Pages

Tuesday 6 August 2024

Ishq By AS Writes New Complete Romantic Novel

Ishq By AS Writes New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq By AS Writes Complete Romantic Novel


Novel Name: Ishq

Writer Name: AS Writes

Category: Complete Novel


ایک لڑکی جس نے سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں  وہ کسی سے کہا رہی ہے 

کہ وہ یہ نکاح نہیں کرسکتی تم کیوں نہیں سمجھتے  تم جانتے ہو نا کہ ہم کون ہیں اور یہاں کیوں آ ئے ہیں  ہم صرف کام کے لیے ہیں  

جی میں سمجھتا ہوں کہ ہم کون ہیں اور یہاں کیوں آ ئے  مگر اگر آپ نے آ ج یہ نکاح نہیں کیا تو ہماری سالوں کی محنت پر پانی پھر جائےگا اور آ پ بھی ایسا کچھ نہیں چاہتی تو اس نکاح کے لیے  تیار ہوجائے 

ورنہ یہ لوگ ہمیں مار ڈالےگے

وہ لڑ کا اس لڑ کی کو سمجھتا ہے  اس لڑ کے کی بات سننے کے بعد وہ لڑکی کچھ دیر سوچتی رہی پھر اس نے کہا کہ یہ نکاح صرف اس مقصد کے لئے کرنے کو تیار ہو  جیسے ہی ہمارے مقصد پورا ہو گیا میں طلاق لے لوگئ

ٹھیک ہے اس  لڑ کی کی بات سننے کے بعد وہ بولا  

بس ایک دفعہ یہ نکاح کرلے جیسے ہی ہمارے مقصد پورا ہو گیا میں طلاق لینے میں آپ کی مدد کرو گا 

آ پ یہ چادر اوڑھے مولوی صاحب آتے ہی ہوگئے پھر اس پتا ہی نہیں چلا کہ کب اس کا نکاح ہو وہ سب کچھ خالی خالی نظروں سے  کچھ دیکھ رہی تھی

روح پیاسی کہاں سے آتی ہے

یہ اداسی کہاں سے آتی ہے

ہے وہ یکسر سپردگی تو بھلا

بدحواسی کہاں سے آتی ہے

وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں

ناسپاسی کہاں سے آتی ہے

ایک زندانِ بے دلی اور شام

یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے

تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو

ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے

دل ہے شب سوختہ سو اے امید

تو نداسی کہاں سے آتی ہے

میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری

تو نراسی کہاں سے آتی ہے

________۔______

یہ منظر ہے ایک آفس کا جہاں چار لوگ ایک کیبن میں بیٹھے ہوئے کسی کیس کے متعلق بات کر رہے تھے سب لوگوں کے چہرے ماسک سے ڈھکا ہوئے ہیں 

دفعتا کیبن کا دروازہ کھولا اور اندر دو لوگ داخل ہوئے ان کے چہرے ماسک سے ڈھکا ہوا تھا اور آنکھوں پر گلاسس لگے ہوئے ہیں  

تمام لوگ کی نظر ئیں ان دو لوگ پر پڑی مگر وہ نظر انداز کر تے ہو  کرسی پر بیٹھ گے تب ہی ان میں سے ایک بولا ویلکم آفسر زی اور آ فسر خان جس کا جواب انہوں نے سر ہلا کر دیا  

تب آفسر جے کی آواز نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا

جیسا کہ آ پ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہم یہاں کس وجہ موجود ہے پچھلے کچھ مہینوں میں ان  علاقوں  میں بہت سے بچے اغوا ہوئے ہیں اور بہت سی مشکوک سرگرمیاں نظر ائی ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ کیس آ پ دونوں سولو کریں  

جیسے ہی آفسر جے کی بات ختم ہو ئی تمام لوگ کی نظر ئیں ان دونوں  پر پڑی  ان میں سے ایک بولا  ہمیں معلوم ہے کہ آ پ نے ہمیں اس کیس کے لیے ہی یاد کیا ہے اس لیے  

ہم پہلے ہی اس کیس کے متعلق معلومات حاصل کر رہے ہیں 

جہاں تک ہمیں معلوم ہوا ہے اس 

کہ مطابق  جتنے بھی لوگ ہیں وہ ان سات علاقوں سے ہیں  کیونکہ پچھلے کچھ مہینوں میں ان سات علاقوں سے بہت سے بچے اغوا ہوئے ہیں 

اس لیے ہمارے شک  ان علاقوں کے لوگوں میں گیاتیری الفت میں ہم صنم بہے گئے۔

زندہ گی کے غم ہم صنم سہے گئے ۔

پیار جو تم سے کیا تھا ہم نے صنم ۔

اس پیار کے افسانے ادھورے رہے گئے ۔ 

بہت کچھ سوچا تھا ہم نے تیرے لئیے۔

ہر سوچ کے بخیئے یوں ادھیڑے گئے ۔ 

اور ہم نے وہاں تصدیق کی ہمیں ان سات علاقوں سے بہت سے لوگ جو یہ کام کر تے ہے ان کا پتا چلا  لیکن ان سب کا کوئی فائدہ نہیں ہو ان دونوں میں سے ایک نے اپنی بھاری آواز میں کہا  

جبکہ دوسرا خاموشی سے سنا رہا تھا  جب وہ خاموش ہو تو وہ لڑکی بولی  

ہم نے وہاں تصدیق کی اس سے زیادہ تو نہیں مگر اتنا پتا چل گیا ہے کہ ان سب کے بوس کا نام  ڈی ہے 

اور اسے آج تک کسی نے بھی نہیں دیکھا 

وہ ہمیشہ اپنا چہرہ رومال سے چھپا ہوتا ہے 

ایک نسوانی آواز بلند ہوئی تمام لوگ کی نظر ئیں اس ماسک والی لڑکی کی طرف ہوئی 

وہ سنجیدگی سے بولی تھی 

اس لڑ کی کی بات سننے کے بعد آفسر جے  بولا 

اس لیے میں چاہتا ہوں کے یہ کیس آ پ دونوں سولو کریں جیسے کہ ہمارے پہلے چار آفسر 

اس کیس کی وجہ سے مارے گئے ہیں 

اور اب ہم مزید اس کیس میں لوگوں کی جان خطرے میں نہیں ڈال  سکتے ہیں 

اوکے سر ہم دونوں اپنا بیسٹ دے گئے 

اب ہمیں اجازت دیں  دو لوگ میں سے ایک نسوانی آواز بلند ہوئی  

اوکے آفسر  اللہ آ پ کو کامیاب کریں

 امین ثم امین


میرے چہرے کی رونق کھا گیا تیرا ادھورا عشق.

اب تو میں جوانی میں بھی صدیوں پرانا لگتا ہوں.

_________________

زرمینے اٹھ جاو کیا آج تم نے کالج نہیں جانا 

زرمینے جو نیند میں تھی اپنی  چچی کی بات سننے کے بعد فورا چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی  

معاف کیجئے گا معلوم ہی نہیں چلا کہ کب میں نماز پڑھنے کے بعد سو گئ 

زرمینے نے اپنے سامنے چچی کو دیکھ کر شرمندگی سے کہا  

کوئی بات نہیں  بیٹا کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے  

چچی نے زرمینے کے چہرے پر  شرمندگی کم کرنے کے لیے کہا 

اچھا چچی میں  تیار ہو کر آتی ہو تب تک آپ ناشتہ  لگائیں

زرمینے کی بات سننے کے بعد چچی نے ایک نظر زرمینے کی طرف دیکھا جو اس وقت 

ایک سادہ سے سوٹ جہاں جگہ جگہ سلائی لگی ہوئی تھی پہنا ہوا تھا اور  زرد رنگت پر چھوٹی سی آ نکھے جن کا رنگ نیلا  تیکھی سی ناک چھوٹے سے گلابی  ہونٹ جو بلاشبہ  بہت   خوبصورت تھی مگر غر یبی نے اور  گھر کے حالات نے اس نازک پھول کو مرجھا دیا 

پھر آگے بڑھ کر زرمینے کی پیشانی چومتی ہوئی باہر نکل گئ چچی کے جانے کے بعد وہ بھی سر جھٹکتی واش روم میں چلی گئی 

دس منٹ بعد وہ منہ دھو کر باہر چچی کے ساتھ ناشتہ کرنے لگی 

تب ہی اسے اپنے بھائی زریام(چچی کا بیٹا )کی یاد آئی 

چچی زریام نے ناشتہ کرلیا 

نہیں بیٹا تم کرکے جاو میں اسے ناشتہ کروادو گی 

ٹھیک ہے چچی آپ اسے ناشتہ کروا دینا اور آپ دونوںمیڈیسن بھی لے لینا 

اور پھراپنے ناشتہ جو آیک سوکھی روٹی اور پتلی سی چائے جس میں دودھ نہ ہونے کے برابر ہے

  پر متوجہ ہو ئی 

دو نوالے روٹی کے لیے اور چائے ختم کر کے کالج کے لیے روانہ ہوگئ

اشرف اور اسحاق خان دونوں بھائی تھے جن کی شادی ان کی تایا ذاد کزن مریم اور نائلہ بیگم سے ہوئی

اشرف اور اسحاق خان دونوں کی آمدنی کا دارومدار ایک دوکان پر تھا 

شادی کےدو سال بعد  اللہ نے ان دونوں بھائیوں کو رحمت اور نعمت سے نواز  اشرف خان کے ہاں بیٹا جبکہ اسحاق خان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی 

اشرف کے بیٹا کا نام زریام جبکہ اسحاق کی بیٹی کا نام زرمینے رکھا  

سب بہت اچھا جارہا تھا کہ ایک دن اسحاق اور مریم  کا ایک کار ایکسڈینٹ میں موت ہو گئ

اسے کہنا تمہارے بعد دل کی شاہراہوں پر 

فقط اندیشہء صبر و رضا کی دھول اڑتی ہے

بلا کی دھول اڑتی ہے 

ان دونوں کی موت نے اشرف خان  اور نائلہ بیگم کو اندر سے توڑ ا دیا  لیکن انہوں نے اینے بچوں کے لیے خود کو مضبوط بنایا سات سالہ زرمینے کو تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کون سی قیامت ٹوٹ گئ 

وقت کا کام ہے گزرانا سو وہ گزارہ گیا آہستہ آہستہ تمام لوگ اینی زندگی میں ٹھیک ہوں گے کہ تب ہی ایک ساتھ دو دو قیامت ان پر ٹوٹ پڑی 

جب ان کے گھر اشرف خان کی موت کی خبر اور زریام کی کوما میں جانے کی خبر ملی 

چچی کو پہلی بار دل کا دورہ پڑا

پچیس سالہ زرمینے حیرت سے اپنا گھر بکھرتے ہوئے دیکھا 

چونکہ ان کے پاس دوکان تھی تو چچی نے اسے کرائے پر دےدیا 

تاکہ گھر کا خرچ چلاسکے 

نائلہ بیگم دل کی مرض میں مبتلا ہوگئ تو ان کے علاج کے لیے اور زریام کی ہسپتال کی فیس بھرنے کے لیے انہیں اپنا گھر بیچنا پڑا

اور ایک کرائے کے گھر میں چلے گئے اس گھر میں انے کے دو ماہ بعد زریام کوما سے باہر آ گیا  مگر دماغ میں خون جمع ہونے کی وجہ سے وہ ابنارمل ہو گیا 

ڈاکٹر نے کہا اسے کے دماغ کا آپریشن ہونا پڑا گا مگر پیسوں کی کمی کی وجہ سے نہ ہو سکا

 _______________

اج دس سال بعد وہ اپنے وطن میں واپس ایا اسوقت ائیرپورٹ پر کھڑا خادم کا انتظار کر رہاہے اس کےچہرے پر واضح بیزاری اور غصہ ہے کہ تب ہی خادم آتا ہو دکھائی دیا 

ابھی وہ کچھ کہتا کہ خادم جلدی سے بولا 

معاف کیجئے گا سرکار انے میں دیر ہوگئی وہ راستہ میں ٹریفک بہت تھا 

خادم کا جواب سننے کے بعد اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور گاڑی میں بیٹھے گیا  اسےکے گاڑی میں بیٹھنے  کے بعد خادم جلدی سے ڈرائیو کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے گیا اور ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کرلی 

جیسے ہی ان کی گاڑی چلی پچھے چار گاڑیاں اور چلی جن میں اسکی حفاظت کے لیے گارڈ ہاتھوں میں اسلحہ لے ہوئے تھےیہ گاڑیاں ایک عالشان بنگلے کےسامنے روکی خادم جلدی سے گاڑی سے ہاہر آ کر دروازہ کھولتا ہے وہ لڑکا گاڑی سے باہر نکلتا ہے کہ تب ہی گھر کے اندر سے  بہت سے لوگ باہر آ تے 

سب سے پہلے  عالم شاہ اپنے بیٹے کو گلے لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ آ خر تم نے میری بات مان لی 

یس ڈیڈ آپ نے اور کوئی  آپشن ہی نہیں چھوڑا 

اچھا اب ہم کل کو ہی تمہیں سردار بنا دے گئے اور ایک بہت بڑا جشن بھی منائے گے 

اوکے ڈیڈ جیسی آ پ کی مرضی  میں بہت تھک گیا ہوں  مجھے میرا روم بتادے میں ریسٹ کرنا چاہتاہ  ہوں  اس نے ایک نظر تمام گھر والوں کو دیکھ کر کہا پھر بات ہوگئ آپ سب سے 

عالم صاحب نے پچھلے کھڑے خادم کو کہا جاو سرکار کو ان کا روم دیکھ دوں 

جی سرکار چلے میں آ پ کو کمرہ دیکھ دیتا ہوںسید آصف شاہ اور سید احمدشاہ اور سید جمیلہ شاہ اور سید کوثر شاہ چاروں بہن  بھائی ہیںسید آصف شاہ کی شادی ان کی پسند نبیلہ بیگم سے ہوئی جن سے انہیں ایک بیٹا جس کا نام انہوں نے سید غز لان شاہ رکھا سید غزلان شاہ انتہائی خوبصورت دودھ جیسا رنگ  6فٹ کا قد چھوٹی چھوٹی آنکھیں جن کا رنگ براون  مغرور کھڑی ہوئی ناک ہلکے گلابی رنگ کے ہونٹ وہ شہزادوں جیسی آن بآن  رکھنے والاشخص واقع میں ایک شہزادہ ہے اٹھارہ سال کی عمر میں امریکہ پڑھنے کے لیے چلا گیا  پڑھی مکمل کرنے کے بعد وہاں اپنا بزنس اسٹارٹ کیا اور دو سالوں میں اچھا نام کمایا 

اس کا اردہ واپس پاکستان آنے کا نہیں تھا مگر اپنے ماں باپ کی وجہ اگیا اب یہاں اس سب سے بڑے بیٹے ہونے کی وجہ سے سردار بنایا جارہاہے 

  جبکہ سید احمد شاہ کی شادی نوشین بیگم سے ہوئی ان کے تین بچے ہے ایک بیٹا جس کا نام انہوں نے سید داود شاہ رکھا  جبکہ دونوں بیٹوں کے نام مدیحہ اور مبشرہ رکھا  جمیلہ شاہ کی شادی ریاض سے ہوئی شادی کے بعد اللہ نے انہیں ایک رحمت سے نواز  جس کا نام انہوں نے زرتاشیہ رکھا بیٹی کی پیدائش پر جمیلہ شاہ کا انتقال ہو گیا  بچی بہت چھوٹی تھی اس لیے ریاض کی شادی کوثر شاہ سے کردی 

کبھی ہنس کر غم چھپا لیےہم نے

کبھی منہ چھپا کہ روئے 

میری داستانے بےبسی 

وہ سنا سنا کہ روئے 

میں ہو بے وطن مسافر 

میرا نام بےبسی ہے

میرا کوئی بھی نہیں 

جو مجھے گلے لگا کہ روئے 

میرے پاس سے گزارکر 

میرا حال تک نہ پوچھا

میں کیسے مان جاو 

وہ دور جا کہ روئے 

کوثر شاہ شادی کے بعد لاہور چلی گئی  احمد شاہ نے اینی بہن سے رشتہ جوڑ نے لے زرتاشیہ کو اپنے بیٹے سید غزلان شاہ  کی منگ بنالیا  

_______

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

زرمینے کالج پہنچی تو اس کی کلاس شروع ہو نے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تھا اس لیے وہ جلدی جلدی قدم اٹھتی کلاس میں داخل ہوئی تو تمام لوگ کی نظر ئیں اس پر پڑی مگر وہ نظر انداز کر تے ہو کرسی پر بیٹھ گے 

تب ہی اس کی کلاس شروع ہو گئی کلاس ٹیچر عائشہ داخل یہ ٹیچر بہت سخت ہے اس لیے تمام لوگوں جلدی جلدی اپنےرجسٹر نکالنے لگے  زرمینے نے بھی اپنی کاپی نکالی مگر اس میں کوئی بھی صفحہ خالی نہیں  بے اختیار اس کی آنکھیں نم ہوئی  ابھی وہ کچھ کرتی تب ہی ٹیچر نے زرمینے کو کہا زرمینے دیکھاو کہا لیکچر نوٹ کیا  

ٹیچر کی بات سننے کے بعد وہ بولی  وہ ۔۔۔ وہ جب ٹیچر اسکے پاس اکر اسکی کاپی دیکھنے لگی  کیا تم نے ابھی تک کچھ نوٹ نہیں کیا ٹیچر بہت سخت لہجے میں بولی  ٹیچر کی سخت آواز سنتے ہی وہ سہمی وہ ۔۔۔و۔۔ہ ٹیچر  ابھی وہ اپنی بات مکمل کر تی تب ہی ٹیچر نے کہا میری کلاس سے باہر جاو اور مجھے پر نسپل کے افس میں آکر ملو  ٹیچر نے اپنی بات ختم کرکے زرمینے کو کلاس سے نکلنے کا کہا 

وہ خاموش سے آنسو بہتی کلاس سے باہر چلی گئی  

ٹیچر اپنا لیکچر دینے کے بعد زرمینے کو ساتھ لے کر پرنسپل  کے افس میں چلی گئی  اور پر نسپل کو شکایت لگائی 

دیکھ زرمینے بیٹا نہ آپ لیکچر نوٹ کرتی ہے اور نہ ہی ہماری فیس دی ہے ایم سوری لیکن اپ کی ہمارے کالج میں کوئی جگہ نہیں ہے  اپ کل سے کالج مت آنا اب اپ جاسکتی ہے  زرمینے نےبڑی مشکل سے اپنی آنکھیں صاف کرکے باہر نکل گئ  

ابھی گھر کے راستے جارہی تھی کہ اس کی جوتی ٹوٹ گئ 

اب ایک ہاتھ سے جوتی پکڑے اور دوسرےہاتھ سے آنسو  صاف کرتی جلدی جلدی قدم اٹھتی گھر میں داخل ہوئیاور سیدھی کچن میں گئ تاکہ کچھ کھاسکے مگر کچن میں کچھ بھی نہیں تھا اسنے صبح ایک کپ چائے ہی پی تھی اس لیے اب بھوک لگی ہوئی تھی  لیکن کچھ کھانے کا نہ ملا تو پانی پیا اور چچی اور زریام کے کھانے کے بارے میں سوچنے لگی کہ اب انہیں کیا کھانے کے لیے دیں کیونکہ گھر میں راشن ختم ہوگیا ہے اور اسکے پاس پیسے بھی نہیں تھے 

اچانک ہی چچی ائی زرمینے تم کب ائی چچی نے زرمینے سے پوچھا   وہ چچی بس ابھی  ائی زرمینے نے چچی کو دیکھ کر کہا 

اچھا  بیٹا اج ریشماں خالہ ائی تھی وہ کہ رہی تھی کہ اج حویلی میں جشن ہےشاہ سائیں کے بیٹا کا سردار بننے کی خوشی میں  تو تم شام کو ان کےساتھ حویلی چلی جانا اور کھانا لے انا چچی نے زرمینے کو کہا 

ٹھیک ہے چچی میں شام کو چلی جاو گی زرمینے نے چچی کو دیکھ کر کہا 

اچھا اب تم آرام کر لوں پھر شام کو بھی جانا ہے چچی نے کیا  

ٹھیک ہے زرمینے چچی کو دیکھ کر کہا پھر کمرے کی طرف آرام کر نے کے لیے چلی گئ 

شام کو  ریشماں خالہ کےساتھ حویلی چلی گئی حویلی دیکھ اس کی آنکھوں میں ستائش ابھری  زرمینے جلدی چل پہلے ہی بہت دیر ہوگئ ہے خالہ نے زرمینے کو کہا  اور حویلی کے گاڈرن کی طرف چلی گئی  کیونکہ یہ جشن  حویلی کے گارڈن میں رکھا گیا تھا  

زرمینے بھی پیچھے اسطرف آگی یہاں بہت سے لوگ  تھے کچھ ایک دوسرے سے باتوں میں لگے ہوئے اور کچھ ادھر ادھر گھومنے پھرنے میں لگے ہوئے ہیں 

تب ہی خالہ اسےکھانے والی سائڈ لے کر گی اور تھوڑا سا کھانا ایک پلیٹ میں ڈال کر دیایہ لے زرمینے پتر کھالے ابھی سرکار اگے تو ہمیں وہ ان کے استقبال کے لیے جانا پڑے گا  خالہ نے زرمینے کو کہا 

جی خالہ  زرمینے نے کہا اور جلدی جلدی کھانا کھانے لگی  ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ لوگوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئی  کہ سرکار اگئے سرکار اگے  خالہ نے زرمینے کے ہاتھ سے جلدی سے پلیٹ پکڑا کر  سائڈ پر رکھ دی  زرمینےابھی کھانا مت کھانا بعد میں کھانا  خالہ نے زرمینے کو کہا  جی 

زرمینے نے سرکار کو دیکھنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نظر ہی نہیں اے 

جب ایک گھمبیر ساحر زاد آواز مائیک میں بلند ہوئی اسلام وعلیکم  امید کرتا ہوں کہ آپ سب ٹھیک ہو گے جیسا کہ آ پ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہم اب علاقوں کے سربراہ بن گئے ہیں تو ہماری یہی کوشش ہوگئ کہ ہم اپنے علاقے کےلے کچھ بہتر کریں  اب ان علاقوں کے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں  انشاءاللہ   اب ہم چلتے ہیں جسے ہی سید غزلان شاہ کی بات ختم ہو ئی تمام لوگوںنے تالیاں بجانی شروع کر دی اور وہ مغرور انداز سے اگے بڑھ گیا  

 سب بس باتیں ہی کر تے ہیں کوئی کچھ نہیں کرتا زرمینے نے سرکار کی باتیں سننے کے بعد دل میں کہا تب ہی خالہ زرمینے کے پاس آئی چل زرمینے کھانا لے اور گھر چل خالہ نے زرمینے کو کہا 

ٹھیک ہے  وہ کھانا لے کر گھر ائی تو زریام رو رہ تھا کیا ہوا زریام کیوں رو رہے ہوں  زرمینے نے زریام کو دیکھ کر کہا 

سوں سوں اپی بھوک لگی ہوئی ہے اور امی کھانا نہیں دےرہی 

زریام نے روتے ہوئے کہا  اچھا بس رونا بند کرو میں کھانا لے کر ائی ہوں جاو جلدی سے منہ ہاتھ دھو لوں میں تب تک چچی کو بلا کر لاتی ہوں  زرمینے نے زریام کو کہا  اچھا  

تھوڑی دیر کے بعد وہ تینوں چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے 

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی 

کھانا کھانے کے بعد زرمینے برتن اکھٹے کیےاور کچن میں دھونے چلی گئی  برتن دھونے کے بعد وہ چچی کےکمرے میں

آگئ اور چچی اور زریام کی دوائیں دیکھنے لگی  چچی کی دوائیں تو ختم تھی مگر زریام کی دوائیں بس ایک دن کی تھی

زرمینے جاکر اپنی چارپائی پر لیٹ گئ اور گھر کے حالات کے بارے میں سوچنے لگی  سوچتے سوچتے کب سوگئ پتا ہی نہیں چلا  زرمینے چچی اور زریام ایک ہی کمرے میں سوتے تھےکیونکہ کہ رات کو اکثر چچی یا زریام کی طبیعت خراب ہو جاتی ہیں   

صبح زرمینے جلدی اٹھا کر نماز پڑھتی ہے پھر کچن میں چلی جاتی ہے  وہاں جا کر جلدی رات کا بچا ہو کھانا گرم کرتی ہے اتنے میں  چچی کچن میں اتی ہے زرمینے چچی کو دیکھ کر کہتی ہے کہ چچی میں کھانا لگاتی ہوں آپ زریام کو لے ائے ٹھیک ہے  پتر میں زریام کو لاتی ہوں  چچی یہ کہہ کر زریام کو اٹھنے چلی جاتی ہے  اور زرمینے جلدی سے چارپائی پر کھانا لگانے لگتی ہےتب تک چچی زریام کے ساتھ  اجاتی ہے پھر وہ تینوں ناشتہ کرتے ہیں اور زرمینے چچی اور زریام کو دوائی دے کر کمرے میں آرام کرنے  بیجھا دیتی ہے اور خود گھر کے کام کرنے لگتی ہے 

تھوڑی دیر کے بعد وہ گھر کا سارا کام ختم کر لیتی ہے 

اب اسے گھر کے راشن اور زریام کی دوائیں کی فکر ہو نے لگتی ہے  اچانک اسے ہاد آیا کہ چچا نے اس میہنے کا کرایہ ہی نہیں دیاوہ جلدی سے اپنی چادر اوڑھ کر اور چچی کو بتاکر گھر سے روانہ ہوئیوہ جلدی سے دوکان کے اندر گئی چچا مجھے اس میہنے کا کرایہ ہی نہیں دیا اپ نے تو میں وہ کرایہ لینے آئی ہوں  زرمینے نے چچا کو دیکھ کر کہا  

کون سا کرایہ یہ دوکان تم مجھے بیچ چکی ہوں اس دوکان کے سارے پیسے میں نے دے دیں ہیں اب اس دوکان سے باہر نکلیہ ہمارا دوکان داری کا وقت ہے   چچا نے زرمینے کو دیکھ کر ناگوار اور سخت لہجے میں کہا  

زرمینے تو حیرت سے چچا کو دیکھ رہی تھی  جب وہ اس سے دوکان لینے ایا تو کتنی عزت اور

نرم  لہجے میں بولا تھا  وہ معصوم کہا  لوگوں کی پہچان کر سکتی تھی 

وہاں بہت سے لوگ سے غلاظت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے  اس لے وہ دوکان سے باہر نکل گئ 

وہ روتے ہوئے گھر جارہی تھی کہ اس ٹھوکر لگی اور اس کی جوتی جو پہلے ہی ٹوٹ گی تھی اس نے سلائی کی تھی وہ پھر سے ٹوٹ گی اب وہ جوتی اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اتنی گرمی میں ننگے پاؤں  چلنے لگی اور مسلسل روئے جارہی تھی  کہ تب ہی تین گاڑیاں پاس سے گزر گئے  اور تھوڑے فاصلے پر رک گئی  تب ہی گاڑی سے خادم باہر نکلا اور گاڑی سے ایک ہاتھ  جس کی رنگت دودھ جیسی گوری تھی باہر نکلا اور اس ہاتھ میں بہت سے پانچ ہزار والے نوٹ تھے وہ خادم کو دے 

خادم  زرمینے کے پاس روکا اور وہ سارے نوٹ زرمینے کو دے  

زرمینے حیرانگی سے خادم کو دیکھنے لگی  پھر بولی  میں ۔۔۔یہ ۔۔۔ پیسے ۔۔۔ زرمینے اٹک اٹک کر اپنا جملہ پورا کرنے لگی تب ہی خادم نے جلدی سے پیسے اس پکڑیں جلدی پکڑو سرکار بہت غصہ والے ہیں اور جلدی سے گاڑی کی طرف چل دیا

میری غریبی نے اڑایا ہے میرے فن کا مزاق

تیری امیری نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں

میں ۔۔۔ بھ۔۔کا۔ر۔ی ۔نہیں ہوں  وہ آہستہ سے اٹک اٹک کر بڑابڑئی پھر اس کا دھیان نیچے گرے ہوئے پیسے پر ہوا اچانک اسے زریام اور  چچی  کی بھوک اور دوائیں  لینے کا یاد وہ روتے ہوئے نیچے سے پیسے اٹھانے لگی  جو کہ تیس ہزار سے زائد تھے وہ سستی مارکیٹ کی طرف چل دی تاکہ گھر کا سامان اور دوائیں  خرید سکے

امی میں  پارک جارہا ہوں  میں نے وہاں بہت سے لڑکوں کو  کھلیتے دیکھا ہے  زریام نے نائلہ بیگم  سے کہا 

نہیں بیٹا  شام کو آپ کی آپی آئےگی  تو اس کے ساتھ پارک میں کھلینے چلے جانا 

نائلہ بیگم نے زریام  کو  سمجھتے ہوئے کہا  نہیں امی شام کو نہیں  زریام کو ابھی جانا تو مطلب جانا ہے  زریام نے ضدی لہجے میں کہا  

نہیں  میں نے ایک بار کہا ہے نہ کہ آپ کی آپی آپ کو لے کر جائے گی اب اگر ضد کی تو ایک لگاو گی نائلہ بیگم نے غصہ سے کہا 

امی وہاں اور بچے ہیں اور میں  جلدی بھی اجاو گا 

زریام نے روتے ہوئے کہا  

اچھا  چلے جاو مگر جلدی واپس  آجانا 

نائلہ بیگم نے زریام کو روتے ہوئے  دیکھ کر  نرم لہجے میں کہا  سچی امی میں  جاو  زریام نے نائلہ بیگم سے  پوچھا   ہاں جاو 

نائلہ بیگم نے کہا 

زریام جلدی سے گھر سے باہر پارک جانے کے لیے  نکلا  

وہ جاکر وہ اس نے ان بچوں کو دیکھا جو فٹ بال کھیل رہے تھے  وہ ان کے پاس  گیا  کیا  تم لوگ زریام کو بھی اپنے ساتھ  کھلاو گے زریام نے بھی  تم لو گوں  کےساتھ  کھیلنا ہے  زریام نے بچوں کو کہا  

بچوں نے حیرت سے زریام کو دیکھا   جو پچیس سالہ نوجوان ہےیہ پاگل  ہے چلو اس کو تنگ کرتے ہیں  ان میں سے ایک بچے نے کی طرف دیکھا کر کہا  ہاں  سب بچوں نے جوش سے کہا پھر تمام بچوں نے پاس پڑے چھوٹے بڑے  پتھر اٹھائے اور زریام کو مارنے لگے اور ساتھ ساتھ اسے پاگل پاگل کہنا شروع کردیا

نہیں نہیں  مت مارو زریام  پاگل نہیں ہے زریام بھاگتے ہوئے روتے  ہوئے کہا  ان میں سے ایک بچہ جس کے ہاتھ میں بڑا پتھر تھا اس  نے زریام کے سر میں مارا  زریام درد برداشت نہیں کر سکا اور سامنے سے آتی  گاڑی کے سامنے  بے ہوش ہو گیا

چلے آئے ہیں آنکھوں میں آنسو کسی کا عکس لے کر 

یہ آنسو آج پھر کوئی تماشہ چاہتے ہیں 

۔۔۔۔۔۔۔     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزلان شاہ  جو میٹنگ سے گھر واپس  جارہا تھا  کہ اچانک  گاڑی  روکنے سے چونکا  کیا ہوا خادم  غزلان شاہ نے خادم سے پوچھا  وہ سر کار سامنے ایک لڑکا آگیا ہے  خادم  نے غزلان شاہ  کو بتایا اور جلدی سے  گاڑی کا دروازہ کھولا اور  غزلان شاہ  گاڑی سے باہر ایا اور اس لڑکے کی طرف  چلا گیا  سامنے زریام  خون سے لت پت  گاڑی کے سامنے پڑا ہے  

اس نے  جلدی سے زریام کو اٹھا کر گاڑی میں بیٹھایا اور خادم کو جلدی  ہسپتال  جانے کو کہا  خادم بھی جلدی سے گاڑی  میں بیٹھا اور جلدی سے گاڑی  چلا دی تقریبا  بیس منٹ کے دورانیہ  وہ لوگ ہسپتال میں داخل ہوئے  سب لوگ  سامنے  غزلان شاہ  کو دیکھ کر  حیران رہ گیا  ان میں سے ایک نے جلدی سے  ہسپتال کے  انچارج  کو بھی غزلان شاہ کی  آمد کا بتادیا اس لے وہ سامنے سے بھاگ کر  آیا رہا ہے   سامنے  غزلان شاہ  کے با ہوں میں  زریام کو  دیکھ کر  جلدی سے  وارڈ بوائے کو سٹچر لانے کا  کہا  اور جلدی سے زریام کو  سٹریچر پر لیٹا کر ای سی یو کی طرف بڑھا گیا  اور تمام ڈاکٹر کو علاج  کے لیے بلا لیا  پورے ہسپتال میں  ہل چل مچی گئ 

کبھی  ایک  ڈاکٹر  ای سی یو میں  جا تا کبھی  دوسرا جاتا  

جب ایک  ڈاکٹر  ای سی یو سے باہر نکلا اور غزلان شاہ  کی طرف ایا دیکھیں سرکار  پیشنٹ کی  حالت  تشویشناک ہے  اس کے دماغ میں  پہلے ہی  خون جمع ہونے کی وجہ سے اور اس پر پھر  سے چو ٹ لگنے کی وجہ سے  ہمیں اس کا آپریشن  کر نا پڑے گا اور اس لے اپ کو ان پیپرز پر سائن کرنے پڑے  گے ڈاکٹر نے غزلان شاہ سے کہا  کیا ہے اس پیپرز میںغزلان شاہ  نے ڈاکٹر  سے پوچھا  سرکار  اس میں  لکھا ہے کہ اگر مر یض کو دوران  آپریشن  کچھ ہوا تو ہسپتال اس کا ذمہ دار  نہیں  ڈاکٹر نے  ڈرتے ڈرتے  بتایا  ہممم لاو پیپرز  میں  سائن کر تا غزلان شاہ نے  سائن کیے اور خادم کو  دیکھ کر کہا  جاو ہسپتال کی فیس دےدوں

جو نہ سمجھے کبھی انسان کی عظمت کیا ہے

کیا سمجھ پائیں گے وہ لوگ محبت کیا ہے

ہر گھڑی ڈستے ہیں انسان کو انسان یہاں

ایسے ماحول میں سانپوں کی ضرورت کیا ہے  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔ 

زرمینے نے  مارکیٹ سے گھر کا راشن اور دوائیں خریدیں اود اپنے لے ایک جوتی  لے کر  گھر کی طرف  چل دی وہ بہت  خوش تھی کم از کم ایک  ہفتے کا راشن اور دوائیں  خریدیں لی ہیں زرمینے  اب خود کوئی کام کر نا چاہتی تھی اس لیے اس نے خالہ  سے بھی حویلی میں کام دی لانے کا کہا  تھا  

جسے ہی وہ گھر پہنچی سامنے  چچی  بری طرح  رو رہی تھی  وہ بھاگ کر  چچی کے پاس  گئ اور جلدی سے پانی لا کر چچی کو پلا دیا  

پاس پلانے کے بعد  زرمینے نے چچی سے پوچھا  کیا ہوا  چچی اپ اس طرح رو کیوں  رہی ہوں وہ زرمینے  زریام  ضد کر کے باہر پارک میں چلاگیا  اور ابھی تک  نہیں  لوٹا  میرا دل بہت گھبرا رہا ہے  تم جاو اسے پارک  سے لے کر آو چچی نے زرمینے کو کہا  ٹھیک ہے  چچی میں زریام کو لے کر آتی ہوں اپ روئے  مت چچی میں جا رہی ہوں  آپ دروازہ بند کر لے زرمینے نے سر پر چادر اوڑھتے ہوئے  چچی سے کہااور زریام کو لینے پارک  کی طرف چل دی

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے 

اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جلدی سے  پارک کی طرف چلی گئی  مگر سامنے کا منظر دیکھا  کر حیران  ہوئی کیونکہ اس وقت پارک  میں  کوئی  ذلی روح نہیں  تھی وہ پریشانی سے  زریام کو  پارک میں  ڈھونڈنے کی کوشش  کرنے لگی مگر زریام وہاں  ہوتا تو ملتا وہ زریام کے لے بہت  پریشان  تھی کیونکہ زریام کی دماغی  حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ خود  کہی جا سکے 

اب اسے پریشانی  کے ساتھ رونا بھی  شروع کر دیا  زریام  زریام  کہاں ہوں  تم  وہ روتے ہوئے  پارک میں  ڈھونڈتے ہوئے  زریام کو پکار رہی تھی  تب ہی  اس کی نظر  سامنے  گھر کے  دروازے  میں  کسی  بوڑھی عورت پر گئ جو اس کو اپنے  پاس آنے کا  اشارہ کررہی ہے 

   زرمینے بھاگ کر  اس عورت  کے پاس  گئ اور بولی  خالہ  اپ نے  یہاں  تقریبا  دو گھنٹے  پہلے  ایک  لڑکا  جس کا  رنگ  سفید  اور سفید  رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے  یہاں  ایا  تھا  مگر  اب مل نہیں  رہا  آپ  نے دیکھا  ہے زرمینے  نے افسردہ  لہجے میں کہا  اس عورت  نے پہلے  زرمینے کو دیکھا 

 جو روتے ہوئے  ایک  امید  کے ساتھ  اسے  دیکھا  رہی ہے  پھر  کہا بیٹا  جیسا  تم اس لڑکے  کا حلیہ  بتا رہی ہوں ویسا ہی  ایک لڑکا  تقریبا دو گھنٹے پہلے  یہاں  بچوں کے  ساتھ  کھلینے ایا  تھا

  مگر  بچوں نے  اسے  تنگ کرنے لگے اور پتھر برسانے  لگے جس کی وجہ سے  وہ لڑکا  بہت  زخمی ہو گیا ہےتب ہی  وہ سرکار کی  گاڑی کے سامنے بے ہوش ہو گیا  تو سرکار  اس کو ہسپتال لے کر  چلے گئے  

اس عورت  نے زرمینے کو کہا  یہ سب سننے کے بعد  زرمینے  کی آنکھوں میں  آنسو  باہر نکلے  مگر زرمینے نے جلدی سے خود کو  مضبوط بناتے ہوئے خالہ سے ہسپتال  کا پوچھا  

خالہ  کون  سے ہسپتال  لے کر گئےہیں  بیٹا  وہ تو مجھے  پتا نہیں  مگر یہاں سے  بیس منٹ  دور ایک ہسپتال ہے مجھے  لگتا ہے کہ وہاں  ہی لے کر گئے ہیں   اس عورت نے زرمینے کو کہا   اچھا  خالہ  میرے بھائی کےلئے دعا کریں  گا زرمینے نے روتے ہوئے کہا  اور جلدی سے ہسپتال  کی طرف چل دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت  غزلان شاہ  اپنی بھرپور  مردانہ  وجاہت کے ساتھ  اس ہسپتال  کے ای سی یو  کے باہر  ایک کرسی پر بیٹھا ہے پاس ہی خادم  کھڑا  ہوا ہے  وہ اس وقت  بلیو شرٹ اور پینٹ میں  بہت  ہینڈسم لگ رہا ہے  کہ اس ہسپتال کی  تمام نرسے بار بار اس کی طرف  آیا رہی تھی  

کچھ تو اس کو بلانے کی کوشش کرنے لگی  تب اس نے ان کو بری طرح  ڈانٹا بہت سے لوگ کی نظروں میں اس وقت غزلان شاہ  کے لے رشک حسد تھامگر وہ  ان سب سے بے پرواہ  بس  سامنے  ای سئ یو کے دروازے  کو دیکھ  رہا ہے  وہ تب سے ہسپتال  ہی ہے اس دوران  اس کو احمد شاہ  کی  کال بھی آئی کہ کب گھر  آنا ہے اس نے ضروری کام  کا کہہ کر  ان کو ٹال  دیا  وہ اس لڑکے  کے ہوش و حواس میں  آنے کا  یا اس کے گھر کے  کسی فرد کے آنے   کا انتظار کر رہاہے  تاکہ گھر جا سکے  وہ اس کو اس ہسپتال  چھوڑ کر بھی جا سکتا  تھا مگر وہ  گیا  نہیںمعلوم نہیں  کیوں  مگر گیا  نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔

زرمینے  روتے ہوئے  ہسپتال  میں داخل  ہوئی  اور سیدھی  ریسپشن کے  پاس گئ دیکھیے  ابھی  دو گھنٹے پہلے  سرکار  ایک لڑکا  کو ہسپتال لے کر  آئے ہیں  وہ کہا  ہے زرمینے نے  نم لہجے میں کہا  

 ریسپشن  اس کی  طرف دیکھا  جو روئےجا رہئ ہے سے کہا  ہاں  

وہ ایک لڑکا  لے کر  آئے ہیں  اس وقت  وہ لڑکا  ای سی یو کے  اندر ہے  ریسپشن  نے پیشے وارنہ 

لہجے میں کہا  

ای سی یو  کس طرف  ہے زرمینے نے  پوچھا  

یہاں سے دائیں جانب  جائے اور وہاں سے سیدھا 

 ریسپشن نے کہا اور  دوبار  اپنے کام میں  مصروف  ہو گئی 

زرمینے  جلدی سے  اس کے بتائے  ہوئے  راستے  کی طرف چل دی  

اس نے سامنے  خادم کو دیکھا تو بھاگ  کر خادم  کے پاس گئ اور جلدی سے بولی  وہ میرا بھائی  کہاں ہے  اس  کو زیادہ  چوٹ تو نہیں  آئی وہ  کیسا ہے  زرمینے نے  ایک ہی سانس میں  خادم سے اتنے سوال پوچھے کیونکہ  غزلان شاہ  خادم  کے پیچھے  تھا اس لے زرمینے نے  اب تک اسے نہیں  دیکھا  

خادم  نے پہلے  اس لڑکی  کو دیکھا جو  اس وقت  بری طرح  رو رہی ہے پھر کہا  دیکھیے پہلے  آپ  رونا بند کر کے تحمل  سے میری  بات  سنیں ڈاکٹر  اندر ہے اور اس لڑکا  کا آپریشن  کر نا پڑا کیونکہ  اس کے دماغ  میں  چوٹ لگی  ہے  شاید اس  کے دماغ میں پہلے ہی خون جمع ہونے کی وجہ سے  اس کی حالت  تشویشناک ہے  آپ بس  دعا کریں  خادم نے نرم لہجے میں کہا  زرمینے  خادم  کی بات سننے کے بعد  روتے روتے  زمین پر بیٹھ  گئی اسے  کچھ سمجھ میں نہیں  آرہ تھا کہ وہ کیا  کرے  آنسو تھے  کہ روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں   خادم نے  اسے روتے ہوئے  زمین پر بیٹھنے پر جلدی سے  کہا  آپ  اس بینچ پر بیٹھ  جائے اور ان کےلئے  دعا کریں  اور خود پانی لینے  کینٹین  کی طرف چلا گیا  زرمینے  اٹھا  کر بینچ پر  بیٹھ  گئی  

آپ ٹینشن  نہ لے وہ ٹھیک  ہو جائے گا  غزلان شاہ  نے  زرمینے  کو  دیکھ کر نرم  لہجے میں کہا  

زرمینے  اچانک  ابھرنے والی  مردانہ  آواز سے  چونکی اور اپنی سامنے  موجود  سرکار  کو دیکھا  جو اس وقت  اسے تسلی  دے رہ ہے اس نے کب ان سرداروں  کا یہ روپ دیکھا  تھا اسے  تو ہمیشہ ہی  یہ سرداد  ظلم  ہی لگے تھے مگر اب سامنے  موجود  سرکار  اس کو کوئی فرشتہ  ہی لگا اس لئے  کیونکہ  اس نے اس کے بھائی  کو ہسپتال  میں لے کر  آیا بلکہ  علاج  بھی  کروا رہ ہے  

وہ ٹھیک  ہو جائے گا  زرمینے  نے روتے ہوئے کہا  

غزلان شاہ  نے  اس کی طرف دیکھا  جو نیلی کانچ جیسی آنکھوں میں  تیرتے پانی  کی وجہ سے اور بھی  خوبصورت  لگئ تھی  ان میں ایک امید لے کر کہا  ہممم غزلان شاہ نے  جلدی سے  رخ پھیر  لیا  اور بس  یہی  کہا  

تب ہی  خادم  پانی لے کر  آیا  اور پانی  زرمینے  کی طرف بڑھایا  یہ پانی  پی لے خادم  نے  احترام سے کہا  تو زرمینے نے  پانی پکڑا کر دو گھونٹ پی کر  واپس  خادم  کو دےدیا کہ تب ہی   ڈاکٹر  ای سی یو سے باہر نکلا زرمینے  بھاگ کر  ڈاکٹر  کے پاس گئ  ڈاکٹر  میرا  بھائی  کیسا ہے  زرمینے نے  بے تابی  سے  ڈاکٹر  سے پوچھا  دیکھیے  پیشنٹ  کا آپریشن  کامیاب  ہو  ہے مگر اگلے  چوبیس گھنٹے  پیشنٹ کے لیے  خطرناک ہے  اب بس دعا کریں  ڈاکٹر پیشے وارنہ لہجے میں کہا کرچلا گیا زرمینے جو آپریشن کے کامیاب ہونے پر تھوڑا  خوش ہوئی تھی  کہ ڈاکٹر  کی اگلی  بات پر پر یشان ہوئیاسے ہسپتال ائے ہوئے  تقریبا ایک  گھنٹہ ہوگیا ہے اب اسے چچی کا خیال  ایا  کہ گھر میں  چچی  پریشان ہو رہی ہوگئ اس لے اس نے خادم کو کہا  بھائی  آپ  مجھے  اپنا  موبائل  دے دیں میں نے  گھر فون کرنا ہے   خادم نے پہلے  غزلان شاہ  کو دیکھ  جو اسے موبائل  دینے کا  کہہ رہا ہے پھر زرمینے کو  موبائل  نکال کر دیا  زرمینے  نے جلدی سے  موبائل پکڑا اور اپنی  ہمسائی کا نمبر ملایا  کیونکہ  ان کے گھر میں  موبائل  نہیں  تھا فون اٹھایا  تو زرمینے نے  کہا  خالہ  آپ میری  چچی  سے بات کروا دے پلیز   شاید  اگے سے کچھ  کہا  اچھا  خالہ  جلدی سے کروا دے دو منٹ  بعد  خالہ  ان کے گھر  گئی اور چچی  کو موبائل  دیا 

ہیلو  چچی  میں زرمینے زرمینے نے روتے ہوئے کہا 

ہاں  بیٹا  زریام  کہاں ہے وہ ٹھیک  تو ہے میرا  دل بہت گھبرا رہا ہے  زرمینے  پتر  توں کچھ بول کیوں  نہیں رہی چچی نے ایک ہی سانس میں  کہا  زرمینے  جو چچی  کی آواز  سنتے ہی  بے آواز  رو رہی تھی  جلدی سے  ہوش میں  آئی 

ہاں چچی  زریام  بالکل  ٹھیک ہے  اور اس وقت  پارک  میں  بچوں  کے  ساتھ کھیل  رہا ہے  آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ کتنا ضد ہے زرمینے  نے  اپنی ہچکی روکتے ہوئے  بھاری  لہجے میں کہا  کیونکہ  مسلسل رونے کی وجہ سے  اس کا گلا خراب  ہو گیا ہے 

زرمینے  توں ٹھیک ہے  چچی  نے زرمینے  کی بھاری آواز  سننے کے بعد  کہا  ہاں چچی  میں  ٹھیک ہوں  وہ میرا  گلا خراب  ہوگیا ہے  اس لیے  زرمینے نے بے آواز  روتے ہوئے کہا  

اچھا  میری زریام  سے بات  کر وا   چچی نے زرمینے کو کہا  

نہیں  چچی  وہ کھیل  رہا ہے  اور اس وقت  وہ میری بات  نہیں  سنے گا جیسے  ہی  وہ کھیل کر آئے گا تو ہم گھر آجائے گئے   زرمینے نے  کہا  

اچھا  چچی  آپ کھانا کھا  کر دوائی لے لینا  اور آرام  کر نا زرمینے نے  ضبط سے کہا  

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

اچھا  پتر  میں  آرام  کر لو گئ  چچی نے زرمینے کو کہا  نہیں  چچی  آپ کھانا کھا کر دوائی لے لینا اور آرام کر نا   آپ کی طبعیت  پہلے  ہی  بہت  خراب  رہتی ہے

زرمینے  اس وقت  بہت ضبط سے بولی   اچھا چچی  میں  ذرا  زریام  کو  دیکھ لوں زرمینے نے نم لہجے میں کہا  

ٹھیک ہے  چچی نے زرمینے کو کہا  اور فون بند کر کے  خادم  کو  دیا اور کب سے روکے ہوئے  آنسو  ایک  بار پھر  پلکوں کے جھار توڑتے ہوئے  گالوں پر بہہ گئے

بھت تڑپے گے مجھے تڑپانے والے۔۔۔

بھت روئیں گے مجھے رولانے والے۔۔

جس دن  دنیا سے رخصت ھوجاوگی۔۔۔

پھر سے  بلائیں گے ۔۔۔ یہ مجھے دنیا والے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 غزلان شاہ اور خادم جو پاس ہی تھے اس وجہ سے  ساری باتیں  سن رہے تھے  وہ حیران  ہوئے  اس لڑکی  نے گھر میں  زریام  کی  طبیعت  کے بارے  میں  کیوں  نہیں  بتایا  مگر جب اس نے کہا کہ  آپ کی  طبعیت پہلے ہی بہت خراب  رہتی ہے  تو سمجھ  گئے 

کہ وہ  گھر میں  اس عورت  کی طبعیت خرابی کی وجہ سے  نہیں  بتا پائی 

تب ہی  غزلان شاہ  کا موبائل  رنگ ہوا تو اس نے  موبائل  نکال کر  دیکھا  تو  ڈیڈ  کالنگ لکھا تھا  اس نے جلدی سے کال اٹھیں  اسلام وعلیکم  ڈیڈ  غزلان شاہ  نے  احترام سے کہا  

وعلیکم السلام  بیٹا  آپ کی امی کب سے  آپ کا انتظار  کر  رہی ہے آپ جلدی سے  گھر آجائے  آپ  کو پتا ہے نہ کہ  اس وقت  آپ کی امی آپ کے ساتھ  کھانا  کھاتی ہیں   احمد شاہ نے غزلان شاہ سے کہا   اپنے باپ کی  بات سننے کے بعد  غزلان شاہ  نے  ایک سرد سانس خارج کی 

جی ڈیڈ  میں  جانتا ہوں  میں  بس کچھ دیر  میں  وہاں ہو گا  

ٹھیک ہے  مگر جلدی  آجائے  آپ کو پتا ہے کہ  وہ کتنی ضدی ہے 

احمد شاہ نے غزلان شاہ سے کہا  

اوکے ڈیڈ  غزلان شاہ نے کہا اور  فون  بند کر کے  خادم  کی طرف  چل دیا ایک  نظر  روتی ہوئی  زرمینے  پر ڈال کر   خادم  سے کہا  خادم  مجھے  ضروری کام سے جانا  ہے  تم یہی  روکو ڈاکٹر  کو علاج کے لیے  کسی چیز کی  ضرورت  پڑ سکتی  ہے  وہ تم لا کر دوں گئے غزلان شاہ نے  سنجیدگی سے کہا   

سرکار  ٹھیک ہے  مگر  آپ اکیلے  

نہیں  میں  اکیلا  نہیں  جارہا  گارڈ ساتھ  جاہے ہیں  خادم  کی بات  درمیان  میں  کاٹتے ہوئے کہا   

خادم نے سمجھتے ہوئے  اثبات میں  سر ہلایا  

غزلان شاہ  نے  ایک بار پھر زرمینے کو  دیکھا  جو  سر جھکے اب زمین  غور  رہی ہے جیسے  ساری  غلطیاس  زمین  کی ہوں  اسے زرمینے  کے ساتھ  ہمدردی  ہوئی  جو نا جانے  کتنی  تکلیف  میں  ہے  پھر سر جھٹکتا لمبے لمبے  ڈنگ بھرتا ہسپتال  سے چلا گیا  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داود جو اپنے دوست  کی عیادت کے لیے  ہسپتال  ایا تھا  اسے ایک لڑکا  میں  غزلان شاہ  کا شک ہوا وہ حیرانگی  سے  اگے  ایا کہ آیا  یہ  سچ ہے کہ  غزلان شاہ  اس وقت  ہسپتال میں  ہے 

ہیں  تو کیوں  اس تجسس کےساتھ  آگے بڑھا تو  سامنے  خادم کو دیکھ کر  یقین  ہو گیا  

کہ وہ  غزلان شاہ  یہاں  ہے پھر ان کے  ساتھ  اس  لڑکی  کو دیکھا  جو  بری طرح  رو رہی ہے  

 پھر اچانک  غزلان شاہ  کو  فون  آیا  اور وہ سننے  کے لے تھوڑا  سائیڈ پر گیا  

اور تھوڑی  دیر  کے بعد وہ واپس  ایا اور خادم سے کچھ کہا  اور ایک  نظر  زرمینے کی طرف دیکھا  اس کا اس طرح  دیکھنا   اس نے غلط مطلب  نکال  اور پھر خادم وہاں  چھوڑنا  اور اکیلے  باہر  جانا 

حالانکہ  وہ جانتا ہے کہ  اس کی  جان  کو خطرہ لاحق ہے  مگر وہ خادم  کو  اس لڑکی کے  پاس چھوڑ  کر  چلا گیا 

مطلب  یہ  لڑکی  اسے عز یز ہے   

وہ خادم  کی فیملی  سے اچھی طرح واقف ہیں اور  وہ جانتا  تھا کہ  خادم  کی کوئی بہن نہیں ہے  

 یہ سوچتے ہوئے  اس کے چہرے  پر  کمینگی سی مسکراہٹ  تھیاور وہ بغیر  اپنے  دوست کی عیادت کیں چلا گیا   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزلان شاہ  حویلی  پہنچا تو  تمام لوگ  اس وقت  لاونچ میں  بیٹھے  باتیں  کر رہے ہیں اور اس کی  ماں اداس سی بیٹھی ہے  اس نے تمام  لوگ  پر ایک طائرانہ نظر  ڈالی  اور  بلند  آواز  اسلام  کیا  اسلام وعلیکم  

سب لوگ  خاموش  ہو کر غزلان شاہ  کی طرف  دیکھا  جو لاونچ کے دروازے میں  کھڑا  ہے پھر آہستہ آہستہ  قدم اٹھا کر اپنی  ماں کی  طرف گیا جو پہلے  اداس تھی مگر اس کے  آجانے کی وجہ  سے خوش ہوگئی

وہ قدم قدم  چلتا نوشین بیگم  کے پاس آیا اور ان کے آگے  احترام اور عقیدت  سے سر جھکایا جس پر نوشین  بیگم  نے  ہاتھ  رکھا  

معاف کیجئے گا  ماں سائیں وہ ضروری کام  کی وجہ سے  آپ کو  انتظار کر وایا غزلان شاہ نے  نوشین بیگم  کا ہاتھ  پکڑا کر  کہا   

کوئی بات نہیں بیٹا کبھی کبھی ایسا ہوجاتا  نوشین بیگم نے کہا اچھا  آپ جلدی سے  فریش ہوکر آجائے  میں تب تک  کھانا  لگواتی ہوں  نوشین بیگم نے کہا  

تو غزلان  سر ہلا کر  اپنے روم کی طرف چل دیا 

تھوڑا  دیر بعد ان دونوں نے کھانا کھایا اور  ہلکی پھلکی  بات چیت کی  پھر اٹھا کر  اپنے روم میں  آیا اور لیپ ٹوپ  لے کر  کام کر نے لگا 

تقریبا  رات کے  دس بجے تک  وہ کام کر تا رہا اور پھر  سونے کے لیے  لیٹ گیا  کیونکہ  سارا دن  

کام کر نے  کی وجہ سے  تھک گیا  تھا اس لئے جلدی ہی نیند  کی وادی میں  چلاگیا 

*وقت چلا، لیکن کیسے چلا* 

         *پتہ ہی نہیں چلا*

 *زندگی کی، آپا دھاپی میں،* 

 *کب نکلی عمر ہماری، یارو* 

         *پتہ ہی نہیں چلا* 

 *کندھے پر چڑھنے والے بچے،* 

     *کب کندھے تک آ گئے؟* 

       *پتہ ہی نہیں چلا* 

       *کراۓ کےگھر سے،* 

    *شروع ہوا تھا، سفر اپنا* 

    *کب اپنے گھر تک آ گئے* 

        *پتہ ہی نہیں چلا* 

     *ساٸیکل کے پیڈل مارتے،* 

     *ھانپتے تھے ہم، اس وقت* 

*کب سے ہم، کاروں میں آ گئے*

        *پتہ ہی نہیں چلا* 

 *کبھی تھے ہم، ذمہ دار، ماں باپ کے* 

*کب بچوں کے لیے ہوئے ذمہ دار*

       *پتہ ہی نہیں چلا* 

    *اک دور تھا، جب دن میں،* 

        *بیخبر سو جاتے تھے* 

*کب راتوں کی ، اڑ گٸ نیند*

        *پتہ ہی نہیں چلا* 

    *جن کالے گھنے بالوں پر،* 

     *اِتراتے تھے کبھی ہم* 

*کب سفید ہونا شروع ہو گئے*

        *پتہ ہی نہیں چلا*

   *در در بھٹکتے تھے ، نوکری کی خاطر*

            *کب ریٹاٸر ہو گئے* 

             *پتہ ہی نہیں چلا*

 *بچوں کیلیے، کمانے بچانے میں* 

          *اتنے مشغول ہوئے ہم* 

      *کب بچے ہوئے ہم سے دور*

           *پتہ ہی نہیں چلا* 

       *اب سوچ رہے تھے،* 

  *اپنے لیے بھی، کچھ کریں*

*پر جسم نے، ساتھ دینا، بندکر دیا کب* 

        *پتہ ہی نہیں چلا* 

    *وقت چلا، پر کیسے چلا*

         *پتہ ہی نہیں چلا*

زرمینے اور  خادم  پوری رات ہسپتال میں  رہے مگر زریام  کو  ابھی تک ہوش نہیں  آیا  

زرمینے  ایک طرف بینچ پر بیٹھی ہوئی ہے  اور  سر دیوار کے ساتھ ٹکایا ہوا ہے نیند  آنکھوں سے  کوسوں دور ہیں   

تو دوسری طرف  خادم  کرسی پر بیٹھ ہے سر ایک طرف لڑھک ہوا ہے  شاید  وہ سو رہا  ہے تب ہی ایک نرس ای سی یو  کے  اندر جاتی ہے  تو زریام  کا وجود  جھٹکے  کھا رہا تھا  وہ جلدی سے  ڈاکٹر  کو بلاتی ہے 

ڈاکٹر  بھاگ کر اندر داخل  ہوتا 

نرس  جلدی سے  انجیکشن  تیار کرنے لگتی  ہے  ڈاکٹر  نرس  کو انجیکشن لگانے کا کہہ کر  باہر  جاتا ہے  تاکہ  اس کے گھر  والوں سے  بات کرسکے 

زرمینے  باہر پریشانی سے  رو رہی ہے  اس نے ڈاکٹر  کو بھاگتے ہوئے  ای سی یو  میں  جاتے دیکھا  گھبرا گئ ہے   جب اسے ڈاکٹر  باہر آتا دکھائی  دیا وہ جلدی سے اٹھی اور  ڈاکٹر  کے پاس گئ 

ڈاکٹر  میرا بھائی  زرمینے نے  ڈاکٹر سے پوچھا

دیکھیں  پیشنٹ کی حالت  بہت  کریٹیکل ہے آپ دعا کریں  

ڈاکٹر  کہہ کر  دوبارہ  چلا گیا  

زرمینے  کو  لگا کہ ساری دنیا  اندھیرے میں  ہے  وہ  اکیلی ہی  ہے وہ سن ہوتے دماغ  کے ساتھ   جلدی سے  باہر  کی طرف  بھاگی وہ باہر  ہسپتال کے گارڈن میں  ایک جگہ بیٹھ  گی اور گھٹنوں میں  سر دے کر  پھوٹ پھوٹ  رونے لگی 

یا اللہ  آپ تو سب جانتے ہو  اللہ  جی پلیز  میرے  بھائی  کو  کچھ مت کرنا  آپ  تو اک انسان   سے ستر ماؤں سے ذیادہ  محبت  کر تے ہیں  پلیز  اللہ  میرے  بھائی  کو کچھ مت کرنا  پلیز  وہ مسلسل  روتے ہوئے یہی  دعا کر رہی تھی  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے -

ساتھ چل موجِ صبا ہو جیسے -

لوگ یوں دیکھ کر ہنس دیتے ہیں -

تو مجھے بھول گیا ہو جیسے -

موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ -

مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے -

ایسے انجان بنے بیٹھے ہو -

تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے -

ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں -

تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے -

زندگی بیت رہی ہے دانش -

اک بے جرم سزا ہو جیسے

ڈاکٹر  مسلسل زریام  کو بچانے کی  کوشش  کر دہے ہیں  جب ایک ڈاکٹر  دوسرے سے بولا  ڈاکٹر  دیکھیں  ہارٹ بیٹ نارمل ہو رہئ ہے  مطلب  پیشنٹ کی  حالت  ٹھیک  ہو رہی ہے  

ہاں ڈاکٹر  اب پیشنٹ  خطرے سے  باہر ہے اپ باہر  ان کے گھر والوں  کو  یہ خوشخبری  دے کر  آئے  میں  تب تک پیشنٹ کو روم میں  شفٹ  کرتا ہوں  

ٹھیک ہے  ڈاکٹر  میں  اطلاع دے کر آتا ہوں ڈاکٹر  یہ کہہ کر  باہر  نکل گیاخادم  جو سو رہا تھا اچانک  ڈاکٹر  کے بلانے پر کچی نیند سے  اٹھا  تو سامنے  ڈاکٹر کو  دیکھ کر  اسے زریام  کا خیال ایا  کہ زریام کو  کچھ ہوں  تو نہیں  گیا   

ڈاکٹر  زریام  کیسا ہے خادم  نے پوچھا  

ہاں اب ان کی حالت  ٹھیک ہے  آپ ان کی بہن کو بتا دے ڈاکٹر  یہ کہہ کر  چلا گیا    وہ کہاں ہیں   ڈاکٹر  کے جانے کے بعد  خادم نے کہا  

پھر اسے بتانے کے لیے  ہسپتال  میں  ڈھونڈنے لگا 

جب اس کو وہ گارڈن میں  روتے ہوئے  دیکھ  تو زرمینے  کی طرف  آیا آپ  یہاں  بیٹھی ہے اور میں کب سے  آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں  خادم نے  سادہ لہجے میں کہا  تو زرمینے نے  سر اٹھا کر  خادم کی طرف  دیکھا  اور ائ برو اچکائی جیسے  پوچھا  رہی ہوں  کہ  آپ مجھے  کیوں ڈھونڈ  رہے ہیں  

وہ زریام  اب بالکل ٹھیک ہے  ڈاکٹر  کچھ ہی دیر میں  اسے روم میں شفٹ  کرنے والے ہیں  تو پھر  آپ اس سے مل سکتی ہے  وہ کب سے اس لڑکی کو  روتے ہوئے  دیکھ  رہا تھا  اس لیے   جلدی  سے بتایا  

اس کے بتاتے ہی زرمینے  حیرت اور بے یقینی کی کیفیت سے  خادم  کو دیکھنے لگی  

جب خادم نے  دوبارہ  کہا تو زرمینے  کو  ہوش آیا  

کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں بھائی  کہ میرےبھائی  کو ہوش آگیا 

زرمینے نے  بےیقینی کیفیت سے  پوچھا  جس کا  جواب خادم  نے سر ہلا کر دیابے اختیار زرمینے کے چہرے پر ایک پیاری سی  مسکراہٹ آگئ  خس سے اس کے دائیں گال پر ڈمپل پڑا  بے شک  زرمینے  بہت  خوبصورت تھی مگر  اس کی گال پر  پڑنے والے ڈمپل کی وجہ سے  اور بھی خوبصورت  لگتی ہے  

جب اچانک  خادم  کا موبائل  رنگ ہوا  تو اس نے موبائل نکال کر دیکھا اور تھوڑا  دور جا کر یس کیا  ہیلو زرمینے  اگے سے کسی نے زرمینے کو کہا  نہیں  میں  خادم  ہوں اوہ بیٹا  کل ایک لڑکی  نے اس نمبر  سے کال کی تھی کیا آپ  اس لڑکی کا پتا ہے کہ  وہ  کہاں ہے اگے سے  خالہ نے کہا  جی خادم نے  جواب دیا  اچھا بیٹا  تو اسے کہوں کہ جلدی سے  گھر آجائے اس کی  چچی  کا انتقال ہو گیاکیا  خادم  کے ہاتھ سے  اس کا  موبائل  گرا  حیران اور افسوس سے اس لڑکی  کو دیکھا جو  اب ٹھیک  سے مسکرا  بھی نہیں  سکی کہ ایک اور غم آگیا   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بڑے شوق سے اعلان سنا کرتا تھا

اسے یقین تھا اک روز میں مر جاؤں گا

وہ جلدی سے  زرمینے  کی طرف گیا اور کہا  چلو بیٹا  ہمیں اس وقت  کہیں  جانا ہے  آپ بعد  میں  زریام  سے مل لینا خادم نے  نظریں  جھکا کر کہا  

زرمینے نے  ایک  دفعہ  اسے دیکھا  جو  کل سے اس کے ساتھ کسی محافظ  کی طرح رہا اور نظریں جھکا کر  رکھی حتی کہ  بات کرتے ہوئے  بھی نظروں  کو جھکا کر  رکھتا  

مگر پھر بھی وہ ایک لڑکی  ہے اور ایک لڑکی  کے لیے  اپنی عزت سے بڑھ کر  اور کچھ نہیں  ہوتا  

 میں ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔کیسے ۔۔۔کس لیے  زرمینے نے ہچکچاتے ہوئے کہا  

خادم  بھی شاید  سمجھ گیا 

دیکھو بیٹا  میں  جانتا ہوں کہ  آپ  مجھے  نہیں  جانتی  مگر میرے  گھر میں  بھی ماں بہن  ہے اگر میں  دوسروں  کی ماں بہن کی عزت کرو گا تو دوسرے بھی میری ماں بہن کی عزت  کریں گے یہ دنیا مکافات عمل ہے  جو بویا وہی کاٹنا  ہے اگر میں  کسی کےساتھ  برا کرو گا  تو جلد یا بدیر  میرے کسی عزیر کے  ساتھ  بھی یا میرے خود کےساتھ  ہوگا 

یہ بات میری ماں نے  مجھے  سمجھائی تھی  خادم نے  کہا   تو زرمینے  یکدم شرمندہ  ہوئی 

دیکھو بیٹا  میں  تمھارے  بھائی  جیسا  ہوں ایک بار مجھے  بھائی  سمجھ کر ہی میرے ساتھ  چلو  خادم نے  التجائیہ لہجے میں کہا  تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا  اور خادم  کے ساتھ  گاڑی میں  چل دی 

خادم نے  گاڑی  زرمینے کے  گھر کی طرف موڑی  خادم  پہلے ہی  خالہ  سے گھر  کے بارے میں  پوچھ لیا  تھا اس لیے  گاڑی  گھر کی طرف کے راستے کی طرف  موڑی زرمینے  خاموش  بیٹھی  تھی کہ اچانک  گاڑی روکنے سے چونکی اور حیرت سے گاڑی  کو اپنے محلے سے دور کھڑی  دیکھا  پھر خادم کو   جب خادم نے  کہا  بیٹا  ہمیں  آگے پیدل ہی  جانا پڑے گا  کیونکہ  گاڑی  ان تنگ گلیوں  سے نہیں  گزرا  پائے گئ    

زندگی چند دنوں کی باقی ہے

اور ان چند دنوں سے پریشان ہوں میں

زرمینے  حیرانگی سے خادم کو دیکھنے لگی  جب پھر کہا بیٹا  جلدی  چلے  ابھی  مجھے  سے کوئی  سوال  مت پوچھیں  گا 

خادم کہہ کر تیز تیز  قدم  اٹھانے لگا مجبور زرمینے  کو  بھی اپنی رفتار  تیز کرنی پڑی  اس وقت زرمینے  کے دماغ میں  بہت  کچھ چل رہا ہے  مگر وہ تمام سوچوں  کو پس منظر  ڈال کر تیز تیز قدم اٹھانے لگی  

جب وہ گھر کے  قریب  پہنچی تو  اتنا  رش دیکھا کر پریشانی سے گھر میں داخل ہوئی  تو نظر  سیدھی  چارپائی پر  پڑے وجود پر گئ وہ بھاگ  کر  چارپائی کے  پاس گئ اور سامنے  وجود  کے  چہرے پر  سے کپڑا  اتارا  دل سے مسلسل  یہی دعا  تھی کہ  جو وہ سوچ رہی ہے  ویسا نہ ہو  

مگر ہونی کو کون  ٹال  سکا ہے  جو اب  ٹالتی وہ صدمے  میں  سامنے  پڑے جنازے  کو دیکھا رہی تھی 

یقین کرنا  مشکل ہے کہ  ان سے ابھی رات کو  ہی بات ہوئی تھی تب تو ٹھیک  تھی 

پھر یکدم کیا  ہوا  کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے  اسے چھوڑو کر چلی گئی کہ تب ہی کسی عورت  کی  آواز  اس کے کانوں میں  پڑی  بہن  میں  تو شام کو  دیکھا  تھا ایک دم ٹھیک  تھی  مجھے  تو لگتا ہے  اس لڑکی کی وجہ سے مرگئ ہے  ارے دیکھا نہیں  کیسے  باہر  پھرتی ہے نہ شرم نہ حیا ہے 

تب ہی  دوسری بولی ہاں بہن  میں  نے دیکھا ہے کہ  ابھی  وہ کسی نوجوان لڑکے  کے ساتھ  گاڑی  میں  آئی ہے ایسے ہی تمام  عورتیں  اس کے کردار پر  الزام  لگا رہی تھی  ارے یہ عورتیں  دوسروں  پر الزام  لگانے سے پہلے  کیوں  نہیں  سوچتی  کہ ان کے گھر میں  بھی بہن  بیٹی  ہے  پھر جب ان پر الزام  لگتا ہے  تو روتی ہیں  کہ  نہیں  میری  وہ ایسی  نہیں  ہے  یہ معاشرہ  کیوں  ایک  عورت  کو  جینے نہیں  دیتا 

اسے اس گھر میں  آئے ہوئے  تین  گھنٹے  ہوگئے ہیں  مگر اس کی آنکھیں  سے ایک قطرہ  پانی کا نہیں  نکلا بس وہ اس چارپائی  کو بغیر  پلکے جھپکے دیکھ رہی ہے کہ تب ہی  ایک  مہربان  عورت  اس کے پاس  آتی ہے  بیٹا  اب تمہاری چچی  اس دنیا  میں  نہیں  دہی تم تھوڑا  رو لوں  پھر اس کو لے کر قبر ستان جانا ہے  

اس عورت  نے  نرم لہجے میں کہا  تو زرمینے نے  اس کو دیکھ  اور پھر اتنا روئی کہ وہاں  موجود  ہر شخص کی  آنکھیں  نم ہوئی  مگر زرمینے کی چیخیں  ہچکیوں میں پھر سسکیوں  میں  تبدیل  ہو گی  

پھر کچھ لوگ  آکر اس کی چچی  کے جنازے  کو لے گئے  اور  آہستہ آہستہ  محلے کے  لوگ  بھی چلے گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی صلح کروا دے زندگی کی الجھنوں سے

بڑی طلب ہے آج ہمیں بھی مسکرانے کی

تب  خادم  جو تب سےاس گھر  میں  تھا وہ زرمینے کے پاس ایا اور زرمینے کے سر پر  ہاتھ  رکھ کر کہا  بیٹا  حوصلہ  رکھو خادم نے نرم لہجے میں کہا  

اس سے پہلے کہ زرمینے  کچھ کہتی  کہ محلے کے لوگوں کے  ساتھ  مکان مالک اندر داخل  ہوا 

اور خادم  کا سر پر  ہاتھ  کا غلط مطلب نکلا  ان میں سے ایک عورت بولی  ہائے ہائے  ابھی چچی  کو مرے ایک دن  نہیں  ہوا اور یہ دیکھو کیسے اپنے یار کو بلا کر رنگ رلیا منا رہی ہے میں  نہ کہتی ہوں  جی اسے  محلے سے نکالے ہماری  بچیوں  پر اس کا گندا  اثر  پڑے گا  

ہاں ہاں تمام  لوگ  کہنےلگے  

تب ہی مکان مالک بولا  ائے لڑکی  میرا گھر خالی کر ویسے بھی تم نے پچھلے  دو مہینے  کا کرایہ ہی نہیں دیا   نکل جا میرے گھر سے 

تب ہی  زرمینے  ہوش و حواس  سے بیگانی ہوکر گرجاتی ہے

۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزلان شاہ  صبح 5بجے  اٹھا اور جاکنگ پر چلا گیا  وہاں  سے  واپس آکر فریش ہوا اور نیچے  ڈائننگ ٹیبل پر کے پاس گیا  جہاں اس وقت  ملازمین کھانا  سرو کر رہے تھے 

اسلام وعلیکم   غزلان شاہ نے  سنجیدگی سے کہا  

تو تمام  لوگ  نے زیرلب اسلام کا جواب دیا وہ اپنی کرسی دھکیل کر  بیٹھ گیا  

اور جوس پینے لگا اس وقت  ڈائننگ ٹیبل پر خاموشی تھی  جو احمد شاہ  کی  آواز  نے توڑی بیٹا  اج آپ کی پھوپھو لوگ  آرہے ہیں  ریاض بھائی  نے اپنا بزنس  یہاں  سیٹ کرلیا ہے اب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے  یہاں  آجائے گے تو میں  چاہتا ہوں  کہ ان کے آنے کے بعد  آپ کی اور زرتاشیہ  کی شادی  کی تاریخ  

ابھی احمد شاہ نے  اپنی بات  مکمل  کی نہیں کہ غزلان شاہ  نے  دو ٹوک  انداز میں کہا  

ڈیڈ  میں  ابھی شادی نہیں  کرنا چاہتا یہ کہہ کر  وہ نیپکن سے ہاتھ  صاف  کرکے  ڈائننگ ٹیبل  سے چلا گیا کیونکہ  اس کی بہت  ضروری  میٹنگ  ہےوہ میٹنگ  اٹینڈ کرکے باہر نکل  تو اسے  خادم  نظر نہیں  آیا  وہ حیران ہوا کیونکہ  خادم  ہمیشہ  اس کے ساتھ  ہوتا ہے 

پھر اچانک  اسے  کل کا واقعہ  یاد آیا تو گاڑی  ہسپتال کی  طرف  موڑی  

وہ جیسے ہی  ہسپتال  پہنچا وہاں  نہ ہی اسے  خادم نظر  آیا  اور نہ ہی  کل والی لڑکی  

تب ہی ڈاکٹر  اس کی طرف  آرہا ہے  آئے سرکار  تشریف لائے  

ڈاکٹر نے  خوشامد لہجے میں کہا  

ہمممم کل وہ لڑکا  جو آیا  تھا وہ کیسا ہے  اب غزلان شاہ نے سنجیدگی سے پوچھا  

جی سرکار  وہ اب بالکل ٹھیک ہے  ڈاکٹر  نے کہا  

کیا  میں  اس سے مل سکتا ہوں

غزلان شاہ  نے  سنجیدگی سے کہا  جی سرکار  آپ مل سکتے ہیں  ڈاکٹر نے خوشامد لہجے میں کہا  اوکے اب آپ  جاسکتے ہیں  غزلان شاہ  نے  بیزار لہجے میں کہا   تو ڈاکٹر  چپ چاپ وہاں سے  چلا  گیا  

غزلان شاہ  بھی  زریام  سے ملنے  اس کے وارڈ کی طرف  گیا  

جب وہ اندر داخل  ہوا  تو زریام  کو ہوش  آیا  ہوا  تھا اور وہ چھت کو دیکھا  رہا تھا کسی کہ داخل  ہونے کے احساس  سے  وہ اس طرف  موڑا  مگر سامنے  غزلان شاہ  کو دیکھ کر  مایوس  ہوا اور پھر سے چھت کو دیکھنے  لگا 

غزلان شاہ  آہستہ آہستہ  قدم اٹھا  کر  اسے کے بیڈ کے باکل پاس آکر رک گیا  اور زریام  سے دوستانہ انداز میں  کہا  کیسے ہوں  دوستتو زریام  نے پہلے  اسے دیکھا  جو  اس وقت  زریام  کو ہی دیکھ  رہا تھا  پھر گورا اور بولا  آپ کون کیا  میں  آپ کو جانتا ہوں  زریام  نے تشویشی انداز  میں کہا تو غزلان شاہ  مسکرایا 

شاید  اسے زریام  کا تشویشی انداز  پسند آیا  ہے  پھر بولا  دوست میں وہی جس کی گاڑی  کے  سامنے  بے ہوش ہو گئے تھے تم غزلان شاہ  نے  مسکراتے ہوئے کہا  

تو زریام تو اس کا مسلسل  مسکرانا  برا لگا اسے لگا شاید  وہ  اس پر مسکرا رہا ہے 

او تو آپ  ہے وہ جن کی  وجہ سے  میں  یہاں  ہوں زریام  نے  طنزیہ لہجے  میں کہا  اس کے کہنے  کی دیر تھی کہ  غزلان شاہ  نے  اپنی  مٹھیاں زرو سے بند  کی شاید نہیں  یقین  اس کو زریام  کا طنزیہ  انداز  پسند  نہیں  آیا  ابھی وہ کچھ  کہتا کہ  زریام  پھر  بولا  آپ کو پتا ہے آپ کی بے احتیاطی کی وجہ سے  میرے  سر میں  بہت درد ہو رہا ہے اس بار  زریام  کے لہجے  میں  تکلیف کا  عنصر  تھا   

زریام  کی تکلیف  پر  اس نئ بڑی مشکل  سے  اپنا غصہ  قابو کیا  جو زریام  کی بات پر آیا  تھا پھر بولا تو لہجے  نرم تھا 

دیکھو تم خون سے لت پت میری گاڑی کے سامنے بے ہوش ہو گئے  تھے تم پہلے  سے زخمی  تھے میں  نے  تمھاری  مدد کی  ہے ناکہ تمھارا ایکسڈینٹ میری  گاڑی سے ہوا ہے میں تو انسانیت  کے  ناطے  تمھاری  مدد  کی ہے  غزلان شاہ نے  نرم لہجے میں کہا  

تو زریام  اس کی باتیں  سننے کے بعد  شرمندہ  ہوں  پھر بولا معاف  کیجیے گا  مجھے  نہیں  معلوم  تھا کہ  آپ نے میری  مدد کی ہے   زریام نے شرمندگی سے کہا کوئی بات نہیں  غزلان شاہ  نے  سنجیدگی سے کہا  کیا  آپ  میرے گھر والوں  کو  اطلاع دے دیں  ہیں  زریام  نے پوچھا  تو غزلان شاہ  نے کہا  ایک لڑکی  کل سے  یہاں  تھی وہ بہت  رو رہی تھی  تو کیا  اس کی آنکھوں  کا رنگ  نیلا  ہے زریام  نے جلدی سے  پوچھا  تو غزلان شاہ  کو اچانک  وہ پرامید  نیلی آنکھیں  یاد  آئی  

ہممم غزلان شاہ  کہااچھا اگر زرمینے  یہاں  ہے تو وہ اب تک مجھ سے  ملنے  کیوں  نہیں  آئی  زریام  نے  کہا 

ابھی غزلان شاہ  اس کو کوئی جواب دیتا کہ ڈاکٹر  آئے گیا  معاف کیجئے گا  سرکار وہ پیشنٹ  کو انجیکشن  لگانے  ہے ڈاکٹر  یہ کہہ کر زریام کو انجیکشن لگانے کے بعد چلا گیا 

اس کے جاتے ہی غزلان شاہ زریام  کی طرف دیکھا تو  وہ سو گیا ہے شاید اس انجیکشن  میں  نشہ آوار دوائی تھی 

اس لئے وہ سو گیا  تو غزلان شاہ  خود بھی باہر  چلا گیا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا 

وہ تِری یاد تھی اب یاد آیا

آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست 

تُو مصیبت میں عجب یاد آیا 

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے 

پھر تِرا وعدۂ شب یاد آیا 

تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا 

مر رہیں گے اگر اب یاد آیا 

پھر کئی لوگ نظر سے گزرے 

پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا 

حالِ دل ہم بھی سناتے لیکن 

جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا 

بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ 

ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 تاکہ  خادم کا پتا کرسکے کہ وہ کہاں ہے غزلان شاہ نے کب سے خادم کو  فون کر رہاتھامگر وہ فون  نہیں  اٹھا رہا  اس نے ایک بار پھر  فون  ملایا  تو سامنے  سے فون  اٹھا لیا گیا  وہ سرکار ۔۔۔۔۔وہ ہ ہ ہ ۔۔لڑکی  ۔۔۔ککککککو ککککچھ ہو گیا  ۔۔۔وہ اٹھھھھ نہیں ۔۔۔رہی ۔۔معلوم  نہیں کیا ۔۔۔ ہوا  ہے آپ یہاں  آئے جائے سرکار   اگے سے خادم  اٹک اٹک کر کہا تو  غزلان شاہ نے  خادم  سے  ایڈریس پوچھاخادم  نے  جلدی سے  ایڈریس  بتاکر زرمینے  کو  اٹھانے کی  کوشش کرنے  لگا  مگر وہ  اٹھا ہی نہیں  رہی تھی  

وہ تمام  لوگ  بے حس بنے ان کو دیکھ  رہے تھے  کسی نے  بھی ان کی مدد  نہیں  کی 

خادم  جلدی سے  کچن سے پانی لے کر آیا  اور زرمینے  کے  منہ  پر  چھنٹے مارے مگر زرمینے  پر کوئی اثر  نہیں  ہوا وہ بہت  پریشانی سے  اس کا چہرہ تھپتھپا رہا ہے  مگر اس کو کوئی  ہوش نہیں 

تب ہی  غزلان شاہ  چہرے پر  رومال بند کر  آیا  اس کو دیکھا کر خادم  جلدی سے  غزلان شاہ  کے پاس آیا  سرکار  دیکھیں  ان کون ہوش نہیں  آرہا  خادم نے  پریشان لہجے میں کہا  تو  غزلان شاہ  جلدی سے  زرمینے کی طرف بڑھا اور اس کی نبض چیک کی جو بہت  سلیو چل رہی تھی  غزلان  شاہ نے  جلدی سے  زرمینے کو  اپنی باہوں میں  اٹھایا اور باہر  کی طرف  چل دیا  

خادم  بھی پیچھے چلا گیا  وہ لوگ بھی تماشہ کرنے کے  بعد  بکواس کرتے ہوئے  اپنے اپنے  گھروں کو  چلے گئے  

وہ ان تنگ  گلیوں سے گزر رہا تھا کہ  زرمینے  کا ہاتھ میں  حرکت ہوئی یہ ہاتھ  اس کی گردن  کے پاس تھا اس کی حرکت کی وجہ سے  رومال اتار گیا شاید  رومال کی گرہ ٹائیٹ نہیں  تھی اس وجہ سے  اتار گئی وہ اس طرح  اٹھا کر سڑک پر  لے آیا  اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھا یا اور جلدی سے گاڑی خادم نے  چلائی 

۔ ۔۔۔    ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیونکہ  غزلان شاہ  خود جلدی سے  ڈرائیونگ کرکے آیا تھا اس لیے خادم کو  ڈرائیونگ کرنی پڑی  وہ ان کو اسی ہسپتال  لت کر آیا جہاں  زریام  پہلے ہی  ایڈمنٹ ہے

 ہسپتال  پہنچتے ہی غزلان شاہ نے  جلدی سے  زرمینے کو  اٹھایا اور  ہسپتال میں داخل ہوا اور زرمینے کو سٹیچر پر لیٹیا اور اس کو ڈاکٹر  نے چیک کیا  اور پھر ڈاکٹر نے  غزلان شاہ سے کہا  

دیکھیے پیشنٹ  کسی صدمے کی وجہ سے اور کمزوری کی وجہ سے  بےہوش ہوگئ  ہیں  ہم نے گلوکوز کی بوتل لگادی ہےوہ جلد ہی ہوش میں  آجائے گی  ڈاکٹر پیشے وارنہ لہجے میں کہتا ہوا چلا گیا   پیچھے  خادم  نے غزلان شاہ کو  ساری باتیں  بتادیں اور ان کو گھر سے  نکالنے کا بھی بتا دیا  

۔۔۔۔    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کچھ ہی دیر میں  زرمینے  کو ہوش  آگیا  وہ خالی خالی  نظروں سے  ہسپتال کے  کمرے  کو دیکھ  پھر آہستہ آہستہ دماغ  بیدار ہوا  تو اسے وہ سب تلخ باتیں یاد  آئی  ایک انسو تھا جو آنکھ سے  ٹوٹ کر بے مول ہوا تھا

چلے آئے ہیں آنکھوں میں آنسو کسی کا عکس لے کر 

یہ آنسو آج پھر کوئی تماشہ چاہتے ہیں

زرمینے نے  پھراس نے  آنکھیں  موند لی جیسے  اس حقیقت سے آنکھیں موندئ ہوں غزلان شاہ  جو صوفے بیٹھا  موبائل  استعمال کررہا تھا  اس کی نظریں زرمینے  کے چہرے پر  تھی اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ  اس نے بخوبی دیکھیں اسے اس پر ترس آیا  اس کے گھر میں اس کی کزن بھی اس لڑکی کی ہم عمر  ہیںجن کی  ہر خواہش  ان کے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی  پوری کردی جاتی ہے  ان کے چہرے پر  رہنے والی ہمہ وقت خوشی اور آنکھوں میں شرارت  ہوتی ہیں  مگر اس لڑکی کے چہرے پر  نہ کوئی خوشی بلکہ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہے  اور آنکھیں  ایسی  خالی جیسی  ان میں کوئی شرارت کبھی تھی ہی نہیں  اس کو بے اختیار اس سے ہمدردی ہوئی  جو اپنی عمر سے زیادہ  ہی سنجیدہ  ہوگئ ہیں 

مسکرانا کبھی نہ راس آیا

ہر ہنسی ایک واردات بنی

پھر ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا  

شاید  خود کو بولنے پر تیار کیا

پھر بولا تو اس کا لہجہ باکل سپاٹ تھا دیکھیں  آپ کے ساتھ  جو کچھ بھی ہوا میں  سب جانتا  ہوں  آپ اس وقت  اپنے بھائی  کے ساتھ  کہیں بھی  نہیں  جاسکتی  کیونکہ  آپ کا بھائی  اس حالت  میں  نہیں  جو کہیں  جاسکے اد لے میں چاہتا ہوں کہ آپ اور آپ کا بھائی  میرے پرسنل  کاٹیج میں کچھ دن رہ لے جیسے ہی وہ کچھ بہتر  ہوجائے  آپ چلے جائے گا  کیونکہ  زریام  کو آج ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا 

غزلان شاہ نے  اپنی بات مکمل کر کے ایک نظر  اس کو دیکھا  جو  آنکھیں کھولے اس کو ہی دیکھ رہی تھی پھر وہ بولی تو اس کا لہجہ  ہر جذبات سے عاری ہے  ٹھیک ہے  سرکار سائیں  آپ کی نوازش کا بہت  شکریہ  زرمینے نے  کہہ کر سکون سے  آنکھیں  بند کرلیں

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے

سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

ہاں  اس نے غزلان شاہ  کے ایک بار کہنے پر اس لیے مان گئ کیونکہ  وہ صیحح ہی کہہ رہا تھا  وہ اکیلی  کیسے کرتی اوپر سے  وہ لڑکی  ذات تھی اب وہ اس محلے میں  بھی نہیں جاسکتی  کیونکہ  اس کو اس گھر سے بھی نکال دیا  اب وہ وہاں جاکر کیا کرتی اس لیے مان گئی ہاں وہ اس بات سے پرسکون تھی کہ وہاں  وہ محفوظ ہے کیونکہ  اس کی وجہ سے خادم  ہی وہاں تھا اگر وہ چاہتا  تو خادم  کو  بھی لے جاتا مگر اس نے خادم  کو  خود وہی چھوڑا تھا وہ پرسکون ہوکر آنکھیں بند کرلیں اور جلدی سے نیند کی وادی میں چلی گئی

غزلان شاہ  بھی ایک بار  دیکھا کر باہر چلا گیا  کیونکہ اس کی بہت ضروری میٹنگ ہے  اور بہت سے اور بھی کام تھے اس لیے غزلان شاہ نے  خادم کو  بتا کر چلا گیا 

مگر آنے والے  وقت سے انجان  اس کو کاٹیج میں  رہنے دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 پیچھے خادم کو  وہی چھوڑا گیا کیونکہ خادم نے ہی زریام کو ڈسچارج کروا کہ اس کو سرکار کے کاٹیج میں بھی چھوڑنا تھا خادم نے پہلے ڈسچارج پیپرز بنائے پھر وہ زریام کے کمرے میں چلاگیا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زریام جو چھت کو دیکھ رہا تھا  دروازہ کھولا اور خادم کو  اندر آتا دیکھ متوجہ ہو  پھر سامنے  موجود خادم کو دیکھ کر مسکرایا جب خادم بولا ویسے برو ڈرامہ بہت اچھا  تھا ابھی خادم مزید کچھ کہتا کہ  ڈاکٹر  اندر آئے سر مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے  اگر سرکار کو اس ڈرامے کے بارے میں پتاچلا تو وہ مجھے چھوڑے گئے نہیں ڈاکٹر نے  خوفزدہ لہجے میں کہا تو زریام  بولا ڈاکٹر  آپ کو ڈرنے کی  ضرورتنہیں  آپ نے  کچھ غلط  نہیں کیا تو  آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں اور اگر سرکار کو کبھی پتا بھی چل گیا تو آپ پوری  سچائی بتادیجے گا وہ سچائی  جاننے کے بعد آپ کو  کچھ نہیں کریں گے  اب آپ جاسکتے ہیں   زریام نے  بیزار لہجے میں کہا  تو ڈاکٹر چپ چاپ وہاں سے چلا گیا  ڈاکٹر کے جانے کے بعد  زریام خادم سے بولا کہاں تک ہمارا پلان کامیاب ہوا برو ہمارا  پلان کامیاب ہونا ہی تھا آخر یہ پلان  افسر زر نے بنایا تھا اس لیے  کامیاب تو ہونا ہی تھا  خادم نے فخر سے کہا  ہاں افسر زر کرئی پلان بنائے اور وہ کامیاب نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا زریام کے لہجے میں بھی فخر تھا آفسر زر کےلے  

اچھا  برو اب ہمیں  سرکار کے پرسنل کاٹیج  میں  جانا ہے  خادم نے کہا تو زریام نے حیرانگی سے  اسے دیکھا کیا مطلب  کاٹیج  زریام نے پوچھا تو  خادم نے کہا  ہاں برو سرکار نے کاٹیج میں  آپ کو پہچانے کا کہا ہے آج وہاں جائے گے تو کل کو  آپنے مقصد میں کامیاب  ہو جائے گے خادم نے  تحمل سے کہا  تو  زریام نے ہممم کہنے پر  اتفاق کیا  خادم  وہاں سے چلا گیا  پیچھے زریام  گہری سوچ میں چلا گیا  

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے 

اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔

خادم  زریام اور زرمینے  کو لے کر اسوقت  غزلان شاہ کے کاٹیج کے سامنے کھڑا  ہوا ہے  اس وقت  دونوں کے چہرے پر  ڈھونڈنے سے بھی ایک دوسرے کے لیے  پہچان نہیں مل رہی تھی  وہ اجنبیوں کی طرح  کھڑے  تھے  جب کے زرمینے  سامنے کاٹیج کو دیکھ رہی تھی  جو بہت زیادہ  بڑا نہیں تھا  وہ صرف دو کمرے پر مشتمل  گھر تھا لیکن  وہ بہت خوبصورت  تھا 

چلے میں  آپ کو گھر دیکھا دوں خادم نے نرم لہجے میں کہا  تو زرمینے اور زریام  گھر کی طرف چل دے  خادم نے  دوازے کا تالا کھولا تو اندھیرا نے ان کا استقبال کیا   خادم نے  آگے بڑھ کر  سوئچ بورڈ سے لائٹ آن کی تو گھر روشنی سے  نہاگیا زرمینے  ایک نظر سامنے لاونچ کو دیکھا جو بہت گندا ہے پھر خادم کو جو زرمینے کو ہی دیکھ رہاتھا اس کے دیکھنے سے وہ شرمندہ ہو ں 

وہ سرکار  کبھی یہاں آئے نہیں اس لے اس کی یہ حالت ہے  میں کل ملازمین کو  بیجھا کر یہاں کی صفائی کروادوں گا خادم نے کہا  

تو زرمینے بولی نہیں  بھائی اب ہم لوگوں نے یہاں رہنا ہے  تو میں  خود کر لوں گئی آپ بھائی  کو  سامنے کمرے میں  لے جائے میں پانی اور دوائی لے کر آتی ہوں زرمینے نے کہا اور پانی لینے کچن کی طرف چلی گئی تو خادم بھی زریام کو لے کر اس کمرے میں چلاگیا  مگر سامنے کمرے کی حالت کی وجہ سے زریام کو  صوفے کو صاف کرکے  اس پر بیٹھایا اور خود بیڈ کی چادر اتار کر دوسری  چادر بچھائی پھر زریام کو بیڈ پر بیٹھایا تو اتنے میں  زرمینے بھی  دوائی لے کر آگی پھر زریام کو دوائی دے کر  باہر  آگئ خادم  بھی زریام کو  لیٹاکر باہر آگیا  اچھا  بیٹا  میں چلتا ہوںپھر صبح کو آپ کی ضرورت کی چیزیں  دے دوں گا  خادم نے کہا  تو زرمینے نے  کہا ٹھیک ہے  بھائی  خادم زرمینے کے سر پر ہاتھ رکھ کر چلاگیا  پیچھے زرمینے  مسکرا کہ گھر کی صفائی کی طرف متوجہ  ہوگئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زرتاشیہ اور اس کے گھر والے اس وقت حویلی  میں  آگئے ہیں تمام لوگوں سے مل کر اب وہ لوگ لاونچ میں بیٹھے  چائے پینے کے ساتھ  باتیں کر رہے ہیں  جب ریاض صاحب بولے بھائی صاحب ہم لوگوں نے  تو اب بھی نہیں  آنا اگر زرتاشیہ  نہ کہتی  اور میں اپنی بیٹی کی  کوئی بھی بات نہیں ٹالتے اس لیے آگے 

ریاض صاحب نے کہا  تو احمد شاہ کے ساتھ  باقی تمام لوگ  مسکرائے  اچھا وہی تو میں  کہوں کہ  آپ لوگوں اس بار کیسے  آگئے احمد شاہ نے کہا  بس بھائی صاحب  اب آپ لوگوں  یہاں ہی رہے گئے  اور زرتاشیہ کی بھی مدیحہ والی  یونی میں ایڈمیشن کروا دے نوشین بیگم نے کہا جی بھابھی اب ہم اس گھر میں ہی رہے گئے کیونکہ میں نے اپنا  بزنس یہاں سیٹ کرلیا ہے  ریاض صاحب بولے  تو تمام لوگ  مسکرائے  اچھا  ماما مجھے  ریسٹ کرنا ہے  

آپ مجھے  میرا کمرہ بتادے زرتاشیہ نے نرم لہجے میں کہا  تو  کوثر بیگم نے  اس کو کمرہ دیکھنے چلی گئ  اور باقی خواتین بھی بھی کچن میں  کھانے کا انتظام دیکھنے  چلی گئیں  اب وہاں  مرد حضرات  ہی بیٹھے باتیں  کر رہے ہیں  جب غزلان شاہ  نے  آکر تمام لوگوں  کو  اسلام  کیا اور وہی صوفے  پر بیٹھا گیا کیسے ہیں  انکل آپ  غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا  

ٹھیک  آپ کیسے ہیں  سرداد  سائیں  

ٹھیک  یک لفظی جواب دے کر وہ فریش ہونے چلا گیا

نا قدری کرنے والوں کو اپنا سایہ تک میّسر نہ ہونے دیں پھر چاہے وہ روئیں، 

چیخیں چلّائیں یا پھر مر جائیں.. 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کو  کھانے کے لیے  وہ ڈائننگ ٹیبل  پر  آیا  تو وہاں  زرتاشیہ اور سارے  لوگ  موجود تھے  اس نے ایک نظر زرتاشیہ  کو دیکھا  جو  اس وقت فیروزی کلر کے سوٹ میں ساتھ حجاب  لیا ہوا  اس کی صاف رنگت براون کلر کی آنکھیں  گلابی ہونٹ چھوٹی سی  ناک جس میں  بالی پہنی ہوئی ہے جو اس کے چہرے پر  بہت پیاری  لگ رہی ہے وہ بہت خوبصورت اور پرکشش  ہے مگر اس نے اپنی نظریں  جھکا لی  اور اپنی کرسی کھینچ کر بیٹھا ہی ہے کہ زرتاشیہ کی  آواز  کی طرف  دیکھا آپ کیسے ہیں سرداد لالہ زرتاشیہ نے اپنے ازلہ نرم لہجے میں کہا  میں ٹھیک  آپ کیسی ہوں غزلان شاہ  نے سپاٹ لہجے میں کہا  زرتاشیہ  ابھی اپنے  اور غزلان شاہ  کے رشتے کے بارے  میں  نہیں  جانتی  اس لے وہ ہمیشہ  اس کو لالہ ہی کہتی ہے اس نہ بتانے  کی وجہ بھی غزلان شاہ  ہی ہے اس نے ہی سب کو منع کیا تھا کہ زرتاشیہ کو نہ بتائےکہ وہ غزلان شاہ  کی منگ  ہیں جس کے چلتے  تمام لوگوں نے  اس کی بات کا مان رکھ اور زرتاشیہ  کو کچھ بھی نہ بتایا  تمام  لوگ  خاموشی سے  کھانا کھا رہے ہیں  کیونکہ  حویلی  میں  رواج ہے کہ تمام لوگ صبح اور رات  کا کھانا  ایک ساتھ  کھائے اور کھانا  کھاتے ہوئے  خاموشی  اختیار  کر یں یہ رواج ان کی دادی نے  بنایا تھا ان کے جانے کے بھی سب ان کی  بات کا مان رکھ کر یہ سب کرتے آرہےہیںکھانا  کھا کر تمام  لوگ  اپنے اپنے کمرے  میں  چلے گئے  مگر غزلان شاہ  اٹھا کر  باہر لان  میںآگیا  وہ ہمیشہ  رات کو  کچھ وقت  ٹہل قدمی کرتا ہے اب بھی وہ ہمیشہ  کی طرح  ٹہل رہا تھا کہ  تب ہی خادم  وہاں  آگیا 

اسلام وعلیکم  سرکار  خادم  نے  احترام لہجے میں کہا  تو  غزلان شاہ  نے  اس کے سلام  کاجواب دیا  وعلیکم السلام   کیا  تم ان دونوں  کو  کاٹیج  چھوڑ کر آگیا  غزلان شاہ نے سنجیدگی سے  پوچھا  جی سرکار  میں ابھی چھوڑ کر  آیا ہوں 

خادم نے کہا  وہ سرکار وہ گھر  کافی عرصے سے بند تھا اس لیے وہ گندا تھا میں نے اس لڑکی کو کہا کہ میں  کل کو کسی کو بھیجا دوں گا تاکہ   اس کی کام میں  مدد کروادے  مگر اس نے منع کردیا  اور ان کے پاس پیسے بھی نہیں  ہے وہ اپنی ضرورت کی  چیزیں  لے سکے خادم نے کہا  ہممم تم ایسا کرو کل کو ان کی ضرورت کی چیزیں دے آنا اور کچھ کپڑے  بھی غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا  تو خادم  سر ہلا کر کہا  وہ سرکار  میں  گھر جاو 

ہممم جاو خادم کے جانے کے بعد غزلان شاہ  بھی اپنے کمرے  کی طرف آرام کر نے کے لیے چلا گیاخادم  جیسے  ہی  گیٹ کی طرف  بڑھا  سامنے  سے  آتے وجود کو دیکھا کر رک گیا  

اسلام وعلیکم  مدیحہ نے کہا 

خادم نے ایک نظر  مدیحہ کی طرف دیکھا  جو  اس وقتنیلے رنگ کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں  جو اس کی  سفید رنگت پر بہت پیارے لگ رہے ہیں اوپر سے اس کے  تیکھے  نقوش بہت بھلے  لگ رہے ہیں  بالا شبہ وہ بہت خوبصورت ہے مگر خادم نے  ایک نظر  اس کو دیکھا  کر پھیر لی

کوئی کام  تھا آپ کو بی بی جی 

خادم نے  سنجیدہ لہجے میں کہا

نہیں وہ آپ کل کہاں تھے اور میں آپ کے لیے  کھانا  لے  کر ائی ہوں  مدیحہ نے اپنے ہاتھ میں  پکڑی ہوئی ٹرے اگے کرتے ہوئے کہا 

خادم نے ایک نظر  اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی  ٹرے کو دیکھ اور وہ بی بی جی  میں کل کیسی کام سے باہر تھا اور میں اب گھر جارہا ہوں وہاں  اماں سائیں میرا کھانا پر انتظار کر  رہی ہیں تو کھانا  میں گھر جا کر ہی کھاو گا اور اس دن آپ کیآپ کی جان اور عزت بچانا میرا  فرض  تھا  اگر آپ کی جگہ  نورے (اسگھر کی نوکررانی کی بیٹی ہے) ہوتی تو میں  اس کی بھی جان اور عزت بچاتا آپ پلیز  یہ سب کرنا بند کریں کیوں آپ  سمجھ نہیں  رہی خادم نے  سرد لہجے میں کہا  

مدیحہ کی آنکھوں سے  بےساختہ ہی ایک انسو ٹوٹ کر بے مول ہوا  یہ سوچ کر کہ وہ شخص  اس کو ایک ملازمہ سے ملا رہا ہے  اسوقت  اگر اسے نفرت ہوئی تو نورے سے تھی  

خادم اس کو روتا دیکھ  دکھی ہوا وہ سمجھتے تھا اس معصوم کے جزبات مگر وہ ان کو بڑھاوا  نہیں  دینا چاہتا تھا کیونکہ  جیسا وہ معصوم لڑکی  سوچ رہی ہے ویسا  کچھ بھی نہیں  ہوسکتا پھر ایک دفعہ  اس کو دیکھ کر اگے بڑھا ہی تھا کہ 

 نورے کھانے کی ٹرے لے کر آگئی  وہ جی آکی اماں  چلی گئی ہے اس لئے اماں نے آپ کےلئے کھانا بیجھا  ہے 

خادم نے  ایک نظر کھانے کی ٹرے کو دیکھا  پھر خاموشی سے  ٹرے  پکڑا کر انیکسی کی طرف چلا گیا  کیونکہ وہ اس وقت  بحث کے موڈ میں نہیں  تھااس لئے ہی اس نے ٹرے پکڑی  کیونکہ اگر وہ منع کرتا تو ضرور  نعرے نے اور سوال پوچھنے  لگ جانا تھا 

وہ انیکسی آیا اور ٹرے ایک طرف رکھا کر ہاتھ دھونے چلا گیا  ہاتھ دھونے کے بعد وہ ٹرے اٹھا کر  اپنے سامنے لے آیا ابھی اس نے روٹی کا پہلا  نوالہ توڑا ہی تھا کہ اس کو وہ کالی انسو سے بھری آنکھیں  یاد آگئ اس کا کھانے سے دل ہی اچاٹ گیا ویسے ہی کھانا  چھوڑ کرلیپ ٹوپ پر کام کرنے لگا مگر کام پر بھی دل نہ لگا تو لیپ ٹوپ کو بند کر کے رکھا اور خود سونے کےلئے کمرے میں چلاگیا 

مدیحہ جو وہی کھڑی تھی نورے کے ہاتھ سے کھانے  کی ٹرے لیتے دیکھ کر اور بھی ہرٹ ہوئی پہلے اس کا نورے کا حوالہ  دینا ہی نہیں  بھولی پھر چپ چاپ  ٹرے کو پکڑنا  اس کو اور بھی برگمان کرگیا رہی سہی کسر  نورے کی شرمیلی مسکراہٹ نے پوری کردی 

اس کا تو پہلے  کچھ کرنا پڑے گا  پھر ان کو بھی دیکھا لوں گئی  

مدیحہ خود سے بڑابڑئی اور پھر اندر کی طرف چلی گئی 

۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زرتاشیہ  کھانا کھا کر کمرے میں  آئی اور نائٹ سوٹ لے کرواش روم میں چلی گئی تھوڑی  دیر بعد  واشروم سے باہر آئی اور آئینہ کے سامنے جاکر اپنے بالوں کو  کنگھی کر کے وہ بستر پر لیٹی اور آنکھیں بند کی تو کسی کا عکس نظر ایا 

جلدی سے آنکھیں کھولی کہاں ہوں تم  میں ضرور ایک دن تمہیں ڈھونڈ لوں گئی وہ یہی  سوچتی نیند کی وادی میں چلی گئی  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزلان شاہ  کی آنکھ  مسلسل  شور کی وجہ سے  کھلی وہ جلدی سے اٹھا کر  باہر آیا تو سامنے  احمد شاہ  غصے سے  اس کو ہی دیکھ رہے ہیں  اس کو حیرانگی ہوئی اپھر وہ احمد صاحب کے پاس گیا 

کیا ہوا ہے ڈیڈ  آپ صبح صبح  کیوں  اتنا چلا رہے ہیں  

غزلان شاہ نے  بیزار لہجے میں کہا  شاید اسے اپنے نیند میں  خلل پسند نہیں آیا  

جب احمد شاہ نے  غصے سے اخبار اس کے سامنے کی اور پوچھا کیا ہے یہ 

پہلے تو  غزلان شاہ نے  ان کے غصے سے  تمتماتے چہرے کو دیکھ پھر اس اخبار کو جس میں اس کی کل کی زرمینے کے ساتھ تصویر ہے جب وہ اس کو اٹھے گاڑی کی طرف  لے جارہا تھا اس میں   صرف  غزلان شاہ  کا چہرہ  نظر آیا  رہا ہے یہ جان کر ناجانے کیوں مگر تسلی ہوئی 

پھر اپنے  باپ کو جو اسے ہی گور رہا ہے 

غزلان شاہ  مسکرایا  کیا ہوا ڈیڈ  تصویر  پیاری  نہیں  آئی مگر مجھے تو  بہت اچھی لگ رہی ہے  

 وہ زچ کرتی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ارادہ اپنے باپ کو زچ کرنا تھا جو ہو بھی گیا 

سید غزلان شاہ  کون ہے یہ لڑکی اور تم نے اس کو اٹھایا کیوں  ہوا ہے احمد شاہ  غصے سے بولے 

وہ ڈیڈ  میں  نے نہ یہ ڈولے شولے ویسے ہی نہیں بنائے کل میرا  دل کیسی کو اٹھانے کا کر رہاتھا اور میں نے سامنے اس لڑکی  کو دیکھا بس پھر اٹھا لیا  

غزلان شاہ نے اپنے ڈولے دکھاتے ہوئے کہا 

سید غزلان شاہ  ابھی احمد شاہ  کچھ کہتے کہ غزلان شاہ  نے  درمیان میں ہی ٹوکا 

ڈیڈ  کیا آپ بھول گئے کہ میں  یہاں کا سردار ہوں وہ بات الگ ہے کہ آپ نے مجھے  بلیک میل کر کے سردار بنایا مگر میں یہاں  کا سردار ہوں  تو مجھے  سے اس لہجے میں  کوئی بھی نہیں  بات کرسکتا ورنہ وہ سزا کا حقدار ہوگا کیا آپ یہ قانون  بھول گئے ہیں  ویسے  مجھے  یہ قانون  آپ ہی نے بتایا تھا  

اور ڈیڈ  میں زرا فریش ہوجاو پھر ملتے ہیں 

غزلان شاہ  زچ کرتی مسکراہٹ کے ساتھ  کہتے ہوئے اپنے کمرے  ہی طرف چلاگیا پیچھے  احمد شاہ  اس کی پشت کو غورتے رہ گے باقی گھر والے  بھی اپنے کاموں کی طرف متوجہ  ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔

زرمینے کو یہاں  رہتے ہوئے  ایک ہفتہ  ہوگیا ہے  اس کے اگلے دن ہی خادم  ان کی ضرورت کی چیزیں دے  گیا تھا  وہ یہاں  پرسکون  تھی زرمینے ابھی نہا کر باہر آئی اور اپنے بال کو کنگی کر کے باندھا  اور سر پر چادر لی تب ہی دروازہ  کھٹکتا ہے  وہ سمجھتی ہے کہ شاید  زریام  آگیا کیونکہ  زریام  کسی کام سے باہر گیا ہے وہ جیسے  ہی  دروازہ  کھولنے دروازے کے  پاس جاتی ہے دروازہ  کھول کر بہت سے لوگ اندر آتے ہے وہ اتنے لوگوں کو دیکھ کر ڈر جاتی ہے 

تب ہی احمد شاہ  غصے سے بولتے ہیں  اے لڑکی  کون ہوں تم اور میرے  بیٹے کے  پرسنل کاٹیج میں  کیا  کررہی ہوں 

زرمینے  جو کہ پہلے ہی  اتنے لوگوں کو دیکھ کر  ڈر جاتی ہے مزید  احمد شاہ کی آواز نے کسر پوری کردی اب تو اس کی ٹانگیں بھی کاپنے لگتی ہے 

و۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہ   و۔۔ہ ابھی وہ کصھ کہتی تب ہی احمد شاہ نے  داود کو غزلان شاہ  کو فون  کر کے  یہاں بولنے کا کہا 

جی تایا ابو میں ابھی بلاتا ہوں یہ کہہ کر وہ باہر آیا 

اس نے پہلے  غزلان شاہ کو فون کیا اور اس کو یہاں  آنے کو کہا اور پھر میڈیا  کو فون کیا اور ان کو غزلان شاہ کے بارے میں خبر دینے کےلے یہاں  بلا لیا یہ سب کرتے ہوئے اس کے چہرے پر  ایک شیطانی مسکراہٹ تھیانہیں یہاں آئے ہوئے تقریبا ایک گھنٹہ ہوگیا ہے اس دوران احمد شاہ اور ریاض شاہ  غصے سے  اسکو گور رہے ہیں  زرمینے نے  نظریں اٹھا کر پہلے احمد شاہ کی طرف دیکھا جو اسے کی غصے سے دیکھا رہا تھی وہ ان کی نظروں سے ڈری وہی اس کی نظر  ریاض صاحب کی طرف گئ تو آنکھوں میں  ڈرکی جگہ نفرت نے لے لی ایک ان دیکھی آگ تھی اس کی آنکھوں میں  جو بہت جلد ریاض صاحب کے وجود کو  بھسم کردےگئی 

۔     ۔۔۔۔۔۔۔

نہ کبھی آواز دینا___نہ کبھی پلٹ کر دیکھنا

بڑی مشکل سے سیکھا ہے کس کو الوداع کہنا💔

زرمینے  نے ریاض صاحب  سے نظریں  ہٹاکر دوسری طرف  کھڑے داود کو دیکھ جو عجیب سی پر اسرار مسکراہٹ کے  ساتھ اس کو دیکھا  رہاہے پھر ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا  اور نظریں جھکا لی 

اتنے میں  سید  غزلان شاہ کے ساتھ  خادم اندر آیا 

غزلان شاہ  سامنے زرمینے کو دیکھ کر  سارا معاملہ سمجھ  گیا ابھی وہ انہیں  کوئی جواب دیتے کہ اس سے پہلے ہی میڈیا کے لوگ اندر آکر غزلان شاہ اور زرمینے کی تصویریں لینے لگے 

سر یہ لڑکی کون ہے اور یہ یہاں کیا کر رہی ہے  ان میں سے  ایک بولا  باقی بھی بار بار سوال  پوچھنے لگ گئے 

سر آپ بتائے یہ لڑکی پچھلے پورے ہفتے سے آپ کے پرسنل کاٹیج میں کیا کر رہی ہے  اس کے ساتھ  آپ کا کیا رشتہ ہے بتائے سر 

کیا یہ آپ کی رکھیل ہے اس بات پر زرمینے نے  سر اٹھا کر  اس آدمی کو دیکھ  جو یہ کہہ رہاہے 

جب احمد شاہ  نے غزلان شاہ کو دیکھ اور پھر اس میڈیا کو اگر غزلان شاہ  پر ایسا کچھ ثابت ہوگیا تو ان سے سرداری چھین کر مخالف کے بیٹے کو  دےدی جاتی جوکہ احمد شاہ  ہرگز نہیں  چاہتے ہیں  اس لیے جلدی سے بولے  

آپ لوگوں کی  ہمت بھی کیسے ہوئی ایسی بات ہماری گھر کی بہو کو کہنے کی آپ لوگ جانتے ہی کیا ہے آپ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس لڑکی کا غزلان شاہ  سے کیا رشتہ ہے  میں بتاتا ہوں یہ لڑکی غزلان شاہ کو  بیوی ہے 

اتنا کافی ہے آپ لوگوں کے جاننے کےلے احمد شاہ نے تحمل سے کہا  

داود جو برپور مسکراہٹ کے ساتھ اس تماشے کو دیکھ رہاتھا اور سوث رہا تھا  کہ کب اس سے سرداری چھین لی جاتی ہے مگر اچانک  احمد شاہ کی بات نے بدمزو ہوا اور ان میں سے ایک ریپوٹر کو نکاح نامہ مانگنے کا کہا  کیونکہ وہ ریپوٹر اس کے ساتھ ملا ہوں تھا  اس کے اشارہ کرنے کی دیر تھی وہ بولنا شروع  ہوگیا  اچھا ایسی بات ہے تو ہمیں نکاح نامہ  دیکھیں ہم کیسے مان لے کہ یہ لڑکی سردار غزلان شاہ کی بیوی ہے آپ ہم سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں  

ہاں ہاں آپ لوگ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں  تمام  ریپوٹر نے کہا  تو  احمد شاہ  نے ایک غصے سے غزلان شاہ کو دیکھ جو اس وقت  پرسکون  انداز میں کھڑا ہے جیسے یہاں  اس کی نہیں بلکہ کسی اور ہی بات ہورہی ہے 

پھر ان ریپوٹر کو جو انہیں ہی دیکھ رہے ہیں 

دیکھیں  ہم لوگ نکاح نامہ  ساتھ تو لے کر نہیں  آئے اس لیے آپ لوگ کل شام کو  حویلی  آجائے گا اور نکاح نامہ  دیکھ لیجئے گا  احمد شاہ نے تحمل سے کہا  تو تمام ریپوٹر  کل انے کا کہہ کر چلے گئےان کے جانے کے بعد  احمد شاہ  وہی صوفے پر بیٹھ گےپھر بولے جاو داود مولوی  صاحب  کو لے کر  آو ابھی اس لڑکی کا نکاح ہوگاوہ بھی غزلان شاہ سےاحمد شاہ نے  کہا تو غزلان شاہ  اس پورے عرصے میں ان طرف پہلی بار دیکھا  

میں  یہ نکاح نہیں کرو گا ڈیڈ  غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا  

ٹھیک ہے  اگر تم نے  یہ نکاح نہیں  کیا  تو میں تمہاری ماں کو  طلاق دے دوں گا  احمد شاہ نے  سنجیدگی سے کہا اس وقت ان کو اپنی عزت سب سے  زیادہ  عزیز  تھیاوہو ڈیڈ سچ میں آپ مام کو طلاق دے گے  ٹھیک  ڈیڈ آپ مام کو طلاق دے دیں میں اپنی مام  کو  سنبھال لوں گا اور اگر انہوں نے  وجہ پوچھی تو  میں  ان کو بتاو گا کہ آپ کو کعئی اور پسند آگئ اور میں مام کی شادی  اسفند انکل سے کروا دو گا 

غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا  کیونکہ وہ  اپنے ڈیڈ کی محبت  اپنی مام سے بخوبی واقف ہے  اس لیے مان گیا اور ساتھ ہی  ان کی دکھتی رگ کایعنی اسفند جو نوشین بیگم  کے  گھر کے ساتھ والے گھر میں  رہتا ہے وہ نوشین بیگم کو پسند کرتا تھا ان کا حوالہ دیا تو 

احمد شاہ  کا چہرہ جیلسی کی وجہ سے  سرخ ہوگیا  

شرم کر لوں تم یہ سب اپنی ماں کے  بارے میں  کہہ رہے ہوں 

احمد شاہ نے غصے سے کہا 

نو ڈیڈ اس میں  شرم والی کون سی بات ہے جب آپ خود مام کو چھوڑنے والے ہیں تو میں مام کو  ان کی باقی کی زندگی  اکیلے کیسے  گزارنے دے سکتا ہوں  اور مزہ کی بات پتہ ہے ڈیڈ ابھی کل مجھے  انکل ملے تھے انہوں نے  ابھی تک شادی بھی نہیں  کی 

غزلان شاہ نے مطمئین لہجے میں کہا  تو احمد شاہ کے  سر پر لگی اور تلو پر بجھی والا حساب ہوا 

پھر ایک گہری سانس ہوا کے سپرد کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا اس طرح ان کی بات بالک نہیں  ماننے گا اور اس پر اتنا بھی بھروسہ نہیں کہ وہ اپنی مام کی دوسری شادی کی بات کرسکتا ہے  تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے  

پھر بولے تو ان کا لہجے افسردہ تھا دیکھو غزلان شاہہماری عزت سالوں سے اس طرح ہی بنی ہوئی ہے میں نہیں چاہتا کہ اس عزت پر کوئی حرف آئے تم ابھی اس لڑکی سے نکاح کرلوںپھر بعد میں میں  خود اسکو تمہاری رندگی سے باہر نکلا دوں گاتم  اس کو طلاق دے دینا اور یہ شہر میں سے ہی چلی جائے گئ 

اب کیا  میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑوں کہ میری عزت رکھ لیے  

احمد شاہ نے سپاٹ لہجے میں کہا  تو 

غزلان شاہ  کو ان کے ہاتھ  جوڑنے والی بات پر دکھ ہوا 

ٹھیک ہے  ڈیڈ میں تیار ہوں آپ ان سے پوچھ لے غزلان شاہ نے ایک نظر  گم صم بیٹھی زرمینے کی طرف دیکھا کر کہا 

کہ تب ہی زریام  اندر آیا اور سامنے کی تمام  باتیں  سننے کے بعد وہ آگے آیا اور زرمینے  کے  پاس کھڑا ہوگیا اس وقت  لاونچ میں سب لوگ تھے سوائے داود کے وہ مولوی  کو لینے گیا ہوا تھا  

جب احمد شاہ کی  آواز آئی جاو لڑکے  اپنی بہن کو  نکاح کے لیے مانا ورنہ تم ہمیں  جانتا ہے  احمد شاہ نے  اپنی بات ادھوری  چھوڑی 

زریام نے لب بھنیچے اور زرمینے  کو لے  ایک کمرے میں  چلاگیااس وقت زرمینے نے  سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں  وہ زریام  سے کہا رہی ہے 

کہ وہ یہ نکاح نہیں کرسکتی تم کیوں نہیں سمجھتے  تم جانتے ہو نا کہ ہم کون ہیں اور یہاں کیوں آ ئے ہیں  ہم صرف کام کے لیے ہیں  

جی میں سمجھتا ہوں کہ ہم کون ہیں اور یہاں کیوں آ ئے  مگر اگر آپ نے آ ج یہ نکاح نہیں کیا تو ہماری مہینوں  کی محنت پر پانی پھر جائےگا اور آ پ بھی ایسا کچھ نہیں چاہتی تو اس نکاح کے لیے  تیار ہوجائے 

ورنہ یہ لوگ ہمیں مار ڈالےگے

وہ لڑ کا اس لڑ کی کو سمجھتا ہے  اس لڑ کے کی بات سننے کے بعد وہ لڑکی کچھ دیر سوچتی رہی پھر اس نے کہا کہ یہ نکاح صرف اس مقصد کے لئے کرنے کو تیار ہو  جیسے ہی ہمارے مقصد پورا ہو گیا میں طلاق لے لوگئ 

ٹھیک ہے اس  لڑ کی کی بات سننے کے بعد وہ بولا  

بس ایک دفعہ یہ نکاح کرلے جیسے ہی ہمارے مقصد پورا ہو گیا میں طلاق لینے میں آپ کی مدد کرو گا 

آ پ یہ چادر اوڑھے مولوی صاحب آتے ہی ہوگئے پھر اس پتا ہی نہیں چلا کہ کب اس کا نکاح ہو وہ سب کچھ خالی خالی نظروں سے  کچھ دیکھ رہی تھی 

ہوش تو تب آیا  جب  غزلان شاہ  اس کے پاس آکر بیٹھ اس نے غزلان شاہ  کی طرفدیکھ جو بیزاری سے  بیٹھ ہو ہے پھر سامنے  احمد شاہ  کو جو اس کی تصویریں لینے لگے انہوں نے  یہ تصویریں شاید شام کو  میڈیا کو دیکھانی تھی اس وجہ سے  لے رہے تھے جیسے ہی  انہوں نے  تصویریں لےلی غزلان شاہ بغیر اس کی طرف دیکھیے وہاں سے چلا گیا   اور احمد شاہ اور ریاض صاحب  بھی چلے گئے  جبکہ داود ایک نظر  اس  کو دیکھا کر  مسکرایا اور اس مسکراہٹ کی وجہ شام کو  ہی پتہ چلنا تھا  ویسے احمد شاہ  ان کا نقلی نکاح نامہ  بھی بنا سکتے تھے  مگر جس طرح ان ریپوٹر نے ان سے سوالات  پوچھے  وہ یقینا اس نکاح نامہ کو چک کروائے گے اس لیے ان کا نکاح کروانا پڑھا 

پیچھے خادم  زرمینے کے پاس آیا تو زرمینے نے  سرخ ہوتی آنکھوں سے  اس کو دیکھا کر کہا حمزہ آج آنا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں  آج میں نے  کہی جانا ہے  خادم  زرمینے کے سر پر ہاتھ رکھ کر چلاگیا  پیچھے زرمینے  کی آنکھوں سے ایک آنسو نکلا  

۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ منظر ہے  ایک کلب کا جہاں اس وقت  فل میوزک لگا ہوا ہے لڑکے اور لڑکیاں  ساری شرم وحیا بھولے ایک دوسرے کی باہوں میں جھوم رہےہیں ان میں سے  تین  شخص ایسے بھی تھے جو اس وقت  ماسک سے  چہرہ چھپائے  ہوئے  ہیں  کلب میں انٹر ہوئے اور اردگرد بےزاری سے دیکھنے لگے مگر اچانک  افسر زر کی نظر اپنے  شکار پر پڑی آنکھوں میں  چمک  ابھری 

پھر دوسرے دو الگ الگ ٹیبل پر  جاکر بیٹھ  گے اور افسر زر اس شخص کی  طرف  چل دی  اس کے پاس جا کر  کہا 

ہائے کیا میں یہاں  بیٹھ  سکتی ہوں  زر نے سپاٹ انداز میں کہا  

مگر اس وقت  آنکھوں میں  سرد مہری  تھی پر سامنے بیٹھا 

شخص اس کی  آنکھوں کی سرد مہری نہیں دیکھ سکا کیونکہ  اس نے آنکھوں پر گلاسس لگائے ہوئے ہیں  

اس شخص نے اس کی  طرف دیکھا  جو  اس وقت  بلیک جینز اور شرٹ کے اوپر  جیکیٹ پہنی ہوئی ہے  

یا شیور آپ بیٹھ سکتی  ہیں  ویسے  بھی کون کمبخت  آپ کو مانا کر سکتا ہے اس نے زر کے نازک وجود کو دیکھ کر کہا  

او تھنیکیو ڈارلنگ زر نے مسکراتے ہوئے کہامگر کیا ہے نہ میں یہاں  انکمفر ٹیبل ہوں کیا ہم باہر  جا کر بات کر سکتے ہیں زر نے آنکھوں سے گلاسس اتار کر کہا  

تو وہ شخص تو زر کی آنکھوں کی  خوبصورتی  دیکھ کر  رہا گیا تب ہی اٹھا  کیوں نہیں  چلے

اور اگے بڑھ کر   زر کو ہاتھ  لگانے ہی لگا تھا  کہ 

ڈونٹ ٹچ می زر نے سرد لہجے میں کہا  

تو وہ شخص  کمینگی سے مسکراتا ہوا اس کے ساتھ پارکنگ میں  آیا گیا  

وہ وہاں  میری گاڑی ہے آپ جاکر بیٹھے زر نے کہا  تو  وہ مسکراتا ہوا  گاڑی میں  بیٹھا  تو زر اس کی  طرف  آئی اور گاڑی کا دروازہ کھولا کر اس کی گردن کی مخصوص رگ دبا دی بغیر اس شخص کو سمجھنے کا موقع  دے اور وہ شخض اپنے ہوش و حواس سے  بیگانا ہوکر وہی گر گیاتب ہی وہ دونوں  بھی آگے 

کام ہوا ان میں سے ایک نے  اپنی بھاری مردانہ آواز میں کہا  

ہممم وہ گاڑی میں ہے چلو اس سے پہلے کہ  کسی کو  کوئی شک ہوا اس بار دوسرے نے اپنی بھاری گمھبیر آواز میں کہا  

تو وہ دونوں  اثبات میں سر ہلاکر گاڑی میں  بیٹھے گے اور اس جگہ سے چلے گئے  

________________ 

 شام کو احمد شاہ نے  نکاح نامہ اور کچھ تصویریں  میڈیا کو  دی مگر  اس میں زرمینے کا چہرہ  ٹھیک سے نظر نہیں آیا  رہا ہے  وہ دکھائی   اور ان کی سوچ کے مطابق  انہوں نے  اس کو باقاعدہ  چیک کروایا  

تب ہی ان میں سے  ایک  ریپوٹر بولا سر اگر میم ان کے نکاع میں ہے  تو وہ وہاں  کیوں رہ رہی ہیں 

ہاں ہاں  سر میم وہاں کیوں رہ رہی ہیں بتائے سر 

احمد شاہ نے  پہلے گھور کر اس رپیوٹر کو دیکھ پھر بولے 

وہ کچھ وقت  اکیلے رہنا چاہتے تھے  اس لیے وہ وہاں  رہ رہی ہیں   

احمد شاہ نے تحمل سے کہا  

مگر اب وہ یہی  رہے گئ اس بات کی آپ  فکر نہ کریں  

تب ہی وہی ریپوٹر  بولا سر ان کا ولیمہ  کب ہوگا آخر وہ اس علاقے کے  سردار ہیں اور کیا آپ  ہمیں  اس  ولیمہ میں شامل  کریں گے  

ہاں ضرور  ہم آپ کو ولیمہ میں  شامل کریں گے  مگر اس سے پہلے  وہ گھر تو آجائے 

احمد شاہ نے تپے تپے انداز میں کہااوکے  سر اب ہمیں  اجازت دے ہماری  نظریں آپ پر ہی ہے  امید ہے  آپ ہمیں  ولیمہ پر ضرور بلائے گے 

اس ہی ریپوٹر نے  زچ کرتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

جی جی ضرور  ہم آپ سب کو ضرور بلائے گے  

احمد شاہ نے زچ ہوکر دانت پیس کر کہا  

تو وہ ریپوٹر مسکراتا ہوا باہر نکل گیا  

اور گجر سے کچھ فاصلے پر  جاکر اپنے چہرے سے ماسک اتار اور کسی کو فون کیا  

ہاں  کام ہوگیا  امید ہے  رزلٹ ہماری  سوچ کے مطابق ہوں  

اچھا میں فون رکھتا ہوں وہ یہ کہہ کر فون بمد کر کے رکھتا ہی ہے کہ پیچھے سے  ایک آدمی اتا ہے 

سلام خادم  وہ بڑے سرکار  آپ کو بلا رہے ہیں  

اس ملازم نے موداب لہجے میں کہا  

اچھا آپ جائے میں  آتا ہوں  خادم نے  احترام لہجے میں کہا  تو وہ چلا گیا پیچھے خادم  پر اسرار مسکراہٹ کے ساتھ  اس کے پیچھے  آیااس وقت  لاونچ میں  تمام گھر والے  پریشان  بیٹھے ہوئے  ہیں ان میں سے  ایک نفوس باکل پرسکون  تھا اور وہ کوئی اور نہیں  سید غزلان شاہ  ہے  اور احمد شاہ  غصے سے  اسے گھور رہے ہیں  جب وہ اکتا گیا  ان کے مسلسل  گھورنے کی وجہ سے 

کیا ڈیڈ  میں نے  نہیں  آپ کو جھوٹ بولنے کو کہہ تھا اور جب آپ نے ایک جھوٹ  بول  تو آپ کو اس کے ساتھ اتنے جھوٹ بولنے  پڑے اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے  

غزلان شاہ نے اپنی بھاری گھمبیر آواز میں کہا 

تو احمد شاہ نے غزلان شاہ کو گھور 

تب ہی خادم  اندر آیا اس کو دیکھ  دو لوگ چونکے  وہ چلتا ہوا احمد شاہ  کے پاس آیا اس وقت  اس کے چہرے کے  تاثرات بالکل سپاٹ ہے اس کو دیکھا کر  کوئی نہیں  کہہ سکتا کہ وہ ابھی تھوڑی دیر  پہلے  مسکرا رہا تھا اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی  مسکرایا ہی نہیںاس کو یہاں  دیکھ کر  مدیحہ شاہ  چونکی تھی جو اس وقت  سفید رنگ کی شرٹ اور بلیک رنگ کی پینٹ پہنے ہوئے  وجاہت کا کوئی شاہکار لگ رہا تھا اس  کو  جو چیز  مزید خوبصورت بناتی ہے وہ اس کا اخلاق  اور کردار   وہ تمام لوگوں کا بہت احترام کرتا وہ عورت  سے بات ہمیشہ  نظریں جھکا کر کرتا وہبھی بہت کم اس نے کم وقت  میں  ہی اس گھر کے تمام مکینوں کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی

  اس کا مکمل  جائزہ لینے کے بعد مدیحہ شاہ کو اس کا کل  کا رویہ یاد آیا تو فورا اپنی نظریں جھکا لی  اسہی وقت  خادم  سامنے  کھڑی  مدیحہ شاہ کو دیکھ  جو  اس وقت  ناراض ناراض سی سیدھی اس کے دل میں اتار رہی تھی  جیسے ہی اس نے نظریں  اٹھائی خادم نے جلدی سے  نظروں کا رخ نورے کی  طرف  کرلیا جو یہاں  چائے لے کر آرہی ہے مدیحہ نے  اس کی نظروں کی سمت دیکھا تو جل ہی گئی اسے اس وقت  نورے سے شدید  جیلسی ہوئی اور ساتھ ہی نورے پر غصہ  بھی آیا کہ وہ کیوں یہاں  آئی پھر خادم  کو  گھورا جو سٹپٹا کر  اپنی نظریں  جھکا گیا 

❤️‍🩹تیرا  لہجہ   تیری   باتیں ♥️ اچھی لگتی ہیں

تیری♥️ سوچیں تیری یادیں اچھی لگتی ہیں

تو   دے   اب   الــزام  یا  دے  اپنــی چاہت♥️

اب تیری ساری سوغاتیں♥️ اچھی لگتی ہیں

جس  دن  سے  دل تیرے♥️ نام پہ___ دھڑکا ہے

اس دن سے ہمیں اپنی سانسیں اچھی لگتی ہیں  ❤

◢█

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    ۔۔۔۔۔۔۔

سرکار آپ نے مجھے بلایا خادم نے کہا  

ہاں خادم اس لڑکی کو  حویلی لے آو کیونکہ یہ خبر اب میڈیا میں چلی گئی ہے وہ آسانی سے  اس کا پیچھا نہیں  چھوڑے گئے 

جیسے ہی  معاملہ  ٹھنڈ ہوگا تو ہم اس لڑکی کا  کوئی انتظام کرئے گے یہ بات احمد شاہ نے پورے گھر کے مکینوں کو دیکھا کر  کہی گویا تمام لوگوں کے سوالوں کے جواب  دیا  ہوں 

جی سرکار  میں انہیں  لے آو گا مگر سرکار  ان کئ بھائی  بھی ہے جو بیمار ہے وہ ان کو اس حالت میں اکیلا چھوڑ کر  نہیں  آئی گیں خادم نے احترام لہجے میں کہا  

ٹھیک ہے  اس کے بھائی کو  بھی ساتھ لے آنا اور اسے اپنے ساتھ انیکسی میں رکھ لینا مگر وہ لڑکی  اس حویلی میں  رہے گی اب تم جاو 

احمد شاہ نے گویا بات ہی ختم کر دی پھر وہاں سے  چلے گئے ان کے جاتے ہی غزلان شاہ بھی اپنی میٹنگ کے لیے چلاگیا  اور باقی بھی چلے گئے مگر 

  خان

زرتاشیہ سا کو دیکھ کر  زیر لب بڑابڑئی اور اندر کی طرف چلی گئی  

مدیحہ بھی گھورکر پاوں پھٹک کر اندر گئ 

ان کے جانے کے بعد  خادم  نورے کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت سے وہی کھڑی تھی  نورے بچے کوئی کام تھا  خادم نے نرم لہجے میں کہا  

وہ لالہ اماں کی طبیعت خراب  رہتی ہے تو اماں نے میرا رشتہ  میرے کزن کے ساتھ طے کردیا تو تھوڑے سے  پیسے اور بازار لے جانے کے لیے آپ کی ضرورت ہے  

نورے نے ہچکچاتے ہوئے کہا  

تو خادم  مسکرایا  

لالہ بھی کہتی ہوں اور ہچکچاتی بھی ہوں اور آپ اس شادی سے خوش ہو  خادم نے  پوچھا 

جی لالہ اماں میرے لیے کوئی غلطفیصلہ نہیں  لے گیں  نورے نے کہا 

تو پھر ٹھیک ہے  میری بہن کی شادی ہے تو میں ساری تیاریاں  خود کرو گا اور آپ کو بھی اپنے بابا کو زیادہ یاد کرنےکی  اجازت نہیں دوں گا  کیونکہ آپ کا لالہ ابھی زندہ ہے  نورے کے والد کا انتقال  ہو گیا تھا اس وجہ سے  نوعے اداس تھی شاید  خادم نے  اس کی آنکھوں میں جمع پانی دیکھ لیا تھااس وجہ سے کہا تو نورے نم آنکھوں سے  مسکرادی 

شکریہ لالہ 

جس پر خادم نے آنکھیں دکھائی  لالہ بھی کہتی ہوں اور شکریہ بھی بولتی ہوں 

اچھا اب مجھے  جانا ہے خالہ  نورے کی والدہ  سے بعد میں ملوں گا یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا

مدیحہ  جو پلر کے پیچھے  چھپ کر ان کی باتیں  سن رہی تھی  اس کے جانے کے فورا بعد جلدی سے  باہر نکلی 

کیا سچ میں  تمھاری  شادی ہورہی ہے 

مدیحہ نے خوش ہوکر کہا  جس پر نورے حیرانگی سے  اسے دیکھا  جوپہلے اس کو منہ نہ لگاتی تھی اب کیسے  اس کی شادی  کی بات سن کر خوش ہورہی ہے  

جی بی بی جی  وہ اماں کی طبیعت خراب رہتی ہے  تو  وہ کہتی ہے کہ وہ مرنے سے پہلے مجھے  محفوظ ہاتھوں میں  دینا چاہتی ہے 

نورے نے دکھ سے کہا 

کسی طبیعت ہے اب  خالہ کی  مدیحہ نے پوچھا  

جی اب وہ پہلے سے بہتر ہے  نورے نے جواب دیا اور کچن کی طرف جانے لگی 

سنو تم ایسا کرو اب گھر جاو اور اپنی ماں کی خامت کرو اور کل سے کام پر آنے کی ضرورت نہیں  میں تایا سائیں سے سے تمھارے شادی کے لیے خرچ کی بات کرو گئ اور تنخواہ کی تم فکر مت کرو وہ تمہیں  مل جائے گی اب جاو 

مدیحہ نے ایک ہی سانس میں کہا تو نورے کی آنکھیں خوشی کی وجہ سے نم ہوگئ سچ میں بی بی جی  میں جو 

مدیحہ نے اثبات میں سر ہلایا  اس کو واقع نورے کی مدد کر کے اچھا لگا اس نے ارادہ کرلیا تھا کہ وہ تایا سائیں سے  نورے کے لیے مالی مدد کی ضرور بات کرئے گئ 

پھر مورے کو دیکھ جو جلدی سے  باہر کواٹر کی طرف  جا رہی ہے اور خود اندر کی طرف چلی گئی  

______________________

خادم جیسے ہی  ان کو لینے کاٹیج میں گیا تو اس کا سامنا دل لرزا آتی چیخوں سے ہوا 

وہ نفعی میں سر ہلاتا ہوا اگے بڑھ جہاں سامنے ہی زرمینے اور زریام  کرسی پر بیٹھے شخص سے  کچھ پوچھا رہے تھےکیا  تم لوگ میرے  آنے تک کا انتظار نہیں کرسکتے تھے 

حمزہ نے ان دونوں کو گھورتے ہوئے کہا 

ہم تمھارے ہی انتظار کر  رہاہے  ابھی تک ہم نے صرف  اس کو پانی ہی پلایا ہے 

زرمینے نے  سادہ لہجے میں کہا  

تو حمزہ نے اس کو گھورا کون سا پانیحمزہ نے پوچھا  

وہ گرم پانی پلایا ہے ابھیاو میں بھی کہوں کہ  یہ اتنا کیوں چیخ رہاہے تم نے صرف  گرم کھولتا ہوا پانی ہی تو پلایا ہے حمزہ نے  ایک نظر  گرم کھولتے ہوئے پانی کو دیکھ جو اب بھی اسی طرح  کھول رہا ہے اور دوسری نظر اس شخص کو  جس کے چہرے پر  اب چھالے بن چکے ہیں اور اس کی زبان کچھ بھی بولنے کے قابل نہ رہی 

اس کے سینے پر بھی چھالے تھے 

مطلب جب یہ پانی پلا رہی تھے تو وہ شخص  مزاحمت کررہاتھا 

خود کو بچانے کے لئے 

مگر وہ نہیں جانتا کہ اس کا پالا کس قدر سفاک لوگوں سے پڑا ہے 

وہ شخص  درد کو برداشت کرتا ہوا بےہوش ہوگیا ہے  

اس کو دیکھ کر کہا  

اب جیسی اس کی حالت ہے مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہمیں کچھ بتا پائے گا میں نے پہلے ہی  کہا تھا کہ جب تک میں نہ آجاو تم کچھ نہیں کرو گے مگر یہاں میری بات کون سنتا ہے  حمزہ نے دانت پیس کر کہا تو زرمینے نے  اس کو گھورا  

حمزہ یہ ویسے بھی اپنی زبان  نہیں  کھول رہا تھا ہم نے بہت پیار سے  پوچھا تھا مگر بار بار ہمیں  ڈی کی دھمکی دےرہاتھا 

اس لیے اس کی سزا دی ہے اور تمہیں کس نے کہا کہ یہ ہمارے کام نہیں آئے گا جتنا یہ اب ہم سے خوف زدہ ہے یہ سب کچھ بتائے گا مگر زبان سے نہیں  ہاتھ سے لکھا کر 

زرمینے نے  سپاٹ لہجے میں کہا  

ہمممم حمزہ نے کہا  

اچھا  کیا بنا  اس پورے واقعے میں زریام پہلی بار بولا 

پلان کامیاب ہو  حمزہ نے مسکراتے ہوئے کہا  

گڈ دونوں نے ایک ساتھ کہامجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب آفسر جے نے ہمیں یہ کیس  حل کرنے کے لئے دیا تھاہم نے ان علاقوں کے لوگوں کے  متعلق معلومات اکٹھا کی مگر کچھ خاص نہیں معلوم ہوا 

ہمارے سے پہلے  افسر جو یہ کیس سولو کر رہےتھے ان کو بے دردی سے مارا دیاگیا 

اس لیے ہمیں  بہت احتیاط کی  ضرورت تھی 

اس لئے ہم نے ان علاقوں میں  رہنے کا سوچا ہم یہاں رہنے کے لیے جگہ تلاش کررہے تھے کہ ہمارا سامنا نائلہ بیگم سے ہوا 

جن کا گھر آگ کیوجہ سے جل گیا تھا اور ان کا بیٹا اور  بھانجی  بھی اس آگ میں جل کر مرگے تھے اس وجہ سے وہ صدمے میں تھی تب میں نے اور زریام نے اس کی مدد کی اور وہ خاتون ہمیں ہی اپنے رشتے دار  سمجھنے لگی 

اس سے ہماری رہنے کی مشکل آسان ہوگئ اور دوسرا اس عودت کی بھی مدد ہو گئ  

۔گر پھر اچانک  زریام کو دوسرے کیس کے سلسلے میں جانا پڑا اس لے کوما میں جانے کا ڈرامہ کیا اور لوگوں کو  اس کو ہسپتال ایڈمٹ ہے  یہ بتایا  کیونکہ ہمیں کسی بھی طرح  کی  کوئی غلطی ہماری  جان لے سکتی تھی اس لئے کچھ وقت  بغیر کوئی مشکوک حرکت کیں ہمیں  وہاں رہنا پڑا 

اس دوارن زریام  اپنا کام کر کے واپس آگیا تھا مگر ہمیں  زریام کو پاگل کہنا پڑا کیونکہاگر زریام  نارمل ہوتا تو وہ انفورمیشن بلکل حاصل نہ کر پاتا جو اس نے کی 

زرمینے  نے  مسکرا کر کہا 

ہاں میں نے پاگل ہونے کی ایکٹنگ کر کے ان جگہوں پر گیا جہاں ہمیں  شک تھا لوگ مجھے پاگل سمجھ کر لچھ نہیں  کہتے اس طرح  میں نے بہت انفورمیشن اکٹھی کی اور اس سے ہی ہمیں  معلوم  ہوا کہ ان تمام  چیزوں کا تعلق  اس حویلی  سے ہے اس لیے ہم نے حمزہ  سے کہا کہ وہ اس حویلی  میں جائے 

زریام نے کہا اور میں خادم عرف  حمزہ جانتا تھا کہ اس جگہ حویلی  کی لڑکی  جائے گئ اور اس پر ان کے مخالف لوگ  حملہ کرے گے 

اس لئے جیسے ہی  انہوں نے  حملہ کیا  میں نے ان کی لڑکی  کو وہاں سے  نکلا کر لے گیا اور پیچھے  سے تم دونوں  نے ان کا کام تمام کردیا 

میں نے اس لڑکی  کو باحفاظتحویلی  چھوڑ  اور ان کے  سامنے  اپنی غربت اور کام نہ ہونے کا ڈرامہ کیا  تو ان لوگوں نے مجھے  اپنے ملازم خادم کی  جگہ رکھ لیااور تمام لوگوں مجھے  خادم ہی بولنے لگے 

اس دن زریام  وہاں  پارک میں بچوں کے  اغوا ہونے کے متعلق  معلومات حاصل کرنے گیا تھا مگر ان بچوں نے اسے مارنا شروع کر دیا  اور وہ اس گاڑی  کے سامنے  آگیا  جب اس نے سامنے  سردار کی گاڑی دیکھ تو بےہوش ہوبے کی ایکٹنگ کی اور اس طرح  ہم انہیں  لے کر ہسپتال  گے مگر غزلان شاہ  نے  وہاں ایک عورت کو کھڑا کردیا کہ اس کے  گھر سے کوئی آیے تو اسے بتا دے اس لئے زرمینے کو  وہ سب کرنا پڑا اور وہ وہاں ہسپتال آگئ 

جب غزلان شاہ  نے  خادم کو  وہی رکنے کا کہا تو وہ رک گیا  ابھی تک احمد شاہ  کو مجھے پر شک تھا کہ میں  کوئی دشمن کا آدمی تو نہیں  اس لے اس نے ایک آدمی کو میرے پیچھے لگایا ہوا تھا اس وجہ سے ہمیں  ہسپتال میں وہ سب کرنا پڑا پھر اچانک  ان خاتون کی  موت ہوگی اور یہ سب ہوگیا 

 حمزہ نے کہا  

ہاں یہ سب ہمارا ہی پلان تھا مگر اس میں  اس خاتون کی موت  اور غزلان شاہ  سے نکاح  ہمارے پلان میں شامل  نہیں  تھا ہم وہ ملازمہ بن کر جانا تھا مگر یہ سب کی وجہ سے نہ ہوسکا  اب ہمیں  اس حویلی میں  جانا تھا  اس لیئے حمزہ  ایک ریپوٹر بن کر  گیا اور وہاں وہ سب کہا 

اور نتیجہ  ہماری  سوچ کے مطابق نکلا  زرمینے نے کہا  

اس کے بعد وہاں  خاموشی  چھاگئی اس خاموشی  کو حمزہ  کی آواز نے  توڑاویسے برو ڈیڈ  یعنی  آفیسر جے یعنی  جبران خان  کو ہم پر اتنا بھروسہ ہے کہ انہوں نے  اس میشن کو ہم تین بہن بھائیوں کو دیا مجھے یعنی حمزہ جبران خان  آپ کو یعنی زریام جبران خان  اور ان کو یعنی زرمینے ریاض شاہ  کو دیا تو اگر ان کو پتہ چل گیا کہ ان کی لاڈلی کا نکاح  ہم نے اس خاندان میں کردیا ہے  تو وہ ہٹلر کے جانشین ہمارے ساتھ کیا کرے گئے 

حمزہ نےشرارت سے کہا 

بھائی میں تو ڈیڈ کو بتا دوں گئ کہ میں نے یہ نکاح  آپ دونوں کے  دباو میں آکر کیا ہے زرمینے نے حمزہ کی شرارت محسوس کرتے ہوئے کہا تو دونوں کے چہرے کے رنگ اڑاگے وہ دونوں  جانتے ہیں کہ ان کے ڈیڈ اور مام کتنی نفرت کرتے ہیں اس خاندان سے اب اگر دونوں میں سے کسی کو اس نکاح کی خبر ہوئی تو وہ ان کے ساتھ کیا کرتے وہ سوچ کر ہی دونوں کے  رونگٹے کھڑے ہوگے 

تم ایسا کچھ نہیں کرسکتی اس وقت ہم مجبور تھے دونوں نے یک زبان ہوکر کہا  

ٹزرمینے مسکرائی میں ایسا ہی کرو گئ سوچو جب موم کو علم ہوگا کہ ان کی لاڈلی بیٹی اس خاندان کے گھر جارہی ہے جس کا سائے بھی وہ مجھ پر پڑنے نہ دے تو وہ آپ لوگوں کے ساتھ کیا کرے گئ اور اوپر سے نکاح کا پتا چلا تو موم تو معم ڈیڈ بھی نہیں  چھوڑے گئے  

زرمینے نے  ان دونوں کو  مزید ڈراتے  ہوئے کہا  

وہ جب وقت ایا تب دیلھے گے مگر اب میں جو بتانے والا ہوں وہ سنو 

حمزہ نے سپنس پھلایا کیا بتانے والے ہوئے 

انہوں نے کہا  

تم لوگوں کو پتا ہے آج میں نے اس حویلی میں  کس کو دیکھا  حمزہ نے مزید سپنس پھلاتے ہوئے کہا تو دونوں نے  غصے گھور کر اسے دیکھا  تو فورا سنجیدہ ہوا 

زریام کی  بیوی کو 

اس بار حمزہ نے سنجیدگی سے  زریام کو دیکھا کر کہا 

کیا  زرمینے نے شاکڈ ہوکر پوچھا  پھر ایک  نظر زریام کو دیکھا جو اس وقت  بالکل سپاٹ تاثرات کے ساتھ کھڑا تھا مگر  اس کی آنکھوں میں  نظر آتی بے چینی  ان دونوں نے  محسوس کی  ہاں وہ ساری دنیا سے اپنے تاثرات چھپا سکتا ہے مگر ان دونوں سے نہیں   وہ جو اس کے بغیر  کہے بھی سمجھا جاتے ہیں  ان سے کیسے چھپاتا  

میں نے تم لوگوں کو  پہلے بھی کہا تھا کہ اس لڑکی  کا  اب ہمارے  درمیان کوئی ذکر نہیں  ہوگا ہمکبھئ اس لڑکی کا ذکر نہیں کرئے گے جو مجھ پر بھروسہ  تک نہ کرسکی زریام نے سردمہری سے کہا 

تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا  

اچھا چلو تم دونوں نے  اب میرے ساتھ  چلنا ہے 

حمزہ نے کہاہممم دونوں  حمزہ کے ساتھ ساتھ گاڑی میں بیٹھے اور حمزہ نے گاڑی ڈارئیو کو گاڑی چلانے کا کہا  

زرمینے باہر دوڑتے مناظر کو دیکھ رہی تھی اس کی سوچو کا رخ مسز اینڈ مسڑ جبران تھے 

جبکہ زریام کا کی سوچو کا رخ اب وہ تھی جو سالوں پہلے اس کے بھروسے اور مان کو توڑ گئ تھی اور حمزہ کی سوچو کا رخ  مدیحہ شاہ تھی اس وقت گاڑی میں  بیٹھے تینوں وجود کسی نہ کسی گہری سوچ میں مبتلا تھے 

مجھے شوق تھا تیرے ساتھ کا

جو نہ مل سکا، چلو خیر ہے...!!

میری زندگی بھی گزر گئ

تو بھی جا چکا، چلو خیر ہے...!!

یہ گھٹے گھٹے سے ہیں سلسلے

یہ رکے رکے سے ہیں تعلقات

نہ میں کہہ سکا، کبھی کھل کےکچھ 

نہ تو سن سکا، چلو خیر ہے...!!

کبھی تم کو ضد تھی کہ میں ملوں

کبھی میں بضد تھا کہ تو ملے

یونہی دھیرے دھیرےختم ہوا 

یہ بھی سلسلہ، چلو خیر ہے...!! 🙂🖤

__________________

 گاڑی حویلی کے  دروازے کئ سامنے روکی تو وہ سوچو سے باہر آئے حمزہ اگے بڑھ کر گاڑی سے نکلا اور  جلدی  سے زرمینے کی طرف  کا دروازہ کھولازرمینے  گاڑی سے باہر آئی زریام بھی گاڑی سے  باہر نکلا اور ایک نظر اس خوبصورت حویلی کو دیکھا  پھر آہستہ آہستہ  چلتے ہوئے وہ حویلی کے  اندر گے اس وقت  لاونچ میں  احمد شاہ  اور ریاض شاہاور سید واصف شاہ  بیٹھے ہوئے  کسی بات پر بحث کر رہے تھے ان کو آتا دیکھ چپ ہوگے 

زرمینے ایک نظر پورے لاونچ میں دوڑائی مگر اس وقت اس کو کوئی  خاتون نہیں  دیکھی دی پھر سامنے  دیکھ وہاں  سب لوگ ہی  اسے ہی سر تا پاوں دیکھ رہے ہیں 

دیکھو لڑکی تم جانتی ہوں  یہ نکاح  مجبوری کے تحت ہوا ہے غزلان شاہ کی شادی صرف اور صرف  زرتاشیہ شاہ سے ہی ہو گئی  ریاض شاہ نے  اپنی بات ادھوری چھوڑا کر اس کے تاثرات جانچنے چاہے مگر وہاں سپاٹ تاثرات ہی دیکھنے کو ملے  پھر بولے تو  تم غزلان شاہ  سے دور رہوگئ جب تک تم اس حویلی میں ہوں آئی سمجھ میں میری بات  لڑکی انہوں نے  سخت لہجے میں کہا  

تو زرمینے نے  سہمنے کی ایکٹنگ کر تے ہوئے اثبات میں سر ہلایا  

ویسے بھی  میں خود اس شخص کے آس پاس نہیں  رہنا چاہتی یہ صرف سوچ سکئ 

اور تم لڑکے  تم سامنے انیکسی میں  رہو گے احمد شاہ نے زریام کو کہا 

جی سرکار  زریام نے احترام لہجے میں کہا  

رشیدہ  اس لڑکی  کو کسی بھی کمرے میں چھوڑ آو احمد شاہ نے کہا  

تو ملازمہ زرمینے کو  لے کر ایک کمرے میں  چلی گئ 

کمرے بہت خوبصورت ہے جہازی سائز بیڈ اٹیچ باتھروم  صوفہ جس کا رنگ سفید  اور ڈریسنگ ٹیبل  اور وارڈب موجود ہے 

اس نے ایک نظر کمرے کو دیکھا پھر مسکرا دی جس سے اس کے ڈمپلز ظاہر ہوئے جو اسے اور بھی خوبصورت  بناتے ہیں  

اچھا  آپ جائے زرمینے نے کہا  

تو ملازمہ  چلی گئی 

اب اس کو یہاں  سے ثبوت اکٹھے کرنے ہیں اور اس ڈی کا پتا لگانا ہے کہ وہ کون ہے مگر ان سب سے پہلے وہ کچھ وقت  ریسٹ کرنا چاہتی تھی اس لئے بیڈ پر  سو گئ 

_____________________

زرتاشیہاسوقت  اپنے کمرے  میں  لیٹی ہوئی ہے اس کی سوچو میں اس وقت خان تھا وہ خان جس سے اسے عشق ہے جس کی وہ بیوی ہے ہاں وہ خان کی بیوی ہے  مگر اس کی ایک بھول نے اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا اس کا خان اس سے دور ہوگیا  مگر اب کیا ہوسکتا جب چڑیا چگ گی کھیت   جب مبشرہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی  آپی باہر سردار لالہ کی بیوی آگئ ہے جلدی سے اٹھے ہم اس سے ملنے جانا ہے مبشرہ نے جلدی سے  کہہ کر باہر چلی گئی کیونکہ اسے ابھی مدیحہ کو بھی بلانا تھا وہ جلدی سے جلدی  زرمینے سے ملنا چاہتی ہے 

__________________

مدیحہ چائے پیتی  مسلسل خادم کو سوچ رہی تھی اگر اس دن خادم  وقت پر نہ آتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا یہ سوچ کر ہی اس کی روح کانپ جاتیاس وجہ سے ہی اسے خادم  اچھا لگا تھا اس نے اس کی حفاظت کی  تھی پھر گھر بھی چھوڑ اس دوران اس نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں  پھر جب تایا سائیں نے اسے کام پر رکھا تو انجانے کیوں مگر خوش ہوئی تھی  پھر وہ اس سے بات کرنا چاہتی ہے مگر ہر دفعہ  وہ اسے اگنور کرجاتا  ابھی وہ انہیں  سوچو میں  گم تھی کہ مبشرہ وہاں  آگئی اور اس کے ہاتھ سے  چائے کا کپ پکڑ کر سائڈ پر رکھ دیا پھر بولی  آپی وہ سردار لالہ کی بیوی آگئ ہے جلدی سے اٹھے ہم اس سے ملنے جانا ہے  مبشرہ نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا 

اچھا ٹھیک ہے  ہم اپنا ڈوپٹہ تو لے لیں مدیحہ نے گھور کر کہا 

پھر اس کے ساتھ کمرے سے باہر کی طرف چل دی  

ویسے کس کمرے میں ٹھہری ہے بھابھی سائیں  مدیحہ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا 

وہ سامنے والے کمرے میں  مبشرہ نے کمرے کی  طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  

اب ہم اس کمرے کی بجائے  کہا جارہے ہیں اس بار مدیحہ نے  جھنجھلا کر کہا 

وہ ہم   زرتاشیہ آپی کو بھی لے کر جارہے ہیں 

مبشرہ نے جواب دیا اور زرتاشیہ کے کمرے کا دروازہ  ناک کیا 

تو زرتاشیہباہر آئی 

چلے مبشرہ نے جلدی سے کہا اور اگے بڑھ گی وہ دونوں بھی پیچھے آگئیں  

مبشرہ نے زرمینے کے  کمرے کو ناک کیا  مگر اگے سے کوئی جواب نہیں  آیا  اس نے پھر کیا 

آجاو اندر سے زرمینے کی  نیند میں دوبی ہوئی آواز  آئی تو وہ تینوں اندر داخل  ہوئی 

اور سامنے زرمینے کو  بیڈ پر لٹا دیکھ شرمندہ ہوئیں  

او معاف کیجئے گا  بھابھی سائیں ہم نے آپ کی نیند خراب کردی مبشرہ نے شرمندگی سے کہا  

آپ ایسا کرئے اب سوجائے ہمبعد میں آپ سے مل لے گئے 

مدیحہ نے کہا اور وہ کمرے سے باہر  جانے لگی 

نہیں رک جائے آپ سب اب ہمیں ویسے بھی نیند نہیں  آنی زرمینے نے مسکرا کر کہا  اس سے وہ معصوم لڑکی  پسند آگئی تھی  

ادھر آئے اور بتائے آپ کا کیا نام ہے زرمینے نے  مسکرا کر کہا  

تو مبشرہ خوش ہوتے ہوئے اس کے پاس آئی 

اسلام وعلیکم  میرا نام مبشرہ شاہ  ہے اور یہ میری بڑی بہن  مدیحہ شاہ ہے اور یہ میری  کزن  زرتاشیہ شاہ ہے 

مبشرہ نے  مسکرا کر  ان دونوں کا تعارف  کرایا  

تو زرمینے  نے ان دونوں  کو  سلام کیا 

 وعلیکم سلام  میرا نام زرمینے  ہے لٹل ایجل زرمینے نے  مبشرہ کے گال کھنچتے ہوئے کہا 

بھابھی سائیں آپ بہت خوبصورت ہےمبشرہ نے  زرمینے کی تعریف کی  

آپ سے کم زرمینے نے  مسکرا کر کہا  

نہیں آپ سچ میں بہت خوبصورت ہے  بھابھی سائیں  اس بار مدیحہ نے کہا  

تو وہ مسکرا دی 

آپ مجھے  بھابھی مت بلائے میں آپ ہی کی عمر کی ہوں  اس لئے مجھے  میرے نام سے ہی پکارے  

زرمینے نے کہا  تو مبشرہ سمیت وہ دونوں بھی  مسکرادی 

اس طرح  وہ چاروں  کافی دیر باتیں کر تی رہی پھر اٹھا کر چلی گئیں

یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے

یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو

ان کے جانے کے بعد  زرمینے  حیرت سے ان کے بارے میں سوچنے لگی  کہ اگر واقع ہی زرتاشیہ کی  شادی  غزلان شاہ سے  ہونے والی ہے تو وہ اتناخوش کیوں ہوں رہی تھی یا تو وہ اس کے سامنے  اچھا بننے کا ڈرامہ کر رہی ہے یا واقع اس کو اس کی شادی سے کوئی فرق نہیں  پڑا ہاں  اس نے انہیں  بھابھی کہنے سے بھی منع کردیا اسے اس خاندان کے کسی بھی فرد سے کوئی بھی رشتہ  نہیں  رکھنا تھا اور اگر وہ اس طرح ہی کہتی رہتی تو اسے بار بار اس رشتے کااحساس ہوتا 

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

____________

ماضی 

زریام اپنی پڑھائی مکمل کر کے  فری تھا  اس کی زندگی کا کوئہ ابھی گول نہیں  تھا اس کا ماننا تھا کہ اب بڑی مشکل سےتو پڑھنے سے جان چھوٹی ہے اور ساتھ  ہی  کام کرنے لگ جاو میں تو پہلے اپنی زندگی  انجوائے کرو گا پھر کچھ اور اس بات پے جبران خان سے بھی اس کی روز بحث ہوتی مگر مجال ہے جو اس کے کان میں جوں تک رینگتی  وہ وہی کرتا جو اس کا دل کرتا 

آج بھی وہ زور کی طرح ہی  اپنے دوستوں کے  ساتھ گھومنے پھرنے کے بعد گھر کی  طرف  جا رہا تھا کہ اس کی گاڑی کے سامنے ایک لڑکی  آگئی وہ لڑکی شاید کہی سے بھاگ کر آرہی تھی  زریام جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا اور فورا اس لڑکی  کے  پاس  گیا 

آپ ٹھیک ہے محترمہ  زریام نے سر جھکائے بیٹھی لڑکی سے پوچھا 

تو اس نے اپنی نظریں اٹھاکر سامنے موجود زریام کو دیکھا جو کہ بلیو شرٹ اور پینٹ میں بہت چارمنگ لگ رہا تھا اور اوپر سے اس کی آواز اتنی دلکش کے سامنے والے کو اپنا اسیر کرلے وہ ٹکٹکی بندھے زریام کو ہی دیکھے جارہی تھی اس کا اس طرح سے دیکھنا زریام کے ہونٹوں پر  مسکراہٹ لے آیا  وہ تو حیران ہورہی تھی کہ کوئی  اتنا بھی خوبصورت اور ہنڈسم ہوسکتا ہے جتنا سامنے موجود شخص تھاجی میں ٹھیک ہوں مگر میرا  پاوں میں درد ہورہا ہے اس نے معصومیت سے کہا  

تو زریام  نے ایک نظر زرتاشیہ کے پاوں کو دیکھا پھر اس کو جو جھوٹ بولنے کی ناکام کوشش کررہی ہے کیونکہ اس کی آنکھوں سے   صاف  پتا لگ رہو ہے کہ  وہ جھوٹ بول رہی ہے 

زریام نے ایک نظر  اردگرد دیکھا جہاں تھوڑے فاصلے پر کچھ  لڑکیاںکھڑی ہوئی ان دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی اس کو ایک لمحے لگا معاملہ سمجھنے میں  

پھر آہستہ  سے اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا 

کیونکہ  وہ لوگ بھی اکثر  ایک دوسرے کو ایسی ہی شرط لگاکر کچھ کرنے کا کہتے تھے 

کیا کام کرنا ہے کس چیز کی شرط لگی ہوئی ہے زریام نے ائی برو اچکاکر پوچھا  تو زرتاشیہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر حیرانگی سے اسے دیکھا  جی ۔۔۔جی ۔۔مممممیں کچھ سمجھی نہیں  زرتاشیہ نے  ہکلاتے ہوئے کہا تو زریام کی مسکراہٹ  اور بھی زیادہ گہری ہوگئ 

دیکھیں محترمہ اگر آپ مجھے  بتا دے تو میں آپ کی مدد کر دوں گا کیونکہ  آپ کی دوستیں یہیں کھڑی  آپ کو دیکھا  رہی ہیں اور یہ کام میں نے بہت کیے ہیں 

اس لے میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں 

زرتاشیہ نے اس کو دیکھ کر  نظریں جھکا لی اس کی یہ ادا زریام کو بہت پسند آئی 

وہ سب مجھے  ڈرپوک کہتی ہیں اور مجھے  ڈرپوک کہہ کرہمیشہ  تنگ کرتی ہیں اس لیے میں نے ان کو کہا کہ میں ڈرپوک نہیں ہوں تو وہ کہنے لگی کہ ثابت کرو کہ تم ڈرپوک نہیں ہوں   تو میں نے کہا کہ کیسے انہوں نےکہا  کہ  یہاں  جو بھی گزرئے گا تم اس سے کان پکڑا کر معافی مانگواو گی تب ہی ہم تمہیں  ڈرپوک  کہنا بند کریں گے 

زرتاشیہ نے معصومیت سے کہا  تو  زریام کا دلکش قہقہہ بلند ہوا 

زرتاشیہ نے  منہ بناکر اسے  دیکھا  تو اس نے بڑی مشکل سے  اپنی ہنسی کا گلہ گھونٹا 

اس لیے یہ سب کررہی ہوں زریام نے پوچھا تو  زرتاشیہ نے اثبات میں سر ہلایا  

ہممم زریام اٹھا اور اپنے کانوں پر ہاتھ رکھا اور سوری بولا 

ٹھیک  اب آپ کی دوستوں نےدیکھا لیا اب وہ آپ کو ڈرپوک نہیں  کہے گئی 

ویسے ایک بات کہو اگر آپ برا نہ مانے تو زریام نے  پوچھا 

جی زرتاشیہ نے ناسمجھی سے کہا 

 دیکھیں ایسے کسی کی بھی باتوں میں آکر ایسا کچھ نہیں کرنا چاہے اگر میں  وقت پر گاڑی کو بریک نہ لگاتا تو آپ کا ایکسڈینٹ ہوجاتا  اور آپ کو کچھ ہوجاتا پھر آپ کے والدین کا کیا ہوتا اس بارے میں  سوچا ہے آپ نے اور اگر میری جگہ کوئی آوارہ انسان ہوتا تو آپ کے ساتھ کیا ہوتا یہ جو لڑکیاں  جو یہاں  کھڑی ہیں انہوں نے ہی سب سے پہلے یہاں  سے بھاگنا ہے پلیز آئندہ  ایسی کوئی بھی شرط مت ماننے گا آپ ایک لڑکی ہے آپ کی عزت کتنی نازک ہے یہ آپ جانتی ہے میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کمزور ہیں یا ڈرپوک ہے مجھے  دنیا کی کوئی بھی عورت  کمزور نہیں لگتی اگر وہ ماں ہے تو بہت باہمت اگر بہن ہے تو مان اگر بیوی ہے تو کسی کی عزت اگر بیٹی ہے تو کسی کی جان ایک عورت  اپنی حفاظت  کے ساتھ ہماری  بھی حفاظت کرتی ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ عورت  کمزور ہے  اور آپ بھی تو کسی کامان کسی کی جان اور کسی کی ہمت ہے تو اپ ڈرپوک نہیں ہےکیا آپ  کے گھر میں سے کسی نے آپ کو ڈرپوک کہا ہے یپ دوستیں تو کچھ وقت ساتھ ہے پھر یہ کہاں اور آپ کہاں   آپ کے ساتھ  ہمیشہ آپ کے گھر والے ہیں لیے کسی کو بھی کچھ ثابت مت کریں جو جیسا آپ کو سمجھتا ہے اس کو ویسا ہی سمجھنے دیں اور گھر کے کسی فرد کے ساتھ گھر سے باہر آیا کریں کیونکہ آپ عزت دار گھرانے  کی لڑکی ہے اس سے ثابت ہوگا 

زریام نے سمجھتے ہوئے کہا  

اوکے لٹل ون اب میں چلتاہوں 

معلوم نہیں آج مجھے گھر میں انٹر ہونے کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں  

پہلی بات زرتاشیہ کو کہی جبکہ دوسری خود سے کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھا اور جلدی سے گاڑی چلائی کیونکہ وہ بہت لیٹ ہوگیا تھا 

جبکہ زرتاشیہ اٹھی اور ایک نظر  ان تمام لڑکیوں کو دیکھ جو حیرت سے اسے ہی دیکھا رہی ہیں  ان کو اگنور کرکے سامنے کھڑے کریم چاچا کے پاس آئی جوکہ اس کا ڈارئیو ہے چلے چاچا زرتاشیہ نے کہا  

اور گاڑی میں بیٹھا گئ وہ واقعی آج پرسکون تھی  اس نے آنکھیں بند کی تو سامنے  زریام کا چہرہ آیا جلدی سے  کھولی 

جادوگر  کہہ کر مسکرائی 

کوئی نہیں ہے یہاں اعتبار کے قابل

کسی کو راز بتاو گے مارے جاؤ گے

____________________

حال 

ابھی  زرمینے انہیں سوچو میں گم تھی کہ مبشرہ وہاں آگئی اوربولی زرمینے  چلو کھانا کھانےاس نے زرمینے کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا 

دیکھو زرمینے  ہمارے ہاں  رات کا کھانا سب مل کر کھاتے ہیں اس لئے اس وقت  سب کی وہاں موجودگی ضروری ہے یہ بات اب آپ سمجھ لے مبشرہ نے اسے سمجھتے ہوئے کہا اور اس لئے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئی اس وقت  گھر کے تمام لوگوں بیٹھے ہوئے تھے اس کو یہاں  بہت عجیب محسوس ہورہا تھا مگر  پھر بھی  بیٹھی رہی

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

غزلان شاہ  نے  ایک نظر اس کو دیکھا کر مسکرایا  کیوں وہ کنفیوژن میں اپنی ہی ہاتھ کی انگلیاں  کو کاٹ رہی ہے 

اگر آپ کو زیادہ  بھوک لگی ہے تو آپ کھانا کھا لے اس طرح مت کریں غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا  مگر اس کی آنکھوں میں  واضح شرارت تھی 

ججججی غزلان شاہ کے اس طرح کہنے پر وہ شرمندہ ہوئی اس لے بولی تو حلق سے آواز ہی نہیں  آئی 

____________

حال 

مبشرہ نے زرمینے کو کھانا  پلیٹ میں  نکال کر دیا اور پھر خود کےلئے بھی نکالنے لگی   زرمینے نے  ابھی ایک نوالہ ہی کھایا تھا کہ اسے حمزہ اتا ہوا دیکھائی دیا  اور  کچن  کی طرف  جارہا تھا شاید وہ کھانا لینے آیا ہے مدیحہ نے بھی اس کو دیکھا تھا مگر ایک نظر سے ذیادہ نہیں  کیونکہ وہ اپنی اس دن کی بے عزتی نہیں  بولی تھی 

اس لے چپ چاپ  کھانا  کھانے لگی  

مگر اب زرمینے سے کھانا کھایا ہی نہیں جارہاتھا 

حمزہ نے  زرمینے کو  دیکھا  جو  آرام سے  کھانے سے انصاف کر رہی ہے پھر اس کو گھورا  کیونکہ اسے لگا تھا کہ وہ کھانا  ان کے ساتھ  ہی کھائے گی اس لے 

حمزہ کے گھورنے پر وہ اور شرمندہ ہوئی 

مبشرہ میں نے کھانا  بھائی کے ساتھ کھانا ہے مجھے یہاں کھانا نہیں  کھایا جارہا زرمینے نے مبشرہ کو کہا 

اور اٹھا کر  جانے ہی لگی تھی 

آپ کھانا تو کھالے پھر چلی جائےگا غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا  

وہ میں نے  بھائی کے ساتھ  زرمینے نےکہا 

اب سے آپ کو یہاں ہمارے ساتھ ہی کھانا کھانا پڑے گا  اس لئے اب آپ کو ایسے ہی عادت ڈالنی پڑے گی اب خاموشی سے  بیٹھ کر کھانا کھا ئے غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

تو زرمینے کو مجبور وہی بیٹھنا پڑا  اور کھانا کھانے لگی 

سب کھانا کھا کر  جانے لگے تو احمد شاہ بولے 

دیکھو لڑکی تم جتنا وقت  یہاں رہوگی اس وقت تک  فری نہیں  رہوگئ بلکہ تمہیں اس گھر کے سارے کاموں میں  ملازمین کی مدد کرنی پڑے گی ہم اپنی بات  بار بار نہیں  دہراتے  احمد شاہ نے سخت لہجے میں کہا  

تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا  کیونکہ اس کو یہاں  ثبوت اکٹھے کرنے تھے اور اس کے لئے اس گھر کی   ہر جگہ کے بارے میں  پتا ہونا چاہے اور وہ ہر جگہ جا بھی سکے اس لئے اس کو برا نہیں لگا مگر وہی غزلان شاہ  کے ماتھے پر بل پڑئے 

ڈیڈ یہ گھر کا کوئی بھی کام نہیں کرئے گی اور یہ یہاں  اس طرح ہی رہے گی جیسے  گھر کے باقی افراد اور اس کی اسی طرح  عزت کیجئے گا جس طرح ایک سردار کی  بیوی کی جاتی ہے اور جہاں تک  بات اب اس کے جانے کی ہے تو یہ یہاں سے اب کہیں نہیں  جائے گئی کیونکہ  میں اس کو طلاق نہیں  دوں گا اب یہ میری ملکیت ہے  اور میں اپنی ملکیت  کسی قیمت پر  نہیں چھوڑوں گا امید ہے  آپ سب لوگ سمجھ گے ہوں گے اور تم بھی اس بات کو اپنے دماغ میں  بیٹھا لوں غزلان شاہ نے  پہلے اپنے باپ کو پھر گھر والوں کو  اور اخری بات زرمینے کو دیکھ کرکہیجو ہونقوں کی طرح  اس کو ہی دیکھ رہی تھی  پھر اپنے باپ کو زچ کرتی مسکراہٹ پاس کی اور لمبے لمبے ڈنگ بڑھتا ہو اپنے کمرے کی طرف گیا 

پیچھے احمد شاہ  اس کی پشت کو گھورتے رہ گے 

زرمینے کو اس سے ایسی بات کی امید نہیں  تھی  معلوم نہیں کیوں مگر اس کو سید غزلان شاہ  سے ڈرا لگا 

اور وہ باہر انیکسی کی  طرف چلی گئیاس نے جاکر دروازہ ناک کیا تو حمزہ نے دروازہ کھولا  وہ اندر آئی تو کھانا ویسے ہی  پڑا تھا 

آپ لوگوں نے ابھی تک کھانا کیوں نہیں  کھایا اس نے دونوں کو دیکھا کر کہا  

تمہارا انتظار کررہے ہیں کہ کب تم آو اور ہم تینوں مل کر کھانا کھا ئے 

  زریام زرمینے کو دیکھ کر  بولا 

وہ میں نے تو کھانا کھالیا ہے اچھا آپ لوگ باہر جائے میں یہ کھانا گرم کر کے لاتی ہوں کیونکہ یہ کھانا ٹھنڈا ہوگیا ہے اور ساتھ  چائے بھی 

زرمینے برتن  اٹھا کر  کچن میں گئی اور وہ دونوں  باہر تھوڑی  دیر  میں وہ کھانا گرم کر کے  دےگئی اور خود چائے بنانے چلی گئی جب وہ چائے لے کر آئی تو دونوں نے  کھانا کھالیا  تھا ان دونوں کو  چائے دے کر اور خود لے کر وہی ان کے پاس کرسی پر بیٹھ گئی 

زر تمہیں ان لوگوں نے  کچھ کہا تو نہیں  زریام نے پوچھا  

نہیں  برو کہا تو کچھ نہیں  مگر مجھے  کچھ غلط لگ رہا ہے  کیا ہم جو کر رہے ہیں وہ صیحح ہے  زرمینے نے گہری  سوچ میں کہا 

کیا ہوا ہے زر اس بار حمزہ نے بھی پریشانی سے پوچھا  

تو زرمینے نے  انہیں  ڈائننگ ٹیبل پر ہونے والے واقع کے بارے میں اور ساتھ  غزلان شاہ  کے الفاظ  بھی بتائے 

بھائی ہم نے تو یہاں سے چلے جانا ہے مگر پتا نہیں کیوں  مجھے  ہمارا یہاں آنے کا فیصلہ اب غلط  لگ رہا ہے 

ابھی زریام  کچھ کہتا تب ہی انہیں قدموں کی چاپ  سنائی دی تو زریام کا سانس روکا سامنے  وجود کو دیکھ کر  

اور زرتاشیہ  جو زرمینے  کو  بلانے آئی تھی وہ سامنے خان کو دیکھ کر  پتھر کی ہوگئ جس کو وہ پچھلے تین سال سے  ڈھونڈ رہی ہے وہ اچانک سامنے آجائے تو ایسی کیفیت ہوہی جاتی ہے 

دونوں نے  ایک دوسرے کو  دیکھ رہی تھے تبہی زرمینے اور حمزہ نے  بھی ان کو اس طرح  دیکھتے ہوئے دیکھا 

 نہیں ہے مجھے آپ پر بھروسہ  آپ نے کیوں کیا ایسے کیوں مجھے ابھی اور اسی وقت   طلاق دے  میں اپ جیسے  انسان  کے  ساتھ  نہیں  رہ سکتی  زریام کے کانوں میں  یہ الفاظ گھوجے تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس  آیا اور اس سے نظر پھیرلی 

زریام کے نظر پھیرلینے سے زرتاشیہ بھی ہوش میں آئیاس سے پہلے کہ زرتاشیہ زریام کو  کچھ کہتی 

بھائی یہ ریاض شاہ کی  بیٹی اور سردار کی منگ ہے زرمینے نے  زریام کو  آہستہ آواز میں  بتایا  

تو وہ بےیقینی  سے اس کو دیکھا اور اندر کی طرف چلا گیا پیچھے  حمزہ  بھی چلاگیا 

تو زرمینے  صدمے میں کھڑی زرتاشیہ  کے پاس ائی 

کیا ہوا اور آپ یہاں کیا کررہی ہیں زرمینے نے زرتاشیہ سے پوچھا تو زرتاشیہ کو ہوش آیا اور وہ اس جگہ کودیکھ جہاں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی زریام  کھڑا تھا مگر اب وہ جگہ خالی تھی وہ چلاگیا ایک بار پھراس کی بغیر کوئی  بات سنے وہ چلاگیا  اس کو ایک بار پھر اس تپتے صحرا میں اکیلا چھوڑ کر  وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ اب وہ اور ہجر کو جھیلا نہیں سکتی اب اگر وہ نہ آیا تو وہ مرجائے گئ 

اپنی آنکھیں ہتھیلی پہ لئے پھرتا ہے

ایسا کرتا ھے فقط ہجر کا مارا کوئی.!

زرتاشیہ بغیر زرمینے کی طرف دیکھے آنسو بہاتی اندر کی طرف بڑھا گئی پیچھے زرمینے کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی

__________________

ماضی 

زریام گھر آیا تو سامنے ہی زرمینے منہ پھلاکر بیٹھی ہوئی تھی اس کی دائیں طرف جبران خان اور بائیں طرف  صوفیہ بیگم بیٹھیاس کو کچھ سمجھا رہے ہیں مگر اس کا منہ ویسے ہی پھلا ہوا ہے وہ زرمینے کو دیکھ کر مسکرایا اور وہاں موجود ایک سنگل صوفے پر بیٹھا گیا 

کیا ہوا ہے میرے بچے نے اپنا منہ کیوں پھلایا ہواہے  

زریام نے زرمینے سے پوچھا  

وہ بھائی اج ایک لڑکی ہمیں بہت تنگ کررہی تھی تو ہم نے اس کع سبق سکھانے کے لئے اس کے سر پر ڈنڈا مارا تو وہ بے ہوش ہو گی تو میں نے اس کو ہسپتال لے کر گئی اور اس کو دوائی بھی لے کر دی مگر اس نے پھر بھی پرنسپل کو شکایت لگائی اور مجھے پورے ہفتے کےلئے سسپنٹ کروادیا 

اور اس پرنسپل نے ڈیڈ کو بھی شکایت لگائی اور ڈیڈ نے مجھے ڈانٹا زرمینے نے مصنوعی آنسو دکھا کر کہا تو زریام کو ہنسی آیا جس کا گلہ اس نے بڑی مشکل سے گھونٹا کیونکہ اگر اس وقت وہ ہنستا تو زرمینے تو زرمینے اس کی ماں بھی اس کو نہیں چھوڑتی 

اس نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا جو  غصے سے جبران خان کو ہی دیکھا رہی  تھی پھر اپنے ڈیڈ کو جو اپنی بیوی کی گھوریاں کے ساتھ اپنی پرنسس کے انسو کو دیکھ کر بے چین ہورہا ہے 

دیکھو کیا  ڈیڈ کا تم پر اتنا بھی حق نہیں ہے کہ وہ تمہیں ڈانٹ سکے زریام نےکہا  تو  زرمینے نے جی سےنفی میں سر ہلایا 

میں اس وجہ سے تھوڑی رورہی ہوں کہ ڈیڈ نے مجھے ڈانٹا اور نہ ہی اس وجہ سے کہ میں ایکہفتے کےلئے سسپنٹ ہوئی ہوئی بلکہ میں اس وجہ سے رو رہی ہوں کیونکہ اب حمزہ جائے گا اور میں نہیں جاو گئی اگر اس نے نئی دوستیں بنالی تو 

زرمینے نے اپنے رونے کی اصل وجہ بتائی بلکہ اور بھی زرو شور سے رونا بھی شروع کر دیا  

اس وجہ سے وہ تینوں حیران ہوئے  مگر پھر جبران خان اور صوفیہ بیگم کے اندر کے والدین بھی جاگے اور انہوں نے  حمزہ کو بلایا  جس کو بلانے زریام گیا 

زریام نے سامنے حمزہ کو سوتے دیکھا تو تیوری چڑھی اسکو اس کا ہر وقت سونا اچھا نہیں لگتا  ہے اور اوپر سے جناب کو اٹھانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے زریام نے گہری سانس ہوا کے سپرد کی  اور بیڈ پر لٹا وجودکی طرف متوجہ  ہوا اس نے پاس ہی پڑا پانی کا جگ اٹھایا اور حمزہ کے اوپر خالی کردیا 

حمزہ ڈر کر اٹھا سیلاب آگیا سیلاب آگیا یہ بولا اور باہر کی طرف بھاگنے ہی لگاتھا کہ زریام نے روکا 

ہا ہا ہا ہا ہا ہا  کوئی سیلاب نہیں آیا ہم نے یہ پانی تمھارے اوپر پھینکا تھا زریام نے ہنستے ہوئے بتایا تو حمزہ شرمندہ ہوا 

کوئی کام تھا  برو حمزہ نے پوچھا  

نہیں مجھے نہیں مگر ڈیڈ کو ہے وہ تمہیں کب سے بلا رہے ہیں 

کیوں وہ ہٹلر مجھے کیوں بلا رہے ہیں ضرور اس چڑیل نے ہی کچھ کہا ہوگا 

حمزہ نے یقین سے کہا تب ہی انہیں پھرسے ڈیڈ کی آواز آئی اس بار ان کی آواز میں  غصہ تھا تو وہ دونوں جلدی سے لاونچ میں آئے 

 جہاں زرمینے  اپنی ایکٹنگ کے  جوہر دیکھا رہی ہے 

جی ڈیڈ آپ نے مجھے  بلایا  حمزہ نے ادب سے کہا  

ہاں تم کل سے پورے ایک ہفتہ یونی نہیں جاو گے کیونکہ زرمینے کو ایک ہفتہ سسپنٹ کردیا گیا ہے اگر زر نہیں جائے گئی تو تم بھی نہیں  جاو گے 

جبران خان نے دوٹوک لہجے میں کہا  

بٹ ڈیڈ میں تو نہیں ہواسسپنٹ تو میں کیوں  نہ جاو اگر نہ بھی جاو تو میں سارا دن گھر میں کیا کروں گا 

حمزہ نے ایک ہی سانس میں کہا 

تم وہی کرنا جو زرمینےکرئے گئی ورنہ اس ہفتے کی پاکٹ منی بھول جا 

جبران خان نے کہتے ہوئے دھمکی دی 

واٹ ڈیڈ اپ کو پتا بھی ہے  یہ اس ہفتے کیا کرنے والی ہے حمزہ نے دانت پیس کر کہا تو  جبران خان نے ناگواری سے دیکھا 

ایسا بھی کونسا کام کرنے والی ہے جو آپ اس طرح بول رہے ہیں 

جبران خان نے تنظزیہ لہجے میں کہا 

وہ ڈیڈ یہ کوکنگ سکھنا لگی ہے اس بار حمزہ نے بچارگی سے کہا 

تم ہنسو تو دن نکلے چپ رہو تو راتیں ہیں

کس کا غم کہاں کا غم سب فضول باتیں ہیں

تو اگر تم بھی کوکنگ سیکھ لوں گئے توکیا ہوجائے گا بس جیسا ہماری بیٹی کہے گئی ویسا ہی ہوگا 

جبران خان سرد لہجے میں کہتے اپنے کمرے میں چلے گئے 

پیچھے صوفیہ بیگم بھی کچھ کھانے کا  لانے کے لئے کچن میں چلی گئی 

اب لاونچ میں وہ تینوں تھے  حمزہ خونخوار نظروں سے  سامنے بیٹھی زرمینے کو دیکھا  جو تمسخرانہ مسکراہٹ سے اسے ہی دیکھ رہی تھی 

کیوں کیا تم نے ایسے میرا کیا قصور ہےتم نے کیا سب اور ساری  غلطی  تمھاری ہی تھی اس وجہ سے ہی تم پورے ہفتے  یونی سے سسپنٹ ہوئی  حمزہ نے گھورا کر کہا 

ہاں تو کس نے کہا تھا کہ مجھے چڑھاؤ اب بھگتو انجام  اور ہاں صبح کو زرا جلدی سے اٹھ کر کچن میں اجانا  زرمینے نے اس کو تپاتے ہوئے کہا تو بس گھور کر پاوں پھٹک کر وہاں سے چلا گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا ڈیڈ کا حکم یہاں کوئی نہیں ٹالتا  

پیچھے زرمینے کے قہقہے نے اسے اور آگ لگادی 

مت کیا کروں اسے تنگ زریام نے مسکراتے ہوئے کہا  

برو اگر میں اسے تنگ  نہیں کرو گئی تو کسے کرو گئی اخر کو میرا جڑواں ہے زرمینے نے شرارت سے کہا 

تو زریام نفی میں سر ہلایا اور کمرے میں چلاگیا  پیچھے زرمینے  اپنی موم کے پاس کچن میں چلی گئی   

اگلی صبح  زرمینے جلدی سے اٹھ کر حمزہ کے کمرے میں  گئی 

جہاں وہ مزے سے سو رہا تھا  اس نے جاکر اس کے اوپر سے کمفرٹ اتار کر پھینکا اور جلدی سے کھڑکیوں سے پردے ہٹائے تو روشنی کمرے میں داخل ہوئی  تو حمزہ نے غصہ  سے  زرمینے کو  گھورا جو صبح صبح  اس کی نیند خراب کرنے آگئ ہے 

کیا مسئلہ ہے کیوں صبح صبح  نازل ہوگئی ہوں حمزہ نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا  تو زرمینے نے اسے گھورا  اٹھو حمزہ  آج ہم نے موم سے چائے بنانا سیکھنی ہے زرمینے نے حمزہ سے  کہا 

ہاں تو پھر جاو میرا کیوں دماغ  خراب کررہی ہوں حمزہ نے کہا  

ہائے اللہ یہ میں کیا سن رہی ہوں کہ حمزہ جبران خان  کے پاس بھی دماغ ہے یہ تو اج کی لیٹس نیوز ہے  روکو میں سب کو بتاتی ہوں زرمینے نے حیران ہونے کی ایکٹنگ کر تے ہوئے کہا  

تو حمزہ اس کو گھور کر رہ گیا 

جاو میں فریش ہوکر  آتا ہوںمیں حمزہ نے زرمینے کو کہا  اور خود فریش ہونے  واشروم میں چلاگیا  تو زرمینے بھی کچن کی طرف جانے لگی  

تقریبا پندرہ منٹ بعد وہ فریش ہوکر  کچن میں  آیا  جہاں پہلے ہی زرمینے اور اس کی موم تھی

اسلام وعلیکم  موم کیا کررہی ہیں حمزہ نے آتے ہی اپنی موم کو کہا اور زرمینے کے ساتھ کھڑا ہوگیا 

واہ آج کیا بات ہے آج تم صبح صبح  یہاں کیا کررہا ہے  صوفیہ بیگم نے خوش ہوکر کہا 

موم برو اور میں یہاں  چائے بنانے آئے ہیں اج صبح کی چائے ہم دونوں  بنائے گئے اور وہ بھی بغیر آپ سے پوچھے اگر آپ نے ناشتہ تیار کرلیا ہے تو آپ کچن سے باہر چلے جائے اس سے پہلے کہ حمزہ کوئی جواب دیتا  زرمینے فورا بول پڑی  

تو صوفیہ بیگم نے محبت سے اسے دیکھا اور باہر چلی گئی  

پیچھے وہ دونوں چائے کم اور لڑائی زیادہ کررہے ہیں  تقریبا ایک گھنٹہ بعد وہ دونوں چائے بنا کر لائے زرمینے خوشی سے سب کو چائے سرو کرنے لگی سب نے ایک نظر چائے جو چائے کم اور کوئی اور ہی چیز لگ رہی تھی   سب نے اپنا تھوک نگلا اور ان دونوں کو دیکھ جو خوشی سے سب کی چائے پینے کا انتظار کررہے تھے سب سے پہلے زریام نے اس کا پہلا گھونٹ بھرا اس کو اپنے کانوں سے دھواں نکلتا ہوا محسوس ہوا اور حالت ایسی کہ نہ نگل سکا اور نہ اگل سکا مگر وہ حلق سے اتار بھی نہیں سکا اور جلدی سے باہر بھاگا تو سب حیرانگی سے زریام کو دیکھنے لگےجو اب بھاگ کر  بیسن پر جھکا کلی کررہا تھا 

کیا ہوا ہے برو کیا چائے اچھی نہیں بنی 

زرمینے نے پوچھا  تو زریام نے نفی میں سر ہلایا  

نہیں چائے تو اچھی بنی ہے مگر اس میں کالی مرچ اور نمک تھوڑا زیادہ ہے 

زریام نے اس کا اتارا ہوا چہرہ دیکھ کر بامشکل کہا مگر اس کے الفاظ سن کر جبران خان اور صوفیہ بیگم کو ساری بات  کی سمجھ آگئی وہ حیرانگی سے اپنے بیٹے اور بیٹی کو دیکھ  جو زریام کو دیکھ رہے ہیں تم لوگوں نے چائے میں کالی مرچ  کا استعمال کیا  ہے انہوں نے حیرانگی سے پوچھا 

وہ موم ہم نے چائے کی پتی ہی کا استعمال کیا تھا پتہ نہیں اس میں کالی مرچ  کیسے آگئی موم مجھے تو لگتا ہے کہ یہ حمزہ نے کیا ہے زرمینے نے جلدی سے سارا الزام  حمزہ پر ڈال دیا  جو حیرت سے زرمینے کو ہی دیکھ رہا تھا نہیں موم میں نے تو اسے کہا تھا بھی کہ یہ کالی مرچ ہے مگر اگے سے کہنے لگی کہ تمہیں زیادہ پتہ ہے یا مجھے حمزہ نے بھی جلدی سے اپنا دفاع کیا 

تو وہ تینوں مسکرائے 

کوئی بات نہیں بیٹا ایسا ہوجاتا ہے پہلی بار جو بنارہی ہوں  اس لیے یہ میری طرف سے تم دونوں کے لئے جبران خان نے دونوں کو  دس ہزار روپے  دیے تو وہ دونوں خوش ہوگئے 

ارو میری طرف سے آج میں تم دونوں کو شاپنگ کرواوں گا اس لئے جلدی سے تیار ہوکر آجاو  

زریام نے دونوں کو کہا تو وہ وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ  کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زریام اپنی بات سے مکر بھی سکتا ہے 

ان کی تیزی دیکھ کر وہ تینوں مسکرائےتھوڑی دیر کے بعد  حمزہ  بلیک پینٹ اورشرٹ پہنے ہوئے  باہر آیا تو دوسری طرف  زرمینے  سادہ سا  نیلے رنگ کی فراق میں اور بڑی سی چادر لے کر آگئی اس نے آنکھوں میں  گلاسس لگائے ہوئے ہے جو کہ اس کی موم کا حکم ہے کہ اس کی نیلی آنکھیں بہت خوبصورت ہے ان کو ہمیشہ  چھپا کر  رکھے

مسکراتی آنکھوں سے فسانہ لکھتا ہو شاید آپکا میری زندگی میں انا لکھتا ہو تقدیر تو دیکھو میرے آنسووں کی اس میں بھی آپکا بھ جانا لکھتا ہو 💔🤧

زریام  دونوں کو لے کر شاپنگ مال چلا گیا 

وہاں جاتے ہی اس نے دونوں کو  شاپنگ کرنے کا کہہ کر خود ایک لیڈیز کی دوکان کی طرف چلاگیا  تاکہ اپنی موم کےلئے کچھ لے سکے 

اور وہ دونوں بھی  ایک ہی دوکان میں چلے گئے اور شاپنگ کرنے لگے 

زریام نے ایک بہت خوبصورت چادر دیکھی تو اسے وہ اپنی موم کےلئے اچھی لگی ابھی وہ اس چادر کو خریدنے جاتا 

ارے آپ یہاں  زرتاشیہ نے چہک کر کہا تو زریام پلٹا اور اس لڑکی کو دیکھا جو اس سے ایسے مخاطب ہورہی ہے جیسے اسے برسوں سے جانتی ہوں 

پھر ایک محتاط نظر آس پاس دیکھا کہ کہی وہ دونوں تو نہیں 

مگر سکون ہوا کہ وہ دونوں یہاں نہیں  اگر ہوتے تو اس کو تنگ اور بلیک میل الگ کرتے 

ان کے والدین نے ان کو آزادی دی ہے مگر ایک حد تک 

جی زریام نے سادہ لہجے میں کہا  

تو زرتاشیہ کو لگا کہ اس نے اسے پہچانا نہیں  

ارے آپ نے مجھے پہچانا نہیں  وہ کل آپ نے میری مدد کی تھی اور میں نے آپ  کا شکریہ  بھی ادا نہیں کیا زرتاشیہ نے کہا  

کوئی بات نہیں  زریام یہ کہہ کر اگے بڑھا گیا کیونکہ وہ دونوں  کسی بات پر بحث کرتے ہوئے اس طرف ہی آرہے ہیں 

زریام  کے جانے کے بعد زرتاشیہ بھی جانے لگی کہ پیچھے سے اس کی دوست صبا آگئی 

کون تھا وہ ہنڈسم صبا نے شرارت سے کہا تو زرتاشیہ نے اس کو گھورا 

یہ ہی وہ شخص ہے جنھوں نے  کل میری مدد کی تھی اور میں یہاں ان کا شکریہ کر رہی تھی زرتاشیہ نے کہا  تو صبا جاتے زریام کو دیکھ کر  مسکرائی

ہاں! یہ سچ ہے کہ ترستے تھے تکلّم کو کبھی

اب یہ کوشش کہ تیرا ذکر نہ ہو، بات نہ ہو

کاش ڈھونڈے تُو مجھے گھوم کے بستی بستی

اور دعا میری، کبھی تجھ سے ملاقات نہ ہو 

اسے وہ ہنڈسم لڑکا اچھا لگا اور پھر وہاں سے چلی گئیںزریام نے ان دونوں کو  گھورتے ہوئے کہا ہم اب یہاں سے جائے گئے ارو مجھے سے بہت بڑی غلطی ہوگئہ جو میں تم دونوں کو شاپنگ کرنے  لئے ایا یہاں بھی تم لوگ لڑنے سے باز نہیں آئے  یہ کہہ کر وہ  باہر اپنی گاڑی کی طرف چل دیا  تو پیچھے وہ دونوں بھی ایک دوسرے کو گھور کر  چل دے 

زریام گاڑی ڈارئیو کررہا ہے ساتھ حمزہ بیٹھا اور پیچھے زرمینے  بیٹھی ہوئی ہے 

برو برو مجھے آسکریم کھانی ہے 

زرمینے نے کہا تو زریام نے گھورا  پھر آسکریم کے پاس گاڑی روکی اور خود باہر جاکر دونوں کے لئے  آسکریم لینے لگاپھر ان دونوں کو  آسکریم  دی اور خود ڈرائیونگ کرنے لگا وہ دونوں  جلدی جلدی آئس کریم  کھانے لگے 

زریام نے گاڑی خان ہاوس کے اندر داخل کی اور خود باہر نکلا اور زرمینے کی طرف کا دروازہ کھولا تو زرمینے  بھی باہر نکلی 

حمزہ بھی شاپنگ بیگ اٹھائے اندر کی طرف جارہے تھا تاکہ صوفیہ بیگم  کو اپنی شاپنگ دکھاکر اپنی تعریف سن سکے 

زرمینے بھی اندد کی طرف بھاگی

 تو زریام نفی میں سر ہلایا اور خود بھی اندر چلا گیا  

زریام سیدھا اپنے کمرے میں گیا اود سیدھا بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹ وہ واقع بہت تھک گیا تھا  ان دونوں نے اسے سارے مال میں گھمایا اور بار بار گھمایا  کہ تنگ آکر اس نے دونوں کو ڈانٹ کر لے کر آیا حالانکہ ان کا ابھی کوئی بھی ارادہ نہیں  تھا مگر اس کو غصے میں دیکھ کر وہ بھی آگئے 

ابھی اسے لیٹے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ اس کے دوست کہ کال آنے لگ گئی 

اس نے کال اٹھائی 

خان یار جلدی سے ہسپتال آجاو احد کا ایکسڈینٹ ہوا ہے اگے کی بات سن کر اس نے جلدی سے آنکھیں کھولی  کیسے ہوا اور کون سے ہسپتال  میں ابھی آتا ہوں  اس کے دوست نے  ہسپتال کا ایڈریس بتایا اور فون بند کردیاوہ جلدی سے ہسپتال  گیا تو وہاں اس کا دوست  بیٹھا تھا کیا ہوا  ہے زریام نے پوچھا  

وہ گھر آرہا تھا کہ  اس کی گاڑی ایک بائیک سے ٹکرائی  اور وہ وہاں بےہوش ہوگیا ہے  مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اس لیے تمہیں بلالیا اس لڑکے نے کہا  

ہممم کوئی بات نہیں  زریام نے کہا 

ڈاکٹر باہر آیا دیکھیں پیشنٹ  اب بالکل ٹھیک ہے بس تھوڑی سی چوٹے آئی ہیں اور یہ ڈر کی وجہ سے بےہوش ہوگیا ہے  انشاءاللہ کچھ ہی دیر میں ان کو ہوش آجائے گا ڈاکٹر پیشے وارنہ لہجے میں کہتا ہوا چلا گیا 

تو ان دونوں نے سکون کا سانس لیا  

اچھا ایسے کر ابھی اپنے گھر میں اطلاع مت کرنا ورنہ وہ پریشان ہوجائے گے تم ایسا کرو کہ جیسے ہی اسے ہوش آتا ہے اسے لے کر  گھر چلے جانا 

زریام نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاگیا 

اسے دو گھنٹے بعد ہوش آگیا پھر ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کیا  اور اسے گھر لے جانے کی اجازت دےدی اسے ان کے گھر چھوڑنے کے بعد 

______________

 وہ اپنے گھر جارہا تھا کہ ایک لڑکی اس کی گاڑی کے سامنے  آئی اس نے جلدی سے بریک لگائی اور گاڑی سے باہر ایا اور سامنے زرتاشیہ کو دیکھ کر گھور کیا آپ کو مرنے کا شوق ہے جو آپ باربار میری گاڑی کے سامنے آجاتی ہے  زریام نے سرد لہجے میں کہا 

اعر ایک نظر اس کو دیکھا  جو اس وقت بلیک کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور اس کا ڈوپٹہ  نہیں لیا تھا اس نے ناگواری سے دیکھا کر

نظریں پھرلی 

زرتاشیہ سامنے زریام کو دیکھ کر کچھ حوصلہ ہوا دیکھیں مجھے  بچا لے پلیز کچھ لوگ میرے پیچھے پڑگئے ہیں زرتاشیہ نے  کہا تو زریام نے اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھایا اور اس کو چادر دی یہ وہ چادر ہے جو اس نے اپنی ماں کے لئے خریدی تھی  زرتاشیہ بھی جلدی سے چادر اوڑھے کر گاڑی میں بیٹھ گئی تو اس نے جلدی سے گاڑی  چلائی  تھوڑت فاصلے پر  کچھ لڑکوں کے  ہاتھ میں زرتاشیہ کا ڈوپٹہ تھا اور وہ اسے ڈھونڈ رہے تھے ان کو دیکھ کر اسے بہت غصہ آیا مگر ساتھ لڑکی تھی اس وجہ سے کنٹرول کرگیا مگر ان کی شکلیں دیکھا لی اب ان کی خیر نہیں تھی 

 اس نے زرتاشیہ کو دیکھا جو  بری طرح رو رہی ہے  

رونا بند کرو مجھے رونے سے الجھن ہوتی ہے زریام اس کے مسلسل رونے سے تنگ آکر سرد لہجے میں کہا  

تو زرتاشیہ چپ ہوگئی  مگر ابھی بھی اس کی ہچکیاں گاڑی میں  گھوج رہی ہیں کہ زریام نے سامنے دیکھا کر  گاڑی کو بریک لگائی  سامنے ہی پولیس کی  واردی میں  دو اہلکار  کھڑے تھے  

تم گاڑی سے باہر مت آنا میں دیکھتا ہوں زریام نے نرم لہجے میں کہا 

 اس سے پہلے  زریام  باہر نکلتا وہ دونوں اس کی گاڑی کے پاس آگئے اور زریام کی طرف کا شیشہ  نوک کیا 

زریام نے شیشہ  نیچے کیا تو انہوں نے ان دونوں کو  دیکھتے ہوئے گھور 

آئے لڑکے باہر نکل  ان میں سے ایک نے کڑکدار آواز میں کہازریام گاڑی سے باہر ایا اوراس انسپکٹر کو دیکھا جو عجیب نظروں سے ان دونوں کو  دیکھ رہے ہیں 

اے لڑکے کون ہے یہ لڑکی  کیا رشتہ ہے تیرا اس سے اس انسپکٹر نے کڑک دار آواز میں کہا  

سر یہ لڑکی  ابھی زریام نے یہی  کہا کہ  

سر مجھے تو یہ دونوں گھر سے بھاگ ہوئے لگ رہے ہیں آپ نے دیکھا وہ لڑکی روئے جارہی ہے 

دوسرے نے کہا تو انسپکٹر نے غصے سے زریام کو دیکھا  

چلو لڑکے تمہیں ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلناہوگا اور ان محترمہ کو بھی اس انسپکٹر نے کہا  

ہاں زریام خود تو پولیس سٹیشن چلا جاتا مگر زرتاشیہ کو بھی ساتھ یہ اس کو ناگوار گزرا 

دیکھے انسپیکٹر یہ میری بیوی ہے  اور یہ ابھی میکے سے آرہی ہے تو اتے ہوئے اپنے گھروالوں سے ملتے ہوئے تھوڑی جذباتی ہوگئی ہے اس لئے رو رہی ہے 

ہی نا بیوی  زریام نے اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے انسپکٹر کو جواب اورساتھ زرتاشیہ سے بھی تائید چاہی اور بیوی لفظ کو زور دے کر کہا 

تو زرتاشیہ نے فورا ہاں میں سر ہلایا 

سر مجھے تو لگتا ہے کہ یہ دونوں پکڑے گئے ہیں اس لئے جھوٹ بول رہے ہیں اگر یہ سچ میں میاں بیوی ہے  تو  اپنا نکاح نامہ  دیکھائیں اس حوالدار نے پھر سے کہا تو زریام نے خونخورا نظروں سے اسے دیکھا 

ہاں لڑکے کہاں ہیں تمھارا نکاح نامہ  انسپکٹر نے کہا  تو زریام گڑبڑا گیا 

وہ سر نکاح نامہ تو گھر پر ہے اب ہم اس کو اپنے ساتھ تو نہیں رکھے گئے زریام نے کہا ےو انسپکٹر سوچ میں پڑگیا 

سر تو ہم ان کے گھر سے منگوالیتے ہیںاس نے پھر سے اپنی زبان کے جوہر دکھائے تو زریام کا دل کیا کہ کچھ اٹھا  کہ اس کے سر پر مار دے 

سر وہ ہم یہاں نہیں رہتے ہمارا گجر یہاں سے تقریبا پانچ گھنٹے کی دوری پر ہے زریام نے جلدی سے کہا  

سر اگر یہ سچ میں میاں بیوی ہے تو ایک بار اور نکاح کرنے سے کچھ نہیں ہوگا ہم ابھی ان کا نکاح کروائے گئے اگر انہوں نے  ابکار کیا  تو پھر یہ پولیس سٹیشن  جائے گے اس حوالدار نے کہا  تو انسپکٹر نے اثبات میں سر ہلایا  

 جی سر ہمیں منظور ہے آپ چاہے تو ابھی ہمارا نکاح کرواسکتے ہیں 

ابھی زریام ان کو سچائی بتاتا کہ زرتاشیہ باہر آکر بولی ارو زریام کو چپ ہونے کا اشارہ کیا جس پر وہ خاموش ہوگیا

اچھا پھر پاس ہی مسجد میں جاتے ہیں اور تم لوگوں کا نکاح کرواتے ہیں انسپکٹر نے کہا  تو وہ چاروں مسجد کے اندر چلے گئے اس وقت مسجد میں لوگ نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگ رہے تھے زرتاشیہ نے اپنا چہرہ چادر سے چھپایا ہوتا مگر سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا کر  اس کی جان نکلی کیونکہ سامنے ہی ریاض صاحب  بیٹھے  ہوئے کسی  کچھ کہہ رہے ہیں  جب وہ انسپیکٹر نے کہا تم ایسا کرو وہاں جاو اس نے زرتاشیہ کو کہا تو وہ اس جانب چلی گئی 

تھوڑی دیر کے مولوی  ریاض صاحب  کے ساتھ دو اور لوگ اندر داخل ہوئے اور  اس سے سائن کروا کر لے گئے پتانہیں  ریاض صاحب  کو کیا ہوا وہ اگے بڑھ کر  اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور باہر چلے گئے

اگر ہو گود ماں کی تو فرشتے کچھ نہیں لکھتے

جو ممتا روٹھ جائے تو کنارے پھر نہیں دکھتے

یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دکھ

..

سنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے..

پیچھے زرتاشیہ  پھر سے رونے لگی نکاح کے بعد  وہ چاروں اس کی گاڑی کے پاس ائے تو انسپکٹر نے  ان کو نکاح نامہ دیا اور جانے کی اجازت دی تو وہ دونوں  گاڑی میں بیٹھے اور جلدی سے گاڑی چلائی 

اس وقت گاڑی میں  مکمل  خاموشی تھی

پھول دیتے ہوئے لوگوں کو سمجھاۓ کوئی ✨❤

    یہ خسارے کی طرف پہلا قدم ہے✨❤

_____________

دیکھو ڈرو نہیں  میں ہوں نا زریام نے اس کو مسلسل روتے ہوئے دیکھ کر نرم لہجے میں کہا 

 وہ بابا سائیں زرتاشیہ نے کہا تو زریام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں  پکڑ دیکھو ڈرو مت میں خود وقت آنے پر تمھارے بابا سے بات کر لوں گا اور جہاں تک بات ہے اس نکاح کی  تو میرے لئے یہ نکاح اتنا ہی اہم ہے جتنا اگر کسی دوسرے حالات میں ہواہے زریام نے اس کو دیکھ کر کہا 

مگر اب تم بس اپنی پڑھائی پر توجہ دوں اور کچھ مت سوچنا زریام نے اسے سمجھتے ہوئے کہا 

تو زرتاشیہ نے اثبات میں سر ہلایا  

پھر گاڑی سے اتر کر اپنے گھر کی طرف چلی گئی کیونکہ اس نے گاڑی گھر سے کچھ فاصلے پر روکی تھی 

اس کے جانے کےبعد زریام بھی گھر چلا گیا 

ان کی شادی کو ایک مہینہ ہوگیا ہے زریام اس کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے  اسدوران صبا زرتاشیہ سے حسد کا شکار ہوگئی آگ تو تب لگی جب زرتاشیہ نے اسے اپنے اور زریام کے نکاح کے بارے میں بتایا  تو اس کا غصے سے برا حال ہوگیا مگر اسے مناسب وقت کا انتظار تھا جوکہ اسے اج مل گیا اج صبح سے زریام زرتاشیہ سے ملنے  نہیں آیا جس پر زرتاشیہ اس سے ناراض تھی اوریہ بات اس نے صبا کو بھی بتائی 

دیکھو زرتاشیہ یہ جو مرد لوگ ہوتے ہیں نا ہمیشہ عورت سے مطلب تک اپنا رشتہ رکھتے ہیں جیسے ہی مطلب پورا ہوا یہ اس کو چھوڑ کر نئی کی تلاش جاری کردیتے ہیں صبا نے ہمدرد لہجے میں کہا  نہیں نہیں زریام ایسے نہیں ہیں وہ تو بہت اچھے ہیں اور اج تک انہوں نے مجھے ایسی نظر سے بھی نہیں  دیکھا  

تم بہت معصوم ہوں جو اسے نہیں سمجھ سکیصبا نے چالاکی سے کہا تو زرتاشیہ کو اس کی بات پر یقین ہونے لگا مگر اس نے اسے محسوس نہیں ہونے دیا دوسری طرف صبا اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مسکرائی 

اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں ہے تو اج شام اس ہوٹل پر اکر خود دیکھ لینا صبا نے ایک ہوٹل کا ایڈریس بتاتے ہوئے کہا 

 اچھا میں اس ہوٹل میں اجاو گئی اس لیے نہیں کہ مجھے خان پر یقین نہیں بلکہ اس لیے تاکہ میں تمہیں غلط ثابت کرسکو 

زرتاشیہ نے کہا تو وہ مسکرائی 

اچھا شام کو ملتے ہیں 

_____________________

زریام اج صبح سے بہت بیزی تھا کیونکہ اس کی دادی گاوں سے آئی ہوئی تھی اس کے کزن کی شادی ہے اس لیے انہیں لینے ائی ہوئی ہے وہ سارا دن ان کےساتھ ہی رہا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ واپس حویلی گئی ہیں اس لیے اب فری ہوکر وہ زرتاشیہ سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جیسے ہی اس نے موبائل اوپن کیا وہاں ایک انجان نمبر سے بہت کال ائی ہوئی تھی ہے نے جلدی سے اس نمبر پر کال کی 

ہیلو اپ زریام بول رہے ہیں اگے سے کال اٹھانے کے بعد کسی کی پریشان آواز آئی 

جی میں زریام بول رہاہوں زریام نے جواب دیا 

زریام میں زرتاشیہ کی کزن صبا ہوں ہم یہاں ہوٹل ائے تھے کہ زرتاشیہ کی اچانک  طبعیت خراب ہوگئی تم جلدی سے اجاو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے 

سامنے  صبا نے مکاری سے کہا 

دوسری طرف زریام تو زرتاشیہ کی طبعیت خرابی کا سن کر ہی پریشان ہوگیا اس لیے اس کے لہجے کی مکاری کو محسوس نہیں کرپایا 

 کون سے ہوٹل  زریام جلدی سے گاڑی کی چابیاں اٹھاکر باہر کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا 

صبا نے جلدی سے ہوٹل کانام بتائے اور کال کاٹ دیاور سکون سے بیتھ کر زریام کے انے کا انتظار کرنے لگی 

کچھ ہی دیر میں زریام اسے وہاں اتا ہوا دکھائی دیا تو وہ بھاگ کر زریام کے  پاس ائی 

کہاں ہے زرتاشیہ زریام نے صبا کو دیکھ کر کہا وہ صبح کو پہلے سے جانتا تھا اس لیے اس کو پہچان گیا 

وہ اس روم میں ہے صبا نے چہرے پر مصنوعی فکر لاکر کہا 

تو زریام اس کمرے کی طرف بڑھ گیا اس کے پیچھے ہی صبا بھی اس کمرے میں آگئی 

کہاں ہے زرتاشیہ  زریام نے خالی کمرہ دیکھ کر کہازرتاشیہ یہاں نہیں ہے وہ سب کچھ میں نے تمھیں یہاں بلانے کےلیے کہا تھاصبا نے کہا تو زریام کے ماتھے پر بل پڑے 

کیا مطلب زریام نے ناگوار لہجے میں کہا 

مطلب یہ کہ میں تمہیں پسند کرتی ہوں تو تم زرتاشیہ کو طلاق دے کر مجھے سے شادی کرلوں میں تمھیں زرتاشیہ سے زیادہ خوش رکھوں گی  

صبا نے جلدی سے کہا 

کیا بکواس ہے یہ اگر کوئی یہ مذاق ہے تو میں ایسی باتیں مزاق میں بھی برداشت نہیں کر سکتا زریام نے سرد لہجے میں کہا 

تمھیں میری محبت مزاق لگ رہی میں سچ میں تمہیں چاہتی ہوں  صبا نے ضدی لہجے میں کہا

اور تمھیں پانے کےلئے مجھے کسی بھی حد تک جانا پڑے میں جاو گئی تمھیں صرف میرا ہونا ہے صبا نے مزید کہا   

تو زریام وہاں سے جانے لگا اور صبا روکنے لگی اس وجہ سے زریام کا پاوں  سلیپ ہوا اور وہ دونوں بیڈ پر گرئے تب ہی دروازہ کھولا اور  زرتاشیہ اندر داخل ہوئی اور ان دونوں کو  دیکھ کر  حیران ہوئی کیونکہ اس وقت وہ دونوں قریب تھے صبا اور زریام نے ایک ساتھ زرتاشیہ کو دیکھا جو روتے ہوئے انہیں ہی دیکھ رہی تھی 

صبا جلدی سے زرتاشیہ کے پاس گئی  

دیکھا میں نے تمھیں کہا تھا نہ کہ تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں 

اب تو تم نے اپنی آنکھوں سے سب دیکھ لیا ہے صبا نے ہوشیاری سے کہا تو زرتاشیہ نے بے یقینی نظروں سے زریام کو دیکھا 

زرتاشیہ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ یہ مکار عورت جھوٹ بول رہی ہیں زریام اپنی صفائی دینا تو نہیں چاہتا تھا مگر پھر بھی اس نے زرتاشیہ کو دی 

زرتاشیہ نے بغیر کچھ سوچے سمجھے زریام کے تھپڑ ماردیا 

زریام بےیقینی سے زرتاشیہ کو دیکھا جو اس وقت اس کے مقابل کھڑی نفرت سے اسے دیکھ رہی ہے 

زرتاشیہ آپ کو مجھے پر بھروسہ نہیں ہےزرتاشیہ نے اس کے ہاتھوں کودیکھ جو جس سے  ان نے اس کے چہرے کو تھما ہوا پھر اس کے ہاتھوں کو جھٹکا دور رہے مجھے سے گھن آرہی ہے  مجھ خود سے کہ اپ میرے شوہر ہے 

اور بھروسے کی بات نہیں ہے آپ پر بھروسہ آپ نے کیوں مجھے ابھی اور اسی وقت طلاق دے میں اپ جیسے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی  زرتاشیہ نے نفرت سے کہا تو زریام نے بےیقینی کیفیت سے اسے دیکھا اور ایک نظر صبا کو  دیکھ جو طنزیہ انداز میں اسے ہی دیکھ رہی ہے 

اس سے پہلے کہ زریام وہاں سے جاتا تب ہی دروازہ کھول کر حمزہ اندر ایا 

زریام حمزہ کو دیکھ کر حیران ہوا 

حمزہ جو اپنے دوست سے ملنے اس ہوٹل میں ایا تھا سامنے زریام کو کسی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر  اس کی طرف آگیا تاکہ وہ اسے اس لڑکی کے ذریعہ بعد میں  بلیک میل کرسکے اس لیے موبائل میں ویڈیو بنانے لگا تو سامنے اس لڑکی کی باتیں اور پھر دوسری لڑکی کی باتیں اس کا دماغ گھما گئی اس کا بھائی ایسا تو نہیں اور یہاں وہ دونوں اس کے بھائی کے کردار پر الزام لگا رہی ہیں اس لیے اندر آیا 

اور غصے سے ان دونوں کو دیکھا 

کیا بکواس کر رہی تھی آپ کہ یہ کریکٹر لیس ہے آپ جانتی ہی کیا ہے ان کے بارے میں جہاں تک ان کے کردار کی بات ہے تو یہ آپ لوگوں کو کیوں ثابت کریں کہ ان کا کردار کتنا مضبوط ہے  جو خود ایسی ہوا حمزہ نے سود لہجے میں کہا  

اور آپ جس بنیاد پر بھائی پر الزام لگا رہی ہیں  تو اس کا ثبوت یہ ہے حمزہ نے وہ ویڈیو زرتاشیہ کو دیکھتے ہوئے کہا تو زرتاشیہ نے وہ ویڈیو دیکھ کر حیرانگی سے صبا کو دیکھ  جو اسے ہی دیکھ رہی تھی زرتاشیہ  اس وقت شرمندگی کے مارے چہرہ کی جھکا گئی 

آپ نے مجھے پر یقین نہیں کیا مگر اصل میں تو آپ نے خود پر نہیں کیا 

کیا آپ جانتی نہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

نیک عورتیں کےلئے نیک مرد اور بری عورتیں کے لئے برے مرد ہیں 

اگر آپ خود نیک تھی تو میں کیسے آپ کے نصیب میں لکھا ہوتا زرتاشیہ نے کچھ بولنے کے لئے لب کھولےہی تھے کہ مگر اب آپ نے مجھے کھودیا ہے اور کیا کہہ رہی تھی آپ کہ آپ کو میں طلاق دوں تو یہ آپ سوچے گا بھی مت اب آپ ساری زندگی ایسے ہی میرے نام پر رہے گئی مگر میں اپ کو اپناو گا نہیں  

اب سے آپ کو زریام جبران خان  میسرا نہیں ہوگا 

زریام یہ کہہ کر لمبے لمبے ڈھگ بھرتے ہو اس کمرے سے اس ہوٹل سے ہی باہر چلاگیا 

تمہاری جیت لکھوں گا اور اپنی ہار لکھوں گا

میں جب بھی ناول لکھوں گا تمہیں کردار لکھوں گا

میں اپنی زیست میں جاکر تمہیں بیحد سنواروں گا

تمہیں اچھا بنا کر خود کو میں بیکار لکھوں گا

مجھے معلوم ہے یہ کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن

میں ہر اک موڑ پر خود کو تمہیں درکار لکھوں گا❤

پیچھے زرتاشیہ روتے ہوئے نیچے بیٹھتی چلی گئی حمزہ بھی اسے دیکھا کر چلا گیا اسے تو اس بات کا ہی صدما ہے کہ اس کا برو نے شادی کی ہوئی ہے 

کیوں کیوں زرتاشیہ نے دکھ سے صبا سے پوچھا 

تم تم ہو وجہ اسے میں پسند کرتی ہوں اور تم نے اس سے نکاح کرلیا بچپن سے لے کر آج تک جس چیز کو میں پسند کرتی وہ تمہیں مل جاتی مگر میں اپنی محبت تمہیں نہیں دوں گی

صبا نے کہا تو زرتاشیہ نے  بے یقینی سے اسے دیکھا یہی وہ لڑکی ہے جس کی وجہ سے اس نے اپنے شوہر پر شک کیا اس کی وجہ سے اس سے طلاق تک کا مطالبہ کردیا اور یہ ایسی تھی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکی 

صیحح کہا ہے کہ  میاں اوربیوی  کے درمیان تیسرا ہمیشہ شیطان کا کام کرتا ہے جیسے زرتاشیہ اور زریام کے درمیان صبا نے کیا  

زرتاشیہ اب پچھتائے گئی مگر اسے زریام خان میسرا نہیں ہوگا 

________________

زریام ساری رات گھر کے باہر سڑک پر رہا ہے اس وقت اسے تنہائی کی ضرورت ہے  اس لیے گھر نہیں گیا 

وہ جانتا ہے کہ اس کا انتظار کر رہے ہوگے اور اس کے لئے پریشان بھی ہوگیے مگر پھر بھی وہ نہیں گیا شاید وہ اپنے گھر والوں کو بھی اس تکلیف سے گزارنا چاہتا ہے 

اس کا دل چاہا رہا ہے کہ زور زور سے روئے چیخ مگر نہیں کرسکا کیونکہ مرد روتا نہیں  ہاں مرد روتا مگر جو انسو باہر نکلنے کی بجائے اندر گرئے وہ زیادہ تکلیف دیتا ہے 

اخر صبح کے گیارہ بجے وہ گھر واپس  آئے تو سامنے اس کی دادی کے ساتھ اس کے دوسرے رشتے دار  اس کے گھر کے لاونج میں بیٹھے ہوئے ہیںوہ چلتا ہوا کچن میں اپنی ماں کے پاس گیا 

موم یہ لوگ یہاں کیوں ائے ہیں زریام نے بیزاری سے پوچھا 

تو صوفیہ بیگم نے مسکرا کر اسے دیکھا 

وہ بیٹا یہ اپ لے ڈیڈ کو منانے آیے ہیں تاکہ وہ شادی اٹینڈ کرسکے  صوفیہ بیگم نے زرمینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  

تو زریام نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  اور خود بھی لاونج کی طرف چلا گیا 

جبران خان  تم اپنی یہ ضد کیوں نہیں  چھوڑتے دادی نے غصے سے کہا  

اماں سائیں آپ میری ضد پوری کردے جبران خان نے تحمل سے کہا 

ہم اس گندہ کو کبھی بھی حویلی آنے کی اجازت نہیں دے گئے  دادی نے سخت لہجے میں کہا 

تو ٹھیک ہے اماں سائیں  جہاں میری بیٹی کو جانے کی اجازت نہیں ہے وہاں میں بھی نہیں جاو گا جبران خان نے کہا  تو دادی نے ناگواری نظروں سے اسے دیکھ 

اب تم اس گندگی کے ڈھیر کے لئے مجھے سے یعنی اپنی اماں سے زبان لڑا گا ارے کوئی تیری بیٹی نہیں ہے معلوم نہیں  کس کا گناہ اٹھا کر لیا اور اسے اپنی بیٹی بنا لیا دادی نے ابھی یہی کہا کہ اچانک ٹرے گرنے سے سب اس کی طرف متوجہ ہوئے 

جہاں سامنے ہی زرمینے کھڑی بےیقینی کیفیت سے انہیں ہی دیکھ رہی ہیں پھر بھاگ کر جبران خان کے پاس اتی ہے 

ڈیڈ میں اپ کی ہی بیٹی ہو ں نا بتائے دادی جنکی بات کررہی ہیں وہ میں نہیں ہوں بتائے ڈیڈ  زرمینے جبران خان کو امید سے دیکھ کر کہا 

یہ سچ ہے کہ تم میری بیٹی نہیں  پہلے تو جبران خان کچھ بولا ہی نہیں  پھر بولا تو ان کا لہجہ ٹوتا ہوا تھا 

ابھی مزید کچھ بولتے کہ زرمینے  نیچے گرگئی 

سب پریشانی سے زرمینےکی طرف  دیکھا  جو اس وقت زمین پر  گری پڑی تھی زریام اور حمزہ جو یہ سچائی جانتے تھے وہ جلدی سے زرمینے کی طرف لپکے زریام جلدی سے گاڑی کی طرف گیا  حمزہ نے  جلدی سے  زرمینے کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور باہر گاڑی کی طرف چل گیا 

پیچھے جبران خان اور صوفیہ بیگم  شاک کی کیفیت سے ان کو جاتے ہوئے دیکھ رہی ہیں جب صوفیہ بیگم  بےنیچے بیٹھتی چلی گئی  خان میری بیٹی یہ کہتے ہوئے وہ اپنی ہوش و حواس سے بیگانی ہوکر گر گئی جبران خان  بھاگ کر صوفیہ بیگم  کے پاس آئے 

اماں اگر میری بیٹی یا بیوی کو کچھ ہوا تو آپ بھی اپنے بیٹے کو گنوادے گئی  جبران خان  صوفیہ بیگم  کو اٹھا کر گاڑی میں بیٹھے اور جلدی سے ہسپتال  چلے گئے 

پیچھے دادی بھی ڈر کر ان کے پیچھے ہسپتال کی طرف بھاگئییہ منظر ہے ایک ہسپتال جس میں ای سی یو کے سامنے زریام اور حمزہ  کھڑے  ہیں تو دوسری طرف ایک کمرے کے سامنے جبران خان اور دادی کھڑی ہیںجب ڈاکٹر باہر آیا تو جبران خان  جلدی سے ڈاکٹر کے پاس آیا 

ڈاکٹر میری بیوی  کیسی ہے  جبران خان نے بے چینی سے پوچھا اس وقت وہ ضبط کی انتہا پر تھے ایک طرف  ان کی جان سے عزیز  انکی بیٹی  تو دوسری طرف  ان کی ہمسفر ان کی زندگی ان کی بیوی  اس وقت کوئی جبران خان سے پوچھے کی بےبسی کیسی ہوتی ہیں تو وہ بتاتے 

دیکھے پیشنٹ کا بلڈ پریشر خطرناک  حد تک بڑھ گیا ہے  اپ دعا کریں کہ ان کا بلڈ پریشر  نارمل ہوجائے کیونکہ اگر نہ ہوا تو ان کی جان کو بھی خطرہ ہیں 

ڈاکٹر پیشے وارنہ لہجے میں کہتا  واپس کمرے میں چلا گیازریام ایک طرف اپنا دکھ تو دوسری طرف  اس کی بہن جو اسے جان سے عزیز تھی اور ماں  

 اس کی آنکھیں بے اختیار بھیگی جارہی ہیں ہاں وہ دونوں  جانتے تھے کہ زرمینے  ان کی سگی بہن نہیں ہے  مگر وہ اس کا بہن کی طرح کی عزیز تھی اور یہ بات ان کو اس کی ماں نے اس وقت  بتائی جب وہ عمر کے اس حصے میں  تھا جب وہ ہر چیزیں سمجھ ائی تھی تاکہ وہ زرمینے سے ایک فاصلے پر رہے کیونکہ زرمینے اس کےلئے نامحرم ہیں مگر حمزہ کےلئے نہیں  کیونکہ  حمزہ اس کا دودھ شریک بھائی ہے  تب سے ہی اس نے زرمینے سے ایک فاصلے پر رہا مگر اس کا ہر طرح سے خیال رکھتا تھا اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے ہر بات پوری کردیتا 

گھر والے کہتے تھے کہ زریام  سے کوئی چیز مانوانی ہے تو زرمینے سے کے ذریعے  مانوائی جاسکتی ہے  تو دوسری طرف اس کی ماں جو اس کی پہلی درس گاہ اس کی جنت اس کی بیسٹ فرینڈ  تھی  وہ اس حالت  اور اپنی محبت کی بے اعتباری اسے اندر سے توڑ رہی تھی 

اور حمزہ  حمزہ تو رونے ہی لگا وہ اس کی بہن سے زیادہ اس کا بھائی اور دوست ہے ہاں وہ ہمیشہ  ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ایک دوسرے کر تنگ کرتے رہتے مگر وہ اس سے بہت بہت محبت کرتا ہےوہ اس کے بغیر رہنے  کا سوچا بھی نہیں  سکتا  اور اس کی ماں جس سے ہر وقت  ایک دوسرے کی  شکایت لگاتے رہتے تھے   اور وہ دونوں کو گھورتی اور پھر سے اپنے کام کی متوجہ ہوجاتی مگر اس وقت وہ دونوں ہی اس حالت تھی کہ اس کا دل پھٹ رہا تھا اور بھائی اس کی حالت بھی اس سے مخفی نہیں تھی 

حمزہ چپ ہوجاو زریام نے حمزہ کو روتے ہوئے دیکھ کر  ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہا  اس وقت اس کی اپنی آواز بھی بھیگی ہوئی تھی مگر وہ ضبط کرتے ہوئے کہا 

بھائی وہ ٹھیک  ہوجائے گئی نہ آپ انہیں کہے کہ حمزہ ان کے بغیر نہیں رہ سکتا وہ دونوں ہی میرے لے بہت اہم ہیں بھائی آپ ان کو کہے کہ ٹھیک ہو جائے  پلیز  بھائی  حمزہ نے زریام کے گلے لگ کر روتے ہوئے  التجائے لہجے میں کہا 

تو زریام کی آنکھیں نم ہوئی 

بس حمزہ اللہ تعالی سے دعا کرتب ہی ڈاکٹر ای سی یو سے باہر آیا 

دیکھیں ان کو نروس بریک ہوا 

اب کو ٹھیک ہے  مگر اس کو ابھی ہوش نہیں آیا اور یہ بہت کمزور بھی ہے 

ڈاکٹر پیشے وارنہ لہجے میں کہتا ہوا چلا گیا  پیچھے زریام اور حمزہ بے اختیار  سجدے میں گرئے اس پاک زات کا شکر کیا

بے شک ہم اپنے خدا کی کون کون سی نعمتوں کا شکر کریں 

اور اپنے باپ کی طرف گئے 

ڈیڈ  زرمینے کو نروس ڈاون ہوا تھا مگر اب ٹھیک ہے  موم کیسی ہے اب زریام نے ان کو بتاتے ہوئے کہا اور ساتھ اپنی ماں کے بارے میں بھی پوچھا

تمھاری ماں کا بلڈ پریشر  بڑھ گیا ہے  بس دعا کروکہ وہ ٹھیک ہو جائے  اتنے میں ڈاکٹر  بھی کمرے سے باہر آئے  

ڈاکٹر میری ماں  کیسی ہے  حمزہ نے ڈاکٹر سے پوچھا  

جی اب پیشنٹ خطرے سے باہر ہے اپ مل سکتے ہیں اور ہاں زرمینے کو اندر بیجھے دئے پیشنٹ بار بار  ان کا نام لے رہے ہیں 

ڈاکٹر پیشے وارنہ لہجے میں کہتا ہوا چلا گیا 

جبران خان  زرمینے کے کمرے کی طرف چلے گئے جب حمزہ ان کے پیچھے جانے لگا تو زریام نے منع کردیا 

اس وقت ڈیڈ ہی اسے سبھال سکتے ہیںجبران خان کمرے میں داخل ہوئے تو سامنے ہی زرمینے مشینوں میں جکڑی ہوئی تھی اد کی رنگت میں بھی زردی گھلی ہوئی تھی  

اس کواس کو اس حالت میں  دیکھ کر ان کا دل دکھ 

زرمینے میں جانتا ہوں کہ آپ کو ہوش آگیا ہے 

آپ کے ماں باپ کون ہے آپ کون ہیں ایسے بہت سے سوال اس وقت  اپ کے دماغ میں  چل رہے ہوگئے 

بیٹا میں آپ کو آپ کے تمام سوالات کا جواب دوں گا 

جبران خان نے کہا تو زرمینے نے آپنی آنکھیں کھولی 

میرے اصل ماں باپ کون ہے اور میں کون پوں زرمینے نے سپاٹ لہجے میں کہا 

آپ کے باپ کا نام ریاض شاہ ہے اور ماں کا نام کوثر شاہ ہے 

آپ کے والد کی آپ کی ماں سے دوسری شادی ہے ان کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد آپ کے والد کی شادی آپ کی ماں یعنی کوثر شاہ سے ہوئی 

ریاض شاہ کی پہلی بیوی سے ان کے پاس ایک لڑکی ہے  

آپ کے والد کو بیٹے کی خواہش تھی  مگر جب آپ ہوئی تو انہوں نے  آپ کو کچرے میں پھنکنے کا کہا کیونکہ وہ آپ کو برداشت نہیں کرسکتے تھے وہ اس لڑکی کو بھی اس لئے برداشت کررہے ہیں کیونکہ وہ ان کی محبوب بیوی  میں سے ہے 

جب آپ کی والدہ کو ہوش آیا تو ان کو بتایا کہ بچہ مرا ہوں پیدا ہوا تھا جسے سن کر آپ کی ماں کی حالت بہت خراب ہوئی مگر پھر وہ سبھال گئی 

میں اس دن اسی ہسپتال میں صوفیہ بیگم کی ڈلیوری کے لئے گیا تھا  کیونکہ اس وقت ہمارے ہاں حمزہ کی پیدائش ہوئی ہے میں نے آپ کے والد اور نرس کی ساری باتیں سننے کے بعد میں نے اس نرس سے آپ لو لے لیا اوت سب کو یہی بتایا کہ ہمارے ہاں جڑواں بچے ہوئے ہیں یہ حقیقت صرف گھر والے ہی جانتے ہیں 

جبران خان نے زرمینے کو ساری بات بتائی تو زرمینے کی آنکھوں سے ایک آنسو نکلا کہ وہ اتنی بے مول ہے 

بیٹا آپ کی ماں کی طبیعیت بہت خراب ہوگئی ہے وہ یہاں اس پردے کے پیچھے ہی ایڈمٹ ہے تو آپ پلیز ان سے باے کر لیجئے گا  یہ کہہ کر جبران خان نے پردہ ہٹایا تو سامنے ہی صوفیہ بیگم  لیٹی ہوئی تھی 

موم آپنی ماں کو اس حالت میں دیکھ کر زرمینے کے منہ سے بے اختیار نکلا 

ڈیڈ  زرمینے نے حیرانگی سے جبران خان کو دیکھا 

ان کا بلڈ پریشر  بڑھ گیا تھا اس لئے 

جبران خان نے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا 

 پھر کچھ ہی دیر کے بعد  زریام ارو حمزہ بھی ان سے ان کا حال جاننے آئے 

اور تین دن مزید دلھے کر انہیں ڈسچارج کردیا گیا 

ماں آپ ہی میری ماں ہیں اور آپہی میرے باپ اور بھائی ہیں میں اس خاندان سے ہوں نہ کہ ان کے خاندان سےاس لیے آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے 

زرمینے نے گھر آئی تو صوفیہ بیگم اور باقی سب بھی اس سے دور دور رہ رہے تھے جس کی وجہ وہ خود بھی جانتی تھی اس لیے بولی 

زرمینے تم وہاں نہیں جائے گئی تم ہمیں چھوڑ کر نہیں جاو گئی ہے نا صوفیہ بیگم نے ڈرتے ہوئے کہا 

نہیں موم میں نہیں جاو گئی اور اب آپ ریسٹ کریں چلے جائے اپنے کمرے میں  زرمینے نے کہا تو وہ مسکراتی ہوئی آپنے کمرے کی طرف آرام کر نے کے لیے چلی گئ 

ڈیڈ میں افسر بنانا چاہتی ہوں وہ بھی آپ کی طرح لوگوں کی مدد اور اپنے ملک کی حفاظت کرنا چاہتی ہوں زرمینے نے کہا  

ڈیڈ میں اور ڈیڈ میں بھی ان دونوں نے بھی جلدی سے کہا تو جبران خان مان گئے 

اور پھر اس طرح زرمینے  افسر زر اور باقی دونوں  افسر خان بنے 

اماں سائیں آپ سردارنی سائیں کو یہاں کے سارے اصول سکھادے اور آج سے میرے سارے کام میری بیوی ہونے کی حیثیت سے سردارنی سائیں ہی کریں گئی اس لئے ان یہ سب بھی سکھادے اور میں اپنی بات بار بار دیرانے کا عادی نہیں ہوں 

اس وقت سب لوگ ڈئینگ ٹیبل پر بیٹھے خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے کہ اس خاموشی کو  سید غزلان شاہ کی آواز نے توڑا  

یہ بات انہوں نے اپنی ماں اور اخری زرمینے کو تنبیہ لہجے میں کی 

جو حیرانگی سے اسے دیکھ رہی ہے 

اور آپ سردارنی سائیں  ناشتہ کرنے کے بعد ہمارے کمرے میں ائے مبشرہ آپ سردارنی سائیں کو میرے کمرے میں لے کر آئے گئی یہ کہہ کر غزلان شاہ  اپنے کمرے کی طرف چلا گیا 

زرمینے حیرت سے اسے جاتے ہوئے ریکھ رہی تھی  اب ناشتہ  تو اس کے حلق سے ہی نہیں اتارا

سردارنی سائیں  آپ ناشتہ کرلے اس کے بعد میں آپ کو سردار سائیں کے کمرے میں چھوڑ آو گئی 

مبشرہ نے زرمینے کو کہا  تو زرمینے نے  اثبات میں سر ہلایا 

مگر ناشتے سے اب اس کا دل اچاٹ گیا 

اگر آپ نے ناشتہ کرلیا ہو تو آپ مجھے بتادے کہ سرکار کا کون سا کمرے ہے 

زرمینے نے مبشرہ سے کہاچلے سردارنی سائیں  مبشرہ نے جوس پیتے ہوئے کہا تو زرمینے  بھی اٹھ کر اس کے ساتھ جانے لگی 

دیکھو مبشرہ آپ نے میرے ساتھ وہاں کمرے میں ہی جانا ہے اور پھر ہم دونوں ساتھ ہی ائے گی آپ اکیلی مت آنا مجھے تھوڑی گھبراہٹ ہورہی ہے 

زرمینے نے گھبرا کر کہا تو مبشرہ نے اثبات میں سر ہلایا 

بھابھی سائیں میں اپ کے ساتھ ہی آو گئی آپ فکر ہی نہ کریں مبشرہ نے اس کی گھبراہٹ دور کرنے کے لئے کہا 

یہ ہے سردار لالہ کا کمرہ  میں یہاں سے اگے نہیں جاسکتی کیونکہ سردار لالہ کے کمرے میں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے  مبشرہ نے جلدی سے کہا 

تو زرمینے نے اس دیکھ مگر آپ تو کہہ رہی تھی کہ آپ مہرے ساتھ ہی واپس جائے گئیں  

زرمینے نے کہا تو  ہاں میں اپ کے ساتھ ہی واپس جاو گئ میں یہاں باہر  بیٹھ کر آپ کا انتظار کرو گئی اب آپ جائے ورنہ سردار لالہ  غصے ہو گئے 

مبشرہ نے زرمینے کو کہا 

تو زرمینے نے بچارگی سے اسے دیکھا اب اس کا ارادہ یہاں سے واپس جانے کا تھامگر اس سے پہلے ہی  مبشرہ نے دروازہ نوک کردیا اور خود پیچھے جاکر بیٹھ گئی 

کم ان اندر سے غزلان شاہ  کی بھاری گھمبیر آواز گونجی تو زرمینے نے ڈرتے ہوئے اندر داخل ہوئی 

اس نے ایک سراسری  نظر  کمرے میں دیکھ مگر اسے غزلان شاہ  کہی بھی نہیں دیکھ  تو وہ واپس جانے کے لیے پلٹی ہی تھی کہ 

کہاں جارہی ہیں آپ خانم غزلان شاہ کی بھاری گھمبیر آواز کمرے میں گونجی تو زرمینے نے نظریں اٹھا کر غزلان شاہ کی طرف دیکھا جو اس وقت بلیک جینز اور شرٹ  پہنے ہوئے بہت ہینڈسم لگ رہا ہے 

وہ سرکار آپ نے مجھے بلایا تھا تو میں ائی مگر آپ یہاں نہیں تھے اس لیے میں واپس جانے لگی ہوں 

زرمینے نے اسے پہلے یہ انے کی وجہ بتائی پھر جانے کی 

کیا آپ کو اتنا بڑا آدمی نہیں دیکھ رہا خانم آپ کی نظر تو ٹھیک ہے  غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا مگر اس کی آنکھوں میں واضح شرارت تھی 

نہیں نہیں سرکار میری نظر بالکل ٹھیک ہے وہ آپ اس وقت یہاں نہیں تھے زرمینے نے جلدی سے کہا تو غزلان شاہ کے چہرے پر اس کی مصومیت کی وجہ سے مسکرہٹ ائی 

اچھا آپ پہلے بیٹھ جائے غزلان شاہ نے اسے سامنے صوفے پر بیٹھنے کا کہہ کیونکہ اس وقت زرمینے حد سے زیادہ نروس تھیغزلان شاہ  کےکہنے کیب دیر تھی کہ زرمینے جلدی سے پاس پڑے ڈبل صوفے  پر بیٹھ گئی  اور اپنے ناخنوں کو کاٹنے لگی کیونکہ وہ نروس کے ساتھ کنفیوز بھی بہت تھی 

جب سید غزلان شاہ چلتا ہوا ساتھ ہی سنگل صوفے پر بیٹھا گیا  

مت کریں بیڈ ہیبٹ انہوں  نے زرمینے کو ٹوکا 

پہلے تو آپ ایزی ہوجائے مجھے انسانی گوشت بالکل بھی پسند نہیں ہے اس لئے میں آپ کو نہیں کھاو گا 

غزلان شاہ نے مذاقیہ لہجے میں کہا تو زرمینے نے سر اٹھا کر اسے دیکھ جو مسکرا رہا تھا

بڑا ہی خاموش سا انداز ہے تمہارا

سمجھ نہیں آتا, فدا ہو جاؤں یا فنا ہو جاؤں

وہ مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

 تو زرمینے نے اسے دیکھا  جی 

میں جانتا ہوں کہ ہمارا نکاح جن حالات میں ہواہے آپ کو ایکسپٹ کرنے میں مشکل ہوگئی اس لئے ہی میں آپ کو اور اس رشتے کو سپیس دے رہا ہوں مگر اس یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گا 

آپ میری بیوی ہے ایک شاہ کی ملکیت ہے اور شاہ اپنی ملکیت کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے  اس لیے یہ بات آپ اپنے دل اور دماغ دونوں میں بیٹھ لیے کہ میں ہی آپ کا شوہر ہوں اور میں آپ کو مرتے دم رک نہیں چھوڑو گا 

ہاں میرے مرنے کے بعد آپ آزاد ہو سکتی ہیں اس سے پہلے نہیں  غزلان شاہ نے جنونیت سے کہا 

مگر سرکار زرتاشیہ بی بی ابھی زرمینے اپنی نات ملکمل کرتی کہ غزلان شاہ نے اس ٹوک دیا 

ہاں زرتاشیہ میری بچپن کی منگ ہے مگر میں ہمیشہ نکاح کے رشتے  محرم کو ہی چاہتا تھا اور سوچتا تھا 

زرتاشیہ میری منگ ضرور تھی مگر وہ میری محرم نہیں تھی اس لے مجھے اس کو سوچنے کا یا محبت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا 

اور آپ اب میری محرم میری بیوی ہے اور سے محبت کرنے کا حق ہے

عشق کے پانچ نکتوں سے بھاری ہے نکاح کے نون کا ايک نکتہ

 میرے پاس اور زرتاشیہ کو اس بچپن کے رشتے کے بارے میں کچھ نہیں پتا  اس لئے اس لا بھی دل نہیں ٹوٹا غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا تو زرمینے نے جھٹکے سے سر اٹھا کر حیرانگی سے اسے دیکھا  یہ دوسرا جھٹکا تھا کہ زرتاشیہ کو اس رشتے کے بارے میں کچھ نہیں پتا 

مطلب وہ اس کے بھائی کے ساتھ مخلص ہے  یہ سوچ آتے ہی زرمینے کو اچھا لگا کیونکہ اس نے اپنے بھائی کو اس کی جدائی میں روتے تڑپتے ہویے دیکھ ہے اب وہ اپنے بھائی کو خوش دیکھنا چاہتی ہے ہاں اس نے منگ والی بات بھی زریام کو اس لئے ہی بتائی تھی تاکہ وہ خود کو مینٹلی اس بات کے لیے تیار رکھے وہ اس کو بار بار ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی اس لئے ایک بار ہی ٹوٹ جائے ہی بہتر ہے  یہ زرمینے کا ماننا ہے مگر اب 

ابھی وہ انہیں سوچو میں گم تھی کہ غزلان شاہ نے اسے ہلایا تو وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آئی  میں کب سے آپ سے کچھ کہہ رہا ہوں اپ نے سناہے یا نہیں  

غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

تو زرمینے نے نفی میں گردن ہلائیاچھا آپ ان باتوں کو چھوڑے اور کل سے ہی نہیں آج سے ہی آپ نے اپنی بیوی ہونے کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے 

اپ آج رات کا کھانا میرے لئے خود بنائے گئی کیونکہ حویلی میں رواج ہے کہ تمام عورتیں اپنے شوہروں کے لیے خود کھانا بناتی ہے اور باقی سارے کام آپ کو اماں سائیں سمجھا دے گئی اور آج کے بعد آپ مجھے سرکار نہیں کہے گئی یہ مجھ صرف باہر کے لوگ ہی بلاتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ آپ مجھے اس نام سے پکارے  اب مجھے ایک ضروری میٹنگ میں جانا ہے 

غزلان شاہ یہ کہہ کر کھڑا ہو اور زرمینے کے سر پر ہاتھ رکھ کر چلاگیا  پیچھے زرمینے اس کی پشت کو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی اسے اب بھی اپنے سر پر غزلان شاہ کا لمس محسوس ہورہا تھا 

__________________

بھابھی سائیں لالہ چلے گئے ہیں آپ بھی خیالوں کی دنیا سے باہر آجائے 

مبشرہ نے زرمینے کے اگے چٹکی بجا کر شرارت سے کہا تو زرمینے  ہڑبڑ گئی 

وہ ہ ہ ہ ہ ہ  ممممممیں ہاں مممں تم سے ناراض ہو اس لئے مجھے بلائے مت زرمینے نے گڑبڑا کر کہا تو مبشرہ مسکردی 

ارے آپ کیوں ناراض ہے مجھے سے میں نے کیا کیا مبشرہ نے لہجے میں معصومیت سموتے ہوئے کہا تو زرمینے اس کے انداز پر مسکرادیآپ مجھے چھوڑے کر بھاگ گئی اور میری ساتھ کمرے میں بھی نہیں ائی آپ جانتی تھی نہ کہ کتنی نروس تھی مگر آپ میرے ساتھ نہیں ائی زرمینے نے شکوہ کناں لہجے میں کہا 

ارے اگر میں آپ کے ساتھ یہاں آجاتی تو صرف کباب میں ہڈی ہی ہوتی اور مجھے کوئی شوق نہیں ہے کباب میں ہڈی بننے کا اور اچھا ہی ہوا کہ میں نہیں ائی ورنہ آپ ایسے لالہ کی یاد میں گم کیسے ہوتی مبشرہ نے شرارت سے کہا تو زرمینے نے اسے گھورا تو وہ فورا سیدھی ہوئی اچھا لالہ کا حکم ہے کہ آپ کو حویلی دیکھائی جائے مبشرہ نے زرمینے کو کہا 

نہیں میں پہلے بھائی سے مل لوں اس کے بعد میں حویلی دیکھو گئی زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو مبشرہ اثبات میں سر ہلا کر چلی گئی پیچھے زرمینے بھی انیکسی کی طرف چلی گئیاسلام وعلیکم  برو زرمینے انیکسی میں داخل ہوکر سامنے بیٹھے زریام کو کہا جو اس وقت سنجیدگی سے لیپ ٹوپ پر کچھ کر رہا تھا 

وعلیکم السلام بیٹا آو بیٹھو  زریام نے لیپ ٹوپ رکھ کر کہا تو زرمینے آکر بیٹھ گئی 

زریام نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں کو جھکایا جو اس کے راتجگانے کی گواہی دے رہی ہیں

ایک غم ہوتا تو سینے سے لگا لیتا کوئی

غم کا انبار اٹھانے پہ نہ پہنچا آخر

برو زرتاشیہ کو اس رشتے کے بارے میں کچھ نہیں پتا  تھا 

زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زریام بولا بیٹا میاں اور بیوی کے رشتے کی بنیاد بھروسہ ہوتا ہے اور اس نے وہی میرا نہیں کیا اور میں نہیں چاہتا کہ آپ اس معاملے میں مجھے کچھ کہے زریام نے زرمینے کو کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا 

وہ برو اس آدمی نے کچھ بتایا زرمینے نےکہا  نہیں ابھی تک تو نہیں مگر اب میں جاو گا تو کچھ نا کچھ اگلا کر ہی آو گا تب تک آپ اس  ڈی کا پتا  لگائے کہ اس کا اس حویلی سے کیا تعلق ہے  زریام نے  زرمینے کو کہا 

تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا  جی برو میں کرتی ہوں کچھ 

اچھا اب میں چلتی ہوں زرمینے یہ کہہ کر حویلی کی طرف چلی گئی 

زرمینے نے مبشرہ کے ساتھ پوری حویلی دیکھ لی مگر اسے کسی بھی جگہیا چیز مشکوک نہیں لگی اب ان کا رخ دادو کے  کمرے کی طرف تھا 

بھابھی سائیں یہ میرے لالہ یعنی داود واصف شاہ کا کمرہ ہے آئے میں آپ کو اندر سے بھی دیکھ دوں 

مبشرہ نے زرمینے کو کہا 

اور دونوں دادو کے کمرے میں داخل ہوئی 

کمرہ بہت خوبصورت تھا مگر ایک چیزجو اسے بہت عجیب لگی وہ یہ تھی کہ اس کے کمرے میں ایک دیوار پر ایک نہیں بہت سی پینٹنگ لگی ہوئی تھی کہ اس پر ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں پینٹنگ نہ لگی ہو 

یہ کیا اتنی پینٹنگ اور وہ بھی ایک ہی دیوار پر  زرمینے نے کہا 

جی وہ لالہ کو پینٹنگ جمع کرنے کا بہت شوق ہے تو جہاں بھی ان کو کوئی پینٹنگ اچھی لگتی تو وہ لے آتے اور اس دیوار پر لگا دیتے 

مبشرہ نے تفصیل سے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا

اور اگے بڑھ کر ان پینٹنگ کو دیکھنے لگی  اس نے اس دیوار پر نوک کیا تو وہ اسے کھوکھلی لگی وہ حیران ہوئی 

اچھا تم ایسا کرو کہ میرے لئے باہر سے ٹھنڈا پانی لےآو پھر ہم اگے جاتے ہیں زرمینے نے مبشرہ کو وہاں سے بھیجا نے کےلئے بہانہ بنایا 

میں ابھی لے کر آتی ہوں تب تک آپ لالہ کا کمرہ دیکھ لے 

مبشرہ نے معصومیت سے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا 

مبشرہ کے جانے کے بعد زرمینے اس دیوار کے پاس گئی اور اسے غور کر دیکھنے لگی اس دیوار کے پیچھے یا تو کوئی خفیہ روم یا کوئی درواز ہے 

اس نے نیچے سے دیکھ تو ایسا  لگا کہ دیوار اس جگہ سے ہلی ہوئی ہےمطلب کچھ تو ایسا ہے اس کمرے میں جس سے یہ دیوار کھسک سکتی ہے 

وہ آس پاس ایسی کوئی چیز دیکھنے لگی جس سے دیوار کھسک جائے مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا 

پھر وہ دیوار میں لگیپینٹنگ کو دیکھنے لگی جب اس کی مظر ایک پینٹنگ جس میں ایک کمرے کا منظر پیش کیا ہے  ایک لڑکی ایک بچہ کو پکڑے کھڑی ہے اور وہ سامنے کی طرف دیکھ رہی  اسے وہ پینٹنگ ادھوری لگی تب ہی اس کا دھیان اس سے تھوڑا دور ایک دوسری پینٹنگ پر جاتا جس میں ایک دروازے کے ساتھ ایک لڑکا کھڑا مسکرا رہا ہے 

اس نے ان دونوں پینٹنگ کو ایک دوسرے کے قریب کیا اور ان کو ایک ساتھ جوڑ دیا تو وہ دیوار اپنی جگہ سے کھسک گئی اس سے پہلے کہ زرمینے اندر جاکر  دیکھتی کہ تب ہی اسے قدموں کی چاپ سنائی دی تو اس نے جلدی سے ان پینٹنگ کو الگ کیا تو دیوار واپس اپنی نارمل حالت میں اگئی 

یہ لے پانی اور آپ کو تائی سائیں بلا رہی ہیں مبشرہ نے زرمینے کو پانی دینے کے ساتھ نوشین بیگم کا پیغام دیا 

زرمینے نے پانی پکڑ کر پیا 

چلو چلتے ہیں تمہارے لالہ کا کمرہ بہت ہی خوبصورت ہے اور یہ پینٹنگ بھی 

زرمینے نے مبشرہ کو کہا اور وہاں سے مبشرہ کے ساتھ نوشین بیگم کے کمرےکی طرف چلی گئی 

‏اپنے بغیر میں شاید رہ بھی لوں مگر

تیرے بغیر میرا گزارا نہیں ہے جاناں 

تیری  آواز  میسر  جو  نہیں  ہفتوں  سے

 میرے  کانوں  پہ بڑا  قحط پڑا  ہے  جاناں

دل کے کمرے کو سہولت تھی ترے ہونے سے 

 تو نہیں  ہے  تو سبھی تہس  نہس پڑا  ہے  جاناں

_______________

زریامجو اس وقت  اس شخص کے پاس تھا جسے انہوں نے اس دن کلب سے لے کر ائے تھے 

بولو تمھارا بوس کون ہے تم کس کے لئے کام کرتے ہوئے ورنہ یہ چاقو تمہاری آنکھ میں جائے گا 

زریام نے  گرم چاقو اس شخص کو دیکھتے ہوئے کہا تو اس شخص کی آنکھوں میں خوف اتر کیونکہ پچھلے کچھ دنوں سے وہ یہی ہے اور یہ لوگ جو کہتے وہ ضرو کرتے اب بھی زریام نے کہہ ہے اگر وہ اس کو اپنے بوس کے بارے میں نہیں بتاتا تو وہ واقع ہی گرم چاقو اس کی آنکھوں میں مار دیتا 

مجھے سچ میں کچھ نہیں پتا وہ جب بھی ہم سے ملتا تو وہ چہرہ چھپائے رکھتا 

ہمارا کام بھولی بھالی لڑکیوں کو یا تو پیارا کے جھانسے میں یا ویسے ہی کڈنیپ کر کے ڈی کے اڈے پر پہچنا ہےاور اس کے بعد وہاں سے جہاں وہ کہتا وہاں  ڈلیور کردینی ہے کچھ کو تو وہ دوسرے ممالک بھیجا دیتا تو کچھ کو یپی بیچ دیتا ہے 

اس نے خوف سے فر فر کہا تو یہ سب سن کر زریام کی آنکھوں میں خون اترا 

کب اور کہاں ملے گا مجھے یہ ڈی زریام نے سنجیدگی سے کہا تو 

وہ آپ لوگوں کو آج رات کو مل سکتا ہے کیونکہ آج ہم لوگوں نے تیس لڑکیاں دوسرے ملک بیجھنی ہے 

تو وہ وہاں ہی ہوگا اس شخص نے کہا تو

کہاں سے لے کر جانی ہے  زریام  نے اسے سے پوچھا

سمندر کے راستے مطلب سمندری جہاز  کے ذریعے  بیجھنا ہے یہ کہہ کر وہ شخص نے ہوش ہو گا 

پچھلے کچھ دنوں سے اسے ذہنی اور جسمانی دونوں طریقوں سے بہت ٹاچر کیا گیا تھااور کھانے بھی صرف زندہ رہنے کے لئے جتنا دیتے کہ وہ زندہ رہے اس وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا 

افسر آپ انہیں  کھانا کھلائے کیونک ابھی ہمیں اس کی ضرورت ہے  اور آج رات کے لئے پوری ٹیم کو بلا لے کیونکہ ہمیں آج ہی ان لڑکیوں کو چھڑانا ہوگا 

ایک بار اگر وہ ان کو دوسرے ملک لے جانے میں کامیاب ہو گئے تو ان لڑکیوں کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہوجائے گا 

زریام نے دوسرے افسر سے کہا تو جی سر کہہ کر کھانا لینے چلا گیا 

زریام بھی زرمینے اور حمزہ کو بتانے کے لئے حویلی کی طرف چلا گیا 

آؤ بارشوں کے  اس موسم میں 🔥

چاۓ میں چاہ مِلا کر پیتے ہیں ☕

____________

اج صبح سے ہی غزلان شاہ  کام میں بہت مصروف تھا اب بھی وہ ایک میٹنگ اٹینڈ کر کے اپنے آفس میں ایا ہی تھا کہ خادم ایا 

وہ سرکار کچھ لوگ ائے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک ہسپتال میں ان کا علاج کرنے سے منع کر دیا کیونکہ وہ غریب ہے اور ان کے ہسپتال کی فیس بھر نہیں سکتے مگر وہ ایک سرکاری ہسپتال ہے اعر انہیں دھکے مارا کر باہر نکل دیا 

خادم نے ایک ہی سانس میں کہا 

غزلان شاہ جو کرسی سے سر رکھے پرسکون انداز میں بیٹھ تھی اس کی بات سن کر جھٹکے سے اٹھ  اس ہسپتال  کی پہلے بھی بہت سی شکایت ملی تھی مجھے مگر میں یہاں مصروف تھا مگر اب یہ لوگ اپنی حد پار کر چکے ہیں چلو غزلان شاہ نے غصے سے کہا 

اور پھر تھوڑیمیں وہ اس ہسپتال کے سامنے کھڑے تھے 

سب کچھ جیسا میں نے کہا ہے ویسا ہی ہقنا چاہیے غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا تو خادم نے اثبات میں سر ہلایا 

اسوقت خادم کسی بوڑھا غریب آدمی کے لباس میں تھا اوپر سے سفید بال اور ڈاڑھی بھی لگائی ہوئی ہے اور ایک گارڈ جو شاید اس کا بیٹا بنا ہو ہے اس ہسپتال میں داخل ہوئے 

ڈاکٹر صاحب  ڈاکٹر صاحب  میرے والد بہت بیمار ہے آپ اس کا علاج کردے وہ لڑکا سامنے کھڑے ڈاکٹر سے بولا تو اس ڈاکٹر نے ایک ناگوار نظر اس کے کپڑوں پر ڈالی  

جاو یہاں کوئی علاج نہیں ہوتا پتا نہیں کہاں کہاں سے اٹھ کر غریب لوگوں آجاتے ہیں جب فیس دینے کے لئے پیسے نہیں ہے تو کیوں آتے ہیں دفع ہوجاو 

ڈاکٹر نے کہا تو اس لڑکے پھر سے اس ڈاکٹر کے اگے ہاتھ جوڑے ڈاکٹر صاحب میرے باپ کو بچالوں  میرا ان کے سوا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں  اس لڑکے نے کہا 

گارڈ گارڈ ان دونوں کو دھکے مار کر نکلا دوں تو گارڈ نے اگے بھر کر ان دونوں کو باہر نکالا وہ لڑکا منتیں کرنے لگا کہ تب ہی غزلان شاہ اندر آئے 

یہ کیا ہو رہا ہے تم لوگ یہاں آئے ہوئے مریضوںکے ساتھ ایسا بہیور رکھتے ہوں سید غزلان شاہ دھاڑا تو تمام ڈاکٹر ڈر گے تب ہی وہی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے خادم کویہاں سے نکالنے کا کہہ رہا تھا اگے ایا سرکار ابھی اس نے یہی کہا تھا کہ تم اور اس ہسپتال کا سارا سٹاف فارغ ہوں یہ ہسپتال غریب لوگوں کی مدد کے لیے ہے ناکہ تم لوگ کے لے خادم ان سب کو یہاں سے فارغ کردوں اور یہاں نیا سٹاف رکھو یہ کہہ کر غزلان شاہ لمبے لمبے ڈگے بھرتے وہاں سے چلا گیا پیچھے وہ سب ان کی منتیں کرنے لگے 

زرمینے صبح سے نوشین بیگم کے پاس بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھی جو کہ اس حویلی کے اصولوں اور رواجوں کے بارے میں بتا رہی تھی کہ تب ہی اسے اپنی سکریٹ پاکٹ میں پڑے موبائل پر مخصوس رنگ ہوئی  جو کہ اسے بولنے کا اشارہ تھا 

وہ بی بی سرکار میں جاو جی زرمینے جلدی سے نوشین بیگم سے اجازت مانگی چلی جاو مگر مجھے آئندہ بی بی سرکار مت کہنا حویلی میں  سب مجھے اماں سائیں کہتے ہیں صرف غزلان ہی مجھے موم کہتا ہے اس لیے تم بھی مجھے اماں سائیں ہی کہنا نوشین بیگم نے رعب دار آواز میں کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی 

ہاں نوشین بیگم نے زرمینے کو ابھی تک اپنی بہو نہیں مانا مگر وہ اپنے بیٹے کو بھی اچھی طرح جانتی تھیں اگر وہ اسے سب کے سامنے اس کا حق دے رہا ہے تو وہ اسے اپنی بیوی مان چکا ہے اس لئے انہیں زرمینے کو ہر حال میں اپنی بہو ماننی پڑے گی  اس لئے وہ کوشش کر رہی ہیں 

_______________

زرمینے جلدی سے حویلی کے بیک سائیڈ پر ائی جہاں پہلے ہی زریام کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا 

کیا ہوا ہے برو آپ نے اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زریام نے زرمینے کو دیکھا 

دو منٹ روکو ابھی حمزہ اجائے گا تو بتا تا ہوں زریام نے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا اور وہی کھڑی ہوگئی 

کہ تب ہی اسے حمزہ عجلت میں آتا دکھائی دیا 

کیا ہوا ہے برو آپ نے اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا ہے  حمزہ نے بھی زرمینے والا سوال دوہرایا 

میں اس شخص کے پاس گیا تھا تاکہ میں ڈی کے متعلق معلومات حاصل کر سکوں مگر وہاں مجھے پتا چلا کہ آج رات تیس لڑکیوں کو دوسرے ملک لے جانے والے ہیں اور اس شخص کو ڈی کے بارےمیں کچھ نہیں پتا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ڈی ان سے ملتا تو وہ چہرہ چھپائے رکھتا اور آواز بھی بدل کر بات کرتا 

زریام نے تفصیل سے کہا تو زرمینے اور حمزہ نے  اس کو دیکھ 

برو اس کا مطلب ہمیں آج رات ہر حال میں  ان لڑکیوں کو  دوسرے ملک لے جانے سے روکنا ہے  آپ کو پتا ہے کہ وہ کس راستے لے جانے والے ہیں ان لڑکیوں کو  زرمینے نے سنجیدگی سے پوچھا  

ہاں وہ سمندر کے راستے لے جانے والے ہیں 

ٹھیک ہے برو تو آج رات اس میشن پر جانا ہے آپ ایسا کریں کہ ٹیم کو الرٹ کر دے ہم رات کو ان پر حملہ کریں گے مگر اس سے پہلے ہمیں اپنے کچھ افسر کو وہاں بھجنا پڑے گا تاکہ وہ وہاں کی صورتحال جان کر ہمیں آگاہ کردے اور آپ لوگ جلدی چلے جائے گا میں بعد میں آو گئی زرمینے نے کہا تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا 

اچھا تم موم کا فون کیوں نہیں اٹھا رہی تم جانتی ہو نا کہ موم کےلئے تم آوٹ آف کنٹری ہوں وہ کتنی پریشان ہے تمھارے لیے  حمزہ نے بات بدلتے ہوئے کہا تو زرمینے نے سر پر ہاتھ مارا میں تو بھول ہی گئی تھی میں موم سے بات کو لوں گئی اب میں چلتی ہوں اس سے پہلے کہ کوئی ہمیں یہاں دیکھا نہ لے زرمینے نے کہا تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا 

اور پھر وہ تینوں وہاں سے چلے گیں 

_____________

زرمینے اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی کہ نوشین بیگم نے اسے بلایا 

شام ہونے والی ہے پہلے شاہ کے لئےاچار گوشت بنا اس کے بعد اس کے کپڑے اس کے کمرے میں بیڈ پر رکھ کر آیا اج سے یہ سارے کام تم نے ہی کرنے ہیں اور شاہ کھانا کھانے کے آدھے گھنٹے کے بعد چائے پیتا ہے تو وہ بھی دے آنا اور جب ائے تو اسے پانی دینا سب سے پہلے  نوشین بیگم نے اسے سمجھتے ہوئے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا اور کچن کی طرف کھانا بنانے چلی گئی جہاں اسوقت گھر کی تمام عورتیں کھانا بنانے کی تیاری کر رہی ہیں 

اسلام وعلیکم  زرمینے نے سب کو سلام کیا 

تو نجمہ بیگم نے  حقارت سے اسے دیکھ وہی کوثر بیگم کی آنکھوں میں ناپسندیدگی آئی 

جسے زرمینے نے بہت ضبط سے محسوس کیا 

ہاں زرمینے کی وہ اصل ماں تھی اور زرمینے کو اس سے ظاہر سی بات ہے لگاو تو ہوگا 

مگر اسے صوفیہ بیگم بھی بہت عزیز ہے اور وہ تو اسے ماں سے بڑھ کر ہے اس کے لئے مگر کہتے ہیں نہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے اور جب سے زرمینے کو معلوم ہوا ہے کہ کوثر بیگم اس کی اصل ماں ہے تو تب سے ایک نرم گوشہ اس کے دل میں اکوثر بیگم کے لئے ہوگیا کیونکہ ان سب میں ان کا تو کوئی قصور نہیں ہے تو وہ ان سے بلا وجہ کیوں نفرت کریں ہاں اسے اس شخص سے نفرت تھی مگر 

وہ اپنے سارے خیالات کو جھٹک کر اندر کچن میں ائی اور مدیحہ کو دیکھ جو اسے ہی مسکرا کر دیکھ رہی ہے 

وہ مجھے میٹ ملے گا میں نے اچار گوشت بنانا ہے زرمینے نے مدیحہ سے کہا تو مدیحہ نے اگے بڑھ کر زرمینے کو فریج سے گوشت نکال کر دیا اور ساتھ میں پیاز اور باقی چیزیں بھی دی 

آپ کو پتا ہے کہ لالہ کو اچار گوشت بہت پسند ہے اور وہ بہت شوق سے کھاتے ہیں وہ اماں سائیں  سے فرمائش کر کے بنواتے  ہیں مدیحہ نے مسکر کر کہا 

نہیں مجھے نہیں پتا تھا وہ تو مجھے اماں سائیں نے بنا نے کو کہا ہے زرمینے نے کہا تو مدیحہ مسکرائی 

اس کا مطلب اماں سائیں نے تمہیں اپنی بہو مان لیا ہے مدیحہ نے کہاپتا نہیں کیوں  زرمینے نے سادہ لہجے میں کہا  کیونکہ تائی امی کو اماں سائیں صرف وہ لوگ ہی بولتے ہیں جنہیں وہ اپنا مانتی ہیں اور تمہیں تو انہوں نے خود سردار لالہ کی پسند کے بارے میں بتایا تو اس کا مطلب وہ تمہیں اپنی بہو مان چکی ہے مدیحہ نے کہا تو زرمینے پریشان ہو ئی وہ یہاں ان سب کے لئےتو نہیں آئی مگر پھر سر جھٹک کہ کھانا بنانے لگی  اچار گوشت بنانے کے بعد وہ کچن سے باہر چلی گئی کیونکہ چپاتی اسے غزلان شاہ کے آنے کے بعد بنانی تھی اور وہاں کچن میں کوثر بیگم کے رویہ سے بھی سے تکلیف ہوئی تھی اس لئے ان کی نظروں سے دور جانا چاہتی تھی جلد سے جلد وہ سیدھا غزلان شاہ کے کمرے کی طرف گئی اور اس کے وارڈب میںسے ایک بلیک رنگ کی پینٹ آور شرٹ نکال کر بیڈ پر رکھ دی اور خود اپنے کمرے کی طرف چلی گئی 

کمرے میں آکر سب سے پہلے فریش ہوئی اور آئنیہ کے سامنے اپنے لمبے بالوں کو سلجھانے بیٹھ گئی مگر اس کی سوچوں کا مرکز سید غزلان شاہ تھا 

اگر غزلان شاہ نے مجھے اپنی بیوی مان لیا ہے اور گھر میں بھی میرا مقام مجھے دلا دیا ہے تو اگر اسے میرےبارے میں پتا چلا تو کیا کریں گا 

نہیں مجھے اس سے دور رہنا ہوگا ورنہ بہت برا ہوگا 

ابھی زرمینے انہیں سوچو میں گم تھی کہ مبشرہ وہاں آگئی  وہ آپ کو سردار لالہ بلا رہے ہیں اس نے غزلان شاہ کا پیغام دیا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا اور زرمینے نے جلدی سے اپنے  بالوں کو سمیٹا اور باہر کی طرف چل دیاسلام وعلیکم  سائیں زرمینے نے غزلان شاہ کو دیکھ کر  سلقم کیا جو نوشین بیگم کے ساتھ اس وقت لاونج میں بیٹھ  ہے 

اس کی آواز پر غزلان شاہ نے اسے دیکھا جو اس وقت  گرین کلر کے سوٹ میں اور ساتھ چادر لی ہوئی ہے بہت پیاری لگ رہی ہیں 

کہ اس کا دل بے اختیار دھڑکامگر پھر جلدی سے نظر پھرلی کہ کہی اس کی چوری پکڑی نہ جائے مگر نوشین بیگم نے اسے  زرمینے کو دیکھتے ہوئے اور پھر نظر پھرتے ہوئے دیکھ کر مسکرائی 

وہ سائیں آپ نے مجھے بلایا زرمینے نے اس کی نظروں سے کنفیوز ہو کر کہا 

ہہاں وہ میرے لئے چائے بنادوں غزلان شاہ نے گڑبڑ کر کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا اور کچن کی طرف جانے لگی 

اچھا مام میں بھی فریش ہوجاو 

غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

اج جب وہ حویلی آیا  تو  اس کو بہت تھکن اور عجیب سی بے چینی تھی اس کی شدت سے خواہش تھی کہ زرمینے سامنے ہی ہوں مگر جب وہ اسے کہی بھی دکھائی نہیں دی تو مبشرہ کو اسے بلانے کے لئے بیجھا دیا پھر جب وہ سامنے آئی تو ایسا لگا کہ ساری تھکن اترا گئی بےچینی کہی دور ہوگئ مگر جب اس نے کام کا پوچھا تو گڑبڑا گیا  اس لئے چائے کا کہہ دیا 

________________

یا اللہ ان لوگوں نے مجھے بہو کی جگہ ملازمہ تو نہیں سمجھ لیا ہے اس گھر میں اتنی ملازمین ہے مگر پھر بھی چائے بنوانے کےلئے مجھے ہی بلایا زرمینے چائے بناتے ہوئے مسلسل بڑبڑا رہی تھی پھر چائے بناکر کپ میں انڈیل کر لاونج میں لے کر آئی مگر وہاں غزلان شاہ نہیں تھا 

اماں سائیں وہ سائیں کہاں چلے گئے  زرمینے نے نوشین بیگم سے پوچھا 

وہ اپنے کمرے میں فریش ہونے چلا گیا ہے تو تم چایے اسے کمرے میں دے آو 

نوشین بیگم نے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا اور غزلان شاہ کے کمرے کی طرف چل دیاس نے کمرہ نوک کیا مگر اگے سے کوئی جواب نہیں آیا اس نے پھر سے کیا مگر جواب نادر ےو کمرے کے اندر چلی گئی مگر سارا کمرہ خالی تھا اور واشروم سے پانی گرنے۔کی آواز آرہی تھی اس نے جلدی سے چائے ٹیبل پر رکھی اور باہر کی طرف دوڑ لگادی لاونج میں جاکر سانس لیا 

شکرہے میں بچ گئی  زرمینے نے شکریہ ادا کیا زرمینے نے ٹائم دیکھ تو گھڑی  رات کے سات بتارہی تھی وہ کچن میں گئی اور روٹیاں پکا لگی روٹیاں پکا نے کے بعد اس نے ایک باول میں گوشت نکالا اور روٹیاں رکھی اور انیکسی کی طرف چلی گئی اور ان دونوں کو کھانا دیا اچھا کھانا کھا کر  تم دونوں چلے جانا اور ٹیم کو الرٹ کرنا میں وہی   ملوں گئی زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا اور کھانا کھانے لگے اور زرمینے بھی واپس حویلی اگئی _____________

غزلان شاہ  فریش ہوکر نکلا تو سامنے چائے دیکھ کر حیران ہو کیونکہ یہاں صرف چائے تھی مگر چائے لانے والی نہیں تھی پھر کچھ سوچ کر مسکرا دیا 

تو خانم آپ ہم سے بھاگ رہی ہیں مگر ہم سے بھاگنا آسان نہیں ہے  آپ جتنا مرضی بھاگ لے مگر آنا میرے پاس ہی ہے کیونکہ آپ کے سارے راستے اب سید غزلان شاہ سے شروع ہو کر سید غزلان شاہ پر ہی ختم ہوتے ہیں غزلان شاہ مسکراکر سوچا

مانتا ہوں تجھے عشق نہیں مجھ سے لیکن 

اس وہم سے اب کون نکالے مجھ کو ۔!!

سر کی کھائی ہوئی قسموں سے مکرنے والے

تو تو دیتا تھا حدیثوں کے حوالے مجھ کو ۔!!

______________

حمزہ چلا گیا تھا پیچھے زریام کو کچھ وقت بعد نکلنا تھا کیونکہ اگر وہ ایک ساتھ نکلتے تو انہیں شک ہوجاتا اس لے الگ الگ نکلے 

زریام  جیسے ہی باہر نکلا اس کی نظر لان میں ٹہلتی زرتاشیہ پر پڑی اور عین اسی وقت زرتاشیہ نے بھی زریام کی طرف دیکھا  اس کی آنکھوں میں ویرانی دیکھ کر زریام کے دل کو کچھ ہوا مگر وہ نظر انداز کر تے ہو اگے بڑھنے لگا کہ زرتاشیہ جلدی سے زریام کے سامنے ائی 

خان میری بات سن لے زرتاشیہ نے منت بھرے لہجے میں کہا 

مگر زریام وہاں سے جانے لگا 

پلیز خان مجھے معاف کردے میں سب پہلے جیسا کر دوں گئی زرتاشیہ نے کہا تو زریام نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھ جو تمسخرانہ مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہا ہے  او تو آپ سب ٹھیک کردے گئی زریام نے سرد مہری سے کہا تو زرتاشیہ نے اثبات میں سر ہلایا 

اچھا زریام نے پاس پڑے گملے جس میں ابھی کوئی بھی پودہ نہیں لگا تھا اسے اٹھایا اور نیچے پھینک دیا  تو وہ کرچی کرچی ہوگیا اس کے گملے پھنکنے پر زرتاشیہ دوقدم پیچھے ہوئی اور سہمی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی 

تمہیں پتا ہے یہ جو گملہ تھا یہ میرا بھروسہ میرا مان تھا جو تم پر تھا مگر اسے تم۔نے اس طرح توڑ دیا اب اگر تماسے جوڑ سکتی ہوں تو جوڑ لوں زریام یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا پیچھے زرتاشیہ روتے ہوئے ان کرچیوں کو جھوڑنے کی کوشش کرنے لگی مگر نہیں جڑی

وہ ایسا تو نہیں تھا کہ مجھے یکسر بھلا ڈالے

ناجانے اس پہ کیا گزری پلٹ کے ہی نہیں آیا

اس نے تمہیں ایک نہیں امید دی ہے تو رو مت کیا ہوا اگر یہ گملہ ٹوٹ گیا مگر اس کی جگہ نیا گملہ بھی تو آسکتا ہے اسی طرح اگر اس کا بھروسہ ٹوٹ گیا ہے تو تم نئے سرے سے اس کا بھروسہ جیتو زرمینے نے روتی ہوئی زرتاشیہ سے کہا تو اس کی سر اٹھا کر حیرانگی سے اسے دیکھا مگر پھر بولی تو لہجہ ٹوٹا ہوا تھا  مگر میں نے پہلے گملے کو اپنی بیوقوفی سے توڑ دیا ہے 

زرتاشیہ نے کہا تو زرمینے مسکرائی تو کیا ہوا نیا گملہ آجائے گااور اسے اٹھا کر کھڑا کیا تمہیں معلوم ہے میں نے اس کی آنکھوں میں تمہارے لئے محبت نہیں محبت سے بھی اگے عشق دیکھ ہے اس لیے ہار مت مانو  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زرتاشیہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا  کیا سچ میں 

ہاں  وہ خود کو ایک خول میں قید کیا ہوا ہے مگر اس کی آنکھیں اس کے اندر کا حال بیان کر دیتی ہیں زرمینے نے کہا 

تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے جس سے وہ پہلے کی طرح ہوجائے 

زرتاشیہ نے پریشانی سے کہا تو زرمینے مسکرائی 

اب سب کچھ میں ہی بتاو تو تم کیا کرو گئی زرمینے کندھے اچکا کر کہا تو زرتاشیہ نے رونی سی شکل بنائی جس پر زرمینے کا قہقہہ بے ساخت تھا 

ہا ہا ہا ہا ہا ہا  یار تمہاری شکل کتنی فنی لگ رہی ہے ہا ہا ہا ہا  زرمینے ہنستے ہوئے بامشکل کہا 

تو زرتاشیہ نے ناراضگی سے اسے دیکھا  

تم ہنسنا بند کرو میں یہاں اتنی ٹینشن میں ہوں اور تمہاری ہنس ہی نہیں رک رہی زرتاشیہ نے ناراضگی سے کہا تو زرمینے نے اسے دیکھا اور اپنی ہنس روکنے کی ناکام کوشش کی مگر ہنسی نہ روکی جس پر زرتاشیہ پاوں پھٹک کر وہاں سے چلی گئی 

اور زرمینے کا ایک بار پھر قہقہہ بلند ہوا 

غزلان شاہ  جو اپنے کمرے سے باہر آرہا تھا سامنے اپنی بیوی کو قہقہہ 

لگاتے اور زرتاشیہ کو  ناراض دیکھ کر حیران ہوا  اس کی تو نظر ہی زرمینے سے ہٹنے سے انکاری تھی کیونکہ اس کے ہنستے ہوئے ڈمپلز واضح ہوئے جو اس کے حسن پر چار چاند لگا رہے ہیں اس وقت اسے یہ دنیا کا سب سے حسین منظر لگا مگر زرتاشیہ کے جانے اور پھر سے زرمینے کے ہنسنے سے وہ تجسس کا شکار ہوکر اس کی طرف بڑھ

وہ مسکرائے تو ہم اپنے ہوش گنوا بیٹھے ⁦

ہم ہوش میں آنے کو تھے وہ پھر مسکرا  بیٹھے 

ہممممم کیا بات ہے خانم

غزلان شاہ نے اپنی ساحرانہ آواز میں کہا تو زرمینے چونکی اور اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ سنجیدگی نے لے لی 

کچھ نہیں سائیں زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو غزلان شاہ جو اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا اس نے اس کا سنجیدہ ہونا بہت شدت سے نوٹ کیا 

اچھا ہم نے سنا ہے کہ آپ نے ہمارے لئے کھانا بنایا ہے غزلان شاہ اس سے مزید بات کرنے کے لئے کہا ورنہ اس نے خود ہی کہا تھا 

جی سائیں یک لفظی جواب 

تو آپ نے کیا بنایا ہے غزلان شاہ نے اپنی بات  جاری رکھی 

اچار گوشت  پھر سے یک لفظی جواب دیا 

ٹھیک ہے آپ کھانا لگائے ہمیں بھوک لگی ہے غزلان شاہ نے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایااور کچن کی طرف چل دی پیچھے غزلان شاہ  پر سوچ نظروں سے اس کی پشت کو دیکھ  

کچھ تو ہے غزلان شاہ نے کہا اور اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا  

______________

زرمینے اور ملازمہ نے مل کر کھانا ڈائننگ ٹیبل پر لگایا   

جاو نورے سب کو بلا لوں کہ کھانا لگ گیا ہے اور سائیں کو بھی زرمینے نے کھانا لگاتے ہوئے نوری کو کہا تو وہ سب کو بلانے چلی گئی 

تھوڑی دیر کے بعد سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کھانا کھانے لگے

واہ آج اچار گوشت کس نے بنائے اتنا مزے کا بنا ہے اور ذائقہ آپ کے ہاتھ کا بھی نہیں ہے بیگم احمد شاہ نے کھانا کھاتئ ہوئے نوشین بیگم سے پوچھاجی سائیں یہ ہم نے نہیں آپ کی بہو نے بنایا ہے نوشین بیگم نے کہا تو احمد شاہ نے زرمینے کو دیکھ جو نظریں جھکا کر بیٹھی ہوئی ہے 

اچھا بنا ہے احمد شاہ نے کہا تو زرمینے نے حیرانگی سے انہیں دیکھا جو اب دوبار کھانا کھانے لگے 

پھر خود بھی کھانا کھانے لگی کھانا کھانے کے بعد زرمینے جانے لگی 

روکو بیٹا ادھر آو نوشین بیگم نے کہا تو زرمینے ان کے پاس گئی 

یہ لو کنگن یہ ہمارے خاندانی کنگن ہے جب ہم نے پہلی بار کھانا بنایا تھا تو ہماری ساس نے ہمیں دے تھے اور اج ہم آپنی بہو کو دے رہی ہیں

 نوشین بیگم نے زرمینے کو کہا تو زرمینے کے چہرے پر سیاہ آیا 

وہ تو ٹھیک ہے اماں سائیں مگر مام کہتی ہیں کہ زرمینے کو اتنی قیمتی چیزیں مت دے اس سے سنبھال نہیں ہوتی مجھے سے چیزیں گم ہوجاتی ہیں اس لیے  وہ ہمیشہ میری چیزوں کو سنبھال لیتی ہیں تو آپ انہیں زرمینے  رونی میں کہتے ہوئے روکی 

اسے اب احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ گئی وہ تو بس یہ کنگن  نہ لینے ہی وجہ سے کہہ رہی تھی مگر بغیر سوچے 

اس کے اس طرح معصومیت سے بولنے اور پھر چپ ہونے کا نوشین بیگم نے  سمجھ کہ وہ اپنی ماں کو یاد کر رہی ہے 

انہوں نے زرمینے کو دیکھ جو اب زمین کو گھور رہی ہے جیسے ساری غلطی ہی اس  زمین کی ہوں  

تو کیا ہوا ہے اگر آپ کی ماں نہیں ہے میں بھی تو آپ کی ماں کی ہوں مھر ساس ماں اور ساس ماں بھی ماں ہی ہوتی ہے اور میں تمہیں یہ دے رہی ہوں تو تم اسے رکھو  نوشین بیگم نے نرم لہجے میں کہا 

تو زرمینے نے سر اٹھا کر حیرانگی سے اسے دیکھاابھی آپ نے کہا ہے کہ آپ میری ماں جیسی ہوں تو آپ یہ کنگن رکھے کیونکہ اگر یہاں میری ماں ہوتی تو میں انہیں ہی دیتی اور اسے آب آپ ہی رکھے اور وقت آنے پر اسے اسکے حق دار کو دے دینا زرمینے نے پہلی بات انہیں کہی مگر دوسری اپنے دل میں کہی 

ٹھیک ہے اسے میں رکھ لیتی ہوں مگر یہ کچھ پیسے تم لے لوں شگن سمجھ کر 

نوشین بیگم نے مسکرا کر کہا تو زرمینے نے ان سے وہ پیسے لے لیں اور ان کی طرف دیکھ کر مسکرائی  

مسکراتی رہا کرو اچھی لگتی ہوں نوشین بیگم نے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا

ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا

دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

بیگم یہ میری طرف سے اسے دے دیں مگر میں یہ اس کو اس کھانے کے لئے دے رہا ہوں نہ کہ اس حویلی کی بہو ہونے کے لئے کیونکہ میں اس لڑکی کو اپنی بہو نہیں مانتا 

احمد شاہ نے کچھ رقم نوشین بیگم کو دے کر کہا تو زرمینے کی آنکھیں چمکی یہ سن کر کہ وہ اسے بہو نہیں مانتےاور وہی غزلان شاہ  جو تب سے اسے ہی دیکھا رہا تھا  اور اس کے تاثرات جانچنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہاں سپاٹ تاثرات ہی دیکھنے کو ملے مگر احمد شاہ کی بات پر ائی چمک انہیں الجھا گئی 

آہستہ آہستہ سے وہاں سے چلا گئے اب صرف غزلان شاہ اور زرمینے ہی بیٹھے تھے 

غزلان شاہ نے ابھی تک اس کے کھانے کی تعرف نہیں کی 

مگر زرمینے لاشعوری طور پر اس کی  تعریف کی منتظر تھی 

آپ چائے لے کر لان میں اجائے غزلان شاہ نے زرمینے کو کہا 

تو زرمینے نے منہ بنایا  

جی سائیں  کہہ کر کچن میں چائے بنانے چلی گئی  

غزلان شاہ نے اس کے منہ بنانے پر بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ روکی اور اس کے جانے کہ بعد مسکرا کہ باہر لان کی طرف چلا گیا

_______________

چائے زرمینے چائے بنا کر لان میں اسے دینے کے لئے کہا تو غزلان شاہ نے اس کے ہاتھ سے اپنا کپ پکڑا لیا 

تو زرمینے بھی اپنے کپ میں سے اہستہ اہستہ چائے پینے لگی دونوں کے درمیان خاموشی تھی 

کھانا اچھا  بنایا تھا اخر غزلان شاہ نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا تو زرمینے نے اسے دیکھ

شکریہ  ایک  لفظی جواب 

یہ میں نے آپ کے لئے منگوایا تھا غزلان شاہ نے ایک خوبصورت بریسلٹ زرمینے کو دیتے ہوئے کہا تو زرمینے نے حیرت سے پہلے بریسلیٹ کو دیکھ پھر غزلان شاہ کو جو اس وقت آنکھوں میں جنونیت محبت اور کوئی اور جزبہ لے کر اسے ہی دیکھ رہا ہے 

وہ ڈر گئی  اس کی آنکھوں میں نظر اتے جذبات سے 

سائیں اگر کسی سے ہمدرد کا رشتس ہو تو اسے ہمدردی کا ہی رکھنا چاہیے  آپ خن راہوں کے مسافر بن رہے ہیں ان میں صرف تکلیف ہی ہے اب بھی وقت ہے قدم پیچھے لے لیں زرمینے نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے اندر کی طرف چل دی 

پیچھے غزلان شاہ  اپنے ہاتھ میں پکڑے بریسلیٹ کو دیکھ کر پھر اس کی باتوں کو سوچ کر حیران ہوا کیونکہ اسے اس کی کوئی بھی بات سمجھ نہیں آئی تھی مگر اس کا تحفہ قبول نہ کرنا اسے غصہ دلا گیا مگر ضبط کرتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا  

وہ اس وقت بہت الجھ گیا تھا کچھ اس کی باتوں کی وجہ سے اور کچھ اس کے رویہ کی وجہ سے مگر پھر سر جھٹک کہ وہ سونے کے لئے لیٹ گیا 

ﻧﮩﻴﮟ ﺑﮭﻴﺠﺘﺎ ﻣﻴﮟ ﺍﻥ ﻛﻮ ﻏﺰﻝ ﺟﻦ ﻛﻮ ﺷﻌﻮﺭ ﻋﺸﻖ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﻛﮩﻴﮟ ﻛﻮﺋﻰ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﻣﻴﺮﻯ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮧ ﻛﺮ ﺑﻴﭩﮭﮯ

_______________

زرمینے کمرے میں ائی تو اسے زریام کا فون آیاکب تک ارہی ہوں ہم جارہے ہیں تو جلدی سے نکلو زریام نے کہا 

آرہی ہوں زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زریام نے فون رکھ دیا 

تو زرمینے بھی واشروم کی طرف بڑھی تھوڑی دیر کے بعد وہ بلیک جینز اور شرٹ پہنے ہوئے اور اوپر جیکٹ پہن ہوئی باہر آئی اپنا چہرہ ماسک سے ڈھکا اور اپنی آنکھوں میں بلیک لینز پہن کر وہ کھڑکی سے کودی اب وہ احتیاط سے حویلی کے بیک سائیڈ پر ائی جہاں اسوقت کوئی بھی گارڈ نہیں تھا کیونکہ گارڈ صرف سامنے والے گیٹ میں ہی کھڑے ہوتے ہیں  اس لئے وہ بڑی آسانی سے حویلی سے باہر جانے میں کامیاب ہو گئی  اور دو تین گلیاں گر کر ایک جگہ است بائیک دیکھی 

اور وہ بائیک پر سوار ہو کر اس جگہ پہنچی جہان پہلے ہی زریام اور حمزہ ٹیم کے ساتھ کھڑے ہیں 

وہ ان کے قریب گئی کیا انفورمیشن ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو ان میں سے ایک افسر بولا افسر زر  ہم دونوں یہاں ائے تھے صورتحال جاننے ہمیں یہی معلوم ہوا ہے کہ یہاں اس وقت پندرہ لوگ ہیں اور ابھی تک ڈی نہیں آیا جس وخہ سے ہم نے ابھی تک ان پر اٹیک نہیں کیا ہے بس اس کا انتظار ہے جیسے ہی وہ آجائے تو اسے اور اس کے ساتھیوں سامیت جہنم واصل کر دینا ہے  اس نے غصے سے کہا 

نہیں ہمیں ڈی کو زندہ پکڑنا ہے کیونکہ ہمیں اس سے بہت سی انفورمیشن لینی ہے تو اس لئے کوشش کرنے کہ وہ ہمارے ہاتھ زندہ ہی لگے زرمینے نے سپاٹ لہجے میں کہا 

اسی وقت ڈی بھی آگیا اس نے اپنا چہرہ رومال سے چھپا ہوا تھا  بوس ہم یہ لڑکیاں کیشتی میں منتقل کرنے لگے ہیں آپ ایک بار دیکھ لیں ایک آدمی ڈی کے پاس آکر کہتا ہے تو ڈی اس کے ساتھ اس طرف چلے جاتا ہے 

اللہ کو یاد رکھ کر حملہ کرو اور ہمیں ہر حال میں ان لڑکیوں کو بچانا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو سب نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ان پر حملہ کر دیا  وہ جہاں جہاں سے جارہے ہیں تمام لوگوں کو جہنم واصل کر رہے ہیں اس دوران ان افسر میں سے تین کو گولیاں بھی لگ گئی ہیں 

زرمینے اس جگہ کی طرف گئی جہاں ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈی گیا تھا 

وہاں ایک نقاب میں شخص اس لڑکے سے کچھ کہہ رہا تھا 

ہینڈ زپ زرمینے نے سرد لہجے میں کہا تواس نے   شخص گھما کر ہاتھ زرمینے کی گن پر مارا جس سے اس کی گن دور جالر گر گئی 

کیا افسر اتنی کمزور اس شخص نے زرمینے کو دیکھ کر کمینگی سے کہا تو زرمینے نے نفرت سے اسے دیکھ 

پھر گھوم کر اپنی ٹانگ اس شخص کے پیٹ پر ماری جس سے وہ دور گرا 

اوہوں مجھے کمزرو سمجھنے کی غلطی مت کرو ڈی زرمینے نے نفرت سے کہا تو وہ شخص کمینگی سے ہنسا 

ہا ہا ہا میں اور ڈی ہا ہا ہا ہا اچھا مذاق ہے مگر تمہیں کیا لگا ڈی کو پکڑانا اتنا ہی آسان ہے لیا وہ نہیں جانتا کہ آرمی کتوں کی طرح اس کے پیچھے لگی ہوئی ہیں تو وہ یہاں آنے کی غلطی کریں گا افسر اس شخص نے استہزایا لہجے میں کہا تو زرمینے نے غصے سے اسے دیکھ اور ایکاور ٹانگ اسے رسید کی اس کےتو وہ شخص تڑپ کر پیچھے ہوا اور گھما کر ٹانگ زرمینے کو مارنے لگا کہ وہ بروقت پیچھے ہوگئی اور ایک تھپڑ اسے رسید کیا اس نے اسے مارنے کے لئے دوبار ٹانگ پر وار کیا کہ زرمینے نے چھلانگ لگا دی اور اسے ایک اور ٹانگ رسید کردی تو وہ دور جاکر گرا اس سے پہلے کہ زرمینے اسے کصھ کہتی 

کہ اس شخص نے زرمینے کی گن اٹھا کر فائر کردیا ٹھاہ کی آواز ائی تو حمزہ اور زریام حیرت سے سامنے گرتی زرمینے کو دیکھ  

ہاں وہ گولی زرمینے کے گوشت کو چیرتی ہوئی گزر گئی 

جی میں ٹھیک ہوں گولی صرف بازو کے گوشت میں لگی ہے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو دونوں نے اس کے بازو لی طرف دیکھ جو اس وقت  خون سے بھر چکا ہے پھر زرمینے کو  جس کا چہرہ تکلیف ضبط کرنے سے سرخ ہوا ہے 

اسی لمحے اس شخص نے ان کا دھیان زرمینے کی طرف دیکھ کر باہر بھاگا  مگر برا ہوا سامنے سے آتے آفسر  نے اسے پکڑ لیاکہا مسڑ ڈی اریسٹ ہم اس افسر نے کہا تو قہ شخص ڈر گیا اور اپنے ہاتھ کی انگلی میں موجود انگوٹھی کو منہ سے لگا لیا اور ان کے سمجھنے سے پہلے ہی اس شخص کے منہ سے جھاگ بہنے لگی اور وہوہی مرگیا 

سر یہ تو مرگیا اس افسر نے زریام سے کہا جو حمزہ کے پیچھے جارہا تھا کیونکہ حمزہ  بے ہوش زرمینے کو باہوں میں اٹھایا اور باہر کی طرف چلا گیا تھا 

ہوں تم ایسا کرو اسے لے کر جاو اور ان لڑکیوں کو باحفاظت ان کے گھر پہنچاو 

اور جسں کے گھر والے انہیں ایکسپٹ نہ کریں انہیں ہمارے ادارے میں چھوڑ آنا اور جن کے گھر والے انہیں ایکسپٹ کر لے ان پر نظر رکھنے کہ وہ انہیں نقصان نہ پہنچائیں زریام نے سنجیدگی سے کہا تو اس افسر نے اثبات میں سر ہلایا تو زریام جلدی سے باہر کی طرف بھاگا 

ڈاکٹر میری بہن کیسی ہے اس وقت زریام اور حمزہ ہسپتال میں تھےاور زرمینے کا اندر ٹریٹمنٹ ہورہا تھا انہوں نے ڈاکٹر سے یہی کہا کہ وہ لوگ آرہے تھے کہ راستہ میں ان پر کسی نے فائر کردیا اس وجہ سے ان کی بہن زخمی ہو گئی تو ڈاکٹر اس کا ٹریٹمنٹ کرنے لگی 

دیکھیں اب پیشنٹ خطرے سے باہر مگر ان کا کافی بلڈ لوس ہوگیا ہے اس لئے یہ ابھی کمزوری محسوس کریں گئی  ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ لہجے میں کہا 

کیا ہم ان سے مل سکتے ہیں حمزہ نے ڈاکٹر سے بے چینی سے پوچھا 

جی آپ مل سکتے ہیں ڈاکٹر یہ کہہ کر چلا گیا 

پیچھے زریام اور حمزہ اندر کی طرف بڑھے  

جہاں زرمینے لیٹی ہوئی تھی  اور اس کے بازو پر پٹی بندھی ہوئی تھی 

کیسی ہوں گڑیا زریام نے کہا  تو زرمینے مسکرائی 

مجھے کیا ہوا میں تو بالکل ٹھیک ہوں زرمینے نے ان دونوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا  

کیونکہ وہ دونوں بہت پریشان تھے یہ ان کی شکل سے پتا چلتا ہے 

تو دونوں نے اسے گھورا 

جس پر زرمینے بس منہ بسور کر رہ گئی  آپ دونوں مجھ معصوم کو کیوں گھور رہے ہیں میں نے کیا کیا زرمینے نے منہ بسورتے ہوئے کہا تو دونوں نے اسے ڈبل گھوری سے نوازا 

تم جانتی ہو ہم لتنا ڈر گئے تھے اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو ہمارا کیا ہوتا موم ڈیڈ کا کیا ہوتا جن کی تم میں جان بستی ہے حمزہ نے دانت پیس کر کہا تو زرمینے نے اسے مسکرا کر دیکھا 

ارے برو میں بالکل ٹھیک ہوں اور مجھے کچھ نہیں ہوا اور ویسے بھی زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور ابھی میری بہت زندگی پڑی ہے  جب تک تمہارے ہاتھ پیلے نہ کردوں زرمینے نے شرارت سے کہا تو دونوں مسکرائے 

اچھا برو  اس آدمی کا کیا بنا زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو دونوں نے اسے دیکھا 

وہ مرگیا ہے زریام نے کہا پھر اسے ساری بات بتائی 

یار ڈی تو اب مارا گیا اور ہمارا مشن مکمل ہوا حمزہ نے کہا 

نہیں ابھی ہمارا مشن مکمل نہیں ہوا کیونکہ وہ شخص ڈی نہیں تھا  ڈی وہاں آیا ہی نہیں  بلکہ اس نے اپنی جگہ کسی اور آسمی کو بھیجا تھا زرمینے نے کہا تو دونوں نے اسے دیکھا  

تمہیں یہ سب کیسے پتا انہوں نے پوچھا 

کیونکہ اس شخص نے مجھے خود بتایا اور اگر وہ ڈی ہوتا تو کبھی بھی اپنی جان نہیں دیتا بلکہخود کو ہمارے حوالے  کردیتا اور میں نے اس کی آنکھوں میں موت کا خوف بھی نہیں دیکھ ضرور ڈی نے اسے یہ سب کرنے پر مجبور کیا ہوگا زرمینے نے گہری سوچ میں کہا 

تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا اچھا اب تم ریسٹ کروہم باہر چلتے ہیں  زریام نے کہا  تو زرمینے نے نفی میں سر ہلایا  

نہیں برو ہمیں ابھی نکلنا پڑے گا ورنہ حویلی والوں کو ہم پر شک ہوجائے گا اور ہمارا بنا بنایا کھیل  خراب ہو جائے گا اور ویسے بھی فجر کی آزان ہونے والی ہے اس سے پہلے ہمیں وہ ہونا پڑے گا زرمینے نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا 

مگر تمہیں ریسٹ کی ضرورت ہے  حمزہ نے کہا 

ہاں وہ میں حویلی جاکر کرلوگئی مگر ابھی ہمیں چلنا چاہئے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا  اور حویلی کی طرف روانہ ہوگئے 

وہ لوگ جیسے گئے تھے ویسے ہی واپس آگئے بغیر کسی کے بھی نظر میں ائے  

______________

زرمینے کمرے میں آکر پہلے نہانے گئی کیونکہ اسے خود سے ہسپتال کی بو آرہی تھی تو نہانے چلی گئی بغیر اپنے زخم کی پروا کیے 

جب نہاکر ائی تو اسے اپنے بازو میں درد ہوتا محسوس ہو مگر اگنور کر کہ وہ نماز پڑھنے  لگی اور نماز پڑھنے کے بعد وہ وہسے ہی بیڈ پر لیٹ گئی گیلی پٹی بھی چینج کیے بغیر  کیونکہ اسے اس وقت اپنے بازو میں بہت  درد ہورہا تھا اور بازو کو ہاتھ لگاتی ےو اسے زیادہ تکلیف ہورہی تھی اس لئے بغیر پٹی تبدیل کیے لیٹ گئی 

_______________

اگلی صبح غزلان شاہ اپنے کمرے سے فریش ہوکر باہر آیا تو اسے زرمینے کہی بھی نہیں دکھائی دی اس نے ملازمہ سے  پوچھا  تو اس نے کہا کہ بی بی صبح سے ہی کمرے سے باہر نہیں ائی 

غزلان شاہ نے پہلے سوچا کہ اس کے کمرے میں جاکر دیکھ ائے کہ وہ کیوں نہیں آئی مگر اس کا رات کا رویہ یاد آیا تو نہیں گیا اور بغیر ناشتہ کیں ہی افس چلا گیا 

ادھر صبح کے گیارہ بجے گئے مگر زرمینے اپنے کمرے سے باہر نہیں ائی تو زریام نے پریشان ہو کر اس کے کمرے میں داخل ہوا  تو وہ سامنے ہی ہوش و حواس سے بیگانی ہوکر لیٹی ہوئی تھی اس نے اگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ تو  اسے لگا جیسے کوئلہ کو ہاتھ لگا لیا ہوں 

کیونکہ اس وقت زرمینے کا جسم بہت گرم تھا جس کا مطلب اسے بہت تیز بخار ہے پھر اس نے اس کے بازو کو دیکھ جس میں گولی لگی تھی تو اس کی پٹی گیلی تھی اور اس کے کپڑے بھی تبدیل تھے جس کا مطلب وہ تات کو نہائی تھیاور پھر بغیر پٹی تبدیل کیے سوگئی اس کی بیوقوفی پر اس بہت غصہ ایا 

اور آہستہ سے اس کا بازو کے زخم سے پٹی اتارنے لگا تو زرمینے کے بےہوشی کی حالت میں بھی سسکی جس کا  مطلب اسے بہت درد ہورہا تھا  

زریام نے پٹی اتاری اور فرسٹ ایڈ بوکس لے کر اس کی پٹی تبدیل کی پھر باہر کچن کی طرف گیا تو سامنے ہی زرتاشیہ کچن میں جارہی تھی اسے اپنا اس طرح کچن میںمنہ اٹھا کر جانق اچھا نہیں لگا اس لئے مجبور اسے زرتاشیہ کو بولنا پڑا ناراضگی اپنی جگہ مگر بہن کی تکلیف  کے لئے 

بی بی وہ مجھے ٹھنڈا پانی جس میں برف ہو اور ایک کپڑا دے دیں وہ زرمینے کو بہت تیز بخار ہے اس کو پٹیاں کرنی ہیں 

زریام نے زرتاشیہ کو کہا  

تو اس کا مخاطب کرنا جہاں زرتاشیہ کو خوش کرگیا وہی اس کا بی بی کہنا اسے تکلیف سے دو چار کرگیا 

کیا ہوا ہے زرمینے کو زرتاشیہ نے فکر مندی سے پوچھا تو زریام نے اسے نا گواری سے دیکھا آپ مجھے  لا دے مجھے جلدی ہے  زریام نے لفظ جلدی پر زور دے کر کہا 

تو زرتاشیہ نےاسے دیکھا اسے شرمندگی ہوئی کہ اسے اس طرح سوال نہیں کرنا چاہئے تھا 

آپ جائے میں لے کر آتی ہوں زرتاشیہ نے کہا تو زریام کو بھی یہاں مزید رہنا مناسب نہیں لگا اس لئے وہ واپس زرمینے کے کمرے کی طرف چلاگیا 

پیچھے زرتاشیہ بھی کچن میں چلی گئی تاکہ پانی اور کپڑا  لے سکے 

__________ 

زریام کمرے میں ایا تو سامنے ہی زرمینے ویسی ہی لیٹی ہوئی تھی اس نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھا مگر بخار میں کمی نہیں آئی  تو پریشانی سے حمزہ کو کال کی جسے اس نے ایک بیل پر ہی اٹھا لیا 

جی حمزہ نے کال اٹھا کر کہا 

 حمزہ جلدی سے کسی ڈاکٹر کو کال کر یا اسے لے کر حویلی ایا زرمینے کی طبعیت خراب ہے اس بیوقوف نے اپنی پٹی گیلی کر لی وہ بھی نہا کر اور پھر بغیر پٹی تبدیل کیے لیٹ گئی  اب اس کا نتیجہ یپ نکلا کہ محترمہ بخار میں تپ رہی ہے تو جلد سے کسی بھروسہ مند ڈاکٹر کو لے کر یہاں آجا زریام نے ایک ہی سانس میں اسے ساری بات بتائی اور ساتھ۔میں ڈاکٹر  کا بھی کہہ جس پر حمزہ بھی پریشان ہو  

جی میں ابھی لے کر آتا ہوا آپ فکر مت کریں حمزہ نے کہا 

ہاں جلدی سے لے کر آو زریام نے اور کال کاٹ دی 

حمزہ جو غزلان شاہ کے ساتھ تھا کہ اچانک زریام کی کال انے پر جلدی اٹھائی اور پھر اس سے بات کی اور اسے آنے کا کہا

سرکار وہ سردارنی سائیں کے بھائی کی کال تھی وہ سردارنی سائیں کی طبعیت بہت خراب ہے تو وہ ڈاکٹر کو لے کر آنے کا کہہ رہا ہے 

تو کیا میں جاو حمزہ نے کہا تو غزلان شاہ زرمینے کی طبعیت خرابی کے بارے میں جان کر بے چین ہوا 

کیا ہوا ہے غزلان شاہ نے تڑپ کر پوچھا 

پتا نہیں سرکار مجھے نہیں معلوم وہ تو ان کے بھائی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر کو لے کر آنے کا 

اب وہاں جاکر ہی پتا چلنا ہےاچھا تم ڈاکٹر کو لے کر جاو میں بھی جاتا پوں غزلان شاہ نے اپنا کوٹ چیئر سے اٹھا کر پہنتے ہوئے کہا تو حمزہ اثبات میں سر ہلایا اور باہر چلا گیا 

پیچھے غزلان شاہ بھی جلدی سے باہر بھاگا 

زرتاشیہ ٹھنڈا پانی جس میں برف تھی اور کپڑا لے کر زرمینے کے کمرے میں گئی تو سامنے زریام اسے نظر ایا 

وہ سب کچھ اس نے بیڈ کے پاس رکھی اور زرمینے کے ماتھے کو چھوا جو اس وقت بہت گرم تھا 

اسے تو بہت تیز بخار ہے زرتاشیہ نے کہا تو زریام نے اسے گھورا جسے کہہ رہا ہوں کہ میں نے کسی اور زبان میں کہا تھا 

اس کے گھورنے پر زرتاشیہ سٹپٹا گئی

اور جلدی سے کپڑے کو اس پانی میں ڈبویا اور پھر نچوڑ کر زرمینے کے ماتھے پر رکھ اس دوران زریام خاموشی سے اسی یہ سب کرتے ہویے دیکھ رہا تھا 

زرتاشیہ مسلسل ایسا ہی کر رہی پیں مگر زرمینے کے بخار میں کمی نہیں آئی تب ہی غزلان شاہ بھی زرمینے کے کمرے میں داخل ہوا 

کیا ہوا ہے خانم کو غزلان شاہ نے زرتاشیہ سے پوچھا 

سردار لالہ وہ سردارنی سائیں  کو بہت تیز بخار ہے زرتاشیہ نے کہا تو غزلان شاہ نے ایک نظر زرمینے کو دیکھ جو کل کس طرح کھلکھلا رہی تھی اور آج اس حالت میں دیکھ کر ان کا دل دکھ 

پھر اگے بڑھ کر اس کا ماتھا چھوا تو اسے ایسا لگا جسے تپتی ہوئی بھٹی چھوا لی ہوا  ابھی غزلان شاہ کچھ کہتا کہ تب ہی حمزہ ایک لیڈی ڈاکٹر کو لے کر کمرے میں ایا 

ڈاکٹر یہ ہے پیشنٹ حمزہ نے زرمینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو ڈاکٹر اثبات میں سر ہلاکر سب سے بولی  آپ سب لوگ باہر جائے مجھے اتنے لوگوں میں گھبراہٹ ہوتی ہے اور پیشنٹ کو بھی الجھن ہوگئی ڈاکٹر نے بہانہ بناتے ہوئے کہا تو سب باہر گئے مگر زریام وہی رہا ڈاکٹر میں یہی رہوگا زریام نے کہا  تو ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلایا 

کونسے بازو میں چوٹ لگی ہے ڈاکٹر نے پوچھا تو زریام نے اسے بتایا جس پر ڈاکٹر نے اس کے بازو کو دیکھ ان کو اس طرح کی بے احتیاطی نہیں کرنی چاہئے تھی اب اس چوٹ میں انفیکشن بھی ہوسکتا تھا مگر آپ نے اچھا کیا جو اس کی پٹی تبدیل کردی افسر ڈاکٹر نے کہا تو زریام نے انہیں دیکھ 

خان ابھی میں اسے انجیکشن نہیں لگاسکتی کیونکہ انہیں بہت تیز بخار ہے تو اس کے سر پر پٹیاں ہی کرو تاکہ اس کے بخار کی شدت میں کمی اجائے اور یہ ہوش میں اجائے تو یہ میڈیسن اسے دے دینا 

ڈاکٹر نے کہا 

شکریہ ماہم تم اتنی جلدی آگئی زریام نے کہا تو وہ مسکرائی  

ہاں یہ تو شکر ہے کہ میں یہاں کسی کیس کے لئے ٹیسٹ کروانے یہاں آگئی تھی اس لئے میں یہاں ائی ماہم ایک آرمی ڈاکٹر ہے اور وہ یہاں اپنے کام کے سلسلے میں ائی تھی اس نے حمزہ سے اپنے کیس کے متعلق کچھ انفورمیشن لینی تھی اس لئے  حمزہ سے رابطہ میں تھی اور حمزہ اس کے یہاں انے کے بارے میں جانتا تھا اس لئے اسے زرمینے کے بارے میں بتا کر اسے لے آیا 

اچھا اب میں چلتی ہوں  ڈاکٹر نے کہا اور وہاں سے چلی گئی 

کیا کہا ڈاکٹر نے غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا مگر اس کے لہجے میں بے چینی تھی 

وہ ڈاکٹر نے کہا کہ زرمینے کو بہت تیز بخار ہے اس لئے انجیکشن نہیں لگ سکتا اور اسے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں  کریں تاکہ اس کے بخار کی شدت میں کمی اجائے  زریام نے بتایا تو غزلان شاہ زرمینے کے پاس جاکر بیٹھ اور اس پانی کو دیکھ جو اب گرم ہوگیا تھا 

زرتاشیہ جاو اس میں دوبارہ پانی لے کر آو یہ پانی گرم ہوگیا ہے غزلان شاہ نے کہا تو زرتاشیہ پانی لینے چلی گئی تھوڑی دیر بعد وہ ایک باول میں چھوٹے چھوٹے برف کے ٹکڑے لے آئی اور اسے غزلان شاہ کو دیا  جس سے اس نے کپڑا بھگایا اور زرمینے کے ماتھے پر رکھ  اور مسلسل ایسے ہی کر رہا ہیں 

باقی سب وہاں سے چلے گئے مگر زریام حمزہ اور غزلان شاہ  اس کے کمرے میں ہی اس کے پاس تھے کیونکہ اب شام ہونے والی ہوگئی ہے زرمینے کی طبعیت میں زیادہ نہیں مگر بخار کی شدت میں کمی اگئی ہے اس دوران نوشین بیگم بھی اس کے پاس آئی تھی مگر زرمینے کہاں ہوش تھا 

غزلان شاہ اب بھی اسی طرح اس کے ماتھے پر کپڑا رکھ رہا تھا جب زرمینے نے اہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی اور پھر بند کی 

غزلان شاہ جس کا سارا دھیان اس کی طرف ہی تھا اس کے آنکھیں کھولنے پر خوش ہوا آپ ٹھیک تو ہیں خانم غزلان شاہ کی آواز پر وہ دونوں بھی چونکے اور زرمینے کی طرف دیکھ جو آنکھیں کھولے چھت کو دیکھ رہی ہیں مگر غزلان شاہ کے بلانے پر ہوش کی دنیا میں ائی جی سائیں میں ٹھیک ہوں  زرمینے نے اہستہ آواز میں کہا 

کہی دودتو نہیں ہورہا خانم غزلان شاہ نے پوچھا نہیں مجھے بھوک لگی ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

تو غزلان شاہ اس کے لئے کھانا لینے خود باہر کی طرف گیا 

پیچھے ان دونوں نے خونخوار نظروں سے سامنے لیٹی زرمینے کو دیکھا  

کیا ضرورت تھی تمہیں نہانے کی پتابھی ہے کہ تمہیں گولی لگی ہیں حمزہ نے دانت پیس کر کہا تو زرمینے نے سر جھکا لی  اور اس کے ساتھ ہی برتن گرئے تو ان تینوں نے چونک کر دروازے میں کھڑے نفوس کو دیکھ 

تینوں نے چونک کر دروازے میں کھڑی زرتاشیہ کودیکھ جو زرمینے کی پٹیاں کرنے کے لئے پانی لے کر آئی تھی 

زرمینے کے گولی کون ہوں تم لوگ جہاں تک میں جانتی ہوں کہ خان غریب نہیں ہے کیونکہ میں جب بھی اس سے ملی ہوں تو یہ ہمیشہ ایک گاڑی میں ہوتا تھا اور وہ مال میں بھی کوئی غریب آدمی شاپنگ نہیں کرسکتا  تو بتاو کہ کون ہو تم لوگ ورنہ میں ابھی جاکر سب کو بتا دوں گئی زرتاشیہ نے پہلے ان سے کہا اور پھر ساتھ میں دھمکی بھی دے ڈالی 

جس پر تینوں نے اسے گھور 

برو اپنی بیوی کو لے کر یہاں سے جائے اور اس کا منہ بھی بند کروائے کیونکہ مجھے آرام کی ضرورت ہے اور یہ مسلسل بول رہی ہے 

زرمینے نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تو حمزہ نے بھی سر ہلا کر اس کا ساتھ دیاتو زریام اگے بڑھا اور زرتاشیہ کو بازو سے پکڑ کر  وہاں سے لے گیا 

پیچھے حمزہ زرمینے کی طرف متوجہ ہوا 

برو مجھے ڈانٹے گامت  میں بیمار ہوں زرمینے نے کہا تو حمزہ اسے بس گھور کر رہ گیا  

برو کیاوہ ائی تھی زرمینے نے آس سے پوچھاتو حمزہ نے پہلے نہ سمجھی سے اسے دیکھ پھر اس کی بات سمجھ آنے پر لب بینچے 

نہیں تمھاری وہ ماں نہیں  آئی کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ تم نے ان کی بیٹی کا حق چھینا ہے حمزہ نے سرد لہجے میں کہا اور وہاں سے لمبے لمبے ڈنگ بڑھتا ہوا چلا گیا کیونکہ اسے زرمینے کا کوثر بیگم کا ذکر شدید ناگوارا گزارا 

اور اسے اس وقت  غصے بھی ایا 

کہ کہی غصے سے زرمینے کو کچھ ایسا نہ کہ دو کہ بعد میں اسے پچھتاوا ہوا اس لئے وہاں سے چلا گیا 

غزلان شاہ  کمرے میں ایا تو زرمینے آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی 

خانم غزلان شاہ نے بلایا  تو زرمینے نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھ اس وقت زرمینے کی آنکھیں ویرانی ہی ویرانی تھی  جسے دیکھ کر غزلان شاہ کا دل دکھا 

کیا ہوا ہے خانم غزلان شاہ نے کہا تو زرمینے تلخی سے مسکرائی  

سائیں کچھ نہیں ہوا زرمینے نے کہا تو غزلان شاہ بس سے دیکھ کر رہگیا مگر اس کی طبیعت کی وجہ سے خاموش ہوگیا

تب ہی   نورے سوپ لے کر ائی جسے دیکھ غزلان شاہ نے کہا  مجھے دے دوں تو وہ سوپ غزلان شاہ کو پکڑا کر باہر چلی گئی  

اس کے جاتے ہی غزلان شاہ  زرمینے کی طرف متوجہ ہوا 

خانم یہ سوپ پی لے میں نے خاص آپ کے لئے بنوایا ہے اور اسے پینے کے بعد آپ نے میڈیسن بھی لینی ہے غزلان شاہ نے کہا تو زرمینے چپ چاپ اٹھا کر بیٹھ گئی مگر سوپ نہ پکڑا کیونکہ اس کے بازو میں درد ہورہا تھا

آپ مجھے  پلا دے میں تو بیمار ہوں زرمینے نے معصومیت سے کہا تو غزلان شاہ مسکرایا  اور پھر اسے سوپ پلا کر دوائی دی اور اسے بیڈ پر لیٹایا اور خود جانے لگا جب زرمینے نے اسے روکا 

سائیں آپ مت جائے ادھر بیٹھ جائے  زرمینے نے کہا تو غزلان شاہ کو مجبور اس کے پاس بیٹھنا پڑا 

آپ کو پتا ہے مجھے جب بھی بخار ہوتا تھا نا تو موم میری پاس سے ہلتی تک نہیں تھی وہ میرے پاس ہی بیٹھی رہتی تھی ڈیڈ اور برو سے سارا کام کرواتی تھی اگر وہ کچھ کہتے تو انہیں پتا ہے کیا کہتی تھی زرمینے نے غزلان شاہ سے خود ہی بات کرتے ہوئے کہا 

جس پر غزلان شاہ نے نفی میں سر ہلایا 

وہ کہتی تھی کہ میری بیٹی بیمار ہے اور اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہوئی اور میں اس کے پاس نہیں ہوئی تو یہ کیا کریں گی زرمینے نے گہری سوچ ڈوبے ہوئے کہا 

تو غزلان شاہ کو  اس وقت وہ  بہت زیادہ دکھی لگی 

تو کیا ہوا اگر اب آپ کے پاس آپ کی والدہ نہیں ہے  مگر میں تو ہوں نا جو اپنی خانم کا خیال رکھوگا غزلان شاہ نے اپنے ہونے کا مان بخشتے ہوئے کہا 

جس پر زرمینے مسکرائی 

میں اپ کو ایک غزل سناو زرمینے نے کہا 

نہیں خانم ابھی آپ کو آرام کرنا چاہیے آبھی بھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے غزلان شاہ نے کہا تو زرمینے نے منہ بنایا 

مگر مجھے آپ کو پہلے غزل سنانی ہے اس کے بعد میں آرام زرمینے نے ضدی لہجے میں کہا تو غزلان شاہ مسکرایا  کیونکہزرمینے پہلی بار اس سے کوئی ضد کی تھی اسلئے 

اچھا سناو مگر سنانے کے بعد آپ کو آرام کرنا ہے  غزلان شاہ نے مانتے ہوئے کہا تو زرمینے مسکرائی 

 میری آنکھوں سے مرے خواب چُرانے والے 

کیسے بھولوں گا تجھے چھوڑ کے جانے والے 

میرے ہاتھوں کی لکیروں کو ذرا ٹھیک سے پڑھ 

میری قسمت میں نہیں وہ یہ بتانے والے 

اُس نے پلُو سے مری آنکھ کے آنسو پونچھے 

اب مری آنکھ میں آنسو نہیں آنے والے 

تُو محبت کو بھی بس کھیل سمجھتا ہے یہاں 

تُو نے دیکھے ہی کہاں جان سے جانے والے 

مری آنکھوں میں محبت تُو بھرے گا کیسے 

مری تصویر محبت سے بنانے والے 

 یہ بتا لائے گا انداز کہاں سے میرا 

میری غزلوں سے مرے شعر چُرانے والے 

 زرمینے یہ کہہ کر سونا گئی کیونکہ ان دوائیوں میں نیند کی   گولی بھی تھی مگر غزلان شاہ تو اس کی آواز اور اس کے الفاظ میں کہی کھو گیا 

 ہوش آیا تو اسے دیکھا جو اب سورہی تھی کیا ہے آپ خانم ایسا کون سا غم ہے آپ کو جو اپ کی آنکھیں ویرانی ہوگئی ہیں مگر میں اپ کی آنکھیں کی ویرانی بہت جلد دور کردوں گا  غزلان شاہ نے کہا  اور زرمینے کے پاس ہی بیٹھ گیا  اور اس کے چہرے کودیکھنے لگا 

_______________

زریام  زرتاشیہ کو لے کر انیکسی میں آیا  چھوڑے مجھے خان زرتاشیہ نے کہا تو  زریام نے اسے دیکھ 

چھوڑا تو دیا ہے میں نے آپ کو زریام نے دکھ سے کہا 

تو زرتاشیہ نے اسے دیکھ کیا خان میری غلطی کی کوئی معافی نہیں ہے  زرتاشیہ نے پوچھا تو زریام تلخی سے مسکرا دیا 

غلطی  ہاں  مجھے پر بھروسہ نہ کرنے لی اپ کو میں معاف کردیتا مگر ہمارا رشتہ توڑنے اور میرے کردار پر انگلی اٹھانے پر میں آپ کو کبھی بھی نہیں معاف کرو گا مسز زرتاشیہ زریام خان  

زریام نے سرد لہجے میں کہا تو زرتاشیہ کی ریڈ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی  اس کا سرد لہجہ سن کر 

مگر پھر ہمت کر کے  زریام کے سامنے آئی 

خان زرتاشیہ نے پکار اس کی آواز میں تڑپ بےبسی شرمندگی کی کچھ نہیں تھا مگر زریام ا ب اسے سزا دینے پر آیا تھا وہ اسے احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ کتنی غلط ہے  اور ویسے بھی زریام یہ مشن مکمل کر کے  جبران اور صوفیہ  سے  بات کرنے والا تھا کہ اور انہیں اپنے نکاح کے بارے میں بتانے والا ہیں 

مگر ابھی زرتاشیہ کو بھی احساس دلانا ہے کہ آئندہ کسی کی باتوں میں آکر اس پر شک نہ کریں 

یہاں تک زرمینے کو گولی تو ہاں اسے گولی لگی ہے اور ہملوگ غریب نہیں ہے اور یہاں ہم نے غریب ہونے کا ڈرامہ کیا تاکہ ہم اس حویلی میں آسکے کیونکہ یہ ہمارے مقصد  کے لیے بہت ضروری ہے  ہمآرمی آفسر ہیں اور  یہ ایک مشن پر آئے ہیں اب امید کرتا ہوں کہ آپ کسی کو کچھ نہیں بتائے گئی 

زریام نے اس کی بات اگنور کر کہ اسے بتایا اور اخر میں پوچھا 

آپ افسر ہیں اور یہاں کس مشن کے لئے ائے ہیں خان اور کیا زرمینے اور خادم بھی آپ کی طرح آرمی افسر ہیں زرتاشیہ نے ایک ہی سانس میں پوچھا 

جس پر زریام نے ناگواری سے دیکھا 

ہاں ہم تینوں ہی آرمی افسر ہیں اور یہاں جس بھی کام کے لئے ائے ہوں اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہوناچاہئے اور اب آپ جاسکتی ہیں اور اگر ہمارے بارے میں کسی کو بتایا تو آپ کی جان میں خود لوں گا 

زریام نے سرد مہری سے کہا تو زرتاشیہ کانپ گئی اور فورا وہاں سے بھاگئیحمزہ جو غصے سے کمرے سے باہر نکل کر جارہا تھا سامنے سے آتی مدیحہ شاہ کو دہکھ کر روکا 

جو نورے کو کچھ کہہ رہی ہے   اسے دیکھ کر حمزہ کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی اور وہ فورا اس کے پاس گیا 

نورے آپ سے کچھ بات کرنی ہے مجھے کیا آپ زرا باہر ائے گئی حمزہ نے نورے سے کہا مگر دیکھ مدیحہ کی طرف رہا تھا 

جو اس کے اگنوار کرنے پر اسے ہی گھورا رہی ہے 

جی چلیں میں نے سارے  کام ختم کر لئے ہیں اب میں فری ہوں   نورے نے جلدی سے کہا تو حمزہ لان کی طرف بڑھ اس کے  پیچھے ہی  نورے بھی گئی تو مدیحہ غصے سے ان دونوں کو گھور  اور پھر تجسس کا شکار ہوکر ان کے پیچھے بھاگی 

 میں  بہت پیار کرتی ہوں آپ سمجھ کیوں نہیں رہے  نورے نے کہا 

 دیکھو نورے تم بہت غلط کہ رہی ہوں وہ بھی یہی چاہتئ ہیں 

نورے کے۔انکار کی وجہ  اس کی ماں نے حمزہ کو بلا کر کہا تھا وہ نورے کو سمجھائے  مگر مدیحہ اس کی بات کا کوئی اور ہی مطلب لے کر بھاگی اسے بھاگتے دیکھ حمزہ کو دکھ ہوا مگر یہ ضرو تھا 

تمہیں شادی تو کرنی ہی ہیں تو ان کے سامنے ہی ہوجائے اور کیا تمہیں اپنے لالہ پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری ماں کا  خیال رکھے لے گا حمزہ نے کہا  

تو نورے نے کہا ٹھیک ہے جیسا آپ اور اماں چاہئے مجھے آپ پر بھروسہ ہے لالہ 

اخر نورے نے ہار مان کر کہا تو حمزہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا 

ادھر مدیحہ  نے سمجھ کہ  نورے حمزہ  کو پسند کرتی ہے اور اس سے اظہار محبت کر رہی ہیں اس سے زیادہ وہ نہیں سن سکی اس لئے وہاں سے بھاگ آئی مگر اس دل کا کیا کرتی جو اب حمزہ کے نام پر ڈھڑکتا ہے اگر کیا حمزہ  بھی نورے کو پسند کوتا ہے یہ سوچ کر ہی اسے رونا آرہا ہے 

وہ جلد سے وضو کرتی ہے اور عشاء  کی نماز پڑھتی ہے اور ڈعا مانگتی ہے 

یا اللہ میں جانتی ہوں کہ میں ایک سیراب کے پیچھے بھاگ رہی ہوں مگر میں کیا کرو میں بےبس ہوا  میں یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ نے میرے دل میں حمزہ کے لئے محبت ڈالی کیونکہ آپ نے تو نامحرم کی طرف دیکھنے سے بھی منع کیا ہے مگر میں نے یہ گناہ کردیا ہیں میں یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ مجھے اسے دے نہیں میرے اللہ مجھے علم ہے کہ آپ انسان کی توقع سے زیادہ دیتے ہیں  آپ جس کے بھی نصیب میں ہو اسے کی ہی میرے دل میں محبت ڈالے گیا  بے شک آپ سب جاننے والے ہیں اس نے دعا مانگ کر اپنے ہاتھ منہ پر پھیرے اب وہ بہت حد تک نارمل ہوگئی تھی اس لئے اب آرام کرنے کے لیے لیٹ ھئی اور کچھ ہی دیر میں نیند کی وادی میں چلی گئی 

____________________

نہیں  نہیں  میں اپ ہی کی بیٹی ہوں میں کیسے کسی اور کی بیٹی ہوسکتی ہوں یہ جھوٹ بول رہی ہیں ہے نا مام آپ بتائے کہ میں اپ ہی کی بیٹی ہوں  نہیں  تم میری بیٹی نہیں  ہوں   ماممممممم

زرمینے بخار کی حالت میں مسلسل یہ بڑابڑئی جارہی تھی   غزلان شاہ جو اس کے پاس ہی بیٹھ تھا اس کہ بڑابڑنے سے اسے دیکھ پھر اس کے قریب ہوا تاکہ سن سکے کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں مگر اس کی کسیبھی بات کی اسے سمجھ نہیں آئی  جب وہ گھبرا کر   مامممم کہہ کر اٹھی  اور باہر کی طرف بھاگی تب اس نے اسے پکڑا  

خانم کہا جارہی ہیں آپ   غزلان شاہ  نے اس سے پوچھا 

چھوڑو مجھے مجھے مام کے پاس  جانا ہے چھوڑے زرمینے نے مسلسل اس سے خود کو چھوڑوانے کے لئے مزاحمت کر رہی  ہے مگر غزلان شاہ نے نے اپنی پکڑا مضبوط کرلی اور اسے اپنے سینے میں بھینچا 

بس خانم ہم اپ کو آپ کی مام کے پاس لے کر جائے گئے مگر اس سے پہلے آپ کو ٹھیک ہونا پڑے گا تاکہ جب آپ اپنی مام سے ملے گئی تو اپ ٹھیک ہو  اگر بیمار ہوئی تو انہیں تکلیف ہوگئی  غزلان شاہ نے اسے اپنے سینے سے لگا کر کہا تو زرمینے نے مزاحمت کرنا بند کردیا  اور اس کی طرف دیکھ آپ سچ میں مجھے لے کر جائے گئے زرمینے نے معصومیت سے پوچھا  تو غزلان شاہ کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا 

 ہاں ہم آپ کو لے کر جائے گئے مگر اس سے پہلے آپ کو آرام کرنا چاہیے وہ اسے بیڈ کی طرف لے جا کر کہا ےو زرمینے فورا لیٹ گئی  اور آنکھیں بند کر لی 

میرے سر میں درد ہورہا ہے زرمینے نے تھوڑی دیر کے بعد کہا 

تو غزلان شاہ چونکا 

پھر اپنی گود میں کشن رکھا اور اس کے اوپر زرمینے کا سر رکھ اور آہستہ آہستہ  دبانے لگا 

جس سے زرمینے کو سکون ہوا اور وہ پھر سے سوگئ 

_______________

سورج کی روشنی کی وجہ سے غزلان شاہ ہی انکھ کھولی تو اپنی گود میں سر رکھ کر لیٹی اپنی بیوی کو دیکھا جو دنیا جہاں سے بے فکر سو رہی ہیں پھر اسے رات کا واقع یاد آیا 

کچھ تو ہے جو آپ ہم سے چھپا رہی ہیں خانم مگر اب ہم سے کچھ پتا لگا کر رہے گئے 

غزلان شاہ نے زرمینے کی طرف دیکھ کر کہا اور اس کا سر بیڈ کے سرہانے پر رکھ اور خود کھڑکیوں پر پردہ درست کر کے کمرے سے باہر چلا گیا لیکن جانے سے پہلے اس کا ماتھا چھوا کر ضرور چیک کیا جو اس وقت ٹھیک تھا 

مگر پھر زرتاشیہ  مدیحہ اور مبشرہ کو زرمینے کے پاس بھیجا دیا کہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہ پڑے 

اور خود آرام کرنا لیٹ گیا کیونکہ کل دن سے وہ زرمینے کے پاس تھا اور رات کو بھی ٹھیک سے سو ہی نہیں پایا  اس وجہ سےاب آرام کرنے لگا ہے 

عشق وہ کھیل نہیں جو چھوٹے دل والے کھیلے 💔

روح تک کانپ جاتی ہے صدمے سہتے سہتے 😭

________________

زرمینے کی آنکھیں کھولی تو سامنے ہی تینوں بیٹھی ہوئی تھی اس سے اٹھتا دیکھ اس کے پاس آئی 

کسی ہوں زرمینے  مبشرہ نے پوچھا 

میں اب بہتر ہوں  زرمینے نے کہا تو تینوں نے سر اثبات میں سر ہلایا اور واپس بیٹھ گئی 

ان کو دوبارہ بیٹھتے دیکھ زرمینے حیران ہوئی  

تم لوگوں بیٹھ کیوں رہی ہوں تمہیں پتا نہیں ہے کہ میں بیمار ہوں  زرمینے نے کہا تو تینوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

چلو مبشرہ میرے لئے پانی مدیحہ میرے لئے چائے اور زرتاشیہ آپ میرے لئے سوپ بنا کر لے کر آئے وہ بھی جلدی زرمینے نے حکمیہ لہجے میں کہاتو تینوں نے حیرانگی سے اسے دیکھا  جیسے کہہ رہی ہیں کہیہ کیا ہے 

اگر تم لوگ نہ گئے تو میں ابھی سائیں کو بلا لوں گئی زرمینے نے دھمکی دی جو کام بھی آگئی اگلے دو منٹ میں وہ سب کچن کی طرف بھاگی 

اور اسے تمام چیزیں لاکردی جسے زرمینے نے کھایا اور اس کے بعد دوائی لی 

اچھا جیسا کہ تم لوگوں کو پتا ہے کہ میں بیمار ہوں تو مجھے انٹرٹین کرو  زرمینے نے کہا 

تو تینوں منہ کھولے اسے دیکھنے لگی کیونکہ انہیں اب لگ رہا ہیں کہ بیمار زرمینے نہیں وہ ہوجائے گئی 

ہمیں نہیں آتا تینوں نے بیچارگی سے کہا تو زرمینے کو ان کی حالت پر ترس آگیا 

اچھا تو اپنا موبائل   نکالوں ہم لڈو کھیلے گئے زرمینے نے کہا تو زرتاشیہ نے جلدی سے موبائل اسے پکڑایا تاکہ وہ ان کی جان چھوڑے 

زرمینے نے موبائل اوپن کیا اور پلے سٹور سے لڈو داون لوڈ کی اور ان تینوں کو اپنے پاس بلایا 

تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کے پاس بید پر بیٹھ گئیں 

ایک شرط رکھ کر کھیلے گئیں مطلب جو ہارا وہ وہ کام کریں گا جو میں کہوں گئی  تو تینوں نے اسے گھور ا 

تم لوگ مجھ معصوم کو کیوں گھور رہے ہوں میں نے اس لئے کہا کیونکہ میں بیمار ہوں  زرمینے نے پھر کہا تو ان تینوں کا دل کیا کہ دیوار میں اپنا سر مارا دے مطلب جیسے وہ اتنی اور میچورا سمجھ رہی تھی وہ تو ان سے بھی دو ہاتھ اگے ہے لوگوں کو زچ کرنے میں 

مگر پھر سر اثبات میں سر ہلایا 

جس پر گیم شروع ہوئی  

یااللہ پلیز میری گوٹی بچالے یہ میری لاسٹ ہے زرمینے مسلسل  کہہ رہی تھی 

جب زرتاشیہ کو زیادہ دانے ایے اور اس کی گوٹی بچ گئی اور پھر اس کی باری آئی جس پر اسے اچھے دانے آئے اور وہ جیت گئی 

یس یس میں جیت گئی زرمینے نے خوش ہوکر کہا 

اب تم تینوں کی باری زرمینے نے کہا 

اور پھر مبشرہ  اور مدیحہ بھی جیت گئی اور زرتاشیہ ہار گئی 

اوکے اب کیونکہ زرتاشیہ ہار گئی ہے تو اسے وہ کام کرنا پڑے گا جو میں کہوں زرمینے نے خوش ہوکر کہا تو زرتاشیہ کو خطرہ کی بو آئی مگر اب کیا کرسکتی ہے 

 آپ کو ابھی لالہ کے پاس جاکر معافی اور اپنی محبت کا اظہار ایک شعر سے کرنا ہے

تو زرمینے  نے اسے سرگوشی میں کہا  جس پر زرتاشیہ نفی میں سر ہلانے لگی  نہیں نہیں میں نہیں  زرتاشیہ نے کہا 

ٹھیک ہے  اگر تم یہ نہیں کر گئی تو  ہمارے حصے کے سارے کام تمہیں اکیلی کو کرنے پڑے گئے اور ساتھ دس دن ہم تینوں سے معافی بھی  مانگنی  پڑے گی زرمینے نے آرام سے کہا تو  زرتاشیہ نے اسے گھورا کیونکہ وہ کبھی بھی ان تینوں کے کام اکیلی نہیں کرسکتی چلو کام تو وہ ملازمہ کو ساتھ ملا کر کرلیتی مگر ان تینوں سے معافی وہ بھی بغیر غلطی کی  

کبھی بھی نہیں اس سے اچھا تو وہ زریام کے پاس ہی چلی جاتی اور ان  نے کون سا ساتھ آنا ہے تو وہ یہ کرلیتی 

ٹھیک ہے  میں ابھی جاتی ہوں زرتاشیہ یہ کہہ کر باہر چلی گئی 

زرمینے آپ نے ایسا کیا کہا اسے ان دونوں نے پوچھا 

ہم نے کہا کہ ہمارے بھائی کو بلا کر لائے اور آپ دونوں تو جانتی ہیں کہ ہمارا بھائی بہت غصہ والا ہے اس لئے اب چلو اس کے پیچھے  زرمینے نے کہا اور اس کے پیچھے کمرے سے باہر نکلیزرتاشیہ  لان میں موبائل پر بات کرتے زریام کے پاس گئی 

خان زرتاشیہ نے پکارا 

تو زریام چونکا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ جیسے پوچھا رہا ہے کہ کیا 

جس پر زرتاشیہ نے بڑی مشکل سے اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی  

خان مجھے معاف کردے میں ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی زرتاشیہ نے جلدی سے کہا تو زریام ابھی کچھ کہتا کہ وہ پھر سے بول پڑی 

خان میری بات سن لے  ابھی کچھ مت کہے زرتاشیہ نے کہا تو زریام نے اسے دیکھ

اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا

میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا

دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر

تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا

بزم وفا میں آپ سے اک پل کا سامنا

یاد آ گیا تو عہد شناسائی بن گیا

بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات

آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موج زندگی

میرا خیال وقت کی شہنائی بن گیا

زرتاشیہ یہ کہہ کر خاموش ہوئی پھر کہا بہت محبت کرنے لگی ہوں میں خان آپ سے

دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم ۔

چاہنے کے لیے اک تیرا چہرہ بہت ہے

یہ کہہ کر زرتاشیہ نے دوڑا لگا دی کیونکہ وہ خان کا اپنی طرف حیرانگی سے دیکھنا محسوس کر چکی تھی اس لئے بھاگ گئی 

پیچھے زریام تو اس کے اظہار پر حیران ہوا  مگر سمجھ انے پر ایک دلکش مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی 

زریام تم تو گے کام سے زریام اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرکر بڑابڑ یا 

_________________

زرتاشیہ کمرے کی طرف بھاگتی ہوئی آئی تو وہ تینوں اندر بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی ہوئی تھیں 

بلا لیا لالہ کو مبشرہ نے کہا تو زرتاشیہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا  جب زرمینے نے اشارہ کیا  تو اسے سمجھ ائی 

میری توبہ جو میں زرمینے کے کھڑوس لالہ کو بلانے گئی  کتنے غصے سے دیکھ رہاتھا مجھ معصوم کو  زرتاشیہ نے کہا تو زرمینے نے اسے گھورا 

اچھا چلو پھر کھیلتے ہیں  زرمینے نے کہا تو وہ تینوں بھی بیڈ پر صحیح ہوکر بیٹھ گیئں اور ایک بار پھر لڈو کھیلنے لگی 

زرتاشیہ اور مبشرہ تو جیت گئی مگر زرمینے اور مدیحہ ایک دانہ پر تھی مدیحہ نے دانہ ڈالاتو اسے تین ائے تو زرمینے نے ڈالا اور اسے ایک  آیا اور اس کے ساتھ ہی زرمینے جیت گئی اور مدیحہ شاہ ہار گئی 

اچھا اب آپ نے کرنا کچھ نہیں مگر آپ کو کچھ بننا پڑے گا زرمینے نے کہا تو مدیحہ نے پوچھا کیا چڑیل 

کیا  مدیحہ نے چیخ کر کہا تو زرمینے نے اسے گھورا 

مطلب بس ایسا ایکٹ کرنا ہےپھر زرمینے نے ان کو ساری بات سمجھائی جس پر وہ دونوں پرجوش ہوئی مگر مدیحہ نہیںدیکھو زرمینے میری پیاری بھابھی میں یہ کیسے کرو گئی آپ مجھے کچھ اور کرنے کے لئے دےدیں  مدیحہ نے میٹھے لہجے میں کہا 

ٹھیک ہے  پھر جو سزا پہلے زرتاشیہ کو دینی تھی وہ اب تمہیں ملے گئی زرمینے نے اطمینان سے کہا تو مدیحہ پریشان ہوگئی 

ٹھیک ہے میں کرنے کی لئے تیار ہو مگر تم لوگ میرے ساتھ ہی رہنا مدیحہ نے ہار مانتے ہوئے کہا تو وہ تینوں مسکرائی 

اچھا جاو مبشرہ خادم لالہ کو بلا کر لاو زرمینے نے مبشرہ کو حمزہ کو بلانے کے لئے بیجھا جس پر مبشرہ فورا خادم کو بلانے چلی گئی 

اچھامیں نے جسا کہا ہے ویسے ہی کرنا زرمینے نے کہا تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا  اور مدیحہ دروازے پاس کھڑی ہوگئی 

تاکہ دیکھ سکے کہ مبشرہ اور خادم آرہے ہیں یا نہیں 

تب ہی اسے خادم اور مبشرہ آتے ہویے دکھائی دیں 

آرہے ہیں وہ جلدی سے شروع  ہوجاو مدیحہ جلدی سے بیڈ پر بیٹھکر کہتی ہیں تو وہ دونوں بھی الرٹ ہوجاتی ہیں جب انہوں لگا کہ خادم کمرے کے قریب اگیا ہے تو زرمینے انہیں اشارہ کرتی ہے 

کیا سچ میں آپ  کی حویلی کی بیک سائیڈ میں جھولے سے پرے کے ایریا پر کسی کو جانے کی اجازت نہیں  کیونکہ وہاں جن اور چڑیلیں رہتی ہیں زرمینے نے حیران ہونے کی ایکٹنگ کر تے ہوئے کہا  تو ان دونوں نے اثبات میں سر ہلایا 

ہاں زرمینے تم بھی وہاں مت جانا ہم نے سنا ہے کہ یہ مخلوق جس انسان کے پیچھے لگ جائے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی  زرتاشیہ نے بھی اس کی ایکٹنگ میں بھرپور ساتھ دیتے ہوئے کہا 

اچھا تو میں اب اپنے جوتے کیسے وہاں سے لوں میرے پاس تو ایکسٹرا جوتے بھی نہیں  زرمینے نے کہا 

ہاں اس لئے تو ہم نے خادم لالہ کو بلایا ہے تاکہ وہ آپ کو جوتے لاکر دے اگر کچھ ہوگا تو انہیں ہی ہوگا زرتاشیہ نے کہا 

ہاں اور ان باتوں کو  خادم کو مت بتانا ورنہ وہ بھی نہیں جائے گا زرمینے نے کہا 

نہیں اگر انہیں پتا بھی ہوا تو وہ پھر بھی چلے جائے گئے کیونکہ وہ بہت بہادر ہے مدیحہ اس سارے معاملے میں پہلی بار بولیتو دونوں نے اسے مسکرا کر دیکھا 

اور دوسری طرف  خادم جو یہ سب سوچ کر بھاگنے کی تیاری کر رہا تھا مدیحہ کی بات سن کر خوش ہوا اور اس کے ساتھ ہی خود کو بہادر ثابت کرنے لگا 

جی بی بی سرکار آپ نے مجھے یاد کیا حمزہ نے تابعداری سے کہا 

ہاں وہ لالہ آپ میرے جوتے لادیں وہ حویلی کے پیچھے کی  سائیڈ پر گرگئے ہیں زرمینے نے  کہا تو حمزہ نے اثبات میں سر ہلایا  اور باہر  چلا گیا اس کے جاتے ہی وہ چاروں بھی باہر کی طرف بھاگیں  اور جھولے پاس حمزہ سے پہلے پہنچ گئیں 

دیکھو مدیحہ ہم نے جیسا  کہا ہے ویسے ہی کرنا  زرمینے نے کہا تو مدیحہ نے اثبات میں سر ہلایا  

تو وہ تینوں سائیڈ پر ہوگئی 

حمزہ ڈرتے ڈرتے اس سائیڈ کی طرف آیا مگر  اور مسلسل اللہ کا ذکر  کر رہا تھا 

یا اللہ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا ابھی میری عمر ہی کیا ہے ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی شادی تو چھوڑے ایک چھوٹی سی منگنی بھی نہیں ہوئی  پلیز اللہ  جی مجھے پچالیں جیئے گا 

حمزہ نے بلند آواز میں کہا تو ان چاروں کے قہقہے ہوا میں بلند ہوکر خوف ناک آوازوں کا کام کرنے لگے  اور حمزہ کے دل کی ڈھرکن بڑی  ابھی وہ واپس جاتا کہ اسے مدیحہ کی بات یاد ائی کہ وہ بہت بہادر ہے  اس لیے ہمت کر کے وہ جھولے کے قریب گیا مگر سامنے ہی سیاہ بال پشت پر بکھرے ہوئے کو لڑکی  اس کی طرف پیٹھ کیے بیٹھی ہوئی تھی 

اب وہ اسے کچھ سمجھتا کہ وہ لڑکی اپنی خوف ناک آواز میں کچھ بڑابڑئی  

آگئے تم کتنا عرصہانتظار کروایا تم نے یہاں مجھے  پچھلے سو سال سے میں تمہارے انتظار میں یہاں بھٹک رہی ہوں اور تم ہوں کہ اب آرہے ہوں  

مدیحہ نے اپنی آواز کو خوفناک بناتے ہوئے کہا تو حمزہ کے پسینے چھوٹے 

میں نے تو کچھ نہیں کیا تو آپ میرا انتظار کیوں کررہی ہیں حمزہ نے ڈرتے ہوئے کہا تو اس نے ایک خوفناک قہقہہ لگایا   

ہا ہا ہا ہا ہا  تم نے نہیں  تمھارے بڑوں میں سے میں ایک پر فدا تھی مگر اس نے مجھے دھتکار دیا اور مجھے یہاں قید کردیا میں پچھلے سو سال سے تمہاری راہ تک رہی ہوں کہ کب اس خاندان کا کوئی آئے اور میں اسے مارا کر اس قید سے چھٹکارا حاصل کر سکوں مگر  کوئی بھی نہیں آیا اور اب تم آگئے ہوئے اور تمہیں مارا کر اس قید سے رہائی حاصل کر لوں گئی یہ کہتے ہوئے مدیحہ نے اس کی طرف دیکھ  تو حمزہ کی چیخ پوری حویلی میں گونجی 

کیونکہ مدیحہ نے اپنے چہرے پر  خوف ناک  ماسک لگایا ہوا تھا جسے دیکھ کر  حمزہ کی چیخ نکلی گئی اور وہ خود حویلی کے اند کی طرف بھاگا پیچھے  وہ تینوں بھی جلد سے باہر ائی اور پھر ان چاروں کے قہقہے ہوا میں بلند ہوئے 

ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا  یا خادم لالہ تو بہت ڈرپوک واقع ہوئے مبشرہ نے کہا تو پھر سے چاروں کے قہقہے ہوا میں بلند ہوئے  مدیحہ نے اپنے بال سمیٹے اور جلدی سے ماسک اتار اور اسے وہی پھینک دیا 

چلو دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں گئے مدیحہ نے کہا  تو تینوں اندر کی طرف چلی گئیں  

______________

حمزہ جو حویلی کی طرف بھاگا تھا سامنے سے آتے غزلان شاہ  سے ٹکرایا اور اس سے پہلے کہ وہ دونوں گرتے غزلان شاہ نے اسے جلدی سے کمر سے پکڑا 

جو پیچھے سے آتی ان چاروں نے دیکھا 

واو کیا رومیٹک سین ہے  زرمینے نے  کہا اس کے کہنے کی دیر تھی کہ غزلان شاہ نے اسے جلدی سے کھڑا کیا  اور اسے تھوڑا دور ہوامگر حمزہ نے  جلدی سے اگے برھ کر اس کے سینے سے لگا

وہ ہ ہ ہ ہ  سائیں مجھے بچا لیں وہ چڑیل مجھے مار دے گئی 

پلیز مجھے بچالے  حمزہ نے ڈری سہمی ہیروئن کی طرح اس کے سینے سے لگ کر کہا 

تو غزلان شاہ حیران ہوا  

ریلکس کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا میں ہوں نا غزلان شاہ نے مجبورا ہیرو والے ڈائیلاگ بولے تو وہ پرانے ڈرامے کی ہیروئین کی طرح اس کو دیکھ 

جس پر غزلان شاہ نے اسے خود سے دور کیا 

کیا ہوا آپ مجھے بتائے  غزلان شاہ نے کہا 

اور ایک نظر ان چاروں کو دیکھ جو ہنسی  ضبط کرنے کی وجہ سے سرخ ہورہی ہیں 

پھر حمزہ کو جو ا ب کچھ حد تک خود کو سنبھال چکا تھا 

کیا کیا ہوا  غزلان شاہ پھر سے کہا تو حمزہ نے اسے کمرے سے لے کر چڑیل تک کی ساری باتیں اسے بتائیں  

جس پر غزلان شاہ نے  ناسمجھی سے اسے دیکھا 

نہیں ایسا کچھ نہیں ہے اور کسی کو بھی وہاں جانے سے منع نہیں کیا ہے  تمہیں ضرور کوئی غلطی فہمی ہوئی ہے  غزلان شاہ نے کہا تو  حمزہ نے فورا نفی میں سر ہلایا 

سرکار میں نے خود بی بی لوگوں کو باتیں کرتے ہوئے سنا ہے حمزہ نے کہا   تم ایسا کرو اب جاکر آرام کرو میں دیکھتا ہوں  غزلان شاہ نے کہا  تو حمزہ فورا انیکسی کی طرف چلا گیا مگر اس کی ٹانگیں ابھی تک کانپ رہی تھی  

جسے دیکھ کر چاروں کے قہقہے ایک بار پھر  ہوا میں بلند  ہوئے 

ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا  یار یہ سین بہت   مزاحیہ ہے زرتاشیہ نے ہنستے ہوئے کہا تو تینوں نے اثبات میں سر ہلایا  

ہاں مجھے تو وہ رومیٹک سین بہت اچھا لگا زرمینے نے بھی کہا 

اور مجھے خادم کی جب مجھے دیکھ کر چیخ نکلی وہ بہت اچھی لگی مدیحہ نے بھی حصہ لیا  

ہاں اور مجھے ان کا بھاگنا اور پھر لالہ کی باہوں میں سمانا  مبشرہ نے کہا اور ایک بار پھر ان چاروں کے قہقہے ہوا میں بلند ہوئےاو یہ سب تم لوگوں کی کارستانی ہے  غزلان شاہ نے انہیں ہنستے ہوئے دیکھ پھر ساری بات سمجھ آنے پر اس نے زرمینے کی طرف دیکھ  جو ایک ہاتھ اپنے پیٹ کےگرد رکھ ہوا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اپنی ہنسی کا مسلسل گلہ گھونٹنے کی کوشش کررہی ہیں جس کی وجہ سے اس کی رنگت میں سرخی چھائی ہوئی ہیں یہ منظر اسے دنیا کا خوبصورت منظر لگا  پھر حمزہ کی حالت یاد انے پر کہا 

نہیں لالہ یہ ہم نےنہیں سردارنی سائیںنے نے کہتا کرنے کو زرتاشیہ اور مدیحہ نے جلدی سے کہا تو زرمینے کی ہنسی کو بریک لگئی 

نہیں سائیں ہم تو بیمار ہیں ہم نے کیسے کیا ہوگا زرمینے نے جلدی سے اپنی صفائی پیش کی  

ابھی مبشرہ کچھ کہتی کہ اس سے پہلے ہی  غزلان شاہ نے انہیں ٹوک دیا 

اچھا بس ائیند ایسی کوئی بھی حرکت مت کرنا اور اب تم لوگ سردارنی سائیں کو اندر لے کر جاو پہلی ہی ان کی طبیعت خراب ہے غزلان شاہ نے کہا اور افس کی طرف چلاگیا کیونکہ آج وہ پہلے ہی بہت لیٹ ہوگیا تھا اس لئے انہیں ڈانٹے بغیر چلاگیا پیچھے زرمینے بھی ان دونوں کو گھورتی ہوئی اندر چلی گئی

کسی کو سونپا گیا تُو بغیر محنت کے

مری کمائی کوئی چھین لے گیا مجھ سے 

اب اس عذاب میں اک خودکشی ہے حل میرا

یہ ایک حل بھی مگر دین لے گیا مجھ سے

_______ 

یہ منظر یہ ایک بسمینٹ کا جہاں اس وقت  ڈی اور ایک اور شخص بیٹھ ہوا ہے 

یہ کیا ہے ڈی اس بار تم نے اتنا زیادہ میرا نقصان کروادیا ہے صرف ایک تمہاری بیوقوفی کی وجہ سے ہمارااتنا زیادہ نقصان ہوگیا ہے ڈی 

کیا میں نے  تمہیں  پہلے وارنگ نہیں دی تھی کہ آرمی والے ہمارے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی ہے تو تم نے تب بھی لا پرواہی کی داور واصف شاہ 

اس شخص نے ڈی کا نام لے کر کہا 

سوری بوس اس بار ایسا ہوگیا ہے مگر میں نے جو انفارمیشن اکٹھی کی ہے اس کے مطابق یہ کیس کوئی لڑکی  اور دو لڑکے حل کر رہے ہیں اور مجھے کسی پر شک ہے اس کے لئے مجھے  اج شام کو کراچی جانا پڑے گا اور آپ بے فکر ہوجائے باقی سب افسر کی طرح ان کا بھی وہی انجام ہوگا داور نے کہا 

اچھا تم جانتے ہوئے اس کام میں سامنے نہیں اتا اس لئے اس بات کا علم تمہارے علاوہ اور کسی کہ پاس نہیں کہ ڈی اصل بوس نہیں بلکہ میں ہوں 

اس نے کہا اچھا اب تم جاو اس نے  داور کو کہا تو وہ چلا گیا

انہیں کہو کہ بجھا کر اتنا نہ اترائیں 

کہ چراغ پر تو میرا انحصار تھا ہی نہیں

اور گلہ کرے وہ جنہیں امیدیں تھی تم سے 

ہمیں تو تیرا اعتبار تھا ہی نہی

___________

داور کو زرمینے پر شک تھا کیونکہ اس نے اس دن حویلی کی بیک سائیڈ پر ان لوگوں کو اکٹھے دیکھ لیا تھا  مگر ان کی کوئی بات نہیں سن سکا اس لیے اس نے زرمینے کے بارے میں ساری انفارمیشن نکلی  جس پر کچھ خاص  ہاتھ نہیں آیا  بس اتنا پتا چلا کہ وہ پہلے کراچی میں رہتی تھی اس لئے وہ خود کراچی جانے والا ہے 

دادو گھر آکر جلدی سے سامان لے کر ایا اور کراچی کے لئے  روانہ ہوگیا  

زرمینے نے اسے جاتے دیکھ  تو ایک دلچسپ مسکراہٹ اس کے چہرے پر ائی 

خب زریام اس کے پاس آیا 

تو شام کا کیا پلان ہے اس نے زرمینے سے پوچھا 

بھائی آج کا پلان آپ کے لئے نہیں بلکہ آپ کی بیوی کے لئے ہے زرمینے نے کہا 

مطلب  زریام نے ناسمجھی سے کہا 

برو مطلب یہ ہے کہ آپ کی بیوی آج میرے ساتھ  داور کے کمرے میں جائے گئی اور کیونکہ آپ انیکسی میں رہتے ہیں اور اگر رات کو حویلی میں ایے تو کسی کو بھی آپ پر شک  ہوسکتا ہے اس لئے زرتاشیہ میرے ساتھ آج جائے گئی کیونکہ وہ اس ہی حویلی میں رہتی ہے اور کسی کا بھی اس پر شک نہیں  جائے گا 

زرمینے نے تفصیل سے کہا تو زریام نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

اچھا اب تمہاراطبیعت کیسی ہے  بازو میں زیادہ درد تو نہیں ہورہا  بچے زریام نے پریشانی سے کہا توزرمینے نے نفی میں سر ہلایا  

نہیں برو  میں ٹھیک ہوں  زرمینے نے کہا 

اچھا برو اب آپ جائے اور پتا کریں کہ داور کس کام سے گیا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا

ہمممم میں جاتا ہوں اور تم آپنا خیال رکھنا تمہیں پتا ہے نہ کہ موم تمھارے لئے کتنی حساس ہے  اگر تمہیں کچھ ہوا تو وہ یہ صدما برداشت نہیں کوپائی گئی 

زریام نے زرمینے کو سمجھتے ہوئے کہا 

جی برو میں اپنا خیال رکھ لوں گئی آپ فکر مت کریں اور موم سے میری روز بات ہوتی ہے اور میں جانتی ہوں کہ موم میرے لئے بہت حساس ہے اگر نہیں یہ پتا چلا کہ میں اس وقت اس خاندان میں ہوں تو فورا یہاں آیا جائے گئی اور پھر آپ لوگوں کے ساتھ  کیا کریں گئی یہ میں نہیں جانتی  

زرمینے نے مسکرا کر کہاتو زریام بھی اپنا انجام سوچ کر  ڈرا پھر اسے دیکھ جو مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی ہے 

موم مجھ کچھ نہیں کہے گئی میں بیٹا ہوں  زریام نے کہا  تو زرمینے نے قہقہہ لگایا  

سچ میں برو زرمینے نے کہا تو زریام اسے گھورتا ہوا وہا سے  چلا گیا 

مگر ایل وجود تھا جو ان کی باتیں سن کر  حیران ہوا تھا اور بغیر کچھ کہے واپس چلا  گیا 

_____________ __ __ 

زرتاشیہ بھابھی اٹھو مجھے آپ سے ضروری کام ہے زرمینے  زرتاشیہ کے کمرے میں آئی تو وہ سامنے ہی  سوئی ہو ئی تھی 

اس لئے اسے اٹھتے ہوئے کہا 

کیا ہے زرمینے  آپ کو مجھے سے رات کے اس پہر کیا کام ہے زرتاشیہ نے ہنوز نیند میں کہا تو زرمینے نے  اسے گھورا اور سامنے ٹیبل پر  پڑا پانی کا جگ اٹھا کر اس کے اوپر انڈیل دیا 

جس پر زرتاشیہ ہڑبڑا کر اٹھی  

زرمینے یہ کیا ہے  زرتاشیہ نے صدمے سے کہا 

تو زرمینے نے اسے گھورا  

اٹھو مجھے آپ سے کچھ ضروری کام ہے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا  تو زرتاشیہ نے منہ بسورا 

بولو زرتاشیہ نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا 

تم پہلےاپنے کپڑے  بدلو پھر باہر  داور کے کمرے میں مجھے ملوں ابھی تو مطلب ابھی زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

تو زرتاشیہ جلدی سے اٹھ کر کپڑے بدلنے واش گئی 

 پیچھے زرمینے  داور کے کمرے کی طرف بڑھی  

 تھوڑی دیر کے بعد زرتاشیہ بھی داور کے کمرے میں اگئی 

ہم یہاں کیوں آ ئے ہے زرمینے  زرتاشیہ نے سنجیدگی سے کہا 

ہم یہاں کام کی وجہ سے  ائے ہیں زرمینے نے  پینٹنگ  جوڑتے  ہوئے کہا تو وہ دیوار سامنے سے ہٹ گئی 

جس پر زرتاشیہ حیران ہوئی  

یہ دیوار کیسے ہٹی اور ہم داود لالہ کے کمرے میں کیوں  

زرتاشیہ نے ایک ساتھ سوال پوچھے 

بھابھی  کیا آپ کچھ وقت کے لئے  خاموش ہوجائی گئی 

زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زرتاشیہ  خاموش ہو گئی 

 تو زرمینے  اگے گئی 

یہ ایک کمرہ تھا جس میں ساری جگہ خالی تھی مگر ایک جگہ کافی زیادہ  فائل پڑی تھی اور دو کرسی کے ساتھ ٹیبل بھی پڑا تھا 

دیکھو یہاں  ساری فائل میں سے ہمیں  بلیک ورلڈ فائل  لینی ہے اس لئے اپ ان فائل سے ڈھونڈو 

زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زرتاشیہ  جلدی سے  فائل دیکھنے لگی  

زرمینے  اس ٹیبل کے پاس گئہ اور باریکی سے اس کا جائزہ لینے لگی  پھر اس نے اس کے نیچے دیکھ تو وہاں اسے  ایک  یوایس بی  دیکھی اس نے جلدی سے اسے نکالا اور دیکھ 

زرمینے  وہ فائل  مل گئی ہے یہ دیکھو زرتاشیہ نے کہا تو زرمینے نے اس کے ہاتھوں میں وہ بلیو کلر کی فائل کو دیکھ   کہ تب ہی اسے زریام کی کال آئی 

یس برو ہمیں  فائل اور یو ایس بی  مل گئی ہے ہم بس وہاں ہی آرہے ہیں زرمینے نے کہا تو  زرتاشیہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا 

تب ہی زرمینے نے  بھی زرتاشیہ کو  دیکھا 

چلو  بھابھی زرمینے نے کہا تو زرتاشیہ اس کے پیچھے  انیکسی کی طرف چلی گئی 

انیکسی میں گئی سامنے ہی وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے 

زریام جلدی سے اگے آیا مگر حمزہ نے بس خفگی سے اسے دیکھ کیونکہ وہ اس سے اس چڑیل والے مذاق کی وجہ سے ناراض  تھا 

برولیپ ٹوپ لئے کر آئے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا  تو زریام  لیپ ٹوپ لئے کر آیا اور اسے زرمینے کو دیا اور خود زرتاشیہ سے فائل لے کر دیکھنے لگا 

حمزہ زرمینے کے ساتھ  لیپ ٹاپ  کو دیکھنے لگا 

زر یہ تو لاک ہے حمزہ نے کہا  تو  زرمینے نے نے ایسے دیکھ 

یہ ایک  خاص  لینگویج ہے  جو ڈارک ورلڈ میں استعمال ہوتی ہے 

اور یہ لینگویج  ڈارک ورلڈ کے لوگ اچھے سے جانتے ہیں 

زرمینے نے سنجیدگی سے کہا

تو اب ہم کیسے اسے کھولے گئے حمزہ نے پریشانی سے کہا تو  زرمینے  مسکرائی 

ساحل خان وہ ہیکنگ کا بادشاہ ہے اور ہر زبان میں  ماہر بھی اور وہ ہماری  مدد کریں گا زرمینے نے کہا تو  زریام نے ساحل کو کال کی 

کیا مسلہ ہے میں ابھی سویا ہوں  کیوں  بار بار کال کر کہ میری نیند کے دشمن  بن رپے ہوں اگے سے ساحل کی نیند میں ڈوبی آواز آئی 

افسر ساحل میں افسر زر بول رہی ہوں زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو  ساحل کے ہاتھ سے موبائل چھوٹا اور سیدھا بیڈ پر گر 

اسلام وعلیکم  میم  زرمینے کی آواز سنتے ہی اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہوئی اور پھر ہڑبڑ کر موبائل اٹھا کر کہا 

وعلیکم السلام  اگر آپ کی نیند پوری ہوگئی ہوتو میں نے کچھ بیجھا ہے اس کو ہیک کر کہ مجھے اس کا کوڈ بتاو اور یہ کام  جلدی سے کرو زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

تو اس نے اپنے موبائل میں دیکھ اور پھر لیپ ٹوپ لئے کر کچھ ٹائپنگ کرنے لگا 

تقریبا آدھا گھنٹہ بعد  اس نے انہیں  کوڈ بتا یا 

جس زرمینے نے جلدی سے لگا تو تمام  فائلیں کھول گئی 

زرمینے نے  ایک ویڈیو پر کلک کیا  

جس میں ڈی کسی کے ساتھ  بچوں کا  سودا کررہا ہے مگر اس کے چہرے پر  نقاب ہے 

پھر اس نے دوسری لگائی تو سامنے  ڈی کسی کو دھمکی  دے رہا ہے مگر سامنے والے نے اسے کچھ کہا تو اس نے چاقو اس کی گردن میں پھیر دیا اور خود اپنا چہرہ سے رومال  ہٹایا   

تو وہ چاروں سامنے داور کو دیکھ کر حیران ہوئے جبکہ زرتاشیہ نے ےو آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا کیونکہ اس نے اتنی ہی سفاکی سے اس شخص کو  بار باف چاقو مارے 

پھر انہیں  تیسری  لگائی تو اس میں ڈی کسی لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کررہا تھا کہ تب ہی کوئی  دروازہ کھولا کر آیا اور  ڈی کے ایک تھپڑ مارا 

اور بولا یو باسٹر تم یہاں  عیاش کر رہے ہوں اور ہمارا آرڈر  ابھی تک نہیں گیا اگر تمہاری وجہ سے مجھے کوئی نقصان ہوا تو میں تمہیں چھوڑو گا نہیں  اس شخص نے غراتے ہعئے کہا اور اس کے ساتھ ہی ویڈیو ختم 

مطلب ڈی داور ہے اور یہ اصل بوس نہیں  اصل بوس وہ آدمی ہے حمزہ نے کہا تو زرمینے نے اور زریام نے اثبات میں سر ہلایا  

اچھا  پتا چلا کہ وہ کیوں کراچی گیا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے پوچھا 

ہاں وہ ہمارے  بارے میں انفارمیشن لینے گیا ہے زریام نے جلدی سے کہا 

اچھا زرمینے مسکرائی  اب اسے وہی انفارمیشن ملے گئی جو میں چاہتی ہوں زرمینے نے  کہا اور ساحل کو کال کی جو اس کی کال کا انتظار کر رہاتھا 

جی ساحل نےکہا 

جو میں نے تمہیں  کہا تھا وہی ساری انفارمیشن داور کو ملے اس سے زیادہ  نہیں  زرمینے نے بغیر لگی پٹی سے کہا تو  ساحل اثبات میں سر ہلایا  

اور کال کاٹ دی 

اس کے لیے ہمیں  جال بچھانا پڑے گا زرمینے نے  سنجیدگی سے کہا تو  تینوں نے اسے ناسمجھی سے دیکھا 

مطلب زریام نے پوچھا  

برو اس شخص کو  منظر عام  پر  لانے کے لئے ہم میں سے کسی ایک کو منظر عام پر  آنا ہوگا زرمینے نے  کہا تو دونوں نے پرسوچ انداز میں سر ہلایا 

میں اوں گا منظر عام پر  کیونکہ اگر  تم میں سے کوئی آیا تو دوسرا بھی خطرے میں  پڑا سکتا ہے کیونکہ حویلی میں تم دونوں بہن بھائی بتایا ہے اس لئے جب تم دونوں میں سے کوئی آیا تو دوسرا  خوبخود سامنے آجائے گا 

مگر میری طرف ایسا کوئی سین نہیں  ہے  حمزہ نے سنجیدگی سے کہا تو دونوں نے اسے دیکھا  

جڑو اس میں تمہیں بہت خطرہ ہے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا مگر اس کے آنکھیں میں واضح پریشانی تھی جسے دیکھ کر حمزہ مسکرا  

میں نے یہ ڈیوٹی جوائن کرنے سے پہلے  موت کا ڈر اپنے اندر سے ختم کرلیا تھا کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کون سی گولی ہمیں  چھوا کر گزار جائے اور ہم ختم 

ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم دوبارہ  اپنے گھر والوں کو دیکھ سکے گے بھی نہیں  تو پھر ڈر کس بات کا 

اس لیے منظر عام پر میں ہی آوں گا  حمزہ نے  حتمی انداز میں کہا 

ہممم ان دونوں نے کہا 

اچھا اب میرے لئے  چائے ہی بنا لاوں میں نے  سوچا کہ میں  اج حمزہ کے ہاتھ کی چائے پیو گئی مگر یہاں تو ایسے کوئی بھی اثار نظر نہیں آرہے کہ تم مجھ چائے بنا کر پلاو زرمینے نے  ماحول کی سنجیدگی کم کرنے کے لئے کہا 

تم فکر ہی نہ کرو میں تمہارے چائے بالکل نہیں بناو گا کیونکہ میں ابھی تک بھولا نہیں  جو تم نے دن میں میرے ساتھ کیا ہےارے میرے پیارے جڑو میں نے  کیا کیا تھا تمھارے ساتھ  تمہیں لگتا ہے کہ میں اپنے جڑو کے ساتھ کچھ برا کرسکتی ہوں 

اور ابھی میرا دل بہت  چائے پینے کو کر رہا ہے اور اس کے ساتھ  مجھے درد بھی ہورہا ہے میں نے سوچا وہ برمزہ دوائی کھانے کے بعد اپنے جڑو کے ہاتھوں کی مزیدار چائے پیوگئی 

زرمینے نے مکھن لگاتے ہوئے کہا 

تو  حمزہ اس کی تعریف پر خوش ہوا

  میں ابھی چایے بنا کر لاتا ہوں بھابھی آپ ایک بار میرے ہاتھ کی چائے پیے گئی نہ تو سچ میں آپ میرے فین ہوجائے گئی  حمزہ نے پہلی بات زرمینے سے جبکہ اخری زرتاشیہ سے کہی 

تو اس کی خود کی اتنی تعریف کرنے پر زرتاشیہ مسکرائی 

جی ضرور میں آپ کے ہاتھوں کی بنی چائے ضرو پیو گئی  

زرتاشیہ نے کہا تو  حمزہ اور بھی خوش ہوا 

چلو زر کچن میں میرے ساتھ  کم از کم اب تم مجھے کمپنی تو دے کیونکہ اب تم چائے تو بنا نہیں سکتی 

حمزہ نے زرمینے کو کہا تو وہ اس کے پیچھے کچن میں چلی گئی 

اب زرتاشیہ اور زریام ہی بیٹھے  تھے 

خان  کب تک آپ مجھےمعاف کریں گئے تین سال بہت ہوتے ہے کسی کو سزا دینے کے لیے اپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کو کہاں کہاں نہیں ڈھونڈ  اپ کے جانے کے بعد ہر پل اذیت  سے گزارا  آپ جانتے ہے میں نے کیسے آپ کی یاد میں یہ ہجر کاٹا  اب میری بس ہوگئی ہے خان  اب تو  معاف  کردیں زرتاشیہ نے  اذیت بھرے لہجے میں کہا تو زریام کو اس کی اذیت پر اپنا دل بمد ہوتا محسوس ہو مگر اگنور کرگیا 

زرتاشیہ میں نے تمہیں معاف کردیا ہے اور تم جب چاہیے تب مجھے سے طلاق لے سکتی ہوںزریام  نے سفاکیت سے کہا تو زرتاشیہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا  

اس نے تو اس دن بھی اسے طلاق نہیں دی جس دن قس نے خود مانگی تھی اور آج اس نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ آپ جب چاہیے تب مجھے سے طلاق لے سکتی ہوںزرتاشیہ کی آنکھوں سے بے اختیار ایک آنسو نکلا  جسے اس نے جلدی سے صاف کیا مگر زریام نے  دیکھا کر دکھ سے اپنی آنکھیں پھیری 

اس سے پہلے کہ زرتاشیہ کچھ کہتی تب ہی زرمینے اور حمزہ  چائے لے کر  آگئے 

حمزہ نے چائے سرو کی اور اپنی چائے لے کر بیٹھ گیا  

 بھابھی کیسی لگی آپ کو میرے ہاتھ کی چائے  حمزہ نے ایکساٹیڈ ہوکر زرتاشیہ سے پوچھا  

بہتتتت اچھی بنی ہے چائے

زرتاشیہ کو اپنے آنسو حلق میں اٹکتے ہوئے محسوس ہوئے اس لئے اٹک اٹک کر کہا 

جس پر حمزہ اور زرمینے دونوں مسکرائے مگر زریام تو مسکرا بھی نہیں سکا 

اچھا برو اب ہم چلتے ہیں زرمینے نے چائے پی کر کہا تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا اور زرتاشیہ اور زرمینے انیکسی سے باہر آگئی 

کیا ہوا ہے  کیا اب بھی برو  نے کچھ کہا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زرتاشیہ نے اسے دیکھ  اور پھر مسکرائی اس کی مسکراہٹ میں تلخی تھی 

کیا ابھی تک برو نے آپ کو معاف نہیں کیا  زرمینے نے پھر کہا 

نہیں خان نے مجھے معاف کردے  مگر وہ کہتے ہیں کہ میں جب چاہو ان سے طلاق لے سکتی ہوں  زرمینے  زرتاشیہ نے سنجیدگی سے کہا 

رو زرمینے کے چہرے پر ایک سایا آیا 

زرمینے میں خان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں مجھے خان کے ساتھ محبت نہیں  عشق ہے  زرمینے اگر مجھے خان نہ ملا تو میں مرجاو گئی زرتاشیہ نے روتے ہوئے کہاتو زرمینے نے اسے اپنے گلے لگایا 

زرتاشیہ بھابھی  چپ ہوجاو  زرمینے نے کہا تو زرتاشیہ اور شدت سے رونے لگی 

اگر برو نے کہا ہے کہ انہوں نے تمہیں معاف کردیا تو انہوں نے سچ میں تمہیں معاف کردیا ہے  مگر وہ تمہیں قبول  میری اور تمہارے باپ کی وجہ سے نہیں کررہے ہیں زرمینے نے کہا 

تو زرتاشیہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

اس چیز کا مطلب تمہیں  دو دن میں پتا چل جائے گا  مھر میں برو سے بات کرو گئی زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زرتاشیہ نے اسے بس دیکھ 

تو زرمینے  اپنے کمرے کی طرف آرام کر نے کے لیے چلی گئیغزلان شاہ  اپنے کمرے میں بیٹھا زرمینے اور زریام کی باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا وہ اج زرمینے کی طبعیت  کے بارے  میں جاننے آیا تھا مگر اگے سے زریام اور زرمینے  کی باتیں  سن کر  حیران ہوا اور بغیر اس کی طبیعت کے بارے میں  پوچھے واپس آگیا 

اگلے دن  زرمینے جلدی اٹھی اور باہر  کچن میں  آگئی 

ارے بی بی  سرکار آپ یہاں  ملازمہ نے کہا 

جی وہ مجھے سائیں کے لئے کھانا بنوانا ہے زرمینے نے  کہا 

 جی بی بی سرکار  آپ مجھے بتائے کہ کیا بنانا ہے سرکار کے لئے ملازمہ نے کہا 

پھر زرمینے نے اسے بتایا اور پھر خود اپنی نگرانی میں ہر چیز تیار کروائی 

جب ناشتہ ریڈی ہوا تو زرمینے نے اسے  تھوڑا سا کھایا  جو بہت مزے کا تھا 

ہمممم کھانا اچھا بنا لیتی ہیں آپ مگر زرمینے سے کم زرمینے نے مسکرا کر کہا تو وہ اپنی تعریف پر خوش ہوگئی۔

بی بی سرکار آپ کو پسند آیا اس نے جوش سے کہا تو زرمینے  مسکرائی  

ہاں اور ابھی چلو سائیں کئ کمرے میں زرمینے نے کہا تو وہ بھی اس کے ساتھ  غزلان شاہ کے کمرے کی طرف چل دی 

اچھا ابھی تم یہی رہو میں تھوڑی دیر کے بعد تمہیں  بلاتی ہوں زرمینے نے کہا 

اور خود کمرے میں چلی گئی جہاں  غزلان شاہ  گہری نیند میں سورہا تھا 

زرمینے نے اسے دیکھا  

جو اس وقت کمفرٹ اڑھے معصوم سی مسکراہٹ کے ساتھ  سورہا ہے اور مسلسل مسکر رہا تھا زرمینے کی نظریں اسے کے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی  

کیونکہ وہ لگ ہی اتنا پیارا رہا تھا 

اور دوسری طرف  غزلان شاہ  مسلسل  خود پر نظروں کی تپش محسوس کر کے دیر سے اپنی آنکھیں کھولی اور زرمینے کی طرف دیکھ  جو اسے ہی دیکھ رہی تھی مگر اس کے دیکھنے پر سٹپٹا کر  اپنی نظریں جھکا لی 

اور غزلان شاہ اسے اپنا خواب سمجھ کر مسکرایا

وہ سائیں اٹھ جائے اور فریش ہوجائے میں نے آپ کے لئے ناشتہ ملازمہ سے بنوایا ہے اور اس نے بہت  ٹیسٹی بنایا ہےزرمینے نے ایک ہی سانس میں کہا  تو  غزلان شاہ چونکا جسے وہ خواب  سمجھ رہا تھا وہ تو حقیقت میں تھی 

اور اس کے ساتھ ہی اس کی باتیں یاد آئی جس کی وجہ سے وہ ساری رات سو نہیں سکا اور یہ پھر اس کی نیند خراب کرنے آگئ ہے  

اچھا آپ جائے میں آتا ہوں غزلان شاہ نے  سرد لہجے میں کہا تو زرمینے نے اسے دیکھا جس نے اسے سرد لہجے میں  مخاطب کیا ہے  کیونکہ وہ جب سے حویلی آئی ہے اسے تب سے غزلان شاہ کا نرم لہجے میں ہی بات کی ہے اور وہ اس کے نرم لہجے کی ہی۔عادی ہو گئی تھی مگر اب اس کا سرد لہجہ اسے تکلیف سے دو چار کرگیا 

سائیں میں آپ کے کپڑے نکل کر دیتی ہوں  زرمینے نے نے ایک بار پھر کہا 

نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے میں  خود اپنے کپڑے نکلا لوں گا  اور پلیز آپ  جائے یہاں سے  غزلان شاہ نے  سرد مہری سے کہا تو زرمینے کو دکھ ہوا اور وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی 

پیچھے غزلان شاہ  گہری سانس ہوا کے سپرد کیا 

اور پھر کسی کو کال کی 

اگر آج شام تک مجھے ساری انفارمیشن نہیں دی تو کل سے کام  انے کی ضرورت نہیں  غزلان شاہ نے سرد لہجے میں کہا تو سامنے والا اس کا سرد لہجہ سن کر گھبرایا  

جی جی سرکار  میں اج شام تک آپ کو ساری انفارمیشن دے دوں گا  سامنے والے شخص نے کہا تو غزلان شاہ نے ہنکارا بھرا اور کال کاٹ دیزرمینے نے ملازمہ کو کھانا لگانے اور انیکسی میں  دینے کا کہہ کر اپنے کمرے میں  آگئی کیونکہ اسے ابھی اپنے بازو  کی پٹی تبدیل کرنی تھی وہ پٹی  تبدیل کر کہ ابھی فری ہی تھی کہ ملازمہ اسے بلانے آگئی 

وہ بی بی سرکار کھانا آکر کھا لئے سب آگئے ہیں ملازمہ نے کہا 

اچھا آپ ایسا کریں کہ  کھانا مجھے یہاں ہی دے جائے اگر کوئی میرے نارے میں پوچھے تو  اسے کہنا کہ میرے سر میں درد ہورہا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو ملازمہ سر ہلا کر چلی گئی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے کھانا بھی دے گئیغزلان شاہ  فریش ہوکر ڈائننگ ٹیبل پر  آیا تو وہاں سب موجود تھے سوائے زرمینے کے جسے دیکھ کر غزلان شاہ کے کشادہ مااتھے پر بل پڑے  

سردارنی سائیں کہاں ہے وہ ناشتہ کرنے کیوں نہیں آئی غزلان شاہ نے  ملازمہ سے سرد مہری سے  پوچھا تو  ملازمہ ڈر گئی 

وہہہ سرکار میں  سردارنی سائیں کو بلانے گئی تھی مگر انہوں نےکہا کہ  ان کے سر میں درد ہورہا ہے  اس لئے وہ یہاں نہیں آئی تو میں نے ان کا ناشتہ ان کے کمرے میں دے دیا 

ملازمہ نے ڈرتے ہوئے کہا 

تو اپنی خانم کی تکلیف سن کر غزلان شاہ کو تکلیف ہوئی 

آپ لوگ ناشتہ کریں میں جواین کروگا غزلان شاہ یہ کہہ کر  زرمینے کے کمرے کی طرف چلاگیاجہاں سامنے ہی زرمینے مزے سے بیٹھی ناشتہ کررہی تھی  اس دیکھ کر حیرت ہوئی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اس سے اپنے رویہ پر شرمندہ تھا مگر اسے دیکھ کر سرمندگی ہوا ہوئی 

اسلام وعلیکم  غزلان شاہ نے کہا تو زرمینے نے سر اٹھا کر اسے دیکھ 

وعلیکم السلام  زرمینے نے کہا 

مجھے لگا آپ میرے رویہ کی وجہ سے ہرٹ ہوئی ہیں اس لئے نیچے نہیں ائی غزلان شاہ نے کہا 

جی مجھے سچ میں دکھ ہوا ہے آپ کے رویہ کا ایک تو ہر مرد شادی کے شروع میں  عورت کو اتنا مان عزت اور ٹائم دیتا ہے کہ وہ ان سب چیزوں کی عادی ہوجاتی ہے مگر پھر وہ جب وہ کوئی تلخ بات یا پھر اس سے ٹائم نہیں دیتا تو وہ ہرٹ ہوتی پھر آپ لوگ اس کہتے ہیں کہ اس کا تو ہر ٹائم کا یہی رونا ہے باخدا اگر تم لوگ پہلے ہی اسے اتنا ٹائم دوں جتنا بعد میں دے سکتے ہوں تو وہ کبھی بھی ہرٹ نہیں ہوگئی کیونکہ وہ آپ کے زیادہ ٹائم کی عادی نہیں ہوگئی 

اسی طرح آپ کا رویہ پہلے میرے ساتھ انتہائی نرم مگر آج سرد ہوگیا ہے جس کی وجہ سے میں ہرٹ ہوئی ہوں مگر خیر چھوڑے زرمینے نے کہا تو غزلان شاہ اپنے تویہ پر اچ میں شرمندہ ہوااچھا آپ جو میرے بارے میں انفورمیشن  نکلوا رہے ہیں کیا ملی آپ کو زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو غزلان شاہ نے حیرت سے اسے دیکھا 

اتنا حیران ہونے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے  کیونکہ آپ میرے بارے میں جب سے معلومات اکٹھی کر رہے ہیں مجھے تب سے ہی علم ہے میں چاہتی تھی کہ آپ خود آکر مجھے سے پوچھے مگر آپ نے پوچھا ہی نہیں ورنہ باخدا میں آپ کو اپنے بارے میں بتا دیتی  مگر لگتا ہے آپ کو لگا کہ میں جھوٹ بولو گئی  اس لئے ہی نہیں پوچھا زرمینے نے کہا تو  غزلان شاہ نے نفی میں سر ہلایا 

ابھی وہ کچھ کہتا کہ زرمینے نے اس کا ہاتھ پکڑا کر باہرکی طرف   چلی گئی 

نورے نورے کہاں  ہوا

لاونچ میں پہنچ کر  زرمینے نے اونچی آواز میں نورے کو بلایااس کی اونچی آواز سن کر تمام گھر والے  لاونچ میں آئے 

جی بی بی جی نورے نے کہا 

جاو اور برو کو بلاو کہ زر بلا رہی ہے ناکہ زرمینے   کیا کہنا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے پوچھا  

وہ بی بی جی آپ کے بھائی کو بلانا ہے اور انہیں کہنا پے کہ زر بلا رہی ہے نورے نے ڈرتے ہوئے کہا 

جاو اور بلاو زرمینے نے کہا تو نورے جلدی سے انیکسی کی طرف بھاگی  

پیچھے سارے گھر والے  زرمینے کو دیکھ رہے ہیں 

یہ کیا حرکت ہے لڑکی  احمد شاہ نے کہا 

تو زرمینے عجیب انداز میں مسکرائی  

ابھی پتا چل جائے گا مسڑ شاہبس آپ سب برو کے آنے کا انتظار  کریں زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو تمام لوگوں نے اسے حیرانگی سے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں  

تھوڑی دیر بعد زریام بھاگتا ہوا لاونچ میں آیا 

زرمینے کیوں بلایا ہے  زریام نے پوچھا تو زرمینے مسکرائی 

برو ان لوگوں کو میرے بارے میں جاننا ہے  تو میں نے سوچا کیوں نا انہیں زر کے بارے میں سب بتا دیا جائے اس لئے آپ کو بھی بلا لیا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زریام نے نفی میں سر ہلایا 

جس پر زرمینے مسکرائی 

تو آپ سب کو خاص کر غزلان شاہ کو میرے بارے میں جاننا ہے 

نصیب میں لکھی گٸیں ازیتیں 

سہہ بغیر تو ہم مر بھی نہیں سکتے🖤

میں زرمینے شاہ ہوں میں ایک شاہ خاندان سے ہوں میں وہ بدنصیب لڑکی ہوں جس کے پیدا ہوتے ہی اس کے باپ نے اسے کچرے میں پھینکنے کا  نرس کو کہہ دیا میں وہ بدنصیب لڑکی ہوں جس  کی ماں نے اسے دیکھ ہی نہیں  بلکہ اس کی ماں کو یہ بتادیا کہ میں مری پوئی پیدا ہوئی ہوں  میں وہ  بدنصیب لڑکی ہوں جس  جو جائز ہوکر بھی ناجائز کہلایا( اس وقت اسے دادی کی باتیں یاد آئی تھی)  میں ہوں زرمینے شاہ  والد ریاض شاہ اور والدہ کوثر شاہ  میں ہوں ان کی اولاد ارے وہ بدنصیب اولاد جو اپنے باپ پر بوجھ تھی زرمینے کہتی ہوئی اخر میں اس کا لہجہ بھیگا اور وہ مضبوطی سے کھڑی سب کو اپنی اصلیت بتا رہی تھی مگر اندر سے ایک بار پھر ٹوٹ گئی پہلی بار خود ہی اصلیت جاننے کے بعد اور دوسری بار اپنی اصلیت بتاتے وقت 

 جبکہ تمام گھر والے  صدمے سے زرمینے کو دیکھ رہے ہیں  

 ائے لڑکی کیا بکواس کر رہی ہوں   ریاض شاہ کی آواز نے سب کو شوک سے نکلاجس پر زرمینے تلخی سے مسکرائی  اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی کہ

 ٹھاہ کی آواز پورے لاونچ میں گونجی زرمینے نے اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر حیرت سے سامنے کھڑی کوثر بیگم کو دیکھ  

جس نے اس کے منہ پر تھپڑ مار ہے 

تمہیں شرم انی چاہئے لڑکی میری مری ہوئی اولاد کے بارے میں کیا بکواس کررہی ہوں کوثر  بیگم نے کہا 

اچھا تو آپ کو مجھے پر یقین نہیں ہے  ابھی تھوڑی دیر میں ہی ثبوت خود چل کر آرہا ہے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

تو زریام اگے آکر زرمینے کو پانی پلایا

_____________

"میرے مرنے کے بع"میری کہانی لکھنا...!

"کیسے برباد ہوئی..  "میری جوانی لکھنا...!

"اور لکھنا میرے ہونٹ."میری خوشی کو ترسے...!

"کیسے برسا میری... "آنکھوں سے پانی لکھنا...!

"اور لکھنا اسے انتظار...   "تو بہت تھا تیرا...!

"آخری سانسوں کی... "وہ روانگی لکھنا...!

"لکھنا کے مرتے وقت بھی...    دی تھی دعا تجھکو...!

"ہاتھ باہر تھا کفن سے...!"یہ نشانی لکھنا...!😞💔💔〽️

 تب ہی داود حویلی میں داخل ہوا   تو سب کو لاونچ میں جمع دیکھ کر  حیران ہوا  

تایا سائیں یہ لڑکی ہمیں دھوکا دے رہی ہے یہ کوئی غریب لڑکی نہیں بلکہ یہ ریاض شاہ اور کوثر شاہ کی بیٹی ہے یہ دیکھے اس کا برتھ سرٹیفکیٹ اور یہ ڈی این اے ٹیسٹ  زرمینے  کو دیکھ کر  داود نے کہا تو تمام لوگوں نے اسے حیرانگی سے اسے دیکھا  پھر سب نے اس کے ہاتھ سے وہ تمام کاغذات پکڑے  اور جیسے جیسے  پڑھتے گئے سب لوگ حیرانگی اور صدمے سے ریاض شاہ کو دیکھا 

___________________

کہ تب ہی حمزہ ارمی یونیفارم میں اپنی ٹیم کے ساتھ حویلی میں آیا

سب لوگ جو زرمینے کی ریاض شاہ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے شوکڈ تھا وہ خادم کو یوں آرمی یونیفارم میں آتے دیکھ کر  حیران ہوئے 

افسر اریسٹ ہم حمزہ نے اپنے ساتھی سے کہا 

تو وہ  داود کو پکڑنے آگے بڑھا  

یہ کیا کر رہے ہوں میرے بیٹے کو کیوں گرفتار کر رہے ہوں  آصف شاہ  داود کا باپ جلدی سے داود کے اگے آ کر بولا 

دیکھیں آپ کا بیٹا ایک ڈاون ہے یہ گرلزز اور بچوں کی  اسمگلنگ کرتا ہے اس کے علاوہ یہ اور بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے اور اس کا بلیک ورلڈ میں نیم ڈی ہے جو یہ سارے کام  کر رہا ہے ہم اس کیس کو پچھلے  بہت عرصے سے حل کر رہے ہیں مگر اس نے ہمارے افسر کو مار دیا  اس وجہ سے مجھے آپ لوگوں کے گھر میں گھوسنے کے لئے وہ سب کرنا پڑا اور میرا اصل نا افسر حمزہ جبران خان  ہے  

کیا ثبوت ہے آپ کے پاس کہ داود ہی ڈی ہے غزلان شاہ نے پوچھا 

یہ یوایس بی جس میں اس کے سارے کارنامے موجود ہے وہ بھی ثبوت کے ساتھ حمزہ نے یو ایس بی دیکھتے ہوئے کہا 

 ائے لڑکے تم میرے بیٹے کو اس طرح نہیں لے جاسکتے  واصف شاہ نے تڑپ کر کہا 

تو حمزہ پراسرار مسکرایا 

اوکے میں آپ کے بیٹے لو نہیں گرفتار کرتا مگر میں یہ ویڈیو میڈیا کو دینے والا ہوں تو جن کے گھر کی عزت کے ساتھ آپ کے بیٹے نے کھیلا ہے وہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گئے  اور جن کے معصوم بچوں کو آپ کے بیٹے نے  چند پیسوں کے لئے بیچا ہے آپ کیا لگتا ہے وہ ماں باپ چپ رہے گئے معلوم نہیں کونسی اور کس کی گولی پر آپ کے بیٹے کا نام ہوں 

سنو سب اسے گرفتار مت کرنا ویسے بھی یہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے  حمزہ نے تمام افسر کو  مخاطب کرتے ہوئے کہا تو تو افسر مسکرائے 

اوکے سر تمام افسر نے کہا  

اور حمزہ کی باتیں سن کر  واصف شاہ کے چہرے پر ایک سیایا آیا 

نہیں تم لے جاو اسے واصف شاہ نے کہا  تو  حمزہ عجیب انداز میں مسکرایا کیونکہ وہ انجان تھے کہ وہ اپنا بیٹا  ایک جہنم سے نکلا کر دوسری جہنم میں ڈال رہے ہیں 

مگر اس وقت انہیں اپنے بیٹے کی جان عزیز تھی وہ جانتے تھے کہ آرمی اس کے بیٹے کو  بہت ٹوچر کرئے گی مگر انہیں اس بات کی تسلی تو ہوگئی کہ وہ زندہ ہے مگر جس طرح  حمزہ بول رہاتھا اس سے ان کو داود کے بچنے کے چانس بہت کم لگےاوکے  آفسر اریسٹ کرو اور اسے لے جاو حمزہ نے کہا تو ایک افسر نے داود کو پکڑا اور اسے لے کر چلا گیا اس کے پیچھے ہی باقی افسر بھی حویلی سے چلے گئے 

ویسے آپ نے بہت غلط فیصلہ لیا ہے آپ اس بات سے انجان ہے کہ ہم آپ کے بیٹے کے ساتھ کتنا برا کرنے والے ہیں  حمزہ نے مسکرا کر کہا 

تو واصف شاہ نے  غصے سے اسے دیکھا  پھر اپنی جیب سے بندوق نکال کر حمزہ کے اوپر تان لی 

میں تمہیں چھوڑو گا نہیں  تمھاری وجہ سے میرا بیٹا  جیل گیا ہے واصف شاہ نے  غصے سے کہا  

اچھا اتنی ہمت ہے آپ میں کہ ایک آرمی  افسر پر گولی چلا ئے گئے حمزہ نے کہا  

تو زرمینے اور زریام  پریشانی سے  ان دونوں کو  دیکھا 

باقی گھر والے کا حال بھی ان سے مختلف نہتھا 

ایک منٹ اپ گولی مت چلے گا اسے لگے گئی 

زرمینے نے جلدی سے کہا تو سب نے حیرانگی سے اسے دیکھا  سوائے زرتاشیہ کے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زرمینے حمزہ کے بہت قریب ہے  

سب کے اس طرح دیکھنے سے زرمینے  ہڑبڑائی 

وہ میرے کہنے کا مطلب تھا کہ آپ ایک آرمی افسر کو ماردے گئے تو کیا آپ بچ جائے گئے اور وہ آپ کے بیٹے کو بھی نہیں چھوڑے گئے  زرمینے نے کہا تو  واصف شاہ نے گن ہٹائی 

آپ پلیز  یہاں سے جائے زرمینے نے حمزہ سے کہا تو  حمزہ نے مسکرا کر زرمینے کو دیکھا اور پھر ایک نظر شوکڈ کھڑی مدیحہ کو دیکھ کر ایک آنکھ دبائی جس پر وہ صدمے سے باہر آئی اور ہڑبڑا کر اس سے نظروں پھیری اس کے اس طرح کرنے سے حمزہ دلکشی سے مسکرا کر وہاں سے چلا گیا 

____________________

زرمینے تم نے مجھے کیوں بلایا ہے زریام نے پوچھا 

اب برو میں نے آپ کو یہ تماشہ دیکھنے کے لئے تھوڑی بلایا ہے میں نے تو آپ کو ایک بریکنگ نیوز دینے کے لئے بلایا ہے   زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زریام نے ناسمجھی سے اسے دیکھامطلب  زریام نے ناسمجھی سے کہا 

وہ برو انہیں پتا چل گیا ہے کہ میں آوٹ آف کنٹری نہیں گئی بلکہ یہاں لاہور میں ہوں زرمینے نے کہا تو  زریام نے صدمے سے اسے دیکھا  

زرمینے زریام نے کہا 

اور ڈیڈ اس وقت ساحل کے فلیٹ میں ہمارا شفٹ ہونے کا انتظار کر رہاہے  زرمینے نے آنکھیں گھما کر کہا 

تو کیا انہیں تمہارے نکاح کا بھی پتا چل گیا ہے زریام نے پوچھا 

نہیں برو ابھی تک نہیں  معلوم ہوا  ابھی تو بس اتنا ان کو معلوم ہوا ہے کہ میں یہاں ہوں زرمینے نے کہا  

تو زریام نے  اثبات میں سر ہلایا  

اچھا انہیں کس نے بتایا  زریام نے پوچھا  

اس ساحل  نے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا توزریام نے ناسمجھی سے اسے دیکھا  

 اس نے کیوں بتایا  زریام نے پوچھا 

وہ اپنی خالہ کی گڈ بکس میں آنے کے لئے بتا دیا ہوگا مگر برو اب ہماری خیر نہیں ہے  زرمینے نے پریشانی سے کہا  

اچھا تم چلنے کی تیاری کرو وہاں جاکر دیکھے گئے اور اگر موم نے ہمیں بھی گھر سے نکال دیا تو ہم بھی ڈیڈ کی طرح  اس ساحل کے فلیٹ میں رہے گئے تب اسے احساس ہوگا کہ اتنی زبان نہیں چلانی چاہئے  زریام نے پہلی بات زرمینے کو  اور جب کہ آخری بات ساحل کو سوچتے ہوئے کہا 

جی برو اب آپ اپنی پیکنگ کر لے زرمینے نے کہا تو زریام اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا 

جب زرمینے لاونچ میں۔بیٹھے افراد کی طرف متوجہ ہوئی جو حیرانگی سے ان کی باتیں ہی سن رہے ہیں 

ویسے کمال کا خاندان ہے آپ کا ایک شخص اپنی بیٹی کو  پھینکنے کا کہہ رہا ہے اور دوسرا ایک ڈون ہے جو معصوم بچوں کی اسمگلنگ کرتا ہے  

زرمینے نے استہزائیہ انداز میں کہا 

اخر اب میں بھی چلتی ہوں  کیونکہ گھر میں میری موم کو پتا چل گیا ہے کہ میں یہاں ہوں  اور وہ بہت ناراض ہے مجھے سے  اس لئے اب مجھے  چلنا چاہئے 

زرمینے یہ کہہ کر اوپر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تاکہ  اپنا سامان  لے سکے

 کہاں سے ڈھونڈ لاؤں اسے 💔😞💯 

اے زندگی جو کھو گیا کسی راہ پہ🥀

______________

اس کے جانے کے بعد  کوثر بیگم   نیچے بیٹھتی چلی گئی  

جب غزلان شاہ ان کے پاس آیا 

غنی وہ میری بیٹی ہے اور اب پھر وہ مجھے  چھوڑ کر  جارہی ہے  کوثر بیگم نے روتے ہوئے غزلان شاہ کو کہا 

غنی تمہیں پتا ہے یہ شخص  مجھے اس بات کا طعنے دیتا تھا کہ میں نے مری ہوئی اولاد پیدا کی ہے اور یہ مجھے شروع دن سے ٹوچر کرتا آیا ہے مجھے لگتا کہ سچ میں میری وجہ سے ہی بچہ مرا ہوا پیدا ہوا ہے مگر میں غلط تھی  میری اولاد اس نے پھنکوا دی تھی   اس نے مجھے سے میری اولاد چھین لی  اور اس کے بعد دن رات مجھے اس بات پر ٹوچر کرتا رہتا مگر میں  چپ رہی صرف اس لئے کہ شاید اس کو بھی اپنی اولاد کھونے کا صدما ہوامگر نہیں  غنی تم ابھی اور اسی وقت اسے میری نظروں سے دور کر دوں ورنہ میں اسے مار دوں گئی  کوثر بیگم نے اتنے سالوں کا اپنے اندر سے غبار نکالا اور ساتھ ہی ریاض صاحب  کو نفرت سے دیکھ کر کہا 

جس پر غزلان شاہ نے ملازمہ سے کہہ کر انہیں  وہاں سے بھیج دیا 

واصف شاہ اور نجمہ بیگم  وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلاگیا کیونکہ انہیں ان سب سھ زیادہ اپنے بیٹے کی فکر تھی 

جس درد سے گزرے ہیں ہم..!!

‏تم گزرے ہوتے تو گزر گئے ہوتے..!!

آپ چپ ہوجائے میں خانم کو کہی نہیں جانے دوں گا کیونکہ اب وہ آپ کی بیٹی کے ساتھ میری بیوی بھی ہے غزلان شاہ نے کہا 

کیا سچ میں تم میری بیٹی کو کہی نہیں جانے دوں گئے کوثر بیگم نے امید سے پوچھا 

جس پر غزلان شاہ نے اثبات میں سر ہلایا 

زرتاشیہ آپ اپنی موم کو سنبھالے میں ذرا خانم کو دیکھ کر آتا ہوں غزلان شاہ نے زرتاشیہ سے کہا تو وہ اگے بڑھ کر کوثر بیگم کو پکڑا  جس پر کوثر بیگم زرتاشیہ کے گلے لگی  زرتاشیہ میری بیٹی تمہاری بہن کوثر بیگم نے روتے ہوئے  کہابس مما غزلان لالہ گئے ہیں وہ دیکھنا زرمینے کو  کہی نہیں جانے دئے گئے زرتاشیہ نے کہا  اور کوثر بیگم کو ان کے کمرے کی طرف لے گئی وہاں انہیں نیند کی دوائی دے کر سلا دیا 

اب اس کا رخ انیکسی کی طرف تھا 

____________

یہ منظر ایک  اندھیرے کمرے کا ہے جس میں  میں ڈی کا بوس  کسی شخص سے کوئی بات کر رہا ہے 

سر ایک طریقہ ہے  ڈی کو آرمی سے نکالنے کا اس کے لئے ہمیں آپ کی بیٹی کی ضرورت ہوگئی 

اس شخص نے کہا تو  واصف شاہ کے ماتھے پر بل پڑے  مطلب  کیا ہے تمہاری اس بات کا  واصف شاہ نے غصے سے کہا 

جیسا کہ میں اور ڈی ہی اس راز سے واقف ہے کہ آپ یعنی  واصف شاہ ہی ڈی کے بوس ہوں اس لئے میں آپ کی حفاظت کے لیے  حویلی میں آتا جاتا تھا اس دن بھی میں آپ کے ہی کسی کام سے حویلی میں آیا تھا تب میں نے اس حمزہ کو  یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ محبت تو مجھے بھی مدیحہ شاہ سے ہے مگر میرا اور اس کا کبھی جوڑ نہیں بن سکتا اور اگر آپ اس وقت اپنی بیٹی کو اسے بلانے کا کہے گئے تو وہ افسر بھاگا بھاگا آئے گا 

اس شخص نے کہا تو واصف شاہ  گہری سوچ میں ڈوب گیا  

ہممم میں دیکھتا ہوں تم اب یہاں سے دفعہ ہوجاوواصف شاہ  شروع سے ہی احساس  کمتری  کا شکار تھا کیونکہ  ان کے والد واصف شاہ سے زیادہ  احمد شاہ کا خیال کرتے تھے اور ان سے ہی زیادہ  پیار کرتے تھے ایسا واصف شاہ کو لگتا اور پھر  جب سردار بنانے کی باری آئی تو ان کے والد نے احمد شاہ کو بنا دیا جس وجہ سے وہ ڈرگز لینے لگے جب ان کے والد کو پتا چلا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی واصف شاہ  نشے کے بہت عادی ہوچکے تھے ان کے والد نے  انہیں نشے سے دور رکھنے کے لئے ان کو پیسے دینے بند کر دے جس کی وجہ سے وہ غلط کاموں میں پڑا گیا 

اور پھر اس نے اپنے بوس کو مارا کر اس کی جگہ خود سنبھالی  اس نے ڈون بنے کے بعد اپنے باپ کو بھی مار دیا وہ تو اپنے بھائی کو بھی مار دیتا اگر اس کے باپ نے وصیت نہ کی ہوتی کہ سارے کاروبار  احمد شاہ  کے نام اور اگر احمد شاہ کو کچھ ہوتا ہے تو یہ ساری دولت حکومت کی تحویل میں چلی جائے گئی مگر پھر جب احمد شاہ نے اپنے بیٹے کو سردار بنایا تو یہ آگ اور بھڑ گئی کیونکہ غزلان شاہ  ہمیشہ  دوسرے ملک میں رہا ہے اور داود اس ہی ملک میں اسے لگا کہ وہ اس کے بیٹے کو نیا سردار بنا ئےگا مگر اس نے اپنے بیٹے کو بنایا پھر واصف شاہ نے اپنے بیٹے کو بھی اس کام کا حصہ بنا لیا اور پھر خود منظر سے ہٹ گیا جبکہ ڈی کو سامنے لے آیا 

________________

مدیحہ بیٹا آپ میری بات سن لے  واصف شاہ نے  مدیحہ کو بلا کر کہا 

جی مدیحہ نے کہا  تو ریاض شاہ نے اسے دیکھ جو اس وقت  نیلے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اس کے اوپر ایک بڑا سا دوپٹہ لیا ہوا ہے 

بیٹا آپ کے  بھائی کو اس افسر نے الزام لگا لر لے گیا ہے اب وہ اسے بہت زیادہ  ٹوچر کریں گا واصف شاہ نے  دکھی لہجے میں کہا تو مدیحہ الجھی مطلب  کیا ہے  آپ کا با با سائیں مدیحہ نے کہا 

بیٹا آپ ان آرمی والوں کو نہیں جانتی یہ بہت خطرناک ہوتے ہیں اور یہ بہت قسم کے انسان جو کہ مجرم ہوں اسے ٹوچر کرتے ہے اور ان کے ٹوچر کرنے کا طریقہ صرف مار نہیں  بلکہ اور بہت کچھ ہوتا ہے  واصف شاہ نے مزید کہا 

تو کیا بابا یہ داود لالہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے مدیحہ نے کہا 

تو واصف شاہ نے اثبات میں سر ہلایا 

بابا تو اب ہم۔ کیا کر سکتے ہیں مدیحہ نے کہا تو واصف شاہ  شاطر انداز میں مسکرایا  

تمہیں  بس یہ بندوق حمزہ کو بلا کر اس کے اوپر تاننی ہے اور پھر اس سے فائر کرنا ہے واصف شاہ نے کہا  

تو مدیحہ ڈر گئی 

نہیں با با ہم اہسا کچھ نہیں  کریں گئے مدیحہ نے کہا تو واصف شاہ نے ناگواری سے دیکھا 

ٹھیک ہے  تم یہ مت کو مگر جب وہ افسر تمہارے باپ کو بھی اسی طرح اریسٹ کر کے لیجئے گا  اور تمہاری ماں جس نے اب اپنے بیٹے کی گرفتاری دیکھ کر روئے جارہی ہے وہ کیا  کریں گئی جب میں بھی اریسٹ ہوجاو گا تو وہ تو جاتے جی مر جائے گئی واصف شاہ نے کہا 

مگر بابا وہ آپ کو کیوں اریسٹ کریں گا مدیحہ نے کہا

کیونکہ بیٹا اب داود کے بعد ان کا شک مجھے پر ہی جائے گا  

کیونکہ میں داود کا بپ ہوں  اس بار واصف شاہ نے  غمگین صورت بنا کر کہا 

تو ان کی شکل دیکھ کر مدیحہ بھی دکھی ہوئی 

ٹھیک ہے بابا میں ایسا کرو گئی مگر اس کے بعد آپ اور داود لالہ کو تو کچھ نہیں  ہوگا مدیحہ نے کہا تو واصف شاہ نے نفی میں سر ہلایا 

پھر مدیحہ نے  حمزہ کو فون کے کے ایک سنسان سڑک پر بلایا اور خود بھی وہاں چلی گئی 

‏تیرے آنے کی خُوشی میں ہم نے

‏تیرے جانے کا تو سوچا ہی نہ تھا

_________________

یہ منظر ہے  ایک سنسان سڑک کا جہاں  ایک طرف  ایک لڑکی  ہاتھ میں پستول لئے کر کھڑی ہے اور دوسری طرف  ایک لڑکا  کھڑا  ہے  اس کی آنکھوں میں  بے یقینی تھی  وہ حیرت سے اس لڑکی کو  دیکھ رہاتھا جیسے یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہے  کہ جس نے اس پر پستول  تانی ہے وہ وہئ لڑکی ہے یا نہیںمگر اس کو ہوش تو تب آیا جب ایک لوہے کی گرم چیز اپنے جسم میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئی  اور ایک انسو تھا جو اس لڑکے کی  آنکھوں سے نکلا تھا اور وہ وہی گرگیا 

اور وہ لڑکی  جس نے اپنے عشق اور اپنے بھائی  ماں اور طاپ میں اے کسی ایک کو چننا تھا اس نے ان کو چنا جس نے اس کے لئے بہت کچھ کیا تھا ہاں اس نے ان کی زندگی چنی اور اپنا سب کچھ ہار گئی وہ شخص جو اس کا عشق ہے اس کو مار ڈالا  وہ صدمے کی حالت میں پستول نیچے گرگیا تب ہی ایک اور گولی چلی اور اس لڑکی کو چھوئی اس نے خود پر گولی چلانے والے شخص کو  دیکھ تو ایک تلخ مسکراہٹ آئی مگر جب زمین پر  پڑے دوسرے شخص کا وجود دیکھ جو بےہوش ہوگیا ہے  ایک انسو کی لڑی اس کی آنکھوں سے نکلی  

ممممممجھے مممععافففف کردیں اور وہ وہی بے ہوش ہوگئ

دولت شہرت نہیں چاہیے

تیرے پیار کا سہارا کافی ہے 

واصف شاہ بھاگ کر  مدیحہ کے پاس آیا 

مدیحہ میری بچی  تم اگے کیوںآگے آئی میری  بچی واصف شاہ نے مدیحہ کے بازو سے خون کو بہتے دیکھ کر کہا  اس سے پہلے کہ وہ مدیحہ کو اٹھا کر ہسپتال لے کر جاتے انہیں  اپنے سے تھوڑی دور گاڑی روکتی ہوئی محسوس ہوئی  انہوں نے جلدی سے حمزہ پر ایک ساتھ رو فائر کیے اور وہاں قریب ہی چپ گیے 

ساحل بھاگ کر حمزہ کے پاس آیا تو اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا مگر پھر جلدی سے اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر حمزہ اور مدیحہ کو گاڑی میں بیٹھایا اور جلدی سے گاڑی ہسپتال کی طرف لے گیا 

ارحم تیز گاڑی چلا پلیز دیکھ وہ بے ہوش ہو گیا ہے اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں اس کی ماں کو  کی جواب دوں گا  ساحل نے حمزہ کو دیکھ کر کہا 

 تقریبا آدھا گھنٹہ بعد وہ لوگ ہسپتال پہنچے تو سامنے ڈاکٹر ماہم کھڑی تھی باقی ڈاکٹر کی ٹیم کے ساتھ کیوں ساحل نے آنے سے پہلے ہی انہیں ساری صورت حال بتا کر تیار رہنے کو کہا تھا 

سو وہ تیار تھی

‏قُدرت کے فیصلوں کا بھی لازم ہے احترام..!!

ورنہ میں چاہتا تھا میرے ساتھ تُو رہے..!!

اس لئے ان کے اتے ہی حمزہ کو ای سی یو کی طرف لئے گئے اور ڈاکٹر ماہم ساحل کے پاس آئی 

ساحل اس کے بھائی اور بہن کو انفارم کر دوں  ڈاکٹر ماہم نے کہا تو  ساحل نے اثبات میں سر ہلایا  اور زرمینے کو کال کرنے لگا 

____________________

زرمینے جو پیکینگ کر رہی تھی درواز کھولنے کی آواز پر سامنے دیکھ جہاں غزلان شاہ  اسے ہی دیکھ رہا تھا 

کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ خانم ہم نے آپ کو مان دیا عزت دی اور آپ نے ہمیں دھوکہ دیا اور اب جدائی دینے والی ہیں غزلان شاہ نے درد بھرے لہجے میں کہا تو زرمینے نے اسے دیکھا جو اس وقت سنجیدگی سے زرمینے کے سامنے کھڑا اسے ہی دیکھ رہا ہے 

سائیں میں آپ کو کبھی بھی دھوکہ نہیں دینا چاہتی تھی مگر میرے پاس ان سب کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا میں تو آپ سے نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی مگر اس دن آپ کے بابا سائیں نے ہمیں مجبور کیا اور میں بہت جلد آپ سے طلاق لے لوں گئی اس طرح آپ آزاد ہو جائے گئے 

مگر میری طرف سے آپ شروع سے ہی آزاد ہیں آپ چاہے تو دوسری شادی کر سکتے ہیں 

زرمینے نے سنجیدگی سے کہا مگر نجانے کیوں اس کی دوسری شادی کا کہتے ہوئے اسے تکلیف ہوئی 

اور دوسری طرف غزلان شاہ اس کی بات سن کر تلخی سے مسکرایا پھر بولا تو اس کا لہجہ بالکل سپاٹ تھا اور آنکھیں برف کی مانند سرد تھی 

آپ طلاق کے بارے میں  سوچے گا بھی مت کیونکہ آپ میرے جسم کا اب حصہ ہے اور میں آپ کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑو گا آپ ایک شاہ زادے کی بیوی ہے اور شاہ زادے مرتو جائے گئے مگر اپنی دسترس میں آئی ہوئی عورت کو کسی بھی قیمت پر نہیں چھوڑتے تو آپ نے کیسے سوچ لیا کہ آپ مجھے سے طلاق لے سکتی ہیں مسز غزلان شاہ  

غزلان شاہ نے سرد لہجے میں کہا  اس کے لہجے میں آگ سی تیش تھی جو زرمینے کے وجود کو جلا تو سکتی ہے مگر چھوڑ نہیں  اور آخر میں اس کے نام پر زور دیا 

زرمینے غزلان شاہ کے جنون کو دیکھ کر گھبرائی 

شاہ سائیں آپ کے ساتھ بھی تو زیادتی ہوئی ہے کیونکہ نکاح کے وقت ہم دونوں مجبور تھے زرمینے نے کہا 

اور آپ کو کیا لگتا ہے مسز غزلان شاہ  کہ مرد کبھی مجبور ہوسکتا ہے نہ میں اس وقت مجبور تھا آپ سے نکاح کرتے ہوئے اور نہ میں آج مجبور ہو  اور جہاں تک بات ہے دوسری شادی کی تو آپ بے فکر ہوجائے میں آپ کے سامنے دوسری کیا تیسری شادی بھی کر لوں گا مھر اس سے پہلے اپنی پہلی بیوی کو تو سنبھالوں 

غزلان شاہ نے سپاٹ لہجے میں کہا تو زرمینے نے بے یقینی سے اسے دیکھا اس کی دوسری یا تیسری شادی کرنے کا کہنا جہاں اسے برا لگا وہی وہ حیران بھی ہوئی 

کی مطلب شاہ سائیں آپ اور دو شادیاں بھی کریں گئے وہ بھی میرے سامنے ہی زرمینے نے  تھوڑی غصے جلن اور حیرانگی سے پوچھا 

اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر غزلان شاہ کی آنکھیں مسکرائی اور وہ لڑکی کہتی ہے اسے یہ رشتہ ختم کرنا ہے جو اس کا نام ہی کسی اور کے نام سن کر اتنا جل گئی ہے 

ہاں اب مجبوری ہے  مگر آپ فکر مت کریں آپ کے حقوق میں پورے کرو گا غزلان شاہ نے سپاٹ لہجے میں کہا 

آپ مجھے طلاق دے میں نہیں رہنا آپ کے ساتھ اور ابھی تو آپ نے کہہ کہ مرد مجبور نہیں ہوتا اور اب آپ کہ رہے ہیں کہ آپ مجبور ہے زرمینے نے جلن اور غصے سے غزلان شاہ کو کہا 

جی مسز غزلان شاہ میں نے ہی کہا ہے کہ مرد کبھی مجبور نہیں ہوتامگر کیا ہے نہ میں بہت رحم دل ہوں اس لئے ہر کسی کی بات سن کر مان لیتا ہوں مگر اب جب مجھے شادی کرنے کا میری محبوب منکوحہ نے کہا ہے تو مجھے ان کی بات ماننی پڑے گئی اس بار غزلان شاہ نے  شوخ لہجے میں کہا تو زرمینے نے اسے گھورا 

یہ جو پاگل ہوتے ہیں یہی  تو مخلص ہوتے  ہیں

 کبھی دیکھا ہے کسی سمجدار کو عشق کرتے ہوئے 💔💯

اس سے پہلے کہ زرمینے کچھ کہتی کہ اس کا فون رنگ ہوا اس نے جلدی سے موبائل نکالا تو سامنے موم کالنگ لکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے زرمینے کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور اس کی نیلی آنکھوں میں چمک جسے دیکھ غزلان شاہ تجسس سے اس کا موبائل دیکھنے لگامگر اس سے پہلے ہی زرمینے نے  موبائل اپنے کان پر لگالیا 

اسلام وعلیکم  زرمینے نے کہا 

وعلیکم السلام  کیسی ہے میری بیٹی  صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا تو زرمینے مسکرائی  

میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں میری جان زرمینے نے کہا 

بیٹا میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا آپ کون سی یونیورسٹی میں جاتی ہوں وہ میں نے وہاں  آنا ہے تو سوچا کہ اپنے بچوں سے مل لوں  

صوفیہ بیگم نے کہا تو زرمینے مسکرائی 

ارے موم آپ کو کس نے کہا ہے کہ میں آوٹ آف کنٹری ہوں  ارے میں تو تین مہینے پہلے ہی پاکستان آگئی تھئ وہ کیا ہے نا موم جو میری ماں ہے وہ بہت تکلیف میں تھی وہ شخص ماں کو بہت ٹوچر کررہا تھا اور آپ نے ہی تو سکھایا ہے کی ہمیشہ ضرورت کے وقت دوسروں کے کام آیا کرو تو میں نے وہی کیا وہ ماں کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا ہے مگر اب نہیں کرئے گا کیونکہ جہاں زرمینے ہوں وہاں کچھ بھی گڑبڑا ہوسکتی ہے  زرمینے نے پہلے افسردہ لہجہ میں پھر اخری میں فخریہ لہجے میں کہا 

اچھا پھر اپنی موم سے ملنے کب آرہی ہوں صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا 

وہ موم آج ان کو سچائی کا پتا چلا ہے تو ان کی طبیعت خراب ہے اس لئے شاید ہم دو ہفتے نہ ہی آئے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

اچھا صوفیہ بیگم نے اداس ہو کر کہا 

وہ وہ وہ موم اگر میں آپ سے کچھ مانگو تو کیا آپ مجھے وہ دے دیں گئی زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو 

ہاں میں دے دوں گئی صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا 

وہ وہ موم آپ پلیز ڈیڈ کو گھر واپس بلا لے آپ تو جانتی ہیں کہ ان کا تنگ جگہوں پر  دم گھٹتا ہے اور ساحل کا گھر بھی بہت چھوٹا سا ہے جس میں بڑی مشکل سے ایک انسان رہ سکتا مگر اب دو انسان کیسے ایڈجسٹ کرے گئے موم ڈیڈ کو تو پتا بھی نہیں ہے کہ ہم یہاں ہے زرمینے نے کہا 

ٹھیک ہے تم کہہ رہی ہوں تومیں ان کو بلا لوں گئی  اور اپنی موم کی طرف اپنی ماں کو سلام کہنا صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا 

جی موم میں ماں کو آپ کا سلام کہہ دوں گئی  آب میں فون رکھتی ہوں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں زرمینے نے کہا تو صوفیہ بیگم نے فون رکھ دیا اب ان کا ارداہ جبران خان کو کال کرنے کا تھا 

خوشی ہمیشہ جلدی میں رہی  میرے پاس ٹھہری ہی نہیں..

غموں کو فرصت ہی فرصت رہی آئے اور کبھی واپس ہی نہیں گئے

______________

زرمینے نے رکھ تو ایک بار پھر رنگ ہوئی اس نےدیکھ تو سامنے ساحل کالنگ آرہا تھا 

اس نے جلدی سے اٹھائی 

ہیلو زرمینے نے کہا 

زر جلدی سے سٹی ہسپتال آجاو ساحل نے کہا 

کیوں خیریت زرمینے نے پوچھا  

وہ وہ وہ حمزہ کو تین گولیاں لگی ہے اور اس کے ساتھ ایک لڑکی کو بھی ساحل نے کہا تو زرمینے ایک دم لڑکھڑائی 

کیا بکواس کررہے ہوں ساحل اگر تو یہ تم مزاق لر رہے ہوں تو میں یہ بات مزاق میں بھی برداشت نہیں کر سکتی زرمینے نے غصے سے کہا تو  

زر میں سچ کہہ رہا ہوں پلیز جلدی سے یہاں آجا ساحل نے کہا 

کککککون سے ہسپتال  زرمینے نے پوچھا  مگر اس کی زبان  لڑکھڑائی 

سٹی ہسپتال آجاو ساحل نے کہا 

اچھا میں ابھی پہچ رہی ہوں زرمینے نے ضبط سے کہا مگر اس کی آنکھوں میں سے ایک آنسو نکلا جسے دیکھ کر غزلان شاہ  پریشان ہوا  

خیریت خانم غزلان شاہ کی آواز نے اسے متوجہ کیا 

وہ جڑو جڑو لو گولی لگی وہ ہسپتال میں  زرمینے بڑابڑئی   

تو غزلان شاہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا  اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا کہ زرمینے جلدی سے باہر کی طرف بھاگی  تو غزلان شاہ بھی اس کے پیچھے گیا 

عشق سے میں ڈر چُکا تھا ڈر چُکا تو تم ملے

دل تو کب کا مر چُکا تھا مر چُکا تو تم ملے

________________

زرتاشیہ  انیکسی میں داخل ہوئی اور سیدھا زریام کے کمرے میں گئی 

خان  زرتاشیہ نے پکارا  تو زریام نے اس کی طرف دیکھ جس کی آنکھیں مسلسل رونے کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھی اس کے دل کو کچھ ہوا اور پتا نہیں کس احساس کے تحت وہ اگے بڑھا مگر زرتاشیہ کے الفاظ نے اس کے قدم روک دے 

خان یہ وجہ تھی مجھے طلاق دینے کی میرے باپ کی وجہ سے آپ مجھے چھوڑا رہے ہیں زرتاشیہ نے ٹوٹے لہجے میں کہا اس کا لہجہ ہی نہیں بلکہ وہ خود بھی تو آج ٹوٹ گئی 

خان اگر آپ چاہتے ہیں نہ کہ میں اپ سے علیحدہ ہوجاو تو ٹھیک ہے   آپ مجھے ابھی طلاق دے دیں مگر ایک سوال کے جواب کے بعد 

میرے باپ نے زرمینے کے ساتھ یہ سب کیا ہے تو اس میں میرا کیا قصور  کیا میں نے انہیں کہا تھا کہ زرمینے کو پھینکے کیا میں نے کہا تھا کہ زرمینے کے ساتھ اتنا برا کریں  اورکیا میں نے کہہ تھا کہ ماما کو ٹوچر کریں نہیں بتائے ان سب میں میرا کیا قصور ہے  مجھے کس بات کی آپ سزا دے رہے ہیں 

زرتاشیہ نے روتے ہوئے کہا  

آپ جاننا چاپتی ہے کہ آپ کا کیا قصور ہے تو آپ کا قصور ہے کہ آپ ریاض شاہ کی بیٹی ہے اور آپ کی وجہ سے ہی انہوں نے  میری بہن کو پھینکنے کا کہا کیوں انہیں کہی نہ کہی تو ضرور لگتا تھا کہ وہ زرمینے کی پیدائش کے بعد بدل جائے گئی آپ کے ساتھ ان کا رویہ بدل جائے گا زریام نے سنجیدگی سے کہا تو زرتاشیہ تلخی سے مسکرائی  

 دل کو بہلانے کے لئے یہ خیال اچھا مگر میں اس وقت خود بچی تھی تو ان سب میں میرا کوئی قصور نہیں ہے اور ہاں اگر آپ چاہیے تو مجھے کسی بھی وقت طلاق دے سکتے ہیں زرتاشیہ یہ کہہ کر باہر کی طرف بھاگی  

___💕

اُس نے دور رہنے کا مشورہ بھی لکھا ہے

ساتھ ہی محبت کا واسطہ بھی لکھا ہے 

اُس نے یہ بھی لکھا ہے میرے گھر نہیں آنا

صاف صاف لفظوں میں راستہ بھی لکھا ہے

کچھ حروف لکھے ہیں ضبط کے نصیحت میں

کچھ حروف میں اُس نے حوصلہ بھی لکھا ہے

شکریہ بھی لکھا ہے ........ دل سے یاد کرنے کا

دل سے دل کا ہے کتنا ...... فاصلہ بھی لکھا ہے

کیا اُسے لکھیں اب ............ کیا اُسےکہیں اب 

زرمینے  بھاگتی ہوئی روتی ہوئی جب زرتاشیہ کے قریب سے گزاری اور اس کے پیچھے پریشان سا غزلان شاہ  کو دیکھ لر وہ بھی زرمینے کے پیچھے آئی جو اب انیکسی کے اندر جا چکی ہے 

وہ برو جڑو کو گولی لگی ہے مجھے ابھی ساحل نے بتایا ہے زرمینے نے روتے ہوئے کہا 

زریام پہلے زرمینے کو دیکھ کر پریشان ہو پھر اس کی بات سن کر  

شش گڑیا رونا بند کرو تم تو بہادر ہوں نہ  اور جڑو کو کچھ ہوسکتا ہے میری گڑیا کے ہوتے ہوئے  زریام نے زرمینے کو پچھکارتے ہوئے کہا مگر وہ خود بھی حمزہ کے بارے میں جان کر پریشان تھا 

مجھے ابھی جڑو کے پاس لے کر چلے زرمینے نے ضدی لہجے میں کہا

تم اپنے بخت پہ نازاں نہیں ہو ؟حیرت ہے 

ہم جیسے لوگ دعاؤں میں مانگے جاتے ہیں🖤

اچھا ہم ابھی جاتے ہیں مگر اس سے پہلے ساحل سے ایڈریس لے لوں زریام نے اسے سمجھتے ہوئے کہا 

برو سٹی ہسپتال ہے مجھے ساحل نے سب بتادیا آپ بس چلے زرمینے نے روتے ہوئے کہا 

اچھا چلو زریام نے کہا 

غزلان شاہ اور زرتاشیہ بھی ان کی باتیں سن کر حیران ہویے مگر انہیں باہر جاتے دیکھ کر وہ بھی ان کے ساتھ باہر آئے 

آپ لوگ ایسا کریں میری گاڑی میں  چلے غزلان شاہ نے کہا 

تو وہ تینوں بھی جلد سے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے گئے اور گاڑی  ہسپتال کی طرف لے گیا

گاڑی جیسے ہی ہسپتال کے اگے ائی تو زرمینے بھاگ کر گاڑی سے نکلی اور ہسپتال کے اندر بھاگئی 

پیچھے وہ تو بھی ہسپتال کے اندر گئےڈاکٹر ماہم افسر حمزہ کیسا ہے اب زرمینے نے سامنے پریشانی سے آتی ڈاکٹر ماہم سے پوچھا 

وہ افسر کی حالت بہت خراب ہے  ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے زر 

ڈاکٹر ماہم نے کہا اور  وارڈ بوائے سے انجیکشن لے کر واپس ای سی یو کی طرف چلی گئی 

کیا کہا ڈاکٹر ماہم نے زر 

زریام نے زرمینے سے پوچھا  

وہ کہہ رہی ہے کہ حمزہ کی حالت بہت خراب ہے  ابھی کچھ کہہ نہیں سکتی زرمینے نے روتے ہوئے کہا 

جب ساحل ان کے پاس آیا 

زریام وہ ٹھیک تو ہوجائے گا یار  ساحل زریام کے گلے لگ کر پوچھا 

پتا نہیں  حوصلہ رکھ زریام نے ضبط سے کہا اس وقت اس کا خود کا برا حال تھا مگر وہ جانتا تھا اگر اس وقت ان دونوں کو حوصلہ نہ دیا تو وہ دونوں ضرور خود کے ساتھ کچھ کر لئے گئے 

انہیں یہاں آئے پانچ گھنٹے ہوگئے ہیں تب سے زرمینے نے رو رو کر اپنی حالت خراب کرلی ہے تو ساحل اور زریام ایک طرف بینچ پر بیٹھے ہوئے ہیں 

غزلان شاہ اور زرتاشیہ  زرمینے کو حوصلہ دے رہی ہیں جب ڈاکٹر ماہم باہر آئیدیکھیں پیشنٹ کی حالت بہت خراب ہوتی جارہی ہے اور وہ مسلسل زرمینے اور مدیحہ کو بلا رہا ہے تو آپ سب لوگ بھی اس سے مل لے اور خاص کر یہ دونوں  چلے جائیے ڈاکٹر ماہم یہ کہہ کر آگے چلی گئی تو زرمینے جلدی سے ای سی یو کی طرف چلی گئی  زریام  زرتاشیہ اور غزلان شاہ  بھی اندر کی طرف بڑھے جب کہ ساحل دوسرے وارڈب میں چلا گیا 

مدیحہ شاہ شوک کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی اور گولی بس اسے چھو کر گزری تھی اس لئے اس کی پٹی کر دی تھی اور تھوڑی دیر کے بعد اسے ہوش بھی آگیا تھا جس پر ساحل نے اس سے اس کا نام پوچھا تو اس نے اسے مدیحہ بتایا تو اس نے اس سے کچھ اور پوچھا تو وہ بہت زیادہ ڈر گئی اس وجہ سے ساحل نے اس سے مزید کچھ نہ پوچھا اور اس پر دو افسر کی ڈیوٹی لگا کر خود حمزہ کے وارڈ کی طرف آگیا 

اب جب ڈاکٹر نے  مدیحہ کا نام لیا تو وہ اسے لینے گیا

جہاں سامنے ہی وہ بیڈ پر   گم صم لیٹی ہوئی تھی 

چلے محترمہ آپ کو ابھی میرے ساتھ چلنا پڑئے گا ساحل نے کہا تو مدیحہ نے حیرانی سے اسے دیکھا  

کہاں مدیحہ نے کہا  

ابھی چلے یہ بھی آپ کو پتا چل جائے گا کہ کہاں اور پلیز کوئی سوال نہیں میں پہلے ہی بہت ٹینشن میں ہوں  ساحل نے دوٹوک لہجے میں کہا تو مدیحہ سے مزید پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی اور چپ چاپ اس کے پیچھے  چل پڑی

زرمینے اندر آئی تو سامنے مشینوں میں جکڑے حمزہ کو دیکھ کر اس کا دل کٹا مگر پھر دل کو مضبوط بناتے ہوئے آگے اس کے پاس آئی 

جڑو زرمینے نے اہستہ سے کہا تو حمزہ نے مسکرا کر اسے دیکھا 

جو اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی  

اس کی سرخ ہوتی آنکھوں اس کا مسلسل رونے کی گواہی دے رہی ہیں  

جڑو زرمینے پھر سے پکارا  

زر آج مجھے بولنے دے میں جانتا ہوں کہ میرے پاس وقت بہت کم ہے اس لئے میں تم سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہوں  حمزہ نے بامشکل درد ضبط کرتے ہوئے کہا  

زر بہت درد ہورہا ہے اتنا درد ہورہا ہے کہ اب دل کررہاہے کہ میں جلدی سے مرجاو یار میں بہت تکلیف میں ہوں مجھے تکلیف پتا ہے کس بات کی ہے حمزہ نے درد بھرئے لہجے میں کہا  

تو زرمینے نے نفی میں سر ہلایا  

مجھے تکلیف  ان تین گولیوں کی نہیں ہے بلکہ گولی چلانے والے کی وجہ سے ہے یار جب اس نے مجھے مارا تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ اس نے مجھے گولی مارا دی  

تمہیں پتا ہے وہ کون تھی جس نے مجھے پر گولی چلائی حمزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ کر کہا تو زرمینے نے نفی میں سر ہلایا 

وہ تھی مدیحہ واصف شاہ  یار وہ مدیحہ تھی جس نے مجھے پر گولی چلائی  

اور ان سب کے پیچھے واصف شاہ ہے ہمارا اصل مجرم واصف شاہ ہے 

حمزہ نے کہا 

ایک وعدہ کرو مجھے سے  میں نے تمہیں اس لئے نہیں بتا کہ اب تم مدیحہ کو گرفتار کرو بلکہ اس لئے بتایا ہے کیونکہ میرے جانے کے بعد بھی تم نے اس کے بارے میں جان جاننا تھا اور پھر اسے سزا دینی تھی مگر میں چاہتا ہوں کہ تم اسے معاف کردینا اسے کوئی سزا مت دینا بس میں تم سے یہ وعدہ چاہتا ہوں  حمزہ نے امید بھری نظروں سے زرمینے کو دیکھ کر کہا 

تو زرمینے نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا  

میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اسے کچھ نہیں کہوں گئی زرمینے نے روتے ہوئے کہا اس کے یہ الفاظ کمرے میں آتی ہوئی مدیحہ نے بھی سنے 

جب حمزہ کی نظر مدیحہ پر پڑی تو وہ مسکرایا 

مگر مدیحہ اسے اس حالت میں دیکھ کر رونا شروع ہوئی کیسی تھی وہ لڑکی جو خود ہی اسے اس حالت میں پہچاتی ہے اور پھر خود ہی رونے لگ جاتی ہے 

ارے آپ اگئے آئے  مجھے اپنے آخری وقت میں آپ سے بھی کچھ کہنا ہے حمزہ نے درد بھرے لہجے میں کہا تو  مدیحہ آگے آئی 

آپ کو ہمیشہ مجھے سے شکایت تھی نہ کہ میں آپ کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتا معلوم ہے کیوں  

کیونکہ مجھے اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں تھا میں آپ کو کبھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا بعد کے درد سے اچھا آپ کو پہلے ہی روک لوں 

مگر میں غلط تھا اور آج میں اپنے اخری وقت میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ مدیحہ شاہ سے حمزہ خان کو محبت نہیں عشق ہے اور بے انتہا عشق ہے مجھے خوشی ہوئی کہ جس گولی کی وجہ سے میں مرنے والا ہوں وہ گولی میرے عشق نے چلائی ہے 

ہائے کیسا تھا وہ دیوانا جو اس بات پر ہی خوش تھا کہ وہ جب مرنے لگا ہے تو اس کی موت کا سبب وہ لڑکی بنی ہے اور 

مدیحہ شاہ کو لگ جیسے کای نے اسے تپتے صحرا میں اکیلا چھوڑ دیا ہے اور وہ بغیر کسی سہارے کے وہاں گرم ریت پر ننگے پاوں کھڑی ہے 

زرمینے تم اسے کچھ مت کہنا اسے کچھ کہنے سے پہلے یہ یاد رکھنا کہ یہ تمہارے جڑو کا عشق ہے  میں جانتا ہوں کہ تم نے مجھے منع کیا تھا کہ مت پڑو ان سب میں مگر اس پر میرا زور نہیں چلا زر حمزہ نے تکلیف سے کہا  

ہائے کیسا تھا وہ دیوانہ جو خود موت کے قریب ہے مگر فکر اب بھی اس ہی لڑکی کی ہے جس سے اسے عشق تھا  

اس کی باتیں وہاں موجود سب لوگوں کی آنکھیں نم کر گئی

کیسا تھا وہ دیوانہ جسے بس فکر تھی تو اس ظلم کی 

اور اس کے ساتھ ہی حمزہ کو سانس لینے میں مشکل ہونے لگی تو ساحل بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا لایا مگر اس سے پہلے ہی حمزہ کا وجود لڑکھڑایا اور پھر گر گیا 

یہ میری قبر پر ڈرامہ نہ رچایا جائے 🖤

کوئی اتنا خیر خواہ ہے تو ساتھ دفنایا جائے

ڈاکٹر نے ان سب کو جلدی سے باہر بھیجا اور خود حمزہ کو دیکھنے لگے تقریبا آدھا گھنٹہ بعد وہ آئے 

ایم سوری ہم پیشنٹ کو نہیں بچاسکے  ڈاکٹر نے کہا 

ڈاکٹر کے الفاظ تھا کہ بم جو ان سب پرگرا زریام بےساختہ لڑکھڑایا  اسے یاد آیا کس طرح اس نے اس کے کردار پر لگا الزام غلط ثابت کیا تھا کس طرح اس نے اسے سنبھالا تھا جب وہ ٹوٹ گیا تھا اور اج وہی اس کو تنہا چھوڑ کر چلاگیا 

زرمینے کی نظروں کے سامنے وہ سارے واقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگے کہ کس طرح وہ دونوں سب کو تنگ کرتے کس طرح انہوں نے پہلی بار کھانا بنایا  کسی طرح اس نے اسے ڈریا وہ سارے واقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگے اور اس کے ساتھ ہی زرمینے گرگئی تو سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہویے اور اسے جلدی سے اندر لے کرگئے 

ڈاکٹر جلدی سے اس کاٹرٹمینٹ کرنے لگے اس دوران ساحل نے  جبران خان کو کال کرکے انہیں ساری صورت حال بتا دی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ ابھی لاہور آرہے ہیں 

تقریبا دوگھنٹے بعد ڈاکٹر باہر آئی  

دیکھیں پیشنٹ کا نروس ڈاون ہوا ہے اور یہ ان کا دوسری بار نروس  بریک ہوا اگر پھر ہوا تو ہم انہیں نہیں بچائے پائے گئے اس لئے احتیاط کریں اورانہیں  ہر طرح کی پریشانی سے دور رکھے ڈاکٹر  پیشے وارنہ لہجے میں کہتا ہے 

ڈاکٹر اسے بے ہوشی کا انجیکشن لگادے اس وقت اس کا ہوش میں رہنا اس ٹھیک نہیں ہے زریام نے ضبط سے کہا تو  ڈاکٹر نے اسے عجیب انداز میں دیکھا 

جب زریام نے اپنا کارڈ ان کو دیا 

تو انہوں نے  خاموشی سے اس کی بات پر عمل کردیا

بڑے جتن سے کمائی .....ہوئی ہے تنہائی

دلِ تباہ  دھڑک کر ...... اِسے  تباہ  نہ کر!!!

یہ شاعری نہیں سینے کے ......زخم ہیں سارے

تُو  میرا  درد  سمجھ  یار ..... واہ واہ  نہ کر!💔

جبران خان لاہور آگئے وہ حمزہ کی لاش کو کراچی لے جاکر دفن کرنا چاہتےہیں اس لئے انہوں نے حمزہ کو کراچی لے جانے کا انتظام کرلیا اور پھر جب اس کی لاش کو کراچی لے جانے کے لئے باہر آیا تو مدیحہ اس کا بے جان وجود دیکھ کر اونچا اونچا ہسنے لگی 

ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا  مرگیا میں نے مرادیا ہا ہا ہا ہا  مدیحہ یہ کہہ کر ہنسنے لگی 

پھر زور زور سے رونے لگی کہ زرتاشیہ جلدی سے اگے بڑھی اور اس کو پکڑ کر  ایک سائیڈ  پر کیا 

شش مدیحہ خاموش ہوجاو زرتاشیہ نے کہا تو مدیحہ اور زور زور رونے لگی  تب زرتاشیہ نے احمد شاہ کو فون کر کے انہیں  بلالیا اور بڑی مشکل سے  مدیحہ کو لے کر حویلی گئے 

کچھ کہانیاں ادھوری ہی رہتی ہیں جیسے مدیحہ اور حمزہ  کی 

زرمینے نے اہستہ سے اپنی آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھ پھر اہستہ اہستہ اسے سب یاد آنے لگا آنکھوں سے آنسوؤں نکلے  

اس وقت اس کا دل کر رہا تھا روئے چیخے چلائے مگر وہ خاموش آنسو بہا رہی تھی تب ہی غزلان شاہ دراوز کھول کر اندر آیا 

کیسی ہیں آپ غزلان شاہ نے سپاٹ لہجے میں پوچھا  اس وقت اس کے چہرہ ہر احساس سے عاری ہے 

ٹھیک یک لفظی جواب  

چلے میں ڈسچارج پیپر بنواتا ہوں  غزلان شاہ نے کہا اور بغیر ایک نظر زرمینے کی طرف دیکھ وہ سے چلا گیا 

ہسپتال سے ڈسچارج کرواکر غزلان شاہ زرمینے کو حویلی لے آیا 

ان کا پہلا ٹکرا کوثر بیگم سے ہوا جو سامنے ہی لاونج میں بیٹھی ہوئی زرمینے اہستہ سے چل کر ان کے پاس بیٹھی گئی وہ دونوں ہی خاموش تھی 

غزلان شاہ تو زرمینے کو حویلی کے باہر ہی چھوڑ کر چلا گیا 

کیسی طبیعت ہے اب زرمینے   اخر اس خاموشی کو کوثر بیگم نے توڑا 

ٹھیک یک لفظی جواب  

اچھا کہی درد تو نہیں ہورہا بچے  کوثر بیگم نے کہا 

نہیں زرمینے نے گہری سوچ میں ڈوب کر کہا 

اچھا برو کہاں ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

بیٹا وہ تو یہاں نہیں ہے شاید وہ واپس چلا گیا ہے کوثر بیگم نے خوش ہوتے کہا 

اس سے پہلے کہ زرمینے کچھ کہتی کہ 

زر کی پکار پر اس نے حیرانی سے مڑاکر سامنے کھڑی صوفیہ بیگم کو دیکھ اور پھر اس نے بغیر کسی کی بھی طرف دیکھے سیدھ جاکر ان کے سینے سے لگ گئی 

موم زرمینے نے کہا 

جی میرا بچہ صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا 

کیسی ہے آپ زرمینے نے روتے ہوئے پوچھا  

لو مجھے کیا ہوگا میں بالکل ٹھیک ہوں صوفیہ بیگم نے زرمینے کی پیشانی چوم کر کہا 

ائے موم بیٹھے زرمینے نے صوفے پر بیٹھنے کو کہا 

اب منظر یہ تھا کہ صوفیہ بیگم  صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی جبکہ زرمینے نیچے کارپٹ پر بیٹھی سر ان کی گود میں رکھ ہوا تھا 

جبکہ صوفیہ بیگم اس کے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی ہیں 

زر زریام اور خان  آوٹ آف کنٹری گئے ہوئے ہیں صوفیہ بیگم نے کہا  

جانتی ہوں موم  تو مجھے ساحل آپ کی طبعیت کے بارے میں بتایا  اس لئے میں یہاں چلی آئی صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا 

نہیں اب میں ٹھیک ہوں زرمینے نے کہا 

اچھا آپ کے ڈیڈ چاہ رہے ہیں کہ ہم سب لائیور میں شفٹ ہوجائے اس لئے انہوں نے ساتھ والی حویلی لی ہے اب ہم یہی رہے گئے صوفیہ بیگم نے کہا تو زرمینے  نے انہیں دیکھ  

ہمممممم موم  مجھے سونا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو  صوفیہ بیگم  نے اثبات میں سر ہلایا 

ٹھیک ہے آپ جاکر سو جائے تب تک ہم بھی گھر کی سیٹینگ کر لے صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا  

نہیں  ہم ساتھ مل کر سیٹینگ کریں گئے مگر ابھی اپ مجھے سونا ہے وہ بھی آپ کے ساتھ آپ بھی تھک گئی ہوگئی  

زرمینے نے منہ بنا کر کہا تو صوفیہ بیگم بھی اٹھا گئی 

چلے موم زرمینے نے کہا تو وہ بھی ان کے ساتھ زرمینے کے کمرے میں چلی گئی اور پھر وہاں باتیں کرتی ہوئی کب سوئی انہیں پتا ہی نہیں  چلا

 کسی کے پاس کوئی حل نہیں اُداسی کا

گھروں کو جائیے سب آج بات ختم ہوئی.

__________ 

کوثر بیگم پہلے حیرت سے سامنے دیکھتی ہیں جہاں ایک بہت خوبصورت خاتوں چہرے پر مہربان مسکراہٹ کے ساتھ کھڑی ہے پھر زرمینے کا موم کہہ کر بلانا اور ان کے گلے لگنا اسے سمجھا گیا کہ ان کی بیٹی کی پرورش اس نے ہی کی ہے اور ان کے پاس ہی تھی ان کی بیٹی  

پھر ان سے سے اپنے لاڈ اٹھواتے دیکھ ان کا دل دکھ مگر کیا کہہ سکتی ہے اور زرمینے جب انہیں لے کر گئی تو بہت حسرت سے ان دونوں کو دیکھا  

جب زرتاشیہ ان کے پاس آئی  

کیا ہوا ہے ماما زرتاشیہ نے کوثر بیگم کو روتے ہوئے دیکھ کر نرم لہجے میں کہا  

ارے کچھ نہیں  وہ زرمینے کی موم آئی ہیں تو ان کے لئے کھانے پینے کا اچھا سا اہتمام کرنا ویسے تو بہت اچھی لگی مجھے 

 کوثر بیگم نے محبت سے کہا 

اچھا مطلب زریام کی ماں ائی ہے زرتاشیہ نے پوچھا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا  

ٹھیک ہے ماما میں کھانا کا دیکھ لوں گئی مگر اب آپ جائے اور دوائی لے کر سوجائے زرتاشیہ نے سنجیدگی سے کہا 

تو کوثر بیگم نے نفی میں سر ہلایا  

نہیں وہ شخص اس وقت کمرے میں ہی ہے اور اس کی موجودگی میں میں کبھی بھی وہاں نہیں جاو گئی  کوثر بیگم نے کہا 

جو لاونج سے گزرتے ریاض شاہ نے بھی سنا اور دکھ سے ان کو دیکھا ہاں وہ بہت اذیت میں ہے انہیں بھی اپنے کیے کا احساس ہوگیا ہے کہ انہوں نے غلط کیا اب جب کوثر بیگم اور زرتاشیہ  دونوں نے ان سے بول چال مکمل طور پر بند کر دی ہے زرتاشیہ تو پھر بھی ان کی ہر چیز چپ چاپ ان کو دے دیتی مگر جب وہ ان سے بات کرنے کی کوشش کرتے تو وہ چپ چاپ وہاں سے چلی جاتی 

اب انہیں اپنی ہر غلطی کا احساس ہوگیا ہے  مگر اب ان کا بھی مکافات شروع ہوچکا ہے 

وہ خاموش سے وہ سے گزر گئے تو زرتاشیہ نے کوثر بیگم کو ان کے کمرے میں بھیجا اور خود کچن میں آگئی 

تاکہ ان کے لئے کھانے کا انتظام کرسکے 

______________

مدیحہ اپنے کمرے میں گم صم بیٹھی سامنے چھت کو گھور رہی تھی جب نجمہ بیگم  کمرے میں ائی وہ اب اکثر بیمار رہتی ہیں پہلے بیٹے اور پھر بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ان کی صحت دن بردن بگڑتی جارہی ہے 

مدیحہ نجمہ بیگم نے محبت سے کہا 

جس پر مدیحہ نے انہیں دیکھ پھر زور زور سے ہنسنے لگی ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا  میں نے ماردیا اسے اور تمہیں پتا ہے وہ کیا کہہ رہا تھا وہ کہہ رہاتھا کہ وہ مجھے سے محبت نہیں عشق کرتا ہے اور میں نے اسے ماردیا کیوں  کہتے ہوئے وہ چیخی اور پھر پاس پڑا گلدان اٹھا کر نیچے پھینکا اور زور زور رونے لگی  

کیوں کیا میں نے کیوں مارا میں نے مدیحہ بڑابڑئی  اور پھر اچانک اٹھی 

اور اب میں کسی کو بھی نہیں چھوڑو گئی میں سب کو مار دوں گئی  یہ کہہ کر وہ جیسے ہی نجمہ بیگم کو مارنے کے لئے کچھ تلاش کرنے لگی مگر اس سے پہلے ہی نجمہ بیگم  کمرے سے باہر نکل گئی اور اس کے پیچھے ہی  مدیحہ بھی گلدان کے ٹکڑے اٹھاکر آئی 

نہیں چھوڑو گئی میں اپ کو آپ کی وجہ سے وہ مارا ہے نہیں چھوڑو گئی مدیحہ نجمہ بیگم کو مارنے کے لئے لپکی

وہ مجھے جان سے پیاری ٰ  ❤___ لڑکی

وہی میری ذہنی بربادی کی ذمہ دار نکلی

تو وہ بھاگ کر لاونج میں اگئی مدیحہ کا شور سن کر تمام لوگ وہاں  اگئے  

نہیں چھوڑو گئی میں کسی کو بھی نہیں چھوڑو گئی  میں سب کو  مار دوں گئی  میں نے اسے بھی مار دیا مدیحہ ہزیاتی سے چیخ کر کہا اور پھر زور زور سے ہنسنے لگی ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا  

یہ تو اب روز کا ہی تماشہ تھا جب سے مدیحہ ہسپتال سے ائی ہے تب سے ہی وہ ایسا برتاو کررہی ہے 

جب زرتاشیہ اگے آئی مدیحہ یہ کیا کررہی ہوں زرتاشیہ نے کہا تو مدیحہ نے عجیب انداز سے اسے دیکھا اور پھر اس کو مارنے لگی تم نے بھی مارا ہے تم۔نے ہی مجھے مارنے کے لئے کہا تھا یہ کہہ کر وہ زرتاشیہ کا گلہ دبانے لگی اور سب لوگ زرتاشیہ کو چھڑانے لگے

______________ 

زرمینے  جس کی ابھی آنکھ ہی لگی تھی کہ شور کی وجہ سے اٹھا گئی  پھر اس نے ساتھ لیٹی اپنی ماں کو دیکھا جو سورہی ہیں شاید سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے اس نے ان کے اوپر کمفرٹ دیا اور پھر درواز لگاکر باہر آئی تو آواز لاونج سے آرہی ہے وہ حیرت سے سامنے دیکھتی ہے جہاں سب زرتاشیہ کو مدیحہ سے چھڑانا کی کوشش کر رہا ہے  اور مدیحہ پر تو زرتاشیہ کو مارنے کا جنون سوار ہے 

جب وہ اگے آئی اور اہستہ سے مدیحہ کی گردن کی مخصوص رگ دبادی جس پر وہ اگلے ہی پل بے ہوش ہوکر گر گئی  اور جلدی سے مدیحہ کو پکڑا تو باقی سب نے جلدی سے زرتاشیہ کو  سامنے صوفے پر بیٹھایا جو اب بری طرح کھانس رہی ہے  زرمینے نے جلدی سے مدیحہ کو صوفے پر لیٹایا اور زرتاشیہ کی کمر رب کرنے لگی کیونکہ اسے سانس لینے میں مشکل ہورہی ہے 

نورے جلدی سے پانی لے کر آو زرمینے نے کہا تو نوعے جلدی سے پانی لے آئی جو زرمینے نے زرتاشیہ کو اہستہ اہستہ پلایا 

تقریبا آدھا گھنٹہ بعد زرتاشیہ نارمل ہوئی 

ٹھیک ہے آپ زرمینے نے کہا تو زرتاشیہ نے اثبات میں سر ہلایا  

یہ اٹھا کیوں نہیں رہی نجمہ بیگم نے  پریشانی سے مدیحہ کی طرف دیکھ کر کہا  

انٹی یہ اب تین گھنٹے بعد اٹھے گئی کیونکہ میں نے اسے بے ہوش کر دیا ہےمگر اسے کیا ہوا ہے اور یہ ایسا کیوں  برتاو کررہی ہے زرمینے نے الجھ کر پوچھا  

پتا  نہیں کیوں بیٹا مگر یہ جب سے ہسپتال سے آئی ہے تب سے ایسا ہی برتاؤ کررہی ہے نجمہ بیگم نے روتے ہوئے کہا 

تو  زرمینے نے حیرانگی سے انہیں دیکھا  

کیا مطلب  زرمینے نے کہا

وہ ہم نے ڈاکٹر کو دکھایا تھا وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کو کوئی گہرا صدمہ لگا ہے اس وجہ سے یہ ایسا برتاو کررہی ہے  زرتاشیہ نے کہا 

تو آپ لوگوں کو چاہی تھا کہ اسے کوئی پرسکون  جگہ پر رکھنا چاہے اور اسے کچھ وقت سپیس دینا چاہے یہ آواز صوفیہ بیگم کی تھی   سب نے حیرانگی سے انہیں دیکھا  

ارے موم آپ یہاں کیوں آئی آپ تو ریسٹ کر رہی تھی زرمینے نے کہا 

نہیں بیٹا میں نے آرام کر لیا ہے اور اگر آپ لوگ برا نہ مانے تو میں اس کا علاج کرنا چاہو گئی  صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا  

نہیں موم اگر اس نے آپ کو چوٹ پہنچائی تو ابھی آپ نے اس کا برتاؤ نہیں دیکھ زرمینے نے پریشانی سے کہا 

 میں تیری ماں ہوں تم میری ماں بننے کی کوشش نہ کرو صوفیہ بیگم نے اسے جھڑکا 

تو زرمینے نے منہ بسورا 

آ لینے دے برو ڈیڈ اور جڑو کو  زرمینے نے کہا 

مگر پھر آپنی بات کا احساس ہوا تو فورا خاموش ہوگئی 

اچھا موم مجھے ساحل سے کچھ کام ہے تو میں جارہی ہوں تب تک  آپ زرا اپنی بہو سے اپنی خدمات کرو لئے زرمینے نے سرگوشی میں شوخ لہجے میں کہا 

جس پر صوفیہ بیگم نے اسے گھورا 

ارے زرتاشیہ اپ ان سے ملے یہ میرے برو جان کی ظالم اور کھڑوس ماں ہیں زرمینے نے زرتاشیہ کا تعارف کرایا  

جس پر وہ دونوں گھڑبڑائی وہی ان کے ایسے تعارف پر سب مسکرائی 

اچھا موم اب میں چلتی ہوں بائے زرمینے نے کہا اور باہر کی طرف بھاگی 

کیونکہ وہ صوفیہ بیگم کو غصے اتے دیکھ چکی تھی جب لاونچ کے باہر گئی تو اونچی آواز میں بولی 

ہائے اللہ بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا یہ کہہ کر وہ گھر سے ہی نہیں حویلی سے بھی باہر بھاگی 

جب کہ اس بار تمام خواتین مسکرائی 

میں کسی روز محبت سے مکر جاؤں گا!! 

تیرے رنگین خیالوں سے نکل جاؤں گا!! 

تیری آنکھوں کے نشے سے جان چھوٹی تو!! 

تیرے رخسار کی عنایت بھول جاؤں گا!! 

پھر نہ کام آئے گا تیری زلفوں کا الجھ جانا!! 

تو جو ملی تو انجان بن کے نکل جاؤں گا!! 

یوں نہ ہر روز ستایا کرو اپنے انداز بیاں سے!! 

تم واقف ہی نہیں میرے اندر کے طوفان سے!! 

بار ہا خیال رکھا کرو میں بکھر جاؤں گا!! 

میں کسی روز محبت سے مکر جاؤں گا!! 

تیرے رنگین خیالوں سے نکل جاؤں گا!!

زرمینے اس وقت اپنے خوفیا گھر میں تھی وہ تمام لوگ ایک بڑے سے ٹیبل جس کے آس پاس بہت سی کرسیاں تھی ان پر بیٹھے ہوئے تھے 

 افسر ساحل کیا آپ نے واصف شاہ کے بارے میں معلوم کیا ہے کہ وہ کہاں ہی زرمینے نے سنجیدگی سے پوچھا  

جی میم میں نے اد کے موبائل کی لاسٹ لوکیشن معلوم کی ہے مگر وہ اس حویلی کی ہے جس میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے یقین اس نے غائب ہونے سے پہلے اپنا موبائل آف کردیا ہے اور اب وہ اتنا بے وقوف بھی نہیں ہے  جو دوبار اپنا موبائل آن کریں گا ساحل نے ایک ہی سانس میں اسے ساری بات بتائی  

جس پر زرمینے نے سر کو خم دیا 

افسر ارحم  میں نے آپ سے کچھ کہا تھا کیا بنا زرمینے نے ساحل کے ساتھ بیٹھے افسر سے کہا  

یس میم میں نے واصف شاہ کے سارے خفیہ اڈوں کے بارے میں  معلوم کر لیا ہے اب بس ہمیں ان پر حملہ کرنا ہے افسر ارحم نے کہا 

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ میشن پہلے افسر حمزہ اور زریام  اور میں ہینڈل کر رہے تھے مگر کسی وجہ سے وہ دونوں اب یہاں نہیں ہے تو اب یہ میشن افسر ساحل اور میں ہینڈل کرے گئے 

زرمینے یہ کہہ کر چپ ہوئی  

ہمارے ٹارگٹ واصف شاہ ہے  کیونکہ وہ ہمارا اور ہمارے ملک کا دشمن ہے  اس نے ہمارے ملک کے مستقبل جو کہ بچے ہے ان کو نقصان پہنچا رہے ہیں  اور ہمارے بہنے جو کسی مجبوری سے گھر سے نکلتی ہے ان کے لئے گھر سے نکالنا مشکل کردیا ہے تو اب ہمیں  کای بھی قیمت پر واصف شاہ کو پکڑانا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو سب افسر نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

اوکے گو ہمیں ساری لوکیشن  افسر ارحم بتائے گا زرمینے نے کہا تو  سب نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنے سروں پر  آرمی کی ٹوپی پہنی اور باہر کی طرف چل دے اس وقت تمام لوگ آرمی کے یونیفارم میں ہیں 

یہ تقریبا دسواں اڈا ہے جہاں پر انہوں نے حملہ کیا ہے مگر یہاں بھی واصف شاہ نہیں ملا 

میم واصف شاہ تو یہاں بھی نہیں ہے  ایک افسر نے زرمینے کو کہا  

ہممم آپ لوگ دوپہر کا کھانا کھالوں تب تک میں اور افسر ساحل کہیں سے ہوکر آتے ہیں زرمینے نے کہا  اور ساحل کے ساتھ جیپ پر بیٹھ کر  چلی گئیں

میرا ذکر پڑھنے والے، میرا راستہ نہ چُن لیں

سرِ ورق یہ بھی لکھنا، مجھے مات ہو گئی تھی

 یہ منظر ہے ایک بیسمنٹ کا جہاں اس وقت  داور بہت بری حالت میں  پڑا ہے کیونکہ اس کو پچھلے تین دن سے کچھ بھی کھانے کو نہیں دیا سوائے پانی کہ جب منہ پر ماسک لگاکر زرمینے اور ساحل وہاں آئے 

دوار شاہ کیسا لگا ہماری ہی کسٹڈی سے بھاگ کر زرمینے نے طنزیہ انداز میں کہا  

کیونکہ اس دن دوار ان کی کسٹڈی سے بھاگ گیا تھا دراصل وہ بھاگا نہیں بلکہ انہوں نے بھگایا تھا زرمینے اس کو خود سزا دینا چاہتی تھی آجکل کے جو عدالتی نظام ہے اس قجہ سے وہ جانتی تھی کہ دوار جلدی ہی چھوٹ جائے گا کیونکہ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہے اور اس کے پیچھے اس کی گینگ بھی ہے اس لئے زرمینے نے اسے وہاں سے بھگایا اور پھر جب وہ تھوڑی دور گیا تو سامنے ہی زرمینے نے اسے پکڑ لیا اور تب سے ہی وہ بیسمنٹ میں بند ہے

جس پر دوار نے اپنی بند ہوتی آنکھیں کھول کر اسے دیکھ  

کھانا  دوار نے کہا تو زرمینے مسکرائی  

اگر تمہیں کھانا چاہی تو تمہیں مجھے بتانا پڑے گا کہ تمہارا باپ کس بل میں جاکر چھپ گیا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو  دوار مسکرایا 

کیوں افسر تم لوگوں سے ڈھونڈ نہیں ہوا نہ وہ دوار نے نقاہٹ زادہ  آواز میں کہا تو زرمینے نے غصے سے مٹھی بھنچی 

ٹھیک ہے  اگر تمہیں ایسے ہی بھوکے ہی مرنا ہے تو ٹھیک ہے  مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو  دوار نے اسے دیکھ 

نہیں مجھے کھانا دے دوں پلیز  دوار نے کہا 

مجھے ایڈریس بتادوں  زرمینے نے کہا 

ٹھیک ہے میں ابھی بتا دوں گا  مگر ایک شرط پر تملوگ مجھے آزاد کردوں  دوار نے شرط رکھی 

ویسے تم اس حالت میں نہیں ہو کہ تم میرے سامنے کوئی   شرط 

رکھ سکوں مگر پھر بھی مجھے تمہاری شرط منظور ہے کیونکہ اب مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو دوار خوش ہوا 

پہلے کھانا  دوار نے کہا  تو زرمینے نے اسے کھانا دیا جسے وہ دونوں ہاتھوں سے ندیدوں کی طرح کھانے لگا 

کھانا کھانے کے بعد  اب اس کے کچھ ہوش و حواس میں آیا 

بتاو کہاں ہے تمہارا باپ زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

وہ اس ہی حویلی کے خفیہ روم میں ہے

_________________

تم نے بچپن  برباد اور وہ لڑکیاں جن کی زندگی تم نے جہنم سے بھی بدتر بنادی ہے اب جب تم ہر چیز کے لئے لوگوں کی باتیں سنو گئے اور بدلے میں کچھ بھی نہیں بول پاو گئے  تب تمہیں احساس ہو گا زرمینے نے یہ کہہ کر انجیکشن دوار کولگایا 

ساحل اسے کسی بھی جگہ چھوڑ آو زرمینے یہ کہہ کر حویلی کی طرف بھاگی 

حویلی پہنچ کر اس کا ٹکراؤ  غزلان شاہ سے ہوا جو اپنے کمرے کی طرف آرام کر نے کے لیے جارہا تھا مگر اس کی چال میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی مگر زرمینے اگنور کر کے اپنے کمرے کی طرف بھاگی 

جب وہ کمرےمیں گیہ تو سامنے ہی واصف شاہ  زمیں پر پڑاکرہ رہا ہے اور اس کی ماں اس کی پٹائی کر رہی ہے 

موم زرمینے نے کہا تو وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے 

موم آپ ٹھیک ہیں زرمینے نے پوچھا 

ہاں بچہ میں ٹھیک ہوں یہ شخص مجھے چاکو سے مارنے آیا تھا مگر یہ نہیں جانتا کہ مجھے بھی جبران خان نے خاص ٹریننگ دی ہوئی ہے اس لئے اس کی اچھی خاصی پٹائی کی میں نے صوفیہ بیگم نے کہا 

جس پر واصف شاہ نے قہقہہ لگایا  تم لوگوں کیا لگا میرا ٹارگٹ  تمہاری ماں ہے نہیں بلکہ  تمہارا شوہر  غزلان شاہ تھا  ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا

اوڑھ کر رکھا ہے عشق آپکا••••••••••π

فرمائیے کیسے لگتے ہیں ہم؟•••••••••π

______________

موم آپ ساحل کو کال کر دے وہ آکر اسے لے جائے گا زرمینے نے کہا اور بھاگ کر غزلان شاہ کے کمرے کی طرف گئی جب وہ اس کے کمرے میں پہنچی تو سامنے ہی  غزلان شاہ  بے ہوش زمین پر پڑا ہے اور اس کی ناک سے خون کو بہتے دیکھ کر زرمینے اور زیادہ پریشان ہوئی 

سائیں سائیں کیا ہوا ہے آپ کو زرمینے جلدی سے غزلان شاہ کے پاس آکر کہا 

مگر غزلان شاہ کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی  جس پر زرمینے اور بھی زیادہ پریشان ہوئی  

اماں سائیں زرتاشیہ  آنٹی کہاں ہیں سب جلدی آئے سائیں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے زرمینے جلدی سے اٹھی اور باہر جاکر سب گھر والوں کو بلایا 

جس پر تمام لوگ  بھاگ کر غزلان شاہ کے کمرے میں آئے اور جلدی سے  غزلان شاہ کو  اٹھا کر  ہسپتال لے گئے 

ڈاکٹر  دیکھے میرے بیٹے کو احمد شاہ نے ڈاکٹر کو کہا تو ڈاکٹر سامنے کھڑے احمد شاہ  کو پھر غزلان شاہ کو دیکھتا ہے سر کار کو کیا ہوا ہے ڈاکٹر پریشانی سے پوچھتا ہے یہ وہی ہسپتال ہے جہاں پر  غزلان شاہ نے  سٹاف کو تبدیل کیا  

ہمیں کیا پتا ڈاکٹر  جلدی سے میرے بیٹے کو دیکھے احمد شاہ نے  غصے سے کہا 

تو ڈاکٹر  سامنے کھڑے وارڈ بوائے سے کہہ کر غزلان شاہ کو ای سی یو میں لے جاتا ہے سب بھاگ کر ای سی یو کے باہر جاتے ہیں 

احمد شاہ  بینچ پر گرنے کے انداز میں بیٹھتا ہے دل سے مسلسل اپنے بیٹے کی زندگی کی دعا کر رہا ہے 

تو دوسری طرف  زرمینے  معلوم نہیں کیوں مگر عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی  بے اختیار انسو اس کا چہرہ بھگاو رہے تھے 

اگر غزلان شاہ کو کچھ ہوگیا اس سے اگے سوچبھی نہیں سکی 

 یا اللہ  پلیز  سائیں کو کچھ مت کیجیے گا  یا اللہ پلیز  زرمینے نے روتے ہوئے دعا کی پھر اٹھا کر  ہسپتال کے سٹاف روم میں گئی 

جہاں پہلے ہی کوئی نرس کھڑی تھی 

سنیں سٹسر کیا آپ مجھے جائے نماز دے سکتی  وہ مجھے نماز پڑھنی ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو اس نے اسے جائے نماز دے دی 

اور خود باہر چلی گئی زرمینے نے جائے نماز بچھا کر اس پر دو نفل پڑھے اور پھر اللہ کے حضور دعا کرنے لگی 

 میرے اللہ  پلیز میرے مجازی خدا میرے سائیں کو کچھ مت کریں گا میں جانتی ہوں میں آپ کی گناہگارہ بندی ہوں مگر میں آپ کے سوا کس سے مانگو  کیونکہ مجھے ہر چیز آپ نے عطا کی ہے پلیز اللہ جی  ان کو لچھ مت کرے گا  میں ان کے بغیر  کیسے رہو گئی زرمینے نے روتے ہوئے کہا  

تب ہی ساحل وہاں  آیا اور اسے روتے دیکھ اس کو غزلان شاہ کی قسمت پر رشک آیا 

اُسے کہنا یہ دنیا ہے

یہاں ہر موڑ پر بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں

جو اندر تک اُترتے ہیں

زر ساحل نے پکارا 

ہممم زرمینے نے کہا 

وہ غزلان شاہ کو زہر دیا گیا ہے مگر ڈاکٹر نے اس کا معدہ واش کر دیا ہے ا ب وہ خطرے سے باہر ہے اور اسے دوسرے روم میں بھی شفٹ کردیا گیا ہے تھوڑی دیر بعد اس کو ہوش بھی آجائے گا ساحل نے ایک ہی سانس میں کہا 

تم سچ بول رہے ہوں ساحل زرمینے نے خوشی سے پوچھا 

ہاں  ساحل نے اثبات میں سر ہلایا  

جس پر زرمینے نے سجدہ شکر کیا اچھا تم جاو میں شکرانے کے نفل پڑھ کر آتی ہوں  زرمینے نے مسکرا کر کہا 

تو ساحل  چلا گیا اور زرمینے بھی شکرانے کے نفل پڑھنے لگی  نفل پڑھ لر دعا مانگی اور پھر وہ غزلان شاہ کو دیکھنے باہر آئی 

جہاں سب غزلان شاہ کے کمرے  میں چلے گئے تھے کیونکہ غزلان شاہ  معمولی ہستی نہیں تھا تو اس کو وی ائ پی کمرے میں رکھ تھا اور اس پر گارڈ کی سکورٹی بہت زیادہ ٹائٹ کردی گئی تھی 

زرمینے اہستہ اہستہ چلتی ہوئی اس کمرے کے سامنے گئی جہاں غزلان شاہ  موجود تھا 

آج زرمینے شاہ پر ایک اور راز عیاں ہوا ہے کہ وہ غزلان شاہ سے عشق کر بیٹھی ہے وہ اپنے محرم سے عشق کر بیٹھی ہے  وہ لڑکی جو دوسروں کو کہتی تھی کہ عشق ایک بیماری ہے  وہ خود اب اس بیماری میں مبتلا ہوچکی ہے عجیب  ہی تو تھی زرمینے شاہ 

ہاں مگر اب اسے یہ بات قبول کر لئ ہی کہ وہ غزلان شاہ کے بغیر جی ہی نہ پاتی وہ اب اسے اپنی ہر اتی جاتی سانس کی طرح لازم ہو گیا جس پر زرمینے مسکرائی  مگر دور کھڑی قسمت  روئی تھی اس لڑکی کی قسمت پر 

ایسے پُر زور دلائل بھی نہیں تھے اُس کے

اور کچھ ذہن کشادہ بھی نہیں تھا میرا

 دفعتاً ہاتھ اُٹھائے تری مٹی سے کہ تُو 

پورا ہو جاتا تُو آدھا بھی نہیں تھا میرا

_______________

زرمینے اندر آئی تو غزلان شاہ کو ہوش آچکا تھا اعر وہ احمد شاہ کو اپنے ٹھیک ہونے کی تسلیاں دے رہا تھا  اس کو اندر اتے دیکھ خاموش ہو گیا 

تو احمد شاہ نے بھی سامنے کھڑی زرمینے کو دیکھ  

اچھا بیٹا میں گھر میں سب کو انفارم کردوں کہ تم ٹھیک ہوں  وہ لوگ پریشان ہورہے ہوگئے احمد شاہ یہ کہہ کر باہر چلا گیا پیچھے ریاض شاہ اور ساحل بھی ان دونوں کو پرائیواسی دینے کے لے باہر لی طرف چل دئے 

سب کے باہر جاتے ہی زرمینے چلتی ہوئی بید کے پاس پڑے سٹول پر بیٹھ گئی مگر اس کو قریب اتے دیکھ غزلان شاہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں  

سائیں زرمینے نے نرم لہجے میں پکارا مگر جواب نادر

سائیں پھر پکارا گیا مگر جواب پھر نادر 

سائیں اس بار آواز میں  واضح نمی تھی مگر اس بار بھی جواب نادر ہی تھا 

سائیں کیا آپ مجھے سے کسی بات پر ناراض ہیں زرمینے نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا 

جس پر غزلان شاہ نے اپنی سرخ ہوتی  آنکھیں کھول کر اسے دیکھ   جو اسے کو ہی دیکھ رہی تھی 

ناراض وہ شخص طنزیہ ہنسا 

مجھے کوئی حق نہیں ہے  افسر زرمینے  ریاض شاہ آپ سے ناراض ہونے کاغزلان شاہ نے اس سے اپنا نام الگ کر کے کہا تو زرمینے نے  حیرانگی سے اسے دیکھا  جو اسے سردارنی سائیں  خانم یا مسز غزلان شاہ ہی بلاتا تھا مگر آج تو اس نے اس سے اپنا نام ہی الگ کر لیا آج اس  نے اسے زرمینے ریاض شاہ کہا تو وہ تڑپ ہی اٹھی 

سائیں زرمینے نے تڑپ کر کہا  

جس پر وہ گہرا ہنسا معلوم ہے اب مجھے خود سے نفرت ہونے لگی ہے کہ میں نے ایک ایسی لڑکی پر اپنے سچے جذبات لٹائے جس نے ہمیشہ ہی مجھے دھوکہ ہی دیا ہے  اور آپ کو پتا ہے میں جانتا تھا کہ اس جوس میں زہر ہے مگر میں نے اسے پی لیا کیونکہ اب مجھے خود سے گھن آنے لگی ہے کہ میں نے آپ سے دل لگا لیا ایسی خود غرض سے دل لگا بیٹھ جس کا مقصد ہی کچھ اور تھا اگر اس کا مقصد نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی مجھے سے نکاح نہیں کرتی یہ کہہ کر وہ شخص  گہرا ہنسا  جیسے خود کا مزاق اڑا رہا ہوں 

مگر اس کے الفاظ پر زرمینے ٹرپی 

سائی ایسا کچھ نہیں ہے  زرمینے نے کہنے لگی مگر غزلان شاہ نے اسے روکا 

میری صرف ایک بات کا جواب ہاں یا نہ میں دینا غزلان شاہ نے سرد لہجے میں کہا تو زرمینے کی ریڈ کی ہلڈی میں سنسانی دوڑی اس کا سرد لہجہ سن کر  

اگر آپ کا مقصد نہ ہوتا تو کیا تب بھی آپ مجھے سے نکاح کرلیتی غزلان شاہ نے سرد لہجے میں کہا  

سائیں زرمینے نے کہا 

ہاں یا نہ زرمینے  اس  علوہ کچھ نہیں  غزلان شاہ نے سرد لہجے میں کہا 

نہیں  سائیں زرمینے نے کہا  اس کے کہنے کی دہر تھی کہ غزلان شاہ کے چہرے پر  درد بھری مسکراہٹ آئی شاید وہ پہلے ہی جانتا تھا زرمینے کے جواب کو 

سائیں  میں مجبور زرمینے نے کہنا چاہا 

مجبور نہیں آپ کبھی بھی مجبور نہیں تھی اگر آپ چاہتی تو مجھے نکاح سے پہلے ہی سب بتادیتی مگر نہیں  چلو مان لیا اس وقت آپ کو معلوم نہیں تھا مہرے بارےمیں  مگر نکاح کے بعد میں نے آپ کو اتنا مان اعتماد تو بخشا تھا نہ کہ مجھے بتا دیتی مگر نہیں آپ نے کچھ نہیں بتایا  بلکہ جب میں پاگلوں کی طرح آپ کے افے پیچھے پھیرتا تب بھی نہیں کہا کہ سائیں میں مجھے سے دل مت لگائے میری تو پوری ذات ہی دھوکا ہے غزلان شاہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تو زرمینے نے شرمندگی سے اپنا سع جھکا لیا 

ہاں وہ جانتی تھی کہ عہ جو کہہ رہا ہے سچ ہی تو کہہ رہا ہے 

سائیں زرمینے نے پکارا 

چلے جائے میری آنکھوں سے دور ورنہ میں یا تو خود کو کچھ کر لوں گا یا پھر آپ کو غزلان شاہ  نے  غصے سے کہا  

سائیں  زرمینے نے کہا 

چلی جائے یہاں سے  غزلان شاہ ڈھاڑا تو زرمینے  ڈرتے ہوئے وہاں سے بھاگئ

پھر وہ کمرے سے ہی نہیں  بلکہ  ہسپتال ہی  چلی گئی 

 _____________ 

غزلان شاہ کو ہسپتال آئے ہوئے تین دن ہوگئے ہیں اس دوران ایک بار بھی اس کا سامنا زرمینے سے نہیں ہوا  اس دن کے بعد وہ خاموش ہوگیا تھا آج وہ واپس حویلی جارہا ہے 

اور اس کی سوچا کا رخ وہی دشمن جان تھی 

وہ حویلی آیا تو اماں سائیں اس کو گلے لگے کتنا عرصہ روتی رہی پھر اس نے  انہیں  بڑی مشکل سے چپ کروایا جب وہاں زرمینے بھی آ گئی اس وقت  بلیک سوٹ پہن کر ساتھ ہم رنگ دوپٹہ سر پر لیا ہوا ہے غزلان شاہ کی نظر بے اختیار اس کی طرف اٹھی جس کی رنگت زردی ہوچکی تھی بال بھی بکھرے ہوئے تھے جیسے انہیں سلجھایا ہی نہیں گیا سرخ ہوتی آنکھوں اس کے مسلسل رونے کی گواہی دے رہا ہے ایک پل کے لئے غزلان شاہ تڑپا مگر صرف ایک پل کے لئے جیسےہی اس کا دھوکا یاد آیا ویسےہی اس نے اپنی نظر پھیر لی 

مام مجھے ریسٹ کرنا چاہتا ہوں اور پلیز مجھے کوئی ڈسٹرب مت کرے گا غزلان شاہ  سرد مہری سے کہہ کت وہاں سے اپنے کمرے کی طرف آرام کر نے کے لیے چلا گیا پیچھے زرمینے نے دکھ سے اس کی پشت کو دیکھا

سرِ راہ تم سے ملے تھے ہم

سرِ راہ تم سے بچھڑ گئے

سرِ حشر تم سے ملیں گے اب

سرِحشر یعنی کبھی نہیں

دوپہر کے وقت زرمینے سوپ بنا کر غزلان شاہ کے کمرے کی طرف گئی کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے سوپ کا کہا تھا اس لئے زرمینے خود اپنے ہاتھوں سے بنا کر لے جارہی تھی 

وہ کمرے میں آئی تو غزلان شاہ کہی نہیں تھا اس نے سوپ رکھ اور جانے ہی لگی کہ تب ہی غزلان شاہ  واشروم سے باہر آیا 

اپنے سامنے ہی زرمینے کو دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے  

کیا کر رہی ہیں آپ یہاں  غزلان شاہ نے سخت لہجے میں کہا  

وہ ہم آپ کے لئے سوپ بنا کر لائے ہیں زرمینے نے کہا تو غزلان شاہ گہرا ہنسا  

اب کیوں ہمدردی دیکھ رہی ہیں آپ کیا چاہیے آپ کو باخدا اگر آپ جان بھی مانگ لے تو سردار غزلان شاہ کا وعدہ ہے وہ بھی آپ کو دے دیں گا مگر  پلیز آپ یہ ڈرامے بند کردے غزلان شاہ نے سرد لہجے میں کہا تو زرمینے نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھ  

نہیں سائیں میں ڈرامہ نہیں کر رہی  زرمینے نے کہا تو غزلان شاہ نے مسکرا کر اسے دیکھ  

کیا آپ مجھے معاف نہیں کرسکتے زرمینے نے کہا تو غزلان شاہ چونکا  معاف ہماری ذات کا مزاق اڑا کر ہمارے سچ جذبات کو روند کر آپ کو معافی چاہے تو وہ آپ کو کبھی نہیں ملے گئی اور پلیز اپنا یہ سوپ بھی لے جائے غزلان شاہ نے کہا  

نہیں آپ یہ پی لے زرمینے نے کہا تو غزلان شاہ نے غصے سے سوپ کو ہاتھ مار کر زمیں پر گرادیا دفعہ ہوجائے یہاں سے  غزلان شاہ ڈھاڑا 

جس پر زرمینے  وہاں سے چلی گئی 

مہینہ ہوگیا ہے زرمینے روز غزلان شاہ سے معافی مانگنے حویلی آتی مگر ہمیشہ ہی خالی ہاتھ  جاتی آج بھی ہمیشہ ہی کی طرح وہ حویلی آئی 

با با سائیں میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں  غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا تو  نوشین بیگم اور احمد شاہ نے چونک کر اسے دیکھ 

کیوں بے اختیار کہا دونوں نے  

ڈیڈ اور مام کیوں کا کیامطلب میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں  اور لڑکی بھی  ڈھونڈنے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے  میں نے ڈھونڈ لی ہے غزلان شاہ نے ہنوز سنجیدگی سے کہا 

تو زرمینے کو لگا حویلی کی چھت اس کے اوپر آکر گر ہے 

نہیں  سائیں دوسری شادی  نہیں کرسکتے میں ایسا ہونے ہی نہیں  دوں گئی زرمینے بڑابڑئی  

ٹھیک ہے  کون ہے وہ لڑکی  احمد شاہ نے کہا

بہت جلد میں آپ لوگوں سے ملوادوں گا غزلان شاہ نے کہا اور پھر سامنے کھڑی زرمینے کو دیکھ کر وہ سے چلا گیا 

اور زرمینے  کو لگا وہ ایک بار پھر بھری دنیا میں تنہا ہو گئی 

وہ واپس بھاگی

اس کے کانوں میں مسلسل غزلان شاہ کے الفاظ میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں  پڑ رہے ہیں 

نہیں سائیں  نہیں  آپ دوسری شادی  نہیں  کرسکتے  نہیں  زرمینے نے  روتے ہوئے کہا 

پھر اٹھی اور واپس حویلی کی طرف  گئی اس کا رخ غزلان شاہ  کے کمرے کی طرف تھا وہ ایک آخری کوشش کرنا چاہتی تھی  

سائیں کمرے میں داخل ہوکر زرمینے نے سامنے کھڑے غزلان شاہ کو  بلایا 

سائیں پلیز آپ دوسری شادی  مت کریں آپ جو چاہے مجھے سزا دے مگر دوسری شادی نہیں  زرمینے نے روتے ہوئے التجائیہ لہجے میں کہا تو غزلان شاہ نے اسے دیکھا  ایک لمحے کے لیے اس کی حالت پر اس کا دل نرم پڑا مگر صرف ایک لمحے کے لیے  

کیوں میرا حق ہے  میں دوسری شادی کر سکتا ہوں  غزلان شاہ نے سفاکیت سے کہا 

نہیں سائیں میں آپ کو بانٹ نہیں سکتی میں  شراکت داری برداشت نہیں کر سکوں گئی  آپ مجھے کھودے گئے سائیں زرمینے نے روتے ہوئے کہا  تو غزلان شاہ  ہنسا 

کھو ہم آپ کو پہلے ہی کھو چکے ہیں زرمینے ریاض شاہ  اور جہاں تک بات ہمارے دوسری شادی کی ہے تو وہ تو ہم کرئے ہی گے غزلان شاہ نے کہا  

ٹھیک ہے آپ مجھے ابھی طلاق دے دیں  زرمینے نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا  

ہا ہا ہا ہا  ہا ہا ہا  آپ کو کیوں لگا کہ ہم آپ کو چھوڑے گئے ہم سے رہائی اب ہماری موت ہی دے سکتی ہے آپ کو غزلان شاہ نے سفاکیت سے کہا  

ہم مر جائے گئے سائیں مت کریں شادی  زرمینے نے کہا 

کوئی نہیں مرتا دیکھو  ہم بھی تو زندہ ہیں آپ بھی رہے لے گئی 

اور ہاں  میری شادی پر ضرور آئے گا اخر کو آپ میری پہلی  بیوی ہے  غزلان شاہ نے سرد مہری سے کہا اور اسے وہی چھوڑا کر چلا گیا 

جائز نہیں  ہجراں میں ہلکا سا تماشہ یوں 

یا آہ بھی مت کیجئے یا حشر اٹھا دیجئے

ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﮯ ﻣﺖ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﯿﻮنکہﺁپ کی ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺍُن کا ﺳﺎﻧﺲ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﭩﻨﮯ ﻟﮓ ﺳﮑﺘﺎ ہےﺍُن کو ﺁﺯﺍﺩ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﯽ ﻓﻀﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﮟ ﺳﮑﯿﮟﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭼﺎﮨﺘﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﮔُﮭﭩﻦ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ہیں۔۔۔!!!

پیچھے زرمینے روتے ہوئے وہی بیٹھ گئی 

 میرے اللہ کیوں کیوں میرے ساتھ ہی ایسا ہوتا ہے میں کہا غلط تھی پیدا ہوتے ہی مجھے میرے باپ نے پھینک دیا سب نے مجھے ناجائز کہا میں نے صبر کیا لوگوں کق کام ہوتا ہے باتیں کرنا یہ سوچ کر مگر اب اللہ جی مجھے سے صبر نہیں ہوگا میں سائیں کو نہیں بانٹ سکتی میں کیسے شراکت داری برداشت کرو گئی اللہ پلیز مجھے صبر دے ورنہ مجھے اپنے پاس بلا لے  

زرمینے نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ کے ہر کام میں ضرور کوئی مصلحت ہوتی ہے مگر پھر بھی شکوہ کیا اور اپنی موت بھی مانگی

بات صرف محبت کی ہوتی تو چھوڑ دیتے تجھے🍁😞💯

ہم تو تجھ سے عشق کربیٹھے ہیں بے حد کر بیٹھے ہیں💔

ساری رات زرمینے نے روتے ہوئے گزاری نتیجہ صبح بخار کی صورت میں نکلا  

صوفیہ بیگم  نے جب زرمینے کو  کمرے سے باہر نہیں دیکھا تو وہ پریشانی سے اس کے کمرے کی طرف آئی جہاں وہ بخار میں  تڑپ رہی تھی 

زرمینے  کیا ہوا میرے بچا آج آپ کیوں نہیں ابھی تک اٹھی پہلے تو مجھے سے پہلے ہی اٹھا جاتی ہوں 

صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا  اور چلتی ہوئی  زرمینے کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی مگر جب زرمینے کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوتے دیکھا تو انہوں نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ تو وہ تپ رہا تھا 

زرمینے  ہائے اللہ  زر کو تو بخار ہے صوفیہ بیگم نے کہا  

اور جلدی سے ڈاکٹر کو کال کی 

تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر  ائی اور زرمینے کا چیک اپ کیا  

ان کو  بخار ہے  اور یہ کسی بات کی بہت ٹینشن لے رہی ہے تو آپ پلیز  کو ٹینشن سے دور رکھے کیونکہ ان کا بی پی بہت ہائی ہوگیا جس وجہ سے یہ بے ہوش ہوگئی ہے میں نے انجیکشن لگا دیا ہے اور یہ میڈیسن  انہیں دے دینا ڈاکٹر نے پیشے وارنہ لہجے میں کہا 

ڈاکٹر یہ کب تک ہوش میں آجائے گئی   صوفیہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا 

انہیں تھوڑی دیر میں ہی ہوش آجائے گا ڈاکٹر یہ کہتا ہوا باہر چلا گیا 

ترے خیال میں بیٹھـــے ھوئے وہ لوگـــــــ ہیں ہم

جنھیں زمـــانہ سمجھتا ہـــــے، کوئی  کام نہیں 

_____________

 دوپہر کے وقت زرمینے کو ہوش آیا تو اپنے سامنے صوفیہ بیگم کی پریشانی شکل دیکھ کر  اسے دکھ ہوا وہ اپنے دکھ میں ان کو تو بھول گئی 

زر میری جان کیسا محسوس کررہی ہوں کہی درد تو نہیں ہورہا بچے  صوفیہ بیگم نے پریشانی سے کہا  

زرمینے نے  اپنا سر ان کی گود میں رکھ مما میرے سر میں درد ہورہا ہے زرمینے نے کہا تو صوفیہ بیگم  زرمینے کا سر دبانے لگی 

مما اللہ  ہمارے ساتھ اتنا برا کیوں کرتا ہے زرمینے نے کہا 

نہیں زر اللہ  ہمارے ساتھ برا نہیں  کرتا بلکہ  وہ ہمیشہ جو بھی کرتا ہے اس میں ہماری ہی کوئی بہتری ہے اور ہم انسان  بہتر کی تلاش میں بہترین کو کھودیتے ہیں 

اور تم اتنی مایوس کیوں ہو ں کیا نہیں  جانتی 

م اللہ کی حکمت کو نہیں جانتے

اللہ کے سوا تم مشکل میں کسی کو اپنا نہیں پاؤ گے

جو تم پریشان ہو تو پریشانی دور کرنے والے کو بتاو

جو تم پر مشکل وقت آیا ہے تو مشکل کشاء سے بات کرو 

جو تم کو حاجت درپیش ہے تو حاجت روا کے سامنے سجدہ ریز ہو

بے شک کے اس کے سوا ناں تو کوئی حاجت روا ہے ناں مشکل کشا ہے نہ تم کو کوئی اور محبت کرنے والا

اللہ سے مانگیں اور بے حساب مانگیں 

کیونکہ وہاں سے خالی ہاتھ کبھی کوئی نہیں لوٹا

صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا  تو  زرمینے  شرمندہ ہوئی خود کے مایوس ہونے سے 

واقع ہی اللہ  تو انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے تو وہ تو سب جانتا ہے اور اللہ انسان کو اس لی ہمت سے زیادہ نہیں  آزماتا اور اب زرمینےکو اس آزمائش میں ثابت قدم رہنا تھا 

اچھا مما  آپ کچھ کھانے کو لائے تم تک میں فریش ہوکر آتی ہوں زرمینے نے ان کی گود سے سر اٹھا کر کہا 

تو صوفیہ بیگم بھی اس کو پیار کر کے ناہر چلی گئی 

زرمینے اٹھی وضو کیا اور قضا نماز ادا کی 

اور اللہ سے اپنی ناشکری کی روتے ہوئے معافی مانگی

 ﺇِﻥَّ ﺭَﺑَّﻚَ ﻭَﺍﺳِـــــﻊُ ﺍﻟْﻤَﻐْﻔِـــــﺮَﺓِ♥️

  بیشک ﺁﭖ ﮐﺎ ﺭﺏ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﮔُﻨﺠﺎﺋﺶ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ❤ 

مجھے نہیں رہی کوئی خواہش تیری••☆

تو نے مجھے ہر شخص سے بیزار کر دیا••☆

______________

زرمینے باہر آئی تو سامنے ہی صوفیہ بیگم  کسی کارڈ کو پکڑے پریشانی سے  کھڑی تھی 

کیا ہوا مما کیا ہے اس کارڈ میں جو آپ اتنا پریشان  ہو رہی ہے  زرمینے نے پوچھا 

 (اب زرمینے خود کو کافی ہلکا محسوس کر رہی تھی واقع جو سکون اللہ کی عبادت میں ہے وہ کسی اور چیز میں کہاں  )

اور پھر خود ہی ان کے ہاتھ سے وہ کارڈ پکڑا جہاں واضح الفاظ میں غزلان شاہ  ویڈنگ حجاب  لکھا ہو تھا  اسے دیکھ کر زرمینے کو  دکھ تو ہوا مگر وہ اپنے تاثرات چھپا گئی 

ارے واہ  شادی کا کارڈ آیا ہے ویسے مما لتنا عرصے ہوگیا ہے  ہم نے کوئی شادی  اٹیند نہیں کی زرمینے نے اپنے لہجے کو خوش باش رکھ کر کہا 

تو صوفیہ بیگم نے  حیرت سے اسے دیکھ 

کیا مطلب ہے اٹینڈ کرنے کا جس کی شادی ہورہی ہے وہ تمہارا شوہر ہے زرمینے  صوفیہ بیگم نے کہا  

او ہو مما  یہ شادی تو میں نے مجبوری میں کی تھی  اور وہسے بھی میں نے خود کل رات ان کو اجازت دی تھی دوسری شادی کی  زرمینے نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا اس وقت وہ جتنی تکلیف میں تھی  وہ بس وہی یا اس کا رب جانتا ہے 

اور صوفیہ بیگم کو اس کے بخار  کی اب سمجھ آئی وہ ماں تھی بےشک انہوں نے اسے پیدا نہیں لیا مگر پالا ہے وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھی انہوں نے خود اسکی آنکھوں میں  واضح  محبت دیکھی تھی  اس دن کیسے بھاگی تھی وہ کمرے سے جب واصف شاہ نے کہا تھا کہ ٹارگٹ  اس کا شوہر ہے اور پھر پیچھے ایک مہینے سے کسی کام کو نہ کرنا ہر وقت غزلان شاہ کے اگے پیچھے رہنا کیا وہ نہیں  جانتی تھی بااختیار آگے بڑھ کر زرمینے کو اپنے گلے لگایا ان کے گلے لگتے ہی زرمینے کی آنکھوں سے بے اختیار ایک آنسو نکلا  جسے اس نے جلدی سے صاف کیا 

کیا مما آپ کیوں  اتنا ایموشنل ہو رہی ہے اور ہاں آج شام کو  ہم مہندی پر ضرور جائے گئے تو اپ اپنے اور میرے کپڑے  تیار کر لیجے گا 

زرمینے نے کہا ابھی صوفیہ بیگم کچھ  کہتی کہ زرمینے کا فون رنگ ہوا سامنے ہی چیف کالنگ دیکھ زرمینے نے ہاتھ کے اشارے سے دومنٹ کا کہا اور جلدی سے باہر کی طرف چل دی 

افسر زر اپ ابھی میٹنگ روم میں پہنچے اپ کے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے سامنے والے نے کہا 

اوکے سر ایم کمنگ زرمینے نے کہہ کر کال کاٹی اور جلدی سے اندر بھاگی

 پانچ منٹ میں وہ  بلیو کلر کی جینز اور شرٹ پہنے ہوئے ساتھ جیکٹ پہن کر سر پر حجاب  کیا اور باہر ائی 

زر ناشتہ صوفیہ بیگم نے کہا  

نہیں مما اپ کا وہ کھڑوس شوہر آگیا ہے اور انہوں نے مجھے آدھے گھنٹے میں بلایا ہے لویو مما زرمینے جلدی سے کہہ کر بغیر ان کی کوئی بات سنے وہاں سے چلی گئی 

پیچھے صوفیہ بیگم  نفی میں سر ہلاتی ہوئی واپس کچن میں چلی گئی

نکلے وہ لوگ میری شخصیت بگاڑنے...!

‏..

کردار جن کے خود مرمت مانگ رہے تھے...!  

________________

زرمینے  باہر آئی اور جلدی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھی تو تمام گارڈ فورا گاڑیاں میں بیٹھے  

کوئی بھی میرے پیچھے یا میرے ساتھ نہیں  آئے گا  زرمینے نے  سپاٹ لہجے میں کہا 

مگر میم خان سر کے سختی سے آرڈر دیا ہے کہ ہم اپ کو اکیلا نہ چھوڑیں  

ان سب گارڈ کا ہیڈ نے  زریام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا  

میں نے کہا ہے کہ کوئی بھی نہیں  آئے  میں اپنی حفاظت خود کرسکتی ہوں زرمینے نے کہا اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھی اوت اور وہاں سے نکلی کیونکہ  دس منٹ گزار چکے تھے اب بس بیس منٹ رہتے تھے اس کے پہنچنے میں 

پیچھے گارڈ کے ہیڈ نے زریام کو فون کر کے  بتایا جس پر اس نے ان کو وہی روکنے کا کہہ دیا 

تو وہ بھی ان کے پیچھے نہیں گئے 

افس کی بلڈنگ کے سامنے گاڑی روک کر زرمینے نے اپنے چہرےپر  ماسک لگایا  اور جلدی سے آفس میں چلی گئی 

السلام و علیکم  زرمینے نے کہا تو سب افسر نے اس کے سلام کا جواب دیا 

مبارک ہو افسر زر آپ نے ایک اور  میشن کمپلیٹ کرلیا ان افسر میں سے ایک نے  زرمینے کو مبارک باد دی 

جس پر اس نے اپنے سر کو خم دی مگر بولی کچھ نہیں  اور خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھ گئی 

تھوڑی دیر کے بعد  جبران خان  بھی وہاں آگیا اور چیف کی کرسی پر بیٹھ گیا 

سب سے پہلے افسر زر آپ نے بہت اچھے سے یہ مشن بھی سولو کرلیا اور ہمارے یقین کو اور بھی پختہ کردیا کہ ہ۔ جو بھی مشن آپ کو دے گئے وہ آپ پورا ضرورکرئے گئی  جیران خان نے سنجیدگی سے کہا  

شکریہ سر یک لفظی جواب دیا  

ہم یہاں ایک اور کیس کے سلسلے میں اکٹھے ہوئے ہیں یہ یونیورسٹی میں  خبر ملی ہے کہ ڈرگز سیل ہوتی ہے اور بہت سی نوجوان نسل کو ڈرگز کا عادی بنا کر برباد کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ یہاں  داشت گردوں کے حملے کے بارے میں بھی خبر ملی ہے کہ وہ مجرم راگا جو افسر زر اور ان کے ساتھیوں نے  پکڑےتھے ان کو چھوڑواے کے لئے اور ان کی ہی وجہ سے حمزہ  کی موت کا ڈرامہ کیا  تھا کیونکہ انہیں  ایک افسر کی گرداری کی وجہ سے حمزہ کے بارے میں پتا چل گیا تھا 

ہاں حمزہ زندہ ہے مگر اس وقت کومہ میں ہے اور زریام اس کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ ہے تمام لوگوں کے لئے حمزہ مار گیا ہے مگر کچھ ہی لوگوں کو پتا ہے کہ حمزہ زندہ ہے  

اس لئے ہم چاہتے ہیں یہ مشن بھی افسر زر اپ ہی سنبھالے  آپ وہاں  ٹیچر یا کوئی سٹوڈنٹ بن کر جائے گئی   جبران خان نے کہا 

اوکے سر مجھے خوشی ہوگئی یہ مشن ہینڈل کرنے میں زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

اوکے یہ لے فائل اس میں مشن کی ساری ڈیٹیل موجود ہے جبران خان نے ایک فائل زرمینے کو دیتے ہوئے کہا

اوکے سر میں ریڈکرلوں گئی مگر اب میں چلتی ہوں زرمینے نے کہا  

افسر زر اپ میرے کیبن میں آئے جبران خان نے کہا اور وہاں سے چلا گیا  پیچھے زرمینےبھی فائل آٹھاکر ان کے پیچھے ان کے کیبن میں آئی 

بیٹھو زر کیبن میں آئی تو سامنے ہی کرسی پر جبران خان بیٹھے ہوئے ہے اور دوسری کرسی پر زرمینے کو بیٹھنےکا کہا 

 میں نے آپ کا ایڈمیشن کروادیا ہے آپ وہاں ایک ڈرپوک سٹوڈنٹ کے روپ میں جائے گئی اور اپ کی یہ پک میں نے دی ہے تو اس کے لحاظ سے آپ کو خود کو چینج کرنا ہوگا جبران خان نے کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا  

اچھا ڈیڈ  میں زرا فائل پڑھ لوں اور پرسوں سے یہ مشن  پر جاو گئی یہ دو دن مجھے کچھ کام ہے زرمینے نے کہا 

ٹھیک ہے آپ دودن بعد چلی جانا 

جبران خان نے کہا تو زرمینے وہاں سے چلی گئی اور سیدھا گھر آئی 

_________________

زرمینے کے جانے کے تھوڑی دیر کے بعد ہی کچن میں کوئی آیا 

زر پھر سے کوئی چیز بھول گئی ہوں کیا جو اتنی جلدی آگئی اور تو اور میرے کھڑوس شوہر  آگیا ہے تو تم اب تک یہ ہوں صوفیہ بیگم نے بغیر مڑے کوثر بیگم کو زرمینے سمجھ کر کہا 

نہیں زر نہیں میں ہوں کوثر  کوثر بیگم نے کہا  

تو وہ پلٹی او معاف کیجئے گا  مجھے لگا شاید زر ہے وہ ابھی ابھی گئی ہے تو مجھے لگا شاید کچھ بھول گئی  صوفیہ بیگم نے کہا تو کوثر بیگم مسکرائی  

وہ میں زرمینے سے ملنے آئی تھی کیسی ہے، وہ کیا اسے  غزلان شاہ کی دوسری شادی کا پتاچل گیا ہے کوثر بیگم نے پریشانی سے ایک ساتھ ہی سارے سوال کر لئے 

جی وہ بالکل ٹھیک ہے اور اسے رات سے ہی غزلان کی شادی کے بارے میں پتا ہے صوفیہ بیگم نے کہا  

 اچھا ہم نے غزلان شاہ کو بہت سمجھایا مگر وہ تو کسی کی بھی بات نہیں سمجھ رہا ہے ایک تو وہ سردار ہے اس لئے ہم سب کو اس کا حکم ماننا پڑے گا  

کوثر بیگم نے کہا  

ہممممم صوفیہ بیگم نے کہا  

اچھا آپ آئی گئی شام کو کوثر بیگم نے پوچھا 

ہاں وہ زر کہہ رہی تھی کہ ہم جائے گئے مگر ابھی وہ اپنے باپ کے آفس میں گئی ہے انہوں نے اسے بلایا ہے صوفیہ بیگم نے کہا  

تو اپنے باپ لفظ پر کوثر بیگم کے دل دکھ واقع وہ اپنے سگے سے زیادہ کسی غیر کو اپنا باپ کہتی اور مانتی ہے ایک طرف سے تو دیکھ جائے تو اس میں زرمینے کی بھی کوئی غلطی نہیں ہے  جب سگے باپ نے ہی اس کے ساتھ اتنا کچھ کیا ہے تو اس کا کوئی بھی حق  نہیں ہے  

یہ سوچتے ہی کوثر بیگم کی آنکھیں نم ہوئی 

یہ لیں چائے  وہ اپنی ہی سوچو میں گم تھی جب صوفیہ بیگم نے ان کو  چائے دی تو وہ ہوش کی دنیا میں آئی اور مسکرا کر ان کے ہاتھوں سے چائے لی 

اور پھر وہ دونوں زرمینے کے بچپن کے بارے میں باتیں کرنے لگی 

جب زرمینے آندھی طوفا ن کی طرح گھر میں آئی مما مما کہاں ہیں آپ مجھے بھوک لگی ہے جلدی سے کھانا دے مجھے زرمینے نے کہا مگر جب نظر سامنے صوفیہ بیگم کے ساتھ بیٹھی کوثر بیگم سے ٹکرائی تو اس کی چلتی زبان کو بریک لگئی 

اور صوفیہ بیگم اس کو گھورتی ہوئی کچن میں چلی گئی 

تو زرمینے چلتیہوئی  کوثر بیگم کے پاس آئی 

کیسی ہیں آپ ماں زرمینے نے پوچھا 

اور کوثر بیگم تو بے یقینی سے اسے دیکھا جس نے ابھی اسے ماں کہا ہے انہوں نے اسے گلے لگایا اور رونے لگی زرمینے میری بچی مجھے معاف کردوں میں

[02/08, 10:26 pm] Zeeshan: نہیں  جانتی تھی کہ تم زندہ ہوا مجھے تو یہی بتایا گیا تھا کہ میری بیٹی  پیدا ہوتے ہی مرگئی تھی کوثر بیگم نے روتے ہوئے کہا 

ماں میں جانتی ہوں مجھے مما نے سب بتایا تھا زرمینے نے انکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا  

تو پھر تم میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہی تھی کوثر بیگم نے پوچھا  

اس لئے کیونکہ مجھے افسوس ہوا کہ میرے قریب رہ کر بھی آپ کو احساس نہیں ہوا کہ میں آپ کی اولاد ہوں زرمینے نے کہا تو کوثر بیگم شرمندہ ہوئی 

مجھے  بس ماں آپ کیوں مجھے سے بار بار معافی مانگ رہی ہیں  ابھی کوثر بیگم کہتی کہ زرمینے نے فورا کہا 

کہ تب ہی صوفیہ بیگم بھی اس کا ناشتہ لے کر آئی 

مما سچ میں مجھے بہت بھوک لگی ہوئی تھی اور ابھی آپ کے شوہر اتے ہیں تو ان کے ساتھ مجھے یونیورسٹی ایڈمیشن کے لئے بھی جانا ہے پتا نہیں انہیں کس نے اتنا بڑا بزنس مین بنا دیا ہے زرمینے نے منہ بسور کر کہا 

کیوں اب تم نے کیوں یونی جانا ہے صوفیہ بیگم نے کہا  

وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنی پڑھائی شروع کرو زرمینے نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا کہ تب ہی جبران خان  بھی آگیا 

زر جلدی چلو میں نے پھر ایک میٹنگ پر بھی جانا ہے جبران خان نے کہا 

بس ڈیڈ میں ابھی آئی زرمینے یہ کہہکر کمرے کی طرف بھاگی اور دس منٹ میں وہ ایک سادہ سوٹ کے اوپر ڈوپٹہ لئے اور آنکھوں پر بڑھا بڑھا چشمہ  لگائے وہ تیار تھی 

چلیں ڈید زرمینے نے کہا توجبران خان  اٹھ گئے پھر وہ دونوں  یونی چلے گئے 

یونی میں وہ دونوں  پرنسپل کے آفس میں گئے ارے جبران صاحب آپ یہاں  پرنسپل نے  جبران خان کو دیکھ کر کہا  آپ ان کو جانتے ہیں زرمینے نے پوچھا 

ارے بیٹا ان کو کون نہیں جانتا  یہ مشہور بزنس مین  جبران خان ہے پرنسپل نے کہا  

میں یہاں اپنی بیٹی کے ایڈمیشن کےلئے آیا ہوں یہ میری بیٹی  زرمینے ہے اور اس کے ایڈمیشن کےلئے آیا ہوں   جبران خان نے کہا  

یہ تھوڑی ڈرپوک ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کا خاص خیال دکھے اور میں نے سنا ہے یہاں ریکنگ نہیں ہوتی بہت اچھا ماحول ہے اس لئے اس کا ایڈمیشن یہاں کرونے لے آیا 

جبران خان نے کہا  

ارے سر بہت اچھا کیا آپ نے اعر جو بھی آپ نے ہماری یونیورسٹی کے بارے میں سنا ہے یہ یونیورسٹی بالکل ویسی ہی ہے پرنسپل نے کہا  

پھر زرمینے کا ایڈمیشن کروادیا  اچھا بیٹا آپ نے یونی دیکھنی ہے کیا پرنسپل نے کہا  

نہیں مجھے نہیں دیکھنی بابا زرمینے نے فورا سہم کر کہا

اوکے بیٹا جیسی آپ کی مرضی  پرنسپل نے کہا  

اچھا اب ہم چلتے جبران خان نے کہا اور پھر وہ دونوں وہاں سے چلے گیے 

کِیاکَشِش تِھی اُس کی آنکُھوں میں مَت پُوچھُو

مُجھ سِےمیرادِل لَڑ پَڑاکہ مجھے وُہ شَخص چَاہیِے🥀🥀

زرمینے گھر آکر سیدھا اپنے کمرے میں گئی اور تھوڑی دیر  آرام کر نے کے لیے لیٹ گئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی بس وہ لیٹی  چھت کو دیکھ رہی تھی اور دماغ میں  ان گنت سوچے چل رہی تھی تب ہی اس کا فون رنگ ہوا سامنے ہی  برو کالنگ لکھا ہوا تھا  اس نے جلدی سے اٹھایا اور بالکنی میں آگئی 

اسلام وعلیکم  برو زرمینے نے کہا  

وعلیکم السلام بیٹا  زریام نے جواب دیا 

کیسے ہیں آپ زرمینے نے پوچھا 

ٹھیک یک لفظی جواب دیا  

ڈیڈ بتا رہے تھے کہ آپ نےمشن پر جانا ہے زریام نے پوچھا  

جی یک لفظی جواب  

مشن سے پہلے اپنے جڑو سے ایک بار مل لوں زریام نے کہا  

ہمممم زرمینے نے کہا  

کیا ہوا ہے زر زریام نے پوچھا 

برو اسے کہے نا کہ اٹھا جائے زرمینے کو ضرورت ہے اس کی زرمینے نے کہا 

زر بیٹا اگر آپ ہی ہمت ہار جائے گئی تو ہمیں کون ہمت دے گا اور میرا بیٹا تو بہت سٹرونگ ہے نہ زریام نے کہا  

جی برو  اچھا برو میں آپ سے بعد میں بات کرو گئی ابھی مجھے مما بلا رہی ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو زریام نے اسے اپنا خیال رکھنے کا کہہ کر کال کاٹ دی 

‏لوگ کہتے ہیں سمجھو تو خاموشیاں بھی بولتی ہیں

میں عرصے سے خاموش ہوں، وہ برسوں سے بےخبر

_______________________

زرمینے لاونچ میں آئی تو سامنے ہی جبران خان  کہی جانے کی تیاری کر رہے تھے 

اور صوفیہ بیگم ان کو غصے سے گھور رہی تھی 

مما کیا ہوا آپ مجھے بلا کیوں رہی ہیں  زرمینے نے پوچھا  

دیکھو زر تمہارا باپ آج ہی آیا ہے اور پھر جارہا ہے صوفیہ بیگم نے کہا  

کیا ڈیڈ آپ پھر کیوں جارہے ہیں زرمینے نے مصنوعی حیرانگی سے پوچھا حالانکہ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ جبران خان  کراچی اپنی ضروری میٹنگ کی وجہ سے جانے والا ہے  مگر اپنی ماں کا دل رکھنے کے لئے پوچھا 

مگر جب نظر جبران خان پر پڑی تو سٹپٹائی  کیونکہ وہ اسے ہی گھور رہے تھے 

بیگم اگر ضروری میٹنگ نہیں ہوتی تو کبھی بھی نہیں جاتا سمجھے نہ جبران خان نے بے بسی سے کہا تو زرمینے کو بھی آپنے باپ پر ترس آگیا 

مما اچھا ہے نہ ڈیڈ چلے جائے گئے تو ہم دونوں خوب مستی کرئے گئے اور پھر شادی بھی انجوائے سکون سے کریں گئے ورنہ اگر ڈیڈ ہوگئے تو ہمیں کوئی بھی انجوامنٹ نہیں کرنے دے گئے اور سارے فنکشن میں گھورتے ہی رہے گئے زرمینے نے صوفیہ بیگم کے گلے میں باہیں ڈال کر لاڈ سے کہا تو ایک پل کے لئے صوفیہ بیگم نے سوچا 

ٹھیک سائیں آپ چلے جائیں صوفیہ بیگم نے اجازت دی تو جبران خان  حیران ہوئے  کیونکہ وہ پچھلے تین گھنٹے سے انہیں منانے کی کوشش کر رہا تھے مگر وہ نہیں مانی اب زر نے کچھ کہا تو فورا مان گئی  پھر ٹائم کا احساس ہوا تو جلدی سے زر کے سر پر ہاتھ رکھ اور صوفیہ بیگم کی پیشانی پر بوسہ دے کر باہر چلے گئے جبکہ صوفیہ بیگم زرمینے کے جبران خان  کی اس بے باک حرکت سے سرخ اور شرمندہ دونوں ہوئی اور زیادہ سرخ زرمینے کی مسکراہٹ نے کردیا 

جس پر وہ جلدی سے کمرے میں بھاگئی 

پیچھے زرمینے کا قہقہہ بے ساخت تھا ہا ہا ہا ہا ہا  مما  جو اندر آتے غزلان شاہ کے ساتھ کوثر بیگم نے بھی دیکھا 

اچانک خود پر نظروں کا ارتکاز محسوس کرکے زرمینے نے  سامنے کھڑے نفوس کو دیکھ تو چہرے پر ہنسی کی جگہ سنجیدگی اور پھر سنجیدگی کی جگہ سپاٹ تاثرات نے لے لیے  

آپ لوگوں یہاں  زرمینے نے پوچھا  

ہاں زرمینے وہ میں صبح تم سے ٹھیک سے بات نہیں کر پائی تھی اس لئے سوچا کہ اب آجاو اور پھر آتے ہوئے مجھے چکر آگیا تو غزلان  مجھے یہاں لے آیا کوثر بیگم نے اپنے ساتھ ساتھ غزلان شاہ کے آنے کی وجہ بتائی 

ہمممم زرمینے نے ہنکارا بھرا 

آیے بیٹھے ماں زرمینے نے  کوثر بیگم کا ہاتھ پکڑا کر کہا اس نے ایک بار بھی غزلان شاہ کی طرف نہیں دیکھ جو مسلسل اسے ہی دیکھ رہا تھا 

تم جاو غنی میں میں تھوڑی دیر کے بعد آو گئی کوثر بیگم نے کہا تو  غزلان شاہ چونکا پھر وہاں سے  چلا گیا 

بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی

سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہےماں آپ کیوں آئی میں تھوڑی دیر کے بعد آرہی تھی زرمینے نے کہا تو کوثر بیگم نے حیرانگی سے اسے دیکھا  

کیا مطلب زرمینے آپ کیا غزلان شاہ کی شادی میں شریک ہوگئی کوثر بیگم نے پوچھا  

جی میں آو گئی وہ مما میرے کپڑے تیار کررہی ہیں میں تھوڑی دیر کے بعد تیار ہو کر آتی ہوں اور آپ بھی تیار ہوجائے ماں میرے لئے  زرمینے نے کہا تو کوثر بیگم نے  سر اثبات میں سر ہلایا  

ٹھیک میں پھر چلتی ہوں  کوثر بیگم نے کہا  

چلے میں آپ کو چھوڑے کر آتی ہوں زرمینے نے ان کا ہاتھ پکڑا کر کہا اور پھر کوثر بیگم کو  حویلی چھوڑا آئی 

مما وہاں فنکشن سٹارٹ ہوگیا ہے آپ پلیز جلدی سے تیار ہوجائے زرمینے نے صوفیہ بیگم سے کہا اور خود اپنے کمرے کی طرف تیار ہونے چلی گئی 

کچھ ہی دیر میں وہ پرپل کلر کی لانگ فراک ساتھ ہم رنگ دوپٹہ سر پر لیا ہوا باہر آئی  میک اپ کے نام پر اس نے صرف آنکھوں میں کاجل ڈالا تھا اور اس میں بھی وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی  

ماشااللہ زر تم بہت پیاری لگ رہی ہوں صوفیہ بیگم نے محبت سے کہاہممم مما آپ بھی بہت خوبصورت لگ رہی ہیں زرمینے نے صوفیہ بیگم سے کہا 

اچھا چلو زر صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا تو دونوں حویلی میں چلی گئی 

پوری حویلی کسی دولہن کی طرح سجی ہوئی تھی  مہندی کا فنکشن  لان میں رکھ تھا تو وہ دونوں بھی لان میں آگئی زرمینے کی نظر سامنے بنے سٹیج پر بیٹھے لوگوں پر گئی تو اسے لگا ہوا میں آکسیجن کی کمی ہوگئی ہے کیونکہ سامنے ہی وہ دوشمن جان کسی اور کے پہلو میں بیٹھ ہوا تھا اس نےوائیٹ کلر کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جو اس پر بہت پیاری لگ رہی تھی آج زرمینے پر ایک اور انکشاف ہوا کہ غزلان شاہ  سوٹ میں سب سے زیادہ ہینڈسم لگ رہا ہے 

اور اس کے بغل میں بیٹھی وہ لڑکی ییلو شرارے میں پیاری لگ رہی تھی 

عورتیں  بار بار سٹیج پر جاتی اور رسم کر کے نیچے آرہی تھی 

زرمینے نے ایک گہری سانس ہوا کے سپرد کی اور آہستہ آہستہ  چلتی ہوئی سٹیج کے اوپر آئی 

زرمینے کو دیکھ کر  غزلان شاہ کی  آنکھوں میں  حیرانگی ابھری مگر وہ جلدی ہی اپنے تاثرات چھپا گیا اور زرمینے کو دیکھ جو نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی  اوپر سے مزید اس کی نیلی آنکھوں میں کاجل جو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہاہے غزلان شاہ کی نظریں اس کے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی  مگر اس نے جلدی سے رخ پھیر لیا  

زرمینے   اگے بڑھی اور رسم کی اس وقت اس کے چہرے کے تاثرات  بالکل سپاٹ تھے اس کے چہرے سے اس کی اندرونی کیفیت کے بارے میں پتا لگا نا مشکل تھا 

بہت خوش قسمت ہو تم حجاب  اللہ  تمہیں دنیا کی ساری خوشیاں  دے زرمینے نے سپاٹ لہجے میں کہا اور سٹیج سے نیچے  آگئی 

وہ ایک خاموش جگہ پر بیٹھ گئی  جب زرتاشیہ اس کے پاس آئی 

زر زرتاشیہ نے پکارا 

ہمممم زرمینے نے کہا  

تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا تم نہیں برداشت کر سکوں گئی زرتاشیہ نے کہا تو زرمینے کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ آئی  

آپی زر اتنی کمزور نہیں کہ اتنی جلدی ٹوٹ جائے میں سائیں کو آپنی آنکھوں کے سامنے کسی اور کا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوںکیونکہ بقول ان کے یہ میری سزا ہے  اور  اپنی سزا پوری ایمانداری سے  کاٹنا چاہتی ہوں  زرمینے نے کہا  

بہت صبر ہے تم میں جو ایک سوتن کو قبول کر رہی ہوں زرتاشیہ نے کہا  

آپ کو کس نے کہا کہ میں سوتن کو قبول کر رہی ہوں  نہیں  زرمینے کبھی بھی شراکت داری برداشت نہیں کر سکتی  مگر اب جب غزلان شاہ  کرنے جارہا ہے تو وہ مجھے کھودے گا میں اب ان کو دستیاب نہیں ہو گئی ہاں میں ان کے نام کو خود سے کبھی بھی جدا نہیں کر نا چاہو گئی مگر  اب ان کی بیوی بھی نہیں بن پاو گئی ہمیشہ ان کی منکوحہ ہی رہوگئی زرمینے نے کہا تو  زرتاشیہ نے  اسے دیکھا  واقع زرمینے بہت ہمت والی تھی 

ان کی یہ باتیں  وہاں سے گزرتے غزلان شاہ نے بھی سنی مگر چپ چاپ وہاں سے چلا گیا  

مجھے اس زندگی سے کوئی شِکوہ نہیں

لیکن ذرا سی بے سکونی ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے تمہارے دل کے دروازے پر

 میری یاد دستک میری جاں اب نہیں ہوتی

 زرتاشیہ بھابھی آپ چاہے تو میں برو سے آپ کے بارے میں بات کرسکتی ہوں زرمینے نے کہا  

زرتاشیہ اتنے دنوں بعد اس ستمگر کا ذکر سن کر گھبرائی مگر پھر جلد ہی خود کو کمپوز کر لیا  

نہیں زر پلیز تم کوئی بھی بات مت کرنا میں نے یہ فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے   زرتاشیہ نے کہا تو زرمینے مسکرائی  

تب ہی زرتاشیہ کی کوئی کزن اس کو لے کر وہاں سے چلی گئی 

زرمینے پرسوچ نظروںسے اس کی پشت کو دیکھا 

عشق میں نے لکھ ڈالا قومیت کے خانے میں

اور تیرا دل لکھا شہریت کے خانے میں

________________

زرمینے اردگرد دیکھ کر اپنا دھیان بٹانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر  ساحل پر گئی جو کب سے کسی پر نظریں ٹکائے کھڑا ہے اس نے ایک بار بھی کسی دوسری طرف نہیں دیکھا جب اس نے اس لی نظروں کا پیچھے کیا تو اسے سامنے گم صم بیٹھی مبشرہ دیکھائی دی جو ناجانے کن سوچوں میں گم تھی  

وہ آہستہ آہستہ آٹھاکر ساحل لے پاس کھڑی ہوئی 

خوبصورت ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

بہت ساحل نے بے خیالی سے کہا 

جس پر زرمینے مسکرائی  

تو کیا ارادہ ہے زرمینے نے سنجیدگی سے پوچھا  جب ساحل نے چونک کر زرمینے کو دیکھا جو خود بھی سامنے بیٹھی ہوئی مبشرہ کو ہی دیکھ رہی ہے مگر اس کے دیکھنے پر اس کو دیکھ جس پر ساحل  سٹپٹا کر اپنی نظریں جھکا گیا  

وہ ایسا کچھ نہیں ہے زرمینے کو دیکھ کر ساحل نے کہا  

ہمممممم ہونا بھی نہیں چاہیے میری کزن ہے ساحل  زرمینے نے کہا 

جی آپی ساحل نے لفظ آپی پر زور دیا جس پر زرمینے مسکرائی  

کھانا کھول دیا گیا ہے تو اسے کھا کر چلتے پھرتے مجھے نظر آو زرمینے نے دوٹوک لہجے میں کہا تو ساحل فورا وہاں سے چلا گیا  

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود

میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے۔۔۔!!

 ______________زرمینے وہی کھڑی تھی جب ریاض شاہ  اس کے پاس آیا 

زرمینے میری بچی  ریاض شاہ نے پکارا 

زرمینے نے پلٹ کر ریاض شاہ کو دیکھا  

آپ نے مجھے کہا زرمینے نے سرد لہجے میں پوچھا  

ہممم ریاض شاہ نے ہنکارا بھرا  

زرمینے مجھے معاف کردوں میں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا ہے ریاض شاہ نے کہا 

میں آپ کو معاف کردیتی ہوں  آپ مجھے میری ماں کی اذیت کا بدلہ مجھے چکادے میں آپ کو معاف کردیتی ہوں آپ مجھے  میرے بچپن کی ان اذیتوں سے جان چھڑاوا دے جو مجھے  آپ کی وجہ سے ملی ہے اس ناجائز لفظ سے چھٹکارا دے لادے جو مجھے آپ کی وجہ سے سننے کو ملا ہے ارے لوگ تو آپ نے ناجائز بچوں کو بھی یتم خانے چھوڑ تے مگر آپ نے 

اگر آپ یہ سب کر سکتے ہیں  تو میں آپ کو معاف کردیتی ہوں  زرمینے نے سرد لہجے میں کہا  تو  ریاض شاہ شرمندہ ہوئے 

 زرمینے بیٹا  انہوں نے کہا 

آپ کو لگتا ہے کہ میں کمزور پڑ گئی ہوں جو آپ مجھے دلاسہ دینے آیے ہیں تو اس کے لئے بتاتی چلوں کہ زرمینے کہ پاس بہت اپنے ہیں جو اس کی ایک چوٹ پر تڑپ جاتے ہیں اور اگر مجھے رونے کے لئے کسی کے کندھے کی ضرورت ہوئی تو میرے باپ جبران خان کا کندھا ہر وقت مجھے میسر رہتا ہے اور میرے بھائی بھی موجود ہے اس لئے آپ جا اس سے پہلے کہ زرمینے اپنی بات مکمل کرتی کہ اس کا فون رنگ ہوا  سامنے ہی برو کالنگ لکھا ہوا تھا  وہ حیران ہوئی اس وقت برو کیوں کال کر رہے ہیں 

وہ ان کو ویسا ہی چھوڑ کر وہاں سے کیا اس حویلی سے ہی چلی گئی 

پیچھے ریاض شاہ اس کی پشت کو شرمندگی سے دیکھنے لگے واقع وہ اس لیے ہی تو آئے تھے مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی  

اُس کے لہجے میں مقید تھی بلا کی ٹھنڈک

لفظ سارے تھے مگر جی کو جلانے والے__!!💔

____________خیریت برو آپ نے کال کی زرمینے نے پوچھا 

زر زر زر بات ہی اتنی خوشی کی تھی کہ میں خود کو کنٹرول ہی نہیں کر پایا زریام نے خوشی سے کہا 

اچھا ایسی بھی کیا بات ہے جس پر آپ اتنا خوش ہیں زرمینے نے پوچھا  

زر حمزہ کے جسم نے حرکت کی تو میں نے ڈاکٹر کو بلایا تو انہوں نے کہا ہے کہ اب اسکی صحت  میں  سدھار آرہا ہے اور حمزہ  کچھ دنوں میں بالکل ٹھیک ہوجائے گا زریام نے بتایا  

سچ برو زرمینے نے پوچھا ہاں سچ میرا بیٹا زریام نے کہا 

برو میں کل رات تک وہی ہوگئی آپ لوگوں کے پاس زرمینے نے کہا تو زریام مسکرا دیا  

ہ۔ دونوں تمھارا انتظار کر رہاہے  زریام نے کہا پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے فون رکھ دیا تو زرمینے بھی فریش ہوکر  لیٹ گئی  

کہانی ٹھیک بنتی ہے نظارے ٹھیک ملتے ہیں

عموماً وقت اچھا ہو تو سارے ٹھیک ملتے ہیں

ہمیں تو جو ملا اپنا، وہی ڈسنے میں ماہر تھا

نجانے کیسے لوگوں کو سہارے ٹھیک ملتے ہیں

غزلان شاہ  اپنے کمرے  میں بیٹھا  زرمینے کی تصویر ہاتھ میں پکڑے  اس کی زرتاشیہ سے کی گئی باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا  اس کی باتیں سن کر اس کے دل کو کچھ ہوا تھا 

اور پھر وہ وہی ماضی کی یادوں میں گم ہوگیا تھا  

اس دن وہ بہت خوش تھا اس نے آج زرمینے کو معاف کرنے کا ارادہ تھا ہاں زرمینے نے  غلط کیا تھا مگر اب جب وہ اتنے دنوں سے اس سے معافیاں  مانگ رہی تھی تو آج وہ اس کو معاف کر دینا چاہتا تھا اس لئے اس کا رخ مال کی طرف تھا تاکہ وہ زرمینے کے لئے کچھ لے سکے 

وہ مال پہنچا تو اس کے گارڈ تمام لوگوں کو  مال سے باہر  نکالنے لگے کیونکہ سردار غزلان شاہ  نے  آنا تھا کہ تب ہی اس کی گاڑی کے دروازےپر دستک ہوئی غزلان شاہ نے چونک کر شیشے سے دیکھ جہاں  کوئی لڑکی  کھڑی ہوئی تھی  

اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا کہ تب ہی اس کے گارڈ اس لڑکی  کو  پیچھے کرنے لگے 

دیکھے مجھے ان سے بات کرنی ہے پلیز   مجھے بہت ضروری  بات کرنی ہے  وہ لڑکی  گارڈ کی  منتیں کرنے لگی  کہ تب ہی غزلان شاہ  نے گاڑی سے باہر آیا 

روکو چھوڑ دو اس لڑکی کو  آنے دوں غزلان شاہ نے کہا  

جس پر گارڈ نے اس کو چھوڑا دیا 

جی کیا بات کرنی ہے آپ نے مجھے سے  غزلان شاہ نے سنجیدگی سے پوچھا 

یہاں نہیں   کہی بیٹھ کر  کیا ہم بات کر سکتے ہیں  اس لڑکی نے کہا 

ہمممم چلے غزلان شاہ نے کہا اور مال کے اندربنے کیفے میں چلے گئے تھے  اس وقت کیفے میں کوئی نہیں تھا  مگر تھوڑے  فاصلے پر  اس کے گارڈ کھڑے تھے 

جی کیا بات کرنی ہے  آپ نے غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا  

جی میرا نام ماہم ہے میری دوست حجاب کینسر کی مریضہ ہے  وہ دوار شاہ کے بچے کی ماں بنے والی ہے   وہ چاہتی تھی کہ وہ خود ہی اپنے بچے کی پرورش 

کر لے گئی مگر پھر اسے پتا چلا کہ اسے کینسر ہے اور وہ بھی آخری سٹیج پر  ماہم نے کہا اور پھر غزلان شاہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر  کوئی بھی تاثرات نہیں تھے وہاں سپاٹ تاثرات ہی دیکھنے کو ملے  

جس پر وہ مزید بولی 

وہ ایک آخری بار آپ سے ملنا چاہتی ہے اگر آپ فری ہیں تو پلیز  ابھی میرے ساتھ ہسپتال چلے ماہم نے التجائیہ لہجے میں کہا 

ہممممم کونسے ہسپتال میں  غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

ائے میں آپ کو لے کر چلتی ہوں ماہم نے کہا 

اور پھر وہ دونوں ہسپتال  چلے گئے 

 جہاں  حجاب  پہلے ہی موجود تھی اس کو دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھی 

سلام سرکار حجاب نے کہا  جس کا جواب انہوں نے سر ہلا کر دیا 

سرکار جیسا کہ آپ کو ماہ۔ نے بتادیا ہے کہ میں دوار کے بچے کی ماں بنے والی ہوں ہماری ملاقات  ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی تھی وہی ہماری جان پہچان  بڑھی اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے سے  پیار  کرنے لگے 

اور پھر مجھے پتا چلا کہ میں دوار کے بچے کی ماں بنے والی ہوں جب میں نے اسے بتایا تو وہ الٹا مجھے پر  بھڑک اٹھا  اس نے کہا کہ جو لڑکی میرے ساتھ  ایسے رہ سکتی ہے وہ اوروں کے ساتھ بھی رہ سکتی ہے اور مجھے اپنے فلیٹ سے نکال دیا 

میں نے سوچا کہ  میں  خود ہی اپنے بچے کو ماں اور باپ  دونوں  بن کر پال لوں گئی 

مگر مجھے بھی کچھ دنوں پہلے ہی پتا چلا کہ مجھے کینسر ہے اور وہ بھی آخری سٹیج پریہ کہہ کر وہ روکی شاید خود پر ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی 

ڈاکٹر نے بتایا کہ  میرے کینسر سے بچے پر کوئی اثر نہیں پڑا اور اس کی پیدائش میں بھی دومہینے پڑے ہے میں چاہتی ہوں کہ مرنے سے پہلے میں اسے محفوظ ہاتھوں میں دے دوں میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے میں یتم خانے سے آئی تھی اس لئے میں نے داور سے ملنے کی کوشش شروع کی اور میں اس دن کامیاب بھی ہو گئی مگر اس دن مجھے پتا چلا کہ وہ ایک گینگسٹر ہے میں بہت ڈر گئی اس لئے بغیر اس سے ملے واپس آگئی اور خود کا علاج کروانے لگئی مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اس لئے مجبور مجھے ماہم کے ذریعے آپ سے رابطہ کرنا پڑا میں نہیں چاہتی کہ میرے بعد میرے بچے کو کوئی پھینک دے اور وہ مر جائے 

آپ مجھے سے نکاح کر کے میرے بچے کو اپنا نام دے دیں اس سے میرے بچے پر سے ناجائز کا لفظ بھی ہٹ جائے گا اور  میں اس کو آپ لے پاس چھوڑ کر سکون سے مر سکوں گئی  حجاب نے روتے ہوئے کہا  

تو غزلان شاہ کو بے اختیار  زرمینے کی یاد آئی اس کے ساتھ بھی تو یہی سب ہوا تھا جس کا اس لڑکی کو خدشہ ہے بس فرق اتنا تھا کہ زرمینے جائز تھی اور یہ ناجائز  

 آپ کو مجھے پر اتنا یقین کیوں ہے کہ میں آپ کے بچے کی  حفاظت کر سکوں گا غزلان شاہ نے سنجیدگی سے پوچھا  

کیونکہ آپ باقی  اور سرداروں کی طرح نہیں ہے  آپ ان سے بہت اچھے ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ میرے بچے کی حفاظت ضرور کر سکوں گئے حجاب نے کہا  

ہمممم میں  آپ کے بچے کو اپنا نام دینے کو تیار ہوں مگر  میں آپ کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتا کیونکہ میں  پہلے سے ہی شادی  شدہ ہوں اور اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہوں  غزلان شاہ نے کہا  

سائیں جب لوگ آپ سے پوچھے گئے  کہ یہ بچا کون ہے کیا رشتہ ہے اس کا آپ شسے تو آپ کیا  جواب دے گئے پلیز مجھے سے نکاح کر لیے میں آپ اور آپ کی بیوی کے درمیان نہیں آو گئی ویسے بھی میری زندگی کا بھروسہ نہیں ہے 

حجاب نے کہا  

پھر اس کی التجاو اور منتوں کی وجہ سے بالآخر غزلان شاہ کو ہاں کرنی پڑی  

جب بھی لکھتا ہوں درد اپنا ۔۔۔🔥

لفظ میرا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔۔۔

_______________

ابھی وہ انہیں  خیالوں میں تھا کہ دروازے پر دستک کی وجہ سے ہوش میں آیا 

آجاو غزلان شاہ نے آنے کی اجازت دی جس پر حجاب آندر آئی  جس کو دیکھ کر غزلان شاہ کے ماتھے پر بل پڑے 

سائیں آپ کی بیوی کہاں ہے حجاب نے پوچھا  جس پر غزلان شاہ نے  ناگواری سے  اسے دیکھا 

آپ کا کوئی لینا دینا  نہیں ہے  میری بیوی سے اور آپ اس وقت میرے کمرے میں کیا  لینے آئی ہیں  چلے جائیں یہاں سے  غزلان شاہ نے سخت لہجے میں کہا  تو  حجاب وہاں سے  واک آوٹ  کر گئی پیچھے  غزلان شاہ  زرمینے کی  تصویر کو پھر سے دیکھنے لگا یہ تصویر آج کی تھی جہاں وہ ساحل سے کچھ کہہ رہی تھیزرمینے  لیٹی  غزلان شاہ کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اچانک اس کے موبائل پر رنگ ہوئی اس نے دیکھا تو سامنے ہی ساحل کالنگ لکھا ہوا تھا  

ہاں ساحل بولو زرمینے نے کہا 

زرمینے تم سہی کہہ رہی تھی مجھے وہاں اس لڑکی کے  خلاف  ثبوت مل گئے ہیں  اور باقی کی انفورمیشن میں کل تک نکال لوں گا  ساحل نے ایک ہی سانس میں اسے ساری بات بتائی  

ٹھیک ہے میں ان کو بتا دوں  ورنہ وہ پریشان ہورہے ہوں گئے زرمینے نے کہا اور کال کاٹ دی 

اب اس کا رخ حویلی کی طرف تھا 

_____________

اگلی صبح زرمینے  جلدی سے اٹھی  کیونکہ وہ بہت دیر تک سوتی رہی ہے رات کو لیٹ سونے کی وجہ سے اس کی آنکھ بھی لیٹ کھلی اس لیے جلدی سے اٹھی اور فریش ہوکر باہر آئی مما ناشتہ دے دیں زرمینے نے صوفیہ بیگم سے کہا  

یہ لوں زر جلدی سے کھاو اور پھر تیار ہوجاو  صوفیہ بیگم نے محبت سے کہا تو  زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا  اور جلدی سے  ناشتہ کیا اور تیار ہونے اپنے کمرے میں چلی گئی 

تقریبا آدھا گھنٹہ بعد وہ  پینک کلر کی  فراک ساتھ ہم رنگ حجاب کر کے جانے کے لیے  تیار تھئ مما آجائے چلے زرمینے نے کہا اور دونوں  شاہ حویلی آئی جہاں  سب لوگ رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوتے گھوم رہے ہیں 

 اور کچھ بیٹھے ایک دوسرے سے  باتیں کر رہے ہیں  

جب زر کی نظر مدیحہ پر پڑی تو وہ گم صم بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی وہ اس مہینے میں  زیادہ نہیں مگر  ٹھیک ہوگئی تھی اب اس نے چیخنا چلانا بند کر دیا تھا اب وہ خاموش ہوگئی تھی اگر ایک جگہ پر بیٹھتی تو پورا دن بیٹھی رہتی 

زرمینے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی کیا دیکھ رہی ہوں زرمینے نے پوچھا  

اپنے ہاتھ کی لکیروں کو  مدیحہ نے کہا تو زرمینے نے اسے دیکھا 

ایسا کیا خاص ہے آپ کے ہاتھوں کی لکیروں میں کہ آپ کب سے اسے ہی دیکھ رہی ہوں  

خاص  تنظزیہ لہجے میں کہا  مدیحہ نے 

خاص ہی تو نہیں ان میں کیونکہ وہ خاص تو خود اب چلا گیا  

مدیحہ شاہ نے سنجیدگی سے کہا  

میں کیوں نہیں  اس کے پاس  چلی جاتی مدیحہ نے کہا 

ایسی باتیں نہیں کر تے مدیحہ  زرمینے نے کہا  

تمہیں مجھے پر غصہ نہیں آتا کہ میں نے تمہارے بھائی کو مار دیاتمہارا دل نہیں کرتا مجھے  مارنے کو مدیحہ نے کہا تو زرمینے نے  نفی میں سر ہلایا  مجھے  پہلے تم پر بہت غصہ تھا کہ تمہاری وجہ سے میرا جڑو اتنی تکلیف میں تھا اور وجہ تم تھی مگر پھر جب وعدہ لیا نا میں تب سمجھ گئئ کہ جڑو کو تم خاص ہوا وہ تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا  اس لئے میں نے تمہیں کچھ نہیں  کہا  اور اب تم بھی اپنی بوڑھی ماں اور بہن کے بارے میں سوچو زرمینے یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی  پیچھے  مدیحہ  کو گہری سوچ میں چھوڑ کر  

"ہم تلخیوں سے بھرے سر پھرے لوگ 🥲💔

ناولز نہیں پڑھیں گے تو مر جائیں گے "🙂🔥

آپ کہاں ہیں سائیں سب نکاح کے لیے  آپ کا انتظار کر رہے ہیں جلدی سے آجائے ورنہ سب کو شک ہوجائے گا زرمینے نے غزلان شاہ سے فون پر کہا 

ہمممم میں یہاں کسی کام سے آیا تھا کہ مجھے اس دن والی لڑکی مل گئی  میں اس کا پیچھا  

آپ کو اس کا پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے  بس آپ جلدی آجائے اور بے فکر رہے میں کسی قیمت پر آپ کا نکاح اس چڑیل سے نہیں ہونے دوں گئی  ابھی غزلان شاہ اپنی بات مکمل کرتا کہ زرمینے نے درمیان میں  کاٹ کر کہا 

اچھا میں آرہا ہوں غزلان شاہ نے کہا کر فون  رکھ دیازرمینے نے  غزلان شاہ سے بات کرنے کے بعد ساحل کو کال کی 

ہاں ساحل  کہاں ہوں تم اور کب تک یہاں پہنچ جاو گئے زرمینے نے پوچھا  

زر بس راستے میں ہی ہوں میں اور جلدی پہنچنے کی کوشش کر رہا ہوں ساحل نے کہا  

ہمممم اور ثبوت  زرمینے نے پوچھا 

زر بے فکر ہوجائے میں نے  ساری انفارمیشن لے لی ہے ساحل نے کہا  

ٹھیک ہے  جلدی پہنچو  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا اور کال کاٹ دی تب ہی سپاٹ لائٹ آن ہوئی اعر سامنے ہی غزلان شاہ  اپنی پوری وجاہت کے ساتھ چلتا ہوا سٹیج پر آیا 

وہ اتنا ہینڈسم لگ رہا تھا کہ زرمینے کی نظریں ہی اس سے ہٹنے سے انکاری تھی  اور دوسری طرف  غزلان شاہ کی نظر بے اختیار زرمینے کی طرف اٹھی  اور پھر پلٹنا یاد ہی نہیں  رہا وہ بےاختیار ہی زرمینے کی طرف  دیکھنے لگا ایسے ہی کئی لمحے سرک گئے چونکا تب جب حال میں دولہن کے آنے کا شور ہوا  تو غزلان شاہ نے  جلدی سے اپنی نظریں جھکا لی  اور غزلان شاہ کے نظر پھرنے سے زرمینے بھی ہوش میں آئی مگر سامنے کا منظر  دیکھ کر  اس نے شدید غصے اور جیلسی سے اس کا چہرہ سرخ ہوا کیونکہ سامنے ہی حجاب سٹیج کے نیچے کھڑی تھی  اور غزلان شاہ  کی طرف اپنا ہاتھ کر رہی تھی شاید وہ غزلان شاہ کی مدد سے سٹیج پر چڑھنا چاہتی تھی 

ابھی غزلان شاہ  اٹھتا کہ اس کے کانوں میں لگے بلیوتھ میں زرمینے کی  آواز آئی 

خبردار سائیں اگر آپ نے اس چڑیل کا ہاتھ پکڑا تو مجھے سے برا کوئی نہیں ہوگا زرمینے نے غصے سے کہا تو غزلان شاہ نے زرمینے کو دیکھ جو سرخ چہرے کے ساتھ اسے ہی دیکھ رہی تھی اس کی جیلسی پر غزلان شاہ کی آنکھیں مسکرائی مگر چہرے کے تاثرات سپاٹ ہی رکھے 

آپ انہیں  اوپر سٹیج پر آنے کے لئے مدد کر دے غزلان شاہ نے  حجاب کو سٹیج پر  لانے والی لڑکیوں سے کہا تو  حجاب نے غصے سے اسے دیکھا  تو وہی اس کی بات سن کر زرمینے کے چہرے پر  فتح مسکراہٹ آئی  

ہاں  اس شخص کے  مان دیا تھا جو اس کے دل میں پہلے ہی بہت مقام رکھتا تھا اس کی بات پر زرمینے کو لگا کہ اس نے دنیا  جیت لی ہے تو دوسری طرف زرمینے کی مسکراہٹ  دیکھ کر غزلان شاہ کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا  

حجاب کو ان لڑکیوں نے سٹیج پر چڑھنے میں مدد  دی اور حجاب جاکر غزلان شاہ کے قریب  صوفے پر  بیٹھ گئی  اس کے بیٹھتے ہی غزلان شاہ  نامحسوس انداز میں اس سے دور ہوا 

کہ تب ہی مولوی آگیا تو غزلان شاہ نے پریشانی سے   زرمینے  کی طرف دیکھ جس نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں  تسلی دی 

اور خود ساحل کو کال کرنے لگی 

ساحل  یہاں نکاح ہورہا ہے کہاں ہو تم زرمینے نے پوچھا  

میں بس تھوڑا ہی دور ہوں  آپ تب تک سنبھال لیں  ساحل نے کہا 

ہممم جلدی پہنچو  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا اور کال کاٹ دی  

کسی کے پاؤں کی دھول کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔!!✨🍁

اسے کہو کہ اتنا فضول کوئی نہیں ہوتا۔۔۔✨🍁اس کا رخ سٹیج کی طرف تھا جہاں  مولوی نکاح کے الفاظ بول رہا تھا 

اس سے پہلے کہ حجاب قبول ہے کہتی کہ زرمینے  بول پڑی 

ایک منٹ یہ نکاح نہیں ہوسکتا  زرمینے نے کہا تو سب نے حیرانگی سے اسے دیکھا  

اور حجاب نے غصے سے اسے دیکھا  اور غزلان شاہ  تو اسے دیکھا کر مسکرایا 

کیوں حجاب نے پوچھا کیونکہ  یہ شخص  میرا شوہر ہے  اور اس نے نکاح کرنے سے پہلے مجھے سے اجازت نہیں لی اور نہ ہی میں نے اجازت دی ہے تو اس وجہ سے اگر یہ نکاح کرتا ہے تو میں ان کو اریسٹ کروا سکتی ہوں زرمینے نے  جلدی سے کہا  

اچھا تم سردار کو اریسٹ کروا سکتی ہوں  حجاب نے  تنظزیہ لہجے میں کہا تو  غزلان شاہ نے  غصے سے حجاب کو دیکھا 

زبان سنبھال کر  بکواس کرو میری خانم کے ساتھ غزلان شاہ نے سرگوشی میں سرد لہجے میں کہا اس کی آنکھیں جو کچھ لمحے پہلے مسکرا رہی تھی اب ان میں سرد مہری تھی جس کو حجاب دیکھ کر سہمی 

اور پھر زرمینے کو دیکھا جو فتح مسکراہٹ سے اسے ہی دیکھ رہی ہے اس کو دیکھ کر حجاب کے تن بدن میں  آگ لگ گئی 

مگر میرے بچے کےلئے اس نکاح کا ہونا ضروری ہے  حجاب نے چالاکی سے کہا  

ہمممم تم اب اپنی بکواس بند ہی رکھو گئی اور اگر زرا بھی الٹا سیدھا  میری خانم سے بولا تو میں بھول جاو گا کہ میں یہ نکاح کس وجہ سے کر رہا ہوں کیونکہ مجھے اپنی خانم سے زیادہ  عزیز  کوئی بھی نہیں ہے  غزلان شاہ نے سرد لہجے میں کہا  

تو حجاب نے اثبات میں سر ہلایااسے کہاں منظور تھا کوئی اس کی خانم کو کچھ کہے اس کے علاوہ  

پھر سامنے کھڑی زرمینے کو دیکھا جو اس کے دیکھنے پر معصومیت سے اسے کو دیکھ رہی تھی 

اجازت غزلان شاہ نے دانت پیس کر کہا تو زرمینے نے اثبات میں سر ہلایا  

غزلان شاہ چلتا ہوا زرمینے کے نزدیک آیا 

خانم اجازت کی بات تو آپ مت ہی کریں کیونکہ یہ جو سب ہورہا ہے وہ آپ کی اس اجازت کی ہی وجہ سے ہورہا ہے غزلان شاہ نے کہا تو زرمینے نے منہ بسورا  جسے دیکھ کر غزلان شاہ کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا مگر  اس جگہ اس سے پیار تو کرنے سے رہا اس لئے جلدی سے نظریں پھرلی 

سائیں ابھی کے لئے یہ کرنا ضروری ہے  ساحل آتا ہی ہوگا  زرمینے نے کہا  تو غزلان شاہ نے اسے گھورا  

یہ سب آپ کی وجہ سے ہی ہورہا ہے  نہ آپ اس دن مجھے اس سے اگے غزلان شاہ بولتے بولتے رک گیا اور زرمینے کو وہ دن یاد آیا جس دن غزلان شاہ  ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر ایا تھا جس دن زرمینے سوپ لے کر گئی تو اسے غصہ کر کے نکالا تھا اپنے کمرے سے 

مگر ڈھیٹ زرمینے جو رات کو پھر غزلان شاہ کے کمرے میں موجود تھی 

سائیں زرمینے نے پکارا اس کی آواز سن کر غزلان شاہ جو بیڈ پر لیٹے آنکھیں بند کر کے زرمینے  کے بارے میں  ہی سوچ رہا تھا چونک کر آنکھیں کھولی تو سامنے ہی زرمینے کو دیکھ کر غصے سے آٹھا 

آپ یہاں کیا کر رہی ہیں زرمینے شاہ  غزلان شاہ نے کہا  

وہ نہ میرے سر کے سائیں مجھے سے ناراض ہے تو میں نہ ان کو منانے آئی ہوں زرمینے نے چہرے پر مصومیت لاکر کہا 

تو غزلان شاہ نے اسے گھورا جس پر زرمینے ڈھٹائی سے دانتوں کی نمائش کرنے لگی  سائیں بس آپ نے مجھے ہسپتال سے بھی نکالا اس کے بعد اپنے کمرے سے بھی نکالا  اور وہ بھی ہماری کوئی بھی بات سنے بغیر  زرمینے نے کہا تو غزلان شاہ ائی برو اچکائی 

تو میں چاہتی ہوں کہ آپ ابھی میری بات دھیان سے سنے ورنہ میں خود کو شوٹ کر لوں گئی  زرمینے نے اپنی گن نکال کر اپنی کنپٹی پر رکھ کر کہا تو غزلان شاہ  پہلے حیرانگی سے پھر ناگواری سے  اسےدیکھا 

خانم گن نیچے کرو آپ کو لگ جائے گئی غزلان شاہ نے کہا  نہیں پہلے آپ میری بات سننے کے بعد مجھے معاف کردے گئے اور پھر جیسا میں کہتی ہوں ویسا ہی کریں گئے تب ہی میں آپ کی بات مانوں گئی زرمینے نے ضدی لہجے میں کہا تو  غزلان شاہ نے اثبات میں سر ہلایا  

ٹھیک ہے ہم آپ کی بات نہ صرف سنے گئے بلکہ آپ کی باتیں مانے گئے بھی  بس آپ یہ گن نیچے کریں غزلان شاہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ کہا   

ٹھیک ہے  زرمینے نے گن نیچے کر لی پہلی بات تو میں نے آپ کع کوئی بھی دھوکہ نہیں دیا بلکہ آپ نے مجھے دیا ہے کیونکہ میں امریکہ کی جس یونی سے پڑھی ہوں آپ بھی اس ہی یونی سے پڑھے ہیں اور آپ مجھے وہاں سے ہی جانتے ہیں یہ بات میں جانتی تھی بلکہ جب آپ نے میرے بارے میں وہاں ساری معلومات نکالی تھی تو میں نے ہی اس میں یہ معلومات ایڈ کی تھی کہ میں ہی آپ کی پھوپھو کی بیٹی ہوں  زرمینے نے کہا تو  غزلان شاہ کھیسانی سی ہنسی ہنسا 

اور پھر جب میں یہاں پاکستان آگئی تو آپ کےلوگوں کا ہر وقت میرے ساتھ رہنا مجھے سیکیورٹی دینا آپ کو  کیا لگتا ہے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا  ارے سب معلوم تھا مجھے اور اس دن جب آپ کے والد آپ کو مجھے سے نکاح کرنے پر ماننا دہےتھے تو آپ نخرے کررہے تھے میں یہ دیکھ کر حیران ہوئی مگر جب آپ نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو آپ کی آنکھوں کی چمک کیا مجھے نہیں دیکھی اور پھر وہاں سے بھاگنا اور ڈیرے پر جاکر آپ نے خوشی سے جو تمام ملازمین کو تحائف سے نوازا وہ بھی میں نے دیکھا اس کے بعد آپ جانتے تھے کہ میں نے ہر حال میں حویلی میں گھسنا ہے اس لئے آپ بے فکر رہے پھر میرے دوار کے کمرے میں جانے کے بعد سی سی ٹی وی بند کرنا اور اس رات تمام سکیورٹی جو دوار نے اپنے کمرے میں لگی ہوئی تھی اس کو ہیک کر کے بند کرنا اور میرے جانے کے بعد سب کچھ دوبار نارمل کرنا 

یہ سب کرنا اور مجھے یعنی افسر زر کو کچھ پتا ہی نہ چلے گا ایسا آپ کیسے سوچا لیا میرے سر کے سائیں زرمینے نے مسکرا کر کہا تو  غزلان شاہ  بھی کھل کر مسکرایا  

واہ میری شیرنی مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری خانم اتنی ہوشیار ہے غزلان شاہ نے ڈھٹائی سے کہا 

اچھا آپ کو سب پہلے سے ہی معلوم تھا تو آپ نے ہسپتال اور گھر پر ہماری اتنی بے عزتی کیوں کی 

جیسا کہ مجھے لگا تھا کہ آپ کو میرے بارے کچھ نہیں پتا ہے  اس لئے کیا تھا کیونکہ ایک شخص کسی سے بہت پیار کریں اور پھر بعد میں پتا چلے کہ اس شخص کی ساری ذات ہی جھوٹ ہے تو اس شخص کا ری ایکشن  ایسا ہی ہوتا ہے  غزلان شاہ نے سنجیدگی سے کہا تو زرمینے نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

اچھا اگر آپ بھی پہلے ہی سب جانتی تھی تو آپ نے وہ ڈرامہ کیوں کیاسائیں آپ یہ تو جانتے ہی ہوگیے کہ ہم لوگوں نے  حمزہ کی موت کا ڈرامہ کیا تھا کیونکہ  کچھ لوگوں کو  حمزہ کے بارے میں پتا چل گیا تھا اس وجہ  اس دن جب مجھے ڈاکٹر نے  بتایا کہ  حمزہ بچ تو گیا ہے مگر وہ کوما میں چلا گیا ہے اس دن میں نے ایک لڑکی کو  ہاتھ میں چاقو لے کر حمزہ کے کمرے میں  داخل ہوتے دیکھا تھا وہ حمزہ کو مارنے ہی لگی تھی کہ ڈاکٹر وہاں آگئی تو وہ لڑکی وہاں سے بھاگئی مگر میں نے اس کا چہرہ دیکھا لیا تھا اور پھر ڈاکٹر سے بات کر کے حمزہ کو مرا ہوا ثابت کردیا اور ڈیڈ اسے لے کر آوٹ آف کنٹری  چلے گئے  پیچھے میں نے واصف شاہ کے بارے میں پتا کیا اور اسے اریسٹ کرلیا مگر اس نے پہلے ہی آپ کو زہر دے دی تھی اعر جب آپ کو ہسپتال لے کر گئے تو میں نے گھر کے باہر بھی اس ہی لڑکی کو دیکھ تھا اور پھر جب ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ ٹھیک ہے  تو میں جب روم میں گئی تو مجھے کھڑکھی میں وہی لڑکی نظر آئی اس لئے میں نے چپ چاپ آپ کی باتیں سنی اور وہاں سے چلی گئی 

اور آج صبح وہ ہمارے گھر کے ایک ملازمہ کو کچھ رقم دے رہی تھی اس لئے میں نے دن کو بھی آپ کی ڈانٹ برداشت کی سوچا رات کو آپ سے روبرو دو ٹوک الفاظ میں بات کرو گئی زرمینے نے سنجیدگی سے کہااچھا سائیں ابھئ ہمیں  ایک دوسرے سے  ناراض رہنے کا اسی طرح ڈرامہ کرنا پڑے گا  مجھے لگتا ہے کہ وہ لڑکی  ضرور ہماری ناراضگی کا  فائدہ اٹھا کر  آپ سے ملے گئی زرمینے نے سنجیدگی سے کہا  تو  غزلان شاہ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

پھر توقع کے عین مطابق  اس لڑکی نے  اپنی دوست کے ذریعے غزلان شاہ کو بلایا اور پھر اس کے سامنے  ناٹک کیا تو غزلان شاہ نے بھی تھوڑا ڈرامہ کرنے کے بعد ہاں کر دی

پھر زرمینے کو  پتا چلا کہ اس لڑکی کا تعلق  اس گروہ سے ہے جع یونی میں  منشیات اور دھماکے  کا پلان کر رہے ہیں تو زرمینے نے  غزلان شاہ کو شادی کا ڈرامہ کرنے کو کہا 

ویسے سائیں ہم تو دوسری شادی کر لئے گئے مگر آپ برداشت کر سکتی ہے ہمیں کسی اور کے ساتھ  غزلان شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا  

زرمینے بھی مسکرائی 

آپ سے پاکیزگی کا تعلق ہے

آپ تو تہجد کی دعا ہیں میری

زرمینے نے شعر کہا  تو دونوں مسکرا ئے 

 رات کو زرمینے  اس کے باقی گروہ کو تو  پکڑا چکی تھی مگروہ ابھی تک اس لڑکی کا مقصد نہیں  جان پائی جو ساحل معلوم کرنے گیا ہے

_________

من پسند شخص کی موجودگی اتنا اثر رکھتی ہے کہ ہماری گفتگو اگر من پسند شخص سے ہو رہی ہو تو چہرے پر مسکراہٹ خود بخود نظر آنے لگتی ہے 

ابھی وہ دونوں انہی باتوں میں گم تھے کہ تب ہی ساحل وہاں آگیا 

اسلام وعلیکم  ساحل نے کہا  

تو وہ دونوں چونکے اور  زرمینے جلدی سے ساحل کے پاس گئی  

ساحل بتاو کیا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

زر یہ دوار کی سچ میں محبوبہ ہے اور داور کی موت کا بدلہ لینے آئی ہے آپ سے اور اس کے مطابق  آپ کی کمزوری آپ کا شوہر ہے  اس لئے یہ غزلان شاہ سے شادی کر کے اس کے ذریعے آپ سے بدلہ چاہتی ہے ساحل نے کہا  تو زرمینے نے حیرانگی سے اسے دیکھا  

کیا مطلب  دوار تو زندہ ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

ہمممم یہ بات صرف ہم جانتے ہیں کہ دوار زندہ ہے مگر باقی سب لے لئے تو وہ اس دن بھاگتے ہوئے ہی شوٹ کردیا گیا تھا 

ساحل نے جلدی سے کہا تو زرمینے نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

مس حجاب  دوار کی محبوبہ  ہے رائٹ زرمینے نے ائی برو اچکا کر کہا 

ویسے کیسی وفا نبھائی تم نے اپنے مرحوم محبوب سے کہ ابھی اسے مرے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا اور تم شادی کرنے جارہی تھی وہ بھی اس کے بھائی جیسے کزن سے زرمینے نے غصے سے کہا  

اور کیا کہا تھا تم نے سائیں سے کہ تم دوار کے بچے لی ماں بننے والی ہوں مگر تم نے تو ابوشن کروالیا تھا جیسے ہی  تمہیں بچے کے بارے میں پتا چلا تھا اور کینسر  وہ بھی تمہیں تو یہ تمہاری رپورٹ  جس میں واضح الفاظ میں  لکھا تھا کہ اس کو کینسر جیسی کوئی بھی بیماری نہیں ہے  زرمینے نے ساحل کے ہاتھ سے رپورٹ لے کر کہا  

تو حجاب کے چہرے کا رنگ اڑا تم یہ کیا بکواس کررہی ہوں  حجاب نے غصے سے کہا تو غزلان شاہ کے ماتھے پر بل پڑے  اس کی تیز آواز سن کر  ابھی وہ کچھ کہتا کہ تم ہی ایک لڑکی  ماہم کو لے کر آئیحجاب ماہم کو دیکھ کر  گھبرائی  اور اوپر سے ماہم کی حالت سے اسے ڈر لگا کیونکہ اس کی حالت سے لگ رہا تھا کہ اسے  کافی مارا گیا ہے 

یہ حجاب ایک نمبر کی جھوٹی ہے اس نے مجھے کچھ پیسے دے کہ میں غزلان شاہ سے ملوں  اور ان سے یہ سب کہوں اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے  یہ سب میں پیسوں کے لالچ میں کیا تھا پلیز مجھے معاف کردوں ماہم نے جلدی سے کہا  کیونکہ وہ پہلے ہی اس کی اچھی خاصی پٹائی کر چکے ہیں اب وہ مزید  اپنی شامت نہیں بلاوانا چاہتی اس لئے بول پڑی 

اور حجاب نے غصے سے ماہم کو دیکھا جب اسے اپنا کھیل الٹا لگا تو اس نے جلدی سے  اپنے پاس کھڑے  ریاض شاہ  کی کنپٹی پر گن رکھی 

دیکھو مجھے جانے دوں ورنہ میں تمھارے باپ کو مار دوں گئی   حجاب نے کہا تو زرمینے مسکرائی  

اوکے مار دوں زرمینے نے لاپرواہی سے کہا  تو  سب نے شوک سے اسے دیکھا کہ کیسی بیٹی ہے جو اپنے باپ کو مارنے کا سکون سے کہہ رہی ہے وہی اس کی بات سن کر حجاب نے غصے سے اسے دیکھا  

اور ریاض شاہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا  

سب کی نظریں خود پر محسوس کر کے  زرمینے نے ایک نظر سب پر ڈالی  

کیونکہ میں اس شخص کو اپنا باپ نہیں مانتی اور دوسری بات  اگر  مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ نفرت اگر کسی سے ہے تو وہ شخص ہے ریاض شاہ  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا  تو حجاب نے  غصے سے اسے دیکھا  اور اس کا دھیان  ہٹتے دیکھا زرمینے نے بڑی چالاکی سے اس کے گن والے ہاتھ پر ٹانگ گھما کر ماری جس سے اس کی گن نیچے گر گئی اور زرمینے نے بڑی تیزی سے گن اٹھا کر ریاض شاہ کو اپنی طرف کینچھا یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں  آیا  

جب وہ لڑکی  نے حجاب کو بھی پکڑا لیا 

ایک منٹ

وہ اسے لے کر جانے ہی لگی کہ زرمینے  اسے روکا اور حجاب کی طرف دیکھا جو غصے اور نفرت سے اسے ہی دیکھ رہی تھیزرمینے اہستہ اہستہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی  پھر مسکرائی مگر اگلے ہی پل چہرے پر  مسکراہٹ کی جگہ غصے نے لے لی اور ایک زور دار تھپڑ حجاب کی گال پر مارا  

ٹھا کی آواز  پورے حال میں گھونجی  تھپڑ زور دار تھا جس کی تاب حجاب نہ لا سکی اور وہ زمین پر گر گئی  

زرمینے زمین پر بیٹھ کر  حجاب کے  بال پکڑ کر اس کا چہرہ  اپنے سامنے کیا تو حجاب کا ہونٹ کنارے سے پھٹا گیا اور اسے گال کی جلد بھی تھوڑی  پھٹ گئی جب زرمینے نے بالوں کو پکڑ کر کھڑا کیا تو اسے کے اس سفاک روپ کو دیکھ کر تمام عورتیں سہمی جبکہ زرمینے نے حجاب کو بالوں سے پکڑا کر سٹیج کے پاس پھینکا اور ساحل کے ہاتھ سے گرم پانی لے کر حجاب پر پھینک دیا پانی کے پھینکنے کی دیر تھی کہ حجاب کی دل چیرتی ہوئی چیخ پورے  حال میں گونجی  سب عورتوں نے ڈر کر اپنی آنکھیں بند کرلیں  

وہی زرمینے نے سکون سے  حجاب کو چیختے دیکھا وہ ایسے پرسکون کھڑی جیسے یہ چیخے اسے سکون  پہنچارہی ہیں  اور حجاب کو لگ رہا تھا کہ  اس کی کھال  پگھل رہی ہے اسے اس وقت  بہت تکلیف ہو رہی تھی

 تھوڑی دیر کے بعد  حجاب خاموش ہوئی کیونکہ وہ بے ہوش ہوچکی تھی 

زرمینے نے  غصے سے اس کے بے ہوش وجود کو دیکھا 

ساحل ٹھنڈا پانی کا ایک گلاس لے کر آو زرمینے نے کہا تو ساحل جلدی سے  پانی لے آیا 

زرمینے نے وہ پانی پہلے خود پیا پھر بچا ہوا پانی حجاب کے چہرے پر  پھینکا  جس پر حجاب ہوش میں آئی اور ایک بار پھر وہ چیخی 

شش چیخو مت زرمینے نے کہا  

تو حجاب ڈرتے ہوئے خاموش ہوئیاس نے بڑی مشکل سے اپنی چیخوں کا گلہ گھونٹا 

 ہمممم تم مجھے سے بدلہ لینا چاہتی تھی اور تمہیں میرے کمزوری یعنی  سائیں کا بھی پتا چل گیا تھا  تو تم نے سائیں کو کیوں نہیں  مارا جیسا کہ میں نے تمہارے محبوب کو مارا ہے ویسے ہی تم بھی اپنا بدلہ لینے کے لئے میرے شوہر کو مادیتی کیوں نہیں  مارا  بتاو زرمینے نے شروع میں اہستہ جب کہ آخری بات  تھوڑی  اونچی آواز میں  کہی 

جس پر حجاب کانپی 

وہ میرا ارادہ بھی تمہیں ویسی ہی تکلیف دینے کا تھا جیسی مجھے دی تھی اس لئے میں غزلان شاہ کو مارنے اس کے آفس کے باہر  کھڑی  ہوئی  کہ تب ہی وہاں غزلان شاہ  آیا 

وہ اتنا ہینڈسم اور پیار تھا اور اتنا امیر تھا کہ میرے اس پر دل آگیا اور پھر میں نے سوچا ایک تیر سے دو شکار کر لوں پہلا غزلان شاہ سے  شادی کر کے  اسے حاصل کر لوں اور دوسرے  اس کی شادی کی  خبر سن کر تم بہت ہرٹ ہوگئی اور تمہیں بھی وہی تکلیف مح ہوگئی 

اور جہاں تک بات ہے غزلان شاہ  کے پیار  کی تو وہ مرد ہے اور مرد کبھی بھی کسی ایک عورت کا نہیں  ہوسکتا اسے جب بھی دوسری  عورت  دستیاب ہوگئی تو وہ پہلی عورت کو  بھول جاتا ہے حجاب نے کہا 

نہیں  میرا ماننا ہے کہ مرد اگر  کسی  عورت سے عشق کرتا ہے تو اس کا ساتھ قبر تک دیتا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

ی جاو اسے اور اس کا علاج کروادینا زرمینے نے کہا  تو  وہ لڑکی حجاب کو وہاں سے لے گئی 

حجاب کے جانے کے بعد  زرمینے نے زمین پر گرئے ریاض شاہ کو دیکھاپھر ایک نظر ان دیکھ کر اگے اپنی مما اور ماں کے پاس گئی جو ایک جگہ سہمی ہوئی کھڑی تھی  

مما  ماں کیا ہوا ہے  آپ لوگوں اتنا ڈر کیوں رہی ہیں آپ  زرمینے نے کہا تو  دونوں نے خوف سے اسے  ہی دیکھ   جو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہے کہ ابھی تھوڑی  دیر پہلے ہی  اس نے حجاب کے ساتھ کچھ نہیں  کیا 

وہ ہ ہ ہ ہ تم نے حجاب کو  صوفیہ بیگم نے کہا  

مما کچھ نہیں کیا میں نے حجاب کے ساتھ  وہ تو ٹھنڈا پانی اس کے اوپر پھینکا تھا اور ایک دم ٹھنڈا پانی پینھکنے کی وجہ سے وہ چیخ رہی تھی زرمینے نے کہا تو دونوں نے اسے دیکھا کر سر اثبات میں سر ہلایا  

___________

غزلان شاہ نے  اگے بڑھ کر ریاض شاہ کو  زمین سے  اٹھا یا  ریاض شاہ  جو زرمینے کی  باتیں یاد کر رہے تھے وہ چونکے اور پھر خود کو اٹھانے والے کو دیکھ تو زرمینے کی جگہ غزلان شاہ کو دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہواابھی وہ کچھ کہتے کہ تب ہی ایک ساتھ تین  گاڑیاں وہاں آکر روکی اور ان میں سے نکالنے والے نفوس کو دیکھ کر زرمینے کی چیخ نکلی اور اس کے ساتھ ہی وہ بھاگ کر سامنے کھڑے نفوس کے سینے میں لگی 

جہاں سب گھر والے حیران تھے وہی غزلان شاہ نے اپنا پہلو بدلا زرمینے کو  کسی نا محرم کے  سینے لگتے دیکھ کر 

حمزہ اور زریام کو دیکھ کر  تمام افراد حیران ہوئے  کیونکہ ان کے مطابق حمزہ تو مر چکا ہے وہی مدیحہ  یک ٹک حمزہ کو دیکھا رہی تھی جیسے یقین کر رہی ہوں کہ واقع ہی وہ حمزہ ہے تو وہی زرتاشیہ نے ایک نظر  زریام کو دیکھ کر  دوبارہ اس کی طرف نہیں دیکھا جسے زریام نے شدت سے محسوس کیا 

 زریام  نے  زرتاشیہ کے خوبصورت سجے روپ کو اپنی آنکھوں کے ذریعے دل میں اتار  جبکہ زرمینے تو حمزہ کو چھوڑنے کو تیار  ہی نہیں  تھی جیسے وہ اسے چھوڑ دے گئی تو وہ پھر چلا جائے گا 

یونہى تو نہیں ہم نے تجهے پکارا تها 

ترے ہونے سے یہ جہاں سارا ہمارا تها 

سوچتے تهے تجهے اور کام بن جاتا تها

اس قدر ترے ہجر نے ہمیں سنوارا تها

اول اول تو ہم نے دامن اپنا بچایا تها 

یوں تو نہیں کہ جرم سارا ہى ہمارا تها

لب کہہ نہ سکے پر تُو تو سمجهتا یارا 

تجھ سوا ٹهکانہ کہاں کوئى ہمارا تھا 

ارے بھئی اب مجھے چھوڑ بھی دوں وہاں تو مجھے سے ملنے بھی نہیں آئی حمزہ نے منہ بسورا کر کہا تو زرمینے نے اس سے الگ ہو کر اسے گھورا  میں آج آنے ہی والی تھی تم لوگوں کے پاس زرمینے نے کہا  

اچھا تمہیں چاہیے تھا کہ کل جب برو نے تمہیں کہا تھا کہ میں ٹھیک ہورہا ہوں تو تمہیں اسی ہی وقت آجانا چاہیے تھا کیونکہ مجھے ٹھیک ہوئے تین دن ہوگئے تھے اور میں نے ہی برو کو کہا تھا کہ تمہیں بلائے مگر جب برو نے کہا تو تم نے کہا کہ میں کل کو آجاو گئی اس لئے میں نے برو اور ڈیڈ کی منتیں کی اور پرئیویٹ جیک سے ہم یہاں  آگئے تاکہ تمہیں سرپرائز دے سکے مگر میں اب تم سے ناراض ہوں میں یہاں صرف اپنی ماں کے لئے ہی آیا ہوں حمزہ نے ایک ہی سانس میں کہا اور پھر ناراضگی سے وہاں سے صوفیہ بیگم کی طرف چلا گیا 

جاتے ہی صوفیہ بیگم کو اپنے حصار میں لیا 

کیسی ہیں آپ مما حمزہ نے صوفیہ بیگم کی پیشانی پر اپنا لمس چھوڑ کر  کہا 

تو صوفیہ بیگم نے اسے گلے لگایا 

ایسا بھی کوئی کرتا ہے اتنے دن تم غائب ہوجاتے ہوں اور پیچھے بڑھی ماں کے بارے میں کچھ سوچتے بھی نہیں  صوفیہ بیگم نے شکوہ کناہ لہجے میں کہا  تو  حمزہ مسکرایا 

ارے آپ اور بڑھی اللہ معاف کریں آپ تو اب بھی جوان لڑکی  ہے اس لئے تو آپ میری پیاری سی جی ایف ہیں  حمزہ نے مسکا لگا کر کہا تو صوفیہ بیگم نے ناراضگی سے منہ پھیر لیا  

اب بھی وہی جاو یہاں سے تم آئے ہوں میری صرف ایک ہی بیٹی ہے اور میری کوئی اولاد نہیں  صوفیہ بیگم نے  ہنوزو ناراضگی سے کہا  تو حمزہ نے زرمینے کو دیکھا تو زچ کرتی مسکراہٹ کے ساتھ اسے ہی دیکھ رہی تھی  پھر اہستہ اہستہ چلتی ہوئی اس کے پاس اور صوفیہ بیگم  کے گرد اپنے بازو باندھے  

یس موم دیکھے چلو زریام برو تو بزی تھے مگر یہ میسنا یہ تو ایک دم فری تھا میں لکھا کر دے سکتی ہوں کہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا ہوگا سوائے آرام کر نے کے  ذرمینے نے اسے چڑاتے ہوئے کہا 

تو زریام بھی جلدی سے  میدان میں آیا 

میری ماں پیاری ماں سب سے اچھی ماں آپ کیا جانو میرا درد ہر دن میں آپ کو یاد کر کہ اٹھتا اور ہر رات سونے سے پہلے آپ کو یاد کرتا زریام نے بھی مسکا لگایا 

ہاں اس لئے ہی تو تم ہر دن  مجھے کال کرتے اور رات کو سونے سے پہلے تو مجھے سے بات کیے بغیر تو تمہیں نیند ہی نہیں آتی تھی صوفیہ بیگم نے  زریام پر تنظز کے تیر برسائے   جس پر زریام کھیسانی سی ہنسی ہنسا  

وہ موم میں سچ میں بہت بزی تھا زریام نے دھیمی آواز میں کہا  تو  صوفیہ بیگم نے ان دونوں کو  گھورا 

مما آپ برو جان کو کچھ مت کہے وہ تو ہر روز آپ سے بات کرنا چاہتے تھے مگر اس حمزہ کی وجہ سے ہی تو نہیں کر پائے کیونکہ جب بھی برو کال کرنے لگتے تب ہی یہ برو کو روک دیتا زرمینے نے جلدی سے  زریام کی سائیڈ لے کر ساتھ ہی حمزہ سے بھی اپنا بدلہ لیا 

اور اس کے اس الزام پر حمزہ تڑپ ہی تو گیا 

نہیں مما ایسا کچھ نہیں ہے  حمزہ نے کہا مگر اس کی سن کون رہا تھا  صوفیہ بیگم زرمینے کی بات سن کر زریام کو دیکھا جو  معصوم منہ بنا کر کھڑا تھا 

میں جانتی تھی کہ میرا خان  مجھے بھول ہی نہیں سکتا یہ سب تو اس بدتمیز کی وجہ سے  تم نے مجھے کال نہیں کی صوفیہ بیگم نے زریام کے سینے سے لگا کر کہا تو زریام نے ان کے گرد اپنے بازو باندھے  

جب کہ حمزہ کی تو آنکھیں ہی پھٹی کی پھٹی رہ گئی اپنی ماں کی اس بات پر 

میں جانتا تھا مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ مجھے آپ لوگوں نے سڑک سے اٹھایا ہے میں آپ کا سگابیٹا ہی نہیں ہوں یہ دونوں ہی آپ کی سگی اولاد ہے حمزہ نے  دکھی لہجے میں کہا  

ارے آپ کو سب پتا چل گیا اصل میں میں آپ کو پہلے ہی بتانے والی تھی مگر اب جب آپ کو خود ہی سچائی کا علم ہوگیا اب کیا کیا جا سکتا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو حمزہ نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا 

کون ہے میری  بچاری سگی ماں جس نے مجھے جیسے ہیرے کو سڑک پر  رکھ دیا میںکہاں ڈھونڈو اپنی اس بچاری ماں کو   حمزہ نے  ایکٹنگ شروع کر دی 

تو صوفیہ بیگم نے  زریام  سے الگ ہو اپنے پاوں سے جوتی اتار کر حمزہ کی کمر پر جڑ دی جس پر وہ تلملا گیا 

کیا یار موم  آپ  تو میری سگی ماں ہی نہیں ہے تو خب میں  اپنی اصل ماں  کو  ابھی حمزہ کصھ اور کہتا کہ ایک اور جوتی اس کی کمر پر لگی اور اس کی چلتی زبان کو بریک لگئی  

رک ابھی بتاتی ہوں تمہاری ماں کے بارے میں  صوفیہ بیگم نے غصے سے کہا  

جس پر حمزہ نے مسکرا کر ان کے گرد اپنا حصار بنایا  جو صوفیہ بیگم نے توڑنے کی بہت کوشش کی مگر گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے نہ توڑ  پائی 

 پھر تھک ہار کر خود بھی اس کے سینے سے لگ کر  رونے لگی میں تم تینوں کو بہت یاد کرتی ہوں تمہیں معلوم نہیں مجھے کتنا ڈر لگتا ہے جب تم لوگ مشن پر جاتے ہوں اور ایک بار بھی مجھے سے بات بھی نہیں  کرتے ہوں صوفیہ بیگم نے روتے ہوئے کہا  

موم  پہلے تو آپ رونا بند کریں اور جب آپ کی دعائیں ہمارے ساتھ ہوتی ہیں تو ہمیں کچھ ہوسکتا ہے اور جہاں تک بات آپ سے فون پر کرنے کی ہے تو وہ ہم نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم  دشمن کب ہمارا فون  ٹریگ کر کے ہماری فیملی تک پہنچا جائے بس اس ڈر کی وجہ سے نہیں کرتے حمزہ نے سنجیدگی سے کہا  جس پر زریام اور زرمینے نے بھی سر ہلایا  اس کی بات کی تائید کیجس پر صوفیہ بیگم مسکرائی  

حمزہ نے  سب کی نظریں خود پر محسوس کر کے ان کی طرف دیکھ تو سب آنکھیں پھاڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے 

اسلام وعلیکم  ایوری ون حمزہ نے مسکرا کر کہا  تو  زرتاشیہ بے یقینی سے اسے دیکھا اور پھر اگے آئی 

تم سچ میں زندہ ہوں زرتاشیہ نے حیرانگی سے پوچھا  

جی میں سچ میں زندہ سہی سلامت ہوں حمزہ نے کہا  

کیا  میں تمہیں ٹچ کر سکتی ہوں  زرتاشیہ نے کہا  تو  زریام نے غصے سے اسے دیکھا  وہی حمزہ اس کی بے یقینی پر مسکرایا  

جی حمزہ نے اپنا ہاتھ آگے کیا  اس سے پہلے کہ  زرتاشیہ اس کے ہاتھ کو ٹچ کرتی کہ زریام نے  جلدی سے  زرتاشیہ کا ہاتھ  پکڑا لیا 

تاشیہ  یہ سچ میں زندہ ہے زریام نے  سرد لہجے میں کہا  

تو زرتاشیہ نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا اعر ایک بار پھر حمزہ کو دیکھنے لگی جس پر زریام نے  ایک نظر اپنے خالی ہاتھ کو دیکھا اور پھر زرتاشیہ کو جس کی نظریں  حمزہ پر محسوس کر کے  اس نے غصے اور جلن سے زرتاشیہ کو دیکھا   پھر بغیر کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر  زرتاشیہ کے بازو کو پکڑ کر اسے اپنی گاڑی  میں  بیٹھا کر وہاں سے چلا گیا  

وہ میری ذہنی حالت تک خراب کر گیا

جو کہتا تھا میں سب ٹھیک کر دوں گا 🥀

________________

اس وقت تمام لوگ  حویلی کے  لاونج میں بیٹھے حمزہ کو  دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی عجوبہ ہوںبیٹا آپ زندہ تھے تو مرنے کا ڈرامہ کیوں کیا  یہ آواز  نوشین بیگم کی تھی 

جی آنٹی میں زندہ تھا مگر کومہ میں تھا  تو میری جان کو کسی سے خطرہ تھا اس لئے وہ سب کیا  حمزہ نے تابعداری سے کہا  

اچھا نوشین بیگم نے کہا  تب ہی حمزہ کی نظریں اس دشمن جان کے چہرے کی طرف گئی جو  نظریں جھکائے وہی خاموش کھڑی ہے تب ہی مدیحہ نے بھی نظریں اٹھا کر اسے دیکھ تو اس کی نظروں سے ٹکرائی جس پر مدیحہ نے جلدی سے  اپنی نظریں جھکا لی اور وہاں سے چلی گئی ان دونوں کے جاتے ہی زرمینے نے  غزلان شاہ کی طرف دیکھا  جو  غصے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا  

زرمینے نے ائی برو اچکائی  جیسے پوچھا رہی ہوں کیا ہوا جس پر غزلان شاہ نے  رخ پھیر لیا   ناراضگی سے  

زرمینے کو حیرت ہوئی پہلے حمزہ اور اب سائیں کیا آج ناراضگی ڈے ہے زر زرمینے نے خود سے ہی کہا 

جب وہاں سے حمزہ آٹھ اور باہر کی طرف چلاگیا  پیچھے زرمینے بھی بھاگئی 

روکو جڑو زرمینے نے کہا تو حمزہ رک گیا 

بولو حمزہ نے  منہ بسورا کر کہا  اچھا جڑو سوری  نہ اپنی معصوم سی بہن کو معاف کردوں نہ زرمینے نے کہا تو حمزہ نے اسے گھورا  

کبھی نہیں  حمزہ نے کہا  

دیکھ لو اگر تم نے  مجھے معاف نہیں کیا  تو میں ابھی مما کو جاکر انکار کر دوں گئی کہ آپ مدیحہ کا رشتہ حمزہ کے لئے مت مانگے  زرمینے نے دھمکی دی  جو کہ کارآمد ثابت بھی ہوئی حمزہ فورا ہی سیدھا ہوگیا 

ارے میری بہنا

 پھولوں اور تاروں کا کہنا ہے ایک ہزاروں میں میری بہنا ہے 

میں کب تم سے ناراض ہوں  لو میں کیوں تم سے ناراض ہونے لگا حمزہ نے فورا کہا  تو زرمینے مسکرائی  

وہی تو میں کہوں تم مجھے سے  ناراض کیسے  ہوں سکتے ہوں زرمینے نے کہا  

اچھا  کب مما بات کرنے والی ہے رشتہ کی حمزہ نے پوچھا  

ابھی کرنے والی ہے اچھا کس  کس کے رشتے کی حمزہ نے پوچھا  

میرے اور سائیں کی تمہاری اور مدیحہ کی برو اور زرتاشیہ کی  ساحل اور مبشرہ کی زرمینے نے کہا تو مبشرہ اور ساحل کے نام پر حمزہ چونکا ان دونوں کا کیا سین ہے حمزہ نے پوچھا  

وہی جو آپ کا اور مدیحہ کا ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا  

تو حمزہ نے مسکرا کر اسے دیکھ  اچھا حمزہ نے کہا ق

تم کہیں جارہے تھے زرمینے نے پوچھا  

نہیں  میں تو اندر اپنے رشتہ کی بات سننے جارہا ہوں حمزہ نے کہا  

کیوں  زرمینے نے پوچھا  کیونکہ میرا رشتہ ہورہا ہے اور میں ہی وہاں نہ ہوں ایسا ہوسکتا ہے چلو اب اپنا منہ دوسری طرف کرو مجھے شرم آرہی ہے حمزہ نے  ڈھٹائی سے کہا 

اچھا   یہ جو تمہیں آرہی ہے وہ شرم ہے زرمینے نے دانت پیس کر پوچھا  جس پر حمزہ نے زورو شورو سے ہاں میں سر ہلایا اور اندر حویلی میں  چلا گیااس کے جانے کے بعد زرمینے بھی اندر جانے لگی کہ اسے غزلان شاہ  اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا  

اس نے بھی ان کی طرف اپنے قدم  بڑھائے  

سائیں اب کیا ہوا آپ کیوں مجھے سے ناراض ہیں زرمینے نے پوچھا  

تو کیا مجھے نہیں ہونا چاہیے  آپ سے ناراض  غزلان شاہ نے  سنجیدگی سے پوچھا  

کس بات پر آپ مجھے سے ناراض ہیں  زرمینے نے پوچھا  

آپ حمزہ کے سینے سے کیوں لگی غزلان شاہ نے جیلسی سے کہا تو زرمینے نے حیرانگی سے انہیں دیکھا  پھر آپ سمجھ آنے پر مسکرائی 

ہم جانتے ہیں کہ  آپ ان کو اپنا بھائی مانتی ہیں اور وہ بھی آپ کو اپنی بہن  مگر پھر بھی ہے تو وہ نامحرم ہی ہے آپ کے لئے غزلان شاہ نے تفصیل سے کہا  

خانم  ہمیں آپ پر پورا یقین ہے  ہم کوئی قیادنوس سوچ کے مالک بھی نہیں ہے  بس ہمیں جو مناسب لگا ہم نے کہہ دیا اگر آپ کو برا لگاتو 

نہیں  سائیں ہمیں بالکل بھی برا نہیں لگا  بلکہ اچھا لگا آپکا انداز آپ نے یہ بات دل میں  رکھنے کی بجائے ہمیں کہہ دی 

ویسے حمزہ ہمارا دودھ شریک بھائی ہے اور مما نے ہمیں  محرم اور نامحرم کے بارے میں  بتایا ہے اس لئے تو میں ڈیڈ اور زریام برو سے ایک فاصلے پر  رہتی ہوں زرمینے نے کہا  تو  غزلان شاہ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

اچھا آپ کو پتا ہے اندر کیا باتیں  ہو رہی ہیں زرمینے نے پوچھا  

نہیں  کیوں  خانم غزلان شاہ نے انجان بنتے ہوئے کہا  تو زرمینے نے اسے گھورا  

کیونکہ زریام جانتی تھی کہ غزلان شاہ جانتا ہے کہ اندر ان کی شادی کی بات ہورہی ہے 

ارے خانم ہمیں اس طرح کیوں دیکھ نہیں بلکہ گھورا رہی ہیں  غزلان شاہ نے پوچھا  

جس پر زرمینے نے ڈبل گھوری سے دیکھا اور وہاں سے جانے لگی  کہ  اسے غزلان شاہ نے  پکڑا اور اپنے قریب کیا 

ہمممم آپ کو ہمیشہ کے لئے یہ میرے ساتھ رخصت کرنے کی بات ہورہی ہے خانم  غزلان شاہ نے گھمبیر آواز میں کہا تو زرمینے کی ڈھڑکن بڑھی اور پر سے وہ اس کے اتنا نزدیک کھڑا تھا کہ  اس کی سانس زرمینے کے چہرے پر  پڑ رہی تھی اور اس کا چہرہ  سرخ ہوا 

ارے خانم  آپ کے چہرے کو کیا ہوا  غزلان شاہ نے مسکرا کر پوچھا 

کیا ہوا ہے ہمارے چہرے کو زرمینے نے پریشانی سے پوچھا  

ارے یہ اتنا سرخ کیوں ہورہا ہے غزلان شاہ نے پوچھا خس پر زرمینے سٹپٹائی اور اس کو دھکا دے کر وہاں سے  بھاگی پیچھے غزلان شاہ کے قہقہے کی آواز اس نے سنی 

____________ 

خان چھوڑے مجھے کہی نہیں جانا مجھے خان زرتاشیہ مسلسل زریام سے اپنا ہاتھ چھوڑوانے کی کوشش کر رہی تھی مگر زریام اس سے لے کر جلدی سے  گاڑی میں بیٹھا اور جلدی سے گاڑی چلی 

خان مجھے جانا ہے چھوڑے مجھے زرتاشیہ نے روتے ہوئے کہا  تو  زریام نے اسے گھورا  

تاشیہ اگر ایک اور لفظ اب آپ نے کہا تو مجھے سے برا کوئی بھی نہیں  زریام نے غصے سے کہا 

ہممممم آپ سے برا اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا زرتاشیہ بڑابڑئی  اس کی آواز  زریام نے باخوبی سنی مگر بولا کچھ نہیں  وہ زرتاشیہ کو لے کر اپنے گھر آیا 

گاڑی کو پارکنگ میں کھڑی کر کہ باہر زرتاشیہ کی طرف آیا اور گاڑی کا  دروازہ کھولا  جس پر زرتاشیہ منہ بسورا کر باہر آئی 

چلے اندر یا کوئی انویٹیشن دوں زریام نے تنظزیہ لہجے میں کہا تو زرتاشیہ جلدی سے اس کے پیچھے  اندر کی طرف آئی 

میرے کچھ سوالات کے جوابات آپ مجھے دے دیںزریام نے  سنجیدگی سے کہا  

پوچھے زرتاشیہ نے  احسان کرتے لہجے میں کہا  

آپ کس کی بیوی ہے زریام نے سنجیدگی سے پوچھا  تو زرتاشیہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا  کہ یہ کیسا سوال ہے  مگر زریام کو ہنوز سنجیدہ دیکھ کر فورا سیدھی ہوئی 

آپ کی زرتاشیہ نے کہا  تو  زریام کے ماتھے پر بل پڑے  

تمہارے شوہر کا نام آپ کی ہے زریام نے سنجیدگی سے پوچھا  

نہیں  ان کا نام تو زریام جبران خان ہے زرتاشیہ نے کہا  

ہمممم جب آپ کا شوہر  زریام ہے  تو آپ نے ہمت بھی کیسے کی حمزہ کو  ٹچ کرنے کی زریام نے  غصے سے پوچھا  

تو پہلے زرتاشیہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا  اور پھر سمجھ آنے پر اسے  دیکھ کر تنظزیہ مسکرائی  

وہ کیا ہے نہ میرا شوہر میری باپ کی وجہ سے مجھے چھوڑنے والے ہیں اور پھر نہ وہ میرے شوہر رہے گئے  اس لئے ہم نے بھی اب انہیں اپنے دل سے نکال دیا ہے اور حمزہ کو ٹچ ہم صرف یقین دہانی کے لئے کر رہی ہوںزرتاشیہ نے سپاٹ لہجے میں کہا تو زریام نے غصے سے اسے گھورا  

تمہیں کس نے کہا کہ  ہم آپ کو چھوڑنے والے ہیں زریام نے سرد لہجے میں پوچھا  

انہوں نے  خود ہمیں کہا کہ جب آپ کہے گئی ہم آپ کو آزاد کر دے گئے زرتاشیہ نے بھی اسی کے انداز میں کہا 

تو زریام نے اسے اپنے قریب کیا  ایک بات آپ یاد رکھیے گا زرتاشیہ بیگم  ہم آپ کو کسی بئی قیمت پر نہیں چھوڑے گئے ہم خان اپنی منگ کو نہیں چھوڑتے تو آپ تو ہماری بیوی ہیں زریام نے سرد لہجے میں کہا  

تو ایک بار تو زرتاشیہ اس کے سرد لہجہ سن کر ڈرئ مگر پھر اس کو اپنی اس دن والی تذلیل یاد آئی 

فورا زریام کو دھکا دے کر خود سے دور کیا زریام جو اس سے اس عمل کی توقع نہیں کر رہاتھا اس کے اس طرح  دھکیلنے سے فورا دور ہوا 

پہلی بات تو آپ میری آئیند قریب مت آنا اور دوسری  بات  میں ا ب بھی اس ہی گھٹیا شخص کی بیٹی ہوں جس نے تمہارے بہن کو اتنی تکلیف دی ہے اور میں خود بھی تو ایک گھٹیا لڑکی ہوں جس نے نہ صرف آپ کے کردار پر الزام لگایا بلکہ آپ سے طلاق مانگنے کی بھی غلطی کی اس لئے تو آپ نے مجھے تین سال سزا دی جو کہ میں نے بھی قبول کی کیونکہ میں  خود کو بھی ان سب کا ذمےدار مانتی تھی کہ میں نے کیوں  آپ پر یقین نہیں کیا مگر پھر جب تین سال کا ہجر ختم ہو تو میں نے ہر بار اور بار بار آپ سے معافی مانگی مگر آپ نے کیا کیا  مجھے معاف تو کردیا مگر وہی کیا جو میں نے تین سال پہلے کیا تھا آپ نے بھی تو  مجھے طلاق  دینے والے تھے اگر حمزہ والا واقعہ نہ ہوا ہوتاآپ نے تو اس دن ہی بول دیا تھا تو پھر اب جب میں نے خود کو سمجھا لیا ہے تو پھر آگے ایک پھر مجھے توڑنے زرتاشیہ نے روتے ہوئے کہا  تو  زریام کو اپنے اس دن والے رویہ کی وجہ سے شرمندگی ہوئی 

پھر اگے بڑھا کر اس کے پاس بیٹھا  تاشیہ  میں اس دن غصے میں تھا اس لئے وہ سب بول دیا مگر باخدا آپ کو چھوڑنا میرے بس میں نہیں  آپ کو بہت چاہنے لگا ہوں ان کچھ دنوں میں  میں نے آپ نہیں دیکھا تو ایسا لگا کہ مجھے میں کچھ تو ادھورا ہے آپ میری زندگی کا سکون ہے میں آپ کے بغیر رہنے کا سوچا بھی نہیں سکتا زریام نے  زرتاشیہ کا چہرہ ہاتھوں کے پیالی میں لے کر شدت سے کہا تو زرتاشیہ کے چہرے پر  تنظزیہ مسکراہٹ ائی 

تین سال  پہلے  میں نے بھی غصے سے کہا تھا کیونکہ یہ احساس ہی کہ آپ کسی اور کے ساتھ مجھے ہرٹ کرگیا تھا میں آپ کو اپنے علاوہ کسی اور کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتی تھی اس وقت  میں بھی غصے سے پاگل ہو گئی تھی اس لئے وہ سب کہا مگر اس وقت آپ نے مجھے معاف کیا نہیں نہ تو آپ نے کیسے سوچ لیا کہ میں اب آپ کو معاف کر کے آپ کو پھر وہی مقام دے دوں تو یہ صرف آپ کی سوچ ہے مسٹر زریام جبران خان  

زرتاشیہ نے اپنے چہرہ سے زریام کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے غصے سے کہا 

آپ کو کس نے کہا کہ ہم آپ سے معافی مانگ رہے ہیں زریام کو زرتاشیہ کا بار بار دور ہونا سے  غصہ  آیا تب ہی تنظزیہ لہجے میں کہا  

تو زرتاشیہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا  

اور جہاں تک بات ہے  آپ کو چھوڑنے کی  تو  وہ بھول ہے آپ کی کہ آپ مسز  زریام جبران  خان  ساری زندگی مجھے سے پیچھا چھوڑوا سکتی ہے  زریام نے زرتاشیہ کو سخت لہجے میں کہا  

اور ائیند اگر آپ مجھے سے دور جانے کی بات کی تو ائی سوئر میں آپ خود اپنے ہاتھوں سے شوٹ کر دوں گا مگر آپ کو 

طلاق نہیں دوں گا زریام نے زرتاشیہ کے بازو کو پکڑ کر اس کو دیوار کے ساتھ  پن کرتے ہوئے کہا 

تو زرتاشیہ نے غصے سے اسے دیکھا 

 چھوڑے خان مجھے زرتاشیہ نے  اپنا چہرہ موڑتے ہوئے کہا 

ناممکن  ہے آپ کو  چھوڑنا زریام نے اس کا چہرہ اپنے سامنے کرتے ہوئے کہا 

تاشیہ زریام نے بوجھل لہجے میں پکارا اور اسے اپنے سینے سے زور سے  بھینچا  

ہم آپ سے معافی نہیں  مانگ رہے مگر آپ کو اتنا بتا رہے ہیں کہ زریام جبران خان  کو مسز زریام جبران خان  سے عشق ہے وہ تین سال  میں ایسا کو پل نہیں  جس میں آپ میری نظروں سے دور ہوئی ہوں  آپ میری رگ رگ میں خون کی طرح دوڑتی ہیں 

ایک دن بھی آپ کو نہ دیکھو تو ایسا لگتا ہے جیسے زندگی میں  کوئی خوشی نہیں ہے آپ کے بغیر میری زندگی میں بے سکونی ہی بے سکونی ہے ہم جانتے ہیں کہ ہم نے غلط کیا ہے مگر ہم اب سب ٹھیک  کر دیں گئے زریام نے  زرتاشیہ  سے  بوجھل لہجے میں کہا  

زرتاشیہ نے نظریں اٹھا کر زریام کی آنکھوں میں دیکھا  جہاں واضح  سچائی نظر آرہی تھی  مگر زرتاشیہ نے  نفی میں سر ہلایا اور وہاں سے بھاگی 

اسے نہیں  معلوم  کیوں مگر وہ اب زریام کو مزید نہیں دیکھ سکی وہ اس کے اگے پگھل رہی تھی اس کے لئے نرم ہو رہی تھی اور یہی تو اب وہ نہیں  چاہتی 

اب وہ بھی اسے اتنا ہی تڑپنا چاہتی ہے جتنا زریام نے اسے تڑپایا 

وہ بھاگتی ہوئی شاہ حویلی آئی اور پھر بغیر کسی کی طرف دیکھے سیدھا اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اس وقت  وہ اس حالت میں  نہیں تھی کہ کسی کا بھی سامنا کر سکےوہ اپنے کمرے میں اکر بیڈ کے پاس بیٹھی کر رونے لگی کہ اسے اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی محسوس ہوئی تو سامنے ہی ریاض شاہ  شرمندہ سے کھڑے تھے انہیں دیکھ کر زرتاشیہ کو  بے اختیار اپنی اس دن والی باتیں یاد آئی 

فلیش بیک :

اس دن جب زرتاشیہ  احمد شاہ کے ساتھ مل کر مدیحہ کو لے کر آئی اعر پھر اسے اس کے کمرے میں  چھوڑنے کے بعد  وہ اپنے کمرے میں ائی تو سامنے ہی  ریاض شاہ  بیٹھے تھے زرتاشیہ  میری بچی ریاض شاہ نے کہا  

تو زرتاشیہ  تنظزیہ مسکرائی 

با با سائیں کیا یہ سچ ہے کہ زرمینے  آپ کی بیٹھ ہے زرتاشیہ نے سنجیدگی سے پوچھا  

تو ریاض شاہ نے  شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا 

جس دیکھا کر زرتاشیہ نے  بے یقینی سے انہیں دیکھا   

کیوں بابا آپ نے مما کے ساتھ ایسا کیا کیوں با با آپ نے زرمینے  کے ساتھ ایسا کیا اخر کیوں آپ نے میرے  ساتھ ایسا کیابابا سائیں زرتاشیہ نے روتے ہوئے کہا 

بیٹا آپ کی پیدائش پر آپ کی والدہ کی موت ہوگئی میں آپ کی ماں سے بہت محبت کرتا تھا ان کے جانے کے بعد  میں بہت اداس رہنے لگا اس وجہ سے میں آپ پر بھی دھیان نہیں  دے پایا  تو احمد احمد شاہ نے  میری شادی  کوثر سے کردی تاکہ آپ کو ماں کا پیار مل سکے کوثر بیگم نے نہ صرف مجھے پیار کرنا سکایا بلکہ وہ آپ کے ساتھ بھی بہت پیار سے رہتی ان کا آپ کے ساتھ رویہ بالکل ایک  ماں کی طرح تھا تب ہی ہمیں  ہو کہ وہ ماں بننے والی ہے  یہ بات میں قبول ہی نہیں کر سکا مجھے لگا کہ ان کی اپنی اولاد کے آنے کے بعد وہ آپ دے سوتیلی ماں جیسا رویہ اختیار کر لے گئی میں نے انہیں  بہت سمجھایا کہ وہ اپنا ابوشن کروالے مگر وہ نہیں  مانی  

پھر جب اس دن انہوں نے  بیٹی کو  پیدا کیا تو میں نے نرس سے پوچھا جس پر نرس نے کہا کہ  وہ ابھی تک نہیں جانتی بے بی کے بارے میں تو میں نے کچھ پیسے دے کر  نرس سے کہلوایا کہ ان کے ہاں  مری ہوئی بچی پیدا ہوئی تھی اور نرس نے اس بچی کے ساتھ کیا کیا میں نے جانتا ریاض شاہ نے شرمندگی سے کہا  

بابا سائیں آپ کی اس بھول  کی وجہ سے آج وہ مجھے چھوڑ رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ میں اس باپ کی بیٹی ہوں جس نے میری بہن کو پھینکنے کا کہا  وہ کہہ رہا ہے کہ وہجھے طلاق دے دیں گا بابا سائیں میں ان سے بہت  پیار کرتی ہوں پیار نہیں عشق کرتی ہوں مگر وہ مجھے چھوڑ دے گئے با با سائیں  زرتاشیہ نے روتے ہوئے کہا  

تو ریاض شاہ  حیرانگی سے اسے دیکھا کیونکہ وہ زرتاشیہ کے نکاح کے  بارے میں نہیں  جانتے تھے 

با با سائیں  زرمینے کا بھائی    زریام جبران خان با با سائیں  وہ میرے  شوہر  ہیں پھر زرتاشیہ نے  ان کو ساری بات بتائی  کہ کس طرح اس کی شادی  زریام کے ساتھ ہوئی کس طرح زریام  اس کو چھوڑ کر چلاگیا  سب بتا یا اور اس طرح سب کو زرتاشیہ  کے نکاح کے بارے میں پتا چلا  

اور ریاض شاہ  وہ تو شرمندگی سے سر بھی نہیں  اٹھا سکے کہ ان کی وجہ سے ان کی لاڈلی بیٹی  آج اس حالت میں تھی  

اور خاموشی سے وہاں سے چلے گئے  اس دن کے بعد زرتاشیہ  نے ان سے بات نہیں  کی وہ سب کچھ ان کو دیتی جن کی ان کو ضرورت تھی مگر ان کو بلاتی نہیں  

________________

آپ زرتاشیہ نے روتے ہوئے کہا  

زرتاشیہ  ریاض شاہ نے کہا  

آپ پلیز  چلے جائے یہاں سے  مجھے کچھ وقت  اکیلا چھوڑ دے زرتاشیہ نے روتے ہوئے کہا  مگر پلیز بابا سائیں  چلے جائے زرتاشیہ نے  ان کی بات کاٹ کر کہا  تو ریاض شاہ  شرمندگی سے وہاں سے چلے گیے  

______________

بھائی صاحب  میںآپ سے مدیحہ اور حمزہ کا رشتہ مانگنے کے ساتھ اپنی بہن کے بیٹے  ساحل کے لیے مبشرہ  کا اور زرتاشیہ کے لئے زریام کا رشتہ مانگنے آئی ہوں میں جانتی ہوں کہ یہ بات مجھے  خان کے ساتھ آکر کرنی چاہیے تھی مگر وہ کسی کام سے  کہی گئے ہوئے ہیں اور میں یہ بات اس لیے کہہ رہی ہوں کہ سائیں کے آنے سے پہلے آپ تمام لڑکیوں سے ان کی مرضی پوچھا لئے  صوفیہ بیگم نے  تحمل سے کہا تو احمد شاہ سوچ میں پڑ گئے جب کہ نجمہ بیگم کے چہرے پر  حیرانگی آئی ان کا شوہر اور ان کا بیٹا  جو کچھ کر چکے تھے اس کے بعد ان دونوں کا  کوئی اچھا رشتے کی امید نہیں تھی  اور اب جب صوفیہ بیگم نے ان سے بات کی تو خوشی  ہوئی 

ٹھیک ہے  بہن ہم سب سے مرضی پوچھا کر آپ کو جواب دے دیں گئے احمد شاہ نے سنجیدگی سے کہا  

اور ہم بھی اپنے بیٹے غزلان شاہ  کی  شادی  پورے دھوم دھام سے کرنا چاہتی ہوں سائیں نوشین بیگم نے کہا  

آپ کا کیا خیال ہے  بہن جی احمد شاہ نے پوچھا  

دیکھیں ان کا نکاح تو ہو ہی چکا پے تو اب ہم چاہتے ہیں یہ شادی پوری رسم و رواج کے ساتھ ہوا اس سے پہلے کہ صوفیہ بیگم کچھ کہتی کہ نوشین بیگم  بول پڑی 

وہ میں خان سائیں سے پوچھا کر بتاو گئی صوفیہ بیگم نے کہا  

تو انہوں نے  اثبات میں سر ہلایا 

 اچھا اب ہمیں بھی اجازت دیں ہم چلتے ہیں  صوفیہ بیگم نے کہا  اور وہاں سے چلی گئی 

______________

رات کے وقت سب لوگ  ڈائینگ ٹیبل پر  کھانا کھانے آئے تو احمد شاہ نے  زرتاشیہ مبشرہ اور مدیحہ کو  کھانا کھانے کے بعد  اپنے کمرے میں  بلایا  

اس لئے اب وہ تینوں احمد شاہ  کے کمرے میں  موجود تھی  

بیٹا آپ تینوں کا رشتہ  ہم سے زرمینے کی والدہ  نے مانگا ہے مدیحہ کا حمزہ کے لئے  مبشرہ کا ساحل کےلئے اور زرتاشیہ آپ کا زریام کے لئے اور ہم ان میں آپ کی مرضی  جاننا چاہتے ہیں  احمد شاہ نے  سنجیدگی سے کہا  

تایا سائیں ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں ہے  یہ مدیحہ نے کہا  

مامو سائیں ہم بھی یہ شادی نہیں کرنا چاہتے زرتاشیہ نے بھی کہا  اس سب میں مبشرہ خاموش تھی 

یہ آپ لوگوں کا آخری فیصلہ ہےاحمد شاہ نے سنجیدگی سے پوچھا  

جی دونوں نے کہا 

ٹھیک ہے  ہم ان کو آپ کا جواب دے دیں گئے اب آپ لوگوں جاسکتی ہیں ہمیں آرام کرنا ہے احمد شاہ نے سنجیدگی سے کہا  

وہ تینوں چلی گئیں

پیچھے احمد شاہ  نے فورا زرمینے کو  کال کی 

اسلام وعلیکم  زرمینے سپیکنگ اگے سے زرمینے کی مصروف سی آواز آئی 

وعلیکم السلام  زرمینے  میں احمد شاہ  بات کر رہا ہوں  احمد شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

زرمینے  جو کسی کیس کی فائل پڑھنے میں مصروف تھی چونکی 

آپ کوئی کام  تھا آپ  زرمینے نے  پوچھا  

ہمممم آج آپ کی والدہ  جو رشتے کی بات کرنے آئی تھی تو ہم نے ان تینوں سے پوچھا  انہوں نے  انکار کر دیا ہے تو ہم نے سوچا کہ سب سے پہلے آپ کو ہی بتا دیتے ہیں باقی آپ خود دیکھا لئے احمد شاہ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا  

جی میں  کچھ کرتی ہوں مگر ابھی ان کے انکار کے بارے میں آپ پلیز کسی کو مت بتائے گا ماموں زرمینے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا 

اور احمد شاہ تو اس کے ماموں کہنے پر ہی خوش ہوگئے جس دن سے انہیں معلوم ہوا ہے کہ زرمینے ان کی بہن کی بیٹی ہے اس دن سے انہیں زرمینے عزیز ہوگئی تھی بری تو پہلے بھی نہیں لگتی تھی مگر پھر بیٹے کی وجہ سے انہیں پسند نہیں  تھی مگر اب جب انہیں معلوم ہوا ہے کہ زرمینے ان کی بہن کی بیٹی ہے  تو ان کو بھی کوئی اعتراض نہیں  

ٹھیک ہے  بیٹا احمد شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

اچھا میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں ابھی مجھے کچھ ضروری کام ہے زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو احمد شاہ نے بھی کال کاٹ دی اور آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے 

موت میرے تعاقب میں تیزی سے قدم بڑھانے لگی ہے ، 

میں زندگی کی آخری سیڑھی پر کھڑی 

اپنے ختم ہونے کا نظارا کر رہی ہوں ۔💔

____________

 میرے بھائیوں  کیسے ہوں تم سب زرمینے  جلدی سے ان تینوں کے پاس آکر بولی وہ تینوں  لاونج میں بیٹھے کسی بات پر بحث کر رہے تھے اس کے انے سے چونکے 

خیریت جو تم ہمیں  اتنے پیار سے بلا رہی ہوں حمزہ نے کہا  

ارے میرے  بھائی  بات ہی اتنی خوشی کی ہے کہ میرا دل کر رہا ہے  کہ چیخ چیخ کر سب کو بتاو 

زرمینے نے خوش ہوکر کہا 

ہیں ایسی بھی کونسی بات ہے جس پر تم اتنا خوش ہورہی ہوں ساحل نے بے چینی سے پوچھا  

وہ وہ ہمیں شرم آرہی ہے رکو میں زرا شرما لوں زرمینے نے  اپنے سر پر لیا ہوا ڈوپٹہ  اپنے چہرے پر کرتے ہوئے کہا 

جس پر تینوں نے اسے گھور  

مگر زرمینے کو کہاں فکر پڑ رہا تھا بقول اس کے کہ وہ شرما رہی ہے اور ا ن سب کو شرم ہی نہیں آتی 

زر بولوں کیا بات ہے بچا زریام نے دانت پیس کر کہا 

وہ برو بات بہت شرمناک ہے کہ مجھے شرم آرہی ہے  زرمینے نے شرماتے ہوئے کہا تو تینوں نے اسے غصہ سے گھورا جس پر وہ فورا سیدھی ہوئی اور اپنے دانتوں کی نمائش کرنے لگی 

اچھا اب جو بات میں تم لوگوں کو بتانے لگی ہوں اس کو سن کر تم تینوں کو شرم سے ڈوب مرنے کا دل کر گا مگر تم لوگ بھی میری طرح شرما لینا اور ڈوپٹہ کی فکر تم تینوں ہی نہ کرنا میں اپنے ڈوپٹے تم تینوں کو دے دوں  گئی  

زرمینے نے یہ کہتے ہوئے ان تینوں کو دیکھا  جو سرخ چہرے کے ساتھ  اسے ہی دیکھ کم گھورا زیادہ   رہے تھے 

وہ ساحل  حمزہ  برو آج جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ آج مما آپ تینوں کا رشتہ لے کر گئی تھی زرمینے نے کہا تو نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

تو ماموں نے کہا تھا کہ وہ لڑکیوں کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کرنا چاہتے اور آج جب انہوں نے مرضی پوچھی تو تینوں نے ہی جواب دے دیا کہ وہ آپ لوگوں سے شادی نہیں کرنا چاہتی ان تینوں کی غصیلی نظروں کے سبب زرمینے نے ایک ہی سانس میں کہا  

تو اس کی بات سن کر جہاں ساحل حیران ہوا  وہی زریام کے ماتھےپر بل پڑے  اور حمزہ تو بچار صدمے میں ہی چلا گیا انکار سن کیے 

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے 💔

جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے 🖤

جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے

اس وقت  وہ تینوں  لان میں موجود  کرسیوں پر بیٹھ ہوئی تھی 

یار  مدیحہ  چلو میں نے اس لیے انکار کیا کیونکہ میں  خان سے ناراض ہوں  مگر تم کیوں انکار کیا زرتاشیہ نے  ناسمجھی سے مدیحہ سے پوچھا 

زرتاشیہ  اس کے پیچھے بہت بڑی وجہ ہے ارے تمہیں کیا پتا ہوگا اگر تم بھی میری طرح  ناول پڑھتی تو تمہیں معلوم ہوتا مدیحہ نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا  

کیا مطلب  اگر میں ناول پڑھتی تب مجھے کیا معلوم  ہوتا زرتاشیہ نے حیرانگی سے پوچھا  

ارے تمہیں معلوم ہے  ناول میں ہیروئین ہیرو کو تھپڑ مارتی ہے تو ہیرو اس بات پر ہی اسے کڈنیپ کر کے اس کے ساتھ نکاح کرلیتا ہے اور پھر اسے بہت مارتا ہے مدیحہ نے  اسے بتایا 

اچھا  صرف ایک تھپڑ کی وجہ سے  زرتاشیہ حیرانگی سے پوچھتی ہے 

جس پر مدیحہ  اثبات میں سر ہلاتی ہے 

ارے یہ بھی کوئی بات ہوئی یہاں  ہمیں  ڈھول کی طرح  کوئی بھی آکر مار جاتا ہے تو کیا میں  سب سے نکاح کر کے  بدلہ لوں مبشرہ نے حیرانگی سے کہا  

جس پر دونوں نے اسے گھورا  

ویسے اگر میں بدلہ لوں تو سب سے پہلے آپ  دونوں کا ہی نمبر  آتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ تو آپ دونوں  مجھے معصوم کو مارتی ہیں مبشرہ نے  ان کی گھوری  کا کوئی اثر نہ لیتے ہوئے کہا  

تم چپ ہوجاو گئی کچھ دیر کے لئے زرتاشیہ نے غصے سے کہا  

تو مبشرہ فورا منہ بنا کر خاموش ہوئی  

اچھا مگر اس سب میں انکار کرنے کی کیا وجہ ہے زرتاشیہ نے ناسمجھی سے پوچھا  

ارے یہی  تو انکار کی وجہ ہے دیکھو ناول میں صرف تھپڑ مارنے سے ہیرو اتنا برا کرتا ہے تو زرا سوچو 

میں نے تو اسے سیدھا شوٹ ہی کر دیا تھا وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ بچ گیا 

اور مجھے کہی نہ کہی لگ رہا ہے کہ حمزہ نے  رشتہ مجھے سے بدلہ لینے کے لئے ہی بھیجا ہے مدیحہ نے  ساری بات بتائی  

تو  دونوں نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

اچھا میں سب سمجھ گئی تم ڈر گئی کہ اگر شادی کے بعد حمزہ بھائی نے تم سے بدلہ لینے کے لئے  مارا تو تم کیا کرو گئی اس لئے تم نے اپنا دماغ استعمال کر کے انکار کردیا جیو میری بہن تم تو بہت عقل  مند ہوں مبشرہ نے مدیحہ کو شاباشی دیتے ہوئے کہا 

اچھا میں اپنی اور مدیحہ دونوں کے انکار کی وجہ سمجھ آگئی ہے مگر تمہارے انکار کی وجہ نہیں سمجھ آئی کہ تم نے کیوں انکار کیا زرتاشیہ نے ناسمجھی سے مبشرہ سے پوچھا  

ہیں میں نے کب انکار کیا ہے تم دونوں نے انکار کیا تو تایا سائیں نے کہا کہ مجھے آرام کر نا ہے اس لئے جاو تم تینوں  تو میں بھی آگئی  مبشرہ نے جلدی سے زرتاشیہ سے کہا تو  زرتاشیہ نے اسے دیکھا  

اچھا اگر تم سے ماموں پوچھتے تو تم نے کیا  جواب دینا تھا زرتاشیہ نے پوچھا  

انہوں نے مجھے سے پوچھا ہی نہیں اگر پوچھا لیتے تو میں کون سا ہاں کرنے لگی تھی میں نے بھی انکار ہی کرنا تھا مبشرہ نے  افسوس سے کہا  ناجانے اسے کتنا افسوس تھا کہ وہ انکار نہ کرنے کا 

اور تم نے انکار کیوں کرنا تھا اس بار مدیحہ نے پوچھا  

کیوں  مبشرہ نے سوچا  ہاں کیونکہ تم دونوں نے  بھی تو انکار کیا ہے تو میں نے بھی کردینا تھا مبشرہ نے افسوس سے کہا  

تو دونوں نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

اور یہی ان تینوں کی برداشت کی حد ختم ہوئی 

جو زرمینےکے بتانے پر ان تینوں سے بات کرنے سیدھا شاہ حویلی آئے تھے اور سامنے کی ان کی باتیں سن کر حیران ہوئے اور ان کے انکار کی وجہ سے تو تینوں کا ہی میٹر گھما کہ بس اتنی سی  وجہ سے ہی انہوں نے  انکار کر دیا  

زریام  غصے سے اگے آیا اور بغیر  ان دونوں کی طرف دیکھے زرتاشیہ کا ہاتھ پکڑا کر  اسے وہاں سے  اس کے کمرے میں  لے آیا 

مدیحہ اور مبشرہ ابھی سچویشن سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ حمزہ بھی وہی اگیا 

اب میں کیا آپ کو انویٹیشن دوں کہ آپ زرا اپنے کمرے میں جائے مجھے بات کرنی ہے آپ کی بہن سے حمزہ نے غصے سے  مبشرہ سے کہا تو وہ فورا وہاں سے اٹھی اور امدر کی طرف جانے ہی لگی تھی  کہ ساحل جلدی ہی سامنے آیا 

مجھے ابھی آپ سے ضروری بات کرنی ہے ساحل نے سنجیدگی سے کہا  

کیا بات کرنی ہے مبشرہ نے جلدی سے پوچھا  

آپ نے انکار کیوں کیا  ساحل نے سرد لہجے میں پوچھا  تو مبشرہ اس کا سرد لہجہ سن کر ڈر گئی پھر اس کی آنکھوں میں دیکھا  جہاں واضح سرد پن نظر آیا اسے ساحل سے خوف آیا 

وہ وہ میں نے انکار نہیں  کیا  مبشرہ نے ڈرتے ہوئے کہا  

ہمممم جانتا ہوں کہ آپ نے انکار نہیں کیا  کیونکہ ابھی تک آپ سے کسی نے پوچھا ہی نہیں  ہے اگر کوئی پوچھتا تب ہی آپ انکار  کرتی ساحل نے مبشرہ کے تھوڑی دیر پہلے کہے ہوئے الفاظ دوہرائے  تو مبشرہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا  

اگر اب آپ سے کوئی نے میرے  رشتے کے بارے میں پوچھا تو آپ کی زبان سے اقرار ہونا چاہیے نہ کہ انکار  ساحل نے سرد لہجے میں کہا 

ورنہ  ابھی آپ کی بہن نے بتایا ہے  نا کہ ہیرو تھپڑ کی وجہ سے کیا کرتا ہے اور نے تو انکار کر کے میرے انسلٹ کر دینی ہے اور میرے عشق کی توہین کر دینی ہے تو پھر میں کیا آپ کو ایسے ہی چھوڑ دوں گا ساحل نے سرد لہجے میں کہا  تو  کیا آپ بھی میرے ساتھ اتنا برا کرئے گئے  مبشرہ نے حیرانگی سے پوچھا  

ہاں میں آپ کے ساتھ اس سےبھی زیادہ برا کروں گا اگر آپ نے انکار کرنے کی  غلطی کی تو  ساحل نے سخت لہجے میں کہا  

تو مبشرہ گھبرائی  اچھا اب اگر کوئی آپ سے میرے رشتے کے بارے میں پوچھے تو آپ نے کیا کہنا ہے  ساحل نے  پوچھا  

میں نے انکار کرنا ہے مبشرہ نے ڈرتے ہوئے کہامگر جب ساحل کی طرف دیکھا تو اسے اپنے بولئے گئے الفاظ کا احساس ہوا  کیونکہ ساحل اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھورا رہاتھا 

نہیں وہ منہ سے نکل گیا مجھے معلوم ہے کہ  اقرار کرنا ہے مبشرہ نے جلدی سے کہا 

ہممممم گڈ گرل اب جاو صبح تم سے تمہاری تائی امی پوجھے گئی تو ان کو جواب ہاں میں ہی دینا ورنہ ساحل نے کہتے ہوئے دھمکی دی 

جس پر مبشرہ اثبات میں سر ہلایا اعر فورا اندر کی طرف بھاگئی اور اپنے کمرے میں جاکر روکی 

پیچھے اس کی سپیڈ دیکھ کر  ساحل نے نفی میں سر ہلایا 

تیرا کیا ہوگا ساحل ساحل بالوں میں ہاتھ پھیر کر بڑابڑایا 

محبت تم کرو ______🦋🪷

_________نبھانا ہم سیکھائیں گے🤍🥰

منزلیں تم چنو ______😘👑

________ راستہ ہم بتائیں گے ₹👻🫰

خواب تم دیکھو _____🌸💋

________ تعبیر ہم بتائیں گے ∆🤭🌎

ساتھ تم دو _______ 👰🏻‍♀✨🪷

________ خوشیاں ہم لائیں گے × 🏡🎊🎉

ملنے کا وعدہ تم کرو ______🫂😘🦋

_________ کانٹوں پر چل کر ہم آئیں گےhani 🫀💋

ہمممم سنا ہے آپ نے رشتے سے انکار کر دیا ہے  حمزہ نے  سامنے سانس تک روکے بیٹھی مدیحہ سے سنجیدگی سے پوچھا  

اور مدیحہ اسے آج اتنے دن بعد اپنے روبرو دیکھ کر ڈری تھی کیونکہ اس حادثے کے بعد حمزہ کے ساتھ اس کا سامنا نہ ہو نے کے برابر ہی ہوا تھا اس دومیان ان کے دوران کوئی بھی  بات نہیں ہوئی تھی اور قب وہ خود ہی آگیا وہ بہت ڈر گئی کہ پتا نہیں اب کیا کریں گا حمزہ اس کے ساتھ اور اسی سوچو میں اس نے حمزہ کے سوال کا جواب بھی نہیں دیا 

جبکہ حمزہ اسے چپ چاپ بیٹھا دیکھ کر اس پر غصہ آیا اور ماتھے پر بل پڑے  

مدیحہ شاہ میں نے سنا ہے کہ تم میری موت کا صدمے برداشت نہیں کر سکی اور پاگل۔ہو گئی تھی حمزہ نے تنظزیہ لہجے میں کہا  جس پر مدیحہ نے سر اٹھا کر  اسے دیکھ  جو تمسخرانہ مسکراہٹ سے اسے ہی دیکھ رہا تھا  

اسے دکھ ہوا حمزہ کے رویہ سے مگر پھر جلدی ہی خود کو کمپوز کیا

پاگل نہیں ہوئی تھی بس صدما لگا تھا کہ میں نے کسی کو قتل کر دیا ہے مدیحہ نے نظروں کا رخ سامنے کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اس کے جواب سے زیادہ اس کی نظر کا پھیرنا حمزہ کے تن بدن میں آگ لگا گیا 

اچھا ویسے تم نے بالکل سہی سوچا میں یہ شادی صرف تم سے بدلے کے لیے کر رہا ہوں کیونکہ تم نے جو میرے ساتھ کیا وہ معافی کہ قابل نہیں ہے اب اگر کوئی تم سے پوچھا تو جواب ہاں میں دینا ورنہ مجھے سے برا کوئی بھی نہیں  ہوگا حمزہ نے  سنجیدگی سے کہا  

میرا جواب پہلے بھی نہ تھا اور اب بھی نہ ہے اور جہاں تک بات ہے آپ سے برا تو واقعی آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں  مدیحہ نے  سپاٹ لہجے میں کہا  

تو حمزہ کے ماتھے پر بل پڑے مگر پھر کچھ سوچ کر مسکرایا 

مدیحہ شاہ  آپ کو علم ہے کہ آپ نے ایک آرمی افسر کو مارنے کی کوشش کی تھی اور ابھی تک آپ آرمی کی کسٹڈی میں ہوتی اگر میں  نہ کہتا حمزہ نے  پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

جبکہ اس کیاس بات پر مدیحہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

مطلب مدیحہ نے پوچھا  

ہمممم مطلب بہت سمپل ہے اگر آپ نے انکار کرنے کی غلطی کی تو میں آپ کواریسٹ کروا دوں گا وہ بھی ایک آرمی افسر کو مارنے کی کوشش میں حمزہ نے پراسرار لہجے میں کہا  تومدیحہ گھبرائی   آپ ایسا کچھ نہیں کرئے گئے 

مدیحہ نے ڈرتے ہوئے کہا  تو حمزہ نے مسکرا کر اسے دیکھ  

کیوں جب آپ میرے رشتے سے انکار کر سکتی ہیں تو میں بھی  کچھ بھی کرسکتا ہوں حمزہ نے سفاکیت سے کہاتو مدیحہ نے بے بسی سے اسے دیکھا  مگر حمزہ کے چہرے کے  سپاٹ تاثرات ہی دیکھنے کو ملے  

مجھے معلوم ہے کہ آپ سب مجھے سے بدلہ لینا کے لیے کر رہے ہیں مگر میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ مجھے کسی بھی قیمت پر  جیل نہیں بھیج گئے مدیحہ نے  یقین سےکہا  تو  اس کا  یقین دیکھا کر حمزہ تنظزیہ مسکرایا  

اتنا یقین اگر آپ نے پہلے کیا ہوتا تو میں ضرور اس پر پورا اتراتا مگر اب نہیں  اور ہاں  آپنا جواب کل کو سوچ سمجھ کر  دئے گا اور اگر انکار ہوا تو انجام کی ذمہ دار آپ خود ہوگئی 

حمزہ سرد لہجے میں کہہ کر وہ سے چلا گیا

‏‏یادوں میں رقص کر ، نہ خوابوں میں رقص کر•••☆

تو تاحیات آ میری بانہوں میں رقص کر•••☆

زریام  زرتاشیہ کو اس کے کمرے میں لے آیا  اور اسے بیڈ کی طرف دھکا دے کر چھوڑا  

اور خود کمرے میں  ادھر ادھر چلنے لگا شاید یہ ایک طریقہ تھا  غصے ختم کرنے کا 

اور زرتاشیہ  جو دھکا لگنے سے بیڈ پر گری تھی جس وجہ سے اسے کوئی چوٹ نہیں آئی وہ زریام کو اتنے غصے میں دیکھا کر ڈری اس لئے چپ چاپ اسے کو چکر لگاتے دیکھ رہی تھی 

آپ نے انکار کیوں کیا  زرتاشیہ  زریام نے غصے سے پوچھا  

اور زرتاشیہ اور بھی زیادہ  ڈری کیونکہ  زریام اسے ہمیشہ  تاشیہ بلاتا تھا جب وہ بہت زیادہ غصے میں ہوتا تب اسے اس کے نام  سے  بلاتاوہ ہ ہ ہ ہ ہ  خان ن ن ن زرتاشیہ نے  ڈرتے ہوئے کہا کیونکہ زریام کی آنکھوں میں اتر تی وحشت دیکھ کر اسے کے باقی الفاظ کہی دم توڑ گئے 

کیا وہ وہ لگا رکھی ہے زرتاشیہ  زریام نے سرد لہجے میں کہاجس پر زرتاشیہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں   جسے دیکھ کر زریام کے دل کو کچھ مگر اب اگر وہ اس سے پیار سے بات کرتا تو اس نےاور بگڑ جانا تھا مگر اس کے آنسو بھی تو برداشت نہیں کر سکتا  

اب رونے کیا فائدہ  انکار سے پہلے سوچتی آپ اس بار زریام نے نرم لہجے میں کہا  

سو ں سوں میں نے آپ سے پہلے بھی سوں سوں کہا تھا کہ میں آپ کو معاف سوں سوں نہیں کر رو گئی مگر پھر بھی آپ نے رخصتی کی بات کی سوں سوں 

زرتاشیہ نے زریام کا نرم لہجے سن کر سوں سوں کرتے ہوئے کہا 

تاشیہ  زریام نے گمھبیر آواز میں پکار تو زرتاشیہ کے دل کی ڈھڑکن بڑھی  

اگر آپ نے  اب انکار کیا تو پہلے تو میں نے صرف تین سال کا ہجر دیا تھا اب میں ساری زندگی آپ کو نظر نہیں  آو گا زریام نے گھمبیر آواز میں کہا  

تو اس کے پھر سے ہجر کی بات پر زرتاشیہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا 

دل تک کہ ڈھڑکنا بھول گیا اسے لگا ایک دم سب اس سے دور ہوجائے گئے اس لیے بغیر کچھ سوچے سمجھے اس نے ایک تھپڑ  زریام کے سینے پر مار اس کے بعد وہ رکی نہیں بلکہ اپنے نازک ہاتھ   مکے  تھپڑ مارتی رہی زریام بغیر کسی تاثرات کے ویسے ہی کھڑا تھا وہ جنتا تھا وہ اپنا غصہ ایسے ہی نکالے گئی 

جب مارتے مارتے تھک گئی تو قس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر  رونے لگیاس دوران زریام نے نے اسے رونے دیا جب وہ اپنے دل کا غبار نکالنے کے  دوری ہوئی تو زریام نے مسکرا کر اسے دیکھ  

اب کیسا لگ رہا ہے آپ کو زریام نے نرم لہجے میں پوچھا  

آپ کو کیا فرق پڑتا ہے مجھے کیسا لگ رہا ہے  آپ کے لئے تو میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی آپ کو فرق پڑتا ہے کہ میں جیو یا مرو 

زرتاشیہ  زرتاشیہ کے مرنے کی بات پر زریام نے اس کی بات درمیان میں کاٹ کر  دھاڑا 

آج تو آپ نے یہ بکواس کر لی اگر ائیند مرنے کی بات کی تو میں خود آپ کو مار کر اپنے آپ کو بھی ختم کر لوں گا زریام نے  سرد لہجے میں کہا تو زرتاشیہ کو بھی اپنے بولے گئے الفاظ کا احساس ہوا  

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی کہ زریام بول پڑا 

کل آپ کا جواب جو بھی ہوگا اس سے میں فیصلہ کرو گا کہ مجھے کیا کرنا ہے اگر آپ کا جواب نہ ہوا تو پھر آپ میری شکل دیکھنے سے بھی ترس جائے گئی 

زریام نے سپاٹ لہجے میں کہا  اور غصے سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا  وہاں سے چلا گیا  

پیچھے زرتاشیہ  روتے ہوئے وہی بیٹھ گئی 

_________________

اگے دن کوثر بیگم نے  زرتاشیہ سے پوچھا تو اس نے چپ چاپ   یہ کہہ دیا کہ جیسی آپ کی مرضی

مگر وہ زریام کو بخشنے کا کوئی بھی ارادہ نہیں رکھتی تھی اس نے سوچا لیا تھا کہ شادی کہ بعد وہ زریام کو ناکو چنے نہ چبوائے تو اس کا نام بھی زرتاشیہ نہیں  

دوسری طرف  نجمہ بیگم کے پوچھا تو دونوں نے بھی کہا کہ جیسی آپ کی مرضی  

جس پر وہ بہت خوش ہوئی 

دیکھو مدیحہ اور مبشرہ  تم لوگ یہ نہ سمجھنا کہ مجھے پر تم دونوں بوجھ ہوا نہیں  میرے لئے تو تم دونوں اللہ کی رحمت ہو مگر میں دل سے چاہتی ہوں کہ تم دونوں کی شادی  انہیں لڑکوں سے ہواوہ مجھے بہت اچھے لگے تم دونوں کے لئے تمہارے باپ اور بھائی کی وجہ سے جتنی بدنامی ہماری ہوچکی ہے وہ تو بھائی صاحب اچھے ہیں جنہوں نے  ہمیں ابھی تک اس گھر میں ویسے ہی رہنے دیا جیسے ہم پہلے رہتے ہیں ورنہ کون اتنا کرتا ہے کہ ان کی اکلوتی اولاد  کو بہت بار مارنے کی کوشش کی مگر پھر بھی انہوں نے  ہمیں کچھ نہیں کہا کوئی طعنہ نہیں دیا نہ بھائی صاحب نے نہ نوشین بھابھی نے یہ تو ان کا احسان ہے ورنہ جتنا ہم خاندان میں بدنام  ہوئے ہیں مجھے تو ڈر تھا کہ تم دونوں کے لئے کوئی رشتہ نہیں آئے گا مگر مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ اتنے اچھے رشتے بھی تم دونوں کے لئے  آسکتے ہے نجمہ بیگم نے روتے ہوئے کہا  تو وہ دونوں بھی رونے لگ گئی 

مما آپ مت روئے آپ جہاں کہیں گئی ہم وہی شادی کرئے گیں مدیحہ نے  نجمہ بیگم کے  گلے لگ کر کہا  

تو مبشرہ نے فورا اثبات میں سر ہلایاجس پر  نجمہ بیگم مسکرائی  اچھا آپ دونوں اپنا ایموشنل سین کو بند کرئے ورنہ میں نے بھی رونے لگ جا نا ہے مبشرہ نے کہا تو مدیحہ اور نجمہ بیگم مسکرائی  

مما  مجھے بھوک لگی ہے جلدی سے اٹھے  اور کچھ کھانے  کا انتظام کرئے پلیز  مما مدیحہ نے  بات بدلنے کےلیے کہا اور اس میں کامیاب بھی  ہو گئی  وہ واقع ہی نجمہ بیگم  کچن کی طرف چلی گئی  اور مبشرہ بھی ان کے پیچھے ان مدد کرنے چلی گئینوشین بیگم نے  صوفیہ بیگم کو مثبت جواب دے دیا جس کی وجہ سے ساحل کی امی اور ابو بھی آگئے اور آج وہ سب دن رکھنے جارہے ہیں  شاہ حویلیاس وقت سب لوگوں  لاونج میں بیٹھے ہوئے  ڈیٹ ڈیسائیڈ کر رہے تھے شادی کی  جب احمد شاہ  بولے 

ہمیں  ڈیٹ آج سے دس دن بعد کی رکھ لینی چاہیے احمد شاہ نے سنجیدگی سے کہا تو سب ان کی بات سے متفق ہوئے کہ تب ہی لاونج میں موجود تمام لوگوں کو  ایک ویڈیو وصول ہوئی 

سب نے ویڈیو   اوپن کی تو سامنے کا منظر دیکھا کر وہ سب حیران ہوئے  کیونکہ سامنے ہی زرمینے  زرتاشیہ  مدیحہ اور مبشرہ  کو کسی نے بہت بے دردی سے مار رہا ہے اور وہ چاروں  کسی زنجیر سے باندھی ہوئی ہے اور مسلسل چیخ رہی ہے یہ ویڈیو دیکھ کر  غزلان شاہ  کو  اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوئی  

وہ جلدی سے خان پلیس کی طرف بھاگا کیونکہ  زرمینے اور باقی چاروں لڑکیاں  خان پیلس میں تھی اس لئے تمام لوگوں اس کی طرف بھاگئے 

مگر سامنے کا منظر دیکھا کر جیسے ان کی جان میں جان آئی  

کیونکہ سامنے ہی وہ چاروں  کسی بات پر ایک دوسرے کے ساتھ  بحث کم اور لڑا زیادہ رہی تھی تب ہی ایک ملازم  ان کے لئے جوس اور سنیکس لے کر آیا

اس سے پہلے کہ وہ تمام چیزیں پکڑتی کہ تب ہی غزلان شاہ نے جلدی سے وہ سب کچھ ان کی پہنچ سے دور کر دیا 

تمام لوگوں کو یہاں دیکھ کر  وہ سب حیران ہوئی کیا ہوا زرمینے نے پوچھا  تو صوفیہ بیگم اور کوثر بیگم نے آگے  اسے اپنے ساتھ لگایا وہی نجمہ بیگم نے بھی اپنی بیٹیوں کو گلے لگایا تو نوشین بیگم نے  زرتاشیہ کو اپنے گلے لگا یا تم چاروں ٹھیک ہوں  زریام نے تشویشی انداز میں پوچھا  

جس پر زرمینے نے ناسمجھی سے اسے دیکھا اور پھر ایک طرف ساکت کھڑے غزلان شاہ کو  جو جب سے آیا ہے ویسے ہی کھڑا ہے زرمینے نے اسے دیکھ کر ائی برو اچکائی  جیسے پوچھا رہی ہوں کیا ہوا ہے  جس پر غزلان شاہ نے بغیر کچھ کہے وہاں سے  شاہ حویلی  آگیا 

برو کیا ہوا ہے ابھی زرمینے پوچھ رہی تھی کہ دوبار میسج آیا   

جو کہ ایک وائس میسج تھا زریام نے جلدی سے اوپن کیا تو آواز کی ربورٹ کی تھی 

تم لوگوں کو میں نے صرف یہ سمجھنے کے لئے ویڈیو  بھیجی ہے  کہ بہت جلد  ان سب کے ساتھ میں یہ سب کرو گا اور تم سب دیکھتے رہ جاو گئے بہت مان ہے نا اس زرمینے شاہ کو اپنے آرمی میں ہونے کا اور اس کی ٹیم کو تو اب میرے ٹارگٹ پر تم سب کی جانیں ہوگئی ہمت ہے تو بچا لوں افسر زریام اور ساحل حمزہ   ویسے بزدل مجھے مت سمجھنا کیونکہ میں نے تم سب کی دکھتی رگ پر وار کیا ہے  ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا  اورمکرو قہقہے لگاتے ہوئے کہا  

اور وہی وائس ختم ہوئی سب گھروں والوں نے حیرانگی سے وائس سنی 

اور زرمینے کو معاملہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں  لگی 

ساحل  جلدی سے اس نمبر کی لوکیشن معلوم کرو حمزہ اس نمبر کے بارے میں معلومات دوں اور برو آپ زرا اس آواز کو ڈی کوڈ کریں زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو سب جلدی سے اپنے اپنے لیپ ٹوپ لئے کر آگیے 

آپ سب لوگوں  شاہ حویلی  جائے موم خالہ آپ سب لوگوں نے ایک ساتھ رہنا ہے ہم معلوم کر رہے ہیں کہ کون ہے یہ شخص  تب تک آپ لوگوں شاہ حویلی جائے  زرمینے نے اپنی گن نکالتے ہوئے کہا اور ان سب کو شاہ حویلی  چھوڑ نے گئی آپ میں سے کسی نے بھی گھبرانا نہیں  موم آپ نے باہر نہیں آنا اور خان پلیس کی طرف تو بالکل نہیں  کیونکہ ہم یہاں  ابھی شفٹ ہویے ہیں تو مجھے  اپنے ملازمین پر اعتبار نہیں  ہے  پتا نہیں کون ملا ہو اس سازش میں اس لئے آپ سب کا یہاں رہنا سیف ہے  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو  سب  نے اثبات میں سر ہلایا  

کہ تب ہی حمزہ ساحل اور زریام بھاگتے ہوئے وہاں ائے 

کیا ہوا ہے برو زرمینے نے پوچھا 

وہ خان پلیس میں بلاسٹ ہوا ہے 

کیا زرمینے نے چیخ کر پوچھا  

ہاں  حمزہ نے سنجیدگی سے کہا  

سب ٹھیک ہے  زرمینے نے سنجیدگی سے پوچھا  

ہاں  میں تمام ملازمین سے انفورمیشن لے رہا تھا باہر گارڈن میں اور یہ دونوں  اس نمبر کے بارے میں پتا کر رہے تھے اس لئے ہم سب بچ گئے مگر پلیس سارا تباہ ہوگیا ہے زریام نے سنجیدگی سے کہاجس پر تمام لوگ  ڈر گئے کہ اب یہ کونسی مصیبت آگئی  ہے ان کی زندگی میں  

وہ شخص لاکھ میرے واسطے صحرا ہی سہی! 

پر اسکے ساتھ کوئی تشنگی نہیں مجھکو   

ہاں یہ سچ ہے  میں اس لڑکی پہ جان دیتا ہوں

اور اس پہ کوئی بھی شرمندگی نہیں مجھ کو۔۔۔۔۔۔

غزلان شاہ  بس زرمینے کو دیکھ رہا تھا جب زرمینے اس کے پاس گئی 

سائیں زرمینے نے پکار  مگر جواب نادر  غزلان شاہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا اور زرمینے نے  صاف اس کی آنکھوں میں بے یقینی کو دیکھ

سائیں میں بالکل ٹھیک ہوں زرمینے نے  کہا 

وہ صرف ایک ویڈیو تھی جو کہ کسی نے ایڈیٹ کی ہوئی تھی زرمینے نے غزلان شاہ کی طرف دیکھا کر کہا 

ہمممم آپ ٹھیک ہیں  غزلان شاہ نے پوچھا  

جی میں ٹھیک ہوں  زرمینے نے کہا  

ہممممم ہم ڈر گئے تھے بہت اگر آپ لو کچھ ہوجاتا تو ہم کیا کرتے غزلان شاہ نے  سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے ضبط سے کہا 

ارے ایسے کیسے ہمیں کچھ  ہوسکتا ہے  بھلا جب تک ہم آپ کو بتا نا دے گئے کہ زرمینے  ہے کیا تب تک ہم اس دنیا سے نہیں جائے گئے زرمینے نے مسکرا کر کہا  

مگر جب نظر سامنے غزلان شاہ پر پڑی تو فورا مسکراہٹ  سمٹی 

کیونکہ وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے ہی گھور رہا تھا  

ابھی وہ کچھ کہتا کہ ان کو ساحل کی آواز آئی 

تو زرمینے جلدی سے اس کی طرف بڑھی 

زر یہ نمبر اخری بار شاہ پلیس میں تھا اس کے بعد یہ بند ہوگیا ساحل نے کہا تو ہمیں یہ نہیں پتا چل سکتا کہ اس وقت یہ نمبر کہاں ہے جس پر ساحل نے نفی میں سر ہلایا  

کیوں  زرمینے نے پوچھا  

کیونکہ یہ نمبر کی سم کسی نے توڑ دی ہے اب ہمیں کچھ بھی نہیں  پتا لگ سکتا ساحل نے کہا

ہمیں اس آدمی کے بارے میں بھی  نہیں  پتا لگ سکتا کیونکہ یہ سم جس کے نام پر  ہے اس شخص کا دو دن پہلے  فون  چوری ہوگیا تھا   حمزہ نے سنجیدگی سے کہا تو زرمینے نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

اب زریام نے کہا 

اب کیا کچھ نہیں زرمینے نے کہا 

کہ تب ہی ماہ نور  لاونج میں آئی اس وقت وہ پولیس کے یونیفارم میں تھی جو کہ اس پر بہت جچ رہا تھا اوپر سے وہ تھی بھی بہت خوبصورت  

اسلام وعلیکم  ماہ نور نے اپنی ساحرانہ آواز میں کہا  تو سب نے چونک کر ماہ نور کی طرف دیکھا 

جہاں ساحل زریام اور حمزہ ماہ نور کو دیکھ کر حیران ہوئے  وہی زرمینے کی آنکھوں میں سرد تاثرات آئے  ماہ نور کو دیکھا کر اور یہی حال ماہ نور کا تھا سامنے کھڑی زرمینے کو دیکھ کر  اس کی بھی آنکھیں سرد ہوگئی  جس میں صرف سرد ہی تاثرات تھے 

پھر وہ دونوں آہستہ آہستہ  چلتی ہوئی ایک دوسرے کے روبرو ہوئی  

ای سی پی ماہ نور  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

افسر زرمینے شاہ  ماہ نور نے بھی اسی کے انداز میں کہا 

 تم یہاں کیا کر رہی ہوں زرمینے نے  سرد لہجے میں پوچھا  

میں جہاں مرضی جاو تم کوئی حق نہیں رکھتی مجھے سے پوچھنے کا ماہ نور نے غصے سے کہا  

اوکے تو پھر جیسی تمہاری مرضی زرمینے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا 

جس پر ماہ نور نے اپنی  نظریں کا زاویہ بدلہ اور سامنے موجود ساحل کی طرف گئی  

افسر ساحل میں تو آپ لوگوں کو یاد ہی ہوگئیاس وقت سب لوگوں لاونج میں بیٹھے  ہوئے  تھے جب کہ زرمینے زریام اور ساحل مسلسل  کسی نہ کسی سے کنٹیکٹ  کر اس دھماکے کے بارے میں پتا لگانے کا کہہ رہے تھے کہ تب ہی ماہ نور  لاونج میں آئی اس وقت وہ پولیس کے یونیفارم میں تھی جو کہ اس پر بہت جچ رہا تھا اوپر سے وہ تھی بھی بہت خوبصورت  

اسلام وعلیکم  ماہ نور نے اپنی ساحرانہ آواز میں کہا  تو سب نے چونک کر ماہ نور کی طرف دیکھا 

جہاں ساحل زریام اور حمزہ ماہ نور کو دیکھ کر حیران ہوئے  وہی زرمینے کی آنکھوں میں سرد تاثرات آئے  ماہ نور کو دیکھا کر اور یہی حال ماہ نور کا تھا سامنے کھڑی زرمینے کو دیکھ کر  اس کی بھی آنکھیں سرد ہوگئی  جس میں صرف سرد ہی تاثرات تھے 

پھر وہ دونوں آہستہ آہستہ  چلتی ہوئی ایک دوسرے کے روبرو ہوئی  

ای سی پی ماہ نور  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

افسر زرمینے شاہ  ماہ نور نے بھی اسی کے انداز میں کہا 

 تم یہاں کیا کر رہی ہوں زرمینے نے  سرد لہجے میں پوچھا  

میں جہاں مرضی جاو تم کوئی حق نہیں رکھتی مجھے سے پوچھنے کا ماہ نور نے غصے سے کہا  

اوکے تو پھر جیسی تمہاری مرضی زرمینے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا 

جس پر ماہ نور نے اپنی  نظریں کا زاویہ بدلہ اور سامنے موجود ساحل کی طرف گئی  

افسر ساحل میں تو آپ لوگوں کو یاد ہی ہوگئی 

تم کو جہانِ شوق و تمنا سے کیا ملا

ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں

تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا

شرمندہ ہیں اُس میں بہت خم ملے تمہیں

یوں ہو کہ کوئی اور ہی حوّا ملے مجھے

ہو یوں کہ کوئی اور ہی آدم ملے تمہیں

🖤🌼

آ ماہ نور نے  تنظزیہ لہجے میں پوچھا 

جس پر ساحل کے ساتھ حمزہ نے بھی اثبات میں سر ہلایا  

ماہ ہم تمہیں بتانے ہی والے تھے  زرمینے نے جلدی سے کہا 

کب جب ان سب کی شادی ہوجاتی تب جب تمہاری شادی ہوجاتی کب بتانے والی تھی آپ افسر زرمینے  ماہ نور نے غصے سے پوچھا  

یار میں اپنی شادی کا کارڈ تمہارے گھر پہنچانے والی تھی کہ تب ہی یہ دھماکہ ہوگیا زرمینے نے صلہ انداز اپناتے ہوئے کہا 

ارے اچھا ہوا جس نے بھی یہ دھماکہ کیا ہے کم از کم مجھے پر تم سب کی اصلیت تو آگئی کہ کیسے لوگوں سے میں نے امیدیں رکھی ہوئی تھی ارے مجھے تو پہلے ہی تم لوگوں کی نیتوں پر شک تھا تم لوگوں تو چاہتے ہی نہیں کہ مجھے پیسے ملے اس لئے ہی تو مجھے دن رکھنے کے لئے بھی نہیں بلایا اور تم خان کے بچے تمہیں تو میں چھوڑ گئی نہیں  دودھ پلائی کی رسم تو میں ہی ہرو گئی آخر کو زرمینے کی بہن ہوں میں  ماہ نور نے سب کی بے عزتی کرتے ہوئے کہا 

اور اگر  کسی نے میرے حق پر ڈاکا مارنے کی کوشش کی تو میں اس کے ساتھ بھی وہی کرو گئی جو میں نے پچھلے گھر کے ساتھ کیا ماہ نور نے دھمکی دی 

آپ نے پچھلے گھر کے ساتھ کیا کیا  مبشرہ نے ڈرتے ہوئے پوچھا  

ہاو سویٹ تم کون ہوں ماہ نور نے  مبشرہ کو دیکھ کر پوچھا 

میں مبشرہ ہوں اور آپ کون مبشرہ نے اپنا نام بتانے کے بعد اس سے پوچھا 

میں اے سی پی ماہ نور  ماہ نور نے مسکرا کر کہا  

اچھا تو آپ نے پچھلے گھر کے ساتھ کیا کیا  مبشرہ نے پھر پوچھا 

ارے کرنا کیا تھا انہوں نے میری بات نہیں مانی میں ان لو چھوڑ کر یہاں آگئی اب اگر تم لوگوں نہیں مانو گئے تو میں تم لوگوں کو بھی چھوڑ دوں گئی ماہ نور نے تفصیل سے کہا  تو  مبشرہ کا اس کی بات سن کر منہ کھل گیا جسے ماہ نور نے مسکراتے ہوئے بند کیاہاں چھوڑ نا تو ان کی عادت میں شامل ہے یہ آواز  ساحر شاہ کی  تھیں  جو یہاں غزلان شاہ  سے ملنے انے والے الیکشن  کے بارے میں  ڈسکس کرنے آیا تھا اس کی آخری بات سن کر بولا تو سب نے چونک کر اسے دیکھا  جب کہ ماہ نور اس کو دیکھ کر وہاں سے جانے لگی کہ وہ بول پڑاغزلان زرا باہر آنا مجھے کچھ ڈسکس کرنا ہے ساحر نے سپاٹ لہجے میں کہا تو احمد شاہ نے اسے دیکھا  

ساحر بچے آپ تو گھر کے فرد ہوں تو آپ یہاں ہی بیٹھ کر بات کر لیں احمد شاہ نے کہا  

نہیں انکل مجھے اس علاقے کے لوگوں سے بھی ملنا ہے اس لئے میں نے غزلان کو کہا کہ وہ باہر آجائے  ساحر نے کہا تو  احمد شاہ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

ساحر تم چلو میں آتا ہوں غزلان شاہ نے کہا تو  ساحر نے ایک نظر   سامنے کھڑی  دشمن جاں کو دیکھا اور پھر حسرت سے  وہاں سے چلے گیا 

ہاں اسے آج بھی یہ حسرت تھی کہ وہ دشمن جاں اسے روکے گئی مگر ضروری نہیں کہ ہر حسرت پوری ہوں اور ساحر کی یہ حسرت ابھی تک تو پوری نہیں ہوئی اور اگے کا پتا نہیں  

ہم وہ گوہر نایاب کہ جنکی طلب شاہوں کو 

ہائے وہ بد بخت ہمیں پا کے گنوانے والے __ 💕اس کے جانے کے بعد ماہ نور  کے چہرے پر  پھر سے وہی شرارتی مسکراہٹ آگئی 

مما  یار آپ میرے لئے کچھ اچھا سا بنائے لئے قسم سے بہت بھوک لگی ہوئی ہے   ماہ نور نے  صوفیہ بیگم سے کہا  تو  وہ مسکرائی اور اس کے لئے کچھ بنانے کے لئے کچن کی طرف چلی گئی  

ان کے جاتے ہی ماہ نور کے چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات آگئے 

کیا آپ بھی میری بہن ہے زرتاشیہ جس کی سوئی ابھی تک ماہ نور کے  زرمینے کی بہن کہنے پر آٹکی ہوئی تھی بھولی 

جس پر زریام نے گھورا 

جب کہ باقی سب کے چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ آگئی 

ارے نہیں  میں اس کی سگی نہیں  منہ بولی بہن ہوں  ماہ نور نے منہ بسورا کر کہا  

جس پر زرتاشیہ نے شکر کیا ورنہ وہ ہب سے یہی سمجھ رہی تھی کہ یہ لڑکی بھی ریاض شاہ کی بیٹی ہے  اور اس کی اور زرمینے کی بہن 

اور اب اسے اپنی کم عقلی کی وجہ سے شرمندگی بھی ہورہی تھی اس لئے وہ جلدی سے صوفیہ بیگم کے پیچھے کچن میں گئی 

واہ واہ اب سے ہی ساس کو قابو کرنے کے طریقے واہ ماہ نور نے زرتاشیہ کو کچن میں صوفیہ بیگم کے پاس جاتے دیکھ کر کہا 

ماہ نور  کوئی معلومات ملی تمہیں  زرمینے نے سنجیدگی سے کہا 

ہمممم ملی ہے یہ جو کوئی بھی ہے وہ صرف تمہارا ہی دشمن ہے باقی سب سے اس کی کوئی خاص دشمنی نہیں ہے   

اس لئے سب سے ذیادہ احتیاط تمہیں ہی کرنا پڑے گا مگر پھر بھی ہمیں گھر والوں کے لئے  بھی سیکیورٹی  ٹائٹ کرنی پڑے گئی

دیکھنے میں تو ......محبت کی غزل جیسے ہو😍

تم پہ جچتا ہے بھلا ....ایسا ! فسادی لہجہ__🙈😝

 اور جیسا کہ شادی ہے تو اس لحاظ سے بھی ہمیں خاص احتیاط کرنی پڑے گئی ماہ نور نے کہا  تو  چاروں نے اثبات میں سر ہلایا  

پھر ایسے ہی  باتوں میں  کھانا کھایا گیا  اور سب سوگئے 

ماہ نور نے  گارڈ کے ساتھ ساتھ  پولیس افسر کو بھی حویلی کی حفاظت کے لئے لگا دیا  اس دوران شادی کی  تیاریوں بھی شروع ہوچکی تھئ 

ساری شاپنگ  کرنے کے لئے غزلان شاہ   گھر  میں ہی ہر دوکان دار کو بلا دیا تاکہ و انہیں باہر جانا ہی نہ پڑے  کپڑوں کے لئے پورا بوتیک ہی حویلی میں  موجود تھا غرض  ہر چیز حویلی میں ہی انہیں مہیا کر دی تاکہ ان سب کو کہی جانا ہی نہ پڑے 

آج غزلان شاہ اور زریام کی  مہندی جبکہ ساحل اور حمزہ کا نکاح  تھا 

آج شام سے ہی حویلی  میں ہر آنے والے انسان کی چیکنگ کی جا رہی تھی 

حویلی کو بھی دولہن کی طرح سجایا گیا تھا 

جب کہ دولہنوں کو تیار کرنے کے لئے  ملک کی مشہور  میک اپ آرٹسٹ آئی ہوئی تھی 

 یار جلدی کرو آج لیٹ مت کروانا میرا پہلا پہلا نکاح ہے ساحل جو سب سے پہلے تیار ہوکر آیا تھا اب ان سب کو بھی تیار ہونے کا کہہ رہا تھا جب کہ اس کہ پہلے پہلے نکاح والی بات پر سب لڑکوں نے اسے گھورا 

کیا مطلب تمہارا کہ تمہارا  پہلا پہلا نکاح ہے  جیسے ہم سب کا تو یہ بیسواں نکاح ہے نا حمزہ نے  دانت پیس کر کہا تو  ساحل گڑبڑا گیا اسے امید نہیں تھی کہ  حمزہ ایسا بولے گا اس سے پہلے کہ ساحل جوابی کاروائی کرتا کہ غزلان بول پڑا

بس اب لڑانا بند کرو اور اگر تم دونوں بھول نہ گئے ہوں کہ آج تم دونوں کا نکاح ہے غزلان شاہ نے کہاہممم جانتے ہیں کہاج ہمارا  نکاح ہے  اور اس لئے تو ہم سب سے زیادہ خوش ہیں اور دیکھے میں کتنا ہینڈسم لگ رہا ہوں حمزہ نے  غزلان شاہ  کو کہا اور اخر میں بھی تعریف بھی کی 

جب کہ غزلان شاہ نے  اس کی طرف دیکھا جو وائیٹ کلر کے سوٹ میں بہت ہی ڈیشنگ لگ رہا تھا اوپر سے جیل سے سیٹ کیے ہوئے بال جو پہلے ہمیشہ ماتھے پر ایسے ہی بکھرے ہوتے تھے مگر اج ان کو بھی جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا اس سے وہ بہت زیادہ ہینڈسم لگ رہا ہے 

باقی سب نے بھی وائیٹ کلر کے سوٹ ہی پہنے ہوئے ہے ان چاروں کی آج کی ڈریسنگ آیک جیسی ہی ہے جس میں وہ چاروں  کسی ریاست کے شہزادے لگ رہے ہیں اوپر سے ان لے چہرے پر  مسکراہٹ  ان کو بہت ڈیشنگ بنا رہی ہے 

چلو ہم سب نے ایک ساتھ ہی انٹر ہونا ہے اس لئے میں کب سے یہاں ہوں اور حمزہ لگ رہے ہوگئے تم پیارے مگر مجھے سے کم ہی ہوں ساحل نے پہلی بات سب سے اور اخر میں حمزہ سے شوخی سے کہی 

یہ منہ اور مسورا کی دال حمزہ نے جل کر کہا 

جس پر ساحل نے گھورا جب کہ باقی سب کے چہرے پر مسکراہٹ آگئییار مبشرہ کتنی  پیاری لگ رہی ہوں تم آج تو ساحل گیا کام سے   

زرمینے نے سامنے بیٹھی مبشرہ سے کہا تو وہ جھنیپ گئی 

زر آپ بھی بہت پیاری لگ رہی ہے  مبشرہ نے شرما کر کہااس وقت چاروں نے گرین کلر کے شرارےپہنے ہوئے تھے جبکہ ماہ نور نے بلیک کلر کی  فراک کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ سر پر لیا ہوا ہے  

وہ پانچواں ہی آسمان سے اتری شہزادیاں لگ رہی تھی  ابھی وہ یہی باتیں کر رہی تھی کہ ماہ نور ملازمہ کے ساتھ اندر آئی 

آپ یہ سب کچھ یہی رکھ دے ماہ نور نے  ملازمہ سے کہا 

جس پر ملازمہ  چائے اور اس کے ساتھ دیگر لوازمات وہی رکھ کر چلی گئی

یہ لو میں تم سب کے لئے چائے لے کر آئی ہوں وہ بھی اپنی نگرانی میں بنوائی ہے ملازمہ سے تم سب کو کیا  لگا کہ چائے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے تو یہ تم لوگوں کی غلط فہمی ہے 

ماہ نور نے  کہا جس پر سب مسکرائی  

ہاں میں جانتی ہوں اے سی پی ماہ نور جو اتنی کام چور ہے وہ کیسے  خود چائے بنا سکتی ہے زرمینے نے  تنظزیہ لہجے میں کہا تو ماہ نور نے منہ بنایا

اچھا اسے چھوڑو اور چائے پیو اور بتاو کیسی بنی ہے ماہ نور نے ایک بار پھر جوش سے کہا 

پوچھا تو ایسے رہی ہوں جیسےخود بنائی ہوں زرمینے نے جل کر کہا 

ہاں تو میں نے نہیں بنائی تو کیا ہوا ملازمہ سے اپنی نگرانی میں تو بنوائی ہے  ماہ نور نے  مسکرا کر کہا  

جس پر زرمینے خاموش ہوگئی ماہ نور نے چاروں کو چائے سرو کی اور  خود بھی چائے لے کر ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی 

تم لوگوں کو  پتا ہے کہ چائے کیوں پیتے ہیں ہم ماہ نور نے ان سے پوچھا  

نہیں  آپ کو پتا ہے کیوں پیتے ہیں مدیحہ نے پوچھا  

ارے کتنی نالائق لڑکیوں سے ماہ تمہارا پالا پڑا گیا ہے 

ارے اس لئے کیونکہ ہم چائے کو کھا نہیں  سکتے ماہ نور نے ایسے کہا جیسے بہت سمجھدار کی بات بتائی ہوں جبکہ اس کی بات سن کر چاروں نے حیرانگی سے اسے دیکھا  جو اب سنجیدگی سے انہیں ہی دیکھ رہی تھی  

پھر سر جھٹکا جیسے اس کا کچھ نہیں ہوسکتا ہے 

ابھی وہ باتیں ہی کر رہی تھی کہ نجمہ بیگم  ان کے پاس آئی 

جلدی سے ڈوپٹہ ان کے اوپر کرو مولوی صاحب آرہے ہیں نکاح کروانے کے لئے نجمہ بیگم  نے کہا تو ماہ نور نے جلدی سے  مدیحہ اور مبشرہ  کے اوپر بڑی چادر اوڑھی  

________

میں جانتا ہوں محبت سے دیکھتا ہے مجھے

میں سوچتا ہوں کہیں وقت کی یہ چال نہ ہو

ہمارے ملنے کی کوئی صورت نہیں ہے پھر بھی 

یہ لگ رہا ہے خدا کوئی معجزہ کرے گا 

میں سوکھ جاؤں گا اس کی یادوں میں اور اک دن 

وہ اپنی پوروں سے چھو کے مجھ کو ہرا کرے گا 

💛🌸

معید مرزاتب ہی غزلان شاہ  اور ریاض شاہ  اور احمد شاہ  کے ساتھ مولوی اور گواہ آئے 

مدیحہ  ان سب میں اپنے باپ کو نہ دیکھ کر افسوس ہوا  

کاش بابا سائیں آپ نے وہ سب کچھ نہ کیا ہوتا اج آپ کی دونوں بیٹوں کی شادی ہے اور آپ ہی یہاں نہیں ہے  

آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم دونوں اس وقت خود کو کتنا اکیلا محسوس کر رہے ہیں ابھی مدیحہ انہیں سوچو میں گم تھی کہ تب ہی احمد شاہ نے  آگے بڑھ کر مدیحہ  کے سر پر ہاتھ رکھ 

مدیحہ  بچے میری کوئی بیٹی نہیں ہے اور آپ دونوں  مجھے ہمیشہ  آپنی بیٹوں کی طرح ہوں  

 اور آج ہم آپ کے باپ کی جگہ ہے ہم جانتے ہیں کہ ہم آپ کے والد کی  کمی نہیں پوری کر سکتے لیکن ہم پوری کوشش کرئے گئے کہ آپ کو اپنے باپ کی کمی محسوس نہ ہوا  احمد شاہ نے کہا  

نہیں تایا سائیں  آپ نے ہمیشہ ہمیں  با با سائیں سے بڑھ کر پیار کیا ہے اور سب سے بڑھ کر آپ نے ہمیں  ہمارے با با سائیں کی وجہ سے کوئی بات نہیں کی 

اور ہمارا حویلی میں وہی مرتبا ہے جو پہلے تھامدیحہ نے بامشکل اپنے آنسو کو قابو کرتے ہوئے کہا 

 جس پر تمام لوگ مسکرائے 

چلے مولوی صاحب  نکاح پڑھائے  غزلان شاہ نے  ایک نظر چادر میں چھپی ہوئی زرمینے کو دیکھ کر کہا 

مدیحہ واصف  والد واصف شاہ  آپکا نکاح  حمزہ  جبران  والد جبران خان  سے رائج سکہ پچاس لاکھ  کیا جاتا ہے 

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے  مولوی صاحب نے کہا 

جب کہ حمزہ کے نام پر مدیحہ کے دل کی ڈھرکن بڑھی اسے اس کے اخری بار کے الفاظ یاد آئے 

جس پر وہ تلخی سے مسکرائی  

کیونکہ اس کے نزدیک  حمزہ یہ نکاح صرف بدلے کے لئے کر رہا ہے  

 قبول ہے  مدیحہ نے کہا  مولوی صاحب نے پھر وہی الفاظ  دھرائے  

قبول ہے مدیحہ نے کہا  اس طرح مولوی صاحب نے  تین بار پوچھا جس پر مدیحہ نے  تین بار ہی قبول ہے کہا 

پھر اس کے سامنے نکاح نامہ دیا تاکہ وہ اس پر سائن کریں 

مدیحہ کے سائن کرتے ہوئے ہاتھ کانپے یہ لمحے بہت مشکل ہوتا ہے خاص کر کسی لڑکی کے لئے جو اپنی ہر چیز کو اپنے شوہر کے نام کر دیتی ہے 

 اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سائن کیا ایک آنسو نکلا تھا اس کی آنکھوں سے   

چلو کہ بھوگ لیں مل کر سزائے جذبہ و خواب 

نظر نظر سے ملے، دل سے دل ملاتے ہیں 

اسی طرح مبشرہ سے بھی اس کی رضامندی پوچھی جو اس نے دے دی اور پھر اس کے سائن کے بعد غزلان شاہ دونوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر باہر چلا گیا مگر جانے سے پہلے اپنے ہونے کا مان دے کر گیا  جو ان دونوں کے لئے کافی تھا 

اس کے جانے کے بعد زرمینے بھی جلدی سے چادر سے باہر نکلی اور مدیحہ کے گلے لگی 

نکاح مبارک ہوں بھابھی زرمینے نے خوشی سے کہا جس پر مدیحہ کے خوبصورت  چہرے پر  سرخی آئی 

اس کو چھوڑ کر زرمینے  مبشرہ کے بھی گلے لگی 

تمہیں بھی مبارک ہو یار زرمینے نے کہا تو  مبشرہ جھینپ گئی 

یار تم دونوں شرمانا بند کرو  

یار مجھے کچھ کچھ ہورہا ہے ماہ نور  نے اندر آکر کہادوسری طرف  حمزہ کی طرف مولوی گیا 

حمزہ جبران والد جبران خان آپ کا نکاح  مدیحہ واصف والد واصف شاہ کے ساتھ  رائجہ سکہ پچاس لاکھ  کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے مولوی صاحب نے کہا  

تو حمزہ کی آنکھوں کے سامنے وہ رویا رویا چہرے آیا 

قبول قبول قبول ہے  حمزہ نے جلدی سے کہا تو مولوی کے ساتھ سب نے حیرانگی سے اسے دیکھا  پھرایک ساتھ سب کے قہقہے ہوا میں بلند ہوئے وہی ینگ جنریشن نے ہوٹنگ سٹارٹ کر دی جس کو دیکھ کر حمزہ کو اپنی بے اختیار پر جی بھر کر افسوس ہوا   

جب مولوی صاحب نے نکاح  نامہ دیا تاکہ وہ اس پر سائن کریں  تو حمزہ نے مسکرا کر سائن کر دے اس کے اندر ڈھیرو سکون اترا تھا مدیحہ شاہ کے سارے حقوق اپنے نام کروا کر 

اب مولوی صاحب نے ساحل سے پوچھا  جس پر اس نے سکون کے ساتھ قبول ہے کہا اور سائین کر دےاس کے بعد سب اٹھ کر باہر چلے گئے کیونکہ  مردوں کے فنکشن کا انتظام ڈیرے پر کیا گیا تھا جبکہ خواتین کا گھر  اور یہ سب بھی بس نکاح تک تھے جیسے ہی نکاح ہوا سب اب ڈیرے پر جارہے تھے 

 سب خواتین  باہر آگئی اور اب تمام دولہنوں  کو  بھی لے آئی ساتھ 

ہلکی آواز میں  میوزک لگایا ہوا تھا  جس پر مہندی ہے رچنے والی ہاتھوں میں پیا کے ڈالی سونگ چل رہا تھا  اور ایک مہندی والی تمام  لڑکیوں کے ہاتھوں پر مہندی لگا رہی تھی 

اور دو دولہنوں کے ہاتھوں پر 

جب اچانک سپاٹ لائٹ آن ہوئی  

اور سامنے ماہ نور سامنے ہی ایک چئیر پر ہاتھ میں گٹار لے کر بیٹھی ہوئی دیکھائی دییہ سونگ خاص آپ کے لئے ائی نو یہ سونگ مہندی پر نہیں  گا سکتے مگر مجھے اس کے علاوہ اور کوئی سونگ پسن نہیں  آیا اس لئے یہ 

ماہ نور نے کہا اور پھر گٹار کے تارو کو آہستہ اہستہ چھیڑنے لگئی 

مجھے عشق سکھا کر کہ رخ موڑ تو نہ دوں گئے 

رکھو ہاتھ میرے دل پر کہوں کبھی چھوڑ تو نہ دوں گے 

کسی اور کے نہ ہونا تم جیتے جی میں مر جاو گئی 

جو تو نے نظر پھیری تو ٹوٹ بکھر جاو گئی 

ابھی ماہ نور  اگے بولتی کہ اس کی نظر  سامنے کھڑے ساحر کی برف اٹھی جو لیٹ آنے کی وجہ سے یہاں آگیا تھا کیونکہ اسے نہیں پتا تھا کہ یہاں  خواتین کا فنکشن ہے اور جب پتا چلا تو ماہ نور کی خوبصورت آواز سن کر قدم آگے  بڑھنے سے انکار تھے 

اور ماہ نور اپنی آواز کے سحر سے تمام  لوگوں  کو اپنے سحر میں جکڑ رہی تھی جب اس کی نظر  ساحر پر پڑی تو فورا وہاں سے اٹھی اور بھاگنے والے انداز میں اندر چلی گئی 

پیچھے اس کے جانے پر سب ہوش میں ائی  

کوئی جب تم سے کہتا ہے تم اگر دوسروں کی پریشانیاں دیکھو گے تو تمہیں اپنا دکھ ،دکھ ہی نہیں لگے گا وہ دوسرے ہم ہیں  اور کوئی نہیں  

میم سر کا کیا نام لکھوں مہندی والی نے زرمینے اور زرتاشیہ سے پوچھا 

سائیں زرمینے نے مسکرا کر کہا  

جس پر مہندی والی نے سائیں بڑی مہارت سے لکھ 

میم یہ نام اب آپ کے ہسبینڈ کو بہت مشکل سے ملے گا کیونکہ میں نے یہ چھپا کر لکھ ہے تو ان سے آسانی سے ڈھونڈ نہیں ہو گا 

مہندی والی یہ کہہ کر اب زرتاشیہ کی طرف متوجہ ہوئی 

میم آپ بھی نام بتا دے تاکہ میں لکھ سکوں اس نے پوچھا  

کیا ضروری ہے نام لکھنا زرتاشیہ نے منہ بسورا کر کہا  جس پر مہندی والی نے حیرانگی سے اسے دیکھا  

جی میم مہندی والی نے کہا  

اچھا اب مجھے اتنی حیرانگی سے مت دیکھوں ایسا لگ رہا ہے جسے کوئخ عجوبہ ہوں میں زرتاشیہ نے کہا تو  مہندی والی نے جلدی سے نظریں جھکا لی 

خان  لکھ دوں زرتاشیہ نے کہا تو اس نے خاموشی کے ساتھ  ہاتھ پر مہندی کے درمیان  چھوٹا ساخان لکھ دیا 

اور اب وہ مدیحہ کے مہندی لگانے لگئجب مدیحہ بولی  

تم ایسا کرنا کہ میری مہندی پر چجوٹا سا جن لکھ دینا میرے شوہر کا یہی نام ہے مدیحہ نے کہا تو  مہندی والی نے حیرانگی سے اسے دیکھا  

ایسے کیوں  دیکھ رہی ہوں جو  کہا ہے وہ کرو مدیحہ نے زرا روعب دار آواز میں کہا  

تو مہندی والی نے جلدی سے جن لکھ دیا 

مبشرہ سے پوچھا تو اس نے بغیر کسی کی بھی  طرف دیکھے بغیر اونچی آواز میں  کھڑوس کہاجس پر سب نے حیرانگی سے مبشرہ کو دیکھ جب لہ مہندی والی ایسے ہی بیٹھی کھڑوس لکھ دیا شاید اسے معلوم ہوگیا  کہ یہاں سب ایسی ہی ہیں 

جب کہ سب کے دیکھنے پر مبشرہ ضروری شرمندہ ہوئی 

مہندی والی مہندی لگا کر چلی گئی 

اب سب لڑکیاں  مخوزک لگا کر ڈانس کر نے لگی جس پر انہوں نے  دولہنوں کو بھی شامل کرلیا 

اور پھر  ان سب نے خوب ڈانس اور ہلا گھلا کیا رات کے دوبجے نوشین بیگم کے ڈانٹے کی وجہ سے سب اپنے کمرے میں چلی گئی 

ڈیرے پر لڑکوں نے بھی خوب  ہلا گھلا کیا اور پھر واپس حویلی آلر سو گئے سبصبح  سب دیر سے اٹھے اور جلدی سے  ناشتہ کرنے کے بعد انتظامات کو دیکھنے  لگے 

اور دوسری طرف  پارلر والی دولہنوں کو  تیار کرنے کے لئے آئی  

تو سامنے کمرے خالی  تھا جو ملازمہ اسے کمرے میں لے کر آئی اس نے سارا کمرے  کے ساتھ ساری حویلی  بھی دیکھ لی مگر دولہنیں نہیں  ملی جس پر یہ بات پوری حویلی میں پھیل گئی 

اور جب یہ بات ان چاروں کو پتا چلی تو انہوں نے بھی ساری حویلی بھی دیکھ لی مگر ان کو بھی نہیں ملی تمام ملزمین اور گارڈ کی غزلان کے ہاتھوں شامت آگئیاور ساحل اور حمزہ سی سی ٹی وی  فوٹیج دیکھ رہے تھے  جبکہ  زریام مسلسل زرمینے  کی گردن میں لگی ڈیوائس کے  ذریعے ان کی لوکیشن معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا 

سب لوگ بہت پریشان بیٹھے ہوئے تھے جب کہ صوفیہ بیگم کوثر بیگم اور نجمہ بیگم نے تو باقاعدہ رونا شروع کر دیاجبکہ گھر کے تمام مرد لڑکیوں کو ڈھونڈنے کے لئے اپنے سورسز  استعمال کر رہے ہیں جبکہ ساحل اور حمزہ نے جو سی سی ٹی وی  ویڈیو دیکھی تھی اس میں بھی کچھ ہاتھ نہیں آیا ان سب کو غائب ہوئے اب تقریبا پانچ گھنٹے ہو گئے ہیںاگر ان میں سے کوئی نکلا تو یہ دیکھئے گئے کہ سردار غزلان شاہ ہے کہ ابھی میں تم لوگوں کو موقع دے رہا ہوںکیونکہ ساحل وہ حصہ ری کور کر رہا ہے جو ویڈیو میں  غائب ہوا ہے 

غزلان شاہ نے سامنے کھڑے ملازمین کو دیکھ کر  سرد لہجے میں کہا  جبکہ اس کی سرد آواز سن کر تمام ملازمین کے رونگٹے کھڑے ہو ئے 

اس وقت اس کا دل کر رہا تھا کہ ساری دنیا کو آگ لگا دے اور کہی سے بھی اپنی  خانم  لو ڈھونڈ کر لے آئے 

شاہ سائیں اس فوٹوز کے مطابق ان چاروں کو  کسی نے کڈنیپ  کیا ہے  

یہ دیکھے ساحل نے اپنا لیپ ٹوپ  غزلان شاہ  اور زریام خان کے سامنے کرتے ہوئے کہا 

جہاں سامنے ہی چاروں لڑکیوں کو گھیسٹا کر کوئی لے جا رہا ہے اور لڑکیاں شاید بے ہوش تھی اور  اس شخص کے  چہرے پر  ماسک تھا جس کی وجہ سے  اس کا چہرہ  ویڈیو میں نہیں  آیا مگر اس کے ہاتھ کا ایک ٹیٹو دیکھ کر غزلان شاہ  چونکا 

مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی

محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی 

ہمارا دل زرا اکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر 

یونہی بازار آئے خریداری نہیں کرنی 

تحمل سے محبت ، ہجر پتھریلا علاقہ ہے

تجھے اس راستے پر تیز رفتاری نہیں کرنی

غزل کو کم نگاہوں کی پہنچ سے دور رکھتا ہوں 

مجھے بنجر دماغوں میں شجر کاری نہیں کرنی

وصیت کی تھی مجھکو قیس نے صحرا کے بارے میں 

یہ میرا گھر ہے اس کی چار دیواری نہیں کرنیزرمینے  زرتاشیہ  مدیحہ اور مبشرہ  چاروں اس وقت ایک  اندھیر کمرے میں  کرسیوں کے ساتھ   بندھی  ہوئی  تھی  

جب اچانک  زرمینے نے  اپنی آنکھیں کھولی تو پہلے حیرت سے خود کو کسی اندھیر کمرے میں دیکھ کر پھر  اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا تو اسے معاملہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی  

اس نے اپنی آنکھیں بند زور سے بند کر کے کھولی اور اندھیرے میں  دیکھنے کی کوشش کی تو اسے اپنے ساتھ ان تینوں کی موجودگی کا بھی احساس ہوا  

اس سے پہلے کہ وہ ان سب کو اٹھنے کی کوشش کرتئ کہ تب ہی اسے کمرے کے باہر قدموں کی چاپ سنائی دی تو اس نے وسے ہی آنکھیں بند کرلیں  

اور اندر انے والے شخص نے سب سے پہلے  لائٹ جلائی 

 پھر  ان کو دیکھا اور اپنی جیب سے موبائل نکالا کر کسی کو کال کی 

ہیلو بوس ابھی تک ان لڑکیوں کو  ہوش نہیں آیا جی بوس میں جانتا ہوں جیسے ہی ان کو ہوش آجائے گا میں آپ کو انفارم کر دوں گا اس شخص نے  اپنے بوس سے کہا اور پھر ایک نظر ان دیکھ کر باہر چلا گیا 

پیچھے اس شخص کے جانے کا یقین کر کے ذرمینے  اپنی آنکھیں کھولی اور پھر اپنے دماغ کو تیزی سے یوز کرتے ہوئے اردگرد نظر دوڑائی  مگر اسے کچھ بھی ایسا نہیں دیکھائی دیا 

پھر اس نے زرتاشیہ  کی طرف دیکھا اور اپنی کرسی اس کی طرف کھسائی  

زرتاشیہ  زرتاشیہ  اٹھو زرمینے نے زرتاشیہ کو پکارتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا  

مگر زرتاشیہ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اس نے مدیحہ اور مبشرہ کو بھی بلایا مگر جواب نادر 

پھر اس نے اپنے دونوں پاوں ہوا میں بلند کر کہ سامنے بیٹھی مدیحہ کی ٹانگوں پر مارے تو وہ ہڑبڑا کر  اٹھی 

کیا ہے  کیوں میری نیند خراب کر رہی ہوں مدیحہ نے پوچھا 

شش اہستہ  یہاں ہ۔ لوگ کڈنیپ ہوگئے ہیں اور تمہیں  اپنی نیند کی پڑی ہے  زرمینے نے دانت پیس کر کہا  

تو مدیحہ نے بھی حیرت سے ارد گرد دیکھا 

زرمینے ہم  کیا سچ میں کڈنیپ ہوگئے ہیں   مدیحہ نے رونی صورت بنا کر کہا

نہیں  ہم تو یہاں پکنک منانے آئے ہیں اور خبردار اگر تم نے رونے کی کوشش بھی کی تو مجھے سخت زہر لگتی ہیں وہ لڑکیاں جو مشکل وقت میں  اپنے دماغ استعمال کرنے کی بجائے رونے بیٹھ جاتی ہیں زرمینے نے سخت لہجے میں کہا تو  مدیحہ فورا سیدھی ہوئی 

اب کیا کرنا ہے  ہم یہاں سے کیسے  باہر جائے گئے  مدیحہ نے پوچھا  

تم ایسا کرو زرتاشیہ کو اٹھاو زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو مدیحہ نے زرتاشیہ کو  پکارا  مگر جواب نادر  

جس پر زرمینے نے  دانت پیس کر اسے دیکھا 

تمہیں کیا لگتا ہے میں نے اسے نہیں  پکارا ہوگا سب سے پہلے اسے ہی بلایا تھا زرمینے نے کہا  تو  مدیحہ نے بے بسی سے اسے دیکھا  جیسے کہہ رہی ہوں کہ اب میں کیا کرو 

تم ایسا کرو کہ اپنی دونوں ٹانگوں کو اٹھاو اور  زرتاشیہ کی ٹانگوں پر مارو زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو  مدیحہ نے ویسے ہی کیا جس پر زرتاشیہ  کسمسائی مگر اٹھی نہیں  

یہ تو ایسے سو رہی ہے جیسے یہ یہاں  سونے کے لئے  آئی ہے مدیحہ نے جل کر کہا 

تم ایک بار پھر ٹرائی کرو تب تک میں  مبشرہ کو اٹھاتی ہوں

زرمینے نے سنجیدگی سے کہا تو  مدیحہ نے اثبات میں سر ہلایا  

اور ایک بار پھر زرتاشیہ کو اٹھانے لگئ اور اس بار وہ کامیاب  بھی ہو گئیاور زرمینے نے بھی مبشرہ کو اٹھا لیا 

اب سب ہوش میں اگئی تھی 

دیکھو زرتاشیہ تم نے مجھے وہ کانچ کا ٹکڑا دینا ہے تاکہ میں اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کو کھول سکوں  اور جیسے ہی میں اپنے ہاتھوں کو آزاد کروالوں تم دونوں نے اونچا اونچا بولنا شروع کر دینا ہے تاکہ ان لوگوں کو پتا چل جائے کہ ہمیں ہوش آرہا ہے  اور جب کوئی شخص یہاں آئے تو اس کے سامنے  مجھے اٹھانے کی کوشش کرنا مگر میں نے نہیں  اٹھانا ایسے ہی ان کا بوس یہاں آئے گا اور ہمیں اس کے بارے میں پتا چلے گا زرمینے نے ان تینوں کو اپنا پلان سمجھایا اور جس پر انہوں نے  عمل کیا اس شخص نے امید کے مطابق  اپنے بوس کو بلا لیا 

جب اس شخص کا  دوسر ساتھی  وہاں ایا 

 یار یہ لڑکی کیوں نہیں ابھی تک ہوش میں ائی اس شخص نے   زرمینے کو دیکھ کر کیا 

 یار پتا ہے نہ یہ لڑکی آرمی سے ہے اس لیےاسے زیادہ  ڈوز دی ہےاس نے اپنے ساتھی سے کہا اور  خود وہی بیٹھ کر اپنے بوس کا انتظار کرنے لگا 

جب سامنے ہی ایک شخص آیا اور مدیحہ مبشرہ اور زرتاشیہ اس شخص کو دیکھ کر حیران ہوئی کیونکہ ان کے مطابق تو سامنے موجود شخص مر چکا ہے اور اب اس کو اپنے سامنے زندہ اور سہی سلامت دیکھ کر حیران ہوئی  

 کیونکہ سامنے کوئی اور نہیں بلکہ   دوار واصف شاہ  کھڑا تھااس کی امد پر زرمینے نے بھی اپنی آنکھیں کھول لی اور سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کر حیران ہوئی مگر صرف ایک لمحے کے لیے  اگلے ہی پل اس نے اپنی حیرت پر قابو پا لیا اور سپاٹ چہرے کے ساتھ  اسے ہی دیکھنے لگی جو آنکھوں میں نفرت لے کر ان چاروں کو دیکھ رہا تھا 

کبھی کہیں جو ترا مرا سامنا ہوا تو

ہم ایک دوجے کو دم بخود دیکھتے رہیں گے

گھڑی بچھڑنے کی آ گئی ہے، گلے لگاؤ

وگرنہ کب تک یہاں پہ دونوں کھڑے رہیں گےبھائی آپ زندہ ہوں مدیحہ نے بے یقینی سے پوچھا  جس پر دوار نے نفرت سے اسے دیکھ  اور  دوار کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت دیکھ کر مدیحہ کے دل کو کچھ ہوا 

مگر یہاں پرواہ کسے تھی اس کی نظریں تو زرمینے کے اوپر تھی 

زر دوار نے کہا اس کی آواز سرگوشی نما تھی  مگر سامنے موجود زرمینے نے باخوبی سنی اور نفرت سے اسے دیکھا 

تم نے کیا سوچا  کہ میں تمہیںاتنی آسانی سے چھوڑ دوں گا  تو یہ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی  بھول تھی زرمینے

💔تیری ایک جھلک کو ترس جاتا ہے دل میرا 💔

😔قسمت والے ہیں وہ لوگ جو روز تیرا دیدار کرتے ہیں

دوار نے نفرت بھرئے لہجے میں کہا تو زرمینے نے غصے سے اسے دیکھا  

کیسے کیا تم نے اور اس انجیکشن کی ڈوز ملنا بہت مشکل ہے پھر کیسے کیا تم  نے زرمینے نے دوار کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا 

او تو آپ  کو یہ جاننے کی بے چینی ہے زر دوار نے کہا  

ہممممم زرمینے نے نفرت سے ہنکارا بھرا 

جب تم نے مجھے باہر پھینک دیا تھا تو میری حالت  بہت خراب ہو گئی میں نہ تو چل سکتا نہ کچھ بول سکتا نہ خود کچھ کھا سکتا میں سارا سارا دن بھوکا رہتا مگر کوئی بھی مجھے کچھ کھانے کو نہیں دیتا اور اگر کوئی دیتا بھی تو وہ نیچے پینھک دیتا  جسے میں بڑی مشکل سے کھاتا کیونکہ زندہ رہنے کے لئے کھانا ضروری تھا 

اسی طرح میرے دن گزرتے  پھر ایک ڈاکٹر  کسی ریسرچ کے لئے مجھے اٹھا کر لے گیا اور  وہاں اس نے مجھے ٹھیک کیا میں نے ٹھیک ہوتے ہی اس ڈاکٹر کو مار دیا اور  پھر میں تمہیں  یعنی اپنی بربادی کی وجہ کو ڈھونڈنے لگا اور مجھے تم مل گئی اور اب تم میرے سامنے  بیٹھی ہوئی ہوں دوار نے سفاکیت سے کہا  

جس پر زرمینے نے  سرد نگاہوں سے اسے دیکھا  

لالہ مبشرہ نے پکارا تو  دوار نے اسے دیکھا 

تم لوگوں کو  میں نے پتا ہے کیوں  یہاں  کڈنیپ کیا ہے دوار نے اب ان تینوں کو دیکھا کر کہا  

جس پر انہوں نے  سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا  

تم دونوں کا تو میں بھائی تھا تو تم دونوں یہ جانتے ہوئے کہ تمہارے بھائی کو ان لوگوں نے مارا ہے پھر بھی تم ان کی بیوی بننے جارہی تھی تو اس کی سزا تو تمہیں ملنی چاہیے نہ دوار نے سرد لہجے میں کہا 

اور پھر پوری جگہ پر پٹرول چھڑکتا 

ویسے اج میں جارہا ہوں ہمیشہ  کے لئے یہ ملک چھوڑ کر دوار یہ کہتے ہی اس جگہ کو آگ لگا کر وہاں سے چلا گیا 

اور اس کے باہر نکلتے ہی پوری جگہ پر آگ پھیل گئی اور سب کچھ تباہ ہوگیا 

ادھر ماہ نور  اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اور ساتھ میں  غزلان اور زریام  ساحل اور حمزہ  کے ساتھ وہاں آئی اور بھاگتے ہوئے دوار کو پکڑا لیا 

ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا  میں نے اپنا بدلہ لے لیا میں نے سب کو مار دیا 

ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا  

دوار قہقہ لگاتے ہوئے کہتا ہے 

اور سب ایک ساتھ اندر کی طرف بھاگتے ہیں مگر کچھ افسر ان کو اندر نہیں  جانے دیتے 

دیکھیں انسپکٹر اندر ہماری خانم ہے مجھے ان کو بچانے جانا ہے سو مجھے جانے دے غزلان شاہ نے تڑپ کر کہا  اس کا بس نہیں  چل رہا تھا کہ کیسے بھی کر کہ وہ اندر چلا جائے مگر اس کو تین افسر نے پکڑا ہوا تھا اور وہ مسلسل خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا 

افسر آپ لوگوں ہمیں روک نہیں سکتے اندر میری بہن کے ساتھ ہم سب کی بیویاں بھی ہیں تو ہمیں اندر جانے دے ماہ نور ان سب کو کہو زریام  نے سنجیدگی سے کہا  کیونکہ ان سب کو ہی پولیس افسر نے پکڑا ہوا ہے  تاکہ وہ سب اندر نہ جائے کیونکہ وہاں ہر چیز کو آگ لگ چکی ہے اور شاید ہی ہوں کہ اندر کوئی وجود اب تک زندہ ہو گا  اور اب اگر یہ سب اندر جائے گئے تو ان کے بھی بچنے کے چانسس کم ہوگئے آگ بہت جلدی پھیل رہی ہے اور وہ سب کو یہاں سے بیھجنا چارہے ہیں 

ویسے تو فائر بریگیڈ کو کال کر دی ہے اور وہ بھی کچھ ہی دیر میں آرہی ہے مگر تب تک ان کو کیسے بھی کر کے کنٹرول کرنا تھا 

پُوچھیں گے جب عزیز ، تیری خیریت ، تو ہم

کس مُنہ سے کہیں گے کہ"کوئی رابطہ نہیں۔۔۔۔۔۔

______________ 

اگ مکمل طور پر پھیلا گئی تھی کہ تب ہی اچانک ایک دھماکہ ہوا شاید نہیں یقینا اس جگہ کوئی سلنڈر تھا جس کی وجہ سے یہ بلاسٹ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی تمام لوگوں نے  اپنی ہمت ہاری  کیونکہ اب اندر جو بھی وجود ہوگا وہ زندہ تو نہیں ہوگا 

جب سامنے ہی  مبشرہ سہی سلامت بھاگتی ہوئی وہاں آئی اور ساحل کی اس کو سہی دیکھ کر  جان میں جان آئی  اور اس نے بغیر کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر مبشرہ کو  اپنے سینے سے لگائے اور اپنی گرفت مضبوط کی جیسے ابھی بھی ڈر ہو کہ وہ  اسے پھر  سے کھودے گا  

جب مبشرہ  بے جلدی سے اس سے دور ہونے کی مزاحمت کی  جس پر وہ دور ہوا 

وہ لالہ وہ وہاں  زرمینے  وہ وہ مبشرہ نے بامشکل کہا تو سب اس جگہ لی طرف بھاگئے جہاں  اس نے اشارہ کیا تھا  

مگر دامنے کا منظر دیکھا کر  غزلان شاہ کو  لگا کہ اس کی ٹانگوں میں جان ہی نہیں  ہے کیونکہ سامنے ہی زرمینے  جلی ہوئی اور بےہوش پڑی ہے اور مدیحہ اور زرتاشیہ اس کو اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں  

شاید اس کی یہ حالت  ان تینوں کو  بچاتے ہوئے ہوئی تھیاور یہی حال زریام اور حمزہ کا تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی  تو وہ اتنی خوش تھی اور اب اس کی یہ حالت دیکھ کر  ان کے دل کو کچھ ہوا تھا  وہ ان کی بہن سے زیادہ دوست تھی ان دونوں کی جان قید تھی زرمینے میں اور اب اس کو دیکھ کر ان دونوں پر سکت طاری ہوگیا ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں  تھا کہ ان کو ان کی لاڈلی بہن اس حالت میں  ملے گئی اور ان کو تو اسے ہسپتال لے کر جانے کا بھی ہوش نہ رہا وہ تو بس حیرت سے زرمینے کو دیکھ رہے تھے 

جب ماہ نور جلدی سے اگے آئی اور زرمینے کو زرتاشیہ اور مدیحہ کی مدد سے گاڑی میں ڈالا تب جاکر زریام اور حمزہ کو بھی ہوش ائی اور وہ جلدی سے خود بھی اس گاڑی میں بیٹھے حمزہ کی گود میں  بےہوش زرمینے کا سر پڑا تھا جسے وہ مسلسل  تھپتھپا کر اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا 

زرمینے  پلیز  اٹھا جاو اپنے جڑو کو اکیلا مت چھوڑ کر جانا زرمینے  پلیز  تم تو کہتی تھی نہ کہ ہم اس دنیا میں ائے بھی اکھٹے تھے اور جائے گئے بھی اکٹھے تم مجھے یوں اکیلے چھوڑ کر  نہیں  جا سکتی پلیز  زرمینے  اٹھا جاو حمزہ نے روتے ہوئے بے ہوش زرمینے سے کہا 

کون کہتا ہے کہ مرد روتا نہیں  ہے اج اگر کوئی ان تینوں کو دیکھتا تو جانتا کہ مرد روتا ہے مگر اپنی  محبوب عورت  کے لئے 

اس کے لئے جس سے اس نے عشق کیا ہے 

میں دیکھے ہیں اکثر مرد روتے ہوئے اور ناجانے لوگ کیوں کہتے ہیں کہ مرد روتا نہیں  ہے 

تب ہی ہسپتال آگیا حمزہ نے  باہوں میں اٹھا کر زرمینے کو ہسپتال لے کر  گئے اور جلدی سے ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے کیونکہ ان کے ساتھ پولیس تھی تو ڈاکٹر نے بھی جلدی ایکشن لیا اور زرمینے کا علاج  شروع کردیا  اور باہر بیٹھے  حمزہ نے تو اب باقاعدہ رونا شروع کر دیا  کیونکہ جیسی زرمینے کی حالت تھی اس کا بچ پانا نہایت مشکل تھی  اور زریام کا حال بھی حمزہ سے مختلف نہ تھا جب کہ باقی تینوں بھی رو رہی تھی اور آس پاس کے لوگ  یوں کسی مرد کو روتے دیکھ کر اندر موجود شخصیت کی قسمت پر ناز کر رہے تھے تو کچھ دعا کر رہے تھے 

کہ وہ وجود ٹھیک ہوجائے  

__________

غزلان شاہ  تو بے یقینی سے سے ابھی تک اسی جگہ کو ہی دیکھ رہا تھا جہاں  زرمینے کا بے ہوش وجود پڑا تھا  اور اب وہ جگہ خالی تھی ایک انسو تھا جو پلکوں کی باڑ توڑا کر گال پر گرا اور اس کے ساتھ ایک لڑی آنسو کی گررہی اور وہ اسی ہی جگہ بیٹھ گیا وہ شاندر مرد تھا جس نے کبھی اپنے کپڑے تک میں زراسلوٹیں نہیں  پڑنے دیتا اور ابھی اس لڑکی  کے لئے ایسی جگہ پر بیٹھا گیا ہے وہ کوئی معمولی انسان تو نہ تھا وہ تو ایک سردار تھا  بقول لوگوں کہ وہ بہت غصے والا اور مغرور شہزادہ ہے مھر آج وہ مغرور شہزادہ بھی بکھر گیا ایک معمولی لڑکی کی وجہ سے  نہیں  وہ لڑکی معمولی تو نہیں ہوسکتی جس کے لئے تین تین مرد تڑپ رہے ہیں وہ معمولی تو نہیں ہوسکتی  

واقع غالب نے ٹھیک کہا ہے 

عشق نے نکما کردیا غالب 

ورنہ انسان میں بھی بڑے کام کا تھا 

وہ ابھی بھی سکتے ہی حالت میں وہی بیٹھا تھا  جب اس کے گارڈ  وہاں  آئے کیونکہ وہ یہاں  بغیر گارڈ کے آیا تھا 

سر ان میں سے ایک نہ بلایا  تو غزلان شاہ نے اپنی خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ اس کی آنکھوں میں اس وقت اتنی وحشت تھی کہ ایک لمحے کے لیے وہ گارڈ بھی ڈر گیا  مگر پھر حوصلہ کر کے پھر بولا سر وہ سب میم کو لے کر ہسپتال گئے ہیں ہمیں بھی وہی جانا ہوگا چلے سر اس گارڈ نے کہا تو  غزلان شاہ نے چونک کر اس جگہ کو دیکھا جہاں پہلے زرمینے تھی مگر ابھیاس کا کوئی ناموں نشان نہ تھا 

خانم غزلان شاہ بڑبڑایا وہ اب ہوش میں آیا تھا پھر جلدی سے گاڑی میں بیٹھا اور ڈائیور نے جلدی سے گاڑی ہسپتال کی طرف والے راستے میں ڈال دی اس کے پیچھے گارڈ کی بھی دو گاڑیاں تھی 

وہ ہسپتال پہنچایا تو ڈاکٹر کوئی باہر آیا تھا 

دیکھیں پیشنٹ کی حالت بہت خراب ہے ان کی لیفٹ سائیڈ کی ٹانگ بری طرح سے جل چکی ہے اور  اور ان کے پاون کی ہڈی بھی ٹوٹ چکی ہے ایسالگتا ہے کوئی بہت بھاری چیز ان کے پاوں پر لگی ہے جس کی وجہ سے ان کے پاوں کی ہڈی ٹوٹ گئیاور ان کے سر پر بھی بہت زیادہ چوٹ ائی ہے  اس لئے ہمیں ایمرجینی آپریشن کرنا پڑئے گا تو آپ پلیز ان پیپرز پر سائن کر دے  ان کے مطابق اگر آپریشن کے دوران پیشنٹ کو کچھ ہوگیا تو اس کے ذمہ دار ہم نے ہوگئے ڈاکٹر نے پیشے وارنہ لہجے میں کہا  اور کچھ کاغذ زریام کی طرف بڑھائے اور اس کی بات سن کر غزلان شاہ نے غصے سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا 

اور اگے بڑھ کر اس کے گریبان سے پکڑا اگر میری خانم کو کچھ ہوا تو تمہارے اس ہسپتال کو بند کروانے میں مجھے دیر نہیں لگے گئی مجھے میری خانم بالکل ٹھیک چاہیے تو مطلب چاہیےغزلان شاہ نے غصے سے کہا  وہ ایک سلجھ ہوا شخص تھا جو ہر فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لیتا تھا مگر اب وہ کہی سے بھی سلجھا ہوا نہیں لگ رہا ہے وہ تو کوئی دیوانہ ہی لگ رہا تھا  جسے اپنی خانم ٹھیک چاہیے تھی ہر قیمت پر  

اور ڈاکٹر سامنے کھڑے غزلان شاہ کو دیکھ کر گھبرا گیا وہ جو کہتے وہ ضرور کرتا اور اس ہسپتال کو بند کروانے اس کے لئے زیادہ مشکل نہیں تھا 

جب زریام اور ساحل نے اگے بڑھ کر غزلان شاہ سے ڈاکٹر کو  چھڑاوایا تو ڈاکٹر نے گہرا سانس ہوا کے سپرد کیاسائیں  کیا ہوگیا ہے آپ کو یہ ڈاکٹر تو اپنا کام ہی کر رہے ہیں ان سب میں ان کا کیا قصور ہے  زریام نے  سنجیدگی سے کہا  

اور ڈاکٹر آپ اپنا کام کریں یہ لے میں نے سائن کردیں ہیں اپ جاکر آپریشن شروع کریں زریام نے ڈاکٹر سے کہا تو ڈاکٹر  چپ چاپ وہاں سے چلا گیا  اور تھوڑی دیر کے بعد  آپریشن شروع ہو گیا  اور ان سب کی جان اٹکی 

سب لوگ اللہ سے زرمینے کی ٹھیک ہونے کی دعائیں کر رہے تھے  حویلی میں بھی زرمینے کی اطلاع دے دی گئی تھی مگر ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ کوئی بھی ہسپتال نہ آئے اس لئے کوئی بھی ہسپتال نہیں آیا 

آپریشن شروع ہوئئ تقریبا  پانچ گھنٹے ہو گئے ہیں مگر ابھی تک کوئی خبر نہیں آئی  

اب بھی سب ویسے ہی بیٹھے تھے جب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا 

ایم سوری ڈاکٹر نے کہا 

ڈاکٹر کے الفاظ ان سب پر کسی بم کی طرح گرئے اور سب نے بے یقینی سے سامنے کھڑے ڈاکٹر کو دیکھا 

یہ سوچ کر کہ دنیا سے کیا مانگتی پھروں

پھر میں نے ایک شخص خدا سے طلب کیا

_____________

چارسال بعد 

یہ منظر ہے ایک قبرستان کا جہاں کوئی شخص ایک قبر کے پاس کھڑا فاتح پڑھ رہا تھا پھر اس نے کچھ پھول اس قبر پر رکھے اور اس کی بخشش کی دعا مانگ کر اس شہر خاموشاں سے باہر آگیا 

جہاں تین گاڑیاں اور اس کے گارڈ کھڑے تھے غزلان شاہ  سنجیدگی سے چلتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھااور وہ اپنی پوری وجاہت کے ساتھ گاڑی سے باہر آیا اور چلتا ہوا حویلی میں  داخل ہوا

بابا بابا بابا 

جب ایک تین سالہ بچہ بھاگتے ہوئے اس کی ٹانگوں کے گرد لیپٹ گیا  بابا کہتے ہوئے  

اور غزلان شاہ کے  عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی 

آج کیا کیا  آپ نے غزلان شاہ نے محبت سے اپنے تین سالہ بچہ سے پوچھا 

تچھ نی ہم تایا کرتے ہیں شب تو ابنے اب  ہوجاتا ہے 

 (کچھ نہیں ہم کیا کرتے ہیں سب تو اپنے آپ ہی ہوجاتا ہے   ) اس بچے نے اپنی توتلی زبان میں  معصومیت سے کہا  تو غزلان شاہ  کو بے اختیار اس پر پیار آیا واقع ہی وہ بچہ بہت معصوم تھا 

اچھا یہ بتائے کہ اندر کا ماحول  گرم ہے  کیا غزلان شاہ نے رازداری سے پوچھاترم ہے  ترم ہے ( گرم ہے گرم ہے ) اس بچہ نے پھر کہا 

اچھا آپ باہر جاکر کھیلے ہم زرا آپ کی مما کو دیکھتے ہیں غزلان شاہ نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاکر باہر گارڈن کی طرف بھاگا پیچھے غزلان اس کی تیزی پر نفی میں سر ہلاتا ہوا اندر کی طرف بڑھااب اس کارخ اپنے کمرے کی طرف تھا  

جب وہ اندر آیاتو سامنے ہی بیڈ پر اس کی بیوی بیٹھی رو رہی تھی اور اس کو روتے دیکھ کر وہ تڑپا  

کیا ہوا ہے آپ کو آپ رو کیوں رہی ہیں غزلان شاہ نے بے چینی سے پوچھا  

تو اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھ  اور پھر سر جھکا کر رونا شروع کردیا  

 رونا بند کریں خانم ورنہ ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا  غزلان شاہ نے  سختی سے کہا تو وہ اس کے سخت لہجے کی وجہ سے  اور بھی  زیادہ رونے لگی جب غزلان شاہ نے  اسے اپنے سینے سے لگایا 

اور اس کی پیٹھ رب کی 

کیا ہوا ہے  خانم کیوں رو رہی ہیں آپ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ کے آنسو ہمیں تکلیف دیتے ہیں  غزلان شاہ نے محبت سے کہا  

سائیں سائیں ہمارے بال زرمینے نے روتے ہوئے کہا  

کیا ہوا آپ کے بالوں کو خانم  غزلان شاہ نے  ناسمجھی سے پوچھا  

سائیں میرے بالوں کے دشمن نے میرے بال کاٹ دے جب میں سو رہی تھی زرمینے نے ایک بار پھر روتے ہوئے کہا 

ارے واہ کتنی پیاری لگ رہی ہے  آپ اور آپ کے بال تو اور بھی زیادہ  اچھے ہوگئے ہیں  خانم  غزلان شاہ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا 

سچ میں سائیں  ہم اچھے لگ رہے ہیں زرمینے نے بے یقینی سے پوچھا   

جس پر غزلان شاہ نے اثبات میں سر ہلایا  

زرمینے  کا ساتواں مہینہ چل رہا ہے اور وہ اس میں بہت چڑ چڑی ہورہی ہے وہ بات بات پر  رونے لگ جاتی اور رہی سہی کسر ان کا بیٹا حازق  پوری کر دیتا جس کی وجہ سے جن بھی غزلان شاہ  حویلی آتا تو اسے زرمینے  روتے ہوئے ہی ملتی  اور پھر اس کے پیار سے سمجھتا تو وہ سمجھتی ورنہ زرمینے  کسی اور کی بات بھی نہیں  سنتی 

سائیں زرمینے نے  بڑے پیار سے پکارا 

اور وہی غزلان شاہ کو اپنے اردگرد خطرے کی گھنٹی بجتی ہوئی محسوس ہوئی  کیونکہ جب بھی زرمینے ان کو پیار سے بلاتی تو زور کوئی نئ فرمائش ہی کرنی ہوتی 

ہممممم  غزلان شاہ نے  ہنکارا بھرا  

وہ ہمیں گول گپے کھانے ہیں زرمینے نے  پیار سے کہا تو  غزلان شاہ نے اسے آنکھیں دکھائی 

بالکل نہیں  خانم اگے ہی آپ کی طبعیت  خراب رہتی ہے آپ کو ہیلیتھ فود کھانے نہ کہ یہ سب جو آپ کی طبعیت کے لئے بالکل بھی اچھی نہیں  غزلان شاہ نے   سخت لہجے میں کہا تو زرمینے نے ہونٹ باہر نکال کر پھر سے رونے کی تیاری پکڑی اس سے پہلے کہ وہ  رونا شروع کر دیتی کہ

اچھا ٹھیک ہے  غزلان شاہ نے اسے رونے کی تیاری کرتے دیکھ کر ہار مانی جس پر وہ کھل کر مسکرائی 

اور زرمینے کو مسکراتے دیکھ کر غزلان شاہ کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہواہم منگواتے ہیں تب تک آپ فریش ہوجائے تھوڑی دیر کے بعد  اپ کے بھائی بھی آرہے ہیں  غزلان شاہ نے کہا تو زرمینے نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  اور فریش ہونے چلی گئی 

پیچھے  غزلان شاہ  کو اس ہسپتال کا وہ دن یاد آیا جب زرمینے  زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی اور ڈاکٹر نے کہا  کہ ایم سوری اب پیشنٹ  اپنے لیفٹ پاوں کو زیادہ موو نہیں کرسکتی کیونکہ وہ بہت زیادہ فیکچر ہوگیا یہ خبر ان سب پر کسی بم کی طرح گری تھی کیونکہ  اب زرمینے  آرمی  میں بھی نہیں  رہی کیونکہ وہ جسمانی طور پر اب ٹھیک نہیں  ہے  مگر اب پیشنٹ خطرے سے باہر ہے  ڈاکٹر یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا  

تقریبا دو گھنٹے بعد زرمینے کو ہوش آیااور جب اسے اس کے پاوں کے بارے میں بتایا  تو وہ بہت روئی 

اور وہ کسی کت بھی کنٹرول میں نہیں آرہی تھی تب غزلان شاہ نے اسے سمجھایا کہ وہ دوسری طرح بھی اپنے ملک کی  خدمت کر سکتی ہےجیسے لڑکیوں کو  مارشل آرٹ سکھا کر تاکہ وہ اپنی خود حفاظت کرسکے اور ہمارے  ادارے بھی ہے جہاں ہم معذور بچوں کو رکھتے ہیں وہ اپنی خدمات پیش کر کہ اور بھی بہت کچھ کر کے آپ اس ملک کی خدمت کر سکتی ہے  غزلان شاہ نے سمجھایا تو زرمینے نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا  

جب زرمینے  فریش ہوکر آئی تو اسے سوچوں میں گم دیکھ کر غزلان شاہ کے پاس آئی 

سائیں کہاں گم ہیں آپ زرمینے نے منہ بسورا کر پوچھا  

تو غزلان شاہ  سوچو سے باہر آیا 

کچھ نہیں  ائے باہر آپ کے گول گپے آگے ہیں غزلان شاہ نے مسکرا کر کہا  

سائیں آج آپ قبرستان گئے تھے کیا زرمینے نے پوچھا 

اج سے ایک سال پہلے واصف شاہ نے  جیل میں خودکشی کر لی تھی اور غزلان اس کی قبر پر گیا تھا 

ہممم غزلان شاہ نے کہا  

جب باہر  شور کی آواز سے وہ دونوں  لاونج میں گئے اور سامنے کا منظر دیکھ کر حیران ہوئے  کیونکہ  سامنے ہی  ان کا  حازق حمزہ کی بیٹی ایشال کو اپنے پیچھے  کر کے زریام کے بیٹے براق کو گھور رہا ہے 

یہ ڈول میری ہے تم نے کیوں اس سے بات کی حازق نے براق سے کہا 

کیوں یہ ڈول میری بھی ہے تمہارے اکیلے کی نہیں ہے براق نے بھی کہا 

اچھا ہم ڈول سے ہی پوچھا لیتے ہیں کہ وپ کس کی ہے حازق نے کہا  

ایشو ڈول بتاو آپ کس کی ہوں  حازق نے پوچھا  

تمہاری ایشال یہ کہہ کر کھلکھلائی 

جہاں اس کی بات سن کر حازق کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی وہی براق کا منہ بنا 

ما ما  میری ڈول آنی کے پیٹ سے کب باہر آئے گئی مجھے چاپیے نراق روتے ہوئے زرتاشیہ سے پوچھتا ہے کیونکہ آیک دن وہ اسی طرح روتے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ آپ کی ڈول آنی یعنی زرمینے  کے پیٹ میں ہیں اس لئے اس نے پوچھا  

بہت جلد میرے جان زرتاشیہ نے گھبرا کر کہا  

کیونکہ اس کے بیٹے نے سب کے سامنے پوچھا تھا جس کی وجہ سے وہ شرمندہ ہوئی تھیتو دوسری طرف ساحل کے بیٹے نے کوفت سے سب کو دیکھ اور واپس سر جھکا لیا اپنی نوٹ بک پر 

وہ سب خوش تھے کیونکہ اس کو ان کی خوشیاں اس کے ہم سفر کی وجہ سے مل گئی 

مدیحہ بہت ڈر تھی مگر حمزہ نے جب اسے سمجھایا کہ اس نے اسے معاف کردیا ہے اور جو سزا تھی وہ خود ہی اسے مل چکی ہے 

اور زریام نے بھی زرتاشیہ سے معاف مانگ لی اپنے اس دن والے رویے کی وجہ سے 

اور مبشرہ ساحل کے ساتھ بہت خوش تھی 

کہانی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے جیسے حازق براق ایشال اور دانیال  کی 

ختم شدہ 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq  written by  AS Writes Ishq by AS Writes  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment