۔۔۔۔اس کے چاچو نے اچانک سے جیسے کوئی بم عثمان پہ گرا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ کھلکھلاتا ہوا چہرہ ایک دم سے بے رنگ ہوگیا تھا ۔۔۔۔ بائیک کا ہینڈل اچانک سے لڑکھڑا سا گیا۔۔۔۔۔

دھیان سے عثمان اس کے چاچو نے بائیک لڑکھڑانے پہ جلدی سے بولا ۔۔۔۔۔۔

اس نے چاچو کے گھر کے باہر بائیک روکی ۔۔۔۔۔۔۔

چاچو اتر گئے ۔۔۔۔ عثمان دھیان سے جانا اب تم انہیں اسکی پریشانی کا اندازہ تھا ۔۔۔۔۔ انہیں خود بھی سمجھ نا آئی کہ کیسے اسے دلاسہ دیں۔۔۔۔۔۔

وہ بنا کچھ بولے وہاں سے جانے کیلئے نکلا۔۔۔۔۔ وہ گم سم تھا ویسے ہی اکیڈمی پہنچا۔۔۔۔۔۔

عثمان کیسے ہو؟۔۔۔۔۔ شاہ میر نے اسے کلاس میں آتے دیکھ پوچھا۔۔۔۔۔۔

وہ سیدھا جاکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ جیسے اس نے سنا ہی نہیں تھا کہ شاہ میر اس سے مخاطب تھا۔۔۔۔۔۔

حیرت ہے جواب ہی نہیں دیا اس دن تو بڑا کہہ رہا تھا کہ تم سڑیل ہو اب خود ہی ہوگیا۔۔۔۔۔ شاہ میر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔

کلاس میں سر کیا پڑھا رہے تھے عثمان کی سماعت اسے سننے سے قاصر تھی ۔۔۔۔ وہ چپ چاپ گم سم بیٹھا خود کو ضبط کر رہا تھا۔۔۔۔۔

ایک دو کلاسز لے کر عثمان گھر کیلئے واپس نکلا ۔۔۔۔۔ لیکن وہ گھر نہیں گیا۔۔۔۔۔۔

وہ  بنا آواز پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا ۔۔۔۔۔ عثمان اسی پارک میں موجود تھا جہاں وہ اکثر جایا کرتا تھا ۔۔۔۔ اکیڈمی سے نکل کر وہ گھر جانے کی بجائے اس پارک میں آگیا تھا ۔۔۔۔ شام ہو چکی تھی اور عثمان پارک میں اس لکڑی کے بینچ پہ بیٹھا ہوا اپنی قسمت کو کوس رہا تھا ۔۔۔۔۔

وہ روتا بھی کیوں نا جس محبت کو پانے کے لیے اس نے دعائیں کی وہ آج کسی اور کے نام لکھ دی گئی تھی۔۔۔۔۔۔

اسکی منگنی کیسے ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔ اس کے ذہن میں گردش کرتا سوال اسے مزید رونے پہ مجبور کر رہا تھا۔۔۔۔

اسے میں نے مانگا تھا اللّٰہ پاک سے اسے میرے نکاح میں آنا تھا ۔۔۔۔ عثمان کی وہ سرخ آہوئی نکھیں چیخ چیخ کر اپنی محبت کو کھونے کا سوگ منا رہی تھیں ۔۔۔۔۔

ایسے تو نہیں ہو سکتا نا ایسے کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے زار و قطار آنسو بہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔

کون کہتا ہے کہ محبت میں صرف عورت روتی ہے محبت ہر اس انسان کو رلاتی ہے جو واقعی محبت کرتا ہے ۔۔۔۔۔ محبت مرد یا عورت کی مخصوص صنف سے وابستہ نہیں محبت ہر ذی روح عمل ہے ۔۔۔۔۔

محبت میں مرد بھی روتا ہے۔۔۔۔ ہاں مرد روتا ہے محبت میں وہ محبت کر کے اسے پانے کیلئے روتا ہے کبھی وہ محبت کو کھونے کے ڈر سے روتا ہے تو کبھی محبت کے سچ میں کھو جانے پہ روتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

___________________________________________

عثمان کہاں رہ گئے تھے تم ؟۔۔۔۔ اس کی امی نے اسے گھر میں داخل ہوتے دیکھ پوچھا۔۔۔۔۔  وقت دیکھو کیا ہے تم تو اکیڈمی سے جلدی آجاتے ہو آج اتنی دیر کہاں لگا دی تم نے میں اتنی فکر مند ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

عثمان خالی آنکھوں سے انکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ اسکا دل چاہا کہ وہ اپنی امی کو گلے لگا کر پھر سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔۔۔۔۔۔۔ دوستوں کے ساتھ تھا امی اس نے دھیمے لہجے میں کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا ۔۔۔۔۔۔ 

چلو فریش ہو کر آؤ اور کھانا کھا لو۔۔۔۔ اسکی امی نے اسے کہا ۔۔۔۔۔

نہیں امی مجھے بھوک نہیں میں کھا کر آیا ہوں۔۔۔۔۔ میں بس سونے لگا ہوں صبح کلج میں ٹیسٹ ہے جلدی اٹھوں گا اس لیے کوئی ڈسٹرب نا کرے پلیز ۔۔۔۔اس نے جواب دیا اور جا کر کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں جاتے ہی بیگ ایک طرف پھینک جوتے اتار  نڈھال ہو کر بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔

___________________________________________

ہم چاہے دنیا کی جتنی بھی رنگینیوں میں ڈوب جائیں لیکن جب ہمیں چوٹ لگتی ہے تو ہم اللّٰہ کو ہی پکارتے ہیں وہی تو ہوتا ہے جو ہمیں ہر امتحان میں ڈالتا بھی ہے اور اس امتحان سے نکالتا بھی ہے۔۔۔۔۔۔

عثمان کو نڈھال پڑے چار گھنٹے ہو چکے تھے بنا کچھ کھائے پیے وہ بس اپنے کمرے میں بند تھا ۔۔۔۔۔

وہ اٹھا اور واش روم کی طرف چلا گیا اس کا ایک ایک قدم اٹھانا اس کو بھاری لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ وضو کر کے باہر آیا اور کمرے کی ایک سائیڈ پہ جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔ عشاء کی نماز ادا کی ۔۔۔۔۔۔ 

اس کو میں نے مانگا تھا آپ سے میرے اللّٰہ ۔۔۔۔۔ عثمان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔۔ 

اب وہ بس جائے نماز پہ بیٹھا اپنے رب سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔

کیا کسی کو چاہنا اسے اپنی شریکِ حیات بنانے کی دعا مانگنا بری بات ہے جو آپ نے میری دعا قبول نہیں کی۔۔۔۔ اللّٰہ پاک میں نے تو کوئی غلط راستہ بھی نہیں اپنایا اور آپ نے مجھ سے میری محبت چھین لی۔۔۔۔کیوں اللّٰہ پاک ایسا کیوں کیا میرے ساتھ ۔۔۔۔کتنی شدت سے اس کو پانے کی جستجو کی میں نے اور آپ نے اس کو کسی اور کے نصیب میں لکھ دیا اس بہتے آنسوؤں نے اسکی گالوں کو بھی تر کر دیا تھا۔۔۔۔۔

کوئی بھی انسان اپنی محبت کو کھونے پہ آسانی سے صبر نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ عثمان بھی اس وقت ایسی ہی حالت میں تھا کہ وہ اس بات پہ صبر نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔

وہ بہت دیر تک جائے نماز پہ بیٹھا روتا رہا۔۔۔۔۔

___________________________________________

 عثمان بہت چپ چپ سے رہنے لگے ہو تم بہت بے رونق سا ہوگیا تمہارا چہرہ کیا بات ہے۔۔۔۔ اس کی امی نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا وہ دونوں ماں بیٹا لاؤنج میں صوفے پہ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔

مائیں تو اولاد کا درد محسوس کر لیتی ہیں انکو منہ سے کچھ بتاؤ یا نا بتاؤ اپنی کیفیت کا اظہار نا بھی کرو تب بھی وہ محسوس کرتی ہیں ۔۔۔ ہمارے اندر کے درد سے بھلے ہی نا واقف ہوں لیکن ہمارے چہرے کی اداسی کو پڑھ لیتی ہیں ۔۔۔۔۔

نہیں امی ایسی کوئی بات نہیں ہے بس  ایگزامز شروع ہونے والے ہیں تو شاید رات دیر تک جاگ کر پڑھنے سے ایسا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ عثمان نے بات بدلتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

چلو تم کہتے ہو تو مان لیتی  ہوں لیکن پتا نہیں کیوں میرا دل بے چین رہتا ہے تمہاری طرف ۔۔۔۔ 

ارے میری پیاری امی میں بلکل ٹھیک ہوں دیکھیں آپ کے سامنے ہوں اور کوئی پریشانی بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ اس نے بمشکل اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور اپنی امی کے ماتھے کا بوسہ لیا ۔۔۔۔۔۔ 

ٹھیک ہے اللّٰہ پاک تمہیں ہمیشہ خوش رکھے میری جان ۔۔۔۔ اس کی امی نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔

__________________________________________

 کچھ ہی دن میں اس کے امتحانات شروع ہوگئے ۔۔۔۔

وہ ساری ساری رات جاگتا رہتا تھا کبھی پڑھنے کی کوشش کرتا تو کبھی پھر سے اسی بات کا سوگ مناتا ۔۔۔۔

عثمان نے بہت مشکل سے اپنے امتحانات دئیے ۔۔۔۔۔

کیسا ہوا عثمان پیپر؟۔۔۔۔  شاہ میر اور وہ ایگزامینیشن ہال سے باہر نکل رہے تھے۔۔۔۔۔۔

ہاں ٹھیک ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ عثمان سر جھکائے چل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا اس لیے مختصر جواب دے کر چلتے ہوئے شاہ میر سے آگے نکل گیا۔۔۔۔۔

عجیب ہے اس کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ شاہ میر نے منہ بسورا۔۔۔۔۔ 

 گھر پہنچنے پہ نور نے بھی یہی سوال کیا تو عثمان کا ویسا ہی ردعمل تھا۔۔۔۔۔ ٹھیک ہو گیا آپی ۔۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

اب امتحانات بھی ختم ہو چکے تھے اور عثمان نے جاب کیلئے اپلائی بھی کردیا تھا۔۔۔۔۔ لیکن وہ خود کو سنبھال نہیں پا رہا تھا ۔۔۔

ابو میری جاب ہو گئی ہے اسسٹنٹ لائبریرین کی۔۔۔۔۔وہ ہاتھ میں لیٹر لئے باہر سے چلتا ہوا آکر خوشی سے اپنے ابو کو بتا رہا تھا ۔۔۔۔

ارے واہ مبارک ہو بہت تمہیں عثمان ۔۔۔۔ لیکن تم نے آگے پڑھائی نہیں کرنی تھی کیا ؟۔۔۔۔۔ اس کے والد اکبر صاحب نے خوشی اور حیرت دونوں ایک ساتھ دکھائے۔۔۔۔۔ وہ ادھر لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ کر نیوز سن رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

جی نہیں ابو میں آگے نہیں پڑھنا چاہتا اب بس میں کام کروں گا ۔۔۔۔۔۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔۔۔

چلو ٹھیک ہے تم اپنے لیے اچھا ہی سوچو گے جانتا ہوں جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔۔ اور جاب کیلئے پھر سے مبارکباد اب من لگا کر کام کرنا ۔۔۔۔۔۔ کہہ کر وہ دوبارہ نیوز میں مگن ہو گئے۔۔۔۔۔

اب اس کے پاس وقت نہیں تھا کہ وہ کوئی سوگ منائے اس نےاس پنے آپ کو مصروف کر لیا تھا وہ کام کرتا اپنا دھیان بٹانے کی کوشش میں رہتا تھا ۔۔۔۔

مگر ہم کسی چیز سے کتنا بھی بھاگ لیں کچھ یادیں کچھ باتیں ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتیں ۔۔۔۔۔ دن بھر تو وہ خود کو مصروف رکھنے میں کامیاب ہو جاتا تھا لیکن رات ۔۔۔۔۔۔ رات تو اسے بنا کسی مصروفیت کے ہی کاٹنی ہوتی تھی۔۔۔

جو راتوں کو جاگ کر اس کی تصویر دیکھا کرتا تھا اب وہ راتوں کو جاگ کر اس کی یاد میں غم منایا کرتا تھا۔۔۔۔

وہ لڑکا اب بھی تم پہ مرتا ہے

وہ آج بھی تم سے ہی محبت کرتا ہے

تم نے جاتے ہوئے مُڑ کر نہیں دیکھا جسے

وہ اب بھی تمہاری ہی راہ دیکھا کرتا ہے

وہ جسے نیند پیاری ہوا کرتی تھی بہت

اب وہ راتوں میں دیر تک جاگا کرتا ہے

گزر تو جاتا ہے دن مصروفیت میں اسکا

مگر شب بھر غم ہجر کاٹا کرتا ہے 

سما کر دکھ اپنے سینے وہ "کشف"

اوروں میں وہ اب خوشیاں بانٹا کرتا ہے 

(از خود)

یہ محبت کے روگ بھی بہت عجیب ہوتے ہیں ہمیں خود سے جنگ کرنی پڑتی ہے چھپ چھپ کے رونا پڑتا ہے انسان خود ہی اپنا سہارا بنتا ہے خود ہی کو تسلی دیتا ہے کیونکہ یہ غم ہم دنیا کے سامنے نہیں منا سکتے محبت کا غم تو ایسا غم ہے کہ جو دل سے شروع ہوتا ہے اور دل میں ہی رہتا ۔۔۔۔

___________________________________________

ایک سال گزرنے کے بعد ۔

واہ عثمان تم نے تو بہت اچھی سپیچ دی کمال کر دیا۔۔۔۔ اسکا دوست احسن اس کی تعریف کر رہا تھا ۔۔۔

جب سے عثمان کو جاب ملی تھی عثمان ہی اسکا اس ادارے میں سب سے اچھا دوست تھا ۔۔۔۔ 

وہ دونوں کسی آفیشل سیمینار کے ختم ہونے کے بعد اسی ہال میں بیٹھے جوس پی رہے تھے۔۔۔۔۔۔جہاں عثمان نے بھی سپیچ دی تھی۔۔۔۔۔۔ 

ہاں بس کوئی خاص بھی نہیں بس چھوٹی سی سپیچ ہی تو تھی وہ کتابوں کی اہمیت کے ریلیٹڈ اس میں کیا بڑی بات ہے ۔۔۔۔۔ عثمان نے بے پروا ہو کر کہا۔۔۔۔۔

نہیں یار بات تو ہے نا جب سے تمہیں میں نے جانا ہے تم بس ایک انٹرورٹ سے انسان تھے ۔۔۔۔ بہت شرمیلے سے ۔۔۔۔ اب تم اتنے کانفیڈینٹ ہو ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔ احسن نے پھر سے تعریف کی۔۔۔۔۔

ہاں اب زیادہ انٹرورٹ نہیں ہوں لیکن تھوڑا بہت ابھی بھی ہوں وہ مسکرایا۔۔۔۔۔

اور بہت سی تلخ حقیقتوں سے جب سامنا کرنا پڑتا ہے تب انسان میں کانفیڈینس تو آہی جاتا ہے نا۔۔۔۔ وہ بات کرتے افسردہ ہوا۔۔۔۔۔۔

یار اب تم پھر سے وہ باتیں یاد مت کرنے بیٹھ جانا جو بیت گیا سو بیت گیا۔۔۔۔۔ احسن عثمان کے بارے میں سب جانتا تھا ۔۔۔۔۔اس نے پہلی مرتبہ اگر کسی سے اپنی محبت کے بارے میں شئیر کیا تھا تو وہ احسن ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

خود کو اداس مت کیا کر خوش رہا کر زندگی میں ابھی بہت کچھ دیکھنا ہےخوشیاں منانی ہیں ۔۔۔۔۔ تیری شادی پہ بھنگڑا کرنا میں نے ۔۔۔۔۔۔احسن نے اسے ہنسانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔

ہاں ہاں تم کرنا بھنگڑا ہم تمہاری ہی بکنگ کروائیں گے ۔۔۔ قہقہہ لگاتے ہوئے عثمان نے کہا ۔۔۔۔

نا نا بکنگ کیا تیرے لیے فری کر دوں گا ۔۔۔۔۔ وہ دونوں ہنسنے لگے۔۔۔۔۔۔۔

___________________________________________

وہ شام کا منظر اور پھر سے ستمبر کی 2 تاریخ تھی ۔۔۔۔۔ ستمبر کی شامیں عثمان کو ابھی بھی اداس کرتی تھیں ۔۔۔۔۔ 

وہ اس شام پارک میں والک کرتے ہوئے اسے ہی سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔

وہ دن پھر سے اسے اداسی کی طرف کھینچ کر لے آتا تھا دو ستمبر اب بھی اس کیلئے اسکے زخم تازہ کر دینے والا ہی دن تھا۔۔۔۔۔

میں نے تو محبت کو پھولوں کا ہار سمجھ کر پہنا تھا میں یہ تو بھول ہی گیا تھا کہ پھولوں کے ساتھ تو کانٹے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں اس پھول کی خوشبو میں ایسا مگن ہوا کہ میں دنیا سے ہی غافل ہو گیا تخیل کی دنیا میں کھو کر حقیقت سے بے خبر ہوگیا میں تو بھول ہی گیا کہ صرف خیالات کی بنا پر محبت تو حاصل نہیں کر سکتا اصل میں اظہار بھی تو ضروری تھا۔۔۔۔ کوشش بھی تو ضروری تھی۔۔۔۔ سوچتے ہوئے اسکی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں ۔۔۔۔۔

دم گھٹنے لگتا ہے جب بھی تمہارے بارے میں سوچتا ہوں ۔۔۔۔ بہت رویا تمہارے لیے اب تھک چکا ہوں صبر کر چکا ہوں کہ تم میری قسمت میں نہیں لکھی تھی۔۔۔۔وہ خود سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔وہ اب پھر سے اسی بینچ پہ بیٹھا تھا جہاں وہ اکثر پارک میں جا کر بیٹھا کرتا تھا ۔۔۔۔۔

لیکن گلہ رہے گا مجھے اپنے رب سے کہ تمہیں میں نے چاہا میں نے مانگا دعاؤں میں میں نے راتیں جاگ کر گزاری اور پھر تم کسی اور کے نصیب میں لکھ دی گئی یہ کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔۔۔۔

یہ محبت ایک جنگ ہے انسان اور قسمت کے درمیان جنگ  جب دو انسان محبت کرتے ہیں تو قسمت ان کے خلاف ایک محاذ تیار کر لیتی ہے ۔۔۔۔ محبت کو پانے کے لیے ہمیں اپنی قسمت سے سے لڑنا پڑتا ہے اور قسمت سے کون لڑ سکتا ہے بھلا کیونکہ قسمت کی تو ہمیشہ جیت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ 

کچھ لوگ اس جنگ کو ہار کر بھی جیت جاتے ہیں وہ اپنے محبوب کو کھو کر مالک حقیقی سے جا ملتے ہیں اور کچھ لوگ اس جنگ کو جیت کر بھی ہار جاتے ہیں وہ محبوب کو پاکر باقی سب گنوا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔

اور جب نا قابل برداشت حالات میں بھی دل کو صبر آجائے تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللّٰہ نے ہمیں اس اذیت اس آزمائش کے ذریعے اپنے قریب کر لیا ہے ۔۔۔۔

___________________________________________

اسکی آنکھیں بھیگ چکی تھیں ۔۔۔۔۔۔ اور وہ اب چپ تھا۔۔۔۔۔۔ 

عثمان کے ساتھ ساتھ مشعل کی آنکھیں بھی نم تھیں ۔۔۔۔۔ یونی کے گارڈن میں وہ بینچوں پر بیٹھے ۔۔۔۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہر طرف ہی سناٹا ہے ۔۔۔۔۔۔ 

یونی کی چہل پہل سے بلکل بے خبر بے پروا جہاں عثمان اسے اپنی محبت کے بارے میں بتا رہا تھا ۔۔۔۔۔

مشعل بھی پوری طرح سے اس کی باتوں میں گم تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چپ چاپ عثمان کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

تو اب بھی آپکو اس کی یاد آتی ہے عثمان ؟۔۔۔۔ مشعل نے سکوت توڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ پتا نہیں ۔۔۔۔ عثمان بڑبڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

شاید آتی ہے یاد لیکن اب میں نے خود کو بہت مضبوط کر لیا ہے اب میں نے خود کو سمجھا لیا ہے کہ یہ محبت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی ۔۔۔۔ سب نصیب کی بات ہے اور جو ہمارے نصیب میں ہوتا ہے بس وہی ملتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ عثمان نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

وہ نظر جھکا کر بات کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

مشعل جلدی سے اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔ 

عثمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔

وہ ہنس رہی تھی ہنستے ہنستے اس نے منہ پہ دونوں ہاتھ رکھے۔۔۔۔۔۔۔

مشعل ۔۔۔۔۔۔۔ عثمان حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

اچھا سوری وہ ہنستے ہنستے کہنے لگی۔۔۔۔۔ 

لیکن مشعل ہنس کیوں رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔اس نے سٹل اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔

سوری عثمان لیکن اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ آپ نے اس سے محبت کی اسے بتایا بھی نہیں کوئی کسی سے بات ہی نہیں کی تو اس کو کھونے کا کیسا سوگ عثمان ۔۔۔۔۔

نہیں سوگ نہیں اب تو بھول بھی گیا ہوں بس تھوڑا سا ملال ہے دل میں کہ اپنی محبت کو پانے کے لیے کچھ نہیں کر سکا ۔۔۔۔۔ عثمان نے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔۔۔

اللّٰہ نے آپ سے اگر کچھ دور کر دیا ہے تو سمجھیں کہ وہ آپ کو کسی بہترین سے نوازے گا ۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے ۔۔۔۔۔ عثمان بہت کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم سمجھ نہیں پاتے اور شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا یہ لیکن ہمیں یہ بعد میں سمجھ آتی ہے کہ جو ہوا بہتر ہوا ۔۔۔۔

دیکھیں عثمان ایک انسان ہی انسان کے دکھوں کا مداوا ہے اگر کوئی دکھ دے کے جاتا ہے تو کوئی سکون کی وجہ بن جاتا ہے اگر کوئی نفرت کرتا ہے تو کوئی اور محبت کر کے سارا خلا بھر دیتا ہے کوئی ٹھوکر مار کر گراتا ہے تو کوئی پیار سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر تھام بھی لیتا کوئی اگر ادھورا کر کے چھوڑ جاتا ہے تو کوئی ہمیں مکمل کر دیتا ہے کوئی توڑ کر جاتا ہے تو کوئی ہمیں سمیٹ کر خود سے جوڑ لیتا ہے ۔۔۔۔۔

تو بہتر یہی ہے کہ زندگی میں آگے بڑھا جائے ۔۔۔۔۔

 جی جانتا ہوں سب اسی لیے اب صبر کر لیا ہے جو بھی ہوگا زندگی میں مجھے قبول ہے ۔۔۔مشعل ۔۔۔۔۔ عثمان نے افسردہ سی شکل بنائی۔۔۔۔۔۔

اوئے سینٹی مینٹل ۔۔۔۔۔ کچھ نی ہوا ۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی خود کو اداس کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔ وہ اسے ہنسانے لگی۔۔۔۔۔۔۔  وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی وہ گئی تو کیا ہوا ۔۔۔۔پھر ہماری گلی میں ایشوریا آئی۔۔۔۔۔ ہو ہو ہو ۔ ہا ہو ہو ہو۔۔۔۔۔۔ وہ چٹکی بجاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔

وہ مشعل کو ایسا کرتے دیکھ زور زور سے ہنسنے لگا ۔۔۔۔ اب مُنّا بھائی نا بن کے دکھائیں ۔۔۔۔۔۔ 

وہ دونوں ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔ عثمان کی آنکھوں کی نمی بلکل غائب ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔

میں خود کو ویسے بھی سمجھا چکا ہوں کہ سب کوئی محبت نہیں کچھ بھی نہیں بس اپنا کریئر اور یہی زندگی ہے محبت کیلئے کوئی جگہ نہیں میری زندگی میں ۔۔۔۔۔ 

ایسے بھی نہیں کہتے عثمان انشاء اللہ آپ کی لائف میں کوئی بہت اچھا انسان بھی آپ کو مل سکتا ہے جو آپ کو اس محرومی اس ملال سے نکال لے۔۔۔۔۔ مشعل نے اسے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

جی جی بلکل انشاء اللہ ۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوگا ۔۔۔۔۔

__________________________________________

کیا ایسے بھی ہوتی ہے محبت ؟۔۔۔۔ مشعل رات کے اس پہر اپنے کمرے میں سٹڈی ٹیبل پر موجود تھی۔۔۔۔۔

جسے کبھی اصل میں دیکھا نہیں کبھی ملے نہیں اس سے محبت اور اتنی شدید محبت۔۔۔۔۔ وہ اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کے قریب جا کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ آجکل باتیں کر کے ٹائم پاس کر کے چھوڑ جاتے ہیں اور عثمان ۔۔۔۔۔ عثمان بنا بات کیے بھی اپنی محبت کو نبھاتا رہا خاموشی سے ۔۔۔۔۔۔

سچ کہا ہے کسی نے کہ کچھ محبتیں بہت خاموشی سے نبھائی جاتی ہیں ان میں قسمیں نہیں کھائی جاتیں وعدے نہیں کیے جاتے اور نا ہی وہ رابطوں کی محتاج ہوتی ہیں یہ تو اتنی خاموش ہوتی ہیں کہ سامنے والا انسان بھی اس بات سے ناواقف ہوتا کہ اسے کس قدر چاہا گیا ان محبتوں کا رازداں صرف اللّٰہ ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ کھڑکی سے باہر نظر آسمان پر جمائے یہ سب سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔

 عثمان مجھے کتنا میرے جیسا لگ رہا ہے آج۔۔۔۔۔

 میں عشق واحد پہ یقین رکھنے والی لڑکی اور وہ بھی  آج عثمان کیلئے میرے دل میں اور بھی احترام بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔۔۔ دنیا میں سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے ۔۔۔۔  کچھ لوگوں پہ بھروسہ کر بھی لینا چاہیے ۔۔۔۔۔ 

اسی لیے تو عثمان سے اتنا لگاؤ ہے وہ کوئی غلط سوچ نہیں رکھتا وہ مسکراتے ہوئے خود سے بات کرنے لگی۔۔۔۔  جیسے کہ میرا ماننا ہے جو لوگ کسی ایک سے سچی محبت کرنے والے ہوتے ہیں وہ ہر کسی پہ نگاہ نہیں رکھتے۔۔۔۔۔ ہر کسی کی تاک میں نہیں رہتے اور عثمان بہت اچھا ہے بہت زیادہ ۔۔۔۔۔۔ وہ چلتے چلتے جاکے اپنے بستر پر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔

کچھ لوگوں سے الگ ہی اپنے پن کا احساس ہوتا ہے محبت ہوتی ہے ۔۔۔۔ اور یہ محبت عشق و عاشقی والی نہیں بلکہ عزت و احترام والی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔

وہ بستر پہ لیٹے لیٹے سوچ رہی تھی اور سوچتے سوچتے اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔۔۔۔

___________________________________________

 عثمان کی طرح ناجانے کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی محبت کو دل میں دبائے رکھتے ہیں اور ایسے ہی کھو دیتے ہیں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں بدلے میں انکار کو پاکر اپنے جذبات پر سوگ مناتے ہیں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جہاں محبت تو دو طرفہ ہی ہوتی ہے لیکن ذات پات رنگ نسل اونچ نیچ کی بنا پر محبت لاحاصل ہی رہتی ہے اور لوگ اپنے احساسات اپنے دل میں رکھ کر صبر کر لیتے ہیں شاید محبت یہی ہے کسی سے دور ہو کر بھی اسے چاہتے رہنا کیونکہ محبت کبھی ختم نہیں ہوتی محبت ایک کبھی نا ختم ہونے والا جذبہ ہے ۔۔۔۔۔

محبت میں جب کوئی کسی کو کھو دیتا ہے تو اس کا دکھ منانا بجا ہے کیونکہ کوئی بھی انسان اپنی محبت کو خوشی خوشی الوداع نہیں کہہ سکتا ہاں وقت کے ساتھ ساتھ ہر زخم بھر جاتا ہے اور ویسے ہی محبت کرنے والوں کو بھی صبر آہی جاتا ہے جس انسان سے ہم محبت کرتے ہیں اسکی طلب اسکے لیے تڑپ ہمارے دل سے کوئی مٹا نہیں سکتا لیکن کسی بہترین ہمسفر کا ساتھ جب اللّٰہ ہمیں عطا کرتا ہے تو اسکا ساتھ ہمارے سارے خلا بھرنے میں کامیاب ہوتا ہے ہم اپنی خوشی ان میں تلاش کر ہی لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

تو ہمیں بھی چاہیے کہ سیکھیں۔

جیسے مشعل نے سیکھا کہ زندگی میں بھروسہ کرنا ضروری ہے سب انسان غلط بھی نہیں ہوتے جہاں بہت برے انسان ہیں تو وہاں بہت سے اچھے انسان بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کو عزت دینے والے اور برائی سے پاک ہیں ۔۔۔۔۔

جیسے عثمان نے سیکھا کہ زندگی میں آنے والے لوگ بس لوگ ہوتے ہیں زندگی نہیں موو آن کرنا ضروری ہوتا ہے کسی کے جانے سے زندگی رک نہیں سکتی ۔۔۔۔۔محبت ختم نہیں ہوتی لیکن محبت کو کمزوری مت بنائیں بلکہ اپنی طاقت بنا کر آگے بڑھیں ۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ کی رضا میں راضی ہونا سیکھیں ۔۔۔۔۔

                                 ختم شُد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Malal E Ulfat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Malal E Ulfat  written by Zarmeen Kashf .Malal E Ulfat by Zarmeen Kashf is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment