Pages

Thursday 29 August 2024

Ishaq Zaade Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 2 By Hina Asad New Complete Romantic Novel

Ishaq Zaade Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 2 By Hina Asad  Complete Romantic  Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishaq Zaade Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 2 By Hina Asad Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ishaq Zaade Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 2 

Writer Name: Hina Asad

Category: Complete Novel

"جگنو !!!!!

"چلو نا ضامن !!!!

باہر جا کر جگنوؤں کو دیکھتے ہیں "اس نے معصومانہ فرمائش کی ۔

"باہر بہت ٹھنڈ ہے مجھے نہیں جانا "

"چلو میرے ساتھ  !!!!

 رات کے اس پہر  میں شیر زمان کی سرد ترین آواز ہیر کے کان میں سنائی دی اور وہ اس کی کلائی سے کھینچ کر باہر لے گیا ۔۔۔۔

 رات میں چاروں اوڑھ خاموشی کا پہرہ تھا ۔۔۔آسمان پر جابجا ستارے پورے آب و تاب سے چمک رہے تھے ۔۔۔۔

وہ اسے اپنے ساتھ لان کے پچھلے حصے میں گھسیٹ لایا ۔۔۔۔جہاں رات کے اس پہر جھاڑیوں کے پیچھے ان گنت جگنوؤں کا بسیرا تھا ۔

اس نے ہیر کی آنکھوں سے اپنے ہاتھ ہٹائے ۔۔۔۔

ہیر کی آنکھیں ُکھلتے ہی جگمگانے لگیں ۔تاروں کی طرح جھلملاتے ہوئے جگنوؤں کو دیکھا جو اندھیرے میں دئیے کی مانند روشنی بکھیر رہے تھے ۔

ہیر سامنے کا منظر دیکھ کر اپنی جگہ ساکت رہ گئی گہرے اندھیرے میں لا تعداد  جُگنو جگمگا رہے تھے بلکل ویسے جیسے کالی رات میں سیاہ آسمان پر ستارے چمک رہے تھے  وہ بے یقینی سے سامنے دیکھنے لگی۔۔۔

"چھو لو انہیں "شیر زمان کی آواز اسے قریب سے سنائی دی۔۔۔وہ بھول چکی تھی کہ وہ اس وقت شیر زمان کے ساتھ ہے ۔۔۔یاد تھا تو بس اتنا کہ وہ اپنا من پسند منظر دیکھ رہی ہے۔۔۔۔ 

ہیر کی نظریں تو ان جگمگ کرتے جگنوؤں کو دیکھ خوشی سے جھلملا رہی تھیں۔

اور وہ ُان جگنوؤں سے پھوٹتی ہوئی روشنی کو ہیر کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔ وہ اُس کے چہرہ کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح آج بھی دیکھتا ہی رہ گیا۔۔ہیر کا معصوم چہرہ اُس کی جھیل سی گہری آنکھیں جو اس وقت جگنوؤں کی مانند چمک رہی تھی۔

آٹھ سالہ ہیر جس نے فراک پہنے ہوئے سنہری بالوں کی پونی ٹیل کیے سر پہ سردی کی وجہ سے سکارف لے رکھا تھا ۔شیر زمان نے کچھ جگنوؤں کو مُٹھی میں قید کیے ہیر کے سکارف میں رکھا جن میں سے اس اندھیرے میں روشنی پھوٹ رہی تھی  ،ایسے جیسے جگنوؤں سے بھر دیا آنچل۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

الیکٹرک ٹریڈ مل پر دوڑتی ہوئی دوشیزہ جس نے سیاہ ٹاٹئس اور ریڈ کلر کی چست ٹی شرٹ پہن رکھی تھی ،اس کا پسینے سے شرابور وجود تیز رفتاری سے دوڑنے کی وجہ سے اب تھکنے لگا تھا ،پیسنے کی چند بوندیں اب مشین پر گریں ۔۔۔اس کے سٹریٹ کمر سے نیچے آتے ہوئے بال ہائی ٹیل میں مقید تھے تیز تیز قدم اٹھانے کے بال بار بار لہرا رہے تھے ۔۔۔چند لٹیں گالوں سے چپکی ہوئی تھیں۔یہ ڈار مینشن کی جم کا منظر تھا جہاں یہاں کی اکلوتی وارث عیش ڈار ورزش کر رہی تھی۔

اب وہ ٹریڈ مل سے اتر کر ٹویسٹر پر کمر کی ایکسرسائز کر رہی تھی ۔جس سے اس کی پتلی کمر کی شیپ بنتی تھی ۔

بار بار نگاہیں دروازے کی جانب اٹھ رہی تھیں۔اس نے ایک قہر بار نظر وال کلاک پر ڈالی جہاں سات بج کر پانچ منٹ ہوئے چاہتے تھے ۔۔۔۔

"قاسم !!!!

"زہراں !!!!

کہاں مر گئے سب کے سب ؟؟؟؟

اس سے پہلے کہ وہ ٹویسٹر سے نیچے اترتی ایک غلط موو سے اس کی کمر پر بل ڈلا۔۔۔۔

درد کی شدت سے اس نے آنکھیں میچیں۔۔۔۔

"سوری میڈم جی یہ رہا آپ کا گرم پانی "

زہراں نے اس کے گرم پانی والی بوتل اسکی طرف بڑھائی ۔۔۔۔

"میڈم جی یہ آپ کا ٹاول "قاسم نے پسینہ پونچھنے کے لیے فٹافٹ سے ایک تولیہ اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔

مگر وہ درد کی تاب نہ لاتے ہوئے فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔۔

قاسم اور زہراں اپنی مالکن کی حالت دیکھ کر پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔

عیش ڈار جو احمد ڈار کی اکلوتی بیٹی تھی ۔اپنی بیوی کی وفات کے بعد انہوں نے ہی اس کی پرورش کی تھی ۔مگر بزنس کی وجہ سے اسے زیادہ وقت نہیں دے پاتے اسی لیے وہ ضدی اور خودسر ہو چکی تھی کسی کو بھی خاطر میں نا لاتی۔خواہ وہ بزنس ہو یا گھر ،،،، حددرجہ مغروارنہ طبیعت کی مالک تھی ۔احمد ڈار کو دوسال پہلے فالج کا اٹیک آیا تھا جس سے وہ صرف بستر کے ہی ہو کر رہ گئے تھے ۔عیش ڈار کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی ۔

اب ان کا سارا بزنس وہی سنبھال رہی تھی ۔ 

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

''زیان تم اٹھ رہے ہو یا نہیں دیکھو میں تم سے آخری بار پوچھ رہی ہوں ''

زائشہ اسکے سر پر کھڑی تیز آواز میں چلائی تھی جس پر زیان نے کسمسا کر کروٹ بدل لی '

'' اُٹھ جاؤ نہ بھیو دیکھو مجھے یونی کے لئے دیر ہو رہی ہے۔آج بس رزلٹ لینے جانا ہے۔لاسٹ ٹائم ہے لے جاؤ نا پلیز  ''

' اس بار وہ تھوڑا پریشانی سے مِنت بھرے لہجے  بولی تھی۔۔۔ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ اس کو اٹھانے کی اپنی سی کوشش کر رہی تھی مگر وہ تھا کہ ٹس سے مس تک نہ ہوا تھا '

''آپی کیا ہے یار سونے دو تم ڈرائیور کے ساتھ بھی جا سکتی ہو اس لئے میری نیند مت خراب کرو ''

'وہ تکیہ اپنے منہ پر رکھتا ہوا بےزاری سے بولا ایک تو ابھی کچھ گھنٹے پہلے ہی وہ ایک اہم کام نپٹا کر گھر واپس آیا تھا اور سونے کے لئے لیٹا تھا کہ اب یہ محترمہ آ گئی تھی اسکی نیند خراب کرنے '

'' کیسے بھائی ہو تم زیان۔۔؟

 بہن سے زیادہ تمھیں اپنی نیند پیاری ہے ؟؟''

اسکا منہ بن گیا تھا زیان کا جواب سن کر مگر اسکی بات کا اس پر کوئی اثر نہ 

کچھ دیر تو وہ کھڑی اسکو دیکھتی رہی جب وہ نہ اٹھا تو وہ پیر پٹختی ہوئی اسکے کمرے سے باہر نکلی تھی ۔۔۔

'' زرائشہ بیٹا رکو ناشتہ تو کر کے جاؤ ''

بریرہ نے اسے بنا ناشتے کیے باہر کی طرف جاتے دیکھا تو فکر مندی سے بولی ۔۔۔

'' رہنے دیں مما  ''پھر لیٹ ہو جاؤں گی پہلے ہی زیان بھائی کو اٹھاتے ہوئے کافی وقت نکل گیا ۔۔۔

وہ خان حویلی کی سب سے سلجھی ہوئی اور خاموش طبع لڑکی تھی ۔اسلیے سب سے خوش اسلوبی سے پیش آتی ۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتی باہر کی طرف جا رہی تھی اسکا ارادہ آج بس سے یونی جانے کا تھا۔کیونکہ ڈرائیور ابھی کچھ دیر پہلے جنت اور منت کو کالج چھوڑنے گیا تھا ۔۔۔ ابھی وہ کچھ قدم مزید آگے بڑھی ہی تھی جب سامنے سے آتے شخص سے بری طرح سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔

' ٹکر اتنی زور کی تھی کہ اسکو لگا کہ وہ کسی آہنی چٹان سے ٹکرائی ہو '

''ہائے اللّٰہ ''

وہ بے ساختگی سے بولی.

Really very sorry...

حسام شہریار معزرت خواہانہ انداز میں بولا جبکہ اسکی نظریں ایک پل کے لئے اسکے چہرے پر رک سی گئی تھیں۔ 

پستہ کلر کے سوٹ اور بلیک اور پستہ امتزاج کا دوپٹہ سر پہ اچھی طرح سے اوڑھا ہوا  تھا میک اپ سے ممبرا کِھلا کِھلا شگفتہ چہرہ قدرتی گلابی پنکھڑیوں سے لب اسکی توجہ اپنی جانب کھینچ رہے تھے 

"کوئی بات نہیں "زائشہ نے شانے پر ڈھلک جانے والا دوپٹہ درست کیا ۔۔۔

 جو اس وقت فل یونیفارم میں مبلوس تھا چہرے پر ہمیشہ کی طرح سنجیدگی تھی جو اسکی شخصیت کو مزید نکھارتی تھی وہ ایک شاندار پرسنا لٹی کا حامل تھا ۔ان دونوں کی بچپن سے گاڑھی چھنتی تھی ۔۔زائشہ اور ابتسام  کا خان صاحب نے بچپن میں ہی رشتہ طے کردیا تھا ۔وہ چاہتے تھے کہ یمنی کی اس گھر سے رشتہ داری بنی رہے ۔سب بچے اس بات سے اچھی طرح واقف تھے ۔

حسام اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھ کر کہیں کھو سا گیا تھا

'' تم یونی جا رہی ہو ؟؟؟

زائشہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

"چلو آج میں تمھیں چھوڑ دیتا ہوں ''

اسکو آگے بڑھتے دیکھ وہ فورا تھوڑا سنبھل کر بولا تھا 

'' نہیں بہت شکریہ حسام میں چلی جاوں گی ۔"

"میرا وہی راستہ ہے آ جائیں پلیز منع مت کریں ،آخر دوستی کی ہے نبھانے تو دیں "

اس کے اتنا اصرار کرنے پر اسے ماننا ہی پڑا ۔۔۔۔وہ دونوں ہمقدم باہر نکل گئے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"ڈاکٹر زمارے آپ کو ایم _ایس سر اپنے روم میں بلا رہے ہیں کچھ ڈسکس کرنا ہے انہیں "

لاہور کے ڈی_ایچ_اے  نیشنل ہاسپٹل میں اس وقت سب اپنی اپنی ڈیوٹی میں مصروف تھے۔۔۔۔سٹاف اندر آئی تو اس نے زمارے کو ان کا پیغام دیا ۔۔۔۔جو ہاسپٹل کے کمرے میں سامنے  میز پر پڑی کسی کیس کی فائل کی سٹڈی کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔  

"ٹھیک ہے میں ابھی آتا ہوں آپ جائیں "زمارے کہتے ہوئے روم سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

"ڈیڈ کدھر ہیں ؟؟؟ضامن نے اپنے ڈیڈ زمارے خان کے خالی کمرے میں جھانک کر دیکھا اور انہیں ندارد پایا تو باہر وارڈ بوائے سے پوچھا ۔وہ ضامن کو جانتا تھا کیونکہ ضامن اپنے ڈیڈ سے ملنے یہاں آتا جاتا رہتا تھا ۔

"سر تو ایم _ایس صاحب کے آفس میں گئے ہیں۔آپ بیٹھ جائیں کچھ دیر میں آجائیں گے ۔۔۔۔

وہ چلتے ہوئے اندر آیا اور آکر زمارے کی ریوالنگ چئیر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔سامنے رکھی فائلز کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔

سامنے ہی زمارے کے نظرکے گلاسز پڑے تھے جو وہ نزدیک کی چیز کو دیکھنے کے لیے استمعال کرتا تھا ۔

ضامن نے انہیں اٹھایا اور پھونک مار کر اس پر پڑی ہوئی نہ دکھائی دینے والی دھول صاف کی ۔۔۔

پھر اسے آنکھوں پر لگا ۔۔۔۔

"ہیلو ڈاکٹر !!!!

اچانک ہی کمرے میں کسی کی ہیلز کی ٹک ٹک کی آواز سنائی دی پھر صنف مخالف کی ۔

ضامن نے گلاسز میں سے اسے دیکھا مگر سب دھندھلا دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔

"ڈاکٹر ایکچولی مجھے کمر میں بہت پین ہے۔ایکسرسائز کے دوران شاید کچھ غلط موو ہوگیا ۔۔۔مجھے لگ رہا ہے شاید مسل پُل ہوگیا ہے "

اس نے وہیں کھڑے کھڑے اسے اپنا مسلہ بتایا ۔۔۔۔انداز مغروارنہ تھا ۔۔۔

ضامن نے ایک ہاتھ سے گلاسز اتار کر ایک طرف رکھے  ۔۔۔

جانے کیوں اسے دیکھ کر ضامن کو شرارت سوجھی ۔۔۔اور اسے سچ نہ بتا کر خود ڈاکٹر زمارے بننے کا ڈرامہ رچانے کا سوچا۔۔۔

ڈاکٹر کو خاموش دیکھا تو 

اس نے وقت ضائع ہونے کے خیال سے تنگ آ کر ہاتھ نیچے کئے اور اپنے بڑے نیل کلر لگے نیلز سے ٹیبل کو بجایا۔۔۔۔

تبھی ضامن نے نظر اٹھا کر اسکے ناراض چہرے کو دیکھا

وہ حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔

گندمی رنگت،دراذقد ،جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس،گھنے بال بے فکری سے پیشانی پر لا پرواہی سے بکھرے ہوئے تھے ،بھوری آنکھوں میں شرارت کا عنصر ،،، خاصا معقول سا لگا مگر ڈاکٹر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا اپنی عمر کے باعث کیونکہ باہر تو سپیشلسٹ لکھا تھا ۔اور یہ تو زیادہ سے زیادہ تئیس سال کا لگ رہا تھا ۔۔۔۔عیش ڈار کی آنکھوں میں تشویش ابھری ۔۔۔

 ضامن کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اسے خود کو یوں تکتا ہوا پاکر

 بلیک ڈریس پینٹ اور لیڈیز کوٹ میں ملبوس وہ مومی گڑیا لگی ۔پاوں میں بلیک ہائی ہیلز کور شوز پہنے ،،،شاداب ترتازہ چہرہ ،  بڑی بڑی آنکھیں ۔اسکی نظر چہرے سے ہوتی ہوئی اسکے بالوں تک گئی۔گھنے سیاہ بالوں کو ہائی ٹیل میں مقید کیا گیا تھا۔جس میں سے کچھ شریر لٹیں نکل کر اسکے گالوں کو چوم رہی تھی۔گال پر بکھریں ناگن سی زلفوں سے ہوتیں اسکی نظریں ان ڈائمنڈ ائیر رنگ پر پڑیں جو اس کانچ لڑکی کی کان کی لو میں چمک رہے تھے۔وہ جیسے سحر میں جکڑا جا رہا تھا۔نظر تھی کہ لوٹ کر واپس آنے سے انکاری تھیں۔

"کہاں درد ہے ؟ضامن نے ہاتھ میں موجود سٹیتھوسکوپ ایک طرف رکھا اور چلتے ہوئے  اسکے قریب آیا۔۔۔  

"یہاں کمر میں "

عیش نے کوٹ کا واحد بٹن کھول کر اسے اپنی کمر کا بتایا ۔۔۔

"اممممم۔۔۔۔۔۔۔

26 /34

وہ نچلا لب دانتوں میں دبا کر شرارتی انداز میں بولا۔

"یہ کیا بکواس ہے ؟"

وہ نخوت سے گھور کر بولی ۔

"چچچچچچہ۔۔۔۔لگتا تو نہیں شکل سے اتنی بے وقوف ہو گی تم ۔۔۔۔۔اپنے سائز شائز کا بھی نہیں پتہ ؟؟؟وہ آنکھ ونگ کیے بولا۔

"You cheep .... Third class.....

تمہیں سپیشلسٹ کس نے بنایا ؟؟؟

وہ تنفر زدہ آواز میں دھاڑی۔۔۔

"یار ایسے تو مت کہو سپیشلسٹ تو ہوں مگر ہارٹ سپیشلسٹ "

اس سے پہلے کہ وہ عیش کے دل کے مقام پر اپنی انگلی رکھ کر اسے جگہ بتاتا عیش نے درمیان سے ہی اس کی انگلی اچک لی اور جھٹکے سے اس کا ہاتھ پیچھے ہٹایا ۔۔۔

You bloody......

عیش نے عالم طیش میں اپنا ہاتھ اٹھایا اس سے پہلے کہ وہ ضامن کے منہ پر اپنی چھاپ چھوڑتا ۔۔۔

ضامن نے کمال مہارت سے اس کا نازک سا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا ۔۔۔۔

اور اس کے بلڈی کہ فقرے کو مکمل ہونے سے پہلے ہی عیش کی آواز کو بند کر گیا اپنے طریقے سے ۔۔۔۔

عیش کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں ۔۔۔۔

اس نے ضامن کے پاؤں پر اپنی ہائی ہیلز ماری۔۔۔۔

وہ یکدم پیچھے ہوکر مسکرایا ۔۔۔۔

"ضامن خان !!!!

"امید ہے نام تو کبھی نہیں بھولوگی ۔۔۔

عیش نے خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھ کر اپنے ہونٹوں کو رگڑ ڈالاجہاں ابھی بھی جلن محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔

وہ ایک با اعتماد لڑکی تھی آج پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی اس کے اتنے قریب آیا اور اسکے اشتعال کو ہوا دے گیا ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ غصے میں اس پر جھپٹتی۔۔۔

"ہاں ۔۔۔اور بلڈی نہیں ۔۔۔۔بیڈ لک ۔۔۔

"اگر تمہاری بیڈ لک ہوئی تو پھر مجھ سے دوبارہ ملاقات ہوگی "

وہ حسب عادت آنکھ ونگ کیے تیزی سے باہر نکلا ۔۔۔

"ڈیڈ ابھی جلدی میں ہوں آپ سے بات کرنے آیا تھا اب رات کو گھر پہ ہی کر لیں گے "ضامن باہر نکلا تو سامنے سے زمارے کو آتے دیکھ کہا ۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے "وہ اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر اندر چلے  گئے ۔

"یار ضامن شرارت اور تھرل کے چکر میں آج پہلی بار کچھ زیادہ نہیں ہوگیا ؟؟؟وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسائے خودی سے ہمکلام ہوئے ہاسپٹل سے باہر نکل رہا تھا ۔۔۔۔

اس کی خونخوار نظریں اور پھر اسکے لب آنکھوں کے پردوں پر لہرائے ۔۔۔

وہ بے خود سا مسکرایا اور اپنے لبوں کو انگوٹھے سے چھوا جہاں ابھی تک اس کے گداز لبوں کا نرم سا لمس محسوس ہوا۔۔۔۔

"یس "

ڈاکٹر زمارے نے حیرت سے ایک ٹھیک ٹھاک لڑکی کو دیوار سے لگے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔

انہوں نے ایک لڑکی کو دیکھ کر متانت سے پوچھا ۔

وہ بنا کچھ کہے اپنا اعتماد بحال کر غیض و غضب سے مغرورانہ چال لیے ٹک ٹک کرتی ہیلز سے باہر نکل گئی

وہ اسکے جاتے ہی نا سمجھی سے کندھے آچکا کر رہ گئے ۔۔۔۔

🦋 🦋🦋🦋🦋🦋

"زاہد مجھے یوں چھوڑ کر مت جاو !!!"

ایک ضعیف العمر عورت کی نحیف آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔۔

وہ جو پراڈو کو چلا کم اور اڑا زیادہ رہا تھا ۔۔۔

سڑک کے بیچ و بیچ ایستادہ بوڑھی عورت کو ِچّلاتے ہوئے دیکھ کر اپنا پاؤں بریکس پر جما گیا ۔۔۔۔

اور جھٹکے سے پراڈو کی رفتار کو کم کیے روک گیا ۔۔۔۔

اس کے پیچھے اس کے باڈی گارڈز کی پانچ گاڑیاں تھیں۔جو ذوناش کے کہنے پر زیگن نے ہائیر کیے تھے شیر زمان کی حفاظت کے لیے ۔کیونکہ وہ ہر جگہ مرنے مارنے پر جو تُل جاتا تھا ۔شیر زمان کی پراڈو رکتے ہی باقی ساری گاڑیوں کے ٹائرز کی چڑ چڑچڑاہٹ کی آواز بھی  فضا میں گونجی ۔۔۔۔

ساری ٹریفک پل بھر کے لیے تھم گئی ۔۔۔۔

وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اور بوڑھی عورت کو روڈ سے ایک طرف کیا۔۔۔

پھر اس لڑکے کی طرف شیر کی رفتار سے لپکا ۔۔۔۔

اور لمحوں میں اس بھاگتے ہوئے لڑکے کو جا لیا ۔۔۔

ایک زور دار پنچ اس کے منہ پر مارا کہ اس کے ناک سے خون کا فوارہ چھوٹا ۔۔۔

وہ لڑکا تڑپ کر رہ گیا۔۔۔۔

ہیر جو سکول وین میں موجود تھی اور اچانک ٹریفک رکنے کی وجہ جاننے کے لیے سر باہر نکال کر دیکھ رہی تھی شیر زمان کو ایک لڑکے کو پنچ مارتے دیکھا تو سراسیماں نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔دل دھڑکتے ہوئے کچھ پل کے لیے رکا پھر سے چلنے لگا ۔

شیر زمان کی نیلی آنکھیں جن پر مُڑی ہوئی گھنی پلکیں تھیں۔اور ان میں اترا سرد پن وہ دور سے بھی دیکھ سکتی تھی وہ لمبا چوڑا ورزشی جسامت رکھنے والا وجود اپنے اندر پہاڑوں سے بھی ٹکرا جانے کی صلاحیت رکھتا تھا،اس کے بائیسیپس ،اورپھولی رگوں والےسفید بازو ٹی شرٹ میں سے نمایاں ہو رہے تھے   ۔۔۔ہیر نے خوف کے باعث اپنی ساتھ والی لڑکی کے شانے میں منہ گھسایا ۔۔۔۔

اور ہولے ہولے کانپنے لگی ۔۔۔۔

بار بار نظروں کے سامنے شیر زمان کا جاندار ُمکّا اس لڑکے کے ناک سے نکلتا ہوا خون اس کے حواس باختگی کا باعث بن رہا تھا ۔۔۔

آج پھر اسے دورہ پڑا تھا ۔۔۔ کمرے میں آتے ہی اس نے وہاں کی  ہر چیز تہس نہس کردی۔۔۔۔  آنکھیں خطرناک حد تک سرخی مائل دکھائی دے رہی تھیں ۔۔۔جن میں ابھی بھی اس لوفر انسان کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا جو اس کی نس نس میں اپنے لمس کا زہر گھول گیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔بیرون ِ ممالک سے منگوائے گئے شو پیسز اور اعلی ترین اشیاء ۔۔۔  وہ اٹھا کر غیض و غضب کے عالم میں سامنے موجود ڈریسر  اور دیواروں پر مار رہی تھی ۔۔۔ جو بکھر کر ٹکروں میں چکنا چور ہوئے اپنی بے قدری پر ماتم کناں تھے ۔۔۔ 

کمرے سے باہر موجود ملازمین اسکی چیخوں اور کمرے کی ٹوٹ پھوٹ کی آواز پر تھر تھر کانپ رہے تھے ۔۔۔اور اپنی آنے والی شامت کے زیر اثر پریشان کن نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے  ۔ان کی مالکن کا غصہ ہمہ وقت سوا نیزے پر رہتا تھا ۔۔۔ 

وہ پورے کمرے کا خوبصورت نقشہ بگاڑ تھک ہار کے بالاخر بستر پر ڈھے گئی ۔مگر اس کا چہرہ عیش ڈار کی  آنکھوں کے سامنے لہرا رہا تھا جو ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

”سر ایک بہت اہم پیش رفت ہوئی ہے “ 

"ہممم وہ کیا ؟؟؟"

زیان جو اپنے آفس کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔۔اپنے ماتحت کی بات سن کر اسکی طرف پلٹ کر بولا کر بولا

”سر ہم نے جس گروہ کو پکڑا ہے ان سے دورانے تفتیش پتا چلا ہے کہ ان کا سارا نیٹ ورک کہاں سے آپریٹ ہو رہا ہے۔ پاکستان سے ڈرگز اور ہماری بہنیں،،، بیٹیاں اغواہ کر کے وہ کہاں سمگل کر کہ لے جاتے ہیں اور پھر جو وہاں ہوتا۔۔وہ تو آپ اچھے سے جانتے ہیں ۔ جب تک ان کی جڑوں میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے ہم یہ ختم نہیں ہو سکتا سر “اس نے مؤدب انداز میں اسکے سامنے اپنی بات رکھی ۔۔۔

زیان زریار خان گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔

"تم جاؤ میں سارا پلان ترتیب دے کر پھر ٹیم تشکیل دوں گا ۔"

"جی سر !!!"

🦋🦋🦋🦋🦋

"یار جنت  تم مجھے یہ بتاؤ آخر اور کتنے دن تک ناراض رہنے کا ارادہ ہے تمہارا ؟''

منت نے کالج گراؤنڈ میں گھاس پر بیٹھی ہوئی جنت کے برابر میں بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔

 جو پچھلے تین دن  سے اپنا موڈ خراب کئے ہوئے تھی 

'' کیوں تمھیں تو خوش ہونا چاہئے کہ میں نے بولنا چھوڑ دیا ہے تمہارے ہر معاملے میں ۔۔۔اب پھر مجھے بلانے کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے ؟؟؟؟

وہ منت کی طرف خفگی سے دیکھتی ہوئی بولی۔ 

دونوں تھیں تو جڑواں بہنیں مگر ایک دوسرے سے بلکل مختلف مزاج کی تھیں۔  جنت نرم مزاج تھی تو دوسری طرف منت  شوخ چنچل طبیعت کی مالک تھی '

دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں اور ایک دوسرے سے اپنی ہر بات شئیر کرتی تھیں۔۔۔

'' منت میں نے تمہیں منع بھی کیا تھا اس لڑکے سے دوستی مت کرو مجھے وہ لڑکا کچھ عجیب سا لگتا ہے ،پر اسرار سا ۔۔۔کیا ہم دونوں کی آپسی دوستی کافی نہیں ایک دوسرے کے لیے ؟ ''

جنت معصومیت سے بولی تو اسکی شکل دیکھ کر منت کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ رینگی تھی جو اسکی شخصیت کا حصّہ تھی '

'' تم تو میری پیاری سی بہنا اور میری جان ہو یار اس بندر کی وجہ سے ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آئے گا''

وہ زور سے اسکے نرم گال کھینچتی ہوئی بولی تو جنت نے اسکے بازو پر دھپ رسید کی ۔۔۔۔

'' کیا مطلب ؟؟؟بقول تمہارے وہ ہینڈسم لڑکا اب  بندر ہو گیا ہے تمہارے لئے؟؟؟کہیں میرا دل رکھنے کے لیے اوپر اوپر سے تو نہیں کہہ رہی ؟؟؟ ''

جنت  بےیقین نگاہوں  سے اسکی طرف دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔

"اچھا چھوڑو اسے تم بتاؤ آج کل میں نے ژیان بھائی کی نظریں تم پر مرکوز دیکھیں ہیں۔وہ اسے رازدارنہ انداز میں بتانے لگی ۔۔۔۔ 

'' ہرگز نا سوچنا ۔۔۔ وہ سنجیدہ سا شخص مجھے کبھی پسند آ ہی نہیں سکتا بات بھی کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ابھی مجھے لے جا کر اپنے  لاک اپ میں بند کردیں گے "

زیان کا ذکر آتے ہی اس نے برا سا منہ بنایا جسے دیکھ کر منت کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی 

'' مجھے تو ڈر ہے جنت  کہ کہیں تمہاری شادی اگر زیان بھائی سے نہ ہو جائے پھر تمہارا کیا بنے گا ؟''

آج منت اسکو پریشان کرنے کے موڈ میں تھی ۔۔۔اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ٹہری ۔۔۔

'' تم میری بہن ہو کہ دشمن اللہ نہ کریں کبھی ایسا ہو "

اس نے منت کو سخت گھوری سے نوازا جو اپنی مسکراہٹ روکے اسی کو شرارتی نظروں سے دیکھ رہی تھی 

'' میں تو کہتی ہوں تمھیں ہی زیان بھائی کی طرح سنجیدہ مزاج خشک سا بندہ ملے تب ہی مزہ آئے گا ۔۔۔جنت نے بھی آخر کار بدلہ اتار ہی لیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

'' اسلام علیکم "

حسام  نے ڈرائننگ روم میں داخل ہوتے ہی سب کو سلام کیا۔۔۔

یمنی جو شہریار اور ابتسام سےکچھ کہنے والی تھی اس آواز پر یکدم سے رکی

  اس کے ساتھ شہریار  اور ابتسام  نے بھی آنے والے کی طرف دیکھا تھا 

اسکو دیکھ کر یمنی خوش ہوتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی تھی جبکہ شہریار  ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر پھر سے اپنی چائے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ شہریار نے اسکو ایسے نظر انداز کیا جیسے وہ وہاں ہو ہی نہ "

'' ارے حسام بیٹا وہاں کیوں رک گئے ہو یہاں آؤ نہ چائے پیو  ہمارے ساتھ تم بلکل صحیح وقت پر آئے ہو "

اسکو وہیں دروازے میں کھڑا دیکھ کر یمنی نے حسام کو اپنے پاس بلایا'

'' نہیں مام آپ لوگ انجوائے کریں مجھے نہیں پینی چائے  "

وہ ایک نظر خاموش بیٹھے اپنے بابا اور بھائی کی طرف دیکھ کر بولا انکا رویہ اسکے ساتھ ایسا ہی ہوگیا تھا جب سے حسام نے ان کا بزنس میں ساتھ دینے کی بجائے اپنی پسند کا شعبہ اختیار کیا تھا ۔۔۔۔اسے بچپن سے ہی جہاز اڑانے کا شوق تھا اور اپنے بابا اور مخالفت کے باوجود بھی اس نے اپنی پسند کو اہمیت دی ۔اور آج وہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز میں پائلٹ کے عہدے پر فائز تھا ،

وہ ان دونوں کو کافی بار منانے کی کوشش بھی کر چکا تھا مگر وہ دونوں ابھی بھی منہ پھلائے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ 

'' ابتسام !  اپنی چائے ختم کرکے میرے روم میں آنا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے "

شہریار اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے بولا ۔۔۔انہوں نے ایک نگاہ غلط بھی حسام پر ڈالنا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔

'' رکیں بابا میری چائے ختم ہو چکی ہے  ساتھ ہی چلتے ہیں "

ابتسام اٹھ کر شہریار کے ساتھ ہی وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا ۔۔۔

'' انکے جانے کے بعد حسام  نے ایک گہرا سانس فضا میں چھوڑا تھا جیسے گھٹن زدہ ماحول میں سکون سا ملا ہو 

اسکے اس طرح سے کرنے پر یمنی  نے اپنے چھوٹے بیٹے کی طرف غور سے دیکھا جو اس وقت اپنے یونیفارم کی بجائے  ریڈ ٹی شرٹ اور بلیو جینز میں مبلوس تھا ہالف سلیو سے جھانکتے مضبوط مسلز ہلکے براؤن بال ماتھے پر بکھرے پڑے تھے ۔یمنی نے دل میں اپنے خوبرو  بیٹے کی نظر اتاری تھی 

'' تم آج کل بہت مصروف رہنے لگے ہو پتہ بھی ہے پورے دو دن بعد گھر آئے ہو "

وہ اس پر نظریں جمائے ہوئے بول رہی تھی اسکو اپنے سامنے دیکھ کر ایک سکون سا ملا تھا 

'' جی مام دراصل امریکہ کی فلائٹ تھی ۔۔۔وہاں لینڈ کرتے کچھ مسلہ ہوگیا تھا مشینری میں بس اسے ہی لے کر کچھ وقت لگا ۔۔۔وہ انہیں تسلی دینے کے لیے تفصیل بتانے لگا ۔۔ "

" ٹھیک ہے حسام مگر اپنی صحت کا بھی خیال کرنا چاہئے۔نا دن دیکھتے ہو نا رات وقت بے وقت اُٹھ کر چلے جاتے ہو "

انکی نظریں ابھی بھی اس پر تھی اور وہ اس کی ماں تھی 

اس کی صحت اور آرام کا خیال انہیں بے چین کیے رکھتا'

'' جی مام ٹھیک ہے آپ فکر نہ کریں میں خیال رکھوں گا اپنا آپ صرف اپنا خیال رکھا کریں مجھے اور کچھ نہیں چاہیے آپ ہیں تو ہم ہیں  "وہ یمنی کے ساتھ بیٹھ کر ان کی گود میں اپنا سر رکھے وہیں لیٹ گیا   ۔یمنی اس کے ہئیر کٹ میں انگلیاں چلانے لگی ۔۔۔

وہ دونوں بہت دیر تک وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور ایسا بہت کم ہوتا تھا جب وہ گھر واپس آتا تو یمنی کام میں مصروف رہتی یا پھر وہ سوچکی ہوتیں ۔۔۔۔

"کیسی ہو ہیر؟؟؟

ہیر سکول سے واپس آئی تو حسام کو اپنی مما کے ساتھ بیٹھے دیکھ اس کے پاس آئی ۔

"بھیا کیسے ہیں آپ ؟؟؟

"پتہ ہے میں نے آپ کو کتنا مِس کیا ؟؟؟

"میں نے بھی ہیر کو بہت مس کیا ۔۔۔

"بھیا مما سے سفارش کریں نا میرے لیے "اس نے حسام کے کان کے پاس جا کر سرگوشی نما آواز میں کہا۔

"کیا سفارش کروانی ہے "؟

اس نے آہستگی سے پوچھا ۔

"مما کو کہیں نا مجھے ٹی وی پر ایک ڈرامہ دیکھنے دیں میری کلاس کی سب لڑکیاں رات کو ٹی وی سیریل دیکھتی ہیں پھر صبح آکر کلاس میں ڈسکس کرتی ہیں۔اور میں خاموش بیٹھی ان کا منہ تکتی ہوں ۔

"مام آپ پلیز ہیر کو ایک گھنٹہ  ٹی وی دیکھنے کی پرمیشن دے دیں ۔یہ آپ کے سامنے ہی دیکھے گی ۔پلیز میری سفارش ہے ۔۔۔مان جائیں ۔حسام نے ہیر کی طرف داری کرتے ہوئے یمنی کے سامنے اس کی خواہش رکھی تو یمنی نے گھور کر ہیر کی طرف دیکھا ۔۔۔

ہیر نے فورا سے بیشتر نظریں جھکا لیں ۔اور انگلیاں چٹخا نے لگی ۔۔۔۔

"حسام تم اس کی سفارش مت کرو تم شہریار کو جانتے ہو نا وہ اس معاملے میں کتنا سخت ہیں۔تمہیں اور ابتسام کو بھی کہاں پرمیشن دی تھی انہوں نے میٹرک کلئیر کرنے تک ٹی۔وی دیکھنے کی ۔ابھی نائنتھ کلئیر کی ہے۔میں مانتی ہوں اس کازرلٹ بہت بہترین ہے۔ٹینتھ میں بھی ابھی اسے محنت کی ضرورت ہے۔ایک سال تو ہے۔اسے تم سے سفارش کروانے کی بجائے پڑھائی پر فوکس کرے ۔

حسام اپنی والدہ کی بات سے بھی متفق تھا ۔اس کے موبائل پر آتی ہوئی کال ریسیو کیے وہ ان سے ایکسکیوز کیے وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔

"مما سب ٹی وی دیکھتے ہیں مجھے بھی دیکھنا ہے ،جب چھوٹی تھی تو بس آپ کے روم میں کارٹون دیکھتی تھی اب وہ بھی نہیں دیکھتی "وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولی۔

"ادھر آؤ ہیر !!!

وہ اپنی مما کے بلانے پر ان کے ساتھ جا کر بیٹھی اور ان کے شانے سے لگی ۔

"سوری مام "

وہ کان پکڑ کر انتہائی معصومیت سے بولی ۔

"وہ کس لیے ؟؟؟

"مجھے ضد نہیں کرنی چاہیے نا ۔۔۔آپ میرے بھلے کے لیے ہی کہہ رہی ہوں گی ۔

"مائی سویٹ ڈول "وہ اس کی پیشانی کا بوسہ لے کر اسے اپنے ساتھ لگا گئیں ۔۔۔۔

"میری بیٹی بہت معصوم اور سادہ ہے۔اپنی بیٹی کی سادگی اور معصومیت کبھی بھی کھونے نہیں دوں گی میں "

گھر میں صرف ایک ہی ٹی وی تھا جو صرف شہریار اور یمنی کے روم میں تھا ۔

"مما آپ کو پتہ ہے؟؟؟

"آج میں نے پھر سے شیر زمان بھائی کو دیکھا روڈ پر وہ کسی کو مار رہے تھے "

وہ خوفزدہ نظروں سے انہیں دیکھ کر بتا رہی تھی جیسے ابھی بھی وہ منظر اسکی آنکھوں کے سامنے ہو ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"جمعہ مبارک"

"خیر مبارک "ماشاءاللہ !!!

بلا اختیار ہی ذوناش کے منہ سے نکلا ۔۔۔۔

"آج تو مجھے اپنے بیٹے کی نظر اتارنی پڑے گی ۔۔۔۔

"آپ بھی مام .....

وہ ان سنی کرتیں کچن میں گئیں اور جا کر سات سرخ مرچیں لائی اور شیر زمان پر وار کر واپس کچن میں گئیں اور انہیں جلا ڈالا ۔۔۔۔

"یہ دیکھو شیر میں تمہارے لیے لائی تھی ۔۔۔مجھے لے کر دکھاؤ کیسی لگے گی تم پر ؟؟؟ذوناش نے اس کے شانوں پر شال پھیلائی ۔۔۔۔

"مام میں کر لوں گا ۔۔۔بہت شکریہ میری مام لائی ہیں تو بہت اچھی ہی ہوگی "

اس نے ذوناش کا ہاتھ پکڑ کر محبت بھرے انداز میں کہا۔

یہ والہانہ انداز اس کا صرف اپنی والدہ ذوناش کے ساتھ ہی ہوتا تھا ۔باقی دنیا کے لیے وہ اک سر پھرے انسان کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔۔۔

"بھائی چائے لیں "زائشہ نے چائے کا کپ شیر زمان کے آگے بڑھایا ۔۔۔

جسے اس نے پکڑ کر سامنے موجود ٹیبل پر رکھا۔۔۔۔

اور خود اپنا کپ کے کر سامنے صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔ابھی ایک گھونٹ ہی بھرا تھا کہ کسی نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ اُچک لیا ۔۔۔زائشہ نے مڑ کے دیکھا تو حسام نے وہ کپ ہونٹوں سے لگائے اسی جگہ سے گھونٹ بھرا تھا جہاں پہلے ہی زائشہ کے ہونٹوں کا نشان تھا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اسے ڈانٹتی پیچھے دیکھا تو اس کے منگیتر ابتسام اور ہیر بھی تھے اور ان کے پیچھے شہریار اور یمنی ۔۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم !!!

زائشہ نے سر کا دوپٹہ درست کیا اور مؤدب انداز میں سلام کیا ۔۔۔۔

"وعلیکم اسلام !!!سب نے مشترکہ جواب دیا ۔۔۔

ابتسام کو سامنے کھڑا  ہلکا سا مسکراتے ہوئے دیکھ زائشہ شرما کر نظریں پھیر لیں ۔۔۔اور کچن میں بھاگی جہاں گھر کی باقی خواتین موجود تھیں۔۔۔۔

خان حویلی میں سب کچھ آج بھی پہلے جیسا تھا بس اتنی سی تبدیلی آئی تھی کہ یہ دو منزلہ عمارت اب تین منزلہ عمارت میں تبدیل ہو چکی تھی کیونکہ یہاں کے افراد جو بڑھ چکے تھے ۔۔۔

زریار اور بریرہ کے دو بچے زائشہ اور زیان تھے ۔۔۔

زائشہ اپنی تعلیم مکمل کر چکی تھی ۔زیان اینٹی نارکوٹکس فورسز میں اچھے عہدے پر فائز تھا ۔

زیگن اور ذوناش کے دو بیٹے شیر زمان اور شاہ ِمن تھے ۔شیر زمان تعلیم مکمل کیے اب دوبئی میں موجود اپنا خود کا بزنس سنبھال رہا تھا ۔پاکستان وہ وقتا فوقتاً ہی سب سے ملنے آتا یا پھر کسی بزنس ڈیل کے تحت ہی رکتا جیسے آج کل وہ پاکستان میں تھا ۔

شاہ من ابھی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔

زمارے اور زرشال کا بیٹا ضامن تھا ۔اور دو جڑواں بیٹیاں جنت اور منت تھیں جو ابھی کالج میں پڑھ رہی تھیں۔

شہریار اور یمنی کے تین بچے سب سے بڑا ابتسام جو اپنے والد کے ساتھ بزنس سنبھال رہا تھا ۔حسام پاکستان ائیر لائنز میں پائلٹ تھا ۔اور خاندان میں سب سے چھوٹی ہیر جو ابھی نانئتھ کلاس کی طالبہ تھی ۔۔۔۔ 

اس خاندان کے سب مرد حضرات اتوار کی بجائے جمعے کو چھٹی کرتے تھے اسی لیے سب گھر موجود تھے ۔۔۔۔

 جب سب لاونج میں اکٹھا ہوئے تو شہریار نے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔

"زریار آج ہم آپ سے ابتسام  کے رشتے کے بارے میں بات کرنے آئے ہیں خان صاحب نے جو رشتہ بچپن میں طے کیا تھا مجھے لگتا ہے اب اس رشتے کو مضبوط بنانے کا وقت آگیا ہے۔۔۔۔۔زائشہ کی بھی تعلیم مکمل ہو چکی ہے اور ابتسام بھی اپنی لائف میں سیٹ ہو چکا ہے تو مجھے لگتا ہے اب ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے "شہریار نے اس کے سامنے اپنے یہاں آنے کا مدعا رکھا ۔۔۔

حسام کا دھک دھک کرتا دل کچھ لمحے کے رک گیا ،چہرے کا رنگ فق ہوا ۔۔آخر ایک نا ایک دن یہ تو ہونا ہی تھا اور وہ وقت آن پہنچا تھا ۔۔دل چاہا سب یہیں روک دے ۔۔۔۔مگر جب زائشہ کی شرماتی نگاہوں میں ابتسام کا عکس دیکھا تو اپنے مچلتے ہوئے دل کو تھپک کر سلانے کی کوشش کی ۔۔۔۔

آپ سب کا کیا خیال ہے  اس بارے میں کے اب ان کی  شادی کردینی چاہیے۔۔۔۔۔یا نہیں ؟؟؟

"یہ تو بہت اچھی بات ہے میں بھی تم سے بات کرنا چاہتا تھا اب مجھے لگتا ہے صحیح وقت آگیا ہے۔۔۔۔۔"

زریار نے گویا بات کرنے کی تہمید باندھی۔۔

بریرہ ،زرشال  اور ذوناش بھی ان کی باتوں سے مستفید ہورہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔

اسی دوران زیان  بھی وہاں چلا آیا۔۔۔

"آج تو شیر زمان بھائی ایسے لگ رہے ہیں جیسے کسی عمدہ ترین گاوں کے وڈیرے سیاست دان ٹائپ "

ہیر نے زیان کو جب شیر زمان کی تعریف میں رطب اللسان دیکھا تو شیر کی طرف دیکھا۔

جو سفید کلف لگے کاٹن کے کڑاکڑاتے شلوار قمیض میں شانوں پر سیاہ شال اوڑھے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے  ٹانگ پر ٹانگ جمائے پورے طمطراق سے براجمان تھا ۔۔۔

اور اپنی گھنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا ۔اس کی نیلی آنکھوں کی پتلیاں اسکی طرف متوجہ تھیں ۔۔۔ہیر نے فورا سے بیشتر اپنی نظروں کا زاویہ پھیر لیا۔۔۔

شیر زمان کی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر مسکراہٹ پل بھر کے لیے پھیل کر ُسکڑی۔۔۔گال کی ایک طرف پڑا ڈمپل سرسری سی جھلک دکھلا کر چھپ گیا ۔۔۔۔۔

"مجھے تو وڈیرے کی بجائے ڈاکو لگتے ہیں "وہ پاس بیٹھی ہوئی منت کے کان میں سرگوشی نما آواز میں بولی ۔۔۔

"کیوں ضائع ہونے کا ارادہ ہے شیر بھائی کے ہاتھوں ؟؟؟انہوں نے اپنے بارے میں تمہارے نادر خیالات سن لیے نا تو تم تو گئی سمجھو "

منت کی بات سن کر ہیر کے رہے سہے حواس بھی کھونے لگے "

"میرے خیال میں شیر زمان اس گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہے پہلے اس کی شادی ہونی چاہیے "زیگن نے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔۔۔۔

 وہ جو چائے کا گھونٹ بھر رہا تھا حلق میں بری طرح پھندا لگا۔۔۔۔۔

"اگرآپ چاہتے ہیں کہ میں یہاں بیٹھوں تو مجھ سے اس سلسلے میں بات نا کی جائے....... ابھی پانچ چھ سال تک میرا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں "وہ دو ٹوک انداز میں گھمیبر آواز میں بولا۔۔۔۔

ہیر کے گریجویشن کرلینے کا انتظار تھا اسے ....

"شیر زمان!!!!زیگن کی دھاڑ گونجی تو لاونج میں خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔سب ہی زیگن کے غصے سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔۔۔۔

باپ بیٹا دونوں غصے میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے ۔۔۔۔ایک سیر تو دوسرا سوا سیر 

ذوناش نے زیگن کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے پرسکون رہنے کا اشارہ دیا ۔۔۔

شیر زمان نے کسی کی بھی طرف دیکھے بنا اپنی شال کا ایک کونا دوسرے شانے پر زور سے پٹخا ۔۔پھر  وہاں سے اٹھا ۔۔۔اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر لان کی طرف نکل گیا ۔۔۔۔

زیگن اپنے بیٹے کی حرکت پر مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔۔۔۔

"کیا ہوگیا بھئی اتنی خاموشی کیوں ہوگئی ہے۔۔۔"؟؟؟زمارے نے خاموشی کو توڑا ۔۔۔

شہریار  کی آنکھوں میں الجھن در آئی۔۔

"چلیں ابتسام بھائی پھر آپ کی شادی کی تاریخ مقرر ہونے پر ہم سب کو ٹریٹ دیں ۔جنت نے اس سے فرمائش کی ۔۔۔۔۔"

"ضامن تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میرا نائنتھ میں اے گریڈ آیا تو تم مجھے ٹریٹ دو گے ۔اپنا وعدہ کب پورا کرو گے ؟؟؟ہیر نے اسے اپنا وعدہ بھی یاد دلانے کی کوشش کی۔

"ہیر بیٹا کتنی بار کہوں ضامن بڑا ہے تم سے اسے بھائی کہا کرو "یمنی نے اسے ٹوک دیا ۔۔۔

"ارے رہنے دیں نا پھپھو ہم دوست ہیں اور دوستی میں اتنا تو چلتا ہے "ضامن نے یمنی سے لاپرواہی سے کہا ۔۔۔

سب بڑے شادی کے انتظامات کے حوالے سے باتیں کرنے لگے تو ینگ پارٹی اپنی باتوں میں لگی گئی ۔۔۔

"اور ہاں جی ہیر میڈم صاحبہ یاد ہے مجھے ویسے میں  بھول بھی گیا تو آپ ہو نہ مجھے یاد دلانے کیلیے۔۔۔۔"

جبکہ ہیر نے اس کی بات سن کر دانتوں کی نمائش کرنا ضروری سمجھا۔۔۔۔۔

"تم دونوں بعد میں ٹریٹ ٹریٹ کھیل لینا ۔۔۔پہلے تو تازہ تازہ ہاتھ آیا مرغا تو پکڑو ۔۔۔۔"

زیان  نے بات کا رخ پھر سے ابتسام کی جانب کیا۔۔۔کہ اس سے شادی کی ٹریٹ لی جائے ۔۔۔

"ہائے جب کوئی نازک دوشیزہ ہماری زندگی میں آئے گی اور اسے دیکھ کر ہمیں لگے گا کہ ہم شادی شدہ ہوگئے ہیں تو ٹریٹ بھی دے دیں گے ۔بھلا شادی سے پہلے کیسی ٹریٹ ؟؟؟۔۔۔۔۔"

"ابتسام نے ڈرامائی انداز میں حسام  کے  ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

"شادی کے بعد کون ہاتھ آتا ہے ؟؟؟ٹریٹ تو ہمیں شادی سے پہلے ہی چاہیے اور وہ بھی ابھی "ضامن نے اپنی ٹانگ اڑائی ۔۔۔

"چلیں نا ابتسام بھائی دے دیں ٹریٹ "منت نے کہا ۔۔۔۔

"ارے زرا زائشہ آپی سے سفارش کرواؤ تب ہی دال گلے گی یہاں "ضامن نے شرارت سے   کہا ۔۔۔۔

زائشہ نے اس کی بات پر اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

"اگر کوئی ہمارے ساتھ اس ٹریٹ میں چلنے کو تیار ہے تو ایسی ایک کیا ڈھیروں ڈھیر ٹریٹ قربان !!!!

ابتسام نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔۔۔

جبکہ حسام کا دل جل کر راکھ کا ڈھیر ہوا چاہتا تھا ۔

زائشہ اسکے کھلم کھلا انداز پہ سٹپٹا کر نظریں چرا گئی۔۔۔۔

"چلو پھر سب چلتے ہیں "زیان بھی اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔

"میں بھی آگئییییی۔۔۔"

ہیر جو ضامن کے ساتھ باہر جانے کیلیے خان حویلی سے باہر  آئی تھی چہک کر بولی۔۔۔۔۔

"ضامن ہم بائیک پر جائیں گے نا ؟؟؟ہیر نے پوچھا ۔۔۔

"او معصوم بے ۔بی ۔۔۔ٹرک کی سواریاں ہیں بھلا بائیک پر کیسے پوری آئیں گی ؟؟؟ہم گاڑی میں جائے گے۔۔۔۔

"مگر مجھے بائیک پر جانا ہے "

"تمہیں پتہ ہے نا مجھے ہیوی بائیک پر بیٹھنے کا کتنا شوق ہے "

"ہیر جی جس دن میں آپ کو ٹریٹ دوں گا اس دن اپنی ہیوی بائیک کی بھی سیر کرواؤں گا ۔آج سب اکٹھے گاڑی میں چلیں ؟؟؟

"چلو ٹھیک ہے "

"اس وقت کہاں جا رہے ہو سب ؟؟؟

سب کو شام ڈھلے اکٹھا باہر جاتے دیکھ شیر زمان نے استفسار کیا ۔۔۔۔

شیر زمان کے تفتیشی انداز  پر کچھ وقت کیلیے وہاں خاموشی چھاگئی۔۔۔۔ 

سچویشن ہی ایسی تھی کہ انہیں لگا شیر زمان کو ابھی غصہ آیا تو ابھی آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں سب کو ٹریٹ دے رہا ہوں "ابتسام نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔

شیر زمان کی نظروں کے حصار میں صرف ہیر تھی جو ضامن کی اوٹ میں چھپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔

ضامن کے اتنے قریب اسے دیکھ کر شیر زمان کی کنپٹی کی رگیں اُبھریں۔۔۔۔اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

"جاؤ !!!

اس کے یک لفظی جواب پر خوشی سے وہاں موجود ہر شخص کے قہقہے ابل پڑے۔۔۔۔

جبکہ شیر زمان ہیر کو ایسے گھور رہا تھا جیسے ابھی سالم نگل جائے گا۔۔۔۔۔

وہ انہیں منع کر کہ ان کی خوشی کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔۔۔۔

"بھائی چلیں ہم تیار ہیں کب سے ۔۔۔۔"ہیر نے ابتسام  کا ہاتھ پکڑ کر معصومیت سے کہا ۔۔۔

"ہاں جی میری پیاری سی  بھوکی ندیدی بہنا کو میرے پیسے اڑانے کا موقع جو مل رہا ہے۔۔۔۔"

ابتسام  بھنا کر بولا۔۔۔

زائشہ اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔۔

ہیر نے اسکی بات پر خفگی سے منہ پھلا لیا ۔۔۔

"مذاق کر رہا تھا میری ڈول !!!!

ابتسام نے اپنی چھوٹی بہن کا پھولا منہ دیکھ کر اسے منانے کی غرض سے کہا ۔۔۔

"ایک ہی شرط پر مانوں گی ۔مجھے واپسی پر آئس کریم بھی کھانی ہے ۔"

"اوکے ڈن ۔۔۔اب چلو ۔۔۔۔

وہ سب آگے پیچھے باہر نکل گئے ۔۔۔۔

شیر زمان انہیں جاتا ہوا دیکھنے لگا ۔۔۔۔

ضامن ،زیان اور ہیر اور جنت ایک گاڑی میں بیٹھے جبکہ ابتسام ،حسام ،زائشہ اور منت  دوسری گاڑی میں تھے۔باتوں ہی باتوں میں سفر کیسے گزرا کچھ پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔

زائشہ  کو سامنے بیٹھے دیکھ  کر ابتسام  کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔

"آہمم۔۔۔ آہمم ۔۔۔"ابتسام  بھائی آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ۔۔۔۔ہم سب بھی یہیں ہیں "

ضامن نے ابتسام کے شانے  کو ہلاتے ہوئے آگاہ کیا ۔۔۔۔

"ہاں ہاں کیا ہوا۔۔۔"

ابتسام جو زائشہ کے خوبصورت چہرے کو یک ٹک دیکھنے میں محو تھا ۔۔۔ اچانک ہوئی افتاد پہ بوکھلا کر رہ  گیا۔۔۔

"بھائی ابھی سے ہی  ؟؟؟؟ شادی کے بعد تو آپ دنیا ہی  بھول ہی جائیں گے۔۔۔۔"ضامن نے پھر چٹکلا چھوڑا ۔۔۔۔

زائشہ اس کی بات پر پہلو بدل کر رہ گئی ۔۔۔۔

"آپی ریلیکس رہیں ۔۔۔ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور ویسے بھی ابتسام بھائی آپ کے مستقبل کے "وہ" ہیں تو ان سے اتنا بھی کیا شرمانا۔۔۔۔۔۔"

منت نے اس کے شانے سے اپنا شانہ مارتے ہوئے ہنس کر کہا  تو زائشہ  نے اسے مصنوعی غصیلی گھوری سے نوازا۔۔۔۔

ابتسام ،ضامن  کی بات سن کر خجالت سے سر کھجا کر رہ گیا۔۔۔۔

جبکہ حسام کا تو اندر ہی اندر  انگاروں پر لوٹنے والا حال تھا اس وقت ۔۔۔۔

اسی اثنا میں ویٹر آیا تو ابتسام نے  سب سے پوچھ کر آرڈر دیا۔۔۔۔

حسام  مسلسل زائشہ  کو دیکھنے سے اجتناب برت رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر ایک بار اسکی نظر زائشہ پہ پڑ گئی تو حوصلہ ٹوٹ جائے گا جو اتنے وقت سے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھائے ہوئے تھا ۔۔۔جانے کب صبر کا پیمانہ چھلک جائے ۔۔۔۔

خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا سب نے خوب انجوائے کیا اور واپسی کی راہ لی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

وہ آفس میں بیٹھی کوئی فائل ریڈ کر رہی تھی۔۔ جب دروازے پہ دستک ہوئی تھی ..

" اس نے فائل سے بغیر سر اٹھائے دستک دینے والے کو اندر آنے کی اجازت دی تھی ..

" اسکے اجازت ملتے ہی اس کا پی اے  آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے اندر داخل ہوا تھا .

" وہ اس وقت یہاں کس طرح سے ہمت مجتمع کیے آیا تھا یہ بس اسکا دل ہی جانتا تھا ..

لیکن اسکا اپنی باس کے آفس میں آنا اسکی مجبوری تھی ..

"یس ؟!!! خاموشی میں عیش ڈار کی رعب دار آواز گونجی۔

" اب وہ خاموشی سے کھڑا تھا اسکی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح سے بات شروع کرے ..

 " اب بولو بھی یا یوں ہی خاموش کھڑے رہنے کا ارادہ ہے .."؟

وہ فائل پہ نظریں جمائے بولی ..

'"عیش ڈار  کی بات پر وہ دو قدم اور آگے بڑھا تھا....

"میڈم ڈار کمپنی اور خان کمپنیز اس وقت ٹاپ پر جا رہی ہیں ۔میرے خیال میں اگر یہ دونوں کمپنیز مرج ہوجائیں تو اس بات کا پرافٹ دونوں کمپنیوں کو بھی اچھے سے ملے گا "اس نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی ۔

عیش ڈار نے اس کی بات پر سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔

پھر گہرا سانس ہوا میں تحلیل کیا ۔۔۔۔

کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے خان گروپس آف کمپنیز کے ایم ڈی سے میری میٹنگ فکس کرواؤ "

وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے دوبارہ سامنے موجود  فائل پر متوجہ ہوئی ۔تو وہ باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

" منت یہاں کیوں بیٹھی ہو آج  انگلش کا لیکچر بھی اٹینڈ نہیں کیا تم نے ؟؟؟

وہ کالج کے پیچھے گراؤنڈ میں اکیلی بینچ پہ بیٹھی تھی جب جنت نے  اسکے پاس آکر پوچھا  ..

"بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی"منت نے بہانہ بنایا ۔۔۔

اب وہ اسکو کیا بتاتی کہ وہ کلاس کیوں اٹینڈ نہیں کر رہی ہے؟؟؟

صرف اسی لڑکے کی  خود پہ مسلسل  نظروں کی تپیش صبح سے محسوس کررہی تھی اور سخت پریشان تھی  ..

'اسی کے بارے میں سوچتے ہوئے  اسکے پورے بدن میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی اور دل کی حالت عجیب سی ہو گئی ..

' " ایک الگ سا احساس جسکو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی ..

"چلو منت نیکسٹ کلاس کا وقت ہوگیا "جنت نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا ۔۔۔

"نہیں جنت تم جاؤ میرا من نہیں "

جنت اسکے انکار پر تاسف سے سر ہلاتے ہوئے اپنی کلاس میں چلی گئی ۔۔۔۔۔

منت گراؤنڈ میں ایک سائیڈ پر بنی پھولوں کی کیاری کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔اسکی نظر سامنے ادھ کھلی سرخ گلاب کی کلی پر پڑی تھی ..

' " گلاب کے پھولوں کو دیکھ کر اسکے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکراہٹ آئی تھی ..کیونکہ وہ اسکے پسندیدہ پھول تھے ۔۔۔

وہ اپنا بیگ ایک طرف  رکھ کر انکی طرف بڑھی تھی .

' " وہ آہستہ سے قدم اٹھاتی ان خوبصورت سے پھولوں کی طرف بڑھی ..

وہ انکے قریب ہی بیٹھ کر بہت پیار سے انہیں دیکھ رہی تھی ..

دھیان سے لگ نہ جائے  "

"اس نے جیسے ہی ان پھولوں کو توڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اپنے پیچھے انجان آواز سن کر اس نے گردن موڑ کے دیکھا ...

"وہ اسی لڑکے کو اپنے قریب دیکھ کر خوفزدہ ہوئی تھی جس نے اسے صبح سے اپنی نظروں کے حصار میں لیا ہوا تھا  ..

وہ اسکی بات نظرانداز کرتی اک پھول کو توڑنے لگی تھی کہ جب اک کانٹا بہت زور سے اسکے ہاتھ میں چبھا تھا ..

اس کی انگلی پر خون کی بوند چمکنے لگی ۔۔۔

" لگ گیا نا ۔۔۔۔میں کہا بھی تھا کہ دھیان سے "

"دکھاؤ مجھے ....اس لڑکے نے منت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے حد درجہ اپنائیت سے کہا ۔۔۔

اسکی اس حرکت اور ہمت پر منت  اپنی جگہ سن کھڑی رہ گئی تھی .

" یہ کیا کر رہے ہو پاگل ہو کیا ؟؟؟ آپ ہاتھ چھوڑو  میرا "

وہ اپنا حواس قابو میں کرتی ہوئی بولی اور اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کروانا چاہا مگر مقابل کی پکڑ مضبوط تھی۔۔

"اپنا خیال رکھا کرو میرے لیے میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا تھا ..

اسکے لہجے میں اک جنون تھا شدت تھی ..

' " پلیز میرا ہاتھ چھوڑ دو ..

جبکہ اسکے لہجے سے خوفزدہ ہوئی تھی ..

وہ اس وقت اتنی ڈری ہوئی تھی کہ اسکے الفاظ پر غور ہی نہیں کر پائی تھی ...

وہ لڑکا کچھ دیر تو اسکا ہاتھ تھامے کھڑا اسکو ڈر سے کانپتا ہوا دیکھتا رہا 

پھر ہلکا سا مسکرا کر اسکا ہاتھ اپنی پکڑ سے آزاد کیا تھا ..

اسکے ہاتھ چھوڑنے پر منت اپنی بک اٹھا کر وہاں سے بھاگتی چلی گئی تھی ..

اس نے اک بار بھی پلٹ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی ...

' " اگر وہ دیکھ لیتی تو اسکے چہرے پہ آئی پر اسرار  مسکراہٹ دیکھ کر اسکے خوف میں مزید اضافہ ہو جاتا ...

' " جبکہ وہ اسکو دور جاتا دیکھتا رہا تھا 

" بھاگ لو جہاں تک بھاگ سکتی ہو ہاں مگر یاد رکھنا 

 ایک دن تمھیں اڑا لے جاؤں گا  ...

🦋🦋🦋🦋🦋

" کیا ہوا آپ اس طرح سے خاموش کیوں بیٹھے ہیں 

کوئی پریشانی ہیں کیا آپکو ؟"

 ذوناش جب سے روم میں آئی تھی بس تب سے زیگن  کو ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا دیکھ رہی تھی تو جب اس سے برداشت نہ ہوا تو زیگن کو مخاطب کیے پوچھنے لگی  ...

ذوناش کی آواز پر زیگن  نے سر اٹھا کر دیکھا جو آنکھوں میں سوال لئے انکی طرف دیکھ رہی تھیں ..

"کچھ نہیں بس آج کل کمپنی میں کام زیادہ ہے تو بس اسی کی وجہ سے تھکان سی محسوس ہو رہی ہے ..

وہ اسے جواب دے کر اپنے پاس آنے کا اشارہ کرنے لگا ۔۔۔

"اگر تھکان ہو گی بھی تو آپ کے پاس آنے سے ساری تھکان کا اثر زائل ہوجائے گا "

وہ اس اپنے حصار میں لیتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں بولا۔۔۔

"بتائیں نا کیا بات ہے  یا پھر آپ مجھے بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتے ؟؟؟ ..

وہ زیگن کی  طرف جانچتی نظروں سے دیکھ کر بولی اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ زیگن اس سے کچھ چھپا رہا ہے ..

"میں شیر زمان کو لے کر پریشان ہوں بہت جلدی ہائیپر ہو جاتا ہے۔اس کے لیے یہ سب ٹھیک نہیں "زیگن کے لہجے میں اپنے بڑے بیٹے کے لیے فکر و تشویش بھری ہوئی تھی ۔

"ہو جائے گا ٹھیک ۔۔۔آپ بھی تو اس کی عمر میں ایسے ہی تھے ۔"ذوناش نے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لائے کہا ۔۔۔۔

"شاہ من تو سٹڈیز کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی گیا ہوا ہے اسے لے کر مجھے کوئی پریشانی نہیں کیونکہ وہ اپنی ماں پر گیا ہے اسی جیسا تحمل مزاج ہے ۔مگر شیر زمان کو لے کر پریشان ہوں ۔میں نے سوچا تھا اس کی شادی کروا دوں تاکہ اس کی زندگی میں بھی تم جیسی کوئی حسین پری آجائے اور وہ بھی ہمیشہ خوش رہے میری طرح "

وہ ذوناش کی تھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر بولا ۔۔۔

"آپ تھکتے نہیں میری تعریفیں کر کہ اب تو اس چہرے پر جھریاں نمایاں ہونے لگیں ہیں۔

وہ اپنے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔

"ہماری نظر سے دیکھیں یہ چہرہ آج بھی ویسے ہی شاداب ہے جب پہلی بار آپ کو دیکھا تھا۔بالکل ویسے ہی "

"آپ بھی نا ....

وہ شرماتے ہوئے اس کے شانے سے اپنا سر لگا گئی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ہیلو فرینڈ کیسی ہو ؟"

ضامن نے سکول کے گیٹ سے باہر نکلتی ہوئی ہیر سے پوچھا ۔۔۔۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں "

"ضامن آپ یہاں اس وقت ؟؟؟ہیر نے ناسمجھی سے پوچھا ۔

"ارے یار آج فری تھا تو سوچا کہ تمہاری پینڈنگ ٹریٹ تمہیں دے دوں اور ساتھ ساتھ بائیک کی سیر بھی کروادوں "

"واؤ کتنا مزہ آئے گا "وہ خوشی سے چہک کر بولی ۔

"میں نے پھپھو کو فون کر کہ بتا دیا ہے کہ میں تمہیں سکول سے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں پھر واپس گھر بھی چھوڑ دوں گا ۔۔۔۔

"ضامن آپ واقعی میرے بہت اچھے دوست ہیں "

"وہ کیا ہے نا کبھی غرور نہیں کیا"وہ فرضی کالر اچکا کر بولا ۔۔۔۔

"چلیں ؟؟؟

ضامن نے بائیک پر بیٹھ کر اس سے پوچھا ۔۔۔

"چلیں جلدی سے "وہ اچھل کر بائیک پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔

دونوں سکول سے نزدیک ایک شاندار کیفے میں آئے ۔۔۔۔

"کیا کھاؤ گی ؟؟؟

"جو بھی یہاں ملتا ہے سب کچھ "

"اپنی صحت دیکھو اور اپنی فرمائشیں دیکھو ۔۔۔۔

وہ اسکے دبلے پتلے سراپے پر چوٹ کیے بولا ۔

"آپ کِھلا رہے ہیں یا نہیں ؟؟؟

وہ غصے سے بولی ۔۔۔

"کر لو آرڈر جو کرنا ہے میری ماں "

"ضامن میں آپ کی ماں کب سے ہوگئی ؟؟؟

"اوہو ۔۔۔مذاق سے کہا ہے ۔۔۔تم بھی نہ ۔۔۔

خدا کسی کو عقلمند دشمن دے دے مگر بے وقوف دوست کبھی نا دے ۔۔۔۔اس نے جل کر کہا ۔۔۔۔

مگر ہیر کو اس کی باتیں اپنے سر کے اوپر سے گزرتی ہوئیں محسوس ہوئیں ۔۔۔۔

"ان بیچاری کے شوہر کا تو اللہ ہی حافظ ہونے والا ہے ۔۔۔۔

اس نے مسکرا کر دل میں سوچا پھر سامنے رکھا مینیو کارڈ پڑھنے لگا ۔۔۔۔

شیر زمان جو دبئی سے ایک بزنس  ڈیل کے سلسلے میں پاکستان آیا ہوا تھا ۔۔۔وہ بھی اسی کیفے میں موجود تھا ہیر اور ضامن کے وہاں آنے سے پہلے ہی ۔۔۔۔۔

عمر آفندی کی نظریں سکول یونیفارم میں ملبوس معصوم و حسیں لڑکی پر پڑیں تو پلٹنا بھول گئیں ۔۔۔۔۔

"وہ ان چھوئی بیوٹی دے دو برٹش کمپنی کے ساتھ ڈیل ڈن"عمر آفندی نے اسے کچھ دور ٹیبل پر موجود لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

شیر زمان نے اس کے تعاقب میں نظریں اٹھا کر دیکھا ۔

تو نیلی آنکھوں سے وحشت ٹپکنے لگی  ۔۔۔۔۔

جہاں ہیر اور ضامن ایک ٹیبل پر موجود تھے ۔

عمر آفندی اس کے چہرے پر آئے پتھریلے تاثرات دیکھ کر خباثت سے ہنسا۔۔۔۔۔

"آہ !!!!! اسکی کرب زدہ کراہ نکلی ۔۔۔

شیر زمان نے سیدھے ہاتھ سے اسکے منہ پر ایک زور دار پنچ مارااس کی انگلی میں شیر والی رنگ موجود تھی ۔۔۔جو اس کے منہ کو چیر گئی ۔۔۔

"شیروں کو تم جیسے کتوں کی بھیک نہیں چاہیے "

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر غرایا۔۔۔۔ 

ضامن اور ہیر نے جب اسے اس کیفے میں دیکھا تو حیرت انگیز نظروں سے اسے پہلے اسے پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔

ہیر نے اپنے اس کزن کو دیکھا جو ہمیشہ ہی ایسے اول جلول حلیے میں رہتا تھا ۔

جینز پر ہڈی پہنے کلائی میں رنگ برنگے بینڈز پہنے ۔سیاہ سٹریٹ بال شانے تک آتے ہوئے ،ہاتھ میں زیادہ تر گن موجود رہتی ،نیلی آنکھوں میں ہمیشہ سرد پن اور وحشت دکھائی دیتی ۔گردن پر ُغراتے ہوئے شیر کا ٹیٹو دکھائی دیتا وہ بزنس مین کم اور غنڈہ زیادہ دکھائی دیے رہا تھا ۔۔۔

"میرے بغیر اب یہ کانٹریکٹ لے کر دکھاؤ "عمر آفندی  دھمکی آمیز انداز میں بولا  ۔۔۔

اور تم جیسوں کو تو میں اپنے گھر میں ملازم کی نوکری بھی نہ دوں۔اور تم کانٹریکٹ کی بات کرتے ہو۔۔۔۔یو باسٹرڈ !!!!

شیر زمان نے گن نکال کر اسکی نال ضامن اور ہیر کی طرف کرتے انہیں یہاں سے باہر نکل جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔

 دو منٹ کے اندر دفعان ہو جا میری نظروں کے سامنے سے نہیں تو دھو ڈالوں گا "

شیر زمان حقارت بھری نظر سے اپنے سامنے کرسی پر بیٹھے عمر  آفندی کو دیکھ کر بولا ۔۔۔

ہیر اور ضامن ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر وہاں سے باہر نکل گئے ۔۔۔۔

"شیر کا شکارکتے نہیں کر سکتے جتنا چاہے زور لگالیں "اب گن کا رخ عمر کی کنپٹی کی جانب تھا ۔۔۔۔

"تیری کیا بہن لگتی تھی سالے جو تجھے اتنا چُبھا  "وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر تنفر زدہ آواز میں بولا ۔۔

 کیفے میں موجود لوگ اب ان کی گفتگو سے فیضیاب ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔قہقہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔۔۔

شیر زمان نے اشتعال انگیزی میں ہاتھ کے ایک جھٹکے سے  ٹیبل پر موجود لیپ ٹاپ،،کافی اور سنیکس ساتھ موجود پلیٹیں، ساس،،اور کولڈرنگ سے بھری ٹیبل عمر آفندی پر الٹ دیں ۔۔۔۔

وہاں موجود  سارے لوگ اپنی اپنی ٹیبل اور کرسیاں خالی کر کے دیوار کے ساتھ لگ گئے ۔۔۔۔

شیر زمان کے باڈی گارڈز جو اسی کے حکم کے تحت کیفے کے باہر موجود تھے ۔اسے غصے میں آتا دیکھ اندر آئے ۔۔۔۔

شیر زمان نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں وہیں رکنے کا کہا ۔۔۔۔

اور مڑ کر تنفر زدہ نظروں سے  عمر آفندی کو دیکھا ۔۔۔۔

"جب تجھ ذلیل جیسامرد نامرد بن جائے گا تو پھر دنیا کی ہر لڑکی کو بہن کی نظروں سے دیکھے گا "

اس کی وحشت زدہ آواز سے وہاں موجود  سب لوگ سہم کر رہ گئے ۔۔۔۔

شیر زمان نے سامنے کھڑے ہوئے عمر آفندی کی حساس جگہ پر اپنے جوگرز والے پاؤں سے اتنی زور سے کِک ماری کہ عمر آفندی وہاں پر ہاتھ رکھ کر  درد سے بلبلاتے ہوئے اچھل کر فرش پر دور جا گرا ۔۔۔۔۔

"شیر کا ایک وار ہی کافی ہے تجھ جیسے کتوں کے لیے "

اس کی گھمبیر آواز نے ماحول میں چھائی ہوئی خاموشی کو توڑا۔۔۔۔

 پھر اپنے سلکی بالوں کو جھٹکا دے کر پیچھے کرتے ہوئے ۔۔۔۔کیفے کے مینجر کی فرنٹ پاکٹ میں چیک ڈال کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

مینجر کی حالت بھی ایسی تھی کہ کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔

اس کے جاتے ہی سب لوگوں کے رکے ہوئے سانس بحال ہوئے ۔۔۔۔

آج منت اکیلی ہی کالج آئی تھی کیونکہ جنت کو کل رات سے بخار تھا ۔

سامنے اسی لڑکے کو دیکھ کر وہ حیران اور پریشان رہ گئی 

"یہ آپ کے لیے،،،اس میں سے سارے کانٹے نکال دئیے ہیں آپ کو پسند ہیں نا اسی لیے میری طرف سے "

وہ منت کی حیرت زدہ شکل دیکھتا ہوا بولا اور پھولوں کا بُکے اس کی طرف بڑھایا۔۔۔ 

منت نے نا چاہتے ہوئے بھی گھبرا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس لڑکے کے ہاتھ سے بُکے لیا۔۔۔معا کہیں باقی سب سٹوڈنٹس انہیں ساتھ دیکھ کر کوئی باتیں نا بنائیں ۔اپنی بعزتی کے ڈر سے وہ جلد سے جلد وہاں سے نکل جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔  

وہ پھولوں کے بُکے کو وہیں قریبی بینچ کے پیچھے پھینک کر اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

پھول اسے ہمیشہ اپنی طرف اٹریکٹ کرتے تھے وہ ابھی تازہ گلاب کی خوشبو کو اپنے نتھنوں کے ذریعے اندر اتارنا چاہتی تھی۔۔مگر وہ کر نہیں پائی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"کیا ہوا بریرہ کیوں رو رہی ہو"؟

 وہ کمرے کی کھڑکی کے پٹ پہ سر ٹکائے رونے میں مصروف تھی جب اسے زریار کی آواز آئی۔۔ بریرہ نے حیرت سے مڑ کر پیچھے دیکھا ۔۔

وہ بیڈ پہ بیٹھا اسے ہی دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔ 

"زریار !!!!!۔۔ لبوں نے بے آواز جنبش کی۔۔

جی جان زریار!!!!۔۔ ادھر آئیں میرے پاس۔۔ پیار سے کہتے اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔۔

بریرہ نے اسے دیکھا اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس کے پاس آئی ۔۔۔۔  پاس پہنچ کر وہ اس کے ہاتھ کے اوپر اپنا رکھا تو زریار نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر اپنے لبوں سے لگایا 

اور دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسو پونچھے۔۔۔

"جو تمہارے دل کی حالت ہے اس وقت میری بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے"

"جتنی تمہاری بیٹی ہے زائشہ اتنی ہی میری بھی بیٹی ہے،اس کے دور ہونے کا سوچ کر میرا بھی وہی حال ہے جو تمہارا ہے ،مگر بیٹیوں کو آخر کار اپنے گھر جانا ہی ہوتا ہے ،ہمت کرو ،ہمیں زائشہ کو بھی سنبھالنا ہے۔اور زائشہ کونسا دوسرے ملک جا رہی ہے بیاہ کے بعد یہیں ہمارے قریب ہی ہے۔جب جی چاہا جا کر اپنی بیٹی سے مل آئیں گے یا اسے اپنے پاس بلوا لیں گے "زریار نے اسے تسلی آمیز نظروں سے دیکھ کر کہا ۔۔۔

بریرہ نے اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے زریار کے ساتھ لگی۔کیونکہ اسے بھی تو اسکے سہارے کی ضرورت تھی اس وقت ۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"زائشہ بیٹا تم نے نکاح کا جوڑا خرید لیا ہے ؟؟؟

",جی پھپھو کل ہی مما کے ساتھ جا کر خریداری کی تھی "زائشہ نے یمنی کو بتایا۔

"کونسے کلر کا لیا ؟؟؟میں بس اسی لیے پوچھ رہی ہوں کہ ریسیپشن کے جوڑے کا رنگ زرا مختلف ہو ۔یہ نا ہو کہ دونوں ایک ہی رنگ کے ڈریس ہو جائیں ۔

"میں نے ریڈ کلر کا ڈریس لیا ہے "ابتسام کو ریڈ کلر پسند ہے انہوں نے ہی کہا تھا "وہ دھیمی آواز میں بولی۔

یمنی اس کی بات سن کر مسکرائی ۔۔۔

"چلو ٹھیک ہے ۔اچھا کیا ۔اب ریسیپشن کا ڈریس بتاؤ کس کلر کا لوں ؟

"پھپھو جو آپ کو پسند ہو وہی لے لیں ۔آپ کی چوائس بہت اچھی ہے "

"تم میرے ساتھ چلنا پھر لے لیں گے "

"جی ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں "اس نے تابعداری سے کہا۔

اچانک آنے والی کال پر یمنی نے اپنے موبائل سے کال ریسیو کی ۔

"میڈم جی میری وین خراب ہوگئی ہے ۔آج میں ہیر بیٹیا کو سکول سے لینے نہیں جا پاؤں گا ۔

"آپ نے وقت دیکھا ہے اب تو ہیر کو چھٹی ہونے میں صرف دس منٹ رہ گئے ۔یہ بات آپ مجھے پہلے بھی کال کر کہ بتا سکتے تھے ۔

"معاف کیجیے گا میڈم جی ۔

"اچھا ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں ۔

یمنی نے شہریار کو کال ملائی تو اس کا فون ان ریچ ایبل آ رہا تھا ۔

آفس میں کال کی تو پتہ چلا کہ شہریار اور ابتسام میٹنگ روم میں ہے۔

"اف اب کیا کروں حسام بھی اسلام آباد کی فلائٹ پر گیا ہوا ہے ۔

"پھپھو ڈرائیور بھی گھر نہیں وہ زرشال چچی اور ذوناش چچی کے ساتھ مارکیٹ گیا ہے۔

"آپ ایسا کریں ضامن کو کال کر لیں وہ ہیرکو سکول سے پک کر لے گا ۔۔۔۔

"ہیلو ضامن کہاں ہو ؟؟

"پھپھو میں کچھ دوستوں کے ساتھ آؤٹ آف سٹی ہوں ۔فشنگ کرنے آیا ہوں شام تک آجاؤں گا ۔۔

"اچھا ٹھیک ہے بیٹا اپنا خیال رکھنا ۔۔

"زائشہ ضامن بھی نہیں جا سکتا ۔۔

"شیر بھائی !!!!

وہ جو دوبئی واپس جانے کے  تیار ہوئے نیچے اتر رہا تھا ۔زائشہ کے پکارنے پر اسی طرف آیا ۔۔۔

"ہمممم!

"بھائی وہ دراصل ہیر کو سکول سے لاناہے ۔آپ لے آئیں گے ؟؟؟زائشہ نے ڈرتے ہوئے کہا 

"اوکے"اس نے سادہ سے الفاظ میں کہا اور باہر نکل گیا ۔۔۔۔

"ہیر تمہارے گھر سے ابھی تک کوئی بھی نہیں آیا ۔

اس کی سہیلیوں میں سے ایک نے کہا ۔

"ابھی بھائی آجائیں گے "

اس نے لاپرواہی سے کہا ۔۔۔اور روڈ پرادھر ادھر دیکھنے لگی ۔

"وہ دیکھو گول گپے "

سامنے ہی گول گپے والا ٹھیلا دیکھ کر ہیر کے منہ میں پانی آیا ۔۔۔۔

"آؤ گول گپے کھائیں "اس کی دوست نے اسے للچائی نظروں سے گول گپے کے ٹھیلے کو دیکھتے ہوئے دیکھ کر پیشکش کی ۔

"دل تو میرا بہت ہے ۔اور سچ بتاؤں انہیں دور سے دیکھ کر منہ میں پانی بھی آرہا ہے ۔۔مگر کھا نہیں سکتی ۔۔۔۔

"وہ کیوں بھلا "؟

ان میں سے ایک نےہیر سے پوچھا ۔۔

"مما ناراض ہوں جائیں گی اگر گلہ خراب ہوگیا تو "

ابھی وہ بات مکمل کر ہی رہی تھی کہ اس کے قریب ٹائرز کے چرچرانے کی آواز سنائی دی ۔۔۔

ہیر بدک کر پیچھے ہوئی ۔۔۔

بلیک چمچاتی پراڈو میں سے شیر زمان کو نکلتے ہوئے دیکھ ہیر کا خون خشک ہوا ۔۔۔۔

"آؤ ہیر !!!! اس کی گھمبیر آواز سن کر ہیر کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔

وہ اپنے گاگلز لگائے گاڑی کے پاس پورے جاہ و جلال سے کھڑا تھا ۔

"What a personality !!!

ہیر کی دوستوں میں سے ایک نے شیر زمان کو دیکھ کر ہلکی آواز میں کہا۔۔۔۔

Sooooooo Handsome .....

دوسری نے سووووو کو کھینچتے ہوئے شیر زمان کی تعریف کی ۔۔۔۔

"یار ہیر وہ ہینڈسم مین تیرا کیا لگتا ہے ؟؟؟

"تو نے کبھی بتایا نہیں ہمیں ۔۔دوسری نے شکوہ کیا ۔

ہیر سن کہاں رہی تھی ان کی باتیں اسکے اوسان تو شیر زمان کو سامنے دیکھ پہلے ہی خطا ہو چکے تھے ۔

شیر زمان نے اسے اپنی جگہ پر ہی جمے ہوئے دیکھا تو اپنی گردن کو ٹیڑھا کیے اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرنٹ ڈور اوپن کیا اس کے بیٹھنے کے لیے"

"جاؤ ہیر !!!!اس کی ایک دوست نے اسے تھوڑا سا دھکا دیا تو وہ مردہ قدموں سے چلتے ہوئے گاڑی تک آئی اور اندر بیٹھی ۔۔۔

شیر زمان نےدروازہ بند کیا اور پھر واپس آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔۔۔۔

ہیر ونڈو کے ساتھ چپکے ہوئے باہر کیطرف دیکھ رہی تھی ۔

گاڑی میں شر زمان کے مخصوص کلون کی مہک پھیلی ہوئی تھی ۔جو اس کے نتھنوں سے ٹکرا کر اس کے حواس مختل کیے دے رہی تھی ۔۔۔

اس گھمبیر خاموشی میں شیر زمان کو اس کےزور زور سے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز بخوبی سنائی دے رہی تھی ۔

"کیسی ہو؟اس سناٹے کو شیر زمان کی آواز نے توڑا ۔۔۔

"ج۔۔۔جی ۔۔ٹھیک ۔۔۔بمشکل اسکے حلق سے یہ الفاظ برآمد ہوئے ۔۔۔۔

ہیر نے گھر جانے والے راستے کی بجائے کسی اور راستے پر گاڑی کو جاتا ہوا دیکھا تو خوفزدہ نظروں سے شیر زمان کو دیکھا ۔۔مگراس سے پوچھنے کی ہمت نہیں تھی ۔

وہ خود ہی ایک شاندار مال کے سامنے گاڑی روک چکا تھا ۔۔۔۔

گاڑی کو باہر سے لاک کیے اندر گیا ۔ہیر سہمی ہوئی چڑیاکے مانند وہیں جامد بیٹھی رہی ۔پورے پانچ منٹ بعد اس کی واپسی ہوئی ۔۔۔

وہ شاپنگ بیگ پچھلی سیٹ پر رکھ کر واپس اپنی جگہ بیٹھا ۔۔۔

سارا راستہ خاموشی سے کٹ گیا ۔۔

شیر زمان گاہے بگاہے ہیر پر نظر ڈالتا رہا ۔مگر فی الوقت خاموش رہنے کا ہی سوچا ۔۔۔کیونکہ ابھی وہ ہیر کے کچے زہن میں کچھ بھی ڈالنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔

خان حویلی آتے ہی ہیر دروازہ کھول کر ایسے باہر بھاگی جیسے پرندہ پنجرے سے نکل کر ۔۔۔۔

شیر زمان نے اسے یوں بھاگتے ہوئے دیکھا تو تاسف سے سر ہلایا ۔۔۔اور بیگ اٹھا کر اندرآیا۔۔۔

"تھینک یو بیٹا !یمنی نے اسے تشکرانہ انداز میں کہا۔

"اٹس اوکے "

"یہ ہیر کے لیے ہے۔اس کے اے گریڈ حاصل کرنے کا گفٹ میری طرف سے "

"اگر ہیر کو اچھا لگے تو یہی ڈریس وہ ابتسام کی شادی پر پہنے تو مجھے اچھا لگے گا ۔

شیر زمان نے اس کے لیے اگر کچھ لیا تھا تو اسے چھپ کر دینا گوارا نا کیا بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر سب کے سامنے ایسے دے رہا تھا کہ ہیر وہ گفٹ وصول بھی کر لے اور استعمال میں بھی لائے ۔

یمنی اور زائشہ نے اچنبھے سے ایک دوسرے کو دیکھا کہاں روکھا پھیکا سا شیر زمان اور کہاں یہ اچانک گفٹ ۔۔۔۔

مگر کچھ دیر میں وہ یہی سوچ چکیں تھی کہ شیر زمان جیسا بھی ہے دل کا برا نہیں ۔

"پسند کیوں نہیں آئے گا ہیر کو ۔۔۔بھئی ضرور پہنے گی ہیر یہ ڈریس شادی میں آخر پہلی بار اس کے بڑے بھائی نے اسے کوئی گفٹ دیا ہے ۔

ہیر پاس بیٹھی پریشانی سے سر جھکائے ہوئے  ناخن چبا رہی تھی ۔۔۔۔

یمنی کی بات سن کر شیر زمان کے نارمل تاثرات پل بھر میں سپاٹ ہوئے ۔۔۔۔

اسے ایسا لگا جیسے کوئی کڑوا بادام چبا لیا ہو ۔۔۔۔

وہ اپنا بیگ لیے باہر کی طرف نکل گیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"آگئے لارڈ صاحب ؟؟؟

"یس بابا "

"کتنی دفعہ کہوں مجھے بابا مت کیاکرو"

"جی بھیا یہ کوئی بوڑھے تھوڑی نا لگتے ہیں آپ سے بس چار پانچ سال ہی بڑے لگتے ہیں۔جیسے ہم انہیں پاپس کہتے ہیں ویسے ہی آپ بھی کہا کریں ۔۔۔۔منت اِٹھلا کر بولی ۔

"کیوں پاپس ٹھیک کہا نہ میں نے ؟؟؟

"کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو مگر پہلے مجھے اس نکھٹو آوارہ سے پوچھ لینے دو کہ اسے سارا دن اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومنے کے علاؤہ اور کوئی کام ہے بھی کے نہیں "

"ارے بابا جو کچھ نہیں کرتے اصل میں وہی سب کچھ کرتے ہیں ۔۔۔

"تمہاری یہ منطق میری سمجھ سے باہر ہیں۔کتنی بار کہا ہے کہ زیگن بھائی یا زریار بھائی کے ساتھ بزنس سنبھالنے کو مگر آپ کی تو عیاشیاں ہی نہیں ختم ہوتیں۔

"ارے میرے پیارے بابا ۔۔۔خان صاحب اس دار فانی سے کوچ کرنے سے پہلے اپنے اس پوتے کے لیے بہت سا پیسہ چھوڑ گئے ہیں۔میں ساری عمر کام نہ بھی کروں تو آرام سے بیٹھ کر کھا سکتا ہوں ۔

"اور ویسے بھی اس گھر کے سارے مرد کام کرتے ہیں ایک مجھ جیسا معصوم بچہ نہیں بھی کرے گا تو کون سا پہاڑ ٹوٹ جائے گا ۔

"ضامن اپنی حرکتیں سدھار کو ورنہ میرے ہاتھوں سے ضائع ہو جاؤ گے ۔

"چلیں بابا آپ کو میں اس سلسلے میں ایک مفت کا مشورہ دیتا ہوں ۔

سب افراد جو لاونج میں موجود تھے اس کی بات منہمک انداز میں سننے لگے ۔۔۔

"آپ نا میری شادی کردیں ۔میں نے اکثر بڑوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ شادی کے بعد جب لڑکوں پر ذمہ داری پڑتی ہے تو وہ خود بخود سدھر جاتے ہیں۔

تو پھر کیا خیال ہے آپ کا اس بارے میں ؟؟؟

اس کی بات سن کر سب کے قہقہے ُچھوٹے ۔۔۔۔  

"زمارے تمہارا بیٹا بالکل تم پر گیا ہے ۔زریار نے کہا ۔

"وہ کیسے ؟؟؟کوئی مجھے بھی کچھ بتائے "ضامن نے پرشوق انداز میں پوچھا ۔

"جناب اپنی دلہن کی رخصتی کروانے اکیلے ہی پہنچ گئے تھے "زیگن نے مسکرا کر بتایا ۔۔۔

زمارے بچوں کے سامنے تھوڑا خجل سا ہوا ۔۔۔۔

میرے بیٹے کو کوئی بھی کچھ مت کہے میرا شہزادہ بیٹا "زرشال نے ضامن کو اپنے پاس بلایا تو وہ زرشال کے ساتھ لپٹ کر جنت اور منت کو انگوٹھا نیچے کیے چڑانے لگا ۔مما میری ہیں ۔

"ہمارے پاس ہمارے پاپس ہیں  ۔جو بہت cool ہیں"جنت اور منت دونوں کو زمارے کی اطراف میں بیٹھی تھیں۔دونوں اپنے بابا کے شانے سے لگیں ۔۔۔

زمارے پیار بھری نظروں سے اپنی دونوں بیٹیوں کو دیکھا اور دل میں اپنی جان سے پیاری بیٹیوں کے نیک مقدر کی دعا کرنے لگا ۔۔۔ 

  مگر شاید کچھ دعائیں زمین سے آسمان کا سفر طے کرنے میں کچھ وقت لگا دیتیں ہیں۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

شادی کی تیاریوں میں دن کیسے گُزرے کچھ پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔

ضامن آج مہندی کی رسم کے لیے کچھ سامان لے کر اپنی ہیوی بائیک پر سوار فل سپیڈ سے گھر واپس جا رہا تھا ۔۔۔۔

عیش ڈار جو آج ایک اہم میٹنگ کے لیے تیار ہوکر آئی تھی ۔۔۔۔

گاڑی کا روازہ کھول کر باہر نکلی ہی تھی کہ کوئی تیز رفتار بائیک اس کے پاس سے گزری ۔۔۔۔

کل رات شہر میں بارش ہوئی تھی جسکی وجہ سے سڑک پر پانی ابھی تک جمع تھا ۔۔۔۔

تیز رفتار ہیوی بائیک کے قریب سے گزرنے پر گندے پانی کے چھینٹے اڑ کر عیش ڈار کے قیمتی ڈریس پینٹ کوٹ کا نقشہ بگاڑ گئے ۔۔۔۔۔

وہ اپنے اندر ابلتے ہوئے لاوے سے جھٹپٹا کر رہ گئی ۔۔۔۔

"کل تک یہ دو کوڑی کا لڑکا مجھے اپنے فارم ہاؤس میں چاہیے"

اس کے زہر خند لہجے میں اژدھوں کی سی پھنکار تھی۔

وہ اپنے گارڈز سے مخاطب تھی ۔جو مؤدب انداز میں سر جھکائے ہوئے کھڑے تھے۔جنہوں نے اس کی گاڑی کا دروازہ کھولا ۔۔۔تاکہ ان کی میڈم باہر آسکیں ۔۔۔۔

"یہ ابھی جانتا نہیں کس پر کیچڑ اچھالا ہے اس نے !!!

"مرتے دم تک نہیں بھولے گا "عیش ڈار کا نام "

Meeting is cancelled.

اس کی بھوری آنکھوں میں شعلوں کی سی لپک تھی جو مقابل کو جلا کر بھسم کر دینے والی تھی ۔

گاڑی میں واپس بیٹھ کر وہ اس کا دروازہ زور سے بند کرگئی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج مہندی تھی ہر طرف گہما گہمی تھی قہقے تھے ساری حویلی روشنیوں سے جگمگا رہی تھی ۔  زریار ،زیگن اور زمارے تینوں مہمانوں کے ساتھ مصروف تھے۔۔۔

خان ہاؤس میں آج رونقیں ہی رونقیں تھی ہر طرف خوشیوں کی بہار اور رنگ و بو کا سیلاب امڈ آیا تھا۔۔

شہریار اور یمنی اپنی پوری فیملی کے ساتھ خان ہاؤس میں داخل ہوئے۔۔۔۔تو خان حویلی والوں نے ان تمام لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔۔۔

 ابتسام کی نظروں میں تو آج  سرشاری کی جھلک نمایاں تھی  کیونکہ اس نے جسے چاہا تھا اسے آسانی سے پانے جا رہا تھا ۔۔۔

سب لڑکیوں نے زرد اور مختلف امتزاج کے خوبصورت ڈریس پہنے ہوئے تھے ۔۔۔۔

باقی سب لڑکوں نے وائٹ کرتا شلوار پر سبز اور زرد رنگ کی چنری گلے میں ڈالی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔

جنت  نے زرد اور آتشی گلابی  کلر کا لہنگا پہنا تھا جبکہ منت نے زرد اور گرین۔۔۔۔

 ہیر نے ییلو پلم کلر کا ۔۔۔

زائشہ نے زرد رنگ کا فراک اور چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیا تھا جس پر گوٹے کناری کا دیدہ زیب کام کیا گیا تھا۔قدرتی پھولوں کے زیور میں بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔

کیونکہ آج کا فنکشن اکٹھے خان حویلی میں ہی ہونا قرار پایا تھا اسی لیے سب کے سب وہاں موجود تھے ۔سوائے شیر زمان کے ۔اس نے نکاح کے روز آنے کا وعدہ کیا تھا ۔۔۔۔

لڑکے لان میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔

کہ اچانک زیان  نے حسام کو  مخاطب کیے پوچھا ۔

اور بھئی حسام  صاحب کہاں غائب رہتے ہو آجکل۔۔۔۔ ؟"

دکھائی ہی نہیں دیتے۔۔۔۔۔کیا چکر ہے آخر۔۔۔۔؟؟؟

زیان نے کچھ مشکوک لہجے میں شرارت سے پوچھا۔

کہیں نہیں یار بس آجکل کام تھوڑا بڑھ گیا تھا  تو مصروف تھا ۔۔۔۔

حسام نے ایک نظر سب کو دیکھتے مختصر جواب دیا۔۔۔دل تو نہیں تھا اس فنکشن میں آنے کا مگر اس کے بھائی کی مہندی میں وہ ہی غائب ہوتا تو لوگ نجانے کیا سوچتے اور وہ کسی کو بھی بات کرنے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔

"میرے بارے میں تو پوچھ لیا اپنا بھی تو بتاؤ تم کہاں غائب رہنے لگے ہو آج کل حسام نے اسی کا سوال اسی کو لوٹایا تو وہ مسکرا اٹھا ۔۔۔۔

ایسے کونسے کام ہیں جو اب تم بھی دکھائی نہیں دیتے ۔۔۔۔

حسام  نے شکوہ کیا۔۔۔۔

ارے ایسی کوئی بات نہیں ہے دراصل کچھ دنوں سے میٹنگز وغیرہ زیادہ تھیں۔اور شہر کے حالات بہت خراب ہیں۔اب تمہیں کیا بتاؤں کیا کیا ہو رہا ہے شہر میں ۔۔۔۔۔۔۔

زیان نے اسکا شکوہ دور کرتے ہوئے اسے تفصیل بتائی ۔۔۔۔۔

"ارے ابتسام بھائی کی تو سنی گئی اب آپ کا کیا ارداہ ہے حسام جی ؟"

ضامن نے ان کی باتوں میں اپنا ٹکرا لگایا ۔۔۔۔

 "میرا تو ابھی ایسا کوئی ارادہ نہیں حسام نے پنجے چھڑوائے ۔۔۔۔

"آپ کو کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی ؟؟؟؟ضامن نے شرارت سے پوچھا ۔۔۔۔

"توبہ توبہ میں ان خرافات میں نہیں پڑتا ۔ زیان نے بیزاری سے کہا ۔۔۔

"ضامن  !   محبت پر کسی کا بس نہیں چلتا ۔۔۔۔یہ وہ آسمانی تحفہ ہے جو جانے کب کہاں مل جائے ۔۔۔ میں یہ مانتا ہوں جو شخص خدا نے آپ کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہو اسے دنیا کی کوئی بھی دوسری طاقت آپ سے چھین نہیں سکتی ۔وہ آپ کا ہو کر رہے گا ۔۔۔چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔

"ارے حسام بھائی آپ نے تو بہت گہری بات کردی ۔لگتا ہے آپ پر محبت کا جزبہ اپنا جادو چلا چکا ہے "

 "بس کچھ ایسا ہی سمجھ لو مگر ایک بات ہے اپنی محبت کو کسی اور کا ہوتے دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔"میں نے صبر کرنا سیکھ لیا ہے کیا پتہ اللہ تعالیٰ کو میرا  یہ صبر پسند آجائے 

بہت درد ہوتاہے برداشت کرنے میں اتنا درد ہوتا ہے کہ ایسا لگتا ہے میں کبھی اگلی سانس بھی نہیں لے پاؤں گا اگر وہ مجھ سے دور ہوئی تو …

حسام جو اندر سے پوری طرح سے ٹوٹ چکا تھا ضامن کی بات پر بے دھیانی میں سب کہہ گیا تھا ۔۔۔۔سب کی حیران نظریں خود پہ محسوس کرکے اسے ایک دم اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ خاموش ہوگیا ۔۔۔

تبھی مہندی کی رسم کا شور اٹھا تو بات ادھوری رہ گئی ۔۔۔۔

حسام نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔

"ابتسام بھائی !!!!

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی ابتسام فورا پلٹا ۔۔۔

منت جو ابھی ابھی اپنے دونوں ہاتھوں کو مہندی کے ڈیزائن سے بھروا  کر آئی تھی ابتسام کو یہ بتانے کے اسے رسم کے لیے سٹیج پر بلا رہے ہیں۔

اسکے اچانک مڑ جانے پر منت کے دونوں مہندی والے ہاتھ اس کے سفید کرتے جو داغدار کر گئے ۔۔۔۔۔

"اوہ سوری بھائی !!!!

وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور شرمندگی سے بولی ۔۔۔۔

"سوری کی بچی اندھی ہو کیا ؟؟؟

"میرا سارا کرتا خراب کردیا "

اللّٰہ تعالیٰ نے اتنی بڑی آنکھیں کیا بند رکھنے کے لیے دیں ہیں۔؟؟؟کبھی ان کا استعمال بھی کر لیا کرو ۔اب رسم میں کیا ایسے کپڑے پہن کر جاؤں گا "

اس نے غصے میں آتے ہوئے منت کو بے نقد سنا ڈالیں۔۔۔۔

منت کی آنکھوں میں اپنی بیعزتی کے باعث آنسو بھر گئے ۔۔۔۔

 "جس شادی کے چکر میں آپ نے مجھے اتنا ڈانٹا ہے اللّٰہ کرے آپکی شادی ہی نا ہو !!!

منت نے وقتی غصے سے اسے واش روم کی طرف جاتے دیکھ پیچھے سے بدعا دے ڈالی ۔۔۔۔

اس لیے تو کہتے ہیں سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے جانے کب اور کون سی دعا قبول ہو جائے ۔۔۔۔۔

آخر وہ دن بھی آن پہنچا جب وہ اپنی پوری زندگی کسی اور کے نام کرنے جا رہی تھی ۔آج  اس کی زندگی بدلنے والی تھی ۔۔۔پارلر جانے سے پہلے   وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے ہاتھوں پہ لگی مہندی دیکھ رہی تھی جس کا رنگ بہت گہرا آیا تھا۔۔۔سب لڑکیوں کی طرح وہ بھی خوش تھی مگر پھر بھی دل میں ہزار وسوسے تھے کہ نا جانے آنے والا وقت کیسا ہوگا۔۔ اس نے خود کو ہمیشہ اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھا تھا کبھی سر سے دوپٹہ اترنے نہیں دیا تھا ۔۔۔اپنے محرم  کے لیے چھپا کے رکھا تھا خود کو ۔۔۔ بچپن سے ہی اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ ابتسام اس کا ہمسفر ہوگا ۔بس یہی اسی رشتے کو لے کر شروع سے ہی اس کے دل میں ابتسام کے لیے عزت و احترام کے ساتھ ساتھ پسندیدگی بھی پیدا ہوچکی تھی ۔۔۔ وہ انہیں سب سوچوں میں گم تھی جب زریار اور بریرہ  اس کے کمرے میں داخل ہوۓ۔۔اداسی ان دونوں کے چہروں  سے جھلک رہی تھی۔اپنی بیٹی کی دوری کے سبب۔ 

"کیا کر رہی ہے ہماری بیٹی ؟؟۔۔زریار نے محبت بھرے انداز میں اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ پوچھا

"کچھ خاص نہیں بابا۔۔۔بس ساری چیزیں اکٹھا کر رہی تھی جو پارلر لے کر جانی ہیں ۔ آپ آئیں نہ بیٹھیں یہاں ۔۔اس نے بیڈ پر ہی انہیں بیٹھنے کی جگہ دی تو وہ ادھر ہی بیٹھ گئے۔۔آنکھیں یہ سوچ کر بار بار چھلک رہی تھیں کہ بہت جلد ان کی بیٹی کے نام کے آگے سے ان کا نام ہٹ کر کسی اور کا نام لگ جائے گا ۔۔۔

"بابا آپ روۓ ہیں؟؟؟۔۔۔اس نے ان کا منہ اپنی طرف کرتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔زریار کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔۔۔بریرہ نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔اور آنکھوں ہی آنکھوں میں تنبیہہ کی کہ زائشہ کو پریشان مت کریں اپنی وجہ سے ۔۔۔۔

"نہیں ہم دونوں تو بہت خوش ہیں کہ آج ہماری پیاری سی بیٹی کا نکاح ہے۔۔انہوں نے آنسوؤں کو آنکھوں میں ہی روکنا چاہا۔۔۔۔

"بابا"۔۔۔وہ کہتے ہی زریار سے لپٹ کر  پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو وہ بھی ضبط نہیں رکھ پاۓ۔۔۔بار بار زہن میں یہی آ رہا تھا کہ آج ان کی بیٹی  پرائی ہونے جا رہی ہے ۔۔۔۔

زریار آپ بھی نا ۔۔۔۔بس کریں ۔۔۔۔زائشہ تم بھی ۔۔۔دونوں پلیز رونا بند کریں ورنہ میں بھی رو دوں گی ۔۔۔مجھ میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ آپ دونوں کو روتا ہوا دیکھوں ۔۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔زائشہ بچے آپ  تو ہماری بہادر بیٹی ہیں نا۔چلیں چپ کر جائیں ۔۔۔۔۔انہوں نے اسے خود سے الگ کر کہ اسکے آنسو پونچھنے چاہے ۔۔۔۔مگر وہ اپنے بابا کے سینے میں ہی سر دیے نہ میں سر ہلا گئی۔۔

"بابا مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔۔آپ مجھے اپنے پاس ہی رکھ لیں ۔۔۔

"ایسا نہیں کہتے لڑکی کا اصل گھر اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے ۔آپ کو اپنے گھر میں خوش دیکھنے کا بہت ارمان ہے ہمیں ۔مجھے امید ہے آپ میرا مان کبھی بھی نہیں توڑیں گی ۔۔۔۔۔انھوں نے پیار سے کہا

"پاپا آپکو کبھی بھی میری طرف کوئی شکایت کا موقع نہیں ملے گا ۔اس نے پختہ لہجے میں انہیں یقین دلایا ۔۔۔۔"

اچھا جلدی سے تیار ہو جائیں زیان آپکو پارلر چھوڑ آئے گا ۔۔۔انہوں نے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

بریرہ نے اپنی بیٹی کا گال پیار سے  تھپتھپایا پھر وہ دونوں  باہر نکل گئے۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"مما یہ ڈریس بہت ہیوی ہے ۔۔۔اور دیکھیں نا پاؤں سے بھی نیچے آ رہا ہے ۔ہیر کی جھنجھلائی ہوئی آواز یمنی کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔۔تو وہ جو مشکل سے اپنی ساڑھی  سیٹ کر رہی تھی ۔مڑ کر ہیر کو دیکھا ۔۔۔۔

"ہیر بیٹا یہ میکسی ہے۔اور میکسی ایسے ہی ہوتی ہے "

اس نے سمجھانا چاہا۔

"مما کیا کروں اب ؟؟؟

"مجھے کوفت ہو رہی ہے ۔اسے زمین پر لگتے ہوئے دیکھ کر "

"ہیر ایسا کرو اس کے ساتھ اپنی ہیلز پہن لو پھر یہ زمین پر نہیں لگے گی ۔

"مما ایک تو یہ اتنی بڑی ہے اور اوپر سے ہیلز پہن کر میں تو گر ہی جاؤں گی ۔اس نے ایک اور پریشانی بتائی ۔۔۔۔

"ہیر بیٹا پلیز پہن لو جو بھی ہے۔مجھے تنگ مت کرو ایک تو یہ حسام ابھی تک گھر نہیں آیا ۔اگر شہریار کو پتہ چلا تو اور ناراض ہو جائیں گے اس سے ۔۔۔کیا کروں اس لڑکے کا ؟؟؟

وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنا فون اٹھا کر اسے کال ملانے لگیں ۔

"مما میرے بال کون بنائے گا ۔؟

"ہیر ہال پہنچنے کا وقت ہوگیا ہے اور ابھی تک تم نے بال نہیں بنائے ۔؟وہ بگڑ کر بولیں۔

"مما آپ کو تو پتہ ہے آپ ہی میرے بال بناتی ہیں۔اتنے لمبے ہیں ان میں برش کر کہ میرے ہاتھ درد ہونے لگتے ہیں۔آپ کٹوانے بھی نہیں دیتی "اس نے منہ بسور کر شکوہ کیا۔

"ایسا کرو برش کرو اور بالوں کو سکارف سے کور کر لو ابھی ہیر سٹائل بنانے کا وقت نہیں ۔ایک منٹ کی بھی اور دیری کی تو شہریار چلانے لگے گے ۔تمہیں تو پتہ ہے وہ وقت کے کتنے پابند ہیں "

"یمنی اب باہر آ بھی جاؤ کونسی تیاریاں ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں؟؟

"آگئی !!!اس نے آواز لگائی ۔۔۔۔

باہر سے شہریار کی آواز آئی تو وہ تیزی سے باہر کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔

"ہیر ایک ایکسٹرا سادہ سا ڈریس رکھ لو سامان میں وہاں چینج کر لینا ابھی وقت نہیں   ۔۔۔۔کہتے ہوئے باہر نکل گئی۔۔۔

شہریار نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ابتسام نے ساتھ والی جبکہ ہیر اور یمنی پچھلی سیٹ پر بیٹھ چکیں تھیں۔۔۔۔

"میرے سب دوست پہنچ چکے ہیں ۔یمنی جلدی باہر نکلو "

شہریار نے اپنی طرف کا دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے کہا ۔

"شہریار اپنا کوٹ تو لیتے جائیں ۔یمنی نے اسے تیزی سے ہال کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو پیچھے سے ہانک لگائی ۔۔۔۔

مگر ہال کے باہر رش اور شور کی وجہ سے سن نہیں پایا ۔

ابتسام جس نے آف وائٹ شیروانی پہنے سر پر کلاہ رکھے اور پاؤں میں کھسہ پہنے بہت شاندار لگ رہا تھا ۔شہریار کے ہمقدم ہال کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

""ایک تو یہ حسام کال نہیں اٹھا رہا "یمنی نے پھر سے اسے کال ملانے کی کوشش کی ۔اس امید سے کہ شاید اس بار وہ ریسو کر لے ۔۔۔۔

"مما میرا ہاتھ پکڑیں مجھ سے چلا نہیں جا رہا ان ہیلز میں ہیر نے میکسی کو اٹھا کر یمنی سے کہا "

"شیر زمان!!!!

یمنی نے پراڈو  میں سے شیر زمان کو نکلتے ہوئے دیکھا تو اسے آواز دی ۔

"جی !!

اس نے قریب آکر سنجیدگی سے استفسار کیا۔

"بیٹا ذرا ہیر کی مدد کرو اندر تک جانے میں "

"ایک تو یہ شہریار کا کوٹ پکڑا ہوا ہے اوپر سے یہ ساڑھی مجھ سے سمنبھالی نہیں جا رہی "اور حسام میرا فون نہیں اٹھا رہا ۔۔۔۔یمنی پریشانی سے کہتے ہوئے اپنی ساڑھی کا پلو سنبھال کر  ہال کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"ہاتھ دو !!! شیر زمان کی بھاری آواز سن کر ہیر کی سانس رکنے لگی ۔۔۔۔وہ جو دونوں ہاتھوں سے اپنی میکسی اٹھائے ہوئے تھی ۔اپنی جگہ ساکت کھڑی ہوئی تھی ۔اس نے شیر زمان کے آگے کی ہوئی چوڑی ہتھیلی کو دیکھ کر گہرا سانس لیتے ہوئے ہمت مجتمع کی ۔۔۔۔

 پھر ڈرتے ہوئے اپنا کپکپاتاہوا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔۔۔

اس کا نازک سا ہاتھ اس کے ہاتھ میں چھپ سا گیا تھا۔

دوسرے ہاتھ سے ہیر نے میکسی اٹھائی ہوئی تھی ۔

ہال تک پہنچنے میں کچھ قدموں کا فاصلہ طے کرتے ہی اس کا ہاتھ ڈر کے باعث پسینے سے بھیگ چکا تھا ۔۔۔

شیر زمان نے اس کا ٹھنڈا پڑتا بھیگا ہاتھ بخوبی محسوس کیا۔

"اس ہاتھ کی لکیروں میں میرا نام قید ہے "

"بہت جلد تمہیں اس دنیا سے چرا کر لے جاؤں گا اپنی دنیا میں جہاں صرف تم ہو ۔۔۔اور میں "

وہ اس کے دلکش چہرے کو نہارتے ہوئے دل میں بولا ۔۔۔۔

 وہ دونوں ہال میں ایک ساتھ اینٹر ہوئے تو سب کی نظریں ان دونوں پر مبذول ہوئیں ۔

شیر زمان نے خلاف معمول بلیک جینز پر بلیک شرٹ اور بلیک بلیزر پہن رکھا تھا ۔ وہ کسی بھی صنف مخالف کو زیر کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔۔۔۔آج تو اس کی ڈھب ہی نرالی تھی ۔۔۔۔شاید پہلو میں اس کا من چاہ مومی  وجود جو تھا ۔۔۔۔

ہیر نے بلیک کلر کی لانگ میکسی جس کے گلے اور دامن پر ہلکا سا کام کیا گیا تھا زیب تن کر رکھی تھی۔لمبے بالوں کو بلیک کلر کے سکارف میں مقید کیے ہونٹوں پر لائٹ پنک کلر لپ گلوس لگائے باقی کسی بھی میک اپ  اور آرائش و زیبائش سے ممبرا بالکل پری لگ رہی تھی ۔۔۔۔

ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر یوں لگا جیسے سیاہ آسمان سے دو چاند اتر کر ایک ساتھ زمین پر آگئے ہوں ۔۔۔۔

اسے ہال میں لاکر ایک صوفے پر بٹھاتے ہوئے شیر زمان پیچھے ہو گیا ۔۔۔۔۔

نکاح کی رسم ادا کرنے کے لیے شہر کے مشہور ترین ہوٹل میں انتظام کیا گیا تھا ۔ 

زریار نے میرون،ذیگن نے اپنی آنکھوں کے ہم رنگ بلیو اور زمارے نے گرے کلر کا تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا اور میرج ہال کی اینٹرینس پر کھڑے ہوئے تھے تاکہ بارات کا استقبال کرسکیں ۔آج زریار اور زیگن نے اپنے تمام بزنس مین دوستوں کو اس تقریب میں مدعو کر رکھا تھا ۔اور انہیں ہی اچھے سے ریسو کر رہے تھے ۔

جنت اور منت لائٹ پنک کلر کے شارٹ شرٹ اور شرارے پہنے ہوئے ہلکے سے کیے گئے میک اپ میں اینٹرینس سے تھوڑا پیچھے کھڑی ہوئی تھیں۔ان دونوں کے ہاتھوں میں گلابوں سے بنی لڑی تھی جو انہوں نے دولہے کی راستہ رکائی کی رسم کے لیے پکڑی ہوئی تھی ۔

بریرہ نے میرون ،ذوناش نے بلیو اور زرشال نے گرے کلر ہلکی کامدرا ساڑھیاں زیب تن کر رکھی تھیں۔بالوں کے جوڑے بنائے ہلکے سے میک اپ میں وہ سب  بہت گریس فل دکھائی دے رہی تھیں ۔

ضامن اور زیان دونوں نے ایک طرح ڈریسنگ کر رکھی تھی ۔اور دونوں ہی کیٹرنگ کا انتظام دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

بارات آگئی کا شور مچا تو سب اندر آئے اور اینٹرینس پر کھڑی ہوئی صنف نازک نے مہمانوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں ۔۔۔۔

راستہ رکائی کی رسم پوری ہوئی تو پھر دلہا کو لا کر سٹیج پہ بٹھایا اور مولانا صاحب نکاح کے پیپرز پر معلومات درج کرنے لگے ۔۔۔

ہیر کو اپنی پشت پر کچھ عجیب سا لگا تو اس نے پیچھے ہاتھ لگا کر دیکھا اسکی بیک ڈوری کُھلی ہوئی تھی ۔

"مما کہاں ہیں ؟؟؟اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر کہیں بھی اسے یمنی دکھائی نہیں دی دراصل وہ زائشہ کو لینے برائیڈل روم میں گئیں تھیں۔بریرہ کے ساتھ ۔

"ضامن یہ ڈوری بند کرنا پلیز "ہیر نے اسے مخاطب کیے کہا 

شیر زمان جو دور کھڑا تھا مگر ہیر کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا ۔اسے ضامن کو کچھ کہتے دیکھا ۔۔۔

اب وہ اپنی پشت پر بکھری آبشار نما بالوں کو اکٹھا کیے اسے کوئی اشارہ کر رہی تھی ۔

"کبھی عقل سے بھی کام لیا کرو بے وقوف ہیر جا کر کسی لڑکی سے بند کرواؤ اور بال چھوڑو "وہ ڈپٹنے کے انداز میں کہتے ہی مٹھائی لیے سٹیج کی طرف بڑھ گیا ۔

ہیر اس کی بات پر منہ پھلا کر رہ گئی ۔۔۔۔

"مما کہاں ہیں ؟؟؟اس نے اپنے بابا سے پوچھا ۔

"ہیر وہ برائیڈل روم میں گئی ہیں "انہوں نے جوابا کہا۔

"ہیر برائیڈل روم کی طرف اپنے دھیان جا رہی تھی جب اچانک اسے کسی نے بازو سے کھینچ کر ایک روم میں بند کر لیا۔۔۔۔اس سے پہلے کے وہ چیختی ۔۔۔مقابل موجود شخصیت نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی چیخ کا گلہ اندر ہی گھونٹ دیا۔۔اپنے چہرے پر کسی کی گرم سانسیں محسوس کرتے اس کا دل ایک سو بیس کی سپیڈ پی بھاگ رہا تھا اس وقت شام کا وقت تھا کمرا مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف کھڑکی سے آتی تھوڑی سی روشنی میں اسے اس شخص کی نیلی آنکھیں نظر آئیں تھیں

اس کے دھان پان سے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔۔۔ خوف سے اس کا گلابی رنگ رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ چکا تھا وہ چیخنا چاہتی تھی خود کو آزاد کروانا چاہتی تھی مگر اس کا دماغ اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا

دوسری طرف اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنی آنکھوں میں جذب کرتے شیر زمان کا دھیان اس کے سرخ ہونٹوں پہ آ کر رکا تھا

مگر اپنے جذبات پر بندھ باندھے وہ اس کا رخ دیوار کی جانب موڑ گیا ۔۔۔۔اس کے ریشمی گھٹاؤں جیسے گیسوؤں کو چھو کر محسوس کرنے کی طلب نے شدت سے سر ابھارا مگر !!!!

وہ بنا ان بالوں کو چھوئے اسی کے ہجاب سے انہیں شانے کے دوسرے طرف منتقل کر گیا ۔۔۔

ہیر سانسیں روکے کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔۔۔

مقابل کی گرم سانسوں کی تپش اسے اپنی گردن جھلستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

وہ  اسکی بیک ڈوری کے دونوں سروں کو گرہ لگائے اسکا رخ  واپس موڑ گیا  ۔

ہیر آنکھیں میچ کر بے جان گڑیا کی مانند کھڑی تھی ۔

"ضامن سے دور رہنا !!!!اس نے ہیر کے کان کے پاس اپنا چہرہ لے جا کر سرگوشی نما آواز میں کہا۔

"آ۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔کون ؟؟؟؟اس نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بمشکل پوچھا ۔جو اسے اسی کے دوست سے دور رہنے کی دھمکی دے رہا تھا ۔۔۔

"یہ مت پوچھو کہ میں کون ہوں ۔۔۔۔یہ پوچھو کہ تم کون ہو "

مقابل کی گھمبیر آواز سن کر اس کے دل کی دھڑکنوں میں انتشار برپا ہوا ۔۔۔وہ اسے کھوجتی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کی کوشش کررہی تھی مگر اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

"You are a princess of a Lion's Heart ❤️

وہ مخمور لہجے میں بولا۔

ہیر نے اپنی میکسی کو اپنی مٹھیوں میں بھینچا ۔۔۔۔

وہ پہلی بار کسی شخص کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر حواس باختہ ہو چکی تھی دماغ تو کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا ورنہ وہ اسکے الفاظ پر غور کرتی تو شاید اس شخص کو پہچان لیتی ۔

"بات مانو گی نا ؟؟؟؟اسکا سوالیہ لہجہ ہیر کی دھڑکنوں کو مزید بڑھا گیا ۔۔۔۔وہ ابھی بھی اس کے بہت قریب تھا جب وہ بولتا تو ہیر کو اس کے لب اپنے کان کی لو کو چھوتے ہوئے محسوس ہوتے ۔۔۔

وہ خاموش رہی ۔۔۔۔

"بتاو ؟؟؟؟اسکی سحر انگیز آواز پھر سے خاموشی میں ارتعاش پیدا کر گئی ۔۔۔۔

ہیر نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

اور ایسا کرتے ہوئے ہیر کے گال شیر زمان کے گال سے ہلکے سے مس ہوئے ۔۔۔۔اسے اپنے چہرے پر اسکی بئیرڈ محسوس ہوئی تو تھوڑا سا پیچھے کھسکی۔۔۔۔

ہیر کی آنکھ سے اسکی دہشت کے باعث آنسو ٹوٹ کر گال پر آر رکا ۔۔۔۔

"Don't .....

"Don't waste .....

"It's a precious pearl ...

وہ اس کے گال سے کرسٹل موتی چن کر اپنی پور پہ رکھتے ہوئے فسوں خیزی سے بولا ۔۔۔

"جاؤ !!! وہ کہہ کر تھوڑا سا پیچھے ہوا۔۔۔۔

ہیر دونوں ہاتھوں سے میکسی اٹھا کر باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔۔

اور کہیں بھی رکے بنا باہر آکر ہی دم لیا جہاں سب گھر والے موجود تھے اور سینے پر ہاتھ رکھے گہرے سانس لینے لگی  ۔۔۔۔

شیر زمان نے اس کے وہاں سے جاتے ہی اس انمول موتی کو اپنے لبوں سے چھوا تو وہ اس کے وجود کا حصہ بن گیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"Missing you"

"Like you "

"Love you"

"Want to hug you "

"Want to ......"

اس طرح کے میسجز کا سلسلہ کل سے جاری تھا اس کے موبائل پر ۔۔۔۔

اور اب تو ایسے بیہودہ میسجز آ رہے تھے جو حد تجاوز کر چکے تھے کہ اس کے کان کی لووں کو بھی سرخ کر گئے تھے ۔۔۔وہ اس وقت سخت پریشانی میں مبتلا رسموں میں بے دلی سے شریک تھی ۔

کہ اچانک واٹس ایپ پر آیا ایک امیج دیکھ کر شاک رہ گئی ۔۔۔۔

اس طرح کے کئی امیجز آنے شروع ہوگئے ۔۔۔۔۔

اس موسم میں بھی اس کے پسینے چھوٹ گئے ماتھے پر شکن نمودار ہوئیں ۔۔۔۔

اپنی اور اسی لڑکے کی واہیات تصاویر دیکھ کر وہ حواس کھونے لگی۔۔۔۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ؟؟؟؟

"یہ جھوٹ ہے "

"میں نے ایسا کبھی بھی نہیں کیا """"

"میں کبھی بھی اس کے اتنے پاس نہیں ۔۔۔۔

"یہ میں نہیں ۔۔۔۔وہ تصاویر دیکھ کر شکستہ وجود لیے وہاں سے بھاگی ۔۔۔۔۔۔

عروسی لباس میں ملبوس زائشہ دلہن بنی پھولوں کی لگی باڑ کے اس پار بیٹھی تھی جبکہ دلہا دوسری طرف درمیان میں گلابوں کی لڑیاں لگی ہوئیں تھیں۔جو نکاح کے بعد ہٹنے والی تھیں۔۔۔

آج زائشہ نے سرخ رنگ کا بھاری عروسی لباس زیب تن کر رکھا تھا ڈیپ ریڈ میک اپ نے اس کے نوخیز حسن کو مزید دو آتشہ بناڈالا تھا ۔میچنگ چوڑیاں اور زیورات اس کے حسن میں اضافے کا باعث بن رہے تھے ۔

ہیر بھی زائشہ کو دیکھنے کے لیے سٹیج پر چڑھ گئی ۔۔۔۔

"واؤ بھابھی آپ آج بہت پیاری لگ رہی ہیں ...بالکل پری جیسی " اس نے زائشہ کو دیکھ کر تعریف کی ۔۔۔۔

"پری تو تم لگ رہی ہو آج "زائشہ نے موقع کی مناسبت سے آہستہ آواز میں ہیر سے کہا ۔

"تھینک یو بھابھی "

ہیر بیٹا آپ نیچے چلی جاؤ مولانا صاحب نے نکاح کی رسم ادا کرنی ہے "یمنی نے اسے کہا تو وہ سٹیج سے نیچے اترنے لگی ۔۔۔۔

اس کی میکسی اسی کی ہیلز میں اٹک گئی ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ دھڑام سے سٹیج سے نیچے کرتی سٹیج کے قریب کھڑے ہوئے ضامن نے دونوں بازوؤں سے تھام کر گرنے سے بچایا ۔۔۔۔اس منظر کو دیکھ کر شیر زمان کی نیلی آنکھوں میں شرارے پھوٹنے لگے۔۔۔۔۔

"دھیان سے ہیر ۔۔۔۔۔ضامن نے اسے نیچے اترنے میں مدد دی ۔۔۔

"جاؤ ہیر ڈریس چینج کرلو ورنہ سارے فنکشن میں تم نے ایسے ہی گرتے رہنا ہے "یمنی نے اسے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر برائیڈل روم کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔

"زائشہ بنت زریار خان آپکا نکاح ابتسام ولد شہریار علی سے بعوض سکہ رائج الوقت دس لاکھ روپے حق مہر کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے "

مولانا صاحب نے دلہن سے اسکی رضامندی جاننا چاہی ۔۔۔

دور کھڑے ہوئے ایک انسان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے 

کسی کی زندگی میں خوشیوں کی آمد ہونے جا رہی تھی تو کسی کی زندگی سے خوشیاں ہمیشہ کے لیے روٹھنے جا رہی تھیں۔

ابتسام نے موبائل پر آتی ہوئی کال ریسیو کی ۔۔۔۔

"رک جائیے پلیز میں یہ نکاح نہیں کرسکتا "

دلہے کی آواز نے سب کو اسکی طرف متوجہ کیا ۔۔۔وہ اپنی جگہ سے فورا اٹھا اور باہر کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

دور کھڑے حسام نے آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر آنسوؤں بھری دھندھلائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔

"کیا کبھی یوں بھی معجزے ہوتے ہیں ؟؟؟

"کیا کبھی یوں بھی دعائیں مستجاب ہوتیں ہیں ؟؟؟

دل ان دیکھی خوشی سے جھوم اٹھا۔۔۔۔

"یہ کیاکہہ رہے ہو ؟؟؟اور جا کہاں رہے ہو اس وقت ؟؟؟شہریار کی گھمیبر آواز نے اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم روکے ۔۔۔۔

"ڈیڈ ابھی نہیں بتا سکتا "

وہاں موجود لوگوں کی آپس میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اسطرح اچانک دلہے کے نکاح سے اٹھ کر چلے جانے سے ۔۔۔

زریار اور بریرہ دل تھام کر رہ گئے ۔۔۔۔سب مہمانوں کے سامنے ان کی بیٹی کی کیا عزت رہ گئی تھی ۔۔۔

زیگن ذوناش ،ذمارے زرشال سب کی حالت بھی ان سے کچھ مختلف نا تھی ۔۔۔۔

زائشہ نے قریب کھڑی یمنی کی طرف بھیگی شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔۔

اس کی آنکھوں کا یہ حال تھا کہ ابھی چھلکی تو ابھی چھلکیں۔۔۔۔۔وہ اپنی بے وقعتی پر بمشکل آنسوؤں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی۔

وہ جو تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ بھاگتی ہوئی منت ابتسام کے چوڑے سینے سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔

"ایسا کرو یہ جو آنکھیں ہیں نا ہیں انہیں نکال کر اپنے ہاتھ پر رکھ لو کیونکہ کام تو تم نے ان سے کبھی لینا نہیں "

اور اسے خود سے پیچھے دھکیلا ۔۔۔ الفاظ کے نشتر چلاتا لمبے لمبے ڈگ بھر کے باہر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

جبکہ وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی پشت کو دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔

زائشہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وہاں سے بھاگتے ہوئے برائیڈل روم میں آئی اور وہاں موجود صوفے پہ گرنے کے انداز میں بیٹھتے ہوئے تنہا ہوتے ہی اونچی آواز میں رونے لگی۔۔۔۔۔

کتنا مشکل ہوتا ہے ایک لڑکی کیلیے بے جب بھری محفل میں عین نکاح کے وقت اسے اکیلا چھوڑ جانا ۔جتنے لوگ تھے اتنی ہی باتیں بنا رہے تھے کوئی اسے قصور وار ٹہرا رہے تھے تو کوئی ابتسام کو ۔۔۔۔۔۔

مگر بعزتی تو صرف اس کے حصے میں آئی کیونکہ یہ معاشرہ ہی مردوں کا ہے۔یہاں انگلی اٹھائی جاتی ہے تو صرف عورت پر۔ضرور اسی میں کوئی کھوٹ رہی ہوگی جو دلہا عین نکاح کے وقت اسے یوں چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔

"کہیں اسے رنگے ہاتھوں پکڑ تو نہیں لیا ؟لوگوں کی مختلف قیاس آرائیاں اسے تازیانے کی طرح لگیں ۔۔۔مزید برداشت کرنے اور سننے کی سکت خود میں مفقود پائی تو وہاں سے بھاگ آئی ۔۔۔۔

جنت اور منت اسے روتے ہوئے بھاگتے دیکھ اسکے پیچھے  آئیں۔۔۔

"آپی حوصلہ رکھیں۔پلیز دُکھی نا ہوں "جنت نے اس کے شانے ہچکولے کھا کر روتے ہوئے وجود پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔۔

وہ دونوں زائشہ کی شکستہ حالت دیکھے تڑپ کر رہ گئیں ۔۔۔۔۔۔اور اسے خاموش کروانے کی کوشش کرنے لگی۔

تھوڑی دیر بعد ہی جب زریار اور بریرہ دونوں زائشہ کے کمرے میں آئے تو جنت اور منت سر جھکائے خاموش سے  باہر نکل گئیں۔۔۔۔

"میری بیٹی تو بہت بہادر ہے۔اپنے والدین کا فخر ہے ۔۔۔لوگوں کا تو کام ہی ہے باتیں بنانا ۔۔۔۔۔۔کسی کی باتوں کو دل پر نا لگاؤ ۔ہم ہیں نا تمہارے ساتھ "بریرہ نے اسے تسلی آمیز انداز میں کہا مگر اندر سے وہ بھی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔۔۔۔ اگر یہ نکاح نہیں ہوا تو شاید اس میں بھی اللہ پاک کی ہی کوئی مصلحت چھپی ہوگی ۔۔۔۔۔ہم سے بہتر وہ جانتا ہے کہ ہمارے لیے بہترین کیا ہے۔یہ اس رب کی رضا ہے۔اور اس رب کی رضا میں راضی رہنا ہی بہتر ہے۔ ابتسام کا ساتھ شاید تمہارے نصیب میں نہیں تھا اسی لیے یہ سب ہوا ۔۔۔۔"

بریرہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر  اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔۔

زریار جو تب کا خاموش کھڑا تھا ۔۔اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے نڈھال ہوکر قریبی صوفے پہ گرا۔۔۔۔

 تو باہر سے آنے والے زیگن ،ذوناش،زمارے اور زرشال  سب پریشانی سے اسکی طرف لپکے ۔۔۔

"زریار بھائی کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے آپ ٹینشن نہ لیں۔ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ۔۔۔"

زیگن اس کو تسلی دیتے ہوئے بولا۔۔۔

تو زمارے اور باقی سب نے اس کی تائید میں سر ہلایا۔۔۔۔

"شاید یہ میرے کیے گئے کسی عمل کی ہی سزا ہے جو مجھے اس صورت میں ملی ۔۔۔"

زریار نے نڈھال انداز میں کہا ۔۔۔۔

بریرہ نے اس کی بات پہ افسردگی سے اسے دیکھا ۔۔

 زمارے نے اپنے بھائی کی حالت پر آنکھوں میں آئی نمی اپنے اندر اتاری۔۔۔

زیگن جو کافی دیر سے سب کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔یکدم  اس کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا ۔۔۔۔جس پر اس نے فوری عمل کرنے کا سوچا ۔

زیگن نے ذوناش کو اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔۔۔

"شیر زمان کہاں ہے "؟

"اس کی کوئی ضروری میٹنگ تھی ۔نکاح سے پہلے ہی نکل گیا تھا مجھے بتا کر ۔۔۔۔

"ایک تو یہ لڑکا کبھی کام کے وقت میسر نہیں ہوا مجھے "زیگن نے کاٹ دار آواز میں کہا ۔۔۔

"کیوں آپ نے کیا کہنا تھا ؟

ذوناش نے حیرانگی سے پوچھا ۔

"میں چاہتا تھا کہ نکاح آج ہی ہوجائے ۔۔۔اگر ابتسام نہیں تو کیا ہوا ،،، شیر زمان ہی سہی ۔بھائی کی عزت پامال ہونے سے بچ جائے گی ۔۔۔۔

مگر اب کیا ہوسکتا ہے ؟؟؟

"بھائی !!!!کیا ہوا اگر شیر زمان نہیں ۔۔۔ضامن تو ہے نا ۔۔۔۔مجھے بہت خوشی ہوگی زائشہ اگر اپنے گھر میں ہی رہے گی ۔زمارے نے زیگن سے کہا ۔۔۔

"آؤ زریار بھائی سے بات کرتے ہیں۔

وہ دونوں زریار کے پاس گئے ۔۔۔۔

"بھائی اگر آپ کو مناسب لگے تو ہم چاہتے ہیں کہ ضامن اور ۔۔۔۔

"نہیں زمارے تم خاموش ہو جاؤ پلیز "یمنی بھاگ کر زریار کے پاس آئی اور اس کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔

"مجھے معاف کردیں زریار بھائی آج میرے بیٹے کی وجہ سے یہ سب ہوا ۔شاید میں ہی اس سب کی قصور وار ہوں ۔ہو سکے تو مجھے معاف کردیں ۔

"یمنی پلیز تم جاؤ ابھی یہاں سے "

زریار نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں سے پیچھے ہٹانا چاہا ۔۔۔۔

"بھائی میں مانتی ہوں جو بھی ہوا بہت غلط ہوا ۔اگر اس بات کا مجھے پہلے سے اندازہ ہوتا تو میں ایسا کبھی ہونے ہی نہیں دیتی ۔ابھی بھی وقت گزرا نہیں ۔۔۔ابھی بھی کچھ ہوسکتا ہے۔یہ نکاح آج ہی ہوگا کیا ہوا جو ابتسام چلا گیا ۔۔۔میں آپ سے زائشہ اور حسام کے نکاح کی ہی بات کرنے آئی ہوں "

"یمنی تم نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا ۔۔۔ کے ایک بھائی نے میری بیٹی کو ذلیل ہو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔تو دوسرا کیا گرے گا؟ ۔

زریار نے زہانت  سے کام لیتے ہوئے اپنا نظریہ بیان کیا۔۔۔۔

"حسام بہت مختلف ہے ابتسام سے ۔۔۔وہ زائشہ کو کبھی کوئی تکلیف نہیں دے گا "

"نہیں یمنی میں ایسا قطعا نہیں کروں گا ۔میری بیٹی میرے لیے کوئی بوجھ نہیں ہے۔جسے میں ایسے ہی بنا سوچے سمجھے اتار کرپھینک دوں "

اگر یہ فیصلہ خان صاحب کا نہ ہوتا تو میں کبھی ایسا ہونے ہی نہیں دیتا ۔۔۔۔میں نے خان صاحب کی بات کا مان رکھ کر اس رشتے کو نبھانا چاہا۔

میری پھول سی بیٹی کی عزت کو کیسے روند گیا وہ؟؟؟" میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا ۔

زریار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

"معافی کے لائق ہے بھی نہیں وہ ۔۔۔۔میں بھی اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔

"آپ ایک بار میری ِمنت سمجھ کر میری بات کا مان رکھ لیں۔

میری شروع سے ہی خواہش تھی ۔زائشہ کو اپنی بہو بنانے کی ۔جو لگاؤ اور محبت مجھے ہیر سے ہے اس سے کہیں زیادہ مجھے زائشہ سے ہے۔اسے ہمیشہ میں نے اپنی بیٹی سمجھا ہے ،میں وعدہ کرتی ہوں میرے گھر میں میری بیٹی کو ہلکی سی گزند بھی نہیں پہنچے گی ۔

"تم ماں ہو آخر کب تک اس سے ناراض رہ پاؤ گی ۔ایک نا ایک دن اپنے بیٹے کی غلطیوں کو معاف کر دو گی ۔۔۔۔

تب میری بیٹی کا کیا ہوگا ؟؟؟

"اس بارے میں کبھی سوچا ہے کبھی تم نے ؟؟؟؟

"کیا وہ اسی انسان کو ساری زندگی سامنے دیکھ کر اندر ہی اندر جلتی ُکڑھتی رہے گی ۔کہ یہی وہ انسان تھا جس نے ساری دنیا کے سامنے اس کا تماشہ بنا دیا تھا ۔۔۔۔

"میں اپنی بیٹی پر قطعاً یہ ظلم نہیں کر سکتا ۔۔۔۔زریار نے قطعی انداز میں کہا۔

"میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں میرے گھر میں اس نافرمان کی کوئی جگہ نہیں ۔وہاں صرف ہماری بیٹی رہے گی زائشہ "میری بات کا مان رکھ لیں میں آپ کے آگے اپنی جھولی پھیلاتی ہوں "یمنی نے ساڑھی کا پلو اس کے آگے پھیلانا چاہا ۔۔۔۔

"اگر آپ مجھے دل سے اپنی بہن مانتے ہیں تو اپنی بہن کا دامن خوشیوں سے بھر دیں اس میں زائشہ کو ڈال کر "وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔

زریار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایسا کرنے سے روکا ۔۔۔۔

پھر اس نے ایک نظر اپنے جگر گوشے اپنی بیٹی پر ڈالی جو سر جھکائے ہوئے کب سے گریہ و زاری میں مصروف تھی ۔۔۔۔

زریار نے بریرہ کی طرف دیکھا جیسے اس سے بھی اجازت لینا چاہتا ہو اپنے اگلے عمل کی ۔

بریرہ کیسے نا پہچان پاتی اپنے ہمسفر ایک نظر ۔۔۔۔اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

"زائشہ !!!! زریار نے اسے مخاطب کیا ۔۔۔۔

اس نے نظریں اٹھا کر اپنے بابا کی آس بھری نگاہیں دیکھیں تو نا چاہتے ہوئے بھی دل پر پتھر رکھ لیا ۔۔۔ ان کے کہنے پر تو وہ اپنی زندگی بھی قربان کر سکتی تھی ۔

"اپنے بابا کی بات مانو گی ؟؟؟

"جی بابا "آنسوؤں کا گولہ اس کے حلق میں اٹک کر رہ گیا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"میں نے ایسا تو نہیں چاہا تھا۔۔۔ کہ یہ سب ہو میں نے تو سب یہ سوچ کر اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا کہ شاید وہ میرے نصیب میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بخدا میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ اس کو یوں سب کے سامنے ذلت و پستی کا سامنا کرنے پڑے ۔۔۔۔

"ہاں میں مانتا ہوں کہ میں نے تمہیں دل و جان سے چاہا ہے۔میں دکھی بھی تھا ۔کہ تم آج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے بھائی کے نام لکھ دی جاؤ گی ۔۔۔ تمہیں پتہ ہے یہ بہت مشکل تھا میرے لیے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے تمہیں کسی اور کا ہوتے ہوئے دیکھنا ۔مگر میں پھر بھی یہاں آیا ۔وہ میرج ہال کے ایک کونے میں کھڑا اس کے عکس سے مخاطب تھا ۔۔۔۔

"حسام !!!!

اسے اپنے پیچھے سے شہریار کی آواز آئی تو اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔۔

"جی بابا ؟؟؟؟ کیا ہوا۔۔۔۔"

آج پہلی بار اسے اپنے والد کے چہرے پر پژمردگی دکھائی دی ۔

"میں نے جس بیٹے پر ہمیشہ مان کیا ۔آج وہی میرا مان توڑ کر چلا گیا۔

کیا تم مجھے وہ مان دو گے میری بات مان کر ؟؟؟

"بابا آپ حکم کریں ۔آپ کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں "

اس نے درمیانی فاصلہ کم کرتے ہوئے کہا۔

"ہماری وجہ سے زائشہ کو ہزار باتیں سننی پڑیں۔زریار اور بریرہ کو جو صدمہ پہنچا ہے۔ان حالات کو ہم ہی بہتر بنا سکتے ہیں۔

"وہ کیسے بابا ؟؟؟

"میں چاہتا ہوں ۔کہ تم زائشہ سے شادی کر لو "

مگر بابا ایسے کیسے ؟؟؟؟وہ پیشانی پر بل ڈال کر بولا ۔۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اس نے اپنے دل کو سمجھایا تھا کہ وہ اس کے مقدر میں نہیں ۔۔۔۔

"بابا زائشہ کبھی نہیں مانے گی ۔۔۔"

"تمہاری ماں گئی ہے سب سے بات کرنے ہم دونوں نے مل کر ابھی کچھ دیر پہلے ہی یہ فیصلہ لیا ہے۔بس تمہاری رضامندی درکار ہے ۔

وہ دل میں سوچنے لگا کہ کیا دعائیں ایسے پوری ہوتی ہیں کیا اللہ اپنے بندوں کی اتنی جلدی سنتا ہے اس کا دل تو سجدہ شکر بجا لانے کو کر رہا تھا۔۔۔۔

"تو پھر کیا جواب ہے تمہارا ؟؟؟شہریار کی سنجیدہ آواز سنائی دی تو وہ ہوش کی دنیا میں لوٹ آیا ۔۔۔

"بابا مجھے آپ کا فیصلہ قبول ہے ۔۔۔۔

دل تو خوشی سے جھوم اٹھا۔آج اسے اس بات پر یقین ہوگیا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ کبھی بھی دل سے کی گئی دعاؤں کو رد نہیں فرماتا ۔یہ ہم ہی ہیں جو جلد باز اور ناشکرے ہوجاتے ہیں۔بے شک وہ رب العالمین بہتر جانتا ہے کہ کس وقت کونسی دعا قبول ہونی ہے۔اور سب کی بہتری کس میں ہے ۔

تھوڑی ہی دیر میں جہاں سوگواریت چھا گئی تھی ۔۔۔وہاں ایک بار پھر سے ماحول میں ہلچل مچ گئی ۔۔۔۔۔

جنت زائشہ کے پاس آئی ۔۔۔

"چلیں آپی اپنا میک درست کرلیں۔۔۔۔پھر باہر بھی جانا ہے ۔

زائشہ تب سے خاموش بت بنی بیٹھی تھی ۔۔۔۔جنت اس کا رویا ہوا چہرہ اور بکھرا میک اپ درست کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔اس وقت اس کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا ۔وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر قسمت نے اس کے ساتھ یہ کیا کھیل کھیلا ہے پل بھر میں اس کی زندگی کا رخ ہی پلٹ دیا ۔۔۔۔بس یہ بات اس کے ذہن میں تھی کہ آج   اس نے اپنے والدین کی بات مان کر ان کی عزت کو نیلام ہونے سے بچا لیا ہے۔اس سے زیادہ اس سے کچھ سوچا ہی نہیں گیا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"زائشہ زریار خان کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" مولانا صاحب کے سوال پر زائشہ  نے کرب سے آنکھیں موندی تھیں۔

"قبول ہے۔" آنکھیں وا کرتے اس نے حقیقت سے نظریں ملا کر کرب زردہ آواز میں کہا۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" دوسری بار پوچھنے پر زائشہ  کا دل ایک بار پھر سے سکڑ کر پھیلا تھا۔

"قبول ہے۔" اس کے تیسری اور آخری بار اقرار کرنے پر حسام کا دل اپنی جگہ جم گیا تھا۔ بظاہر وہ معمول کے مطابق دھڑک رہا تھا مگر درحقیقت وہ کام کرنا چھوڑ گیا تھا ۔۔۔۔

کیوں کہ من چاہا شخص اس کے نام ہونے جا رہا ہے ۔۔

پھر مولانا صاحب نے حسام سے اس کی رضا پوچھی ۔۔۔۔

لیکن کوئی اس سے پوچھتا اس کا حال ِدل تو وہ چیخ چیخ کر بتاتا کہ آج اسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہے ۔۔۔۔

 اس نے مولانا صاحب کے پوچھنے پہ جوابا قبول ہے کہا   اور پھر نکاح نامے پہ دستخط کر کہ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے نام کر لیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

قرآن پاک کے سائے میں رخصت ہو کر جب زائشہ اپنے سسرال پہنچی تو یمنی نے گھر کی دہلیز پہ تیل بہاکر اس کا استقبال کیا ۔پھر حسام اور زائشہ کی نظر اتار کر ان کا صدقہ دیا ۔۔۔۔

"یہ ہیر کہاں ہے ؟؟؟شہریار نے اسے کہیں بھی نا دیکھ کر یمنی سے استفسار کیا ۔۔۔۔

"پتہ نہیں شاید اپنے روم میں نا چلی گئی ہو ۔مجھے ہال میں  کہہ رہی تھی کہ میرے پاؤں میں درد ہے ہیلز کی وجہ سے شاید تھک نا گئی ہو "

"پہلے تو مجھے بہت کہہ رہی تھی کہ جب بھابھی آئیں گی تو یہ کروں گی وہ کروں گی مگر اب آرام کرنے چلی گئی سب چھوڑ کر "یمنی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے زائشہ کا بھاری کامدار  لہنگا پکڑ کر اسے چلنے میں مدد دی اور اسے کمرے میں چھوڑ آئیں ۔

"حسام میں نے زائشہ کو فی الحال ابتسام کے روم میں چھوڑ آئی ہوں ۔کیونکہ اس کمرے میں سجاوٹ کی گئی تھی ۔کل سے تم اس کو لے کر اپنے روم میں منتقل ہوجانا ۔

مجھے تم سے بہت امیدیں ہیں۔زائشہ بہت اچھی بچی ہے۔بس اسے اس وقت تھوڑی محبت اور توجہ کی ضرورت ہے۔اس کا خیال رکھنا ۔مجھے امید ہے تم مجھے شکایت کا موقع نہیں دو گے ۔۔۔۔

"جی مام "۔

"اینڈ تھینک یو سو مچ "حسام نے ان کے شانے سے لگ کر کہا ۔

"وہ کس لیے ؟؟؟

",آپ کو نہیں پتہ آپ نے مجھے آج انجانے میں کتنی بڑی خوشی دی ہے "وہ انہیں حیران چھوڑ کر روم کی طرف بڑھ گیا جہاں زائشہ کو کچھ دیر پہلے ہی یمنی چھوڑ کر آئی تھی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

کلک کی آواز سے دروازہ کھلا تو زائشہ نے اندر آنے والے شخص پر نظر ڈالی ۔۔۔۔

پل بھر کے لیے اس کا دل دہل گیا ۔۔۔۔

وہ اپنے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیر گئی ۔۔۔۔

دل و دماغ عجیب سی کشمکش میں مبتلا تھا۔۔۔۔

وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخاتے ہوئے مختلف قسم کے اوہام کا شکار ہوئی ۔۔۔۔

"حسام تم اس کمرے میں نہیں آسکتے "جاؤ یہاں سے " وہ خود کو مضبوط بناتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"شوہر اپنی بیوی کے کمرے میں نہیں آئے گا تو کہاں جائے گا ۔۔۔۔؟حسام نے ٹہرے ہوئے انداز میں کہا۔

"مگر میں تمہیں اپنا شوہر نہیں مانتی ۔۔۔۔نہیں رہنا مجھے ایک کمرے میں تمہارے ساتھ مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔۔۔اسی قابل ہوں میں "

"یہ میرے دل سے پوچھو کہ کا قابل ہو تم ۔۔۔اس دل کی سب سے اونچی مسند پر براجمان ہیں آپ ",وہ صرف سوچ کر رہ گیا ۔۔۔کیونکہ اچانک اپنے جذبات سے آگاہ کر کہ اسے خود سے بدظن نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

"مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ۔۔۔وہ اس بار زور سے ِچّلا کر بولی ۔۔۔۔

"تو پھر تم نے میرے ساتھ شادی کی حامی کیوں بھری ؟؟؟میں تمہارے پاؤں میں پڑ کر گڑگڑایا نہیں تھا۔۔

 (نا ہی اپنی یک طرفہ محبت کی بھیک مانگنے آیا تھا )یہ بات اس نے اپنے دل میں کہی"

وہ اس کی بھیگی آنکھوں میں نظریں گاڑھے دبے لہجے میں بولا۔۔۔

"چلے جاؤاپنا وجود لے کر میری نظروں کے سامنے سےمجھے نہ تو تمہاری ذات میں کوئی دلچسپی نہیں اور ناہمارے درمیان کوئی رشتہ "

میں نے صرف اپنے والدین کے بدولت یہ بے جوڑ رشتہ جوڑا ہے ۔اور یہ میرے جڑے ہوئے ہاتھ دیکھ لو جان چھوڑو میری  "وہ اپنے مہندی سے رنگے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر بولی۔

مقابل موجود شخصیت کے گھنی مونچھوں تلے عنابی لب اس کی بات سن کر مسکراہٹ میں ڈھلےاس نے گہری نگاہوں سے اس کے سجے سنورے سراپے کا جائزہ لیا۔۔۔۔۔

جو پور پور اس کی ہوچکی تھی ۔اب اس پر حق تھا تو صرف حسام کا ۔۔۔اس احساس نے ہی حسام کے دل میں سرشاری سی بھر دی ۔۔۔۔

"زائشہ تم بہت اچھی ہو ۔۔۔میری بات سمجھنے کی کوشش۔۔۔۔۔حسام نے کہنا چاہا تو زائشہ نے اسے درمیان میں روک دیا ۔۔۔۔

"نہیں ہوں میں اچھی ۔۔۔بہر بری ہوں میں ۔۔۔۔اچھی ہوتی تو یہ سب نہیں ہوتا میرے ساتھ جو آج ہوا ہے ۔میں بری ہوں بہت بری ۔۔۔۔۔اور بہت مہربانی ہوگی ۔۔تمہیں بھی میری طرف سے کسی بھی قسم کی خوش فہمیوں پہ پڑنے کی قطعی ضرورت نہیں  تمہیں کیونکہ مجھے اس نام نہاد رشتے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔میں تم پر زبردستی تھوپی گئی ہوں اور ایسا ان چاہا رشتہ نا تو مجھے خوش رکھ پائے گا اور نا کبھی تمہیں ۔۔۔

وہ اس کے وجود کی رعنائیوں سے مستفید ہوتا ہوا دلکشی سے مسکرایا ۔۔۔۔۔

"اور ہاں یاد رکھنا  مجھ سے کسی قسم کی توقع مت رکھنا۔میں جلد ہی اس بندھن سے آزاد ہو جاؤں گی "وہ اس کے چہرے کی نرمی دیکھ کر طیش میں آئی اور پھولوں سے سجی سیج سے ایک سے لڑی کھینچ کر نیچے پھینکتے ہوئے بولی ۔۔۔۔اس کے اندر کا ابال کسی بھی طرح نکل نہیں رہا تھا ۔۔۔۔

جبکہ حسام  سینے پر ہاتھ باندھے اس کی کاروائی بڑے ٹھنڈے ٹھار انداز میں ملاحظہ فرما رہا تھا۔

ہمیشہ چپ چاپ رہنے والی سادہ سی لڑکی جس نے کبھی کسی کے سامنے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی آج اس کی زبان اسکے سامنے کیسے فراٹے بھر رہی تھی ۔۔۔

"وہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا ۔۔۔

"مگر اب کیا کرسکتے ہیں ؟؟؟

رشتہ تو جڑ گیا نہ چاہے جیسے بھی جڑا ہوا "

"اور میں ان مردوں میں سے نہیں جو رشتہ جوڑ کر ان کے تقاضے بھول جائیں "وہ ذومعنی انداز میں بولا۔

"نا تو یہ سیج تم نے سجائی ہے اور نا یہ دلہن تمہارے لیے سجی تھی "وہ اپنا زرتار آنچل سر سے کھینچ کر اتارتے ہوئی زخمی ناگن کی طرح پھنکاری  ۔۔۔۔

اُس وقت کا اپنا اندر بھرا سارا غبار اس پر انڈیل گئی ۔۔۔

اس نےپھولوں سے سجی سیج دیکھی تو اپنی نئی نویلی من پسند دلہن کی کلائی اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑا ۔۔۔

اور  اسے بیڈ پر دھکا دے کر گراتے ہی اس پر جھکا ۔۔۔

  "د۔۔در۔۔دور ۔۔۔رہو مجھ سے۔۔"

مشکل سے وہ چند الفاظ کہہ پائ تھی مگر مقابل کچھ سن ہی کہاں رہا تھا۔۔۔

وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا جھک کر اپنے ہاتھ کی پشت سے اس کے گداز لبوں پر لگی لپ سٹک مٹا گیا ۔۔۔

"مت بھولو میں تمہاری بھابھی  ۔۔۔اس کے عمل پر زائشہ کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا وہ اسے اپنے سابقہ رشتے سے آگاہ کرواتے ہوئے بولی 

"ششششش۔۔۔۔۔"

بھابھی بننے والی تھی ""

"بنی تو نہیں نہ "

"پچھلی باتیں بھول جاؤ "

"جو آج ہے ابھی ہے بس اسے یاد رکھو "

"وہ کہتے ہیں نا کہ پرانی یادوں کو ذہن میں رکھو گے تو نئی یادیں کیسے بناؤ گے "

"آؤ مل کر نئی یادیں بناتے ہیں،جی لیتے ہیں ان لمحات کو ۔۔۔ جن میں صرف تم ہو اور میں اور ہمارا پیار "وہ اس کے محسور کن سراپے کو آنکھوں میں سمائے بہکے ہوئے انداز میں بولا۔

زائشہ نے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ حیرت اور بے یقینی سموئے اسے شکوہِ کناں نظروں سے دیکھا۔

کیا کچھ نہ تھا مقابل کی آنکھوں میں اسے بےساختہ نگاہیں چرانی پڑی۔اس کے دل کی دنیا بھی ایک لمحے کیلیے اتھل پتھل ہوئی۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

رات کے اندھیرے جہاں کسی زی روح کے نا ہونے کے آثار نمایاں تھے ۔وہاں ایک سایہ نما وجود بے خوف سا چل رہا تھا۔ سیاہ جینز کے ساتھ سیاہ ہڈی پہنے، ہاتھوں میں سیاہ ہی گلوز پہنے جبکہ منہ پر کالے  رنگ کا ماسک چڑھائے وہ تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا ۔۔۔اس کی  آنکھوں میں وحشتوں کا جہاں آباد تھا۔  

اس شہر سے دور جگہ پر خاموشی کا راج تھا ۔۔۔

دور کہیں گیڈروں کی آواز ماحول میں چھائے سکوت میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں ۔اس دیو ہیکل وجود کے چلنے سے درختوں کی شاخوں سے ٹوٹ کر گرے سوکھے پتے اس کے پیروں کے نیچے آتے عجب ہی آواز پیدا کر رہے تھے۔  

چلتے چلتے وہ  ایک بوسیدہ مکان میں داخل ہوا۔۔۔۔

اپنے پاس کسی کے بھاری بوٹوں کی دھمک سنی تواسنے

 اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے بہ مشکل اپنی بند آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ۔۔۔ کچھ پل لگے تھے اسے  ہوش و حواس میں آنے میں آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹنے لگا تو حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا۔۔۔  سب یاد آتے ہی وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔

 اسنے ہراساں نگاہوں سے ارد گرد دیکھا وہ ایک سنسان جگہ تھی جس میں ایک خستہ حال جگہ تھی ۔۔۔۔  

وہ خوفزدہ نگاہوں سے کسی سہمی ہوئی ہرنی کی مانند  اردگرد دیکھ رہی تھی تبھی ایک ہیولہ اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔۔۔

اس کچھ دیر پہلے کا منظر یاد آیا جب وہ اپنی مما کے کہنے پر ڈریس چینج کرنے آئی تھی وہ سادہ سا ڈریس پہنے اپنی میکسی کو طے کر کہ بیگ میں ڈال رہی تھی کہ اچانک پیچھے سے ایک بھاری ہاتھ آیا جس نے اسکے منہ پر اپنا تسلط جمایا ۔۔۔اس نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی بہت کوشش کی مگر مقابل موجود شخصیت نے اسے سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر شاید اسے کلوروفارم کی مدد سے  بے ہوش کردیا تھا  ۔۔

اس کے بعد کیا ہوا اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔۔۔اور اب جب حواسوں میں لوٹی تو ۔۔۔۔

اس کے قریب آنے پر ہیر نے جھٹکے سے سر اٹھا کر پاس آنے والے کو دیکھا۔۔۔

بے شک اس دیو ہیکل وجود کے چہرے پر ماسک چڑھا تھا مگر یہ نیلی آنکھیں تو وہ ہزاروں میں بھی پہچان سکتی تھی۔یہی آنکھیں تو بچپن سے اس پر تسلط جمائے ہوئے تھیں۔وہ کیسے نا پہنچاتی انہیں ۔۔۔۔

 "ش۔۔۔شی۔۔۔۔شیر۔۔۔۔شیزمان بھائی ۔۔۔۔ آپ ؟؟؟؟؟؟۔۔ سامنے موجود  شخص کو دیکھتے  اسکی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے دوچند ہوئی تھیں۔۔۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔۔

"کیا کہا تھا میں نے ؟؟؟وہ اس کی صراحی دار نازک سی گردن کو اپنے مضبوط ہاتھ میں دبوچ کر اسے دیوار سے پن کر کہ اوپر اٹھا گیا۔۔۔ 

اب وہ دیورا سے لگی زمین سے تھوڑا اوپر تھی 

"کی۔کیا؟؟؟اس کے سوکھے ہوئے حلق سے آواز نکلنے سے انکاری ہوئی ۔۔۔۔

"ضامن سے دور رہنا "اس کی گھمبیر آواز خاموشی کو چیرتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔

"اب اپنے انجام کی زمہ دار تم خود ہو "اس کی پراسرار آواز سے ہیر کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔۔وجود ڈر کے باعث کپکپانے لگا ۔۔۔۔

وہ نفی میں سر ہلانا چاہتی تھی مگر اسکے ڈر سے ہل بھی نہیں پا رہی تھی ۔

"یہ۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ؟؟؟

وہ خوف زدہ گُھٹی ہوئی آواز میں بولی۔

جب اس نے شیر زمان کے ہاتھ میں اپنا دوپٹہ دیکھا جو وہ اس کے وجود سے ہٹا چکا تھا ۔۔۔ اگر تم میری بات مانتی تو آج یہ آنچل جگنوؤں سے بھر دیتا مگر اب !!!!!!

ٹِپ ِٹپ گرتے آنسو اس کے گلابی گال بھگونے لگے ۔۔۔۔

"ہا۔ہا۔ہا ۔۔۔۔

"مذاق کر رہا تھا یار !

"اب دوستوں میں اتنا تو چلتا ہے نا "

حسام اس کے اوپر سے ُاٹھ کر پیچھے ہوا ۔۔

زائشہ اچانک اس کے لہجہ اور رنگ بدلنے پر فق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"اپنے روم میں چل کر بات کرتے ہیں "

حسام کی بات پر وہ وہیں مجسمہ بنی کھڑی رہی ۔ابھی کچھ دیر پہلے کی گئی حسام کی باتیں اس کے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔

"میری بس ایک خواہش ہے اسے پورا کردو ،

I swear 

اس کے بعد کچھ نہیں مانگوں گا ۔

وہ اجازت طلب نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔

مگر ساکت کھڑی زائشہ نے جب کوئی جواب نہ دیا تو وہ اسے بانہوں میں بھر کر باہر نکلا اور اسے لیے اپنے روم میں آیا ۔۔۔۔

زائشہ تو صدمے کے زیر اثر ابھی بھی گنگ سی تھی ۔

حسام نے اسے اپنے بستر پر بٹھایا ۔

"میری خواہش تھی کہ جب تم ہمارے کمرے میں پہلی بار آؤ تو میں تمہیں اپنی بانہوں میں بھر کر لاؤں "

وہ دھیمے آنچ دیتے لہجے میں بولا۔

"زائشہ !!!

حسام کی آواز پر اس نے ٹھٹھک کر اسکی جانب دیکھا ۔

"تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم سے زبرستی کروں گا ؟؟؟

"یہ رشتہ بے شک بہت مضبوط ہے جو اب جڑا ہے ہمارے درمیان مگر اس سے پہلے تو ہم اچھے کزن اچھے دوست تھے نا ایک دوسرے کی پریشانی شئیر کرتے تھے ۔تو اب ایسا کیا بدلاؤ آیا کہ میں اپنی دوست کی فیلنگز نا سمجھ سکوں ۔

"مجھے پتہ ہے اسوقت تم بہت ہرٹ ہو ۔تمہیں مورل سپورٹ کی ضرورت ہے۔دوستی کا رشتہ ہر غرض سے ہر مفاد  پاک ہوتا ہے ،

زائشہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی جو کچھ دیر پہلے اسے اپنے شوہر ہونے کا احساس دلا رہا تھا اور اب دوستی یاد کروا رہا تھا ۔

"یہ زندگی ایک ریل کے سفر کی سی ہے۔اس میں عمر مخصوص کردی گئی ہے۔زندگی کی یہ ریل چلتی رہتی ہے۔اگر ایک ڈبہ خراب ہو جائے تو اسے کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے۔مگر یہ سفر رکتا نہیں ۔جب تک وہ اوپر والا نا چاہے۔اگر زندگی کا کچھ حصہ خراب ہو جائے تو اسے کاٹ کر پھینک دو ۔جیسے چلتی ریل کا ایک ڈبہ خراب ہو جائے تو اسے الگ کردیا جاتا ہے ویسے ہی اور اگلے ڈبے میں سوار ہو جاؤ کیونکہ سفر تو کرنا ہی ہے ہر حال میں ۔اگر اسی خراب ڈبے میں بیٹھے رہو گے تو آگے کبھی بھی نہیں بڑھ پاؤ گے ۔

"شاید تم نے جو اذیت برداشت کی میں اسے نا سمجھ سکوں مگر میں ان میں شریک ہوکر تمہارا غم ضرور بانٹنا چاہوں گا ۔اس نے زائشہ کے حنائی ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے ہلکا سا دبا کر کہا 

وہ سانس روکے اس کی باتوں پر غور و خوض کر رہی تھی ۔۔۔۔

"تم اب میری محرم بن چکی ہو تو میں اپنی محبت کا اظہار کرنے سے ہچکچاوں گا نہیں ۔

زائشہ جو نظریں جھکا چکی تھی۔ اس نے پھر سے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں جزبات کا ایک الگ ہی جہاں آباد تھا ۔

"میں شاید تمہیں یہ بات کبھی نا بتاتا مگر اب یہ بتانا ضروری ہے ۔۔۔ہاں زائشہ مجھے یہ اقرار کرنے میں کوئی عار نہیں کہ حسام تم سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔

زائشہ اپنا نچلا لب دانتوں میں کُچلتے ہوئے پریشانی میں مبتلا تھی ۔۔۔اسے کہاں توقع تھی اس قسم کے اظہار کی ۔اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا یہ سب ....

"سب باتوں کو بھلادو "صرف اپنے بارے میں سوچو ۔۔۔

ان لوگوں کے بارے میں نہیں جنہوں نے تمہیں اذیت دی ۔

ان لوگوں کے بارے میں سوچو جو تم سے پیار کرتے ہیں۔تمہاری قدر کرتے ہیں۔نا کہ بے قدر لوگوں کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کر لو ۔

"اپنے والدین کے بارے میں سوچو جو تم پر اپنی جان نچھاور کرتے ہیں۔

اس کے بارے میں سوچو جس کے لیے تم خاص ہو ۔

اس کی باتوں پر زائشہ کے کب سے رکے ہوئے آنسو پھر سے پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکلے ۔۔۔کچھ دیر پہلے چیخنے کی وجہ سے گلہ تو سوکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔

"اگر ہو سکے تو تھوڑا سا اس ناچیز کے بارے میں بھی سوچ لینا "وہ اس کے آنسو اپنی پوروں سے پونچھے مسکرا کر بولا ۔

زائشہ نے اس کے ہاتھ جھٹک دئیے ۔۔۔

"زائشہ ڈونٹ وری ! ناراض تو مت ہو ۔۔۔۔

میں کبھی بھی تم پر اپنا حق نہیں جتاؤں گا ۔تب تک ۔۔۔جب تک تم خود نا چاہو  ۔

زائشہ کو اسکی بات پر تھوڑا سا سکون ملا ۔۔۔۔تو اس نے اپنے تنے ہوئے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑا ۔۔۔۔اور تھوڑا ری لیکس ہوئی ۔۔۔

"میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔کہ تم ہمیشہ کے لیے صرف میری بن چکی ہو ۔میرے نام لکھ دی گئی ہو ۔ہمیشہ میری نظروں کے سامنے رہو گی ۔دن رات تمہیں دیکھ سکوں گا۔وہ جذب سے بولا

"ارے یار ۔۔۔تم بھی کہتی ہو گی  ۔۔کہ آج یہ حسام کو نجانے کیا ہوگیا ہے بولتا ہی چلا جا رہا ہے۔

"ہممم۔۔۔۔وہ فقط اتنا ہی بولی۔

"زائشہ تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ تمہیں پا کر میں خود کو کتنا خوش قسمت تصور کر رہا ہوں ۔

اس کی آواز کی چھنک ہی اسکے جذبات کی عکاس تھی ۔

"تم ریسٹ کرو ۔۔۔ہاں اور دماغ پر زیادہ زور مت ڈالنا ۔۔۔۔۔

وہ کبرڈ سے اپنا ٹراؤزر اور شرٹ نکال کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔

زائشہ ابھی بھی اس کی باتوں کے زیر اثر گم سم سی تھی ۔

حسام اپنے مقصد میں کامیاب ٹہرا ۔۔۔وہ اپنی باتوں کے زریعے اس کی سوچوں کے محور بدل چکا تھا ۔۔۔

وہ جو کچھ دیر پہلے اپنی بعزتی اور ابتسام کے یوں چھوڑ جانے کے غم میں مبتلا تھی ۔اب وہ سب بھول کر وہ حسام کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔کیا تھا یہ انسان ؟؟؟؟؟

وہ ٹاول سے بال رگڑتا ہوا باہر آیا ۔۔۔

"شہریار !!!!!

"حسام!!!!!

باہر سے یمنی کی پریشان آواز سن کر حسام ٹاول وہیں پھنک کر باہر نکلنے لگا ۔۔۔تو زائشہ بھی اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔۔

"تم آرام کرو۔۔۔ میں دیکھتا ہوں"

وہ اسے کہتے ہی باہر نکلا ۔۔۔۔

"کیا ہوا ؟؟؟شہریار اور حسام نے ایک ساتھ پوچھا ۔۔۔

"شہریار ہیر گھر میں نہیں ہے "اس نے گویا ان دونوں کے سر پہ دھماکہ کیا۔

"یہ کیا کہہ رہی ہو ؟؟؟

"اچھی طرح دیکھو یہیں کہیں ہوگی کہاں جانا ہے اس نے "

"میں نے سارا گھر دیکھ لیا ہے وہ کہیں بھی نہیں ہے ۔

"مما باہر لان میں دیکھا ؟؟؟

"ہاں حسام سارا دیکھ لیا مگر وہ کہیں نہیں ہے "

"کہیں حویلی تو نہیں چلی گئی ان میں سے کسی کے ساتھ ؟؟؟یمنی نے پریشانی سے کہا ۔

"رکو ابھی کال کر کہ پوچھتا ہوں ۔

شہریار نے زمارے کو کال ملائی تو اس نے بتایا کہ ہیر وہاں نہیں ہے ۔۔۔۔

یہ بات سن کر تو ان کے صیحیح معنوں میں ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔۔۔۔

"بابا کہیں میرج ہال میں تو نہیں ؟؟؟؟حسام نے ایک اندازہ لگایا ۔۔۔۔

"چلو حسام مل کر اسے ڈھونڈھ لائیں ۔"

شہریار تیزی سے باہر نکلا ۔۔۔۔

یمنی تو ہیر کے بارے میں سوچتے ہوئے ہی صوفے پر ڈھ گئی۔۔۔۔

"میں کیسے اتنی لاپرواہی کر سکتی ہوں ؟؟؟؟

وہ خود کو کوسنے لگیں۔۔۔۔شادی میں جو حالات پیدا ہوئے اس سے وہ اچھی خاصی بوکھلا چکی تھی کہ ہیر پر توجہ ہی نا دے پائیں ۔اور اب اچانک اس کی گمشدگی کی خبر اس کے لیے سوہان روح بن کر رہ گئی۔۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں اپنی معصوم بیٹی کی سلامتی کی اور واپس مل جانے کی دعا کرنے لگیں ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

شادی پر ضامن کے کچھ دوست بھی مدعو تھے رخصتی کے بعد وہ دوستوں کے ساتھ ہی باہر نکل گیا تھا گھر واپس آرہا تھا کہ اچانک سنسان راستے پر کچھ لوگوں نے اس کی بائیک کا راستہ روکا ۔۔۔۔

ضامن نے ابرو اچکا کر ان لوگوں کو دیکھا ۔۔۔

"کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ ؟؟؟وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر پورے اعتماد سے بولا ۔ 

" تمہیں ساتھ لے جانے آئے ہیں "ان میں سے ایک نے کہا ۔

"اوہ تو سیدھی طرح کہو مجھے ۔۔۔۔

یعنی کے ضامن دی گریٹ کو کڈنیپ کرنے آئے ہو "

وہ فرضی کالر اچکا کر طنزیہ انداز میں بولا 

"اتنی آسانی سے تو ضامن خان تمہارے ساتھ جانے والا نہیں ۔۔۔"تو کیوں نا ہو جائیں دو دو ہاتھ ؟؟؟؟

"جو جیتا وہ لے جائے دوسرے کو "

"ٹھیک ہے منظور ہے ہمیں "وہ یہ کہتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھ کر خباثت سے ہنسے ۔اور طاقت کے نشے میں چور ایک ساتھ اس پر حملہ آور ہوئے ۔۔۔۔

ضامن بھی ان کے وار کے لیے خود کو تیار کر چکا تھا ۔۔ان کے قریب آتے ہی روڈ کی ایک طرف بنی دیوار پر اچھل کر چڑھا اور پلٹ کر گھومتے ہوئے دونوں پاؤں ایک کے سینے پر مارے۔سامنے والا آدمی زور سے پیٹھ کے بل نیچے گرا تھا ۔

ضامن نے ایک پاؤں اس کے سینے پر رکھا اور دوسرا زمین پر ۔۔۔دوسرے شخص نے اسکی پشت سے آکر  اس کا وہ پاؤں پکڑ لیا جو ضامن نے نیچے گرے ہوئے آدمی کے سینے پر رکھا تھا۔

اس آدمی نے ضامن کا پاؤں کھینچ کر اسےگرانے کی کوشش کی لیکن وہ گرنے کی بجائے پلٹ کر اپنے بازو سے  پچھلے آدمی کی گردن کو جکڑ گیا۔۔۔۔

اس کی گردن سے جھٹکا دے کر اسے گرایا تو ایک آدمی نے اس پر راڈ سے وار کیا ۔۔جسے اس نے اپنے بازو پر روکا ۔۔۔۔

وہ آدمی جو زمین پر تھا اب اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ضامن  نے اس کے پیٹ میں لات ماری ۔۔۔ وہ بلبلا اٹھا ۔

ضامن نے کسی ایک کو بھی  کوئی موقع نہیں دیا خود پر  وار کرنے کا ۔۔۔۔

اور باری باری سب کو سبق سکھانے لگا ۔وہ لڑکا  کیا چیز تھا۔سب کو شکست پر شکست دے رہا تھا۔

وہ سب زمین پر پڑے اب ادھ مرے سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

جبکہ ضامن اب اپنی بائیک کے ساتھ ٹیک لگا کر  سینے پر بازو باندھے تمسخرانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔۔۔

"تم لوگوں سے کچھ نہیں ہوگا دیکھنا اب میں کیا کرتا ہوں ۔ان کا ایک ساتھی جو ایک طرف کھڑا تھا وہ نخوت سے بولا اور ضامن کے پاس آکر اس  کے چہرے کا نشانہ لیا لیکن ضامن بھی پہلے سے اس کا ارداہ بھانپ چکا تھا  اسی لیے اس کے وار کے لیے تیار تھا۔

وہ تھوڑا نیچے کی جانب جھکا تو  اس آدمی کا پنچ خالی گیا۔

اس نے ایک بار پھر سے کوشش کی ۔ضامن کے سیدھے ہوتے ہی ۔۔۔ضامن نے اس کا دوسرا مکا اپنی کلائی پر روکا جو اس کے پیٹ پر پڑنے والا تھا۔۔۔

ضامن نے اس کے پیٹ میں گھٹنے سے مارا ۔۔۔۔وہ منہ کے بل نیچے گرا ۔۔۔

آدمی کو پیٹ میں تو اتنا درد نہ ہوا لیکن اس کا منہ جھنجھنا کر رہ گیا اور سر زمین  سے ٹکرا گیا

اتنی آسانی سے ہار نہیں ماننے والا کہاں تھا وہ اس نے ان سب کے غرور کو خاک میں ملا دیا ۔اب بازی اس کے ہاتھ میں تھی۔

"تو یہ بتاؤ دو نمبر نالائق غنڈوں مجھے کڈنیپ کروانے کو کس نے کہا تھا ؟؟وہ اپنے ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔

"میڈم ۔۔ع۔۔۔ع۔۔۔۔عی۔۔۔۔۔۔عیش نے "

ایک نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔

"اب یہ میڈم جی کون ہیں یہ تو ان سے مل کر پتہ چلے گا،،، خیر ....جب میڈم جی نے خود ہمیں بلایا ہی لیا ہے تو ان شرف ملاقات بخش ہی دیتے ہیں ۔۔۔۔۔

وہ پر اسرار سا مسکرایا ۔۔۔۔

"تم سب نے اپنی میڈم کا کہا مانا ۔مگر اب سے میرا کہا مانو گے ۔۔۔۔

"آئی بات سمجھ میں ؟؟؟؟

"اگر میرے ساتھ رہو گے تو فائدے میں رہو گے ۔ورنہ اس سے بھی بری درگت بناؤں گا ۔۔۔وہ دھمکی آمیز انداز میں بولا ۔۔۔

جی ۔۔۔جی جیسا آپ کہیں ۔۔۔ان میں سے ایک اس کے سامنے گڑگڑا کر بولا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے۔تو پھر چلو اپنی میڈم کے پاس لے چلو ۔

"ایک منٹ پہلے اپنی حالت سدھار منہ ہاتھ دھو لو ۔۔اور وہاں جا کر اپنی میڈم کو بتانا کہ تم مجھے کڈنیپ کر کہ لے آئے ہو ۔ان کے سامنے میرے بازو پکڑ لینا ۔۔۔ 

"ٹھیک ہے ؟؟؟؟

"سب سمجھ میں آگیا ؟؟؟

"ج۔ج۔ججج۔۔۔ جی ۔۔

"چلو پھر "

"ویسے ایک بات ہے۔ "اس ایڈونچر کی بھی اپنی ہی چسّ ہے "وہ ایک آدمی کے شانے پر بازو رکھتے ہوئے آنکھ ونگ کیے بولا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ اس وقت جنت کا ویٹ کر رہی تھی جو کہ چینج کرنے گئی تھی تاکہ اس کے آنے کے بعد وہ بھی چینج کر سکے تھوڑی دیر تک وہ باہر نہیں آئی تھی۔۔۔کہ اسے نیند آنے لگی ۔۔۔۔ابھی جھپکی ہی لی تھی کہ موبائل پر آنے والے میسج نوٹیفکیشن پر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا ۔مگر جب سکرین پر دیکھا تو نیند سے بوجھل آنکھیں پوری کھل گئیں ۔۔۔۔

جنت چینج کیے میک اپ والا چہرہ دھو کے باہر آئی ہی تھی کہ منت کا فق چہرہ دیکھ کر  اس کی طرف بڑھی۔۔۔

"کس کا میسج ہے رات کے اسوقت ؟؟؟ جنت کے غصیلے انداز کو دیکھتی منت  ڈر سی گئی تھی۔اس کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر نیچے گرا ۔۔۔

"ک۔کچھ نہیں ہے۔تم اپنا کام کرو "وہ پل بھر میں خود کو سنبھال کر سپاٹ انداز میں بولی۔

"منت اگر کوئی پریشانی ہے تو تم مجھ سے شئیر کرسکتی ہو "جنت نے کھلے دل سے پیشکش کی۔

"نہیں جنت ایسی کوئی بات نہیں۔ "وہ اسے کہتے موبائل فون سائلنٹ پر لگا کہ واش روم کی طرف بڑھ گئی اور دل  میں مصمم ارادہ کیا کہ وہ صبح کالج جا کر اس لڑکے سے دو ٹوک بات کرے گی کہ آخر وہ چاہتا کیا ہے "؟؟؟؟

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

اس نے دونوں آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے مسلتے ہوئے کھولا تو پہلے ملگجے سے اندھیرے میں سب کچھ دھندھلا سا دکھائی دیا ۔۔۔جیسے ہی آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں ۔اس نے اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائی ۔۔۔۔سامنے ہی بڑی کھڑکی تھی ۔جس پر ڈارک بلیو پردہ تھا ۔فرش پر دبیز قالین ،سامنے ہی ڈریسر تھا جس پر بے شمار پراڈکٹس موجود تھے ۔جیسے ہی اس نے نظریں دوسری طرف گھمائیں وہاں موجود ٹو سیٹر صوفے پر بیٹھا شیر زمان جو اسی کی طرف متوجہ تھا ۔۔۔اسے دیکھ کر ہیر کے اوسان خطا ہوئے ۔۔۔

وہ ساکت آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی کہ کیا واقعی وہ ابھی بھی اس کی قید میں ہے ۔۔۔ شیر زمان بھی خاموش سا اسکی خوفزدہ  آنکھوں میں دیکھ کر اس کی کیفیت کا جائزہ لے رہا تھا ۔

ہیر  اس کے وجود سے وحشت زدہ ہوئی  ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنے سامنے دیکھ اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔

وہ آہستگی سے اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔۔۔

اسے یاد پڑ رہا تھا کہ جب شیر زمان نے غصے میں اس کا دوپٹہ کھینچا تھا تو وہ وہیں کہیں زمین پر گر گیا تھا ۔۔۔اور ہیر اسکے خوف سے وہیں حوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی تھی۔آگے کیا ہوا اسے خود بھی پتہ نہیں تھا۔اور اب پھر سے وہ اس کے سامنے تھا۔۔۔

"اس طرح نہیں چلے گا ہیر تمہیں ان سے پوچھنا ہوگا کہ وہ تمہیں یہاں کیوں لائے ہیں۔ہمت کرو تم بہت بہادر ہو "اس کے اندر سے آواز آئی ۔۔۔

اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ ہمت مجتمع کرنے لگی ۔۔۔۔

پہلے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر اسے تر کیا ۔۔۔گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔

"شیر بھائی !!!

"آ۔۔۔۔آپ مجھے پاپا کے پاس چھوڑ آئیں پلیز "

"اب تم یہاں سے کہیں نہیں جا سکتی "

شیر زمان کی سرد ترین آواز سن کر ہیر کا گلابی چہرہ زردی مائل ہوا ۔۔۔۔

"میں..میں  یہاں سے چلی جاؤں گی "وہ دروازے کی طرف بھاگی ۔۔۔۔

شیر زمان صوفے سے ٹیک لگائے خاموشی سے اس کی کاروائی ملاحظہ فرما رہا تھا۔

جیسے ہی ہیر نے دروازہ کھولا اسے منہ کی کھانی پڑی ۔۔۔کیونکہ دروازہ لاک تھا ۔۔۔۔۔

ہیر نے وہاں سے بھاگنے کے لیے دوسری راہ کے بارے سوچا ۔۔۔

اسکی نظر ُاس کھڑکی پر پڑی تو وہ اس کی طرف لپکی ۔۔۔

"میں وہاں سے کود جاؤں گی "

اس نے دل میں سوچا اور کھڑکی کی طرف دوڑ لگائی ۔۔۔

جیسے ہی کھڑکی کے پاس پہنچی باہر کا منظر دیکھ اسکی آنکھوں میں حیرت در آئی ۔۔۔کیونکہ وہ کسی بہت اونچی بلڈنگ میں موجود تھی شاید کوئی پچاسویں فلور پر کیونکہ نیچے روڈ پر چلتے ہوئے لوگ بہت چھوٹے دکھائے دے رہے تھے۔اگر وہ یہاں سے کود جاتی تو اس کی ہڈیاں بھی نہیں بچنی تھیں ۔۔۔۔جیسے ہی اس کی نظر سامنے ایک شاپنگ مال پر پڑی جہاں شاپنگ مال کے نام کے ساتھ بڑے حروف میں دبئی لکھا دیکھا تو دل نے اصل میں جیسے کام کرنا ہی  چھوڑ دیا۔۔۔ دماغ فریز ہو گیا ۔۔۔۔

آنسو روانی سے بہنے لگے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ ہی اسے بے حال کردینے کو کافی تھی کہ وہ اسے اپنے ملک سے دور لے آیا ہے۔وہ واپس جائے گی بھی تو کیسے جائے گی ۔۔۔۔

"آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں ؟۔۔۔۔"

"تم سے شادی کرنے کے لیے "

"مممم۔۔۔۔مگر میں ۔۔۔میں آپ سے شادی نہیں کروں گی ۔۔۔۔وہ فورا بولی ۔

"وہ کیوں ؟"شیر زمان نے تیوری چڑھائی۔۔۔

"آپ میرے بھائی ہیں "

"شادی سے پہلے سب بھائی ہوتے ہیں۔اصل بھائی صرف ابتسام اور حسام ہیں اور کوئی نہیں "

"مجھے ابتسام بھائی اور حسام بھائی کے پاس جانا ہے "

"پلیز مجھے وہاں واپس چھوڑ آئیں "

 "مجھے بار بار اپنی بات دہرانا پسند نہیں "

"میں نے تم سے کہا بھی تھا کہ ضامن سے دور رہنا ۔ہر وقت کی بے وقوفیاں مجھ سے برداشت نہیں ہوتیں۔یہاں رہ کر جتنی چاہے مرضی بے وقوفیاں کرو مجھے کوئی اعتراض نہیں"

"م۔۔میں یہاں نہیں ....اس نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔وہ کیسے یہاں رہ سکتی تھی ۔اپنے والدین سے دور یہ خیال ہی جان لیوا تھا ۔

"میں جانتا ہوں کسی بھی لڑکی کو بنا رشتے کے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا اسی لیے میں تمہارے ساتھ نکاح کروں گا پھر تم میرے ساتھ آرام سے رہ سکتی ہو "

"مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا مجھے واپس جانا ہے۔وہ بضد ہوئی ۔۔۔۔اسکے ساتھ رہنے کا سوچ کر ہی اس نے ہمت کیے آواز اٹھائی ۔

"آ۔....... آپ مجھ سے اتنے بڑے ہیں "ایک اور وجہ بتائی گئی  ۔۔۔

"اب اتنا بھی نہیں ہوں جتنا تم نے بڑے۔۔۔۔پر زور دیا "وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور چلتا ہوا اس کی طرف آ رہا تھا ۔۔۔۔

"میں اٹھائیس کا ہوں اب یہی عمر ہوتی ہے لڑکوں کی شادی کی ۔تم ہی زیادہ چھوٹی ہوتو اس میں میرا کیا قصور "اس کی سپاٹ آواز سن کر ہیر کے تن بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔میں آپ کے ساتھ شادی نہیں "

اس نے انکار کرنا چاہا۔۔۔۔

"اگر تم مجھ سے نکاح کر لو گی تو میں تمہیں گھر چھوڑ آؤں گا دو تین ۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا ۔۔۔۔

ہیر جسے ہمیشہ زیادہ بولنے کی عادت تھی ۔۔۔۔۔جھٹ خوش ہو کر بولی ۔

"آپ مجھے دو تین دن تک گھر چھوڑ آئیں گے "؟منہ سے بلا اختیار پھسلا ۔۔۔کیونکہ عادتیں اتنی جلدی کہاں چھوٹتی ہیں۔یہ الگ بات تھی کہ شیر زمان کے سامنے ہی بس اس کی زبان نہیں چلتی تھی ۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔ نکاح کے دو تین سال بعد " شیر زمان نے گھمبیر آواز میں کہا ۔۔۔

تو ہیر کے مچلتے ارمانوں پر اوس پڑی ۔۔۔۔

"مجھے نہیں .....

"ٹھاہ !!!!! کی آواز گونجی 

گولی چلنے کی آواز سے ہیر نے اپنے دونوں کانوں پر زور سے  ہاتھ رکھے اور آنکھیں سختی سے میچ لِیں ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد جب اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو سامنے ایک واز چکنا چور ہوئے پڑا تھا ۔۔۔۔

"یہ ایک ٹریلر تھا تمہیں یاد دلانے کے لیے کہ جو میری بات نہیں مانتا اسکی کیا حالت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔

وہ ہاتھ میں موجود گن کی نال پر پھونک مارتے ہوئے بنا ہیر کی طرف دیکھے سنجیدگی سے بولا ۔۔

وہ تو مزید خوف زدہ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس شخص کو اپنے سامنے پاکر جو بات ہی گن کے بغیر نہیں کرتا تھا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تو بچانے والا بھی کوئی نہیں نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جو اس کو بچائے شیر زمان کی گن سے ۔۔۔۔۔

It's Lion ' s Swag .

وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔۔

ہیر کی خوفزدہ نظریں اس کے کچھ پل کے لیے نمودار ہونے والے ڈمپل پر پڑیں تو پسندیدگی میں ڈھل گئیں۔مگر جونہی وہ غائب ہوا ۔اس کی آنکھیں واپس خوفزدہ دکھائی دینے لگیں ۔۔۔۔

شیر زمان کا ارادہ ہرگز نا تھا کہ وہ اسے خوفزدہ کرے مگر نکاح کے لیے اس طرح سے راضی کرنے کا اس کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا ۔۔۔۔

جبکہ ہیر وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی ۔مگر جب بھاگنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیا تو وہ بی۔پی لو ہوجانے سے ایک بار پھر بیہوش ہوتے ہوئے وہیں گر گئی ۔۔۔۔

شیر زمان نے اسے اٹھا کر بستر پر ڈالا ۔۔۔۔

اور خود صوفہ گھسیٹ کر اس کے پاس کرتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا اور اسے کے نقوش کو اپنی آنکھوں میں اتارنے لگا ۔۔۔

وہ ہیر کے دل سے اپنا خوف ختم کرکے اپنی جگہ بنانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اسکے لیے شیر زمان کے پاس شرعی حق ہونا لازمی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ لیں .....میڈم لے آئیں ہیں اسے "ایک آدمی نے ضامن کو عیش ڈار کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ۔

"بے وقوف !!!!

"یہ کس کو اٹھا لائے ؟؟؟"وہ پہلی نظر میں ہی اس کو پہچان چکی تھی ۔

"میڈم جی آپ نے اس بائیک والے کو پکڑنے کا حکم دیا ۔ہم نے اس کی بائیک کا نمبر نوٹ کر لیا تھا ۔آپ پر کیچڑ اچھالنے والے یہی تھے جی "

"یہ کیا تمہارے والد صاحب لگتے ہیں جو اتنی عزت دے رہے ہو اسے "وہ تنفر زدہ آواز میں بولی۔

"میں نے تمہیں اسے فارم ہاؤس لے جا کر رکھنے کے لیے بولا تھا اور تم اسے سیدھا گھر ہی لے آئے "ایک بار وہ پھر ان سب کی بے وقوفی پر غرائی۔۔۔

اور ایک نظر سامنے خاموش کھڑے ہوئے ضامن پر ڈالی تو نظروں کا زاویہ بدل گئی ۔۔۔۔

"او تیری !!!

"مجھے اب سمجھ میں آیا تم نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے "

"ایک منٹ ٹپوری بھائی لوگ آپ زرا اپنے کانوں پر ہاتھ رکھو ۔۔۔۔مجھے آپ کی میڈم سے ایک پرسنل بات کرنی ہے"

وہ جو کب سے خاموش کھڑا وہاں کی کاروائی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔۔

بالآخر اس کی خاموشی ٹوٹی تو وہ ان غنڈوں کی طرف دیکھ کر بولا ۔

اور چلتے ہوئے  سامنے کھڑی ہوئی عیش ڈار کے قریب گیا تو وہ اس کے پاس آنے پر دو قدم پیچھے ہٹی۔

"You Miss my Kiss"???

وہ اس کے کان کے قریب چہرہ کیے رازدارنہ انداز میں بولا ۔۔۔

"You ....ediot... Cheep.

واہیات انسان ۔۔۔۔میں تمہاری جان لے لوں گی اگر زرا سی بھی مزید بکواس کی ۔۔۔۔

"مجھے چھو کر تو دکھاؤ تمہارے ہاتھ کٹوا دوں گی "وہ ضامن کی بیہودہ بات سن کر پھنکاری ۔۔۔

"اتنا غصہ کرنا صحت کے لیے اچھا نہیں ہے ۔۔۔مس ایتھوپیا ۔۔۔۔

"ویسے بھی میں ہاتھوں سے نہیں ہونٹوں سے چھوتا ہوں "

وہ مسکرا کر طنزیہ انداز میں بولا ۔۔۔۔

عیش کو اس کے الفاظ مزید طیش دلا گئے ۔۔۔وہ اس کی سمارٹنیس کو کمزور لوگوں سے تشبیہہ دے رہا تھا ۔ایتھوپیا کے لوگ بھوک کی وجہ سے بہت کمزور ہوتے ہیں۔

"باندھ دو اس لوفر کو رسیوں سے "

اس نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا ۔۔۔۔

اس نے دیکھا کوئی بھی آگے نہیں آیا۔۔۔۔

"کیا تکلیف ہے تم لوگوں کو پکڑو اسے کہیں بھاگ ہی نا جائے "وہ ان کے سر پہ چڑھ دوڑی ۔۔۔

"او میڈم میں کہیں نہیں بھاگ رہا میری طرف سے بے فکر رہیں "وہ قریبی صوفے پر تن کے بیٹھ گیا ۔۔۔۔

عیش اس کے ٹشن دیکھے جل کر راکھ ہوئی ۔۔۔۔

"ایسا کیا کروں کہ اسے عمر بھر کے لیے اپنا غلام بنا لوں ؟؟؟

وہ وہیں لاونج میں ادھر سے ادھر چلتے ہوئے سوچنے لگی ۔۔۔۔

"سنو ......!!!!! وہ لٹھ مار انداز میں بولی۔

"جی سنائیں "وہ اسی کے انداز میں بولا۔

"میرے بابا کو بہت خواہش ہے میری شادی کی "

"تو اس میں ضامن دی گریٹ کیا کرسکتا ہے ؟

"تم مجھ سے شادی کرو گے ؟؟؟اس نے خودی اپنا پرپوزل پیش کیا۔۔۔

"واؤ گینگسٹر گرل !

"I am impressed."

"کہیں پہلی ہی بار میں ضامن دی گریٹ پر دل تو نہیں آگیا ؟؟؟جو مجھے دیکھتے ہی شادی کی آفر کر دی ۔۔۔

"ہنہہ ۔۔بڑا آیا ۔۔۔۔

"شکل دیکھی ہے کبھی شیشے میں ؟؟؟وہ حقارت زدہ آواز میں بولی۔

"دیکھی ہے جی بالکل دیکھی ہے ۔جب جب آئینے میں خود کو دیکھتا ہوں ۔۔۔وہ ِچلا ِچلا کر کہتاہے۔دور ہو جاؤ ضامن میں تمہاری وجاہت تاب نہیں لا سکتا"

وہ ڈرامائی انداز میں بولا ۔۔۔

"نمونہ "وہ وہ ہونٹ گھما کر بولی ۔۔۔

"ویسے سوچ لو ایک بار مجھ سے شادی کرنا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے " ضامن نے اسے وارن کیا ۔

"تم جیسے بہت آئے اور بہت گئے "

ہنہہ وہ ہنکارا بھر کر بولی ۔

"عیش سے شادی کر کہ میرے تو عیش ہی عیش !!!!

وہ اس شاندار گھر پر تفصیلی نگاہ ڈال کر بولا۔

"ضامن ہر کام ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہے ،پہلے سے بتا رہا ہوں تمہاری ساری جائیداد اپنے نام کروا لوں گا ۔پھر سب کچھ میرا "

وہ صوفے پر ٹیک لگائےبولا۔

"ڈرا رہے ہو مجھے ؟؟؟

"ویسے بہت ہی بکواس کوشش تھی اگر ایسا ہے بھی تو "

وہ نخوت سے ناک سکوڑ کے بولی ۔۔۔

"اس شادی کی ایک کنڈیشن اور بھی ہے۔....

عیش نے دوبارہ اسے مخاطب کیا ۔۔۔

"وہ کیا ؟؟؟

"تمہیں اسی گھر میں رہنا ہوگا گھر داماد بن کہ "

"او تیری !!!!

" آج تو دل ہی خوش کردیا ۔۔۔۔ 

"قسم سے بچپن سے ہی بڑی خواہش تھی گھر داماد بننے کی "

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوا ۔۔۔۔اور مسکراتے ہوئے بولا۔

"ویسے میڈم جی ایک بات پوچھوں ؟؟؟

"پوچھو "

وہ بیزاری سے گویا ہوئی ۔

"آپ مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتی ہیں ۔؟جبکہ آپ تو مجھے جانتی بھی نہیں "

"ابھی بتایا تو ہے کہ میرے پاپا کی خواہش ہے کہ میں شادی کرلوں ۔وہ بیمار ہیں بہت میں انہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں بس یہی وجہ ہے ۔

"لیکن آپ نے مجھے ہی کیوں چنا اس نیک کام کے لیے "؟

وہ دانتوں کی نمائش کیے بولا 

"کہیں آپ کو اس ناچیز کی کِس میں دلچسپی تو نہیں ؟؟؟ساری عمر مجھی سے لپٹے رہنے کی خواہش ٹائپ ؟؟؟؟

"Shut up"

وہ زور سے چلائی ۔۔۔۔

"بڑے آئے عمران ہاشمی کہیں کے "

"او تو آپ نے اسکے سین شین دیکھ رکھے ہیں۔چلو ٹھیک ہے 

مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی ۔"

"خاموش ہوجاو "میں تمہاری جان لے لوں گی "

وہ چلائی ۔۔۔ 

"ہائے مجھ معصوم پر اتنا چلائیے تو مت میرے کان کے پردے پھٹ جائیں گے "

"اور سب سے اہم بات کہ میری تو ابھی تک شادی بھی نہیں ہوئی ....ابھی تک آپ جیسی کسی ہاٹ لڑکی کو اچھے سے اندر تک دیکھا بھی نہیں "وہ چہرے پر معصومیت سجائے دہائی دینے کے انداز میں بولا ۔۔۔

"ہنہہ۔۔۔۔تم اور معصوم ؟؟؟؟

"سو خرانٹ مرے ہوں گے تو ایک تم پیدا ہوئے ہو گے "

وہ سر جھٹک کر بولی۔

"واہ میڈم جی کیا روشن خیالات ہیں آپ کے میرے بارے میں ۔۔۔۔۔اتنے کم وقت میں اتنا جان گئیں مجھے ؟؟؟

"چلیں بس ایک لاسٹ بات کا جواب دے دیں ۔۔۔

"کرو بکواس "وہ جل کر بولی ۔

"آپ کو کیوں لگتا ہے کہ میں آپکی یہ شادی والی آفر قبول کر لوں گا ؟؟؟

"مجھے سو فیصد یقین ہے کہ تم قبول کرو گے "

وہ پریقین انداز میں بولی ۔

"وہی تو پوچھ رہا ہوں ...بتائیں ؟؟؟؟

"مجھے لگتا ہے کہ تم مجھے پہلے دن سے ہی پسند کرتے ہو ورنہ کوئی بھی لڑکا فرسٹ میٹنگ میں کسی سے بھی اتنا فرینک نہیں ہوتا ۔۔۔لگتا ہے تمہیں مجھ سے وہ کیا کہتے ہیں اسے ؟؟؟

"ہاں یاد آیا ۔۔۔۔وہ سر پر ہاتھ مار کر بولی ۔

"Love at first sight"

وہ ہوگیا ہے مجھ سے اسی لیے شادی کی آفر دی ۔چاہا جانا کسے پسند نہیں ،،،وہ مغرورانہ انداز میں بولی ۔۔۔۔

"واہ رے صنف مخالف تیری خوشفہمیاں !!!!

وہ تاسف سے سر ہلا کر بولا۔۔۔۔

"پھر اپنا جواب بتاؤ "

"جواب جب پتہ ہے تو پوچھتی کیوں ہو  ؟؟؟

وہ جینز کی پاکٹ میں ہاتھ گھسا کر بولا ۔۔۔

"یعنی کہ.... تمہارا جواب ہاں ہے "

"بلاؤں پھر مولوی کو ؟؟؟

"نیکی اور پوچھ پوچھ"

"ویسے میں ایک مشرقی لڑکا ہوں اپنے والدین کے بنا نکاح نہیں کرتا "

وہ اپنی انگلی کا ناخن دانتوں تلے چپا کر لڑکیوں کی طرح شرماتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"تم پوری کی پوری فلم ہو "

عیش ڈار نے اس کی اداکاری پر طنزیہ انداز لب و لہجے میں کہا۔۔۔

"یہ شادی عام شادی جیسے نہیں ہے۔جو سب کا شامل ہونا ضروری ہے۔میں تمہیں کڈنیپ کر کہ نکاح کر رہی ہوں اور تم سارا گاؤں اکٹھا کرنے کی تیاریوں میں ہو ۔دو تین سال تک رہے گی یہ شادی جیسے ہی مجھے کوئی سوٹ ایبل لڑکا مل گیا میں تمہیں چھوڑ دوں گی "

اس کی بات پر ضامن نے اسکی طرف دیکھ کر پر اسرار مسکراہٹ اچھالی ۔۔۔

"بلا لاؤ مولوی کو اگر اس وقت آنے کے لیے راضی نا ہو تو اٹھا کر لے آنا ۔۔۔۔

"یہ نا ہو دلہا مکر جائے "

اس نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا۔۔۔۔تو وہ باہر نکل گئے ۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ قریبی مسجد کے مولانا صاحب کو اپنے ساتھ لے آئے ۔۔۔۔

"حق مہر کتنا لکھوں "؟

انہوں نے دلہا دلہن دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔

"غریب سا بندہ ہوں زیادہ مت لکھیے گا "

وہ چہرے پر معصومیت سجائے بولا ۔۔۔

"اب اتنے بھی تم غریب نہیں لگتے ۔۔۔۔جسکے پاس ہیوی بائیک ہو وہ غریب ہو ناممکن "

اس نے ماننے سے انکار کیا ۔۔۔

"سچ میں ہم بہت غریب ہیں۔گھر میں کھانے کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں ۔یہ بائیک تو میں نے دن رات محنت مزدوری کر کہ خریدی ہے۔کیونکہ مجھے بچپن سے ہی اس کا شوق تھا  ۔

ضامن نے بڑی مہارت سے  بہانہ گھڑا ۔۔۔۔

"بہت ہی کوئی... چالو چیز ہو تم "

"آپ سے کم میڈم جی "

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر دوبدو بولا ۔

"پانچ لاکھ لکھ دیں "عیش نے مولانا صاحب سے کہا ۔۔۔

"ہائے ۔۔۔کچھ تو رحم کریں مجھ غریب پر ۔۔۔اتنا روپیہ پیسہ لے کر کیا قبر میں جانا ہے ؟؟؟

"مجھ سے کیوں نکلوا رہی ہو ؟

"اسی لیے کہ تم مجھے چھوڑنے کے بارے میں سوچو بھی نہیں ۔اور اگر ایسا کرنا چاہو تو تم مجھے ان کی وجہ سے چھوڑ نہیں پاؤ جب تک میں نا چاہوں "

"چلیں ٹھیک ہے۔جیسے آپ خوش ویسے ہی یہ نا چیز بھی خوش "

"آپ لوگوں کے سر پرست اور گواہوں کی ضرورت ہے ۔مولانا صاحب بولے ۔۔۔

"یہ سب کیا گھاس کھانے آئے ہیں ۔ان کی گواہی ڈال دو "

عیش ڈار نے ان غنڈوں کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔

"ویسے بھی میرے پاپا پیرالائیزڈ ہیں۔وہ سائن نہیں کر سکتے ۔

"آپ انگوٹھا لگوا دیں ان کا ۔

"اوکے "

اس نے جواباً کہا۔

مولانا صاحب کے پوچھنے پر دونوں اطراف سے قبولیت کی سند ملی تو وہ دونوں ایک پاکیزہ بندھن میں بندھ گئے۔۔۔

"مولوی صاحب چلے گئے اب تم لوگ بھی ُپھر ہو جاؤ ۔۔۔

"میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی ؟ویسے بھی کباب میں تم جیسی ہڈیوں کا کیا کام ؟؟؟

وہ کھڑے ہوتے ہوئے عیش ڈار کے پیچھے سے ہاتھ گزار کر اسکے شانے پر رکھتے ہوئے غنڈوں سے بولا ۔۔۔۔

"کتنی چیپ لینگوئج یوز کرتے ہو تم "

وہ اس کا ہاتھ اپنے شانے سے جھٹک کر بولی ۔۔۔

"کیا کروں میری گینگسٹر  بیوی جی آپ کو دیکھ کر ایسا بولنے کا دل کرتا ہے ۔

"یہ بار بار کیا بیوی کی رٹ لگارکھی ہے۔خبردار جو یہ لفظ بولا دوبارہ ۔

"اب بیوی کو بیوی نہیں بولوں گا تو کیا بولوں گا ۔

"جو مرضی بولو مگر یہ نہیں "

"اچھا پھر گینگسٹر چلے گا ؟؟

"شٹ اپ "وہ ماتھے پر شکن ڈالے بولی ۔۔۔

"اوکے ....پھر میں بھی چلتا ہوں "

وہ باہر کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔

"کہاں جا رہے ہو تم ؟؟؟

"اپنے گھر "

"ہماری بات ہوئی تھی اس بارے میں کہ تم یہیں رہو گے "

"میڈم جی آپ نے نکاح کیا ہے خریدا نہیں ہے مجھے "

"جو آپ کے ہر حکم کی تعمیل کروں گا۔"

"مگر .....اس نے اسے روکنا چاہا۔

"میری ایک بات ذہن میں بٹھا لو ضامن دی گریٹ تو اپنے باپ کی بھی نہیں سنتا تو پھر تم کیا چیز ہو "

"لڑکیوں کو کڈنیپ کر کہ ہزاروں لوگ شادی رچاتے ہوں گے مگر ایک لڑکے کو کڈنیپ کر کہ شادی رچانے کا ثواب صرف آپ نے کمایا ہے "

وہ کاٹ دار نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا 

"ایک لڑکا اتنا کمزور کبھی نہیں ہوتا کہ آسانی سے ایک لڑکی کے ڈارنے  پر اس سے شادی کے لیے اقرار کر دے ۔

احسان مانو میرا جو تم جیسی چھچھوندر سے شادی کر لی ۔

اس کی باتوں پر وہ غصے میں تلملانے لگی ۔۔۔۔اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی مگر مٹھیاں بھینچ کر خود پر کنٹرول کرنے لگی جو واقعی ایک مشکل امر تھا خاص کر عیش ڈار کے لیے۔۔۔۔

"عیش کا سرخی مائل چہرہ دیکھ وہ زرا سا ڈھیلا پڑا ۔۔۔

"اپنے گھر جا رہا ہوں کچھ دنوں کے لیے انہیں بھی تو بتا دوں اپنی شادی کا اور پھر وہاں سے اپنا سامان بھی تو لانا ہے۔آجاوں گا ڈونٹ وری ۔۔۔

ضامن خان اپنا وعدہ نہیں بھولتا ۔۔۔۔۔

"چلو تم بھی کیا یاد کرو گی جاتے جاتے تمہیں اپنے ہاتھوں کی چائے پلا کر جاتا ہوں ۔۔۔

"پیو گی ؟؟؟

"جتنا تم نے دماغ کھایا ہے۔چائے تو بنتی ہے "وہ اس کی باتوں  سے متفق ہوکہ تھوڑا پرسکون انداز میں بولی ۔۔۔

سب وہاں سے جا چکے تھے ۔عیش نے ضامن کو کچن کا بتایا اور خود اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

ضامن کچن میں چائے بناتے ہوئے سوچوں کے نئے تانے بانے بُن رہا تھا ۔۔۔۔پھر اسکے عنابی لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔۔۔۔

"تمہیں زرا بھی تمیز نہیں ؟؟؟

"لڑکیوں کے روم میں بنا ناک کیے نہیں آیا جاتا "

عیش ڈار جو اپنی نائٹی میں ملبوس بستر پر بیٹھی ہی تھی ضامن کو چائے کا کپ پکڑے ہوئے اندر آتے دیکھا تو اونچی آواز میں بولی۔

اور جلدی سے خود پر کمفرٹر اوڑھ لیا ۔۔۔۔

"اجازت لڑکیوں کے کمرے میں جانے کی لی جاتی ہے بیوی کے نہیں "

وہ اسے آئینہ دکھا گیا۔۔۔۔

"اپنی لمٹس میں رہو "وہ تنبیہی انداز میں بولی۔

"ابھی لمٹس دیکھیں کہاں ہیں جانم ؟؟؟وہ چائے کا کپ اس کے ہاتھوں میں دئیے ذومعنی انداز میں بولا ۔۔۔۔

"مجھے چائے مل گئی ہے۔اب تم  یہاں سے دفعہ ہو سکتے ہو "وہ سپاٹ انداز میں بولی۔

"بڑی ہی بے مروت ہو تم گینگسٹر !!!

"نا تو چائے کی پیشکش کی ناہی  بیٹھنے کی دعوت دی ۔

بھئی پہلی بار شوہر روم میں آیا ہے اچھے سے استقبال کرو "

"گھٹیا ترین مشورے کا بہت شکریہ ۔۔۔وہ سپاٹ انداز میں بولی۔

ضامن خود جا کر سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔

عیش ڈار نے چائے کا گھونٹ بھرا ۔۔۔

"کیسی ہے ؟؟؟ضامن نے پوچھا ۔

"ٹھیک ہے۔وہ لٹھ مار انداز میں بولی ۔

"اوکے میں چلتا ہوں "

وہ اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔

"ٹھیک ہے "وہ فقط اتنا ہی بولی اسے اپنا سر بھاری ہوتا ہوا لگا ۔۔۔اور آنکھیں نیند کے خمار سے بوجھل ہوتی محسوس ہوئیں ۔۔۔۔وہ اپنی پیشانی کو مسلنے لگی ۔۔۔۔

"لیٹ جاؤ "ضامن کی آواز قریب سے آئی تو وہ لیٹ گئی ضامن نے اس پر کمفرٹر درست کیا ۔۔۔۔۔

دو منٹ وہیں کھڑا ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو سامنے ہی ایک رائٹنگ پیڈ اور پین نظر آیا تو اسکے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا ۔۔۔۔اور اس نے اس پر عمل در آمد کرنے کا سوچا ۔۔۔۔

"میں تم۔۔۔۔ سے برتن دھلواوں گی "وہ نیند میں ضامن سے مخاطب ہوئے اپنے دل کی بات بتانے لگی ۔

"اور کیا کروائیں گی ؟؟؟ضامن نے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔

تم سے پاؤں دبواوں گی "

اور ؟؟؟

تم سے جوتے پالش کرواؤں گی ۔

"اور ؟؟؟

"تم سے کھانا بنواوں گی "

"اور ؟؟؟وہ اس سے سارے راز اس حالت میں اگلوا رہا تھا ۔

"تمہیں اپنا غلام بنا لوں گی ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔

"وہ کیوں ؟؟؟

"تم نے میرے ساتھ جو کیا اس کا بدلہ لوں گی "

وہ نیند میں سارے راز اُگل رہی تھی ۔۔۔۔

کیونکہ ضامن نے اسکی چائے میں نیند کی گولی جو ملا دی تھی ۔۔۔۔

"یہ سارے کام میں نے تم سے نہ کروائے تو میرا نام بدل دینا گینگسٹر وائف "

"میڈم جی اس فائل پر آپ کے سائن چاہیے "

ضامن نے آواز بدل کر کہا ۔۔۔

"کونسی فائل ہے یہ ؟؟؟

وہ نیند میں بھی آفس کے کام میں ہوشیاری دکھا رہی تھی ۔

"میڈم یہ ۔۔۔۔۔ضامن نے دو پل سوچا پھر کچھ سمجھ نہیں آیا تو اپنی ہی کمپنی کا نام بولا ۔۔۔

"میڈم یہ خان کنسٹرکشن کمپنی کی فائل ہے۔

"اچھا ہماری کمپنی کے ساتھ وہ کمپنی مرج ہونے کے لیے مان گئی ؟؟؟

"جی میڈم جی اسی لیے آپ کے سائن چاہیے ۔

"لاؤ دو "ضامن کی نظروں کا مرکز اس کے بھرے بھرے گلابی لب تھے ۔۔۔۔

اس نے بند آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر سب دھندھلا سا دکھائی دے رہا تھا۔وہ اس کاغذ پر سائن کیے پھر سے بستر پر گر گئی ۔۔۔۔۔

اور ضامن وہ کاغذ اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالا ۔۔۔۔۔

"گڈ نائٹ مائی ڈینجرس پلس گینگسٹر وائف "

وہ اس پر جھکا ۔۔۔۔

اور اپنے لب اس کے لبوں سے الجھائے تو عیش جو نیند میں ڈوب چکی تھی ۔۔۔۔

نیند میں بھی اس سے اپنا آپ چھڑوانے کی بھرپور کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔

"اب شادی کے بعد اتنا حق تو بنتا ہے "شوہر کا پہلا تحفہ سمجھ کر قبول کرو ۔۔۔

وہ اسے چھوڑے اسکا گال تھپتھپاکر کر شرارت سے بولا ۔۔۔۔

"تم ۔۔۔۔وہ نیم واہ آنکھوں اور بھیگی آواز میں اتنا ہی بول پائی۔۔۔اس کی طرف اٹھی ہوئی انگلی نیچے گر گئی ۔۔۔۔وہ پھر سے آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔

ضامن مسکرا کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋 

"اسلام وعلیکم شہریار بھائی آپ یہاں ؟؟؟؟

بریرہ نے شہریار اور حسام کو اندر آتے دیکھ سلام کرتے ہی حیرت سے پوچھا۔

"ابھی ہم کچھ دیر میں آپ کے ہاں آنے ہی والے تھے حسام اور زائشہ کا ناشتہ لے کر ۔۔۔۔۔

"نہیں اس سب کی ضرورت نہیں "شہریار نے سادہ سے انداز میں کہا ۔۔۔۔

سب ناشتے کی رسم پر جانے کے لیے تیار ہوکر اپنے روم سے باہر نکلے تو شہریار اور حسام کو اس وقت وہاں دیکھ کر چونکے ۔۔۔۔

"سب ٹھیک تو ہے "؟زیگن نے شہریار کے چہرے پر شکنوں کا جال بچھا دیکھا تو پوچھا ۔۔۔

"زیگن کل رات سے ہیر نہیں مل رہی "

سب ان کی بات سن کر حیران رہ گئے۔۔۔۔

"کہاں ہے ہیر ؟؟؟کہاں گئی ۔۔۔؟

ذوناش پریشانی سے بولی۔

"کل رات سے اسے ڈھونڈھ رہے ہیں ہم دونوں ۔۔۔۔سارا گھر دیکھ لیا ۔شادی ہال چھان مارا ۔۔۔شہر کے سارے ہاسپٹل گلیاں کوچے سب چھان مارے مگر کہیں اسکا کوئی بھی پتہ نہیں چل سکا ۔۔۔۔

"شہریار پریشان مت ہو ان شااللہ ضرور مل جائے گی ہیر ۔

زریار نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ تسلی آمیز انداز میں کہا۔

"بہت معصوم ہے ہماری ہیر نجانے کون ہوگا جس نے ہمارے ساتھ یہ دشمنی نکالی ہے "زرشال نے کہا۔

"سچ کہا زرشال ہماری ہیر بہت معصوم ہے ضرور کوئی اسے زبرستی ہی ساتھ لے گیا ہوگا ۔۔۔۔ذوناش نے بھی اس کی تائید کی "

"آپ کے ....کوئی آرائیولز تو.. نہیں "؟ زمارے نے شہریار سے پوچھا ۔۔۔۔

"نہیں زمارے میری کسی سے بھی کوئی دشمنی نہیں "

"پھر کون ہوسکتا ہے "؟

"اگر کسی نے کڈنیپ کیا ہے تو ابھی تک تو پیسوں کی ڈیمانڈ اجانی چاہیے تھی زیگن نے کچھ یاد کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"آپ کو کسی کی کال بھی نہیں آئی ؟؟؟

"نہیں زیگن !!!شہریار نے ہارے ہوئے جواری کی طرح کہا ۔۔۔۔

"کل رات سے نا تو ابتسام کا فون لگ رہا ہے نجانے وہ کہاں چلا گیا ۔۔۔۔اور اب ہیر کی گمشدگی ۔۔۔۔۔میرا تو گھر ہی بکھر کر رہ گیا ۔۔۔۔

وہ شکستہ لہجے میں بولا۔۔۔۔

"حوصلہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔اللہ کے گھر دیر ہے مگر اندھیر نہیں "زریار نے کہا۔

"حسام تم نے اور کہاں چیک کیا ۔۔۔۔؟"

"میں نے سارے بس اڈے ریل گاڑی اور کی مسافروں کی ساری لسٹس چیک کیں ہیں مگر کسی میں بھی ہیر نامی مسافر کا کوئی نام نہیں ۔۔۔۔

"تمہاری تو سب ائیر لائنز میں واقفیت ہوگی وہاں سے پتہ کراؤ "زیگن نے اسے مشورہ دیا۔۔۔

"سب سے پہلے میں نے یہی کام کیا تھا ۔۔۔۔

مگر رات سے اب تک کسی بھی ہیر نامی مسافر نے جہاز کا سفر نہیں کیا ۔۔۔۔۔

حسام نے پریشانی سے کہا ۔۔۔۔

"(کیونکہ شیر زمان ہیر کو اپنے پرائیویٹ پلین میں دبئی لے کر گیا تھا ۔اسی لیے کسی کو کچھ پتہ نہیں چل سکا اسکے بارے میں )"

"پولیس اسٹیشن جا کر رپورٹ بھی لکھوا دیتے ہیں۔پھر ہم سب اپنی اپنی کوشش کریں گے اسے ڈھونڈھنے کی ۔۔۔۔۔

"ضامن کہاں ہے ؟؟؟شاید اسے کچھ پتہ ہو "شہریار نے اس کے بارے میں زمارے سے پوچھا ۔

"وہ نالائق نکلا ہوگا اپنے ہی جیسے آوارہ دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے اور کیا "

"اسلام وعلیکم میرے بابا نے مجھے اتنے اچھے الفاظ میں یاد کیا تو میں حاضر ہوں "

ضامن جو دراوزے سے اندر داخل ہو رہا تھا ۔زمارے کی بات سن کر جوابا بولا ۔۔۔۔

اندر آیا تو سب کے چہروں پر خوشی کی بجائے پریشانی کے آثار نمایاں دیکھے تو پوچھے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔

"کیا ہوا سب اتنے خاموش کیوں ہیں "؟

"ضامن ہیر نہیں مل رہی "حسام نے اسے بتایا ۔۔۔۔

"وہ کہاں جا سکتی ہے ؟؟؟اسے تو کسی راستے کا بھی نہیں پتہ "وہ پریشان کن انداز میں بولا۔

"ہم سب اسے ڈھونڈھنے کی اپنی اپنی کوشش کرتے ہیں تم بھی اسے ڈھونڈو ۔۔۔۔اس کی سکول کی دوستوں سے بھی کا کر پتہ کرو ۔۔۔شاید کچھ سراغ مل جائے ۔۔۔۔۔

"میں شیر زمان کو کال کر کہ بتا دیتا ہوں شاید وہ اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد کرے "زیگن نے کہا ۔۔۔

"نہیں اسے رہنے دو ۔۔۔۔غصے کا ویسے ہی بہت تیز ہے۔فورا لڑنے مرنے پر تُل جاتا ہے ۔اگر اسے ہیر کی گمشدگی کے بارے میں پتہ چلا تو اسے ڈھونڈھنے کے لیے سارے شہر کو تہس نہس کردے گا ۔۔۔۔اپنے ساتھ سارے شہر کا سکون کیوں برباد کریں ؟؟؟شہریار نے اپنی آخری بات پر پھیکی سی مسکراہٹ لائے کہا ۔

"اچھا چلتے ہیں ۔

"شہریار ۔۔۔۔!!!زریار نے اسے مخاطب کیا ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔

"ریسپشن فی الحال رہنے دو جب ہیر ملے گی تو دیکھیں گے "

"بہت شکریہ "شہریار نے اسے تشکرانہ نظروں سے دیکھ کر کہا جیسے اس مشکل وقت میں ان کے سر سے ایک بڑا بوجھ اتر گیا ہو ۔کیونکہ اس ماحول میں وہ فی الوقت ریسیپشن نہیں کرسکتے تھے ۔

"اس میں شکریہ والی کیا بات ہے ۔ہماری خوشیاں جب ایک ہو سکتی ہیں تو غم ایک سے کیوں نہیں ؟؟؟؟

"یمنی اور زائشہ کا خیال رکھنا ہم سب جلد آئیں ملنے ۔۔۔پہلے سب ہیر کو تلاش کرتے ہیں "زریار نے کہا تو سب اپنی جگہ سے اٹھ گئے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

حسام اور شہریار خالی ہاتھ گھر لوٹے ۔۔

"بابا آپ جا کر مما کو سنبھالیے مجھ سے انہیں دیکھا نہیں جائے گا۔۔۔۔۔حسام نے شہریار سے کہا تو وہ اندر چلے گئے ۔۔۔لان کی کیاری میں صبح کی ٹھنڈی ہوا کے دوش پر لہراتے ہوئے پھولوں نے حسام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ۔۔۔۔یہ پھول زائشہ کو بہت پسند تھے اسی لیے حسام نے اسے اپنے گھر کے گارڈن میں لگا رکھا تھا ۔۔۔

اس نے ان پھولوں کے قریب جا کر انہیں نرمی سے توڑا اور ایک خوبصورت سا بوکے بنایا ۔۔۔پھر اپنے روم میں چلا گیا ۔۔۔۔

دروازہ کھولا تو وہ ابھی تک عروسی لباس میں ملبوس اس کے بستر پر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔

حسام نے اس کے چہرے کے بالکل قریب وہ پھولوں کا گلدستہ رکھ دیا ۔۔۔اور خود فریش ہونے واش روم میں چلا گیا ۔۔۔۔

پھولوں کی بھینی بھینی مہک کمرے میں پھیلی تو اس کے نتھنوں سے بھی ٹکرائی۔۔۔۔زائشہ نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کی نظر اپنے پسندیدہ پھولوں پہ پڑی تو انہیں ہاتھوں میں لیے اپنی ناک کے مزید قریب لائی اور انہیں سونگھ کر ان کی دلفریب محسور کن مہک اپنے اندر اتاری ۔۔۔دل و دماغ صبح صبح تروتازہ ہوگیا۔۔۔

حسام اسے ایسا کرتے دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔

مگر خاموش کھڑا اپنا چہرہ صاف کیے ٹاول ایک طرف رکھا ۔۔۔

"کہاں گئے تھے ؟؟؟اس نے حسام سے پہلا سوال پوچھا کیونکہ وہ ساری رات غائب جو تھا ۔۔۔۔

"ہیر نہیں مل رہی "

کیا کہہ رہے ہو ؟؟؟؟ہیر نہیں مل رہی اور تم اتنے سکون سے کھڑے ہو ؟؟؟

وہ غصے میں آکر بولی ۔

"ساری رات اسے ہی ڈھونڈھتا رہا ہوں ابھی واپس آیا ۔فریش ہونے کے بعد پولیس اسٹیشن جانے کا ارادہ ہے ۔۔۔حسام نے سادہ لہجے میں بتایا۔

وہ شرمندہ ہوئی ۔۔۔۔وہ بھی تو اس کا بھائی تھا ۔۔۔آخر وہ کیسے لاپرواہی برت سکتا تھا اس نے دل میں سوچا ۔۔۔

"ہیر کا کچھ پتہ چلا ؟؟؟

"نہیں "

"تمہارے کپڑے لے آیا ہوں یہ سامنے رکھا ہے بیگ ۔کپڑے تبدیل کرلو پھر مما کے پاس چلی جاؤ انہیں سپورٹ کی ضرورت ہے ۔

"مجھے پتہ ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں "وہ اپنا رویہ زیادہ بہتر نہیں رکھ پا رہی تھی ابھی بھی شاید کچھ تلخی باقی تھی اندر ۔۔۔۔

زائشہ نے بیگ کھول کر اس میں سے ایک ہلکے سے کام والا قدرے سادہ سا جوڑا نکالا اور واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد باتھ لیے واپس آئی تو وہ وہیں موجود تھا ۔۔۔۔

زائشہ نے اپنے بالوں کو ٹاول سے جھٹک کر ان میں برش پھیرا اور انہیں کھلا چھوڑ دیا کیونکہ ابھی وہ گیلے تھے ۔۔۔۔

حسام کو شیشے میں اپنی طرف بڑھتا دیکھ اس کے اوسان خطا ہوئے ۔۔۔۔

اس نے زائشہ کے پاس آکر اس کے بھیگے بالوں کو جن میں سے پانی کی بوندیں ٹپک کر اس کی پشت کو بھگو رہی تھیں انہیں اکٹھا کیےشانے کی  ایک طرف رکھا ۔۔۔۔

زائشہ نے زور سے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔۔اسے اپنی گردن پر حسام کی گرم سانسوں کی تپش سہارنا دوبھر لگا ۔۔۔۔

چند لمحوں بعد اسے اپنی گردن پر کچھ ٹھنڈک کا احساس ہوا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔اور شیشے میں خود کو دیکھا جس کی خالی گردن پر اب گولڈ کی چین جگمگا رہی تھی جس پر زیڈ اور ایچ دونوں کو جوڑے الفابیٹ کا پینڈٹ بنا تھا ۔۔۔

وہ انتہائی خوبصورتی سے بنایا گیا تھا۔۔۔۔۔

"زائشہ !!!حسام کی فسوں خیز آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔۔تو زائشہ نے آئینے میں ہی اپنی پشت پر کھڑے حسام کو دیکھا ۔۔۔۔

"میری محبت کو کبھی حوس سے تشبیہہ مت دینا ۔۔۔۔ورنہ جیتے جی مر جاؤں گا ۔۔۔۔

"میری محبت نہیں عقیدت ہے تمہارے لیے ۔۔۔۔

وہ اس کے نم بالوں پر اپنے لب رکھ کر بولا ۔۔۔۔

اور تھوڑا سا پیچھے ہوا ۔۔۔۔

"اسے میری عقیدت سمجھنا "کہتے ہوئے وہ روم سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

پیچھے زائشہ کو حیران چھوڑ گیا ۔۔۔۔۔

"آپ لوگوں نے ٹی وی پر نیوز دیکھی ؟؟؟

زمارے نے لاونج میں لگی ایل سی ڈی آن کرتے ہوئے سب کو متوجہ کیے کہا ۔۔۔۔۔

"نہیں کل سے ٹی ۔وی آن ہی نہیں کیا"

"میں اسی لیے یمنی کو آج یہاں لایا ہوں تاکہ آپ لوگ اسے سمجھائیں کہ ہیر مل جائے گی ۔کل سے نا تو اس نے کچھ کھایا نا کچھ پیا ۔۔۔بس روئے چلی جا رہی ہے "شہریار نے کہا ۔۔۔

"یمنی پلیز رو کو خود کی طبیعت خراب مت کرو سب ڈھونڈھ رہے ہیں اسے جلد ہی مل جائے گی ۔بریرہ نے یمنی کو تسلی دی ۔۔۔۔

زائشہ اور حسام بھی ساتھ آئے تھے ان کے وہ بھی وہیں موجود تھے ۔

زمارے نے ٹی وی آن کیا ۔۔۔

یہ دیکھیں نیوز ہیر جس سکول وین میں روازنہ سکول جاتی تھی آج صبح اس وین کو اغوا کر لیا گیا ہے ۔۔۔۔

پولیس انہیں ڈھونڈھ رہی ہے۔اگر آج ہیر ہوتی تو شاید وہ بھی اسی وین میں ۔۔۔۔آگے اس سے بولا ہی نا گیا ۔۔۔۔۔

"خدا خیر کرے ان بچیوں پر انہیں صیحیح سلامت رکھے ان کی عزت کی حفاظت فرمائے اور میری بیٹی کی بھی وہ جہاں بھی ہے ۔یمنی نے روتے ہوئے اونچی آواز میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ۔۔۔۔

تو سب نے اس پر آمین کہا ۔۔۔

"یمنی بس کرو اللّٰہ پاک سب بہتر کرے گا ۔تم یہ تھوڑا سا جوس پیؤ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔زرشال نے اس کے آگے گلاس بڑھایا ۔۔۔۔

"زیان تمہیں اس بارے میں کیا خبر تھی ؟؟؟

"نہیں ڈیڈ اس معاملے میں تھی تو نہیں مگر شاید اب انوالو ہونا پڑے گا ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر کی طرف نکل گیا ۔۔۔۔

"ضامن تمہیں کچھ پتہ چلا ؟؟؟زیگن نے اس سے پوچھا ۔۔۔

"نہیں بڑے پاپا "وہ سر جھکا کر بولا ۔

"مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا میری بہن کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ۔۔۔کہیں سے بھی کچھ پتہ نہیں چل پا رہا ۔۔۔۔

آج صبح دوبارہ سے پولیس اسٹیشن گیا تھا مگر وہاں سے بھی کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی ۔۔۔

سارا شہر چھان مارا مگر کہیں بھی ہیر کا کچھ پتہ نہیں چلا کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آ رہی ۔؟؟؟

حسام پریشانی سے ماتھے پر شکنوں کا جال بچھائے بولا ۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ہیر کو یہاں آئے دوسرا دن تھا اتنے وقت میں بس اتنا ہی ہوا تھا کہ شیر زمان اس سے نکاح کر چکا تھا ۔۔۔اس کے بعد اسے فلیٹ میں چھوڑے خود نجانے کدھر نکل گیا کہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔

شام کے پانچ بجے اس کی واپسی ہوئی تو دروازہ کھول کر اندر آیا ۔۔۔۔اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مگر اسے ہیر کہیں بھی دکھائی نہیں دی ۔

وہ اپنے روم میں گیا مگر وہ خالی تھا ۔پھر ساتھ والے روم کا دروازہ کھولنا چاہا تو وہ اندر سے لاکڈ تھا ۔۔۔

"ہیر دروازہ کھولو "

شیر زمان کی بھاری آواز سن کر ہیر دروازے کے ساتھ چپک گئی ۔۔۔۔

"ہیر دروازہ کھولو ""

اس نے دوبارہ دروازہ ناک کیا ۔۔۔

"اس بار دروازہ نہ کھولا تو مجھے اسے توڑنا بھی آتا ہے۔اور اگر میں اسے توڑ کر اندر آیا تو بہت برا ہوگا "

شیر زمان نے اسے اونچی آواز میں دھمکایا ۔۔۔۔

ہیر نے بیڈ سے بیڈ شیٹ کھینچ کر اپنے وجود پر لپیٹ لی ۔۔۔۔

اور دروازہ کھولا ۔۔۔

واقعی اس کی دھمکی کام کر گئی اور دروازہ کھلا ۔۔۔۔

"دروازہ کیوں لاکڈ کیا تھا ؟؟؟

وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔۔

ہیر کانپتے ہوئے وجود کے ساتھ دیوار سے چپکی رہی ۔۔۔

"تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں ...

"اور یہ بیڈ شیٹ کیوں لپیٹ رکھی ہے ۔۔۔اتارو اسے "

شیر زمان نے اسے اتارنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔

"نہیں پلیز "

اس نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔

"کیوں ؟؟؟"

شیر زمان نے اس کی فضول کی ضد کی پرواہ کیے بنا اس پر سے بیڈ شیٹ کھینچی ۔۔۔۔

"پہلے تو اس کی حالت دیکھ کر حیران ہوا ....

 پھرمعاملہ سمجھ میں آتے 

" پریشان ہوا.....

پھر آخر میں شرمندگی سے 

" پشیمان ہوا ....

ہیر کی لرزتی ہوئی پلکوں کو دیکھا جو گالوں کو چھو رہی تھیں ۔۔۔شرم اور خجالت سے دہکتے ہوئے گال جو سرخ قندھاری انار کی مانند ہو چکے تھے ۔۔۔۔

مگر اس کی  آنکھوں سے آنسو رواں ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔

شیر زمان نے واپس اس پر وہی بیڈ شیٹ لپیٹ دی ۔۔۔۔

"بیٹھ جاؤ "

وہ اس کی طرف سے رخ موڑ  کر بولا ۔۔۔۔

"بستر خراب ہو جائے گا "ہیر کی کپکپاتی ہوئی آواز آئی  ۔۔۔

"بستر نیا لگ جائے گا "

"تم رو کیوں رہی ہو ؟؟؟

"میں نے ایسا تو کچھ بھی نہیں کہا "

"مجھے درد ہورہی ہے "

وہ سر جھکائے ہوئے بولی۔

"میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں "

وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کیے باہر نکلا ۔۔۔۔

آج پہلی بار اسے خجالت کا سامنا کرنا پڑا ۔۔۔۔

"اور لڑاؤ  بچی سے عشق "

"   یہ سب تو بھگتنا ہی پڑے گا "

"جانتا تھا لٹل پرسنسز کی دیکھ بھال میں مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا ۔۔۔مگر پہلی بار میں ہی اس قسم کی مشکل کا سامنا ہوجائے گا یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔۔۔اس نے اپنے سلکی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے خود کلامی کی ۔۔۔۔

ہیلو زاہد !!!

"جی سر !!اس نے مؤدب انداز میں کہا ۔

"گھر سے کسی کو ساتھ لاؤ میرے فلیٹ میں "

"جی سر ابھی لاتا ہوں "

"ہیلو ڈاکٹر "

"پلیز اپنے ہاسپٹل سے کسی لیڈی ڈاکٹر کو بھیج دیں میں ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں "

اس نے پریشانی سے وہیں کھڑے کھڑے فون ملائے اب وہ لاونج میں بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا ۔۔۔۔

"ارے اماں جان آپ نے کیوں تکلیف کی ؟؟؟

اس نے نہایت دھیمے لہجے میں کہا اور اماں جان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بیٹھنے میں مدد دی ۔

"اس نالائق کو میں نے آپ کو لانے کے لیے تو نہیں کہا تھا "

"نہیں۔۔ نہیں زاہد تو صائمہ کو ہی اپنے ساتھ لا رہا تھا میں نے ہی اسے کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو کتنے دن ہوگئے ہیں تمہیں دیکھے ہوئے "

"کیا ایک ماں اپنے بیٹے کو ملنے نہیں آ سکتی ؟؟؟

"بالکل۔۔۔ ضرور آپ کا جب دل چاہے تب آ سکتی ہیں ۔

"جی سر آپ نے کس کام سے  بلایا تھا ۔۔۔؟

"اندر میری وائف ہے ۔صائمہ سسٹر کو ان کے پاس بھیج دو۔۔۔ اسے کچھ مدد کی ضرورت ہے "یہ کچھ پیسے ہیں یہ رکھ لیں وہ جو بھی بتائے اسے لا دیجیئے گا"

یہ کہتے ہوئے شیر زمان نے اپنے والٹ سے کچھ نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھے ۔۔۔۔

"میرے بیٹے کی شادی بھی ہوگئی ۔۔۔مجھے تو دکھاؤ اپنی دلہن ۔۔۔۔اماں جان نے پر مسرت لہجے میں کہا ۔۔۔۔

"آئیں اماں جان میں آپ کو لے جاتی ہوں "

صائمہ ان کا ہاتھ پکڑ کر اندر کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم بی بی جی !

صائمہ نے اسے سلام کیا ۔۔۔

مگر اماں جان نے ایک کمسن  لڑکی کو دیکھا تو حیران ہوئیں پھر مسکرانے لگیں ۔۔۔۔

"ماشاللہ !!! کتنی پیاری دلہن ہے۔۔۔۔

صدقے جاؤں اپنے بیٹے کی پسند پر بالکل پریوں جیسی ہے ....

"تمہیں پتہ جب میری شادی ہوئی تو میں بھی تمہاری عمر کی ہی تھی ۔۔۔۔اماں جان اس کے پاس آتے ہی اپنائیت سے بولنے لگیں۔۔۔۔

ہیر نے پریشانی سے انہیں دیکھا ۔۔۔۔کہ نا جان نا پہچان اور وہ ہیں کون جو اس کے ساتھ پہلی ملاقات میں اتنی اپنائیت دکھا رہی ہیں۔۔۔

اس نے دماغ پر زور ڈالا تو ان کی طرف دیکھ کر اسے کچھ یاد آیا ۔۔۔۔۔

"بی بی جی آپ کو کیا چاہیے ؟؟؟صاحب نے مجھے بھیجا ہے ۔آپ کو جو چاہیے میں لا دوں گی ۔آپ بتائیے مجھے ۔۔۔۔

ہیر نے شرمندگی سے سر جھکایا ۔۔۔۔

اب وہ ایک انجان لڑکی کو کیسے بتاتی ۔۔۔۔

پھر ہمت کیے اس کے کان میں بتایا ۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے بی بی جی میں ابھی آتی ہوں "وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے باہر نکل گئی ۔۔۔

"میں نے۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔ کہیں دیکھا ہے "

وہ سوچتے ہوئے بولی ۔۔۔

"ہاں یاد آیا میں نے آپ کو سڑک پر دیکھا تھا 

۔۔۔۔شیر زمان 

بھا۔۔۔۔بھائی کہتے کہتے اسکی زبان کو ایک دم بریکس لگے ۔۔۔کیونکہ آج صبح ہی تو تازہ تازہ ان کا نکاح ہوا تھا ۔۔۔اور شیر زمان نے اسے اب اپنے نام کے ساتھ یہ " بھائی "کا دم چھلا لگانے سے سختی سے منع کیا تھا ۔۔۔

"اچھا تم نے بھی وہ دیکھا تھا جب شیر بیٹا نے زاہد کو مارا تھا ۔۔۔۔

وہ یاد کرتے ہوئے بولیں ۔

وہ دن کیسے بھول سکتی تھی جب ہیر نے روڈ پر شیر زمان کو کسی لڑکے کے منہ پر پنچ مارتے ہوئے دیکھا اور اس کے ناک سے خون بہنے لگا تھا ۔۔۔۔

وہ سب پھر سے یاد آتے ہی ہیر نے جھرجھری لی ۔۔۔۔

"انہوں نے آپ کے بیٹے کو مارا تھا ؟؟؟

ہاں میرے ہی بیٹے کو مارا تھا "انہوں نے اقرار کیا ۔

"تمہیں پتہ ہے تمہارا شوہر بہت ہی نیک دل انسان ہے۔ہماری زندگی میں تو وہ ایک فرشتہ بن کر آیا ۔۔۔۔وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوئی ۔۔۔۔

"جو انسان گن سے نیچے بات نہیں کرتا وہ اچھا کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟ہیر نے دل میں سوچا ۔۔۔

"اگر انہوں نے آپکے بیٹے کو مارا تھا تو آپ انہیں اچھا کیوں کہہ رہی ہیں ؟؟؟

ہیر نے دماغ میں آیا سوال پوچھا ڈالا ۔

"بس کیا بتاؤں دلہن ؟؟؟؟

"ہم بہت ہی غریبی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔۔۔۔دو وقت کی روٹی بھی نہیں تھی گھر میں میرا بیٹا پڑھا لکھا نہیں تھا محنت مزدوری کرتا تھا ۔مالکوں نے اسے بھی نکال دیا ۔اور ہمارے گھر میں تین دن سے فاقے تھے کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔

مجھ بوڑھی ماں کی بھوک اس سے برداشت نا ہوئی تو اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جا کر سڑک پر چھوڑ دیا کہ کوئی مجھ بڑھیا پر رحم کھا کر مجھے ایک وقت کا کھانا کھلا دے گا ۔۔۔وہ مجھے چھوڑ کر جا رہا تھا ۔۔۔۔

اور میں اسے آوازیں دے رہی تھی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ رکھے چاہے کھانا کھلائے  یا نہ بھی دے ۔۔۔تو ٹھیک ہے۔مگر میں اس سے دور نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔وہ مجھے جب چھوڑ کر جا رہا تھا ۔تب ہی شیر زمان وہاں آیا اور اس نے زاہد کو مارا ۔۔۔۔اور اس سے مجھے یوں چھوڑ کر جانے کی وجہ پوچھی تو زاہد نے اسے سچ بتایا ۔۔۔۔

شیر زمان مجھے میرے بیٹے اور بہو کو ایک گھر میں لے گیا کچھ دن ہم وہاں رہے ۔۔وہ ہمارا خیال رکھتا تھا ہماری ساری ضروریات کو پورا کرتا تھا پھر اس نے ہی ہمارے پاسپورٹ وغیرہ کا انتظام کیا اور اپنے پاس یہاں لے آیا ۔۔۔۔

زاہد کو بھی اس نے کام دیا ہے۔

اور مجھے ماں کا درجہ دیتا ہے بہت عزت کرتا ہے میری ۔۔۔تم بہت خوش قسمت ہو جو تمہیں ایسا فرشتہ صفت انسان ملا "

"بی بی جی صاحب نے یہ کپڑے دئیے ہیں ۔فی الحال اسی سے گزارہ کریں ۔۔۔وہ کہہ رہے ہیں کہ کل نئے لادیں گے "

"آئیں بی بی جی صائمہ اسے اپنے ساتھ لے کے ڈریسنگ روم میں چلی گئی پھر اسے ضرورت کی اشیاء دئیے خود باہر آئی اور بستر تبدیل کیا ۔۔۔

"اماں جان آئیں گھر چلیں۔ باہر ڈاکٹر آئیں ہیں انہیں اندر آنا ہے ہم پھر کبھی آئیں گے ملنے بی بی جی سے ابھی ہمیں چلنا چاہیے"

"اچھا ٹھیک ہے چلتے ہیں "وہ دونوں باہر نکل گئیں ۔۔۔۔

ہیر نے دیکھا وہ شیر زمان کا ٹراؤزر اور ہائی نیک تھا ۔۔۔

ٹراؤزر کو پائنچوں سے فولڈ کیا  پھر ہائی نیک پہنا جو اس کے گھٹنوں کو چھو رہا تھا ۔۔۔

واپس آکر بستر پر لیٹ گئی ۔۔۔

"ڈاکٹر آپ نے ٹھیک سے چیک اپ کیا ہے نا ؟؟؟"

لیڈی ڈاکٹر کے ہیر کے چیک اپ کرنے کے بعد کمرے سے باہر نکلتے ہی شیر زمان نے بے چینی سے پوچھا۔

"سب ٹھیک ہے سر ایسے دنوں میں درد ہونا عام سی بات ہے 

"آپ کے لیے ہوگی عام سی بات اگر اسے زرا سی بھی درد ہوئی تو میں ۔۔۔۔وہ دھمکی آمیز انداز میں بولا ۔۔۔

ڈاکٹر اس کے جنونی انداز سے ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔

"میں نے پین کلر دے دی ہے آپ انہیں دودھ گرم کر کہ پلائیں جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گی "وہ تیزی سے کہتے ہوئے اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے بھاگی ۔جیسے جیل سے چھوٹ کر قیدی بھاگتا ۔۔۔۔

سب کے چلے جانے کے بعد وہ کچن میں گیا اور دودھ گرم کیے گلاس میں انڈیلا پھر ہیر کے روم میں آیا ۔۔۔۔

ہیر اسے کمرے میں داخل ہوتا دیکھ جھٹ سے آنکھیں موند گئی ۔۔۔

شیر زمان اسے سوتا بنا دیکھ ہلکے سے مسکرایا ۔۔۔۔

وہ اسکی لرزتی ہوئی پلکوں سے جان گیا تھا کہ وہ ابھی جاگ رہی ہے 

"ہیر اٹھو دودھ پی لو "شیر زمان کی گھمبیر آواز نے کمرے کی خاموشی میں خلل ڈالا۔

"اٹھو ہیر !!!

اس بار اس کی آواز قریب سے آئی ۔۔۔۔

"میرے واپس آنے تک یہ دودھ ختم ہونا چاہیے ورنہ خود پلاؤں گا "وہ سائیڈ ٹیبل پر دودھ کا گلاس رکھے خود کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اس کے سامنے وہ دودھ نہیں پئیے گی اسی لیے

ہیر نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی تو فورا اٹھ کر بیٹھی اور غٹاغٹ دودھ اندر انڈیلا ۔۔۔

پھر واپس تکیے پر سر رکھے لیٹ گئی ۔۔۔

شیر زمان اپنا لیپ ٹاپ لیے واپس روم میں آیا ۔۔۔۔

اور آکر اس کے ساتھ بستر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

لیپ ٹاپ آن کیے وہ اپنا کام کرنے لگا ۔۔۔

اس کی انگلیاں کی پیڈ پر تیزی سے ماہرانہ انداز میں حرکت کر رہی تھیں۔لیپ ٹاپ کی سکرین سے نکلتی روشنی سے اس کی نیلی آنکھوں کا رنگ مزید نمایاں ہو رہا تھا ۔۔۔

ہیر ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

سرخ و سفید چہرہ گھنی مونچھوں تلے عنابی لب بھینچے ہوئے ۔۔۔کھڑی ستواں مغرور ناک جس پر چوبیس گھنٹے بس غصہ سوار رہتا ۔سیاہ سلکی شانوں تک آتے بالوں کو اس نے کوفت سے دیکھا ۔۔۔جیسے ہی شیر زمان کا ڈمپل نمایاں ہوا تو وہ چونکی اور واپس ادھ کھلی آنکھ بند کر گئی۔۔۔

"میرا معائنہ اچھے سے  ہو گیا ہو تو بتاؤ کیا چاہیے ؟؟"

وہ لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے اس سے مخاطب ہوا ۔۔۔

"جو میں کہوں وہ پورا کریں گے ؟

ہیر نے آنکھیں کھولے بغیر کہا ۔۔۔

"میری پرنسسز کہے اور پورا نا کروں ایسا ہو ہی نہیں سکتا "

وہ لیپ ٹاپ ایک طرف رکھے اب پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوا ۔

"مجھے مما بابا اور باقی سب کے پاس جانا ہے "

"ایسا ممکن نہیں "

وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے واپس اپنا لیپ ٹاپ گود میں رکھے بولا ۔۔۔

ہیر اس کے صاف جواب پر رونے لگی ۔۔۔۔

"ہیر روؤ مت "تمہارے یہ آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں "

"اچھا رکو اگر سب کی تصویر دکھاؤں تو ٹھیک ہے "؟

کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا تو بہتر تھا ۔۔۔اسے کتنی یاد آ رہی تھی اپنے گھر والوں کی یہ کوئی اس سے پوچھتا ۔۔۔

"ٹھیک ہے دکھا دیں "

وہ  آہستہ آواز میں بولی ۔۔۔۔

"Send me family pic "

شیر زمان نے کسی کو میسج کیا ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں میسج نوٹیفکیشن موصول ہوگئی ۔۔۔

"یہ لو "شیر زمان نے اپنا موبائل اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔

ہیر کی بند آنکھیں فورا کھل گئیں ۔۔۔۔اس نے دیکھا حویلی کے لاونج میں سب گھر والے بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔اس کی مما بابا۔حسام جنت ۔منت باقی سب بھی ۔۔۔۔اس کی آنکھیں پھر سے آنسوؤں سے بھر گئیں۔ 

"تم نے رونا نہیں تھا اسی لیے تمہاری بات مانی ہے "

وہ اس کی طرف دیکھ کر بولا تو ہیر نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ لیے اور کتنی دیر اس تصویر کو دیکھتی رہی ۔۔۔

شیر زمان لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرتا رہا ۔۔۔

"اب سو جاؤ آرام کرو بہت رات ہوگئی ہے "

"مجھے ابھی نیند نہیں آ رہی "وہ موبائل واپس اس کی طرف بڑھا کر بولی ۔۔۔۔

"آجائے گی کوشش کرو "

وہ لائٹس آف کیے اس کے ساتھ دراز ہوا ۔۔۔۔

ہیر کے تو پسینے چھوٹ گئے اس کے ساتھ لیٹنے پر ۔۔۔۔

وہ زور سے آنکھیں میچ گئی۔۔۔

شیر زمان اس کے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلانے لگا ۔۔۔

ہیر کو اسکے ایسا کرنے سے سکون ملنے لگا ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔۔۔۔۔

"جانتی ہو پرنسز ؟؟؟

شیر زمان کےلیے دنیا کا کوئی کام مشکل نہیں،سوائے اپنی پرنسسز سے دوری بنائے رکھنے کہ۔۔۔۔

"دل تو چاہتا ہے تمہیں خود میں بھینچ لوں،

مگر جانتا ہوں،،،میری جنونیت اور دیوانگی سہارنا تمہارے بس کی بات نہیں...

شیر نے دور سے ہی اپنی پلکوں کو نرمی سے چھپکا۔۔ جیسے اسکی پلکوں نے ہیر کی پیشانی پر بوسہ دیا ہو ۔۔۔

"تم بہت معصوم ہو اور یہ دنیا بہت ظالم !!!

"تم نہیں جانتی میں نے یہ سب کیوں کیا ؟؟؟بس مجھے کبھی غلط مت سمجھنا۔۔۔

دل چاہتا ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہیں اس دنیا سے چھپا لوں کسی کی بھی گندی نظر تمہیں نا چھو پائے ۔۔۔۔

"تمہارے معصوم زہن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ڈالنا چاہتا جو تمہاری معصومیت چھین لے ۔۔۔۔جیسے میری چھین لی گئی تھی "

وہ کرب زدہ آواز میں آہستگی سے بولا ۔۔۔۔۔

"نہیں بھول پاتا آج بھی وہ رات ۔۔۔۔۔ 

کچھ یاد آتے ہی اس کے چہرے کے تاثرات یکلخت درشتگی میں بدلے ۔۔۔۔پیشانی اور کنپٹی کے رگیں ابھرنے لگیں ۔۔نیلی آنکھوں میں سرخ ڈورے نمایاں ہوئے اور پل بھر میں ان سے شرارے پھوٹنے لگے ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

"خدا کاواسطہ ہے چھوڑ دو ہمیں "وہ ُان سے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا  ۔۔۔۔۔۔ پھر روتے ہوئے اس کے سامنے گڑگڑانے لگا۔۔۔۔۔

سٹریٹ لائٹس میں ان دونوں کی آنکھیں چمک رہیں تھیں۔دونوں کے چہروں پر سیاہ  ماسک تھا ۔ فرق اتنا تھا بس کہ ایک کی آنکھیں بے تاثر تھیں ۔۔۔جبکہ دوسرے کی آنکھوں میں وحشت نے ڈیرہ جما رکھا تھا۔۔۔۔۔

وہ اس سے دو قدم کا فاصلہ بنائے کھڑا تھا۔۔۔۔۔

کتنے واسطے دیتی رہی ہیں تم لوگوں کو وہ معصوم بچیاں ؟؟؟؟ 

ان کا واسطہ دینا یاد نہیں آ رہا ؟؟؟؟ شاید موت کو سر پہ دیکھ کر تم لوگوں کی میموری شارٹ ہو گئی ہے۔۔۔۔"

وہ ہاتھ کی انگلی میں تیز دھارچکمتا ہوا بلیڈ  ان کی آنکھوں کے سامنے لہراتا ہوا دھاڑا ۔۔۔۔ 

اس نظروں میں کیا کچھ نہ تھا ان سب کو اسی پل موت کے گھاٹ اتار دینے کا جنون,   سب کچھ فناہ کردینے کا جوش وہ اپنی شعلہ برساتی  آنکھیں ان پر گاڑے ہوئے تھا ۔۔۔

اس کے لہجے میں وحشت ناک تاثرات تھے جو سامنے والے کو خوف سے کانپنے پر مجبور کر رہے تھے۔۔۔۔ 

اس نے یکے بعد دیگرے بلیڈ سے ان سب کے گلے کاٹ دئیے۔پھر ان کی کلائیاں جن پر ،،S.K کے نشانات تھے ان پر بے رحمی سے بلیڈ پھر کر انہیں بھی وجود سے جدا کردیا  ۔۔۔۔۔ ایک کے بعد ایک کا یہی انجام ہوا ۔۔۔۔ ان کی شہہ رگ اور کلائیوں سے بہتے ہوئے خون سے اب آہستہ آہستہ زمین بھی رنگین ہونے لگی۔۔۔۔۔

ان کی درد ناک چیخیں گونج گونج  کر اب وحشت ناک خاموشی میں بدل چکیں تھیں ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"سر یہیں قریبی ٹیلی فون بوتھ سے کال آئی تھی ۔

اس کے ماتحت نے زیان خان  بتایا ۔۔۔۔

"سر صبح جو کالج کی بچیوں کی وین اغواء ہوئی تھی ۔وہ سب بچیاں مل گئیں ہیں۔کسی نے یہ ہمیں یہاں بلایا تھا کہ آکر یہاں سے بچیوں کو بحفاظت لے جائیں ۔"

سر مگر جن لوگوں نے یہ سب کیا ان کی حالت تو پہچانی ہی نہیں جا رہی بچیوں نے ان کمبختوں کے چہرے دیکھ کر شناخت کر دی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے انہیں اغوا کیا تھا ۔مگر جن دو لوگوں نے ان سب کا یہ حال کیا ہے بچیاں انہیں نہیں پہچانتی ۔

سر ان لوگوں کا بہت درندگی سے قتل کیا گیا ہے ۔پہچانا نہیں جا رہا کہ کون سا دھڑ کس چہرے کا ہے گردنیں دھڑ سے جدا کر دیں گئیں ہیں "

اور یہی کہ یہ سب جس نے بھی کیا ہے۔۔۔۔اس پتہ بھی میں جلد ہی لگا لوں گا 

زیان خان  اس کی بات کاٹتے بولا۔۔۔ شاید اب وہ ان سب باتوں کو جان گیا تھا اور اس کے مخبر اسے آئے  دن ایسی ورداتوں کی خبر دیتے رہتے تھے ۔۔۔۔

"سر یہ جو بھی لوگ ہیں انہوں نے پہلے بھی اس طرح کے کئی معصوموں کی زندگیاں بچائی ہیں ۔ 

انہوں نے کبھی کسی معصوم کی جان نہیں لی۔۔۔۔ ہمیشہ مجرموں کی ہی درگت بنائی ہے جو کام پولیس نہیں کرسکتی وہ لوگ باآسانی کر لیتے ہیں ۔

ہمم۔۔۔۔ وہ فقط اتنا ہی بولا۔

چلو دیکھتے ہیں ابھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد کیا ہوتا ہے ۔اس جگہ چلتے ہیں جہاں یہ سب ہوا ہے ۔۔۔ شاید ان لوگوں کا کوئی ثبوت مل جائے وہاں  ۔۔۔۔ 

 وہ دونوں حادثے کی جگہ پر آئے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

زرشال نے دروازے کی طرف دیکھا تو سامنے منت کھڑی تھی۔۔۔۔۔

"منت آج کالج سے واپس آنے میں اتنی دیر کیوں ہوئی 

وہ اس کے ساتھ اندر چلتی ہوئی پریشانی سے اس کے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کرنے لگیں۔۔۔

"بیٹا اتنا لیٹ ہو گئی  سب ٹھیک تھا نہ۔۔۔۔ ؟

پہلے ہی سب ہیر کی گمشدگی کو لے کر پریشان ہیں ۔اللہ نا کرے تمہارے ساتھ ایسا مسلہ ہوگیا تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گی ۔یمنی کا ہی حوصلہ ہے۔جانے کیسے بچی کی جدائی برداشت کر رہی ہے اپنا خیال رکھا کرو ۔جنت کی طبیعت اب ٹھیک ہے ۔کل سے دونوں ساتھ جانا اور ساتھ واپس آنا "

"جی ماما بس ایک ٹیسٹ تھا اسی لیے دیر ہوگئی ۔۔۔

وہ اپنا لہجہ نارمل بنانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئی تھی۔۔۔۔۔

بیٹا کال کر کے بتا دیتی یا میسج کر دیتی۔۔۔۔ اب وہ کمرے میں داخل ہو گئی تھیں ۔۔۔ 

ہاں ماما فون کی بیٹری لو تھی ۔۔۔ اس لیے کال نہیں کر سکی

ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اس نے چادر اتاری پھر اس چادر کو تہہ کر کے ایک طرف رکھ دیا۔۔۔

"اچھا بیٹا آئندہ دھیان رکھنا میں پریشان ہو جاتی ہوں۔۔۔۔۔ 

وہ بول کر کمرے کے ساتھ ہی بنے کچن میں چلی گئیں۔۔۔۔

منت ہاتھ منہ دھونے واش روم میں بنے بیسن کے پاس کھڑی ہو گئی شیشے میں اس نے اپنا عکس دیکھا ۔۔۔ تو آج کا سارا واقعہ اس کے آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا۔۔۔۔ دو موتی اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گلابی گال پر گرے۔۔۔۔ 

"میں تم سے ملنا چاہتا ہوں اکیلے میں پھر تمہاری ساری تصاویر تمہیں دے دوں گا ۔اس لڑکے نے کالج میں ایک طرف لے جا کر کہا ۔۔۔

"مگر وہ جھوٹی تصویریں ہیں میں نے تمہارے ساتھ ویسی تصویریں کبھی بھی نہیں کھنچوائی ۔۔۔۔

"کون یقین کرے گا ؟؟؟وہ چہرے پر خباثت سجائے بولا ۔

"مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی وہ وہاں سے نکلنے لگی ۔۔۔

"ٹھیک ہے مت مانو جاؤ جہاں جانا ہے "

"کل کالج کی ہر دیورا پر یہ تصاویر چسپاں ہوگی اور سارا کالج دیکھے گا ہمارے پیار کے افسانے "اس کے چہرے سے  کمینگی جھلکتی دکھائی دے رہی تھی۔

منت نے چہرہ پھیر لیا ۔۔۔

"اگر تم چاہو تو مجھ سے آکر ملو .....میں یہ سب ختم کردوں گا "

"شام میں کال کر کہ اڈریس بتاؤں گا کہ کہاں آناہے "وہ کہہ کر تیز قدموں سے چلتے ہوئے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔

اور منت وہیں ساکت کھڑی رہ گئی ۔۔۔جانے کتنی دیر وہ وہیں کھڑی رہتی کہ اس کی ایک دوست نے اسے چھٹی ہوجانے کا بتایا تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی ۔۔۔

"منت بیٹا آ جاو کھانا لگا دیا ہے میں نے۔۔۔صبح بھی تم ناشتے کے بغیر کالج چلی گئی تھی ۔۔۔۔

اس کے کانوں میں اس کی مما کی آواز پڑی تو منت سر جھٹک کر ہاتھ منہ دھونے لگی۔۔۔

اور دل میں اس شیطان صفت انسان کی طرف سے  کال یا میسج  نہ آنے  کی شدت سے دعا کی۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

کچن میں کھڑی وہ تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے ناشتہ بنا رہی تھی ۔دو دن سے یمنی نے ٹھیک سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا تو زائشہ نے سوچا کہ کیوں نا وہ اپنے ہاتھوں سے کچھ بنا کر لے جائے پھر وہ ضرور کھالیں گی ۔۔۔۔۔ کچن میں داخل ہوئی یمنی ُاسے دیکھ کر ایک پل کو چونکی تھی انکے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ آج ان کی ملازمہ چھٹی پر ہوگی کیونکہ آج چھٹی کی  بدولت شہریار اور حسام گھر پہ ہی تھے ۔۔۔۔۔۔

"تم؟ تم یہاں کیا کررہی ہو؟"

"ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں شادی کو اور تم کچن میں آگئی "

 یمنی نے حیرانگی  کی کیفیت میں سوال کیا۔

ماماجان یہ میرا گھر ہے اب تو اپنے گھر میں کام کرنے کے لیے وقت نہیں دیکھا جاتا ۔آپ کو برا لگا کیا ؟"

 زائشہ نے شیریں لہجے میں سوال کیا تھا۔

 جبکہ یمنی تو کچھ بولنے کے ہی قابل نہیں رہی تھی اس کے پیار بھرے انداز پر ۔۔۔۔۔۔ 

"مجھے کیوں برا لگے گا بھلا ۔۔بلکہ مجھے تو بہت خوشی ہوئی تمہیں اس گھر کو اپنا مانتے دیکھ یہاں حق سے کام کرتے دیکھ کر ۔۔۔۔بس ہیر کی وجہ سے پریشانی ہوں ۔۔۔ایک ماں پر کیا بیتتی ہے جب اس کی جوان بیٹی گمشدہ ہوجائے تو ۔۔۔۔اپنے دکھوں میں تمہاری خوشیاں بھی بھول گئی ۔۔۔

ہو سکے تو مجھے معاف "

وہ رندھے لہجے میں بولیں تو زائشہ نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں مزید بولنے سے روکا ۔

"ماں اپنی بیٹی سے معافی نہیں مانگتی ۔پلیز ایسا دوبارہ مت کہیے گا ۔اور ان شاءاللہ ہیر جہاں بھی ہوگی صیحیح سلامت ہوگی ۔اور جلد مل جائے گی ۔ہم سب کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں ۔اسے کچھ نہیں ہوگا ۔زائشہ نے یمنی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی اور ان کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھا ۔۔۔۔

"تم نے میٹھا بھی نہیں بنایا اور ناشتہ بنانے لگی ہو "

"لاؤ میں ہیلپ کرواتی ہوں "یمنی نے اس کے ہاتھ سے بیلن لینا چاہا ۔۔۔۔

"مما آپ حسام اور انکل کو باہر بیٹھائیں میں ابھی ناشتہ لگاتی ہوں ۔

"السلام علیکم! گڈ مارننگ"

حسام  نے کچن میں داخل ہوتے یمنی  کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی سے کہا تھا۔

"مام بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے حسام نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔

"ہاں ساری رات جاگتے رہے ہیں بس ہیر کے بارے میں سوچتے رہے ۔۔۔۔

"مام میں کل سے خود ساری جگہ تلاش کر چکا ہے ۔لاہور کی کوئی گلی نہیں چھوڑی مگر کہیں بھی کچھ نہیں پتہ چل رہا ۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں ؟؟؟وہ پیشانی مسل کر بولا ۔۔۔۔

آؤ باہر چلتے ہیں "یمنی اسے اپنے ساتھ لاونج میں لائی ۔۔۔۔

"ابتسام کا کچھ پتہ چلا ؟؟؟

"مام مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے پہلے ابتسام بھائی شادی ادھوری چھوڑ کر نجانے کہاں چلے گئے ۔۔۔ابھی تک ان کا کوئی پتہ نہیں ۔نا ہی ان کا فون لگ رہا ہے ۔اوپر سے اب ہیر بھی نہیں مل رہی ۔یہ ساری مصیبتوں نے ہمارے گھر کا ہی راستہ کیوں دیکھ لیا ہے ؟

"اللّٰہ تعالیٰ کی آزمائش ہوگی ہمارے لیے بس صبر کا دامن تھام رکھتے ہیں ۔ہمارا پروردگار رحمان و رحیم ہے ۔کبھی انسان کو اسکی استطاعت سے بڑھ کر دُکھ نہیں دیتا ۔۔۔۔مجھے امید ہے ۔یہ کڑا وقت بھی جلدی نکل جائے گا ۔مجھے اپنے اللّٰہ پر بھروسہ ہے وہ ضرور ان مشکلات سے ہمیں نکال دے گا "یمنی کہتے ہوئے پھر سے رونے لگی ۔۔۔۔ضبط کا باندھ پھر سے ٹوٹا ۔۔۔۔

"مما مجھے تسلی دے کر آپ پھر خود سے رونے لگیں ۔۔۔بس کردیں آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی ۔پہلے ہی بابا کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"عیش بی بی  یہ موبائل بج رہا ہے پھر سے!!" ملازمہ نے ایک بار پھر اسے موبائل آکر تھمایا تھا۔

سکرین پر ضامن کا نام اور نمبر دیکھ کر اب تو عیش کو بھی تشویش لاحق ہوگئی تھی۔

"یااللہ خیر اس شخص کو کیا ہوا اب ؟"وہ بڑبڑاتے ہوئے اسے کال بیک کرنے لگی ۔۔۔۔

""بولو کیا تکلیف ہے ؟؟؟

"تمہاری ساری تکلیفوں کو دور کرنے کا ارادہ ہے بھلا ضامن دی گریٹ کو کیا تکلیف ہوسکتی ہے ؟؟؟"

"کوئی کام کی بات ہے تو کرو ورنہ کال کاٹ دوں گی میرے پاس فالتو وقت نہیں فالتو کی بکواس سننے کا ۔۔۔۔

"گینگسٹر تمیز سے بات کرو آخر کا مابدولت کو تمہارے شوہر ہونے کی حیثیت حاصل ہے ۔۔۔۔

"عالم پناہ فرمائیے کنیز آپکی خدمت کے لیے کیا کرے ۔۔۔؟"

"ہائے عالم پناہ فدا ہوا اپنی کنیز کی اس دلربا ادا پر ۔۔۔۔

اسی خوشی میں آج تیار رہنا، پک کرنے آرہا ہوں تمہیں لنچ پر چلے گے " ضامن نے بات کیے فورا کال کاٹی تھی۔

اسے پتہ تھا آگے سے کوئی بھڑکتا ہوا کرارہ سا جواب سننے کو ملے گا اسی لیے اس نے فورا سے بیشتر کال کاٹ دی ۔۔۔۔

موبائل کان سے ہٹائے اس نے حیرانگی سے موبائل کو دیکھا تھا ۔۔۔۔پھر تلملاتے ہوئے فون ایک طرف رکھا اور سر جھٹک کر کچھ امپورٹینٹ فائلز ریڈ کرنے لگی ۔۔۔۔۔ جو کل وہ آفس سے  گھر لے کر آئی تھی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

کمرے کی کھڑکی کھلی جس سے ہلکی ہلکی سورج کی کرنیں اندر کمرے کو روشن کر رہی تھی سامنے کنگ سائز بیڈ پر پندرہ سالہ ہیر دنیا بھلائے خواب خرگوش کر مزے لوٹ رہی تھی۔۔۔۔۔

"ہیر اُٹھ جاو اب مجھے آفس بھی جانا ہے "شیر زمان کی گھمبیر آواز اس کے کانوں میں سنائی دی تو اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔

"مجھے بھوک لگی ہے "اس نے نیند کی خماری لیے بوجھل آواز میں کہا۔۔۔

"تم فریش ہوجاو پھر بریک فاسٹ کرتے ہیں "

ہیر پاؤں میں شیر زمان کے بڑے بڑے سیپرز پھنسائے واش روم کی طرف چلی گئی کچھ دیر بعد منہ ہاتھ دھوئے باہر آئی اور ٹاول سے چہرہ صاف کرنے لگی اس نے کمرے پر نظر دوڑائی کمفرٹر تہہ تھا اور بیڈ شیٹ بھی درست تھی ۔۔۔

"تو کیا یہ سب شیر زمان نے صاف کیا تھا ؟؟؟وہ یہی سوچتے ہوئے مراقبے میں چلی گئی ۔۔۔۔

"ہیر اپنے بال دیکھو ایسے جیسے چڑیا کا گھونسلا ۔۔۔۔لگتا ہے جب سے یہاں آئی ہو ایک بار بھی بالوں میں برش نہیں کیا "وہ سنجیدگی سے بولا ۔

"مجھ سے بالوں میں برش نہیں ہوتا مما کرتی تھیں ۔وہ منہ بسور کر بولی ۔

"بیٹھو ہیر "وہ ڈریسنگ ٹیبل کا سٹول گھسیٹ کر آگے کرتے ہوئے بولا ۔

ہیر چلتی ہوئی آئی اور وہاں بیٹھی ۔۔۔۔

شیر زمان برش پکڑے آہستگی سے اس کے سنہری بالوں میں برش پھیر کر انہیں سلجھانے لگا ۔۔۔۔

ہیر شیشے میں اسے ایسا کرتے دیکھ حیران ہوئی ۔۔۔۔

شیر زمان نے ہیر کو خود کو تکتا پا کر ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔

"کیا ہوا ؟؟؟؟

"بھوک "یک لفظی جواب آیا ۔

شیر زمان نے اس کے بالوں میں واپس کیچر لگایا ۔

"آؤ ۔۔۔۔

"کیا کھاؤ گی ؟؟؟؟

"پراٹھا اور انڈہ "

وہ اپنے تئیں اسے مشکل ٹاسک دے رہی تھی ۔۔۔۔کیونکہ کل رات کی شیر زمان کی بات اس کے کانوں میں گونج رہی تھی کہ " میری پرنسز کہے اور میں نا کروں ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا """

"ٹھیک ہے "مگر پھر تمہیں بھی میرے لیے کچھ بنانا ہوگا "

وہ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈال کر بولا ۔

"مجھے تو کچھ بھی بنانا نہیں آتا ....

لیکن اگر آپ نے مجھے پراٹھا اور انڈہ بنا کر کھلایا تو میں بھی ضرور آپ کے لیے کچھ بناؤں گی "پرامس ۔۔۔

اسے یقین تھا کہ گن والے ہاتھ پراٹھا کیسے بنائیں گے اس کے لیے ۔۔۔۔

شیر زمان کچن کی طرف بڑھ گیا ۔اور ہیر باہر ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھ گئی۔

شیر زمان نے فریج سے فروزن پراٹھا نکال کر اسے سینک لگایا اور گھی ڈال کر فرائی کرتے ہوئے دوسری طرف پین میں انڈہ فرائی کیا جو کہ زیادہ مشکل کام نہیں تھا ۔۔۔۔

کافی میکر سے اپنی لیے ایک مگ کافی بنائی اور ہاتھوں میں ٹرے لیے باہر آیا ۔۔۔۔

ہیر کی آنکھیں اتنی جلدی ٹیبل پر موجود ناشتہ دیکھ پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔

"اتنی جلدی تو مما بھی انڈہ پراٹھا نہیں بناتیں انہوں نے کیسے بنایا ۔۔۔وہ سوچ میں تھی ۔۔۔۔

"کھاؤ ہیر۔۔۔۔۔

Hurry up....

وہ کافی کا مگ ہونٹوں سے ہٹا کر بولا ۔۔۔۔

"ہیر نے لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالا ۔۔۔۔۔

"میں نے تمہارا آنلائن ایڈمیشن کروا دیا ہے ۔تم ٹینتھ کی تیاری کرو میں آج ہی بکس وغیرہ کا انتظام کردوں گا ۔پیپرز بھی آن لائن دو گی ۔کیونکہ تمہارا باہر جانے کا میں رسک نہیں لے سکتا ۔۔۔تمہاری سٹڈیز امپورٹینٹ ہیں میرے لیے اس پر توجہ دو باقی باتوں کو فی الحال بھول جاؤ پڑھائی پر دھیان لگاؤ ۔۔۔۔

"مگر مجھے واپس ۔۔۔۔ہیر نے اپنے تئیں بودی سی کوشش کی ۔۔۔۔

شیر زمان نے اپنی نیلی بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔

وہ سہم کر فورا نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔۔

"مجھے مما پاپا کی تصویر دیکھنی ہے آج والی ۔۔۔۔

"رات کو دکھاؤں گا ابھی میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں ۔

"کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ "

ہیر نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔

"اوکے اپنا خیال رکھنا "وہ اس کا گال تھپتھپاکر کر پیار بھرے انداز میں بولا ۔

"آج شام کو واپسی پر تمہارے لیے ڈریسز لے آؤں گا ۔۔۔

"اگر تم چاہو تو میرے ساتھ شام میں باہر چل کر اپنی پسند کی شاپنگ کر سکتی ہو "اس نے پیشکش کی ۔۔۔

"آپ کے پاس گاڑی ہے ؟؟؟

"ہاں "

"مجھ سے گاڑی میں سفر نہیں ہوتا ۔۔۔۔

"پھر ؟؟؟

"مجھے گاڑی میں وومٹنگ ہوتی ہے ۔دل گھبرانے لگتا ہے ۔اسی لیے میں بائیک پر ضام۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ ضامن کا نام لیتی وہیں رک گئی ۔۔۔اب تو وہ شیر زمان کو کچھ کچھ جاننے لگی تھی کہ وہ ضامن سے کتنی کھار کھاتا ہے ۔

"آپ جو مرضی لے آئیں ۔۔۔۔

وہ بے دلی سے بولی ۔۔۔

ہیر نے دروازہ کھلتے اور بند ہوتے دیکھا پھر واپس ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"چوم لوں ہونٹ تیرے 

دل کی یہی خواہش ہے 

بات یہ میری نہیں ۔

پیار کی فرمائش ہے  ،،،،،

"ضامن !!!"

"بند کرو یہ گانا سنانا۔۔۔۔!!!“بہت ہی کوئی دو نمبر قسم کے گھٹیا سنگر ہو تم  گانا ابھی ٹھیک سے ضامن نے  شروع بھی نہیں کیا تھا کہ وہ چلا اٹھی۔۔۔۔

” شوہر کی بعزتی کرتے رہنا کہاں سے سیکھا ہے ؟ اتنی رومینٹک ڈیٹ پر لے جارہا ہوں گانا سنا رہا ہوں اور کیا چاہیے ۔۔۔یہ نہیں کہ بندہ جوابا ایک ہاٹ سی ِکسّی دے دے  ۔۔۔۔!!!“ سکون سے کہتا اسکا سکون غارت کر گیا۔۔۔۔

"ایسا لوفر شوہر تو خدا کسی کو بھی نا دے جو دن دیہاڑے اپنی بیوی سے ِکس کی ڈیمانڈ کر رہا ہے ۔۔۔۔!!!“ جواب حاضر تھا۔۔۔۔

” تمہارے جیسی بیوی ہو تو  مسلمان بھی کافر بن جائے۔۔۔۔!!!“

"سمجو ہم پاکستان میں نہیں امریکہ میں ہیں وہاں تو یہ سب دن دیہاڑے چلتا ہے "

مزاحیہ انداز میں کہتے وہ اسے تپا گیا ۔

” گھٹیا انسان۔۔۔۔!!!“

” جیسا بھی ہوں گینگسٹر  بس اب تمہارا ہی ہوں۔۔۔۔!!!“ ہلکی بڑبڑاہٹ بھی وہ سن چکا تھا۔۔۔۔

” ڈرائیونگ پر دھیان دو۔۔۔۔!!!“عیش ڈار کے کاٹ کھانے والا انداز پر ضامن جی جان سے فدا ہوگیا۔۔۔۔

” دل نہیں لگ رہا جان تمہارے بغیر ۔۔۔۔!!!“ 

"دل کرتا ہے آج ہی لوٹ آؤں تمہارے پاس مگر ہائے رے یہ مجبوریاں ۔۔۔۔وہ عیش کے گال کو اپنی پوروں سے کھینچ کر بولا ۔۔۔

اس نے جوابا گھوری سے نوازا جسے وہ نظرانداز کرتا اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو ہے ہمت تو مقابلہ کرو۔۔۔۔

اس کو اسکی بےباکی دیکھ نئے سرے سے غصّہ آیا وہ کیوں اسکے ساتھ آئی۔۔۔۔ وہ اسے باتوں میں لگا کر سنسنان جگہ لے آیا جہاں کوئی نہ تھا ایک پرندہ تک نہیں اور گاڑی ہلکی ہلکی چل کر اب تقریباً رک چکی تھی ویرانہ دیکھ کر اسکا پارہ ہائی ہوگیا۔۔۔۔

” جانِ من ۔۔۔۔کیا ہوا ڈر گئیں ؟؟؟

"ڈرتی ہے تم سے میری جوتی "

"تو چلو پھر اس ویرانے کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں ۔

"ضامن اس بار کچھ گھٹیا کیا تو یاد رکھنا بہت بری پیش آؤں گی ۔۔۔۔

"بس پیش آجاؤ ۔۔۔چاہے بری طرح یا اچھی طرح وہ تمہاری مرضی "

ضامن اس کے کوٹ کے کالر سے اسے کھینچ کر اپنے قریب کر چکا تھا ۔۔۔۔

"ضامن میں مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں "وہ گھور کر بولی ۔

"تو میں کون سا مذاق کے موڈ میں ہوں ۔۔۔

"گینگسٹر میرا رومینٹک موڈ آن ہے "

"تمہارا رومینٹک موڈ کس وقت آن نہیں ہوتا ۔۔۔۔وہ جل کر بولی ۔۔۔۔

"جب تم سامنے نہیں ہوتی جھٹ جواب آیا ضامن کی طرف سے ۔۔۔

"اب لنچ کرواؤ گے یا یونہی لائے ہو وہ اس کی باتوں کو گھمانے کے لیے اپنا سوال داغ گئی ۔۔۔

"چلو لنچ کروا دیتا ہوں مگر پھر مجھے کیا ملے گا ۔۔۔۔

وہ عیش کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں 

لیے بولا ۔۔۔

"یہ لنچ کے بعد ڈیسائیڈ ہوگا "وہ اپنا ہاتھ اس کی پکڑ سے آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی۔

"یہ ضامن دی گریٹ کی گرفت ہے اتنی آسانی سے نہیں چھوٹے گا ہاتھ وہ اسکے ہاتھ پر اپنے لب رکھ کر بولا ۔۔۔۔

"چھچھورا !!!بے ساختہ پن سے اس کے منہ سے نکلا ۔۔۔۔

ضامن نے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"یہاں رکھ دو "

شیر زمان نے زاہد سے کہا تو اس کے گاڑی میں سے سارے شاپنگ بیگز نکال کر ٹی وی لاونج میں رکھ دئیے اور خود باہر نکل گیا ۔۔۔

ہیر جو کمرے میں لیٹی ہوئی تھی باہر کچھ ہلچل محسوس کیے  اپنے کمرے سے باہر آئی تو

لاونج میں ڈھیروں ڈھیر شاپنگ بیگز دیکھ کر حیران ہوئی تقریبا آدھا لاونج شاپنگ بیگز سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔

شیر زمان دوسرے روم میں فریش ہونے جا چکا تھا ۔۔۔۔

ہیر نے باری باری سب شاپنگ بیگز کو کھولا ۔۔۔۔

اور ایک ایک ڈریس کو دیکھ کر شاکڈ ہوئی ۔۔۔۔

کیا کیا نا تھا ان میں ۔۔۔۔لہنگا، ساڑھیاں ، میکسی ۔لانگ فراک ،شارٹ فراک،سکرٹ ۔جینز ۔شرٹس ۔کرتے غرض ہر طرح کے ڈریسز کی ورائٹی تھی ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پورا شاپنگ مال خرید کر گھر لے آیا ہو .

"وہ سب کچھ نکال کر دیکھتے ہوئے صوفے پر الٹ چکی تھی۔۔۔

"پسند آیا ؟؟؟

پیچھے سے شیر زمان کی آواز سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔

"اتنا سب کچھ ؟؟؟وہ بے یقینی سے بولی ۔

"میں چاہتا ہوں تمہاری کوئی بھی خواہش ادھوری نہ رہ جائے جو تمہارا دل کرے وہی پہنو ۔ویسے بھی میں چاہتا ہوں روز تم ایک نیا ڈریس پہنو روز ہر نئے رنگ و روپ میں میرے سامنے آؤ ۔۔۔۔

ہیر نے اس کی بات پر نا سمجھی سے اسے دیکھا ۔۔۔

"اور تمہاری بکس بھی لے آیا ہوں "

اس نے سامنے پڑے بیگ کی طرف اشارہ کرتے بتایا ۔۔۔

"تھینک یو "

"اچھا چلو چھوڑو یہ سب اب اپنا صبح والا پرامس پورا کرو ۔

"وہ کون سا ؟؟؟ہیر نے آہستگی سے پوچھا 

",تم نے کہا تھا کہ میں تمہیں تمہاری پسند کا  ناشتہ کرواؤں گا تو تم بھی میرے لیے کچھ بناؤ گی ۔تو جاؤ اچھی بیویوں کی طرح اپنے شوہر کے لیے اپنے ہاتھوں سے کچھ بنا کر لاؤ ۔

ہیر سوچ میں پڑ گئی کہ کیا بنائے ۔۔۔۔

"مجھے ایگ بوائل کرنا آتا ہے آپ وہ کھائیں گے ؟؟؟وہ معصومیت سے بولی ۔

"ٹھیک ہے "اور ہاں جلدی آنا مجھے تمہیں کچھ دکھانا ہے ۔۔۔کہتے ہی شیر زمان لیپ ٹاپ لیے صوفے پر بیٹھا ۔۔۔

ہیر نے کچن میں آکر دو انڈے ابلنے کے لیے رکھ دئیے مگر دھیان ابھی بھی باہر موجود ان پیارے پیارے ڈریسز میں الجھا ہوا تھا ۔۔۔۔

وہ باہر آئی اور ان میں سے ایک گرے سکرٹ اور ریڈ شرٹ لیے روم میں چلی گئی پھر ڈریس پہنے خود کو شیشے میں دیکھا ۔۔۔

سرخ و سفید رنگت،ہونٹ پر بھورا تل ،لہراتے ہوئے سنہری بال۔متناسب سراپے پر یہ ڈریس کتنا پیارا لگ رہا تھا ۔۔۔وہ خوش ہوئی خود کو دیکھ کر پھر خیال اپنے مما بابا کی طرف چلا گیا تو ان کے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔۔پتہ نہیں سب کیسے ہوں گے ؟؟؟کیا کر رہے ہوں گے ؟؟؟

انہیں خیالوں میں کھوئے ہوئے تھی کہ اچانک کوئی  آواز سن کر باہر بھاگی اور جب تک کچن میں آئی تو اپنے سر کو تھام کر رہ گئی ۔۔۔پین میں پانی خشک ہوچکا تھا ،ایک انڈہ تو جل کر راکھ بن چکا تھا جبکہ دوسرا پھٹ کر زمین کو سلامی پیش کر چکا تھا ۔۔۔

اس نے جلدی سے چولہا بند کیا اور پین کو سنک میں رکھ کر نل کھولا اور اس میں پانی ڈالا۔۔۔

"کیا ہوا ؟؟؟شیر زمان نے پیچھے سے آکر پوچھا ۔۔۔

ہیر مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی ۔نجانے اب شیر زمان کیا کرنے والا تھا ۔۔۔۔

کچن کی حالت دیکھ کر شیر زمان کے بھینچے ہوئے لب ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔۔

مگر وہ فورا اپنے تاثرات چھپا گیا۔۔۔

"کوئی بات نہیں "

"تم کل کچھ ڈفرنٹ ٹرائی کرلینا ۔

"آج کیا کھاؤ گی ۔میں بناتا ہوں ۔

"جو بھی "وہ شرمندگی سے نظریں چرائے ہوئے بولی۔

شیر زمان نے فریزر سے فش فلے نکالے انہیں میرینیٹ کیے اچھے سے ساس کے ساتھ پکا لیا ۔۔۔گرما گرم بھاب اڑاتی فش کی خوشبو پورے فلیٹ میں پھیل چکی تھی اور ہیر کی بھوک بھی بڑھ چکی تھی ۔۔۔

شیر زمان فش لاونج میں ہیر کے پاس رکھ کر خود اپنے لیے کافی بنانے واپس کچن میں گیا کچھ دیر واپس آیا تو صرف ایک فش فلے بچا تھا ۔

"آپ نے کھانا تھا ؟؟؟ہیر نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے پوچھا ۔

"میری پرنسسز کی صحت دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ اتنا کھاتی ہو گی "

دل میں تو مسکرا رہا تھا مگر چہرے پر ہنوز سنجیدگی بنائے رکھی معا کہیں وہ ناراض ہی نا ہو جائے ۔

"پتہ ہے ابتسام بھائی بھی یہی کہتے ہیں کہ میں بہت کھاتی ہوں ۔وہ مسکرا کر بولی اور آخری فش فلے بھی اٹھا کر منہ کی طرف بڑھانے ہی لگی تھی کہ اسے شیر زمان کا خیال آیا ۔

"آپ نے بنایا تھا تھوڑا سا آپ بھی کھالیں "اس نے وہ شیر زمان کی طرف بڑھایا ۔۔۔

"پاس آکر کھلادو "

"مجھے نا پیاس لگی ہے میں ابھی پانی پی کر آتی ہوں وہ پلیٹ اس کے پاس رکھتے ہوئے خود کچن کی طرف بھاگ گئی ۔۔۔۔

"آپ نے مجھے آج والی پکس نہیں دکھائی ۔آپ نے صبح وعدہ کیا تھا ۔

تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی تو اس نے پوچھا ۔

"ابھی روم میں چلتے ہیں پھر دکھاؤں گا ۔

ابھی ادھر آؤ "

وہ ہیر کی کلائی تھام کر اسے اپنی جانب کھینچ گیا ۔۔۔۔

وہ اپنا توازن برقرار نا رکھ سکی اور لہراتی ہوئی اس کے سینے پر گری ۔۔۔

ہیر کو اپنی اتھل پتھل ہوئی سانسوں پر قابو پانا نا ممکن لگا ۔۔۔۔شیر زمان کی گرم سانسوں سے اسے اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔

"یہاں بیٹھو "

اس نے ہیر کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی تھائی پر بٹھایا ۔۔۔۔

"یہ دیکھو "

اب وہ لیپ ٹاپ آن کیے اسے آن لائن کلاسسز لینے کے بارے میں بتا رہا تھا ۔

"صبح سے آن لائن کلاسز شروع ہو جائیں گی ۔

"صبح وقت سے اٹھ کر بریک فاسٹ کرنا ہے ۔پھر کلاسز اٹینڈ کرنی ہیں ۔میں یہیں رہوں گا جب تک تم کلاس اٹینڈ نہیں کر لو گی ۔کیونکہ آن لائن بہت سے ایسے ایڈز آتے ہیں جو اچھی  لڑکیوں کے دیکھنے والے نہیں ہوتے لیپ ٹاپ کو میں خود آپریٹ کروں گا ۔تم بس سٹڈی پر فوکس کرنا ",شیر زمان نے اسے سادہ لب و لہجے میں سمجھایا ۔

"اور اگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی ؟؟؟الفاظ بمشکل اسکے لبوں سے ادا ہوئے ۔۔۔کیونکہ اس وقت وہ جس پوزیشن میں شیر زمان کی تھائی پر بیٹھی تھی ۔عنقریب تھا کہ وہ اس کی اتنی قربت پر بے ہوش ہوجاتی ۔

"میں ہوں نا میں سمجھا دوں گا جس بات کی سمجھ نہیں آئے گی "

"پھر تو جو آتا ہوگا وہ بھی ذہن سے نکل جائے گا "

وہ حسب عادت منہ میں آہستگی سے بڑبڑائی ۔

"ہیر!!

شیر زمان نے اس پر خفگی بھری نگاہ ڈالی ۔۔۔

"آؤ روم میں چلیں وقت سے سونا ہے "

وہ چیزوں کو سمیٹ کر اندر آیا تو ہیر پہلے ہی سے اپنی جگہ پر لیٹ چکی تھی ۔۔۔۔

"تصویر "

شیر زمان نے روم کی لائٹ آف کی تو ہیر کی باریک سی آواز آئی ۔۔۔۔

"یہ لو "شیر زمان نے اسے موبائل فون پکڑایا ۔۔۔۔

جہاں شہریار ،یمنی حسام اور زائشہ چاروں ڈائننگ ٹیبل پر موجود کھانا کھا رہے تھے ۔۔۔۔

انہیں ایک ساتھ دیکھ کر ہیر کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگیں ۔۔۔۔

Heer..... Don't.

رونا نہیں "شیر زمان کی سپاٹ آواز سن کر وہ اپنی آنکھیں بچوں کی طرح  اپنے بازو سے پونچھ گئی ۔۔۔۔

"یہ نا کھاؤ ۔۔۔وہ نا کرو ۔۔۔ہنسو مت ۔۔۔روو مت ہر وقت بس ۔۔۔۔

وہ منہ پھلا کر سوں سوں کرتے ہوئے ناراضگی سے رخ موڑ گئی ۔۔۔۔۔

"میں نے ہنسنے سے کب منع کیا ؟؟؟شیر زمان کی آواز آئی مگر وہ بنا جواب دئیے اکڑ کر لیٹی رہی ۔۔۔۔۔

سائیڈ لیمپ آف کیے شیر زمان نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیریں تو ہیر کو سکون ملنے لگا ۔۔۔۔۔

جانے کیوں اسے عادت ہورہی تھی شیر زمان کی اس عادت کی جب تک وہ اس کے بالوں میں اپنی نرم انگلیوں سے نہیں سہلاتا اسے نیند نہیں آتی ۔۔۔۔

اور جب تک شیر زمان کے مخصوص کلون کی مہک اس کے آس پاس نہیں پھیلتی اسے ٹھیک سے سانس نہیں آتا ۔۔۔

ہیر اسکی پوروں کے نرم احساس سے کچھ ہی دیر میں نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔۔۔۔۔

اس کے سوتے ہی شیر زمان کچھ یاد آنے پر آہستگی سے دروازہ کھول کر روم سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"آج شام مجھے گرینڈ ہوٹل کی بیک سائیڈ پر ملو وہیں ساری تصویریں تمہارے سامنے ڈیلیٹ کردوں گا "اس لڑکے کا میسج موصول ہوا ۔۔۔۔

جنت نے منت کا زرد چہرہ دیکھا تو اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔

"کیا ہوا منت سب ٹھیک ہے نا ؟؟؟

"کہیں سٹڈیز میں تو کوئی مسلہ نہیں ؟؟؟؟

"کافی دنوں سے میں دیکھ رہی ہوں تمہارا دھیان کہیں اور ہے "اس نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔

"جنت !!!! آخر کار اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو اس نے جنت کے گلے لگتے ہوئے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔۔۔۔

"جنت اس لڑکے نے ......

"منت چپ کر جاؤ اور مجھے بتاؤ کہ بات کیا ہے ؟؟؟

"جنت بابا یا ماما کو پتہ چلا تو وہ میرے بارے میں کیا سوچیں گے ؟؟؟

"قسم لے لو جنت میں نے کچھ غلط نہیں کیا ۔۔۔

"منت تم مجھے شروع سے بتاؤ کہ آخر بات کیا ہے ؟؟؟

اور سب سے پہلے یہ لو پانی پیو "اس نے پانی کا گلاس اس کیطرف بڑھایا ۔

"جنت وہ لڑکا جو کالج میں مجھے دیکھتا رہتا تھا ۔

اس نے جانے کہاں سے میرا نمبر حاصل کر لیا پہلے وہ مجھ سے پیار کا اظہار کر رہا تھا مگر میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا ۔پھر اس نے گندے گندے میسجز کرنا شروع کردئیے ۔اور اب جانے اس نے کیسے میری تصویریں لیں میں نہیں جانتی ۔۔یہ دیکھو یہ میری تصویروں کے ساتھ اسکی تصویریں مرج ہیں۔یہ سب اس کی چال ہے مجھے پھنسانے کی ۔منت نے اسے اپنے موبائل کی گیلری میں سےامیج نکال کر دکھائے جواس لڑکے نے اسے سینڈ کیے تھے ۔

جنت بھی شاکڈ ہوئی سب دیکھ کر۔۔

"اب کیا کرنا ہے ؟؟؟جنت نے پریشانی سے پوچھا ۔

"اس نے آج شام کو بلایا ہے "

"پھر جانا ہے ؟؟؟

"منت جانا مناسب نہیں "

"گھر میں کسی کو بتا دیتے ہیں "

"نہیں جنت کسی کو بھی مت بتانا ورنہ ۔۔۔۔۔منت نے ڈرتے ہوئے کہا ۔

"میں اکیلی جاؤں گی ۔اگر کچھ بھی برا ہوا تو تم سنبھال لینا منت نے اسے کہا۔۔۔۔

",اس سے آج مل کر ساری بات ختم کر لیتی ہوں "اس نے اٹل انداز میں کہا ۔

"نہیں منت تم پہلے ہی بے وقوفی کر چکی ہو میں جاتی ہوں ۔اس سے بات کرنے "جنت نے اسے کہا ۔

"جنت دھیان سے مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔

"منت ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے ۔مگر اس بات کو یہیں ختم کردینا ہی بہتر ہے ۔

"لیکن کیاکہیں گے گھر پہ "؟

",ایسا کرتے ہیں میں کہہ دیتی ہوں کہ صبح ٹیسٹ ہے اور ایک کی بک چاہیے وہی لینے نزدیکی بک سٹال پر جا رہی ہوں "جنت نے اسے بہانہ بتایا ۔

",ٹھیک ہے "منت نے کہا ۔

"میرے لیے دعا کرنا "جنت نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"I am sorry Jannat.

منت روتے ہوئے بولی ۔

"پاگل سوری کس بات کی ۔تمہاری پریشانی میری پریشانی ہے ۔اگر تم مجھے پہلے بتا دیتی تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہی نہیں ہم کالج میں ہی اسے سبق سکھا دیتے یا پرنسپل کو اس کی شکایت لگا دیتے ۔خیر اب کیا ہو سکتا ہے ۔؟

"آؤ باہر دیکھیں کون کون ہے ۔راستہ صاف دیکھ کر نکلتی ہوں ۔جنت نے اسے کہا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

عیش ڈار نے اپنے موبائل پر وقت دیکھا دو بج چکے تھے ۔

آج اس کی ایک اہم میٹنگ متوقع تھی ۔۔۔۔

وہ کیفے میں موجود ٹیبل پر اپنا موبائل اور بیگ رکھے بیٹھی تھی کسی کے انتظار میں ۔۔۔۔اتنے میں ہی ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص اندر داخل ہوا۔۔۔جس نے گرے تھری پیس سوٹ پہن کر گرے ٹائی لگا رکھی تھی ۔چہرے پر ملائمت تھی ۔

وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا ۔

"Hye Sir I am Aysh Dar .

اس نے ہاتھ آگے کیا ۔

"Hello I am Zaryar Khan .

زریار نے اپنا تعارف کروایا ۔۔۔۔

"آپ کیا لیں گے چائے یا کافی ؟؟؟اس نے آداب مہمان نوازی ادا کئے ۔۔۔۔

"Nothing ..... Thanks.

"آپ کو شاید کسی اور کا بھی انتظار ہے ؟؟؟زریار نے اس کی نظریں باہر سے اندر آنے والے راستے پر مرکوز دیکھیں تو پوچھا ۔۔۔

"جی "

ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ دروازے سے ایک شاندار پرسنالٹی والا شخص جس نے ڈارک بلیو پینٹ پر سکائی بلیو شرٹ اور ڈارک بلیو ٹائی لگا رکھی تھی کوٹ اور کوٹ اپنی ایک بازو پر منتقل کر رکھا تھا ۔بے نیازی سے شاہانہ چال چلتے ہوئے اسی کی طرف آ رہا تھا ۔۔۔۔

"اف اس عمر میں اتنے وجیہہ ہیں تو جوانی میں کیسے ہوں گے ؟؟؟

عیش نے آنے والے کی پرسنالٹی سے متاثر ہوکر دل میں سوچا ۔۔۔

اس کے سیاہ بالوں میں کنپٹیوں پر سفیدی جھلکنے لگی تھی مگر جسامت سے ابھی بھی فِٹ اور سمارٹ  تھا ۔۔۔۔

Hello ....

عیش نے پسندیدگی سے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۔۔۔جسے اس نے ہلکا سا دبا کر چھوڑ دیا ۔۔۔۔

Hello I am Zaigan Khan.

اس نے اپنا تعارف کراوتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ زریار کی طرف اچھالی ۔۔۔۔

"جی تو ہم دونوں کو یہاں مدعو کرنے کی کوئی خاص وجہ "زیگن نے اپنے ازلی سرد انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"میں نے تو اپنے پی اے کو خان کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ میٹنگ فکس کروانے کے لیے کہا تھا ۔

وہ پورے کانفیڈینس سے بولی ۔

"میں خان کنسٹرکشن کمپنی کا ہیڈ ہوں زریار نے اس سے کہا ۔

"اور میں خان گروپس اینڈ انڈسٹریز کا "

زیگن نے سپاٹ انداز میں بتایا۔

"دراصل میں چاہتی تھی کہ ہماری کمپنیز مرج ہوجائے اور اکٹھا کام کریں ۔اس سے ہم دونوں کو فائدہ ہوگا برابر پرافٹ ملے گی ۔۔۔۔

"So sorry ....

اس سلسلے میں آپکی میں کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔دراصل میں اپنی کمپنی کو بھی سنبھال رہا ہوں اور میرے قریبی دوست ہیں شہریار صاحب آج کل ان کی طبیت ٹھیک نہیں اسی لیے ان کی کمپنی کو بھی دیکھ رہا ہوں ۔تو میری طرف سے تو معزرت سمجھیں ۔کیونکہ میں ایک ہی وقت میں اتنی زمہ داریاں نہیں نبھا سکتا ۔۔۔۔زریار نے کہا 

"Sir ....

آپ بتائیں ؟؟؟وہ زریار کی بات سن کر اب زیگن کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔

"اگر آپ کو میرے ساتھ کام کرنا ہے تو پہلے ہی سن لیں میں اپنے حساب سے کام کرتا ہوں مجھے کسی کی بھی بے جا مداخلت اپنے کام میں بالکل بھی پسند نہیں ۔کام چوری سے مجھے سخت نفرت ہے۔میرا سٹاف بہت ہارڈ ورکنگ ہے ۔اور آپکے آفس کا سٹاف کیسا ہے یہ سب دیکھنا پڑے گا ۔ایک سب سے اہم بات میں وقت کی پابندی کا عادی ہوں ۔میرے رولز زرا سخت ہیں اگر آپ میرے رولز کے حساب سے چلنا چاہیں تو موسٹ ویلکم "زیگن نے ماہر پیشہ ورانہ انداز میں اسے ڈیل کیا ۔وہ پہلے ہی ان کی پرسنالٹی سے متاثر تھی اب ان کے کام کرنے کے طور طریقے جان کر اور بھی متاثر ہوئی ۔۔۔زیگن کے چہرے پر زرا سی بھی مسکراہٹ کا شائبہ نہ تھا جبکہ زریار کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔

"ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم دونوں بھائی ہیں ",زریار نے اس کے سر پہ بم پھوڑا ۔۔۔۔

"Really...?"

وہ بے یقینی سے دونوں کو دیکھ کر بولی ۔۔۔۔۔

ایک مشرق تھا تو دوسرا مغرب ۔۔۔ایک نرم مزاج ۔اور دوسرا سخت گیر ۔۔۔۔

"Nice to meet both of you"

وہ بھی ہلکے سے مسکرا کر بولی ۔۔۔

"مجھے آپکی تمام شرائط منظور ہیں "

اس نے زیگن کی طرف کانٹریکٹ پیپرز بڑھائے تو اس نے اس کو ریڈ کیے ان پر اپنے سائن کردئیے ۔۔۔۔

پھر عیش ڈار نے بھی اپنے دستخط کیے تو پیپرز ایک طرف رکھے وہ آگے کی پلاننگ کرنے لگے جبکہ زریار اب وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا ۔۔۔اسے آج شہریار سے ملنے بھی جانا تھا اس کے آفس کے کام کو لے کر کچھ بات کرنا تھی ساتھ ساتھ زائشہ سے ملنے کا بھی سوچ رکھا تھا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

جنت کافی دیر سے گرینڈ ہوٹل کی بیک سائیڈ پر کھڑی تھی ۔اور موبائل پر وقت دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔وہ نقاب میں تھی ۔

"ایکسکیوز می !!!پیچھے سے اسے آواز آئی تو اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔۔

"آپ ؟؟؟؟ جنت نے اسے پہچان لیا ۔یہ وہی لڑکا تھا جو کالج میں ہمیشہ اسکی بہن منت کو تاڑتا رہتا تھا ۔۔۔۔اسے شروع دن سے ہی اس لڑکے کی آنکھیں اور حرکات مشکوک لگتی تھیں۔

"اس نے تمہیں کیوں بھیجا ۔؟اس لڑکے نے سوالیہ نظروں سے درشت لہجے میں پوچھا ۔

"آپ پلیز میری بہن کی تصویریں ڈیلیٹ کردیں ۔اور ویسے بھی وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتی ۔یہ تصاویر آپ نے فوٹو شاپ کیں ہیں۔میں جانتی ہوں یہ سب جھوٹی تصویریں ہیں۔

"کیا ملے گا آپ کو اسے بدنام کر کہ ۔۔۔آپکے گھر بھی ماں بہن ہوگی ۔۔۔کچھ تو شرم کریں ۔

"بہت ہی فضول بولتی ہو تم ۔

اور مجھے فضول سننے کی عادت نہیں ۔چلو تمہاری وہ بے وقوف بہن نا سہی تم ہی سہی ۔۔۔اس لڑکے نے اپنی پاکٹ سے ایک کلوروفارم والا رومال نکال کر فورا جنت کے منہ پر رکھا ۔۔۔۔۔

اور کسی دوسرے انسان نے پیچھے سے آکر اسے اپنے قبضے میں لیا ۔۔۔۔

وہ ان دونوں سے اپنا آپ چھڑوانے کے لیے خوب جھٹپٹائی مگر دو مضبوط مردوں کے سامنے ایک کمزور عورت کی کہاں چلتی ہے۔رات کے اندھیرے میں کسی کو بھی اس کاروائی کا پتہ نہیں چل سکا ۔۔۔۔وہ جنت کے ہوش و حواس سے بیگانہ وجود کو اپنے ساتھ لے گئے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ تھوڑی سی کسمسائی اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھولی تو خود کو اندھیرے میں پایا جیسے جیسے اس کے دماغ کے پردے پر پچھلا سین لہرایا  اسے اپنا ذہن مفلوج ہوتا نظر آیا

خوف کے باعث ادھر ادھر نظریں دوڑائیں پر اندھیرے کے باعث کچھ نظر نہیں آ یا۔

دروازے کی طرف بھاگی تو کسی کے وجود سے ٹکرائی مانو کسی چٹان سے ٹکرائی ہو

خوف کے مارے الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے مگر پھر بھی کچھ الفاظ زبان سے ادا ہوئے

ک۔ک۔کون ہو تم وہ بامشکل بول پائی۔۔۔۔

"تمہاری بہن کو اپنا کام نمٹانے کے بعد ان ساری لڑکیوں کے ساتھ سمگل کروانے والا تھا ۔مگر تم بھی اچھی آپشن ہو ۔کچھ پل کی دلگی کے لیے ! کسی کی مردانہ آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔اس کی کمینگی اسکی آواز سے صاف جھلک رہی تھی ۔۔۔ جنت کے جسم میں سنسنی سی دوڑنے لگی۔۔۔۔۔

وہ اسے کھینچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا جہاں اسکے جیسی اور بھی لڑکیاں موجود تھیں ۔جو شاید ایسے لڑکوں کے جال میں پھنس کر یہاں پہنچی تھیں ۔۔۔۔۔وہ بھی جنت کی طرح سہمی ہوئی دیوار کے ساتھ لگے  کھڑے ہوئے تھیں اور روتے ہوئے اپنی قسمت پر ماتم کناں تھیں ۔

""چلو لڑکیوں آگے جا کر تم سب کو بھی یہی کچھ کرنا ہے کیوں نا آج لائیو شو ہو جائے ۔۔۔۔وہ خباثت سے ہنسا۔۔۔۔

اس کے باقی ساتھی بھی ہنسنے لگے ۔۔۔۔

"S.K 

کا آرڈر ہے آج رات ہی سارا مال جلد از جلد سمگل کر دیا جائے "اس کے ساتھی نے آکر اسکے کان میں کہا ۔۔۔۔

جنت اپنی ہمت مجتمع کرتے ہوئے بولی

دیکھو پلیز مجھے جانے دو میں نے تمہارا ک۔ک۔کیا بگاڑا ہے خدا کے واسطے مجھے جانے دو میرے مما۔ بابا میرا انتظار کر رہے ہوں گے گھر پہ"جنت گڑگڑا کر بولی ۔۔۔۔

لیکن سامنے کھڑے شخص کو اس سے رتی برابر بھی ہمدردی بھی محسوس نہیں ھو رہی تھی ،کیونکہ یہ تو ان لوگوں کے معمول کا کام تھا یونہی لڑکیوں کو بلیک میل کرکہ بلانا اور بعد میں سمگل کر دینا۔ان کا رونا دھونا دیکھنا انکے لیےروز مرہ کا معمول تھا ۔۔۔۔

اس کام میں ان کا باس S.k.

ماہر تھا ۔۔۔۔  

وہ جو کب سے ان سب لڑکوں کے قریب کھڑی تھی ایکدم ان سے دور ہوئی اور موقع دیکھتے ہی دروازے کی طرف بھاگی ۔۔۔۔ اسے ایسا کرتے دیکھ وہ سب زور زور سے ہنسنے لگی ۔۔۔ ان کی ہنسی عجیب تھی انکی ہنسی سے اسے  خوف آنے لگا ۔۔۔وہی لڑکا آہستہ آہستہ قدم بڑہاتے ہوئے اس تک پہنچا اور وہ آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف قدم لینے لگی ایسا کرتے ہوئے وہ بلکل دروازے سے جا لگی

لڑکا بولا تو ہر احساس سے عاری تھا۔۔ 

"تم جیسی تتلیوں کے پر کاٹنے ہی تو لائے ہیں "

اس لڑکے نے جنت کا دوپٹہ کھینچ کر اتارا۔۔۔۔۔

"نہیں پلیز تمہیں خدا کاواسطہ مجھے جانے دو """"

اس نے پھر سے انکے آگے فریاد کی ۔۔۔۔۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے ۔۔۔۔

ایک طرف کھڑے لڑکے نے اسکی ایک آستین کھینچ کر پھاڑی تو دوسری طرف نے ہنستے ہوئے دوسری طرف کی پھاڑ ڈالی ۔۔۔۔۔

"یا اللّٰہ ایسی ذلت سہنے سے پہلے مجھے موت دے دے"

وہ کانپتی ہوئی آواز میں نوحہ کناں تھی ۔۔۔۔۔

وہی لڑکا جو اسے یہاں لا کر اسے برباد کرنے والا تھا ۔۔۔چلتے ہوئے اس کے قریب آ چکا تھا ۔۔۔۔

جنت کو دھکا دئیے زمین پر پھینکا اور خود اس پر جھکا ۔۔۔۔

Hey .......!!!!!!

کسی کی دھاڑ سن کر اس لڑکے نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔

دو نقاب پوش تھے ۔۔۔۔

ان میں سے ایک آگے آیا ۔۔۔۔

اور اس نے برق رفتاری سے تیز بلیڈ اس لڑکے کی طرف پھینکا جو اس کی گردن کو چیرتا ہوا نکل گیا ۔۔۔۔

جنت تو حیرت سے اس لڑکے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔کچھ دیر پہلے وہ جس لڑکے سے عزت کی بھیک مانگ رہی تھی اب وہ خود تڑپ تڑپ کر جان دے رہا تھا ۔۔۔۔

زیان خان جو چند لمحوں پہلے ہی یہاں پہنچا تھا اس نقاب پوش کو لڑکے پر  بلیڈ چلاتے دیکھ چکا ۔۔۔۔

زیان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے اس نقاب پوش کے ہاتھ میں موجود ایک نشانی دیکھی ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ زیان خان اس نقاب پوش تک پہنچ پاتا ایک دم وہاں اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔

اور کچھ لمحوں بعد جب دوبارہ وہ جگہ روشن ہوئی تو وہاں موجود سب لڑکوں کے گلے کٹ چکے تھے ۔اور ہاتھ کی کلائیاں بھی جن پر S.K لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔

پچھلی بار بھی S.K. 

مطلب سکارپین کنگ جو پچھلے تیس سالوں سے اس دھندے کا کنگ تھا ۔اس کے ہاں کام کرنے والے تمام آدمیوں کی کلائیوں پر S.k مطلب سکارپین کنگ کا نشان تھا ۔

آج پھر کسی کے ہاتھوں  سکارپین کنگ کے آدمیوں کا بری طرح مرڈر ہوا تھا ۔اور ایک بار پھر لڑکیوں کی عزت و عصمت محفوظ رہی ۔۔۔۔۔

جنت نے جب زیان کو سامنے دیکھا تو بھاگتی ہوئی زیان کی طرف آئی ۔۔۔۔گھر میں سے کسی اپنے کو سامنے پا کر وہ ٹوٹ کر بکھری ۔۔۔۔۔

"آج اگر زیان مسیحا بن کر سامنے نہیں آتا تو وہ اپنی عزت کھو دیتی ۔۔۔۔۔

"حالانکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اسے بچانے والے ہاتھ تو کسی اور کے تھے ۔۔۔۔

مگر وہ زیان کو اپنا مسیحا مان بیٹھی اور بھاگتے ہوئے اس کے سینے سے لگی ۔۔۔۔۔

جنت کو اس حالت میں دیکھ اسکے ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا۔۔۔۔

اس نے اپنی شرٹ اتار کر جنت کے شانوں پر ڈالی ۔۔۔۔اور اسے اپنی پشت پر کیا ۔۔۔۔

"ان سب کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دو اور ساری لڑکیوں کو محفوظ مقام پر پہنچا دو ۔ان سے انویسٹیگیشن کے بعد انہیں ان کے اصل مقام پر پہنچا دیں گے ۔زیان خان نے اپنی ٹیم کو آرڈر جاری کیا ۔۔۔۔

کسی نے اس نقاب پوش کے شانے سے اپنا شانہ ٹکرایا اور اس کی توجہ زیان خان کی طرف دلاوائی ۔۔۔۔

زیان اب صرف ویسٹ میں موجود جنت کو اپنے ساتھ لیے جا رہا تھا ۔۔۔

جوابا مقابل نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

رات کافی بیت چکی تھی اور جنت کی ابھی تک واپسی نہیں ہوئی تھی منت کی حالت تو یوں تھی گویا کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔

شدید قسم کے ڈیپریشن میں وہ لاونج میں ٹہلتے ہوئے بے ہوش ہو چکی تھی ۔۔۔۔

"منت کیا ہوا ؟؟؟؟

زرشال نے اسے لہرا کر دھڑام سے صوفے پر گرتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

مگر وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکی تھی ۔۔۔۔

اس کی تیز آواز سن کر سب لاونج میں اکٹھا ہو چکے تھے ۔۔۔۔

زیان تو سمجھا تھا کہ گھر میں سب سو چکے ہوں گے اس لیے وہ جنت کو ساتھ لیے اندر آیا ۔۔۔۔۔

اسوقت زیان اور جنت کو اکٹھے عجیب و غریب حالت میں ایک ساتھ اندر آتے دیکھا تو سب کے رنگ فق ہوئے ۔۔۔۔

"زیان تم دونوں اس وقت کہاں سے آ رہے ہو ؟؟؟؟

بریرہ نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس کو زخمی نگاہوں سے دیکھ کر پوچھا۔

"زیان تمہیں زرا بھی شرم نہیں آئی گھر کی بچی پر بری نظر رکھتے ہوئے "؟؟؟زیگن کی آواز گونجی۔۔۔۔

"زمارے اور زرشال تو اپنی بیٹی کی لٹی ہوئی حالت دیکھ کر دل تھام کر رہ گئے ۔۔۔۔

زرشال نے بے ہوش منت کو وہیں چھوڑ جنت کو اپنی بانہوں میں بھرا جو ادھ موئی سی تھی اور کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم تھی ۔۔۔۔

اس کو تو جیسے کچھ دیر پہلے ہوئے تمام واقعات کی وجہ سے زبان پر قفل لگ گیا تھا ۔۔۔۔کانوں میں مختلف آوازیں سنائی دے رہیں تھیں مگر کون کیا کہہ رہا تھا کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔

زیان کو سب کی چبھتی ہوئی نظریں برداشت کرنا دوبھر لگا ۔۔۔۔اپنے اوپر الزام لگاتے دیکھ وہ اندر ہی اندر خوب تلملایا ۔۔۔۔اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی جب اس نے گھر والوں کو اپنے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتے دیکھا ۔۔۔۔

صرف اور صرف اس لڑکی کی وجہ سے ۔۔۔۔زیان نے تنفر زدہ نگاہ جنت پر ڈالی جو اس کے کردار کو سب کے سامنے کیا سے کیا بنا گئی تھی ۔۔۔۔۔

وہ چاہتا تو بول سکتا تھا سب کو سچ بتا سکتا تھا کہ اسے جنت کیسے اور کس حال میں کہاں سے ملی مگر وہ اس خدا سے ڈر گیا تھا جس نے فرمایا تھا ۔کہ اگر کسی کے عیب کا پردہ رکھو گے تو خدا تمہارے عیبوں کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔اس نے خاموش رہ کر اسکی عزت بچائی مگر اپنے کردار کو مشکوک کر گیا ۔۔۔۔

"آپی میری بیٹی ؟؟؟؟

زرشال نے شکوہ کناں نگاہوں سے بریرہ اور زریار کو دیکھا جو اپنے بیٹے کی گئی حرکت کی وجہ سے خود کو زمین میں دھنستا ہوا محسوس کر رہے تھے ۔۔۔۔۔

"کل شام سادگی سے زیان اور جنت کا نکاح ہوگا "زریار خان نے گویا اپنا حکم سنا کر ساری بات ہی ختم کردی ۔۔۔۔

زیان کو اپنے بابا کا فیصلہ سن کر گویا جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا ۔۔۔۔اور پھر مٹھیاں بھینچ کر خود پر قابو پانا چاہا مگر  نہ رکھ سکا ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ سب اُگل دیتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔اور دھاڑ کی آواز سے دروازہ بند ہوا جس کی آواز پورے گھر میں گونجی ۔۔۔۔۔

ذوناش نے منت کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر اسے ہوش دلایا ۔۔۔۔

ہوش میں آنے کے بعد کا منظر اسے ایک بار پھر سے دہلا گیا ۔۔۔۔"

زمارے مجھے معاف کر دو "زریار نے شرمندگی سے زمارے کے شانے پر ہاتھ رکھے کہا ۔

آج پہلی بار زمارے کی آنکھیں نم ہوئیں اپنی بیٹی کی حالت پر۔۔۔۔۔

وہ سر جھکائے بنا بولے جنت کو اپنے ساتھ روم میں لے گیا ۔۔۔۔۔

جنت بالکل خاموش تھی ۔۔۔۔کچھ دیر چھت کو گھورتی رہی پھر آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔۔

زرشال اور منت اس کی حالت پر تڑپ کر رہ گئیں ۔۔۔۔

"جنت میں کبھی بھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گی اس سب کی زمہ دار صرف میں ہوں نجانے تمہارے ساتھ کیا ہوا ہوگا ؟؟؟؟منت نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بھیگے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔

آج رات حویلی میں ایسی خاموش  رات تھی جیسے اس گھر میں کوئی زی روح موجود نہ ہو ہر کوئی اپنی اپنی جگہ گم سم سا تھا ۔۔۔۔اور اپنی اپنی سوچوں میں ڈوبا ہوا ۔۔۔۔۔نجانے آنے والا کل اور کونسی قیامت ڈھانے والا تھا ان حویلی کے مکینوں پر ۔۔۔۔؟؟؟

"ہیر کہاں ڈھونڈھوں تمہیں "؟

حسام آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہیر کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔بیڈ پر آڑھا ترچھا اسطرح سے لیٹا ہوا تھاکہ اسکی ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں ۔

وہ اپنی سوچوں میں اتنا گم تھا کہ اسے دروازہ کھلنے کی آواز بھی سنائی نہیں دی ۔

زائشہ دروازہ کھول کر جب اندر آئی تو حسام کو بے سکونی سے لیٹے دیکھ اسکے پاس آئی اور اسکے پاؤں شوز سے آزاد کیے اب اس کی جرابیں اتارنے لگی تھی کہ حسام نے اپنے پاؤں پر کچھ محسوس کیا تو فورا آنکھوں سے ہاتھ اٹھایا ۔

"زائشہ یہ کیا کر رہی ہو ؟

اس نے فورا اپنے پاؤں پیچھے کھینچے ۔

"میں نے سوچا تم ۔۔۔۔میرا مطلب آپ ۔۔۔۔۔

وہ مخمصے کا شکار ہوئی۔کہ اسے کیسے مخاطب کرتے پہلے تو وہ اسے تم کہتی تھی ۔مگر اب رشتہ بدل چکا تھا ۔اس لیے آپ کہنے کی کوشش کر رہی تھی۔اپنے دوپٹے کے کنارے کو انگلیوں کے گرد لپیٹتے ہوئے بولی ۔۔۔

"تمہیں جو بھی کمفرٹیبل لگے تم وہی کہہ سکتی ہو مجھے برا نہیں لگے گا ۔۔۔

وہ اسے مشکل سے نکال کر اپنے آرام دہ سوٹ لیے واش روم کی طرف بڑھ گیا جو زائشہ نے پہلے سے ہی اس کے لیے نکال کر رکھا تھا ۔۔۔۔

واپس آیا تو زائشہ اپنی طرف کروٹ کے بل لیٹ چکی تھی ۔وہ بھی اپنی جگہ پر دراز ہوگیا ۔۔۔۔دونوں کی آنکھیں بند تھیں مگر دونوں جاگ رہے تھے ۔کمرے میں ہنوز خاموشی کا پہرہ تھا ۔دو نفوس کی سانسوں کی مدھم آواز تو تھی مگر زبان کہیں کھو گئی تھی ۔

آخر کو بات بھی کیا کرتے کہنے کے لیے دونوں کے پاس کچھ نہیں تھا ۔

وہ دونوں پہلے دن کی طرح آج بھی اتنے ہی دور تھے جیسے ندی کے دو کنارے ۔۔۔۔جو شاید ہی کبھی مل پائیں ۔۔۔

زائشہ اس کے سب کام خود کرتی ۔اور باقی کا گھر بھی سنبھال چکی تھی ۔حسام نے اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ ہیر کو ڈھونڈھنا بھی ترک نہیں کیا تھا ۔۔۔۔وہ پہلے دن  کی طرح روز زائشہ کے اٹھنے سے پہلے اس کے من پسند پھولوں کا گلدستہ اس کے سرہانے رکھتا تھا ۔۔۔

جسے محسوس کیے زائشہ ہر صبح بیدار ہوتی تھی ۔اک ان چاہا بندھن آہستہ آہستہ من چاہے بندھن میں بندھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا مگر فی الحال وہ اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی اسی لیے خاموش تھی ۔

حسام اس کی چپ ٹوٹنے کے انتظار میں تھا ۔اور یہ انتظار اگر صدیوں پر بھی محیط ہوتا تو وہ کرنے کو تیار تھا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"آج صائمہ اور اماں جان یہاں رکیں گی تمہارے پاس "

شیر زمان تیار ہوکر باہر نکلا تو ہیر سے کہا۔

"آپ کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟

ہیر نے پوچھا ۔

"میری پرنسسز نے یہ بیویوں والے سوال کب سے پوچھنے شروع کیے ؟؟؟

"آپ نے ہی تو کہا ہے کہ اب میں آپ کی بیوی ہوں تو اسی لیے پوچھا ۔۔۔۔وہ معصومیت سے منہ پھلا کر بولی۔۔جیسے اسے شیر زمان کی بات بری لگی تھی ۔

"بیویاں تو اور بھی بہت کچھ کرتیں ہیں !!!!شیر زمان جو موبائل یوز کر رہا تھا اسکے جواب میں سر اٹھا کر ذومعنی انداز میں کہا ۔

"کیا کرتی ہیں ؟؟؟؟

شیر زمان تو اس کی معصومیت پر عش عش کر اٹھا ۔۔۔۔

"پھر کبھی بتاؤں گا۔آج زیان اور جنت کا نکاح ہے وہیں جا رہا ہوں مما کی کال آئی تھی ۔

"مجھے بھی جانا ہے "وہ خوشی سے بھاگتی ہوئی شیر زمان کے قریب آئی اور اس کے بازو سے لپٹ کر فرمائشی انداز میں بولی ۔۔۔۔

کوئی اور موقع ہوتا تو وہ خوشی کے مارے نہال ہوجاتا کہ اسکی پرنسز آج خود اسکے پاس آئی ہے ۔مگر اسکا ساتھ جانا مناسب نہیں تھا ۔اسی لیے زرا سا کرخت آواز میں بولا۔

"تم کہیں نہیں جا رہی ۔گھر رہ کر میرا انتظار کرو رات کو آجاوں گا ۔کھانا کھا کر وقت سے سو جانا ۔صائمہ سسٹر کھانا بنا دے گی ۔"وہ اسکا گال تھپتھپاکر کر بولا ۔۔۔۔

ہیر ناراض ہو کر بھاگتے ہوئے کمرے میں چلی گئی ۔اور اندر سے دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔

شیر زمان تاسف سے سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

حویلی سے جب زیگن کی کال شہریار کو آئی تھی کہ آج زیان اور جنت کا سادگی سے نکاح کر رہے ہیں اور آپ سب بھی آجائیے ۔۔۔یہ بات سن کر شہریار کو بہت برا لگا ۔۔۔۔۔

زیگن نے اس سے معزرت کی ۔۔۔

"شہریار ہم سب بھی ہیر اور ابتسام کی گمشدگی پر بہت پریشان ہیں ۔مگر حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ ہمیں یہ قدم اٹھانا پڑا۔ہوسکے تو باقی سب کو بھی ساتھ لے آنا ۔۔۔۔شہریار جانا تو نہیں چاہتا تھا مگر اب رشتے داری کی ایسی تھی کہ جائے بنا گزارہ نہیں تھا ۔۔۔۔

شہریار نے زیگن سے اتنی جلدی نکاح کی وجہ نہیں پوچھی اور نا ہی زیگن نے اسے تفصیل بتائی ۔۔۔۔

تو شہریار نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا ۔اور گھر میں سب کو شام نکاح میں جانے کے لیے کہہ دیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

بریرہ کے دل میں شروع سے ہی جنت کو لے کچھ ارمان تھے وہ اسے اپنے زیان کی دلہن بنانا چاہتی تھیں مگر یہ سب اسطرح سے ہوگا یہ کبھی بھی اس نے سوچا نہیں تھا ۔۔۔۔۔

وہ دوپہر کو مارکیٹ گئیں اور نکاح کے لیے ایک خوبصورت کامدار لہنگا اور ساتھ میچنگ چوڑیاں اور زیورات لے کر آئی ۔

"زرشال!!! سب ٹھیک ہو جائے گا "بریرہ نے اس کا ہاتھ تھام کر تسلی آمیز انداز میں کہا۔

اور منت کی طرف چیزیں بڑھائیں ۔۔۔

"مولانا صاحب کچھ دیر میں آتے ہی ہوں گے تم جنت کو تیار کردو اچھے سے یہ سب سامان لے جاؤ ۔۔۔۔

ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے ایسے وقت میں سجنے سنورنے کی ۔جنت کے بھی کچھ خواب کچھ خواہشات ہوگی ۔

سب نہیں تو کچھ تو پوری ہونی چاہیے نا "

زرشال اور بریرہ آپس میں بات کرنے لگیں تو منت وہاں سے سامان لے کر جنت کے روم میں آئی ۔۔۔۔

"مجھے معاف کر دو جنت ",وہ شرمندگی سے بولی ۔۔۔۔

"منت تم سوچ بھی نہیں سکتی اگر زیان وہاں نہیں آتے تو کیا ہوتا ؟؟؟.

"جنت مجھ پر آئی مصیبت تم نے اپنے سرلے لی اور بدلے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔۔۔۔تمہارا یہ احسان میں کبھی چکانا چاہوں بھی تو نہیں چکا سکتی ۔۔۔۔

"منت کیسی باتیں کرتی ہو بہنوں میں احسان نہیں ہوتا ۔

"اصل احسان تو میرے مسیحا میرے زیان کا ہے جنہوں نے سب کے سامنے میری عزت رکھی "وہ ممنون انداز میں بولی۔اور آنکھیں بھیگنے لگیں کل کے واقعے کو یاد کر کہ ۔۔۔

"اچھا جی ۔۔۔۔اب میرے زیان کب سے ہوگئے ؟؟؟منت نے اسے چھیڑا۔۔۔۔

"منت مجھے تمہاری بدعا لگ گئی ۔۔۔۔میری شادی زیان سے سڑو سے ہو رہی ہے۔وہ روتے ہوئے ہنسی تو آنکھیں بھیگ رہی تھیں مگر چہرہ خوش دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔ہنسی اور غمی کا ملن بھی خوشنما تھا ۔۔۔۔۔

"چلو باقی باتیں بعد میں کریں گے جلدی سے تیار ہو جاؤ بڑی مما نے یہ ڈریس دیا ہے تمہارے لیے دیکھو کتنا پیارا ہے ۔۔۔

منت بھی اپنی آنکھیں پونچھ کر بولی ۔۔۔۔۔

بے شک گھر کا ماحول سازگار نہ تھا ۔۔۔۔مگر انہیں غموں میں سے خوشیاں کیسے چُنی جاتی ہیں یہ اچھے سے آتا تھا ۔۔۔۔

"زیان کہاں ہے نکاح کا وقت ہوگیا ہے ؟

زریار نے بریرہ سے پوچھا ۔

"ابھی کال کر کہ پوچھتی ہوں 

"اگر یہ لڑکا ٹھیک وقت پر گھر نہیں پہنچا تو آج اس کی خیر نہیں میرے ہاتھوں "

"آجائے گا.... کہاں جانا ہے اس نے ؟"

"زیان کہاں ہو جلدی گھر آؤ "

"مما بابا کو بتا دیں کہ انہوں نے یہ جو زبردستی کا فیصلہ میرے سر پہ تھوپا ہے اس کا انجام بہت برا ہوگا ",وہ فون ریسو کرتے ہی بھڑک اٹھا ۔

"زیان یہ تم کیسے بات کر رہے ہو مجھ سے ساری شرم لحاظ بھلائے بیٹھے ہو ۔کوئی مینرز نہیں تم میں ؟؟؟؟

"یہ تمیز سکھائی ہے میں نے تمہیں ؟؟؟بریرہ نے اسکے لب و لہجے میں درشتگی محسوس کی تو غصے میں کہا ۔۔۔۔

"جلدی گھر پہنچو "کہتے ہی بریرہ نے کال بند کردی ۔۔۔۔

"آ رہا ہے آپ چلیں باہر سب انتظار کر رہے ہوں گے ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد زیان عام سے حلیے میں چیکس والی شرٹ اور جینز پہنے گھر میں داخل ہوا تو سب وہیں موجود تھے ۔۔۔۔

حسام ،ضامن اور شیر زمان تھری سیٹر صوفے کے پیچھے کھڑے تھے ۔جبکہ اس صوفے پر زمارے ،زرشال اور عروسی لباس میں ملبوس گھونگھٹ اوڑھے جنت بیٹھی تھی ۔دوسرے صوفے پر بریرہ زریار اور ساتھ منت بیٹھی تھی ۔۔۔۔

زیگن ذوناش ٹو سیٹر صوفہ پر بیٹھے تھے ۔ون سیٹر پر مولانا صاحب براجمان تھے ۔۔۔منت فورا اٹھ کر پیچھے ہوئی اور زیان کو بیٹھنے کی جگہ دی ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں ایجاب و قبول کے بعد سب نے ان کی نئی زندگی کے دعا کی ۔۔۔جنت اور زیان کو ایک صوفے پر بٹھا کر انہیں مٹھائی کھلائی ۔۔۔

منت نے اپنے موبائل سے زیان اور جنت کی کئی یادگار تصویر لے ڈالیں ۔۔۔۔

جس میں جنت سر جھکائے ہوئے تھی اور زیان چہرے پر سرد تاثرات سجائے ہوئے تھا ۔

مولانا صاحب کے چلے جانے کے بعد آہستہ آہستہ سب وہاں سے اٹھ گئے شہریار اپنی فیملی سمیت گھر واپس چلا گیا ۔زائشہ نے بھی وہاں رکنا مناسب نہیں سمجھا اور حسام یمنی اور شہریار کے ساتھ واپس آگئی ۔۔۔۔

گھر میں سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو منت نے اسے بریرہ کے کہنے پر زیان کے کمرے کے دروازے تک چھوڑ دیا وہ آہستگی سے چلتے ہوئے اپنے بھاری بھرکم لہنگے سے  سنبھلتے ہوئے اندر آئی۔۔کیونکہ نکاح سے کچھ دیر پہلے ہی منت نے اسے تازہ تازہ مہندی لگائی تھی ۔اور جو ابھی گیلی تھی ۔۔۔۔۔ اس لیے وہ ان ہاتھوں سے لہنگا بھی نہیں۔ اٹھاپارہی تھی ۔فرش کو چھوتا ہوا لہنگا اس کے پاؤں میں اٹک رہا تھا ۔۔۔۔

وہ اس کمرے کا جائزہ لینے لگی تھی . آج یہ کمرہ کہیں سے بھی نئے شادی شدہ جوڑے کا کمرہ نہیں لگ رہا تھا کسی قسم کی کوئی  سجاوٹ نہیں کی گئی تھی  دیکھنے میں  بہت ہی خوبصورت اور عالیشان ہر طرح کی آسائش کا سامان موجود تھا شاہانہ فرنیچر   اور دیوارر لگے پردے اسکی خوبصورتی کو بڑھا رہے تھے ہر طرف سفید رنگ کا کنٹراسٹ جس میں ہر ایک چیز بڑے ہی ڈیسنٹ انداز میں سیٹ کی گئی تھی.. زیان جیسے روکھے پھیکے سنجیدہ مزاج انسان کا ٹیسٹ بھی سادہ تھا ہر جگہ سفید اور سادہ مگر ترتیب وار چیزیں موجود تھیں ۔۔۔بک شیلف بھی ترتیب وار سجائی گئی تھی ۔۔۔کمرے میں اسکی انلارج تصویر تھی جس میں وہ ہلکے سے مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔اس کی تصویر دیکھ کر جنت کے چہرے پر ایک خوش نما مسکراہٹ آٹہری ۔۔۔۔

"آپ میرے مسیحا ہیں ۔آپ نے مجھے بچایا میری عزت بچائی مجھ پر آنے والے تمام الزامات کو اپنے سر لے لیا نجانے کیسے میں آپ کے یہ احسانات چکا پاؤں گی ۔۔۔۔

زیان دراوزہ کھول کر اندر آیا ۔۔۔

جنت سر جھکائے وہیں کھڑی تھی ۔۔۔۔

وہ جس کر بستر پر بیٹھا اور بیلٹ اتار کر دور اچھالی پھر شوز اور سوکس اتار کر بے ترتیبی سے پھینکی۔۔۔۔وہ تو ہمیشہ چیزوں کو اپنی جگہ پر رکھتا تھا ۔مگر آج ان چیزوں کی طرح اس کا دماغ بھی انتشار کا شکار تھا ۔۔۔۔۔

"اب وہیں کھڑے رہوگی یا آگے قدم بڑھانے کی زحمت کروگی… ؟؟؟

کنگ سائز بیڈ پے بڑے سکون کے ساتھ لیٹے اپنی بازو سر کے پیچھے باندھے ہوئے نیم دراز زیان نے سرد لہجے میں اسے حکم دیا …

جنت اسکے حکم کی تعمیل کرتے ہوے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی دل تیزی سے دھڑک رہا تھا قدم ڈگمگا رہے تھے لیکن  لڑکھڑاتی ہوئی وہ اس کے پاس پہنچی ۔۔۔

"بیٹھو یہاں "

اس کی کلائی کھینچ کر اسے بیڈ پر گراتے ہوئے بولا کم دھاڑا زیادہ ۔۔۔۔

 وہ اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے ۔۔۔۔ اسے سر سے لیکر پاؤں تک گھور رہا تھا نہ جانے اسکے من میں کیا چل رہا تھا اسکی نظروں کی تپش سے اسکا جسم کانپ رہا تھا جنت خود میں سمٹ رہی تھی اسکے دونوں ہاتھ کانپ رہے تھے…

 "اس راستے پر جاتے ہوئے ہاتھ پاؤں نہیں کانپے ؟؟؟؟اس نے پہلا طنز کا نشتر چلایا ۔۔۔

جنت نے اسکی بات پر نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

" یہ ایسے کیوں کانپ رہے ہیں؟؟؟میرے چھونے سے ؟؟؟؟اسکے ہاتھوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر اب وہ سیدھا ہوکر بیٹھا جو ہلکا سا نیم دراز تھا …

جنت کے ہاتھوں پر تازہ مہندی سے زیان کے ہاتھ بھی رنگ گئے ۔۔۔۔

زیان نے اپنے ہاتھ سفید بیڈ شیٹ سے بے دردی سے رگڑ کر صاف کیے ۔۔۔۔

"وہاں یہی سب تو کرنے گئی تھی ۔۔۔۔آج میں تمہیں بتاتا ہوں وہاں کیا ہونے والا تھا تمہارے ساتھ "

وہ زیان کے  ہاتھ جھٹک کر فورا پیچھے ہوئی ۔۔۔

زیان نے اس کا سیفٹی پنز سے سیٹ کیا گیا دوپٹہ کھینچ کر فرش پر پھینکا ۔۔۔۔۔

 جنت کا چہرہ پسینے سے بھیگ چکا تھا موسم تو ٹھنڈ کا تھا لیکن زیان  کی  نظروں تپش اور آواز کی سرد مہری تھی جو اسے پسینے سے شرابور کئے ہوئے تھی۔۔۔ 

جنت کے بندھے ہوئے بالوں کے ہائی بن کو اس نے جھٹکے سے اپنی مٹھی میں بھرا ۔۔۔۔

جنت کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔۔

"بس اتنے میں ہی ؟؟؟؟وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔

جونہی اسنے اس ہائی بن کو کھولا اسکے ریشمی گھنے  بالوں کی لٹیں سرک کر آگے کی طرف آگئی تھی…

جسے زیان نے انگلی پھیرتے ہوے بڑے پیار سے انگلی پر لپیٹا۔۔۔. 

اب وہ آہستہ آہستہ اسکے بالوں کو سہلا رہا تھا جنت کی  آنکھیں بند تھیں۔

پورا  ہاتھ اب جنت کے بالوں میں تھا جہاں ایک ہی جھٹکے سے اسنے  کھینچا اچانک اس عمل سے جنت کی بے ساختہ چیخ نکلی…

آہ…. آہ

مجھے درد ہورہی ہے…

اسکی گرفت اب بالوں پر مضبوط ہونے لگی تھی جسے سہنا مشکل ہورہا تھا۔۔۔

یہی تو میں چاہتا ہوں تمہیں تکلیف ہو تم  تڑپو تمہیں اپنے وجود سے گھن آئے …جیسے مجھے اپنے وجود سے ہو رہی ہے ۔۔۔۔

 "تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں اپنے سامنے بیٹھا کر تمہارے حسن کے قصیدے پڑھوں گا ۔۔؟؟؟

تمہیں عزت و مان دوں گا ؟؟؟؟

"اپنی زندگی میں جگہ دوں ؟؟؟

"تم جیسی لڑکی سے یہ سیج سجاؤں گا ۔۔۔۔

 اگر واقعی میں تم ایسا سوچ رہی ہو تو لعنت ہے تمہاری سوچ پر …

کیا نا تھا اسکے لہجے میں شدید نفرت طنز اور اژدھوں کی سی پھنکار تھی۔۔۔

"تم نے میرے ہی ماں باپ میرے گھر والوں کی نظر میں میرا کردار مشکوک کر دیا ۔۔۔

"تمہاری عزت عزت؟؟؟؟ اور میری عزت خاک ۔۔۔۔؟؟؟؟

"زیان کی عزت کردار جائے بھاڑ میں میری عزت تو بچ گئی "ہے نا یہی سوچا تھا ۔۔۔۔؟؟؟؟

وہ اسے گردن سے دبوچ کر غرایا ۔۔۔۔۔

پھر اسے دھکا دے کر بستر پر گرا گیا ۔۔۔

اپنی شرٹ سے اس کے دونوں ہاتھ بیڈ کے اوپر باندھے ۔۔۔۔

غصہ انسان کی عقل کو کھا جاتا ہے۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے۔اور یہی زیان کے ساتھ بھی ہوا ۔وہ غصے میں صیحیح غلط کی تمیز بھول گیا تھا ۔

"چھوڑو مجھے یہ کیا کر رہے ہو …

اسکی آواز حلق میں اٹک رہی تھی وہ خود کو چھڑانے میں ناکام ہوچکی تھی…

"مجھے چھوڑ دو پلیز ..

اسنے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔

"کل خاموشی سے میرا تماشا دیکھتی رہی یہ زبان نہیں ُکھلی نا تو اب کیوں ؟؟؟

وہ اسے زور سے بستر پہ پٹختے  ہوئے پھنکارا تھا…

"اب بھی اس زبان کو بند رہنے دو ۔۔۔۔

"زیان پلیز مجھے جانے دو "وہ اس کے خوف سے کانپتے ہوئے بولی مگر وہ اس کی ایک نا سنتے ہوئے فرش پر نیچے گرا اس کے زرتار آنچل کا ایک گولہ سا بنا کر اس کے پاس آیا اور اس کے جبڑے کو اپنی مٹھی میں بھر کر کھولتے ہوئے اس میں جنت کا دوپٹہ ٹھونسنے لگا ۔۔۔۔

"زیان نہیں میں سب کو سب سچ بتادوں گی  ۔۔۔۔

"شٹ اپ۔۔۔جسٹ شٹ اپ "وہ دھاڑا ۔۔۔۔

جنت کو منہ بند ہونے سے سانس لینے میں دشواری ہوئی ۔۔۔۔وہ ناک سے اونچی اونچی سانس کھینچنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔کہ اگلے جھٹکے نے اس کی آنکھیں پوری پوری کھول دیں ۔

وہ نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔۔

روند دیا تم نے میرے جذبات کو۔۔۔ 

اور تم کیا سمجھی تھی۔۔۔میرے جذبات کو کچلنے کے بعد میں تمہیں  ایسے ہی جانے دوں گا ۔۔۔۔؟؟؟؟"

میں تمہارا وہ حال کروں گا کہ تم زندگی میں اس قابل نہیں رہو گی کہ پھر کسی ایسی جگہ جاؤ ۔۔۔جہاں تم کسی اور کے کردار کو مشکوک بنا کر خود سرخرو ہوجاو "

" پلیز مجھے جانے دو۔۔۔۔۔"وہ لبوں سے تو کہنے کے قابل نا تھی مگر آنکھوں میں یہی فریاد تھی ۔۔۔۔

"وہ اس وقت ہوش میں کہاں تھا اس وقت تو وہ ڈنگ کھایا ہوا زہریلا سانپ بن چکا تھا ۔جو بھوک میں اپنے ہی بچوں کو نگل جاتا ہے ۔جیسے وہ آج اپنے گھر کی عزت کو روندنے چلا تھا ۔۔۔۔"

"تم ان غنڈوں کی رکھیل بننے گئی تھی نا وہاں ۔۔۔۔؟؟؟اب تم رکھیل بنو گی میری۔۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔۔ میری !!!!!"

"زیان نے تکیے سے لگا جنت  کا آنسووں سے تر چہرہ اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔

جو تم بننا چاہتی تھی وہی بناؤں گا تمہیں ۔آخر تمہاری خواہش بھی تو پوری کرنی مجھ پر فرض ہے۔وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔

"یہ لو میری طرف سے منہ دکھائی ۔۔۔

اس کے ہونٹ اور دانت اسے جگہ جگہ سے کاٹ  رہے تھے اسے سزا دے رہے تھے۔۔۔منہ دکھائی میں ۔۔۔۔۔

"تمہیں میں بھی عزت سے نہیں رہنے دوں گا۔۔۔۔تمہاری عزت بھی داغدار کردوں گا جیسے تم نے کل میری کی "

زیان کی یہ سائیڈ تو اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی جو اسے آج دیکھنے کو ملی تھی ۔آج وہ کتنا خوش تھی اس کے ساتھ نئے بندھن کے بندھنے پر ۔۔۔وہ تو اسے اپنا مسیحا مان بیٹھی تھی کیا پتہ تھا اس کا یہی مسیحا اسکی عزت سے کھیل جانے والا تھا 

ایک ہی دن میں اس نے زیان کے حوالے سے کتنے خواب سجا لیے تھے کیا پتہ تھا وہ ایک پل میں اسکے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دے گا ۔۔۔۔۔

تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے ہی کردار کو مشکوک کر کی مجھی سے شادی رچانے کی "؟زیان نے اس کے گال پر زوردار تھپڑ مارا تھا ۔۔۔۔"

جنت کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں۔۔۔ 

"زیان نے پھر اسے  اسکے بالوں سے پکڑ کراٹھایا تھا۔۔۔اور ایک اور تھپڑ مارا تھا۔۔۔۔"

اس کا سر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر لگا ۔۔۔۔۔

۔اسکے سر سے خون بہنے لگ گیا تھا۔۔۔۔۔"

"میرے اندر کے حیوان  کو تم نے جگایا ہے جب تک یہ تمہیں برباد نہیں کر دے گا اسے چین نہیں آئے گا ۔۔۔۔"

"جنت نفی میں سر ہلا رہی تھی ۔۔۔۔

اس نے پوری کوشش کی خود کو اسکی مضبوط ترین آہنی گرفت سے آزاد کروانے کے لیے۔۔۔۔ اور جب کچھ پل بعد اسے خود پر اسکا  وزن محسوس ہوا تو اصل معنوں میں جان نکلنا کیا ہوتا ہے اسے آج پتہ چلا تھا ۔۔۔۔

"ایک ہی جھٹکے سے اس نے جنت کا عروسی لباس تن سے جدا کیا تھا ۔۔۔۔"

"اپنا آپ بیچنے  گئی تھی نا وہاں اب میں بتاؤں گا کہ جسم فروشوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ؟؟؟۔۔۔۔"

۔

"وہ تڑپ رہی تھی اپنا آپ چھڑوانے پر اپنی تذلیل پر ۔۔۔۔"

زیان خان  آج اسے سچ میں اپنی بیوی کی بجائے ایک رکھیل کی طرح استعمال کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔اسکی گردن اور جبڑوں پر بے رحمی سے لگے اس کے دانتوں کے نشان اس بات کا ثبوت تھے 

"جیسے جیسے رات گزرتی  جا رہی تھی۔۔۔درد اور ذلت سے اسکی آنکھیں بند ہوتی جا رہی تھیں"

"ہوش میں آؤ اور دیکھو اپنی آنکھوں سے اپنی بربادی "

۔

"جنت کی آنکھیں جیسے ہی اس کی درندگی برداشت کرتے ہوئے بند ہوئیں۔ اسے پھر سے سنسناتے ہوئے تھپڑ کا درد محسوس ہوا اپنے پہلے سے درد کے باعث جھنجھناتے ہوئے گال پر ۔۔۔۔"

"کچھ گھنٹے اپنی بیوی کی پاکیزہ روح کو پامال کر کہ اسکے بدن کی  تذلیل کرنے کے بعد وہ وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔۔"

"وہ اٹھ کے دروازے تک گیا تھا اور پیچھے مڑ کے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا  ۔۔۔۔۔کہ وہ جس کے وجود کو مردہ بنا کر جا رہا ہے وہ زندہ بھی ہے یا مرگئی ۔۔۔

"جنت کے ہاتھ شرٹ سے کھول کر وہ شرٹ پہن کر جا چکا تھا ۔۔۔۔ بیڈ شیٹ پر مہندی کا رنگ بکھر چکا تھا اور ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے کانچ جابجا بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔ گردن اور ہونٹوں کے کناروں پر بائٹس کی وجہ سے خون نکل رہا تھا۔۔۔۔

چہرے پر تھپڑوں کے نشان تھے جس کی وجہ  سے اس کے گال سوج گئے تھے۔

اور اسکی آنکھیں کتنی دیر تک چھلکتی ہوئیں تکیہ بھگوتی رہیں ۔۔۔۔کنپٹی سے نکلتا ہوا خون بھی سوکھنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔"

درد کو سہتے سہتے وہ آہستہ آہستہ دنیا و جہاں سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔۔

بیہوشی کی حالت میں بھی اس کے کئیے گئے مظالم ابھی تک جسم پر محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔۔

"تم ابھی تک سوئی نہیں ؟"

شیر زمان واپس آیا تو ہیر کو لاونج میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"میں ناراض ہوں "

اس نے خودی بتا دیا مگر منہ ہنوز پھولا ہوا تھا ۔

"پھر ناراضگی کیسے دور ہوگی ؟؟؟"شیر زمان نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔

"آئس کریم کھلائیں گے تو سوچوں گی "

"گلہ خراب ہو جائے گا ",

ہیر ناراضگی میں وہاں سے اٹھ کر روم میں آگئی ۔۔۔۔۔

شیر زمان اس کے پیچھے روم میں آیا وہ روم میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی ۔شیر زمان ٹراؤزر اور شرٹ لیے چینج کرنے چلا گیا واپس آیا تو باہر کچن میں گیا جہاں فریج تھا ۔اس نے فریج کے اوپری حصے میں نیچے والی سائیڈ پر آئس کیوبز والی ٹرے کے نیچے آئس کریم چھپا رکھی تھی ۔اسے پتہ تھا کہ ہیر کو آئس کریم بہت پسند ہے اور یہ اسے کبھی نا کبھی منانے کے کام ضرور آئے گی ۔وہ آئس کریم لیے اندر آیا اور ہیر کو آئس کریم پکڑائی ۔۔۔تو وہ خوش ہوگئی اور جلدی سے کھانے لگی ۔

",آپ کو ایک بات بتاؤں ؟؟؟

وہ اجازت طلب نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

"ہمممم"وہ آہستہ آواز میں بولا۔

"آپ کو پتہ ہے ؟؟؟میری سہیلیاں مجھ سے آپکی پسند پوچھتی تھیں کہ تمہارے کزن کو کیا پسند ہے کیا نا پسند ۔۔۔اب مجھے کیا پتہ تھا یہ کھڑوس غنڈہ میرے ہی پلے پڑ جائے گا "وہ سر پر ہاتھ مار کر لاپرواہی سے بولی ۔۔۔

اور جب نظریں بستر پر موجود شیر زمان پر پڑیں ۔جسکے ہاتھ میں گن تھی ۔۔۔فورا سے بیشتر نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دبایا ۔۔۔۔جیسے اس سے بہت بڑی خطا سرزد ہوگئی ہو ۔۔۔

پھر دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے ۔۔۔۔جیسے کبوتر بچنے کے لیے آنکھیں میچ لیتا ہے ۔۔۔۔

"ادھر آو"۔ وہ گھمبیر لہجے میں بولا تو اس کی آواز کا سرد پن محسوس کیے وہ جی جان سے لرز اٹھی۔۔۔

 جھکا سر مزید جھک گیا۔۔۔وہ پژمردگی سے چلتی ہوئی ہوئی اس کے پاس آئی ۔۔۔۔چال میں لڑکھڑاہٹ نمایاں تھی ۔۔۔

شیر زمان نے اس پر تفصیلی نگاہ دوڑائی ۔۔۔جس کا اتنی سی دیر میں مرمریں نازک بدن پسینے سے شرابور ہو کر تھر تھر کانپنے لگا تھا۔وہ ڈوبتے دل کے ساتھ قدم اٹھا رہی تھی ۔۔یاقوتی لب باہم پیوست کیے گئے تھے۔۔۔کہیں پھر سے منہ سے کچھ غلط نکل جانے کا خدشہ ہو ۔گھنی پلکوں کی چلمن کا رقص دلکش لگ رہا تھا ۔۔۔۔

"میری طرف دیکھو "

اس کی ٹھٹھرا دینے والی آواز سن کر ہیر کی سانس بند ہوئی ۔۔۔۔مگر نظروں کی اتنی مجال نہ تھی کہ اس کے حکم کی تعمیل کرتیں۔

شیر زمان نے اپنے ہاتھ میں موجود گن کو اسکی پیشانی سے لگاتے ہوئے ناک تک لایا ۔۔۔

پھر پھڑپھڑاتے ہونٹوں پر ۔۔۔۔

ہیر کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

  "دیکھو " اس کی غراہٹ سن کر وہ پہلے تو خوف سے منجمد ہوئی پھر  اپنے رہے سہے حواس بھی کھو گئی ۔۔۔۔اور ڈر سے کانپ کر لہراتے ہوئے قریبی بستر پر گری ۔۔۔جہاں کچھ دیر پہلے شیر زمان بیٹھا گن کو آئل لگا رہا تھا ۔۔۔

وہ جانتا تھا کہ ہیر اس سے ڈرتی ہے مگر اس حد تک ؟؟؟

اس بات کا اندازہ اسے پہلی بار ہوا تھا ۔۔۔۔

اس نے ہیر کی طرف دیکھا جو بے دم سی گری تھی ۔۔۔

"سانس لو ہیر !!!!

"سانس لو !!!!!

اس کی دھاڑ سے کمرے کے در و دیوار بھی تھّرا اُٹھے۔۔۔۔۔۔

اس کے سینے کے نزدیک اپنا کان کیے وہ اس کی دھڑکن سننے لگا ۔۔۔۔جو نہایت دھیمی رفتار سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔

شیر نے ایک گہری سانس کھینچ کر خود کو نارمل کیا۔۔۔۔

"دل تو چاہتا ہے ایک ہی بار میں اپنا سارا جنون تم میں انڈیل دوں "وہ جنونیت آمیز انداز میں اسکے نو خیز وجود کو نگاہوں میں بھر کر بولا ۔۔۔۔

"مگر !!!!

اس نے گن کو زور سے دیوار پر دے مارا ۔۔۔۔

اور اسے اٹھا کر ٹھیک طریقے سے بستر پر ڈالا ۔۔۔

اسکی ہتھیلیاں اور پاؤں کی تلیاں مسلنے لگا ۔۔۔۔جو ٹھنڈی پڑ چکیں تھیں۔۔۔۔

کچھ دیر بعد شیر زمان نے اس کی رنگت میں فرق دیکھا جو اب نارمل ہوگیا تو اس کی سانس میں سانس آیا۔

"تم ٹھیک ہو ؟؟؟اس نے ہیر کی آنکھیں کھلیں دیکھیں تو پوچھا۔

ہیر نے بنا جواب دئیے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بالوں پر رکھا اور پھر سے آنکھیں موند لیں ۔۔۔

شیر زمان ہلکا سے مسکرایا اور اس کی بات سمجھ میں آتے ہی اسکے بالوں کو اپنی پوروں سے سہلانے لگا۔۔شیر زمان کے کلون کی مہک اسکے قریب  پھیلی تو کچھ دیر میں ہی وہ نیند کی وادیوں میں  اتر گئی ۔۔۔۔

شیر زمان بھی آج کام کی بجائے ریسٹ کرنا چاہتا تھا اسی لیے تکیہ درست کیے اپنی جگہ پر لیٹ گیا ۔۔۔ہیر کا معصوم چہرہ اپنی آنکھوں میں بسائے ہوئے جانے کب سو گیا اسے خود بھی پتہ نہیں چلا۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"حسام بیٹا واپسی کب ہوگی ؟؟؟

"مام امریکہ کی فلائٹ ہے کچھ کہہ نہیں سکتا ایک یا دو دن بعد واپسی ہو "

حسام جانے کیوں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ؟؟؟

"میں نے پہلے تمہیں کبھی نہیں روکا مگر اس بار جانے کیوں دل نہیں مان رہا کہ تم جاؤ "یمنی نے رندھے لہجے میں کہا۔

"مام پریشان مت ہوں۔پہلے بھی تو جاتا ہوں ۔

"پہلے کی بات اور تھی ۔حسام ۔۔۔

"ابتسام اور ہیر کا کچھ پتہ نہیں اور اب تم بھی چلے جاؤ گے تو میں اکیلی رہ جاؤں گی نا  "

"مام یہ زائشہ ہے نا آپ کے پاس آپ کا خیال رکھے گی ۔یہ بھی تو آپکی بیٹی ہے ۔میں جلد ہی آ جاؤں گا",

اس نے زائشہ کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔

"جی مما یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں میں ہوں نا آپکے پاس "

"ہاں بیٹا تم بھی میری بیٹی ہو مگر جانے کیوں دل گھبرا رہا ہے۔

"مما پلیز پریشان مت ہوں اللّٰہ تعالیٰ سب بہتر کریں گے "اس نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔

"اچھا جاؤ بیٹا حسام روم میں گیا ہے تیار ہونے دیکھو اسے کسی چیز کی ضرورت نا ہو "انہوں نے زائشہ کو کمرے میں بھیجا ۔۔۔۔

زائشہ کمرے میں آئی تو حسام یونیفارم پہنے تیار ہوچکا تھا سر پر کیپ پہن رہا تھا ۔۔۔۔

زائشہ نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی جو معمول سے زیادہ سرخ لگا ۔۔۔۔

یمنی کی باتیں سن کر زائشہ بھی اندر ہی اندر گھبرا چکی تھی ۔۔۔۔

وہ ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی اسکے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔جو یونیفارم میں ملبوس بہت وجیہہ لگ رہا تھا ۔۔۔۔

وہ اس کو والٹ پکڑانے اسکی طرف آ رہی تھی کہ صوفے کے کارنر سے ٹکرا کر گرنے ہی لگی تھی کہ حسام نے اسے بازو سے پکڑ کر سہارا دیا ورنہ ابھی تک وہ گر چکی ہوتی ۔

"دھیان سے "وہ نرمی سے بولا۔

"جو محبت انسان کو تھکا دے درد دے.... اسے چھوڑ دینا چاہیے "وہ افسردہ سی مسکراہٹ لائے سیدھے کھڑے ہوتے ہوئے بولی ۔

"محبت کبھی بھی نہیں تھکاتی بلکہ ،جسے چاہا جائے اس کی بے حسی اور بے رخی تھکا دیتی ہے ،

"کیا میں اس بار مل کر جانے کا حق رکھتا ہوں ؟؟؟

جانے کیسے وہ زائشہ کے دل کی بات جان چکا تھا ۔۔۔۔

گلے لگا کہ مجھے پوچھ مسلہ کیاہے ؟

میں ڈر رہا ہوں تجھے حال دل سنانے سے 

انا کا پرچم بلند کرنے کی بجائے اسے کچل کر حسام نے پہل کی ۔۔۔۔

زائشہ اپنی حالت پر خود حیران تھی ۔۔۔۔آج کل کیوں حسام کو دیکھ کر اس کے دل میں میٹھے میٹھے جذبات پنپنے لگے تھے ۔"کیا یہ پیار کا جذبہ تھا؟؟؟ جونکاح جیسے پاکیزہ بندھن بندھ جانے سے اس کے دل میں پیدا ہوا تھا .؟

تو وہ کیا تھا جو ابتسام کے ساتھ تھا ؟؟؟؟

"کیا وہ اس کے ساتھ جڑے رشتے کو لے کر وقتی اٹریکشن تھی ۔؟؟؟؟وہ انہیں سوچوں میں غرق تھی ۔

جانے کیوں زائشہ کا دل بھی ہمک ہمک کر اس سے ملنے کو مچل رہا تھا ۔مگر وہ اسے بار بار ڈپٹ کر چپ کروا رہی تھی ۔۔۔۔

وہ اس کے سوال پر ہمہ تن گوش ہوئی ۔۔۔۔اور انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔۔۔ 

حسام نے اس کے پاس آکر اسے خود میں زور سے بھینچا ۔۔۔

زائشہ کو اس کے سینے سے حرارت محسوس ہورہی تھی ۔اسکاایک ہاتھ زائشہ کی کمر کےگردبندھاہواتھا۔اور دوسرا ہاتھ اپنی گردن پررکھا ہوا لگا ۔۔۔

زائشہ نے اس کا گرم ہاتھ ہٹانا چاہا۔۔۔ 

شکایتیں ساری جوڑ جوڑ کر رکھی تھیں میں نے 

گلے لگا کر اس نے اپنے سارا حساب بگاڑ دیا ۔ وہ فسوں خیزی سے بولا۔۔۔

زائشہ نے اس سے الگ ہوتے ہی  فوراًاپناہاتھ اسکےپیشانی پررکھا۔ہاتھ اس کی پیشانی پررکھا ہی تھا کہ اسے اگلے لمحے اپنا ہاتھ بےساختہ واپس  کھینچنا پڑا تھا۔کیونکہ حسام کی پیشانی ایسےتپ رہی تھی جیسےگرم کوئلہ ۔اس کا تیز بخار دیکھ کر زائشہ کو اپنی سانسیں رکتی معلوم ہورہی تھی۔

"آپ کو تو بخار ہے .آپ کو آرام کی ضرورت ہے "وہ تشویش بھرے انداز میں بولی۔

"جانا ضروری ہے ۔حسام نے اپنی انگلی سے اس کے چہرے پر آئی بالوں کی لٹ کان کے پیچھے اڑسی ۔۔۔۔

"میں دوائی لے لوں گا ",تم اپنا خیال رکھنا ۔وہ کہتے ہی جانا لگا کہ زائشہ نے اس کا پر حدت ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسے جانے سے روکا ۔۔۔۔

جانے کس احساس کے تحت وہ ایڑیوں کے بل تھوڑا سا اوپر اٹھی اور حسام کی جلتی ہوئی پیشانی پر اپنے لب رکھ گئی۔۔۔۔

حسام تو خوشی سے جھوم اٹھا۔۔۔۔۔اس پیش رفت کی امید کہاں تھی اسے زائشہ سے ۔۔۔۔

حسام نے اپنی پوروں سے 

اسکا چہرہ اوپر اٹھایا۔۔ بند آنکھیں ان پہ سایہ فگن پلکیں، سرخی مائل دہکتے ہوئے رخسار، اونچی کھڑی ناک، اس میں چمکتی لونگ  اسکی نگاہ اسکے اسکے کپکپاتے ہلکے گلابی ہونٹوں تک گئی ، اسکا حسن کسی کا بھی ایمان ڈگمگا سکتا تھا وہ تو ویسے بھی اسکی محبت تھی کیسے خود پر ضبط کے پہرے لگاتا ۔۔ وہ خود پہ ضبط کھوچکا تھا اسے اپنے قریب دیکھ کر ۔۔۔اس کی پیش رفت اسکے حوصلے کا باعث بنی وہ  اسکے ہونٹوں کو فوکس کرتا اس پہ جھکا۔۔۔

وہ جو آنکھیں موندھے اسکی شدتوں سے بھری نظروں سے بچ رہی تھی اپنے ہونٹوں پہ اسکی گرم سانسیں محسوس کر کے آنکھیں کھولنے کی کوشش میں تھی اس کے اگلے عمل سے واپس آنکھیں میچ گئی۔۔۔۔

اس نے تو تھوڑی سی توجہ دی تھی اُسے ۔۔۔۔اسکی بیماری کو مد نظر رکھتے ہوئے مگر اسکے شوہر نامدار تو پورے کے پورے پھیل چکے تھے اور اپنی من مانیاں کر رہے تھے ۔۔۔۔

زائشہ نے اس کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے حسام کے شرٹ کے کالر کو اپنی مٹھیوں میں دبوچا ۔۔۔۔

"تم نے بہت غلط وقت پر اپنی رضامندی ظاہر کی ۔کاش میں رک سکتا ۔۔۔کاش یہ وقت یہیں رک سکتا ۔۔۔۔!!!وہ اسے چھوڑے ٹھنڈی آہ بھر کر بولا ۔۔۔۔

"میرا انتظار کرنا زائشہ واپس آکر ابھی تمہیں اپنے بیتے سالوں کی شدتیں بھی سنانی ہیں "

وہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔

جبکہ زائشہ کو اپنے سانس بحال کرنے میں کچھ وقت لگا ۔۔۔۔

جب خود کی نظر سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر پڑی تو اپنے لبوں کو چھو کر  وہ شرما سی گئی ۔۔۔۔

مگر کون جانے خوشیوں کی عمر کتنی لمبی ہوتی ہے ۔؟؟؟

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"حسام !!!

جنت بیٹا تیار ہوگئے ہو ؟؟؟

بریرہ نے انکے دروازے کے باہر ناک کرتے ہوئے آواز لگائی .

مگر کوئی جواب نا ملنے پر انہوں نے دروازے کو ہلکے سے دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا ۔۔۔

بریرہ نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ کمرے کی حالت دیکھ کر حیران ہوئیں مگر جب نظر سامنے جنت کے ُلٹے ہوئے نیم مردہ برہنہ وجود پر پڑیں تو گویا ساتوں آسمان قیامت کی طرح اس کے سر پر ٹوٹ پڑے ہوں ۔۔۔

وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئی اور اپنا دوپٹہ اس کے بدن پر پھیلا دیا ۔۔۔۔

آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اس کے زخمی وجود کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔اس نے اپنی برستی ہوئی آنکھوں کو پونچھا اور خود کو یقین دلایا ۔۔۔یہ سب ایک برا خواب ہے میرا سچ نہیں ۔۔۔۔

مگر جب اس نے جنت کے سوجے ہوئے چہرے پر ہاتھ رکھا جو ٹھنڈا پڑ چکا تھا ۔تو اسے یقین ہوا کہ یہ سب واقعی میں ہو چکا ہے ۔۔۔

بریرہ اسکی حالت برداشت نہیں کر سکی اور باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔۔

زریار جو بریرہ کو ڈھونڈھتا ہوا ادھر ہی آ رہا تھا ۔زیان کے کمرے سے نکلتی ہوئی بریرہ سے ٹکرایا ۔۔۔۔

"کیا ہوا بریرہ ؟؟؟وہ روتی ہوئی دوپٹے کے بغیر بریرہ کو دیکھ کر پریشان انداز میں پوچھنے لگا ۔۔۔۔

آج بریرہ ایک بار پھر سے ٹوٹ گئی تھی جنت کی حالت کو دیکھ کر خود کو اسی جگہ پر محسوس کر رہی تھی ۔۔۔جب سالوں پہلے اس کے ساتھ یہ حادثہ ہوا تھا ۔۔۔۔

ہمیشہ لڑکیاں ہی کیوں مردوں کی مردانیت کی بھینٹ چڑھتی آئیں ہیں ؟؟؟کیوں ؟آخر کیوں ؟؟؟

"زریار میں نے سوچا تھا شاید اس میں میرے خون کی ملاوٹ ہے وہ انسان ہوگا ۔۔۔۔

مگر نہیں میں غلط تھی ۔۔۔۔ وہ تمہارا خون ہے ۔۔۔۔

"تمہارا گندا خون !!!! جس نے مجھ جیسی ایک پاکیزہ لڑکی کو روند دیا ۔۔۔۔

"تمہارا گندا خون !!!!ان الفاظ کی بازگشت جب زریار کو اپنے کانوں میں سنائی دی تو زریار جو ہمیشہ پرسکون رہتا ۔۔۔۔آج اپنے اندر اٹھتے ابال کو روک نہیں پایا ۔۔۔۔

اور بریرہ کے ادا کردہ الفاظ پر اس کا ہاتھ اٹھا اور بریرہ کے گال پر چھاپ چھوڑ گیا ۔۔۔۔

وہ حیرت سے بت بنی اپنے سائیں سائیں کرتے گال پر ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی ۔۔۔۔

اتنی عمر کی ریاضت کا یہ صلہ تھا کہ جب چاہے مرد عورت کو دو کوڑی کا بنا دیتا ہے ۔۔۔۔۔

"برباد کردی تمہارے بیٹے نے آج ایک معصوم کی زندگی ۔۔۔۔۔

وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے پچھلی دیوار کے ساتھ لگی ۔۔۔۔

اور ضبط کھوتے ہوئے گھسٹتی ہوئی نیچے فرش پر گرنے کے انداز میں بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔

زریار اس کی بات کا مطلب سمجھ میں آتے سر اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہا ۔۔۔۔

زرشال اور منت جو صبح جلدی اٹھ کر کچن میں گھسی ہوئیں تھیں کہ آج جنت اور زیان کی پسند کا ناشتہ تیار کریں گے پھر انہیں سرپرائز دیں گے ۔۔۔بریرہ کی رونے کی آواز سن کر اس طرف آئیں ۔۔۔

زیان اور جنت کے کمرے کے باہر بیٹھی ہوئی بریرہ گھٹنوں میں منہ دئیے زار و قطار رو رہی تھی زریار گم سا سا کھڑا تھا ۔۔۔

زرشال اور منت کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تو وہ دروازہ کھول کر اندر گئی ۔۔۔۔

مگر جب جنت کو دیکھا تو اس کا سانس رک گیا ۔۔۔۔۔

منت تیزی سے اس کی طرف آئی اور اس کا زخمی چہرہ تھام کر رونے لگی ۔۔۔۔

منت اس کے کپڑے لاؤ """زرشال کی رندھی ہوئی آواز سے منت نے فورا کانپتی ہوئی ٹانگوں سے کبرڈ کا رخ کیا ۔۔۔ابھی کل ہی تو وہ اس کے کچھ کپڑے زیان کی کبرڈ میں سیٹ کر کہ گئی تھی ۔۔۔۔

"لاؤ مجھے دو تم جلدی جا کر ضامن کو بلاؤ "

زرشال روتے ہوئے جنت کے بے ہوش تن کو کپڑوں سے ڈھکنے لگی ۔۔۔

"ضامن اسے ہسپتال کے چلو "

زرشال نے ضامن کو کمرے میں آتے دیکھ کر کہا ۔

ضامن کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی حالت میں نا رہا ۔۔۔وہ اپنی بہن کو فورا بازوؤں میں اٹھا کر باہر نکلا ۔۔۔

بریرہ اور زریار بھی اس کے پیچھے باہر نکلے ۔۔۔۔۔

منت نے زمارے کو بھی بتایا کہ ضامن اور زرشال اسے ہسپتال لے کر جا رہے ہیں تو زمارے بھی پریشانی سے ان کے پیچھے باہر نکل گیا ۔۔۔کہ وہیں جا کر معاملہ جان لے گا کہ ہوا کیا ہے .....

منت جو ان لوگوں کے ہسپتال چلے جانے کے بعد روتے ہوئے باہر لان میں ہی کھڑی تھی ۔۔۔

باہر دروازے سے اندر آتے ہوئے زیان کو دیکھ کر اس کی طرف لپکی ۔۔۔۔۔

"آپ انسان ہیں یا جانور ؟؟؟؟

وہ اس کا کالر دبوچ کر غرائی ۔

"تمیز سے بات کرو "وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر بولا ۔

"آپ جیسا انسان تمیز کی بات کرے کچھ سمجھ نہیں آتا ۔۔۔۔

"کیوں کیا آپ نے ایسا ؟؟؟؟

"کیوں ؟؟؟؟

"کیا غلطی تھی میری بہن کی ؟؟؟کیوں اتنی بڑی سزا دی آپ نے اسے ؟؟؟؟

"ارے اصل قصور وار تو میں تھی ۔۔۔۔سزا دینی تھی تو مجھے دیتے ۔۔۔۔۔وہ تو میرے کیے کی سزا پہلے ہی بھگت کر آئی تھی ۔۔۔۔آپ کو اپنا مسیحا مان بیٹھی تھی اور آپ نے ہی اسے ......کتنی خوش تھی وہ آپ سے شادی ہونے کا سن کر ۔۔۔۔

زیان نا سمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

"زیان بھائی مجھے وہ غلط لڑکا تنگ کرتا تھا ۔اس سے میرے لیے لڑنے گئی تھی جنت ۔اس سے میری تصویریں واپس لینے گئی تھی ۔وہ بیچاری تو بے قصور تھی ۔اس سارے واقعے میں اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔۔مجھے بچانے کے لیے اسے کتنی بڑی قربانی دینی پڑی ۔۔۔۔کہ آج وہ میری وجہ سے اپنی عزت بھی ۔۔۔۔۔منت کہہ کر ِچلّاتے ہوئے  اونچی آواز میں رونے لگی ۔۔۔۔جبکہ سچائی سن کر زیان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔۔۔۔

وہ اپنے غصے میں کیا کر گیا تھا ۔۔۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال جکڑے ۔۔۔۔

اب پچھتاوے کیا ہووے جب چڑیا چُگ گئیں کھیت !!!

اپنے دونوں ہاتھوں کو دیکھا جن کی ہتھیلیوں پر رات کو جنت کی گیلی مہندی لگی تھی تو اس نے انہیں رگڑ ڈالا تھا مگر پھر اس کی ہتھیلیوں پر جنت کی مہندی رنگ چھوڑ چکی تھی ۔۔۔۔اسے اپنے مہندی سے رنگے سرخ ہاتھ ایسے لگ رہے تھے کہ جیسے اس کے ہاتھ جنت کے سرخ خون سے رنگے ہوں ۔۔۔۔۔

وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گرا ۔۔۔۔۔

"مجھے معاف کر دو جنت !!!!

وہ اونچی آواز میں چیخا ۔۔۔۔کہ در و دیوار بھی کانپ اٹھے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"دیکھیں یہ پولیس کیس ہے پہلے پولیس کو اطلاع کریں ہم پھر ہی اپنا پروسیجر شروع کریں گے ۔لیڈی ڈاکٹر نے اپنے ماہرانہ  پیشہ ورانہ انداز میں کہا۔

""یہ میری بیٹی ہے "۔وہ سر جھکائے بولا ۔۔۔۔۔۔

زمارے جو وہاں پہنچ کر اپنی جان سے پیاری بیٹی کی حالت دیکھ کر ٹوٹ چکا تھا ۔اپنی جونئیر لیڈی ڈاکٹر کو دیکھ کر بولا ۔۔۔۔

لیڈی ڈاکٹر تو  ڈاکٹر زمارے کو دیکھ کر حیران ہوئیں پھر کوئی بھی مزید سوال کیے بنا ہسپتال کے عملے کو جنت کو اپنے ساتھ اندر لے جانے کا بول چکی تھیں۔

وہ سب وہیں پریشان کھڑے تھے ۔۔۔۔

"زرشال!!!! بریرہ روتی ہوئی زرشال کے پاس آئی تاکہ اسے حوصلہ دے سکے ۔۔۔۔

"بس آپی وہیں رک جائیں !!!!

زرشال نے اسے اپنے قریب آنے سے روکا ۔۔۔۔۔

"بے شک ہمارا رشتہ ہوگا ۔۔۔مگر میرا کوئی رشتہ مجھے میری اولاد سے زیادہ قریب نہیں "

وہ سرد مہری سے کہتے ہوئے بریرہ کو اپنی جگہ پہ رکنے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔

بریرہ نے کاٹ دار نگاہوں سے زریار کو دیکھا ۔۔۔۔۔

جو بے بس نظروں سے زمارے کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

مگر زریار میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ زمارے کو سہارا دے پاتا ۔۔۔جاتا بھی تو کس منہ سے اس کے پاس جاتا ۔۔یہ سب بگاڑنے والا ۔۔۔اس کے بھائی کی بیٹی کو اجاڑنے والا بھی تو اس کا بیٹا ہی تھا ۔۔۔۔ 

"خبردار وہیں رک جاؤ ایک بھی قدم آگے بڑھایا تو کمینے میں تیرا منہ توڑ دوں گا "!!!!

زیان کو کوریڈور سے اندر داخل ہوتے دیکھ ضامن دھاڑا ۔۔۔۔

"مجھے۔۔ اپنی بیوی سے ملنا ہے "وہ اپنے ہوش میں کہاں تھا سب سچ جان کر بری طرح بکھر چکا تھا ۔۔۔اپنے کئیے پر پشیمان تھا ۔۔۔۔جنت کی آہ و بکا اس کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ اسے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔گھن آئے گی تمہیں اپنے وجود سے ۔۔۔۔۔مگر آج اسے خود اپنے ادا کیے ہوئے الفاظ اپنے آپ پر پڑتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔اسے خود اپنے وجود سے گھن آ رہی تھی ۔۔۔کیسے کچل گیا تھا وہ اس ان چھوئے مومی مجسمے کو ۔۔۔۔۔۔دل تو چاہ رہا تھا دھاڑیں مار مار کر روئے ۔۔۔زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے شرمندگی سے کیسا انہونا ۔۔۔گناہ کا کام کر چکا تھا وہ۔۔۔۔

وہ ضامن کی بات سنے بنا اندر آ رہا تھا کہ ضامن نے ایک زور دار پنچ اس کے منہ پر مارا ۔۔۔ 

زیان کے ناک سے خون بہنے لگا ۔۔۔۔۔

مگر وہ پھر بھی نہ رکا ۔۔۔وہ کسی بھی طرح ایک بار جنت کو دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

ضامن نے اس کے پیٹ میں مکا مارا مگر اسے پرواہ نہ تھی ۔۔۔وہ ایک بار اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا ۔۔۔وہ مار کھانے کے باوجود اندر کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔

زریار اور بریرہ خاموش کھڑے اپنے بیٹے کو ضامن سے مار کھاتے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔

 زمارے بھی اپنی جگہ خاموش تماشائی بن کر کھڑا رہا جیسے اسے زیان سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ جئیے یا مرے ۔۔۔۔۔

زیان کو ضامن کی مار بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔۔

یہ مار تو بہت کم تھی اس گناہ کی جو اس نے کیا تھا ۔۔۔۔

زیان نیچے فرش پر گرا اس کی لاتوں اور گھونسوں کی تاب نا لاتے ہوئے۔۔۔اگر وہ ہوش میں ہوتا تو ضامن کا مقابلہ ضرور کرتا مگر اس وقت تو وہ اپنی ہستی کو مٹتا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔اپنے گناہوں کے بوجھ تلے ۔۔۔۔۔

"چھوڑ دو اسے "

"مار دو گے کیا ؟؟؟

"مت بھولو تمہاری بہن کا شوہر ہے "بالآخر زرشال نے آگے بڑھ کر ضامن کو روکا ۔۔۔۔جس کا غصہ کسی بھی طور کم ہونے کو نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔اس کا بس چل رہا تھا کہ اس کی بہن کی ایسی حالت کرنے والے کو ذندہ زمین میں گاڑھ دے ۔۔۔۔"

"ایسا شوہر ہونے سے بہتر ہے میری بہن بیوہ ہو جائے "

ضامن پھر سے زیان کے پیٹ میں لات مارتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"چلو یہاں سے "وہ اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ دوسری طرف لے گئیں ۔۔۔۔۔

زیان نے اپنی بند ہوتیں آنکھوں کو کھول کر اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔۔۔بریرہ بے رخی سے منہ دوسری طرف موڑ گئیں ۔۔۔۔

"زیان دل تو چاہتا ہے ابھی تمہیں موت کے گھاٹ اتار دوں ۔۔۔۔ایسی گندی اولاد ہونے سے بہتر ہے ۔کہ اولاد ہو ہی نہیں ۔۔۔اپنا یہ منحوس چہرہ مجھے پھر کبھی زندگی میں بھی مت دکھانا ۔۔۔۔اس گھر میں اور ہماری زندگی میں اب تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں "زریار نے اسے فیصلہ سنایا ۔۔۔

یہ آخری بات تھی جو زیان نے سنی ۔۔۔۔۔

وہاں موجود وارڈ بوائے نے زیان کو سہارا دے کر اٹھایا اور ایک طرف لے گیا ۔۔۔۔

دو سال بعد !!!!!

"کائیں ....کائیں ....

"کوے کے بولنے کی آواز مسلسل صبح سے کانوں میں سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔

شہریار ہاؤس میں رات کے اندھیرے سورج کی روشنی کےباعث چھٹ چکے تھے ۔۔۔ سورج کی چمکتی ہوئی کرنیں شہریار ہاوس کے بڑے سےلان کے باغیچے میں لگے قطار در قطار مختلف قسم کے پودوں کو اور پھولوں کو چھو رہی تھی ۔ صبح صبح  سبز پتوں پر پڑی شبنم تازگی کا اور ٹھنڈک کا احساس دلا رہی تھی۔

زائشہ اپنے پسندیدہ پھولوں کی کیاری کے پاس بیٹھی تھی ۔۔۔۔ان پھولوں کو صبح کی دھیمی دھیمی چلتی ہوا سے لہراتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔۔

دو سال بیت چکے تھے ۔اب کوئی بھی اسے کے تکیے کے پاس روز اسکے من پسند پھول نہیں رکھ کر نہیں جگاتا تھا ۔۔وہ خود ہی چل کر روزانہ ان پھولوں کے پاس آبیٹھتی ۔۔۔

"کائیں ...کائیں ۔۔۔

پھر سے اسی کوے کی آواز کانوں میں سنائی دی تو اس نے نظریں اٹھا کر چھت پر دیکھا وہ اوپری منزل پر بیٹھا تھا ۔صبح سے وہ اپنی کائیں کائیں سے اس کا دماغ کھا چکا تھا ۔۔۔۔

اس نے جھنجھلا کر اسے دیکھا۔

"جب کوا چھت پر بار بار بولے تو اس کا مطلب ہے کہ آج کوئی گھر میں آنے والا ہے ۔اسے اپنی مما کی بات یاد آئی ۔۔۔

اس نے زخمی مسکراہٹ سے اس کوے کو دیکھا ۔۔۔یہ کس کے آنے کی خبر دے رہا ہے ؟؟؟

"میں اسے بھگا دوں گی "وہ سوچتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی اور اندر جاتے ہوئے سیڑھیوں کے راستے چھت پر آئی تاکہ اس کوے کو بھگا سکے ۔۔۔۔

اسے جس کے آنے کا انتظار تھا شاید ہی وہ لوٹ آتا ۔۔۔۔۔شاید نہ آتا ۔۔۔۔

دنیا تو یہ مان چکی تھی کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔مگر اس کا دل کسی طور یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ اس کا حسام اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔۔۔۔۔

اسے آج بھی وہ دن یاد تھا ۔جب حسام کے جانے کے بعد ابھی کچھ گھنٹے ہی گزرے تھے کے ٹی۔وی پر نیوز آئی تھی کہ پی آئی اے کا جہاز نمبر ۔۔۔۔ ایک خطرناک ترین حادثے کا شکار ہوئے گر کے تباہ ہو چکا ہے اس جہاز میں موجود کوئی بھی ذی روح نہیں بچا ۔۔۔۔۔

شہریار اور یمنی جو پہلے ہی دو بچوں کی گمشدگی کی بات سے پریشان تھے ۔حسام کی موت کی خبر سن کر تو گویا قریب المرگ تھے ۔۔۔۔۔

ایسے کڑے وقت میں زائشہ نے انہیں سنبھالا ۔۔۔۔اور اپنی پریشانی اور غم کو بھلائے  بیٹی ہونے کا پورا فرض ادا کیا ۔۔۔

گھر کے سامنے ایک کیب آ کر رکی ۔۔۔اس میں سے چمکتے ہوئے جوتوں والے پاؤں باہر آئے اور پھر سیاہ پینٹ دکھائی دی ۔۔۔اس کی پشت تھی گھر کی طرف ۔۔۔۔۔

زائشہ نے اسے دیکھا تو کوے کو وہیں چھوڑ نیچے کی طرف بھاگی ۔۔۔۔۔

"مما !!!  

"پاپا !!!  

"میں نے کہاں تھا نا کہ حسام واپس آئیں گے "

"مما جلدی آئیں دیکھیں حسام واپس آگئے ۔۔۔۔

"میرے حسام واپس آگئے """

وہ پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے تیز آواز میں بولی ۔۔۔۔۔

شہریار اور یمنی جو اپنے کمرے میں تھے زائشہ کی پر جوش آواز سن کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔

"یہ زائشہ کیا کہہ رہی ہے ؟؟؟شہریار نے یمنی سے پوچھا ۔

"اللّٰہ پاک اسکی زبان مبارک کرے "

"کاش وہ جو کہہ رہی ہے وہ سچ ہو "

یمنی نے خوشی سے لبریز انداز میں کہا۔۔۔۔

"آئیں باہر چل کر دیکھتے ہیں ۔"کہتے ہوئے وہ دونوں ایک ساتھ باہر نکلے ۔۔۔۔

"آپ ؟؟؟؟"

زائشہ نے حیرانگی سے استفسار کیا۔۔۔۔

آنکھیں تو کسی اور کو دیکھنے کی متمنی تھیں ۔۔۔۔۔

"زائشہ تم یہاں ؟؟؟"

"کاش میں کچھ اور بھی مانگ لیتا تو آج وہ بھی مل جاتا !!!

"میں نے دل سے دعا کی تھی کہ واپس آنے پر میرا سب سے پہلے سامنا تم سے ہو ۔۔۔اور دیکھو میری خواہش پوری ہوگئی۔۔۔۔تم میرے سامنے ہو ۔۔۔

زائشہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

"بہت شکریہ زائشہ میرا انتظار کرنے کا خود کو میرے لیے سنبھال کر رکھنے کا "

"تم نہیں جانتی تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے یہاں آکر "وہ خوشی سے لبریز لہجے میں بولا۔

"بہت خوش فہمی ہے تمہیں کہ میں اس انسان کے انتظار میں بیٹھی رہوں گی جو ساری دنیا کے سامنے میرا تماشا بنا کر چلا گیا ۔۔۔واہ !!!!

سات توپوں کی سلامی پیش کرنی چاہیے تمہاری سوچ کو... تو "

"زائشہ !!! میری بات تو سنو ۔۔۔وہ زائشہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بولا ۔۔۔

"ابتسام  !!!!

دروازے کے بیچ و بیچ ایستادہ کھڑا حسام اونچی آواز میں دھاڑا ۔۔۔۔

یہ اونچی آواز تو کبھی اس کی شخصیت کی خاصیت نہ تھی ۔وہ تو نرم اور دھیما لہجہ روا رکھتا تھا ہمیشہ ۔۔۔۔

مگر آج بات اس کی بیوی کی تھی ۔۔۔۔جس کا ہاتھ اپنے بھائی کے ہاتھوں میں دیکھ وہ غصے سے لال انگارہ ہوا ۔۔۔۔

زائشہ نے اسے دو سالوں بعد اپنے سامنے دیکھا تو اپنی آنکھوں پر یقین کرنا نا ممکن لگا ۔۔۔۔

آنکھیں جھر ۔۔جھر۔۔۔ جھرنے کی مانند برسنے لگیں ۔۔۔۔

حسام لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اس کے پاس آیا اور ابتسام کے ہاتھوں سے زائشہ کے ہاتھ آزاد کروائے ۔۔۔۔۔

زائشہ حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

"جس کا دوسالوں سے انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھکنے لگیں تھیں وہ آج اس کے سامنے تھا ۔۔۔۔

شہریار اور یمنی جو سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آ رہے تھے لاونج میں حسام اور ابتسام دونوں کو ایک ساتھ دیکھ حیرت زدہ رہ گئے۔۔۔۔

"بابا !!!! ابتسام کہتے ہوئے شہریار کی طرف بڑھا ۔۔۔

"وہیں رک جاؤ !!!!

شہریار کی بھاری رعب دار آواز گونجی۔۔۔۔

تو ابتسام کے بڑھتے ہوئے قدم وہیں تھم گئے ۔۔۔۔

"اس گھر کے دروازے اسی روز تمہارے لیے بند ہوگئے تھے جب تم دنیا کے سامنے ہماری عزت کا تماشا بنا کر گئے تھے ۔۔۔۔

"بابا پلیز مجھے اپنی صفائی پیش کرنے کا ۔۔۔ایک موقع تو دیں "

وہ اپنی صفائی میں بولا ۔۔۔

"جس طرح زریار اور بریرہ نے اپنی اولاد کو صفائی کا ایک بھی موقع نہیں دیا اور اس پر اپنا فیصلہ مسلط کیا اور بعد میں نقصان اٹھایا ۔۔۔میں ان کی غلطی نہیں دہراؤں گا ۔۔۔میں تمہیں ایک موقع دوں گا اپنی صفائی پیش کرنے کی ۔۔۔

"چلو زائشہ "حسام اس کی کلائی پکڑ کر اندر کی طرف بڑھنے لگا تو ابتسام جو شہریار سے بات کر رہا تھا ۔۔۔

حسام کو زائشہ کی کلائی پکڑتے دیکھا تو اس کی طرف آیا ۔۔۔۔

"چھوڑو زائشہ کا ہاتھ حسام !!!

"اپنی بیوی کو چھوڑنے کی صفت آپ میں ہوگی مجھ میں نہیں "وہ کاٹ دار آواز میں کہتے ہوئے زائشہ کو حق سے اپنے ساتھ لیے جانے لگا تھا کہ ۔

"رک جاؤ "

شہریار کی آواز سے وہ دونوں وہیں رکے اور پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔

"زائشہ یہاں آؤ "

انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا تو حسام نے اس کی کلائی آزاد کی تاکہ وہ جا سکے  ۔۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے ان کے پاس آئی ۔۔۔۔

 "تمہاری بات سننے کے بعد تمہیں معافی مل سکتی ہے یا نہیں اسکا فیصلہ ہماری بیٹی زائشہ کرے گی ۔اور اس کا فیصلہ حرف آخر ہوگا ۔یہ جو بھی فیصلہ کرے اس میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا ۔

شہریار نے زائشہ کو دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"بتاؤ اپنی صفائی میں کیا کہنا چاہو گے "؟

شہریار نے سپاٹ انداز میں کہا۔

سب ہمہ تن گوش ہوئے ۔۔۔۔

ابتسام نے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ایک خوبرو نوجوان ماتھے پر آتے سلکی بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتا ہاتھ پر بندھی رسٹ واچ پر بار بار نظریں دوڑا رہا تھا ۔گاڑی رکی تو ڈرائیور نے گاڑی سے اس کا سفری بیگ باہر نکال کر رکھا ۔ 

"پہنچ گیا ؟؟؟

اس نے موبائل پر اپنے دوست کی کال ریسیو کی تو اس نے پوچھا ۔۔۔

"ہاں یار پہنچ گیا ",

"بہت شکریہ ",کہتے ہی اس نے کال کٹ کی ۔۔۔اس کا دھیان فون پر تھا اس نے گھر کی بیل بجائی تو چند منٹوں کے بعد دراوزہ کھل گیا ۔۔۔

"ہاں جی کس سے ملنا ہے آپکو ؟؟؟ایک شوخ کامنی سی لڑکی نے دروازہ کھولتے ہی اس سے پوچھا ۔۔۔

"آپ مجھے اندر آنے دیں گی تو تعارف کرواؤں گا ",وہ موبائل سے سر اٹھا کر بولا ۔۔۔

"ارے ایسے کیسے اپنے گھر میں گھسنے دوں ؟؟؟

"کوئی دید لحاظ ہے تم میں یا نہیں ؟؟؟؟

وہ کمر پر ہاتھ رکھے لڑاکا انداز میں بولی ۔۔۔۔

اس نے سامنے موجود لڑکے پر تفصیلی نگاہ ڈالی ۔ اسکی ڈارک  براوُن آنکھیں دھوپ کی ہلکی کرنیں پڑنے سے چمک رہی تھیں۔بالوں کو  اچھے سے جیل سے سیٹ کیا گیا تھا ۔ کلین شیو کیے  وہ لڑکا اپنے حلیے سے بلکل مغربی انداز اپنائے ہوا تھا اس  کا کسرتی وجود اسکی شخصیت کو اور نمایاں بنا رہا تھا ۔۔۔

اس نے اپنی فرنٹ پاکٹ سے نظر کے گلاسز نکال کر آنکھوں پر لگائے ۔۔۔۔

اور گیٹ کے باہر دیکھا جہاں خان حویلی کی بجائے کچھ اور ہی کنندہ تھا ۔۔۔

وہ شرمندہ ہوا ۔۔۔۔

"اوہ سوری میں شاید غلط گھر میں آگیا ",

اس نے معزرت خواہانہ انداز میں کہا۔

"بڑے دیکھے ہیں تم جیسے لفنگے جو یونہی منہ اٹھا کر لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں فضول کی جان پہچان بڑھانے کےلیے ۔۔۔۔

"دیکھیں اب آپ حد سے بڑھ رہی ہیں ۔میں معزرت کر تو رہا ہوں "

"اوئے چشماٹو ۔۔۔۔یہ معزرت کا ڈرامہ جا کر کسی اور سے کر میرے سامنے نہیں چلے گا ۔۔۔۔یہ سب """

دراصل میرا گھر یہ ساتھ والا تھا میں نے غلطی سے اس گھر کی بیل بجا دی "

وہ کہتے ہوئے مڑا۔۔۔۔

"اوہ تو تم اس گھر میں رہتے ہو "وہ پیچھے سے بولی ۔۔۔

"جی ۔۔۔کیوں کیا ہوا ؟؟؟وہ پلٹ کر بولا ۔۔۔

"چہچچچچچچہ۔۔۔اس گھر میں تو سارے ہی نمونے رہتے ہیں بڑوں کو چھوڑ کر ۔۔۔۔چلو ایک اور نمونے میں اضافہ ہوگیا "وہ تاسف سے سر ہلا کر افسوس کرتے ہوئے بولی ۔۔۔

"یہاں کیا چل رہا ہے "؟

پیچھے سے ضامن کی آواز آئی تو اس نے مڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔

وہ ضامن کو سامنے دیکھ کر کھسیانی ہنسی ہنسا ۔۔۔۔

اس لڑکی نے دھاڑ سے دروازہ بند کیا ۔۔۔۔

"چلو اندر باقی سب بعد میں پوچھوں گا ۔۔۔ضامن اسے ساتھ لیے اندر آیا ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم مام !!!

وہ ذوناش کے گلے لگا۔۔۔۔

"میرا شہزادہ بیٹا میرا شاہ ِمن آگیا ۔۔۔۔وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے بولیں ۔۔۔

"کیسا ہے میرا بیٹا ؟؟؟

"ایک دم فِٹ "وہ ذوناش کے شانے پر سر ٹکائے پیار سے بولا ۔۔۔۔

"بہت اچھا کیا جا تو لوٹ آیا ۔۔۔اس شیر زمان نے تو مجھے اپنی شکل نہ دکھانے کی قسم کھا رکھی ہے مجال ہے جو پچھلے دوسالوں میں ایک دن کے لیے بھی یہاں رکا ہو ۔ماں سے ملنے آتا بھی تھا تو مہمانوں کی طرح ۔کچھ گھنٹوں بعد واپسی ۔۔۔۔

"اب تم آگئے ہو تو میں تمہیں کہیں بھی جانے نہیں دوں گی ۔۔۔۔

"آنی !!!!وہ منت کے دوپٹے کا پلو کھینچ کر بولی ۔۔۔۔

منت نے اپنے پاس کھڑے ہوئے آیت کو دیکھا ۔۔۔۔

"جی آنی کی جان "

"آنی یہ میلے ( میرے )پاپا ہیں ؟؟؟وہ اپنی پیاری سی آواز میں بولی ۔

"نہیں میری جان "

یہ آپکے پاپا نہیں "

وہ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ کر اس کے بھرے بھرے روئی جیسے گالوں کو نرمی سے چھو کر بولی ۔۔۔۔

"آنی میری سب دوستوں تے(کے ) پاچھ (پاس )پاپا ہیں ۔۔۔آیت (ایک )میرے پاس نئیں۔۔۔وہ اپنی توتلی زبان میں بولی ۔۔۔۔

"آپ نے اپنے پاپا دیکھنے ہیں "؟؟منت نے اس سے پوچھا ۔۔۔

وہ زور زور سے سر اثبات میں ہلانے لگی ۔۔۔۔

"آؤ میں تمہیں دکھاؤں "وہ اس کی چھوٹی سی انگلی تھام کر اپنے ساتھ اپنے روم میں لے گئی ۔۔۔۔جہاں اس کا موبائل رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔

کیونکہ اس کے موبائل میں ہی آیت کے پاپا کی تصویریں تھیں ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

وقت کےگھومتےپہیہ نےدوسال کاعرصہ کیسے طے کیا پتانہیں چلا۔کب دن ہفتوں میں ہفتےمہینوں میں اور مہینےسال میں تبدیل ہوئےکسی کوخبرہی نہیں ہوئی۔۔۔

وقت کےگزرتےپہیئے نے ہیرکو بھی کافی سمجھدار بنادیا تھالیکن اسکی معصومیت ابھی بھی  برقرارتھی۔آخر شیر زمان کواپنی لٹل پرنسسز کی معصومیت سے ہی تو عشق تھا۔جس کی معصومیت نے اسے اپنا اسیر بنا رکھا تھا۔

وہ چولہے کے آگے کھڑی آج ایک بار پھر سے اس کے لیے ایک نئی چیز ٹرائی کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔

پین میں پانی ڈال کر اس میں چینی اور پتی ڈال کر ابال آنے پر اب اس میں دودھ شامل کررہی تھی ۔۔۔کل ہی تو اس نے چائے بنانے کا طریقہ سیکھا تھا ۔۔۔۔

اسے اپنی پشت پر کسی کی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا تو اس کے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

رواں رواں کپکپانے لگا ۔۔۔۔

پیچھے موجود شخص کی انگلیاں اب اس کی پشت پر کچھ لکھ رہی تھیں ۔۔۔

وہ اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی اور اس لمس کو محسوس کرتے ہوئے جاننے کی کوشش کرنے لگی کہ آخر یہ انگلیاں لکھ کیا رہی ہیں ۔۔۔۔

وہ آنکھیں بند کیے ہوئے تھی ۔۔۔

SHERZAMAN LOVES HER LITTLE PRINCESS

اسے پتہ چل گیا ۔۔۔۔وہ کیپٹل لیٹرز میں لکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

چائے کو ابال آیا تو ہیر نے جھٹ اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔

"یہ کیا کردیا ؟؟؟

"جانتے ہیں کتنی مشکل سے آپ کے لیے چائے بنانا سیکھی تھی ۔۔۔ساری گر گئی ",وہ روہانسی آواز میں بولی ۔۔۔

"میں نے کیا کیا "؟

وہ انجان بن کر سینے پر ہاتھ باندھے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔

"آپ نے چائے گرا دی ۔۔۔

"میں نے کب گرائی .؟؟

"آپ نے مجھے اپنے دھیان میں لگا دیا تھا۔۔۔

"اچھا تو پھر میرے دھیان میں کیا محسوس ہوا ؟؟؟

"یہی کہ اب آپ خود چائے بنائیں گے "

"آؤ مل کر بناتے ہیں "وہ ہیر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے چولہے پر دوسرا پین رکھنے لگا ۔۔۔

پھر اس میں پانی ڈالا ۔۔۔ابھی بھی ہیر کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھا جو پسینے سے تربتر ہو رہا تھا ۔۔۔۔

"آپ خود بنائیں نا میرا ہاتھ تو چھوڑیں "

"چاہ سے چائے بنائیں گے تو چاہت سے پئیں گے ایک ساتھ "

"مجھے آپ کی باتوں کی سمجھ نہیں آتی کیسی باتیں کرتے ہیں آپ ؟؟؟

"اُف یار میری لٹل پرنسسز کب بڑی ہوگی!!!وہ ٹھنڈی آہ بھر کر خود سے بولا ۔۔۔

کچھ تو کرنا پڑے گا "

وہ ہیر کے لیےچائے بنانے لگا اور اپنے لیے کافی ۔۔۔۔

"آپ کو پتہ ہے کل کیا ہے ؟؟؟ہیر نے اسے مخاطب کیا کہا ۔

"یہ دن کیسے بھول سکتا ہوں ؟؟؟

"تو پھر بتائیں مجھے کیا ملے گا "وہ چہک کر بولی۔

"جو میری پرنسسز چاہے "وہ شیلف سے ٹیک لگائے ایک پاؤں فولڈ کیے کبرڈ پر رکھے سینے پر ہاتھ باندھ کر منہمک انداز میں اسے دیکھ کر پوچھ رہا تھا ۔۔۔

"میں گھر کب جاؤں گی ؟؟؟اس کی پہلی خواہش شاید یہی تھی ۔

"ایک سال بعد جب تم اٹھارہ کی ہو جاؤ گی۔...پھر تمہیں مجھ سے کوئی الگ نہیں کر پائے گا " 

ہیر اسکے جواب پر افسردہ ہوئی ۔۔۔۔

سیکنڈ ائیر بھی کمپلیٹ ہوجائے گا تب تک ۔۔۔

"پرنسسز ایک بات بتاؤ ؟؟؟

جی!!!

"تم میرے بنا رہ پاؤ گی ؟؟؟وہ دل میں آیا سوال لبوں پر لایا ۔

وہ اس کے سوال پر گم سم سی کھڑی رہی ۔۔۔اس کے سوال کا جواب تو اس کے پاس نہیں تھا ۔۔۔۔

"ابھی مجھے لسٹ بھی بنانی ہے کہ مجھے کیا کیا چاہیے "وہ اس کی بات کو گھماتے ہوئے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

شیر زمان باہر آیا تو وہ ٹی وی لاونج میں بیٹھی تھی ۔۔۔

"آؤ روم میں چل کر پیتے ہیں۔"

"ابھی مجھے نیند نہیں آئی ۔۔۔آئیں نا کچھ کرتے ہیں ؟وہ اپنے دونوں پاؤں سمیٹ کر صوفے پر رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

"مثلاً کیا کرنا ہے آپ کو "؟

وہ کافی کا گھونٹ بھر کر پاؤں سامنے ٹیبل پر رکھے صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھا ۔۔۔

"کچھ بھی مگر مجھے ابھی سونا نہیں ہے ۔۔۔۔

"پھر ؟؟؟وہ ابرو اچکا کر بولا۔

"آپ سوچیں نہ ۔۔۔یہ سوچنے والا کام مجھ سے نہیں ہوتا "

"مووی دیکھیں ؟؟؟

"ٹھیک ہے "وہ راضی ہوگئی اس کے آئیڈئیے پر ویسے بھی وہ ٹی۔وی کی ترسی ہوئی لڑکی تھی یہاں دیکھنے کو مل رہا تھا تو جھٹ مان گئی ۔۔۔

 شیر زمان نے ایک ہالی وڈ کی ایکشن مووی لگا دی ۔۔۔دونوں ٹو سیٹر صوفے پر ایک ساتھ بیٹھے تو ہیر نے پشت سے کشن نکال کر اپنے اور شیر زمان کے درمیان میں رکھ دیا تاکہ دوری بنی رہے ۔۔۔۔شیر زمان اس کی حرکت سے محذوذ ہوا ۔۔۔مگر خاموش رہا اپنی لٹل پرنسسز کی کاروائیوں سے ۔۔۔۔

مووی کو چلتے ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا ۔۔۔

ہیر اور شیر زمان اپنی چائے اور کافی ختم کر چکے تھے ۔

اب فائٹنگ سین چل رہا تھا ۔۔۔

"آپ بھی ایسے ہی ِڈھشُم۔۔۔ڈِھُشم کرتے ہیں نا ؟؟وہ مکا بنا کر ہوا میں مارتے ہوئے اس کی نقل اتار کر بولی ۔۔۔

"او۔۔۔۔تو اب سمجھ میں آیا ۔۔۔یہاں سے سیکھتے ہیں آپ فائٹنگ کرنا "وہ اپنے عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے بولی ۔۔۔

"نہیں یہاں سے نہیں سیکھتا "

وہ سادہ انداز میں بولا 

"ہیر تمہیں نیند آ رہی ہے ؟؟؟

اس نے ہیر کی سرخی مائل آنکھوں کو دیکھ کر پوچھا۔

"نہیں ابھی نہیں ۔۔۔۔۔بس اینڈ ہونے والا ہے ۔۔۔۔پھر سو جاوں گی ",  ٹی وی دیکھنے کے شوق میں نیند کی قربانی دی جا رہی تھی ۔۔۔۔

ہیرو صاحب اپنا مشن مکمل کیے جب لوٹے تو اپنی مسسز کے ساتھ ملے ان کا رومینٹک سین چلنے لگا ۔۔۔۔

شیر زمان ٹی وی کی بجائے ہیر کے چہرے کے تاثرات پر غور کر رہا تھا ۔۔۔

اسے لگا تھا کہ ہیر یہ دیکھ کر یا تو شرما جائے گی یا بھاگ جائے گی ۔مگر وہ تو آرام سے بیٹھ کر سین دیکھ رہی تھی ۔۔۔

"اووووو۔۔۔۔کتنے گندے ہیں "

وہ اپنے منہ پر کشن رکھ کر بولی ۔۔۔ 

"اس میں گندے والی کون سی بات ہے ؟؟؟شیر زمان نے اس کے چہرے سے کشن نیچے کرتے پوچھا ۔۔۔۔

"مما کہتی ہیں ہیں کہ ایک لڑکی کو کسی بھی لڑکے کے پاس نہیں جانا چاہیے یہ گندی بات ہوتی ہے "وہ اسے بتانے لگی ۔۔۔۔

"ہممم۔۔۔مگر یہ تو اس کی بیوی ہے ۔اور شوہر تو اپنی بیوی کے پاس جا سکتا ہے "

"نہیں یہ گندا شوہر ہے ۔مجھے نہیں اچھا لگا ۔۔۔۔بہت بکواس ہے ۔وہ نخوت سے ناک سکوڑ کر بولی ۔

"آپ اچھے شوہر ہیں ۔میرا خیال رکھتے ہیں۔اور ایسے گندے کام بھی نہیں کرتے "

"اب کیا اپنی بیوی کی نظروں میں اچھا شوہر بنے رہنے کے لیے اس سے دور رہنا پڑے گا ؟؟؟

وہ اپنی ہی سوچ پر مسکرایا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"ہائے میری کمر گئی !!!

وہ اپنی پتلی کمر پر ہاتھ رکھے کراہ کر بولی ۔۔۔۔

"کتنے ظالم شوہر ہو تم۔۔۔زرا ترس نہیں آ رہا اپنی مظلوم بیوی پر "

وہ اپنے ہاتھ سے پیشانی پر آیا پسینہ پونچھنے کے ساتھ ساتھ بولی ۔

"میری بیوی اگر میری خواہش پوری کرے گی تو اس کی سزا میں کمی ہو سکتی ہے ",

"وہ کیا ؟؟؟وہ ہاتھ میں موجود جھاڑو نیچے پھینک کر بولی ۔۔۔

"وہ انڈین مووی میں دیکھا ہے نا کام والی ماسیاں کیسے چھوٹے چھوٹے بلاؤز اور ساڑھی پہن کر صفائی کرتی ہیں ۔تم بھی ویسی ہی سیکسی سی ساڑھی پہنو اور ہاٹ بن کر صفائی کرتی رہو اور میں تمہیں دیکھتا رہوں ۔عیش میڈم کے بھی عیش اور میرے بھی عیش ۔"وہ آنکھ ونگ کیے شرارت سے بولا ۔۔۔

"صحیح کہتی ہوں میں دنیا میں تم سے بڑا لوفر شوہر کسی کا نہیں ہوگا "

"چلو اس صفائی کو گولی مارو ۔۔۔زرا ہاتھ دھو کر آؤ۔

نئی فرمائش سن کر عیش کا پارہ ہائی ہوا۔۔۔

"اب ہاتھ دھلوا کر کیا کرنے ؟؟؟

"زرا سر دبا دو قسم سے بہت درد ہو رہی ہے ۔وہ بیڈ سے ٹیک لگائے نیم دراز سا لیٹے ہوئے بولا ۔۔۔

"گلا نہ دبا دوں سر کی بجائے ؟"

"آجاؤ جلدی یار ۔۔۔۔پھر سر دبا کر تمہیں چائے بھی بنانی ہے ۔ایک آرڈر جاری ہوا نہیں تھا کہ اگلا تیار تھا ۔۔۔۔

"تم دفعہ کیوں نہیں ہو جاتے یہاں سے ؟؟؟وہ کڑے تیوروں سے اس کے سر پر پہنچ کر تند لہجے میں بولی ۔

"کیسی بیوی ہو ؟؟؟

"بیویاں تو اپنے شوہر کے گھر آنے پر خوشی سے جھوم اٹھتی ہیں ۔ان کی سیوہ کر کہ میوہ کھاتی ہیں اور ایک تم ہو کہ شوہر کو گھر سے واپس جانے کے لیے بول رہی ہو ۔۔۔۔چہچچچچہ بڑے افسوس کی بات ہے ۔

"دیکھو ضامن میرا دماغ مت کھاؤ ویسے ہی صبح سارا دن آفس میں کام کر کہ تھک چکی ہوں اوپر سے تمہارے یہ فضول کے کام "

وہ تھک کر بستر پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"یار تم نے ہی کہا تھا اس گھر میں تمہارے ساتھ رہنے کو جب تمہارے کہنے پر آتا ہوں تو پھر یہ غصہ کیسا ؟؟؟وہ اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے اپنے پاس کیے بولا ۔۔۔

"کوئی غصہ نہیں ۔۔۔مجھ سے نہیں ہوتے یہ کام ۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولی ۔۔۔

"میں نے کبھی بھی نہیں کیا یہ سب جو تم مجھے روز کرنے پر مجبور کرتے ہو "

"گینگسٹر یہ گھر کے کام تو ہر عورت کرتی ہے "

"تمہیں میں عورت لگتی ہوں "وہ اس کے خود کو عورت کہنے پر چیخ اٹھی ۔

"عورت نہیں تو اور کیا ہو "؟

"بچوں والی عورتیں ہوتی ہیں میں ابھی لڑکی ہوں "آئی بات سمجھ میں ۔

"لوجی تو بچوں والی بننے میں کونسا وقت لگتا ہے ابھی بنا دیتے ہیں "وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر بولا ۔۔۔۔

"منہ توڑ دوں گی تمہارا مجھ سے فصول بات کی تو "

وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر بولی ۔۔۔۔

"شرافت سے میری پراپرٹی کے پیپرز واپس کرو ۔۔۔اور جان چھوڑو میری ۔۔۔

"یہ شرافت کیا ہوتا ہے ؟؟؟آج تک مجھے یہ لفظ سمجھ نہیں آیا وہ کان کھجا کر بولا ۔۔۔

"جاؤ اپنے ان پیارے پیارے ہاتھوں سے میرے لیے کھانا نکال کر لاؤ ",

وہ اس کی بات سن کر پاؤں پٹختی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔

ضامن نے اس کے انداز پر قہقہہ لگایا ۔۔۔

نکاح والی رات ضامن نے عیش سے ایک پیپر پر سائن کروائے تھے ۔جو بعد میں اس نے عیش کی پراپرٹی کے جعلی کاغذات بنوائے تھے ۔۔۔۔

اور اس کو دکھا کر ڈرا رہا تھا کہ وہ اس کی ساری باتیں مانے  ۔۔۔۔حالانکہ عیش اس بات سے انجان تھی کہ اس کی پرپراٹی اسی کے نام ہے ضامن نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔وہ یہ سب صرف اسے سدھارنے اور تنگ کرنے کے لیے کر رہا تھا ۔۔۔۔

"بتاؤ ابتسام رک کیوں گئے ؟؟؟شہریار نے اسے چپ دیکھا تو ٹہرے ہوئے انداز میں پوچھا۔

"بابا دراصل میں اور میرے دوست جب بھی اکٹھا ہوتے تو مقبوضہ کشمیر کو لے اکثر بات کرتے تھے ۔جب جب بھارت کی جارحیت کی ویڈیوز فیس بک اور نیوز میں دیکھتے ۔۔۔سب اشتعال میں آجاتے ۔۔بس ہمیشہ یہی سوچ کر رہ جاتے کہ ہمارے مسلمان بہن بھائیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔اور ہم سکون اور آزادی سے زندگی گزار رہے ہیں۔کیا ہمارا کوئی فرض نہیں ۔؟؟؟؟

"کیا ہم یونہی ساری عمر ان پر دشمنوں کو مظالم ڈھاتے ہوئے دیکھتے رہیں گے ۔۔۔۔یہی سوچ ہمیں پاگل کر رہی تھی ۔تو بس ہم نے تب سے ایک منصوبہ بنایا کہ ہم سب اکٹھا ہوئے وہاں جائیں گے اور اپنی تئیں جو بھی بن پڑا وہ کریں گے ۔مگر اس کے لیے ہمیں ہتھیاروں کی ضرورت تھی ۔وہاں خالی ہاتھ جانا بے وقوفی کے سوا کچھ نا تھا ۔ہم نے ملکر ہتھیار 

خریدے ۔۔۔جس دن میرا نکاح تھا ۔ان سب کا اچانک اسی دن ہی جانے کا ارادہ بنا ۔۔۔۔

"میں مانتا ہوں میں نے زائشہ کی عزت کی پرواہ کرنے کی بجائے  مقبوضہ کشمیر کی بہن بیٹیوں کی عزت کو فوقیت دی 

پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی محبت کا سلسلہ بہت پرانا اور تاریخی ہے۔ کشمیری شہدا کو پاکستانی جھنڈے میں دفنایا جاتا ہے۔ جنازوں میں پاکستان زندہ باد اور ہم لے کے رہیں گے آ زادی کے نعرے گونجتے رہتے ہیں۔

وہاں کشمیر میں خواتین بھارتی تسلط کی وجہ سے مسلسل خوف و دہشت ، عدم تحفظ ، ظلم و تشدد، سوگ اوراذیت کا شکار ہیں ۔بھارت نے کشمیری خواتین کے تقدس اورعصمت کو پامال کرنے کیلئے فوج کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں 30برس سے جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی کے دوران 23ہزار کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں، بھارت خواتین کی عصمت دری کو مقبوضہ کشمیر میں جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔بھارتی فوجی کشمیریوں کی تذلیل کیلئے خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔کیا ان مسلمان عورتوں کی عصمتوں کی حفاظت کرنا ہم مسلمانوں پر فرض نہیں ؟؟؟

"سب جان کر کیسے خاموش بیٹھیں ۔؟؟؟کیا ان درندوں کے ہاتھوں روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے بے پردہ ہوتے دیکھتے رہیں ۔یہی سوچ مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھی ۔اسی لیے میں ان سب کے ساتھ اس سفر پر روانہ ہوا ۔۔۔مگر !!!!

یہاں موجود ایجینسیوں کو اس بات کی خبر مل چکی تھی ۔۔۔ان لوگوں نے ہمیں راستے سے ہی اغواء کر لیا ۔۔۔۔

آپ کو پتہ ہے انہوں نے ہمیں کتنی اذیت دی ۔۔۔۔؟؟؟

"اذیت وہ نہیں تھی جو میں نے سہی ۔؟؟؟اذیت وہ تھی کہ جب میں سوچ رہا تھا کہ کیا فائدہ میری اس جان کا ؟؟؟

"جو نا تو میرے والدین کے کام آ سکی اور نا میری مسلمان بہنوں کے ....اگر ان کی کسٹڈی میں میری جان چلی جاتی تو ۔۔۔۔۔؟؟؟

دن رات اذیت جھیلی ہے میں نے ۔میرے کتنے بے گناہ دوست مارے گئے اس سب میں "

وہ کرب زدہ آواز میں بولا۔

پھر چند پل کے لیے رکا ۔۔۔۔

زائشہ اور حسام خاموش کھڑے تھے ۔۔۔یمنی قریبی صوفے پر بیٹھی تھی۔

جبکہ شہریار اور ابتسام بھی کھڑے تھے ۔۔۔۔

"پھر تم وہاں سے نکلے کیسے ؟؟شہریار نے دماغ میں آیا سوال پوچھ ڈالا۔

ابتسام نے ان کے سوال پر گہری سانس لی۔

"ان ایجینسیوں کے چُنگل سے آزاد ہونا عام بات نہیں ؟؟؟شہریار نے کہا

"جی بالکل میں تو شاید زندہ بھی نا ہوتا اگر وہ نہ ہوتا "

"وہ کون ؟؟"حسام نے پوچھا ۔

"ہے کوئی بہت اپنا مگر میں اس کا نام نہیں بتا سکتا ۔۔۔میں نے اس سے وعدہ لیا ہے "

وہ سر جھکائے بولا ۔۔۔۔

"مگر!!! مجھے اس کا نام جاننا ہے "شہریار نے سپاٹ انداز میں کہا۔

"بابا بتادوں گا آپ کو "

وہ تھکے ہوئے انداز میں بولا۔

"بابا ہیر کہاں ہے ؟؟؟

وہ مجھے تب سے نظر نہیں آئی "ابتسام نے اسے نہ دیکھ سوال کیا ۔

"جس رات تم گئے ۔تب سے ہیر بھی غائب ہے۔ہم ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ہار چکے ہیں کہیں بھی کچھ پتہ نہیں چل سکا اس کا "

"کہیں ؟؟؟؟وہ حیرت انگیز نظروں سے انہیں دیکھ کر بولا ۔۔۔

"کیا ابتسام بولو؟؟؟ بھی ....شہریار نے پوچھا ۔

"بابا ان لوگوں نے مجھے دھمکی دی تھی ُاسی دن جس دن انہوں نے مجھے پکڑا تھا ۔۔۔"کہ اگر میں کشمیری خواتین کی عصمتوں کو بچانے گیا تو میرے گھر کی عصمت بھی محفوظ نہیں رہے گی "یہاں انسانوں میں ایسے بھیڑئیے چھپے بیٹھے ہیں جو اندر ہی اندر ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں دشمنوں کا ساتھ دے کر "

"ہیر ان لوگوں کے پاس تو نہیں "؟؟؟وہ تشویش بھرے انداز میں بولا ۔۔۔۔

"ابتسام ایسا مت کہو۔اللہ کرے میری ہیر محفوظ ہاتھوں میں ہو  "یمنی جو تب سے ساری بات خاموشی سے سن رہی تھی ۔تڑپ کر بولی ۔

"مما کچھ نہیں ہوگا ہیر کو "زائشہ روتی ہوئی یمنی کے پاس آکر بولی۔اور انکے شانے پر تسلی دینے کے لیے ہاتھ رکھا ۔

"زائشہ!!!!

شہریار نے اسے مخاطب کیا۔

"جی "

"بیٹا تو تم نے ابتسام کی ساری بات سنی ۔۔۔تو کیا فیصلہ ہے تمہارا ؟؟؟

"تم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ۔اگر تم نہیں چاہتی تو ابتسام یہاں نہیں رہے گا "

زائشہ نے قریب بیٹھی ہوئی یمنی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

یمنی آس بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔مگر جیسے ہی زائشہ نے ان کی آنکھوں میں دیکھا وہ رخ پھیر گئیں۔۔۔۔وہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

"پہلے ہیر کی کمی ۔۔۔پھر اگر وہ ایک ماں کو اپنے دوسرے بچے سے بھی دور کردیتی تو کیا کبھی سکون سے رہ پاتی ۔۔۔اپنی انا کا پرچم بلند کرتی اور اسے اس گھر سے نکل جانے کا فیصلہ سنا دیتی ۔۔۔؟؟؟یا ایک ماں کے لیے آسانیاں پیدا کر دیتی ؟؟؟

جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے "

"اللّٰہ تعالیٰ جو کرتا ہے وہ ہماری بہتری کے لیے ہی کرتا ہے ۔شاید اس کے مقدر میں یہی سب ہونا لکھا تھا ۔شاید اس کے نصیب میں حسام جیسے عاجز اور پیار کرنے والے نرم مزاج انسان کا ساتھ لکھا تھا ۔

بے شک ابتسام بہت اچھا تھا۔اور جو قدم اس نے اٹھایا تھا وہ بھی انسانیت کے لیے اٹھایا تھا ۔۔۔۔ مگر اس نے ہمیشہ زائشہ پر اپنی پسند کو تھوپنا چاہا ۔جبکہ حسام نے جب تک وہ ساتھ رہے زائشہ کی پسند کو فوقیت دی۔وہ انجانے میں ان دونوں کا موازنہ کرنے لگی ۔

جس میں حسام کا پلڑا ہر لحاظ سے بھاری تھا ۔۔۔چاہے وہ اس کی دی گئی عزت ہو یا پیار ....

"مجھے حسام کے ساتھ کے علاؤہ اور کچھ بھی نہیں چاہیے ۔کسی کی معافی بھی نہیں اور نا کسی سے اپنی بیعزتی کا بدلہ """

وہ کھردرے پن سے بولی ۔۔۔

ابتسام زائشہ کا رویہ اور لہجہ دیکھ کر ٹھٹھکا ۔۔۔

"یہ تم حسام کا نام کیوں لے رہی ہو "؟

وہ زائشہ کی طرف بے تکلفی سے بڑھا ۔۔۔

"وہیں رک جاؤ "اب یہ بھابھی ہے تمہاری "

حسام نے درشت آواز میں اسے وہیں روک دیا ۔۔۔۔

وہ پھٹی پھٹی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔وہ ہلکی آواز میں منہ میں بڑبڑایا۔۔۔

"تو اور کیا تمہارے انتظار میں بیٹھی رہتی ابتسام ؟؟؟؟

"تم نہیں تھے تو ہم نے اسے حسام کی دلہن بنا دیا "یمنی نے اسے سچائی سے روشناس کرایا۔۔۔۔۔

اس نے بجھے دل سے زائشہ پر نظر ڈالی۔۔۔۔

وہ نگاہیں پھیر گئی ۔۔۔۔

"بابا مجھے کوئی اعتراض نہیں ابتسام کے اس گھر میں رہنے سے ۔"وہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی اور بھاگنے کے انداز میں اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔

"ابتسام تمہاری غلطی تھی کہ تم نے اس سب سے ہمیں انجان رکھا ۔تم مجھ سے تو کم از کم یہ سب شئیر کر سکتے تھے ",شہریار نے اسے کہا ۔۔۔

"بابا اگر یہ بات میں سب کو بتا دیتا تو مام کبھی بھی مجھے جانے نہیں دیتیں۔

"تمہاری غلطی تھی کہ تم نے زائشہ کی عزت کا خیال نہیں کیا ہمیں اعتماد میں لے کر سب بتا دیتے تو آج حالات مختلف ہوتے ۔۔۔۔میں تمہیں اس سب کے لیے شاید معاف نہیں کرتا مگر جس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اس نے اگر اپنی اعلی ظرفی دکھاتے ہوئے تمہیں معاف کردیا ہے تو ٹھیک ہے میں بھی اسے تمہاری پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کردیتا ہوں کیونکہ تمہارا مقصد نیک تھا ۔۔۔۔۔"

شہریار اور ابتسام چلتے ہوئے باہر لان کی طرف بڑھ گئے تاکہ وہ ابتسام سے اس انسان کا نام جان سکیں جس نے اسے وہاں سے نکلوایا تھا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ سفید شلوار سوٹ پہنے سر پر سفید دوپٹے سے حجاب کیے وضو کر کے آئی تھی ۔ نماز ادا کر کے جنت نے اب دعا میں ہاتھ اُٹھائے تھے وه ہمیشہ اسے اپنی یادوں سے ، اپنے سوچ سے اپنے نام سے اپنے آپ سے الگ ہونے کی دعا مانگ رہی تھی " 

" اے اللّه میں اس شخص سے زندگی میں کبھی دوبارہ نہیں ملنا چاہتی جو میرے لیے صرف ایک امتحان بن چکا ہے۔ اسکی شکل دیکھوں گی تو اپنی روح کی اپنے جسم کی تذلیل یاد آئے گی ۔جسمانی گھاؤ تو وقت کے ساتھ بھر جاتے ہیں ۔مگر الفاظ کے نشتر جو میری روح کو چھلنی کر گئے ۔۔۔جو میری سماعتوں کو بھنبھوڑ کر رکھ گئے ہیں وہ بھلائے نہیں بھولتے مجھے ۔"

" ایک کاغذ کا ٹکرا کیسے سب بدل سکتا ہے یا اللّه !!!!  کیسے وہ میری زندگی کا حقدار بن سکتا ہے ۔جس نے مجھ سے نام جوڑ کر مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا "  اسے میری زندگی سے الگ کر دیں ۔جیسے کبھی وہ میری زندگی کا حصہ تھا ہی نہیں۔۔۔مجھے اس کے نام کی بھی ضرورت نہیں  "

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"میری جان !!!ادھر آؤ ...یمنی نے پیار بھرے انداز میں حسام کو اپنے پاس بلایا ۔۔۔۔

"تمہیں پتہ تھا نہ کہ تمہاری ماں کتنی اکیلی تھی پھر بھی تم اپنی ماں کو اکیلے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے ۔۔۔

"پتہ ہے تم سب کا انتظار کرتے کرتے میں کتنا تھک گئی تھی ۔۔۔بہت تنگ کیا تم سب نے ملکر مجھے "

وہ روتے ہوئے بولی ۔۔

"مما پلیز یوں کر مجھے دُکھی مت کریں۔ ۔آپ کو پتہ ہے نا میں آپکو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا "وہ ان کے آنسو پونچھ کر بولا ۔

"مما کوئی جان بوجھ کر تو آپ سے دور نہیں گیا تھا ۔۔جتنی جلدی مجھے تھی اس گھر میں واپس آنے کی یہ کوئی مجھ سے پوچھتا ۔۔۔

اس کی آنکھوں میں گھر سے جانے سے پہلے والا منظر لہرایا ۔۔۔جو اس کے جینے کی وجہ تھا ۔۔۔زائشہ کا خود سپردگی کا انداز ۔۔۔۔وہ کیسے وہ دن بھول سکتا تھا ۔۔۔

"مگر قسمت میں جو حادثہ لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے ۔

وہ افسردگی سے بولا۔

"حسام کیا ہوا تھا ؟؟؟ تمہارے پلین کریش کی خبر سن کر ہم تو سب امید چھوڑ چکے تھے ۔مگر زائشہ نے ہماری ہمت نہیں ٹوٹنے دی ۔اسے ہمیشہ یہی لگتا تھاکہ تم ہمارے پاس ضرور لوٹ آؤ گے ۔۔۔اور دیکھو آج تم صیحیح سلامت ہماری نظروں کے سامنے ہو "

اللّٰہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔میرے دونوں بیٹوں کو صیحیح سلامت ہمارے پاس واپس بھیج دیا ۔۔۔بس ہیر کی کمی ہے۔کاش وہ بھی اسی طرح کسی دن لوٹ آئے !!!وہ حسرت بھرے لہجے میں بولیں۔

"مما ہیر کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چلا؟؟؟

"نہیں بیٹا۔۔میری معصوم بچی خدا جانے کہاں ہوگی اب تو اس کی یاد میں روتے ہوئے آنسو بھی سوکھ گئے ہیں۔مگر صبر پھر بھی نہیں آتا  "وہ غمزدہ لہجے میں بولی۔

 کچھ لمحوں قبل۔۔۔۔

"تم نے بتایا نہیں ۔۔۔کہاں تھے تم ؟؟؟

وہ اس کی طرف پھر سے ایک بار متوجہ ہوئے پوچھنے لگی۔

"مما پلین کریش کے بعد جب مجھے ہوش آئی تو خود کو کسی انجان جگہ پر پایا ۔۔۔

اس جگہ کے لوگ مجھے قریبی ہسپتال لے کر گئے ۔۔انہوں نے بتایا کہ میں کافی دن تو ہوش میں نہیں آیا تھا ۔۔کچھ عرصہ لگا میری ریکوری میں ۔پھر اس ملک سے نکلنے کے لیے مجھے کاغذات کی ضرورت تھی ۔میں خالی ہاتھ تھا ۔سب کچھ مینج کرتے ہوئے وقت لگ گیا ۔۔۔

میرے بس میں ہوتا تو جب ہوش میں آیا تھا اڑ کر یہاں پہنچ جاتا ۔مگر یہ سب اتنا آسان بھی نہیں تھا ۔بہت مشکلات پیش آئیں تھیں۔۔۔وہ گہری سانس کھینچ کر بولا ۔۔۔۔اور کیا بتاؤں ؟؟؟

 "اتنے دنوں بعد میرا بیٹا آیا ہے کیا کھاؤ گے ؟؟؟

"نہیں مام کچھ بھی نہیں ۔بس تھوڑا سا آرام کروں گا "

"اچھا ٹھیک ہے ۔جاو چینج کر لو فریش ہوجاو ۔۔۔پھر آرام کرلینا ۔۔۔۔

"جی مام "وہ کہتے ہوئے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"سر !!!اس نے آکر اسے سلیوٹ کیا ۔

زیان نے سر فائل سے اٹھا کر دیکھا ۔

"کیا انفارمیشن ہے ؟؟؟اس نے سوالیہ لہجے میں پوچھا ۔

"سر خبری نے ایک بتایا ہے کہ بہت بڑی سمگلنگ ہونے والی ہے اس بار ۔۔۔۔

"وقت کا کچھ اندازہ ہوا ؟؟؟

"جی سر ایک دو دن میں S.K سکارپین کنگ کا مال سمگل کر رہے ہیں ۔

"ایگزیکٹ وقت پتہ کرو "

"جی سر ابھی فی الحال اتنا ہی پتہ چلا ہے۔جیسے ہی نئی انفارمیشن ملے گی میں آپ کو انفارم کرتا ہوں ۔

"ہممممم ٹھیک ہے "

"اس بار اس نقاب پوش کے پہنچنے سے پہلے ہمیں وہاں پہنچنا ہے ۔سکارپین کنگ اور اس نقاب پوش دونوں کو لگے ہاتھوں پکڑ لیں گے ۔

"جی سر اس بار ہم پوری تیاری کے ساتھ جائیں گے "

"اپنی ٹیم کو تیاری کا آرڈر دے دو ۔

زیان خان نے اپنے ماتحت سے کہا تو وہ باہر نکل گیا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ماما ۔۔۔۔ماما ۔۔۔۔آپ تے پاچھ(پاس )

وہ جنت کا دوپٹہ کھینچتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"جنت نے اپنی پاس کھڑی آیت کو دیکھا ۔۔۔۔۔

جو ڈک ٹو اپنے باپ کی کاپی تھی ۔۔۔۔وہی نقوش وہی آنکھیں،ہو بہو ویسا ناک ،اور کلائی پر بالکل زیان کے جیسا بھورا تل تھا ۔۔۔۔

"دفعہ ہو جاؤ یہاں سے "

اس نے آیت کو خود سے پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔

"کیا کر رہی ہو جنت "؟ابھی گر جاتی آیت "

منت نے آیت کو بروقت آکر سنبھالا ورنہ وہ جنت کے ڈھکے سے گرنے والی تھی ۔۔۔

",اس کی منحوس صورت میرے سامنے سے پیچھے لے جاؤ ورنہ میں اسے کچھ کر دوں گی یا خود کو "

وہ نیم پاگلوں کی طرح چلا کر بولی ۔۔۔۔

"رحم کرو اس پر جنت بیٹی ہے یہ تمہاری "

"چلی جاؤ یہاں سے "وہ بنا اس کی بات پر کان دھرے چیخ اٹھی ۔۔۔۔

منت تاسف سے سر ہلاتے ہوئے روتی ہوئی آیت کو باہر لے آئی ۔۔۔۔

جنت زور زور سے چلانے لگی ۔۔۔منت نے دروازہ بند کردیا ۔۔۔۔

جنت جسمانی طور پر ٹھیک تو ہوچکی تھی مگر دماغی طور پر ابھی بھی بیمار تھی ۔۔

 جب نارمل ہوتی تو اپنی بیٹی آیت کو گود میں لیے ڈھیروں ڈھیر پیار کرتی ۔۔۔اس کے کپڑے تبدیل کرواتی اس کے ساتھ کھیلتی مگر ۔۔۔اچانک اسے اٹیک ہوتا تو وہ اسی بچی کو بھنبھوڑ کر رکھ ڈالتی ۔۔۔۔اس کے نرم پھولے ہوئے گالوں پر تھپڑ مارتی ۔۔۔جب اسے پینک اٹیک آتا وہ بستر سے بے دردی سے بستر سے نیچے پھینک دیتی ۔۔۔ جب اس پر نظر پڑتی تو نفرت سے نگاہ پھیر لیتی ۔۔۔۔۔کیوں کہ وہ اسے کسی کے کئیے گئے گناہ کا احساس کرواتی تھی ۔۔۔۔۔

جنت کی زہنی حالت نارمل نہیں تھی ۔آیت پری میچور بے بی تھی ساتویں ماہ میں پیدا ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔

جنت جب جسمانی طور پر تندرست ہوکر ہسپتال سے گھر آئی ۔۔۔اس واقعے کے ایک ماہ بعد ہی اسے خبر مل گئی تھی کہ وہ پریگننٹ ہے۔اس نے ہر ممکن کوشش کی اس بچے کو ختم کردینے کی ۔مگر زرشال نے اسے خوف ِخدا یاد کروایا یہ کہہ کر کیسے تم ایک بے گناہ اور معصوم جان کی موت کی ذمہ دار بن سکتی ہو ۔۔۔۔

زمارے نے اس ایک ماہ میں جنت اور زیان کے خلع کے پیپرز تیار کروا لیے تھے مگر جنت کی پریگنینسی کی خبر پتہ چلتے وہ فی الوقت رک گیا کیونکہ ایسی حالت میں یہ سب ممکن نہیں تھا ۔۔۔۔

اور اب تک جو جنت کی حالت تھی ۔زمارے نے اسے دیکھ کر خاموشی اختیار کر رکھی تھی ۔وہ اس حالت میں جنت کو کورٹ کچہریوں میں زلیل نہیں کروانا چاہتا تھا ۔۔۔۔فی الحال اس نے اس فیصلے کو ٹال دیا تب تک کے لیے جب تک وہ زہنی طور پر بہتر نہیں ہوجاتی ۔اس کا علاج چل رہا تھا ۔۔۔مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی ۔۔۔۔

منت آیت کو اپنے ساتھ لے کر باہر آئی ۔۔۔۔

"ضامن بھائی !!!!

منت نے اسے آواز لگائی ۔۔۔

"کیا بات ہے ؟؟؟صامن جو شاہ من کے پیچھے چھت پر جا رہا تھا ۔منت کی آواز سن کر رکا اور مڑ کر بولا ۔۔۔۔

"بھائی یہ آیت بہت رو رہی ہے۔میرا صبح پیپر ہے مجھے اس کی تیاری کرنی ہے ۔آپ اسے کچھ دیر اپنے پاس رکھ لیں گے ؟؟؟

"ٹھیک ہے لاؤ دو اسے "

ضامن نے آیت کو اپنی گود میں اٹھایا ۔۔۔۔

"جنت کدھر ہے ؟؟؟

"ہمیشہ کی طرح اپنے کمرے میں ۔۔۔۔اور اسے کمرے سے نکال دیا ۔۔۔۔وہ ترحم بھری نگاہوں سے آیت کو دیکھ کر بولی ۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ میں اسے اپنے پاس رکھتا ہوں بعد میں مما کو دے دوں گا "

وہ آیت کو اپنے ساتھ لیے چھت پر آیا تو اوپر رنگ برنگی  چڑیا تھیں ۔۔۔۔جو بڑے سے پنجرے میں قید تھیں ۔۔۔آیت انہیں دیکھ کر خوش ہونے لگیں۔۔۔۔اور کچھ دیر کے لیے رونا دھونا بھول گئی ۔۔۔۔آیت تھی تو تقریباً ڈیڑھ سال کی ۔مگر اپنی ماں کی وجہ سے اس کے اچانک بدل جانے والی کیفیت کے زیر اثر وہ وقت سے پہلے ہی سمجھدار ہوگئی تھی ۔بہت کچھ وقت سے پہلے ہی سمجھنے لگی تھی ۔ہر چیز پر غور کرتی تھی ۔۔۔۔

"آج کل چھت پر بڑا آنا جانا لگا ہوا ہے کچھ لوگوں کا خیر تو ہے ؟؟؟؟

شاہ من جو ساتھ والے گھر میں چپکے چپکے تانکا جھانکی کر رہا تھا ۔۔۔۔ضامن کی آواز سنے چونک کر مڑا ۔۔۔۔

 "نہیں بھائی ایسی کوئی خاص بات نہیں ویسے ہی ہوا خوری کے لیے آیا تھا ۔

"اچھا جی !!!!ہم سے ہوشیاریارں "؟

"بات ابھی دیکھنے دیکھانے تک ہے یا آگے بھی بڑھی ؟؟؟ضامن نے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔

"کیوں چھترول کروانی ہے ؟؟؟ایٹم بومب ہے پوری ",

وہ جوابا بولا ۔۔۔

"تو کیا ساری زندگی ڈر ڈر کر گزارے گا ۔چل بچے حوصلہ کر اور ہو جا شروع ۔۔۔

"نہیں بھائی نہیں مجھ سے نہیں ہوگا "

",بس پھر تجھ جیسے شریف بچے یونہی منہ دیکھتے رہ جائے گے اور دلہنیا کوئی اور لے جائے گا "

"اب ایسی بدعائیں تو نا دیں "

"جا تو بھی کیا یاد کرے گا ضامن دی گریٹ کی پٹاری میں سے ایک حربہ نکال کر دیتا ہوں ۔۔۔

"یہ لے پتھر ۔۔۔۔اس نے وہاں موجود ایک چھوٹا سا پتھر اٹھا کر دیا ۔۔۔

اور مار اسے "تیری طرف دیکھے گی تو آنکھ ونگ کرنا "

"یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟؟؟

"میں نے پتھر پھینکا تو وہ اینٹ مارے گی "کیوں مجھے بھری جوانی میں مروانے کا ارادہ ہے آپ کا ؟؟؟

"یار بہت ڈر پوک ہے۔عشق معشوقیاں کرنی ہیں تو دل بھی بڑا کرنا پڑتا ہے "

"یہ جوتیاں اور بیعزتیاں تو عام سی بات ہے عشق و عاشقی کی چکر میں ۔۔۔۔

"اگر تیرے ایسا کرنے پر لڑکی ہنسی تو سمجھو پھنسی مگر جب آگے سے چھترول کا اندازہ ہوجائے تو فورا بہن بنا کر معافی مانگ لو ۔۔۔سمپل !!!وہ ہاتھ جھاڑ کر بولا ۔۔۔۔

"بھائی آکسفورڈ میں پڑھ کر آیا ہوں اور وہاں کی ہوا آپ کو لگ گئی ہے "شاہ من جوابا مسکرا کر بولا۔

"آکسفورڈ ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک ٹھرک پن میں ہم سے کوئی آگے نہیں "وہ ہنستے ہوئے بولا ۔

"یہ نہیں تو دوسرا طریقہ بتاتا ہوں ۔۔۔ضامن دی گریٹ کے پاس آئیڈیاز کی کمی نہیں "

"بھائی یہ تو جا رہی ہے ۔",وہ اس کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔

"ہاں تو کیا تیرے انتظار میں کھڑی تھی ۔۔۔۔

"بھائی اس نے جو یونیفارم پہنا ہے ۔۔۔آئی تھنک وہ تو پاکستانی ائیر لائنز کی ائیر ہوسٹس کا ہے ",شاہ من نے اندازہ لگایا ۔۔۔۔

"ہاں وہ تو ہے "

پھر بھائی اب کوئی مشورہ دیں کیا کروں ۔۔۔۔

"پرپوز کردے سیدھا سیدھا جاکر اور کیا "

"بھائی اگر اس نے سب کے سامنے میری بیعزتی کردی تو ؟؟؟

"یار ایک تو تم شرافت کے پُتلے پتہ نہیں کس دنیا سے آئے ہو ؟؟؟کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔تم ایسا کرو اسے پرپوز کرنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرو جہاں لوگ ہی نا ہوں ۔اگر اس نے نا کر کہ بیعزتی کی بھی تو زیادہ فیل نہیں ہوگی ۔۔۔

"پھر بھائی کہاں کروں ؟؟جگہ بھی تو بتائیں ؟؟؟

"کیا یار ۔۔۔۔خود بھی کچھ دماغ لگاؤ سب کچھ میں ہی بتاؤں گا "وہ آیت کو گود میں اٹھاتے ہوئے بولا کیونکہ اب آیت ان چڑیوں سے کھیل کر ایک بار پھر سے رونے کا شغل فرمانے لگی تھی ۔۔۔۔

"کیا ہوا میری ڈول کو ؟؟؟ضامن نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"مما دندی "(گندی )وہ اپنی توتلی زبان میں بولی ۔

"نہیں بیٹا مما گندی نہیں ہے بس ان کی طبیت ٹھیک نہیں ہے نا اسی لیے ۔ضامن نے اسے سمجھانا چاہا۔

"بتاؤ ....میری ڈول کو کیا چاہیے "؟؟؟

"پاپا "۔۔۔۔وہ ضامن کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔۔

ساتھ والے گھر میں اب دعا اپنی ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکل چکی تھی اور اس کے بھائی اور بھابھی اپنے بیٹے کے ساتھ لان میں کھیل رہے تھے ۔۔۔۔

آیت وہ منظر دیکھ کر پھر سے رونے لگی ۔۔۔۔

"تم میلے پاپا ؟؟؟؟

آیت پاس کھڑے ہوئے شاہ من کو دیکھ کر بولی ۔۔۔

کیونکہ شاہ من جب سے آیا تھا کبھی اسے چاکلیٹ لا کردیتا تو کبھی اس کے ساتھ کھیلتا ۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔آیت بیٹا یہ تمہارے پاپا نہیں "ضامن نے اسے سمجھانا چاہا ۔۔۔۔

وہ اپنے والدین کے پیار کے لیے ترسی ہوئی بچی تھی ۔جس سے پیار اور توجہ ملتی اسی کو اپنا مان لیتی ۔۔۔۔

شاہ من تو اس کی بات پر نظریں پھیر گیا ۔۔۔جو ضامن نے بخوبی محسوس کیا۔۔۔۔

وہ آیت کو گود میں لیے پیار کرتا ہوا نیچے آیا ۔۔۔۔

"ماموں اپنی ڈول کو ٹوائیز بھی لے کر دیں گے اور چیز بھی سیر بھی کروائیں گے "

جانا ہے میرے ساتھ ؟؟؟

"اس نے فورا اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

ہر وقت موج مستی کرنے والے شرارتی ضامن کی آنکھیں اسے دیکھ کر نم تھیں ۔۔۔۔وہ ترحم بھری نگاہوں سے اس ننھی سی جان کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔آخر اسے کس بات کی سزا مل رہی ہے۔اس کا کیا مستقبل ہوگا ؟؟؟؟اس نے نظر بچا کر اپنی آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی صاف کی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سب ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے مگر خاموشی کا راج تھا ہر کوئی سر جھکائے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔کوئی بھی کسی سے مخاطب نہیں ہوا ۔۔۔۔

زیگن نے ہی پہل کی "

زمارے تم نے کونسا ہاسپٹل جوائن کیا ہے ؟؟؟

"بھائی ایک نیو ہاسٹل ہے ۔گھر سے قریب ہی ہے "وہ سر جھکائے ہوئے بولا۔

"وہ کیوں چھوڑ دیا ؟؟؟اچھا بھلا تھا ؟؟؟

"کیا منہ دکھاتا وہاں ہر کوئی میری بیٹی کے ساتھ ہوئے حادثے کو لے کر بار بار میرے زخم تازہ کرتے تھے ۔۔۔آخر کب تک برداشت کرتا وہاں کام کر کہ یہ سب "وہ زریار کی طرف کاٹ دار نظروں سے دیکھ کر بولا ۔۔۔۔

یہی بھائی جو ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر جیتے تھے آج ان کی اولاد نے انہیں بکھیر کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔

زیگن اسکی بات پر چپ کا چپ ہی رہ گیا ۔۔۔اس کی ریزن سولڈ تھی تو وہ مزید کیاکہتا ۔۔۔۔

 دوسال پہلے جب جنت ہاسپٹل سے ٹھیک ہو کر گھر آئی تھی اگلے ہی دن زمارے اور زرشال کو اپنی پیکنگ کرتے دیکھ زریار اور بریرہ ٹھٹھکے ۔۔۔۔

وہ دونوں زیگن اور ذوناش کے پاس گئے ۔۔۔۔اور آپس میں مل کر بات کی کہ شاید زمارے اپنی فیملی کے ساتھ یہ حویلی چھوڑ کر جا رہا ہے ۔

زریار نے زیگن سے کہا کہ تم ہی زمارے کو یہاں جانے سے روک سکتے ہو ۔

کیونکہ وہ ہماری بات نہیں سنے گا ۔ویسے بھی وہ زیان کی حرکت کی وجہ سے ہم سے ناراض ہے۔

زیگن نے اس سلسلے میں زمارے سے بات کی ۔۔۔۔

"زمارے !!!!

جی بھائی "

"تم کہیں جارہے ہو جو پیکنگ شروع کی ہے "

"جی بھائی اب مجھے مزید یہاں نہیں رکنا "

"زمارے تمہارا یہاں سے جانے کا فیصلہ درست نہیں ۔خان صاحب ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ ہم سب ساتھ رہیں ۔"

"تمہیں یہاں سے جاتے ہوئے دیکھ ان کی روح کتنا تڑپے گی اس بات کا اندازہ بھی ہے تمہیں "زیگن نے کہا

"اور جو میری بیٹی کے ساتھ ہوا وہ دیکھ کر خان صاحب کی روح نہیں تڑپی ہوگی ۔"

وہ جوابا بولا۔

"زمارے غلطی ہم سے ہمارے بیٹے سے ہوئی ہے تو سزا تم کیوں بھگتو ؟؟؟؟

"یہاں پر اگر کوئی رہنے کے قابل نہیں ۔۔۔یا یہاں سے جسے جانا چاہیے وہ تم نہیں ۔۔۔ 

"ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں ",

زریار جو کب سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔ وہ بول اٹھا ۔۔۔

"جاؤ بریرہ۔۔۔۔ اپنا سامان باندھ لو "

"رک جائیں "زمارے کی آواز آئی۔۔۔

",ٹھیک ہے کوئی یہاں سے کہیں نہیں جائے گا ۔مگر زیان یہاں قدم بھی نہیں رکھے گا ۔جس دن اس نے اس گھر میں قدم رکھا اس گھر میں میرا آخری دن ہوگا "زمارے نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

"زیان کو میں نے اس دن ہاسپٹل میں ہی کہہ دیا تھا کہ اس کی اس حویلی میں کوئی جگہ نہیں ۔...وہ یہاں نہیں آئے گا "زریار نے سپاٹ انداز میں کہا۔

"آپ آگئے ؟؟؟ہیر اسے اندر آتے دیکھ پرجوش آواز میں بولی ۔۔۔

"ہمممم ...

کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔

"کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟

"چینج کرنے" وہ اپنی لیدر جیکٹ اتار کر بازو پر رکھتے ہوئے بولا ۔

"بار بار چینج کرنا پڑے گا "ابھی مت کریں۔۔۔۔ بعد میں کرنا "

"وہ کیوں ؟؟؟وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔

"آپ کو کچھ بھی یاد نہیں آج کیا ہے "؟

"نہیں "

"کیا ہے ؟؟؟

",آپکو سچ میں نہیں یاد ؟؟؟

وہ بے یقینی سے بول کر پھر خفگی سے منہ پھلا کر چہرہ موڑ گئی ۔۔۔

"مجھے یاد ہے "آج میری پرنسز  

 کی برتھ ڈے ہے ",

وہ پشت سے اس کے قریب آ کر بولا ۔۔۔

"میں نے آپ کو لسٹ دی تھی مجھے وہ سب چاہیے ",

وہ خفگی بھلائے واپس اپنی ٹون میں آتے ہوئے بولی ۔

"یہ لو "

شیر زمان نے فون کی گیلری میں سے ایک تصویر نکال کر دکھائی جس میں شہریار اور یمنی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے کھانا کھا رہے تھے ۔ایک طرف ابتسام اکیلا بیٹھا تھا اور دوسری طرف حسام اور زائشہ ساتھ ساتھ چئیر پر بیٹھے تھے ۔۔۔۔

"وہ تصویر دیکھ کر حیران ہوئی ۔

"یہ زائشہ آپی حسام بھائی کے ساتھ کیوں بیٹھی ہیں ۔؟؟؟

"انہیں تو ابتسام بھائی کے ساتھ بیٹھنا چاہیے ۔۔۔۔وہ خودی سے آہستہ آواز میں بولی۔۔۔او۔۔۔حسام بھائی ان کے دوست ہیں شاید اسی لیے "وہ خودی اندازے لگا رہی تھی ۔۔۔۔

"زائشہ کی شادی  حسام سے ہوئی تھی ۔۔۔۔ابتسام سے نہیں ۔اسی لیے وہ دونوں ساتھ ہیں "

شیر زمان نے سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے اس کی غلط فہمی دور کی ۔۔۔۔

اس کی بات سن کر ہیر کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے دوچند ہوئی۔۔۔۔۔

وہ کچھ پل کے لیے چپ ہوگئی ۔۔۔۔اور شیر زمان کا موبائل دیکھنے لگی ۔۔۔۔شیر زمان بظاہر تو ایل سی ڈی پر چلتی ہوئی نیوز کی طرف متوجہ تھا مگر دھیان ہیر کی حرکات پر ہی تھا ۔۔۔۔

جو اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے کچھ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہوشیاری دکھا رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ واٹس ایپ کھولنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ دیکھ سکے کہ شیر زمان کو یہ تصویریں کون بھیجتا ہے۔گھر سے

 ",پچھلے دو سالوں سے تقریبا  روز شیر زمان اسے اسکے گھر والوں کی تصاویر دکھاتا تھا ۔جس کی وجہ سے اسے تھوڑا سا سکون مل جاتا کہ اس کے گھر میں سب ٹھیک ہیں ۔وہ روزانہ انہیں دیکھ کر جہاں  خوشی محسوس وہیں غمزدہ بھی ہوجاتی ان سے دوری پر ۔۔۔۔

مگر اس کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔۔۔اگر وہ کسی بھی طرح گھر سے نکلنے کی کوشش بھی کرتی تو غیر ملک سے اپنے ملک واپس کیسے آ سکتی تھی ۔یہی سوچ کر وہ آگے کوئی قدم نہیں اٹھا سکی تھی۔۔۔

شیر زمان کا قہقہہ گونجا ۔۔۔۔

اس گھر کے در و دیوار نے پہلی بار اس کی ہنسی سنی ۔

ہیر نے جب واٹس ایپ پر لاک لگا دیکھا اور پھر شیر زمان کا قہقہہ سنا تو جلدی سے اس کا موبائل واپس اس کے پاس رکھ دیا ۔۔۔۔

وہ شرمندگی سے لب کاٹنے لگی 

پہلی بار تھوڑی سی ہمت کی تھی وہ بھی پکڑی گئی ۔۔۔۔

وہ رونے لگی ۔۔۔۔شیر زمان نے اسے رونے دیا ۔۔۔

وہ جانتا تھا کہ وہ اپنے والدین اور باقی گھر والوں سے دوری پر رو رہی ہے ۔اور اپنے سالگرہ کے خاص موقع پر انہیں یاد کر رہی ہے ۔۔۔۔۔

"ہیر پرامس میں جلد ہی تمہیں ان سے ملوانے لے کر جاؤں گا "

وہ اس کا دل رکھنے کے لیے بولا ۔۔۔۔

"سچ میں آپ لے کر جائیں گے نا مما پاپا کے پاس ؟؟؟؟

"ہمممم ۔۔۔۔وہ اثبات میں سر ہلاکر بولا ۔۔۔۔

"مجھے جلدی لے جائیں پلیز ۔۔۔۔میں ہر برتھ ڈے پر اپنی مما اور بابا کے ساتھ کیک کاٹتی تھی ۔۔۔سب مجھے گفٹ بھی دیتے تھے ۔۔۔حسام بھائی اور ابتسام بھائی بھی مجھے میری پسند کے گفٹس دیتے تھے ۔۔۔۔مگر دوسری بار ہے میری سالگرہ پر وہ میرے ساتھ نہیں ہیں ",وہ آزردگی سے بولی ۔۔۔۔

"ہیر میں نے کہا ہے کہ میں ملوا دوں گا تمہیں ان سے جلد ہی ۔۔۔۔اب رونا بند کرو ۔۔۔۔

وہ آنسو پونچھ کر خاموشی سے بیٹھ گئی ۔۔۔۔

"باراں بجنے میں تو ابھی ایک گھنٹہ ہے " اب کیا کریں ؟؟؟ہیر نے خود کو سنبھالنے کے تھوڑی دیر بعد کہا ۔

"تم بتاؤ ؟؟؟

شیر زمان واپس اپنے سنجیدہ انداز میں لوٹ آیا ۔۔۔۔

"کچھ کھیلتے ہیں "؟

'اس عمر میں کون سا کھیل کھیلا جا سکتا ہے ؟وہ ذومعنی انداز میں بولا ۔۔۔ہیر اس کے لب و لہجے سے ٹھٹھکی ۔۔۔۔

معصومیت اب تھوڑی سمجھداری میں ڈھلنے لگی تھی ۔۔۔اب وہ اتنی بھی انجان نہیں رہی تھی کہ اس کی باتوں کے مطلب نا سمجھ سکے ۔۔۔۔مگر بھولا پن ابھی بھی موجود تھا ۔۔۔۔

"آج ہم دونوں میاں بیوی والا گیم کھیلتے ہیں "شیر زمان نے آفر دی ۔

"یہ میاں بیوی والا گیم کون سا ہوتا ہے ۔؟؟؟

"میں نے تو کبھی بھی نہیں سنا "وہ حیرت زدہ آواز میں بولی۔

" پہلے ہماری شادی نہیں ہوئی تھی اسی لیے یہ گیم نہیں کھیلا ۔اب جبکہ ہم شادی شدہ ہیں ۔۔میاں بیوی ہیں اب تو یہ گیم کھیل سکتے ہیں ۔

",اچھا ٹھیک ہے ",ہیر نے ہار مانی ۔۔۔۔

"آپ بتائیں اس گیم کے رولز کیا ہیں؟؟ "

اس نے پوچھا ۔

"اس گیم کے رولز بہت سمپل ہیں ۔بیوی کو اپنے شوہر کی ہر بات ماننی ہوگی ۔۔۔اور جو وہ کرے جواب میں بیوی کو دوگنا کرنا پڑے گا "",

"یہ کسی گیم ہے ۔وہ ہونٹوں کو ٹیڑھا کیے بیزاری سے بولی ۔۔۔

"ادھر آؤ زرا قریب سے سمجھاتا ہوں "وہ اس کی کلائی سے کھینچ کر اپنے مخصوص انداز میں اسے اپنی تھائی پر بٹھا چکا تھا ۔۔۔۔

ہیر اس کے شانے پر ہاتھ رکھ گئی خود کو اس کے سینے سے ٹکرانے سے بچانے کے لیے ۔۔۔۔

اب وہ شیر زمان کے اتنے قریب تھی کہ ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی اس کی طرف آنکھیں اٹھا کر دیکھنے کی ۔

"اچھا چلو پہلے ایک بات بتاؤ جب سے تم یہاں آئی ہو میں نے تمہیں کبھی مارا ؟؟؟

ہیر نے بولنے کی بجائے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔

"پھر مجھ سے نظر ملا کر بات کرو اگر مجھ سے ڈر نہیں لگتا ۔۔۔۔

ہیر نے اپنی گھنی پلکوں کو اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔

شیر زمان کی اوشن بلیو آئیز میں اس وقت جو چمک تھی ہیر اسے دیکھ کر مسمرائز ہوئی ۔۔۔۔

"تمہیں پتہ ہے میری آنکھوں  کے لیے دنیا کا سب سے حسین منظر کیا ہے ؟؟؟؟وہ کہہ کر چند پل رکا پھر فسوں خیز لہجے میں کہا ۔۔۔۔

"جب میری آنکھیں تمہاری آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتی ہیں تو انہیں اپنے ہونے کا اعزاز مل جاتا ہے۔"

اس کی بات ہیر کے سر کے اوپر سے گزر گئی ۔۔۔۔

"اچھا یہ بتاؤ جب ہمیں کسی پہ پیار آتا ہے تو ہم کیا کرتے ہیں ؟؟؟

ہیر نے اسکی بات پر اپنے ناتواں ذہن پر زور ڈالا ۔۔۔۔

"امممم۔۔۔۔وہ سوچنے کے انداز میں اپنے گال پر انگلی رکھے بولی ۔۔۔۔

"جب مما کو مجھ پر پیار آتا ہے تو مما مجھے یہاں کس کرتی ہیں "وہ اپنی پیشانی پر انگلی رکھ کر بولی ۔۔۔۔

"اور جب تمہیں پیار آتا ہے تو ؟؟؟اسنے پھر سے پوچھا

"جب مجھے پیار آتا ہے تو میں بھی مما کو کس کرتی ہوں "

"تمہیں مجھ پر پیار آتا ہے ؟؟؟وہ گھما پھرا کر کام کی بات پر آیا ۔۔۔

"آتا ہے نا ",وہ بلا اختیار بول گئی ۔۔۔۔

شیر زمان نے اپنی مسکراہٹ چھپائی ۔۔۔۔

"کب ؟؟؟وہ سادگی سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

"جب آپ مجھے آئس کریم کھلاتے ہیں "

"میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہیں تو مجھے اچھا لگتا ہے ۔۔مجھے جلدی نیند آجاتی ہے ۔

"اچھا اگر میری لٹل پرنسسز کو مجھ پر پیار آتا ہے تو پھر وہ مجھے پیار کیوں نہیں کرتی ۔۔۔۔وہ اس کے گال پر آئی ہوئی آوارہ لٹ کو انگلی پر لپیٹ کر اپنی طرف ہلکا سا کھینچ کر بولا ۔۔۔

"اس کی بات پہ اور مزید نزدیکی بڑھ جانے پر ہیر کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی ۔۔۔۔ہیر کو خود سمجھ نہیں آئی ایسا کیوں ہوا ؟؟؟؟

"میرا دل اتنی تیز کیوں دھڑک رہا ہے ",وہ معصومیت سے شیر زمان سے ہی پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔اس کی بات پر شیر زمان کی گھنی مونچھوں تلے عنابی لب مسکراہٹ میں ڈھلے ۔۔۔۔

"جب کسی سے عشق ہوجاتا ہے تو دل یونہی تیزی سے دھڑکتا ہے "

لٹل پرنسز تم میرے دل کی دھڑکن ہو ۔اگر کبھی تم مجھ سے دور ہوئی تو یہ دل دھڑکنا بھول جائے گا "وہ اس کا مومی ہاتھ تھام کر اپنے دل کے مقام پر رکھے۔۔۔ عالم ِ جذب سے بولا ۔۔۔۔

"باراں بجنے والے ہیں "

وہ اس سے اپنا آپ چھڑواتے ہوئے تیزی سے اس کی تھائی سے اٹھی ۔۔۔۔بولتے ہوئے اس کی آواز لڑکھڑا گئی ۔۔۔

ٹانگیں ابھی تک کپکپا رہی تھیں۔جسم لرز رہا تھا ۔۔۔۔یہ سب کیا تھا وہ خود ہی اپنی اس کیفیت کو نام دینے سے قاصر تھی ۔۔۔۔۔

شیر زمان نے دیورا گیر کلاک پر نظر ڈالی جہاں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا ۔۔۔۔

"ابھی وقت ہے ۔چلو نا گیم کمپلیٹ کرتے ہیں "

وہ ہیر کی اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر حذ اٹھاتے ہوئے بولا۔

"میری پہلی خواہش تو پوری ہوگئی اب دوسری کی باری "ہیر نے بات گھماتے ہوئے۔۔  اسے یاد دہانی کروائی۔

"پہلی خواہش تھی سب کی تصویر کی ۔

دوسری خواہش ہے واپس پاکستان گھر جانے کی جو کسی طور پوری نہیں ہوسکتی ۔یہ خواہش ہی غلط ہے ۔ 

تیسری کیا تھی اچھا یاد آیا ۔۔۔۔

"چلو چینج کرتے ہیں "شیر زمان نے کہا ۔۔

ہیر اپنے روم میں چلی گئی چینج کرنے تو شیر زمان دوسرے روم میں گیا جہاں اسکا سامان موجود تھا ۔۔۔

ہیر تیزی سے تیار ہوکر باہر آئی مگر شیر زمان ابھی تک روم سے باہر نہیں آیا اس نے شیر زمان کے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ جینز اور ویسٹ میں تھا ۔۔۔شرٹ بستر پر پڑی تھی اور وہ اپنے شانے پر موجود بالوں کی پونی بنا رہا تھا ۔۔۔

ڈریسنگ پر موجود گن ہولسٹر اٹھا کر پہننے لگا تو ہیر چلتے ہوئے اس کے قریب آئی ۔۔۔۔

"یہ ضروری ہے کیا ؟؟؟

شیر زمان نے ابرو اچکا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

"مجھے یہ پسند نہیں "ہیر کا اشارہ گن کی طرف تھا ۔

"مجھے اپنی پرواہ نہیں اپنی لٹل پرنسسز کی سیفٹی کے لیے رکھنی پڑے گی ۔۔۔۔",

"میں نے دیکھا ہے آپکے ہاتھوں میں بہت پاور ہے آپ تو اپنے ان ہاتھوں سے ڈھشم ڈھشم کر کےسب کو مار سکتے ہیں "

اسے رہنے دیں ۔

"جیسے میری پرنسسز کہے ۔"وہ گن ہولسٹر اتار کر بستر پر پھینکتے ہوئے بولا ۔

پھر اپنی شرٹ اٹھا کر پہنی اور اوپری دو بٹن کھلے چھوڑ دئیے اپنے سٹائل کے مطابق۔

"یہ لیں تیسری خواہش بھی پوری ہوگئی ۔۔۔۔",

وہ دونوں شیشے کے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

تیسری خواہش تھی کہ آج وہ دونوں ایک جیسے کپڑے پہنیں گے ۔

ہیر اور شیر زمان دونوں نے بلیو جینز اور وائٹ شرٹس پہنیں تھیں۔ساتھ سنیکرز ۔

ہیر نے اپنے سنہری بالوں کو کھلا چھوڑے بس سر پہ وائٹ بینڈ لگا رہا تھا ۔۔۔۔

"چلیں ؟؟؟وہ باہر جانے کے لیے پر جوش تھی ۔

"بالکل "شیر زمان کہتے ہی اسے اپنے ساتھ لیے اپارٹمنٹ سے نیچے آیا باہر ہی سیاہ چمچماتی  ہیوی بائیک کھڑی تھی ۔

"واؤ "وہ دونوں ہاتھ کو جوڑ کر خوشی سے چہک کر بولی۔

"میری چوتھی خواہش بھی پوری ہیوی بائیک پر گھومنے کی "

شیر زمان بائیک پر بیٹھا تو ہیر اس کے پیچھے بیٹھی ۔۔۔۔

شیر زمان نے گھومنے کے لیے قدرے سنسان جگہ کا انتخاب کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس ڈریسنگ میں ہیر کو کوئی دیکھے ۔۔۔اس نے ہیر کو جینز پہننے سے منع نہیں کیا ۔۔کیونکہ آج اس نے یہی پہننے کی خواہش کی تھی ۔وہ اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا منع کر کہ ۔

رات کے اس پہر تیز رفتار ہیوی بائیک ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

"اب میری اگلی خواہش کا وقت ہونے والا ہے ۔۔۔۔

ہیر جو شیر زمان کے شانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی اس کے کان کے پاس آکر بولی ۔۔۔۔

"شیر زمان نے ایک ریسٹورنٹ کے باہر بائیک روکی ۔۔۔۔

اور جاکر گول گپے لے آیا ۔۔۔

"ہیر ویسے کیک کی جگہ گول گپے ؟؟؟

"کچھ عجیب طرح نہیں برتھ ڈے سیلبریٹ کر رہی تم ؟؟؟

شیر زمان نے پوچھا ۔۔۔

"کیک بھی گول ہوتا ہے اور گول گپے بھی گول ۔۔۔تو کیا ہوا بندہ اپنی پسند کی چیز کاٹے ۔۔۔۔وہ ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔

اور گول گپے کو میرے دانت کاٹیں گے ۔۔۔جب میں اسے منہ میں رکھوں تو آپ نے ہیپی برتھ ڈے بولنا ہے ۔

شیر زمان اپنی انوکھی بیوی کی انوکھی سالگرہ سیلیبریشن پر مسکرایا ۔۔۔۔۔

جب سے ہیر اس کی زندگی میں آئی تھی اس نے اپنی معصوم حرکتوں سے مسکرانا سیکھا گئی تھی ۔

پورے باراں بجے تو دونوں نے ہیر کے طریقے سے سالگرہ کی ۔

"آپ بھی کھائیں نا ۔۔۔"اس کے منہ میں گول گپا بھرا ہوا تھا ۔۔۔وہ اسے گلے سے اندر اتار کر شیر زمان کو بھی پیشکش کر رہی تھی ۔۔۔۔

"ویسے میں یہ کھاتا نہیں ہوں"وہ جینز کی پاکٹ میں ہاتھ گھسا کر بولا۔۔۔

 اگر مجھے کھلانا ہے تو میرے طریقے سے کھلانا پڑے گا "

وہ کیسے ؟؟؟ہیر نے اگلا گول گپا منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

کھٹا اتنا تیکھا تھا اسے اپنے لب جلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔

"ہم ایک ہی گول گپا ایک ساتھ منہ میں ڈالیں گے آدھا تمہارے منہ میں آدھا میرے ۔۔۔۔کیسا آئیڈیا ہے "؟

وہ گردن ترچھا کیے سٹائل سے بولا ۔۔۔

اس کی بات سمجھ میں آتے  ہی ہیر نے ثابت گول گپا گلے سے نگل لیا ۔۔۔۔اسے شدید قسم کی کھانسی لگی ۔۔۔۔

"آرام سے ہیر۔۔یہ لو پانی پیو  "وہ اس کی پشت کو سہلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔اور منرل واٹر کی بوتل اسکے منہ سے لگائی ۔

کچھ دیر بعد اسے ٹھیک محسوس ہوا تو شیر زمان نے ٹرے میں موجود آخری گول گپا اٹھا کر اس کی طرف کیا ۔۔۔۔

"نہیں میرا پیٹ بھر گیا ۔۔۔۔"وہ ابھی بھی ندیدوں کی طرح گول گپے کو دیکھ رہی تھی مگر شیر زمان کی بات سوچ کر ہی اس نے منع کردیا ۔۔۔۔

شیر زمان اس کی چالاکی دیکھ کر خودی اس کے منہ میں ڈال گیا ۔۔۔

ہیر کے رکے سانس بحال ہوئے ۔۔۔

"چلیں اب ؟؟؟

"جی "

وہ دونوں واپسی کے راستے پر گامزن ہوئے ۔۔۔۔

ہیر اس کے پیچھے تھی رات گہری ہونے کے باعث ٹھنڈ بھی بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔وہ سٹینڈ پر پاؤں رکھ کر اسکے پیچھے کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔

"ہیر گر جاؤ گی "

"دیکھیں نا کتنی ٹھنڈی ہوا ہے ۔۔۔۔ایسا لگ رہا ہے میں ہواؤں میں اڑ رہی ہوں ۔۔۔۔وہ خوشی سے چلا کر بولی ۔۔۔۔

"ہاتھ مضبوطی سے رکھو ",شیر زمان نے اس کی حفاظت کے لیے کہا معا کہیں وہ گر نا جائے ۔۔۔۔

ہیر نے شیر زمان کی گردن پر دیکھا جہاں غراتے ہوئے شیر کا ٹیٹو بنا تھا ۔۔۔۔اس نے ڈرتے ڈرتے اس کو اپنی پوروں سے چھو کر دیکھا ۔۔۔۔

"یہ مجھے بہت پسند ہے ",آج وہ خوش تھی اسی لیے دل کی بات کر گئی ۔۔۔۔

ہیر کے یوں چھونے پر شیر زمان دل سے مسکرایا ۔۔۔اس کے گال کا ڈمپل گہرا ہوا ۔۔۔۔

"آج آسمان سے سب ہمیں دیکھ کر کہیں گے کہ کتنے پاگل ہیں یہ زمین زادے ؟؟؟اس کے کھلے گیسو تیز ہوا کے دوش پر لہرا رہے تھے ۔۔۔۔۔

وہ اونچی آواز میں آسمان کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔

"ہیر زمین زادے نہیں ۔۔۔

             "عشق زادے "

اس نے گردن ترچھی کیے کہا ۔۔۔

ہیر اپنے دونوں ہاتھ شیر زمان کی گردن کے گرد باندھ گئی ۔۔۔۔

ایسا کر کہ وہ شیر زمان کے کب سے قابو کیے ہوئے جذبات کو ہوا دے گئی ۔۔۔۔

شیر زمان نے بائیک کی رفتار میں تھوڑی کمی کی اور ہیر کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اس کا چہرہ اپنی طرف کیا ۔۔۔۔

ہیر کھڑی تھی ۔۔۔وہ اس پر جھکی تو شیر زمان کے چہرے پر اس کے سنہری بال بکھر گئے ۔۔۔۔

اس نے ہیر کی پیشانی کو اپنے لبوں سے چھوا ۔۔۔۔

اس ٹھنڈ میں ہیر اسکے عمل پر مزید ٹھنڈی پڑ گئی ۔۔۔۔

وہ پیچھے ہوئی اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

شیر زمان نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔اس کے چہرے پر پھیلے حیا کے رنگ دیکھ حیران ہوا ۔۔۔۔صرف اتنے میں ہی اس کے گال دہکتے ہوئے لال انگارہ ہو گئے تھے ۔۔۔۔

دونوں واپس اپنے فلیٹ میں آئے تو شیر زمان نے اس کا من پسند کھانا بنایا پھر مل کر کھایا ۔۔۔۔

اب وہ دونوں اپنی جگہ پر لیٹ گئے ۔۔۔۔۔کیونکہ رات کافی بیت چکی تھی۔۔۔۔

شیر زمان اپنی جگہ پر لیٹا ہوا تھا اور اپنے موبائل پر کچھ ضروری میسجز چیک کر رہا تھا ۔۔۔۔ہیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گال کے نیچے رکھا ۔۔۔۔

شیر زمان اب لیفٹ ہینڈ سے موبائل یوز کرنے لگا ۔۔۔۔۔کچھ آفیشل میسجز تھے جن کا جواب دینا لازمی تھا ۔۔۔۔

اس نے اپنا کام مکمل کیے ہیر کی طرف دیکھا جو آنکھیں موندے شاید سو چکی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے ہیر کی طرف رخ کیے کروٹ کے بل لیٹا ۔۔۔۔

"زندگی دو پل کی ۔۔۔۔۔

"انتظار کب تک ۔۔۔۔

"ہم کریں گے بھلا ؟؟؟؟

"تمہیں پیار کب تک ؟؟؟

"نا کریں گے بھلا ؟؟؟؟

"زندگی دو پل کی ۔۔۔۔۔

وہ اپنی سحر انگیز آواز میں ہولے سے گنگنایا ۔۔۔۔۔یہ سحر انگیز آواز اسے زیگن سے وارثت میں ملی تھی مگر وہ آج پہلی بار گنگنایا تھا ۔۔۔۔۔

وہ خود کو اس کی سحر انگیز آواز میں ڈوبا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔

"مجھے نیند نہیں آرہی ",ہیر ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر بولی ۔۔۔۔

شیر زمان فورا خاموش ہوگیا ۔۔۔۔یعنی وہ جاگ رہی تھی ۔۔۔۔۔

وہ جان گیا تھا کہ ہیر کیوں نہیں سوئی تھی ۔۔۔۔شیر زمان نے اپنی انگلیاں اس کے ریشمی گیسوؤں میں ہولے ہولے چلائیں ۔۔۔۔۔

"آپ کی یہ خوشبو ہمیشہ میرے پاس رہے گی نا ؟؟؟

ہیر بند آنکھوں سے بولی ۔۔۔۔

اس کے کلون کی مہک کو اپنی سانسوں میں بھرتے ہوئے ۔۔۔۔

"میں وہ خوشبو نہیں جو ہوا میں کھو جاؤں گا۔تم ہمیشہ اسے اپنی سانسوں میں بسا ہوا پاؤ گی ۔۔۔۔

وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔۔

جانے کتنی دیر بیت گئی ۔۔۔۔

اسے ہیر کی سانسوں کی مدھم سی آواز آنے لگی جو اشارہ تھا کہ وہ سو چکی ہے۔

شیر زمان کی ایک طرف رکھے موبائل سے کوئی میسج نوٹیفکیشن موصول ہوئی تو اس نے اس کی سکرین پر دیکھا ۔۔۔۔اسے دیکھتے ہی شیر زمان کے چہرے کے نرم تاثر درشتگی میں بدلے۔۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھنے لگا مگر اس کا ایک ہاتھ ابھی بھی ہیر کے گال کے نیچے تھا ۔۔۔۔

اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اس کے گال کے نیچے سے نکالا۔۔۔۔جہاں اب سرخ نشان بن گیا تھا ۔۔۔۔

شیر زمان نے دوری کو نزدیکی میں بدلتے ہوئے اس کے سرخی مائل گال پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔

کتنا روح پرور احساس تھا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ پیچھے ہوتا ہیر جو شاید ابھی بھی نیند میں خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔پیچھے ہوتے ہوئے شیر زمان کی شرٹ کا کالر دبوچ گئی ۔۔۔۔

شیر زمان نے اپنی پرنسسز کے پیارے سے عمل پر خوش ہوتے ہوئے دوسرے گال پر بھی پیار کیا ۔۔۔۔

وہ اس کی مونچھوں کی چبھن سے تھوڑا سا کسمسائی ۔۔۔۔مگر پھر واپس نیند میں ڈوب گئی ۔۔۔۔

شیر زمان آہستگی سے اپنا کالر اس کی نازک سی گرفت سے  چھڑواتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

"کیا تمہارے شوہر نے بھی تمہارے ساتھ ؟؟؟؟

جنت جو لان میں گھاس کے پاس بیٹھی زائشہ کے ساتھ بیٹھی تھی اسے خاموش دیکھ کر پوچھنے لگی .

"نہیں جنت ایسا کچھ نہیں ہے "زائشہ نے اس کی بات پر فورا نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

"جنت تم اپنی سٹڈیز کمپلیٹ کرلو ۔۔۔اچھا وقت گزر جائے گا ۔۔۔۔زائشہ نے اسے مشورہ دیا ۔۔۔تاکہ وہ الٹی سیدھی سوچوں کو دماغ میں جگہ نہ دے ۔۔۔۔

"میرا دل نہیں کرتا پڑھنے کو "

وہ بیزاری سے بولی ۔۔۔۔

"تمہیں تو پڑھنے کا اتنا شوق تھا ۔اور تم تو منت سے زیادہ اچھی تھی پڑھائی میں ۔۔۔۔

"نہیں زائشہ آپی میں کبھی بھی اچھی نہیں تھی ۔۔۔۔

آپ کو پتہ ہے ۔میں کیا ہوں ؟؟؟

وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔۔۔

"کیا ہو ؟؟؟زائشہ نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"میں ۔۔۔۔۔وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"میں رکھیل ۔۔۔جسم فروش اور ۔۔۔۔۔

"جنت پلیز خاموش ہو جاؤ ۔۔۔بھول جاؤ یہ سب ۔۔۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی ۔۔۔

"اپنے بھائی کی طرف سے معافی مانگتی ہوں ۔۔۔۔

خدارا معاف کر دو ہمیں "

زائشہ تڑپ کر بولی ۔۔۔۔۔

" زائشہ تم میرے لیے دعا کرو نا ۔۔۔۔ میں مر جاؤں ۔۔۔ 

"جنت پلیز اپنی بیٹی کی طرف دیکھو اسے تمہاری ضرورت ہے۔باقی سب بھول جاؤ ۔۔۔۔بہت مشکل ہے سب مگر اس کی طرف دیکھو ۔۔۔۔

"مما آؤ "منت جو ان دونوں کے پاس لان میں کھیل رہی تھی ۔جنت کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگی ۔۔۔۔۔

جنت آیت کو دیکھ کر ہوش کی دنیا میں لوٹ آئی ۔۔۔ اس وقت نارمل ہو گئی تھی ۔وہ منت کو لے کر اپنے روم میں چلی گئی کپڑے تبدیل کروانے کے لیے ۔کیونکہ وہ مٹی سے اپنے کپڑے گندے کر چکی تھی ۔۔۔۔

زائشہ جانے کتنی دیر ہی زیان اور جنت کے ساتھ ساتھ منت کے مستقبل کے بارے میں سوچتی رہی ۔۔۔۔۔

ساتھ ہی سوچ پلٹ کر حسام پر جا رکی ۔۔۔۔۔

"حسام ۔۔۔آپ کو کیا ایسا لگ رہا ہے کہ میں اب تک ابتسام کو بھلا نہیں سکی ۔۔۔۔۔آپ کو میری آنکھوں میں اپنے لیے کوئی احساس نظر نہیں آتا ؟؟؟یہ بے رخی کیوں ؟؟؟جب سے آئیں ہیں ۔ایک بار بھی مجھ سے بات نہیں کی ۔۔۔وہ اکیلی بیٹھی ہوئی خودی سے ہمکلام تھی۔۔۔۔۔

آج شہریار سب کے ساتھ حویلی آیا ہوا تھا ۔۔۔۔تاکہ ابتسام کو لے کر جو غلط فہمی پیدا ہوچکی تھی وہ دور ہو جائے ۔۔۔۔سب شام کا کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے ۔۔۔۔

حسام زائشہ کے روم میں تھا ۔جو شادی سے پہلے زائشہ کا ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔

وہ کافی دیر سے کھڑکی میں کھڑا نیچے اکیلی بیٹھی زائشہ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔

"زائشہ ۔۔۔اس بار تمہیں پہل کرنی ہوگی ....

"تم نےمجھ سے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ میں کیسا ہوں

اتنا عرصہ کہاں تھا ۔۔۔کیا بیتی مجھ پر ۔۔۔۔۔

زائشہ نے خود پر کسی کی توجہ محسوس کی تو نظر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔

حسام اتنی دیر میں پیچھے ہوچکا تھا ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے کمرے تک آئی ۔۔۔

کمرے کی لائٹ آف تھی ۔۔۔۔وہ آنکھوں پر بازو رکھے سو چکا تھا ۔۔۔۔

زائشہ ڈھیلا وجود لیے اپنی جگہ پر لیٹ گئی ۔۔۔۔

کمرے میں صرف خاموشیاں گنگنا رہیں تھیں ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ابتسام کو ذوناش نے شیر زمان کا خالی روم دیا تھا کہ وہ فی الحال وہاں رات رک جائے ۔۔۔۔

اس نے سیڑھیاں چڑھنے کے لیے ابھی ابھی پہلا قدم ہی اٹھایا تھا کہ اوپر سے آندھی طوفان کی طرح اترتی ہوئی منت اس سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔

"دو سال ہو گئے ابھی تک علاج نہیں کروایا اپنی آنکھوں کا ؟؟؟

وہ کاٹ دار آواز میں بولا۔

منت اپنی پیشانی مسلتے ہوئے پیچھے ہوئی ۔۔۔۔

"آپ جو نہیں تھے تو بھلا علاج کون کرواتا "

وہ اسے کرارہ سا جواب دینا چاہتی تھی مگر منہ سے جانے یہ الفاظ کیسے برآمد ہوئے اسے خود بھی پتہ نہیں چلا۔۔۔۔

ابتسام نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔

منت شرمندگی کہ باعث بھاگتی ہوئی وہاں سے نکل گئی ۔۔۔۔۔

ابتسام تاسف سے سر ہلائے اوپر روم میں چلا گیا آرام کرنے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

وہ آج جلد ہی کلب سے نکل آیا تھا اور ابھی جب سے اپنے جہازی سائز بیڈ پر لیٹا سموک کررہا تھا کیونکہ اسے راستے میں شیر زمان کو کسی لڑکی کے ساتھ بائیک پر بیٹھے دیکھ کر اس کادم گھٹنے لگا تھا،یہ سوچ ہی اسکی رگیں پھلارہی تھی کہ اب وہ لڑکی شیر زمان کی ملکیت ہے،اس سے اپنی ذلت کا بدلہ لیتے ہوئے۔۔۔

اس نے غصے میں اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر ٹھوکر ماری،جس سے وہ ٹیڑھی ہوتے ہوئے نیچے گری اور اس پر لگا کانچ ٹوٹ کر چکناچور ہوگیا،اپنی لہو رنگ آنکھوں کو اس نے جھپکا،بہت کوشش کے باوجود پچھلے کئی دنوں سے اسکی آنکھوں میں سے سرخی نہیں جارہی تھی،اسے اب شیر زمان  سے مزید نفرت ہونے لگی،جس نے اس لڑکی کو اپنی ملکیت بنالیا تھا،وہ تو اسکی تھی "عمر آفندی" کی پھر کیسے اب وہ کسی اور کی ہو سکتی تھی ۔اس پر پہلے اس نے ہاتھ رکھا تو کوئی دوسرا کیسے اسے استعمال کر سکتا تھا ۔۔۔۔

اگر ان کی شادی ہو چکی ہو گی تو؟،مطلب دونوں نے کل ایک ساتھ خوبصورت لمحات گزاریں ہونگے،اور۔۔۔۔اور وہ تو  اسکے گھر پر ہوگی۔۔۔اسکی بیوی کی حیثیت سے۔۔۔غصے کی زیادتی سے عمر کا چہرہ حد سے زیادہ سرخ ہوگیا تھا۔

آآآآہ

اسکی اذیت بھری دھاڑ پورے گھر میں گونجی تھی شدید جنون کی حالت میں عمر آفندی نے پورا کمرہ تہس نہس کر کے رکھ دیا،پھر گرنے کے انداز میں وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا چلانے لگا ۔۔۔۔۔

"اپنی زندگی کا آخری دن اس کے ساتھ گزار لے شیر زمان ۔۔۔۔۔

عمر آفندی اپنی بیعزتی کا بدلہ اور اپنی بلبل تجھ سے واپس لے کر رہے گا "

خون آلود آنکھوں سے وہ مخملیں قالین  کو گھورتے ہوئے وہ نہایت تنفر سے غرایا۔۔۔۔۔۔

"ہیلو !

اس نے فون ملایا جبکہ لبوں پر خباثت رینگ رہی تھی ۔۔۔

"ہیلو جی !

",مجھے آپ کو آپکی بیٹی کے بارے میں ایک پکی خبر دینی ہے "عمر آفندی نے کہا ۔

"بتاؤ میری بیٹی کہاں ہے ؟؟تمہیں جو بھی چاہیے مل جائے گا مگر میری بیٹی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے"شہریار جو آج رات حویلی سب سے ملنے آئے تھے تاکہ ابتسام کو لے کر سب کے دل میں جو گلے شکوے ہیں وہ دور ہو جائیں ۔۔۔رات زیادہ ہوگئی تو وہ سب حویلی میں ہی رک گئے تھے آج کی رات۔۔۔ زیگن کے کہنے پر ۔۔۔۔

شہریار اور زیگن ابھی لاونج میں تھے باقی سب سونے کے لیے جا چکے تھے ۔۔وہ کوئی کاروباری باتیں کر رہے تھے کہ انہیں کسی کا فون آیا ۔۔۔۔

"نہیں سر مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے بس آپ کو آپکی بیٹی کا پتہ بتانے کے لیے کال کی تھی ۔۔۔۔

"بتاؤ مجھے کہاں ہے ہیر ؟؟؟شہریار نے بے چینی سے پوچھا ۔

زیگن بھی اس کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔

"لاؤ مجھے دو فون میں پوچھتا ہوں "

زیگن نے اس کے ہاتھ سے فون لیا ۔۔۔۔

"بتاؤ کہاں ہے ہیر ؟؟؟زیگن کی بھاری آواز سیپکر پر ابھری ۔۔۔۔

"ہیر دبئی میں ہے شیر زمان کے فلیٹ میں ",وہ آگ لگا کر خود مطمئن ہوئے کال کاٹ گیا ۔۔۔فون بستر پر اچھالتے ہوئے وہ آنکھیں موند کر پر سکون ہوا ۔۔۔۔

"اسے کہتے ہیں سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ۔

"ہا ہا۔ہا ۔۔۔۔وہ کمینگی سے اونچی آواز میں ہنسنے لگا ۔۔۔۔

"چلو شہریار میرے ساتھ "

"مگر کہاں جا رہے ہیں ہم ۔۔جگہ تو بتاؤ ؟؟؟

"میں اپنا پاسپورٹ لے کر آتا ہوں تم بھی گھر سےاپنا اور ہیر کا لے کر سیدھا ائیر پورٹ پہنچو وہیں سے ایک ساتھ نکلیں گے ",

"مجھے بتاؤ جا کہاں رہے ہیں ؟؟؟شہریار نے پریشانی سے پوچھا۔

"شہریار دعا کرو اگر یہ خبر سچ نکلی تو میں اسے ۔۔۔۔وہ غصے میں آگ بگولہ ہوتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

شہریار ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا وہاں سے گھر کے لیے نکل گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

کسی کی تلاش میں وہ یہاں وہاں دیکھ رہا تھا جب اسے اچانک ایک سفید رنگ کا دوپٹا نظر آیا تھا وہ اس دوپٹے کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھا تھا  مگر ریشمی  دوپٹہ اسکے ہاتھ سے پھسلتا جا رہا تھا جیسے کوئی اسے اسکے ہاتھوں سے کھینچ رہا تھا اس نے مُڑ کر دیکھا تھا تو خاردار جنگل میں ایک لڑکی  سفید  سوٹ پہنے اسکے آگے بھاگ رہی تھی ۔۔۔۔ااور وہ اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔ تیز  ہوا کے باعث اس لڑکی کے بال اڑ رہے تھے ۔

 وہ ابھی تک اسکا چہرہ دیکھ نہیں پایا۔۔۔۔وہ مزید تیزی سے اس کی طرف لپکا ۔۔۔۔

اب وہ اس لڑکی کو اپنی مضبوط گرفت میں تھامے اپنی طرف کھینچنا چاہتا تھا جب وہ  لڑکی زور سے اپنا ہاتھ اسکےہاتھ سے چھڑوا کر وہاں سے بھاگ گئی۔۔۔۔دور جاتے ہی اس لڑکی کی کرب زدہ چیخ و پکار سے اس کو اپنےکان پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔۔۔وہ غائب ہوگئی تھی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی  اور وہ تہی داماں رہ گیا ۔  

فون بیل کی آواز سے وہ گہری نیند سے جاگا ۔۔۔۔ اسے اب تک یقین نہ  آیا تھا یہ محض ایک خواب تھا ۔ اسے کافی عرصے سے اسے ایسے خواب  آنا شروع ہوگئے تھے  ۔اس نے پاس پڑے ہوئے موبائل سے کال ریسیو کی ۔۔۔۔۔

"سر ۔۔۔۔۔۔کل کی بجائے S.K کے مال کی سمگلنگ آج ہو رہی ہے "

زیان جو ابھی اپنے فلیٹ میں سونے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ اس کو اپنے ماتحت کی کال آئی ۔۔۔۔

"اوکے تم ٹیم سمیت پہنچو میں بھی بس آیا "

Hurry up.....

وہ سے آرڈر جاری کرتے ہوئے کمفرٹر خود سے پیچھے پھینک کر بستر سے باہر نکلا ۔۔۔۔

آج بھاری مقدار میں افیم ،چرس ،گانجا اور ہتھیاروں کی سمگلنگ ہو رہی تھی ۔۔۔۔جو پاکستان سے سمگل ہو کر افغانستان کے راستے سے باہر بھیجے جا رہے تھے ۔۔۔۔

دو گاڑیاں اور ایک ٹرک تھا جس میں اوپر پھلوں کی پیٹیاں لگا رکھی تھیں جس سے شبہ نا ہو کہ نیچے کیا رکھا ہے ۔۔۔۔وہ تینوں گاڑیاں اپنے سفر پر روانہ تھیں کہ کسی تین افراد نے آکر ان کا رستہ روکا ۔۔۔۔۔

ٹرک سب سے آگے تھا ۔۔۔۔۔

اس میں موجود ڈرائیور ان لوگوں کو اپنا راستہ روکنے کی وجہ پوچھنے کے لیے اتر کر باہر آیا مگر اسے کیا پتہ تھا کہ وہ اپنی موت کی طرف خود قدم بڑھا رہا تھا ۔۔۔۔۔

مقابل موجود شخصیت نے بنا اسکی بات سنے تیز دھار بلیڈ سے اس کی گردن پر وار کیا ۔۔۔۔وہ نیچے گر کر تڑپنے لگا ۔۔۔۔۔پیچھے موجود دونوں گاڑیوں اور ٹرک میں چھپے لوگ بھی باہر نکل آئے ۔۔۔۔۔

وہ کل ملا کر بیس سے بائیس لوگ تھے ۔۔۔۔اور وہ تین ۔۔۔۔

جن میں ایک ظاہری خدوخال سے لڑکی معلوم ہو رہی تھی ۔۔۔۔

رات کے اندھیرے میں انسان سڑک پر چند منٹوں میں لاشوں کے ڈھیر لگ چکے تھے ۔۔۔۔

"بہت بھاگ لیا اب تمہارا کھیل ختم "

زیان نے پیچھے سے آکر اس نقاب پوش کی پشت پر گن کی نال رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"چچچچچچچہ۔۔۔۔

"ہمیشہ کی طرح آج بھی لیٹ پہنچے ہو "

رات کی پر اسرار خاموشی میں اس نقاب پوش کی وحشت زدہ آواز سنائی دی ۔۔۔

پل بھر کے لیے زیان کے بھی  رونگھٹے کھڑے ہوئے۔۔۔

تم پولیس والوں کی اتنی اوقات نہیں کہ اتنے مال کو پکڑ سکیں ۔۔۔۔۔ہمیشہ لیٹ لطیف ۔۔۔

وہ استہزایہ انداذ میں ہنسا۔۔۔

"کون ہو تم ؟؟؟زیان نے اس سے سپاٹ انداز میں سوال کیا۔

"مرد پیچھے سے وار نہیں کرتے ۔۔۔ڈرپوک کرتے ہیں "

"مرد ہے تو سامنے سے وار کر کہ دکھا "

وہ نقاب پوش اپنی گھمبیر آواز میں بولا ۔۔۔۔

اس نقاب پوش نے ایک ہاتھ مار کر زیان کے ہاتھ میں موجود گن دور گرائی ۔۔۔

اور اس کی گردن کو اپنی بازو میں لپیٹا ۔۔۔۔۔

زیان نے جب گردن گھما کر سیاہ ہڈی میں موجود نقاب پوش کی آنکھوں کو قریب سے دیکھا تو آج اس کا شک یقین میں بدل گیا ۔۔۔۔کئی لمحے تو اسے یقین کرنے میں لگے مگر وہ خود کو سنبھال چکا تھا ۔۔۔۔

"اس کی نظر اس کے ہاتھ پر گئی جہاں ابھی بھی بلیڈ موجود تھا ۔اور اس ہاتھ کی انگلی میں شیر والی رنگ جو اس نے دوسال پہلے بھی دیکھی تھی جب وہ لڑکیوں کو یہاں سے بچانے آیا تھا اور جنت والا معاملہ ہوا تھا ۔۔۔تب بھی اس نے نقاب پوش کی انگلی میں یہی رنگ دیکھی تھی ۔مگر یہ سوچ کر جھٹلا دیا تھا کہ ضروری نہیں ایسی رنگ صرف ایک انسان کے پاس ہی ہو ۔

"اپنا چہرہ دکھاؤ "

وہ کرختگی سے بولا ۔۔۔

"ہم سب کی خواہشیں پوری کرتے ہیں تمہاری یہی خواہش ہے تو یہی سہی ۔۔۔۔۔

اس نے ہاتھ ڈال کر چہرے سے ماسک اتارا ۔۔۔۔

اب تو شک کی گنجائش نہیں رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ نیلی آنکھیں شیر زمان کی ہی تھیں ۔۔۔۔۔اور وہی چہرہ ۔۔۔۔۔

"میرے راستے میں آنے والے کو میں بخشتا نہیں مگر تمہیں چھوڑ رہا ہوں کسی کے صدقے "

شیر زمان کی آنکھوں میں زیان کی معصوم سی بیٹی کا چہرہ لہرایا تو وہ اپنے درشت انداز میں بولا ۔۔۔۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔ ایک اور بات ہے ۔۔۔۔ مجھے پکڑنے کی خواہش کو بھول جاؤ ۔۔۔۔وہ اپنے چہرے سے اترا ہوا ماسک زیان کے پیچھے کھڑے ہوئے انسان کی طرف پھینکتے ہوئے بولا۔۔۔۔

اس انسان نے نہایت  پُھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیچھے سے زیان کے چہرے پر وہی نقاب ڈالا ۔۔۔۔۔

زیان اچانک اس حملے کی تاب نا لا سکا ۔۔۔۔

اس انسان نے زیان کو دھکا دیا۔۔۔تو وہ روڈ پر گرا ۔۔۔۔۔

زیان  کی ٹیم میں سے ایک نے 

ان تینوں پر فائر کھول دیا ۔۔۔۔

جو ان تینوں میں سے ایک کی بازو میں لگا ۔۔۔۔۔

مگر وہ تینوں رات کے اندھیرے میں غائب ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔

وہ سب ہاتھ ملتے رہ گئے ۔۔۔۔۔

"کتنی بار کہا ہے اسے مت لایا کرو "

شیر زمان کی رعب دار آواز اسے اپنے کانوں میں سنائی دی ۔۔۔۔

"میں نے نہیں کہا تھا یہ خود ہی "وہ منمنایا اس کے سامنے ۔۔۔۔۔

"چلو اسے لے کر ہاسپٹل ",اس نے مقابل موجود انسان کو حکم دیا ۔۔۔۔

"جی باس !!!!اس نے شرمندگی سے مؤدب انداز میں کہا ۔۔۔۔۔

شیر زمان اس کی زندگی بچانے کے لیے آج رات یہاں رک گیا تھا ۔اسے کیا پتہ تھا دوسری طرف کوئی اس کی زندگی کو اس سے دور لے جائے گا ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"دروازہ کھولو "!!!!

فلیٹ کے باہر زاہد موجود تھا اپنی گن سمیت ۔۔۔۔

"سر مگر شیر زمان صاحب نے کہا ہے ان کے علاؤہ کسی کو بھی اندر نا جانے دیا جائے ۔۔۔

معزرت میں آپ کو جانے نہیں دے سکتا ۔زاہد نے سر جھکائے ہوئے کہا ۔

"میں باپ ہوں اس کا "زیگن نے کڑے تیوروں سے ماتھے پر بل ڈالے کہا ۔۔۔۔

زاہد ان باپ بیٹوں کے تیور دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔۔آج پتہ چلا تھا شیر زمان کس پر گیا تھا ۔۔۔۔

"جی سر "زاہد نے دروازہ کھولا۔۔۔۔

زیگن اور شیر زمان دونوں اندر گئے ۔۔۔۔

رات کا اندھیرا صبح کی روشنی میں بدل چکا تھا ۔۔۔۔

مگر ہیر ابھی بھی سوئی ہوئی تھی کیونکہ وہ رات کو لیٹ جو سوئی تھی ۔۔۔۔

"ہیر ۔۔۔۔۔ہیر کہاں ہو تم ؟؟؟؟

شہریار کی اونچی آواز گھر میں گونجی ۔۔۔۔

ہیر جو نیند میں تھی ۔۔۔۔اسے اپنے آس پاس مانوس اور جانی پہچانی آواز سنائی دی تو فورا بستر پر اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔

اسے پھر سے وہی آواز آئی ۔۔۔۔

"یہ اس کا وہم نہیں تھا ۔۔۔یہ سچ میں اسکے بابا کی آواز تھی ۔

شہریار رومز کے دروازے کھول کر چیک کر رہا تھا ۔دوسرے روم کو دروازہ جونہی کھول سامنے ہیر کھڑی تھی ۔۔۔۔

جینز اور شرٹ میں کھلے بالوں سے آنکھوں میں نیند کی خماری لیے ۔۔۔۔

"ہیر !!!!!

شہریار نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر بے چینی سے آواز دی ۔۔۔۔

"بابا !!!

وہ بھاگتی ہوئی ان سے لپٹی ۔۔۔۔

",کیسی ہے میری بچی ؟؟؟وہ اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے نم لہجے میں بولے ۔۔۔

"میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔وہ بھیگی آواز میں بولی اور شہریار سے چپکی رہی اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کے بابا اسے لینے یہاں آ چکے ہیں ۔

"ہیر !!! چلو میرے ساتھ یہاں سے """

شہریار نے کچھ لمحے بعد کہا ۔

"مگر بابا وہ ۔۔۔۔شیر۔۔۔۔۔

"تم چلو ",شہریار نے اس کی بات درمیان میں کاٹ دی ۔۔۔

"چادر لے لو"

شہریار نے اپنی بیٹی پر زرا سی نظر ڈال کر کہا ۔۔۔۔اب وہ ان کی پہلی چھوٹی سی گڑیا نہیں بلکہ سترہ سالہ جوان لڑکی لگ رہی تھی ۔

ہیر نے کبرڈ سے شال نکال کر اپنے اوپر اوڑھ لی ۔۔۔۔

زیگن شہریار کے ساتھ ہیر کو باہر آتے دیکھ اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا ۔۔۔۔

اسے شیر زمان سے یہ امید نہیں تھی۔۔۔وہ غصے میں تلملا رہا تھا ۔۔۔۔

اس کی حرکت پر وہ کیسے دو سال ہیر کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے وہ ابھی اکیلے میں ۔۔۔۔۔زیگن خود کو شہریار کے سامنے شرمندہ محسوس کر رہا تھا ۔۔وہ کیسے نظریں ملائے گا شہریار سے اپنے بیٹے کی کرتوتوں کی وجہ سے ۔۔۔۔

بھلا ہو شہریار کا جو زیگن کو شرمندہ کیے بنا ہیر کو ساتھ لیے خاموشی سے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔۔

یہ تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ شہریار کی خاموشی کیا رنگ لانے والی ہے ۔۔۔۔۔

"ہیر !!!

یمنی جو لاونج میں بیٹھی تھی ہیر کو شہریار اور زیگن کے ساتھ اندر آتے دیکھ بے یقینی سے بولی ۔۔۔۔

اس کی بلند آواز سن کر ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگاتی ہوئی بریرہ اور ذوناش نے بھی دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

زرشال جو جوس کا جگ لیے کچن سے نکل رہی تھی ۔۔۔۔وہ بھی مڑی ۔۔۔۔

ہیر کو اندر آتے دیکھ سب حویلی کے لاونج میں جمع ہوگئے ۔۔۔۔

ابتسام اور حسام بھی اس کی طرف بڑھے ۔۔۔۔

"مما !!!ہیر بھاگ کر یمنی سے لپٹ کر بولی ۔۔۔۔

"میری بچی "یمنی نے اس ساتھ لگتے محبت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کو اتنے عرصے بعد دیکھ کر رونے لگیں ۔۔۔۔

ابتسام اور حسام نے اسے اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔۔پھر سب باری باری ہیر سے ملے ۔۔۔۔

"ہیر کہاں سے ملی ہے ؟؟؟یمنی نے اپنے آنسو پونچھ کر شہریار کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

شہریار کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔۔۔

"چلو یمنی یہاں سے ۔۔۔مجھے ہیر کو یہاں نہیں رکھنا ۔۔۔۔ہم یہاں سے کہیں دور چلے جائیں گے اپنی بیٹی کو لے کر "

"مگر بابا ؟؟؟ہیر نے شہریار کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"کیا ؟؟؟شہریار نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں کہا۔

"بابا شیر زمان کہتے ہیں کہ بیویاں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں ۔پھر آپ مجھے ان سے دور کیوں لے کر جا رہے ہیں ؟"

اس نے معصومانہ سوال کیا ۔۔۔

شہریار کے چہرے کے نقوش تن گئے ۔۔۔اس کے سوال پر ۔۔۔۔

جبکہ وہاں موجود باقی افراد ہیر کی بات سن کر بھونچکا رہ گئے ۔۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہی ہو ہیر ؟؟؟

یمنی نے ہیر کو دونوں شانوں سے تھام کر اس کا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"مما وہ میرے شوہر ہیں "وہ سر جھکائے بولی ۔۔۔۔

شہریار کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔۔۔۔۔

"ہیر شیر زمان کے ساتھ تھی ؟؟؟؟یمنی نے سوال کیا ۔۔۔۔

"ہاں "شہریار کے اثبات میں جواب دیتے حسام اور ابتسام دونوں طیش میں آئے ۔۔۔۔

"شرم نہیں آئی اسے اپنے ہی گھر کی بیٹی بہن کو ۔۔۔۔

ابتسام نے غصے میں آکر کہا ۔۔۔

"مما وہ کہتے ہیں کہ اب میں ہمیشہ انکے ساتھ رہوں گی جیسے آپ اور پاپا رہتے ہیں ۔"وہ منمائی ۔۔۔

"میری معصوم سی بیٹی کے دماغ میں جانے کیا کیا بھردیا اس نے ۔۔۔۔جانے کون سی پٹیاں پڑھائی ہیں اسے "یمنی بھی پھٹ پڑی ۔۔۔۔

"شہریار اب جو ہو چکا ہے اس کو تو بدل نہیں سکتے ۔۔۔۔اگر شیر زمان ، ہیر سے نکاح کر چکا ہے تو تمہیں اسے رخصت کردینا چاہیے ۔"زمارے نے اسے اپنی رائے دی ۔۔۔۔

"نہیں زمارے میں ایسا کبھی بھی نہیں کروں گا ۔۔۔۔

"اگر شیر زمان کی جگہ شاہ من جیسا شریف انسان  ہوتا تو میں ضرور سوچتا بھی ہیر کو اسکے حوالے کرنے کے ۔۔۔۔

سامنے کھڑا ہوا شاہ من شہریار کی بات سن کر سخت بد مزہ ہوا ۔۔۔۔۔

"مگر یہاں بات اس شیر زمان کی ہے ۔۔۔۔۔جس کا تعلق نا جانے کن کن لوگوں سے ۔۔۔۔بہت ہی کوئی پہنچی ہوئی چیز ہے وہ ۔۔۔۔جو ایجینسیوں سے ابتسام کو نکلوا سکتا ہے ۔وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ایسے مشکوک انسان کے ہاتھ میں کبھی میں اپنی بیٹی کا ہاتھ نا دوں "

"کہاں وہ چھ فٹ کا غنڈہ نما انسان  اور کہاں میری پھول سی بچی ۔۔۔۔ان کا کوئی جوڑ نہیں۔

"اب آپ میرے بیٹے کی شان میں قصیدے پڑھنا بند کردیں ۔۔۔۔اتنا بھی برا نہیں میرا شیر زمان۔۔۔۔اگر اتنا ہی برا کیا ہوتا اس نے ہیر کے ساتھ تو آج پھر پہلے سے زیادہ کِھلی ہوئی نا دکھائی دیتی ۔۔۔۔خبردار اگر کسی نے میرے بیٹے پر انگلی اٹھائی ۔۔۔۔اس نے کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا بلکہ شرعی حیثیت سے اسے اپنا کر اپنے ساتھ رکھا "ذوناش سے مزید برداشت نہیں ہوا تو وہ اپنے بیٹے کے فیور میں بول اٹھی ۔۔۔۔

"میں اس کے خلاف پولیس میں رپورٹ کراؤں گا۔کورٹ میں کیس کردوں گا ۔میری بچی کو اغواء کرنے اور زبردستی نکاح کر کہ اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ۔۔۔۔ہم سے ہماری بچی کو دور رکھنے کے لیے میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا "

"شہریار تم ٹھیک کہہ رہے ہو "

میں اس معاملے میں تمہیں حق بجانب سمجھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیر تمہاری بیٹی ہے۔۔۔۔ اور تم اس کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے کا پورا پورا حق رکھتے ہو "

 "تم جو بھی فیصلہ لو گے مجھے اپنا ہمنوا پاؤ گے ۔اور رہی بات شیر زمان سے نبٹنے کی تو وہ میں خود کر لوں گا "زیگن نے شہریار کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔۔

ہیر خاموشی سے کھڑی اپنی شال کے کناروں کو انگلیوں پر لپیٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔

حسام ۔ابتسام ۔زائشہ ۔یمنی۔ ہیر اور شہریار سب ایک ساتھ وہاں سے نکل گئے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

شر زمان نے جب اپنے فلیٹ میں قدم رکھا تو اس نے وہاں کوئی ہلچل محسوس نا کی ۔۔۔۔وہ ہیر کے کمرے میں گیا ۔۔

مگر وہاں بھی وہ ندارد ۔۔۔اسے کسی انہونی کا خدشہ لاحق ہوا ۔۔۔۔۔

"زاہد !!!!

زاہد !!!!

وہ اونچی آواز میں دھاڑا ۔۔۔۔

"ج۔۔جی ۔۔۔سر....

"ہیر کہاں ہے ؟؟؟؟وہ تمہاری ذمے داری تھی نا ؟؟؟

"سر مگر وہ آپ کے والد اور اور شاید بی بی جی کے والد تھے وہ آئے تھے "وہ مؤدب انداز میں بولا ۔۔۔۔

 "ہیر میں تمہیں ڈھونڈھ نکالوں گا "وہ اونچی آواز میں غرایا ۔۔۔۔

زوردار پنچ سامنے لگے ڈریسر کے آئینے پر دے مارا۔ چھناکے کی آواز سے شیشہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ زاہد کی خوف سے چیخ نکل گئی۔ شیر زمان کے ہاتھوں سے خون نکلنے لگا تھا۔اس نے پلٹ کر زاہد کو دیکھا۔ وہ سہما سا آنکھیں پھاڑیے اپنے صاحب کو دیکھ رہا تھا۔

"چلے جاؤ یہاں سے زاہد ۔میں نے تم پر اعتبار کر کہ بہت بڑی غلطی کردی ۔۔۔۔تم نہیں جانتے کتنا بڑا نقصان کیا تم نے میرا " شیر زمان نے اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ وہیں ساکت کھڑا تھا ۔۔۔شیر زمان کے ڈر سے مرد ہوتے ہوئے بھی  اس کی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں۔۔۔۔ شیر زمان نے آئبرو اچکائی۔

"کیا کہہ رہا ہوں میں؟ دفعہ ہوجاو " شیر زمان کے  ہاتھوں پر کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گھسے ہوئے تھے اور خون اب ہاتھوں سے ہوتا ہوا زمین پر ٹپک رہا تھا۔ زاہد اس کے ہاتھوں سے بہتے خون کو دیکھ کر تیزی سے جان بچا کر باہر کی طرف بھاگا ۔

"میں آ رہا ہوں تمہیں لینے ہیر !!!!

وہ کہتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

شہریار نے ابتسام اور حسام کے ساتھ زائشہ لو گھر بھیج دیا تھا اور وہ خود یمنی اور ہیر کو اپنے ساتھ لیے جانے کہاں چلے گئے تھے ۔یہ شہریار نے کسی کو بھی نہیں بتایا ۔۔۔۔

حسام آج خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ۔زہن سے کرنا بڑا بوجھ ہٹ گیا تھا آج اس کی بہن صحیح سلامت واپس آ گئی تھی ۔۔۔۔

وہ باہر لاونج میں بیٹھا تھا نیوز سن رہا تھا کہ اسے چائے کی طلب ہوئی تو اپنی جگہ سے اٹھ کر کچن میں گیا تاکہ اپنے لیے چائے بناسکے۔

مگر وہاں پہلے سے ہی زائشہ موجود تھی شاید شام کے کھانے کے لیے تیاری کر رہی تھی ۔۔۔۔

وہ مسالہ پیس رہی تھی کہ کچھ اڑ کر اسکی آنکھوں میں گیا ۔۔۔۔

وہ اپنی آنکھوں کو مسلنے لگی ۔۔۔۔

حسام جو اسے دیکھ چکا تھا کہ اسکی آنکھ میں کچھ چلا گیا ہے ۔وہ تیزی سے اس کے قریب آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ لیے سنک تک آیا ۔۔۔۔اپنی مٹھی میں پانی بھر کر اس کی آنکھوں میں چھپاکے مارے ۔۔۔۔

دو تین بار ایسا کرنے سے زائشہ کو کچھ بہتری لگی تو ۔۔۔وہ سیدھا ہوئی ۔۔۔

"اب ٹھیک ہے ؟؟؟حسام نے سادہ سے انداز میں پوچھا ۔۔۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

حسام کی اپنے لیے کئیر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں پھر سے پانی بھرنے لگا ۔۔۔۔

"آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟؟؟بالاخر وہ ہمت مجتمع کیے بول پڑی ۔۔۔۔

"وہ خاموش کھڑا پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسانے اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

"کیا نہیں ہونا چاہیے ؟اسکے سوال کا جواب دینے کی بجائے وہ الٹا اسی پہ سوال داغ گیا ۔۔۔۔

کتنے دنوں کا بھرا ہوا غبار تھا اسکے اندر جو آنسوؤں کے راستے اسکی آنکھوں سے بہنے لگا ۔۔۔۔

زائشہ کی بہتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر حسام کے دل کو کچھ ہوا ۔۔۔۔دل چاہ رہا تھا سب کچھ بھلائے اسے خود میں سمیٹ لے ۔۔۔۔اوپر سے گلابی پنکھڑیوں جیسے لبوں پر ٹہری پانی کی بوندیں اس کا ایمان بگاڑ رہیں تھیں ۔۔۔۔

باہر سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تو حسام نے اندازہ لگایا کہ یہ ابتسام کے علاؤہ اور کوئی نہیں ۔۔۔کیونکہ اس وقت گھر میں بس وہی تینوں تو موجود تھے ۔۔۔۔اس سے پہلے کے ابتسام زائشہ کے روتے ہوئے سرخی مائل چہرے کو دیکھ کر ان دونوں کے بیچ کسی مسلے کا اندازہ کرتا ۔۔۔۔

حسام نے زائشہ اور اپنے درمیان سارا فاصلہ سمیٹ دیا ۔۔۔

وہ بنا وقت ضائع کیے اس کے بے حد قریب آیا اور اس کے حسین چہرے کو اپنے ہاتھوں میں پیالوں کی صورت بھر کر اپنے قریب کر گیا ۔۔۔۔

زائشہ اسکی بے حد قربت پر حق دق رہ گئی ۔۔۔۔

کہاں تو یہ جناب بات کرنے پر راضی نہیں تھے ۔ابھی ابھی ناراضگی جتا رہے تھے اور ایک دم سے اب ایسا کیا ہوا کہ وہ ۔۔۔۔۔زائشہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ حسام نے اس کے لبوں پر ٹہرے ہوئے شبنمی قطروں پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔

زائشہ نے شرم سے اپنی آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔دل زوروں شوروں سے دھڑکنے لگا ۔۔۔۔

حسام جو بس چھوٹی سی جسارت کرنے کے موڈ میں تھا ۔۔۔جزبات کی رو میں بہے ۔۔۔سارے فاصلے سمٹ جانے پر بھول چکا تھا کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہیں ۔۔۔۔

دو سالوں کی شدتیں ایک پل میں کہاں ختم ہونے والی تھیں۔۔۔۔اسکی بڑھتی ہوئی شدتیں زائشہ کے حواس مختل کیے دے رہی تھیں ۔۔۔۔

اسے اپنی سانسیں ڈوبتی ہوئی۔ محسوس ہوئیں ۔مگر وہ اسے روکنے کی کوشش بھی نہیں کر رہی تھی ۔۔۔اتنی مشکل سے تو وہ مانا تھا ۔۔۔۔اسے منع کرکہ اسکی ناراضگی پھر سے جھیلنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔

ابتسام جو بھوک لگنے کے باعث کچن میں کھانے کے لیے کچھ لینے آیا تھا اندر کا منظر دیکھ واپس مڑ گیا ۔۔۔۔۔

"بہت جلدی آگے بڑھ گئی تم زائشہ "اس کے لبوں سے شکوہ پھسلا۔۔۔۔۔

وہ جن قدموں پر آیا تھا انہیں قدموں پر اپنے روم میں واپس لوٹ گیا ۔۔۔۔۔

حسام نے اسکی ڈوبتی ہوئی سانسوں کو دیکھ اسے خود سے الگ کیا ۔۔۔۔

زائشہ اس سے نظریں بھی نہیں ملا پارہی تھی ۔۔چہرے پر گلال بکھرا پڑا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔وہ فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔

حسام اس کے چہرے پر اترے دھنک رنگ دیکھ مسمرائز ہوا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ کے لیے کھانا لگاؤں ؟وہ آہستہ آواز میں بولی ۔۔۔مزید اس کی نظروں کی تپش سے بچنے کے لیے ۔۔۔۔

"کھانے میں کیا ملے گا ؟؟؟وہ ذومعنی انداز میں بولا ۔۔۔۔

"زائشہ نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

"مطلب کھانے کا مینیو ؟؟؟حسام نے بتایا ۔۔۔

"اگر اس میں یہ ملائی سے ہونٹ یہ رسگلے بنے گال اور۔۔۔۔

"اگرکہوں کہ آج میں کھانے میں تمہیں پورےکا پورا کھانا چاہتا ہوں تو "

زائشہ کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اسکے انداز و اطوار پر ۔۔۔۔

وہ سر جھکائے انگلیاں موڑنے لگی ۔۔۔۔۔

حسام نے اس کی حالت سے حذ اٹھاتے ہوئے قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔

زائشہ اسے دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔ کیسے وہ لمحوں میں اس کا خون خشک کر گیا تھا ۔۔۔۔۔

وہ چولہے پر رکھے ہوئے سالن کی طرف رخ موڑ گئی ۔۔۔۔

دیگچی کا ڈھکن اٹھا کر اس میں چمچ چلانے لگی ۔۔۔مگر لبوں پر دھیمی سی مسکان پھیل چکی تھی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"سر یہ لیجیے رات کے سارے واقعے کی رپورٹ اس فائلز میں درج ہے "

زیان خان اپنے آفیسر کے روم میں جا کر اسکی ٹیبل پر فائل رکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"سر ٹرک اور گاڑیوں میں سے سارا مال نکال لیا ہے۔اور لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

"اس بار کوئی اہم ثبوت ہاتھ لگا ؟؟؟

"جی سر میں جان چکا ہوں سکارپین کنگ کے آدمیوں کو کون مار رہا ہے ۔اور ان کے مال کو بار بار کون پکڑوا رہا ہے۔

"تو پھر کون ہے وہ ؟؟؟آفیسر نے زیان سے پوچھا ۔

"شیر زمان "

زیان نے نام سے آگاہ کیا ۔۔۔

"وہ تو بہت بڑا بزنس مین ہے۔

زیان ایک بار اچھی طرح سوچ سمجھ لو اس پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے "

"سر سو فیصد وہی ہے۔

"تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے ؟؟؟

"سر وہ بہت چالاک ہے ۔اس نے کوئی ثبوت نہیں چھوڑا جس کی بنا پر اسے پکڑا جائے ۔

"پھر ہم بنا ثبوت کے اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے "

"سر میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔میں خود آئی وٹنیس (چشم دید)گواہ ہوں ۔آپ بس اس کے اریسٹ وارنٹ 

جاری کیجیے ۔۔۔"

"زیان دیکھا جائے تو تم لوگ ایک بات بھی سکارپین کنگ کے مال کو سمگل ہونے سے روک نہیں پائے اور نا ہی اسکے لوگوں کو پکڑ پائے ۔۔۔۔مجھے بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تم لوگ بہت ہی سلو ہو ۔۔۔۔

اور اگر سکارپین کنگ جیسے ڈان کے آدمیوں کو ختم کرنے اور اس کا مال پکڑوانے شیر زمان کرتا ہے تو دیکھا جائے تو وہ ایک طرح سے ہماری مدد ہی کرتا ہے ۔

"سر مگر وہ بے دھڑک ان لوگوں کی جان بھی لیتا ہے اور کسی کی جان لینا بھی جرم ہی ہے "زیان نے جوابا کہا ۔۔۔۔

آفیسر سوچ میں پڑ گئے ۔۔۔۔

"سر تو پھر آپ کا کیا حکم ہے اس بارے میں آپ اس کا اریسٹ وارنٹ جاری کریں گے ؟

"ٹھیک ہے زیان "

وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولے ۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"کارٹون "

آیت شاہ من کے ہاتھ سے ریموٹ کھینچ رہی تھی ۔۔۔۔

"گڑیا نا کرو یار یہ دیکھو کتنی اچھی ڈاکیومینٹری مووی چل رہی ہے ۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔نئیں ۔۔۔۔وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہی تھی ۔۔۔۔اس سے ریموٹ لینے کے لیے ۔۔۔

"یہ لو لگا لو "شاہ من نے ریموٹ اسکو پکڑایا ۔۔۔۔۔

اسے پتہ تھا آیت کو ریموٹ کنٹرول چلانا نہیں آتا تھا اسی لیے اس نے اسے پکڑا دیا ۔۔۔۔

آیت ریموٹ پر الٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگی مگر کارٹون کے علاؤہ سب لگا ۔۔۔۔۔

وہ اب باقاعدہ  رونے لگی ۔۔۔۔۔

"اچھا رکو میں لگا کر دیتا ہوں ۔۔۔۔شاہ من نے اسے مزید تنگ نہیں کیا اور ریموٹ سے کارٹون والا چینل لگا دیا ۔۔۔۔

پھر آیت کے آنسو پونچھے اور اسے اپنی گود میں بٹھایا ۔۔۔۔

"اب خوش ؟؟؟

وہ اس سے پوچھنے لگا ۔۔۔

آیت نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔پھر کارٹون کی طرف متوجہ ہوگئی ۔۔۔۔ذوناش جو اپنے کمرے سے نکل کر نیچے ا رہی تھی لاونج میں صوفے پر بیٹھے ہوئے شاہ من اور آیت کو دیکھ کر انکے من میں ایک خواہش جاگی ۔۔۔جس پر اس نے عمل کرنے کا سوچا ۔۔۔۔

وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی اور شاہ من کے پاس دوسرے خالی صوفے پر بیٹھ گئی۔

"شاہ من تم سے کچھ کہنا تھا مجھے "ذوناش نے اپنی بات کی تمہید باندھی ۔۔۔

"جی مام کہیے نا "

"بیٹا آیت محبت کی ترسی ہوئی بچی ہے۔اسے ایسا ہی پیار دے سکتے ہو ہمیشہ ؟؟؟

"مما آیت معصوم سی بچی ہے۔اسے دیکھ کر کسے پیار نہیں آئے گا "

"پھر تم اسے ہمیشہ کے لیے اپنا کیوں نہیں لیتے ۔۔۔۔اس گھر میں پھر سے خوشیاں لوٹ آئیں گی "ذوناش نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

"ایک منٹ مام ۔۔۔۔آپ کے کہنے کا مطلب کیا ہے "؟

وہ آیت کو اپنی گود سے اتار کر ایک طرف بٹھاتے ہوئے بولا ۔

"اب تم اتنے بھی بچے نہیں کے میری بات کا مطلب نا سمجھ سکو "

"حد ہو گئی مام ویسے "

"اس گھر میں کوئی بندہ شریف بھی نا ہو ۔۔۔۔۔

"پہلے وہ شہریار انکل مجھے کہہ رہے تھے کہ ۔۔۔۔وہ بات ادھوری چھوڑ گیا ۔۔۔

اور اب آپ۔۔۔۔۔۔

میں اسے اپنے بھائی کی بیٹی سمجھ کر پیار کرتا ہوں اس کے علاؤہ آپ مجھ سے اور کسی بھی قسم کی کوئی امید مت رکھیے گا"

"آخر میری بھی کوئی اپنی زندگی ہے اپنی چوائس ہے ۔"آج وہ بولنے پر آیا تو بولتا ہی چلا گیا ۔۔۔۔۔

"مجھے اس معصوم پر پیار آتا ہے ۔مگر جس رشتے سے آپ سمجھ رہی ہیں ایسے نہیں "

"جنت کو میں اپنی بہن کی طرح مانتا ہوں ۔پلیز اس بارے میں مجھے فورس مت کرئیے گا ۔۔۔۔

"ایک ان چاہے رشتے کے ساتھ روز سسک سسک کر مرنے سے بہتر پہلے ہی کوئی دوسری راہ اختیار کر لی جائے ۔۔۔۔۔

"آئی ایم سوری مام اگر آپ کو برا لگا ۔۔۔۔

میں ہمیشہ اسے ایسے ہی پیار کروں گا ۔۔۔مگر اس حثیت سے نہیں جیسا آپ چاہتی ہیں "وہ دو ٹوک انداز میں اپنی بات ختم کیے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

جبکہ ذوناش تو اپنے بیٹے کی بات پر چپ کی چپ ہی رہ گئی ۔۔۔۔وہ جنت کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنا چاہتی تھی اسی لیے اپنی طرف سے یہ کرنے کا سوچا ۔۔۔۔

وہ کسی سے کیا بات کرتی جب اپنے بیٹے کا ہی ری ایکشن اتنا شدید قسم کا تھا ۔۔۔۔۔

وہ گہری سانس بھر کر رہ گئی۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ اپنی پراڈو  میں سے نکلا۔۔ سامنے موجود بلڈنگ پر شہریار  انڈسٹریز کا بورڈ کنندہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ چہرے پر شکنوں کا جال بچھا تھا۔۔۔پیشانی کی رگیں اُبھری ہوئی تھیں ۔مٹھیاں بھینچ کر دانت پیستے ہوئے۔۔۔

وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا اپنے اندر اٹھتے  طوفان کو دباتا اندر داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔مین گیٹ پر موجود گارڈز نے اسے روکنا چاہا ۔۔۔۔مگر شیر زمان کی ایک گھوری اور ملکیت کے انداز سے ڈر کر پیچھے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آفس میں موجود ورکرز  اپنے اپنے کام انجام دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

لفٹ میں داخل ہوکر وہ فورتھ  فلور پر پہنچا جہاں شہریار کا آفس تھا ۔۔۔۔۔۔۔ 

اس نے لات مار کر دروازہ کھولا ۔۔۔۔

ٹھا کی آواز پر شہریار نے فائل سے سر اٹھا کر اندر آنے والے کو دیکھا ۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ شیر زمان اس کے پاس ضرور آئے گا ۔۔۔مگر اتنی جلدی اس بات کی اسے امید نہیں تھی ۔۔۔۔

"میری بیوی کو کہاں چھپایا ہے "

شیر زمان نے بنا لگے لپٹے ابرو اچکا کر کرختگی سے پوچھا ۔۔۔

شہریار کرسی دھکیل کر اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔

کون سی بیوی ؟؟؟

"آپ اچھی طرح جانتے ہیں میں کس کی بات کر رہا ہوں "

"بیوی تمہاری ہے اور خبر مجھے ہوگی یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی !!!

شہریار طنزیہ انداز میں بولا ۔۔۔

"آپ بات کو گھمائیں مت  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بتائیں کہ  میری بیوی کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟"وہ تنفر زدہ آواز میں دھاڑا ۔۔۔۔۔

 اس نے بپھرے ہوئے شیر کی مانند  ایک جاندار کک سامنے پڑی چئیر کو ماری وہ اچھل کر دور جاگری ۔۔۔۔۔

"میں ہیر کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔واپس کریں مجھے ",وہ انجانے میں شہریار کو طیش دلا گیا ۔۔۔

"وہ میری بیٹی ہے کوئی چیز نہیں جو تمہارے مانگنے پر تمہارے ہاتھ میں تھما دوں "

کس بیٹی کی بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

"اب وہ آپ کی بیٹی نہیں میری بیوی ہے "

وہ نہایت سکون کے عالم میں کہتے ہوئے وہ شہریار کو حیران کر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں نہیں مانتا اس زبردستی کے نکاح کو" غصے کی شدت سے شہریار کی پیشانی کی  رگیں تن گئیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"آپ کہیں تو نکاح نامہ بطور ثبوت دکھا سکتا ہوں ۔یا ایسا کرتا ہوں میڈیا میں بھیج دیتا ہوں تاکہ ساری دنیا میں پتہ چل جائے ہمارے نکاح کا "

وہ ہلکا سا مسکرا کر کہتے ہوئے شہریار کو آگ لگا گیا ۔۔۔۔

بکواس بند کرو تم۔۔۔میں جلد ہی تمہارا یہ نام نہاد رشتہ بھی ختم کروا دوں گا ۔۔۔ہیر خلع لے گی تم سے " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شہریار بھی غصے میں گرجا ۔۔

"چچچچچچچہ"

"آپ کی یہ خواہش بھی خواہش ہی رہ جائے گی ۔۔۔۔۔

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔

"میری بیٹی ہے وہ جو میں کہوں گا ہیر وہی کرے گی "

شہریار کے انداز میں مان تھا اپنی بیٹی پر ۔

"Correct it "

وہ آپکی بیٹی تھی "

"مگر اب میری بیوی ہے ۔

"اور یہ شیر زمان کا دعویٰ ہے کہ میری بیوی وہی کرے گی جو میں چاہتا ہوں "

شیر زمان کے لہجے میں ہیر کے لیے غرور دیکھ کر پل بھر کے لیے شہریار بھی ٹھٹھکا ۔۔۔۔

""جیسے دوسال تم نے میری بیٹی کو مجھ سے دور رکھا 

"اب تم بھی دوسال کے لیے ترس جاؤ گے میری بیٹی کا چہرہ دیکھنے کو "

"دیکھیں سسر جی میں آپکی بہت عزت کرتا ہوں ،،اپنی عزت 

اپنے ہاتھ "

"میری بیوی میری عزت ہے۔اور بات جب میری عزت پر آئے تو مجھے دوسرے کی عزت کی پرواہ کرنا بھول جاتا ہے "وہ شہریار کے سامنے تن کر غرایا۔

"جاؤ جہاں ڈھونڈھنا ہے ڈھونڈھ لو جا کر کیوں اپنے ہاتھوں تو میں تمہیں اپنی بیٹی سونپنے سے رہا "

شہریار نے اسے چیلنج دیا۔

"زمین کو پھاڑ کر نکالنا پڑے یا آسمان کا سینہ چیرنا پڑے ۔۔۔

ڈھونڈھ نکالوں گا اسے ایک دن میں۔۔۔۔ یہ وعدہ ہے شیر زمان کا"

 "وہ چیلنج کو قبول کرتے دھاڑا اور زور سے شہریار کے سامنے پڑی ٹیبل پر ہاتھ مارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں موجود چیزیں بکھر گئیں ۔۔۔۔

شہریار نے سامنے کھڑے ہوئے شیر زمان پر نظر ڈالی ۔۔۔۔۔جو اپنی نیلی وحشت زدہ سرخ انگارہ آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ایسے جیسے وہ ہیر کے نا ملنے پر  سب کچھ جلا کر بھسم کر دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

"اپنی نازوں سے پلی بیٹی تم جیسے جلاد کے ہاتھ میں کبھی  نہیں دوں گا "

شہریار نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر نفرت زدہ لہجے میں ایک ایک لفظ چبا کر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس پر ایک لمحے میں شیر زمان کا چہرا سرخی مائل دکھائی دیا ۔۔۔۔  

"چلیں مان لیا سسر جی کہ میں جلاد ہوں "

 "لیکن اگر میں جلاد ہوا تو آپ بھی کسی جلاد سے کم نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ پچھلی بات بھلائے زرا شوخ آواز میں بولا۔

"جو اپنی بیٹی کو اسی کے شوہر سے دور کر رہے ہیں "

شہریار نے غصے اور نفرت کے ملے جلے تاثرات لیے اسے دیکھا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"دل تو چاہتا ہے تمہیں زندہ زمین میں گاڑھ دوں ",

 ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ "اس عمر میں اتنا غصہ صحت کے مضر ہے سسر جی "

وہ جیسے شہریار کا مزاق بنا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے تو ایسا ہی لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کیوں اپنی بیٹی کو اتنی سی عمر میں بیوہ بنانے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں "؟

شہریار کی نظریں اس پر ہی جمی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

آپکو کیا لگتا ہے ۔۔۔۔کہ آپ میری بیوی کو مجھ سے زیادہ دن دور رکھ سکیں گے ؟؟؟مجھ سے الگ کر سکیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ نہیں کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم دونوں کو صرف میری موت  جدا کر سکتی ہے۔"

"اس پر شیر زمان کا حق  ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیر صرف اور صرف میری اور کسی کی نہیں" شیر زمان نے ٹیبل پر موجود شیشے کا گلاس ہاتھ میں پکڑ کر اسے زور سے دبایا جو چھناکے کی آواز سے ٹوٹ کر کرچیوں میں بکھر گیا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہریار ششدر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"اگر ہیر مجھ سے دور ہوئی تو میں اس دنیا کو آگ لگا دوں گا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ تباہ کر ڈالوں گا ۔وہ جنونیت آمیز انداز میں غرایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی اوشن بلیو آئیز میں سرخ ڈورے نمایاں ہونے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"پہلے تو مجھے شک تھا مگر اب یقین میں بدل گیا تم ایک پاگل انسان ہو "

شہریار نے بھنویں سکیڑ کر کہا ۔

ٹھیک پہچانا !!۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہاں میں پاگل ہوں ۔مگر ہیر کے عشق میں ۔۔۔وہ میرا جنون ہے ۔۔۔۔اور جس نے شیر کے جنون کو للکارا اسے میری جنونیت کا سامنا کرنا بہت مہنگا پڑے گا "

"تم مجھے میری ہی بیٹی نا دینے پر دھمکا رہے ہو ؟؟؟"

"یہی سمجھ لیں "وہ بے نیازی سے شانے اچکا کر سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔۔۔

"ابھی آپ شیر زمان کی ضد سے ناواقف ہیں شاید !!!

"کل شام تک ہیر میرے ساتھ ہوگی۔یہ وعدہ ہے شیر زمان کا آپ سے  "

اوکے سسر جی انشااللہ پھر کل ملاقات ہوگی  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہاں جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر گردن ٹیڑھی کیے شرارت سے بولا ۔۔۔۔

شہریار اس کے انداز پر تلملا کر رہ گیا۔۔۔۔

شیر زمان جس ٹھاٹھ سے آیا تھا اسی آن بان سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"یا اللّٰہ !!!!

"یہ ضرور میری کسی نیکی کا صلہ ہے جو آج میری بیٹی میری زائشہ اپنے گھر میں خوش و آباد ہے ۔۔۔۔۔اس پر ہمیشہ ایسے ہی اپنی رحمت کا سایہ برقرار رکھنا ۔۔۔۔

اللّٰہ پاک !!!!

"میرے زیان کے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرما دے ۔اسے نیکی اور ہدایت کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔۔۔۔

بریرہ نماز ادا کرنے کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھائے اپنے دونوں بچوں کے لیے دعا مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

پھر نماز سے فارغ ہوکر وہ بستر پہ آکر لیٹ گئی ۔۔۔۔اکثر اس کا بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا تھا جس کی وجہ سے وہ روزانہ میڈیسن لیتی تھی ۔۔۔مگر کئی دنوں سے وہ میڈیسن لینا ترک کر چکی تھی ۔۔۔۔۔زائشہ اور حسام کے لیے تو وہ خوش تھی مگر زیان اور جنت کے رشتے کو لے کر وہ بہت دکھی اور بے بس تھی ۔۔۔۔

زیان اس دن کا گیا پھر کبھی واپس نہیں لوٹا تھا ۔۔۔۔۔

بے شک اس نے بہت برا عمل کیا تھا ۔۔۔مگر ایک ماں کے لیے تو وہ اس کا جگر گوشہ ہی تھا بھلا کب تک وہ اس سے ناراض رہتی ۔۔۔ہر وقت نگاہیں دروازے پر جمائے رکھتی اسی آس میں کہ شاید ایک دن وہ خود ہی لوٹ آئے ۔۔۔۔۔

منت نے سب گھر والوں کو سچائی بتا دی تھی کہ اس دن جنت اس کی وجہ سے باہر گئی تھی ۔پھر اس کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا۔۔۔۔۔

بریرہ اور زریار سب سچائی سن کر پشیمان تھے کہ انہوں نے ایک بار بھی زیان سے اس کی مرضی نہیں پوچھی جنت سے شادی کے لیے اور ایک بار بھی سچ جاننے کی کوشش نہیں کی۔۔۔۔اور اپنا فیصلہ اس پر تھوپ دیا۔۔۔۔مگر زیان کا ردعمل اتنا شدید ہو گا اس کا انہیں آج بھی یقین نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔زیان نے جو بھی کیا بہت غلط کیا ۔۔۔۔زریار اور بریرہ نے اسے اس کے کیے گئے عمل پر سزا دینے کے لیے ایک بار بھی اس سے رابطہ نہیں کیا ۔۔۔۔۔

"زیان کیا تمہیں اپنے ماں باپ کی یاد نہیں آتی جو ایک بار بھی پلٹ کر نہیں آئے ۔۔۔۔۔؟؟؟

"ایک کال ہی کر لیتے یہ پوچھنے کے لیے کہ ہم زندہ بھی ہیں یا مر گئے "وہ زیان کے عکس سے مخاطب تھی ۔۔۔۔

"ہم نے تمہیں سزا دی تو تم یہاں آکر سب سے  معافی مانگنے کی بجائے ہمیں ہی سزا دے رہے ہو "

"تم تو ابھی تک اپنی اولاد سے انجان ہو "کیسے بدنصیب باپ ہو تم "

وہ شکوہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

"بریرہ تم نے اپنی میڈیسن لیں ہیں "زریار اس کے ساتھ بیڈ پر لیٹتے ہوئے دھیمی آواز میں بولا۔

"بریرہ آنکھوں پر بازو دھرے خاموش لیٹی رہی اس نے زریار کی بات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ۔

"میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں؟؟؟

"میں جیوں یا مروں اس بات سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور نا کبھی پڑے گا اس بات کا اندازہ مجھے ہوچکا ہے "وہ آنکھوں سے بازو ہٹا کر کاٹ دار لہجے میں بولی ۔

"واقعی تمہیں ایسا لگتا ہے کہ مجھے فرق نہیں پڑے گا ؟؟؟

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے استفسار کرنے لگا ۔۔۔اور سائیڈ ٹیبل کے ڈراور سے اسکی میڈیسن نکال کر اسکی طرف بڑھائیں ۔۔۔۔

"نہیں کھاؤں گی ...وہ ہٹ دھرمی سے بولی ۔۔۔۔

"بریرہ میڈیسن لو جلدی "

"نہیں لوں گی ۔۔۔نہیں لوں گی "کیا کر لو گے ؟؟؟زیادہ سے زیادہ مارو گے مجھے "

وہ اس کی طرف سیدھی ہو کر بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"بریرہ !!!!

زریار نے ضبط سے اپنی مٹھیوں کو بھینچا ۔۔۔۔

"مارو ۔۔۔مارو نا رک کیوں گئے ؟؟؟؟

"مجھے اپنی اوقات آج سے دو سال پہلے ہی پتہ چل گئی تھی ۔۔۔۔جب تمہارے ہاتھ کا تھپڑ میرے گال پر پڑا تھا ۔۔۔۔

اس کی آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے زریار !!!!

وہ تنفر زدہ آواز میں بولی۔

زریار اس کی بات پر گہری سانس کھینچ کر خود پر قابو پانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"مجھے کل شام تک ہیر اپنے پاس چاہیے "

شیر زمان نے کال ملا کر کسی سے کہا ۔

"اوکے "دوسری طرف سے جواب ملا۔

شیر زمان نے کال کاٹ دی۔

پھر اس کی سیاہ پراڈو کا رخ کسی جانے پہچانے راستے پر تھا ۔۔۔۔۔

یہ منظر تھا ایک آرفینج کا جہاں ہر طرح کے کئی یتیم اور معزور بچے گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے ۔۔۔۔

مس گل کیسی ہیں آپ ؟؟؟

"شکر الحمد للّٰہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔آپ نے بہت عرصے بعد یہاں کا چکر لگایا ۔۔۔؟"

"جی بس کچھ ذاتی مصروفیات تھیں "

"آپ بتائیں سب ٹھیک سے چل رہا ہے ۔کوئی پریشانی تو نہیں ۔۔۔یا کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیں ؟؟"

"نہیں ماشاءاللہ سے سب بالکل ٹھیک ہے۔ضرورت سے زیادہ رقم آپ اکاؤنٹ میں ہر ماہ بھیج دیتے ہیں۔تو اس میں مشکل کیسی ؟؟"مس گل نے کہا ۔

"بھیا آگئے "۔۔۔۔۔

ایک پورے کا پورا جھنڈ بچوں کا شیر زمان کو وہاں دیکھ امڈ آیا ۔۔۔۔

"یہ لو ۔۔۔۔یہ آپ سب کے لیے "اس نے ہاتھ میں موجود غبارے اور چاکلیٹس ان کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔۔

"مس زاہرا پلیز آپ یہ سب ان بچوں میں تقسیم کر دیں ۔"مس گل نے وہاں کی ایک ورکر کو آواز دئیے کہا ۔۔۔۔

وہ سارے بچوں کو خوش دیکھ کر دل سے مسکرایا ۔۔۔۔

"زرشال ٹھیک ہے "؟

گل جو زرشال کی بڑی بہن تھیں۔اپنے کیپٹن شوہر کے شہید ہونے کے بعد تنہا تھیں ۔وہ اس شیر زمان کے اس آرفینج کو بہت اچھے سے چلا رہی تھیں۔

"وہ تو آپ خود مل کر دیکھنا پڑے گا ۔۔۔دراصل کافی عرصہ ہوا میرا گھر بھی چکر نہیں لگا ۔۔۔۔بہت جلد جانے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔جاکر آپ کے بارے میں بتاؤں گا انہیں "

وہ نرم لہجے میں بولا۔۔۔۔۔

"بہت شکریہ بیٹا "مس گل نے ممنون نگاہوں سے اسے دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋

رات کی تاریکی چہار سو اپنے پر پھیلا چکی تھی۔سب اپنے اپنے رومز میں سونے کے لیے لیٹ چکے تھے کہ شہریار کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو وہ اٹھ کر بیٹھا ۔۔۔۔

"یس "

اس نے جواب دیا تو حسام اندر آیا ۔۔۔۔

"تم اس وقت ؟؟؟کیا ہوا سب خیریت ہے ؟؟؟

"جی بابا سب ٹھیک ہے "

میں آپ سے یہ پوچھنے آیاتھا کہ ممااور ہیر کہاں ہیں "؟

"وہ دونوں ایک محفوظ جگہ پر ہیں ۔"تم ان کی فکر مت کرو "

"اگر آپ کہیں تو میں ان کے پاس چلا جاؤں ۔۔۔"

"نہیں حسام اسکی کوئی ضرورت نہیں "

ابتسام بھی دروازہ کھلا دیکھ کر اندر آیا۔۔۔

"بابا میں بھی یہی سوچ رہا تھاکہ مما اور ہیر کہاں ہیں ؟؟انہیں کسی چیز کی ضرورت نا ہو ۔۔۔۔ابتسام نے کہا ۔

"تم دونوں پریشان مت ہو یمنی اور ہیر بالکل ٹھیک ہیں محفوظ ہیں اور ان کے پاس ضرورت کی ہر چیز موجود ہے ۔میں چاہتا تو رات خود بھی وہاں جا سکتا تھا ان کے پاس مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ ہم تینوں میں سے کسی کابھی پیچھا کر کہ شیر زمان ان کے ٹھکانے کا پتہ لگا لے ۔"

"یہ تو ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ حسام نے کہا ۔

"شیر زمان آیا تھا آج میرے آفس ۔۔۔۔

"پھر بابا "؟ابتسام نے پوچھا ۔

"کچھ نہیں بس ہیر کے بارے میں دھمکیاں دے کر گیا ہے "

"میری جان بچائی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ میری بہن کو زبردستی اپنے پاس رکھنے کا اہل ہوگیا "ابتسام نے غصے میں آکر کہا۔۔۔۔

"تم دونوں جا کر آرام کرو ۔۔۔رات کافی ہو چکی ہے۔اس سے نپٹ لیں گے "

شہریار نے تسلی آمیز انداز میں کہا تو وہ دونوں ایک ساتھ کمرے سے باہر نکلے ۔۔۔۔۔

"I am sorry Bhai "

حسام نے کہا ۔۔۔

"وہ کس لیے "؟

ابتسام نے پوچھا ۔

"اس دن غصے میں آکر آپ کو ۔..............دراصل میں زائشہ کے معاملے میں بہت پوزیسیو ہوں "

"ہر شوہر ہی اپنی بیوی کو لے کر پوزیسیو ہوتا ہے "ابتسام نے مسکرا کر کہا ۔۔۔

"بھائی آپکے دل میں میرے اور زائشہ کے رشتے کو لے کر اگر کوئی بھی مسلہ ہو تو آپ شئیر کر سکتے ہیں "

"حسام تم میرے بھائی ہو دل کی بات تم سے شئیر نہیں کروں گا تو اور کس سے کروں گا ۔۔۔۔ظاہری سی بات ہے ۔میرا رشتہ بچپن سے اس سے جڑا تھا ۔تو پھر اچانک اسے کسی اور کا دیکھ کر دکھ تو ہوا تھا ۔۔۔۔مگر قدرت کو شاید یہی منظور تھا ۔۔۔اور میں قدرت کے فیصلوں میں ٹانگ اڑا کر منہ کے بل گرنا نہیں چاہتا "

حسام نے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھے ۔۔۔۔

"میری دل سے دعا ہے کہ تم دونوں ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔آئیندہ تمہیں مجھے سے کبھی بھی کوئی شکایت نہیں ملے گی ۔۔۔۔مگر کچھ وقت تو لگتا ہی ہے ۔۔۔سب بھولنے میں "

"تھینکس بھائی آپ نے میرے دل سے بہت بڑا بوجھ اتار دیا"

وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے ۔۔۔۔۔

برسوں کی دلوں میں چھائیں کثافتیں دھل گئیں تھیں۔دل میں ایک دوسرے کے خلاف بغض رکھنے کی بجائے اگر بات کر کہ مسلے سلجھا لیے جائیں تو زندگی سہل ہو جاتی ہے "

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"مما پتہ ہے میں نے آپ کو بابا کو ۔سام بھیا اور بام بھیا کو کتنا مس کیا تھا "

"کتنا ؟؟؟

"مما اتنا زیادہ "وہ دونوں بانہیں پھیلائے ہوئے زور سے بولی ۔۔۔۔۔

"ہیر تم سو کیوں نہیں رہی بس کرو باتیں بنانا "؟یمنی جو اس کے ساتھ بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔ہیر کو آدھی رات تک جاگتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

"مما کیا کروں نیند ہی نہیں آ رہی "وہ جھنجھلا کر بولی ۔۔۔۔

"مما آپ سے ایک بات پوچھوں ؟؟؟اس نے بھولپن سے سوچتے ہوئے کہا ۔

"ہاں پوچھو ہیر "

"مما آپ ہی تو زائشہ آپی کو کہتی تھیں کہ شادی کے بعد لڑکی کا اصل گھر اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے ۔

"ہاں کہتی تھی "یمنی نے ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔۔

"پھر مما میری بھی تو شادی ہوگئی ہے۔تو آپ مجھے میرے شوہر کے پاس کیوں رہنے نہیں دے رہیں ؟؟؟

"ہیر !!!!یمنی اپنی جگہ سے اٹھ کر غصے میں بولیں ۔۔۔۔

ہیر اپنی مما کے اسطرح غصہ کرنے پر سہمی ۔۔۔کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ انہوں نے ہیر پر چلایا تھا ۔۔۔۔

"ہیر ایک بات مجھے سچ سچ بتانا اس نے تم سے ۔۔۔۔۔۔

میرا مطلب ہے کہ شیر زمان نے تم سے .....وہ پوچھنا تو چاہ رہی تھیں ۔مگر سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے پوچھے ۔۔۔۔

"اس نے تم سے کوئی ریلیشن شپ تو نہیں بنایا نا "؟

بالآخر یمنی نے ہمت جٹائے پوچھ لیا ۔۔۔۔

"مما بنایا ہے نا "

ہیر کی بات سن کر یمنی کا خون خشک ہوا۔۔۔۔

"مما انہوں نے مجھ سے نکاح کیا تھا تو یہ ہمارا ریلیشن شپ ہی ہوا نا "

وہ معصومیت سے بولی۔

یمنی ماتھا پیٹ کر رہ گئی ۔۔۔

"ہیر میرا مطلب تھا کہ اس نے تمہیں چھوا تو نہیں نا ۔۔۔۔

"چھوا تھا نا مما "وہ تکیہ گود میں رکھے بولی ۔۔۔۔

اس کے جواب پر یمنی کی پیشانی کے بلوں میں اضافہ ہوا ۔۔۔۔

"کہاں ؟؟انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"یہاں مما "اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔

"اور ؟؟؟

انہوں نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"یہاں "اس نے گال پر انگلی رکھ کر کہا ۔۔۔۔

"اور ؟؟؟

"یہاں "اس نے اپنی پشت پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔۔

اس نے جب اپنی پشت کا بتایا تو اسے پھر سے ویسا ہی محسوس ہوا جیسے شیر زمان اپنی انگلی سے اس کی پشت پر اپنا نام لکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

"اور ہیر ؟؟؟

"بس مما "

وہ بے دلی سے بول کر لیٹ گئی اور منہ پر تکیہ رکھ لیا ۔۔۔۔

یمنی نے گہری سانس بھری ۔۔۔۔اسکی رکی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں ۔۔۔۔۔۔

ہیر کتنی دیر تک جاگتی رہی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔۔۔

نا تو سانسوں میں اس کے مخصوص کلون کی مہک اتر رہی تھی ۔۔۔۔اور نا ہی اس کی انگلیاں اس کے بالوں کو سہلا رہی تھیں ۔۔۔۔۔

ہیر نے یمنی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بالوں پر رکھا ۔۔۔۔

مگر وہ ڈھلک گیا ۔۔۔۔

کیونکہ یمنی سو چکی تھی ۔۔۔۔

I miss you .....

وہ کروٹ بدل کر شیر زمان کو یاد کرتے ہوئے ہونٹ گھما کر بولی ۔۔۔۔۔اور سونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

عمر آفندی ہمیشہ کی طرح لیٹ نائٹ کلب  میں سے شراب کے نشے میں چور ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے چلتے ہوئے باہر آرہا تھا ۔۔۔۔۔

"کون ہے تُو۔۔۔؟"عمر آفندی نے 

سامنے موجود شخص کا ہڈی میں آدھا چھپا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے غصے میں پوچھا۔۔۔عمر آفندی اپنا راستہ روکے جانے پر طیش میں آیا ۔۔۔۔،تبھی مقابل موجود شخصیت نے ہڈی چہرے پر سے ہٹایا اور عمر آفندی کے تاثرات پل میں بگڑے،

"اوہ۔۔تُو۔۔ ہے "

شیر زمان کو دیکھ وہ تمسخرانہ انداز میں ہنسا ،

"ہاں۔۔میں۔۔"

سرد لہجے میں بول کر وہ آگے بڑھا،

" کیسا لگا میرا سرپرائز ؟؟؟ہا۔ہا۔ہا ۔۔۔۔۔۔۔

"میری بلبل کو میری نظروں سے چھپالے گا اور میں خاموش بیٹھا رہوں گا ؟؟؟؟عمر آفندی طنزیہ آواز میں بولا ۔۔۔۔

",تیری یہ آنکھیں ہی نہیں رہیں گی تو پھر اسے کیا تو کسی پر بھی گندی نظر رکھنے کے قابل ہی نہیں رہے گا ۔"

"تو اور مجھے نقصان پہنچائے گا ؟؟؟تو ابھی جانتا نہیں میرے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟؟؟؟

سکارپین کنگ ۔۔۔۔نام تو سنا ہی ہوگا !!!!!

"

ایک نظر ہر شیر زمان پر ڈال کر وہ چاروں طرف پھیلے ہوئے سناٹے کو دیکھ وہ تمسخر اڑاتی نظروں سمیت مسکرایا۔۔۔

 مگر اگلے ہی لمحے اس کی یہ مسکراہٹ سمٹی شیر زمان کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر ،اس کی پراسرار  ہنسی مذاق اڑا رہی تھی عمر آفندی کا۔۔۔۔

"ہمت ہے تو مقابلہ کر کہ دیکھ ؟؟؟؟عمر آفندی نے اسے چیلنج دیا ۔۔۔۔۔

ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔۔۔کہ کس میں کتنا جنون ہے اپنے دشمن کو ختم کرنے کا۔۔۔"

طنزیہ ہنسی ہنس کر شیر زمان جنونی انداز میں آگے آیا ۔۔۔۔،تھوڑی ہی دیر میں ان دونوں کے درمیان ہونے والی مارپیٹ وہاں کے سناٹے میں ارتعاش پیدا کرنے لگی،

شیر زمان بنا گن اور بلیڈ کے اسکے ساتھ مقابلہ کر رہا تھا ۔۔۔وہ اپنے جنون میں بنارکے اس کو اپنے آہنی ہاتھوں سے پیٹ رہا تھا۔۔۔۔۔عمر آفندی کو  موقع ہی نہیں ملا اس پر ہاتھ اٹھانے کا،دوسرا وہ شیر زمان سے جس قدر پٹا تھا اب اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی،اس کا مقابلہ کرنے کی وہ ہانپتا ہوا گھٹنوں کے بل زمین پر گرا۔۔۔۔

ایک سیاہ نقاب پوش شیر زمان کے پیچھے کھڑا تھا وہ اب سامنے آیا ۔۔۔۔۔

اور خاموشی سے کچھ چیزیں نکالنے لگا ۔۔۔۔۔

"د۔۔دی۔۔دیکھ شیر زمان ۔۔می۔۔میں تجھے چھوڑوں گا نہیں اگر تُو نے میرے ساتھ  کچھ بھی کیا تو۔۔۔تُو جانتا نہیں میں کیا کِیا کرسکتا ہوں۔۔"

شیر زمان نے پاکٹ میں سے تیز دھار بلیڈ نکالا ۔۔۔۔

اس کی چمکتی تیز دھار دیکھ عمر آفندی کے گلے میں سے گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

وہ بلیڈ اس کی آنکھ کے قریب لایا تب بمشکل پیچھے سرکتا ہوا عمر آفندی اس سے بری طرح ڈرا،

"میرے خیال میں  دوسروں کی عزتوں پر گندی نظر سے دیکھنے والی آنکھیں ہی نکال دی جائیں تو۔۔۔"

رسانیت سے بولتا ہوا وہ آخر میں اچانک اپنا لہجہ برف سا سرد کیا ساتھ ہی سفاکیت سے عمر آفندی کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھا۔۔۔۔

 بلیڈ سیدھا اس کی آنکھ میں ڈالا،لمحوں میں عمر آفندی کی ہذیانی چیخ بلند ہوئی،تڑپ کر بری طرح چلایا تھا۔۔۔۔۔

"مجھے جانے دو """

"دوبارہ ایسا نہیں ہوگا ",وہ اپنی زخمی آنکھ پر ہاتھ رکھے درد سے بلبلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

شیر زمان کو اپنی دوسری آنکھ کے قریب بلیڈ لاتے دیکھ روتا ہوا گڑگڑایا،

 وہ بچوں کی طرح رونے لگا تھا،خوف پورے وجود کو مفلوج کرگیا تھا اس کے،ہمت نہیں تھی مقابل موجود انسان سے لڑنے کی تبھی عمر آفندی نے اس سے بچنے کے لیے معافی کا حربہ آزمایا ،

شیر زمان اس پر ترس مت کھانا مت بھولنا اس کمینے نے 

کتنی عزت دار لڑکیوں کے دامن داغدار کیے۔۔۔"

شیر زمان کے پیچھے کھڑے اس کے ساتھی نے اسے عمر آفندی کی گڑگڑاہٹ پر ترس نا کھانے کا مشورہ دیا ۔۔۔۔

شیر زمان نے اپنے بلیڈ کی تیز دھار سے اس کی دوسری آنکھ کو بھی زخمی کردیا ۔۔۔۔وہ درد سےپاگلوں کی طرح چیختا ۔۔۔۔

 اذیت میں گھرا سر زمین پر مارنے لگا،خون بھل بھل نکل رہا تھا اس کی دونوں آنکھوں سے،تکلیف اتنی تھی کہ وہ یکدم مرنے کی خواہش کرنے لگا۔

شیر زمان نے اس کی کلائی کو پکڑا جہاں S.kکا ٹیٹو تھا۔۔۔۔

"کاٹ یہ کلائیاں "پیچھے سے مشورہ آیا 

۔مت۔۔کاٹنا ۔۔چھوڑ دو ۔۔مجھے پلیز چھوڑدو۔۔بچاؤ۔۔۔کوئی ہے۔۔"

تکلیف کی شدت برداشت نہ ہونے پر وہ تڑپ کر چیخ رہا تھا مگر وہاں دور دور تک اس کی چیخ سننے والا کوئی نہ تھا،طنزیہ ہنسی ہنستا شیر زمان اسکی کلائی  پر بلیڈ کو رگڑ ڈالا اور بنا عمر آفندی کے گڑگڑانے کو خاطر میں لائے اگلے لمحے اس کی کلائی کاٹ  دی،عمر آفندی کو لگا وہ مرجائے گا،اس بار درد جس قدر بڑھا تھا اس کی آواز ہی مقفود ہوکر رہ گئی،وہ اپنے آپ کو اس سے چھڑوانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔

"یہی وہ ہاتھ تھے نا جو ہماری معصوم بچوں اور بچیوں کی عزت پامال کرتے ہیں ۔۔۔ان کی ویڈیو بنا کر دوسرے ممالک میں بھیجتے تھے ۔اب یہی نہیں رہے گے "

شیر زمان کا قہقہہ رات کر سناٹے میں گونجا۔۔۔۔۔

وہ جتنا تڑپ رہا تھا شیر زمان کو اتنا ہی سکون مل رہا تھا،

شیر زمان اسکی دوسری کلائی کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

"مجھے بچا لو ...اس بیسٹ سے "وہ دوسرے انسان کو واسطہ دینے لگا ۔۔۔۔

"میرے دوست۔۔میں تجھے ضرور بچاتا اگر تو ایک نیک انسان ہوتا ۔۔"

مزے سے کہتا وہ پھر بےنیاز گیا ۔۔۔۔

بڑھتی ہوئی تکلیف کے باعث  عمر آفندی کی زخمی آنکھوں کے پردوں پر  اپنے کیے گناہ آئے،وہ تڑپ کررہ گیا سب سوچ کر ہی،جانتا تھا دولت کے نشے میں چُور کتنی لڑکیوں کو اس نے داغدار کیا تھا،کتنوں کی ویڈیو بنائی تھی سکارپین کنگ کے کہنے پہ۔۔۔،مگر اب ان سب سوچوں کا کیا فائدہ،تڑپتا گڑگڑاتا وہ بری طرح سسکنے لگا تھا،سب گناہ یاد آتے وہ بے دم سا ہوا ۔۔۔۔

شیر زمان نےتنفر سے اس کے بےسدھ ہوتے وجود کو دیکھا ۔۔۔

"اسے زندہ کیوں چھوڑ دیا ؟؟؟اس نے شیر زمان سے پوچھا ۔

"میں چاہتا ہوں سکارپین کنگ کا یہ چمچہ جاکر اسے بتائے کہ شیر زمان اس کا بھی یہی حال کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔وہ سرد لہجے میں بولا۔۔۔۔۔

"مگر شیر زمان ہم اس سکارپین کنگ سے کیسے ؟؟؟؟

شیر زمان نے مڑ کر ایک کاٹ دار نظر اس پر ڈالی ۔۔۔۔

وہ خاموش ہوگیا ۔۔۔۔۔

حسام، ابتسام سے بات کیے اپنے روم میں آیا تو زائشہ بستر پر نیم دراز تھی ۔۔۔وہ شاید اس کا انتظار کرتے ہوئے وہیں سو گئی تھی ۔۔۔۔

حسام نے ایک نرم سی مسکراہٹ اس پر اچھالی ۔۔۔

پھر اسکے پاس آ کر اسے آرام دہ حالت میں لیٹایا ۔۔۔۔

پھر اس پر اچھے سے کمفرٹر اوڑھا دیا ۔۔۔۔

کیونکہ باہر موسم میں اچانک تبدیلی آئی تھی ۔۔۔

پھر وہ اپنی جگہ پر آ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔

کتنی دیر وہ زائشہ کے چہرے کو دیکھتا رہا ۔۔۔پھر آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

دوپہر کے وقت یمنی کچن سے کھانا بنا کر فارغ ہوئی تو اسنے روم میں جاکر دیکھا ۔۔۔۔

وہاں ہیر پہ نیم غنودگی طاری تھی۔۔۔۔یمنی کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔۔۔۔

"شہریار آپ کب آئیں گے یہاں ؟؟؟یمنی نے اسے کال کر کہ پوچھا ۔۔۔

"یمنی کیا بات ہے ؟؟؟تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں وہاں نہیں آ سکتا ۔۔۔اگر کوئی میرا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا تو ؟

",شہریار مگر میری بات سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔۔ہیر کی طبیعت ٹھیک نہیں"

"کیوں کیا ہوا ہیر کو ؟؟؟شہریار نے تشویش بھرے انداز میں کہا اور اپنے سامنے کھلی ہوئی فائلز کو بند کر کہ ایک طرف رکھا ۔۔۔۔

"کل رات جانے کن سوچوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔نا کچھ ٹھیک سے کھا رہی ہے نا پی رہی ہے ۔اب تو بے ہوش ہوگئی ہے۔مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں ؟

شہریار اس کا جسم ٹھنڈا پڑ رہا ہے شاید بی۔پی ۔لو ہو گیا ہے اسکا ۔۔۔۔

"یمنی تمہیں اس کا خیال رکھنے کو کہا تھا ۔۔کیا کرتی ہو تم ؟؟؟شہریار جھنجھلاہٹ سے بولا ۔۔۔۔

"شہریار میں اپنی بیٹی کی طبیعت جان بوجھ کر خراب کروں گی ؟؟؟

وہ غصے میں آکر بولی۔ 

"اچھا لڑو مت ۔۔۔ اب یہ بتاؤ کرنا کیا ہے ؟؟

"آپ آئیں یہاں یا پھر ڈاکٹر کا بندوست کریں "

"ابتسام یا پھر حسام کو بھیج دیں "

"ان دونوں کو نہیں بھیج سکتا ان پر بھی اُسکی نظر ہوگی ۔۔۔۔

"اچھا میں پھر ضامن کو بلا لوں حویلی سے ؟؟"

"ٹھیک ہے اسے بلا لو مگر اسے کہنا کہ کسی کو پتہ نا چلے "

"جی ٹھیک ہے ",

یمنی نے ضامن کو کال کر کہ اپنے پاس بلا لیا ۔۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم پھپھو کیسی ہیں ؟؟ضامن نے آتے ہی پوچھا ۔۔۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں مگر ہیر کی طبیعت ٹھیک نہیں"

"کیوں کیا ہوا اسے ؟؟؟وہ جلدی سے روم کی طرف بھاگا ۔۔۔۔اسے دیکھنے کے لیے ۔۔۔

"اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھا ۔۔۔۔

"جاؤ ضامن ڈاکٹر کو بلا لاؤ ۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے "

کہتے ہی ضامن تیزی سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد ضامن جب ایریا کے نزدیکی ڈاکٹر کو اپنے ساتھ لیے واپس آیا تو وہ ہیر کا چیک اپ کرنے لگے ۔۔۔۔

"کیا ہوا ہے ڈاکٹر ہیر کو ؟؟؟یمنی نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔

"ڈیپریشن کی وجہ سے ان کی حالت ہوئی ہے۔ان کا خیال رکھیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں ۔۔۔اور انہیں  دماغ پر زیادہ زور مت ڈالنے دیں ۔۔۔انہیں تازہ ہوا میں لے جائیں ٹھیک ہو جائیں گی "

وہ اپنا پیشہ ورانہ مشورہ اور میڈیسن  دئیے وہاں سے نکل گئے ۔۔۔۔۔

یمنی نے ہیر کو میڈیسن دیں ۔۔۔

پھر ضامن اور یمنی ہیر کو آرام کرنے دے کر خود روم سے باہر آگئے ۔۔۔۔

"پھپھو یہ کونسی جگہ ہے۔؟؟

"ضامن یہ شہریار کا پرانا گھر ہے ۔پہلے ہم یہاں رہتے تھے ۔تم بچوں کو نہیں پتہ اس گھر کا ۔۔۔کیونکہ تم سب کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہم اُس نئے گھر میں شفٹ ہو چکے تھے۔

یمنی نے اسے تفصیل سے بتایا ۔

"اچھا صحیح ہے"وہ آرام سے صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا 

"تم کیا کرتے پھرتے ہو ؟؟؟آج کل بہت کم دکھائی دیتے ہو ؟

"بس پھپھو جو ویلے ہوتے ہیں انہیں سب سے زیادہ کام ہوتے ہیں ۔وہ مسکرا کر بولا۔

"ضامن کچھ کھاؤ گے ؟؟؟

"نیکی اور پوچھ پوچھ"

"اچھا کیا کھاؤ گے وہی بناتی ہوں "آج شام تم یہیں رک جاؤ ڈنر ساتھ کر کہ جانا ",انہوں نے پیشکش کی ۔

"جی ٹھیک ہے پھپھو جیسا آپ کہیں "

اور کھانے میں جو مرضی بنا لیں آپ کو تو پتہ ہے کہ میں سب کچھ کھا لیتا ہوں ۔"

"مما !!!ہیر کی آواز سن کر وہ دونوں ہیر کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔۔

"ہیر تم ٹھیک ہو اب ؟؟؟

"کیا بات ہے بیٹا ؟یمنی نے تفکر بھرے انداز میں پوچھا ۔

"میں ٹھیک ہوں مما 

"ضامن تم مجھ سے ملنے بھی نہیں آئے ",وہ منہ پھلا کر بولی۔

"اب آگیا ہوں نا "

"پھر مجھے یہاں سے باہر لے جاؤ مجھے نہیں رہنا یہاں "

"پھپھو ہیر باہر جانے کا کہہ رہی ہے "

"نہیں ضامن اسے باہر نہیں لے کر جانا ۔۔۔۔شہریار کو پتہ چل گیا تو بہت ناراض ہوں گے "

"پھپھو ہم جلدی واپس آجائیں گے "

"مما جانے دیں نا پلیز ۔"ہیر ان کے شانے سے لپٹ کر منت بھرے لہجے میں بولی۔

"ڈاکٹر نے کہا تو تھا ۔مگر شہریار ؟؟؟؟وہ دوہری پریشانی میں مبتلا ہوئیں۔۔۔۔

آخر کیا کریں یہی سوچ رہی تھی ۔

"اچھا ٹھیک ہے ضامن مگر جلدی آنا "

اچھا پھپھو جان ڈونٹ ٹیک ٹینشن"

وہ دونوں ایک ساتھ باہر نکل گئے ۔۔۔۔۔

"ہیر کچھ کھاؤ گی ؟"

"نہیں کچھ بھی نہیں "وہ بے دلی سے بولی ۔

"تم اور کچھ کھاؤ نا پیٹو "ضامن نے اسے شرارت سے چھیڑا "

"واقعی کچھ بھی کھانے کو دل نہیں ہے "

"آج روڈ پر اتنا رش کیوں ہے ؟ٹریفک واقعی آج معمول سے کچھ زیادہ تھی ۔

"ایک تو موسم کو بھی ابھی خراب ہونا تھا ۔"ضامن سٹرئینگ پر ہاتھ مار کر بولا ۔۔۔

اچانک ہی موسم نے انگڑائی لی اور آسمان پر گہرے بادلوں نے بسیرا کر لیا۔۔۔۔وہ گھر سے کافی دور نکل آئے تھے ۔۔

لوگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے گاڑیاں ایک دوسرے میں گھسا رہے تھے کہ کسی بھی ل راستہ مل جائے آگے جانے کا ۔۔۔۔وہ بھی اس بدترین ٹریفک جام میں پھنس چکے تھے ۔۔۔۔

آسمان پر گرج چمک کے ساتھ بجلی چمکنے لگی ۔۔۔۔ہیر تو ڈر کے باعث دروازے سے چپک گئی ۔۔۔

"ضامن گھر چلو جلدی مجھے ڈر لگ رہا ہے "ہیر نے ڈرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"کچھ نہیں ہوتا ہیر میں ہوں نا تمہارے ساتھ ڈرو مت "

"دیکھو روڈ پر کتنے لوگ ہیں ہمارے ساتھ جو اس ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے ہیں ۔

ابھی چند پل ہی گزرے تھے کہ بارش نے پورے روڈ کو جل تھل کر دیا ۔۔۔۔

چھم چھم برستی بوندیں اب ونڈ سکرین کو بھی پوری طرح بھگو چکی تھیں۔۔۔۔۔

سائیڈ مرر پر بھی بارش برس رہی تھی ۔۔۔۔۔

بارش کی تیزی سے ٹریفک کی روانگی میں تھوڑی سی ہلچل مچی  ۔۔۔۔

ضامن نے گاڑی تھوڑی سی آگے بڑھائی ۔۔۔۔۔

اس کی نظر دو گاڑیاں چھوڑ کر تیسری گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہوئی عیش ڈار پر گئی ۔۔۔جو اسے دیکھ کم اور گھور زیادہ رہی تھی ۔۔۔ایسے جیسے اسے آج  کچا چبا جائے گی ۔۔۔۔۔

"ہیر اپنی بھابھی سے ملو گی ؟؟؟؟ضامن نے ساتھ گم سم بیٹھی ہوئی ہیر سے پوچھا ۔

"ہیں ؟؟؟آپ نے شادی کر لی ؟؟؟اس نے حیرانی سے پوچھا۔

"وہ سب چھوڑو یہ بتاؤ ملو گی ؟؟؟

"ہاں بالکل جلدی دکھائیں نا کدھر ہے "؟

وہ پرجوش آواز میں بولی اور ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔

"وہ دیکھو ادھر ہماری طرف ہی آ رہی ہے "ضامن نے اسے اشارے سے بتایا ۔۔۔۔۔

ہیر نے اپنی طرف آتی ہوئی عیش ڈار کو دیکھا ۔۔۔۔

بلیک ڈریس پینٹ اور لیڈیز کوٹ میں ملبوس۔بالوں کی ہائی ٹیل کیے ۔۔۔۔دلکش نقوش لیے لبوں پر ڈیپ ریڈ لپسٹک لگائے انہیں کی طرف آرہی تھی ۔۔۔۔

"ضامن !!!!یہ تو بہت ہی پیاری ہے "وہ عیش ڈار کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوئی ۔۔۔۔

"تمہیں یہ بارودی سرنگ پیاری لگی ۔۔۔۔؟؟؟؟

"دیکھنا آتے ہی کیسے بمباری کرتی ۔۔۔۔گولے برسائے گی مجھ پر اپنے ",

"یہ کیا کہہ رہے ہو ۔۔۔سچ میں بہت پیاری ہے سچی "

""اور ان کی ریڈ لپسٹک بھی کتنی پیاری ہے "

"اتنی پیاری لگی تمہیں  تو اسے ابھی خراب کردیں گے "وہ ذومعنی انداز میں خود کلامی کر گیا ۔۔۔

"کیا کہا ضامن ؟؟؟

"کچھ خاص نہیں ۔۔۔تمہارے کام کی بات نہیں "

وہ آہستگی سے بولا ۔۔۔

"کھولو سے  "

عیش ڈار نے گاڑی کے دروازے کو باہر سے انگلی کی مدد سے ناک کرتے ہوئے سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی ۔۔۔۔۔

ضامن نے اپنی طرف کا شیشہ نیچے کیا ۔۔۔۔

"باہر نکلو زرا "

وہ اسے انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔

ضامن ایک نظر ہیر کی طرف دیکھا پھر  باہر نکلا ۔۔۔۔

"چلو میرے ساتھ "وہ ضامن کا کالر دبوچ کر اسے اپنے ساتھ لیے قدرے روڈ کے ایک سائیڈ پر لے گئی ۔۔۔۔۔۔

"کہاں لے جارہی ہو مجھے "؟

"چپ چاپ چلو ورنہ اچھا نہیں ہوگا تمہارے لیے "

"اچھا تو تمہارے لیے نہیں ہوگا جتنی تاریک جگہ پر لے کر جاؤ گی ۔۔۔خطرہ تمہیں ہی ہوگا ۔۔۔ضامن نے اسے دھمکایا ۔۔۔۔

"دیکھا جائے گا ۔۔۔۔۔

وہ ایک سنسان گلی میں تھے جہاں فی الوقت کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔۔بارش کی وجہ سے سب اپنے اپنے گھروں میں گھسے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

مگر وہاں سے روڈ واضح دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔

ہیر نے گاڑی سے باہر نکل کر دیکھا ۔۔۔۔ 

اسے ضامن کہیں بھی دکھائی نہیں دیا ۔۔۔۔

وہ ہراساں نظروں سے روڈ پر دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔وہاں گاڑیوں کا جم غفیر اکٹھا تھا ۔۔۔۔ 

جو بارش کی وجہ سے پھنسی ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔

اس کے پیچھے موجود گاڑیاں ہارن پر ہارن دے رہی تھیں تاکہ اس کی گاڑی آگے بڑھے تو انہیں بھی آگے جانے کا راستہ مل سکے ۔۔۔۔۔

ہیر کو تو گاڑی چلانی ہی نہیں آتی تھی ۔۔۔۔۔وہ کیسے گاڑی چلاتی ۔۔۔۔۔

وہ سہم کر رونے لگی ۔۔۔۔۔اس کے آنسو بارش کے پانی کے ساتھ مل کر بارش بننے لگے ۔۔۔۔۔

"ہیر !!!!!

"یہ آواز تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی ۔۔۔۔۔

ہیر نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔۔۔۔۔۔

روڈ کی دوسری طرف وہ سیاہ پراڈو اسی کی تھی ۔۔۔۔۔

ہاں وہ ۔۔۔ وہی تھا ۔۔۔۔۔

شیر زمان نے اپنی طرف کا دروازہ کھولا ۔۔۔۔

اور ہیر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

اسے سامنے دیکھ ہیر کی جان میں جان آئی ۔۔۔۔

وہ اب اس کے پاس پہنچنے کے لیے مختلف گاڑیوں کے بونٹ پر چڑھا پھر اترا ۔۔۔۔پھر چڑھا پھر اترا ۔۔۔۔

لوگ اس کے عمل پر اسے پاگل گردان رہے تھے ۔۔۔۔کیونکہ سلو ٹریفک رواں ہو چکی تھی ۔۔۔۔

مگر اسے کہاں پرواہ تھی ۔۔۔

وہ چلتی ہوئی گاڑیوں میں سے گزرتا ۔۔۔ان کے بونٹ پر چڑھتا ۔۔۔پھر فٹ پاتھ پھیلانگتا ہوا بالاخر اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔۔

وہ دونوں سڑک کے بیچ و بیچ ایستادہ کھڑے تھے ۔۔۔۔

برستی ہوئی بارش میں بھیگتے دو وجود ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دنیا جہاں سے بیگانہ ہو چکے تھے ۔۔۔۔

"مائی لٹل پرنسسز !!!شیر زمان نے فسوں خیزی سے کہا ۔۔۔

ہیر بنا کچھ کہے اسے کی کمر کے گرد اپنے بازو باندھ گئی ۔۔۔۔

اور سسک سسک کر رونے لگی ۔۔۔۔

شیر زمان نے اس کے نازک وجود کو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیا ۔۔۔۔۔

ہیر اسے اپنے ساتھ پاکر خود کو ُپر تحفظ محسوس کرنے لگی ۔۔۔۔

"اوئے ہیر رانجھا !!!! یہ رومینس جھاڑنے کے لیے تمہیں سڑک ہی ملی تھی کیا ہٹو راستے سے "

ایک سر پھرے نے انہیں سڑک کے بیچ و بیچ ایک دوسرے کے گلے لگے دیکھا تو استہزایہ انداذ سے کہا ۔۔۔۔

""کوئی اور وقت ہوتا تو شاید شیر زمان اسے جواب دیتا ۔۔۔۔

اس وقت تو شیر زمان کو اپنی لٹل پرنسسز کے دل کی دھڑکنوں کی آواز ،اس کی سانسوں کی مدھم دُھن کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔

"تم اتنے گھٹیا نکلو گے اگر مجھے خبر ہوتی تو کبھی تم سے شادی نہیں کرتی "

عیش ڈار نے اس کا کالر کھینچ کر کہا ۔۔۔۔

"اب میں نے کیا کردیا ؟"

لوفر انسان میں وہاں ہسپتال میں اکیلی سڑ رہی تھی ۔۔۔۔اور تم میری خبر لینے کے بجائے یہاں کسی حسینہ کو بغل میں دبائے موسم کا لطف اٹھانے میں مگن ہو "

"So ....Miss Ayesh Dar 

Are you jealous ???

وہ شرارتی انداز میں ہنس کر بولا ۔۔۔۔

"جلتی ہے میری جوتی ۔۔۔"

"کون ہے وہ جسکے ساتھ گھوم رہے ہو ؟؟؟

اس نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔

"کیوں بتاؤں "؟

وہ چڑ رہی تھی تو ضامن اسے مزید چڑانے لگا ۔۔۔۔

"دیکھو ضامن تم صرف میرے ہو ۔۔۔اگر تم نے کسی اور کی طرف دیکھا بھی نا تو ۔۔۔تمہاری آنکھیں نوچ لوں گی "

وہ دھمکی آمیز انداز میں انگلی اٹھا کر بولی ۔۔۔ 

ضامن نے اس کی انگلی میں اپنی انگلی ڈالی ۔۔۔۔

"اگر تمہارا نا ہوا تو "؟

وہ زرا سا اس کے قریب چہرہ کیے شوخ آواز میں بولا۔

"تو ۔۔۔۔تو ۔۔۔میں۔۔۔۔اسے کچھ سجھائی نا دیا ۔۔۔۔

ضامن نے سارے فاصلے مٹاتے ہوئے اس کے رنگے سرخ لبوں کو اپنے لبوں میں قید کیا ۔۔۔۔

اس بار عیش ڈار نے مزاحمت نہیں کی ۔۔۔۔۔

بلکہ ضامن خان کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دئیے۔۔۔۔۔

ضامن کے عمل میں تو نرمی تھی مگر عیش ڈار نے بدلے میں سختی اپنائی ۔۔۔۔ 

اس بار ضامن نے پیچھے ہٹنا چاہا مگر عیش نے اسے پیچھےہٹنے نہیں دیا ۔۔۔۔۔

ضامن نے اپنا آپ اسکے حوالے کردیا ۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد جب وہ خود ہی تھک گئی ۔۔۔تو پیچھے ہٹ کر گہرے سانس لینے لگی ۔۔۔۔

"واہ میری گینگسٹر بیوی کے بدلے کا انداز تو آج دل پر لگا ٹھاہ کر کہ "

وہ اس کے لبوں کو اپنی پوروں سے چھو کر شوخ لہجے  میں بولا۔۔۔۔

"اب جا کر دکھاؤ کسی اور کے پاس "

"ہائے اس ادا پر کون نا مر جائے مٹ جائے ؟؟؟

"وہ اپنا ٹھیک سے بناتے بھی نہیں۔۔۔۔پھر کسی اور کا ہونے بھی نہیں دیتے "وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا ۔۔۔

"آئے بڑے عمران ہاشمی کہیں کے ۔۔ٹھرک پن میں تو تم اس سے بھی چار ہاتھ آگے ہو "

"یار تم نے تو واقعی مجھے سیریل ِکسر ہی بنا ڈالا ہے ۔مجال ہے جو مجھے کسی اور کام پر فوکس کرنے دیتی ہو "

"اچھا زیادہ باتیں مت بناؤ میرے ساتھ گھر چلو "

"وہ کس خوشی میں "؟

"کیوں گھر جانے کے لیے خوشی کی ضرورت ہوتی ہے "؟

"ارے نہیں ویسے ہی کہہ رہا تھا "

"میرے بازو میں ابھی بھی درد ہے مزید ڈرائیونگ نہیں ہوگی ۔

"تو تمہیں کسی پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ ہاسپٹل سے باہر نکلو ۔۔۔۔؟؟

"ابھی گھاؤ ٹھیک سے بھرا نہیں ۔۔۔تمہیں ایک آدھا دن وہاں اور رکنا چاہیے تھا ۔

"مجھ سے نہیں اس ہاسپٹل کے بستر پر مزید لیٹا جاتا ۔بور ہو گئی تھی وہاں اکیلے لیٹ کر ۔۔۔ 

"اور تم تو مجھے وہاں چھوڑ کر ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ "

"بس یار کچھ ضروری کام تھے وہ نپٹانے تھے ۔۔۔۔

ویسے بھی تمہیں کس نے کہا تھا ہمارے پیچھے آنے کو ؟؟؟

"پہلے بھی تم میرے پیچھے آئی تھی ۔۔۔۔ایک بار ۔۔۔تب بھی میں نے منع کیا تھا تمہیں ۔

"ویسے تو ہر وقت پیار سے بات کرتے ہو ۔۔۔جب شیر زمان کے ساتھ ہوتے ہو تو مجھے گھورتے کیوں ہو ؟؟؟ایسا لگتا ہے کہ مجھے سالم نگل جاؤ گے "وہ شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔

"کیونکہ اسے اپنے کام میں کسی کی ٹانگ اڑانا پسند نہیں ۔تمہاری وجہ سے دو بار میری اس کے ہاتھوں بیعزتی ہوئی ہے ۔

دوبارہ میرے پیچھے مت آنا "

"اچھا ٹھیک ہے نہیں آتی "

وہ ناک سکوڑ کر بولی۔

"ابھی تو چلو میرے ساتھ "

"پھر مجھے کیا ملے گا ساتھ جانے پر "وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔۔

"جو تم لے چکے ہو اس سے زیادہ کی ڈیمانڈ کرنا فضول ہے ۔۔۔اس سے زیادہ کچھ نہیں ملنے والا ۔۔۔۔

وہ کہہ کر مڑنے لگی ۔۔۔۔۔

"ضامن نے اس کے کوٹ سے واپس کھینچا اور اس کے گال  پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔۔

"اگر تمہیں پتہ نا ہو تو تمہیں بتا دوں کہ اس وقت ہم کسی گلی میں کھڑے ہیں "

وہ کوفت زدہ آواز میں بولی۔۔۔اور اسے خود سے پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔

"تو پھر گھر جا کر امید رکھوں ؟؟؟؟

"فی الحال گھر چلو وہاں چل کر بتاتی ہوں "

"یار عیش فون دو میرا "ضامن نے اپنی پاکٹ سے اسے فون کھینچتے دیکھ کر کہا ۔۔۔

"نہیں ملے گا گھر چلو پھر لے لینا "

"ارے یار دیکھنے تو دو کس کی کال ہے "؟

"سکرین کے اوپر یمنی پھپھو لکھا آ رہا ہے "

"پھپھو نے ضرور ہیر کا پوچھنے کے لیے کال کی ہوگی ۔"

"لاؤ دو مجھے فون "اس نے عیش کے ہاتھ سے فون کھینچا 

"ضامن ہیر کو تو اس کا ہیرو لے گیا ۔۔۔۔۔وہ دور جاتے ہوئے شیر زمان اور ہیر کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔تم کال کر کہ انہیں بتادو گے ہیر کا ۔۔۔۔؟"

ارے کہاں یار فون بند کرنے لگا ہوں "

"سب سے جوتیاں کھاؤ گے "

"وہ تو ویسے بھی پڑتی رہتی ہیں تھوڑی اور صحیح"وہ ہنس کر بولا ۔۔۔۔

"بہت ہی بے شرم ہو تم "وہ تاسف سے سر ہلا کر بولی ۔۔۔

"جو تم نے آج کیا ہے بے شرم کا لفظ میرے لیے تو بہت چھوٹا پڑ رہا ہے ۔۔۔یہ کسی اور پر زیادہ سوٹ کر رہا ہے "ضامن نے اسے سلگایا ۔۔۔

"تم میرے شوہر ہو میری زاتی پراپرٹی تو میری مرضی ۔۔۔۔جو مرضی کروں ",

واہ گینگسٹر بیوی ہو تو ایسی ۔۔۔۔واہ ضامن تیرے تو عیش ہی عیش ",وہ آنکھ ونگ کیے اسے چڑانے لگا ۔۔۔

"گھر چلو پھر بتاتی ہوں ",

"یہ تو واقعی گھر چل کر پتہ چلے گا کون کس کو کیا بتاتا ہے ۔۔۔۔

ضامن نے جوابا کہا ۔۔۔

عیش نے اسے گھور کر دیکھا پھر اس کے گھٹنے پر ہیلز مارتے ہوئے ۔۔۔اداء بے نیازی سے  آگے بڑھنے لگی۔۔۔۔۔

"پلیز نیچے اتاریں مجھے "ہیر نے منمناتے ہوئے شیر زمان سے کہا ۔۔۔۔

جو اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اب روڈ پر چل رہا تھا ۔۔۔۔

آتجھے ان بانہوں میں بھر کر اور بھی کرلوں میں قریب 

تو جدا ہو تو لگے ہے آتا جاتا ہر پل عجیب 

شیر زمان نے اپنی دلکش سحر انگیز آواز میں اس کے کانوں میں رس گھولا۔۔۔۔

اس جہاں میں ہے اور نا ہوگا مجھ سے کوئی بھی خوش نصیب۔

تو نے مجھ کو دل دیاہے۔

میں ہوں تیرے سب سے قریب 

ہیر کی آنکھوں میں بارش کی بوندیں گر رہی تھیں مگر پھر بھی وہ آنکھیں کھولے اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

میں ہی تو تیرے دل میں ہوں 

میں ہی تو سانسوں میں بسوں

تیرے دل کی دھڑکنوں میں،میں ہی ہوں،،، میں ہی ہو۔

وہ دونوں بارش میں بھیگتے ہوئے چلے جا رہے تھے ۔

تو ہمسفر ،

تو ہمقدم ،

تو ہمنوا میرا ،

"اب تو ایک پل کے لیے بھی تمہیں خود سے دور نہیں کروں گا "

"کیا پتہ کتنے پل کا ساتھ ہو "

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا ۔۔۔۔

"آپ مجھ سے دور مت جانا "وہ اس کی گردن میں اپنی دونوں بانہیں ڈال کر بولی ۔۔۔

"وہ کیوں ؟؟؟؟

شیر زمان نے نرمی سے پوچھا ۔۔۔۔۔

"تمہیں بتادوں جس سے جل کر تم نے مجھ پر حملہ کیا وہ میری کزن اور شیر زمان کی بیوی ہے "ضامن نے اس کے من میں مچلتا ہوا سوال اور اسکی  پریشانی دور کی ۔

"اووووو۔۔۔۔اچھا "

"ایک بات کہوں ضامن ؟؟؟"

"ہممم۔بولو "

ویسے یہ شیر زمان ہے بڑا ہینڈسم " عیش ڈار نے توصیفی نگاہیں اس پر جمائے ہوئے کہا جو ہیر کو اپنی بانہوں کے حصار میں لیے روڈ پر چل رہا تھا بنا دنیا کی پرواہ کیے ۔۔۔۔

"تمہیں ساری دنیا ہینڈسم لگے گی سوائے اپنے شوہر کے "وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولا ۔

"ہائے کتنے کیوٹ لگتے ہو اس طرح رُسی رُسی کرتے ہوئے "وہ اس کی ناک دبا کر بولی ۔۔ 

"اب یہ رسی رسی کیا ہے ؟؟؟

ضامن نے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"میرا مطلب ناراضگی میں کیوٹ لگتے ہو "

"گھر چل کر مجھے منا لو "ضامن نے پیشکش کی۔

"مجھے تمہیں منانے کی ضرورت نہیں "وہ شانے اچکا کر بولی ۔۔۔۔

"دیکھ لو اس بار سچ میں ناراض ہو جاؤں گا "

"مجھے منانا آتا ہے "وہ ضامن کے انداز میں آنکھ ونگ کیے بولی ۔۔۔۔

"میری بلی ....مجھ کو ہی میاؤں "؟

ضامن نے ابرو اچکا کر شرارتی انداز میں کہا ۔۔۔۔عیش نے اپنی گاڑی کو لاک لگائے ایک سائیڈ پر کھڑا کیا پھر  وہ دونوں ضامن کی گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہو گئے۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"آیت موسم خراب ہو رہا ہے ٹھنڈ لگ جائے گا چلو سوکس پہنو "جنت اس کے پیچھے پیچھے تھی جبکہ آیت آگے آگے بھاگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

آیت نے اسے سارا گھر گھما ڈالا ۔۔۔۔۔

"شہریار اور یمنی ابھی کچھ دیر پہلے ہی حویلی پہنچے تھے ۔۔۔۔۔یمنی نے ضامن کے فون بند جانے پر شہریار کو کال کر کہ بتا دیا تھا کہ ہیر ،ضامن کے ساتھ باہر گئی ہے اور ابھی تک نہیں آئی ۔۔۔

شہریار کو سن کر بہت غصہ آیا ۔۔۔وہ اسی لیے حویلی آیا تھا کہ سب سے مل کر اس بارے میں بات کر سکے ۔۔۔۔

 🦋🦋🦋🦋🦋

"آپ کو پتہ ہے مجھے آپ کی بہت یاد آئی ",

اس نے شیر زمان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"میری کس چیز کی یاد آئی ؟

شیر نے ہلکا سا مسکرا کر پوچھا ۔۔۔۔جس سے اسکا ڈمپل نمایاں ہوا۔

"تھوڑا سا اوپر کریں نا "ہیر نے کہا ۔۔۔

شیر زمان نے اسے اپنی بانہوں میں بھرے ہوئے کی تھوڑا اور اوپر کیا ۔۔۔ہیر نے اس کے ڈمپل پر اپنے لب رکھے۔۔۔۔

اسکے عمل پر شیر زمان کا ڈمپل مزید گہرا ہوا ۔۔۔۔

"اسے بہت مس کیا "

"اور کسے مس کیا "؟

وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا ۔

ہیر نے تھوڑا سا ٹیڑھا ہوئے اس کی گردن پر بنے غراتے ہوئے شیر والے ٹیٹو پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔

"اسے بھی بہت مس کیا میں نے"وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"اور کیا مس کیا ؟"وہ آج جیسے سب جان لینا چاہتا تھا ۔

ہیر نے اسکے سینے میں منہ دئیے گہری سانس کھینچی ۔۔۔۔

"اس خوشبو کو بہت مس کیا "وہ معصومیت سے بولی۔۔۔۔

"مجھے پتہ نہیں تھا میری لٹل پرنسسز میری ایک دن کی دوری پر لٹل پرنسسز سے لٹل وائفی بن جائے گی ۔۔۔۔اگر پتہ ہوتا تو پہلے ہی یہ طریقہ آزما لیتا ۔وہ ذومعنی انداز میں بولا۔

"آج سے آپ میری لٹل پرنسسز نہیں بلکہ لٹل وائفی بن گئیں ہیں "

اب وہ حویلی کے باہر تک پہنچ چکے تھے اور بارش کی رفتار بھی کافی حد تک کم ہوچکی تھی ۔۔۔۔

"آپ نے تو بتایا ہی نہیں کہ آپ نے مجھے کتنا مس کیا ؟"وہ اپنی باریک سی آواز میں بولی۔

"اگر میں نے اپنی لٹل وائفی کو بتایا کہ میں نے اسے کتنا مس کیا تو اس نے بے ہوش ہوجانا ہے "

"پرامس نہیں ہوتی بتائیں نا "

"ٹھیک ہے بتا دیتا ہوں لیکن اگر تم بے ہوش ہوئی تو ہوش میں آکر تم پہ ڈبل جرمانہ عائد ہوگا "

"اوکے "وہ کھکھلا کر بولی۔

شیر زمان نے اسے نیچے اتارا ۔۔۔

وہ دونوں حویلی کی بیک گارڈن والی سائیڈ سے اندر آئے وہاں اس وقت کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔

ہیر اس کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ کب بتائے گا کہ اس نے ہیر کو کتنا مس کیا ۔وہ جاننے کے لیے بہت ایکساٹیڈ تھی ۔۔۔۔

شیر زمان اس کے ایک ایک نقش کو آنکھوں کے ذریعے اپنے دل میں اتار رہا تھا ۔۔۔آنکھیں تھیں کہ سیراب ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔

"میں نے تمہیں اتنا مس کیا کہ اب دل چاہتا ہے تمہیں اپنی روح میں اتار لوں ۔"وہ اس کے گال پر اپنی ناک رب کیے سحر زدہ آواز میں بولا۔

ہیر کو اپنے سانس تھمتے ہوئے لگے ۔۔۔۔

شیر زمان نے اس کے دوپٹے کو گلے سے ڈھیلا کیا ۔۔۔پھر جھک کر اس کی بھیگی شفاف گردن پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔

اس کی مونچھوں کی چبھن سے ہیر کے سارے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔

"میں نے تمہیں اتنا مس کیا کہ اب دل چاہتا ہے تمہاری سانسیں اپنی بنا لوں اور اپنی تمہاری بنادوں "

وہ مخملیں لبوں کو فوکس کرکہ ۔۔۔

اس کے نرم گالوں کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے۔۔۔۔فسوں خیز انداز میں بولا اور بنا ایک لمحہ رکے اس کی سانسوں کو خود میں قید کر گیا ۔۔۔۔۔

ہیر آنکھیں میچے ۔۔۔۔شرم سے دوہری ہونے لگی ۔۔۔۔۔اس نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ ایسا کچھ کرے گا ۔۔۔

دل تو ایسے زوروں سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے سے باہر نکل آئے گا ۔۔۔۔

نجانے کیوں اسے شیر زمان کا چھونا برا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے شیر زمان کی جیکٹ کو اپنی مٹھیوں میں  زور سے پکڑ لیا۔۔۔۔جسم بری طرح لرزنے لگا تھا ۔۔۔ 

شیر زمان ایک ہاتھ اس کی گردن میں ڈالے اور ایک اس کی کمر میں ڈال کر آج جیسے اپنا  سارا جنون اس میں انڈیل دینے کا ارادہ کر چکا تھا ۔۔۔۔

ہیر کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی لگیں ۔۔۔ٹانگیں کپکپانے لگیں ۔۔۔۔۔

شیر زمان کو جب اس کا وجود کچھ ڈھیلا سا لگا تو اس نے ہیر کو چھوڑ کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔جو اسی کی بانہوں میں جھول گئی ۔۔۔۔

"My little Wify۔"

"میں نے کہا تھا نا نہیں سہہ پاؤ گی "وہ گہری سانس بھر کر آہستگی سے بولا ۔۔

"مس بےبیہوش "

کہتے ہوئے اسے ہوش و حواس سے بیگانہ دیکھ کر ہلکا سا قہقہ لگا گیا  ۔۔۔۔پھراپنی جیکٹ اتار کر ہیر کے بھیگے ہوئے وجود پر ڈالی ۔۔۔۔۔

پھر اسے واپس اپنی بانہوں میں بھر کر اندر کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

 "کیا ِکیا ہے میری بیٹی کو تم نے ؟"

شہریار نے اندر آتے ہوئے شیر زمان کی بانہوں میں بے ہوش ہیر کو جھولتے ہوئے دیکھ کر اونچی آواز میں چلا کرکہا ۔۔۔۔

لاونج میں اس وقت سب لوگ موجود تھے ۔۔۔۔

"مام میں تو آپ کو آپکی بہو سے ملوانے لا رہا تھا مگر میری لٹل وائفی راستے میں ہی بیہوش ہوگئی "وہ معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"اریسٹ کر لو اسے "

زیان نے دروازے سے اندر آتے ہی اپنے ماتحت سے شیر زمان کو ہتھکڑی لگانے کے لیے کہا ۔۔۔۔

"پاپا !!!  

ایک پیاری سی گول مٹول خوبصورت سی بچی آکر زیان کی ٹانگوں سے لپٹی ۔۔۔۔۔

زیان نے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔

سفید رنگت جانے پہچانے نقوش ۔بالکل اسی جیسا تل ...

وہ پل بھر کے لیے چونکا ۔۔۔۔

دل نے ایک ہارٹ بیٹ مس کی ۔۔۔

اس سے پہلے کے زیان اسے چھو کر پیار کرتا ۔۔۔

"چلو آیت یہاں سے "جنت جو اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی اسے زیان کی ٹانگ سے لپٹا دیکھ اپنی طرف کھینچنے لگی  ۔۔۔۔۔

"نہیں میلے ۔۔۔۔پاپا .....وہ زور سے اس کی ٹانگ جکڑے ہوئے تھی ۔۔۔۔آیت اسے پہچان چکی تھی اس نے منت کے موبائل میں زیان اور جنت کی شادی کی تصاویر دیکھ رکھیں تھیں۔

"تو کیایہ میری ؟؟؟؟"اس نے دل سے سوال کیا ۔۔۔۔

اس کے ہو بہو میرے جیسے نقوش ۔۔۔۔میری بیٹی ہونے کی چیخ چیخ کر  گواہی دے رہے ہیں ۔۔۔۔کیسے جھٹلاؤ گے ؟؟؟؟

پل بھر کے لیے دل سکڑ کر پھیلا ۔۔۔۔

"آؤ ادھر میرے پاس  "جنت نے تندہی سے کہا۔

زیان نے ایک تفصیلی نگاہ پاس کھڑی ہوئی جنت پر ڈالی جو اس وقت سفید رنگ کی سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس سر پر دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی ۔اس کا پر نور چہرہ دیکھ زیان ٹھٹھک گیا ۔۔۔۔

پل بھر میں اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا ۔۔۔وہی سفید آنچل جو ہر رات اس کے خوابوں میں لہراتا اسے اپنی طرف متوجہ کرتا تھا ۔۔۔۔

"میں کیا مر گیا تھا جو یوں سفید کپڑے پہن رکھے ہیں "؟

وہ پاس کھڑی جنت کی کلائی 

کو کھینچ کر بولا۔

"ہاں تم مر چکے ہو ",وہ اس کی گرفت سے اپنی کلائی آزاد کرواتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

اور آیت کو کھینچتے ہوئے وہاں سے لے کے اندر کی طرف جانے لگی ۔۔۔۔۔

"ہاں تم مر چکے ہو ",جنت کی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی ۔۔۔۔

اس نے جاتی ہوئی جنت پر ایک نگاہ ڈالی۔۔۔۔سفید دوپٹے میں سے اس کے لمبے بالوں کی چٹیا بل کھاتے ہوئے لہرا رہی تھی ۔۔۔۔۔

اس نے روم جاتے ہی دروازہ زور سے بند کیا ۔۔۔۔

زیان کو یہ دروازہ اپنے منہ پر بند ہوتا ہوا لگا ۔۔۔۔

"کیوں آئے ہو تم اس گھر میں ؟؟؟؟"زمارے نے آگے بڑھ کر زیان سے درشت آواز میں کہا ۔

"میں کوئی شوق سے نہیں آیا اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہوں "

"اس گھر میں ایک مجرم ہے اسے ہی اریسٹ کرنے آیا ہوں "

وہ تنک کر بولا ۔

"اپنے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا "؟

شیر زمان جو ہیر کو صوفے پر بٹھا چکا تھا ۔۔۔۔

زیان سے پوچھا۔

"تم نے جو قتل کیے ہیں ان کا شمار بھی نا ممکن ہے "زیان نے کڑک آواز میں کہا۔

"اور جو کام تم نے کیا اسکی سزا کون دے گا ؟؟؟؟

"زیان تم ہمیشہ اس گھر کو بکھیرنے کے لیے ہی کیوں آتے ہو ؟؟؟چلے جاؤ یہاں سے ۔اس گھر میں تمہاری کوئی جگہ نہیں "

زرشال نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔

"کیا کِیا ہے شیر زمان نے؟؟؟

ذوناش نے آگے بڑھ کر کہا ۔

"اس نے بہت سے غلط کام کیے ہیں "زیان کاٹ دار آواز میں بولا۔

"کوئی غلط کام نہیں کیے میں نے ۔۔۔

شیر زمان جوابا دھاڑا ۔۔۔۔

"زیان کیوں الزام لگارہے ہو شیر زمان پر ؟؟؟زیگن سے رہا نا گیا تو آگے آکر بولا ۔۔۔۔

"اس نے لوگوں کی جان لیں ہیں "زیان کرخت آواز میں کہا۔

"پوچھیں اس سے ۔۔۔اس کے پاس ثبوت ہے کو مجھے گرفتار کرنے آیاہے ؟؟؟شیر زمان نے غصیلی آواز میں کہا ۔۔۔

"میرے پاس تمہارے اریسٹ وارنٹ ہیں ۔ثبوت کورٹ میں پیش کروں گا ۔۔۔۔

"شیر اگر تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو جاؤ اس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ ہمیشہ سچ کا ساتھ دیتے ہیں۔اگر تم نے کچھ غلط نہیں کیا تو یہ خود چھوڑے گا تمہیں "

"میں چاہتا تو ہوں غائب ہوجاتا اور تم ساری زندگی بھی مجھے ڈھونڈھ نہیں پاتے مگر یہ میری ماں کا حکم ہے ۔اور شیر زمان اپنی ماں کا کہا نہیں ٹالتا "

"چلو زیان "

زیان نے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگانی چاہیں ۔۔۔۔

"اسکی ضرورت تب ہوتی جب میں اپنی مرضی سے نا چل رہا ہوتا ۔وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔۔۔۔

"ضامن تمہارے ساتھ ملا تھا جو ہیر تمہیں ملی ؟؟؟شہریار کب سے دماغ میں گھومتا ہوا سوال زبان پر لایا ۔۔۔۔

"ہنہہہ۔۔۔۔آپ کیا سمجھے میں کیا کوئی سپر ہیرو ہوں جو اسے آسمان پر اڑ کر ڈھونڈھ نکالوں گا ۔۔۔۔؟

وہ استہزایہ انداذ سے ہنکارا بھر کر بولا ۔۔۔۔

"نہ تو مجھے آئیڈیا تھا کہ آپ اچانک آکر ہیر کو میرے فلیٹ سے لے جانے والے ہیں ۔اگر اس بات کا مجھے پہلے سے اندازہ ہوتا تو میں ہیر کی کسی چیز میں ٹریکنگ ڈیوائس ضرور لگاتا ۔۔۔مگر ایسا کچھ نہیں تھا ۔۔۔۔

"ویسے بھی جب سیدھی انگلی سے گھی نکل آئے تو انگلی ٹیڑھی کرنے کی کیا ضرورت ؟؟؟؟

شہریار نے اس کی بات پر خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا ۔۔۔۔

"جب ضامن خود ہی ہیر کو میرے پاس لانے والا تھا تو میں فضول میں محنت کیوں کرتا ؟وہ ہنس کر بولا ۔۔۔۔

"یعنی کہ اس سب میں ضامن بھی تمہارے ساتھ ملا ہوا تھا ؟؟؟شہریار نے تلملا کر دانت پیستے ہوئے پوچھا۔

"بھائی اوپر سے شاید الگ نظر آئیں مگر دل ملے ہوتے ہیں آپس میں  ۔"

"ہاں اگر کوئی بھائی بننے کا تقاضا اصل میں نبھانا چاہے تو !!!شیر زمان نے آخری بات زیان کی طرف دیکھ کر کی ۔

بریرہ کی ترسی ہوئی نظروں نے دوسال بعد اپنے بیٹے کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ 

زیان تیز قدم اٹھاتا ہوا بریرہ کے پاس آیا اور اس کے گلے لگا ۔۔۔۔

"I miss you mom ....

وہ کہتے ہی ان سے الگ ہوا ۔۔۔

زریار نے نظریں پھیر لیں ۔۔۔۔

اگر وہ اپنے بیٹے کو بلاتا تواپنے بھائی  زمارے کا سامنا کیسے کرتا ۔۔۔۔

وہ خود کو بے بس اور دو حصوں میں بٹا ہوا محسوس کر رہا تھا۔

"مما وہ بچی ؟؟؟"اس نے بریرہ سے پوچھنا چاہا ۔۔۔۔۔

بریرہ کی نم آنکھوں میں ڈھیروں شکوے تھے ۔۔۔۔

"تمہاری بیٹی ہے زیان "بریرہ نے کپکپاتی ہوئی آواز سے کہا ۔۔۔۔

زیان اس وقت یہ سچ جان کر خود کی کیفیت سے نابلد ہوا ۔۔۔

یہ خوشی کی کیفیت تھی یا غم کی وہ خود بھی نا جان پایا ۔۔۔۔۔

"مسڈ یو برو "شاہ من نے شیر زمان کے گلے لگے ہوئے کہا ۔

"مسڈ یو ٹو چیم "شیر زمان نے اس کے سنورے بال بگاڑ کر اپنائیت بھرے انداز میں کہا۔

زیان  پلٹ کر شیر زمان کے پاس آیا ۔۔۔۔

دونوں ساتھ ساتھ باہر کی طرف چلنے لگے ۔۔۔۔

زیان نے ایک اخروی  اچٹتی ہوئی نظر بند دروازے پر ڈالی جہاں کچھ دیر پہلے اس کی بیوی اور بیٹی گم ہوئے تھے ۔۔۔

"چلو ایک کام تو اچھا کیا اس زیان نے "شہریار نے شیر زمان کو اسے اپنے ساتھ لے جاتا دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

باقی سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔۔۔۔۔

شیر زمان کو دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر ہیر اس کی طرف دوڑی ۔۔۔۔۔

"آپ کہاں جا رہے ہیں "؟

"آپ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے "وہ روتے ہوئے اس کی شرٹ کو پکڑ کر  بولی ۔۔۔۔

"ہیر واپس آؤ !!!!شہریار کی تیز آواز لاونج میں گونجی ۔

"نہیں پاپا میں انہیں کہیں جانے نہیں دوں گی ۔۔۔۔یہ میرے ہیں ۔۔۔۔

"میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی مما"وہ سسکتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

سب ہیر کے الفاظ پر حیران کن نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔

منت بھی چھوٹو ہیر کی بات سن کر شاک ہوئی ۔۔۔۔

زرشال ،زمارے ،زہگن ،بریرہ ،

زریار سب حیران کن نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔بس ذوناش کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی ۔۔۔۔وہ دل سے خوش ہوئیں اپنے بیٹے کی پسند پر جو اس وقت اپنے شوہر کے لیے تڑپ رہی تھی ۔۔۔

"ہیر جانے دو اسے "شہریار نے اسے روکنا چاہا ۔۔۔۔

"نہیں بابا میں انہیں کہیں جانے نہیں دوں گی ۔۔۔زیان بھائی آپ گندے ہیں ۔۔۔

"ہیر !!!!شششششش۔۔۔۔۔۔۔

شیر زمان نے روتی ہوئی ہیر کو کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔۔۔

My little wify ..

"میرے دل اور آنکھوں کی یہی خواہش ہے کہ تم ہمیشہ میرے روبرو رہو ۔۔۔ہیر تمہارے ہونے سے میری سانسیں چلتی ہیں ۔جیسے تم میرے بنا نہیں جی سکتی ویسے میں بھی تمہارے بنا ادھورا ہوں "

 بس کچھ دنوں کی بات ہے ۔اپنا بہت سا خیال رکھنا میرے لیے ۔۔۔۔۔

وہ اس کی پشت کو سہلا کر اسے پر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔

سب گھر والوں نے شیر زمان کا یہ محبت بھرا روپ پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔۔وہ کتنی نرمی سے پیش آ رہا تھا ہیر سے ۔۔۔۔

"مجھے آپ کے بنا نیند نہیں آئے گی "وہ سر اٹھا کر  اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھیگی آواز میں بولی ۔۔۔۔

 "مجھے بھی "مگر مجبوری ہے جانا پڑے گا ۔"

"سسر جی !!!وہ ہیر کو خود سے الگ کرتی شہریار سے مخاطب ہوا۔۔۔

شہریار نے اسے تیکھے چتونوں سے گھورا ۔۔۔۔

"میں جا کر جلد ہی واپس آتا ہوں ....میری لٹل وائفی کا خیال رکھنا ۔۔۔اسے خراش بھی نا آنے پائے ۔۔۔۔

وہ جاتے ہوئے شہریار کو سلگانا نہیں بھولا ۔۔۔۔

اس کے جاتے ہی حویلی ایک دم ویران سی لگنے لگی ۔۔۔

ہیر ڈھیلے وجود سے وہیں صوفے پر ڈھے گئی ۔۔۔یمنی نے آگے بڑھ کر اسے سنبھالا ۔۔۔۔مگر ہیر ایک دفعہ پھر سے ڈیپریشن کے زیر اثر بے ہوش ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔یہی سوچ کر کہ اب ایک بار پھر سے شیر زمان اس سے دور ہو گیا ہے ۔۔۔۔

پیار اور عشق کے معنوں سے تو شاید وہ نا واقف تھی ابھی ۔۔۔مگر اسے شیر زمان کی عادت ہوچکی تھی ۔۔۔۔اور جو عادتیں کچی عمر میں زہن میں جگہ بنا لیں وہ عادتیں تا عمر نہیں چھوٹتی۔۔۔۔

"کسی کی عادت ہوجانا 

"محبت ہو جانے سے زیادہ 

خطرناک ہوتا ہے۔"اور ہیر کو شیر زمان کی عادت ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔اگر عام لفظوں میں کہا جائے تو ۔۔۔

She was addicted to Sharzaman .

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"زمارے آپ نے کیا سوچا ہے منت کے بارے میں ؟زرشال نے اس سے پوچھا۔

زمارے باہر لان میں چئیر پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ زرشال اس کے لیے چائے وہیں لے کر آئی اور اسکے سامنے چائے کا کپ رکھے پوچھا ۔۔۔

"کیا سوچنا ہے اس کے بارے میں ؟؟زمارے نے اخبار تہہ کر کہ ایک طرف رکھا۔ پھر کہا ۔

"منت کی پڑھائی ختم ہو گئی ہے اب اس کی شادی کی بات کر رہی ہوں "

"زمارے اس کی بات سن کر ہونٹ باہم پیوست کیے خاموش رہا ۔۔۔

"آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے ؟؟؟

زرشال نے اس سے اس بابت سے سوال کیا۔

"کیا بولوں ؟؟"وہ گہری سانس کھینچ کر بولا۔

"میری بیٹیاں مجھ پر بوجھ نہیں ۔اچھا خاصا کما لیتا ہوں ان کا خرچ ساری زندگی اٹھا سکتا ہوں "

"یعنی آپ کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ آپ ان کی شادیاں نہیں کریں گے "

زرشال نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"ایک کی کر کہ کافی بھگت چکا ہوں "اس کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی ۔۔۔

"زمارے آخر ایک دن بیٹیوں کو رخصت کرنا ہی پڑتا ہے یہی دنیا کا اصول ہے۔آپ اس سے منحرف نہیں ہو سکتے "

"میں نے ایک رشتہ کروانے والی سے بات کی ہے کہ ہمیں منت کے لیے کوئی اچھا سا رشتہ دکھائے "زرشال نے اسے بتانا مناسب سمجھا ۔

زمارے چپ رہا ۔۔۔۔

"آپ پلیز سمجھنے کی کوشش کریں یہی عمر ہوتی ہے بچیوں کی شادی کی ورنہ وقت نکل گیا تو مناسب رشتہ ملنا مشکل ہوجاتا ہے "

"زرشال اس دور میں تو میرا دل چاہتا ہے کہ خدا کسی کو بیٹیاں نا دے ۔۔۔۔

زرشال نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتا ہے ۔

"اور اگر خدا بیٹیاں دے تو ساتھ ان کے نیک نصیب بھی دے "

"اللّٰہ تعالیٰ سب بہتر کریں گے ۔۔اس سے ہمیشہ بہتری کی امید رکھیں "زرشال نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز انداز میں کہا ۔

"جنت کے بارے میں کیا سوچا ہے "؟

"میں وکیل صاحب سے بات کرتا ہوں خلع کے پیپرز تیار کروانے کے لیے ۔۔۔بس اب اس معاملے کو اور طول دینا مناسب نہیں ۔جنت کی حالت بھی پہلے سے کافی سنبھل چکی ہے۔"

"ہممم۔۔۔۔۔یہی ٹھیک رہے گا ۔۔۔

"اس زیان سے اس کا رشتہ ختم ہوگا تو ہی ہم آگے کچھ سوچ سکیں گے "زرشال نے سوچنے کے انداز میں کہا

"وہ کیا "؟زمارے نے پوچھا۔

"میرے خیال میں جنت کو بھی اپنی زندگی اچھے سے گزارنے کا پورا حق ہے۔ہم اس کی کہیں اور اچھی جگہ شادی کروا دیں گے "

زرشال نے اپنے دل میں آئی بات کہہ دی۔

جنت جو زرشال کو بتانے آئی تھی کہ اس نے سارے دھلے ہوئے کپڑوں کو پریس کردیا ہے اور زرشال اسے اپنی کبرڈ میں سیٹ کرلیں ۔وہ اپنے والدین کی باتیں سن کر الٹے قدموں واپس پلٹ گئی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

دس دن بعد !!!!

"کہاں تھے تم میں دس منٹ سے تمہارا انتظار کر رہا تھا"

ضامن نے شیر زمان سے پوچھا ۔۔۔۔

"یہیں تھا ۔۔۔"وہ فقط اتنا ہی بولا ۔۔۔

"تم نماز پڑھ رہے تھے ؟؟؟

"تو بتایا کیوں نہیں "ضامن نے اسے جائے نماز تہہ کرتے دیکھ چھپا کر ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"میں نماز اللّٰہ کے لیے اور اپنے لیے پڑھتا ہوں نا کہ دنیا دکھاوے کے لیے جو سب کے سامنے ڈھنڈورا پیٹوں "وہ کھردرے پن سے بولا۔

"ہم چاہیں تو سب کے سامنے بھی پڑھ سکتے ہیں تاکہ باقی لوگوں کو بھی ہدایت مل سکے ۔۔۔۔ضامن نے اسکے سامنے  اپنی بات رکھی 

"ہمممم۔۔۔۔کہہ سکتے ہو۔ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ اپنا اپنا نظریہ "

ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں ۔یہ تو دیکھنے والے پر ڈیپینڈ کرتا ہے وہ کس طرف دیکھتا ہے "شیر زمان نے جیل کی سلاخوں پر ہاتھ رکھے کہا ۔۔۔۔

"ویسے کیوں آیا ہے تو یہاں "

"صرف میں ہی نہیں پڑے پاپا آئے ہیں میرے ساتھ تیری ضمانت کروانے "ضامن نے اپنے ساتھ زیگن کے آنے کے بارے میں بھی بتایا ۔

"انہیں کہو چلے جائیں یہاں سے "

"تم پاگل ہوگئے ہو کیا ؟؟؟

"یہیں رہنا ہے باہر نہیں نکلنا کیا ؟"

"ہاں یہیں رہنا ہے "

"اگر میں یہاں سے باہر نکلا تو پھر وہیں کروں گا ۔۔۔ایک ایک کر چُن چُن کر ماروں گا "

وہ غرایا ۔۔۔۔

"دیکھو شیر زمان میں نے کہا بھی تھا تب کے میرے ساتھ سکیرٹ فورسز میں آجاؤ جب سلیکشن ہورہی تھی تب بھی تم نے میری بات نہیں سنی ۔

"اگر تب تم نے میری بات سن لی ہوتی تو آج حالات کچھ مختلف ہوتے ۔۔۔۔تم اپنا مقصد بھی حاصل کر لیتے بنا سزا کاٹتے ہوئے ۔۔۔۔۔

"مجھ سے کسی کے اصولوں کے مطابق نہیں چلا جاتا۔۔۔یہ کرسکتے ہو یہ نہیں ۔۔۔۔فلاں فلاں۔ رولز ریگولیشنز ۔۔۔۔۔ اسی لیے تیرے ساتھ شامل نہیں ہوا ۔۔۔۔میرے اپنے اصول ہیں میں انہیں پر چلوں گا "

وہ سپاٹ انداز میں پیش آیا ۔

"ٹھیک ہے  پھر کوئی اچھا سا وکیل کر لیتے ہیں جو تیرا کیس لڑے "ضامن نے اپنے تئیں اسے مشورہ دیا ۔۔۔۔

"مجھے کسی وکیل کی ضرورت نہیں "

"جب کسی کو میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے گا تو خودی چھوٹ جاؤں گا "

وہ قطعیت سے بولا۔

"شیر !! ہیر تجھ سے ملنا چاہتی ہے "

"اسے یہاں مت لانا "

وہ پیشانی پر شکنوں کا جال بچھائے بولا ۔۔۔۔

"مگر شیر ؟؟؟

"میں نے کہا نا ۔۔۔نہیں ۔۔۔اور تو بھی جا یہاں سے ۔۔۔۔مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں"

وہ جاکر جیل کے فرش پر لیٹ گیا اور آنکھوں پر بازو رکھ لیا ۔۔۔۔انداز ایسا تھا کہ اسے اب مزید کوئی بات نہیں کرنی اور نا ہی سننی ۔۔۔۔

"نہیں ضرورت تو مر یہیں "ضامن غصے میں آکر سلاخوں پر لات رسید کرتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

"کیا ہوا ضامن ؟؟؟

"کچھ نہیں بڑے پاپا چلیں یہاں سے ...

"مگر ضمانت ؟؟؟

"اس الٹی کھوپڑی کے مالک نے یہیں سڑنا ہے تو سڑنے دیں اسے ۔۔۔۔"

وہ غصے میں تھا مگر خود پر ضبط کیے بولا ۔۔۔۔

"نا تو اس نے بیل کروانی ہے اور نا ہی وکیل "

زیگن نے کے چہرے کے نقوش بھی تن گئے اس کے بارے میں سوچ کر ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"ہیلو !!!

صبح کے لینڈ لائن پر کوئی دس فون آچکے تھے جتنی بار بھی زرشال ،ذوناش نے فون اٹھایا ۔۔۔۔فون کرنے والا آگے سے بولتا ہی نہیں ۔۔۔

وہ پوچھ پوچھ کر آخر تھک ہاری اور پھر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئیں ۔۔۔۔

بریرہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو وہ اپنے کمرے میں آرام کر رکھ تھی ۔۔۔۔ذوناش سب کام والیوں سے کچن کی تفصیلی صفائی کروا رہی تھی ۔۔۔وہ کچھ مطمئن تھی کہ زیگن شاید آج شیر زمان کی ضمانت کروالیں گے ۔۔۔اسی لیے گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی ۔۔۔۔

زرشال سارے گھر کے پردے تبدیل کروا رہی تھی ۔۔۔۔

ایک بار پھر سے فون رنگ ہوا ۔۔۔

"منت بیٹا زرا فون دیکھو کس کا ہے "؟

زرشال نے اسے آواز دے کر کہا جو آیت کے ساتھ بیٹھی اس کے چھوٹے چھوٹے چائے کے کپ اور کیٹل کے ساتھ ملکر کھیل رہی تھی ۔۔۔۔

آیت اسے چھوٹے سے کپ میں جس میں پانی بھرا تھا بقول آیت کے چائے تھی ۔وہ بار بار اسے کپ میں ڈال کر منت کو پلا رہی تھی ۔۔۔۔

"جی اچھا مام "وہ کہتے ہی اپنی جگہ سے اٹھی اور فون کان سے لگایا ۔۔۔۔

"ہیلو !!!

"اسلام وعلیکم۔۔۔۔جی کون ؟؟؟

دوسری طرف خاموشی تھی ۔۔۔

"ارے بھائی جب بات نہیں کرنی تو فون کیوں کیا "؟

منت نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔۔۔۔

"منت ہو تم ؟؟دوسری طرف سے پوچھا گیا۔۔۔۔

"جی منت ہی ہوں آپ کون ؟؟؟

"میں زیان "

"آپ نے یہاں کیوں کال کی ؟؟

"یہاں پر کسی کو آپ سے کوئی بات نہیں کرنی "وہ کاٹ دار آواز میں بولی۔

"اس سے پہلے کہ منت غصے میں فون کریڈل پر واپس رکھتی ۔۔۔۔

"منت ایک منٹ رکو پلیز فون مت رکھنامیری بات سن لو "

زیان نے منت بھرے انداز میں کہا تو منت نے فون کان سےلگا رہنے دیا ۔۔۔۔

"جی بتائیں کیا بات کرنی ہے آپ کو "وہ لیے دئیے  انداز میں پیش آئی ۔۔۔

"مجھے ایک بار جنت سے ملنا ہے "

"زیان بھائی آپ نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا کہ وہ آپ سے ملے گی "وہ حیرت زدہ آواز میں بولی۔

"میں جانتا ہوں وہ نہیں ملے گی اسی لیے تو تم سے کہہ رہا ہوں کہ اسے ایک بار مجھ سے ملوا دو "

پلیز ۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔یہ سب میرے لیے ممکن نہیں ",اس نے سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔

"منت پلیز مجھے اس سے ایک بار بات کرنے کا موقع دو ۔۔۔۔میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔۔۔۔سب ٹھیک کرنا چاہتا ہوں "مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔۔۔مجھے سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔تمہارے سوا میری کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔۔۔۔

"اور آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں اس سب میں آپ کی مدد کروں گی ؟؟؟

"میرے لیے نا سہی مگر ہماری بیٹی کے لیے تو کرو گی نا "

"آ۔۔۔آپ مجھے جزباتی بلیک میلنگ کر رہے ہیں۔۔۔آپ کو پہلےکبھی یاد نہیں آئی اپنی بیٹی کی  "

"نہیں ایسا نہیں ۔۔۔۔میں تمہیں جزباتی  بلیک میل نہیں کر رہا مجھے پہلے پتہ ہی نہیں تھا کہ میری ایک بیٹی بھی ہے ۔۔۔۔

"نام جان سکتا ہوں اس کا "؟

"آیت نام ہے "منت نے سامنے موجود ننھی آیت کو کھیلتے دیکھ کر بتایا ۔۔۔۔

"پھر امید رکھوں کہ تم جنت کو مجھ سے ملوانے لاؤ گی ؟؟

"دیکھیں زیان بھائی وہ میری بہن ہے۔پہلے ہی دماغی لحاظ سے مکمل صحتیاب نہیں ہے۔آپ کو جب سے دیکھا ہے ۔۔۔پہلے جو تھوڑا ہنسنے بولنے لگی ہے اس دن سے پھر سے اسے چپ لگ گئی ہے ۔آپ سے اسکا سامنا ہونا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت نا ہو "اس نے ڈرتے ہوئے کہا ۔۔۔

"کچھ نہیں ہوگا ۔پلیز ایک بار اسے سوسائٹی کے پارک میں لے آؤ میں اس سے وہیں بات کر لوں گا۔گھر نہیں آ سکتا ۔۔۔وہاں تو سب میرے خون کے پیاسے بنے بیٹھے ہیں  "

"آپ نے جنت کے ساتھ بہت برا کیا ۔۔۔جنت تو کیا میں خود آپ کو معاف نہیں کرسکتی اس سب کے لیے مگر صرف آیت کی وجہ سے یہ سب کروں گی ۔۔۔۔

"کیونکہ ان سب میں اس معصوم بچی کا کوئی قصور نہیں"وہ پژمردگی بولی ۔۔۔۔

"بہت شکریہ منت ۔۔۔۔میں کل اس کا پارک میں انتظار کروں گا شام پانچ بجے "کہتے ہی زیان نے فون رکھ دیا     ۔

اب منت کے زہن میں زیان کی کی گئی باتیں چلنے لگیں ۔۔۔اور یہی سوچنے لگی کہ وہ جنت کو پارک میں لے کر کیسے جائے گی ۔۔۔۔ 

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"مما مجھ سے ہیر کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی ہر وقت گم سم سی رہتی ہے۔"زائشہ نے ہیر کی خاموشی نوٹ کرتے ہوئے تفکر بھرے انداز میں کہا۔

"ہممم۔ٹھیک کہا تم نے مجھے بھی اس لڑکی نے پریشان کردیا ۔۔۔۔

دراصل ہیر شروع سے ہی بہت جذباتی ہے۔ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو دماغ پر سوار کر لیتی ہے ۔اسی بات کو لے کر بس سوچے جاتی ہے۔ہر بات کو ضرورت سے زیادہ محسوس کرتی ہے ۔ساری ساری رات جاگتی رہتی ہے پتہ نہیں کیا ڈھونڈھتی ہے۔ہر وقت شرارتیں کرنے والی ۔۔۔باتیں بنانے والی ایک دم سے خاموش ہوگئی ہے ۔مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کیا کروں اس کا "

یمنی نے پریشانی سے کہا۔

شہریار جو ٹی وی پر نیوز دیکھ رہا تھا یمنی کی بات سن کر ریموٹ کنٹرول ایک طرف رکھے ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا ۔

"پتہ نہیں کیا سحر پھونکا ہے تمہارے اس بھتیجے نے میری بچی پر دن رات کا پتہ بھول گئی ہے ۔وہ جھنجھلا کر بولا۔

"آپ کو تو بس بہانہ چاہیے میرے میکے والوں کی برائیاں کرنے کا ۔۔۔۔وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولی۔

"آپ دونوں آپس میں اب لڑیں مت ۔۔۔اس سب کا کوئی حل سوچیں ۔۔۔زائشہ نے صلح جو انداز میں کہا ۔۔۔۔

"تم ہی بتاؤ کیا کریں ؟"

",مما کیوں نا ایسا کریں گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب کرلی جائے ۔گھر کا ماحول بدلے گا تو تو شاید اس کا دل بھی بہل جائے "اس نے مشورہ دیا ۔

"مگر تقریب رکھنے کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے ۔

"مما کیوں نا ہم ابتسام کی شادی کردیں "

زائشہ نے خلوصِ دل سے مشورہ دیا ۔

"زائشہ میں تم نے اس گھر کو اپنا مان کر ہمیشہ اس گھر میں خوشیاں بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔میری بیٹی سے بڑھ کر تم نے اپنا فرض نبھایا ۔۔۔حسام اور ابتسام ،ہیر ان سب کی غیر موجودگی میں بھی ہمیں سمبھالا ۔اور اب بھی ۔۔۔۔

"مما پلیز ایساکہہ کر مجھے شرمندہ مت کریں ۔۔۔۔

"اچھا چلو اب بات شروع کی ہی ہے تو یہ بھی بتا دو کوئی لڑکی بھی ہے ۔۔۔۔۔تمہاری نظر میں "؟

"آپ اپنے آس پاس دیکھیں نا۔۔۔۔ "وہ اشارہ دیتے ہوئے بولی ۔۔۔

"اممممم۔۔۔۔میرے آس پاس ۔۔۔

"پہلییاں نا بھجواو بتادو خود ہی "وہ مسکرا کر پوچھنے لگیں۔۔۔

"دراصل مجھے مما نے بتایا تھا فون پر کہ زرشال مما منت کے لیے رشتہ کروانے والی سے بات کررہی تھیں ۔۔۔۔

"اگر آپ کو مناسب لگے تو منت بہت اچھی ہے۔گھر کی ہی ہے ۔باہر سے پتہ نہیں کیسی لڑکی آئے ۔۔۔۔۔۔۔پھر پتہ نہیں وہ اس گھر میں ایڈجسٹ کر سکے یا نہیں "

"یہ خیال میرے زہن میں کیوں نہیں آیا پہلے ؟وہ اپنے ماتھے پر ہلکی سی چپت رسید کیے بولیں۔

"شہریار !!! آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟یمنی نے اس کامشورہ لیا ۔۔۔

"پلیز اب مجھے پھر سے میکے کا طعنہ مت دیجیے گا ۔۔۔

"نہیں دیتا ۔۔۔تم نے تو میری بات ہی پکڑ لی ہے۔

زائشہ ان دونوں کی نوک جھوک سے محذوذ ہو رہی تھی ۔۔۔۔

"مجھے کوئی اعتراض نہیں میری زائشہ بیٹی نے مشورہ دیا ہے آخر ",شہریار نے محبت بھرے انداز میں کہا۔

"بس تم یہ کام کرنے سے پہلے  ایک بار ابتسام سے ُاس کی رائے جان لینا ۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی زور زبردستی کا رشتہ بنے "

"ٹھیک کہا آپ نے ۔۔۔ابتسام آفس سے آجائے تو میں آج ہی اس سے بات کرتی ہوں ",

"اسلام و علیکم ۔۔۔۔۔۔!!

"مام ،ڈیڈ ،،،کیسے ہیں آپ ؟؟؟

اور یہ حسام نظر نہیں آ رہا ؟؟

ابتسام جیسے ہی آفس سے گھر آیا یمنی اور شہریار کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھ کر وہی آگیا۔۔۔۔۔۔اور ایک ساتھ ہی ساتھ سوال کرڈالے ۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔۔۔!!  بلکل ٹھیک ہیں اور آفس کا کام کیسا جارہا ہے ؟؟؟کوئی بھی مسلہ ہو تو مجھے ضرور بتانا ۔۔۔۔۔۔

"حسام کی آج فلائیٹ تھی ۔۔۔اسی لیے وہ گھر پہ نہیں ",

شہریار نے اسے تسلی بخش جواب دیا۔۔۔۔۔۔

"اچھا مام میں پھر چینج کر کہ آتا ہوں "

"ہاں ٹھیک ہے چینج کر لو میں نے پھر تم سے ایک اہم بات بھی کرنی ہے ۔

یمنی نے ابتسام سے کہا ۔

"مام آپ کریں بات میں بعد میں چینج کرلوں گا ۔

یمنی نے سوچ لیا تھا کہ جتنی جلدی ہوسکا وہ ابتسام کی رائے جان کر منت کے رشتہ لے کر جائیں گی ۔۔۔اسی لیے انہوں نے بات کی تہمید باندھی۔۔۔۔

ابتسام اب تشویش سے اپنے مما کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

"ابتسام ہم تمہارا رشتہ لے کر حویلی جارہے ہیں۔۔۔۔ منت کے لیے ۔۔۔۔۔

"تمہیں اگر کوئی اعتراض ہے تو ابھی بتا دو "

ابتسام خاموشی سے سر جھکا گیا ۔۔۔۔

"مگر مما منت ۔۔۔۔۔!!

وہ بیزاری سے بولا ۔۔۔

"کیوں کیا برائی ہے بچی میں ؟؟؟

یمنی نے ماتھے پہ بل ڈالتے ہوئے مصنوعی غصے سے بولی۔۔۔۔۔۔

"گھر کی بچی ہے ہمارے سامنے پلی بڑھی ہے ۔نیک سیرت ہے ،صورت بھی کم نہیں کسی سے ۔۔۔اور تمہیں ۔۔۔۔۔

ابتسام لب بھینچ گیا ۔۔۔یکدم اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا۔۔۔ اسے امید نہیں تھی کہ گھر والے اس سے ایسی بات کریں گے ابھی تو وہ خود پر قابو پا رہا تھا ۔اور اب پھر سے کسی اور کو اپنے دل میں گھر میں زندگی میں جگہ دینا اور وہ بھی اتنی جلدی اسے کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

",مام ،،ڈیڈ ۔میں آپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا مگر !!! ۔۔۔وہ تھوڑی دیر رکا پھر بولا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی "وہ گلے میں تھوک نگلتے ہوئے ایک فیصلہ کر گیا اپنے والدین کی خوشی کے لیے ۔۔۔ 

اس کے ہاں میں جواب دینے پر یمنی کو بےساختہ اس پر پیار آیا تو انہوں نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ابتسام کے پاس آکر اسے پیار کیا ۔۔۔۔

"آج تو تم نے ہمیں خوش کردیا ۔۔۔۔۔

یمنی نے فرطِ مسرت سے ابتسام کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔۔۔۔۔  

"ابتسام نے تو ہاں کہہ دی مگر ابھی لڑکی والوں کا جواب بھی تو لینا ہے "شہریار نے اپنی بات کا ٹکرا لگایا ۔۔۔

" مجھے یقین ہے زمارے ضرور مان جائے گا ۔۔۔اگر نہیں مانا تو اسے منا لوں گی ۔۔۔۔۔۔

یمنی نے مسکراتے ہوئے  پراعتماد انداز میں کہا ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

حسام ایک کیفے میں بیٹھا کافی پی رہا تھا ۔۔۔فلائٹ ایک گھنٹے بعد کی تھی ۔۔۔اس کا دھیان  بار بار زائشہ کی طرف جارہا تھا۔۔۔۔۔۔

اففففف۔۔۔۔۔۔!!

"کب تک چلے گا یہ سب ؟"وہ جھجھنجلا کر خود سے بولا ۔۔۔

جس دن سے ہیر واپس آئی تھی ۔۔۔یمنی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔تو زیادہ تر زائشہ ہی ہیر کے پاس رات کو رکتی تھی ۔۔۔۔اس دن کے بعد سے انہیں اکیلے بات کرنے کا موقع ہی میسر نہیں آیا تھا۔۔۔۔

 "یااللہ آپ کا بے حد مشکور ہوں ۔۔۔میں خود کو بہت خوش قسمت تصور کر رہا ہوں ،،،کبھی سوچا بھی نا تھاکہ میرے دل میں جتنی محبت ہے زائشہ کے لیے ۔۔۔کبھی اس کے دل میں بھی میری اتنی ہی محبت ہوگی ۔یہ سب آپ کا ہی احسان ہے ۔جو زائشہ کے دل میں میری محبت معجزے کی طرح اتر گئی ۔۔۔

وہ دل ہی دل میں اللہ تعالی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔

سر فلائٹ کا وقت ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔!!

حسام  جو اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔۔۔۔۔۔ اپنے ماتحت کی آواز نے آکر اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا ۔۔۔۔۔۔

"فلائیٹ سے واپسی پر ضرور میں زائشہ سے بات کروں گا "وہ دل میں ہی سوچتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"مام جنت کہاں ہے نظر نہیں آرہی صبح سے ۔۔۔۔۔۔ 

منت نے زرشال سے پوچھا۔۔۔۔۔۔

اس نے آیت کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔۔۔۔۔

"جنت نے کہاں جانا ہے بھلا "

"اپنے کمرے میں ہی ہوگی ۔۔۔۔۔

"چلیں ٹھیک ہے ۔میں دیکھ  لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔!!

وہ زرشال سے کہتی ہوئی جنت کے کمرے کی طرف چل دی۔۔۔۔۔۔

"جنت میری بات سنو۔۔۔۔۔۔دیکھو آیت ضد کر رہی ہے پارک جانے کی "

کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔!!؟

جنت نے جائے نماز تہہ کر کہ ایک طرف رکھے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔۔۔

"جنت اسے باہر پارک جانا ہے ۔۔اور اس کی ضد ہے کہ مما کے ساتھ جانا ہے "

"دیکھو منت تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں باہر نہیں جاتی ۔۔۔

"جنت تمہاری بیٹی کہہ رہی ہے "

"مگر منت ۔۔۔میرا دل نہیں "

"پلیز مان جاؤ نا "

آیت رونے لگی ۔۔۔۔

"دیکھو اب یہ رونے لگی ۔۔۔۔چلو نہ ہمارے ساتھ تھوڑی دیر ہی رکیں گے بس ۔۔۔۔آو نا ۔

"اچھا ٹھیک ہے آتی ہوں ",وہ ایک بار پھر  سر پر دوپٹہ درست کیے ۔۔۔ان دونوں کے ساتھ باہر نکل گئی۔۔۔۔۔

"مما میں جنت اور آیت اسی سوسائٹی کے پارک میں جا رہے ہیں ۔تھوڑی دیر تک آجائیں گے "

"اچھا ٹھیک ہے جلدی آنا اور فون ساتھ لے کر جانا "

"جی مام رکھ لیا ہے ۔آپ فکر مت کریں۔۔۔"

وہ تینوں باہر نکل گئیں۔ اور چلتے ہوئے پارک میں داخل ہوئیں۔ ۔۔۔۔

جنت وہاں پارک میں موجود ایک بینچ پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔منت اور آیت دونوں بال سے کھیلنے لگیں ۔۔۔۔بال کھیلتے ہوئے دور چلا گیا تو آیت اور منت اسے لینے گئے ۔۔۔۔

"پاپا !!!!!

آیت نے سامنے موجود زیان کو دیکھ کر خوشی سے کھکھلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"جی پاپا کی جان "اس نے آیت کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر اوپر اٹھایا ۔۔۔۔اور اپنے ساتھ لگا کر اسکے پھولے پھولے نرم گالوں پر چٹاچٹ پیار کرڈالا 

آیت زیان کی بیرڈ پر ہاتھ لگا رہی تھی ۔۔۔جیسے وہ بھی یقین کر رہی تھی کہ وہ واقعی میں اس کے پاس ہے ۔۔۔۔

"دیکھو پاپا اپنی ڈول کے لیے کیا لائے "؟زیان نے اپنی پاکٹ میں سے چاکلیٹس نکال کر آیت کو پکڑائی ۔۔۔۔

آیت کے منہ میں پانی بھر آیا۔۔ 

"میری ڈول کو چاکلیٹ پسند ہے ؟؟؟

اس نے پیار بھرے انداز میں اس سے پوچھا ۔۔۔

آیت نے اثبات میں سر ہلایا۔

زیان نے اسے چاکلیٹ کھول کردی تو وہ کھانے لگی ۔۔۔۔

"کیسی ہو ؟

اس نے منت سے پوچھا ۔۔۔

"ٹھیک ہوں "

وہ سادہ سے لب و لہجے میں بولی۔

"تھینکس "

زیان نے آیت کو اسکی گود میں پکڑایا۔    

"کہاں ہے ؟؟اس نے جنت کے بارے میں پوچھا ۔

"وہاں !!!منت نے دوسری طرف  انگلی سے اشارہ کر کہ بتایا اسکے بارے میں ۔۔۔۔۔

زیان آیت سے پیار کرتا ہوا اسی طرف چل دیا جہاں جنت موجود تھی ۔۔۔۔۔

پارک میں شام کے وقت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔۔جنت بینچ پر بیٹھی گھاس کو کو دیکھتے ہوئے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی اس اداس شام کا منظر لگ رہی تھی ۔۔۔۔

زیان بنا آواز کیے آہستگی سے اس کے ساتھ تھوڑی دوری بنائے بینچ پر بیٹھا ۔۔۔۔

وہ اپنی سوچ میں اس قدر محو تھی کہ اسے اپنے ساتھ کسی کے بیٹھنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔

زیان نے اس پر آج پہلی بار تفصیلی نگاہ ڈالی ۔۔۔۔شادی سے پہلے تو اس نے کبھی جنت کو اس نظر سے نہیں دیکھا ۔۔۔اور شادی والے دن بھی نظر بھر کے دیکھنے کی بجائے ۔۔۔بس ۔۔۔۔۔

آج وہ اسے اپنی بیوی کے لحاظ سے پہلی بار حق سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

شفاف ُاجلی رنگت ،تیکھے نقوش ۔باریک لب ،گالوں پر جھولتی ہوئی آوارہ لٹیں،وہ اسے دیکھتا گیا ۔۔۔۔

اچانک جنت نے نظر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔

اسے اچانک زیان کو اپنے سامنے اور اتنے قریب بیٹھے دیکھ وہ ساکت رہ گئی ۔۔۔۔

اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت کی زیادتی سے سکڑ پھیلیں ۔۔۔۔

"تم ؟؟؟؟

اس نے جھٹکا کھا کر اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔

"میں تمہیں کچھ نہیں کروں گا "وہ سمجھا کہ جنت اس سے ڈر کے بدحواس ہوتے ہوئے پیچھے ہوئی ہے ۔۔۔۔

","ہنہہ۔۔۔تمہیں کیا لگا کہ میں ڈر گئی تم سے ؟؟؟؟

"اس بھول میں مت رہنا کہ میں تم سے ڈروں گی "

"ان دو سالوں میں میں نے اپنے تمام ڈر و خوف پر قابو پا لیا ہے۔پتھر ہوچکی ہوں ۔اور پتھر کسی سے ڈرا نہیں کرتے ۔۔۔۔وہ وہاں سے اٹھنے کی  لگی تھی کہ۔۔۔۔

"جنت میری بات سنو "زیان نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے واپس بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔

"مجھے تم سے بات کرنی ہے "

"مگر مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی "

"پلیز جنت ایک بار سن تو لو "

"اب کہنے یا سننے کے لیے کچھ بھی نہیں "

جنت نے اس کی مضبوط گرفت میں سے اپنی کلائی آزاد کروانی چاہی ۔

"کس حق سے پکڑا ہے مجھے چھوڑو ۔۔۔۔اس نے درشت آواز میں کہا ۔۔۔۔

"بیوی ہو تم میری ۔۔۔۔۔اسی حق سے پکڑا ہے "

وہ بھی زرا سا تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

" ہنہہہہ۔۔۔۔۔ بیوی ۔۔۔۔وہ طنزیہ انداز میں ہنکارا بھر کر بولی ۔۔۔۔

"بیوی لفظ کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟

"وہ تو مجھے پتہ ہی نہیں۔۔۔۔

"میں تمہیں بتاتی ہوں کہ میں اصل  میں کیا ہوں .....

"بقول تمہارے میں رکھیل ،جسم فروش ،اور ایک بدکردار لڑکی ہوں ,,,ایسی لڑکیاں کسی کی بیوی کیسے بن سکتی ہیں ۔۔۔۔میں تمہاری بیوی نہیں رکھیل تھی نا ۔۔۔۔

وہ طنزیہ لب و لہجے میں بولی۔۔۔۔آواز میں موجود درد زیان کو گہری کھائی میں دھکیل گیا ۔۔۔۔۔جہاں سے نکلنا اسے ناممکن لگا ۔۔۔۔

اسے جنت کے الفاظ نشتر کی مانند خود میں پیوست ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔۔۔

"انہیں الفاظ اور اس کے عمل نے جنت کی روح کو بھی ایسے ہی چھلنی کیا ہوگا۔۔۔۔جیسے آج وہ خود ہو رہا تھا ۔۔۔۔

"جنت میں اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوں پلیز ایک بار مجھے معا۔۔۔۔ف۔۔۔۔

"نہیں زیان ۔۔۔۔۔یہیں رک جاؤ "

اس نے زیان کو مزید بولنے سے روکا ۔۔۔۔

"جان مانگ لو وہ دے دوں گی مگر معافی مت مانگنا ۔۔۔۔

"وہ نہیں ملے گی "

وہ قطعیت سے کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ گئی ۔۔۔۔

"جنت !!!! پلیز ایک بار مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔۔

"کیا کرنا چاہتے ہو تم معافی مانگ کر ؟؟؟؟

"ہاں بولو کیا کرنا چاہتے ہو ؟؟؟

"ایک بار پھر سے میرے وجود کو روند دینا چاہتے ہو جیسے پہلے کیا تھا ۔۔۔۔۔۔

"لو آؤ وہی سب کچھ کرو جو پہلے کیا تھا تم نے میرے ساتھ ۔۔۔۔۔

وہ اپنے سر سے دوپٹہ اتار کر نیچے زمین پر پھینک کر بولی ۔۔۔۔

"آؤ نہ رک کیوں گئے ۔۔۔۔؟؟؟!!!!

"یہی سب کچھ تو کرتے ہیں ایک رکھیل جسم فروش کے ساتھ ۔۔۔۔۔

"نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کو تم نے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہی بنا دیا ۔۔۔۔جس کے تحت تمہیں پرمٹ مل گیا میری ذات کو بے نشاں کرنے کا ۔۔۔۔؟؟؟

زیان نے نیچے گرا دوپٹہ اٹھا کر اس کے سر پر پھیلایا ۔۔۔۔

"جنت وہ سب بس غلط فہمی اور میرے غصے کا نتیجہ تھا ۔۔۔۔بس ایک موقع دے دو ۔۔۔۔"وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بولا ۔۔۔۔

"یہ وہی ہاتھ ہیں جن پر لگی ہوئی مہندی کو تم نے مٹا دیا تھا ۔۔۔۔

"انہیں ہاتھوں پر پھر سے اپنے نام کی مہندی لگے دیکھنا چاہتا ہوں "۔

وہ بنا سوچے سمجھے پہلی فرمائش کرگیا ۔

"دور رہو مجھ سے ورنہ یہ ہاتھ مہندی کی بجائے تمہارے خون سے رنگ دوں گی ۔۔۔۔

اس کے صبر کا پیمانہ چھلکا۔۔۔۔

"رنگ دو میرے خون سے انہیں اگر تمہارے ایسا کرنے سے تمہیں سکون ملتا ہے تو کر گزرو یہ بھی "

'میری زندگی کو اور مشکل مت بناؤ .....جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔۔

وہ اسے خود سے پیچھے دھکیل کر بولی ۔۔۔۔۔

"جنت ایک موقع دو میں سب ٹھیک کردوں گا "

"اب تو ٹھیک کرنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ سب خراب ہی خراب ہے "وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔۔اسوقت کا خود کو زیان کے سامنے بہت مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کر رہی۔ تھی ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ مکمل ٹوٹ جاتی ۔۔۔۔۔

وہ  گھر کے واپسی کے راستے کی طرف بھاگنے لگی ۔۔۔۔۔

زیان اسے وہاں سے جاتا ہوا دیکھنے لگا ۔۔۔۔

اسے ایسا لگا کہ اس کا جسم تو یہیں ہے مگر روح جنت اپنے ساتھ لے گئی ہو ",اسے ایک دم سب کچھ خالی خالی سا لگنے لگا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

آج شہریار یمنی اورحسام ، زائشہ سب خان حویلی میں موجود تھے ۔۔۔جبکہ ابتسام اور ہیر گھر رک گئے تھے ۔۔۔۔زائشہ نے ہیر کو بہت منایا ساتھ آنے کے لیے مگر وہ نہیں مانی ۔۔۔۔جب انہوں نے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔

"زمارے ہم آپ دونوں سے ابتسام کے رشتے کے بارے میں بات کرنے آئے ہیں۔۔۔۔میں سوچ رہا تھاکہ اب ہمیں اس کی بھی شادی کردینی چاہیے۔۔۔۔۔

 شہریار نے زمارے سے کہا۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔۔بہت اچھا سوچا ۔۔۔اس کی یہی عمر ہے ۔شادی ۔اب تو اس سے چھوٹا حسام بھی ماشاءاللہ سے شادی شدہ ہوگیا ہے ۔اسکی بھی کرنا بنتی ہے۔"زمارے نے کہا ۔

"تو پھر تمہارا ابتسام کے بارے میں کیا خیال ہے؟"

شہریار نے گویا بات کرنے کی تہمید باندھی۔۔

یمنی زمارے کے تاثرات جانچ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

اسی دوران حویلی کے تمام افراد وہاں اکٹھا ہوگئے ۔۔۔

"ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں ۔۔۔کوئی ہمارا بھی خیال کر لے ۔۔۔۔۔"شاہ من نے یمنی کے پاس آکر ٹکرا لگایا ۔۔۔

" آپ کے بڑوں سے فارغ ہو جائیں پھر ہی آپکی باری ۔۔۔۔ابھی آپ لائن میں لگے رہیں۔

یمنی نے شاہ من کا کان پکڑتے ہوئے مصنوعی آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

ذوناش چائے لے کر آئی تو سب نے اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بات آگے بڑھائی ۔۔۔۔

"ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ابتسام کی شادی اگر منت سے ہوجائے تو کیسا رہے گا ؟۔۔۔۔۔۔"

دونوں بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔۔۔۔اور اگر آپسی رشتے داری اور مضبوط ہوجائے تو اس میں کیا برائی ہے"

"زمارے ہم منت کو اپنی بیٹی بنا کر رکھیں گے ۔جیسے زائشہ ہماری بیٹی ہے۔تمہیں ہم سے یا ابتسام سے کوئی شکایت نہیں ہوگی "یمنی نے اسے یقین دلایا جو یہ بات سن کر خاموش ہو چکا تھا ۔۔۔۔

"مان جائیں نا چھوٹے پاپا ۔۔۔میں اور منت ایک ہی گھر میں رہیں گے دوستوں کی طرح جیسے یہاں رہتے تھے ۔میں اسکا وہاں بھی خیال رکھوں گی۔زائشہ نے بھی بات میں اپنا حصہ ڈالا۔

یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے بالکل ٹھیک ہیں۔۔۔۔ کیا کہتے ہو۔۔؟؟زیگن نے بھی اس رشتے کے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی ۔۔۔۔

"کیا فیصلہ ہے آپ دونوں کا یمنی نے زمارے اور زرشال سے پوچھا ۔۔۔"

زمارے کی آنکھوں میں الجھن در آئی۔۔پہلے بھی وہ اپنوں کے ہاتھوں ہی اپنی ایک بیٹی کی زندگی برباد ہوتے دیکھ چکا تھا ۔۔۔کیا اتنی جلدی پھر اپنوں پر بھروسہ کر لینا ٹھیک تھا؟؟؟یہی بات اس کے دل و دماغ میں گردش کر رہی تھی ۔۔۔ غیروں سے چوٹ کھائے تو انسان سنبھل جاتا ہے 

مگر جب اپنے ہی اسے چوٹ دیں تو انسان کے لیے اتنی جلدی سنبھلنا ممکن نہیں ہوتا ۔۔۔

اس نے گہری سانس لی ۔۔۔اور زرشال کی طرف دیکھا۔۔۔خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔۔۔۔

زرشال نے پلکیں چھلکا کر اشارے سے جیسے اسے رضامندی ظاہر کی اس رشتے کے لیے ۔۔۔۔

",ٹھیک ہے جیسے آپ سب مناسب سمجھیں۔"

"بہت بہت مبارک ہو آپ سب کو "زیگن نے ان سب کو مبارکباد پیش کی رشتہ طے ہونے کی خوشی میں ۔بریرہ اور زریار بھی وہاں موجود تھے مگر خاموشی سے سارا معاملہ طے ہوتے دیکھ رہے تھے ۔

"اور بھئی ضامن جی آپ کب اپنی شادی کے لڈو کھلا رہے ہیں ۔۔" ؟

 حسام نے شرارتاً پوچھا۔۔۔

"پہلے کوئی کام تو کر لے اس نکمے کو کس نے لڑکی دینی ہے ؟۔۔۔۔"زمارے نے اس کی طرف غصیلی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"بہت جلد آپ سب کو سرپرائز دوں گا ",

ضامن نے بسکٹ اٹھا کر حسام کے چائے کے کپ میں سے ڈبو کر منہ میں ڈالا ۔۔

"تو پھر کیا کہتے ہیں نیک کام میں دیری کیسی ؟؟؟

"شادی کے لیے آج ہی کوئی تاریخ فائنل کر لیتے ہیں "یمنی نے پر مسرت لہجے میں کہا۔

زیگن اور ذوناش اس موقع پر شیر زمان کو بہت مس کر رہے تھے ۔۔۔۔کاش وہ بھی باقی سب گھر والوں کے ساتھ ہوتا اس وقت مگر۔۔۔۔ ۔

سب کی خوشیوں میں وہ دونوں شریک تو تھے مگر دل میں اسے یاد کر رہے تھے ۔۔۔۔

دوسری بریرہ اور زریار بھی زیان کو لے کر اسی سوچ میں گم تھے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

جنت اپنے روم میں تھی ۔۔۔۔۔۔

اتنی دیر میں دروازہ باہر سے نوک ہوا۔۔۔۔۔۔

آجائیں۔۔۔۔۔۔!! 

اس  نے اجازت دی۔۔۔۔۔۔

جبکہ منت کو اندر آتے دیکھ جنت نے خفگی سے چہرہ دوسری طرف پھیر  لیا اور بستر سے اٹھ کر باہر جانے لگی ۔۔۔۔۔۔

کہ منت تیزی سے بھاگ کر اس کے گلے لگی۔۔۔۔۔۔

"جنت پلیز آئی ایم سوری مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا ۔کہ زیان بھائی وہاں آجائیں گے ۔۔۔۔

آئندہ نہیں ہوگا پلیززز۔۔۔۔۔۔مجھ سے ناراض مت ہونا ۔۔۔

 وہ روہانسی آواز میں بولی۔۔۔۔۔۔

جنت کو اس پر غصہ تھا کہ اگر اس نے زیان کو وہاں دیکھ لیا تھا تو کیوں اس کے پاس نہیں آئی ۔۔۔اور وہ جو اس سے  ناراض ہونے کا ارادہ رکھتی تھی منت کو اپنی غلطی پر روتا ہوا دیکھ فوراً پگھل گئی۔۔۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے بس کرو۔نہیں ہوتی ناراض ۔۔۔۔۔

تمہیں پتہ ہے مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا۔جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو ۔۔۔۔۔۔

منت فوراً جنت کے گال پہ بوسہ دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔

"منت !!!۔۔۔۔۔۔وہ اس کی حرکت پر گھور کر بولی ۔۔۔۔

دونوں مسکرانے لگیں ۔۔۔۔۔

کمرے میں داخل ہوتی زرشال نے آج کتنے عرصے بعد جنت کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تو بےساختہ اس کی دائمی خوشیوں کی دعا کی۔۔۔۔۔۔

"مما آپ !!!

"کوئی کام تھا تو ہمیں بلا لیا ہوتا ۔۔۔منت نے زرشال سے کہا ۔

"میں نے سوچا کیوں نا خود ہی جا کر اپنی بیٹیوں سے بات کر لوں "وہ ان دونوں کے ساتھ بیٹھ گئیں ۔

"آج دوپہر کو یمنی اور شہریار آئے تھے تمہارے لیے ابتسام کا رشتہ لے کر ۔۔۔۔

منت کو ان کی بات سن کر شاک لگا ۔۔۔۔

"پھر آپ نے کیا جواب دیا ؟منت نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا ۔۔۔۔

"کیا کہنا تھاہم نے ہاں کہہ دی ۔۔۔۔

"کیا مما آپ نے ہاں کہہ دی ؟؟؟اسے جیسے یقین نہیں آیا ۔۔۔۔

"کیا میں آپ پر بوجھ ہوں جو اتنی جلدی اتار کر پھینکنا چاہتے ہیں ۔؟وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولی۔

"بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی مگر ایک نا ایک دن تو انہیں اپنے شادی کے بعد اپنے گھر جانا ہی ہوتا ہے ۔یہی دنیا کی ریت ہے۔جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔میں بھی تو تمہارے پاپا کے ساتھ یہاں آئی تھی سب چھوڑ کر ۔۔۔۔بچیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اتنا ہی اچھا ہے ",

"تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں نا ہمارے فیصلے سے ؟؟؟

"میری دعا ہے کہ منت کی قسمت بہت اچھی ہو میرے جیسی نا ہو "جنت جو خاموش بیٹھی ان کی آپسی گفتگو سن رہی تھی ۔۔۔۔اداسی سے بولی ۔۔۔۔

زرشال نے تڑپ کر اپنی بیٹی جنت کو دیکھا ۔۔۔۔آخر کیوں اسے خوشیاں راس نہیں آئیں ۔۔۔۔

"مما میں خوش ہوں اپنی بیٹی کے ساتھ ۔۔۔وہی میرے جینے کا مقصد ہے ۔آپ پلیز میرے لیے پریشان مت ہوا کریں "جنت نے زرشال کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔۔

زرشال نے آگے ہوکر جنت کی پیشانی پر پیار بھرا بوسہ دیا ۔۔۔۔

"تم نے بتایا نہیں ؟"انہوں نے منت سے پوچھا ۔۔۔۔

"ابتسام بھائی اتنے بھی برے نہیں اچھے خاصے معقول  انسان ہیں "جنت نے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔۔

"کیا یار جنت سب سے پہلے تو انہوں نے میری آنکھیں نکال کر میری ہتھیلی پر دھر دینی ہیں "ہر وقت میری آنکھوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔۔۔۔وہ جھجھنجلا کر بولی۔

جنت اس کی بات سن کر ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔

"شادی کے بعد سب ٹھیک ہوجاتا ہے ",زرشال نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر سمجھایا ۔۔۔۔

پہلے تو وہ خفگی بھری نظروں سے زرشال اور جنت کو ہنستے ہوئے دیکھتی رہی پھر مسکرا دی ۔۔۔۔۔ وہ تینوں پھر سے اپنی باتوں میں مصروف ہوگئیں ۔۔۔آیت جو سوئی ہوئی تھی وہ بھی ان کی باتوں کی آواز سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنی آنکھیں اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مسل کر کھولنے لگی  ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"تھینکس یار ۔۔۔۔اوکے پھر چلتے ہیں "شاہ من کے دوست اس سے مل کر اٹھے اور کیفے سے نکل گئے ۔۔۔۔

کچھ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بننے والے دوست آج یہاں اس سے ملنے آئے تھے ۔۔۔۔

وہ سب وہاں سے نکلے تو شاہ من بل ہے کرنے لگا ۔۔۔۔

وہ اپنی بائیک کی کیز اٹھانے لگا تو اس سورج کی روشنی اس کی کی چین جس پر چھوٹا سا آئینہ لگا تھا ۔۔۔۔اس سے منعکس ہوکر سامنے بیٹھی ہوئی لڑکیوں میں سے ایک پر پڑی ۔۔۔۔۔

جس پر روشنی پڑی اس نے نخوت سے رخ موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

شاہ من جو بے دھیانی میں  کی چین کو گھما رہا تھا بار بار روشنی منعکس ہوکر اسی لڑکی پر پڑ رہی تھی ۔۔۔۔

"آپ اندھے ہیں کیا ۔۔۔پیچھے کریں اسے "

اس لڑکی نے دور سے چلا کر کہا ۔۔۔۔

شاہ من نے مڑ کر اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔۔

کتنے دنوں سے وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر وہ تھی کہ لان میں نظر ہی نہیں آئی تھی اس دن کے بعد سے ۔۔۔اور آج وہ با نفسِ نفیس اس کے سامنے موجود تھی ۔۔۔۔اپنے یونیفارم میں ملبوس۔شاید اپنی ائیر ہوسٹس کولیگزکے ساتھ کیفے میں آئی تھی ۔۔۔۔

"اوہ ۔۔۔۔سوری ....اس نے معزرت خواہانہ انداز میں کہا۔

"شرم نہیں آتی آپ کو !!!؟؟

"گھر میں ماں بہن نہیں ؟؟؟وہ تڑخ کر گویا ہوئی ۔۔۔

"نہیں وہ گھر پہ نہیں۔۔۔ شاپنگ پر گئیں ہیں "شاہ من نے شرارتی انداز میں جواب دیا ۔

"بہت ہی گھٹیا طریقہ ہے لڑکیوں کو متوجہ کرنے کا "وہ جل کر بولی ۔۔۔

"ارے یہ تو آئینہ ہے دیکھیں اس میں ہم ایک ساتھ کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔

شاہ من چلتے ہوئے اس کے قریب آ رکا۔۔۔پھر شیشے کا رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔۔

اب دعا اور شاہ من دونوں اس چھوٹے سے کی چین کے شیشے میں دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔۔

"کیوں ہے نا پرفیکٹ کپل ؟؟؟

"آپ سب کیا کہتی ہیں "؟اس نے وہاں موجود باقی لڑکیوں سے تائیدی انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

وہ سب دعا کو تلملاتے ہوئے دیکھ کھکھلا کر ہنس پڑیں ۔۔۔

"جانے کہاں کہاں سے آجاتے ہیں ایسے سڑک چھاپ عاشق "وہ نخوت سے ناک سکوڑتے ہوئے اپنا کلچ اٹھا کر آگے بڑھی ۔۔۔۔

"چلو یہاں سے ...وہ پیچھے مڑکر اپنی دوستوں کو جھاڑنا نہ بھولی ۔۔۔۔جو ابھی تک ہنس رہی تھیں۔۔۔۔

"دعا اتنا بھی برا آپشن نہیں تو نے تو اسے ٹھیک ٹھاک سنا دیں ۔۔۔اچھا خاصا ہینڈسم بندہ تھا ۔۔۔۔

"زوباریہ !!!!چلو یہاں سے ...وہ گھور کر بولتے ہوئے آگے بڑھنے لگی ۔۔۔۔

شاہ من اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے مسکرانے لگا ۔۔۔اور آگے کا لائحہ عمل سوچنے لگا ۔۔۔۔

 کمرہ عدالت میں شیر زمان کو پیش کیا گیا۔۔۔ کیونکہ آج اس کے کیس کی آج پہلی شنوائی تھی  ۔کمرہ عدالت کے وقت کے مطابق کاروائی اپنے مقررہ وقت  پر شروع کی گئی ۔کمرہ عدالت میں بھانت بھانت کے لوگوں کا جم غفیر اکٹھا تھا ۔

سیشن شروع ہوا ۔۔۔شیر زمان کی جانب سے کوئی وکیل نہیں تھا ۔سرکاری وکیل تھا جو مقدمہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اس نے جو بھی معلومات اکٹھا کیں تھیں۔وہ فائل میں موجود تھیں ۔۔۔زیان کا بیان بھی جو اسکے خلاف تھا ۔۔وہ جج صاحب کو پیش کیا گیا ۔

شیر زمان کٹگہرے میں پر اعتماد کھڑا تھا ۔۔۔۔

جج صاحب نے سامنے موجود فائل کو کھول کر اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا ۔

زیان شہادت اور گواہی کے لیے وہاں موجود تھا ۔۔۔۔

 وہ بڑے غور سے جج کے چہرے کے تاثرات ملاحظہ کر رہا تھا۔ 

کچھ لمحے یوں ہی گزر گئے ۔۔۔۔۔۔

جج صاحب نے شیر زمان کے بارے میں ساری معلومات پڑھیں ۔۔۔۔اس میں کہیں بھی اس کے خلاف کچھ بھی نہیں۔ ملا تھا ۔۔۔صرف زیان کی بطور آئی وٹنیس گواہی کے علاؤہ۔

 جج صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے بھنویں اچکائیں ۔۔۔۔

اور فائل بند کرتے ایک طرف رکھی ۔۔۔۔ 

میں معزز عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ" مجرم شیر زمان " کو کڑی سے کڑی سزا سنائی جائے اس نے ناجانے کتنے ہی لوگوں کو بہت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔۔۔۔اس کے جرائم میرے موکل زیان خان کی گواہی سے ثابت ہوتے ہیں۔اس نے دو بار اسے لوگوں کو مارتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔

"جی تو شیر زمان آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہیں گے ",؟!!!!جج صاحب اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔

"میرے خلاف ایک بھی ثبوت ہاتھ نہیں لگا ۔۔۔یہی میری سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے "

وہ پر اعتمادیت سے بولا ۔۔۔

"مگر آپ کے خلاف جو گواہی دی گئی ہے وہ آپ کو مجرم ثابت کرتی ہے۔",

 "ہمارے ملک میں یہی تو چلتا آرہا ہے ۔۔۔۔۔قانون اندھا ہے ",

یہ اینٹی نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ کا آفیسر خود تو کچھ کر نہیں سکا ۔۔۔۔کتنی بار اس کے ناک کے نیچے سے مجرموں نے سمگلنگ کی ۔۔۔۔۔

اب بھی میں اسے چیلنج دیتا ہوں ۔۔۔ایک بار پکڑ کر دکھائے ان سکارپین کنگ کے آدمیوں کو جو کھلے عام یہ کام کر رہے ہیں۔اور ہمیشہ اس ناکارہ آفیسر کے ہاتھوں سے بچ کر نکل جاتے ہیں ۔یہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے اپنا غصہ مجھ بے قصور پر نکال رہا ہے ۔۔۔اول تو ایساہے نہیں کہ میں نے کوئی بھی غلط کام کیا ۔۔۔۔اور اگر ایسا ہے بھی کہ میں نے ان لوگوں کو مارا تو کیا غلط کام کیا ۔۔۔۔۔

" دہشت گرد اور انتشار پسند لوگوں کو جینے کا کوئی حق نہیں "

یہاں مجرم کھلے عام پیسوں کے دم پر گھوم رہے ہیں۔اور مظلوم انصاف کے لیے روزانہ یہاں آکر ۔۔۔۔۔جوتیاں گھسٹتے ہیں "

کیونکہ ان کے پاس نا تو عدالتوں کے وکیلوں کی فیسیں بھرنے کے لیے پیسے ہوتے ہیں اور نا ہی انہیں سالوں انصاف ملتا ہے ۔

اس کی بات سن کر کمرہ عدالت میں جو خاموشی چھاگئی تھی ۔۔۔لوگوں کی تالیوں کی گونج نے اسے توڑا ۔۔۔

وہاں ایسے بہت سے لوگ موجود تھے جن کے الفاظ کو شیر زمان نے زباں دی تھی ۔۔۔۔۔

آبجیکشن مائی لارڈ ! مجرم اپنا جرم چھپانے کے لیے آپ کو بھٹکا رہا ہے مدعے سے !"

سرکاری وکیل نے ان کی بحث میں مداخلت کرتے ہوئے کہا ۔

"آبجیکشن اوور رولڈ!"

انہوں نے شیر زمان کو ہاتھ سے اشارہ دیا بولنے کا ۔۔۔

آپ چاہتے ہیں ناکہ ہمارے ملک میں سنگین جرائم کرنے والے مجرموں ان کے  کیفر کردار تک پہنچایا جائے تو ہم جیسے لوگوں کو موقع دیں تاکہ ان لوگوں کو پاتال سے بھی ڈھونڈھ کر عبرت کا نشان بناڈالیں ۔۔۔۔ جو اس ملک کی بہنوں بیٹیوں کی عصمتوں سے کھیلتے ہیں۔اس ملک میں نوجوانوں کو ڈرگز جیسے زہر سے بھر رہے ہیں۔وہ اونچی آواز میں بولا۔۔

کمرہ عدالت میں کچھ دیر خاموشی چھا گئی ۔۔۔

زیان منتظر نگاہوں سے جج صاحب کا چہرہ دیکھ رہا تھا نجانے اب وہ کیا فیصلہ کرنے والے ہیں ... 

سب جج صاحب کے فیصلے کے منتظر تھے۔

سب کی نظریں ان پر مرکوز تھیں ۔۔۔۔۔

شیر زمان ان کا فیصلہ جان چکا تھا کہ وہ اسی کے حق میں فیصلہ دے کر اسے پہلی سماعت میں ہی بری کردینے والے ہیں۔مگر وہ آرام سے وہاں سے بری ہوکر اگر نکل جاتا تو کمرہ عدالت میں موجود سکارپین کنگ کے آدمیوں نے اس کا لازمی پیچھا کرنا تھا ۔۔۔۔اس لیے اس نے ایسی سچوئشن کری ایٹ کرنی چاہی جس میں وہ وہاں سے سکارپین کنگ کے آدمیوں کو پھنساتے ہوئے دھوکا دے کر نکل جائے ۔۔۔۔

شیر زمان نے کٹگہرے میں کھڑے ہوئے گردن ٹیڑھی کیے مجمجے میں موجود ایک انسان کو اپنا کوئی مخصوص اشارہ کیا۔۔۔۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

وہ شخص سب کی نظروں سے چھپ کے باہر  نکل گیا ۔۔۔چند منٹوں میں اس کی واپسی ہوئی ۔۔۔۔اس کے چہرے پر اب ماسک تھا۔۔۔۔

اس نے دور کھڑے شیر زمان کی طرف گن اچھالی ۔۔۔۔

جسے شیر زمان نے اچھل کر مہارت سے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔۔۔

پھر وہ کٹگہرا پھیلانگ کر جج صاحب تک پہنچا اور ان کی کنپٹی پر گن لگائی ۔۔۔۔۔

"چلو بھئی راستہ صاف کرو "

وہ ابرو اچکا کر کرختگی سے دھاڑا ۔۔۔۔۔

وہاں موجود پولیس کے لوگ اس پر گن تان کر کھڑے ہوئے۔۔۔ اور باقی عام لوگ کچھ تو دیوار سے لگ گئے اور کچھ نیچے جھک گئے ۔۔۔ گولی لگ جانے کے ڈر سے۔۔۔۔

"جج صاحب کی حفاظت کرنا تم لوگوں پر فرض ہے اگر اس کی زندگی سلامت چاہیے تو مجھے جانے دو "

شیر زمان جج صاحب کی گردن ایک بازو سے دبوچے ۔۔۔دوسرے ہاتھ سے ان کی کنپٹی پر گن رکھے انہیں گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ باہر کی طرف لے جا رہا تھا۔۔۔۔

زیان اسے پکڑنے اپنی جگہ سے 

آگے بڑھا ۔۔۔۔

"زیادہ ہوشیاری نہیں "شیر زمان درشت آواز میں اس کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔

"مگر میں تو تمہیں ",جج صاحب نے اسے بتانے کی کوشش کی۔۔۔۔

"مجھے پتہ ہے آپ مجھے باعزت بری کرنے والے تھے ۔مگر یہ سب کرنا لازمی تھا ۔کبھی تفصیلی ملاقات ہوگی تو بتاؤں گا ۔۔۔۔وہ ہلکی سی آواز میں بولا

سب لوگ کمرہ عدالت میں پھنس کر رہ گئے تھے ۔۔۔۔

شیر زمان جج صاحب کو اپنے ساتھ باہر لایا اتنی دیر وہ نقاب پوش بائیک لیے کھڑا تھا۔۔۔۔

شیر زمان نے جج صاحب کو چھوڑا ۔۔۔۔وہ اس کے اچانک چھوڑنے سے لڑکھڑا کر رہ گئے ۔۔۔ 

وہ اس نقاب پوش کے ساتھ بائیک پر سوار ہوا ۔۔۔۔

پولیس نے ان پر فائرنگ کرنے کی کوشش کی مگر بائیک رائیڈر بائیک کو بجلی کی رفتار سے بھگا کر لے گیا ۔۔وہ دونوں دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔۔۔۔۔ 

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ہاتھ ہٹا "

شیر زمان نے تیکھے چتونوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"کیوں تمہیں چھونے کا حق صرف ہیر کو ہے ؟؟؟وہ شرارتی انداز میں مسکرا کر بولا ۔۔۔

شیر زمان نے اس کی بات پر ایک ابرو اچکا کر اپنی اوشن بلیو آئیز سے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

"اچھا ۔۔۔اچھا ہیر بھابھی کہنا ہے ۔وہ کیاہے نا میں بھول جاتا ہوں "وہ کان کھجا کر کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔

"آگے کا کیا پلان ہے "؟ضامن نے چہرے سے ماسک اتار کر پوچھا ۔۔۔

"تیرا کام یہیں ختم ....تو نکل اب "شیر زمان نے بیزاری سے کہا۔

"بڑا ہی کوئی بے مروت انسان ہے ۔نا شکریہ نا کوئی انعام ...چل نکل ۔۔۔۔حد ہوگئی ....وہ افسوس زدہ آواز میں بولا۔

"یہ لے اس نے شیر زمان کی ڈیوائس اسے پکڑائی اور پھر بائیک لیے اس سنسان جگہ سے واپسی کی راہ لی ۔۔۔۔

شیر زمان نے وہ ڈیوائس آن کرتے ہی کان سے لگائی ۔۔۔۔

"کیا خبر ہے ؟؟؟"اس نے کسی سے پوچھا ۔۔۔۔

"سر سکارپین کنگ کا مال آج رات دو بجے سمگل ہو رہا ہے ۔

"اس کے ماتحت نے اسے رپورٹ دی ۔

"ٹھیک ہے "کہتے ہی اس نے آگے کا پلان ترتیب دیا۔

اس کی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔

جس طرح سکارپین کنگ کا گینگ تھا ۔۔جو برائی کے کام کرتا تھا اسی طرح شیر زمان نے بھی ایک ٹیم بنا رکھی تھی جو اس گینگ کی تمام حرکات پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"ہم کہاں جا رہے ہیں ؟"زائشہ نے فرنٹ سیٹ پر حسام کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"شاپنگ پر "وہ سامنے راستے سے نظر ہٹا کر زائشہ پر ایک نظر ڈال کر بولا ۔

"مگر میں مما اور ہیر کے ساتھ 

چلی جاتی نا ۔۔۔انہیں کتنا برا لگے گا کہ میں اکیلی ہی آپ کے ساتھ شادی کی شاپنگ کرنے چلی گئی ۔۔۔۔وہ احساس شرمندگی سے بولی۔

"ہم شادی کی شاپنگ کرنے نہیں جا رہے بلکہ کچھ اور قسم کی شاپنگ کرنے جا رہے ہیں ۔شادی کی شاپنگ تم ان کے ساتھ ہی جا کے کر لینا ۔

"ٹھیک ہے۔مگر ہم کون سی شاپنگ پر جا رہے ہیں وہ تو بتا دیں ؟

اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"یاد ہے تم نے شادی کی پہلی رات کیا کہا تھا ؟؟؟

"آپ پلیز وہ سب بھول جائیں نا ۔۔۔۔

"یاد تو کرو کیا کہا تھا "!!!

",نہیں مجھے وہ سب یاد نہیں کرنا ۔۔۔وہ روٹھی ہوئی لگی حسام کو ۔

"اچھا چلو میں ہی بتا دیتا ہوں ۔۔۔تم نے کہا تھا نا یہ شادی کا جوڑا تمہارے نام کا تھا ۔اور نا تم میرے لیے سجی تھی "

زائشہ نے اسکی بات سن کر شرمندگی سے سر جھکایا ۔۔۔۔

"وہ میں غصے میں تھی تب ۔"

"مجھے پتہ ہے "

"لیکن اب میں جو چاہتا ہوں وہ بات مانو گی ؟؟؟

"اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے۔آپ بتائیں میں ضرور کروں گی ۔۔۔۔

"میں اپنے رشتے کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔میرا مطلب ہے کہ ہمیں اب اپنی میرڈ لائف شروع کردینی چاہیے ۔۔۔۔

"تمہارا کیا خیال ہے اس بارے میں ۔۔۔۔؟"وہ پرشوق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"دوسال ہو چکے ہیں ہماری شادی کو ابھی تک تو دو چار بچے ہوجانے چاہیے تھے "وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے بولا ۔۔۔

"توبہ ۔۔۔۔دو ۔۔۔چار !!!!وہ اس کی بات پر حیران ہوئی ۔۔۔۔

"یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ؟؟؟وہ اسکی شرارت  سمجھتے ہوئے  شرم سے نگاہیں چراگئی ۔۔۔۔

"چلیں پھر آپ اپنی پسند سے برائیڈل ڈریس لیں۔

جو چاہیے وہ سب لے ڈالیں ۔۔۔

"میں تمہیں پور پور خود کے لیے سجا دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔

"دیکھنا چاہتا ہوں تم جب صرف میرے لیے سجو گی تو کیسی لگو گی ؟؟؟

"باقی تمہیں اپنے پیار کے رنگوں میں رنگ دینے کا کام میرا ہے "وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے آہستگی سے بولا ۔۔۔۔۔

زائشہ کا چہرہ کھل کر گلاب بن چکا تھا ۔۔۔اس کی ذومعنی باتوں سے ۔۔۔۔۔

گاڑی میں خاموشی تھی مگر دھڑکنیں ایک دوسرے سے محو کلام تھیں ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"یہاں پر تو کوئی نہیں "دعا نے جہاز میں داخل ہوتے ہی ارد گرد نگاہ دوڑا کر دیکھا ۔۔۔۔۔

مگر جہاز خالی تھا ۔۔۔۔

کوئی بھی مسافر وہاں نہیں تھا ۔۔۔۔جہاز اڑان بھر چکا تھا۔

دعا حیرانگی سے وہیں کھڑی تھی ۔اس کے ساتھ کی باقی ائیر ہوسٹس بھی نہیں آئیں تھیں۔۔۔وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ آخر یہ سب کیا ماجرا ہے ۔۔۔۔

"Hello ....

How are you?

اچانک اپنے پیچھے سے کسی کی شناسا آواز سنی تو جھٹکے سے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔

وہ اپنی شاندار پرسنالٹی سمیت وہاں کھڑا تھا ۔۔۔۔

بلیو جینز اور بلیک ٹی شرٹ پر جیکٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے۔آنکھوں پر گاگلز لگائے ۔۔۔۔

دعا نے اسے نظر بھر کر دیکھا ۔۔۔

شاہ من نے گاگلز اتار کر پاکٹ میں پھنسائے ۔۔۔۔

"آپ کا حال پوچھا ہے۔۔آپ نے جواب ہی نہیں دیا  ؟؟؟ 

دعا نے لب بھینچ لیے ۔۔۔۔

اور خود پر قابو پانے کے لیے گہری سانس لی۔

"آپ ہماری خدمت کے لیے یہاں ہیں ۔تو پھر کریں کوئی خدمت ہماری "وہ ایک سیٹ پر بیٹھ کر بولا ۔۔۔۔

"دل تو چاہتا ہے جوتیوں سے کروں خدمت "وہ منہ میں بڑبڑائی۔۔۔۔

"مگر اس کی آواز شاہ من کے کانوں سے مخفی نہ رہ سکی ۔۔۔۔

وہ زیر لب مسکرایا۔۔۔۔

"دیکھیں دعا میڈم مجھے باتوں کو گھمانا پھرانا نہیں آتا ۔۔۔۔ پہلی نظر میں ہی آپ میرے دل کو بھا گئیں ۔۔۔

دل نے گواہی دی کہ یہی وہ لڑکی ہے جسے ساری عمر تم خوشی خوشی جھیل پاؤ گے۔

تو بس پھر کیا تھا۔۔۔چلے آئے یہاں آپ سے گزارش کرنے "

وہ کہتے ہوئے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔۔

"I am in love with you at first sight....

Will you be mine forever???

اس کے سامنے ایک نفیس سی رنگ پکڑ کر اپنا ہاتھ اسکے آگے پھیلا رکھا تھا ۔

"تمہیں نہیں لگتا یہ سب کرتے ہوئے تم بہت چھچھورے لگ رہے ہو ؟؟؟

وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولی ۔

"بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔ایک تو تہذیب و تمیز کے دائرے میں شرافت سے پرپوز کررہا ہوں اور تم ہو کہ مجھے چھچھورا کہہ رہی ہو ۔۔۔۔

"کیا چھچھور پن کیا ہے اب تک میں نے تمہارے ساتھ ۔۔۔۔حالانکہ اس وقت ہم دونوں اکیلے ہیں یہاں "وہ سیدھا کھڑا ہوا ۔۔۔۔

"اتنی ہی شرافت ٹپک رہی ہے۔تو خود کیوں پرپوز کرنے پہنچ گئے ۔۔۔۔سیدھے سیدھے رشتہ بھیجتے ۔۔۔۔اس کی ناک  بھنویں چڑھا کر بولی ۔۔۔۔

"رشتہ بھی بھیج دیں گے ۔۔۔میں تو صرف یہی سوچ رہا تھا کہ پہلے لڑکی سے تو اس کی مرضی جان لیں ۔۔۔یہ نا ہو کہ بعد میں انکار ہوجائے ۔۔۔۔۔

"تو پھر بتاؤ اگر تمہاری مرضی ہے تو میں اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیج دوں گا ۔۔۔۔

دعا خاموش رہی ۔۔۔۔۔

"بتاؤ نہ دعا پلیز ۔۔۔۔

وہ غصے سے دو قدم آگے بڑھی ۔۔۔۔

"اسی لیے ۔۔۔۔۔صرف اسی لیے میں نے یہ جہاز سارا بک کروایا تھا کہ اگر تھپڑ پڑے تو کم از کم سب لوگوں کے سامنے شرمندگی نا اٹھانا پڑے ۔۔۔۔

دعا جو غصے میں تھی  اس کی بات سن کر مسکرا گئی۔۔۔۔

"ضامن بھائی کہتے ہیں ۔۔۔لڑکی ہنسی تو سمجھو پھنسی "

وہ دانت نکال کر بولا ۔۔۔۔

"اس کا مطلب ہے ۔تمہاری طرف سے ہاں سمجھوں ؟؟؟وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا 

"میں نے ایسا کب کہا "

وہ جاتے ہوئے پلٹ کر بولی ۔

"تو پھر نا سمجوں ؟؟؟

وہ افسردہ سا ہو کہ بولا ۔۔۔

"میں نے ایسا بھی نہیں کہا "وہ اٹھلا کر بولی

"تو پھر ؟؟؟

"جب رشتہ بھیجو گے تو جواب مل جائے گا تب تک انتظار کرو "

وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔

ابھی تو دو گھنٹے کا سفر باقی ہے۔آو نا ایک دوسرے کو جان لیں "شاہ من نے پیچھے سے ہانک لگائی ۔۔۔

"ساری زندگی پڑی ہے۔اس نے وہیں سے آواز لگائی ۔۔۔۔

"مجھے جوس چاہیے !!!!

اس نے پھر سے اسے متوجہ کرنا چاہا ۔۔۔

"یہ رنگ تو لیتی جاؤ "اس نے پھر سے پکارا ۔۔۔

"وقت آنے پر دو لوں گی "

دعا کی کھکھلاہٹوں کی آواز اسے یہاں تک آئی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ جانتا تھا وہ اس وقت اپنے روم میں ہوگی…  

وہ دبے قدموں سے چلتے ہوئے اس کے کمرے میں آیا ۔۔۔۔۔ 

اور روم میں موجود تھی ۔۔۔کھڑکی سے باہر نظر آتے ہوئے چاند کو نہار رہی تھی ۔۔۔۔۔ 

"جب بغل میں چاند موجود ہو تو آسمانوں پر کیا تلاشنا !!!!

اس نے عیش کے قریب آتے فسوں خیز آواز میں کہا۔۔۔۔

 اس سے پہلے کے عیش ڈر جاتی ۔۔۔۔ ضامن نے .. اسکا ہاتھ تھام لیا.. اس کی کلائی کو زور سے ایسے جکڑا کہ عیش نے اس سے اپنی کلائی چھڑوانا چاہی ۔۔

ضامن نے اس کھینچ کر دیوار کے ساتھ لگایا ۔۔۔۔اور اسکے فرار کی تمام راہیں مسدود کر دیں۔۔۔۔  

عیش اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی۔۔۔

"گھر میں شادی ہے۔اور اس بار میں تمہیں اپنی بیوی کی حیثیت سے سب سے ملوانا چاہتا ہوں ۔۔۔ملو گی ؟ "ضامن نے اسکا چہرہ اٹھا کر پوچھا…  

"بنو گی لائف ٹائم پارٹنر ؟؟؟وہ اس کی رضا جان رہا تھا ۔۔۔

"ہمارا کانٹریکٹ تھا شاید تم بھول گئے ۔۔۔۔

"ہاں بھول گیا تم بھی بھول جاؤ "

"عیش ڈارلنگ آپ مانیں یا نا مانیں آپکو ضامن دی گریٹ سے محبت و حبت ہوگئی ہے۔۔۔آپ چاہیں تو بھی ہم سے جدا نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔آپ کی  آنکھوں میں دکھ رہا ہے صاف صاف ۔۔۔۔

ایک دن آپ کو صرف میرا ہی ہونا ہے ۔۔۔وہ بھی سارے کا سارا ۔۔۔ 

وہ اسکے چہرے کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے آہستگی سے بول رہا تھا ۔۔۔۔

 "اس سے پہلے کے وہ اسکی گردن کو دیکھتا  اس پر جھکتا.. عیش نے تڑپ کر اسے دور کیا..۔۔۔

"یہ سب رخصتی کے بعد کے لیے سنبھال رکھو "

وہ کہتے ہوئے اس کے حصار سے نکلی ۔۔۔۔

اور جاتے ہوئے اسے اپنی رضامندی کا عندیہ دے گئی ۔۔۔

ضامن مسکرا اٹھا

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

گہری رات کا اندھیرا چاروں اوڑھ پھیل چکا تھا ۔۔سارا شہریار ہاؤس اس وقت نیند میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔

اس کی اوشن بلیو آئیز نے گھر کے چاروں اطراف کا جائزہ لیا۔۔۔۔

سیاہ جینز اور شرٹ میں ملبوس میں اس کا کسرتی جسم۔اور دارذ قد نمایاں ہو رہا تھا شانوں کو چھوتے ہوئے بال ہوا سے ہل رہے تھے ۔۔۔۔

گھر کی پچھلی سائیڈ پہ رک کر اس نے ایک نظر اوپر کمرے کی کھلی ہوئی کھڑکی پر ڈالی ۔۔۔۔پھر اس کمرے کے ساتھ لگے ہوئے پائپ کو دیکھا ۔۔پھر مہارت سے اس پائپ سے چڑھتا ہوا اوپر کمرے کی کھڑکی سے کود کر اندر  آیا ۔۔۔

کمرے میں بھی موسم کے لحاظ سے ہلکی سی خنکی تھی ۔۔۔۔ وہ سامنے ہی کمفرٹر کو سینے تک اوڑھے دنیا جہان سے بے خبر محو استراحت تھی۔

نائٹ بلب کی روشنی میں اس کا چہرہ واضح تھا۔ریشمی بال سنہری بال تکیے پہ بکھرے ہوئے تھے۔ہلکی بھوری بڑی بڑی  آنکھیں اس وقت بند تھیں۔

وہ آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آ رکا ، وہ بلکل اس کے سامنے تھی کہ ہاتھ بڑھاتا تو اسے چھو لیتا ۔۔۔۔۔

اس نے اپنی دلی خواہش کو دبانے کی بجائے اس پر عمل کرنے کا سوچا ۔۔۔۔

Hey my little wify

I am back....

وہ فسوں خیز آواز میں اس کے کان کے قریب سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔

اس سے پہلے کے شیر زمان اسے اتنے دنوں بعد سامنے دیکھ سب بھلا کر اس پر اپنی شدتیں لٹاتا ۔۔۔۔دروازے کے قریب آتے قدموں کی چاپ سن کر وہ پیچھے ہٹا ۔۔۔۔

"پہلے تمہیں یہاں سے لے جانے کا انتظام کر لوں ۔۔۔پھر بہت جلد ملیں گے ۔۔۔۔وہ اس کے گالوں پر انگلیاں پھیر کر ان کی نرمائی محسوس کیے بولا۔۔

جس راستے سے اندر آیا تھا اسی راستے سے وہ واپس باہر نکل گیا۔۔۔۔

یمنی نے ہیر کے کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا ۔۔۔۔آج یمنی نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اسے دودھ میں آدھی نیند کی ٹیبلٹ ملا کر پلادی تھی۔   اسی لیے وہ اتنی پرسکون اور گہری نیند سوئی تھی ۔

وہ دروازے کو ٹھیک سے بند کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"بریرہ سامان پیک کر لو "زریار نے اسے کمرے میں آتے ہی کہا 

"کیوں ہم کہیں جارہے ہیں ؟

"ہمممم۔۔۔۔ہم میرے پرانے فلیٹ میں شفٹ ہورہے ہیں "

"ایسا کیوں ؟؟؟بریرہ نے حیرانی اور پریشانی دونوں کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا ۔۔۔۔

"تمہیں نہیں لگتا کہ ہم دونوں اس گھر میں مس فٹ لگتے ہیں ۔

بریرہ اس کی بات سے خود متفق تھی ۔۔۔تو اعتراض کیسے کرتی ۔۔۔۔

وہ خود بھی یہی محسوس کرتی تھی ۔

"ٹھیک ہے میں پیکنگ کر لیتی ہوں ۔۔۔

وہ کہتے ہوئے کبرڈ سے اپنے اور زریار کے کپڑے نکالنے لگیں۔۔۔۔

زریار نے کبرڈ کے اوپر سے اٹیچی کیس اتار کر اس کے آگے رکھا تو بریرہ اس میں ترتیب وار کپڑے لگانے لگی ۔

"بس مناسب سے کپڑے رکھ لو اور کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں۔۔۔وہاں ہر چیز موجود ہے۔

"ٹھیک ہے "وہ آہستگی سے بولی ۔۔۔۔کچھ دیر میں وہ دونوں اپنی پیکنگ کیے نیچے آئے ۔۔۔۔

زیگن اور زمارے دونوں لاونج میں موجود تھے ۔زرشال اور ذوناش کچن میں سے اکٹھی نکلیں شام کے کھانے کی تیاری کے بعد۔۔۔۔

"آپ کہیں جا رہے ہیں "زیگن نے زریار اور بریرہ کو بیگ سمیت باہر کی طرف ہوئے دیکھا ۔۔۔۔

"ہممم۔ہم اپنے پرانے فلیٹ میں شفٹ ہو رہے ہیں "

"ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟؟؟زریار بھائی یہ سب مناسب نہیں ۔۔۔۔آپ پلیز ایسا قدم مت اٹھائیے ۔۔۔۔

زیگن نے زمارے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے تھوڑا سا دبایا ۔۔۔زمارے اس کا اشارہ سمجھ چکا تھا ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور زریار کے پاس جا رکا۔۔۔۔

"زریار بھائی ......اس نے زریار کے شانے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔

کہنے کو کوئی الفاظ نہیں تھے ۔۔۔۔وہ دونوں تھوڑی دیر ایک دوسرے کو نم آنکھوں سے دیکھتے رہے ۔۔۔۔۔

"بچے تو ہماری زندگی میں بعد میں آئے ہیں۔ہمارا رشتہ پہلے کا ہے۔ہم نے اپنے بھائیوں کے رشتے کو پیچھے کیےبچوں کے رشتے کو فوقیت دی ۔۔۔یہی ہماری غلطی تھی ۔۔۔ہمیں وقت رہتے ہی اپنی غلطی کو سدھار لینا چاہیے ۔زمارے نے کہا ۔۔۔۔

"ہوسکے تو مجھے اپنے بیٹے کے گناہوں کے لیے معاف کر دو "زریار نے شرمندہ انداز میں کہا ۔

"پلیز بھائی ایسا مت کہیں اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ٫

وہ دونوں کہتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگے اور آپسی تمام رنجشیں بھلا کر پھر سے ایک بار پرسکون خوشیوں بھری زندگی کا آغاز کیا۔۔۔۔۔

مگر کچھ خوشیاں چند پل کی مہمان ہوتی ہیں۔

"سر باہر زیان صاحب آئے ہیں ؟؟؟؟

گیٹ کے باہر موجود گارڈ نے اندر آکر انہیں اطلاع بہم پہنچائی ۔۔۔

"وہ کیوں آیاہے یہاں ؟؟؟

"اسے کہہ دو اس گھر کے دروازے اسکے لیے بند ہیں۔یہاں قدم بھی نہیں رکھے ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ زمارے کچھ کہتا زریار نے کہا ۔۔۔۔

"جی سر ۔۔۔مگر ان کاکہنا ہے کہ وہ جنت بی بی سے ملنا چاہتے ہیں "

گارڈ کی بات سن کر سب کے چہروں پر تلخی پھیلی ۔

"بابا اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس سے ملنا چاہوں گی "

جنت جو وہاں کھڑی خاموشی سے ساری کاروائی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔زمارے سے بولی ۔۔۔۔

زمارے جو زیان کو منفی جواب بھیجنے والا تھا جنت کی بات سن کر شاک رہ گیا۔۔۔

پھر کچھ لمحے سوچنے لگا ۔۔۔

"بابا آپ کو مجھ پر اعتبار ہے نا "

"جنت بیٹا تمہاری زندگی ہے اور اس پر تمہیں فیصلہ لینے کا پورا اختیار ہے "

"تم جو بھی فیصلہ لو گی مجھے تمہارا ہر فیصلہ قبول ہوگا "

زمارے نے اس کا گال تھپتھپاکر کر کہا ۔۔۔۔

"گارڈ اسے کہو گیٹ سے اندر آ جائے ۔۔۔۔وہیں لان میں رکے ۔۔۔۔

ہمارے گھر کی بیٹیاں باہر دروازے پر کھڑے ہو کر باتیں نہیں کرتیں "

"جی صاحب "وہ مؤدب انداز میں کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔

جنت سر پہ دوپٹہ درست کرتے ہوئے لان کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

آیت جو منت کے پاس کھڑی تھی وہ جنت کو باہر جاتے دیکھ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔۔۔۔۔

جیسے ہی زیان گیٹ سے اندر آیا۔۔۔۔

سامنے ہی جنت کو آتے دیکھا ۔۔۔اس کی نظر جنت کے پیچھے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر آتی ہوئی آیت پر پڑی ۔۔۔

اس نے دو پونیاں بنا رکھیں تھیں۔جینز اور اس پر چھوٹی سی پھولوں والے پرنٹ کی شارٹ فراک پہن رکھی تھی ۔۔۔۔اس کی نظر زیان پر پڑی تو وہ گرتے پڑتے جنت سے پہلے زیان کے پاس پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔

جنت نے آیت کو گھور کر دیکھا ۔۔۔۔مگر وہ جنت کی گھوری کہ پرواہ کیے بنا اتنی دیر میں زیان سے لپٹ چکی تھی ۔زیان نے اسے اپنی گود میں اٹھالیا ۔۔۔۔

"کیسی ہے میری جان "وہ اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔۔

جوابا اس نے بھی زیان کے گال کو چوم لیا۔۔۔۔

"آیت اندر جاؤ "وہ ڈپٹنے کے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"میلے پاپا "۔۔۔۔۔وہ زیان کی گردن میں منہ چھپا کر بولی ۔۔۔ 

"یہ میری جان کے لیے ہے۔آپ جاؤ اندر انہیں دیکھو کھول کر اس میں آپ کے لیے ٹوائز اور چاکلیٹس ہیں ۔۔۔۔پھر دیکھ کر مجھے بتانا آپ کو کیسے لگے "

"تھن۔۔۔۔ت۔۔۔او۔۔۔(تھینک یو)پاپا ۔۔۔وہ اپنی توتلی زبان میں بولی اور شاپنگ بیگز اس سے اٹھایا تو نہیں جا رہا تھا وہ گھسیٹتے ہوئے اسے اندر لے جانے لگی ۔۔۔۔

زیان اپنی بیٹی کی بہادری دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔۔۔

جنت تب سے خاموش کھڑی ان دونوں کی حرکات ملاحظہ فرما رہی تھی ۔۔۔۔

"دو سالوں بعد ایک دم سے باپ کا پیار کہاں سے امڈ آیا "؟

وہ کاٹ دار آواز میں بولی۔

"جب ایک باپ کو اسکی اولاد سے بے خبر رکھا جائے تو پیار تو تب ہی آئے گا جب اسے پتہ چلے ۔۔۔۔وہ اپنی صفائی میں بولا۔

"یہاں پھر سے آنے کا مقصد ؟؟؟وہ پر اعتمادیت سے بولی ۔

"مقصد تو بہت ہی نیک ہے "

وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ گھسائے بولا ۔

"کام کی بات پر آؤ "وہ بیزاری سے بولی ۔۔۔۔

"جنت پچھلی بار جب ہم ملے تھے تب تم نے کہا تھا کہ مجھ سے جان بھی مانگ لو تم دو گی ۔۔۔مگر معافی نہیں دے سکتی ۔۔۔۔

جنت نے زیان کی بات پر اسکی طرف حیرت زدہ نظروں سے دیکھا ۔آخر وہ کہنا کیا چاہتا تھا ۔۔۔۔

"مجھے پتہ ہے تم مجھے میرے کیے پر کبھی بھی معاف نہیں کرو گی ۔۔۔۔

"ہمممم بالکل ٹھیک اندازہ لگایا ۔۔۔۔جب پتہ ہے کہ معافی نہیں ملے گی تو کیوں آئے ہو پھر سے ایک بار ہماری زندگی میں زہر گھولنے "؟

"تم نے کہا تھا کہ جان مانگ لو وہ دے دوں گی ۔۔۔۔تو آج تم سے تمہاری جان ہی مانگنے آیا ہوں "وہ سپاٹ انداز میں بولا۔

جنت کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے سکڑ کر پھیلیں۔۔۔۔۔

"کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا "؟وہ ڈرتے ہوئے دل سے اپنے دوپٹے کو جکڑتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"پہلے یہ بتاؤ ہمارے رشتے کے بارے میں کیا سوچا ہے تم نے ؟

زیان نے سادہ انداز میں پوچھا ۔

"یہ رشتہ تو رشتہ کہلانے کے بھی لائق نہیں تو اس کے بارے میں سوچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔

وہ تلخ انداز میں گویا ہوئی۔

"تمہارے لیے یہی بہتر ہے۔اسے یہیں ختم کردو ۔۔۔۔حالانکہ اسے تو بہت پہلے ہی ختم ہوجانا چاہیے تھا ۔۔۔۔مجھے طلاق چاہیے ۔۔۔۔

طلاق دے دو مجھے "وہ سرد مہری سے بولی ۔۔۔۔

",بکواس بند کرو ۔۔۔۔اور دوبارہ یہ لفظ اپنے منہ سے مت نکالنا ۔۔۔۔۔طلاق اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ عمل ہے "

زیان نے اسے باور کروایا ۔۔۔۔

"اور زبردستی ؟؟؟؟وہ ابرو اچکا کر کاٹ دار آواز میں کہتے ہوئے اسے لاجواب کر گئی ۔۔۔۔

"میں تمہیں کسی صورت طلاق نہیں دوں گا "

"ٹھیک ہے مت دو میرے پاس خلع کا آپشن موجود ہے ۔میں تم سے خلع لے لوں گی ۔۔۔وہ اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کرگئی ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے لے لو تم خلع ۔۔۔لیکن اگر تم نے ایسا کیا تو تمہیں اپنی جان میرے حوالے کرنی ہوگی ۔۔۔۔۔میں اپنی بیٹی تم سے لے لوں گا ۔

وہ یہ کہتے ہوئے واقعی اس کی جان نکال گیا ۔۔۔۔

جنت نے اس کی بات پر اپنے سینے پر ہاتھ رکھا جیسے اس کی واقعی جان نکل رہی ہو ۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو ۔۔۔آیت صرف میری بیٹی ہے "

"تم کیا اسے کہیں پیچھے سے لے کر آئی تھی ؟؟؟؟

"وہ میرا خون ہے۔اور میں اسے تم سے لے کر رہوں گا ۔۔۔۔

"نہیں زیان تم ایسا کچھ نہیں کرو گے "

"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے ؟؟؟.

میں ایسا ہی کروں گا "

"اگر تم مجھ سے خلع لے کر اپنے دل کی کرو گی ۔۔۔تو میرے دل میں بھی جو آئے گا وہی کروں گا "

زیان تم کیوں ایک ماں کو اس کی بیٹی سے الگ کر کہ اس کی بد دعائیں لے رہے ہو ؟؟؟وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔

"تم نے بھی تو میری ماں کو اسکے بیٹے سے دور کر کہ اس کی بدعائیں لیں ہیں۔"

"میں نے تمہیں ان سے دور نہیں کیا ۔۔۔۔کچھ نا کرتے ہوئے ہر الزام ہمیشہ میرے سر پہ ہی کیوں ڈال دیتے ہو ؟؟؟

"کیوں زیان کیوں ؟؟؟

"کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا ؟؟؟؟

"تمہاری ماں سے تمہیں دور کرنے کی ذمے دار میں نہیں بلکہ تم خود ہو اور تمہارے عمل "وہ اپنے تئیں اسے آئینہ دکھا رہی تھی ۔۔۔۔

"ایک ہی حل ہے اس مسلے کا تم سب بھول جاؤ ہم ملکر اپنی بیٹی کو پالیں گے "اس نے اسے نئی راہ سجھائی ۔۔۔

"ہر گز نہیں "وہ قطعیت سے بولی ۔۔۔۔

"ایسا کبھی نہیں ہوگا میں ایک لمحہ بھی تمہارے ساتھ نہیں گزار سکتی کحجا کہ ساری زندگی ۔۔۔۔۔

"تم سب سے معافی مانگنے کی بجائے مجھ پر اپنا زور چلا رہے ہو "؟؟؟

"تم کہو تو سب سے معافی مانگ لوں گا ۔۔۔۔لیکن میں باقی سب کا گنہگار نہیں صرف تمہارا ہوں اسی لیے صرف تم سے ہی معافی کا خواستگار ہوں۔

"تمہارے عمل سے سارے گھر والوں کے رشتوں میں دراڑ پڑ گئی ۔۔۔۔اور تم کہتے ہو کہ تم انکے گہنگار ہی نہیں "!!!وہ حیران کن نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"کبھی کبھی مجھے شک ہوتا ہے کہ تم بڑے پاپا اور بڑی مما کی اولاد ہی نہیں انہوں نے تمہیں کہیں سے لے کر پالا ۔۔۔۔ورنہ ان کی تربیت تو ایسی نہیں ۔۔۔۔۔"

وہ اپنے الفاظ سے زیان کو آگ لگا گئی ۔۔۔۔

"جنت !!!!وہ اونچی آواز میں غرایا ۔۔۔۔۔

"آؤ ۔۔۔۔رک کیوں گئے ۔۔۔۔

"آؤ نا ۔۔۔۔مارو مجھے ۔۔۔۔بس یہی رہ گیا ہے۔۔یہ بھی کر گزرو ۔۔ابھی بھی وہ تھپڑ ۔۔۔تمہاری وہ درندگی بھول نہیں پائی میں ۔۔۔۔

وہ بھی زہریلی ناگن کی طرح پھنکاری ۔۔۔۔

زیان نے مٹھیاں بھینچ کر خود کو نارمل کیا۔۔۔۔

"فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔یاتو خلع لے کر میری بیٹی میرے حوالے کر دو ۔۔۔یا پھر سب بھلا کر میرے پاس آجاؤ ۔۔۔۔

"مجھے تم نے اکیلا کردیا ہے۔دوسالوں سے میں بھی اپنوں کی جدائی کا دکھ جھیل رہا ہوں ۔۔۔اور کچھ نہیں تو اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ رکھ کر اپنی تنہائی دور کر لوں گا "

"بھول ہوگی تمہاری کہ میں کبھی تمہارے پاس آؤں گی ۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے تو پھر آیت سے دست بردار ہونے کی تیاری کر لو ۔۔۔۔

",تم مجھے دھمکا رہے ہو ؟؟؟

"نہیں تمہیں سچائی سے روشناس کروا رہا ہوں "

"عدالت ایک چھوٹی بچی کو اسکی ماں سے کبھی الگ نہیں کرے گی ۔وہ پریقین انداز میں بولی ۔۔۔۔

"عدالت صرف شیر خوار بچوں کو نہیں کرتی ۔۔۔۔

جنت نے اسکی بات پر چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"پھر عدالت میں ملاقات ہوتی ہے "وہ کہتے ہوئے اسے وہیں ساکت چھوڑ گیٹ سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

جنت کتنی دیر وہاں جامد کھڑی رہی ۔۔۔۔آنسو قطار در قطار اس کی آنکھوں سے پھسل کر اسکے گال بھگونے لگے ۔۔۔۔۔

اسے اپنی زندگی ریت کے مانند ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی لگ رہی تھی ۔۔۔۔اس کی زندگی کا کل سرمایہ اس کی بیٹی ہی تو تھی اس کے پاس ۔۔۔۔کیا پایا تھا اس نے اس زندگی میں سب کھو کر ۔۔۔۔صرف اپنی بیٹی ۔۔۔۔اگر وہ بھی اس کے ہاتھوں سے کھو جاتی تو کیا رہ جاتا اس کے پاس ۔۔۔ عزت و عصمت تو پہلے ہی کھو چکی تھی ساتھ ساتھ دل کا چین روح کا قرار ۔۔۔۔کچھ بھی تو نا تھا اس کے پاس ۔۔۔۔ جس آیت کے دم سے وہ ساری زندگی گزارنے کا سوچے بیٹھی تھی ۔۔۔۔اگر وہ بھی اس سے دور ہوجاتی تو وہ تو تہی داماں رہ جاتی ۔۔۔۔

وہ بھاگتی ہوئے اندر آئی جہاں سب اس کے منتظر تھے ۔۔۔۔

کہ آخر اس کی کیا بات ہوئی زیان سے ۔۔۔۔۔

وہ کسی سے کچھ کہے بنا دوڑتے ہوئے اپنے روم میں بند ہوگئی ۔۔۔۔

سب نے اسے روتے ہوئے اندر جاتا دیکھا تو مزید  پریشان ہوگئے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔۔۔۔زائشہ یمنی نے مل کر ساری تیاریاں تقریبا مکمل کرلیں تھیں۔روزانہ بازاروں کے چکر لگ رہے تھے ۔۔۔۔پھر گھر کی ساری زمہ داریاں دیکھنا ۔۔ زائشہ تو بوکھلا کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔حسام بھی جب فلائٹ سے وقت بے وقت واپس آتا تو زائشہ اس کے آنے سے پہلے سو چکی ہوتی ۔۔۔۔وہ اس وقت کے انتظار میں تھا جب زائشہ خوداپنی مرضی سے اس کی پسند میں ڈھل کر اسکے سامنے آئے گی ۔۔۔۔

بس یونہی دن گزرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔ 

🦋🦋🦋🦋🦋

جنت نے زیان سے ہوئی ساری باتیں سارے گھر والوں کو بتادیں تھیں ۔۔۔۔زیان کی باتیں سن کر سب کو بہت غصہ آیا ۔۔۔ زریار نے اس سے خود مل کر بات کرنے کی ٹھان لی ۔۔۔مگر زمارے نے اسے منع کردیا ۔۔۔۔

آج ان سب کی کورٹ میں ملاقات تھی ۔۔۔۔

زیان بھی اپنے وکیل کے ساتھ وہاں موجود تھا اور زمارے زریار دونوں جنت کے ساتھ اپنے وکیل کو بھی لے کر پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔۔

"میرے خیال میں آپ کو آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کر لینی چاہیے ان کے وکیل نے مشورہ دیا ۔۔۔۔بے شک خلع لینا کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔۔لیکن جہاں تک بچی کی کسٹڈی کی بات ہے تو ہمارے حریف کا کیس زیادہ سٹرانگ ہے۔وہ ان سے بچی کے سکتے ہیں۔دیکھ لیجیے سوچ سمجھ لیجیے ایک بار ۔۔۔۔

جج صاحب نے اپنے روم میں ان دونوں کو بلایا اور اس معاملے میں جنت اور زیان کی رائے جانی ۔۔۔۔۔

"میں اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتا ہوں اسے طلاق کبھی نہیں دوں گا ۔۔۔زیان نے اٹل انداز میں بتایا ۔

"مگر میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔اور مجھے اپنی بیٹی کسی صورت انہیں نہیں دینی "وہ بھی اپنی ضد پر قائم تھی ۔۔۔۔

"آپ ان کے ساتھ نا رہنے کی وجہ بتائیں "؟

جج صاحب نے پوچھا ۔

"جنت خاموش بیٹھی انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔۔۔کیا گھر کے باہر بھی وہ اپنی بچی کھچی عزت کا تماشا بنوا دے ۔۔۔۔ 

اسی سوچ میں مبتلا تھی۔

"آج کل چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑکے لڑکیاں لڑ جھگڑ کرایک دوسرے سے طلاق کا مطالبہ کر دیتے ہیں ۔

"جج صاحب یہ کوئی بات نہیں "جنت نے تڑپ کر ان کی بات درمیان میں کاٹی۔۔۔۔مگر پھر وہیں رک گئی ۔۔۔۔

  "میں آپ دونوں کو چھ ماہ کا وقت دیتا ہوں آپ لوگوں کی آپس میں جو بھی رنجشیں ہیں انہیں دور کرلیں تو بہتر ہے ۔اور اگر ان چھ ماہ میں اگر پھر بھی آپ ساتھ رہنا نا چاہیں تو میں اس کیس کا فیصلہ کردوں گا ساتھ ہی آپ کی بیٹی کا بھی ۔۔۔۔۔وہ تھوڑی اور سمجھدار ہو جائے گی ۔۔۔تو جس کے ساتھ وہ خود رہنا چاہے گی اسی کے حق میں فیصلہ ہوگا ۔۔۔۔"انہوں نے اپنا فیصلہ سنا کر گویا بات ہی ختم کردی ۔۔۔۔۔

جنت نے ایک بار بھی زیان کی طرف نہیں دیکھا ۔۔۔۔

جبکہ زیان کی نظریں تب سے صرف جنت کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔وہ دونوں آگے پیچھے ان کے مخصوص کمرے سے باہر نکل آئے ۔۔۔۔

جب زریار اور زمارے کو جج صاحب کے فیصلے کا علم ہوا تو وہ تشویش بھرے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے ۔۔۔۔

"بابا میں اسکے ساتھ نہیں جاؤں گی "جنت نے کھردرے پن سے زمارے کو بتایا ۔۔۔۔

"اب کورٹ کے فیصلے سے منحرف نہیں ہوا جاسکتا ۔۔۔۔قانون کو ہاتھ میں لینا مناسب نہیں "

زریار بھائی آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں زمارے نے اسے رائے لی ۔۔۔۔

"اگر تم کہو تو میں زیان سے بات کرتا ہوں "

"نہیں بھائی اس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں وہ بضد ہے۔اپنے فیصلے پر "

"تو پھر جنت تو اس کے ساتھ جانے پر راضی نہیں ۔۔۔۔اور ہم آیت کو بھی خود سے دور نہیں بھیج سکتے ۔۔۔۔

"آپ زیان کو کہہ دیں کے وہ یہ چھ ماہ اس گھر میں رہ سکتاہے۔میں اپنی بیٹی کو اپنی نظروں سے دور ہر گز نہیں جانے دوں گا ۔کم ازکم اسطرح مجھے اپنی بیٹی کا پتہ تو رہے گا ۔۔۔۔زمارے نے بیٹی کی خاطر ہار مانتے ہوئے شکستہ آواز میں بولا ۔۔۔ 

🦋🦋🦋🦋🦋

زیان گھر واپس آچکا تھا مگر اس سے کوئی بھی بات کرنے کا خواہاں نہیں تھا ۔۔۔۔وہ یا تو ڈیوٹی پر چلا جاتا اور جس وقت گھر پہ ہوتا وہ سارا وقت وہ آیت کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے پیار کرتے باتیں کرتے ہوئے گزارتا ۔۔۔۔ 

"پاپا۔۔۔۔۔چائے ۔۔۔۔وہ اپنا فیورٹ کھیل زیان کے ساتھ بھی کھیل رہی تھی ۔۔۔۔

کیٹل میں سے چائے کی جگہ پانی کپ میں ڈال کر زیان کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔

"واؤ میری ڈول نے تو بہت ٹیسٹی چائے بنائی ہے ۔۔۔مزہ آگیا ۔۔۔۔پہلے کبھی اتنی ٹیسٹی چائے نہیں پی میں نے "وہ محبت بھرے انداز میں آیت کو دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

وہ کھکھلا کر ہنسی ۔۔۔۔

"مما چائے "اس نے ایک کپ میں پانی ڈال کر جنت کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔۔

جسے جنت نے خاموشی سے پکڑ لیا۔۔۔

زیان کی موجودگی کی وجہ سے وہ خاموش بیٹھی تھی ۔

آیت کافی دیر تک جنت کا انتظار کرتی رہی کہ وہ کچھ بولے گی ۔۔۔جیسے اس کے پاپا نے اس کی چائے کی تعریف کی ہے ویسے اسکی مما بھی کریں گی ۔۔۔۔مگر جب کافی دیر تک جنت کچھ نہیں بولی تو آیت نے زیان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا چھوٹا سا کپ جس میں سے زیان نے ایک چھوٹا سا گھونٹ بھرا تھا۔۔۔اس نے وہ جنت کو پکڑایا ۔۔۔۔۔

جنت نے اسکی طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔پھر بات سمجھ میں آتے ہی بولی ۔۔۔۔

"میرے کپ میں بھی جو چائے تھی وہ بہت مزے کی تھی ۔۔۔۔اس کپ کو واپس کریں ۔۔۔۔۔۔۔مجھے کسی کی بھی جھوٹھی چائے پینا پسند نہیں "

وہ نخوت سے زیان کو سناتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی ۔۔۔۔۔

"میری ڈول۔۔۔۔۔ یہاں آئے پاپا پاس "

۔۔۔۔اس نے اپنی دونوں بانہیں واہ کیے اسے اپنے پاس بلایا جو اپنی مما کے یوں اٹھ کر کمرے سے باہر چلے جانے سے افسردہ ہوچکی تھی ۔۔۔۔ 

"میری جان کو ڈول چاہیے ؟"

"جی ۔۔۔اس نے جھٹ اثبات میں زور زور سے سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"ہم کل مارکیٹ چلیں گے وہاں سے اپنی جان کو اسکی پسند کی ڈول لے کر دوں گا"

وہ پیار بھرے انداز میں بولا ۔۔۔تو آیت نے اس کے گال پر بوسہ دیا ۔۔۔۔ پھر وہ دونوں کتنی دیر تک آپس میں چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

بریرہ اپنے کمرے میں نماز ادا کر رہی تھی ۔۔۔۔اسے اپنے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔۔وہ نماز ادا کیے جائے نماز تہہ کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے پیچھے مڑی تو زیان ان کے پیچھے کھڑا تھا ۔۔۔ 

"آئی ایم سوری مام !!!

وہ شرمندگی سے سر جھکائے ہوئے بولا۔

"زیان میں نے تمہاری ایسی تربیت تو نہیں کی تھی ۔۔۔بریرہ کے منہ سے شکوہ پھسلا۔۔۔ 

"مام آپ نے ایک بار بھی میری رائے نہیں جانی ۔۔۔مجھے بس  اپنا فیصلہ سنا دیا ۔آپ کو میرے کردار پر شک تھا ۔۔۔۔کیسے سوچ سکتے تھے آپ میرے بارے میں کہ میں اپنے گھر کی لڑکی کے ساتھ کچھ برا کر سکتا تھا ۔۔۔ 

بس یہی باتیں سوچ سوچ کر میرا دماغ گھوم گیا ۔۔۔ 

میں نے یہی سوچا کے جب سب میرے بارے میں ایسی سوچ رکھتے ہیں تو اب میں انہیں سب سچ کر کہ دکھاؤں گا ۔۔۔۔میں غصے میں تھا ۔۔۔اور غصے میں اپنے ہوش و حواس گنوا بیٹھا ۔۔۔۔غصے میں انسان کے دماغ پر شیطان کا قبضہ ہوتا ہے۔مجھے اسی نے ورغلایا ۔۔۔اور میں مثبت سوچنے کی بجائے ۔۔۔ٹھیک کرنے کی بجائے سب غلط کرتا چلا گیا ۔۔۔۔

ان دو سالوں میں آپ نہیں جانتی میں کتنا تڑپا ہوں ۔۔۔کتنا پچھتایا ہوں اپنے کیے پر ۔۔۔ ایک پل کے لیے بھی سکون کی نیند میسر نہیں تھی ۔۔۔۔جنت کی آوازیں میرے کانوں کے پردوں کو پھاڑ کر رکھ دیتی۔ ۔۔۔میں اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا مگر اس نے تو معافی کے تمام دروازے بند کردئیے مجھ پر ۔۔۔۔میں جانتا ہوں جو میں نے کیا ۔۔۔جنت مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی ۔۔۔۔مگر میں پھر بھی کوشش کرنا چاہتا ۔۔۔ تاکہ یہ حسرت نا رہ جائے کہ میں نے کوشش نہیں کی ۔۔۔۔۔

وہ پتھر بن چکی ہے۔

لیکن اگر پتھر پر بھی مسلسل پانی پڑتا رہے تو ایک نا ایک دن اس میں بھی سوراخ پڑ جاتا ہے ۔اسی آس میں ہوں کہ شاید ایک نا ایک دن وہ بھی مجھے معاف کردے ۔۔۔۔ 

"زیان جنت پہلے ہی بہت ٹوٹ چکی ہے۔اس کا مزید امتحان مت لینا "

"مما میرا آپ سے وعدہ ہے۔میں جنت کو کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچانوں گا "

"میں دل سے جنت کی زندگی کو جنت بنانے کا وعدہ کرتا ہوں آپ سے "وہ ان کا ہاتھ تھام کر یقین دلانے لگا۔۔۔۔

"میری دعائیں تم سب کے ساتھ ہیں۔اللہ تعالیٰ جنت کو صبر دے ۔اور تم دونوں کی زندگیاں خوشیوں سے بھر دے ۔۔۔آیت کو تم دونوں کے پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔اس کا بہت خیال رکھنا زیان "

"جی مما میں پوری کوشش کروں گا"اب کی بار وہ بریرہ کے گلے لگا تو بریرہ کو کتنے عرصے بعد سکون ملا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋 

ہیر اپنے روم میں تھی نیند کی دوائی کے زیر اثر سوئی ہوئی تھی کہ اچانک سر کو ادھر سے ادھر پٹخنے لگی ۔۔۔۔کبھی دائیں تو کبھی بائیں طرف ۔۔۔

اس کا چہرہ پسینے سے شرابور ہو چکا تھا ۔۔۔۔

چند لٹیں بھیگ کر پیشانی پر چپک چکیں تھیں۔۔۔۔۔

"چلو ہیر یہاں سے "ضامن نے اسے جہاز میں کھینچا ۔۔۔۔۔

"نہیں ضامن مجھے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔اس سے اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی ۔۔۔۔ 

مگر ضامن نے اسے اندر کھینچ لیا ۔۔۔۔۔وہ جہاز میں موجود ہوا میں معلق تھے ۔۔۔۔ 

دھاڑ ۔۔۔۔دھاڑ ۔۔۔۔ دھاڑ ۔۔۔۔۔

گولیوں کی بوچھاڑ کی آوز سن کر ہیر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں پر رکھ لیا ۔۔۔۔۔

وہ پہاڑ کے بالکل کنارے پر تھا ۔۔۔۔۔

جب گولیوں کی بوچھاڑ نے اس کے سینے کو چیر دیا ۔۔۔۔

اس کا وجود لہراتا ہوا نیچے کھائی میں گرنے لگا ۔۔۔۔

ہیر نے دیکھا ۔۔۔۔

وہ وہی تھا۔۔۔۔۔

ہاں شیر زمان ۔۔۔۔وہ کھلی آنکھوں سے خون میں لت پت نیچے کھائی میں گر رہا تھا ۔۔۔۔ 

"نہیں ۔۔۔۔!!!!وہ ہاتھ بڑھا کر چلائی ۔۔۔۔۔اسے بچانے کو ۔۔۔۔۔

اور ایک دم اس کی آنکھیں کھلیں ۔۔۔ سارا منظر یکدم بدل چکا تھا ۔۔۔۔وہ حیرانی سے اپنے کمرے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔

"کیا ہوا ہیر ؟؟؟اس کی جانی پہچانی آواز سن کر ہیر نے اپنے پاس بیٹھے شیر زمان کو دیکھا ۔۔۔۔۔

"آپ ٹھیک ہیں نا ؟؟؟وہ بے تحاشا روتے ہوئے اس کی گردن میں بازو ڈال کر اس کے ساتھ لگی ۔۔۔۔ 

اور اونچی آواز میں دھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگی ۔۔۔۔

"Hey my little wify....

Shhhhhhh.....

کیا ہوا ؟؟؟؟

"بتاؤ تو ؟؟؟

"آ۔۔۔آ۔۔ پ کو ک۔کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔اسکا جسم کسی برے خواب کے زیر اثر بری طرح کپکپا رہا تھا ۔۔۔ 

"جب تک میری لٹل وائفی میرے ساتھ ہے مجھے کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔وہ اسکی پشت سہلاتے ہوئے نرمی سے بولا ۔۔۔۔

"میرے ساتھ چلو گی ؟؟؟اس نے سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔۔۔۔

ہیر اس سے پیچھے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔

"ہمیشہ کے لیے "

شیر زمان کی اگلی بات پر وہ چونکی ۔۔۔۔

"مگر مما ۔۔۔پاپا ۔۔۔؟؟؟وہ خود سے سوال کرنے لگی ۔۔۔۔

"سوچ لو ہیر "

شیر زمان نے اپنی چوڑی ہتھیلی آگے بڑھائی ۔۔۔ 

ہیر نے شیر زمان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔

"میری ایک خواہش کو پورا کریں گے ؟؟؟اس نے شیر زمان کی اوشن بلیو آئیز میں سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"میری لٹل وائفی کی ہر خواہش پوری ہوگی ۔۔۔۔بتاو"وہ گھمیبر آواز میں بولا۔

ہیر نے اپنا چہرہ اس کے کان کے پاس لے جاتے ہوئے رازدارنہ انداز میں اسکے کان میں ایک بات کہی ۔۔۔۔جسے سن کر شیر زمان کے چہرے کے تاثرات سنجیدہ ہوئے ۔۔۔

"ٹھیک ہے "

"مگر میری خواہش بھی تو پوری ہونی چاہیے "

اسکے چہرے کے تاثرات میں پھیلا تناؤ یکدم بدل کر رومانوی ہوا ۔۔۔۔

ہیر کا دل یکبارگی سے دھڑکنے لگا ۔۔۔۔۔

"ابھی تو اس دن کا جرمانہ ادا کرنا باقی ہے۔مس بےہوش "وہ ذومعنی نظروں سے دیکھتے ہوئے سحر انگیز آواز میں بولا۔

ہیر نظروں کا رخ پھیر گئی ۔۔۔۔

"اب ایسے نظریں چرانے سے کچھ نہیں ہوگا لٹل وائفی جرمانہ ادا تو کرنا پڑے گا ۔۔وہ اس کے کان کے قریب آتے ہی سرگوشی نما آواز میں بولا اور اسکے کان کی لو کو دانتوں میں ہلکا سا دبایا ۔۔۔۔

اسکے اس عمل پر ہیر کے لبوں سے سسکاری نکلی۔۔۔

"پ۔۔۔پل۔۔۔پلیز ۔۔۔نا کریں ۔۔۔۔وہ آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔

شیر زمان نے تھوڑا سا جھک کر اس کی صراحی دار شفاف گردن پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔۔

اب اس کے لب جابجا اس کی گردن پر اپنا لمس چھوڑنے لگے ۔۔۔۔ہیر کو اسکی مونچھوں کی چبھن سے اپنی دھڑکن دھونکنی کی مانند چلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔وہ آنکھیں میچے مٹھیوں سے کمفرٹر کو بھینج گئی ۔۔۔۔

ہیر کے کپکپاتے ہوئے وجود کو دیکھ شیر زمان پیچھے ہوا ۔۔۔

"ابھی تو ٹھیک سے شروعات بھی نہیں کی اور میری لٹل وائفی کا یہ حال ہے ۔اختتام تک تو لگتا ہے پھر سے بیہوش ہوجاو گی ۔۔۔۔وہ اس کی شرم سے لرزتی ہوئی پلکوں کی چلمن کا دلکش رقص دیکھ کر بولا ۔۔۔۔

"باقی کا ادھار رہا "

وہ اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کہ اس کی جھکی ہوئی لرزتی پلکوں پر اپنے لب رکھتے ہوئے ۔۔۔وہاں سے اٹھا ۔۔۔۔اور واپس باہر چلا گیا ۔

ہیر اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

اس کے جاتے ہیں۔اس نے سر سے پاؤں تک کمفرٹر اوڑھ لیا ۔۔۔۔وہ ابھی بھی کپکپا رہی تھی ۔۔۔اس کے لمس ابھی تک اپنی گردن پر محسوس کیے ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋

"آپ لوگوں نے لسٹ بنا لی گیسٹ کی ؟؟؟شاہ من نے زرشال اور ذوناش سے پوچھا ۔۔۔

"ہاں جی بیٹا جی بن چکی لسٹ "زرشال نے بتایا ۔

"تو چھوٹی مما اپنی سوسائٹی کے لوگوں کو بھی بلایا ہے ۔میرا مطلب ہمسائے وغیرہ "

اس نے اپنے تئیں پوچھنا چاہ ۔

"یہ آپ کو کب سے اپنے محلے داروں کی فکر ہونے لگی ؟زرشال نے پوچھا ۔۔۔۔

"بیٹا جی کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں ",ذوناش نے جانچتی ہوئی نظروں سے شاہ من کو دیکھ کر پوچھا ۔

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔مام ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔وہ تو میں بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔۔آخر کو محلے داروں کے بھی تو حقوق ہوتے ہیں۔انہیں بھی پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔

"بڑی مما ۔۔۔مانیں یا نا مانیں مجھے تو دال میں کچھ کال لگ رہا ہے ۔۔۔پاس بیٹھے ہوئے ضامن نے بات میں ٹکڑا لگایا ۔

شاہ من ،،،ضامن کو دیکھ کر اسے نا بولنے کا اشارہ کر رہا تھا ۔۔۔۔

 "چھوٹی مما آپکا لڑکا جوان ہوگیا ہے ۔اس پر توجہ دیں ۔۔۔مجھے تو لگتا ہے ،آپ کو جلد ہی محلے میں کسی سے رشتہ جوڑنا پڑے گا ۔زیان جو ان کے نزدیک صوفے پر بیٹھا تھا اس نے اپنی رائے دی ۔۔۔۔

"شاہ من ایسی کوئی بات ہے تو بتاؤ "؟

ذوناش نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"تم اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتے ۔۔۔۔تمہیں اس گھر میں رہنے دیا یہی بہت ہے۔اپنے مشورے اپنے پاس رکھو"

 "ضامن کا غصّہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں پڑا تھا ۔۔۔وہ تلملاتے ہوئے زیان کو دیکھ کر بولا ۔۔۔۔

 "سالے صاحب زیادہ جوش میں نا آؤ ۔۔۔یہ مت بھولو میں رتبے میں تم سے بڑا ہوں ۔۔۔زرا تمیز سے "

زیان نے ہنستے ہوئے کہا۔

ضامن اسکی بات پر دانت پیس کر رہ گیا۔۔۔۔۔

"مام سب کا اندازہ ٹھیک ہے "

"میں آپ کو شادی میں ملواؤں گا پلیز آپ ظالم سماج مت بنیے گا ۔۔۔۔"وہ ذوناش کے پاس جاکر اس کے گھٹنوں پر سر رکھے منت بھرے انداز میں بولا۔

ذوناش پہلے تو حیران ہوئی پھر مسکرانے لگی ۔۔۔۔

"فیصلہ تو تمہارے بابا ہی کریں گے "

"آپ منا لینا نا انہیں ۔۔۔پلیز۔۔۔۔وہ انکی گود میں رکھا اپنا سر اٹھا کر بولا ۔

"اچھا کوشش کروں گی "وہ تسلی آمیز انداز میں بولیں ۔۔۔۔

"پھر تمہیں مجھے مارکیٹ تک لے جانا ہوگا ۔۔۔مجھے کچھ خریدنا ہے ۔۔۔۔

"مما ابھی کل ہی تو کے کر گیا تھا ۔۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولا۔۔۔

"آپ بازار میں اتنا وقت لگا دیتی ہیں۔باہر کھڑے ہو کر میری ٹانگوں کا کباڑا ہوجاتا ہے"

ذوناش نے اس کی بات پر گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

"اوکے اوکے چلیں ۔۔۔۔وہ انہیں ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ انہیں سے تو سفارش کروانی تھی ۔۔۔۔۔

وہ دونوں وہاں سے اٹھ گئے تو زرشال بھی کچن میں شام کے کھانے کی تیاری کے لیے چلی گئی ۔۔۔۔

"لازمی سی بات ہے تم شادی کے فنکشن میں ضرور آؤ گے ۔۔۔۔ضامن نے زیان سے کہا ۔

"یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے....آوں گا "

"ہممممم۔۔۔۔آو گے تو اپنی پولیس گیری گھر چھوڑ کر آنا ۔۔۔۔اگر وہاں کوئی پولیس گیری دکھائی تو مت بھولنا اگر تم رتبے میں بڑے ہو تو میں عہدے میں تم سے بڑا ہوں "وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔

"دھمکا رہے ہو ؟؟؟زیان نے اسی کے انداز میں پوچھا ۔

"تم اسے دھمکی سمجھ رہے ہو تو دھمکی ہی صحیح۔۔۔"وہ جوابا بولا۔

"دیکھا جائے گا "وہ ضامن کی  بات کو ہوا میں اڑاتا ہوا صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آرام دہ ہوا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ذوناش شاپنگ مال میں داخل ہوئی ادھر ادھر نظریں دوڑائیں اپنے مطلب کی چیزوں کی تلاش میں ۔۔۔۔

شاہ من باہر گاڑی میں ہی بیٹھا تھا ۔۔۔اسے رش میں آنے سے کوفت ہوتی تھی ۔۔۔۔

ذوناش نے ابھی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔

اس نے اپنا ہاتھ پکڑنے والے کو حیرت انگیز نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔

وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گیا جہاں رش قدرے کم تھا ۔۔۔۔

"تم کہاں ہوتے ہو؟؟؟

"پتہ ہے ہم کتنے پریشان ہیں۔تمہیں لے کر ؟؟؟

"بہت من مانیاں کرنے لگے ہو تم "

"نا ہمارا فون اٹھاتے ہو ۔۔۔نا خود گھر آتے ہو "

"آخر کرنا کیا چاہتے ہو تم ؟

"میں تمہیں کچھ کہتی نہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم مہینوں مہینوں گھر سے غائب رہو ۔۔۔ وہ تو اسے سامنے دیکھ آج پھٹ پڑی تھیں ۔۔۔۔

"I am sorry mom "

وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا کر بولا ۔۔۔۔

Miss you too....

بس کچھ وجوہات ہیں ۔آپ کو بتا نہیں سکتا۔اسی لیے فی الحال گھر نہیں آ رہا ۔"

"شیر زمان ہیر کے معاملے کو سلجھاؤ "

"وہی تو سلجھانے آیا ہوں "آپ دیں گی میرا ساتھ "

اس نے ذوناش کو اپنی بات بتائی ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے میں دوں گی تمہارا ساتھ مگر اس کے بدلے تمہیں میری ایک بات ماننی ہوگی "

شیر زمان نے اچنبھے سے اپنی مام کو دیکھا ۔۔۔۔

"مام آپ حکم کریں ۔۔۔۔آپ کی ہر بات سر آنکھوں پر۔۔۔۔آپ جو کہیں گی وہی کروں گا چاہے میری جان مانگ لیں کبھی اف تک نہیں کروں گا "

"اپنی بات سے مکرنا مت ۔۔۔یاد رکھنا ۔۔۔۔انہوں نے اپنے تئیں اسے باور کروایا ۔۔۔۔

"نہیں مکروں گا پرامس "

"ٹھیک ہے جو تم چاہتے ہو وہی ہوگا بے فکر ہوجاو اس بارے میں " ذوناش نے تسلی بخش جواب دیا۔

شیر زمان مطمئن ہو گیا ۔۔۔۔

پھر ان سے ملتے ہوئے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔۔

ذوناش نے اسے لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوتے دیکھا ۔۔۔۔ 

🦋🦋🦋🦋🦋

مہندی اور بارات کا فنکشن اکٹھا ہونا ہی طے پایا تھا سات بجے مہندی کا فنکشن شروع ہونا تھا پھر اس کے بعد نکاح کا مرحلہ طے پانا تھا ۔۔۔۔جس طرح پچھلی بار ہوا تھا کہ مہندی تو اچھے سے انجام پا گئی تھی مگر بارات والے دن دولہا چلا گیا تھا ۔۔۔۔اس بار حفظ ماتقدم کے طور پر ایک ہی دن دونوں فنکشن رکھے گئے تھے تاکہ ایک ہی بار سب کچھ نپٹ جائے مہندی کے لیے نیچے والا ہال سجایا جا چکا تھا۔۔جبکہ نکاح کے لیے اوپری منزل میں سیٹنگ کی گئی تھی ۔۔۔۔نیچے والے فلور پر ہر طرف موتیے اور گیندے کے پھول لگے ہوئے تھے اور ان کی مہک فضا کو معطر کر رہی تھی۔شام کے نیلگوں سائے میں ایل ای ڈیز لائٹس کی جگمگاہٹ جگنوؤں کی مانند جگمگا رہی تھیں۔چاروں اطراف میں رنگ برنگے ریشمی پردے لگائے گئے تھے ۔۔۔۔ایک طرف سٹنگ کا انتظام تھا تو دوسری طرف کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔۔۔۔

مہمانوں کی آمد شروع ہوچکی  تھی۔شہریار ،زیگن اور زریار کے دوست بھی آچکے تھے اور زمارے کے کولیگز بھی 

شہریار ،زمارے نے وائٹ کلر کی شلوار قمیض پر واسکٹ پہن رکھی تھی جس میں وہ بہت سوبر دکھائی دے رہے تھے ۔زریار اور زیگن نے گرے کلر کی شلوار قمیض پہن کر اس پر واسکٹ پہن رکھی تھی وہ دونوں بھی بہت شاندار لگ رہے تھے ۔۔۔۔۔

ابتسام کے دوستوں  نے اسے  گھیر رکھا تھا جو مہندی ہال کے سٹیج پر لگے صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔۔۔

یمنی نے منت کے لیے جیسا مہندی کا جوڑا خریدا تھا ویسا ہی زائشہ اور جنت کے لیے بھی خریدا تھا ۔۔۔۔۔

"زائشہ ڈارک گرین کلر کے لہنگے میں ملبوس تھی جس پر کڑھائی کا بھاری کام کیا گیا تھا۔گلے میں نازک سی جیولری تھی اور بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھ کر اس میں موتیے کے پھول لگائے گئے تھے۔کامدار دوپٹے کو سر پر پنوں کی مدد سے ٹکائے ایک طرف سے کندھے کے پیچھے سے گزارا گیا تھا جب کے دوسری طرف سے کندھے کے آگے کیا گیا تھا۔۔۔۔

منت بھی تیار ہوچکی تھی ۔اس نے بھی ویسا ہی ڈارک گرین کلر کا بھاری کامدار لہنگا پہنا تھا ۔۔۔بالوں کی فرنچ ٹیل بنائے اس میں جابجا موتیے کی ادھ کھلی کلیاں لگائی ہوئی تھیں ہلکا پھلکا سا قدرتی پھولوں کا زیور پہن رکھا تھا ۔۔۔ لائٹ سے میک اپ میں وہ بہت خوب صورت دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔

"آیت آپ تیار ہوگئی ہو اب آپ آرام سے بیٹھ جاؤ ۔۔۔۔گر جاؤ گی ۔۔۔۔

جنت نے آیت کو تیار کر کہ بستر پر بٹھایا جو بار بار بیڈ سے نیچے اترنے کی کوشش کر رہی تھی بیڈ کافی اونچا تھا ۔۔۔اسے ڈر تھا کہیں وہ فرش پر گر نا جائے ۔۔۔۔

"ایک تو یہ مما نے بھی مجھے کہاں پھنسا دیا ۔۔۔۔

وہ جھنجھلا کر بولی ۔۔۔ اور اپنے بھاری بھرکم لہنگے کو جھٹک کر بولی ۔۔۔۔

"اب میں اس لہنگے کو سنبھالوں گی یا آیت کو "وہ منہ میں بڑبڑا رہی تھی ۔۔۔۔

کچھ دیر پہلے ہی زرشال جنت کو لہنگا دے کر گئیں تھیں اور کہہ رہی تھی کہ یہ یمنی نے ان تینوں کے لیے ایک جیسا بہت پیار سے لیا ہے ۔اور ان کی خواہش ہے کہ آج وہ تینوں ایک جیسا لہنگا پہنے ۔۔۔۔تو اپنی پھپھو کو ناراض مت کرنا اور یہ پہن لینا ۔۔۔۔جنت نے ان کی بات مان کر لہنگا پہن تو لیا تھا مگر سنبھالنے نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔

اوپر سے آیت میڈم نے الگ تنگ کر رکھا تھا ۔۔۔۔

آیت بھی چھوٹے سے لہنگا چولی میں ملبوس بالکل گڑیا لگ رہی تھی ۔۔۔۔

"مما !!!! اس نے جنت کو متوجہ کیا آواز دے کر۔

جنت جو اپنی شرٹ کی بیک ڈوری بند کر رہی تھی پلٹ کر اسکی جانب دیکھا ۔۔۔۔

"کیا چاہیے آیت ؟؟وہ پوچھنے لگی ۔۔۔۔

"مما ۔۔۔وہ ۔۔۔۔اس نے کبرڈ کے اوپر اشارہ کیا جہاں اسے وہ ڈول نظر آگئی جو جنت نے اس سے چھپانے کے لیے اوپر پھینک دی تھی ۔۔۔۔کیونکہ وہ ڈول زیان نے اسے لا کر دی تھی ۔۔۔۔اور آیت ہمہ وقت اس ڈول کو اپنے ساتھ چپکائے رکھتی ۔۔۔جنت نے غصے میں وہ ڈول کبرڈ کے اوپر پھنک دی تھی ۔

اب آیت وہ ڈول دیکھ کر باقاعدہ رونے لگی تھی ۔۔۔۔۔

"بہت تنگ کرنے لگی ہو آیت تم مجھے ",وہ ڈپٹ کر بولی ۔۔۔۔

"جب سے تمہارا باپ آیا ہے بہت بگاڑ دیا ہے اس نے تمہیں ۔۔۔۔وہ اپنے اندر کا ابال اس پر نکالنے لگی ۔۔۔۔

آیت کے رونے نے مزید شدت پکڑی ۔۔۔۔

"اسے ڈول دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں میرے پاس ۔۔۔نہیں تو اس نے مجھے تیار ہونے نہیں دینا ۔۔۔وہ بڑبڑاتے ہوئے سٹول رکھ کر اوپر چڑھی اور ہاتھ مار کر ڈول اتارنے لگی ۔۔۔۔

تو اس کا ہاتھ انجانے میں اوپر پڑے ایک شیشے کے شوپیس سے لگا ۔۔۔۔وہ نیچے گرا اور چھناکے کی آواز سے ان گنت کرچیوں میں منقسم ہوگیا ۔۔۔ 

"لو اب ایک اور کام بڑھ گیا ۔۔"وہ بیزاری سے بولی ۔۔۔

پھر ہاتھ مار کر ڈول پکڑی ۔۔۔۔

زیان جو آیت کے گلا پھاڑ کر رونے کی آواز سن کر کمرے میں آیا تھا ۔۔۔ جنت کو سٹول پر کھڑے دیکھ وہیں ساکت رہ گیا ۔۔۔۔

لہنگے میں ملبوس دوپٹے کے بنا ۔۔رعنائیاں بکھیر رہی تھی۔۔۔۔جنت کی نظر زیان پر پڑی تو وہ سٹپٹا کر رہ گئی اپنی حالت پر ۔۔۔۔

وہ بنا سوچے سمجھے تیزی سے نیچے اترنے لگی تاکہ اپنا دوپٹہ اوڑھ سکے ۔۔۔۔

زیان نے جلدی سے نیچے جھک کر اس کے پاؤں کے نیچے اپنی ہتھیلی رکھ دی ۔۔۔۔۔

جنت نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر اس کے پاؤں تھے ۔۔۔۔۔اور زیان کے ہاتھوں کی پشت پر بکھرے ہوئے کانچ کے ٹکڑے چبھ چکے تھے ۔۔۔۔

جنت فورا اپنا لہنگا دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر صاف جگہ پر ہوئی جہاں کانچ نہیں تھے ۔۔۔ 

زیان اٹھ گیا ۔۔۔۔

اس نے دیکھا کہ آیت خاموش ہوچکی تھی شاید زیان کو سامنے دیکھ کر ۔۔۔۔زیان نے کمرے سے واپس باہر نکلنا چاہا ۔۔۔۔

"رکو !!!!زیان کو اپنے پیچھے سے آواز آئی ۔۔۔۔

اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔

جنت شانوں پر دوپٹہ پھیلا چکی تھی ۔۔۔۔

اس نے زیان کے ہاتھوں کی پشت دیکھی جہاں سے خون رس رہا تھا اور ابھی ابھی کانچ کی کرچیاں وہاں چبھی ہوئیں تھیں۔۔۔۔اس نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ کی پشت سے وہ کرچیاں ایک ایک کر کہ الگ کرنے لگی ۔۔۔۔

زیان کو درد کا احساس تک نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔مسیحا جب ایسا ہوتو درد کا علاج خود بخود ہی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔

"کسی خوش فہمی میں مت رہنا ۔۔۔۔انسانیت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے "وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے اس کی خوش فہمی کو پل بھر میں ہوا کر گئی ۔۔۔۔

زیان نے آیت کو اس کی ڈول پکڑائی ۔۔۔۔اور ٹشو باکس سے ٹشو نکال  اس کے چہرے پر لگے آنسو پونچھے ۔۔۔۔

پھر چلتے ہوئے جنت کے پاس آیا جو میک اپ سے ممبرا چہرہ لیے آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال جوڑے کی صورت لیپٹ رہی تھی ۔۔۔۔

زیان نے آگے بڑھ کر اس کی کھلی ہوئی بیک ڈوری بند کرنا چاہی ۔۔۔۔۔

جنت نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔ 

زیان نے پھر سے ڈوری باندھنا چاہی ۔۔۔۔

جنت نے پھر سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔ 

زیان نے تیسری بار پھر سے وہی عمل دہرایا ۔۔۔اور اس بار اس بنا اس کے ری ایکشن کی پرواہ کیے ڈوری باندھ کر ہی دم لیا ۔۔۔۔جنت اسے شیشے میں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔جبکہ وہ بنا کچھ کہے آیت کو اپنی گود میں لیے وہاں سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔جنت اس کی ہٹ دھرمی پر کڑھتی ہوئی رہ گئی۔  ۔ 

"کچھ بھی ہو جائے۔۔۔۔۔ یہ شخص ہمیشہ اپنی من مانی کر کہ ہی رہتا ہے "وہ جل کر بولی ۔

"ہیر تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی انہیں کپڑوں میں ہو "؟یمنی نے اسے سادہ سے کڑھائی والے سوٹ میں دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"مگر مجھے پتہ نہیں مما میں نے پہننا کیا ہے ؟وہ معصومیت سے بولی ۔۔۔۔

"یہ لو تمہارا ڈریس جاؤ جلدی سے تبدیل کر کہ آؤ ۔۔۔

"مگر مما بلیک رنگ کا ڈریس ؟"

"ہیر زیادہ سوال مت کرو بعد میں پتہ چلے گا "

"مما آپ نے لیا ہے یہ میرے لیے ؟؟؟اس نے اتنے خوبصورت ڈریس کو ستائشی نظروں سے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔

"نہیں میں نے نہیں لیا کسی نے بھیجا ہے "

"کس نے مما ؟؟؟

"یہ بہت بھاری ہے "

"ہیر نخرے مت کرو جاؤ جلدی ۔۔۔۔ ۔باتیں بنانا بند کرو "کچھ دیر بعد جب 

ہیر اپنا بھاری بیش قیمتی لہنگا اٹھائے باہر آئی ۔۔۔ 

"واؤ آپی آپ تو بہت پیاری لگ رہی ہیں ",اس نے زائشہ اور جنت ،منت کو ایک ساتھ برائیڈل روم میں دیکھ کر توصیفی انداز میں کہا ۔۔۔۔

"تم نے تو صرف ڈریس پہنا ہے ۔ابھی میک اپ بھی نہیں کیا پھر بھی اتنی پیاری لگ رہی ہو "زائشہ نے اس کی تھوڑی کو پیار سے چھو کر کہا ۔۔ 

ہیر نے بلیک کلر کا بھاری کامدار نیٹ کا لہنگا پہنا تھا جس کے بنارسی بارڈر پر دیدہ زیب کام کیا گیا تھا۔۔۔۔شرٹ اور دوپٹہ بھی کام سے مزین تھا ۔۔۔۔۔ 

"آپی مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔"منت نے زائشہ سے کہا ۔۔۔

"اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔وہ کوئی جن تھوڑی نا ہیں ۔جو تمہیں کھا جائیں گے "زائشہ نے مسکرا کر کہا۔

"کسی جن سے کم بھی نہیں "منت نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔

"دیکھنا آج ابتسام بھائی تمہاری کتنی تعریف کریں گے "جنت نے منت کو چھیڑتے ہوئے کہا ۔۔۔آج وہ اپنی بہن کی خوشیوں میں دل سے شریک تھی اور بہت خوش بھی ۔۔۔۔اپنی باتوں کو بھلائے وہ اس کی اچھی زندگی کے لیے دعا گو تھی ۔

"آپی ابتسام بھائی کیوں تعریف کریں گے منت آپی کی ؟ہیر نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"مما آپ بتائیں نا "زائشہ نے یمنی کو دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

جو ہیر کی باقی میچنگ کی چیزیں بیگ سے نکال رہی تھیں 

"اوہو ۔۔۔میں کیا سمجھاؤں اس کو تم خیر سے شادی شدہ ہو تم ہی سمجھاؤ اسے ۔۔۔"

زائشہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں ان کی بات سن کر ۔۔۔"کہ اب وہ کیا سمجھائے ہیر کو "

"نہیں مما آپ ہی سمجھائیں مجھے نہیں پتہ "وہ دامن چھڑوا کر بولی ۔۔۔۔

جنت اور منت دونوں زائشہ کی حالت کا مزہ لیتے ہوئے ہنس رہی تھیں۔

"بیٹا جی جب شادی ہوتی ہے نا تو دولہا اپنی دلہن کی تعریف کرتا ہے ۔"سمپل "

یمنی نے گویا بات ہی ختم کی ۔

"مگر مما میرے دولہے نے تو میری تعریف کی ہی نہیں ۔۔۔وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولی۔

اس کی بات سن کر جنت۔منت اور زائشہ تینوں کھکھلا کر ہنسنے لگیں ۔۔۔۔

"تم تینوں میری معصوم سی بچی کا مذاق مت بناؤ "یمنی نے ان تینوں کو مصنوعی طور پر ڈانٹا ۔۔۔۔

"میری ہیر بہت اچھی ہے۔سب کی بات مانتی ہے۔اور جب لڑکی کسی کی بیوی بن جاتی ہے تو اسے اپنے شوہر کی ہر بات ماننی چاہیے ۔۔۔۔ٹھیک ہے نا ہیر "انہوں نے دبے لفظوں میں اسے سمجھایا ۔۔۔۔

ہیر نے سمجھداری سے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

زائشہ اور جنت دونوں مل کر منت کو باہر سٹیج پر لارہی تھیں۔

وہ جنت اور زائشہ کی ہمراہی اور لڑکیوں کے جھرمٹ میں گھری دوپٹے کے نیچے چلتے ہوئے سٹیج تک پہنچی تو وہاں اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر گھبرا گئی۔۔۔۔

ڈی جے نے اونچی آواز میں اللّٰہ تعالیٰ کے نام لگائے ہوئے تھے جب وہ چل کر یہاں تک آ رہی تھی ۔ تمام مرد ایک سائیڈ پر لگے صوفوں اور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔حسام  اور زیان سب کی نظروں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ پلیٹوں میں پھولوں کی پتیاں لیے کھڑی لڑکیوں نے ان پر پھول نچھاور کیے پھر وہ لڑکیاں اب پیچھے ہٹ گئی تھیں اور ابتسام اٹھ کر آگے بڑھا تھا۔ہلکا سا جھک کر ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو منت  بری طرح چونک کر گڑبڑائی تھی ۔۔۔۔۔

وہ بے حد نروس تھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے ری ایکٹ کرے۔وہ کیسے اتنے لوگوں کے سامنے ابتسام کا ہاتھ پکڑ لیتی۔سر جھکائے وہ شش و پنج میں مبتلا تھی ۔لوگوں کیلیے یہ صورتحال بڑی دلچسپ تھی کہ دولہا صاحب کب سے ہاتھ آگے کیے کھڑے تھے اور دلہن صاحبہ اپنی جگہ سے ہل کے نہیں دے رہیں تھی ۔،"منت پکڑو یار "جنت کی آواز اسے اپنے کانوں میں سنائی دی تو اس نے ہمت کی ۔

اور اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔ وہ ایک ہاتھ سے اپنا لہنگا سنبھالتی ابتسام  کے سہارے سٹیج پر آئی ۔ابتسام  اس کے اتنے قریب آ چکا تھا کہ اس کے دل کی دھڑکن اتھل پتھل ہوئی اور گھبراہٹ کے مارے پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمکنے لگیں تھیں۔

وہ جا کر صوفے پر بیٹھ گئے تو فوٹو سیشن شروع ہو گیا۔۔ ساتھ ہی ٹیبل پر پڑی پلیٹ میں سے مٹھائی لے کر انہیں کھلائی ۔۔۔

اس کے نرم و ملائم چہرے پر شرم و حیا کی لالی نے اس کے حسن کو مزید بڑھا دیا تھا۔وہ اب سر جھکائے بیٹھی تھی۔ سب باری باری آکر انہیں مہندی اور ابٹن لگا رہے تھے ۔۔۔

ذوناش ،بریرہ ،یمنی اور زرشال نے ایک جیسے دیدہ زیب ہلکے سے کامدار سوٹ زیب تن کر رکھے تھے ۔۔۔۔۔۔سب بڑوں نے رسم کی تو ینگ پارٹی نے بھی دھاوا بول دیا ۔۔۔۔۔

"مما جائیں نا ملیں ان سے "شاہ من نے ذوناش کے پاس آکر کہا ۔۔۔۔

"کس سے بیٹا ؟وہ حیران کن نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگیں 

"مما میں نے آپ کو بتایا تو تھا ۔۔۔۔وہ دیکھیں  یلو اور پنک ڈریس میں دعا ہے ۔اور اس کے ساتھ اسکی مما ۔بھائی اور بھابھی ہیں۔اس ٹیبل پر ۔۔۔۔شاہ من نے اس طرف توجہ دلائی ۔۔۔۔

"اچھا آؤ میرے ساتھ "وہ اسکے ساتھ ان کی ٹیبل پر آئی ۔۔۔۔

"اسلام و علیکم!کسی ہیں مسسز نعیم آپ !!!اس نے دوستانہ انداز میں پوچھا۔

وعلیکم السلام ۔۔شکر الحمد للّٰہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔

"آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں "؟ذوناش نے اخلاق کے تقاضے نبھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"بہت شکریہ کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں۔انہوں نے جوابا مسکرا کر دیا ۔۔۔۔

"یہ شادی کی تقریب سے فارغ ہوجائیں تو ان شااللہ آپ کے گھر ضرور آؤں گی ۔ذوناش نے انہیں آگاہ کرنا مناسب سمجھا ۔۔۔۔

"جی بالکل آپ کا ہی گھر ہے وہ بھی جب مرضی آئیں ۔۔۔۔

مسسز نعیم نے کہا ۔۔۔

"یہ میرا بیٹا ہے شاہ من ابھی ایک ماہ پہلے ہی آکسفورڈ سے اپنی تعلیم مکمل کیے آیا ہے۔

"اسلام و علیکم آنٹی !شاہ من نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا پھر دعا کے بھائی کو بھی سلام جھاڑا ۔۔۔۔۔

کچھ رسمی سی گفتگو ہوئی ان سب کے درمیان ۔۔۔۔

دعا بھی گاہے بگاہے شاہ من پر نظر ڈال رہی تھی ۔۔۔۔شاہ من بھی سجی سنوری دعا کو نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔

مہندی کی رسم خوش اسلوبی سے اپنے انجام کو پہنچی تو اب نکاح کی تیاریاں شروع کردیں گئیں ۔۔۔۔۔

جنت اپنے ساتھ منت کو برائیڈل روم میں لے گئی نکاح کی مناسبت سے تیار کرنے کے لیے ۔۔۔۔

مہمان مرد حضرات ابھی نیچے ہی تھے بس گھر کے سب  افراد اوپر والے ہال میں آئے ۔۔۔۔

جس میں زمارے ،زرشال ،زیگن ذوناش ،زریار ،بریرہ،شہریار ، یمنی ،ابتسام ،حسام ،زائشہ، ہیر ، زیان۔شاہ من ۔اور آیت  شامل تھے ۔۔۔۔۔

باقی سب ابھی نچلے فلور پر تھے نکاح کے وقت انہوں نے اوپر آنا تھا ۔۔۔۔ 

اسی دوران ہال میں موجود تمام لائٹس آف ہو گئیں ۔۔۔۔

یکدم چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔۔

سب گھر والے پریشان ہوگئے آخر یہ اچانک کیا ہوا۔۔۔۔

تبھی ہال میں موجود ڈانس فلور پر ایک سپاٹ لائٹ پڑی ۔۔۔۔تو سب نے پلٹ کر اسی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

سب متلاشی نگاہوں سے وہیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

اچانک وہاں لگے بوفر سے نکلنے والے تیز آواز میوزک نے ان کے کان کے پردوں کو ہلا ڈالا ۔۔۔۔

"بادشاہ ہیں دل کے "

گانے کے بول ادا ہوئے تو سپاٹ لائٹ کی روشنی میں سیاہ جینز اور شرٹ جس کے دو اوپری بٹن کھلے جس میں اس کا کسرتی سینہ نمایاں تھا ۔

سر پر سیاہ ہیٹ رکھے وہ چہرہ چھپائے ماہرانہ انداز میں فٹ سٹیپس لیے تھا ۔۔۔جس میں اسکے پاؤں آگے پیچھے ہوئے تھے ۔۔۔۔

"بادشاہ ہیں دل کے "

اس نے ہیٹ اتار کر پھینکا ۔۔۔۔

سب نے چونک کر ڈانس سٹیپس لینے والے شیر زمان کو دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے۔۔۔

"عیش فرماتے ہیں "

گانے کے دوسرے بول پر ضامن جس نے شیر زمان کی طرح ہی بلیک جینز اور شرٹ پہن رکھی تھی ۔۔۔۔عیش ڈار کا ہاتھ پکڑے دونوں ایک ساتھ ڈانس موو لیا ۔۔۔۔۔

ہیر شیر زمان کو دیکھ کر اسکی طرف دوڑی ۔۔۔۔

"گاڑی کے بونٹ پر پیتے ہیں کھاتے ہیں۔

فطرت اپنی اٹ پٹی 

اوپر سے جینز بھی پھٹی ۔۔

ضامن اور عیش مووز لیتے ہوئے نظر آئے۔۔ گھومتا ہوا ڈانسنگ فلور ایک بار شیر زمان کو سامنے لایا ۔۔۔

اور کھول کر رکھتے اپنی شرٹ کے بٹن ۔

او کڑیاں کیا ناچیں گے ریے۔

ڈانسنگ فلور کے لیجنڈ ہیں ہم 

ہلا دیں لٹکوں جھٹکوں سے 

ہیرو کے بھی ہیرو ہم ۔۔۔۔

ڈانس کے لیجنڈ ہیں ہم ۔۔۔

سپیکر بولے دھم ۔۔دھم۔۔ دھم ۔۔

ان تینوں نے ایک جیسے مووز لیے ۔۔۔۔

ڈانس فلور پر جیسے ان کے سٹیپس سے آگ لگی ۔۔۔۔

چاروں طرف سے الیکڑک فائرنگ کی شروعات ہوئی تو روشنی کا سمندر آباد ہوا ۔۔۔۔۔

ہیر جو سٹیج پر شیر زمان کے پاس اسے ڈانس کرتے دیکھ حیرانگی سے منہ کھولے کھڑی تھی ۔۔۔۔شیر زمان نے آگے بڑھ کر ایک انگلی اس کی تھوڑی پر رکھے اسکے ادھ کھلے منہ کو بند کیا ۔۔۔۔

ہیر اور شیر زمان ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے مسکرائے ۔۔۔۔۔۔

 شہریار نے ہیر اور شیر زمان کو ساتھ دیکھا تو غصے سے ان کی طرف بڑھا ۔۔۔

حسام اور ابتسام جو اس کے ساتھ کھڑے تھے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے اسے روک گئے ۔۔۔۔۔

ماحول میں گانے کی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔۔

"Baba be calm ....

حسام نے شہریار کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔

"بابا اب ہیر اس کی بیوی ہے "

ابتسام نے بھی ہاتھ رکھ کر اسے پرسکون کرنا چاہا ۔۔۔۔

شہریار مٹھیاں بھینچ کر خود پر ضبط کرتے رہ گیا۔۔۔۔۔

شیر زمان ہیر کا ہاتھ پکڑے بھاگنے کے انداز میں ڈانسنگ فلور سے نیچے اترا ۔۔۔۔ہیر ،شیر زمان ،ضامن اور عیش چاروں نے بلیک ڈریس پہن رکھے تھے ۔۔۔۔

ضامن اور عیش دونوں گانے پر سٹیپس لے رہے تھے ۔۔۔۔

شو میں واٹ یو گاٹ ۔۔۔۔

تیرے پاس مرسڈیز

میرے پاس ہے سائیکل 

تو کلب کی شکیرا 

او ہم گلی کا مائیکل 

ضامن نے مووز لیتے کہا ۔۔۔

برینڈز تیرے فیک ہیں سبھی 

بنتا ہے تو کیوں اور ابھی 

دیسی کیا جانے انٹر نیشنل ردھم ۔۔۔۔

عیش ڈار بھرپور اس کا مقابلہ کر رہی تھی ۔۔۔۔

او کڑیاں کیا ناچیں گی رے ڈانسنگ فلور کے لیجنڈ ہم ۔۔۔

یور ٹرن ۔۔۔۔

میں چیز اوریجنل تو جعلی نوٹ ہے۔

میرے ڈانس سے زیادہ میری ادا ہاٹ ہے۔

Hey سمجھو نا 

ہمکو duffer 

ہے اپنا 

Highi caliber....

باتوں سے زیادہ اپنے مووز میں ہے دم ۔۔۔

دونوں میں برابر کی ٹکر تھی ۔۔۔۔

منڈے کیا ناچیں گے رے 

ڈانسنگ فلور کے لیجنڈ ہم 

اپنے لٹکوں جھٹکوں سے 

سیپکر بولے دھم دھم دھم 

او کڑیاں کیا ناچیں گی رے 

ڈانسنگ فلور کے لیجنڈ ہم۔

ہلادے لٹکوں جھٹکوں سے ہیرو کے بھی ہیرو ہم "

زریار اور زیگن اپنی بزنس پارٹنر عیش ڈار کو ضامن کے ساتھ ڈانسنگ فلور پر دیکھ کر حیران ہوئے ۔۔۔۔

آیت جو زیان کی گود میں تھی ۔اپنے ماموں ضامن کو ڈانس کرتے دیکھ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے تالیاں بجا رہی تھی ۔۔۔۔زیان اور جنت  اسے خوش دیکھ کر خوش ہو رہے تھے ۔ 

شیر زمان نے جاکر زیگن کو پشت سے گلے لگایا ۔۔۔

زیگن نے نظروں میں بے پناہ خفگی لیے اسے مڑ کر دیکھا ۔۔۔

شیر زمان نے انہیں زور سے خود میں بھینچا ۔۔۔۔

زیگن اپنے بیٹے کے منانے کے انداز پر نثار ہوا ۔۔۔پھر ہلکے سے مسکرا دیا ۔۔۔۔۔

یہ منظر دیکھ کر ذوناش کے چہرے پر بھی آسودہ مسکراہٹ بکھر گئی ۔۔۔

منت کو میک اپ آرٹسٹ نے  تیار کیا تو زائشہ اس کی تیاری مکمل ہوتے دیکھ خود بھی نکاح کی مناسبت سے دوسرا ڈریس چینج کرنے چلی گئی ۔۔۔۔

وہ ڈریس تبدیل کیے باہر آئی تو کسی نے اس کی بازو کھینچ کر اسے برائیڈل روم سے ملحقہ  ڈریسنگ روم میں بند کیا ۔۔۔۔ 

"آج یہ ساڑھی پہن کر سامنے آنے سے آپ کا کیا ارادہ کیا ظاہر کرتا ہے  "؟

حسام نے زائشہ کے ڈولتے ہوئے وجود کو اپنے حصار میں لیے فسوں خیز آواز میں کہا۔

"آ۔۔۔۔آپ نے ہی کہا تھا  کہ جب ۔۔۔۔۔وہ بولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر شرم کے باعث زبان مزید بولنے سے انکاری تھی ۔۔۔۔

"کہ جب ؟؟؟؟وہ اس کے بالوں کی لٹ کو انگلی پر لپیٹ کر کھینچتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"مجھے نہیں پتہ "وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا گئی اس کی خمار زدہ نظروں سے بچانے کے لیے ۔۔۔۔

Oh.....

It's mean .....

Romance in the Air ....

Tonight......

وہ اس کے قریب اپنا چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں بولا۔

زائشہ اس کا جادوئی حصار توڑ کر باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔۔

ضامن اپنا ڈانس ختم کیے عیش ڈار کا ہاتھ پکڑ کر زرشال اور زمارے کے پاس آیا ۔۔۔۔

جیسے ہی ضامن عیش ڈار کا ہاتھ پکڑ کر ضامن کے پاس آیا ۔۔۔۔زریار اور زیگن بھی ان کے پاس آئے ۔۔۔۔

زمارے کو اس لڑکی کا چہرہ کچھ شناسا سا لگا ۔۔۔اس نےذہن پر زور ڈال کر یاد کرنے کی کوشش کی ۔

مگر کچھ یاد نہیں آیا ۔۔۔۔

"بابا یہ عیش ہے "وہ ان کے سامنے کھڑا ہو کر عیش ڈار کا ان سے تعارف کروا رہا تھا۔

زرشال نے ایک خوبصورت لڑکی جو بلیک لہنگے میں ملبوس اس کے بیٹے کے پہلو میں کھڑی تھی ۔۔اس کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔۔

"عیش کون ؟؟؟زمارے بھی ضامن کے انداز سے کچھ  بھانپ چکاتھا ۔ اس نے سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔

"آپکی بہو "یعنی میری بیوی "

وہ ہنستے ہوئے نچلا لب دانتوں تلے دبائےبولا۔

"بچے کدھر ہیں ؟؟؟؟

زمارے نے ضامن کوشانے سے پکڑ کر پیچھے ہٹاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

ضامن جو سوچ رہا تھا ابھی پڑیں کے تبھی پڑیں ۔۔۔

اپنے بابا کا سوال سن کر ڈھیٹ پن سے مسکرایا ۔۔۔۔

"بابا بچوں والا معاملہ آپ سے اجازت لینے کے بعد شروع کروں گا "وہ بے شرمی کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے ہنسا ۔۔۔

"جہاں شادی خودی کرلی ہے۔وہیں بچے بھی پیدا کرلو ہماری کیا ضرورت ہے بھلا تمہیں ؟؟؟

"جو جی میں آتا ہے کرو بھاڑ میں جاؤ میری طرف سے "

زمارے یکدم غصے میں آیا ۔۔۔

اس کا غصیلا روپ سب کے سامنے پہلی بار آیا تھا ۔۔۔۔

چاروں طرف خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔

"زمارے سب مہمان اوپر آچکے ہیں پلیز خود پر قابو رکھو "زریار نے آگے بڑھ کر اسے ماحول کے مطابق روکنا چاہا ۔

"زمارے پلیز ۔۔۔زرشال نے اس کے ہاتھ کو دبا کر کہا۔ ۔۔۔

جس میں اپنے بیٹے کے لیے ہمدردی کی جھلک نمایاں تھی ۔

"زمارے عیش ڈار کو ہم جانتے ہیں۔ہمارے ساتھ کام کرتی ہے۔بہت محنتی اور۔۔ اچھی بچی ہے "زیگن نے عیش کے بارے میں بتایا ۔۔۔۔

"زیگن ٹھیک کہہ رہا ہے۔"زمارے ۔۔۔زریار نے اس کی  تائید کی ۔

"مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا اس نکمے کو لڑکی دے کس نے دی "وہ جھجھنجلا کر بولا ۔

"انکل میں نے اس سے اپنی مرضی سے شادی کی تھی ۔عیش ڈار نے جھٹ اسکی صفائی پیش کی ۔۔

"تمہارے گھر والے ؟؟؟زمارے نے عیش سے پوچھا ۔

"انکل وہ دراصل میری والدہ کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔اور والد پیرالائزڈ ہیں۔۔۔۔

"او اچھا ۔۔۔بہت افسوس ہوا سن کر "

"ٹھیک ہے۔آج پہلی بار اپنے سسرال چلو گی ہمارے ساتھ آج اگر میری ایک بیٹی منت کی رخصتی ہوگی تو میری دوسری بیٹی عیش کی آمد ہوگی ہمارے گھر میں ۔۔۔۔"آؤ گی نا ؟؟؟

زمارے نے ہلکے پھلکے انداز میں سب بھلائے اپنی ازلی نرم طبیعت میں واپس آتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔۔

وہ خاموش تھی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔۔۔

"کہیں اپنے پاپا کی وجہ سے تو نہیں ۔؟؟زمارے  نے تشویش بھرے لہجے میں سوال پوچھا ۔

"نہیں انکل پاپا کے پاس چوبیس گھنٹے ایک میل موجود ہوتا ہے ان کی دیکھ بھال کے لیے ان کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں ۔۔۔میں چلوں گی آپ کے ساتھ اپنے گھر "وہ سر جھکائے بولی ۔۔۔۔

زرشال اور زمارے نے اس کو فورا اپنا گھر کہنے پر فدا ہوتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی ۔۔

ضامن کے تو دانت ہی اندر نہیں جا رہے تھے ۔تھوڑی سی ڈانٹ کے بعد آخر کار اس کی نیا پار لگ ہی گئی تھی ۔۔۔۔۔

"اب بچ کہ دکھاؤ عیش ڈارلنگ ۔۔۔۔۔رخصتی میں کچھ وقت ہی بچا ہے ۔۔۔۔سب مولانا صاحب کی طرف بڑھے تو ضامن نے عیش ڈار کے کان کے قریب جا کر آہستگی سے کہا ۔۔

وہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔

مولانا صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا ۔۔۔۔پہلے منت کی رضامندی لی گئی پھر ابتسام کی ۔۔۔۔دونوں طرف سے ایجاب و قبول کا سلسلہ ختم ہوا تو سب نے انہیں مبارکباد دی اور ان کی آنے والی زندگی کے لیے دعا گو ہوئے ۔۔۔۔۔

"مولانا صاحب پلیز آپ ابھی بیٹھے رہیے "

مولانا صاحب جو نکاح کا فریضہ انجام دئیے اپنی جگہ سے  اٹھنے لگے تھے ۔۔۔۔ذوناش کی آواز سن کر وہیں بیٹھ گئے ۔۔۔۔

",ایک اور نکاح پڑھوانا ہے ",ذوناش نے ہلکا سا مسکرا کر کہا۔

سب نے ایک دوسرے کو حیرت انگیز نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔

صرف شہریار اور یمنی کے چہرے پر حیرت دکھائی نہیں دی ۔۔۔۔وہ نارمل تھے جیسے پہلے سے سب جانتے تھے ۔۔۔۔

ذوناش نے اس دن شیر زمان سے مل کر آنے کے بعد شہریار اور یمنی سے بات کی تھی کہ شیر زمان دوبارہ سب کے سامنے ہیر سے نکاح کرے گا ۔تاکہ شہریار کی بھی پریشانی دور ہو جائے ۔۔۔۔اور وہ اسے خود رخصت کریں ۔۔۔۔اور ہیر کی بھی خواہش پوری ہو جائے دلہن بننے کی ۔۔۔۔۔جو اس نے شیر زمان سے کی تھی ۔

ذوناش کی بات سن کر پہلے تو شہریار نے اسے منع کردیا ۔۔۔مگر جب ذوناش اور یمنی نے اسے منایا کہ ہیر کی خوشی شیر زمان میں ہی ہے۔تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کی خوشی کو دیکھ کر مان ہی گئے۔۔۔۔

"آؤ ہیر یہاں ",یمنی نے ہیر کو صوفے پر بٹھا کر اس کے سر پہ دوپٹہ اوڑھا دیا ۔۔۔۔

شیر زمان جو زیگن کے ساتھ کھڑا تھا ۔۔۔۔اسے یمنی نے ہیر کے ساتھ صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

"جاؤ شیر زمان تم بھی چینج کر لو "ذوناش اسکے لیے نکاح کے موقع کے مطابق شیروانی لے کر آئی تھی ۔۔۔

"ان کپڑوں کو کیا ہے ۔۔۔؟مام پلیز میں نمونہ نہیں بن سکتا۔۔۔یہ شیروانی وغیرہ پہن کر "اس نے چہرے کے زاوئیے بگاڑ کر بیزاری سے کہا ۔۔۔۔

"تو تمہارا کیا مطلب ہے ۔میں نمونہ بنا ہوا ہوں ؟؟؟ابتسام جس نے شیروانی زیب تن کر رکھی تھی ۔۔وہ بل کھا کر بولا ۔۔۔

"Take it easy bro ...

شیر زمان نے مسکرا کر کہا ۔۔۔اور پھر صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔

شہریار نے شیر زمان پر تفصیلی نگاہ ڈالی جس نے بلیک جینز پر بلیک شرٹ جس کے دو اوپری بٹن کھلے تھے۔کلائی میں مختلف رنگ کے بینڈز موجود تھے ۔۔۔۔وہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا ۔۔۔۔

اس دیو ہیکل وجود کے ساتھ اپنی چھوٹی پری جیسی بیٹی کو بیٹھے ہوئے دیکھ تلملانے کے سوا کچھ نا کر سکا۔۔۔۔کیونکہ اس کی پری کی خوشی اسی میں تھی ۔۔۔۔وہ یہی سوچ کر خود پر قابو پانے لگا۔۔۔۔گہری سانس بھر کر خود کو پرسکون کیا۔۔۔۔۔

سب کی موجودگی میں ہیر اور شیر زمان کا پھر سے نکاح ہوا ۔۔۔۔جس میں سب کی رضامندی شامل تھی ۔۔۔

سب نے دونوں جوڑوں کو دعائیں دیں۔۔۔۔

زیان،،،، شیر زمان کو یہاں دیکھ کر اب  سمجھا تھا ضامن کی بات ۔۔۔کہ وہ اسے اپنی پولیس گیری دکھانے سے کیوں دھمکا رہا تھا ۔۔۔۔

تمام رسموں کے بعد ڈنر کا دور چلا ۔۔۔۔۔جس میں انواع و اقسام کے کھانے تھے جن میں بریانی ،قورمہ، فنگر فش ،باربی کیو ،ریشین سیلڈ اور چائنیز بھی تھا ۔۔۔۔میٹھے میں آئس کریم اور فروٹ ٹرائفل شامل تھا ۔سب مہمانوں نے خوب سیرہوکر کھایا ۔

آخر کار رخصتی کا شور اٹھا ۔

"شیر زمان!!!ذوناش اس کے ساتھ قدرے خالی جگہ پر آئی ۔۔۔۔تو اسے پکار کر کہا 

"جی مام "

"میں نے تمہاری بات مان لی ۔۔۔اب تمہاری باری "

"مام آپ کہیں جو بھی کہنا ہے۔بجا لانا میرا کام ہے "

"شیر زمان سب بھول جاؤ "

"مام یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں "؟

"ایک بچے کو پیدا کرنے والی ماں اپنے بچے کو اچھے سے جانتی ہے۔اس کے دل میں دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔"

"جو بھی ماضی میں ہوا وہ سب بھلا دو ۔۔۔آگےبڑھو اپنی زندگی میں ۔۔اب تو تم نےہیر کو بھی اپنی زندگی میں شامل کر لیا ہے۔اسکی خاطر چھوڑ دو سب "

"مگر مام۔ آپ کچھ نہیں جانتی "

"جب تم وہاں سے واپس آئے تھے تو جو بھی بڑبڑاتے تھے سب سن لیتی تھی میں "

میں سب کچھ تو نہیں مگر کچھ نا کچھ تو ضرور جانتی ہوں ......اتنی بھی نا بلد نہیں میں "

"تم نے کہاتھا کہ میری بات مانو گے ۔۔۔

تو میرا یہی حکم ہے آج کے بعد تم کبھی بھی کسی کو نہیں مارو گے

تمہیں میری قسم ہے۔اگر تم نے یہ قسم توڑی تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے ۔بھول جاؤ سب  "

شیر زمان کی اوشن بلیو آئیز خون چھلکانے لگیں ۔۔۔اس نے اپنی مٹھیوں کو زور سے بھینچا ۔۔اسےاپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔اتنا بڑا فیصلہ لیتے ہوئے ۔وہ جبڑوں کو بھینچے ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔

"ٹھیک ہے مام "وہ آنکھیں میچ کر فیصلہ لیتے ہوئے شکستہ آواز میں بولا۔

"اگر میں یہاں رہا تو کبھی بھی قسم ٹوٹ جائے گی ۔۔۔۔میں یہاں سے بہت دور چلا جاؤں گا ۔۔۔۔کبھی زندگی میں موقع ملا تو ملاقات ہوگی ۔۔۔۔۔

وہ ان کے گلے لگ کر رو دیا پہلی بار ۔۔۔۔۔

اس کے آنسو ذوناش کے دوپٹے میں جذب ہوئے ۔۔۔۔۔

جب اس نے سر اٹھایا۔۔۔اپنی آنکھیں پہلے ہی رگڑ کر صاف کر چکا تھا ۔۔۔۔ذوناش کو شائبہ بھی نہیں ہونے دیا اپنی حالت کا ۔۔۔۔

"مگر شیر ۔۔۔۔ذوناش نے ہاتھ بڑھا کر اسے روکنا چاہا۔۔۔۔

وہ ان سنی کرتا۔۔۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہیر کی طرف آیا ۔۔۔۔

"چلو ہیر "وہ اس کی کلائی تھام کر بولا ۔۔۔۔

"مگر کہاں ؟؟؟وہ حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سوال پوچھنے لگی ۔۔۔۔

"میرے ساتھ ہمیشہ کے لیے "چلو گی ؟؟؟

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

وہ دونوں میرج ہال کے بیک ڈور سے اندھیرے میں باہر نکل گئے ۔۔۔۔۔اور سب کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔۔۔۔۔

سب نے دیکھا ہیر اور شیر زمان محفل سے غائب تھے ۔۔۔۔

"یہ ہیر اور شیر زمان کہاں ہیں ؟؟؟بالاخر شہریار نے پوچھا ۔۔۔۔

"بھائی شیر زمان ہیر کو اپنے ساتھ لے گیا "ذوناش نے اسے سچ بتانا مناسب سمجھا ۔۔۔۔

شہریار کے تو سر پر لگی تلوں پر بُجھی۔۔۔۔

"جب جب میں کچھ اچھا سوچتا ہوں اس لڑکے کے بارے میں ہمیشہ یہ لڑکا کچھ ایسا کرجاتا ہے کہ مجھے غصہ دلا جاتا ہے۔وہ جھٹپٹاتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔

"بابا ابتسام اور منت کی رخصتی کا فریضہ انجام دے لیتے ہیں۔حسام نے کہا تو وہ دانت پیس کر اس طرف متوجہ ہوئے جہاں منت زمارے اور زرشال کے گلے لگے رو رہی تھی ۔۔

زرشال نے اسے تسلی دی۔پھر جنت اس سے ملی ۔۔۔۔سب گھر والے باری باری منت سے ملے تو قرآن پاک کے سائے میں رخصت ہو کر منت ابتسام کی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔

قدرتی پھولوں سے سجی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر منت جب شہریار ہاؤس میں آئی تو یمنی اور زائشہ پہلے ہی وہاں پہنچ چکی تھیں۔

یمنی نے دروازے کی دہلیز پر تیل بہا کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا ۔۔۔۔

پھر ابتسام اور منت کی نظر اتار کر ان کا صدقہ دیا ۔۔۔۔

کچھ رسوم کے بعد زائشہ نے منت کو ابتسام کے کمرے میں پہنچا دیا ۔۔۔۔

منت ابتسام کے بستر  کے درمیان لہنگا ارد گرد پھیلائے بیٹھی تھی۔زائشہ اسے یہاں بٹھا کر خود جا چکی تھی ۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھ گود میں رکھے انگلیاں چٹخا رہی تھی۔بیٹھ بیٹھ کر کمر درد کرنے لگی تھی ۔دل ڈر کے مارے دھک دھک کر رہا تھا۔

کچھ دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔اس کے دل نے ایک کی بجائے کئی بیٹس مس کی تھیں۔۔۔۔اسے اپنی دھڑکنوں کی آواز ڈھول کی طرح کانوں  میں بجتی محسوس ہو  رہی تھیں۔

ابتسام نے اسے اپنے بستر پر پورے طمطراق سے براجمان دیکھا تو پھر آہستہ سے چلتا ہوا اس کی طرف آیا تو اس کی جھکی ہوئی آنکھوں پر لرزتی پلکوں کو دیکھا۔۔۔۔

اس کے چہرے پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں اور لرزتی پلکیں اس کے حسن کو مزید بڑھا رہی تھی۔۔

"تم نے ابھی تک چینج نہیں کیا ؟؟؟اس نے سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔

منت نے جھکی ہوئی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"اپنے آپ کو اس بھاری بوجھ سے آزاد کراو اور ری لیکس ہو جاؤ "۔وہ اپنے شوز اتار کر اسے شو ریک میں رکھتے ہوئے بولا ۔

"منت ابھی بھی حیران تھی اس کی باتوں پر ۔۔۔۔

"تم چاہتی ہو کہ تمہاری تعریف کروں "تو ۔۔۔۔

دلہن جو دس کلو کا میک اپ تھوپ کر کہتی ہیں۔کہ آج کے دن ان کے مجازی خدا انکی تعریف کریں تو میرے لحاظ سے یہ سراسر بے وقوفی ہے۔

اصل خوبصورتی سادگی میں ہے۔۔۔۔جو قدرت نے بخشی ہے۔اور۔۔۔۔رہی بار تعریف کی تو ۔۔۔

خدا کی بنائی ہوئی تخلیق کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

منت اپنی جگہ سے اٹھی تو بستر پر موجود پھولوں کی پتیاں بھی اس کے لہنگے کے ساتھ نیچے فرش بوس ہوئیں ۔

اس کی پائل اور چوڑیوں کی جھنکار سے پورا کمرہ جھنجھجنا اٹھا ۔۔۔۔

"مجھے تو آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ دو انجان لوگ جو پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے نہیں پہلی ہی رات میں اپنا ازدواجی تعلق کیسے بڑھا لیتے ہیں۔",

وہ مخاطب تو اسی سے تھا ۔۔۔مگر بنا اس کی طرف دیکھے اپنے کام میں مگن تھا ۔۔۔اب وہ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی اتار کر ڈریسنگ پر رکھ چکا تھا اور پاکٹ سے موبائل اور والٹ نکال رہا تھا ۔۔۔۔

منت فرش پر کھڑی تھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

"ساری زندگی پڑی ہے۔یہی سب کچھ کرنا ہے۔وہ سادہ سے الفاظ میں بولا ۔۔۔۔

مگر منت کے چہرے پر موجود سرخیوں میں اور اضافہ کر گیا ۔۔۔۔۔

"بہت تھک گیا ہوں میں ۔۔۔تم بھی آرام کرو اور مجھے بھی کرنے دو"وہ کبرڈ سے اپنا آرام دہ سوٹ نکال کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

منت اپنی جگہ ساکت رہ گئی ۔۔۔۔

ابتسام چینج کیے باہر آیا تو منت ابھی تک وہیں جمی کھڑی کسی سوچ میں گم تھی۔

"کیا ہوا ؟؟؟ابتسام نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا ۔

"ن۔۔۔نہی۔ نہیں کچھ بھی نہیں"وہ نفی میں سر ہلا کر بولی ۔۔۔

اس کی نظریں ابتسام کو دیکھ کر کچھ کھوج رہی تھیں ۔۔۔۔

ابتسام نے ایک تفصیلی نگاہ اسکے سجے ہوئے سراپے پر ڈالی ۔۔۔۔۔

"تم یہی سوچ رہی ہو کہ وہ سٹیج پر میرا بیہوئیر کیسا تھاہے نا  "؟؟؟

وہ استفسار کرنے لگا ۔

"منت اس کے یوں اندازہ لگانے پر عش عش کر اٹھی ۔۔۔اس نے دل میں سوچا انہیں کیسے پتہ چلا ۔۔۔۔

 وہ سر جھکا گئی ۔۔۔۔معا کہیں وہ اس کی آنکھیں پھر سے نا پڑھ لے ۔۔۔۔

"بس کچھ وقت کا تقاضا اور کچھ دنیا داری تھی "

وہ اپنی جگہ لیٹ کر تکیہ درست کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

منت نے ایک تفصیلی نگاہ سارے کمرے میں ڈالی جہاں ہر طرف سجاوٹ کی گئی تھی ۔۔۔۔مگر دلہا صاحب اس پر فسوں ماحول کی بنا پرواہ کیے۔کروٹ بدل کر لیٹ چکے تھے ۔۔۔منت نے بھی کبرڈ سے اپنا ایک سوٹ نکالا جو شاید زائشہ پہلے ہی ہینگ کیے جا چکی تھی ۔۔۔۔اسے لیے واش روم کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد وہ چینج کیے باہر آئی تو اپنی جیولری ڈریسنگ کے ڈراور میں رکھی اور اپنا ڈریس کبرڈ میں رکھ دیا ۔۔۔

"منت لائٹ آف کردو پلیز "ابتسام نے آنکھیں موندے ہوئے کہا ۔۔۔ تو منت لائٹ آف کیے خالی جگہ پر آکے سمٹ کر 

لیٹ گئی ۔۔۔۔

دونوں ہی تھک چکے تھے اسی لیے تھوڑی دیر میں دونوں نیند کی وادیوں میں اتر گئے ۔۔۔ 

 🦋🦋🦋🦋🦋

سب کام نپٹا کر جب زائشہ اپنے روم میں آئی تو گلابوں کی محسور کن مہک نے اس کا استقبال کیا۔۔۔۔آج تو اس کے کمرے کی ڈھب ہی نرالی تھی۔

کینڈلز کی مدھم روشنی چہار سو پھیل کر ماحول کو سحر انگیز بنا رہی تھی ۔۔۔۔زائشہ چل کر آگے آئی تو کسی نے اسے پیچھے سے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیا۔۔۔۔

زائشہ سمجھ چکی تھی کہ وہ کون ہے ۔۔۔وہ آنکھیں میچ گئی۔۔۔۔

"میری زندگی میں آنے کے لیے اور مجھے اپنی زندگی میں اہم بنانے کے لیے بہت شکریہ"

زائشہ !!! مجھے لگا تھا کہ میں اپنی یک طرفہ محبت کو دل میں لیے ہی اس دنیا سے چلا جاؤں گا ۔۔۔نجانے کب دل تمہارے لیے دھڑکنے لگا ۔۔۔مجھے خود بھی پتہ نہیں چلا ۔۔۔اور جب پتہ چلا تو بہت میں بہت آگے نکل چکا تھا ۔۔۔۔جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی ۔۔۔مجھے کبھی بھی نہیں لگا کہ تم مجھے مل پاؤ گی ۔۔۔میں نے خدا کے فیصلے پر سر جھکا دیا ۔۔۔ مگر دیکھو نا خدا کتنا مہربان ہے مجھ پر اس نے میری محبت مجھے عطا کی ۔اور پھر میری محبت کے دل میں بھی میری محبت پیدا کردی ۔۔۔ایسا ہی ہے نا ؟؟؟

وہ اس سے پوچھنے لگا۔۔۔۔

"بولو زائشہ کیا تمہارے دل میں بھی وہی فیلنگز ہیں جو میرے دل میں ہیں تمہارے لیے؟؟؟"

وہ اسکی مضبوط گرفت میں کہاں کچھ بولنے کے قابل تھی ۔۔۔۔بس شرماتے ہوئے ہولے سے اثبات میں سر ہلا گئی ۔۔۔

حسام نے اس کے بالوں کی آبشار کو اکٹھا کیے شانے کے ایک طرف رکھا پھر اس کی گردن میں ایک نازک سی چین پہنا کر وہاں اپنے لب رکھے ۔۔۔۔زائشہ تو جی جان سے کانپ کر رہ گئی ۔۔۔۔جب اسے ساڑھی کا پلو سرکتاہوا محسوس ہوا ۔۔۔

وہ اس کی گرفت سے نکل کر دور جانے لگی ۔۔۔۔۔

حسام نے اسی پلو کو ہاتھ میں لپیٹ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔وہ ایک بار پھر سے اسکے کشادہ سینے سے آلگی ۔۔۔۔دل تو پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب ہوا۔۔۔اس کی حد درجہ قربت پر زائشہ موم کی مانند پگھلنے لگی ۔۔۔۔

حسام اسے اپنی بانہوں میں بھر کر بیڈ پر لایا ۔۔۔۔

زائشہ رخ موڑ گئی ۔۔۔۔

اسے اپنی پشت پر حسام کے ہونٹوں کا لمس محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔وہ ایک بار پھر سے آنکھیں میچ گئی۔۔۔۔اور تکیے کو زور سے پکڑ لیا خود کو سہارا دینے کےلیے۔۔۔۔حسام نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسکا رخ اپنی جانب موڑا ۔۔۔۔

"میں جتنا تڑپا ہوں تمہیں پانے کے لیے اس تڑپ کا تھوڑا سا احساس تمہیں بھی کروانا چاہتا ہوں ۔میری بے قراریوں کا حساب کون چکائے گا مسسز ۔۔۔!!!!

"آج ساری شرم و حیاء بالائے طاق رکھ کر ہم سے نظریں ملائیں اور حساب دیں کچھ اپنا بھی "اُن ان کہی باتوں کا جو آج تک آپ نہیں کہیں  مجھ سے ۔۔۔۔"وہ اس کے گال پر انگلی پھیرتا ہوا بولا ۔۔۔

"م۔۔۔۔میں کیا کہوں ؟؟؟وہ ہچکچاتے ہوئے بمشکل الفاظ ادا کر پائی ۔۔۔۔

"زبان سے نہیں کہہ سکتی  تو کسی عمل سے اقرارِ محبت کریں "وہ اس کی تھوڑی اٹھا کر بولا تاکہ اس کی آنکھوں میں اپنے چاہت کے رنگ دیکھ سکے ۔۔۔

زائشہ نے اس کی بولتی ہوئیں آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھے اس پر پردہ ڈالا۔۔۔

اور دھیرے سے اٹھ کر اسکے گال پر اپنے لب رکھے ۔۔۔

"ایسی ہوشیاری نہیں چلے گی ۔۔۔۔ایتھینٹک جگہ پر آئیں "وہ اسے کھینچ کر اپنے اوپر گرا چکا تھا ۔۔۔۔

دونوں کی مدھم سرگوشیاں کمرے میں ان کی محبت بھرے ملن کی گواہی دے رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

منت کی رخصتی کے بعد گھر والے عیش کو اپنے ساتھ حویلی لا چکے تھے ۔۔۔سب نے اس کا پر جوش استقبال کیا۔۔۔

عیش تو ان کی محبت دیکھ کر پھولے نہیں سما رہی تھی ۔۔۔

سب گھر والے جہاں منت کی رخصتی پر غمگین تھے وہیں عیش کی آمد نے اس گھر کی افسردگی دور کیے خوشی کا سماں باندھ دیا تھا۔۔۔

وہاں موجود سب مکین اس سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔ضامن نے وقت دیکھا گھڑی رات کے دو بجا رہی تھی مگر کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہو رہا تھا ۔۔۔صرف جنت آیت کو لے کر روم میں جا چکی تھی اسے سلانے کے لیے۔۔۔۔

"آپ لوگوں کو سونا نہیں "ضامن نے جھجھنجلا کر بالآخر  پوچھ ہی لیا ۔۔۔۔

"سو جائیں گے اتنی جلدی بھی کیاہے۔پہلی بار بہو گھر آئی ہے۔ایسے موقعے بار بار تھوڑی آتے ہیں ۔"زمارے نے اس کی بات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔

عیش ڈار نے ایک اتراتی ہوئی مسکان ضامن کی طرف اچھالی ۔۔۔۔وہ دانت پیس کر رہ گیا ۔۔۔ہمیشہ وہی سب کو تنگ کرتا تھا ۔۔۔آج باقی سب کو موقع ملا تھا اسے تنگ کرنے کا تو وہ یہ نایاب موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتے ۔۔۔۔۔

"مجھے نا اپنی بیوی کو اپنا کمرہ دکھانا ہے ۔صبح ملاقات ہو گی تو باقی کی باتیں کر لینا آپ سب "ضامن اپنی جگہ سے اٹھا اور عیش کے پاس آتے ہی اس کو اپنی بانہوں میں بھر کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔۔۔۔

عیش نے اس کے اسطرح سب کے سامنے اسے اٹھانے پر گھور کر دیکھا مگر اسے کہاں اثر تھا اسکی گھوری کا ۔۔۔۔

پیچھے سے سب کے قہقہے چُھوٹے۔۔۔۔

جیسے ہی ضامن نے لات مار کر اپنے روم کا دروازہ کھولنا چاہا ۔۔۔۔دروازہ خود بخود کھل گیا ۔۔۔

ضامن نے حیرت سے دیکھا ۔۔۔

شاہ من سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔

"سرپرائز برو "وہ مسکرا کر بولا۔

ضامن نے اپنے روم کو دیکھا جو پوری طرح گلاب اور موتیے کے پھولوں سے سجا ہوا تھا ۔۔۔۔

"واؤ ۔۔۔۔تھینکس برو "ضامن نے جوابا مسکرا کر کہا ۔۔۔۔

"ایسے تھینکس نہیں چلے گا ۔کچھ دیر بعد آپ بھی مجھے ایسے ہی سرپرائز دے سکتے ہیں میری شادی پر میرا روم سجاکر ۔۔۔"وہ خوش دلی سے بولا۔۔۔

"بالکل ڈونٹ وری سب ہوجائے گا "

ضامن نے کہا تو شاہ من بیسٹ آف لک کا اشارہ کیے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

ضامن نے ٹانگ مار کر دورازہ بند کیا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"زمارے آپ نے اتنی آسانی سے اپنا لیا عیش کو مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا"؟زرشال کے دل میں کافی دیر سے یہ سوال مچل رہا تھا جسے بلآخر وہ زباں پر لے ہی آئی ۔

"زرشال ہماری بھی بیٹیاں ہیں۔آج کسی بیٹی کے ساتھ اچھا سلوک کرو گے ۔اس کی عزت و مان رکھو گے تو کیا پتہ بدلے میں اللّٰہ تعالیٰ بھی خوش ہو کر میری بیٹیوں کے لیے بھی اچھا کردیں ۔۔۔اس پروردگار کے ہاتھوں میں ہم سب کی ڈور ہے ،جب سے جنت کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا میں بہت ڈر گیا ہوں ۔بس یہی سوچا کہ بھری محفل میں اگر میری بیٹی کو یوں کوئی اپنے ساتھ کا کر تعارف کرواتا تو ۔۔۔۔۔۔عیش کو میں نے اپنی بیٹی کی جگہ رکھ کر سوچا اور بس میرے دل میں نرمی پیدا ہوگئی ۔۔۔شاید ضامن کی اس حرکت پر میں اسے سزا ضرور دیتا مگر عیش کو دیکھ کر سب بھلا دیا۔۔۔

"زمارے میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ آپ عمر کے اس حصے میں آکر اتنے سنجیدہ اور معاملہ فہم ہو جائیں گے "

"یہ آپ ہماری تعریف کر رہی ہیں یا پھر ؟؟؟؟

"زمارے تعریف کر رہی ہوں "

"یہی تعریف آپ کسی اور طرح بھی کر سکتی ہیں ؟وہ اس کو شانوں سے تھام کر اپنے قریب کیے بولا ۔۔۔

"زمارے شرم کریں۔اب آپ کے پوتے پوتیوں کو گود میں کھیلانے کے دن ہیں "زرشال نے مصنوعی خفگی سے کہا ۔۔۔

"دن پوتے پوتیوں کو کھیلانے کے ہیں مگر رات تو نہیں نا"

"کچھ بھی ہو جائے زمارے آپ نہیں بدلیں گے ۔۔۔۔ضامن بالکل آپ پر گیا ہے ۔۔۔نہیں ۔۔۔بلکہ آپ سے بھی چار ہاتھ آگے ہے "

"ہاہاہا ۔۔۔۔۔۔آخر بیٹا تومیرا ہی ہے "وہ ہلکا سا قہقہ لگا کر بولا۔ ۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"نیچے اتارو مجھے "عیش نے روم میں آتے ہی ضامن کے سینے پر مکا برسا کر کہا ۔

"یہ لیں جی اتریں نیچے گینگسٹر بیوی "وہ اسے نیچے اتار کر بولا ۔۔۔۔

بستر کے اطراف میں لگی پھولوں کی لڑیوں میں سے کچھ پھولوں کی پتیاں توڑیں ۔۔۔پھر ناک کے پاس لے جا کر انکی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارا ۔۔۔۔

"آہ ۔۔۔۔آج تو ان پھولوں نے ہماری گولڈن نائٹ کا مزہ دوبالا کر دیا ۔۔۔وہ پھولوں کی پتیاں اس کے چہرے پر پھونک مار کر پھینکتے ہوئے ایک آنکھ ونگ کیے شرارت سے بولا ۔۔۔۔

"بڑی کوئی فضول لائن تھی "وہ منہ بنا کر بولی ۔۔۔

"حد ہوگئی بھئی ۔۔۔

"پہلی رات کی دلہن ہو کوئی تھوڑا سا شرما ہی لو "

 وہ تاسف سے سر ہلا کر بولا ۔

"یہ شرمانا کیا ہوتا ہے ؟؟؟عیش آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی۔۔۔۔

"آہ !!!!  لگتا ہے۔تمہیں شرماتے دیکھنا میرے مقدر میں نہیں "

اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔

"اچھا چلو ٹھیک ہے تمہارے لیے تھوڑی کوشش کر کہ دیکھتی ہوں "وہ شانوں پر موجود دوپٹہ سر پہ اوڑھے اب گھونگھٹ نکال کے ۔۔۔بستر پر بیٹھی ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ ضامن اس کا گھونگھٹ اٹھاکر اسے شرماتے ہوئے دیکھتا ۔۔۔۔

"مجھ سے نہیں ہوتا یہ شرمانا ورمانا ۔۔۔"وہ جھٹ گھونگھٹ اٹھا کر بولی ۔۔۔۔

"اف ۔۔۔۔میرا تو ایک منٹ میں دم گھٹنے لگا اس ہیوی دوپٹے میں "

"ضامن نے دوپٹہ کھینچ کر سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر اچھالا ۔۔۔۔

"آج تمہیں شرمانے پر مجبور نا کردیا تو میرا نام بھی ضامن نہیں ۔۔۔۔

"چلو اتارو ".....ضامن نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

"کیا؟؟؟

وہ آنکھیں پھاڑے چیخی ۔۔۔۔

"تم کیا سمجھی ؟؟؟

"میں جیولری کی بات کر رہا تھا ۔۔۔۔میرے کام کے آڑے آئے گی نا "وہ مسکرا کر بولا۔

عیش کی بکھری ہوئی سانسیں بحال ہوئیں۔۔۔۔۔

وہ واقعی اس کے ہوش اڑا چکا تھا ۔۔۔

" میری گینگسٹر بیوی زرا پاس آئیے ۔۔۔

 اس کی کلائی کھینچ کر ضامن نے اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔۔

"نہیں ضامن ابھی نہیں "اس نے ضامن کے ارادے بھانپ کر اسے منع کیا ۔۔۔۔

"کڑی ہے تو Fine

اب دے دے مجھے Line

میں تیرے نال جچ دا بڑا "

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گنگنا کر بولا ۔۔۔

"نا ضد ویری Much کر"

نا مجھ کو تو Touch کر۔

کرلے تو کنٹرول جذبات۔۔۔

وہ ضامن کے لبوں پر ہاتھ رکھے اسے اگلے قدم سے روک کر بولی ۔۔۔۔

ضامن نے اسے چھوڑا اور غصے میں وہاں سے اٹھنے لگا ۔۔۔اسے عیش کا یہ انکار بے وجہ لگا ۔۔۔۔

پھر بھی جو نا مانے Dil

کرتا جائے تجھ کو Kill

تھام لے تو آ کہ میرا ہاتھ 

اس نے خفگی سے اٹھ کر جاتے ہوئے ضامن کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔۔۔۔

ضامن اپنا توازن برقرار نا رکھ سکا اور عیش کے ساتھ بستر پر گرا ۔۔۔۔۔

"یہ مجھے منانے کا طریقہ تھا ؟؟؟وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں پوچھنے لگا ۔۔۔

"تو پھر کیسے مناؤں ؟"وہ اس کی شوخ آنکھوں میں دیکھ کر پوچھنے لگی ۔۔۔

اور ساتھ ساتھ اپنی جیولری اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھنے لگی۔ ۔۔۔۔

"سوچو اپنے ہزبینڈ کو منانے کا طریقہ"

ضامن  اس کے پرمز والے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"عیش نے ضامن کی شرٹ کے بٹن کو کھولا ۔۔۔۔

ضامن کی آنکھیں حیرت سے دوچند ہوئیں ۔۔۔۔

"ابھی تو منانے کی شروعات ہے "عیش اسے منانے کے لیے یہ بے باک حرکت کر تو گئی تھی مگر اندر سے دل سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا ۔۔۔وہ کسی بھی معاملے میں ضامن سے ہار نہیں مان سکتی تھی اس کے لیے چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑے ۔۔۔۔

ضامن کی آنکھوں میں پھیلی ہوئی حیرت کی جگہ اب ٹھاٹھیں مارتے ہوئے شوریدہ جذبات نے لے لی ۔۔۔۔۔

وہ انجانے میں اس کے سوئے ہوئے جذبات کو جگا چکی تھی ۔۔۔جس طوفان کو اس نے جگایا تھا ۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ جزبات کا یہ طوفان اسے اپنے ساتھ بہا کر لے جانے والا تھا ۔۔۔۔

ضامن نے اسے تکیے سے لگا کر اسکی شہہ رگ پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔۔

عیش نے ضامن کو خود پر حاوی دیکھا تو دھڑ دھڑ کرتے دل سے اٹھ کر بیٹھی ۔۔۔۔

"ایسے کیسے گینگسٹر بیوی اب تو اس قید سے رہائی ناممکن ہے ۔۔۔۔تم پہلے ہم پر اپنے حسن کے جلوے بکھیرتی  ہو اور پھر جب دیوانہ اس قفس میں پھنس جائے تو راہ ِفرار اختیار کرتی ہو۔۔۔۔ایسی دوغلی پالیسی ہم پر نہیں چلے گی میڈم "وہ اس کے پیچھے سے ہاتھ گزار کر اس کے شانے پر تھوڑی ٹکا کر بولا ۔۔۔

عیش کو اس کی گرم سانسوں سے اپنی گردن جھلستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔

دل دھونکنی کی مانند دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ضامن نے اس کی گردن پر لو بائٹ بنائی تو عیش نے سسک کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ضامن کی انگلیاں  اس کی شرٹ کی ڈوریوں سے الجھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔عیش کے  وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

"ضامن پلیز !!!اسے ضامن کی بڑھتی ہوئی جسارتوں پر بندھ باندھنا چاہا ۔۔۔۔۔

ضامن کے پاؤں اس کی ٹانگوں پر سے لہنگے کو کھسکاتے ہوئے محسوس ہوئے تو عیش کی اصل معنوں میں جان نکلی ۔۔۔۔

"بہت ہی چھچھورے ہو ۔۔۔اس نے ضامن  کی پشت پر مکے برسائے ۔۔۔۔۔ت۔۔۔۔م۔۔۔۔باقی کے الفاظ عیش کے منہ میں ہی دم توڑ گئے کیونکہ ضامن اس کے لبوں کو قید کیے اس کی بولتی بند کر گیا تھا۔۔۔۔۔

"ان پھولوں کی پتیوں سے بھی ملائم اور نازک ہیں یہ گلاب ۔۔۔۔وہ کچھ دیر بعد اس سے پیچھے ہوئے بولا ۔۔۔۔

عیش تو اس کی خمار زدہ نظروں کی تاب نا لاتے ہوئے آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔

ضامن نے سائیڈ ٹیبل پر موجود لیمپ بجھا دیا۔۔۔۔

"ضامن چھوڑو مجھے ",وہ اسکی شدتوں کو سہتے ہوئے جھٹپٹا کر بولی ۔۔۔۔

"صبح چھوڑوں گا "وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔۔۔۔شرارت سے کہتے ہوئے اسے خود میں سمو گیا۔۔۔۔۔

کمرے کی معنی خیز خاموشی میں ضامن کی مدھم پیار بھری سرگوشیاں ہلچل مچا رہی تھیں۔۔۔۔۔دونوں طرف جزبات کا تلاطم برپا تھا ۔۔۔۔۔

جس نے دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔۔۔۔دونوں آج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو گئے تھے ۔۔۔۔مگر کون جانے کہ ان کا ساتھ کتنی دیر کا تھا ۔۔۔۔۔؟؟؟.

🦋🦋🦋🦋🦋

"ہیر جاو یہ ڈریس چینج کر کہ آؤ "وہ دونوں ائیر پورٹ کے نزدیک ایک شاپنگ مال میں موجود تھے جو بالکل بند ہونے والا تھا ۔۔۔۔

"میں کیوں کروں ؟؟؟

"مجھے یہی پسند ہے۔"وہ اکڑ کر بولی ۔۔۔۔

"ہیر یہ وقت بحث کا نہیں جہاز میں تم لہنگے میں جاؤ گی ۔۔۔سب تمہاری طرف متوجہ ہوں گے ۔۔۔اور ایسامیں بالکل بھی نہیں چاہتا۔۔۔۔

"ہیر نے اس کے ہاتھوں سے ڈریس لیا اور چینجنگ روم سے ڈریس تبدیل کیے باہر آئی بازو پر وہی سیاہ لہنگا اٹھائے ہوئے ۔۔۔۔

"ہیر اسے پھینک دو ۔۔۔اور چلو یہاں سے "

"ہو ۔و۔و۔ و۔ اسکو کیسے پھینک دوں یہ میری شادی کا لہنگا ہے۔اور مجھے بہت پسند ہے ۔۔۔میں نہیں پھینکوں گی اسے ۔۔۔۔وہ منہ پھلا کر ضدی لہجے میں بولی۔

"ہیر نیا لے دوں گا اس سے بھی اچھا ۔۔۔چھوڑ دو اسے "وہ سرد مہری سے بولا۔۔۔۔

"مگر میں نہیں پھینکوں گی اسے ۔۔۔وہ اپنے ہونٹوں کاپاوٹ بنائے بولی ۔۔۔۔

اسکے گول شیپ میں ڈھلے ہوئے ہونٹ دیکھ شیر زمان کا سارا غصہ ہوا ہو گیا ۔۔۔۔

وہ بار بار کچھ ایسا کر جاتی کہ وہ اپنا غصہ بھلا کر اس کی معصومانہ انداز پر کچھ پل کے لیے سب بھول جاتا ۔۔۔۔

"شیر زمان کی لٹل وائفی کو بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے اس کی طرح بالکل ضدی "وہ اس کے پھولے ہوئے چہرے کو ہاتھوں میں بھر کر بولا ۔۔۔۔

"چلو یہاں سے فلائیٹ کا وقت ہوگیا ہے "وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اب تیزی سے ائیر پورٹ کی حدود میں داخل ہو رہے تھے ۔۔۔

"آپ کے پاس میرا پاسپورٹ کہاں سے آیا ۔؟شیر زمان کو اپنی جیکٹ کی پاکٹ سے دونوں کے پاسپورٹ اور کچھ ایم چیزیں نکالتے دیکھ ہیر نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔

"میں نے کہا تھا مما سے تو انہوں نے یمنی پھپھو سے یہ کہہ کر منگوا لیا تھا کہ ہمیں ہنی مون ٹرپ کے لیے چاہیے ۔۔۔۔

"ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟ہیر نے شیر زمان سے پوچھا ۔۔۔۔

"ہم ۔۔۔۔روس کی ایک مسلم ریاست میں  "

"ہائے اتنی دور میں نے تو ایک بار اپنی کتاب میں پڑھا تھا کہ وہاں بہت سردی ہوتی ہے۔مائنس سینٹی گریڈ رہتاہے۔اس موسم میں بھی ۔اور آپ کو پتہ ہے مجھے کتنی سردی لگتی ہے۔میری تو قلفی جم جائے گی وہاں ۔۔۔آپ کو کوئی اور ملک نہیں ملا تھا دنیا میں ؟؟؟وہ ایک بار پھر سے ناراض ہوئی ۔۔۔۔شیر زمان نے کان میں لگی ڈیوائس پر آہستہ آواز میں کسی سے بات کی ۔۔۔

ہیر اس کی طرف پوری طرح سے متوجہ تھی تو شیر زمان اسے وہیں کھڑے رہنے کا اشارہ کرتا ہوا اس سے زرا فاصلے پر ہوا ۔۔۔۔۔

"ہاں ۔۔۔۔؟

آگے سے کچھ کہا گیا۔۔۔

"سب کچھ کلوز کر دو "

"مگر سر ؟؟؟

"میں سب چھوڑ رہا ہوں ۔اور یہاں سے جا رہا ہوں تم سب بھی واپس چلے جاؤ ۔۔۔آج سے سب ختم سمجھو ۔۔۔سب ڈیوائسز کو ختم کردینا کسی کو کچھ نا ملے ۔۔۔۔

"جی سر !!!آگے سے مؤدب انداز میں کہا گیا ۔۔۔۔

"شیر زمان نے ان سب کو اطلاع دی۔

پھر ڈیوائس نیچے پھینک کر اسے اپنے بھاری بوٹ تلے دبایا تو وہ ٹوٹ گئی ۔۔۔۔اس نے وہ ٹوٹی ہوئی ڈیوائس ڈسٹ بن میں ڈال دی ۔۔۔۔سب یہیں چھوڑ کر وہ جہاز میں داخل ہوگیا ۔۔۔۔ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے ۔۔۔۔اہنی ہیر کے ساتھ ۔۔۔۔ 

🦋🦋🦋🦋🦋🦋 

زائشہ کے اٹھنے سے پہلے ہی حسام اٹھ چکا تھا وہ فریش ہوئے نیچے لان میں آیا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی پھول توڑے گلدستہ بنا کر اسکے لیے کمرے میں لایا ۔۔۔۔

شاید اس کے جاتے ہی زائشہ بھی اٹھ چکی تھی ۔۔۔اسی لیے جب وہ واپس کمرے میں آیا تو وہ شاور لیے ہلکی سی ایمبرائیڈری والا آتشی گلابی رنگ کا فراک اور کیپری زیب تن کر چکی تھی اور اب آئینے کے سامنے کھڑی اپنے گیلے بالوں کو سلجھا رہی تھی ۔۔۔۔

اس کے گیلے بالوں سے پانی کے قطرے موتیوں کی طرح ٹپک رہے تھے ۔۔۔ 

حسام کو سامنے دیکھ وہ سٹپٹا کر آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔

زائشہ کو اپنے چہرے پر ہلکی سی ٹھنڈک اور نمی محسوس ہوئی تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔حسام اس کے روبرو تھا۔۔۔۔اوس میں بھیگے ہوئے پھول سے اس کا گال سہلا رہا تھا ۔۔۔۔

"صبح بخیر مسسز "

"صبح بخیر "جوابا زائشہ نے بھی مسکرا کر کہا جیسے ہی رات کے بیتے پل اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائے اس نے شرم سے اپنا چہرہ اپنے ہی ہاتھوں میں چھپایا ۔۔۔۔ جو چند پل میں ہی قندھاری انار کی مانند سرخ پڑ چکا تھا ۔۔۔۔

"مجھے مکمل کرنے کے لیے شکریہ مسسز "وہ اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا ۔۔۔ ساتھ ہی اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے اس کے دہکتے گال پر اپنا لمس چھوڑا ۔۔۔ 

"خوش ہو ؟؟؟حسام نے اس کی تھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر پوچھا ۔۔۔۔

"بعد میں بتاؤں گی ابھی مما کے پاس جانا ہے ۔وہ انتظار کر رہی ہوں گی "وہ اس کو دھکا دئیے باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔۔

حسام اس کی چالاکی پر مسکرا کر رہ گیا ۔۔۔۔۔

"زائشہ !!! حویلی سے فون آیا تھا وہ منت کا ناشتہ لے کر آ رہے ہیں "

"جی مما "وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئی بولی ۔۔۔۔

دل ابھی بھی زوروں سے دھڑک رہا تھا حسام کی جسارتیں یاد کیے ۔۔۔۔

یمنی نے اس کے چہرے پر پھیلے گلال کو بخوبی محسوس کیا۔۔۔اس کے بھیگے بال ۔۔۔ نم سراپا ۔۔۔۔اسے بہت کچھ سمجھا گیا ۔۔۔۔جب سے زائشہ کی شادی ہوئی تھی یہ پہلی بار تھا کہ وہ اس طرح ادھ کھلی گلاب بنی نظر آئی تھی ۔۔۔۔۔یمنی دل سے خوش ہوئی بالآخر زائشہ اور حسام میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا ۔۔۔وہ دل ہی دل میں ان دونوں کی خوشگوار زندگی کی دعا کرنے لگیں ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋

منت کی جاگ باہر کھٹر پھٹر کی آوازوں سے کھل چکی تھی ۔۔۔وہ کبرڈ سے ہلکے سے کام والا سوٹ نکال کر شاور لیے اسے زیب تن کر چکی تھی ۔۔۔ کہ دروازہ ناک ہوا ۔۔۔۔

"ابتسام !!!!باہر سے یمنی کی آواز آئی ۔۔۔۔

"اٹھو بیٹا حویلی سے سب آنے والے ہیں۔ناشتہ لے کر "انہوں نے باہر سے ہی انہیں آگاہ کیا ۔۔۔۔منت نے سامنے سوئے ہوئے ابتسام کو دیکھا جس کے کان پر جوں بھی نا رینگی تھی ۔۔۔ 

اس نے ہمت کیے آگے بڑھ کر اس کو شانے سے ہلایا ۔۔۔۔

"ابتسام ۔۔۔ !!!!

"اٹھیں !!!

"باہر سب انتظار کر رہے ہیں "

اس نے آہستہ آواز میں کہا معا کہیں یہ نا ہو کہ اس کے مجازی خدا برا منا جائیں ۔۔۔۔

ابتسام نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں کھول کر دیکھا ۔۔۔۔وہ دھلے دھلائے سراپے میں سامنے موجود تھی ۔۔۔۔ابتسام اپنے اوپر سے کمفرٹر اٹھا کر ایک طرف کرتے ہوئے اٹھا اور پاؤں میں سلیپر پہن کر واش روم کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

"منت !!!اس نے پلٹ کر اسے پکارا ۔۔۔

"جی "وہ اسکی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔

"میرے کپڑے نکال دو "

"جی ۔۔۔مگر کونسے ؟؟؟اس نے جی کہہ تو دیا مگر یاد آنے پر پوچھ لیا ۔۔۔یہ نا ہو کہ وہ کچھ اور نکال دے کو اسے پسند نا آئے ۔۔۔

"کوئی بھی سوٹ نکال دو "کہتے ہوئے وہ اندر بڑھ گیا ۔۔۔۔

اس کے آواز دینے پر منت نے اسے کپڑے پکڑا دئیے ۔۔۔اب وہ مکمل تیار ہوچکا تھا ۔۔۔ڈراور سے ایک مخملی کیس نکال کر اس کی طرف آیا ۔۔۔ 

"لاؤ دو "اس نے سادہ سے انداز میں اس کے پاس آ کر کہا ۔۔۔

"کیا ؟؟؟وہ سوالیہ انداز میں پوچھنے لگی ۔۔۔۔

"اپنا ہاتھ اور کیا؟؟؟

وہ کیس کو کھول کر اس میں سے سونے کے کنگن نکال کر بولا ۔۔۔۔

پھر وہ خالی کیس بیڈ پر پھینکا ۔۔۔اور منت کا میندی کے دلکش ڈیزائن سے سجا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اس کی کلائی میں وہ سونے کے کنگن پہنانے لگا ۔۔۔ 

"یہ تمہاری منہ دکھائی "منت نے نظریں اٹھا کر اپنے ہمسفر کودیکھا ۔۔۔جو کسی بھی جذبے سے عاری دکھائی دیا ۔۔۔

وہ دل مسوس کر رہ گئی ۔۔۔۔

"آؤ باہر چلیں "ابتسام نے اس کا ٹھنڈا پڑتا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔۔اور باہر کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔۔

منت اس کے اتنے سے التفات پر بھی خوش ہوگئی ۔۔۔۔ساتھ تو تھا اسکے اور ہاتھ بھی تھام لیا تھا ۔۔۔۔کچھ زیادہ برا بھلا بھی نہیں کہا مجھے ۔۔۔۔شاید یہ ایسے ہی ہیں سنجیدہ سے ۔۔۔ایک نا ایک دن خود ہی ٹھیک ہوں جائیں گے ۔وہ دل میں امیدیں وابستہ کیے اس کے ہمراہ چلتے ہوئے باہر آ رہی تھی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"ہائے میری ٹانگیں توڑ دیں "پیچھے کرو اپنی دو من کی ٹانگیں "عیش نے جب اپنی آنکھوں کو کھولا تو ضامن کی ٹانگوں کا وزن اپنی ٹانگوں پر محسوس کیے دہائی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"گڈ نائٹ گینگسٹر !!!وہ خمار زدہ آواز میں بولا اور اپنی ٹانگیں ہٹائے پھر سے اسے کمر سے جکڑا ۔۔۔۔

"ہیں یہ پھر سے گڈ نائٹ ۔۔۔۔؟؟؟

"لگتا ہے کوئی نشہ کر لیا ہے۔۔۔جو صبح کو پھر سے رات میں بدل رہے ہو ؟؟؟وہ جھجھنجلا کر اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔

"جی بالکل نشہ کیاہے ۔۔۔آپ کی قربت کا ۔۔۔ جو دنیا کا سب سے ظالم نشہ تھا "۔۔۔  وہ ذومعنی انداز میں بول کر اپنی آدھی مندی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

"فضول مت بولو ۔۔ ضامن پیچھے ہٹو ۔۔۔باہر سب کیا سوچیں گے ؟؟؟

"سوچنا کیا ہے ۔۔۔یہی سوچیں گے کی دلہا دلہن رومینس کر رہے ہوں گے "

"تم نے واقعی بے شرمی میں ماسٹرز کر رکھا ہے "

وہ اسے پھر سے اپنی گردن پر جھکتے ہوئے دیکھ کر بولی ۔

"گینگسٹر ماسٹرز نہیں ۔۔۔۔پی ۔ایچ۔ڈی ۔۔۔۔وہ پھر سے رات والے موڈ میں آن ہو چکا تھا ۔۔۔۔

"ضامن میں تمہیں چھوڑو گی نہیں ہٹو پیچھے "وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی ۔۔۔۔

"کون کافر کہہ رہا ہے کہ چھوڑو ۔۔۔۔پکڑو مگر زرا زور سے "

"پلیز ضامن بس "

"پلیز گینگسٹر ون مور ٹائم "

"ضامن !!!!اٹھو باہر نکلو سب منت کا ناشتہ لے جانے کے لیے تیار ہوچکے ہیں "زرشال نے دروازے کو زور سے کھٹکھٹایا۔۔۔۔

ان کی رومانوی تکرار کو زرشال کی کڑک آواز نے بریک لگایا ۔۔۔۔

"مما آدھے گھنٹے بعد آتے ہیں "ضامن نے ہانک لگائی ۔۔۔ 

"ضامن پانچ منٹ میں باہر نکلو ورنہ نئی نویلی دلہن کے سامنے صبح صبح میرے ہاتھوں سے بیعزتی کراؤ گے ۔۔

تمہارے پاپا نیچے انتظار کر رہے ہیں "

زرشال نے اسے باہر سے ڈانٹ پلائی ۔۔۔ 

عیش اس کی مما کے ہاتھوں اس کی بیعزتی ہوتے ہوئے دیکھ کر ہنسنے لگی ۔۔۔۔

"ہنس لو ہنس لو جتنا ہنسنا ہے۔۔۔ابھی تو چھوڑ رہا ہوں رات کو اس ہنسی کا بدلہ سود سمیت لوں گا ۔۔۔وہ بستر سے اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

پیچھے سے عیش کِھکھلا کر رہ گئی ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

زیان جو واش روم میں شاور لے رہا تھا باہر سے آیت کے رونے کی آواز سنی تو ٹراؤزر پہنے شانے پر ٹاول رکھے بنا شرٹ کے تیزی سے باہر نکلا ۔۔۔۔

آیت بیڈ سے نیچے گر چکی تھی ۔۔۔۔

زیان بنا ایک لمحہ بھی ضائع کیے بھاگ کر اسکے پاس پہنچا ۔۔۔ 

آیت کے سر سے خون نکل رہا تھا ۔۔۔۔آیت کو زخمی دیکھ زیان کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔۔۔۔

اس نے اپنے شانے سے ٹاول اتار کر آیت کے سر پر رکھا جہاں سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔۔

اور اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔۔

جنت جو آیت کے لیے باہر دودھ گرم کر کہ فیڈر بنانے گئی تھی ۔۔۔جب واپس کمرے میں آئی تو فرش پر موجود خون دیکھ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔

"کیا ہوا آیت کو ؟؟؟اس نے تیزی سے زیان کے پاس آتے ہوئے آیت کو دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔

"یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کیا ہوا اسے ۔۔۔۔؟؟؟

"میری بیٹی کا دھیان نہیں رکھ سکتی تو صاف بتادو مجھے "وہ تلخ انداز میں دھاڑا ۔۔۔ 

"جنت میں بتا رہا ہوں تمہیں آیت کے معاملے میں زرا بھی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا میں "

آیت کے رونے میں شدت آگئی ۔۔۔۔

"لاؤ دو اسے مجھے ",جنت نے اس کے ہاتھوں سے آیت کو لینا چاہا ۔۔۔ 

آیت شاید بلیڈنگ کی وجہ سے بیہوش ہوگئی تھی ۔۔۔ 

"زیان اسے کیا ہوگیا ہے ؟؟؟وہ آیت کو بیہوش ہوتے دیکھ خود بھی دھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگی ۔۔۔۔

"زیان نے جلدی سے شرٹ پہنی اور اور آیت کو اس کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے باہر کی طرف دوڑ لگادی ۔۔۔۔۔

جنت بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔۔

"زیان کیا ہوا آیت کو بریرہ نے زیان کو باہر بھاگتے ہوئے دیکھا تو پوچھا ۔۔۔۔

"مما آیت بیڈ سے گر گئی ہے۔"

میں اسے ہاسپٹل لے کر جا رہا ہوں "

جتنی دیر زیان گاڑی کے پاس پہنچا جنت بھی اس کے پیچھے آچکی تھی ۔ذیان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور جنت آیت کو گود میں لیے بیٹھ گئی ۔۔۔ مختلف دعاؤں کا ورد کرنے لگی اس کی سلامتی کے لیے ۔۔۔۔

زیان اسے لیے ایک قریبی ہاسپٹل پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔

ڈاکٹر نے آیت کی فوری ٹریٹمنٹ شروع کردی ۔۔۔۔اسے سر پہ سٹیچز لگے تھے ۔۔۔ابھی وہ انجیکشن کے زیر اثر بیہوش تھی ۔۔۔۔جنت اس کے پاس کھڑی تھی ۔۔۔اس کا ننھا سا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے رو رہی تھی ۔۔۔۔اسکے ننھے ہاتھ پر جنت کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے ۔۔۔۔

"سب ٹھیک ہے ڈاکٹر نے کہا ہے آیت کو تھوڑی دیر تک ہوش آ جائے گا "زیان نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔

اور اس کے شانے کے گرد اپنی بازو رکھی تاکہ اپنے ساتھ کا احساس دلا سکے ۔۔۔ 

زیان کا بازو اپنے شانے کے گرد محسوس کیے اسے جیسے کرنٹ لگا ۔۔۔۔

جنت نے اس کا بازو جھٹک دیا ۔۔۔اور خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

زیان اسکے عمل پر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔۔۔مگر گہری سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کیا۔۔۔۔۔ اور نظریں آیت کے معصوم چہرے پر جمادیں ۔۔۔۔۔

جو اب ہلکا ہلکا کسمسانے لگی تھی ۔۔۔جیسے اسے ہوش آرہا تھا ۔۔۔۔ 

"بریرہ آپی زیان اور جنت کہاں ہیں ؟انہیں نہیں جانا ؟ذوناش نے پوچھا 

"دراصل آیت کو صبح صبح چوٹ لگ گئی تھی وہ اسے لے کر ہاسپٹل گئے ہیں۔میری زیان سے فون پر بات ہوئی تھی ۔اب آیت ٹھیک ہے ۔وہ لوگ ابھی کچھ دیر وہیں رکیں گے ۔۔۔۔آپ سب چلے جائیں ناشتہ لے کر "

"مگر زیادہ پریشانی والی بات تو نہیں "

ذوناش نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔

"نہیں شکر ہے خداکا سب ٹھیک ہے ۔میں یہیں گھر پہ رکتی ہوں آپ سب چلے جاو ۔۔۔میں جب تک آیت کو دیکھ نہیں لیتی مجھے سکون نہیں ملے گا ۔۔تم زرشال کو مت بتانا ورنہ وہ پریشان ہو جائے گی ۔۔۔

واپس آئے گی تو مل لے گی خودی "بریرہ نے کہا ۔۔۔

"مگر وہ جنت کی نا جانے کی وجہ بھی تو پوچھے گی ۔

"اسے کہنا کہ جنت زیان کے ساتھ باہر گئی ہے کسی ضروری کام سے "

چلیں ٹھیک ہے ۔"

زائشہ اور حسام دونوں ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے تو سب ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔

 نے تو بےساختہ ان کی بلائیں ہی لے ڈالی 

ابتسام  اور منت بھی وہی موجود تھے زائشہ  نے سب کی نظریں خود پر محسوس کر کے جھجکتے ہوئے ہاتھ چھڑوایا۔۔۔

پر گزرتا ہوا دن ان دونوں کی محبت میں مزید اضافہ کر رہا تھا ۔۔۔زائشہ کا کھلا ہوا چہرہ اس بات کا گواہ تھا۔۔۔۔جس پر ہر پہر الوہی مسکان سجی رہتی تھی ۔۔۔۔

سب نے مل کر ناشتہ کیا ۔۔۔ڈائننگ پر بھی حسام کی نظریں جس طرح سے زائشہ کے چہرے کا طواف کرتیں ۔۔۔منت سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہتی ۔۔۔۔

وہ نظریں جھکا لیتی ۔۔۔کہیں انہیں اس کی ہی پیار بھری نظر نا لگ جائے ۔۔۔۔

"میری فلائٹ کا وقت ہوگیا ہے ۔۔۔میں چلتا ہوں "حسام کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈال کر بولا۔

"حسام ناشتہ تو ٹھیک سے کر لیتے "یمنی نے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

"مام ہوگیا میرا بس "وہ عجلت سے باہر نکل رہا تھا ۔۔۔مگر یکدم پیچھے مڑ کر زائشہ کو دیکھنے لگا ۔۔۔ ۔۔۔

" جاؤ زائشہ مجھے لگتا ہے۔حسام چاہتا ہے اسے اسکی بیوی رخصت کرے اچھے سے ۔۔۔۔"

یمنی نے مسکرا کر زائشہ سے کہا ۔۔۔تو وہ سب کے سامنے یوں اٹھ کر جانے سے شرمندگی محسوس کیے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے۔۔۔۔باہر نکل گئی ۔۔۔۔

"آپ کو محسوس کیے بنا چلا جاؤں گا تو دن نہیں گزرے گا ۔۔۔۔"

وہ بغیر اسے کچھ سمجھنے کا موقع دیے اس کے گال پر شدت بھرا لمس چھوڑ گیا ۔۔۔۔

 وہ جی جان سے گڑبڑائی تھی۔۔۔معا کوئی دیکھ نا لے 

"مجھے مس کرتی رہنا ۔۔۔"

"اپنا خیال رکھنا ۔۔"

وہ اس کا گال تھپتھپاکر کر مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

شہریار لائیبریری میں چلے گئے تو یمنی نے میڈ کے ساتھ مل کر سارے برتن سمیٹ کر کچن میں رکھوائے ۔۔۔۔

ابتسام بھی آفس کے لیے نکل رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے ایک نظر خاموش بیٹھی منت پر ڈالی جو ابھی تک وہیں چئیر پر بیٹھی ناخن کھرچ رہی تھی ۔۔۔۔

"کیا ہوا منت ؟؟؟اس نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"نہیں کچھ بھی نہیں ۔۔۔اس نے گلو گیر آواز میں کہا ۔۔۔۔

ابتسام اس کی آواز اور آنکھوں میں نمی بخوبی محسوس کر چکا تھا ۔۔۔۔۔

ان کی شادی کو دو ماہ ہونے والے تھے ،،،وہ جیسی بیوی چاہتا تھا منت اس معیار پر بالکل پوری اترتی ہوئی لگی ۔۔۔

وہ یہ ہمیشہ خاموشی سے سر جھکاکر بات ماننے والی ۔۔۔خاموش طبع ،اور سادہ سی بیوی چاہتا تھا ۔۔۔۔

منت اس کی ایک ایک چیز کا خیال رکھتی ۔۔۔وہ صفائی پسند تھا تو منت بھی اسکی ایک ایک چیز کی صفائی رکھتی ۔۔۔اس کے کہنے سے قبل ہی ہر چیز اسے مہیا کرتی ۔۔۔۔

اس کے کپڑوں سے لے کر کھانا پینا ۔۔۔غرض ہر چیز کا منت بہت خیال کرتی ۔۔۔آہستہ آہستہ وہ منت کی خوبیوں کا متعارف ہو چکا تھا ۔۔۔مگر ابھی تک زبان سے اظہار نہیں کیا تھا۔۔۔وہ چاہتا تھا کہ منت بھی خود کو وقت دے اس رشتے کو سمجھنے کے لیے ۔۔۔اور وہ خود بھی نارمل ہو جائے اس رشتے کو نبھانے کےلیے ۔۔۔منت جب جب زائشہ اور حسام کو آپس میں پیار سے بات کرتے ہوئے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی تو یہ بات ابتسام کی نظروں سے اوجھل نا رہتی ۔۔۔۔

ابتسام کو بھی محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ بھی شاید یہی سب کچھ چاہتی ہے۔مگر وہ حسام کی طرح ایک رومینٹک انسان نہیں بلکہ پریکٹیکل بندہ تھا ۔۔۔۔یہ رومینس سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔مگر جب منت کی آنکھوں میں خواہشات دیکھتا تو سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ اسے بھی تھوڑی سی ہمت کرنی پڑے گی ۔۔۔۔بالاخر اس کی بیوی دن رات اس کی ہر چھوٹی سی چھوٹی چیز کا دھیان رکھتی ہے تو اسے بھی اگر تھوڑا سا خود کو بدلنا پڑا تو بدل جائے گا ۔۔۔۔

"میں رات واپس آکر تم سے تفصیلی بات کروں گا "

وہ اپنا کوٹ بازو پر ڈالے لیپ ٹاپ والا بیگ اٹھا کر باہر نکلنے لگا ۔۔۔۔

منت کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہیں جانے کا دل نہیں کیا ۔۔۔مگر ابھی کچھ دیر میں ایک اہم میٹنگ متوقع تھی جس کی وجہ سے اسے جانا پڑا ۔۔۔۔

منت کے رونے میں شدت آگئی اپنی کم مائیگی پر ۔۔۔۔

وہ وہیں ڈائننگ ٹیبل پر سر رکھے رونے لگی ۔۔۔۔۔

"ایک ایک منظر اس کی آنکھوں کے پردوں پر لہرانے لگا ۔۔۔۔۔

کیسے روزانہ حسام زائشہ کے لیے پھول توڑ کر لے جاتا ہے۔کیسے واپس گھر آکر زائشہ کو التفات بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔کیسے ہر پل اسے اپنی محبت بھری نگاہوں کے حصار میں رکھتاہے۔۔۔۔وہ ان دونوں کی مثالی محبت سے حسد نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔مگر کہیں نا کہیں وہ افسردہ ضرور تھی ۔

اپنی شادی شدہ زندگی کو لے کر ۔۔۔۔بظاہر تو ابتسام کا رویہ اس سے نارمل تھا ۔۔۔دیکھا جائے تو اس نے کبھی بھی منت کو کسی بھی بات سے ڈانٹا نہیں تھا ۔۔۔۔مگر کچھ نا کچھ مسنگ ضرور تھا ۔۔۔۔اس کی زندگی میں ۔۔۔۔وہ بے شک ایک ہی بستر پر سوتے تھے مگر اجنبی کی طرح۔۔۔۔۔

آج بھی پہلے دن کی طرح ان کے بیچ میں خلیج حائل تھی ۔۔۔۔وہ ابتسام کے بیگانہ روئیے پر دل مسوس کر رہ گئی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ اسے کوئی ہوں روتا ہوا دیکھ لیتا وہ اپنے آنسو پونچھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔۔۔

"مما آج شام کے کھانے کے لیے کیا بنواوں "زائشہ نے لاونج میں بیٹھی ہوئی یمنی سے استفسار کیا ۔۔۔

"شام کو کیا بنوانا ہے ۔۔۔رہنے دو آج شام تو حویلی جانا ہے پھر وہاں سے شاہ من کی انگیجمینٹ میں جانا ہے۔کھانا وہیں پر ہے "

"اوہ میں تو بھول ہی گئی "وہ سر پر ہاتھ مار کر بولی ۔۔۔۔

اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا ہوا محسوس ہوا تو اس نے پاس پڑے ہوئے گلدان کو ہی پکڑنا چاہا گرنے سے بچنے کے لیے ۔۔۔۔

مگر وہ خود بھی چکراتے سر سے گری اور گلدان بھی ٹھاہ کی آواز سے زمین بوس ہوگیا ۔۔۔۔اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ۔۔۔۔

"زائشہ !!!!کیا ہوا بیٹا ؟؟؟

"اٹھو زائشہ !!!!وہ اسکا گال تھپتھپاکر کر بولیں ۔۔۔۔

"کیا ہوا مما زائشہ آپی کو ؟؟؟منت نے یمنی کے ساتھ مل اسے اٹھایا ۔۔۔۔

کچھ دیر میں وہ ہوش میں آگئی ۔۔۔۔

"کیا ہوا تھا زائشہ ؟یمنی نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"پتہ نہیں مما بس اچانک چکر آگیا تھا "وہ پیشانی کو مسلتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"زائشہ میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلو ۔۔۔یوں چکر آنا اچھی بات تو نہیں "

"نہیں مما میں ٹھیک ہوں اب "

"یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔ایک بار چیک اپ کروانے میں بھلا کیا حرج ہے۔میری پریشانی بھی دور ہو جائے گی ۔۔۔چلو چادر لو اور آو میرے ساتھ۔۔۔۔

ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے انہیں جو خبر سنائی زائشہ تو کھل کر گلاب بن چکی تھی اور یمنی کے بھی پاؤں خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے ۔

"بہت بہت مبارک ہو زائشہ "

"تم ہمارے گھر میں پہلا وارث پیدا کرنے جا رہی ہو ۔۔۔تم نہیں جانتی تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے"دیکھنا حسام بھی یہ بات جان کر کتنا خوش ہوتا "وہ پر پر مسرت لہجے میں بولی۔

"وارث" لفظ سن کر زائشہ کی آنکھوں میں جلتے ہوئے دئیوں کی چمک تھوڑی ماند پڑی ۔۔۔

"مما اگر بیٹی ہوئی ؟؟؟وہ  ڈرتے ہوئے ہوئے بالآخر دل کا ڈر زبان پر لائی ۔۔۔۔

"زائشہ کیسی باتیں کرتی ہو بیٹے اور بیٹی برابر ہوتے ہیں۔مجھے کوئی مسلہ نہیں بیٹا ہو یا بیٹی یہ تو خدا کی دین ہے۔کبھی بھی اپنے ذہن میں کچھ برا مت لانا ۔۔کتنے سالوں بعد اس گھر میں ایک ننھا سا مہمان آنے والا ہے ۔آو اس کی شاپنگ کریں "وہ پر جوش آواز میں بولیں۔

"مما مگر ابھی سے ؟؟اس نے حیران کن نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"آؤ تو بے بی کی مما کے لیے بھی تو کچھ لینا ہے ۔جس نے مجھے اتنی بڑی خوشخبری دی ہے ۔۔۔

وہ ددھیما سا مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑی ۔۔۔۔

"ان میں سے کونسا ڈریس پسند ہے ؟؟انہوں نے مختلف ڈریس کو ادھر ادھر کرتے پوچھا ۔۔۔ 

زائشہ کو ایک ڈارک بلیو کلر کا ڈریس پسند آیا ۔۔۔۔

"ہممم۔۔۔بہت پیارا ہے "

"زائشہ !!انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے اسے پکارا ۔۔۔

"جی مما !

"میں سوچ رہی تھی کہ ایسا ہی ڈریس منت کے لیے بھی لے لوں ۔۔۔کہیں اس کے دل میں کوئی خیال نہیں آئے کہ میں نے صرف تمہیں لے کر دیا"

"مما یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟؟؟مجھے تو اچھا لگے گا ہم دونوں ایک جیسا ڈریس پہنیں گی ۔

"چلو ٹھیک ہے پھر دونوں ایک جیسے ڈریس پیک کروا لو آج شام انگیجمینٹ میں دونوں ایک جیسے ڈریس پہننا ۔جیسے شادی پر پہنے تھے ۔

"جی ٹھیک ہے مام"

وہ دونوں کچھ شاپنگ کے بعد گھر واپس آئیں ۔۔۔۔۔

"زائشہ !!!حسام نہیں آیا ابھی تک۔۔۔"

زائشہ جو منت کے کمرے میں ایک ساتھ میک اپ کرنے میں مصروف تھی۔۔۔ 

یمنی وقت دیکھتے ہوئے ہڑبڑی میں کمرے میں آتے ہوئے بولیں۔۔

"نہیں مام میری بات نہیں ہوئی ان سے۔۔۔" 

وہ شرمندگی سے نظریں جھکا کر بولی۔۔۔اس نے کتنی بار حسام کو کال ملائی تھی مگر اس نے فون نہیں اٹھایا تھا ۔۔۔

"چلو تم  پتہ کرو اور جلدی سے تیار ہوجاؤ ٹائم بھی کافی ہوگیا ہے۔۔۔"

"جی مام۔۔۔"

وہ ساری چیزیں وہیں رکھتی اپنے کمرے کی طرف چل دی تاکہ اسے کال ملا سکے ۔۔۔

ڈارک بلیو کلر کی پاؤں کو چھوتی ہوئی  فراک جس کے دامن پہ خوبصورت کام ہوا تھا۔۔۔

بالوں کا میسی جوڑا بنائے ہوئے تھی چند شریر لٹیں اس کے رخساروں کو بوسہ دے رہی تھی۔۔۔

گلے میں وہی چین اس کی گردن کی خوبصورتی کو بڑھا رہی تھی۔۔۔جو حسام نے اسکے گلے کی زینت بنائی تھی ۔۔۔۔

میک اپ کے نام پہ لبوں پر ریڈ ڈیپ لپ سٹک اور  ہلکے پھلکے میک اپ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی ڈوپٹہ شانوں پر پھیلائے وہ باہر آئی تو شہریار بھی تیار ہو کر نیچے لاونج میں صوفے پر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔

زائشہ بیٹا ایک کپ چائے تو پلا دو ابھی حسام اور ابتسام دونوں نہیں آئے ۔۔۔وہ دونوں آجائیں تو پھر نکلتے ہیں "

شہریار نے زائشہ سے کہا ۔۔۔۔

"جی پاپا ابھی بنا کر لاتی ہوں "وہ مؤدب انداز میں کہتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

"شہریار پلیز آئیے نا "یمنی نے اسے اپنے کمرے کے دروازے سے ہانک لگائی ۔۔۔

"آتا ہوں وہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھے اور واپس اپنے روم میں چلے گئے جہاں یمنی تیار ہو رہی تھی ۔۔۔۔

"جی فرمائیے "

"پلیز یہ نیکلس کی ہک بند کردیں کب سے کوشش کر رہی ہوں بند ہی نہیں ہو رہی "وہ جھجھنجلا کر بولیں۔

"بیگم صاحبہ !آپ کو ابھی بھی ہماری توجہ کی ضرورت ہے ؟وہ آئینے میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھ رہے تھے ۔

"بیوی چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں کیوں نا چلی جائے اسے شوہر کی توجہ کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے "

"اچھا جی "وہ ہک بند کرتے ہوئے اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر بولے ۔۔۔

"بلکہ اس عمر میں تو اور بھی زیادہ ہوتی ہے ۔وہ شہریار کے کوٹ پر ہاتھ پھیر کر بولیں ۔

"کتنی توجہ چاہیے ؟؟؟اب وہ اس کے پشت پر اپنے دونوں ہاتھ باندھ چکے تھے ۔۔۔۔

یمنی مسکرا کر شہریار کو دیکھنے لگی ۔۔۔وہ آج بھی اتنا ہی ڈیسنٹ اور ہینڈسم تھا جتنا پہلے تھا ۔۔۔۔

"آج تو تم نے سالوں پہلے والے  شٹ اپ کی یاد کروا دی ۔۔۔۔

دل کر رہا کہ تم شٹ اپ بولو اور میں تمہیں ویسے ہی چپ کراؤں "وہ پل بھر میں لہجہ بدل چکا تھا ۔۔۔۔

"کچھ شرم کریں آپ دادا بننے والے ہیں "

"سچ کہہ رہی ہو ؟؟؟

ہممم۔۔۔حسام پاپا بننے والا ہے ۔آج آئے گا تو زائشہ خود اسے یہ خوشخبری سنائے گی ۔

شہریار اس کی بات سن کر مسکرانے لگا ۔۔۔۔

ابتسام جو آفس کے کام سے فارغ ہوکر گھر آیا تھا۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر منت پہ پڑی تو مہبوت سا اسے دیکھے گیا۔۔۔

کسی کی نظروں کی تپش کے احساس سے دھیرے سے پلکیں اٹھا کر آئینے میں دیکھا تو دروازے پہ کھڑے ابتسام کو دیکھ کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔

خود پر اس کی بےخود نظریں محسوس کرکے اس نے پلکوں کی چلمن گرا  لی تھیں۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ کے کپڑے نکال دئیے ہیں ۔۔۔آپ تیار ہو جائیں ۔۔۔

وہ ٹائی کی ناٹ کو ڈھیلا کرتے بستر پر بیٹھا ۔۔۔۔اپنی پیشانی کو مسلنے لگا۔۔۔

"کیا ہوا کوئی پریشانی ہے ۔۔۔یا پھر سر میں درد ہے "؟

"آ۔۔۔ہاں ۔۔۔بس سر میں درد ہے تھوڑا ۔۔۔

"حسام بھائی ابھی آئے نہیں اگر آپ نے چائے پینی ہے تو بنا دوں۔ ؟

"ہاں بنا دو ایک کپ "

وہ اسے کہتے ہوئے اپنے کپڑے لیے واش روم میں چلا گیا ۔۔۔۔

منت کچن میں آئی تو زائشہ چائے کا پانی چولہے پر چڑھا رہی تھی۔۔۔۔

"آپی کس کے لیے چائے بنا رہی ہیں ؟؟؟

"میں پاپا کے لیے بنانے لگی ہوں ۔۔۔وہ ابتسام کے لیے بھی بنانی تھی مجھے ۔۔۔

",کوئی بات نہیں میں بنا رہی ہوں ۔۔ایک کی بجائے دو کپ بنا لوں گی ۔۔۔۔

"منت !!!یمنی کی آواز سن کر وہ کچن سے باہر نکلی ۔۔۔۔

"جی مما ۔۔۔۔

"یہ دیکھو موسم کو بھی آج ہی خراب ہونا تھا ۔۔۔ایک دم سے کتنے گہرے بادل آ گئے ہیں۔جاو زرا چھت سے کپڑے سمیٹ کر اندر چھت والے  روم میں رکھ دو ۔۔۔

"جی مما میں کرتی ہوں ۔

وہ چھت پر چلی گئی ۔۔۔اور یمنی گھر کی کھلی ہوئی کھڑکیوں کے پٹ بند کرنے لگی ۔۔۔۔

ابتسام صبح سے سوچ رہا تھا کہ منت سے کیسے بات کرے ۔۔۔کیسے اس کی ناراضگی دور کرے ۔۔۔یہی سوچ سوچ کر اس کا دماغ شل ہو چکا تھا ۔۔۔وہ اپنی ازلی سنجیدگی بھلائے اسے منانے کے لیے کچھ ڈفرنٹ سوچتے ہوئے تیار ہو کر خود پر پرفیوم کا چھڑکاؤ کیے باہر آیا اور پھر کچن کی طرف چل دیا ۔۔۔۔۔

وہ چولہے کے سامنے کھڑی اس کے لیے چائے بنا رہی تھی ۔۔۔۔

بادل گرجے اور ہمیشہ کی طرح موسم خراب ہونے کی دیر تھی کہ لائٹ والوں نے اپنا کام کردکھایا ۔۔۔۔

یہاں بوند گری نہیں کہ بتی گُل

وہ دھیرے سے چلتے ہوئے اس کے پاس آیا ۔۔۔۔

اور اسے پیچھے سے اپنے بانہوں کے گھیرے میں لیا۔۔۔۔

"

I am sorry......

وہ آہستگی سے اس کے کان کے قریب جاتے ہوئے سرگوشی نما آواز میں بولا ۔۔۔

پیچھے سے آکر حصار میں لینا یہ تو حسام کی عادت تھی ۔۔۔وہ ہمیشہ ایسے ہی اسے چونکایا کرتا تھا ۔۔۔۔

زائشہ نے اس کی نرم گرفت پر آنکھیں موندیں ۔۔۔

وہ سمجھی کہ حسام اس سے فون نا اٹھانے پر معزرت کر رہا ہے ۔۔۔۔

"منت جو مین سوئچ بورڈ سے جرنیٹر کا سوئچ آن کرنے آئی تھی گھر میں داخل ہوتے ہوئے حسام نے اسے دیکھا تو زائشہ کے بارے میں پوچھا ۔۔۔ 

"زائشہ کہاں ہے ؟؟؟

"بھائی وہ کچن میں چائے بنا رہی ہے "

"لاؤ میں سوئچ آن کرتا ہوں ۔

انہوں نے سوئچ آن کیا ۔۔۔

مگر ابھی لائٹ نہیں چلی ۔۔۔

"چل جائے گی خودی تھوڑی دیر تک ۔۔۔

وہ دونوں ایک ساتھ اندر آئے ۔۔۔منت بھی کچن میں آئے تاکہ ابتسام کے لیے چائے لے سکے زائشہ سے ۔۔۔۔

ایک دم سارا گھر لائٹ واپس آجانے سے روشن ہوگیا ۔۔۔۔

 جب حسام اور منت دونوں نے کچن میں قدم رکھا تو سامنے کا منظر دیکھ دونوں اپنی جگہ ساکت رہ گئے ۔۔۔ 

زائشہ کا چہرہ چولہے کی طرف تھا اور ابتسام نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔۔۔۔

"ابتسام !!!!منت کے گلے سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔۔۔۔

ابتسام فورا پیچھے ہوا ۔۔۔۔

اس نے منت کو اپنے سامنے ایستادہ پایا تو پلٹ کر اپنے قریب ہستی کو دیکھا ۔۔۔

وہ منت نہیں زائشہ تھی ۔۔۔

وہ اس وقت  اپنے آپ کو شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔

جبکہ ابتسام کو دیکھ کر اور پھر دروازے کی دہلیز پر کھڑے حسام کو دیکھ کر زائشہ کی تو مانو یہ حالت تھی جیسے کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔

"یہ سب غلط فہمی سے ۔۔۔۔ابتسام نے ہوش میں آتے ہی اپنی صفائی پیش کرنی چاہی ۔۔۔۔

منت روتے ہوئے وہاں سے پلٹ گئی اور بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔

ابتسام اس کے پیچھے کمرے میں بھاگا ۔۔۔۔

جبکہ زائشہ اپنی حالت اور شرمندگی کے زیر اثر آنسو بہانے لگی ۔۔۔۔۔

کچھ دیر پہلے وہ کتنی خوش تھی کہ حسام آئے گا اور وہ اسے خوشخبری سنائے گی مگر سب غلط ہوگیا ۔۔۔۔۔

 🦋🦋🦋🦋🦋

"تم آخر چاہتے کیا ہو ؟؟؟

وہ واش روم سے باتھ لے کر نکلی تھی ۔۔۔۔

زیان کو آیت کو گود میں اٹھائے دیکھا تو پھٹ پڑی۔۔۔

وہ ابھی آدھ گھنٹہ پہلے ہی آیت کو سلا کر گئی تھی ۔۔۔اور اب وہ اسے گود میں لیے بیٹھا اسکے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔یہ منظر دیکھ کر جنت کو تو آگ بگولہ ہو گئی ۔۔۔۔

"زیان نے ڈول آیت کو پکڑاتے ہوئے خود چل کر اسکے قریب آیا ۔۔۔

"جو میں چاہتا ہوں وہ تم نہیں چاہتی تو رہنے دو ۔۔۔

پھر پوچھنے کا فائدہ ؟؟؟

وہ پینٹ کی پاکٹ میں ایک ہاتھ گھسائے اس پر تفصیلی نگاہ ڈالتے ہوئے بولا ۔۔۔

جنت نے اپنی حالت دیکھی جو نم کپڑوں میں بغیر دوپٹے کے اس کے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔انگیجمینٹ کے لیے چست ڈریس میں وہ رعنائیاں بکھیر رہی تھی۔۔۔۔

اس نے آگے بڑھ کر بیڈ پر موجود اپنا دوپٹہ اٹھا کر شانوں پر پھیلایا ۔۔۔۔

زیان کے لبوں پر مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

اسکی احتیاط پر ۔۔۔۔

"ت۔۔۔تم میری بیٹی کو مجھ سے دور کرنا چاہتے ہو ۔۔۔اسی لیے رات دن اس کو اپنے ساتھ لگائے پھرتے ہو ۔۔۔راتوں کو اٹھ کر اسکا خیال رکھنے کا کیا مقصد ؟؟؟بولو ۔۔۔۔

"تمہاری یہی چال ہے کہ تم آیت کو اپنا عادی بنا لو ۔۔۔تاکہ وہ تم سے الگ نا رہ سکے ۔۔۔

"تم اسے اپنی سائیڈ  کرنا چاہتے ہو تاکہ وہ تمہارے حق میں فیصلہ دے "

وہ بپھرے ہوئے آتش فشاں کے  لاوے کی مانند پھٹ پڑی تھی ۔۔۔۔

"جبکہ زیان سکون سے کھڑا اس کے تاثرات جانچ رہا تھا۔۔۔

"کس نے روکا تمہیں؟؟؟

"میں تو چاہتا ہوں تم بھی میری سائیڈ پر آجاؤ آیت کے ساتھ ساتھ "

زیان نے اس کے سر پہ موجود ٹاول اتار کر بستر پر اچھال دیا ۔۔

اور ڈریسنگ ٹیبل کی اطراف میں ہاتھ رکھے اس پر جھکا ۔۔۔۔

وہ تھوڑا پیچھے کھسکی ۔۔۔مگر اس نے فرار کی کوئی راہ نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔

"زیان ۔۔۔۔۔!!!"

اس کے گلے سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔۔۔

دو ماہ سے وہ ساتھ تھے کبھی بھی زیان نے اس سے کوئی بھی حرکت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔وہ تو سکون میں تھی ۔۔۔آج ایسی افتاد پڑنے پر وہ بوکھلا کر رہ گئی ۔۔۔

 زیان کی آنکھوں میں پنپتے ہوئے جذبات دیکھ وہ بھونچکا رہ گئی۔۔۔۔ 

"جنت ہی جنت کا نظارہ کروا کر اپنی جنت کو جنت سے دور کرے یہ بات ناقابل برداشت نہیں ؟؟؟؟وہ خمار زدہ آواز میں اس کے کان کے قریب چہرہ کیے بولا۔۔۔۔

"زیان پلیز ۔۔۔۔۔!!!"

اس نے پھر سے ہلکی سی مزاحمت کی ۔۔۔

"جنت مجھے معاف کر دو ۔۔بس اب تمہارے بنا گزارہ نا ممکن لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔!!!"

"مجھے معاف کر دو پلیز ہم سب کی زندگی سہل ہو جائے گی ۔اپنا دل بڑا کر لو ۔۔معاف کروگی نا آیت کے لیے ہی سہی ۔۔۔۔۔؟؟؟"

"مجھ سے دور رہو ۔۔۔ہم صرف آیت کے لیے اکٹھا ہوئے تھے ۔۔۔

"تم میری بیوی ہو ۔۔۔ جنت ۔۔۔۔میرا حق ہے تم پر ۔۔۔جب چاہے تم سے اپنا حق وصول لوں "

"مگر میں پچھلی بار کی طرح زبردستی نہیں کرنا چاہتا "

اس بار میں تمہیں تمہاری رضا سے پانا چاہتا ہوں "

وہ اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا ۔۔۔۔

زیان کی اتنی قربت پر جنت کی پیشانی پہ پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہونے لگیں ۔۔۔۔ 

اسے اتنے پاس دیکھ کر اس کی دھڑکنوں کی آواز اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی ۔۔۔۔ اسے سانس لینا دوبھر لگا۔۔۔۔وہ آنکھیں میچ گئی۔۔۔۔

زیان کی بیرڈ اسے اپنے گال کو چھوتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔پھر اپنے گال پر اسکے لبوں کا جان لیوا لمس ۔۔۔۔

"زیان ۔۔۔۔!!!"

اس کی کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے پھر مزاحمت ہوئی ۔۔۔

جیسے ہی زیان اس کے ہونٹوں پر جھکا ۔۔۔۔

جنت کو اپنی آنکھوں کے پردوں پہ پھر سے دو سال پہلے والے واقعہ کی جھلک دکھائی دی ۔۔۔۔

اس نے دونوں ہاتھ زیان کے سینے پر رکھے اسے خود سے دور دھکا دیا۔۔۔۔

"I hate you Zayan ....

I hate you......

وہ اپنی بکھری ہوئی سانسیں بحال کیے نفرت سے پھنکاری ۔۔۔۔اور دوپٹہ لیپٹ کر باہر نکل گئی ۔۔۔۔

زیان ایک بار پھر سے اس کے جھٹک دینے پر افسردہ ہوا ۔۔۔۔

اور ڈھیلے وجود سے آیت کے پاس بیٹھ گیا جو بلاکس کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

وہ کمرے کی  کھڑکی کھولے کھڑی تھی۔۔۔جہاں سے یخ بستہ ہوائیں کمرے میں داخل ہوئے کمرے کا ماحول سرد بنا رہی تھیں۔

  باہر منفی درجہ حرارت تھا ۔برف باری شروع ہوچکی تھی ،روئی کے گالوں کے مانند باہر برف سے ڈھکے ہوئے  پہاڑوں کو مزید ڈھک رہی تھی ۔کتنا دلکش نظارہ تھا یہ ۔۔۔اس کی ہمیشہ سے خواہش رہی تھی ایسے موسم اور نظارے کو دیکھنے کی ۔۔۔آج وہ اسے محسوس کر رہی تھی مگر اس دلکش نظارے میں بھی اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔۔وہ بے دلی سے کھڑکی کے ساتھ لگے کھڑی تھی ۔۔۔اس کے انتظار میں ۔۔۔۔۔جو آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔

وہ کچھ سوچنے میں اتنی محو تھی کہ باہر سے دروازہ کی  کھلنے اور بند ہونے کی آواز بھی سنائی نہیں دی ۔۔۔

"ہیر بند کرو اسے ۔۔۔۔پاگل ہو تم ۔۔۔؟؟؟

"اتنی ٹھنڈ میں بنا شال اور سویٹر کے کھڑی ہو !!!!

سردی لگ جائے گی ....شیر زمان کی گھمبیر آواز اسے اپنے کانوں میں سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا وہ سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔

جیکٹ اتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے اس کے پاس آیا ۔۔۔

"سنائی دے رہا ہے میں کیا کہہ رہا ہو "؟

وہ سرعت سے اس کے قریب آیا اور تلخ آواز میں گویا ہوا ۔۔۔

ہیر نے خالی نظروں سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

"زکام ہوجائے گا ۔۔۔سوئٹر پہنو "اسے کہتے ہوئے شیر زمان نے تیزی سے ونڈو بند کی ۔۔۔۔

تو کمرہ معمول کے مطابق بہتر  ہوا ۔۔۔

"کچھ کھایا ہے ؟؟؟اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

"نہیں "وہ نفی میں سر ہلا کر بولی ۔

"آؤ تمہارے لیے سوپ بنادیتا ہوں اس موسم میں ٹھیک رہے گا ۔۔۔وہ آگے آگے باہر نکل گیا تو ہیر اسکے پیچھے اٹالین طرز کے بنے کچن میں آئی ۔۔۔

"کیا مسلہ ہے ؟؟"اس نے ہیر کو خاموش دیکھ کر پوچھا۔

"ساتھ ساتھ سوپ کی تیاری کر رہا تھا ۔۔۔۔

وہ تھوڑی دیر خاموش رہی پھر بولی ۔۔۔۔

"آپ نے دو بار مجھ سے شادی کی اور ایک بار بھی میری تعریف نہیں کی "اس کے لبوں سے شکوہ پھسلا۔۔۔۔

"سب یہی کہتے ہیں کہ شادی کے بعد دلہا اپنی دلہن کی تعریف کرتا ہے ۔۔۔آپ نے ایک بار بھی نہیں کی ۔۔۔۔

اس کے بے سروپا بات پر شیر زمان نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں دیکھا ۔۔۔

"فضول باتیں مت سوچو ۔۔۔میں نے تمہارا ایڈمیشن کروا دیا ہے سٹڈی پر فوکس کرو باقی کی سٹڈیز کمپلیٹ کرو ۔۔۔

"خالی دماغ شیطان کا گھر ہے ۔اسے ٹھیک طرف لگاؤ ۔۔۔۔

وہ ڈپٹنے کے انداز میں بولا۔

"آپ صبح ہوتے چلے جاتے ہیں۔میں سارا دن اکیلی یہاں بور ہوجاتی ہوں "

"آپ مجھے آفس اپنے ساتھ لے جائیں ۔۔۔

"ہیر تنگ مت کرو ۔۔۔نیو سیٹ اپ ہے۔نئی جگہ ہے ۔یہاں سب سیٹ کرنے میں مصروف ہوں ۔۔۔نئے سرے سے بزنس سٹارٹ کرنا ۔۔۔کسی انجان  ملک میں بہت مشکل ہے سب ۔۔۔بڑی ہو جاؤ اب ۔۔۔تمہیں کیسے آفس ساتھ لے جاؤں ۔۔۔

"اور اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کتابوں میں دل لگاؤ وقت گزر جائے گا ۔۔

وہ اتنے میں سوپ تیار کیے اسے ڈھک کر ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے رکھے واپس کمرے میں آیا تو ہیر نے اس کی تائید کی ۔۔۔۔

"آپ اب مجھ سے پیار نہیں کرتے "وہ شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھ کر تند لہجے میں بولی۔

"میرے پیچھے کس نے بھرا یہ خناس تمہارے دماغ میں ؟؟؟وہ جو کبرڈ سے اپنا آرام دہ سوٹ نکال رہا تھا ۔۔۔کبرڈ کا دروازہ دھاڑ سے مار کر تیز قدموں سے اس کے پاس آیا۔۔۔

"آپ آخر ہیں کیا ؟؟؟وہ

 چلائی  ۔۔۔

"سر پھرا !! 

"جنونی !!

"آوارہ !!

"مگر صرف تمہارا  !!!

وہ ہیر کے سنہری بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر اسکا چہرہ اپنے قریب کیے جنونیت آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے غرایا ۔۔۔

بالوں پر سخت گرفت کی شدت سے ہیر کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں ۔۔۔

ہیر کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسکے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ۔۔۔۔

وہ اسے چھوڑ کر بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹا ۔۔۔۔اس کا جسم تو بستر پر تھا پاؤں زمین پر لٹک رہے تھے ۔۔۔

وہ اپنی اوشن بلیو آنکھوں کو کھولے کمرے کی چھت کو گھور رہا تھا ۔۔۔۔اس کی نیلی آنکھوں میں سرخ ڈورے نمایاں ہوئے۔۔۔۔۔جیسے وہ ابھی لہو چھلکانے لگیں ہوں ۔۔۔۔

پیشانی کی رگیں پھولیں ہوئی دکھائی دینے لگیں۔۔۔۔جیسے وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔۔۔۔۔

جب سے وہ دونوں یہاں آئے تھے شیر زمان کا یہی رویہ تھا ۔۔۔۔صبح گیا شام کو لوٹتا ۔۔۔۔اور آکر بیگانہ بن جاتا ۔۔۔۔وہ یہاں آ تو گیا تھا مگر خود کو وہیں کہیں بھول آیا تھا ۔۔۔۔

"ارے منت کہاں جارہی ہو ؟؟یمنی جو اپنے روم سے شہریار کے ساتھ باہر نکل رہی تھی منت کو بھاگ کر کمرے کی طرف جاتے دیکھ اسے  راستے میں ہی روکا ۔۔۔

"اس نے جلدی سے رخ موڑ کر اپنا چہرہ صاف کیا ۔۔۔

"یہیں ہوں مام "اس نے بھی زائشہ کی دیکھا دیکھی انہیں مام کہنا شروع کردیا تھا ۔۔۔

"ابتسام جو منت کے پیچھے آیا تھا ۔۔۔سب کو ایک ساتھ دیکھ کر وہیں رک گیا ۔۔۔

"ابتسام جلدی چلو اس سے پہلے کہ بارش تیز ہوجائے ۔۔۔فنکشن کا وقت نکل جائے گا "شہریار نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈال کر کہا ۔

"جی بابا "

"تم ایسا کرو منت اور یمنی  کو لے کر نکلو میں حسام اور زائشہ کے ساتھ دوسری گاڑی میں آتا ہوں 

"ٹھیک ہے ۔۔"وہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

حسام خاموش تھا اور زائشہ بھی راستہ بھی خاموشی سے گزر گیا ۔۔۔۔وہ سب انگیجمینٹ کے فنکشن میں پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔۔

ذوناش اور زیگن نے دعا سے ملکر اس کی فیملی سے شاہ من اور اس کا رشتہ طے کر دیا تھا ۔دونوں طرف سے رشتہ پکا ہوتے ہی آج انگیجمینٹ کی چھوٹی سی تقریب رکھی گئی تھی جس میں صرف گھر والے ہی شامل تھے ۔۔۔۔۔

بارش تھم چکی تھی ۔۔بارش کے بعد ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو موسم کو مزید خوشگوار بنا رہی تھی ۔۔۔۔سب حویلی سے نکل کر ساتھ والے گھر میں داخل ہوگئے ۔۔۔۔

مسسز نعیم نے انگیجمینٹ کے لیے لان کا انتخاب کیا مگر بارش کی وجہ سے سارا سیٹ اپ خراب ہوگیا ۔۔۔جس کی وجہ سے انہیں اندر لاونج میں دوبارہ سے نیا سیٹ اپ تیار کرنا پڑا سب کے بیٹھنے کے لیے ۔۔۔۔

شاہ من نے سلور گرے کلر کا پینٹ کوٹ پہن کر سکائی کلر کی شرٹ پہن رکھی تھی جس میں اس کی وجیہہ پرسنالٹی نمایاں ہورہی تھی ۔۔۔دعا نے بھی لائٹ سکائی کلر کا جدید طرز کا شارٹ کامدار فراک اور پلازو زیب تن کر رکھا تھا ۔۔۔ہلکے پھلکے میک اپ میں بھی وہ شاہ من کے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی ۔۔۔۔

دونوں کو ساتھ بٹھا کر رسم ادا کی گئی ۔۔۔۔پرتکلف کھانے کے بعد سب واپس حویلی لوٹ آئے ۔۔۔۔

"زائشہ تم آج یہیں رک جاؤ "بریرہ نے کہا ۔۔۔۔

"اوہ سوری آنٹی دراصل میری صبح کی فلائیٹ ہے۔اور مجھے زائشہ کی  پیکنگ میں  مدر کی ضرورت ہے۔پھر کبھی آکر رہ لے گی ۔۔۔۔حسام نے زائشہ کے مثبت جواب دینے سے پہلے سہولت سے  اپنی بات کہہ دی ۔

زائشہ خاموشی سے سر جھکائے ہوئے بیٹھ گئی ۔۔۔۔

"منت تم ہی رک جاؤ شادی کے بعد ایک بار بھی یہاں رہنے نہیں آئی "زرشال نے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"آنٹی ۔۔۔ابتسام زرشال کی بات کاٹ دی۔۔۔

اس سے پہلے کہ منت جواب دیتی ۔۔۔۔

"منت پھر کبھی رک جائے گی صبح میری ایک آفیشل میٹنگ ہے۔اور منت ہی مجھے روزانہ وقت پر اٹھاتی ہے ۔ورنہ میٹنگ کے لیے وقت پر نکل نہیں پاؤں گا ۔۔۔۔اس نے بہانہ بنایا۔

"ارے بیٹا جی منت کے آنے سے پہلے تمہاری مما ہی تمہیں اٹھاتی تھیں ۔۔۔۔کوئی پاور فل بہانا بناؤ اسے ساتھ کے جانے کا ۔۔۔۔جیسے حسام نے بنایا ہے "شہریار نے مسکرا کر کہا ۔۔۔تو اس کی تقلید میں سب مسکرانے لگے ۔۔۔۔

"میں نے کوئی بہانا نہیں بنایا "حسام سب کے سامنے گڑبڑا کر رہ گیا ۔۔۔۔

"ویسے ہی میرے دونوں بیٹے بیویوں کو پیارے ہوگئے ہیں "

شہریار نے ہنستے ہوئے کہا ۔

"یہ تو بالکل ٹھیک کہا آپ نے "شاہ من نے شہریار کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔

"وہ دن دور نہیں جب تم بھی بیوی کو پیارے ہوجاو گے "ضامن نے ٹکڑا لگایا ۔۔۔

"جی بالکل آپ کی طرح "شاہ من کہاں پیچھے رہنے والوں میں سے تھا ۔اس نے فورا ضامن کی بات کا بدلہ چکایا ۔۔۔۔عیش بھی ان کی نوک جھوک پر مسکرانے لگی ۔۔۔کچھ دیر وہاں بیٹھ کر 

 سب واپس اپنے گھر کو لوٹ آئے ۔۔۔ 

زائشہ واپس آئی اور کبرڈ سے اپنے کپڑے لیے تبدیل کرنے کے لیے واش روم کی طرف جا رہی تھی کہ حسام نے اس کی کلائی سے کھینچ کر اسے اپنے پاس بستر پر بٹھایا ۔۔۔۔

"ابھی تو میں نے ٹھیک سے تعریف بھی نہیں کی اور تم مجھ سے نظریں چرا کر جا رہی ہو ۔۔۔۔

وہ آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔۔زائشہ کی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگیں ۔۔۔۔

"زائشہ آنسو مت بہاؤ "تمہارے یہ آنسو میرے دل پر گرتے ہیں"وہ اس کی تھوڑی کو اوپر اٹھا کر آہستگی سے بولا۔

"جب آپ مجھے شک بھری  نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو میرا دل کرتا ہے میں اپنے آپ کو ختم کرڈالوں "کسی کی بھی زندگی میں زبردستی اپنی جگہ نہیں بنائی جا سکتی ،اگر آپ کا دامن پاکیزہ ہو تو کسی کی زندگی میں رہنے کے لیے بھیک نہیں مانگی چاہیے"اگر کسی کو آپ پر اعتماد نہیں تو خاموشی سے ایک طرف ہوجانے میں ہی بھلائی ۔۔۔اور مجھے میری عزت نفس بہت پیاری ہے۔ہر لڑکی کی طرح "

"آپ نہیں جانتے حسام میں آپ سے کتنا پیار کرتی ہوں ۔۔۔آپ کو دیکھے بنا دن نہیں گزرتا ۔۔۔آپ کو محسوس کیے بنا چین نہیں آتا ۔۔۔جب تک آپ پیار سے دیکھ نا لیں سکون نہیں ملتا کہیں ۔۔۔آپ کی یہ بے اعتنائی یہ بے اعتباری مجھے مار ڈالے گی خدارا مجھ پر یہ ظلم مت کرنا ۔۔۔۔وہ منہ پر ہاتھ رکھے بھبھک بھبھک کر رونے لگی ۔۔۔۔

"زائشہ !!!!کیا تمہیں میری آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری نظر آئی ؟؟؟؟اگر ایسا ہے تو میں ابھی ان آنکھوں کو بینائی سے محروم کردوں گا ۔۔۔۔

زائشہ نے اس کی بات پر تڑپ کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"محبت کی پہلی سیڑھی ہی اعتبار ہوتی ہے ۔مجھے اپنی محبت پر خود سے بھی زیادہ اعتماد ہے ۔زائشہ تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم پر شک کرسکتا ہوں ۔یا تم پر کوئی بے وفائی کا بہتان لگا سکتا ہوں ۔۔۔

"یہ میری ہی محبت کی توہین ہوگی اگر ایسا ہوا تو ۔۔۔۔

"زائشہ میری محبت اتنی گئی گزری نہیں جو سالوں کا پیار پل بھر میں روند دے  ایک غلط فہمی کی زد میں آ کر "

"ادھر دیکھو میری طرف ۔۔۔"کیا میں نے تم سے کچھ کہا ؟؟؟

وہ اس کی نم آنکھوں میں دیکھ کر بولا ۔۔۔

زائشہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

"میں جانتا ہوں وہ ایک غلط فہمی ایک حادثے کے سوا اور کچھ نہیں تھا ۔۔۔۔

"ویسے۔۔۔۔ ایک بات تو اچھی ہوئی "وہ مسکرا کر بولا تاکہ ماحول میں چھائی ہوئی تلخی ختم ہو جائے۔۔۔۔

زائشہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

"تم نے آج انجانے میں ہی سہی اقرار محبت کر لیا ۔۔۔۔۔

وہ اپنی باتوں کو یاد کرتے ہوئے شرمندہ ہوئی ۔۔۔واقعی وہ جلدبازی میں جانے کیا کیا بول گئی تھی ۔۔۔۔

"تم نے تو اظہار کردیا ۔۔۔اب میرے پیار کی باری "وہ ذومعنی انداز میں اسے دیکھتے ہوئے اپنے بازوں کے گھیرے میں لیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"مجھے چینج کرنا ہے "وہ اس کے حصار کو توڑنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

"چینج بھی ہوجائے گا اسی پیار کے سلسلے کی کڑی ہے وہ بھی۔ ",حسام اسے بستر پر لیٹاتے ہی اس پر جھکا ۔۔۔۔

"پلیز حسام پہلے میری بات سنیں "وہ منمنا کر بولی ۔

"آپ اپنا سنانے کا کام جاری رکھیں  ۔۔۔ہم اپنا پیار کرنے کا کام جاری رکھتے ہیں ۔کہتے ہی لیمپ آف کیے اس کی گردن پر اپنے لب رکھ گیا ۔۔۔۔

"حسام آپ پاپا بننے والے ہیں "بالآخر اس نے ہمت کیے اسے بتا ہی دیا ۔۔۔۔

"کیا ؟؟؟

"کیا کہا زرا پھر سے کہنا "وہ واپس لیمپ آن کیے پر جوش آواز میں بولا۔

"آپ پاپا ۔۔۔وہ کہتے ہی شرم سے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپا گئی ۔۔۔۔

"سچ۔۔۔۔زائشہ آج تم نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے ۔۔۔۔ہمارے پیار کی نشانی ہوگی وہ ۔۔۔۔تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے۔۔۔۔۔

اب اسی خوشی میں میرا پیار دوگنا ہوجائے گا ۔۔۔۔

اس نے واپس زائشہ کو اپنے حصار میں لیے سائیڈ لیمپ آف کر دیا ۔۔۔۔ساری کثافتیں دھل گئیں تھیں ۔۔۔سب پہلے جیسا خوشنما ہو گیا تھا ۔۔۔۔وہ خود پر اور حسام کے پیار پر جتنی بھی نازاں ہوتی کم تھا ۔۔۔۔

وہ حسام سے پیار وصولتی ہوئی اپنے پیار کی سلامتی اور اسکے تادم قائم و دائم رہنے کی دعائیں مانگنے لگی ۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ابتسام اور منت واپس گھر آ کے تھے ۔۔۔ابتسام چینج کیے بستر پر دراز تھا ۔۔۔منت سب چیزیں سمیٹ کر رکھ رہی تھی جونہی کبرڈ سے اپنے کپڑے نکالنے تبدیل کرنے کے لیے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کو محسوس کرتے ہی مڑی ۔۔۔۔

اس کا ناک ابتسام کے سینے سے جا لگا۔۔۔

ابتسام نے اس کے چہرے کو قریب سے دیکھا ۔۔۔

بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں نمی تھی ۔گال سرخی مائل دکھائی دے رہے تھے جیسے رونے کے بعد رگڑ رگڑ کر صاف کیے گئے تھے ۔گلابی کٹاؤ دار لب باہم پیوست تھے ۔منت کو اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔

ابتسام نے اس کے ہاتھ سے کپڑے لے کر واپس کبرڈ میں پھینکے ۔۔۔اور وہاں سے ہینگ کی ہوئی وائٹ سلک کی ریشمی نائیٹی نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمائی ۔۔۔

منت نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

"جاؤ یہ تبدیل کر کہ آؤ "اس نے حکمیہ انداز میں کہا۔

منت کا دل تو چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر روئے اور یہ نائٹی واپس اس کے منہ پر مارے ۔۔۔اسے صفائی دینے کی بجائے یا اعتماد میں لینے کی بجائے ۔۔۔وہ اپنا ہی رعب جما رہا ہے ۔۔۔۔مگر اپنی عادت کے تحت خاموشی سے سر جھکائے اسکے ہاتھ سے نائیٹی لیے واش روم میں چلی گئی ۔۔۔

جب واپس باہر آئی تو کمرے کا ماحول ہی بدل چکا تھا ۔۔۔

نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں وہ بستر پر نیم دراز سا لیٹے ہوئے دکھائی دیا ۔۔۔

منت اپنا تکیہ اٹھا کر صوفے پر رکھنے لگی ۔۔۔۔

"منت شرافت سے واپس آؤ ۔۔۔ورنہ اگر میں آیا تمہیں لینے تو بہت برا ہوگا "وہ دھونس بھرے انداز میں بولا ۔۔۔

منت جلنے اور کڑھنے کے سوا اور کچھ نا کر سکی ۔۔۔۔وہ بھی ضد میں آ چکی تھی اس کی بات نظر انداز کیے ۔دھپ سے صوفے پر بیٹھی ۔۔۔

ابتسام اپنی جگہ سے اٹھا اور تیز قدم اٹھاتے ہوئے صوفے تک آیا ۔۔۔بنا ایک بھی لمحہ ضائع کیے اس نے منت کو بانہوں میں بھرا ۔۔۔

"چھوڑیں مجھے "اس نے ابتسام کے سینے پر مکے برسانے شروع کر دئیے ۔۔۔۔

وہ اسے اپنی بانہوں میں لیے ہی بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹا ۔۔۔۔

منت نے خائف نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔

"منت واپس پہلے جیسی بن جاؤ ۔۔۔مجھے وہی منت پسند ہے ۔جو میری ہر بات مانتی ہے ۔بن کہے سب جان کر میرا ہر کام کرتی ہے۔کبھی مجھے شکایت کا موقع نہیں دیتی ۔میری ہر چیز کا خیال رکھتی ہے۔تمہاری انہیں خوبیوں نے مجھے تمہارا اسیر کیا ہے ۔۔۔۔یہ ضدی منت میری نہیں ہوسکتی ۔۔۔وہ اس کے ریشمی گیسوؤں کو سنوارتے ہوئے کان کے پیچھے اڑس کر بولا۔۔۔۔

"جو تم نے دیکھا وہ صرف ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں تھا ۔۔۔۔۔میں سمجھا تھا تم ہو کچن میں "

"میں صبح ہی تم سے اپنے رویے کے لیے معافی مانگنا چاہتا تھا۔مگر وقت کی قلت کے باعث وہ کام ادھورا رہ گیا ۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا تمہیں اس طرح منانے کے چکر میں کام بگڑ جائے گا ۔۔۔۔

ابتسام نے خود لیٹ کر منت کو اپنے اوپر گرا لیا ۔۔۔منت کی تھوڑی اس کے سینے پر تھی ۔

وہ پلکیں چھپکائے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

" اس بات کو لے کر کبھی اپنے دل میں بدگمانی مت پالنا ۔۔۔زائشہ سے بے شک میرا رشتہ تھا مگر وہ سب وقت کے ساتھ ختم ہوگیا ۔۔۔۔اب وہ میرے بھائی کی بیوی ہے۔میں سب بھلا کر آگے بڑھ چکا ہوں ۔۔۔اگر آگے نا بڑھتا تو کبھی بھی تمہیں اپنے عقد میں نا لیتا ۔۔۔اب تم میری عزت ہو ۔میری ہر خوشی غمی صرف تمہیں سے وابستہ ہے ۔

بے شک میں اپنے پیار کا اظہار کرنے میں تھوڑا سا کنجوس ہوں "

"تھوڑے نہیں بہت زیادہ "وہ جو کب سے اس کی ایک ایک بات کو غور سے سن رہی تھی اس بات پر چپ نا رہ سکی ۔۔۔

"یار منت مجھ سے یہ لفاظی نہیں ہوتی جانے کیسے لوگ اپنی بیوی کے حسن میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔میں ایک پریکٹیکل بندہ ہوں اپنے پیار کا اظہار بھی عملا کر کہ دکھاؤں گا "

وہ منت کو تکیے پر لٹاتے ہی اس پر جھکا ۔۔۔۔

"اب یہ بتاؤ تمہیں میرا ساتھ قبول ہے؟ "

"اگر آپ کا ساتھ قبول نا ہوتا تو کبھی نکاح کے لیے حامی نہیں بھری ہوتی "وہ بھی اسی کی طرح اسکو جواب لوٹا گئی ۔۔۔۔

"میرا مطلب یہ والا ساتھ نہیں تھا وہ ساتھ ہے ۔جو میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے۔

اسکی بات پر منت کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے ۔۔۔۔

ابتسام نے اپنیں پیشانی منت کی پیشانی سے لگائی ۔۔۔یوں کہ ابتسام اور منت کی پلکیں آپس میں مس ہونے لگیں ۔۔۔

"آپ تو ہمیشہ میری آنکھیں نکالنے کے در پہ ہوتے تھے ۔۔۔آج یہ التفات کیوں ؟؟؟منت آہستگی سے بولی ۔۔۔۔

"کیونکہ اب ان آنکھوں میں صرف اپنا آپ دیکھنا چاہتا ہوں اس لیے "کہتے ہی وہ سائیڈ لیمپ آف کر گیا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"آؤ جنت وہاں کیوں رک گئی ؟"

زرشال نے جنت کو اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے دیکھ کر کہا ۔

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے ان کے قریب آ کر بستر پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

"مما کیا میں آج رات یہیں رک جاؤں آپ کے ساتھ "اس نے پوچھا ۔۔۔

"بیٹا مگر آیت کہاں ہے ؟

"مما وہ زیان کے ساتھ روم میں ہے "

"تو اسے کون دیکھے گا رات میں جاؤ اسے بھی لے آؤ پھر "

"نہیں مما اسے زیان سنبھال لے گا ۔روز وہی سنبھالتا ہے رات کو مجھے نہیں اٹھاتا آیت کا فیڈر بنانے کے لیے "

زرشال نے حیرت سے جنت کی طرف دیکھا۔۔۔۔

زمارے بے شک جتنی مرضی محبت لٹاتا تھا زرشال پر ۔۔۔مگر اس نے کبھی رات کو اٹھ کر بچوں کو نہیں سنبھالا تھا ۔

"اچھا ٹھیک ہے تم آرام کرو ۔ویسے بھی زمارے کو ہاسپٹل سے ایک ایمرجنسی کال آئی تھی وہ صبح ہی واپس آئیں گے ۔

وہ دونوں بستر پر لیٹ گئی۔

"جنت کیا بات ہے ؟؟اگر کوئی پریشانی ہے تو مجھ سے شئیر کرو "انہوں نے جنت کو جاگتے دیکھ کر پوچھا ۔

"مما وہ مجھ پر حق جتانے لگا ہے اب میں مزید اسے جھیل نہیں سکتی "اسکے لہجے سے ہی درشتگی محسوس ہوئی زرشال کو ۔

"جنت میں جانتی ہوں ۔تمہارے ساتھ بہت برا کیا اس نے ۔۔۔اگر ایک ماں کے لحاظ سے سوچوں تو اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کرنے والے کو کبھی معاف نا کروں ۔۔۔۔

مگر میں ایک عام عورت بن کر کہتی ہوں کہ ہو سکے تو اسے معاف کردو اسی میں بہتری ہے"

"مما یہ آپ کہہ رہی ہیں ؟وہ بے یقین نظروں سے دیکھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی۔

"ہاں جنت !!!!

"جب تم نے سب کے سامنے اس کا کردار کلئیر نہیں کیا ۔۔۔اسے تم پر غصہ آیا۔۔۔۔اس کے والدین نے اس پر تمہاری وجہ سے اعتبار نہیں کیا ۔۔۔اسوجہ سے بھی اسے تم پر ہی غصہ تھا ۔۔۔ میں مانتی ہوں تمہاری زیادہ غلطی بھی نہیں تھی مگر کچھ تو تھی ۔۔۔۔یہی غلط فہمی اس حادثے کی وجہ بنی ۔۔۔۔اس نے اپنا سارا غصہ تم پر نکال دیا ۔۔۔۔

جنت دیکھا جائے تو عورت کو مرد کے لیے ہی بنایا گیاہے ۔اس کے سکون کے لیے ۔۔۔

جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے اماں حوا کو نکالا گیا تھا ۔۔۔۔

اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس میں عورت کو مرد کی برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔اسے جائیداد میں حق دیا گیا ہے۔

مگر کسی دوسرے مذہب میں عورت کی کوئی حثیت نہیں ۔

اور یہی مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ طلاق اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں سب سے نا پسندیدہ عمل ہے۔

"کیا کرو گی اس سے علیحدگی اختیار کر کہ ؟؟؟طلاق لے کر ؟؟؟ہم کون سا ساری عمر تمہارے ساتھ رہنے والے ہیں۔زندگی کا کیا بھروسہ کبھی بھی دغا دے جائے ۔۔۔ ایسے میں کون تمہیں سہارا دے گا ۔۔۔ اگر طلاق ہو بھی جاتی ہے تو تمہارے بابا کیا تمہیں عمر بھر یہیں بیٹھائے رکھیں گے ؟؟؟نہیں کبھی بھی نہیں وہ ضرور تمہیں کسی مضبوط ہاتھوں میں سونپ دیں گے تمہارے بہتر مستقبل کے لیے ۔۔۔۔

"مگر مما میں دوسری شادی ہر گز نہیں کروں گی ۔۔۔ایک تجربہ ہی کافی ہے میرے لیے "وہ اٹل انداز میں بولی۔

"اور تمہیں کیا لگتا ہے ۔کہ تمہارے بابا مان جائیں گے ؟؟؟اگر تمہاری دوسری شادی ہو جاتی ہے تو کیا وہ انسان آیت کو ایک آگے باہر کا پیار دے پائے گا۔۔۔۔وہ تمہاری بیٹی کے لیے نا محرم ہوگا ۔۔۔ جنت میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو "

"مما میں نے کہہ دیا کہ میں اس بارے میں کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتی "

"اسی لیے تو کہہ رہی ہوں معاف کردو اسے ۔۔۔۔میں نے اس کی آنکھوں میں شرمندگی دیکھی ہے۔اگر تم اس کے ساتھ اپنی نارمل زندگی کی شروعات کرو گی تو دیکھنا وہ ساری عمر تمہارا احسان مند رہے گا ۔۔۔اپنے کیے پر ہمیشہ پشیمان رہے گا ۔

لیکن دوسرے مرد کا کیا بھروسہ ۔۔۔کہ وہ تمہیں طلاق یافتہ ہونے کا طعنہ نہیں دے گا ۔

جنت نے ان کی بات پر تڑپ کر دیکھا ۔۔۔ 

"ایک ماں بن کر سوچوں تو واقعی میں تمہیں ایسا مشورہ کبھی نہیں دیتی جنت مگر دنیا کی یہی سچائی ہے یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔عورت کو ہمیشہ جھک کر رہنا پڑتا ہے ۔عورت کو تو نرم مٹی کے خمیر سے گوندھا گیا ہے۔اس کا دل نرم مٹی سے بنایا گیا ہے ۔۔۔مرد اسے چاہے جس مرضی سانچے میں ڈھال لے ۔۔۔وہ ڈھل جائے گی ۔۔۔۔

"میں مانتی ہوں اس نے تمہارے ساتھ جو کیا اسکا طریقہ بہت ہی غلط تھا ۔مگر اس نے نکاح کیا تھا تم سے اس نے اپنا حق لیا تم سے چاہے غلط ہی سہی ۔۔۔"

"مما ہمیشہ عورت کو ہی کیوں جھکنا پڑتا ہے "؟

وہ شکستہ وجود لیے ان کی گود میں سر رکھ گئی ۔۔۔ 

زرشال اس کے بال سہلانے لگی ۔۔۔۔

"جنت اپنی بیٹی کے بارے میں سوچو اب اپنے بارے میں سوچنا چھوڑ دو ۔اسے ایک سگے باپ کے علاؤہ اور کوئی اتنا پیار نہیں دے سکتا ۔۔۔ 

"مگر مما جب جب وہ انسان میرے قریب آتا ہے ۔مجھے پھر سے اس کا وہی ظلم یاد آجاتے ہے ۔اس کے کہے گئے الفاظ میرا سینہ چھلنی کر جاتے ہیں ۔میں کیا کروں میں اسے معاف نہیں کر پا رہی "وہ رندھے لہجے میں بولی۔

"اسے ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش کرو "

میں جانتی ہوں کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔مگر جنت بیٹا تمہاری اور آیت کی بھلائی اسی میں ہے ۔ایک بار سوچنا ضرور اس بارے میں ۔۔۔میں تم پر زور نہیں ڈالتی کوئی بھی فیصلہ لینے پر ۔۔ مگر بیٹا آیت کو اپنے ذہن میں رکھ کر ہی کوئی بھی فیصلہ لینا ۔۔۔ 

وہ کتنی ہی دیر یونہی آپس میں بیٹھیں دل کا بوجھ ہلکا کرتی رہیں ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنی تیاری پر تفصیلی نگاہ ڈالتے ہوئے اپنا بیگ لیے باہر نکلی ۔۔۔۔اور سیڑھیاں اترنے لگی۔

"عیش بیٹا تم بیگ کے کر کہاں جا رہی ہو ؟

ذوناش نے سادہ انداز میں اس سے استفسار کیا ۔۔۔

"وہ یہ بیگ گھر بھجوا رہی ہوں کپڑے دھل جائیں گے "

"تو ادھر بھجوانے کی کیا ضرورت ؟؟؟یہاں دھل جائیں گے کپڑے "

"نہیں۔۔۔۔وہ دراصل دوسرا سامان لے آؤں گی ۔۔۔ 

"چلو ٹھیک ہے جیسا تمہیں مناسب لگے ۔۔ 

"آؤ ناشتہ کر لو "

"جی "کہتے ہوئے وہ ڈائننگ ٹیبل کے قریب موجود چئیر پر بیٹھ گئی۔اور ناشتہ کرنا شروع کیا ۔۔۔۔

"ضامن کب گیا تھا ؟؟

"وہ نا اسے رات کو کسی کی کال آئی تھی تو تب ہی نکل گیا تھا کہہ رہا تھا کسی ضروری کام کے سلسلے میں آؤٹ آف سٹی جا رہا ہے دو دن میں واپس آئے گا ۔۔ تو میں نے سوچا میں بھی گھر واپس چلی جاؤں پاپا کو بھی دیکھ لوں "

"ہاں اچھی بات ہے ۔تم وہاں کا بھی چکر لگا لو "ذوناش نے کہا تو وہ اپنا ناشتہ ختم کیے وہاں سے اٹھنے لگی ۔۔۔۔

"عیش بیٹا آج زیگن کی طبیعت کچھ نا ساز لگ رہی ہے شاید وہ آفس نہیں جا پائیں گے میں نے انہیں میڈیسن دے کر ریسٹ کرنے کے لیے کہا ہے ۔تم آج خود ہی آفس کا کام دیکھ لینا ۔۔۔ 

"جی ٹھیک ہے۔میں دیکھ لوں گی پہلے وہیں جارہی ہوں ۔آپ بے فکر ہوجائیں ۔

اوکے پھر اللّٰہ حافظ !

وہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی ۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ہیلو !اسلام وعلیکم!

کیسی ہو ؟

"وعلیکم السلام!

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔تم کیسے ہو "؟

"میں تو انگیجمینٹ کے بعد کچھ زیادہ ہی ٹھیک ہوں ویسے رات کو تو آپ غضب ڈھا رہی تھیں ۔وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوا ۔

"بہت شکریہ جناب آپ کا "

"پھر شادی کا کب ارادہ ہے ؟

شاہ من نے پوچھا ۔

"میں کیا بتاؤں وہ تو گھر والے ہی بتائیں گے "

"یہ کیا بات ہوئی بھلا ۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولا

"بھئی اتنی جلدی تھی شادی کی تو انگیجمینٹ کیوں کروائی سیدھا شادی کی بات کرتے ۔۔۔

"لگتا ہے اب ایسا ہی کچھ کرنا پڑے گا ۔۔۔۔

"دعا تم سے ایک بات پوچھوں ؟؟؟اگر تمہیں برا نا لگے تو ۔

"جی پوچھیں "۔

"دعا کیا تم شادی کے بعد بھی اپنی جاب جاری رکھنا چاہتی ہو ؟؟؟

"کیوں تمہیں کوئی اعتراض ہے میری جاب سے ؟

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔بس ویسے ہی پوچھ لیا۔

"شاہ آپ کھل کر بات کریں۔جو دل میں ہے  میں نہیں چاہتی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر ہمارے رشتے میں کوئی بھی غلط فہمی پیدا ہو ۔

"دراصل دعا میں نہیں چاہتا کہ تم شادی کے بعد ائیر ہوسٹس کی جانب کرو "

"آپ مجھے اس بات کی وجہ بتانا پسند کریں گے ؟؟؟

"جب ایک عورت مرد کے نکاح میں آجاتی ہے۔تو اس کی عزت کی حفاظت کرنا اس مرد کے فرائض میں شامل ہوجاتا ہے ۔

آخرت میں وہ مرد اپنی بیوی اور بچوں کے ہر عمل پر جواب دہ ہوگا ۔۔۔

اور میں نہیں چاہتا ہے ۔کہ میرے گھر کی عزت کو نا محرم بھانت بھانت کے لوگ آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں ۔

لیکن میں تمہیں فورس نہیں کروں گا یہ جاب چھوڑنے پر ۔۔۔ جیسا تم چاہو گی وہی ہوگا ۔ہر ایک انسان کا اس کی زندگی پر حق ہوتا ہے ۔تم نے مجھ سے پوچھا اسی لیے تمہیں اپنے دل کی بات بتائی ہے برا مت منانا ۔۔۔۔

دعااسکی گہری باتیں سن کر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی ۔۔۔۔۔

"شاہ مجھے امید نہیں تھی کہ تم ایسی بات میرے سامنے رکھ کر مجھے لمحوں میں قائل کر لو گے ۔

"مجھے بالکل بھی برا نہیں لگا ۔۔۔میرا شوق تھا یہ جاب کرنا کوئی مجبوری نہیں ۔کہ میں اسے چھوڑ نہیں سکتی ۔اور جس طرح تم نے مجھے سمجھایا ہے۔تم نے تو مجھے اپنا فین بنا لیا ۔۔

"نہیں مجھے فین نہیں ۔۔۔بیوی چاہیے "

"بیوی بننے میں تو وقت لگے گا "

"مجھے وہ وقت قریب لانا آتا ہے "

"ہمممم۔۔۔۔۔دیکھتے ہیں ۔۔۔کیا کرتے ہیں آپ "۔

"بہت جلد میری بیوی بن کر میرے پاس ہوں گی "

باتوں کا یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا ۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج ویکینڈ کی وجہ سے وہ گھر تھا ۔۔۔کل ہیر کے ساتھ وہ انجانے میں تلخ رویہ اختیار کر گیا تھا ۔۔۔۔وہ اپنی ماں کے کہنے پر سب چھوڑ تو آیا تھا مگر اپنے جینے کا مقصد اسے ادھورا سا لگنے لگا تھا۔۔۔۔سب کچھ پا کر بھی خود کو ادھورا سا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔اور اپنے اندر کا انتشار من میں پھیلا خلفشار اس پر انڈیل گیا ۔۔۔آج اسی زیادتی کا ازالہ کرنے کے لیے وہ ہیر کو گھر سے دور ایک مشہور تفریحی مقام پر لایا تھا ۔۔۔وہاں کا موسم ٹھنڈا اور آج دھوپ نکلنے کے باعث نہایت  خوشگوار تھا۔ورنہ عام طور پر تو روزانہ سیاہ بادلوں کا بے بسیرا ہوتا وہاں ۔۔۔۔ٹھنڈی ہوائیں آسمان پر سرمئی بادلوں سے اٹھکیلیاں کر رہی تھیں۔وہاں صبح کے دس بج چکے تھے۔سڑکوں پر ٹریفک، اور انسانوں کا رش سا لگا ہوا تھا۔ایسے میں وہ دونوں ساتھ ساتھ سفید برف پر چلتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ہیر  نے ریڈ رنگ کی شرٹ اور جینز  پر سیاہ لانگ کوٹ پہنے ہوئے تھی۔بال جوڑے میں باندھے ہوئے تھے اور گرم شال کو لپیٹ رکھا تھا ۔پاؤں میں جراب اور بلیک لانگ شوز تھے۔۔شیر زمان نے جاگرز اور بلیو جینز پر بلیو  شرٹ پہنے اور بلیک لیدر کی جیکٹ پہنے اس کے ساتھ چلتے ہوئے باکمال دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔

کئی لوگوں کی رشک بھری نظریں انہیں دوبارہ مڑ کر دیکھنے پر مجبور ہوگئیں ۔۔

دور سے اس کی نظریں وائر کیبن پر لگی تھیں۔۔۔

"مجھے اسمیں بیٹھنا ہے "اس نے فرمائش کی ۔۔۔

"کیا ہم اس میں ۔ جا سکتے ہیں؟"پرجوش لہجے میں پوچھا ۔

"ہاں آؤ ٹکٹس لیتے ییں۔"شیر زمان اس کو بازو سے پکڑ کر ٹکٹ لینے بڑھا۔۔

پھر اسے ساتھ لیے اس میں سوار ہوگیا ۔۔۔۔

اب وہ شیشے کے وائر کیبن میں تھے دور دور تک دکھائی دیتے برف سے ڈھکے پہاڑوں کو دیکھنا بہت دلکش لگ رہا تھا ۔۔۔۔ اور قریب پہنچ کر وہ اور بھی خوبصورت لگنے لگا تھا۔وہ سر اٹھا کر اس کی اونچائی دیکھتی حیران ہو رہی تھی۔

 اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔یہاں سے سارا شہر نظر آ رہا تھا۔دور دور تک۔آسمان بھی بہت وسیع تھا۔سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا سارے شہر کو روشن کیے ہوئے تھا۔۔۔۔

وہ دونوں اس میں سفر کیے باہر نکلے تو تیز ہوا ہیر کے سنہری بالوں اور شال کو اڑا رہی تھی۔

وہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ برف کی وجہ سے ہیر کا پاؤں پھسلا۔۔۔

شیر زمان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس اپنے ساتھ لگایا اور گرنے سے بچایا۔۔۔

"دھیان سے ہیر ",

"مجھے آئس کریم کھانی ہے "اس نے سامنے ہی آئس کریم پارلر دیکھ جھٹ فرمائش کر ڈالی ۔۔۔

"ہیر گلہ خراب ہو جائے گا ۔۔پلیز اب یہ مت کہنا "وہ اپنی سرخ ہوتی ناک سکوڑ کر بولی۔

"جب تمہیں سب پتہ ہے تو فضول ضد کیوں کرتی ہو واقعی بہت سردی ہے ۔آئس کریم مت کھاؤ "

"پلیز ۔۔۔۔وہ منت بھرے انداز میں بولی تو شیر زمان کے لبوں پر بھولی بسری مسکراہٹ آٹہری ۔۔ وہ آئس کریم پارلر سے دو کون لے کر آیا ۔۔۔

ہیر اپنی کون کھانے لگی ۔۔۔۔

ایک بچی اس کے قریب سے گزر رہی تھی اپنی مدر کے ساتھ وہ للچائی ہوئی نظروں سے ہیر کو آئسکریم کھاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

شیر زمان نے اپنی آئس کریم بچی کو پکڑا دی ۔۔۔تو وہ خوش ہوگئی ۔۔۔۔

"یہ کیا ِکیا ہے آپ نے ؟؟

"کیا "اس نے سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔۔۔

"آپ نے اپنی آئس کریم اس بچی کو کیوں دے دی "؟

"اس کا نجانے کتنا دل کر رہا ہوگا ۔بس یہی سوچ کر دے دی ۔۔۔

"مگر آپ کو بھی تو آئس کریم پسند تھی پھر کیوں دی ؟

"تو کیا ہوا ۔۔۔ دیکھو ہیر اگر ہم اپنی من پسند چیز کسی کو دیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی من پسند چیز سے نواز دے گا ۔

جیسے انہوں نے تمہیں مجھے نواز دیا ۔۔۔

"یعنی کہ میں آپ کی من پسند ہوں ؟؟؟

"کوئی شک ہے تمہیں ؟؟؟اس نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔۔

"ہے "اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔۔۔

"وہ کیا؟؟اب کی بات لہجہ تھوڑا سا سخت تھا ۔۔۔

"آپ بہت بدل گئے ہیں ۔۔۔۔مجھے پہلے والے چاہیے ۔۔۔۔

شیر زمان اس کی بات سن کر ہونٹ بھینچ گیا ۔۔۔۔

اور جینز میں ہاتھ گھسائے ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔۔ 

"ہیر شام ہونے والی ہے چلو گھر چلیں "

"گڈ مارننگ !

منت جو آئینے کے سامنے کھڑی اپنے گیلے بالوں کو برش سے سلجھا رہی تھی ۔۔۔ابتسام کی خمار زدہ نیند سے بوجھل آواز سن کر اسکے ہاتھ سے برش چھوٹ کر نیچے گرا ۔۔۔۔

"This is not fair"

ویکینڈ تھا تم اتنی جلدی کیوں اٹھ گئی ؟؟؟

"ادھر آؤ "

منت کے چہرے پر تو گزری ہوئی رات کی ہی سرخیاں کم نہیں ہوئی تھی کہ وہ پھر سے اسے اپنے پاس بلا رہا تھا ۔۔۔

منت پلکیں جھکائے اس کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔اسے اپنے قدم من من بھر کے لگنے لگے ۔۔۔۔

ابتسام نے ہاتھ ڈال کر سائیڈ ٹیبل کا دارز کھولا اور اس میں سے ایک کیس نکال کر ایک خوبصورت رنگ برآمد کی ۔۔۔۔"لاؤ ہاتھ دو "

اس نے منت کا ہاتھ تھام کر اس کی مخروطی انگلی میں رنگ پہنا دی ۔۔۔۔

"یہ گفٹ کس لیے ؟اس نے بار حیا سے جھکی ہوئی لرزتی پلکوں کو اٹھا کر پوچھا ۔۔۔

"گفٹ دینے کی کوئی وجہ تو نہیں ہوتی ۔۔۔ویسے یہ میں نے تمہیں منانے کے لیے لی تھی ۔

"کیسی لگی "

"بہت پیاری ہے "وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔

"اور میں ؟؟؟

"آپ بھی "وہ بھی اقرار کیے اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔

"میں بہت خوش قسمت ہوں جو مجھے تم جیسی ہمسفر ملی ۔۔۔۔ہم نہیں جانتے مگر ہمارا خدا بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا ٹھیک ہے۔آج میں اپنے خدا کے فیصلے پر دل سے خوش ہوں ۔۔۔وہ منت کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر بولا ۔۔۔۔

"با۔۔۔باہر سب انتظار کر رہے ہوں گے "وہ اسے اپنے چہرے کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ ہڑبڑا کر بولی ۔۔۔۔

"پہلے گڈ مارننگ کا جواب تو دیتی جاؤ "

ابتسام نے اس کے دوپٹے کو پکڑنا چاہا ۔۔۔مگر وہ تیزی سے باہر نکل گئی ۔۔۔

وہ بھی اس کی تیزی دیکھ  مسکراتے  ہوئے اٹھا اور واش روم کی طرف چل دیا ۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ آفس میں آئی تو سب ورکرز اپنے کام میں مصروف تھے ۔۔۔۔عیش چلتے ہوئے زیگن کے خالی آفس میں آئی اور اس کی مخصوص چئیر پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

ریوالنگ چئیر پر بیٹھ کر گول گول گھوم کر پر اسرار سا مسکرانے لگی ۔۔۔۔

زیگن کے پرائیویٹ لاکر کی چابی اس کے خفیہ ڈراور سے نکال کر اس لاکر میں لگائی جو لمحوں میں کھل گیا ۔۔۔

عیش نے اپنی مطلوبہ چیز نکال لی اور اسے بند کیا۔۔۔۔

اب وہ مزید ہنسنے لگی ۔۔۔

اس کے ہنسنے کی آواز سارے کیبن میں گونجنے لگی ۔۔۔۔

اس کی ہنسی میں بھی نمی تھی ۔۔۔۔اور اسکی آنکھوں میں بھی ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋

شام کے نارنجی اور سرمئی سائے رات کی تاریکی میں گم ہونے لگے تھے۔کھڑکی سے باہر ہلکی ہلکی برفباری ماحول کو پرفسوں بنا رہی تھی ۔۔۔

شیر زمان ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس سے واپس آیا تھا ۔۔۔

ان کا گھر شہر سے کچھ دوری پر واقع تھا۔جہاں گھروں کی تعداد نا ہونے کے برابر تھی دور دور ہی کوئی گھر دکھائی دیتا ۔۔۔شیر زمان نے خود شہر سے دور یہ گھر لیا تھا ۔۔۔دنیا کے شور شرابے سے دور رہنے کو ترجیح دی۔

"میں گھر پہ سب سے بات کر لوں ؟"

"ہاں کر لو میں باہر لاونج میں ہوں نیوز دیکھ لوں ",

وہ ہیر کو لیپ ٹاپ پر کیمرہ آن کیے گھر پہ ویڈیو کال ملائے دے کر خود باہر جا چکا تھا ۔۔۔۔

"اسلام و علیکم !مما کیسی ہیں آپ ؟اس نے پرجوش آواز میں پوچھا

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو ہیر ؟؟

"میں بھی بالکل ٹھیک ۔۔۔

"مما ابتسام بھائی اور حسام بھائی کیسے ہیں ؟؟؟

"وہ دونوں بھی بالکل ٹھیک ہیں ۔تمہیں ایک خوشخبری دینی تھی ہیر !!!

" جی مما بتائیں نا !!

"تم پھپھو بننے والی ہو ،حسام اور زائشہ کے گھر چھوٹا سا بے بی آنے والا ہے ۔

"واؤ مما کتنے مزے کی بات ہے ۔۔۔۔وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔۔۔

"مما مجھے بھی بے بی چاہیے ۔۔۔میں اس سے کھیلوں گی ۔۔۔یہاں اکیلی بور ہوجاتی ہوں "

"ہیر بیٹا یہ بات آپ اپنے شوہر سے کہیں آپ کی یہ فرمائش تو وہی پورا کر سکتا ہے ۔یمنی نے دبے لفظوں میں کہا۔۔۔

"سچ مما وہ مجھے بے بی لا دیں گے ۔۔۔

تو اسکی بات پر یمنی نے جوابا سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔

دونوں آپس میں ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگیں ۔۔۔۔

ہیر تقریبا ہفتے میں ایک بار یونہی ان سب سے ویڈیو کال پر بات کرتی تھی ۔۔۔۔

شیر زمان ٹی وی بند کیے روم میں آیا آرام کرنے کے لیے تو ہیر لیپ ٹاپ ایک طرف رکھے اسی سے بات کرنے کے لیے باہر آ رہی تھی ۔۔۔

"بات ہوگئی ؟؟؟

"جی ہوگئی ۔۔۔

"مجھے کچھ چاہیے "ہیر سر جھکائے ہوئے بولی۔

"کیا چاہیے ؟؟؟پہلے تو کبھی ایسے نہیں کہا اب کیا ہوا ؟وہ اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولا۔

"مجھے نا بے بی چاہیے ",پلیز ۔۔۔وہ اب کی بار نظریں اٹھائے  منت آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔

"مجھے یہ سمجھ نہیں آتی یہ روز نئی خرافات تمہارے دماغ میں بھرتا کون ہے ۔اس کا لہجہ درشت ہوا ۔۔۔۔

ہیر ڈر کر تھوڑا سا پیچھے ہوئی ۔۔۔

"مجھے بی بے چاہیے تو بس چاہیے "

اب کی بار وہ ڈر بھلا کر اسکے سامنے تن کر بولی ۔۔۔۔اتنے عرصے میں وہ اب شیر زمان کے عطا کردہ اعتماد سے کافی بدل چکی تھی ۔۔۔۔

"ابھی تم خود بے بی ہو تم سنبھال نہیں پاؤ گی یہ ذمہ داری۔۔۔۔سمجھا کرو ہیر ۔۔۔۔

"یہ جب آپ میرا نام لیتے ہیں ہیر تو مجھے اپنا نام زہر لگنے لگتا ہے ۔۔۔۔مجھے اسی نام کی عادت ہے ۔۔۔جس کا آپ نے مجھے عادی بنایا ۔۔۔۔

آپ کیسے بھول سکتے ہیں وہ سب ۔۔۔۔

مجھے عادی بنا کر آپ دور کیوں رہتے ہیں ؟؟؟آج مجھے بتا ہی دیں آخر ایسا کیا کردیا میں نے جو آپ مجھ سے بات نہیں کرتے "

"اور ایک اور بات میں اب بے بی نہیں رہی اٹھارہ سال سے اوپر ہوچکی ہوں "'سمجھے آپ "

وہ تند و تیز آواز میں بولی ۔۔۔

"ہیر میرا دماغ خراب مت کرو ورنہ بہت برا پیش آؤں گا سمجھی تم ۔۔۔۔

"مجھے رہنا ہی نہیں آپ کے ساتھ ۔۔۔۔میں چلی جاؤں گی ۔۔۔۔یہاں سے دور بہت دور چلی جاؤں گی ۔۔۔۔

وہ اونچی آواز میں کہتے ہوئے دھاڑ سے دروازہ بند کیے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

شیر زمان نے اچٹتی ہوئی نظر اس پر ڈالی ۔۔۔اور بستر پر ڈھیر ہوگیا ۔۔۔۔

کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا زندگی کس طرف جا رہی ہے۔۔۔۔

وہ اسی سوچ میں تھا کہ ہیر نے رات کے اس پہر جانا کہاں ہے ۔زیادہ سے زیادہ باہر لاونج میں ہوگی ۔۔۔اور انتظار کر رہی ہوگی ۔۔۔کہ کب وہ اسے منانے آئے گا ۔۔۔۔

مگر شیر زمان اس کی یہ خواہش پوری نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔اسے لگتا تھا کہ ہیر ابھی اس سب کے لیے بہت چھوٹی ہے ۔وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے لیٹا رہا ۔۔۔تقریبا دس منٹ گزر گئے مگر ہیر کی کمرے میں واپسی نہیں ہوئی تو وہ اٹھ کر جیکٹ پہنتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

ہیر جو غصے میں گھر سے باہر نکل گئی تھی ۔۔۔چلتے چلتے نجانے کہاں آگئی تھی ۔۔۔سنو فال اور رات کے اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ ٹھیک سے دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا اچانک اس کا پاؤں سلپ ہوا اور وہ نیچے کی طرف گرنے لگی ۔۔۔۔اس کی چیخیں گونج رہی تھی۔۔۔۔

شیر زمان جو اسے گھر میں ناپید پائے گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر اسے ڈھونڈھنے باہر نکل آیا تھا ۔۔۔ دور سے آتی آوازیں سن کر جگہ کا اندازہ لگاتے ہوئے اسی طرف بھاگا ۔۔۔۔

"ہیر !!!!

"کہاں ہو ""؟

اب شیر زمان کی بھاری آواز رات کی تاریکی میں گونجنے لگی ۔۔۔۔

شیر زمان کو نیچے کی طرف کچھ سرسراہٹ محسوس ہوئی تو وہ سنبھل کر نیچے اترنے لگا کیونکہ یہاں سے جگہ کافی سلپری تھی ۔۔وہ بار بار پھسل رہا تھا ۔۔۔۔

بالآخر اس نے ہیر کو ڈھونڈھ نکالا ۔۔یہاں ایک تالاب تھا جس کا پانی سردی کی وجہ سے جم چکا تھا مگر شاید ہیر اونچائی سے گری تھی اسی لیے اس میں دراڑ آنے کی وجہ سے کچھ پانی پھوٹ پڑا تھا ۔۔۔۔شیر زمان نے وہاں بیہوش پڑی ہوئی ہیر کو اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔۔ہیر کے سارے کپڑے بھیگ چکے تھے۔۔۔

شیر زمان اسے اٹھائے واپسی کے راستے پر گامزن ہوا۔۔۔

کچھ دیر میں وہ ہیر کے بیہوش وجود کو لیے اپنے کمرے میں آچکا تھا ۔۔۔۔

"ہیر اٹھو !!!

ہیر کا چہرہ تھپتھپاکر کر اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر بے سود۔۔۔۔ہیر کے ہونٹ سردی کی شدت سے نیلے پڑ چکے تھے ۔۔۔۔اور اس کے گال خطرناک حد تک سرد اور سرخ تھے ۔

اسے بھیگا دیکھ شیر زمان کو کچھ اور نا سوجھا تو وہ اسے واش روم میں لے گیا اور گرم پانی والا شاور آن کیا ۔۔۔۔

واش روم کی لائٹ آف کردی ۔۔۔پھر ہیر کے گیلے کپڑے اتار کر اسے گرم پانی کے نیچے رکھا ۔۔۔۔ہاتھ سے ٹٹول کر ٹاول سٹینڈ سے لٹکا اپنا باتھ روب لے کر اسے پہنا دیا ۔۔۔۔

پھر واپس اسے باہر لا کر بستر پر ڈالا ۔۔۔

اس پر کمفرٹر اوڑھا دیا ۔۔۔

تیزی سے کمرے میں موجود آتش دان میں آگ جلائی ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں اس کی گرمائش سے کمرے کا درجہ حرارت نارمل ہوگیا ۔۔۔۔

واش روم کی کاروائی کے دوران شیر زمان کے کپڑے بھیگ چکے تھے ۔۔۔۔

اس نے جیکٹ اور شرٹ اتار کر  باسکٹ میں ڈال دی ۔۔۔

کمرے میں اچھی خاصی گرمی ہوچکی تھی آتش دان کے جلنے کی وجہ سے اس نے روم کی لائٹ آف کردی ۔۔۔بس آتش دان سے نکلتی ہوئی آگ کی روشنی نے کمرے میں سنہری کرنیں بکھیر رکھیں تھیں۔۔۔۔

وہ چلتے ہوئے ہیر کے پاس آیا ۔۔۔۔اس کے نیلے ہونٹوں کو اپنی پوروں سے چھو کر گرمائش پہنچانی چاہی ۔۔۔۔

سرخی مائل گال پر ہاتھ کی ہتھیلی رکھ دی ۔۔۔۔مگر ابھی بھی اس کا جسم ٹھنڈا تھا ۔۔۔

ہیر کے گیلے سنہری بال تکیے پر بکھرے پڑے تھے ۔۔۔۔سرخ و سفید چہرہ ان سنہری بالوں میں یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے بادلوں کی اوٹ سے جھب دکھلاتا ہوا چاند ۔۔۔ 

وہ مبہوت سا اسے دیکھے گیا ۔۔۔اس کے معصوم دلکش  حسن کو ۔۔۔۔

اگر آج اسے کچھ ہوجاتا ہو کیا ہوتا یہی سوچ کر اس کا دل سکڑ کر پھیلا۔۔۔۔

وہ اس کے ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔۔اسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا ۔۔۔۔اسے حرارت پہنچانے لگا ۔۔۔۔

اس کے گیلے بالوں سے آتی محسور کن مہک اسے مدہوش کرنے لگی ۔۔۔۔آج اسے اپنا ضبط کھوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔

خود پر لگائے ہوئے پہروں کو توڑ دینے پر دل اکسا رہا تھا ۔۔۔ 

مگر ہیر کے معصوم چہرے کی طرف دیکھتا تو رک جاتا ۔۔۔ 

جانے کتنے ہی پل یونہی بیت گئے ۔۔۔۔

جیسے ہی ہیر کا جسم نارمل ہونا شروع ہوا اس کی آنکھ کھلی۔۔۔۔اس نے خود کو شیر زمان کے مضبوط ترین حصار میں پایا ۔۔۔۔

شیر زمان جو اسے اپنے پاس محسوس کر رہا تھا ۔اس کے کسمسانے پر اسے دیکھا ۔۔۔۔

ہیر نے ڈر سے آنکھیں واپس بند کیں ۔۔۔۔

"ہیر کیوں کی یہ بیوقوفی ؟

"میں آپ سے ناراض ہوں ۔۔۔آپ ابھی بھی مجھے ڈانٹ رہے ہیں ۔۔۔۔وہ آنکھیں بند کیے ہی بولی ۔۔۔

"پھر کیسے مانو گی ؟؟؟

"آپ مجھے بے بی لادیں میں مان جاؤں گی "

"بے بی چاہیے میری لٹل وائفی کو ؟؟؟وہ اس کے چہرے کو انگلی سے اوپر اٹھا کر پوچھنے لگا ۔۔۔

"ہممممم ۔۔۔اس نے اثبات میں سر زور سے ہلایا۔

"کتنے بے بی چاہیے میری لٹل وائفی کو ؟؟؟

وہ اس کی آنکھوں میں اپنی اوشن بلیو آئیز ڈالے فسوں خیز آواز میں بولا ۔۔۔

ہیر نے اپنے ہاتھ کی پہلے ایک انگلی اٹھائی پھر دوسری پھر تیسری ۔۔ 

"ایک ۔۔۔دو ۔۔۔تین ۔۔۔نہیں چار ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی شیر زمان نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھنسائے اسے تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور اس کے لبوں سے اپنے لب الجھا کر اسے مزید گنتی کرنے سے روک دیا ۔۔۔۔

شیر زمان کے منہ زور جذبات نے اسے بوکھلا کر رکھ دیا ۔۔۔اس کے دل کی دھڑکن اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی ۔۔۔اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں ۔۔۔۔

شیر زمان اس کی حالت کے پیش نظر پیچھے ہوا تو ہیر نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھنا چاہا مگر شرم کے باعث پلکیں اٹھنے سے انکاری تھیں ۔۔۔۔

شیر زمان کے لب آہستہ سے مسکرائے۔۔۔اس کے گال کا ڈمپل گہرا ہوا ۔۔۔۔

شیر زمان نے اس کا چہرہ تھام کر اونچا کیا ایک بار وہ پھر سے اس کے ہونٹوں پر جھک کر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا جانے کیسی تشنگی تھی جو مٹنے کا نام ہی نہیں کے رہی تھی۔ہیر نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرنا چاہا مگر شیر زمان کے شرٹ لیس سینے کو محسوس کیے ہاتھ واپس کھینچ گئی ۔۔۔  

اس دوران وہ اس کے باتھ گاؤن کی ڈوری کھول کر پیچھے ہوا ۔۔ شیر زمان کی اس حرکت پر ہیر کا دل بہت زور سے دھڑکا۔۔۔ 

"یہ ۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟"

ہیر  دھڑکتے دل کے ساتھ ایک اور بیوقوفانہ سوال داغ گئی ۔۔۔ اس کا رواں رواں کپکپکا رہا تھا ۔۔۔

"تمہی کو شکوہ تھا نا کہ تمہیں پیار نہیں کرتا تو سوچ رہا ہوں آج سارے شکوے شکایات دور کردوں " آج تمہیں بتاؤں گا کہ مجھے تمہاری کن کن اداؤں پر پیار آتا ہے ۔۔۔۔

شیر زمان  نے اپنے ہونٹ ہیر  کی گردن پر رکھے تو اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی شولڈرز سے اسے گاؤن  سرکتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔ اب وہ شیر زمان کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن کے بعد اب اپنے کندھوں پر محسوس کرنے لگی

"تمہیں پہلے بتا رہا ہوں بے بی چاہیے تو اس کا پروسیجر بہت جان لیوا ہوتا ہے ۔۔۔اگر مس بیہوش آپ بیہوش ہوگئیں تو بعد میں مجھے ذمہ دار مت ٹہرائیے گا "وہ اس کی گردن سے اپنا چہرہ نکال کر ذومعنی انداز میں بولا 

"نہیں ہوتی پلیز مجھے بے بی لادیں نا ۔۔آپ جو کہیں گے میں وہ سب کام کروں گی ۔پرامس ۔۔۔۔وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی۔۔۔

"زمان جی "

ہیر نے اس کی بڑھتی ہوئی بےباکی پر اسے پکارتے ہوئے کمفرٹر کو مٹھیوں میں جکڑا ۔۔۔۔

ہیر نے اس کا بھاری ہاتھ پکڑ کر اسے روکنا چاہا ۔۔۔ مگر وہ شاید آج خود اپنے بھی بس میں نا تھا ۔۔۔تو ہیر کی کیا سنتا ۔۔

ہیر اس کی جسارتوں پر رو دینے کو تھی ۔۔۔۔

" ہیر ڈرو مت "

"کیا تمہارا شیر زمان کبھی تمہیں تکلیف پہنچا سکتا ہے ؟؟؟وہ اس کے کانوں کے قریب چہرہ کیے سحر انگیز آواز میں بولا۔۔

"ن۔۔نہ۔۔۔۔نہہیں "

ہیر کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔وہ ہمت کرکے بولی مگر وہ شرم کی وجہ سے شیر زمان کی طرف دیکھ نہیں پائی ۔۔۔

"Shair Zaman Loves his little wify from the bottom of his heart "

Just trust me"

وہ ہیر کے نم بالوں میں انگلیاں الجھائے ہوئے بولا ۔۔۔ 

"محسوس مت کرو بس مجھے سوچو "

زمان نے سنجیدگی سے اس کا دھیان بھٹکایا ۔۔۔۔اس کی نازک انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسائے ۔۔۔

اب کی بار نہ صرف اس کا دل بری طرح دھڑکا تھا بلکہ اسے اپنی جان بھی نکلتی ہوئی۔۔۔

ہیر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔

جنہیں کچھ دیر بعد شیر زمان نے اپنے لبوں سے ُچنا ۔۔۔۔

شیر زمان نے اپنی بازو پھیلائی تو ہیر نے اس پر اپنا سر رکھ دیا ۔۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔۔۔

ہیر نے اسکے اس عمل پر سکون محسوس کیا ۔۔۔۔

اس کے قرب سے اٹھتی مخصوص مہک کو ہیر نے اپنی سانسوں میں بھر کر انہیں ہموار کیا جو انتشار کی کیفیت میں مبتلا تھیں شیر زمان نے کسی قیمتی متاع کی طرح اسے خود میں بھینچ گیا ۔۔۔

سورج طلوع ہوئے اپنی سنہری کرنوں کا جال بچھا چکا تھا ۔رات کو سنوفال کے بعد آج بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے سورج نے اپنی روشنی پھیلائی جو چھن چھن کرتی کمرے میں موجود کھڑکی سے اندر آ رہی تھی ۔۔۔۔

وہ معصوم پری شیر زمان کے سینے پر سر رکھے دنیا جہاں سے بیگانہ تھی ۔مگر ان سورج کی کرنوں نے اس کی مندی ہوئی آنکھیں کھولنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔۔۔اس نے کسمسا کر اپنی آنکھیں کھولیں اور تھوڑی سی آنکھ کھول کر سورج کی چمکتی ہوئی کرنوں کو ناگواری سے دیکھا جس نے اس کی میٹھی نیند میں خلل ڈالا تھا ۔۔۔ وہ واپس نیند میں ڈوب  جانے والی تھی کے اسے اپنا چہرہ شیر زمان کے سینے پر محسوس ہوا تو اسکی نیند سے بوجھل آنکھیں فورا کھل گئیں۔۔۔۔وہ تھوڑا سا دور ہوئی ۔۔۔

اسکی نظر سوئے ہوئے شیر زمان کے چہرے پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی۔۔۔۔سوئے ہوئے وہ کتنا معصوم دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ 

اس کی بولتی ہوئیں اوشن بلیو آئیز اس وقت بند تھیں کھڑی مغرور ناک چمک رہی تھی ۔۔۔عنابی لب باہم پیوست تھے۔کتنا پر کشش اور جاذبیت نظر تھے اسکے نقوش ،وہ اپنی قسمت پر رشک کرنے لگی ۔۔۔کتنا خوبرو انسان اس کے نصیب میں آیا تھا ۔جو صرف اس کا تھا ۔اس کے ورزشی سفید رنگت کے بائیسیپس دیکھ کر ہیر کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں ۔۔۔۔اس نے انگلی لگا کر اسے دیکھا ۔۔۔واقعی یہ اصلی ہیں ۔۔۔اپنی اس حرکت پر وہ خود ہی مسکرانے لگی ۔۔۔

سورج کی روشنی شیر زمان کی نیند میں بھی خلل ڈال رہی تھی شاید،،، جو اس نے روشنی سے بچنے کے لیے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔

ہیر تھوڑا سا اٹھ کر شیر زمان کے آگے جھک گئی ۔۔۔

اس طرح سورج کی روشنی شیر زمان کے چہرے پر پڑنے کی بجائے اب ہیر کی پشت پر پڑنے لگی ۔۔۔۔

اسے اپنے قریب ہلچل محسوس ہوئی تو اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

سامنے ہی ہیر اس پر سایہ کئیے ہوئے تھی ۔۔۔۔

اس کے سنہری کھلے بال اس پر سایہ فگن تھے ۔۔۔۔وہ اسے چمکتی آنکھوں سے نہار رہی تھی ۔۔۔کتنا خوشنما منظر تھا جو نئی صبح میں اس نے سب سے پہلے دیکھا ۔۔۔۔

"اب اس دھوپ کا ڈر نہیں "

ان سایہ فگن گھنی پلکوں کے دلنشیں چھاؤں جو میسر ہو گئی ۔"وہ خمار آلود آواز میں کہتے ہوئے ُاسے کھینچ کر واپس اپنے اوپر گرا چکا تھا ۔۔۔

وہ اس کے سینے پر تھوڑی جمائے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

رات کے گزرے مناظر آنکھوں کے پردوں پر لہرائے تو

خفت سے گلابی چہرہ ایسے لگا کہ کسی نے اس پر سرخ روشنائی انڈیل دی ہو ۔۔۔

اسکی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔۔۔شیر زمان کو لگا کہ وہ دنیا بھول گیا ۔۔۔ اُسے دیکھ کر وہ ساری دنیا بھول ہی تو جاتا تھا کیونکہ اُس کے معصوم سے محبوب کی ہر ادا ہی نرالی تھی ۔ ابھی وہ اُس کے شرمائے لجائے ہوئے روپ کو آنکھوں کے راستے دل میں اُتار رہا تھا۔۔۔

کہ اسکی برستی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر پریشان ہوا۔۔۔۔

"مائی لٹل وائفی کیا ہوا ؟؟؟

"میں نہیں بولتی آپ سے "

"کوئی ایسے بھی کرتا ہے "وہ نروٹھے انداز میں منہ پھلا کر بولی ۔۔۔۔

"سب ہزبینڈ ایسے ہی کرتے ہیں ۔۔میں نے تو آپ کو نرمی سے بالکل پھولوں کی طرح چھوا تھا ۔۔اور سب سے پہلے تو ِان آنکھوں سے آنسو صاف کریں تمہیں  پتہ ہے نا رونے سے میں نے تمہیں منع کیا ہے ۔۔۔۔ان آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔انہیں بس ہمیشہ خوشی سے چمکتا دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔

وہ اس کے آنسو اپنی پوروں سے پونچھ کر بولا ۔۔۔

"ہیر تمہیں یاد ہے ایک بار جب تم نے بچپن میں جگنو پکڑنے کی ضد کی تھی ۔۔۔اور میں تمہیں وہ دیکھانے کے لیے لے کر گیا تھا۔۔۔۔وہ اسے بچپن کا واقعہ یاد دلانے لگا ۔۔۔۔ہیر نے اس کی بات سن کر دماغ پر زور ڈالا ۔۔۔۔

"جگنو !!!!!

"چلو نا ضامن !!!!

باہر جا کر جگنوؤں کو دیکھتے ہیں "اس نے معصومانہ فرمائش کی ۔

"باہر بہت ٹھنڈ ہے مجھے نہیں جانا "

"چلو !!!اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں اس کی سرد ترین آواز ہیر کے کان میں سنائی دی اور وہ اس کی کلائی سے کھینچ کر باہر لے گیا  ۔۔۔آسمان پر جابجا ستارے پورے آب و تاب سے چمک رہے تھے ۔۔۔۔شیر زمان  اسے اپنے ساتھ لان کے پچھلے حصے میں گھسیٹ لایا ۔۔۔۔جہاں رات کے اس پہر جھاڑیوں کے پیچھے ان گنت جگنوؤں کا بسیرا تھا ۔

اس نے ہیر کی آنکھوں سے اپنے ہاتھ ہٹائے ۔۔۔۔

ہیر کی آنکھیں ُکھلتے ہی جگمگانے لگیں ۔تاروں کی طرح جھلملاتے ہوئے جگنوؤں کو دیکھا جو اندھیرے میں دئیے کی مانند روشنی بکھیر رہے تھے ۔

ہیر سامنے کا منظر دیکھ کر اپنی جگہ ساکت رہ گئی گہرے اندھیرے میں لا تعداد  جُگنو جگمگا رہے تھے بلکل ویسے جیسے کالی رات میں سیاہ آسمان پر ستارے چمک رہے تھے  وہ بے یقینی سے سامنے دیکھنے لگی۔۔۔

"چھو لو انہیں "شیر زمان کی آواز اسے قریب سے سنائی دی۔۔۔وہ بھول چکی تھی کہ وہ اس وقت شیر زمان کے ساتھ ہے ۔۔۔یاد تھا تو بس اتنا کہ وہ اپنا من پسند منظر دیکھ رہی ہے۔۔۔۔ ہیر کی نظریں تو ان جگمگ کرتے جگنوؤں کو دیکھ خوشی سے جھلملا رہی تھیں۔

اور وہ ُان جگنوؤں سے پھوٹتی ہوئی روشنی کو ہیر کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔ وہ اُس کے چہرہ کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح آج بھی دیکھتا ہی رہ گیا۔۔ہیر کا معصوم چہرہ اُس کی جھیل سی گہری آنکھیں جو اس وقت جگنوؤں کی مانند چمک رہی تھی۔آٹھ سالہ ہیر جس نے فراک پہنے ہوئے سنہری بالوں کی پونی ٹیل کیے سر پہ سردی کی وجہ سے سکارف لے رکھا تھا ۔شیر زمان نے کچھ جگنوؤں کو مُٹھی میں قید کیے ہیر کے سکارف میں رکھا جن میں سے اس اندھیرے میں روشنی پھوٹ رہی تھی  ،ایسے جیسے جگنوؤں سے بھر دیا آنچل

"اس وقت ہی میں نے دل میں ارادہ کیا تھا کہ تمہاری ان آنکھوں کو ہمیشہ یونہی چکمتا ہوا رکھوں گا۔۔۔چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے ۔۔۔اس دن پہلی بار تمہارے لیے یہ دل دھڑکا تھا ۔اس نے ہیر کا نازک ہاتھ تھام کر اپنے دل کے مقام پر رکھا ۔تمہاری محبت خون بن کر میری رگ رگ میں دوڑتی ہےتم چاہوبھی تو اپنے لیے میری شدتوں ،جنونیت اور عشق کی گہرائی کا اندازہ بھی نہیں لگا پاؤ گی "وہ فسوں خیز آواز میں اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔۔۔

ہیر نے اپنا ہاتھ اٹھا کر جھکی اور وہاں اپنے لب رکھ دئیے ۔۔۔

وہ اپنی لٹل وائفی کی اس ادا پر نثار ہوتے ہوئے مسکرا کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔

"ہیر بس اتنا یاد رکھنا اگر تمہیں کبھی کچھ ہوا نا تو قسم ہے ۔یہ شیر زمان اپنی جان دے کر تمہیں خدا سے واپس مانگ لائے گا "

اسکے لہجے میں چھلکتا جنون دیکھ ہیر کی سانس ساکن ہوئیں ۔۔۔۔

"لٹل وائفی!!!!!!! تمہیں تو بخار ہے "

اس نے ہیر کے تمازت زدہ  گرم وجود کو محسوس کیا تو پریشانی سے استفسار کیا۔

"باہر ٹھنڈ میں گئی تھی یہ تو ہونا تھا۔۔۔

"چلو ہاٹ باتھ لو پھر میں تمہیں میڈیسن دیتا ہوں "

وہ بستر میں سے اٹھ کر بولا ۔۔۔

ہیر نے اپنی حالت کے پیش نظر کمفرٹر گردن تک اوڑھ لیا ۔۔۔۔اب اس طرح وہ کیسے کمفرٹر سے باہر نکلتی اسکے سامنے ۔۔۔۔

"O come on "

آؤ نا ۔۔۔کیا سوچ رہی ہو ؟؟؟

"آپ باہر جائیں نا ۔۔۔۔

وہ منمناتے ہوئے بولی ۔۔۔

"اوہ ۔۔۔۔اچھا ۔۔۔۔وہ یاد آنے پر  اپنے بالوں میں انگلیاں پھیر کر مسکرا دیا ۔۔۔۔

"ویسے یہ چھپنے چھپانے والا سین گزر گیا کل رات اب کوئی فائدہ نہیں "وہ ذومعنی انداز میں کہتے ہوئے اسے ایک بار پھر کپکپانے پر مجبور کر گیا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ روہانسی ہو کر رو دیتی ۔۔۔۔

شیر زمان نے اسے کمفرٹر سمیت بانہوں میں بھرا اور واش روم کی طرف چل دیا ۔۔۔

"تم یہاں شاور لو ۔میرے دوسرے روم کے واش روم میں 

چلا جاتا ہوں ۔پھر بریک فاسٹ کر کہ میڈیسن لینا ۔۔۔

ہیر نے اسکی بات پر اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

وہ کچن میں تھا کہ پیچھے سے ہیر کے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔۔۔اس نے مڑ کر دیکھا وہ جینز اور ہائی نیک پہنے بالکل گڑیا دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔سوں سوں کرتی سرخ ناک لیے نظریں جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔ 

شیر زمان نے اسے وہیں کھڑے دیکھا تو اس کی جھجھک محسوس کیے خودی اس کے قریب آیا اور اسے اٹھا کر کچن میں موجود شیلف پر بیٹھا دیا ۔۔۔۔

"بھوک لگی ہے ؟؟؟

ہیر نے اسکے سوال پر اثبات میں سر ہلایا۔

"ابھی ایگ بوائل ہو رہے ہیں۔اور کافی بیٹ کر رہا ہوں ۔سلائس ٹوسٹر میں ہیں۔

پانچ منٹ بس "

"مجھے زیادہ بھوک لگی ہے "وہ اپنے گیلے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستی ہوئی بولی ۔

شیر زمان نے فریج کھولی ۔۔۔

ہیر کی نظر سامنے رکھے پائن ایپل کے ٹن پر پڑی۔۔۔۔

"پائن ایپل "اس نے خوشی سے چہک کر کہا ۔۔۔

وہ ٹن نکال کر اسکی طرف آیا اسے کھول کر فورک میں ایک پائن ایپل کا پیس پھنسایا اور فورک اسکے منہ کہ طرف بڑھایا ۔۔۔۔

ہیر نے جیسے ہی کھانے کے لیے منہ کھولا ۔۔۔

شیر زمان نے اپنا منہ بھی قریب کرتے ہوئے فورک دور پھینکا اب پائن ایپل کا آدھا پیس ہیر کے منہ میں تھا اور آدھا شیر زمان کے منہ میں ۔۔۔۔

ہیر نے چہرہ پیچھے کھینچنا چاہا مگر شیر زمان نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے اسے ایسا کرنے سے روک دیا ۔۔۔۔

اس نے وہ آدھا پیس ڈر کے مارے ثابت ہی گلے سے نگل لیا ۔۔۔۔جبکہ شیر زمان کی نظروں میں چھپے ہوئے مفہوم کو جان کر وہ شرم سے دوہری ہونے لگی ۔۔۔۔۔

اس کی اوشن بلیو آئیز میں  شوریدہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا ۔۔۔وہ کہاں ان پر بندھ باندھ سکتی تھی ۔۔۔شیر زمان نے عمل پیرا ہونے کا سوچا اور ہیر کو شیلف پر جھکا کر اسے کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پر اپنی محبت کی شدتوں کی کہانی رقم کر دی ۔۔۔۔

ٹوسٹر سے ٹوسٹ جلنے کی سمیل سے شیر زمان نے اسے چھوڑ کر پیچھے دیکھا ۔۔۔مگر تب تک ٹوسٹ جل چکا تھا ۔۔۔اس نے دوبارہ سے نئی بریڈ ٹوسٹر میں ڈالی ۔۔۔۔

دونوں نے ملکر ناشتہ کیا۔۔۔ہیر کو میڈیسن کھلائی ۔۔۔۔ شیر زمان نے اسے قدم بھی زمین پر نا رکھنے دیا ۔۔۔آج سارا دن انہوں نے ایک ساتھ ایک دوسرے کی قربت میں گزارا ۔۔۔سارے دن شیر زمان نے اسے اپنی ہتھیلی کا چھالہ بنائے رکھا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"شاہ من!" ضامن جو ابھی واپس لوٹا تھا اس نے اسے آواز دے کر روکنا چاہا مگر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا تھا اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

"شاہ من!" ضامن نے اسکی کلائی تھام لی وہ ابھی تک کہیں کھویا ہوا تھا۔

"شاہ من۔۔۔کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک تو ہے؟"

"وہ ۔۔۔۔وہ۔۔۔" اسکے منہ سے الفاظ نکل نہیں پا رہے تھے۔

"کیا ہوا ہے بولو نا...!"

"ب۔۔۔بھیا وہ پاپا !" اسکا سانس رکنے لگا۔۔۔آواز اسکی گلے میں رہ گئی۔ ضامن اسکی یہ حالت دیکھ کر  گھبرا گیا۔

"بتاؤ مجھے ۔۔۔کیا ہوا ہے انہیں؟" ضامن خود بھی ابھی اس کے جواب کیلئے تیار نہیں تھا۔ وہ ڈوبتے ہوئے دل سے شاہ من  کے چہرے کو دیکھنے لگا۔

۔۔۔شاہ من کی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھیں اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبان تو ایسے مانو نہ بولنے کی قسم کھا لی ہو کہ یہاں کچھ کہا نہیں اور وہیں سب ختم۔۔۔۔۔۔

"بولو بھی شاہ من کیا ہوا ہے؟" ضامن نے اب کی بار گھبرا کے پوچھا کیونکہ وہ اسکی حالت دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ بات کوئی چھوٹی موٹی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

ضامن بھائی ! پاپا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور انہیں آفس کے ورکرز ہاسپٹل میں لے کر گئے ہیں ۔" اس نے روتے ہوئے ضامن کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔جو شاید خبر سنتے ہی سکتا میں چلا گیا تھا۔۔۔۔

"یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟بڑے پاپا تو بالکل ٹھیک تھے ۔"

"مجھے خود سمجھ میں نہیں آ رہا ابھی ہسپتال سے  کال تھی اُنہوں نے یہی بتایا ہے!" شاہ من نے کہا ۔

ضامن نے شاہ من کا فورًا ہاتھ پکڑا اور اسے ساتھ لیے گاڑی کی طرف تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔

"جلدی بیٹھو شاہ من ! ہمیں فورا ً وہاں جانا ہوگا!"

راستے میں شاہ من کے ساتھ ساتھ ضامن  بھی شدید اضطراب کا شکار تھا مگر اُس نے اپنی پریشانی کو اپنی ازلی ہمت کے پیچھے چھپا لیا اور شاہ من جو شدید ذہنی دباؤ میں بار بار اپنے ماتھے کو رگڑ رہا تھا ضامن کو کہنے لگا۔ "پلیز ضامن بھائی ! سپیڈ بڑھائیں ۔۔۔ پلیز بھائی مجھے جلد از جلد ان کے پاس پہنچنا ہے۔" شاہ من کے لہجے کا خوف اور بےبسی ضامن صاف محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اسنے اسٹیرنگ سے ایک ہاتھ ہٹا کر شاہ من کے کندھے کو  تھپک کر اسے تسلی دی ۔

مگر وہ اپنے حواس کھو رہا تھا۔

"انہیں کچھ نہیں ہو سکتا بھیا ۔۔۔پاپا کو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔"

"شاہ من بہادر بنو۔ابھی تو تمہیں بڑی مما کو بھی سہارا دینا ہوگا ۔۔۔کچھ نہیں ہو گا اُنہیں۔"

ضامن  نے شاہ من کی طرف دیکھا اور بولا۔۔۔

وہ اور شاہ من ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ شاہ من فوراََ گاڑی سے اترا اور اسکے پیچھے ضامن بھی ہسپتال کے اندر داخل ہوا۔ لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے وہ دونوں پریشانی کے عالم میں دوسری منزل کی جانب بڑھے۔ ضامن تیز رفتاری سے چلتے  ہوئے آخر کار ریسیپشن پر پہنچا۔

"پلیز... بتائیے گا مسٹر زیگن خان کے بارے میں انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔۔۔۔پلیز بتائیے گا وہ کیسے ہیں۔۔۔۔وہ کہاں ہیں۔۔۔۔۔وہ "شاہ من کو لگا وہ ابھی گر پڑے گا۔ اس نے یہ جملہ بھی ٹوٹا پھوٹا سا ادا کیا تھا۔

"سر آپ ایک منٹ رکئیے اور حوصلہ رکھیں میں ابھی آپ کی بات ڈاکٹر ذوالفقار سے کرواتی ہوں یہ انہیں کا کیس ہے۔"ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی نے کہا اور فون پر بات کرنے کے بعد ضامن اور شاہ من کو آئی سی یو کی طرف اشارہ کر دیا وہ دونوں اسطرف بھاگے اور انتظار کرنے لگے دونوں کے لیے یہ انتظار کسی عذاب سے کم نہ تھا  شاہ من پریشانی کے عالم میں ٹہل رہا تھا۔ اسکا دل بیٹھا جا رہا تھا۔اور اسکے ساتھ کھڑا ضامن خود بھی زیگن کی حالت جاننے کیلئے منتظر کھڑا تھا۔ ۔۔۔

گھر میں بھی اطلاع مل چکی تھی ۔۔۔زمارے تو ہاسپٹل میں ہی موجود تھا ۔۔۔۔گھر سے بریرہ آر ذوناش بھی آ چکی تھیں ۔۔۔زریار بھی یہ خبر سنتے آفس سے سیدھا یہیں آیا ۔۔۔

"مما ! آپ  پلیز پاپا کیلئے دعا کریں نا !  کہ انہیں کچھ نہ ہو"شاہ من نے ذوناش سے کہا 

"میری ہر دعا انکے ساتھ ہے۔ اللّٰه سےاچھے کی امید رکھو۔"وہ اب اسے کیسے بتاتی کہ زیگن ہی تو خود اسکی زندگی کا سب سے لازم و اہم  جزو ہے۔اسکی بے قرار دھڑکنوں کا سکون ہے وہ ۔۔۔

اس وقت وہ خود ایک کرب سے گزر رہی تھی۔ وہ خود اسکی 

زندگی کیلئے دعا کر رہی تھی۔ وہ کیسے نہ کرتی اسکے لیے دعائیں؟ ۔وہ کیسے نا رب سےاسکی زندگی مانگتی؟ اسکی زندگی کے نظر آتے اندھیروں ہی میں تو ذوناش  کے دل کی دھڑکن قید تھی۔ ذوناش نے اپنی آنکھوں کے کناروں سے بہتے ہوئے اشکوں کو بہنے کی اجازت دے دی جس پر وہ کب سے بندھ باندھے بیٹھی تھی۔

اسکو وہ لمحات وہ باتیں یاد آنے لگیں۔۔ جو ذوناش کی زندگی کا حاصل تھیں ۔۔۔ اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔۔

آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹرز آئی سی یو سے نکل کر باہر کی جانب کو آئے۔ شاہ من اور ضامن فورًا ڈاکٹر کی طرف بڑھے۔۔۔

"آپ پیشنٹ کے کیا ہیں؟ "ڈاکٹر نے آتے ہی کہا۔

"جی میں ان کا بیٹا ہوں۔ کہاں ہیں پاپا؟ کیسی کنڈیشن ہے ان کی؟ وہ ٹھیک تو ہیں نا؟ "شاہ من نے کئی سوال ایک ہی سانس میں کر ڈالے۔ڈاکٹر نے سر جھکا کر ایک طویل سانس اندر کھینچا اور شاہ من کے کندھے کو تھپک کر اسے حوصلہ دیا۔۔۔شاہ من کو اب اپنی زندگی ختم ہوتی محسوس ہوئی۔ اسکے اردگرد ہر شے اسے گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وہ اسوقت اپنے پاپا کے لیے کوئی بھی انتہائی خبر سننے سمجھنے اور سوچنے کا متحمل نہیں تھا۔۔۔۔

"اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کی دعائیں سن لیں اب وہ خطرے سے باہر ہیں ",وہ اس کا شانہ تھپتھپاکر کر اپنے ماہرانہ پیشہ ورانہ انداز میں کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔۔۔

شام تک زیگن کو ہوش آچکا تھا سب نے اس کے پاس جا کر ان کا حال دریافت کیا ۔۔۔۔ڈاکٹر نے انہیں ایک رات ہاسپٹل میں رکنے کا مشورہ دیا ۔۔۔

ضامن نے سب کو گھر بھیج دیا اور خود ان کے پاس رک گیا ۔۔۔۔

"بڑے پاپا آپ کو کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتا سکتے ہیں ۔۔کیا ہوا جو شیر زمان یہاں نہیں ۔۔۔میں بھی تو آپ کے بیٹے جیسا ہوں ۔میں جانتا ہوں شاہ من تھوڑا کمزور دل کا مالک ہے ۔۔۔مگر میں تو یہاں ہوں ۔۔۔یہ ہم دونوں میں سیکرٹ رہے گا ۔۔۔

"زیگن نے کے چہرے پر پریشان کن تاثرات ابھرے ۔۔۔۔

"ضامن میں جو بھی تمہیں بتاؤں گا اسے صبر و تحمل سےسننا اور برداشت کرنا ۔جلد بازی میں کوئی بھی غلط فیصلہ نہیں لینا ۔۔۔۔

"بڑے پاپا ۔۔۔پلیز صاف صاف بتادیں کیا بات ہے۔میں کچھ نہیں کروں گا ۔پرامس ۔۔۔

"عیش نے ہماری کمپنی سے اپنی کمپنی کو مرج کیا تھا ۔۔۔مگر اب اس نے دھوکے بازی سے میری کمپنی کو بھی ٹیک اور کرلیا ہے ۔۔۔

"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟؟وہ حیرت زدہ رہ گیا۔۔۔۔

"یہی سچ ہے۔تم میرے بیٹے ہو اور تمہارے  لحاظ سے وہ بھی میری بیٹی کی طرح ہے۔اگر وہ مجھ سے میری کمپنی مانگتی تو میں خوشی خوشی سب اسے دے دیتا مگر اس نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے ۔۔۔۔

زیگن کو آج صبح کی اپنی اور عیش کے درمیان ہوئی گفتگو یاد آئی تو اس کے لبوں پر تلخ مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔

"آپ جانتے ہیں میں کون ہوں ؟؟؟؟وہ طنزیہ انداز میں بولی ۔

زیگن نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔

"میں فرحین شاہ کی بیٹی ہوں ۔۔۔۔عیش ڈار ۔۔۔۔

وہی فرحین شاہ جسے تم نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا تھا ۔۔۔ میرے پاپا نے انہیں وہاں سے نکال کر زندگی کی طرف لانے کی بہت کوشش کی مگر وہ آپ کی بے وفائی کو دل سے لگائے مجھے پیدا کرتے ہی اس دنیا سے چلی گئی۔۔۔۔آپ نے میری ماں کی زندگی برباد کردی تھی ۔۔۔اب میں آپ کا سب کچھ چھین کر آپ کی بھی زندگی برباد کر دوں گی۔ ۔۔۔۔۔

اس کے کہے گئے جملے ابھی بھی زیگن کو اپنے کانوں میں سنائی دے رہے تھے ۔۔۔۔

ضامن عیش فرحین کی بیٹی ہے "

"بڑے پاپا کون فرحین ؟؟؟اسنے اچنبھے سے پوچھا ۔

زیگن نے اسے شروع سے سب بات بتائی کہ کیسے اسکی یاداشت چلی گئی تھی اور فرحین اسے اپنے ساتھ لے گئی اور اس نے کیسے ذوناش کو مارنا چاہا تھا ۔۔۔۔

ضامن نے ساری سچائی سن کر اپنی مٹھیاں بھینچ لیں ۔۔اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔

وہ تیز قدموں سے باہر نکلا ۔۔۔

"ضامن رک جاؤ کچھ غلط مت کرنا "

زیگن نے پیچھے سے آواز لگائی ۔۔۔۔مگر وہ ان سنی کرتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"آیت منہ کھولو شاباش "جنت سونے سے پہلے روزانہ آیت کو کچھ نا کچھ کھلا دیتی تاکہ وہ ساری رات آرام سے سوجائے ۔۔۔ابھی بھی وہ اس کے لیے پوڈنگ بنا کر لائی تھی ۔۔۔آیت نے غصے میں آکر ہاتھ مارا اور پڈنگ والا باؤل جنت کے ہاتھ سے نکل کر زمین پر گرا ۔۔۔۔

"آیت "!!!!جنت نے ایک زوردار تھپڑ آیت کے پھولے ہوئے گالوں پر مارا۔۔۔۔

آیت زور زور سے رونے لگیں۔۔۔

"جنت کیا کرتی ہو ؟؟؟

"بچی ہے ۔۔۔اس کا دل نہیں کر رہا تھا کھانے کو تو زبردستی نہیں کیا کرو ۔

"میں جانتا ہوں تمہیں مجھ پر غصہ ہے مگر اس معصوم کا کیا قصور؟؟؟

زیان نے آیت کو گود میں لیا ۔۔۔

"بس ۔۔۔میری جان چپ کر جائے ۔۔۔وہ اسے پیار سے بہلانے لگا ۔۔۔

جنت غصے میں اٹھی اور باہر نکل گئی ۔۔۔کچھ دیر بعد غصہ ٹھنڈا ہوا تو واپس آکر ساری صفائی کی ۔۔۔

آیت اب چپ ہوکر زیان کی گود میں سو چکی تھی ۔۔۔اس نے احتیاط سے اسے بستر پر لیٹایا ۔۔۔۔تاکہ اسکی نیند نا خراب ہو جائے ۔۔۔۔

چلو ہنس دو !

کسی دل کو پکڑ لینا کہاں آزاد کرنا ہے ۔

چلو یونہی سہی ،کرچلو ،،اگر برباد کرنا ہے۔

پرندوں کو بھی اگر قید کرکہ اکثر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔!!!!

کسی کو مارنے سے قبل کیا دل توڑ دیتے ہیں ؟؟؟

چلو تم روٹھنا چھوڑ دو ۔۔

وگرنہ جانتے ہو تم ۔

مجھے مرنا بھی آتا ہے۔

مجھے غم اسطرح نا دو ۔

کہ اپنے آپ مر جاؤں 

سمیٹے دھوپ کو اپنی 

میں سائے میں اتر جاؤں 

ہواؤں میں بکھر جاؤں !!!!!

تمہیں معلوم ہے ۔مجبوریاں اک چیز ہوتیں ہیں۔

سنا ہے کہ ۔۔۔اتنی دوریاں ۔۔۔اک دن ۔۔۔۔۔

چلو چھوڑو کہ ہم آخری کام کرتے ہیں۔

بجائے آنسوؤں کے اب ہنسی انجام کرتے ہیں۔

چلو ہنس دو ۔۔۔!!!

میرے بہتے ہوئے آنسو 

تمہارے پاؤں پڑتے ہیں۔

چلو ہنس دو ..!!!

"چلو ہنس دو ۔۔۔۔!!!

"جنت !"  کسی سوچ میں گم بیٹھے زیان کے نے ترچھے رخ پر بیٹھتے، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا تھا۔اور دھیمے لہجے میں اپنے دل کی بات کو لفظوں کے پیراہن میں ڈھالا ۔۔۔ اس کے لہجے کی نرمی پر جنت نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔زیان نے  یکدم اس کے کندھے سے ماتھا ٹکاتے ہوئے رو دیا تھا۔ کندھوں پر پھیلا جنت کا دوپٹہ پل بھر میں ہی اس کے آنسوؤں سے تر ہوا تھا۔ اس نے بنا کچھ کہے زیان کو خود سے دور کرنا چاہا مگر کر نا سکی ۔جنت نے اسے رونے دیا تھا ۔۔۔اور خود بھی رونے لگی ۔۔۔۔زیان نے سر اٹھا کر دیکھا اسے بھی اپنے غم میں  شریک دیکھ وہ حیرت زدہ رہ گیا ۔۔۔زیان نے اسے رونے دیا تاکہ دل کا غبار نکالنے کے بعد ہی وہ اچھے سے کچھ سوچنے کے قابل ہوجائے ۔ وہ اپنے رب کے بعد اس کے سامنے ہی رویا تھا کیونکہ کسی اور کے سامنے نہیں رو سکتا تھا۔

"میں نے کبھی تمہارے لیے کوئی غلط بات نہیں سوچی، مگر اب بس تمہارے ساتھ کی تمنا کی ہے۔۔میں ہمیشہ تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔ ہمیشہ تمہارے لیے  بہترین کی دعا کی۔ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ ہمارے اس ہنستے بستے گھر کو میری ہی نظر لگ جائے مگر دیکھو آج کیا ہو گیا میری وجہ سے سب بکھر گیا ۔۔۔تمہاری زندگی برباد کر ڈالی خود اپنے ہی ہاتھوں سے ۔۔۔مجھے معاف کردوں ۔۔۔۔ میری غلطی تمہاری خوشیوں کو نگل گئی۔۔ میں ہوں قاتل تمہاری مسکراہٹوں کا۔ میں تمہیں بھول نہیں پایا ایک لمحے کو بھی۔ میری غفلتیں تمہیں  اجاڑ گئی جنت ! میں نے تو کبھی یہ نہیں چاہا تھا۔کہ تمہاری خوشیاں چھین کر تمہاری زندگی میں اندھیرے بھر دوں ۔۔۔بس وہ رات میری زندگی کی سیاہ رات تھی ۔جس کا خمیازہ میں آج تک بھگت رہا ہوں تمہاری ناراضگی اور جدائی کی صورت میں ۔۔۔ مجھے تمہاری ان سرد آنکھوں کا تاثر چین نہیں لینے دیتا جنت !!!!۔

 مجھے تمہارے انداز سے خوف آتا ۔۔۔میں کھل کر سانس نہیں لے پاتا۔۔۔

میں دعا کرتا ہوں  کہ کوئی معجزہ ہو جائے، تم مجھے معاف کردو اس رات کے لیے ۔ "ایک بار کہہ دو کہ تم نے مجھے معاف کردیا جنت !!" 

زیان  کسی بچے کی طرح بےربطگی سے اپنے سارے خوف جنت سے بیان کر رہا تھا۔ کیسی آزمائش سی آزمائش تھی۔ اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی تھی۔ اس کا مجازی خدا اس کے شانے سے سر ٹکائے  رو رہا تھا اس سے معافی کا خواستگار تھا ۔۔صدق دل سے گڑگڑا کر معافی طلب کرنے والے کو تو ۔

معاف تو خدا بھی کردیتا ۔تو تو ایک نرم دل عورت تھی ۔کب تک پتھر بنی رہتی ۔۔۔۔

 میرا ہوجا ، مجھے اے یار مکمل کردے        

یامجھے چھوڑ دے انکار مکمل کردے        

توجوخوش ہے تویہی بات مجھےہےکافی        

جیت جامجھ سےمیری ہار مکمل کردے 

دھیمے پرفسوں لہجے میں وہ جنت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولا۔اور اپنی ہتھیلی اسکے آگے پھیلایا ۔۔۔

جنت نے خود سپردگی کے انداز میں اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔

زیان نے اسکے گلابی ہونٹوں کو دیکھا جو آپس میں پیوست تھے  ۔

اس نے جنت کو حصار میں لیتے ہوئے ان گلابی لبوں پر اپنی محبت کی مہر ثبت کردی ۔۔۔۔

چار سال بعد 🦋

وقت پر لگا کر اُڑتا چلا گیا۔۔

گزرتا ہوا ہر دن زندگی کی کتاب سے کسی بوسیدہ ورق کی طرح پھٹتا چلا گیا اور سب کی زندگیوں میں نئی تاریخیں رقم کرتا چلا گیا ۔۔۔چار سال بعد آج ایک نیا دن طلوع ہوا ۔۔۔جو نئے دن میں نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا تھا۔

سورج کی سنہری کرنیں آسمان پہ جلوہ افروز ہوئے ہر سو اپنی روشنی بکھیر رہی تھیں۔جوں جوں وہ سب اپنی منزل کے قریب پہنچ رہے تھے رگوں میں دوڑتے خون کی گردش میں تیزی آرہی تھی ،ائیر پورٹ پر انہیں کوئی لینے نہیں آنے والا تھا کیونکہ انہوں نے کسی کو اطلاع جو نہیں کی ۔ان کا ارادہ سب کو سرپرائز دینے کا تھا ،

جونہی انہوں نے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھے مسرور چہروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا ۔

"یہ آپ کیا مجھے نمونہ بنا کر یہاں لے آئے سب ہنسیں گے مجھ پر "

اس نے ہیر پر تفصیلی نگاہ ڈالی جس نے سیاہ عبایا پہنے سر پر حجاب گول گھما کر لے رکھا تھا ۔عبائے کے نیچے بلاشبہ جینز اور شرٹ کے ساتھ جوگرز تھے ۔مگر بظاہر دیکھنے والوں کو عبائے کے نیچے جوگرز ہی دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔۔

"جو بھی ڈریسنگ شیر زمان کی بیوی کرے گی وہ فیشن ٹرینڈ بن جائے گا ۔"اسکی گھمبیر آواز سن کر ہیر نے مقابل موجود شیر زمان پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی ۔۔۔

جو سیاہ جینز سیاہ شرٹ اور سیاہ لیدر جیکٹ پہنے اپنی دراز قامت اور سحر انگیز شخصیت سمیت پورے طمطراق سے اپنی اوشن بلیو آئیز لیے ِادھر اُدھر  دیکھ رہا تھا ۔۔

"آپ گلاسز لگائیں اپنی آنکھوں پر۔۔۔میں نہیں چاہتی یہ آنکھیں میرے علاؤہ کسی کو دیکھیں ",

وہ مغروارنہ انداز میں بولی ۔۔۔یہ غرور اسے شیر زمان کی محبت کا ہی عطا کردہ تھا۔

"میرے شیروں!!!!! زرا دھیان سے "شیر زمان کی متفکر آواز سن کر تینوں نے ایک ساتھ مڑ کر پیچھے اپنے ڈیڈ شیر زمان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"ڈیڈ ٹینشن ناٹ "

"شیروں کے راستے میں آنے کی جراءت کسی کی نہیں "

ان تینوں نے بیک وقت ایک آواز میں کہا ۔۔۔۔

شیر زمان کے گال کا ڈمپل گہرا ہوا ان تینوں کے نڈر انداز پر ۔۔۔۔یہی تو وہ چاہتا تھا کہ اس کے تینوں بیٹے بھی اس کی طرح نڈر اور بہادر ہوں ۔

"زمان جی یہ بالکل ٹھیک نہیں ۔۔۔بہت زبان چلنے لگی ہے ان تینوں کی ۔۔۔میں کہہ رہی ہوں میں انکی پٹائی کردوں گی "

"مائی لٹل وائفی !!!  اس حالت میں غصہ کرنا ٹھیک نہیں ۔۔۔چلیں یا ائیر پورٹ زیادہ پسند آگیا ؟؟؟

ہیر ناک سکوڑتے ہوئے شیر زمان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔۔۔۔

اور وہ تینوں شیر زمان کے ڈک ٹو کاپی بالکل اسی طرح کی ڈریسنگ کیے بلیک کلر کی جینز اور چھوٹی چھوٹی لیدر جیکٹس میں ملبوس اسی کی طرح اکڑ کر چل رہے تھے ۔۔۔

شیر زمان اور ہیر کے ایک ساتھ پیدا ہونے والے تین سالہ  ٹرپلٹ بے بیز تھے۔

"ہیر آگے آؤ میرے پیچھے کیوں چل رہی ہو "؟

شیر زمان نے گردن ترچھی کیے اسے کہا۔

"جہاں جہاں آپ قدم رکھتے ہیں ۔میں آپ کے قدموں کے نشان پر اپنے قدم رکھ کر چلتی ہوں زمان جی !!!

"مجھے اس راستے پر جانا ہی نہیں جہاں آپکے قدم نہ پڑے ہوں "وہ محبت سے چور آواز میں بولی ۔

"میں جس راستے پر بھی چلا جاؤں میرے ہر راستے کی منزل تم ہی ہو لٹل وائفی !!!

وہ گردن ترچھی کیے جذب سے بولا۔

"تم ساتھ ہوتو مقدر پہ ہے حکومت اپنی ،،،

بن تیرے زندگی کی اوقات ہی کیا ہے،،،،،

 🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"میڈم جی یہ چھوٹے صاب کے نوڈلز ہیں۔ایک ملازمہ نے عیش کو نوڈلز والا باؤل لا کر دیا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے۔لاو مجھے دو میں خودی کھلا دوں گی اسے تم جاؤ "

اس نے نوڈلز والا باؤل لے کر ایک طرف رکھا ۔۔۔۔

"رکو ۔۔۔۔وہ پلے روم میں گیا تھا اسے میرے پاس بھیج دو "

عیش نے جاتی ہوئی ملازمہ سے کہا تو اس نے مڑ کر اس کی بات سنی پھر اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی۔

وہ بستر پر ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔۔۔آج بھی عیش کو وہ چار سال پہلے گزرا ہوا  دن یاد تھا ۔۔۔جب ۔۔۔۔۔

عیش ڈار اپنے آفس میں بیٹھی فائلز پر سر جھکائے منہمک انداز میں کام کر رہی تھی ۔۔۔۔کہ اچانک دھاڑ کی آواز سن کر اس نے سر اٹھایا۔۔۔۔

سامنے ضامن کو کھڑے دیکھا جو جارہانہ تیور لیے اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔

عیش اپنی ریوالنگ چئیر سے اٹھی ۔۔۔۔

"دل تو چاہتا ہے تمہیں ۔۔۔تمہاری دھوکے بازی کے لیے زندہ زمین میں گاڑھ دوں"

وہ اس کی گردن کو اپنے آہنی ہاتھ میں جکڑ کے دیوار سے لگا گیا ۔۔۔۔

عیش اس کی مضبوط گرفت میں پھڑپھڑانے لگی ۔۔۔

حلق خشک ہونے لگا۔۔۔زبان تالو سے چپک گئی۔۔۔۔گلے سے آواز نکلنے سے انکاری تھی ۔۔۔۔بس گھٹی گھٹی آواز نکل رہی تھی۔وہ نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔۔۔چہرہ ضبط کی وجہ سے خون چھلکانے لگا۔۔۔جیسے جسم کا سارا خون چہرے پر سمٹ آیا تھا ۔۔۔۔

ضامن نے جھٹکے سے اسے چھوڑا ۔۔۔۔

وہ ضامن کے چھوڑتے ہی اپنے سینے پر ہاتھ رکھے لمبی لمبی سانسیں اپنے اندر کھینچنے لگی ۔۔۔۔اور اپنی رکی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے لگی ۔۔۔

ایسا لگ رہا تھا اگر وہ کچھ دیر کے لیے اور اس کا گلہ دباتا تو اس کی جان نکل جانی تھی ۔۔۔۔

"چاہتا تو تمہاری جان لے لیتا مگر ،،،تمہاری یہ سزا بہت کم ہے، زندہ رہ کر تڑپو تنہا یہی سزا ہے تمہاری "

عیش نے گہری سانس لیتے ہوئے اس کی طرف تیکھی  نگاہوں سے دیکھا۔

"میری تم سے کوئی دشمنی نہیں ۔۔۔۔۔

اس سب میں میں صرف زیگن خان سے بدلہ لینا چاہتی تھی ۔۔۔میرا شکار اس کے بیٹے تھے ۔۔۔۔بڑا تو ضرورت سے زیادہ ہوشیار تھا ۔اس پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑا ۔۔۔۔اور چھوٹے کی واپسی کا انتظار کرنا بہت مشکل تھا ۔۔۔۔اسی لیے اس گھر میں گھس کر ان سب کا اعتماد جیتنے کے لیے مجھے تمہارا سہارا لینا پڑا۔۔۔۔مانتی ہوں اس شطرنج کے کھیل میں آگے بڑھنے کے لیے تمہیں پیادے کے طور پر استعمال کیا۔۔۔۔مگر کب یہ عیش ڈار تمہیں اپنا دل دے بیٹھی ۔۔۔۔مجھے خود بھی خبر نہیں ہوئی۔۔۔۔میں صرف تمہاری ہوں ضامن ۔۔۔اور تم میرے ۔۔۔۔

"سچ کہا ہے کسی نے غیروں سے نہیں اپنوں سے ڈرو۔۔۔

غیر تو کھلم کھلا دشمنی نبھاتے ہیں۔مگر اپنے اپنا بن کے کب پیٹھ میں وار کیے آپکا اعتماد توڑ کر،،، آپ کو منہ کے بل ِگر ادیں،،، کچھ خبر نہیں،

وہ زہریلی مسکراہٹ لبوں پر سجائے بولا۔

"ضامن تم میرے ساتھ ایسا مت کرو "وہ التجائیہ انداز میں بولی ۔۔۔

کسی کے اعتماد کو توڑ کر اسکے سچے پیار کو پیروں تلے روند کر تمہیں وقتی تسکین ضرور مل جائے گی ۔۔۔مگر یہ بات یاد رکھنا۔۔۔تاعمر روح کے سکون کو تڑپو گی تم ۔۔۔ "وہ تلخی سے گویا ہوا۔

"ضامن میں ۔۔۔میں تم سے پیار کرنے لگی ہوں ۔۔۔وہ سب میں نے اپنی ماں کا بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔۔۔۔مگر اس سب میں تمہیں میں نے کبھی کوئی نقصان پہنچایا۔۔۔اور نا پہنچا سکتی ہوں "

وہ تڑپ کر اسکی طرف بڑھی ۔۔۔

"بس وہیں رک جاؤ !!!!ضامن نے ہاتھ اٹھا کر اسے وہیں رکنے کا اشارہ دیا ۔۔۔۔

"مگر ضامن !!!! 

"تم جیسی منافق دھوکے باز لڑکی کی میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں"

اعتماد ایک شیشے کے مانند ہے۔ایک بار ٹوٹ جائے تو کبھی جڑا نہیں کرتا "

"کبھی کسی شیشہ گر کو بکھری کرچیاں جوڑتے دیکھا ہے ؟؟؟بتاو ؟؟؟

عیش اس کی بات پر لاجواب رہ گئی ۔۔۔وہ اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی جو سخت تنا ہوا تھا ۔۔۔اسکے جبڑے کی ہڈیاں واضح دکھائی دے رہی تھیں۔

"بھروسہ توڑنے والے کی میری نظر میں یہی سزا ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے صلے میں خاموشی دے دی جائے ۔۔۔۔

 "اور تم کیا سمجھتی ہو میری فیملی کے دشمن کو میں اپنی زندگی میں جگہ دوں گا؟؟؟؟

ایک دھوکے باز لڑکی کو اپنی عزیز فیملی پر ترجیح دوں ؟؟؟

"ایسا کبھی سوچنا بھی مت "

"آئی بات سمجھ میں ؟؟؟

"سڑو ۔۔۔۔اکیلی ۔۔۔۔۔وہ اسے تنفر زدہ نظروں سے دیکھ کر  لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہے باہر نکل گیا۔۔۔۔

عیش شکست خوردہ ہوکر تہی داماں وہیں چئیر پر ڈھ سے گئی ۔۔۔۔

وہ یاد کرتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔۔۔۔

اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔۔

"مما !!!۔۔۔اس کی پیاری سے آواز عیش کے کانوں میں سنائی دی تو اس نے آنکھیں کھول کر ماضی کی یادوں سے پیچھا چھڑوایا۔۔۔۔

"ادھر آؤ مومن ۔۔۔یہ دیکھو تمہارے لیے نوڈلز بنوائے ہیں "

"مما مجھے نوڈلز نہیں چاہیے میں نے نگٹس کھانے ہیں "وہ منہ پھلا کر بولا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ راکنگ چئیر پر بیٹھا اس دن کے بارے میں سوچ رہا تھا جب ۔۔۔۔۔۔

"سر وہ میڈم جی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔وہ ہسپتال میں ہیں۔"ملازمہ نے ضامن کو فون پر بتایا ۔۔۔۔

وہ کبھی بھی اس فون کال پر نا جاتا مگر یہی سوچ کر اس نے جانے کا فیصلہ کیا کہ وہ اکیلی ہوگی ۔کیونکہ اس کے والد کا دو ماہ پہلے انتقال ہوچکا تھا۔۔۔۔وہ ایک پل میں فیصلہ لیتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چلتا ہسپتال کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا

ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔۔ایمرجنسی وارڈ میں حادثات کے بنا مختلف زندگیاں تڑپ رہی تھیں۔

ضامن پچھلے ایک گھنٹے سے ہسپتال کے کاریڈور میں چکر کاٹ رہا تھا ۔

"ایکسکیوزمی سسٹر۔۔۔" 

 پیشنٹ کی طبیعت بگڑ رہی ہے۔۔آپ جلد از جلد ' بلڈ' ارینج کریں۔۔مزید تاخیر ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔۔"

"کیا بچہ ؟؟؟؟اس نے حیرت اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں اپنی پیشانی رگڑی ۔۔۔۔۔

کچھ دیر کے توقف کے بعد بولا ۔۔۔۔"

سسٹڑ پلیز آپ انہیں بلڈ لگائیں۔میں  سارے ڈئیوز ادا کر دوں گا۔۔۔۔۔"

"جی ٹھیک ہے "

سسٹر نے پیشہ وارنہ انداز میں کہا ۔۔۔

"آئی سو سوری سر مگر ۔۔اُو نیگیٹو گروپ بہت کم میسر ہوتا ہے۔۔ہمارے ہاسپٹل میں بھی اویلبل نہیں، اسی لیے آپ کو خود ارینج کرنا ہو گا۔۔جلد پلیز۔۔۔!" سسٹر نرم لہجے میں کہتے ہوئی چلی گئی تو ضامن نے بلڈ کا ارینج کیا۔۔۔کچھ گھنٹوں بعد جب ڈاکٹر باہر آئیں تو انہوں نے بتایا کہ اسے بیٹا ہوا ہے۔۔۔

" پیشنٹ کی طبیعت اب پہلے سے بہتر ہے ۔۔۔مگر ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ۔۔۔۔آپ کو ان کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا ہوگا ۔۔۔۔سسٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔

وہ وقت غروب آفتاب کا تھا۔۔سورج ہر دن کی طرح اس وقت بھی ہر سُو پھیلی سُہنری کرنوں کو اپنے پروں میں سمیٹے منزل کی طرف رواں دواں تھا۔۔ڈوبتے ہوئے سورج کا یہ منظر جہاں ایک دلکش، حسین نظارہ رکھتا ہے ،وہیں اندھیروں میں گم ہوتا روشنیاں بکھیرتا سورج یہ سبق بھی دیتا ہے کہ چاہے وہ دن بھر کتنے ہی آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہوا ہر شے کو سفیدی دینے پر مغرور ہو، آخر کار اسکے سحر کا اختتام ضرور ہو گا۔۔

وہ ہسپتال کے باہر کھلے میدان میں سنگی بینچ پر بیٹھا' دونوں کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے' بازو پیچھے کی جانب موڑ کر ایک ہاتھ کی مٹھی پر تھوڑی ٹکائے'آسمان پہ موجود  سورج کی آنکھوں میں اپنی سرخ انگارہ بنی آنکھیں گاڑھے کچھ دیر قبل رونما ہونے والے واقع کو سوچ رہا تھا۔۔۔۔سب کچھ کھو دینے کے بعد اسے اپنا تن من تپتی ہوئی بھٹی میں جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔اسکے اندر نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی، ایسی آگ جس میں وہ عیش ڈار کے وجود کو جلا کر بھسم کر دینا چاہتا تھا۔مگر اب وہ اس کے بچے کی ماں بن چکی تھی ۔۔دل تھوڑا نرمی برتنے کا خواہاں ہوا ۔۔۔۔مگر اس کا دھوکہ زہن میں آتے ہی اسے پھر سے اپنا تن من جھلستا ہوا محسوس ہونے لگا ۔۔۔

اس نے  ہاسپٹل کا بل ادا کیا ۔۔۔پھر نرسری میں موجود اپنے نومولود بچے کو اٹھا کر پیار کرتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔۔عیش کے گھر سے اس کی ملازمہ کو اسکے پاس ہاسٹل چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔۔مگر عیش سے ایک بار بھی نہیں ملا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

انہوں نے حویلی میں قدم رکھا ۔۔۔تو سب لوگ ویکینڈ ہونے کے باعث گھر میں موجود تھے ۔۔۔۔

انہیں اچانک سامنے دیکھ کر پہلے تو سب حیرت زدہ رہ گئے پھر خوشی کی لہر پورے گھر میں دوڑ گئی اتنے سالوں بعد انہیں سامنے دیکھ کر ۔۔۔گھر میں ہلچل مچ گئی۔۔۔سب ایک دوسرے سے خوشدلی سے ملے ۔۔۔۔

ذوناش اور زیگن کی آنکھیں نم تھیں اپنے بیٹے کو دیکھ کر وہ آج بھی اپنے پورے جاہ و جلال سے انکے سامنے کھڑا تھا پورے خاندان میں اسکے جیسا کوئی نا تھا ۔۔۔ذوناش نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی نظر اتار ڈالی ۔۔۔۔

"کیسے ہو بیسٹ بڈی ؟ضامن نے آگے بڑھ کر شیر زمان کے گلے لگتے ہوئے کہا ۔۔۔

"پرفیکٹ ۔تم سناؤ ؟؟؟فیملی کدھر ہے ؟؟؟شیر زمان نے نظریں گھما کر دیکھا جب کسی کو نا پایا تو سوال پوچھا ۔۔۔۔

"وہ اپنے دوسرے گھر ہے ۔شام تک آجائے گی "زیگن نے اسے جواب دیا ۔۔۔

"ضامن نے حیران کن نظروں سے زیگن کو دیکھا ۔۔۔جنہوں نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ کیا۔

پھر زیان شیر زمان کے گلے لگا تو ہلکے پھلکے انداز میں رسمی سلام دعا ہوئی ۔۔۔

زریار بریرہ اور زیان ایک ہی صوفے پر بیٹھے تھے ۔۔۔۔زریار کی گود میں آیت تھی ۔۔۔جبکہ بریرہ کی گود میں زیان کا بیٹا آعیان تھا ۔۔۔۔

شہریار ہاؤس میں ہیر کی واپسی کی خبر ملی تو وہ سب بھی ملکر حویلی پہنچ گئے ۔۔۔۔

اب حویلی میں چاروں طرف خوشیوں بھرا ماحول تھا ۔۔۔بڑوں کی آپس میں الگ محفل جمی ہوئی تھی ۔۔۔۔

ینگ پارٹی سب اپنے اپنے بیتے دنوں کی روداد ایک دوسرے کو سنا رہے تھے ۔۔۔جبکہ بچوں نے تو آپس میں کھیلتے ہوئے سارا گھر سر پہ اٹھا رکھا تھا ۔۔۔ کوئی آپس میں کھیل رہا تھا تو کوئی ایک دوسرے کو مار رہا تھا ۔۔۔۔

یہ بات کہنا ٹھیک ہوگا کہ آج حویلی چڑیا گھر کا منظر پیش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

یہ ایک بیسمینٹ کا منظر تھا  جہاں ہر سو رنگ برنگی  روشنیاں جل رہیں تھیں۔تیز بے ہنگم آواز میں میوزک چل رہا تھا ۔۔۔ادھ برہنہ لباس میں موجود حسینائیں اپنے حسن کے جلوے بکھیر رہی تھیں۔۔۔ایک طرف بڑی سی بار تھی ۔۔۔جہاں بیش بہا شراب کی بوتلیں وافر مقدار میں موجود تھیں۔۔۔۔چرس ,گانجا ،افہیم کے پیکٹ اور ہتھیار جابجا بکھرے پڑے تھے۔۔۔۔کچھ لوگ ہاتھ پر ہاورڈ ڈالے اسے ناک کے قریب کیے سونگھ رہے تھے ۔۔۔ بار کے نزدیک میز اور چند کرسیاں اس کے اردگرد رکھی ہوئی تھی۔ کرسیوں پہ دو دراز قد آدمی بیٹھے تاش کھیلنے کا کام سر انجام دے رہے تھے۔۔۔کچھ لوگ سیگریٹ میں پاؤڈر بھرے انہیں  ساتھ ساتھ منہ میں دبائے ہوئے تھے ۔ سیگریٹ کا دھواں وہاں کے ماحول کو بدبو دار بنائے ہوا تھا ۔

بیسمینٹ کے عین وسط میں وہ دیو ہیکل وجود جو سیاہ فام کی طرح دکھائی دیتا سیاہ لباس میں موجود گلے میں سونے کی چین ڈالے منہ میں سگار دبائے ۔۔۔دھوئیں کے گول گول مرغولے ہوا میں چھوڑ رہا تھا جس کی کلائی پر سکارپین کنگ کا نشان تھا ۔۔۔وہی نشان اس کے ہر آدمی کی کلائی پر بھی موجود ہوتا ۔۔۔۔ دفعتاً دروازے کی اینٹرینس سے کوئی اندر آیا ۔۔۔۔

" باس...وہ آگیا ۔۔۔۔"

"جس کا ہمیں انتظار تھا"

"اور خاص کر مجھے ۔۔۔میرے ساتھ اس نے جو کیا تھا اب وقت آگیا ہے اس سے اپنا بدلہ چکانے کا ۔عمر آفندی اپنی ایک بند آنکھ پر ہاتھ رکھ کر بولا جہاں ابھی بھی کالی پٹی بندھی تھی ۔وہ ایک آنکھ سے نا بینا ہوچکا تھا ۔

"اس سے بدلہ لینے کا وقت آن پہنچا ہے "وہ تمسخرانہ انداز میں بولا ۔۔۔۔

"باس یہی ہے وہ مخبر جو ہماری خبریں پولیس کو دیتا تھا ۔۔۔۔سکارپین کنگ کے ایک خاص آدمی نے اس لڑکے کو کنگ کے پاؤں میں پھینکتے ہوئے کہا۔۔۔

"بند کرو یہ سب "سکارپین کنگ کی سرسراتی ہوئی آواز گونجی۔ ۔۔۔۔

ماحول میں یکدم خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔میوزک بھی بند ہوگیا اور لوگوں کی چلتی ہوئی سانسیں بھی ساکت رہ گئیں۔۔۔۔۔

وہ لڑکا بھی بےدم ہوکر فرش پہ گرا پڑا تھا ۔۔۔

وہاں موجود سب کی نظریں اس لڑکے کے وجود پر ٹکیں ہوئیں تھیں ۔۔۔نجانے کنگ اسے کیا سزا دینے والا تھا ۔۔۔

۔کنگ نے اس لڑکے کو خون آشام نگاہوں سے گھورا۔

کنگ نے اس لڑکے کے سینے پر زوردار  لات ماری ۔۔۔۔وہ تڑپ کر رہ گیا۔۔۔

کنگ آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک لیے مکروہ قہقہہ لگاکر ہنس دیا۔۔۔۔۔

جبکہ وہ لڑکا درد کی شدت سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھے درد سے کراہ رہا تھا۔۔۔

وہاں موجود سب لوگ  دوسرے کو دیکھتے خباثت سے مسکرادئیے ۔۔۔۔۔۔۔

عمر آفندی جو سکارپین کنگ کا خاص آدمی تھا گھسیٹ کر میز کے پاس رکھی ایک کرسی اٹھالایا اور کنگ کے سامنے رکھے  بیٹھ گیا ۔۔۔۔

"اس نے ہمارا بہت سا مال پکڑوایا تھا ۔ہمارے بہت سے لوگوں کی جان لی ۔۔۔"کنگ

 پوری شان سے ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پہ رکھے صوفے پر براجمان تھا ۔۔۔

"کنگ کی ڈکشنری میں دھوکا دینے والوں کا انجام بہت برا ہے ۔۔۔۔"اس کی گھمیبر آواز گونجی ۔۔

وہ تند نگاہوں سے اسے  گھورتے ہوئے چنگھاڑ ا اور اس لڑکے کے سر کے بال مٹھی میں جکڑتے ۔۔۔جھٹکے سے چھوڑ  کر بولا۔۔۔۔

سکارپین کنگ کے ہاتھ میں موجود گن دیکھ کر 

 اس لڑکے کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے والی ہوگئی۔ 

"م۔۔مجھے معاف کر۔۔۔۔دیں۔"

وہ کانپتے لہجے میں اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑانے لگا ۔۔۔۔وہ کنگ کے ڈر سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔۔۔

سکارپین کنگ کی آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا وہ گردن پیچھے کو گرائے مکروہ قہقہہ لگاکر ہنس پڑا ۔۔۔۔

جبکہ اس لڑکے کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہورہا تھا۔۔۔

لیکن مقابل کے پتھر دل پہ اس کے آنسوؤں کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ وہ اس کی بےبسی سے لطف اٹھارہا تھا۔

تبھی وہاں ٹھاہ !!!!کی آواز گونجی اور اس لڑکے کی نم آنکھیں ہمیشہ کے لیے ساکت ہوگئیں۔۔۔۔۔

"جاؤ اس کی کمزوری کو اٹھا لاؤ ۔۔۔۔گھٹنوں کے بل گڑگڑاتا ہوا آئے گا "

اس نے بارعب آواز میں حکم جاری کیا۔۔۔۔

سکارپین کنگ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے اس کے کچھ آدمی باہر نکل گئے ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ڈنر کے وقت سب ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے ۔۔۔سوائے زیگن کے ذوناش نے سب سے زیگن کی بارے میں پوچھا مگر سب کو اسکے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ تھا وہ سب کندھے اچکا کر رہ گئے۔۔۔۔

جنت ،منت اور زائشہ تینوں ملکر ڈائننگ پر کھانے کے لوازمات چن رہی تھیں۔

تبھی دروازے کی اینٹرینس سے پہلے زیگن داخل ہوا اور اس کے پیچھے عیش اور مومن بھی ۔۔۔۔

ضامن اسے دیکھ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا ۔۔۔

اس کے چہرے پر سرد تاثرات تھے عیش کو وہاں آتے دیکھ ۔

"ضامن ۔۔۔۔!!!عیش کو میں یہاں لایا ہوں ۔۔۔اور میں تم سے امید رکھتا ہوں کہ تم اپنے بیٹے کی خاطر اسے معاف کردو ۔۔۔۔جبکہ میں اسے معاف کرچکا ہوں ۔۔۔عیش نے دوسرے ہی دن کاغذات مجھے لوٹا دئیے تھے ۔۔تو بات ہی ختم ہوگئی تھی ۔۔۔تم بھی اس بات کو وہیں ختم کردو ۔۔۔۔گڑے مردے اکھاڑنے کا کیا مطلب ؟؟؟

"آج گھر میں سب موجود تھے سوائے عیش اور مومن کے ۔۔۔۔ان کے آنے سے ہمارا گھر مکمل ہوگیا ۔۔۔۔

میری بات کا بھی مان نہیں رکھو گے ؟؟؟

انہوں نے ضامن کی طرف دیکھ کر مان بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

ضامن نے جبڑے سختی سے بھینچ رکھے تھے ۔پیشانی کی رگیں پھولیں ہوئی تھیں۔مگر زیگن کی بات سن کر یکلخت درشتگی ،،، پرسکون انداز میں بدل گئی ۔۔۔۔

 "ٹھیک ہے بڑے پاپا ۔۔۔آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔۔۔۔اس نے مؤدب انداز میں کہا۔۔۔۔

تو عیش سب سے پہلے زرشال اور زمارے کے پاس گئی اور ان سے معافی مانگتے ہوئے ان کے گلے لگی ۔۔۔۔

سب عیش سے پرانی باتوں کو بھلائے خوش دلی سے ملنے لگے ۔۔۔

عیش نے ایک نظر ضامن پر ڈالی ۔۔۔مگر ضامن نے رخ پھیر لیا ۔۔۔اور مومن کو اپنی گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگا ۔۔۔۔

سب نے ملکر ایک پرتکلف ڈنر کیا ۔۔۔یوں ایک خوشگوار ،اور یادگار شام سب نے ساتھ گزاری ۔۔۔۔۔

دوپہر کو آفس سے لنچ ٹائم  پر ابتسام گھر آیا اور آکر وہ منت کو پک کرتے ہوئے بچوں کے لیے شاپنگ پر لے گیا ۔۔۔موسم بدل رہا تھا اسی حساب سے ان دونوں نے اپنے بیٹے احتشام اور وانیہ کے لیے شاپنگ کی ۔۔۔ابتسام نے منت کو بھی ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کروائی ۔۔۔۔۔

وہ دونوں شاپنگ مال سے باہر نکل رہے تھے کہ ایک تیز رفتار بائیک نے منت کو کچل کر گزر جانا چاہا ۔۔۔۔

مگر منت کی قسمت اچھی تھی کہ ابتسام نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے اسے فورا اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔۔اور وہ کسی خطرناک حادثے کا شکار ہونے سے بچ گئی ۔۔۔۔ابتسام کی سانس میں سانس آئی ۔۔۔۔۔

دونوں شام کو لدے پھندے گھر لوٹے ۔۔۔۔احتشام اور وانیہ دونوں زائشہ کے پاس تھے ۔۔۔

راستے میں  ڈرائیو کرتے ہوئے ابتسام کو مسلسل کسی سوچ میں گم دیکھ منت نے اس سے تھوڑی بہت بات کی پر آگے سے اس نے مختصر جواب دیا تو وہ خود بھی خاموش ہوگئی۔

ڈنر کے بعد دونوں بچوں کو سلایا تو ۔۔۔ منت تھکن کی وجہ سے چینج کر کہ خود بھی سونے چلی گئی،جبکہ ابتسام  ایک نرم نگاہ اس پر ڈال کر کمرے سے ملحقہ ٹیرس میں چلا گیا۔

آدھی رات کو پیاس سے منت کی آنکھ کھلی تو وہ اٹھ کر پانی پینے کے بعد ،ابھی لیٹنے ہی لگی تھی کہ اسے ابتسام کمرے میں اور اپنی جگہ پر نظر نہیں آیا تو ،منت حیران ہوئی،اپنی مندی مندی آنکھیں مسلتے ہوئے وہ بیڈ سے دوبارہ  اٹھی تھی،وہ روم سے نکلنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اسے بالکونی سے سگریٹ کی سمیل آئی،اسنے اپنے قدم اسی طرف موڑ لیے ،وہاں جاکر منت نے دیکھا ابتسام وہاں  خاموشی سے کھڑا سموکنگ کررہا تھا ۔۔۔کسی گہری سوچ میں غرق  مسلسل اوپر نظر کیے کھلے آسمان کو دیکھ رہا تھا،

ابتسام !!!!!۔۔۔

اسکے برابر میں کھڑے ہوتے ہوئے منت نے اسے ہلکی آواز میں پکارا،،

منت کے پکارنے پر ابتسام  سگریٹ نیچے گرا کر پیروں سے مسلتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔

کیا ہوا؟

وہ نرم لہجے میں پوچھنے لگی ۔۔۔ جس پر ابتسام نے  خالی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

،وہ بےساختہ اس پر جھکتے ہوئے اس کی آنکھوں کو چوم گیا،منت حیا سے سمٹی تھی اسکی عنایت پر،

ایک بات پوچھوں؟

اس نے دھیمی آواز میں منت  کا چہرہ ہاتھوں میں تھامتے ہوئے پوچھا تو وہ ہلکے سے اثبات میں سر ہلانے لگی۔

اگر مجھے کچھ ہوا یا میں نہیں رہا تو۔۔۔۔

ابتسام  کے الفاظ منہ میں رہ گئے جب منت نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا اسکی آنکھیں پل میں سرخ ہوئیں تھیں،

ابتسام ۔۔۔ایسے کیوں۔۔۔بول۔۔رہے۔۔ہیں آپ۔۔۔

وہ تڑپ ہی تو گئی تھی،اس بےخبر لڑکی نے تو صرف خوشیاں دیکھیں تھیں اپنی زندگی میں،پہلی بار کسی غم کا سوچ کر اسکا تڑپنا لازم تھا،

مسسز ۔۔۔میں تو بس یونہی پوچھ رہا تھا۔۔۔

اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے دیکھ ابتسام نے جلدی سے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا

یوں بھی نہ پوچھیں۔۔۔مجھے اچھا نہیں لگتا یہ سننا بھی۔۔۔

وہ روٹھتے ہوئے بولی ،

"منت تم سے دور ہونے کا خیال ہی سوہان روح ہے۔تم سے دور ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔۔۔۔تم نہیں جانتی تم نے میرے دل پر اپنا تسلط جما لیا ہے ۔۔۔۔

"یہی سوچتا ہوں اگر میں نا رہا تو تم کیا کرو گی "

"مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی "وہ خفگی سے چہرہ پھیر گئی ۔۔۔

اچھا سوری نہیں بولوں گا آئندہ۔۔۔

وہ مسکراتے ہوئے بولا جس پر منت نے ایک نظر اسے دیکھ کر ابتسام  سے دور ہوتی ہوئی واپس روم میں جانے لگی،پر بالکونی کے دروازے  پر پہنچ کر وہ رکی تھی،ابتسام  یونہی گردن موڑے اسکی پشت کو دیکھ رہا تھا،اچانک وہ پلٹی پھر چند قدم اٹھا کر واپس اسکے قریب آئی،کچھ لمحے اسے دیکھنے کے بعد منت نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔اور خود سپردگی کے انداز میں اس کے گرد اپنی بازو باندھ لیں ۔۔۔۔

ابتسام اس کے انداز پر جی جان سے مسکرایا ۔۔۔۔

پھر اسے خود سے الگ کیے اسکے حسین چہرے کو دیکھا۔۔۔۔تمام فاصلے سمیٹ کر   اسکے لبوں پر اپنے لب رکھ گیا ،منت جو حیرت کی مورت بنی اسکے اس انوکھے عمل کو دیکھ رہی تھی،اب آنکھیں بند کیے اسکے نرم لمس کو محسوس کرنے لگی ،وہ کچھ دیر بعد اس سے دور ہوئی تھی پر اگلے ہی لمحے ابتسام نے اسکی نازک کمر کے گرد اپنے مضبوط بازو حائل کردیے،اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اندر لے گیا ۔۔۔۔

جہاں اس کے دونوں بچے محو استراحت تھے ۔۔۔۔

وہ دونوں آج ایک دوسرے کی ہمراہی میں مطمئن اور خوش تھے ۔ان کی زندگی پرسکون اور مکمل تھی ۔۔۔۔چاند تارے بھی ان کی زندگی میں دائمی خوشیوں کے لیے دعا گو تھے ۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ واشروم سے نکلا تھا اپنے گیلے ہئیر کٹ میں انگلیاں چلاتے ہوئے۔۔۔ کبرڈ کا خفیہ دراز کھول جہاں اس نے یو۔ایس ۔بی سیو کی تھی۔۔۔۔۔سکارپین کنگ کے بارے میں کچھ ضروری معلومات موجود تھیں اس میں۔ 

غصے کے عالم میں وہ کبرڈ کا دروازہ پٹخ گیا ۔۔۔۔زوردار اونچی آواز سے عیش ڈار کی آنکھ کھلی ۔۔۔۔

وہ ٹیبل سے اپنی گاڑی کی چابی لے کر والٹ جیب میں ڈالتے ہوئے باہر نکلنے لگا ہی تھا کہ ۔۔

کہا ں جا رہے ہو ؟

ہٹو سامنے سے۔۔۔اس کی طرف دیکھے بغیر کہا تھا۔۔۔۔

نہیں ہٹوں گی۔۔۔اس نے ہٹ درمی دکھائی تھی۔۔ 

ہٹو۔۔ ۔غصے سے کہتے ہوئے ضامن نے اسے دھکا دیتے ہوئے   قدم باہر کی جانب بڑھائے تھے۔۔۔

"کیا چاہیے ؟؟؟عیش نے ضامن کی کلائی پکڑ کر اسے جانے سے روکتے ہوئے کہا ۔۔۔

ادھر کبرڈ میں میری ایک ضروری یو۔ایس۔بی پڑی تھی ۔۔۔۔وہ بھی اب وہاں  نہیں ۔۔۔۔۔

وہ سوالیہ انداز میں ابرو اچکا کر سپاٹ لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

"مجھے کیا پڑی ہے تمہاری چیزوں سے چھیڑ خانی کرنے کی ۔ ۔۔۔۔

"عیش سچ بتاؤ مجھے ورنہ وہ دھمکی آمیز انداز میں انگلی اٹھا کر بولا ۔۔۔۔

دیکھو دل مجھے سچ بتانا ۔۔

"چٹیاں کلائیاں وے۔

او بے بی میری چٹیاں کلائیاں وے۔

تیرے حصے آئیاں ہیں ۔۔او بے بی میرے تیرے حصے آئیاں ہیں ۔۔۔۔من جا وے او مینوں شاپنگ کرادے ریکوئسٹاں پائیاں وے "

وہ ضامن کے آگے اپنی سفید بازوؤں کو لہرا کر بولی ۔۔۔آخر میں دونوں ہاتھوں سے اپنے کان پکڑ لیے ۔۔۔اور معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر اس سے معافی مانگنے لگی ۔۔۔۔۔

"مان جاؤ نا پلیز ۔۔۔

ریکوئسٹ یو .....

پھر اس کے گلے لگ گئی ۔۔۔۔

"امتحان لینا چاہتی ہو میرا۔۔۔میرے اتنے قریب آکر۔۔۔ وہ اس کی اتنی قربت سے ہی موم پر گیا تھا۔۔۔۔ 

عیش اس نے اس کی پیشانی  کے ساتھ پیشانی جوڑ کر ضامن  کی سانسیں اپنے اندر اتاریں تھیں۔۔۔۔ اور اب ضامن  کی ہمت ختم ہوئی تھی۔۔۔

کیا چاہتی ہو؟؟؟۔۔۔  اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود سے قریب کر کے  اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا تھا۔۔۔

معا فی۔۔۔۔اس نے پلکیں جھکا کر کہا تھا۔۔۔ لمبی گھنی مڑی ہوئی پلکیں ہولے ہولے لرز رہیں تھیں۔۔۔۔

"عیش میرے پاس بھی تمہارے دستخط شدہ پیپرز موجود تھے میں چاہتا تو کچھ بھی کر سکتا تھا ۔۔۔تمہاری ساری پراپرٹی ضبط کیے تمہارے سڑک پر لا سکتا تھا مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔۔۔۔بس تم سے اس دھوکے کی امید نہیں تھی ۔"

معافی ناممکن ہے " 

نہیں۔۔اس نے اس کے ہونٹوں پر اپنے نرم گداز ہاتھ رکھے تھے۔۔ 

نہیں ضامن  چار سال کی جدائی کی سزا دے چکے ہو تم مجھے اب اور نہیں سہہ پاؤں گی ۔۔۔۔مجھے معاف کردو ضامن ۔۔۔میں پاگل تھی جو ساری سچائی جانے بنا ایسا کرگئی ۔۔۔مجھے خود سے دور مت کرو پلیز ضامن۔ ان چار سالوں میں۔ میرے دل کی  دھڑکنوں نے تمہارے نام کی تسبیح کی ہے۔۔ ۔کیا تم اپنی اس گینگسٹر بیوی کو معاف  نہیں کر سکتے۔ پلیز ایک بار ۔۔۔اس نے ہاتھ جوڑتے اور روتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ اور بس اسکی آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو دیکھ کر ضامن کی ساری ناراضگی ختم ہوئی تھی اس نے اسے بانہوں میں اٹھایا تھا بیڈ پر لا کر آرام سے بٹھایا تھا۔۔۔

"تمہارے بنا میں نے بھی بہت  اذیت کاٹی ہے ۔۔۔پل پل مرا ہوں میں بھی ۔۔۔۔

"چلو اب یو ایس بی واپس کرو ۔۔۔۔۔نہیں تو خود نکال لوں گا "

"تم نہیں نکال سکتے ایسی جگہ پر ہے وہ "

ضامن دی گریٹ کی پہنچ سے سے کوئی چیز بھی دور نہیں ۔۔۔وہ کہتے ہیں نا کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں ۔اسی طرح ضامن دی گریٹ کے ہاتھ بھی بہت لمبے ہیں کہیں بھی پہنچ جائیں گے ۔۔۔۔اس نے عیش کے فراک کو شانے سے سرکایا ۔۔۔۔

Ohhhhh......

My favorite color black .....

وہ اسے گلے سے جھانک کر شرارت سے مسکرایا ۔۔۔

"بس شروع ہوگیا تمہارا چھچھورپن ۔۔۔۔وہ اسے دھکا دے کر بولی ۔۔۔۔

"خود ہی نکال لوں پھر یو ایس بی یا دے رہی ہو "

وہ آنکھ ونگ کیے شرارت سے بولا ۔۔۔۔

عیش یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔۔۔کتنی دیر بعد اس کی پیاسی آنکھوں نے یہ منظر دیکھا تھا ۔۔۔وہ اسکی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔

ضامن نے جھک کر اس کے چہرے کے ہر نقش کو اپنے لبوں سے چھوا ۔۔۔۔

اور وہ  بے اواز آنسوؤں سے اس کے ہر لمس کو خود میں تحلیل ہوتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ 

"ضا۔۔۔۔ضام۔۔۔۔۔ن 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ اس کی سانسوں کو اپنے قبضے میں لے چکا تھا۔۔ کتنی دیر وہ اس کی سانسوں کو گم کیے رہا ۔۔۔۔وہ اس کو پیچھے کرنے کی مزاحمت کر رہی تھی مگر وہ اپنی  گرفت ڈھیلی نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔

اچا نک عیش کی مزاحمت ڈھیلی پڑ گئی تھی۔۔۔  اس نے اس کی غیر ہوتی حالت کے باعث اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے نجات دی تھی۔۔۔۔ 

آج میں کسی بھی نا سننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔۔۔اس نے اس کے نازک سراپے پر تسلط جمائے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

"نہ ۔۔۔نہیں ۔۔۔ضامن !!!

میں دیتی ہوں ۔۔۔پلیز ۔۔۔۔

"میں لے لوں گا گینگسٹر ۔۔۔۔

"میں کہہ رہی ہوں نا "

"میں لے رہا ہوں نا ۔۔۔۔

"اس کے نا نا کرتے ہوئے بھی ضامن نے اپنا کام کردکھایا اور محفوظ جگہ سے یو ایس بی نکال لی ۔۔۔۔

عیش اس کی ہمت پر حق دق رہ گئی ۔۔۔۔

آج تم نے خود میرے پاس آکر میرے سوئے ہوئے  جذبات کو جگایا ہے  اب بھگتنا پڑے گا  ساری رات میری شدتوں کو جن پر میں نے چار سال سے پہرے بٹھائے ہوئے تھے۔۔۔۔

اور میرا بیٹا بہت سمجھدار ہے آرام سے سو رہا ہے اپنے مام ڈیڈ کو تنہا وقت گزارنے کا موقع دئیے ۔۔۔اس کی فکر مت کرو ۔۔۔

کہتے ہوئے اس نے اپنی شرٹ اتار کر دور صوفے پر پھینکی تھی۔۔۔۔اور  اس کو کروٹ کے بل کرتے اس کی فراک کی زپ کھولی تھی۔۔۔۔

اسے اس کی شدتوں سے خوف آیا تھا مگر کیا کرتی اس کی ناراضگی بھی تو خود ختم کی تھی۔۔۔اب اس ضامن دی گریٹ کی شدتوں کو بھی برداشت کرنا ہی پڑنا تھا

 وہ ادھ کھلی آنکھوں سے ضامن  کی آنکھوں میں دیکھنے لگی،جس میں اب الگ ہی سحر دکھائی دے رہا تھا۔عیش مطمئن سی ہوکر آنکھیں موند گئی،رات کی خاموشی میں دونوں کے جذبات کا طلاطم برپا ہوا تھا،چاند ان دونوں کے خوبصورت ملن پر شرما کر بادلوں کے اوٹ میں چُھپ گیا۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"زائشہ اب بس بھی کرو اور کتنے کام رہ گئے ۔؟؟وہ جھنجلا کر بولا 

"باقی کے صبح نبٹا لینا"

زائشہ نے اس کی بات پر سارے کپڑے الماری میں رکھتے ہوئے پلٹ کر دیکھا ۔

"بس ہوگیا ,"

وہ حذیفہ  اور منساء  کی پیشانی پر پیار بھرا بوسہ دیتے ہوئے اپنے بستر تک آئی ۔

"اول تو یہ دونوں وقت سے سوتے نہیں ،اور اگر سو جائیں تو آپکے کے کام ہی ختم نہیں ہوتے ۔"وہ مصنوعی خفگی چہرے پر سجائے بولا۔

"اور وہ جو آپ روز رات کو لیٹ گھر آتے ہیں اس کا کون ذمہ دار ہے۔؟؟

کبھی وقت بے وقت فلائیٹ پر چلے جاتے ہیں ۔۔۔

"میں بھی تو انتظار کرتی رہتی ہوں ۔یہ اسی کا بدلہ ٫زائشہ مسکرا کر بولی۔

"اچھا جی اب آپ ہم سے بدلہ لیں گی "وہ زائشہ کی کلائی پکڑ کر اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔

زائشہ کی گھنی پلکیں بار حیا سے جھکی ہوئی لرزنے لگیں۔

"کہاں سے سیکھی ہیں یہ قاتل ادائیں ؟؟؟وہ اس کے گال کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے خمار آلود آواز میں پوچھ رہا تھا ۔

زائشہ نے پل بھر کے لیے حیرت سے پلکیں اٹھا کر دیکھا پھر واپس نظریں جھکا لیں۔

"وہ میں سوچ رہا تھا کہ منساء کو ایک بہن کی ضرورت ہے اور حذیفہ کو ایک بھائی کی تو کیوں نا ان دونوں کی خواہش پوری کریں ؟؟

"حسام پلیز زیادہ باتیں مت بنائیں ۔۔۔وہ دونوں کافی ہیں ایک دوسرے کے لیے ۔پہلے ہی مجھے سارا دن بہت تنگ کرتے ہیں ۔مزید کے بارے میں سوچیے گا بھی نہیں "

وہ اس کی گرفت سے اپنا آپ چھڑوانے کے لیے پر تولنے لگی ۔۔۔۔

"اونہوں ۔۔۔۔اس گرفت سے فرار ناممکن ہے ۔۔۔زائشہ !!!!

وہ اسے مزید قریب کیے بولا ۔

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔حسام  ۔۔۔۔

وہ اس کی نظروں کا مفہوم جان کر پیچھے کھسکنے لگی ۔۔۔۔۔

"ٹوئنز کی ٹرائی کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔وہ اس کے کان کے قریب چہرہ لے جا کر کہتے ہی اس کے کان کی لو کو دانتوں تلے دبا گیا ۔۔۔۔

حسام کی من مانیاں عروج پر تھیں ۔۔۔۔زائشہ نے اپنا آپ اسکے حوالے کردیا بھلا اتنے پیار سے سمیٹنے والے کو کون انکار کر سکتا تھا ۔۔۔ان چار سالوں میں حسام  نے زائشہ کو بے انتہا محبت دی تھی ۔۔۔۔۔کہ اس کا دامن تنگ پڑنے لگا تھا ۔۔۔اس کی بے پناہ محبت کو سمیٹتے ہوئے ۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"سنیں نا !!!  آج آپ کے لیے میں خود اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بناؤں گی "وہ بستر سے نکل کر تیزی سے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے بولی 

"مائی لٹل وائفی !!! میرا پیٹ خراب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں "

"ہیں ۔۔۔۔یہ کیا ۔۔۔؟؟؟میرے بنائے ہوئے کھانے سے آپ کا پیٹ خراب ہوجائے گا ؟؟؟

وہ حیرت سے پوری آنکھیں کھول کر بولی ۔

"نہیں۔ ۔۔۔ایسی بات نہیں ۔۔۔تم پہلے مما سے کھانا بنانا سیکھ لو پھر میرے پیٹ پر ایسا تجربہ کرنا ۔۔۔۔

"میں نا آج مما سے بریانی بنانا سیکھوں گی پھر رات میں آپ وہی کھانا ۔۔۔

"لٹل وائفی پہلے ایگ بوائل کرنا تو سیکھ لیں ۔۔۔یہ بریانی بنانا تو دور کی بات ہے "

"آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں پھوہڑ ہوں ؟؟؟

"میں نے ایسا کب کہا ۔۔۔۔

"آپ پر یہ گھر کے کام کرنا سوٹ نہیں کرتے صرف ایک کام کرنا اچھا لگتا ہے "وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور اسکے قریب آیا ۔۔۔۔

"وہ کونسا ؟؟؟اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"مجھ سے پیار کرنے کا "

وہ اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے کر نرمی سے بولا ۔۔۔۔

"میں نہیں بولتی آپ سے ۔۔۔ابھی آپ نے مجھے کتنی باتیں سنائیں ۔۔۔وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولی۔

"آپ کو یاد ہے کہ ڈاکٹر نے کیا کہا تھا کہ آپ کو زیادہ سے زیادہ ریسٹ کرنی ہے اس حالت میں سیون منتھ ہے۔ہماری لٹل پرنسز آنے والی ہے جو کہ بالکل میری لٹل وائفی کی طرح ہوگی ۔۔۔اور اس کے لیے آپکو اپنا بہت سا خیال رکھنا ہے ۔میں نے مما سے رات میں بات کی تھی وہ صبح یہاں کی بہترین گائناکالوجسٹ کے پاس لے جائیں گی ۔۔۔

"مگر مجھے آپ کے ساتھ جانا ہے "

"ہیر دراصل آج مجھے شاہ من سے ملنے اسلام آباد جانا ہے۔اس نے وہاں کی کمپنی کو سنبھال رکھا ہے۔وہ اور دعا وہیں رہتے ہیں۔اپنی بیٹی کے ساتھ ۔۔۔۔ایک تو اس کی کمپنی میں کوئی مسلہ چل رہا ہے اسے بھی سورٹ آؤٹ کرنا ہے پھر واپسی پر انہیں اپنے ساتھ لے آؤں گا سب آپس میں مل لیں گے ۔۔۔۔

"چلیں ٹھیک ہے جیسا آپ کو مناسب لگے "

"میری لٹل وائفی بہت سمجھدار ہوگئی ہے۔سب بہت جلدی سمجھ جاتی ہے "

"زمان جی اب آپ کی لٹل وائفی بڑی ہوگئی ہے نا اسی لیے ۔۔۔۔"وہ اپنے تئیں سمجھداری سے بولی ۔۔۔۔

شیر زمان کو اس کی معصوم سی صورت پر پیار آیا تو اس نے ہیر کے گال پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔

جوابا ہیر نے بھی اپنے پاؤں اونچے کیے تھوڑا سا اوپر اٹھ کر اس کے ڈمپل پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔

شیر زمان نے اس کی رضامندی دیکھ کر اپنی جسارتیں بڑھا دیں ۔۔۔اب اس کے لب ہیر کی صراحی دار گردن پر سفر کر رہے تھے ۔۔۔۔

"ڈیڈ آپ مما سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں ؟؟؟

"کبھی۔۔۔۔ ہم سے بھی کر لیا کریں "

آریان نے چہرے سے کمفرٹر ہٹا کر ان کے رومانس میں خلل ڈالا ۔۔۔

"اوئے نمونے تم تو سوئے ہوئے تھے "شیر زمان ہیر سے پیچھے ہوتے ہوئے ابرو اچکا کر اس سے تیکھے لہجے میں گویا ہوا۔۔۔

"ڈیڈ ہم تو ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں "

ان تینوں نے شیر زمان کو غصے میں دیکھ واپس منہ پر کمفرٹر اوڑھا۔۔۔۔

شیر زمان مسکراتے ہوئے اپنے کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔اور ہیر ان تینوں کی خبر لینے ان کے پاس آئی ۔۔۔۔

ہیر کو آتے دیکھ وہ تینوں بستر پھیلانگتے ہوئے نیچے اترے اور ہیر کو چکما دئیے کمرے سے تیزی سے نو دو گیا ہو گئے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

شیر زمان تیار ہوئے گھر سے نکلا تو ذوناش اور ہیر بھی اسکے ساتھ ہی باہر نکلیں ۔۔۔

"مام آپ دونوں ڈرائیور کے ساتھ چلی جائیں ۔میں دوسری گاڑی میں اسلام آباد کے لیے نکلتا ہوں ۔"وہ سپاٹ چہرے سمیت ان کی جانب آیا اور اپنی گاگلز آنکھوں سے اتارتے ہوئے اپنی جیکٹ میں رکھے ۔

"آپ اپنا اور ہیر کا بہت خیال رکھیے گا کوئی بھی بات ہو مجھے فورا کال کرئیے گا ۔آپ کے پاس فون تو ہے نا ؟؟؟۔"

"ہاں بیٹا ہے میرے پاس فون ہے ",ذوناش نے سر اثبات میں ہلا کر کہا ۔۔۔۔

نجانے دل میں کیا آیا وہ ذوناش کے گلے لگتے ہوئے انکی پیشانی پر بوسہ دیتا ہوئے پیچھے ہوا ۔۔۔۔

ذوناش اس کا یوں محبت بھرا انداز دیکھ کر پریشان ہوئیں ۔۔۔

"شیر بیٹا ہم کل تک ملیں گے تو پھر ایسا کیوں "؟انہوں نے من میں آیا سوال پوچھا مگر دل میں کہیں نا کہیں کچھ غلط ہونے کا احساس ہلکورے لینے لگا ۔۔۔

شیر زمان نے ہیر کا گال تھپتھپاکر اسکے دلکش نقوش کو تپش نظروں سے دیکھتے ہوئے اللّٰہ حافظ کہا۔۔۔آنکھوں پر گاگلز چڑھاتے وہ  پراڈو میں بیٹھا اور اسے زن سے بھگا کر لے گیا ۔۔۔

گاڑی کی اڑتی ہوئی دھول میں ان دونوں نے اسے گم ہوتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔

پھر وہ دونوں ہاسپٹل روانہ ہوگئیں ۔۔۔ڈاکٹر نے اس کا الٹراساؤنڈ کیا پھر رپورٹس کے مطابق اسے میڈیسن میں کچھ وٹامنز لکھ کر دئیے ۔۔۔ڈائیٹ چارٹ دیا اور اپنا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی ۔۔۔۔

جیسے ہی وہ دونوں چیک اپ کروانے کے بعد ہسپتال میں سے باہر نکلیں ۔۔۔۔

ایک تیز رفتار گاڑی ان کے قریب آرکی ۔۔۔جس کے پہیوں کی چڑچڑاہٹ کی آواز سن کر وہ دونوں دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔۔اس گاڑی میں سے کچھ دیو ہیکل لمبے چوڑے وجود کو دیکھ کر وہ دونوں حیران ہوئیں ۔۔۔ ان لوگوں کے ہاتھوں میں گن دیکھ کر ہیر اور ذوناش دونوں کے حواس سلب ہوئے ۔۔۔۔۔وہ لوگ شکل سے دیکھنے میں ہی شاطر اور غنڈے ٹائپ لگ رہے تھے۔  ہیر اور ذوناش نے انہیں دیکھ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نگاہوں کا تبادلہ کیا۔

اسی اثناء میں ان میں سے ایک نے پُھرتی سے آگے بڑھ 

ہیر کے منہ پہ کلوروفوم سے بھرا رومال رکھا ۔۔اور اسے اپنے قابو کرلیا۔ہیر اس کی مضبوط گرفت میں جھٹپٹانے لگی ۔۔۔۔۔اور اپنے بچاؤ کیلیے ہاتھ پاؤں زور زور سے مارنے لگی ۔۔۔ 

"چھوڑ دو میری بچی کو "ذوناش نے تیز آواز میں کہا۔۔۔

ذوناش نے اس کو بچانے کے لیے ہیر کی کلائی پکڑی ۔۔۔

مگر ان میں سے ایک آدمی نے ذوناش کے بازو میں گولی چلائی ۔۔۔

دفعتاً اس کے ہاتھ سے درد کی شدت کے باعث ہیر کی کلائی چھوٹی۔۔۔۔۔

 جلد ہی کلوروفام نے اپنا اثر دکھایا اور ہیر حوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔اس کا سر ڈھلک کر ایک جانب ڈھے گیا۔۔۔۔ان آدمیوں نے ہیر کو گھیسٹ کر گاڑی میں ڈالا۔۔۔۔

ذوناش درد کی شدت سے دوہری ہوتے ہوئے ہیر کو پکارنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ 

ڈرائیور فورا گاڑی سے نکل کر ان کے پاس پہنچا تب تک وہ گاڑی ہیر کو اپنے ساتھ لیے جا چکی تھی ۔۔۔۔

ذوناش نے تڑپتے ہوئے آنسوؤں بھری  نگاہوں سے اس دور جاتی ہوئی گاڑی کی سمت دیکھا ۔۔۔۔تبھی فضا میں اس کی بلبلاتی ہوئی دلخراش چیخ بلند ہوئی۔

"ہیر !!!!!"

ڈرائیور نے ذوناش کے گریہ و زاری کرتے لٹھے کے مانند سفید  چہرے کو دیکھا جو گھٹنوں کے بل زمین پر گر چکی تھی ۔۔۔

اسکے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

” زیان نے اپنے اینٹی نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر سکارپین کنگ کے خلاف آپریشن کیا۔۔۔۔اسمگل ہونے والی ٹنوں کے حساب سے منشیات کو ضبط کر لیا گیا۔“

پاکستان کی یونیورسٹیوں، کالجز تک ڈرگز ہیروئن، کوکین، آئس یہ منشیات کیسے پہنچتی ہیں؟؟؟ ان سب کے پیچھے  پچھلے بیس سال سے اسی کا ہاتھ تھا ۔۔۔اس کی وجہ سے ہر سال ستر ہزار افراد دہشت گردی جبکہ اس سے چار گنا زیادہ افراد ہر سال منشیات کے استعمال کی باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔۔۔  تقریباً ہر سال ڈھائی لاکھ بندہ اس زہر کی وجہ سے مررہا ہے اور اسکے پیچھے سکارپین کنگ کا ہاتھ تھا ۔وہ ملک میں ہتھیاروں سپلائی کرتا اور انکی سمگلنگ کرتا ۔۔۔اسکے علاؤہ عورتوں کو بھی بیرون ممالک سمگل کرتا ۔۔۔۔بچوں کی شرمناک ویڈیوز بنا کر بیرون ممالک فرقخت کرتا ۔۔۔آج جب زیان نے اپنی ٹیم کے ساتھ ملکر بھاری مقدار میں اسکا سامان ضبط کیا تو جوابا سکارپین کنگ کے آدمیوں نے ان پر فائرنگ کھول دی ۔۔۔۔ 

جوابی فائرنگ کی وجہ سے اسکے آدمی بھی شدید زخمی ہوئے مگر مقابلے میں زیان کو بھی فائر لگا ۔۔۔۔ اسے ہسپتال منتقل کیے جا چکا تھا ۔۔“زریار کو زیان کے بارے میں پتہ چلا تواسے اپنے سینے میں بائیں جانب شدید درد اٹھتا محسوس ہوا تھا۔ وہ کسی کو آواز دینا چاہتا تھا  لیکن الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے تھے۔ بریرہ نے اسے سنبھالا ۔۔۔۔

زیان خان کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔ وہ اس وقت شدید زخمی تھا اسکا کافی خون بہہ گیا تھا۔ جنت ،زرشال اور زمارے کو جب یہ خبر ملی تو ان کے دل بھی دھک سے رہ گئے تھے۔ 

زیان کو گولی لگنا اور زریار کی طبیعت اچانک بگڑ جانا خان فیملی پر تو قیامت ٹوٹنے جیسا تھا۔

ضامن سب کو لے کر ہسپتال روانہ ہوا ۔۔۔راستے میں اسے جو کال آئی وہ تو اس کے پیروں تلے زمین نکال گئی ۔۔۔

ڈرائیور نے اسے بتایا کہ ذوناش کو وہ ہاسپٹل لے گیا ہے۔اور ہیر کو کچھ لوگ اغواء کیے لے گئے ۔۔۔۔

ضامن تو چاروں طرف پریشانی سے ِگھر چکا تھا ۔۔۔۔

ہسپتال کی فضا میں ایک پراسرار سا سکوت چھایا تھا۔  خاندان کے سب لوگ وہاں موجود تھے اور خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔۔ زیان کا آپریٹ کیے اس کے وجود میں پیوست گولی نکال لی گئی تھی ۔۔ جنت اسکی حالت کے بارے میں سوچ کر بار بار ہوش کھو رہی تھی۔ پٹی میں جکڑے زیان کی ایک جھلک بریرہ کو اندر تک چھلنی کر گئی تھی۔

"ہیلو شیر زمان کہاں ہو ؟؟؟

ضامن نے اسے کال کرتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا ۔

"اسلام آباد کے راستے میں ہوں بس پہنچنے والا ہوں ۔

"شیر جہاں بھی ہو واپس لوٹ آؤ "

"کیا ہوا ضامن ؟؟؟

"سب ٹھیک تو ہے ؟؟؟

اس کی پریشان آواز سپیکر پر ابھری ۔

"شیر بڑی مما کو بازو پر گولی لگی ہے۔مگر اب وہ ٹھیک ہیں۔

"ضامن نے ایک سانس میں بات بتائی ۔۔۔۔

"زیان بھی ہاسپٹل میں ہے۔سکارپین کنگ کے آدمیوں نے اسے زخمی کیا ہے۔

"مگر ۔۔۔۔۔ضامن بات یہیں چھوڑ کر خاموش ہوا ۔۔۔

"مگر کیا ضامن ؟؟؟؟

"ضامن مما کو گولی کیسے لگی ؟؟؟اور ہیر ٹھیک ہے نا ؟؟؟

"بتاؤ مجھے "اس کی درشت آواز گونجی ۔۔۔۔اس نے گڑ بڑ محسوس کی تو فورا پوچھ ڈالا ۔۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔شیر ۔۔۔۔ہیر کو ۔۔۔۔

"کیا ضامن جلدی بتاؤ "

"بڑی مما نے بتایا ہے کہ جو لوگ ہیر کو اپنے ساتھ لے گئے ان کی کلائی پر "S.kکا نشان تھا ۔۔۔۔۔اس نے بتایا ۔۔۔

"ضامن ۔۔۔تم جلدی سے زیان سے پوچھو سکارپین کنگ کی لاسٹ لوکیشن "

"شیر تم اپنی ٹیم سے پوچھو "ضامن نے اسے مشورہ دیا ۔

"ضامن میں وہ آج سے چار سال پہلے ہی وہ ٹیم ختم کر چکا ہوں"

"میں ۔۔۔پوچھتا ہوں "کہتے ہی وہ وارڈ میں داخل ہوا ۔۔۔۔جہاں کچھ دیر پہلے ہی زیان کو منتقل کیا گیا تھا ۔۔۔۔

ضامن نے نیم بیہوشی کی حالت میں زیان سے لاسٹ لوکیشن پوچھ کر شیر کو سینڈ کی ۔۔۔۔

زیان کی آنکھ کھلی تو اس نے جنت اور بریرہ  کو اپنے سامنے روتے ہوئے پایا تھا۔  

”زیان میرے بچے تم ٹھیک ہو؟؟“وہ درمیانی فاصلہ عبور کرتے ہوئے اس کے پاس آئیں ، نم آنکھیں لیے اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھیں۔ جبکہ انکے ہاتھ زیان کے بالوں کو سہلا رہے تھے۔

زیان نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا تو بریرہ مطمئن ہوئی ۔۔۔

 جنت نے اپنی سرخی مائل آنکھوں سے اسے دیکھا "وہ زندہ سلامت اسکے سامنے تھا " یہی سکون اُسکے پورے جسم میں سرائیت کر گیا تھا ۔۔۔

بریرہ جنت کی حالت کے پیش نظر تھوڑی دیر بعد وہاں سے باہر نکل گئی تو جنت چل کر اس کے قریب آئی اور روتے ہوئے اس کے سینے پر سر رکھا ۔۔۔۔ وہ زارو قطار رونے لگی ۔۔۔۔ذیان کا سینہ بھیگنے لگا ۔۔۔۔

"زیان میں مر جاتی آگر آج تمہیں کچھ ہوجاتا تو "

جذباتیت میں وہ اقرار محبت کر گئی ۔۔۔۔

"کاش یہ گولی مجھے پہلے لگ گئی ہوتی ۔۔۔اور یہ اظہار محبت پہلے سن پاتا ۔۔۔۔تو موت بھی آسان ہو جاتی ۔۔۔۔

وہ بامشکل بول پایا تھا۔ جسم پر جگہ جگہ زخم تھے۔ اور انکی تکلیف بہت گہری تھی لیکن یہ تکلیف اس سے کئی گناہ کم تھی جو جنت کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھ اسے ہو رہی تھی ۔۔وہ یونہی بیٹھی سسک رہی تھی۔ زیان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسکے چہرے کو چھوا ۔۔۔۔

"جنت تمہیں پاکر مجھے اس روئے زمین پر ہی جنت مل گئی ۔۔۔۔۔وہ عالم جذب سے بولا ۔۔۔۔

 جنت نےسر اٹھا کر  بھیگی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

شہریار کی ساری فیملی بھی ہسپتال پہنچ چکی تھی ۔۔۔

زریار کی طبیعت اب ٹھیک ہو گئی تھی زیان کو صحیح سلامت دیکھ کر ۔۔۔

ذوناش کو بھی ہوش آ چکا تھا مگر وہ ابھی بھی ہیر کے کھو جانے کے صدمے کے زیر اثر تھی ۔

"شیر زمان کہاں ہو تم "؟

ابتسام جب ہاسپٹل آیا اور اسے ضامن سے ساری سچویشن کا پتہ چلا تو اس نے شیر زمان کو کال کر کہ پوچھا ۔۔۔۔

"میں ہیر کو ڈھونڈھنے جا رہا ہوں "وہ سپاٹ لہجے میں بولا اور گاڑی کی رفتار خطرناک حد تک بڑھا دی ۔

"شیر زمان میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا ۔۔۔ایک بار پہلے بھی میری وجہ سے تم نے ہیر کو بچایا تھا ۔۔۔۔ان لوگوں سے دور رکھنے کے لیے تم نے اسے اپنی حفاظت میں رکھا مگر اس بار میں بھی تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں "

"اس کی کوئی ضرورت نہیں تم وہاں کا سب سنبھالو میں ہیر کو ڈھونڈھ لوں گا ۔"

وہ قطعیت سے بولا ۔

"ادھر مجھے دو فون "ضامن نے ابتسام کے ہاتھ سے فون کھینچا ۔

"شیر میں تمہارے ساتھ آؤں گا "ضامن نے اسے کہا ۔۔۔

"ابتسام تم اور حسام یہاں کا سب سنبھالو شاہ من بھی پہنچ جائے گا کچھ دیر تک میں نے اسے اطلاع کردی ہے۔

میں شیر کے پیچھے جاؤں گا "

"ٹھیک ہے مگر دھیان سے "ابتسام نے ضامن کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔

"ہممم۔۔۔۔وہ کہتے ہی وہاں سے بھاگنے کے انداز میں باہر نکلا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

اسے اپنے سر اور آنکھوں پر ایک نا محسوس سا بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے اسنے نہایت دقت سے آنکھیں وا کئیں۔۔۔ کچھ پل لگے تھے اسے ماحول سے مانوس ہوتے۔۔۔  لیکن سب یاد آتے ہی وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔ اسنے ہراساں نگاہوں سے ارد گرد دیکھا وہ ایک ویران جگہ تھی جس میں ایک خستہ ہال اور سیلن زردہ دیواروں کے حامل  کمرے میں وہ سخت پتھریلی زمین پر موجود تھی سامنے ہی عجیب وغریب قسم کے پیکٹ موجود تھے شراب کی خالی بوتلیں پھینکیں ہوئیں تھی  ۔۔۔  

وہ خوفزدہ نگاہوں سے کسی سہمی ہوئی ہرنی کی مانند  اردگرد دیکھ رہی تھی ۔۔وہ ان پر سے نظریں ہٹاتے اپنے بازو پہ نظریں ٹکاگئی جہاں رسیاں باندھنے کی بدولت خراشیں پڑ گئی تھی جن سے خون بھی رس رہا تھا۔جلن کا احساس اتنا شدید تھا کہ وہ اپنی آنکھوں کو میچتے ہوئے دل سے شیر زمان کو یاد کرنے لگی ۔۔۔۔اسے ایک رسیوں سے باندھا گیا تھا ۔۔۔ ابھی وہ پوری طرح ہوش میں بھی نہیں آئی تھی کہ اپنے پیچھے پڑنے والے قہقے کی آواز پر اسنے جھٹکے سے پلٹ  کر دیکھا۔۔۔

کو۔۔کون ہو تم لوگ ۔۔۔؟؟؟ہیر نے حیرت انگیز نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

 آدمی نے کمرے کے وسط میں کرسی لا کر رکھی تو ایک دیو ہیکل وجود وہاں اس کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔۔

ہیر نے سراسیماں نظروں سے اس کروفر سے بیٹھے شخص کو دیکھتے  اسکی آنکھیں حیرت سے وا  ہوئی تھیں۔۔۔۔۔

ہاں میں۔۔۔ 

"کیسا محسوس ہو رہا ہے تمہیں ہماری قید میں آ کر جان من ۔ تمہیں کیا لگا تھا کہ میں اپنی بے عزتی اتنی جلدی بھول جاوں گا۔۔ تمہیں حساب دینا پڑے گا۔۔۔ ایک ایک چیز کا حساب۔۔۔ تم سے تمہاری ذات کا غرور نہ چھین لیا نہ تو کہنا ۔۔۔ کسی سے تو کیا تم خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہو گی ۔

"جو میں تمہارا حشر کروں گا اسکے بعد تمہارا شوہر تمہاری شکل بھی نہیں دیکھے گا "

وہ شخص متکبرانہ القابات سے اسے نوازتا کرسی سے اٹھتا اسکی جانب بڑھنے لگا ۔۔۔ 

ہیر نے جب اُسے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا وہ سہمی ہوئی ہرنی کے مانند پیچھے کو کھسکنے لگی ۔۔۔

"م۔۔۔ممم۔مگر میں تو آپ کو جانتی بھی نہیں "وہ بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی ۔۔۔۔

 لمحوں میں اسکی آنکھیں پانیوں سے بھری تھی۔۔۔

"چلو کوئی نہیں ۔۔۔اگر نہیں بھی جانتی تو جان جاؤ گی ابھی پوری رات باقی ہے "

وہ خباثت سے ہنسا۔۔۔۔

ہیر کا سانس بری طرح پھولنے لگا تھا ماتھے پر پسینے کے ننھی ننھی سی بوندیں نمودار ہوئیں ۔

"دیکھو مجھے جانے دو میرا بچہ !!!

وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے درد سے کراہنے لگی ۔۔۔۔

عمر آفندی نے اس کی حالت پر اب غور کیا تھا ۔۔۔۔

اس نے قریب رکھی ہوئی کرسی پر زور دار  لات ماری۔۔۔۔

پھر ہیر کی طرف جارہانہ تیوروں سے بڑھا ۔۔۔۔

اس بلڈنگ کے تین فلور تھے۔گراؤنڈ فلور پر بلڈنگ میڑیل کا سامان موجود تھا۔جس میں اینٹیں ،سیمنٹ ،ریت اور بجری کے ساتھ مختلف اوازار موجود تھے ۔وہ دونوں ایک ساتھ ایک ساتھ سیکنڈ فلور پر آئے وہاں بڑے سے ہال میں کرسیاں میز لگے ہوئے تھے۔ہر ٹیبلز پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے دکھائی دئیے ۔۔۔وہ دونوں دیوار کے پیچھے چھپ گئے ۔ایک طرف دو راہداریاں تھیں جہاں کمرے  تھے۔سامنے سیڑھیاں تھیں۔یہ بلڈنگ ابھی زیر تعمیر تھی ۔۔۔اس بلڈنگ کی ڈیزائننگ کچھ  ایسی تھی جس کے ایک طرف کمرے اور راہداریاں تھی جبکہ دوسری طرف ریلنگ تھی جس سے نیچے کا سارا حصہ نظر آتا تھا۔اور نچلی منزل سے سیکنڈ فلور کی چھت نظر آتی تھی۔اس چھت کو ستونوں نے سہارا دیا ہوا تھا ۔ جن کی بنیاد پر گراؤنڈ فلور کھڑا تھا ۔وہ ستون ریلنگ کے قریب ہی لگے تھے۔

وہ دونوں جینز اور ٹی شرٹس میں ملبوس تھے۔اوپر جیکٹس بھی تھیں ضامن کی اندرونی پاکٹ میں پسٹلز موجود تھی۔مگر شیر زمان نہتا تھا ۔اس کے پاس کوئی بھی ہتیھار نہیں تھا ۔کیونکہ اس نے اپنی ماں سے وعدہ کررکھا تھا کسی کو بھی جان سے نا مارنے کا ۔

ضامن نے ایک آڈیو ڈیوائس اپنے کان سے لگائی اور دوسری شیر زمان کو دی ۔۔۔۔اب ان کے کانوں میں آڈیو ڈیوائس بھی تھیں جس سے وہ دور ہونے کے باوجود بات کر سکتے تھے۔

"ریڈی؟"شیر زمان نے اسے کہا تو اس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔

"اوکے چلو۔" وہ داخلی دروازے کی طرف آیا تو سامنے دو آدمی کھڑے نظر آئے ۔پھر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے کچھ ساتھی بھی آ رہے تھے۔ 

شیر زمان نے اس کی گردن کی مخصوص نس دبا کر اسے بیہوش کردیا ۔۔وہ لڑکھڑا کر گرا 

۔۔ادھر ضامن بھی پیچھے سے آنے والے آدمیوں کو ان پر وار کرنے کوئی موقع دیے بنا بے۔۔۔ان پر فائر کر چکا تھا ۔۔۔اس کی گن میں سائلنسر لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے فائر کی آواز نہیں گونجی ۔۔۔وہ بھی پسٹل جیکٹ کی اندرونی جیب میں ڈالتا اندر داخل ہوا تھا۔اور سارے ہال کا جائزہ لیا۔

اس سے پہلے کہ عمر آفندی ہیر کے ساتھ کچھ برا کرتا ایک آدمی دھاڑ سے دروازہ کھول کر اندر چلا آیا ۔۔۔

"سر مجھے لگتا ہے کہ شیر زمان یہاں پہنچ چکا ہے۔"اس نے بتایا تو عمر آفندی کی حالت بھی غیر ہوئی تھی۔شیر زمان کا نام سن کر ۔۔۔

"اکیلا ہے؟"

"جی سر۔اس کے ساتھ کوئی نظر تو نہیں آ رہا۔"

"نہیں اس کے ساتھ ضرور کوئی ہوگا۔وہ بڑا ہوشیار ہے۔پچھلی دفعہ بھی ہمیں لگا تھا وہ اکیلا ہے لیکن اس کے ساتھ دو اور لوگ تھے۔اور اس نے مجھے کافی نقصان پہنچایا تھا۔تم ایسا کرو جتنے بھی آدمی ہیں انہیں اکٹھا کرو اور ایک ہی دفعہ اسے گھیرے میں لے لو۔میں اور کنگ دونوں یہاں سے نکلتے ہیں ۔۔۔۔افغانستان کے بارڈر کے راستے پر ۔۔۔اسے بلبل کو بھی ساتھ لے جا رہے ہیں ۔اسے قابو کرنا تم لوگوں کا کام ہے ۔عمر آفندی آخری لفظ کہتے ہوئے خباثت سے ہنسا اور ہیر کو گھسیٹنے لگا ۔۔۔۔

ایک آدمی نے شیر زمان کے پیٹ میں وار کرنا چاہا جسے اس نے اپنے بازو پر روکا ۔۔۔

شیر نے اسے دھکا دئیے تو وہ لڑکھڑا کر رہ گیا۔۔۔

شیر زمان نے پے در پہ وار کیے اور نیچے موجود آدمی  نے اس کا پاؤں کھینچ کر اسے  گرانے کی کوشش کی لیکن وہ گرنے کی بجائے اپنا ایک پاؤں  اس آدمی  کی گردن پر ٹکا گیا ۔۔۔۔اس آدمی کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ایسی عقل مندی کا مظاہرہ کرے گا۔ہاتھوں سے وہ دوسروں سے لڑ رہا تھا جبکہ پاؤں تلے اس کی گردن دبا رکھی تھی ۔۔۔۔وہ اس کے پاؤں کے نیچے سے بمشکل نکلا ۔۔۔مگر شیر زمان نے اسے کوئی موقع دیے بنا اسکی کمر پہ اپنی ٹانگ کو بینڈ کیے گھٹنے سے ایک ایسا وار کیا کہ وہ کئی لمحے اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔بے یقینی سی سے اسے تکنے لگا۔۔۔

ضامن سب سے اوپر اولے فلور پر جا چکا تھا ۔ شیر زمان نے اسے ہیر کو ڈھونڈھنے کے لیے وہاں بھیجا تھا اور یہاں خود سب سے مقابلہ کر رہا تھا ۔۔۔مگر اوپر والا فلور خالی تھا ۔۔۔۔

ضامن نے سارا تلاش کیا مگر وہاں کوئی۔ بھی نہیں تھا ۔۔۔وہ واپس نیچے اترنے لگا ۔۔۔

سب لوگ حیران نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔اگر سکارپین کنگ کا حکم نا ہوتا تو وہ کب کے اسے موت کے گھاٹ اتار دئیے ہوتے ایک  فائر سے ۔۔۔مگر سکارپین کنگ نے کہا تھا کہ اس کی موت وہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھے گا ۔اسی لیے وہ آدمی شیر زمان پر فائر نہیں کھول رہے تھے ۔۔۔۔

۔وہ اتنا طاقتور تھا کہ مقابل کو ایک منٹ میں اپنے سامنے ڈھیر کر دیتا تھا۔وہ ان لوگوں کو شکست پر شکست دے رہا تھا۔۔۔۔

ضامن نے آکر ان پر انہیں کے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ان پر فائر کھول دیا ۔۔۔

کچھ تو زخمی ہو کر گرے اور کچھ جان بچا کر  ادھر ادھر بھاگے ۔۔۔۔

انہیں اس افتاد کی تو خبر نا تھی ۔۔۔۔

"شیر اوپر تو سب خالی ہے ۔۔۔

شیر زمان نے نیچے گرے ہوئے آدمی کو کالر سے پکڑ کر گھسیٹا پھر اوپر اٹھایا ۔۔۔

"بتا کنگ کہاں ہے ؟؟؟

"مجھے نہیں پتہ "وہ صاف انکار کر گیا ۔۔۔

شیر زمان نے اس کے منہ پر ایک اور زوردار پنچ مارا کہ وہ بلبلا اٹھا ۔۔۔۔

"بتاتا ہوں .....بتاتا ہوں ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔کنگ اور عمر دونوں بیسمینٹ میں تھے ۔۔۔لیکن اب وہاں نہیں وہ لوگ یہاں سے نکل چکے ہیں "اس نے کراہتے ہوئے بتایا ۔۔۔

شیر زمان نے اس کا کالر جھٹک کر چھوڑتے ہوئے وہاں سے باہر کی طرف قدم بڑھا دئیے ۔۔۔۔اور

ضامن نے اس کی تقلید کی ۔

"تو اتنی جلدی یہاں کیسے پہنچا "شیر زمان نے پیچھے آتے ہوئے ضامن سے پوچھا ۔۔۔

"تیرے پرائیویٹ جہاز پر ۔۔۔۔وہ دانت نکال کر بولا ۔۔۔۔

"یہ لے شیر زمان گن رکھ آگے ضرورت پڑے گی "ضامن نے اس کے پیچھے تیزی سے بھاگتے ہوئے اسے گن پکڑانی چاہی ۔۔۔۔

"اسکی ضرورت نہیں "

"مام سے وعدہ کر چکا ہوں ،کسی کو نا مارنے کا ۔

"مگر ہیر ؟؟؟اس نے سوالیہ لہجے میں پوچھا 

"پاتال سے بھی ڈھونڈھ نکالوں گا اسے " اس کے لہجے کا وحشت و جنون ضامن کو بھی ٹھٹھرا گیا ۔۔۔۔

"تو پلین پر میرے پیچھے آ "وہ ضامن کو کہتے ہی پیروں کے نشان پر بجلی کی رفتار سے بھاگا ۔۔۔۔

شیر زمان نے اچانک ان کے سامنے آتے ہی ان کا راستہ روکا ۔۔۔۔

"ہیر واپس کردو کنگ ورنہ آج اپنے قدموں پر چل کر واپس نہیں جا پاؤ گے "

اس کی سرسراتی ہوئی بھاری آواز ماحول میں گونجی تو سب وہیں رک گئے وہ  خون آشام نگاہوں سے کنگ اور عمر آفندی کو گھورتے ہوئے غرا اٹھا۔۔

"اوہ تو تم آخر آ ہی گئے اپنی موت کو اپنے گلے سے لگانے سکارپین کنگ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔۔

"اتنی بدتر موت دوں گا کہ زمین اور آسمان بھی تھرا اٹھے گا۔۔۔۔۔بہت بڑے بڑے نقصان کیے ہیں تم نے ہمارے ان سب کا بدلہ چکانے کا وقت آن پہنچا ہے "عمر آفندی نے نے غرور و گھمنڈ سے کہا ۔۔۔۔

"آج تو تیری بلبل میری ہوئی ۔۔۔۔تیرا بچہ بھی گیا سمجھو ۔۔۔۔

وہ بےہنگم انداز میں قہقہہ لگاتے ہوئے شیر زمان سے مخاطب ہوا۔۔۔۔

 اس وقت وہ ہنستا ہوا کوئی سائیکو لگ رہا تھا جس کے سر پہ بس ایک ہی چیز سوار تھی  شیر زمان سے بدلہ لینا ۔۔۔

"مجھے بچا لیں ۔۔۔۔ہیر جس کی کلائی عمر آفندی کی گرفت میں تھی وہ آہستہ آواز میں شیر زمان کو دیکھ کر اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے بولی۔۔۔اس میں چلنے اور بولنے کی مزید سکت نا تھی ۔۔۔۔کیونکہ جتنا وہ لوگ اسے اونچی نیچی نا ہموار جگہ پر گھسیٹ چکے تھے ۔۔۔وہ ہلکان ہو چکی تھی ۔۔۔۔

"عمر آفندی اگر اپنی زندگی چاہتا ہے تو ہیر کو چھوڑ دے ورنہ تیری یہ بازو توڑ ڈالوں گا ""

وہ خون آشام نگاہوں سے اسے گھورتے غرا اٹھا۔

"میری بلبل آج تیرے عاشق کی موت تیری آنکھوں کے سامنے ہوگی ۔۔۔۔اتنی بدتر موت دوں گا کہ زمین اور آسمان بھی کانپ اٹھے گی "

عمر آفندی نے ہیر کو دیکھتے ہوئے بےہنگم انداز میں قہقہہ لگایا ۔۔۔ 

"چل اب تو یہاں آ ہی گیا ہے تو سکارپین کنگ تیرے ساتھ ڈیل کرتا ہے ۔۔۔۔

"اپنی بلبل کو بچا لے اور اپنی جان دے دے ۔۔۔۔

"کیوں کیسی رہی ڈیل ؟؟؟وہ جاندار قہقہہ لگا کر ہنسا ۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ۔ہیر کو میرے پاس بھیج "شیر زمان نے سکارپین کنگ سے کہا۔۔۔۔

ضامن پلین میں موجود تھا وہ پلین کو لیے اسی پہاڑی کی چوٹی کی طرف  آیا جہاں وہ سب موجود تھے ۔۔۔۔

"مجھے کیا بیوقوف سمجھا ہے "؟؟؟

"جتنے قدم تو چل کر ہمارے پاس آئے گا اتنے قدم یہ چل کر اس کی طرف جائے گی ۔۔۔بول منظور ہے ؟؟؟

اس نے سوال کیا ۔۔۔

"منظور ہے "شیر زمان نے سرد سپاٹ انداز میں جواب دیا۔

 "ضامن نے پائلٹ سے جہاز کو وہیں روکنے کو کہا اور ہیر کی طرف آیا ۔۔۔

"ضامن ہیر کو  اپنے ساتھ لے جاؤ "شیر زمان نے گھمبیر آواز کہا ۔۔۔

"مگر شیر زمان تم ؟؟؟؟

"ضامن جاؤ "

وہ قطعیت سے بولا۔

"م۔۔۔میں ۔۔۔نہی۔ نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔آپ کو اکیلا چھوڑ کر ۔۔۔یہ بہت برے ہیں ۔۔۔۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی ۔۔۔۔

"ہیر جاؤ """

"ضامن میں نے کہا اسے لے جاؤ یہاں سے "!!! 

اس بار اس کی اونچی دھاڑ کی آواز پہاڑیوں میں گونجی۔۔۔۔

"شیر زمان اپنے بچوں کے بارے میں سوچو ۔۔۔۔۔ضامن نے ہیر کو سنبھالتے ہوئے اسے ایک بار پھر سے یاد کروایا ۔۔۔۔

"جس خدا نے دئیے ہیں ۔اس سے بڑا حفاظت کرنے والا اور پالنے والا کوئی نہیں "

وہ برفیلے لہجے میں بولا۔

ضامن ہیر کو لے کر پلین میں داخل ہوا ۔۔۔۔

شیر زمان خود کو سرینڈر کر چکا تھا ۔۔۔۔

وہاں عمر آفندی کے ساتھ دوسو آدمی تھے جو ہتھیاروں سے لیس اسے گھیرے میں لئیے ہوئے تھے ۔اور وہ بنا کسی اسلحے اور ہتھیار کے ان کے سامنے تن کر کھڑا تھا۔۔۔۔

جیسے کہنا چاہتا ہو مار دو اگر مارنا ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔۔۔۔

""چلو ہیر یہاں سے "ضامن نے اسے جہاز میں کھینچا ۔۔۔۔۔

"نہیں ضامن مجھے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔اس سے اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی ۔۔۔۔ 

مگر ضامن نے اسے اندر کھینچ لیا ۔۔۔۔۔وہ جہاز میں موجود ہوا میں معلق تھے ۔۔۔۔ 

ضامن نے گن شیر زمان کی طرف پھینکی مگر شیر زمان نے اپنی قسم نبھاتے ہوئے گن نہیں پکڑی ۔وہ ہوا میں لہرا کر نیچے گری ۔۔۔

ضامن نے ذوناش کو فون لگایا ۔۔۔۔۔

اور اسے اس کی قسم واپس لینے کو کہا ۔۔۔

"اگر آپ نے اپنی قسم واپس نا لی تو شیر زمان کی جان چلی جائے گی"

ذوناش کا جواب سنتے ہی ضامن زور سے چلایا ۔۔۔

کیونکہ پلین کی آواز سے ٹھیم طرح سے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔

دھاڑ ۔۔۔۔دھاڑ ۔۔۔۔ دھاڑ ۔۔۔۔۔

گولیوں کی بوچھاڑ کی آوز سن کر ہیر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں پر رکھ لیا ۔۔۔۔۔

وہ پہاڑ کے بالکل کنارے پر تھا ۔۔۔۔۔

جب گولیوں کی بوچھاڑ نے اس کے سینے کو چیر دیا ۔۔۔۔

اس کا وجود لہراتا ہوا نیچے کھائی میں گرنے لگا ۔۔۔۔

ہیر نے دیکھا ۔۔۔۔

وہ وہی تھا۔۔۔۔۔

ہاں شیر زمان ۔۔۔۔وہ کھلی آنکھوں سے نیچے گر رہا تھا ۔۔ 

"نہیں ۔۔۔۔!!!!وہ ہاتھ بڑھا کر چلائی ۔۔۔۔۔اسے بچانے کو ۔۔۔۔۔

"شیر !!!  

"بڑی مما نے اپنی قسم واپس لے لی ہے "

وہ چلا کہ بولا ۔

مگر گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا ۔۔۔۔شاید بہت دیر ہوچکی تھی ۔۔۔۔

عمر آفندی نے شیر زمان پر گن سے فائر کی بوچھاڑ کر دی تھی ۔۔۔۔جسکی وجہ سے وہ توازن برقرار نا رکھ سکا اور پہاڑی سے سیدھا نیچے گرنے لگا۔۔۔۔

سکارپین کنگ نے اپنی رائفل سے پلین کے ونگ پر فائر کیا ۔۔۔

ٹھاہ کی آواز سے پلین ڈولنے لگا ۔۔۔ضامن ہیر کو لیے پیچھے ہوا ۔۔۔

پلین کے ایک ونگ کو آگ لگ چکی تھی ۔۔۔وہ ڈولتا ہوا نیچے کی طرف گرنے لگا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋

صبح کا وقت تھا۔ جنت جائے نماز بچھائے نماز ِ فجر ادا کر رہی تھی۔ کافی دیر بھیگی پلکوں سے وہ دعا مانگتی رہی تھی۔ اس نے زیان کی صحت یابی کیلئے دعا مانگی۔ آیت اور اعیان کے بہترین مستقبل کے لیے دعا مانگی ۔

جیسے ہی وہ دعا مانگ کر فارغ ہوئی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔

زیان اٹھ چکا تھا ۔۔۔

ابھی رات کو ہی سب لوگ اسے ڈسچارج کروا کر گھر لے آئے تھے ۔۔۔

”کیسے ہیں آپ “جنت نے بھیگے لہجے پر قابو پاتے ہوئے پوچھا تھا۔ 

اسکا ہاتھ پاؤں میں واضح لرزش تھی جبکہ چہرہ بوجھل جذبات کی حدت سے سرخ ہوگیا تھا۔ زیان کو پٹیوں میں جکڑے دیکھ اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھر لیا تھا ۔۔۔۔

زیان نے اسکی نم آواز پر اسے دیکھا ۔۔۔ جو ڈری سہمی اس کے قریب کھڑی تھی۔ وہ جذبے لٹاتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا تھا۔ آنکھوں میں نمی سی پھیلنے لگی تھی۔ کل اگر وہ مرجاتا تو اس کی جان سے پیاری بیوی اور بچوں کا کیا ہوتا ۔۔۔۔یہ سوچ ہی اسے جھرجھری لینے پر مجبور کر گئی ۔۔۔

”آپ وہیں کھڑی رہیں گی یا ہمارے قریب آکر مسیحائی بھی بخشیں گی ۔۔“ وہ اپنی پوری ہمت جمع کیے بول رہا تھا۔کیونکہ ابھی بھی درد کے آثار نمایاں تھے۔۔۔ جنت ڈھیلے وجود سے آگے بڑھی اور بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ 

”ابھی بھی اتنے فاصلے کیوں ۔۔؟“ وہ بےساختہ شکوہ کرگیا تھا۔ جنت نے تڑپ کر اسکی جانب دیکھا تھا جو نم آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

”زیان آپ کو اپنا خیال رکھنا ہے میرے لیے ہمارے بچوں کے لیے ۔۔“ جنت کرسی سے اٹھ کر اسکے پاس آ بیٹھی ۔ پلکیں بھیگنا شروع ہوئی تو الفاظ کا ذخیرہ گلے میں پھنس کر رہ گیا۔۔۔۔۔ زیان نے جنت کا کپکپاتا  ہوا ہاتھ تھاما۔ 

”جنت تم سے اور بچوں سے الگ ہونے کا خوف سوہان روح جیسا ہے، میرے لیے “

"But duty is duty "

 وہ گہری اذیت گزرتے ہوئے بولا ۔

"By the way "

"آپ میرا حال پوچھنے آئیں تھیں "

”وہ تو پوچھ لیں۔۔“زیان نے ماحول میں چھائی ہوئی سنجیدگی کو دور کرنے کے لیے  اسے شرارت سےچھیڑا تھا۔ وہ اسے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ 

”بتائیں کیسے ہیں آپ ۔۔؟“ اسکے بےساختہ سوال پر وہ مسکرادیا تھا۔ 

”کیسا ہو سکتا ہے وہ شخص جسکی بیوی اسکے سامنے بیٹھ کر آنسوؤں کی ندیاں بہا دے ۔؟“ اب وہ اسکی کلاس لے رہا تھا۔ جنت نے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا۔ 

کتنا ظالم تھا وہ ابھی تک نہیں سمجھ پایا تھا وہ اس بے پناہ محبت کرنے لگی تھی ۔لیکن وہ اسے کچھ کہہ نہ پائی بس آنسو آنسو ٹپ ٹپ گرتے رہے تھے۔ 

”کیوں ظلم کر رہی ہو ان آنکھوں پر؟"میں جان چکا ہوں جو تم بولنے سے انکاری ہو "وہ دھیمے لہجے میں بولا۔

جنت نے نظریں اٹھا کر اسکی آنکھوں کی شرارت بھانپ لی ۔

اس نے خفگی بھری نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔اور چہرہ پھیر لیا ۔۔۔۔

"اچھا ناراض مت ہو مجھ سے تمہاری ناراضگی سہنے کی مزید ہمت نہیں جیسے تمہاری  دوسال کی دوری اور ناراضگی سہی ہے مجھے ہی پتہ ہے ۔۔۔

 "مجھے ناراضگی کا حق کہاں دیا ہے آپ نے۔۔۔ اگر اتنی پرواہ ہوتی تو یوں دو سال مجھ سے منہ موڑ کر نہ بیٹھ جاتے۔آجاتے مجھے منانے ۔۔۔۔"

ہنوز سر جھکائے وہ شکوے کرتے ہوئے بولی ۔۔۔آج وہ شکوہ بھی منہ سے نکل گیا جو کب سے وہ دل میں دبائے تھی ۔ 

"یہ فاصلے تمہارے اور گھر والوں کے ہی دئیے ہوئے تھے ۔میں تو دوسرے دن ہی معافی مانگ رہا تھا ۔مگر سب نے مجھے دھتکار دیا ۔۔۔اگر میرے بس میں ہوتا تو دو گھنٹے بھی تم سے دور نہ رہتا۔"

اس کے چہرے پر پھونک مارتے ہوئے وہ گھمبیر آواز میں بولتے ہوئے مقابل کی بولتی بند کر گیا تھا۔ لرزتی پلکوں کا رقص، چہرے پر حیا کی لالی، وجود کی کپکپاہٹ سب ہی زیان کی ہر حس کو جیسے مہبوت کر گئے تھے۔اس نے جنت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود سے قریب کیا ۔۔۔کیونکہ خود تو وہ زیادہ ہل نہیں پا رہا تھا ۔۔۔

اس نے اپنے تشنہ لبوں سے جنت کہ ہر نقش کو چھوا ۔۔۔ 

"جنت میری کل کائنات تمہیں سے ہے۔۔ہمیشہ یونہی میرے قریب رہنا ۔۔۔"

سرگوشیانہ انداز میں بولتے ہوئے وہ اس کی کان کی لو پر اپنے لب مس کرتے ہوئے رکا تھا۔ جنت نے بے ساختہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے تھے۔ دھڑکنوں کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔ اس کا پور پور آلہ سماعت بنا ہوا تھا۔

"میرے خیال میں آپ بیمار ہیں "وہ اس کی گرفت سے نکل کر بولی ۔۔۔

"آپ کے قرب میں ہی میری شفا ہے۔عطا کریں "وہ خمار آلود آواز میں بولتے ہوئے واپس اپنی ایک ٹھیک بازو وا کر گیا ۔۔۔۔

" باہر سب نے آپ سے ملنا ہوگا وہ آپ کے اٹھنے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔"

جنت نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

"کیا ہوا میری قربت پسند نہیں ؟"

زیان اس کا یوں اچانک خود سے دور جانا محسوس کرتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔ 

"آپ بھی نا !!!۔"

وہ شرم سے پانی پانی ہوتے ہوئے واپس اس کے سینے سے لگی ۔۔۔

بھلا منہ سے اظہار نہیں کیا مگر اپنے عمل سے وہ زیان کو اسکا مثبت جواب دے گئی ۔۔۔

ان چار سالوں میں زیان نے جنت کے ہر زخم پر اپنی محبت کے پھاہے رکھے ۔۔۔کہ وہ پچھلے غم کو بھولنے لگی تھی ۔

سچ کہا ہے کسی نے عورت کے دل کو صرف محبت سے جیتا جا سکتا ہے۔آج زیان نے اپنی پر خلوص محبت سے اپنی نصف بہتر کا دل جیت لیا تھا۔

ہر سو سناٹے اور خاموشی کا پہرہ تھا۔ اچانک بارش چھاج و چھاج برسنے لگی ۔ یہ طوفانی بارش اس بیہوش ہوئے وجود کو ہوش میں لانے کا سبب بنی ۔۔۔۔ کڑکتی بجلی اس کے چہرے پر پڑی۔۔۔۔تو اس کی اوشن بلیو آئیز اندھیرے میں بھی دیکھنے کے قابل ہوئیں ۔ آسمان سرخی مائل دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ مطلع ابر آلود تھا کہ ہر طرف بارش کی بوندیں دکھائی دے رہی تھیں۔یہ برستا ہوا مینہ  سیلاب کا روپ اختیار کر رہا تھا ۔۔۔

اور سیلاب تو آنے والا تھا ۔۔۔۔

یہ طوفان آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہونے والا تھا۔

بارش کے پانی سے بھرتی ہوئی ندیاں خون کی ندیوں سے بھرنے والی تھیں۔۔۔۔

اتنی اونچائی سے وہ سیدھا نیچے بہتے ہوئے دریا میں گرا ۔۔۔۔اور پانی کی تیز لہریں اسے بہاتے ہوئے دریا کے کنارے تک لا چکیں تھیں ۔۔۔پانی میں موجود پتھروں سے اسے کئی خراشیں آئیں تھیں۔

مگر یہ خراشیں تو اس زخم کے زرہ برابر بھی نا تھیں جو ہیر کو اس سے جدا ہوتے دیکھ کر ملیں تھیں۔

وہ نئے عزم سے اٹھا ۔۔۔اور اپنے وجود سے پھٹی ہوئی شرٹ اتاری ۔۔۔اسکے نیچے پہنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹ اتار کر پھینکی ۔۔۔۔

بے شک وہ کسی پر وار نہیں کرسکتا تھا مگر اس کے نزدیک  اپنی جان اتنی بھی ارزاں نہیں تھی کہ وہ ایک ملکی دشمن کے ہاتھوں مارا جاتا ۔۔۔

ہاں مگر یہ جان وطن کی محبت میں گئی ہوتی تو مضائقہ نہیں تھا۔اسی لیے اس نے یہاں آنے سے قبل اپنی حفاظت کے لیے اسے پہنا تھا ۔

وہ اپنے جاہ و جلال سے چلتے ہوئے ۔۔۔پہاڑیوں کا راستہ طے کرنے لگا ۔۔۔۔

"کنگ بہت سارا مال پکڑا جا چکا ہے۔جو یہاں ہے اس کا کیا کرنا ہے ؟؟؟عمر آفندی نے سکارپین کنگ سے پوچھا ۔۔۔

"میں اس مال کو اپنے آدمیوں سمیت افغانستان منتقل کر لوں گا ۔یہاں کے حالات سازگار ہوتے ہی واپس آئیں گے ۔۔۔"سکارپین کنگ نے اپنا خیال بتایا ۔۔۔

"میں زیادہ دیر یہاں نہیں رکوں گا ۔میں تو جا رہا ہوں "

آخر کو افغانستان میں جو کل لڑکیوں کی سمگلنگ کی ہے۔اس میں سے کچھ میرے انتظار میں ہیں۔اب بلبل تو ملی نہیں ۔تو چلو انہیں سے جا کر کام چلا لوں ",وہ خباثت سے اپنی بیرڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا ۔اور گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے فرار ہونے لگا  ۔۔۔

"رکو آفندی ایک ساتھ نکلیں گے "کنگ نے اس کو روکا ۔۔۔

"ٹھیک ہے باس جیسا آپ کا حکم "

"چلیں شباب نا سہی تھوڑی شراب ہی سہی ۔۔۔۔

وہ خباثت سے مسکراتے ہوئے اندر بلڈنگ میں موجود اس کمرے میں گیا جہاں شراب موجود تھی ۔۔۔

جبکہ سکارپین کنگ اپنی مخصوص جگہ پر براجمان تھا۔۔۔۔

اور آدمی مال لوڈ کر رہے تھے ۔۔۔۔

شیر زمان آگے بڑھا ۔۔۔

اسے زندہ دیکھ سکارپین کنگ کے آدمی حیرت زدہ رہ گئے۔۔۔۔

وہ اس کی طرف بڑھے ۔۔۔۔

مگر شیر زمان نے انہیں موقع دئیے بنا ۔۔۔۔پاس پڑا ہوا بڑا سا پتھر اٹھا کر ان کی طرف پھینکا ۔۔۔۔

اور پھرتی سے ٹرک سے رائفلز نکال لیں ۔۔۔۔

اتنی دیر وہ لوگ بھی سیدھے ہو چکے تھے ۔۔۔اور اپنی گنز نکال کر اس پر تان چکے تھے۔۔۔۔

شیر زمان نے ایک رائفل اپنے بازو پر ڈالی اور دوسری ہاتھ میں تھی ۔۔۔۔وہ ٹرک کی اوٹ میں ہوا ۔۔۔

تھوڑا سا سر باہر نکالا ۔۔۔

ایک نے اس پر فائر کیا تو شیر زمان نیچے ہوا ۔۔۔اس کا وار خالی ہوا ۔۔۔

پھر شیر زمان نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا ان پر اندھا دھند فائر کھول دیا ۔۔۔

چند لمحوں میں وہاں لاشوں کے ڈھیر لگ چکے تھے ۔۔۔۔

بہتی ہوئی بارش کے پانی میں ان کا خون بھی بہنے لگا ۔۔۔۔اس کہ اوشن بلیو آئیز میں اس وقت شعلوں کی سی لپک تھی ۔۔۔ اسکی شعلہ بار نگاہوں کو دیکھ کر خوف کو بھی خوف آ رہا تھا ، 

جو بھی اس کے راستے میں آرہا تھا وہ اسے بھون ڈالتا ۔۔۔

اس دوران شیر زمان کے بازو پر بھی گولی لگی ۔۔۔۔مگر اس نے پرواہ نا کی ۔۔۔

وہاں سے خون رسنے لگا ۔۔۔

اس نے دوسری منزل پر آتے ہی وہاں موجود ٹیبل سے کپڑا کھینچ کر اپنی بازو پر باندھا جہاں سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔

اس نے سامنے والے کمرے کا کھلا دروازہ دیکھا تو اس میں داخل ہوا ۔۔۔۔

وہاں عمر آفندی شراب نوشی میں مشغول تھا ۔۔۔۔

"کون ہے ؟؟؟؟

اسے اندھیرے کمرے میں کسی اور کے آنے کا احساس ہوا تو اس نے پوچھا ۔۔۔

مگر جواب ندارد ۔۔۔۔

شیر زمان نے شراب کی بوتل اس کے سر پر توڑی ۔۔

وہ اپنے دونوں ہاتھ سر پہ رکھ کر تڑپنے لگا ۔۔۔۔

"کون ہے سامنے آ ؟؟؟وہ زور سے چیخا ۔۔۔۔

مگر اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا ۔۔۔

جوں ہی عمر آفندی نے دیکھنے کے لیے لائیٹر جلایا ۔۔۔

وہاں ٹوٹ کر گری ہوئی شراب کی بوتلوں کی وجہ سے آگ لگ گئی ۔۔۔۔

اس نے باہر نکل کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی مگر تب تک کمرے کا دروازہ کسی نے باہر سے بند کردیا تھا ۔۔۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے سارے کمرے نے آگ پکڑی ۔۔۔

کچھ دیر میں اس کی درد بھری خوفناک چیخیں گونج اٹھی۔اس نے لوگوں کے لیے آگ کا سامان منتخب کیا تھا آج اسی آگ میں اس کی جان چلی گئی تھی۔۔۔۔یہ اس کے کیے کا مکافات عمل تھا ۔

اپنے ملک کے لُٹیروں سے اسے زرا بھر بھی ہمدردی نہیں تھی 

۔۔وہ سب کو ان کے انجام تک پہنچاتا جا رہا تھا بلاشبہ وہ خود بھی زخمی تھا ۔۔۔

مگر وہ اپنی فکر سے بے نیاز تھا ۔۔۔۔

"ہیلو ہاں اپنا خیال رکھنا ۔۔میں جلد ہی وہاں پہنچوں گا "

کنگ نے کسی کو فون پر کہا۔

دوسری طرف سے نجانے کیا کہا گیا تھا ۔۔۔

"ابھی تک ایسا کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو کنگ کو مات دے تم میری فکر مت کرو بس اپنا خیال رکھنا "کہتے ہی اس نے فون رکھا ۔۔۔

بجلی کی کڑک نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا۔۔۔۔

اندھیرے میں بجلی کوندی تو سکارپین کنگ اپنے سامنے کھڑے ہوئے شیر زمان کا چہرہ دیکھ ساکت ہوا ۔۔۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین کرنا نا ممکن لگا۔

بارش کی وجہ سے لائٹ جا چکی تھی مگر اندھیرے میں چمکتی ہوئی بجلی بار بار شیر زمان کے برفیلے تاثرات والے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔۔۔۔

کنگ نے وائن کا گلاس ٹیبل پر رکھا اور وہاں  موجود اپنی گن کو ٹٹول کر اٹھانا چاہا۔۔۔

مگر شیر زمان نے اس کی یہ کوشش نا کام بنا دی ۔۔۔

اس نے لات مار کر وہ گن دور اچھالی اور شرر بار نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ کر سکارپین کنگ کا کالر دبوچا ۔۔۔

شیر زمان نے عالم طیش سے اپنی پوری قوت لگاتے ہوئے کنگ کے منہ پر پنچ مارا ۔۔۔کہ اس کے ناک سے خون کی دھاری بہنے لگی ۔۔۔

اس نے پلٹ کر شیر زمان پر وار کیا ۔۔۔مگر شیر زمان نے سر ایک طرف کیے اس کا وار خالی جانے دیا ۔۔۔۔

اس نے گھوم کر اپنے بازوں میں کنگ کو اوپر اٹھایا اور سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر اپنے اوپر سے گزارتے ہوئے سامنے زمین پر پٹخا۔لیکن وہ سنبھل چکا تھا ۔۔۔ اسی لیے وہ کمر کے بل نہ گرا۔۔

اس نے اٹھ کر شیر کے سینے پر مکا مارنا چاہا ۔۔۔جسے اس نے اپنے فولادی بازو پر روکا ۔۔۔۔۔سکارپین کنگ کو اس سے مار کھاتے ہوئے اپنی توہین محسوس ہوئی کہ وہ اسے موقع ہی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ اور وہ اس کام کا اتنا ماہر کھلاڑی ہوکر اس سے مات کھا رہا تھا ۔۔۔

غصے کی ایک شدید لہر اس کے وجود میں دوڑی  تھی۔وہ سیدھا کھڑا ہونے کی بجائے دونوں ہاتھ زمین پر ٹکا کر الٹا کھڑا ہوا اور دونوں ٹانگیں شیر زمان کو ماریں۔ایک ٹانگ اس نے اپنے بازو پر روکی اور دوسری ٹانگ کو اسی ہاتھ سے پکڑ کر دوسرا ہاتھ بھی اس پر جما دیا۔پھر پوری قوت سے کنگ کی ٹانگ کو مروڑ کر رکھ دیا۔وہ جو زمین پر ہاتھ ٹکائے اوپر کی طرف پشت کیے ہوئے تھا ٹانگ مڑنے پر بے اختیار سیدھا ہوا اور اگلے ہی پل اس کے گھٹنے پر شیر زمان کی ایسی کک پڑی تھی کہ اسے لگا کہ اسکے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ  گئی ہو ۔۔وہ سبکی کے باعث  شیر زمان کے سامنے چیخا تو نہ لیکن اسے درد بہت ہوا تھا۔اسے لگا کہ اس کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور وہ اب کبھی چل نہیں پائے گا ۔۔۔

مگر وہ ابھی اپنی شکست قبول نہیں کر رہا تھا ۔۔۔ ۔شیر زمان نے اس کے قریب آنے پر ایک ٹانگ اس کے منہ پر اور دوسری اس کے سینے پر ماری۔کنگ کا سینہ اور منہ جھنجھنا کر رہ گیا اس کا سر دیوار سے ٹکرا گیا۔

بلا اختیار اس کے منہ سے کراہ نکلی ۔۔۔۔

سکارپین کنگ کی کربناک آواز گونجی تو ۔۔۔۔

"حریف کا شور اس بات کا گواہ ہے کہ شیر کے وار میں کتنا دم ہے "شیر زمان کی سرد آواز اسے کپکپانے پر مجبور کر گئی ۔۔۔

"کون ہوتم اپنی اصلیت بتاؤ ؟؟؟آخر مجھ سے تمہاری دشمنی کیا ہے ؟؟؟

بالآخر کنگ نے اس سے دماغ میں کلبلاتا ہوا سوال پوچھ لیا ۔۔۔۔

"میں ۔۔۔ہا۔ہا۔ہا ۔۔۔۔

"تمہاری موت "

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔

ماضی کا واقعہ کسی فلم کے مانند اس کے آنکھوں کے پردوں پر لہرانے لگا ۔۔۔۔

"مر یہاں !!!اس آدمی نے اسے گھسیٹتے ہوئے قدرے اندھیرے کمرے میں مختلف بچوں کے پاس لاکر پھینکا ۔۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ اپنی مما کے ساتھ گھر کے قریبی پارک میں کھیل رہا تھا ۔اپنی بال لینے درخت کے پیچھے گیا تو وہیں سے ایک دیو ہیکل آدمی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے وہاں سے اٹھا کر اپنی گاڑی میں ڈالا ۔۔۔اس نے چلا کر اپنی مما کو متوجہ کرنا چاہا مگر اس آدمی کے بھاری ہاتھ نے اسکے منہ سے آواز نا نکلنے دی ۔۔۔

"اوئے اس لاٹری کا دھیان رکھنا "اس نے اپنے ایک ساتھی کو کہا ۔۔۔

"کیوں اسے بیچنا نہیں ۔۔۔بڑا شاندار مال ہے۔اچھی قیمت ملے گی ۔۔۔۔وہ شیر زمان کی وجاہت سے متاثر ہوکر بولا ۔

"پتہ ہے شاندار مال ہے مگر اس کا باپ بھی اسکے ڈبل پیسے دے گا ۔۔۔۔

کال کردی ہے اسکے باپ کو پیسہ لے کر آتا ہی ہوگا ۔۔۔

سکارپین کنگ کے آدمی نے کہا ۔۔۔

"ابے تو اِدھر آ ۔۔۔۔۔اس آدمی نے شیر زمان کے ساتھ والے بچے کو انگلی کے اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔۔۔۔ 

 مجھے اس کے پاس نہیں جانا یہاں مجھے یہاں بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔مجھے بچا لو ۔"

 وہ دس سالہ بچہ زاروقطار روتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شیر زمان کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔۔۔۔۔مگر اس وقت وہ خود عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھا ۔۔۔۔ 

وہ آدمی اس بچے کو کھینچنے والے انداز میں اسے کسی جانب لے کر جارہا تھا۔وہاں موجود سب بچے سہمے ہوئے اور حیران پریشان کھڑے اس صورتِحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔

"ابے سالوں تمہیں یہاں آئے ایک ہفتہ ہوچلا ہے۔۔روز یہی سب دیکھتے ہو اب تک تو تم لوگوں کو عادی ہوجانا چاہیے ۔۔۔۔وہ آدمی خباثت سے ہنسا۔۔۔۔۔

شیر زمان خود ناسمجھی سے ساری کاروائی دیکھ رہا تھا۔

 ایک عجیب قسم کا آدمی وہاں آیا جس کے بازو پر سکارپین کا ٹیٹو بنا تھا ۔۔۔۔اس کے چہرے پر پر اسرار سی چمک نے احاطہ کیا ہوا تھا ۔وہاں موجود باقی بچے بھی لبوں پہ فقل لگائے خوف سے کپکپاتے ہوئے ایک جانب کھڑے تھے۔

وہاں موجود ہر بچے کے چہرے پہ ایک واضح خوف دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔

کیمرہ کی لائٹ جلی تو ۔۔۔۔۔

اس دس سالہ بچے کے ساتھ اس وحشی نے وہ سلوک کیا کہ شیر زمان کےدل کی دھڑکن دفتعاً بند ہونے کو تھی ۔۔۔

اس نے اپنی دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا ۔۔۔۔

اس بچے کی چیخیں گونج رہیں تھیں ۔۔۔۔مگر اسے بچانے والا کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔وہ لوگ ویڈیو بنا رہے تھے ۔۔۔

شیر زمان کے ننھے سے دل و دماغ پر وہ جان لیوا منظر سوار ہوگیا ۔۔۔۔کہاں اس معصوم کو اس سب کا اندازہ تھا ۔۔۔۔ وہاں موجود باقی بچوں کی ٹانگیں ڈر سےتھر تھر کانپنے لگیں ۔۔۔کہیں آنے والے وقت میں ان سب کے ساتھ بھی ایسا ہوا تو "یہی سوچ انہیں دہلا دینے کے لیے کافی تھی ۔۔۔۔

"اے تو ادھر آ۔"اس نے شیطانی مسکراہٹ لبوں پر سجائے کہا ۔۔۔۔

اس آدمی ۔۔جس نے ابھی کچھ دیر پہلے اس بچے کے ساتھ بدسلوکی کی تھی وہ شیر زمان کی نیلی آنکھوں کو دیکھ اسے اپنے قریب آنے کا اشارہ کر رہا تھا ۔۔۔۔ تو وہ آنکھوں میں نفرت اور جنون لیے سے اسے دیکھتے نفی میں سر ہلاگیا۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا ۔مگر جانے کیسے اس میں ہمت آئی اور وہ انکار کر گیا ۔۔۔

اس آدمی کی آنکھوں میں اپنے لیے شیطانی چمک دیکھ کر شیر زمان نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا ۔۔۔

"ابے پکڑ کر لا اس سالے ۔۔۔کو ۔۔۔مجھے آنکھیں دکھاتا ہے "کنگ نے اسے خود کو گھورتے دیکھا تو اپنے آدمی سے کہا ۔۔۔

وہ آدمی جارہانہ تیوروں سے اسکی طرف بڑھا ہی تھا کہ 

باہر سے پولیس کی گاڑی کے سائرن کی آواز سنائی دی ۔۔۔

شیر زمان نے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے ۔۔۔پاس پڑا ڈنڈا اٹھا کر اس قریب آتے ہوئے آدمی کے سر میں مارا اور باہر کی طرف دوڑ لگادی ۔۔۔

اس وقت کنگ اور اس کے آدمی پولیس کے چھاپے سے بچنے کے لیے سب سامان اکٹھا کیے پچھلے دروازے سے بھاگ نکلے۔۔۔۔اور شیر زمان پولیس کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔

زیگن نے شیر زمان کی گمشدگی اور اسکے تاوان کے لیے آنے والی کال کے بارے میں پولیس کو بتایا تو انہوں نے کال کی لوکیشن ٹریس کرتے ہوئے شیر زمان کو صحیح سلامت بازیاب کروا لیا ۔۔۔

مگر وہ واقعہ ہمیشہ اس کے ننھے سے دماغ میں نقش ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔

سکارپین کنگ کے چھوٹے کارنامے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے ۔۔۔اس نے ہر کام وسیع پیمانے پر کرنا شروع کردیا تھا۔

جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا۔ سکارپین کنگ کو اس کے انجام تک پہنچانے کا ارداہ اور بھی پختہ ہوتا چلا گیا ۔۔۔۔

"تم جیسے سپولیے کو تب ہی ختم کردینا چاہیے تھا "وہ نخوت زدہ آواز میں بولا ۔۔۔۔

"تم ابھی مجھے جانتے نہیں

۔۔۔میں کنگ ہوں ۔۔۔سکارپین کنگ جس کے نام سے دنیا کانپتی ہے۔اس نے رعونت آمیز انداز میں کہا ۔۔۔۔

"تم میں اتنی طاقت نہیں کہ مجھ سے ٹکراؤ ۔۔۔

"شیر اپنی طاقت وقت آنے پر آزماتا ہے ۔۔۔

گیدڑ چاہے سارا جنگل خرید لے ۔۔۔۔۔

حکومت میرے جیسا شیر ہی چلاتا ہے۔"وہ سرد سرسراتی ہوئی بھاری آواز میں بولا ۔

"تم ابھی میرے ساتھیوں کے لشکر سے ناواقف ہو اسی لیے اتنا ُاڑ رہے ہو "کنگ تمسخرانہ انداز میں اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا ۔

"ناواقف تو تم ہو میرے ارادوں سے ہو ۔۔۔جان جاؤ ۔۔۔تو ۔۔۔دہل جاؤ۔

جن ساتھوں پر غرور ہےتمہیں۔ان میں سے ایک بھی نہیں بچا ۔۔۔

زمان ابرو اچکا کر برفیلے لہجے میں بپھرے ہوئے شیر کے مانند غرایا  ۔۔۔۔

"آج میرے ُملک کی جڑوں کو کاٹنے والے قصائی کو زندہ دفن کردوں گا "

"مت بھولو ہم ہتھیاروں سے لیس ہیں۔بھون ڈالیں گے اپنی راہ میں آنے والے کو "کنگ جوابا مغرورانہ انداز سے بولا۔

"دشمنی نبھانے اور مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیاروں کی ضرورت نہیں جگر میں دم ہونا چاہیے "

وہ سینے پر ہاتھ مار غرایا ۔۔۔

اور اس کی گردن دبوچ لی ۔۔۔اس وقت اس کے سر پر جنون سوار تھا ۔۔۔۔

"تو ہی وہ یزید ہے جس نے نشے جیسے زہر سے گھروں کے چراغوں کو بجھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی "۔کہتے ہی اس کے منہ پر پنچ مارا اس کے منہ سے خون کا فوارہ ابل پڑا ۔۔۔

"تو ہے وہ فرعون جس نے معصوم بچوں سے زیادتی کے بعد ان کی ویڈیو بنا کر بیچیں"۔۔۔۔اس نے کنگ کے سینے پر لات ماری ۔۔۔۔

"تو ہے وہ ذلیل جس نے اپنے ملک کی بہن بیٹیوں کی عزت کو پامال کیے انہیں دوسرے ملکوں میں بیچا ۔۔۔۔"

"تجھ جیسے ملک کے دشمن کو جینے کا کوئی حق نہیں ۔۔۔۔تیرے شر سے بچے، عورتیں، جوان، بُزرگ کوئی نا بچ سکا ۔۔۔اب تیری باری !!!!"پھر تھوڑا سا جُھک کر اسکے بالوں کو مٹھی میں دبوچتے چہرہ اونچا کیا

اب میرے ہاتھوں سے تو نہیں بچے گا "

تجھے ایسے ہی تڑپا تڑپا کر ماروں گا ۔۔۔۔

شیر زمان نے اسے مار مار کر اسکی کھال ادھیڑ دی ۔۔۔۔

۔ وہ اپنے ملک کے لٹیروں کو بخشنے والوں میں سے نہیں  تھا ۔ 

آج وہ اس کی جان لینے کے در پہ تھا ۔۔۔

سکارپین کنگ اس کے ہاتھوں سے مار کھا کھا کر ادھ مرا ہو چکا تھا ۔۔۔

شیر زمان نے رائفل کو اسکے سر پر مارا ۔۔۔۔

وہ درد سے تڑپنے لگا ۔۔۔۔

گولیوں سے اس کا سینہ چھلنی کرتے ہوئے وہ زرا نا ہچکچایا ۔۔۔

اس کے جسم اور چہرے پر اس کے خون کی چھینٹیں پڑیں ۔۔۔۔۔

اور فرش بھی اس کے گندے خون سے آلودہ ہونےگا ۔۔۔۔

"ظلم اور بربریت کا خاتمہ کیے وہ شاہانہ چال چلتے ہوئے سرشاری سے تنہا اس بلڈنگ سے باہر نکلا ۔۔۔۔

باہر برستی ہوئی تیز بارش نے اس کے چہرے اور جسم پر پڑیں ہوئیں خون کی چھینٹیں دھو ڈالیں ۔۔۔۔

کڑکتی ہوئی بجلی اسے آگے کا راستہ دکھانے میں مدد دے رہی تھی ۔۔۔۔۔

شیر زمان آسمان پہ چمکنے والا وہ۔۔۔ ایسا روشن ستارہ تھا  جو ہر محبِ وطن پاکستانی کو آس اور امید دلاتا رھے گا کہ وطن سے وفا کبھی دلوں میں  ناپید نہیں ہوسکتی  ۔

وطن سے وفا ہر سچے مومن کے دل میں ہوتی ہے۔بس اسے دلوں میں اُجاگر کرنے کی دیر ہے۔آج اس نے ملکی دشمن کو ختم کیے وطن کی محبت کا عل٘م سر بلند کیا تھا۔

وہ واقعی شیر تھا جو جنگل کے قانون کا خاتمہ کیے لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا ۔

جو بظاہر تو لوگوں کے لیے ایک بزنس مین تھا مگر دشمنی عناصر کے لیے موت کا پیغام تھا ۔

🦋🦋🦋🦋🦋

جیسے ہی پلین ڈولنے لگا اور آبادی کی طرف گرنے لگا ۔۔اس کے ایک ونگ کو آگ پکڑ چکی تھی مگر اس پروفیشنل مہارت یافتہ پائلٹ نے اسے با حفاظت لینڈ کروا لیا ۔۔۔۔

وہ لوگ اب ایک کچی آبادی میں اتر گئے ضامن نے ہیر کو اٹھا لیا ۔۔۔کیونکہ وہ بیہوش ہوچکی تھی ۔۔۔۔

وہ تینوں بارش میں بھیگتے ہوئے پلین کی رینج سے دور ہو گئے کیونکہ کسی بھی وقت وہ مزید آگ پکڑ کر انہیں نقصان پہنچا سکتا تھا ۔۔۔۔

ضامن کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے ہیر کو بازوؤں میں اٹھائے آبادی کی طرف آیا ۔۔۔

ہیر کو ہوش آیا تو وہ درد سے بلبلانے لگی ۔۔۔۔

بارش تھی کہ آج ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔

گاؤں میں بھی بارش کی وجہ سے لائٹ ناپید تھی ۔اسی لیے چاروں اوڑھ اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔۔۔اسے وہاں ایک کلینک نظر آیا ۔۔۔۔جس کا دروازہ بند تھا ۔۔۔۔

ضامن نے ہیر کو اٹھائے ہوئے ہی دروازے کو لات ماری ۔۔۔۔

اور اسے نیچے اتارا ۔۔۔

مگر ہیر کھڑے ہونے کی پوزیشن میں نہیں تھی ۔۔۔وہ لڑکھڑا کر وہیں دروازے کی دہلیز پر گر گئی ۔۔۔۔

ایک عمر رسیدہ عورت کے ساتھ ایک درمیانہ عمر کی عورت نے دروازہ کھولا ۔۔۔

تو ضامن نے ہیر کو سہارا دئیے اندر کیا ۔۔۔

"آپ پلیز اگر ڈاکٹر ہیں تو ان کا چیک اپ کیجیے ۔۔۔ان کی حالت بہت خراب ہے "

"کون ہے یہ تمہاری "؟

اس عورت نے مشکوک نظروں  سے اسے دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔

"یہ میری بہن ہے "وہ پیشانی سے گیلے بالوں کو ہٹا کر بولا ۔۔۔

"ہم ڈاکٹر تو نہیں مگر اسے دیکھ سکتے ہیں۔کیونکہ ڈاکٹرنی صاحبہ تو کل ہی شہر گئیں ہیں۔ہم ان کے ساتھ مدد کرواتے ہیں "اس درمیانہ عمر کی عورت نے کہا ۔۔۔

"ٹھیک ہے آپ پلیز اسے دیکھیں "کہتے ہوئے وہ کلینک کے دروازے سے باہر نکل گیا ۔۔۔اور باہر شیڈ کے نیچے کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔

شیر زمان اور ہیر کی سلامتی کے لیے دعا کرنے لگا ۔۔۔۔

ہیر کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر لہرا رہا تھا جب اس نے شیر زمان کو ہوا میں معلق دیکھا تھا ۔۔۔۔وہ درد سے چلانے لگی ۔۔۔۔

مگر بجلی کی کڑک میں اسکی آوازیں دب کر رہ گئیں ۔۔۔۔

تیز ہوا کی وجہ سے کلینک میں موجود واحد روشن موم بتی بھی بجھ گئی۔۔۔۔

وہاں یکدم پر اسرار سی خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔

اچانک کلینک میں سنہری روشنی بکھر گئی ۔۔۔۔۔

ہیر نے ایک نومولود بچی کو پیدا کیا ۔۔۔۔جو صرف سات ماہ کی تھی ۔۔۔۔

ان دونوں عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔

آخر ایساکیسے ہو سکتا تھا ۔۔کہ لائٹ بھی نہیں آئی تھی اور کمرہ سنہری روشنی سے روشن ہوگیا ۔۔۔۔

یہ سب کیا تھا ؟؟؟

کچھ تو تھا جو مافوق الفطرت تھا !!!!

ایسے ہی منظر میں کچھ حیران کُن تھا۔۔۔ کچھ تھا۔ جو ٹھٹکنے پر مجبور کر رہا تھا۔ کچھ تھا جو اس منظر کے خلاف تھا۔

اس میں سے عمر رسیدہ عورت نے بچی کو گود میں لیا جو عام بچوں کی طرح پیدا ہوتے ہی رونے کی بجائے مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔

اس کے پیٹ پر ایک نشان تھا ۔۔۔۔

اس عورت نے غور کیا ۔۔۔ایسا نشان جیسے آگ سے نکلتا ہوا شعلہ ۔۔۔۔۔

انہوں نے اس بچی کو نہلا کر چادر میں لپیٹ دیا ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد باہر کھڑے ضامن 

کو ہیر کے ٹھیک ہونے کی خوشخبری سنائی۔۔۔۔تو اس نے سکون کا سانس لیا ۔۔۔۔

بارش تھم چکی تھی ۔۔۔۔

اس کا فون بھی بھیگ کر بند ہوچکا تھا ۔۔۔اس نے صبح تک وہیں انتظار کیا ۔۔۔پھر صبح ہوتے ہی وہاں کے ٹیلی فون بوتھ سے گھر فون کر کہ حسام کو یہاں گاڑی لانے کا کہا ۔۔۔۔

حسام وہاں آیا اور ان تینوں کو اپنے ساتھ واپس گھر لے آیا ۔۔۔۔۔

شہریار اور یمنی بھی ہیر کو دیکھنے وہیں پہنچ چکے تھے ۔۔۔

"یہ شیر زمان نے میری پھول سی بچی کی کیا حالت بنا دی ہے ۔۔۔خاندان میں سب سے چھوٹی ہے اور سب سے زیادہ بچوں کو ڈھیر لگوادیا اس سے تمہارے اس بھتیجے نے "وہ ہیر کی خستہ حالت کے پیش نظر جل کر خاکستر ہوئے بولا 

"اس میں اس بیچارے کا کیا قصور یہ تو اللّٰہ کی دین ہے "یمنی نے فورا جواب لوٹایا ۔۔۔

"کتنی پیاری ہے یہ بالکل ہیر جیسی نازک سی گڑیا "شہریار اس ننھی سی جان کو ہاتھوں میں لیے بولا ۔۔۔۔

شیر زمان کو باتیں سنا کر دل ہلکا ہوا تو نئی مہمان کو پیار سے اٹھا کر بولا ۔۔

یمنی تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی ۔۔۔۔پھر مسکرانے لگی ۔۔۔۔

چاہے کچھ بھی کہہ لیں اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔

"ہیر اس کا نام کیا رکھنا ہے "؟

یمنی نے ہیر سے پوچھا جو سیدھی بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور خالی نظروں سے چھت کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔

وہ کچھ نا بولی ۔۔۔

"ہیر بولو نا "یمنی نے اسے بازو سے ہلا کر پوچھا ۔

"سنہری !!!!!

ہیر کے منہ سے بلا اختیار نکلا ۔۔۔۔

کیونکہ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو سنہری کرنیں پھیلیں تھیں۔۔۔۔اسی لیے وہ مدھم آواز میں کھوئے ہوئے انداز میں بولی۔

🦋🦋🦋🦋🦋

"آپ نے بہت اچھا کیا جو زیان کو کھلے دل سے معاف کردیا"وہ کمرے میں داخل ہوا تو بریرہ کو کمرے میں یہاں سے وہاں چکر کاٹتے دیکھ کر بولا۔

"ہمممم۔۔۔۔مگر آپ کب کریں گے ؟ ۔۔۔

"مجھ سے کیسی معافی ؟

اس نے سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔۔۔

"میں نے آپ کے لیے غلط الفاظ کا استعمال کیا تھا "وہ پشیمانی سے بولی ۔۔۔

"دیکھو رانی میں مانتا ہوں کہ زیان کی غلطی تھی اور تم  اس وقت بہت ڈری ہوئی تھی، کچھ بھی سوچ نہیں پارہی تھی۔۔۔۔ اسی لیے بول دیا تم  نے۔۔۔"

"تو پھر آپ نے معاف کیا ؟؟؟ دونوں بازو سینے پر لپیٹے اس نے آنکھیں چھوٹی کیے سوال کیا.

"بریرہ !!!! ایک جذبے کے تحت زریار  نے اسے پکارا

"ہمممم ۔۔۔۔ بریرہ مڑی تو زریار  کو یوں اپنے قریب دیکھ  کر اسکی سانسیں اٹک گئی تھی لمحہ بھر کو۔

"وہ کہنا تھا۔۔۔۔۔۔ شکریہ۔۔۔۔۔ میرا مان رکھنے کے لیے۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتی تمہارا یوں معافی مانگنا میرے لیے کتنی بڑی بات ہے۔۔۔ ورنہ ساری زندگی تو ہم ہی آپ سے معافی تلافی کرتے آئے ہیں۔بہت شکریہ آپ کا " مسکرا کر بولتا وہ اسکے ماتھے پر جھکا، لبوں سے ہلکے سے اسکے ماتھے کو چھوتا زریار  مسکرا کر پیچھے کو ہوا اور بیڈ پر اپنی جگہ پر جاکر لیٹ گیا تھا۔

اپنی جگہ ساکت کھڑی بریرہ  نے ایک جھرجھری سی لی تھی۔۔۔۔ اس نے زریار کی پشت کو دیکھا تھا جو مزے سے سو چکا تھا۔۔۔آج اتنے عرصے بعد اس کا محبت بھرا لمس محسوس کیے اسے سکون ملا ۔۔۔ اپنی جگہ پر لیٹی اور اپنی پیشانی کو چھو کر مسکرانے لگی ۔۔۔وہ کچھ پل سوچنے کے بعد ہی نیند کی وادی میں اتر گئی تھی۔

🦋🦋🦋🦋🦋

رات گہری ہوچکی تھی آج سنہری ڈیڑھ ماہ کی ہونے والی تھی ۔مگر اس دشمن جاں کا کچھ پتہ نہیں تھا۔۔۔

ہیر نڈھال سی اپنے بستر پر آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی۔۔۔انہوں نے واقعی اپنا کہا سچ کر دکھایا۔۔۔کہ میں اپنی جان دے کر بھی تمہاری حفاظت کروں گا "شیر زمان کے کہے ہوئے الفاظ اس کے کانوں میں سنائی دے رہے تھے ۔ 

تینوں بیٹے ٹرپل بنکر بیڈ پر اوپر نیچے لیٹے سو رہے ۔جبکہ سنہری کارٹ میں سو رہی تھی۔

وہ دل میں دعا کر رہی تھی  کہ کاش اس کا آنکھوں دیکھا جھوٹ ہو جائے ۔۔اسکا مخصوص کلون اپنے پر چھڑک کر سوتی تھی ۔۔اسی سے اس کی موجودگی کا احساس ہوجاتا ۔۔وہ مخصوص مہک جب تک اس کی سانسوں میں نا منتقل ہوجاتی اسے سانس لینا دوبھر ہوجاتا۔مگر آج وہ پوری طرح سے اس سے روٹھ چکی تھی ۔اسی لیے کلون بھی نہیں لگایا جس وجہ سے نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ مگر آنکھیں ہنوز بند شیر زمان کے ساتھ گزارے یادگار لمحات کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔اسے کمرے میں وہی مخصوص کلون کی مہک پھیلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

وہ دبے پاؤں اندر آیا اور آکر سب سے پہلے کارٹ میں لیٹی ہوئی اپنی ننھی پری کو گود میں اٹھا کر اس کے پھولے ہوئے گالوں پر بوسہ دیا پھر آہستگی سے اسے واپس کارٹ میں لیٹاتے ہوئے اپنے تین ننھے شیروں کی جانب گیا ۔۔۔اور انہیں پیار کیا ۔۔۔

ہیر کواپنی کمر کے گرد بازوؤں کا حصار محسوس ہوا ۔۔۔۔

"لگتا ہے میں ان کی یاد میں اسقدر ڈوب چکی ہوں کہ مجھے خواب بھی حقیقت دکھائی دے رہا ہے ۔اس نے دل میں سوچا ۔۔۔۔

اسے اپنے لبوں کے لمس سے روشناس کرواتے ہوئے وہ اسے عالم ہوش میں لایا ۔۔۔۔

"یہ سراب نہیں حقیقت تھی ۔ہیر کی آنکھیں کھلیں تو،عالم ہوش میں ،ذہن بیدار ہوا۔۔۔۔

وہ یک ٹک نظریں باندھے اسے نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی میں دیکھنے لگی۔۔۔۔ اسکے وجود کے حقیقت میں ہونے کا یقین کرنے کے لئے اسکے وجیہہ چہرے ہر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔اسکی اس حرکت پر شیر زمان عنابی لب لب مسکرانے لگے۔۔۔۔

وہ تمام فاصلہ مٹائے اسے سینے سے لگا کر اپنی تشنگی مٹانے لگا ۔۔۔۔مائی لٹل وائفی۔۔۔کیسی ہو؟؟؟؟؟؟

وہی آواز وہی دلکش سحر انگیز لب و لہجہ ہیر کی جان نکال گیا ۔۔۔۔۔۔۔ 

" آپ زندہ ہیں بالکل ٹھیک میرے سامنے سچ میں "اس کے انداز میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی ۔۔۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔تمھارے سامنے ہوں۔۔۔تمھارے پاس"

"چاہو تو اپنے عمل سے یقین دلا سکتا ہوں "بے باک نظریں اس کے لبوں پر تھیں۔۔۔

اس کی سانسیں تھم گئیں ۔۔۔

ہیر کا شرم کے مارے جیسے سارا خون چہرے پر سمٹ آیا تھا ۔۔۔اس کے خمار زدہ لہجے پر ۔۔۔۔

ہر بار وہ نئے سرے سے اس کی جان نکال جاتا ۔۔۔۔

وہ اسکے لبوں پر جھکتے اسے اپنے ہونے کا اصل معنوں میں احساس کروا گیا ۔۔۔

ہیر نے اس کے گردن کے گرد اپنی بازو حمائل کیں ۔جیسے ہی ہیر نے شیر زمان کے بالوں کو چھونا چاہا ۔۔۔اسے کچھ عجیب سا لگا ۔۔۔

وہ شیر زمان کو پیچھے کیے اٹھ کر بیٹھی ۔۔۔

"آپ کے بال ؟؟؟اس نے جھٹ بٹن پریس کیے سائیڈ ٹیبل پر موجود لیمپ روشن کیا۔

"میں نے سوچا میری لٹل وائفی کو میری یہ لُک پسند آجائے ۔۔۔

"آپ مجھے ہر حال میں پسند ہیں ۔۔۔مگر کیوں کٹوائے بال ؟اس نے شیر زمان کے آرمی ہیئر کٹ کو دیکھا ۔۔۔اس میں اس کے پرکشش نقوش مزید واضح دکھائی دے رہے تھے۔

"گھر کی کھیتی ہے۔پھر آجائیں گے "

ساری رات وہ اسے اپنے ہونے کا یقین دلاتے ہوئے اپنی قربتوں کی نوازشات برساتا رہا اور اسکے کانوں میں اپنی محبت کا رس گھولتا رہا ۔۔۔

شیر زمان گھر والوں کو ضامن کے زریعے اپنی خیریت کی اطلاع پہنچا چکا تھا ۔اور یہاں آنے سے پہلے سب سے مل چکا تھا ۔وہ زخمی حالت میں ہیر کے سامنے نہیں آنا چاہتا تھا اسی لیے پوری طرح ٹھیک ہوکر آیا ۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج سنہری کی پہلی سالگرہ تھی گھر میں خوشیوں کا سماں تھا،ہر سو پنک کلر کے غباروں اور ربن سے سجاوٹ کی گئی تھی ۔سب تیار ہوئے لاونج میں جمع تھے ۔۔۔۔

بس شہریار کی فیملی کا انتظار تھا ۔جونہی حسام اور ابتسام اپنی شریک حیات اور بچوں کے ساتھ وہاں پہنچے ہیر اور شیر زمان نے سنہری کا ہاتھ پکڑے کیک کاٹا۔۔۔۔تو سب نے تالیاں بجا کر سالگرہ کا مخصوص گیت گایا ۔۔۔

اسے ڈھیروں ڈھیر گفٹ ملے ۔۔۔

سب تقریب سے فارغ ہوئے اب لاونج میں جمع تھے ۔۔۔

"شیر یہ ہیر اور تم دونوں ہی سفید رنگت کے مالک ہو اور تمہارے تینوں شیر بھی مگر یہ سنہری کس پر گئی ہے "؟

ضامن نے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔

"میری شہزادی اپنے زمارے دادا پر گئی ہے "زمارے نے اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھایا ۔۔۔

وہ ہاتھ میں موجود چاکلیٹ کھاتے ہوئے ہنسنے لگی ۔۔۔اس کی گندمی رنگت اسکے ہنسنے سے سنہری ہونے لگی ۔۔۔۔

"کتنی بوریت ہے کوئی فن ہونا چاہیے عیش نے کہا ۔۔۔

"جی بالکل ٹھیک کہا دعا نے بھی تائیدی آراء پیش کی ۔

"بھائی آپ نے مہندی پر ڈانس کیا تھا ۔کچھ مووز ہوجائیں ؟؟؟شاہ من نے کہا ۔

"نہیں یار اب نہیں "

شیر زمان نے منع کیا ۔

"آپ گانا سنائیں نا !!!ہیر نے فرمائش کی ۔

شیر نے اسے تیکھے چتونوں سے گھور کر دیکھا ۔۔۔

"ہمارے شیر میں یہ بھی خاصیت ہے۔اور ہمیں پتہ ہی نہیں "حسام نے کہا ۔

"جی بھیا ایک بار انہوں نے گانا سنایا تھا بہت زبردست سنایا ۔۔۔سچی ۔۔۔وہ پرجوش آواز میں بولی۔

"یہ خوبی میرے بیٹے نے اپنے بابا سے وارثت میں لی ہے "ذوناش نے پہلے شیر زمان کی طرف دیکھا پھر ساتھ بیٹھے ہوئے زیگن کی طرف دیکھا ۔۔۔

"چلیں پھر انکل آپ کچھ سنائیں ۔۔۔ابتسام نے توپوں کا رخ زیگن کی طرف موڑا ۔۔۔

"نہیں بھائی اپنی تو اب عمر ہوگئی ہے ۔اتنا کر سکتا ہوں میں گٹار بجاوں گا ۔گانا شیر ہی سنائے گا ۔

"چلیں شیر بھیا اب تو آپ کو سنانا ہی پڑے گا "زائشہ نے کہا ۔۔۔

"ارے ہیر کو بھی کہو کپل سونگ ہوجائے "منت نے ٹکرا لگایا ۔۔۔۔

"اس کے بعد زیان اور جنت کی باری "شاہ من نے کہا ۔

"میری طرف سے تو صاف جواب ہی سمجھو ۔۔۔ہم دونوں ہی گانا گانے جیسی خوبی سے ہزاروں میل دور ہیں ",زیان نے اپنا اور جنت کا دفاع کیا۔

زیان زرشال اور زمارے کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا ۔جب جنت نے اسے معاف کردیا تھا تو زرشال اور زمارے نے بھی اپنا دل بڑا کیے گھر کے ماحول کو پرسکون بنا لیا ۔

زیگن نے گٹار بجانا شروع کیا۔اورشیر زمان نے گانا شروع کیا ۔۔۔

چاہے میں رہوں جہاں میں یا چاہے تو نا رہے۔

تیرے میرے پیار کی عمر سلامت رہے۔

اس نے اپنی سحر انگیز آواز میں گنگنایا ۔۔۔

چاہے یہ زمیں یہ آسماں رہے نا رہے ۔تیرے میرے پیار کی عمر سلامت رہے ۔ہیر نے بھی اپنی میٹھی آواز میں اس کا ساتھ دیا ۔۔۔

ڈر ہے تجھے میں کھو نا دوں 

ملے جو خدا تو بول دوں 

میں دو جہاں کا کیا کروں تو بتا !!!

تو جو میرے پاس ہے۔مجھے نا کوئی پیاس ہے۔

میری مکمل ہوگئی ہر دعا !!!

شیر زمان نے جذب سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر الفاظ ادا کیے ۔۔۔

چاہے میرے جسم میں یہ جاں رہے نا رہے تیرے میرے پیار کی عمر سلامت رہے۔

ہیر بھی اسکی طرف درزیدہ نگاہوں سے دیکھ کر گنگنائی ۔۔۔

تھے ٹکڑوں میں جی رہے 

تم جو ملے تو جڑ گئے 

پنکھ لگا کہ اڑ چلا من میرا 

تجھ میں ۔۔۔میں ہوں 

مجھ میں تو ۔۔۔

اور ہے سانسیں روبرو

کچھ بھی نہیں ہے اب دونوں کے درمیان ۔۔۔

شیر زمان نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے 

چاہے اس چاند میں چمک رہے نا رہے تیرے میرے پیار کی عمر سلامت رہے۔

ہیر نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے چکمتے چاند کو دیکھ کر گنگنایا ۔۔۔۔

"واو امیزنگ !!!

ضامن نے گانا ختم ہوتے ہی ان کی تعریف کی۔۔۔باقی سب نے بھی انہیں پیار بھری نظروں سے دیکھا ۔۔۔

زیگن اور ذوناش آج مطمئن تھے اپنے دونوں بیٹوں کو خوش دیکھ کر ۔

زریار اور بریرہ بھی سب بھلا کر اپنے بچوں کی خوشی میں خوش تھے ۔

زرشال اور زمارے بھی آج اپنے فرائض سے سبکدوش ہو چکے تھے ۔

"Thanks ....

"But Sorry for late "

شیر زمان نے زیان اور ضامن دونوں سے کہا۔

"وہ کیوں ؟؟زیان اور ضامن نے پوچھا ۔

"اگر تم لوکیشن نا بتاتے اور ضامن ہیر کو وقت رہتے نا بچاتا تو آج ہم سب ایک ساتھ نا ہوتے "وہ سنجیدگی سے گویا ہوا ۔

"Not a big deal .

زیان نے مسکرا کر کہا ۔

"We are a family"

ضامن ہنس کر بولا ۔

"تم میری بہن کا ہاتھ چھوڑ دو "اعیان نے شیر آریان کے ہاتھ سے آیت کا ہاتھ نکلوانا چاہا ۔۔۔

"تو تم نے کیوں سنہری کا ہاتھ پکڑا تھا ۔؟؟آریان دوبدو بولا 

"میری مرضی "اعیان زیان خان نے ہٹ دھرمی سے کہا۔

"تو پھر میں آیت کا ہاتھ بھی نہیں چھوڑوں گا "

وہ تیکھے لہجے میں بولا ۔۔۔

"آریان چھوڑ دو بیٹا بڑی بہن ہے آپکی آیت "ہیر نے انکے بیچ کی لڑائی ختم کروانی چاہی ۔۔۔

شیر زمان کو ہیر کا ہاتھ پکڑے دیکھ کر آریان اور اعیان دونوں نے ویسا ہی کیا ۔۔۔

"یہ میری ہے ....آریان نے آیت کو اپنی طرف کھینچا تو اعیان نے اسے بدلے میں مارنا چاہا ۔۔۔

آریان شیر کے باقی دو جڑواں بھی آریان کی مدد کے لیے اعیان پر ابل پڑے ۔۔۔

پل بھر میں وہاں میدان جنگ بن گیا ۔۔۔

"کیا ہے یہ ؟؟؟

عیش انہیں دیکھ کر ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہوئی ۔۔

ضامن نے جوابا کہا۔

"مستقبل کے عشق زادے "

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishaq Zaade Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 2 Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishaq Zaade Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 2 written by Hina Asad . Ishaq Zaade Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 2 by Hina Asad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment