Pages

Saturday 10 August 2024

Ishq Nachaya Yar By Meem Ain New Complete Romantic Novel

Ishq Nachaya Yar By Meem Ain New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Nachaya Yar By Meem Ain Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ishq Nachaya

Writer Name: Meem Ain

Category: Complete Novel

ائیرپورٹ پر اس وقت بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ بهانت بهانت کے لوگ موجود تھے۔ ان میں کچھ لوگ ایسے تھے جو اپنے پیاروں کو رخصت کرنے آئے تھے اور ان پیاروں سے جدائی کو سوچ میں غمگین نظر آ رہے تھے۔ کچھ ایسے تھے جو اپنا ملک اپنا گھر بار اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر نہ جانے کتنے عرصے کے لئے اس سر زمین کو خیر باد کہنے والے تھے تو کچھ لوگ ایسے تھے جو جانے کتنے طویل عرصے کے بعد اپنے پیاروں سے دوبارہ مل رہے تھے۔ ان کے پیارے بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں خوشی کی نمی لئے ان کے پرتپاک استقبال کے لئے پرجوش سے کھڑے تھے۔

ایسے میں ایک نو جوان کالے پینٹ کوٹ میں ملبوس دونوں ہاتھوں کو پینٹ کی جیبوں میں ڈالے بغیر ادھر ادھر دیکھے ناک کی سیدھ میں چلتا جا رہا ہے تھا۔ پیچھے اس کے سامان سے بھری ٹرالی گھسیٹتا ایک ملازم اور اس کے ساتھ  چلتا اس کا سیکرٹری دونوں اپنے بوس کی تیز رفتاری دیکھتے اپنے قدموں کی رفتار میں بھی تیزی لا رہے تھے۔ کئی حسینائیں مڑ مڑ کر اس ہینڈسم شہزادے کو نہارنے میں مصروف تھیں جس نے کالا پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا اور پیروں میں کالے ہی شوز پہن رکھے تھے۔ ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا رکھا تھا اور جبڑے بھینچ رکھے تھے۔ بھورے بال پیشانی پر بکھرے پڑے تھے جنھیں وہ وقت بوقت داہنے ہاتھ سے پیچھے کو گرا دیتا۔ داہنے ہاتھ پر ہی راڈو کی سیاہ ڈائل والی  قیمتی گھڑی پہن رکھی تھی جو اس کو مضبوط مردانہ کلائی پر خوب جچ رہی تھی۔ آنکھوں پر سیاہ چشمہ ہونے کے باعث آنکھیں غیر واضح تھیں پر پر تیکھے ابروؤں کے درمیان پڑتی سلوٹیں یہی ظاہر کر رہی تھیں کہ مقابل نے آنکھیں سکیڑ رکھی ہیں۔ تیکھی ناک پر غصہ پہرہ دے رہا تھا جب کہ عنابی ہونٹ سختی سے آپس میں پیوست تھے۔ موبائل بجنے کی آواز پر اس نے پل بھر کو رک کر جیب سے موبائل نکال کر چشمے کے پیچھے چھپی آنکھوں کے سامنے کیا۔ یہ اس کا پرسنل نمبر تھا۔ وہ دائیں ہاتھ سے موبائل پکڑتا بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے اپنی ہلکی بھوری شیو سہلانے لگا۔ میسج پڑھتے اس نے موبائل واپس جیب میں ڈالا اور ایک سرسری نظر آس پاس کے ماحول پر ڈالی۔ لڑکیوں کو ننظریں اپنے سراپے پر ٹکی پا کر وہ تلخی سے مسکرا دیا۔ اگر ان میں سے کوئی یہ جان لیتا یہ اس مضبوط و تند سراپے کے کا حامل انسان ایک مصنوعی ٹانگ کے سہارے چل رہا ہے تو پھر دیکھتا وہ ان کا تاثر اور ان کی نگاہوں کا والهانہ پن۔ یہ جانتے ہی کہ وہ چھے فٹ اونچا  مضبوط مردایک ٹانگ سے محروم ہے اور مصنوعی ٹانگ کے سہارے چل رہا ہے تو یہی وارفتگی اور ستائش بھری نگاہوں میں ترس اور ترحم سما جاتا۔ وہ تلخی سے مسکرا کر سر جھٹکتا ائیرپورٹ کی حدود میں کھڑی پہلے سے موجود اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تو مستعد کھڑے ڈرائیور نے جھٹ سے سلام جھاڑتے اس کے لئے دروازہ کھولا تو سر ہلا کر سلام کا جواب دیتا گاڑی میں براجمان ہو گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی گاڑی صاف پختہ سڑک پر فراٹے بھرتی ہوئی منزل کی طرف بڑھنے لگی۔ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد گاڑی جب ایک سر سبز علاقے میں داخل ہوئی تو اس کا دل یکبارگی سے دھڑکا۔  چار سال کے طویل عرصے کے بعد اس نے یہاں کا رخ کیا تھا۔ سڑک کے اطراف میں لگے بورڈ پر سیاہ روشنائی سے لکھا گیا "خضدار" اس کا دل دھڑکا گیا۔ اس نے شیشہ تھوڑا نیچے کیا تو خضدار کی ٹھنڈی میٹھی ہواؤں نے اس کا منہ چومتے اس کا استقبال کیا تھا۔وہ گہری سانس بھرتا اپنے علاقے کی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگا۔ پر جیسے ہی اپنی واپسی  کی وجہ ذہن میں آئ تو اس کی حلق میں آنسوؤں کا گولا پھنس گیا اور آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تو وه ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا۔ وہ خود پر قابو پاتا خود کو اگے پیش آنے والے حالات کے لئے تیار کرنے لگا۔ حویلی کے دالان میں داخل ہوتے ہی اس کے کانوں میں اپنوں کی چیخ و پکار اور بین گونجنے لگے۔ کان کے پردوں سے آہیں ٹکرانے لگیں۔ وہ شکستہ قدم لئے مردانے میں داخل ہوا تو سامنے نظر آتے منظر کو دیکھتے اس کا کليجہ حلق کو آ گیا۔ سفید چادر میں لپٹا وجود اس کو چیخنے پر اکسا رہا تھا۔ جس انسان کی شرارتوں سے بلوچ حویلی کے در و دیوار جھوم اٹھتے تھے، جس کے قہقہے سن کر اس حویلی کے ہر انسان کی سانسیں چلا کرتی تھیں وہی شوخ و چنچل لڑکا اس حویلی کی جان میر افگن بلوچ سفید چادر میں لپٹا منوں مٹی. کے نیچے جانے کو تیار تھا۔ وہ اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا گیا۔ ضبط کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اپنے باپ اور تایا سے مل کر انھیں تسلی دیتا وہ زنان خانے کی طرف بڑھ گیا۔ سفید چادروں میں لپٹی عورتیں روتی سسکتی آہیں بھرتی ایک دوسرے کو سہارا دے رہی تھیں۔ سب سے پہلے اس کی ماں کی نظر اس پر پڑی تھی۔

"شیفان میرا لعل!"

وہ لپك کر اس کی طرف آئیں اور روتے ہوئے اس کے ساتھ لگتی اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامتی اس کا منہ چومنے لگیں۔ ماں کا لمس ملتے ہی اس کا ضبط ٹوٹا اور ایک آنسو آنکھ سے پھسلتا ہوا اس کی داڑھی میں جذب ہو گیا۔ وہ ماں کو خود سے الگ کرتا بڑی ماں کی طرف بڑھتا ان کو اپنے ساتھ لگا گیا۔ وہ ایک مرتبہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔

"صبر کریں بڑی ماں وہ ہمارے پاس اللّه کی امانت تھا نا تو اس نے واپس لے لی اپنی امانت۔ ہر آنے والے کو واپس جانا ہی ہے ایک نا ایک دن۔ یہ دنیا فانی ہے کسی چیز کو بقاء نہیں سواۓ اس پاک ذات کے۔ آپ صبر کریں یوں رو کر اس کی روح کو تکلیف نہ دیں بلکہ اس کی آگے کی آسانی کی دعا کریں۔ اسے ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے بس اس وقت۔"

وہ ان کا سر تهپتھپاتا اپنے دل پر قابو پاتا انہیں تسلی دینے لگا۔

"کیسے صبر کروں شیفان کیسے؟ میرے دل کا ٹکڑا تھا وہ۔ جس طریقے سے ان ظالموں نے میرے بچے کو موت کے گھاٹ اتارا مجھے کیسے صبر آئے۔ میرا دل پھٹ رہا ہے شیفان۔"

اپنی ماں کی باتیں سنتی ذوهان پھر سے سسکنے لگی تو مرزا شیفان بلوچ اسے بھی اپنے حصار میں بھر گیا۔ وہ اس کے بازو سے لگی سسکنے لگی۔ ان کا غم جتنا بڑا تھا صبر بھی آتے آتے ہی آنا تھا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

سرخ بھاری عروسی جوڑے میں پور پور سجی وہ اس وقت آئینے کے سامنے بیٹھی خود پر نظریں ٹکا کر ایک ہی سوچ میں مبتلا تھی۔ کیا وہ واقعی ایک دلہن تھی؟ کیا دلہنیں سچ میں ایسی ہوتی ہیں؟ یہ ہار سنگھار اس نے کرنے کا بھی سوچا تھا پر یہ ہار سنگھار اس شخص کے لئے تو نہ تھا جس کے لئے اس نے سوچ رکھا تھا۔ دل میں کسی ور شخص کو بساتے ہوئے کسی اور کے نام کا ہار سنگھار کس قدر تکلیف دیتا ہے کوئی اس وقت اس سے پوچھتا۔ گلے میں لپٹا ہیروں سے سجا بھاری ہار اسے اپنی گردن کے گرد لپٹا اژدھا محسوس ہو رہا تھا۔ ہر وقت ڈسنے کو تیار! كلائیوں میں پہنے جڑاؤ کنگن اسے ہتھکڑی کی طرح محسوس ہو رہے تھے جو اسے عمر قید کرنے کو پہنا دیے گئے تھے۔ ایک بھاری گھمبیر سرگوشی اسے اپنے کانوں میں سنائی دی۔

"سردارنی! جس دن تم اس سردار کے نام کا جوڑا پہن کر اپنا آپ پور پور سجا کر اس سردار کی سيج سجاؤ گی واللہ اس دن مجھ پر لازم ہو جاۓ گا کہ میں رب کے حضور چیخ چیخ کر اپنی خوش بختی  پر شکر ادا کروں اور اس گاؤں کے ہر شخص کو بتاؤں کہ دیکھو تمھارے سردار نے اپنی سچی لگن کی بدولت اپنی محبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا مقدر کر لیا۔"

ہاتھ میں پکڑی چوڑی دباؤ پڑنے سے ٹوٹ کر کئی حصّوں میں ٹوٹ کر اس کی ہتھیلی کو زخمی کر گئی تو وہ سسک کر یادوں کے حصار سے باہر آئ۔ زخمی ہاتھ سے ہوتی ہوئی اس کی نظر سامنے نظر آتے اپنے عکس پر پڑی تو وہ حیران رہ گئی۔ کئی آنسو اس کے گالوں سے پھسل پھسل کر نیچے گر رہے تھے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی انگلیوں کی پوروں سے اپنے گالوں کو چھو کر دیکھا جسے جانچنا چاہ رہی ہو کہ کیا واقعی یہ بے مول پانی اس کے آنسو ہیں؟ کیا ابھی تک ان سبز کٹوروں میں اتنی نمی باقی تھی کہ یوں برسات ہوتی۔

اتنے میں دروازہ  کھٹکا اور دو لڑکیاں روتی ہوئی اندر داخل ہوئیں۔ وہ اس کی طرف لپكیں۔

"غضب ہو گیا صاحبہ۔ تو بیٹھے بٹھائے لٹ گئی۔ ہائے اوربا برباد ہو گئے ہم۔"

ان کے رونے پیٹنے پر اس کا ساکت دل دھک دھک کرنے لگا۔

"کیا ہوا ہے؟ تم لوگ کیوں رو رہی ہو اور اس طرح بولنے کا کیا مقصد ہے۔"

اس کے پوچھنے پر وہ دونوں آنکھوں میں بے بسی لئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔ 

"سردار ارقم بلوچ کے بیٹے کا قتل ہو گیا اور قتل کرنے والا جانتی ہو کون ہے؟ فائق چودھری! جرگہ بیٹھ چکا ہے نہ جانے اب کیا فیصلہ ہو!"

وہ اس کا زرد پڑتا چہرہ دیکھے بغیر اپنی بات مکمل کر کے واپس دروازے کی طرف بڑھ گئیں جب وه دل میں اٹھتے درد پر قابو پاتی انھیں آواز دے گئی۔

"سنو! سردار ارقم بلوچ کے کّک۔۔۔کس بیٹے کا قت۔۔ قتل ہوا؟"

یہ سوال کرتے اس کا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ضبط کی ہر دیوار جسے ٹوٹنے کو تھی بس۔ 

"سردار کا چھوٹا بیٹا مرزا افگن بلوچ!"

یہ جواب سنتے ہی وہ پیچھے کرسی پر ڈھے گئی۔ جہاں اپنے پیا کی زندگی کی نوید نے اس میں ایک نئی روح پھونک دی تھی وہیں اس کی اپنے بھائی کے لئے بے پناہ محبت یاد کرتے اسے نئے واہمے ستانے لگے۔ کچھ دیر بعد اسے سننے کو ملا تھا کہ سردار نے قصاص مانگا ہے اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ قصاص میں مقتول کی بہن جاۓ گی اور یہ بات بھی کہ کس شخص کے ساتھ مقتول کی بہن کو ونی کیا جاۓ گا۔ اس نے ضبط کرتے اپنی آنکھیں میچ کر کھولیں تو سامنے ہی فائق چودھری کی بہن علینا چودھری روتی بلکتی بین کر رہی تھی۔ صاحبہ چودھری کو اپنی قسمت پر روتی بلکتی علینا چودھری کی قسمت پر بے پناہ رشک آیا تھا جو اس شخص کا نصیب بننے جا رہی تھی جو صاحبہ چودھری کی تہجد میں مانگی گئی اولين دعا تھا۔ وہ شخص جو کبھی صاحبہ چودھری پر جان وارتا تھا۔ چیختی چلاتی علینا کو جب جرگے کے لئے لے جایا گیا تو صاحبہ پتھرائی نظروں سے یہ منظر دیکھتی ایک دم چیخ چیخ کر رونے لگی۔ قسمت کی دیوی نے اداس نظروں سے اس حسن کی ملکہ کو دیکھا تھا جو اپنا سب کچھ ہار بیٹھی تھی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یہ بلوچستان کے ایک گاؤں خضدار کے ایک بڑے میدان کا منظر تھا جہاں برگد کے قدیم اور قد آور درخت کے نیچے اس وقت چودھریوں اور بلوچیوں کے درمیان ہونے والے گھمبیر تنازعے پر پنچائیت بیٹھی ہوئی تھی۔ درخت کے عين نیچے بچھے مرکزی تخت پر پنچائیت کے معزز سربراہ مولانا عبدالحق صاحب جو کہ ایک مولانا بھی تھے،  سفید کڑکڑاتے شلوار قمیض میں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ دھرے چہرے پر انتہائی سنجیدہ تاثرات سجائے بیٹھے تھے۔

ان کے ساتھ ہی گاؤں کے دو اور معزز اور معمر افراد براجمان تھے۔ ان کی دائیں  جانب بلوچ جب کہ بائیں جانب چودھری خاندان موجود تھا۔ چودھریوں کے چہروں پر ہراس و خوف صاف واضح تھا جب کہ بلوچوں کے چہرے ضبط سے سرخ پڑ رہے تھے ۔

مولانا عبدالحق نے گلا کھنگارتے بات کا آغاز کیا۔

"جیسا کہ صاف واضح ہے کہ چودھری انور کے بیٹے چودھری فائق نے سردار ارقم بلوچ کے چھوٹے بیٹے مرزا افگن بلوچ کو اپنی بندوق سے تین گولیاں ماری جن میں سے دو اس کے سینے میں جب کہ ایک اس کے دماغ میں پیوست ہوئیں اور وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گیا۔ وہاں موجود دو گواہوں کی گواہی کے بعد چودھری فائق نے خود بھی تسلیم کیا کہ اس نے ہی یہ قتل کیا ہے۔ یہ پنچائیت مرزا افگن بلوچ کے اہل خانہ کو اجازت دیتی ہے کہ وہ قصاص طلب کریں۔"

پنچائیت کا فیصلہ سنتے چودھریوں کے رنگ اڑے تھے۔

"میں اپنے بیٹے کے گناہ کے بدلے اپنی ساری زمین بلوچوں کے نام کرنے کو تیار ہوں۔"

چودھری انور کی بات سنتے ہی سردار ارقم بلوچ کا بڑا بیٹا مرزا اورهان بلوچ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔کالا لباس جو کہ شکن آلود ہو چکا تھا پر پھر بھی اس شاندار شخص کے مضبوط توانا وجود پر خوب جچ رہا تھا۔ سنہری آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں۔ كمان سے ابرو ماتھے کے درمیان میں بننے والی لکیر سے جڑ رہے تھے۔ جبڑے بھینچے ہوئے تھے جب کہ چہرہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا۔ہعنٹ آپس میں پیوست تھے ۔دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچنے سے سرخ و سفید ہاتھ پر نیلی رگیں تن گئی تھیں۔سردار ارقم نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا اور آنکھ کے اشارے سے اسے تحمل سے کام لینے کا اشارہ کیا۔

"میرا جان سے عزیز بھائی قتل ہوا ہے۔ مرزا افگن بلوچ کا بھائی اور بلوچ قبیلے کے ہونے والے سردار کی حیثیت  اور جرگے کے مطابق مجھے پورا حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق مانگ کر سکوں اور میرا مطالبہ یہ ہے کہ۔۔۔۔"

پنچائیت میں موجود ہر شخص سانس روکے اس کی بات سن رہا تھا۔ بلا شبہ مرزا اورهان بلوچ اپنے الفاظ اور انداز سے ہی کسی کا بھی سانس روکنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ سب سانس روکے اس کے فیصلے کے منتظر تھے۔ جرگ ے میں اس وقت موت کا سماں تھا۔

"میری مانگ یہ ہے کہ میرے بھائی کے قتل کے بدلے میں چودھری فائق کی بہن مجھے ونی کی جاۓ یا پھر خون کے بدلے خون ۔ یہی میرا اٹل فیصلہ ہے اور اس میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔"

اس کے دوسرے فیصلے سے ہر شخص کو سانپ سونگھ گیا کیوں کہ وہاں موجود کسی فرد نے بھی اس فیصلے کی توقع نہیں کی تھی۔ ہر فرد جانتا تھا کہ مرزا اورهان بلوچ ان روایتوں کے کتنا خلاف ہے پھر اپنے لئے ایسا فیصلہ ہر کس کے لئے تعجب کا باعث تھا۔ انور چودھری مولانا عبدالحق کے بعد اس کے پیروں میں گر کر گڑگڑانے لگا پر اس نے کسی پکار اور فریاد پر کان نہ دھرا۔ آخر بیٹے کی زندگی بچانے کی خاطر وہ اپنی بیٹی کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ کتنی عجیب بات تھی نا کہ ایک اولاد کو بچانے کی خاطر دوسری اولاد کو قربان کیا جا رہا تھا۔ تھے تو دونوں ہی ایک ماں باپ کی اولاد۔ پھر یہ تفریق کیوں کر؟ اس لئے کیوں کہ وہ بیٹا تھا نسل کا امین تھا بڑھاپے کا سہارا تھا جب کہ بیٹی تو پرائ تھی کل کو اپنے گھر رخصت ہو جاتی اور ان کو کیا فائدہ دیتی۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ اسی سوچ نے کتنے ذہن خراب کیے اور کتنے ہی گھر اجاڑے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس نے گناہ کیا وہی گناہ کی سزا بھی بھگتے۔ اس طرح گناہوں کا رجحان بھی کم ہو پر کم عقل اور جاہل لوگ کہاں ایسا سوچیں۔ وہتو بیٹے کی زندگی کی خاطر بیٹی کو قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں یہ جاننے کے باوجود کے گناہ گار نے اپنے گناہ کی سزا کاٹنی ہے جب کہ بیٹی نے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی موت تک موت سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جانا ہے۔

کچھ وقت کے بعد ایک گاڑی دھول اڑاتی ہوئی وہاں آ کر رکی اور ایک آدمی نے چیختی چلاتی علینا چودھری کو کھینچ کر گاڑی سے باہر نکالا اور اسے گھسیٹتے ہوئے وہاں لانے لگا۔ اسے دیکھتے مرزا اورهان بلوچ کے ہونٹوں پر استہزاہیہ مسکراہٹ چھا گئی۔ اب آنا تھا اصل کھیل کا مزہ!

علینا اپنے باپ کو دیکھتے ہی روتی ہوئی اس کو جانب لپكی اور باپ کے سینے سے لگ کر اس کی منتیں کرنے لگی کہ اس کی قربانی نہ دی جاۓ۔ جرگے میں موجود ہر شخص افسوس بھری نظروں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ فقط ایک شخص پر سکون بیٹھا تھا اور وہ تھا مرزا اورهان بلوچ۔ وہ کچھ دیر یہ جذباتی منظر دیکھنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا اور کپڑوں سے نادیدہ سلوٹیں درست کرتا ہاتھ جھاڑنے لگا۔ اس نے اپنی مضبوط كلائی آنکھوں کے سامنے کر کے کلائی میں سجی بیش قیمت گھڑی میں وقت دیکھا اور ایک بیزار نظر سامنے نظر آتے باپ بیٹی کے جذباتی ملن پر ڈالی۔ اس نے گلا کھنگار کر جرگے میں بیٹھے افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا تو مولانا عبدالحق صاحب کو بھی وقت کا احساس ہوا۔ 

"میرا خیال ہے کہ اب وقت ہوا جاتا ہے کہ چودھری فائق کی ہمشیرہ اور چودھری انور کی صاحبزادی کو سردار ارقم بلوچ کے بڑے صاحبزادے مرزا اورهان بلوچ کے نکاح میں دے کر ونی کر دیا جاۓ۔"

چودھری انور نے روتے ہوئے علینا کو پاس پڑی کرسی پر بٹھایا اور نکاح شروع کرنے کا اشارہ دیا جب اورهان ہاتھ کھڑا کر کے انھیں روک گیا۔

"ایک منٹ مولانا صاحب جلدی کس بات کی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ مجھے فائق چودھری کی بہن ونی کی جاۓ گی پر مجھ سے یہ سوال پوچھنا کسی نے گواراه ہی نہیں کیا کہ کون سی بہن؟ کیا انور چودھری کو اپنے بیٹے کو آزاد کروانے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ اتنی اہم بات ہی بھول گیا۔"

اس کی بات پر جہاں جرگے میں چہہ مگوئیاں ہونے لگیں وہیں چودھری انور اور فائق کے چہرے سرخ پڑ گئے۔

"مولانا صاحب یہ بات پہلے ہی واضح ہے کہ میری ایک ہی بہن ہے علینا چودھری جو کہ اس وقت یہاں موجود ہے تو پھر  اورهان بلوچ کی اس بے جا بات کا کیا مطلب۔"

فائق ناگواری سے بولا جرگے میں موجود تمام افراد سوالیہ نظروں سے اورهان بلوچ کی جانب دیکھنے لگے۔ سردار ارقم بلوچ بھی ناسمجهی سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ یہ لڑکا ہمیشہ سے ہی ان کی سمجھ سے باہر رہا تھا۔ 

"مجھے ونی میں فائق کی بہن علینا نہیں بلکہ صاحبہ چودھری چاہیے۔"

وہ ان کے کانوں میں بمب پھوڑتا اب سکون سے ان سب کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔  اس کی بات سمجھ میں آتے ہی فائق اس پر جهپٹا پر اورهان اسے گریبان سے پکڑ کر پیچھے دھکیل گیا۔ لوگوں نے دونوں کو چھڑوا کر قابو کیا۔

"اس خبیث کی ہمت کیسے ہوئی میری ہونے والی بیوی کو میری بہن بول کر اسے ونی میں مانگنے کی۔"

فائق كف اڑانے لگا۔

"پہلی بات تو یہ کہ وہ تمہاری بیوی بننے والی تھی ابھی تک بنی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ تمہاری خالہ کی بیٹی ہے اس ناطے تمہاری بہن ہے لگی۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ بھائی میرا قتل ہوا ہے اور یہ جرگہ مجھے پورا حق دیتا ہے اپنے مطالبے کا۔ اب جلد سے جلد صاحبہ چودھری کو جرگےمیں پیش کیا جائے تا کہ آگے کی کاروائی بھی مکمل کی جا سکے۔"

وہ اپنے رعب دار انداز میں بولتا واپس اپنی نشست سمبھال گیا۔ اس کے اس فیصلے پر جہاں چودھری انور اور علینا نے سکھ کا سانس لیا وہیں فائق کے ہاتھ سے بازی پهیسل گئی پر وہ اس وقت بے بس تھا اور چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکتا تھا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں سرخ جوڑے میں سجی بت بنی صاحبہ چودھری کو وہاں لایا گیا تو اورهان اسے ایک نظر دیکھتا آنکھیں پهير گیا۔ سردار ارقم بلوچ کے اشارے پر مولانا صاحب نے نکاح کے کلمات ادا کرنے شروع کیے اور چند ثانیوں میں ہی صاحبہ چودھری کے تمام حقوق مرزا اورهان بلوچ کے نام کر دیے۔

تمام افراد ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے تو انور چودھری بھی اورهان یا صاحبہ پر ایک بھی نظر ڈالے بغیر آتش فشاں بنے فائق کو لے کر وہاں سے نکل گئے۔

اورهان بلوچ کے ایک ملازم نے زمین پر گٹھری بنی بیٹھی صاحبہ کو گاڑی میں ڈالنے کے لئے اس کو کی جانب قدم بڑھا دیے۔ اس سے پہلے کہ وہ صاحبہ کا بازو تھامتا اورهان نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ کی سخت گرفت میں کے کر اس کے ہاتھ کو ایک جھٹکے سے موڑا کہ اس ملازم کی زور دار چیخ گرد و نواع میں پهيل گئی۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم مرزا اورهان بلوچ کی ملکیت اس کی بیوی کو چھونے کا سوچنے کی بھی جسارت کرو۔"

وہ لہو رنگ آنکھیں اس ملازم کی آنکھوں میں گاڑ کر دھاڑا۔

"مم۔۔۔معاف کر دیں سس۔۔۔سرکار اس ناچیز کو۔ مم ۔۔میں تو صرف۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتا اورهان ایک جھٹکے سے اسے زمین پر پھینک گیا اور خود صاحبہ کی طرح بڑھا۔ اس نے بے جان مورت بنی صاحبہ کو کندھوں سے تھام کر ایک جست میں اٹھایا تو وہ بے اختیار اس کی  قمیض مٹھیوں میں جکڑ گئی۔ اس نے لرزتے ہوئے دھیرے سے اپنی سبز آنکھیں وا کیں جو سیدھا سرخی لئے بھوری آنکھیں سے جا ٹکرائی تھیں۔

اورهان خود پر ضبط کرتا اپنی بھوری آنکھیں اس کی ہری آنکھوں سے ہٹا گیا اور اس کا بازو دبوچ کر اس گاڑی کے پاس لا کر پچھلی سیٹ پر دھکیل کر زور سے دروازہ بند کیا اور خود اگلی سیٹ پر براجمان ہو گیا۔

گاڑی بلوچ حویلی رکی تو وہ بغیر اس پر ایک بھی نظر ڈالے گاڑی سے نکلتا مردان خانے میں چلا گیا۔ دو ہٹی کٹی  عورتیں گاڑی کی جانب بڑھیں تو ان کے کرخت تاثرات اور خطرناک انداز دیکھ کر صاحبہ کا دل سکڑ گیا۔ ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور صاحبہ کو بازو سے پکڑ کر باہر نکالا۔ 

"چھ۔۔چھوڑو مجھے ظالم عورت۔"

وہ خود کو اس ظالم گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی پر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اس مرد مار قسم کی عورت نے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جا کر ایک عورت کے قدموں میں پھینک دیا۔ زمین پر گرنے سے اس کے عروسی لباس پر لگے گھنگھرو اس کی جلد میں گھسنے لگے تو تکلیف کے مارے اس کے لبوں سے آہ نکل گئی اور آنکھوں میں پھر سے نمی بھر گئی۔ دوپٹہ ڈھلک کر کندھوں پر گر چکا تھا 

ہاتھ میں پہنی کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کر کلائی میں چبھ کراسے لہو لہان کر  چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ سر اٹھا کر اس ہستی کو دیکھتی جس کے پیروں میں اسے پهينكا گیا تھا مقابل نے اسے بالوں کی چوٹی سے پکڑ کر اوپر کھینچا تو اس کے حلق سے چیخ برآمد ہو گئی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے بال جڑوں سمیت اکھڑ گئے ہوں۔ اگلے ہی پل بھاری زنانہ ہاتھ کا تھپڑ اس کا دماغ ہلا گیا۔

" ڈائین! میرا ایک بیٹا کھا گئی اور دوسرے کو بھی پھانس لیا۔ ارے قصور ہی کیا تھا میرے معصوم بچے کا جو تمہارے اس نا مراد عاشق نے بے دردی سے میرے جگر کے ٹکڑے کا سینہ چھلنی کر دیا۔ ایک بیٹے کو تمہارا عاشق کھا گیا اور دوسرا تم نے اپنے پلو سے باندھ لیا۔ تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم جیسی حرافہ کو اپنے گھر میں اپنے بیٹے کی زندگی میں برداشت کروں گی۔رانی! او رانی!تیز دھار قينچی لے کر آ جلدی۔ آج اس حرافہ کو سبق سکھاؤں گی میں۔ سب سے پہلے تو اس کی یہ چوٹی ہی کاٹوں گی میں ۔ عورت کی چوٹی اس کی شان سمجھی جاتی ہے نا تو شروعات یہاں سے ہی کی جاۓ گی۔"

رخسار ارقم جو کہ اورهان کی ماں تھی وہ صاحبہ کو کوستی بكتی آخر میں اپنی خاص ملاذمہ کو قينچی لانے کا حکم دینے لگی تو ان کی بات سن کر صاحبہ کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ رانی نامی ملاذمہ چراغ کے جن کی طرح ایک پل میں ہی قينچی لے کر رخسار بیگم کی خدمت میں حاضر ہو چکی تھی۔ ان کے اشارے پر دو ملازماؤں نے صاحبہ کو دونوں بازوؤں سے پکڑا اور رخسار بیگم قينچی پکڑے اپنا ہاتھ اس کی لمبی چوٹی کی طرف بڑھا گئیں۔ وہ بے بسی اور آہانت کے احساس سے بلکنے لگی۔اس سے پہلے کہ قينچی صاحبہ کے بالوں کو چھوتی، وہاں تیزی سے داخل ہوتا اورهان  ان کے ہاتھ سے قینچی جهپٹتا دور پھینک گیا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے یہاں؟"

اس کی دھاڑ پر وہاں کھڑے تمام ملازمین سہم گئے۔ اس نے چہرے پر ہاتھ پهيرتے اپنا  طیش کم کرنے کی کوشش کی کیوں کہ وہ اس وقت اپنی ماں کے سامنے کھڑا تھا اور ایسا مر کر بھی نہیں چاہتا تھا کہ اپنی ماں سے کوئی بد تمیزی کر جاۓ۔

"اماں سائیں یہ کیا کرنے جا رہی تھیں آپ۔آپ کو ایک پل بھی خیال نہیں آیا کہ آپ اس حویلی کی عزت کو ہی سب کے سامنے بے عزت کر رہی ہیں۔"

اس کے لہجے میں بے بسی آ سمائ تھی۔

"نہیں ہے یہ اس حویلی کی عزت۔ خون بہا میں آئ لڑکی کبھی عزت حاصل نہیں کر پاتی۔ میرے لئے یہ صرف میرے بیٹے کے قاتل کی محبوبہ ہے بس۔ اس کے عاشق نے مار دیا میرے بیٹے کو۔"

وہ اس کی بات کاٹتی چیخ اٹھی تھیں جب کہ ان کے الفاظ سن کر اورهان بلوچ کے ضبط کی تنابیں ٹوٹنے لگیں۔

"بس کر دیں اماں سائیں بس کر دیں پلیز! یہ میرے نکاح میں آئ ہے اور اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے یہ میرا اور اس کا معملہ ہے۔ میں کسی تیسرے کو اس بات کی اجازت نہیں  دوں گا کہ وہ اس کے لئے کوئی سزا مختص کرے۔ یہاں کھڑا ہر انسان اپنی آنکھیں کھول کر دیکھ لے اور کان کھول کر سن لے کہ صاحبہ اورهان بلوچ مرزا اورهان بلوچ کی عزت ہے اور اورهان بلوچ کو اپنی عزت کی عزت کروانا اچھے سے آتی ہے۔"

وہ سب پر ایک نظر ڈال کر گرج کر کہتا سب کی سانسیں حلق میں اٹکا چکا تھا۔ اس کے الفاظ کی دہشت وہاں موجود ہر انسان کو سہما چکی تھی۔ رخسار بیگم تن فن کرتی وہاں سے نکل گئیں تو ان کی خاص ملازمائیں بھی ان کے پیچھے لپكیں۔

اورهان نے نیچے جھک کر صاحبہ کو باہوں میں بھرا اور بغیر اس پر نگاہ غلط ڈالے ناک کی سیدھ میں چلتا اوپر موجود اپنے کمرے کا رخ کر گیا۔

گھر میں ہونے والے ہنگامے سے پلو چھڑواتی وہ اپنے کمرے میں آ  بیٹھی۔اس کی ماں ایسی تو نہ تھی۔ وہ تو بہت نرم دل اور نرم مزاج خاتون تھی۔اس نے آج پہلی دفعہ اپنی ماں کا یہ انداز دیکھا تھا اور اسے بہت دکھ ہوا تھا۔ اپنی ماں کے لئے بھی اور ونی میں آنے والی اس لڑکی کے لئے بھی جو بغیر کسی گناہ کے روند دی گئی تھی۔ پر وہ اس بات سے مطمئن تھی کہ اس کے لالہ کسی بے گناہ کے ساتھ زيادتی نہیں ہونے دیں گے اور یہاں تو بات بھی ان کی نکاح میں آئ لڑکی تھی۔ کمرے کا خالی پن اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے تھا۔ زیادہ وقت تو نہیں گزرا تھا اس بات کو جب یہاں اس کے بیسٹ بڈی، رومی اور اس کے قہقہے گونجا کرتے تھے۔ وہ پرانے پل یاد کرتی آنکھیں نم کرنے میں مشگول تھی جب دروازہ دھیرے سے کھلا اور پھر بند بھی ہو گیا پر اس کی پوزیشن میں زرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔ وہ یوں ہی بازو ٹانگوں کے گرد لپیٹ کر ان پر سر دھرے بیٹھی رہی۔آنے والا بھاری قدموں کی دھمک اپنے پیچھے چھوڑے قدم قدم اس کی طرف بڑھ رہا تھا اور پھر عين اس کے سامنے رکتا اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرہ اونچا کر گیا۔

"کیٹی!"

سالوں بعد اس کی جانب سے بولا گیا یہ لفظ اس کے دل کو تڑپا گیا اور نا چاہتے ہوئے بھی اس کے ہونٹوں سےایک سسكی نکل گئی۔

"ارے میری کیٹی تو بہت بہادر اور مضبوط لڑکی تھی۔ یہ بات بات پر رونی والی روندو لڑکی کون ہے بھئی؟"

وہ لہجے میں مصنوعی حیرت سجا کر بولا  تو وہ نظریں جھکاتی  پھر سے رو دی۔ اس کی آنکھوں سے بہتا جهرنا دیکھ کر وہ ایک گہری سانس بھرتا اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھنے پر وہ تھوڑا كهسك کر اس سے دور ہونے لگی پر وہ اس کے شانوں کے گرد اپنا مضبوط حصار قائم کرتا اسے پاس کھینچ گیا۔ 

اس صورتحال میں بھی اس کا دل اس کی قربت پر دھڑک اٹھا جب کہ وہ اس کی سوچوں سے بے نیاز اس کا سرد پڑتا ہاتھ اپنے بھاری ہاتھ میں تھام کر گویا ہوا۔

"دیکھو کیٹی میں جانتا ہوں کہ بھائی کے جانے کا غم بہت بڑا ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ وہ صرف تمہارا بھائی تو نہیں تھا۔ میرا بھی بھائی تھا وہ جو مجھے جان سے عزیز تھا۔ میں نے بھی تو اپنا پیارا کھویا ہے۔ کیا مجھے بھی ہر وقت اسے یاد کر کے رونا چاہیے؟ سوگ منانا چاہیے؟ نہیں کیٹی! ہمیں یہ نہیں کرنا۔ ہمیں اس کے لئے اگلے جہان کی آسانی کا وسیلہ اور دعا کرنی چاہئے۔ اس وقت اس کو ہمارے آنسوؤں کی نہیں ہماری اس کے جق میں کی گئی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ بجاۓ اس کو یاد کر کے آنسو بہانے کے اٹھ کر وضو کر کے رب کے حضور اس کی بخشش کی دعا کرو۔ رب کے سامنے رو کر گڑگڑا کر اس کی نجات کی دعا مانگو۔ اپنا بہن ہونے کا حق تم یوں ہی ادا کر سکتی ہو بس نہ کہ یوں اس کے لئے رو کر۔ ایسے رو کر تم اس کے لئے محبت ظاہر نہیں کر رہی بلکہ اس کی روح کو تکلیف دے رہی ہو۔"

اس کی تمام باتوں سے متفق ہوتے زوھان  نے آخری بات پر تڑپ کر شیفان کی جانب دیکھا۔

"نہیں نہیں شیفان لالہ میں کیسے اپنے بیسٹ بڈی کو تکلیف میں دیکھ سکتی ہوں۔ دیکھئے گا میں اب اللّه پاک سے زیادہ زیادہ دعا کروں گی کہ افگن لالہ کی بخشش فرما دیں میرے انھیں تکلیف نہ دیں۔"

وہ تکلیف سے کہتی چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔ وہ اسے دکھ سے دیکھے گیا۔ وہ سب سے چھوٹی ان کی چھوٹی سی جان تھی جو ہمیشہ ہنستی کھلکھلاتی ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی تھی۔وہ ہولے سے اس کا سر تهپتهپا کر اٹھ کھڑا ہوا تو زوھان نے بھی وضو کرنے کے لئے باتھ روم کا رخ کیا۔

*************

وہ اسے لیتے کمرے میں داخل ہوا اور جھٹکے سے اسے بیڈ پر ڈالا۔ صاحبہ كراه کر رہ گئی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اس کی جانب نگاہیں اٹھائیں جو لہو چھلکاتی آنکھیں کے کناروں کو دباتا کمرے میں یہاں سے وہاں چکر لگا رہا تھا۔ وہ پلٹ کر ایک دم اس کی طرف بڑھا تو وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹنے لگی پر کمر بیڈ کی پشت کے ساتھ لگنے سے اسے احساس ہوا کہ اس کا راستہ مسدود ہو چکا ہے۔ وہ جارحانہ تیور لئے اس کی طرف لپكا اور اسے شانوں سے تھام کر اپنی اورھ کھینچا۔ اس سے ٹکرائو سے بچنے کی خاطر وہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر جما گئی۔ اب وہ ایک ٹانگ زمین پر جب کہ دوسری ٹانگ بیڈ پر موڑ کر رکھے اسے شانوں سے تھامے اس کی جانب جھکا ہوا تھا جب کہ وہ سہمی ہرنی کی طرح آنکھیں پهيلائے ہاتھ اس کے سینے پر جمائے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس نے کہاں دیکھا تھا پہلے کبھی اس کا یہ جارحانہ انداز۔

وہ اسے کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کر گیا تو وہ کٹی ڈال کی مانند اس کے سینے سے جا لگی۔ وہ اس کان کے قریب جھکا تو وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی۔

"تمہیں کیا لگا تھا صاحبہ کہ تم اس مرزا کو دھوکہ دے کر بڑی شان سے کسی اور کے لئے سج دهج کر اس کی سيج سجانے کی تیاری کرو گی اور یہ مرزا چپ چاپ دیکھتا رہے گا۔مرزا تو دھوکہ دینے والے دشمن کو بھی معاف نہیں کرتا تو تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ دھوکے باز یار اور پیار کو معاف کرے گا۔همم؟ صاحبہ اپنے بھائیوں کی خاطر مرزا کو دھوکہ دے اور یہ مرزا دو دن اپنی مردہ محبت پر آنسو بہا کر صبر کر کے بیٹھ جاۓ ایسی خوش فہمی تمہیں کہاں سے لاحق ہوئی؟" 

اس کے سرد انداز سے صاحبہ کی ڑیڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ بات کرتے اورهان کے لب صاحبہ کے کان سے مس ہوتے اسے ایک نئے امتحان میں ڈال گئے۔ اس نے كسمسا کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تو وه اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے اپنے ساتھ لگا گیا۔

"جانتی ہو محبوب کے مرنے پر عاشق کو کبھی نہ کبھی صبر آ ہی جاتا ہے پر محبت کے بے موت مرنے پر صبر کون کرے؟"

اس کے بھگو بھگو کر مارنے پر صاحبہ کی آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی۔ اس نے اپنی صفائی میں بولنے کی کوشش کر پر حلق میں آنسوؤں کا گولہ اٹک گیا۔

كلائیوں سے بہتا خون اور سر میں اٹھتی ٹیسوں سے زیادہ تکلیف اس کے تیز دھار الفاظ دے رہے تھے۔

اس کے آنسوؤں کو تمسخر بھری نظروں سے دیکھتا وہ اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ بنا گیا۔

"یہ آنسو کیوں بہا رہی ہو اب؟ اوہ سمجھ گیا۔ آج تو تمہاری بارات آنی تھی بہت شان سے جس کی خاطر تم یوں سج دهج کر اپنا روپ سنوار کر محو انتظار تھی پر افسوس سب کچھ تمہاری سوچ کے الٹ ہو گیا اور قسمت تمہیں اسی انسان کے در پر کے آئ جسے تم بہت شان سے دھوکہ دے کر فرار ہوئی تھی۔کیوں سہی کہہ رہا ہوں نا؟"

وہ اس کی ٹھوڑی تھام کر طنز کے تیر چلاتا مستفسر ہوا تو وہ لب سیتی چہرہ موڑ گئی۔اس کے چہرہ موڑنے پر اورهان کی نظر اس کی گردن سے رستے خون پر پڑی۔ گلوبند پہنا ہونے کی وجہ سے وہ اس کے زخم کی نوعیت نہ جان سکا پر اس کی تکلیف محسوس کرتے سینے میں موجود گوشت کا لوتھڑا تڑپنے لگا تھا۔ لاکھ خود پر قابو پاتا پر اسے دیکھتے سینے میں دفن محبت پھر سے سر اٹھانے لگی تھی۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اورهان نے صاحبہ کو بازو سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی لب بھینچے اس کے قریب بیٹھ گیا۔ سب سے پہلے ہاتھ بڑھا کر اس کی گردن کے گرد لپٹا وہ گلوبند نکالا تو وہاں موجود زخم دیکھتے اس کی آنکھیں مزید سرخ ہو گئیں۔ شاید کسی نے اس کی گردن پر دباؤ ڈالا تھا جس کی وجہ سے گلے میں پہنا گلوبند جلد میں پیوست اسا اسا زخمی کر گیا۔ اس نے گلے میں پکڑا گلوبند زور سے دیوار میں دے مارا۔ اس کے تیور دیکھتی صاحبہ سہمی بیٹھی تھی۔ اورهان نے اس کے کندھے پر گرا دوپٹہ پکڑ کر علیحدہ کیا اور نیچے زمین پر پھینک دیا۔ گردن خالی ہونے اور دوپٹے کے بوجھ سے آزاد ہونے کی وجہ سے اس کا سراپا واضح ہونے لگا تو وہ اس کے سامنے اس حالت پر خود میں سمٹنے لگی پر وہ پرواہ کے بغیر اپنا کام جاری کر گیا۔ دوپٹے کے بعد اس نے صاحبہ کے ہاتھ تھامے اور باری باری دونوں ہاتھوں کو چوڑیوں کے بوجھ سے بھی آزاد کر دیا۔ کلائیوں پر ٹوٹی ہوئی چوڑیاں چبھ کر جگہ جگہ سے اسے زخمی کر گئی تھیں جہاں سے نکلتا خون بھی اب جم چکا تھا۔اسے ہر طرح کےمصنوعی بوجھ سے آزاد کروا کر وہ الماری کی جانب بڑھا اور وہاں سے ایک سادہ سرخ رنگ کا جوڑا نکال کر واپس صاحبہ کی طرف آیا۔

"اٹھو اور یہ لباس تبدیل کر کے آؤ فورا۔ تم بے شک ایک دھوکے باز ٹھہری پر میرے نکاح میں آ چکی ہو اور اپنی منكوحہ کے جسم سے لپٹا اپنے رقیب کے نام کا یہ جوڑا   مجھے زہریلے بچھو کی طرح ڈستا ہوا محسوس ہو رہا۔"

وہ ہاتھ میں پکڑا جوڑا اس کے آگے پھینکتا ہوا بولا تو وہ چپ چاپ لباس پکڑتی ڈریسنگ روم کی طرف قدم بڑھا گئی ۔

لباس تبدیل کر کے وه باہر آئ تو وہ فرسٹ ایڈ باکس بیڈ پر رکھے بیٹھا تھا۔ اس کے باہر نکلنے پر اورهان نے نظریں اس پر ٹکائیں تو ایک پل کو سینے میں دھک دھک کرتا دل رک سا گیا۔ سادہ مگر نفیس سا سرخ جوڑا پہنے بغیر کسی آرائش و زیبائش کے بھی وہ اس قدر دل ربا لگ رہی تھی کہ اورهان بلوچ سے ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔ اس سے پہلے کے اس کا خود کے گرد بنایا گیا نفرت کا خول چٹختا وه ایک دم سے ہوش میں آتا نظریں پهير گیا۔ اسے ایک جگہ پر جم کے کھڑا دیکھتے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کا بازو پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھا کر خود اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ صاحبہ خاموش زبان اور بولتی آنکھوں سے اس کا چہرہ دیکھے گئی۔ جب جان لٹانے والا جان لینے کے در پر آ جاۓ تو  جان بغیر کسی حربے کے ہی نکل جاتی ہے۔ محبوب کو مارنے کے لئے کسی تیز دھار آلے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ زہر جیسے سفوف کی۔بس عاشق کی نظراندازی اور بیگانہ انداز  ہی کافی ہوتا ہے محبوب کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے۔ اور اس کا یہ انداز سہتی صاحبہ واقعی ایک ایک پل میں نا جانے کتنی دفعہ مر رہی تھی۔

اس کے بیٹھنے پر اورهان نے اس کی کلائیاں باری باری ڈیٹول سے صاف کیں پھر ان پر دوا لگائی۔ ہاتھوں سے فارغ ہونے کے بعد اس نے بلا جھجھک ہاتھ بڑھا کر اس کے گلے میں پڑا دوپٹہ اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور كهسك کر اس کے اور بھی نزدیک بیٹھ گیا۔ وہ ہاتھ کی انگلی پر دوا رکھتا آہستہ آہستہ اس کی گردن پر لگانے لگا۔ اس کا یہ سارا عمل بہت نرمی لئے ہوئے تھا۔

صاحبہ نے اس کے تاثرات جاننا چاہے پر اس کی سپاٹ تاثرات اسے جهرجهری لینے پر مجبور کر گئے۔ کتنے خواب سجائے تھے دونوں نے اس دن کی خاطر کتنے حسین جذبات تھے اس رات کو لے کر پر وقت نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ سارے خواب اور جذبات وقت کے سمندر کی تیز دھار میں بہتے چلے گئے۔ 

اس کا دوپٹے سے بے نیاز نازک سراپا دیکھتے اورهان کا دل ڈولنے لگا۔ ایک تو محبوب اور دوسرا اس پر جما جائز حق، اس کے دل میں بہت سے جذبات ابھرنے لگے۔نظریں اس کی شفاف بے ریا گردن سے پھسلتی ہوئی اس کے خوبصورت سراپے میں الجھنے لگیں تو وہ اپنے منہ زور جذبات پر قابو پاتا ایک جھٹکے سے وہاں سے اٹھ کر دور جا کھڑا ہوا۔

"اس خوش فہمی میں ہرگز مت رہنا کے مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے جو میں تمھارے خیال اور فکر میں مرا جا رہا ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں تمہیں اپنی نفرت سہنے کے قابل بنا رہا ہوں۔ اور آخر ایک انسان ہوں اپنے سامنے کسی انسان کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ میرے سینے میں دل نامی چیز موجود ہے پر تم کیا جانو! تمہارا کون سا کبھی واسطہ پڑا ہے اس چیز سے۔"

جذبات کے سمندر پر نفرت کی چادر لپیٹ کر اس پر طنز کے تیر برساتا وہ کمرے سے ملحق ٹیرس پر نکل گیا تو پیچھے وہ تکیے میں منہ چھپاتی اپنی محبت کی موت پر ایک بار پھر سے رو دی۔

صوبہ بلوچستان کے ایک گاؤں خضدار میں بنی بلوچ حویلی جو کہ خوبصورتی اور آعلیٰ شان و شوکت کے باعث ایک شہکار مانی جاتی تھی اس میں دو خاندان مقیم تھے ۔مرزا ارقم بلوچ اور مرزا ارحم بلوچ دو ہی بھائی تھے۔ ماں باپ ایک ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے تو دونوں بھائی ہے ایک دوسرے کا سہارا رہ گئے۔ دونوں بھائیوں میں محبت مثالی تھی۔ بڑے بھائی ارقم بلوچ جنہوں نے باپ کی وفات کے بعد سرداری بھی سنبھالی اور چوٹے بھائی کو بھی۔ جہاں بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی ہر خواہش پر لبیک کہتا وہیں چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرتا۔ دونوں کے مزاج اور عادتیں بھی ایک سی تھیں۔ دونوں نہایت نرم اور صلح جو طبعیت کے مالک تھے۔ ارقم بلوچ کی اہلیہ رخسار بیگم تھوڑی کرخت طبیت کی مالک تھیں جب کہ ارحم بلوچ کی اہلیہ ناز ارحم  ان کی طرح ہی نرم اور سلجھے مزاج کی تھیں۔ ارقم بلوچ کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا ستائیس سالہ مرزا اورهان بلوچ جو دو سال قبل لندن سے ایم- بی- اے کر کے لوٹا تھا اور شہر میں اپنا بزنس قائم کر چکا تھا جس نے محض دو سالوں میں ہی خاصی بلندی حاصل کر لی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ وہ گاؤں میں اپنے باپ اور چچا کا بوجھ کم کرنے کی خاطر زمینوں کے حساب کتاب پر بھی نظر ڈال لیتا اور کبھی كبهار زمینوں کا چکر لگا لیتا۔ دو  سال قبل اس کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے اس کی بے رنگ زندگی میں خوش نما  رنگ بھر دیے پر کب یہ خوش نما رنگ سیاہ بختی کے سیاہ رنگوں میں بدلے پتا ہی نہ چل سکا۔ اس کے بعد اب تک کسی نے بھی اورهان بلوچ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی۔

اورهان سے چھوٹا چوبیس سالہ  مرزا افگن بلوچ تھا جو یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ تھا اور بی-بی-اے کے آخری سال میں تھا۔ وہ شرارتی سا افگن پوری حویلی کی جان تھا جو ہر کسی کے ساتھ موج مستی کر کے قہقہے لگاتا حویلی کو ہر دن پر رونق رکھتا تھا۔ اورهان کے دل کا ٹکڑا تھا وہ۔ تیسرے اور آخری نمبر پر آتی تھی اٹھارہ سالہ  زوہان بلوچ۔ اورهان اور افگن کی چھوٹی سی گڑیا۔ حویلی میں سب سے چھوٹا بچا ہونے کی وجہ سے وہ حویلی بھر کی  لاڈلی تھی۔ وہ اتنی خوب صورت، معصوم  اور نازک سی تھی کہ بے ساختہ ہی اس پر پیار آتا تھا۔وہ گاؤں کے ہی ایک کالج میں زیر تعلیم تھی جو کہ اس کے بابا سائیں نے ہی بنوایا تھا تا کہ گاؤں کی بچیاں تعلیم حاصل کر سکیں۔

مرزا ارحم بلوچ کے دو بچے تھے۔ بڑا بیٹاچھبیس سالہ مرزا شیفان بلوچ جو لندن سے ایم- بی- اے کرنے کے بعد وہیں اپنا بزنس اسٹیبلشکر چکا تھا۔ ایک سفر کے دوران وہ  ایک ایسے حادثے کا شکار ہو گیا جس نے اس کی زندگی بدل ڈالی۔ نہ صرف اسے ایک ٹانگ سے محروم کر دیا بلکہ اس کا دل بے دردی سے توڑتے ہوئے اس کا محبت پر سے اعتبار بھی اٹھا دیا۔ آپریشن کے بعد چھے ماہ بستر پر رہنے کے بعد وہ وہیں مقیم ہو چکا تھا۔ پاکستان واپسی کا اس کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ وہ اپنے غم اپنے تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔ پر افگن کی ناگہانی موت نے اسے مجبور کر دیا پاکستان کا رخ کرنے پر۔ شیفان سے چھوٹی تئیس سالہ رومیسہ تھی جو ماسٹرز کی سٹوڈنٹ تھی۔یہ تھا بلوچ حویلی میں مقیم چھوٹا سا خاندان جہاں کے ہنستے بستے لوگوں کو کسی کی نظر لگ چکی تھی۔

°°°°°°°°°°°°°°°

نیم تاریک کمرے کے ایک کونے میں سکڑ سمٹ کر بیٹھی وہ خستہ حال لڑکی پر کسی مردے کا گمان ہوتا تھا۔ انتہائی سفید رنگت میں زردی گھل کر اسے ایک لاش بنا رہی تھی۔ نیلی آنکھیں اطراف سے سیاہ ہو رہی تھیں اور اندر کو دهنسی ہوئی تھیں۔ باریک لبوں پر پیٹری جمی ہوئی تھی۔ الجھے بکھرے دراز بال چہرے کے اطراف میں بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے نین نقوش دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ اجڑی ہوئی لڑکی بہت حسین رہی ہو جیسے۔ پر اس وقت تو اسے دیکھتے محض ایک زندہ لاش کا ہی تاثر ابھرتا دماغ میں۔

وہ ایسی تو نہ تھی۔ وہ تو ہنستی کھلکھلاتی ایک حسین شہزادی تھی۔ شوخی اس کے مزاج کا خاصہ تھی۔ محبت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی پر اس کو تو محبوب کی موت نے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ محبوب بھی وہ جو محرم تھا۔ کتنا خوش تھے وہ دونوں جس دن انھیں ایک پاک بندھن میں باندھ کر ہمیشہ کے لئے ایک کر دیا گیا تھا۔ ایک دوسرے کا ساتھ سونپ دیا گیا تھا۔ پر وہ قدرت کے فیصلوں سے آگاہ نہ تھے۔ وہ قدرت کے فیصلوں سے بے خبر ایک ساتھ کتنے حسین خواب بُن گئے تھے ۔ انہی خوابوں کی ٹوٹی ہوئی کرچیاں ٹوٹ کر اس کی آنکھوں کو لہو لہان کر گئی تھیں۔ 

دروازہ چڑڑ کی آواز سے کھلا اور شیفان کمرے میں داخل ہوا۔ اسے بیڈ پر غیر موجود پا کر اس نے پورے کمرے میں ایک نظر ڈورائی تو اسے ایک کونے میں زمین پر اجڑی ہوئی حالت میں بیٹھا دیکھ کر شیفان کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا۔ اس نے کہاں دیکھی تھی اپنی گڑیا کی ایسی حالت۔

"رومی!" 

اس کے پکارنے پر بھی اس کی پوزیشن میں رتی برابر فرق بھی نہ آیا۔ وہ بھاری دل کے ساتھ قدم قدم چلتا اس تک آیا اور اس کی پاس ہی نیچے زمین پر بیٹھ گیا۔

"رومی میری گڑیا!"

وہ اس کے پاس بیٹھتا اسے اپنے حصار میں لے گیا۔ اب کے اس کی پکار پر وہ چونک کر اس کی طرف چہرہ موڑ گئی۔

"لالا!" 

اس کے ہونٹوں نے جنبش کی تو وہ اسے اپنے سینے سے لگا گیا۔

"لالا کی جان لالا کا بچہ لالا کی گڑیا!"

وہ اس کا ماتھا چومنے لگا۔ اسکی حالت دیکھتے شیفان کی آنکھوں میں نمی بھر گئی۔ اپنی جان سے پیاری بہن کی یہ حالت اس اونچے لمبے مرد کو رلا گئی تھی ۔ 

"صبر کرو میرا بچہ اللّه کی امانت تھا وہ اس نے واپس لے لی۔ ہم کون ہوتے ہیں اس کے حکم پر سوال اٹھانے والے۔ کیا حالت بنا لی ہے آپ نے اپنی۔ میرا بچہ ایسے اس کی روح کو تکلیف ہو گی۔ جانتی ہو نا آپ کہ وہ آپ کو اداس نہیں دیکھ سکتا تھا۔ پھر ایسی حالت بنا کر کیوں اس کی روح کو بے سکون کر رہی ہو۔"

اس کی آخری بات پر اس نے تڑپ کر  شیفان کی طرف دیکھا اور خود پر ضبط کھوتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی کہ شیفان سے اسے قابو کرنا مشکل ہو گیا۔

"اس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا لالا؟ وہ تو کہتا تھا کہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا پھر کیوں مجھے اکیلا چھوڑ گیا۔ آپ جانتے ہیں نا کہ وہ میرے لئے کیا ہے میں کیسے صبر کروں لالا میرا دل پھٹ رہا ہے میرا کلیجہ چھلنی ہو رہا ہے۔ مجھے کسی طور سکون نہیں آ رہا لالا میں کیا کروں!"

تڑپ تڑپ کر رو کر کہتی وہ شیفان کو ضبط کی آخری حدوں پر لے گئی۔

"بس میری جان رونا نہیں۔ کیا آپ اس کی روح کو تکلیف دینا چاہتی ہو؟" 

اس کے پوچھنے پر وہ تیزی سے نفی میں سر ہلا گئی۔ آنکھوں سے نکلتے موتی گالوں پر بہتے چلے جا رہے تھے۔

"تو پھر آنسو مت بہاؤ۔ اب نہیں روۓ گی نا میری گڑیا؟"

اس کے پھر سے پوچھنے پر وہ خود پر ضبط کے پہرے بیٹھاتی گالوں پر بہتے آنسو صاف کرتی انکار میں سر ہلا گئی تو وہ اس کا ماتھا چوم کر اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھا گیا۔

"میں کیٹی کو بھیج رہا ہوں آپ فریش ہو کر چینج کرو میں تھوڑی دیر تک واپس آتا ہوں تب مجھے اپنی گڑیا ایسی حالت میں نہیں چاہئے ٹھیک ہے نا؟"

وہ اس کے بل سنوارتا نرمی سے پوچھنے لگا۔

"جی۔"

وہ جواب دے کر آنکھیں موند گئی تو وہ وہ اپنی آنکھیں رگڑتا وہاں سے نکل گیا۔

یہ تھی رومیسہ افگن بلوچ۔ مرزا افگن بلوچ کی منکوحہ اور اب اس کی بیوہ!

°°°°°°°°°°°°°°°°

اورهان ٹیرس سے نکلتا سیدھا ذوہان کے کمرے میں چلا گیا۔ زوہان کے ساتھ دو گھنٹے بیتانے کے بعد جب اس نے کمرے کا رخ کیا تو اسے لگا صاحبہ سو چکی ہو گی پر جب اس نے کمرے میں قدم رکھا تو وہ بیڈ کے وسط میں ٹانگوں کے گرد بازو باندھے گھٹنے پر سر ٹکائے  بیٹھی تھی۔ وہ اسے متوجہ کرنے کے لئے اپنے پیچھے زور سے کمرے کا دروازہ بند کرتا باتھ روم میں گھس گیا۔ دروازہ بند ہونے کی زوردار آواز پر وہ ایک دم دہل کر ہوش میں واپس لوٹی تو نظر سیدھا اس بد گمان پر گئی جو باتھ روم میں داخل ہو رہا تھا۔

وہ تولیے سے بال رگڑتا باہر آیا تو اسے ہنوز اسی پوزیشن میں بیٹھے پایا جب کہ اسے باہر آتے دیکھ کر صاحبہ کے دل نے رفتار پکڑ لی ۔ اسے قمیض کے بغیر دیکھتے وہ سٹپٹا کر نظروں کا زاويہ بدل گئی کہ وہ اس وقت صرف  ایک ٹرائوزر پہنے ہوئے تھا۔ بالوں میں برش پهيرتے وہ شیشے میں نظر آتے اس دشمن جاں کے عکس کو دیکھنے لگا جو بڑی شان سے اس کے کمرے میں اس کے بیڈ پر براجمان تھی۔ وہ بال بنا کر برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر بیڈ کی جانب قدم بڑھا گیا تو صاحبہ کا دل خوف سے سکڑ گیا۔

"اٹھو یہاں سے مجھے سونا ہے۔"

وہ اس کے سر پر کھڑا ہو کر بولا تو وہ ہونق بن کر اسے دیکھنے لگی۔

"سنائی نہیں دے رہا کیا؟"

اب کے وہ تھوڑا چیخ کر بولا تو وہ اٹھنے کی بجائے مزید بیڈ کی پشت کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔

"مم۔۔میں کہاں جاؤں گی!"

اس کے منمانے پر وہ اسے گھورنے لگا .

ا"اتنا بڑا کمرہ ہے جہاں مرضی چلی جاؤ پر میرے بیڈ سے اٹھ جاؤ۔ وہ سامنے پڑا صوفہ اتنا بڑا ضرور ہے کہ تم آسانی سے اس میں سما جاؤ۔ اب اٹھ بھی چکو بس بیڈ سے اٹھنے کو بولا ہے دنیا سے اٹھنے کا نہیں جو مرگ طاری ہو گیا ہے تم پر۔"

وہ ہڑ بڑا کر اٹھی اور تیزی سے صوفے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ بغیر اس پر ایک نظر ڈالے بیڈ پر دراز ہو کر آنکھوں پر بازو رکھ گیا پر اس سے پہلے کمرے کی بتی گل کرنا نہ بھولا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھی خوف کے زیر حصار آیات الکرسی کا ورد کرنے لگی۔ تھوڑی دیر مزید گزری تو اسے رونا آنے لگا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اسے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے پھر بھی اندھیرے کمرے میں اسے خود سے دور کر دیا۔ اس کا ننھا سا دل معصوم سا شکوہ کرنے لگا۔ وقت تھوڑا اور سركا تو وہ اپنے خوف پر قابو پانے کی کوشش کرتی نیم دراز ہو کر آنکھیں بند کر گئی جب اچانک کتوں کے بھونکنے کی آواز آنے لگی۔ وہ بغیر ایک بھی لمحہ ضائع کے صوفے سے اٹھی اور بیڈ کی طرف دوڑ لگا گئی۔وہ اس کے پہلو میں بیٹھی سسكنے لگی۔ صاحبہ نے روتے ہوئے ایک شکوہ کن نگاہ اورهان پر ڈالی جو آنکھوں پر بازو دھرے نیند میں گم تھا جب کہ اس کی جان خوف سے ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔ وہ ڈرتے ڈرتے اس کے پہلو میں دراز ہو گئی اور اس کا چہرہ نہارنے لگی۔ یوں ہی اسے تکتے تکتے کب نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اسے پتا ہی نہ چل سکا۔ اس کی بھاری سانسوں کی آواز سنتے اورهان نے دھیرے سے آنکھوں سے بازو ہٹایا اور رخ موڑ کر اس دھوکے باز حسینہ کی طرف دیکھا۔ 

یہ وہ چہرہ تھا جسے دیکھتے اورهان بلوچ رات سے دن اور دن سے رات کر سکتا تھا۔ اس چہرے کا نقش نقش حفظ تھا اسے۔ اس کے سونے کی یقین دہانی کرتے اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر جھولتی اس لٹ کو اس کے کان کے پیچھے اڑسا جو اس کے چہرے پر جھولتی اورهان کے دیکھنے میں رکاوٹ پیدا کر رہی تھی۔ اس کی نم پلکیں اور چہرے پر موجود آنسوؤں کی مٹے مٹے نشانات دیکھ کر اورهان کا دل تکلیف سے بھر گیا۔ وہ تو اپنی سردارنی کی آنکھوں میں ایک آنسو بھی برداشت نہ کرتا تھا اور کہاں اب خود ہی اس کے آنسوؤں کی وجہ بن بیٹھا تھا پر اسے ایسا بننے پر مجبور کرنے والی بھی وہ خود ہی تھی جس نے اسے دھوکہ دے کر اس کی محبت اس کے منہ پر دے ماری۔ پر وہ اپنے اس دل کا کیا کرتا جو چاہ کر بھی اس سے غافل نہ ہو پا رہا تھا۔وہ لاکھ اس کے سامنے اس نے نفرت کا پرچار کرتا پر حقیقت تو یہی تھی کہ جنونی محبت کو نفرت میں بدلنا آسان نہیں تھا۔ محبوب کی ایک جھلک ہی ہر نفرت اور ناراضگی پر بھاری ہوتی ہے۔ پر صاحبہ نے اورهان کو دھوکہ دے کر اس کی محبت کے منہ پر جو تمانچہ مارا تھا اس کے لئے وہ اسے کبھی معاف نہیں کر پا رہا تھا۔ اس نے دھیرے سے اس کا ہاتھ تھاما اور نرمی سے اس کے زخموں پر اپنے سلگتے ہوئے لبوں کا مرہم رکھنے لگا۔ وہ نیند میں اس کا لمس محسوس کرتی کسمسائی تو وہ دھیرے سے اس کا ہاتھ نیچے رکھتا اس کا سر اپنے کندھے پر رکھ گیا تو وہ بھی نیند میں پر سکون ہوتی مزید اس میں گھستی اس کا ضبط آزمانے لگی پر وہ خود پر قابو پاتا آنکھیں موند گیا

اس واقعے کو ہفتہ گزر چکا تھا۔ صاحبہ جب اگلی صبح اٹھی تو اورهان وہاں موجود ہی نہ تھا۔ دس بجے کے قریب ملازمہ اسے کمرے میں ناشتہ دینے آ گئی تھی۔ اسی سے صاحبہ کو معلوم پڑا کہ اورهان شہر روانہ ہو چکا ہے۔ اس نے پتا نہیں حویلی والوں کو کیا کہا تھا کہ کوئی بھی اس پورے ہفتے میں اس کے پاس نہ آیا تھا نہ ہی ایسا کوئی پیغام اس تک پہنچا تھا۔ وہ سارا دن کمرے میں پڑی رہتی۔ اورهان کا رويہ اس کی جان نکال رہا تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی اس کا ایسا سلوک نہ سوچا تھا۔اس کے پاس موبائل بھی نہ تھا جو اس سے رابطہ کر سکتی۔ ابھی بھی وہ بیڈ پر مضحمل سی بیٹھی ماضی کی یادوں میں گم تھی جب ملازمہ شانو وہاں آئ۔ یہ ملازمہ اورهان صاحبہ کہ لئے مختص کر گیا تھا جو اسے ہر ضرورت کا سامان کمرے میں پہنچا دیتی۔صاحبہ نے اسے اندر آنے کی اجازت دی تو وہ پریشان سی اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔

"کیا ہوا رانی اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو سب ٹھیک تو ہے نا؟"

اس کے پوچھنے پر وہ نفی میں سر ہلا گئی تو صاحبہ کو بھی تشویش ہونے لگی۔

"بی بی جی نیچے بڑی بیگم صاحبہ آپ کو بلا رہی ہیں جی۔"

اس کی بات پر صاحبہ کا رنگ خوف سے سفید پر گیا۔

"پپ۔۔۔پر کیوں۔۔۔مجھے کیوں بلایا ان ۔۔۔۔انہوں نے۔"

اس کا خوف دیکھتے شانو کو بھی دکھ ہونے لگا۔

"پتا نہیں بی بی جی انہوں نے بس مجھے آپ کو بلانے کا بولا۔ ہم نوکروں کو وجہ کون بتاتا ہے جی۔ ہم تو بس حکم کے غلام ہیں۔ جو ہمیں حکم ملتا ہے ہم اس کی تعمیل کر دیتے ہیں جی۔"

اس کے لہجے میں دکھ کے ساتھ بے بسی بھی در آئ تھی۔

صاحبہ جی کڑا کر کے اپنی جگہ سے اٹھی اور پیروں میں چپل اڑستی اس کی تقلید میں نیچے کا رخ کر گئی۔ اس کا دل خوف سے بے تحاشہ دھڑک رہا تھا۔دالان میں داخل ہو کر اس کی نظر رخسار بیگم پر پڑی جو چہرے پر غیض لئے کھڑی تھیں۔ان کے ساتھ ہی ان کی ملازمہ خاص رانی چہرے پر مکروہ مسکراہٹ سجائے اسے کمینگی سے دیکھ رہی تھی۔

"آگے آؤ لڑکی!"

اسے ایک جگہ پہ ہی جما دیکھ کر رخسار بیگم نے کرخت آواز میں اس پر حکم صادر کیا تو وہ حلق تر کرتی دھیرے دھیرے ان کی طرف بڑھنے لگی اور ایک مناسب فاصلے پر جا کھڑی ہوئی۔

"کتنے دن کمرے میں بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑو گی۔ کوئی چاؤں سے نہیں بياه کے لائی گئی تم۔ خون بہا میں آئ ہو اس لئے بہتر ہے کہ اپنی اوقات نہ بھولو۔ اب کچن میں دفع ہو اور سارا کچن صاف کرو۔ سستی دکھائی تو انجام کی ذمہ دار خود ہو گی پھر۔"

ان کی بات پر وہ خود پر ضبط کرتی لب بھینچ گئی اور رانی کے اشارے پر اس کی پیچھے کچن میں چلی گئی۔

کچن کی حالت دیکھ کر اس کا سر چکرا گیا۔ اسے لگا جیسے جان بوجھ کر اس سے زیادہ کام کروانے کی خاطر یہ سارا گند پهيلايا گیا ہو۔ اس نے تو کبھی کسی کام کو ہاتھ بھی نہ لگایا تھا۔ اللّه کا نام لیتے اس نے دوپٹہ کمر پر باندھا اور کام میں جت گئی۔ صبح سے اس نے کچھ نہ کھایا تھا اور اب رات ہونے کو آئ تھی۔ اس نے جلدی جلدی ہاتھ چلا کر کام جلدی ختم کرنے کی کوشش کی۔ کام ختم ہوتے ہی اس نے شکر کیا اور اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ ابھی وہ سیڑھییوں پر ہی پہنچی تھی کہ رخسار بیگم اسے پھر سے آواز دے گئیں۔

"میں نے تمہیں کمرے میں جانے کا بولا جو تم جا رہی ہو۔ واپس آؤ اور آ کر میرے پاؤں دباؤ۔"

ان کی بات پر صاحبہ کا دل چاہا انہیں ٹھوک کر جواب دے دے پر جانتی تھی کہ ایسا کرنے سے وہ اس کے عتاب کا نشانہ بن جاۓ گی اور یہاں اسے بچانے والا بھی کوئی نہ تھا۔

وہ لب بھینچ کر ان کے پیچھے ان کے کمرے میں داخل ہوئی اور ان کے لیٹنے پر ان کے پاؤں دبانے لگی۔ دو گھنٹے گزر گئے پر انہوں نے ایک دفعہ بھی اسے نہ بولا کہ بس کرو بلکہ جب اس کا ہاتھ تھوڑا سا ڈھیلا ہوتا وہیں ان کی جھاڑ سننے کو ملتی۔ آخر کار جب وه گہری نیند میں چلی گئیں تو ان کے سونے کی یقین دہانی کرتی وہ وہاں سے نکل آئ اور کچن کا رخ کیا کہ بھوک زوروں پر تھی۔ اس نے جلدی سے جا کر فریج کا دروازہ کھولنا چاہا پر یہ کیا؟؟ فریج کا دروازہ ہی بند تھا۔ اس نے کچن کا جائزہ لیا تو ایک ہاٹ پاٹ میں صرف ایک سوکھی روٹی ہی پڑی ہوئی تھی یہاں تک کہ سالن بھی فریج میں رکھ دیا گیا تھا۔ وہ بے دل ہو کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی ارادہ یہی تھا کہ شانو سے کہہ کر کھانا منگوا لے گی۔ اسے شانو اپنے کمرے کے باہر ہی مل گئی۔

"شانو فریج کیوں لاک ہے؟ مجھے بہت بھوک لگی ہے پلیز کچھ کھانے کو لا دو۔"

وہ اسے بولتی خود کمرے میں داخل ہو گئی۔

"جی بی بی جی میں ابھی لائی۔"

شانو کہتی نیچے کی طرف بڑھ گئی۔

صاحبہ کمرے میں آ کر فریش ہونے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہ فریش ہو کر باہر آئ تو شانو سر جھکا کر کھڑی تھی۔

"شانو کھانا لے کر نہیں آئ تم؟"

صاحبہ نے کمرے میں نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔

"وو۔۔۔وه بی بی جی ۔۔۔۔بڑی بیگم صاحبہ نے۔۔۔فریج کو تالا لگوا دیا ہے جی اور ۔۔۔اور آپ کو کھانا دینے سے منع کر دیا ہی جی۔"

وہ بیچاری خود میں ہی شرمندہ ہوئی جا رہی تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ یہاں سے۔"

اس کے جانے کے بعد وہ اوندھے منہ بیڈ پر گر گئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی پر خالی پیٹ کیسے نیند آتی۔

وہ بھوک سے تنگ آ کر اٹھ بیٹھی۔ گھڑی پر وقت دیکھا تو گھڑی بارہ کا ہندسہ عبور کرتی ہوئی نظر آئ. اس نے سائیڈ پر پڑا دوپٹہ گلے میں ڈالا اور نیچے چلی آئ ۔ نیچے کی ساری لائٹیں بند تھیں بس ایک ہی  لائٹ چل رہی تھی۔ وہ آیت الکرسی کا ورد کرتی کچن کی طرف آ گئی۔ اس نے کچن کی لائٹ جلا کر ایک دفعہ پھر فریج کا جائزہ لیا پر وہ اب تک لاک تھی۔ ہاٹ پاٹ کھول کر دیکھا وہی سوکھی روٹی ویسے ہی پڑی تھی۔ اس نے گلاس پکڑ کر ٹوٹی سے پانی ڈالا اور وہ روٹی بھی ایک پلیٹ میں رکھ لی اور اللّه کا نام لیتے وہ روٹی کھانی شروع کر دی۔ وہ چھوٹے چھوٹے نوالے لے رہی تھی پر بغیر کسی سالن کے وہ خشک سادہ روٹی اس کے گلے میں اٹک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی پر بھوک ایسی تھی کہ ہاتھ پیچھے کرنے کا دل ہی نہ چاہ رہا  تھا۔وہ ایک ہاتھ سے آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتی دوسرے ہاتھ سے روٹی کے نوالے منہ میں رکھ رہی تھی۔بیچ میں پانی کے چند گھونٹ بھر کے حلق تر کرلیتی۔

"یہ کیا کھا رہی ہو تم؟"

اپنے عین پیچھے اورهان کی آواز سنتی وہ ایک پل کو اپنی جگہ پر ساکت ہوئی پر اگلے ہی پل دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ 

وہ شہر سے ابھی حویلی پہنچا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اوپر واقع اپنے کمرے کا رخ کرتا اس کی نظر کچن کی جلتی لائٹ پر پڑی تو اس کے قدم بے ساختہ اس سمت اٹھنے لگے کچن میں دبے پاؤں داخل ہوتے ہی اس کی نظر اس دشمن جاں پر پڑی جو سليب کے ساتھ لگی کچھ کھا رہی تھی اور ساتھ رو بھی رہی تھی۔ اسے روتے دیکھ اس کا دل بے چین ہو اٹھا تو وه قدم بڑھاتا اس کے عین پیچھے جا کھڑا ہوا پر اسے پانی کے ساتھ روٹی کھاتا دیکھ کر اورهان بھونچکا رہ گا اور سوال داغ بیٹھا پر وہ ایک پل کو روکتی دوبارہ روٹی کھانے لگی اور اسے جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے"

اب کے صاحبہ نے جواب دینا چاہا پر حلق میں آنسوؤں کا گولا اٹک گیا۔ اس نے ہچکی لی تو وہ بے ساختہ پانی والا گلاس تھام کر اس کے منہ سے لگا گیا۔ اس کے انداز سے تفكر جھلک رہا تھا جسے محسوس کر کے وہ ضبط کھوتی پیچھے مڑ کر ایک دم اس کے گلے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس کے رونے پر اورهان کا دل گھبرانے لگا۔ 

"ہوا کیا ہے کیوں اس طرح رو رہی ہو کچھ بتاؤ گی بھی یا نہیں۔"

وہ اسے پیچھے ہٹانے لگا پر وہ سختی سے اس کے گرد بازو حائل کر گئی۔ اورهان نے اسے کچھ دیر ایسے ہی رہنے دیا پھر پیچھے ہٹایا تو اب کی بار وہ بھی پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔

"اب بتاؤ مجھے سہی سہی کہ کیا ہوا ہے؟"

وہ  اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر اس کے آنسو پونچھنے لگا۔

"بب۔۔۔بھوک لگی ہے۔"

وه نظریں جھکا کر ایسے بولی جیسے کوئی جرم سر زد ہو گیا ہو۔

"بھوک لگی تھی تو فریج میں اتنا کچھ پڑا ہوتا  ہے کچھ بھی کھا لیتی یہ سوکھی روٹی کیوں کھا رہی ہو؟"

وه جانتا تھا کہ وہ بھوک کی بہت کچی ہے۔ اسے ہر گھنٹے بعد ہی کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ چاہئے ہوتا تھا۔ وہ شانو کو خاص تاکید کر کے گیا تھا کہ ہر کچھ دیر بعد اسے کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ دیتی رہے۔

"فف۔۔۔فریج۔۔فریج لاک ہے اور ۔۔اور کچن میں کھانے کے لئے بس ی۔۔یہ روٹی ہی تھی۔"

اس کی بات سنتا اورهان شاک میں چلا گیا۔ بھلا ایسا کیسے ممکن تھا۔ ایسا آج تک نہ ہوا تھا۔وه اسے چھوڑتا فریج کی طرف بڑھا پر اسے لاک دیکھتے اس کا دماغ گھوم گیا۔ وه سخت تیور لئے اس کا ہاتھ پکڑتا اسے دالان میں لے آیا۔

"رانی!۔۔۔رانی!"

اس کی دھاڑ پر رانی سوئی جاگی کیفیت میں هانپتی كانپتی وہاں حاضر ہوئی۔

"جج۔۔۔جی سردار جی!"

وه ہاتھ باندھ کر سر جھکا گئی۔

"فریج کو تالا کس نے لگایا۔"

اس کے کڑے تیور رانی کو ہولانے لگے۔

"بب۔۔بڑی ۔۔۔بڑی بیگم صاحبہ کے کہنے پر لگایا تھا سردار جی۔"

اس کے جواب پر اورهان آنکھیں زور سے میچتا اپنا غصہ قابو کرنے لگا۔

"ایک منٹ کے اندر اندر فریج کی چابی میرے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔"

اس کے حکم پر رانی چراغ کے جن کی طرف غائب ہو کر منٹ سے پہلے ہی حاضر ہو کر اسے چابی تهما گئی۔

"کمرے میں چلو تم۔"

اس کے کہنے پر وہ وہاں سے نکل آئ۔ کمرے میں آ کر وه منہ دھوتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اسے اورهان کا دھوپ چھاؤں سا رويہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دروازے کی سمت دیکھا جہاں سے وہ پتھریلے تاثرات چہرے پر سجائے ہاتھ میں ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس نے ٹرے لا کر صاحبہ کے سامنے رکھا اور خود باتھ روم میں چلا گیا۔

ٹرے میں تازہ روٹیاں گرم سالن سلاد کھیر بوتل اور پانی کا ایک گلاس دیکھ کر اس کی بھوک چمک گئی پر وه ویسے ہی بیٹھی رہی۔ وه نہا کر باتھ روم سے باہر نکلا تو کھانا جوں کا توں پڑا تھا اور خود وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر اونگھنے میں مصروف تھی۔ 

"کھانا کیوں نہیں کھا رہی تم؟" 

اس کی کڑک آواز پر وه ہڑبڑا کر ہوش میں آئ۔

"مجھے نہیں کھانا۔"

وه چپ چاپ اس کے انداز دیکھنے لگا۔ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ 

"مجھ سے اکیلے کھانا نہیں کھایا جاتا۔"

اس کی بات پر وہ ابرو اچکا گیا۔

"تو نیچے اکیلی کھڑی کس ہوائ مخلوق کے ساتھ مل کر دعوت اڑا رہی تھی جو اب اکیلے نہیں کھایا جاۓ گا"

صاحبہ نالاں نظروں سے اسے دیکھنے لگی پر مقابل کو جیسے پرواہ ہی نہ تھی۔ اس نے کھانے والا ٹرے اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور انکھوں پر بازو رکھ کر لیٹ گئی۔ اس کی ضد پر اورهان طیش میں اس کی طرف لپكا اور اسے بازو سے کھینچ کر بیٹھا دیا۔

"کیا مسلہ ہے اور یہ اتنے نخرے کسے دکھا رہی ہو۔ چپ کر کے کھانا ہے تو کھاؤ ورنہ آج کے بعد مجھ سے کسی اچھے کی امید مت رکھنا۔"

کہنے کے ساتھ ہی وہ اس کے پاس بیٹھتا کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا چکا تھا۔ وہ پھر بھی اسی طرح بیٹھی رہی تو اورهان نے ایک کڑی نظر اس پر ڈالی۔ وہ ہڑبڑا کر جلدی سے کھانا شروع کر دیا۔ پھر جب تک وہ کھاتی رہی اورهان بھی اس کا ساتھ دیتا رہا۔ کھانے کے برتن اٹھا کر سائیڈ پر رکھتی وہ بیڈ کی طرف آئ تو وہ آنکھوں پر بازو رکھ کر رخ موڑ کر لیٹ چکا تھا۔ وه بے دلی سے خود بھی اس کی طرف چہرہ کرتی سونے کی کوشش کرنے لگی اور جلد ہی نیند کی وادی میں اتر گئی کیوں کہ اس کے انگ انگ میں تھکاوٹ اتری ہوئی تھی۔

صبح اس کی آنکھ کسی کے جهنجھوڑنے سے اٹھی تھی۔ اس نے منہ بناتے ہوئے اپنی مندی ہوئی آنکھیں کھولیں تو مقابل کے تاثرات دیکھتے اس کی ساری نیند ایک پل میں ہی اڑن چھو ہوئی تھی۔ وہ ایک دم سے لیٹنے سے اٹھ کر بیٹھنے لگی تو اس کے بال سرہانے پڑے تارے موتی لگے دوپٹے سے اٹک گئے ۔ وہ کراہ کر رہ گئی جب کہ وہ اسے خونخوار نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ صاحبہ نے خشک پڑتے ہونٹوں کو زبان پهير کر تر کیا اور اپنے بال چھڑواتی اٹھ بیٹھی۔ 

"تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں۔ دس منٹ میں فریش ہو کر یہاں موجود ہو تم۔ سمجھ گئی میری بات؟"

اورهان کے پوچھنے پر وہ تیزی سے اثبات میں سر ہلانے لگی ۔ اسے پھر بھی ایک ہے جگہ پر ٹکے دیکھ کر وہ آنکھیں گھما کر اسے دیکھنے لگا تو وہ اسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرنے لگی۔ اس کا اشارہ سمجھ میں آتے وہ منہ بناتا ایک سائیڈ پر ہو گیا کیوں کہ وہ واقعی اس کے بلکل سامنے  کھڑا تھا۔ اس کی پیچھے ہوتے ہی وه دوپٹہ اٹھا کر کندھے پر ڈالتی بیڈ سے اٹھی اور ایک توبہ شکن انگڑائی لی۔ وہ جو چور نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اس کی حرکت پر ایک دم سٹپٹا گیا پر وہ لاپروا بنی اس کی سائیڈ سے گزرتی باتھ روم میں بند ہو گئی۔ اس کے جانے کے بعد وہ قمیض کے گریبان کا بٹن کھولتا گہری سانس خارج کر گیا اور سائیڈ ٹیبل کے دراز سے سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر پکڑتا لان کی جانب کھلنے والی کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔ سگریٹ سلگاتے ہوئے اس کی نظریں لائٹر سے نکلنے والے آگ کے شولے پر جمی تھیں۔سگریٹ سلگا کر وہ استہزائیہ انداز میں ہنس پڑا۔ اس کا دل بھی اس سگریٹ کی طرح سلگ رہا تھا اور صاحبہ کی اس کی زندگی میں دوبارہ موجودگی نے اس کے سینے میں جلتے آگ کے شولے کو بجھانے کی بجاۓ اور بھی بھڑکا دیا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے سر جھٹک کر سگریٹ کو بجھایا اور پلٹ کر اسے دیکھنے لگا جو ہلکا فیروزی رنگ کی سادی سی شلوار قمیض میں دوپٹہ سینے پر پھیلاۓ نکھری نکھری سے کھڑی تھی۔ وہ مضبوط قدم اس کی طرف اٹھاتا بلکل اس کے سامنے آ کھڑا ہوا اور ایک تفصیلی نظر اس کے بھیگے سراپے پر ڈالی ۔

"دوپٹہ سر پر اوڑھو!"

اس کی سنجیدہ آواز پر وه اس کے حکم کی تکمیل کرتی دوپٹہ سلیقے سے سر پر اوڑھ گئی۔ وہ مطمئن ہوتا بغیر ایک لفظ بھی مزید بولے اس کا بازو جکڑتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس کے چہرے پر سجے سرد تاثرات دیکھ کر صاحبہ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ اسے لئے سیڑھیاں اترتا دالان کی جانب بڑھنے لگا۔ صاحبہ اسے روکنا چاہتی تھی پر اس کی ہمت نہ ہوئی۔سامنے تخت پر بیٹھ کر تسبیح پڑھتی رخسار بیگم کو دیکھ کر صاحبہ کا سانس بند ہونے لگا۔ اورهان نے اسے لے جا کر دالان کے درمیان میں اس کا بازو چھوڑ دیا۔

"رانی! رانی!" 

اس کی تیز دھاڑ پر رخسار بیگم نے حیرت سے اسے اور اس کے ساتھ کھڑی صاحبہ کو دیکھا۔ تبھی اس کی دھاڑ پر هانپتی كانپتی رانی وہاں بھاگی آئی۔

"جج۔۔جی چھوٹے سردار آپ نے بلایا؟"

رخسار بیگم ببھی اپنی جگہ سے اٹھ چکی تھیں اور حویلی کے باقی افراد بھی وہاں جمع ہونے لگے۔

"میں صرف ایک دفع پوچھوں گا رانی بلکل سچ سچ جواب دینا۔ رات فریج کس نے لاک کی تھی؟"

اس کی سرد آواز پر رانی کا رنگ فق ہونے لگا۔

"وو۔۔وہ چھوٹے سردار ۔۔۔"

"میں نے کہا رانی مجھے بلکل سچ سننا ہے۔"

وہ اسے منہ کھولتا دیکھ کر اس کی بات کاٹتے اپنی بات پھر سے دہرا گیا۔شیفان خاموشی سے کھڑا سنجیدہ نظروں سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا تھا جب کہ زوہان اور ناز بیگم نے افسوس بھری نظروں سے رخسار بیگم کی طرف دیکھا۔ وہ جانتی تھیں یہ ان کے علاوہ اور کسی کی حرکت نہیں ہو سکتی۔

"میں نے حکم دیا تھا رانی کو ایسا کرنے کا۔ جو بھی بات کرنی ہے مجھ سے کرو۔"

ان کی بات پر جہاں رانی نے شکر کا سانس لیا وہیں اورهان مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔

"میں نے کہا بھی تھا ماں کہ کہ یہ لڑکی میرے نام سے جڑ کر یہاں آئی ہے تو اس کے متعلق ہر فیصلے کا اختیار بھی مجھے ہی ہے۔ جو بھی ہوا یہ جس طرح بھی میری زندگی اور اس حویلی میں شامل ہوئی پر یہ مرزا اورهان بلوچ کی عزت ہے اور میں اپنی عزت خراب کرنے والے کسی شخص کو معاف نہیں کروں گا۔ اور رانی مجھے امید ہے کہ تمہیں اپنی چوٹی بہت عزیز ہوگی اس لئے آئیندہ سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا۔"

اس کی بات پر رانی جھرجھری لے کر رہ گئی اور اپنی چوٹی کو بے ساختہ مزید دوپٹے میں چھپا گئی۔ رخسار بیگم بہت کچھ کہنا چاہتی تھیں پر اورهان کے سخت تیور دیکھ کر لب بھینچتی اپنے کمرے کی طرف مڑ گئیں۔ اس لڑکی سے تو بعد میں نمٹوں گی۔ ہنہ! 

اورهان صاحبہ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا کمرے کی طرف بڑھا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہی قدم بڑھا گئی۔  وہ کمرے میں آ کر چادر اتار کر سوفے پر پهينكتا خود الماری کی طرف بڑھ گیا۔ صاحبہ اسے دیکھتی انگلیاں مڑوڑتی رہی پھر ہمت کر کے اس کی طرف بڑھ کر اپنا كانپتا ہوا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ گئی۔

"سردار!"

اس بےوفا کی كانپتی آواز میں پکار سن کر اورهان کا ضبط جواب دے گیا۔ وہ اسے اسی ہاتھ سے کھینچ کر اپنے سامنے کرتا اسکی پشت الماری سے لگا گیا جب کہ وہ اس کے جارحانہ قدم پر سختی سے آنکھیں بند کر گئی۔

"کہا تھا نا مجھے متوجه کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔ کہا تھا نا؟  پھر تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے پکارنے کی۔ تم کسی دھوکے باز لڑکی۔۔۔" 

وہ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کے منہ پر ہاتھ جما گئی۔ وہ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا جو نم آنکھیں لئے مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ اس کی بھیگی ہری آنکھیں دیکھتا وہ خود پر ضبط کے پہرے بٹھانے لگا ورنہ دل ان ہرے آبگینوں کو ہونٹوں سے چھونے کے لئے مچل رہا تھا۔ 

"میں نے کوئی دھوکہ نہیں دیا آپ کو نہ ہی میں بےوفا ہوں۔ وہ سب صرف ایک غلط فہمی۔۔۔"

وہ اس کے ہونٹوں پر شدت سے جھکتا سارے الفاظ خود میں سمیٹ گیا وہ اس کا کالر مضبوطی سے دونوں ہاتھوں میں تھام گئی۔ لمحے مزید آگے سرکے تو وہ اس کی شدت سے بے حال ہونے لگی پر اسے خود سے دور کر کے اس کی غلط فہمی اور ناراضگی کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتی تھی تبھی چپ چاپ اس کا لمس محسوس کرتی رہی۔ اس کی تنگ ہوتی سانسوں کو محسوس کرتے وہ تھوڑا پیچھے ہٹا اور اپنا چہرہ اس کے چہرے کے بلکل قریب کر گیا۔ اتنا قریب کے اس کا ناک صاحبہ کے سرخ پڑتے ناک سے ٹکرانے لگا۔ صاحبہ اپنی اتهل پتهل ہوتی سانسوں کے ساتھ اس کی قمیض کا کالر تھامے کھڑی تھی۔اس سے پہلے کہ کوئی اور خوبصورت لمحہ ان دونوں کے درمیان آ ٹھہرتا اورهان کے موبائل پر آتی کال نے دونوں کو ہوش دلایا۔ اورهان آہستگی سے اس سے دور ہٹا تو وہ بھی اس کا کالر چھوڑ کر اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی۔ اورهان موبائل کان سے لگاتا بغیر اس کی طرف مڑ کر دیکھے کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد صاحبہ بیڈ کی طرف بڑھی اور لیٹ کر مسکراتی ہوئی کچھ دیر پہلے کا منظر یاد کرتی آنکھیں موند گئی۔

***********

وہ کچن کی طرف جا رہی تھی جب ناز بیگم نے اسے آواز دی۔

"زوہان! بیٹا رشیدہ نے مشین لگائی ہوئی ہے کپڑے دھو رہی ہی وه تم ایک کام کرو شیفان کے کمرے سے اس کے دھونے والے کپڑے لے لا کر رشیدہ کو دے دو کیوں کہ بیٹا اتنی سیڑھیاں چڑھ کر میرے گھٹنوں میں درد بڑھے گا اور تم جانتی ہو شیفان کتنا غصہ کرتا ہے اگر کوئی ملازم اس کے کمرے میں جاۓ۔"

ان کے کہنے پر وہ سر ہلا گئی۔

جی چھوٹی امی میں ابھی جاتی ہوں۔"

کہتے وہ سیڑھياں چڑھتی شیفان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ دروازہ کھولتے ہی مخصوص خوشبو نے اسے اپنے حصار میں لیا تو وہ آنکھیں موند کر اس دلفریب خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگی۔ آنکھیں کھولتے اس نے سرد سانس خارج کی اور کپڑے پکڑنے  ڈریسنگ روم کی طرف بڑھنے لگی جب اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے شیفان کے والٹ پر پر پڑی۔ اس نے ایک چور نظر کمرے کے بند دروازے پر ڈالی اور آگے بڑھ کر کانپتے ہاتھوں سے والٹ اٹھا لیا۔ ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرتے اس نے والٹ کھولا تو اس میں سے ایک تصویر نکل کر اس کے قدموں میں آ گری۔ اس نے نیچے بیٹھ کر وہ تصویر اٹھا کر اس کا رخ سیدھا کیا۔ تصویر پر نظر پڑتے ہی اسے لگا جیسے پہاڑ اس کے سر پر ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ سنہری بالوں والی ہنستی مسکراتی انتہائی خوبصورت لڑکی کی تصویر تھی۔ اس تصویر کے شیفان کے والٹ میں ہونے کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ وہ لڑکی شیفان کے دل میں بستی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی جو وہ پاکستان آنے سے کتراتا تھا۔ زوہان کو پتا بھی نہ چلا اور اس کی آنکھوں سے آنسو پھسلتے ہوئے عارضوں پر گرنے لگے۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ ہوش میں آتی جلدی سے والٹ اور تصویر بیڈ کے نیچے پهينك گئی۔ شیفان کمرے میں داخل ہوا تو اس کی سب سے پہلی نظر زمین پر بیٹھ کر آنسو بہاتی زوہان پر پڑی۔ وہ تیزی سے اس کی طرف لپكا۔

"کیٹی! کیا ہوا اس طرح نیچے کیوں بیٹھی ہو اور رو کیوں رہی ہو؟"

اس کے پوچھنے پر وہ خاموش نظروں سے اس کی طرف دیکھتی گئی۔ شیفان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھا گیا اور سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر اس کے ہونٹوں سے لگا گیا۔

"اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟" 

جب وہ پانی پی چکی تو وہ گلاس سائیڈ پر رکھتا اپنے ہاتھ سے اس کے آنسو پونچھتا اپنا سوال دہرانے لگا۔

"کک۔۔کچھ نہیں لالہ  وہ ۔۔وہ میں آپ کے گندے کپڑے لینے آئی تھی پر ایک دم چکر آ گیا اور میں نیچے گر گئی بس۔"

اس کے کہنے پر وہ فکرمندی سے اسے دیکھنے لگا کہ کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔ 

"میں چلتی ہوں اب۔"

جب دل میں بڑھتی تکلیف پر قابو پانا مشکل ہونے لگا تو وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ابھی وہ چار قدم آگے بڑھی تھی جب سر میں اٹھنے والی ٹیس پر بے ساختہ لڑکھڑائی. وہ تیزی سے اسے اپنی باہوں میں سمیٹ گیا۔وہ بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی جہاں وہ اس کا چہرہ تهپتهپا رہا تھا۔ اس کے حصار میں کھڑے اس کا لمس محسوس کرتی وہ مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کر کے اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔ بھلا اس سے زیادہ کی خواہش ہی کہاں تھی اسے۔اسے ہوش سے غافل ہوتے دیکھ کر وہ اسے لئے تیزی ہسپتال کی طرف روانہ ہوا۔

وہ بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی جہاں وہ اس کا چہرہ تهپتهپا رہا تھا۔ اس کے حصار میں کھڑے اس کا لمس محسوس کرتی وہ مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کر کے اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔ بھلا اس سے زیادہ کی خواہش ہی کہاں تھی اسے۔اسے ہوش سے غافل ہوتے دیکھ کر وہ اسے لئے تیزی ہسپتال کی طرف روانہ ہونے لگا۔

"یا اللّه کیا ہو گیا میری بچی کو اسے کہاں لے کر جا رہے ہو شیفان؟؟؟"

رخسار بیگم نے اسے زوہان کو بازوؤں میں اٹھائے تیزی سے باہر لے جاتے دیکھا تو اس کے پیچھے لپكی۔

"بیہوش ہو گئی ہے یہ بڑی ماما ہسپتال لے کر جا رہا ہوں۔"

ایک پل کو رک کر کہتا وہ اگلے ہی پل تیزی سے پورٹیکو کی طرف بڑھ گیا۔

ان کی آوازیں سن کر فریحہ بیگم بھی باہر نکل آئی تھیں۔

"رکو بیٹا میں بھی چلوں گی ساتھ کیا ہو گیا میری ہنستی کھیلتی بچی کو !!!"

وہ روتے ہوئے اس کے پیچھے بڑھنے لگی تو فریحہ بیگم انہیں تھام گئیں۔

"حوصلہ رکھیں بھابھی شیفان لے کر گیا ہے نا اسے اللّه خیر کرے گا آپ آئیں میرے ساتھ یہاں بیٹھیں۔"

فریحہ بیگم انہیں بازو سے پکڑ کر صوفے کے قریب لائیں اور انہیں بیٹھا کر ملازمہ کو پانی لانے کا کہنے لگیں۔

"کس کی نظر لگ گئی میرے ہنستے کھیلتے گھر کو ۔ پہلے میرا افگن اور اب میری بچی!!!!"

رخسار بیگم مسلسل روتی چلی جا رہی تھیں۔ افگن کا غم پھر سے ہرا ہو گیا تھا۔

صاحبہ ابھی چینج کر کے نکلی تھی جب اس کے کانوں سے رخسار بیگم کے رونے کی آواز ٹکرائی۔ پہلے تو وہ چپ چاپ کھڑی رہی پر جب مزید صبر نہ ہو سکا تو کمرے سے نکلتی ان کی طرف بڑھ گئی۔

"كک۔۔۔کیا ہوا سب ٹھیک ۔۔۔۔ٹھیک تو ہے!!!!"

وہ ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگی جب رخسار نے خوںخوار نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

"اس سے کہو فریحہ میری نظروں کے سامنے سے ہٹ جاۓ۔ یہ بہت منحوس لڑکی ہے۔ پہلے اس کی وجہ سے میرا افگن چلا گیا اور اب یہ اس گھر میں آئی ہے تو اس کا سایہ پڑتے ہی میری بیٹی ہسپتال پہنچ گئی۔ اسے کہو چلی جاۓ یہاں سے۔"

وہ ہزیانی ہو کر چیخنے لگی تو صاحبہ خود ہی وہاں سے ہٹ گئی جب کہ فریحہ انہیں سمبھالنے لگی۔

"یہ لیں پانی پیئیں پلیز !!!"

کچھ سیکنڈز کے بعد ہی وہ پانی کا گلاس پکڑے ان کے سامنے کھڑی تھی۔

"میں نے کہا نا دفع ہو جاؤ یہاں سے پھر کیوں اثر نہیں ہو رہا تمہیں۔"

ان کی آواز میں بے پناہ سختی تھی۔

"آپ پلیز یہ پانی پی لیں پھر میں چلی  جاؤں گی اور اللّه کے رزق سے کسی ناراضگی۔ رزق سے منہ موڑیں تو اللّه ناراض ہوتا ہے۔ پی لیں پلیز !!!"

فریحہ نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑا اور رخسار کے منہ سے لگایا جو چپ چاپ دو تین گھونٹ بھر کر گلاس پیچھے کر گئیں۔

صاحبہ چپ چاپ وہاں سے پیچھے ہٹتی اپنے کمرے کی طرف گئی ۔

@@@@@

وہ تھکا ہارا کمرے میں داخل ہوا تو خالی کمرہ سائیں سائیں کر رہا تھا۔اس نے گلے میں پڑی چادر نکال کر صوفے پر پهينكی اور بیڈ کی طرف بڑھتا بیڈ کی پشت سے سر ٹکا کر نیم دراز ہو گیا۔

شیفان کے کال کرنے پر وہ ہسپتال چلا گیا تھا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بلڈ پریشر لو ہونے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ جیسے ہی ڈرپ ختم ہوئی وہ اسے گھر لے آئے۔

اسے اس کے کمرے میں چھوڑ کر اس سے کچھ باتیں کرنے کے بعد وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا کیوں کہ مسلسل بھاگ دوڑ سے اس کا سر شدید کر رہا تھا اب۔

ابھی اس نے آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ اس کے کانوں سے باتھ روم کا دروازہ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز ٹکرائی۔ 

وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کمرے میں اس کے علاوہ اور کون موجود ہو سکتا ہے اس لئے چپ چاپ آنکھیں بند کیے پڑا رہا۔

اپنے آپ میں مگن صاحبہ جیسے ہی باتھ روم سے نہا کر  نکلی تو اس کی نظر سیدھی بیڈ پر نیم دراز وجود سے جا ٹکرائی۔

اس پر ایک چور نظر ڈال کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور ہیئر برش پکڑ کر بال سیدھے کرنے لگی۔

اس کام سے فارغ ہو کر گلے میں پڑا دوپٹہ سر پر اوڑھا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی بیڈ کی طرف بڑھ گئی۔ اس کی سرہانے کھڑی ہو کر سوچنے لگی آیا اسے پکارے یا نہ !!!

"سنیں !!!!"

بہت ہمّت کر کے وہ اسے پکار بیٹھی پر جواب ندارد۔

"سنیں سردار !!!"

اب کی دفعہ اس کی پکار پر اورهان نے دھیرے سے آنکھیں کھولتے اپنی بھوری آنکھیں اس کی ہری آنکھوں میں گاڑھ دیں۔ اس کی لال انگارہ ہوتی آنکھیں دیکھ کر صاحبہ سٹپٹا گئی جب کہ اسے گھور کر وہ پھر سے آنکھیں بند کرتا دو انگلیوں سے اپنی پیشانی سہلانے لگا۔

اسے یوں کرتے دیکھ کر صاحبہ کی پیشانی پر تفكر کا جال بچھ گیا۔ صاف ظاہر تھا کہ اورهان کے سر میں درد تھا اور وہ اچھے سے جانتی تھی اس کا سر درد کتنا شدید ہوتا تھا۔

کچھ سوچنے کے بعد وہ دوپٹہ ایک دفعہ پھر سے سہی کرتی کمرے سے نکل گئی۔

دس منٹ بعد وہ کمرے میں واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھا جس میں چائے کا کپ پانی کا گلاس اور پین کلر موجود تھی۔

ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا گئی۔

جیسے ہی اس کے نازک سے ہاتھ نے اورهان کی پیشانی کو چھوا وہ پٹ سے آنکھیں وا کر گیا۔ صاحبہ ہڑبڑا کر تیزی سے اپنا ہاتھ کھینچ گئی۔

"یہ۔۔۔یہ پین کلر اور چائے لے لیں سر درد ٹھیک ہو جاۓ گا۔"

وہ اس کی کسی بھی بات پر ردعمل ظاہر کیے بغیر چپ چاپ آنکھیں موندے پڑا رہا۔

صاحبہ نے حلق تر کیا اور بہت آہستگی سے بیڈ کی دوسری طرف جا کر بیٹھ گئی۔

"ڈرو مت صاحبہ تم یہ کر سکتی ہو !!!"

اس نے آنکھیں بند کر کے خود کو تسلی دی اور اس کی طرف كهسك گئی۔

وہ اورهان کے اس قدر نزدیک بیٹھی تھی کہ اس کے جسم سے اٹھتی باڈی لوشن کی خوشبو اورهان کے ناک کے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔

صاحبہ نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا اور دبانے لگی۔ اورهان نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ وہ پھر سے اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر جما گئی۔ اورهان کی پیشانی پر بلوں کا اضافہ ہو گیا۔وہ اس کی کلائی پکڑ کر اس کا ہاتھ پیچھے کرنے لگا جب وہ ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑواتی اس کا سر دبانے لگی۔

وہ اس کے نزدیک تر آ چکی تھی۔ اس کی اس قدر قربت کا اورهان کا دل پسلیوں سے ٹکرانے لگا پر وہ ضبط کیے پڑا رہا۔

اب کی دفعہ ہاتھ نہ ہٹائے کیوں کہ جانتا تھا وہ باز نہیں آنے والی۔

"پریشان ہیں ؟؟؟"

اس کے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلاتے میٹھے لہجے میں پوچھا۔

"ہاں بہت !!!"

فٹ سے جواب آیا جس پر صاحبہ حیران رہ گئی۔

"پریشانی کی وجہ کیا ہے ؟؟؟"

دل میں خوش ہوتے بہت پیار سے استفسار کیا۔

"تم !!!"

یک لفظی جواب صاحبہ کا چہرہ تاریک کر گیا۔ ہاتھوں کی حرکت ایک دم تھم گئی۔

وہ جو اپنے بالوں میں اس کی انگلیوں کا رک جانا محسوس کر چکا تھا پانی کا ایک قطرہ اس کی پلکوں پر گرا تو وہ جھٹ سے آنکھیں کھول گیا۔

نظریں سیدھا نم سبز نگینوں سے جا الجھیں۔ لاکھ نفرت کے باوجود آج بھی اس کی بھیگی آنکھیں اورهان بلوچ کے سینے پر کاری وار کر گئی تھیں۔

وہ اپنے سر پر موجود اس کے ہاتھ کی کلائی تھام کر جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچ گیا۔

ایک دم ملنے والے جھٹکے سے صاحبہ سنبھل نہ سکی اور اس کے سینے پر آن گری۔

"ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری !!! ایسے آنسو بہا کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو کہ بہت مظلوم ہو تم اور بہت ظالم ہوں میں۔ کیا بات ہے بھئی تم دھوکہ دے کر بھی مظلوم ٹھہری اور میں دھوکہ کھا کر بھی ظالم !!!"

اس کے لہجے کی سختی اور الفاظ کی کاٹ صاحبہ کا کلیجہ چھلنی کرنے لگی۔وہ روتے ہوئے مسلسل نفی میں سر ہلانے لگی۔

اورهان نے بے چین ہو کر اس کی برستی آنکھوں کو دیکھا۔ ہری آنکھیں لال ہو کر اور بھی قیامت خیز لگ رہی تھیں پر ان سے برستے آنسو مرزا اورهان کو بے چین کرنے کے لئے کافی تھے۔

"سس۔۔۔سردار ۔۔۔۔"

اس سے پہلے کے وہ اپنا جملہ مکمل کر پاتی اورهان اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے ایک جھٹکے سے اپنے ساتھ لگا گیا۔صاحبہ تیزی سے اس کے سینے پر دونوں ہاتھ جماتی اپنے اور اس کی چہرے کے درمیان چند انچ کا فاصلہ قائم کر گئی۔

"کہا تھا نا ۔۔۔کہا تھا نا کہ اس نام سے مت پکارنا آج کے بعد۔ تمہاری زبان سے ادا ہوا یہ نام میرے ہر زخم کو تازہ کر دیتا ہے۔ یہ لفظ مجھے خود پر هنستا ہوا محسوس ہوتا ہے جیسے میری بے بسی کا مذاق اڑا رہا ہو!!!"

وہ اس کی گردن کے پیچھے ہاتھ ڈالتا اس کے چہرہ اپنے قریب تر کر گیا کہ اس کے بولتے لب صاحبہ کے كپكپاتے ہوئے لبوں سے ٹکرانے لگے۔

خود پر قابو پاتے وہ اسے پیچھے ہٹانے لگا تو وہ اس کی کوشش ناکام بناتی اس کے سینے میں منہ چھپاتی ہچکیوں سے رو دی۔

اس کی حرکت پر اورهان لب بھینچ کر رہ گیا۔ اسے پیچھے ہٹانا چاہا پر وہ اس بات پر آمادہ نہ تھی۔

تھوڑی ہی دیر میں ہچکیاں سسكیوں میں بدلی اور پھر گہرا سکوت چھا گیا۔ اورهان نے سر جھکا کر دیکھا تو وہ گہری نیند میں جا چکی تھی۔

وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔ اچھی طرح جانتا تھا اس کی نیند کس قدر پکی تھی۔ اس نے دھیرے سے اس کی مٹھیوں سے اپنی قمیض چھڑوائی اور اسے بیڈ پر لٹاتا سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ کی ڈبی پکڑ کر ٹیرس کی طرف بڑھ گیا کیوں کہ کمرے کا ماحول اس کے لئے بہت گھٹن ذدہ ہو گیا تھا۔

@@@@@

وہ سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی۔سیاہ بال کندھوں پر بکھرے تھے. ایک ہاتھ پر کینولا لگا ہوا تھا۔ سیاہ آنکھیں سوجھ رہی تھیں۔

دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھلا پھر کسی نے اسے پکارا۔

"زونی کیا تم یہاں ہو؟؟"

رومیصہ کی پکار پر زوہان ایک دم اٹھی اور ہاتھ بڑھا کر بتیاں چلا دیں تو تاریک کمرہ جگمگا اٹھا۔

"آ جاؤ !!!"۔

وہ رومیصہ کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ بیڈ کی طرف لے آئی۔

"تم ۔۔۔تم روئی ہو نا ؟؟"

رومی کی آواز میں چھپی فکر محسوس کرتی وہ بے ساختہ مسکرا دی۔

"بھلا تم جیسی پیاری بہن کے ہوتے میں کیوں روؤں گی ؟؟"

وہ اسے تسلی دینے لگی پر رومیصہ کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ مطمئن نہیں ہوئی۔

"رومی ایک بات پوچھوں ؟؟"

اس کے سوال میں موجود جھجھک پر رومیصہ الجھی ضرور پر اثبات میں سر ہلا گئی۔

"اگر ہمیں کسی سے محبت ہو جاۓ پر اس انسان کو کسی اور سے محبت ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟؟؟"

اس کے سوال پر رومی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

"مم۔۔۔مطلب ؟؟؟"

وہ اس کے سوال پر بے یقین سی تھی۔ اسے لگا اس نے کچھ غلط سن لیا ہے۔

"یہی کہ ہم جس انسان سے پیار کرتے ہیں وہ کسی اور کو چاہتا ہے پر ہم چاہنے کے باوجود اس سے دست بردار نہیں ہو سکتے تو ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟"

اس کے لہجے میں چھپی بے چینی رومی کو گنگ کر گئی۔

"كك۔۔۔کون ہے وہ ؟؟؟"

اس کے سوال پر وہ بے ساختہ نظریں چرانے لگی۔

"خاموش کیوں ہو زونی بتاؤ نا !!!!"

زوہان گہری سانس بھر کر رہ گئی۔ وہ یہ راز مزید اپنے سینے میں چھپا کر نہیں رکھ سکتی تھی۔

"شیفان لالا !!!!"

اس کے منہ سے سرگوشی کی صورت ادا ہوا نام رومی کے سر پر پہاڑ بن کر ٹوٹا تھا اور پہاڑ تو دروازے کے باہر کھڑے شخص کے سر پر بھی ٹوٹا تھا۔

"شیفان لالا !!!!"

اس کے منہ سے سرگوشی کی صورت ادا ہوا نام رومی کے سر پر پہاڑ بن کر ٹوٹا تھا اور پہاڑ تو دروازے کے باہر کھڑے شخص کے سر پر بھی ٹوٹا تھا۔

"تم۔۔۔تم ہوش میں تو ہو زونی؟؟؟ یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔تم لالا کے متعلق ایسے کیسے ۔۔۔۔"

شاک کے مارے رومیصہ کے الفاظ ہی جیسے گم ہو گئے تھے۔

"یہی سچ ہے رومی !!! میں ان سے بے تحاشہ محبت کرتی ہوں اور آج جب انھیں کسی اور کے ساتھ تصور کیا تو مانو جیسے میری سانسیں ہی رک گئیں!!! میری سانسوں کی روانی کے لئے شیفان بلوچ کی موجودگی بلکل اسی طرح ضروری ہے جس طرح مرتے ہوئے انسان کے لئے سانسیں !!!!"

وہ ایک جزب سے بولتی رومیصہ کو حق دق چھوڑ گئی۔

"تم سیریس ہو ؟؟"

نہ جانے کس خدشے کے تحت وہ دوبارہ پوچھ بیٹھی۔

"تمہیں میں مذاق کے موڈ میں لگ رہی ہوں ؟؟؟"

الٹا اس کے سوال پر رومی نفی میں سر ہلا گئی۔ وہ جانتی تھی زوہان ایسا بھونڈہ مذاق کر ہے نہیں سکتی۔

رومی ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے اپنے کان سائیں سائیں ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔

"تم اپنا خیال رکھو اور پلیز ایک دفعہ پھر سے سوچ لو۔ مجھے تم دونوں بہت عزیز ہو اور میں یہ بھی اچھے سے جانتی ہوں کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ باقی اللّه خیر کرے۔ چلتی ہوں اب !!!"

وہ اسے آخری دفعہ سمجهاتی وہاں سے چل دی تو کمرے کے باہر کھڑا وجود بھی ہوش میں آتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

@@@@@

"سنیں لالا !!!!"

اورهان موبائل کان سے لگائے مقابل سے گفتگو کرتا تیزی سے سیڑھیاں اترتا باہر کی طرف بڑھنے لگا جب لاؤنج میں بیٹھی رومی اسے آواز لگا گئی۔

"جی بیٹا بولیں !!!"

وہ کال بند کرتا اس کے قریب آ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتا شفقت سے پوچھنے لگا۔

"ہمیں کچھ ضروری چیزیں خریدنے شہر جانا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم چلے جائیں شہر ؟؟"

وہ انگلیاں مڑوڑتی ہوئی بولی تو اورهان اسے دیکھتے دھیرے سے مسکرا دیا۔

"ہاں ضرور چلی جائیں بیٹا اور ساتھ زوہان کو لے جائیں۔میں ڈرائیور کو کہہ دیتا ہوں لے جاۓ گا آپ دونوں کو ۔"

اورهان کی بات سنتے رومیصہ کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔

"نہیں لالا زونی نے منع کر دیا جانے سے اسے اپنے ٹیسٹ کی تیاری کرنی ہے۔ ہم سکینہ کو ساتھ لے جائیں گے۔"

اس کی بات پر اورهان سر ہلا گیا جب اس کی موبائل پر پھر سے کوئی کال آنے لگی۔

"اوکے آپ دونوں چلی جانا ڈرائیور کے ساتھ اور کوئی بھی مسلہ ہو مجھے کال کر دینا اب چلتا ہوں کیوں کہ مجھے بھی ضروری کام سے کہیں پہنچنا ہے۔ دھیان سے جانا اور اپنا خیال رکھنا۔"

نرمی سے ہدایت کرتا وہ جھک کر کے ماتھے پر بوسہ دیتا باہر کی طرف بڑھ گیا جب کہ رومی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

اسے اورهان سے اپنے افگن کی خوشبو آتی تھی۔ وہ جب اس پاس ہوتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے اس کا افگن اس کے قریب موجود ہے۔

اس نے ایک گہری سانس بھرتے اپنی گیلی آنکھیں دوپٹے کے پلو سے صاف کیں اور تیار ہونے کی خاطر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

@@@@@

"رومی تم جا رہی ہو شہر ؟؟"

زوہان رومیصہ کے کمرے میں آئی تو اسے چادر اوڑھے تیار کھڑی دیکھ کر بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔

"ہاں!!!"

یک لفظی جواب دے کر وہ بیڈ پر رکھا بیگ اٹھانے لگی۔

"کس کے ساتھ ؟؟"

زوہان پوچھتی اس کے نزدیک آ گئی۔

"سکینہ اور ڈرائیور کے ساتھ !!!"

وہ بیگ کندھے پر ڈال کر اپنی چادر سہی کرنے لگی۔

"تم مجھ سے ناراض ہو ؟؟؟ پلیز یار ایسی شکل تو مت بناؤ !!!!"۔

وہ رومی کے پیچھے آتی اسے پیچھے سے گلے لگا گئی۔

"میں کیوں تم سے ناراض ہونے لگی تم جا کر شیفان لالا کے نام کا سوگ مناؤ !!!"۔

خفگی سے کہتی وہ اسے پیچھے کر گئی۔

"تم نہیں جانتی رومی میں نے شیفان لالا سے کس قدر شدید محبت کی ہے۔ ان کی دوری کا خیال میرے گلے کا پھندا بن جاتا ہے ۔ میں انھیں ہمیشہ اپنے سامنے صرف اپنا دیکھنا چاہتی ہوں۔ "

دل گرفتی سے کہتی وہ بیڈ پر بیٹھی جب ایک دم زور دار آواز کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھلا۔

زوہان نے سخت تیور لئے جیسے ہے دروازے کی طرف دیکھا تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔

سرخ آنکھیں اور غضبناک تیور لئے شیفان دروازے میں کھڑا اسے ہی گھور رہا تھا۔ زوہان کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہو گئی۔

"شیفان لالا !!!!"

اس کے منہ سے سرسراتی ہوئی آواز میں یہ دو لفظ ادا ہوئے تھے۔آنکھیں بے یقینی سے پهيلی ہوئی تھیں جب کے دل نے جیسے دھڑکنے سے انکار کر دیا تھا۔

وہ جارحانہ تیور لئے اس کی طرف لپكا اور اسے بازو سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنے مقابل کھڑا کر گیا۔

"آہ!!!!"

وو تکلیف محسوس کرتی چیخ اٹھی۔شیفان کی سخت انگلیاں اسے اپنے بازو میں دهنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

"چھوڑیں لا۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرتی وہ چیخ اٹھا۔

"بکواس بند کرو اپنی اور خبردار اگر مجھے اس نام سے پکارا اب دوگلی عورت !!!"

پاس کھڑی رومی خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اسے دیکھتے شیفان نے لب بھینچے اور زوہان کو اپنے ساتھ لے جانے لگا۔

"چھ۔۔۔چھوڑیں مجھے !!!!"۔

وہ بے بسی سے چیخی پر وہ اس کی کسی بھی بات پر کان دھرے بغیر اسے کھینچتا ہوا اپنے کمرے میں لے جانے لگا۔

وہ مسلسل اس کی سخت گرفت سے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی پر ایسا ممکن کہاں تھا کہ وه نازک سی جان اس پہاڑ نما وجود سے چھٹکارا حاصل کر پاتی۔ وہ اسے گھسیٹتا ہوا اپنے کمرے میں لے جا کر دروازے کے ساتھ اسے لگا کر دروازہ بند کر گیا جب کہ وہ خوفزدہ آنکھوں سے اس کی یہ حرکت دیکھنے لگی۔وہ اس کے اطراف میں دونوں ہاتھ ٹکاۓ اس کے چہرے پر جھک گیا تو وه سرعت سے منہ موڑ گئی۔

"یہ کک۔۔۔کیا کر رہے ہیں آپ؟ پیچھے ہٹیں پلیز۔"

اس کے اس جملے پر وه سرخ آنکھوں سے اسے گھورنے لگا۔

"کیوں برا لگ رہا ہے کیا؟ پر یہی تو چاہتی تھی نا تم؟ پھر اب یہ نخرے کیسے؟" 

اس کی بات پر وه ہتک کے احساس سے نم آنکھیں میچ گئی ۔

"پلیز لالہ مجھے میری ہی نظروں میں مت گرائیں. میں تو صرف۔۔۔"

اس سے پہلے کہ اس کا جملہ پورا ہوتا وہ دائیں  ہاتھ کا مکا بنا کر زور سے دیوار پر مار گیا۔ اس کی حرکت پر وہ بے ساختہ چیخ پڑی۔ آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح گالوں سے بہتے ٹھوڑی پر  گرتے جا رہے تھے ۔وہ اس کے جھوٹے آنسو دیکھ کر غضبناک ہوتا اس کا منہ دبوچ گیا۔

"آہ !"

 اس کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔

"یہ اپنی معصومیت کا ناٹک بند کر دو اب۔ کس قدر دوغلی اور مکار ہو تم۔ ایک طرف میری محبت میں آہیں بھرتی ہو اور دوسری طرف میرے ہی منہ پر مجھے لالہ بول رہی ہو۔ شکل سے معصوم دکھنے والے اس قدر عیار اور مکار ہو سکتے ہیں میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔"

وہ بغیر اپنی صفائی میں ایک بھی لفظ بولے چپ چاپ آنسو بہاتی جا رہی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ایک دم اس کے کان کے نزدیک جھک گیا۔ اس قدر نزدیک کہ اس کے لب مقابل کے کانوں سے مس ہونے لگے  تو وه كپكپا اٹھی ۔

"بہت شوق ہے نا تمہیں میری دلہن بننے کا تو تیار ہو جاؤ بہت جلد اسی کمرے میں اسی حق سے آؤ گی تم اور پھر شروع ہو گا اصلی کھیل۔"

جہاں اس کے ہلتے ہونٹ کانوں سے مس ہوتے اسے امتحان میں ڈال رہے تھے وہیں اس کے الفاظ تیز دھار چھری کی ماند اس کا کلیجہ چھلنی کر رہے تھے۔

"یہ۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ لالا ؟؟؟"

وہ بے یقینی سے اسے دیکھتی سوال کرنے لگی۔

"پہلی بات خبردار اگر آج کے بعد تمہاری زبان سے میرے لئے لالا نکلا۔ کم از کم اپنے کسی ایک جذبے میں تو کھری ٹھہرو۔ پیٹھ پیچھے سیاں اور منہ پر بھیا ۔۔۔واہ بی بی واہ !!!!"

زوہان کو لگا جیسے وہ اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل رہا ہے۔ وہ آنکھیں بند کرتی روتے ہوئے مسلسل نفی میں سر ہلانے لگی۔

"اپنا ڈرامہ بند کرو اور غور سے میری بات سنو۔ دوسری بات یہ کہ بہت شوق ہے نا تمہیں مجھے اپنا بنا کر رکھنے کا ۔۔۔۔تمہیں میں پورے کا پورا مل کر بھی زرہ بھر بھی نہیں ملوں گا۔ تم میرے قریب رہ کر بھی قرب کو ترستی رہ جاؤ گی ساری زندگی !!!!"

وہ اس وقت ظالم بنا زوہان کی سانسیں تنگ کر رہا تھا۔ اسے یقین ہی نہ ہو رہا تھا کہ یہ وہی شیفان ہے جسے وہ بچپن سے دیکھتی آ رہی ہے۔

"نکل جاؤ یہاں سے اب بہت جلد ملاقات ہو گی تمہاری مجھ سے پر شیفان کے طور پر نہیں بلکہ تمہاری زندگی عذاب بنانے والے جابر اور ظالم شوہر کے طور پر۔ ناؤ گیٹ لوسٹ !!!'۔

حقارت سے کہتا وہ اسے ایک جھٹکے سے چھوڑ گیا تو زوہان مرده قدم اٹھاتی وہاں سے نکل آئی ۔

"تم نے اچھا نہیں کیا زوہان بلکل بھی اچھا نہیں کیا۔"

اس کے جانے کے بعد وہ سر دونوں ہاتھوں میں گراتا وہیں زمین پر بیٹھتا اپنی سرخ آنکھیں سختی سے میچ گیا۔

سکینہ اور ڈرائیور کو ساتھ لے کر وہ گھر سے شہر جانے کے لیے نکل پڑی۔

گاڑی کی پچھلی سیٹ سے ٹیک لگائے وہ آنکھیں بند کیے اپنی سوچوں میں گم تھی جب ایک دم جھٹکے سے گاڑی رک گئی۔ وہ ہڑبڑا کر سیدھی کو بیٹھی۔

"کیا ہوا چچا سب ٹھیک تو ہے نا؟؟؟"

اس نے گھبرا کر آگے موجود ڈرائیور چچا سے پوچھا۔

"مین دیکھتا ہوں بی بی جی!!!"

ڈرائیور کہہ کر جیسے ہی گاڑی سے نکلا  دو ہٹے کٹے آدمیوں نے تیزی سے اپنی گرفت میں لے لیا۔

"کون لوگ ہو تم چھوڑو مجھے میں۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ بوڑھا ڈرائیور اپنی بات مکمل کر پاتا دائیں جانب موجود آدمی نے ہاتھ میں پکڑی بندوق کی نال اس کی کنپٹی لر ماری تو وہ ہوش کھوتا چلا گیا۔ بائیں جانب موجود آدمی نے جلدی سے اسے سنبھال کر وہیں سڑک پر لٹا دیا۔ 

دوپہر کے اس وقت گاؤں سے شہر کی طرف جانے والی سڑک بالکل سنسان پڑی تھی جس کا فائدہ وہ لوگ اچھے سے اٹھا چکے تھے۔

"ڈرائیور چچا کہاں گئے سکینہ؟؟؟ اور یہ شور کیسا ہے؟؟"

وہ ڈرتی ہوئی سکینہ سے پوچھنے لگی۔

"پپ۔۔۔پتہ نہیں کون لوگ ہیں بی بی جی انھوں نے ڈرائیور کو بیہوش کر دیا ہے اور ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی پستولیں بھی ہیں جی!!!!"

سکینہ کی ڈری سہمی آواز میں ملی خبر سنتے رومیصہ دھک سے رہ گئی۔  اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ سوچتی یا سمجھتی کسی نے آ کر اس کی طرف کا دروازہ کھولا۔

رومیصہ کو لگا جیسے بس ابھی اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔

"بایر نکلیں بی بی!!!"

کسی آدمی کی کرخت آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ تیزی سے سکینہ کی طرف کھسک گئی۔

"باہر نکلیں بی بی ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے!!!!"

وہی آواز دوبارہ سنائی دی پر اس دفعہ کچھ قریب سے۔ وہ آنکھیں سختی سے بند کیے سکینہ کے ساتھ لگ کر بیٹھی رہی۔

"آپ خود آرام سے نکل جائیں بی بی ورنہ ہمیں آپ کے ساتھ زبردستی کرنی پڑے گی اور اس میں آپ کا ڈرائیور اور ملازمہ بھی اپنی جان سے جائیں گے۔"

اس کی دھمکی سن کر سکینہ اونچی اونچی رونے لگی۔

"دیکھو تم۔۔۔۔۔تم ہمارے سارے پیسے رکھ لو اور یہ۔۔۔یہ میری سونے کی چین اور بالیاں بھی رکھ لو پپ۔۔۔۔پلیز ہماری جان بخش دو!!!!"

وہ التجائیہ لہجے میں کہتی آخر میں بے بسی سے رو دی کیونکہ اس کے لیے یہ سچویشن بلکل غیر متوقع تھی۔

"ہمیں کچھ نہیں چاہیئے بی بی ہمیں بس آپ کو ساتھ لے جانے کا حکم ملا ہے پر آپ کمارے ساتھ تعاون کرنے کے موڈ میں نہیں لہذا ہمیں ان دونوں کو اوپر ٹپکا کر آپ کو اپنے ساتھ ۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرتا رومیصہ نفی میں سر ہلاتی گاڑی سے نکل آئی۔ آنسو زار و قطار گالوں پر بہتے چلے نا رہے تھے۔

اس کے نکلتے ہی سکینہ دروازہ کھول کر حویلی کی طرف بھاگنے لگی جب دوسرا آدمی پھرتی سے اسے قابو کرتا اس کی گردن کی مخصوص رگ دبا گیا۔ سکینہ حواس کھوتی زمین پر گرتی چلی گئی۔

"دیکگو پلیز ہمیں جانے دو اس کے بدلے تم جو چاہو گے میرے لالا تمہیں دینے کو تیار ہو جائیں گے پلیز ہمیں جانے دو ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے!!!!"

وہ روتی ہوئی ایک دفعہ پھر سے اس بے رحم انسان سے منت کرنے لگی پر وہ بہرہ بنا اسے بازو سے پکڑ کر اپنی گاڑی کی طرف لے جانے لگا۔

وہ روتی سسکتی گاڑی میں بیٹھی تو گاڑی اپنے پہچھے دھواں اڑاتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

@@@@@

"کھانا لاؤں آپ کے لیے ؟؟؟"

اورھان جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو صاحبہ چراغ کے جن کی طرح نمودار ہوئی۔

اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ کوئی بھی جواب دیے بغیر گلے میں پڑی چادر اتار کر صوفے پر پھینکتا خود باتھ روم کی پرف بڑھ گیا جب کہ وہ ضبط کیے کھڑی رہی۔

وہ روزانہ دوپہر کے وقت گھر آ کر تھوڑی دیر آرام کرتا تھا وہ جانتی تھی اس لیے چپ چاپ آگے بڑھ کر صوفے پو گری اس کی چادر اٹھائی اور تہہ لگا کر واپس وہیں رکھ دی۔

 دس منٹ کے بعد وہ فریش ہو کر کمرے میں آیا تو کمرہ خالی پڑا تھا وہ سر جھٹک کر بیڈ کی طرف بڑھا اور جوتا اتار کر پر سکون ہوتا بیڈ پر لیٹ گیا۔ہاتھ بڑھا کر لائٹ بند کرنا نہ بھولا تھا۔

چند منٹ ہی گزرے تھے جب اسے محسوس ہوا کہ بیڈ کی دوسری طرف وہ آکر براجمان ہوئی ہے۔ وہ دھیرے سے کھسک کر اس کے قریب آئی تو اس کے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو اورھان کے حواسوں پر چھانے لگی۔ پر وہ خود کو لاپرواہ ظاہر کرتا پڑا رہا۔جھٹکا تو تب لگا جب صاحبہ اس کے بازو کو پکڑ کر سیدھا کرتی اس پر اپنا سر رکھ گئی۔ اس کی جان پر مزید ستم کرتے اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ اس کے سینے پر جمایا تو تسلسل سے دھڑکتے دل کی رفتار ایک دم تیز ہوتی محسوس ہوئی۔ وہ آنکھیں بند کرتی اپنا چہرہ اس کے بازو میں چھپا گئی تو اس کے لب اورھان کے بازو کو جھونے لگے۔ یہاں اورھان کی برداشت ختم ہوئی تھی۔

وہ کڑوٹ بدلتا ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پر لٹاتا اس کے اوپر جھک کر اس کے دائیں بائیں دونوں ہاتھ جما گیا۔ 

اس کی حرکت پر صاحبہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ وہ خوفزدہ سی اپنی سختی سے بند آنکھیں دھیرے سے کھول گئی تو اس کی سبز آنکھیں سیدھا سرخ پڑتی بھوری آنکھوں سے ٹکرائی تھیں۔ اب آنکھوں کی یہ سرخی ضبط کے باعث تھی یا غصے کے اس بات کا وہ اندازہ نہ لگا سکی۔

"کیا چاہتی ہو؟؟؟"

اس کی سرد آواز پر صاحبہ نے بے ساختہ تھوک نگلتے اپنا حلق تر کیا۔

"کچھ۔۔۔کچھ بھی تو نہیں!!!!"

گڑبڑا کر کہتی وہ نظریں چرا گئی۔

"پھر اس حرکت کا میں کیا مطلب لوں؟؟"

وہ تھوڑا جھک کر اس کے کان کے قریب غرایا تو صاحبہ کی جان جانے لگی۔

"میں سمجھی نہیں آپ۔۔۔آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں."

اس کے یوں انجان بننے پر وہ داد دیتی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔

"یقین مانو واقعی تمہاری اس معصومیت پر آنکھ بند کر کے یقین کر لیتا اگر تمہاری اصلی شکل سے واقف نہ ہوتا!!!"

وہ پھر سے لفظوں کے زیریلے تیر اس کے سینے میں پیوست کرنے لگا تو صاحبہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

وہ پہچھے ہٹنے لگس جب وہ تیزی سے سس کی گردن کے گرد بازو لپیٹتی اسے اپنی جانب کھینچ گئی۔

"میرے سر میں بہت درد ہے!!!!" 

وہ جو اسے کچھ سخت سنانے کی نیت رکھتا تھا اس کی بھیگی آواز پر خاموش ہو گیا۔

"تو میں کیا کروں؟؟"

اس کی سرد آواز پر صاحبہ کو مزید رونا آنے لگا۔

"یہاں بوا بھی نہیں ہیں جو میرا سر دبا دیں!!!"

سوں سوں کرتی وہ اس کی قمیض کے بٹنوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے لگی۔

"تو یہ اتنی اہم باتیں تم مجھے کس خوشی میں بتا رہی ہو؟؟؟"

وہ جو اس کے آنسوؤں سے بے چین ہونے لگا تھا اس پر طنز کرنے سےخود کو باز نہ رکھ سکا۔

اس کی سبز آنکھیں نم ہو کر مزید قہر ڈھا رہی تھیں۔ کبھی اسے ان سبز نگینوں سے عشق ہوا کرتا تھا۔آنکھوں سے نظریں پھسلتی سرخ پڑتی چھوٹی سی ناک پر گئی تھیں جو بھت سونی سونی لگ رہی تھی۔ اس کی ناک میں چمکنے والی سونے کی تار شادی کے بعد سے ہی غائب تھی جس کا غائب ہونا اورھان کو شدت سے محسوس ہوتا تھا۔ ناک سے پھسلتی نظریں کپکپاتے ہوئے گلابی ہونٹوں سے جا ملی تو اورھان کے حلق میں جیسے کانٹے اگنے لگے۔ 

اس نے ہاتھ بڑھا کر شہادت کی انگلی ہولے سے اس کے کپکپاتے لبوں پر پھیری تو جذبات اور بھی مچل اٹھے۔ انا کو پل بھر کے لیے ایک طرف کرتا وہ اس پر جھکا تو آنے والے لمحات کا سوچتے وہ بھی آنکھیں موند گئی۔

وہ اس کے لبوں سے محض انچ بھر کے فاصلے پر تھا جب کمرا ایک دم موبائل کی آواز سے گونج اٹھا۔

وہ ہوش میں آتا اس سے فاصلہ بڑھا کر موبائل کی طرف متوجہ ہوا تو وہ بھی خفت زدہ ہوتی اٹھ بیٹھی۔ وہ بیڈ سے نیچے اترنے لگی تو وہ ایک دم اس کی کلائی تھام گیا۔

صاحبہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی پر وہ موبائل میں بزی تھا۔

"کب سے سر درد ہے؟؟"

موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا پوچھنے لگا۔

"صبح سے بہت درد ہے!!!"

وہ اپنی آواز میں بھر پور بے چارگی سما گئی۔

"صبح ہی دوائی لے لینی چاہئے تھی نا!!!"

 اسے کہنے کے ساتھ ہی وہ سائیڈ ٹیبل کے دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکالنے لگا۔

"مجھے نہیں لینی یہ کڑوی دوائی آپ جانتے ہیں نا مجھ سے نہیں کھائی جاتی۔ یاد ہے جب میں گری مجھے کتنی چوٹ لگی تھی اور جب ہم باغ میں ملے تھے اور آپ نے میری چوٹیں دیکھیں۔ تب تو آپ کی حالت۔۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ جوش میں آکر مزید بولتی اورھان ایک جھٹکے سے اسے گردن سے پکڑتا اپنے قریب کر گیا۔

"کہا تھا نا کہ گزرے ایام کا ذکر مت کرنا میرے سامنے۔ پھر کیوں میرے سینے میں دفن اپنی نفرت کے شعلوں کو بار بار ہوا دے کر بھڑکانے کی کوشش کرتی ہو۔ کیوں بار بار مجھے یاد دلاتی ہو کہ مرزا اورھان بلوچ کے بے پناہ عشق کے منہ پر اپنی بے وفائی کا جوتا مارا تھا صاحبہ چودھری نے!!!!"

اپنی پھنکار کے جواب میں وہ ایک جھٹکے سے اس کی گردن چھوڑتا کمرے سے باہر نکل گیا جب کہ وہ ایک دفعہ پھر سے اپنے ہاتھوں تباہ کی گئی اپنی قسمت پر آنسو بہانے لگی۔

سکینہ کو جیسے ہی ہوش آیا وہ تیزی سے اٹھ کر ڈرائیور کی طرف بھاگی۔اس نے ڈرائیور کو ہلا جلا کر ہوش دلانے کی کوشش کی پر وہ ہوش میں نہ آیا۔ وہ روتی ہوئی هویلی کی طرف دوڑی۔

هویلی پہنچ کر اس نے روتے ہوئے ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو هویلی میں جیسے کہرام برپا ہو گیا۔

کوئی دن دہاڑے بلوچوں کی جوان لڑکی کو اٹھا کر لے گیا تھا یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔

شیفان اور اورهان یہ خبر سنتے ہی هویلی سے نکل پڑے تھے تا کہ رومیصہ کو تلاش کر سکیں۔ ناز بیگم نے رو رو کر برا حال کیا ہوا تھا۔ زوہان بھی مسلسل روتی چلی جا رہی تھی۔

"کاش میں رومی کی بات مان کر اس کے ساتھ چلی جاتی۔"

افسوس سے کہتی وہ پھر سے رو دی تو رخسار بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔

"مت رو میری جان دیکھنا بہت جلد اورهان اور شیفان ہماری رومی کو ڈھونڈ لائیں گے۔ تم رو مت!!! صفیہ جاؤ جا کر گلاس میں پانی لے کر آؤ۔"

وہ زوہان کو تسلی دیتی پھر ملازمہ کو آواز دے کر پانی لانے کا کہنے لگیں۔

صاحبہ جو سیڑھیوں پر کھڑی سب دیکھ رہی تھی رخسار بیگم سے ڈرتی ڈرتی کچن میں گئی اور پانی کا گلاس ٹرے میں رکھ کر ان کے پاس آ گئی۔

"یہ لیں پانی !!!"

وہ پانی والا گلاس ان کے آگے بڑھا گئی تو اسے دیکھتے ہی رخسار بیگم نے تیش میں آتے ہاتھ مار کر گلاس گرا دیا۔ شیشے کا گلاس ایک جھٹکے سے زمین بوس ہوتا چور چور ہو گیا۔ 

خوف کے مارے صاحبہ کے لبوں سے گھٹی گھٹی چیخ برامد ہوئی۔

"کتنی دفعہ کہہ چکی ہوں کہ اپنی یہ منحوس شکل لے کر میرے سامنے مت آیا کرو۔ تم ہو ہی منحوس۔ پہلے میرے ایک بیٹے کو کھا گئی پھر دوسرے کو میرے مقابل کھڑا کر دیا پھر میری بیٹی کو ہسپتال پہنچا دیا اور اب ہماری پھول سی بچی کو جانے کون ظالم اٹھا کر لے گیا۔ جب سے ہماری زندگیوں پر تمہارا سایہ پڑا ہے کچھ نہ کچھ برا hiہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔"

ان کی باتیں سنتی صاحبہ کا رنگ فق ہو گیا۔ 

"بھابھی اس سب میں اس معصوم بچی کا کیا قصور ہے یہ سب تو ہماری قسمت میں لکھا ہے۔ ادھر آؤ بیٹا میرے پاس بیٹھو۔" 

ناز بیگم کی بات پر جہاں رخسار بیگم کے ماتھے پر تیوری چڑھی وہیں صاحبہ کو تھوڑا حوصلہ ہوا۔

وہ لرزتی ٹانگوں کو گھسیٹتی ناز بیگم کے قریب گئی تو وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھا گئیں۔

"آپ بھی دعا کرو میری جان کہ میری رومی خیر خیریت سے ہمارے پاس پہنچ جاۓ۔ وہ بہت معصوم ہے۔ اس دنیا کی چالاکیوں سے بہت پرے ہے وہ۔ آپ کرو گی نا دعا ؟؟؟"

ناز بیگم کی آنسو بھری درد ناک آواز پر وہ بے ساختہ ان کے ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا گئی۔

اسے یوں کرتے دیکھ رخسار بیگم سر جھٹک کر رہ گئیں۔

"آپ فکر مت کریں آنٹی !!! جو لوگ کسی کا برا نہیں چاہتے بھلا اللّه ان کے ساتھ کیسے برا کر سکتا ہے۔ ہاں آزمائش تو اس کے پسندیدہ بندوں پر ہی آتی ہے اور مجھے یقین ہے رومیصہ اس آزمائش پر کھری اترے گی اور بہت جلد بحفاظت ہم تک پہنچ جاۓ گی۔"

اس کی بات پر ناز بیگم روتے ہوئے بھی مسکرا دیں پھر اسے بے ساختہ اپنے ساتھ لگا گئیں۔

"ہمیشہ خوش رہو میری جان !!!"

ان کی دعا پر وہ تلخ سا ہنس دی۔ جو کچھ وہ اپنے ساتھ کر چکی تھی بھلا اب کیسے کبھی خوش رہ سکتی تھی۔

سارا دن وہ سب انتظار کرتے رہے پر ان کا انتظار انتظار ہی رہا اور رات گئے اورهان اور شیفان خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے۔

گھر کی خواتین کا رو رو کر برا حال تھا۔ ان لوگوں کی محبت مثالی تھی۔ اورهان نے رومی کی تلاش میں اپنے بندے لگا دے تھے۔ ارقم بلوچ نے پولیس میں اطلاع دینے سے منع کر دیا تھا کیوں کہ معملہ  گھر کی بیٹی کی عزت کا تھا۔

@@@@@

مضبوط قدم اٹھاتا وہ کمرے کی طرف بڑھا جہاں وہ حسینہ قید تھی۔ بند دروازے کا ہینڈل پکڑ کر دروازہ کھولنے لگا ٹھیک اسی وقت اس کی قمیض کی جیب میں موجود موبائل بج اٹھا۔

"یہ دوریاں فلحال ہیں!!!!"

موبائل کی رنگٹون سنتے اس کے عنابی لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔

موبائل جیب سے نکال کر آنکھوں کے سامنے کیا تو سکرین پر بلنك ہوتا نام دیکھ کر آنکھیں سکیڑ گیا۔

ہاتھ دروازے کے ہینڈل سے ہٹا کر اس ہاتھ سے پیشانی مسلی جب کہ دوسرے ہاتھ سے کال پك کی۔

"السلام علیکم ۔"

اگلے بندے پر سلامتی بھیجتا وہ دروازے سے چند قدم دور ہو کر کھڑا ہو گیا۔

"وعلیکم السلام !! اس طرف سب ٹھیک ہے نا ؟؟"

مقابل نے محتاط انداز میں پوچھا تو وہ ایک نظر بند کمرے پر ڈال گیا۔

"ابھی تک تو شانتی ہی شانتی ہے۔ روبرو ہونے جا رہا ہوں !!!"

اس کے جواب پر مقابل ہنکار بھر کر رہ گیا۔

"آج تم پر ایک بہت بڑی حقیقت بھی آشکار ہونے والی ہے۔ سمجھو تمہاری محبت کا امتحان ہے آج۔ اب تم پر منحصر ہے کہ تم کامیاب ہوتے ہو یا ہمیشہ کے لئے ناکامی اور بے سکونی کو اپنا مقدر بناتے ہو۔"

مقابل کا لہجہ حد درجہ سنجیدہ تھا۔

"میں ہر قسم کی آزمائش پر پورا اتروں گا۔ مجھے اپنی محبت کی پختگی پر اتنا ہی یقین ہے جتنا کہ روز قیامت پر !!!"

اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کا لہجہ بھی اس کی بات کی تصدیق کر رہا تھا۔

"ایک بات اور یاد رکھنا۔ وہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔ تم جانتے ہو نا وہ جس شخص کی نشانی ہے وہ میرے لئے کیا تھا !!! یہ بات کبھی بھولنا مت۔ کوئی مسلہ ہو تو اسی وقت رابطہ کرنا۔ رکھتا ہوں اب۔ اللّه حافظ !!!"

مقابل کی بات پورے دھیان سے سنتا وہ الوداعی کلمات ادا کرتا موبائل جیب میں رکھتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

دروازہ کھول کر جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا اس کے کانوں سے گھٹی گھٹی سسكیوں کی آواز ٹکرائی۔ وہ ایک گہری سانس خارج کرتا اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا اس وجود کی طرف بڑھا۔

وہ جو زمین پر دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی دروازہ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز پر اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپا گئی۔ کوئی قدم بڑھاتا اس کی طرف آ رہا تھا یہ محسوس کرتی وہ سن ہو گئی۔

وہ دھیرے سے اس کے قریب پہنچ کر ایک گھٹنا زمین پر ٹکائے اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

"رومی !!!"

کسی مرد کے منہ سے اپنا نام سن کر وہ مزید خوفزدہ ہو گئی۔

"ترس گیا تھا تمہارا حسین چہرہ دیکھنے کے لئے۔ بہت انتظار کیا ہے میں نے اس پل کے لئے۔ اب تو میرا انتظار ختم کر دو۔ اب تو اپنا چہرہ دکھا دو ۔ پلیز !!!"

اس انجان مرد کی باتیں سنتے وہ روتی ہوئی خود میں چھپنے کی کوشش کرنے لگی۔

اس کی حرکت پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا۔ آج اس کے لب بے وجہ ہی مسکراتے جا رہے تھے۔

وہ اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھتا اس کا چہرہ اٹھا گیا۔ جیسے ہی اس کا آنسوؤں سے تر سرخ چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آیا اسے ایسے لگا جیسے تپتے ہوئے صحرا میں بھٹکے مسافر کو ٹھنڈے میٹھے پانی کے چند گھونت ميسر آ گئے ہوں۔ وہ پیاسی نظروں سے اس کا ایک ایک نقش آنکھوں میں بساتا جا رہا تھا۔

کانچ سی آنکھیں مسلسل برسات کے بعد سرخ اور نم خیز ہو گئی تھیں۔ نتهلی سے سجا ناک بھی سرخ پڑ چکا تھا جب کہ پنکھڑیوں سے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔

وہ كسمسا کر اپنے سر سے اس کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرنے لگی۔

"والله!!! آپ کے دید نے برسوں کے پیاسے کو سیراب کر دیا ہے!!"

وہ اس کے سرخ پڑتے گال کو ہلکے سے چھو کر بولا تو وہ نفرت سے اس کا ہاتھ جھٹک گئی۔

"ہاتھ۔۔۔ہاتھ مت لگائیں مجھے۔ مم۔۔۔میں کسی کی بیوی ہوں پلیز مجھے چھوڑ دو اور ۔۔۔اور آپ جتنے پیسے مانگیں گے میرے بھائی دے دیں گے پلیز مجھے چھوڑ دیں میرے گھر والے مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے ۔ وہ بہت پریشان ہوں گے پلیز جانے دیں مجھے۔"

وہ روتی ہوئی اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ گئی۔

وہ اس کے نازک ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام گیا۔ رومی کو جھٹکا لگا۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کے لئے تگ و دو کرنے لگی پر مقابل کا ارادہ نہ تھا شاید۔

"پہلی بات تو یہ کہ آپ کسی کی بیوہ ہیں بیوی نہیں۔ بیوی اور بیوہ میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین اور آسمان میں، دن اور رات میں ، سورج اور چاند میں۔ دوسری بات یہ کہ آپ کی خاطر میں روپیہ پیسا تو کیا یہ سانسیں بھی لٹا سکتا ہوں۔ اتنے لمبے انتظار کے بعد ملا محبوب آب حیات سی اہمیت رکھتا ہے !!!"

اس کے شدّت بھرے الفاظ رومیصہ کو لرزنے پر مجبور کر گئے۔

"یہ دیکھو اس تصویر کو پہچانتی ہو ؟"

وہ موبائل جیب سے نکال کر آن کرتا اس کے سامنے کر گیا جس کے وال پیپر پر رومی کی تصویر روشن تھی جس میں وہ آنکھوں پر سن گلاسز لگائے نہر کے کنارے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھی کھلکھلا رہی تھی۔ گلابی رنگ کے لباس میں وہ کھلتا ہوا گلاب لگ رہی تھی۔ یہ تصویر آج سے تین برس پہلے کی تھی اور دیکھنے سے صاف پتا چل رہا تھا کہ یہ تصویر سامنے والے کے علم میں انے کے بغیر بنائی گئی ہے۔

"پہچانتی ہو اسے !!!"

اس کے سوال پر وہ بے بسی سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"کیوں میری بے بسی کا مذاق بنا رہے ہو تمہیں اللّه سے ذرا بھی خوف نہیں آتا۔ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی تم کچھ "دکھانے" کی کوشش کر رہے ہو !!!"

اس کی بے بسی اور الفاظ کو وہ سمجھ نہ سکا۔

"کیا مطلب؟؟"

وہ واقعی الجھ چکا تھا۔

" سالوں سے جاننے کا دعوہ کر رہے ہیں پر یہ نہیں جانتے کہ میں دیکھ نہیں سکتی ۔ اچھا مذاق ہے۔ ایک اندھی لڑکی کے ساتھ ایسا مذاق کرتے آپ کو اللّه سے خوف محسوس نہیں ہوتا کیا۔"

سب کچھ بالائے طاق رکھتی وہ ایک دم پھٹ پڑی تھی۔ مقابل نے وار ہی ایسا کیا تھا جب کہ سامنے بیٹھا وجود آندھیوں کی زد میں تھا۔

اس پر پیکر سے آخری ملاقات کے وقت اس نے دعا کی تھی کہ کاش وہ اسے نہ دیکھ سکی ہو پر آج جب اس پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ واقعی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو اس کے سر پر جیسے ساتوں آسمان ایک ساتھ ٹوٹ پڑے تھے۔

"آپ  مم۔۔۔مذاق کر رہی ہیں نا !!!"

اس کے آواز زندگی میں پہلی مرتبہ لڑکھڑائی تھی۔ اس کی بات پر وہ تلخی سے ہنس دی۔

"اگر ہمارا مذاق کا رشتہ ہوتا تو ضرور اس بات کی نفی کرتی !!!"

اس کے الفاظ پر مقابل کا سانس تنگ ہونے لگا۔ اس کے کانوں میں ایک آواز گونج اٹھی۔

"آج تم پر ایک بہت بڑی حقیقت بھی آشکار ہونے والی ہے۔ سمجھو تمہاری محبت کا امتحان ہے آج۔ اب تم پر منحصر ہے کہ تم کامیاب ہوتے ہو یا ہمیشہ کے لئے ناکامی اور بے سکونی کو اپنا مقدر بناتے ہو۔"

وہ بھر پور مرد اس وقت پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونا چاہتا تھا۔ یہ کیسا مذاق کیا تھا قدرت نے اس کے ساتھ۔ یہ کسی سزا ملی تھی اسے۔

اسے لگا وہ اگر ایک پل بھی مزید وہاں رکا تو خود پر قابو نہیں رکھ پائے گا اور اس نازک لڑکی کے سامنے ہی رو دے گا۔ اس خیال کے آتے ہی وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور تیزی سے کمرے سے نکلتا چلا گیا جب کہ وہ پھر سے اپنی قسمت پر رو دی۔

صاحبہ کمرے میں داخل ہوئی تو اورهان کال پر بزی تھا۔ اسے دیکھ کر وہ اپنی بات مکمل کرتا کال بند کر گیا.

صاحبہ نے ہاتھ میں پکڑا دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور الماری سے اپنے کپڑے نکال کر باتھ روم کی طرف چل دی۔

فریش ہونے کے بعد وہ باہر آئی تو اورهان صوفے پر بیٹھا تھا۔ دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر جوں کا توں رکھا تھا۔ 

اورهان نے ایک نظر اسے دیکھا۔ آسمانی رنگ کا نائٹ سوٹ پہنے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑی اپنے بھورے گهنگهریالے بالوں کو ٹاول سے آزاد کر رہی تھی۔ بھورے گهنگهریالے بال ٹاول کی قید سے آزاد ہوتے اس کی کمر پر بکھر گئے۔ اورهان نے غور سے اسے دیکھا۔

وہ بھری بھری جسامت کی مالک تھی پر اب بھر کمزور ہو گئی تھی۔

صاحبہ نے بالوں کو ایک جھٹکا دے کر آگے گرایا تو اورهان نظریں چرا گیا۔ 

اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ بیڈ کی طرف آئی اور دودھ کا گلاس اٹھا کر اورهان کی طرف بڑھ گئی۔

"یہ لیں !!!"

وہ تھوڑا جھک کر دودھ کا گلاس اس کے آگے کر گئی تو پشت پر بکھرے بال پهسل کر سینے پر گر گئے۔ اورهان نے ایک گہری نظر اس کے چہرے پر ڈالی تو ٹھٹھک گیا۔ 

اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں جیسے مسلسل روئی ہو۔

دودھ کا گلاس اس کے ہاتھ سے پکڑ کر پاس پڑی میز پر رکھتا وہ اس کی کلائی تھام کر اسے اپنے پہلو میں گرا گیا۔ صاحبہ سسك اٹھی۔

"کیا ہوا ہے ؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا تم سے ؟؟؟"

وہ پریشانی سے اسے دیکھتا پوچھنے لگا۔ اسے ڈر تھا کہیں اس کی ماں نے پھر سے اس کی تذلیل نہ کی ہو حالاں کہ وہ انھیں بہت تفصیلی سمجھا چکا تھا۔

اس کے پوچھنے پر وہ چہرہ جھکا گئی۔

"صاحبہ میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے !!!!"

اورهان نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھتے اس کا سر اوپر اٹھایا تو اس کا چہرہ دیکھتے دھک سے رہ گیا۔

ہری آنکھوں سے آنسو تواتر سے بہتے چلے جا رہے تھے جب کہ لب سختی سے آپس میں پیوست کیے گئے تھے۔

"کیوں میرے صبر کا امتحان لے رہی ہو جلدی بتاؤ کیا ہوا ہے ورنہ میں نیچے جا کر ابھی سب کو اکٹھا کر لوں گا۔"

اس کی برہم آواز پر صاحبہ خوفزدہ ہوتی پیچھے ہٹنے کی کوشش کرنے لگی جسے وہ ناکام بنا گیا۔

"مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ شاور لیتے وقت باتھ روم میں سلپ ہو گئی تھی۔ کہنی اور کمر زمین پر لگی ہے مجھے درد ہو رہا ہے !!!"

بتانے کے ساتھ ہی وہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رو دی۔

وہ اس کی بات پر رد عمل ظاہر کے بغیر اٹھا اور الماری میں موجود فرسٹ ایڈ باكس سے کریم نکال لیا۔ کریم پکڑ کر وہ واپس اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔

"دکھاؤ کہاں لگی ہے۔"

کہنے کے ساتھ ہی اورهان نے اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس کا بازو پکڑ کر وہاں سے شرٹ ہٹائی۔ اس کی کہنی لال ہو رہی تھی۔

اورهان نے کریم کا ڈھکن کھول کر اپنی انگلی کی پور پر تھوڑی سی کریم اٹھائی اور نرمی سے اس کی کہنی پر لگانے لگا۔ صاحبہ "سی" کر کے رہ گئی۔

" دکھاؤ کمر پر کہاں لگی ہے !!!!"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا پوچھنے لگا تو وہ نظریں چرا گئی۔

"کتنے بے شرم ہیں۔ بھلا یہ کیسے دکھا سکتی ہوں !!!"

وہ بڑبڑا کر رہ گئی۔

اس کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر وہ خود ہی اسے کندھوں سے تھام کر اس کا رخ موڑتا اس کی شرٹ اوپر كهسكا گیا۔ اس کی حرکت پر صاحبہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اسے اورهان سے اس بے باقی کی امید نہ تھی۔

اس کی کمر کے وسط میں لال نشان پڑا تھا۔ اورهان نے وہاں بھی نرمی سے کریم لگائی اور پھر واپس اس کی شرٹ سہی کر دی۔ کریم سائیڈ پر رکھنے کے بعد اورهان نے ایک نظر اس کے سرخ چہرے اور بند آنکھوں پر ڈالی۔

"اٹھ کر بیڈ پر لیٹو۔"

اس کے حکم کی تکمیل کرتی وہ تیزی سے اٹھی اور بیڈ پر جا کر لیٹ گئی۔

"اٹھو پہلے یہ دودھ پیو پھر سونا !!!"

صاحبہ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو اس ہاتھ میں دودھ کا گلاس پکڑے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ دودھ کو دیکھتے ہی صاحبہ نے گندا سا منہ بنایا۔ اسے دودھ پینا بلکل بھی پسند نہیں تھا۔

"لیکن میں یہ آپ کے لئے لے کر آئی تھی۔ آپ روزانہ رات کو پیتے ہیں نا !!!"۔

وہ اس کی یاد دہانی کروانے لگی۔

"مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت تمہیں ہے فلحال۔ چپ چاپ اٹھ کر پیو !!!"

اس کی حتمی انداز پر وہ اٹھ کر بیٹھی اور اس کے ہاتھ سے گلاس تھام کر لبوں سے لگا گئی۔ اللّه کا نام لیتے اس نے سانس بند کرتے ایک ہی گھونٹ میں گلاس خالی کر دیا۔

"اور سنو !!!"

وہ جو لیٹنے لگی تھی اس کی آواز سن کر سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔

"کل سے دو گلاس دودھ لے کر آنا۔ ایک اپنا اور ایک میرا۔ بحث کرنے کی ضرورت نہیں لیٹو اب چپ چاپ اور سو جاؤ !!!"

اس کے حکم پر وہ منہ بناتی لیٹ کر چادر سر تک تان گئی۔ اس پر ایک آخری نظر ڈال کر وہ اسٹڈی روم کی طرف بڑھ گیا۔

@@@@@

اسے اس کمرے میں قید کافی گھنٹے گزر گئے تھے۔ ایک ملازمہ آ کر کھانا بھی دے گئی تھی جسے ہاتھ لگانے کی بھی زحمت نہ کی تھی اس نے۔

ایک دفعہ پھر سے دروازہ کھلا تو وہ خود میں سمٹ گئی۔ آنے والا قدم بڑھاتا اس کے نزدیک آ کر کھڑا ہو گیا۔

"میڈ ابھی آپ کو ایک ڈریس دے جاۓ گی آپ پہن کر کر ریڈی ہو جائے گا ہمارا نکاح ہے آدھے گھنٹے بعد !!!"

اس کی بات پر رومی ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھی۔

"آپ کا دماغ درست ہے کیا ؟؟ پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ میں کسی کی بیوی ہوں۔ پھر اس واهيات بات کا کیا مقصد !!"

تیش کے مارے اس کا رنگ سرخ پڑ گیا۔

"اور میں پہلے بھی آپ کی تصحیح کر چکا ہوں۔ آپ کسی کی بیوی نہیں بیوہ ہیں !!! اور بیوہ عورتوں کو دوسری شادی کا حق اسلام دیتا ہے۔"

وہ سکوں سے کہتا ہاتھ سینے پر باندھ کر اس کی سامنے کھڑا ہو گیا۔

"میں کسی صورت بھی آپ سے شادی نہیں کروں گی سنا آپ نے ۔ مجھے ابھی اور اسی وقت میرے گھر والوں کے پاس چھوڑ کر آئیں ورنہ میرے بھائیوں کے عتاب سے بچ نہیں سکیں گے آپ!!!"

اس کی بات پر وہ دھیرے سے ہنس دیا۔

"آپ کے بھائی قیامت تک بھی اس جگہ کا پتا نہیں لگا سکتے۔ رہنا تو آپ کو ہمیشہ کے لئے میرے پاس ہی ہے۔ اپ نکاح کر کے رہنا ہے یا  نکاح کے بغیر یہ آپ پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"

اس کی بات پر وہ بے بسی سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی۔

"دیکھیں میں ۔۔میں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوں۔ آپ کیوں ایک اندھی لڑکی کو خود سے باندھنا چاھتے ہیں !!!"

وہ اسے ہے ممکن طریقے سے قائل کرنا چاہ رہی تھی۔

"آپ میرا ہاتھ تھامیں میں آپ کی بینائی بن جاؤں گا۔ آپ کو خود بھی کبھی محسوس نہیں ہو پاۓ گا کہ آپ آپ اس دنیا کی رنگینیاں نہیں دیکھ سکتی۔ "

اس کی آواز میں ایک جزب تھا جسے محسوس کرتے رومی لب بھینچ گئی۔ ہاں اسے بہت بڑا جھٹکا لگا تھا رومی کا بینائی کا سن کر پر وہ محبت ہی کیا جو آزمائش پر پوری نہ اتر سکے۔ وہ بھی اس کڑی آزمائش میں سر خرو ہو گیا تھا۔

"میری عدت بھ بھی پوری نہیں ہوئی ابھی !!!"

اس نے فرار کی ایک اور کوشش کی۔

"نکاح کے بعد کوئی عدت نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ ایسا کوئی مسلہ نہیں۔ نکاح یا تو ابھی آدھے گھنٹے میں ہو گا یا پھر کبھی نہیں ہو گا اور دوسری صورت میں آپ کو نکاح کے بغیر ہے ہمیشہ کے لئے میرے پاس رہنا ہو گا۔ اب بندہ بشر ہوں اس قدر حسین لڑکی کے قریب ہوتے بہک بھی سکتا ہوں۔ اس لئے سوچ سمجھ کر ادھے گھنٹے میں فیصلہ کر لیں۔"

وہ اس کا گال تهپتهپاتا کمرے سے نکل گیا تو وہ بیڈ پر گرتی اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"اتنی جلدی کیوں مجھے تنہا کر گئے افگن آپ۔ آپ کو ذرا بھی خیال نہیں آیا میرا کہ آپ کہ بغیر میرا کیا ہو گا۔ یہ کیسی محبت تھی آپ کی افگن جو بیچ راہ میں تنہا کر گئی !!!"

وہ روتی ہوئے شدّت سے اسے پکار رہی تھی جو اس کی روح کا ساتھ رہ چکا تھا۔ اس کی پہلی محبت۔ مرزا افگن بلوچ !!!!

ٹھیک آدھے گھنٹے کے بعد وہ نکاح خوان اور چند گواہان کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا تو اس کی توقع کے عین مطابق وہ اس کی بھیجے گئے ڈریس کا لال دوپٹہ سر پر اوڑھے بیٹھی تھی۔ کپڑے البته بدلنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی۔

وہ جا کر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا جب کہ باقی سب کرسیوں اور صوفوں پر بیٹھ گئے۔ نکاح کی کاروائی شروع کی گئی تو رومیصہ کے ہاتھ کانپنے لگے۔

"رومیصہ ارحم بلوچ بنت مرضی ارحم بلوچ آپ کا نکاح چودھری فائق ولد چودھری  سی بعوض حق مہر ایک کروڑ کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟؟"

نکاح خواں کی آواز اور اس کے الفاظ کانوں میں پڑتے رومی لب بھینچ گئی۔ کانچ سی بے نور آنکھوں سے کھارا پانی بہتا چلا جا رہا تھا۔ اس کی خاموشی پر فائق چودھری نے اپنا ہاتھ اس کے كپكپاتے ہوئے ہاتھوں پر رکھا۔

"قبول ہے!!!"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟"

"قبول ہے !!!"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟"۔

"جی قبول ہے !!!!"

آخری دفعہ یہ کلمات دہراتے وہ بے ساختہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رو دی۔ اب اس کی قسمت میں شاید عمر بھر کے لئے یہ رونا لکھ دیا گیا تھا۔

"نکاح مبارک روح من !!!!"

وہ جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کر گیا تو رومی کو لگا جیسے اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا گیا ہو۔

وہ نکاح خوان اور گواہان کو رخصت کرنے گیا تو رومی نے سر پر پڑا دوپٹہ كهينچ کر اتارا اور کمرے کے ایک کونے میں پهينك دیا۔ قیمتی آنچل اپنی بے قدری پر رونے لگا۔

خود وہ بیڈ پر اوندهے منہ گرتی رونے کا شغل پورا کرنے لگی۔

مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد وہ کمرے میں واپس آیا تو اسے یوں روتے دیکھ کر نفی میں سر ہلا کر رہ گیا۔ 

اس کے قریب آتا وہ اسے بازو سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کر گیا اور اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر اپنے سینے میں بھینچ گیا۔

اس افتاد پر وہ بھونچکی رہ گئی اور كسمسا کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کرنے لگی پر ایسا ممکن کہاں تھا۔

"مبارک نہیں دیں گی؟؟؟"

اسے یوں ہی سینے سے لگائے اس کے کان کے قریب جھک کر سرگوشی نما سوال کر گیا تو وہ  اس کی گرم سانسیں اپنے کان اور گردن پر محسوس کرتی تھرا اٹھی۔

"کس بات کی مبارک ؟؟ میری زندگی جہنم بنانے کی یا مجھے جیتے جی مار دینے کی !!!"

اس  کی تلخی سے بھر پور آواز پر وہ افسوس سے اسے خود سے الگ کر گیا۔ اس سے پہلے وہ اسے کوئی جواب دیتا اس کی جیب میں پڑا موبائل بج اٹھا۔ موبائل کی سکرین پر ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ کمرے سے نکل گیا تو وہ بیڈ پر گرتی پھر سے رونے لگی۔ اس کی قسمت میں شاید رونا لکھ دیا گیا تھا۔

صاحبہ کو غائب ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے پر اس کا کوئی نام و نشان تک نہ ملا تھا اب تک۔ اورهان اور شیفان دونوں نے اپنے بندے پهيلائے ہوئے تھے اس کی تلاش میں۔

اس وقت بھی رات کے نو بجے سب حویلی  والے حویلی کے صحن میں جمع تھے۔ سب کی حالت ہی ایک جیسی تھی۔ ہر کوئی پریشان حال تھا۔ جوان بیٹی کا دن دیهاڑے غائب ہو جانا چھوٹی بات نہ تھی۔

شیفان کی جیب میں پڑا موبائل بج اٹھا تو وہ چونک کر جیب سے موبائل نکالتا آنکھوں کے سامنے کر گیا۔ موبائل کی سکرین پر کوئی ان نون نمبر جگمگا رہا تھا۔اس نے سر جھٹک کر کال بند کر دی۔

موبائل پھر سے بج اٹھا۔ وہ جهنجهلا کر کال اٹھا گیا۔

"ہیلو !!!"

اس کی آواز میں جهنجهلاہٹ واضح تھی۔

"السلام و علیکم سالے صاحب !!! باہر کے ملک میں رہ کر شاید آپ یہ بھول چکے ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے پر سلامتی بھیجتے ہیں۔"

مقابل کے جملے پر شیفان چوکنا ہو کر بیٹھ گیا۔ ماتھے پر نا گواری کے بل آ گئے۔

"کیا بکواس کر رہے ہو اور کون ہو تم ؟؟؟"

اس کے سوال سے محظوظ ہوتا وہ قہقہہ لگا اٹھا۔

"آپ کا اکلوتا بہنوئی ہونے کا شرف حاصل ہے ناچیز کو !!!!"

مقابل کے سلگاتے لہجے پر اس کو چار سو چا لیس والٹ کا جھٹکا لگا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"کیا بکواس کر رہے ہو میں تمہاری زبان حلق سے کھینچ لوں گا کمینے !!!"

وہ حلق کے بل چیخ پڑا۔ 

اس کے یوں چیخنے پر سب گھر والے تشویش سے اس کی جانب دیکھنے لگے۔ اورهان اٹھ کر اس کے نزدیک آیا۔

"سالے صاحب ہم کوئی کام بھی ثبوت کے بغیر نہیں کرتے۔ آپ بھی اپنی آنکھوں سے ثبوت دیکھ لیں تا کہ آپ کو میری بکواس اوپس بات پر یقین ہو سکے اور ہاں !!! بہن کے سہاگن رہنے کا دعا کر دیجئے گا اللّه حافظ !!!!"

وہ اپنی سناتا اگلے کی ایک بھی مزید سنے بغیر ٹھک سے کال بند کر گیا۔ شیفان سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ ہاتھ میں موبائل پکڑے چپ چاپ کھڑا تھا۔ تبھی موبائل کی سکرین پھر سے روشن ہوئی ۔

اب کی دفعہ واٹس اپ پر کوئی میسج آیا تھا۔

اس نے میسج پر کلک کیا تو سامنے ہی سکرین روشن ہو گئی اور پھر جو دیکھنے کو ملا اس سے شیفان اور اس کے ساتھ کھڑے اورهان کی آنکھیں پهيل گئیں۔ وہ سرخ چہرے لئے موبائل کی سکرین پر نگاہیں جمائے کھڑے تھے۔

"کیا ہے اورهان ؟؟؟"

ارحم بلوچ نے بے چینی سے پوچھا۔

"نکاح نامہ !!!!"

اورهان کے منہ سے سرسراتی آواز نکلی تھی۔

"کیا !!!!! کس کا نکاح نامہ؟؟؟ صاف صاف کیوں نہیں بتا رہے میرا دل رک رہا ہے !!!"

ناز بیگم روتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں تو زوہان نے جلدی سے انھیں کندھوں سے تھاما۔

"چودھری فائق نے ہماری رومی کو اغوا کر کے اس سے نکاح کر لیا !!!!"

اس کی اطلاع وہاں موجود ہر فرد پر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی۔ناز بیگم وہیں گر گئی تھیں۔ حویلی میں ایک بار پھر سے چیخ و پکار مچ گئی تھی۔

اورهان نے شیفان کے ہاتھ سے موبائل پکڑا اور اسی نمبر پر کال ملائی۔ پہلی بیل پر ہی کال پک کر لی گئی تھی۔

"اتنی جلدی میری یاد ستا گئی سالے صاحب کو !!!!"

فائق چودھری کی شریر آواز پر اورهان کھول اٹھا۔

"اپنی بکواس بند کر سالے !!!"

وہ بولا نہیں دھاڑا تھا۔ صاحبہ نے سہم کر اس کے سرخ چہرے کو دیکھا۔

"اوہو بڑے سالے صاحب بول رہے ہیں !!!! مجھے سالہ بول کر تو تم زيادتی کر رہے ہو میرے ساتھ یار۔ تمہارا بہنوئی لگتا ہوں اب رشتے میں۔ سالہ کہہ کر رشتہ خراب تو مت کرو !!!!"

اورهان نے بڑی برداشت سے اس کی برداشت سنی تھی۔

"تم بس تھوڑی سا صبر کرو فائق چودھری بہت جلد تمہاری گردن مرزا اورهان کے ہاتھ میں ہو گی اور پھر دیکھون گا خود کو اس گرفت سے کیسے آزاد کروا سکو گے تم !!!!"

سرد آواز میں کہتا وہ مقابل کی بات سنے بغیر کھٹاک سے کال بند کرتا شیفان کو موبائل پکڑا گیا جو ناز بیگم کے پاس بیٹھا ان کو تسلی دے رہا تھا۔ 

"سب کچھ اس کلموہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ جب سے یہ ہماری زندگیوں میں آئی ہے خوشیاں ہم سے روٹھ گئی ہیں۔ پہلے میرے بیٹے کو جوگ دے دیا۔ پھر اس کے عاشق نے میرے پھول سے بچے کی جان لے لی اور اب اس کا وو ہی نامراد عاشق ہماری معصوم بچی کو قید کر گیا۔"

رخسار بیگم پریشان سی کھڑی صاحبہ پر چلائیں تو وہ سہم اٹھی ۔

اورهان نے ناراض نظروں سے انھیں دیکھا۔

"کیا کہہ رہی ہیں ماں آپ!!! آپ کو منع بھی کر چکا ہوں !!!"

اورهان کی آواز میں ناگواری سمٹ آئی۔

"جو کچھ بھی کہہ رہی ہوں ہوش و حواس میں کہہ رہی ہوں۔"

وہ اپنی بات پر ڈٹی ہوئی تھیں۔زونی نے ایک شکایاتی نظر اپنی ماں پر ڈالی۔ نہ جانے کیوں وہ اس کی معصوم سی بھابھی کے پیچھے پڑی تھیں۔ 

زوہان کو اپنی بھابھی بہت پسند تھی۔ معصوم اور پیاری سی۔ اس ے صاحبہ کی ہری آنکھیں اور گهنگهریالے بھورے بال بہت پسند تھے جو بلکل کسی گڑیا جیسے لگتے تھے۔

وہ جس دن سے آئی تھی زوہان نے اسے ہنستے بولتے نہیں دیکھا تھا۔ بس چپ ہے رہتی تھی اور زیادہ باہر بھی نہیں آتی تھی کمرہ نشین رہتی تھی۔ اس کا بہت دل کرتا تھا اپنی بھابھی کے ساتھ وقت گزارنے کا۔

"ارے اس کا عاشق ۔۔۔"

اس سے پہلے کے وہ اپنا جمله مکمل کر کے پھر سے صاحبہ کی ذات کے پرخچے اڑاتی اورهان صاحبہ کے سرخ چہرے پر نظر ڈالتا انہیں ٹوک گیا۔

"ماں پلیز !!!"

اس کے لہجے میں نرمی بھری قطیعت تھی جسے محسوس کرتے رخسار بیگم لب بھینچ گئیں۔

"تم کمرے میں جاؤ !!!!"

اس نے تھر تھر كانپتی صاحبہ کو حکم دیا تو وہ سر ہلاتی اپنے بے جان وجود کو گھسیٹتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

"اس فائق کو میں چھوڑوں گا نہیں۔ دیکھتا ہوں کیسے بچتا ہے میرے ہاتھوں !!!"

وہ پر تپش لہجے میں بولا تو شیفان نے بھی سر ہلایا۔

"نہیں ایسی بے وقوفی مت کرنا۔ رومی اس کے نکاح میں ہے اب۔ یہ معملہ اگر جرگے میں لے گیا وہ تو ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے کچھ عرصہ صبر کرو اور خاموشی سادھ لو !!!"

یہ آواز ارقم بلوچ کی تھی۔

"بھائی صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں بلکل !!!"

ارسل بلوچ نے بھی ان کی تائید کی تو وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔

کیا ان کی بہن اتنی ارزاں تھی کہ اسے  یوں ہی چھوڑ دیتے؟؟؟ پر یہاں جرگے کے فیصلے بہت ظالم تھے ۔ 

@@@@@

گھر میں اچانک پیدا ہونے والی ٹینشن نے سب کو پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔ ہر کوئی غمگین تھا پر وقت کا تقاضا تھا کہ ابھی کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا تھا۔

وہ ابھی ماں باپ کے کمرے سے لوٹا تھا۔ اس حالت میں ماں کو سنبھالنا یقیناً اس کے لئے ایک مشکل امر تھا۔ اس کے ماں باپ کی تو کیا خود اس کی اپنی بھی جن بستی تھی اپنی بہن میں۔

وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ فائق نے ایسا کیوں کیا۔ رومی کو اس نے کہاں دیکھا ؟ پھر پورے دھڑلے سے اسے اغوا کر کے نکاح بھی پڑھوا لیا حالاں کہ اس کا نکاح صاحبہ سے ہونے والا تھا اور سننے میں آیا تھا کہ وہ اپنی دلی رضامندی سے صاحبہ سے شادی کر رہا ہے۔

تو کیا پھر فائق نے صاحبہ سے شادی نہ ہونے کا بدلہ رومی سے شادی کر کے لیا تھا ؟؟

اس طرح کے کئی سوال شیفان کے دماغ میں گھوم رہے تھے۔صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے وہ انہی سوچوں میں گم تھا جب دروازے پر ہوتی دستک نے اس کی بے لاگ سوچوں میں خلل ڈالا۔

"یس !!!"

اجازت دینے کے ساتھ ہی اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی جو رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔

بھلا اس وقت کون ہو سکتا تھا !!!

ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا جب زوہان دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے داخل ہوتے ہی دروازہ آٹو لاک ہو گیا۔

شیفان نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا جس نے ہاتھ میں ایک ٹرے تھام رکھی تھی جس میں ایک عدد دودھ کا گلاس اور  ساتھ پین كلرز کا پتہ تھا۔

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

"کیا ہے یہ ؟؟؟"

دیکھنے کے باوجود سوال داغ گیا۔

"نیم گرم دودھ اور پناڈول ہے !!!"

نظریں جھکا کر دھیمے لہجے میں بتا گئی۔

"کس لیے ؟؟؟"

لہجہ اب بھی پہلے جیسا سخت ہی تھا۔ اس کے لہجے کی سختی کو محسوس کرتے زوہان نے آنسو اپنے اندر اتارے۔ 

بھلا کون یقین کر سکتا تھا کہ سامنے کھڑا مرد وہی شیفان ہے جو اسے پیار سے کیٹی کیٹی کہتے نہیں تھکتا تھا۔ 

اب تو اس کے لہجے کی سرد مهری اور آنکھوں کا سرد پن ہی ختم نہ ہوتا تھا۔

"وہ ۔۔آپ کو ۔۔۔آپ کو ٹانگ میں درد ہو رہا تھا نا ۔۔۔تو بس اسی لئے کے آئی۔ یہ پی کے آپ اچھا محسوس کریں گے۔"

وہ ڈرتی ڈرتی اپنی آمد کا مدعا بیان کر گئی۔ ٹرے اب تک ہاتھ میں۔ میں تھام رکھا تھا۔

"اچھا !!!!! اور تمہیں کس نے کہا کہ میری ٹانگ میں درد ہے ؟؟؟"

وہ اس سے سوال کرتا صوفے سے اٹھتا اس سے چند قدم کے فاصلے پر آ کے کھڑا ہو گیا۔

"مم۔۔۔مجھے پتا چل گیا تھا !!!"

اس کی خود پر جمی گہری نظروں سے وہ كنفیوز ہونے لگی۔

"کیوں تم نجومی ہو کیا ؟؟؟"

اس کی سپاٹ آواز پر وہ سٹپٹا کر تیزی سے نفی میں سر ہلا گئی۔ ٹرے میں رکھے گلاس میں سے تھوڑا سا دودھ چھلک پڑا تو وہ ٹرے سامنے پڑے میز پر رکھ گئی۔

"جواب دو !!!"

اس کی سرد آواز پر وہ حلق تر کر گئی۔

"وہ آپ نے تین چار بار اپنی ٹانگ کو چھوا اور آپ کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات تھے۔ اس لئے مجھے لگا آپ تکلیف میں ہیں۔"

وہ انگلیاں مڑوڑتی اپنی جان بخشی کی دعا کرنے لگی۔

"اوہ تو یعنی محترمہ زوہان صاحبہ چہرے کے تاثرات پڑھنے میں بھی ماہر ہیں !!!"

وہ محظوظ انداز میں کہتا روم فریج کی طرف بڑھ گیا۔ زوہان چور نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو اب فریج کا دروازہ کھولتا جھک کر اندر سے کچھ نکال رہا تھا۔ 

اپنی مطلوبہ شے حاصل کرنے کے بعد وہ پیچھے مڑا تو وہ تیزی سے نظریں پهير گئی۔ نظروں کی یہ تیزی شیفان سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔

"پیو گی ؟؟؟"

وہ اس کے سامنے کھڑا اسے آفر کر رہا تھا ۔وہ جو اس کی طرف دیکھے بغیر جھٹ سے انکار کرنے والی تھی اس پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جہاں وہ چھوٹی سی سياهی مائل محلول کی بوتل منہ سے لگائے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر رہا تھا۔

"الکوحل !!!!!"

اس کے منہ سے یہ لفظ سرگوشی نما آواز میں نکلا تھا جس سے سامنے کھڑا انسان بھی بہرہ مند ہو چکا تھا۔ 

وہ محظوظ ہوتا اس کے قریب آیا اور اس کے گرد چکر کاٹنے لگا۔زوہان کے وجود میں پهريری دوڑ گئی۔

"تم جانتی ہو مجھے بہت اچھا لگا !!!"

وہ اس کے گرد چکر کاٹتا اب کی دفعہ میٹھے لہجے میں گویا ہوا۔

"كک۔۔۔کیا ؟؟؟"

اس کی زبان ساتھ نہ دیتے لڑکھڑا گئی۔

"تمہارا رات کے اس پہر میرے کمرے میں آنا !!!"

وہ پیچھے سے اس کے کان کے قریب جھک کر بولا تو زوہان کی آنکھیں پهيل گئیں۔ دل اچھل کر حلق میں آ گیا جیسے۔

"تم جانتی ہو؟"

وہ اپنا مضبوط بھاری ہاتھ دھیرے سے اس کے بازو پر رکھتا نیچے سے اوپر کی طرف لانے لگا۔ زوہان کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ اس نے اپنی جگہ سے ہلنا چاہا پر ٹانگوں نے انکار کر دیا۔

"تم بہت زیادہ حسین ہو!!!"

وہ اس کے بال ایک شانے پر ڈال گیا۔ گرم سانسیں زوہان کی گردن سے مس ہونے لگیں۔ اس کی بوجھل سرگوشی سے اس کا رنگ فق ہو گیا۔ اب کی بار اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شیفان کو دھکا دیا اور لرزتے قدموں سے کمرے سے باہر بھاگتی چلی گئی۔

"ڈفر !!!!"

شیفان نے ہاتھ میں پکڑا انرجی ڈرنک ڈسٹ بن میں پهينكا اور دروازہ لاک کرنے لگا۔

"آئینده آدھی رات کسی غیر مرد کے کمرے میں جانے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گی۔ ہر کوئی شیفان بلوچ نہیں ہوتا کہ جوان اور حسین ترین دوشیزہ دیکھ کر نفس کو بہکنے سے بچا لے ۔"

وہ بڑبڑاتا ہوا گولی منہ میں رکھتا دودھ کا گلاس منہ سے لگا گیا کیوں کہ اس کی ٹانگ میں واقعی بہت درد تھا اور اب وہ بس سکون لینا چاہتا تھا۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ پر بیٹھی زور و شور سے رونے میں مصروف تھی۔ اسے پھر سے یوں روتے دیکھ اورهان لب بھینچ کر رہ گیا۔ 

وہ جتنا مرضی اس لڑکی کو سمجھا لیتا منع کر لیتا پر وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی۔ مجال ہے جو کسی کی سنے بلکہ اسے یوں کہنا چاہئے تھا کہ مجال ہے جو صاحبہ اورهان بلوچ ، مرزا اورهان بلوچ کی سنے۔

اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا وہ چادر اتار کر حسب عادت صوفہ پر پهينك کر بیڈ کی طرف بڑھا۔

"اب کیوں رو رہی ہو ؟؟؟"

اس کے سوال پر صاحبہ نے شکوہ کن نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا جیسا کہہ رہی ہو کہ آپ تو واقف ہی نہیں نا کہ کیوں رو رہی ہوں۔

"بتا بھی چکو اب !!!"

اس کا انداز صاحبہ کو صاف بیزار محسوس ہوا۔ وہ جو اسے بتانے کا ارادہ کر بیٹھی تھی لب بھینچ گئی۔

"میں تم سے پوچھ رہا ہوں کچھ سنائی نہیں دے رہا کیا!!!"

جب مسلسل اس کی طرف سے خاموشی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اس کے قریب آتا غصّے سے اس کا بازو جکڑ کر استفسار کرنے لگا۔

"اگر اگلا بندہ چپ ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ آپ کی بات کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ کیا اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی آپ کو !!!!"

وہ جو پہلے ہی تپی بیٹھی تھی ایک دم پھٹ پڑی۔

اس کی چرب زبانی پر اورهان نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔ آج بڑے عرصے کے بعد اسے پرانی صاحبہ کی جھلک نظر آئی تھی۔

"یہ زبان آج کل کچھ زیادہ ہی لمبی نہیں ہوتی جا رہی !!!!"

اس کی طنز سے بھر پور آواز پر صاحبہ نے اسے ایک نظر گھور کر دیکھا پھر نظریں چرا گئی۔ آنکھیں پھر سے بہنے لگی تھیں۔

وہ جو خود کو بیزار ظاہر کر رہا تھا اب اس کی مسلسل برستی آنکھوں سے بے چین ہونے لگا تھا۔

"ماں کی باتوں کی وجہ سے رو رہی ہو ؟؟"

وہ جانتا تھا یہ سوال نہیں تھا۔ وہ شاید خود کو بھی باور کروا رہا تھا۔

وہ بغیر کوئی بھی لفظ بولے خاموش رہی تو وہ اس کا بازو چھوڑ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

"دیکھو صاحبہ تم اچھی طرح جانتی ہو ایک ماں کے لئے اولاد کا غم کیا ہوتا ہے اور وہ بھی جوان اولاد کا !!! ماں کو بہت محبت تھی افگن سے ہم سب کی جان تھا وہ ۔۔۔۔"

بولتے بولتے وہ ایک دم رک گیا۔ صاحبہ نے نظر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا تو دھک سے رہ گئی۔ بھوری آنکھیں ضبط سے لال ہو رہی تھیں۔فرط جذبات سے الفاظ جیسے منہ کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔

"اگر تم سوچو کہ وہ سب کچھ بھول کر ایک دم تمہیں سینے سے لگا لیں گی تو تمہاری خوش فہمی ہے۔ ابھی تو وہ یہ نہیں جانتی کہ تمہاری وجہ سے ہمیں کیا کچھ سہنا پڑا ہے۔ اگر وہ ان سب باتوں سے آگاہ ہو جائیں تو تمہارا اس گھر میں جینا دشوار کر دیں ۔"

اب کی دفعہ اس کا لہجہ سرد ہو گیا جسے محسوس کرتے صاحبہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔

"سردار میں ۔۔۔۔"

اس نے اورهان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اپنی صفائی میں کچھ بولنا چاہا جب وہ اس کا ہاتھ جھٹکتا اسے دونوں کندھوں سے تھام گیا۔ 

"آہ !!!!"

اپنے کندھوں پر اس کی سخت پڑتی گرفت سے تکلیف محسوس کرتی وہ سسك اٹھی۔

"تم شاید سب کچھ بھول گئی ہو ۔ کہو تو یاد دلاؤں ؟؟؟"

اس کی درشتگی سے پوچھے گئے سوال پر وہ ساختہ روتی ہوئی نفی میں سر ہلا گئی پر ذہن کے دریچوں پر بہت کچھ چلنے لگا تھا۔

@@@@@

ماضی :

بہار کے خوشگوار موسم نے ہر شے پر اپنا اثر چھوڑ رکھا تھا۔ گاؤں کے ہریالے كهيت لہلہا رہے تھے۔ ٹھنڈی میٹھی ہوا سے پیدا ہونے والے لہلہاہٹ برا خوش کن منظر پیدا کر رہی تھی۔

پرندے خوشی سے چہچہاتے ہوئے یہاں سے وہاں اڑتے پھر رہے تھے۔سورج کو بادلوں سے اپنے آنچل میں چھپا دیا تھا ایسے میں وہ بہاروں سی ایک نازک دوشیزہ ہنستی کھلکھلاتی ہر شے پر بھاری پڑ رہی تھی۔

مسٹرڈ رنگ کے تنگ پجامے کے ساتھ ٹخنوں سے تھوڑی سی اونچی لمبی قمیض میں اس کا بھرا بھرا دلکش سراپا بہت حسین لگ رہا تھا۔ گلے میں تیز مہرون رنگ کا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا جو ہوا سے اٹھکھلیاں کرتا پھر رہا تھا۔

گھنگھریالے بھورے بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے جب کہ چند آوارہ لٹیں اس کے چاند سے چہرے پر جھول رہی تھیں۔ ہری آنکھوں میں بھر بھر کر کاجل ڈالا گیا تھا جب کہ ناک میں چمکتی سونے کی تار عجب ہی بہار دکھلا رہی تھی۔ جب وہ کھلکھلا کر ہنستی تو موتیوں سے چمکتے سفید دانت چھب دکھا جاتے۔

"بس کر دیں صاحبہ بی بی بہت وقت ہو گیا هویلی سے آئے ہوئے۔ اب ہمیں واپس جانا چاہئے۔"

لالی کی آواز میں خوف پنها تھا جسے محسوس کرتے صاحبہ نے مڑ کر اسے گھورا۔

"تو کتنا ڈرتی ہے لالی۔ دھیاں رکھنا کہیں کسی دن تیری جان ہی نہ نکل جاۓ یوں ڈرتے ڈرتے۔"

صاحبہ کی بات پر لالی جهرجهری لے کر رہ گئی۔

"خدا کی پناہ صاحبہ بی بی تو بولتے ہوئے ایک پل کو بھی نہیں سوچتی۔ اگر سچ میں ان کا کہا پورا ہو گیا تو ؟؟؟ اف اللّه نہ کرے لالی تو بھی کتنا فضول سوچ رہی ہے !!!!"

وہ صاحبہ کے پیچھے چلتی بڑبڑاتی جا رہی تھی۔

"کون سی دعائیں دے رہی ہے مجھے یوں چپکے چپکے !!!"

صاحبہ کے ایک دم سوال پوچھنے پر وہ جھٹکا کھا کر رہ گئی۔ اخر وہ کیسے بھول گئی کہ کس قدر تیز کان تھے اس کی بی بی کے۔

"آپ کی ملازمہ ہوں جی میری کیا اوقات کہ آپ کے خلاف ایک لفظ بھی بول جاؤں جی !!!"

لالی تیزی سے کہتی تصدیق کے لئے کانوں کو ہاتھ لگانے لگی۔

"پر لالی میں نے کب بولا کہ تو میرے خلاف کچھ بول رہی تھی۔ میں نے تو دعائیں دینے کی بات کی نا !!!"

اس کے یوں معصومیت سے کہنے پر لالی سٹپٹا گئی۔جب کچھ بھی نہ سوجھا تو كهسيانی ہو کر ہنس دی۔

"میمنا !!!!!"

وہ سامنے نظر آتے بکری کے بچے کو دیکھ کر خوشی سے چلائی اور پھر بغیر سوچے سمجھے اس کی طرف دوری۔ لالی کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔

"دور سے قریب آتی جیپ دیکھ کر لالی اس کے پیچھے بھاگی۔

"صاحبہ بی بی سامنے دیکھیں بڑی گاڑی آ رہی ہے!!!"

پر صاحبہ اس کی آواز پر کان دھرے بغیر میمنے کی طرف بھاگی جو بیچارہ اسے اپنی طرف اتے دیکھ کر خوفزدہ ہوتا مخالف سمت میں دوڑا۔

"ارے رک جاؤ پیارے میمنے !!! کہاں بھاگے جا رہے ہو رک جاؤ پلیز!!!"

اس کا دوپٹہ ہوا کے دوش پر اڑتا چلا جا رہا تھا پر وہ ہر چیز سے بے نیاز اندھا دهند اس چھوٹے سے بکرے کے بچے کے پیچھے بھاگتی چلی جا رہی تھی جب بکری کا بچا پھسلتا ہوا ایک دم سڑک پر گرتا چلا گیا۔

صاحبہ کی ایک دم چیخ نکل گئی کیوں کہ بکری کے بچے کے بلکل قریب ایک جھٹکے سے جیپ رکی تھی۔

صاحبہ چیخ مار کر ڈر کے مارے چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔ یوں لگا جیسے ہر سو ایک دم سناٹا چھا گیا ہو۔

"جاگ جائیے محترمہ !!!!"

بھاری مردانا آواز اپنے بہت قریب سنتے صاحبہ نے جھٹکے سے چہرے کے آگے سے اپنے ہاتھ ہٹائے اور سامنے کھڑے بندے پر نظر ڈالی پر وہ نظر جلدی پلٹ کر واپس نہ آ سکی۔ وہ منہ کھولے سامنے والے کو دیکھتی چلی جا رہی تھی۔

صاحبہ کو لگا جیسے اس کے خوابوں کا شہزادہ حقیقت کا روپ دھار کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ 

ویسے ہی نقوش ویسا ہی رنگ ویسا ہی قد کاٹھ اور ویسے ہی پرسنیلیٹی !!!! 

اورهان سامنے کھڑی حسن کی دیوی کو دیکھ کر ایک پل کے لئے چونک سا گیا۔ اس نے کہاں دیکھا تھا آج سے پہلے ایسا مکمل حسن !! اور حسن بھی بے پرواہ !!!!

پر وہ اورهان بلوچ تھا۔ سرعت سے اپنے تاثرات پر قابو پا گیا پر اسے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر حیرت ہوئی جو منہ کھولے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔

اورهان پہلے تو هيران ہوا پھر لب دبا کر مسکرا دیا۔ سامنے کھڑی محترمہ اسے دیکھتے ڈے ڈریمنگ میں چلی گئی تھی۔

"محترمہ ؟؟؟"

اس کی پکار پر وہ جیسے چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

"ذرا مجھے چٹکی کاٹنا !!!"

اس کے بہکے بہکے انداز میں کی گئی فرمائیش پر اورهان آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھنے لگا۔ 

"کیا ؟؟"

وه نا سمجھی سے اسے دیکھتا سوال کر گیا۔

"کاٹو نا !!!"

اس کے اسرار سے کہنے پر اورهان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بازو پر چٹکی کاٹی۔

"آؤچھ !!!! تم سچ میں تم میرے سامنے ہو ۔ یہ حقیقت ہے !!!!! ہائے اللّه جی آپ نے میری دعا اتنی جلدی قبول کر لی اتنا پیار کرتے ہیں آپ میرے سے !!!!"

اب کی دفعہ وہ بہت خوشی اور جوش و خروش سے بولتی جا رہی تھی جب کہ اورهان نا سمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

اسے خود پر غصّہ بھی آ رہا تھا کہ وہ کیوں وہاں کھڑا اپنا وقت ضائع کر رہا ہے پر سامنے کھڑی لڑکی کی صورت اسے وہاں سے ہلنے ہی نہ دے رہی تھی۔ اس کے ناک میں پہنی سونے کی تار کے ساتھ اورهان کا دل لپٹا جا رہا تھا جیسے۔

"کیا مطلب میں سمجھا نہیں ؟؟؟"

اس کے سوال پر صاحبہ گلے میں پڑے دوپٹے کا ایک پلو ہاتھ میں لپيٹ کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ دل تھا کہ دھڑکتا ہی چلا جا رہا تھا۔ 

اورهان حیران کھڑا اس کے سرخ پڑتے گالوں کو دیکھ رہا تھا۔

"دیکھیں سیدھی سی بات ہے جوان ہو رہی ہوں میں اب میرے بھی تو کچھ خواب ہوں گے نا کچھ خواہشات ہوں گی۔ میں نے جیسا اپنے خوابوں کے شہزادے کا خاکہ بنایا تھا آپ اس پر پورا اترتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہینڈسم ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں ابھی صبح فجر کے بعد اللّه سے اپنے لئے ہینڈسم شہزادے کی فرمائش کی تھی اور اب عصر کے وقت آپ مل بھی گئے۔"

اپنی باتوں سے اسے آگاہ کرتی وہ آخر میں کھلکھلا کر ہنس دی تو اورهان بلوچ کو لگا جیسے اصل بہار تو اب اتری تھی اس دھرتی پر۔"جانتی ہو میں کون ہوں ؟؟؟"

دونوں ہاتھ کمر پر باندھتے وہ ایک قدم اس کے قریب ہو کر گھمبیر آواز میں۔ میں پوچھنے لگا۔

صاحبہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو کالی شلوار قمیض پر سکن شال کندھے پر ڈالے دونوں ہاتھ کمر پر باندھے اس کے سامنے کھڑا تھا۔

بھوری آنکھیں اس کے چہرے پر جمی تھیں جب کہ عنابی لب آپس میں بھینچے ہوئے تھے۔ کھڑی ہوئی ناک جس پر ہر وقت غصّہ دھرا رہتا تھا پر اس وقت امن ہی امن تھا۔ 

صاحبہ کا دل ایک دفعہ پھر سے دھڑک اٹھا۔

"میرے خوابوں کے شہزادے !!!"

صاحبہ کے جواب پر اس نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا۔

"اپنی اصل پہچان کا پوچھا ہے میں نے محترمہ خیر میں خود ہی بتا دیتا ہوں۔ بندے کو مرزا اورهان بلوچ کہتے ہیں !!!"

وہ جو مسکرا کے نظریں جھکائے کھڑی تھی اس کے تعارف پر ایک جھٹکے سے اپنا جھکا ہوا سر اٹھا گئی۔چہرے کا رنگ ایک پل میں بدلہ تھا جسے اورهان نے بہت شدّت سے محسوس کیا تھا۔

"سس۔۔۔سردار آپ !!!!! ہائے او ربا پوری دنیا چھوڑ کر صاحبہ چودھری کا دل آیا بھی تو کس پر ؟؟؟ مخالف قبیلے کے ہونے والے سردار مرزا اورهان بلوچ  پر !!!!"

صاحبہ کے لہجے میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔ اس کا چہرہ دیکھ کر اورهان کو لگا جیسے وہ ابھی رو دے گی۔

اس سب کے دوران وہ بکری کے اس چھوٹے سے بچے کو بھول ہی گئی تھی جو پھسلنے کے بعد ہی اٹھ کھڑا ہو کر بھاگا تھا۔

"صاحبہ بی بی چلیں جلدی چھوٹے چودھری صاحب اس طرف ہی آ رہے ہیں۔"

لالی جو تب سے چپ چاپ ایک طرف کھڑی تھی دور سے نظر آتی فائق چودھری کی گاڑی کو دیکھ کر بولی تو صاحبہ بھی اپنا صدمہ ایک پل کو بھولتی وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔

"دوبارہ کب ملیں گی ملکہ عالیہ اپنے خوابوں کے شہزادے سے ؟؟؟"

اس نے بھاگنے کے انداز میں وہاں سے جاتی صاحبہ سے سوال کا جس کا جواب دیے بغیر وہ آگے بڑھ گئی پر اپنا دل وہیں اورهان بلوچ کے قدموں میں چھوڑ گئی۔

یہ تھی اورهان اور صاحبہ کی پہلی ملاقات!!!! اب شروع ہوگی اصلی کہانی !!!! محبت سے شروع ہونے والی نفرت کی کہانی !!!

وہ آج ہی شہر سے لوٹا تھا اور راستے میں ہونے والی اس نازک دوشیزہ کی ملاقات نے اس کے موڈ کو کافی خوشگوار بنا دیا تھا۔

"بھیا !!!!"

زوہان اسے لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ کر خوشی سے چیختی اس کی طرف دوڑی اور اس کے سینے سے جا لگی۔

"میں نے آپ کو بہت مس کیا بھیا !!!"

وہ اس کے ساتھ یوں ہی لگے لاڈ سے بولی تو اورهان نے مسکراتے ہوئے جھک کر اس کے سر پر بوسہ دیا۔

"میں نے بھی اپنی گڑیا کو بہت مس کیا !!! رومی کہاں ہے اور افگن بھی نظر نہیں آ رہا!!"

وہ خالی لاؤنج میں نظر دوڑا کر پوچھنے لگا۔

"مما اور چھوٹی ماما ابھی اپنے کمروں میں گئی ہیں۔ رومی نماز پڑھ رہی ہے اور افگن لالا بھی ابھی یہاں بیٹھ کر شیفان لالا سے وڈیو کال پر بات کر رہے تھے نہ جانے کہاں چلے گئے اٹھ کر ۔"

اورهان اس کے جواب پر ر ہلاتا اسےیوں ہی اپنے ساتھ لگائے رخسار بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

سامنے ہی وہ بیڈ پر بیٹھی تسبیح کرنے میں مصروف تھیں۔

"السلام و علیکم ماں کیسی ہیں آپ ؟"

وہ بلند آواز میں ان پر سلامتی بھیجتا زوہان کو چھوڑ کر ان کی طرف بڑھتا جھک کر انہیں سینے سے لگا گیا۔ 

ماں کے سینے سے لگتے ہی ایک سکون بھرا احساس روح تک سرائیت کرتا چلا گیا تھا۔

"وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں میری جان تم کیسے ہو ؟"

اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتی وہ اس کی پیشانی پر لب رکھ گئیں۔ ان کی محبت پر وہ مسکرا کر رہ گیا۔

"آپ کی دعائیں ہیں ماں !!!"

اپنے چہرے سے ان کا ہاتھ ہٹا کر وہ اپنے لبوں سے لگا گیا۔

"شکر ہے تم نے بھی هویلی کا رخ کیا۔ پہلے شیفان لندن چلا گیا پھر تم بھی چلے گئے۔ تمہارے بابا اور چچا کو تو پنچایت اور زمینوں کے معاملات سے ہی نہیں فرصت۔ بچے بھی تینوں کالج یونیورسٹی سے آنے کے بعد تھک ہار کر اپنے کمروں میں بند ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں میں اور ناز دونوں بولائی بولائی پھرتی ہیں۔"

ان کے لہجے سے یاسیت چھلک رہی تھی۔

"ارے ایسا کیوں ماں!!! آپ دونوں وہی کیا کریں نا جو خواتین کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔"

خلاف معمول آج اس کے لہجے میں شرارت کا عکس نماياں تھا۔

"کون کا مشغلہ ؟؟"

رخسار بیگم ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگیں۔

"گوسپس !!! چغلیاں !!!"

وہ مسکراہٹ چھپاتا بولا تو رخسار بیگم گھورتے ہوئے اس کے کندھے پر دو ہتڑ لگا گئیں۔

"شرم تو نہیں آتی ماں کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے ۔"

ان کی آواز سے خفگی جھلک رہی تھی۔

"شادی کروا دیں بھیا کی ماں !!!"

کمرے میں داخل ہوتے افگن نے مفت کے مشورے سے نوازا تھا۔

شادی کے نام پر اورهان کے ذہن کے پردوں پر چھن سے وہ نازک سراپا نمایاں ہوا تھا۔ ہری آنکھیں اور تیکھی ناک میں چمکتی سونے کی بالی !!! اورهان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

"بھیا کی شادی ہو جاۓ گی تو انھیں روز روز گاؤں آنے کا بہانہ بھی مل جاۓ گا اور آپ کو وقت گزارنے کے لئے ایک عدد بہو بھی مل جاۓ گی۔"

وہ اورهان سے ہاتھ ملا کر شرارت سے کہتا سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیا جب کہ اس کی شادی کے نام پر رخسار بیگم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

"ارے میں تو اس کو اتنے سالوں سے کہہ رہی ہوں کہ شادی کی عمر ہو گئی تمہاری پر مجال ہے جو یہ لڑکا میری کوئی بات بھی سنتا ہو۔ بس میں نے سوچ لیا ہے جیسے ہی مجھے اپنے شہزادے بیٹے کے معیار کی کوئی لڑکی پسند آئی میں نے ہتھیلی پر سرسوں جما لینا ہے۔"

وہ تو جیسے مسمم ارادہ کیے بیٹھی تھیں۔

اس سے پہلے کہ اورهان انہیں کوئی جوآب دیتا اس کی نظر کمرے میں داخل ہوتی رومیصہ پر پڑی۔ وہ تیزی سے اٹھتا اس کی طرف بڑھا اور اسے اپنے ساتھ لگا گیا۔

"کیسی ہو گڑیا کہاں چھپی بیٹھی تھی۔ لالا کب سے آئے بیٹھے ہیں اور لالا کی گڑیا اب تشریف لا رہی ہے !!"

اس کے شکوے پر ہو دھیرے سی مسکرا دی۔ نور سے محروم کانچ سی آنکھوں والی رومی بلوچ هویلی کی جان تھی۔ اورهان نے بچپن سے آج تک زوہان اور رومی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ کیا تھا۔ 

 "میں نماز پڑھ رہی تھی لالا ابھی آپ کی آواز سنی تو سیدھی یہاں چلی آئی ۔"

اورهان اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بیڈ پر ہی بیٹھا گیا۔

"بور تو نہیں ہوتی میری گڑیا ؟؟"

اورهان اس کے سر پر ہاتھ رکھتا پیار سے استفسار کرنے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی افگن بول اٹھا۔

"بور !!! اور وہ بھی یہ !!! جانے دیں بھیا آپ۔ یہ دونوں چڑیلیں نہیں ہوتی بور۔ کالج سے انے کے بعد وہ زونی چڑیل اس کو لے کر لاؤنج میں بیٹھ جاتی ہے۔اس کے ہاتھ میں روز کوئی نہ کوئی نیا ناول ہوتا ہے اور اس میسنی کے ہاتھ میں پاپ کارن کا باؤل۔ وہ چھوٹی چڑیل پتا نہیں کیا کیا پڑھ کر اسے بڑی چڑیل کو سناتی رہتی ہے اور یہ بھی بڑے مزے سے سنتی ہے۔ پھر دونوں نا جانے کیا كهسر پهسر کرتی ہیں۔ بہت دفعہ کان لگا کر سننے کی کوشش کی پر قسم لیں اگر کبھی ایک لفظ بھی ان میسنیوں نے کان میں پڑنے دیا ہو۔ ان دونوں کو دنیا کا اور کوئی کام نہیں۔بس یہ اور ان کے سستے ناولز۔"

افگن بڑے مزے سے ایک نظر اورهان کے لئے جوس کا گلاس لے کر آتی زوہان اور دوسری نظر اورهان کے پہلو میں بیٹھی رومی پر ڈالتا  اپنے جلے دل کے پھپھولے  پھوڑ رہا تھا۔ 

"خبردار اگر ہمارے ناولز کو سستے کہا !!!"۔

وہ دونوں ایک ساتھ چیخی تھیں۔ تڑپ ہی تو اٹھی تھیں وہ اپنے پیارے ناولز کی شان میں ہوئی گستاخی پر۔

رخسار بیگم نے ایک افسوس بھری نظر ان تینوں پر ڈالی جو ہر وقت بچوں کی طرح چونچ لڑاتے رہتے تھے۔

"بی بی صاحبہ ناز بی بی کہہ رہی ہیں کہ آ جائیں کھانا لگ چکا ہے ۔"

ملازمہ نے آ کر اطلاع دی تو رخسار بیگم نے شکر کا سانس لیا۔

"اچھا تم چلو ہم آ رہے ہیں۔ اٹھو بچو سب اور چلو باہر۔ کھانے کو انتظار کروانا اچھی بات نہیں ہوتی۔"

پہلی بات ملازمہ سے کہنے کے بعد وہ ان تینوں پر حکم صادر کر گئیں تو وہ اچھے بچوں کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔

@@@@@

"ایکسکیوز می مسٹر !!! آپ کو کینٹین میں لیلیٰ بلا رہی ہے !!"

وہ جھک کر نیچے پڑا اپنا بیگ اٹھا رہا تھا جب پیچھے سے کسی لڑکی نے اس کے کندھے کو تهپتهپایا۔

کسی لڑکی کی آواز سن کر اس کا لمس اپنے کندھے پر محسوس کرتا وہ نا گواری سے پلٹا تو اسے دیکھ کر سامنے کھڑی انگریز لڑکی ایک پل کے لئے ٹھٹھک سی گئی۔

سامنے کھڑا مشرقی مرد وجاہت سے بھر پور تھا۔ چھے فٹ سے نكلتا اونچا لمبا قد چوڑے شانے اور ورزشی جسم اس کے بھر پور مرد ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ 

بھورے سلكی بال پیشانی پر بکھرے تھے۔ کشاده پیشانی پر واضح  بل اور بھوری  آنکھوں میں موجود ناگواری دور سے بھی نظر آ رہی تھی۔ 

وہ کچھ کہنے کے لئے لب کھولنے لگا پھر کچھ سوچ کر لب بھینچ گیا اور تیز تیز قدم اٹھاتا کینٹین کی طرف بڑھ گیا۔

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو!!! ہیپی برتھ ڈے ڈیئر شیفان !!!! ہیپی برتھ ڈے ٹو یو!!! "

وہ جیسے ہی کینٹین میں داخل ہوا وہاں موجود سٹوڈنٹس کا سیلاب لہک لہک کر اونچی آواز میں اسے برتھ ڈے وش کرتا سچ میں هيران کر گیا۔ 

وہ ایک حیرت بھری نظر پوری کینٹین پر ڈالنے لگا جو غباروں سے سجی ہوئی تھی۔

وہ الجھن بھری نظروں سے سب دیکھ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہ آ رہی تھی یہ کہ یہ سب کس نے کیا ہے۔

اسے لندن آئی چار مہینے ہو چکے تھے۔ ان چار مہینوں میں اس کی صرف دو لوگوں سے دوستی ہوئی تھی۔ لیلیٰ اور ہادی۔ اس  دوستی کی شروعات میں بھی ان دونوں کا ہی ہاتھ تھا ورنہ شیفان کی ریزرو نیچر اور سخت تاثرات کی وجہ سے سب اس سے دور دور ہی رہتے تھے۔

لیلیٰ اور ہادی کو وہ سختی سے منع کر چکا تھا کسی بھی قسم کی سیلیبریشن سے کیوں کہ اس کی نظر میں وہ اب بچہ نہ رہا تھا جو ایسے کام کرتا پھرتا۔ ان دونوں کے علاوہ پھر کون ہو سکتا ہے یہی بات اس کے دماغ میں اس وقت گردش کر رہی تھی پر جیسے ہی اس کی نظر سامنے نظر آتے منظر پر پڑی وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔

لیلیٰ سامنے سے ہاتھوں میں کیک تھامے چلتی آ رہی تھی۔ اس کے پیچھے ہادی بھی تھا جس نے ہاتھ میں کچھ باکس پکڑ رکھے تھے۔

"ہیپی برتھ ڈے ہنی !!!!"

وہ اس بلکل سامنے رک کر مسکراتی ہوئی بولی تو وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔

"تھینک یو بوتھ !!!"

لیلیٰ کے اشارے پر ایک لڑکے نے چھوٹا سا ٹیبل شیفان کے آگے رکھا جس پر لیلیٰ نے کیک رکھنے کے بعد شیفان کی طرف چھری بڑھائی۔

تالیوں کی گونج میں اس نے کیک کاٹا اور سب سے پہلے ہادی اور پھر لیلیٰ کو کھلایا۔

"ہنی آج کے اس اسپیشل ڈے پر میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں !!!"

لیلیٰ کی بات پر شیفان نے ناسمجهی سے اسے دیکھا۔ وہ بس جلد از جلد اس ماحول سے نکل جانا چاہتا تھا۔ اسے سخت الجھن ہو رہی تھی۔

لیلیٰ اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھتی کمر کے پیچھے چھپایا گیا ہاتھ سامنے کر گئی جس میں تازہ گلاب کا پھول تھام رکھا تھا۔

"آئی لوو یو سو بیڈلی ہنی !!! ول یو پلیز میری می ؟؟؟"

اس کے اظہار پر ایک بار پھر کینٹین میں چیخ و پکار مچ گئی۔ سٹوڈنٹس ھوٹنگ کرتے ہوئے شور مچا رہے تھے اور "سے یس !!!" کے نعرے لگا رہے تھے جب کہ وہ ششدر کھڑا اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی لڑکی اور اس کے ہاتھوں میں پکڑا لال گلاب دیکھ رہا تھا۔

لیلیٰ ایک خوبصورت اور خوش اخلاق چلبلی سی لڑکی تھی۔ شیفان کو وہ شروع سے اچھی لگتی تھی اور کچھ دن پہلے اس پر ادرک ہوا تھا کہ وہ لیلیٰ سے محبت کرنے لگا ہے پر وہ نہیں جانتا تھا کہ لیلیٰ بھی اس سے محبت کرتی ہے۔

جو بھی تھا پر اسے لیلیٰ سے اس حرکت کی بلکل بھی امید نہیں تھی۔ وہ ایک مشرقی مرد تھا۔ اسے بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اتنے لڑکے اس کے سامنے بیٹھی لیلیٰ کو پر شوق نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔

وہ سر جھٹک کر نیچے جھکتا اسے کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کر گیا پھر اس کے ہاتھ سے گلاب پکڑ کر اس کے بالوں میں اٹکا گیا۔

"یہ گلاب اس گلاب سے چہرے پر سج کر زیادہ قیمتی لگ رہا ہے۔"

اس کی حرکت اور الفاظ پر ایک دفعہ پھر ہوٹنگ کا شور بلند ہوا تھا۔

"میرے سوال کا جواب ؟؟؟"

لیلیٰ نے اس کے سینے پر ہاتھ جماتے اس کی بھوری  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا تو وہ ایک سرسری نظر پوری کینٹین پر ڈال گیا جہاں کھڑا ہر شخص اس کا جواب سننے کو بے چین کھڑا تھا۔

"اظہار محبت میں پہل کرتے ہمیشہ مرد ہی جچتا ہے۔ اس سوال کا جواب میں اپنے انداز میں دوں گا فلحال بس اتنا جان لو کہ بہت اہم ہو تم میرے لئے !!!!"

اپنے میٹھے الفاظ اس کے کانوں میں اتارتا وہ سب کی آوازوں کو نظر انداز کرتا اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ دونوں کے چہروں پر اس وقت خوب صورت مسکان جلوه افروز تھی۔

@@@@@

وہ چودھری هویلی کے بڑے سے دالان میں ملازموں کے بچے اکٹھے کیے انھیں زبردستی پڑھانے میں لگی تھی۔

"پڑھو ایم فار مینگو !!!"

وہ پانچ سال کے چھوٹے سے بچے کے سامنے قاعدہ رکھتے اس پر انگلی رکھ کر پڑھا رہی تھی۔

"ایم فار آم !!!"

اس کے یوں پڑھنے پر صاحبہ کی نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ پر اس بیچارے کا بھی کیا قصور اس نے تو آم کو کبھی مینگو نہ سنا تھا۔ ہمیشہ آم ہے سنا اور کہا۔

"بیٹا آم نہیں مینگو ۔ پھر سے پڑھو اور اب پورے پانچ دفعہ پڑھنا ہے ۔ پڑھو ایم فار مینگو !!!"

اب کی دفعہ بھی وہ پیار سے بولی۔

"ایم فار آم۔ایم فار آم۔ ایم فار آم۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ آم آم کی گردان لگائے رکھتا وہ تیزی سے اس کے لبوں پر انگلی رکھ گئی۔

"اچھا اس کو چھوڑو یہ پڑھو۔ بی فار بال!!!"

اس کے پڑھانے پر وہ بچہ ناسمجهی سے صاحبہ کی طرف دیکھنے لگا۔

"کیا ہوا ؟؟؟"

اس کی ہونق شکل پر صاحبہ کو پیار آنے لگا۔

"مس جی آپ کو نہیں آتا۔ اس کو بال نہیں گیند کہتے ہیں۔ بال تو سر پر ہوتے ہیں !!!"۔

اس کی معصومانہ بات پر صاحبہ کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔اس سے پہلے کہ وہ اسے کوئی جواب دیتی دوسرے بچے کے حلق پھاڑ کر رونے پر وہ بوکھلا کر اس کی طرف پلٹی۔

"کیا ہوا بچے ؟؟"

وہ پریشانی سے اس روتے بچے سے سوال کرنے لگی جو پورا منہ کھول کر روتا چلا جا رہا تھا۔

"علی نے میری ٹنڈ پر اتنی زور سے تھپڑ مارا !!!"

اس کی شکایت پر صاحبہ غصّے سے علی کی طرف پلٹی جو مار کے ڈر سے ہی اونچی آواز میں رونا شروع ہو گیا تھا۔ 

صاحبہ ہونق بنی یہ ساری صورت حال دیکھ رہی تھی۔

"تت۔۔۔تم لوگ جاؤ چھٹی کرو سب شاباش باقی ہم کل پڑھیں گے۔"

وہ ان کے رونے سے جان چھڑوانے کے لئے جلدی جلدی بولی۔

اس کے بولنے کی دیر تھی کہ بچے رونا دھونا بھول کر خوشی سے چیختے یوں باہر کی طرف بھاگے جیسے برسوں بعد جیل سے رہائی ملی ہو۔ 

"چل صاحبہ نکل لے هویلی سے۔ تیرے دماغ کو ٹھنڈی ہوا کی اشد ضرورت ہے۔"

خود سے کہتی وہ گلے میں پڑا دوپٹہ گلے میں سر پر ڈال کر ادھر ادھر نظر دوڑاتی دالان سے نکل گئی۔لالی کی تلاش میں نظریں دوڑائی پر کہی نظر نہ آئی تو کندھے اچکا کر اکیلی ہی هویلی سے نکل گئی۔ 

چوکیدار جانتے تھے کہ نانا کی لاڈلی کے کسی بھی حکم کو ٹال نہیں سکتے جبھی چپ چاپ دروازہ کھول دیا اس کے لئے۔

صاحبہ چودھری اسلم چودھری کی نواسی اور انور چودھری کی بھانجی تھی۔ انور اور لائبہ دو بہن بھائی تھے۔ انور بڑے تھے جب کہ لائبہ چھوٹی۔ انور کی شادی ان کے خاندان میں ہی نیشا بیگم سے ہوئی تھی جن کی دو اولادیں تھیں۔ فائق چودھری اور علینا چودھری۔ جب کہ لائبہ نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ شادی کے بعد انھیں هویلی سے بے دخل کر دیا گیا پر صاحبہ کی پیدائش پر لائبہ ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند گئی تو اسلم چودھری اپنے جگر گوشے کی اولاد کو اپنے ساتھ لے آئے۔ صاحبہ کے باپ نور دین کو کوئی اعتراض نہ تھا کیوں کہ اس کے گھر والے بھی اس کی شادی سے راضی نہ تھے۔

یوں صاحبہ ہمیشہ کے لئے چودھری هویلی آ گئی اور صاحبہ چودھری بن گئی۔ اسلم چودھری کی لاڈلی تھی وہ اس لئے اسے ہر کام کی چھوٹ تھی جو هویلی کے دوسرے مکینوں کو برداشت نہ تھی۔

وہ هویلی ہی نکلتی کھیتوں کی طرف چل دی۔

تو ہتھ پھڑ کے لے جا سدهوا 

کیوں کردا بے شکياں 

اج کل وے پل پل وے 

تینو ویکھدی آں اکھیاں 

وہ بڑے مزے سے گاتی ہوئی جا رہی تھی جب اسے محسوس ہوا کوئی اس کے پیچھے ہے۔

"تو پھر اجازت ہے ؟؟؟"

اس سے پہلے وہ مڑ کر دیکھتی بھاری گھمبیر آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ ڈر کے مارے ایک دم اچھل پڑی۔

"ہائے او ربا !!! جان نکل جاتی ابھی ڈر کے مارے میری!!! "

سامنے کھڑے اورهان بلوچ کو دیکھ کر وہ سینے پر ہاتھ رکھتی گہری سانس بھر کر رہ گئی۔

"تم نے جواب نہیں دیا ؟؟"

وہ اس کے سامنے کھڑا ہوتا پر شوق نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

"کس چیز کی اجازت ؟؟"

وہ اس کی گہری نظروں سے كنفیوز ہونے لگی۔

"ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے کی !!!"

اس کی بات پر صاحبہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

"پپ۔۔۔پاگل واگل تو نہیں آپ سردار کیا بول رہے ہیں !!!"

وہ ہڑبڑا کر آس پاس نظر دوڑانے لگی کہ کہیں کسی کی نظر نہ ان دو پر پڑ جاۓ۔

"ارے ابھی تم خود ہی تو لہک لہک کر فرمائش کر رہی تھی میں تو بس ایک لڑکی کی معصوم خواہش پوری کرنا چاہ رہا ہوں۔"

اس کی آواز بھر پور سنجیدہ تھی پر سنہری آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔

اپنے گاۓ گئے گانے کے بول یاد کرتی وہ بے طرح شرمندہ ہوئی۔

"سوری سردار !!!"

کہتے ہی وہ وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔

"ارے رکو تو !!!"

وہ اسے پیچھے سے آواز دینے لگا پر وہ اس کی ایک بھی سنے بغیر تیزی سے وہاں سے غائب ہو گئی۔

"جھلی !!!!"

اس کی حرکت یاد کرتا وہ بے ساختہ دھیرے سے ہنس دیا۔

هویلی کی طرف واپس جاتے اس کی زبان پر بھی اسی گانے کے بول تھے جو کچھ دیر پہلے وہ جهلی گا رہی تھی۔

وہ دونوں اس وقت کھیتوں کی پچھلی طرف بنی نہر کے کنارے بیٹھے تھے۔ یہ ان  کی چھٹی ملاقات تھی۔ ان چند ملاقاتوں میں ہی وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے کیسے لازم و ملزوم ہو گنے تھے۔

صاحبہ اس کے لئے اپنے دل میں جذبات رکھتے ہوئے اس کی طرف پیش قدمی کرنے سے خوف زدہ سی تھی پر جب اورهان نے پہل کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا تو وہ بھی باقی ہر چیز کو بھول بیٹھی۔

اس وقت بھی دونوں ہاتھوں میں ہاتھ دیے نہر میں پاؤں لٹکا کر بیٹھے تھے۔ ٹھنڈہ پانی ان کے ٹخنوں سے اوپر تک جا رہا تھا۔

"آپ نے کبھی بتایا نہیں سردار کہ آپ مجھ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں ؟؟"

وہ اچانک اس کی طرف دیکھتی سوال پوچھ بیٹھی۔ وہ جو چپ چاپ بیٹھا اس کے نقوش حفظ کر رہا تھا اس کے سوال پر ایک پل کے لئے چونک اٹھا پر اگلے ہی پل دلکشی سے مسکرا اٹھا۔

وہ اس کی طرف رخ کر کے بیٹھتا اس کے نازک ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں قید کرتا اس کی انگلیوں کی پوروں کو نرمی سے چھونے لگا۔

اس کے اتنے سے لمس کے ميسر آنے پر ہی صاحبہ کی رنگت گلابی پڑنے لگی۔ لامبی پلکیں لرزتی ہوئی عارضوں پر سایہ فگن ہو گئیں۔

اورهان بلوچ نے پر شوق نظروں سے پلکوں کا یہ حسین رقص دیکھا تھا۔

"مجھے تم سے بے تحاشہ محبت ہے پر کیوں ہے اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں ہے۔جانتی ہو نا کہ محبت دو دلوں کے بیچ کا پاکیزہ رشتہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کہ یہ جہاں آباد ہونے سے پہلے اور اس دنیا کی تخلیق سے پہلے جب اللّه نے تمہاری اور میری روح تخلیق کی ہو گی اور ہماری قسمتیں لکھی گئی ہوں گی تو فرشتوں نے اس قسمت کے پنے میں ہمارے درمیان ایک ربط باہم بھی لکھا ہو گا مگر اس کی کوئی وجہ نہیں لکھی ہو گی۔ پھر میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ تم سے محبت کرنے کی کیا وجہ ہے ؟؟ اگر  تم سے محبت کی کوئی وجہ ہوئی تو میں ضرور بتا دیتا پر مجھے تم سے بغیر کسی وجہ اور غرض کے بے انتہا اور بے شمار محبت ہے !!!"

اسے اپنے خوب صورت لفظوں سے مالا مال کرتے وہ دھیرے سے جھکا اور اس کی گلابی ہتھیلی پر اپنے دہکتے لب رکھ گیا۔

اس کے نرم گرم ہونٹوں کا لمس اپنی نازک ہتھیلی پر محسوس کرتی وہ لرز اٹھی پر اس میں اتنی ہمت نہ ہو سکی کہ اپنا ہاتھ چھڑوا لے۔ یا شاید وہ ایسا چاہتی ہی نہ تھی۔

"اور کچھ پوچھنا ہے روح جاناں !!!!"

وہ اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اس کا چہرہ اوپر اٹھاتا اس کی ہری آنکھوں میں اپنی سنہری آنکھیں گاڑھتا پوچھنے لگا تو وہ بے ساختہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

اس کے ہونٹوں پر رقص کرتی دلنشیں مسکراہٹ اورهان بلوچ کے سینے میں ٹھنڈک کا احساس دوڑا رہی تھی۔

"پوچھو جو بھی پوچھنا ہے تمہارا سردار تمہارے ہر سوال کا جواب دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔"

اس کی بات پر صاحبہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اب یقیناً وہ اپنے دل میں موجود وہ سوال پوچھ سکتی تھی جس نے اسے پچھلے کچھ دنوں سے پریشان کر رکھا تھا۔

"میں نے سنا ہے کہ آپ لندن سے پڑھ کر آئے ہیں اور وہاں لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ تو کیا یہ سچ ہے ؟؟"

اس کے سوال پر اورهان بہت غور سے اس کے چہرے کے تاثرات جانچنے لگا۔

"ہاں یہ سچ ہے۔ یونیورسٹی میں کو ایجوکیشن ہوتی ہے مطلب لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔"

اس کے جواب پر صاحبہ کے چہرے پر نا خوشگوار تاثرات ابھرے۔

"اچھا !!! وہاں تو انگریز لڑکیاں زیادہ ہوتی ہیں نا اور انہوں نے تو کپڑے بھی بہت چھوٹے چھوٹے پہنے ہوتے ہیں۔کیا آپ کی ان کے ساتھ دوستی بھی تھی۔"

اس کا ہر انداز چیخ چیخ کر اس کی جیلسی کا اعلان کر رہا تھا۔ اورهان کو ہنسی آنے لگی پر وہ بہت مشکل سے ضبط کیے ہوئے تھا۔

"ہاں وہاں لڑکیاں ماڈرن ڈریسنگ کرتی ہیں اور میرے گروپ میں کچھ لڑکیاں بھی تھیں اور اچھی بات چیت ہو جاتی تھی میری ان سے۔"

وہ بڑی لاپرواہی ظاہر کرتا بہت غور سے اس کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

"بلکہ میرے پاس پکس بھی ہیں رکو تمہیں دکھاتا ہوں۔"

کہنے کے ساتھ ہی اورهان نے اپنی قمیض کی سائیڈ پاکٹ سے اپنا لیٹیسٹ ماڈل  آئی فون نکالا اور تیزی سے اس کی سکرین پر انگلیاں چلانے لگا۔

"یہ دیکھو یہ تھا میرا بیچ !!!"

اورهان نے ایک تصویر نکال کر موبائل اس کے ہاتھ میں پکڑایا اور خود اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو پھٹی پھٹی نظروں سے سامنے نظر آتی تصویر کو دیکھ رہی تھی۔

اس کی شکل دیکھ کر اورهان کا دل کیا زور زور سے قہقہے لگائے۔

"ہائے او ربا !!! سردار یہ چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر کتنے سکون سے اتنے لڑکوں کے درمیان کھڑی ہیں۔ اور یہ آدھی ننگی چڑیل کون ہے جو آپ کے ساتھ چپک کر کھڑی ہے!!!"

اس کی صدماتی آواز پر اورهان کا کب سے ضبط کیا ہوا قہقہہ چھوٹ گیا۔وہ ہنستے ہوئے اسے دیکھنے لگا جو سرخ چہرے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کے موبائل کی سکرین پر موجود تصویر کو دیکھ رہی تھی۔

یہ اس کی کانووکیشن کی تصویر تھی جس میں فورنر لڑکیوں نےسلیولیس شارٹ شرٹس اور  منی سکرٹ پہن رکھے تھے۔

"پکڑیں اپنا موبائل۔"

موبائل اس کے ہاتھ میں پکڑاتی وہ خفگی سے وہاں سے اٹھنے لگا جب اورهان اسے بازو سے پکڑتا اپنی طرف كهينچ گیا۔ وہ ایک جھٹکے سے اس کے سینے سے آ لگی پر اب کی دفعہ چہرے پر شرم و حیا کی بجائے خفگی بھرے تاثر تھے۔ 

اورهان سمجھ گیا کہ معاملہ سیریس ہو چکا ہے۔

"اس قدر غصّہ کس بات پر آ رہا ہے میری جان کو ؟"

وہ اس کے گلابی گال پر جھولتی آوارہ لٹ کو اپنی انگلی پر لپيٹتا پیار سے استفسار کرنے لگا۔

"وہ لڑکی آپ کے اتنا قریب کھڑی تھی اور تھی بھی اتنی پیاری۔ آپ نے کبھی میرے ساتھ ایسے تصویر بھی نہیں بنائی۔"

اس کی شکایتوں پر وہ دھیرے سے ہنس دیا پھر اٹھ کر اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ صاحبہ کی آنکھیں پهيل گئیں۔

"پہلی بات تو یہ میری جان کہ باخدا مرزا اورهان بلوچ کو آج تک صاحبہ چودھری سا حسین کوئی نہ لگا نہ ہی کسی کی قربت کی طلب اس طرح محسوس ہوئی جس طرح تمہاری ہوتی ہے۔ سنو حسن کی دیوی! نہ جانے تم نے ایسا کونسا جادو کیا ہے مجھ پر کہ دل کرتا ہے ہر کام کو لات مار کر ہر وقت تمہارے چرنوں میں پڑا رہوں بس۔"

وہ جو اس کی حرکت پر چھوئی موئی ہو رہی تھی اس کی بات پر ایک دم کھلکھلا کر ہنس دی۔ وہ وار جاتی نظروں سے اس کا حسین مکھڑا دیکھنے لگا۔

"اور دوسری بات تمہاری تصویر والی شکایت بھی ابھی دور کر دیتے ہیں۔"

وہ کہتے ساتھ ہی موبائل کا فرنٹ کیمرہ آن کرتا دوسرے ہاتھ سے صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر دھر گیا۔

پھر اسی پوزیشن میں وہ دھڑا دھڑ ڈھیڑ سی تصویریں بنا گیا۔

"اگلی ملاقات کا شرف کب بخشو گی ؟"

وہ سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔

"بدھ کو !!!"

وہ مسکرا کر کہتی اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔

"اف یار اتنے دن بعد۔ کیسے کٹیں گے پانچ دن۔ اور سنو اگلی دفعہ کالا سوٹ پہن کر آؤ گی تم !!!"

وہ لاڈ سے فرمائیش کر گیا تو وہ مسکراتی ہوئی سر ہلا گئی۔

ایک مرتبہ پھر اورهان تھا ، صاحبہ تھی اور ان کی نہ ختم ہونے والی باتیں !!!!

@@@@@

وہ تینوں لاؤنج میں بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے۔ رومی کے حصّے کی گوٹیاں زوہان چلاتی تھی۔ 

گھر کے کسی بھی فرد نے اسے کبھی محسوس ہی نہ ہونے دیا تھا کہ وہ آنکھوں سے محروم ہے۔ وہ سب اس کی بینائی بن گئے تھے۔

"ویسے رومی ایک بات تو بتاؤ !!!"۔

زوہان کچن سے پانی لینے گئی تھی جب افگن نے رومی کو مخاطب کیا۔

"جی پوچھیں۔"

اس کے اجازت دینے پر وہ اس کے قریب كهسك آیا۔

"ناولز میں ایسا کیا ہوتا ہے جسے سن کر تمہارے یہ گلابی گال لال لال ہو جاتے ہیں !!!"

اس کے چھچھورے سوال پر رومی دانت کچکچا کر رہ گئی۔

"اس میں ٹھرکی کزن کو پیٹنے کے ایک سو ایک طریقے بیان کئے گئے ہوتے ہیں۔"

پیچھے سے زوہان آتی بولی تو اس کے جواب پر افگن نے شکل سے زاويے یوں بگاڑے جیسے کڑوا بادام چبا لیا ہو۔

"چڑیل کبھی تو پرائیویسی دے دیا کرو !!!"

وہ زوہان کو گھور کر بولا تو وہ وہ ابرو اچکا کر رہ گئی۔

"افگن لالا میں سمجھی نہیں ۔ ایک بھائی کو اپنی پیاری سی بہن سے بات کرنے کے لئے کسی پرائیویسی چاہئے۔"

وہ دهپ سے رومی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔

"تم ایک چڑیل میری بہن کافی نہیں ہو کیا جو اسے بھی میری زبردستی کی بہن بنانے پر تلی ہو !!!"

وہ تپ ہی تو اٹھا تھا اس کی بات پر  جب کہ رومی لب بھینچے اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔

"ہنس لو ہنس لو ظالم عورت!!! میرے جذبات سے باخبر ہوتے ہوئے ان کا مذاق اڑا رہی ہو تم سے تو اللّه ہی پوچھے گا۔"

اس کی دہائیاں عروج پر تھیں ۔ رومیصہ نظریں چرا گئی۔

"افگن لالا آ لینے دیں ذرا آج اورهان لالا کو ۔ آپ کے یہ قابل تحسین جذبات ان تک پہنچاتی ہوں میں۔"

زوہان کمر پر ہاتھ رکھتی اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

"جیتی رہو میری بہن۔نیکی اور پوچھ پوچھ !!! پلیز ضرور بتانا تا کہ میری نئیا بھی پار لگے !!!"

وہ جوش سے کہتا ان دونوں کو نفی میں سر ہلانے پر مجبور کر گیا۔

"شرم کر لیں لالا !!! آپ سے بڑے دونوں ابھی كنوارے ہیں اور آپ کو جلدی پڑی ہے!"

زوہان اس کی بے شرمی پر اسے دیکھ کر رہ گئی جب کہ رومی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔

"اورهان لالا بہت جلد ہماری بھابھی لانے والے ہیں اور شیفان لالا کی طرف سے بھی کچھ ایسا ہی سمجھو۔بھئی لندن جیسے ملک میں رہتے ہیں اتنی حسین لڑکیوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی حسینہ کی قاتل نظروں کے وار سے بچ پائے ہوں اب تک !!!"

جہاں اس کی پہلی بات پر زوہان پر جوش ہوئی تھی وہیں اس کی دوسری بات پر اس کے دل کو دھکا سا لگا۔

کیا واقعی شیفان کسی کو پسند کرنے لگا ہو گا ؟ کیا اس کی زندگی میں کوئی اور لڑکی آ چکی ہو گی؟؟ پر چھوٹی ماما نے تو ھمیشہ یہی کہا کہ زوہان میرے شیفان کی دلہن بنے گی۔

ایک دم ہی مختلف سوچوں نے اس کے ذہن پر پر زور حملہ کیا تھا۔ وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔

"مجھے یاد آ گیا میرا بہت ضروری ٹیسٹ ہے مجھے تیاری کرنی ہے میں جا رہی ہوں۔"

ان دونوں کو مطلع کرتی وہ ان کی کوئی بات سنے بغیر کمرے کی طرف بھاگ گئی جب کہ وہ دونوں پیچھے سے ارے ارے ہی کرتے رہ گئے۔

"کہاں سے تشریف لا رہی ہو ؟؟؟'

وہ گنگناتی ہوئی جیسے ہی هویلی کے اندرونی حصّے میں داخل ہوئی پیچھے سے مامی کی کڑک آواز سنائی دی۔ صاحبہ کا سانس سینے میں اٹک گیا جیسے۔

"ج۔۔۔جی کیا ؟"

اس کے یوں ناسمجھی سے منمنانے پر صائمہ (مامی) کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

"مہارانی صاحبہ صرف اتنا پوچھا ہے کہ کہاں سے آ رہی ہو اس وقت ؟"

اس کے سخت تاثرات دیکھ کر صاحبہ کو یقین ہو گیا کہ آج اس کی جان بخشی نہیں ہونے والی۔

"گرمی لگ رہی تھی تو ۔۔۔تو میں ٹھنڈی ہوا کھانے نہر پر گئی تھی۔"

وہ انگلیاں مڑوڑتی گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی تو صائمہ کی تیوری چڑھ گئی۔

"واہ بھئی واہ !!! صاحبہ بیگم کو کمرے میں لگے اے-سی کی ہوا گرم لگ رہی رہی تبھی ٹھنڈی ہوا کھانے کڑک دھوپ میں نہر پر گئی ہیں نا ؟"

ان کے چبھتے انداز پر صاحبہ کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔

"آئنده اگر زیادہ گرمی لگے نا تو ٹھنڈے پانی سے نہا لینا۔ امید ہے تمہاری گرمی ضرور اتر جاۓ گی۔"

تپتے ہوئے لہجے میں کہتی وہ اپنے کمرے کی طرف چل دی تو صاحبہ کی جان میں جان آئی۔

وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔

"ہائے او ربا !! آج تو مرتے مرتے بچی صاحبہ !!"

کمرے میں آتے ہی وہ جلدی سے دروازہ لاک کرتے بیڈ پر گر گئی۔ 

خوف کے مارے دل زور و شور سے دھڑک رہا تھا۔اس نے جلدی سے دوپٹے کے پیچھے چھپایا گیا اپنا موبائل نکالا۔ 

یہ موبائل اورهان نے دیا تھا آج صاحبہ کو تا کہ جب دل کرے اس سے بات کر سکے۔ صاحبہ کے پاس اس سے پہلے موبائل نہیں تھا کیوں کہ اسے اجازت نہیں تھی۔

وہ اورهان کو کافی دفعہ منع کر چکی تھی kکہ وہ یہ موبائل نہیں پاس رکھ سکتی پر اورهان نے اس کی ایک نہ سنی اور موبائل تهما دیا۔

صاحبہ نے غور سے دیکھا۔ یہ موبائل بلکل اورهان کے موبائل جیسا تھا۔ اپنے موبائل کے لئے اس کی پسندیدگی دیکھتے ہوئے اورهان نے اس کے لئے بھی بلکل ویسا ہی لیا تھا۔

صاحبہ کے ہونٹوں پر بے ساختہ ایک پیاری سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔

وہ اسے موبائل استعمال کرنے کی ضروری ٹپس بتا چکا تھا اسے۔

اس نے موبائل آن کیا تو سکرین پر ایک کے بعد ایک اورهان کا میسج چمکنے لگا۔ صاحبہ نے چیٹ اوپن کی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

اورهان نے اس کی اور اپنی سیلفیز بھیجی تھیں۔ وہ ایک ایک تصویر زوم کر کے دیکھنے لگی۔

"کتنے پیارے اور مکمل لگتے ہیں ہم ایک ساتھ !!!"

اس کے دل نے بے ساختہ سرگوشی کی تھی جس پر دماغ نے بھی فورا حامی بھری۔

ابھی وہ تصویریں دیکھ رہی تھی جب موبائل کی سکرین پر "سردار کالنگ " کے الفاظ جگمگائے۔ 

وہ دھڑکتے ہوئے دل سے کال پک کر گئی۔

"کیسی ہے میری سردارنی ؟؟"

کانوں میں اس کی بھاری پر سوز آواز پڑتے ہی صاحبہ کے لب دلکش مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔

"ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو ملے تھے ہم اتنی جلدی بھول گئے۔"

اس کی آواز میں شرارت پنهاں تھی۔

"یار سچ سچ بتاؤ کون سا منتر پڑھ کر پھونکا ہے مجھ پر ؟ ایک پل بھی تمہارے بغیر گزارنا عذاب لگ رہا ہے۔"

اس کی بے بس آواز پر صاحبہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

"اچھا چھوڑیں پہلے میری سنیں !!!! "

کہنے کے ساتھ ہی وہ اسے کچھ دیر پہلے والی بات بتانے لگی جب مامی نے اسے روک لیا تھا۔ وہ بھی پوری توجہ سے اس کی ہر بات سن رہا تھا۔

@@@@@

وہ دونوں اس وقت کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے۔ہادی ابھی چند منٹ پہلے اٹھ کر کاؤنٹر کی طرف گیا تھا تا کہ کھانے پینے کے لئے کچھ لا سکے۔

"شیفان تم بھول تو نہیں گئے نا کہ میرا برتھ ڈے آ رہا ہے نیکسٹ منته۔"

لیلیٰ کی یاد دہانی پر شیفان لب دبا کر مسکرا دیا۔

"اچھا واقعی ؟؟ کیا سچ میں ایسا ہے !!! سوری یار مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔"

وہ معصوم شکل بنا کر بولا تو لیلیٰ کا منہ کھل گیا حیرت کے مارے۔

"ہاؤ روڈ شیفان !!!!"

وہ اس کے کندھے پر ہاتھ مارتی صدماتی کیفیت میں بولی تو شیفان اس کی روتو شکل دیکھ کر کھل کر ہنس دیا۔

"جاؤ مجھے تم سے بات ہی نہیں کرنی !!!"

وہ بیگ اٹھا کر خفگی سے کہتی وہاں سے جانے لگی تو شیفان اس کا ہاتھ تھامتا اسے واپس بیٹھا گیا۔

مذاق کر رہا تھا میری جان تمہارے لئے بہت اسپیشل ۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا جیب میں پڑا اس کا موبائل بج اٹھا۔اس نے موبائل باہر نکال کر دیکھا تو سکرین پر زوہان کا نام جگمگا رہا تھا۔

اسے ایک دم خوشگوار حیرت نے گھیر لیا۔لندن آنے کے بعد وہ پہلی دفعہ اسے کال کر رہی تھی۔

"السلام علیکم !!!۔ کیسے ہیں آپ ؟؟"

اس کے دھیمے لہجے پر وہ پھر سے مسکرا اٹھا۔

"وعلیکم السلام !! الحمدللّٰه ٹھیک میری کیٹی کیسی ہے ؟؟؟"

لیلیٰ آنکھیں چھوٹی کیے بہت غور سے اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھ رہی تھی۔

"میں تو ٹھیک ہوں لیکن بہت پریشان بھی ہوں !!!"

اس کی بات پر وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

"کیا پریشانی ہے میری کیٹی کو جلدی بتاؤ ابھی اس کا حل سوچ لیتے ہیں !!!"

اپنے ارد گرد ہر چیز کو اگنور کیے وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا۔

"ہمارے گھر کا ایک بندہ جس کا نام شیفان بلوچ ہے وہ پڑھائی کی غرض سے لندن گیا تھا پر چند ماہ میں ہی لندن کی گلیوں میں ہی کہیں غائب ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے لئے تلاش گمشدہ کا نوٹس جاری کروانا تھا۔"

اس کی طنز سے بھر پور آواز پر وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ سامنے بیٹھی لیلیٰ حیرت سے اسے یوں کھل کر ہنستے ہوئے دیکھ رہی تھی کہ آخر ایسا کون تھا کال پر جس کے ساتھ یوں فرینك ہو کر بات کر رہا تھا وہ۔

"وہ بیچارہ بندہ کہیں گم نہیں ہوا بلکہ یہان کی ٹف روٹین میں بزی ہو گیا ہے۔ پر یقین کرو وہ اپنی فیملی کے ہر فرد کو بہت زیادہ مس کرتا ہے۔ "

اسے یوں موبائل میں گم دیکھ کر لیلیٰ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھتی بیگ اٹھا کر وہاں سے چل دی پر اس دفعہ شیفان نے اسے روکنے کی بلکل بھی کوشش نہیں کی تھی جس پر لیلیٰ کا پارہ ہائی ہو چکا تھا پر اس سے بے خبر وہ پر سکون انداز میں زوہان سے باتیں کر رہا تھا۔

"اس وقت آپ کے پاس کون کون بیٹھا ہوا ہے میری مطلب آپ کے فرینڈز !!!"

وہ دل میں آیا سوال آخر کار زبان پر لے ہی آئی۔ یہ سوال اسے تب سے تنگ کر رہا تھا جب سے افگن نے اس سے شیفان کی گرل فرینڈ والی بات کی تھی۔

"اس وقت میں بلکل اکیلا بیٹھا ہوا ہوں۔میرا فرینڈ کینٹین کے کاؤنٹر تک گیا ہوا ہے۔"

وہ اسے جواب دیتا دور کھڑے ہادی پر نظر ڈال گیا۔

"ایک بات پوچھوں اگر آپ غصّہ نہ کریں !!!"

اس کی آواز میں جھجھک صاف محسوس ہو رہی تھی۔

"تم مجھ سے ہر طرح کا سوال پوچھ سکتی ہو اور میں بھلا کیوں غصہ کروں گا اپنی کیٹی پر !!!"

اس کے پیار بھرے انداز پر زوہان کو تھوڑا حوصلہ ہوا۔

"کیا آپ کی کوئی گرل فرینڈ بھی بنی ہے وہاں ؟؟؟"

اس کے سوال پر وہ بے اختیار ہنس دیا اور پھر هنستا ہی چلا گیا۔

"میں نے کوئی مذاق تھوڑی کیا جو آپ ایسے ہنس رہے ہیں !!؟"

اپنے سوال کے جواب میں اس کے یوں ہنسنے پر وہ برا ہی منا گئی۔

"نہیں جناب آپ کا سوال کافی سیریس ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ میری کوئی گرل فرینڈ نہیں نہ ہی میں ان فضول چیزوں پر دھیان دیتا ہوں ۔"

وہ سچ کہہ رہا تھا کیوں کہ لیلیٰ اس کی گرل فرینڈ نہیں محبت تھی ۔ اس نے کبھی اسے گرل فرینڈ نہ سمجھا نہ کہا۔ لندن کیسے ماڈرن ملک میں رہتے ہوئے بھی س نے اس تعلق میں رہ کر کوئی حدود نہ پهلانگی تھیں۔وہ لیلیٰ کے ساتھ پاک رشتہ بنا کر اس پر اپنا حق جمانا چاہتا تھا اس سے پہلے نہیں۔

"پکّا نا ؟؟"

وہ نہ جانے کس بات کی یقین دہانی چاہ رہی تھی۔

"بلکل پکا!! اچھا بتاؤ تمہاری اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں۔"

وہ باتوں کا رخ اس کی طرف موڑ گیا تو اس نے سکھ کا سانس لیا اور اپنی پڑھائی کا بتانے لگی۔

@@@@@

وہ دونوں آج افگن کے ساتھ شہر آئی تھیں شاپنگ کرنے۔لکھ ترلے منتیں کروانے کے بعد وہ ان کے ساتھ آیا تھا۔

اس وقت وہ تینوں مال میں کھڑے تھے۔

رومیصہ نے آنکھوں پر کالے شیڈز لگا رکھے تھے۔ وہ جب بھی باہر جاتی تھی تو یہ شیڈز اس کی آنکھوں پر ہی ہوتے تھے۔

"تم لوگ شاپنگ کرو اپنی میں اپنی کچھ چیزیں لے آتا ہوں تب تک۔"

ان دونوں سے کہتا وہ وہاں سے چلا گیا تو زوہان بھی رومی کا ہاتھ پکڑ کر ایک شاپ میں گھس گئی۔

اس نے دونوں کے لئے ڈریسز پسند کیے۔ وہ ساتھ ساتھ رومی کو کپڑوں کا كلر اور ڈیزائن بتاتی جا رہی تھی  جس پر کبھی رومی ناک چڑھاتی تو کبھی ہاں میں سر ہلا دیتی۔

کپڑے خریدنے کے بعد وہ وہ اس شاپ سے نکلتی جوتوں والی شاپ کی طرف بڑھنے لگیں۔

"اف یار ایک بیگ تو وہیں رہ گیا تم یہیں رکو میں بس یوں گئی اور یوں آئی۔"

اپنے ہاتھ سے ایک بیگ غائب دیکھ کر زوہان بولی تو رومی سر ہلا گئی۔

اسے وہیں چھوڑ کر زوہان واپس مڑ گئی جب کہ وہ راہداری میں کھڑی اس کا انتظار کرنے لگی۔ 

ابھی اسے کھڑے دو منٹ ہی ہوئے تھے جب ایک دم کوئی زوردار طریقے سے اس سے آ ٹکرایا۔ رومی کو لگا جیسے وہ کسی پہاڑ سے ٹکرا گئی ہو۔ اس کا سر گھوم گیا جب کے آنکھوں پر لگے شیڈز پھسل کر ناک کی نوک پر آ گئے تھے۔سر پر ٹکا دوپٹہ کندھوں پر آ چکا تھا جب کہ سیاہ بال لہراتے ہوئے آگے کندھے پر آ گرے تھے۔

فائق چودھری ساکت آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑی ساحرہ کو یک ٹک دیکھتا چلا جا رہا تھا۔ سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھتے ہی سینے میں موجود دل نے بے طرح دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔

رومی نے صرف ایک پل کے لئے آنکھیں اٹھائیں اور پھر ناک پر جمے شیڈز انگلی کی مدد سے واپس آنکھوں پر لگائے پر وہ ایک پل ہی سامنے والے کے لئے بھاری ثابت ہوا تھا۔ 

سامنے والے کا دل اس ایک پل میں ہی اس ساحرہ کی کانچ سی آنکھوں میں قید ہو چکا تھا۔

"آپ کو زیادہ تو نہیں لگی ؟؟"۔

وہ دوپٹہ سہی کرنے لگی تو وہ بھی ہوش میں آتا سنبھل کر اس سے سوال کرنے لگا جس پر وہ دھیرے سے نفی میں سر ہلا گئی۔

"میں ٹھیک ہوں آئی ایم سوری مجھے پتا نہیں چلا کیسے یہ ہو گیا۔"

ایک مرد کی آواز اپنے اتنے قریب سن کر وہ سمجھ گئی کہ جسے وہ پہاڑ سمجھ رہی تھی وہ کوئی مرد تھا جس سے اس کا ٹکراؤ ہو چکا تھا۔

"نہیں نہیں آپ کی کو غلطی نہیں۔ ایکچولی میں کال میں بزی تھا سامنے دیکھ نہیں سکا اور بے دهيانی میں آپ سے ٹکرا گیا۔ آئی ایم ایکسٹریملی سوری !!!"

اس کی بات کے جواب میں وہ محض سر ہلا گئی۔

"کیا ہوا سب ٹھیک ہے اور آپ کون ہیں مسٹر !!!"

زوہان رومی کے قریب آتی اس کے سامنے کھڑے اونچے لمبے مرد کو دیکھ کر سوال کرنے لگی۔

"غلطی سے میں ان سے ٹکرا گیا اسی کے لئے ان سے سوری کر رہا تھا اب چلتا ہوں !!!"

وہ زوہان کو رومی کے پاس آتا دیکھ کر سمجھ گیا کہ وہ اس کے ساتھ ہے اس لئے اسے جواب دیتا ایک آخری مگر بھر پور نظر رومیصہ پر ڈالتا وہاں سے چلا گیا۔

"عجیب آدمی تھا!!! تم ٹھیک ہو نا ؟؟؟"۔

اس کے پوچھنے پر وہ سر ہلا گئی تو زوہان اس کا ہاتھ پکڑ کر جوتوں والی شاپ کی طرف چل دی۔

وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنا تنقیدی جائزہ لے رہی۔ لال رنگ کا پیروں تک جاتا شفون کا سادہ فراک پہنے ہلکا پھلکا میک اپ کیے اور بالوں کو کھلا چھوڑے وہ خود کو ہی بہت حسین لگ رہی تھی۔

مطمئن ہونے کے بعد وہ مڑی اور بیڈ پر پڑا لال دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈال گئی پھر جھک کر پیروں میں کھسے ڈالے۔ اسے اپنا اور اورهان کا ہائیٹ ڈفرنس بہت پسند تھا اس لئے وہ اسے ملنے جانے کے وقت ہیلز نہیں پہنتی تھی۔

اس کے لئے وہ احساس بہت حسین ہوتا تھا جب وہ اورهان کے سینے سے کان لگا کر اس کے دھڑکتے ہوئے دل کی دھڑکن سنتی تھی۔

اپنی تیاری مکمل ہو جانے کے بعد اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی پھر سرهانے کے نیچے پڑا اورهان کا دیا گیا موبائل اٹھا کر الماری میں رکھ دیا۔

ڈرتے ڈرتے اس نے کمرے سے قدم باہر نکالے تو صحن سنسان پڑا تھا۔

وہ احتیاط سے قدم اٹھاتی هویلی سے نکل گئی۔

آج اورهان اور صاحبہ کے تعلق کو  پورے تین سال ہو چکے تھے۔ اورهان ایک ہفتے سے شہر گیا تھا اور آج صبح ہی لوٹا تھا۔ اب دونوں اپنی مخصوص جگہ پر ملنے والے تھے۔

وہ جیسے ہی نہار پر پہنچی اورهان وہاں کھڑی پہلے سے ہی اس کا انتظار کر رہا تھا۔

سفید کاٹن کا سوٹ پہنے اور کندھوں پر بادامی مردانا شال اوڑھے وہ ہر دفعہ کی طرح آج بھی صاحبہ کو پہلے سے بڑھ کر حسین لگا ۔

اس کی موجودگی کو محسوس کرتے وہ پیچھے مڑا تو وہ اس کے بلکل قریب کھڑی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اورهان کی آنکھوں کی چمک قابل دید تھی۔

"مرحبا !!!!"

اس کے حسین سراپے پر نظریں جماۓ بوجھل لہجے میں بولتا وہ اسے کلائی سے تھام کر اپنی سانسوں کے قریب تر کر گیا۔

"کیسی ہو روح جاناں !!! تمہارے دیدار کو یہ آنکھیں ترس کر رہ گئی تھیں۔ آج دید کی پیاس بجھاۓ بغیر کہیں نہیں جا پاؤ گی!!!"

اس کی بھاری لب و لہجے میں کی گئی جان لیوا سرگوشی پر وہ لرزتی پلکیں اٹھا کر براہ راست اس کی سنہری آنکھوں میں جھانکنے لگی۔

"ہفتے میں دو دفعہ ملتے ہیں ہم پھر بھی آپ کی آنکھوں کی پیاس نہیں بجھتی کیا ؟؟؟"

وہ لاڈ سے پوچھتی اپنے نازک ہاتھ اس کے سینے پر جما گئی تو ہتھیلی کے نیچے دھڑکتا دل اس کی سانسیں منتشر کر گیا۔

"کیا تم واقعی اس قدر معصوم ہو جو مجھ سے یہ سوال کر رہی ہو؟ میں اگر سارا دن اور ساری رات بغیر پلک جھپکے تمہیں سانسوں سے قریب کر کے تمہارے چہرے کا دیدار کرتا رہوں تو پھر بھی یہ پیاس بجھنے کی نہیں !!!!"

اس کے والہانہ انداز پر صاحبہ کے ہونٹوں پر دلنشیں مسکراہٹ چمک اٹھی۔

"آپ سے ایک سوال پوچھوں ؟؟"

وہ اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں اسے دیکھتی بولی تو وہ ایک پل کی تاخیر کیے بغیر سر ہلاتا اسے اجازت بخش گیا۔

"اگر میں کسی اور کی ہوگئی تو آپ کیا کریں گے؟ 

اس کے سوال پر اورهان کا رنگ فق ہو گیا۔ سنہری آنکھیں ایک پل میں ہی لہو چھلکانے لگی تھیں جب کہ صاحبہ شرارت بھری نظروں سے اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ رہی تھی پھر ایک دم قہقہہ لگا کر ہنس دی۔

"ہائے او ربا !!! سردار آپ تو ایک دم لال پیلے ہو گئے۔"

وہ ہنس کر بولی جب وہ ایک دم اسے خود میں بھینچ گیا۔

"تم۔۔۔تم مذاق کر رہی ہو نا۔ پلیز آج کے بعد ایسا گھناؤنا مذاق مت کرنا میرے ساتھ۔ آج تو نہ جانے کیسے برداشت کر گیا پر اللّه کی قسم اگلی دفعہ میری جان نکل جاۓ گی۔ میں تمہیں خواب و خیال کیا مذاق میں بھی کسی اور کے ساتھ تصور نہیں کر سکتا۔"

اس کی آواز میں خوف اور گرفت میں سختی محسوس کرتے صاحبہ کی ہنسی کو بریک لگا۔

"مذاق کر رہی تھی میں سردار آپ تو سیریس ہی ہو گئے۔"

اس کا ری ایکشن دیکھ کر وہ اپنی بات پر شرمندہ ہو کر رہ گئی۔

"خنجر میرے گلے پر چلا کر ایک ہے دفعہ میں میری جان لے لینا پر آئینده ایسی جان لیوا بات ہرگز مت کرنا۔"

اس کی کھلی زلفوں میں چہرہ چھپاتا وہ شدت بھرے لہجے میں بولا تو صاحبہ اپنا ہاتھ اس کے بالوں میں پهيرتی اسے پر سکوں کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

"مجھے آپ سے کوئی بھی جدا نہیں کر سکتا۔۔ ازل سے ابد تک میں آپ کی ہی ہوں۔"

وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی اس کے کانوں میں میٹھے الفاظ اتار رہی تھی۔

"میں سہی کہہ رہا ہوں صاحبہ !!! میری سانسوں کی روانی اب تمھارے ہی دم سے ہے۔ جس دن میری نظریں تم پر سے ہٹ گئیں نا میں سچ میں مر جاؤں گا۔"

صاحبہ اس کے الفاظ میں چھپی شدت پر هيران ہو رہی تھی۔

"ہائے کتنا پیارا لگے نا کوئی عشق میں مرتا ہوا پر یاد رکھئے گا سردار !!! اورهان بلوچ سے پہلے صاحبہ چودھری کا جنازہ اٹھے گا۔ عشق میں مرنا ہے تو ساتھ ہی مریں آہ ۔۔۔۔"

اس کے الفاظ کی تاب نہ لاتا وہ اسے سختی سے خود میں بھینچ گیا جس پر وہ سسك کر رہ گئی۔

"کس قدر ظالم ہو تم !!! اتنے نصیبوں والے دن پر اتنی حسین بن کر کس قدر ظلم ڈھا رہی ہو تم اپنے اس عاشق پر !!!! جان دینے کی کیا بات کرتی ہو ۔ تمہارا یہ حسین سراپا اس پر متضاد تمہاری یہ ہری آنکھیں اور ناک میں چمکتی یہ بالی ۔۔۔یہ ادائیں جان لینے کے لئے کم ہیں کیا ؟؟؟"

اس کی آواز میں خماری آ سمائی تھی۔ صاحبہ شرما کر آنکھیں میچ گئی۔

اس سے پہلے کہ وہ اس کے کانوں میں مزید حسین سرگوشیاں کر کے اس کے حواس سلب کرتا ایک دم فضا فائر کی آواز سے تھرا اٹھی۔ڈر کے مارے صاحبہ چیخ اٹھی۔

اورهان اس سے الگ ہوتا تیزی سے پاس کھڑی جیپ سے اپنی پسٹل نکالتا اس طرف بڑھا جہاں سے گولیاں چلنے کی آواز آئی تھی پر دور دور تک کوئی نظر نہ آیا۔

"سب ٹھیک ہے نا سردار !!!"

صاحبہ کی گھبرائی ہوئی آواز پر وہ پسٹل واپس رکھتا اس کے پاس آیا۔

"سب ٹھیک ہے میری جان ایسا کرو تم اب واپس هویلی جاؤ بلکہ میں خود تمہیں چھوڑ کر آتا ہوں۔ اچھی فیلنگز نہیں آ رہی مجھے۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتا جیپ کی طرف بڑھ گیا۔

"پر سردار اگر کسی نے ۔۔۔۔"

وہ پریشانی سے کہتی بات ادھوری چھوڑ گئی۔

"میں کچھ فاصلے پر رک جاؤں گا پر آج اپنی حفاظت میں تمہیں چھوڑ کے آؤں گا اور اب کوئی بحث نہیں !!!"

اپنی بات مکمل کرتا وہ اسے جیپ میں بیٹھاتا گاڑی کا رخ چودھری هویلی کی طرف کر گیا۔

وہ اسے کچھ فاصلے پر اتار گیا تھا۔ صاحبہ نے جیسے ہی اپنے کمرے کا دروازہ کھولا سامنے نظر آتا منظر دیکھ کر اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا جیسے۔جو چہرہ تھوڑی دیر پہلے لال گلابی ہو رہا تھا اس وقت اس کا رنگ خوف کے مارے سفید پڑ چکا تھا۔ اس نے شدت سے خواہش کی کہ کاش زمین پھٹے اور وه اس میں سما جاۓ پر ایسا کہاں ممکن تھا۔ہر خواہش وقت رہتے کہاں پوری ہوتی ہے جو صاحبہ کی بھی پوری ہو جاتی۔

@@@@@

وہ هویلی آیا تو سب بڑے لاؤنج میں بیٹھے تھے جب کہ افگن زوہان اور رومیصہ غائب تھے۔

وہ سلام لینے کے بعد اپنے کمرے میں جانے لگا جب باپ کی پکار سن کر ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔

"ہاں بھئی برخودار کیا سوچا ہے پھر شادی کے بارے میں۔آخر اور کتنا ٹالو گے۔"

ارقم بلوچ کے سوال پر وہ سر نیچا کیے مسکرا دیا۔

"بابا بہت جلد آپ سب کو اپنا فیصلہ سنا دوں گا إنشاءاللّٰه آپ فکر مت کریں"

ارقم بلوچ نے ایک مسکراتی ہوئی نظر اپنے گهبرو جوان بیٹے پر ڈالی۔

"تو پھر جلدی سے فیصلہ کرو کیوں کہ ایک فیصلہ ہم بھی کر چکے ہیں۔"

ان کی بات پر اورهان نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔

"ہم افگن اور رومیصہ کی شادی کا سوچ رہے ہیں۔"

ان کی بات پر اورهان کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

"یہ تو بہت اچھی سوچ ہے۔میرے خیال میں ہمیں اس سوچ پر جلد عمل کرنا چاہئے۔"

وہ بہت خوش تھا اپنے بہن بھائیوں کے لئے۔

"شاید تم بھول رہے ہو کہ تم اور شیفان دونوں بڑے ہو۔ہمارا یہی فیصلہ تھا کہ پہلے تم دونوں کا کچھ سوچیں گے ہم۔ شیفان نے تو صاف جواب دے دیا ہے کہ وہ چند سال اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتا۔ اب تم بتاؤ کیا کرنا ہے۔"

ارقم بلوچ کی بارعب آواز پر وہ سر ہلا گیا۔

"میں إنشاءاللّٰه بہت جلد آپ کو مطلع کروں گا فلحال مجھے اجازت دیں تھوڑا آرام کرنا چاہتا ہوں۔"

ان سے اجازت لیتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

کمرے میں آنے کے بعد اس نے سب سے پہلے صاحبہ کو کال کی پر اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔

اس نے دوبارہ کال ملائی۔ ایک بار ۔ دو بار۔ تین بار۔ پر اس کا نمبر مسلسل بند ہی جا رہا تھا۔ اسے حقیقت میں پریشانی ہونے لگی کیوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا۔

وہ ایک بار پھر کال ملانے لگا پر جواب ندارد!!!

@@@@@

لے جائیں گے بھئی لے جائیں گے 

دل والے دلہنیا لے جائیں گے 

رہ جائیں گے بھئی رہ جائیں گے 

گھر والے دیکھتے ہی رہ جائیں گے

وہ لہک لہک کر گاتی کب سے رومیصہ کے کان کھا رہی تھی۔

اسے جب سے افگن اور رومی کے رشتے کے بارے میں پتا چلا تھا وہ مسلسل اسے چھیڑتی جا رہی تھی۔

"بس کر دو بدتمیز انسان کتنے کان کھاؤ گی اور !!!"

رومی اپنی گود میں پڑا تكيا اٹھا کر اس کی طرف پهينك گئی جو سیدھا جا کر زوہان کے منہ پر لگا۔

"ہائے ظالم کیا نشانہ ہے تمہارا۔ تمہارے اس میزائل نے میرا منہ سینک دیا۔"

زوہان کی بات پر وہ بے ساختہ ہنس دی۔

"ہاں بھئی اب تو بہت ہنسی آئے گی میڈم کو آخر کار نیہ پار لگنے والی ہے۔"

وہ اب بھی شرارت سے باز نہ آئی۔

"زوہان بس کر دو یار !!!"

وہ بیچاری آجز آ چکی تھی۔

"ویسے ایک بات سچ سچ بتانا رومی !!!"

وہ اس کے قریب بیٹھتی رازدارانہ انداز میں پوچھنے لگی۔

"تمہیں کب سے میری اجازت کی ضرورت پڑ گئی۔ اور میں منع بھی کر دوں اگر تو تم کون سا باز آ جاؤ گی۔ پوچھو جو پوچھنا ہے !!!"

وہ گردن اکڑا کر بولی تو اس کے شاہانہ انداز پر زوہان عش عش کر اٹھی۔

"ہے تو میرا ہی بھائی پر ہی پورا چھچھوندر۔ تم نے ہاں کیسے کر دی اس لنگور کے لئے۔"

اس کے سوال پر وہ برا منانے یا ہنسنے کی جگہ اداس ہو گئی۔

"ارے اتنی بری لگی سیاں جی کی بےعزتی جو منہ لٹکا کر بیٹھ گئی۔"

اس کے لہجے میں شرارت کا عنصر نمايان تھا۔

"ایسا نہیں ہے زونی !!! میری کیا اوقات جو میں انکار کرتی بلکہ ایک اندھی لڑکی کی کیا اوقات ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے شاندار پڑھے لکھے اور پرفیکٹ انسان کو انکار کرے۔ میں انھیں کیا دے سکتی ہوں بھلا سوائے اندھیرے کے !!!"

اس کی بے بس اور مایوس لہجے نے زوہان کو بھی افسرده کر دیا۔

"تم اتنا غلط کیوں سوچتی ہو۔ اللّه نے تمہیں بھی بلکل پرفیکٹ بنایا ہے۔ میرا بھائی اگر چاند کیا سورج لے کر بھی ڈھونڈھتا تو تم جیسی حسین دوشیزہ نہ تلاش کر پاتا۔ اچھا سب چھوڑو اور بتاؤ تمہیں میرے لالا کیسے لگتے ہیں؟"

اس کے سوال پر نہ چاہتے ہوئے بھی رومی سرخ پڑ گئی۔

"بہت زیادہ اچھے !!!"

کہنے کے ساتھ ہی وہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپ . گئی جب کہ اس کی حرکت پر زوہان کھلکھلا کر ہنس دی۔

پر کون جانے خوشیوں کو کب نظر لگ جاۓ۔ خوشیوں کی مدت اکثر بہت قلیل ہوا کرتی ہے پر کون جانے !!!!

صاحبہ نے جیسے ہی اپنے کمرے کا دروازہ کھولا سامنے نظر آتا منظر دیکھ کر اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا جیسے۔جو چہرہ تھوڑی دیر پہلے لال گلابی ہو رہا تھا اس وقت اس کا رنگ خوف کے مارے سفید پڑ چکا تھا۔ اس نے شدت سے خواہش کی کہ کاش زمین پھٹے اور وه اس میں سما جاۓ پر ایسا کہاں ممکن تھا۔ہر خواہش وقت رہتے کہاں پوری ہوتی ہے جو صاحبہ کی بھی پوری ہو جاتی۔

سامنے ہی اس کی مامی ہاتھ میں ایک فائل پکڑے بیڈ پر بیٹھی تھی جب کہ ان کے قریب علینا کھڑی ہاتھ میں اس کا موبائل  پکڑے طنزیہ مسکرا رہی تھی۔

اسے دیکھتے ہی مامی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"آئیے آئیے چودھرانی صاحبہ !!!"

وہ صاحبہ کا فق رنگ دیکھتی بولی تو علینا بھی اپنی نظریں اس پر جما گئی ۔

"سچ سچ بتا کہاں سے آ رہی ہے اس وقت ؟"

مامی کے سوال پر صاحبہ نے تھوک نگلتے حلق تر کیا۔

"نہر پر گئی تھی بس !!!"

آواز کی لڑکھڑاہٹ چھپائے نہ چھپ رہی تھی ۔

"کس سے ملنے گئی تھی نہر پر ؟؟"

کڑک آواز میں پوچھا گیا سوال اس کے اوسان خطا کر گیا۔

"كک۔۔۔کسی سے بھی نہیں میں تو بس ہوا کھانے گئی تھی۔"

اس کا چہرہ خوف کی سہی نشاندہی کر رہا تھا۔

"یہ سج سنور کر لال جوڑا پہن کر لالی پاؤڈر لگا کر کون سی ہوا کھانے گئی تھی ہاں !!!"

صاحبہ کا دھیان ان کی باتوں سے زیادہ ان کے ہاتھ میں پکڑی فائل پر تھا۔

"جواب دے !!!"

وہ اب کی دفعہ چیخ کر بولی تو صاحبہ تھرا اٹھی۔

"اچھا یہ بتا یہ کالج میں داخلے کا فارم بھی تجھے نہر سے ملا تھا ؟"

انہوں نے ہاتھ میں پکڑی فائل اس کے منہ پر ماری تو وہ جلدی سے فائل پکڑ گئی۔ ہاتھوں میں پکڑے پیپرز پر نظر پڑتے ہی صاحبہ کی جان میں جان آئی۔ یوں لگا جیسے کسی نے سینے پر رکھا بھآری پتھر ہٹا دیا ہو۔

"یہ۔۔۔یہ میں نے اپنی سہیلی کو پیسے دے کے شہر سے منگوائے تھے۔میں گھر بیٹھ کر آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔"

اس نے سانس سے سانس ملاتے بمشکل جواب دیا۔

"اچھا اور یہ موبائل بھی اسی سہیلی سے منگوايا ہو گا نا !!!"

ان کی طنزیہ بات پر وہ تیزی سے اثبات میں سر ہلا گئی۔

" جی کافی زیادہ پیسے دے کر منگوایا تھا۔ مجھے نانا نے کافی زیادہ پیسے دے رکھے ہیں ان میں سے ہی منگوايا۔"

اس کی بات پر وہ سر ہلاتی اس کی طرف آئی۔

میری نظر ہے تم پر ۔ یاد رکھنا۔ چلو علینا !!!"

اسے تنبیہ کرنے کے بعد وہ علینا کو اپنے پیچھے آنے کا کہتی کمرے سے نکل گئی۔ 

علینا چند قدم چلتی اس کے قریب آئی اور اسے اوپر سے نیچے تک بغور دیکھنے لگی۔

"یاد رکھنا جو اماں نے کہا۔ کہیں نہر کی ٹھنڈی ہوا گلے کو نہ پڑ جاۓ۔"

طنزیہ کہتی وه موبائل اس کے ہاتھ میں پکڑا کر خود بھی کمرے سے نکل گئی۔

ان کے جانے کے بعد صاحبہ نے کانپتے ہاتھوں سے دروازہ بند کیا اور تیزی سے الماری کی طرف بڑھ گئی۔ اپنی مخصوص جگہ سے لاکر کی چابی نکال کر لاکر چیک کرنے لگی۔سامنے ہی کچھ کاغذات پڑے نظر آ رہے تھے۔

لرزتے ہاتھوں سے اس نے پیپرز پکڑ کر کھولے تو یہ دیکھ کر سانس میں سانس آئی کہ اس کے اور اورهان کا نکاح نامہ ان ماں بیٹی کی نظروں سے اوجهل رہا تھا ورنہ آج قیامت آ جاتی۔ دو سال سے وہ کسی نهايت قیمتی چیز کی طرح ان کاغذات کی نگرانی کر رہی تھی۔

صاحبہ اور اورهان کا نکاح جو آج سے دو سال پہلے اورهان کی ایما پر ہوا تھا۔ صاحبہ پہلے پہل راضی نہ تھی یوں چھپ کر نکاح کرنے پر لیکن اورهان کا کہنا تھا کہ وہ اسے اپنی محرم بنانا چاہتا ہے۔ بغیر کسی جائز رشتے کے تنہائی میں ملاقات کر کے وہ نہ خود کو گناہ گار بنانا چاہتا ہے نہ ہی صاحبہ کو۔

اس نے وعدہ کیا تھا کہ وقت آنے پر وہ خود صاحبہ کے گھر والوں کے آگے ہاتھ پهيلا کر اسے مانگ لے گا اور پورے حق سے اپنی زندگی میں شامل کرے گا۔ صاحبہ کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے تھا۔

کاغذات واپس ان کی جگہ پر رکھنے کے بعد اس نے موبائل آن کر کے لاک کھولا تو اورهان کی بے شمار کالز آ چکی تھیں۔ اس کے موبائل پر پاسورڈ لگا تھا جس کی وجہ سے علینا اس تک رسائی نہ حاصل کر سکی۔

اورهان کو کال کرنے کے بعد وہ اسے اس سب صورت حال سے آگاہ کرنے کا سوچنے لگی پر پھر یہ سوچ کر ٹال گئی کہ کیا چھوٹی سی بات کے لئے اسے پریشان کرنا پر یہی اس کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہونے والی تھی۔

@@@@@

شیفان آج لیلیٰ اور ہادی کے ساتھ لنچ پر آیا تھا۔ ہادی کباب میں ہڈی نہیں بننا چاہتا تھا اس لیے ایک ضروری کام کا کہتے ہوئے نکل گیا۔ اب وہاں صرف لیلیٰ اور شیفان بیٹھے تھے۔

"تم جانتی ہو نہ ہماری ڈگری کمپلیٹ ہو چکی ہے۔ اگلے ہفتے ہم واپس پاکستان جا رہے ہیں۔ تو تم کب تک اپنے پیرنٹس سے ہمارے بارے میں بات کرو گی ؟"

شیفان کے سوال پر لیلیٰ کے تاثرات کچھ بیزار سے ہو گئے جسے شیفان نے بہت غور سے دیکھا تھا۔

"کیا مطلب ہمارے بارے میں کیا بات کروں گی۔"

وہ نا سمجھی کا تاثر دے رہی تھی یا واقعی نہیں سمجھ رہی تھی یہ بات شیفان جان نہ سکا۔

"ہماری شادی کے بارے میں !!!"

اب کی دفعہ اس نے واضح الفاظ میں بات کی۔

"کم آن شیفو اتنی جلدی کس بات کی ہے ہم کون سا بوڑھے ہو رہے ہیں۔"

لیلیٰ کی بات پر وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔

"لیلیٰ دیکھو تم نے ہمارے رشتے میں پہل کی میری طرف قدم بڑھایا تو میں نے تمہارا ہاتھ تھام لیا کیوں کہ تم سے دھواں دار محبت نہ سہی لیکن تم میری اچھی دوست تھی اور مجھے لگا تم ایز آ لائف پارٹنر میرے لئے اچھی ثابت ہو گی۔ اب جب کہ ہماری ڈگری بھی مکمل ہو چکی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ ہم  حلال رشتے میں بندہ جائیں۔ یوں ریلیشنشپ میں رہنا مجھے بلکل پسند نہیں تم اچھے سے جانتی ہو۔"

اس کے سنجیدہ ترین انداز پر لیلیٰ سیدھی ہو کر بیٹھی۔ شیفان عام طور پر بھی سنجیدہ ہی رہتا تھا پر اس وقت اس کے لہجے کی سنجیدگی بہت گہری تھی۔

"لیکن شیفان ابھی تک تم نے کوئی بزنس بھی شروع نہیں کیا پھر شادی کیسے ؟"

لیلیٰ کے سوال پر شیفان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

"میرے بھائی کا  ماشاءاللّٰه بہت اچھا بزنس ہے۔ ہم بھائی مل کر اسے ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچائیں گے۔ ہمارا کچھ بھی الگ نہیں یہ بات میں پہلے بھی کلئیر کر چکا ہوں۔"

وہ دو ٹوک الفاظ میں اسے اپنے منصوبے سے آگاہ کر رہا تھا۔

"لیکن شیفو اپنا بزنس تو اپنا ۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی وہ ہاتھ اٹھاتا اسے درمیان میں روک گیا۔

"میں نے پہلے بھی کہا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ ہم الگ نہیں۔ تم فیصلہ کر لو کہ میرے ساتھ جائز رشتے میں بندھنا چاہتی ہو یا راستہ الگ کرنا چاہتی ہو۔"

وہ شاید آج اسے بلکل بھی ڈھیل نہیں دینا چاہتا تھا۔

"تم غصّہ کیوں کر رہے ہو میں تو بس ایسے ہی کہہ رہی تھی۔ میں تمہارے  پاکستان جاتے ہی گھر بات کروں گی۔"

اس کی بات پر شیفان کا موڈ تھوڑا نارمل ہوا۔

لنچ کرنے کے بعد وہ وہاں سے نکل آئے۔

"مجھے وہ آئس کریم کھانی ہے !!!"۔

لیلیٰ نے سڑک کے پار بنے آئس کریم پارلر کی طرف اشارہ کرتے کہا تو وہ سر ہلا گیا۔

"اوکے گاڑی میں بیٹھو میں لے کر آتا ہوں !!!"

وہ اسے کہتا خود سڑک پار کر گیا ۔لیلیٰ اسے دور سے دیکھتی رہی۔ وہ ہاتھ میں آئس کریم کے دو کپ پکڑے اس کی طرف ہی آ رہا تھا جب ایک دم تیز رفتار گاڑی اس کے قریب آتی اسے ٹکر مارتی دور گرا گئی۔ 

اس کی طرف دیکھتی لیلیٰ کی چیخ نکل گئی۔ وہ تیزی سے گاڑی سے نکل کر اس کی طرف بھاگی جو خون میں لت پت پڑا تھا پر اس کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی ایک گاڑی اس کی دائیں ٹانگ کے اوپر سے گزر گئی۔

لیلیٰ چیختی ہوئی اس کے قریب پہنچی اور چلا چلا کر لوگوں سے مدد کی اپیل کرنے لگی۔

کسی کی مدد سے اسے گاڑی میں ڈالتی وہ ہسپتال کی طرف بڑھ گئی۔

@@@@

اسے آئی سی یو میں داخل کر لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس کی ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ اس کے گھر والوں کو بلایا جاۓ۔

ہادی نے اورهان کو کال کر کے ساری صورت حال بتا دی تھی۔ وہ اسی دن رات کی فلائٹ سے لندن آ گیا۔

اگلے دن شیفان کا آپریشن ہوا اور اس کی آدھی ٹانگ الگ کر کے مصنوعی ٹانگ لگا دی گئی۔

بلوچ خاندان کے لئے یہ جھٹکا کسی قیامت سے کم نہ تھا۔

@@@@@

وہ اپنے بھائی کے گلے لگ کر بچوں کی طرح رویا تھا۔ اورهان نے بہت مشکل سے اسے سنبھالا۔ ہادی یہیں تھا جب کہ لیلیٰ کل رات ہی واپس گھر جا چکی تھی۔

"لیلیٰ کہاں ہے مجھ سے ملنے نہیں آئی!!"

وہ اگلی رات ہادی سے سوال کر گیا تو ہادی نظریں چرا گیا۔

"ہاں بزی ہو شاید !!!"

اس کی بات پر شیفان نے غور سے اسے دیکھا جو نظریں چرا رہا تھا۔

"میری آنکھوں میں دیکھو اور مجھے سہی سہی جواب دو !!"

شیفان کی بات پر ہادی گہری سانس بھر کر رہ گیا۔ آج نہیں تو کل اسے پتا لگنا ہی تھا پھر آج کیوں نہیں۔

"لیلیٰ نے کہا ہے کہ وہ تم جیسے معذور انسان کے ساتھ زندگی گزار کر اپنی زندگی برباد نہیں ک سکتی۔وہ اب تم سے مزید کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ڈائمنڈ رنگ اور مہنگے تحائف تم نے اپنی خوشی سے اسے دے ہیں اس لئے انہیں واپس کرنے کا کوئی جواز نہیں اس کے پاس۔"

اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا جب کہ شیفان کی آنکھیں بے یقینی اور تکلیف کے احساس سے نم ہو گئیں۔ اس کے اتنے سالوں کی ریاضت کا یہ پھل تھا کہ اس پر جان لٹانے والی اسے معذور کہہ کر ہر ناطہ توڑ کر چلی گئی۔

"ہاں وہ معذور ہو گیا تھا اب۔ لفظ معذور اس کی پہچان بن گیا تھا۔"

اپنی بے بسی پر وہ دھیرے سے ہنس دیا پر ایک آنسو چپکے سے آنکھ سے نکلتا داڑھی میں جذب ہو کر اس کا مان رکھ گیا پر اس دن کے بعد ایک گہری چپ تھی جو اس کے وجود کا احاطہ کر گئی تھی۔

اس دن کے بعد سے صاحبہ هویلی سے نہ نکل سکی تھی۔ مامی اور علینا نے اس پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔اسی پریشانی میں وہ موبائل بھی بہت کم استمعال کر رہی تھی۔

وہ کمرے میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی جب ایک دم کمرے کا دروازہ کھلا انور چودھری غضب ناک تیور لئے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے تیور دیکھ صاحبہ ایک دم خوف زدہ ہو گئی جب وہ ایک دم چیل کی طرح اس پر جھپٹے اور اس کی نازک وجود کو اپنے تھپڑوں اور لاتوں کی زد میں لے آئے۔ 

وہ چیختی چلاتی رحم کی اپیل کرنے لگی پر اس وقت اس کی کوئی بھی نہ سن رہا تھا۔

"بے غیرت لڑکی دشمنوں کے لڑکے سے پیار کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔ ہماری عزت کو مٹی میں ملائے گی تو ہاں !!! میں تجھے زندہ گاڑ دوں گا۔"

ان کی مار سے نڈھال ہو کر وہ اب مزاحمت کیے بغیر اونچی آواز میں روتی چلی جا رہی تھی پر ان کو رحم نہ آیا۔دروازے میں کھڑی علینا اور مامی ہاتھ باندھے مسکراتی نظروں سے یہ منظر دیکھ  کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہی تھیں جب کہ فائق دوستوں کے ساتھ ملک سے باہر گیا ہوا تھا۔

"کب سے تیرا چکر چل رہا ہے اورهان بلوچ سے سچ سچ بتا ؟؟"

ان کے درشتگی سے پوچھے سوال پر وہ روتی ہوئی نفی میں سر ہلا گئی۔

"جھوٹ بولے گی !!! ہاں میں مجھ سے جھوٹ بولے گی انور چودھری سے !!!"

وہ تیش میں کہتا اس کے پیٹ میں زوردار طریقے سے ٹھوکر مار گیا تو تکلیف کے باعث صاحبہ چلا اٹھی۔

"بول !! جواب دے کب سے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر اس کے ساتھ منہ کالا کر رہی ہے !!!"

وہ اس کے بال مٹھی میں جکڑتا پوچھنے لگا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

"مم۔۔۔میں کچھ ۔۔۔کچھ بھی نہیں جج۔۔۔۔جانتی !!!"

تکلیف کی وجہ سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے۔

"علینا موبائل پکڑ اس کا !!!"

اس کی آواز سنتے ہی علینا پھرتی سے کمرے میں داخل ہوتی اس کے کمرے کی تلاشی لے کر موبائل ڈھونڈھنے لگی اور بالآخر وہ اسے الماری میں صاحبہ کے کپڑوں میں چھپا مل گیا۔

"بابا سائیں یہ لاک ہے !!!"

اس کی بات پر انور نے علینا کے ہاتھ سے موبائل پکڑ کر صاحبہ کے آگے کیا۔

"جلدی لاک کھول اس کا !!!"

اس کے حکم پر وہ روتی ہوئی نفی میں سر ہلا گئی تو انور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی انگلی زبردستی موبائل کے فنگر سینسر پر رکھی۔كلك کی آواز کے ساتھ موبائل انلاک ہو گیا۔

موبائل کے والپیپر پر صاحبہ اور اورهان کی ہنستی مسکراتی تصویر جگمگا رہی تھی۔ اتنا حسین مرد دیکھ کر علینا کی آنکھیں پهيل گئیں جب کہ گیلری کھول کر تصاویر دیکھتا انور پاگل ہو اٹھا۔ کال لاگ اور میسجز ختم کر دے گئے تھے پہلے ہی جب کہ کنٹیکٹس میں ایک نمبر جگمگا رہا تھا جو سردار کے نام سے سیو تھا۔

انور موبائل جیب میں ڈالتا پھر سے صاحبہ کو پیٹنے لگا پر وہ اس قدر نڈھال ہو چکی تھی کہ مزاحمت بھی نہ کر سکی بس چپ چاپ سسكتی رہی۔

"مرنے دے اس ناہنجار کو یوں ہی۔ کوئی اسے پانی کا گھونٹ تک نہ دے گا۔ اس کا انجام ایسا ہو گا کہ پورا گاؤں آنے والے کئی سالوں تک یاد رکھے گا۔"

تنفر سے کہتا وہ اسے ٹھوکر مارتا اس کا موبائل لے کر کمرے سے نکل گیا۔

مامی بھی ایک نظر اس پر ڈال کر اپنے شوہر کے پیچھے ہی نکل گئی تھی۔

علینا دھیرے سے چلتی اس کے قریب آئی اور پاؤں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گئی۔

"چچ چچ چچ !!!! بہت برا ہوا بےبی کے ساتھ۔ کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟؟ یقیناً بہت اچھا محسوس کر رہی ہو گی ہیں نا !!!! انجوئے بےبی !!!"

اس کی حالت پر قہقہہ لگا کر ہنستی وہ خود بھی باہر نکل گئی پر اپنے پیچھے دروازہ بند کرنا نہ بھولی۔

وہ زمین پر بے یار و مددگار نڈھل پڑی اپنی بے بسی پر رو دی۔ پورے جسم میں شدید درد اٹھ رہا تھا۔ اس نے ہاتھوں کے سہارے اٹھنا چاہا پر منہ کے بل گر پڑی۔

"سردار !!!!"۔

وہ اس مہربان کو پکارتی تکلیف نہ سہتے ہوش و حواس سے بے گانه ہوتی چلی گئی۔

@@@@@

وہ کب سے صاحبہ کو کالز کر رہا تھا پر اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔

"لالا سائیں چھوٹی بیبیوں نے شہر جانا ہے مالكن پوچھ رہی ہیں کہ گاڑی تیار ہے۔"

علی عرف چھوٹو کی آواز پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ علی ایک سال پہلے اورهان کو شہر کی سرک پر روتا ہوا ملا تھا۔ پندره سالہ علی بلکل بے یار و مددگار تھا جسے اورهان نے سہارا دیا اور یوں وہ اس کا چھوٹو بن گیا۔ 

اس ایک سال میں وہ اسے بہت پیارا ہو گیا تھا۔ اورهان اس سے کوئی مشقت والا کام نہ کرواتا اسکا کام بس اتنا تھا کہ وہ اورهان کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتا تھا اور اس کی گاڑی کو صاف رکھتا تھا۔

"ہاں کہو گاڑی تیار ہیں وہ لوگ آ جائیں۔"

وہ کہتا ایک دفعہ پھر صاحبہ کے نمبر پر کال ملانے لگا جس کا نمبر دو دن سے بند تھا۔ اورهان کی پریشانی کی انتہا تھی۔

وہ دو ماہ قبل ہی لندن سے واپس آیا تھا۔ شیفان نے اس کے ساتھ انے سے سختی سے انکار کر دیا تھا۔ اورهان نے اسے زیادہ فورس نہیں کیا تھا کیوں کہ وہ چاہتا تھا کہ وہ خود کو سنبهال لے جس قدر جلدی ہو سکے۔ 

افگن کا یونیورسٹی میں آخری سال چل رہا تھا پھر کچھ ماہ بعد اسے بھی لندن چلے جانا تھا اس لئے گھر والے چاہتے تھے کہ جانے سے پہلے افگن اور رومیصہ کا نکاح ہو جاۓ۔ اس لئے آج کل گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔

گھر والوں نے اورهان پر بھی کافی زور دیا تھا شادی کے لئے پر وہ فلحال ان کو ٹال گیا تھا۔

رومی کا ہاتھ پکڑے زوہان باہر آئی تو وہ فلحال موبائل جیب میں رکھتا ان کے لئے دروازہ کھول گیا پر اس کے دھیان کے سبھی دھاگے صاحبہ کی طرف لگے ہوئے تھے۔

@@@@@

وہ نیم دراز تھی جب مامی کی ملازمہ خاص کھانے کی ٹرے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔

پچھلے تین دن سے وہ روز اس وقت اسے کھانے کی ٹرے دے جایا کرتی تھی جسے صاحبہ چپ چاپ پیٹ میں اتار لیتی کیوں کہ بھوک سے بڑی کوئی حقیقت نہیں۔ زندہ رہنے کے لئے کھانا بھی بہت ضروری تھا۔

ملازمہ کھانا دینے کے بعد دروازہ واپس بند گئی تھی جب کہ صاحبہ مشکل سے اٹھ کر تھوڑا سا کھانا کھاتی ٹرے پرے كهسكا گئی۔

اورهان کو سوچ سوچ کر اس کا دل ہول رہا تھا۔ نہ جانے وہ اس کے رابطہ نہ کرنے پر کس قدر پریشان ہوتا۔

وہ ابھی بیٹھی یہی سوچ رہی تھی جب دروازہ پھر سے کھلا جب کہ اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ کر صاحبہ کا گلا خوف کے مارے خشک ہو گیا اور آنکھیں پهيل گئیں۔اب تک تو اسے پہلے والی مار بھی نہ بھولی تھی کہ اس کا ماما پھر سے آ دهمكا تھا۔

"یہ پکڑ موبائل اور اپنے عاشق کو کال ملا اور اسے کہہ کہ آج رات تو اسے ملے گی نہر پر !!!"

وہ اس کا موبائل اس کے اگے پهينك گیا تو اس کا مقصد سمجھتی وہ روتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی۔

"پلیز معاف کر دیں ماموں پر یہ ظلم نہ کریں !!!"

وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑ گئی پر جواب میں وہ اس کے منہ پر تھپڑ رسید کر گیا۔

"جتنا کہا ہے اتنا کر۔اسے وہاں پر بلا مجھے بس اس سے کچھ کاغذات پر دستخط کروانے ہیں پر اگر کوئی چالاکی کی تو کتے کی موت مارا جاۓ گا وہ میرے ہاتھوں۔"

اس کے لہجے کی سفاكی پر صاحبہ کی آنکھیں پهيل گئیں۔

"اللّه کا واسطہ ایسا مت کرئے گا مم ۔۔۔میں ویسا ہی کروں گی جیسا آپ کہیں گے پر سردار کے ساتھ کچھ غلط مت کرئے گا !!!"

وہ ہاتھ جوڑتی اس وقت کے فرعون کے آگے گڑگڑانے لگی.

"تو اس کی زندگی چاہتی ہے کہ موت ؟؟؟"

اس کے ظالم سوال پر صاحبہ نے تکلیف سے آنکھیں موند لی ۔

"زندگی !!!"

اس کے جواب پر انور طنزیہ ہنس دیا۔

"کر کال !!!"

اس کے زور دینے پر صاحبہ نے لرزتے ہاتھوں سے موبائل پکڑ کر آن کیا تو اورهان کی ڈھیڑ ساری كالز اور میسجز شو ہونے لگے۔

اس نے سسكتے ہوئے اورهان کے نمبر پر کال ملائی جو پہلی بیل پر ہی اٹھا لی گئی۔

"ہیلو صاحبہ !!! میری جان کہا تھی تم تین دن سے پاگلوں کی طرح تمہیں کالز اور میسجز کر رہا تھا پر تمہارا نمبر بند جا رہا رہا سب ٹھیک تو ہے نا !!! تم ٹھیک ہو نا ؟؟"

اس کی آواز سے چھلکتی بے چینی پر صاحبہ نے لب دانتوں تلے دبا کر اپنی سسكی کا گلا گھونٹا۔

"ہیلو صاحبہ  تم سن رہی ہو ؟؟؟"

اورهان کی پریشان آواز موبائل کے سپیکر سے ابهری تو انور نے صاحبہ کو گھورا جس پر وہ مشکل سے حلق سے آواز برامد کرنے لگی۔

"میری طبیعت نہیں ٹھیک !!!"

وہ بے اختیار رو پڑی۔

"تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں میری جان جانتی جو کتنا پریشان تھا میں۔ میڈیسن لی یا نہیں ؟؟ اب بھی بہتر نہیں کیا طبیعت ؟؟"

وہ پریشانی میں سوالوں کی بوچھاڑ کر گیا۔

"مم۔۔۔میں ٹھیک ہوں بس ۔۔۔بس آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ رات کو نہر پر آ سکتے ہیں !!!"

وہ تکلیف سینے میں دباتی مشکل ترین الفاظ ادا کر گئی۔

"رات کو کیوں ابھی آ جاتا ہوں !!!"

اس کے لہجے سے بے تابی واضح تھی۔

صاحبہ انور کی طرف دیکھنے لگی جو اسے بولنے کا اشارہ کر رہا تھا۔

"نن۔۔نہیں ابھی موقع نہیں رات کو ملیں گے آٹھ بجے ۔"

اس کی بات پر انور کچھ پر سکوں ہوا۔q

"ٹھیک ہے ابھی ریسٹ کرو شاباش۔ لوو یو میری جان۔ ٹیک کیئر !!!"

وہ محبت بھرے لہجے میں بولا تو صاحبہ کی پھر سے جان نکلنے لگی۔

"اللّه حافظ !!!"

صاحبہ کے بولتے ہی انور نے اس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹ کر اسے پیچھے دھکا دیا۔

"چالاکی کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ بھون کر رکھ دوں گا اس سالے کو !!!!"

انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتا وہ کمرے سے نکل کر دروازہ لاک کر گیا جب کہ صاحبہ بستر پر گرتی بے بسی کے احساس سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔اس کا دل ڈوبا جا رہا تھا جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہے پر وہ کہاں جانتی تھی کہ اس کی زندگی ہی اندھیر ہونے والی ہے ہمیشہ کے لئے !!!!!

وہ شیشے کے آگے کھڑا بال بنا رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں بہت تیزی تھی۔ رخسار بیگم کے ساتھ شہر جانے کی وجہ سے وہ لیٹ ہو گیا تھا۔

اس نے ہاتھ میں بندھی گھڑی پر ایک نظر ڈالی جو آٹھ بجا رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں مزید تیزی آ گئی۔ ڈریسنگ پر پڑا موبائل اٹھا کر جیب میں ڈالتے وہ عجلت میں کمرے سے باہر نکلا۔

"لالا سائیں کہاں جا رہے ہیں اس وقت آپ میں بھی ساتھ چلوں؟؟"

وہ جیسے ہی جیپ کے قریب پہنچا چھوٹو نے تیزی سے اگے بڑھتے جیپ کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔

"تیری بھابھی سے ملنے !!!"

وہ مسکرا کر اس کے بال بکھر گیا ۔

"سچ !!! میں بھی ساتھ چلوں ؟؟ پکا وعدہ گاڑی سے باہر نہیں نکلوں گا۔"

وہ جس طرح التجائیہ لہجے میں بولا تھا اورهان سے اس معصوم کو انکار ہو ہی نہ سکا۔

"چل آ جا !!!"

اس کی اجازت ملنے پر چھوٹو خوش ہوتا جیپ کی دوسری طرف بھاگا اور دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔

رات کے اس پہر جیپ تیز رفتاری سے نہر کی طرف جانے والے راستے پر رواں دواں تھی۔

اپنی منزل پر پہنچ کر اس نے چھوٹو کو وہیں رہنے کی تاکید کی اور خود جیپ سے نکل گیا۔ کچھ فاصلے پر اسے صاحبہ کھڑی نظر آ رہی تھی۔ اورهان کی طرف اس کی پشت تھی۔ اتنے دنوں کے بعد وہ اسے روبرو دیکھتا دلکشی سے مسکرا دیا۔

دھیرے قدم بڑھاتا وہ اس کی طرف بڑھا اور اسے اپنی باہوں میں بھر گیا۔ایک سکوں سا رگ و پے میں اترتا محسوس ہونے لگا۔

"کیسی ہے میری سردارنی !!!!"

وہ جو اس کے الفاظ کو محسوس کر رہی تھی اپنے گال پر اس کا لمس محسوس کرتی لرز اٹھی۔ اس کی پشت اورهان کے سینے سے لگی ہوئی تھی جب کہ وہ اس کے چہرے پر اپنا لمس چھوڑتا جا رہا تھا۔

صاحبہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے محسوس کرتا اورهان اس کا رخ اپنی طرف کر گیا۔

کیا ہوا میری جان کیوں رو رہی ہو مجھے سچ بتاؤ کوئی مسلہ ہے کیا ؟؟؟"

وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا تفكر سے بولا تو صاحبہ روتی ہوئی نفی میں سر ہلا گئی۔

وہ دھیرے سے اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتی اس کے سامنے ہاتھ جوڑ گئی۔

"مم۔۔۔مجھے معاف ۔۔۔۔معاف کر دیجئے گا سردار !!!! اس دھوکے باز کو معاف کر دیجئے گا !!!"

وہ سسكتی ہوئی بولی تو اورهان تڑپ اٹھا۔ 

اس سے پہلے کہ وہ اسے منع کرتا یا اپنی زبان سے کوئی لفظ ادا کرتا ایک دم فضا گولیوں کی آواز سے تھرا اٹھی اور انورچودھری وہاں وارد ہوا۔

"تو آخر ہونے والے سردار مرزا اورهان بلوچ صاحب تشریف لے آئے۔ ارے اگر مجھے پتا ہوتا کہ محبوبہ کے بلانے پر تم یوں دوڑے چلے آو گے تو یہ نیک کام کب کا کر چکا ہوتا۔ویسے صاحبہ کا خاص شکریہ ادا کرنا بنتا ہے جو تمہیں یہاں تک لے آئی میرے کہنے پر !!!"

انور کی بات پر اورهان بے یقینی سے صاحبہ کی طرف دیکھنے لگا جو سر جھکاتی آنسو بہا رہی تھی۔

"صاحبہ  کہہ دو کہ یہ جھوٹ ہے !!!"

اس کی آواز اور آنکھوں میں تیرتی بے یقینی دیکھ کر صاحبہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔

وہ خامشی سے آنسو بہاتی رہی جب کہ اس کی خاموشی سے اورهان کو اپنی بات کا جواب مل چکا تھا۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیوں پر لبوں پر جیسے قفل لگ گیا تھا اور الفاظ سینے میں ہی دم توڑ چکے تھے بلکل اس کے اعتبار کی طرح !!!!

"کیا چاہتے ہو مجھ سے ؟؟؟"

اس نے انور چودھری کی طرف دیکھتے سپاٹ لہجے میں پوچھا تو وہ خباثت سے ہنس دیا۔

"بہت عقلمند ہو۔ مطلب سمجھ ہی گئے میرا !!!"

اس کی بات پر اورهان نے ایک نظر صاحبہ کو دیکھا پھر آنکھیں پهير گیا۔

"باغ والی زمین کے کاغذات پر تمہارے دستخت چاہئے بس !!! آخر اپنی محبوبہ کی خاطر اتنا تو کر ہی سکتے ہو !!!"۔اس کی بات پر اورهان طنزیہ ہنس دیا۔

"اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے انور چودھری کہ میں یعنی مرزا اورهان بلوچ بلوچ تمہارے حکم کی تکمیل کروں گا۔"

وہ سینے پر ہاتھ بندھتا پوچھنے لگا تو انور کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔

"کیوں کہ جان کس کو پیاری نہیں ہوتی اورهان بلوچ !!! یقیناً تمہیں بھی اپنی جان بہت پیاری ہو گی۔ اگر میں تمہاری جان لے لوں تو تمہیں کیا لگتا ہے ہمارے علاوہ یہاں کون ہے جو باہر جا کر یہ بتاۓ گا کہ گاؤں کا ہونے والا سردار کیسے مارا گیا ؟؟؟"

اس کی بات پر صاحبہ کے دل کی دھڑکن سست پڑ گئی۔ وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا بھلا ؟؟؟

"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں اپنے باپ دادا کی جائیداد تمہارے حوالے کر دوں گا؟"

اس کی بات پر انور نے جیب سے پستول نکال کر اس پر تانی تو صاحبہ کی آنکھیں پهيل گئیں جب کہ اورهان بے خوف ہو کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا۔

"ہاں یا نہ ؟؟"

انور کے سوال پر اورهان نفی میں سر ہلا گیا۔

"میری طرف سے صاف انکار  ہے !! جو کر سکتے ہو کر لو !!!!"

انور چودھری نے تیش میں اتے پستول پر گرفت سخت کی اور اگلے ہی لمحے "ٹھاہ " کی آواز کے ساتھ صاحبہ کی چیخ ویرانے میں گونج اٹھی۔

انور چودھری بے یقین نظروں سے اپنے ہاتھ میں پکڑی گن کو دیکھ رہا تھا۔ وہ تو بس ڈرانے کی نیت سے گن کے کر آیا تھا پر اسے نہیں پتا تھا کہ سچ میں گولی چل جاۓ گی۔

اورهان نے بے یقین نظروں سے اپنے سامنے خون میں لت پت پڑے چھوٹو کو دیکھا جو عین وقت پر اس کے سامنے کھڑا ہوتا اس کے نام کی گولی اپنے سینے پر کھا گیا تھا۔ گولی دل کے مقام پر لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

اورهان نے کانپتے ہاتھوں سے چھوٹو کی ادھ کھلی آنکھیں بند کیں اور اسے بے ساختہ اپنے سینے میں بھینچ گیا۔ وہ جو هنستا ہوا کہتا تھا کہ لالا سائیں کے لئے جان دے دوں گا آج حقیقت میں اپنا کہا سچ ثابت کر گیا تھا۔

اورهان نے خون خوار نظروں سے صاحبہ کی آنکھوں میں دیکھا تو صاحبہ ڈھے سی گئی۔ آخر کیا نہ تھا اس کی آنکھوں میں۔ غصّہ،تکلیف ،بے یقینی ، نفرت!!!! اس کی آنکھوں سے چھلکتی نفرت نے صاحبہ کو تڑپا کر رکھ دیا۔

"چلو نکلو جلدی یہاں سے !!!"

انور اسے بازو سے دبوچتا اپ ساتھ گھسیٹتا لے گیا جب کہ صاحبہ کی بے وفائی اور چھوٹو کی اچانک موت نے اس کے حواس اس قدر سلب کر لئے تھے کہ وہ انہیں روک بھی نہ سکا۔

@@@@@

اس واقعے کو دو  مہینے  گزر گئے  تھے ۔ وہ ایسے ہو گئی تھی جیسے کوئی زندہ لاش !!!!

تین وقت کا کھانا کمرے میں مل جاتا جسے وہ زہر مار کر لیتی تھی۔کمرے سے نکلنا چھوڑ چکی تھی۔

انور دو ہفتے رو پوش رہا تھا۔ اسے لگا کہ اورهان اسے چھوٹو کے قتل کے لئے معاف نہیں کرے گا بلکہ بدلہ ضرور لے گا پر اس کی طرف سے مکمل خاموشی محسوس کرتے وہ واپس لوٹ آیا تھا۔

وہ سر گھٹنوں میں دے بیڈ پر بیٹھی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی پر وہ سر اٹھاۓ بغیر یوں ہی پڑی رہی۔

"اے لڑکی !!! جمعہ کو تیرا نکاح ہے فائق چودھری سے۔ اپنا دماغ سیٹ کر لے تب تک۔ ہفتہ ہے تیرے پاس ابھی۔"

انور چودھری نے جیسے اس کے کانوں میں صور پھونکی تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے سر اٹھا گئی۔

"کیوں ایک آوارہ اور بغیرت لڑکی سے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کروا کر اس کی زندگی اندهير کرنا چاہتے ہیں ؟؟"

اس نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ اس کے لئے یہی الفاظ تو استعمال کیے تھے انور چودھری نے وہ بھی بارہا۔

"بکواس کرے گی ؟؟میرے سامنے زبان چلائے گی ؟؟ جیسا کہا ہے ویسا کر چپ کر کے ورنہ زبان ادھیڑ کر رکھ دوں گا !!!"

اس کے بال مٹھی میں جکڑتے وہ غرآیا۔

""اپنا مقصد بھی بتا دیں پھر کیوں کہ بغیر کسی مقصد کے تو آپ کوئی کام کرتے نہیں !!!"

سر سے اٹھتی تکلیف برداشت کرتے اس نے سوال داغا تو انور چودھری ہنکار بھر کر رہ گیا۔

"بہت سيانی ہے تو بھی اپنے اس آشنا کی طرح !!!"

وہ اس کے بالوں کو پکڑ کر جھٹکا دے گیا تو صاحبہ كراه کر رہ گئی۔

"تو سن میرا مقصد !! مجھے پاگل سمجھا ہوا ہے کیا جو تیرے نام کی زمین کو یوں ہی ہاتھ سے جانے دوں گا۔ میرے باپ کی زمین ہے وہ جو مرنے سے پہلے تیرے نام کر گیا۔ تیرا نکاح فائق سے کروا کر وہ جائیداد اپنی مٹھی میں کروں گا۔ پر تو یہ مت سمجھنا کہ میرا بیٹا تجھے بیوی والا مقام دے گا۔ دوسری شادی کروں گا اپنے ہیرے کی وہ بھی دھوم دھام سے سمجھی !!!"

اس کی بات پر تکلیف کی باوجود صاحبہ تلخ سا ہنس دی۔

"مری نہیں جا رہی آپ کے بیٹے کے لئے۔ میرا فائق چودھری تو کیا کسی  سے بھی نکاح نہیں ہو سکتا کیوں کہ میرا نکاح پہلے سے ہو چکا ہے۔ مرزا اورهان بلوچ کی منكوحہ ہوں میں !!!"

اس کی بات مکمل سنتے ہی انور نے الٹے ہاتھ کا بھاری تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ 

"جھوٹ !!! جھوٹ بولتی ہے مجھ سے بکواس کرتی ہے تجھے تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا!!!"

وہ اندھا دهند اسے مارتا چلا جا رہا تھا جب کہ وہ چپ چاپ مار کھاتی جا رہی تھی۔

"میں سچ کہہ رہی ہوں ثبوت ہے میرے پاس !!!"

اس کے کہنے پر وہ بامشکل اس سے ہاتھ روکتا پیچھے ہٹا۔

"دکھا کون سا ثبوت ہے تیرے پاس !!!"

صاحبہ حلق تر کرتی تکلیف ضبط کرتی اٹھی اور الماری کی طرف بڑھ گئی ۔الماری میں موجود لاکر کھول کر نکاح نامے کی کاپی نکالی اور لرزتے ہاتھوں سے انور کو پکڑا دی۔

وہ ہاتھ میں موجود نکاح نامے کو بے یقینی سے دیکھنے لگا۔

"پاگل سمجھتی ہے مجھے جو اس کاغذ کے ٹکرے کو سچ مان لوں گا۔ تیرا نکاح ہوگا اور ضرور ہوگا وہ بھی فائق چودھری سے۔میں نہیں مانتا اس نکاح کو سمجھی !!! تیار رہنا جمعہ کو ورنہ پہلے تو وہ تیرا عاشق بچ گیا اس دفعہ نہیں بچ سکے گا اور اسے صرف دھمکی مت سمجھنا !!!"۔سخت لہجے میں کہتا وہ نکاح نامے کو پھاڑ کر ٹکروں میں تقسیم کرتا کمرے سے نکل گیا۔

اپنے سامنے بکھرے ٹکروں کو دیکھتی وہ ہمت کھوتی وہیں فرش پر ڈھے گئی جب کہ لبوں سے سسكیوں کی صورت ایک ہی نام ادا ہو رہا تھا۔

"سردار !!!!"

پر سننے والے کو تو وہ اپنے ہاتھوں سے دفنا چکی تھی پھر وہ کیسے اس کی پکار سنتا۔

@@@@@

فائق کی آواز سنتے وہ دبے قدموں باہر نکلی تو وہ اکیلا ہی وہاں کھڑا کال پر بزی تھا۔

"سنیں لالا !!!!"

اس نے دھیمی آواز میں اسے پکارا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا پر اسے دیکھتے ہی اس کا ماتھا شکن آلود ہو گیا۔

"میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی میں پہلے سے کسی کے نکاح میں ہوں پر ماموں نکاح پر نکاح کروانے جیسا سنگین گناہ کر رہے ہیں پلیز مجھے اس گناہ سے بچا لیں ۔"

وہ آخر میں سسكتی ہوئی ہاتھ جوڑ گئی۔

"مجھے بھی تم میں کوئی انٹرسٹ نہیں کسی اور کو پسند کرتا ہوں پر بابا سائیں سن ہی نہیں رہے۔ تم فکر مت کرو بس خاموش رہو میں نکاح والے دن ملک سے باہر چلا جاؤں گا پھر کیسے ہو گا نکاح ؟؟ سمجھی !!!"

اس کی بات پر صاحبہ تیزی سے سر ہلاتی واپس کمرے میں بند ہوئی پر جانے کیوں دل مان نہ رہا تھا۔

@@@@@

افگن ہونٹوں پر حسین مسکان سجائے شہر سے هویلی واپس آ رہا تھا۔

پرسوں اس کا اور رومیصہ کا نکاح ہوا تھا پر نکاح کے فورا بعد وہ اس سے ملے بغیر شہر نکل گیا کیوں کہ اس کے جان سے پیارے دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ 

آج اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو وہ واپسی کے لئے نکل گیا۔  

وہ گاؤں کی حدود میں داخل ہو چکا تھا جب اس کی گاڑی کے سامنے ایک گاڑی آ رکی۔مجبورأ اسے باہر نکلنا پڑا۔ فائق چودھری بھی گاڑی سے باہر نکلا اور افگن کو دیکھ کر بونٹ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔

"راستہ کیوں روکا ؟؟"

افگن نے ماتھے پر بل ڈالے فائق سے پوچھا تو وہ مسکرا دیا۔

"بس یوں ہی رقیب سے ملنے کا دل کیا تو روک لیا۔"

اس کی بات پر افگن کا پارہ ہائی ہو گیا۔

"اپنی بکواس بند کرو ۔"

وہ بہت ٹھنڈے مزاج کا بندہ تھا پر سامنے والے نے بات ہی ایسی کی تھی۔

"جانتے ہو محبت کا اصول کیا ہوتا ہے ؟؟ مر جاؤ یا مار دو !!!"

وہ سفاکی سے کہتا اپنے ہاتھ میں تھامی پسٹل کو دیکھنے لگا اور اگلے ہی لمحے تین لگاتار فائرز کی آواز فضا میں گونج اٹھی۔

درخت کے پیچھے چھپے دو آدمیوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور چھپتے ہوئے بلوچ هویلی کی طرف بھاگ گئے۔

@@@@@

سرخ بھاری عروسی جوڑے میں پور پور سجی وہ اس وقت آئینے کے سامنے بیٹھی خود پر نظریں ٹکا کر ایک ہی سوچ میں مبتلا تھی۔ کیا وہ واقعی ایک دلہن تھی؟ کیا دلہنیں سچ میں ایسی ہوتی ہیں؟ یہ ہار سنگھار اس نے کرنے کا بھی سوچا تھا پر یہ ہار سنگھار اس شخص کے لئے تو نہ تھا جس کے لئے اس نے سوچ رکھا تھا۔ دل میں کسی ور شخص کو بساتے ہوئے کسی اور کے نام کا ہار سنگھار کس قدر تکلیف دیتا ہے کوئی اس وقت اس سے پوچھتا۔ گلے میں لپٹا ہیروں سے سجا بھاری ہار اسے اپنی گردن کے گرد لپٹا اژدھا محسوس ہو رہا تھا۔ ہر وقت ڈسنے کو تیار! كلائیوں میں پہنے جڑاؤ کنگن اسے ہتھکڑی کی طرح محسوس ہو رہے تھے جو اسے عمر قید کرنے کو پہنا دیے گئے تھے۔ ایک بھاری گھمبیر سرگوشی اسے اپنے کانوں میں سنائی دی۔

"سردارنی! جس دن تم اس سردار کے نام کا جوڑا پہن کر اپنا آپ پور پور سجا کر اس سردار کی سيج سجاؤ گی واللہ اس دن مجھ پر لازم ہو جاۓ گا کہ میں رب کے حضور چیخ چیخ کر اپنی خوش بختی  پر شکر ادا کروں اور اس گاؤں کے ہر شخص کو بتاؤں کہ دیکھو تمھارے سردار نے اپنی سچی لگن کی بدولت اپنی محبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا مقدر کر لیا۔"

ہاتھ میں پکڑی چوڑی دباؤ پڑنے سے ٹوٹ کر کئی حصّوں میں ٹوٹ کر اس کی ہتھیلی کو زخمی کر گئی تو وہ سسک کر یادوں کے حصار سے باہر آئ۔ زخمی ہاتھ سے ہوتی ہوئی اس کی نظر سامنے نظر آتے اپنے عکس پر پڑی تو وہ حیران رہ گئی۔ کئی آنسو اس کے گالوں سے پھسل پھسل کر نیچے گر رہے تھے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی انگلیوں کی پوروں سے اپنے گالوں کو چھو کر دیکھا جسے جانچنا چاہ رہی ہو کہ کیا واقعی یہ بے مول پانی اس کے آنسو ہیں؟ کیا ابھی تک ان سبز کٹوروں میں اتنی نمی باقی تھی کہ یوں برسات ہوتی۔

اتنے میں دروازہ  کھٹکا اور دو لڑکیاں روتی ہوئی اندر داخل ہوئیں۔ وہ اس کی طرف لپكیں۔

"غضب ہو گیا صاحبہ۔ تو بیٹھے بٹھائے لٹ گئی۔ ہائے اوربا برباد ہو گئے ہم۔"

ان کے رونے پیٹنے پر اس کا ساکت دل دھک دھک کرنے لگا۔

"کیا ہوا ہے؟ تم لوگ کیوں رو رہی ہو اور اس طرح بولنے کا کیا مقصد ہے۔"

اس کے پوچھنے پر وہ دونوں آنکھوں میں بے بسی لئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔ 

"سردار ارقم بلوچ کے بیٹے کا قتل ہو گیا اور قتل کرنے والا جانتی ہو کون ہے؟ فائق چودھری! جرگہ بیٹھ چکا ہے نہ جانے اب کیا فیصلہ ہو!"

وہ اس کا زرد پڑتا چہرہ دیکھے بغیر اپنی بات مکمل کر کے واپس دروازے کی طرف بڑھ گئیں جب وه دل میں اٹھتے درد پر قابو پاتی انھیں آواز دے گئی۔

"سنو! سردار ارقم بلوچ کے کّک۔۔۔کس بیٹے کا قت۔۔ قتل ہوا؟"

یہ سوال کرتے اس کا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ضبط کی ہر دیوار جسے ٹوٹنے کو تھی بس۔ 

"سردار کا چھوٹا بیٹا مرزا افگن بلوچ!"

یہ جواب سنتے ہی وہ پیچھے کرسی پر ڈھے گئی۔ جہاں اپنے پیا کی زندگی کی نوید نے اس میں ایک نئی روح پھونک دی تھی وہیں اس کی اپنے بھائی کے لئے بے پناہ محبت یاد کرتے اسے نئے واہمے ستانے لگے۔ کچھ دیر بعد اسے سننے کو ملا تھا کہ سردار نے قصاص مانگا ہے اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ قصاص میں مقتول کی بہن جاۓ گی اور یہ بات بھی کہ کس شخص کے ساتھ مقتول کی بہن کو ونی کیا جاۓ گا۔ اس نے ضبط کرتے اپنی آنکھیں میچ کر کھولیں تو سامنے ہی فائق چودھری کی بہن علینا چودھری روتی بلکتی بین کر رہی تھی۔ صاحبہ چودھری کو اپنی قسمت پر روتی بلکتی علینا چودھری کی قسمت پر بے پناہ رشک آیا تھا جو اس شخص کا نصیب بننے جا رہی تھی جو صاحبہ چودھری کی تہجد میں مانگی گئی اولين دعا تھا۔ وہ شخص جو کبھی صاحبہ چودھری پر جان وارتا تھا۔ چیختی چلاتی علینا کو جب جرگے کے لئے لے جایا گیا تو صاحبہ پتھرائی نظروں سے یہ منظر دیکھتی ایک دم چیخ چیخ کر رونے لگی۔ قسمت کی دیوی نے اداس نظروں سے اس حسن کی ملکہ کو دیکھا تھا جو اپنا سب کچھ ہار بیٹھی تھی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یہ بلوچستان کے ایک گاؤں خضدار کے ایک بڑے میدان کا منظر تھا جہاں برگد کے قدیم اور قد آور درخت کے نیچے اس وقت چودھریوں اور بلوچیوں کے درمیان ہونے والے گھمبیر تنازعے پر پنچائیت بیٹھی ہوئی تھی۔ درخت کے عين نیچے بچھے مرکزی تخت پر پنچائیت کے معزز سربراہ مولانا عبدالحق صاحب جو کہ ایک مولانا بھی تھے،  سفید کڑکڑاتے شلوار قمیض میں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ دھرے چہرے پر انتہائی سنجیدہ تاثرات سجائے بیٹھے تھے۔

ان کے ساتھ ہی گاؤں کے دو اور معزز اور معمر افراد براجمان تھے۔ ان کی دائیں  جانب بلوچ جب کہ بائیں جانب چودھری خاندان موجود تھا۔ چودھریوں کے چہروں پر ہراس و خوف صاف واضح تھا جب کہ بلوچوں کے چہرے ضبط سے سرخ پڑ رہے تھے ۔

مولانا عبدالحق نے گلا کھنگارتے بات کا آغاز کیا۔

"جیسا کہ صاف واضح ہے کہ چودھری انور کے بیٹے چودھری فائق نے سردار ارقم بلوچ کے چھوٹے بیٹے مرزا افگن بلوچ کو اپنی بندوق سے تین گولیاں ماری جن میں سے دو اس کے سینے میں جب کہ ایک اس کے دماغ میں پیوست ہوئیں اور وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گیا۔ وہاں موجود دو گواہوں کی گواہی کے بعد چودھری فائق نے خود بھی تسلیم کیا کہ اس نے ہی یہ قتل کیا ہے۔ یہ پنچائیت مرزا افگن بلوچ کے اہل خانہ کو اجازت دیتی ہے کہ وہ قصاص طلب کریں۔"

پنچائیت کا فیصلہ سنتے چودھریوں کے رنگ اڑے تھے۔

"میں اپنے بیٹے کے گناہ کے بدلے اپنی ساری زمین بلوچوں کے نام کرنے کو تیار ہوں۔"

چودھری انور کی بات سنتے ہی سردار ارقم بلوچ کا بڑا بیٹا مرزا اورهان بلوچ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔کالا لباس جو کہ شکن آلود ہو چکا تھا پر پھر بھی اس شاندار شخص کے مضبوط توانا وجود پر خوب جچ رہا تھا۔ سنہری آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں۔ كمان سے ابرو ماتھے کے درمیان میں بننے والی لکیر سے جڑ رہے تھے۔ جبڑے بھینچے ہوئے تھے جب کہ چہرہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا۔ہعنٹ آپس میں پیوست تھے ۔دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچنے سے سرخ و سفید ہاتھ پر نیلی رگیں تن گئی تھیں۔سردار ارقم نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا اور آنکھ کے اشارے سے اسے تحمل سے کام لینے کا اشارہ کیا۔

"میرا جان سے عزیز بھائی قتل ہوا ہے۔ مرزا افگن بلوچ کا بھائی اور بلوچ قبیلے کے ہونے والے سردار کی حیثیت  اور جرگے کے مطابق مجھے پورا حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق مانگ کر سکوں اور میرا مطالبہ یہ ہے کہ۔۔۔۔"

پنچائیت میں موجود ہر شخص سانس روکے اس کی بات سن رہا تھا۔ بلا شبہ مرزا اورهان بلوچ اپنے الفاظ اور انداز سے ہی کسی کا بھی سانس روکنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ سب سانس روکے اس کے فیصلے کے منتظر تھے۔ جرگ ے میں اس وقت موت کا سماں تھا۔

"میری مانگ یہ ہے کہ میرے بھائی کے قتل کے بدلے میں چودھری فائق کی بہن مجھے ونی کی جاۓ یا پھر خون کے بدلے خون ۔ یہی میرا اٹل فیصلہ ہے اور اس میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔"

اس کے دوسرے فیصلے سے ہر شخص کو سانپ سونگھ گیا کیوں کہ وہاں موجود کسی فرد نے بھی اس فیصلے کی توقع نہیں کی تھی۔ ہر فرد جانتا تھا کہ مرزا اورهان بلوچ ان روایتوں کے کتنا خلاف ہے پھر اپنے لئے ایسا فیصلہ ہر کس کے لئے تعجب کا باعث تھا۔ انور چودھری مولانا عبدالحق کے بعد اس کے پیروں میں گر کر گڑگڑانے لگا پر اس نے کسی پکار اور فریاد پر کان نہ دھرا۔ آخر بیٹے کی زندگی بچانے کی خاطر وہ اپنی بیٹی کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ کتنی عجیب بات تھی نا کہ ایک اولاد کو بچانے کی خاطر دوسری اولاد کو قربان کیا جا رہا تھا۔ تھے تو دونوں ہی ایک ماں باپ کی اولاد۔ پھر یہ تفریق کیوں کر؟ اس لئے کیوں کہ وہ بیٹا تھا نسل کا امین تھا بڑھاپے کا سہارا تھا جب کہ بیٹی تو پرائ تھی کل کو اپنے گھر رخصت ہو جاتی اور ان کو کیا فائدہ دیتی۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ اسی سوچ نے کتنے ذہن خراب کیے اور کتنے ہی گھر اجاڑے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس نے گناہ کیا وہی گناہ کی سزا بھی بھگتے۔ اس طرح گناہوں کا رجحان بھی کم ہو پر کم عقل اور جاہل لوگ کہاں ایسا سوچیں۔ وہتو بیٹے کی زندگی کی خاطر بیٹی کو قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں یہ جاننے کے باوجود کے گناہ گار نے اپنے گناہ کی سزا کاٹنی ہے جب کہ بیٹی نے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی موت تک موت سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جانا ہے۔

کچھ وقت کے بعد ایک گاڑی دھول اڑاتی ہوئی وہاں آ کر رکی اور ایک آدمی نے چیختی چلاتی علینا چودھری کو کھینچ کر گاڑی سے باہر نکالا اور اسے گھسیٹتے ہوئے وہاں لانے لگا۔ اسے دیکھتے مرزا اورهان بلوچ کے ہونٹوں پر استہزاہیہ مسکراہٹ چھا گئی۔ اب آنا تھا اصل کھیل کا مزہ!

°°°°°°°°°°°°°°°°

وہ کورٹ سے ہو کر ابھی آیا تھا۔وہ رومی کی کسٹڈی کے لئے بھگا پھر رہا تھا وکیلوں سے مل رہا تھا پر سب کا یہی کہنا تھا کہ جب نکاح ہو چکا ہے تو وہ لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے واپسی کے لئے نہ ہی اس کے شوہر کو مجبور کر سکتے ہیں۔

وہ تھکا ہارا صبح کا گیا اب شام کو واپس آیا تھا۔

وہ جیسے ہی لاؤنج میں داخل ہوا اسے زوہان اداس چہرہ لئے صوفے پر بیٹھی دکھائی دی۔ وه اسے اگنور کرتا سامنے والے صوفے پر ڈھے گیا۔اس کے چہرے سے تھکاوٹ صاف صاف نظر آ رہی تھی۔وہ یوں ہی لیٹے آنکھیں بند کر گیا۔

"پانی پی لیں !!!!"

زوہان کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولی تو سامنے ہو وہ ہاتھوں میں پانی کا گلاس لئے کھڑی تھی۔ اسے ایک نظر دیکھ کر وہ واپس آنکھیں بند کر گیا۔

زوہان كنفیوز سی لب چبانے لگی۔ 

"سنیں !!!"

اس نے ہمت کرتے پھر سے پکارا تو وہ آنکھیں کھولتا اسے خونخوار گھوری سے نواز گیا۔ اس کے یوں گھورنےپر وہ سٹپٹا کر پانی کا گلاس آگے کر گئی۔

"یہ پانی پی لیں !!!!"

اس نے گلاس اس کی طرف بڑھاتے منمناتی آواز میں کہا تو وہ گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگا جس پر زوہان کو سمجھ نہ آئی کہ یہاں کھڑی رہے یا پھر بھاگ جاۓ۔

"میں نے بولا پانی لانے کو ؟؟"

اس کے کڑے لہجے میں پوچھے گئے سوال پر وو سٹپٹاتی نفی میں سر ہلا گئی۔

"منہ میں زبان نہیں ہے کیا ؟؟؟ پہلے تو اس زبان کو استعمال کرتے ہوئے میری بہن کے سامنے مجھ سے محبت کے بہت دعوے کرتی تھی۔ اب کہاں گئی وہ زبان ؟؟؟"

اس کے سوال پر زوہان کا دل کیا شرم سے ڈوب مرے۔ یہ بندہ بھگو بھگو کر مارتا تھا۔

"جج۔۔۔جی ہے !!!"

وہ ہکلاتی ہوئی تیزی سے بولنے کے ساتھ زور و شور سے سر بھی ہلا گئی۔

"کیا ہے ؟؟"

کڑے تیوروں میں پوچھا گیا تھا تھا۔

"زبان ۔۔۔۔زبان ہے !!!"

وه شرمندگی سے زمین میں گڑی جا رہی تھی۔

*پھر میرے سوال کا جواب بھی دو اس زبان کو استعمال کرتے ہوئے۔"

اس کی بات پر وہ تھوک نگلتی حلق تر کرنے لگی۔

"وہ آپ صبح کے گئے اب آئے ہیں نا تو میں نے سوچا تھک گئے ہوں گے اس لئے پانی لے آئی۔"

کہنے کے ساتھ ہی وہ گلاس پھر سے اس کے آگے کر گئی البته نظریں اب جھکی ہوئی تھیں۔

"اچھا کیا جو میری تھکاوٹ کا سوچا کیوں کہ شادی کے بعد میری ساری تھکاوٹیں تمہیں ہی تو اتارنی ہیں !!!"

اس کے لہجے کی بے باکی پر زوہان کے گال سرخ پڑ گئے جب کہ ہاتھ بھی کانپ اٹھے جس پر وہ گلاس پر اپنی گرفت سخت کر گئی۔

"میں یہ واپس لے جاؤں ؟؟"

اس کے یوں معصومیت سے پوچھنے پر شیفان عش عش کر اٹھا۔

"تمہاری خدمت والی سروس تو بہت ہی بری ہے۔ ٹرائل پر ہی خدمت کا سارا جنوں ہوا ہو گیا کیا ؟؟؟"

اس کی بات پر وہ بے بسی سے نفی میں سر ہلا گئی۔

"آپ کو میں کب سے کہہ رہی کہ پی لیں پر آپ نہیں پی رہے اس لئے میں نے واپس لے جانے کا پوچھا۔"

اس کی بات پر وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھا تو زوہان بے ساختہ دو قدم پیچھے ہوئی۔

شیفان نے ناگواری سے اس کی یہ حرکت دیکھی۔

"میری خدمت کرنا چاہتی ہو رائٹ ؟؟"

اس کے سوال پر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

"زبان کا استعمال !!!"

اس کی تنبیہ پر وہ ہڑبڑا گئی۔

"جج۔۔۔جی کرنا چاہتی ہوں !!!"

اس کی بات پر وہ سر ہلا گیا۔

"تو پلاؤ پھر مجھے پانی !!"

اس کے حکم پر زوہان ہونق بنی اسے دیکھنے لگی اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگی آیا اس نے وہی کہا ہے کیا جو اس نے سنا ہے۔

"زبان کو زنگ لگ گیا ہے کیا ؟؟سمجھ نہیں آئی میں نے کیا کہا !!!"

اس کی کرخت آواز پر زوہان بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔

"بھلا میں کیسے ؟!!"۔

اس کی بات پر شیفان طنزیہ ہنس دیا۔

"محبت کرنے کا ہی شوق تھا کیا بس ؟ یہ نہیں جانتی کہ محبت نبھانے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں!!!"۔ 

اس پر طنز کرنے کے ساتھ ہی بالآخر وہ اس کے ہاتھ سے گلاس پکڑ گیا۔ اس کے بھاری مضبوط ہاتھ کی انگلیاں زوہان کی نازک انگلیوں سے ٹکرائی تو اس کے جسم میں پهريری سی دوڑ گئی۔

وہ اس پر نظریں جمائے گھونٹ گھونٹ پانی حلق میں اتارنے لگا جب کہ اس کے مستقل ٹکٹکی باندھ پر دیکھنے پر وہ رونے والی ہو چکی تھی۔

"اللّه تیرا شکر کہ جان بخشی گئی آئندہ میرے باپ کی بھی توبہ اگر مجھے ایسا همدردی کا کیڑا کاٹا !!!!"

اس نے اسے گلاس واپس پکڑایا تو وہ دل ہی دل میں شکر ادا کرنے لگی پر آواز دل کی بجائے منہ سے نکل گئی تھی جس پر وہ اسے سخت گھوری سے نواز گیا۔ اسے یوں خود کو دیکھتے پا کر زوہان کو احساس ہوا کہ وہ کیا بلنڈر کر چکی ہے اور بس یہ بات سمجھ آنے کی دیر تھی۔ آنسو ٹپ ٹپ آنکھوں سے بہتے گالوں پر پهسلنے لگے۔

"اب رو کیوں رہی ہو ؟"

ایک تو اس لڑکی کی حرکتیں اور باتیں اوپر سے اس کے رونے پر وہ مزید چڑ گیا۔

"سوری میں ایسا بولنا نہیں چاہتی تھی پر آپ جانتے ہیں نہ کہ زبان میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی اس لئے بے وجہ بھی پهسل سکتی ہے بس میری بھی یوں ہی خود بہ خود ہی پهسل گئی ورنہ میں ایسا بلکل بھی نہیں کہنا چاہتی تھی بلکہ میں ایسا کہہ ہی نہیں سکتی !!!"

وو روتی ہوئی مسلسل نفی میں سر ہلاتی اپنی صفائی پیش کرتی سامنے والے کی سانسیں پل بھر کے لئے روک گئی تھی۔

لیمن كلر کا سوٹ پہنے بھیگی آنکھوں، سرخ ناک، گلابی پڑتے گالوں اور لرزتے لبوں کے ساتھ مسلسل بولتی پل بھر کے لئے اس کے اعصابوں پر بھاری پڑ رہی تھی۔ 

"استغفرالله !!!"

اگلے ہی لمحے شیفان سر جھٹک کر اس احساس کو ختم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

"جاؤ اور کوشش کر میرے مستقل شکنجے میں آنے سے پہلے میرے سامنے نہ آؤ۔ جاؤ اب !!!"

وہ اس سے نظریں پهيرتا سخت لہجے میں بولا تو زوہان وہاں سے ایسے غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگھ !!!

اس کی سپیڈ پر وہ سر جھٹک کر رہ گیا۔

@@@@@

وہ گھٹنوں میں سر دیے بیڈ پر بیٹھی تھی جب دروازہ ناک ہوا۔

"یس !!!"

اس کی اجازت ملتے ہی دروازہ کھلا اور زوہان کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے یوں اپنے کمرے میں دیکھ کر صاحبہ چونک اٹھی۔ 

اتنے عرصے میں وہ پہلی دفعہ اس کے کمرے میں آئی تھی اس کا حیران ہونا تو بنتا ہی تھا۔

"بھابھی آپ فری ہیں ؟؟"۔

زوہان جهجهك کر بولی تو وہ بے ساختہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

"میں بہت بور ہو رہی تھی اکیلی تو سوچا آپ سے پوچھ لوں اگر آپ فری ہیں تو ہم پچھکے باغ میں چلتے ہیں باتیں کریں گے ساتھ کھائیں پییں گے کیا خیال ہے آپ کا ؟؟"

وہ اپنی بات مکمل کرتی رک کر صاحبہ کو دیکھنے لگی جو اس کی بات سنتے ایک منٹ کے لئے کچھ سوچنے لگی پھر مسکراتے ہوئے سر ہلا گئی۔

"ہاں ٹھیک ہے چلتے ہیں۔موسم بھی بہت پیارا ہو رہا تھا آگے۔"

وہ بیڈ سے اتر کر جوتا پهنتی دوپٹہ سہی طرح سینے پر پهيلاتی اس کے ہمراہ کمرے سے نکل آئی جب کہ زوہان کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔

"آپ ركیں میں ماسی کو بول کر آتی ہوں کہ ہمارے لئے جوس اور سنیکس لے آئے۔"

اس کی بات پر صاحبہ فقط سر ہلا گئی۔ زوہان کچن کی طرف چلی گئی تو صاحبہ وہیں کھڑی ہوتی آس پاس نظر دوڑانے لگی جب اس کی نظر لاؤنج میں لگی لارج سائز فیملی پکچر پر پڑی۔

کس طرح سب ہنستے مسکراتے چمکتے چہرے لئے کھڑے تھے جب کہ اب تو یہ سب خوشیاں ختم ہی ہو چکی تھیں۔سب پیار کرنے والے بکھر چکے تھے۔

"چلیں بھابھی!!!"۔زوہان کی آواز پر وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگی 

"ہاں چلو !!!"

وہ دونوں هویلی کے پچھکے باغ کی طرف بڑھ گئیں۔

"باغ کی ٹھنڈی ہوا اس کے وجود سے ٹکرائی تو وہ آنکھیں موندتی گہری سانس بھر کر اس ہوا کو اپنے اندر اتارنے لگی۔

پھر وہ دونوں جا کر جھولے پر بیٹھ گئیں۔ اس جھولے پر زوہان اور رومیصہ بیٹھا کرتی تھیں۔ یہ اورهان نے لگوایا تھا ان دونوں کے لئے۔

"بھابھی آپ سے ایک بات پوچھوں اگر آپ برا نہ منائیں تو ؟"۔

زوہان کے جھجھک زدہ لہجے میں پوچھے گئے سوال پر وہ اسے دیکھنے لگی۔

"ہاں ضرور پوچھو !!"

صاحبہ  مسکرا کر بولی۔ اسے زوہان بہت اچھی اور معصوم سی لگی۔

"آپ اور اورهان لالا پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں نا ؟"۔

اس کے سوال پر صاحبہ کا رنگ زرد پڑ گیا۔ وہ تیزی سے سر گھماتی آگے پیچھے دیکھنے لگی آیا کسی نے سن تو نہیں لی اس کی بات ۔

"كک ۔۔۔کیا مطلب ہم کیسے جانتے ہوں گے ؟"

وہ ہڑبڑا کر بولی تو زوہان گہری سانس بھر کر رہ گئی پھر اس کی طرف رخ کرتی اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام گئی۔

"میں صرف لالا کی ہی نہیں اب آپ کی بھی بہن ہوں۔ آپ مجھ پر یقین کر سکتی ہیں۔ میں بہت اچھی همراز ثابت ہوؤں گی۔ ہر انسان کو کسی ایسے سہارے کی ضرورت ضرور ہوتی ہ جس سے وہ اپنا ہر غم بانٹ کر خود کو ہلکا پھلکا کر سکے۔"

اس کی باتوں پر وہ لمبی سانس كهينچتی آنکھیں بند کر گئی۔ 

"تم کیسے جانتےی ہو کہ نکاح سے پہلے ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے۔"

اس کے سوال پر زوہان مسکرا کر اسے دیکھنے لگی۔

"کیوں کہ میں مان ہی نہیں سکتی کہ لالا کسی کو زبردستی اپنی زندگی میں داخل ہونے دیں۔ انہوں نے فائق چودھری کی بہن کو چھوڑ کر آپ کی ڈیمانڈ کی خود۔ یہ بات کیا ظاہر کرتی ہے ؟ پچھلے چند سالوں سے ان کے ہونٹوں پر بے وجہ رہنے والی مسکراہٹ بھی یوں ہی نہیں ہو سکتی پر یہ مسکراہٹ افگن لالا کے نکاح سے پہلے اچانک ہی ختم ہو گئی جب چھوٹو کا قتل ہوا۔ لالا اس کے بعد پوری طرح بدل گئے ہیں !!"۔

وہ بات کرتی خود بھی ماضی میں پہنچ گئی تھی۔ ایک دم سے اسے شدت سے افگن اور رومی کی یاد آئی۔رومی سے تو وہ زندگی میں کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں مل ہی سکتی تھی پر افگن کے ملنے کا تو ہر راہ ہی بند ہو چکا تھا۔

"ہاں ہم پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے بلکہ پسند کرتے تھے۔ تین سال سے اوپر وقت ہو گیا ہمیں ساتھ۔بہت محبت کرتے تھے ہم ایک دوسرے سے۔ پر میری ایک غلطی اور بزدلی نے اس محبت کو نفرت میں بدل ڈالا۔ مجھے اب بھی سردار سے بہت محبت ہے۔اتنی محبت کے ان کی خاطر اف کیے بغیر خوشی خوشی اپنی جان بھی دے سکتی ہوں پر وہ مجھ سے صرف اور صرف نفرت کرتے ہیں۔شدید نفرت !!!!"

اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ کس قدر ظلم کیا تھا اس نے خود پر جو اس قدر چاہنے والے کو خود سے نفرت پر مجبور کر دیا۔ کیا ہوتا اگر وہ مشکل وقت میں ہمت سے کام لیتی اور اورهان پر یقین رکھتی۔ پر یہ بات اس کی زندگی کی حسرت بن کر رہ گئی تھی۔

"بھابھی میں نہیں جانتی آپ نے کیا غلطی کی جو لالا آپ سے اس قدر دور ہو گئے پر اتنا ضرور کہنا چاہوں گی کہ غلطياں سب سے ہوتی ہیں آپ سے بھی ہو گئی پر جو غلطیوں کو سدهار کر پہل کر لے انا کو مار کر تو وہ انسان رشتہ بچا لیتا ہے۔ اب یہ آپ پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ آپ کو اپنا رشتہ کس طرح بچانا ہے۔"

زوہان کی باتیں سیدھا اس کے دل کو جا کر لگ رہی تھیں۔ اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی سکینہ وہاں آئی۔

"صاحبہ بی بی آپ کو بڑے سردار بلا رہے ہیں کمرے میں۔"

وہ اسے اورهان کا پیغام دیتی بولی تو صاحبہ کچھ سوچتی ہوئی سر ہلا گئی۔ اس کو اب اپنا رشتہ بچانا تھا۔

وہ وہاں سے اٹھتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

وہ آج ڈرنے کی بجائے پورے اعتماد سے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ہاں وه جانتی بھی تھی اور مانتی بھی تھی کہ اس نے غلطیاں کی تھیں۔ اس نے اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنے شوہر کو خود سے دور کر دیا تھا۔ وہ شوہر جو اس سے دیوانوں سی محبت کرتا تھا۔ وہ شوہر جو بن کہے اس کی ہر بات سمجھ جاتا تھا۔وہ شوہر جو اس کی ہر پکار پر لبیك کہتا تھا۔

اور اس نے خود کیا کیا ؟؟ اپنے شوہر پر اعتماد ہی نہ کیا۔ اسے اعتبار کی ڈوری ہی نہ تھمائی  پر اس کی اس قدر سنگین غلطی کے باوجود اس نےکبھی صاحبہ کی ذات کی تذلیل نہ کی تھی۔

پر اب اسے پہل کرنی تھی۔اپنے شوہر کا اعتماد جیتنا تھا اور سب کچھ ٹھیک کرنا تھا۔

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اورهان صوفے پر سر پیچھے گرائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔ 

کالی شلوار قمیض پہنے بازو کہنی تک موڑے گلے میں بادامی رنگ کی چادر ڈالے وہ تھکاسا معلوم ہو رہا تھا۔ سنہری آنکھیں بند تھیں جب کہ کھڑی ناک کے نیچے موجود عنابی لب سختی سے باہم پیوست تھے۔

اس قدر رف حلیے میں بھی وہ اس قدر مکمل اور شاندار لگ رہا تھا کہ صاحبہ بے ساختہ ماشاءاللّٰه کہہ اٹھی۔

اپنے پیچھے آہستگی سے دروازہ بند کرتی وہ اپنے قدم صوفے کی طرف بڑھا گئی۔

اس کے قریب تر بیٹھ کر وہ اپنا ہاتھ اس کے بکھرے بالوں میں پهنسا گئی۔

وہ ابھی ڈیرے سے واپس آیا تھا۔ صبح شہر گیا پھر وہاں سے آ کر سیدھا ڈیرے پر چلا گیا۔ وہاں سے سیدھا هویلی چلا آیا کیوں کہ وہ بہت تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا۔

کمرے میں آیا تو خالی کمرہ اس کا منہ چڑھا رہا تھا۔ اس نے سکینہ کے ہاتھ صاحبہ کو کمرے میں آنے کا پیغام بھجوایا اور خود چینج کیے بغیر صوفے پر ڈھے گیا۔

ابھی اسے آنکھیں بند کیے کچھ منٹ ہی گزرے تھے جب اسے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی پر وہ یوں ہی پڑا رہا پر چند لمحوں کے بعد ہی اسے اپنے قریب اس کی موجودگی محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے کہ وہ آنکھیں کھولتا وہ اپنا نرم و نازک ہاتھ اس کے بالوں میں پهنساتی اس کے گھنے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔

اورهان کو اس کی حرکت سے رگ و پے میں سکون اترتا محسوس ہوا۔دماغ کو سکون ملا تو آنکھوں سے کھلنے سے انکار کر دیا پر وہ ضد میں آتا اس کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے ہٹا گیا۔

اگلے ہی پل وہ پھر سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔سکون محسوس کرنے کے باوجود وہ پھر سے اس کا ہاتھ پیچھے کر گیا پر وہ بھی اپنی چلاتے دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔

جب تین دفعہ ایسا ہی ہوا تو آخر کار اورهان لب بھینچتا اسے اس کے حال پر چھوڑ گیا۔ آخر سکون مل رہا ہو تو کون بے سکونی چاہتا ہے۔صاحبہ نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی رہی۔

"تھک گئے ہیں نا ؟؟ چائے بنا کر لاؤں آپ کے لئے یا پھر کھانا کھائیں گے؟؟"

وہ میٹھی آواز میں پوچھتی اس کا دل نرم کرنے کے در پر تھی۔

"کچھ بھی نہیں چاہئے مجھے !!!"

درشتگی سے کہتا وہ سر جھٹک گیا۔ اس کے دل نے شور مچانا شروع کر دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایک پل کے لئے بھی اس سے دور ہو۔

اوپر سے اس کا نرم و نازک خوشبوؤں میں بسا وجود اورهان کے مضبوط و تند وجود سے ٹچ ہوتا اس کے سوۓ جذبات کو پوری طرح جگہ چکا تھا۔

اورهان کا دل چاہا کہ اسے پکڑ کر خود سے دور کر دے ورنہ اس کے خود کے لئے مشکل پیدا ہو جاۓ گی پر وہ چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکا۔ وہ اس وقت صرف اس کا لمس محسوس کرنے کی چاہ میں تھا۔

صاحبہ اس کی بند آنکھوں کو چور نظروں سے دیکھتی دھک دھک کرتے دل سے اس پر جھکتی اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ گئی۔

اورهان کو جیسے ہی اس کے نرم و نازک ہونٹ اپنی پیشانی پر محسوس ہوئے اسے ایسا محسوس ہوا دل میں جذبات کی لگی آگ پر کسی نے پیٹرول ڈال کر اس آگ کو بھڑکا دیا ہو۔

وہ پٹ سے آنکھیں کھولتا اس کی کلائی کو اپنی سخت گرفت میں لیتا اسے ایک جھٹکے سے اپنے اوپر جھکا گیا۔

اس کے ایک دم سے جھٹکا دینے پر وہ سنبھل نہ سکی اور اس کے سینے پر گر گئی۔ وه اسے کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دیے بغیر اس کی سانسوں کو قید کر گیا۔اس کے نرم گرم ہونٹوں کے لمس نے اس کے جذبات کو اور بھی بڑھا دیا تھا۔

"یوں قریب آ کر میرے سینے میں لگی جذبات کی آگ کو بھڑکانا چاہتی ہو؟ کیوں اپنی نازک جان کو عذاب میں ڈال رہی ہو؟"

وہ اس کی سانسوں کو آزادی بخشتا بولا تو صاحبہ کا گلابی چہرہ مزید سرخ پڑ گیا۔

وہ اس کی نظروں کی تپش سے بچتی اس کے سینے میں چھپنے لگی تو اورهان اس کی گردن میں بازو ڈالتا اس کا چہرہ اپنے مقابل کر گیا۔

"بتاؤ یہی چاہتی ہو نا !!!"

اس کی گھمبیر آواز میں پوچھے گئے سوال پر صاحبہ بے بسی سے نفی میں سر ہلا گئی۔

"میں بس آپ کے قریب رہنا چاہتی ہوں۔ بہت قریب !!!!"

وہ اس کی قمیض کے کھلے بٹنوں کو چھیڑتی ہوئی دھیمے لہجے میں بولی تو اورهان آنکھیں سکیڑ کر رہ گیا۔

"مطلب اپنی ننھی سی جان کو مشکل میں ڈالنا چاہتی ہو ؟"۔

اس کے سوال پر وہ دھیرے سے جھکی پلکیں اٹھاتی اس کی جذبات سے بھر پور سنہری آنکھوں میں جھانکنے لگی پر وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ اس کی ہری آنکھیں اورهان کا دل بے قابو کر رہی ہیں۔

احساس تو تب ہوا جب اورهان جھکتا نرمی سے اس کی آنکھوں پر باری باری لب رکھ گیا۔صاحبہ بند آنکھوں سے اس کا کالر تھام گئی۔

اس کے سبز نگینوں پر اپنا لمس چھوڑتے وہ پیچھے ہٹنے لگا تو نظریں اس کی ناک کی قتل بالی سے ٹکرائی اور پھر وہ کس طرح پیچھے ہٹتا۔

وہ جھک کر اس کی بالی پر سلگتے لب رکھتا اس کے ناک پر دانت جما گیا۔ صاحبہ کے لبوں سے سسكی برامد ہوئی۔ 

اورهان نے پیچھے ہٹ کر اس کے ناک پر نظر ڈالی جو سرخ ہو رہا تھا 

وہ لال پیلی ہوتی اورهان کو مزید حسین لگی۔

اورهان دھیرے سے اپنے دونوں ہاتھ نیچے لے جاتا اس کی نازک کمر پر جما گیا۔ اس کی کمر کو دونوں ہاتھوں میں جکڑے وہ اسے اپنی طرف كهينچ گیا۔

وہ جو پہلے ہی لال پیلی ہو رہی تھی اس کی حرکت پر آنکھیں زور سے میچ گئی۔

"تمہاری کمر کے زاویہ کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھتا ہوں تو اس بات پر ایمان بڑھنے لگتا ہے کہ خدا بہت بڑا جینيس ہے۔ اس نے ہر چیز بہت ناپ تول کر بنائی ہے !!!"۔

اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتا وہ اپنی باتوں اور ہاتھوں سے اس کی جان نکالنے کے در پر تھا۔

اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی پیش قدمی کرتا دروازہ ایک دم بج اٹھا۔ اورهان نے پیچھے ہٹتے ناگوار نظریں دروازے پر ڈالی۔ 

اس کا دھیان ہٹتے دیکھ وہ تیزی سے وہاں سے اٹھتی بیڈ پر جا بیٹھی جب کہ اورهان بگڑے تیور لئے دروازہ کھولنے چلا گیا۔

دروازہ پر سکینہ تھی جو رخسار بیگم کا پیغام لے کر آئی تھی جو اسے نیچے بلا رہی تھیں۔

اورهان ایک نظر بیڈ پر نظریں جھکائے بیٹھی صاحبہ پر ڈالتا کمرے سے باہر نکل گیا تو صاحبہ گہری سانس خارج کرتی بیڈ پر پیچھے گر گئی۔

"اف یہ تو بہت خطرناک ہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آج جان ہی نکال لیں گے !!!"

وہ خود سے بولی پر جب اس کی جسارتیں یاد آئیں تو اپنا چہرہ سرهانے میں چھپا گئی۔

@@@@@

وہ کمرے میں داخل ہوا تو رومی اپنی حالت درست کیے بغیر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے نیم دراز ہو کر نیند کی وادی میں جا چکی تھی۔

فائق اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی بے آرامی کا اندازہ لگا سکتا تھا۔

اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا الماری کی طرف قدم بڑھا گیا۔ ایک ہاتھ سے ٹائی اتار کر پهينكی اور پھر الماری سے اپنا نائٹ سوٹ لیتا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔

دس منٹ کے بعد وہ فارغ ہو کر باہر آیا تو رومی کی پوزیشن میں انیس بیس کا فرق نہ آیا تھا۔ 

کندھے پر پڑا تولیہ ڈریسنگ ٹیبل پر پهينكنے کے بعد وہ اپنے قدم اس پری پیکر کی طرف قدم بڑھا گیا۔اس کے قریب پہنچ کر وہ ایک گھٹنا موڑ کر اس کے نزدیک بیڈ پر بیٹھ گیا۔

"رومی !!! "

اس نے دھیرے سے اسے پکارا پر جواب ندارد۔ اس نے دو تین دفعہ مزید اسے پکارا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ سمجھ گیا کہ رومی گہری نیند میں جا چکی ہے۔

جو نکاح کا دوپٹہ اس نے اوڑھ رکھا تھا اس پر موتی لگے تھے جو اس کی جلد میں چبھتے اسے بے چین کر رہے تھے۔

فائق نے اس کی گردن کے نیچے بازو ڈال کر اسے تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور اس کے وجود سے وہ بھاری دوپٹہ الگ کر دیا۔دوپٹہ اس کے وجود سے الگ ہوا تو نازک سراپا ہر بوجھ سے آزاد ہو گیا۔ فائق نے ایک گہری نظر اس کے دلکش سراپے پر ڈالنے کے بعد اسے سینے تک بلینکٹ میں چھپا دیا۔

اب اس کی نظروں کا مرکز اس کے دائیں گال اور گردن کی دائیں طرف بنے نشان تھے جو نکاح والے دوپٹے کی مرہون منٹ تھے۔

وہ اپنے ہاتھ کی پشت دھیرے سے اس کے گال پر پهيرنے لگا تو ایک انوکھا سا احساس جسم و جان کو چھو گیا۔گال سے ہاتھ سركتا ہوا گردن پر آیا تو جذبات سر اٹھانے لگے۔ وہ گھبرا کر اپنا ہاتھ كهينچ گیا۔

"یہ غلط ہے فائق۔ تم اس کی بے خبری میں اس کی ذات کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ جانتا ہوں وہ تم پر حلال ہے پر اس کے جذبات مجروح نہ کرنا !!!"

ضمیر کی کڑک آواز پر وہ سانس بھرتا پیچھے ہٹنے لگا پر پھر کچھ سوچ کر بے ساختہ مسکرا دیا اور اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر جھکتا اس کی پیشانی کو اپنے لمس سے روشناس کروا گیا۔

"نکاح مبارک میری جان !!!!"

جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کرتا وہ مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔ وہ اسے اپنی محبت کے پہلے لمس سے آشنا کر گیا تھا۔

وہاں سے ہٹ کر وہ بیڈ کی دوسری طرف آ کر لیٹا اور بتی بجھا گیا۔پھر ہاتھ بڑھا کر رومی کو اپنے ساتھ لگاتا وہ اس کا سر اپنے سینے پر رکھتا اس کے گرد بازو باندھ گیا۔

اتنا تو وہ جان گیا تھا کہ وہ نیند کی کس قدر پکّی ہے اس لئے سکون سے اسے اپنے حصار میں لیتا آنکھیں بند کر گیا۔

آج برسوں بعد سکون ميسر آیا تھا کو جلد ہی نیند کی دیوی اسے اپنی آغوش میں لے گئی۔

ہو گیا ہے تجھ کو کو پیار سجنا 

لاکھ کر لے تو انکار سجنا 

وہ جو ٹکٹکی باندھے لان میں کال پر مصروف شیفان کو دیکھ رہی تھی صاحبہ کی گنگناہٹ پر چونک اٹھی پر اگلے ہی پل اس کی گنگناہٹ میں چھپے مطلب کو سمجھتی گڑبڑا گئی۔

"كک۔۔۔کیا مطلب بھابھی ؟"

وہ نا سمجھی کا تاثر دیتی یہاں وہاں دیکھنے لگی تو صاحبہ دو قدم چلتی اس کے مقابل آ کھڑی ہوئی۔

"وہی مطلب جو تم سمجھ چکی ہو پر پھر بھی نا سمجھی کا مظاہرہ کر رہی ہو !!!"

وہ ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑی ہوتی سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھتی بولی تو زوہان نظریں چرا گئی۔

"ایسی کوئی بات نہیں ہے بھابھی نہ جانے آپ کیا سمجھ رہی ہیں !!"

وہ صاحبہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے كترا رہی تھی۔ شیفان سے نظریں بھی ہٹا چکی تھی۔

"یعنی تم جانتی ہو کہ میں کس متعلق بات کر رہی ہوں جبھی کہہ رہی ہو کہ ایسی کوئی بات نہیں !!!"۔

صاحبہ کی بات پر وہ گہری سانس بھر کر رہ گئی۔

"بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی !!!"

کہنے کے ساتھ ہی وہ لان کی طرف پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی۔

"آپ کو کیسے پتا چلا بھابھی ؟"

اسے اپنا ہی سوال عجیب لگا۔

"کیوں کہ عشق اور مشق چھپائے نہیں چھپتے۔ جن راہوں کی مسافر میں خود رہ چکی ہوں ان راہوں پر کسی اور کو چلتا دیکھ کر کس طرح نہ پہچانتی۔"

اس کے سوال کا جواب دیتے صاحبہ کے لہجے میں یاسیت سما گئی۔

"بھابھی کیا یہ راہ بہت خاردار ہوتی ہے ؟؟"

وہ سہمے لہجے میں سوال کرنے لگی تو صاحبہ مسکرا دی۔

"نہیں میری جان۔ محبت کی راہ تو بہت پر امن اور آسان ہوتی ہے اسے خار دار اور کٹھن تو ہم خود بناتے ہیں۔کبھی جذبات کو چھپا کر تو کبھی  ہمراہی کے اعتبار کو کچل کر۔ اسے آسان یا کٹھن بنانے والے ہم خود ہوتے ہیں !!!"

صاحبہ کی گہری بات پر زوہان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

"پر بھابھی اگر اس راہ میں آپ کا کوئی ہمراہی ہی نہ ہو پھر کس طرح یہ راہ کٹتی ہے ؟"۔اس کے سوال پر صاحبہ گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگی جس کی آنکھوں میں حسرت پنپ رہی تھی۔

"یک طرفہ محبت کا عذاب بہت جان لیوا ہوتا ہے پر اس میں ایک میٹھی سی کسک بھی ہوتی ہے۔ ایک امید بھی ہوتی ہے یک طرفہ آگ کی آنچ دوسرے فریق تک پہنچ جانے کی ۔"

صاحبہ کی بات پر زوہان طنزیہ ہنس دی۔ صاحبہ نے بہت غور سے اس کی پھیکی ہنسی دیکھی تھی۔

"اور بھابھی اگر آپ جانتے ہوں کہ جس انسان کی یک طرفہ محبت کے ہجر میں آپ برسوں سے جل رہے ہیں اس کے دل تک پہلے ہی کسی اور کی محبت کی آنچ پہنچ چکی ہے تو پھر انسان کس طرح کوئی امید لگائے ؟"

وہ آنکھوں میں حسرت ہی حسرت لئے صاحبہ سے مستفسر تھی۔

"ادھر آؤ میرے ساتھ!!!"۔

صاحبہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لاؤنج میں موجود صوفے کے پاس لے آئی۔ اس وقت ان دونوں کے علاوہ وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔

"کیا تم جانتی ہو کہ تمہاری محبت ایک وقتی جذبہ ہے یا دیر پا احساس ؟"

صاحبہ کے سوال پر وہ الجھتی ہوئی سر ہلا گئی۔

"میرے جذبات ایک دم سچے اور لافانی ہیں !!!"

وہ پر یقین انداز میں بولی تھی۔ جیسے اس بات میں کوئی شک کو گنجائش باقی ہی نہ ہو۔

"کیا تمہاری محبت حصول مانگتی ہے ؟"

صاحبہ پھر سے سوال کر گئی جس کا جواب زوہان کی طرف سے نفی میں آیا تھا۔

"میری محبت حصول کی مجاز نہیں۔ مجھے صرف ان سے محبت ہے اور بے انتہا محبت ہے۔ بے غرض ،بے لوث اور ہر طرح کے لالچ سے پاک عشق کی معراج کو چھوتی محبت۔ حصول کے لالچ سے پاک محبت۔ میں بس انھیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں چاہے وہ جس کے ساتھ مرضی خوش رہیں۔ "

صاحبہ سمجھتی ہوئی سر ہلا گئی۔

"انھیں کسی اور کے ساتھ برداشت کر لو گی کا تم ؟"

صاحبہ کے سوال پر زوہان کو لگا جیسے کسی نے اس کا گلا دبوچ لیا ہو۔

"ان کو کسی اور کے ساتھ تصور کرنا بھی سوہان روح ہے پر پھر جب ان کی خوشی کا سوچتی ہوں تو باقی ہر چیز پس منظر میں چلی جاتی ہے !!!"

وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولتی کسی اور دنیا میں ہی نکل گئی تھی۔

"جانتی ہو محبت کیا مانگتی ہے ؟"

صاحبہ کے سوال پر وہ اسے دیکھنے لگی۔

"محبت ثابت قدمی مانگتی ہے۔ ڈٹ جانا ہی تو محبت کہلاتا ہے۔تم دعاؤں پر یقین رکھتی ہو ؟"

وہ اپنا تجزيہ دیتی آخر میں اس سے سوال کر گئی تو وہ اسے کسی ٹرانس کی كیفییت میں سنتی سر ہلا گئی۔

"پھر یقین رکھ کر محبت مانگو ۔ محبت کا مل جانا مانگو۔ دعائیں تو تقدیر بدل دیا کرتی ہیں۔ اللّه پر پختہ یقین رکھ کر اس کے آگے جھولی پهيلائی جاۓ تو وہ کبھی بھی جھولی خالی نہیں لوٹاتا۔ کیا تم نہیں جانتی کہ ہر چیز اس کے "کن " کی محتاج ہے ۔"

اس کی آواز زوہان پر کچھ الگ ہی انداز میں اثر انداز ہو رہی تھی۔ وہ دم سادھے اسے سن رہی تھی۔

"محبت میں صدق ہو تبھی محبت ملتی ہے ورنہ محبت کی خوشبو بھی نہیں ملتی۔ اگر تمہاری محبت میں صدق ہوا تو اللّه کیسے بھی کر کے ہر حال میں تمہاری محبت تم تک لے آئے گا۔ اگر وہ تمہاری قسمت میں لکھا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے تم سے نہیں چھین سکتی پر اگر وہ تمہارا نہیں ہے تو تم ایڑیاں رگڑ کر بھی کسی سے محبت کی بھیک نہیں مانگ سکتی مگر ۔۔۔۔۔"

اس کے رکنے پر زوہان تڑپ کر بے صبری سے اسے دیکھنے لگی۔

"مگر ؟؟؟"

اس کے لہجے کی بے صبری پر صاحبہ مسکرا دی۔

"مگر دعائیں تقدیر بھی بدل دیا کرتی ہیں !!!!"۔

اس کی بات پر زوہان کو لگا جیسے کسی نے تپتے ہوئے کلیجے پر ٹھنڈھ پانی انڈیل دیا ہو۔ جیسے برسوں کے پیاسے کو میٹھا پانی ميسر آ گیا ہو۔

وہ ایک دم اٹھتی اس کے گلے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"چپ کرو پاگل ایسے روتے تھوڑی ہیں !!!"۔

صاحبہ پیار سے اسے چپ كرواتی اس کا سر تھپتهپانے لگی۔

"آپ بہت اچھی ہیں بھابھی بہت زیادہ !!!"

وہ نم آنکھیں لئے خوشی سے بولی تو صاحبہ مسکرا دی۔

"تم سے کم !!! چلو اب کمرے میں جاؤ اور منہ دھو کر فریش ہو جاؤ۔نماز کا وقت ہونے والا ہے پھر نماز بھی ضرور ادا کرنا اوکے ؟؟"

اس کی تاکید پر زوہان مسکراتے ہوئے سر ہلا گئی پھر وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

*****

 شام کا کھانا کھانے کے بعد سب لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے۔ صاحبہ کچن میں سب کے لئے چائے بنا رہی تھی۔ شام کی چائے اس نے اپنے زمے لے لی تھی۔ 

"زوہان یہ ٹرے باہر لے جاؤ میں سردار کے لئے کافی بنا کر کے آؤں۔"

وہ ایک باول میں کافی پهينٹتی مصروف انداز میں زوہان سے بولی تو زوہان سر ہلا گئی۔

"جیسا کہ سب ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سب سے !!!"

شیفان کی بات پر سب نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

ایک صوفے پر ارقم بلوچ اور ارحم  بلوچ بیٹھے ہوئے تھے جب کہ ساتھ والے صوفے پر رخسار بیگم اور ناز بیگم بیٹھی تھیں۔ ان کے بلکل سامنے والے صوفے پر اورهان اور شیفان بیٹھے تھے۔

شیفان کو یہی وقت سہی لگا اپنی بات کے لئے۔

"بولو کیا بات ہے ہم سن رہے ہیں!"

سب سے پہلے بولنے والے ارقم بلوچ تھے۔

"مجھے امید ہے آپ سب میری بات دھیان سے سنیں گے اور اس پر غور کریں گے !!!"

وہ دونوں ہاتھوں کو باہم پھنسائے دونوں بازوؤں کی کہنیاں گھٹنوں پر ٹکا کر تھوڑا آگے جھک کر بیٹھتا بولا تو سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

"میں جانتا ہوں یہ وقت سہی نہیں ہے اس بات کے لئے پر مجھے لگتا ہے کہ اسی طرح اس هویلی پر چھایا جمود ٹوٹ سکتا ہے!!!"

گہری خاموشی میں صرف اس کی گھمبیر آواز ہی گونج رہی تھی۔

"برخودار جو بھی بات کرنی ہے بلا جھجھک کرو ہم سن رہے ہیں !!!"۔

ارحم بلوچ کی بات پر شیفان نے گہری سانس بھرتے خود میں ہمت مجتمع کی اور پھر بولنا شروع ہوا۔

"میں شادی کرنا چاہتا ہوں !!!"۔

آخر کار بلی تهيلے سے باہر آ چکی تھی۔ اس کی بات پر هویلی کے سب افراد پر سکتا طاری ہو گیا۔ یہ آخری بات تھی جس کی توقع وہ شیفان سے نہیں کر سکتے تھے۔

"کیا ہوا ایسے چپ کیوں ہو گئے آپ سب ؟"

اس نے سب پر باری باری ایک نظر ڈال کر پوچھا تو سب ہی اسے دیکھ کر رہ گئے۔

"اگر شادی کی بات کر رہے ہو تو یقیناً شادی کے لئے کوئی لڑکی بھی دیکھ رکھی ہو گی !!"

ارحم صاحب کی بات پر وہ سیدھا ہوتا ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھ گیا۔

"میں آپ کا فرمان بردار بیٹا ہوں بابا!!! میں کیسے زندگی کا اتنا  بڑا فیصلہ خود لے سکتا ہوں۔میں جانتا ہوں آپ لوگ بچپن سے زوہا ن کو میرے لئے پسند کر چکے ہیں اور میں آپ سب کی پسندیدگی کا اهترام کرتا ہوں۔ آپ سب کی خواہش کا اهترام کرتے ہوئے میں زوہان سے شادی کے لئے تیار ہوں۔"

وہ سب کو ایک نظر دیکھتا سنجیدگی سے بولا تو اس کی شرافت پر اورهان عش عش کر اٹھا جب کہ کچن کے دروازے پر کھڑی زوہان کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹتا زمین بوس ہو گیا۔ کپوں سے چھلکتی گرم گرم چائے اس کے پاؤں پر گری تو وہ تکلیف کے مارے چلانے کی بجائے ساکت کھڑی رہی۔

شور کی آواز سنتے سب کی توجہ اس کی طرف ہوئی تو سب سے پہلے اورهان تیز تیز قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔

"گڑیا آپ ٹھیک ہو ؟؟"

وہ اسے کندھے سے پکڑ کر ایک طرف کرتا اس کے پاؤں کی طرف دیکھتا پوچھنے لگا جس پر وہ جواب دیے بغیر یوں ہی کھڑی رہی۔ اس کا دماغ وہاں موجود ہوتا تو ہی وہ کی بات کا جواب دیتی۔

اورهان اس کے کندھوں کے گرد بازو لپيٹ کر اسے اپنے ساتھ لگائے صوفے کی طرف بڑھتا اسے شیفان کے پہلو میں بیٹھا کر خود اس کے سامنے پیروں کے بل بیٹھ گیا۔

شیفان کے پہلو میں آتے ہی زوہان کے ساکت پڑے دل نے تیزی سے دھڑکنہ شروع کر دیا تھا۔

ناز بیگم کے کہنے پر صاحبہ جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس اٹھا لائی تھی۔

اورهان زوہان کے دونوں پاؤں اٹھا کر سامنے ٹیبل پر رکھ گیا جو بری طرح سرخ ہو رہے تھے۔

"خدا غرق کرے تمہیں صاحبہ میری پھول جیسی بچی کا کیا حال کر دیا۔"

رخسار بیگم کی کڑک آواز پر جہاں صاحبہ سہم گئی وہیں اورهان نے نا گواری سے ان کی جانب دیکھا پر اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی ارحم بلوچ بول اٹھے ۔

"اس بچی کا کیا قصور اس میں بھابھی !!"

ان کے لہجے میں بھی محسوس کی جانے والی ناگواری تھی۔ ان کی خوش اخلاق اور نرم دل بھابھی کو نہ جانے صاحبہ کے معملے معاملے میں کیا ہو جاتا تھا ۔

"سارا قصور اس کا ہی ہے۔جب سے اس گھر میں آئی ہے سب بگڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔اس کو کیا ضرورت تھی اتنا بھاری ٹرے زونی کو پکڑانے کی۔ پر یہ تو چاہتی ہی یہی ہے کہ میری ساری اولاد تکلیف میں رہے !!!"۔

وہ دبا دبا چیخ رہی تھیں۔ صاحبہ کی آنکھوں سے آنسو پهسلتے چلے جا رہے تھے۔ ان کی باتوں پر اورهان ضبط کھوتا ایک جھٹکے سے اٹھا تو اس کے تیور دیکھ کر صاحبہ کی چیخ نکل گئی۔

"سارا قصور اس کا ہی ہے۔جب سے اس گھر میں آئی ہے سب بگڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔اس کو کیا ضرورت تھی اتنا بھاری ٹرے زونی کو پکڑانے کی۔ پر یہ تو چاہتی ہی یہی ہے کہ میری ساری اولاد تکلیف میں رہے !!!"۔

وہ دبا دبا چیخ رہی تھیں۔ صاحبہ کی آنکھوں سے آنسو پهسلتے چلے جا رہے تھے۔ ان کی باتوں پر اورهان ضبط کھوتا ایک جھٹکے سے اٹھا تو اس کے تیور دیکھ کر صاحبہ کی چیخ نکل گئی۔

"میں نے ایک دفعہ نہیں بلکہ بہت دفعہ کہا ہے ماں کہ صاحبہ میری بیوی ہے اور اس کی عزت میری عزت ہے۔ آپ کیوں اپنے ہی ہاتھوں بار بار اپنے ہی بیٹے کی عزت کو بات عزت کرتی ہیں۔ جہاں تک بات رہی صاحبہ کے قصور کی تو وه بلکل بے قصور ہے۔ اس سب معاملے میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ افگن کی بس اتنی ہی زندگی لکھی تھی۔آپ میں یا کوئی اور اس کی زندگی کی میعاد بڑھا نہیں سکتے تھے۔ وہ۔۔۔۔"

اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتا رخسار بیگم ایک دم بپهر کر چیخ اٹھیں۔

"مرا نہیں تھا قتل ہوا تھا میرا بچا۔ قتل کا مطلب سمجھتے ہو نا اور قتل بھی کس نے کیا تمہاری چہیتی بیوی کے سابقہ عاشق نے۔"

وہ چیختی ہوئی آپے سے باہر ہو رہی تھیں جب کہ ان کے الفاظ پر اورهان ضبط کھوتا پاس پڑی کرسی کو ٹھوکر مارتا اپنے بال دونوں مٹھیوں میں جکڑ گیا۔ آنکھیں لال سرخ ہو گئی تھیں۔

"میری ماں ہیں آپ اور آپ کے آگے اونچا بولنا بھی میں گناہ سمجھتا ہوں ماں پر آج سب کے سامنے آخری دفعہ کہہ رہا ہوں۔ صاحبہ میری بیوی ہے۔ میری عزت ہے۔میں برداشت نہیں کر پاؤں گا اگر بھری محفل میں اسے دوبارہ بے عزت کیا گیا یا اس پر کوئی الزام تراشی کی گئی۔ اگر آپ میرے کسی لفظ سے تکلیف زدہ ہوئی ہیں تو اس کے لئے مجھے معاف کر دیجئے۔"

وه ضبط سے صاحبہ کی طرف داری کرتا آخر میں رخسار بیگم کے دونوں ہاتھ تھام کر چومتا آنکھوں سے لگا گیا جب کہ رخسار بیگم پھپهك پھپھک کر رو دیں۔

"میں کیا کروں اورهان میرے جگر کا ٹکرا تھا افگن۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں اور جب یقین انے لگتا ہے تو پھر صبر نہیں آتا میں کیا کروں اورهان میں کیا کروں مجھے اپنا بچا نظر نہیں آتا تو میرا کلیجہ جلتا ہے اورهان!!!"

ان کے لہجے کی تڑپ پر سب کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں جب کہ اورهان انھیں اپنے بازوؤں کے حصار میں لیتا انھیں تسلی دینے لگا۔

"ماں یہ صرف آپ کا ہی نہیں بلکہ ہم سب کا دکھ ہے پر پلیز ایک بیٹے کے دکھ میں دوسرے بیٹے کا دل دکھی مت کریں۔ ہمارے افگن کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں میری بیوی کا کوئی قصور نہیں ماں۔"

وہ انھیں اپنے ساتھ لگائے دھیرے دھیرے سمجھانے لگا جب کہ وہ یوں ہی روتی رہیں۔صاحبہ وہاں سے جا چکی تھی۔

"پپ۔۔۔پانی !!!"

صاحبہ کی لرزتی آواز پر رخسار بیگم نے گردن موڑ کر اسے دیکھا جو ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑے کھڑی تھی۔ اسے ایک نظر دیکھ کر وہ گردن موڑ گئیں تو اورهان نے خود ہی صاحبہ کے ہاتھ سے گلاس پکڑ کر رخسار بیگم کے منہ سے لگایا تو وہ دو گھونٹ حلق میں اتار کر گلاس پیچھے کر گئی۔

اورهان نے انہیں کندھے سے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا اور خود ان کے سامنے پیروں کے بل بیٹھ گیا۔ اس سب ہنگامے میں وہ زوہان کو بھول ہی چکے تھے جو خود بھی اپنی تکلیف بھولے بیٹھی تھی۔ ہوش تو تب آیا جب اپنے پاؤں پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ وہ چونک کر اپنے پیر کی طرف دیکھنے لگی تو سامنے بیٹھے شیفان اور اپنے پاؤں پر موجود اس کے بھاری ہاتھ کو دیکھ کر تھرا اٹھی۔

اس نے ایک دم اپنا پاؤں پیچھے کرنا چاہا پر شیفان اس کے پاؤں کو اپنے ہاتھ کی شکنجے میں لیتا اس کی کوشش ناکام بنا گیا۔

اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا پر اس کی آنکھیں ہر تاثر سے پاک تھیں۔

اس کی سپاٹَ آنکھوں کو دیکھتی وه جھرجهری لے کر رہ گئی۔

"پپ۔۔۔پاؤں چھوڑ دیں میرا ۔۔۔پلیز !!!"

وہ سرگوشی نما آواز میں بولی تو اس کی آنکھوں میں موجود التجا کو دیکھتے وہ ابرو اچکا کر رہ گیا۔

"اور نہ چھوڑوں تو ؟"

وہ اس کے پاؤں پر گرفت سخت کرتا بولا تو وہ "سی" کر کے رہ گئی۔ 

"مجھے اچھا نہیں لگ رہا پلیز !!!!"

وہ یھاں وہاں دیکھتی پھر سے دھیمے لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی۔

"کیا اچھا نہیں لگ رہا؟ میرا چھونا ؟؟"

اس کے چہرے پر موجود استزاہیہ ہنسی کو وہ سمجھ نہ سکی۔

"نن۔۔۔نہیں آپ کا میرے پاؤں چھونا !!!"

اس کے جواب پر وہ ایک گہری نظر اس کے كپكپاتے وجود پر ڈال گیا۔

"پر کیا تم نہیں جانتی کہ بہت جلد میں تمہارے جسم و جاں کا مالک بننے والا ہوں۔ پھر تو تمہارے پور پور کو چھونے کا حق حاصل ہوگا مجھے تب کس حق سے روکو گی ؟؟"

اس کی گھمبیر سرگوشی زوہان کی جان نکالنے کے لئے کافی تھی۔

وہ ایک دم اس کے ہونٹوں پر اپنی ہتھیلی جما گئی۔

"پلیز چپ کر جائیں سب یہاں ہیں !!!'

وہ گھر والوں کی طرف دیکھتی بے بسی سے بولی تو شیفان نظریں جھکاتا اپنے ہونٹوں پر جمے اس کی نازک ہاتھ کو دیکھنے لگا۔ 

اس کی گہری نظروں کا ارتكاز محسوس کرتی وہ تیزی سے ہاتھ ہٹا گئی۔ شرم کے مارے چہرے پر سرخی بکھر گئی تھیں جب کہ ہاتھ كپكپانے لگے تھے۔

"چپ چاپ بیٹھ جاؤ اور مجھے اپنا کام کرنے دو !!!'

رعب سے کہتا وہ ہاتھ بڑھا کر فرسٹ ایڈ سے کریم نکال کر نرمی سے اس کے پاؤں پر لگانے لگا۔ وہ پوری طرح اپنے کام میں مگن تھا۔ دونوں پاؤں پر کریم لگانے کے بعد اس نے اچانک نظر اٹھا کر زوہان کی طرف دیکھا تو وه ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

اس کے ایک دم دیکھنے پر وہ شرمندگی سے آنکھیں میچ کر رہ گئی۔ شیفان لب بھینچ کر رہ گیا۔

وہ وہاں سے اٹھا اور ہاتھ دھونے باتھروم کی طرح بڑھ گیا۔ پانچ منٹ کے بعد جب واپس آیا تو لاؤنج کا ماحول قدرے پر سکون ہو چکا تھا۔

"اہم اہم !!!'

گلا کھنگارتے اس نے سب کی توجہ اپنی طرف کرنی چاہی تو سب ہی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔

"میرے سوال کا جواب تو رہ ہی گیا !!!'

وہ باری باری باپ اور چچا کو دیکھ کر بولا تو اورهان نفی میں سر ہلا کر رہ گیا پر اسے ایک بات بری طرح کھٹک رہی تھی کہ شیفان کسی اور لڑکی کو پسند کرتا تھا پھر اب ایک دم زوہان سے شادی کی خواہش کیوں کر رہا ہے۔ وہ سوچ چکا تھا کہ وہ شیفان سے اکیلے میں اس بارے میں بات ضرور کرے گا۔

زوہان ایک دم وہاں سے اٹھتی ننگے پاؤں اپنے کمرے کی طرف چل دی جس پر شیفان اور اورهان کے علاوہ سب دھیرے سے مسکرا دیے۔

"بھائی صاحب ہماری تو بچپن سے خواہش تھی کہ زوہان ہماری بیٹی بنے اب میرے نالائق بیٹے نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا ہے تو ہم باقاعدہ آپ کے سامنے ہاتھ پهيلاتے ہیں۔زوہان کو ہماری بیٹی بنا دیجئے۔آپ کو کبھی بھی میرے بیٹے کی طرف سے کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔"

ارحم بلوچ ارقم بلوچ سے بولے تو ناز بیگم بھی مسکراتے ہوئے سر ہلا گئیں۔

"جی بھائی صاحب پلیز ہمیں خالی ہاتھ مت لوٹائیے گا اب !!!"

ناز بیگم کی بات پر ارقم بلوچ نے رخسار بیگم اور اورهان کی طرف باری باری دیکھا تو دونوں ہی مسکراتے ہوئے سر ہلا گئے۔

"ہمیں کوئی اعتراض نہیں شیفان ہمارا اپنا ہی بچا ہے پر میں ایک دفعہ زوہان سے پوچھنا چاہوں گا۔ اس کی مرضی میرے سے سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے۔"

ارقم بلوچ کی سنجیدہ آواز پر سب متفق ہوتے سر ہلا گئے۔

"صاحبہ میری کافی کمرے میں لے آؤ !!!'

وہ سنجیدہ آواز میں صاحبہ کو حکم دیتا وہاں سے اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھا تو صاحبہ سر ہلاتی کچن کی طرف چل دی۔

@@@@@

وہ آج ایک ہفتے کے بعد گاؤں سے واپس آیا تھا۔ لکھ چاہنے کے باوجود بھی اتنے دن لگ گئے اس کے وہاں پر وہ گاہے بہ گاہے ملازمہ کو کال کر کے رومیصہ کی خیریت پوچھتا رہا تھا۔۔

وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو رومیصہ سے سامنے کا سوچتے ایک دلکش مسکراہٹ خود با خود ہونٹوں پر بکھر گئی۔

چوکیدار نے گیٹ کھولا تو وہ گاڑی ڈرائیو وے پر پارک کرتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔

"سلام صاحب جی !!!"۔

اسے لاؤنج میں دیکھتے ہی ملازمہ نے سلام جھاڑا تو وه سر کے اشارے سے جواب دیتا آگے بڑھ گیا۔ اس کا رخ اپنے کمرے کی طرف تھا جہاں وہ ناز نین روح پوش تھی۔

اس نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے جیسے ہی دروازہ کھولا تو موتیے کی دلفریب خوشبو پورے کمرے میں پهيل گئی۔ وہ آنکھیں بند کرتا گہری سانس بھر کر وہ خوشبو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا۔

دو قدم چل کر اندر داخل ہوا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

کمرہ خوبناک منظر پیش کر رہا تھا۔ پورے کمرہ میں موتیے کی بھینی بھینی خوشبو پهيلی ہوئی تھی۔سردی کی شدت کم کرنے کے لئے کمرے میں ہیٹر لگایا گیا تھا۔ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی مدهم روشنی میں بیڈ پر دراز وجود غیر واضح سا تھا۔

فائق نے جیکٹ اتار کر صوفے پر پهينکی اور اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھا گیا جہاں وہ رگ جان محو استراحت تھی۔

وہ دبے قدموں سے چلتا بیڈ کی دوسری سائیڈ کی طرف بڑھا اور دھیرے سے وہاں نیم دراز ہو گیا۔ موتیے کی خوشبو تیز ہو چکی تھی جس پر وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ خوشبو اس کے پہلو میں موجود وجود کے بدن سے اٹھ رہی ہے۔

وہ سر تا پیر كمبل میں چھپی ہوئی تھی۔ فائق نے بدمزہ ہوتے ہاتھ بڑھا کر دھیرے سے اس کے چہرے سے كمبل پیچھے کیا تو اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی فائق کو یوں لگا جیسے سیاہ بادلوں کی اوٹ سے چاند نکل آیا ہو۔

کانچ سی آنکھیں بند تھیں جب کہ پلکوں کی جھالڑ گالوں پر گری ہوئی تھی۔ ناک میں پہنی نتهلی نیم اندھیرے میں بھی پوری طرح چمک رہی تھی جب کہ گلابی ہونت نیم وا تھے۔ 

اس نے ہاتھ بڑھا کراس کے ماتھے پر بکھرے بال پیچھے ہٹائے اور جھک کر اس کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کر دی۔

اس کی لمس پر وہ کسمانے لگی۔ وہ نیند کی بہت پکّی تھی پر اس وقت اسے سوتے ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا اور نیند بھی پوری ہو چکی تھی جس کی وجہ سے وہ دھیرے سے آنکھیں کھول گئی پر جیسے ہی اس کی چھٹی حس نے اسے اشارہ دیا کہ اس کے پہلو میں کوئی موجود ہے وه ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی پر ایک دم كراه اٹھی۔

فائق جو اس کے چہرے پر جھکا ہوا تھا اس کے ایک دم اٹھنے پر سمبھل نہ سکا جس کی وجہ سے رومیصہ کا ناک فائق کی کشاده پیشانی سے ٹکرا گیا . اس کے كراهنے پر فائق پھرتی سے پیچھے ہٹا اور اس کے سرخ پڑتے ناک کو دیکھنے لگا پر اس سے پہلے کہ ان دونوں میں سے کوئی کچھ بولتا کمرے میں موجود تیسرے وجود کی آواز پر دونوں اپنی اپنی جگہ ساکت ہو گئے۔

فائق جو اس کے چہرے پر جھکا ہوا تھا اس کے ایک دم اٹھنے پر سمبھل نہ سکا جس کی وجہ سے رومیصہ کا ناک فائق کی کشاده پیشانی سے ٹکرا گیا . اس کے كراهنے پر فائق پھرتی سے پیچھے ہٹا اور اس کے سرخ پڑتے ناک کو دیکھنے لگا پر اس سے پہلے کہ ان دونوں میں سے کوئی کچھ بولتا کمرے میں موجود تیسرے وجود کی آواز پر دونوں اپنی اپنی جگہ ساکت ہو گئے۔

"میاؤں !!!!"

باریک سے آواز سنتے فائق بھر پور چونکا جب کہ رومیصہ کچھ ریلیکس ہوئی۔

"یہ۔۔۔۔یہ بلی کہاں سے آئی یہاں ؟؟"

وہ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی سفید رنگ کی چھوٹی سی بلی کو دیکھ کر  رومیصہ سے پوچھنے لگا جس پر وہ بغیر کوئی جواب دیے چپکی بیٹھی رہی۔

"آپ سے پوچھ رہا ہوں میں رومیصہ!!!"

وہ اب کے اس کے نام پر زور دیتا بولا پر وہ پھر بھی نہ بولی۔

وہ ضبط کرتا لب بھینچ گیا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے دونوں بازو تھام کر اسے جھٹکا دیتا اپنے قریب کر گیا.

وہ جو اپنے دھیان میں بیٹھی تھی ایک جب جھٹکا ملنے پر سنبھل نہ سکی اور اس کے سینے سے جا لگی۔

وہ اس کی کمر کے گرد بازو لپيٹے اسے اپنے ساتھ لئے پیچھے بستر پر گر گیا۔اب فائق کمر کے بل بستر پر لیٹا ہوا تھا اور رومیصہ اس کے سینے پر گری پڑی تھی۔

"كک۔۔۔کیا کر رہے ہیں۔ چھوڑیں مجھے !!!"

وہ اس کی کندھے پر ہاتھ مارتی پیچھے ہٹنے کی کوشش کرنے لگی پر فائق چودھری کی گرفت سے نکلنا آسان تھوڑی تھا۔

"آپ ہی بتا دیں مسز کہ کیا کر رہا ہوں میں کیونکہ میرے علم میں تو ایسا کچھ نہیں۔ میں تو بس آرام کر رہا ہوں !!!"

اس کی مذاحمت کی پرواہ کیے بغیر وہ اسے مزید خود میں بھینچ گیا۔

"آپ۔۔۔آپ میرے قریب کیوں آ رہے ہیں چھوڑیں مجھے !!!"۔

وہ اس کی گرفت سے نکلنے کے لئے جھٹپٹا رہی تھی جسے دیکھتاوه محظوظ ہو رہا تھا۔ پھر نہ جانے اس کے من میں کیا سمائی کہ ایک دم کروٹ لیتا اسے بستر پر لٹا کر خود اس کے اوپر جھک آیا۔

"فائق !!!"

وہ اسے خود سے دور کرتی بے بسی سے بولی تھی۔

"جانِ فائق !!!! اس قدر خوبصورت انداز میں میرا نام لینے پر ان حسین ہونٹوں کا خراج تو بنتا ہے نا !!!"

وہ خمار آلود آواز میں کہتا اس کے کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی اس کے کومل لبوں پر جھکتا انہیں خراج سے نوازنے لگا۔ اس کی اس قدر بے باکی پر رومی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔اس سے پہلے کہ وه اسے پیچھے دھکیلتی وہ خود ہی نرمی سے اس کے ہونٹوں کو چھوتا پیچھے ہٹ گیا۔

"کیا بدتمیزی تھی یہ !!!"

وہ ایک دم ہوش میں آتی غرا کر بولی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے کندھوں پر مکے مارنے لگی۔

اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیتا وہ سر سے اوپر بستر پر ٹکا گیا۔

"آپ تو بلکل اناڑی ہیں مسز مطلب آپ کو سب کچھ سکھانا پڑے گا۔ چچ چچ !!! اسے بد تمیزی نہیں بلکہ پیار کہتے ہیں !!!"

وہ بوجھل آواز میں کہتا اپنا ناک اس کے ناک سے ٹکرا گیا تو رومیصہ ناگواری کے احساس سے چہرہ موڑ گئی۔ اس کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا۔

"فائق میں کہہ رہی ۔۔۔۔۔"

اس سے پہلے وہ اپنا جملہ مکمل کرتی وہ پھر سے اس کے ہونٹوں پر جھک گیا۔

"اب تو آپ جان ہی گئی ہوں گی کہ آپ کے ہونٹوں سے ادا ہوا اپنا نام مجھے کس قدر دلکش لگتا ہے۔"

اس کی گھمبیر دلکش آواز بھی رومیصہ کو هیبت ناک محسوس ہو رہی تھی۔

"آپ میں ذرا بھی شرم حیا باقی ہے یا نہیں !!!'

وہ بھر پور غصّے سے چیخی تھی پر اب کی دفعہ اس کا نام لینے سے مکمل گریز کیا تھا جسے محسوس کرتے فائق مبهم سا مسکرا دیا۔

"آپ نے کبھی سنا نہیں کیا ؟ جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم !!! اس لئے بھئی مجھے اپنے کرم نہیں پھوڑنے شرم کر کے اور ویسے بھی بیوی سے پیار کا اظہار کرتے ہوئے کسی شرم اور کسی حیا !!!!"

اس کے ڈھیٹ پن پر رومیصہ کا دل کیا اپنا سر پھاڑ لے۔

"پیچھے ہٹیں اور چھوڑیں مجھے !!!"

وہ کہنے کے ساتھ پھر سے بھر پور مذاحمت کرنے لگی۔

"چھوڑنے کی بات مت کریں بار بار مسز کیوں کہ آپ کو آخری سانس تک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں میرا اور نہ ہی ایسی خوش فہمی پالیے گا۔"

وہ اس کے ناک پر لب رکھتا پیچھے ہٹا تو وہ بھی تیزی سے اٹھ کر  بیٹھی۔

"اور آپ بھی اس خوش فہمی میں مت رہیے گا کہ ایک قاتل کے ساتھ زندگی گزاروں گی میں۔ میرے بھائی زندہ ہیں دونوں ابھی۔ بہت جلد مجھے آپ کی قید سے آزاد کروا لیں گے۔ میں اپنی بینائی نہ ہونے پر آج بہت خوش ہوں۔ اللّه کا شکر ہے کہ مجھے آپ کا یہ مکروہ چہرہ نہیں دیکھنا پڑا اور پلیز کوشش کرئے گا کہ آپ کی یہ ناگوار آواز بھی مجھے سنائی نہ دے۔"

وہ ایک لے میں کہتی بیڈ پر گرتی سرخ چہرہ تكيے میں چھپا گئی  جب کہ فائق دھواں دھواں ہوتے چہرے سے اس کے الفاظ کی تلخی کو محسوس کرتا وہیں کھڑا رہ گیا۔

@@@@@

"بیٹا میں اندر آ سکتا ہوں ؟؟"

زوہان الماری میں سر گھسائے کھڑی تھی جب اس کے کانوں سے اورهان کی آواز ٹکرائی۔ اس نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں وہ کھڑا اجازت مانگ رہا تھا۔

وہ تیزی سے الماری کا دروازہ بند کرتی اورهان کی طرف آتی اس کا ہاتھ تھام گئی۔

"آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے لالا !!!"

وہ اسے اپنے ساتھ لیتی اندر آ گئی۔وہ اسے اپنے بازو کے گھیرے میں کے کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

"ایک ضروری بات کرنی تھی آپ سے اور مجھے یقین ہے میری گڑیا   اپنے لالا سے بغیر جھجھکے صاف بات کرے گی۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ؟؟"۔

وہ نرمی سے بولتا زوہان کو مزید پیارا لگا۔

"جی لالا میں آپ کو مایوس نہیں کروں گی !!!"

وہ مسکرا کر بولی تو اورهان اس کے سر پر ہاتھ رکھ گیا۔

"آپ جانتی ہیں کہ آپ بڑی ہو گئی ہیں ماشاءالله اب اور آپ کی شادی کی عمر ہو گئی ہے۔ ہم سب گھر والوں نے شیفان کو آپ کے لئے پسند کیا ہے۔ کیا آپ کو اپنے همسفر کے طور پر شیفان قبول ہے ؟؟ آپ اپنے دل سے فیصلہ کر کے بتائیں کہ آپ کو یہ رشتہ قبول ہے یہ نہیں ؟؟"

وہ بہت محبت اور نرمی سے پوچھ رہا تھا۔ زوہان کی آنکھیں بھر آئیں۔

"لالا افگن لالا اور رومی کے بغیر میں کیسے ۔۔۔؟؟"

وہ بات ادھوری چھوڑتی ایک دم ہاتھوں میں چہرہ چھپاتی رو دی۔ اورهان اسے نرمی سے اپنے سینے سے لگا گیا۔

"میری جان افگن اللّه کی امانت تھا ہمارے پاس اللّه نے واپس لے لی اپنی امانت۔ ہم اس سے شکوہ نہیں کر سکتے بلکہ صبر ہی کر سکتے ہیں بس۔ جہاں تک رومی کی بات ہے تو ہم کوشش کر رہے ہیں إنشاءاللّٰه بہت جلد وہ ہمارے ساتھ ہو گی۔ پر شیفان جلدی شادی چاہتا ہے۔ اب اپ بتائیں آپ کا کیا فیصلہ ہے۔"

اس کی بات پر زوہان سر جھکا گئی۔

"مجھے آپ کا ہر فیصلہ قبول ہے لالا۔مجھے یقین ہے آپ سب میرے لئے کبھی غلط فیصلہ نہیں کریں گی۔"

وہ مان سے کہتی اس کے سینے پر سر رکھ گئی تو اورهان مسکراتا ہوا اس کے بالوں پر لب رکھ گیا۔

"خوش رہو میری جان !!! مجھے پورا یقین ہے کہ شیفان میری گڑیا کو بہت خوش رکھے گا۔"

وہ اس کا سر تهپتهپاتا بولا تو وہ آنکھیں بند کرتی سر ہلا گئی۔

@@@@@

زوہان کا اقرار ملتے ہی شادی کی تاریخ طے کر دی گئی تھی اور ساتھ ہی تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں۔

شیفان اور اورهان اسی دن سے شہر گئے ہوئے تھے اور اب تک واپس نہ لوٹے تھے۔

وہ بیڈ کی چادر سہی کر رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ہاتھ میں جکیٹ پکڑے تھکا تھکا سا اورهان کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔ آج تین دن بعد اسے اپنے سامنے دیکھتے صاحبہ کے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ دوڑ گئی۔

وه تیزی سے چلتی اس تک آئی اور اس کے ہاتھ سے جیکٹ تھام گئی۔

"کیسے ہیں آپ؟ آپ کے لئے پانی لاؤں ؟؟"

وہ جیکٹ اس کے ہاتھ سے تھام کر محبت بھرے انداز میں بولی تو وہ ایک نظر اسے دیکھتے بغیر جواب دیے الماری سے شلوار سوٹ نکالتا باتھروم کی طرح بڑھ گیا۔

اس کے جانے کے بعد وہ جیکٹ صوفے پر رکھتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ 

تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھا۔ وہ ایک نظر شیشے کے آگے کھڑے بال بناتے اورهان پر ڈال کر ٹرے ٹیبل پر رکھ گئی۔

"کافی پی لیں آ کر !!"

اسے آواز دیتی وہ خود سائیڈ ٹیبل پر پر سامان سمیٹنے لگی۔ اورهان نے صوفے کی طرف بڑھتے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی جو کچھ دیر پہلے چمک رہا تھا لیکن اب اس چہرے پر اداسی نے پہرہ ڈالا ہوا تھا۔ سونی ناک اس کے چہرے کو اور بھی اداس ظاہر کر رہی تھی۔ اورهان کو اس کی خالی ناک بلکل پسند نہیں تھی۔

وہ صوفے پر بیٹھتا ایک نظر ٹرے پر ڈال گیا۔

گرم گرم بھاپ اڑاتا کافی کا بڑا مگ ساتھ تین پلیٹوں میں مختلف سنیکس رکھے تھے۔ اسے اس وقت سچ میں کافی کی بہت طلب تھی۔ صبح سے ناشتہ کیا تھا اور اب دوپہر کے دو بج رہے تھے۔

"چائے کا ایک مگ بھی لے کر آؤ۔"

اسے حکم دیتا وہ سر صوفے کی پشت سے لگا گیا۔

وہ پہلے سوال پوچھنے کی خاطر منہ کھولنے لگی پھر چپ چاپ کمرے دے نکل گئی۔ پانچ منٹ بعد وہ واپس آئی تو وہ کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا۔

"یہاں بیٹھو آ کر !!!"

اس نے اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بغیر کوئی سوال کیے آ کر اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔

"یہ چائے ختم کر کے اٹھو گی یہاں سے تم اب اور ناشتہ کب کیا تھا ؟؟"

اس کی سوال پر وه نظریں چرا گئی۔

"کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے!!!"۔

اب کی دفعہ وہ زرا اونچی آواز میں بولا تو صاحبہ کا سانس سینے میں اٹک گیا .

"مجھے بھوک نہیں تھی !!!"

اس کے جواب پر وہ نفی میں سر ہلا گیا جیسے جانتا ہو کہ ایسا ہی کوئی جواب ملنے والا ہے۔

"چائے کا کپ نیچے رکھو اور یہ سنیکس لو پہلے۔ یہ پلیٹس خالی کر کے پھر چائے پیو گی تم۔ خالی پیٹ مت پینا۔"

وہ اسے دیکھے بغیر کہتا اپنے ہاتھ میں پکڑا کافی کا مگ لبوں سے لگا گیا۔

جہاں صاحبہ کو اس کی یوں فکر پر خوشی ہوئی وہیں اس کا بے پرواہ انداز دیکھ کر دل دکھ سے بھر گیا۔ 

کتنی محبت کرتا تھا وہ اس سے کتنا خیال رکھتا تھا اس کا پر اب جیسے وہ اس سے محبت کو بھلا ہی چکا تھا۔

یہ سب  سوچ کر صاحبہ کے حلق میں آنسوؤں کا گولا اٹک گیا۔

"کھاؤ !!!"۔

وہ اسے یوں ہی بیٹھے دیکھ کر بولا تو ایک دم آنسو صاحبہ کی آنکھوں سے پھسلتے گالوں پر پهيل گئے۔

اسے یوں روتے دیکھ اورهان کا دل تڑپ اٹھا۔ وہ لاکھ اس سے نفرت کا اظہار کر لیتا پر وہ اس کی پہلی محبت تھی۔ اپنے دل میں صاحبہ کے لئے پنپتی محبت کو وہ چاہ کر بھی ختم نہیں کر سکتا تھا نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتا تھا۔

ہاں وہ اس سے ناراض ضرور تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ صاحبہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو کہ اس نے اپنے شوہر پر بھروسہ نہیں کیا تھا۔ وہ اس سے بے رخی برت کر اسے اس کی غلطی کا احساس کروانا چاہتا تھا تا کہ زندگی کا کسی اور مقام پر وہ اس پر بے اعتباری نہ کر سکے۔ پر یہ بھی سچ تھا کہ صاحبہ کے آنسو دیکھنا اورهان بلوچ کے لئے دنیا کا مشکل ترین کام تھا۔ اس کے آنسو اورهان کا دل تڑپا کر رکھ دیتے تھے۔

"یہ رونا بند کرو جانتی ہو نا کہ کتنی چڑ ہے مجھے رونے دھونے والی لڑکیوں سے ل۔  جلدی سے یہ سب ختم کر کے تیار ہو کر نیچے آ جاؤ ہم شاپنگ پر جا رہے ہیں۔تمھارے پاس صرف دس منٹ ہیں اور واپسی پر یہ برتن خالی کچن میں واپس جانے چاہئے۔"

اپنے دل کی حالت سے بے چین ہوتا وہ اس پر حکم صادر کرنے کے بعد الماری سے اپنی مردانہ شال نکال کر کندھوں کے گرد پهيلاتا کمرے سے باہر نکل گیا تو صاحبہ بھی مرے مرے انداز میں سنیكس کی طرف ہاتھ بڑھا گئی۔

بھلا صاحبہ اورهان کا حکم کیسے ٹال سکتی تھی۔

آج زوہان اور شیفان کی مہندی تھی۔ صبح سے ہی هویلی میں ہڑبڑی مچی ہوئی تھی۔ مہندی کے فنکشن کا انتظام پچھلے لان میں کیا گیا تھا۔خوب صورت سجاوٹ نے اس جگہ کو چار چاند لگا دیے تھے۔

رخسار بیگم کی رات سے طبیعت خراب تھی جس کی وجہ سے وه دوائی لینے کے بعد اپنے کمرے میں ہی آرام کر رہی تھیں۔

وہ صبح سے اپنا ہوش بھولے ملازموں کے پیچھے پڑ کے اپنی نگرانی میں سب کام کروا رہی تھی۔ آخر وہ اس گھر کی بڑی بہو تھی اور اس کا فرض تھا یہ۔

رخسار بیگم کمرے میں تھی اس لئے ان کی غیر موجودگی میں صاحبہ بلا جھجھک بلا خوف اپنے کام سر انجام دے رہی تھی۔

وہ ابھی زوہان کو جوس دے کر آئی تھی۔ پارلر والی اسے تیار کرنے آ چکی تھی۔ دور دراز سے مہمان بھی آنا شروع ہو چکے تھے۔

باہر نیم اندھیرا ہونے پر هویلی کے باہر لگی لائٹیں جلا دی گئی تھیں جس کی وجہ سے پوری هویلی جگمگا اٹھی تھی۔

وہ تیز تیز ہاتھ چلاتی مہندی کے تھال ترتیب دے رہی تھی جب ناز بیگم وہاں آئیں۔

"صاحبہ !!! بچے آپ ابھی تک یہاں ہو۔ وقت دیکھو کیا ہو گیا ہے۔ تیار نہیں ہونا کیا ؟"

ناز بیگم کے سوال پر وہ ہاتھ پونچھتی ان کی طرف پلٹی۔

"بس چھوٹی امی یہ تھوڑا سا کام رہ گیا ہے پھر جاتی ہوں میں۔"

ان کو جواب دیتی وہ پلٹنے لگی جب وه آگے بڑھتی اس کا بازو تھام گئیں۔

"صبح سے لگی ہو ہر کام ہو گیا جو رہ بھی گیا ہے وہ ملازم کر لیں گے آپ جاؤ اپنے کمرے میں اور تیار ہو جاؤ جلدی سے۔ اورهان نے ایسے دیکھا تو غصّہ کرے گا۔ جاؤ شاباش !!!"۔

ان کے زور دینے پر وہ چار نا چار مسکرا کر سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرح بڑھ گئی۔

کمرے میں آنے کے بعد اس نے دروازہ بند کرنے کے بعد گلے میں پڑا دوپٹہ بیڈ پر اچھالا اور فریش ہونے باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔ جس وقت وہ فریش ہو کر کمرے میں واپس آئی رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ نو بجے رسم شروع ہو جانی تھی۔

وقت کی قلت محسوس کرتے وہ تیزی سے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی جہاں وہ پہلے ہی اپنے اور اورهان کے آج کے فنکشن میں پہنے جانے والے کپڑے ہینگ کر چکی تھی۔

کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی جہاں اس کی جیولری اور میک اپ رکھا تھا پھر ہاتھ بڑھا کر اپنی تیاری مکمل کرنے لگی۔

وہ ابھی ڈیرے سے واپس لوٹا تھا جہاں پكوان کا انتظام کیا جا رہا تھا۔ اس نے لاؤنج میں کھڑے کھڑے نظریں اس پاس دوڑائی پر اسے وہ کہیں بھی نظر نہ آئی۔ هویلی مہمانوں سے بھری پڑی تھی۔ لڑکیان تتلیياں بنی یہاں سے وہاں اڑتی پھر رہی تھیں۔ وہ ایک آخری نظر کچن کی طرف ڈالتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا دلفریب خوشبو اس کے ناک کے نتھنوں سے ٹکرا گئی۔ وہ آنکھیں بند کرتا اس مہک کو محسوس کرنے لگا۔ 

اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے جیسے ہی وه اگے بڑھا اس کی نگاہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے بیٹھی صاحبہ کی پشت سے ٹکرائی۔ وہ جھک کر جوتا پہن رہی تھی۔

وہ ایک گہری سانس بھرتا ڈریسنگ روم سے اپنے کپڑے لیتا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ ٹاول سے سر رگڑتا کمرے میں آیا تو سامنے منظر پر نگاہ پڑتے ہی جی جان سے ٹھٹھک گیا۔ پیروں نے جیسے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا اور آنکھیں سامنے نظرآتے دلفریب منظر پر چپک سی گئی تھیں۔

اس نے پچھلے چار سالوں میں صاحبہ کو اس حلیے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ بھی تیار ہوتی تھی تو لبوں پر گلابی رنگ بکھیر لیتی تھی پر آج وہ پور پور سجی اس کے چاروں شانے چت کر گئی تھی۔ 

مسٹرڈ رنگ کے گھیر دار لہنگے پر کمر کو ڈھانپتی اسی رنگ کی کام والی کرتی پہنے اور آتشی رنگ کا کرن لگا دوپٹہ ایک کندھے پر سیٹ کیے گلے میں آتشی اور سفید نگینوں سے مزين گلو بند اور اسی سے میچنگ آویزے پہنے وہ سانس روک دینے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔ 

گھنگھریالے سنہری بالوں کو درمیان سے مانگ نکال کر دونوں طرف سے بریڈز بناے پشت پر کھلا چھوڑ رکھا تھا جب کے مانگ میں گلو بند سے میچنگ ٹکا جگمگا رہا تھا۔

ہری آنکھیں کاجل سے لبریز تھیں۔ گلابی گال مزید گلابی کیے گئے تھے جب کہ ہونٹ آتشی رنگ سے سجے قہر برپا کر رہے تھے۔

ہاتھوں میں بھر بھر کر میچنگ چوڑیاں پہنی گئی تھیں۔

وہ اسے یک ٹک دیکھتا دھیرے دھیرے اس کی طرف قدم بڑھا گیا۔

اسے یوں اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ نظریں جھکا گئی پر دل میں ماشاءالله کہنا نہ بھولی کیوں کہ کالی شلوار قمیض پر آتشی ویسٹ کوٹ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح ہینڈسم لگ رہا تھا۔

وہ اس کے قریب آتا اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ایک جھٹکے سے اسے اپنے ساتھ لگا گیا۔ اس کے اچانک حملے پر صاحبہ کی دبی دبی سی چیخ نکل گئی۔

"قتل کرنا چاہتی ہو مجھے ؟؟"

اس کی بوجھل آواز میں پوچھے گئے سوال پر وہ تڑپ اٹھی اور تیزی سے نفی میں سر ہلا گا۔ 

"پھر اس قدر روح نشین کیوں لگ رہی ہو ؟؟ ان ہری آنکھوں کو اس قدر قاتل کیوں بنا رکھا ہے !!!'

وہ اس کے چہرے پر جھکا سرگوشی کرنے لگا تو صاحبہ کا رنگ یخ لخت سرخ پڑ گیا۔ اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتی وہ لرزتی پلکیں جھکا گئی۔

"بہت پیاس لگ رہی ہے۔ حلق میں کانٹے چبھ رہے ہیں۔ تم پر لازم ہے کہ میری پیاس بھجانے کا اهتمام کرو !!!"

گھمبیر سرگوشی میں کہتا وه دل کی پکار پر لبیك کہتے اس کے گلاب لبوں پر جھکتا اپنی پیاس بھجانے لگا۔

اس کی پیش قدمی پر وہ آنکھیں موندتی اپنی باہوں کا ہار اس کے گلے میں ڈالتی اس کی منمانیاں برداشت کرنے لگی۔

خود کو سیراب کرتا وہ دھیرے سے پیچھے ہٹا تو وہ كپكپاتے نم ہونٹوں اور دہکتی رنگت کے ساتھ اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپاتی اپنی بے ترتیب سانسیں هموار کرنے لگی۔

وہ اس کی کمر میں دونوں بازو ڈالتا اسے سختی سے خود میں بھینچ گیا۔

"جانتی ہو میرا دل اس وقت کیا کر رہا ہے ؟؟؟"

وہ جھک کر اس کے کان میں بولا تو وہ وہیں سے نفی میں سر ہلا گئی ۔

"کہ تمہاری روح میں اتر جاؤں !!!"

اس کے بے باک الفاظ صاحبہ کے بدن میں كپكپی طاری کر گئے۔وہ مزید اس کے سینے میں چھپنے لگی۔

"پر ابھی نہ موقع ہے نہ دستور۔ پر آج رات تمہاری جان لینے کا پورا ارادہ ہے میرا۔ خود کو ذہنی طور پر تیار کر لو کیوں کہ آج میری قید سے فرار ممکن نہیں ہوگا۔"

اپنے الفاظ اس کے کان میں اتارتا وہ دھیرے سے اس کی صراحی دار گردن پر اپنے عنابی لب رکھتا پیچھے ہٹا تو اس کے سرخ پڑتے چہرے لرزتی پلکوں اور كپكپاتے ہونٹوں کو دیکھتا بے ساختہ مسکرا دیا۔ 

ڈریسنگ ٹیبل سے ہیئر برش اٹھا کر اپنے بال بناے اور پھر ڈھیر سا پرفیوم خود پر چھڑکنے کے بعد وہ جوتا پہنتا اس کی طرف بڑھا اور اس کی کمر کے گرد اپنا مضبوط بازو حائل کر گیا۔

"چلیں ؟؟"

جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا تو وہ سر ہلا گئی۔ اس کی کمر کے گرد یوں ہی حصار بناے وہ اسے لیتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

@@@@@

وہ بے چینی سے دونوں ہاتھ آپس میں مسلنے لگی جب ہاتھوں پر نظر پڑتے ہی ایک دم رک گئی۔ گلابی ہتھیلیاں مہندی سے سجی ہوئی تھیں۔ اس کے ساتھ چلتی صاحبہ اس کے گال تهپتهپا گئی۔

"پریشان مت ہو میری جان ریلیکس رہو۔"

صاحبہ کی بات پر وه سر ہلا گئی۔

صاحبہ اسے لیتی اسٹیج کی طرف بڑھی جہاں کالی شلوار قمییض پر ملٹی رنگ کی ویسٹ کوٹ پہنے شہزادوں کی سی آن بان والا شیفان بلوچ براجمان تھا۔ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ ایک ٹرانس میں اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔

مونگیا رنگ کے بیش قیمت لہنگے میں سنہری دوپٹہ سر پر سجائے پھولوں کے گہنے پہنے لہنگے میں موجود آتشی رنگ کے پھولوں سے ملتی جلتی لپ سٹک لگاۓ باقی  ہر طرح کے میک اپ سے پاک معصوم چہرہ لئے وہ اسے ایک پل کے لئے ٹھٹھکا گئی تھی پر اگلے ہی لمحے وہ ہوش میں آتا اپنی بے اختیاری پر خود پر لعنت بھیج گیا۔ 

اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا اٹھ کر اس شہزادی کا ویلکم کرنے کا پر وہ بے اختیار ہو کر کھڑا ہو چکا تھا اور اب واپس بیٹھ کر اپنی بے عزتی نہیں کروانا چاہتا تھا اس لئے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھامتا اسے اوپر چڑھنے میں مدد دینے لگا۔

اس کے مضبوط ہاتھ کا لمس پاتے ہی زوہان کا دل بے تحاشا دھڑک اٹھا۔ وہ اسے پھولوں سے سجے جھولے پر بیٹھاتے اس کے پہلو میں بیٹھا تو زوہان بے ساختہ جھجھکتی پیچھے کو كهسك گئی۔ 

شیفان کو اس کی حرکت پر خوب تاؤ آیا پر سب گھر والوں اور مہمانوں کی موجودگی میں خود پر قابو پا گیا پر پھر پورے فنکشن میں نہ ہی اس کے قریب ہوا اور نہ ہی اس کی طرف دیکھا۔

صاحبہ اور اورهان رسم کرنے کے لئے ایک ساتھ اسٹیج پر آئے تو انہیں ساتھ دیکھتے پل بھر کے لئے رخسار بیگم کی آنکھوں میں چمک آئی پر اگلے ہی لمحے وہ نظریں پهير گئیں .

رسم کے بعد فوٹو شوٹ ہوا جس میں جہاں اورهان کی نزدیکیوں اور ہاتھوں کی بے باک حرکتوں نے صاحبہ کو لال پڑنے پر مجبور کیا وہیں شیفان کا سپاٹ انداز زوہان کے سانس سکھا گیا تھا۔ فوٹو شوٹ کے بعد زوہان کی تھکن دیکھتے صاحبہ اسے کمرے میں لے گئی۔ اورهان نے ان دونوں کا کھانا زوہان کے کمرے میں ہی بھیج دیا تھا۔

@@@@@

صاحبہ اسے کھانا کھلا کر باہر انتظامات دیکھنے چلی گئی پر جاتے جاتے اسے تاکید کر گئی تھی کہ فریش ہو کر سو جاۓ۔

اس کے جانے کے بعد زوہان اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔ اس نے سب سے پہلے دوپٹہ اتار کر بیڈ پر پهينكا اور پھر ایک ایک کرتی پھولوں کی جیولری اتارنے لگی۔ وہ اپنے کام میں مگن تھی جب ایک دم کمرے کی بتی گل ہو گئی۔

پہلے پہل وہ سمجھی کہ پیچھے سے کوئی خرابی آ گئی ہو گی لائٹ میں پر اگلے ہی پل کمرے میں کسی دوسرے شخص کی موجودگی نے اس کے حواس سلب کر لئے۔

اس سے پہلے کہ وه کچھ سوچتی یا سمجھتی اس کی کمر کے گرد لپیٹے جانے والے ہاتھ نے اسے تھرا کر رکھ دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ چیخنے کے لئے منہ کھولتی، مقابل وجود اس کے منہ پر سختی سے ہاتھ جماتا اس کے الفاظ قید کر گیا۔ 

اس سے پہلے کہ وہ چیخنے کے لئے منہ کھولتی، مقابل وجود اس کے منہ پر سختی سے ہاتھ جماتا اس کے الفاظ قید کر گیا۔ 

وہ بھر پور مذاحمت کرتی خود کو اس کی گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی پر ہر کوشش بیکار۔

وہ آخری ہربہ استعمال کرتے اپنے منہ پر جمے مردانہ ہاتھ پر اپنے دانت گاڑ گئی۔

مقابل وجود اس سے اس حرکت کی بلکل بھی توقع نہیں کر رہا تھا اس لئے ایک دم بلبلا کر رہ گیا۔

"آہ جنگلی بلی !!!!"

وہ ایک دم اسے اپنی گرفت سے آزاد کر گیا تو زوہان تیزی سے رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

کھڑکی سے جھانکتے چاند کی روشنی میں نظر آتے شخص کو دیکھ کر زوہان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اسے اس انسان سی بلکل بھی یہ امید نہ تھی۔

"آ۔۔۔آپ !!!"

ہڑبڑا کر کہتی وه تیزی سے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے موبائل کی فلیش لائٹ آن کر گئی۔

"کیا کھاتی ہو تم ؟؟ اتنے تیز دانت !!!"

وہ اپنا ہاتھ سہلاتا بولا تو اس کے منہ کے تاثرات دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی زوہان کی ہنسی چھوٹ گئی جسے شیفان نے کٹیلی نظروں سے دیکھا تھا۔

"تو آپ کو کس نے بولا تھا کہ یوں چوروں کی طرح میرے کمرے میں آئیں۔"

وہ لاپرواہی سے بولی تو شیفان نے کھا جانے والی نظروں سے اس کو دیکھا۔

وہ ایک دم چار قدم آگے آتا اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف كهينچ گیا۔اس کی اچانک حرکت پر زوہان کی چیخ نکل گئی۔

"بہت زبان چلنے نہیں لگ گئی تمہاری ؟؟"

اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتا اس کا چہرہ اونچا کرتے بولا تو  اس کی اس قدر نزدیکی پر زوہان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

"کک۔۔۔کیا کر رہے ہیں۔ چھ۔۔۔چھوڑیں پلیز !!!"

وہ سرخ پڑتی اس کے حصار میں كسمسانے لگی تو اپنی بے خودی پر خود پر لعنت بھیجتا وہ اسے ایک دم چھوڑ گیا جس کے باعث اس کی کمر ایک جھٹکے سے پیچھے ڈریسنگ ٹیبل پر لگی۔ وہ سسك کر رہ گئی۔

"میری بات کان کھول کر سن لو اتنا ہواؤں میں اڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم میری من چاہی نہیں بلکہ ان چاہی بیوی بننے جا رہی ہو اس لئے ہواؤں میں اڑنے کی بجائے اپنے قدم زمین پر جما کر رکھو یہ نہ ہو کر ہواؤں میں اڑنے کی خواہش میں تم پیروں نیچے موجود زمین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو !!!"

اس کا ٹھنڈہ ٹھار لہجہ زوہان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا گیا۔

"مجھے یقین ہے کہ میں آپ کے دل کی زمین پر مضبوطی سے اپنے قدم جما لوں گی۔  ہواؤں میں اڑنے کی خواہش بھی کسے ہے !!!!"

دل بڑا کرتی وہ کہہ اٹھی جس پر شیفان غور سے اسے دیکھنے لگا۔

"بلی کے خواب میں چھیچھڑے !!!!"

استہزایہ کہتا وہ ہاتھ جهلا اٹھا۔

"آپ مجھے میرے ارادوں میں ہمیشہ ثابت قدم پائیں گے !!!"

وہ نظریں جھکاتی ایک جزب سے بولی تو وہ داد دینے والے انداز میں سر ہلا گیا۔

"چلو کل رات دیکھ لیں گے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ "

گہری نظر اس پر ڈالتا وہ واپس جانے کی خاطر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

"اور ہاں !!!"

وہ جاتے جاتے مڑ کر بولا تو زوہان نظریں اٹھا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"میں چاہتا ہوں کل تم اپنا پور پور میری خاطر سجاؤ آخر تمہیں "تمہاری" محبت کا حسین خراج بھی تو بخشنا ہے !!!"

آنکھ مار کر کہتا وہ سیٹی کی دھن بجائے وہاں سے نکل گیا جب کہ زوہان سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی۔

@@@@@

وہ کچن میں کھڑی بے مقصد چیزیں یھاں سے وہاں کر رہی تھی۔رات کا ایک بج چکا تھا پر اس کی اپنے کمرے میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔

"صاحبہ !!! یہاں کیوں کھڑی ہو اب تک بیٹا ؟؟ کمرے میں جا کر آرام کرو صبح پھر سارا دن بھگ دوڑ میں گزر جاۓ گا۔ آرام نہیں کرو گی تو تھک جاؤ گی۔ جاؤ شاباش !!!"

ناز بیگم کے کہنے پر بھی وہ بے بسی سے انہیں دیکھ کر رہ گئی۔

"میں بس جانے ہی والی تھی۔ آپ بھی جا کر آرام کریں میں چلی جاتی ہوں !!"

وہ کنی چھڑواتی بولی۔

"نہیں آپ جاؤ پہلے ورنہ پھر کوئی نہ کوئی کام کرنے لگ جاؤ گی۔ چلو شاباش !!!"

ان کے زور دینے پر وہ بے بسی سے سر ہلاتی کچن سے نکل گئی۔کمرے کی طرف جاتے اس کے قدم من من بھر کے ہو رہے تھے۔اورهان کی باتیں یاد آتے اس کے گال کان تک سرخ پڑ گئے۔

کمرے کے باہر کھڑے ہو کر اس نے ایک گہرا سانس بھرا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ 

اورهان نائٹ سوٹ میں ملبوس بیڈ پر نیم دراز تھا۔ اسے کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

صاحبہ اسے ایک نظر دیکھ کر دروازہ لاک کرتی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور ایک ایک کر کے اپنی جیولری اتارنے لگی۔

"میری مدد چاہئے ؟؟؟"

وہ اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوتا اس کی طرف جھک کر پوچھنے لگا تو وہ تیزی سے نفی میں سر ہلا گئی پر وہ اس کے اشارے کو نظرانداز کیے ہاتھ بڑھا کر اس کی پشت پر بکھرے بال ایک کندھے پر ڈالتا اس کی گردن میں پہنے گلوبند کو اتارنے لگا۔ اس کی انگلیوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتی صاحبہ تھرا اٹھی۔

گلو بند اس کی گردن سے جدا کر کے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ جھک کر اپنی کھڑی ناک اس کی  دودھیا ملائم گردن پر سہلانے لگا۔ اس کے لمس اور گرم سانسوں کو اپنی گردن پر محسوس کرتی وہ سختی سے دونوں آنکھیں بند کر گئی۔جان تو تب نکلی جب وہ اپنے دہکتے ہونٹ اس کی گردن پر رکھ گیا۔ 

صاحبہ اپنی سسكی روکنے کی خاطر لب دانتوں تلے دبا گئی۔

"تمہاری خوشبو بہت دلفریب ہے۔ جی چاہتا ہے یہ خوشبو میری روح تک میں اتر جاۓ ."

بوجھل سرگوشی میں اس کو سر تا پیر سرخ ہونے پر مجبور کرتا وہ ہاتھ اس کے کان کی طرف بڑھا گیا۔ 

باری باری اس کے دونوں کانوں کو بھاری آویزوں سے آزاد کرنے کے بعد وہ اس کے کانوں کی لو اپنے ہونٹوں سے سہلانے لگا.

اس کی عنایتوں پر صاحبہ سے اپنے پاؤں پر کھڑا رہنا مشکل ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ اس کی نازک ٹانگیں اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کرتی اورهان جھک کر اسے اپنی باہوں میں بھر گیا۔گرنے کے خوف سے صاحبہ ایک دم اس کے گلے میں اپنی باہوں کا ہار ڈال گئی۔

وه اسے کسی نازک پھول کر طرح اپنی باہوں میں سمیٹے بیڈ کی طرف بڑھا اور اسے بیڈ پر ڈالتا خود اس کے اوپر جھک آیا۔

"سردارنی !!!"

اس کی پکار پر صاحبہ تڑپ کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ کتنی مدت کے بعد اس نام سے پکارا تھا اس نے۔ صاحبہ کی آنکھیں بے ساختہ نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔

"اوں ہوں !!!"

نفی میں سر ہلا کر اسے رونے سے منع کرتے وہ اس کے سبز نگینوں کو چوم گیا۔

"جانتی ہو بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔ اتنی کہ جسے کوئی پیمانہ ماپ ہی نہیں سکتا۔ تمہاری محبت میں دل بڑا کر کے ہر خطا معاف کر رہا ہوں۔ تمہارے ساتھ ایک پر سکون اور حسین زندگی کی شروعات کرنا چاہتا ہوں۔ کیا اس سب میں تم میرا ساتھ دو گی ؟؟؟"

اس کے سوال پر صاحبہ لرزتی ہوئی سر ہلاتے اس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔

"آج چھپنے کا نہیں بلکہ کھل کے سامنے آ جانے وقت ہے جان اورهان !!! آپ کے یہ گریز کسی کام کے نہیں آج کی رات اور اس کے بعد آنے والی ہر رات !!!"

اس کے کانوں میں سر گوشی کرتا بولا تو صاحبہ دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں بند کر گئی۔ 

اورهان بھی اس کی قربت میں مدہوش ہوتا اس کی صراحی دار گردن میں چہرہ چھپاتا ہاتھ بڑھا کر کمرے میں جلتی واحد بتی بھی گل کر گیا۔

وہ رات ان کے ملن کی رات تھی اور اس رات وہ کسی کو بھی ان دونوں کے درمیان نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔ پھر چاہے وہ سرکتی ہوا ہو یا ماحول کو روشن کرتی روشنی !!!!

صاحبہ آنکھیں موندتی خود کو اورهان کے حوالے کر گئی۔ اگر وہ مہربان ہو رہا تھا تو صاحبہ کیوں كفران نعمت کرتی ؟؟؟

دھیرے دھیرے سركتی رات ان کی محبت اور قربت کی تپش کو بڑھاتی چلی جا رہی۔

@@@@@

اگلی صبح بہت روشن اور حسین تھی۔

اورهان نے سوتے میں ہی ہاتھ بڑھا کر صاحبہ کو اپنے حصار میں لینا چاہا پر وہ تھی کہ اس کے قریب ہی نہ آ رہی تھی۔ اورهان نے آنکھیں کھول کر اسے اپنے قریب کرنا چاہا تو خالی بستر دیکھ کر سخت بدمزہ ہوا۔

وہ اٹھنے کے بعد سب سے پہلے اسے اپنے حصار میں لے کر اس کے چہرے کا دیدار کرنا چاہتا تھا۔

اس نے نظریں گھما کر دیکھا تو وہ آئنے کے سامنے کھڑی اپنے نم بال سنوار رہی تھی۔

وہ كمبل پیچھے کرتا اپنی جگہ سے اٹھا اور مضبوط قدم اٹھاتا اپنی شریک حیات کی طرف بڑھنے لگا۔

اس کے قریب پہنچ کر وہ اپنے مضبوط ہاتھ اس کی کمر کے گرد باندھتا اس کی گردن میں سر چھپاتا اس کے جسم سے اٹھتی دلکش مہک کو محسوس کرنے لگا۔ 

شیشے میں نظر آتے ان دونوں کے عکس کو دیکھتی صاحبہ کی رنگت سرخ پڑ گئی۔

"زندگی کی نئی صبح مبارک میری جان !!!"

وہ بوجھل آواز میں سرگوشی کرتا بولا تو اس کے بولتے لب صاحبہ کی گردن کو چھوتے اسے نئے امتحان میں ڈال گئے۔

رات صاحبہ اسے ساری بات بتا چکی تھی کہ کس طرح انور چودھری نے اسے دھوکے سے اورهان کو بلانے کے لئے بولا اور پھر صاحبہ کو اورهان کی زندگی کی دھمکی دے کر نکاح کے لئے مجبور کیا۔ اورهان دل بڑا کرتے اسے معاف کر چکا تھا کیوں کہ وہ اپنی زندگی میں صرف خوش حالی چاہتا تھا اب۔

"اتنی جلدی کیوں اٹھ گئی سردار کی جان۔ میں آنکھیں کھولتے ہی تمہیں آنکھوں میں بسائے اپنی باہوں میں بهرنا چاہتا تھا۔"

اس کی بات پر صاحبہ نے هلكی سی گردن موڑ کر اسے دیکھا تو اپنی گردن میں چھپے اس کے گھنے بالوں والے سر کو دیکھتے چہرہ سرخ پڑ گیا۔ اس قدر قربت پر دل دھڑک اٹھا۔

"وه۔۔۔مجھے فریش ہونا تھا۔نیچے جا کر ناشتے کا انتظام دیکھنا ہے۔مہمان اٹھ گئے ہوں گے۔"

وہ اپنی کمر پر رکھے اس کے مضبوط ہاتھوں پر اپنے نازک ہاتھ رکھ کر اسے اپنے جلدی اٹھنے کی وجہ بتانے لگی۔

"اوکے آج کے لئے معاف کیا لیکن آئنده ایسا نہیں ہونا چاہئے !!!"

محبت سے کہتے اس نے صاحبہ کے گال پر لب رکھے تو وہ مسکراتی ہوئی سر ہلا گئی۔

"آپ فریش ہو جائیں آپ کے کپڑے ہینگ کر دیے ہیں میں نے۔ فریش ہو کے نیچے آ جائے گا آپ ناشتہ تیار كرواتی ہوں تب تک میں !!!"

وہ ہاتھ بڑھا کر اس کے ماتھے پر بکھرے بال سمیٹتی بولی تو اورهان مسکراتے ہوئے جھک کر اس کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھو گیا۔

"جو حکم میری جان !!!"

مسکرا کر کہنے کے ساتھ وہ ایک بھر پور نظر اس پر ڈالتا اچانک اس کے چہرے پر جھکا اور پل بھر میں اس کی سانسوں کو قید کر گیا۔ اس کی سانسیں خود میں اتارنے کے بعد وہ جس طرح تیزی سے جھکا تھا اسی تیزی سے باتھ روم کی طرف بڑھ گیا جب کہ پیچھے کھڑی صاحبہ اپنی سانسیں هموار کرنے کی کوشش میں هلكان ہو گئی۔

"بھابھی میرا دل بہت گھبرا رہا ہے !!!!"

اس کی بات پر صاحبہ نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا جو لال عروسی لباس میں پور پور سجی لال ہونے کے بجائے پیلی ہی ہوتی جا رہی تھی۔

صاحبہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر سہلانا شروع کر دیا جو ٹھنڈہ پڑ رہا تھا۔

"صابرہ بی بی آپ جائیں ایک گلاس فریش جوس لا دیں پلیز !!!"

پاس کھڑی ملازمہ کو جوس لانے کا کہنے کے بعد وہ وہیں زوہان کی قریب بیٹھ گئی۔

"کیوں پریشان ہو رہی ہو میری جان ریلیکس رہو۔ شیفان بھائی کوئی بھوت تھوڑی ہیں جو تمہیں کھا جائیں گے۔"

وہ اسے ہلکا کرنے کی خاطر مذاق کرتی بولی تو زوہان اس کی بات پر مسکرا بھی نہ سکی۔

"اتنی پیاری لگ رہی ہو تم۔اگر یہ ہونق تاثرات کی جگہ چہرے پر پیاری سی مسکان سجا لو گی نہ تو یقین مانو تمہارے روپ کو چار چاند لگ جائیں گے۔ آج تمہارا سب سے خاص دن ہے اور یہ بار بار نہیں آئے گا اس لئے پریشان ہونے کی بجائے خوشی سے انجوئے کرو۔"

وہ پیار سے زوہان کا ہاتھ سہلاتی بولی تو وہ بے ساختہ مسکرا دی۔ واقعی یہ دن اس کی زندگی میں بار بار تھوڑی آنا تھا۔

"شاباش ایسے ہی ہنستی نظر آؤ مجھے اور ۔۔۔۔"

اس سے پہلے وہ کچھ اور بولتی کمرے کا دروازہ نوک ہوا۔

"صاحبہ بی بی کو سردار ان کے کمرے میں بلا رہے ہیں۔"

ملازمہ پیغام پہنچا کر جا چکی تھی۔

"تم ایزی رہو میں بس تمہارے لالا کو دیکھ آؤں کوئی کام ہو گا ان کو ۔"

وہ زوہان کا چہرہ تهپتهپا کر بولی تو وہ مسکراتے ہوئے سر ہلا گئی۔

صاحبہ کے جانے کے بعد رومیصہ کا سوچتے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔اس کی زندگی کے اتنے خاص دن اس کی بہن اس کے ساتھ نہیں تھی وہ کیسے خوش ہو سکتی تھی۔

@@@@@

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو کمرہ خالی پڑا تھا۔

"مجھے بلا کر جناب خود نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔"

خود سے بولتی وہ جھک کر بیڈ پر پڑا ٹاول اٹھانے لگی۔ جیسے ہی وہ سیدھی ہوئی اس کے ناک کے نتھنوں سے دلفریب خوشبو ٹکرائی اور ساتھ ہی خوشبوؤں میں بسا وجود اسے اپنے حصار میں قید کر گیا۔

صاحبہ کی لرزتی پلکیں عارضوں پر جھک گئیں .

"کیا تمہیں محسوس نہیں ہوتی ؟؟"

اس کی گھمبیر سرگوشی میں ادا کیے گئے لفظ صاحبہ کے گال کو چھونے لگے تو اس کی رنگت دہک اٹھی۔

"كک۔۔۔کیا ؟؟"

بہت مشکل سے یک لفظی سوال ٹوٹ کر لبوں سے ادا ہوا تھا۔

"میرے دل کی دھڑکن جو بے طرح تمہیں پکارتی ہے !!! میری سانسیں جو تمہاری سانسوں کی حدت محسوس کرنے کو بے تاب رہتی ہیں !!! کیا تمہیں محسوس نہیں ہوتا ؟؟؟"

اس کی نرم گرم سانسوں کے ساتھ ساتھ اس کے الفاظ بھی جان لیوا تھے صاحبہ کے لئے۔

اس کی خاموشی کو محسوس کرتا وہ اسے کندھوں سے تھام کر اپنے روبرو کر گیا۔

"سبحان اللّه !!!"

اس کے حسین چہرے پر نظر پڑتے ہی یہ الفاظ بے ساختہ عنابی لبوں سے پهسلے تھے۔

"جانتی ہو اس دنیا میں سب سے خوبصورت کیا ہے ؟"

"تمہارا وجود !!!"

وہ اسے خود سے قریب کرتا اپنی گہری محبت بھری نظروں کے حصار میں قید کر گیا۔

"جانتی ہو اس دنیا کا سب سے حسین مقام کون کا ہے ؟"

"تمہاری پناہیں !!!"

وہ دھیرے سے اسے اپنے حصار میں لیتا اپنے لباس سے اٹھتی مہک اس تک منتقل کرنے لگا۔

"جانتی ہو اس دنیا میں سب سے گہرا کیا ہے ؟"

"تمہارے یہ سبز نین کٹورے !!!"

وہ ایک جذب کے عالم میں جھکتا ان سبز نگینوں کو ہولے سے چھو کر معتبر کر گیا۔

"جانتی ہو مجھے سب سے زیادہ عشق کس چیز سے ہے ؟"

"اس خوبصورت ناک کی اٹھان اور اس میں چمکتی اس بالی سے !!!"

پر شدت مگر دھیمے لہجے میں کہتا وہ جھک اس کی ناک کی چمکتی بالی کو چھو گیا۔

"جانتی ہو میرے لئے تمہاری تعریف کیا ہے ؟"

"سراپا محبت و عزت !!! تم میری عشق کی حدوں کو چھوتی محبت ہی نہیں میری عزت بھی ہو جس کی حفاظت ازل سے مجھ پر فرض کر دی گئی ہے !!!"۔

صاحبہ سے اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہنا مشکل ہونے لگا تو اس کی کیفیت بھانپتا وہ اسے خود میں قید کر گیا جو ڈل گولڈن رنگ کا سنہری کام والا پیروں کو چھوتا لباس پہنے سولہ سنگھار کیے پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ شاید زندگی میں پہلی دفعہ اتنا تیار ہوئی تھی۔

"اتنا تیار کیوں ہو گئی میری زندگی نظر لگوانی ہے کیا ؟؟ میں تو تمھاری  سادگی میں بھی تم پر مر مٹنے کو تیار بیٹھا ہوتا ہوں پھر یوں سج دهج کر مجھ معصوم پر ظلم کیوں کر رہی ہو۔ کہیں کا نہیں چھوڑو گی تم مجھے !!!!"

وہ جس طرح بے بسی سے بولا ایک دم صاحبہ کی ہنسی چھوٹ گئی اور وہ سب بھولتی کھلکھلا کر ہنس دی۔

اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد اورهان نے اس پر سے نظریں ہٹا لیں۔ اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں صاحبہ کو اس دیوانے کی نظر ہی نہ لگ جاۓ۔

اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے پیسے ہاتھ میں آئے وہ صاحبہ کے سر سے وار کر اسے نرمی سے چھوڑتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

"رانی یہ لو یہ پیسے رکھ لو صدقے کے ہیں ۔"

پاس سے گزرتی رانی کو پیسے پکڑا کر وہ واپس کمرے میں آتا دروازہ بند کر گیا جب کہ اس کی حرکت پر صاحبہ اب تک سرخ کھڑی تھی۔

"اتنا کچھ کون کسی پر وارتا ہے ؟"

اس کے قریب آنے پر وہ نظریں جھکاتی پوچھنے لگی تو اورهان مسکرا دیا۔

"مرزا اورهان بلوچ وارتا ہے اور وہ بھی صرف صاحبہ اورهان بلوچ پر !!!"

وہ اس کے نرم و ملائم ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں قید کر گیا۔

"میں نے تو اپنا سب کچھ تم پر وار دیا ہے۔انائیں کیا وفائیں کیا جزائیں کیا سزائیں کیا !!!"

وہ جھک کر اس کی پیشانی کو اپنے لمس سے معتبر کر گیا۔

"چلیں ؟؟"

اس کے سامنے جھک کر ایک ہاتھ سینے پر رکھتے دوسرا ہاتھ اس کے سامنے پهيلایا تو وہ تمانیت سے مسکراتی اس کی کشاده ہتھیلی پر اپنا نازک ہاتھ دھر گئی جسے اورهان اپنی مضبوط گرفت میں لیتا اس کے ساتھ باہر کی طرف قدم بڑھا گیا۔

@@@@@

وہ سجے سنورے کمرے میں بیٹھی بے چینی سے آنے والے وقت کو سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے رخصتی کے بعد صاحبہ اور چھوٹی ماں اس کو شیفان کے کمرے میں بیٹھا گئی تھیں۔

اب اس کے ری ایکشن کا سوچ سوچ کر زوہان کے ٹھنڈے پسینے چھوٹ رہے تھے کیوں کہ نکاح سے لے کر رخصتی تک وہ کافی زیادہ سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔

"میں آخر ان کا انتظار کر ہی کیوں رہی ہوں ۔ میں کون سا ان کی من پسند دلہن ہوں جو یوں سج سنور کر بیٹھی ان کا انتظار کر رہی ہوں اور وہ آ کر مجھے اپنی دلہن کے روپ میں بیٹھے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔"

تلخی سے سوچتے اس نے گھونگھٹ الٹا اور اپنا بھاری لہنگا دونوں ہاتھوں میں پکڑتی بیڈ سے نیچے اتر آئی۔ اب اس کا رخ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف تھا تا کہ سب سے پہلے بھاری زیورات سے جان چھڑوا سکے۔

دل تھا کہ خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اسے کیا پتا تھا کہ محبت میں اس قدر ناقدری ہوتی ہے انسان کی۔ آخر وہ بھی ایک لڑکی تھی اور ہر لڑکی کی طرح اپنی شادی کو لے کر اس کے بھی کچھ ارمان تھے پر اس پر ستم یہ ہوا تھا کہ وہ "من پسند" نہیں تھی۔

آج بہت زیادہ سنا گیا ایک جملہ بار بار اس کے کانوں میں گونجتا اسے ازیت دے رہا تھا۔

"دلہن وہی جو پیا من بھائے "

کس قدر ازيت ناک جملہ تھا یہ۔ان سب سوچوں میں ڈوبی وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ رہی تھی۔آنکھوں کے گوشے نم پڑ گئے تھے۔

ابھی اس نے بیڈ سے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آدھا سفر ہی طے کیا تھا جب دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

اس نے جوں ہی گردن موڑ کر آنے والے کی طرف دیکھا تو دھڑکنیں سست پڑ گئیں۔

سامنے ہی وہ کالی شیروانی زیب تن کیے سرد تاثرار چہرے پر سجائے پوری شان سے کھڑا تھا۔ اسے یوں کمرے کے بیچ و بیچ کھڑے دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل نمودار ہو گئے۔

وہ مضبوط قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔ اس دوران وہ شیروانی اتار کر صوفے پر پهينك چکا تھا۔

"کیا محترمہ زوہان صاحبہ کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ پہلے دن اوپس پہلی رات کی دلہن کس طرح بیہیو کرتی ہے ؟؟"

اس کی کاٹ دار آواز پر زوہان تھوک نگلتی حلق تر کرنے لگی۔

"وہ۔۔وہ مجھے لگا کہ آپ ۔۔۔آپ دیر سے آئیں گے۔ اس لئے میں ۔۔۔۔جا رہی تھی میرا مطلب فریش ہونے جا رہی تھی !!!"

وہ اٹک اٹک کر بولتی دونوں مٹھیاں سختی سے بھینچ گئی۔

"دیر سے آتا یا نہ آتا یہ تمہارا مسلہ نہیں تھا۔ فوراً جاؤ اور بیڈ پر گھونگھٹ نکال کر بیٹھو۔"

اس کے حکم پر وہ ہونق بنی اسے دیکھنے لگی جب کہ اسے حکم دیتا وہ خود باتھروم کی طرف بڑھ گیا۔

مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق وہ بیڈ کی طرف بڑھ گئی اور لہنگا پهيلا کر گھونگھٹ اوڑھ کر بیٹھ گئی۔ دماغ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر یہ شخص کیا چاہتا ہے۔

آدھے گھنٹے کے بعد باتھ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی تو زوہان کا سانس اٹک گیا۔ 

زوہان کو اس کے بھاری قدموں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی جو بیڈ کی طرف ہی آ رہی تھی۔

پھر وہ آ کر اس کے نزدیک تر اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا۔زوہان نے سختی سے آنکھیں بند کر لیں۔

شیفان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کے آگے پڑا گھونگھٹ الٹا تو وہ مزید سختی سے آنکھیں بند کر گئی۔

"اوپن یور آئیز !!!"

اس کی بھاری آواز میں دے گئے حکم پر زوہان كپكپاتے ہونٹ بھینچ گئی۔

"آئی سیڈ اوپن یور آئیز!!!"

وہ اب کی دفعہ زور دے کر بولا تو زوہان ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھول گئی۔ اسے بھر پور نظروں سے دیکھتا شیفان اس کے سامنے ہی نیم دراز ہو گیا۔ اسے زوہان کے تیز تیز دھڑکنوں کی آواز یہاں تک آتی محسوس ہو رہی تھی۔

"تم جانتی ہو آج تم کیسی لگ رہی ہو ؟؟"

اس کے سوال پر وہ چونک کر اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھنے لگی جہاں اس پل کچھ الگ ہی نظر آ رہا تھا۔

"کک۔۔۔کیسی ؟؟"

نہ جانے کیوں وہ یہ سوال کر گئی۔

"جان لیوا حد ک خوبصورت!!!! مگر ۔۔۔۔"

اس کی بات زوہان کا سانس روک گئی پر وہ خود بھی رک گیا۔وہ بے تابی سے مگر کے بعد کا جملہ سننا چاہتی تھی پر اگلے ہی پل ایک سوچ اس کے دماغ میں آتی اسے تلخی سے مسکرانے پر مجبور کر گئی .

"مگر یہ جان لیوا حد تک خوبصورت دکھنے والی لڑکی آپ کی "من  پسند" نہیں بلکہ مسلط کی گئی لڑکی ہے۔ یہی کہنا چاہتے ہیں نا آپ ؟؟"

اس کے تلخ لہجے میں ادا کیے گئے تلخ جملے پر شیفان کے ماتھے پر یک لخت بل نمودار ہوئے اور وہ اگلے ہی پل اسے بازو سے تھام کر ایک جھٹکے سے اپنی طرف كهينچ گیا۔

جھٹکا لگنے کے سبب وہ ایک دم اس کے اوپر آ گری۔ وہ جو نیم دراز تھا اسے ساتھ لئے بیڈ پر پیچھے کی طرف گر پڑا۔

"کیا میں نے تمہیں اجازت دی؟"

اس کے سنجیدگی سے پوچھے گئے سوال پر وہ نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

"جواب دو !!!"

اس کی نازک کمر پر ہاتھ کی گرفت سخت کرتے اس نے دوبارہ پوچھا وہ وہ لب دانتوں تلے دبا گئی۔ آنکھیں نہ جانے کیوں پھر سے نم ہونے لگی تھیں۔

"جو حقیقت ہے وہی بیان کی ہے !!!"

آنسوؤں سے بھاری آواز میں کہتی وہ لب دباتی سسكی روکنے کی کوشش کرنے لگی۔

وہ ایک دم کروٹ بدلتا اسے بیڈ پر منتقل کرنے کے بعد خود اس پر جھک آیا۔

"کیا چاہتی ہو ؟؟"

اس کے سوال پر وہ پر شکوہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

"میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔"

خفگی سے کہتی شیفان کی گہری نظریں خود پر محسوس کرتی وہ خفت کے احساس سے چہرہ موڑ گئی تو اس کی دودھیا گردن شیفان کے سامنے واضح ہو گئی۔

وہ جو اس کے سرخ لبوں کو چھوتے نتھ کے موتی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اس کی صراحی دار گردن کے نظارے پر خود کو تشنہ لب محسوس کرنے لگا۔

اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ اپنے روبرو کرتے وہ بھوری آنکھیں سیاہ آنکھوں میں ڈال گیا .

"میری بات بہت دھیان سے سننا زوہا !!! میں جو بھی کہنے جا رہا ہوں اپنے پورے ہوش و حواس میں کہنے والا ہوں ۔"

اس کی بات پر زوہان کا تیزی سے دھڑکتا دل پل بھر میں جیسے ساکت پڑ گیا۔ وہ کیا کہنے والا تھا ؟ کیا وہ ان دونوں کا رشتہ ختم کرنے جا رہا تھا۔

"زوہان میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرتا زوہان کی آنکھیں بند ہو گئیں اور ساتھ ہی گردن ایک طرف لڑکھ گئی۔ شیفان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔

"زوہان !!! ویک اپ !!!"

وہ اس کا چہرہ تهپتهپاتا اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا پر وہ بے ہوش پڑی تھی۔

اس نے سب سے پہلے ہاتھ بڑھا کر اس کو زیوروں کی قید سے آزاد کروایا پھر پانی اس کے منہ پر چھڑکا۔ اس سے کے دوران وہ مسلسل اسے آوازیں دے رہا تھا۔

وہ تو بس لفظی چھیر چھاڑ کے رہا تھا اسے کیا پتا تھا کہ وہ اس کی باتوں کو اس قدر سیریس لے لے گی۔

آخر کہیں جا کر اس نے دھیرے سے كسمساتے ہوئے آنکھیں کھولیں تو اس کی جان میں جان آئی۔

"کیٹی !!!! ٹھیک ہو نا ؟؟؟"

اس کی آواز سنتے ہو وہ اس کی بات یاد کرتی بلند آواز میں رونے لگی۔

"آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ اگر مجھے چھوڑنا ہی تھا تو شادی ہی کیوں کی؟؟ شادی کی پہلی ہی رات مجھے طلاق دے کر آپ میرے کردار کو کیوں مشقوق بنانا چاہتے ہیں۔ ایک محبت ہی تو کی تھی۔ اس کی اتنی بڑی سزا !!!"

اس کے یوں رونے اور ایسی باتوں پر شیفان بوکھلا گیا۔

"ہشش!!! کیا ہو گیا ہے میری جان پوری بات تو سن لو میری۔*

وہ اسے کچھ سوچنے کا موقع دے بغیر اسے سختی سے اپنے سینے میں بھینچ گیا۔

"مم۔۔مجھے نہیں سننی پلیز !!!"

وہ منت بھرے لہجے میں بولی۔ رونے میں کمی آ چکی تھی۔ یہ شاید اس کے سینے سے لگنے کا نتیجہ تھا۔

"میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں پورے ہوش و حواس میں اس بات کا اقرار کرنا کرنا چاہتا ہوں کہ پرانی ساری باتوں کو بھول کر مجھے تمھارے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرنی ہے ۔"

اس کی بات پر زوہان کی آنکھیں پهيل گئیں۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی۔

"میں چاہتا تو نفرت کا اظہار کرتے ہوئے تمہیں دهتکار سکتا تھا پر اگر میں ایسا کرتا تو مجھے مرد کون کہتا ؟؟ ایک مرد کبھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا اپنی بیوی کے ساتھ۔میں نے پہلے جو کچھ بھی کہا وہ اس لئے کیوں کہ میں بے یقینی کی حالت میں تھا۔میں نے کبھی تمہیں اس نظر سے نہ دیکھا تھا نہ ہی سوچا تھا۔ پر اب جب کہ ہمارا نکاح ہو چکا ہے ہم دونوں ایک پاک بندھن میں بندھ چکے ہیں تو میرے دل نے گوارا نہیں کیا کہ تم سے ایسا سلوک کروں۔ میں سب باتیں بھول کر ایک نئی خوشگوار زندگی کی ابتدا کرنا چاہتا ہوں کیا تم اس میں میرا ساتھ دو گی ؟؟؟"

شیفان نے محبت بھرے لہجے میں کہتے اس کے حنائی ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے کر اس پراپنے لب رکھے۔ 

زوہان سے اس سب پر یقین کرنا مشکل تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ ایک حسین خواب !!!!

پھر اس نے شیفان کی طرف دیکھا جو محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے باری باری اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے لبوں سے چھو رہا تھا۔

یہ خواب نہیں حقیقت تھی۔ ایک دلکش حقیقت۔ جس پر زوہان کو ایمان لے آنا پڑا۔

وہ نم آنکھوں سے مسکراتی اثبات میں سر ہلا گئی۔ 

اس کے اقرار پر شیفان اس کے چہرے پر جھکا اور بے اختیار اس کے گلابی گالوں کی سرخی چرا گیا جو کب سے اسے تنگ کیے دے رہی تھی۔

اپنے گالوں پر اس کا سلگتا لمس محسوس کرتی وہ لرزتی پلکیں جھکا گئی۔

"کیا مجھے اجازت ہے ؟؟؟"

شیفان نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی تو اس کی مفہوم سمجھتی وہ كپكپاتے لب دانتوں تلے دباتی سر ہلا گئی۔ 

اگر وہ مہربان ہوا تھا تو وہ نا شکری کیوں کرتی ؟؟؟

اس کا اقرار ملتے وہ اس کے چہرے پر جھکا اس کی نرم گرم میٹھی سانسیں اپنے سینے میں اتار گیا۔

رات بھر وہ گھنے بادل کی طرح اپنی محبت و شدت کی برسات اس پر کرتا کھل کر برسا تھا۔ اس کی عنایتوں پر زوہان رشک کرنے لگی تھی۔ اگر وہ عزت اور نکاح کے دو بول کی خاطر اسے یوں کسی آبگینے کی طرف خود میں سینچ رہا تھا تو جب اس کی محبت میں ڈوبے گا تب کیا عالم ہو گا !!!!

دن یوں ہی سست روی سے گزر رہے تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے میلوں کی دوری پر رہ رہے تھے۔

اس نے رومیصہ کو منانے کی سر توڑ کوششیں کی تھیں لیکن وہ تھی کہ ساکت اور جامد بن کر رہ گئی تھی۔

اسے فائق نے بتایا تھا شیفان کی شادی کا اور اسے وہاں لے جانے کی آفر بھی دی لیکن اس نے واضح لفظوں میں انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ "یہ میرے وہی گھر والے ہیں جو میرے اغواہ کے دن سے لے کر آج تک مجھے ڈھونڈھ نہ سکے حالاں کہ ان کو نکاح نامہ بھی مل چکا تھا۔جب وہ مجھ سے پیچھا چھڑوآ چکے ہیں تو میں کون ہوتی ہوں ان کی زندگی میں دوبارہ دخل دینے والی۔"

اور اس کے یہ الفاظ سن کر فائق چپ کا چپ ہی رہ گیا۔ پھر آنے والے دنوں میں اس نے ہر ممکن کوشش کی تھی اس کی غلط فہمی دور کے کے اصل بات بتانے کی پر وہ کان لپيٹ چکی تھی۔

آج بھی وه پورے ہفتے کے بعد گھر واپس آیا تو وہ لان میں بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر فائق کے رگ و پے میں ایک سرور سا دوڑ گیا۔

لائٹ پرپل شلوار سوٹ پر سیم كلر کا دوپٹہ کاندھوں پر پهيلائے وہ شام کا دلکش حصّہ معلوم ہو رہی تھی۔ 

اس کی گود میں پاپ کارن سے بھرا باول پڑا تھا۔ وہ گاڑی پارک کرنے کے بعد سیدھا اس کے پاس ہی چلا آیا۔

"السلام علیکم!!! کیسی ہیں آپ ؟؟"۔

س کی بھاری آواز اپنے قریب سن کر وہ ایک دم چونک اٹھی پھر دھیرے سے سلام کا جواب دیا البته اسکے سوال کو سرے سے نظر انداز کر گئی۔

"میں نے غالباً آپ کا حال بھی دريافت کیا ہے !!!"

اس کی گود میں دھرے مومی ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیتے نرمی سے سہلاتا پوچھنے لگا۔

"میں ٹھیک ہوں !"

مختصر سا جواب دے کر وہ خاموش ہو گئی پر ہاتھ اس کی گرفت سے نہیں چھڑوایا کیوں کہ جانتی تھی کہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔وہ ہر صورت اپنی ہی منمانی کرے گا۔

"آپ نے میرا حال نہیں پوچھا اور نہ ہی یہ پوچھا کہ میں اتنے دن کہاں تھا ؟؟"

اس کے سوال پر لب بھینچ گئی۔

"انسان ہمیشہ اس چیز کے بارے میں علم رکھنا پسند کرتا ہے جس کی اسے چاہت محسوس ہو یا پھر کمی۔میری طرف ایسی کوئی صورت نہیں پھر کیوں ایسا سوال کروں ؟؟"

وہ الٹا اس سے سوال کر گئی تھی۔اس کے سرد الفاظ اور انداز پر فائق ایک بے بسی بھرا سانس خارج کر کے رہ گیا۔

"کیا چاہتی ہیں آپ ؟؟ اس طرح اپنے ظالم الفاظ سے کیوں میرا سینہ چھلنی کرتی ہیں ؟؟"

وہ تھک گیا تھا اس کی سرد مهری برداشت کر کر کے۔

"آپ نے کیوں افگن بلوچ کا سینہ چھلنی کیا تھا کیا میں نے کبھی آپ سے یہ سوال کیا ؟؟"

اس کے ٹھنڈے ٹھار انداز پر وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔

"میں تو صرف الفاظ کا استعمال کرتی ہوں جب کہ آپ نے گولیوں بھری بندوق کا استعمال کیا تھا۔پر کیا میں نے کبھی سوال کیا ؟؟"

اس نے اپنی بے نور کانچ سی آنکھیں اس کے وجود پر گاڑھیں تو فائق کو لگا جیسے وہ حقیقت میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھی ہے۔

اس کے کسی بھی سوال کا جواب دے بغیر وہ جھکا اور باری باری اس کے دونوں ہاتھوں کی نازک ہتھیلیوں پر اپنے لب رکھ گیا۔

رومیصہ کو اپنی ہتھیلیاں اس کے لمس سے جلتی ہوئی محسوس ہوئیں پر وہ مذاحمت کیے بغیر یوں ہی بیٹھی رہی۔ 

اس کی کسی بھی پیش قدمی پر مزاحمت کرنا وہ بہت دیر سے چھوڑ چکی تھی۔

"کیا آپ کو مجھ پر ترس نہیں آتا ؟؟"

سوال میں بے بسی ہی بے بسی تھی۔ وہ جو سوچتا تھا کہ مرد کبھی بے بس نہیں ہوتے اس کی سوچ بری طرح سے رد کر دی گئی تھی۔

"کیا ایسا ہی سوال کبھی میں نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو افگن بلوچ پر ترس نہیں آیا تھا ؟؟"

اس کے سوال پر فائق کی آنکھیں زخمی ہو گئیں . کس قدر ظالم تھی وہ۔

وہ تھوڑا آگے کو كهسكا اور اس کے ہاتھ چھوڑ کے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر گیا۔

"فائق چودھری آپ کے لفظوں کے تیر خوش دلی سے اپنے سینے پر برداشت کر سکتا ہیں ۔ میری کل اثاثہ ہیں آپ۔"

وہ جھک کر اس کی پیشانی پر لب رکھتا وہیں ٹھہر گیا۔ سکون سے آنکھیں بند کیے اس کی جبین پر اپنے لب دھرے وہ اس کی ذات سے سکون حاصل کر رہا تھا۔

"میں نے اگر آپ کو خود سے دور کیا تو آپ کی کمی میرے وجود کو کھوکھلا کر دے گی۔ اس قدر ضروری ہیں میری حیات کے لئے آپ !!"

ماتھے سے لب ہٹا کر اس کی ٹھوڑی پر جما گیا اور اس کو باہوں میں بھرے اس کے وجود کی گرمی کو محسوس کرنے لگا۔

"پر مجھے اپنی نہیں آپ کی حیات چاہئے۔ آپ کی بقا میں ہی میری حیات پوشیدہ ہے۔ آپ سلامت رہیں گی تو آپ کے بغیر بھلے میں جینا چھوڑ دوں مگر کم از کم سانسیں تو چلتی رہیں گی نا"

بوجھل آواز میں کہتے وہ جھک کر اس کی گردن چومنے لگا۔

"میں اپنے . قرب میں آپ کو مرجھاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ آپ کی حیات کا طلبگار ہوں اس لئے میں آپ کو آزاد کر رہا ہوں۔"

وہ اسے خود میں قید کر گیا۔

"اس رشتے سے نہیں بلکہ اپنے قرب سے۔ اگر آپ مجھ سے دور رہ کر خوش ہیں تو آپ کی خوشی پر میری ہر آتی جاتی سانس بھی قربان !!!!"

وہ اب جھک کر اس کے کندھے پر بوسہ دے رہا تھا۔

رومیصہ سن رہ گئی۔ آخر کیا کچھ نہیں تھا اس بوسے میں۔محبت ، عزت  ، اهترام !!!

وہ آہستگی سے پیچھے ہٹا اور اس کا چہرہ ہاتھوں بھرے بغیر اسے ایک بھی لفظ ادا کرنے کا موقع دیے اس کی سانسوں کی خوشبو خود میں اتار گیا۔ اس کے لمس کی نرمی سے رومیصہ کا دل پگھلنے لگا پر وہ اس کے موم ہونے سے پہلے ہی اس پر قابو پا گئی۔

اس کی سانسیں محبت و نرمی سے خود میں اتارنے کے بعد وہ پیچھے ہٹا اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔

اس کی آنکھوں میں نمکین گرم پانی تیر رہا تھا جسے دیکھنے یا محسوس کرنے سے سامنے بیٹھا وجود قاصر تھا۔

وہ اسے بھی کندھوں سے تھام کر اٹھا گیا۔ایک ہاتھ سے سختی سے اپنی آنکھیں مسلی اور پھر بولنا شروع ہوا۔

"اتنے مہینے میں اگر اپ کے دل میں میرے لئے محبت تو کیا نرمی بھی نہ پیدا ہو سکی تو آگے کیا ہو گی۔بہت ظلم کیا میں آپ پر آپ کو آپ کے گھر والوں سے جدا کر کے جس کا پچھتاوا شاید زندگی بھر رہے پر ہو سکے تو زندگی کے کسی مقام پر معاف کے دیجئے گا۔"

وہ ساکت کھڑی اس کی بھاری پڑتی آواز میں ادا لئے گئے الفاظ سن رہی تھیں۔

"پر میں آپ کو اس رشتے سے آزاد نہیں کر سکتا۔نہ آج نہ آگے جا کر کبھی۔ اپ کی زندگی میری امانت ہے اور رہے گی۔ اس معاملے میں آپ مجھے خود غرض سمجھ سکتی ہیں۔ ملازمہ سے کہتا ہوں آپ کی تیاری میں مدد کر دے۔ کل صبح آپ کو آپ کی هویلی چھوڑ آؤں گا۔"

بھاری آواز میں کہتے وہ ایک مرتبه پھر جھک کر اس کا کندھا چوم گیا پھر اسے یوں ہی کھڑا چھوڑ کر اندر بڑھ گیا۔

اسے آزادی کا پروانا تهما کر خود کو قید کرنے چل دیا۔

@@@@@

اورهان کے جانے کے بعد وہ موبائل پر ڈرامہ دیکھنے لگی۔ ڈرامہ گهریلو معاملات پر بنا تھا اور کافی دلچسپ لگ رہا تھا۔ابھی اس نے دو اقساط ہی دیکھی تھیں جب دروازہ ناک ہوا۔

"آ جائیں !!!"

اس کی اجازت ملتے ہی سکینہ اندر داخل ہوئی۔

*بی بی جی آپ کے مہمان آئے ہیں نیچے۔"

ملازمہ کی اطلاع پر صاحبہ چونک اٹھی۔اس کے کون سے مہمان یہاں آ سکتے تھے۔ننهيال والوں کے علاوہ اس کا کوئی جاننے والا نہ تھا اور وہ لوگ تو مر کر بھی یہاں قدم نہ رکھتے۔

یہی سوچتے اس نے شیشے کے آگے کھڑے ہو کر ایک نظر اپنے سراپے پر ڈالی اور مہمان خانے کی طرف چل دی۔

جیسے ہی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اس کی نظر سامنے بیٹھی ایک انجان لڑکی سے ٹکرائی جو ٹانگ پر ٹانگ رکھے بڑی شان سے بیٹھی تھی۔ صاحبہ نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اس لڑکی کو پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی۔

سیاہ پنڈلیوں تک جاتی چست پینٹ پر سفید بامشکل کمر کو ڈھانپتی شرٹ پہنے ڈارک میک اپ پر بال پشت پر بكهيرے وہ لڑکی صاحبہ کو ناگواری کا احساس دلا گئی۔

"السلام علیکم!!! سوری پہچانا نہیں آپ کو۔"

وہ اس کے مقابل صوفے پر بیٹھی تو وہ انجان لڑکی ایک ادا سے مسکرانے لگی۔

"سیلینا کہتے ہیں مجھے۔ پر اورهان پیار سے سیلی کہتا ہے!!"

اس کے منہ سے یوں اورهان کا ذکر سن کر صاحبہ کا دماغ جهنجهنا اٹھا۔

"ایکسکیوز می ؟؟ آپ کیسے جانتی ہیں اورهان کو ؟؟"

صاحبہ کے ناگواری سے پوچھنے پر سیلینا پورے دل سے مسکرا دی۔

"ارے تمہیں اورهان نے بتایا نہیں میرے بارے میں۔ چچ چچ !!! چلو اس نے نہیں بتایا تو میں خود بتا دیتی ہوں۔"

پہلے حیرت کا اظھار کرتی وہ آخر میں رازداری سے اس کے قریب جھک گئی۔

"اورهان کی خدمت گزار ہوں میں۔ جب شہر میں ہوتا ہے تو مجھ سے ہی خدمات لیتا ہے۔ خاص خدمات !!! سمجھ رہی ہو نا ؟؟"

وہ بے باک اشارہ کرتی بولی تو ایک پل کو صاحبہ کا چہرہ فق ہو گیا اگلے ہی پل وہ اس کے چہرے پر جھپٹ پڑی۔

"کمینی عورت تمہاری ہمّت بھی کیسے ہوئی میرے سردار کے خلاف ایسی بکواس کرنے کی میں تمہارا منہ نوچ لوں گی !!!"

وہ غصّے سے چیختی اس کے بال کھینچنے لگی۔ 

رخسار بیگم کو کسی ملازمہ نے اطلاع دی تو وہ هانپتی ہوئی وہاں آئیں پر سامنے نظر آتا منظر دیکھ کر بوکھلا گئیں۔

وہ تیزی سے اگے بڑھی اور صاحبہ کو پیچھے کرنے لگیں۔

"چھوڑو صاحبہ یہ کیا پاگل پن ہے !!!"

وہ بہت مشکل سے اس لڑکی کو صاحبہ کی گرفت سے چھڑاوا کر پیچھے ہوئیں۔ 

سیلینا کا حلیہ بگڑ چکا تھا۔ بالوں کا گھونسلا بن چکا تھا اور چہرے پر ناخنوں کے نشانات تھے جن میں سے اکثر میں سے خون رسنے لگا تھا اور وہ رونے والی ہو چکی تھی۔

"یہ کیا کر رہی ہو دماغ ٹھیک ہے تمہارا اور کون ہے یہ لڑکی ؟؟"

ان کے سوال پر صاحبہ نے خونخوار نظروں سے سیلینا کی جانب دیکھا۔

"یہ لڑکی میرے سامنے کھڑی بکواس کر رہی ہے کہ یہ شہر میں سردار کی خاص خدمت گزار ہے جو انھیں اینٹرٹین کرتی ہے اپنے اس بےہودہ لباس اور اداؤں سے۔"

اس کی بات پر رخسار بیگم نے اس کے سرخ چہرے سے نظریں ہٹا کر سیلینا کی طرف دیکھا۔

"کیا بکواس ہے یہ لڑکی تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی ہماری هویلی آ کر ہمارے بیٹے کے بارے میں ایسی بکواس کرنے کی۔"

انہوں نے سیلینا کا بازو جھنجھوڑ کر پوچھا تو وہ غصّے سے ان کا ہاتھ جھٹک گئی۔ رخسار بیگم لڑکھڑا کر گرنے لگیں جب صاحبہ تیزی سے انہیں سہارا دے گئی۔

"مجھ پر چیخنے چلانے سے اچھا ہے کہ آپ دونوں اورهان سے ہی اس متعلق پوچھیے گا۔ ہنہہ!!! سائکو فیملی !!!"۔

نخوت سے کہتی وہ بال ہاتھ سے درست کرتی باہر کی طرف بڑھ گئی۔

صاحبہ نے رخسار بیگم کو صوفے پر بٹھایا اور ان کے لئے گلاس میں پانی ڈالنے لگی۔ پانی ڈال کر ان کو پکڑایا تو وہ چپ چاپ گلاس تھام کر لبوں سے لگا گئی۔

"آپ پریشان مت ہوں فضول بکواس کر رہی تھی یہ سردار کے متعلق۔ وہ آتے ہیں تو ہم انھیں اس بارے میں آگاہ کر دیں گے پھر وہ خود ہی اس معاملے کو سلجھا لیں گے۔"

صاحبہ کی بات پر انہوں نے هنكار بھرتے سر ہلایا اور وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔

صاحبہ نے گہرا سانس لیا اور خود بھی اپنے کمرے کی طرف چل دی پر اس کا دماغ بری طرح الجھا ہوا تھا۔

"بھابھی کیا میں اندر آ سکتی ہوں ؟؟؟"

وہ جو ابھی نہا کر باتھ روم سے نکلی تھی کمرے کے دروازے میں کھڑی زوہان کی بات سنتے نفی میں سر ہلا گئی۔

"کتنی بری بات ہے زوہان اب تم اپنی بہن کے کمرے میں آتے ہوئے بھی اجازت طلب کرو گی ۔ ویری بیڈ !!!"

وہ افسوس سے بولی تو زوہان مسکراتی ہوئی کمرے میں داخل ہو گئی۔

"سوری میری پیاری بھابھی جان آئینده اس بات کا خیال رکھوں گی۔"

وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی صاحبہ کے گلے میں باہیں ڈالتی مسکرا کر بولی تو صاحبہ بھی مسکرا دی۔

"میں نے تمہیں بہن کہا ہی نہیں سمجھا بھی ہے۔ تم مجھے بھابھی کہتی ہو اس بات پر میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا پر میں چاہتی ہوں تم مجھے بہن ہی سمجھو اور مانو نہ کہ بھابھی !!!"

وہ هلكی سی خفگی سے بولی تو زوہان مسکرا کر سر ہلاتی پیچھے ہٹی اور اسے بازو سے تھام کر بیڈ کی طرف کے گئی۔

"اچھا یہ سب چھوڑیں بہت ضروری بات کرنے آئی ہوں میں !!!"۔

اس کی بات پر صاحبہ نے نہ سمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

"خیریت ہے نا !!!"

اس کے لہجے میں پریشانی سمٹ آئی تھی۔

"ہاں جی بلکل خیریت ہے میں بس لالا کی برتھ ڈے کے بارے میں بات کرنے آئی تھی۔ کل لالا کا برتھد . ڈے ہے نا !!!"

اس کی بات پر صاحبہ بھر پور انداز میں مسکرا دی۔

"ہاں میں جانتی ہوں !!!"۔

اس کی بات پر زوہان کی آنکھیں چمکی اور وہ صاحبہ کے مزید قریب كهسك آئی۔

"تو پھر آپ نے کیا سرپرائز پلان کیا لالا کے لئے ؟؟"

اس کے سوال پر صاحبہ اسے پھر سے نہ سمجھی سے دیکھنے لگی۔

"کیسا سرپرائز ؟"

اس کے سوال پر زوہان ماتھا پیٹ کر رہ گئی۔

"اف بھابھی آپ تو ایکسٹرا ہی سیدھی ہیں۔ آپ کے سرتاج کا جنم دن ہے کل۔ آپ کو چاہئے کہ آج کی رات انھیں اچھا سا سرپرائز دیں تا کہ وہ خوش ہو جائیں آپ کی اس عنایت سے ۔"

وہ اسے بڑوں والے انداز میں سمجھانے لگی۔

"پر میں نے کبھی کسی کو سرپرائز نہیں دیا اس لئے مجھے اس سب کے بارے میں کوئی علم نہیں ۔"

وہ بے چارگی سے بولی تو زوہان نفی میں سر ہلا کر رہ گئی۔

"بھابھی میں کس لئے ہوں۔میں بتاتی ہوں نا آپ کو اب بس غور سے سنتی جائیں !!!"

وہ پر جوش ہوتی صاحبہ سے بولی تو صاحبہ سر ہلاتی غور سے اسے سننے لگی پھر جوں جوں وہ بولتی گئی صاحبہ کا چہرہ سرخ پڑتا گیا۔

"تم کتنی بد تمیز ہو زوہان۔میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنے والی !!!"

وہ لجاتی زوہان کے کندھے پر ہاتھ مار کر بولی تو زوہان قہقہہ لگا کر ہنس دی۔

"بھابھی جان کیا آپ نہیں چاہتی کہ آپ کے سرتاج گوڈے گوڈے آپ کے عشق میں ڈوب جائیں؟ اگر چاہتی ہیں تو میرے اس پلان پر عمل کر لیں یقین جانیں دعائیں دیں گی بعد میں۔ویسے بھی آپ نے اپنے سرتاج کے لئے یہ سب کرنا ہے کسی غیر کے لئے تھوڑی۔"

وہ اسے سمجهاتی بولی تو کچھ سوچتے صاحبہ دھیرے سے سر ہلا گئی۔

"پر اس سب کے لئے جو سامان چاہئے اس کا انتظام کیسے ہو گا ؟؟"

صاحبہ کو ایک اور پریشانی لاحق ہوئی۔

"وہ سب آپ مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ تھوڑی ہی دیر میں آپ کو سب سامان مل جاۓ گا۔"

وہ اسے تسلی دیتی بولی تو صاحبہ مطمئن ہو گئی۔

"اور لالا کو رات دیر تک کیسے باہر رکھنا ہے اس کی زمہ داری بھی میری۔"

اس کے مزید کہنے پر صاحبہ پر سکون ہو گئی۔

"زوہان یہ ٹھیک تو لگے گا نا ؟"

وہ دل میں موجود کسی جھجھک کے زیر اثر پوچھنے لگی تو زوہان اس کے دونوں ہاتھ تھام گئی۔

"آپ پر سکون ہو کر جیسا کہا ہے ویسا کریں اور پھر دیکھئے گا لالا کو سب کتنا پسند آتا۔"

زوہان اسے یقین دہانی كرواتی بولی تو صاحبہ مسکرا کر اس کا ہاتھ تهپتهپا گئی۔

@@@@@

وہ صاحبہ کے ساتھ گھنٹہ گزارنے کے بعد کمرے میں واپس لوٹی تو کمرہ خالی تھا البتہ باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔

وه حیران ہوئی کیوں کہ شیفان اتنی جلدی گھر واپس نہیں لوٹتا تھا۔

باتھ روم کے بند دروازے  پر ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ ڈریسنگ کی طرف بڑھی اور ایک بھر پور نگاہ شیشے میں نظر آتے اپنے سراپے پر ڈالی۔ 

سب سے پہلے جوڑے میں بندھے بال کھولے اور ان میں برش پهيرنے لگی۔ بال سنوارنے کے بعد آدھے بالوں کو کیچر میں باندھ دیا جب کہ باقی پشت پر کھلے چھوڑ دیے۔

اس کے بعد چہرہ کی طرف بڑھی اور هلكی سی کریم چہرے پر لگانے کے بعد آنکھوں میں کاجل ڈالنے لگی۔ آخر میں لبوں پر ڈارک پنک لپ سٹک لگائی اور اپنی تیاری مکمل کرتے سامنے پڑی پرفیوم خود پر بے دریغ چھڑکنے لگی۔ ابھی وہ فارغ ہو کر بیڈ کی طرف بڑھی ہی تھی کہ باتھ روم کا دروازہ کھلا اور شیفان کمرے میں داخل ہوا۔ اس پر نظر پڑتے ہی وہ بھر پور انداز میں مسکرا دیا۔

"کیسی ہے میری کیٹی ؟؟"

اس کی طرف بڑھتا وہ اسے دھیرے سے اپنے ساتھ لگاتا اس کے بالوں کو لبوں سے چھو گیا۔

"میں ایک دم فٹ آپ کیسے ہیں؟ خیریت آج اتنی جلدی واپس لوٹ آئے آپ ؟"

اس کے استفسار پر شیفان آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھنے لگا۔

"کیوں میرا جلدی آنا اچھا نہیں لگا کیا ؟؟"

اس کے سوال پر وہ آنکھیں گھما کر رہ گئی۔

وه اسے ساتھ لئے صوفے کی طرف بڑھا اور اسے صوفے پر بیٹھانے کے بعد اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔

"آج بہت تھک گیا ہوں اور بس سکون چاہتا ہوں۔ اس لئے واپس چلا آیا گھر۔"

اس کی بات پر زوہان اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔

"پوچھنا تو مجھے تم سے چاہئے کہ آج خیریت ہے نا جو یوں سج سنور کر میرے ہوش اڑانے کی تیاری کر کے بیٹھی ہو۔"

اس کی بات سنتے زوہان کی پلکیں جھک گئیں۔ وہ اسے بتاتی کہ وہ دن رات اسے اپنا اسیر کرنے کے جتن کر رہی تھی۔

وہ ایک نارمل میاں بیوی کی طرف زندگی گزار رہے تھے۔ شیفان اسے بہت عزت دیتا تھا اس کا بہت خیال رکھتا تھا اور اس کی ہر بات پر لبيك کہتا تھا پر زوہان کے مطابق اس کے دل میں اب تک زوہان کی محبت نہیں پیدا ہو سکی تھی اور وہ اسی محبت کے حصول کے لئے لاکھ جتن کرتی تھی۔

"ماں کہتی ہیں کہ بیوی کو سجا سنورا دیکھ کر مرد کی آدھی تهكان دور ہو جاتی ہے۔"

وہ اس کے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلاتی نظریں جھکا کر بولی تو شیفان آنکھیں بند کر گیا کیوں کہ اس کے بالوں میں چلتی زوہان کی انگلیاں  اسے بہت سکون پہنچا رہی تھی۔

"بڑی ماں کی اس بات سے سخت اختلاف ہے مجھے!!"

اس کی بات پر زوہان نے چونک کر سر اٹھایا۔ پھر اگلے ہی پل اس کی بات سمجھتےاس کا چہرہ مرجھا گیا۔ دل بے ساختہ ہی اداس ہو گیا۔

"کیوں کہ ۔۔ ۔۔"

اس کے بات جاری کرنے پر زوہان نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا جو گہری نظریں اس پر جمائے بیٹھا تھا۔

"یوں میرے لئے سج سنور کر تم میری آدھی نہیں بلکہ مکمل تھکن دور کر چکی ہو اس پر متضاد تمہاری یہ قربت!!!"

اس کی گھمبیر سرگوشی پر زوہان کا چہرہ کانوں تک لال پڑ گیا۔

وہ ہاتھ بڑھاتی اپنا ہاتھ اس کی شوخ نظروں پر جما گئی تو شیفان کھل کر ہنس دیا۔

"نہ دیکھوں تو بے چین بھی ہوتی ہو اور نظر بھر کر دیکھوں تو میرا ہی چین لیتی ہو !!!"

کہنے کے ساتھ وہ اپنی آنکھوں سے اس کا نازک ہاتھ ہٹاتا اسے اسی ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ گیا۔

زوہان کا چہرہ شیفان کے چہرے کے نزدیک ترین ہوا تو وہ بوکھلا کر اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی پیچھے ہٹنے کی کوشش کرنے لگی پر وہ اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچتا اس کی معمولی سی کوشش کو ناکام بنا گیا۔

"دور جانے پر بوکھلاتی بھی ہو اور قریب آنے پر شرماتی بھی ہو۔ ایسا کیسے چلے گا میری جان !!!"

اس کے الفاظ زوہان کو چہرہ چھپانے پر مجبور کر گئے تو وہ اسی کے سینے میں منہ چھپا گئی۔

اس کے یہ بدلے انداز و اطوار اس کے جسم میں پهريری دوڑا گئے۔

"کیٹی !!!"

اس کی روح میں اترتی جان لیوا سرگوشی پر زوہان تھرا اٹھی۔

"جج۔۔۔۔جی !!!"

بہت مشکل سے ہمت جمع کر پائی وہ اس کی پکار کا جواب دینے کے لئے۔

"جانتی  ہو نکاح کے بعد شادی کی پہلی ہی رات میں نے تمہیں کیوں خود سے قریب کر لیا ؟ کیوں تمہیں دهتکارا نہیں ؟"

اس کے سوال پر زوہان نے چونک کر سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ واقعی وہ اس سوال کا جواب جاننا چاہتی تھی۔تبھی نفی میں سے ہلا گئی۔

"میں نے ہمیشہ سے تمہیں ایک چھوٹی بچی کی طرح ٹریٹ کیا تھا۔تم میں اور رومی میں کبھی فرق نہیں کیا۔ تمہیں کبھی اس نظر سے دیکھا ہی نہیں ہے تھا۔"

وہ بول رہا تھا اور زوہان سانس روکے اس کو سن رہی تھی۔

"پھر لندن میں میری ایک لڑکی سے دوستی ہو گئی۔لیلیٰ نام تھا اس کا۔یہ دوستی بعد میں محبت میں بدل گئی اور ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔"

اس کی بات پر زوہان لب دانتوں تلے دبا گئی۔ضبط کی انتہا تھی یہ۔اپنے محبوب کے لبوں سے اس کے محبوب کا ذکر سننا۔

"پھر میرے ایکسیڈنٹ کے بعد اسے احساس ہو گیا کہ وہ ایک معذور انسان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی اس لئے اس نے مجھ سے راستہ جدا کر لیا۔"

اس کی سنجیدگی محسوس کرتے زوہان نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ اس کے گال پر رکھا تو شیفان وہی ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا گیا۔

"محبت نامی جذبے سے اسی دن دل اٹھ گیا تھا۔پھر جب پاکستان واپس آیا اور ایک دن تمہیں اور رومی کو باتیں کرتے سنا اور پھر تمہارا اظہار محبت ۔۔۔۔میرا دماغ ماؤف ہو کر رہ گیا تھا۔تم بہت بری لگنے لگی تھی مجھے کہ جس کو ہمیشہ سے بھائی کہا اسی سے محبت کا اظہار کر دیا۔ شادی کے فیصلے کے بعد بھی میں نے یہی سوچا تھا کہ تم ساری زندگی میری نفرت سہتے ہوئے ہی گزارو گی۔ اپنی نفرت سے تمہاری زندگی اجیرن کر دوں گا۔"

زوہان کی آنکھوں میں نمی چمک اٹھی۔

"پھر مہندی کی رات میں نے ٹھنڈے دماغ سے سب سوچا۔ اپنا رويا دیکھا تو خود سے ہی نفرت محسوس ہوئی۔میں کس حق سے تمہارے ساتھ ایسا رويا روان رکھ رہا تھا۔محبت کرنا گناہ تو نہیں۔میں نے بھی تو محبت کی تھی۔اگر تم نے مجھ سے محبت کر لی تو کون سا گناہ کر لیا جس کی اتنی بڑی سزا دیتا تمہیں۔محبت سوچ کر اپنی مرضی سے تھوڑی کی جاتی ہے۔ یہ تو بس ہو جاتی ہے۔ اچانک سے خود بہ خود !!!! اور ایک اصلی مرد کیسے عورت کو زد کوب کر سکتا ہے۔جو مرد عورت پر چڑھائی کرتا ہے وہ ماردانگی کے درجے سے گر جاتا ہے۔ پھر میں نے خود سے وعدہ کر لیا کہ سب کچھ بھول کر تمہارے ساتھ ایک سکون بھری زندگی کی شروعات کروں گا۔ ہمارے رشتے کو ایک موقع دوں گا۔ محبت تو تم سے اب بھی کرتا ہوں۔محبت کی کون کا ایک قسم ہوتی ہے۔بھلے اس رشتے کے حوالے سے محبت نہ کی ہو پر بچپن سے اپنی کیٹی سے محبت تو کی ہے نا۔"

وہ ایک بار پھر سے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا گیا۔

"اور مجھے یقین ہے تمہاری وفا، محبت اور یہ نازک ادائیں بہت جلد  مجھے تم سے جنوں خیر محبت کرنے پر مجبور کر دیں گی۔"

اپنے الفاظ ادا کرنے کے ساتھ وہ اسے خود پر جھکاتا اس کی سانسوں کو اپنے نرم گرم لمس سے مہکانے لگا۔ اس کی گرفت کی نرمی بھری شدت زوہان کی جان لینے کے در پر تھی۔

چند پل کے بعد وہ پیچھے ہٹا اور اس کے کندھاری چہرے کو دیکھتا بھر پور انداز میں مسکرا دیا۔

وہ صوفے سے اٹھا اور بغیر ایک لفظ بھی بولے اسے اپنی باہوں میں بھر کر بیڈ کی طرف قدم بڑھا گیا۔

اسے بیڈ پر ڈالنے کے بعد خود اس پر جھک آیا تو اس کے ارادے سمجھتی زوہان بوکھلا اٹھی۔

"شش۔۔۔شیفان آپ ۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنا مدعا بیان کرتی وہ اس کے نازک لبوں پر انگلی دھر گیا۔

"ہشش۔۔۔۔مجھے اس پل صرف اور صرف سکون چاہئے جو کہ تمہاری قربت میں چھپا ہے۔"

اپنی بات مکمل کرتا وو کمرے کی بتی گل کرتا اسے اپنے حصار میں قید کر گیا اور بھلا زوہان کو کیا مسلہ ہو سکتا تھا۔وہ تو تا عمر اس حصار میں قید رہنا چاہتی تھی۔

وہ نیند کی وادی میں جانے ہی والی تھی جب اسے بیڈ کی دوسری طرف کسی وجود کی موجودگی کا احساس ہوا۔اسے اچھے سے اندازہ تھا کہ اس پہر اس کے ساتھ کون ہو سکتا ہے۔

"سو گئی ہیں کیا ؟؟"

فائق کے دھیمے لہجے میں پوچھے گئے سوال پر وہ نا چاھتے ہوئے بھی آنکھیں کھول گئی۔

"نہیں ، جاگ رہی ہوں فلحال !!!"

وہ کروٹ بدلے بغیر بولی تو فائق اس کی پشت پر گہری نظریں جما گیا پھر دل میں نہ جانے کیا سمائی کہ ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی طرف کھینچ گیا .

"کیا مسلہ ہے ؟"

رومیصہ کی پشت فائق کے سینے سے ٹکرائی تو وہ جهنجهلا کر بول اٹھی۔

اس کے سوال پر وه کوئی بھی جواب دیے بغیر اسے بازو سے تھام کر اس کا رخ اپنی طرف موڑ گیا۔اس کا سر اٹھا کر اپنے بازو پر رکھنے کے بعد اس کے چہرے پر اپنی گہری نظریں جما گیا۔

اس کی کانچ سی آنکھوں پر جھک کر لمس چھوڑتا اسے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر گیا۔

"میں نے بہت محبت کی ہے آپ سے۔"

گھمبیر آواز میں کہتا وہ جھک کر اس کے نرم و نازک گالوں پر اپنے لب رکھ گیا۔

" تین سال بغیر آپ کو ایک نظر بھی دیکھے آپ کے خیال سے بے تحاشا محبت کی ہے۔"

جھک کر اس کی کھڑی ناک پر اپنا لمس چھوڑا۔

"عقیدت بھری محبت !!!!"

ماتھے پر گرے بال نرمی سے ہٹا کر وہاں عقیدت بھرا لمس چھوڑا۔

رومیصہ کبھی اس کی پیش قدمی پر اسے روکتی نہیں تھی۔ نہ جانے کیوں ؟ ہمیشہ کی طرح آج بھی خاموش ہی رہی۔

اسے یوں ہی خاموش دیکھتے وہ اس کی گردن میں منہ چھپا گیا۔ اس کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے آج پہلی دفعہ رومی کا دل گھبرانے لگا۔اسے لگا جیسے اس کا سانس بند ہو جاۓ گا۔

وہ دھیرے سے كسمسائی تو فائق اس پر اپنی گرفت سخت کرتا اس کی خوشبو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا۔

"پلیز !!!"

وہ ایک دم بول اٹھی تو فائق سر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا جو سرخ پڑ چکا تھا۔ نہ جانے اس کی قربت کی وجہ سے یا پھر ضبط کی وجہ سے۔

"اتنی ظالم تو مت بنیں۔آج کی رات آخری رات ہے جس میں آپ کی قربت اور آپ کا یہ لمس محسوس کر پا رہا ہوں۔۔نہ جانے اس کے بعد یہ موقع کب ملے۔ میں آج کی رات آپ کو بھر پور طریقے سے محسوس کرنا چاہتا ہوں۔کیا آپ مجھے اجازت دیں گی اپنی روح کی گہرائیوں میں اترنے کی؟؟"

اس کے سوال کے جواب میں ملی گہری خاموشی اسے اپنی بات کا جواب دے گئی تھی۔

"کوئی بات نہیں۔ آپ ایسا نہیں چاہتی تو میں بھلا کیسے آپ کی رضا کے خلاف جا سکتا ہوں۔"

وہ مسکراتے ہوئے اس کے گال سہلانے لگا۔

"میرے سابقہ شوہر کو میری مرضی سے قتل کیا تھا کیا ؟؟"

اس کے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں پوچھے گئے سوال پر فائق کو لگا جیسے شدید ٹھنڈ میں اس کے سر پر کسی نے برف والا پانی گرا دیا ہو .

"مجھے میری مرضی سے دن دیہاڑ اغوا کیا تھا کیا ؟"

فائق کو لگا جیسے وہ اب بول نہیں سکے گا۔ اس کے الفاظ سے زیادہ اس کے سرد اور بے تاثر لہجے نے اس پر کاری وار کیا تھا۔

"ہم دونوں نے نکاح میں بھی میری رضامندی شامل تھی کیا ؟ نہیں نا !!! پھر اپنے حقوق وصول کرتے ہوئے آپ کو میری مرضی جاننا ضروری کیوں لگا فائق چودھری ؟"

اپنے سوالوں کے جواب میں ملی گہری چپ نے اسے مسکرانے پر مجبور کر دیا پر اس کی مسکراہٹ میں کون کون سا تاثر چھپا تھا  اس سے فائق اچھے سے واقف تھا۔

"مجھے آپ سے کچھ بھی نہیں چاہئے پر کیا آج کی رات۔۔۔صرف آج کی رات میں آپ کے پہلو میں بسیرا کر سکتا ہوں ؟؟"

وہ اس کے بالوں کو کان کے پیچھے کرتا ملتجی لہجے میں بولا تو وہ خلاف توقع ایک دم اس کا حصار توڑتی بیڈ سے نیچے اتر گئی۔

فائق اس کی اچانک حرکت پر بھونچکا رہ گیا۔

"روما !!!"

وہ اٹھ کر بیٹھتا اسے پکار گیا پر وہ اس کی پکار کو نظر انداز کرتی ہاتھ سے ٹٹول کر بیڈ کے پاس پڑی سٹک پکڑتی کمرے سے باہر جانے لگی۔

اس کی حرکت پر فائق لب بھینچ گیا۔ آنکھیں سرخ انگارہ ہو گئیں۔ اتنے مہینوں سے وہ اس کا تلخ اور سرد رويہ برداشت کر رہا تھا جس کے جواب میں آج تک اسے پیار بھرا ایک لفظ یا تاثر بھی نہیں ملا تھا۔

اس نے تو سنا تھا کہ عورت بہت نازک اور نرم دل ہوتی ہے پر یہ کیسی عورت تھی جس کا دل نرم ہوتا ہی نہیں تھا۔

وہ اٹھ کر اس کے پیچھے آیا تو وہ دوسرے کمرے میں بیڈ پر دراز ہو رہی تھی۔ فائق کی آنکھیں بے بسی کے مارے نم ہو گئیں۔ دل کا درد جب حد سے سوا ہوا تو وہ جھٹکے سے مڑتا وہاں سے نکل گیا۔

اس کا قدم کمرے سے باہر جاتے محسوس کرتی رومیصہ کروٹ بدل گئی۔

"یا اللّه !!!"

اس کی لبوں سے سسكی نکل گئی۔

"یا اللّه مجھے معاف کر دینا۔ اپنے شوہر کو انکار کر کے میں نے بہت غلط کیا پر تو جانتا ہے میرے دل کا حال۔ میں منافقت کیسے کروں میرے مالک۔"

بے بسی سے کہتی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

دونوں کی رات یوں ہی آنکھوں میں کٹ گئی تھی۔

رات دیر سے سونے کی وجہ سے صبح اس کی آنکھ کافی دیر سے کھلی تھی۔ فریش ہونے کے بعد وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔وہ جانتی تھی کہ فائق اس وقت تک گھر سے چلا جاتا تھا اس لئے ایزی تھی .

پر وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی کمرے میں ہوتی کھٹ پٹ نے اسے چونکا دیا۔

صابرہ بی ؟؟ آپ ہیں کیا ؟؟"

وہ احتیاط سے بولتی آگے بڑھنے لگی۔

"جی بی بی جی میں ہوں۔"

صابرہ کے جواب پر وہ سر ہلاتی بیڈ کی طرف بڑھ گئی۔

"خیریت آپ یہاں ؟"

وہ نا سمجھی سے پوچھنے لگی۔

"صاحب نے کہا تھا کہ آپ کی پیکنگ کر دوں آپ کو اپنے مائیکے جانا ہے کچھ دیر تک۔"

اس کی بات پر رومیصہ کا چہرہ تن گیا۔وه بولنے لگی تب ہی اسے فائق کی آواز سنائی دی۔

"پیکنگ ہو گئی صابرہ بی ؟"

اس کی آواز سنتے رومیصہ لب بھینچ گئی۔

"جی صاحب ہو گئی۔"

اس کے جواب پر فائق سر ہلا گیا .

"ٹھیک ہے جائیں آپ !!!"

اس کی اجازت ملتے ہی صابرہ کمرے سے باہر نکل گئی۔

"ریڈی ہو جائیں آپ ڈرائیور آپ کو چھوڑ آئے گا پھر۔"

متوازن آواز میں کہتا وہ ڈریسنگ کے آگے کھڑا ہوتا بال بنانے لگا۔

"میری پیکنگ کس سے پوچھ کر کی گئی ہے ؟"

اس کی سرد آواز پر وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔اسے عادت ہو گئی تھی اس کے سرد رويے کی۔

"میں کل آپ کو بتا چکا ہوں کہ آج آپ یہاں سے جا رہی ہیں۔اس لئے پیکنگ کروائی۔"

اس کی بات پر رومی گہری سانس بھر کر رہ گئی۔

"آپ نے میری رضا پوچھی ؟"

اس کے سوال پر وہ سرد کا مسکرا دیا۔

"خود ہی تو کہتی ہیں آپ کہ میں نے کبھی کسی معاملے میں آپ کی رضامندی نہیں پوچھی تو پھر اب اس شکوے کا جواز تو نہیں بنتا اور آپ تو ویسے بھی اس قاتل سے جان چھڑوانا چاہتی ہیں۔پھر اب قباحت ہی کیا ہے یہاں سے جانے میں۔"

وہ خود کو لاپرواہ ظاہر کرتا بولا تو نہ جانے کیوں وہ تپ اٹھی۔

"صاف کہیں نا کہ جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔"

اس کا لہجہ تلخی کی آمیزش لئے ہوئے تھا۔

"جان وارنے والے جان چھڑوایا نہیں کرتے۔"

اسی کے انداز میں کہتا وہ اس کے چہرے پر نظریں جما گیا۔

"میں نے سوچ رکھا تھا کہ کبھی ان لوگوں کے پاس نہیں جاؤں گی جنہوں نے پلٹ کر کبھی میری خبر ہی نہ لی کہ ان کی بیٹی زندہ ہے یا مر گئی حالاں کہ میرے بھائی اتنے کمزور تو نہیں تھے جو اپنی بہن کو نہ ڈھونڈھ سکے اتنے لمبے عرصے میں پر اب ۔۔۔"

وہ پل بھر کے لئے رکی تو فائق کا سانس سینے میں اٹکا جیسے۔

"اب مجھے لگتا ہے میرا یہاں سے جانا ہی بہتر ہے۔ جس منزل کی طرف جانا نہ ہو اس کی طرف جاتے راستوں پر بھی بھٹکا نہیں کرتے۔"

اس کی بات پر فائق سرخ آنکھیں لئے اس کی طرف بڑھا۔

"فی ایمان الله!!!"

اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے اس کی سانسیں خود میں جزب کیں۔ چند لمحوں بعد پیچھے ہٹتا اس کے ماتھے پر لب دھر گیا پھر پیچھے ہٹا اور تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

"صابرہ جاؤ بی بی کو چادر دو تیار کروا کر باہر لے آؤ اور کلیم تم گاڑی نکالو اور جس مقام کا بتایا تھا بی بی کو باحفاظت وہاں چھوڑ آؤ۔راستے میں مجھ سے رابطے میں رہنا۔"

ملازمہ اور ڈرائیور کو باری باری پیغام دیتا وہ خود دوسرے کمرے میں بند ہو گیا۔

اسے لگا جیسے اس کی زندگی کا ایک جاندار باب بند ہو گیا ہو آج۔اور پھر ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ اسے اور اس کے گھر کو چھوڑ کر وہاں روانہ ہو گئی جہاں سے لائی گئی تھی۔

وہ نہا کر باتھ روم سے جس وقت باہر نکلی رات کے ساڑھے  گیارہ بج رہے تھے۔ شیفان نے نہ جانے اورهان کو کون سا کام سونپا تھا کہ وہ اب تک گھر سے باہر تھا اور صاحبہ کو کہہ چکا تھا کہ وہ کھانا کھا کر سو جاۓ وہ لیٹ ہو جاۓ گا۔

صاحبہ شکر کرتی تیاریوں میں جت گئی ضرورت کا سارا سامان زوہان منگوا کر اسے دے چکی تھی۔

کمرہ وہ تین گھنٹے لگا کر سجا چکی تھی بس اب خود کو سجانا باقی تھا۔

وہ شیشے کے آگے بیٹھتی خود کو سنوارنے لگی۔

جس وقت وہ مکمل تیار ہوئی  بارہ بجنے میں دس منٹ رہ گئے تھے۔ اس نے موبائل پکڑ کر اورهان کو کال ملائی۔

"السلام علیکم!!! کیسے ہیں آپ اور کہاں ہیں اب تک آئے نہیں ؟؟"

وہ اورهان کے کال اٹھاتے ہی شروع ہو گئی۔

"وعلیکم السلام زوجہ محترمہ اس ناچیز کو بھی بولنے کا موقع دیجئے۔"

وہ اس کی پے در پے سوالوں پر چوٹ کرتا بولا تو صاحبہ جھینپ گی۔

"میں هویلی آ چکا ہوں۔شیفان نے کچھ سامان منگوايا تھا شہر سے۔ اس کو کال کی ہے وہ آ رہا ہے کمرے سے باہر بس پھر آتا ہوں میں بھی کمرے میں۔"

وہ سیڑھیاں چڑھتا بولا تو صاحبہ اوکے کہتی کال بند کر گئی۔

جلدی سے کمرے میں لائٹ بند کی اور خود دروازے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔

اورهان اور شیفان کے کمرے ساتھ ساتھ ہی تھے۔اسے باہر سے دونوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔یقیناً شیفان اسے باتوں میں لگا رہا تھا۔

اس نے گھڑی پر نظر ڈالی تو بارہ بجنے میں صرف ایک منٹ رہ گیا تھا ٹھیک اسی وقت اورهان نے کمرے کا دروازہ کھولا تو صاحبہ اپنا سانس روک گئی۔

شیفان کو اس کا سامان دینے کے بعد وہ اپنے کمرے کے سامنے آ کھڑا ہوا۔آج وہ بہت زیادہ تھک چکا تھا۔بھوک بھی لگی تھی پر دل چاہ رہا تھا کہ کچھ بھی کیے بغیر بس بیڈ پر گر جاۓ۔ اس نے جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا سامنے نظر آتے منظر نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔

وہ شاک ہوتا کمرے میں داخل ہوا اور تفصیلی نظر سامنے نظر آتے نظارے پر ڈال گیا۔

کمرے کی چھت لال اور سیاہ غباروں سے ڈھکی ہوئی تھی۔سفید سنگ مر مر سے بنا فرش گلاب کی چادر تانے ہوئے تھا۔ کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہ تھا جو خالی ہو۔ کمرے کی چار دیواری کے پاس تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دیے جلا کر رکھے گئے تھے جن کی مدهم سنہری روشنی پورے کمرے میں پهيلی ہوئی تھی۔

جہازی سائز بیڈ پر سفید چادر بچھی ہوئی تھی جس پر گلاب کی پتیوں سے لکھے الفاظ واضح نظر آ رہے تھے۔

گلاب کی پتیوں سے بیڈ کے وسط میں بڑا بڑا "Love You Sardar"  لکھا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد ان ہی گلاب کی پتیوں سے دل بنایا گیا تھا۔بیڈ کی پشت پر سرخ اور سیاہ رنگ کے غبارے پھولوں کی ترتیب میں لگائے گئے تھے۔ بیڈ کی سائیڈ ٹیبلز جو کہ شیشے کی بنی ہوئی تھی ان پر بھی ہر سو پھلووں کی پتیاں بچھائی گئی تھیں جن کے چاروں کونوں پر دیے رکھے گئے تھے۔

بیڈ سے پھسلتی اس کی نظریں ڈریسنگ ٹیبل پر جا ٹکیں۔ ڈریسنگ کے شیشے کے سامنے بھی  گلاب کی پتیاں اور ان پر جا بجا دیے سجائے گئے تھے۔وہاں سے پھسلتی اس کی نظریں شیشے پر گئیں جہاں چھوٹے چھوٹے سٹکی نوٹس سے دل بنایا گیا تھا۔ وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں چلتا شیشے کے قریب گیا اور ان نوٹس پر لکھی عبارتیں پڑھنے لگا۔

"You are the sunshine of my life"

"You are my heartbeat"

"You are my forever, my always and my everything"

"You are the reason of my every single smile"

"I feel comfort, peace and happiness in your arms"

"You are the missing puzzle piece that completes me"

"My heart beats for you"

"You are the missing half of my heart"

"You make my heart skip a beat"

"Yor are my safe heaven "

"I love you to the back and moon".

وہ حیرت زدہ سا  ایک ایک لفظ کو پڑھ کر اپنے اندر اتار رہا تھا۔ اسے یقین ہی نہ آ رہا تھا کہ یہ سب صاحبہ نے کیا ہے اس کے لئے۔

اس سے پہلے کہ وه رخ موڑ کر اس کی تلاش میں نظریں گھماتا دو ہاتھ اس کی پشت سے ہوتے اس کے سینے پر آ ٹھہرے۔ اورهان نے نظریں جھکا کر دیکھا جہاں اس پر پیكر کے مومی ہاتھ بندھے تھے جب کہ اس کا نازک وجود اورهان کی پشت سے لگا تھا۔

اورهان اس کی ہمت کو داد دیتا گہرا مسکرا دیا پھر اس کے نازک ہاتھوں کو پکڑ کر ایک جھٹکا دیتا اسے اپنے سامنے کر گیا۔

اس پر نظر پڑتے ہی اورهان کا سانس سینے میں اٹک گیا جیسے۔ آنکھوں میں بے قابو جذبات آ سمائے تھے۔اس نے ایک تفصیلی نظر اس پر سر تا پیر ڈالی۔

"سیاہ تاروں سے جهلملاتی سیاہ ہی ساڑھی جس کی کرتی اس کی کمر سے کو ڈھانپ رہی تھی۔ بازو کندھوں سے تھوڑا نیچے تک تھے جب کہ کرتی کے گلے سے جھانکتی اس کی گردن کی خوبصورت ہڈیاں اورهان کی ساری توجہ كهينچ رہی تھیں۔وہ ہاتھ بڑھاتا اپنے انگوٹھے کو دھیرے سے اس کی بیوٹی بون پر پهيرنے لگا تو صاحبہ تھرا اٹھی اور کانپتے ہاتھوں سے کندھوں سے پھسلتے ساڑھی کے ریشمی پلو کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی جو پهسل پهسل جا رہا تھا۔

اس کے نازک بدن سے نظریں ہٹا کر اس کے چہرے پر ڈالی تو دل دھڑک اٹھا۔

جوڑے سے نکلتی لٹیں شہابی چہرے پر پهيلی ہوئی تھیں کاجل سے لبریز ہری آنکھوں سے نظریں پهسلتی ناک کی بالی سے ٹکرائی تو اورهان کا دل مچل اٹھا۔اس کے ناک کی بالی ہمیشہ اس کے حواس سلب کر لیتی تھی۔وہ بے اختیار ہوتا جھک کر اس کے ناک کی بالی پر لب دھر گیا۔ صاحبہ اس کے کالر کو اپنی گرفت میں لیتی آنکھیں بند کر گئی۔

وہ پیچھے ہٹا اور پیاسی نظریں اس کے سرخ لبوں پر جما گیا۔تشنگی تھی کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی اور دل تھا کہ بے قابو ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔ دل کی پکار پر لبیك کہتا وہ اس کے چہرے پر جھکنے لگا جب وہ لرزتے ہاتھ اس کے عنابی لبوں لب جما گئی۔ اورهان نے نہ سمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

"پہلے کیک کاٹ لیں پلیز !!!"

اس کی مدهم سی آواز پر وہ زیر لب مسکرا دیا تو وہ اس کا ہاتھ تھامتی کونے میں پڑے ٹیبل کی طرف لے آئی جہاں گلاب کی پتیوں کے درمیان سرخ کریم سے سجا ایک خوبصورت کیک رکھا ہوا تھا۔

کیک پر لکھی عبارت نے اورهان کو بھر پور انداز میں مسکرانے پر مجبور کر دیا۔صاحبہ نے اسے چھری پکڑائی تو وہ صاحبہ کے ہاتھ میں واپس چھری پکڑاتا اس کا نازک ہاتھ چھری سمیت اپنے مضبوط ہاتھ میں تھام گیا اور سرخ و سفید کریم سے سجا کیک کاٹنے لگا جس کے درمیان میں سفید کریم پر لکھا تھا "صاحبہ قربان اپنے صاحب پر "

وہ کیک کاٹ رہا تھا اور صاحبہ مسکراتے ہوئے گنگنا رہی تھی۔

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو، 

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو، 

ہیپی برتھ ڈے ڈیئر ہسبنڈ ،

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو!!!!

اورهان مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کیک کا چھوٹا سا پیس کاٹا اور صاحبہ کے ہونٹوں کے نزدیک لے گیا۔ صاحبہ نے تھوڑا سا کھا کر باقی اسے کھلانا چاہا تو وہ نفی میں سر ہلاتا گہری نظریں اس کے چہرے پر جما گیا۔

اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتی صاحبہ حیا سے سرخ پڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ اس کی نظروں سے چھپتی اسی کے سینے میں پناہ لیتی اورهان اس کی کمر پر ہاتھ جما کر اس کی کوشش ناکام بناتا اس کے چہرے پر جھک گیا۔ اس کی اور اپنی سانسیں ایک کرتا وہ اس کی جان لبوں پر لے آیا۔اس لے لمس کی گرمی سے سیراب ہوتی صاحبہ اس کی گردن کے گرد اپنی باہوں کا ہار ڈالتی اسے خود پر تمام اختیار سونپ گئی۔

اس کی سانسوں کو آزادی بخشتا وہ اس کے بالوں میں چہرہ چھپا گیا۔

"تمہاری خوشبو جان لیوا ہے !!!"

اس کے خوشبو بکھیرتے وجود میں گہری سانسیں بھرتا وہ اس کے کانوں میں سرگوشی کر گیا . اس کی گرم سانسیں اپنے کان اور گردن پر محسوس کرتے صاحبہ ادھ موئی ہوتی جا رہی تھی۔صراحی دار گردن سے مس ہوتے اس کے عنابی لب صاحبہ کے وجود میں حشر برپا کر رہے تھے۔

"سس۔۔۔سردار !!!"

وہ ہمت کرتی لبوں کو تر کر کے اسے پکار بیٹھی۔

"سردار کی جان !!!"

وہ اس کی کر کے گرد بازو باندھتا اسے خود میں بھینچ گیا۔ صاحبہ نے کچھ بولنے کے لئے لب کھولے جب وہ پھر سے پیش قدمی کرتا اس کی سانسوں پر اپنا تسلط جما گیا۔صاحبہ کے الفاظ اس کے لبوں پر ہی دم توڑ گئے۔

اس کی گھٹتی سانسوں کو دوام بخشتا وہ پیچھے ہٹا اور اس کے سرخ چہرے کو نظروں کے حصار میں قید کر گیا۔

"سادگی میں بھی قیامت ڈھاتی ہو اس سردار کے دل پر پھر یوں کیل کانٹوں سے لیس ہو کر کیوں اس وجود میں حشر برپا کرنے پر تلی ہو ؟؟"

اس کی ٹھوڑی انگلی کے پور پر اٹھاتا وہ سوال کرنے لگا تو صاحبہ لجاتی ہوئی نظریں جھکا گئی۔

"مم۔۔۔میں کچھ ۔۔۔کچھ کہنا چاہتی ہوں ."

اس نے اورهان کی قمیض کے بٹنوں پر انگلی پهيرتے ہوئے کہا تو وہ وہ بغیر کسی تردد کے اس کا پھولوں سا نازک اور دل فریب وجود باہوں میں بھرتا بیڈ کی طرف قدم بڑھا گیا۔

اسے نرمی سے گلاب کی پتیوں سے سجے بیڈ پر بیٹھاتا خود بھی گھٹنا موڑ کر اس کے مقابل بیٹھ گیا۔ دونوں کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

صاحبہ نے جھجھک کر پیچھے ہٹنا چاہا تو تو اورهان اس کے گرد حصار قائم کرتا اس کی کوشش ناکام بنا گیا۔

"دور سے مجھے نہ کچھ دکھائی دے رہا ہے اس وقت اور نہ ہی سنائی۔ اس لئے قریب تر رہتے ہوئے اپنی بات کہہ ڈالو۔"

اس کے ماتھے پر بکھری لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستا جھک کر اس کی پیشانی پر عقیدت بھرا لمس چھوڑتے ہوئے بولا تو صاحبہ سکون محسوس کرتی اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔

"مجھے کچھ بتانا ہے آپ کو۔ اگر آج اقرار نہ کر پائی تو شاید کبھی یہ ہمت خود میں پیدا نہ کر سکوں۔ آپ کی یہ محبت اور جنوں بھری نظریں ہمیشہ میرے لب سی دیتی ہیں اور تمام الفاظ حلق میں ہی دم توڑ دیتے ہیں پر آج میں اقرار کرنا چاہتی ہوں سردار اس لئے اپنی نظریں مجھ پر سے ہٹا لیں ۔"

ایک ربط میں کہتی وہ ساتھ ہی اس کی سنہری آنکھوں پر اپنا نازک كپكپاتا ہاتھ تھام گئی تو اورهان اس کی حرکت پر قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

"بولو میری جان جو بھی بولنا چاہتی ہو۔ اورهان بلوچ آج تمہیں ہی سنے گا بس۔"

اس کا دوسرا ہاتھ تھام کر وہ اپنے لبوں سے لگا گیا پھر اس کی ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں قید کرتا وہ اسے بولنے کا اشارہ دے گیا۔

"میں نے آپ سے بہت محبت کی ہے سردار۔ اپنے وجود سے بھی زیادہ۔ایسا کوئی پیمانہ اب تک ایجاد نہیں ہو سکا جو میری آپ کے لئے محبت کو ماپ سکے۔ مجھے آپ سے اتنی الفت ہے کہ آپ کی اک نظر الفت کی خاطر خوشی خوشی ہر قربانی دے سکتی ہوں۔ میری آنکھیں ہر وقت آپ کے دید کی پیاسی رہتی ہیں۔ میرے کان ہر وقت آپ کی آواز سننے کو بیتاب رہتے ہیں۔ میرے لب ہر وقت آپ کا ذکر کرنے پر مصر رہتے ہیں۔میرا دل ہر وقت آپ کی یاد میں گم رہتا ہے۔ میں ازل تا ابد آپ کا ساتھ چاہتی ہوں۔ اپنے شام و سحر آپ کے روبرو رہتے ہوئے آپ کی قربت میں گزارنا چاہتی ہوں۔

مجھے خود سے جدا کرنے کا سوچئے گا بھی مت کبھی کیوں کہ آپ سے دوری کے بائث صاحبہ کی ذات فنا ہو جائے گی۔ اورهان بلوچ کی موجودگی سے ہی صاحبہ کی زندگی مربوط ہے۔ مجھے کبھی خود سے الگ کیا تو میں واقعی مر ۔۔۔۔"

اورهان پر شدت انداز میں جھکتا اس کے الفاظ پی گیا۔ اس کا شدت اور جنوں خیر لمس ظاہر کر رہا تھا کہ اسے صاحبہ کی بات کس قدر ناگوار گزری ہے .

کچھ دیر بعد وہ پیچھے ہٹا اور اس کے لالیاں چھلکاتے چہرے پر گہری نظریں جما گیا۔

"میری جان اگر میری قربت چاہ رہی تو سیدھا بول دیتی۔ یوں غلط الفاظ نکالنے کی کیا ضرورت تھی۔"

خمار بھری آواز میں کہتا وہ اس پر جھک آیا .

"آپ کا گفٹ بھی تو ۔۔۔"

صاحبہ کا جملہ مکمل کرنے سے پہلے وہ اس کی ہونٹوں پر انگلی جما گیا۔

"صبح دے دینا گفٹ پر ابھی مجھے جو چاہئے میں وہ لینے والا ہوں اور امید کرتا ہوں تم مجھے ڈسٹرب نہیں کرو گی۔"

اپنے الفاظ سے اسے منہ چھپانے پر مجبور کرتا اس کی آنکھوں پر اپنا لمس چھوڑتا اسے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کرتا اس پر پوری طرح چھاتا اپنی محبت کی برسات میں بھگونے لگا۔

وہ الماری میں کپڑے سیٹ کر رہی تھی جب ایک دم دروازہ دھڑدھڑآیا گیا۔وہ ایک دم ڈر اٹھی۔

"کون ہے آ جائیں ۔"

اس کی اجازت ملتے ہی سکینہ تیزی سے دروازہ کھولتی کمرے میں داخل ہوئی۔

"جلدی نیچے چلیں بی بی جی۔"

وہ لال پر جوش چہرے سمیت بولی تو صاحبہ نے اچنبے سے اسے دیکھا۔

"خیریت ہے نا ؟"

نہ جانے کیوں پل بھر کو اس کا دل گھبرا اٹھا۔

"جی بی بی جی۔ وہ اپنی رومی بی بی هویلی آئی ہیں۔"

وہ پر جوش ہوتی بولی تو صاحبہ کی آنکھیں پهيل گئیں۔بے یقینی آنکھوں میں صاف نظر آ رہی تھی۔وہ ایک لفظ بھی بولے بغیر تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔

جیسے ہی وہ لاؤنج میں پہنچی وہاں ایک کا منظر بلکل اس کی سوچ کے مطابق تھا۔

 ناز بیگم رومیصہ کو گلے لگائے اونچی آواز میں رو رہی رہیں تھیں جب کہ پاس کھڑی رخسار بیگم نم آنکھوں سے روتی ہوئی زوہان کو چپ کروا رہی تھیں۔

"کہاں چلی گئی تھی میری بچی۔میں تو اب امید ہی چھوڑ چکی تھی تم سے ملنے کی۔ایسا لگتا تھا کہ تمہیں دیکھے بغیر ہی مر جاؤں گی۔"

ناز بیگم کی بات پر وہ دھیرے سے ان سے الگ ہوئی تو زوہان اس سے لپٹ کر سختی سے خود میں بھینچے رو دی۔

کافی دیر گزرنے کے بعد اس نے نرمی سے زوہان کو پیچھے ہٹایا۔

صاحبہ سن سی کھڑی تھی۔اسے رومیصہ کے چہرے پر وہ سب کچھ نظر آ رہا تھا جو وہاں موجود افراد کی نگاہوں سے اوجھل تھا اب تک۔

سرد مہری اور پتهریلے تاثرات۔

"یہاں بیٹھو میری بچی۔"

ناز بیگم نے اسے بازو سے تھام کر اپنے ساتھ بیٹھایا تو وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔اسی پل لاؤنج کا دروازہ کھلا تھا اور اورهان اور شیفان تیزی سے وہاں داخل ہوئے۔

"رومی میری گڑیا۔"

شیفان محبت سے لبریز آواز میں کہتا آگے بڑھنے لگا جب رومی ایک دم اپنی جگہ سے اٹھی۔

"میرے قریب مت آئیے گا لالا۔"

اس کی سرد آواز پر سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"رومی میری جان اپنے لالا کو کیوں۔۔۔"

وہ بولتے ساتھ اسے اپنے حصار میں لینے لگا تو وہ ایک دم چیختی اس کا حصار توڑ کر پیچھے ہو گئی۔

"میں نے کہا نا کہ میرے قریب مت آئیے گا تو پھر آپ کو سمجھ نہیں آ رہی کیا۔"

سرخ چہرے سے چیخ کر بولتی وہ وہاں موجود سب افراد کو حیرت و بے یقینی میں غوطہ زن کر گئی۔

"ایسے کیوں کر رہی ہو لالا کی جان !"

اب کی دفعہ اورهان نرمی سے بولا تو اس کی بات پر رومیصہ اونچی آواز میں قہقہے لگانے لگی۔ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

ناز بیگم روتی ہوئی اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ رہی تھیں۔صاحبہ نے ان کے قریب جا کر انھیں سہارا دیا۔

"میں !!! میں ایسا کیوں کر رہی ہوں یہ پوچھ رہے ہیں آپ ؟؟"

وہ ایک دم چیخی تھی۔

"چھے ماہ سے میں گھر سے لاپتہ تھی۔ ایک شخص آتا ہے مجھے یعنی بلوچ خاندان کی بیٹی کو دن دہاڑے اغواہ کر کے اس سے زبردستی نکاح کر لیتا ہے پھر میرا نام نہاد شوہر میرے نام نہاد گھر والوں کو نکاح نامہ بھی بھیج دیتا ہے پر میرے دو عدد شیر جوان بھائی اور باپ اتنے بے بس ہو جاتے ہیں اتنے کمزور ہو جاتے ہیں کہ چھے ماہ میں اپنے گھر کی ایک بیٹی کا پتا نہیں لگوا پاتے حالاں کہ مخالف کو اچھی طرح جانتے بھی ہیں۔"

ناز بیگم نفی میں سر ہلاتی روتی جا رہی تھیں جب کہ اورهان اور شیفان لب بھینچے اسے سن رہے تھے۔

"پھر چھے ماہ قید کرنے کے بعد میرے نام نہاد شوہر کو احساس ہوتا ہے کہ وہ میرے ساتھ غلط کر رہا ہے اس لئے میری خوشی کی خاطر مجھے اپنی قید سے آزادی دے دیتا ہے اور پہنچا دیتا ہے مجھے میرے نام نہاد گھر والوں کے پاس۔"

اس کے الفاظ میں موجود تلخی سب کو افسرده کر رہی تھی۔

"پہلے تو میرا دل کیا یہاں کا رخ کرنے سے بہتر ہے کہ کسی کھائی میں کود کر جان دے دوں پھر یاد آیا کہ میں تو اندھی ہوں۔ اپنی مرضی سے کسی جگہ کا رخ کہاں کر سکتی ہوں۔"

اس کی بات پر ناز بیگم نے تڑپ تڑپ کر رونا شروع کر دیا تھا۔شیفان ایک دم آگے بڑھا اور اس کی مذاحمت کی پرواہ کے بغیر اسے كهينچ کر اپنے سینے میں بھینچ گیا۔وہ اسے ہٹانے کی بھر پور کوشش کرتی رہی پر ہٹا نہ سکی تو تھک ہار کر آنسو بہا نے لگی۔

"ہمیں معاف کر دو میری جان پر بعض اوقات چیزیں بظاہر جیسے نظر آ رہی ہوتی ہیں حقیقت میں اس سے بلکل برعکس ہوتی ہیں"

وہ اس کا سر تهپتهپاتا بولا تو وہ زور آزمائی کرتی اس سے الگ ہو گئی۔

"مجھے کچھ نہیں سننا۔مہربانی فرما کر اس اندھی لڑکی کو کمرے میں پہنچا دیجئے بس۔ یہ تمام آوازیں اور آہو زاریاں مجھے بیزار کر رہی ہیں۔"

اس کی بات پر اورهان نے تنے ہوئے تاثرات سے سکینہ کو اشارہ کیا تو وہ اسے اس کے کمرے میں لے گئی۔

اس کے جانے کے بعد ناز بیگم صوفے پر ڈھے گئیں اور زار و قطار رونے لگیں۔رخسار بیگم ان کے ساتھ بیٹھی انھیں تسلی دینے لگیں۔زوہان شیفان کا ہاتھ تھام کر اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دینے لگی پر یہ سب اتنا آسان کہاں تھا۔

"میں پانی لے کر آتی ہوں۔"

صاحبہ اورهان سے کہتی کچن کی طرف گئی تو وہ بھی سر ہلاتا صوفے پر بیٹھ گیا ۔ اس کی پر سوچ نظریں فرش پر جمی تھیں۔وہ ابھی ان ہی سوچوں میں گم تھا جب کسی چیز کے گرنے کی زور دار آواز سنائی دی۔ اس سے پہلے وہ رخ موڑتا صاحبہ کی چیخ پر وہ ہوش میں آتا اس کی طرف دوڑا جو سر تھامے فرش پر گری ہوئی تھی۔پاس ہی ٹرے ٹوٹے ہوئے شیشے کے گلاس اور پانی بکھرا پڑا تھا۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھتا گھٹنوں کے بل بیٹھے اسے کندھوں سے اٹھا کر اپنے ساتھ لگا گیا۔

"ٹھیک ہو میری جان؟؟"

وہ اس کا چہرے ایک ہاتھ سے سہلاتا فکرمندی سے پوچھنے لگا۔ زوہان اور شیفان بھی قریب آ چکے تھے جب کہ ناز بیگم اور رخسار بیگم کھڑی پریشانی سے صاحبہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

"جج.۔۔جی بس ایک دم ہی۔۔۔چکر سا آ گیا۔"

وہ دھیرے سے کہتی اٹھنے لگی جب ایسا محسوس ہوا کہ پھر سے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہے۔اورهان ایک دم اسے بازوؤں میں اٹھاتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"میں اسے کمرے میں لے جا رہا ہوں اس کی طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے . زوہان بیٹا ایک گلاس جوس لا دیں پلیز۔"

زوہان سے کہتا وہ صاحبہ کو لئے سیڑھيان چڑھتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تو زوہان بھی کچن کی طرف بڑھ گئی .

@@@@@

وہ اسے لیتا کمرے میں داخل ہوا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کر گیا۔ اسے بیڈ پر لٹانے کے بعد گہری نظریں اس کے پیلے پڑتے چہرے پر جما گیا۔

صاحبہ نے آنکھیں کھولے اسے دیکھا جو گہری نظریں اس کے چہرے پر جمائے ہوئے تھا .

"کیا ہوا ؟"

وہ ہاتھ بڑھا کر اس کے هلكی داڑھی سے سجے چہرے کو چھو کر پوچھنے لگی۔اورهان اس کا کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا گیا۔

"صبح ناشتے میں کیا لیا تھا؟"

اس کے سوال پر صاحبہ نظریں چرا گئی۔

"لنچ میں کیا لیا تھا ؟؟"

اب کی دفعہ وہ سنجیدگی سے بولا تو صاحبہ بے بسی سے اسے دیکھنے لگی .

"تم نے دو وقت کا کھانا سکپ کیوں کیا ؟؟ میں گھر پر نہیں ہوں گا تو ایسے کرو گی تم۔ پہلے بہت جان ہے نا تم میں جو ایسے کھانا پینا بھی بند کر دیتی ہو۔ شادی سے پہلے اچھی خاصی صحت تھی تمہاری اور اب دیکھو۔ہڈیاں ہی نظر آ رہی ہیں بس۔"

وہ سخت تیور لئے بولتا اس کا دل دہلا رہا تھا۔

"میں کھاتی تو ہوں۔بس آج میرا دل نہیں تھا بلکل بھی میں سچ کہہ رہی ہو۔"

وہ بے چارگی بھرے تاثرات چہرے پر سجا کر بولی تو اورهان اسے دیکھ ر رہ گیا۔ وہ کوئی تگڑا سا جواب دیتا اس سے پہلے ہی دروازہ ناک ہوا اور اس کی اجازت ملنے پر زوہان کمرے میں داخل ہوا۔

اس نے ہاتھ میں پکڑا ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھا جس میں فریش جوس کا گلاس اور ساتھ کیک رکھا تھا۔

"بھابھی کیا ہو گیا اچانک آپ کو۔ڈرا کر رکھ دیا۔خیال کیوں نہیں رکھتی اپنا آپ۔"

وہ صاحبہ کو دیکھتی بولی تو صاحبہ اورهان کی نظریں خود پر محسوس کرتی كهسيا گئی۔

"بیٹا آپ ایک اور کام کر دیں پلیز۔کھانے کو کچھ ہیلتھی سا لا دیں ان محترمہ نے رات سے کھانا کھایا ہوا ہے۔"

وہ صاحبہ کو گھورتا بولا تو زوہان بھی اسے دیکھتی نفی میں سر ہلا گئی۔

"میں ابھی لاتی ہوں لالا۔تب تک آپ بھابھی کی کلاس لیں اچھے سے ."

اس کی بات پر صاحبہ نے گھور کر اسے دیکھا پر وہ نظر انداز کرتی کمرے سے باہر چلی گئی۔

اس نے کچن میں آ کر کھانا گرم کر کے ٹرے میں رکھا اور اورهان کے کمرے میں جانے لگی جب شیفان کچن میں داخل ہوا۔ کافی تھکا تھکا اور پریشان لگا زوہان کو۔وو ٹرے وہیں شیلف پر رکھتی اس کے قریب آئی۔

"کیا ہوا کچھ چاہئے آپ کو۔"

وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامتی نرمی سے پوچھنے لگی۔وہ جانتی تھی رومی کی وجہ سے بہت پریشان تھا وہ۔اس کی اکلوتی بہن تھی وہ۔

شیفان کچھ بولے بغیر اس کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈالتا اپنا چہرہ اس اس گردن میں چھپا گیا۔

زوہان نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔شیفان کی گرم سانسیں اس کی گردن کو چھوتی اسے لرزنے پر مجبور کر رہی تھیں پر اس کے لئے فلحال سب سے ضروری اس کو سکون پہنچانا تھا۔

"مجھے اس وقت صرف سکون چاہئے جو کہ صرف اور صرف تم دے سکتی ہو۔"

اپنی سانسیں اس کے وجود پر چھوڑتا بولا تو وہ اس کا سر سہلانے لگی۔

"آپ کمرے میں چلیں میں بس لالا کے کمرے میں یہ کھانا دے آؤں آتی ہوں پھر۔"

اس کے کہنے پر وہ پیچھے ہٹا اور اس کی پیشانی چوم کر کچن سے باہر نکل گیا تو زوہان بھی مسکراتی ہوئی اورهان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

وہ بے چین سی بار بار کروٹ بدل رہی تھی۔ نیند تھی کہ آ ہی نہ رہی تھی۔ جب بار بار کروٹ بدل کر تھک گئی تو اکتا کر اٹھ بیٹھی۔

"کیا مصیبت ہے!!!"

جهنجهلا کر کہتی وہ سر دونوں ہاتھوں میں تھام گئی۔ اسے بے ساختہ ہی فائق یاد آیا تھا۔ وہ لاکھ اس سے نفرت کا اظہار کرتی پر اس نے رومی کو اپنے کندھے پر سر رکھ کر سلانے کی ایسی عادت ڈالی تھی کہ جب وہ شہر سے گاؤں جاتا اور رات وہاں رکتا تو رومی کو اس رات نیند نہ پڑتی اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔

بے بسی کے مارے اس کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ دل تھا کہ بھر بھر آ رہا تھا۔

اس نے باتھروم میں جانے کے لئے پیر بیڈ سے نیچے اتارے تو سمجھ نہ آئی کہ کس طرف رخ کرے۔ ان گزرے چھے ماہ میں جیسے وہ س گھر کا نقشہ بھول چکی تھی۔

گہرا سانس بھرتی وہ احتیاط سے قدم اٹھانے لگی۔ ابھی دو قدم ہی چلی تھی کہ موبائل کی تیز آواز کمرے میں گونج اٹھی۔ خاموشی میں ایک دم اٹھتے شور سے وہ گھبرا کر وہیں کھڑی ہو گئی۔

"موبائل کی آواز ہے یہ پر یہاں موبائل کہاں سے آیا۔"

خود سے کہتی وہ آواز کے تعقب میں آئی اور ہاتھ مار کر موبائل تلاشنے لگی۔بالآخر اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا بٹنوں والا موبائل آ ہی گیا۔ وہ اسے چھو کر محسوس کرنے لگی۔ 

ایسا ہی موبائل اس کے پاس تھا گھر میں جس پر فائق کی کال آتی تھی جب وہ گھر سے باہر ہوتا تھا پر وہ یہ سوچ رہی تھی کہ یہ موبائل یہاں کیسے آیا جب کہ وہ وہیں چھوڑ آئی تھی۔

وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب موبائل بند ہو کر ایک مرتبہ پھر سے بج اٹھا۔

رومی کچھ سوچتے ہوے بائیں طرف موجود بٹن کو دبا گئی۔

"ہیلو !!!"

وہ دھیرے سے بولی تو سامنے والا جیسے سانس تک روک گیا پھر اس کی خاموشی محسوس کرتی اس کی سانسیں جیسے بھاری پڑنے لگیں ۔

"کس لئے کال کی ؟؟"

اس کی بھاری سانسوں کو مدهم آواز سنتی وہ اپنا سوال داگ گئی۔

"دید کی پیاس تو بجھ نہیں سکتی تو سوچا کانوں کو ہی دوام بخش دیا جاۓ آپ کی آواز سن کر۔"

بوجھل آواز کانوں سے ٹکرائی تو رومی گہری سانس بھر کر رہ گئی۔

"اگر آپ بھول گئے ہوں تو یاد کروا دوں کہ آپ مجھے آزاد کر چکے ہیں !!!"

وہ لفظ آزاد پر زور دے کر بولی۔

"اپنی قربت سے آزاد کیا ہے اپنی زندگی سے نہیں۔"

نہ چاھتے ہوئے بھی اس کی آواز میں سختی آ سمائی تھی۔

"آزادی کا مطلب آزادی ہی ہوتا ہے بس !!!"

وہ قدم پیچھے ہٹاتی بیڈ پر واپس بیٹھ گئی۔

"کیا آپ واقعی اس قدر ظالم ہیں ؟"

اس کے سوال پر وہ نا سمجھی سے آنکھیں سکیڑ گئی۔

"کون سا ظلم ڈھایا ہے میں نے آپ پر ؟؟ ظلم تو ازل سے مجھ پر ہوا ہے پھر میں ظالم کیسے ٹھہری؟؟"

وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں استفسار کرنے لگی۔

"ایک دیوانے کی دیوانگی جانتا ہوئے بھی اسے ہجر کی سزا دینا ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ کو دیکھا نہیں تو ایسا لگ رہا ہے جیسے ہر نظارہ اپنی دلکشی کھو چکا ہو۔"

اس کی بھاری آواز اور الفاظ میں چھپے سنجیدہ پن کو محسوس کر کے رومی ایک دم کال بند کر کے موبائل ایک طرف پهينك گئی۔

کال بند ہونے کی آواز پر وہ موبائل کان سے ہٹا کر دیکھنے لگا اور پھر اسے سوچتے لب بھینچ گیا۔

@@@@@

وہ کمرے میں آئی تو کمرے کی مین لائٹس بند تھیں  اور ایک سائیڈ لیمپ آن تھا جب کہ شیفان بیڈ پر دراز تھا۔

وہ اپنے پیچھے دھیرے سے دروازہ بند کرتی بیڈ کی طرف بڑھی اور ہاتھ میں پکڑا دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ گئی۔

"سنیں !!"

"سو گئے ہیں کیا ؟؟"

وہ اس کی بند  آنکھوں کو دیکھتی اس پر جھک کر پوچھنے لگی پر جب کوئی جواب نہ ملا تو پیچھے ہٹنے لگی جب وہ ایک دم اسے کمر سے تھام کر اپنی طرف کھینچ گیا۔

"آہ !!! شرم تو نہیں آتی آپ کو ایسے کون ڈراتا ہے بھلا کوئی کسی کو !!"

وہ س کے کندھے پر ہاتھ مارتی خفگی سے بولی تو وہ اس کے پھولے ہوئے گال دیکھ کر ہنس دیا۔

"میری جان اتنی نازک سی کیوں ہے جو اتنی جلدی ڈر جاتی ہے۔"

وہ اسے بیڈ پر لٹاتا خود اس کے اوپر جھک آیا۔

"جی نہیں کوئی نازک نہیں ہوں میں۔ میں ایک سٹرونگ لڑکی ہوں۔"

وہ اس کے گلے میں دونوں بازو ڈال کر بولی تو شیفان سر ہلا گیا۔

"ابھی چیک کر لیتے ہیں تمہاری سٹرونگنیس !!!"۔

کہنے کے ساتھ ہی وہ ایک دم اس کے گال پر دانت گاڑھ گیا تو زوہان چیخ اٹھی۔

وہ پیچھے ہٹتا قہقہہ لگا کر ہنس دیا جب کہ زوہان گال پر ہاتھ رکھے غصّے سے اسے گھور رہی تھی۔

"بس اتنی سی سٹرونگ تھی تم !!"

وہ چڑانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولا تو وہ ایک دم اوپر اٹھتی اس کے ناک پر کاٹ گئی۔ اب کی دفعہ ہنسنے کی باری زوہان کی تھی۔

"پوری جنگلی بلی بن گئی ہو تم تو۔"

وہ اپنی سرخ پڑتی ناک سہلا کر بولا تو وہ قہقہہ لگا گئی۔

"بہت ہنسی آ رہی ہے نا ابھی بتاتا ہوں۔"

کہنے کے ساتھ ہی وہ اسے کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دے بغیر اس کی سانسیں قید کر گیا تو اس کی گرفت میں زوہان پھڑپھڑا کر رہ گئی۔

"بہت بڑے چیٹر ہیں آپ !!"۔

وہ چند لمحے کشید کرنے کے بعد پیچھے ہٹا تو وہ سرخ چہرے کے ساتھ منمنا کر رہ گئی۔

"ابھی چیٹنگ کی ہی کہاں ہے۔ اصل چیٹنگ تو اب شروع ہونے والی ہے۔"

بوجھک سرگوشی میں کہتا وہ مزید پیش قدمی کرنے لگا پر اس کے کسی بھی عمل سے پہلے ہی سائیڈ ٹیبل پر پڑا اس کا موبائل بج اٹھا۔

وہ بدمزہ ہو کر پیچھے ہٹا۔ اس کی شکل دیکھ کر زوہان کی ہنسی نکل گئی۔

"ہیلو کون ؟"

موبائل کان سے لگاتا وہ پوچھنے لگا کیوں کہ ان ناؤن نمبر تھا کوئی۔ 

جواب میں جانے ایسا کیا کہا گیا کہ ایک دم ہی شیفان کی چہرے کی تاثرات بدل گئے۔ هنستا کھلکھلاتا چہرہ پل بھر میں تن گیا۔

"کس لئے کال کی ہے ؟؟"

وہ تنے ہوئے لہجے میں پوچھنے لگا تو زوہان نے چونک اس کی جانب دیکھا۔

"میں آ رہا ہوں۔"

کچھ دیر اگلے بندے کی بات سننے کے بعد وہ بولتا کال بند کر گیا۔

موبائل جیب میں ڈال کر وہ بیڈ سے اترتا پاس پڑا جوتا پاؤں میں ڈالنے لگا۔

"کس کی کال تھی اور کہاں جا رہے ہیں اس وقت آپ ؟؟"

وہ اس کی طرف دیکھتی پوچھنے لگی تو وہ ایک سرسری سی نظر اس پر ڈال کر سائیڈ ٹیبل پر پڑی گاڑی کی چابی اٹھانے لگا۔

"آدھی رات باہر جا رہا ہوں تو ظاہر ہے کسی ضروری کام سے ہی جا رہا ہوں۔ سو جاؤ تم مجھے شاید دیر ہو جاۓ۔"

خشک لہجے میں کہتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا تو زوہان اسے دیکھ کر رہ گئی۔ شادی کے بعد پہلی دفعہ شیفان نے اتنے سرد لہجے میں اس سے بات کی تھی اور وہ بھی بغیر کسی وجہ کے۔ اسے بے ساختہ رونا آنے لگا تو بیڈ پر گر کر اپنا دل ہلکا کرنے لگی۔

وہ کافی دیر شیفان کا انتظار کرتی رہی تھی۔ اسے پریشانی ہو رہی تھی کہ اتنی رات وہ کہاں گیا تھا اور کال پر ایسا کون تھا جس کی وجہ سے اس کا موڈ اس قدر خراب ہو گیا تھا پر ان سب سوالوں کے جواب صرف شیفان ہی  دے سکتا تھا جس سے رابطہ ممکن ہی نہ ہو رہا تھا۔

اس نے دو تین کالز کی تھیں پر اس نے ایک دفعہ بھی کال نہیں اٹھائی تو تھک ہار کر وہ اس کا انتظار کرتی کرتی سو گئی۔

فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی تو نظر سیدھا شیفان کے چہرے سے جا ٹکرائی جو اسی کی طرف منہ کیے سویا ہوا تھا۔

اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی زوہان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی پر اگلے ہی پل جب اس کا رات والا انداز یاد آیا تو منہ بنا کر رہ گئی۔

"پہلے خوب غصّہ کیا اور اب اٹھ کر پیار کرنا شروع کر دیں ہے لیکن میں بھی اتنی جلدی نہیں ماننے والی۔"

خود سے کہتی وہ بیڈ سے اتر گئی۔

فریش ہونے کے بعد وہ کمرے میں واپس آئی تو شیفان ہنوز سو رہا تھا. وہ نماز ادا کرنے کے بعد دھیرے سے کمرے کا دروازہ بند کرتی نیچے چلی آئی۔

سب کے اٹھنے میں وقت تھا ابھی۔ اسے بھوک لگ رہی تو اپنے لئے ہلکا پهلكا کچھ بنانے لگی۔اس کا ارادہ کمرے میں واپس جانے کا نہیں تھا فلحال۔

ناشتے کا وقت ہوا تو سب ہی آہستہ آہستہ کھانے کے میز پر آنے لگے۔

"بھابھی آپ کی طبیعت کیسی ہے اب ؟؟"

صاحبہ اورهان ایک ساتھ وہاں داخل ہوئے تو زوہان صاحبہ کی طرف دیکھتی فکرمندی سے پوچھنے لگی۔

"اللّه کا شکر اب بلکل ٹھیک ہوں میں بس تھوڑی ویکنیس ہو گئی تھی اب ٹھیک ہے۔"

اس کی فکر پر وہ مسکرا کر اس کی تسلی کرتی اورهان کے اپنے لئے کرسی نکالنے پر اپنی جگہ سنبھال گئی۔

"شکر ہے ورنہ آپ نے تو ایک دم ڈرا دیا تھا۔"

وہ اس کے سامنے جوس کا جگ رکھتی بولی تو صاحبہ پیار بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"تمہاری بھابھی کے کچھ پرزے ڈھیلے ہوئے ہیں بس۔"

اورهان جوس گلاس میں ڈالتا اس کے آگے رکھ کر بولا تو صاحبہ اسے خفگی سے گھورنے لگی۔

"مت پریشان کرو میری بچی کو پہلے ہی دیکھو کسی پیلی ہو رہی ہے۔"

ناز بیگم صاحبہ کو فکر سے دیکھتی اورهان کو ڈپٹ کر بولیں تو وہ نفی میں سر ہلا کر رہ گیا۔

"یہ تو ناانصافی ہے چھوٹی ماں۔ آپ میرے مقابل صاحبہ کی طرف داری کر رہی ہیں۔"

وہ مصنوعی خفگی سے انہیں کہنے لگا تو وہ اس کا کان پکڑ کر مڑوڑ گئیں۔

اس کی كراه پر صاحبہ اور زوہان دونوں ہی دبا دبا ہنس دیں۔

"بہت نوٹنگی آ گئی ہے تمہیں۔ بھئی میں تو ہمیشہ اپنی بیٹی کی ہی سائیڈ لوں گی۔ تم سے بھی زیادہ پیاری ہوگئی ہے یہ مجھے۔"

وہ صاحبہ کو پیار سے نہارتی بولیں تو جہاں صاحبہ خوشی سے لال ہوئی وہیں اورهان سر ہلا کر رہ گیا۔

"زوہان بیٹا شیفان نہیں آیا اب تک؟"

اورهان ایک نظر صاحبہ پر ڈالتا زوہان سے پوچھنے لگا۔

"پتا نہیں لالا میں تو ناشتہ بنا رہی تھی۔ کمرے میں ہی ہوں گے۔"

وہ اپنے آگے ناشتہ رکھ کر بیٹھتی لاپرواہی سے بولی۔

"تو یہ آپ کا فرض بنتا ہے نا جاننا کہ آپ کا شوہر کہاں ہے۔ آپ کو اس کے ساتھ ہی نیچے آنا چاہئے تھا۔ جائیں دیکھیں جا کر اسے کچھ چاہئے ہو گا تو اپ کے علاوہ کیسے کہے گا۔"

وہ سنجیدگی سے اسے لتارتا بولا تو شرمندگی کے مارے زوہان کا چہرہ پوری طرح پلیٹ پر جھک گیا۔

"مم۔۔۔میں دیکھتی ہوں جا کر۔"

وہ اپنی جگہ سے اٹھتی بولی البته سر جھکا ہوا ہی تھا۔

"دیکھنا ہی نہیں آئیند اس بات پر عمل بھی کرنا ہے جائیں اب شاباش۔"

اب کی دفعہ وہ تھوڑی نرمی سے بولا تو وہ محض سر ہلا گئی۔وہ کرسی پیچھے کرتی وہاں س جانے ہی لگی تھی جب شیفان وہاں داخل ہوا۔

اس نے آ کر سب سے مشترکہ سلام لی اور اپنی مخصوص کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ زوہان بھی چپ چاپ اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔

"بیٹا ناشتہ نکال کر دو شوہر کو۔"

ناز بیگم کی تنبیہی آواز پر وہ لب بھینچتی اس کے لئے کھانا نکالنے لگی۔

"رومی کو نہیں بلایا ؟"۔

اورهان کے سوال پر سب کے چہروں پر افسردگی چھا گئی۔

"وہ نہیں آئے گی بیٹا۔ اس کا ناشتہ اس کے کمرے میں بهجوا دیتی ہوں۔ فلحال ہمیں اسے کچھ وقت دینا چاہئے۔"

ان کی بات پر سب محض سر ہلا گئے۔سب خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے جب صاحبہ ایک دم وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟"

اورهان نے اس کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھ کر تفكر سے پوچھا جس پر وہ سر ہلاتی بغیر ایک لفظ بھی بولے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ اورهان پریشان ہوتا ایک دم اٹھا۔

"میں دیکھتا ہوں ."

سب کو کہتا وہ خود بھی صاحبہ کے پیچھے چلا گیا۔

"یا اللّه کرم فرما میرے بچوں پر اپنا نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہمارے گھر کو۔"

رخسار بیگم مدهم آواز میں بولی تو سب سر ہلا گئے۔

شیفان نے ایک خاموش نظر لاپرواہ بیٹھی زوہان پر ڈالی اور اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا۔

@@@@@

وہ جس وقت کمرے میں داخل ہوا صاحبہ بے حال سی باتھ روم سے باہر نکل رہی تھی۔ وہ تیزی سے اس کی طرف لپكتا اسے تھام گیا۔

"کیا ہو گیا میری جان۔"

وہ اپنے مضبوط ہاتھ سے اس کے چہرے پر لگا پانی صاف کرتا نرمی سے بولا تو وہ ایک دم اس کے سینے سے سر ٹکاتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

اس کے رونے پر وہ پریشان ہو اٹھا۔

"مم۔۔۔مجھے پتا نہیں کیا ہو ۔۔۔رہا ہے۔ میرا سانس بند ہو رہا ہے۔"

وہ تڑپ ہی تو اٹھا تھا اس کی حالت پر۔

"چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ابھی۔"

وہ اسے بیڈ پر بیٹھاتا الماری کی طرف بڑھنے لگا تا کہ اس کی چادر لا سکے پر وہ اس کا ہاتھ تھام گئی۔

"ابھی نہیں پلیز۔ ابھی مجھے بس ریسٹ کرنی ہے۔"

وہ التجائیہ بولی تو وہ کچھ سوچتا سر ہلا گیا۔

"اوکے میں بس ابھی آ رہا ہوں۔"

اسے کہتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ کمرے میں واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں جوس کا گلاس تھا۔

"یہ پیو اچھا محسوس کرو گی۔"

وہ اس کا گال تهپتهپا کر بولا تو وہ ایک بے بس نگاہ اس پر ڈال کر گلاس پکڑتی منہ سے لگا گئی۔وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھے گیا۔ اس نے گلاس خالی کر کے پکڑایا تو اورهان وہ پکڑ کر سائیڈ پر رکھتا خود اس کے پاس بیٹھ گیا۔

صاحبہ نے سر اس کے کندھے پر ٹکایا اور نیم دراز ہو گئی جب کہ اورهان اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا پر اس کی پر سوچ نظریں کہیں اور ہی جمی تھیں۔

@@@@@

"کہاں جا رہے ہیں آپ ؟"

ناشتے کے بعد وہ کمرے میں واپس آئے تو شیفان تیار ہو کر پھر سے کہیں نکلنے لگا جب وہ بے اختیار اسے پکار بیٹھی۔

"باہر!!"

یک لفظی جواب دیتا وہ گاڑی کی چابی اٹھانے لگا۔

"مجھے بھی نظر آ رہا کہ اتنا بن ٹھن کر باہر ہی جا رہے ہیں لیکن میرے پوچھنے کا مقصد ہے کہ کس خاص کام سے جا رہے ہیں اتنی تیاری کے بعد۔"

س کے تیکھے لہجے میں پوچھے گئے سوال پر شیفان نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا پھر ایک قدم چل کر اس کی طرف آیا۔

"کسی بہت "خاص" سے ملنے۔امید ہے کہ اب تمہاری تسلی ہوگئی ہو گی تو کیا مجھے یہاں سے تشریف کے جانے کی اجازت ہے ؟؟"

سرد لہجے میں پوچھتا وہ اس پر سے نظریں ہٹا گیا تو اس کے سرد انداز پر زوہان کا دل كرلانے لگا۔

"جائیے آپ کو بھلا میری اجازت کب سے درکار ہونے لگی۔"

شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھتی وہ وہاں سے ہٹ گئی۔ اسے پورا یقین تھا کہ شیفان اس کے پیچھے آ کر اسے منائے گا پر اسے اس وقت شدید رونا آیا جب دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کمرہ سائیں سائیں کر رہا تھا۔

اس کی اس قدر بے اعتنائی پر وہ ضبط کھوتی چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی بری طرح رو دی۔

@@@@@

وہ سرخ نظروں سے سامنے موجود لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔

"کیوں بلایا ہے مجھے ؟؟"

اسے سرد نظروں سے دیکھتا بولا تو وہ اٹھلا کر ہنس دی۔

"دیکھ لو میرے پیار کی طاقت۔ میری ایک پکار پر تم کٹی ڈور کی مانند چلے آئے۔"

وہ اپنی جگہ سے اٹھتی قدم بڑھاتی اس کی طرف آنے لگی۔

"کیا چاہتی ہو ؟"

سپاٹ انداز میں سوال پوچھا گیا۔

"تمھیں !!!"۔

وہ لہجے کو بوجھل بناتی بولی۔

"کیا حاصل کرنا چاہتی ہو؟"۔

ضبط کرتے دوبارہ سوال دهرايا۔

"تمہاری چاہت !!"

دلبرانہ لہجے میں بولتی اس کے چہرے کو اپنی شہادت کی انگلی سے چھونے لگی تو وہ اس کا ہاتھ جھٹک گیا۔

"تمہاری خصلت کیا ہے میں اچھے سے جانتا ہوں یہ بات۔ اس سب کا مقصد کیا ہے وہ بتاؤ ؟؟"

اس کے تلخ انداز پر وہ خجالت سے سرخ پڑ گئی پر یہ احساس پل بھر کے لئے تھا بس۔

"میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تم خود کو بھر پور طریقے سے میرے حوالے کر دو ورنہ۔۔۔"

وہ بات ادھوری چھوڑتی اپنے گال پر جھولتی لٹ انگلی پر لپیٹ گئی۔

"ورنہ ؟؟؟"

وہ اس کی اوقات جانچنا چاہ رہا تھا۔

"ورنہ تمہاری پیاری بیوی تک بس یہ وڈیو پہنچائی جاۓ گی زیادہ کچھ نہیں۔"

اس نے تمسخر سے کہتے موبائل کی سکرین پر انگلی چلاتے ایک وڈیو چلا کر اس کے سامنے کی تو اس کی سرخ آنکھیں پل بھر کے لئے ساکت ہو گئیں۔

صاحبہ کی طبعیت پھر سے بگڑ گئی تو ناز بیگم اسے اپنے ساتھ ہسپتال لے گئیں تو زوہان رومیصہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

"کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے ؟"

اس کی آواز پر رومی چونک اٹھی پھر سر ہلا گئی۔

زوہان آ کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔

"مجھ سے بھی ناراض ہو کیا؟"

وہ رومی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر استفسار کرنے لگی تو رومی تلخی سے ہنس دی۔

"ناراض اور میں ؟؟؟ میں بھلا کون ہوتی ہی تم سے یا کسی سے ناراض ہونے والی۔"

اس کی بات پر زوہان بے بس سانس خارج کر کے رہ گئی۔

"میں جانتی ہوں تم سب سے ناراض ہو پر یقین کرو تمھارے جانےکے بعد کوئی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا بلکہ تمہیں ڈھونڈھنے کی بھر پور کوشش ۔۔۔"

اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی رومیصہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالتی ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروا گئی۔

"مجھے بہت اچھے سے اندازہ ہے کس نے کس حد تک کوشش کی۔ سب نے سوچا ہوگا کہ اللّه اللّه کر کے ایک اندھی لڑکی سے جان چھوٹ رہی ہے تو کیوں نہ شکر منایا جاۓ۔ بغیر کسی کوشش کے ہی بلا سر سے ٹل گئی۔"

اس کے اس قدر تلخ انداز اور الفاظ پر زوہان کی آنکھیں میں نمی چمک اٹھی۔

"تم پلیز جا سکتی ہو یہاں سے مجھے سونا ہے کچھ دیر۔"

وہ دو ٹوک لہجے میں بولی تو زوہان سرخ چہرہ لئے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

اس کے جانے کے بعد رومی بیڈ پر گرتی چہرہ تکیے میں چھپاتی کب کے روکے ہوئے آنسو بہانے لگی۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب دروازہ پھر سے ناک ہوا۔

"بی بی جی شیفان صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ چادر اوڑھ کر آ جائیں ابھی جانا ہے ہسپتال۔"

ملازمہ اسے کہتی الماری سے اس کی چادر نکال کر اسے پکڑا گئی۔رومی گہرا سانس بھرتی چہرہ صاف کر کے چادر اوڑھنے لگی۔

کل رات شیفان دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا رہا اور اس کے ساتھ بھر پور دماغ کھپائی کرنے کے بعد اسے آنکھیں کے چیک اپ کے لئے ھسپتال لے جانے کے لئے راضی کر چکا تھا۔

چادر اوڑھ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔

@@@@@

وہ هویلی واپسی پر سب سے پہلے ماں کے کمرے میں ان کی خیریت معلوم کرنے گیا تو پتا چلا کہ صاحبہ کی طبیعت کافی خراب ہو گئی تھی تو وہ ناز کے ساتھ ہسپتال گئی تھی۔

وہ پریشانی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تو صاحبہ کو شیشے کے آگے کھڑے پایا۔

وہ تیز قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا اور اسے کندھوں سے تھام گیا۔

"کیسی ہو اب؟؟ ماں بتا رہی تھی کہ تمہاری طبعیت کافی خراب تھی۔ مجھے کال کر لیتی تم ؟؟"

تفكر سے کہتا وہ اس کے چہرے پر جھولتی آوارہ لٹ کو کان کے پیچھے اڑسنے لگا۔

"میں ٹھیک ہوں اب۔"

وہ نظریں جھکا کر بولی تو اورهان اس کی ٹھوڑی کے نیچے انگلی رکھتا اس کا چہرہ اوپر اٹھا گیا۔

"اس طرح نظریں چرانے کا مقصد ؟؟"

وہ اسے اپنے مقابل کرتا اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھنے لگا۔

"نہیں تو !!!"

وہ کنی كترا گئی۔

"ڈاکٹر نے کیا کہا۔ طبعیت کیوں ایسے خراب ہوتی تمہاری۔"

وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں بھر کر پوچھنے لگا۔ صاحبہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں موجود اس کی ذات کے لئے تفكر واضح تھا۔

اس کے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ جھلک اٹھی۔پھر اس کے لب دھیرے سے ہلنے لگے۔

آئی ایم پریگننٹ!!! آپ بابا بننے والے ہیں !!!"

شرما کر کہتی وہ اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپا گئی جو حیرت و بے یقینی سے جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا۔

"میں بہت خوش ہوں اتنی خوش کہ اپنی فیلنگز بیان ہی نہیں کر سکتی۔ ہماری فیملی کمپلیٹ ہونے جا رہی ہے۔ آپ۔۔۔آپ کیسا محسوس کر۔۔۔۔۔"

اس کی قمیض کے بٹنوں سے کھیلتی وہ شرمگیں آواز میں اس سے مخاطب تھی جب وہ اس کی بات کاٹ گیا۔

"مجھے یہ بچہ نہیں چاہئے!!!!"

اس کے روح فرسا الفاظ کانوں میں پڑتے ہی وہ ایک جھٹکے سے اس سے دور ہوئی۔

"یہ۔۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟؟ اس قدر گھٹیا مذاق کس طرح کر سکتے ہیں میرے ساتھ آپ !!!"

اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ آواز میں بھی بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔

"میں نہ ہی کوئی مذاق کر رہا ہوں اور نہ ہی کوئی بکواس۔ مجھے یہ بچا نہیں چاہئے بس!!!! ہم کل صبح ہی ہوسپٹل جا رہے ہیں اوکے ؟؟؟"

اپنی بات مکمل کرتا وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھ گیا جب وہ ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ ہٹا گئی۔ اس کی حرکت پر وہ ضبط کر کے رہ گیا۔

"آپ اس وقت ایک وحشی بن چکے ہیں پر میں ڈائن بن کر اپنی اولاد کو نہیں نگل سکتی۔"

اس سے دو قدم کے فاصلے پر ہوتی وہ انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کرنے لگی۔ ہری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہتے چلے جا رہے تھے۔

وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے ایک جھٹکے سے اپنے ساتھ لگا گیا۔

وہ بھر پور احتجاج کرتی اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگی پر وہ اسے مزید خود میں جکڑ گیا۔

"تو پھر ٹھیک ہے تمہارے پاس فیصلہ کرنے کے لئے آج کی رات ہے بس۔ اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لو کہ تمہیں اپنا شوہر چاہئے یا پھر اولاد!!! تم دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا حق رکھتی ہو۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اور میں اپنے قول اور ارادوں کا کتنا پکا ہوں یہ بھی تم اچھے سے جانتی ہو۔"

وہ بے یقینی سے اس کی سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھنے لگی تو وہ جھک کر اس کی آنکھوں پر اپنا لمس چھوڑتا اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد وہ بے دم سی بیڈ پر گر گئی۔ اسے یقین ہی نہ آ رہا تھا کہ جو شخص اس پر جان لٹاتا تھا اتنی آسانی سے اس کی جان نکال چکا تھا۔ اس کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ اس نازک سی لڑکی کی روح کو لہو لہان کر چکا تھا۔

اس کا ہاتھ بے ساختہ اپنے پیٹ پر گیا اور پھر وہاں موجود ننھی سی جان کے احساس کو محسوس کرتی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"کب تک ایسے چلے گا؟؟"

وہ جو صوفے پر بیٹھا گود میں لیپ ٹاپ رکھے بیٹھا تھا زوہان کے سوال پر سر اٹھا کر دیکھنے لگا جو اس کے سامنے کھڑی محو سوال تھی۔

"ایسا کیسا ؟"

اس پر ایک نظر ڈال کر پھر سے اپنے سابقہ کام میں مشغول ہو گیا۔

"آخر میرا قصور کیا ہے؟؟ کیوں ایسے بیہیو ر رہے ہیں آپ؟ ایک کمرے میں موجود ہوتے ہوئے ہم دو اجنبیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔'

اتنے دن اس کی خاموشی اور سرد انداز محسوس کرتے وہ آخر آج پھٹ پڑی۔

"تمہارے دماغ کا فطور ہے سب۔"

اس کی بات پر کان دهرے بغیر وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔

"چھوڑیں اسے اور میری بات کا جواب دیں۔"

لیپ ٹاپ اس کے ہاتھ سے پکڑ کر ایک دم بند کر کے سائیڈ پر رکھتی وہ اس کے غصّے کو ہوا دے گئی۔

"پاگل ہو تم۔ یہ کیا بچگانا حرکت ہے۔نظر نہیں آ رہا کہ کام کر رہا ہوں میں۔"

تیش میں کہتا وہ اسے سہمنے پر مجبور کر گیا۔ زوہان نے کہاں دیکھا تھا اس کا یہ انداز کبھی۔

اس کی آنکھیں پانی سے لبا لب بھر گئیں۔ اسے یوں ہی چھوڑتی وہ ٹیرس کا دروازہ کھولتی وہاں بند ہو گئی۔

"شٹ !!!"

غصّے سے وہ ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پر مار گیا۔

وہ کافی دیر سر ہاتھوں میں گرائے وہاں بیٹھا رہا۔ جب دو گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی وہ کمرے میں نہ آئی تو شیفان اس کے پیچھے گیا۔

حسب توقع وہ زمین پر بیٹھی گھٹنوں میں منہ دیے رو رہی تھی۔

"کیٹی !!!"

اس کی پیار بھری پکار پر وہ ایک دم سٹل ہوگئی البته سر نہ اٹھایا۔

"آئی ایم سوری !!!"

وہ پھر سے بولا پر جواب ندارد۔

وہ اس کے ساتھ ہی فرش پر  بیٹھتا اس کے کندھے کے گرد ایک بازو پهيلاتا دوسرے ہاتھ سے اس کا چہرہ اٹھا گیا۔

اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی شیفان لب بھینچ گیا۔دل ہی دل میں جی بھر کر خود کو ملامت کیا۔

سرخ چہرہ نم آنکھیں بھیگی پلکیں لال پڑتا ناک اور تھرتھراتے لب !!! کیا حال کر لیا تھا اس نے اپنا۔

"میں پریشان تا تھوڑا یار بس اسی لئے۔"

ماتھے پر بکھرے بال ایک ہاتھ سے سمیٹتا وہ الجھے ہوئے لہجے میں بولا۔

"کیا پریشانی ہے؟؟ اتنے دن سے پوچھ رہی ہوں۔ آپ کم از کم مجھ سے شیئر تو کریں۔ میاں بیوی تو ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں نا۔ پھر مجھ سے کیسے پردہ داری۔"

وہ شکوہ کن لہجے میں بولی تو شیفان مزید شرمنده ہو کر رہ گیا۔

"اچھا اب کان پکڑ کر معافی مانگ رہا ہوں پلیز معاف کر دو۔"

وہ سچ میں اپنے دونوں کان پکڑتا بولا تو اس کی شکل دیکھتے وہ بے ساختہ ہنس دی۔

"چھوڑ دیں۔ بہت فنی لگ رہے ہیں۔"

اس کے ہاتھ پکڑ کر کان سے ہٹاتی وہ ہنستی ہوئی بولی۔

وہ ایک دم اس کی کمر میں بازو ڈالتا اسے خود میں بھینچ گیا۔

اپنے وجود پر اس کی سخت گرفت اور اپنی گردن پر اس کی گرم سانسوں کی تپش محسوس کرتی زوہان بوکھلا گئی۔

"بہت ضروری ہو میرے لئے تم۔ تمہارا وجود مجھے ہر پریشانی سے آزاد کر دیتا ہے۔بس میرے قریب رہا کرو۔"

اس کے کان میں سرگوشی کرتا وہ اس کے وجود کو ہلکا پهلكا کر گیا۔وہ سرشار سی اپنے کانوں میں ہوتی میٹھی سرگوشیوں کو سننے لگی۔

@@@@@

پچھلے چند دن بہت بیزار اور اداس سے گزرے تھے ۔ ان دونوں میں ہوئی تلخ کلامی کے بعد دونوں ہی قطع کلام کر چکے تھے۔

آج صبح سے اس کی طبیعت کافی خراب تھی جس کی وجہ سے وہ بستر سے نکلی ہی نہ تھی۔

ناشتہ بھی زوہان سے کمرے میں منگوا لیا پر کچھ کھایا نہیں گیا تو ٹرے ویسی ہی واپس بھیج دی۔

لاؤنج میں بیٹھے اورهان نے خاموش نظروں سے یہ سب دیکھا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ نڈال سے باتھروم سے باہر آ رہی تھی۔ چہرہ ستا ہوا تھا۔ پیلی پڑتی رنگت طبعیت خرابی کی گواہی دے رہی تھی۔

اورهان کمرے میں داخل ہوا تو اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ رخ موڑ گئی۔ اورهان نے بہت ضبط سے اس کی یہ حرکت برداشت کی تھی۔

اسے سب سے زیادہ غصّہ صاحبہ کے نظر انداز کرنے پر آتا تھا۔ یہ حرکت نا قابل برداشت تھی اس کے لئے۔

اسے نظر انداز کرتی وہ بیڈ کی طرف بڑھنے لگی جب بیچ راستے میں وہ اسے بازو سے تھام کر روک گیا۔ صاحبہ نے سوالیه نظروں سے اسے دیکھا۔

"ناشتہ کیوں نہیں کیا؟"۔

"دل نہیں کیا !!"

"دل کیوں نہیں کیا ؟؟"

"کیوں کہ طبعیت ٹھیک نہیں۔"

"کیا ہوا ہے طبعیت کو؟"

"جو بھی ہوا ہو آپ کو اس سے کیا مطلب ؟؟"

"اگر بھول گئی ہو تو یاد کروا دوں کہ تمہارے سارے مطلب اورهان بلوچ سے ہی وابستہ ہیں۔"

"یاد کروانے کا شکریہ۔ اب پیچھے ہٹیں مجھے ریسٹ کرنا ہے"

"کس انداز میں بات کر رہی ہو مجھ سے تم ؟؟"

"کس انداز میں کر رہی ہوں آپ ہی بتا دیں کیوں کہ اپنی طرف سے تو بلکل نارمل انداز میں نارمل سی بات کر رہی ہوں۔"

"صاحبہ میرا دماغ پہلے ہی بہت خراب ہے مزید اضافہ مت کرو اس میں ورنہ پاگل ہو جاؤں گا میں۔"

"میری ایسی کوئی خواہش نہیں۔"

اتنے میں دروازہ ناک ہوا تو اورهان دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ رانی کھانے کی ٹرے لئے کھڑی تھی جس کا اورهان حکم دے ر آیا تھا۔ ٹرے تھام کر اورهان نے دروازہ بند کر دیا۔

اتنے میں صاحبہ بیڈ پر لیٹتی آنکھوں پر بازو رکھ چکی تھی۔

"اٹھ کر بیٹھو۔کھانا کھا کر دوائی لو پھر سو جانا۔"

اسے حکم دیتا اس کے سر پر کھڑا ہو گیا۔

"میں واضح بتا چکی ہوں کہ مجھے نہیں کھانا۔ آپ کو تکاف کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے چاہئے ہوگا تو خود ہی لے لوں گی۔"

بازو ہٹا کر اسے جواب دیتی وہ پھر سے بازو آنکھوں پر رکھ گئی۔

یہ اس کی بدلتی طبیعت کا ہی اثر تھا جو اس طرح بات کر رہی تھی اورهان سے ورنہ صاحبہ تو ایسے بات نہ کرتی تھی۔

وہ اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر اگلے ہے لمحے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھا گیا۔

اس کے سامنے بیٹھتا وہ سوپ کے پیالہ سے چمچ بھرتا اس کے لبوں کے قریب لے گیا۔

"منہ کھولو اور کوئی بحث مت کرنا ورنہ سچ میں کچھ کر بیٹھوں گا میں۔ تم نہیں جانتی میرا دماغ کس قدر تپا ہوا ہے ابھی۔"

س کے اٹل انداز پر وہ اب کی دفعہ نہ چاہتے ہوئے بھی منہ کھول گئی تو وہ اسے سوپ پلانے لگا۔

"دوائی کہاں ہے تمہاری ؟؟"

سوپ ختم ہونے کے بعد برتن سائیڈ پر رکھتے اس نے صاحبہ سے پوچھا تو وہ سائیڈ ڈرار کی طرف اشارہ کر گئی۔

اورهان نے دوائی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی اور پانی کا گلاس اس کے دوسرے ہاتھ میں پکڑایا۔

اس کی سرخ آنکھوں کو غور سے دیکھتی وہ دوائی نگل گئی۔ اورهان نے اس کے ہاتھ سے گلاس پکڑا اور ٹرے میں رکھ کر ٹرے اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔

اس کے جانے کے بعد صاحبہ کی آنکھوں سے گرم سيال بہنے لگا تو وہ چپ چاپ آنکھیں بند کر گئی۔

@@@@@

وہ جب سے ہسپتال سے واپس آئی گم سم سی تھی۔ اس کی آنکھوں کا آپریشن تھا پندره دن بعد۔شیفان نے لندن کے مشہور ہسپتال بات کر رکھی تھی۔ جیسے ہی ڈونر ملا تو ڈاکٹر نے رومیصہ کے آپریشن کا پیغام دے دیا۔

صاحبہ نے انکار کرنا چاہا تو جانے کیوں الفاظ حلق میں ہی دم توڑ گئے۔

کیا وہ واقعی پوری زندگی دوسروں کے سہارے پر رہتی ؟؟ اپنوں کی شکل دیکھنے کو ترستی ؟؟

نہیں۔ اگر اللّه موقع دے رہا تھا تو وہ کیوں نا شکری کرتی۔

صاحبہ دونوں ہاتھوں میں سر گرائے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ تین دن سے اورهان اور اس کی بول چال بند تھی۔ کسی ایک نے بھی دوسرے کو بلانا گوارا نہ کیا تھا۔

دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر اس نے سر نہیں اٹھایا کیوں کہ آنے والے کے قدموں کی چاپ ہی اس کا پتہ دے چکی تھی۔

وہ آ کر اس کے بلکل سامنے کھڑا ہو گیا۔

"اٹھ کے ریڈی ہو جاؤ ڈاکٹر کے پاس چل رہے ہیں ہم۔"

اس کی بات پر صاحبہ سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔

"کیوں ؟ ڈاکٹر کے پاس کس لئے جانا ہے۔میں پرسوں اپنا چیک اپ کروا آئی تھی۔"

اس کی بات پر اورهان لب بھیچ گیا۔

"تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں تمہیں کس مقصد کے لئے لے جانے والا ہوں ہسپتال۔"

اس کے تاثرات حد سے زیادہ سرد تھے۔

"نہیں میں نہیں جانتی۔ آپ بتا دیں۔"

جانتے بوجھتے وہ اس کا ضبط آزما رہی تھی۔

"کیوں کہ بہت دن گزر چکے پہلے ہی تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے۔ ہمیں جلد از جلد یہ سب ختم کرنا ہے۔"

دانت پیس کر کہتا وہ اس کے سامنے سے ہٹنے لگا جب وہ اپنی جگہ سے اٹھتی اس کی مظبوط کلائی اپنے نازک ہاتھ میں تھام گئی۔

"کیا ختم کرنا ہے؟؟ ہماری اولاد کو ؟؟ صاف لفظوں میں کہیں نا۔"

تلخ لہجے میں کہتی وہ اورهان کی سماعتوں کو لہو لہان کرنے کے در پر تھی۔

"ہماری نہیں بلکہ میری۔ میری اولاد کو ختم کرنا چاھتے ہیں آپ۔"

اس اس بات پر وہ اپنی کلائی چھڑواتا اسے کندھوں سے دبوچ گیا۔

"کیا میری میری لگا رکھی ہے۔ پیچھے سے لے کر آئی تھی کیا؟؟ نہیں نا !! تو پھر منہ بند رکھو۔"

ترش لہجے میں کہتا وہ صاحبہ کی آنکھیں بھیگا گیا۔

"کس قدر ظالم ہیں آپ۔ اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرنا چاہ رہے ہیں یا پھر آپ کو یہ شک ہے کہ میرا کردار خراب ہے اور یہ بچہ کسی اور۔۔۔"

اس کے جملہ مکمل کرنے سے پہلے اورهان کا بھاری ہاتھ اس کے منہ پر چھاپ چھوڑ گیا۔

اپنے گال پر ہاتھ رکھتی وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اورهان کو دیکھ رہی تھی۔ 

اورهان نے اسے تھپڑ مارا تھا۔اس کے سردار نے ؟؟؟ وہ بے یقین کھڑی تھی جب وہ عیسیٰ کندھوں سے پکڑ ر جهنجھوڑ گیا۔

"تم پاگل ہو گئی ہو۔ جانتی بھی ہو ابھی کیا بکواس کی ہے تم نے۔ تم نے میرے منہ پر تمانچہ مارا ہے۔ مجھے اس قدر بے غیرت سمجھ لیا ہے کیا تم نے۔ بولو !!!'"

وہ زخمی شیر کی طرح چیخا تھا۔ اس کی دهاڑ پر صاحبہ خوف سے كپكپانے لگی۔

"تم ۔۔۔تم میری شکل دیکھنے کو بھی ترسو گی اب۔"

غرا کر کہتا وہ اسے ایک جھٹکے سے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جاتے جاتے کمرے کا دروازہ زور دار طریقے سے بند کر گیا۔

صاحبہ کی ٹانگوں نے کھڑے رہنے سے انکار کیا تو وہ وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

گال پر ہوتی جلن اور اپنے بولے الفاظ یاد کرتی وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

اس کے الفاظ اسے شدید پشیمان کر رہے تھے پر وہ غصّے میں اندھی ہو گئی تھی پاگل ہو گئی تھی۔

اسی لئے تو غصّے کو حرام کیا ہے ہمارے اسلام نے کیوں کہ غصّے میں انسان سہی اور غلط کا فرق بھول جاتا ہے۔ اچھے اور برے کی تمیز کھو دیتا ہے۔ غصّہ انسان کے حواسوں پر سوار ہو کر اس کی سدھ بدھ کھو دیتا ہے۔

اسے اپنی کم عقلی کا اچھے سے احساس تھا۔ اورهان نے اسے تھپڑ مارا تھ۔  پہلی دفعہ اس پر ہاتھ اٹھایا تھا پر وہ اس بات پر خفا نہیں تھی۔اسے اس حرکت پر بلکل بھی غصّہ نہیں تھا کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ جیسے الفاظ اس نے خود استعمال کیے ہیں ان پر وہ ایسے ہی تھپڑ کی حق دار تھی۔

مرد کی غیرت پر چوٹ کرنا اسے جلتے توے پر بیٹھا دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ وہ کسی صورت برداشت نہیں کرتا کہ اس نے وابستہ عورت کا نام کسی اور مرد کے ساتھ جڑے۔

جب کہ صاحبہ نے تو حد ہی کر دی تھی آج۔ 

اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کس سے اپنا غم بانٹے۔ماں کی کمی آج شدّت سے محسوس ہوئی تھی۔ جب کچھ نہ سمجھ آئی تو وہ وہاں سے اٹھتی رخسار بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

@@@@@

دروازہ ناک ہوا تو انہوں نے اندر آنے کی اجازت دی۔ دروازہ کھلا تو سامنے صاحبہ کو دیکھ کر رخسار بیگم بھر پور حیران ہوئیں کیوں کہ وہ بہت کم ان کے کمرے میں آتی تھی پر اس کی حالت دیکھ کر انھیں سہی معنوں میں تشویش ہوئی۔

"ملگجا لباس بکھرے بال لال آنکھیں اور ستا ہوا چہرہ۔

ان کا دل بے ساختہ نرم پڑا تھا اس کے لئے۔

وہ بیڈ پر اٹھ بیٹھیں۔

"کیا ہوا صاحبہ سب ٹھیک ہے ن؟ ؟"

شاید پہلی بار انہوں نے اس قدر نرمی سے صاحبہ سے بات کی تھی۔

صاحبہ شکستہ قدم اٹھاتی ان کی طرف بڑھی اور زمین پر بیٹھتھی اپنا سر ان کی گود میں رکھتی بچوں کی طرح رونے لگی۔

رخسار بیگم کا دل انجانے خدشات کے تحت لرز اٹھا۔

"صاحبہ تم مجھے پریشان کر رہی ہو اب۔ اورهان کہاں ہے وہ ٹھیک تو ہے نا؟؟"

ان کی تشویش پر وہ سر ہلا گئی۔

"تو پھر کیا ہوا ہے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اور اورهان کہاں ہے۔"

اس کا سر اٹھاتی وہ اس کے ستے چہرے کو دیکھتی پوچھنے لگی۔

"مم۔۔میں ۔۔میرا مطلب آپ ۔۔۔دادی بننے والی ہیں۔"

وہ رونے کے دوران وقفے سے بولی تو رخسار بیگم چونک اٹھیں۔ اگلے ہی پل خوشی سے ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔

"ماشاءالله یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ تم اس خبر پر رو رہی ہو ؟؟"۔

ان کے پوچھنے پر وہ نفی میں سر  ہلا گئی۔

"اورهان یہ ۔۔۔یہ بچہ نہیں چاہتے۔ وہ چاھتے ہیں کہ میں ۔۔۔میں اسے ختم کر دوں۔"

بات مکمل کرتی وہ پھر سے رو دی جب کہ اس کی بات سن کر رخسار بیگم تپ اٹھیں۔

"کیا بکواس ہے یہ۔دماغ خراب ہو گیا ہے کیا اس کا۔ اپنے ہی وارث کو ختم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ اس کو آنے دو میں اس کی خبر لوں گی۔ تم اٹھو یہاں سے شاباش اوپر آ کر بیٹھو طبیعت خراب کروا لو گی ایسے۔"

پیار سے اس کا سر سہلاتی وہ اسے بیڈ پر بلا گئی۔

صاحبہ چپ چاپ ان کے ساتھ بیٹھ کر اپنا سر ان کی گود میں رکھ گئی۔

"میری ماں نہیں ہے۔ میں نے کبھی ان کا لمس بھی محسوس نہیں کیا۔ میں نے اپنے دکھ کبھی کسی سے نہیں بانٹے۔پر یہ دکھ بہت بڑا ہے۔ میں اکیلے اس کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ مجھے یہاں بہت سکون مل رہا ہے۔ آج پتا چلا کہ ماں کی آگوش کس قدر پر سکوں ہوتی ہے۔"

دھیمی آواز میں بولتی وہ تھکی تھکی آنکھیں بند کر گئی۔ رخسار بیگم اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔ اس کی حالت دیکھ کر ان کا دل پسیج گیا۔

وہ بہت نرم دل خاتون تھیں پر افگن کی موت نے انھیں حد درجہ تلخ کر دیا تھا۔ پر اس کی یہ حالت دیکھ کر ان کا دل خود با خود نرم پڑ گیا صاحبہ کے لئے۔

"سب بھول جاؤ۔ دماغ کو پر سکون رکھو اور سو جاؤ کچھ دیر۔ تمہاری آنکھیں دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے عرصے سے نہیں سوئی۔"

وہ دھیرے دھیرے اس کے بال سہلانے لگی جب کہ صاحبہ کی آنکھیں بند تھیں۔

@@@@@

وہ جس وقت اٹھی کمرے میں اکیلی تھی۔ رخسار بیگم شاید باہر تھیں۔کمرے کی لائٹ بھی بند تھی صرف سائیڈ ٹیبل لیمپ جل رہا تھا۔ 

ہاتھوں سے بال سنوار کر وہ فریش ہونے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ ہاتھ منہ دھو کر وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔

زوہان ناز اور رخسار بیگم لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ خلاف توقع رومی بھی وہیں بیٹھی تھی پر اس کے لب خاموش تھے۔

"ماں!! مجھے امی ابو کی قبر پر جانا ہے۔ پلیز کسی کو بھیج دیں ساتھ۔"

وہ رخسار بیگم کے پاس جا کر بولی۔

"ٹھیک ہے چادر لے آؤ۔ میں ڈرائیور کو کہتی ہوں لے جاۓ تمھیں۔ زوہان بیٹا جاؤ بھابھی کے لئے جوس لے کر آؤ۔ جوس پی کر جاۓ گی یہ۔"

رخسار بیگم کی بات پر زوہان سر ہلاتی کچن کی طرف چلی گئی جب کہ صاحبہ چادر لینے اپنے کمرے کی طرف۔ 

وہ چادر لے کر باہر آئی تو تب تک زوہان بھی جوس لے آئی جسے صاحبہ ایک ہی سانس میں ختم کرتی باہر کی طرف قدم اٹھا گئی جہاں ڈرائیور گاڑی تیار کیے کھڑا تھا۔

گاڑی قبرستان کے باہر رکی تو صاحبہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

اپنے ماں باپ کی قبر کے پاس پہنچ کر وہ ہاتھ اٹھاتی دعا مانگنے لگی۔ 

وہ آنکھیں بند کے خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہی تھی جب پیچھے سے کسی نے اس کے ناک پر کلوروفارم سے بھرا رومال رکھ دیا۔ وہ لاکھ جھٹپٹائی پر مقابل کی گرفت مضبوط تھی۔دھیرے دھیرے وہ ہوش و حواس سے بیگانا ہوتی چلی گئی۔

ڈرائیور کافی دیر باہر کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا تھا پر جب کافی وقت گزر جانے کے بعد بھی وہ باہر نہ آئی تو وہ خود اندر کی طرف بڑھ گیا جہاں ویرانے نے اس کا استقبال کیا۔ وہ آگے پیچھے ہوتا اسے ڈھونڈھنے لگا پر نہ اس نے ملنا تھا اور نہ ہی وہ ملی۔ پندره منٹ اسے ڈھونڈھنے کے بعد وہ خالی ہاتھ هویلی کی طرف چل دیا۔

@@@@@

"تمہیں چھوٹا سا کام دیا تھا جس کے منہ مانگے پیسے تمہیں پہلے ہی دے دیے گئے ہیں پھر اب تک میرا کام کیسے نہیں ہوا۔"

کال پر موجود انسان غصّے میں چیخا تھا۔

اس نے بیزاری سے موبائل کان سے تھوڑا دور ہٹایا۔

"تمہارے آدمی نے کس قدر بری ویڈیو ایڈٹ کر کے دی تھی۔ وہ پہلی ہی نظر میں اسے فیک ثابت کر گیا تھا۔ نکمے تمھارے آدمی ہیں اس لئے الزام پر پر نہ ڈالو۔"

وہ بھی بغیر کوئی لحاظ رکھے تڑخ کر بولی تھی۔

"تم کسی کام کی نہیں لیلیٰ!!!"

کرخت آواز میں پھر سے چیخا گیا۔

"اگر کام کی نہیں تھی تو کیوں مجھ سے یہ کام کروایا۔ اچھا بھلا میں اپنے طریقے سے شیفان کو پھر سے اپنی محبت کے جال میں پهنسا لیتی پر تمھارے بکواس پلان نے سب خراب کر دیا۔ دھمکی دی ہے اس نے مجھے کہ اب میں اس کے یا اس کے خاندان کے قریب دکھائی بھی دی تو میری بوٹیاں کر کے کتوں کے آگے ڈال دے گا۔"

غصّے سے اس کا چہرہ تپ اٹھا۔

"تم بھول رہی ہو کہ جب اپنے دوسرے یار سے دھوکہ کھانے کے بعد پاکستان لوٹی تھی اور کنگال سی پھر رہی تھی تو میں نے تمہیں سہارا دیا۔ پر تم !!! تم نے میرا ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں کیا۔پہلے اس صاحبہ کو اپنی باتوں میں نہ پهنسا سکی اب شیفان کو بھی نہیں۔"

مقابل وجود کا بس نہ چل رہا تھا کہ اس پر ٹوت پڑے۔

"تم نے تو کہا تھا کہ وہ صاحبہ بیوقوف سی ہے پر اچھی خاصی شاطر ہے وہ لڑکی۔ اپنے شوہر پر لگا الزام برداشت نہ کیا بلکہ میری درگت بنا ڈالی۔ عجیب سائکو خاندان ہے۔"

اسے آج پھر سے صاحبہ کے ہاتھوں ہوئی اپنی ہے عزتی یاد آ گئی۔

"تم میرے پیسے واپس کرنے کا سوچو کیوں کہ میرے کسی کام کی نہیں تم۔بھاڑ میں جاؤ۔"

وہ اسے سناتا کھٹاک سے کال بند کر گیا۔

"سٹھیا گیا ہے سالا۔ دیکھتی ہوں کیسے پیسے وصولتا ہے مجھ سے۔ ہنہہ!!!"

غصّے سے کہتی وہ کسی اور کو کال ملا گئی۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Nachaya Yar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Nachaya Yar written by Meem Ain. Ishq Nachaya Yar by Meem Ain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment