Pages

Saturday 3 August 2024

Dil Halke Se Dharky By Rabia Rasheed New Complete Romantic Novel

Dil Halke  Se Dharky By Rabia Rasheed  New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dil Halke Se Dharky By Rabia Rasheed Complete Romantic Novel 


Novel Name: Dil Halke Se Dharky

Writer Name: Rabia Rasheed

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"غافل کیا تم کو چاہ بہتایت کی نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ دیکھو! تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔ اگر تم علم الیقین رکھتے تو غفلت نہ کرتے۔ تم ضرور دوزخ دیکھو گے۔ پھر  اس کو ایسا دیکھو گے کہ یقین آ جائے گا۔ اس روز تم سے شکر نعمت کے بارے میں پرستش ہو گی۔" (التکاثر)

 ٹیپ ریکارڈ سے آتی آواز نے جیسے اسے جھنجوڑا ہو۔ایک دم اسے پچھلی باتیں یاد آئیں۔ کچھ دیر پہلے آتی کھٹ پٹ کی آواز کی سمجھ اسے اب آئی تھی۔ آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بند توڑ کر باہر نکل آئے۔ پتہ تو اسے پہلے ہی چل چکا تھا کہ وہ ہسپتال میں ہے۔ لیکن وہ ایسی نوعیت کا پہلا ہسپتال دیکھ رہا تھا جہاں صبح کی شروعات تلاوت قرآن پاک سے ہو رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور دماغ پچھلی یادوں میں گم تھا۔

 ________________________________________________

"ایک منٹ گلزار بھائی۔"گلزار جونہی کالج کے گیٹ سے باہر نکلا۔ ہانیہ نے دیکھ کر اسے روکا۔ گلزار بائیک روکی اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ ایک نظر اس سیاہ حجاب کیے، سیاہ عبایا پہنے، اس لڑکی کو بھی دیکھا۔

 "گلزار بھائی! آپ اسے چھوڑ دیں گے؟ اس کی طبیعت خراب ہے اور ابھی تک میرا ڈرائیور بھی نہیں آیا ورنہ میں    خود اسے ہاسٹل چھوڑ دیتی۔ آپ۔۔۔۔۔" وہ ابھی بات کر رہی تھی کہ گلزار نے کہا۔

 "ٹھیک ہے، میں چھوڑ آؤں گا اگر یہ رضامند ہو تو۔۔۔۔۔۔" آخری تین الفاظ پہ اس نے زور دیا اور اس کی طرف دیکھ کر دوبارہ سامنے دیکھنے لگا، جس کا چہرہ بخار سے تپا ہوا تھا، آنکھوں میں ہلکے سے پانی کا ٹھہراؤ تھا جو بخار کی شدت کو ظاہر کر رہا تھا۔ 

 "شانزے! تم اس کے ساتھ چلی جاؤ ورنہ تمہارا بخار بڑھ جائے گا اور۔۔۔۔" وہ اسے راضی کرنے لگی۔

 "ہانی یار! اگر اس نے جانا ہے تو ٹھیک، ورنہ میرا وقت تو برباد نہ کرواؤ۔" گلزار نے سیدھا دیکھتے ہوئے کہا۔

ہانیہ نے التجا بھری نگاہوں سے شانزے کو دیکھا۔ شانزے اس کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ گلزار نے بائیک اسٹارٹ کی اور چل دیا۔ بائیک تیز رفتاری سے جیسے سڑک پر اڑ رہی تھی۔

 "اے مسٹر! آپ جہاز کی ڈرائیونگ سیٹ پہ نہیں بیٹھے کہ اسے فضا میں اڑانے کا ارادہ کر رکھا ہے۔" شانزے نے تھوڑا غصے اور طنزیہ لہجے میں کہا۔

 "تو میڈم آپ بھی کسی جہاز کی سیٹ پر نہیں بیٹھی، سنبھل کر بیٹھ سکتی ہیں۔" وہ بھی اس کا استاد تھا۔ اس سے بھی زیادہ غصے اور طنزیہ لہجے میں بولا۔

 شانزے نے اس کی بات سن کر اسے غصے سے گھورا اور اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ اگر اسے ہانیہ کا خیال نہ ہوتا تو وہ اس کے ساتھ کبھی نہ بیٹھتی۔ وہ غصے سے اسے دیکھ رہی تھی جب ایک دم سے دھکا لگا اور گرنے سے بچنے کے لیے اس نے گلزار کا کندھا پکڑا۔ گلزار نے غصے سے کندھے پہ رکھے ہاتھ کو دیکھا۔ شانزے نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کر لیا۔

 ہاسٹل کے سامنے جا کر اس نے بائیک روکی۔ جونہی وہ اتری وہ زن سے بائیک بھگا لے گیا۔

"گدھا، اٌلو۔" شانزے نے آخر کہا بھی تو کیا۔ غصے سے کچھ دیر اس طرف دیکھتی رہی پھر ہاسٹل میں داخل ہو گئی۔ 

 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

"کیا اہل ایمان کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کو سن کر پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں۔" (سورۃ الحدیدـ16) 

 پر اثر لہجہ، سحر انگیز آواز، جیسے اس کے دل و دماغ  کو چھو رہی تھی۔ یہ شاید الفاظ کا ہی اثر تھا یا پھر لہجےکا اثر کہ اس کا دل ایک دم سے کانپ اٹھا تھا۔ کچھ دیر قبل اس نے قدموں کی چاپ سنی مگر آنکھوں پر بازو رکھے وہ چپ چاپ لیٹا رہا۔ کچھ دیر کھٹ پھٹ ہوئی پھر اس کے بعد شاید آنے والی شخصیت نے اس کا جائزہ لیا تھا، پھر  ٹیپ ریکارڈ کا بٹن دبایا گیا۔ اس کے بعد قدموں کی آواز آئی جو کہ باہر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سحر ہونے کو تھی۔ 

 ٹیپ ریکارڈ  سے آتی آواز سن کر اس  کے آنسو غیرارادی طور پر آنکھوں سے باہر نکل آئے۔ دل کو ایک دم سے  ٹھیس سی لگی ہو جیسے۔

 وہ یک دم اٹھ بیٹھا، زخم درد کرنے لگے۔ آنسو دونوں درد کو سہہ نہ سکے اور  باہر نکل، نکل کر آنے لگے  جونہی اس نے تلاوت ختم کی، اس کا جسم کپکپا اٹھا اور  وضو کر کے نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہو  گیا۔ آج اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے رب کو منائے گا اور رو رو کر منائے گا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر گر رہے تھے اور وہ نماز پڑھ رہا تھا۔

 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

  اقبال علوی کی دو ہی اولادیں تھیں۔ "شانزے اقبال اور عاطف اقبال" اقبال کو دونوں بہت زیادہ پیارے تھے مگر شانزے میں تو اقبال علوی کی جان تھی۔ اس کی ہر خواہش کو پورا کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے جیسے۔

 شانزے اقبال بہت زیادہ شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھی جبکہ عاطف علوی اس سے تھوڑا کم شرارتی تھا۔ شرارت کر کے معصوم شکل بنا لینا شانزے اقبال کی عادت تھی۔ وہ بچپن سے ہی پوزیشن ہولڈر تھی۔ کوئی کلاس ایسی نہ تھی جس میں اس نے پوزیشن حاصل نہ کی ہو۔ اپنے ادارے میں وہ اوّل آتی تھی۔ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو اس وقت ہی اس کے ابو نے کہا تھا کہ میری بیٹی ڈاکٹر بنے گی۔

والدین اولاد کے بارے میں کئی خواب دیکھتے ہیں مگر شانزے کے باپ نے اس کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا اور وہ اسے پورا کر بھی سکتا، کروڑوں کی جائیداد اس کے پاس تھی اور بینک بیلنس اس کے علاوہ تھا۔

عاطف علوی نے "ایف ایس سی" پاس کرنے کے بعد زمینوں  پر کام کرنا شروع کر دیا حالانکہ اسے اقبال نے کہا بھی کہ "تم آگے پڑھو" مگر اس کی دلچسپی اسی میں تھی تو انھوں نے  بھی زیادہ  اصرار نہ کیا۔ مگر شانزے نے والد کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے پوری کوشش کی تھی۔ اور خدا  کا  کرنا یہ ہوا کہ اس کا انٹری ٹیسٹ بھی کلیئر ہو گیا اور وہ بھی پہلی باری میں۔ اقبال علوی نے خاندان کی مخالفت کے باوجود اس کا  میڈیکل کالج میں داخلہ کروا دیا۔

________________________________________________

وہ جو کیسٹ لگانے کے لیے روم میں آئی تھی، مریض کا خالی بستر دیکھ کر چونکی، چند لمحے ادھر ادھر دیکھا اور پھر اٹیچڈ باتھ کی طرف بڑھی، مگر مریض وہاں بھی نہیں تھا۔ وہ بستر کے قریب آن کھڑی ہوئی، مختلف سوچیں اس کے دماغ میں ایک دم  سے آئیں۔ پھر اچانک اس کی نگاہ ٹیبل پر پڑی۔ گلاس کے نیچے پھڑپھڑاتا کاغذ اسے اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔ وہ شاید اس ڈائری سے ہی نکالا گیا تھا جو ہر روم میں مہیا کی گئی تھی۔ وہ کاغذ کی طرف بڑھی، خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں لکھے گئے چند الفاظ:

"مجھے میرے رب کی طرف متوجہ کرنے کا شکریہ۔"

 ________________________________________________

شانزے نے جونہی دہم کے پیپرز دیے اس نے پھپھو کے گھر جانے کا ارادہ بنا لیا جو کہ دیہات میں رہتی تھی۔ اس کی خواہش پر اقبال علوی اسے پھپھو کے گھر چھوڑ آئے۔ 

وہاں کے بچوں کے ساتھ اس کی اچھی بن چکی تھی۔ جب اس نے بچوں کو مٹی کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو بولی:

"کیا کر رہے ہو آپ لوگ؟" کہنے کے ساتھ ہی وہ ان کے قریب بیٹھ گئی۔

پھر ان کے ساتھ ہی خود بھی مٹی سے مختلف چیزیں بنانے لگی۔ جس کی وجہ سے سارے ہاتھ، پاؤں مٹی والے کر دیے۔ بالوں کو پیچھے کرنے کی وجہ سے بال اور منہ بھی مٹی سے بھر گئے۔ لباس سے ہاتھ صاف کرنے کی وجہ سے وہ بھی مٹی سے بھر گیا۔

کھیلتے کھیلتے اچانک اس کی نظر دروازے کی طرف اٹھی۔ دروازے میں کھڑے اقبال علوی بہت پیار سے اپنی لاڈلی کو دیکھ رہے تھے جو بچوں کے ساتھ خود بھی بچی بنی ہوئی تھی۔ اقبال علوی کو دیکھتے ہی اس نے سب کچھ وہی چھوڑا اور "ابو جی!" کہتے ہوئے ان کے گلے جا لگی۔ نتیجتاً ان کے کپڑے بھی مٹی سے بھر گئے۔ سفید کپڑے مٹی سے بھرے عجیب لگ رہے تھے۔ مگر انھیں جیسے اس کی کوئی پروا تک نہ تھی۔

" کیا کر رہی تھی میری گڑیا؟" انھوں نے پیار سے پوچھا۔ وہ خوشی خوشی انھیں بتانے لگی۔

چلتے چلتے دونوں شہتوت کے درخت کے قریب پہنچ گئے۔ شہتوت کے بڑے گھنے درخت کے نیچے چار چارپائیاں رکھی تھی۔ جن پہ ان کی بڑی بہن اور بہنوئی بیٹھے تھے۔ دونوں انھیں ملے اور انھیں چارپائی پر بیٹھنے کا کہا۔ شانزے نہانے کے لیے کپڑے اٹھا کر چل دی۔ جب وہ نہا کر آئی تو اس وقت تک عاطف علوی بھی آ چکا تھا۔ وہ بھائی سے بھی اسی گرم جوشی سے ملی۔ اقبال علوی کے کپڑوں کو دیکھ کر اسے شرمندگی تو ہوئی لیکن ہنسی کو روکنا بھی مشکل ہو گیا کیونکہ ان کا لباس عجیب مزاحیہ سا لگ رہا تھا۔ پھپھو اور پھوپھا دونوں "عاطف علوی" سے مختلف سوال کر رہے تھے اور وہ سر جھکائے ان کے جواب دے رہا تھا۔ شانزے بھی بھائی کے ساتھ بیٹھ گئی، تب تک عفرا جو پھپھو کی بیٹی تھی اور اس کی ہم عمر تھی ٹرے اٹھائے آ گئی۔ ٹرے میں رکھے پانچ شیشے کے گلاس سرخ شربت سے بھرے ہوئے تھے، جن پر تیرتے چھوٹے چھوٹے برف کے ٹکڑے بہت ہی زیادہ پیارے لگ رہے تھے۔ اس نے باری باری سب کی طرف ٹرے کی اور انھوں نے ایک ایک گلاس اٹھا لیا۔ عفرا نے "السلام علیکم!" کہتے ہوئے اپنا سر اقبال علوی کے آگے سر جھکایا۔ انھوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے سر پہ ہاتھ رکھا پھر عفرا نے عاطف علوی کو سلام کیا، جس نے جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ سر کو ہلکی سی جنبش دی اور لب تھوڑے سے ہلے شاید اس نے سلام کا جواب دیا تھا۔

 تبھی بچے بڑے سے دیسی مرغے کو پکڑ لائے۔ پھوپھا نے اٹھ کر اسے ذبح کیا۔ پھوپھی کھانا پکانے چل دی۔ پھوپھا اور اقبال علوی کھانا  پکنے تک باتیں کرتے رہے جبکہ شانزے، عاطف علوی کو لے کر کھیتوں کی طرف چل پڑی۔ کھانا پکنے سے تھوڑی دیر پہلے دونوں لوٹ آئے۔ سب نے مل کر کھانا کھایا اور پھر کچھ دیر بعد وہ تینوں اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔

________________________________________________

اس نے موبائل چارجنگ پہ لگایا اور پھر ناشتہ تیار کرنے کے لیے کچن میں آیا لیکن کچن میں تو کچھ تھا ہی نہیں۔ اس نے  فریج کھول کر چیک کیا مگر اس میں بھی کچھ ایسا نہ تھا کہ وہ اس سے ہلکا پھلکا ناشتہ تیار کر لیتا۔ چند لمحے وہ فریج کھولے سوچتا رہا پھر فریج سے رات کا بچا ہوا دودھ اٹھایا اور اس سے چائے بنائی۔ چائے پینے کے بعد وہ اکلوتے کمرے کی طرف بڑھا اور وہاں جا کر اس نے بالوں میں برش پھیرا۔ وہ اس کرائے کے مکان میں ایک ہفتے سے رہ رہا تھا۔ اس کے تبادلے کی درخواست منظور ہو گئی تھی اور اسے کل سے ڈیوٹی پر جانا تھا اور کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو چکی تھی۔

بالوں میں برش پھیرنے کے بعد اس نے اپنی دونوں جیبوں کو ٹٹولا اور پھر پینٹ کی دائیں جیب سے پیسے نکالے، گن کر پھر سے جیب میں ڈال دیے۔ پھر چارجنگ پہ لگے موبائل کو اتارا اور کچھ سوچتے ہوئے اسے وہیں میز پر رکھ دیا۔ سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شناختی کارڈ سمیت کچھ نہ اٹھایا۔ مکان کو لاک کر کے چابیاں اس نے پینٹ کی بائیں جیب میں ڈالیں۔ ابھی وہ ایک گلی مڑا ہی تھا کہ اس نے سامنے ایک آدمی کو جوس پیتے ہوئے دیکھا، اسے یوں لگا جیسے وہ اسے جانتا ہو مگر سائیڈ پوز ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اگلے کو شاید اس کے گھورنا محسوس ہو گیا۔ جوس پیتے پیتے اس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر گھبرا کر ایک دم کھڑا ہوا۔ نتیجتاً گلاس نیچے گر گیا اور ٹوٹ کر کرچیوں میں بٹ گیا۔ وہ ایک دم سے بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ بھی اسے پہچان چکا تھا اس وجہ سے ہی وہ اس کی طرف لپکا۔ لوگ مڑ مڑ کر انھیں دیکھنے لگے۔ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے آخر اس نے اسے پکڑ ہی لیا۔ گریبان سے پکڑتے ہوئے اس نے ایک مکا دوسرے کے منہ پہ رسید کیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بولا:

"سالے، کمینے ہر بار پکڑائی نہیں دیتا۔۔۔۔۔ اس بار تو تجھے تھانے کی ہوا لگوا کر ہی رہوں گا۔" کہتے ہوئے اس نے ایک ہاتھ سے مضبوطی سے اس کا گریبان پکڑے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے پٹائی جاری رکھی۔ وہ اچانک چونکا کیونکہ پولیس کی گاڑی کی آواز قریب سے سنائی دی تھی اور یہی موقع اسے نقصان دے گیا کیونکہ اگلے نے ایک دم سے زور دار مکا اس کے بائیں جبڑے پر رسید کیا تھا، وہ جو اس لمحے کے لیے بالکل تیار نہ تھا، مخالف پہ اس کی گرفت کم ہو گئی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالف نے خود کو چھڑایا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ اس نے اسے بھاگتے دیکھا ضرور مگر خود اس کے پیچھے نہ گیا کیونکہ پولیس کی گاڑی مجمع کے قریب آن رکی تھی جو ان کو لڑتے دیکھ کر جمع ہوگیا تھا۔ 

"ہتھکڑی لگاؤ اسے۔" وہ شاید بڑے عہدے پہ فائز تھی، غصے سے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ اس نے ایک سپاہی کو کہا۔

خون کا قطرہ زمین پر گرا، اس نے دائیں بازو سے جبڑے کو صاف کیا، سفید شرٹ یک دم سرخ ہو گئی۔ وہ جو ابھی تک حکم دینے والی کو غصے سے دیکھ رہا تھا۔ بازو پہ لگے خون کو دیکھا۔ وہ جو بچپن میں خون کو دیکھ کر رونا شروع کر دیتا تھا اب اسے کوئی اثر تک نہ ہوتا تھا۔ 

" آپ کو چوڑیاں پہنانے کے لیے نہیں کہا گیا کہ جب وہ ہاتھ آگے کریں گے تب آپ پہنائیں گے اسے، جلدی سے اسے ہتھکڑی لگاؤ اور ادھر لے آؤ۔" یہ کہتے ہوئے وہ گاڑی میں جا بیٹھی۔ اس نے غصے سے گھورتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔

ہتھکڑی لگتے ہی اس نے ان کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ لوگ طنز سے اس پہ ہنس رہے تھے کہ تھانے کی ہوا لگوانے والا خود تھانے جا رہا ہے۔ وہ بھی ان کا مطلب سمجھتا تھا اس وجہ سے اس کے ہونٹوں کو طنزاً پھیلایا اور پھر گاڑی میں جا بیٹھا۔

گاڑی پولیس اسٹیش کے سامنے جا رکی۔

"میڈم مصفا! کیا اسے لاک اپ۔۔۔۔۔؟" 

ایک سپاہی نے پوچھنا چاہا مگر اس کی بات پوری ہونے سے قبل اس نے جواب دیا۔

"نہیں اسے ادھر روم میں لے آؤ۔" شان بے نیازی سے کہتی وہ روم کی طرف بڑھ گئی۔

مصفا نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سوچ کر بیٹھنے کو کہا۔ وہ ابھی تک غصے سے اسے تک رہا تھا، اس کے اشارہ کرنے پر اس کے سامنے بیٹھا۔ دو سپاہی اس کے پیچھے کھڑے تھے، جو شاید اس کے رکھوالی کر رہے تھے کہ وہ بھاگ نہ جائے مگر کہ اس نے کہاں بھاگنا تھا، اگر بھاگ بھی جاتا تب بھی اسے یہیں آنا تھا۔

مصفا نے کہنیاں میز پہ ٹکائی اور مٹھیوں پہ چہرہ ٹکا دیا۔ سامنے ڈائری کھلی ہوئی تھی اور ہاتھ میں پن پکڑ رکھا تھا۔ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر بولی:

 "جی تو آپ اپنے بارے میں تمام ڈیٹیلز بولتے جائیں کہ کہاں سے آئے ہیں؟ کیا نام ہے؟ کیا کرتے ہیں؟ اور مار پیٹ کیوں رہے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔"

وہ جو کمرے کا جائزہ لے رہا تھا، اس کے بولنے پر چونک کر متوجہ ہوا اور اس کے بات ختم ہوتے ہی وہ طنزاً مسکرایا۔ بے شک اس کی مسکراہٹ دل موہ لینے والی تھی مگر اس وقت مصفا کو وہ زہر سے بھی زیادہ برا لگ رہا تھا۔

"او مسٹر! میں نے آپ کو بتیسی نکالنے کا نہیں کہا۔" اس کے مسکرانے پر وہ ذرا اونچی آواز سے بولی۔ اس کی مسکراہٹ میں اضافہ ہوا۔ وہ جیسے اس کے غصے کو انجوائے کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مصفا کا پارہ ایک دم آخری لیول پہ جا پہنچا۔

"لے جاؤ اسے اور اگلے آدھے گھنٹے کے اندر اندر مجھے تمام ڈیٹیلز مہیا کرو۔" اس نے غصے سے اسے دیکھتے ہوئے ںسپاہیوں سے کہا۔ 

" خیال رہے مس مصفا! کہیں ایسا نہ ہو کہ جہاں آپ میرے بارے میں آج حکم دے رہی ہیں، کل میں آپ کے بارے میں نہ دے رہا ہوں۔" وہ اسی مسکراہٹ سے بولا۔

" لے جاؤ اسے۔" وہ تقریباً چیختے ہوئے بولی۔  اس نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا اور پھر ان کے ساتھ چل دیا۔

"کیا کچھ بتایا اس نے؟ آدھے گھنٹے بعد جب سپاہی روم میں آئے تو اس نے ان سے پوچھا۔

"نو میڈم! وہ تو ایک لفظ تک نہیں بتا رہا۔" سپاہیوں نے جواب دیا۔

"اچھا اسے ابھی لاک اپ میں ڈال دو، کل اس کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا، ابھی آپ انور صاحب کو بلا دیں تاکہ اس فائل کودیکھ لیں۔" اس نے فائل کی طرف اشارہ کیا۔ دونوں

سیلیوٹ کرتے باہر نکل گئے اور وہ فائل کا مطالعہ کرنے لگی۔

________________________________________________

شانزے کو میڈیکل کالج آتے ہوئے ہفتہ ہو چکا تھا۔ وہ بلیک عبایا کے ساتھ بلیک دوپٹے کا استعمال کرتی تھی۔ آج بھی وہ اپنی ٹائمنگ کے مطابق کالج میں داخل ہوئی۔ ابھی اس

نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ اسے چند لڑکوں کے قہقہے سنائی دیے۔ وہ تھوڑا چونک کر اس طرف متوجہ ہوئی۔ بیک وقت ان لڑکوں نے بھی اسے دیکھا اور ایک ساتھی کو اشارہ کر کے کچھ کہا۔ نتیجتاً وہ بھی اس کی طرف دیکھ کر بھرپور طریقے سے ہنسا۔  پھر وہ دونوں تیسرے کو کچھ کہتے اور پھر ایک دم قہقہ لگا دیتے اور وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتا تھا۔ چند لمحے تو وہ اس تماشے کو دیکھتی رہی، جو اس کی وجہ سے وہ تینوں مل کر کر رہے تھے پھر دھیمی آواز میں بولتی چل دی۔

"بڑے کمینے ہیں، پتا نہیں داخلہ کس نے دے دیا ان لفنگوں کو اس کالج میں؟"

انھوں نے اسے بولتے دیکھا ضرور مگر سمجھ نہ پائے تھے۔

"چل یار! اب اٹھ بھی جا اور کتنی دیر بیٹھا رہے گا؟ لیکچرز تو ختم ہو گئے۔"

وہ دونوں اسے آخر اٹھانے میں کامیاب ہو ہی گئے؟ چھٹی کا وقت تھا ہر کسی کو کالج سے باہر جانے کی جلدی تھی۔ وہ تینوں بھی اپنے اپنے بیگ اٹھا کر روم سے نکل آئے۔

"گلزار! وہ دیکھ میچنگ میچنگ کھڑی ہے." ان میں سے ایک نے گلزار کو اس طرف متوجہ کیا جہاں شانزے کھڑی تھی۔ اتفاقاً آج گلزار بلیک پینٹ اور بلیک شرٹ میں تھا۔ اس وجہ سے ہی وہ اس کو میچنگ میچنگ کہہ رہے تھے۔

بلیک عبایا،  بلیک بیگ، بلیک شوز اور بلیک دوپٹہ ۔۔۔۔۔۔"ان میں سے ایک نے کہا۔

دوسرے نے جھٹ سے کہا: "اور بلیک چہرہ۔" اس کے اس طرح کہنے پر تینوں کا قہقہ بیک وقت نکلا۔

 شانزے نے ان کی طرف غصے سے دیکھا۔ اتنے میں ایک رکشہ اس کے قریب آن رکا۔ ہاسٹل دور ہونے کی وجہ سے اس نے رکشہ لگوا رکھا تھا۔ وہ تینوں ابھی تک قہقہے لگا رہے تھے۔

"جاہل نہ ہوں تو، بد تمیز، گدھے۔۔۔۔" جو منہ میں آیا کہتی وہ رکشے میں سوار ہوگئی۔

ان تینوں نے اس کے لب ہلتے دیکھے، آواز اب بھی نہ سن سکے تھے۔

ہفتہ بھر وہ اسے یوں ہی تنگ کرتے رہے پھر وہ کبھی دکھائی نہ دیے اور شانزے نے اس پر رب کا شکر ادا کیا۔ پھر اس کی دوستی کلاس فیلو ہانیہ سے ہوئی۔

پھر جب اس دن اسے بخار تھا تو وہی ہانیہ ہی تھی جس نے اسے گلزار کے ساتھ بھیج دیا۔

شانزے کو وہ دن اچھی طرح یاد تھے اس وجہ سے وہ ہچکچا رہی تھی مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اور یاد تو گلزار کو بھی تھے جب وہ غصے سے انھیں گھور کر جاتی تھی۔ اس کا غصے سے گھورنا گلزار کو بہت اچھا لگتا تھا۔ پھر ان دوستوں کو بھی اس نے روکا اور خود بھی رک گیا، اس طرح کی حرکتوں سے۔

________________________________________________

"اسلام علیکم!" وہ جو الماری میں سے کچھ تلاش کر رہی تھی آواز سن کر پلٹی۔

"وعلیکم اسلام!" بیٹھیں سر!"

 الماری بند کر کے وہ بھی ان کے سامنے آ بیٹھی.

"وہ...! ابھی تک انسپکٹر صاحب نہیں آئے کیا؟" ٹریفک پولیس کی یونیفارم میں ملبوس شخص نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

"نو سر!" اس نے دو لفظی جواب دیا۔

"ہمم!" انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔ تبھی ایک سپاہی آفس میں داخل ہوا اور سیلیوٹ کیا۔

"میڈم!  وہ کل والا شخص تنگ کر رہا ہے۔" سپاہی نے مؤدبانہ انداز میں کہا۔

"اسے ادھر لے آئیے، میں ذرا پوچھوں۔۔۔۔۔۔ کیا مسئلہ ہے اسے؟" اس نے ذرا سوچتے ہوئے کیا۔

"اچھا میڈم!" کہنے کے ساتھ اس نے سیلیوٹ کیا اور باہر نکل گیا۔

"چھوڑو مجھے، میں بھاگ نہیں رہا کہ اس طرح مجرموں کی طرح پکڑ رکھا ہے۔" اس کی آواز اندر تک آ رہی تھی۔ شاید انھوں نے اسے پکڑ رکھا تھا۔

وہ جو آفس کا جائزہ لے رہا تھا، آواز سن کر کچھ چونکا اور دروازے کی جانب دیکھنے لگا۔ اتنے میں سپاہی ایک شخص کو پکڑ کر اندر لے آئے۔

"ارے تم یہاں کیسے؟" اس نے حیرانی سے اٹھتے ہوئے کہا۔

"او شکر ہے خدا کا کہ خالد! تمہیں اس نے بھیجا۔" سپاہیوں نے ابھی تک اسے پکڑ رکھا تھا۔

خالد نے انھیں چھوڑنے کے لیے اشارہ کیا۔ دونوں ایک دوسرے کو گلے ملے۔

"یہ حالت کس نے بنائی تیری؟" اس نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"تیری اس بھابھی کے سوا اور کون کروا سکتا ہے اپنا یہ حشر۔" اس نے مصفا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ 

"یو ایڈیٹ۔" اس نے بات سنتے ہی جھٹ سے کہا اور ساتھ ہی ساتھ غصے سے دانت پیسے۔

دونوں کا قہقہہ بیک وقت نکلا۔

"وہ کس وجہ سے بھلا؟" خالد نے کنٹرول کرتے ہوئے سوال کیا۔

"وہ ایک لمبی اسٹوری ہے آ کر سناؤں گا اچھا تم اپنی بائیک کی چابی دو، پیٹ میں چوہے ناچ رہے ہیں، کل صبح سے بچارے بھوکے ہیں۔ انھیں کچھ کھلا پلا کر آتا ہوں۔ دس منٹ کے بعد تمہارے تمام سوالات کے جوابات مہیا کروں گا۔ تب تک تم ان سے میرے بارے میں تفصیل جان لو لیکن تم خود اسے کچھ نہیں بتاؤ گے اوکے؟"

"جی جی جو حکم سرکار کا۔۔۔۔" اس نے دل پہ ہاتھ رکھا اور سر کو نیچے کر کے مسکرا کر کہا۔

"سر!" کہنے کے ساتھ اس نے خالد کو سیلیوٹ کیا مصفا اس کے سیلیوٹ کرنے کے انداز پر سحرزدہ ہوئی۔ خالد نے مسکرا کر سر ہلایا جیسے کہ رہا ہوں، "ٹھیک ہے جاؤ۔" خالد نے چابی اس کے ہاتھ میں پکڑائی اور وہ آفس سے نکل رہا تھا جب اس نے مصفا کی آواز سنی۔

"سر! وہ بائیک بھی لے کر چلا جائے گا آپ کی۔۔۔" وہ زیر لب مسکرایا۔ خالد بھی اس کی بات سن کر مسکرایا۔

بائے دا وے! اس نے کیا کیا ہے؟" خالد نے کچھ حیرانی سے اس سے پوچھا۔ جوابا مصفا نے ساری بات شروع سے آخر تک بتا دی۔ بات سنتے ہوئے وہ زیر لب مسکراتا رہا۔

ابھی دس منٹ میں سے ایک منٹ رہتا تھا جب دروازے سے آواز آئی۔

"مے آئی کم ان؟" آواز سن کر دونوں دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ سر اندر کیے اجازت لے رہا تھا۔ خالد اس کے انداز پر مسکرایا جبکہ مصفا نے دانت کچکچائے۔ وہ مصفا کو دیکھ مسکرایا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ مصفا نے حیرانی نے اسے دیکھا، آنکھیں ایک دم حیرانی سے کھل گئیں۔

"تو میڈم! آپ میری سیٹ سے اٹھنا پسند فرمائیں گی؟ تھوڑا مسکرا کر کہتے ہوئے اس نے چیئر کی طرف اشارہ کیا۔ وہ اٹھ کر دوسری چیئر پہ جا بیٹھی۔ حیرانی ابھی تک اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

 "جی تو کل کے سوالات کے جوابات دے دوں آپ کو۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ تھوڑا آگے کی طرف جھکا اور ایک پن اٹھایا۔ خالی کاغذ کو اپنی طرف کھسکایا اور اس پر کچھ ڈرائینگ کرنے لگا۔

"تو میں ہوں ضحٰى  مصطفیٰ۔۔۔۔۔ انسپکٹر ضحٰى مصطفی۔" آخری تین الفاظ پر اس نے تھوڑا زور دیا اور مصفا کو دیکھا- مصفا نے غصے سے اسے دیکھا اور پھر نظریں اس کاغذ پہ گاڑھ دیں جس پر ضحی نے دو آنکھیں بنا دی تھیں۔

"اچھا تو ضحٰى میں چلتا ہوں." خالد نے اٹھتے ہوئے کہا۔

"ابھی بیٹھو، میں نے مینگو جوس لانے کا کہا تھا، بس آنے ہی والا ہو گا۔" ضحٰى نےخالد کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر سے ڈرائینگ شروع کر دی اس کے ہاتھ تیز تیز چل رہے تھے۔ اتنے میں جوس آ گیا۔ ضحٰى نے ایک گھونٹ بھرا اور پھر سے ڈرائینگ کرنے لگا۔ دونوں کے جوس ختم کرنے تک وہ اپنی ڈرائینگ مکمل کر چکا تھا۔ ضحٰى نے ڈرائینگ کا رخ ان دونوں کی طرف کیا۔

"یہ شخص جہاں کہیں بھی نظر آئے مجھے اطلاع کر دینا خالد۔ باقی پھر ملیں گے ان شاء اللّٰہ۔۔۔۔۔!" دونوں نے مصافحہ کیا اور خالد آفس سے نکل پڑا اور پیچھے ضحٰى بھی چل پڑا- ضحیٰ نے چابی اسے پکڑائی۔

"اچھا ضحی! مجھے یہ بات حیران کر رہی ہے کہ تم نے انہیں اپنے بارے میں کل کیوں نہیں بتایا؟" خالد نے ذرا پریشانی بھرے لہجے میں پوچھا۔

"او میرے بھولے بادشاہ!"ضحٰى نے ہنستے ہوئے کندھا تھپتھپایا۔ وہ رک گیا۔

"دیکھ اگر کل انھیں ساری ڈیٹیلز بتا دیتا تو پھر کیسے پتا کرتا کہ سٹاف کیسا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ کل تک میں جن سے ملا ہوں وہ تمام کے تمام میری امیدوں پر پورے اترتے ہیں۔ اور آج اے ایس آئی انور صاحب سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ خیر چھوڑو تم جاؤ، پھر جلد ملاقات ہو گی۔" اس نے خالد کو روانہ کیا ہی تھا کہ دور سے آتے یونیفارم میں ملبوس شخص کو اس نے دیکھا پھر وہ آفس کی طرف بڑھ گیا۔

________________________________________________

گلزار تیز تیز قدموں سے چلتا کالج سے باہر کی طرف آ رہا تھا جب اس نے شانزے کو دیکھا۔ گلزار کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ وہ سر نیچے جھکائے دیوار کا سہارا لیے کھڑی تھی اور ایک ہاتھ ماتھے پہ تھا۔ گلزار کو لگا جیسے اس کا بخار بڑھ گیا ہو۔ ابھی کل ہی تو وہ اسے چھوڑ کر آیا تھا۔ جب اس نے ہاتھ رکھا تھا تو اسے یوں محسوس ہوا تھا کہ آگ کا گولہ کندھے پہ کسی نے رکھ دیا ہو۔

"آر یو اوکے شانزے؟" قریب پہنچ کر گلزار نے شانزے سے پوچھا۔ شانزے نے اپنا ماتھے سے ہاتھ ہٹایا، کل والا واقعہ اسے یاد آیا، اسے یوں لگا جیسے اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا ہو۔

"یس اوکے۔" اس نے ذرا غصے سے جواب دیا، حالانکہ گلزار نے مخلص ہو کر پوچھا تھا مگر اس طرح کا جواب سن کر اس نے کندھے اُچکائے اور آگے بڑھ گیا۔ ابھی اسی نے چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ موبائل بجنے لگا۔ جیب سے موبائل نکال کر کال اٹھائی۔

"ارے لومڑ کہیں کے، یہ تھیلا کون اٹھائے گا؟" دوسری جانب سے شاید مسعود تھا جو کہ گلزار کا دوست تھا۔ اس نے موبائل جیب میں ڈالا اور واپس بیگ اٹھانے چل پڑا۔

"ویسے تو بڑی تعریف ہو رہی ہوتی ہے اس بیگ کی اور اب یہ تھیلا بن گیا-" گلزار نے تھوڑا طنزاً کہا۔

"ہاں ہاں! کئی بار تو کہہ چکا ہوں کہ یہ مجھے گفٹ کر دے مگر۔۔۔۔۔۔" اس نے بے شرمی سے ہنستے ہوئے کہا۔

"لے پکڑ۔" گلزار نے کتابیں نکال کر اسے بیگ دے دیا۔ اس نے بھی بے شرمی سے ہنستے ہوئے بیگ پکڑ لیا۔

"اب چلو تمہیں ڈراپ کرتا جاؤں گا، کہنے کے ساتھ ہی اس نے کتابیں وغیرہ اٹھائیں اور چل پڑا اور مسعود نے دونوں بیگڑ اٹھائے اور اس کے پیچھے چل پڑا۔

"خان! وہ دیکھ میچنگ میچنگ۔۔۔"

"ڈونٹ کال ہر میچنگ میچنگ، ہر نیم از شانزے۔" گلزار نے تھوڑا منہ بگاڑ کر کہا۔

گلزار ابھی اس سے کافی دور تھا، کتابیں سینے سے لگائے چلا آ رہا تھا جب اسے یوں محسوس ہوا جیسے شانزے گر رہی ہو۔ ایک دم سے اس کے ہاتھ سے کتابیں نیچے گری اور اس نے بھاگ کر شانزے کو گرنے سے بچایا۔ اس کے لب ہل رہے تھے۔ گلزار نے کان قریب کیا، وہ درود پاک پڑھ  رہی تھی، پھر وہ بے ہوش ہو گئی۔

"جلدی سے گاڑی نکالو۔" گلزار نے چابی اسے پکڑائی مسعود نے چابی پکڑی اور باہر کی طرف بھاگا۔ گلزار نے شانزے کو اٹھایا اور خود تیز تیز قدموں سے چلتا باہر نکلا۔ مسعود نے ڈرائیونگ کی جبکہ گلزار اسے پکڑے بیٹھا رہا۔ قریبی ہسپتال میں گلزار نے شانزے کو کمرے میں پہنچایا اور خود پریشانی میں ٹہلنے لگا جبکہ مسعود بیگز لینے کالج دوبارہ روانہ ہوا۔ 

________________________________________________

وہ آفس میں واپس آیا اور اپنی چیئر پر بیٹھا ٹیبل یہ ایک نگاہ دوڑائی۔ ساتھ پڑی فائل اٹھائی اور کھول کر پڑھنے لگا۔ اتنے میں دروازہ بجا۔ وہ اس دروازے کی طرف متوجہ ہوا، سر سے اندر آنے کی اجازت دی۔

آنے والا بھر پور شخصیت کا حامل تھا۔ اس نے آ کر سیلیوٹ کیا۔ ضحٰى نے سر سے اشارہ کر کے جواب دیا۔ ضحٰى نے طائرانہ نظروں سے آنے والےکا جائزہ لیا۔

یونیفارم میں ملبوس شخص سخت مزاج لگ رہا تھا۔ سوجی ہوئی سرخ آنکھیں رت جگے کا مکمل ثبوت فراہم کر رہی تھی۔ ضحٰى کو اس بات کی قطعاً سمجھ نہ آئی۔ ضحٰى نے آنے والے کو بیٹھنے کا اشارہ کیا مقابل چیئر پہ بیٹھا لیکن نظریں ضحٰى پہ گاڑ دی ضحٰى کو یہ عمل عجیب تو لگا مگر اس نے کوئی سوال نہ کیا۔ ہاں لیکن سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ مقابل اس کے سوالوں کو سمجھ چکا تھا اس لیے جواب دینے کے لیے لب کھولے۔

"آپ یقینا انسپکٹر ہیں؟" انداز تھوڑا سوالیہ تھا۔ ضحٰى نے ہاں میں سر ہلایا۔ سوالات ابھی بھی آنکھوں میں موجود تھے۔

"میں اے ایس آئی انور سلیم۔" ضحٰى کو پتا تو پہلے ہی چل چکا تھا کہ یہ اے ایس آئی ہی ہے لیکن اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔ اچانک دروازہ کھٹکا۔ ضحٰى چونک کر دروازے کی طرف متوجہ ہوا۔

دروازے سے ایک ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا۔ اس نے سلام کیا اور انور کی طرف دیکھ کر بولا:

"انور صاحب! آپ نے تو کہا تھا کہ آپ میرے بیٹے کو جلد ہی چھڑوا لیں گے مگر آج تیسرا دن ہے، میرا بیٹا واپس نہیں آیا۔ وہ لوگ تاوان کی رقم مانگ ر ہے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ میں کیا کروں؟"

ضحیٰ اس کی باتیں تو سن رہا تھا مگر نظریں انور پر ہی تھی۔ انور کے چہرے سے جیسے ایک سایہ سا گزرا مگر اس نے جلد ہی اپنی گھبراہٹ پر قابو پا ليا۔ ضحٰى کچھ چونکا۔

"انکل آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں-" انور نے اس کو تو تسلی دی مگر اس کا انداز تھوڑا چغلی کھا رہا تھا۔ ضحٰى کو اسی بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر اس کا کیا راز ہے۔

"اے ایس آئی انور صاحب! فکر کیونکر نہ کروں؟ میرا جوان بیٹا مصیبت میں ہے اور میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے صرف آپ کی وجہ سے ہی بیٹھا ہوں لیکن آپ ہر بار نئے لفظوں کے ساتھ تسلی دے دیتے ہیں لیکن اب میں کچھ نہیں سنوں گا میں جا کر انہیں رقم دے آتا ہوں۔ میرے بیٹے سے انمول کوئی اور چیز نہیں ہے، دنیا کی ساری دولت میرے لیے اس کے بغیر  بےکار ہے اب میں کچھ نہیں سنوں گا آپ کی، ہاں۔" وہ اٹھنے لگا۔

انور نے بولنے کے لیے لب کھولے مگر اس سے پہلے ہی ضحٰى بول پڑا۔

"ایک منٹ انکل! آپ مجھے بتائیں کیا مسئلہ ہے؟" وہ جو جانے لگا تھا اس کی بات سن کر مڑا اور رک کر اسے اجنبی نگاہوں سے دیکھا۔

" بیٹھئے پلیز!" اس نے ہاتھ سے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ کرسی پر بیٹھ تو گیا مگر سوال ابھی بھی چہرے سے ظاہر تھے، جیسے کچھ دیر قبل ضحیٰ کے تھے۔

"میں ضحیٰ! شاید آپ کی کچھ مدد کر سکوں۔" اس کی بات سن کر وہ شخص بولا۔

"میرا نام فاروق ہے، تین دن قبل کچھ غنڈوں نے میرے بیٹے کو اٹھا لیا۔ وہ کئی مہینوں سے ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس وجہ سے۔۔۔۔۔" پھر وہ تمام واقعات و معلومات اسے بتاتا چلا گیا یہاں تک کہ اے ایس آئی انور سے تعلق بھی بتا دیا کہ وہ اس کے دوست کا بیٹا ہے اور اس نے اس کے ذریعے سے انہیں پکڑنا تھا مگر کسی وجہ سے ابھی تک پکڑ نہیں پایا۔ ضحٰى نے تمام باتیں غور سے سنیں۔

"اچھا ٹھیک ہے آپ مجھے کچھ وقت دیں تاکہ میں آپ کا مسئلہ حل کر سکوں۔ اگر اللّٰہ نے چاہا تو جلد ہی آپ کا بیٹا خود لوٹ آئے گا۔ بس آپ اس کے حق میں دعا کریں، دوا خدا کا کام ہے۔" فاروق کو اس کی باتیں سن کر اچھا لگا پھر وہ اللّٰہ حافظ کہہ کر کے جانے لگا۔ ضحیٰ بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ فاروق کو اس نے نمبر دے کر کہا کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے اسی وقت فون کر دیجیئے گا۔" اس نے سر اثبات میں ہلایا اور چلا گیا ۔ وہ واپس آیا تو انور آفس سے جا چکا تھا۔ اس نے فائل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ اس کا فون بجنے لگا تھا۔ کوئی انجان نمبر تھا۔ اس نے فون اٹھایا اور کان سے لگایا دوسری طرف خوشی سے بھرپور آواز سنائی دی.

"ضحیٰ صاحب! آپ کا کہا سچ نکلا میں جونہی گھر آیا میرا بیٹا خود آ چکا تھا۔ آپ کو اللّٰہ خوش رکھے۔۔۔۔۔" وہ دعائیں دینے لگا۔ ضحیٰ تھوڑا حیران ہوا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تاوان لیے بغیر وہ اسے چھوڑ دیں۔ کال بند کر کے اس نے میز پر رکھا۔ پھر وہ ماضی کی سوچوں میں گم ہو گیا۔

________________________________________________

مسعود بیگز لے کر واپس آ چکا تھا۔ دونوں روم کے باہر پریشان کھڑے تھے، جبھی ڈاکٹر باہر آئی۔

"مریضہ آپ کی مسز ہیں؟" ڈاکٹر نے گلزار سے ہی سوال کیا۔ غیر ارادی طور پر گلزار کا سر ہاں میں ہلا۔ "بخار کی شدت سے بے ہوش ہوئی ہیں۔" انھیں ہوش آ چکا ہے، یہ کچھ میڈیسن لے لیں۔

"ہاں ایک اور بات، انھیں آرام کی سخت ضرورت ہے۔ آپ لے کر گھر جا سکتے ہیں۔" وہ جو جانے لگی تھی، رک کر دوبارہ بولی۔

"اچھا! تم رکو میں بل بھر کے آتا ہوں۔" گلزار نے مسعود سے کہا۔ مسعود نے ہاں میں سر ہلایا۔ بل بھر کے وہ جب واپس آیا تو اس وقت شانزے روم سے نکل رہی تھی۔ شانزے نے ایک نظر دونوں پر ڈالی اور پھر آگے بڑھنے لگی۔ جبھی گلزار نے کہا۔

"میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔"

"میں خود جا سکتی ہوں۔ آپ نے جو کچھ کیا اس کا شکریہ۔" اس کے الفاظ جیسے طنز میں ڈوبے ہوئے تھے۔

"لیکن، آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور آپ کے پاس کوئی گاڑی بھی تو نہیں ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔" لہجہ تھوڑا التجائیہ تھا۔

"نو، نیوز، آپ جیسے اوچھے لفنگوں کے ساتھ جانے سے تو بہتر ہے کہ میں پیدل چلی جاؤں۔" اس نے سختی سے الفاظ ادا کیے۔ حتیٰ کہ وہ یہ بھی بھول چکی تھی کہ اسے لانے والے بھی تو وہی تھے۔

اس کے الفاظ سن کر گلزار نے لب بھینچے۔ ایک دم رکا اور اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا۔

"آرام سے جاتی ہے تو ٹھیک، ورنہ اٹھا کر گاڑی میں لے جائیں۔" مسعود غصے سے اس کو دیکھ رہا تھا اور گلزار سے بات کر رہا تھا جسے غصہ اس کے "اوچھے لفنگوں" کہنے پر آیا ہوا تھا۔

"یعنی تم پروف کرنا چاہتے ہو اس کے الفاظ کو؟ اب وہ خود آئے گی تو ٹھیک ورنہ مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے، خود کو شہزادی سمجھتی ہے نا۔" وہ اس راستے کو دیکھ کر بول رہا تھا، جہاں سے ابھی وہ گئی تھی اور اب نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔

"چلو آؤ چلتے ہیں گھر،چابی دو۔" چلتے ہوئے وہ اس سے بولا اور ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جواباً اس نے بھی چابی اسے پکڑائی کار میں بیٹھ کر گلزار نے دوائیوں کا شاپر پیچھے سیٹ کی طرف پھینک دیا۔ مسعود کے بیٹھتے ہی اس نے تیزی کے ساتھ گاڑی پارکنگ ایریا سے باہر نکالی۔ غصہ اس کے انداز سے ظاہر تھا۔ خود کی تذلیل اور وہ بھی بے وجہ کون برداشت کرتا ہے بھلا ہے اور پھر وہ بھی تو انسان تھا۔۔۔۔۔۔۔ بلا جواز کے خود کی تذلیل کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ وہ تو صرف اس کی مدد کرنا چاہ رہا تھا، وہ بھی ہانیہ کی دوست ہونے کی وجہ سے۔ اس سے پہلے کہ وہ گاڑی زن سے بھگا لے جاتا ایک دم موسلادھار بارش ہونے لگی۔ گلزار نے گاڑی کی رفتار کم کی۔ ابھی وہ زیادہ دور نہ گیا تھا کہ اسے ایک جگہ لوگوں کا ہلکا سا ہجوم دکھائی دیا۔

اس نے چونک کر گاڑی روکی اور گاڑی سے نکل کر اس طرف بڑھا۔ مسعود بھی اس کے ساتھ ہی باہر نکل آیا۔ جونہی گلزار نے شانزے کو دیکھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اسے دو تین بار پکارا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو اس نے اسے اٹھایا اور گاڑی کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ وہاں کھڑے لوگوں نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا مگر اسے ان کی مطلق پروا نہ ہوئی۔ چند لمحے پہلے کا غصہ یک دم جیسے غائب ہو چکا تھا۔ گلزار نے شانزے کو آرام سے گاڑی میں بٹھایا اور چابی دوبارہ سے مسعود کو پکڑائی۔ مسعود نے جلدی سے گاڑی چلائی تاکہ وہ ہوش میں نہ آجائے اور پھر سے کوئی مصیبت درپیش ہو۔ اس نے گاڑی کو گرلز ہاسٹل کی طرف والے راستے پر ڈال دیا۔ گاڑی ہاسٹل کے سامنے جا رکی اور دونوں نے نظروں ہی نظروں میں جیسے ایک دوسرے سے سوال کیا کہ: "اب اسے اندر کیسے لے جایا جائے؟" چند لمحے اس نے سوچا اور پھر  اسے گاڑی سے نکال کے ہاسٹل کی طرف بڑھا۔

وہ جو ابھی تک بے ہوش تھی، وہ اسے اٹھائے اس کمرے کی طرف جا رہا تھا جو کہ اس کا کمرہ تھا جس کی راہنمائی پہلے سے کی گئی تھی۔ اسے بستر پہ لٹا کر وہ مڑا اور باہر آ کر اس نے مسعود سے گاڑی کی چابی لی اور گاڑی اسٹارٹ کی تبھی مسعود بولا:

"ارے! وہ اس کی کتابیں اور بیگ تو دے دو، کہیں اس کے لیے وہ دوبارہ نہ لڑ پڑے۔" 

گلزار نے اسے دیکھا اور پھر گاڑی بند کر کے اس نے اس کی کتابیں اور بیگ نکالنے کو کہا۔ پھر وہ تمام اشیاء جو کہ اس کی تھی وہ اٹھا کر ایک بار پھر سے ہاسٹل میں داخل ہو گیا۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس نے شانزے کو بیٹھے ہوئے دیکھا ساتھ میں چند ایک لڑکیاں اور بھی موجود تھیں۔ کتابیں اور بیگ رکھتے ہوئے وہ تھوڑا لحاظ سے بولا:

"مس شانزے! آپ کی بکس۔" ہاتھ سے اشارہ کیا۔ "اللّٰہ حافظ!" کہتے وہ چل دیا۔ ساتھ ساتھ بیٹھی لڑکیاں مدہم مسکان سے اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔

باہر آ کر اس نے گاڑی گھر کی طرف موڑی۔ گھر آ کر اسے یعنی مسعود کو اس نے اچھا سا کھانا کھلایا اور پھر اسے وہ ہاسٹل چھوڑ آیا۔

ادھر شام کو جب شانزے نے بکس کھولیں اور دیکھا تو ایک اضافی کتاب بھی موجود تھی۔ اس کو ایک پل کو وہ لمحہ یاد آیا جب وہ کتابیں دینے آیا تھا اور اس کے بعد جو لڑکیوں نے اس سے سوالات پوچھنے شروع کیے تو اس نے سر پکڑ لیا لیکن ان کے سوالات پھر بھی ختم نہ ہوئے آخر وہ وہاں سے اٹھ گئی۔ تب کچھ سکون میسر آیا۔ طبیعت اب کچھ بہتر محسوس ہو رہی تھی۔

سر جھٹک کر اس نے کتاب کا پہلا صفحہ کھولا۔ جہاں بہت ہی خوبصورتی سے لکھا گیا نام "گلزار حیدر" اسے اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔ پھر اس نے اگلا صفحہ پلٹا اور پھر جوں جوں وہ کتاب کے صفحات کھولتی گئی، اس کی حیرت کی انتہا  رہی۔

________________________________________________

"میری بال مجھے واپس کرو، میں نے تم لوگوں کے ساتھ  نہیں کھیلنا۔۔۔۔۔۔۔" وہ ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے بول رہا تھا جبکہ دوسرے ہنسنے کے ساتھ ساتھ اس کی بال بھی واپس نہیں کر رہے تھے۔ تبھی کسی نے اسے سختی سے پکڑا۔ اس نے پکڑنے والے کو دیکھا جو کہ غصے سے اسے گھور رہا تھا۔ وہ تھوڑا ڈرا اور پھر جھجھکتے ہوئے بولا:

"انکل! وہ میری بال....." اس سے آگے وہ بول ہی نہ پایا تھا کہ اس کے گال پہ زور دار تھپڑ لگا۔

"بڑا آیا میرے بچوں کے ساتھ نہ کھیلنے والا! آئندہ اگر میرے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دکھائی دیا نا تو تمہاری خیر نہیں۔ اگر کھیلنا ہے تو پھر بھارت کے ساتھ جا کر کھیلو جو کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان کو ہرا چکا ہے۔ لے آؤ اس کی بال۔۔۔۔۔۔۔" وہ بال اپنے باپ کو پکڑا گئے۔ اس کا غصہ ابھی بھی کم نہ ہوا تھا نجانے کس بات کا غصہ اس پر نکالا گیا تھا، شاید پاکستان کے ہارنے کا غصہ اس پہ نکالا گیا تھا اور پاکستان ہارا بھی تو بھارت سے تھا جس کو دیکھنے کے لیے لوگ ساری ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں مگر نتیجہ ایک ہی اور وہ بھی ہار کی صورت میں۔

"یہ لے پکڑ اور دفع ہو جا میری نظروں کے سامنے سے۔" اس نے بال اس کے ہاتھوں میں تھمائی اور غصے سے بولا تھا۔ وہ وہاں سے چلا آیا۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے کچھ دیر وہ کھڑا روتا رہا اور پھر گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ جونہی گھر میں داخل ہوا، باپ نے پکارا۔ وہ منہ دھو کر باپ کی طرف گیا۔ آنسو اب شاید ختم ہو چکے تھے۔

"کھیل آیا میرا شہزادہ ۔۔۔۔۔؟" باپ نے سوال پوچھا۔ اس نے ہاں میں سر ہلایا۔

 "گڈ..." باپ نے بیٹے کے بال بناتے ہوئے کہا۔ پھر اچانک اس نے اس کی گال کو دیکھا تو بولا: 

"یہ تمہارے گال پہ کیا ہوا؟ اور یہ تم رو کر آ رہے ہو؟"

"کچھ نہیں ہوا پاپا! وہ میں گر گیا تھا تو اس وجہ سے۔۔۔۔۔۔" اس نے بات بنائی مگر کامیابی پھر بھی نہ ملی۔

"سچ سچ بتاؤ ضحیٰ کیا ہوا ہے، تمہارے چہرے پہ انگلیوں کے نشان کیسے ہیں؟ کس نے مارا ہے؟" اس نے پیار کرتے ہوئے پوچھا تو ضحیٰ نے باپ کو ایک نظر دیکھا اور پھر بولا:

"وہ لڑکے میری بال نہیں دے رہے تھے تو پھر ہم لوگوں کے درمیان لڑائی ہو گئی۔" سچ اب بھی اس نے نہ بولا، جانتا تھا کہ اس وجہ سے جھگڑا بڑھ جائے گا اور وہ دونوں بھائیوں کے درمیان لڑائی نہیں کروانا چاہتا تھا۔

پھر اس کے بعد اس نے ان لڑکوں کے ساتھ تو کیا کسی اور کے ساتھ بھی نہ کھیلا۔ فارغ وقت میں وہ پاپا کے ساتھ میچ دیکھتا یا پھر تصویریں بناتا رہتا۔ یوں وہ خود کو مصروف رکھتا۔ اسی وجہ سے اس نے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنایا یہاں تک کہ وہ دہم کلاس میں آ گیا۔ دہم کلاس میں اس کی ملاقات ایک ایسے لڑکے سے ہوئی جو اس سے بات کرنے کی کوشش میں رہتا اور اس کو فارغ دیکھتا تو اس کے ساتھ آ بیٹھتا، اس سے باتیں کرتا آج تک اس کے مزاج کی وجہ سے کوئی بھی لڑکا اس سے فارغ باتیں نہ کرتا تھا ہاں یہ اور بات تھی کہ کچھ لڑکے اس سے سبق پڑھنے ضرور آتے تھے کیونکہ وہ کلاس میں سب سے ذہین اور خاموش رہنے والا لڑکا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی دوستی اس نئے آنے والے لڑکے سے ہو گئی پھر وہ اس قدر باتیں کرتے کہ ختم نہ ہوتی تھی۔ ان کی دوستی اس قدر مشہور ہونے لگی کہ کچھ منچلوں نے ان کو "لیلی مجنوں" پکارنا شروع کر دیا یا پھر "یک جان دو قالب۔" سکول کی دوستی دونوں کو ایک ہی کالج میں لے گئی۔

اس سے پہلے کہ ان لمحوں کی یاد میں وہ غائب ہوتا اچانک دروازہ کھٹکا۔ وہ چونک کر اس طرف متوجہ ہوا۔ اس نے "یس" کہا تو اندر ایک کم عمر لڑکا داخل ہوا۔ اس لڑکے کو دیکھ کر وہ کچھ الجھا مگر پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ آنے والے نے سلام کیا اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔  ضحیٰ نے سلام کیا اور پھر اس سے پوچھا:

"جی! کیا کہنا ہے آپ نے؟" نووارد نے اس کو دیکھا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا:

"میرا نام شہزاد ملک ہے اور میں ایک کیس کے سلسلے میں آیا ہوں۔"

"اچھا!" وہ تھوڑا حیران ہو کر بولا۔

"ایسا کون سا کیس آ گیا جو آپ کو خود آنا پڑا؟ مجھے بلا لیا ہوتا۔"

"کیا مطلب ہے آپ کا؟" وہ تھوڑا تلملا کر بولا-

"کیا آپ کو پورا یقین ہے کہ آپ کسی کیس کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں؟" اس نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا اور خود کرسی کی پشت سے اپنی پشت ٹکائی۔

"جی بلکل!" اس نے بھی جواب دینے میں جلدی کی۔

"اگر اس قدر یقین ہے تو پھر پہلے اپنا نام تو درست بتاؤ۔۔۔۔۔ ایک منٹ ویٹ کرو۔" اس نے غور سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ اگلا ابھی تک سکون سے بیٹھا ہوا تھا۔

"ہاں جی! تو اطہر شیرانی۔۔۔۔۔" ضحیٰ نے اس کی طرف دیکھا جو کہ حیرانی سے منہ کھولے بیٹھا تھا۔ ضحیٰ نے کاغذ اپنی طرف کھسکائے اور ایک پن اٹھا لیا۔ اب اس نے ان کاغذوں پر کچھ بنانا شروع کیا لیکن پھر ان کو دوبارہ ان کی جگہ پر رکھا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر بولا:

"تو میں کہہ رہا تھا کہ اپنے باس کو جا کر بول دو کہ کوئی چالاک آدمی بھیجے اگر اس نے میرا پتا کروانا ہے، آپ جیسے آدمی بھیجے گا تو میں اس تک با آسانی پہنچ جاؤں گا۔" وہ تھوڑا آگے جھکا اور اطہر کو دیکھتے ہوئے آبرو کو جنبش دی۔ پھر دوبارہ بولا:

"ٹھیک ہے؟" اطہر جو ابھی تک حیران ہو کر بیٹھا تھا، ایک دم سے اٹھا اور باہر نکل گیا۔ ضحیٰ نے دوبارہ سے پن پر کچھ تیزی سے بنانا شروع کر دیا۔ 

________________________________________________

شانزے جو کافی دیر سے کسی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی آخر تھک ہی گئی۔ ارد گرد ایک بار پھر متلاشی نگاہوں سے کسی گاڑی کو تلاش کرنا چاہا مگر نظریں ناکام ہی لوٹیں۔ پھر اس نے ہانیہ کا نمبر ڈائل کیا اور کال اٹھائے جانے کا انتظار کرنے لگی۔ کال اٹھانے کے بعد اس نے سلام کے بعد ہی کہہ دیا۔

"ہانیہ! تم اپنے ڈرائیور کو تو بس اسٹاپ پہ بھیج دو۔ میں کافی دیر سے بس اسٹاپ پہ آئی ہوئی ہوں مگر کوئی گاڑی دکھائی نہیں دے رہی اوپر سے میری طبیعت بھی خراب ہے۔"

 "ٹھیک ہے میں بھیج دیتی ہوں۔ ویسے تم جا کہاں رہی ہو؟" اس نے ہاں کے ساتھ ساتھ سوال بھی پوچھ لیا۔ شانزے نے بھی تھوڑا گہرا سانس لے کر کہا:

"خالہ جان کے ہاں! اکیلی ہیں نا.....  اچھا ذرا جلدی بھیج دو اسے..... میں انتظار کر رہی ہوں."

"اوکے!" ہانیہ نے یک لفظی جواب دیا اور پھر کال کاٹ کر دوسری طرف نمبر ملانے لگی مگر وہ نمبر بند جا رہا تھا پھر اس نے باپ کو فون کیا۔ جس سے پتا چلا کہ وہ دو دن کی چھٹی پہ ہے۔ وہ تھوڑی پریشان ہوئی مگر پھر سے اور نمبر ڈائل کرنے لگی سلام کرنے کے بعد اس نےکہا:

"گلزار بھائی! آپ شانزے کو تو چھوڑ آئیں اس کی خالہ کے گھر..."

"وہ کیوں...... میں کیوں جاؤں...؟ میں کہیں نہیں جا رہا۔۔۔۔۔" گلزار نے تھوڑا سختی سے کہا۔

"گلزار بھائی! میرا ڈرائیور چھٹی پر ہے اور کوئی ہے نہیں کہ اسے چھوڑ آئے۔ ادھر گھر میں بڑی آپی آئی ہوئی ہے جو گھر سے باہر تو کیا کچن سے باہر بھی قدم نہیں نکالنے دے رہی ورنہ میں خود چلی جاتی....." وہ ایک دم سے ساری تفصیلات فراہم کرنے لگی مگر درمیان میں سے گلزار نے بات کاٹ دی-

"تو وہ خود چلی جائے۔۔۔۔۔۔"

"وہ خود گئی تو ہوئی ہے بس اسٹاپ تک اور کوئی گاڑی بھی نہیں مل رہی اسے ورنہ وہ مجھے کہنے کی زحمت کبھی نہ کرتی اور نہ ہی مجھے آپ کی اتنی منتیں کرنی پڑتی۔" وہ جو پہلے آرام سے بول رہی تھی آخر میں سخت ہو گئی۔

"اچھا بابا اچھا! جاتا ہوں، سر ہی خالی کر دیتی ہو جب بھی کوئی بات کرتی ہو، کھا جو جاتی ہو دماغ کو ایک دم سے۔۔۔۔۔" اس نے آخر میں اسے چڑانے کے لیے ایسی بات کی اور فون بند کر دیا. وہ جو علی کو ملنے جا رہا تھا، اب بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوا۔

گاڑی بالکل اس کے قریب جا کر روکی۔ وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ پھر اس نے گاڑی چلا دی۔ راستہ چونکہ اسی نے بتانا تھا اس لیے اس نے خاموشی سے اپنے کام پر ہی توجہ دی۔ اسے چھوڑنے کے بعد وہ واپسی کے لیے مڑا۔ جبکہ وہ اندر داخل ہو گئی یہ جانے بغیر کہ وہ ڈرائیور نہیں گلزار تھا۔

دو دن اس نے خالہ کے گھر گزارے پھر اس نے واپس آنے کے لیے خالہ سے اجازت لی۔ خالہ نے کہا بھی کہ ابھی تمہارے خالو آتے ہیں تو وہ تمہیں چھوڑ آئیں گے مگر اس نے ان کی بات ٹال دی اور اکیلی ہی گھر سے نکل آئی۔

ایک بس میں سوار ہوئی جو کہ اسی طرف جا رہی تھی جہاں اس نے جانا تھا جو کہ آدھی سے زیادہ بھر چکی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ وہ بھرتی چلی گئی یہاں تک کہ دو سواریوں کی جگہ رہ گئی. وہ بیگ کو گود میں رکھے کسی سوچ میں گم تھی۔ ڈرائیور نے گانا چلا دیا تا کہ لوگوں کا ٹائم اچھا گزرے۔

ہوندا تهانیدار میں سوہنڑیاں نوں ڈھکاں ہا

ہک ہک سوہنڑے کو سو سو واری تکاں ہا

"پسند آ رہا ہے بھائی..." قہقہے کے ساتھ ہی کسی لڑکے کی آواز آئی۔ شانزے چونک کر اس طرف متوجہ ہوئی۔ دو لڑکے جو کہ اس کے برابر والی دوسری لائن میں موجود تھے اسی کی طرف متوجہ تھے اور وہ فقرہ بھی شاید اسی کے لیے ہی بولا گیا تھا کیونکہ وہ گانے کے بول سن کر ایک دم مسکرا اٹھی تھی۔ ان کی نظروں میں نجانے کیا تھا کہ شانزے کو عجیب قسم کا خوف محسوس ہوا۔ وہ ڈر کر گاڑی کے دروازے کی طرف دیکھنے لگی، وہ دونوں ابھی بھی اس پہ فقرے کس رہے تھے۔اس نے دل کی گہرائیوں سے خدا سے دعا کی عین اسی وقت بس کے دروازے سے کوئی داخل ہوا۔ شانزے نے غور سے دیکھا تو وہ گلزار تھا جو کہ فون ہاتھ میں اٹھائے بس میں سوار ہوا تھا۔ شاید اس سے پہلے وہ فون استعمال کر رہا تھا۔ اس نےگاڑی کے اندر نگاہ دوڑائی شاید بیٹھنے کے لیے سیٹ تلاش کر رہا تھا۔ ایک سیٹ چونکہ شانزے کے ساتھ والی خالی تھی اس لیے وہ اس سیٹ کی طرف بڑھا۔ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد وہ پھر سے فون پہ مصروف ہو گیا۔ لڑکے ابھی بھی کچھ نہ کچھ بکواس کر رہے تھے مگر اب شانزے کو ان کی پروا نہ تھی، جانتی تھی اگر وہ حد سے بڑھنے لگے تو وہ گلزار سے مدد مانگ لے گی۔ 

گلزار نے کسی کو فون ملایا اور کان سے لگا لیا۔ اگلے نے جونہی فون اٹھایا اس نے فٹ سے کہنا شروع کر دیا:

"مسعود یار! آج تیری وجہ سے میں پبلک بس میں سواری کر رہا ہوں تو نے کیا بولا تھا بھلا؟ بس دس منٹ رک جاؤ اور اب گھنٹہ ہونے کو ہے مگر تو تو گدھے کے سر سے سینگ  غائب کی طرح ہو گیا ہے۔" اگلے نے شاید کچھ صفائی دینے کی کوشش کی۔

"نہیں کوئی بھی جھوٹ نہیں چلے گا۔...... یار تجھے پتا تو ہے بابا تجھے پسند نہیں کرتے اگر انھیں بائیک لے جانے کا پتا چلا نا۔۔۔۔۔"

اگلے نے پھر سے کچھ بولا، وہ تھوڑی دیر اس کی بات سنتا رہا۔

"اگر تجھے پتا ہے تو پھر تو تم ذرا جلدی آ جاؤ تاکہ تمہاری وجہ سے مجھے اتنا لمبا بھاشن نہ سننا پڑے جو کہ میرے لیے کسی سزا سے کم نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ بس اب کچھ نہیں سننا مجھے تم سے، تم بس اگلے اسٹاپ پہ پہنچ آؤ۔ یہ بس نکلنے ہی والی ہے یہاں سے۔۔۔۔۔"

اس کے بعد اس نے کال کاٹ دی۔ ہینڈ فری کانوں میں لگائی اور موبائل کو ہاتھ میں پکڑے ہی کچھ چلایا اور کرسی کی پشت سے سر ٹکایا اور آنکھیں موند لیں یہاں تک کہ یہ بھی نہ دیکھا کہ ساتھ والی سیٹ پہ کون بیٹھا ہے۔

شانزے جو ابھی تک اس خوش فہمی میں تھی کہ وہ فون بند کرنے کے بعد اس کو سلام کرے گا مگر اس کی خوش فہمی، خوش فہمی ہی رہی۔ وہ تو آنکھیں بند کیے، کانوں میں ہینڈ فری لگائے، سر کرسی سے ٹکائے پڑا تھا۔ شانزے نےکچھ دیر تو اس کی طرف دیکھا پھر ان لڑکوں کی طرف نگاہ اٹھائی۔ جو کہ ابھی بھی آپس میں اس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر وہ سامنے دیکھنے لگی.

بس، بس اسٹاپ پہ آن رکی گلزار جلدی سے اٹھا اور باہر چل دیا۔ شانزے نے بھی جلدی سےبیگ کندھے پہ ڈالا اور اس کی پیروری کی۔

 گلزار، مسعود سے بائیک کی چابی لے رہا تھا۔ شانزے نے ایک دفعہ اسے دیکھا اور رکشے میں بیٹھ گئی۔ مگر اس کی حیرت اس وقت بڑھ گئی جب وہ لڑکے بھی اسی رکشے میں سوار ہو گئے۔ وہ تھوڑا گبھرائی۔ "مسز خان! آپ میرے ساتھ چلیں۔" گلزار سامنےکھڑا اسی سے مخاطب تھا۔

"مگر...." وہ کچھ بولنے لگی مگر گلزار نے اس کی بات درمیان میں کاٹ دی۔ اس کی بات درمیان میں کاٹ دی۔ "اگر مگر کچھ نہیں..... آپ بس میرے ساتھ چل رہی ہیں۔ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں، آجائیں۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ بائیک کی طرف چل پڑا۔ شانزے نے ایک نظر ان لڑکوں کی طرف دیکھا جو کہ غصے سے گلزار کو دیکھ رہے تھے اور پھر بیگ اٹھا کر اس کی طرف چل دی۔ بائیک پہ اس کے پیچھے بیٹھی اور اس رکشے کی طرف دیکھا جہاں سے وہ لڑکے اتر کر انھیں دیکھ رہے تھے۔ گلزار نے بائیک چلا دی۔ شانزے نے خدا کا شکر ادا کیا- شانزے کو اس بات پہ یقین ہو گیا کہ وہ اسے پہچان تو چکا تھا مگر جان بوجھ کر اسے اگنور کر رہا تھا۔

گلزار جونہی بس میں سوار ہوا تھا اس نے شانزے کو پہنچان لیا تھا جس نے اسے دیکھ کر سکون کا سانس لیا تھا جیسے بہت بڑی مشکل سے چھٹکارا حاصل کیا ہو۔ پھر اس کے ساتھ بھی خود جا کر بیٹھا مگر اس نے اسے سلام تک نہیں کیا تھا اور اس نے خود بھی سلام نہ کیا اور بس کا ایک نظر جائزہ لیا تھا اور پھر وہ اس کی پریشانی کو سمجھ گیا اور ساتھ ہی سکھ کا سانس بھی اس کی سمجھ میں آ گیا۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ ان لڑکوں کو ہی چپ کرا دے یا پھر اسے کسی قسم کی تسلی دے مگر اسے اس کی پچھلی ملاقات یاد آئی تو اس نے سر جھٹکا اور فون نمبر ملانے لگ گیا۔ مگر جب اس نے مسلسل باتیں کرتے اور پھر رکشے پر بھی ساتھ بیٹھتے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔ وہ آیا تو ان کو بھگانے کے لیے تھا مگر پھر پتا نہیں کیسے وہ شانزے سے بات کر گیا۔ بائیک ہاسٹل کے سامنے جا کر روکی اور سامنے دیکھنے لگا۔ شانزے کے اترنے کے بعد وہ بولا:

 "اگر اپنے ساتھ کسی کو لے جایا کریں گی تو زیادہ بہتر رہے گا آپ کے لیے۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ بائیک زن سے بھگا لے گیا یہ تک نہیں دیکھا کہ آج وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ شاید یہ اس کا بائیک کو چلانے کا اسٹائل تھا۔

________________________________________________

ضحیٰ نے یونیفارم اتارنے کے بعد کچن کی طرف رخ کیا۔ فریج سے پانی کی بوتل اٹھائی اور ساتھ ہی فروٹ بھی اٹھائے۔ ٹیبل پر رکھنے کے بعد اس نے چھری اٹھا کر انھیں ٹکڑوں میں کاٹا۔ انھیں کھانے کے ساتھ ساتھ وہ اخبار کا مطالعہ بھی کر رہا تھا جو کہ دن کے وقت نہ کر سکا تھا۔

کھانے کے بعد اس نے برتن دھو کر ان کے ٹھکانے پر رکھا۔ چھری اور پلیٹ ٹھکانے لگانے کے بعد اس نے شام کے کھانے کا سوچا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا جب اس کا فون بجنے لگا۔ اس نے اٹینڈ کر کے فون کان سے لگایا۔

 "میں خالد بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ میں نے تم سے کچھ کہنا ہے تم یوں کرو ساتھ والے ہوٹل میں آ جاؤ، میں بس پہنچنے والا ہوں۔۔۔۔۔" اس نے تمام کام منسوخ کر کے اسے "اوکے" کہا اور پھر چابیاں اٹھا کر باہر نکل آیا۔ وہ جونہی ہوٹل میں داخل ہوا اسے کونے والی میز پر خالد نظر آیا۔ وہ اس کے سامنے جا کر بیٹھا۔ کھانا وہ پہلے ہی آڈر کر چکا تھا۔ مصافحہ کرنے کے بعد خالد نے چند لمحے اس کو دیکھا اور پھر گہرا سانس خارج کیا جیسے الفاظ ڈھونڈ رہا ہو۔

"ضحیٰ! تم نے اس دن جو تصویر دکھائی تھی." وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ ضحیٰ نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"اس شخص کو میں نے کل دیکھا تھا اور اس کا پیچھا بھی کیا، لوگوں سے اس کے متعلق بھی پوچھا مگر سبھی لوگوں نے اس کے اچھے کردار کی گواہی دی۔۔۔۔۔۔ مگر ایک بات مجھے کھٹک رہی ہے۔۔۔۔۔"

"کیا؟ کونسی بات؟" اس نے ایک ہی سوال دو طریقوں سے پوچھا۔

"وہ یہ کہ تم اس کو کیوں تلاش کر رہے؟" خالد نے اس کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ضحیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر جگ سے پانی گلاس میں ڈالا اور اٹھا کر پینے لگا ساتھ ہی کچھ سوچ بھی رہا تھا، نظریں خالد پر تھی جو کہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔

"ہے کوئی وجہ۔۔۔۔۔۔ ابھی تم یوں کرو اس شخص کا پتہ لگاؤ۔۔۔۔۔۔" اس نے موبائل نکالا اور اطہر شیرانی کی ہاتھوں سے بنائی گئی تصویر نکال کر اسے دکھائی تصویر دکھانے کے بعد اس نے موبائل بند کر کے ٹیبل پہ رکھا۔ اتنے میں کھانا آ گیا۔ دونوں نے سکون سے کھانا کھایا۔ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ کھانا کھانے کے بعد دونوں ایک ساتھ باہر نکلے۔ ضحیٰ نے اس کا ایڈریس اس سے لیا اور خدا حافظ! کہتے چل دیا۔ خالد نے بھی چند ثانیے اس کو دیکھا اور پھر وہ بھی چل پڑا، جانتا تھا وہ اس وقت تک اسے نہیں بتائے گا جب تک خود تمام معلومات حاصل نہیں کر لے گا۔

ضحیٰ گھر جانے کی بجائے اس ایڈریس کی طرف چل دیا جو کہ ابھی ابھی وہ خالد سے لے کر آیا تھا۔ بائیک اس جگہ سے تھوڑی دور کھڑی کی اور خود گھر کے قریب جا کر اس کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک دروازہ کھلا ضحیٰ نے جلدی سے منہ دوسری طرف کیا اور چلنے کے لیے قدم بڑھائے۔

"اماں! یہ دروازہ بند کر لینا، میں شام تک آ جاؤں گا۔" ضحیٰ نے ذرا سی گردن موڑی اور اسے دیکھا جو کہ بائیک پہ سوار کہیں جا رہا تھا اور یہ وہی تھا جس کی وہ تلاش میں تھا۔

"ٹھیک ہے احمد پتر! بس تو جلدی آ جانا، میرا دل بڑا گھبراتا ہے جب تو کہیں جاتا ہے۔"

"ٹھیک ہے اماں! میں جلدی آنے کی کو شش کروں گا۔" اس نے کہنے کے ساتھ ہی بائیک چلا دی۔ اس کے جاتے ہی ماں نے دروازہ بند کیا۔

ضحیٰ نے سوچا کہ اس کا پیچھا کرے مگر پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ جونہی کھلا اس نے سلام کیا۔ سلام کا جواب دیتے ہوئے اس عورت نے اجنبی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"میں احمد کا دوست۔۔۔۔۔ احمد سے ملنا تھا۔" اس کی اجنبی نگاہوں کے جواب میں ضحیٰ نے بتایا۔

"مگر احمد تو گھر پہ نہیں ہے۔" اس عورت نے ٹکا سا جواب دیا۔

"اچھا!" اس نے اچھا کو ذرا لمبا کھنچا۔  "تو پھر میں چلتا ہوں۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ مڑا۔

"رکو! اب آ گئے ہو تو گھر تو چلو۔ وہ بھی آ جائے گا۔" ضحی واپس مڑا اور اس کی طرف دیکھا۔ اس عورت نے اندر آنے کے لیے راستہ دیا۔ ضحی گھر میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے پوچھا۔

"یہ گھر آپ کا اپنا ہے یا پھر کرائے کا؟" عورت نے اس کے سوال کو سن کر ٹھنڈی آہ بھری اور بولی:

"ہاں! یہ گھر تو اپنا ہی ہے مگر میرے بیٹے کو پتا نہیں کیوں پسند نہیں ہے؟ ہر وقت کرائے کے مکان بدلتا رہتا ہے۔ اب جا کر اس گھر میں رہنے کے لیے تیار ہوا ہے۔" وہ کہنے کے ساتھ ہی سوچوں میں گھر گئی۔ ضحیٰ نے اس کو سوچوں میں ڈوبا دیکھا تو ایک اور سوال کیا۔

"یہ احمد آج کل فارغ ہے کیا؟ یا پھر نوکری وغیرہ کرتا ہے؟"

"ہاں! نوکری کرتا ہے۔" اس نے سوچوں کے گرداب سے نکل کر جواب دیا۔

"کیا نوکری کرتا ہے؟" ضحیٰ نے ایک بار پھر سوال کیا۔ 

"معلوم نہیں کیا کرتا ہے؟ بس کبھی شام میں

جاتا ہے تو کبھی سویرے۔" اسے واقعی علم نہ تھا۔

 "آپ نے کبھی پوچھا نہیں؟" اس نے ایک دفعہ دروازے کی طرف دیکھا اور پھر نظریں اس کی طرف کیں۔

"پوچھا ہے کئی بار مگر وہ بتاتا ہی نہیں، کہتا ہے امی آپ کو پیسے تو مل جاتے ہیں نا بس اسی کی ہی فکر کیا کریں۔ یہ نہ پوچھا کریں کہ کرتا کیا ہوں؟"

"اچھا!" ضحیٰ نے فقط اتنا کہا۔

"کیا میں اس کا کمرہ دیکھ سکتا ہوں؟" ضحیٰ نے اجازت مانگی۔

"ہاں ہاں! کیوں نہیں بالکل دیکھ سکتے ہو آخر اس کے دوست ہو۔" اس نے جلدی جواب دیا اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ضحیٰ کو اس کے کمرے میں پہنچا کر بولی:

 "تم کھانا کھا کر جانا، میں بس ابھی بنا آتی ہوں؟" 

"نہیں شکریہ، میں کھانا کھا کر آیا ہوں۔ بس یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا احمد سے ملتا چلوں۔ پھر کبھی آؤں گا تو کھانا کھاؤں گا، اس نے تفصیلی جواب دیا۔ یہ سن کر وہ واپس مڑ گئی جبکہ ضحیٰ نے اس کے کمرے کا جائزہ لیا اور ہلکا سا مسکرایا۔ مطلب اب وہ معاملے کی تہ تک جا سکتا تھا۔ پھر اس نے تصویریں بنائی اور ساتھ میں ہلکی سی تلاشی بھی کی مگر تمام اشیاء کو ان کی ہی حالت میں رکھا تاکہ تلاشی لینے کا پتا نہ چلے۔ پھر باہر نکل آیا۔

"آنٹی اس کی کیا ضرورت تھی؟"  اس نے جب مشروب کو دیکھا تو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

"تم میرے بیٹے کے دوست ہو تو تمہیں ایسے کیسے جانے دیتی اس لیے یہ بنا لائی۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ گلاس میں انڈیلنے لگی۔ ضحیٰ نے وہ پینے کے بعد جانے کی اجازت مانگی۔

"اچھا تو پھر میں چلتا ہوں۔ یہ رکھ لیں، آنے کا پروگرام تھا نہیں تو کچھ خرید نہیں سکا۔" اس نے جیب سے دو چاکلیٹ نکال کے انھیں دیتے ہوئے کہا۔

"نہیں بیٹا! اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے بس اللّٰہ سے دعا ہے تمہیں خوش رکھے۔ تمہارے آنے سے مجھے پتا نہیں کیوں اتنا سکون ملا ہے؟" وہ اس بات سے لاعلم تھی۔

"رکھ لیں۔" ضحیٰ نے ذبردستی انھیں تھمائی۔ وہ "خدا حافظ!" کہنے کے ساتھ مڑا اور باہر نکل آیا۔

"اچھا! بیٹا اپنا نام تو تم نے بتایا نہیں اور میں نے بھی پوچھا نہیں۔" وہ جو دروازے میں کھڑی تھی اچانک بولی۔

وہ واپس مڑا اور مسکرایا۔ مطلب نام پھر بھی پوچھ لیا گیا تھا اور اس کی جھوٹ بولنے کی عادت نہیں تھی اور اپنا اصل نام وہ بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن بتانا تو تھا۔

آخر ضحیٰ نے نام بتا ہی دیا "Day's light"۔

"یہ کون سا نام ہے بھلا؟" وہ مسکرا کر بولی۔

"جو بھی سمجھ لیں......  یہی بلاتے ہیں میرے دوست مجھے، آپ بھی بلا سکتی ہیں۔۔۔۔۔ اچھا اب خدا حافظ!" وه مڑا اور آگے بڑھ گیا۔ جبکہ وہ اسے جاتا دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔

بائیک اسٹارٹ کی اور آگے بڑھادی۔ نام تو اس نے درست بتا دیا تھا مگر وہ پھر بھی نہیں جان سکے گا۔ یہ وہ جانتا تھا کیونکہ وہ جتنا بھی چالاک تھا مگر ذہین بالکل نہیں تھا وہ جان چکا تھا۔ گھر آنے کے بعد اس نے موبائل سے وہ تصویریں نکالیں اور ایک ایک کو غور سے دیکھنے لگا۔ مگر اسے اس میں کوئی بھی ایسی چیز نہ نظر آئی جیسی وہ چاہتا تھا۔

________________________________________________

"علی یار! وہ میری کتاب تمھارے پاس تو نہیں؟"  گلزار کتابیں بیگ میں ڈالتے ہوئے بولا۔

"کونسی کتاب؟" علی جو اس کے ساتھ ہی بیٹھا تھا مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

"دو تین دن پہلے تمہیں جس سے پڑھایا تھا، اس کے بعد وہ کتاب ملی ہی نہیں، گھر میں بھی نہیں ہے۔" وہ تفصیلاً بولا۔

"نہیں تو میرے پاس تو نہیں؟" علی سوچتے ہوئے بولا۔

گلزار ایک نظر اس پہ ڈال کر مسعود کی طرف متوجہ ہوا جو کہ اب فارغ ہو گیا تھا۔

مسعود نے دستے سمیت تمام اشیاء بیگ میں ڈالیں اور پھر گلزار کو دیکھا جو کہ سوچتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔

"ارے یاد آیا، مسعود اس دن تم نے بیگ خالی کروایا تھا اور پھر ساری بکس بھی تم لے کر آئے تھے، کہیں میری کتاب تمھارے پاس تو نہیں...." وہ یاد آنے پر سوچتے ہوئے مسعود سے پوچھ رہا تھا۔

"نہیں! میرے پاس تمہاری کوئی کتاب نہیں ہے۔"  وہ ایک بار پھر بیگ کھول کر چیک کرنے لگا۔

"اب یہی کتاب نامہ چلتا رہے گا یا پھر باہر بھی چلو گے؟ 

ویسے بھی گلزار تمہاری کتاب گم نہیں ہو سکتی کیونکہ تمہاری کتابوں کے بارے میں تمام ٹیچرز کو پتا ہے یہی نوٹ کرنے والی خوبی تمہیں تمام ٹیچرز کے سامنے ممتاز کرتی ہے۔خیر اگر گم ہو بھی گئی تو تم میری لے لینا۔ اب چلو بھی بریک ضائع کرنے کا ارادہ ہے یا پھر۔۔۔۔۔" وہ انجانے میں اس کی تعریف کر ہی گیا۔

"اچھا چلو چلتے ہیں گراؤنڈ میں، یہ مسئلہ بعد کا ہے۔" گلزار اٹھتے ہوئے بولا۔

علی نے پین اور کتاب کے ساتھ ساتھ دستہ بھی اٹھا لیا۔تینوں ایک ساتھ کلاس سے باہر نکلے۔ علی،مسعود اور گلزار کی دوستی اسی کالج میں آ کر ہوئی۔ علی تھوڑا سنجیدہ جبکہ مسعود کسی بات کا اثر نہ لینے والی شخصیت تھی اور یہی بات تھی جس کی وجہ سے گلزار کے والد اسے ناپسند کرتے تھے جبکہ علی کی سنجیدگی انھیں بہت پسند تھی۔ تینوں کی دوستی پورے کالج میں مشہور تھی۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آج تک تینوں نے کسی بھی لڑکی کو اس گروپ میں شامل ہونے کی جرات نہیں کرنے دی۔ تینوں گراؤنڈ کے ایک کونے میں جا کر بیٹھے۔ علی نے دستہ اور کتاب کھول کر رکھا اور پن کھولتے ہوئے بولا۔

گلزار یوں کرتے ہیں فضول باتوں کی بجائے کوئی ایک ٹاپک پڑھ لیتے ہیں۔

گلزار نے کتاب اٹھائی اور ایک ایک ورق الٹنے لگا آخر اس نے ایک جگہ انگلی رکھی اور بولا۔

"آج یہ پڑھ لیتے ہیں۔" اس نے پن علی سے لیا اور دستہ اپنی طرف کھسکایا۔ پھر اس نے سمجھانے کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا۔ 

"ارے! اس لڑکی کو روکو، کہیں بے عزتی ہی نہ کروا آئے، خان گروپ کی طرف جا رہی ہے۔ ارے! تم کوئی اثر ہی نہیں لے رہی۔" ایک لڑکی دوسری سے کہہ رہی تھی۔

"اس کو بھی تو پتا چلے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ ہمیں کسی نے روکا تھا کیا؟" وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے بولی۔

جبکہ ساتھ والی پریشانی سے اس طرف دیکھنے لگی۔ شانزے جو گلزار کی طرف بڑھ رہی تھی دونوں کی باتیں سن کر مسکرائی۔ تینوں کے قریب پہنچ کر اس نے سلام کیا۔

آواز سن کر تینوں نے غصے سے نظریں اس پہ ڈالیں مگر پھر جلد ہی مسعود اور علی نے نظروں کا زاویہ بدل کر گلزار کی طرف دیکھا جو کہ اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شانزے اپنے معمول کے حلیے میں تھی۔ کتاب کے گرد بازو حمائل کیے وہ ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ گلزار نے سلام کا جواب دیا۔ نظروں ہی نظروں میں سوال پوچھا۔

"میں یہ کتاب دینے آئی تھی، اس دن آپ کی کتاب میری کتابوں کے ساتھ آ گئی۔" اس نے سوال سمجھ لیا اسی وجہ سے کتاب آگے بڑھاتے ہوئے بولی: 

"ویسے اس کتاب نے مجھ پر یہ انکشاف ضرور کر دیا ہے کہ............" شانزے چکر کاٹ کر گلزار کے سامنے جا بیٹھی۔گلزار نے کتاب پکڑنے کے بعد اس کی طرف دیکھا جو کہ بیٹھ چکی تھی۔

"کیا؟" غیر ارادی طور پر گلزار کے منہ سے نکلا۔ شانزے مسکرائی اور بولی:

"وہ یہ کہ آپ بے حد محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار شخص ہیں۔ روزانہ کا لیکچر نوٹ کرنا ہر کوئی نہیں کر سکتا۔" ساتھ ہی اس نے علی کی طرف دیکھا جس کی نظریں کبھی مسعود تو کبھی گلزار اور کبھی شانزے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔

"ویسے آپ کا گڈ نیم؟" شانزے نے علی سے آخر سوال پوچھ لیا۔

"علی حمزہ۔" نام بتانے کے سوا اس کے پاس چارہ نہ تھا۔

شانزے نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر مسعود کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

"آپ کا نام تو مسعود ہے، اس بات کا تو مجھے پتا چل چکا ہے۔" دونوں نے گلزار کو دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ایک لڑکی ان سے اس قدر فری کیونکر ہو سکتی ہے؟ اور گلزار خود بھی یہی سوچ رہا تھا۔

"آپ لوگ یوں دیکھ رہے ہیں ایک دوسرے کی طرف کہ مجھے کیسے بھگایا جائے؟ مجھے کوئی نہیں بھگا سکتا جب تک میں خود نہ چاہوں، لیکن آپ لوگوں کی مشکل آسان کیے دیتی ہوں، میں خود چلی جاتی ہوں۔" وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ضرور مگر روکا نہیں۔ وہ جاتے جاتے رکی اور مڑ کر بولی: "اوہ!" وہ ماتھے پہ ہاتھ مار کر بولی۔ تینوں نے جلدی سے اسے دیکھا۔

"میں تو بھول ہی گئی۔ وہ میں نے آپ لوگوں سے سوری بولنا تھا اور ساتھ ہی تھینک بھی کہنا تھا۔" 

"وہ کیوں؟" صرف گلزار ہی بول پایا باقی دونوں یک ٹک اسے دیکھ رہے تھے۔

"وہ اس وجہ سے کہ......... میں نے آپ لوگوں کو غلط سمجھا اور کافی کچھ سنا بھی دیا تھا اس دن........پھر اب مجھے.........آپ لوگوں کے بارے میں سمجھ آ گئی ہے اور تھینکس اس دن آپ کی مدد کرنے کے لئے اور ساتھ ہی ہاسٹل چھوڑنے کا بھی شکریہ!" وہ تفصیلاً  بتانے کے بعد مسکرائی اور واپس مڑ کر چل دی۔ ان تینوں نے اسے جاتا دیکھا۔ وہ دونوں لڑکیاں بھی حیرت سے شانزے اور ان تینوں کو دیکھ رہی تھیں جو کہ ابھی بھی شانزے کو جاتا دیکھ رہے تھے.

پھر اس کے بعد تقریباً ہر روز ان کی ملاقات ہو ہی جاتی تھی۔ اب ان میں ذرہ برابر بھی اجنبیت نہ رہی تھی۔ اس بات کی خبر پورے کالج میں گردش کر رہی تھی کہ "خان گروپ" میں ایک لڑکی کی انٹری ہو چکی ہے۔ یہ دیکھ کر چند ایک لڑکیوں نے اس گروپ میں آنا چاہا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو پائیں۔

"یار گلزار! یہ میچنگ میچنگ روز آ کر ٹائم ویسٹ کروا دیتی ہے اور تو ہمیں پڑھا ہی نہیں پاتا........" مسعود، گلزار سے شکوہ کر رہا تھا۔

"اوکے! آج یہ آپ لوگوں کی "میچنگ میچنگ" آ گئی تو بھی پڑھاؤں گا۔ اب خوش؟" 

"کون میچنگ میچنگ؟" شانزے جو قریب آ چکی تھی ان کی آواز سن کر بولی۔ تینوں یک دم اچھلے۔ پھر تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر نگاہ شانزے کی طرف اٹھائی۔ جس نے آبرو اچکائے۔ آخر انہیں بتانا ہی پڑا جس کو سن کر وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ پھر اس کے بعد ان تینوں نے پڑھنا سٹارٹ کیا اور شانزے ان کو پڑھتا دیکھنے لگی۔

________________________________________________

"آج آپ لوگوں کے استاد صاحب نہیں آئے؟" شانزے کا ٹائم اب ان کے ساتھ ہی گزرتا تھا تو اب بھی فارغ ہونے کے بعد اس طرف آ گئی۔ "ہاں! اور آج ہی مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس ٹاپک کی سمجھ ہی نہیں آتی جتنی بار بھی پڑھا دوسروں سے اور اس کی سمجھ تو خود گلزار کو بھی نہیں آئی تھی۔ اب اس ہفتے میں پیپرز ہیں اور یہ ٹاپک اہم بھی ہے تو ہم لوگ اسی وجہ سے پریشان ہیں۔ علی اور مسعود واقعی پریشان تھے۔

"دکھاؤ تو ذرا کیا ہے اس کو بیماری؟ میں بھی تو دیکھوں۔"

شانزے نے کتاب ہاتھوں میں پکڑی اور پھر اس کے بعد دستہ اٹھایا اور ان تمام لوگوں کے سمجھائے گئے طریقے دیکھے۔

  "ارے واہ! یہ تو بہت ہی مزیدار ٹاپک ہے، سمجھانے کے قابل۔ آؤ میں ہی سمجھا دیتی ہوں۔" شانزے نے کتاب کا صفحہ نکالا اور پین پکڑا۔ چند لمحے اس کو پڑھا اور پھر ان کی طرف دیکھا جو کہ کسی الجھن کا شکار تھے۔ وہ ان کی شکل دیکھ کر مسکرائی۔ وہ ان کی الجھن جانتی تھی۔ پھر اس نے لکھنا اور ساتھ ہی ساتھ سمجھانا بھی شروع کر دیا۔

"آپ بہت ہی اچھا سمجھاتی ہیں۔ واقعی میں پتا ہی نہیں چلا کہ ہم آپ سے پہلی بار پڑھ رہے ہیں اور نہ ہی ٹائم گزرنے کا پتا چلا۔ بڑے ہی مزاحیہ انداز میں آپ نے سمجھایا ہے۔ اب اس کو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی پیپرز تک۔" علی نے اس کی مسکراتے ہوئے تعریف کی اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال لیا۔

"ویسے آپ کا سگریٹ پینے کا انداز اس قدر عمدہ ہے کہ....... میں بتا ہی نہیں سکتی۔ شاید لڑکیاں آپ کی اس پرسنالٹی سے ذیادہ آپ کے سگریٹ پینے کے انداز پر فدا ہو جاتی ہوں گی۔''  سگریٹ پیتے دیکھ کر شانزے نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"واقعی!....... واقعی!۔۔۔۔۔۔ آپ درست سمجھی ہیں۔ لڑکیاں اس کی اسی ادا پہ ہی فدا ہو جاتی ہیں مگر یہ کسی پہ فدا ہی نہیں ہوتا۔" مسعود نے علی کی طرف دیکھتے ہوئے ہنس کر کہا۔ علی نے اسے آنکھیں دکھائیں۔ شانزے مسکرائی۔

________________________________________________

ضحیٰ ہوٹل میں خالد کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھا۔خالد نے اطہر شیرانی کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ اس کے بارے میں بھی کچھ احمد کی طرح کی اطلاع ملی تھی۔ اس سے ایڈریس لے کر ضحیٰ نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ کھانا کھانے کے بعد خالد نے اجازت مانگی۔ اس کے جانے کے بعد ضحیٰ نے بل ادا کیا اور ایک گلاس پانی لے کر ٹیبل پر رکھا اور خود اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ 

ضحیٰ کا رخ دروازے کی طرف تھا۔

"ارے واہ! ہی از سو ہینڈ سم! میں ابھی ابھی اس سے بات کروں گی۔'' ضحیٰ نے اپنے پیچھے سے آواز سنی اور گردن موڑ کر اس طرف دیکھا، چہرے پہ ہلکے غصے کا تاثر دیکھ کر وہ لڑکی جلدی سے بیٹھ گئی جو کہ اس سے بات کرنے کے لیے کھڑی ہوئی تھی۔ اس ٹیبل پر تین لڑکیاں بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھی جن میں سے ایک کھڑی اس سے بات کرنے کے لیے ہوئی تھی، مگر اس کو دیکھ کر بیٹھ گئی۔

 ضحیٰ نے ایک نظر انھیں دیکھ کر گلاس اٹھایا اور کھڑے کھڑے منہ سے لگایا اور ایک گھونٹ بھر کر دوبارہ ٹیبل پر رکھا۔

"ہائے!" تینوں لڑکیوں کی آواز ایک ساتھ سنائی دی۔ ضحیٰ چونکا اور ایک دفعہ پھر سے پیچھے دیکھا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہ تھیں۔ ضحیٰ نے سامنے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ آنے والی شخصیت اس سے ٹکرا جاتی اس نے ایک ہاتھ سے اس کے کندھے سے پکڑا اور اور خود سے ٹکرانے سے بچایا۔ غصے میں اس کے منہ سے نکلا:

"میڈم دیکھ کر چلا کریں۔" اگلی نے غصے سے اسے دیکھا۔ جونہی دونوں کی نظریں ملیں، آنکھوں میں حیرت پیدا ہوئی۔ آنے والی نے ایک غصیلی نگاہ اس پہ ڈالی اور آگے بڑھ

گئی۔ ضحیٰ اس کے غصے کو دیکھ کر مسکرایا۔

"یہ تم لوگوں کی بتیسی اندر کیوں نہیں جا رہی؟" 

"مصفا یار! کتنا مزا آتا اگر تم اس سے ٹکرا جاتی مگر افسوس۔۔۔۔!" مصفا نے اس کی بات سن کر دانت پیسے اور اس کی طرف دیکھا جو ابھی بھی دوسری طرف رخ کیے کھڑا تھا۔ مگر وه جانتی تھی وہ اس کی آواز سننا چاہتا ہے۔

"کھانا آرڈ کیا؟" مصفا بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی۔ "نہیں تمہارا انتظار کر رہے تھے۔" ان میں سے ایک بولی- مصفا نے ویٹر کو بلایا اور کھانا آرڈ کیا۔ ضحیٰ نے گہری سانس لی اور بقیہ پانی پیا۔ ایک نظر پیچھے دیکھا اور پھر قدم دروازے کی طرف بڑھا دیے۔ مصفا نے اسے جاتے دیکھا۔ جبھی کھانا آ گیا وہ لوگ کھانا کھانے لگے۔

ضحیٰ نے خالد کے دیے گئے ایڈریس کے سامنے بائیک جا کر روکی۔ بند تالے نے اس کا منہ چڑایا۔ ضحیٰ چند لمحے وہیں بیٹھا رہا پھر بائیک آگے بڑھائی۔ تھوڑی دور جانے کے بعد اس نے بائیک ٹھکانے لگائی اور خود واپس مڑا۔ ابھی وہ گھر سے دور تھا جبھی اسے دور سے بائیک کی آواز آئی آواز سن کر وہ درخت کی اوٹ میں ہو گیا۔ آنے والا اطہر ہی تھا۔ تالا کھول کر وہ جلدی میں اندر داخل ہوا۔ ضحیٰ درخت کی اوٹ سے اسے اندر جاتا دیکھ رہاتھا۔ تبھی وہ تیزی سے باہر نکلا اور تالا لگا کر دوبارہ واپس چلا گیا۔ ضحیٰ نے اسے جاتا دیکھا تو آگے بڑھا۔ گھر کا مکمل جائزہ لینے کے بعد آخر اسے اندر جانے کی جگہ مل ہی گئی۔ اندر جا کر اس نے پورے گھر کا مکمل طور پر معائنہ کیا اور تلاشی بھی لی۔ پھر اکلوتے کمرے کی طرف بڑھا۔ وہاں کی تلاشی لی مگر اس نے ہر چیز کو ان کی جگہ پر رکھا تا کہ پتا نہ چلے۔ مگر اسے وہاں کوئی بھی قابل اعتراض چیز دکھائی نہ دی۔ اس کے بعد اس نے پورے گھر کی تصویریں بنائیں۔ اس کے بعد اس نے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔ باہر نکل کر وہ بائیک لینے چل دیا۔

گھر آ کر اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور ساتھ ہی دودھ بھی نکال لیا۔ پانی پی کر اس نے چائے بنائی اور کپ میں ڈال کر وہ کمرے کی بڑھا۔ چائے پینے کے ساتھ ساتھ وہ تصویریں بھی دیکھنے لگا جو کہ وہ ابھی بنا کر آیا تھا۔ اسے ان تصویروں سے بھی وہ حاصل نہ ہو سکا جو کہ وہ چاہتا تھا۔

صبح اٹھ کر اس نے ناشتہ بنایا اور وہیں بیٹھ کر کھالیا۔ ابھی وہ احمد اور اطہر کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کھانا کھا کر اس نے برتن دھوئے اور چائے بنانے کے لیے پانی چڑھا دیا۔ فریج سے دودھ نکال ہی رہا تھا جبھی دروازہ بجا۔ دودھ نکال کے رکھا اور دروازہ کھولنے کے لیے چلا گیا۔ دروازے پر خالد کھڑا تھا۔ دونوں ملنے کے بعد اندر آئے ضحیٰ نے دو کپ چائے بنائی اور کپ میں چائے ڈال کر وہ باہر نکل آیا۔ چائے اسے پکڑائی اور آنے کا مقصد پوچھا۔ اس نے اسے میچ دیکھنے کی پیش کش کی ضحیٰ نے چند لمحے سوچا پھر جاب کا بہانہ گھڑا، وہ اسے دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

"یار! پاکستان اور بھارت کا میچ ہے اور مجھے باقاعدہ ٹیم نے انوائٹ کیا ہے۔ اسی وجہ سے میں تمہیں ساتھ لے جانے کا کہہ رہا تھا۔ سارا خرچہ وہی اٹھائیں گے۔ یوں سمجھو ہم دونوں ٹیم کا حصہ شمار ہوں گے۔ گولڈن چانس ہے ہمارے پاس پروٹوکول بھی ملے گا ہمیں۔۔۔۔۔۔۔"

خالد نے اسے سمجھانے کے لیے کہا۔ مگر پھر اسے سوچتے دیکھا تو منہ بناتے ہوئے بولا:

"اچھا اگر تم نہیں جاتے تو میں انکار کر دیتا ہوں۔ میں نے تمہارا نام بھی کہا تھا۔" ضحیٰ نے اس کی بات سن کر اسے دیکھا جس نے غصے سے منہ پھیر لیا۔ یہ دیکھ کر ضحیٰ مسکرایا۔

 "اوکے! چلوں گا۔" خالد نےخوشی سے اسے دیکھا۔

"اچھا تو پھر سامان پیک کر لو کچھ ضرورت ہو تو ورنہ آج دو بجے جانا ہے اور کل میچ ہے پھر واپسی۔ اگر تم نے وہاں رکنا ہو تو پیک کر لو۔" اس نے ضحیٰ کو تفصیل سے بتایا۔

"یونہی ٹھیک ہے۔ بس ایک دو سوٹ لے لوں گا۔" ضحیٰ نے خالد سے خالی کپ لے کر اپنا بھی اٹھایا اور کچن کی طرف چل دیا۔ خالد بھی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کپ دھو کر ان کی جگہ پہ رکھا اور کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔

"بلکہ یوں کرو میرے یہ کپڑے بھی تم اپنے ساتھ لے کر جاؤ، اپنے سامان کےساتھ پیک کر لینا۔" خالد کو ضحیٰ نے کپڑے تھمائے۔ خالد نے کپڑے پکڑے۔ ضحیٰ نے تیاری کرنی شروع کردی۔ یونیفارم بدل کر باہر نکلا۔

"یہ تم کہاں جارہے ہو؟" خالد سے جب رہا نہ گیا تو پوچھ بیٹھا۔

"پولیس اسٹیشن....." وہ فون اور دوسرے سامان اٹھاتے ہوئے بولا۔

"لیکن تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں وقت پر پہنچ جاؤں گا۔" وہ اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ سارے سامان جیبوں میں ڈالے۔

"چلو۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ مڑا اور باہر نکلتا چلا گیا۔ خالد بھی اس کے پیچھے نکلا۔ گھر کو لاک لگایا اور دونوں اپنے اپنے راستے کو ہو لیے۔

مختلف فائلوں کا مطالعہ کرتے اسے ٹائم کا پتا ہی نہ چلا۔ تبھی فون بجنے لگا۔ اس نے دیکھے بغیر فون اٹھا لیا۔

"ابے گھامڑ! کیا تو نے وہیں رات بھی گزارنے کا پروگرام بنا لیا ہے؟" آگے خالد ہی تھا۔

"کیوں؟ کیا ہوا؟" وہ اس کی بات سن کر سمجھ نہ پایا۔

 "واہ میرے شہزادے واہ! ذرا گھڑی پہ بھی نظر ڈال لیا کر، آج کہیں جانا تھا شاید۔۔۔۔۔" آگے والا تپا بیٹھا تھا تبھی طنزاً بولا۔ ضحیٰ نے ایک بار گھڑی کی طرف نظر دوڑائی جہاں گھڑی وقت بتارہی تھی۔

"اوه سوری!" وہ واقعی پریشان ہوا تھا۔

"بس میں نکلتا ہوں، ابھی تو پندرہ منٹ باقی ہیں۔ میں بس یوں آیا۔" وہ فون کرنے کے ساتھ ساتھ تمام فائلز کو بند بھی کر رہا تھا. اگلے نے غصے سے فون بند کر دیا۔ اس نے اسے جیب میں ڈالا اور فائلوں کو الماری میں ٹھکانے لگایا اور جلدی جلدی باہر نکلا۔ مصفا نے اسے جلدی جلدی جاتے حیرانی سے دیکھا مگر روکا نہیں۔ اگلے دس منٹ میں وہ وہاں موجود تھا جہاں باقی ٹیم تھی۔ سب سے ملنے کے بعد وہ خالد سے بھی ملا جو کہ غصے میں تھا۔ ضحیٰ نے اسے منایا اور اپنی مصروفیات سے بھی آگاہ کیا جس سے وہ مان کیا۔ ضحیٰ جانتا تھا کہ وہ جتنا جلدی ناراض ہوتا ہے۔ اس سے بھی کہیں زیادہ جلدی مان جاتا ہے۔ خالد نے سب سے ضحیٰ کا تعارف کروایا۔ تمام نے خوشدلی سے اس کا استقبال کیا۔ کپتان نہایت ہی ملنسار آدمی تھا۔ اس نے ہی خالد سے زیادہ اصرار کیا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی ایک ٹیم کا حصہ قرار دیے گئے اور انھیں بھی ویسے ہی پروٹوکول دیا جاتا رہا۔

"ویسے کپتان صاحب! آپ نے اس بار ذہانت کا تھوڑا سا مظاہرہ کیا ہے جو اس انسپکٹر کو بھی انوائٹ کیا ہے، اب کوئی بھی مسئلہ ہوا تو ہمیں کوئی فکر نہیں ہوگی۔ کیوں ساتھیو؟" ان میں سے ایک باؤلر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"تھوڑا سا تو لحاظ کر لو، اب میں تم جیسے بے وقوفوں کا کپتان ہوں۔" کپتان نے انھیں شرم دلانے کے لیے کہا۔ مگر انھوں نے اس بات کا اثر نہ لیا۔ تبھی ضحیٰ کا فون بجنے لگا۔ اس نے جلدی سے فون اٹھایا اور کان سے لگایا۔

"اچھا اب پاکستانی ٹیم! تو آپ لوگ ذرا ترتیب سے کھڑے ہو جاؤ، ذرا ایک دو تصویریں بنانے دو۔ خالد تم تصویریں بناؤ۔" کپتان نے پہلے ٹیم سے اور آخر میں خالد کو کیمرہ پکڑاتے ہوئے کہا۔ سب جلدی سے ترتیب میں کھڑے ہو گئے، جانتے تھے اگر دیر کی تو کپتان صاحب جتنے اچھے ہیں اتنے ہی غصے کے تیز بھی ہیں، پھر لڑ پڑیں گے۔

 "جی تو کیمرہ مین جلدی سے بناؤ، ٹائم کم ہے۔" کپتان ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ضحیٰ ان کے درمیان میں کھڑا فون سن رہا تھا۔ پتا نہیں آگے کون تھا جس کی باتیں اسے مسلسل مسکرانے پر مجبور کر رہی تھی۔

"بس اتنی کافی ہیں۔" کپتان نے خالد کو ہاتھ سے آنے کا اشارہ کیا. "اب یہ تصویریں اپ لوڈ کر دیتے ہیں تاکہ عوام خوش ہو جائے۔" کپتان نے تصویریں اپ لوڈ کرتے ہوئے کہا۔

"پاکستانی ٹیم از گوئنگ ٹو ملتان۔۔۔۔۔" اس نے زیر لب پڑھا اور لکھ کر اپ لوڈ کر دیا۔

تصویریں واقعی اچھی آئی تھیں۔ ٹیم کے درمیان فون سننے کے ساتھ ساتھ مسکراتے لب اور ساتھ ہی پولیس کی یونیفارم، اسے سب سے الگ کر رہی تھی۔ وہ ان سب میں نمایاں تھا۔

"چلو چلو جلدی سے سوار ہو جاؤ۔" کپتان نے جلدی کا شور مچا دیا۔

________________________________________________

"یہ کس کی رائٹنگ ہے، کس نے سمجھایا ہے وہ بھی اتنا مشکل ٹاپک؟" دوسرے دن جب گلزار نے سمجھانے کے لیے دستہ کھولا تھا، دیکھ کر حیرانی سے بولا۔

"شانزے نے۔" علی نے مسکرا کر کہا۔ 

"یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ وہ ہے بھی ہم سے ایک سال پیچھے؟" وہ حیرانی اور پریشانی سے بولا-

"اگر تجھے یقین نہیں ہے تو یہ ویڈیو دیکھ لو۔۔۔۔۔۔" مسعود نے جیب سے فون نکالا، کھولنے لگا۔ 

"وہ اس وقت میں ویڈیو بنا رہا تھا تو شانزے آ گئی تبھی میں نے دیکھے بغیر اگلی جیب میں سیل ڈال دیا تھا خود بخود ویڈیو بنتی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دیکھا تو پوری ویڈیو بن گئی تھی۔" سیل کھولنے کے بعد ویڈیو نکالی اور فون گلزار کے ہاتھ میں دے دیا. ادھر ادھر کی آوازیں اور ساتھ ہی گراسی گراؤنڈ کی ویڈیو چلنا شروع ہو گئی۔ "تھوڑا آگے کر لو، یہ پہلے کی ہے جب وہ نہیں آئی تھی۔" مسعود کی بات سن کر گلزار نے تھوڑا آگے گیا۔ تبھی شانزے کی آواز آئی۔ 

"آج آپ لوگوں کے استاد صاحب نہیں آئے؟" گلزار اس کو سن کر مسکرایا۔ اس کے مزیدار ٹاپک کہنے پر وہ کھلکھلا کر ہنسا۔ اس کے بعد اسے مسکراتا دیکھ کر بھی مسکرا دیا، جانتا تھا ان لوگوں کی شکلیں دیکھ کر مسکرائی ہوگی۔ ویڈیو میں شانزے باقاعدہ نظر بھی آ رہی تھی اور اس کے سامنے پڑی کتابیں اور دستہ بھی۔ گلزار نے اس کی تمام ویڈیو دیکھی اور اسے بھی واقعی سمجھ آ گئی۔ اس نے موبائل واپس مسعود کو پکڑاتے ہوئے کہا: "یہ ویڈیو مجھے سینڈ کر دو ابھی ابھی۔"

 فون نکال کر آن کیا۔ مسعود نے اسے وہ ویڈیو بھیجی۔ بعد میں شانزے سے ملتے ہوئے اس نے اس کی تعریف بھی کر دی۔ وہ ابھی شانزے کے ساتھ کھڑا تھا۔ آج چونکہ مسعود نے چھوٹا سا ٹاپک پڑھنا تھا تو علی نے وہ پڑھانے کی ذمہ داری لے لی۔ اس وجہ سے وہ اکیلا شانزے کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا ورنہ وہ چاروں ساتھ ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔

"علی یار بہت زوروں کی بھوک لگ رہی ہے اور آج کینٹین بھی بند رہے گی ساتھ میں ہوٹل بھی کوئی نہیں ہے۔ تیرا ایک بھی لفظ بھیجے میں نہیں گھس رہا۔ یوں کرتے ہیں ساتھ باہر سے کھانا کھاتے ہیں۔ ویسے بھی آخری دو لیکچرز فری ہیں۔"

مسعود جو کافی دیر سے اس سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا. آخر تنگ آ کر بولا۔ 

 "گلزار کبھی نہیں مانے گا۔" علی نے اپنی طرف سے ہاں کا کہہ دیا ساتھ ہی گلزار کا بھی بتایا۔ "وہ یہ میری ذمہ داری ہے۔ تو یہ رکھ کر آ، میں اسے بلاتا ہوں۔" مسعود اٹھتے ہوئے بولا۔ علی نے کتابیں سمیٹی اور اندر رکھنے چلا گیا۔

"گلزار یار! بہت بھوک لگی ہے۔ آؤ باہر سے کھانا کھاتے ہیں۔" مسعود، گلزار کے قریب آ کر بولا۔ "نہیں۔۔۔۔۔۔" گلزار نے نفی میں سر ہلایا۔ "یار آخری لیکچرز فری ہیں۔ آپ نے چلنا ہے؟" اس نے گلزار سے کہا اور ساتھ ہی شانزے سے بھی پوچھ لیا۔

"نہیں! میرے لیکچرز فری نہیں ہیں." اس نے ملائمت سے کہا۔ 

"پھر بھی نہیں۔" گلزار نے ذرا سختی سے کہا۔ 

"کیا ہے یار! میں بھوک سے مر رہا ہوں اور تجھے ذرا سی بھی پروا نہیں۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں لوگ بلوچ بے رحم اور ظالم ہوتے ہیں اور تو بھی تو بلوچ ہے۔" مسعود جو بھوک کی وجہ سے غصے میں تھا آخر گلزار پہ نکال کر چلا گیا۔ وہ یہ بات بھی جانتا تھا کہ علی گلزار کے بغیر نہیں جائے گا۔ "آپ بلوچ ہیں؟" شانزے جو حیران تھی، گلزار سے سوال کر گئی۔ 

"ہاں۔" گلزار نے مسکرا کر کہا۔ "اچھا میں چلتا ہوں، وہ واقعی بھوکا ہے اور مجھے پتا ہے علی بھی میرے بغیر اس کے ساتھ نہیں جائے گا۔" 

"لیکن۔۔۔۔۔۔۔" وہ جو جانے لگا تھا سن کر مڑا۔

شانزے پریشانی و حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

 "لیکن کیا؟" حیران و پریشان دیکھ کر گزار نے سوال کیا۔

"لیکن....... بلوچ تو....... بے وفا ہوتے ہیں۔" اٹکتے ہوئے آخر اس نے پریشان ہو کر کہا۔

"بے شک۔۔۔۔۔" گلزار مسکرایا اور جھٹ سے جواب دیا۔ شانزے کی حیرانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ یہ دیکھ کر گلزار کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"بے شک۔۔۔۔۔۔ بلوچ بے وفا ہوتے ہیں مگر۔۔۔۔۔ جس سے وفا کرتے ہیں زندگی بھر ساتھ نبھاتے ہیں، مرتے دم تک۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ مڑا اور آگے بڑھ گیا۔ شانزے کو ڈھیروں سکون میسر آیا۔ لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگی جس نے نگاہوں سے اوجھل ہونے سے پہلے ہاتھ ہلایا تھا۔

________________________________________________

"یار! کتنے مزے ہیں دوستی کے بھی، ویسے بھی کپتان میرا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ رشتہ دار بھی ہے، یہ سب اسی کی وجہ سے مل رہا ہے، سبھی فری میں اور وہ بھی اتنے پروٹوکول کے ساتھ۔" خالد جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اٹھا تھا کھانا کھاتے ہوئے بولا۔ ضحی اس کی بات سن کر رکا اور غصے سے اسے گھورا ہاتھ میں پولیس کی یونیفارم اٹھائے، وہ واقعی اس کی باتیں سن سن کر تنگ آ گیا تھا۔ خالد نے جھٹ سے اس کی تصویر لے لی۔

"بڑا ہی پیارا لگ رہا ہے دیکھ تو۔" اس نے تصویر سامنے کی جبکہ ضحیٰ غصے سے گھورتا آگے بڑھ گیا۔ دونوں ایک ہی روم میں تھے جبکہ باقی ٹیم دوسرے کمروں میں تھی۔ وہ یونیفارم رکھ کر واپس مڑا ہی تھا جبھی کپتان اندر داخل ہوا۔ پریشانی میں خالد سے گویا ہوا:

"خالد ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔" خالد چپ ہی رہا۔ تبھی وہ پریشانی سے دوبارہ بولا:

"وہ ٹونی کی ٹانگ کا مسئلہ ہے، کبھی کبھار وہ بہت درد کرنے لگتی ہے، ویسے سارا سال ٹھیک ہی رہتی ہے مگر دو دن کوئی بھی ہوں چاہے سردیوں کے یا گرمیوں کے درد کرتی ہے۔ تمہیں پتا تو ہے ہمارے پاس دو ہی باؤلرز ہیں اور اچھا کھیلنے والا وہی ٹوٹی ہے۔ وہ اب زیادہ دیر نہیں کھیل سکے گا۔۔۔۔۔۔ اور دوسرا ہے بھی تھوڑا ۔۔۔۔۔۔۔، اب میں کیا کروں؟ دوسرا کسی بھی باؤلر کو بلوا بھی نہیں سکتے ٹائم بہت کم رہ گیا ہے، اب تو ہارنے کا پکا چانس ہے۔" وہ واقعی پریشان تھا اور ہمت ہار چکا تھا۔ پریشان سوچتی نظریں خالد پر تھی۔ ضحیٰ بھی اس کی باتیں سن کے پریشان ہو گیا۔ خالد پریشانی میں کپتان کو دیکھ رہا تھا۔ تبھی اس کے دماغ میں خیال آیا تو وہ مطمئن ہو کر مسکرایا۔

"یہ ضحیٰ ہے نا۔۔۔۔۔ بیسٹ باؤلر ہے، سکول کی جس بھی ٹیم میں ہوتا تھا وہی ٹاپ کرتی تھی۔ اور ان شاء اللّٰہ پاکستان ضحیٰ کے  ہاتھوں ہی، بھارت سے جیتے گا۔" خالد نے ہاتھ سے ضحیٰ کی طرف اشارہ کیا اور ساتھ میں تعریف بھی کر دی کپتان نے ضحیٰ کو دیکھا جو کہ حیرت میں گھرا خالد کو دیکھ رہا تھا۔ آخر میں خالد کو دیکھتا‎ ہوا بولا: 

 "مجھے تم پر پورا اعتماد ہے تم درست ہی بتا رہے ہو گے، اوکے میں چلتا ہوں، میں اسے تھوڑی دیر میں بلاؤں گا۔" وہ ضحیٰ کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے خالد سے بولا اور باہر نکل گیا۔ ضحیٰ جو حیران کھڑا تھا جونہی اسے باہر جاتے دیکھا ہوش میں آیا۔

"یہ تو مجھے کس مصیبت میں پھنسا رہا ہے؟" وہ غصے سے کھا جانے والے لہجے میں بولا۔

" یار تو پہلے بھی تو کھیل چکا ہے سکول میں اور تو جس بھی چیز میں ہاتھ ڈالتا ہے وہ کامیاب ہو جاتی ہے۔"

"وہ سکول لیول تھا خالد!.... ہار بھی جاتا تو مسئلہ نہیں تھا، اب دو ممالک کی بات ہے اور وہ بھی بھارت اور پاکستان، اگر پاکستان ہار گیا تو سارا ملبہ میرے باؤلر ہونے پر ڈالا جائے گا۔" وہ الجھن میں بول ہی گیا۔

"مطلب تو نہیں کھیلنا چاہتا یہ، ہیں؟" خالد نے اس کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

 "بلکل!" ضحیٰ نے فٹ سے جواب حاضر کیا۔

"ٹھیک ہے میں اس سے کہہ دیتا ہوں وہ انھی دو باؤلر سے کام چلا لیں گے ہمارا کیا جائے گا، ہم تو نہیں ہاریں گے، ہارے گا تو پاکستان۔۔۔۔" خالد گلوگیر لہجے میں بول رہا تھا ضحیٰ پریشان تھا وہ اسے جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتا تھا۔

"جو ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان، بھارت سے ہارے گا۔" آخر خالد کے آنسو باہر نکل ہی آئے وہ انھیں صاف کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا- ضحی کے دل پہ گھونسا لگا۔ اسے اپنے چاچا کی آواز سنائی دی جو کہ پاکستان کے ہارنے پہ بولے تھے اور اسی وجہ سے اس کی زندگی عجیب قسم کی گزری تھی، بچپنا چھوٹا تھا۔ چند لمحے وہیں کھڑا رہا پھر مصعم ارادہ کر کے باہر نکلا تاکہ خالد کو روک سکے۔

وہ خالد کو واپس لے آیا اور اسے چپ کروایا اور اسے اپنے جیتنے کی دعا کرنے کو کہا۔ اس نے ارادہ کیا تھا کہ وہ کھیلے گا اور بھارت کے ساتھ کھیل کر اور جیت کر دکھائے گا تاکہ چچا کا شکوہ بھی دور ہو جائے تبھی کپتان کا بلاوا آ گیا۔ دونوں نے مسکرا کر دیکھا اور ضحیٰ باہر نکل گیا۔

________________________________________________

"یہ تمہاری آنکھیں سرخ کیوں ہو رہی ہیں؟" گلزار پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔

"بخار ہے ہلکا سا بس......." وہ لاپروائی سے بولی مگر گلزار کے غصے کو دیکھ کر دوبارہ بولی:

"وہ اپنا خیال نہیں رکھتی نا اس وجہ سے۔" اس نے وجہ بتائی۔

"تم پھر خیال کیوں نہیں رکھتی اپنا؟ بیمار ہو جاؤ گی تو پڑھو گی کیسے؟ یہی ہلکا ہلکا بخار اگر بڑھ گیا تو بستر پہ پڑی رہنا مزے سے۔ پڑھائی کا نقصان بھی ہو گا اور جو طبیعت ناگوار ہوتی ہے وہ الگ۔" وہ واقعی فکر مند تھا۔

گلزار اب زیادہ تر وقت اس کے ساتھ گزارتا تھا، ہاں علی اور مسعود سے بھی بات ہو جاتی تھی مگر انھیں پڑھاتا اب وہ اس وقت تھا جب شانزے فارغ نہ ہوتی، ورنہ وہ اسی

کے ساتھ ساتھ رہتا، اس کے لیے فکر مند ہوتا اور اسی کی خوشی میں خوش رہتا تھا۔ ان کی دوستی کی خبر پورے کالج میں یوں پھیلی جیسے جنگل میں آگ لگ گئی ہو اور دونوں تھے بھی تو تمام کالج والوں سے منفرد۔ وہ گلزار جو لڑکیوں سے فارغ کوئی بات نہ کرتا تھا اور ان سے دور بھاگتا تھا اور شانزے تو تھی ہی منفرد نیچر کی۔ لڑکوں کو سیدھے منہ جواب نہ دیتی اور نہ ہی لڑکوں سے بات کرتی اس وجہ سے بھی کچھ، ان کی دوستی تمام ممبرز تک پہنچ گئی چاہے وہ طالب علم تھے یا اساتذہ۔ ہانیہ سے بھی شانزے کی دوستی بڑھ چکی تھی۔ ہانیہ بھی ان کی دوستی سے بے خبر نہ تھی اور وہ اس کے لیے خوش بھی بہت تھی۔

________________________________________________

"جی تو کیمرہ مین تصویریں بناؤ۔" کپتان نے مسکراتے ہوئے خالد سے کیا۔

"یار کپتان تیرے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ مجھ سے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہوا جاتا اور تیرے یہ چونچلے بند نہیں ہو رہے۔"  ٹونی جو ہنس مکھ تھا اب درد کی وجہ سے گرم ہو گیا۔

"بس سیدھا منہ، سمائل کے ساتھ۔۔۔۔" کپتان نے جوں تک نہ رینگنے دی کان پہ سب خوش تو تھے مگر ٹونی کی وجہ سے پریشان تھے جبکہ ضحیٰ الجھا الجھا سا تھا کہ آیا وہ کھیل بھی سکے گا یا نہیں۔

"یار یہ ضحیٰ کی تصویریں اس قدر پیاری کیوں آتی ہیں، پچھلی تصویروں میں بھی یہی نمایاں تھا اور اب کی بار بھی۔ ساتھ ساتھ اس پہ پولیس اور یہ، دونوں یونیفارم بھی جچتی ہیں۔۔۔۔۔ پاکستانی ٹیم بیفور پلیئنگ۔" اس نے بات کرنے کے ساتھ ساتھ تصویریں بھی اپ لوڈ کر دیں۔ اس کے بعد وہ ہوٹل سے باہر نکلے۔ ضحیٰ سبز یونیفارم میں بہت ہی پیارا لگ رہا تھا۔

"ارے کل والا جو پولیس کی یونیفارم میں تھا، آج وہ کھیلنے جا رہا ہے۔ دیکھو کتنا پیارا لگ رہا ہے۔" لڑکی نے جونہی اس کی تصویر دیکھی تو ساتھ بیٹھی لڑکیوں سے کہنے لگی۔  مصفا نے کل کی طرح آج بھی توجہ نہ دی جبکہ باقی جوش و خروش سے دیکھنے لگیں۔  

بھارتی ٹیم سب سے پہلے بیٹنگ کرنے کے لیے میدان میں اتری۔ پاکستانی ٹیم سے سب سے باؤلنگ کرانے کے لیے ٹونی کو بھیجا گیا۔ ضحیٰ پوری توجہ ٹونی پر دیے ہوئے تھا کہ وہ کس طرح سے باؤلنگ کرواتا ہے مگر وہ زیادہ دیر نہ کھیل سکا۔ اس کے بعد دوسرے باؤلر کو بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر تک تو وہ کھیلتا رہا مگر اس کی بھی ہمت اس وقت جواب دینے لگی جب اس کی ایک بال غلط ہو گئی۔ تبھی ضحیٰ کو بھیجا گیا۔ ضحیٰ نے پورے دل کے ساتھ پاکستان کے جیتنے کی دعا کی اور میدان میں اترا مگر اس کی پہلی بال ہی اسے دغا دے گئی۔

اس نے بھارتی ٹیم کو واضح اپنا مذاق اڑاتے دیکھا جو کہ ہنس اس بات پہ رہے تھے کہ تمام باؤلر ایک جیسے نکمے ہیں۔ جبکہ پاکستانی ٹیم کے چہرے فق سے ہو گئے، وہ اپنی ناکامی کا انتظار کرنے لگے تھے شاید۔ یہ سب دیکھ کر ضحیٰ کو اچھے بھلے موسم میں بھی پسینے چھوٹ گئے مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ باؤلنگ کرائی جو کہ اسے کامیاب کر گئی۔ یکے بعد دیگرے اس نے پوری بھارتی ہم کو آؤٹ کر دیا۔ ہر طرف سے نعرے بلند ہونے لگے۔ آخر میں اس نے پاکستان کو جتا ہی دیا اور جیت ہاتھوں میں پکڑا دی۔ بہت ہی مشکل مقابلہ تھا۔ بھارتی ٹیم اس بار بھی جیتنا چاہتی تھی اور اس نے ہاتھ پاؤں بھی بڑے مارے مگر آخر میں تین نمبروں سے رہ گئی۔ بھارتی ٹیم غصے سے اسے گھور رہی تھی، جانتے تھے اسی کی بدولت پاکستان ان سے جیت گیا ہے مگر ضحیٰ کو ذرا پروانہ تھی۔ وہ انھیں گھورتا دیکھ کر پورے دل سے مسکرایا اور یہ جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔ خالد نے میدان میں آ کر پاکستانی اور بھارتی دونوں ٹیموں کی تصویریں بنائیں۔

"اچھا ضحیٰ! ایک بات تو بتا۔۔۔۔ یہ تیرے چہرے یہ پیسنے کی بوندیں اس قدر ٹھنڈے موسم میں بار بار ہو رہی تھیں، بھلا کس وجہ سے؟" خالد نے ضحیٰ سے سوال پوچھا۔

"وہ اسے اپنے ہارنے کا یقین ہو گیا اس وقت، اس وجہ سے۔" ٹونی ہی تھا جو کہ حاضر جواب تھا۔ درد ابھی بھی تھا مگر وہ چپ کہاں رہتا تھا ہاں مگر دوسرا باؤلر تھوڑا چپ چپ رہتا تھا۔

"ہاں واقعی ٹھیک کہا، مجھے ابھی بھی یوں لگتا ہے جیسے خواب میں پاکستان جیتا ہو۔" وہ جو واپس ہوٹل جا رہے تھے راستے میں بے تکلف ہو کر باتیں کر رہے تھے۔

"نہیں نہیں! تو نے واقعی جیت پاکستان کی جھولی میں ڈالی ہے۔ پہلے تو ہمیں دیکھ کر لگا تھا کہ ابھی دوسرے لمحے تجھے آؤٹ کر دیا جائے گا مگر تو نے انھیں آؤٹ کر دیا۔" کپتان خوشی سے بولا۔

"ہاں! اسی وجہ سے ان کے چہرے لٹھے کی مانند سفید ہو گئے تھے جب تو نے پہلے بال کرائی۔" ٹونی نے ہنستے ہوئے ان کا مذاق اڑایا۔

"اچھا تو نوجوانو! اب کھانا تو کھا لیا ہے، کل کا کیا پروگرام ہے پھر؟ رکنا ہے یا کل ہی نکل جائیں گے ملتان سے۔" ہوٹل میں بیٹھ کے سب نے اکٹھا کھانا کھایا۔ اس کے بعد کپتان جو کہ عمر میں ان کے برابر تھا، ان سے سوال کر رہا تھا۔

"نہیں کل ذرا سیر کر لیں آپ لوگ اور میں بھی تھوڑا ٹھیک ہو جاؤں پھر چلیں گے اکٹھے." ٹونی حاضر تھا جواب دینے کے لیے۔

"نہیں! مجھے جانا ہوگا کل، یہی ایک دن کی چھٹی بھی کافی نقصان کرے گی میرا ہاں اگر آپ لوگ رکنا چاہیں تو رک جائیں۔" ضحیٰ نے اپنا جواز پیش کیا۔

"ہم لوگ بھی صبح جانا چاہتے ہیں۔" باقی ٹیم نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ ٹونی نے کندھے اچکائے۔

"اچھا وہ ذرا تصویریں تو دکھاؤ۔" کپتان کو جونہی یاد آیا، خالد سے بولا۔ سب نے ایک ساتھ مل کے تصویریں دیکھی۔ آخر میں کپتان نے تصویریں اپ لوڈ کرتے ہوئے لکھا: 

"پاکستانی ٹیم اینڈ بھارتی ٹیم آفٹر پلیئنگ کرکٹ میچ۔"

 "چلو اب آخری بار الوداع ہونے سے پہلے تصویر ہی بنوا لو میرے ساتھ یادگار کے طور پر۔" کپتان نے منت بھرے لہجے میں کہا۔

"یہ تو کرتا کیا رہا ہے پرسوں سے؟" بلے باز نے کہا جسے پیار سے سب راجہ کہتے رہے تھے۔

"پاکستانی عوام کو لمحہ لمحہ کی خبر دینے کے لیے تاکہ وہ بھی لطف اندوز ہو سکے۔ اچھا اب بناؤ تصویر۔" وہ پہلے راجہ کو جواب دے رہا تھا، پھر خالد سے بولا۔ تبھی ضحیٰ کا فون بجنے لگا۔ ضحیٰ نےفون اٹھایا اور کان سے لگا لیا۔ خالد نے تصویریں بنائیں۔ بالکل ویسی ہی تصویریں بن گئیں جیسی آتے وقت تھیں۔ ضحیٰ ویسے فون سنتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ بس یونیفارم کی جگہ سفید شرٹ اور خاکی پینٹ میں ملبوس تھا مگر پھر بھی ان سے الگ دکھائی دے رہا تھا۔

"پاکستانی ٹیم از گوئنگ ٹو ہوم۔" کپتان نے تصویریں اپ لوڈ کیں جبکہ باقی سوار ہونے کے لیے آگے بڑھ گئے۔

"ویسے تو یہ بتا آتے ہوئے بھی تجھے فون آیا تھا اور تو مسکرا رہا تھا اور جاتے ہوئے بھی، اس کی کیا وجہ ہے؟" خالد کو جو بات چبھ رہی تھی۔ آخر منہ پہ آ ہی گئی۔

"آتے ہوئے بابا کا فون تھا، میچ دیکھنے کا کہہ رہے تھے تمام کام چھوڑ کر اور جاتے ہوئے بھی انھی کا فون تھا مبارک باد دے رہے تھے۔" وہ سامنے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا تھا۔

"اچھا.......!" خالد نے اچھا کو لمبا کھینچا۔

"ہمم۔" وہ اسی مسکراہٹ سے بولا۔ پھر دونوں باقی لوگوں کو سوار ہوتا دیکھنے لگے۔

________________________________________________

شانزے جو ابھی ابھی کالج کی حدود سے باہر ہی نکلی تھی، کسی نے اسے گاڑی کے اندر دھکیل دیا. اس نے مزاحمت کرنی چاہیے مگر ساتھ بیٹھے شخص نے اسی کے سر سے گن لگادی۔ تمام مزاحمت وہیں دم توڑ گئی۔

اسے ادھیڑ عمر شخص کے سامنے لایا گیا۔ بارعب شخصیت نے سوچتی نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔ شانزے غصے سے اسے گھور رہی تھی۔ وہ معمول کے مطابق سیاہ حجاب، سیاہ عبایا اور کندھے پر سیاہ بیگ ڈالے کھڑی تھی۔ آخر اس کے غصے کا پیمانہ لبریز ہو ہی گیا اور سوال پوچھ لیا۔

"اگر آپ کا جائزہ پورا ہو چکا ہو تو بتا دیں کہ کس لیے لایا گیا ہے مجھے؟" 

"ہمم۔۔۔۔۔ گڈ کو ئیسچن۔۔۔۔۔۔" اگلے پر اس کے سوال نے گہرا اثر ڈالا۔

"میں نے دراصل پوچھنا یہ تھا کہ......" وہ لخطہ بھر کو رکا۔ "تم میرے بیٹے کے پیچھے کیوں پڑی ہوئی ہو؟"

"کون سے بیٹے؟" وہ سوچتے ہوئے بولی۔

"زیادہ انجان بننے کی ضرورت نہیں، گلزار کی بات کر رہا ہوں۔ وہ میرا بیٹا ہے۔" اس نے ذرا سی سختی کی۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ آگے کون ہے، شانزے اقبال پر اس کی سختی نے بالکل اثر نہ کیا اور نہ ہی وہ اس بات سے ڈری کہ اس کے گارڈز پیچھے کھڑے ہیں۔ 

"اچھا........!" وہ طنزاً بولی۔ 

"تو آپ نے اپنی طاقت کی جگہ اگر دماغ کا استعمال زیادہ کیا ہوتا تو آپ کو پتا چل جاتا کہ نہ تو میں اس کے پیچھے پڑی ہوں اور نہ ہی وہ۔" وہ غصے سے وه اسے سنا گئی۔

"مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تم جیسی مڈل کلاس لڑکیاں، امیر لڑکوں کو دیکھ کر انھیں اپنے جال میں پھنسا لیتی ہیں۔"

"ہونہہ! مڈل کلاس کا ثبوت تو آپ نے دیا ہے مجھے اس طرح سے اٹھوا کے، اگر اچھی فیملی سے تعلق ہوتا تو مجھے بلوا لیتے اور میں آپ کی بات سننےضرور آتی اور نہیں تو گلزار کے والد ہونے کی وجہ سے، مگر نہیں۔۔۔" وہ شاید غصے میں اس وجہ سے تھی کیونکہ اسے اٹھوایا گیا تھا. اگلا غصے کو پیتا رہا۔ چند لمحے شانزے اسے غصے سے گھورتی رہی، جانتی تھی وہ حق پہ ہے۔

"میں آپ کو تین دن کی مہلت دیتی ہوں آپ اسے خوش رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ ان تین دنوں میں، میں اس سے بلکل نہیں ملوں گی مگر چوتھا دن میرا ہو گا-"

وہ جو اسے مہلت دینے والا تھا، شانزے نے اسے ہی تین دن کی مہلت دے دی۔ وہ واپس مڑی اور قدم باہر کو بڑھائے لیکن پھر سے واپس مڑ کر بولی۔

"ویسے ہمارے درمیان دوستی جیسے پاکیزہ رشتے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔" پھر وہ باہر نکلتی چلی گئی۔

"میڈم آئیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔" ڈرائیور جو صاحب کے اشارے پہ آیا تھا، عاجزی سے بولا۔

"وہ اٹھوا سکتے ہیں مگر میں جاؤں گی خود سے، آپ کو تکلف کرنے کی ضرورت نہیں۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ باہر نکل گئی۔

"تم ذرا اس کی فیملی بیک گراؤنڈ کا پتا کر کے دو اور ساتھ ہی اس کے کردار کا بھی۔" اس نے ساتھ کھڑے آدمی سے کہا۔

"جی صاحب!" اس نے دو لفظی جواب دیا۔

"تمہارے پاس صرف چوبیس گھنٹے ہیں۔" اس نے سختی سے کہا۔

"اوکے صاحب!" وہ کہنے کے ساتھ ہی باہر نکل گیا۔

اگلے دن اسے تمام معلومات مل گئیں. گھر میں ٹوٹل چار فرد ہیں۔ والدین کے علاوہ ایک لڑکا اور ساتھ ہی یہ لڑکی جو کہ ابھی پڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ امیر گھرانہ تھا اور ان سے بھی کافی زیادہ امیر ہیں۔ وہ جو اسے اپنے سےکمتر سمجھے ہوئے تھا یہ سن کر حیران ہوا۔ اسے اپنے فعل پر شرمندگی ہوئی مگر اب وہ شرمندگی کا مداوا کرنا چاہتا تھا۔

________________________________________________

"آپ یہاں!" ضحیٰ جو ٹیبل کے پاس آن کھڑا ہوا تھا اسے دیکھ کر ایک لڑکی حیرانی سے بولی اور یہ وہی لڑکی تھی جو اس دن اس کو ملنے کے لیے کھڑی ہوئی تھی مگر اسے غصے میں دیکھ کر بیٹھ گئی تھی۔

"مصفا! آپ میری بات سنیں۔" ضحیٰ نے اس پہ توجہ نہ دی اور مصفا سے کہتے ہوئے کونے والی میز کی طرف بڑھا۔ مصفا نے جونہی اس کی آواز سنی کھڑی ہوئی اور اس طرف بڑھ گئی۔ ضحیٰ نے ویٹر کو بلا کر دو چائے لانے کو کہا۔ مصفا کے بیٹھتے ہی چائے آ گئی۔ ضحیٰ نے چائے پینے کا اشارہ کیا۔ مصفا نے کچھ کہے بغیر چائے اٹھائی۔ ضحیٰ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ چند گھونٹ بھر کر اس نے چائے ٹیبل پر رکھی اور موبائل کھولتے ہوئے بولا:

"وہ چند تصویریں دکھانی تھی آپ کو اور ساتھ ہی کل کی رپوٹ بھی لینی تھی۔" مصفا کپ اٹھائے اس کی بات سنتی رہی۔

"دیکھیں اس میں آپ کو کوئی قابل اعتراض چیز لگے تو بتا دیں۔" اس نے موبائل اسے تھماتے ہوئے کہا۔ وہ ایک ایک تصویر کو غور سے دیکھنے لگی۔ آخر میں اس نے اس چیز کی نشاندہی کر دی۔ دونوں میں وہ ایک جیسی شکل کی حامل تھی۔

"اس تصویر میں تھوڑی سی۔۔۔۔۔" وہ آنکھوں کو ذرا سا سکیڑ کر بولی۔ ضحیٰ نے اس سے موبائل لے کر خود غور سے دیکھا۔ اسے بھی وہ نظر آ ہی گیا مگر واضح سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ 

"اوکے تھینکس، میں چلتا ہوں پھر۔" وہ اٹھتے ہوئے مسکرا کر بولا۔ مصفا نے چائے کو دیکھا جو کہ ویسی ہی پڑی تھی۔ اس نے خود بھی چائے کو وہیں چھوڑا اور تیزی سے اس ٹیبل کی طرف گئی جہاں پہلے بیٹھی تھیں۔

"مجھے نکلنا ہوگا۔" وہ تیزی سے گاڑی کی چابی اٹھاتی ہوئی، ان سے معذرت خواہانہ لہجے میں گویا ہوئی۔ پھر تیزی سے باہر نکل گئی۔ وہ ضحیٰ کا پیچھا کر رہی تھی۔ وه گھر سے تھوڑا فاصلے پہ رک گیا تھا۔ وہ بھی وہیں اس سے تھوڑے فاصلے پہ رک گئی۔ وہ اس پہ نظر رکھے بیٹھی تھی۔ جبھی اس کا فون بجا، کوئی انجان نمبر تھا۔ اس نے فون کان سے لگایا۔

"مصفا میڈم! اگر یہاں تک آ ہی گئی ہیں تو تھوڑی مدد ہی کر دیں۔" آگے سے آواز آئی۔ اس نے ضحیٰ کی طرف دیکھا جو کہ کان سے فون لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے بعد اس نے فون

جیب میں ڈالا اور بائیک سے اترا۔ مصفا بھی اتری۔ ضحیٰ اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ مصفا، ضحیٰ کی طرف بڑھنے لگی۔

________________________________________________

"یار یہ چوتھا دن ہے اور شانزے بلکل بھی نظر نہیں آئی کیا چھٹی پہ ہے؟" گلزار واقعی اس کے لیے پریشان تھا۔ علی اور مسعود سے پوچھ رہا تھا۔

"نہیں تو، بس آج کل لیٹ آ رہی ہے۔" مسعود نے جواب دیا۔

"لیکن پھر بھی ایک جھلک تک نہیں دیکھی میں نے کیا جلدی جاتی ہے؟" وہ پھر سے پریشانی میں بولا۔ 

"نہیں، چھٹی ٹائم ہی جاتی ہے، ہاں وہ ہانیہ بتا رہی تھی کہ وہ فارغ وقت کامن روم میں گزارتی ہے۔" دوسری بار بھی مسعود ہی بولا- گلزار سن کر اور پریشان ہو گیا۔ یہ تین دن اس نے کس قدر مشکل سے کاٹے تھے وہ اور اس کا خدا جانتا تھا۔ شانزے واقعی اس سے تین دن نہیں ملی تھی۔ تبھی شانزے کالج کے گیٹ سے آتی نظر آئی۔ اس نے تینوں کو ساتھ کھڑے دیکھا تو مسکراتے ہوئے ان کی طرف بڑھی۔

"یہ تم تین دن کہاں غائب رہی ہو؟" گلزار اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی بول پڑا۔ 

"تم نے مجھے مس کیا؟" وہ مسکراتے ہوئے سوال کر گئی. "ہاں بہت!" بے ساختہ اس کے لبوں سے نکلا۔

 "اچھا میں، یہ تم لوگوں کے کارڈز لائی تھی۔" وہ چند لمحے خاموش اسے دیکھتی رہی پھر بیگ کھول کر کارڈز نکالنے لگی۔ تین انھیں ایک ایک کر کے دیے اور باقی ایک دوبارہ سے بیگ میں ڈالا۔ وہ کارڈز پڑھنے لگے دلہا کا لکھا گیا نام "عاطف علوی۔"

"کس کی شادی ہو رہی ہے اور کس کے ساتھ؟" مسعود پڑھنے کے باوجود بھی پوچھ گیا۔

"میں نے سر سے دو دن کی چھٹی لے لی۔ پرسوں ہی منگنی ہے عافی کی۔" وہ خوشی سے بولی۔ اسے خوش دیکھ کر گلزار بھی مسکرا دیا۔

 "دلہن کون ہے؟" مسعود ایک بار پر سوال کر گیا۔ 

"شانزے اقبال اور کون۔" شانزے نے فخر سے کہا۔ 

"اچھا میں یہ ہانیہ کو دے دوں اوکے؟" وہ تیزی سے بولتی آگے بڑھ گئی جبکہ گلزار وہیں جم سا گیا۔ مسعود اور علی نے اسے دیکھا تو علی بولا:

"ابھی تو منگنی ہو رہی ہے تو اسے روک لے۔" 

"نہیں! دیکھا نہیں! وہ کتنی خوش ہے۔"  وہ بول تو گیا مگر آنسوؤں نے جواب دے دیا اور آنکھوں سے باہر نکل آئے۔

"مجھے امید تھی کہ تم لوگ نہیں آؤ گے۔" شانزے سجی سنوری گلابی فراک میں بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ ہانیہ اور گلزار ہی آئے تھے۔ ان کے علاوہ اور کوئی نہ آیا تھا۔ علی اور مسعود نے صاف انکار کر دیا تھا آنے سے۔ گلزار مسکرایا جبکہ دل رو رہا تھا۔ آنکھیں ہلکی سی سرخ تھیں۔ 

"اچھا آپ لوگ بیٹھیں میں کچھ کھانے کا کہہ کر آتی ہوں، ابھی کافی دیر ہے۔ بابا تو منگنی کا کہہ رہے تھے مگر میں نے ڈائریکٹ نکاح کا بولا ہے کیا پتا عافی کا؟، اسی وجہ سے لیٹ ہو گیا۔" وہ ان کو لیٹ ہونے کی وضاحت دیتی آگے بڑھ گئی۔

 "ہے ویسے یہ عافی لکی اتنی فرمانبردار اور اتنی معصوم لڑکی مل رہی ہے اسے۔" دو لڑکیاں آپس میں بولتی جا رہی تھی۔ گلزار ان کی باتیں سن کر خود کو کنڑول نہ کر سکا اور آنسو رواں ہوگئے۔ تبھی شانزے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑے ان سے باتیں کرتے آتے دکھائی دی۔ گلزار نے جلدی پہلے آنکھیں صاف کیں۔ شانزے نے دونوں کا اپنے باپ سے تعارف کروایا۔ تبھی ہانیہ کا فون بجا۔ اس نے بابا کا فون کہہ کر اٹھایا۔ "اوکے!" کافی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا، فون بند کرنے کے بعد اس نے معذرت خواہانہ لیے میں کہا۔

"شانزے بابا کو مجھ سے کام ہے مجھے جانا ہوگا، پھر آ جاؤں گی۔ اچھا گلزار تم کچھ کر لینا سواری کا گاڑی لے کر جا رہی ہوں۔" وہ شانزے کے بعد گلزار سے بولتی باہر نکل گئی۔

 "گلزار بیٹا تم ٹھیک تو ہو؟" اقبال علوی جو کب سے اسے نوٹ کر رہے تھے آخر قریب آ کر بولے۔ شانزے کبھی ادھر جا رہی تھی تو کبھی ادھر۔ وہ وہیں بیٹھا آنسو ضبط کیے اسے دیکھ رہا تھا۔

 "وہ سر میں درد ہے تھوڑا۔" وہ اقبال کو جواب دیتے ہوئے بولا۔

"تھوڑا نہیں بہت، اچھا آؤ تم ٹیبلیٹ لے کے سو جاؤ تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گا۔" وہ اس کو اٹھا لے گیا اور زبردستی اسے سلا دیا۔

"اچھا تو مسٹر صاحب یہاں ہیں، میں بھی کہوں شاید چلے گئے۔" شانزے جو اپنے کمرے میں نکاح کے بعد آئی تھی اسے دیکھتے ہوئے خود سے بولی۔ پھر وہ باہر چلی گئی۔ وہ صحن میں تھی جب گلزار اٹھ کر باہر آیا۔ رات ہو رہی تھی۔ وہ گلزار کو دیکھ کر مسکرائی۔ وہ ابھی بھی اسی حلیے میں تھی جیسے صبح تھی۔ تبھی عافی بھی صحن میں آیا۔  "عافی! تم یوں کرو گلزار کو تو چھوڑ آؤ۔" وہ عافی کو دیکھ کر بولی۔

"لڑکی کم از کم نکاح والے دن تو بخش دو۔" وہ جو تھکا ہوا تھا، شانزے سے بولا۔

"بس تم چھوڑ کر آ رہے ہو، ورنہ کان سے پکڑ کر لے جاؤں گی۔" 

"اوکے، جاتا ہوں۔" وہ ڈھیلے انداز میں بولا اور باہر نکل گیا۔

"یہ تم کہاں جا رہی ہو؟" وہ شانزے کو بھی گلزار کے ساتھ آتے دیکھ کر بولا۔

"آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں نے دو دن کی چھٹی لی تھی جو کہ ختم ہو چکی ہیں اور کل کالج جانا ہے تو اس وجہ سے دونوں کو چھوڑو گے۔" وہ اس سے بولتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گلزار، عافی کے ساتھ آگے بیٹھا جبکہ شانزے پیچھے۔ سارا راستہ وہ چہکتی رہی۔ 

________________________________________________

ضحیٰ اور مصفا دونوں احمد کے گھر کے سامنے کھڑے تھے۔ مصفا غصے اور شرمندگی میں تھی۔ ضحیٰ اس کی حالت کو دیکھ کر محفوظ ہو رہا تھا۔ لبوں پہ دھیمی مسکراہٹ تھی۔ مصفا نے نظر اٹھا کر ضحیٰ کو دیکھا جو کہ دھیمی مسکراہٹ لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مصفا چڑ ہی گئی اور واپس مڑ کر جانے ہی لگی تھی، ضحیٰ نے جلدی سے اس کا بازو پکڑا۔ اس نے غصے سے مڑ کر اسے دیکھا تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ ضحیٰ نے جلدی سے مصفا کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ دروازہ کھولنے والی احمد کی والدہ تھی۔ وہ انھیں دیکھ کر مسکرائی اور بولی:

"آؤ بیٹا! اندر آ جاؤ۔" ضحیٰ نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا۔ مصفا ابھی بھی باہر ٹھہری ہوئی تھی۔

"تم بھی آ جاؤ۔" اسی عورت نے دوبارہ کہا۔ وہ غصے سے ضحیٰ کو دیکھتی اندر داخل ہوئی جو کہ آگے جا رہا تھا۔

"یہ کون ہے بیٹا؟" اسی عورت نے ضحیٰ سے پوچھا۔ مصفا سمجھی کہ یہ ضحیٰ کا گھر ہے۔

"میرے ساتھ کام کرتی ہے۔ اچھا میں پانی پی کر آتا ہوں۔" وہ اٹھتے ہوئے بولا۔

"میں لے آتی ہوں۔" وہ عورت اٹھی اور پانی لینے چلی گئی۔

"آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کو میری مدد کی ضرورت ہے۔ ایسی کون سی مدد کی ضرورت ہے آپ کو؟" وہ غصے سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"ہے نا بتاتا ہوں۔" وہ سنجیدگی سے سوچتے ہوئے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا۔

"یہ احمد کہاں ہے آنٹی؟" ضحیٰ نے پانی پی کر پوچھا۔ مصفا جو ابھی تک اس عورت کو اس کی ماں سمجھ رہی تھی، آنٹی کہنے پہ حیران ہوئی۔

"وہ کام سے کہیں گیا ہے کل تک آئے گا۔" اس نے جواب دیا۔ "اچھا!" ضحیٰ نے سوچتی نظروں سے گھر کا جائزہ لیا۔ کچھ دیر ان سے ادھر ادھر کی باتیں اور احمد کی باتیں کرنے کے بعد ضحیٰ نے کہا:

"ہم ذرا کمرے میں جا رہے ہیں، آپ نے کھانا پکا لیا؟"

"نہیں." اس نے یک لفظی جواب دیا۔

"آپ کھانا پکا لیں، ہم کھانا کھا کر جائیں گے، تب تک میں نے اسے کام سمجھانا تھا وہ سمجھا لوں۔" وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ وہ کھانا پکانے کچن میں چلی گئی۔ مصفا اور ضحیٰ، احمد کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ پہلے تو مصفا اس کمرے کو دیکھ کر حیران ہوئی کیونکہ وہی کمرہ تو تصویروں میں دیکھ کر آئی تھی۔ پھر ضحیٰ کے کہنے پر اس نے ایک ایک چیز کے تلاشنی لینی شروع کی۔ ضحیٰ  نے تب تک وائس ریکارڈر اور کیمرہ ایسی جگہ لگا دیا جہاں سے وہ تو پورے کمرے کو دیکھ سکتا تھا مگر کمرے کا مالک نہیں جان سکتا تھا کہ یہاں کوئی کیمرہ لگا ہے۔ تبھی مصفا نے پکارا۔

ضحیٰ نے مڑ کر اسے دیکھا۔ اسے اس کی مطلوبہ چیز مل چکی تھی۔ وہ مسکرایا، چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اس کی چند تصویریں بنائیں۔ اس کے بعد دونوں باہر نکل آئے۔ کھانا کھایا اور پھر دونوں اطہر کے گھر گئے وہاں کی تلاشی کی اور ساتھ ہی وہاں بھی کیمرہ اور وائس ریکارڈر لگایا۔ وہاں بھی انھیں مطلوبہ شے مل گئی۔ اس کی بھی تصویریں بنائیں۔ اس کے بعد دونوں گھر جانے کے لیے روانہ ہوئے۔

________________________________________________

"اسے کیا ہوا ہے؟" شانزے جو علی کے بلانے پر اس مکان پہ آئی تھی جو کہ تینوں نے مل کر لیا ہوا تھا اور پیپرز کی تیاری وہ وہیں کرتے تھے۔ وہاں جا کر جب گلزار کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھیں تو ان سے پریشان ہو کر دیکھا اور پوچھا۔ علی نے کندھے یوں اچکائے جیسے واقعی لا علم ہو۔ مسعود بھی خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ آخر شانزے نے پوچھ ہی لیا۔

"تمہیں کیا ہوا ہے؟" گلزار جو رو رو کر حلیہ بگاڑ بیٹھا تھا۔ اس کے یوں پوچھنے پر اس کی آنکھوں سے آنسو دوبارہ سے چھلک پڑے۔

 "روتے ہوئے بالکل بھی اچھے نہیں لگ رہے، اٹھو، چلو منہ دھو کر آؤ۔" گلزار نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا، نگاہوں میں عجیب بے بسی تھی۔ پھر موبائل کھولا جس پہ گانے کے بول سنائی دیے۔

زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو

جان لے کر کہو گے کہ جیتے رہو

یہی دو بول سن کر وہ تیزی سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔ تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ سب سے پہلے مسعود اٹھا اور باہر نکل گیا۔ اس کے بعد شانزے اٹھی اور گلزار کے ساتھ جا کر کھڑی ہوئی۔

"اچھا تم مجھے یہ بتاؤ تم نے کبھی مجھے پرپوز کیا؟ یا ہمارے درمیان اس قسم کی کوئی بات ہوئی؟" شانزے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ گلزار نے بس ایک دفعہ اسے دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگا۔

"اچھا! آؤ، میں نے تمہیں کچھ دکھانا ہے۔" وہ بولنے کے بعد اندر بڑھ گئی۔ وہ چند لمحے کھڑا وہیں سوچتا رہا پھر وہ بھی اندر چلا گیا۔ وہ خوشی خوشی انھیں تصویریں دکھا رہی تھی۔ گلزار بے دلی سے دیکھ رہا تھا۔ آخری تصویریں دیکھ کر وہ تھوڑا حیران ہوا۔ ان آخری تصویروں میں شانزے کی بجائے ایک اور لڑکی نکاح نامے پر سائن کر رہی تھی۔ شانزے نے اسے حیران دیکھ کر کہا:

"یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ اس وجہ سے میں اتنی خوش تھی۔ یہ عفرا ہے، پھپھو کی بیٹی ہے۔ عافی کو پسند تھی، اس وجہ سے میں نے ابو، امی اور پھپھو کو اس رشتے کے لیے منایا۔"

"پھر وہ سب ڈرامہ کری ایٹ کرنے کا کیا مقصد تھا۔" گلزار نے حیران ہو کر پوچھا۔ 

"جسٹ آ جوک یار۔" وہ کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولی۔ گلزار کی سرخ آنکھیں حیرانی پھیل گئیں۔

"یہ مذاق تھا تمہارا۔"

"ہاں۔" اس نے با مشکل ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔ 

"عافی میرا سگا بھائی ہے۔ دراصل میں دیکھ رہی تھی کہ تم اس رشتے کو رکوانے کی کوشش کرتے یا نہیں۔ مگر تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔" وہ اس کی بات سن کر خوش ہوا اور ساتھ ہی جواب دینا بھی ضروری سمجھا۔

"تم خوش تھی اس وجہ سے کچھ نہیں کیا۔ لیکن اب تم جوابی وار کے لیے بھی تیار رہنا۔ اوکے؟" وہ مسکراتے ہوئے بول رہا تھا۔ شانزے نے یوں کندھے اچکائے جیسے کوئی مسئلہ نہیں کہا ہو۔ چاروں اب سکون سے بیٹھے باتیں کرنے لگے۔

گلزار کا والد جو یہ سن کر پریشان ہو گیا تھا کہ وہ نکاح کر رہی ہے، اب خوش ہو گیا جب اسے پتا چلا کہ نکاح اس کے بھائی نے کیا تھا۔ وہ اسی وقت ہی تیاریاں کرنے لگ گیا۔ پھر وہ رشتہ لے کر شانزے کے گھر پہنچ گیا۔ شانزے کے والد نے ہاں کر دی اور چند دنوں بعد ان دونوں کا نکاح کروا دیا۔ دونوں ابھی پڑھ بھی رہے تھے اور دونوں گھروں میں آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔

________________________________________________ 

ضحیٰ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گلاس منہ سے لگایا۔ آج وہ پارٹی میں آیا ہوا تھا۔ چودھری کے بے حد اصرار پہ وہ آ تو گیا مگر دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے جیب سے موبائل

نکالا اور کھولنے لگا تبھی کوئی اس سے زور سے آن ٹکرایا اس نے غصے سے سر اٹھایا مگر سامنے مصفا کو دیکھ کر حیران ہوا جو کہ شرمندہ ہوئی کھڑی تھی۔ پیچھے آتی لڑکی بھی رک گئی۔ ضحیٰ اسے اس طرح دیکھ کر مسکرایا پتہ نہیں کیوں اس کے لب خودبخود  مسکرا اٹھتے تھے جب بھی وہ مصفا کو اس طرح شرمندہ دیکھتا تھا۔ مصفا نے اسے مسکراتے دیکھا تو غصے سے اسے دیکھا اور واپس مڑی۔

"لے پکڑ! مری جا رہی تھی نہ اس کے لیے۔" اس نے پیچھے کھڑی لڑکی کے ہاتھ میں کچھ پکڑایا اور غصے سے بولتی چل دی۔ وہ لڑکی مسکرائی۔ ضحیٰ نے مسکراتے ہوئے اسے جاتے دیکھا اور پھر موبائل اٹھانے کے لیے جھکا۔ پارٹی کے بعد وہ گھر آیا۔ وہ سونے ہی لگا تھا جب اس کا فون بجنے لگا۔ فون اس کے باپ کا تھا۔ چند ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ بولا: "تجھے کوئی لڑکی ابھی تک پسند نہیں آئی؟"

"آ گئی ہے۔" وہ مصفا کو ذہن میں رکھتے ہوئے بولا۔ لبوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔

"اچھا! تو پھر ہم لوگ کل آ رہے ہیں۔" خوشی سے بھر پور آواز آئی۔

"آ جائیں۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

دوسرے دن وہ مصفا کے گھر انھیں لے کر گیا۔ آج وہ مکمل سیاہ سوٹ میں تھی۔ ضحیٰ اسے دیکھ کر مسکرایا۔ اس کے والدین نے اس سے رشتے کی بات کی کیونکہ وہ اکیلی ہی رہتی تھی، والدین حیات نہ تھے اور آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ مصفا اس کو پہلے تو پسند نہ کرتی تھی مگر جب سے اس نے مجرموں تک رسائی حاصل کی تھی اور ان تک وه پہنچ گیا تھا نہ صرف یہ بلکہ مکمل طور ثبوت بھی حاصل کر لیے تھے، اس دن سے وہ اس کو پسند کرنے لگی تھی۔ اس نے ہاں میں جواب دے دیا۔

"ویسے مجھے پکا یقین تھا کہ تم نا کر دو گی مگر ہاں کر کے تم نے مجھے خوشی عطا کی ہے۔" وہ آپ سے تم کہہ گیا۔ وہ واقعی خوش ہوا تھا۔

"میں ابھی بھی ناں کر سکتی ہوں اگر آپ نے تنگ کیا تو۔"

"نہیں نہیں! میں نہیں کروں گا۔" اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کان پکڑ لیے۔ مصفا اسے اس طرح کرتے دیکھ کر زور سے ہنسی۔

"ہنستے ہوئے بہت پیاری لگتی ہو۔" وہ تعریف کر کے آگے بڑھ گیا جبکہ مصفا سکون سے مسکرا دی۔ اسے اس بات پر یقین ہو گیا کہ آگے زندگی بہترین گزرے گی۔

________________________________________________

آج شانزے اپنے گھر واپس جا رہی تھی تو گلزار نے کہا کہ وہ اسے چھوڑ آتا ہے۔ دونوں ڈاکٹر بن چکے تھے۔ دونوں کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھی۔ دو ہفتے بعد رخصتی تھی۔ گلزار کانوں میں ہینڈ فری لگائے بائیک چلا رہا تھا اور ساتھ ساتھ شانزے سے بھی ایک آدھ بات کر لیتا تھا۔ دونوں خوشی سے جا رہے تھے اس بات سے بے خبر کہ آگے مصیبت ان کا انتظار کر رہی ہے۔

"مجھے یہ رسم بالکل بھی پسند نہیں کہ شادی سے پہلے دلہا، دلہن کو نہیں دیکھے گا۔ دلہن پہ رنگت نہیں آتی۔"

"اچھا۔۔۔۔۔۔!" وہ اچھا کو لمبا کرتی مسکرائی۔ تبھی آگے سے آتی بائیک نے زور دار ٹکر ماری۔ غلطی سراسر آگے والے کی تھی۔ دونوں بائیک سے گرے۔ لمحوں میں ہے بہت سارا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ شانزے مکمل طور پر بچ گئی اور آگے والا بھی مکمل طور پر بچ گیا مگر گلزار کو ٹانگوں پر چوٹ آئی تھی۔ خون باہر نکل آیا تھا۔ شانزے پریشان کھڑی تھی۔ تبھی ہجوم سے آواز آئی۔

"یہ آج کل کے لڑکے بھی گانے بجاتے ہوئے، کانوں میں ہینڈ فری لگا کے آگے کچھ نہیں دیکھتے۔" شانزے نے غصے سے اس طرف دیکھا اور پھر موبائل سے ہینڈ فری نکالی۔ گلزار بے ہوش ہو گیا تھا۔ تبھی موبائل سے "سورۃ رحمن" پڑھتے قاری کی آواز آئی۔ تمام مجمے کی نظریں جھک گئیں۔

وہ ہسپتال میں ادھر ادھر ٹہلتی دعائیں کر رہی تھی، تبھی ڈاکٹر باہر آیا وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔ نظروں ہی نظروں میں ڈاکٹر سے سوال کیا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا:

"مریض ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔ اب وہ چل نہیں پائے گا۔" شانزے یہ سن کر ساکت ہو گئی۔ ڈاکٹر یہ کہہ کر چلا گیا۔ شانزے نے سب کو فون تو کر دیا تھا مگر ابھی تک کوئی نہ آیا تھا۔ وہ

سن ہوئی کھڑی تھی تبھی سب سے پہلے اسے علی اور مسعود آتے دکھائی دیے۔ اس نے انھیں روتے ہوئے ڈاکٹر کی بات بتائی۔ انھوں نے اسے چپ کروانے کی بہت کو شش کی مگر باوجود کوشش کے اس کے آنسو نہ رکے۔ تھوڑی دیر بعد علی اور مسعود نے اسے اندر بھیجا۔ بہت ضبط کر کے وہ اندر گئی مگر اسے بیڈ پہ لیٹے دیکھ کر ضبط کھو بیٹھی۔

"روتے ہوئے بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی۔" 

گلزار نے اسے روتے دیکھا تو بولا۔ بات سن کے شانزے اور زیادہ رو پڑی۔

"یار! میں تو تمہیں ہمت والی سمجھتا تھا۔۔۔۔۔ دیکھو میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔" اس نے ٹانگیں ہلائی۔ وہ روتے ہوئے حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔

"جسٹ آ جوک یار!" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ وہ حیران ہوئی اور ساتھ ہی غصے سے آگے بڑھی۔ اس کے تیور دیکھ کر گلزار جلدی سے بیڈ سے اترا اور باہر کی طرف  بھاگا۔ گلزار کو آگے بھاگتے دیکھ کر اور شانزے کو پیچھے دیکھ کر علی اور مسعود حیران ہو گئے۔ گلزار نے انھیں مسکراتے ہوئے تمام بات بتائی وہ بھی سنتے ہوئے شانزے کو دیکھنے لگے جو کہ غصے سے گلزار کو دیکھ رہی تھی۔

________________________________________________

شادی میں بھی اس نے اسے تنگ کرنا نہ چھوڑا ہانیہ کی بدولت وہ ہر رسم میں اس سے ملتا رہا تھا۔ کسی نہ کسی طرح سے وہ اس کمرے تک پہنچ جاتا تھا جہاں وہ ہوتی تھی۔ شادی کے بعد شانزے کے والد نے اسے وہ ہسپتال گفٹ کیا جو کہ دو گاؤں کے درمیان میں تھا۔ سر سبز اور شاداب باغ، پیچھے اس کو شاندار بنا رہا تھا اور چھوٹا سا ہسپتال بڑا ہی خوبصورت تھا۔ باہر دروازے کے اوپر لکھا گیا "شانزے گلزار ہسپتال" بڑا ہی پیارا لگ رہا تھا۔ دونوں نے مل کر اسے سجایا اور گلزار نے ہر کمرے میں ڈائری اور پن مہیا کرنے کے ساتھ مختلف قاری کی آواز میں کیسٹ بھی جمع کیں جو کہ وہ ہر مریض کے کمرے میں صبح کے وقت لگاتے تھے۔ انھوں نے زندگی لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے وقف کر دی۔

________________________________________________

ضحیٰ نے تمام مجرموں کو مصفا اور انور کے ساتھ کی وجہ سے پکڑ لیا تھا اور انھیں اس وجہ سے بہت زیادہ مبارکباد بھی ملی تھی۔ ضحیٰ نے اس بات کا بھی پتا لگا لیا تھا کہ انور پریشان کیوں تھا؟ اور جب بھی ان مجرموں تک پہنچتا تھا وہ اسے اس کی فیملی کی وجہ سے پریشان کرتے تھے۔ اس دن بھی یوں ہی ہوا تھا لیکن انھوں نے اس دن اس کا بیٹا اٹھا لیا اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر اس نے انھیں پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اسے مار سکتے ہیں۔ انھوں نے اس کا بیٹا صرف نے تین گھنٹے رکھا تھا۔ پھر جب انھوں نے انسپکٹر کے بارے میں سنا تو اس لڑکے کو بھی چھوڑ دیا تھا۔

ضحیٰ اب بھی مصفا کو وہ وقت یاد  دلاتا رہتا تھا جب اس نے مجرم کو پکڑنے کی بجائے اسے پکڑ لیا تھا۔ وہ آج بھی اسے وہی بات یاد دلا رہا تھا۔ وہ شرمندگی لیے ہوئے تھی جبکہ ضحیٰ مسکرا رہا تھا۔

"اسی وجہ سے بڑے بزرگ کہتے ہیں ہر سوراخ میں ہاتھ نہیں گھسا دیا کرتے، کسی کسی سوراخ میں سانپ بھی بیٹھا ہوتا ہے۔"

 "اگر آپ نے دوبارہ یہ بات کی نا تو میں واقعی ناراض ہو جاؤں گی۔" مصفا نے شرمندگی اور غصے سے کہا۔

"اوکے نہیں کروں گا مگر ایک شرط پہ۔۔۔۔" وہ آگے کو جھکا۔ اس نے ضحیٰ کو دیکھا جو کہ شرارت لیے مسکرا رہا تھا۔ "کیا؟" وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

"اگر تم یہاں کس کرو گی تو۔۔۔۔" وہ رخسار پہ انگلی رکھتے ہوئے بولا۔

"بڑے بے شرم ہو گئے ہیں آپ۔۔۔۔۔" اس کے چہرے پہ حیا کی سرخی دوڑ گئی۔ ضحیٰ کھلکھلا کر ہنسا۔

________________________________________________

ضحیٰ جو اکیلا کسی کام سے گاؤں گیا تھا، راستے میں گلزار کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔ گلزار اسے اپنے ہسپتال لے گیا۔ وہ جو ہر بار کامیابی کی دعا کرتا رہتا تھا اور پانچ وقت کی نماز پڑھتا تھا تھا اور ساتھ ساتھ قرآن بھی حفظ کر رکھا تھا اور ہر وقت پڑھتا رہتا تھا۔ کچھ عرصے سے وہ خدا کو بھول چکا تھا، وہاں جا کر وہ دوبارہ سے نماز پڑھ رہا تھا اور یہ سب اس کے خدا نے ہی اس کے لیے کروایا تھا۔ وہ صرف دو دن وہاں رکا، وہ چاہنے کے باوجود بھی وہاں نہیں رک سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے بیوی مصفا اس کے لیے پریشان ہوگی۔ وہ جب گھر میں گیا تو سر پر بندھی پٹی اور لنگڑاتے دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہو گئی۔ مگر ضحیٰ نے اسے تسلی دی اور اس کے بعد انھوں مل کر کھانا کھایا۔ دوسرے دن وہ یونیفارم میں سر پر پٹی باندھے پولیس اسٹیشن گیا، ساتھ مصفا بھی یونیفارم میں تھی۔ اس نے اطہر اور احمد سے ملنے کا سوچا اور ادھر چلا گیا۔

"کیسے ہو احمد؟" وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ احمد نے غصے سے اسے دیکھا لیکن چپ ہی رہا۔ غلطیوں کا اعتراف وہ کر چکا تھا اور اسی کی سزا بھی بھگت رہا تھا۔ وہ موبائل جیب سے نکالتے ہوئے بولا: 

"ویسے اس وڈیو کو دیکھ کر تم جان جاؤ گے کہ تم کسی طرح سے مجھے ثبوت فراہم کرتے ہو۔" اس نے وڈیو کھول کر دکھائی جس میں وہ فون کر رہا تھا اور اس وجہ سے ضحیٰ اس تک پہ پہنچ گیا تھا۔ احمد نے حیران سوالیہ نظروں سے ضحیٰ کو دیکھا۔

"تمہارے سوال کا جواب حاضر ہے کہ تمہیں آنٹی نے تمہارے کسی دوست کے آنے کا بتایا ہو گا دو بار۔" ضحیٰ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ 

"ڈیز لائیٹ؟" وہ سوچتے ہوئے بولا۔ 

"ہاں بلکل ٹھیک۔" ضحیٰ نے دھیرے سے سر ہلا کر کہا۔

"لیکن تمہارا نام تو ضحیٰ ہے۔" احمد نے حیرانی اور الجھن سے ضحیٰ کو دیکھا۔

"ارے بھولے بادشاہ! سوچ ذرا ڈیز لائٹ کا مطلب کیا ہے؟" وہ ہنستے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

"دن کی روشنی۔" اس نے جھٹ سے جواب دیا۔ 

"اور ضحیٰ کا مطلب ہے دن کی روشنی، بس تھوڑی سی چالاکی کی تھی بس۔" وہ اس سے ہنستے ہوئے بولا۔

"ویسے بہتر نہیں تھا کہ تم ہیروئن کی اسمگلنگ کی بجائے کوئی حیا والا کاروبار کر لیتے۔ آج کم از کم یوں جیل میں تو نہ ہوتے۔ نشہ آور ادویات فروخت کر کے اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر لی۔" ضحیٰ پر افسوس لہجے میں بولا۔ احمد کے چہرے پر ندامت دکھائی دی۔

"خیر میں تمہارے دوسرے پارٹنر سے مل لوں۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ آگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد وہ باقی لوگوں سے ملا۔

احمد اس پورے گینگ کو چلا رہا تھا۔ کوئی بھی ثبوت نہیں ملے تھے کبھی کسی کو لیکن ضحیٰ نے تمام ثبوتوں کے ساتھ اسے پکڑا۔ 

________________________________________________

ضحیٰ، مصفا کو لیے جا رہا تھا۔ دونوں خوشی خوشی باتیں کرتے جا رہے تھے۔ آخر اسے مختلف راستوں پہ جاتے دیکھ کر مصفا نے پوچھا:

"کہاں جا رہے ہم لوگ؟"

"شانزے گلزار ہسپتال۔" گلزار نے دل سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ دونوں ہسپتال پہنچتے ہی شانزے اور گلزار سے ملے۔ انھوں نے دونوں کا خوشدلی سے استقبال کیا اور انہیں شام میں پارٹی پر آنے کی ساتھ دعوت بھی دی۔ دونوں نے شام تک ان کے ساتھ وقت گزارا اور شام کو پارٹی اٹینڈ کی۔

"کم از کم لوگوں کے سامنے تو کچھ شرم کر لیا کریں." گلزار جو شانزے کو تکے جا رہا تھا آخر تنگ آ کر شانزے نے کہا۔

 "کیوں؟ لوگوں نے اپنی محبوب بیوی کو دیکھنے سے منع کیا ہے؟" گلزار نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ شانزے نے یوں ہاتھ ہلائے جیسے کہا ہو:

"آپ کا کچھ نہیں ہو سکتا۔" گلزار نے یوں آنکھیں پھیلائی جیسے بولا ہو۔ "اچھا؟"

شانزے نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔ گلزار یہ دیکھ کر زور سے ہنسا۔

________________________________________________

"ویسے میں تمہیں پہلی نظر میں پسند کر گیا تھا لیکن تم نے مجھے کب پسند کیا؟" ضحیٰ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

مصفا نے ایک بار اسے دیکھا لیکن جواب نہ دیا۔ ضحیٰ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔

"میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ اس دن جب تمہاری فرینڈز نے تمہیں میری میچ والی تصویریں دکھائیں۔۔۔۔۔ اس کے بعد جب پہلی بار تم نے میرا پیچھا کیا۔۔۔۔ پھر جب رشتہ لے کر میرے والدین تمہارے گھر آئے تو تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی۔ ہے نا؟"

"نہیں!" وہ شرماتے ہوئے بولی لیکن انداز اس کی نفی کر رہے تھے۔ ضحیٰ نے مسکراتے ہوئے سکون کا گہرا سانس لیا۔ 

The End.....

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dil Halke Se Dharky Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil Halke Se Dharky written by Rabia Rasheed. Dil Halke Se Dharke by Rabia Rasheed is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment