Pages

Thursday 18 July 2024

Yaqeen E Mohabbat By Mirha Shah New Complete Romantic Novel

 Yaqeen E Mohabbat  By Mirha Shah New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Yaqeen e Mohabbat By Mirha Shah Complete Romatic Novel 

Novel Name: Yaqeen E Mohabbat  

Writer Name: Mirha Shah

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

پ۔۔۔پانی"

ایک ب۔۔۔ بوند بس


وہ آنکھیں کھولنے کی ہمت جھٹا رہی تھی جو ناممکنات میں سے تھا

جانے کب سے تھی وہ یہاں اسے تو یاد بھی نا تھا پر اب وجود میں ہمت بلکل بھی نا تھی حلق خشک ہوتے کانٹے سے چھب رہے تھے


اے دے دے پانی تڑپ رہی ہے بےچاری"

وہ سامنے بیٹھے شخص سے بولا تھا

وہ سفید پاوڈر ناک سے سونگھتے مدہوش سا ہو رہا تھا

بڑا اڑیل گھوڑا اس کا باپ ثابت ہوا"

کیا تھا اپنی بیٹی کی جان بھی نہی پیاری"

کمرے کے اندر آنے والا شخص اس کے بکھرے حلیے پر ہوس بھری نظریں ڈالتے ان دونوں سے مخاطب ہوا تھا

وہ سن پا رہی تھی اب جیسے ہوش میں آ رہی تھی


بابا آج مجھے آپ لینے آئیں گے"

سب کے بابا آتے پر میرے بابا بزی ہی بہت ہیں"

وہ منہ بگاڑے بولی تھی

ایسا کرنے سے انہیں دانیہ (اپنی بیوی) کی یاد آئ تھی وہ ہو بہو بنی بنائ اپنی ماں کی کاربن کاپی تھی سرخ و سفید رنگت سیاہ بڑی آنکھیں جن پر گھنی سی پلکیں اسے مزید دلکش بناتی تھیں پر وہ اپنی ماں کی نسبت تھوڑی کمزور سی تھی یا اس پر پڑھائ کا برڈن ہی ایسا تھا


کہاں کھو گئے"

وہ سینڈوچ ان کے منہ میں ڈالتے بولی تھی


اوکے آج بابا اپنی بیٹی کو لینے آئیں گیں

آپ کا سیکنڈ ائیر کب سے سٹارٹ ہے اور پچھلے ائیر کا آپ نے مجھے رزلٹ بھی نہی بتایا اپنا"

وہ نوالہ حلق میں اتارتے بولے تھے


او ہو بابا ایگزیمز کے بعد ایگزیمز کی نو ڈسکشن

ایسے سوال نہی کرتے"

وہ اب خود نوالہ لیتے مسکرا رہی تھی


بہت تیز ہو گئیں ہیں آپ"

وہ جانتے تھے وہ ہمیشہ اچھے گریڈز لیتی ہے

افکورس ڈاکٹر بن رہی ہے آپ کی بیٹی"

وہ کھلکھلائ تھی

جسٹس زبیر شیرازی کی ساری دنیا اپنی بیٹی سے تھی

وہ کنگ ایڈورڈ کے باہر انتظار میں تھی کے آج ڈائیور کی جگہ آف ٹائم میں زبیر نے اسے پک کرنا تھا

جب دن دہاڑے گن پوائینٹ پر کوئ گاڑی اسے سب کے سامنے میڈکل کالج کے باہر سے دھڑلے سے اغوا کرتے لے جا چکی تھی

لوگ صرف خاموش تماشائ بنے دیکھتے رہے تھے پر کسی نے ہمت نا جھٹائ تھی


---------------------------------------------------


سر آپ کو کسی پر شک ہے"

انسوسٹیگیٹر ان کے گھر پر تھے


ان کی گردن جھکی سی تھی ایک باپ کی بے بسی تھی جوان جہان بیٹی کا غائب ہونا اب تو پورے چوبیس گھنٹے ہو گئے تھے


یہ بات شہر میں آگ کی طرح پھیلی تھی

وہ تو کڈنیپرز کے مطالبے کے انتظار میں تھے

پر نا کوئ فون نا کوئ مطالبہ تھا لہذا انہیں اب قانون کا سہارا لینا پڑا تھا


------------------------------------------------

وہ گھر میں بنی جم میں ٹریڈ مل پر مسلسل بھاگ رہا تھا

کسرتی وجود پسینے سے اب تر تھا

اس کی شفاف جلد پر پسینے کے قطرے واضع ہو رہے تھے

حیرت ہے بھئ تمہاری ایکسرسائز کا ٹائم عجیب ہی ہے"

رات کے پہر لوگ آرام کرتے ہیں

تم اس لمحے ایکسرسائز کرتے ہو"

وہ اب سپیڈ سلو کرتے ٹریڈ مل سے نیچے اترا تھا

پسینہ ٹاول سے صاف کرتے وہ پانی کی بوتل منہ سے لگاتے باقی منہ پر چھڑک چکا تھا

بریکنگ نیوز جسٹس زبیر شیرازی کی بیٹی دن دہاڑے میڈکل کالج کے باہر سے اغوا

زرائع کا کہنا ہے

یہ واقع جسٹس زبیر سے کوئ زاتی دشمنی کی بنا پر رونما ہوا

کڈنیپرز کی جانب سے ابھی کوئ مطالبہ نہی

مزید تفصیلات کے لیے جڑے رہیں


او مائے گوڈ تم نے نیوز سنی"

مجھے تو لگتا ہے یہ میر سبطین کے کیس کا بدلہ تھا

میر سبطین وفاقی وزیر جس کے بیٹے نے پچھلے دنوں روڈ بائیک پر جاتے دو لوگوں کا قتل عام کیا تھا اس کا کیس انہوں نے ہی ہینڈل کیا تھا

اور سزا کے طور پر پھانسی سنائ تھی جبکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پاور کی بنا پر ریمانڈ نوٹس پر آزاد گھوم رہا تھا وہ اس کا حوالہ دے گیا تھا


اسی لمحے اس کے فون پر بیل ہوئ تھی


یس غازیان نیازی سپیکنگ"

بھاری آواز سے وہ گویا ہوا تھا


جی سر

آئ ول کم"

ماتھے پر دو بل نمودار ہوئے تھے


یہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی اس کی ساری انفارمیشن نکالو"

اردگرد ایریے سے اس جگہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکال کر دس منٹ تک مجھے چاہیے"

ہو سکے تو گاڑی کا نمبر بھی پتہ کرنے کی کوشش کرو

اوکے بوس"

ہری اپ وہ سنجیدہ سا گویا ہوا تھا

چند لمحوں بعد وہ گیلے بالوں سے فریش سا فارمل ڈریس میں تھا

جب کے بڑھی شیو اس کی وجاہت مزید نکھار رہی تھی

بلاشبہ وہ ایک خوبصورت مرد تھا

----------------------------------------------------

ناشتے کی ٹیبل پر بند ہوتیں آنکھیں کھولتے بامشکل خود کو گھسیٹتے وہ آئ تھی


اریحہ اگر آپ ٹیبل پر آنے کا کشٹ کر چکیں ہیں تو منہ بھی دھو آتیں


نائمہ نے اس کو بغیر منہ دھوئے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے دیکھ سرزنش کیا تھا


پہلی بات میں فجر کی نماز پڑھ کر سوئ تھی تو وضو تھا میرا

اب پلیز پاس دا بریڈ جیم"


جبکہ اس کے بلکل سامنے بیٹھے شخص نے ناگواری سے دیکھا تھا جو مزے سے بغیر منہ ہاتھ دھوئے ناشتے سے انصاف کرنے میں مصروف ہو گئ تھی

خود پر سخت نظروں کی تپش محسوس ہوتے جھکا سر اٹھایا تھا

اگلا نوالہ حلق سے نگلنا مشکل تھا


وہ گھور ہی ایسے رہا تھا جیسے ناشتے کی جگہ اسے کھانے کا ارادہ رکھتا ہو

یہ وہ سوچ سکی تھی

خیر وہ بھی ازلی ڈھیٹ واقع ہوئ تھی اب وہ اس کے سامنے مزے لے کر کھا رہی تھی


ہائے ایوری ون"

وہ چہکتے فریش سا ٹیبل پر آیا تھا


اوئے کھوتے کتنی بار سمجھایا ہے سلام کیا کر پر مجال ہے جو اثر ہو جائے"

بی جان سانیہ کے سہارے ٹیبل پر آئیں تھیں اور ہمیشہ کی طرح اس کی کریکشن کرائ

سوری بی جان"

"وہ شرمندہ ہوتے کھسیایا تھا

ہمیشہ کی طرح لیٹ تھا وہ بھی

اپنا کھاو"

ری نے اس کا ہاتھ اپنی پلیٹ میں تیار شدہ سینڈوچ کی طرف لے جاتے دیکھ زور سے ہاتھ مارا تھا

پر وہ اس کا تیار شدہ سینڈوچ اپنی پلیٹ میں رکھ چکا تھا

نہایت ہی ہڈ حرام واقع ہوئے ہو تم"

وہ دانت پیستی رہی


تم سے پھر بھی کم" وہ بتیس دانتوں کی نمائش کرتے بولا


احان بیٹے آپ آفس کے لیے کب نکل رہے ہو"

سانیہ نے اسے نیپکین سے ہاتھ صاف کرتے دیکھ پوچھا تھا


مما ابھی نہی لیٹ نکلنا مجھے آج"

وہ جواب دیتے کرسی پرے کھسکا چکا تھا


اچھا آج ان دونوں کو یونیورسٹی آپ نے چھوڑنا ہے"

ازہان بہت بری ڈرائیونگ کرتا ہے کل بھی گاڑی پر ڈینٹ پڑا تھا

یہ دونوں ساتھ ہوں تو بلکل نون سیریس ہوتے ہیں


ری اور ازہان نے ایک دوسرے کی جانب اب منہ بناتے دیکھا تھا


جی اچھا"

وہ ہمیشہ کی طرح مختصر جواب دیتے اپنے روم کی جانب بڑھ چکا تھا

ارادہ اب آج کورٹ میں ہونے والے کیس کے اہم پواینٹ ریڈ آوٹ کرنے کا تھا

کھانا کھاتے تو تم دونوں چپ کر جایا کرو"

نائمہ نے پھر سے ٹوکا تھا

ایک میری ماں کو نا کوئ بہانہ چاہیے ہوتا ہے"

وہ کوفت زدہ ہوئ تھی

ازہان۔۔۔"

جی بابا

وہ ان کی آواز سے پلٹا

آج کتنے بجے تمہاری کلاس ہے"


لیٹ ہے نو بجے تک"


ٹھیک ہے یونیورسٹی سے واپسی پر فیکٹری کا چکر لگانا ہے تم نے"

سیر سپاٹے چھوڑ کر سیریس بی ہیوئیر شو کرو اب"

وہ چائے پیتے کچھ کاغزات بھی دیکھ رہے تھے


مسز سکندر اپنے شوہر کو بتائیں کے ابھی بچے کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں

وہ ماں کے گرد بازو حائل کرتے کان میں جھکتے بولا تھا


شرم کرو ماں ہوں تمہاری"

وہشرمندہ ہوئیں تھی

تو یار ان کی تو بیوی ہیں نا"

اب انہوں نے بس گھورا تھا

-----------------------------------------------------

چچی اریحہ کہاں ہے ؟

اذہان نے لاونج میں طائرانہ نگاہ ڈالی تھی

وہ سیاہ جینز پر گرے شرٹ پہنے یونیورسٹی جانے کے لیے تیار تھا

وہ شائد ٹیرس پر ہے"

کوئ اسائنمنٹ بنا رہی تھی

نائمہ نے اسے کیچن سے نکلتے اگاہ کیا تھا


اس لڑکی نے کبھی کوی کام ٹائم پر نہی کرنا وہ بڑبڑاتے ٹیرس کی جانب تیزی سے بڑھا تھا


ری۔۔۔"

اتنی زور سے اس کے کان کے قریب اس کا نام پکارا تھا

کے وہ اپنا دل تھام کے رہ گئ تھی


ازہان کبھی تو انسانوں کی طرح بی ہیو کر لیا کرو"

ڈرا کے رکھ دیا مجھے"

وہ گھورتے بال پوائینٹ سے دوبارہ لکھنا شروع ہو گئ تھی


میڈم آپ بھول رہی ہیں احان بھائ نے ڈراپ کرنا ہے آج ہمیں"

اور تم ویسے ہی منہ اٹھا کے بیٹھی ہو تیار کیوں نہی ہوئ"

وہ اس کے سامنے کھڑا یاد دہانی کرا رہا تھا

جبکہ وہ مزے سے جھولے میں آلتی پالتی مارے کام میں مصروف تھی


اور اسے پچھلا واقع اس کے ساتھ یاد آیا تھا


سٹاپ"

وہ اتنی زور سے بولی تھی کے ایکسیڈنٹ ہوتے بچا

احان نے سڈن بریک لگاتے ڈرائیونگ سیٹ سے بیک سیٹ پر نظر ڈالی

کیا مسلہ آن پڑا تھا جو ایسے چلائ ہو"

جبکہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا اذہان جانتا تھا ضرور کوئ فضول کی بات ہو گی سو وہ فون میں ہی بزی رہا

احان بھائ وہ دیکھیں کوٹن کینڈی والا"

اور اس کے اطراف میں بندر کے تماشے والا

پلیز مجھے وہ لینی ہے"

اور تماشہ بھی دیکھنا ہے

وہ اپنی سائیڈ سے دروازہ کھولتے باہر لپکنے کو تھی

وٹ کوٹن کینڈی"

بندر کا تماشہ"

وہ تو صدمے میں ہوا محترمہ چلائ تو ایسے تھی جیسے کوئ غیر قانونی کام ہوتا دیکھ لیا ہو

اب جیسا محکمہ ویسی ہی سوچ آنی تھی اسے


وہ باہر نکلتی کے وہ فوری سے گاڑی کو چائلڈ لوک لگا چکا تھا


وہ جو کھولنے کی تگ ودود میں ہلکان تھی

اسے مزے سے سیٹ سے ٹیک لگائے فرنٹ شیشے سے دیکھا جو محفوظ کن مسکراہٹ لیے اسے تک رہا تھا

یہ آپ نے کیا نا کھولیں ابھی کے ابھی"

وہ بھوری آنکھوں سے گھورتے بولی تھی

فضول کی ضد ہو گئ ہو تو گھر جا کر اپنی شکل شیشے میں دیکھ لینا یقین جانو بندر سے زیادہ مزہ دے گی

اور وہ بھی فری میں"

وہ ڈرائیو سٹارٹ کرتے آگ لگانا نہی بھولا تھا


میں بندر۔۔؟

میری اتنی حسین شکل بندر ہے

ابھی بتاتی ہوں اٹینشن سیکر"

وہ اپنے بیگ سے کچھ تلاش رہی تھی


اور دو سیکنڈ بعد احان کی گرج گاڑی میں گونجی تھی


اریحہ تم بچو مجھ سے اب ؟

پانی اس کے بالوں سے ٹپکتا شرٹ تک بھیگا گیا تھا

اسے ابھی سیدھا ان کو ڈراپ کرتے کورٹ جانا تھا جو کو وہ پہلے ہی کافی لیٹ تھا

لیکن اگلے ہی لمحے وہ آنکھیں زور سے بند کر چکی تھی

جب کوئ عمل نا پاتے گاڑی کی فل سپیڈ سے اندازہ تھا کے اس کا بس چلے تو اسے گاڑی سمیت ٹھوک دے کہیں"

اٹھو بھی میرا فرسٹ لیکچر میں کوئز ہے"

وہ ازہان کی آواز سے حال میں لوٹی کبھی بھی اس کا احان کے ساتھ جانے کا ایکپیرینس اچھا نا رہا تھا


ایک تو اس قانون دان کے رولز"

وہ سوچ سکی تھی

اس بندے کا بس چلے گھر میں بھی عدالت لگا لے

تم نے فضول میں مجھ سے کیوں بات کی تم پر میں مقدمہ دائر کرتا ہوں

آج بارش کیوں ہو رہی ہے

آج تو دھوپ نکلنی چاہیے تھی

مطلب اللہ سے بھی شرطیں اف کیا بنے گا اس کی بیوی کا"

وہ یہ سب دکھ اور صدمے سے سوچ رہی تھی

جبکہ قسمت مسکرائ تھی


ری تم ہر دو منٹ بعد سکتوں میں کیوں چلی جاتی ہو"

ازہان ساتھ بیٹھتے کندھا ہلاتے بولا تھا

برو مجھے صرف گاون پہننا ہے اور حجاب کرنا ہے تمہاری گرل فرینڈز کی طرح نائینٹیز کی ہیروئن نہی بننا ہے"

so give me only ten mintues Azhan"

وہ سیڑھیاں عبور کرتے بول رہی تھی

آہستہ بولو بی جان نے سن لیا مجھے ہلاک کر دیں گیں"

اور ویسے بھی برقعہ تو تم ہڈ ہرامی کے باعث پہنتی ہو جیسے میں تو جانتا نہی ہوں نا

کپڑے نا پریس کرنے پڑیں تمہیں

اقبال تیری چڑیوں کو سلام یہ برقعے کے نیچے دس دس دن تک کپڑے نہی بدلتی"

وہ ہستے بولا تھا

وہ اسے بک مارتے اپنے روم کی جانب بڑھی تھی

------------------------------------------------------

وہ بندھے منہ سے زخمی وجود لیے بے سود سی بے آسرہ بکھری پڑی تھی

اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتے ایک تمسخر بھری نظر ڈالتے وہ اس کے قریب سے اٹھا تھا

کچھ ٹائم بعد دروازہ کھلا تھا

باہر بیٹھے دو لوگ للچائ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے جیسے موقعے کا فائدہ اٹھانے میں ہو"

ان کی آنکھوں کا مطلب وہ باخوبی سمجھ گیا تھا

جاو جا کر عیش کرو"

پر ایک بات یاد رہے کمینی مرنی نہی چاہیے"

آنسو حلق میں پھنسے تھے

اب اتنی ہمت نہی تھی کے وہ آنکھیں کھول کر اپنے ساتھ ہوئے وحشیانہ ظلم کو دیکھ پاتی

آخری بار بند ہوتی آنکھوں سے دو لوگوں کو خود کو نوچتے محسوس کیا تھا

سیاہ ابائے پر مہرون حجاب کیے وہ گیراج میں آئ تھی

وہ کوئ پیپرز فرنٹ ڈور کھولے ڈیش بورڈ پر رکھ رہا تھا

جب وہ پلٹا تھا

چند پل وہ تھما تھا وہ گندمی سی رنگت کی لڑکی تھی

مہرون حجاب میں لپٹا چہرہ تیکھے نقوش کا حامل تھا کچھ تو تھا جو اس لمحے اسے خاص بنا رہا تھا ہاں بھوری آنکھوں میں کاجل کی باریک سی لکیر اس کے چہرے کو پرکشش بنا رہی تھی


اس کو کیا ہوا ہے ایسے کیوں دیکھ رہا ہے"

وہ خود سے بڑبڑائ تھی


جبکہ احان نے اس کی سوچ پڑھتے فوری اپنی سوچ پر لعنت بھیجی تھی


اریحہ ازہان کہاں ہے؟

اس کے لہجے کی نرمی دیکھ وہ بے ہوش ہونے کو تھی


تم سے پوچھ رہا ہوں ازہان کہاں ہے لیٹ ہوں میں"

چند پل پہلے اس کا اثر زائل کرتے اب وہ تیز لہجے میں بولا تھا


جی وہ احان بھائ۔۔۔" ابھی وہ بولتی کے ازہان کی آواز گونجی تھی


آ گیا میں بھائ چلیں"

وہ گیراج میں آتے بولا تھا


کاش کے جتنی تمہاری شکل اچھی ہے زبان میں بھی مٹھاس آ جائے"

جانے کیا بیر ہے مجھ سے"

ہونہہ" اس کی شکل کے اتار چڑھاو دیکھتے خود سے کہا


نو ازہان۔۔۔"

پلیز ۔۔۔۔" وہ اس کے پاس ہوتے منمنایا تھا


میں بتا رہی ہوں میں فرنٹ پر نہی بیٹھ رہی تمہارے بھائ کے ساتھ تو کم از کم نہی"

وہ آنکھیں سکیڑتے بولی


آج بیٹھ جاو پلیز مجھے کوئز ریوائز کرنا ہے"

وہ آہستہ سے بولا تھا


تو آگے بیٹھ کے کر لینا"

پر مجھ سے یہ امید نہی رکھو"

سیل فون ہاتھ سے بیگ میں ڈالتے وہ کسی طور پر راضی نہی تھی


ہاں تمہیں تو جیسے پتہ نہی ہے ٹیسٹ لینے بیٹھ جائیں گے میرا"

بولتے ہی وہ بیک سیٹ پر جلدی سے بیٹھ چکا تھا

اور احان کا کہنا تھا وہ ڈرائیور نہی ہے لہحذا کوئ ایک آگے بیٹھے"

وہ کڑھتی کھڑی تھی

اب بیٹھ جاو گی تم یا دعوت نامہ بھیجوں"

وہ اگینشن میں چابی دیتے شیشے سے باہر جھانکتے بولا

پیر پٹختے وہ فرنٹ ڈور کھولتے ازہان کو لعنتیں دیتے بیٹھ گئ تھی

ڈور سہی سے بند کرو"

اریحہ نے نا سمجھی سے دیکھا تھا

مجھے بعد میں سکون سے نہار لینا تمہارے ساتھ ہی بیٹھا ہوں"

فلحال دروازے سے اپنا ابایا نکالو"

ری نے نظریں موڑتے دیکھا تو ابایا ڈور میں پھسا تھا جس سے دروازہ سہی سے بند نہی تھا وہ خامخاں شرمندہ ہوئ


ازہان گاڑی سلو ڈرائیو کیوں نہی کرتے تم"

روڈز پر ٹریفک کا حال پتہ ہے نا تمہیں مما کتنی پریشان ہوتیں ہیں"

وہ فرنٹ مرر سے اس کو دیکھتے بولا تھا


وہ بھائ ایکچولی کل ری نے ڈرائیو کی تھی تو۔۔۔"

وہ بولتے بولتے نچلا لب دبا گیا تھا

جبکہ وہ سٹپٹائ تھی اور ازہان کو فرنٹ مرر سے غصے سے دیکھا


تمہارا دماغ درست ہے"

وہ بری طرح اس پر بڑھکا تھا


تم نے اسے ڈرائیو کیوں کرنے دی یہ میڈم زندگی کے کسی معاملے کو کبھی بھی سیریس لیتی ہے"

لاپروہ لڑکی"

آئیندہ مجھے اگر پتہ چلا نا تم نے اسے ڈرائیو کرنے دیا ہے تو تمہاری ڈرائیونگ پر بھی پابندی لگا دوں گا"

وہ ونڈ سکرین پر نظریں مرکوز کیے ہی بولا تھا


جی بھائ"

اریحہ سے نظریں چرائیں کیونکہ اب وہ اس کا ضرور سر پھاڑنے کا ارادہ رکھتی تھی


اریحہ نے اس پل اس کی جانب دیکھا تھا یہ شخص ہمیشہ اس کی غلطی تلاشنے کا موقع کیوں ڈھونڈتا تھا

جبکہ وہ اس کی نظریں خود پرمحسوس کرتے بھی انجان بن رہا تھا


ری ایم سوری میرے منہ سے نکل گیا نا یار"

ازہان یونیورسٹی کے گیٹ سے انٹر ہوتے اسے مسلسل منا رہا تھا


نو ازہان تمہارا بھائ ہمیشہ مجھے سب کے سامنے ڈی گریڈ کرنے کا موقع ڈھونڈتا ہے"

وہ تلخی سے اس کے ہمقدم ہوتے بولی تھی


اچھا نا سوری آج یونیورسٹی میں لنچ میری طرف سے اب تو مان جاو"

ازہان ری سے دل سے سوری ہے"

وہ اس کے کان پکڑتے بولا تھا

تو اپنے کان پکڑو نا"

وہ اپنے حجاب پر سے اس کے ہاتھ جھٹکتے بولی تھی

ری اور میرے کان الگ تھوڑی ہیں"

وہ ہمیشہ والا جملہ چڑاتے بولا تھا

ٹھیک ہے پھر آئسکریم بھی کھاوں گی میں" وہ گردن موڑتے بولی تھی

اب زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہی ہے"

وہ مسکراہٹ چھپا رہا تھا


ٹھیک ہے پھر میں نہی مان رہی"

وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب چلتی بنی


ری۔۔۔"

وہ قدموں کے بل گھومتے اس کے آگے آیا تھا


کچھ بھول رہی ہو تم"


اوکے دین

بیسٹ آف لک ازہان تمہارا کوئز اچھا ہو"

تھینکیو فری ٹائم میں کینٹین میں ملتے ہیں"

بولتے وہ اپنے بزینس ڈیپارٹمنٹ کی جانب چلا گیا تھا

------------------------------------------------------

اس ٹائم پولیس میر سبطین کے گھر کے باہر تھی

آپ لوگ اندر کہاں جا رہے ہیں"

گاڑڈ نے حتی المکان روکنے کی کوشش کی تھی


میر صاحب کے بیٹے کے خلاف اریسٹ وارنٹ ہے لہحذا خاموش رہو اور ہمیں اپنا کام کرنے دو"

ایس ایچ او کی آنکھوں میں واضع وارننگ تھی


جب کے پولیس اہلکار دھڑلے سے اب اندر جا چکے تھے

آپ لوگ کیوں آئے ہیں"

لاونج میں صوفے پر بیٹھی نفیس سی عورت تشویش میں مبتلا ہوئ وہ شائد میر سبطین کی بیوی تھی

جسٹس زبیر کی بیٹی پرسوں سے غائب ہے اور شک آپ کے بیٹے اور شوہر پر ہے

لہحذا بی بی ہمارے ساتھ کوپریٹ کریں بہتر ہو گا"

آپ ایسے کیسے کسی بھی عزت دار فیملی پر الزام لگا دیں گے"

میں ابھی میر صاحب سے بات کرتی ہوں"

وہ غصے سے بولی تھی

پورا گھر چیک کرو کہاں پر چھپا ہے"

ایس ایچ او نے اس کی بات نظر انداز کی تھی

دیکھیں یہ ایک غیر اخلاقی طریقہ ہے آپ لوگ شرافت سے چلے جائیں"

میں ابھی اپنے لائر سے بات کرتی ہوں یہ کوئ طریقہ نہی ہےکسی کے بھی گھر میں یوں گھس کر بلاوجہ روعب جمانا"

وہ انہی پورے گھر میں گارڈز کی موجودگی کے باوجود گھومتے پھرتے دیکھ بھپری تھیں

نہی سر وہ یہاں نہی ہے"

کانسٹیبل نے چیکنگ کرتے بتایا


مطلب صاف ہے کے اس میں اسی کا ہاتھ ہے"

میڈم فون نمبر دیں اپنے بیٹے کا"

وہ فون پر مصروف آگ بگولا ہوتی میر سبطین کی بیوی سے بولا


جب میرا بیٹا یہاں ہے ہی نہی ہے تو فون نمبر کیوں دوں وہ اس شہر سے ہی باہر ہے"


میڈم کے فون سے فون نمبر چیک کرو پتہ تو چلے آیا کے وہ اس شہر میں ہے کے نہی"


کونسٹیبل نے فوری سر ہلاتے ہاتھ سے فون جھپٹتے کال لوگز سے نمبر لیا

جبکہ وہ اس کی جرات پر کڑھ رہی تھی


سیدھے طریقے سے بات مان لیتے ہیں"

اور یاد رکھیے گا ہماری نظر آپ پر ہے"

وہ جتاتے باہر بڑھا


کہاں ہو تم"

اور یہ سب کیا ہے"

وہ اس ٹائم اپنے وکیل کے سامنے بیٹھے اس پر بھڑک رہے تھے


ڈیڈ کیا ہو گیا ہے میں آپ کو بتا کر تو آیا تھا مری ہوں دوستوں کے ساتھ"

اور آپ جو سمجھ رہے ہیں نا تو میری بات سنیں میرا اس معاملے سے کوئ تعلق نہی ہے"

اب مجھے ڈسٹرب نہی کریں"

کھڑاک سے وہ فون بند کر چکا تھا

جبکہ وہ غصہ ضبط کرتے فون دیکھتے رہ گئے تھے


اگر اس بار اس معاملے میں اس ناہنجار کا ہاتھ ہوا تو میں اسے زندہ دفن کر دوں گا"

میری عزت دو کوڑی کی کر کے رکھ دیتا ہے یہ"


بس کریں میر صاحب ایسے میرے معصوم بیٹے پر الزم نہی لگائیں"

ٹھنڈا پانی پئیں اور غصہ تھوکیں ان لوگوں کو تو موقع چاہیے ہوتا ہے ایسے کوئ بھی سکینڈل بنانے کا"

وہ لاپرواہی سے بولی تھی


معصوم اور وہ جب سے اس دنیا میں آیا ہے زندگی عزاب کرنے کے علاوہ کوئ سکون نہی دیا اس نے مجھے"

یہ سب تمہاری ڈھیل کا ہی نتیجہ ہے جو شروع سے اس کی ہر غلطی پر پردے ڈالتی آئ ہو"

میر سبطین اپنی اتنی بےعزتی پر کھولتے بولا تھا

جبکہ اس کی بیوی اپنے شیطان نما معصوم اکلوتی اولاد کے بارے میں سنتے منہ بناتے رہ گئ تھیں

-----------------------------------------------------

یہ سب پری پلین لگتا ہے ڈیڈ"

اسسٹنٹ کمیشنر تم اس ٹائم ڈیوٹی پر ہو اپنے باپ سے نہی بلکہ اپنے ایریے کے ڈی سی حمدان نیازی سے مخاطب ہو"

وہ سخت گیر لہجے میں مخاطب ہوئے تھے

سوری سر۔۔۔"

غازیان نے ہونٹوں کے کناروں پر آئ مسکراہٹ دباتے درستگی کی


ہمم گڈ بتاو کیا لگتا ہے تمہیں"

وہ دوبارہ بات کی جانب متوجہ ہوئے تھ

مطلب صاف ہے سر مجھے تو کوئ قریبی لگتا ہے ویسے میر سبطین کا بیٹا بھی فلحال مشکوک اور شک کے دائرے میں ہی ہے"

لیکن دیکھا جائے تو نا تو کڈنیپرز کی کوئ ڈیمانڈ ہے اور نا ہی کوئ فون کال اس سے ثابت ہے

وہ جو کوئ بھی ہے جسٹس صاحب کے بارے میں کافی کچھ جانتا ہے"

اس لڑکی کی آف ٹائمنگ کے بارے میں بھی جانتا تھا"

ویسے میں نے میر سبطین کے بیٹے کے خلاف اریسٹ وارنٹ جاری کر دیا تھا لیکن وہ یہاں نہی ہے"

علاقے کے ایس ایچ او نے چھان بین کی ہے"


ہمم حیرت تو ہے دن دہاڑے یہ واردات ہونا معمولی بات نہی ہے اللہ اس بچی کی حفاظت کرے ایک دو بار ملا ہوں بہت بریلینٹ اور اچھی بچی ہے"

کھوکھلی سی تسلی تھی وہ سنجیدہ سے تھے


جسٹس زبیر کے ساتھ غازیان کے والد کے فیملی ٹرمز اچھے تھے وہ دونوں اچھے دوست تھے

لیکن چونکہ غازیان نے زیادہ عرصہ اپنی ماں کی اس کے والد سے علیحدگی کے بعد زیادہ عرصہ اپنی ماں کے ساتھ گزارا تھا

پچھلے چھ ماہ سے اس کی ٹرانسفر اسلام آباد سے لاہور ہو گئ تھی اور اس عرصے میں وہ اپنے باپ کے قریب دونوں کے سیم ڈیپارٹنمنٹ کی وجہ سے زیادہ ہو گیا تھا پر رہتا وہ محکمے کی جانب سے ملے گھر میں ہی تھا

اس کی ماں نے جو نقشہ ہمیشہ سے اس کے باپ کے بارے میں کینچھا تھا وہ اس سے بلکل الٹ تھے شائد انہیں ڈر تھا وہ غازیان کو ان سے چھین لیں گے اسی لیے اسے اس کے باپ سے ہمیشہ دور رکھا اب بھی وہ اگر جان جاتی کے وہ اپنے باپ کے ساتھ ملتا ہے تو اسے ناراض ہو جاتیں جو وہ ہرگز افورڈ نہی کر سکتا تھا

یہ سوچ اسے یہاں پر آنے کے بعد ان سے ملنے کے بعد ہوئ تھی

شروع میں وہ ان سے ناراض اور تلخ ہی رویہ برتے تھا پر جلد وہ ان کی بے شمار محبت سے یہ ماننے پر مجبور ہو گیا تھا کے وہ باپ کی شفقت سے ساری زندگی محروم رہا پر اب مزید نہی وہ نہی جانتا تھا اس کے ماں باپ کی علیحدگی کس بنا پر ہوئ ہے نا ہی اس کی ماں نے کبھی بتایا تھا


اس لیے ابھی وہ حمدان کے اچھے ٹرمز ہونے کے باوجود بھی اس لڑکی سے ناواقف ہی تھا


مجھے تم زبیر کے گھر ڈراپ کر دو"

جی میں باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں آ جائیں آپ"


--------------------------------------------------


وہ کیچن میں گئ فریج کھولتے پانی کی بوتل نکالے ابھی ہونٹوں سے لگائ تھی


اریحہ پاس چئیر پڑھی ہے پھر بھی تم کھڑی ہو کر پانی پی رہی ہو"

اور اب اس بوتل کو فریج کے اندر نہی رکھنا دھو کر بھرنا گلاس کے باوجود منہ لگایا"


کیا آپ ہر ٹائم ڈانٹتی رہتی ہیں"

بوتل کا ڈھکن بند کرتے وہی سلیب پر چھوڑی تھی

میری جان یہ سلیقہ ہے جو سیکھ جاو گی تو بہتر ہے ماں تو تمہاری یہ ساری باتیں برداشت کر لیتی ہے پر ساس رگز نہی کرے گی"

وہ اب نرمی سے سمجھا رہی تھیں

میری ساس پکا یقین ہے مجھے بڑی مما جیسی ہوں گیں سوفٹ اینڈ سوئیٹ سی"

اور ان کے ساتھ ملکر اپنے شوہر کا جینا نا حرام کر دیا تو کہنا"

وہ کیچن میں آتی سانیہ کو دیکھ شرارتی لہجے میں مخاطب ہوئ تھی

ہاں بلکل میں تو کچھ نہی کہوں گی اپنی بیٹی کو"

وہ زو معنی نظروں سے نائمہ کی جانب دیکھتے مسکرائیں تھیں

جبکہ اریحہ کی بات سن کر نائمہ سانیہ کے سامنے شرمندہ ہوئ

مجال ہے جو کبھی یہ لڑکی منہ بند رکھ لے اپنا"


وہ گھونٹ گھونٹ چائے حلق میں انڈیل رہی تھی ساتھ لمبے لمبے سپ لے رہی تھی"

کم پیا کرو چائے آگے کم سانولی ہو"

اس کی دھڑکن تھمی تھی تیز پرفیوم کی جانی پہچانی مہک سے وہ اٹینشن سیکر ضرور قریب ترین تھا وجہ یہ تھی نائمہ اسے پرفیومز نہی لگانے دیتی تھی تو وہ ازہان اور احان کے پرفیوم اکثر چرا کے استعمال کرتی

نظر اٹھانے پر پتہ چلا وہ صوفے کی بیک پر دونوں ہاتھ جمائے اس پر جھکا سا تھا

بے زوق لوگ کیا جانیں چائے کے فوائد"

وہ غیر محسوس انداز میں جتاتے اس کے جھکاو سے فوری پرے کھسکی تھی

یہاں فوائد کا تو زکر ہی نہی یہاں تو سانولی رنگت پر تبصرہ ہے"

تو پھر ایڈوکیٹ احان سکندر خوبصورتی کے معنوں سے آپ جیسے چٹی چمڑی والے ابھی تک واقف ہی نہی"

اس ا نام یوں لیتے عجیب لگا تھا پر وہ کہاں ادھار رکھنے والوں سے میں سے تھی اس کی شفاف رنگت پر چوٹ کر گئ


تو آشنا کرا دیں نا"

یہ دانستہ طور پر شائد وہ صبح گاڑی والے رویے پر اس کا موڈ اپنی جانب سے بحال کرنا چاہتا تھا اب وہ اس کے سامنے صوفے پر براجمان تھا کچھ ٹائم پہلے ہی وہ واپس آیا تھا

اریحہ کو فریش سا لگا بلکہ موڈ بھی اس سڑیل کا خاصہ خوشگوار لگا تھا

سانولے رنگ پر جچتی موٹی اکھ تے تیکھا نک ایتھے رکھ ایتھے رکھ"

ہے آپ کے پاس بلکہ نہی ایک عدد موٹا سا پھیلا ہوا ناک اور چنی منی آنکھیں جو ہستے ہیں تو پوری کھلتی ہی نہی"

وہ باقاعدہ مسکراہٹ ضبط کرتے بول رہی تھی

احان نے اس کی بات پر غصہ کیے بغیر غور کیا اس کے چہرے پر اس کی بھوری آنکھوں کے بعد تیکھی ناک واقعی ہی غضب ڈھا رہی تھی

اگر تم میرے حصے میں آئ تو سب سے پہلے تمہارا یہ تیکھا ناک چھدوا کے زخمی نا کیا تو کہنا "

استغفار" فوری جھرجھری لی تھی

احان بہت برا سوچنے لگے ہو تم سنبھل جا بیٹا سنبھل جا"

خود کو اب بری طرح ڈپٹا تھا

جبکہ اریحہ اب اس کی نظروں سے الجھتی پہلو بدل کے رہ گئ تھی

احان بیٹا تمہیں بی جان بلا رہی ہیں"

سانیہ کی آواز سے وہ سوچوں کے گرادب سے نکلتے اس لاپروہ لڑکی پر ایک نظر ڈالے بی جان کی روم کی جانب بڑھ گیا تھا

------------------------------------------------------

ڈیڈ"

ایک لڑکی غیر حالت میں ملی ہے"

غازیان یہ معاملہ کور اپ کر لینا اگر تو وہ ہالے ہوئ تو یہ بات میڈیا تک نا جائے"

زبیر کی حالت پہلے ہی بہت خراب ہے"

کس کا فون تھا"

مجھ سے کچھ چھپانا نہی

ایڈریس سینڈ کر دیا ہے"

اس کے گھر کے آگے چھوڑنا ہے اور پھر تم لوگ اپنی شکل اس شہر سے گم کر لینا ورنہ مجھ سے برا کوئ نہی ہو گا"


جی بوس۔۔"

گاڑی کی بیک سیٹ پر ہلکی نیم غنودگی میں پڑی لڑکی پر نظر ڈالتے وہ فوری بولا تھا

ہالے ٹھیک ہو گی ہم جلد ڈھونڈ لیں گے زبیر اللہ کا لاکھ شکر ہے کے وہ ہالے نہی تھی مجھے اب امید ہے وہ ٹھیک ہو گی"

حمدان نے کندھا تھپکا تھا

وہ ہالے نور نہی تھی جو اس لڑکی کی حالت تھی ناقابل بیان تھی

وہ اب دل تھام کے رہ گئے تھے دل نے دعا کی تھی اس لمحے فقط چند لفظ

یا اللہ رحم"

بابا۔۔۔"

سرعت سے وہ پلٹے تھے

وہ نحیف وجود لیے اٹھتے جب لاونج میں بکھری حالت میں کھڑی لڑکی پر نظر پڑی تھی

اور وہ مزید قدم نا اٹھاتی وہی پورے قد سے زمین بوس ہوئ تھی

نور بابا کی آنکھوں کا نور"

وہ دل پہ پر ہاتھ رکھ کے ڈھے گئے تھے

کچھ سمجھنے سے پہلے حمدان کی نظر دفتعا ان دونوں پر تھی

سمجھ نہی آی ابھی اسے تسلی دے رہے تھے اب وہ ایسی بکھری حالت میں کسے سنبھالیں"

--------------------------------------------------------

وہ بی جان کے روم میں داخل ہوا تھا

سلام کرتے ان کا حال و احول پوچھتے بری طرح ان کی بات پر بدکا تھا

کچھ دیر پہلے آئ اپنی سوچوں پر اب خود پر غصہ آیا تھا جو اتنی جلدی حقیقی روپ دھار سکتی ہیں اسے اندازہ نہی تھا

وہ چند لمحے بی جان سے ملنے کا سوچتے کپ ٹیبل پر رکھتے اٹھی تھئ

آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں بی جان"

میں نے اریحہ کے بارے میں کبھی ایسا نہی سوچا بلکہ میں اپنی زندگی کا ہمسفر ایسا چاہتا ہوں جو کم از کم اپنی زندگی کے معاملے میں سیریس ہو لیکن وہ تو ہر معاملے میں امیمیچور غیر سنجیدگی کا ثبوت دیتی ہے"

اس کے قدم بی جان کے کمرے سے سیڑھیوں تک کا راستہ طے کرتے اپنے معاملے پر ہوتی بحث پر تھمے سے تھے


تم میری بات سے بھی انحراف کرو گے "

بی جان کو شائد غصہ آیا تھا


ایسی بات نہی ہے بی جان بس یہ ایک بے جوڑ رشتہ ہے"

وہ ان کا ہاتھ تھامتے متانت بھرے لہجے میں بولا تھا


لیکن میں یہ شادی نہی کر سکتا سمجھنے کی کوشش کریں" وہ اضطراب کی کیفیت میں تھا


وہ یہاں کیوں آئ اور کیوں اس کا انکار سنا بس یہاں اس کی بس تھی

یہ شخص سمجھتا کیا ہے خود کو سیڑھیاں چڑھتے وہ خود سے بڑبڑائ تھی آنسو راستہ تلاش کر رہے تھے اتنی زلت اسے کبھی محسوس نہی ہوئ تھی اس کے انکار اور بی جان کے بار بار منتیں کرنے پر اہانت کے مارے چہرہ سرخ پڑ چکا تھا


احان مسلہ کیا ہے یہ رشتہ بچپن سے طے ہے تمہارے مرحوم دادا کی بھی یہی خواہش تھی"

بی جان کی بحث ابھی بھی جاری تھی جو آج اسے ہر حال میں قائل کرنا چاہتی تھیں

وہ اندازہ کر رہا تھا پچھلے دنوں سے جو چے مگوئیاں چل رہی تھیں مگر سمجھتے بوجھتے بھی وہ سوچ پر پردے ڈالے بیٹھا تھا

تم نے مرضی سے خاندانی کاروبار چھوڑ کر سرکاری نوکری کو اپنایا میں نے تمہارے باپ کی مخالفت کی"

بی جان"

وہ جیسے صدمے میں ہوا تھا اب وہ اسے یوں تعنے دیں گیں

آپ کیا چاہتی ہیں اس کی اور میری عمر کا فرق بھی تو دیکھیں"

نئ دلیل تیار تھی

عمر کی بات تو تم میاں نا ہی کرو تو بہتر ہے تمہارے دادا مجھ سے دس سال بڑے تھے اور تمہارا باپ تمہاری ماں سے آٹھ سال بڑا ہے اور تمہارا اور اس کا محض پانچ سال کا فرق ہے یہ کوئ فرق تو نا ہوا"

تم بس خود پسند ہو گئے ہو بھئ مرضی تمہاری"

بی جان نے منہ بگاڑا تھا


احان نے ماتھا مسلہ تھا وہ پریکٹیکل قسم کا بندہ تھا ہر معاملے میں مسٹر پرفیکٹ جبکہ وہ اسے ان پرفیکٹ اور بے جوڑ ہی لگ رہی تھی

جاتے ہوئے دروازہ بند کرتے جانا اور لے آنا اپنے لیے حور پری"

وہ کروٹ لیتے ناراضگی ظاہر کر رہی تھیں

احان نے بے بسی سے ان کی پشت دیکھی تھی اب ایسی بات تو نا تھی کے وہ ماں باپ اور گھر والوں کے خلاف جا کر شادی کرتا اور دو سیکنڈ بعدماتھا مسلتے فیصلہ سنایا تھا

اچھا اب ناراض تو نا ہوں"

وہ ان کی کروٹ کی سائیڈ پر آیا


تو پھر مان جاو نہی تو وہ باہر کا رستہ ہے" وہ دروازے کی جانب اشارے کرتے آنکھیں موند گئیں تھیں


اچھا ٹھیک ہےجو آپ کی مرضئ"

وہ مسکراتے بولا تھا بلکہ جھوٹی مسکراہٹ سجانے کی کوشش کی تھی


سچی میرا بچہ ہمیشہ خوش رہے"

وہ فوری سے ضعیف وجود لیے اٹھ بیٹھیں تھیں اور اب اس کے وارے نیارے جا رہی تھیں

احان نے حیرت لیے دیکھا کہاں گئ ایک سیکنڈ پہلے والی ناراضگی"

بڑی عید کی چاند رات کو تم دونوں کا نکاح ہے"

احان نے صدمے سے دیکھا مطلب ٹھیک چند دن بعد سولی چڑھنا تھا

تو گویا وہ ساری تیاری کیے بیٹھیں تھیں اب جب وہ شادی کی حامی بھر چکا تھا تو انکار کی کوئ وجہ مناسب نا لگی

وہ کمرے سے جونہی باہر نکلا غیر ارادی طور پر ٹیرس کا دروازہ کھلا دیکھا

وہ آخری سیڑھی پر تھا

جب اس کو ہیولے کا احساس ہوا مزید قدم اٹھاتے وہ اب ٹیرس کے دہانے پر تھا

ہلکی سی پیلی روشنی میں وہ سفید سے لباس میں ملبوس تھی

احان نے سر جھٹکتے قدم اس جانب بڑھائے تھے

مر نہی رہی میں اس دوٹکے کے ایڈوکیٹ سے شادی کو"

وہ اس کی برائیاں کرتے جلتے دل کو سکون پہنچا رہی تھی احان کو اس کی بڑبڑاہٹ واضع تو نہی سنی تھی

کیا کر رہی ہو یہاں یہ ٹائم ہے یہاں اس پہر آنے کا"

ری کی صدمے سے جان نکلی تھی اور جیسے ہی پلٹی بری طرح اس کے چوڑے سینے سے ٹکرائ تھی

احان بھائ"

آپ یہاں کیا کیوں میرا مطلب"

وہ فوری دو قدم دور ہوتے بھوکھلائ تھی کہی اس نے اپنی برائیاں نا سن لی ہوں

میں نے پوچھا ہے تم اس ٹائم یہاں کیا کر رہی ہو"

کوئ ایک کام بھی سیدھا ہے تمہارے پاس رات کے اس پہر تم چھت پر ہو کوئ تک بنتی ہے"

احان کی آواز دھیمی مگر سخت سی تھی

ری نے حیرت لیے اس کی بات سنی تھی

منہ میں دہی جما لیا ہے"

وہ اپنا رشتہ اس سے طے ہونے پر پہلے ہی تیش میں تھا اور نا بولنے پر غصہ ہوا

میری ایک بات سنیں نا تو میں بچی ہوں"

نا آپ کو کوئ ایسا حق ہے مجھے یوں بولنے کا سمجھے آپ بلاوجہ مجھ پر رعب نہی جمایا کریں"

وہ کہتے نیچے جاتی جب اس کی کلائ کو ایک جھٹکا دیتے اپنے مقابل کیا تھا


حرکتیں سدھار لو اپنی پھر منہ بھر کر جواب دینے والی لڑکیاں مجھے زہر لگتی ہیں"

اس کی آنکھوں میں واضع غصے کی سرخی دیکھ رہی تھئ


اچھا تو پھر مجھے بھی آپ نہی پسند پھر بھی میری آنکھوں کا ظرف دیکھیں آپ کو اس گھر میں برداشت کر رہی ہیں"

آئیندہ بے وجہ مجھے چھونے کی کوشش نہی کرنا آپ"

ہاتھ جھٹکتے چھڑوایا تھا

اپنا سارا غصہ نکالتے وہ اسے حیرت زدہ چھوڑے نیچے چلی گئ تھی

یہ پہلی دفعہ تھا وہ اس لہجے میں اس سے بات کر کے گئی تھی پیچھے وہ تیش کھاتا رہ گیا تھا


دھاڑ سے دروازہ بند کرتے دوپٹہ خود سے دور اچھالا تھا


ایک ایسی لڑکی جو میچور ہو سنجیدہ ہو"

وہ چاہیے ہے اس کو پھر آپ کیوں میرے لیے اس کی منتیں کر رہی ہیں"

اپنی زات کی نفی پر چند آنسو ٹوٹ کر تکیے میں جزب ہوئے تھے

-----------------------------------------------------

ڈاکٹر سے سنبھلنی وہ اس لمحے مشکل تھی اس کی چیخیں سنتے زبیر کو لگا تھا ان کا دل پھٹ جائے گا"

وہ اندر اس کے روم میں داخل ہوئے تھے یہ کام بھی انہیں کرنا تھا اسے سنبھالنے والا کوئ بھی نہی تھا جو اسے سنبھالتا آج انہیں بیوی کی یاد بے تحاشہ آئ تھی وہ اپنی بیٹی کو ان درندوں سے نہی بچا سکے تھے جو اس معصوم کو اپنی حوانیت کی بھینٹ چڑھاتے اسی پرسکون فضا میں آزاد سانس لیے گھوم رہے تھے

اس لمحے وہ حمدان کو خود سے بھی نظریں چراتے لگے تھے

سارا ٹریٹمنٹ اسے گھر میں دیا تھا

پوری رات ایک ماتم کناں صورتحال تھی موت کے سناٹے سا عالم تھا وہ اس کے بیڈ کے کنارے بیٹھے اس کے بس ہوش کی دعا کر رہے تھے

اب جب وہ ہوش میں آئ تھی تو پورا گھر جو اس کی چہک سے گونجتا تھا وہ چیخوں سے گونج رہا تھا


ہالے"

کیپ کوائیٹ کیوں خود کا تماشہ لگوانا ہے"

ہالے۔۔۔" وہ اب اس کے بند آنکھوں سے مسلسل چپ نا ہونے پر اب لزرتی آواز سے دھاڑے تھے

نور" وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ضبط کیے بولے تھے

بابا۔۔۔"

وہ جانا پہچانا پرشفقت لمس پاتے کچھ پرسکون ہوئ تھی

ڈاکٹر پرسکون انجیکشن لگاتی جب وہ اشارے سے منع کر چکے تھے

بابا" وہ ان کے دونوں ہاتھ مظبوطی سے تھامے تھی

جی بابا کی جان بابا ہالے نور کے پاس ہیں نا پھر بھی وہ بابا کی بات کیوں نہی مان رہی"

کیوں انہیں تنگ کر رہی ہے ہالے نور تو ایسی نہی تھی وہ تو بابا کی بات مانتی تھی نا پھر آج کیوں نہی مان رہی"

وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے پیچھے ہوئے آنسو ٹوٹ کر اس کے چہرے پر گرا تھا اس کی بازوں اور گردن پر پڑے نشانوں کو دیکھتے دل چاہا تھا وہ دھاڑیں مار کے روئیں


آنکھیں کھولتے وہ ویران نظروں سے ان کے چہرے کو تک رہی تھی جہاں ایک باپ کی بے بسی نظر آئ تھی

اب جب وہ بولی تھی تو ان کا دل چیر کے رکھ چکی تھی

آپ کی آنکھوں کا نور تو آج چلا گیا

دفنا آئیں آج مجھے بابا"

مار دیں مجھے مر گئ میں آج۔۔۔"

وہ خشک آنکھوں سے بولتے ان کا خون منجمند کر چکی تھی


نہی میری جان ایسے نہی بولتے میرا دل پھٹ رہا ہے نور ایسے نہی بولو مجھے معاف کر دو ہالے نور تمہارا باپ تمہاری حفاظت نہی کر سکا"

ڈاکٹر آنسو ضبط کرتے باہر جا چکی تھی


میں نے تو اسے کہا تھا مجھے ایک قطرہ پانی دے دو بابا کو ای۔۔ایک بار کال کرو بولو ہالے نور بابا کی آنکھوں کا نور ان سے بات کرنا چاہتا ہے

جو مانگو گے میرے بابا دے دیں گیں اپنی ساری جائیداد ہالے نور کے لیے انہیں دے دیں گے پر بابا انہوں نے میرے ساتھ۔۔۔"


مجھے مار دیں آپ آج

آپ کی عزت خاک میں ملا دی ہالے نور نے"

ہالے نور کو اب مر جانا چاہیے"

آپ کی فیوچر ڈاکٹر کو مار دیا انہوں نے

یہ دیکھیں بابا میرے ساتھ"

اسے خود میں بھینچتے وہ ضبط کھو چکے تھے پھر ہالے نور تھی اور زبیر کے رونے کی آواز جو باہر موجود حمدان نیازی کو بھی رونے پر مجبور کر چکی تھیں

------------------------------------------------------

احان تمہاری بی جان نے بات کی تم سے کیا خیال ہے اس بارے میں؟

کس بارے میں" وہ وہ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے انجان بنا تھا

آپ کو اچھے سے پتہ ہے میں کس بارے میں بات کر رہی ہوں"

ساری تیاریاں جب کیے بیٹھے تھے تو آپ مجھے بھی پہلے سے اگاہ کر سکتی تھیں مما"

وہ تنزیہ بولا

ریحہ مجھے پسند ہے دنیا کی چلاکیوں سے پاک اپنی بہو کے لیحاظ سے اچھی لگی تھی مجھے پر آپ خوش نہی ہو شائد اس فیصلے سے"

تو پھر آپ کو پسند ہے تو ٹھیک ہے نا نکاح والے دن قبول ہے کی حاضری لگوا دوں گا"

وہ چاہ کے بھی نارمل جواب نا دے پایا تھا

احان بیٹے کیا ہو گیا ہے آپ کو کیا کسی اور کو پسند کرتے ہیں"

وہ اس کے ماتھے پر پڑی شکنیں دیکھتے چونکیں

انکار کی وجہ یہی نہی ہوتی کے انسان کسی کو پسند کرتا ہے"

اب مجھے اس ٹوپک پر مزید بات نہی کرنی ابھی پلیز مجھے جانا ہے کہیں ناشتہ لے آئیں"

وہ بات کا رخ موڑتے بولا

اچھا" سانیہ خاموش ہو گئیں تھیں

وہ نیچے آئ تو دیکھا سانیہ اس کا ناشتہ ٹیبل پر لگا رہیں تھیں

ان کی آج بھی نہی اوف"

خیر مجھے کیا"

ریحہ بیٹے اتنی جلدی اٹھ گئیں آج تو سنڈے ہے"

احان نے سر اٹھاتے دیکھا تھا اس کی بھوری آنکھیں سرخ سی تھیں

وہ شرمندہ ہوئ تھی کیونکہ اسے نیند سے جگانا واقعی مشکل ترین کام تھا اور آج تو تھا بھی سنڈے"

بس بڑی مما نماز پڑھ کے نیند نہی آئ"

صوفے پر بیٹھتے کن اکھیوں سے اسے دیکھا تھا سیاہ ڈریس پینٹ پر بٹنوں والی شرٹ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح جازب نظر لگا تھا پل بھر کے لیے نظر ملی تھی رات کی تلخی یاد کرتے فوری وہ گڑبڑاتے زاویہ موڑ چکی تھی

----------------------------------------------------

اسے ہوش آگئ ہے تو بیان لینا ہے اس لڑکی کا۔۔۔"

نہی ابھی وہ اس کنڈیشن میں نہی ہے کے کوئ سٹیٹمنٹ لی جائے"

اس کے گھر کام والی کو چھٹی دے دی ہے یہ بات جتنی ہو سکے دبی رہے"

لیکن آپ جانتے ہیں یہ بات چھپنے والی نہی ہے کیونکہ میر سبطین کے بیٹے کے خلاف رپورٹ درج ہے وہ معاملے کی تہہ تک ضرور جائے گا"

اور یہ بات تو وہ لڑکی ہی بتائے گی نا وہ کون تھے"

وہ پروفشنلی انداز میں ساری باتیں ان کے آگے رکھ چکا تھا

وہ نرم بستر پر اوندھے منہ لیٹا تھا

مسلسل فون کی رنگ سے ہاتھ مارتے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھایا


جی کون۔۔۔؟ وہ ابھی بھی نیند میں تھا


مارننگ۔۔۔"

کیسا ہے میرا شہزادہ"

مندھی آنکھوں سے فون سامنے کیا تھا


مما او شٹ"

کیسی ہیں آپ وہ بستر پرے کرتے کراون سے ٹیک لگاتے سیدھا ہوا"


نہی مما بس بزی تھا اسی لیے

اس ٹائم تم جوگنگ کے لیے جاتے ہو یقینا فٹنس کا بلکل خیال نہی رکھ رہے"

نہی بس وہ رات لیٹ نائٹ تک بزی تھا آنکھ نہی کھلی ادروائز آپ جانتی ہیں فٹنس پر کوئ کومپرومائز نہی"

وہ بستر سے ننگے پاوں نکلتے مرر کے سامنے جاتے سیاہ جدید فیشن کے کٹے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اب بڑھی ہوئ شیو کا جائزہ لے رہا تھا

مہینہ ہو گیا ہے ویک اینڈ پر بھی نہی چکر لگایا کہیں کوئ لڑکی وڑکی کا سین تو نہی کرئیٹ کر لیا میرے بیٹے نے"


make a wish"


بند آنکھوں سے وہ لمحے اپنے اندر اتارے تھے

میں چاہوں گا کے اپنا ٹیلنٹ وہ میرے لیے محدود رکھے وہ تنہائ کے گوشوں میں کنویکس پر اپنی انگلیوں سے مجھے اتارے" چلتے ہوئے وہ روم میں بنے بند روم کو ان لوک کرتے گیا تھا

یادوں کے اوراق پرے دھکیلتے وہ اپنی ماں کی بات کی جانب متوجہ ہوا تھا

غازیان نے قہقے کا گلا بامشکل گھونٹہ اگر انہیں پتہ چل جاتا لڑکی کا تو نہی پر باپ کے ساتھ چکر ضرور چل رہے ہیں تو ہنگامے بھرپا ہو جاتے

چند باتیں کرتے انہیں یقین دہانی کراتے وہ فون بند کرتے چارجنگ پر لگاتے فریش ہونے واشروم میں بند ہوا تھا


-------------------------------------------------------


مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے"

اس کے کمرے مبں آتے ہی وہ بات کی تمہید باندھ رہیں تھیں


جبکہ اسے ان کے اتنے سنجیدہ لہجے پر اپنے اردگرد تمام خطرے کی گھنٹیاں محسوس ہونا شروع ہو گئی تھیں پھر بھی وہ ان کے منہ سے سننا چاہتی تھی

بیٹا ہم چاہتے ہیں کے آپ کا نکاح احان سے ہو جائے آپ کی بی جان کی یہ بڑی خواہش ہے"

مما کیا بول رہی ہیں آپ ٹھیک تو ہیں؟

اس اٹینشن سیکر سے شادی کرتی ہے میری جوتی"آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا"

سارے سوال ایک ساتھ کرتے وہ ہتھے سے اکھڑتے صوفے سے اٹھی تھی ابھی کل تو وہ بی جان کے روم کے باہر اس کا انکار سن کر آئ تھی

زبان قابو میں رکھو بہت بدلحاظ ہو چکی ہو تم"

وہ اس کے ہر بار کی طرح استعمال کیے جانے والے تکیہ کلام سے غصے میں آئیں تھیں

آپ مجھے فورس نہی کر سکتیں میرے پاس اختیار ہے انکار کا"

وہ دو بدو جواب دیتے انہیں مزید تیش دلا رہی تھی مگر خود پر قابو پایا کیونکہ اس سے کوئ بھی بات منوانا آسانی کے زمرے میں تو آ ہی نہی سکتا تھا

اچھا ادھر بیٹھو تو اور مجھے کوئ ایک وجہ انکار کی دو"

کافی حد تک وہ لہجے میں پیار سموئے اس سے مخاطب ہوئیں تھیں


ایک وجہ نہی وجوہات بولیں"

اسے ایک سنہری موقع ملا تھا اس کی برائیاں کرنے کا جو اس کے سامنے تو ہرگز نہی کر سکتی تھی

جب کے وہ لب بھینچے بس اب اس کی زبان درازی کے جوہر دیکھنا چاہ رہی تھیں


نمبر ایک کیا کزن میرج ہی دنیا میں رہ گئ ہے سوچیں مما اگر انہیں کوئ بیماری ہوئ تو میرے معصوم بچوں کو بھی لاحق ہو جائے گی"

جبکہ وہ اس کی بے باک بات پر صرف کڑھتی رہ گئیں تھیں


نمبر دو وہ اٹینشن سیکر سارا دن کہاں غائب ہوتا ہے آپ کو پتہ ہے کیا ایویں اس کا کہیں چکر وکر ہوا تو آپ کی بیٹی کا گھر تو برباد نہ"

وہ کھڑے ہوتے باقاعدہ منہ بگاڑے اس کے لیے تعریفی جملات ادا کر رہی تھی


خدا کو مانو اتنا معصوم اور فرمانبردار بچہ ہے وہ"

ہاجرہ نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا


ہو کیئر جو بھی ہے میری بلا سے ابھی میری لسٹ ختم نہی ہوئ باقاعدہ ان کی بات کاٹی وہ کہاں اس کی تعریف سن سکتی تھی"

نمبر تین اس شخص کو مجھے ڈانٹنے کے علاوہ کوئ کام نہی"


تو تمہاری حرکتوں پر ہی ڈانٹتا ہے"


یہ یہ ایسی ہوتیں ہیں مائیں مجھے تو سمجھ نہی آتی میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے مجال ہے جو کبھی بیٹی کی سائیڈ لے لیں"

جب کے اب وہ اس کو نادیدہ آنسو صاف کرتے دیکھ محض مسکرائیں تھیں


اور نمبر چار اس کی زبان کو اچانک بریک لگی تھی


نمبر چار؟ وہ اسکی مزید گوہر افشانی کی منتظر تھیں

یہ والی بات وہ چاہ کے بھی نہی بتا پائ کے وہ اس شخص پر زبردستی تھوپی جا رہی ہے آخر یہ اس کی عزت کا سوال تھا


اب میری بات سنو یہ سب وجوہات اپنے باپ کو دینا سمجھی"

وہ کڑھتی وہاں سے جا چکیں تھیں

آپ ایسا نہی کر سکتیں" وہ بڑبڑاتے ان کے پیچھے ہوئ تھی

اللہ سارے ایموشنل ہتھیار ان کے پاس ہیں انہی سوچوں میں تھی جب بری طرح سامنے آتے وجود سے ٹکر ہوئ تھی


اندھے ہو"اللہ میرا سر"

ابھی وہ مزید بولتی جب سامنے دیکھتے زبان گم ہو گئ تھی


میرے خیال سے تم کسی ملک کو فتح کرنے کے دورے پر تھی"

اس کی قدرے کرخت آواز سے آنکھیں پھلائے سر مسلتا ہاتھ تھما تھا


اب اسے کیا بتاتی اس کی تعریفیں کرنے کا عظیم کام ملک فتح کرنے سے زیادہ عظیم ہے"

مسلسل اس کی نظریں خود پر پا کر اسے راستے سے ہٹتا نہ دیکھ وہ بولنے پر مجبور ہوئ تھی

معافی ملے گی مجھے ہٹ جائیں خدا کے لیے ویسے ہیں بڑے ہی موٹے آپ"

ہر لفظ چباتے ادا کیا تھا

جبکہ وہ اپنی ڈیشنگ پرسنلٹی دیکھتا رہ گیا جسے وہ موٹا بولتے یہ جا وہ جا

حمدان کے کہنے پر وہ اس کا بیان کسی ایس ایچ او یا انسپیکٹر کو بھیجنے کی بجائے خود لینے گیا تھا کیونکہ یہ بات تو پتہ چل ہی گئ تھی جسٹس کی بیٹی مل گئ ہے"

اور صبح صبح میر سبطین نے کافی واویلا مچایا تھا اس کا بیٹا بھی پچھلے دن سے حراست میں تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی چند روز کے لیے گھر میں نظر بند تھا وجہ حمدان نیازی تھے اب وہ ہر حال میں چاہتا تھا کے یہ معاملہ کلیر ہو اور لڑکی اپنا بیان دے کہ اس کے بیٹے کی تو کم از کم جان چھڑوائے

وہ ان کے گھر کے باہر تھا گھر شاندار تھا ایک طائرانہ نگاہ قدرے پوش علاقے میں بنی کوٹھی پر ڈالی تھی

گارڈ نے گیٹ کھولا تھا

سوری اندر آپ کو جانے نہی دے سکتے"

شفاف ماتھے پر چند لکیریں ابھریں تھیں

جسٹس صاحب سے کہو حمدان نیازی کا بیٹا ہے"

وہ حمدان کی صبح والی بات پر بولا تھا اگر اسے اندر جانے نا دیا تو وہ اس کا حوالہ دے


وہ اس کے سرہانے بیٹھے تھے

سوجھی آنکھیں کل رات سے وہ حشر بھرپا کر چکی تھی انجیکشن کا اثر بھی چند گھنٹوں بعد زائل تھا اور پھر سے ماتم کناں لمحے بھرپا کر دیتی جو کے وہ سوچ بھی نہی سکتی تھی اس کے باپ پر کیا گزارتے ہیں ابھی چند لمحے پہلے ہی نیند کی وادی میں اتری تھی

اس پر آیتوں کے ورد کرتے پھونک ماری تھی یک دم لگا تھا اس معاملے سے ناتواں کندھوں پر بڑھاپا مزید تاری ہو گیا ہے جو ان کی بے بسی کا مزاق بنا رہا ہے

زبیر اس پر کمفرٹر درست کرتے ابھی بھی دو دن کے مسسلسل ازیت ناک لمحوں کی زد میں تھے زندگی ایک دم اتنی مشکل ہو گئ تھی کے نور کی حالت دیکھ کر انہیں لگتا تھا کے وہ اگلا سانس بھی اس ہوا میں نہی لے پائیں گے لیکن انہیں جینا تھا اپنے لیے نہی اپنی آنکھوں کے نور کے لیے"

کچھ فیصلہ کرتے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھتے جب گارڈ نے انہیں پیغام دیا تھا

ٹھیک ہے بیجھ دو اندر"

کچھ توقف بعد بولے تھے

آ جائیں آپ"

چند سانحے بعد وہ اس کی سیاہ گاڑی کے شیشے پر جھکتے بولا

سیاہ کرولا پورچ میں روکی تھی

وہ ڈائینگ میں ویٹ کر رہا تھا

جب وہ پثمردہ قدم بھرتے اس کے سامنے براجمان ہوئے

یہ ریپ کیس اس کی زندگی کا پہلا کیس تھا وہ نہی جانتا تھا کیسے استفار کرے ان کی جھکی نظر ہی اسے ایک باپ کی بے بسی کی اگاہی دے رہی تھی


وکٹم کا بیان چاہیے سر ڈیڈ نے مجھے اسی لیے اکیلے بھیجا ہے"

کچھ توقف بعد لفظ تراشے تھے


آئ ڈونٹ وانٹ ٹو کیس میں یہ کیس واپس لے رہا ہوں"


سریسلی" کیا یہ اتنا آسان ہے وہ ایسے ہی چھوڑ دیں گے یہ سوچ اس کے دماغ میں آئ تھی


پھر بھی ہمیں میر سبطین کے بیٹے۔۔۔"

مجھے کیس نہی کرنا کسی پر بھی میری بیٹی میرے پاس ہے میرے لیے یہ کافی ہے"

وہ حتمی لہجے میں بولے


سر آپ ایسے کیسے میرا مطلب ہزاروں لوگوں کے کورٹ میں فیصلے کرنے والا شخص یہ آپ کہہ رہے ہیں"

وہ کچھ توقف کے بعد سن گلاسس اور چابیاں ہاتھ سے اپنے سامنے ٹیبل پر رکھتے بولا تھا


میں فیصلہ کر چکا ہوں"

لیکن یہ غلط ہے آج آپ چھوڑ دیں گے کل وہ کسی اور کے ساتھ"


بس"

مجھے اس معاملے پر مزید بحث نہی کرنی"

وہ آگ بگولا ہوتے اٹھے

جسٹس ڈر گیا ہے"

وہ بے خوفی سے ان کے جزبات ابھارنے کو بولا تھا

زبیر نے ازیت ناک سرخ آنکھوں سے دیکھا وہ فوری گڑبڑایا تھا

میرا مطلب تھا۔۔۔"


جس باپ کی بیٹی ہوں نا وہ بچپن سے اس کے لیے ڈرتا ہے

اور مجھے اندازہ ہے کورٹ میں کیسے سوال پوچھے جاتے ہیں


i dont want to expose my daughter now u leave..."

وہ بے حد سنجیدہ تھے


میں ملنا چاہوں گا اس سے کیا وہ یہ چاہتی ہے یا یہ ایک باپ کا فیصلہ ہے جسٹس صاحب"

اسے ان کی سوچ بلکل اچھی نا لگی یہ انصاف کرنے والا بندہ کیسے معاشرے کے وحشی درندوں کو چھوڑ سکتا ہے"


کیا آپ کے کوئ رشتے دار جن کی کوئ دشمنی ہو آپ سے"

وہ دوبارہ بات جاری رکھتے بولا تھا

وہ چند لمحے کچھ سوچتے شیش وپنج میں رہے تھے


میں کیس نہی کر رہا کیا تمہیں سمجھ نہی آ رہی مجھے کسی پر کیس نہی کرنا میں اپنی بیٹی کو لے کر بہت دور چلا جاوں گا اور نا ہی میں اپنی معصوم بیٹی کو ان جھمیلوں میں ڈالوں گا"

آپ چاہتے ہیں وہ ساری زندگی احساس کمتری میں رہے جس نے اس کے ساتھ غلط کیا وہ اسی پرسکون فضا میں گھٹ کر سانس لے رہی ہے جس میں وہ درندے آرام سے سانس لے رہے ہیں"

بے خوف ہو کر"

بس بہت ہوا" تم یہاں سے جاو میں حمدان کا لیحاظ کر رہا ہوں تمہیں آنے بھی اسی لیے دیا"

وہ تیش کھاتے اٹھے تھے

تو پھر آپ یقینا جو آپ کے پاس ریپ کیس آتے ہوں گے ایسے ہی غیر منصفانہ انصاف کرتے ہوں گیں اور یہ پھر اسی کا بدلہ ہے جسٹس صاحب

یو نو دا ورڈ مکافات عمل"

ان کو بھی یہی مشورے دیتے ہوں گے نا"

وہ ڈھیٹوں کی طرح بات جاری رکھتے بولا تھا


جسٹ شٹ اپ بکواس بند کرو اپنی"

کیا چاہتے ہو تم اپنی بیٹی کی بچی کچی عزت بھی نیلام کر دوں کیا تمہیں اندازہ ہے کیسے سوال کیے جاتے ہیں کورٹ میں

کیا ایک باپ سرے عام یہ تماشہ دیکھ سکے گا جو ابھی چند لوگوں سے چھپا ہے کل وہ سب کے سامنے آ جائے"

نہی میں ہر گز نہی چاہوں گا

کون اپنائے گا میری بیٹی کو۔۔۔

کیا تم اپنا سکتے ہو ہے اتنا ظرف تم میں"

بولو۔۔!

نہی نا کوئ جواب۔۔۔؟

یہ کہنا صرف آسان ہے سمجھتے وہی ہے جس پر گزرتی ہے

وہ اس کا بے چین چہرہ دیکھتے تنزیہ بولے تھے

میں نے دنیا دیکھی ہے یہ وہ ملک ہے جہاں وکٹم کو گناگار مانا جاتا جبکہ مجرم بری الزمان ہوتا ہے"

بابا۔۔۔"

وہ آواز سے پلٹا تھا

اس کی جانب فقط غیر ارادی نظر اٹھی تھی وہ اپنا چہرہ اس کے دیکھنے سے پہلے فوری سیاہ دوپٹے سے چھپانے کی سعی میں تھی

اس لمحے صرف اس کی سیاہ بڑی خوف سے پھیلی آنکھیں اور ہلکا چہرہ باریک دوپٹے سے چھلکتے اس کو ٹھٹکنے پر مجبور کر گیا تھا

فوی اس کا خوف دیکھتے اس نے نظریں جھکائیں تھیں

نور روم میں جائیں بابا آ رہے ہیں"

اگر یہ سب نور نے سن لیا تو وہ خوفزدہ سے ہوئے تھے

مزید اس سے ایک بھی لفظ استفار کرنے سے پہلے وہ اسے نرمی سے اشارہ کرتے بولے تھے

ن۔۔نور زیر لب دہرایا تھا

کیا تم اپنا سکتے ہو ہے اتنا ظرف

سٹرینگ پر گرفت مضبوط کی تھی اس لمحے وہ اضطرابی کیفیت میں تھا

کیا تھی یہ کیفیت وہ سمجھنے سے قاصر تھا

میں چاہوں گا وہ کنویکس پر مجھے اپنی انگلیوں سے اتارے

کیا تم اپنا سکتے ہو اسے"

سارے لفظ دماغ پاگل کر رہے تھے


------------------------------------------------------


دروازہ نوک کیا تھا

آ جائیں" وہ دوپٹہ بیڈ سے لیتے سیدھی ہوئ تھی

کیسی ہے میری بیٹی"

وہاج نے اندر آتے اس کے بیڈ کے نزدیک بیٹھتے استفار کیا

میں بلکل ٹھیک بابا"

کچھ کام تھا کیا۔۔؟

وہ ان کی چہرے پر پرسوچ لکیریں بھانپتی بولی


احان سے انکار کی وجہ جان سکتا ہوں میں جو ریزن آپ نے اپنی ماں کو دی ہیں وہ ویلڈ نہی ہیں اگر کوئ اور ہے تو دیں مجھے یقین مانو خود انکار کروں گا" وہ بغیر لگی لپٹی بولے


او یار آپ کی بیوی پہلے تو میں چینج کرنا چاہتی ہوں کوئ بات نہی ان کے پیٹ میں ٹکتی" وہ بری طرح بدمزہ ہوی تھی


ویری بیڈ ریحہ مما ہیں آپ کی"

وہ مصنوعی خفگی سے بولے تھے


وہ ان کے جانے کے بعد ان کی باتیں یاد کر رہی تھی


آپ لوگ کیوں کر رہے ہیں ایسا میرے ساتھ بابا"

وہ زبردستی یہ رشتہ بنا رہا ہے"

خوش رہنے کے لیے دولت اور عزت ہی کافی نہی ہوتی میرے نزدیک محبت بھی چاہیے ہوتی ہے"

نا چاہتے ہوئے بھی آنسو گال پر لڑھک آیا تھا

ریحہ یہ رشتہ کب سے طے تھا انجان اس لیے رکھا تم پرسکون ہو کر پڑھ سکو لیکن بی جان چاہتی ہیں آپ کا نکاح ہو جائے"

میں چاہوں گا میری بیٹی میرا مان رکھے" امید کر سکتا ہوں نا"

وہ جھولے پربیٹھی آج کی باتیں سوچ رہی تھی

جب وہ اچھلتے اس کے ساتھ بیٹھا تھا


جنگلی انسان تم کب سدھرو گے ڈرا کے رکھ دیتے ہو"

وہ ہاتھ دل پر رکھتے خونخوار نظروں سے گھورتے بولی تھی


اڑتی اڑتی بریکنگ نیوز ملی ہے تم میری بھابھی بن رہی ہو"

ویسے بڑی میسنی ہو مجھے تو کم از کم بتا سکتی تھی تم"

وہ غصہ کر رہا تھا

ازہان دلہن کو بھی پرسوں ہی پتہ چلا ہے تمہیں کہاں سے میں بتاتی"

ویسے ری بھابھی سیریسلی ساونڈ اوکورڈ نا۔۔۔۔"

ہاہاہا او مائے گوڈ بھابھی ری بھابھی۔۔"

ویسے اس جنگ میں عشق کب ہوا میرے بھائ سے"

وہ اسے بے ہودہ بکواس اور دانت نکالتا زہر لگ رہا تھا

منہ بند رکھ لو ازہان اپنا ورنہ چھت سے نیچے پھینک دوں گی میں تمہیں"

وہ اس کی بات پر سرخ پڑتے آگ بگولا ہوئ تھی

اوکے ویسے مجھے بتانا چاہیے تھا یار میری پندرہ گرل فرینڈز میں سے افسوس اب چودہ گرل فرینڈز رہ گئیں ہیں"

وہ ہاتھ پر باقاعدہ گنتے بولا تھا

کیوں ایک کو کیا موت پڑی ہے"

اس کے سامنے تمہاری کرتوتیں تو نہی آ گئیں"

وہ وہاں سے اٹھ گئ تھی کیونکہ وہ پھیل کر جو بیٹھ گیا تھا

ایک تو تم تھی نا"

پر افسوس اب تو بھابھی بن رہی ہو گرل فرینڈ تو نہی رہو گی" وہ ہستے بولا

ازہان۔۔۔" ری نے جوتا اتارتے اس کے پیچھے بھاگنا چاہا تھا

اچھا سوری ری بھابھی۔۔۔" وہ پھر سے تپاتے وہاں سے فرار ہوا تھا

کیا تھا یہ۔۔"

اسی سب میں اس کا بری طرح لاونج سے آتے احان سے تصادم ہوتے بچا تھا

کیا یہ آٹھ نمبر کا میرا جوتا ہے۔۔"

چاہیے"

ری نے جوتے والا ہاتھ سامنے لہراتے معصومیت سے پوچھا

احان نے اس کی بدتمیزی پر غصے سے اس کا دوپٹی جوتا پکڑتے لان کی حدود سے دور اچھالا تھا

میرے معصوم جوتے پر کیوں غصہ نکالا ہے"

اس کا غصے سے بھرا چہرا دیکھتے ساری باتیں بھلائے بھوری آنکھوں میں شرارت ناچی تھی

میرے سے کسی دن نا تم برح طرح ٹوٹ پھوٹ جاو گی"

وہ دانت پیستے بولا

کیوں آپ کے ہاتھوں میں ہتھوڑے فٹ ہیں"

وہ کہاں باز آنے والی تھی

تمہاری نازک مزاجی پر میرا صرف تمہیں چھونا ہی کافی ہے"

خیال کیا کرو زبان درازی اور پنگے لینا کہیں فیوچر میں بہت برا ثابت نا ہوں تمہارے لیے"

مہرون اور سفید امتزاج کی پرنٹڈ شرٹ پر دوپٹہ ہمیشہ کی طرح نماز سٹائل میں اوڑھے تھی اس کے سراپے پر گہری نظر ڈالتے وہ اسے بری طرح سلگاتے جا چکا تھا

برا تو تمہارے لیے ہو گا احان سکندر بڑی مما سے بولوں گی ڈیٹول اور تیزاب سے اپنے بیٹے کی زرا آنکھیں تو صاف کریں

ویسے بڑی ہی گندی نظریں ہیں"

میرا جوتا کہاں پھینک گیا ہے اب اندھیرے میں کیسے ڈھونڈوں بڑبڑاتے وہ دوسرا جوتا بھی اتارے لان کی اس سائیڈ پر گئ جہاں اس نے پھینکا تھا

سر یہ فائل۔۔"

وہ گہری سوچ میں تھا جب اس نے سے ٹیبل بجایا

ہاں وہ یک دم چونکا تھا

یہ فائل سر۔۔۔"

غازیان نے فائل سامنے کرتے سائن کیے تھے

مارکیٹ میں جتنے بھی بڑے سپر سٹور بڑی شوپز ہیں"

جو بھی گورنمنٹ کے طے شدہ پرائز سے زیادہ پرائز ٹیگ لگائے ہے اس کا نام مینشن کر دینا یہ لیگل نوٹس جاری کر رہا ہوں میں"

سب کے نام اس فائل میں اندراج کر دینا جو بلاجواز آرگیو کریں"


جی سر پر آپ کا راونڈ تھا آج"


ہمم پر میں آج میڈیکل فارمیسیز کا راونڈ لوں گا

یہ کام کل کے لیے پینڈنگ آج وارننگ لیٹر دے دینا نا پھر سدھارنے کی ضرورت پڑی تو میں خود لوں گا"

وہ ٹیبل سے گاڑی کی کیز اور سیل فون لیتے باہر کی جانب بڑھا تھا


------------------------------------------------


وہ اس کے روم کی جانب ناشتے کی ٹرے لے کر بڑھے تھے

وہ بستر پر دونوں ٹانگوں پسارے سمٹی سی تھی


میری بیٹی کے لیے ناشتہ میں نے خود بنایا ہے"

وہ اس کے بکھرے بال چہرے سے سمیٹتے مسکرانے کی سعی کرتے بولے تھے

وہ بے حس وحرکت بیٹھئ رہی تھی


نور بابا کو نہی کھلاو گی۔۔"

وہ نوالہ اس کے ہونٹوں کے قریب لے جاتے ایک آس سے بولے تھے کے شائد وہ کچھ لفظ تو ادا کر دے"

وہ ان کا چہرہ دیکھتے کچھ پل دیکھتی رہی پھر سلائس کا نوالہ لیتے ان کے ہونٹوں کے قریب لے کر گئ تھی

زبیر نمی چھپاتے مسکرائے تھے

باہر نہی آو گی۔۔"

نہی مجھے ابھی نیند آ رہی ہے"

وہ ویسے ہی مختصر جواب دیتے کروٹ لیتے بستر پر لیٹ گئ تھی

ایک نظر اس کی پشت دیکھی تھی

سوری بابا آپ کی بیٹی مر چکی ہے میں جانتی ہوں آپ چاہتے ہیں میں نارمل ہو جاوں میں ضرور کوشش کروں گی

پر شائد یہ ایک ناکام سی کوشش ہو اس سے پہلے امید کروں گی موت مجھے گلے لگا لے"

ایسے لگتا ہے مجھ میں اب کوئ خواب کوئ آس کوئ امید ہی نہی بچی

میں اس شخص کو بددعا بھی دینا چاہوں تو کیا دوں جس نے میری زندگی برباد کی

کیونکہ ہر حال میں بھگتنا تو عورت نے ہی ہے کاش کے مکافات عمل کا انجام ایسا ہوتا کے اس کی سزا اس کی بہن بیٹی کی بجائے ان درندوں کو ہی ملے

تکیہ تر ہو چکا تھا۔۔۔"

وہ رفتہ رفتہ گہری غنودگی میں چلی گئ تھی

ہفتہ ہو چکا تھا جس میں ایک وجود کی زندگی رک چکی تھی


تم تم یہاں کیا کر رہے ہو"

وہ برتن کیچن میں رکھتے باہر آئے بری طرح بڑھکے تھے


سر میں نے منع کیا تھا پر یہ اندر آگئے تھے

گارڈ نے جھکی نظر سے اعتراف کرتے بتایا تھ

آرام سے آرام سے سسر جی کیا ہو گیا ہے"

رسی جل گئ مگر بل نہی گیا۔۔"

وہ باقاعدہ ان کی دکھتی رگ پر چوٹ کر گیا تھا

مقصد کیا اس سب کا۔۔"

وہ درشتی سے وارننگ دیتے دھاڑے تھے جبکہ اس کے ساتھ بیٹھی عورت ناگواری سے دیکھ رہی تھی

سسر جی مقصد صاف ہے اپنی منگیتر سے ملنا ہے مجھے"

حال چال پوچھنا ہے معزرت سے گردونواح میں پھیلی خبروں کی تصدیق چاہتا ہوں چچا جان"

وہ خباستی انداز میں بولا تھا

زبیر نے ایک تیکھی خونخوار نظر اس کے وجود پر ڈالی جو سیاہ کپڑوں میں مونچوں کو تاو دیتے لاونج میں پڑے صوفے پر پوری اکڑ سے براجمان تھا

شک کے دائرے میں تو یہ بھی لگا تھا

زبیر کا بھتیجا بری طرح نور کے پیچھے پڑا تھا وجہ بچپن کی طے شدہ زبردستی کی مننگنی تھی

وہ اور ان کی بیوی ایسا ہرگز نہی چاہتے تھے پر وہی پرانے لوگوں کی راویات بچپن کے طے شدہ رشتے جو آگے جا کر مسلے پیدا کرتے ہیں

وہ اوں کی شکل تک نا دیکھتے اور کہاں ان کی معصوم بیٹی اور کہاں گاوں کا یہ گنوار وہ ہرگز یہ نا چاہتے تھے

بھائ صاحب آپ کو تو شکر کرنا چاہیے کے میرا بیٹا آپ کی بیٹی کو ابھی بھی اپنا رہا ہے"

ورنہ تو ایسی لڑکیوں کو۔۔۔"


بکواس نہی سمجھی آپ اس کا باپ زندہ ہے سنا آپ نے میں آپ کا لیحاظ کر رہا ہوں بھاوج مگر اپنی بیٹی کے بارے میں ایک لفظ نہی

اور تمہیں کیا لگ رہا ہے میں تمہارے آگے گڑگڑاوں گا کے میری بیٹی کو اپناو

بلکل غلط سوچ میں ان مظلوم لوگوں میں سے نہی ہوں جو بیٹی کی غلطی نا ہونے کے باوجود انہیں کسی کے سر تھوپ دوں

میری بیٹی کی زندگی کا صرف ایک مقصد تھا اور ہے وہ ڈاکٹر ہے

ڈاکٹر ہالہ نور جسٹس زبیر کی بیٹی جو ہر قدم پر اپنی بیٹی کو ڈیفینڈ کرنے والا ہے۔۔۔"

اور اگر اس کی شادی کی بھی تو وہ ہرگز تم جیسا انسان نہی ہو گا

اب نکلو میرے گھر سے اس سے پہلے کے میں یہ بات پولیس کو بتا کر تمہیں بھی اس کیس میں انولو کر دوں کیونکہ میری نظر تم پر ہے اگر اس معاملے میں تم ہوئے تو خود اپنی گن سے تمہیں شوٹ کروں گا

وہ درشتی سے انگلی اٹھاتے آپے سے باہر ہوتے سرخ پڑ چکے تھے


اچھا تقریر بہت اچھی کرتے ہیں

لیکن ابھی بھی وہ میری منگیتر ہے سنا چچا جان۔۔۔"

میں جب چاہوں اس سے۔۔۔"


اپنے بیٹے کو لے کر یہاں سے دفع ہو جائیں تو بہتر ہے میرا آپ لوگوں سے رشتہ اسی دن ختم تھا جب میرے بھائ کی موت کی خبر مجھے ملی تھی

اور یقینا یہ کام بھی تم لوگوں نے ہی انجام دیا تھا

جبکہ وہ عورت پہلو بدل کے رہ گئ جو ان کی یہاں عزت افزائ کرنے آئ تھیں لیکن وہ شائد یہ بھول گئ تھی کہ وہ انسان لمبا عرصہ کورٹ کیچیریوں میں گزار چکا ہے

باتوں میں تو کم ازکم وہ اسے نہی ہرا سکتیں تھی


اٹھو یہاں سے مجھے تو وہ بے حیا لڑکی ہرگز قبول نہی ہے نا ہی تھی

وہ اپنے بیٹے سے بولیں تھی

جبکہ اس عورت کے الفاط ان کا سینہ بری طرح زخمی کر چکے تھے

یہ ساری باتیں ان کو مجبور کر رہی تھیں کے وہ کہیں روح پوش ہو جائیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ میڈیسن کس نے منگوائ

کیا ڈاکٹر کی پرسکریپشن ہے یہاں۔۔۔"

وہ سخت گیر لہجے میں میڈیکل والوں سے استفار کر رہا تھا


سوری سر ہم نے نوٹس نہی لیا۔۔ "

اس لمحے وہ ڈرگ انسپیکٹر کے ساتھ شہر میں موجود فارمل بلیو جینز پر سیاہ شرٹ میں ملبوس ساری فارمیسی کے راونڈ پر تھا

اس بندے کی پرسنیلٹی واقعی ہی اسے دوسروں سے جدا کرتی تھی

جبکہ سامنے موجود بندے کو دیکھتے ہی وہ پہچان گیا تھا وہ کون ہے۔۔۔"

آئیندہ ایسا ہوا تو یہ فارمیسی سیل ہونے میں دیر نہی لگے گی۔۔"

ڈاکٹر کی پرسکرپشن کے بغیر کوئ میڈیسن دینا الاوڈ نہی ہے کیا تم اس چیز سے واقف نہی ہو"

اس کے ساتھ موجود ڈرگ انسپیکٹر غصے سے بولا تھا

تم کہاں بات کرنی ہے مجھے تم سے"

وہ سیاہ شیشوں والی گلاسس ناک پر کرتے اس گڑبڑائے بندے کو باہر جاتے دیکھ فوری بولا تھا

پیپر ورک کرتے ڈرگ ایتھورٹی کی ٹیم کو سی اوف کرتے وہ اس کی جانب آیا تھا

گاڑی میں بیٹھو۔۔۔"

فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے وہ غصے سے بولا تھا

سر۔۔۔" وہ منمنایا

میں نے کہا گاڑی میں بیٹھو سمجھ نہی آتی"

وہ فوری گاڑی میں بیٹھا تھا


کب سے لے کے جا رہے ہو یہ میڈیسن۔۔"


وہ ونڈ سکرین پر نظریں مرکوز کرتے ہی سارے شیشے آٹومیٹکلی لوک کر چکا تھا


سر کون۔۔؟

گاڑی کے سارے شیشے بند ہوتے دیکھ وہ انجان بنا تھا جبکہ ہاتھ اپنی سائیڈ کے دروازے پر تھا

جو اسے باور کرا چکا تھا کے دروازہ لوکڈ ہے


اچھا تمہیں نہی پتا کس کی بات کر رہا ہوں میں ٹھیک ہے"

تمہیں پتہ ہے سیڈکیٹو میڈیسنز دینے کے جرم کی سزا کیا ہے"

گن اس کی کنپٹی سے ہوتی دل کے مقام پر رکھی تھی

ابھی بھی نہی پتہ" نظریں اس کے خوف سے لے کر مزید زبان ہلانے پر تھیں

پانچ دن پہلے منگوائ تھیں

مجھے نہی پتہ کس چیز کی ہیں میں نے تو بس لا کر دے دیں میں کونسا پڑھا لکھا ہوں جو جانتا یہ کس لیے ہیں"

وہ فوری سے پہلے سچ بولا تھا

غازیان لب بھینچ کے رہ گیا تھا

-----------------------------------------------------

احان بھائ ٹریٹ تو اب بنتی ہے"

اس ٹائم سارے کزنز اکھٹے تھے اور باقاعدہ ریکارڈ لگا رہے تھے

جبکہ سامنے سب سے بے نیاز بیٹھی چپس کھاتی ری کے گلے کو برا پھندا لگا تھا

مطلب آگ جنگل میں پھیل چکی تھی

کس چیز کی۔۔"

وہ جانتے بوجھتے بھی انجان بنا تھا


افکورس آپ کے اور ری آپی کے نکاح کی یار"

عروج احان کی خالہ کی بیٹی نے بولتے اسے سامنے بیٹھی بری طرح کھانستی ری کی جانب توجہ مبزول کرائ تھی


مجھ سے پوچھو یہ شادی نہی خانہ بربادی ہے"

اس کی بات سنتے توہین محسوس کرتے بھوری آنکھیں مسلسل کھانسنے سے اب نم ہوتے سرخ ہو چکیں تھیں


عروج اسے پانی دو پہلے"

احان نے اس کی آنکھوں کو دیکھتے فکر مندی سے بات بدلی تھی


ری پانی یار دھیان سے"

اس سے پہلے ازہان پانی سے بھرا گلاس قریب لے آیا تھا

اس کے ہونٹوں کو گلاس لگاتے دیکھ احان کو آج جانے کیوں شدید برا لگا تھا وہ

وہ مزید اس کے ہاتھ سے گھونٹ بھرتی جب وہ بری طرح بڑھکتے بولا تھا

وہ خود پی لے گی گلاس دو اسے"

ری نے چونکتے اس کا تیز لہجہ سنا تھا ازہان نے فوری گلاس اسے تھمایا تھا

جس کی آنکھیں اب غصے کا واضع پیغام دے رہی تھیں

وہ اٹھ کر وہاں سے چلئ ہی گئ تھی

ٹریٹ دیں ہمیں"

وہ مسلسل ان سب سے بیزار تھا اوپر سے وہ بھی اب وہاں سے جا چکی تھی

ٹھیک ہے اریحہ ڈیسائیڈ کرے گی کے کہاں جانا ہے اگر وہ یہاں آتی ہے تو ٹھیک ہے نہی تو بھول جاو ٹریٹ"

وہ جانتا تھا وہ کبھی بھی نہی آئے گی"

عروج فوری سے باہر بڑھی تھی

وہ جو گارڈن میں عروج کی بھابھی کے دو سال کے بیٹے کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی عروج کی آواز سے چونکی


ری آپی کم یار ٹریٹ لے کر دیں ہمیں احان بھائ سے" وہ اس کے ساتھ گھاس پر بیٹھتے بولی تھی


کیوں یہ میرا مسلہ نہی ہے تم جانو اور تمہارا وہ احان بھائ وہ تلخ ہوتے بولی

اور پھر سے بے بی کے ساتھ مصروف ہو گئ تھی


ایسے کیسے یار وہ ہمیں نہی دے رہے آپ سفارش کریں اٹھیں جلدی" وہ اس کی بازو کینچھتے اندر کی جانب زبردستی لے گئ تھی


ساری جگہ گھیرے وہ سب اپنی دھن میں لگے تھے جبکہ وہ بیزار سا فون پر مصروف تھا

سارے کاوچ پر سب کزن بیٹھے تھے احان کے ساتھ ڈبل سیٹر صوفے پر جگہ دیکھتے وہ شیش وپنج میں تھی اب


ری آپی آگئ ہیں احان بھائ"

احان کی دوسری کزن نے پھر سے توجہ اس جانب مبزول کروائ فون سے نظر اٹھائے اس کو گود میں بچے کو اٹھائے دیکھا تھا

تو احان بھائ چاہتے ہیں جگہ آپ ڈیسائیڈ کریں"

میں کیوں کروں ٹریٹ تمہارے احان بھائ دے رہے ہیں تو مجھے بیچ میں نہی گھسیٹو"

وہ کنارے پر ٹکتے ناگواری سے بولی تھی جبکہ سینٹر میں بے بی کو بیٹھاتے باقاعدہ فاصلہ قائم کر چکی تھی

جگہ تو تم ہی ڈیسائیڈ کرو گی کیونکہ ٹریٹ تو تم بھی دے رہی ہو آخر کو میرے اکیلے کا نکاح تھوڑی ہے"

دل جلانے والی مسکراہٹ اچھالتے بولا

اللہ میں بھی کہوں یہ شخص مجھے کیوں یاد کر رہا ہے

میں تو نہی دے رہی میں جوب لیس ہوں سمجھے آپ"

وہ دوبدو بولی

جی احان بھائ ٹھیک کہہ رہے ری آپی آپ بھی ففٹی پرسنٹ پیسے شامل کریں گی

پھر سب بولتے اس کے سر سوار تھے

ٹریٹ احان ہی دے گا کوئ بھی ریحہ کو تنگ نا کرے"

سانیہ نے اسکی بات میں حامی بھری تھی وہ مسکراتے اسے منہ چڑاتے خوش ہوئ تھی

اتنے پیسے لے کر آپ نے کہاں جانا ہے"

دانت پر دانت جمائے وہ اب تپتے بولی تھی

افکورس شادی کرنی ہے فالتو میں تھوڑی ضائع کروں گا اب"

گہری نظریں جمائے اس کا دوپٹے کے حالے میں لپٹا چہرہ اسے ایک لمحے کے لیے بے تحاشہ پیارا لگا تھا

تو کریں نا جا کر پھر"

سینت کر قبر تک نا لے جائیے گا شودے انسان"

آخری لفظ وہ قدرے آہستہ بولی تھی

میں تو کر لوں کیا تم تیار ہو"

اب وہ قدرے قریب ہوتے اسے سمٹنے پر مجبور کر چکا تھا اس شخص کی نظریں اس کے بس سے باہر ہوتی جا رہیں تھیں"

ایک آخری نظر ڈالتے وہ وہاں سے اٹھ گئ تھی جبکہ احان نے مسکراہٹ ضبط کرنے کے لیے اب چہرہ جھکایا تھا

----------------------------------------------------

وہ اس ٹائم ماتھا مسلتے آج کے دن کا معاملہ سوچ رہا تھا

اس وقت دروازہ نوک ہوا تھا

وہ زندگی برباد کر رہی ہے سمیٹ لو

تم نے تو اسے کبھی اپنے ساتھ پانے کی چاہ کی تھی

میں اسے کھو نہی سکتا

سماب آئ ایم سوری۔۔۔"

یہ کیا ہو گیا ہے

کیوں ہوا یہ سب وہ تھکی سانس خارج کرتے بال مٹھی میں جھکڑتے بولا تھا

خیالات سے نکلنے میں مزید تیز دستک کی آواز نے مدد کی تھی

ڈیڈ آپ۔۔۔" وہ چونکا تھا

کیوں تمہیں میرا آنا پسند نہی آیا سوچا تھا تم میں اور ایک کپ کوفی"

وہ قدم اس کے گھر میں رکھتے بولے داد دیتی نظروں سے جائزہ لے رہے تھے گھر کافی ویل ڈیکوریٹ اور صاف ستھرا تھا یہ کم از کم ایک مرد کا گھر نہی لگا تھا انہیں شائد اس کا موازنہ وہ اپنے آپ سے کر رہے تھے

شیور مجھے کیوں برا لگے گا"

غازیان نفی میں سر ہلاتے مسکرایا تھا

تم گھریلو عورت لگ رہی ہو"

وہ اسے بلیو ٹراوزر پر سفید ٹی شرٹ پر ایپرن باندھے دیکھ کیچن کی ونڈو سے جھانکتے مسکرائے تھے

وہ ہینڈسم تھا چہرے پر موجود ہلکی سیاہ داڑھی تھی جبکہ فٹ کسرتی وجود اس کی مردانہ شخصیت کو ابھار رہی تھی

کم اون ڈیڈ میں بچپن سے اپنے کام کرنے کا عادی ہوں"

شائد آپ نے سنا ہو گا بورڈنگ سکول میں رہنے والے بچے بڑے ٹیلنٹڈ ہوتے ہیں

وہ بغیر غصہ کیے بولا تھا جبکہ انہیں اس کی بات چھبی سی تھی جیسے وہ گلہ کر رہا ہو

شوگر ۔۔۔" وہ کپ وہاں پڑے شیشے کی میز پر رکھتے بولا

جتنی تمہاری ماں لیتی ہے"

غازیان کا ہاتھ تھما تھا وہ نوٹ کر چکے تھے

پوچھو گے نہی ہماری علیحدگی کا سبب"

وہ چمچ کپ سے پرے ہٹاتے اس سے بولے تھے

نہی۔۔۔"

وہ کپ ہونٹوں سے لگاتے بولا لیکن احساس ہوا کوفی زیادہ گرم تھی اور نچلا لب بری طرح جھلسا چکی تھی

کیوں۔۔۔؟

مجھے لوگوں کے پرسنل میں انٹر فیر کرنےکی عادت نہی پھر وہ میرے ماں باپ کیوں نا ہوں بس دکھ اس بات کا ہے

دونوں میں سے کسی ایک نے میرے بارے میں نہی سوچا

یو نو محرومیاں محبت کی۔۔۔"

وہ کیچن میں چلا گیا تھا وہ اس کی پشت دیکھتے رہے تھے

کچھ لمحوں بعد وہ واپس آیا ہاتھ گیلے تھے مطلب وہ برتن واش کر آیا تھا


اگر کسی سے وقتی اٹریکشن ہو تو کیا کرنا چاہیے"

وہ چند لمحوں بعد خاموشی توڑتے بولا


تھوڑا ٹائم دینا چاہیے یہ جاننے کے لیے یہ اٹریکشن آپ کی زات پر کیسے اثرات چھوڑ رہی ہے مستقل یا عارضی"


اور اگر دل اور دماغ جنگ میں ہوں کے وہ وقتی اٹریکشن نہی ہے"


دل کی نہی سننی چاہیے ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے" ہاں دماغ کو پریفر کرنا چاہیےاور فوری بات مان لینی چاہیے کیونکہ دماغ سے کیے گئے فیصلے پچھتانے پر مجبور نہی کرتے"

وہ کچھ سوچ کے بولے تھے


مجھے شادی کرنی ہے"

ساتھ دیں گے میرا۔۔۔"

وہ فیصلہ کرتے بولا تھا

آر یو سیریس۔۔"

کون ہے بہو ماں جانتی ہے تمہاری۔۔۔"

وہ خوشی سے بولے لیکن زکر اس کی ماں کا بھی کر چکے تھے

آپ کے دوست جسٹس زبیر کی بیٹی"

رشتہ لے کر جائیں میرا اور کہیں غازیان نیازی اسے اپنانا چاہتا ہے"

وہ بے تاثر لہجے میں بولا تھا

تمہارا دماغ درست ہے وہ فوری ہتھے سے اکھڑے تھے

انہیں امید نہی تھی

آپ لے کر جا رہے ہیں یا میں خود لے جاوں پر آپ کا دوست تھوڑا اکھڑ مزاج ہے"

وہ تھوڑا پرسوچ ہوا تھا

غازیان یہ آسان نہی ہے"

وہ سمجھاتے بولے تھے

مجھے کرنی ہے۔۔"

وہ اس ملاقات کے بعد سے چند دنوں اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوتے آج فیصلہ کرتے حتمی لہجے میں بولا تھا

وجہ تم اس کا بیان لینے گئے تھے یا اپنا دل دینے گئے تھے"

وہ بری طرح بڑھکے تھے

وہ تو کب کا کسی کا ہو چکا تھا"

وہ خود سے بڑبڑایا تھا

وہ آفس میں بیٹھا تھا

جبکہ لب مسکرا رہے تھا


خیریت۔۔؟

اندر آنے والے بندے نے اس کو خیالات سے نکالتے چونکایا


ہممم۔۔۔" وہ آنکھیں کھولتے سیدھا ہوا تھا


وکیل کی مسکراہٹ زرا مشکوک سی ہے"

بدلے بدلے سے ہیں میرے سرکار"

احان اپنے کولیگ کی بات پر کھل کر مسکرایا تھا

اچھا میں نکلتا ہوں پھر۔۔۔"

آنٹی کی تبعیت کیسی ہے" احان نے اس کی والدہ کا پوچھا جو بیمار تھیں

ٹھیک ہیں بس ریگولر چیک اپ"

شادی کر لو پھر سہارا مل جائے گا انہیں"احان نے مشورہ دیا

او بھئ ابھی دور رکھ پہلے تو کر۔۔"وہ بدکا

میں کر رہا ہوں۔۔" وہ پرسوچ بولا تھا

واٹ تم اور شادی کون تمہاری معیار کی لسٹ پر اتری"

وہ پلٹتے واپس اس کے سامنے پڑی چیئر پر بیٹھا

احان نے گھورا تھا


اریحہ۔۔"

وہ تمہاری کزن جس سے تم سب سے زیادہ چڑتے تھے عشق کب ہوا المینرڈ بھابھی سے"

وہ اب واپس بیٹھ چکا تھا ہمیشہ اس کے لیٹ ہونے یا کوئ چیز خراب ہونے کے پیچھے ری کا ہاتھ ہوتا وہ اکثر اس کے سامنے بول جاتا تھا


اسے سدھار کر اپنے رنگ میں ڈھال لوں گا میں"

وہ اب بھی مسکرایا تھا اس کا سراپہ اسے چند دن سے پریشان کر رہا تھا وہ شائد اس کے بارے میں اس حوالے سے سوچنے ہی اب لگا تھا


تم شائد جا رہے تھے وہ اسے بیٹھا دیکھ مزید فضول ہانکنے سے پہلے بولا

جا رہا ہوں بھئ تم رہو بھابھی کے خیالوں میں"

وہ جاتے جاتے بولا تھا

تم مجھے اپنے قابو میں نہی کر سکتی ہو" وہ سر جھٹکتے فائل کی جانب متوجہ ہوتے بولا تھا

تب تک اس کے کیبن میں تین لوگ آئے تھے

جسے دیکھتے اسکے ماتھے پر بل پڑے

میں کہہ چکا ہوں میں یہ کیس نہی لے رہا"

وہ تیکھے چتونوں سے بولا تھا

دیکھو تمہیں منہ بولے پیسے مل رہے چپ چاپ میرے بھائ سے قتل کا مقدمہ ہٹواو اور ہمیں وہ زمین بھی دلواو تم اپنے راستے ہم اپنے راستے ورنہ۔۔"

ایک شخص دھمکی دیتے بولا

نہی لیتا میں جاو جو کرنا ہے کرو" وہ اڑ چکا تھا ورنہ کیس تو لے لیتا پر احان کی نا کو کون ہاں میں بدلے وہ ایک ضدی شخص تھا مقابل اس کی ضد کو ہاں میں نہی بدل سکتا تھا

احان نے اب کڑھتے اپنے پی اے کو فون کیا تھا

آئیندہ یہ شخص میرے کیبن میں نظر نا آئیں

دیکھ لوں گا تمہیں۔۔۔"

وہ تنبیہ کرتے بولا تھا


------------------------------------------------------


وہ حمدان کے آفس آیا تھا

کیا کہا جسٹس نے"

بغیر لگی لپٹے مطلب پر آیا تھا


تمہارے دماغ سے ابھی بھی فتور نہی نکلا وہ بچی ہے ابھی"

حمدان نے نفی کی تھی حالانکہ زبیر واضع انکار کر چکا تھا وہ اسے بتانا نہی چاہتے تھے


انکار کیا فادر ان لا نے"

گہری مسکراہٹ آئ تھی


یہ کیا حرکت ہے"

زبیر اس کی گردان سے غصہ ہوئے تھے جو بھی تھا وہ بھی نہی چاہتے تھے اس کی شادی ہالہ سے ہو"


میں جا رہا ہوں" وہ ہاں کریں گے وجہ جو دوں گا

انہوں نے کہا تھا ہے مجھ میں ظرف جسٹس کو ثابت کروں گا کے میں اس سے شادی کر کے رہوں گا"

انکار کی کوئ گنجائش ہی نہی غازیان انکار نہی سنتا"

وہ حتمی لہجے میں بولا تھا

حمدان نیازی کا بیٹا یوزایبل چیز بھی نہی استعمال کر سکتا"

اسکا چہرہ ان کے تنز پر سرخ پڑا تھا

آئیندہ اس کے بارے میں یہ نہی کہیے گا بھول جاوں گا باپ ہیں میرے"

حمدان بھی شرمندہ ہوئے تھے وہ کیوں بول بیٹھے

کیبن کا دروازہ ٹھاہ کی آواز سے بند ہوا تھا وہ شدید غصے میں جو نکلا تھا


-------------------------------------------------


نور کے روم میں داخل ہوئے وہ سوئ تھی

وہ حیران ہوئے پھر یک دم پریشان وہ سارا دن بس سوتی تھی

وہ خوفزدہ سے بیڈ کی جانب گئے

غیر ارادی طور پر اسکی نبض ٹٹولی جو مدہم چل رہی تھی سکون کا سانس کینچھتے زبیر نے اسکے ماتھے پر لب رکھے تھے

حمدان کا بیٹا آنکھوں کے سامنے آیا بلاشبہ وہ پرفیکٹ مرد تھا پر وہ نور سے شادی کیوں کر رہا تھا یہ چیز اضطراب میں ڈالے تھی

نور کو دیکھا جو سوئ ہوئ معصوم سی بچی لگی جس کی معصومیت وہ درندے نوچتے اس کی مسکراہٹ چھین چکے تھے

غارت ہو جاو تم سب

میرا اللہ دنیا اور آخرت دونوں میں عبرت کا نشانہ بنائے"

ہوک زدہ دل آنسووں سے لبریز آنکھیں وہ بے تحاشہ تکلیف میں تھے اگر کوئ بولتا جسٹس زندگی میں بے بس کب ہوا تو وہ بول دیتے اپنی بیٹی کی بربادی پر وہ نور کے سامنےمضبوط تھے پر ٹوٹ پھوٹ تو وجود میں زہر کی طرح پھیلی تھی


-------------------------------------------------------

احان نے ٹریٹ دینی تھی

عروج صبح کا اس کا دماغ یہاں آ کر کھا رہی تھی

شام کے سات بج گئے تھے خود وہ جناب غائب تھے

خودکشی کا کوئ حلال طریقہ بتاو ازہان"

وہ دانت پیستے سامنے بے نیاز موبائل پر بزی ازہان سے بولی تھی

کیوں بھائ سے شادی کا صدما اتنا لے لیا تم نے"

وہ فون پر ٹیکس کرتے بولا تھا ری کو افسوس ہوا آج یونی سے جلدی کیوں آئ وہ اور عروج مسلسل اس کا دماغ کھا رہی تھی آج اسے یقین ہو گیا تھا دنیا میں کوئ اس سے زیادہ بھی بولتا ہے


میں بتاوں" عروج چہکی تھی

جائے نماز پر بیٹھ کر تسبعی سے گلا گھونٹ لیں

حلال کا تڑکا حرام کی موت۔۔۔"


فٹے منہ" ابھی تو میری شادی بھی نہی ہوئ پر جلد ہی دولہے کو سوچتے دل جل بھن گیا وہ دل میں بولی تھی وہ مارنے پر بھی تل گئ تھی


ری تیار ہو بھائ نے ریسٹورینٹ میں ہمیں جوائن کرنا ہے"

ازہان نے احان کا ٹیکس دیکھتے کہا

وہ سیاہ شلوار قمیض پر سرخ حجاب کیے کونے والی ٹیبل پر بیٹھی مسکرا رہی تھی

مسکراہٹ کو یک دم بریک لگی جب وہ اس کے عین سامنے براجمان ہوا تھا

اس کی نظریں اسے جیسے جیسے نکاح کے دن قریب تھے اب پزل کرتیں تھیں

ایسے نہی دیکھیں آپ کی ہیں"

احان کے کزن نے ٹوکا تھا

وہ احان کی مسلسل خود پر مرکوز نظروں سے اب واشروم کا بہانا کرتے اٹھی تھی

ریسٹورینٹ کے باہر قدرے پرسکون ماحول تھا

ابھی وہ ایک قدم مزید اٹھاتی کے بری طرح ٹکراو ہوا تھا

ری کو دن میں بھی تارے نظر آ گئے تھے

احان جو اس کے پیچھے آیا تھا ماتھے پر تیوری چڑھی تھی

اندھے ہی ہیں اس دنیا میں سارے مجھے تو لگتا ہے"

وہ ماتھا مسلتے بولی

سوری مس"

ویسے دھیان آپ کا نہی تھا

غازیان نے جھکتے اپنئ فائل اٹھاتے نارمل لہجے میں کہا وہ میٹنگ کے سلسلے میں آیا تھا

کیا کر رہی تھی تم یہاں"

اس سے پہلے وہ اس کے سر پر سوار تھا

ری نے دیکھا اس کو اب بات بات پر غصہ آتا تھا یہاں تک کے وہ ازہان سے بات کرنے پر بھی غصہ ہوتا یہ چیز وہ بری طرح نوٹ کر رہی تھی

مسٹر ان کا ٹکراو ہو گیا تھا مجھ سے سمپل"

غازیان نے صفائ دی تھی

آپ پلیز جائیں ورنہ یہ مقدمہ کر دیں گے"

ری نے اس کی آنکھوں میں شرارے پھوٹتے دیکھے تھے نارمل لہجہ رکھتے کہا


ویل ہوپ سو نیکسٹ ملاقات اچھی ہو ابھی میں لیٹ ہوں ورنا مقدمے کی جوابی کاروائ ضرور کرتا"

اسے جلدی تھی یہاں سے فری ہو کر اسے جسٹس سے بھی تو ملنا تھا


وہ ریحہ کا بازو کینچھتے لے گیا تھا


کیا پرابلم ہے آپ کے ساتھ سمپل ٹکر ہوئ تھی میری بس"

وہ جانے کیوں صفائ دے بیٹھی تھی


میں نے پوچھا۔۔"

وہ نظریں چراتے بالوں میں ہاتھ پھیرتے خود کے رویے سے کافی الجھا تھا وہ کیوں کر رہا ہے"


گاڑی میں بیٹھو ہم واپس جا رہے ہیں"

فرنٹ ڈور کھولا تھا


میں ازہان کے ساتھ جاوں گی۔۔" وہ چباتے بولی


کیوں چاہتی ہو میں زبردستی کروں وہ باقیوں کو ڈراپ کرے گا تم میرے ساتھ ہی جاو گی"

اس کی بھوری آنکھوں کا کاجل دل چاہ رہا تھا انگلی سے مٹا ڈالے"

استغفار کیسے واہیات خیالات ہیں وہ بے بس ہوا


وہ ازہان کے انتظار میں کھڑی رہی تھی


جب ہارن اس کے قریب بجایا

بیٹھو ورنہ اب خود بٹھاوں گا"

وہ نظریں سامنے مرکوز کیے بولا تھا

وہ پیچھے بیٹھتی جب اس کی سخت آواز نے پل میں اسے سرخ کیا تھا


سمجھ نہی آتی ایک چیز اب عادت ڈال لو مسز ٹو بی فرنٹ میرے ساتھ شیئر کرنے کی"


کیا تھا یہ سب ری کے بس سے کم از کم یہ شخص اب باہر ہوتا جا رہا تھا


وہ تزبزب میں بیٹھی تھی

مجھ سے شرما رہی ہو تم"

اس کی گھمبیر آواز تنہائ اور اس کا پرفیوم انتہائ کنفیوزنگ تھا یہ اس کی موجودگی میں پہلی دفعہ وہ اکیلی تھی گاڑی سنسان روڈ پر رواں تھی

نہی تو م۔۔میں کیوں شرماوں گی"

وہ ہاتھ مسلتے بولی تھی

ری نے تنہائ میں اب میوزک پلیر سے خود کا دھیان بٹانا چاہا تھا

u the light u the night

u the colour of my blood

u the pain u the cure

u the only thing i wana touch

never knew that it could mean so much

so luv me like u do

touch me like u do....

اس نے لب کاٹتے شرم سے بے حال ہوتے بند کرنا چاہا تھا جب احان نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے منع کیا تھا

م۔۔میرے سر میں پین ہے"

وہ فوری ہاتھ ہٹاتے بند کرنے کا جواز دے رہی تھی اب اس نے فوری بند کر دیا تھا وہ اپنے رویے سے الجھاتے اسے حیران کر رہا تھا


کیا زیادہ درد ہے

کوفی پئیں۔۔۔"

وہ اسکی کی آنکھوں میں چند پل دیکھتے زاویہ ونڈ سکرین کی جانب موڑ چکا تھا


ن۔۔۔نہی نیند لوں گی ٹھیک ہو جائے گا" وہ نظریں چراتے بولی


شیور۔۔"

وہ پھر سے اسے کنفیوز کر رہا تھا


جی۔۔۔"

مجھے نیند آ رہی ہے جلدی چلائیں"

سلو ڈرائیونگ پر اکتاتے کہا


سو جاو"

وہ مشورے سے نوازتے ڈرائیونگ کی جانب متوجہ ہوا تھا

وہ ونڈو کے بلکل ساتھ لگتے آنکھیں موند گئی تھی

ابھی چند پل ہوئے تھے احان کو لگا تھا کوئ گاڑی اس کا پیچھا کر رہی ہے

یقین تو تب ہوا جب روٹ بدلنے پر بھی وہ پیچھے تھی

یک دم سپیڈ اتنی تیز کی کے اس کا سر ڈیش بورڈ سے لگا تھا فائر کی آواز سے وہ سوئ جاگی کیفیت میں جاگی تھی

اس کی جانب دیکھا جو شورٹ گن ہاتھ میں پکڑے شیشے کے پار فائر کر رہا تھا

وہ خوفزدہ ہوئ

اریحہ اپنی سیٹ سے نیچے جھکو"

وہ یک دم اس کے خوفزدہ چہرے کو دیکھ بولا

سنا نہی تمہیں"

مسلسل فائر کی آوازیں اور گاڑی کی سپیڈ سے وہ خوفوہراس میں نا سمجھی کے عالم میں جھکی تھی

وہ گاڑی ان کے مقابل تھی سٹیرنگ پر قابو مشکل تھا

اس کی گاڑی کی فرنٹ ہیڈ لائٹ ٹوٹ گئ تھی وہ سمجھ گیا تھ یہ محض ڈارنے کو ہیں

اب اس نے مقابل گاڑی کے ٹائر میں فائر کرتے سپیڈ اتنی تیز کی تھی کے ری کو لگا تھا کسی بھی وقت ان کا ایکسیڈینٹ ہو جائے گا

جب وہ کافی آگے نکل آئے تھے اس نے ری کو دیکھا جو ابھی جھکی تھی


اریحہ

ریحہ۔۔۔" دو بار پکار پر بھی بے سود

احان نے اس کا کندھا ہلایا تھا

وہ یک دم اٹھی تھی روتے بےحال تھی اس کی سرخ آنکھیں پھیلا کاجل احان کے بس سے باہر تھا وہ اس کا حلیہ دیکھ قہقہ لگانا چاہ رہا تھا

we r fine dont cry riha"

وہ محض یہ کہہ پایا تھا جب وہ اس کے کندھے سے لگتے اسے ششدر کر چکی تھی کم از کم وہ ایسی توقع نہی کر رہا تھا

کیپ ڈسٹنس اریحہ"

آئ سیڈ کیپ ڈسٹنس۔۔۔" اب وہ سختی سے بولا سٹیرنگ اس کی موجودگی میں سنبھالنا اب مشکل تھا

آئ ایم سوری میں ڈر گئ تھی" وہ روتے شرمندگی سے بولی تھی

پاگل اب آنکھوں سے جان لے گی میری"

وہ نظریں چراتے بولا تھا

-----------------------------------------------


وہ ان کے گھر داخل ہوا تھا

وہ بک پڑھ رہے تھے جب نظر سامنے پڑی تھی

تم۔۔۔"

غصے کا گراف بڑھا تھا


کیسے ہیں فادر ان لا۔۔"

وہ مسکراتے بلیو جینز جھاڑتے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھا تھا


یہ کیا حرکت ہے ان کا گھر سیو نہی تھا وہ ونڈو سے آیا تھا


سمپلی نکاح کی ڈیٹ لینے آیا ہوں۔۔"

نائس بکس کلیکشن۔۔"

بک ریک سے بک نکالتے ٹائیٹل دیکھتے وہ بولا تھا


ہمت کیسے ہوئ یہ بکواس کرنے کی" وہ آگ بگولا ہوئے تھے

جن کی جوان بیٹی ہو میرے خیال سے ان سے رشتہ مانگا جاتا ہے نکاح کے زریعے"

پھر بکواس کیسی"

زبیر اس کی بے حیائ پر سرخ ہوئے تھے

تمہارے باپ کو جواب دے دیا تھا میں نے"

دانت پیستے بک اس کے ہاتھ سے کینچھی تھی

آپ کی بیٹی پچھلے ہفتے سے سیڈکیٹو میڈیسن یوز کرتی ہے کیا یہ بات جانتے ہیں آپ"

آپ کے گھر کا گارڈ اسے یہ میڈیسن لا کر دیتا ہے کیا یہ بات جانتے ہیں آپ"

آپ کا بھتیجا اس کے پیچھے پڑا ہے اس گنوار سے تو میں کافی ہینڈسم ہوں

کیا یہ بات نظر نہی آتی آپ کو"

اسے کوی نہی اپنائے گا یہ بات جانتے ہیں آپ"

پھر نخرے کس چیز کے زبیر صاحب"

ایک باپ جوان بیٹی کا خیال نہی رکھ سکتا وہ برباد کر رہی ہے خود کو اور میں یہ نہی دیکھ سکتا"

زبیر نے اس کی آنکھوں کو پڑھنا چاہا تھا کیوں وہ اس کی بیٹی کے پیچھے پڑ گیا تھا

مجھے وہ چاہیے ہالہ نور چاہیے ہے مجھے میری زندگی میں شرافت کا مظاہرہ کریں ورنہ میں لے جاوں گا اسے"

وہ لاپرواہی سے ان کے دل میں آگ بڑھکا رہا تھا

وہ میڈیسن لیتی ہے۔۔"

وہ بستر پر ڈھے گئے تھے

میرا مقصد آپکو اگاہ کرنا تھا

دو دن تک جواب دیں مجھے

اور ہاں یہ پینٹنگز مجھے جہیز میں چاہیے زرا ساری اتروا کے میرے گھر بجھوا دیجیے گا"

وہ ان کے روم میں لگی پینٹنگز پر ستائشی نظریں جمائے بولا تھا

جوان بیٹی کا خیال نہی رکھ سکتے

وہ میڈیسن لیتی ہے

وہ خود کو برباد کر رہی ہے"

مسلسل دماغ پریشان تھا


گھڑی سوا دو کا ہندسہ عبور کر چکی تھی

دماغ سے ساری سوچیں جھٹکتے فیصلہ کرتے صبح پر بات چھوڑی تھی


فجر کی نماز ادا کرتے ہی وہ نور کے روم میں گئے تھے

وہ روم میں نہی تھی واشروم سے پانی کی آوازیں آ رہی تھیں

کچھ سوچتے وہ سارے دراز چیک کیے تھے

جب میڈیسن کے دو پتے ان کے ہاتھ لگے

اسی لمحے کلک کی آواز سے وہ باہر آئ تھی اور فق چہرے سے زبیر کو روم میں دیکھا تھا

بابا۔۔۔"

لب پھڑپھڑائے سے تھے

کیا ہے یہ؟

میری محبت کا یہ نتیجہ ہے"

وہ دھاڑے تھے کے وہ سہم سی گئ تھی

بابا میری بات" وہ فوری ان کا جھکا سر دیکھتے روتے قریب گئ تھی

مجھے سکون نہی ملتا نیند ہی نہی آتی

کیا کروں۔۔۔"

ایم سوری نور بری ہے نہ ایم سوری مر جانا چاہیے نا مجھے"

وہ ان کے گھٹنوں پر سر رکھے سسکتے بولی


تمہارا لیے رشتہ دیکھا ہے لڑکا ویل سیٹل ہے

میں تمہارا نکاح کرنا چاہتا ہوں"

وہ اسی پوزیشن میں بولے تھے


بابا۔۔۔" وہ خوفزدہ سی بے یقینی سے پیچھے بدکی تھی


یہی بہتر ہے میری محبتوں کا صلہ دیکھ لیا میں نے ڈاکٹر ہالہ نور تم اپنی زندگی اس طرح برباد کرو گی"

تو بہتر ہے تم گھر داری جیسی زمیداریاں نبھاو"

وہ ششدر چھوڑے چلے گئے تھے

وہ دروازہ تک رہی تھی آیا وہ کیا کہہ رہے ہیں


--------------------------------------------------------


تم لائبریری سے کہاں گئے تھے"


تم کیا ہر وقت میری جاسوس بنی رہتی ہو"

وہ فون پر میسج دیکھتے بولا تھا

میرا بینڈ کھو گیا ہے"

تمہارے فضول بھائ کے چکر میں"

وہ سونی کلائ دیکھتے دکھ سے بولی تھی جہاں نہی تھا

تم نے گم کر دیا ہم دونوں کا سیم تھا ری"

ازہان غصہ ہوا

تم اپنا دے دو نا مجھے"

وہ جانتی تھی ازہان نے اسے کتنی چاہ سے دیا تھا

اچھا لے لینا چلو میں فری ہوں تمہارے لیکچر ہیں کوئ"

وہ سامنے خالی گراونڈ کو دیکھتے بولا


نہی فری ہوں چلو"

وہ اس کے ہمقدم ہوی تھی

-------------------------------------------------

تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اب ایسا دوبارہ کروں گا"

راستہ تو یہی ہے تمہارے پاس"

سامنے بیٹھا شخص اس کا خوفزدہ چہرہ دیکھتے بولا تھا

ہرگز نہی کروں گا میں یہ"

سوچ لے مجھے میر سبطین کے بیٹے کو انکار کر رہا ہے تو"

وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے بولا تھا


ہرگز نہی"

اس لڑکی کی ویڈیو وائرل کر دیکھتا ہوں کیسے مجھ سے ملنے سے انکار کرتی ہے"


یہ سائبر کرائم ہے"

لہجہ لڑکھڑایا تھا میں نہی کروں گا میں نے ڈیلیٹ"


تیری کتنی بہنیں ہیں کیا خیال ہے"

وہ اس کا چہرہ دیکھتے بولا جو خوفزدہ تھا

خوف کے سائے اس کا چہرہ سامنے آتے لہرائے تھے وہ بری طرح اس کام میں پھس چکا تھا

جہاں آگے کنواں اور پیچھے گہری کھائ تھی

------------------------------------------------

بیجان آپ میری شادی احان سے کیوں کرانا چاہتی ہیں"

وہ ان کے گھٹنے پر سر رکھے تھی جب دل میں آیا سوال پوچھا

ریحہ اتنا اچھا نیک بچہ ہے اور پھر تم میری آنکھوں سے دور پرائے گھر بھی نہی جاو گی"

وہ اس کے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولیں تھیں

پر وہ مجھ سے شادی نہی کرنا چاہتا اسے سنجیدہ مزاج کی لڑکی چاہیے میں تو اس کی نظر میں بے وقوف ہوں"

وہ پرسوچ تھی

ریحہ تمہیں کیسے پتہ"

وہ حیران ہوئیں یہ بات تو صرف احان نے ان سے کی تھی

وہ وہ بی جان میں نے سن لی تھی نا" وہ شرمندہ ہوئ

ریحہ۔۔۔" تم نے کان لگائے تھے وہ غصہ ہوئیں

سوری بی جان میرا نام آیا تو میں نے سن لی تھی ساری بات"

وہ مان گیا ہے نا"

وہ اس کے چہرے کو دیکھتے محبت سے بولیں

زبردستی بی جان آپ نہی جانتی نا" وہ دل میں مخاطب تھی

پرسوں کیا ہوا تھا جب لیٹ تھے تم لوگ ازہان تو جلدی آ گیا تھا"

بی جان نے صبع نماز کے بعد گارڈن میں بیٹھے تسبعی کر رہیں تھیں جب وہ صبح ہی گاڑی لے کر نکلا تھا اس کی گاڑی کی ٹوٹی ہیڈ لائٹس دیکھیں تھیں وہ خاموش رہی تاکہ خود اس سے بات کر سکیں


بی جان وہ احان کی گاڑی پر کسی نے۔۔۔" وہ لب دبا گئ اس نے منع کیا تھا


کیا ہوا تھا۔۔؟


پتھر لگ گیا تھا بی جان اور کچھ نہی"

اس کی آواز سے وہ فوری سیدھی ہوتے قریب پڑا دوپٹہ فوری سے لے چکی تھی

لاکھ اختلافات سہی پر اس لڑکی کی اس عادت پر وہ فدا تھا


جبکہ ریحہ گھور کر رہ گئ تھی


بی جان کو کیوں بتانے لگی تھی تم دماغ درست ہے تمہارا"

وہ ان کے روم میں بامشکل انہیں سمجھاتے بجھاتے باہر غضب ناک تیور لیے آیا تھا


مجھے نہی پتا تھا نہی بتانا" وہ جانے کے پر تول رہی تھی


تمہیں سب پتہ ہوتا ہے جب میں نے منع کیا تھا پھر بھی اندازہ ہے نا ان کی تبعیت کا وہ پریشان ہو جاتیں ہیں"

وہ سختی سے بولا تھا


آپ کو کہہ دیا نا مجھے نہی پتہ چلا" وہ زور دیتے بولی


کتنی برائیاں کیں میری"


میں نے نہی کی" وہ ششدر تھی اس کے اگلے الزام پر"


جھوٹ بولو گی مجھ سے جیسے میں تو جانتا نہی نہ"

وہ نہی چاہتا تھا وہ اس کی برائ کرے کسی سے بھی


اسی لیے زہر لگتے ہیں مجھے کاش آپ کی جگہ ازہان کا اوپشن ۔۔۔"


ازہان چاہیے تمہیں"

اس کو دیوار سے لگاتے وہ پھنکارا تھا ری تو اس کے تیور دیکھ ہی خوفزدہ ہوئ تھی

میرا مطلب۔۔" وہ بری طرح اس کی گرفت میں بھوکھلائ تھی

تمہارا مطلب ازہان یا کوئ اور نہی صرف میں ہوں اب ہر چیز میں سمجھی تم"

اس کی آنکھوں میں جھانکتے وہ اسے خوفزدہ کر رہا تھا

آپ ابھی مجھ پر حق نہی رکھتے کوئ بھی"

وہ اس کی نظروں سے الجھتے بولی

میں تمہیں بغیر حق کے چھو بھی نہی رہا سمجھی اپنی سوچیں آئیندہ مجھ تک محدود رکھنا"

اس کو کیا ہو گیا ہے پاگل ہو گیا ہے یہ شائد وہ خوفزدہ سی اس کی پشت تکتے بولی تھی جو جا چکا تھا


-----------------------------------------------------


حمدان سے رشتہ طے کرتے وہ اس ٹائم لاونج میں تھے

زبیر نے جس دل سے ہامی بھری تھی بس وہ جانتے تھے وہ خاموش تھے اور اس بات کی بھنک ابھی اپنے بھتیجے کو بھی لگنے نہی دینا چاہتے تھے ورنا وہ شخص نور کی بدنامی کا ٹیگ سارے جہاں میں لگا دیتا


وہ چائے خود بنا کے لائے تھے ساتھ چند لوازمات بھی تھے

حالانکہ حمدان نے اتنا منع کیا پھر بھی وہ لے آئے تھے


نکاح سادگی سے ہو حمدان اور ساتھ ہی رخصتی چاہتا ہوں

دل سے بتاو تم اس فیصلے سے خوش ہو" وہ ان کی ماتھے پر پڑی شکنیں دیکھ بولے تھے


وہ کیا کہتے جب غازیان کو آگ لگی تھی تو وہ کیا کر سکتے تھے


وہ جواب دیتے جب لاونج میں وہ بکھری حالت میں آئ تھی

سرخ آنکھیں سوجھا چہرہ یقینا وہ صبح سے رو رہی تھی

سفید دوپٹہ آدھا زمین پر جھول رہا تھا بکھرے الجھے بال حمدان کو دیکھتے ہی اب اس کم عمر سی لڑکی پر ترس آیا تھا اور اپنی سوچ پر افسوس


کتنے پیسوں میں اپنا داماد خریدا ہے"

وہ چیختے بغیر لحاظ کے بولی تھی

نور روم میں جاو۔۔"

زبیر نے نظروں سے تنبیہ کی تھی

میں پوچھ رہی ہوں اس کا جواب دیں اپنی بیٹی کو کتنے پیسوں میں دے رہے ہیں اس شخص کو"

وہ دماغی طور پر پوری طرح ڈسٹرب تھی

بوجھ ہوں نہ آپ کے لیے

بدنامی ہوں آپ کے لیے مار دیں مجھے بلکہ آپ کیوں میں مارتی ہوں خود کو۔۔۔"

زبیر کا دل دھک سے رہ گیا تھا وہ تیز دھار والی چھری جو وہ ہاتھ میں جانے پہلے سے ہی پکڑے تھی اپنی نبض پر رکھے آنکھیں بند کر چکی تھی

نور بیٹے دیکھو ایسے نہی کرتے یہ لگ جائے گی آپ کے"

حمدان نے دھیمے سے قدم اس جانب بڑھائے تھے

دور رہیں مجھ سے" وہ لگاتار بہتے آنسووں سے زبیر کا دل بری طرح زخمی کر رہی تھی

میں دور ہوں میری جان میری بات تو سن لو اسے رکھ دو پلیز ہالہ"

زبیر دل پر ہاتھ رکھتے خوفزدہ سے تھے نارمل موسم میں بھی پسینہ ان کی خوف زدہ جلد پر نمودار ہوا تھا

اس سے پہلے وہ خود پر وار کرتی پیچھے سے اس کی دونوں کلائیاں کسی نے مظبوطی سے تھامی تھیں چھری کا زور اس کے ہاتھ سے اس کی کلائ پر بری طرح پڑ رہا تھا


مرنا ہے"

اس کا سانس اپنی کلائ پر ان چاہا لمس پاتے بری طرح اٹکا تھا

شوق سے مر جانا پر مجھ سے نکاح کے بعد"

کلائیاں چھڑاتے اپنی پشت پر کھڑے انجانے شخص کی کان کے قریب ترین سرگوشی سنی تھی

زبیر اور حمدان نے سکون کا سانس لیا تھا

وہ اس کے روبرو ہوا بھیگی سرخ انگارہ خوفزدہ آنکھیں جو اسے بے چین کیے تھیں آج اس کا چہرہ روبرو دیکھا تھا

جو ہو نا سکی بات

وہ چہروں سے عیاں تھی

حالات کا ماتم تھا

ملاقات کہاں تھی

وہ مجھے متوجہ کرنے کا ہنر رکھے"

وہ اب نظر جھکا گیا تھا

نور کو یہ سامنے کھڑا شخص انتہائ زہر لگا تھا

فادر ان لا یہ نکاح کل شام ہی ہو گا"

وہ اس سے نظر نا ملاتے اب زبیر سے مخاطب ہوتے بولا تھا حمدان کو چھوڑنے وہ آیا تھا اور اب لینے بھی پر ہارن دینے پر وہ باہر نہی آئے اور اندر آتے جو تماشہ لگا تھا وہ کسی ڈرامے سے کم نہی تھا

مجھے منظور ہے"

وہ ہق دق کھڑی تھی کیا اس کی کوئ ویلیو نہی کون تھا یہ شخص اور اس کا باپ وہ جانتا نہی تھا وہ کیا کر رہا ہے اس کے ساتھ دل چاہ رہا تھا سب کچھ تہس نہس کر دے وہ


گاڑی ڈرائیو کرتے اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا


غازیان یہ بہت بڑی زمیداری ہے"

تم سوچ لو کیا ماں جانتی ہے تمہاری

حمدان نے دل میں آئے سوال کیے تھے

مما کو کل انفارم کروں گا"

وہ بے تاثر بولا تھا


اس سے نکاح کی وجہ کیا ہے میرے بیٹے کو کمی تو نہی پھر۔۔"


اس میں کیا کمی ہے"

وہ ان کی جانب دیکھتے بولا


تم جانتے ہو پھر بھی میں منع نہی کر رہا غاز لیکن ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے ہمدردی اکثر نقصان دیتی ہے"

وہ سمجھاتے بولے کہ محض یہ اس کا جزباتی فیصلہ ہے


جانتے ہیں ڈیڈ وہ اس چیز کے لیے مجھے جواب دہ نہی ہے یہ نکاح سے پہلے کا معاملہ ہے اگر وہ میرے نکاح میں ہوتئ تب اگر یہ سب کچھ ہوتا تو میرے لیے میٹر کرتا"

وہ بے قابو ہوتی دھڑکنوں سے بولا تھا کیوں یہ لوگ اس کا فیصلہ ڈگمگا رہے تھے


محبت کرتے ہو اس سے"

وہ پھر سے بولے تھے غازیان کوفت زدہ ہوا کہ راستہ کیوں نہی ختم ہو رہا"


کل میرے نکاح میں آنے کے بعد وہ غازیان نیازی کے لیے واجب المحبت ہو جائے گی"

وہ ششدر چھوڑے گاڑی روک چکا تھا

گھر آ گیا آپ کا" وہ ان کو حیران دیکھتے اندھیری سڑک پر نظر مرکوز کر چکا تھا

گھر داخل ہوتے وہ روم ان لوک کیا تھا

وہ اندر بڑھا تھا

سکیچ بک ہاتھ میں لی اور وہ لیٹر"

ڈیئر سٹرینجر

آئ نو تمہاری پرشین کیٹ مجھ سے کھائ میں گر گی ہے"

آئ اپولوجائز پر تم نے سکیچ بنوا کر میرا سارا ٹوور برباد کر دیا ہے اس کے لیے تمہیں بھی معافی نہی ملے گی

غازیان کے لب مسکرائے تھے

اور وہ تین سال پہلے کا لمحہ یاد آیا جب وہ مری گیا تھا اور وہاں اس کی ملاقات اس لڑکی سے ہوئ تھئ

وہ کاوچ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھا تھا


ایک سیلفی پلیز۔۔"

وہ سفید فر والی بلی سیاہ کار کے بونٹ پر پڑی سرخ باسکٹ سے لیتے دھڑا دھڑ پکچرز لے رہی تھی


رکھ دے یار اس کا مالک گھور رہا ہے"

ساتھ والی لڑکی نے اسے متوجہ کرنا چاہا جو گاڑی سے ٹیک لگائے اس کے کارنامے دیکھ رہا تھا پر وہ تو اپنی دھن میں تھی

وہ اس سب میں اس کے ہاتھ سے نکلتے کھائ کی جانب چلئ گئ

اس سے پہلے کے وہ اس کو پکڑتی وہ کھائ کی نظر ہو گئ

او مائے گوڈ اس کا سانس حلق میں اٹک چکا تھا

اب کیا ہو گا وہ پریشان تھی

وہ ساری کاروائ دیکھ چکا تھا

وہ اس طرف آ رہا ہے"

وہ خوفزدہ ہوئ تھی سیاہ آنکھیں خوفوہراس میں مبتلا تھیں سیاہ گلاسس کی وجہ سے وہ اندازہ نہی لگا سکی کہ وہ کتنے غصے میں ہے"


آپ کی بلی میں نے جان بوجھ کر نہی وہ بس پتہ نہی کیسے و۔۔وہاں

وہ مزید بولتی جب اس کے قدم پیچھے لڑکھڑائے تھے

آہ۔۔۔" فلگ شگاف چیخ وہ آدھی کھائ میں لڑکھی تھی جبکہ ایک بازو اس کے ہاتھ میں تھا

آج آخری دن تھا


پھینک دوں" سرد لہجہ تھا


نو۔۔پلیز مجھ سے بدلہ نہی لو"

وہ خوفزدہ سی گہرائ دیکھتے کانپ رہی تھی

غازیان نے اس کے ناخن اپنی ہاتھ کی سطح پر چھبتے محسوس کیے

ایک جھٹکے سے نیچے کیا تھا

وہ چیختے لوگوں کو متوجہ کر چکی تھی


i don't want to die plz....."


وہ خوفزدہ سی مرنے کے قریب تھی

اب لوگوں کی آوازوں سے اسے اوپر اپنی جانب کینچھا تھا وہ اس کے سینے سے لگی بری طرح روتے شرٹ مٹھی میں جھکڑے تھی

یو آر فائن لیکن تمہارا رونا مجھ پر اثر نہی کرے گا

تمہیں پے کرنا پڑے گا"

وہ اس کو سیدھا کرتے خشک لہجے میں بولا تھا

ہاو کین میری غلطی نہی تھی میں بس سیلفی لے رہی تھی وہ ہاتھ سے نکلتے کیسے چلی گئ"

وہ روتے بولی تھی

ہنڈرڈ سکیچ بناو گی اس کے"وہ اگنور کرتے بولا

میرا ٹوور برباد ہو گا اتنے کیسے بناوں گی" وہ خوفزدہ ہوئ تھی

پے کرو مجھے ابھی تیس ہزار پھر" وہ بے نیازی سے جیکٹ کی بازو فولڈ کرتے بولا تھ

میں گھر جا کر ٹی سی ایس کر دوں گی

ایڈریس۔۔"

وہ فون پر نوٹ پیڈ کھولتے بولی تھی

اس لمحے غور کیا تھا وہ اتنی معصوم بھی نہی تھی


not accepted.."

ازلی بے نیازی سے بولا

پی سی کے روم نمبر 103 میں ہوں میں اور تم میرے سے چار روم چھوڑ کر ہو"

چالاکی کی ضرورت نہی"

اس کے فون سے اپنے فون پر نمبر ڈائل کرتے اسے تھمایا

وہ اس کا منہ کھلواتے جا چکا تھا


تمہاری سیلفی کے چکر میں کرو سکیچنگ"

وہ شام میں نکلی تھی مال روڈ سے ہوتے وہ سٹیشنری کی شاپس ڈونڈھ رہی تھی


وہ اس کا پیچھا کر رہا تھا اس لڑکی کو یوں دیکھتے مزا آ رہا تھا

سیاہ جینز پر سکن لونگ کوٹ پر ہائ پونی ٹیل کیے وہ اس شاندار شام کا حصہ لگی تھی


بحرحال سکیچ بک اور پنسلز خریدتے وہ ہوٹل کی جانب بڑھی جہاں کالج کے باقی بچے ٹھہرے تھے

کس نے کہا تھا اس کھڑوس کی بلی سے پنگا لو'

یہ تیسرا سکیچ تھا

وہ تھک چکی تھی

وہ تیار ہو رہی تھی آوٹنگ کے لیے وہ منہ بسورے سکیچنگ کر رہی تھی

سکیچ چیک کرواو اگر ٹھیک نا بنا تو قبول نہی کروں گا"

وہ بیڈ پر لیٹے اپنی بے وقوفانہ حرکت پر حیران تھا

ہاتھ تھما تھا

وہ روم سے نکلی تھی گہرا سانس بھرتے اس کا ڈور نوک کیا

اندر نہی آوں گئ" وہ سیاہ شرٹ ٹراوزر میں تھا اسے خود کے قریب دیکھتے بدکی تھی

آہ بلیو اس کا فیورٹ تھا یا آج ہوا تھا وہ بلیو لونگ شرٹ میں تھی


اس کی ناک ایسی نہی تھی" وہ دیکھتے بولا اس کی آرٹ بہت کمال تھی وہ ہوبہو ویسی بنا کر لائ تھی وہ تو بس یوں ہی بول بیٹھا تھا


او پلیز میرے سامنے نہی ہے وہ"

وہ دانت پیستے بال چہرے سے ہٹاتے بولی تھی

غازیان کی نظر اس کے ہاتھ پر لگی پنسل کے نشانوں پر گئ تھی

وہ مسکراہٹ دبا کر رہ گیا

آج ٹوور کا لاسٹ ڈے تھا

بامشکل اس نے پندرہ سکیچ بنائے تھے

وہ اس کے روم میں گئ تھی

وہ آہٹ محسوس کر چکا تھا پر بالکنی میں کھڑا سگریٹ پیتا رہا وہ سمیل محسوس کر رہی تھی کھانسی بھی تھی پر لگا وہ نہی ہے


بے شرم بدتمیز سٹرینجر تمہاری وجہ سے ٹور برباد ہوا میرا

بامشکل میرے باپ نے اجازت دی تھی

بابا کہتے ہیں شوہر کے گھر جا کر ڈارک لپسٹک لگانا

یہاں لگانا چاہتی تھی لیکن تم اور تمہاری بلی کے چکر میں سب برباد"

وہ سکیچ رکھتے جیسے ہی پلٹتی اس کی کلائ تھامی تھی

میں نے برباد کیا ٹوور"

بے بی نے لپسٹک لگانی ہے" وہ اس کے ہونٹوں کو فوکس کرتے بولا

ن۔۔نہی میرا مطلب تھا کے آپ تو اچھے ہیں میں ہی بری ہوں

نہی لگانی لپسٹک پلیز جانے دو باہر بس ویٹ کر رہی ہے میرا"

وہ بے بس ہوئ تھی

یہ تین دن صرف اس کو اپنے روم کی بالکنی سے سکیچنگ کرتے دیکھ گزارے تھے

اس کی آنکھ کے کنارے ایک بال تھا وہ اس کا ہاتھ اپنی کلائ کے بعد چہرے پر محسوس کرتے تنہائ میں خوفزدہ سی تھی

make a wish"

یہ احمقانہ حرکت تھی

میرا ہاتھ چھوڑ دو بس" وہ بند آنکھوں سے بولی تھی

کہاں رہتی ہو" وہ اس کے چہرے کے نقوش حفظ کر رہا تھا

بس مس ہو جائے گی پلیز جانے دو" آنسو پلکوں کی حدیں طے کرتے گال پر تھا

اور وہ اس لمحے کی قید میں تھا وہ سامنے تھی پر بے حال حالت میں

سکیچ بک کھولی تھی جہاں اس نے سکیچ بنائے تھے ہر سکیچ کے نیچے ایک نام لکھا تھا

سماب آرٹز" کے لفظوں پر لب رکھے تھے

ہاں مجھے محبت ہے اس لمحے سے نور جس لمحے ہم ملے تھے

پرسوں لاسٹ ہیرنگ ہے امید ہے ہم ہی کامیاب ٹھہریں گے"

وہ ہاتھ ملاتے اپنے کیبن کی جانب چلا گیا تھا

لیکن سامنے بیٹھے لوگ اس کا پارہ اپنی حرکت اور آج موجودگی سے ہائ کر چکے تھے


تم لوگ نہایت ڈھیٹ پائے گئے ہو"

مجھ پر حملہ کروا کر ڈرا دھمکا کر لگتا ہے کہ میں ڈر جاوں گا تو سوری غلطی پر ہو تم"

وہ تیش زدہ سا بولا تھا

پسوں فیصلہ ہمارے حق میں ہو وکیل

یہ فیک انکاونٹر ثابت کرنے میں کوئ وقت نہی لگتا ہم نے محض ڈارنے کو گولی چلائ تھی مارنے کا کوئ ارادہ نا تھا لہحذا چپ چاپ بات مان لو تمہیں اور تمہاری دوسری پارٹی کو بھی خوش کر دیں گے"

وہ بندہ اٹھتے تحمل سے سمجھاتے بولا تھا

تمہارے بھائ نے معمولی سی زمین کے لیے اسے پر فائر کیے

پولیس وہاں تماشہ دیکھتی رہی تم اسے فیک انکاونٹر ثابت نہی کر سکتے ڈرانے کے لیے کوئ سینے پر نہی ٹانگ پر گولی مارتا ہے

اور ہاں موقع پر بنی ویڈیو میرے پاس ہے لہحذا فضول میں دماغ کھانے نہی آیا کرو چلتے بنو"

بڑے آئے مجھے اور میری پارٹی کو خوش کرنے والے

شوق سے جو کرنا ہے کرو تمہارا بھائ لمبا اندر"

وہ تنزیہ ہاتھ کا جہاز بناتے بولا تھا جبکہ سامنے والے کا دل چاہا تھا اس کے سینے میں بھی گولی مار کہ اڑا ڈالے


بس ایوڈینس زیادہ تھے کیس جیتنے کے چانسس زیادہ تھے اسی لیے وہ منتوں پر مجبور تھے اور وہ ویڈیو جانے اس کے ہاتھ کیسے لگی جبکہ وہ نہی جانتے تھے وہ ہوائ تیر چھوڑے ہے


سوچ لے بھاری نا پڑ جائے تیری فیملی پر"

وہ وارننگ دیتے چلا گیا

جبکہ احان سر جھٹکتے اپنے جگہ پر براجمان ہوا تھا


-----------------------------------------------

کیسی ہو۔۔۔"

تم نے کیسے یاد کیا مجھے"

وہ کرب سے آنکھیں میچ گیا

دیکھو میں تمہیں جہاں بلا رہا ہوں مجھ سے ملنے آو گی"

وہ دھڑکتے دل سے بولا وہ انکار نا کر دے

آگے کبھی انکار کیا افکورس بتاو ٹیکس سینڈ کرو میں آ جاوں گی"

وہ خوشی سے چہکی تھی

تمہاری کتنی بہنیں ہیں"

اس کی بات دماغ میں گھومی تھی

اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا وہ تو سوچ بھی نہی سکتا تھا اس کے ساتھ کبھی ایسا ہو"

ایک غلطی کتنی بھاری پڑتی ہے ہم سوچ بھی نہی سکتے جس کا خمیازہ کبھی کبھار ساری زندگی بھگتنا پڑتا ہے

میں آ جاوں گی تم جانتے ہو ہمارا ریلیشن کافی آگے نکل چکا ہے

ہم شادی کب کر رہے ہیں"

بات کی تم نے گھر میں یوں روز روز ملنا اچھا نہی ہے اب"

وہ ٹیکس پڑھتے پہلی دفعہ شرمندگی کی انتہا پر تھا آج وہ اس لڑکی کو کسی اور کی تھالی میں زینت بنا کے پیش کرنے والا تھا سویا ضمیر جگا رہا تھا پر خوف دل میں سمایا تھا جو ضمیر کو سلانے میں مدد دے رہا تھا

----------------------------------------------------

سیاہ جینز سفید شرٹ پر سیاہ بلیزر پہنے معمول کے حلیے میں تھا شیشے کے سامنے خود کو دیکھا تھا

خاموش ساکن سا گھر کا ماحول تھا ہمیشہ سے وہ تنہا رہا تھا وہ اس تنہائ کا عادی تھا پر آج وہ اس کی زندگی میں شامل ہونے جا رہی تھی جانے کیا ہونا تھا وہ اتنا بڑا فیصلہ کر تو بیٹھا تھا پر کیوں دل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز تھی آج کوئ تماشہ نا ہو

تھا تو ایک مرد ہی نہ

گہری سانس لیتے وہ سوچ سکا


سیاہ گھنے بال نفاست سے بنی شیو پرفیکٹ فزیک واچ باندھتے وہ خود کو دیکھ مسکرایا تھا

پرفیوم خود پر انڈھیلتے روم پر ایک نظر ڈالی جو بلکل سادہ تھا کوئ تیاری نہی تھی بلیو اور اوف وائٹ تھیم میں روم تھا صرف ایک ڈریسر بیڈ اور وارڈروب کے علاوہ ایک چھوٹا سا روم اس کے روم میں بنا تھا اس کے علاوہ بیڈ کے سامنے بس ایک سنگل سیٹر صوفہ تھا ونڈوز پر بلیو اور سفید پردے گرے تھے زیادہ نفاست پسند تو نہی تھا پر چیزیں ترتیب میں ہی رکھتا تھا


اپنا والٹ سیل فون اور کیز ڈریسر سے لیتے وہ ائیر پورٹ کی جانب روانہ ہوا تھا جہاں اس کی ماں بھری پڑی تھی اور اس عتاب کا نشانہ کس کس نے بننا تھا وہ جانتا تھا وہ بھی اس لپیٹ میں آنی تھی


ابھی وہ گاڑی میں بیٹھتا جب حمدان نیازی کی گاڑی پورچ سے انٹر ہوئ تھی

وہ گاڑی سے نکلے تھے جب دو تین لوگ بھی گاڑی سے نکلے تھے

یہ کون ڈیڈ۔۔۔"

وہ حیران ہوا تھا انہیں کچھ سامان کے ساتھ گھر کے اندرون جانب داخل ہوتے دیکھ

تمہارے گھر اور روم کو ڈیکوریٹ کرنے والے"

اور تم اس حلیے میں جاو گے" وہ اس کی جانب دیکھتے حیرت سے بولے تھے

جو اپنے معمول کے حلیے سے بلکل بھی ہٹ کے نہ تھا انہیں اس خاص دن کے لیے سادہ ہی لگا

یعنی کے اب اے سی سیلون جائے گا دولہا بننے کے لیے آہ ہرگز نہی وہ سوچتے جھرجھری لے بیٹھا


کیا ہوا مجھے ویسے بھی مما کہتی ہیں غازیان زیادہ تیار نہی ہوا کرو تمہیں نظر لگ جاتی ہے"

اور میں خیال کر رہا ہوں کہیں مجھے نظر ہی نہ لگ جائے"

وہ گاڑی کے شیشے میں خود کو دیکھتے لاپرواہی سے بولا

ویری فنی لگ ہی نہ جائے تمہیں نظر"

وہ منہ بری طرح بگاڑتے بولے کتنے ارمان تھے انہیں اسے یہاں اپنے پاس دیکھتے اس کی شادی کے پر سب دھرے رہ گئے تھے

میرے کچھ گولیگ بھی آئے گیں غازیان ڈیپارٹمنٹ کے ہیں تمہیں جانتے بھی ہیں تمہاری جان پہچان نہ ہو پر میری ہے امید ہے کوئ تماشہ نہ ہو"

وہ محض سر ہلا گیا تھا


------------------------------------------------------


اس کے گھر کا لان خوبصورتی سے سجا تھا

جو بھی تھا جتنی تیاری ہو سکی تھی وہ کر چکے تھے

نور کا سامنا نہی چاہ رہے تھے جانتے تھے وہ حشر بھرپا کیے ہے

اب وہ اس کے روم میں نوک کرتے گئے تھے

وہ گلاس وال کے نزدیک کھڑی سادہ سی تھی


بیڈ پر گولڈن کلر کا شرارہ بڑے سے سرخ کام دار دوپٹے کے ساتھ جیولری کے باکس کے ساتھ پڑا تھا

وہ نہی جانتی تھی یہ ڈریس کس نے خریدا ہے بس اس کے روم میں صبح پہنچ گیا تھا

کیا ایسی ہوتی ہے شادی اپنی ماں کی شادی کی البم دیکھتے اکثر نارمل لڑکیوں کی طرح اپنی شادی کے لیے ارمان سجاتی تھی وہ

نور۔۔۔"

وہ نہی مڑی تھی

ناراض ہو بابا سے"

وہ اس کی ساتھ کھڑے ہوتے وہ تلاش رہے تھے جو وہ سامنے دیکھ رہی تھی ویران خشک آنکھوں سے"

وہ پلٹی تھی وہ نہی تھے پر جو بات کہہ کر گئے تھے اس کے دل کو مٹھی میں جھکڑ گئے تھے

اگر نکاح نا کیا نور تو میری موت کی زمیدار تم ہو گی"


----------------------------------------------------


وہ صوفے پر لیٹی فون پر گیم کھیل رہی تھی جب ثانیہ اور اس کی ماں ڈھیر ساری شاپنگ بیگز کے ساتھ لوٹیں

ریحہ مجھے پانی تو پلاو بیٹا"

وہ ناگواری سے شاپنگ دیکھتے کیچن کی جانب گئی تھی

یہ دیکھیں بی جان کیسے ہیں کپڑے اب وہ لاونج میں ہی شاپنگ بکھیرے اس کا دل جلا رہی تھیں زیادہ دیر وہ چپ نہی رہ سکی

یہ نکاح ہے یا ہمسایوں کے بچوں کی بھی شادی ہے ہمارے ساتھ"

وہ اب ان کی ڈھیر ساری شاپنگ دیکھتے حیران تھی


نہی مقصد کیا ہے ایک سادہ کوٹن کے سوٹ کے ساتھ لال دوپٹہ کافی تھا میرے خیال سے"

وہ سرخ چہرے سمیت بولی تھی


کچھ نہی تم یہ ڈریس دیکھو کیسا ہے"

سانیہ محبت سے اپنی بہو کے ناگوار تیور دیکھتے بغیر خوشی سے بولیں تھیں


وہ زبردستی سر ہلا رہی تھی

ریحہ۔۔۔"

مسلہ کیا ہے تمہیں کیوں مجھے شرمندگی دلاتی ہو

اب کیا کیا ہے میں نے"

لاونج سے سانیہ چلی گی تھی تو نائمہ اس کے ناگوار تاثرات کے آہستگی سے لتے لے رہی تھی

صاف پتہ چل رہا تھا تمہیں دیکھ کر جتنی کی تم دلچسپی لے رہی ہو بچی یا ٹی نیجر تم ہو نہی تئیس سال کی ہونے والی ہو اب"


میری عمر کی یاد دہانی کرا کر آپ کے ارادے کیا ہیں مما۔۔۔"

وہ حیرت زدہ ہوئ

ریحہ ماں کو شرمندہ نہی کرنا احان سمجھدار ہے یہ نازک رشتے ہیں غیر سنجیدگی کے ثبوت نہی دیا کرو" وہ سر تھام کے رہ گئیں تھیں

میں ہی نہی سمجھدار بس ہر چیز میں احان احان میری ماں نہی اس کی ماں ہیں آپ کوئ ماں ایسے نہی کرتی جس کو دیکھو اس گھر میں احان کے راگ الاپتا ہے

میں احان نہی بن سکتی وہ اٹیشن لینا فرض سمجھتا ہے اس کی اصلیت سے آپ واقف جو نہی ہیں"

وہ تھک گئ تھی احان کی تعریفیں سنتے اب اتنی بھی ناسمجھ نہی تھی وہ


کیا بکواس ہے یہ دس دنوں میں سدھار لو خود کو نکاح کے بعد کوئ بھی فضول حرکت نا دیکھوں تم میں"

یہ بحث لمبی جانی تھی وہ بات سمیٹتے بولیں


لڑکی کا فرض نہی ہوتا مما لڑکے کا بھی فرض ہوتا ہے خود کو بدلنا"

وہ رندھی آواز میں بولی تھی


ریحہ میری جان کیوں ایسے کرتی ہو تم"

وہ اسے ساتھ لگاتے پریشان ہو گئیں تھیں

میرا یونیورسٹی کا آخری سال تو کم از کم سکون کا گزارنے دیتی لیکن نہی بیچ میں اس نکاح کا رولا علیحدہ ڈال دیا ہے"

وہ ان کے ساتھ لگی بولی تھی

ارے کیا ہوا میری بیٹی کو کیوں رلایا ہے"

وہاج دونوں کو راز ونیاز کرتے قریب ہی بیٹھ گئے تھے

کچھ نہی بس شادی کے نام پر اپسیٹ ہو گئ تھی"

وہ اس کے سر کو چومتے مسکراتے بولیں تھیں

--------------------------------------------------

س کے گھر کا لان خوبصورتی سے سجا تھا

جو بھی تھا جتنی تیاری ہو سکی تھی وہ کر چکے تھے

نور کا سامنا نہی چاہ رہے تھے جانتے تھے وہ حشر بھرپا کیے ہے

اب وہ اس کے روم میں نوک کرتے گئے تھے

وہ گلاس وال کے نزدیک کھڑی سادہ سی تھی


بیڈ پر گولڈن کلر کا شرارہ بڑے سے سرخ کام دار دوپٹے کے ساتھ جیولری کے باکس کے ساتھ پڑا تھا

وہ نہی جانتی تھی یہ ڈریس کس نے خریدا ہے بس اس کے روم میں صبح پہنچ گیا تھا


کیا ایسی ہوتی ہے شادی اپنی ماں کی شادی کی البم دیکھتے اکثر نارمل لڑکیوں کی طرح اپنی شادی کے لیے ارمان سجاتی تھی وہ


نور۔۔۔"

وہ نہی مڑی تھی


ناراض ہو بابا سے"

وہ اس کی ساتھ کھڑے ہوتے وہ تلاش رہے تھے جو وہ سامنے دیکھ رہی تھی ویران خشک آنکھوں سے"


وہ پلٹی تھی وہ نہی تھے پر جو بات کہہ کر گئے تھے اس کے دل کو مٹھی میں جھکڑ گئے تھے

اگر نکاح نا کیا نور تو میری موت کی زمیدار تم ہو گی"


---------------------------------------------------

بیوٹیشن نے اسے ہلکا پھلکا تیار کر دیا تھا سوگواریت رگ وپے پر سرائیت کیے تھی

کچھ مانگو آپ سے دیں گیں مجھے"

ایک امید بھری نظر سے سرخ چنری کی اوٹ سے چند گواہان اور نکاح خوان کے ساتھ انہیں دیکھا تھا

وہ نظریں چرا رہے تھے کے اس لمحے وہ اس کے ساتھ بیٹھے تھے پر دماغی طور پر اس کے روشن مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے

ہالہ نور ولد زبیر صدیقی آپ کا نکاح غازیان نیازی ولد حمدان نیازی سے پندرہ لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے


ان کا ہاتھ اپنے کندھے پر محسوس کرتے گھٹی سی آواز میں کہا تھا


قبول ہے آخری بار ادا کرتے آنسو رواں تھے

تو آج آپ نے مجھے پرایہ کر دیا میرے آنسو بھی کام نہی آئے"


وہ اس کو ساتھ لگائے تھے پر وہ بے تاثر ہی رہی تھی


پلیز میں آپ کو سب سمجھا دوں گا ابھی یہاں کوئ بھی تماشہ نہی کریں مما"

وہ قدرے آہستہ آواز میں مبارک وصول کرتے سمجھاتے بولا تھا


ملیحہ خاموش ہو گئ تھی وہ سیدھا نور کے گھر لایا تھا کہ وہ اس لڑکی کو پسند کرتا ہے اور اس کے کزن کا معاملہ بتایا کے وہ اس کے پیچھے پڑا ہے جس کی وجہ سے وہ نکاح کر رہا ہے حمدان سے سامنا نہی ہوا تھا ابھی یا وہ جان بوجھ کر سامنے نہی آئے تھے


اس کی باتیں زہن میں آتے دل تکلیف سے دہرا تھا

پورا گھر ویران تھا نور رخصت ہو گئ تھی

ایک چیز مانگو آپ سے"

آج نور بابا سے جو بھی مانگے گی دوں گا میں"

مجھے کچھ بھی نہی چاہیے بابا بس یہ نکاح نہی کریں

اگر آج نکاح ہوا تو نور آپ کے لیے ہمیشہ کے لیے مر جائے گی

میں کبھی آپ کے گھر نہی آوں گی کبھی بھی"

زبیر نے بند ہوتی آنکھوں سے تکلیف سے دل پر ہاتھ رکھا تھا

اس وقت وہ اس کے روم میں تھی جب چند سانحے پہلے کے لمحات یاد آئے

وہ خود ڈرائیو کر رہا تھا اور وہ بیک سیٹ پر تھی فرنٹ مرر سے اس کی نظریں خود پر مرکوز پاتے بھی وہ جھکے سر سے انجان تھی جیسے وہ موجود ہی نہ ہو

رخصتی کے وقت ایک آنسو اس کی آنکھ سے نہی نکلا جبکہ زبیر اس کو ساتھ لگائے روئے تھے

سنسان سا گھر تھا جہاں کوئ بھی تیاری نہی تھی

ملیحہ نے اپنا سرسری سا تعارف کراتے فلحال اسے اس کے روم میں چھوڑا تھا کیونکہ غازیان سے ابھی انہوں نے تفصیل سے بات کرنی تھی

وہ حیران ہوئ اس کا پورا کمرہ سرخ پھولوں سے سجا تھا وہ اس کی سوچ پر استہزایہ انداز میں سب دیکھ رہی تھی

سفید بیڈ شیٹ سے بکھرے پھول مٹھی میں لیے تھے جتنا رونا تھا وہ کل سے رو چکی تھی بس اب وہ بے تاثر تھی

خواب ناک ماحول بیڈ کے درمیان گولڈن شرارہ پھیلائے بیٹھی ایک اجڑی دلہن اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی

اور دلہا لاپتہ تھا

میں کیوں ایسے بیٹھی ہوں اس کے انتظار میں"


ابھی وہ اٹھتی جب کوئ عورت اس کے روم میں آئیں تھیں

ملیحہ نے اس کا چہرہ دیکھا گولڈن شرارے میں ملبوس کم عمر سی لڑکی خوبصورتی میں اپنے بیٹے کے مقابلے کی لگی پر چہرہ تو بلکل بھی کھلا نہی تھا

میرا بیٹا تمہیں پسند کرتا ہے کہاں ہوئ پہلی ملاقات"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے محبت سے بولیں

تو یہ رچائ تھی اس نے جھوٹی کہانی اپنی ماں کو اس کی حقیقت نہی بتائ

آپ کو غلط فہمی ہوئ ہے آنٹی"

آپ جانتی ہیں انکل حمدان نے اور آپ کے بیٹے نے زبردستی کی ہے"

اس نے زبردستی کی ہے میرے ساتھ نکاح میں

میں تو اسے جانتی بھی نہی"

وہ بے تاثر بولی تھی

ملیحہ کا اسے کنگن پہناتا ہاتھ تھم چکا تھا

زبردستی کی ہے اس نے وہ باہر آ گئیں تھیں

میں ایسی تمہاری شادی تو نہی چاہتی تھی تمہارا باپ امل تھا اس میں ماں کی کوئ ویلیو نہی"

بتانا بھی گوارہ نہی کیا یہ سب تمہارے باپ کا کھیل تھا کیا سمجھتا ہے وہ شخص مجھ سے میرا بیٹا چھین لے گا"

وہ اس کے روم سے غضب ناک تیوروں سے باہر نکلی تھیں

وہ ابھی لاونج میں بیٹھا تھا رخصتی اس کے کزن کی وجہ سے جلدی ہو گئ تھی تاکہ وہ کوئ ہنگامہ نہ کریں وہ خود بھی نہی چاہتا تھا کوئ ہنگامہ ہو

وہ تو ان کئ باتوں پر ہی صدمے میں تھا

آخر ثابت کر دیا تم بھی اپنے باپ پر ہو"

زبردستی نکاح کیا ہے اس لڑکی سے وہ نا خوش ہے"

غازیان اس نکشاف پر حیرت زدہ تھا

ابھی مزید کوئ بات ہوتی کے روم سے توڑ پھوڑ کی آوازیں آنا شروع تھیں

یہ کیا پاگل پن ہے پاگل ہے وہ لڑکی"

وہ پریشان ہوئیں تھیں

ریسٹ کریں آپ میں دیکھتا ہوں"

یہ سب کیا تھا ملیحہ کو لگا تھا اس کا بیٹا پاگل ہو گیا ہے عجیب شادی تھی یہ

وہ لاونج میں ششدر کھڑی تھیں

وہ اندر داخل ہوا تھا

توڑ دیا سب یا کچھ رہتا ہے"

اپنی پشت پر وہی سرد آواز محسوس کرتے دل دھک سے رہ گیا تھا

توڑ دیا سب یا کچھ رہتا ہے"

وہی سرد آواز اپنے پاس محسوس ہوئ تھی

خواب ناک ماحول میں اس کی موجودگی پاتے وہ اپنی جگہ منجمند سی ہو گئ تھی

ناچاہتے ہوئے بھی آنسو آنکھ کے کنارے پر آیا تھا

وہ اب ڈریسر کے سامنے تھا بلیزر اتارے بیڈ پر رکھتے شرٹ کے کف لنکس کھولتے موڑتے وہ ہمت جمع کر رہا تھا

اس کی نظریں اپنی پشت پر جمی محسوس کرتے وہ چاہتا تھا وہ کچھ تو بولے پر وہ لب سیے تھی

کیا ساری رات ایسے ہی رہنا ہے"

جوڑے سے نکلے بکھرے بالوں سمیت بھاری سرخ کام دار کندھے سے ڈھلکے دوپٹے اور گولڈن شرارے میں ملبوس ایک جگہ ہی کھڑے دیکھا زمین سے بکھرے اپنے پرفیومز جیلز کریمز اور باقی چیزیں سمیٹتے نارمل لہجے میں بولا تھا

بکھرے واز کے ٹکرے ڈسٹبن کی نظر کرتے ساری پھولوں کی لڑیاں بیڈ سے ایک جانب کو ہٹائیں تھیں

اس کی جیولری میں بس نیکلس اور ایک نیچے گرا ائیر رنگ گرا پڑا تھا ڈریسر کے ڈرا میں رکھتے اب وہ اس کے قریب گیا تھا غور کیا ایک ائیر رنگ کان کی لو سرخ کیے تھے جسے اس نے ضرور نوچتے علیحدہ کرنے کی کوشش کی تھی پورے چہرے سے ہلکا پھیلا مٹا میک اپ اس کے چہرے کو پوری طرح بگاڑے تھا پھیلے کاجل والی سرخ انگارہ بنی آنکھیں خود پر ظلم ہونے کا پتا دے رہی تھیں

اوکے سٹاپ دس آل چینج کرو"

نظریں چراتے وارڈروب کھولتے اپنی ٹی شرٹ اور ٹراوزر اس کی جانب بڑھایا تھا

تمہارا سامان کل وارڈروب میں سیٹ کریں گے ابھی اس سے گزارا کر لو"

اس کا سوٹ کیس شائد لاونج میں ہی تھا

وہ اس کی جانب بڑھاتے نارمل انداز میں بولا تھا

یہ کیا تھا وہ کیوں اتنا اچھا بن رہا ہے وہ اضطراب میں تھی

بس اب اوقات پر آو"

وہ کپڑے دور اچھالتے بپھری تھی

کیا۔۔۔؟ وہ اپنے کپڑے لیتے حیران تھا

جس مقصد کے لیے تم یہ سب کر رہے ہو

میں انجان نہی ہوں نہ ہی بچی ہوں میں"

جب اپنا دوپٹہ خود سے دور اچھالا تھا تم بھی اپنی ہوس پوری کر لو۔۔"

وہ خود کو بکھیرتے اس کے لیے سراپہ امتحان بنی کھڑی تھی غازیان نے سختی سے مٹھی بھینچتے نیچے جھکتے ایک جھٹکے میں اس کے قریب قدم بڑھائے تھے

وہ اب اس کے قریب تر تھا روم میں تازہ سرخ گلابوں اور اس کے وجود سے اٹھتی مہک سے یک دم خوف وجود میں سرائیت کیے تھ

اس کے لیے تمہیں میرا وہاں انتظار کرنا چاہیے تھا

وہ سرخ پھولوں سے سجے بیڈ کی جانب اشارہ کرتے بولا

بیوی سے محبت کی جاتی ہے ہوس نہی"

اب اس کا پھینکا دوپٹہ اس کے قریب لاتے سر پر اوڑایا تھا وہ پورا استحاق رکھنے کے باوجود بھی اس سے مسلسل نظریں چرا رہا تھا

واشروم سامنے ہے"

وہ ہاتھ سے اشارہ دیتے اس کا خوف محسوس کرتے پیچھے ہوا تھا وہ مظبوط بننے کی محض کوشش میں تھی

اب تک کتنی لڑکیوں کے ساتھ ہمدردی جتائ ہے"

ضبط کیے زہر خند لہجے میں گویا ہوئ تھی

وہ پلٹا تھا اور اسکی دھڑکنیں اتنی تیز تھیں کے خاموش ساکن ماحول میں اگر وہ اس کے قریب ہوتی تو محسوس کر جاتی وہ کس کیفیت میں ہے

صرف مسز غازیان سے"

اس کو روم کے اندر بنے دوسرے روم میں گم ہوتا دیکھ چند لمحوں بعد اس کی بات سوچتے وہ بستر پر بیٹھتے سر دونوں ہاتھوں میں تھام چکی تھی

وہ اس کی ہلکی سسکیاں اب آواز میں محسوس کر رہا تھا

وہ بے تحاشہ رو رہی تھی اندر وہ دروازے سے ٹیک لگائے تھا

نہی کر سکتا میں یہ"

یہ مشکل ہے غازیان یہ مشکل تھا

یہ لڑکی اپنی باتوں سے مزید مشکل بنا رہی ہے میرے لیے"

وہ دروازے سے ٹیک لگائے کرب سے آنکھیں میچے تھا

مما مجھے لے جائیں ساتھ بابا نے اچھا نہی کیا میرے ساتھ مم۔۔مجھے ایک غیر کے حوالے کر دیا ہے

مجھے نہی رہنا زندہ۔۔۔"

وہ مزید پینک ہو رہی تھی

میرا سانس اس لمحے اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہوا تھا

وہ دل مسل رہی تھی دماغ کو سکون چاہیے تھا

میڈیسن ک۔۔کہاں"

لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے سائیڈ ٹیبل اور ڈریسر کے سارے دراز الٹتے پلٹتے اب پاگل ہو رہی تھی

وہ ساری آوازیں اندر محسوس کر رہا تھا

i will kill u.."

تم نے بابا کو بتایا نہ میری میڈیسن واپس دو مجھے"

وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اس جانب جاتے دروازہ پیٹتے چیختی چلا رہی تھی

غازیان میں ہمت نہی تھی اس کا سامنا کرے وہ بس بے حس و حرکت اندر تھا

دروازہ کھولو۔۔۔"

پ۔۔پلیز دے دو مجھے"

وہ بری طرح دروازہ پیٹ رہی تھی

کھول دو م۔۔میں مر جاوں گی کہاں ہیں میری میڈیسن"

یک دم آواز بند ہوئ تھی

ویسے ہی اس کی جان مٹھی میں آئ تھی

ایک منٹ دو منٹ دس منٹ گزرنے کے بعد وہ دھڑکتے دل سے لوک کھولتے باہر آیا تھا

وہ سامنے اوندھے منہ فرش پر پڑی تھی

س۔۔سماب۔۔"

اس کے لب پھڑپھڑائے سے تھے

وہ میکانکی انداز میں فرش پر جھکا تھا وہ ہوش و ہواس سے اب بلکل بیگانی سی تھی

اس وقت اس مضبوط مرد میں ہمت نہی تھی اسے سیدھا کر سکے وہ خود عجیب سی کشمکش میں تھا جو اس کی سمجھ سے باہر تھی

کانپتے ہاتھ سے اس کو سیدھا کیا تھا

میں ان کو چھوڑوں گا نہی"

آئ پرامس"

اور پھر پوری ہمت جھٹائے اس کے نازک وجود کو اپنی بازوں میں بھر چکا تھا

بیڈ پر اس کی سائیڈ پر ڈالتے وہ اس کے قریب تھا

اتنا قریب کہ اب اس کی بے ہوشی میں لی جانی والی ہچکیاں اسے محسوس ہو رہی تھیں

بے اختیار وہ جھکا تھا

-----------------------------------------------------

پوری رات آنکھوں میں کٹی تھی وہ اس کو دیکھتے تو صبح ہوتی تھی

ناشتے کی ٹیبل پر بے تحاشہ یاد آ رہی تھی

زبیر نے ہمت جمع کرتے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا تھا

وہ جانتے تھے وہ اس سے بری طرح ناراض ہے لیکن وہ اسے منا لیں گیں

وہ انہیں دیکھتے ہی خوش ہو جائے گی یہ بات انہیں مسکرانے پر مجبور کر گئ تھی

وہ جوگنگ سے واپس آیا تھا

جب گھر میں اپنی ماں اور باپ کو کتنے سالوں بعد روبرو پایا تھا

میرے بیٹے کی شادی ایک پاگل لڑکی سے کرائ ساری رات وہ توڑ پھوڑ کرتی رہی ایسی کیا کمی تھی اس میں تم نے اس کو اپنے قابو میں کرنا چاہا حمدان نیازی"

میرے بیٹے کو ورغلایا"

کیا برائ ہے اس بچی میں کم از کم آپ سے سمجھدار ہے اور میرا بیٹا بھی خوش ہی رہے گا اس کے ساتھ"

ایک عرصے بعد وہ سامنے تھی وہ بلکل نہ بدلی تھی بس بالوں میں ہلکی سی سفیدی تھی

ابھی مزید بحث ہوتی کے گارڈ نے جسٹس زبیر کی آمد کا پتہ دیا تھا

پلیز آپ دونوں تحمل کا مظاہرہ کریں فادر ان لا کے سامنے مما زرا لحاظ کر لیجیے گا"

غازیان ان کی گفتگو سے جو لاپرواہی سے کیچن میں کھڑا پانی کی بوتل ہونٹوں سے لگائے خود کو نارمل کیے تھا اس کو اب درمیان میں بولنا ہی پڑا تھا

وہ سو رہی ہے ابھی میں جگا دیتا ہوں"

غازیان ملنے کے بعد روم میں جا چکا تھا

وہ ملنے آئے تھے نور سے

ملیحہ تو پہلو بدل رہی تھی البتہ حمدان مہمان نوازی کے آداب نبھا رہے تھے

گلاس وال سے سارے پردے ہٹائے تھے

سورج کی کرنیں مسلسل چہرے پر پڑتے اس کی آنکھیں اب چندیا سی گئیں تھیں

وہ ویسے ہی دکھتی آنکھوں سے پڑی رہی تھی

پر اس سب میں بھی خود پر نظریں مرکوز محسوس ہوئیں تھیں

گڈ مارننگ۔۔۔"

کسی کی گھمبیر سرگوشی کان میں محسوس ہوتے اب سوجھی ہوئ دکھتی آنکھیں کھولیں تھیں

اس کو ٹریک سوٹ میں خود پر جھکا پا کر وہ چیختی جب وہ اس کی پھیلی لپسٹک والے ہونٹوں پر ہاتھ جما گیا تھا

شش باہر میرے فادر ان لا اور تمہارے ساس سسر کیا سوچیں گے"

میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں شور نہی"

رات میں وہ اس سے دور جا رہا تھا وہ اپنے فیصلے پر ڈگمگا رہا تھا جب اس کا چہرہ غور سے دیکھا اس کی تو کوئ غلطی نہی تھی اس میں پھر وہ یہ سوچ کیوں لایا وہ رات کی نسبت کچھ فیصلے کرتے اب بدلا تھا

اگلی نظر خود کے وجود پر تھی وہ نظریں جھکاتے شرم اور غصے سے پاگل ہوئ تھی سامنے سنگل صوفے پر اپنا شرارہ پڑا دیکھا تھا

تم نے میرے کپڑے"

ہاو ڈئیر یو" وہ گھٹنوں میں سر دیے اب پھر سے تیزی سے رو رہی تھی

میں اس سے زیادہ کا حق رکھتا ہوں تم بھول رہی ہو نکاح میں ہو میرے"

وہ نظر انداز کیے وارڈ روب سے کپڑے لے رہا تھا

وہ واشروم سے فریش سا باہر آیا وہ ویسے ہی ماتم کناں تھی

اٹھو۔۔" وہ نرمی سے بولا تھا

مجھے نہی اٹھنا سنا تم نے۔۔"

وہ ویسی ہی پوزیشن میں چیخی تھی

اگلے لمحے وہ اس کی بازوں میں تھی

ساتھ شاور لیں یا خود لے رہی ہو"

ویسے مجھے دوبارہ لینے میں کوئ ہرج نہی واٹ سے"

واشروم کے باہر کھڑے ہوتے وہ اس کی جان ہوا کرتے پوچھ رہا تھا

میں تمہیں مار ڈالوں گی سٹرینجر"

وہ اس کی شرٹ سینے سے دبوچتے بری طرح چیخی تھی اس کے گیلے بالوں کے قطرے چہرے پر گرتے اس کو مزیز غصہ دلا رہے تھے

غازیان کے لب مسکرائے تھے

مجھے پہنچاتے ہوئے بھی اس کا انجان بننا واللہ غضب تھا"

اس کو واشروم کے اندر اتارے وہ دروازہ بند کرتے باہر نکلا تھا

وہ ازیت ناک نظروں سے دیکھتے بامشکل اس کے لمبے ٹراوزر میں سنبھلتے قدموں پر کھڑی ہوئ تھی

------------------------------------------------------

میری اسائنمنٹ میں ہیلپ کردو کچھ"

تم سیگریٹ پی رہے ہو"

وہ لان کی بیک سائیڈ پر تھی دھواں اور سمیل محسوس کرتے اس کی باقی بات تو منہ میں ہی رہ گئ تھی وہ حیران ہوئ تھی

وہ بس۔۔"

وہ فوری چپل کے نیچے مسلتا شرمندہ ہوا

ازہان بڑی مما کو پتہ چلا تو کتنا دکھ ہو گا انہیں"

سیگریٹ شروعات ہوتی ہے یہی سے نشے کی لت لگتی ہے ہمارے گھر کوئ سیگریٹ نہی پیتا اور تم"

وہ اب بھی بے یقین تھی

بس کرو ری دماغ نہی خراب کرو رٹ ہی پکڑ لی ہر وقت پیچھے پڑی رہتی ہو

سیگریٹ ہی تھی پھینک دی نہ اب دماغ نہی خراب کرو

جاو یہاں سے"

وہ غصے میں چلاتے باہر چلا گیا تھا

پیچھے وہ اس کا رویہ سوچتے حیران تھی

-------------------------------------------------

وہ ازہان کا رویہ سوچتے حیران سی تھی عشق میں دھوکہ ملا ہے تبھی چرسی بن رہا ہے"

دوبارہ پیتے دیکھا تو بی جان سمیت بڑے بابا کو شکایت لگاوں گیں

وہ نیٹ سے اسائمنٹ کا ٹوپک سرچ کرتے اب دھیان بٹا چکی تھی

تم اس کیس سے وڈ ڈرا کر دو بس احان"

ہمیں نہی کسی جھنجٹ میں پڑنا

بابا آپ کسی باتیں کر رہیں ہیں"

کیا کچھ ہوا ہے "

ہاں دھمکی بھرے لیٹر آ رہے ہیں مسلسل دھمکیاں آ رہی ہیں وہ فیکٹری میں دن دھاڑے ڈرا دھمکا کر گئے ہیں اور کیا ہونا ہے"

تمہیں یہ نارمل بات لگ رہی ہے"

وہ سٹڈی روم میں تھے جہاں وہ احان کے آج کل چلنے والے کیس کے بارے میں بات کر رہے تھے

کل فائنل ہیرنگ ہے پھر سب نارمل ہو گا میں نے فیس لی ہے ایسے کوئیٹ کیسے کر دوں"

وہ محظ خالی خولی دھمکیاں دے رہے ہیں"

وہ ان کے قریب گیا تھا

جب خود باپ بنو گے نہ اندازہ ہو گا باپ کی پریشانی کا"

سکندر اس کو نظر انداز کرتے بولے تھے

جب تک آپ کی دعائیں ہیں نہ مجھے کچھ نہی ہونے والا"

تو تم باز نہی آ رہے"

یار فیس لی ہے آپ کے بیٹے نے کیسے بیچ راستے دامن بچا لے ویسے بھی سارے ثبوت ان کے خلاف ہیں وہ پکا اندر ہی جائے گا"

وہ تسلی دیتے اٹھا تھا

جبکہ وہ دعا عافیت مانگتے ابھی بھی پریشان تھے

وہ سبز دوپٹے کے ہالے میں لپٹی سامنے بیٹھی کاوچ سے ٹیک لگائے تھی

پڑھ بھی لیا کرو ہر وقت موبائل۔۔"

یہ نہ ہو اس سمیسٹر میں اڑی ہو"

وہ اس کو موبائل میں بزی دیکھ سامنے کاوچ پر نیم دراز ہوتے بولا تھا

اس کی موجودگی میں اب وہ بری طرح سٹپٹا جاتی تھی وہ فون پر اسائنمنٹ کے پوائینٹ سرچ کر رہی تھی اور اس کا الزام

یہاں تک پڑھ کر ہی پہنچی ہوں"

خود تو جیسے ٹوپر تھا نہ"

آخری جملہ منہ میں ہی دبایا تھا

گریجویشن میں ٹوپ تھا میرا" وہ اس کو سوچتے دیکھ بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولا

ہائے یہ سوچ بھی پڑھ لیتا ہے"

وہ لب دباتے اب اس کی گہری نظروں میں مزید نہی دیکھ پائ تھی

سب کی نہی صرف تمہاری۔۔۔"

دل نارمل رفتار سے تیز تھا ٹھیک چار دن بعد نکاح تھا اس کی نظروں کی چمک کے ساتھ حرکتیں بھی مشکوک سی تھیں

میری پاکیزہ سوچوں میں خلل ڈالتی ہے

تیری چند لمحوں کی جھوٹی محبت

یہ شعر اس کے زہن میں آیا تھا

نکاح میں سیم ڈریس کریں"

یہ دیکھو میں نے ڈریس سلیکٹ کیا ہے ہم دونوں کا کیسا ہے بتاو"

وہ اس کو خود کے قریب ہوتا دیکھ بری طرح لب کچل رہی تھی

اس سے پہلے کے وہ اس کے قریب ہوتا

سیل فون وہی کاوچ پر چھوڑے تیزی سے اپنے روم میں چلی گئ تھی

احان نے مسکراہٹ ضبط کرتے فون میں اپنے کورٹ کے ڈاکومینٹس کا فولڈر بند کیا تھا

کیسی فیلنگ آ رہی ہے ہار کے"

وہ کورٹ سے باہر نکلتے مخالف پارٹی کے وکیل اور اس خون خوار نظروں سے گھورتے شخص کو دیکھتے تپاتے بولا تھا

دیکھ لوں گا تجھے بہت ہوا میں اڑ رہے ہو نہ"

وہ مٹھیاں بھینچتے بولا تھا

اگر مجھے یا میری فیملی کو زرا سا بھی نقصان پہنچا تو سب سے پہلے شک کے دائرے میں تم لوگ جاو گے"

لہحذا کچھ بھی برا کرنے سے پہلے اپنی خیریت کے بارے میں سوچ لینا"

ایک تو سسرال جا ہی رہا ہے یہ نہ ہو تم لوگ مفتے میں سلاخوں کے پیچھے ہو"

وہ آنکھ مارتے اپنی گاڑی کی جانب جاتے ان کے وجود کو آگ لگاتے چلتا بنا تھا

------------------------------------------------------

وہ شکستہ حال لوٹے تھے

وہ ایسے کیسے کر سکتی تھی گھر کے دروازے پر بامشکل پہنچے تھے

دل بند ہونے کے قریب تھا

بابا میں شادی نہی کروں گی آپ دیکھ لینا آپ کو کبھی چھوڑ کر نہی جاوں گی

اگر کبھی کی بھی تو اسے گھر داماد بننا پڑے گا"

سنسان گھر کاٹنے کو دوڑ رہا تھا

میں نے تمہاری زندگی کے لیے یہ فیصلہ لیا تھا نور کیا یہ میرے لیے آسان تھا

ایک باپ کے لیے بھی مشکل تھا یہ"

وہ ان سے ملنے ہی نہی آئ تھی زبیر کو لگ رہا تھا وہ اپنی زندگی ہار رہے ہیں

دل پر جیسے منوں بوجھ ہو"

آنسو آنکھ سے بہتے پلکوں کے گوشے نم کر رہے تھے

-------------------------------------------

وہ شاور لے کر اس کے کپڑوں میں ہی واپس آئ تھی

کئ لمحے وہ واشروم میں بند رہی تھی شاور کے نیچے اس کی حرکت پر جلتے دل کو سکون ملنے کی بجائے مزید آگ لگ رہی تھی

تم میرے وجود کے سارے زخموں کو جان گئے میں تو خود کا سامنا نہی کر پاتی"

آنسو کو راستے کی تلاش تھی پر پانی کی تیز بوندوں میں وہ گم سے گئے تھے

دل خوف سے لرز رہا تھا وہ اپنی کیفیت سے کسی کو آگاہ نہی کرنا چاہتی تھی

پر وہ یہ بھول گئ تھی کہ وہ اس کی ہر چیز میں اب حقدار ہے"

صد شکر کیا تھا روم میں داخل ہوتے اس کا سوٹ کیس پڑا تھا اور وہ خود نہی تھا

فوری سے دروازہ لوکڈ کیا تھا

چینج کرتے مرر میں خود کو دیکھا تھا

عرصے بعد وہ خود کو دیکھ رہی تھی

سیاہ آنکھوں کے پپوٹے سوجھے سے تھے

ان ٹچ دلہن اپنے شوہر کے لیے حور کا درجہ رکھتی ہے تم کیا درجہ رکھتی ہو ہالہ نور"

خود کو دیکھتے وہ تنزیہ مسکرائ تھی

وہ بے حس وحرکت تھی جب روم سے منسلک روم سے وہ باہر آتے ٹھٹھکا تھا

بلیو شرٹ اور ٹراوزر میں وہ دوپٹہ سے ندار کھڑی تھی

اس کے قدم خود بخود اس کے پیچھے تھے

مرر میں اب دونوں کا عکس تھا

میرے لب اس کے تقدس میں ہلتے نہی

اسے کہو میری آنکھوں میں اظہار محبت دیکھے

وہ اس کی کان کی لو پر جھکتے شیشے میں چھلکتے اس کے ہلکے نم چہرے کو دیکھتے بولا تھا

میرے قریب آنے سے تمہیں فرق نہی پڑا حالانکہ پہلی رات کی دلہن کو تو شرما جانا چاہیے تھا"

وہ اس کے نم بالوں سے ٹپکتی بوندیں دیکھتے نظروں کا زاویہ زبردستی موڑ چکا تھا ورنہ تو استحاق غالب آ رہے تھے

میرے وجود پر لگے زخم دیکھنے کے بعد بھی آپ اتنے نارمل کیسے ہو سکتے ہیں"

مجھے انتظار ہے اس لمحے کا جب آپ مجھے چھوڑ دیں گے"

غازیان نے اس کی جلتی آنکھوں کے بعد سرخ چہرہ دیکھا وہ رات کی حرکت پر خوفزدہ تھی یا جھجکی تھی وہ نہی جان پایا تھا

میری وارڈروب کا ایک حصہ ہمیشہ تمہارے لیے خالی ہے"

اس نے کچھ باور کرایا تھا

تمہارے بابا تم سے ملنے آئیں ہیں"

وہ دراز سے والٹ اور کیز لیتے پیچھے ہوا تھا

نہی ملنا مجھے ان سے کہہ دینا"

وہ زہر خند ہوئ تھی

غازیان لب بھینچ کے رہ گیا تھا

-------------------------------------------------

وہ باپ سے ملنے بھی نہی آئ اور نہ ہی ناشتہ کرنے آئ میری سمجھ سے تو باہر ہے یہ"

ملیحہ ناشتہ ٹیبل پر سیٹ کرتے آگ بگولا تھیں


یہ آدمی یہاں کیا کر رہا ہے"

وہ حمدان کو ٹیبل پر دیکھتے مزید سیخ پاو ہو رہی تھیں

تم کہاں جا رہے ہو"

اس سے کوئ سوال کا جواب نہ پا کر وہ دیکھ رہی تھیں وہ ٹرے میں کھانا سیٹ کر رہا تھا

ایک عدد بیوی ہے میری ناشتہ پر میرا ویٹ کر رہی ہے"

ملیحہ تو حیرت میں ہوئیں جبکہ حمدان نے مسکراہٹ ضبط کی تھی

وہ نظر انداز کیے اپنے روم میں چلا گیا تھا حالانکہ وہ کافی لیٹ تھا وہ آفس جا رہا تھا لیکن جانتا تھا وہ ناشتہ کرنے ہرگز باہر نہی آئے گی

گھر ناشتہ نہی ملتا"

وہ حمدان کو دیکھتے خونخوار ہوئ تھی

آپ کے ہاتھ سے کھانے کا کوئ ظالم انکاری ہے"

وہ ڈھٹائ کا مظاہرہ کرتے بولے تھے

بڈھے ہو گئے ہو پر حرکتیں ابھی بھی بے شرموں والی ہیں"

ملیحہ نے سامنے چئیر پر بیٹھتے آگ برسائ تھی

آپ بھی بلکل نہی بدلیں"

حمدان نے مسکراہٹ چھپاتے اس کی زبان درازی پر چوٹ کی تھی

وہ روم میں دوبارہ اس کی چاپ سے حیران تھی

-----------------------------------------------------

اس ٹائم وہ اپنے سٹینڈرڈ سے گئے گزرے ہوٹل روم میں اس لڑکے کا انتظار کر رہی تھی جہاں اس نے بلایا تھا

بیگ سے کچھ رپورٹس لیں تھیں دل بند ہونے کے قریب تھا

خوفزدہ چہرے سے وہ آج ڈاکٹر سے کلیکٹ کی جانے والی رپورٹس اس کے آنے سے پہلے کھولیں تھیں

کاش یہ سچ نہ ہو"

دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں تھیں

پوزیٹو۔۔۔

کلک کی آواز سے وہ رپورٹس پیچھے چھپا چکی تھی

دل ساکت ہوتا کے روم کا ڈور کھلا تھا

تھینک گوڈ تم تھے"

جان میں جان آئ تھی

مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے" وہ مٹھی میں رپورٹس کو بھینچے اس کے پاس گئ تھی

مجھے بھی"

اس کا دھیان وہ نوٹ کر رہی تھی اس میں نہی تھا

تم پہلے بتا دو پر" وہ گلاس میں پانی انڈھیلتے خود کو تحمل دے رہا تھا

آئ ایم ایکسپیکٹنگ۔۔۔"

وہ جو پرسکون ہوا تھا وہ اس کا سکون سارا غارت کر چکی تھی

دماغ درست ہے تمہارا۔۔۔؟

وہ بڑھکتے بیڈ سے اٹھا تھا زندگی میں ٹینشنز بڑھتی جا رہی تھیں

ایسے ری ایکٹ نہی کرو میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں نہ"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے اس سے زیادہ خود کو یقین دلا رہی تھی

تم پاگل ہو جانتی بھی ہو کیا بکواس کر رہی ہو"

وہ اس کے لب ولہجے پر ششدر ہوئ تھی تو کیا غیر محرم پر بھروسہ کر کے وہ برباد ہوئ تھی انجانے وسوسے یک لخت دماغ پر حاوی ہوئے تھے

میرے ساتھ ایسا نہی کرو وہ روتے بولی تھی

یہی راستہ ہے دانین میر سبطین کا بیٹا بہت پاور فل ہے اس کے پاس ہماری ویڈیو ہے ہوٹل روم والی"

تم اس کے ساتھ بس ایک رات"

دانین کا ہاتھ اٹھا تھا

میں اس ٹائم کس کنڈیشن میں ہوں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں اور تم گھٹیا انسان تم جیسے درندے پر یقین کیا میں نے"

مجھے جانا۔۔۔"

وہ دروازے کی جانب بھاگی تھی

جب اس کا ہاتھ وہ اپنی گرفت میں لے چکا تھا

پلیز دانین ہم دونوں کی عزت داو پر لگے گی

میرا سارا فیوچر برباد ہونے کے ساتھ تمہارا بھی ہو جائے گا گھر والوں کو کیا جواب دیں گیں"

اب وہ پلٹی تھی اور دوسرا تھپڑ اس کی گال کی زینت بنایا تھا

وہ بے بس سا تھپڑ کھاتے نظریں جھکائے تھا

تم کتنے گھٹیا انسان ہو۔۔"

قصور تمہارا نہی ہے میرا بھی ہے"

ہم دونوں نفس کو قابو نہی رکھ پائے میں تمہاری محبت میں اندھی تھی اور تم ہر محبوب کی طرح صرف جھوٹے دعوے دار جن کا دعوہ بستر کی حدود پر آتے ہی دم توڑ جاتا ہے

اگر آج تم نے مجھے اس شخص کے سامنے پیش کیا تو یاد رکھنا تم تمہیں برباد نہ کیا تو کہنا"

وہ بہتے آنسوں سے اپنی بربادی پر ماتم کناں تھی

-------------------------------------------------------

سر اب تک پانچ لڑکیوں کی رپورٹ درج ہے

جو گھر سے غائب ہیں جن میں سے دو کے گھر والوں نے واپس لے لی ہے جبکہ ایک کی ابھی بھی درج ہے"

کوئ ایکشن لیا یا ان کے گھر والے آئے

وہ پرسوچ سا پیپر ویٹ دیکھتے بولا تھا

سر ایسے کیسیز میں زیادہ تر لڑکیاں خود گھر سے اپنے عاشق کے ساتھ بھاگیں ہوتیں ہیں گھر والے رپورٹ درج نہی کرواتے اگر کراوئیں بھی تو چند دن بعد بدنامی کے ڈر سے خارج کروا دیتے ہیں"

لاسٹ رپورٹ پرسوں کی تھی

دانین حیدر"

ابھی وہ نام پر غور کر رہا تھا جب ایک چالیس پینتالیس سال کی عورت کسی نوجوان لڑکے کے ساتھ داخل ہوئ تھی

میں نے اپنی بیٹی کی رپورٹ درج کروائ تھی لیکن آپ کے ایریے کے ایس ایچ او نے کوئ نوٹس نہی لیا میری بیٹی پرسوں سے غائب ہے"

تسلی دینے کی بجائے یہ لوگ مجھ سے بکواس کر رہے ہیں"

مجبورا مجھے آپ کے پاس آنا پڑا ہے میری بیٹی مجھے گھر واپس چاہیے"

وہ آنسوں لاتے بولی تھیں

آپ دعوے سے کہہ سکتی ہیں یہ بات وہ گھر سے خود نہی گئ"

آپ الزام لگا رہے ہیں میری بیٹی صرف بائیس سال کی معصوم بچی ہے ابھی"

وہ چیختے بولیں تھیں

ٹھیک ہے حوصلہ رکھیں نیکسٹ چوبیس گھنٹوں میں پتہ چل جائے گا وہ کہاں ہے"

اسکا سیل فون نمبر ہے تو تو ان کو نوٹ کراوئیں"

وہ قدرے نارمل لہجے میں ساتھ بیٹھے انسپیکٹر کی جانب اشارہ کرتے بولا تھا

شائد اس طرح ہی تمہارے مجرم بھی سامنے آ جائیں

غازیان پرسوچ ہوا تھا

پچھلے تین دن سے اس نے اسے نہی دیکھا تھا

--------------------------------------------------

گھر میں تیاری سی چل رہی تھی اتنی تیاری نکاح کی تو نہی ہوتی بی جان نے تو جانے کن کن لوگوں کو انوائیٹ کیا تھا

پچھلے تین دن سے وہ یونیورسٹی نہی جا رہی تھی صبح احان سے اس کا نکاح تھا پر جانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا نکاح کے علاوہ بھی کوئ کچھڑی پک رہی ہے

اس کی ماں اس کے چہرے پر جانے کیا کیا مل رہی تھی

یہ کیا ہے ماں بس کر جائیں"

اب کوئ نیا ٹوٹکہ وہ بنا لائ تھیں ریحہ کو الٹی آ رہی تھی اب"

وہ دہی سے ملا جلا کوئ لیپ لے کر آئیں تھیں

چپ ابھی پارلر والی آئے گی تمہاری شکل درست کرنے اس کے سامنے کوئ شور شرابہ نہی اور بھابھی کی ساری باتیں مانو گی کوئ چوں چراں نہی"

پہلی بہو ہو تم ان کی"

وہ آنکھیں دکھاتے بولیں

پارلر والی سے تو میں کرا ہی لوں گی پر آپ یہ اپنا زبیدہ آپا والے نسخوں والا پارلر خدا کے لیے بند کر دیں"

نکاح ہی ہے رخصتی نہی میری جس میں میری منہ دکھائ کے لیے شکل کا درست ہونا ضروری ہو"

ابھی تو آپ کے داماد کو اپنی نکاح سے پہلے کے ضروری پوانٹس کی لسٹ تھمانی ہے

وہ چڑ کہ ان کا ہاتھ پرے کرتے بولی کے نائمہ سٹپٹا گئ تھی اگر اسے پتہ چل جاتا کہ رخصتی بھی ساتھ ہی ہے"

وہ اس کے روم میں دبے قدموں سے گئ تھی

وہ روم میں نہی تھا واشروم سے پانی گرنے کی آواز پر سمجھ آئ وہ وہاں ہے"

گھر کے دو پورشن تھے اوپر والے میں احان لوگ تھے جبکہ نیچے والے میں ریحہ لوگ پر کھانا اوپر علیحدہ کیچن ہونے کے باوجود بھی وہ اکھٹا کھاتے تھے

یہ بیڈ پر بیٹھتا نہی ہے اس کی بیڈ شیٹ پروپر طریقے سے بچھی دیکھ ریحہ نے منہ بگاڑا

انتہائ ہی کوئ نفاست پسند شخص تھا وہ

خیر وہ چٹ شیشے پر چپکاتے اس کے آنے سے پہلے چلی گئ تھی

وہ شاور لے کر باہر آیا تھا کسی کی موجودگی کا احساس ہوا وجہ اپنے پرفیومز کی بکھری مہک تھی جو سپرے کرنے سے بکھری پڑی تھی

وہ شیشے کے سامنے گیا سامنے چٹ لگی تھی

فرصت کے لمحوں میں زرا کل سے آپ پر واجب ہونے والے میرے حقوق و فرائض کی لسٹ سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہے پڑھ لینا"

احان کے لب مسکرائے تھے وہ اس کے روم میں آئ تھی

سائیڈ ٹیبل پر پڑے تہہ شدہ کاغذ کو کھولا تھا

پوائینٹ نمبر ایک مجھ پر کوئ پابندی نہی لگاو گے کسی بھی قسم کی کوئ روک ٹوک نہی ڈانٹوں گے تو بلکل بھی نہی" مجھے آپ کہہ کر عزت دو گے"

احان نے حیرت لیے اگلی لائن پڑھی تھی

نمبر دو میری یونیورسٹی کی فیس آپ پے کریں گے اب سے نکاح میں آنے کے بعد ساری زمیداریاں میرے ماں باپ کی نہی آپ کی ہوں گیں "

نمبر تین اپنی تنخواہ کا تیس فیصد حصہ ہر ماہ میرے اکاونٹ میں ٹرانسفر کرواو گے"

احان جیسے جیسے پڑھ رہا تھا مسکراہٹ گہری ہوتی جا رہی تھی

سائیڈ ٹیبل سے فون لیا تھا اس کا نمبر ڈائل کیا تھا

وہ جو سونے کی تیاری میں تھی

اٹینشن سیکر کالنگ" دیکھ بری طرح گڑبڑائ تھی

پک اپ دا کال ورنہ میں ابھی تمہارے کمرے میں آ رہا ہوں"

ری کو سکرین پر ابھرے لفظ دیکھتے اپنی ہتھیلیاں بھیگتی محسوس ہوئیں تھیں

ہمت تو کریں آپ" وہ سینڈ کرتے فون سینے پر رکھتے خود کو نارمل کر رہی تھی

کال پھر سے جگمگا رہی تھی

سوچ لو تمہارے روبرو ہوتے اپنے حقوق و فرائض کی لسٹ تھماوں گا۔۔"

آنکھ مارنے والی ایموجی کے ساتھ دوبارہ ٹیکس تھا

اس کا ٹیکس پڑھتے فون ہاتھ سے چھوٹتے اس کی ناک لال کر گیا تھا

کال مسلسل بج رہی تھی وہ دھڑکنیں شمار کرتے اپنی حالت پر کڑھ رہی تھی

سوچ لو کل بہت برا ہونے والا ہے تمہارے ساتھ"

اس کا سانس حلق میں اٹکا تھا ہمت کرتے ٹیکس ٹائپ کرنے کی کوشش میں تھی

احان گھنٹے سے ٹیکسٹنگ کے ڈاٹ شو ہوتے دیکھ اس کی حالت سے محفوظ ہوتے بغیر شرٹ کے ہی بیڈ پر اب نیم دراز ہو گیا تھا

-----------------------------------------------------

تمہیں سائیکائٹریسٹ کی ضرورت ہے"

تم میرے بیٹے کے لیے کبھی بھی پرفیکٹ نہی ہو نہ ہی ہو سکتی ہو

نہ میں تمہیں اس کی زندگی میں شامل ہونے دوں گیں"

میں سوچ بھی نہی سکتی اس نے تم جیسی لڑکی سے شادی کی

سب آپ کی وجہ سے بابا سب آپ کی وجہ سے"

آپ نے اچھا نہی کیا میرے ساتھ"

وہ بند آنکھوں سے آج دن میں ہوئے بدترین ہنگامے کو سوچتے تیز دھار والی چھری کلائ پر رکھے تھی

do or die.."

ازیت سے نکلتی چیخ کا گلا منہ میں دیے دوپٹہ نے گھونٹ دیا تھا آہستہ آہستہ سرخ آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں تھیں

وہ گھر میں داخل ہوا ہمیشہ والا سںناٹا تھا

تھکا سا تھا پچھلے دنوں سے روٹین اتنی ٹف تھی کہ وہ اس کو بھی بھولا ہی تھا کہ وہ اس کے روم میں ہوتی بھی تھی یا نہی

بس اس کو دیکھے بغیر روم میں جاتا اور سو جاتا صبح بھی یہی روٹین تھی

غیر ارادی نگاہ آج اسے ڈونڈھ رہی تھی

ملیحہ دس بجے میگزین کے اوراق الٹاتے بیزار سی ہوتے زیادہ دیر چپ نہ رہ سکی تھی اور اندر ابلتا لاوہ پھٹنے کے در پہ تھا

تم اتنے گئے گزرے ہو ایک وکٹم کو اپنایا تم نے"

کیا کمی تھی تمہیں لڑکیوں کی

غازیان کا ماتھا مسلتا ہاتھ یک لخت تھما تھا

ک۔۔کیا بول رہی ہیں" وہ گھبراتے سیدھا ہوا انہیں کیسے پتہ چل گیا

جھوٹ نہی بولنا غازیان کیا عزت رہ جائے گئ معاشرے میں تمہارے ننیال میں خبر ہوئ تو میری کیا عزت رہ جائے گی

وہ شخص اس کا کزن اتنی بکواس کر کے گیا تم اتنے بے حیا تھے

اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے

ن۔۔نور کہاں ہے"

وہ ہوش میں آتے سب نظر انداز کیے اپنے روم میں بھاگا وہ کیسے اس سے لاپروا ہو سکتا تھا

اوپن دا ڈور ڈیم۔۔"

نور ۔۔۔

تم سن رہی ہو مجھے دروازہ کھولو یار"

وہ بند ہوتی آنکھوں سے زمین پر پڑی تلخی سے مسکرائ تھی

تین دن بعد اسے یاد آیا تھا جسے لا کر وہ پہلی صبح دعوے کر رہا تھا

تم سب مرد ایک جیسے ہو جنہیں بیوی پاک صاف ہی چاہیے"

شٹ چابی کہاں ہے"

وہ ساری جگہ چھانتے پاگل سا ہو رہا تھا

کیا ہو گیا غازیان"

غازیان نے حیرت سے دیکھا تھا

سر جھٹکتے بامشکل چابی ہاتھ لگتے دروازہ کھولا تھا

ملیحہ بھی اس کے پیچھے تھی

نور۔۔ "

وہ تیزی سے روم میں اس کو آوازیں دے رہا تھا

زندگی جیسے ہاتھ سے نکل رہی ہو

جب نظر سامنے پڑی تھی

نور۔۔۔۔" غازیان نے تیزی سے بیڈ کی جانب ڈھلکے اس کے وجود کی جانب جھکا تھا

آئ ایم سوری میں کیسے او گاڈ پاگل لڑکی"

اس کا ہاتھ دیکھتے وہ خوفزدہ تھا وہ حقیقت میں خود کو نقصان پہنچا چکی تھی کلائ سے خون نکلتے فرش کو رنگ چکا تھا

وہ اس کی کلائ تھامے بے حال جھکا تھا

سب سمجھ سے باہر تھا اس کے باپ کو پتہ چل جاتا تو کیا ہوتا

ہوسپیٹل۔۔۔"

اس کو اپنی بازوں میں بھرتے وہ باہر بھاگا ملیحہ پریشان سئ کھڑی تھی

اگر میری بیوی کو کچھ ہوا تو بھول جاوں گا آپ میری ماں ہیں"

وہ جو اس کے پیچھے گیراج میں کچھ کہنے آ رہیں تھیں اس کی آواز سے منجمد ہو کہ لب پیوست کیے ہی رہ گئیں تھیں

نور پلیز آنکھیں کھولو یار۔۔"

اس کا دوپٹہ اس کی کلائ پر باندھتے تیز ترین ڈرائیو کرتے وہ اس کا بند آنکھوں والا چہرہ بار بار دیکھ رہا تھا

تو میں اسے کھو دوں گا اس حالت کا میں زمیدار ہوں

نو تمہیں کچھ نہی ہو گا۔۔"

غازیان کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوئیں تھیں

میری بیوی ہے وہ دو منٹ میں ڈاکٹر چاہیے مجھے یہاں"

نہی کر رہی میں اس کی سرجری پولیس کیس ہے کیا کرو گے تم۔۔"

اگر اسے کچھ ہوا تو تم سمیت اس ہوسپیٹل کو آگ لگا دوں گا"

اب جلدی کرو آئ سیڈ ہری اپ وہ اس کی باہنوں میں بے ہوش تھی اس کا بس نہی چل رہا تھا

اس بد اخلاق ڈاکٹر کو شوٹ کر دے

مجھے بلکل ٹھیک چاہیے وہ سنا تم نے ورنہ تم پر پولیس کیس کر دوں گا"

اس کی دھاڑ اور سرخ اضطرابی آنکھیں دیکھ ڈاکٹر کو ہار ماننی پڑی تھی

تب کہاں تھے جب وہ اتنے شدید ڈیپریشن میں تھی دو دن سے وہ بھوکی تھی کیسے مرد ہو تم'

دو منٹ اور لیٹ ہوتے اب تک وہ مر چکی ہوتی

غازیان کے حلق میں گلٹی ابھری

وہ اس کے بیڈ کے پاس تھا سٹیچز کرتے اس کے بازو کی بینڈج کر دی تھی

غازیان کا دل چاہا تھا خود کو شوٹ کر دے

اس سے پہلے فون کال کی تھی

کل تک مجھے حوالات میں چاہیے"

اس وقت اس کا کزن سامنے ہوتا تو وہ اس کے ٹکڑے کر چکا ہوتا

اس کے پاس گیا جو آنکھیں موندے سفید بستر پر اس کی جان نکال چکی تھی

وہ خود اس وقت بکھرا سا تھا

خون زیادہ ضائع ہونے کی وجہ سے اسے ڈرپ لگی تھی

کیوں مجھے تکلیف دے رہی ہو تم"

اس کے بیڈ کے کنارے ٹکتے اس کی بازو ہاتھ میں لی تھی

وہ لاتعداد دفعہ خود کشی کی کوشش کر چکی ہے"

ڈاکٹر کی بات زہن میں ابھری تھی

اور آج اپنا پہلا استحاق استعمال کرتے اس کی بازو پر لگے ہر کٹ پر وہ دل سے مرحم رکھ رہا تھا

آئ ایم سوری مسز غازیان آی ایم رئیلی سوری میں تم سے بے خبر رہا بس اور نہی بس تمہارا ہر لمحہ ہر دکھ بس اب میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

اسکے ہر زخم کو ہونٹوں سے چومتے وہ اس کے مزید قریب ہوتے اس کی بند آنکھوں پر اب جھکا تھا

اپنے سلگتے لب اس کی سوجھی آنکھوں پر باری باری رکھتے وہ اس کے ماتھے پر بار بار شدت بھرے لمس چھوڑتے اپنی تشنگی مٹا رہا تھا

وہ چہرے پر تکلیف دے آثار لیے ہلکا سا کسمسائ تھی

ڈاکٹر نے صبح ڈسٹچارج کرنا تھا وہ اس کے ساتھ بیڈ پر لیٹتے اسے نرمی سے اپنے حصار میں لے چکا تھا

اس کی میٹھی سی خوشبو اس کے احساس میں تحفظ محسوس کرتے وہ مزید اس میں سما چکی تھی

وہ اس کی حرکت پر مسکراتے اس کے بکھرے بال سنوارتے اس کا ڈرپ والا ہاتھ احتیاط سے اپنے کندھے پر رکھتے اس کے ماتھے سے سر ٹکائے آنکھیں موند چکا تھا

ایسے لگ رہا تھا وہ اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہے جہاں بس خاموشی اور ویرانی تھی وہ چاہ کے بھی گہرائ سے نکل نہی پا رہی تھی اور اندر ہی اندر دھنستی جا رہی تھی

بابا۔۔"

وہ یک دم خوفزدہ سی چیخی تھی

کندھے سے اپنی شرٹ پر مضبوطی اور چیخ سے اس کی آنکھ جو ابھی لگی تھی کچی نیند سے کھل گئ تھی

نور۔۔"

اس کا ہاتھ تھامتے وہ فکر مندی سے اس پر جھکا تھا

آنکھیں وا کرتے اس کو دیکھا

اس کی سکن شرٹ خون سے رنگی تھی فوری سے کل کا معاملہ زہن نشین ہوا وہ خواب تھا وہ زندہ تھی وہ اسے بچاتے پھر سے تلخ دنیا میں لے آیا تھا

کیوں بچایا مجھے مرنے دیتے"

چہرے کا رخ موڑے وہ تلخ ہوئ تھی

بتا دوں"

اس کا گھمبیر لہجہ اپنے وجود پر پڑتی پرشوق نظریں اس کا نارمل رویہ اسے پاگل کرنے کے در پہ تھا وہ شیٹ مٹھی میں جھکڑ چکی تھی

اس کے ہاتھ کی بینڈیج تبدیل کرتے وہ زبردستی اسے ڈاکٹر کی موجودگی میں ناشتہ کرانے کے بعد سوپ اپنے ہاتھ سے پلا رہا تھا وہ صبر کے گھونٹ بھرتے زہر مار کر رہی تھی

ویکنیس کافی ہے انہیں ہیلدی ڈائٹ اور میڈیسن پراپر ٹائم پر لیں فلحال سٹیچز پر بلکل زور نہی پڑھنا چاہیے"

وہ پریکوشنز لیتے سارا پیپر ورک کمپلیٹ کرتے اسے لیے پارکنگ میں لایا تھا

مجھے آپ کے ساتھ نہی رہنا"

ڈرائیونگ کرتے رخ اس کی جانب موڑا تھا وہ باہر جانے کیا دیکھ رہی تھی

جب اچانک گاڑی سگنل پر رکنے سے دو درمیانی عمر کے مانگنے والے گاڑی کا شیشہ اس کی سائیڈ سے زور زور سے بجا رہے تھے

دو۔۔دور کریں انہیں پلیز"

پ۔۔پیچھے" وہ ان کو دیکھتے عجیب ہو رہی تھی

نور۔۔۔"

اب وہ مسلسل چیختے سگنل پر ہی آپے سے باہر تھی

غازیان نے فوری اس کی سائیڈ کے شیشوں پر سیاہ کور چڑھاتے اس کا یخ کانپتا ہاتھ اپنے گرم ہاتھ میں تھاما تھا وہ اس کی موجودگی سے پرسکون ہوئ تھی یہ چیز غازیان کو سکون دے گئ تھی

میں کبھی نارمل نہی ہوں گیں

آئ ایم منٹلی سک آپ کی ماں ٹھیک کہتی ہیں مجھے سائکٹریسٹ کی ضرورت ہے میں نارمل نہی ہوں مجھے نارمل چھوڑا کب ہے"

وہ پہلی دفعہ اپنی حالت بتا رہی تھی"

غازیان حیران تھا اس کی ماں نے اسے یہ سب کہا وہ منٹلی پہلے ہی ڈسٹرب تھی اور اس کی ماں افسوس ہوا تھا وہ اینجیو کی معزز ممبر جو عورتوں کی چیرٹی پر کام کرتیں اس کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے تھے

مجھے نہی جانا اندر مجھے نہی کسی کا سامنا کرنا پلیز ۔۔۔"

وہ نظریں جھکائے پھر سے بضد تھی

باہر آ رہی ہو یا گود میں اٹھاوں تمہیں"

اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولتے وہ اس پر جھکا تھا

کم اون بیوی ہاں بولو تو میرے بازو وا ہیں"

اب وہ دونوں بازو اس کے سامنے پھیلائے اسے زہر سے بھی برا لگا تھا ناچار وہ باہر آئ تھی

ملیحہ اسے لاونج میں نظر نہی آئ تھی فون بلکل بند تھا چارجنگ پر لگاتے وہ کپڑے لیتے واشروم میں بند ہوا تھا

وہ شاور لے کر فریش سا روم میں آیا تھا وہ گلاس وال کے پاس اسی حلیے میں کھڑی تھی

بال سنوارتے خود پر پرفیوم سپرے کرتے وہ تیار تھا

اپنے کندھے پر اس کا ہاتھ محسوس ہوا تھا

بابا سے ملنا ہے۔۔۔"

چاہنے کے باوجود بھی وہ نفی میں گردن ہلاتے اس کی نظروں میں دیکھتے پلکیں جھکا گئ تھی اور وہ اس ادا پر بے خود ہوتے جھکتا کے وہ فوری پیچھے گلاس وال کے ساتھ لگی تھی

اس کی حرکت پر بغور چند پل دیکھا تھا اگلے لمحے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے وہ اس کو اپنے کندھے سے لگا گیا تھا

میں تمہاری زندگی میں وہ شخص بننا چاہتا ہوں جس کے کندھے سے لگ کے تم اپنے سارے غم بھول جاو"

وہ اسی پوزیشن میں تھی جب اس کے ہونٹ اپنے کندھے پر محسوس کرتے کب سے پلکوں کی تہہ پر جما آنسو آزاد ہوا تھا

میرے ساتھ۔۔۔

وہ مزید بولتی جب وہ اس کے لب پر انگلی جما گیا تھا

ظرف اتنا ہی تھا کہ تمہیں اپنا لیا ہے بار بار جتا کے مجھے خود سے بدزن کرنے کی کوشش نہی کیا کرو"

اس کے خشک لبوں پر انگلی جماتے وہ اس کی تھوڑی پر لب رکھتے اسے اپنے رشتے کی نوعیت سے پہلی دفعہ سمٹنے پر مجبور کر چکا تھا

آج اسے اتنا یقین ہوا تھا وہ جلد اپنا دل ہر درد اس کے آگے کھول دے گی

---------------------------------------------

گھر میں تیاری سی چل رہی تھی

ازہان تمہیں ہوش ہے بھائ کا نکاح ہے اور تم ابھی تک سو رہے ہو"

شام میں ہے ان کا نکاح ابھی صرف تین بجے ہیں"

وہ بیزار سا سانیہ کو غصہ دلا گیا تھا

سکندر پہلے ہی اس کی لاپرواہیوں پر انہیں کافی کوس چکے تھے

ازہان سو کام ہیں اور تم تمہارے بابا پہلے ہی غصہ ہیں بہتری اسی میں ہے اٹھ کر انتظامات پر نظر ڈال لو"

یار فار گوڈ سیک مجھے چند پل سکون لینے دیں بھائ کہاں ہیں نکاح ان کا ہے نہ تو ان کو چاہیے یہ سب دیکھیں پتہ نہی کیا جلدی پڑی تھی آپ لوگوں کو"

سرخ آنکھیں اور بکھرے بالوں سے وہ بستر سے لڑکھڑاتے غصہ نکالتے نکلا

ازہان کیا ہو گیا ہے تمہیں یہ کیسے بدتمیزی کر رہے ہو تم"

سانیہ تو اس کے چند دن کے بدلے تیوروں سے حیران تھی

وہ سر ہاتھ میں تھامتے گہرے سانس بھرتے نارمل ہوا تھا

آئ ایم سوری کل دیر رات تک پروجیکٹ میں بزی تھا تو سر میں درد تھا اسی لیے آپ سے بول دیا مما"

وہ فوری اپنے لب ولہجے پر شرمندہ ہوا تھا

میں دیکھتا ہوں سب"

اچھا ٹھیک ہے میں چائے بنواو دوں تمہارے لیے کوئ پین کلر لے لینا"

ان کے جاتے وہ شیشے کے سامنے آتے اپنا چہرہ دیکھا تھا

---------------------------------------------------

وہ اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی دیکھ رہی تھی

کل رات اسے پتہ چل چکا تھا احان کے ساتھ اس کی رخصتی بھی ہے بغیر رسم ورواج کے وہ سادگی سے رخصتی بھی چاہتا ہے اور زیادہ وجہ بی جان نے اپنی طبعیت کے واسطے دیتے اسے مجبور کیا تھا

وہ تو اس کو سوچ سوچ کر ہول رہی تھی

لو تو تم ایسے شخص پر مصلحت ہو رہی ہو جو سرے سے ہی یہ رشتہ نہی مانتا

انگلیوں کی پوروں پر سجی مہندی کا رنگ گہرا سا تھا

اس لمحے وہ سکن کام دار فراک پر سرخ دوپٹہ کے حجاب پر سکن ہی فراک کا کام دار دوپٹہ کندھے پر لیے پور پور اس کے لیے سجی سی تھی

ریحہ بہت پیاری لگ رہی ہو نکاح کا روپ آیا تم پر آج تو یہ حجاب نہ کرتی"

مانا کے میں کوئ پردے دار نہی ہوں پر میں شروع سے حجاب ہی کرتی ہوں آج کھول کر اپنا مزاق بنوا لیتی"

وہ اس کی منطق پر حیران ہوتے چپ ہو گئیں تھیں

----------------------------------------------

سفید شلوار قمیض پر سکن سندھی شال کندھے پر لیے وہ تیار تھا

چہرہ الگ ہی طرح چمک رہا تھا وہ اس سے دھواں دار محبت نہی کرتا تھا پر وہ اس کو تمام آج تک اپنی خود ساختہ اس کے بارے میں قائم شدہ خامیوں سمیت اب اچھی لگتی تھی

احان کے لب شیشے میں خود کو دیکھتے مسکرائے تھے

اچھے لگ رہے ہیں بھائ کونگریچولیشینز" وہ اس کے خیالات سے باہر نکلا تھا

تھینکیو اور تم بھی اچھے لگ رہے ہو۔۔۔"

وہ پلٹتے ازہان کو دیکھتے بولا تھا

تم پریشان ہو کیا کوئ بات ہے" وہ خود پر آخری تنقیدی نظر ڈالتے بولا تھا

ازہان کا دل چاہا تھا اپنی پریشانی بول دے پر لب سی چکا تھا

نہی بھائ کوئ بات نہی ہے باہر آئیں بابا مما ویٹ کر رہے ہیں"

نکاح گھر کے قریبی بینکوئٹ میں تھا

------------------------------------------------

سر اس لڑکی کی سم دو گھنٹے پہلے لاہور میں ہی اون تھی اب بند جا رہا ہے"

وہ پھر یہی ہے"

جو لاسٹ لوکیشن اس کی سم سے ٹریس ہوئ ہے وہی پر چھان بین کرو یہی ہے"

جی سر ہم اس جگہ پہنچ کر انفارم کرتے ہیں آپ کو"

وہ فون بند کرتے اپنی ماں کے نمبر پر فون کیا تھا

کیسی ہیں"

وہ چند لمحوں بعد بولا تھا

تمہیں میری فکر ہے" فون سے چھبتی آواز آی تھی

آپ روم میں تھیں میں آیا تھا آپ سوئیں تھیں مجھے جلدی تھی اسی لیے ڈسٹرب نہی کیا"

وہ گہرا سانس بھرتے صفائ دے رہا تھا

غازیان تم اسے ماں پر فوقیت دے رہے ہو"

وہ نا چاہتے ہوئے بھی جلن محسوس کر رہی تھیں

غلط مما میں اسے صرف بیوی کی حثیت دے رہا ہوں"

وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے اس کو سوچتے بولا

تو تم اس کے ساتھ ہی رہو گے مجھے بھول جاو گے کیا ہے آخر اس میں"

کیا یہ کافی نہی ہے وہ آپ کے بیٹے کے نکاح میں ہے پلیز دل صاف کریں اسے دیکھیں بہت معصوم ہے وہ اس کی کوئ غلطی نہی ہے صرف ایک بار میری بیوی نہی عورت کی نظر سے دیکھیں فرق محسوس کریں گی آپ"

آئ ایم سوری اگر میری بات آپ کو تکلیف دے لگی ہو لیکن وہ میری زندگی کا اب اہم حصہ ہے"

وہ فون بند کرتے کرسی کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موند چکا تھا

-----------------------------------------------

قریبی رشتے داروں کے علاوہ احان کے کولیگ اور نائمہ کے گھر والے تھے کئ لوگوں نے اعتراض کیا تھا جسے سکندر اور بی جان نے یہ کہہ کر ٹالا تھا وہ سادگی چاہتے ہیں

نکاح کے بعد اس کے چہرے پر ایک چمک تھی وہ سب سے اس لمحے ملتے مبارک باد وصول رہا تھا

منتظر تو اب اس کا تھا

نکاح کے وقت بی جان اور نائمہ اس کی سائیڈ پر تھے

وہ خوفزدہ تھی

مجھے میچور بیوی چاہیے

یہ شادی نہی خانہ بربادی ہے"

سارے لفظ گونجتے اس کو مسلسل خدشوں میں۔لاحق کر رہے تھے

ریحہ۔۔۔"

مما مجھے ڈر لگ رہا ہے مجھ سے نہی"

وہ ان کے کندھے سے لگتے روتے بولی تھی

آپ نے رخصتی کیوں رکھی تھی"

ریحہ نائمہ نے اس کے یخ ہاتھ تھامے تھے

میری جان ایسا ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے احان اچھا ہے تم اس کے ساتھ خوش رہو گی ماں باپ کبھی اپنی اولاد کے لیے برا نہی چاہتے تم ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہو گی اس سے زیادہ مجھے اور کچھ نہی چاہیے میری جان"

بی جان اور نائمہ اس کو حوصلہ دیتی بولیں تھیں

چند سانحوں بعد سکندر اور وہاج نکاح خواں کے ساتھ تھے

آخری بار اس شخص کو قبول کرتے وہ اپنے تمام جملہ حقوق اس کے نام کر چکی تھی وہ وہاج کے گلے ملتے انہیں بھی رلا گئ تھی

ریحہ صرف کمرہ اور بدلا ہے ہو تو تم ہمارے پاس نہ"

ناعمہ اس کی بے تحاشہ رونے پر پریشان تھیں وہ اسے گلے لگاتے سمجھا رہی تھیں پر اس کے آنسوں کا جھرنا تھمنے پر ہی نہی آ رہا تھا

تو آج احان سکندر ایک ان چاہا وجود تمہارے روم میں تمہارا منتظر ہے"

یخ ہوتے ہاتھوں سے مستقل کے تانے بانے بنتے اس کے روم میں بیڈ پر وہ اس کی منتظر تھی

ریحہ تم ٹیک لگا لو یار ہاتھ کتنے ٹھنڈے ہو رہے ہیں تمہارے اے سی بند کر دوں"

اس کی کزنیں اس ٹائم اس کے پاس تھیں

نہی میں ٹھیک ہوں"

وہ تکیہ سے ٹیک لگائے سمٹی سی بولی تھی

اس سب میں ازہان اسے نہی ملا تھا

مسلسل پچھلے دو گھنٹوں سے اس شخص کے ویٹ میں تھی

کیا مصیبت ہے اب وہ تھک کر اس کے سجے بیڈ سے اٹھی تھی

مرر کے سامنے کھڑے ہوتے اپنا حجاب کھولا تھا لمبے بال کندھے پر بکھر گئے تھے

ان کو جوڑے میں باندھتے وہ کشمکش میں تھی

احان ہوش ہے تمہیں"

سانیہ کے ڈپٹنے سے وہ اپنے ایک دو دوستوں کی محفل سے اٹھا تھا

میں جا ہی رہا تھا"

جا نہی رہے تھے جاو۔۔۔" وہ سخت آواز میں بولیں تھیں

ہمارا نیگ احان بھائ پھر روم میں"

اس کی چند ایک کزنیں یہی ٹھہری تھیں جو اس کو اب دروازے پر روکے تھیں

مجھے کوئ بھی جلدی نہی ہے میں صبح مل لوں گا"

بے تاب دھڑکنوں کو سنبھالتے وہ عنابی لبوں کی دلکش مسکراہٹ بامشکل روکتے بولا تھا

اس کی آواز اتنی تھی کے ریحہ کا دوپٹہ سیٹ کرتا ہاتھ اندر تھما تھا

احان دو انہیں یہ رسم ہے"

سانیہ نے آنکھیں دکھائیں تھیں

شور کی آوازیں بند ہوئیں تھیں وہ فوری سے دوپٹہ سیٹ کرتے بے ترتیب دھڑکنوں سے گھونگٹ اوڑھے بیڈ پر آئ تھی

وہ ان کو پیسے تھماتے روم میں داخل ہوتا جب گارڈ کا پیغام آیا تھا

سر آپ سے کوئ ملنے آیا ہے"

مجھ سے؟

وہ حیران ہوا تھا گھڑی اس لمحے بارہ سے اوپر پانچ منٹ جا رہی تھی

اچھا ڈرائینگ روم میں بٹھاو میں آ رہا ہوں"

وہ بیزار سا نوب سے ہاتھ ہٹاتے باہر گارڈن کے اطراف میں بنے ڈرائینگ روم کی جانب اب بڑھا تھا

ریحہ دس منٹ تک مزید اس کا انتظار کرتے اب نیند میں جھول رہی تھی یہ انتظار بھی وہ اپنی ماں کی نصیحتوں پر عمل کرتے کر رہی تھی ورنہ نیند کی تو وہ اتنی پکی تھی کے ایک بار سو جائے پھر اسے جگانا مشکل ترین کام تھا

اللہ پوچھے تمہیں احان"

وہ گھونگٹ چہرے سے ہٹاتے مسکارے اور کاجل سے لبریز بھوری سرخ اور بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی اب بامشکل سعی میں تھی

وہ جیسے ہی ڈرایینگ میں انٹر ہوا سامنے موجود شخص کو دیکھتے شفاف ماتھے پر بے تحاشہ بل نمودار ہوئے تھے

کوئ خاص کام تھا" وہ پہچان تو گیا تھا پر اس کی موجودگی پر تعجب میں تھا

سوچا آج نکاح کی مبارک باد کے ساتھ کچھ ضروری باتیں گوش گزار کی جائیں"

بیٹھنے کے لیے نہی کہیں گے ایڈوکیٹ صاحب"

چلیں میں خودی بیٹھ جاتا ہوں"

نکاح کی مٹھائ آپ مجھے کھلائیں بدلے میں میرے پاس آپ کے لیے ایک بہت بڑا سرپرائز ہے"

واٹ نونسنس سیدھی بات کہو"

وہ اسے ٹانگ پر ٹانگ جمائے آدھی رات اپنے اتنے امپورٹنٹ دن پر ناگوار گزر رہا تھا

تحمل سے سنیں پھر مسٹر احان سکندر آپ کے خلاف اریسٹ وارنٹ ہے"

جبکہ وہ اشتعال دباتے ساکت سا ہو گیا تھا

گردن دکھنے سے اس کی آنکھ کھلی تھی

چندیائ آنکھیں کھولتے سامنے ہی گھڑی پر نظر ڈالی جہاں صبح کے پانچ بجنے والے تھے اسے احساس ہوا وہ ساری رات اس کے انتظار میں بیٹھی تھی

یک دم غصہ عود آیا اپنے ہاتھ سے رنگز اور کڑے نکالتے ڈریسر پر پھینکتے اپنا دوپٹہ دور اچھالا تھا اہانت زلت اپنی بے وقعتی پر رونا آیا تھا

پندرہ منٹ بعد وہ مہرون اور سیاہ کمبینیشن کے لون کے سوٹ میں واشروم سے رات میں زیب تن کپڑے ہاتھ میں تھامے بھوری سرخ آنکھوں سے باہر آئ تھی

نماز ادا کرتے نہ چاہتے بھی آنسو ابل رہے تھے

میں اتنی بے وقعت تھی تمہاری نظر میں احان سکندر تم نے روم میں آنا بھی گنوارہ نہی کیا دل چاہ رہا تھا ابھی اپنے روم میں سب چھوڑ چھاڑ کر چلی جائے پر کیا جواب دیتی اپنی ماں کو اس کے شوہر کی نظر میں اس کی کوئ اہمیت نہی ہے جو وہ رات بھر آیا ہی نہی"

وہ شکووں بھری دعا میں اتنی محو تھی کہ اس کے آنے کا بھی اندازہ نہی ہوا وہ فائل ڈریسر پر رکھتے اس کے جھکے سر پر غور کرتے خود پر افسوس کرتے فریش ہونے کے بعد اس سے بات کرنا چاہتا تھا

چند سانحوں بعد شاور کی آواز سے اندازہ ہوا واشروم میں کوئ ہے ازیت ناک نظروں سے بند دروازہ دیکھتے وہ جائے نماز طے لگاتے اٹھی تھی

ڈریسر کے سامنے کھڑی اپنے بال بنانے کی غرض سے دوپٹہ سر سے اتارا تھا

کنگا لینے کے چکر میں اس کا ہاتھ ڈریسر پر پڑی سیاہ فائل پر لگا کے سارے کاغذ بکھرتے چلے گئے

ریحہ سمیٹنے کی غرض سے جھکی تھی جب اس کی نظر اچانک سفید کاغذات سے ٹکراتے اسے کنگ کر گئ تھی

وہ باہر آیا تو اسے بے حس وحرکت دونوں ہاتھ ڈریسنگ پر ٹکائے کمر پر بکھرے سیاہ لمبے بالوں میں دیکھ مبہم سا مسکرایا پہلی دفعہ وہ اس کے بال دیکھ رہا تھا دل چاہا اس ان کی نرماہٹ اپنے ہاتھوں میں محسوس کرے رات کا شدید ہنگامہ فلحال بھلائے وہ اپنی خواہش پر لبیک کرنا چاہتا تھا

ہ اصلی ہیں"

وہ اس کے بال ہاتھ سے چھوتے بولا تھا

ریحہ نے کوئ تاثر نہی دیا تھا

مجھے نہی پتہ تھا میری بیوی کی ناک کے بعد بال بھی مجھے پاگل کر دیں گے"

اس کا رخ اپنی جانب کرتے خمار آلود لہجہ ہوا تھا

تم روئ ہو۔۔" احان نے اس کی سرخ آنکھیں چھوئیں تھیں

تمہاری منہ دکھائ لی تھی پر تم ابھی اس کے قابل نہی ہوئ"

اسے سنبلھنے کا موقع دیے بغیر اس کی سرخ ناک پر اپنے لب رکھتے اسے ششدر کر دیا تھے

چ۔۔چھوڑیں مجھے " اس کا حصار توڑنے کی کوشش میں وہ اسے اپنے سینے سے لگا گیا تھا

چھوڑنے کے لیے نہی تھاما"

اس کا بھیگا وجود ریحہ کو سمٹنے پر مجبور کرتا کے اس کے لب اپنی گردن پر سرائیت کرتے نفرت محسوس ہوئ کے ریحہ کے ہاتھ اس کے کارلر تک گئے تھے

چھوڑو مجھے" اس کا حصار کمر سے ہٹاتے وہ اس کا کارلر مٹھی میں تھامے چیخی تھی

مانا کے مجھ پر صرف حق تمہارا ہے پر کارلر تک جانے کی اجازت میں تمہیں بھی ہرگز نہی دیتا"

ماتھے پر تیوری چڑھائے وہ اس کی نظروں میں نفرت دیکھے بغیر اس کے دونوں مہندی سے سجے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ چکا تھا

اس کی بے ہنگم دھڑکنیں اپنے ہتھیلوں پر محسوس کرتے وہ تلخ ہوئ تھی

مجھ سے پہلے کس کس پر اپنا یہ حق لٹا چکے ہو احان سکندر"

وہ تلخی سے مسکرائ تھی

کیا بول رہی ہو؟ وہ اب اس کی آنکھوں میں عجیب سا تاثر دیکھتے حیران ہوا تھا

اس کے بارے میں کیا کہو گے"

اس کے منہ پر پیپر اچھالے تھے

احان ہوا میں لہراتے پیپر دیکھ صدمے میں ہوا تھا

ریحہ میں تمہیں بتاتا ہوں یہ جو تم سوچ رہی ہو"

جسٹ شٹ اپ میں نے آج تک خود کو ہمیشہ سینت کر سنبھال کر صرف ایسے شخص کے لیے رکھا تھا جس کے جزبات محبت اور احساسات میرے نام ہوں لیکن آپ تو یہ سب کسی پر لٹا چکے ہیں بلکہ مبارک ہو ایک بچے کے باپ بھی بننے والے ہیں مجھے میرے گھر والوں کو دھوکہ دیا اس سے شادی بھی کی تھی یا۔۔۔"

ریحہ احان نے اس کی بکواس پر تیش سے تھپڑ کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا وہ کنگ تھا محض کاغذ کے ٹکرے کو دیکھتے اس کے لب ولہجے پر جو ہوا میں ہی مکہ بناتے ضبط کرتے نیچے گر گیا تھا

مجھے ماریں گے آپ" وہ حیران سی روتے بکھرے سراپے میں تھی احان کو خود پر غصہ آیا

مجھے سنو گی "

وہ تھامتا کے وہ پیچھے بدکی تھی شادی کی صبح ہی کیا ہنگامہ بھرپا تھا

مجھے کمزور عورت نہی سمجھنا جو چپ چاپ سہن کرے گی سب میں ابھی جا رہی ہوں سب کو بتاوں گی آپ کی کرتوت یہ رپورٹس سب کو دکھاوں گی اور کہوں گی سب کو رات بھر تم گھر نہی آئے"

وہ آنسو صاف کرتے تیزی سے کاغذ تھامے باہر بڑھتی جب اس کی آواز اسکا خون منجمند کر گئ تھی

اگر تم نے ایک قدم بھی کمرے سے باہر نکالا یا کسی کو کچھ بتایا تو تمہاری جان خود لوں گا میں"

اس کو کینچھتے بیڈ پر دھکہ دیا تھا ریحہ کو اس کی سرد آنکھوں سے اور خود پر جھکاو سے خوف آیا تھا

تم کریکٹرلیس بے حیا ہو مجھے ایسا شوہر نہی چاہیے"

وہ برابر چیخی تھی

احان جو اس سے دور جا رہا تھا اس کے منہ سے اپنے لیے بکواس سنتے واپس پلٹے اس کے سسکتے وجود کو گرفت میں لیتے پھنکارا تھا

تو مبارک ہو پھر تمہیں مسز احان کے تم اس بے حیا شخص کی اب بیوی ہو"

حلیہ درست کرو ورنہ ابھی بے حیائ کا ایسا ثبوت دوں گا کہ"

وہ لب دبائے اس کا ہاتھ کینچھتے اپنے مقابل کر چکا تھا ریحہ اس کے غضب ناک تیور دیکھتے واشروم میں فوری بند ہوئ تھی

وہ بے ساختہ پہلے ہی دن اس کا رویہ دیکھتے اندر اپنی سسکی دبا رہی تھی

اتنی سادہ میری بیٹی کیوں ہے"

سانیہ نے محبت پاش لہجے میں اسے ساتھ لگاتے کہا جو دھلے سادہ سے چہرے میں ناشتے کی ٹیبل پر اپنے ہاتھ پر اس ظالم کے دباو سے ضبط کر رہی تھی ولیمہ دو دن بعد رکھا تھا

وہ محض کھوکھلا سا مسکرائ تھی

کیا چاہ رہی ہو ڈارلنگ میں کھلاوں سب کے سامنے"

اس کے ہاتھ کی انگلیاں اپنی گود میں دھرے ہاتھ کی انگلیوں میں الجھتی محسوس کرتے وہ بے بس ہو گئ تھی جو اس کے ساتھ بیٹھا اس کے ضبط کے امتحان لے رہا تھا

ہاتھ چھوڑیں میں چلاوں گی ورنہ"

سامنے دیکھتے وہ تڑپ چھپاتے نارمل تاثر دیتے بولی تھی

چلاو میں بھی دیکھوں چلا کے کیا جواب دو گی" اس کے تاثرات پر محفوظ ہوتے وہ اسے مزید غصہ دلا رہا تھا

-----------------------------------------------------

وہ لون میں بیٹھی اپنی مہندی دیکھ رہی تھی جب ازہان کو تیزی سے چہرہ چھپائے روم میں جاتے دیکھا تھا

ازہان۔۔۔"

ریحہ شیئرر کرنا چاہتی تھی وہ احان کا پوچھنا چاہتی تھی اور وہی بتا سکتا تھا اس کے خلاف ثبوت وہ اس لمحے اندر سے کتنی تکلیف میں تھی

تمہارے چہرے پر کیا ہوا ہے" وہ مزید بولتی جب اس کی آواز کان سے ٹکرائ تھی

کمرے میں جاو ریحہ آئیندہ مجھے اس کے یا کسی کے ساتھ بھی میری اجازت کے بغیر نظر آئ تو مجھ سے برا کوئ نہی ہو گا"

کیوں وہ میرا کزن ہے آپ مجھے ایسے روک نہی سکتے نہ میں رکوں گی"

وہ خاموشی توڑتے غصے سے بولی

اور میری جان اگر بھول رہی ہو تو یاد دلاوں میں تمہارا اب شوہر ہوں"

اس کے قریب ہوتے آہستہ آواز میں چباتے کہا تھا

روم میں جاو۔۔" وہ دوبارہ زور دیتے بولا تھا

جبکہ ازہان شرمندہ سا نظریں چرائے تھا

بھائ میری بات۔۔۔"

شٹ اپ مجھے بھائ تو بلکل بھی مت کہنا"

وہ ریحہ کو جاتے دیکھ بولا تھا

رات کا غصہ اب بھی تھا

وہ دروازہ کھولتے اس کے کمرے میں تھا

کہاں گئ وہ؟

وہ بے حال سا ڈھونڈ رہا تھا

کسے ڈھونڈ رہے ہو" اس کے قدم منجمند ہوئے تھے

آ۔۔آپ کسی کو نہی۔۔" وہ ماتھے پر آئ نمی صاف کرتے مسکرانے کی سعی کرتے نارمل ہوتے بولا تھا

تو پھر یہاں کیا کر رہے تھے" وہ قدم اس کی جانب بڑھاتے جبڑے بھینچے سپاٹ سا تھا

میں وہ۔۔۔"

کب سے میرے فلیٹ میں رکھا تھا اسے"

ک۔۔کسے" وہ خوفزدہ ہوا تھا

زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا کے وہ دو قدم پیچھے لڑکھڑایا تھا

شرم آئ تمہیں اپنی حرکت پر اتنے بے غیرت ہو گئے تھے تم ازہان"

اتنی آخر آئ تھی تو رشتہ بھیجتے اس لڑکی کے گھر ایک ناجائز رشتے میں بندھنے کی کیا ضرورت تھی" وہ شدید تیش میں تھا

بھائ آی ایم سوری پلیز مجھ سے غلطی" وہ شرمندہ سا سر جھکائے تھا

سامنے دوسرا شخص فیملی ڈرامہ انجوائے کر رہا تھا

تب تک وہ لڑکی سر جھکائے واشروم سے باہر آئ تھی

ازہان کو مزید شرمندگی نے گھیرا تھا

وہ تو چلو مرد تھا تم تو لڑکی تھی نہ تمہیں بھی اپنی عزت کا خیال نہی تھا"

وہ اس کے جھکے سر کو دیکھتے چپ نہ رہ سکا

اپنے بھائ سے پوچھیں ہمیشہ عورت کو بلیم نہی کیا کریں مرد بھی برابر کا زمیدار ہوتا ہے"

وہ کاٹ دار لہجے میں دوبدو بولی تھی

تم جیسی ہی ہوتی ہیں میرا جسم میری مرضی کا ٹیگ لگا کر گھومنے والی مرد کو نمائش دکھانا فرض ہوتا ہے جب تمہیں ہی اپنی عزت کا خیال نہی تو اسے کیا کہوں"

کیوں رکھا اسے یہاں پھر جب کوئ رشتہ ہی نہی تو"

احان پھنکارتے بولا تھا

رشتہ کیوں نہی ہے مسٹر میں آپ کے بھائ کے بچے کی ماں بننے والی ہوں سمجھے آپ اور جانتے ہے اس کی کرتوت مجھ پر جو فتوے جاری کر رہے ہیں آپ کا بھائ مجھے آگے کسی کو پیش کرنے والا تھا یہ تمہارے بھائ کی مردانگی ہے"

وہ تو پھٹ پڑی تھی

یہ کیا کہہ رہی ہے ازہان"

وہ مزید تیش میں ہوا تھا

میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم اپنے کرئیر پر فوکس کرنے کی بجائے یہ سب کرتے پھر رہے تھے احان اپنے ہاتھوں پر ضبط کیے تھا ورنہ دل چاہ رہا تھا ازہان کو شوٹ کر دے سب کی محبتوں کا یہ صلہ دیا تھا اس نے"

پلیز اپنا فیملی ڈرامہ بعد میں جاری رکھنا ایڈوکیٹ صاحب فلحال دانین حیدر کے گھر والوں نے ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائ ہے لہحذا وہ تمہارے فلیٹ میں پچھلے ایک دن سے پائ گئ ہے سوری ٹو سے اس کے مطابق تمہارے بھائ یا تمہیں مجھے اریسٹ کرنا پڑے گا"

غازیان نے ایس ایچ او کو ہتھکڑی لگانے کا اشارہ دیا تھا

آئ ایم سوری بھائ پلیز مجھے معاف کر دیں"

میں مجبور تھا"

دانین سے میں نے کورٹ میرج کر لی ہے وہ میری بیوی ہے اب کوئ قانون بھی بالغ افراد کی شادی کرنے پر کم ازکم اسے حراست میں لینے کا اختیار نہی رکھتا

آخر پر وہ سامنے کھڑے غازیان کو جتاتے بولا تھا

جبکہ احان تو اس کے نئے انکشاف پر کنگ تھا

کل اس کی زندگی کا اہم دن تھا اور وہ یہ معاملے نبھٹاتا پھرا تھا کتنی زلت ہوئ تھی جب یہ شخص اس کے فلیٹ پر پائ جانے والی لڑکی کی وجہ سے اسے اس کے گھر سے اریسٹ کر کے لے گیا تھا رپورٹ خارج کرنے کے لیے اسے ازہان کا وکیل بنتے وہ رپورٹ اور نکاح نامہ ایویڈینس کے طور پر چاہیے تھے جبکہ ریحہ تو کچھ سننے کو تیار نہ تھی محض کاغذ کے ٹکڑوں کو لیکر وہ اسے کریکٹر لیس کہتے اسے بلیم دے رہی تھی نہ وہ اسے ایکسپلین کرنے والا تھا

-----------------------------------------------------

آج اس کی ضمانت تھی اس سے پہلے وہ اس کی تبعیت اچھے سے صاف کرنا چاہتا تھا

تمہاری ہمت کیسے ہوئ میرے گھر آنے کی"

وہ لوک اپ میں آتے دھاڑا تھا

ویسے بڑے ہی جگر والے ہو داد دیتا ہوں تمہارے بڑے دل کی ایسی لڑکی کو اپنایا جس کے ساتھ

ابھی وہ مزید بولتا جب تنی رگوں سے اپنے اشتعال پر آپا کھوتے اس کا چہرہ دبوچتے جھٹکا دیا تھا

غازیان نے بغیر جواب دیے پلٹتے اس کے چہرے پر اتنے تھپڑ جڑے تھے کے اس کا چہرہ سوجھ گیا تھا

آئیندہ اس کے بارے میں بکواس کی یا میرے گھر کے نزدیک نظر آئے ایسے ایسے کیس ڈالوں گا تم پر زندگی نکل جائے گی پر جیل کی دیورایں تمہارا مقدر بن جائیں گیں رہی بات ظرف کی تو سنو اسے نکاح کے پاک رشتے سے اپنایا ہے گھٹیا انسان جو تجھ جیسا کمینہ نہی سمجھ سکتا"

میری نظر تم پر ہے جس دن اس نے اپنے مجرموں کے بارے میں زبان کھولی یا مجھے پتہ چلا تو دیکھ کمینے تیرا کیا حال کرتا میں پھر۔۔۔"

ایک آخری ٹھوکر مارتے وہ باہر نکلا تھا

-----------------------------------------------------

رات گئے وہ گھر پہنچا تھا

پورچ میں گاڑی روکتے وہ بھاری قدموں سے اندر داخل ہوا

رات کی گہرائ میں ٹھنڈک سی تھی جو اپنی تاریکی میں بہت سے راز دفنائے تھی

وہ کمبل سینے تک اوڑھے اس کے بستر پر دراز تھی

وہ فریش ہوتے باہر آیا تھا قدم اپنی ماں کے کمرے کی جانب تھے

حیرت ہوئ وہ جاگ رہی تھیں

آپ سوئیں نہی؟

غازیان ان کے پاس بیٹھتے بولا تھا

وہ گہری سوچ میں آج کے دن کا معاملہ سوچ رہیں تھیں

آج جب کیچن میں اس سے سامنا ہوا تھا اور وہ دوپٹہ مڑوڑتے ان سے چھپ رہی تھی وہ ناگوار تاثر دیتے باہر آگئ تھیں

تھوڑی دیر بعد ان کی تبعیت اتنی خراب ہوئ تھی وہ ڈرتے ان کے پاس آئ تھی ان کی حالت دیکھتے ان کا خیال اس انداز میں رکھا تھا کہ انہیں اپنی خود ساختہ قائم شدہ نفرت کی دیوار بے معنی لگی تھی لیکن پھر بھی وہ اسے کیوں نہی قبول کر پا رہی تھیں

صبح میری واپسی کی فلائٹ ہے"

اتنی جلدی۔۔"

وہ حیران ہوا تھا

تم ریسٹ کرو غازیان تھکے ہو گے دروازہ بند کر جانا"

غازیان نے لب بھینچے بات بدلنے پر ان کی پشت دیکھی تھی

وہ روم میں واپس آیا تھا دن کی باتیں دماغ میں گردش کرتے اس کو پاگل کر رہی تھیں

اس پر نظر ڈالی تھی اور دراز سے سگریٹ اور لائٹر لیتے سامنے سنگل صوفے پر آنکھیں موندے لبوں میں سگریٹ دبائے پرسوچ سا خلا میں دھواں چھوڑ رہا تھا

نیند میں عجیب سی سمیل محسوس کرتے وہ اٹھی تھی ہوش کی دنیا میں واپس آتے نظر اس پر پڑی

یہ دھواں اور سگریٹ کی سمیل اس کی برداشت سے باہر تھی وہ کھانسی کا گلا گھونٹتے ننگے پاوں خاموشی سے ناک پر دوپٹہ رکھتی نوب گھمائے باہر چلی گئ تھی

دروازے کی آواز سے اس نے سیگریٹ کا دھواں خلا میں آزاد کرتے بند آنکھیں کھولی تھی

پندرہ منٹ تک وہ روم میں واپس نہی آئ تھی اب اس کے شفاف ماتھے پر بل نمودار ہوئے تھے

سگریٹ مسلتے سیاہ چپل سفید پیروں میں اڑیسے باہر نکلا تھا وہ کہی نہی تھی

غیر ارادی طور پر خوفزدہ سا ٹیرس کو دیکھا تھا

غازیان نے فوری چھت کا رخ کیا

آہ۔۔۔" وہ بری طرح چیخی تھی

اسکی زخمی بازو اس کی گرفت میں ہونے کے باوجود وہ آدھی اس وقت نیچے لٹک رہی تھی

مرنے کا شوق زیادہ ہے"

یہاں سے گر کر چند ہڈیاں ٹوٹنے کے علاوہ تمہارا سپائنل کورڈ بری طرح متاثر ہو سکتا ہے

وہ اسے ریلنگ سے پورا نیچے جھکائے اونچائ کا اندازہ لگائے تھا نفی میں سر ہلاتے وہ بے آواز رونا شروع ہو گئ تھی

کیا کر رہی تھی پھر اوپر"

اس کی سرد آواز یک دم کینچھنے سے وہ اس کے سینے کے ساتھ لگتی خوف سے گہرے سانس بھرتی بے حال تھی

مم۔۔مجھے سگریٹ سے الرجی ہے۔۔۔"

وہ اسے پیچھے دھکیلتے اس سے اس لمحے شدید خوفزدہ ہوئ تھی

تم روک سکتی تھی مجھے"

وہ چند قدم کا فاصلہ طے کرتے پھر روبرو تھا

اس کے پرفیوم اور سگریٹ کی مدہم خوشبو اس کو بلکل اچھی نہ لگی تھی

پلیز۔۔"

وہ ہراساں سی اس سے فاصلہ قائم کر رہی تھی اس لمحے غازیان کی نظر سیاہ خوفزدہ آنکھوں سے سیاہ ماربل پر دھرے اس کے ننگے پاوں پر پڑی تھی

مجھے جانتے بوجھتے انجان کیوں بن رہی ہو"

وہ ریلنگ سے ٹیک لگائے زرا فاصلے پر ہوتے اجنبیت کی دیوار گرا رہا تھا

اگر تو آپ محض ایک ملاقات کا حوالہ دیتے یہ جتا رہے ہیں کہ آپ مجھ سے دھواں دار محبت میں گرفتار ہیں تو مجھے نہی پتہ نا ہی مجھے آپ کو جاننا ہے"

وہ آنسو چھپائے اس سے تیزی سے دور ہوتی جب وہ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا

مجھے حقیقت سے منہ موڑنے والے لوگ اچھے نہی لگتے بیوی سے محبت ہر ڈکشنری میں جائز ہے"

وہ گہری نظروں سے دیکھتے کچھ باور کرا رہا تھا

مجھے طلاق چاہیے"

اس نے سرعت سے سر اٹھاتے سامنے سرخ آنکھیں لیے اس کو دیکھتے لب بھینچے تھے"

ایک لڑکی جس کے پاس نا عزت ہے نا گھر بار نا اس کے اپنے"

کوئ اتنا اچھا نہی ہو سکتا غازیان نیازی پھر آپ کا مقصد مجھے اپنے پاس رکھنے کا آخر کیا ہے"

میں آپ کو شرمندگی کے علاوہ کچھ نہی دے سکتی"

اس کے چپ رہنے پر وہ آپا کھوتے روتے چیخی تھی

جب ایک جھٹکے سے وہ اسے اپنی جانب کینچھ چکا تھا

کیا میرے پاس رہنے کے لیے یہ کافی نہی ہے کے تم میری۔۔۔"

وہ اس کے ماتھے سے سر ٹکاتے تھکا سا سانس خارج کرتے رکا تھا

i was victim ghaz"

تین لوگ تھے"

اب ہچکی بند چکی تھی وہ اس کا پورا نام بھی نہی لے پارہی تھی

اس کے آنسو اس کا کندھا بگھو رہے تھے

وہ جو سوچ رہی تھی ابھی وہ اسے خود سے دور جھٹکے گا پ وہ تو"

trustme, i don't leave u at any cost"

نو ہرگز نہی جھوٹ ہے یہ سب جھوٹ ہے تم جانتے نہی ہو ابھی تم چ۔۔چھوڑ دو گے مجھے جیسے بابا نے نور کو چھوڑا بلکل ویسے"

وہ ریلنگ سے ٹیک لگائے آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے وہ اس کے کان کے قریب جھکا تھا

ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے"

وہ سرگوشی میں بولا تھا نور کے رونے میں کمی آئ تھی

میرے ساتھ ک۔۔کیوں پھر؟

وہ اسی پوزیشن میں اس کے کندھے سے لگے آنسووں سے بولی تھی

‏یہ آیت میرا حوصلہ ہے وہ اس کے بال سہلاتے پھر سے دھیمے سے اپنے احساس سے اس کے وجود میں سکون بھرتے بولا تھا

وَماَ کَانَ رَبُّک نَسِیّاً _

اور تیرا رب بھولنے والا نہیں

پھر اپنی سٹیٹمینٹ ان کے خلاف کب دے رہی ہو"

بابا نہی چاہتے میں کیس کروں"

چند پل بعد وہ اس رات کی ان کی بات یاد کرتے بولی تھی

اور تم۔۔۔؟ وہ اسے روبرو کرتے بولا

میں انہیں مار ڈالوں گی غاز وہ نہی جانتے جب وہ ایک لڑکی کا کردار تار تار کرتے ہیں تو وہ صرف اپنی عزت نہی کھوتی اپنا ٹرسٹ سیلف رسپیکٹ اس کا غرور سب کھو دیتی ہے

وہ نوک کرتے سٹڈی روم میں تھا

بولو کچھ کثر رہ گئ ہے تو"

احان نے اس کو خاموش پا کر کہا تھا

بھائ میں شرمندہ ہوں بس معافی مانگنا چاہتا ہوں" وہ نظریں جھکائے تھا

اپنا ولیمہ کینسل کرتے آگے کیا ہے اس کے ساتھ تمہارا نکاح ہے مما بابا کو بڑی مشکل سے منایا ہے کہ وہ اچھے لوگ ہیں اور تم اس لڑکی کو پسند کرتے ہو اس لڑکی کے گھر والوں کو ہینڈل کرنا اب تمہارا کام ہے اور مزید اپنے متعلق گوہر افشانیاں کرنے سے روکنا بھی"

اس کی بات کا مطلب سمجھتے وہ انتہائ شرمندہ ہوا تھا

تھینکیو بھائ"

وہ پرسکون سانس خارج کرتے بولا تھا

یہ نہی سمجھنا تمہیں معاف کر دیا ہے یا تمہارے کرتوت چھپا لیے ہیں"

وہ اب بھی تیش میں تھا

--------------------------------------------------------

وہ کبرڈ سے کپڑے لے رہی تھی پلٹتے دل دھک سے رہ گیا وہ عین پیچھے تھا

براون دوپٹہ سر سے پھسلتے کندھے پر تھا

پیچھے ہوں"

وہ غیر محسوس انداز میں دوپٹہ درست کرتے کبرڈ کے ساتھ چپکی سی تھی

نہ ہوں تو۔۔"

وہ ازلی بے نیازی سے اس پر جھکے ہی اپنے کپڑے نکالتے اسے زچ کر رہا تھا نیچے ڈنر پر بھی وہ اسے کافی تنگ کر چکا تھا

پانچ منٹ جان بوجھ کر اسے زچ کرتے وہ بغیر کپڑے لیے پیچھے ہوا تھا ریحہ کا دل چاہا اس کا سر پھاڑ دے

بی جان اور باقی گھر والوں کے سامنے کتنے مظلومیت کے رونے روئے"

وہ واشروم جاتے پلٹی تھی

میری چپی کا مزاق نہی بنائیں بے فکر رہیں شکائتوں سمیت سارے حساب ایک ساتھ ہی بے باک کروں گی"

I like challenges"

وہ دل جلانے والی مسکراہٹ دیتے بولا تھا

وہ پیر پٹختے واشروم میں بند ہوئ تھی

وہ واشروم سے واپس آئ کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا دیکھ پرسکون ہوئ تھی

کیا ڈراموں کی شوٹنگ چل رہی ہے جہاں تم اپنے ہیرو کے ساتھ صوفہ صوفہ کھیلو گی"

وہ دبے پاوں بستر سے تکیہ لیتے جاتی جب اس کی آواز نے قدم جکڑے تھے

ول سی یو ڈارلنگ اگر تم ایک قدم بھی یہاں سے ہلی تو آج رات اپنی شامت کو خود آواز دو گی"

زومعنی سا لہجہ اس کو اس رشتے کا احساس اچھے سے دلا گیا تھا

ہلکی پیلی روشنی میں وہ بازو آنکھوں پر دھرے اسی پوزیشن میں نیم دراز تھا

جبکہ وہ ازلی بے نیازی سے ایک قدم مزید لیتی وہ ایک ہی جست میں اسے خود پر کینچھ چکا تھا

وہ ساکت پڑتی دھڑکنوں سے معنی خیز خاموشی میں اب اس کی دھڑکنیں محسوس کر رہی تھی

احان کی نظر اس کے نم سے چہرے پر تھیں

ہمیں نے حشر اُٹھا رکھا ہے بچھڑنے پر ،

وہ جانِ جاں تو پریشان بھی زیادہ نہیں

گھمبیر لہجے میں بولتے اسے خود پر جھکائے تھا

میرے جزبات اجاگر کرنے کی زمیدار تم ہو گی"

اس کی ناک چومتے اسے خود میں سمیٹ گیا تھا وہ چہرے پر سرخی لیے کنگ سی تھی وہ مزاحمت کرتی اس کے ہاتھ اپنی کمر میں سے ہٹاتے بے حال تھی

مزاحمتیں بے کار ہیں"

اس کی کان کی لو پر سلگتا لمس چھوڑا تھا

آپ زبردستی کریں گے میرے ساتھ"

وہ اپنی گال پر محسوس ہوتی اس کی شیو کی چھبن سے تپتے گالوں سے آنکھوں میں نمی لیے بولی تھی

اختیارات رکھنے والے زبردستی کے قائل نہی ہوتے"

وہ اس کے بال بندھے جوڑے کی کی زد سے آزاد کرتے ان میں چہرے چھپائے خمار آلود لہجے میں بولا تھا

میں چوائس نہی تھی آپ کی

میری اوقات پہلی رات میں واضع کرتے مجھے جواز دینے کی بجائے اب مجھ پر زبردستی حق جتاتے طلب پوری کرنا چاہ رہے ہیں اپنی"

اسے خود سے دور نہ کرتے ہار مان گئ تھی گہرے سانس بھرتے اسکے ماتھے پر ہی اپنی پیشانی ٹکا گئ تھی

ایسے نکاح نامے طلاق نامے اور کئ کاغزات میری فائل میں تمہیں اکثر ملیں گیں اور تم مجھے ہر بار کریکٹر لیس اور بے حیا کے تعنے دو گی

محض کاغذ کے ٹکڑے میری فائل میں دیکھتے جو لفظ تم نے میرے لیے استعمال کیے ہیں ریحہ وہ میرے لیے ناقابل برداشت تھے"

اس کے بال اپنے چہرے اور سینے سے ہٹائے اسے بیڈ پر لٹاتے وہ اس سے پرے ہوا تھا اس کے زبردستی والے لفظ اسے چھبے سے تھے

میرے سارے جزبات احساسات صرف ایک لڑکی کے لیے ہوں گے جس کی ناک اور بالوں کے بعد عنقریب مجھے اس سے محبت بھی ہو جائے گی اور وہ صرف مسز احان ہو گی"

اپنی زات کے حوالے سے مزید وضاحت نہی دوں گا تمہارے قریب تب آوں گا جب مجھ سے اپنی بدتمیزی پر سوری کرو گی"

وہ بے ہنگم ہوتی دھڑکنوں میں اس کے دہرائے لفظ رات گئے تک سوچتے اس کی پشت دیکھ رہی تھی"

--------------------------------------------------

ریحہ جلدی کرو یار۔۔۔"

وہ فائلز تھامے بیزار سا تھا

آ رہی ہوں بس۔"

وہ آج ویک کی چھٹیاں ختم ہوتے احان کی زبردستی کرنے پر یونیورسٹی جا رہی تھی

ازہان کے بند روم پر غیر ارادی نگاہ ڈالی تھی

ازہان کے ساتھ آپ کی کوئ ناچاقی چل رہی ہے"

وہ اسے سنجیدہ سا ڈرائیو کرتے دیکھ بولی تھی

none of ur business

وہ کنگ ہوئ تھی

آپ مجھے ڈی گریڈ کرنا فرض سمجھتے ہیں"

وہ چند سانحوں بعد رندھی آواز میں بولی تھی

نہی تمہیں بس مجھ سے مطلب ہونا چاہیے

میری موجودگی اور غیر موجودگی سے فرق پڑنا چاہیے

ویسے بھی تمہیں یونیورسٹی میں ہی ڈراپ کروں گا"

اس کا ہاتھ تھامتے سٹیرینگ پر اپنے مظبوط ہاتھ کے نیچے دھرے وہ اسے پاگل کر رہا تھا وہ کیا چاہ رہا تھا وہ بس اس تک محدود ہو جائے

وہ اسے رات سے بلکل سمجھ نہی پا رہی تھی

------------------------------------------------------

وہ اس کو کیچن میں دیکھ رہی تھی

وہ ماتھے پر بکھرے بالوں میں بلیو ٹی شرٹ پر ایپرن باندھے نفاست سے سارے کام کر رہا تھا

کک کیوں نہی رکھا تم نے" ملیحہ نے اس کے دیکھتے کہا تھا

مجھے کھانا گھر میں صفائ ستھرائ سے بنا پسند ہے"

وہ اس کا ناشتہ دیکھتے حیران تھی محض دو براون بریڈ ایک ایگ یوک(yolk) کے بغیر بوائل انڈہ اور فریش جوس کا گلاس تھا بس شائد وہ ڈائٹ کونشیس تھا تبھی اتنا فٹ تھا

کیا ہوا؟

وہ اس کا بگڑا منہ دیکھتے چئیر کینچھتے بولا تھا

فرق صرف اتنا تھا اس کی ماں آملیٹ کے ساتھ خشک روٹی کھا رہی تھی

اور اس کے آگے بھی غازیان جیسا ناشتہ پڑا تھا

ک۔۔۔کچھ نہی۔۔"

وہ بامشکل ضبط کرتے نوالہ لیتے حلق میں اتار رہی تھی

اس کی پلیٹ کھسکائ تھی تم اپنے مطابق کا ناشتہ بنا سکتی ہو"

میں یہ کرتا ہوں"

وہ سر ہلاتے پہلی دفعہ خود سے سادہ بریڈ کے ساتھ چیز آملیٹ بنانے چلی گئ تھی

میں واپس جا رہی ہوں میں تمہیں کبھی بھی شائد ایک بہو کی حثیت نہ دے پاوں گی تم بہتر سمجھتی ہو"

میرا بیٹا تم ڈیزرو کر ہی نہی سکتی خود سوچو وہ معاشرے میں تمہیں لے کر کیسے موو کرے گا

وہ لاونج میں ان کی چھبتی باتیں سنتے خود پر ضبط کیے تھی

اگر آپ کی بیٹی کے ساتھ یہ سب ہوتا تو اس سے رشتہ توڑ دیتی آپ"

ملیحہ کا دل دہلا تھا

میری کوئ بیٹی نہی ہے سمجھی صرف ایک بیٹا تھا جسے جانے کیا ہو گیا ہے"

امید کروں گی تم میری بات سمجھو گی وہ ہمدردی جتا رہا ہے تو تم اسے محبتیں نوازیشیں سمجھتے نہی بلکہ بھیک ہی سمجھنا"

دل زخمی کرنا کوئ ان سے سیکھتا وہ اتنی بے حس عورت تھی تو وہ کس پر تھا نور کا دل بے ساختہ اس کو سوچتے دھڑکا تھا

چلیں مما"

لوکڈ کر لینا۔۔۔" وہ اس کے قریب ہوتے بولا تھا

وہ بے ساختہ پہلی دفعہ جانے کیوں اسے دیکھتے پلکیں جھکا گئ تھی

وہ بلیک جیکٹ پہنتے اب فون پر کچھ ہدایات دے رہا تھا جبکہ ملیحہ نے لوکڈ کی بات پر تنزیہ دیکھا تھا

وہ فلحال تنہا اندھیرا کونا چاہتی تھی وہ اس روم میں گئ تھی جو بند تھا

دھڑکتے دل سے نوب گھمائ دروازہ کھلتا چلا گیا تھا

روم میں لائٹ اون کرنے سے وہ کنگ تھی پورا روم بابا کے روم والی چارکول پنسل آرٹ والی پینٹنگز جو اس نے سٹارٹ میں آرٹ شروع کی تھی وہ والی تھیں اس نے خود بنائ تھیں اس سے بھرا پڑا تھا

وہ مزید حیران ہوئ جب کاوچ کے پاس پڑی تین سال پہلی اپنی مری میں خریدی جانے والی سکیچ بک اور وہ لیٹر دیکھا تھا

وہ حلق تر کرتے دیکھ رہی تھی اسے وہ شخص تھوڑا بہت تو یاد تھا پر وہ یہ سب ابھی تک سنبھالے تھا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا

سکیچ بک پر ہاتھ پھیرتے وہ گزرے دنوں میں کھوتے خود کو وہاں محسوس کر رہی تھی

میں چاہتا ہوں وہ مجھے تنہائ کے لمحوں میں اپنی انگلیوں کے ہنر سے کنویکس پر اتارے"

سکیچ بک کے فرنٹ پر تحریر درج تھی

وہ سکیچ بک لیتے صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی جس پر سارے اس کی پرشین کیٹ کے سکیچز تھے

مجھے اس سے محبت نہی ہے بس وقتی اٹریکشن تھی شائد لیکن جب وہ مجھے اس دن بکھری حالت میں ملی تھی میں بے سکون تھا

یہ کیا تھا میں بس خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا

فقرہ سہی سے مکلمل نہی تھا کچھ تو ادھورا سا تھا

وہ ان کو چھوڑتے واپس آیا تھا

آج نائٹ میں اس کی ہوسپیٹل کے مینجمینٹ کی ٹیم سے میٹنگ تھی

وہ غیر ارادی طور پر اسے ڈھونڈتے دھڑکتے دل سے وہاں گیا تھا

وہ ساکت ہو گیا تھا وہ سکیچ بک تھامے زمین پر بیٹھی صوفے سے ٹیک لگائے اس پر سر جھکائے تھی

سماب تم ٹھیک ہو۔۔"

وہ سرخ نظریں اٹھاتے اس کے دل میں ہل چل کر گئ تھی

نہی ٹھیک میں"

وہ بری طرح چیختے بولی تھی

تم انتہا سے زیادہ برے ہو غازیان۔۔"

وہ اس کا کارلر پکڑتے چلائ تھی

آئ ول ایکسپلین یو یہ سب۔۔۔"

وہ اس کی حالت سوچتے سمجھا تھا وہ اسے بھی غلط سمجھے گی

نہی وضاحت چاہیے مجھے یہ سب رکھنے کا کیا مقصد تھا تم نے مجھ سے شادی۔۔۔"

وہ پینک ہوئ تھی

نہی ہمدردی نہی تھی آی۔۔۔"

وہ اس کے کندھے تھامتے اسے خود میں سمیٹنا چاہتا تھا

ایک لفظ نہی مجھے سننا غاز میں تمہارے قابل نہی ہوں نہ کبھی ہو سکتی ہوں پلیز وہ نہی بولنا مجھ میں ہمت نہی ہے مزید بوجھ سہنے کی پلیز"

وہ آنسوں کی روانی میں اس سے دو قدم پیچھے لیتے بولی تھی اب تک محض ہمدردی سمجھتی تھی مگر اس شخص کا مقصد وہ چاہ کہ بھی سمجھنا نہی چاہتی تھی

شٹ اپ۔۔"

تم سچ کو کبھی بھی جھٹلا نہی سکتے میں قابل نہی ہوں نا ہوں۔۔"

وہ اس کا سرخ رویا چہرہ تھامتے باقی لفظ اپنے ہونٹوں میں سمیٹ چکا تھا

وہ نہی جانتی تھی اس نے اگلا سانس کب لیا تھا اس کا کارلر تھامتے وہ سہارا لیے تھی

تمہیں سمجھ آ چکی ہو گی"

وہ اس کے سینے سے لگتے گہرے سانس بھرتے سرخ سی ہوئ تھی

مجھے کچھ نہی سمجھنا میں کبھی بھی قابل قبول نہی ہو سکتی"

وہ ازیت بھرے لہجے میں بولی کاش یہ شخص اسے اس معاملے کے ہونے سے پہلے مل جاتا"

کاش وہ کرلاتے دل سے حسرت کر رہی تھی

کیوں تم اپاہج ہو یا مجھے اولاد نہی دے سکتی"

اس کی بات پر اس کی شرٹ مٹھی میں تھامے وہ تپتے سرخ گالوں سے سمٹی سی تھی

آپ نہی سمجھو گے کبھی بھی نہی سمجھ سکتے"

فلحال پہلے آپ اور تم کا کونسیپٹ کلیئر کر لو"

وہ شوخ ہوا تھا

بابا کو چند دن سے دھمکی بھرے لیٹرز آ رہے تھے وہ اسے اگنور کر رہے تھے

اس کا مطلب جسٹس صاحب جانتے ہیں ان لوگوں کو؟ وہ سوچ سکا تھا

میں میڈیکل کالج کے باہر بابا کا انتظار کرتے نکلی تھی

وہ اسی کاوچ پر اس کے کندھے پر سر رکھے تھی

پھر۔۔۔"

وہ اس کا سرد ہاتھ تھامتے بولا تھا

چند سیکنڈز بعد وہاں ہائ روف آئ تھی سب کی موجودگی میں بھی وہ لوگ مجھے لے گئے لوگ صرف تماشہ دیکھ رہے تھے

وہ اسے بتاتے اسی ازیت بھرے لمحوں میں چلی گئ تھی

میں انہیں نہی جانتی

میں تین دن ان کی قید میں نیم بے ہوشی میں رہی تھی"

ششش بس۔۔"

وہ اس کے مسلسل رونے پر اس کے لب پر انگلی جما گیا تھا

وہ بیڈ پر اس سے قدرے فاصلے پر لیٹی مسلسل سسکیاں بھر رہی تھی

ہالہ۔۔"

اسکی پشت دیکھتےکروٹ کے بل ہوتے نرمی سے پکارا تھا

پلیز ۔۔۔"

وہ نفی کرتی شیٹ مٹھی میں لیتے مزید کنارے پر ہوئ تھی

وہ گہرا سانس بھرتے رہ گیا تھا

مزید چند پل اسے روتا دیکھتے وہ اسے کینچھتے اس کا سر اپنی بازو پر ڈالتے اپنے حصار میں لے چکا تھا

وہ مسلسل اس کا اپنی گردن میں ڈالا ہاتھ ہٹاتے مزاحمتیں کرتے ہار مان چکی تھی

تم چھوڑ دو گے مجھے"

وہ برے خدشے ظاہر کرتے سرخ میچی آنکھوں سے خاموشی توڑتے بولی تھی

تم یقین کر لو نہی چھوڑوں گا"

وہ اس کی سرخ بھیگی گال سہلاتے اس کا رخ اپنی جانب کر گیا تھا

بابا نے اچھا نہی کیا میرے ساتھ تمہارے ساتھ" وہ اس کا چہرہ اپنے بے تحاشہ قریب دیکھتے نم پلکیں جھکا گئ تھی

مستقبل میں یقین آ جائے گا"

وہ لب اس کی پیشانی پر جماتے بولا تھا

اس کی تیز سسکیاں اس کے سینے سے لگے اب مدھم پڑ چکیں تھیں وہ سو گئ تھی

اس کا سر تکیے پر رکھتے وہ فاصلے پر ہوا تھا

وہ اس کے معصوم چہرے پر نظریں جمائے اس کی گردن میں پڑا سبز کینچھا سا دوپٹہ احتیاط سے نکالتے دوسری سائیڈ پر رکھتے اٹھا تھا

وہ فریش سا ہوتے جانے کی تیاری میں تھا وہ ہلکے خراٹے لیتے صدیوں بعد گہری نیند میں اس کی چھوڑی جگہ پر دونوں ہاتھ جمائے تھی

------------------------------------------------

گھر لوکڈ کرتے وہ پریشان سا تھا

بابا نہی چاہتے میں کیس کروں"

دھمکی بھرے لیٹرز آ رہے تھے

کیا چاہتے ہو تم اپنی بیٹی کو بدنام کر دوں

مجھے نہی کسی پر کیس کرنا میں کیس واپس لے رہا ہوں"

سٹیرنئگ تھامے ہالہ اور زبیر کے جملے زہن میں باز گشت تھے

نمبر ملاتے وہ بلیو ٹوتھ سے کال پک ہونے کے انتظار میں تھا

ایک نمبر سینڈ کر رہا ہوں 27 مارچ سے سے 29 مارچ تک ساری کالز ہسٹری چاہیے"

اور اس کے علاوہ ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں نوٹ کرو"

وہ ایڈریس نوٹ کرواتے رکا تھا

اس پر آنے والی ساری ڈاکز کی رپورٹ چاہیے آج شام تک"

وہ مطمین ہوتے گاڑی کی پشت سے ٹیک لگا گیا اس مجرم تک پہنچنا اب زیادہ فاصلے میں نہی لگ رہا تھا

محض دو دن وہ سامنے ہو گا"

وہ پرعزم ہوتے گاڑی کا روٹ بدل چکا تھا

بڑا ہی اڑیل گھوڑا ہے تیرا باپ

اے پانی دے بیچاری کو

مم۔۔مجھے چھوڑ دو بابا سے جو مانگو گ۔۔گے وہ دیں گیں

وہ مسلسل نیند میں اضطرابی کیفیت میں تھی

خوفزدہ ہوتے وہ لینڈ لائن پر بجتی کال سے یک دم نیند سے جاگی تھی

وہ پسینے میں شرابور تھی گھر میں چھائ خاموشی بتا رہی تھی وہ کہی نہی تھا

وہ دھڑکتے دل سے بکھرے سے حلیے میں باہر آئ تھی

ہیلو۔۔"

ب۔۔بابا اگلی آواز پر قدم منجمند تھے

وہ تکلیف میں تھے اسے پکار رہے تھے نور کو لگا اگر وہ اگلی چند گھڑیوں میں ان تک نہ پہنچی تو وہ مر جائے گی

م۔۔میں آ رہی ہوں"

وہ بہتے آنسوں میں بولی تھی


میرے پاس سیل فون بھی نہی ہے مجھے تو غازیان کا نمبر تک نہی آتا

وہ مسلسل پریشانی سے ڈوبتے دل سے آدھی ہو رہی تھی دراز پلٹتے اسے کچھ نہی ملا تھا


اس کی کبرڈ الٹی پلٹی تھی جب لوکر کھلا پایا

وہ کھولتے ہمت مجتمع کرتے چند نوٹ مٹھی میں تھامتے وہ دوپٹہ درست کرتے گہرے سانس بھرتے خود کو تسلی دے رہی تھی

یا اللہ ہمت دے مجھے وہ گہرے سانس بھرتے بولی تھی


----------------------------------------------------


تو نے مجھے ڈبل کراس کرتے اس لڑکی کو میرے حوالے کرنے کی بجائے شادی رچا لی۔۔"


بیوی ہے وہ میری اب مائینڈ یو"

وہ کھولتے غصے سے ٹیبل پر دونوں ہاتھ جمائے اٹھا تھا


چیونٹی کے بھی پر نکل آئے کاٹنے پڑیں گے"

وہ سگریٹ کا گہرا کش لیتے دھواں اس کے منہ پر چھوڑ چکا تھا


ازہان کو غصہ ضبط کرنا بے حد مشکل لگا تھا وہ کیوں اس شخص کے ہوٹل روم میں گیا کیوں اس کا شکار بنا

آج احساس ہوا تھا ہم گناہ کرتے ہوئے بند کمروں میں انسانوں سے چھپتے ہیں پر یہ نہی دیکھتے اللہ کی نظر سے کبھی نہی بچ سکتے پھر جب پکڑ ہو"

فلحال دانین کی اور اس کی عزت خطرے میں تھی


دیکھو تم اپنا راستہ ناپو میں اپنا مجھے اب تمہیں کوئ مطلب نہی ہونا چاہیے اس بار اگر مجھے کسی بھی کام کے لیے بلیک میل کرنے کی کوشش کی تو تیرے خلاف رپورٹ کرا دوں گا

اور اتنے ثبوت تو میرے پاس ہیں ہی ہیں جو تجھے ایک لمبا عرصہ تمہارے باپ کی پاور کے باوجود اندر کرنے میں کام آ سکتے ہیں"


تو تم اپنی بیوی کو چھوڑو بھابھی کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہو"

وہ اس کی دکھتی رگ دبا گیا تھا


شٹ اپ کمینے اس کے منہ پر مکہ مارتے وہ چلایا تھا کے رسٹورنٹ کے لوگ ان دو شکل اور حلیے سے معزز دکھنے والے لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے تھے


آئیندہ اس کا نام بھی نہ لینا ورنہ میرے بھائ کو اگر پتہ چلا تو کاٹ ڈالے گا تجھے"

اسے آستین سے ناک سے خون صاف کرتے دیکھ وہ اس پر جھپٹتا جب وہ اس کے گارڈ کی پہنچ سے اپنی گاڑی میں بیٹھتے اس کی پہنچ سے دور ہو گیا تھا


یہ تو چلاک لومڑی بن گئ ہے"

اس کا چیلہ اس سے بولا تھا


کب تک۔۔۔" وہ آگ بگولہ ہوتے ٹشو کا ڈبہ پھینکتے پاگل ہوا تھا


------------------------------------------------------


ریحہ تم ٹھیک ہو بیٹا"

وہ اسے گم سم دیکھ رہی تھیں


مجھے کیا ہو گا۔۔"

وہ آنکھوں کی نمی چھپاتے بولی تھی احان کے سلوک سے وہ بری طرح اس سے بدزن ہو گئ تھی


احان کے ساتھ سہی ہو نہ میرا مطلب۔۔"

وہ جانچتی نظروں سے اس کا مرجھایا روپ دیکھتے پریشان ہوئیں تھیں


کیا جاننا چاہ رہی ہیں آپ مما

نکاح ہو گیا رخصتی ہو گئ سب آپ لوگوں کی مرضی سے ہو تو گیا ہے" وہ زرا تیز اب بولی تھی


ریحہ تم پریشان کر رہی ہو مجھے

اس سے بھی ایسے ہی بات کرتی ہو گی ابھی دو دن نہی ہوے اور تم۔۔"

وہ اس کی سونی کلائیاں کان اور سادہ حلیہ میک سے پاک سادہ چہرہ دیکھتے کچھ تشویش میں ہوئیں تھیں


مجھے سونا ہے پلیز اپنی تفتیش پھر کے لیے ادھار رکھ لیں"

وہ اپنے بیڈ پر دراز بازو آنکھوں پر رکھتے مزید بولنے سے روک رہی تھیں


کیا مطلب ہے سونا ہے اپنے روم میں جاو مائکہ اور سسرال اگر ایک ہی ہے تو اس کا ہرگز مطلب نہی ہے تم یہی ہر وقت دھرنا دو گی احان کیا سوچے گا

شاباش روم میں جاو"

وہ اس کی آنکھوں سے بازو ہٹاتے اب نرمی سے بولیں تھیں


احان کیا سوچے گا مجھے اس سے" وہ مزید گوہر افشانی کرتی پاتی جب بی جان کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ وہ اٹھ ہی گئ تھی


جا رہی ہوں آپ کے چہیتے کے پاس سوتیلی ماں ہی رہیے گا میری"

جبکہ بی جان نا سمجھی سے اور نائمہ صدمے میں جاتے اس لڑکی کی عقل کی دعا کر رہی تھیں



سیاہ ٹراوزر پر سفید شرٹ کی آستن فولڈ کرتے وہ فریش ہو کر باہر بھی آ گیا تھا پر وہ اسے روم میں تو کیا اپنے پورشن میں ہی نہی دکھی اسے کافی غصہ آیا تھا


وہ انہی سوچوں میں تھی

جب سانیہ کیچن میں جاتی نظر آئیں تھیں


بڑی مما کیا کر رہی ہیں آپ؟


احان کے لیے کوفی بنا رہی ہوں آفس سے آکر اس ٹائم کوفی لیتا ہے وہ"

وہ ان کی بات پر ناجانے کیوں شرمندہ ہوئ تھی


میں بناتی ہوں آپ جائیں۔۔"

وہ کافی میکر کا سوئچ لگاتے کوفی کا جار ان کے ہاتھ سے لے چکی تھی


نہی میں بنا لیتی ہوں بیٹا"

وہ اسرار کرتے پھر سے بولیں تھیں


آپ جائیں پلیز مجھے اچھا نہی لگے گا"

گرم پانی کپ میں نکالتے وہ اس میں کافی کو چمچ سے مکس کرتے تسلی بخش لہجے میں بولی تھی


سانیہ اسے انہماک سے کوفی بناتے محبت پاش نظروں سے دیکھتے چلی گئ تھی

کوفی بنانے سے زیادہ دینا اسے مشکل مرحلہ تھا

وہ کپ لیے جھجکی سی روم میں داخل ہوئ تھی


وہ چند پیپر پھیلائے صوفے پر فریش سا لیپ ٹوپ پر بزی سا تھا


یہ آپ کی کوفی"

وہ گہرا سانس بھرتے ہمت مجتمع کرتے مخاطب کر چکی تھی


وہ ہنوز ٹائپنگ میں مصروف رہا

غصہ اس لمحے اس پر شدید تھا جو اس کو اچھا خاصہ اگنور کرتے اس کے آنے کے تین گھنٹوں بعد روم میں آئ تھی


میں آپ سے مخاطب ہوں۔۔"

اسے اپنی کوفی بنانے کی جلد بازی پر غصہ آیا تھا


مجھ ناچیز سے۔۔"

وہ زرا سا اپنی جانب اشارے کرتے تنزیہ بولا تھا


جی آپ جناب سے" وہ کپ سامنے کرتے چباتے بولی تھی


رکھ دو۔۔" وہ اشارہ کرتے سکرین کی جانب متوجہ ہوا


وہ صوفے کے سامنے پڑے ٹیبل پر ٹانگیں پھیلائے ریلکیس لیٹنے کے سے انداز میں بیٹھا تھا

وہ ڈوبتے دل سے کپ ٹیبل پر رکھتے مڑتی جب اس کی آواز نے قدم جھکڑے تھے


پیو اسے تمہارا کیا پتہ زہر ملائ ہو"


میں کڑوی چیزیں نہی پیتی"

وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتے مڑی تھی ورنہ دل چاہا تھا اچھی خاصی سنائے


شوہر کے حکم بجا نہ لانے والی عورت پر عزاب نازل ہوتا ہے" وہ کپ تھامتے بولا


اور شوہر پر عزاب کی نوعیت کا تفصیلی جواب بھی دے دیں" وہ دوبدو بولی تھی


واپس آو۔۔"

احان نے اشتعال دباتے سرعت سے اس کا فیروزی لہراتا آنچل مٹھی میں تھاما تھا

دوپٹہ کینچھنے سے سر سے پھسلتے کندھے پر تھا وہ صبر کے گھونٹ بھرتے صوفے کے کنارے پر ٹکی تھی


شوہر گھر واپس آئے تو بیوی کے فرائض کیا ہوتے ہیں"

وہ لیپ ٹوپ بند کرتے اس کی جانب کھسکا تھا وہ سمٹی سی تھی


پورے کر تو رہی ہوں" وہ اس کے ہاتھ میں تھامے کپ کو گھورتے بولی


واہ یہ احسان ہے محترمہ کا جو تین گھنٹوں بعد کوفی کے زریعے جاگا ہے"

نفیس سا تنز کرتے وہ کپ لبوں سے لگا گیا تھا


شکریہ کی بجائے تنز کرنا تو آپ کے فرائض میں بھی شامل ہے نہ"

وہ کہاں باز آنے والی تھی


میٹھی ترین کوفی تھی وہ بغیر شوگر اور کم مقدار میں دودھ لینے والا ضبط کر کے رہ گیا تھا


بدلے کس چیز کے لے رہی ہو مجھ سے"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے اسے اپنا تھاما کپ تھما کر گہری نظروں سے اس کی بھوری آنکھوں کے گلابی عارض دیکھتے خفگی سے بولا تھا


میں خاص چیزوں کے علاوہ میٹھا نہی لیتا"

اس کے ہاتھ پر گرفت کیے نظریں ہنوز اس کے گندمی دھلے چہرے کے نقوش پر تھیں

کیا ایسا خاص تھا جو اس کی طلب ہر لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی شائد نکاح کا اثر تھا وہ آج تک ان خیالات سے پاک بلکہ جزبات سے ہی ناواقف تھا

اس کی شدید قربت میں اپنی ہتھیلیاں بھیگتی محسوس ہوئیں تھیں جبکہ اس کی باتوں سے فق پڑتا چہرہ سرخ ہوتے وہ جھکا گئ تھی


جب ایسے شرماتی ہو نہ تم پر آیا سارا غصہ ختم کر دیتی ہو"

بھاری جزبات سے لبریز آواز کانوں سے ٹکراتی اسے اپنے کندھے پر ہلکی بھوری شیو محسوس ہوتے جان نکلتی محسوس ہوئ وہ اپنا دوپٹہ مٹھی میں بھینچ چکی تھی


کوفی ٹھنڈی ہے تو گ۔۔گرم کر لاتی میں"

وہ سرد پڑتے فوری سے لڑکھڑاتے قدموں سے دور ہوئ تھی

اس سے نظریں اٹھانا مشکل تھا


یا اللہ کیا تھا یہ وہ کپ تھامے سیلب سے لگی آنکھیں میچے بگڑی دھڑکنوں میں ابھی بھی اپنے ہاتھ اور گال پر اس کے لمس کی تاثیر میں تھی دل عجیب سی لے میں دھڑکا تھا


------------------------------------------------


میٹنگ کے دوران پتہ چلنے والی بات پر وہ چند لمحے ساکت تھا

ابھی چند لمحے پہلے وہ ان کے گھر سے آیا تھا


ایکسکیوز مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے"

وہ معذرت خواں ہوتے پارکنگ میں آیا تھا


سر میم ابھی آدھا گھنٹا پہلے گھر سے باہر نکلی ہیں

اس کا گارڈ جو ہمہ وقت گھر کے باہر رہتا تھا اس کے فون سے وہ بے حد پریشان ہوا تھا اس کی گزشتہ خود کو نقصان پہنچانے والی حرکتوں سے وہ خاصہ مضطرب تھا وہ کیوں گھر سے نکلی تھی دماغ ماوف ہو رہا تھا


چند لمحوں بعد اس کا میسج موصول ہوتے سکون کا سانس لیتے سپیڈ سلو کرتے روٹ اس کے باپ کے گھر کی جانب کیا تھا


آئ ایم سوری بابا"

مجھے نہی پتہ تھا آپ اپنی یہ حالت کر لیں گے" وہ آنسو پیتے انکا ہاتھ تھامے ماتھا ٹکائے تھی

آپ آئ کیسے ہو؟

اکیلی۔۔" وہ فکر مندی سے اپنے بستر پر لیٹے اس کی پہلی سے بہتر حالت دیکھتے پرسکون تھے

وہ پہلی دفعہ یوں اکیلی تو نہی تھی وہ کونفیڈینٹ ہی تھی پھر یہ مسلہ ہو گیا

غازیان گھر نہی تھے آپ کی آواز سے میں ب۔۔بہت پریشان ہو گئ تھی بابا"

وہ اپنے لب ان کے ہاتھ پر رکھتے بولی تھی

آپ نے کچھ کھایا ہے پتہ ہے نہ بلڈ پریشر ہائ رہتا ہے پرہیز نہی کیا ہو گا بلکل"

وہ بی پی اپریٹس سے ان کا بلڈ پریشر چیک کرتے انہیں ڈانٹتے پہلے جیسی کونفیڈینٹ لگی تھی


وہ بس مسکرائے تھے

میری آنکھوں کا نور بابا سے کبھی ناراض تو نہی ہو گا"

اس کا چہرا تکتے وہ خواب کی سی کیفیت میں تھے


میں آپ سے ناراض ہی ہوں"

وہ منہ بناتے ڈیجیٹل بی پی اپریٹیس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے کیچن میں جانے کی نیت سے اٹھی تھی


ابھی وہ دروازے تک جاتی جب سامنے سے آتے سیاہ جینز پر گرے شرٹ میں ملبوس جیکٹ بازو پر ڈالے غازیان کو دیکھ چونکی تھی


کس سے پوچھ کے آئ ہو یہاں"

وہ حیرت لیے اسے تکے جا رہی تھی


بابا کی تبعیت نہی ٹھیک تھی تو۔۔"

جب وہ درشتی سے سامنے بیڈ پر لیٹے زبیر پر نظر ڈالے کاٹ چکا تھا


میں نے پوچھا کس سے پوچھ کر آئ ہو"وہ اپنی بات پر خاصہ زور دیتے بولا تھا

تم کیسے بات کر رہے ہو میری بیٹی سے"

اب زبیر صاحب پریشانی سے اٹھے تھے

آپ سے بات نہی کر رہا اپنی بیوی سے بات کر رہا ہوں میں مجھے درمیان میں مداخلت بلکل پسند نہی"

چلو گھر وہ اس کا ہاتھ تھامے وارن کرتے بولا تھا

جب کے وہ تو اس کے لب و لہجے پر ششدر تھی

غازیان بابا کی تبعیت نہی ٹھیک تھی مجھے نکلنا پڑا گھر سے" اسے یہی وجہ لگی تھی


میرے ساتھ چل رہی ہو یا ہمیشہ یہی رہنا چاہتی ہو"

وہ زبیر کو دیکھتے چباتے بولا تھا

نور نے صدمے سے اسے دیکھا وہ اسے بتا کر نہ آنے پر غصہ ہو رہا تھا وہ اسے کسے بتاتی یہاں باپ تڑپ رہا تھا اور وہ اس کا انتظار کرتی


ہالہ آپ چلی جاو"

زبیر نے تحمل سے اس کی بے رخی پر کہا جو اس کی بیٹی پر خاصہ رعب جماتے حق جتا رہا تھا


اس نے ایک نظر اپنے باپ کی حالت دیکھی تھی

نہی بابا میں کیسے پلیز آپ ٹھیک۔۔۔"


رہو پھر اپنے باپ کے پاس"

اس کا تھاما ہاتھ چھوڑتے وہ جاتا جب زبیر نے اشارہ دیا تھا


اندھیری سڑک پر گاڑی رواں دواں تھی

وہ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر اس کے ساتھ بیٹھی مسلسل ہچکیوں سے رو رہی تھی

فور گوڈ سیک ہالہ رونا بند کرو"

طویل خاموشی میں اس کی بھاری اونچی آواز سے وہ خاصی خوفزدہ ہوئ تھی

ک۔۔کیوں کر رہے ہو ایسا بابا کی تبعیت ٹھیک نہی تھی میرا دل نہی لگے گا انہوں نے کچھ نہی کھایا تھا بلڈ پریشر ہائ تھا دل کے مریض ہیں وہ"

وہ نفی کرتے چلاتے مزید روئ تھی اسے سمجھ نہی آئ تھی اس کے اتنے اچھے رویوں کے بعد ہارش ری ایکشن کی

کچھ نہی ہوتا اتنی جلدی مریں گے نہی وہ"

وہ آرام سے بولتے ڈرائیونگ میں مصروف تھا

غازیان۔۔" وہ سرخ چہرے سے اس کو لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرتے دیکھ ششدر ہوئ تھی

اچانک اس کا رویہ کیوں بدل گیا تھا

آخر کار آ گئے نہ لائن پہ۔۔۔"

میں لائن پر آیا تو تمہارے لیے بہت مسائل ہوں گیں اس لمحے بہتر ہے بحث نہی کرو"

غازیان نے اس کے کندھے سے جھولتے دوپٹے سمیت اس کے بکھرے سراپے پر گہری نظر ڈالتے لب بھینچے تھے

وہ اس کی بات سے خوفزدہ ہوتے دوپٹہ خود پر لپیٹتے مزید کھڑکی کے ساتھ لگی تھی اسے سہی معنوں میں تنہائ میں اس خوبرو مرد سے خوف آیا تھا

وہ جبڑے بھینچے اس کی اگلی حرکت پر گاڑی پورچ میں کھڑی کیے شدید غصے میں تھا

اس کا گرا دوپٹہ زمین سے اٹھایا تھا

وہ اس کے روم کے ساتھ بنے روم میں اس کے جانے سے پہلے خود کو بند کر چکی تھی

دروازہ کھولو ہالہ کیا سمجھ رہی ہو تم مجھے"

وہ زوردار ہاتھ دروازے پر مارے چلایا تھا

م۔۔میں نہی کھول رہی پلیز چلے جائیں یہاں سے"

وہ تیز پڑتی سانسوں سے دروازے کے ساتھ چپکی سی تھی

بات سنو میری مما نے تمہارا ڈریس سلیکٹ کیا ہے نکاح کے لیے"


لیکن کیوں میں اپنی پسند کا لوں گی"

اس کی بات ازہان کو بلکل پسند نہی آئ تھی


دیکھو دانی میری بات سنو ہم فیملی میں رہنے والے ہیں اور فیملی میری پہلی ترجیع ہے مانا کے یہ جو ہم نے سٹیپ اٹھایا غلط تھا پر میں۔۔"

پر تم چاہتے ہو اب میں تمہارے اشاروں پر چلوں رائٹ ایک تو ڈھنگ سے شادی نہی کر رہے پتہ ہے مما کتنی اپ سیٹ ہوئ ہیں تمہاری ٹیپیکل فیملی سے ملکر"

حالانکہ میرا خیال تھا تمہارے گھر والے تمہیں سخت سزا دیں گے پر"

وہ سوچ سکا حالانکہ وہ لڑکا تھا ابھی صرف احان کو پتہ تھا پھر بھی اس سے سخت خفا تھا وہی جاہلانہ سوچ غلطی تو برابر کی ہوتی ہے پر وہ تو ٹھہرا مرد جو نہا کر اپنے گناہ دھو ڈالتا ہے

مطلب مجھے تنز کر رہے ہو مما اور بھائ ناراض ہی تھے مجھ سے یہ آسان میں نے تمہارے لیے بنایا ہے ورنہ تمہاری کرتوت تو جیل جانے والی ہی تھی"

اسے ازہان کی بات بلکل پسند نہی آئ تھی


تم کتنے چھپے رستم ہو مجھے بتانا بھی ضروری نہی سمجھا"

وہ اپنی چائے کا کپ تھامے لاونج میں اس کے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھتے بولی تھی

وہ دانین سے آج ہوئ گفتگو پر سوچوں میں ڈوبا بیزار سا تھا


کیا۔۔؟

وہ نظریں چرا رہا تھا


بنو نہی ازہان تم منگنی یا رشتہ طے ہونے کی بجائے ڈائریکٹ نکاح کر رہے ہو"

میں نے اپنی شادی کے لیے ڈھیڑ ساری پلینگنز کی تھیں مایوں مہندی بارات ولیمہ پر نہی یہاں تو سب کو پتہ نہی کیا جلدی تھی

ساری سادگی میری شادی پر کرنی تھی

خیر پھر تمہاری شادی کے ارمان تھے اور وہ بھی ارمان آنسو میں بہہ گئے۔۔"

وہ دانستہ بات چھوڑتے منہ بگاڑتے بولی تھی


ازہان مسکرا بھی نہی سکا تھا نکاح جیسے پاک رشتے سے پہلے بنایا جانے والا تعلق ضمیر ملامت جو کر رہا تھا


نام کیا ہے میری دیورانی پلس بھابھی کا اب یہ تو بتا دو"

وہ کپ لبوں سے لگاتے بولی تھی


دانین۔۔"

ریحہ نے نام سنتے کپ پر لبوں سے ہٹاتے اسے دیکھا تھا

پورا نام مطلب اس کے باپ کا نام کیا ہے؟

وہ انجانے خدشے میں تھی

کیوں تم نے اس کے باپ کا جان کر کیا کرنا ہے"

وہ بات ہوا میں اڑاتے بولا تھا

بتاو ازہان پورا نام کیا ہے"

وہ زور دیتے مضطرب ہوئ تھی


دانین حیدر۔۔۔"

میں اس دن تمہارے قریب آوں گا جب اپنی بدتمیزی کی معافی مانگو گی


روم میں جا کر میرے کپڑے نکالو "

ریحہ ازہان کو دیکھتے احان کے لب و لہجے سے شرمندہ سی ہوئ تھی

وہ جانتی تھی وہ کچھ مزید غلط بول دے گا غصہ پیتے اپنا کپ تھامے وہ اوپر لاونج سے ملحقہ کمرے میں چلی گئ تھی


وہ میری بہن اور بھابھی ہے بھائ"

ازہان کو اچھا نہی لگا تھا وہ اسے کیا سمجھ رہا تھا وہ ریحہ کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہی سکتا تھا جب میر سبطین کے بیٹے نے اس سے اس کی بہن کا زکر کیا تھا وہ کتنا خوفزدہ ہوا تھا ریحہ کو تکلیف پہنچانا وہ خواب میں بھی نہی سوچ سکتا تھا اب جب کے وہ اس کی بھابھی بھی بن چکی تھی


میں اس کے بارے میں غلط سوچ بھی نہی سکتا ازہان"

وہ ٹائ کی نوٹ ڈھیلی کرتے بے حد سنجیدہ تھا

ازہان کو بات چھبی سی تھی


آئ ایم سوری بھائ"

وہ یہی سمجھا رہا تھا وہ اسے اس معاملے کو لیکر غلط سمجھ رہا ہے

جب تم اپنی زمیداریاں سمجھتے خود کو سدھار کر دکھاو گے میری محبت ویسی ہی پاو گے"

ازہان سر ہلاتے چلا گیا تھا

رپورٹس پر نام تو مینشن تھا کپ رکھے وہ اس کے آنے سے پہلے دراز سے نکالے وہ چیک کر رہی تھی

او مائے گوڈ تو کیا ازہان یہ کیا کیا میں نے"

وہ آدھا ادھورا دیکھتے اسے کیا بول چکی تھی دانین حیدر اتفاق تو کم از کم نہی ہو سکتا تھا

اب اس کے سامنے کی ہمت نہی تھی وہ دھڑکتے دل سے فضا میں گھٹن محسوس کرتے لان میں چلی گئ تھی

وہ صوفے کی پشت سے سیاہ کوٹ اٹھائے روم کی جانب بڑھا تھا


گہری نظریں خود پر پاتے پلکیں اٹھائیں تھیں

وہ روم کی بالکنی میں کھڑا فون کان سے لگائے تھا


وہ اپنے دھیان ہی تھی جب بری طرح لان کے اطراف میں بنی راہدری پر پانی کی موجودگی سے فرش پر پھسلی تھی


احان جو فون پر بزی ہونے کے باوجود اس پر نظریں جمائے تھا بری طرح اس کی چیخ سے اس جانب متوجہ ہوا تھا


ریحہ کتنی بار تمہیں کہوں میں دھیان سے"

اس کے مسلسل رونے پر نائمہ پریشان ہوتے اسے چپ کرا رہی تھیں جبکہ سانیہ بھی اس کے پاس بیٹھی تھیں


احان اس کے تماشے دیکھ رہا تھا جو پاوں دکھانے کا نام نہی لے رہی تھی


نظر لگ گئ میری بیٹی کو"

بی جان اس کے صدقے اتار رہی تھیں

اریحہ پاوں دکھاو اپنا" اب وہ سامنے کھڑا ضبط کھو رہا تھا

نہی نہی مجھے نہی دکھانا"

وہ نفی کرتے مسلسل اسے ڈرامے کرتی لگ رہی تھی

اگلے لمحے وہ کسی کی بھی پروا کیے بغیر اسے بازوں میں بھر چکا تھا

میں اسے ہوسپیٹل لے کر جا رہا ہوں"

اب ڈاکٹر ہی اس کا پاوں توڑیں گے آخری لفظ وہ اس کے سرخ پڑتے چہرے پر نظریں گاڑے دھیمے سے بولا تھا


اسے لگا تھا وہ شرم سے مر جائے گی"

سب کی نظروں سے بچتے وہ اس کی شرٹ میں چہرہ چھپا چکی تھی


ڈرامہ کوئین شرمانے کے ڈرامے کیوں لگا رہی ہے" وہ لاونج کی حدود سے نکلتے اسے خود میں چھپے دیکھ بولا


آپ آپ اتاریں مجھے شرم حیا ہے آپ میں یا بیچ دی ہے"

وہ درد دبائے سرخ چھپا چہرہ اس کے سینے سے نکالے غصے سے چباتے بولی تھی


جس دن تم سے نکاح ہوا تھا حق مہر کی رقم تمہیں ادا کرنے کو بیچ دی تھی"

وہ گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولتے اسے اندر ڈالتے بولا تھا

پلیز رونا بند کرو یار"

وہ ڈرائیو کرتے چڑ گیا تھا اب

آپ کو ہو تو پتہ چلے"

وہ سرخ نظریں لیے اسے اکسا رہی تھی احان بس صبر کر کے رہ گیا

مجھے نہی دکھانا پلیز۔۔"

ہوسپیٹل کے بیڈ پر اس کے مسلسل تماشے جاری تھے جبکہ فزیوتھیراپسٹ بے بس سی اسے دیکھے جا رہی تھی

ریحہ دکھا رہی ہو یا خود توڑوں تمہارا پاوں"

احان نے اب غصے سے کہا تھا

نہی نہی دکھاوں گی میں سنا آپ نے

پلیز گھر چلیں مجھے نہی دکھانا"

وہ خوفزدہ سئ پرے کھسکتی کے وہ اس کی ٹانگ کینچھتے اپنی گرفت میں لیتے بولا تھا

خاموش۔۔" اب اگر چپ نہ ہوئ تو خود توڑوں گا تمہارا پاوں"

وہ اس کے غصے پر لب دبا گئ تھی


کچھ نہی کر رہی میری جان بس چیک کریں گی وہ"

اس کا ہاتھ گرفت میں لیتے وہ ڈاکٹر کو اس کے پاوں کی جانب متوجہ کر چکا تھا


آپکو نہی پتہ جھٹکے سے م۔مجھے درد ہو گا۔۔"

وہ اس کی شرٹ تھامتے روتے نفی کرتے بولی تھی

احان نے اس کا ہاتھ تھامتے سر سینے سے لگائے رکھا تھا


دو منٹ بس میں تمہارے ساتھ ہوں نہ"

اس کے دوپٹے سے ڈھکے سر پر لب جمائے تھے

ریحہ کی چیخ نکلتی کے وہ اس کے شرٹ مزید مظبوطی سے تھامے تھی


ڈاکٹر نے گرم پٹی سے بینڈیج کر دی تھی


فریکچر ہے موو کرنے میں پرابلم ہو گی

ویسے کافی پچیدہ ہے آپ کی بیوی"


بہت زیادہ" وہ لبوں پر مچلتی مسکراہٹ دباتے بولا تھا


وہ مسلسل اسے ہستے اس ڈاکٹر کے ساتھ دیکھتے جل بھن رہی تھی

گھر بھی اسے وہ روم تک بازوں میں بھرے ہی لایا تھا جبکہ ریحہ کو لگ رہا تھا اس سے زیادہ شرمندگی اسے زندگی میں کبھی نہی ہوئ ہو گی

ثانیہ اور سکندر نے تو ڈنر بھی اس کے روم میں اس کے ساتھ کیا تھا

سب اس سے ملنے کے بعد روم سے جا چکے تھے

وہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے نام سوچتے شرمندہ سی ہوئ تھی

اور پہلی دفعہ اپنے کمرے کا جائزہ لیا ڈریسنگ پر اس کی چیزوں کے ساتھ اپنی چیزیں دیکھتے دل عجیب طرح سے دھڑکا تھا

پورے کمرے کو دیکھتے ہر چیز اپنی سی لگی تھی

چند سانحوں بعد لائٹ اوف ہوتے اندھیرا چھایا تھا

وہ اپنی سائیڈ پر آتے لمپ اون کرتے فون پر اسے بری طرح اگنور کرتے بزی ہو گیا تھا

اسے واشروم جانا تھا پر انا آڑے تھی مخاطب کیسے کرتی احان پر شدید غصہ تھا جو اسے اگنور کر رہا تھا


کوشش کرنے کے باوجود وہ پاوں نیچے نہی لگا سکی تھی

بے بسی سے اسے دیکھا وہ فون پر بزی ہونے کے باوجود اس کے ہر عمل پر نظر رکھتے بھی اسے اگنور کیے تھا


اب وہ تیزی سے رونا شروع ہو چکی تھی

اللہ آپ جیسا بے حس شوہر کسی کو نہ دے جسے بیوی کو تکلیف میں دیکھتے سکون مل رہا ہے"

بہت خوش ہیں نہ آپ بدلہ لے رہے مجھ سے"

وہ بھیگے لہجے میں چہرہ اس کی جانب موڑے بولی تھی


اچھا تم تو بہت نیک پروین ہو"

وہ فون رکھتے کہنی کے بل ہوتے مسکراہٹ دبائے تھا


مم۔مجھے بات ہی نہی کرنی آپ جیسے فضول وکیل سے"

وہ غصے اور بے بسی سے روتے مزید ایک قدم اٹھتی کے وہ سرعت سے سہارا دے چکا تھا

ابھی فلحال تمہیں اپنے کاموں میں میری سخت مدد درکار ہے"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے واشروم تک لے جاتے بولا تھا وہ اس کو دیکھنے کی ہمت نہی کر پائ تھی

واشروم سے لاتے اسے بیڈ پر ڈالا تھا اور خود کروٹ لے چکا تھا وہ اس کی پشت دیکھ رہی تھی

تو کیا وہ رپورٹ ازہان کی تھیں"

وہ چھت کو گھورتے سوچ رہی تھی

لائٹ اون کر دیں"

مجھے بلکل اندھیرے میں نیند نہی آتی"

وہ لیمپ بھی اوف ہوتے ہوش میں آئ تھی


اور مجھے لائٹ اون میں نیند نہی آتی" خاموشی سے سو جاو"

خاموشی میں اس کی بھاری آواز گونجی تھی


اندھیرے میں بالکنی سے آتی روشنی سے وہ کمرے میں ہلتے پردے دیکھ چیزیں امیجینیشن کر رہی تھی خوف سرائیت کیے تھا


دو منٹ تک وہ بے بس ہوئ تھی اگلے لمحے کمفرٹر سر تا پاوں لپیٹتے گویا وہ خوف سے چھپ رہی تھی


------------------------------------------------------


وہ روم میں بند رہی تھی

اس کی آواز آنا بند ہو گئ تھی نور دھڑکتے دل سے دروازے میں بنے کی ہول سے لاونج میں چھائ خاموشی اور سنسانی دیکھتے پرسکون سی بیڈ پر آ گئ تھی


وہ دکھتی آنکھوں اور خوفزدہ دل سے بیڈ پر پڑی تھی

چند پل بعد وہ نیند کی گہری وادیوں میں اتر گئ تھی


صبح وہ گہری نیند سے کسمساتے کسی کے رونے کی آواز سے جاگی تھی

گھڑی پر نظر ڈالی جہاں گیارہ بجنے والے تھے۔۔

بھوک سے بری حالت سمیت اسے کسی کے رونے کی آواز مسلسل سن رہی تھی وہ خوفزدہ ہوتے کمرے میں نظریں دوڑا رہی تھی

جہاں چاروں جانب سناٹا چھایا تھا

کون ہے یہ"

میں باہر جاوں اف خدایا مجھے کسی طرح سکون دے دے"

وہ بال سمیٹتے لڑکھڑاتے اٹھی تھی


دروازہ کھولتے دل دھک سے رہ گیا تھا

سامنے کوئ بچی رو رہی تھی

چند پل حیران ہوئ تھی وہ محض دو سال کی بچی کون تھی


وہ سامنے دیکھتے حیرت میں تھی غازیان کہاں تھا بچی کس کی تھی

وہ اس کی جانب دیکھتے اس کی جانب تیزی سے بڑھی تھی

بے بی کون ہو آپ"

وہ اردگرد دیکھتے صوفے کے نزدیک پنجوں کے بل ہوتے اس کو گود میں فوری سے بھرتے بولی تھ

مم۔۔مما۔۔۔

وہ سفید بے بی شرٹ اور بلیو جینز میں ملبوس بچی مسلسل روتے ایک گردان کر رہی تھی

اچھا مما کے پاس ہم چلتے ہیں"

کیا کر رہے ہو تم کون ہو تم آخر غازیان وہ خود سے بڑبڑاتے اسے گود میں بھرتے کیچن میں گئ تھی


اسے لگا تھا وہ چھوٹی سی بچی اس کی طرح بھوکی ہے گلاس میں دودھ نکالتے اسے پلایا تھا

وہ اس کا چہرہ دیکھتے خاموش ہوئ تھی

نور کو بے ساختہ پیار آیا تھا

مسکراتے وہ اس کے دونوں گال چوم چکی تھی


وہ خود ناشتہ زہر مار کرتے اس کو لے کر اس کے بیڈ روم میں تھی

آپ کس کے ساتھ آئ ہو بیٹا"

لیکن وہ چپ ہونے کی بجائے مزید رونے لگی تھی

بش بش بے بی کیا کروں کیسے آئ یہ بچی یہاں پر"

وہ اس کو سینے سے لگاتے تھپکتے بولی تھی

اس شخص کا کوئ پتہ نہی تھا

وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی اب وہ بچی روتے خاموش ہو چکی تھی شائد نیند آ رہی تھی اور نور سے تھوڑی مانوس بھی ہو گئ تھی

اس کی سرخ شرٹ پر لگے بٹنوں سے کھیلتے وہ غنودگی میں جا رہی تھی


کبھی ہم پر بھی ایسی نظر کرم کر دیں"

وہ جو نیند میں اب خود بھی جھول رہی تھی اس کی آواز سے پھٹی آنکھوں سے خوفزدہ ہوئ تھی

وہ شوز اتارتے گہری نظروں سے سامنے صوفے پر بیٹھا دیکھ رہا تھا

نور کا دل چاہا تھا بھاگ جائے یہاں سے


وہ شرٹ لیتے باتھروم میں جاتا کے وہ سرعت سے اس بچی کو بستر پر لٹاتے ڈگ بھرتے باہمت ہوتے اس کا ہاتھ تھام چکی تھی


کیا۔۔۔؟

شاور لینے کا ارادہ ہے میرے ساتھ"

وہ اس کو دیکھتے دیوار سے ٹیک لگا گیا تھا


ب۔۔بات کرنی مجھے ۔۔۔"

وہ اس کی بے باکی پر ہمت کرتے ہاتھ چھوڑ چکی تھی


بات یا شک"

اس کی کمر جھکڑتے بیڈ پر سوئ بچی پر نظر ڈالے وہ اسے مزید سمٹنے پر مجبور کر گیا تھا

اپنی پوزیشن کا خیال کرتے وہ بے جان پڑتے قدموں سے اس کی گرفت میں اس کے رحم کرم پر تھی

ب۔۔بچی کس کی ہے"

وہ نظریں جھکائے بس جواب چاہتئ تھی کیا اس کی پہلے بیوی تھی کیا وہ شادی شدہ تھا یہ خیال اسے مفلوج کر رہے تھے

وہ پچھلے کئ دنوں سے ایسے شخص کے ساتھ رہ رہی تھی جس کے ماضی اور حال دونوں سے ناواقف تھی کون تھا وہ نور کو بے تحاشہ وسوسوں اور خوف نے گھیرا تھا

تمہارے سارے مشاہدے اور خود سے میرے بارے میں طے شدہ مفروضے غلط ہیں ڈیئر وائف

اس کے کندھے پر پڑی بالوں کی چٹیا ہٹاتے اپنے لمس سے اسے حال میں واپس لے آیا تھا

وہ روتی رہی تھی سارا دن پتہ بھی ہے تمہیں کس کی بچی ہے پھر کیوں لے کر آئے تھے اور چھوڑ کر خود غائب تھے اس کی ماں پریشان ہو رہی ہو گی"

اسے دور دھکیلتے وہ چیختے بولی تھی

آہستہ وہ ڈسٹرب کرے گی ہمیں"

وہ کپڑے دور اچھالتے اس کا ہاتھ تھامتے پھر سے قریب کر گیا تھا نور کو بے سکونی نے گھیرا تھا

رات کیا حرکت تھی"

اپنے بال اس کی مٹھی میں جھکڑے محسوس کرتے وہ اس کے سینے سے لگی اس کے دل کی دھڑکن خود میں اترتی محسوس کر رہی تھی

آپ مجھے کل سے بابا کے گھر سے مسلسل اپنے رویے سے تکلیف دے رہے ہیں غاز میں خوفزدہ تھی آپ سے"

وہ بھیگتے لہجے میں بولی تھی

اور جو تم نے رات حرکت کی اس کا کیا

میں تمہارا محافظ تھا یا لٹیرا"

آہستہ پلیز وہ اٹھ جائے گی"

اس کی تیز آواز سے وہ خوفزدہ ہوتے اس کو دیکھنا نہی چاہتی تھی پر اس سے دور ہوتے اس بچی کے پاس گئ تھی جو نیند میں پھر سے رونے کی تیاری میں تھی

وہ روتی کے وہ اسے فوری گود میں لٹاتے تھپکنے لگی تھی

بہت محبت جاگ رہی ہے اس انجان کے ساتھ اتنی محبت کبھی مجھ سے گہرا تعلق ہونے کے بعد میرے لیے تو نہی جاگی تمہاری"

نور نے نظریں اٹھاتے اس کو دیکھا تھا کیا وہ بچی سے جیلس تھا

وہ بچی ہے غازیان"

اس بچی کے لیے تم مجھ سے لڑ رہی ہو جانتی ہو یہ بچی کون ہے"

اب وہ اس بات کے بعد اس کا عمل دیکھنا چاہتا تھا

تمہارے مجرم کی بیٹی ہے مس ہالہ نور"

نور کا اس کو تھپکتا ہاتھ یک لخت تھما تھا وہ بے یقینی اور خوف سے زرد پڑتے اس کا چہرہ دیکھتے غازیان کو دیکھ رہی تھی

وہ ششدر تھی چند پل تک سکتا ٹوٹتے وہ اس بچی سے فوری دور ہوتے بیڈ سے دور ہوئ تھی خوف سے اسکا چہرہ دیکھتے اس کے باپ کا چہرہ خودی فرض کرتے وہ چلائ تھی


آ۔۔آپ جانتے اس کو۔۔"

غازیان نے اس کی ہوائیاں اڑا شدت سے زرد پڑتا چہرہ دیکھا تھا


ک۔۔کیوں لے کر آئے اسے پھر"

وہ اتنی زور سے چلاتے بولی تھی کے کچی نیند میں جاتی بچی گلا پھاڑتے رونا شروع ہو چکی تھی


نور۔۔۔" غازیان اس کی پھر سے غیر ہوتی حالت پر اس شخص کو کاٹ دینا چاہتا تھا


ڈونٹ ٹچ می۔۔۔"

وہ دروازے تک جاتی کے وہ سرعت سے اس کی پشت اپنے سینے سے لگاتے اسے تھام چکا تھا


کیوں لائے اسے۔۔"

اس کی گرفت میں بری طرح مچلتے وہ اپنے پیٹ پر باندھے اس کے ہاتھ چھڑاتے بولی تھی


اس کے باپ سے تمہارا بدلہ لینے"

وہ اس کی سلگتی سرگوشی اپنے کان میں محسوس کرتے جی جان سے کانپی تھی


ب۔۔بدلہ۔۔۔"

آر یو سیریس تم پاگل ہو۔۔۔"

وہ رخ اس کی جانب کرتے اس مسلسل روتی معصوم بچی کو دیکھ غازیان کی بات سے خوفزدہ ہوئ تھی جو خاموشی سے فریش ہوئے بغیر روم سے باہر جا چکا تھا

--------------------------------------------------

میڈیکل کالج کے پاس بنے علاقے کی ساری سی سی ٹی وی فوٹیج کوئ تیسری دفعہ دیکھتے کوئ ثبوت نہی ملا تھا بس ہائ روف آئ اور اور اس کو ڈھکے چہرے والے آدمی نے اندر ڈالا تھا

تیش میں آتے ڈیش بورڈ پر زور سے ہاتھ مارا تھا

فونپر چند سیکنڈ پہلے چلتی ویڈیو پھر سے ریوائن ہو رہی تھی

ویٹ۔۔۔"

وہ ایک دم پرسکون ہوتے کلوز اپ کر گیا تھا

یہ کیا تھا

ڈرائیونگ سیٹ سے ونڈو سے باہر نکلا ہاتھ وہ کلوز کر چکا تھا


کہاں دیکھا تھی یہ گھڑی۔۔"

وہ دماغ پر زور دے رہا تھا


دماغ کی نسیں پھولتے اس کی سوچ اس مجرم کو سوچتے مفلوج تھیں


دماغ کو پرسکون کرتے وہ میٹنگ سے پہلے جسٹس صاحب سے ملاقات چاہتے کنفرمیشن چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے اس شخص سے سچ اگلوانا تھا


--------------------------------------------------------


ہوش آتے وہ جگہ کا تعین کرتے اپنے ساتھ ہوئ اچانک واردات سوچ رہا تھا


اسے اچھی طرح یاد تھا کے وہ مارکیٹ سے ضروری سامان لے رہا تھا جب کسی نے اسے بلایا تھا اور پھر وہ آدمی اس کے ساتھ کیا کرتے اسے یہاں لایا تھا وہ نہی جانتا تھا


مجھے قید رکھنے کا مقصد کیا ہے تمہارا۔۔۔"

کون ہو تم۔۔"

وہ خود کو کسی اندھیری سی بیسمنٹ میں بندھا محسوس کر رہا تھا

جہاں اس کی آواز درودیوار سے ٹکراتے واپس پلٹتے اس ہلکی روشنی والی جگہ پر گونج رہی تھی

چند پل بعد قدموں کی چاپ سنی تھی اپنے سر جلتے چہرے پر تیز بلب کی روشنی بھی محسوس ہوئ تھی


آپ۔۔۔" وہ سامنے موجود شخص کو دیکھتے ششدر تھا


آواز نیچے۔۔۔"

وہ چہرا دبوچتے بولا تھا کے اسے اپنا جبڑا ٹوٹتا محسوس ہوا تھا


کتنی لڑکیوں کی زندگی آج تک برباد کی ہے"

اس کے چہرے پر مارا تھپڑ اتنا زور دار تھا کے اسے بے ساختہ احساس ہوا تھا پولیس والوں کا ہاتھ کتنا وزنی ہوتا ہے اور اس سے زیادہ وہ بے رحم کتنے ہوتے ہیں


اس کی کالج سے آنے جانے کی ہر دن کی ٹائمنگ اس کی ہر چیز کی روٹین جسٹس تم سے بہتر کوئ اور کیسے کون جا سکتا تھا سہی کہا نہ میں نے۔۔"


آپ کیا کہہ رہے ہیں کس کی بات کر رہے ہو"

وہ ہونٹ کے کنارے سے رستے خون سے بے بسی سے بولا تھا


جو سوال پوچھوں گا ایک سیکنڈ سے زیادہ ٹائم نہی لینا"

ورنہ۔۔۔" آنکھوں میں غیض وغضب لیے وہ پھنکارا تھا


انتیس مارچ تم سہ پہر تین بجے کہاں تھے۔۔۔"

ماتھے پر پسینے کی بوندیں بلب کی تیز روشنی میں نمودار ہوئیں تھیں


ڈے ٹائم کی ڈیوٹی پر۔۔"

وہ لڑکھڑاتی زبان میں بولا تھا

پھر جھوٹ۔۔۔"

دوسرا تھپڑ اتنا زور دار تھا کے اس کو اپنا دماغ گھومتا محسوس ہوا تھا

ڈیوٹی پر ہی تھا میں۔۔"

وہ پریقین لہجے میں چہرہ جھکائے بولا تھا

آئ ول شوٹ یو۔۔۔"

کہاں تھے تم اس دن۔۔۔"

وہ اس کے بال مسلسل جھوٹ پر کھولتے خون سے مٹھی میں جھکڑ چکا تھا


تمہاری معصوم سی بیٹی اس وقت میرے قبضے میں ہے"

بہت چھوٹی ہے وہ تو سوچو۔۔۔"

وہ پسٹل سامنے ٹیبل پر رکھتے بولا تھا


اس شخص کا خوف سے برا حال ہوا تھا


میری بیٹی۔۔۔"

تمہیں پتہ ہے میں کیا کروں گا اس کے ساتھ سوچو اگر میرا دل چاہا تو میں اسے اس گن سے شوٹ کروں گا

اور اگر میرا دل چاہا تو اس کے نازک سے وجود کو چھت سے نیچے بھی پھینک سکتا ہوں"

چوائس از یورز۔۔۔"

وہ اتنا سفاک ہو سکتا تھا اس چھوٹی سی بچی کے ساتھ وہ یہ سب کر سکتا تھا بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ برا کر سکتا تھا وہ سوچ سکا تھا


جھوٹ وہ گھر اپنی ماں کے پاس ہے" وہ اس کی اکلوتی بیٹی تھی


چلو یقین کرنے کے لیے ابھی تمہیں تمہاری پرنسس سے ملواتا ہوں

ابھی۔۔۔"

ہیلو بے بی گرل سے ہائے ٹو یور بلڈی ایڈیٹ فادر۔۔۔"

وہ خونخوار لہجے میں بچی سے بولا تھا

جہاں وہ دیکھ صدمے میں ہوا تھا گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر تنہا بند مسلسل شیشے کی طرف جاتی بچی رو رہی تھی

نہی چھوڑ دو میری بیٹی کو اس کا سانس ت۔۔تم گاڑی میں تنہا چھوڑ کر آئے ہو۔۔۔"وہ چیخا تھا

دو منٹ ہے منہ کھولنے کے لیے۔۔۔"

وہ فون کی سکرین اوف کرتے سرد لہجے میں بولا تھا


میں قسم کھاتا ہوں میں نے صرف جسٹس زبیر کی بیٹی کو کڈنیپ کیا تھا وہ بھی۔۔۔"

وہ چپ ہوا تھا


وہ بھی آگے بک۔۔" چپ ہونے پر تیش میں آیا


میر سبطین کے کہنے پر۔۔۔"


میر سبطین۔۔۔"وہ زیر لب دہراتے بولا تھا

اس کے کہنے پر وہ سمجھا تھا اس کا بیٹا اس کے پیچھے ہو گا پر یہاں تو


تم جانتے بھی ہو تم نے کیا حرکت کی ہے"

پلیز میں نہی جانتا ہالہ میڈم کے ساتھ مزید کیا ہوا تھا

پر سبطین صاحب نے اس لڑکی کو اپنے فارم ہاوس میں رکھا تھا


ہاں بس اتنا جانتا تھا وہ اس لڑکی کو نقصان نہی پہنچانا چاہتا تھا صرف جسٹس کو ڈراروا دینا تھا مزید مجھے نہی پتہ خدا کے لیے اب رحم کرو۔۔۔"


جس گھر میں کام کیا اسی کا نمک حرام کیا تم نے۔۔۔"

اس کی مزید زندگی برباد کرنے کے لیے اس کو وہ میڈیسن لا کر دیتے رہے تم۔۔۔"

میں تب ہی شک میں تھا یہ کام ایک بلکل ان پڑھ انسان کر ہی نہی سکتا جو اس کی نیند کی میڈیسنز کو نشے کی دوائیوں میں بدل دے۔۔"

وہ ساری نارکوٹکس اور مارفین پروڈکٹس تھیں جبکہ نور کے روم کی چیکنگ پر سائیڈ ٹیبل پر ملی پرسکریپشنز پر اس نے نیند کی میڈیسن منگوائ تھیں

جبکہ یہ ساری ہائ پوٹنسی کی میڈسینز تھیں جو کم از کم عام بندہ نہی جان سکتا تھا

سوچ بھی سکتے ہو تمہاری بھی بیٹی تھی

اب تم تب تک قید ہو جب تک وہ سارے حساب کتاب نہ دے دیں

ایک ٹھوکر مارتے وہ چلا گیا تھا جبکہ وہ صرف اپنی بچی کے لیے خوفزدہ تھا


------------------------------------------------------


کیا کر رہے تھے نور کے روم میں"


میں آپ کی بیٹی کا کوئ آوارہ عاشق نہی بلکہ اس کا شوہر ہوں سمجھے آپ"

اچھی خاصی پورے گھر کی تلاشی لیتے باہر لگے کیمروں کی ویڈیو لیتے وہ ان کے سامنے براجمان ہوا تھا


کیسے ہیں آپ وہ اس لمحے ان کے سامنے تھا

ہالہ کیسی ہے"

وہ سب بھاڑ میں جھونکتے بے چینی سے بولے تھے


ٹھیک ہے اچھی ہے" اب بات کی جانب آتا ہوں


آپ کو دھمکی بھرے لیٹرز میر سبطین کے بیٹے کے آتے تھے لاسٹ کیس وہی تھا آپ کا۔۔"

وہ اس کے تنے تاثرات دیکھ رہے تھے


آپ کو نور کی کڈنیپنگ کی رات اس کی کال آئ تھی یا اس کی میر سبطین سے آپ کے گھر کوئ ملاقات ہوئ تھی کیس کے حوالے سے"

کیا بکواس ہے یہ م۔۔میری کوئ ملاقات نہی ہوئ"

ہاں یا نہ۔۔" وہ بات پر زور دیتے بولا تھا

میری تبعیت ٹھیک نہی ہے فلحال مجھے ریسٹ کرنا ہے" وہ لاونج سے اٹھتے جب اس کی دھاڑ سے پلٹے تھے

میں کچھ پوچھ رہا ہوں جسٹس صاحب"

وہ چیخا تھا

آواز نیچی کرو اپنی۔۔"

کیا بکواس ہے یہ" وہ نظریں چرائے غرائے تھے

وہی بکواس جو آپ کی بیٹی نے اور میری بیوی نے بھگتی ہے"

بتا رہے ہیں مجھے یا"

ہاں ہاں کیا کرتا بتاو تم مجھے کیا کرتا میں مجھے نہی پتہ وہ دھمکی میرے لیے وبال جان بنے گئ" وہ ڈھے گئے تھے

جب وہ کڈنیپ ہوئ تھی تب سہی بتا دیتے تو کیا جاتا آپ کا"

وہ سر تھام کے رہ گیا تھا

کیا حال ہے جسٹس صاحب"

کون ہو تم میری بیٹی تمہارے پاس ہے دیکھو تمہیں جو چاہیے میں دوں گا"

پر ہالہ کو چھوڑ دو" وہ پہلی رات کی فون کال پر ہی خاموش رہے تھے

میری بیٹی کہاں ہے"

سامنے ہے میرے بلکل بے بس سی میرے رحم و کرم پہ"

دیکھنا چاہو گے" اس کی کرسی سے بندھی ویڈیو سینڈ کی تھی

آئ ڈو پلیز میری بیٹی کو کچھ نہی کرنا"

میں نے سکیریٹ ایجنسی سے رابطہ کیا لیکن وہ میر سبطین جان گیا تھا

میں تمہارے بیٹے کے کیس سے ودڈرا کرتے استعفی بھی دے دوں گا

لیکن اب دیر ہو گئ ہے تم کیس بھی چھوڑو گے اور۔۔۔"

دانستہ قہقہ لگاتے وہ کال کاٹ چکا تھا لیکن وہ محض دھمکی ہی دے رہا تھا جو حقیقت کا روپ دھار جانی تھی وہ خود بھی انجان تھا

اگر تب آپ سہی سے بتا دیتے تو آج یہ نوبت نہ آتی"

وہ کاٹ دار لہجے میں بولا تھا

ہالہ کی عزت زیادہ میٹر کرتی تھی میرے لیے میں نے خاموش رہنے میں عافیت جانی"

بچا لی آپ نے اس کی عزت۔۔"

وہ بری طرح دھاڑا تھا

کاٹ ڈالوں گا میں اس میر سبطین کو اور اس کے بیٹے کو وہ ماوف ہوتے کھولتے خون سے اٹھا دماغ کی نسیں پھٹنے کے قریب تھیں

-------------------------------------------------------

ناہنجار تم سوچ بھی سکتے ہو تمہاری حرکت کا پتہ چلا تو کیا عزت رہ جائے گی میری"

وہ اس کے روم میں آتے غرائے تھے جو سارا سچ جاننے کے بعد اس لڑکی کو اس کے گھر شرافت کا مظاہرہ کرتے بیجھ چکے تھے


میں نے صرف اس لڑکی کو ڈراوے کے لیے ایک آدھ دن قید رکھنا تھا لیکن تم نے"

وہ سر تھامتے بیٹھے تھے جو اس کی کرتوت جان گئے تھے


اب آپ خود ساز و سامان تیار کیے رکھے ہوں تو کون کمبخت تھا جو اپنی رات حسین نہ کرتا۔۔"

میں مری سے اسی شام لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے روڈ بلاکز تھی تو واپس آگیا تھا

اور خوش نصیبی سے ڈائریکٹ فارم ہاوس چلا گیا

اور اسے تو رکھا بھی آپ نے باقاعدہ میرے زیر استعمال روم میں تھا اب شیطان تو اس عمر میں غالب آ ہی جاتا ہے نہ"

وہ ازلی لاپرواہی سے بولا تھا اس کے لیے یہ عام سی ہی بات تھی


جیسے ہی روم میں داخل ہوتے سوئچ اون کیے تھے سارا کمرا روشنیوں میں نہا گیا تھا وہ پلٹتے ہق دق تھا سامنے وہ کرسی پر بندھی سارے سامان حشر کے ساتھ ڈھلکی گردن سے ہوش وہواس سے بیگانی تھی بلاشبہ وہ خوبصورت تھی وہ حیرانگی سے آنکھیں مسلتے اس کی جانب گیا تھا


او مائے گوڈ۔۔"

اس کے چہرے کے نقش چھوتے حقیقت میں اس لڑکی کا ادارک ہوتے جیسے شیطانیت اس لمحے سوار ہوئ تھی وہ گھٹنوں کے بل جھکا تھا

عجب خواہشات رات کے پہر جاگ چکی تھیں

کام ڈاون دانیال سبطین۔۔۔"

گہرا سانس لیتے اس کا گلے میں جھولتا دوپٹہ مٹھی میں جھکڑا تھا

کس کو فون کر رہے ہو"

وہ فارم ہاوس میں موجود اپنے باپ کے خاص بندے کا فون جھپٹتے بولا تھا جو پچھلی سائیڈ پر کھڑا اس افتاد پر بوکھلایا تھا

میر صاحب کو دانیال صاحب۔۔"

وہ جھکے سر بولا


کیوں ڈیڈ کو کیوں۔۔۔"

وہ فون اوف کرتے اپنی جینز کی پوکٹ میں رکھ چکا تھا


وہ آپ تو مری تھے نہ تو میر صاحب نے کہا تھا یہاں جو بھی آیا یا آپ آئے تو انہیں انفارم کریں۔۔" وہ سچ بولا تھا


اچھا ۔۔۔" وہ خاصہ زور دیتے بولا تھا


یہ لڑکی کون۔۔؟ وہ نامحسوس انداز میں اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے بولا تھا


ک۔۔کونسی لڑکی۔۔۔" وہ انجان بنا تھا


او کم اون مین فائدہ ہو سکتا ہے تمہارا منہ بند رکھنے پر۔۔۔"

وہ اس کا کندھا تھپکتے ناقابل فہم تاثر دیتے بولا تھا


جسٹس صاحب کی بیٹی ہے میر صاحب نے ان سے کیس کی فائل بدلنے کو کہا تاکہ آپ کو اس الزام سے بری کر سکیں"

جھوٹ بولنے کا کوئ فائدہ نہی تھا


واہ میرے سامنے مجھے ڈانٹتے ہیں اور مجھے بچانے کی خاطر خیر مجھے ڈیڈ کا یہ سرپرائز بہت پسند آیا"

وہ معنی خیزی سے رات کی گہری تاریکی کو دیکھتے بہکے لہجے میں بولا تھا

لیکن میر صاحب۔۔۔"

وہ منمنایا تھا

ڈیڈ کو کون بتائے گا۔۔۔"

وہ یہاں جیسے آئ تھی ویسے تو نہی جا سکتی نہ میں ڈیڈ کی طرح اب اتنا برا بھی نہی ہوں۔۔"

کچھ تو جسٹس صاحب کو ادا کرنا پڑے گا تاکہ اگلی دفعہ ہم سے پنگہ لینے سے پہلے سو بار سوچے۔۔"

وہ خباستی قہقہ لگاتے بولا تھا


لیکن مجھے کیا ملے گا۔۔۔"


شراب اور شباب دونوں۔۔"

شیطانیت سے اس کمرے کی جانب دیکھتے بائیں آنکھ دباتے بولا تھا


میر صاحب نے سختی سے منع کیا ہے لڑکی کو کوئ ہاتھ بھی نہ لگائے۔۔"

مجھے وہ جان سے مار ڈالیں گے"

وہ خوفزدہ سا تھا


نہ تو ڈیڈ کو پتہ ہے میں یہاں ہوں اور نہ ہی انہیں پتہ چلے گا اس کے ساتھ کچھ ہوا ہے اور نہ ہی اس لڑکی کو پتہ چلے گا میں کون ہوں

کیونکہ یہاں سے جانے کے بعد ہر شریف باپ کی طرح جسٹس اپنی بیٹی کو بدنام ہرگز نہی کرے گا۔۔"

اس کی پسٹل اپنے ہاتھ میں تھامتے بولا تھا

-------------------------------------------

اس لڑکی کو گھر بھیجوا دیا ہے بہتر ہے اپنے ان دو حرامی چیلوں سے کہو اس شہر سے اپنی شکل گم کر لیں

تم سے مجھے یہ امید نہی تھی میر سبطین کاٹ دار نظر اپنے بندے پر ڈالتے بولا تھا

-----------------------------------------------

آپ صبح کا فنکشن ڈیلے کر دیں ریحہ کا پاوں بلکل موو نہی کر پا رہا ابھی۔۔"

سانیہ ان کے روم میں ازہان کے نکاح اور احان کے ولیمے کے حوالے سے بات کرنے آئ تھیں جب وہ انکار کر چکا تھا ویسے بھی اس کا دل اچاٹ ہوا تھا

میں ٹھیک ہوں بڑی مما ہلکا سا چل پا رہی ہوں اب۔۔"

وہ اس کی بات نظر انداز کرتے سر جھکائے فوری سے بولی تھی

کیا ضرورت تھی جھانسی کی رانی بننے کی"

وہ بلیو شرٹ کے کف لنکس بند کرتے اسے مرر سے خشمگین نظروں سے دیکھتے بولا تھا

میں ٹھیک ہوں۔۔"

وہ بیڈ سے اٹھتے ہلکے ہلکے لڑکھڑاتے قدم بھرتے بولی تھی جہاں تکلیف کے آثار تھے

جب نہی چلا جا رہا تو کیوں خود کو تکلیف دے رہی ہو"

وہ گرتی کے فوری سے پہلے کمر سے تھام چکا تھا

واشروم۔۔" وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے دھیمے سے شرمندہ ہوتے بولی تھی

انا اتنی ہی آگئ تم میں"

اسے بیڈ پر ڈالتے بولا تھا

وہ جاتا وہ اس کا ہاتھ تھام چکی تھی

کچھ چاہیے۔۔" وہ پلٹا تھا

وہ کہنا چاہتی تھی آپ چاہیے ہو آپ کی معافی چاہیے ہے۔۔"

پر خاموش ہی رہی تھی

وہ بغیر بولے آنسو بہانا شروع تھی

رو لو اب پتہ نہی یہ اتنے آنسو تم لڑکیوں کے کہاں سے آتے ہیں آج تک مجھے یہ بات سمجھ نہی آتی بات بات پر ڈرامے کروا لو بس"

اس کے پاوں کی موومنٹ چیک کرتے اس کے ساتھ بیٹھتے بولا تھا یہی وجہ اس کے رونے کی لگی تھی

پین ہو رہی ہے"

وہ نرمی سے اس کا ہاتھ دباتے ہونٹوں تک لے گیا تھا اپنے ہاتھ پر اس کے لمس کی نرمی محسوس کرتے وہ اس شخص کی اس لمحے اثیر ہوئ تھی اس لمحے چاہا تھا کاش یہ وقت کچھ پل تھم جائے

پر تب تک اس کے روم میں اس کا ناشتہ آ چکا تھا

چلو ناشتہ کر لینا پھر پین کلر لے لینا خود بلکل کسی کام کے لیے نہی اٹھنا۔۔"

وہ ناشتہ اس کے پاس بیڈ پر شیٹ بچھاتے نفاست سے سیٹ کرتے بولا تھا وہ بس دیکھتے رہ گئ تھی

آپ نے نہی کرنا۔۔"

اسے کوٹ پہنتے دیکھ وہ پلکیں وا کرتے اسے مخاطب کر چکی تھی

کچھ زیادہ مہربان نہی ہو رہی آپ میری فکر میں۔۔"

وہ نارمل لہجے میں بے تاثر ہی فون اور کیز اس کی سائیڈ سے لیتے جان بوجھ کر زرا سا اس پر جھکتے بولا تھا

مرضی آپ کی جو سمجھیں۔۔"

وہ ناشتے پر جھکے اپنے چہرے کے بدلتے رنگ اس شخص سے چھپا رہی تھی جس کے وجود سے اٹھتی خوشبو اس لمحے خود کے قریب ترین محسوس ہوئ تھی See less

روتی بچی کو ہمت کرتے گود میں بھرے ہی وہ باہر آئ تھی

جہاں وہ لاونج میں پڑے مہرون پوشش والے صوفے پر ریلکیس لیٹنے کے انداز میں بیٹھا سر مسل رہا تھا وہ بکھرا سا بے چین سا لگا تھا جو کل کی پہنی بلیو جینز پر سیاہ شکن زدہ شرٹ کے کف موڑے بغیر چپل کے ایک ٹانگ مسلسل ہلا رہا تھا


غاز۔۔"

وہ ہمت کر رہی تھی وہ اس شخص کو مخاطب کرنے سے بھی ڈر رہی تھی کے وہ اسے اس کے مجرم جاننے کے بعد دھتکار ہی نہ دے نہ وہ اس سے اس بارے میں کوی بات کرنے کی ہمت کر رہی تھی


ہممم۔۔" اس کی بھاری بوجھل سی سرگوشی تھی


پلیز اسے چھوڑ آئیں پلیز۔۔"

وہ لاونج کی خاموشی میں صوفے پر قدرے فاصلے پر بیٹھتے رندھی آواز میں منت بھرے انداز میں بولی تھی


نظریں اٹھاتے اس کی جانب دیکھا تھا

اس کی پلکوں کے کنارے آنسو نکلنے کو بے تاب تھے

وہ کھسکتے اس کی جانب گیا تھا

وہ حیران ہوئ تھی اس کا سر اپنی گود میں دیکھتے جب کے بچی اس کے گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھے اب چپ سی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی


تھوڑی دیر یہاں سکون مل سکتا ہے پلیز میرا سر دبا دو"

وہ مندھی آنکھوں سے اس کا ہاتھ اپنے بالوں میں رکھنے کے بعد بکھرے بالوں والی پیشانی پر رکھ چکا تھا

وہ حلق تر کرتے بے حس بیٹھی تھی

نور دباو۔۔"

اس کا ہاتھ ایک ہی جگہ ساکت دیکھتے خود ہی اپنے ہاتھ کا دباو دیتے اس نے موو کیا تھا

چند پل اس کے چہرے کو تکتے اس کا سر دبانا شروع ہو چکی تھی وہ پرسکون ہوتا اس کا دوسرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ چکا تھا

اس کا دل اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کے نیچے دھڑکتا محسوس ہوتے اس کا وجود اس کا ساتھ چھوڑ رہا تھا


اس کو چھوڑ آئیں۔۔"

وہ اب بچی کو فرش پر تھوڑا دور کرول کرتے دیکھ ازیت سے بولی تھی


بند آنکھوں سے اس کا چہرہ خود پر جھکایا

وہ اس کی سن کب رہا تھا

اس کے چہرے کا رنگ اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرتے بدل سا گیا تھا اپنے ناک سے اس کی ناک مس ہوتی محسوس ہوئ تھی


و۔۔ وہ دیکھ رہی ہمیں۔۔"

اس کی حرکت پر وہ جھجک کے بچی کو دیکھتے پیچھے ہوتی کے غازیان کے ماتھے پر بے تحاشہ بل پڑے تھے


نور سکون چاہیے مجھے تم سے دوری نہی۔۔"

اس کی سرخ سی تھکن کی خماری لی آنکھیں اس کے دل کی منتشر دھڑکنیں وہ اپنی کیفیت پر ساکت تھی


ہالہ تمہیں رونے کے علاوہ کیا آتا ہے"

محبت بھری نظریں اس کے چہرے پر ڈالی تھیں کندھے سے تھوڑا نیچے تک آتے بالوں کو کیچر میں جھکڑے اس کی سیاہ بڑی آنکھوں کے بعد اس کے سرخ کپڑوں سے ملتے چہرے کی سرخی اسے مزید بہکا رہی تھی پر یہ لڑکی اس کے احساسات سمجھتے بھی ناسمجھ کیوں بنتی تھی


وہ نا سمجھی کے عالم میں تھی جب وہ اس کی مشکل حل کرتے مزید اس کے ہاتھوں کی نرمی اپنے ماتھے پر محسوس کرتے بولا تھا

جیسے کہ چائے، کوفی کھانا بنانا صفائ کرنا وغیرہ وغیرہ"

مم۔مجھے کچھ نہی آتا چائے بنانے، انڈہ اور بوائل رائس کے"

وہ بتاتے خجل سی ہوئ تھی کہ کبھی اس نے اپنی ٹف سٹڈی میں ایسے کام کیے ہی نہ تھے وہ اس حسین بےفکر زندگی میں کھوتی کے کہ اس کی آواز پھر سے کانوں سے ٹکرائ تھی

جبکہ مجھے سکون دینے سے لیکر میرے کپڑے پریس کرنا اور کھانا بنانا تمہاری زمیداریوں میں ہے اب"

اس کا ہاتھ تھما تھا


چھوڑ آئیں پلیز اسے مجھے وحشت ہو رہی ہے غازیان کم از کم بے حس نہی ہو سکتا"

اس کی ماں پریشان ہو گی"

وہ بات بدلتے نظروں کا زاویہ موڑ چکی تھی


تم تو بے حس ہو نہ میرے معاملے میں"

سر اٹھاتے وہ اس کی مسلسل ایک گردان سے پک چکا تھا


غازیان پرامس می تم اسے کچھ نہی کرو گے"

وہ اس کی بات پر نظروں میں چمک لیے صوفے پر ایک گھٹنا فولڈ کیے پلٹا تھا

وہ اس کو پھر سے قریب محسوس کرتے نظریں جھکا گئ تھی


ایک شرط پر۔۔"

وہ اس کے کندھے پر جھولتا لاپروا سرخ شفون کا دوپٹہ پرے ہٹاتے بولا تھا


ک۔۔کیا۔۔"

لزرتی پلکیں سرخ جھکا چہرہ کندھا اس کی حرکت پر جلستا محسوس ہوا تھا جب اپنا اوڑھا دوپٹہ اپنی گود میں گرا دیکھا


غازیان کی جان اگر واپسی پر روم میں اس کے ویٹ میں ملے"

خاصہ سرگوشی والا انداز تھا


غازیان کی جان"

اس کے لفظوں کی ادائیگی سے اس لمحے اس شخص کو دیکھنے کی ہمت کہاں تھی

اس کا سرخ پڑتا گال شدت سے چومتے وہ اسے اپنی بات سے ہی نہی حرکت سے بھی بے بس کر چکا تھا

اس کا موڈ اب خاصہ فریش ہو گیا تھا


سی اوف تو کر دو۔۔"

اس کو ایک جگہ صوفے پر جما دیکھ وہ چابیاں مٹھی میں تھامتے روم سے باہر آتے بولا تھا


کر دو نہی تو میں اسے تمہارے سمیت چھت سے نیچے پھینک دوں گا"

اس کی لاونج میں دوبارہ آواز گونجی تھی

وہ اس شخص کو سمجھ نہی پائ تھی

تیزی سے اٹھتے پورچ تک گئ تھی

کیا پرابلم ہے تمہیں سکون سے بیٹھ نہی سکتی"

وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اس کو سیٹ بیلٹ لگاتے ہلکان تھا

نور اس کو جھنجلائے دیکھ ہونٹوں پر مچلتی مسکراہٹ ضبط کرتے فوری دروازہ کھولتے بچی کے دونوں ہاتھ تھامے تھے

تمہیں اس پر غصہ نہی آ رہا"

وہ گہری خاموشی توڑتے بولا

میں سوچتی ہوں مکافات عمل عورت کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے جبکہ اس کی سزا اس مرد کو ویسے ملنی چاہیے

جیسے وہ ان کمزور لمحات میں اپنی مردانگی کے زمر میں عورت کو دیتا ہے"

بیلٹ کا بکل بند کرتے وہ باہر نکلی تھی

ویٹ کرنا میرا"

اس کی سٹیرنگ پر گرفت مظبوط ہوئ تھی

وہ نفی میں آنسو پیتے تیزی سے اندر چلی گئ تھی

اس کا سرخ لہراتا آنچل اس کی نظروں سے اوجھل ہونے تکمرکز بنا تھا

میری بیوی کو آپ کی بیٹی سے ملکر بہت اچھا لگا"

وہ بچی اس کی ماں کو تھماتے بولا تھا

میں ہالہ میڈم سے ملی ہوں ایک دو بار بہت اچھی ہیں وہ"

نور کے گھر کام کرنے والے گارڈ کی بیوی مسکراتے بولی تھی

اللہ آپ کو بھی جلد اس رحمت سے نوازے"

وہ اس کی بنائ چال سے انجان دعا دیتے بولی تھی

وہ بچی کو نور سے ملوانے کا کہہ کر لے گیا تھا کے وہ بچوں کی بہت دیوانی ہے اور ٹریپ وہ اس کے کمینے باپ کو کرنا چاہتا تھا


پہلے اس آنے والی رحمت کی ماں تو مان جائے"

وہ اس کی بات پر بڑبڑاتے مسکراتی نظر ڈالتے اس بچی کو اس کے حوالے کرتے نکلا تھا


-------------------------------------------------------


وہ بستر کے کنارے پر ٹکی چھت کو گھورتے اپنے ہاتھ کی لکیریں دیکھ رہی تھی وہ چند لمحوں پہلے گھر واپس آیا تھا

چند لمحوں بعد واشروم کا دروازہ کھلا تھا

وہ اس کی نظروں سے الجھی پڑی تھی


لائٹ اوف ہوئ تھی ہلکی روشنی میں بس اس کے بھیگے وجود سے اٹھتی خوشبو محسوس ہوئ تھی

کمر سے کینچھتے وہ اسے حصار میں لے چکا تھا


میں نے کہا تھا میرا انتظار کرنا"

وہ اس کے بالوں کو کیچر کی زد سے آزاد کرتے ان کی خوشبو خود میں اتارتے اس کے کندھے پر اپنے سلگتے لب رکھ چکا تھا


تم اسے جانتے ہو۔۔"

یہ مشکل ہو گا نہ اپنی بیوی کے مجرموں کو دیکھتے ہوئے بھی تم مجھے سے جو چاہتے وہ۔۔"

وہ اس کی گرفت میں بے حسی سے بولی تھی


غازیان کا جزبات سے مہکتا دل پل میں ساکت کرتے وہ سارا موڈ تباہ کر چکی تھی


تم آخر میرا ضبط کب تک آزمانا چاہتی ہو۔۔"

اس کا رخ اپنی جانب کرتے اس کا چہرہ دبوچا تھا


م۔۔میں س۔۔ سب کے سامنے ساری دنیا کے سامنے ا۔۔ایکسپوز ہو جاوں گی۔۔"

وہ اس کی اپنے منہ پر ہوئ سخت گرفت میں ٹوٹتے لفظوں میں بولی تھی


اسے خود سے دور دھکیلتے وہ بستر پر سر تھام کے بیٹھ گیا تھا

وہ جو بھی کر لے وہ اپنی باتوں سے اسے ازیت دینے میں ماہر تھی


تم جو بھی کر لو حقیت بدل نہی سکتی۔۔"

وہ پھر سے سسکتے تڑپ رہی تھی


گو ٹو دا ہیل۔۔"

وہ غضب ناک سرخ نظریں اس پر ڈالے سائیڈ ٹیبل سے دوبارہ چابیاں لیتے اٹھا تھا

وہ مزید قدم لیتا کے وہ اس کا ہاتھ جھکڑ چکی تھی


ک۔۔کہاں جا رہے۔۔"

اس کے چہرے پر چھائ غصے کی رمق ماتھے کی ابھری نسیں اسے غلط کا پتہ دے رہی تھی


اس حرامی کا قتل کرنے

پھر تم تیار رہنا تمہارا قتل کرکے خود کو شوٹ کر لوں گا"

وہ ہاتھ چھڑاتے غصے سے بولا تھا


اس کا وجود اس کو پسٹل تھامتے دیکھ زلزلوں کی زد میں ہوا تھا


تمہارے وجہ سے میرے اکلوتے بیٹے پر کبھی کوئ مصیبت یا ایک خروش بھی آئ تو تمہیں کبھی معاف نہی کروں گی"

اس کی ماں کے ہر پل یہاں رہتے ادا کیے لفظ اس کے زہن پر چھاتے اسے خوفزدہ کر گئے تھے


آئ نیڈ یو مت جاو۔۔"

بیڈ چھوڑتے اس کی پشت سے سر ٹکاتے وہ بھیگے لہجے میں بولتے اسے روکنا چاہتی تھی

اس کے ہاتھ اپنی سینے سے ہٹاتے وہ اسے مدمقابل کر چکا تھا


کیوں میرا خون جلانے کے لیے تمہیں میری ضرورت ہے"

اسے خود سے دور دھکیلا تھا


آئ ایم سوری۔۔" وہ دونوں کان پکڑتے بولی تھی


میں انسان ہوں نور فرشتہ نہی ہوں تمہیں کیا لگتا ہے مجھے کوئ فرق نہی پڑتا میں جب ہمت جوڑتے تمہارے پاس آنا چاہتا ہوں تم اپنا پاسٹ دہرا کے مجھے بدزن کرتی ہو کیا سمجھتی ہو تم مجھے بے غیرت سمجھتی ہو مجھے۔۔"

جسے کوئ فرق نہی پڑتا۔۔"

چابیاں فرش پر دور پھینکتے وہ بیڈ پر بیٹھا تھا

وہ دل تھامتے بس اس کی ساری کاروائیاں دیکھ رہی تھی


وہ ڈرتے گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی

ک۔۔کیا کروں ایسا جو سکون آ جائے مجھے تم بتا دو وہی کروں گی جس سے تمہیں بھی تکلیف نہ دوں۔۔"

اس کے گھٹنوں پر سر رکھتے وہ لڑکی اور کچھ نہی تو اسے ششدر کرنے میں ضرور ماہر تھی

اس معاملے کے بعد بھی تم نے کبھی بھی نماز پڑھی اللہ کو یاد کیا کبھی سکون کی دعا مانگی۔۔" اس کو دیکھتے وہ پرسکون ہوتے بولا تھا

تو کیا اللہ نے میرے ساتھ اچھا کیا ہے"

وہ اس کی بات پر سر اٹھاتے اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولی تھی

نور تم اللہ سے مقابلے کرو گی۔۔"

اس کی بات نے خاصہ حیران کیا تھا


میرے ساتھ نہ تم نے اچھا کیا نہ بابا نے اور نہ ہی اللہ نے سب اپنی مرضی تھوپنا چاہتے ہو

اللہ چاہتا تو مجھے اس دن بچا سکتا تھا پر نہی بچایا نہ ان سے"

وہ تلخی سے چیختے دور ہوئ تھی


بابا نے زبردستی شادی کر دی اپنا عزاب تم پر مصلحت کر دیا اور اب تم چاہتے ہو سب کچھ بھول کر میں تمہارے ساتھ نارمل ہو جاوں۔۔"

کیسے ہو جاوں نارمل تم سمجھ ہی نہی رہے مجھے"

وہ روتے اسے زہر لگی تھی


کیا اللہ کو تم اپنی زندگی میں یاد کرتی رہی ہو

اور کیا اللہ سے اس دن تم نے سچے دل سے مدد مانگی تھی۔۔"

ایک اور چیز تمہیں میں واضع کر دوں اللہ نے میرے دل میں رحم ڈالا ہے تو تم میری بیوی ہو مسز غازیان اگر اس نے ایک در پر تمہاری پکار نہی سنی تو بن مانگے تمہیں میں بھی وسیلے کے طور پر عطا ہوا ہوں

لیکن نہی تم تو صرف شکوہ ہی کرتی رہو گی تمہارے ساتھ کیا ہوا کیوں ہوا زبردستی ہوئ

تھک گیا ہوں میں نور میں تمہیں نہی کسی بھی طرح خود سے مطمئین کر سکا"

تمہارے قریب آوں تو تم تعنے دیتی ہو

ٹیل می واٹ آئ ڈو۔۔"

وہ خاموش ویران نظروں سے دیکھ رہی تھی


میری جان لے لو۔۔۔" وہ اس کے قریب آتے اس کا چہرہ دیکھتے بولی تھی

جبکہ وہ اسے پیچھے دھکیلتے روم سے ہی باہر چلا گیا تھا وہ ساکت سی دروازہ دیکھتے اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی


---------------------------------------------------


فنکشن شام میں بنکوئیٹ ہی تھا احان کی شادی کی نسبت ریسپیشن پر کافی لوگ انوائیٹ تھے گھر میں تیاری سی چل رہی تھی

ریحہ بیٹے ٹائم سے تیار ہو جانا تم۔۔"

اس کی جیولری اور بھاری بھرکم ڈریس اس کے بیڈ پر رکھتے سانیہ محبت سے بولی تھیں

بڑی مما وہ نہی آئے ابھی تک۔۔"

وال کلاک پر نظر ڈالی جہاں چار بجنے والے تھے وہ نیچے تو جا ہی نہی پا رہی تھی بیڈ پر بیٹھی خجل سے ہوتے بیڈ پر پڑے بوکسس پر نظر ڈالتے پوچھا

کون۔۔؟

وہ مسکراہٹ ضبط کرتے حیران تاثر دیتے بولیں تھیں

مما وہ ا۔۔احان۔۔"

وہ ان کے تاثر نہی دیکھ پائ چہرہ جھکائے بامشکل اس کا نام لے پائ تھی

شوہر ہے تمہارا اتنا شرما کیوں رہی ہو۔۔"

وہ اس کی سرخ رنگت دیکھتے اب اپنی ہونٹوں کے کنارے پر آئ مسکراہٹ نہی ضبط کر پائیں تھیں

میں کال کرتی ہوں اسے کے جلدی آ جاو ریحہ کا دل نہی لگ رہا ہے"

اس کو بات سمجھنے کا موقع دیے بغیر اس کے روم سے جاتے ایک بار پھر جاندار مسکراہٹ دیتے بولیں تھیں

اس کے زکر سے اپنی سرخی خود سے بھی چھپانے کے لیے اپنے دوپٹے سے چہرہ ڈھک چکی تھی جب کے لب اپنی حالت سوچتے مسکرائے تھے

پانچ بجے وہ شاور لے کر نکلی تھی پارلر والی اس کے روم میں تھی

آج وہ اس کے لیے سہی معنوں میں تیار ہونا چاہتی تھی

آرام آرام سے قدم رکھتے اس کے کپڑے اپنے کپڑوں کے ساتھ پریس پڑے دیکھتے وہ چھوٹی چھوٹی سی عجیب سی خواہشوں پر حیران تھی

کنٹرول ریحہ کیا ہو گیا ہے اس اٹینشن سیکر کے لیے کیوں اتنا مری جا ری ہو"

وہ دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتے بولی تھی

کپڑے چینج کرتے وہ شیشے کے سامنے بیٹھی تھی

آپ کے بالوں کیا کرنا ہے۔۔"

سمپلی جوڑا بنا دو۔۔"

وہ پارلر والی کو مشورہ دیتے بولی تھی

آپ کے بال بہت پیارے ہیں۔۔" وہ اس کے سیاہ کمر تک جاتے لمبے ہلکے نیچے سے کرلی بال برش کرتے بولی تھی


تھینکیو۔۔!! وہ اس کو جوڑا بناتے دیکھ مسکرائ تھی

وہ مکمل اس کے لیے تیار تھی


جیولری کی ضرورت ہی نہی۔۔" وہ اس کو بوکس کھولتا دیکھ بولی تھی


حجاب تو نہی کریں نہ۔۔" پارلر والی لڑکی کو بعد میں سمجھ آئ تھی کیوں نہی جیولری کی ضرورت تھی


سوری اس معاملے میں نو آرگیومنٹ۔۔"

وہ ایرانی سٹائلش سا مہرون حجاب شیشے کے سامنے پن اپ کرتے گولڈن بھاری کام دار دوپٹہ خود کندھے پر سیٹ کر چکی تھی وہ نہی جانتی تھی اس کا ڈریس کس نے خریدا تھا پر یہ حجاب کا سٹولر جو اس کی ڈریس کی مناسبت سے ہی تھا اس کے ساتھ ہی موجود تھا

ڈارک مہرون شرارے پر ڈارک مہرون ہی سمپل لونگ شرٹ تھی جس پر بھاری گولڈن کام دار دوپٹہ کندھے پر تھا


وہ خود پر تنقیدی نگاہ ڈالتے گولڈ کے بس کڑے ہاتھوں میں ڈال رہی تھی

جب دروازہ کھلا تھا

شیشے سے ابھرتا عکس اس کی ہیوی برائیڈل میک اپ سے لبریز بھوری آنکھوں سمیت پلکیں یک لخت جھکی سی تھیں

وہ لڑکی اس کے روم سے چلی گئ تھی


وہ اعتراف کر چکا تھا اس کو زیر کرنے کے سارے ہتھیاروں سے لیس تھی وہ لڑکی کاجل سمیت اس کی ڈارک مہرون لپسٹک


آہ احان یہ تجھے مار ڈالے گی"

وہ زیر لب بڑابڑاتے سنجیدگی کا خول چڑھاتے کف لنکس کھولتے کاوچ پر گیلا ٹاول دیکھتے ماتھے پر تیوری لے آیا تھا


یہ کیا ہے ریحہ۔۔"

وہ ٹاول اسے دکھاتے چند پل کی نرمی زائل کرتے غصے سے بولا تھا

وہ ڈریسر کے سامنے ناسمجھی کے عالم میں تھی


ریحہ مجھے اپنے روم میں ساری چیزیں ڈسیپلن میں پسند ہیں خیال رکھا کرو آج صرف تمہارے پاوں کی وجہ سے برداشت کر گیا ہوں"

وہ حد درجے حیران تھی وہ تھکا سا اسے نظر انداز کیے ٹاول اور بیڈ سے بکھری چیزیں سمیٹتے شیٹ درست کر رہا تھا


کیا تھا یہ۔۔" وہ کھڑی کھڑی سکتے میں بے ہوش ہونے کو تھی

وہ اسے نظر انداز کیے واشروم میں کپڑے لے کر بند ہوا تھا


پچھلے پندرہ منٹ سے وہ بیڈ پر بیٹھی غصہ پیتے اب اس کے فیشن غور سے دیکھ رہی تھی

سیاہ شرٹ سے میچ سٹڈ انہماک سے لگاتے بال برش کر رہا تھا

خود پر پرفیوم سپرے کرتے وہ اسے ہی نہی بلکہ پورے کمرے کو مہکا گیا تھا

کوٹ پہنتے وہ اس کی جانب آیا تھا


چلیں۔۔"

اپنی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائ تھی

سرخ وسفید رنگت پر نفاست سے بنی ہلکی بھوری دھاڑی نفاست سے بنے گھنے بال وہ اس وقت سوبر لگتے اس کے حواسوں پر چھایا تھا

--------------------------------------------

فنکشن تھیم کے اکورڈنگ تھا جو کے ایک ہی شادی حال میں کمبائن تھا دانین کے فیملی ممبرز تو چند ایک ہی تھے البتہ احان کی فیملی کے رشتے دار زیادہ تھے

ویسے کیا دیکھ کر تمہارے بھائ نے اس لڑکی سے شادی کی"

وہ اس شاندار ماحول پر چھائے شخص کو سٹیج پر اطراف میں پڑے کاوچ پر ریحہ کی نارمل گندمی رنگت کو دیکھتے بولی تھی جو اسے احان کے مطابق معمولی لگی تھی حالانکہ وہ اس وقت نظر انداز کیے جانے والی نہی لگ رہی تھی


ازہان سیاہ تھری پیس میں تھا جبکہ دانین اس کے پہلو میں سرخ بھاری کام دار لہنگے پر پوری برائیڈل لک میں تھی

اس نے ایک نظر دانین کو دیکھا پھر اس لڑکی کو دیکھا جس کے رنگ پر وہ چوٹ کر چکی تھی

کردار۔۔"

وہ یک لفظی حرف اس کے مہارت سے میک اپ کیے چہرے پر ڈالتے بولا تھا بلاشبہ وہ اس وقت ریحہ کی نسبت سب کی نظروں کا مرکز بنی تھی

مطلب کیا ہے تمہارا۔۔؟

وہ دھیمے لہجے میں غرائ تھی

کچھ نہی۔۔"

وہ احان کو دیکھتے بولا جو آج سارے مہمانوں کو رسیو کر رہا تھا

میری بیٹی آپ کے حوالے کر رہی ہوں میری اکلوتی بیٹی ہے اس کے باپ کے بعد میں نے اس کی ہر خواہش پوری کی ہے"

آپ سے امید کروں گی اگر آپ کو دانین سے کبھی کوئ شکائت بھی ہوئ تو نظر انداز کر دیجیے گا"

رخصتی کے وقت دانین کی ماں سانیہ سے مخاطب ہوئیں تھیں

میں بہو نہی بیٹی لے کر جا رہی ہوں" وہ اپنی ازلی نرم تبعیت کے مطابق ان کا ہاتھ دباتے ہلکی سی مسکراہٹ سے بولی تھیں

دانین کی ماں مطمین تو تھی پر دانین کے لیے بھی دعا ہی کی تھی وہ اس حرکت کے بعد گھر بسانے میں کامیاب ہو سکے وہ تو ماں ہی تھیں معاف کرنے کے علاوہ کوئ چارہ نہی تھا دوسرا صرف احان کی وجہ سے عزت سے رخصت ہو رہی تھی اس لمحے وہ مشکور ہی تھیں

------------------------------------------------------

فنکشن سے فری ہوتے وہ ریحہ کے پاوں کی وجہ سے جلدی نکل آئے تھے وہ دونوں روم میں ایک ساتھ داخل ہوئے تھے

احان ریحہ کے پاوں کی وجہ سے اس کا ہاتھ تھامے آہستہ قدم بھر رہا تھا

وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی جو اس کے ہر سٹیپ پر نظر رکھے تھے

کسی معاملے میں وہ بہت کیرنگ ثابت ہوتا اور کسی میں انتہا سے زیادہ روڈ"

وہ اداس ہوئ تھی وہ اسے دیکھ بھی نہی رہا تھا ریحہ کو اپنی آج کی ساری تیاری بے معنی سے لگی تھی

گھٹنوں کے بل جھکتے اس کا مہرون شرارہ سمیٹا تھا

نہی کریں پلیز" وہ پاوں پیچھے کرتے شرمندہ ہوئ تھی

اس کے ہاتھ کا لمس اپنی پنڈلیوں سے پاوں پر محسوس کرتے وہ سمٹ سی گئ تھی جو اب اس کے سینڈل کا سٹریپ کھول رہا تھا

اس کے پاوں سینڈل سے آزاد کرتے وہ بے تاثر اٹھتا کے وہ اس کا ہاتھ تھام چکی تھی

ماحول میں فسوں خیزی چھائ تھی


اس نے پلٹتے ابرو اچکاتے وجہ پوچھی تھی


ن۔۔نتھنگ۔۔۔"

وہ سیاہ مسکارے سے سجی پلکیں جھکا گئ تھی

وہ خاموشی سے اس کے پوری طرح خود کو پاگل کرتے وجود سے نظریں چراتے گہرا سانس بھرتے واشروم کی جانب گیا تھا

وہ اسی پوزیشن میں آنسوں پر بندھ باندھے بیٹھی تھی

لفظ ختم تھے کیا یہ رشتہ ساری زندگی ایسے رہنا تھا

ایسے کیوں بیٹھی ہو اپنا یہ بکھراو سمیٹو"

وہ اسی پوزیشن میں تھی جب مرر سے ٹراوزر شرٹ میں اس کا عکس رونما ہوا تھا

اس کے شفاف چہرے پر پانی کے قطرے اسے مزید خوبرو بنا رہے تھے وہ شخص آج بھی سب کی نظروں کا مرکز بنا تھا

وہ بے ساختہ اپنا ہاتھ دیکھتے اس کے رنگ سے خود کا موازنہ کر رہی تھی

میری آنکھیں میرا ناک میرے بال میں اس سے کمتر تو نہی ہوں"

پھر یہ مجھے کیوں نہی دیکھ رہا ہاں وہ اس وقت اپنے شوہر کی تعریف کی منتظر تھی

وہ لائٹ اوف کرتے بیڈ پر دراز ہوا تھا

ریحہ کو اس کی بے حسی پر مزید رونا آیا تھا وہ بامشکل خود کو رونے سے باز رکھتے کبرڈ سے کپڑے لیتے واشروم میں بند ہوئ تھی

سادہ سے ڈھیلے گلابی شرٹ ٹراوزر پر کریب کا دوپٹہ کندھے پر پھیلائے

بھیگے چہرے سے جیولری تھامے وہ اسے اسی پوزیشن میں ڈریسر پر چیزیں رکھتے دیکھ رہی تھی

م۔۔میں ہرگز سوری نہی کرو گی آپ کو

آپ کو پتہ ہے آپ سب سے زیادہ بدتمیز شوہر ہیں"

اپنی جگہ پر لیٹتے وہ رندھی آواز میں بولی تھی

اور تم مسز بدتمیز رائٹ" وہ گہری خاموشی میں حساب برابر کرتے بولا تھا

وہ چند پل اس کی جانب کروٹ لیتے دیکھتی رہی تھی احان کو اس کی نظریں خود پر واضع محسوس ہو رہی تھیں

اس کی بے رخی برداشت سے باہر ہوتے وہ انا سائیڈ پر رکھے اس کی جانب خجل سی ہوتے کھسکی تھی

اپنے سینے پر نرمی کا احساس ہوتے اسے ادراک ہوا تھا کہ وہ اس کے سینے پر اپنا سر رکھ چکی تھی

اپنے سینے پر اس کا سر دیکھتے ہی نہی سنبھلا تھا کہ اس کی باتوں سے وہ حیران ہوا تھا


مانا کہ میں آپ کی چوائس نہی تھی"

پھر بھی میں پوری رات آپ کے انتظار میں رہی تھی یہاں تک کے میری گردن صبح دکھنے لگی تھی

اس کی شرٹ مٹھی میں تھامتے وہ اس کے کوئ ردعمل نہ دینے پر اس پر غصے سے جھک سی گئ تھی اور اب اس کا بازو آنکھوں سے ہٹاتے وہ جو استحاق استعمال کر رہی تھی اس کے انجام سے فلحال وہ انجان تھی

دھیمی سی روشنی میں وہ اس کے چہرے کے اتنے قریب تھی کہ اس کے سرخ عارض ہلکی لپسٹک کی رمق لیے بھرے لب مضطرب نقش سے نظریں لاپروہ دوپٹے والی صراحی دار گردن پر ٹھہر چکی تھیں

خود کو ڈھیلا چھوڑے وہ دانستہ خود اس کے جزبات کو دعوت دے رہی تھی

ہمت کیسے ہو رہی ہے مجھے اگنور کرنے کی"

وہ مزید آتش فشان بنتی کے وہ اس کی انہی کلائیوں کو تھامتے اپنئ چھوڑی جگہ پر اب پٹخ چکا تھا

بہت بری لگی میری اگنورینس اور جو تم نے میرے ساتھ کیا اس پر نظر ثانی ابھی بھی نہی کر رہی ہو"

رونے سے سرخ پڑی ناک پر پر لب رکھتے وہ اسے اس گھمبیر حال میں بھی مزید سرخ کر گیا تھا

آ۔۔آپ سے۔۔" وہ اب بوکھلائ تھی

کیا مجھ سے" اس کی بوکھلائ شکل دیکھتے وہ بامشکل خود پر ضبط کیے تھا

آ۔۔آئ ایم سوری"

بھیگتا سا لہجہ تھا وہ ٹوٹتے لفظوں میں ادا کرتے فوری اس سے اب فرار چاہ رہی تھی جو اس پر پورا جھکا تھا

کس لیے" وہ اس لمحے مبہم سا مسکرایا تھا

وہ رپورٹ ازہان کی تھی میں سوچ بھی نہی سکتی تھی تو آپ مجھے کلیر کر سکتے تھے لیکن آپ نے مجھے اپنے ہارش رویے سے مسلسل تکلیف دی۔۔۔" وہ ایک بار پھر باہمت بنتے تعنہ دے چکی تھی

تم نے صفائ تو مانگی نہی تھی تم نے تو الزام لگایا تھا اب اس کے بدلے پیار تو دینے سے رہا میں۔۔"

وہ تنز کرتے بولا اس لمحے اسے واقعی غصہ آیا تھا

اور جو آپ نے کیا اس کا کیا میری تعریف تو دور مم۔۔۔

مجھے ایک گفٹ تک نہی دیا گھر میں میری ماں سمیت سب کو فیس تو مجھے کرنا پڑتا ہے نہ آپ کو اس سے کیا"

میں جو بھی فیل کروں آپ کو فرق ہی نہی پڑتا یاد ہو تو مجھ پر تھپڑ کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا آپ نے"

وہ اس کے سرد لہجے پر آنسو نکلنے پر چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا چکی تھی اس کے سارے شکوے اسی سے کرتے اس کی مزید بے رخی اسے کھل سی رہی تھی

مجھے ہمارے رشتے میں اعتماد چاہیے ایگو نہی ریحہ ۔۔"

وہ اس کے چہرے کو ڈھکے ہاتھوں کی پشت پر لب رکھتے انہیں ہٹا چکا تھا


اپنی تعریف سننے کے لیے آج رات میری نظروں میں دیکھو پھر"

گفٹ پھر کے لیے ادھار رکھ لو یار"

اس کی سرخ آنکھیں دیکھ اپنا محبت سے لبریز لمس اس کی پیشانی پر دیتے وہ محبت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکا تھا اس کے لہجے کی نرمی محسوس ہوتے وہ آنکھیں وا کرتے اس کے چہرے کو تک رہی تھی وہ اسے مزید اکسا رہی تھی وہ جھکتا کے کے وہ اس کے سینے پر دونوں ہاتھوں کا زور دیتے چہرا موڑے اس کی اس قدر شدید قربت کے حوالے سے انجان سی اپنی بے ترتیب دھڑکنیں بامشکل سنبھالے تھی


سوچنا بھی مت آج جائے فرار"

اس کی کلائیاں چومتے وہ سب کچھ بھلائے بس اس لمحے اس کی طلب چاہ رہا تھا وہ بے بس سی ہو گئ تھی

مجھے تمہارے پاگل کرتے بالوں سے لیکر تمہارے چہرے کے ہر نقش سے محبت ہے"

اس کا ہر نقش اپنی محبت سے آشنا کراتے وہ ابتر ہوتی سانسوں میں اس کے اعتراف سے لیکر اس قدر شدید عملی ثبوت پر سرخ سی اس کے رحم و کرم پر تھی جو اس کے بال جوڑے کی ڈھیلی سی زد سے اب آزاد کر چکا تھا

وہ اپنی بے ترتیب حالت پر سنبھلتی کے اپنی گردن پر اس کا احساس محسوس کرتے وہ اس کا کندھا دبوچ چکی تھی

اس لمحے اس کی بند آنکھوں کی جانب دیکھتے وہ مسکرایا تھا


آر یو ایگری۔۔۔"

اس کی بند آنکھوں پر لب رکھے تھے

اس پر دوبارہ قابض ہوتے وہ اس کے کان میں سرگوشیاں کرتے بہک سا رہا تھا کے وہ بے جان ہوتی سانسوں سے رونے والی تھی جو خود اس کو اپنی قربت کی دعوت دے چکی تھی


ایگری ہے میری جان"

بوجھل سے لہجے میں اس کے بالوں میں چہرہ چھپائے وہ حامی چاہتے مزید فاصلے مٹانے کے در پہ منتظر تھا وہ ان لمحات کی گرفت میں جاتے چاہ کے بھی اسے نہی روک پا رہی تھی جو اب اس کی انگلیاں اپنی انگلیوں میں رفتہ رفتہ الجھا رہا تھا

اس سے نظریں نہ ملاتے بے اختیار اس کے سینے میں چہرہ چھپا چکی تھی

اس کے اعتراف پر نرمی سے اس پر اپنی محبت کے سارے رنگ چڑھاتے وہ اسے گزرتی رات کے ساتھ لمحہ با لمحہ مزید خود کے لیے دیوانہ وار اثیر کر رہا تھا


----------------------------------------------------


گلاس وال سے پڑتی روشنی اس کو دکھتی آنکھیں کھولنے پر مجبور کر رہی تھیں

خود کو بستر پر پاتے وہ حیران سی تھی روم میں نظر ڈالی وہ نہی تھا


غاز۔۔۔"

بکھرے بال مٹھی میں تھامتے وہ زیر لب بڑبڑاتے روم سے باہر آئ تھی

وہ فریش سا سیاہ جینز پر پرپل شرٹ میں اپنا ناشتہ ٹیبل پر لگا رہا تھا

اس لمحے نظر اس کے ہاتھوں پر ٹھہر سی گئ تھیں جو ٹیبل کو صاف کر رہا تھا

وہ اس کو اس طرح کرتے دیکھتے عجیب شرمندہ ہوئ تھی


م۔۔میں کرتی ہوں۔۔"

اس کے ہاتھ سے کپڑا لیتے وہ قریب جاتے رات کی تلخی بھلائے بولی تھی جیسے ان کے درمیان سب نارمل ہو


تم خود کو ہینڈل کر لو وہی کافی ہے۔۔"

اس کے اس قدر سرد جواب پر بڑھایا ہاتھ تھما تھا


وہ چئیر کینچھتے بیٹھ گیا تھا سلیو فولڈ کرے اب روز مرہ کے ناشتے میں انہماک سے مصروف ہو گیا تھا جیسے وہ وہاں اکیلا ہو

اسے ہمیشہ کی طرح آج ناشتہ کا نہی پوچھا تھا


نہی آج میں آپ کے ہاتھ سے کھاوں گی"

وہ دونوں ہاتھوں سے پلیٹ ان کی جانب کھسکاتے بولی تھی


کیوں نور آج بے بی بن گئ ہے بابا کی"

وہ اس کے منہ میں نوالے ڈالتے مسکراتے بولے تھے

چمچ خاموشی میں گرتے اسے حال میں واپس لایا تھا


مجھے بابا کے پاس جانا ہے"

کیا مجھے جاتے ہوئے ڈراپ کر دیں گے"

وہ پلکوں کے کنارے جمے آنسو ضبط کرتے بولی تھی


چلو دو منٹ میں باہر آو۔۔۔"

وہ آخری نوالہ اس سے بے رخی اپناتے بامشکل حلق میں اتار پایا تھا

---------------------------------------------------

وہ مرر کے سامنے لمبے گیلے بال خشک کر رہی تھی

جب واشروم کا دروازہ کھلا تھا وہ ٹاول سٹینڈ پر لگاتے اس کو پیچ گھٹنوک تک آتی سادہ فراک میں دیکھتے مبہم سا مسکرایا تھا ٹاول سٹینڈ پر رکھتے وہ قدم قدم چلتے اس کے پیچھے آیا تھا

اس کا عکس اپنے پیچھے دیکھتے اس کے ہاتھ سے کنگا چھوٹا تھا رات اسے چاہ کے بھی وہ روک نہی پائ تھی وہ خود بھی تو دانستہ اس کی قربت ہی چاہتی تھئ اس کی محبتیں شدتیں سوچتے وہ اس کی موجودگی سے بے حال ہوتے اس لمحے سرخ ہوی تھی

اتنی سرخ کیوں ہو رہی ہو"

اس کے کندھے پر تھوڑی ٹکائے شیشے سے اس کا عکس دیکھتے مزید بوجھل لہجہ ہوا تھا

مم۔۔مجھے نہی پتہ پیچھے ہوں۔۔"

وہ چہرا جھکائے لب کچلتے جھجکتے خجل سی ہوئ تھی

کم ڈاون۔۔"

وہ اس کو جھجکتے دیکھ اس کا رخ اپنی جانب کر چکا تھا اپنی محبت سے چمکتے اس کے ہر نقش کو محبت سے دیکھتے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے اپنائیت کا احساس دیتے مزید خود کا اثیر کر چکا تھا

Welcome to my life"

اس کی سرخ پڑتی ناک چومتے اس کے بال کندھے سے ہٹاتے وہ لب رکھ چکا تھا وہ اکھڑی سانسوں سے اس کے سینے میں چہرہ چھپا چکی تھی

اس کا چہرہ سامنے کرتے سارے رنگ دیکھے تھے

یار آپ نے میری بیوی کو دیکھا رات سوری کرنے کے بعد کھو گئ ہے کہیں"

اس کے شرمائے روپ کو دیکھتے وہ ہونٹوں کی مسکراہٹ ضبط کرتے بولا تھا

اس کی بات پر اس کے سینے پر پنچ مار چکی تھی

آپ چیٹر ہو۔۔"

م۔۔میں نے کوئ سوری نہی بولی تھی۔۔"

وہ پل میں اس کی نظروں کی تاب نہ لاتے نظریں جھکاتے پیچھے ہوتی کے وہ اسے حصار میں لے چکا تھا


سوچنا بھی مت"

تمہاری ہر صبح میرے حصار میں ہو گی

اس کو واضع تنبیہ کرتے وہ جنونی سا ہوتے اس کے چہرے پر پھر سے جھکا تھا

دروازہ نوک ہوا تھا جو آج کافی لیٹ تھے دروازہ نوک ہوتے اب بند ہو گیا تھا

حان۔۔"

اس کی شرٹ پر زور دیتے وہ پاگل ہوتی سانسوں میں بولی تھی

Han sound nice "

اس پر نظر ڈالی جو سرخ سی چہرہ جھکائے گہرے سانس بھرتے خجل ہو رہی تھی


یہ والی شرماتی ریحہ جان لے رہی ہے میری"

اس کی حالت پر ترس کرتے وہ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ لیے پیچھے ہوا تھا

وہ بامشکل چہرے کے رنگ چھپاتے بال باندھتے بیڈ پر پڑا دوپٹہ لیتے اس کی پرشوق نظروں سے بچ رہی تھی


تمہارے بھائ اور بھابھی نہی آئے ناشتے پر۔۔"

تمہاری بھابھی کو ہونا چاہیے تھا میرا آج فرسٹ ڈے تھا مجھے پروٹوکول ملنا چاہیے تھا"

دانین نے ٹیبل پر ازہان سے مخاطب ہوتے پوچھا تھا


اس گھر کی فرد ہو اب تم دانین۔۔"

وہ قدرے نارمل لہجے میں اس کا چہرا دیکھتے بولا وہ بدل رہی تھی یا وہ ہے ہی ایسی تھی


سوری بڑی مما۔۔"

وہ شرمندہ سی ٹیبل پر آتے باقی کے ناشتے کے برتن ان کے ساتھ سیٹ کرتے بولی تھی

شادی کے بعد سے ان کا کھانے کا سسٹم علیحدہ سا ہو گیا تھا وہ اکثر اپنی ماں کی باتیں مس کرتی تھی

سانیہ نے محبت پاش نظروں سے اس کے شرمائے روپ کو دیکھتے اس کے پیچھے احان کے مسکراتے چہرے دیکھا تھا


کوئ بات نہی ایک آدھ دن لیٹ ہونے پر میری مما سزا نہی دیتی۔۔"

وہ چئیر پر بیٹھتے بولا تھا ریحہ نے آنکھیں دکھائیں تھیں


دانین اس شخص کو شوخ ہوتادیکھ حیران تھی ریحہ کی جانب دیکھتے وہ اس سے مخاطب ہوتی کے اس کی ماں اور اس کا بھائ اس کا ناشتہ لے کر آئے تھے وہ اور ازہان ان کی جانب متوجہ ہو گئے تھے اب


آپ کو یہ تکلف کرنے کی ضرورت نہی تھی

وہ رسانیت سے بولیں تھیں


یہ تو رسم ہے نہ تکلف کی تو کوئ بات ہی نہی"

ریحہ نے وہ سارا ناشتہ بھی احان کی نظروں سے بچتے ٹیبل پر سیٹ کیا تھا وہ اسے مزید تنگ کر رہا تھا

آپ تو کوفی لیتے ہیں۔۔"

وہ اس کو اپنا آدھا چائے سے بھرا کپ لبوں سے لگاتے دیکھ بولی تھی

ٹیسٹ چیک کر رہا تھا یار کڑوی ہے یا میٹھی۔۔"

اس کو آنکھ مارتے وہ اپنے لبوں کی مسکراہٹ چھپانے کو کپ پر جھکا تھا

وہ تو اس کی رات کی بے باک حرکتوں پر دھنگ ہوتے اپنے وجود سے سب کی موجودگی میں اب دھواں اٹھتا محسوس کر رہی تھی آیا کے یہ وہی احان تھا یا اس سڑو کا ڈپلیکیٹ"

وہ جھرجھری لے چکی تھی


---------------------------------------------------


میں نے آپ کو مس کیا

مجھے آپ کے ہاتھ سے ناشتہ کرنا تھا اسی لیے آئ میں"

وہ ان کے کندھے پر سر رکھے تھی ابھی کچھ دیر پہلے وہ اسے ان کے گھر کے باہر ڈراپ کر گیا تھا پورے راستے اس نے ایک بھی نظر نہی ڈالی تھی بلکہ ڈرائیو میں مصروف رہا تھا


لاونج میں کاوچ پر اس کے ساتھ بیٹھے زبیر مسکرائے تھے جو ابھی بچی بنی تھی


غازیان اندر کیوں نہی آیا۔۔۔"

اسے ناشتہ کرواتے وہ پریشان سے ہوئے تھے

وہ بزی تھے۔۔"

وہ نظریں چراتے بولی وہ چاہ کہ بھی ان سے ڈسکس نہی کر سکتی تھی

بابا مجھ سے شادی کی کیا شرائط رکھی تھی آپ نے جو وہ مجھے اپنا گیا

اس کو آپ کے روم کے لیے بنائ میری ساری پینٹنگز بھی دے دی"

وہ پراٹھے کا آخری نوالہ لیتے اب کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی تو اس موضوع کی جانب آئ تھی ورنہ تو وہ ابھی بھی صبح اس کو اکیلے ناشتہ کرتے دیکھ صدمے میں تھی


بغیر کسی شرائط کے تمہیں اسے سونپا ہے نور وہ مجھے بے بس کر چکا تھا تم مجھے خود غرض سمجھ رہی ہو کہ اپنی بیٹی کی قیمت لگائ میں نے"

مجھ سے بدگمان اور نفرت کبھی نہی کرنا"

تم واحد میرے جینے کا سہارا ہو جس کے لیے تمہارا باپ زندہ ہے"


رہی بات ان پینٹنگز کی اس نے جہیز میں پینٹنگز مانگی تھیں"

وہ ایک الگ ہی کیس ہے میں ابھی تک اسے سمجھ نہی پایا ہوں کیا وہ تمہیں جانتا تھا

ن۔۔نہی۔۔" اب وہ محض وقتی ملاقات تو بتا نہی سکتی تھی

نور کالج جانا کب سٹارٹ کرنا ہے" وہ اس کو نرمی سے اس موضوع کی جانب لائے تھے

میں برتن سمیٹتی ہوں" وہ انجان بنتے اٹھی تھی جبکہ وہ بے بس سے اس کو کیچن میں کک سے الجھتا دیکھ رہے تھے جو ان کی ڈائیٹ کے حوالے سے سمجھا رہی تھی

وہ اپنے روم میں تھی

شاور لیتے مہرون اور سفید امتزاج کے کپڑوں میں وہ بالکنی میں تھی جب نیچے مالی اور ڈرائیور کو کسی عورت سے الجھتے دیکھا تھا

وہ اندر جانے پر شائد بضد تھی

نور روم سے دوپٹہ سنبھالتے باہر کی جانب بڑھی تھی

کیا مسلہ ہے۔۔"

نور میڈم کیسی ہیں آپ۔۔"

نور کو کچھ جانی پہچانی سی لگی تھی

جی کہیں آپ لوگ جائیں۔۔"

وہ اسے اندر لاتے بولی تھی

میرے شوہر زبیر صاحب کے گارڈ ہیں پچھلے تین سالوں سے"

مجھے مدد چاہیے وہ لاپتہ ہیں پرسوں سے

یاد آیا آپ کے شوہر تو میری مدد کر سکتے ہیں

ابھی پچھلے دنوں آپ کے پاس میری بیٹی کو بھی تو لے کر گئے تھے نہ"

یاد پڑا آپ کو کچھ"

وہ اپنے تئ اسے بتا رہی تھی جبکہ وہ تواس انکشاف پر سفید پڑتی جا رہی تھی

وہ مزید بولتے واسطے دیتی کے وہ چلائ تھی

نکلیں میرے گھر سے ابھی"

وہ چلائ تھی کے بے ساختہ زبیر بھی لاونج میں اس کے چلانے سے آئے تھے

وہ حیران تھے وہ کبھی کسی سے اس لہجے میں نہی بولی تھی تو پھر کیوں"


نور کیا ہوا بیٹے کون ہے یہ"

وہ حیران کن سے تھے


آپ کی بیٹی کے مجرم کی بیوی بابا یہ آپ کے گارڈ کی بیوی ہے"

اسے کہیں نکل جائے یہاں سے"

وہ مزید آپے سے باہر ہوتی کے زبیر تو خود اس انکشاف پر حیران تھے


چلو بی بی۔۔۔"

زبیر کے اشارے پر مالی اسے باہر زبردستی اس کی بدعائیں سنتے لے جا رہا تھا


نور تم۔۔" وہ اس کو سنبھالتے صوفے پر لائے تھے


وہ جانتا ہے سب کو بابا وہ جانتا ہے وہ سب کے بارے میں جان گیا ہے وہ آپ کی بیٹی کے سارے مجرموں کے بارے میں جان گیا ہے"

جب کے وہ جان گئے تھے وہ شخص اس کی قید میں ہے

یہ سب غارت ہو جائیں مجھے سکون آ جائے گا ورنہ جب تک وہ اس فضا میں کھلے عام سانس لے رہے ہیں مجھے وہ ازیت نہی بھولے گی"

میں اسے بھی ہرٹ کرتی ہوں اسے بھی تکلیف دیتی ہوں"

وہ اس کے مزید انکشافات پر حیران تھے وہ ابھی بھی نارمل زندگی کی طرف نہی آئ تھی اور وہ سمجھ بیٹھے تھے کے وہ کچھ سنبھل چکی ہے

---------------------------------------------

سیاہ رات اپنے پر پھیلائے تھی

سامنے گلاس دانستہ ہونٹوں سے لگائے وہ چاروں طرف نظریں بھٹکا رہا تھا


یہ چٹ اس میم کو دو۔۔"

پر۔۔" ویٹر نے کچھ کہنا چاہا تھا جب وہ سیاہ ہڈ میں موجود شخص چند نوٹ اس کی مٹھی میں تھما چکا تھا


سامنے موجود دانیال نشے میں مکمل دھت ہوتے بھی اپنے سامنے موجود لڑکی پر گہری غلیظ نظریں ڈالے تھا


فائینل کلائمیکس تھا بس

آج دن کی باتیں یاد آئیں تھیں

اس ملک میں ملزم کو مجرم ثابت کیا جاتا ہے

غازیان وہ بہو ہے میری تمہیں عدالت تک نہی جانے دوں گا

ایسے کیسیس میں میرے نزدیک نقصان کے علاوہ کچھ نہی ہے"

تو ان کو جانتے ہوئے بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھا رہوں ڈیڈ مجھے ہینڈل کرنے دیں یہ معاملہ آپ اور جسٹس صاحب مداخلت نہی کریں

میں اسے ایکسپوز نہی کروں گا پاگل نہی ہوں میں پر اس شخص کو عبرت ناک سزا تو دے سکتا ہوں نہ"

وہ آگ بگولا ہوتے دل کی آگ مزید بڑھکانے کو ٹیبل پر پڑی چابیوں اور سیل فون کے ساتھ پڑے سیگریٹ کے پیکٹ میں سے سگریٹ سلگا چکا تھا

سموک الاو نہی میرے آفس میں۔۔"

وہ سیگریٹ جلاتے دیکھ ناگواری سے بات بیچ میں روکتے بولے تھے

وہ گہرے کش لیتے دھواں چھوڑ رہا تھا اور صبح کی اپنی اس سے اپنائ بے رخی محسوس ہوئ تھی

سنا نہی تمہیں۔۔"

گھر اس کی وجہ سے نہی پیتا یہاں یہ"

وہ بڑبڑاتے ان کی ایک گردان سے "

شوز کے نیچے مسلتے ان کے بنائے قوانین کی پاسداری کرنے پر مجبور ہوا تھا کیونکہ وہ ان کے آفس میں تھا اس وقت

یہ ایک نازک معاملہ ہے تم بہتر طریقے سے جانتے ہو سارے پوائینٹس سوچو خود"

نور کالج سے کڈنیپ ہوئ تھی تو اس کا کا بیگ اور سیل فون ابھی بھی ان کے پاس ہو گا وہ اپنی مرضی سے آئ تھی وہ کوئ بھی بات بنا سکتے ہیں غازیان

وہ سر مسلتے خود سے بولا تھا

اس نے اتنی باریکی کے پوائنٹ سوچے ہی نہی تھے وہ اس کو ایکسپوز تھوڑی کرنا چاہتا تھا

سٹرونگ پارٹی ہے ایری غیری نہی وفاقی وزیر کا بیٹا ہے تو ایسے لوگوں کے لیے گواہان خریدنا مشکل نہی ہوتا

صرف ڈیٹ پر ڈیٹ ملے گی سوالات علیحدہ سے کیا وہ فیس کر پائے گی یا میں ہرگز نہی کیسے کیسے گھٹیا سوالات پوچھے جاتے ہیں

میڈیکل رپورٹ سے لیکر کیا کیا

نہی مزید نہی ایسے درندوں کو خود ہی ختم کر دینا چاہیے"

یہ ساری سوچیں اس کو اس نہج تک لائیں تھیں

ویٹر نے گلاس سمیت وہ چٹ اس لڑکی کو تھمائ تھی

وہ پڑھتے وہ اس کی جانب دیکھتے مسکرائ تھی

چند لمحوں بعد دانیال اس کے ساتھ لڑکھڑاتے قدم بھرے نشے میں چور تھا

وہ اوپر جاتے روم میں بند ہوا تھا کے پولیس کے سائرن پر وہ سارے ریڈ ایریا پر چھاپہ پڑا تھا

سب کی گرفتاری ہو گئ تھی

دانیال حیران تھا کے وہ اس پر جھکی سی تھی وہ اس کو بند ہوتی آنکھوں سے چھوتا کے اس کے ہاتھ ہل ہی نہی پا رہے تھے

بند ہوتی آنکھوں میں اسنے خود کے ہاتھوں پر ہتھکڑی لگی دیکھی تھی

میرا بیٹا دو دن سے گھر نہی آیا مجھے گھر چاہیے آپ یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں ہیں آپ کی پاور کہاں گئ"

وہ کوئ دودھ پیتا بچہ نہی ہے جس کی انگلی پکڑتے مجھے گھر لانا ہے"

میر سبطین غصے سے بولا تھا

لیکن حیرت تو یہ تھی اگر پولیس نے سب کو اس ریڈ ایریا سے گرفتار کیا تھا تو وہ کہاں گیا تھا لاسٹ ٹائم اس کی سم کی لوکیشن وہی کی تھی

وہ اب واقعی پریشان تھا آخر وہ کہاں جا سکتا ہے

انکل وہ ہمارے ساتھ ہی تھا پھر وہ وہاں ایک لڑکی کے ساتھ مصروف ہو گیا ہمیں نہی پتہ پھر اب پولیس کی گاڑی کے سائرن سے بھاگ نکلے"

جبکہ دوسرے اس کے ساتھ پائے جانے والے شخص کی ضمانت کرا دی تھی

یہ سارے امیر باپ کی بگڑی اولاد جن کے لیے جیل جانا اور وہاں کی ہوا کھا کے اگلے دو سے تین گھنٹوں میں آرام سے باہر نکل آنا محض ایک کھیل تھا

جبکہ میر سبطین اب واقعی پریشان تھے وہ اتنا غیر زمیدار کیسے تھا کے فون ہی بند کر دے"

فکر کی پرسوچ لکیریں ابھری تھیں


----------------------------------------------


مسلسل تیز بجتے الام کی آواز سے

وال کلاک پر نظر ڈالی جہاں ساڑھے سات بجنے والے تھے

شٹ نماز پڑھ کے دوبارہ سونے کی وجہ سے آنکھ کافی لیٹ کھلی تھی جس کا اندازہ اسے اچھے سے ہو چکا تھا

بھک سے نیند اڑی تھی وہ کافی لیٹ ہو گیا تھا

اے سی اوف کرتے اپنے پہلو میں سوئ لڑکی پر نظر ڈالی جو سارے بال اس پر پھیلائے اس کے سینے پر سر رکھے گہری نیند میں محو تھی


اریحہ۔۔"

احان نے محبت سے چور لہجے میں اس کا سر تکیے پر رکھتے پکارا تھا

پر وہ ٹس سے مس نہی ہوئ تھی

اسکی پیشانی پر جھکتے لب رکھتے اس کے بکھرے بال سمیٹے تھے جو اس وقت ملگجے اندھیرے میں کم از کم چڑیل کا منظر پیش کر رہی تھی

وہ جان گیا تھا کے اسے نیند سے جگانا ایک مشکل کام ہے"

ریحہ میری جان لیٹ ہیں ہم جلدی سے اٹھ جاو یونیورسٹی نہی جانا

اٹھو شاباش۔۔"

اس پر جھکے اب لیٹ ہونے کی فکر سے خود ایک پاوں میں چپل اڑیستے اس کی گال تھپتھپائ تھی

نہی مجھے نہی جانا"

وہ مسلسل ڈسٹربنگ سے کروٹ لیتے ماتھے پر بل لائے کسمسائ تھی کے سارے بال اس کی پشت پر بکھرے تھے

وہ گہرا سانس بھرتے تھم گیا

احان کو پتہ تھا معمولی کاروائیوں سے وہ ہرگز نہی اٹھنے والی ہے"


اگلے لمحے خود بستر سے نکلتے اس کی کمر اور گردن میں ہاتھ ڈالتے اسے بازوں میں بھرتے بیڈ سے اترتے اپنے مدمقابل کیا تھا

وہ نیند میں ادھ کھلی آنکھوں سے اپنے وزن پر کھڑے ہونے سے بوکھلائ تھی بروقت اگر نہ تھامتا تو زمین بوس ہوتی وہ


کیا مسلہ ہے سونے دیں مجھے کیوں میری نیند کے دشمن بنے ہیں"

وہ اس کی گردن میں دونوں بازو حائل کیے نیند سے بوجھل لہجے میں بولتے اس کے سینے میں منہ چھپائے پھر سے آنکھیں موند گئ تھی

اس کی گرم سانسیں سینے پر محسوس کرتے وہ مزید ان حسین لمحوں کی زد میں جانے سے خود کو باز رکھے تھا

میں شاور لے کر آ رہا ہوں دو منٹ میں اپنی نیند دور کرو۔۔"

اسے صوفے پر بٹھاتے وہ کوئ چونچلے افورڈ نہی کر سکتا تھا لہذا واشروم کا رخ کیا تھا


پندرہ منٹ بعد واپس آنے پر شدید صدمے میں تھا وہ وہی صوفے پر ہلکا سا منہ کھولے بے ترتیب سی ٹانگیں صوفے سے نیچے لٹکائے سوئ پڑی تھی


اف سب سے پہلے تو تمہیں ڈسپلین میں لانا پڑے گا پردے ہٹاتے بالکنی کا دروازہ کھولتے

نظریں بھٹکتے اس کے چہرے سے وجود میں اٹک رہی تھیں وہ مخصوص چمک لیے ایک گھٹنا فولڈ کیے اسپر صوفے پر ہی جھکا تھا

آنکھیں مسلسل کچھ گیلا محسوس کرتے پھٹنے کے قریب تھیں جب اس کو خود پر جھکے دیکھا جس کے بھیگے بال اور بیرڈ اسے مسلسل پریشان کر رہی تھی

حان۔۔"

ہوش میں آتے اس کے سینے پر زور دیتے سارے تقاضے ہوئے تھے کے وہ اس وقت کس حلیے میں تھی

لیکن اب وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتے اس کی ناک پر لب رکھتے جھک آیا تھا

اس کی بڑھتی جسارتوں پر وہ بوکھلائ سی چہرہ موڑ چکی تھی

تمہیں نیند سے جگانے کا طریقہ"

گہری نظریں ڈالتے وہ خود پر ضبط کیے پرے ہوا تھا

لیکن مجھے کیوں اٹھایا ہے"

وہ اس کے دور جانے پر بگڑا تنفس سنبھالے اب رف سے بال لپیٹتے فوری سے دوپٹہ ڈونڈھنے کی تگ ودود میں ہوئ تھی جو بیڈ سے آدھا نیچے فرش پر جھول رہا تھا

کیا مطلب کیوں اٹھایا ہے یونیورسٹی جانا ہے تم نے" اس کے بگڑے منہ سمیت اپنی محبتوں کا رنگ اچھے سے نظروں میں اتارا تھا

میرا دل نہی کرتا بس مجھے نہی جانا اب سے مزید پڑھ کے کیا کرنا"

کرنے تو کام ہی نہ کوئ جوب تھوڑی کرنی مجھے"

وہ بیڈ کے قریب گئ تھی اس کے بولنے سے پہلے فوری سے شیٹ درست کرتے برے منہ بناتے کمفرٹر طے لگایا تھا

بہت غلط سوچ ہے تمہاری تمہیں لگ رہا ہے میں تمہیں ایسے چھوڑ دوں گا اونرز کمپلیٹ کے بعد تم ایم فل میں بھی ایڈمیشن لے رہی ہو پھر پی ایچ ڈی"

وہ کبرڈ کھولتے کپڑے دیکھتے افسوس کرتا رہ گیا جہاں اس نے اپنے کپڑے بغیر طے لگائے مڑوڑ چڑور کے پھینکے ہوئے تھے اس کی سائیڈ بھی تھوڑی خراب ہی تھی

ہولڈ اون ایم فل پی ایچ ڈی"

مجھے کوئ علامہ اقبال نہی بننا

میں ہرگز نہی پڑھوں گی یہ میرا لاسٹ سمیسٹر ختم ہو اور میری جان چھوٹے بس مجھے مزید نہی پڑھنا ساری زندگی پڑھتے دماغ گھستے رہو فضول میں بس۔"

اسے باور کراتے وہ واشروم میں بند ہوئ تھی

دیکھ لوں گا تمہیں میں۔۔"

وہ پیچھے سے ہانکتے سر جھٹکتے ڈریسنگ کے سامنے آیا تھا


---------------------------------------------------


میں جب اداس ہوتی تھی

بابا سے ضد کر کے شاپنگ آوٹنگ نیو ہیر کٹ لیتی تھی

اپنے پونی میں جھکڑے بال دیکھے جو قدرے رف سے لگے تھے سفید پلاوزو پر سیاہ ٹی شرٹ میں شیشے میں اپنا ابھرتا عکس مزید کمزور سا لگا بے رونق سا چہرہ جیسے خوشیاں تو روٹھ ہی گئ ہیں مجھ سے"

وہ گال چھوتے بولی

غازیان کی جان"

بے ساختہ لفظوں کی گونج سمیت اس کا شدت بھرا لمس یاد آتے گال تمتما اٹھے تھے کے چہرا خودبخود خون چھلکانے لگا چند لمحے پہلے دکھنے والا چہرہ اب خاصہ حیران کر گیا اسے


I want a normal life.."


میں تمہیں شاید کبھی وہ سکون نہ دے پاوں جو ایک بیوی دے سکتی ہے"

بٹ سٹل مجھے تم۔۔"

وہ بولتے بولتے رکی تھی جب اپنی گال نم ہوتی محسوس ہوئ تھی

وہ اسے مس کر رہی تھی

کیوں وہ سمجھ ہی نہی پا رہی تھی


نور۔۔"

زبیر کی آواز سے وہ گال صاف کیے وہ سٹولر گلے میں لپیٹے باہر گئ تھی


گھر رہ کر فزیکل ہیلتھ پر بھی نوٹس لو تم ڈاکٹر بن رہی ہو نور تم تو چیزیں بہتر جانتی ہو

مارننگ واک ہی کر لیا کرو مینٹل اور فریکل ہیلتھ دونوں ضروری ہے میں کیسے سمجھاوں تمہیں

یہ میری بیٹی مجھے بلکل نہی لگتی"

وہ اس کا ہاتھ تھامے گارڈن میں چلتے اسے سمجھا رہے تھے


چلو آج تم میرا مقابلہ کرو۔۔"

ریس میں مجھے کوئ بھی نہی ہرا پایا

ہم دونوں ریس لگائیں گے"

وہ شوز کے لیسس بند کرتے اسے بھی جوگنگ پر لے جانے پر بضد تھا


مجھے نہی کرنا مجھے نہی جانا"

وہ دھیمے سے بولتے اس کے بکھرے بالوں والے ماتھے پر تیوری دیکھے منہ موڑ چکی تھی اپنا دھیان اس کے گھر میں موجود چھوٹے سے لان کی جانب کر چکی تھی اگر وہ آج باہر آ ہی گئ تھی تو اس نے نئ رٹ لگا لی تھی


پھر میں تمہیں اٹھا کر ریس لگاوں"

دونوں گرے تو ساتھ میں گریں گے"

وہ مخصوص مسکراہٹ لیے اس کی جانب بڑھا تھا وہ نا سمجھی سے رخ موڑے ہلکی گھاس مٹھیوں میں نوچے بیٹھی رہی


نو نو غازیان پلیز سٹے آوے"

اس کے کچھ سمجھنے تک وہ اسے بازوں میں بھر چکا تھا


لوگ کیا کہیں گے" وہ اسکی شرٹ میں چہرہ چھپائےخجل سی ہوئ تھی


لوگ کہیں گے ایک ہینڈسم لڑکے کو کوجی سی لڑکی نے پھسا لیا"

وہ مسکراتے گیٹ عبور کرتے بولا تھا


ہینڈسم لڑکا نہی مرد"

وہ تصیح کرتے اس کا وجہہ چہرہ دیکھتے پھر سے منہ چھپا چکی تھی

جب وہ مقابل اتارتے اس کا ہاتھ تھام چکا تھا

اب تم بھی اس مرد کے ساتھ کم ازکم لڑکی نہی عورت لگو گی"

پہلی دفعہ وہ اس کی بات پر لب دبائے مسکرائ تھی تو کیا وہ اپنی خوبصورتی کے قصیدے سننے میں انٹرسٹڈ تھا

سمجھ رہی ہو نہ میں کیا سمجھا رہا ہوں

ہاں میرا مطلب جی بابا۔۔"

وہ ہوش میں آئ تھی

وہ اب بدل رہا تھا وہ اس سے جس خواہشات کا طالب تھا ان کو پوری کرنے سے اسے خوف آتا تھا

-------------------------------------------------

مجھے ابھی پراٹھا سہی سے بنانا نہی آتا خشک روٹی تو پھر بھی آتی تھی"

کیچن میں آتے فریج سے چیزیں لیتے وہ بڑبڑائ تھی کہاں سنگل لائف کے سکون تھے وہ سوچ سکی

خیر کوشش کے بعد وہ بنانے میں کامیاب ٹھہری تھی

ریحہ کیا کر رہی ہو بیٹا اتنی جلدی اٹھ گئ کچھ چاہیے تھا تو مجھے بتا دیتی"

سانیہ کیچن میں آتے خوشگوار حیرت سے بولیں تھیں"


یہ جلدی نہی مما احان لیٹ ہو گئے ہیں"

اور ایک بات یار اتنی اچھی کیوں ہیں آپ کوئ مزہ نہی آ رہا مجھے تھوڑی ساس والی ٹف فیلنگز دیں تاکہ میں آپ کے بیٹے سے شکایت لگاوں اور پھر بہت سے ایڈوینچرز اور لڑائیاں ہوں ہماری"

وہ ایک نظر ان پر ڈالتے بولی تھی

اس کو توے سے دو فٹ دور ہوتے روٹی ڈالتے دیکھ اس کی بات سے وہ مسکرائیں تھیں


لیکن وہ تو ناشتہ ہیوی نہی کرتا" وہ اس کو اب گھی لگاتے دیکھ حیران ہوئیں تھیں


کیا لیکن وہ کہہ رہے تھے مجھے پراٹھے ہی کھانے ہیں حالانکہ مجھے بنانے بھی نہی آتے"

شدید غصہ آیا تھا

نہی کھاتا وہ پراٹھا اتنی صبح جس دن لیٹ جائے بس اس دن وہ ہیوی ناشتہ کرتا ہے تنگ کر رہا ہے تمہیں"

بڑے ڈیش ہیں آپ پر بیٹا مجھ سے پالا پڑا ہے آپ کا دو دن فری کیا ہوئ مجھے تنگ کرنے کی پلینیگز سوچ ہے آپ کی"

بڑبڑاتے رات کا سالن اوون میں گرم کرتے اب باول میں نکالا تھا

تب تک کیچن میں ازہان آیا تھا وہ تیار سا تھا

ری یونی جانا ہے تم نے" کسی طرح تو مخاطب کرنا تھا نہ یہ جواز بہتر لگا پتہ نہی کیوں وہ احان کو پتہ لگنے کے بعد خود سے بھی نظریں چراتا تھا

ہاں۔۔"

وہ سانیہ کی وجہ سے جواب دیتے ناشتے کے برتن لیتے کیچن سے باہر ٹیبل پر سیٹ کرنے گئ تھی

وہ اس کے سپاٹ جواب اور خود کو نظر انداز کرتے دیکھ پریشان ہوا

بندہ پوچھے اب میں لیٹ کر رہی ہوں نہ"

فون پر ٹائم دیکھا تھا جہاں ساڑھے آٹھ تھے اس کی کلاس دس بجے تھی پھر بھی احان کی وجہ سے وہ جلدی جا رہی تھی

کیسی ہیں ریحہ بھابھی سہی سے ملاقات کا شرف ہی نہی بخشا آپ نے تو"

دانین سیاہ گاون پر گرے حجاب میں اسے باقاعدہ دیکھ نہی گھور رہی تھی جس کے کندھے پر بلیک ہی بیگ جبکہ ہاتھ میں سیل فون اور فائلز تھی وہ گارڈن میں تھی جب اسے پورچ میں کھڑے پایا تھا

اچھی ہوں آپ کیسی ہیں آپ ہی تو نہی تھی

کل گھر۔۔"

وہ نرمی سموئے مسکراتے یاد آنے پر بولی تھی

چلیں۔۔"

اس کی بھاری آواز سے ریحہ سمیت دانین بھی اس کی جانب متوجہ ہوئ تھی

دانین نے اس کو دیکھا جو سیاہ ڈریس پینٹ پر سیاہ ہی شرٹ کے فولڈ سلیو میں تھا جس سے اس کے ابھری رگوں والے مضبوط سفید رسٹ میں سیاہ ہی ڈائل والی گھڑی نمایاں سی ہو رہی تھی جبکہ کورٹ اس کی دوسری بازو پر تھا بے ساختہ اس نے سوچا تھا سیاہ رنگ اس شخص کے لیے بنا ہے کیونکہ اس کے رسیپشن پر بھی اسی رنگ میں وہ اسے اٹریکٹ کر رہا تھا اس کی رنگت پر خاصہ جچ رہا تھا وہ رنگ"

اب کون لیٹ ہے جناب۔۔"

وہ کاجل سے لبریز بھوری آنکھوں سے گھورتے بولی تھی

ایسے استحاق نہی جتاو کنٹرول کھو رہا ہوں۔۔"

وہ اس کی فائل پر اپنا کورٹ رکھتے دھیمی سرگوشی میں لب دبائے بولا تھا

ریحہ دانین کی موجودگی سے سٹپٹاتے اس سے دور ہوئ تھی جبکہ دانین خود کا نظر انداز کیے جانا اور اس کے چہرے کے رنگ اس کی گئ کسی سرگوشی پر باخوبی متغیر ہوتے دیکھ رہی تھی

اوکے دانین ایکچولی احان جلدی میں ہیں یونیورسٹی سے آ کر آپ سے ملاقات ہوتی ہے"


آ رہی ہوں حان"

وہ اس کے مسلسل ہارن بجانے سے گاڑی کی جانب متوجہ ہوئ تھی


حان۔۔"

زیرلب دہراتے اس کی نظروں نے گاڑی کا داخلی دروازے سے باہر نکلتے تک پیچھا کیا تھا


---------------------------------------------------


ہوش میں آتے خود کو بندھا پایا تھا

دماغ پر زور دیا یہ وہ جگہ تو نہی تھی یہ تو کوئ اور ہی جگہ تھی بلکہ کسی گھر کا سٹور روم لگا جہاں پرانے ٹوٹا گھر کا سامان چارپائ اور ایک دو کرسیوں کے علاوہ پلاسٹک کے ڈبے تھے ایک سیکنڈ میں وہ سارا جائزہ لے گیا تھا

فلیش بیک وہ تو کلب تھا وہ لڑکی روم سب دماغ پر ابھرا

پھر خود کے ہاتھ اس تک لے جاتے وہ اسے چھو نہی پایا تھا


پانی" حلق میں کانٹے سے چھبے تھے


پانی چاہیے" سرد آواز اور آنے والے کو دیکھ نہی پایا تھا پر سر ہلاتے فلحال پانی کی شدید طلب تھی

اس کی جانب بوتل بڑھائ تھی

تو کیسے پی پائے گا رک ہیلپ کرتا ہوں

ڈھکن کھولتے اس کے ہونٹوں قریب لے گیا

i was victim ghaz

تین لوگ تھے وہ"

میں ایک رات سکون سے نہی سو پاتی مجھے خوف آتا ہے میں نارمل نہی ہو سکتی کوئ لڑکی نارمل نہی ہو سکتی

میں مار دینا چاہتی ہوں انہیں جب وہ ایک لڑکی کے ساتھ یہ سب کر کے اسے ہی نہی بلکہ اس کے پورے خاندان کو متاثر کر دیتے ہیں

تمہاری جنگ میری ہے نہ آئ پرومس سب کو خود سزا دوں گا"

بوتل پر گرفت مظبوط ہوتے وہ پانی سارا اس کے چہرے پر انڈھیل چکا تھا

گرم کھولتا پانی اسے ہڑبڑاتے سہی سے ہوش میں لے آیا تھا

ظالم انسان کون ہو تم۔۔۔"

مجھے میر دانیال سبطین کو یہاں رکھنے کا مقصد میرا باپ تیری جان لے لے گا"

تنزیہ نظر ڈالی تھی اس پر

وہ زمینی خدا کیسے بن سکتا تھا پر ایسے لوگوں کو ختم کر دینے میں ہی انسانیت کی بھلائ تھی

اپنے گھر سے زیادہ سیف جگہ اس کو رکھنے کو کوئ نہی لگی تھی

اس کا باپ دو دن سے اس ریڈ ایرے سے گرفتار لوگوں کو چیک کر چکا تھا پر وہ وہاں ہوتا تو ملتا

سر میں نے سارے تھانے چیک کروائے ہیں پر شائد وہ کلب سے کہیں اور چلا گیا ہو ان گرفتار لوگوں میں نہ تو اس کا نام ہے نہ خود دانیال صاحب کی زات

پر آپ بے فکر رہیں میرے ایریا کی ٹیم اپنے فرائض انجام دے رہی ہے"

کوئ دشمنی بھی ہو سکتی ہے کیا پتہ وہ مرگیا ہو ابھی تک"

اس کا چہرہ اپنے بھاری کی پشت تلے دبائے وہ اس کی کرسی کے پیچھے کھڑا لب دبائے اس کی غراہٹ اور چیخیں اپنے ہاتھوں تلے دبائے فون پر دوسری جانب مصروف تھا

میر صاحب سے کہیں حوصلہ ایسے لوگوں کی دشمنیاں بھی تو بہت ہوتی ہیں خیر جلد ہی ان تک ان کے بیٹے کو زندہ ہو یا مردہ ڈونڈھ کر پہنچا دیا جائے گا تب تک وہ اپنے دشمنوں کی لسٹ بنائیں"

آج ایک دن بعد وہ پھر اس روم میں آیا تھا جہاں وہ نڈھال سا قید فون پر اس کی باتیں سن رہا تھا پر ابھی تک وہ وجہ نہی جان پایا تھا

فون جینز کی پوکٹ میں رکھے وہ اس ہڈ والے شخص کو اب دیکھ رہا تھا

مارچ 29 کو جو لوگ تمہارے ساتھ تمہارے فارم ہاوس تھے ان کے نام بتاو"

وہ خود کو چھڑوانے کی زد میں تھا جب پہلی بار اس شخص کی سرد بھاری آواز کانوں کو سنتی محسوس ہوئ تھی

دیکھو جو بھی چاہیے میرا باپ دے گا پر مجھے چھوڑ دو مرد ہو تو چھوڑو مقابلہ سامنے سے کرو"

وہ باہمت ہوتے بھوک اور پیاس کی بے چینی سے نڈھال سا خونخوار ہوتے غرایا تھا

اس کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا تھا

مجھے فضول باتیں ہرگز پسند نہی ہیں جتنا سوال پوچھوں اتنا جواب"

دانیال تو سکتے میں تھا کون تھا یہ شخص جو اس کے پیچھے پڑا تھا وہ ابھی تک اس کا چہرہ نہی دیکھ پایا تھا

دوبارہ پوچھ ہوں تمہارے فارم ہاوس پر کون تھا اس رات"

چیئر کینچھتے اب وہ اس کے سامنے بیٹھا اس کا چہرہ نوچ دینا چاہتا تھا

منہ سیے خون چھلکاتی آنکھوں سے زور لگاتے خود کو چھڑوانے کی تگ ودود میں تھا

دوسری بار کا تپڑ اتنا زور دار تھا کے گردن ڈھلک چکی تھی

مجھے جواب نہ دینے والے لوگ شدید برے لگتے ہیں"

اس کے بال مٹھی میں تھامے تھے

دوبارہ پوچھ رہا ہوں مری سے واپسی پر جب فارم ہاوس تھے اس لڑکی کے ساتھ۔۔"

وہ مٹھیاں بھینچ گیا تھا کے دل چاہا تھا شوٹ کر ڈالے اسے جو جانے کتنی زندگیاں برباد کیے تھا

سیکنڈ کی مار تھی دانیال فوری ہوش میں آیا تھا جیسے معاملہ سمجھ ہو

او آئ سی اب سمجھا بدلہ جسٹس کی بیٹی ویٹ ویٹ۔۔"

تو اس کا باپ ہے بھائ ہے یا۔۔۔"

وہ نڈر سا قہقہ لگاتے مزید بولتا کے وہ اس گردن دبوچ چکا تھا

دانیال کو اپنی آنکھیں اب باہر نکلتی محسوس ہوئ تھی کھانستے سرخ سا بے حال ہوا تھا

پر اسے کسی طرح صبر نہی آ رہا تھا خون چھلکاتا سرخ چہرہ جو پسینے سے تر ہو گیا تھا اس کی بات سے اپنے وجود میں چیونٹیاں رینگتی محسوس ہوئ تھیں

گھمبیر خوفناک سرگوشی میں فون کی چنگاڑتی رنگ نے اسے ہوش میں لانے کا کام کیا تھا

اس کی گردن چھوڑتے وہ فون کی جانب متوجہ ہوا تھا جو گلا پکڑے اب بری طرح کھانس رہا تھا

نمبر دیکھتے آنکھیں مسلی تھیں

وہ دروازہ بند کرتے پیشانی پر بکھرے بال سمیٹتے گہرا سانس بھرتے نارمل ہوتے باہر آیا تھا

جی کہیں کیسے یاد کیا۔۔۔"

اس کی آواز سپیکر سے گونجتے دوسری جانب موجود وجود کو خوفزدہ کر گئ تھی مطلب وہ نمبر جانتا تھا

غازیان نے طویل خاموشی پر فون کان سے ہٹایا تھا کال چل رہی تھی 

اس کے باہر جانے سے جیسے موقع ملا تھا

وہ کھانستے بے حال سا بس نکلنا چاہتا تھا

کوئ صورت حال نظر نہی آئ

وہ پوری طرح بندھا تھا

امید کی کرن سامنے شیشے کا واز دیکھتے بندھی سی تھی

وہ کھانسی کا گلے گھونٹے چئیر گھسیٹتے اس تک لے گیا تھا


وہ روم میں آتے سر مسلتے فون کان سے لگائے بیٹھا

مجھے جسٹس صاحب کا نمبر حفظ ہے

بولنا نہی ہے تو کال کیوں کی۔۔"

نور۔۔۔"

وہ لب دبائے بس خاموش سی تھی کال کا دورانیہ بڑھتا جا رہا تھا پر وہ بول نہی پا رہی تھی

وہ اتنا محو تھا کے اندازہ نہی کر سکا کیا غلطی کر چکا ہے

اس کا نام لینے کی دیر تھی جب پیچھے سے اپنے سر میں تیز لوہے کی چیز لگتی محسوس ہوئ تھی فون اس لمحے ہاتھ سے چھوٹا تھا

اپنے پیچھے ہاتھ لگاتے خون کا احساس ہتھیلی سرخ گیا تھا وار شدید تھا

اسکے سمجھنے تک وہ سامنے دھندلائ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا جہاں وہ اس چند لمحے پہلے اپنی حراست میں بندھے شخص کو کھڑے دیکھا تھا


وہ چئیر گھسیٹتے کانچ کے واز تک جاتے اسے نیچے پھینک چکا تھا

کانچ کے ٹوٹنے کی آواز سے وہ خوفزدہ ہوا تھا جب اپنی چیئر ہلاتے نیچے پھینکی تھی وہ اس کے آنے سے پہلے جلدی سے رسی سے آزادی چاہتا تھا

تکلیف ہوئ تھی چیئر سے نیچے گرتے کانچ کے ٹکڑے پر بندھی ہاتھ کی رسی رگڑی تھی


چند لمحوں بعد رسی کے ساتھ اس کا ہاتھ بھی زخمی ہو گیا تھا پر رسی پر گرہ پر رگڑ سے وہ ڈھیلی سی ہو گئ تھی

اس کو منہ تک بامشکل لے جاتے گری کھولنے کی سعی میں کامیاب ٹھہرتے وہ تیزی سے ہانپتے اٹھا تھا

شٹ گھر چھوٹا تھا اسے مین گیٹ تک جاتے زیادہ تگ ودود نہی محسوس ہوئ تھی

باہر کا مین گیٹ لوکڈ تھا

وہ باہمت ہوتے سہج کر قدم لیتے اس کی آواز والی سمت کی جانب گیا تھا جہاں وہ فون کان سے لگائے مصروف تھا

غازیان سر تھامے تھا

ناو اٹس مائے ٹائم ہیرو۔۔"

دانیال نے قہقہ لگاتے اسے سر تھامے درد سے کراہتے زمین پر گرے دیکھا تھا اور تیزی سے چابیاں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی

وہ درد کے باوجود اس کی ٹانگ پکڑ چکا تھا جبکہ وہ زور دار کک سے خود کو آزاد کروا گیا تھا

جبکہ نور جو فون کے پار تھی اس کی آواز ساری باتیں محسوس کرتے رونگٹے کھڑے محسوس کیے تھے اس آواز کو ہزاروں میں پہچان جائے جو اس کی زات ریزہ ریزہ کر چکا تھا

غاز۔۔۔"

اس کے لب ہلتے ہوش میں آتے وہ روم سے نیچے بھاگی تھی

------------------------------------------------------

ڈیڈ یو کانٹ بلیو کیسے نکلا ہوں میں مجھے لگا تھا میں اس جاہل کے ہاتھوں نہی بچ پاوں گا بٹ سٹل آئ ایم فائن"

وہ بستر پر لیٹا اپنی حالت سوچے بتا رہا تھا وہاں سے فرار ہونا مشکل تھا اپنی حالت جیسی تھی وہاں سے نکلنا واقعی اس کے لیے قدرے مشکل تھا

سب سے پہلے تو اب ہمیں تمہارے ساتھ جو وہ دو لفنگے دوست شامل تھے ان کا پتہ صاف کرنا پڑے گا"

ان دونوں سے رابطہ کرتے ان کا کام صفائ سے تمام کرنا ہو گا وہ مشکل پیدا کر سکتے ہیں اگر کیس ری اوپن ہوا اور جسٹس کی بیٹی نے پہچانتے منہ کھولا کیونکہ وہ پارٹی اتنی کمزور بھی نہی ویسے بھی آجکل ایسے معاملات میں وومن اینجیوز کچھ زیادہ ہی ایکٹیو ہوتی ہیں اور تم بھی سکیورٹی کے بغیر بلاجواز فلحال باہر نہی پھرو۔۔۔

پھر اس اے سی کو بھی دیکھتا ہوں"

کیسے ہینڈل کرنا ہے مان گیا تو سہی نہی تو بڑے طریقے ہیں"

جب کے وہ پرسکون سا بستر پر دراز تھا کیونکہ سب تو باپ کے انڈر کنٹرول تھا

تو اس کو فکر کی کیا ضرورت تھی

------------------------------------------------------

یونیورسٹی سے نکلتے اسے دیکھتے اس کے لب خوشگوار حیرت لیے مسکرائے تھے

وہ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے سفید جینز میں بلیو شرٹ کے سلیو موڑے آتی جاتی نظروں کا مرکز بنے اس کے انتظار میں کھڑا تھا واپسی پر اکثر وہ ڈرائیور کے ساتھ آتی تھی

چلیں۔۔"

وہ سخت نظریں لیے تیز لہجے میں بولی تھی

احان نے ایک سمائل دی تھی پر اس کا رسپونس زیرو دیکھتے وہ فرنٹ ڈور کھولتے حیران تھا

ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے وہ پارکنگ سے نکالے

ابھی بھی خاموشی محسوس کر رہا تھا

ریحہ کیا ہوا ہے"

وہ نرمی سے استفار کیے اس کا گرے حجاب میں لپٹا چہرہ نظروں میں اتارتے اس کا ہاتھ تھامتے ہمیشہ کی طرح سٹیرنگ پر اپنے ہاتھ کی گرفت کے نیچے دھر چکا تھا

اتنا تیار ہو کے کیوں آئے تھے"

آپ کو پتہ ہے آپ میرے بندے ہیں میرے علاوہ کسی کی نظروں کا مرکز بننا آپ کو ہرگز شعبہ نہی دیتا۔۔۔"

وہ بغیر رکھائ کے بولی تھی

تو ان کو گناہ ہو گا نہ میں نے تو نہی دیکھا نہ میں تو اپنی بندی کو دیکھ رہا تھا"

ونڈ سکرین پر نظریں مرکوز کیے تبسم سا اس کے ہونٹوں پر کھلا تھا

کہاں جا رہے ہم ۔۔۔؟

سٹرینگ سے ہاتھ ہٹاتے وہ بریک پر اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ چکی تھی یہ راستہ ہرگز گھر کا نہی لگا تھا

تمہیں کڈنیپ کر رہا ہوں۔۔"

وہ بوکھلائ تھی

حان آئ ایم سیریس۔۔۔"

می ٹو حان کی جان۔۔"

وہ اس کے لفظوں سے بامشکل سنبھلی تھی

جب تھوڑی مسافت پر گاڑی شوپنگ مال کے باہر رکی

آج تمہارے سارے گلے دور کرنے ہیں"

پارکنگ میں روکتے اسکی سیٹ بیلٹ کھولتے وہ اس کی سائیڈ سے دروازہ کھولتے اپنی مضبوط ہتھیلی پھیلا چکا تھا

اپنی نارمل سی رنگت کا ہاتھ اس کی شفاف ہتھیلی پر رکھتے وہ اپنی قسمت پر رشک کیے تھی

اسے تین چار اپنے فیورٹ کلرز میں ڈریس لے کے دیتے وہ جیولر کی شاپ پر لایا تھا

چلو اب میری مرضی چلے گی یہاں"

وہ اس کے ساتھ اندر قدم بھرتے دیکھ اس کی بے داغ ناک نظروں میں اتارے بولا تھا جس پر تھوڑی دیر بعد وہ ظلم ڈھانے والا تھا


آگے تو جیسے میری مرضی چلی ہے نہ۔۔"

وہ اس کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز دیکھتے باور کراتے بولی تھی

جبکہ وہ معمولی سیاہ ابائے والی لڑکی اس شخص کو بے انتہا پیاری ہو گئ تھی کے وہ اندازہ بھی نہی کر پایا تھا

ایک ڈیسینٹ سی گولڈ کی برسلیٹ پرچیز کرتے وہ مطلب کی جانب آیا تھا وہاں موجود سیلز گرل کو دیکھتے اس کا ہاتھ تھامتے وہاں لایا تھا

یس سر ہاو کین آئ ہیلپ یو۔۔"

وہ پوکیٹ سے سرخ بوکس لیے اس کی جانب بڑھا چکا تھا

ریحہ نا سمجھی کے عالم میں سب دیکھتے حیران ہو رہی تھی

بس یہ نوز پن آپ ان کی ناک کی زینت بنا دے"

وہ سکتے میں تھی

احان نو مم۔۔مجھے نہی پلیز یہ نہی میں آنٹی لگوں گی۔۔"

وہ اس کی بازو تھامتے روہانسی ہوئ تھی

وہ اس کی مہربانیوں کو اب اصل میں سمجھی تھی

پین ہرگز نہ ہو۔۔"

وہ اسے سٹول پر بٹھاتے خود کاونٹر کے قریب کھڑا تھا

بہت برے ہیں آپ۔۔۔"

وہ اس کی بازو تھامتے سرخ آنکھوں سے بولی تھی

وہ نشان مارک کر رہی تھی جبکہ وہ اسے مسلسل بے تاب سا دیکھ رہا تھا

اگلے سیکنڈ میں اس کی ہلکی سی چیخ اور اپنے ہاتھ پر دباو سے وہ مسکرایا تھا جہاں اب ایک باریک نگ والی لونگ اس کی سرخ تیکھی ناک کو اسکے مطابق زخمی کر چکی تھی

میم یو کین چیک۔۔"

وہ مسکراتے مرر اس کی جانب بڑھا چکی تھی

اس کا عکس اپنے پیچھے آئینے میں رونما ہوا تھا

بس اتنی سی بات تھی یہ تمہاری منہ دکھائ تھی میں اس میں تمہیں دیکھنا چاہتا تھا پر نکاح سے پہلے ایسا کوئ حق نہی تھا تم پہ۔۔"

وہ منہ بنائے ناک پر ہاتھ رکھے شاپنگ مول سے لے کر گاڑی میں بیٹھنے تک اب رونے میں مصروف تھی

یہ تمہارا فیورٹ فلیور۔۔"

آئسکریم اس کی طرف بڑھاتے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا

مجھے نہی کھانی۔۔"

وہ پرے کرتے بوجھل لہجے میں بولی تھی

ٹھیک ہے نہ کھاو مجھے ویسے بھی نخرے بلکل نہی پسند۔۔"

وہ بائیٹ لیتے کھانے میں مصروف ہو گیا تھا

چند پل اسے دیکھتی رہی تھی جب اس کے ہاتھ سے کینچھ چکی تھی

نہایت شودے ہیں آپ۔۔۔"

احان اس کو کھاتا دیکھ بس سیٹ سے ٹیک لگائے مسکرایا تھا

میں بری لگ رہی ہوں نہ مجھے نہی پسند تھا آپ شادی سے پہلے مجھے اسی لیے برے لگتے تھے"

وہ سوں سوں کرتے سارا خوشگوار موڈ خراب کیے کھانے کے ساتھ صاف گوئ کے بھی مظاہرے کر رہی تھی

اور اب بھی برا لگتا ہوں۔۔"

کینچھ کر ڈرائیونگ سیٹ سے اپنے قریب کرتے اسکی ناک پر لب رکھتے دانستہ مرہم رکھ رہا تھا

اب بھی سٹل برے ہیں۔۔"

وہ اس کے لمس سے ناک دکھنے پر اس کے سینے پر پنچ مار چکی تھی

چلو اب کہی اچھی سی جگہ پر لنچ کرتے ہیں۔۔"

وہ گاڑی ریورس کرتے بولا تھا

مجھے نہی کرنا گھر چلیں ویسے بھی لیٹ ہیں بڑی مما پریشان نہ ہوں۔۔۔"

وہ نروٹھے سے لہجے میں ناک پر ہاتھ رکھتے آئسکریم کھاتے ہی بولی تھی

اس کا موڈ بحال دیکھتے وہ مسکرایا تھا

---------------------------------------------------

وہ فون پر بزی تھی

دانی مما کے ساتھ کوئ کام بھی کر لیا کرو۔۔"

فون رکھتے وہ اس کی تھکی صورت لاونج میں دیکھتے رہ گئ تھی

اتنے امیر ہونے کے باجود تم لوگوں نے ملازمہ نہی رکھی حیرت ہے مجھے"

ازہان نے اس کی بات پر اس کو دیکھا تھا

ہمارے زاتی کاموں اور کیچن کے علاوہ میرے خیال سے شائد کوئ کام نہی ہیں"

وہ کبرڈ سے کپڑے لیتے جتاتے بولا تھا

تو کیچن کے کام مجھ سے نہی ہوتے میں نے کبھی نہی کیے تھے کیونکہ باقی کاموں کی طرح اس کے لیے بھی میڈ ہی تھی ہمارے گھر"

وہ دوبدو جواب دیتے بولی تھی

میرے کپڑے تک تم آئرن نہی کرتی۔۔"

سارا دن فارغ رہنا اچھا لگتا ہے"

ناچاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ تلخ ہوا تھا

یو نو مائے کنڈیشن آئ ایم پریگنینٹ پھر بھی ازہان"

وہ یاد دہانی کرتے بولی تھی

اپنے بھائ کو دیکھو کیسے اس معمولی سی لڑکی کے آگے پیچھے پھرتا ہے اور تم۔۔"

وہ مزید بولتے زہر خند ہوئ تھی جبکہ وہ موازنہ کرنے پر ساکت ہوا تھا

عزت کروائ جاتی ہے دانین میں ابھی یونیورسٹی کے بعد آفس سے تھکا آیا ہوں یہ نہی پانی وغیرہ پوچھتے مجھے سکون دو بلکہ بحث کر رہی ہو"

وہ سر مسلتے بولا تھا

اپنی بات سے تم اپنی عزت میری نظر میں گھٹا چکے ہو"

وہ زہرخند ہوئ تھی

آئ ایم سوری اگین دانین پلیز تم بیوی ہو اب میری دانستہ لاشعوری میں وہ بات کہتے تمہیں اس دن اپنا بھی لیا تھا اس بات کے لیے بار بار گلٹ نہی کروایا کرو یار زندگی میں پہلی بار مجھے بھائ کی ناراضگی سے ویسے ہی سکون نہی ہے اور تم"

وہ اسکا ہاتھ تھامتے بے بسی سے بولا تھا

اوکے فائن پلیز فریش ہو۔۔"

وہ اس کا اس طرح کا موڈ دیکھتے بور ہی ہوئ تھی

کیا ضرورت تھی یہ تماشے کی

تم سمجھ رہے ہو کیا حرکت کر چکے ہو اگر تمہیں کچھ ہو جاتا غازیان۔۔"

وہ قدرے تیز بولتے اب فکر سے بولے تھے

اس کے سر کے پیچھے چار سٹیچز لگے تھے

پین کلر لیتے وہ اب تھوڑا درد سے پرسکون تھا

ڈیڈ میں ٹھیک ہوں۔۔" وہ آنکھیں بند کیے اپنی چند پل کی غفلت پر مٹھی بھینچ گیا ورنہ اس شخص کا قتل وہ کر دیتا

غازیان لیو دیٹ۔۔۔ا

وہ تو ہتھے سے اکھڑ گیا تھا

کیا چھوڑ دوں میں آپ چاہ رہے ہیں اس حرامی کو ایسے ہی چھوڑ دوں

اس کے باپ سمیت زندہ نہ گاڑ دوں گا میں اسے"

زبیر پر نظریں جمائے وہ اپنے باپ سے اس قدر تیز لہجے میں بولا تھا کے وہ بس اب دل تھامے تھے

جبکہ روم کے باہر سہمی نور کا دل مزید دہل گیا تھا اس کی حالت کی زمیدار خود کو سمجھتے گلٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا

وہ زبیر کو بتاتے حمدان کے ہمراہ گھر واپس تو آ گئ تھی پر اس کا سامنا کرنے کا سوچتے وجود خفزدہ سا تھا

وہ نوب سے ہاتھ ہٹائے لاونج میں پڑے کاوچ پر دونوں پاوں پسارتے سر گھٹنوں میں دےچکی تھی

میں یہی ہوں فلحال پرسکون رہو۔۔"

حمدان نے کام ڈاون کرتے کہا تھا

جائیں آپ میں ٹھیک ہوں۔۔"

چباتے لفظ ادا کرتے سر میں درد کی ٹیس سی اٹھی تھی

یہ معاملہ پرسکون رہنے والا تھا یہ جانتے ہوئے اس کے ساتھ جڑی لڑکی جس کی زندگی تباہ ہو چکی تھی وہ ضبط کیے تھا ورنہ کوئ اس کی اندرونی حالت کا اندازہ نہی لگا سکتا تھا دل چاہ رہا تھا ابھی اسے موت کے گھاٹ اتار دے

میں جا رہا ہوں نور خیال رکھنا۔۔"

زبیر کسی صورت اسے نہی چھوڑنا چاہتے تھے آج انہیں غازیان کے ری ایکشن سے خوف محسوس ہوا تھا پر اس سے جڑا رشتہ انہیں کوئ اختیار نہی دے رہا تھا وہ بھی اس کی زخمی حالت میں

جی بابا۔۔"

سٹریس نہ لے وہ۔۔"

حمدان نے اس لمحے بولتے اس لڑکی پر نظر نہی ڈالی تھی وہ بس آنسو پی کے رہ گئ تھی

رات سرکتی جا رہی تھی بارہ بجے کے قریب وہ دھک دھک کرتی دھڑکن سے باہر بھونکتے کتوں کے خوف سے نیند سے بے حال ہوتے نیم اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں داخل ہوئ تھی

خواہشیں مردہ ہو جائیں تو انسان مر جاتا ہے

دل ساکت سا ویران ہو جاتا ہے

اور ویران دل تو قبرستان ہوتا ہے جہاں طویل خاموشی اور سناٹے ہوتے ہیں

اور سناٹوں میں تنہائ اور خوف کے علاوہ کوئ آپکا ساتھی نہی ہوتا بس خاموشی رہ جاتی ہے جو اس لمحے میری بے بسی کی گواہ ہے"

گہری سوچوں میں ڈوبے لفظ بالوں سے کیچر نکالے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے وہ چند دنوں بعد پھر سے وہی مہکتے وجود کی خوشبو ارگرد اترتی محسوس کرتے خاموشی سے قدرے کنارے پر ہوتے جم گئ تھی وہ شائد نیند میں تھا

نیند سے بند ہوتی آنکھوں سے خاموشی میں چیختا فون اس کے حواس معتل کرتے وہ اس کی جانب خوفزدہ سی کروٹ لے گئ تھی

وہ پیشانی پر پڑے چند بلوں کے ساتھ گہری نیند میں محو تھا

غازیان۔۔۔"

دھیمی سی آواز میں پکارتے وہ بند ہوتی آنکھوں سے بلنک فون کی جانب دیکھ رہی تھی

وہ نہی ہلا وہ اٹھتے گہرا سانس بھرتے فون اٹھانے کے لیے اس پر جھکی تھی نیند میں اس کی سانسوں کی تپش سے وہ فوری فون لیتے دل تھام گئ

مما کالنگ ۔۔۔"

فون پر نظر آتا نمبر بے بس سی وہ اس کی نیند سے بند آنکھوں کی جانب دیکھتے فون کان سے لگا گئ

کہاں تھے تم پتہ ہے کل سے کتنی پریشان ہوں غازی کال کیوں نہی رسیو کر رہے تھے

ٹھیک ہو مجھے ایسے کیوں لگ رہا ہے تم ٹھیک نہی ہو

آنٹی غازیان سوئے ہیں"

وہ گہرا سانس بھرتے ہمت مجتمع کرتے ایک ہی جملے میں بات سمیٹگئ

رات کے اس پہر وہ کیسے بھول گئ تھیں اس لڑکی کو اس کے پہلو میں سوچتے شدید غصہ آیا تھا

جب جاگ جائے کہنا بیوی سے فرصت مل جائے تو ماں کو بھی یاد کر لے"

مجھ سے فرصت ہی فرصت ہے"

وہ لب کچلتے رہ گئ تھی وہ فون بند کر چکی تھی

-------------------------------------------------

ریحہ تم پچھلے دو گھنٹوں سے بیٹھی دو چائے کے کپ پی چکی ہو اتنی چائے کیوں پیتی ہوں اس سے اچھا ہے دودھ پی لیا کرو۔۔"

نائمہ نے اسے اپنے پاس بیڈ پر نیم دراز دیکھتے اس کے لمبے سیاہ بالوں میں محبت سے ہاتھ پھیرتے کہا تھا

چائے زندگی ہے چائے نشہ ہے

آپ کیا جانے چائے کیا ہے

ویسے بھی مما پلیز دوسری احان نہی بنے فلحال۔۔"

نائمہ نے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا

یہ سوٹ کیا ہے تم پر شادی شدہ لگ رہی ہے اب میری بیٹی۔۔"

وہ اس کی ناک چھوتے بولی تھیں

نہ کرے اس حوالے سے مجھ سے بات بلکل نہی کریں ایک تو آپ کے سڑیل داماد نے میرے ساتھ زبردستی کی ہے"

وہ دکھ یاد آنے پر ناک پر ہاتھ رکھے بیڈ سے اٹھ بیٹھی تھی حالانکہ وہ اس پر لاتعداد بار اپنا پیار جتا چکا تھا

بری بات شوہر کی برائ کرنے سے گناہ ملتا ہے"

وہ ڈپٹتے بولی تھیں

میں نے کب برائ کی ہے پیار سے کہا ہے" وہ تصور میں اسے سوچتے لب دبا گئ تھی

خوش ہے میری بیٹی۔۔"

وہ اس کا گلنار ہوتا چہرہ چھوتے بولیں تھیں

وہ محض مسکرائ تھی

ماں باپ کے فیصلے کبھی غلط نہی ہوتے۔۔"

وہ اس لمحے حامہ بھر چکی تھی

اس کو پرسکون خوش دیکھتے ان کو اپنے اندر طمانیت سی محسوس ہوئ تھی

وہ اکلوتی بیٹی تھی جو زرا سختی برداشت نہی کر سکتی تھی خود سے تو دور کرنا ہی نہی چاہتی تھیں


کیا باتیں ہو رہی ہیں ماں بیٹی میں۔۔"

وہاج نے اسے کافی ٹائم بعد یوں اپنی ماں کے ساتھ مصروف دیکھتے کمرے میں قدم بھرتے کہا تھا


کچھ نہی بابا آپ کی بیگم بہت بورنگ ہیں یار کچھ چینچنگ کر لیں"

وہ ان کو بیڈ کے قریب بڑھتے دیکھ شرارتی ہوئ تھی

ہاہاہا نہی مجھے آپ کی مما ہی پسند ہیں بھئ۔۔" ریحہ کے سر پر چپت رسید کیے وہ وہی اس کے قریب بیٹھ گئے تھے

اور مجھے آپ دونوں۔۔"

دونوں کے گرد بازو پھیلائے وہ کھلکھلائ تھی

ویسے سچ بتائیں مما سے بلکل نہی ڈریں میرے کان میں بتا دیں میں ہیلپ کر دوں گی۔۔"

جبکہ نائمہ نے سر پیٹا تھا جو کبھی نہی سدھر سکتی تھی

-------------------------------------------------

وہ دوپٹہ کندھے پر پھیلائے مصروف سی کپڑوں کے ڈھیر لگائے تھی

آپ بزی ہیں شائد۔۔"وہ بند دروازہ زرا سا وا دیکھتے اب آواز کی سمت میں دروازے کی جانب پلٹی

نہی آ جائیں بس میں یہ کپڑے سیٹ کر رہی تھی"

آج یونی سے اس کی اوف تھی اور احان اسے کام باقاعدہ بتا کے گیا تھا کے وہ کبرڈ کی حالت درست کرے

ملازمہ سے روم کی ڈیپلی صفائ کرواتے اب باقی کے کام انجام دے رہی تھی جس میں کچھ اپنے روم سے لائے گئے اس کی بری کے کپڑوں کے علاوہ روزمرہ کے استعمال والے کپڑے اور چیزیں بھی تھیں

اپنے بکھرے کپڑے بیڈ سے پرے کرتے اس کے لیے جگہ بنائ تھی

دانین نے کمرے پر نظر ڈالی جو قدرے بڑا اور نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھا فرنیچر سے لے کر سکن اور اوف وائٹ روم کلر سمیت اس کے روم کی بالکنی کرٹنز ڈریسر پر پڑی چیزوں پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالتے سیاہ ماربل کے فرش پر ننگے پاوں کھڑے اسے کبرڈ کے کپڑوں سے الجھتے دیکھا تھا جو دوپٹے سے ندار اس لمحے لمبی سی فیروزی اور سفید پرنٹڈ شرٹ کے نیچے کھلے سفید ٹراوزر میں بالوں کو رفلی چٹیا میں باندھے بلکل سادہ سی تھی وہ اسے پہلی بار دوپٹے کے بغیر دیکھ رہی تھی

متناسب قد کی وہ لڑکی نازک سی کمر پر پڑی سیاہ بالوں کی لمبی سی چٹیا اس کے لمبے بال دیکھتے

اس کو اپنی ماں کی بات یاد آئ تھی جب وہ اکثر ہیر کٹ لیتی تھی

دانین مردوں کو لمبے بال پسند ہوتے ہیں

میرے والے کو نہی ہوں گے"

وہ یہ کہہ کے ٹال دیتی تھی

دانین تم خود کا مقابلہ اب اس سے کرو گی تم کیوں اس کو کمپیر کر رہی ہو خود سے"

دانستہ وہ اس سے حسد کر رہی تھی

کھڑی کیوں ہیں بیٹھ جائیں پلیز۔۔"

اسکے عجیب طرح دیکھنے پر اس نے بیڈ سے پڑا دوپٹہ ہی شانوں پر پھیلایا تھا

میں پہلے آئ تھی لیکن آپ شائد نیچے کافی دیر سے اپنی ماں کے پاس تھیں

اب آپ کے ماں باپ تو پاس ہیں تو آپ تو اس گھر کی بیٹی بھی ہیں آنٹی کی آپ پر تو کوئ روک ٹوک نہی پر مجھ پر تو ساری پابندیاں ہوں گی نہ۔۔"

ریحہ کا ہاتھ تھما تھا

ایسی بات نہی ہے بڑے بابا اور بڑی مما دونوں ہی بہت سوئیٹ ہیں رہا ازہان وہ تو آپ کی خود کی چوائس ہے

کچھ خواہشات بے ضرر سی ہوتی ہیں"

وہ خواب کی سی کیفیت میں بولی تھی


آپ پہلی بار میرے روم میں آئ ہیں کچھ لے گیں سوری میں نے پوچھا ہی نہی۔۔"

وہ کل احان کی کرائ شاپنگ بیگز سے اپنے کپڑے ہینگ کرنے کو نکالتے شرمندہ ہوئ تھی


اٹس اوکے ریحہ بھابھی میں مہمان تھوڑی ہوں۔۔"

دانین کی نظریں کپڑوں پر جمی تھی


نائس ڈریس کلیکشن۔۔"

مہرون رنگ کی نفیس سی دھاگے کے کام والی برینڈڈ شرٹ سمیت تین چار اور ڈریس دیکھتے ستائش ابھری تھی


تھینکیو پر یہ میرے نہی سارے احان کی چوائس کے ہیں۔۔"

وہ کپڑوں کی تہہ کھولے ہینگ کرتے اس کی چوائس پر مسکرائ تھی


آپ کی اور احان کی لو میرج ہے۔۔۔"

وہ مزید کریدتے بولی تھی پر ریحہ کو اس کا نام لینا اس لمحے بلکل اچھا نہی لگا تھا


نہی ارینج میرج ہے۔۔۔"

وہ شادی سے پہلے اپنے انکار اور اس سے ہر وقت کی تکرار اور اب فرق کو واضع محسوس کرتے خوشنما سے احساس میں مبتلا ہوئ تھی

مزید بولتی جب وہ بری طرح کھانستے منہ پر ہاتھ رکھے تھی

آپ ٹھیک ہیں دانین۔۔۔" وہ پریشان ہوتے فوری سے سائیڈ ٹیبل تک جاتے جگ سے پانی لیتے اس تک آئ تھی پر وہ منہ پر ہاتھ رکھے واشروم میں تیزی سے بھاگی تھی

وہ مسلسل واش بیسن پر جھکی وومٹ کر رہی تھی

ریحہ نے اس لمحے افسوس زدہ سی نظر ڈالی تھی

ریحہ ٹھیک ہو تم۔۔۔"

بی جان کی آواز سے وہ واش بیسن پر جھکی دانین کے پیچھے کھڑی سٹپٹائ تھی

وہ اسکا ہاتھ تھام گئ تھی

دانین آپ ادھر ہئ رہو میں دیکھتی ہوں

وہ باہر نکلی تھی

بی جان آپ۔۔۔"

وہ بوکھلائ سی بول بیٹھی

ریحہ میرا بچہ تم ٹھیک ہو مجھے ایسے لگا تم الٹیاں کر رہی ہو۔۔۔"

دانین کی مزید آواز محسوس کرتے وہ واشروم کا دروازہ بند کرتے ان تک آئ تھی وہ بڑھاپے میں بھی ان کی تیز سماعت پر عش عش کر اٹھی

میں ٹھیک ہوں بی جان و۔۔وہ ب۔۔۔ برش کر رہی تھی ۔۔۔"

ناسمجھی میں بولتے وہ اچانک اپنے روم میں ان کی آمد سے حیران تھی ان کے گھٹنوں کے درد کی وجہ سے وہ اوپر کم ہی آتی تھیں

جبکہ ان کی ایکسرے کرتی نظریں ابھی بھی اپنے وجود میں اٹکی محسوس کرتے اس کا کھلا سا چہرہ چھوتے اسے مزید بھوکلاہٹ کا شکار کر گئیں تھیں وہ

مجھے تو لگ رہا ہے خیریت نہی ڈاکٹر کے پاس گئ تم برش کرنے سے الٹی کیسے۔۔۔"

اف بی جان۔۔" وہ گہرا سانس بھرتے ماتھا مسل بیٹھی

بی جان کی سوئ تو وہی اٹکی تھی

مطلب میرا شک۔۔" ان کی دور اندیش آنکھیں اب اسے سہی میں سمٹا گئ تھیں پر وہ بھی اریحہ تھی

خدا کو مانے بی جان اب آپ سارے پاکستانی اور انڈین ڈراموں کی فنکار بزرگ عورتوں کی طرح یہ نہی کہیے گا ریحہ تمہیں الٹی آئ کوئ خوشخبری تو نہی ہے"

جمعہ جمعہ چار دن ہوئے نہی اور خوشخبریاں پہلے آ جائیں

وہ لحاظ بلائے طاق رکھے منہ بگاڑے بولتے بی جان کا منہ کھلوا گئ تھی

--------------------------------------------------

اس کی آنکھ کھلی تو خود کو تنہا کمرے میں پایا تھا

ہوش کی دنیا میں خاموش ماحول میں گھڑی کی ٹک ٹک بس سنائ دے رہی تھی

جو ساڑھے بارہ کا ٹائم بتا رہی تھی

کیا وہ چلا گیا ہے"

وہ بے اختیار سوچتے لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھی تھی

بھوک سے برا حال ہوا تھا کل رات بھی کچھ نہی کھایا تھا

نور نے ڈرتے ڈرتے دروازے کی نوب پر ہاتھ رکھتے گھمائ تھی

دروازہ کھلتے زرا سا باہر جھانکا خاموشی اور سنسان لاونج دیکھتے وہ قدم باہر رکھ چکی تھی

وہ نہی نظر آیا تھا

وہ کیچن میں جلدی سے گئ تھی

فریج کھولا سوائے انڈے اور بریڈ کے کچھ نہی تھا کوفت سی ہوئ تھی

فریزر کھولتے اس کی نظر ریڈی ٹو کک چپاتی والے ڈوبوں پر گئ تھی

برنر اون کرتے ایک روٹی لیتے توے پر بامشکل ڈالی تھی

ساتھ کچھ نگٹس فرائے کرتے چائے کے لیے دودھ بھی نکالا تھا

وہ جلدی سے سب بنا کر روم میں جا کے بند ہونا چاہتی تھی

ابھی وہ برتن ریکس سے نکالنے کو پلٹی تھی جب اپنے پیچھے کھڑے زی روح کو دیکھتے خوف سے اس کی چیخ نکلی

وہ سچ میں اکیلے گھر میں اس زرا موٹی سی پکے رنگ والی خاتون کو دیکھ کر ڈر گئ تھی

کیا ہو گیا باجی" وہ اپنے سامنے موجود کم عمر لڑکی کو دیکھ اچھنبے سے گویا ہوئ تھی

باجی نور زیر لب دہراتے فوری دور ہوئ تھی

کیا یہ روپ بدل کر چڑیل ہے فوری نظر اس کے پاوں پر ڈالی جو سیدھے تھے

ک۔۔کون ہو تم"

وہ تو لزرتی خالی گھر میں اس کی اچانک موجودگی سے خوفزدہ سی مرنے کے قریب تھی

باجی میں۔۔"

وہ کچھ بولنا چاہتی تھی پر نور کی اس کے قریب آنے پر چیخیں سنتے وہ تو دور ہوتے ڈری تھی

وہ سیدھی کیچن سے بھاگتے اس کی پکار ان سنی کیے سامنے سے آتے وجود سے ٹکراتے چپکی تھی

نور کیا ہوا ہے" وہ اس کے چلانے سے پریشان ہوا تھا

غازیان۔۔"

اس کی آواز سے وہ سکون محسوس کرتے اس کی شرٹ مضبوطی سے تھامتے روہانسی ہوتے بولی تھی

آپ کے گھر چڑیلیں بھی ہیں"

چڑیل۔۔"

وہ مسلسل اس کی گردان پر سامنے دیکھتے لب دبا گیا تھا

نور کوئ بھی نہی ہے"

وہ مسکراہٹ دباتے اس کو خود سے چپکے دیکھ بولا تھا

جھوٹ تھی وہ کیچن میں آئ پرومس"

وہ اس کے گرد دونوں بازوں سے مزید گھیرا تنگ کرتے میچی آنکھوں سے چہرا چھپاتے بولی تھی

وہ کام والی تھی۔۔"

وہ اس کی بات سے سیدھی ہوئ تھی

کیا وہ یہی ہے" موجود لمحوں میں لوٹتے وہ پوزیشن کا خیال کرتے جھکی پلکوں سے بولی تھی

وہ چلی گئ ہے" وہ سامنے خالی لاونج کیچن دیکھتے بولا

پہلے تو نہی تھی۔۔"

وہ خجل سی ہوتے بولی

پہلے میل ملازم تھا جو مجھے گورنمنٹ کی طرف سے ملا تھا پھر تم اکیلی ہوتی تھی اسی لیے اسے فارغ کر دیا

ھا تھا

تو تمہیں خیال آ گیا۔۔۔"

یہ طنز تھا

م۔۔میں آئ تھی آپ سوئے ہوئے تھے

مروت کے مارے وہ بولی تھی

جلنے کی سمیل سے مزید بولنے سے روکا تھا


وہ فوری کیچن میں گئ جہاں چائے ابل چکی تھی جبکہ نگٹس مکمل طور پر جل گئے تھے

وہ ہونٹ باہر کو نکالے سارا بنایا ناشتہ ستیاناس ہوتے دیکھ رہی تھی


یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے میرا ناشتہ" بھوک سے برا حال تھا کے مزید سکت نہ تھی


میری وجہ سے" وہ حیران ہوا تھا


اور نہی تو یہ اتنی مشکل سے روٹی بنائ تھی وہ فولڈ ہوئ آدھی جلی روٹی کی جانب اشارہ کرتے روہانسی سی ہوئ تھی


بنی بنائ روٹی آپ نے مشکل سے بنائ واو گریٹ"

وہ تنزیہ دیکھتے سب سمیٹ رہا تھا


مجھے یہ ڈالنی نہی آ رہی تھی نہ" وہ لفظوں پر زور دیتے بولی تھی


اب دوبارہ بناو۔۔"

وہ اس کے پیچھے آیا تھا پوری آنکھیں کھلتے احساس ہوا وہ کافی ٹائم سے اس کے سامنے بغیر دوپٹے کے تھی لمحے میں چہرہ سرخ ہوا تھا

آ۔۔آپ کے گھر آٹا نہی ہے"

وہ کھسکھتی بے تکہ سوال کرتے پرے ہوتی جب اس کے کندھے پر تھوڑی ٹکاتے دونوں ہاتھ سلیب پر ٹکائے وہ فرار کی راہ بند کر گیا تھا

مسز غازیان مجھے آٹا گوندھنا نہی آتا اسی لیے ریڈی ٹو کک مجھ جیسے لوگوں کے کام آ رہا ہے"

اس کی قربت میں بڑھتی سرگوشیاں نور کی جان نکال رہی تھیں

تم سیکھ جاو نہ پھر تمہارے ہاتھ کی روٹی کھاوں گا"

نو ریڈی ٹو کک پھر آٹا بھی لے آوں گا"

اپنی انا مارتے وہ پھر سے اس کے قریب ہو گیا تھا

اس کے تھامے ہاتھ کی ہتھیلی پر لب رکھتے وہ پرے ہوتے اس کی میچی آنکھوں سمیت اس کے چہرے پر چھائے رنگ کچلتے سرخ لب اس کو مسکرانے پر مجبور کر گئے تھے


سیکھو گی نہ" اس کے کندھے سے کندھا ٹکراتے وہ اس کے ساتھ کھڑا ہوتے بولا تھا


ک۔۔کیا۔۔ " وہ ایک بار پھر اسے قریب محسوس کر رہی تھی


مجھے پاگل بنانا"

افکورس یار روٹی بنانے کی بات ہو رہی ہے"

وہ پین سے جلا گھی نکالتے زچ ہوتے بولا تھا


ج۔۔جی"

وہ ہکلاتے دوپٹہ نہ ہونے کی وجہ سے ایپرن باندھتے بولی

ناشتہ کم دوپہر کا کھانا زیادہ تھا وہ جو وہ بناتے اسے دیکھ رہی تھی وہ اس لمحے اسے ماتھے پر سفید بندھی پٹی میں بھی پیارا لگا تھا کے وہ بے ساختہ نظریں چرا گئ تھی

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن.

زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

ایک منٹ میں اتنے آرام سے وہ بنی بنائ روٹی بنا گیا تھا وہ کتنی پھوہڑ تھی کے وہ بھی نہ بنا سکی وہ سوچ سکی تھی

نگٹس فرائے کرتے پلیٹ میں نکالے تھے

اب تم جلدی کچھ بنانا سیکھ لو۔۔"

اس کی آواز سے وہ سحر زدہ لمحوں سے باہر نکلتے برتن ٹیبل پر سیٹ کر گئ لنچ دونوں نے خاموشی میں کیا تھا

صاحب میں نے سارے گھر کی صفائ کر دی ہے لگتا ہے عرصہ ہی ہو گیا تھا باجی نے صفائ نہی کی

نور جو برتن سمیٹتے آئ تھی اس پر شرمندگی کے پہاڑ ٹوٹے تھے

اور یہ باجی تو مجھے دیکھ کر ایسے خوفزدہ ہوئ جیسے پتہ نہی میں کوئ دوسری مخلوق ہوں"

وہ منہ بگاڑے اسے لون کی سی گرین پرنٹیڈ قمیض اور سیاہ ٹروازر میں ہاف کیچر میں بندھے بالوں میں سیاہ ہی دوپٹہ اوڑھے دیکھتے آنکھیں سکیڑ گئ تھی

میری بیوی تھوڑی ڈرپوک ہے کام کرنے میں بھی اور باقی چیزوں میں بھی"

نور نے اسے مسکراتے دیکھ آنکھیں موڑی اسے کام والی سے محو گفتگو ہوتے دیکھ

چل کوئ نہی میں انہیں تیز بناتے آپ کے مطابق کا کر دوں گی صاحب جی

پھر یہ سب کچھ سیکھ جائیں گی میں انہیں ڈھنگ کے کپڑے پہننے کا سلیقہ بھی سکھا دوں گی جو انہیں بلکل بھی نہی ہے"

آپ کے مقابلے بلکل بھی اچھی نہی لگ رہی یہ باجی"

وہ اس کے سیاہ جینز پر سیاہ ہی ٹی شرٹ سے جھانکتے مضبوط مسل دیکھتے اس کے فزیک پر نظر ڈالے نور کی دبلی جسامت پر چوٹ کر گئ تھی

سہی ہے فٹ ہے۔۔۔"

وہ قہقہ لگاتے اس کی فضول گوئ پر اسے تپا گیا تھا جو مسلسل لب دبائے اس کا چہرا دیکھ رہا تھا

جاو تم آئ بڑی مجھے ڈریسنگ سکھانے والی

وہ سامنے کاوچ سے اٹھتی اب مقابل آئ تھی

باجی۔۔۔"

اب اگر تم نے مجھے باجی کہا نہ پھر دیکھنا

تم ہو گی باجی اور تم۔۔۔"

غازیان کی جانب پلٹی

بہت ہسی آ رہی ہے"

وہ نفی میں سر ہلاتے بامشکل لب دبا گیا

جاو باجی آج بہت غصے میں ہیں۔۔۔" وہ پھر سے تیلی لگا گیا جبکہ وہ کام والی معاملہ سنگین ہونے سے پہلے چلی گئ تھی

باجی اتنی سرخ کیوں ہو رہی ہیں" وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاو دیکھتے مسکرایا

تم خود ہو گے باجا غازیان"

وہ لال چہرہ لیے واک آوٹ کرتی جب

وہ اس کا ہاتھ تھامتے اس کو کاوچ پر اپنے برابر میں بٹھاتے اس کے ہوش اڑا چکا تھا

غازیان۔۔۔"

اپنا چہرہ جھکائے وہ چھڑوانے کی سعی میں تھی

اس کی کمر جھکڑے وہ قریب کر گیا

پلیز نہی۔۔۔۔" اس کے سینے پر مکے برسا گئ تھی

کب تک۔۔۔" اس کے اس معاملے پر بے تاب آنسو دیکھتے وہ بے بس ہوا تھا

آئ ڈونٹ۔۔۔"

م۔۔میں وجہ ہوں تمہاری تکلیف کی پلیز اتنے مہربان نہی ہوا کرو پلیز"

اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ چہرہ جھکا گئ تھی اس لمحے وہ پگل رہی تھی اگر وہ نہ رکا تو وہ اسے مزید نہی روک پائے گی

ماتھے پر بل لائے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے وہ جھکتے اس کی تھوڑی پر لب رکھ چکا تھا

ناشتہ سہی سے کیا۔۔"

وہ اس کے چھڑاتے ہاتھ کی پشت پر اپنے پرتپش لب رکھ گیا تھا

آنٹی کی کال۔۔۔

اپنا دوپٹہ اس کے ہاتھ میں دیکھتے وہ برستی آنکھوں سے چپ ہو گئ تھی

اگر نہی کیا تو ابھی بتا دو کیونکہ آج تمہیں بہت انرجی کی ضرورت پڑنے والی ہے"

نور اس کی زو معنی بات پر بے حال سی ہوتے اس کے رحم کی منتظر ہوئ تھی جو اسے دیکھتے اپنے حواس کھو رہا تھا

مجھ پر یقین ہے"

اس کی سانسوں کی تپش سے محسوس کر پائ تھی کے اس کے چہرے کے کے بے تحاشہ قریب تھا کے وہ اسے دیکھنے کی ہمت نہی کر پا رہی تھی

اپنے ساتھ مزید کوئ کاروائ نہ ہوتے دیکھ لزرتے وجود سے پلکیں وا کرتے اس کی سیاہ آنکھوں میں اپنی خوفزدہ سی آنکھوں سے جھانکا تھا

تمہیں میرے پاس سکون نہی ملتا خوف آتا ہے مجھ سے"

پتہ نہی۔۔"

یقین ہے مجھ پر۔۔"

جیب سے سگریٹ لیتے لائیٹر سے سلگاتے وہ اسے دوبارہ یہ سوال کرتا اضطراب میں لگا تھا

نہی ہے۔۔"

وہ صوفے کو ناخنوں سے کھرچتے اس کی نظروں سے سرخ ہو رہی تھی

غازیان نے گہرا کش بھرتے سارا دھواں اسکے چہرے پر چھوڑا تھا

وہ بری طرح کھانسی تھی

مم۔۔۔مجھے سگریٹ پیتے مرد زہر لگتے ہیں"

وہ پانی بھری آنکھوں سے اس لمحے ناگواری سے بولی تھی

اور میں"

اس کی بوجھل آواز سے وہ جائے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہی تھی

کاش کے جادو ہوتا وہ اس کی نظروں اور باتوں سے بچتے کہیں غائب ہو جانا چاہتی تھی جو سگریٹ کے دھوئیں سے الرجی محسوس کرتے سر تا پاوں سرخ ہوئ جا رہی تھی


تم بھی سگریٹ پینے والے مردوں میں شامل ہو" وہ کھانسی کا گلا گھونٹے ناگواری سے بولی تھی


مطلب میں بھی زہر لگتا ہوں"

سرخ سی نظریں اس کے چہرے پر ٹکائ تھیں


پ۔۔پانی پلیز۔۔"

وہ بری طرح کھانس رہی تھی جبکہ وہ گہرے کش پہ کش بھر رہا تھا


غاز۔۔پل۔۔پلیز سٹاپ سموکنگ پ۔۔ پانی مجھے استھمک اٹیک میرا سانس"

وہ کھانستے بامشکل لفظ ادا کرتے مزید بے حال ہو رہی تھی


عادت ڈالو پھر ویسے بھی مجھ پر کونسا تمہیں یقین ہے۔۔۔"

وہ آنکھیں موندے لاپروا بنا رہا تھا

سموکنگ کے دھوئیں گندم کی ہارویسٹنگ اور تیز ناک کو چھبتی خوشبووں سمیت بلیک پیپر سے اسے شدید قسم کی الرجی تھی

جبکہ وہ اس کی نرمیوں کے بعد ایسا رویہ دیکھتے بامشکل اٹھی تھی دوپٹے کا ایک سرا تھاما تھا جو اس کے نیچے ہونے کی وجہ سے ہاتھ میں نہی آپایا تھا


م۔۔میرا دوپٹہ چھوڑیں" وہ بے بس سی ہوئ تھی


یہاں میرے علاوہ شائد کوئ نہی ہے جس سے تمہیں چھپنا ہے"

وہ ہنوز کش بھرتے موندی آنکھوں سے بولا تھا


وہ فلحال اس سے بحث کے موڈ میں نہ تھی لڑکھڑاتے قدموں سے کیچن کی جانب چلی گئ تھی

اس کے جاتے وہ دوپٹہ مٹھی میں تھامے سگریٹ کا کافی دھواں اندر لے جانے سے سرخ آنکھوں سے اب سگریٹ جوتے کے نیچے مسلی تھی


پانی ہونٹوں سے لگاتے وہ سلیب کا سہارا لیے تھی چہرا اس کی نظروں کی تپش سے جلتا سرخ محسوس کرتے سنک سے پانی کے چھینٹے چہرے پر مارے تھے


وہ پلٹتی دھک سے رہ گئ تھی جو اس کے عین سامنے سرخ آنکھوں سمیت تھا

کچلتے لب سرخ نم چہرہ لیے وہ سائیڈ سے نکلتی وہ اس کو مقابل کیے سلیب سے لگا گیا

اٹس انف ناو"

صرف دو دن ہیں خود کو بدل لو ورنہ میری زبردستی کی شدت تم برداشت نہی کر پاو گی"

اپنا چہرا جھلساتی سگریٹ سے ملی اس کی سانسیں اس کی باتیں اس کی ریڈ کی ہڈی تک سنسنا گی تھی

تو تم دوسری شادی کر لو پلیز میری طرف سے اجازت ہے۔۔۔"

وہ اس کے پیروں کو گھورتے لزرتے وجود سے سلیب کمر پر چھبتی محسوس کرتے اس کی باتوں سے سرخ پڑتی جا رہی تھی

اس کے لب تنزیہ مسکرائے تھے

فکر نہی کرو تم سے اپنا حق وصول کرنے کے بعد دوسری شادی بھی کر لوں گا"

تیز بجتے فون سے وہ پرے ہٹا تھا کے وہ سینے پر ہاتھ رکھتے سانس بحال کرتے وجود سے دھواں اٹھتا محسوس کرتے وہی چند پل ٹکی رہی تھی

یس غازیان سپیکنگ"

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے روم میں آتے فون کان سے لگائے بولا تھا

اوکے سر۔۔۔"

دس منٹ تک میں نکلتا ہوں"

وہ صوفے پر چپکی بیٹھی سامنے اب دیوار میں نصب ایل ای ڈی اون کیے لاشعوری طور پر غائب دماغی سے بیٹھی تھی

جب پرفیوم کی سوفٹ مہک سے مہکتا لاونج اس کی موجودگی کا پتہ دے رہا تھا وہ نظریں نہی اٹھا پائ تھی

بینڈج چینج کرو میری"

وہ ریمورٹ چھینتے ایل ڈی پر چلتا رپیٹ مارننگ شو بند کرتے تیز لہجے میں بولا تھا

بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا فرسٹ ایڈ بوکس روم سے لاتے وہ باہمت ہوئ تھی ورنہ اس سے خوف آ رہا تھا

لزرتے ہاتھوں سے گیلی ہوئ پٹی کھولتے وہ لب بھینچے اس کی تکلیف خود میں اترتی محسوس کر رہی تھی جہاں سے اس کے بال غائب تھے اور واضح زخم نظر آ رہا تھا

کوٹن سے صاف کرتے وہ وونڈ ہیلینگ (wound ) کریم انگلی پر لگاتے نرمی سے لگا رہی تھی کے اس کا چھونا بھی تکلیف دہ نہ ہو

بینڈج کرتے وہ پٹی کی گرہ لگانے آگے آتے جھکی سی تھی

جب اس کی نظریں اسے مسلسل پریشان کر رہی تھی

کہاں سارے فرائض میں بتاوں سی اوف کرو مجھے"

وہ بے بس سی ہو گئ جو اسکا ہاتھ تھامے تھا

زبردستی ہے کوئ"

پل پل بدلتے رویوں پر وہ ہاتھ چھڑانے کی سعی میں دانت پیستے بولی تھی

مجھے فضول باتیں ہر گز پسند نہی"

کیا کچھ سیکھ کے نہی آئ تم نالائق بیوی کیسے سی اوف کرتے ہیں "

گاڑی کے پاس کھڑے یہ آج کے دن کا دوسرا طنز لگا تھا

نہی مجھے نہی پتہ۔۔"

وہ اس کی فضول فرمائشیں سنتے تپ اٹھی تھی جب اس کے لب اپنے ماتھے پر محسوس ہوئے تھے

کرو اب اور کہو اللہ کے حفظ و امان میں۔۔۔"

ہرگز نہی۔۔۔"

آنکھیں سامنے گاڑے وہ ڈھٹائ سے بولی تھی

کرو ورنہ"

اس کے ہونٹ انگوٹھے سے مسلے تھے۔۔"

وہ ناچار قدموں پر اونچے ہوتے اس کے ماتھے کو دیکھتے آنکھیں موند گئ تھی یہ شخص آخر کیا تھا

ڈو۔۔۔"

کمر پر اس کے ہاتھ محسوس کرتے وہ لزرتے لب اس کی کشادہ پیشانی پر رکھتے فوری سے پرے ہوتی کے اس کا مضبوط کمر کے گرد کینچھا حصار اسے بے بس کر گیا تھا


ٹیک کیئر"

جبکہ وہ میچی آنکھوں سے اس کا مزید سامنا نہ کرتے تیزی سے پیر پٹختے واک آوٹ کر گئ تھی"


چلیں سر"

گاڑی باہر نکالتے پرسنل گارڈ فرنٹ سیٹ پر آیا تھا


----------------------------------------------------


ریحہ

کہاں ہو یار۔۔۔"

وہ کبرڈ میں منہ دیے کب سے اپنی شرٹ ڈھونڈ رہا تھا

ریحہ احان شائد بلا رہا ہے تمہیں بیٹا"

وہ جو کیچن میں تھی اس کی آواز نہی سن پائ تھی

اب کیا گم ہو گیا ہے مجھ سے"

چلو ریحہ تیار ہو جاو گھنٹا لیکچر لینے کو"

وہ برنر اوف کیے خود سے بڑبڑاتے کیچن سے نکلی تھی

ریحہ۔۔۔"

وہ جو اپنے روم سے نکل رہی تھی

اس کے زرا سے وا دروازے سے آواز سنی تھی

کھلے بالوں میں ہاتھ پھیرتے نچلا لب ہونٹوں تلے دبائے اس کے روم کی نوب پر ہاتھ رکھے گہرا سانس بھرتے کھولا تھا

وہ شاور لیے سیاہ ڈریس پینٹ میں کبرڈ میں منہ دیے شرٹ کے بغیر کھڑا تھا

کچھ کام تھا آپ کو مجھے بتا دیں ریحہ بھابھی شائد کافی بزی ہیں۔۔۔"

آواز سے سرعت سے پلٹتے اس لڑکی کو بغیر نوک کیے اپنے روم کے دروازے سے آدھا اندر ایستادہ دیکھ ناگوار بل آئے تھے

اپس سوری۔۔"

جو اب سامنے اس کو دیکھتے پشت کرتے شرمندہ ہو رہی تھی

جی کہیں اب کیا ہو گیا مجھ سے۔۔"

وہ جو نون سٹاپ بولتے اندر آئ تھی آگے کا منظر دیکھے چپ ہوئ تھی

دانین آپ۔۔۔"

وہ حیرت لیے بولی

جبکہ احان ایک شرٹ تھامے کھڑا تھا اس کے کچھ کہنے سے پہلے وہ جو اندر آ گئ تھی

وہ یہ آپ کو کب سے بلا رہے تھے مجھے لگا آپ بزی تو۔۔"

وہ فوری سے جواز دیتے بولی تھی

پہلی بات میں ریحہ کو بلا رہا تھا دوسری بات آپ اگر میرے روم میں آ بھی گئ تو بغیر نوک کیے ایسے ہی اندر آ گئیں

مینرز نہی ہیں آپ میں کیا کسی کے روم میں بھی منہ اٹھا کے آ جائیں گی آپ"

وہ جلدی میں ہاتھ میں پکڑی شرٹ پہنتے ہی لہجے کی ناگواری کسی طور پر کم نہی کر پایا تھا

ریحہ نے اسے خاموش رہنے کو آنکھیں دکھائیں تھیں

مجھے واقعی احساس نہی ہوا جلدی میں سوری۔۔"

وہ فوری سے بولی تھی

دانین شرمندہ سی لک دیتے چلی گئ تھی

کیا تھا یہ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا

دانین آخر تم کیا کرنا چاہ رہی ہو"

وہ بال انگلی پر لپیٹتے سوچتی ہوئ قدم بھر رہی تھی

اسے جلدی میں نہی اندازہ ہوا ہو گا احان آرام سے بھی بات کر لیتے ہیں"

وہ دروازہ بند کیے اس تک کبرڈ تک کا فاصلہ طے کرتے آئ تھی

المینرڈ حرکت تھی یہ اسے پتہ ہونا چاہیے اس روم میں بے دھڑک تمہارے علاوہ ایسے کسی کو آنے کی اجازت نہی"

وہ پہنی شرٹ کے بٹن کھولتے اس کو اپنے قریب کر گیا تھا

ک۔۔کیا حرکت کر رہے ہیں یہ"

وہ اسکو شرٹ کے بٹن کھولتے دیکھ فوری سے آنکھیں بند کیے سٹپٹائ تھی

کیسی حرکت۔۔"

وہ اس کے گال پر لب رک گیا تھا

حان میں کام کر رہی تھی یہ فضول ٹائم ویسٹ کرنے کو مجھے بلایا ہے"

اپنے سر سے سرکتا دوپٹہ دیکھتے اس کا ہاتھ تھام چکی تھی

تو میں بھی اہم کام ہی کر رہا ہوں"

ایسے رہا کرو میرے سامنے اس کے بال جوڑے کی زد سے آزاد کر چکا تھا جو کسی آبشار کی طرح اس کی کمر پر بکھر گئے تھے

اف یہ شرمانہ مجھے تم پر شدید غصہ تھا کیا یار سارا موڈ چینج کر دیتی ہو"

اس کے دوسرے گال پر لب رکھتے وہ مزید اسے سمٹا گیا تھا

باز آ جائیں حان یہ حرکتیں کرتے آپ بلکل لیٹ نہی ہوتے ویسے صبح صبح ہی میری نیند کے دشمن بن جاتے ہیں"

ریحہ نے گرفت سے نکلتے بال باندھنے چاہے تھے

اوکے حان کی جان"

ویسے یہ کبرڈ کی صفائ کیسی کی تھی کے مجھے میرے کپڑے ہی نہی مل رہے"

وہ اسے حصار میں لیے کبرڈ تک لایا تھا

کونسی نہی مل رہی۔۔"

وہ اسکو اپنی پشت پر محسوس کرتے کسمساتے بولی تھی جو اس کے ہاتھ باندھتے بالوں سے ہٹا چکا تھا

گرے شرٹ۔۔"

اس کے کندھے سے بال ہٹاتے اپنے لب رکھے تھے

اچھا پیچھے تو ہوں نہ ڈھونڈوں"

وہ لزرتے وجود سے اس کی شیو کی چھبن محسوس کرتے بولی تھی

نہی ایسے ہی ڈھونڈوں"

وہ لب دبائے اس کی یہاں پر بند ہوتی بولتی پر کندھے پر تھوڑی ٹکاتے بالوں سے آتی شمپو کی مہک سے گہرا سانس بھر کے رہ گیا

اس کی سانسیں اپنے کندھے اور کان پر محسوس کیے وہ تیزی سے ہینگر الٹا پلٹا کر دیکھنے لگی تھی

یہ کیا ہے" تین چار ہینگر پیچھے کرتے نکالتے دکھائ تھی

مجھے تو نہی نظر آئ تھی کتنی بار چیک کی پر سارے کلرز میں یہ نظر ہی نہی آئ۔۔"

وہ ہینگ شرٹ تھامتے بولا تھا

مجھے لگتا ہے آپ کو کلر بلائینڈنیس ہو گئ ہے اس کے گرفت نہ دیکھتے وہ پیچھے ہوتی جب وہ اس کی کلائ پھر سے تھام چکا تھا

جب تک میں تیار نہی ہو جاتا پاس رہو وقفے وقفے سے ضرورت پڑتی رہتی ہے تمہاری"

جیسے کے ابھی میرا دل چاہ رہا ہے تمہاری ناک کھا جاوں"

اس کے سمجھنے سے پہلے اس کا چہرہ تھاما تھا

آہ مما۔۔"

ریحہ کی ہلکی سی چیخ نکلی تھی

وہ اس کی ناک پر جھکتے شدت سے چومتے اپنے دانت تلے دبا جو چکا تھا

یخ بہت گندے اور برے ہیں آپ میری ناک کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں

اس کے شرٹ لیس سینے پر پنچ مارتے وہ کراہ اٹھی تھی

جلتے ہیں میری ناک سے عنقریب اپنی ناک جیسی موٹی اور گندی کر دیں گے"

اندازہ ہے آپ کو کتنی درد ہوتی ہے ابھی مجھے"

وہ سرخ ناک کو مسلتے غصے سے گھورتے بولتی جا رہی تھی

ناو یو فیل بیٹر بے بی"

وہ پھر سے حصار میں لیے اس پر نرمی سے لب رکھ گیا تھا

---------------------------------------------------







یونیورسٹی سے آ کر وہ آج کچھ کام کمپلیٹ کرنا چاہتی تھی کیونکہ پرسوں سے پیپر سٹارٹ تھے

وہ آئرن سٹینڈ کے قریب کھڑی اپنے کچھ کپڑے اور احان کی شرٹس پریس کر رہی تھی اس کے کام کرنے کی عادت سی ہو گئ تھی اب

ریحہ مجھے یقین نہی آ رہا ہے یہ میری وہی لاپروا بیٹی ہے میں بہت خوش ہوں لاپروا ریحہ کو سگھڑ بچی بنتے دیکھ"

وہ کپڑے پریس کرتے اپنی ماں کی باتیں یاد کرتے مسکرا رہی تھی واقعی ہی کافی حد تک خود کو زمیدار نبھانے والی بنا چکی تھی

میرے کپڑے پریس"

باقی لفظ دوپٹہ لپیٹے کھڑے نفس کو دیکھ کر منہ میں ہی رہ گئے تھے اسے آئرن سٹینڈ کے پاس دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکا تھا وہ کون ہے

کیسی ہو۔۔"

وہ دیوار سے ٹیک لگائے جھجکتے کھڑا ہو گیا تھا

اچھی ہوں۔۔"

مصروف سی ہی اسے دیکھ کر وہ محض مروت میں بولی تھی

میری دوست کہاں کھو گئ"

آئ مس ہر" اس کی آنکھوں میں نمی تھی

ریحہ نے اس کی آنکھیں نم دیکھی تھیں

میں تو وہی ہوں تم کہی کھو گئے تھے تم ایسے نہی تھے یہ کیسی محبت تھی ازہان تم اچھا برا بھول کر اس لڑکی کے لیے بھی مصیبت بن گئے"

ازہان نے شرمندگی سے نظریں مزید جھکائ تھیں مطلب وہ سب جانتی تھی

بھائ سے بولو مجھ سے بے رخی نہی اپنائے تمہاری بات نہی ٹالیں گے مجھے بے سکونی ہے"

وہ نظریں جھکائے ہی بولا تھا

اللہ سے نماز کے بعد سکون اور معافی کی دعا مانگو

اور رہی بات احان کی تو وہ تمہارا اور ان کا معاملہ ہے"

دو شرٹ پریس کرنی ہے"

تمہید باندھتے اس کے ہاتھ سے شرٹ لی تھی

اس شرٹ کے ساتھ ناراضگی بھی ختم کر لو پھر۔۔" وہ امید کے تحت بولا تھا

میرا تم سے ناراض رہنے کا کوئ جواز ہی نہی

بس بے یقین سی تھی میں ازہان جیسا بھی تھا وہ ایسا نہی تھا"

وہ اس کی جانب ایک نظر دیکھتے بول تھی

آئ ایم گلٹی بھائ نے میرا راز رکھا میں ان کا مشکور ہوں پر وہ مجھ سے شدید ناراض ہیں مجھ سے میری پڑھائ کے متعلق بھی کوئ سوال نہی کرتے

اب تو میں آفس بھی جاتا ہوں"

وہ اسے شرٹ پریس کرتے دیکھ افسردہ سا بولا تھا

یہ تمہاری بھول ہے وہ احان سکندر ہے یو نو ویری ویل ایک نمبر کے ضدی انسان ہیں اتنی جلدی مانتے نہی ہیں پر تمہارے معاملے میں کونشیس بھی ہیں یو ڈونٹ وری تم سے زیادہ تم پر خبر رکھے ہیں۔۔"

وہ اسے اس کی نیچر سے اگاہ کرتے بولی تھی

کچھ زیادہ نہی جان گئ میرے بھائ کو ری بھابھی"

وہ گہری مسکراہٹ لیے بولا تھا


سٹوپڈ ہو تم ایک نمبر کے ابھی کچھ دیر پہلے لڑکیوں کی طرح رو رہے تھے"

بات بدلتے اس نے کنی کترائ تھی


تم بلش کر رہی ہو حیرت ہے مجھے بلکہ احان بھائ کی قسمت پر رشک آ رہا ہے تمہاری کوائلٹیز کو دیکھ کر"

وہ قہقہ لگاتے بولا تھا

یہ شرٹ پکڑو اور رفو چکر ہو آئیندہ مجھے اپنی شکل نہی دکھانا"

وہ سوئچ نکالتے بولی تھی

ہاں مجھے بھی نظر لگوانے کا بلکل شوق" نہی"

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولا تھا

نظر چھوڑو تم میرے شوہر سے جوتے کھانے کے بارے میں کیا خال ہے"

زیادہ فری ہونے کی کوشش نہی کرنا سمجھے"

واہ آج تو دیور بھابھی میں بہت باتیں چل رہی ہیں"

کچھ خاص نہی دانین آپ کے شوہر کو بس اپنے شوہر سے بچنے کی ٹپس دے رہی تھی

وہ سٹینڈ کے پاس پڑی چیر سے سارے پریس کپڑے اٹھاتے چلی گئ تھی

میرے سامنے تو ہر وقت سڑی شکل لیے گھومتے ہو ریحہ بھابھی نے کونسے لطیفے سنائے ہیں جو تمہارے دانت نہی بند ہو رہے"

ازہان کی مسکراہٹ پر لب بھینچ کے رہ گئ تھی

یو فیل جیلس ہر ایک کے پاس سیم ٹیلنٹ تھوڑی ہوتا"

وہ کافی عرصے بعد ہلکا پھلکا فیل کر رہا تھا

آخر ہو کیا چیز تم اریحہ میڈم۔۔"

کونسے ٹیلنٹ ہیں تمہارے پاس جو مردوں کو قابو ہی کر لیتی ہو"

صبح احان کا اپنے ساتھ تلخ رویہ یاد آتے بھی اس لمحے اس سے جلن ہوئ تھی

---------------------------------------------------

آفس میں بیٹھے وہ سر مسل رہا تھا

ٹیک لگانے سے پیچھے تکلیف سی ہوئ تھی

جب اپنے آفس میں تین گارڈ سمیت

دو بندے داخل ہوتے دیکھ رگوں میں تیش ابھرا تھا

یہ میرے آفس میں کیسے آئے"

کریڈل کان سے لگائے اس کی دھاڑ سے اس کے گارڈ سمیت پی اے اندر آیا تھا

سر آپ انہیں جانتے نہی شائد میر سبطین"

وہ کچھ بولتا کے سامنے بیٹھا میر سبطین کا پی اے اسے چپ کرا گیا

جاو تم جوان خون تھوڑا جوش مار رہا ہے"

بکواس بند کر اپنی" وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتے بولا تھا

آرام سے دیکھو میں یہاں صلح صفائ سے کام لینے آیا ہوں

دانیال کی طرف سے معافی مانگنے

یہ اس وکٹم سے میرا مطلب ہے تمہاری بیوی سے بھی مانگ لے گا"

تم نے اعلی ظرف دکھایا اس ملک میں تم جیسے لوگوں کی بہت ضرورت ہے"

آئ سیڈ لیو ورنہ یہی ٹھوک دوں گا"

جیکٹ سے پسٹل لیتے ری لوڈ کرتے وہ اس پر تان چکا تھا اس کی باتیں زہر اتار رہی تھیں جیسے اس کی بیوی نہی وہ بے لباس ہو رہا ہو یہاں

گن نیچے کر اے سی تو جانتا نہی ہے شائد سامنے کون ہے"

اس کے گارڈ دونوں جانب سے گن تان چکے تھے

تحمل سے سنو یہ چیک جتنی اماونٹ چاہتے ہو بھرو

اس کے علاوہ تمہاری پوسٹ چینج ہو سکتی ہے

دوسری بات دانیال کے ساتھ شامل دو لوگوں کو خود موت کے گھاٹ اتاروں گا

تمہارا بدلہ پورا"

وہ چیک بک ٹیبل پر پھینکتے بولا تھا

تیرے بیٹے پہ سو کتے نہ چھوڑ دوں کمینے غلیظ ۔۔"

پھر تیرے کام آئے گی یہ دولت"

نکل یہاں سے" وہ اپنی چیر سے اٹھتے پسٹل اس کے ماتھے تک لایا تھا

کم ڈاون یہ برا ثابت ہو گا تیرے لیے بہت ہوا اب پیار سے سمجھایا میں نے"

چل اب مان جا ورنہ میرے بیٹے کو کڈنیپ کرنے کے حرجانے بھرتے ہی تیری زندگی گزر جائے گی

غور کرنا نا یہ جوب رہے گی نہ اکڑ۔۔۔"

وہ اپنے گارڈز کو گنز نیچے کرنے کا اشارہ کرتے اٹھتے ہوئے بولا تھا

لیکن جیسے ہی وہ پلٹا تھا ایک فائر کی آواز گونجی تھی

دیکھتے ہی دیکھتے وہ پیچھے سے فائر کر چکا تھا یک دم اس کے آفس میں بھونچال سا مچ گیا تھا

نیوز پر چیختی چلاتی خبر نے حمدان کو آگاہ کیا تھا

وفاقی وزیر میر سبطین پر حملہ زرائع کے مطابق گولی ان کے دائیں کندھے پر لگی ہے

حملہ کرنے والا کوئ نہی بلکہ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے نئے اسسٹنٹ کمیشنر غازیان نیازی کا ہاتھ ہے"

ٹی وی پر چلتی خبر میں باقاعدہ اس کی تصویر اور فوٹیج میں گولی چلاتی ویڈیو منظر عام پر تھی

اس لڑکے میں صبر کیوں نہی ہے عزت کے شیرازے بکھیرنے پر تلا ہے عزاب پیدا کر رہا ہے خود کے لیے بھی

فون کان سے لگائے وہ مضطرب سے باہر نکلے تھے آج وہ حد کر چکا تھا اس کے بعد جو مسلے پیدا ہونے والے تھے وہ اس سے بھی آگاہ تھے گارڈ کی ہمراہی میں وہ اس جانب روانہ ہوئے جہاں محکمے کی کسٹڈی میں پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ پیشی بھگت رہا تھا

اس ٹائم کمیشنر ڈپٹی کمیشنر ڈسٹرکٹ سینیر اسٹنٹ کمیشنر اور ڈی سی کے علاوہ کچھ مزید لوگ وہاں تھے

آپ اپنی حرکت کا جواز دیں گے غازیان"

اختیارت انسان کے ہاتھ میں ہوں تو ان کا یوں استعمال کرتے ہیں"

کمیشنر نے اپنے عین سامنے کرسی پر براجمان اس سلجھے بندے کی حرکت پر دھنگ ہوتے کہا


میرا بس چلتا تو میں اس کی جان لے لیتا"

حمدان نے تیکھی نظر ڈالتے اس کا جواب سنا تھا


ٹیمپر لوز کرنا آپ کی ٹرینگ میں نہی ہے"

وہ خاصے چباتے اپنا حصہ بات میں ڈال چکے تھے


تو یہ آپ کا ایک ویل نون سینیر اتھورٹی رکھتے بندے کے ساتھ رویہ ہے تو کمزور لوگوں کے ساتھ آپ کا کیسا رویہ ہو گا

زاتی مسائل کو پرفیشنل سے ایمرج نہی کریں

ان کے ہوش میں آنے کے بعد ان کا بیان ریکورڈ ہو گا تب تک کے لیے آپ فائر ہی سمجھے خود کو

محکمہ آپ کو حراست میں لیتا ہے

ڈس مس ہیں آپ جوب سے"


یہ کیا حرکت تھی غازیان جانتے بھی ہو


وہ آ کر فضول بکواس کر رہا تھا"

وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے جلتی آگ میں تھا


بکواس تو ہو گی یہ غازیان یہ تمہیں اس لڑکی کو اپنے نکاح میں لینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا

اب ایسے اپنا ٹیمپر لوز کرنے کی بجائے بردباری سے سہن کرو"

وہ خاصے چباتے لہجے میں باور کرا رہے تھے


نور اکیلی ہے گھر میں اس کے پاس سیل فون بھی نہی ہے ڈیم شٹ میں اس کے سینے میں گولی اتارنا چاہتا تھا "

شام کے سائے محسوس ہوتے وہ مٹھی بھینچتے اس شخص کی گفتگو یاد کرتے بولا تھا


جب تک اس کا معاملہ کلیر نہی ہوتا تم اسی جگہ نظر بند ہو"

وہ بند کمرے نما آفیسر سے ہوئے گناہوں کو اگلوانے والی ہلکی سی روشنی پر منبی سیل دیکھتے بولے


میر سبطین کو ہوش آ گئ ہے"

وہ کال رسیو کرتے بولے تھے

بیان ریکورڈ کروانے کے دوران میں ملنا چاہوں گا۔۔"


اگر آپ نے اس کمینے سے کوئ معاہدہ طے کیا تو میری شکل بھی نہی دیکھ پائیں گے"


اس کی آواز نے حمدان کے قدم روکے تھے


شٹ اپ۔۔۔"

وہ اس پر غصے بھری نظر ڈالتے نکل چکے تھے جو اپنا جوب کریئر داو پر لگوا چکا تھا


اندھیرا دیکھتے وہ لاونج سے روم میں آ گئ تھی

آج اپنی حرکتوں سے کتنا کچھ اسے باور کرا کر گیا تھا دانستہ اپنا چہرہ اور ہاتھ اس کے لمس سے جلتا محسوس ہوا تھا


شدید نوک ہوتے دروازے سے لاونج کے سرسراتے پردے اسے خوفزدہ کر گئے تھے

اس کے پاس تو چابی تھی پھر دروازے پر کون تھا دل تھامتے وہ دوپٹہ لپیٹے کی ہول سے دیکھ رہی تھی

حمدان کا چہرہ واضع تھا پھر بھی احتیاط کے لیے وہ پوچھ بیٹھی تھی


کون۔۔"

حمدان ہوں میں نور"

ڈور کھولتے وہ حیرت کے ورطے میں ڈوبی تھی


انکل آئیں نہ دانستہ وہ اپنے باپ کے علاوہ ہر مرد سے خوفزدہ ہی ہوتی پر وہ اس کا باپ تھا جو اسے اپنی زندگی میں شامل کر چکا تھا دروازہ نہ کھولنے کا تو جواز ہی نہی تھا


نور تم اپنے بابا کی طرف آج رات چلی جاو میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں"

شال وغیرہ لے لیں آپ بیٹا"

وہ اس کے روم کی طرف بڑھے کبرڈ کھولے کچھ ڈاکومینٹس لے رہے تھے

غازیان کہاں ہیں" لمحے میں وجود سنسنایا تھا دماغ جیسے شل سا ہوا

اتنا ہنگامہ بھرپا ہوا آپ نہی جانتی"

ناقابل فہم تاثرات وہ کاغزات لیتے لوکر بندکر رہے تھے

دیکھیں بیٹا آپ جانتی ہے آپ کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے وہ اس کو لے کر اپنا ٹیمپر بہت لوز کر جاتا ہے"

جیسے کے آج"

م۔۔مطلب۔۔" وہ انجان سی کیفیت میں کھڑی بھوئیں اچکا گئ تھی

مطلب وہ آپ کی کڈنیپنگ میں ملوس میر سبطین پر فائر کر چکا ہے

ہی از ناو ڈس مس ڈیپارٹمنٹ کی حراست میں ہے وہ"

کیا؟

سکتہ ٹوٹتے وہ ہوش میں آئ وہ اپنی جوب خطرے میں ڈال چکا تھا

اس لمحے اپنے قدم زمین پر جمانا مشکل لگا دم گھٹتا سا لگا تھا دن کے مناظر فلم کی طرح نظروں کے سامنے تھے

کیا گناہگار کی رسی کو اتنی ڈھیل ملنی تھی

وہ اس کی وجہ سے کیا کر رہا تھا اس لمحے حمدان سے نظریں چرا رہی تھی وہ

----------------------------------------------------

ازہان شام کے لیے مجھے اپنی فرینڈ کی اینگینجمینٹ تھیم کے اکورڈننگ شاپنگ کرنی ہے"

وہ نیل فوئلر سائیڈ ٹیبل پر رکھتے مرر سے نظر آتے اس کے عکس کو دیکھتے بولی

دانین فلحال میں بزی ہوں تم اون لائن کر لینا"

وہ کف لنکس بند کرتے مصروف ہی بولا تھا

تمہارے پاس کبھی میرے لیے ٹائم ہے ازہان یہ ہمارا ہنی مون پیریڈ ہے لیکن نہی ایک تو میں عزاب سے گزر رہی ہوں اوپر سے تم موڈ کا بیڑا غرق کیا کرو"

وہ بیڈ سے اٹھتے ناگواری سے بولی تھی

کون سے عزاب سے گزر رہی ہو تم ماں بننا عزاب ہے تمہارے لیے۔۔"

وہ اس کو پیچھے سے حصار میں لیتے بولا تھا

کنٹرول۔۔۔"

وہ اس کے ہاتھ اپنے پیٹ سے جھٹک چکی تھی

یار میں دیکھ رہا ہوں تم چڑچڑی ہو رہی ہو شائد یہ اس سچویشن میں ہوتا ہے"

اس کے سراپے پر نظر ڈالی تھی مہرون سلک کی نائٹی میں اس کا رنگ مزید دھمک رہا تھا کندھوں تک آتے بال بکھرائے وہ فریش سی لگی

ہوپ سو میں ایک اچھا باپ بن سکوں"

اس کے گال پر لب رکھتے وہ اسے اپنے رویے سے حیران کر رہا تھا

پہلے اچھے شوہر تو بن جاو مجھے ہماری رشتے کی خوبصورتی نظر نہی آتی۔۔۔"

وہ ناراض سی بولی تھی

ناشکری نہی بنو

رہی رشتے کی خوبصورتی تو وہ ہم دونوں نے نامحرم رشتے کو نکاح سے پہلے چنتے ساری خوبصورتی ختم کر لی۔۔"

اس کا رخ اپنی جانب کر چکا تھا وہ افسوس زدہ سا ہوا

تنز مجھے کیوں کررہے ہو"

وہ اس کے سینے پر زور دیتے آگ بگولا ہوئ تھی

میں تمہیں تنز نہی کر رہا بلکہ خود کو بھی برابر گناہگار مانتا ہوں"

مجھے لگتا ہے میں نے کچھ پانے کی چاہ میں بہت کچھ کھو دیا"

وہ اس کی فیروزی شرٹ کے بٹنوں پر انگلی پھیرتے ناقدرانہ انداز میں کھوئ سی بولی

پچھتا رہی ہو۔۔"

وہ سنجیدہ ہو گیا تھا

کیا تم اس گھر کے بیٹے ہو پھر تم میں اور احان میں اتنا فرق کیوں یہاں تک کے تمہارا روم دیکھو جبکہ ان کا روم اتنا بڑا ہے"

وہ طائرانہ نگاہ بیڈ سے لیکر ڈریسر اور وارڈروب پر ڈالتے گرے تھیم سے ملے جلے پینٹ شدہ کمرے پر ڈالتے بولی

میں اس گھر کا بیٹا ہی ہوں

میرا اور بھائ کا روم سیم ہے بس ایک بالکنی کا فرق ہے ان کا روم گارڈن سے فرنٹ پر سو ان کے روم میں بالکنی اضافی ہے"

وہ شو ریک کی جانب گیا تھا

انسان کو جتنا بھی مل جائے پر پھر بھی اسے مزید پانے کی چاہ ہوتی ہے بہتر سے بہترین کی خواہش تو ہر انسان کی ہوتی ہے مجھے کیا چاہیے

ریحہ کی چیزیں مجھے کیوں اٹریکٹ کر رہی ہیں

کوٹ تو پکڑا دو میرا۔۔"

اس کی بات سے وہ مسکراتے لب سکیڑ چکی تھی

--------------------------------------------------------

ایک تو یہ ٹیچرز پتہ نہی ہمیں کھوتا سمجھتے ہیں"

ٹریلر دکھا کے پیپرز میں فلم ہم سے ریلیز کرواتے ہیں

اسائنمنٹ، پریزنٹیشنز، کوئیز، مڈ فائینل میری آدھی زندگی تو اسی میں گزر گئ ہے"

اب تو پڑھنے کو بھی نہی دل کرتا یا اللہ کیا ایسا ہوتا ہے بلا شادی کے بعد بھی پڑھو"

وہ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی ٹانگیں جھلاتے خود سے بڑبڑاتے سارے نوٹس پھیلائے تھی

ریحہ یہ کیا حالت ہے روم کی"

ثانیہ چیزیں سمیٹتے بولیں جس کا بیگ اور ابایا اور سٹولر صوفے پر تھا جبکہ سائیڈ ٹیبل سے لیکر بیڈ پر کاغذ چائے کا کپ سمیت کھانے والی ٹرے بھی وہی تھیں

آپ نہی کریں میں کر لوں گی بڑی مما"

وہ اپنے کمرے کی حالت دیکھتے ان کے سامنے شرمندہ ہوئ تھی جو بھی تھا ان سے اب رشتہ بدلتے ساس بہو والا ہی بن گیا تھا

احان کو بکھراو نہی پسند آ کر بولے گا"

وہ تھوڑا سخت ہی بولیں تھیں

ایکچولی صبح میرا فرسٹ پیپر ہے تیاری بلکل بھی نہی ہے اسی لیے تھوڑا چیزیں سمیٹنے کا ٹائم نہی لگا"

وہ گیارہ بجے یونی سے آتے آدھے گھنٹے بعد ہی بکس میں سر دیے بیٹھ گئ تھی

ہمم لیکن پھر بھی خیال کیا کرو۔۔"

جی"

وہ برتن لے جاتے بولیں جبکہ وہ ہونٹ دانتوں تلے دبائے آنکھیں میچ گئ تھی

ابھی وہ بامشکل دوبارہ پڑھنے کا ٹیمپو سیٹ کر پائ تھی

جبکہ چیختے فون نے توجہ کینچھی تھی

کہاں گیا۔۔؟؟

بیڈ پر بکس کے نیچے چیختا فون اسے بڑی مشکل سے ملا تھا

نمبر دیکھتے ہسی چھوٹی جو ابھی اٹینشن سیکر کے نام سے سیو تھا

میرا اٹینشن سیکر"

زیر لب مسکراتے وہ کان سے لگا گئ تھی

مجھے مس کر رہی تھی"

وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاے بولا تھا

قسم سے میں فضول ٹائم ضائع نہی کرتی"

وہ ساتھ ساتھ پوائینٹ ہائ لائٹ کر رہی تھی

بٹ آئ مس یو۔۔"

چلو اب مجھے کال بیک کرو اور کہو آحان آئ آلسو مس یو۔۔"

ہری اپ۔۔"

حان آپ ٹھیک تو ہیں"

وہ پیپر پیچھے کرتے فون کان سے ہٹائے اس اچھے بھلے تمیزدار بندے کی چھچھوری حرکتیں نوٹ کر رہی تھی

حان کی جان مجھے ٹھیک کہاں رہنے دیتی ہے"

اس کی گھمبیر آواز سے وہ مسکرائ تھی

کام کی بات ہے تو کریں ورنہ میں کال کاٹ رہی ہوں بزی ہوں میں۔۔۔"

وہ سرخی کے رنگ لیے تزبزب میں بولی

اوکے کام کی بات

تو پھر آج شام سات بجے ڈنر ہے میری کولیگ کی طرف ریڈی رہنا"

اور ہاں۔۔۔"

فی میل کولیگ۔۔۔"

ریحہ نے خاصہ زور دیتے ابرو اچکاتے بات درمیان میں کاٹی تھی

بیوی والے فیز میں جاتے شک کر رہی ہو مجھ پر" اس کی کھنکھتی آواز میں واضع تبسم محسوس کر رہی تھی وہ"

حالانکہ میں نے ایسا کچھ نہی کہا محض خوشفہمی

بحرحال میں بزی ہوں"

لہحذا فون رکھیں۔۔" وہ بات بدلتے بولی

اے دس بار مجھے بزی کا بتا چکی ہو اب بات سنو مجھے کورٹ سے آج فیکٹری جانا ہے بابا کے ساتھ ضروری میٹنگ میں لیٹ ہو جاوں شائد میرے کپڑے ریڈی کر دینا اور خود ریڈی رہنا میرے دلائے مہرون ڈریس میں اچھا سا اوکے"

وہ سارا پلین سیٹ کر چکا تھا ریحہ نے پوری بات سننے کے بعد لب وا کیے

آپ کا ڈنر کینسل نہی ہو سکتا میں واقعی بزی ہوں احان صبح میرا۔۔۔"

وہ بات اچک چکا تھا

نہی کینسل ہو سکتا نہ پچھلے ویک اینڈ کینسل کیا تھا و آ رگیو۔۔۔"

حان سنیں تو ۔۔۔" فون کان سے ہٹاتے دیکھا کال کاٹ چکا تھا وہ

پڑھ لیا تم نے سارا ریحہ اس بار پاسنگ مارکس بھی نہی آنے"

سوچتے گھڑی دیکھی جہاں تین بج رہے تھے

-------------------------------------------------------

چھ بجے شاور لے کر وہ ڈریس لیے مرر کے سامنے تھی

جب اس کا روم نوک ہوا تھا

یس کمنگ۔۔"

دوپٹہ اوڑھتے وہ کبرڈ کی جانب گئ تھی

سوری ٹو ڈسٹرب یو

آپ سے ایک فیور چاہیے تھی"

وہ بیڈ پر پڑے کپڑوں پر نظر گاڑے بولی

دانین کی آواز سے کبرڈ سے جیولری نکالتے وہ پلٹ تھی

جی۔۔"

وہ کیسے کہوں مجھے بلکل اچھا نہی لگ رہا۔۔

وہ ہونٹ چبا رہی تھی

دانین منہ سے کہیں۔۔"

وہ مسکراتے قریب گئ تھی

وہ مجھے آپ کا یہ مہرون ڈریس چاہیے تھا میری دوست کی اینگینجمینٹ تھیم کے اکورڈینگ مہرون ڈریس کورڈ تھا

میرے پاس مہرون کلر میں ڈریس نہی ازہان فری نہی تھا اون لائن میں مجھے کوئ مہرون کلر پسند نہی آیا سونے پر سہاگہ یہ ہے کے آپ کے پاس مہرون کلر میں"

وہ للچائ نظروں سے بیڈ پر پڑا ڈریس دیکھتے بولی تھی

آپکا یہ ڈریس میں آج رات پہن سکتی ہوں پلیز انکار نہی کرنا۔۔"

وہ اس کے چہرے کے ناقابل فہم تاثرات دیکھتے انکار ہرگز نہی سننا چاہتی تھی

ایکچولی مجھے بھی کہیں جانا تھا" ریحہ اتنا بولتے ہونٹ بھینچے خاموش ہوئ تھی

اٹس اوکے مجھے لگتا تھا آپ سے مل جائے گا لیکن کوئ بات نہی میں کوئ اور پہن لیتی ہوں

ریحہ کو انکار اچھا نہی لگا ایک ڈریس کی تو بات تھی ویسے بھی وہ کونسا تھیم فولو کر رہے تھے جس میں مہرون ڈریس لازمی تھا پر احان نے خود کہا تھا اسے

وہ چند لمحے سوچ میں پڑ گئ تھی

اٹس اوکے میں تھیم فولو نہی کرتی آپ زیادہ نہی سوچیں"

وہ بولتے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے دروازے کی جانب چلی گئ تھی

دانین رکیں"

وہ تو انتظار میں تھی فوری سے پلٹی تھی

آپ پہن لیں میں کچھ اور پہن لیتی ہوں"

اسے انکار کرنا مناسب نہی لگا

سچ میں۔۔"

تھینکیو سو مچ ریحہ بھابھی۔۔"

وہ ڈریس جھٹ سے لیتے اسے زور سے گلے لگا چکی تھی

نو نیڈ۔۔" وہ پھیکا سا مسکرائ تھی

اس کے جانے کے بعد گہرا سانس بھرتے وارڈروب کو چھانتے اپنے لیے سکن اور براون کمبینیشن کی فراک نکالی تھی

چینج کیے شیشے کے سامنے کھڑے ہوتے اپنی رنگت سے ملتی جلتی فاونڈیشن لگاتے

ہونٹوں پر گلابی سا ٹنٹ لگایا تھا گال ہائ لائیٹ کرنے کے بعد بھوری آنکھوں کو کاجل اور مسکارے کا ٹچ دیتے بال برش کیے تھے

ہلکی سی ڈنر کی مناسبت سے تیاری کیے وہ مسکراتے کانوں میں گولڈ کے ائیررنگز پہنتے ہاتھوں میں چوڑیاں پہنتے اس کی محبت کی رنگت لیے گاڑی کے ہارن سے شرمائ تھی

گھڑی پر نظر ڈالی جہاں ساڑھے چھ ہو گئے تھے

وہ تیار سی لاونج میں کھڑی تھی بال کندھے سے آگے ڈالے تھی

قدم قدم سیڑھیاں چڑھتے لاونج کی حدود میں اسے اس طرح پشت کیے کھڑے دیکھ حیران تھا

کف لنکس موڑتے وہ اس جانب آیا جہاں وہ پشت کیے کھڑی تھی

یہاں میرے انتظار میں تھی

اس کو پیچھے سے اپنے حصار میں لیتے وہ سرگوشی کرتا کے وہ لٹی تھی

آ۔۔آپ میں۔۔"

وہ اس کے لمس پر گڑبڑاتے آنکھیں سکیڑتے فون سے نظریں ہٹاتے اس اچانک افتاد سے ہمکلام ہونا چاہتی تھی

آئ ایم رئیلی سوری مجھے لگا ریحہ۔۔

احان ماتھے پر مٹھی سے مکا مارتے شرمندگی سے سرخ سا پیچھے بدکا تھا اسے اسی سیم ڈریس میں بھرپور سجی دیکھ وہ کیسے اندازہ نہی کر پایا وہ ریحہ نہی ہے

اٹس اوکے ڈریس سے لگا آپ کو آپ شرمندہ نہی ہوں ایکچولی ریحہ بھابھی کو یہ ڈریس شائد کچھ خاص پسند نہی تھا اسی لیے میرے ایک بار مانگنے پر مجھے دے دیا لیکن شائد آپ کو اچھا نہی لگ رہا۔۔۔"

ناگوار بل اس لمحے اس کے ماتھے پر آئے تھے

وہ کیسے اس کی دی چیز کسی کو بھی دے سکتی تھی آج اسے اپنے فیورٹ کلر اور پسند کے ڈریس میں دیکھنا چاہتا تھا اوپر سے ہوئ مس انڈرسٹینڈنگ اسے مزید تیش دلا گئ تھی

وہ بغیر جواب دیے روم میں چلا گیا تھا

اف دانین وہ لب دباتے ارد گرد چور نظروں سے دیکھتے اپنے بال جھٹک چکی تھی

روم میں داخل ہوتے بکھرے ڈریسر کو دیکھتے تنہائ کا سامنا ہوا بازو پر ڈالا کورٹ صوفے پر پھینکتے وارڈروب کھولی تھی

کپڑے لیتے نظر اچانک نیچے پڑی تھی اپنے دیے بریسلیٹ کی بے قدری نیچے جھکتے مٹھی میں تھامتے مزید خوشگوار موڈ تباہ کرتے غصے میں اضافہ کر گئ تھی

آ گئے آپ۔۔۔"

وہ واشروم سے اس لمحے باہر آئ تھی

ہلکلے نم بال پشت پر بکھرے سے تھے نیٹ کی براون شورٹ فراک اور کیپری جس پر سکن ہی گلے پر دھاگے اور موتیوں کا کام تھا میں تیار اس کو ناپسندیدگی سے دیکھا تھا

آج کچھ فورمل ڈریس بلیک کوٹ نہی آفٹر آل ہم ڈنر پر جا رہے ہیں مجرم کے گھر نہی سو نو بلیک ڈریس۔۔"

اس کا کورٹ ہینگ کرتے اس کو براون شرٹ تھمائ تھی

میری مرضی کی تمہیں بلکل پروا نہی تو مجھ سے کیوں امید لگا رہی ہو پھر"

شرٹ بیڈ پر پھنکتے وہ صوفے پر غصہ ضبط کیے چلا گیاتھا

وہ سمجھ نہی پائ اس کے بگڑے موڈ کو۔۔"

کیا ہوا ہے ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہے ہیں"

وہ نا سمجھی کے عالم میں اس تک گئ کے اپنی تیاری بھی اس لمحے بے معنی سی لگی

او رئیلی جب میں نے کہا تھا تم مہرون ڈریس پہنو گی پھر بھی تم نے نہی پہنا بلکہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے آگے کسی کو تھما دیا۔۔"

لمحہ لگا اسے سمجھنے میں

میری بات تو سن لیں

وہ ڈریس۔۔۔"

کاوچ پر اس کے نزدیک بیٹھی تھی

نہی سننی مجھے نہ تمہیں میری ویلیو ہے نہ ہی تمہیں میری دی چیزوں کی کوئ ویلیو ہے"

اگر تمہیں اتنا ہی نا پسند تھا تو جلا ڈالتی وہ"

براون رنگ میں کھڑی وہ فلحال اسے زہر لگی تھی

ایسی بات نہی ہے"

آپ کی ویلیو ہے میں انکار نہی کر سکی تھی بس"

وہ محض اتنی سی بات پر کیوں ناراض ہو رہا تھا اس کی سمجھ سے باہر تھا

رئیلی تمہارا تو میرے ساتھ جانے کو دل بھی نہی تھا رائٹ زبردستی جو کر رہا تھا میں "

وہ مزید تیز لہجے میں دن میں کی گئ کال کی یاد دہانی کراتے یہ بات بھی اس میں جوڑتے بولا تھا

یہ دیکھ رہی ہو تمہاری لاپرواہی"

مٹھی میں بند برسلیٹ سامنے کرتے بولا تھا

کبرڈ سے نیچے گرا ملا ہے مجھے یہ جانتے ہوئے بھی یہ کتنا ایکسپینسو تھا اگر ملازمہ کے ہاتھ لگ جاتا تو

Now u grow up

اب تو کم از کم کیئر لیس نہی ہو۔۔"

جیولری لیتے مجھے اندازہ نہی ہوا کیسے گر گیا آئ ایم سوری۔۔۔"

وہ آنکھوں میں نمی لیے بولی تھی

ہم لیٹ ہیں پلیز موڈ ٹھیک کر لیں" وہ انا سائیڈ پر کرتے گھڑی دیکھتے پھر سے بولی تھی

بھاڑ میں گیا نہی جانا مجھے کہیں بھی"

وہ دل تھام کے رہ گئ جو روم کا دروازہ زور سے بند کیے بغیر اس کی سنے چلا گیا تھا

روم سے باہر نکلتے وہ لاونج میں چلا گیا تھا

جہاں چند لمحوں بعد وہ پھر سے فون پر مصروف سی نظر آئ تھی کے وہ نظر نہی اٹھا پایا تھا اس لمحے کے وہ اتنا بے اختیار کیسے ہو سکتا تھا کے وہ اسے پہچان نہی پایا

ماتھا انگوٹھے اور دو انگلیوں سے مسلتے مزید اسے ان کپڑوں میں دیکھتے سر درد ہوا تھا

اب تم یہ نہی کہنا میں خود جاوں"

وہ فون پر آگ برساتے بولی تھی


دانین بزی ہوں میں بابا کے ساتھ تم کینسل کر دو"

واٹ۔۔۔"

فون سے ابھرتی اس کی آواز سے وہ اب چلائ تھی


احان نے اس کی بلند آواز پر غصہ ضبط کیا تھا جب بی جان کو تھامتے سانیہ وہاں لاونج میں آئیں


احان کیا ہوا بیٹے خیریت ہے تبعیت ٹھیک ہے

بی جان کا پہلا سوال ہی اس کو لاونج میں دیکھتے ہواتھا


جی بی جان۔۔"

بس سر میں تھوڑا درد ہے"

وہ خود کو نارمل کرتے اب وہ مزید سوالوں سے بچنے کو صوفے پر لیٹ چکا تھا


ریحہ کہاں ہے اسے کہو چائے بنا کر دے تمہیں"

پھر درد کی گولی لو کوئ"

ریحہ۔۔۔

بی جان نے بولتے اسے آواز دی تھی


بی جان میں بنا دیتی ہوں اس کا پیپر ہے صبح"

وہ جو کاوچ پر نیم دراز تھا اس کے انکار کی وجہ سمجھ آئ تھی


ایک تو یہ آج کل کی پڑھائ ساری عمر جان نہی چھوڑتی"


او بی بی تم کہاں جا رہی ہو اتنی رات"

وہ آنکھ بچاتی نک سک تیار دانین پر نظریں گاڑیں تھیں

چلو جی ٹوکنا تو لازمی ہے نہ"

دانین ضبط کیے مڑی تھی

بی جان وہ میری دوست کے ہاں فنکشن ہے تو وہاں جا رہی ہوں"

وہ باریک دوپٹہ سر پر لیتے فرمانبرادری کا ثبوت دے رہی تھی

کس سے پوچھ کے سانیہ تم نے اسے اجازت دی آدھی رات دوستوں کے گھر جانے کی ازہان کہاں ہے تم اکیلی کس کے ساتھ جا رہی تھی اس ٹائم"

ڈرائیور کے ساتھ بچی تھوڑی ہوں میں بی جان"

وہ کوفت زدہ ہوئ

دانین کیا طریقہ ہے یہ سانیہ نے فوری لب ولہجے پر سرزنش کیا تھا

واپس جاو اندر کہی نہی جا رہی تم ہمارے گھر میں کوئ آدھی رات کو یوں لڑکی کو سیر سپاٹوں پر اکیلے نہی بھیجتا اگر تمہارا میاں ساتھ جاتا تو اور بات تھی ازہان سکندر کے ساتھ آفس میں ابھی بزی ہے وہ ساتھ چل رہا ہے تو میری طرف سے اجازت ہے "

سانیہ کے اتنی نرم تبعیت کے بعد اس طرح کی سختی پر وہ کڑھتی رہ گئ تھی

جا ہی رہی ہوں اتنی روک ٹوک کے بعد میرا بھی کوئ موڈ نہی عجیب ہی دوسروں کی لائف میں انٹرفیرنس کا سسٹم ہے"

احان نے اس کی بدتمیزی پر بازو آنکھوں سے ہٹایا تھا ششدر چھوڑتے وہ چلی گئ تھی

یہ کچھ زیادہ زبان دراز نہی"

بی جان حیرت میں تھیں

نہی بی جان بس شائد غصہ کر گئ ہے ورنہ ایسی نہی ہے"

سانیہ نے اپنی شرمندگی چھپائ تھی

کافی پیتے اس کا دماغ پرسکون ہوا تھا

ڈنر کے دوران بھی وہ آنسو پیے تھی جو بلانا تو دور دیکھنا بھی گوارہ نہی کر رہا تھا

دو گھنٹوں تک وہ روم میں بیٹھا اس سے بے نیاز لیپ ٹوپ میں بزی رہا تھا جان بوجھ کر یا وہ کام کر رہا تھا وہ اندازہ نہی لگا پائ

ساڑھے گیارہ پیپرز سمیٹتے اسکو دیکھا جو بیڈ پر پیپرز پر جھکی تھی

شاور لیتے وہ ٹی شرٹ ٹراوزر میں باہر آیا تھا مرر سے فریش سا اسے دیکھا جو انہی کپڑوں میں پشت پر بکھرے بال کیچر میں جھکڑے بیڈ پر نوٹس میں سر دیے اس سے بے نیاز رہی تھی"

سمیٹو یہ سب"

بستر سے نوٹس پرے ہٹاتے وہ سرد لہجے میں بولا کے وہ اس کی نظروں سے تڑپ گئ تھی

اس کی سائیڈ سے پیپرز سمیٹتے جگہ بنائ تھی وہ خاموشی سے سیل فون سائیڈ ٹیبل پر رکھتے اپنی جگہ پر دراز ہوا تھا بے بسی سے اس کی پشت دیکھی تھی

آخر اتنی بے رخی کیوں"

چوڑیاں اتارو اپنی"

اس کی بھاری ہوتی آواز سے وہ ضبط کیے اسکی چوڑی پشت دیکھتی رہ گئ تھی

رات کے اس خاموش ماحول میں اب بس چوڑیوں کی کھنک سے ارتعاش پیدا ہو رہا تھا

کلائ سے نوچتے نکالتے ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکتے خود اٹھتے وارڈ روب سے اب اپنے کپڑے نکالے تھے

وہ واضع زور سے بند ہوتا دروازہ محسوس کر رہا تھا

نم چہرے سمیت وہ واشروم سے نکلی تو نیم اندھیرے سے سامنا ہوا گہری سانس بھرتے اس لمحے اپنے نوٹس اٹھاتے صوفے پر آ گئ تھی

دوسری طرف وہ جاگتے ساری کاروائیاں ملاحظہ کرتے لب بھینچے اسکو منانے کے فلحال ہرگز موڈ میں نہ تھا

موبائل کی ٹورچ اون کرتے وہ پڑھنے میں مصروف ہوئ تھی

دل تو اچاٹ سا تھا

انہی سب میں صبح جلدی کا الارم سیٹ کرتے وہ وہی کاوچ پر سو گئ تھی

صبح تیز بجتے الارم سے آنکھ کھلی تو خود کو بیڈ پر پاتے خوشگوار حیرت ہوئ تھی

جبکہ وہ شائد واشروم میں تھا

چند لمحوں بعد دیکھا وہ شائد وضو کر کے آیا تھا

لیکن اسکی خوشگوار حیرت اس کی خاموشی پر ختم ہو گئ تھی

گھڑی ساڑھےچار کا ٹائم بتا رہی تھی وہ بھی بکھرے بال سمیٹتے نماز کے لیے اٹھی تھی

میں ہرگز نہی مناوں گی احان بلاوں گی بھی نہی جائے نماز پر دعا میں یہ سوچ تھی اس کی"

میری فائل کہاں ہے"

ایک چیز بھی نہی ملتی اس کمرے سے میری"

ساری چیزیں الٹاتے پلٹاتے وہ غصے میں تھا

خاموشی سے اس کے عین سامنے پڑے سائیڈ ٹیبل پر سے اٹھاتے اسکو تھما چکی تھی

وہ خاموش رہا تھا

باقی چیزیں کیز والٹ گھڑی ڈریسر پر خاموشی سے رکھتے وہ باہر چلی گئ تھی

ڈرائیور کے ساتھ آ جانا میں لیٹ ہوں"

کوفی کے گھونٹ حلق میں اتارتے ناشتے کی ٹیبل پر اسے بولتے وہ چلا گیا تھا

کوئ بیسٹ آف لک نہی نو فور ہیڈ کس۔۔"

میں آپ کو بلا گئ تو کہنا"

مجھے چھوڑ کے چلے گئے نہ اب میری بے رخی دیکھیں آپ"

روم میں بیگ میں ایڈمٹ کارڈ اور چیزیں رکھتے وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے آنسو بار بار صاف کر رہی تھی


کل سے ساری باتیں سوچتے

وہ اس کی دی چیز کسی کو بھی دے دے گی احمق لڑکی خود کی بے اختیاری میں ہوئ غلط فہمی پر شدید غصہ آتے سٹیرنگ پر ہاتھ مارا تھا

کچھ زیادہ بے رخی دکھا آیا تھا

ڈرائیونگ کے دوران فون کان سے لگایا


جی مما ریحہ کا پیپر ہے آج ناشتہ سہی سے نہی کیا اس نے زبردستی اسے ناشتہ کروا دینا"

کچھ پرسکون ہوا تھا


-------------------------------------------------

میں کیس کرنا چاہتا تھا لیکن نہی کر رہا فلحال سمجھاو ایسے معمالات میں خواری کے علاوہ کچھ نہی۔۔"

میر سبطین کی بات پر حمدان محض لب بھینچ گئے تھے

غازیان کی جوب خطرے میں نظر آئ تھی وہ محض ایسے لوگوں کے ماتحت تھے نہ جیسے"

ریلیز پر اس لمحے وہ پوری رات حراست میں رہنے کے بعد آزاد ہوا تھا اس کا گارڈ گاڑی لیے کھڑا تھا

صبح کا اجالا ہلکا سا نمودار تھا

عرصے بعد جائے نماز بچھایا تھا کے فجر کی رکعات بھی وہ بھولی تھی

اس لمحے شرمندگی کی انتہا محسوس ہوئ تھی

کے وہ بے تحاشہ روئ کے سجدے میں جانے کی ہمت نہ تھی رکوع تشہد سجدہ جیسے تیسے ٹوٹی پھوٹی نماز ادا کی

اللہ جیسی بھی ادا کی قبولیت کا درجہ عطا فرمائیں کے مجھے تو یہ قبولیت کے قابل بھی نہی لگتی

اللہ اب بس ہے میری"

نماز پڑھی نہی کے شکوہ پہلے تیار تھا

اس شخص کو میرا نصیب بنایا تو مجھے سکون بھی دے اتنی ڈھیل نہ دے ظالموں کو کے میری ہمت جواب دے جائے

میں اس کی ہر پریشانی کی وجہ ہوں۔۔

میری زات مجھے بے مقصد سی لگتی

سفید باریک کروشیے کے بارڈر والے دوپٹے کے ہالے میں لپٹا چہرہ آنسو سے تر ہوتے سرخ تھا

میرے لیے دعا مانگ رہی ہو۔۔"

دھک سے دل رہ گیا جو اس کے کمرے میں صوفے پر براجمان تھا

وہ کب آیا دانستہ اسے پتہ نہ چلا نہی یہ محض خیال تھا عکس تھا

سکتا تو تب ٹوٹا جب وہ جائے نماز وہی چھوڑتے بھاگتے اس کے سینے سے لگتے اسے ششدر کر چکی تھی

اس کے گرد بازو حائل کیے وہ سختی سے اس کی گردن دونوں بازوں سے جھکڑے تھی

وہ جو صوفے پہ تھا سنبھلے بنا پیچھے گر گیا تھا

یہ امیجینشن ہے میری"

تم صرف میری امیجینیشن میں مجھے اچھے لگتے ہو"

پورے وجود میں صرف تمہارا دل۔۔"

اس کی گردن میں منہ چھپائے وہ بھیگی سی سرگوشی کیے تھی

یہ حقیقت ہے مجھے نہی پتہ تھا جیل کے بعد اتنا وارم ویلکم ملے گا"

بیوی کا سٹرونگ ہگ"

لب مسکراے تھے کے وہ اپنا چہرہ سینے سے نکالے سر اٹھاتے اپنی سیاہ نم پلکیں اٹھاتے ساکت تھی

وہ سچ میں تھا

آپ میں تم۔۔۔"وہ بازو گردن سے نکالے خجل سی ہوتے بولی

از ایکول ٹو دی غازیان نور"

وہ اس کی کلائ تھامتے قریب کر گیا سرخ دوپٹے میں لپٹا چہرہ نرمی سے جھکتے وہ اس کی پیشانی پہ جھکتے اس کی سانسیں روک گیا جبکہ دوسرا ہاتھ دوپٹے کی گرہ کے کنارے تھا

وہ جانے کتنی دیر بے بس لمحوں کی زد میں تھی

غاز۔۔"

آنکھوں میں نمی لیے وہ اسے پکار بیٹھی کے وہ سرخ آنکھیں اس کے چہرے پر ٹکا گیا تھا

ایسے نہی دیکھو نور۔۔"

بلیو می آئ ہیو نو کنٹرول۔۔"

وہ نظریں چرا گئ یہ فاصلے صدیوں پر محیط لگے

وہ اس کا شوہر تھا جو خود کو اس کے قابل بھی نہی سمجھتی تھی پھر بھی اس کا خواہش مند تھا

تمہیں مجھ سے محبت کیوں ہے"

وہ بال مٹھی میں تھامے اپنی حالت پر پیشمان تھی

آئ ایم سٹل ویٹ۔۔۔"

اس کے ہاتھ الجھے بالوں سے ہٹاتے وہ سینے سے لگا گیا تھا

تھک جاو گے۔۔"

وہ آنکھیں موند گئ تھی

تمہیں اپناتا نہی ورنہ" وہ باور کرارہا تھا

تم اتنے اچے کیوں ہو"

اس کی شرٹ سے آتی ہلکی مہک اپنی سانسوں میں اترتی محسوس کرتے گہرا سانس بھر گئ تھی

کیونکہ تم بری ہو۔۔"

وہ صوفے پر لیٹتے اس کو اپنی بازو کے حصار میں لے گیا

یہاں کیوں آئے مطلب کیسے آئے۔۔"

ملگجا اندھیرا گلاس وال پر نظر ڈالے ابھی بھی باہر تھا وہ اٹھتی کے وہ پھر برابر میں ڈال گیا تھا

تم پوری رات نہی سوئ۔۔"

اس کے الجھے بال سلجھائے تھے

ایک لمحہ نہی۔۔۔"

سرخ آنکھیں رت جگے کی چغلی کھا رہی تھیں

نور تمہیں مجھ سے محبت ہو رہی ہے"

وہ مسکرا گیا تھا

اب تم شوخے ہو رہے ہو"

وہ اس کی پناہوں میں سکون محسوس کرتے نیند سے بند ہوتی آنکھوں میں جواب دے رہی تھی

نور تم کومب نہی کرتی نہ ہی مجھے لگتا ہے تم نہاتی ہو"

وہ آنکھیں وا کیے بازو سے خود کو سونگھنے لگی تھی"

ہٹو پیچھے میرے قریب کیوں آئے ہو پھر۔۔۔"

غازیان لب بھینچ گیا تھا

تاکہ تمہیں بتا سکوں تم نہاتی نہی ہو"

میرے سے مار کھاو گے چین سموکر سگریٹ پی کے کبھی خود سے سمیل چیک کی ہے چرسیوں جیسی آتی ہے"

وہ منہ بگاڑ گئ

تم اتنا نوٹس کرتی ہو مجھے بلکہ میری مہک انہیل کرتی ہو"

وہ قہقہ لگا گیا تھا

نہایت ہی تھرڈ کلاس ڈائیلوگ تھا۔۔۔"

بلکل ہنسی نہی آئ" وہ منہ پھیلائے بولی تھی

نور میں نے اسے گولی مار دی"

اس کا بازو اپنی گردن میں ڈالا تھا

تم نے اس کے بیٹے سمیت اس کا قتل کیوں نہی کیا"

وہ یک دم اٹھتے اس کے سینے پر بازو ٹکاتے اس کی خمار زدہ آنکھوں میں دیکھتے بولی تھی

کر دوں قتل۔۔۔" اس کا چہرہ تھاما تھا

مار ڈالو اسے۔۔ " وہ سختی نفرت غصے کی غیض لیے بولی تھی

ڈن۔۔۔" اس کو بھینچ گیا تھا خود میں

یو ہرٹنگ می۔۔۔"

اس کی بازو پر ناخن مارے تھے

کاوچ چھوٹا نہی اگلے سٹیپ کے لیے"

یو نو واٹ آئ مین۔۔۔" آنکھوں میں چمک لیے لہجہ زو معنی سا تھا

شٹ اپ مجھے نیند آ رہی ہے"

اس کی آنکھوں پر ہتھیلی جمائ تھی اس کی ہتھیلی چومتے وہ اس کے ساتھ پہلی لمبی کنورزیشن پر چند لمحے سکون لینے کے لیے آنکھیں موند گیا تھا

----------------------------------------------------

پورا دن اضطراب میں گزرتے اس کی بے رخی سے اب وہ اس کے آنے کے بعد بھی اس کے روم نہی جانا چاہتی تھی نماز بھی جان بوجھ کر لاونج میں پڑھی تھی کے اس سے سامنا نہ ہو

گھڑی دس سے اوپر کا ہندسہ عبور کرتی کے ان سے باتوں میں مصروف سانیہ روم میں چلی گئ جبکہ دانین اس کا کھلا چہرا بجا سا دیکھتے زرا مشکوک سی ہوئ تھی

پیپر کیسا ہوا آپ کا"

اچھا ہوا۔۔" بظاہر وہ فون پر خود کو مصروف رکھ رہی تھی

روم میں آو۔۔" آنکھیں پوری کھولی تھیں

آیا کے سچ میں اس کا ٹیکس تھا

نہی سین کروں گی۔۔" سکرین پر شو ہوتا میسج دیکھتے کڑھتے بولی

اگلا کب ہے" وہ ہی مزید بولی

آ رہی ہو یا سب کے سامنے اٹھا کے لاوں۔۔"

کبھی نہی۔۔"

ہیں کبھی نہی ہے"

دانین اس کا جواب سنتے حیران ہوئ

آپ سے نہی کہا"

وہ سکرین پر ابھرتے لفظ گھورتے بولی تھی وہ اس کا دھیان فون میں دیکھتے اپنے جوابات نہ دینے پر سیخ پاو ہوئ تھی

تم دونوں ابھی بھی یہی بیٹھی ہو ٹائم دیکھا ہے سکندر نے لاونج میں ڈپٹا تھا"

جی بابا بس جا ہیرہے تے"

ریحہ تزبزب میں اٹھی تھی

ویسے اس گھر میں سب کو انٹرفیرنس کی عجیب بری عادت ہے"

ریحہ نے حیرانگی لیے اس کی بات سنی تھی جو اب خاموشی سے روم میں جا رہی تھی

روم کا دروازہ کھولتے اس کے پرفیوم کی مہکتی خوشبو میں بسا اے سی کی خنکی اور بس لمپ کی روشی سے خوابناک کمرے کا سامنا ہوا تھا

پتہ نہی کیوں ہورر موویز کا تھیم اس بندے کو پسند ہے خود غائب تھا وہ"

وہ دانت پیستے رہ گئ تھی

بیڈ پر نظر پڑتے وہ دھنگ ہوتے قریب بڑھی جہاں ڈیفرنٹ بکھری چوکلیٹس کے ساتھ ایک پرپل شاپنگ بیگ اور کارڈ پڑا تھا

کھولتے دیکھا اس میں ڈارک مہرون نائٹ ڈریس تھا

ہاف سلیو ٹی شرٹ اور ٹروازر۔۔"

آئ ایم سوری حان کی جان"

کارڈ پر واضع لفظوں میں لکھا تھا

میں نہی مانو گی۔۔"لب دباتے کٹ کیٹ کھولتے اس کی بائیٹ لی تھی

دل تو گدگدایا تھا پر اس لمحے سختی سے نفی کی تھی

میں منا لوں گا۔۔"

اپنی پشت پر اس کی موجودگی سے وہ پلٹتے اس کے سینے سے ٹکراتے بچی تھی

میں پھر بھی نہی مانو گی"

وہ سائیڈ سے نکلتی کے اس کی کلائ تھامتے مدمقابل کر گیا تھا

یہ پہنے کے لیے تھا جیولری بوکس کی زینت بنانے کے لیے نہی"

وہی برسلیٹ اس کی کلائ میں ڈالتے لب رکھ گیا تھا

تمہیں پتہ ہے مجھے کل کتنا غصہ تھا

اسکی گال سہلائ تھی وہ ناقابل فہم تاثرات دیکھتے اس سیاہ ٹراوزر پر بلیو ٹی شرٹ میں ملبوس ہلکی بھوری شیو سمیت اس ضدی شخص کو دیکھتے رہ گئ جو کل کی اس کی جان ہلکان کر گیا تھا

مطلب جب آپ کو غصہ ہو گا مجھے یوں ڈانتے بے رخی اپنائیں گے"

مجھے خود سے دور کر دیں گے"

میرا آج پیپر تھا مجھے چھوڑ کر چلے گئے

مجھے بیسٹ آف لک بھی نہی کیا

مجھے فور ہیڈ کس بھی نہی دی۔۔"

مجھ پر چلائے بھی تھے

مم۔۔

باقی لفظ اس کے ختم کر گیا تھا

کے وہ ڈھیلی پڑتی اس کے شدت بھرے لمس پر اس کے حصار میں شرٹ تھامتی سرخ ہوتی جا رہی تھی


سارے شکوے ختم۔۔"

اس کے حصار میں گہری سانسیں بھرتے دیکھ وہ اس کے کان میں سرگوشی کیے وہاں لب رکھ گیا


چیٹر ہیں آپ میں مفت کی نہی ہوں جب چاہا ہرٹ کیا جب چاہا پیار کیا۔۔"

اس کے سینے پر مکا مارتے بدلتی رنگت سے بولی


نکاح نامے پر سائن کر کے حاصل کیا مفت میں تھوڑی"

جھکتے اس کے ناک میں چمکتے نگ پر لب رکھتے خمار آلود لہجہ ہوا تھا


وہ اس کی کمر کے گرد حصار کینچھے اسے خود میں بھینچتے بولا


میں اس ڈریس میں تمہیں دیکھنا چاہتا تھا جبکہ تم نے اسے دے دیا

آئیندہ میری دی چیز کسی کو نہی دینا"

ورنہ مجھ سے برا کوئ نہی ہو گا"

اسکے لمس جا بجا اپنے کندھے پر محسوس کرتے وہ شل ہوتی جا رہی تھی

می سوری حان مجھ سے آئیندہ وڈ نہی ہونا"

میں واپس لے لوں گی اس سے"

اس کی کمر سی شرٹ مٹھیوں میں جھکڑے وہ اس کے سینے میں چہرہ چھپائے سکون محسوس کرتے دھیمے سے بولی تھی

نہی اسی کو دے دو کوئ ضرورت نہی واپس لینے کی"

فلحال چینج کر کے آو۔۔"

شرٹ ٹراوزر اسے تھمایا تھا

وہ ڈریس دیکھتے سرخ ہوئ کے وہ کوئ واہیات قسم کا نہی تھا پھر بھی وہ خجل سی ہو رہی تھی

جاو۔۔"

وہ تھامتے واشروم میں بند ہوئ تھی

چند لمحوں بعد واپس آئ تو وہ بیڈ پر لیٹے اس کے انتظار میں تھا

احان نے لب دبائے دیکھا جو شرٹ کینچھ رہی تھی

ڈارلنگ یہ مزید لمبی نہی ہونی"

وہ سر کے نیچے ہاتھ ٹکاتے مسکراتے اس کو گھٹنوں سے کینچھتے دیکھ بولا

حان ٹیز نہی کریں مجھے"

وہ سست روئ سے قدم بھرتے خجل سی ہوتے بولی تھی اپنے روم میں بھلے وہ ٹی شرٹ استمال کر لیتی پر اس کے سامنے فلحال حیا آڑے آئ تھی

کم حان کی جان"

بیڈ سے دو قدم کی دوری پر تھی کے اس کا ہاتھ کینچھتے اپنے برابر میں ڈال چکا تھا

وہ آنکھیں پھیلائے اسے خود پر جھکے محسوس کرتے سختی سے آنکھیں میچ گئ تھی

حان میرا پیپر۔۔ "

لفظ تھمتے رہ گئے جو اس کا اوڑھا دوپٹہ پرے رکھ چکا تھا

ریحہ تمہیں اندھیرے میں ڈر لگتا ہے۔۔"

اس کی شہہ رگ پر لب رکھتے اس کے ہاتھ تکیے سے لگائے انگلیوں میں الجھاتے بولا کے وہ نا سمجھی سے تیز دھڑکنوں میں لب کچلتے فرمانبرداری سے سر ہلاتے ہاتھ چھڑوانے کی سعی میں تھی

حان پلیز لیمپ اوف کریں"

وہ میچی آنکھوں سے اگلے لمحے اس کی بات سمجھتے چلائ تھی

اپنی بے اختیاری ایک پرسکون نیند لینے کے بعد یاد آئ تھی وہ کافی دیر سوئ رہی تھی اس کے بعد کمرے میں خود کو تنہا پایا تھا شائد وہ چلا گیا تھا

وہ کیسے اتنی بے اختیار ہو سکتی تھی دانستہ اس کی موجودگی اس کا حصار ابھی بھی خود کے گرد لپٹا سا محسوس ہوا تھا

کل رات شام میں وہ اس کے ساتھ گھر واپس آگئ تھی

غازیان کا غصہ اس چیز سے وہ ڈر جاتی تھی جیسے کے کل شام کا واقعہ زہن میں آیا تھا جب وہ اس کو لینے اس کے گھر تھا

نور چلیں۔۔۔"

وہ سیدھا اس سے مخاطب تھا

تھوڑا ٹائم رک جاو غازیان ڈنر تو کر لو ویسے بھی نور نے ابھی کچھ نہی کھایا۔۔۔"

زبیر نے اسے مخاطب کیا تھا

نہی کام ہے ضروری ورنہ رک جاتا رہی بات نور کی تو گھر جا کر بنا کر مجھے بھی کھلا دے اور خود بھی کھا لے گی۔۔"

وہ پرسکون کرتے بولا تھا

لیکن نور کو کیچن کا کام نہی کرنا آتا نہ میں نے اس پر یہ برڈن اس کی میڈیکل کی ٹف پڑھائ کی وجہ سے ڈالا تھا"

وہ باپ کی حثیت سے بولے تھے

آپ بے فکر رہیں کھانا بنانے سے لیکر گھرداری سنبھالنا تک میں اسے سکھا دوں گا"

مجھے کچھ چیزیں لینی ہے اپنی" اس نے اس لمحے جانے میں عافیت سمجھی تھی

وہ سر ہلاتے بیٹھ گیا تھا

جسٹس صاحب آپ بے فکر رہیں آپ کی بیٹی پہ ظلم ہرگز نہی ڈھاتا میں"

وہ اس کی بات پر مسکرائے تھے

ہالہ آپ یہ میرا سیل فون رکھ لیں اور آپ کا کارڈ بھی۔۔"

زبیر کی آواز کانوں سے ٹکرائ تھی

وہ سامنے کاوچ پر بظاہر موبائل میں بزی اسے دیکھتے رہ گئ تھی

ہالہ سیل فون نہی لیا آپ نے ابھی تک ضرورت پڑ جاتی ہے یہ رکھ لو۔۔"

وہ جواب نہ دینے پر پھر سے بات دہرا گئے تھے

جی بابا۔۔۔"

وہ اس کے ری ایکشن نہ دینے پر تھام

کیا میں آپ کی بیٹی کو لے کر نہی دے سکتا"

اس لمحے اس نے نظر اٹھائ تھی جب وہ فون اور کریڈٹ کارڈ تھام گئ تھی

غازیان وہ میرا باپ ہے"

وہ ڈرائیونگ کے دوران اس سے بولی تھی

تمہیں ضرورت تھی تم مجھ سے کہہ سکتی تھی"

وہ اس کی جانب دیکھتی رہ گئ تھی کتنی ہی ضروریات کی چیزیں تھیں پر اس نے یہ احسان اس پر کبھی نہی کیا تھا نہ ہی پوچھا تھا

مختصر یہ کے میں نے ان سے نہی مانگا نہ مجھے سوشل ایکٹو رہنے کا کوئ شوق ہے"

وہ ونڈو کے ساتھ لگتے گہرے اندھیرے کو دیکھتے آنکھیں موند گئ تھی

فرنٹ مرر سے وہ اس کا اچھا خاصہ بڑا بیگ بیک سیٹ پر دیکھتا رہ گیا تھا

اس کے بعد وہ کافی دیر کام میں بزی رہا تھا

باجی۔۔۔"

وہ ہوش میں آئ تھی

یہ فون آپ کا۔۔۔"

میرا۔۔۔؟

وہ لیٹیسٹ ماڈل کا فون دیکھتے بجتی رنگ ٹیون سے حیران تھی


اچھا تم جاو اور رومز صاف کرنے کے بعد آج ٹیرس بھی صاف کر دینا۔۔"


کہیں۔۔۔"

وہ جانتی تھی اسکے علاوہ کس کا ہو سکتا تھا یہ نمبر اور فون بھی وہی رکھ کر گیا ہو گا"


تیار رہنا آج شاپنگ پر جائیں گے لسٹ بنا لینا جو چاہیے ہو گا گروسری بھی کرنی ہے"

اس کی آواز سے وہ سوچ میں پڑ گئ تھی

آپ خود کر لیں۔۔"

وہ رکھائ سے بولی تھی باہر کی دنیا میں وہ نکلنا ہی نہی چاہتی تھی

جب فارمل ہوتی ہو نہ زہر لگتی ہو مجھے"

تم اور آپ میں کنفیوز ہوں"

تیار رہنا آدھے گھنٹے تک"

غازیان میں۔۔۔"

تیار رہنا۔۔۔" وہ کاٹ چکا تھا

باجی آپ کی شادی کی کوئ تصویر نہی ہے"

وہ ڈسٹنگ کرتے اس سے مختصر پوچھ رہی تھی

نہی۔۔" بے ساختہ شادی کا دن یاد آیا تھا

---------------------------------------------------

لنچ کے دوران اس کی بری طرح تبعیت بگڑی تھی

ٹھیک ہو۔۔؟

سانیہ نے حیرت لیے اسے اس لمحے اسے دیکھا تھا

جی۔۔۔"

دانین کی جان پر بنی چکی تھی

جبکہ ریحہ برتن سمیٹتے روم میں پڑھنے جا چکی تھی

وہ سنبھلتی کے تبعیت مزید بگڑی تھی

سانیہ نے اس کو منہ پر ہاتھ رکھے تیزی سے روم میں جاتے دیکھا تھا

چلو ڈاکٹر کے پاس چلیں دانین"

سانیہ کی موجودگی سے اپنی غیر ہوتی حالت پر اس کے چودہ طبق روشن تھے

منہ واش کرتے وہ نڈھال سی بیڈ پر بیٹھی تھی

آنٹی م۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔"

وہ سرخ چہرا لیے نظریں چر رہی تھی

ٹھیک تو تم ہو مجھے پتہ ہے مجھے تو بس کچھ تصدیق کرنی ہے"

وہ مسکراتے اس کا خون خشک کر رہی تھیں

اف دانین اگر انہیں پتہ چل گیا میری ٹو منتھ پریگنسی کا تو ساری محبت ختم۔۔"

اب اسے واقعی ہی ازہان کے ساتھ گزارے لمحوں پر افسوس تھا

آنٹی پلیز مجھے ریسٹ کرنا ہے ابھی پھر شام میں چلتے ہیں"

وہ فوری سے بستر پر چت لیٹ گئ تھی

آ کر کر لینا بلکہ میں ایسا کرتی ہوں فیملی ڈاکٹر کو گھر ہی بلا لیتی ہوں"

ان کی بات سے اسے مزید جان ہوا ہوتی لگی تھی ان کے باہر جاتے ہی

فوری بیڈ سے اٹھتے فون تلاشا تھا

پک اپ دا فون۔۔"

تیسری بیل پر اس نے بالاآخر رسیو کر لیا تھا

بولو کیسے یاد کیا۔۔"

ازہان۔۔"

وہ بری طرح بوکھلائ تھی

ازہان پلیز گھر آو ورنہ آنٹی کو میری ٹو منتھ پریگنینسی کا پتہ چل جائے گا"

وہ خوف زدہ سی زرد پڑ گئ تھی


کم ڈاون دانین میں کچھ کرتا ہوں"

جب کے سامنے سے گلاس ڈور دھکیل کر آتے اپنے عین سامنے چیئر پر بیٹھے شخص کو دیکھتے وہ مزید بوکھلاہٹ میں شکار ہوتے فون بند کر گیا تھا


کیسے ہو۔۔" دانستہ کتنے دنوں بعد مخاطب کر رہا تھا اسے


آپ میرے سامنے میرے آفس میں یقین نہی آ رہا"

نفرت کرتے ہیں مجھ سے ابھی بھی"

وہ نظریں جھکا گیا تھا

نفرت نہی کر سکتا تم سے"

ازہان تم سے ناراض نہی بلکہ مجھے تم پر شدید قہر تھا

لیکن اپنی زمیداریوں کو سنبھالتے تم نے کچھ کم کر دیا ہے اب"

اگر یہ بات مما کو بابا کو یا گھر کے باقی افراد کو پتہ چلتی تو کیا عزت رہتی"

احان نے دونوں بازو ٹیبل پر ٹکائیں تھیں

میں برا ہوں بہت۔۔"

آئ ایم سوری احان بھائ مجھے گھر والوں کے سامنے شرمندگی سے بچانے کے لیے"

وہ اپنی جگہ سے اٹھتے نمی لیے اسکے پاس گھٹنوں کے بل جھکا تھا

تمہیں ہرگز نہی بچایا میں نے

تمہارا راز کیوں رکھا کیونکہ راز رکھنے والے کا اللہ راز رکھتا ہے لیکن اگر اس لمحے تم سے سختی کی بجائے میں نرمی برتتا تو تمہیں کبھی احساس نہ ہوتا اپنے گناہ کا"

اور یہ بات قابل معافی ہے ہی نہی تھی ایک لڑکی کو تم نے تنہائ کے لمحوں میں ورغلایا"

یہ گناہ ہی تھا ایک حرام رشتہ تم اس لڑکی کو چھوڑنا چاہتے تھے نہ کیونکہ اگر یہ محبت ہوتی اور یا تم نے اسے اپنانا ہوتا تو تم یہ حرکت نہ کرتے بلکہ ڈائریکٹ نکاح کا راستہ اپناتے ایسی خودغرض محبت میں یقین کی کوئ گنجائش نہی"

محبت صرف نکاح کے بعد اپنے محرم سے ہوتی ہے

تو کیا وہ واقعی ہی ٹائم پاس کر رہا تھا دل سے آواز برامد ہوئ تھی اور چھوڑ بھی دیتا پر شائد اس کے ایکسپیکٹ کرنے کا سن کر تھوڑی نرمی تھی اس کے دل میں کے وہ مزید گناہ نہی کر پایا"

ورنہ تو وہ اسے خود کو بچانے کے لیے دانیال کے حوالے کر دیتا یہاں وہ غلط تھا

تمہیں پتہ ہے انسان کی اصل جنگ اس کے نفس کی جنگ ہے لوگوں کے سامنے تو گناہوں سے کنارہ کشی کر ہی لیتا ہے لیکن اصل جنگ تو تنہائ کے لمحوں میں ہوتی ہے جب تم انسان سے نہی اللہ سے خوف کھاتے گناہوں سے بچو۔۔"

تم نے اسے اپنا لیا اپنی غلطی مان لی اپنی زمیداریاں سنبھال لیں میں نے تمہارا راز رکھ لیا اس کے بدلے میرا بگڑا بھائ سدھر گیا پھر میری مزید ناراضگی اور نفرت کا تک ہی نہی بنتا

ریحہ کی آج صبح کی بات یاد آئ تھی

وہ پریشان ہے احان۔۔۔"

اور تمہیں لگتا ہے میں نہی ہوں۔۔۔"

اس لمحے کف لنکس بند کرتے اپنے پیچھے اسکے منہ سے یہ لفظ سنتے وہ بری لگی تھی

آئ نو آپ اس سے پیار کرتے ہیں لیکن بعض دفعہ ہمیں پیار ثابت کرنے کو عملی ثبوت بھی دینا پڑتا ہے"

اسے اپنی غلطی کا احساس ہے تو دانین کو اپنایا ہے۔۔"

پلیز اس سے آج ملنے جائیں گے اور پیچ اپ کریں گے آپ دونوں"

تم کچھ زیادہ فری ہو رہی ہو اب۔۔۔"

اس نازک سی لڑکی کو دیکھا تھا جو کبھی اسے ایک آنکھ نہی بھاتی تھی لیکن اب اگر یہ کہا جاتا کے اس سے محبت تھی تو یہ غلط نہ تھا

حان کی جان کے پاس پرمٹ ہے فری ہونے کا"

اس کی آنکھوں میں جھانکتے وہ پراعتماد لہجے سے سٹولر لپیٹتے اسے مہبوت زدہ کرتے بولی تھی

اٹھو۔۔"

اس نے شرمندگی دیکھتے کھڑے ہوتے بازو پھیلائے تھے

اس لمحے وہ اس کے گلے ملا تھا

تھینکیو بھائ مجھے معاف کرنے کے لیے"

ڈاکٹر کے پراپر چیک اپ کے بعد اس کے حلق میں کانٹے سے چھبنے لگے تھے ازہان کا گلا دبانے کا دل چاہا تھا

کونگریچولیشنز مسز سکندر آپ کی بہو ایکسپیکٹ کر رہی ہیں۔۔۔"

لیکن میں حیرت میں ہوں آپ کی بہو کا تھرڈ منتھ سٹارٹ ہے اور آپ کو پتہ کیسے نہی چلا"

نہی آپ کو غلط فہمی ہے تھرڈ منتھ نہی تھرڈ ویک ہے ان کی شادی کو ہوا

مجھے تو یقین نہی آ رہا میں دادی بننے والی ہوں

وہ سب بھلائے پرمسرت لہجے میں بولتے فق پڑھتی دانین کی بلائیں لے بیٹھیں تھیں

مسز سکندر ان کا تیسرا ویک نہی منتھ سٹارٹ ہے۔۔"

اب آپ سمجھیں۔۔"

اب ثانیہ کے لب بات سمجھتے سمٹے تھے

کس کا بچہ ہے یہ دانین"

ڈاکٹر کو رخصت کرتے وہ نظریں چراتی دانین کے سر پر تھیں۔

کیا مطلب ہے آپ کا آنٹی"

وہ بستر سے آگ بگولا ہوتے اٹھ بیٹھی تھی

جواب دو میرے بیٹے کو پاگل بنایا کس کا ہے یہ"

وہ اس کی بازو سے کینچھتے ساری محبت ہٹاتے سختی سے بولیں تھیں

ایک لفظ نہی آپ کی اولاد کا ہی خون ہے ازہان کا بچہ ہے یہ سمجھیں آپ باقی وضاحتیں آپ اس سے لیں تو بہتر ہے"

وہ زہر خند ہوتے اٹھی تھی مطلب حد تھی سب اس پر کیوں شک کریں۔۔"

اس لمحے وہ سامنے تھا اس سے سوال کرنے سے پہلے ہی وہ نظریں جھکائے تھا جس سے صاف واضع تھا کے وہ برابر زمیدار ہے

تو یہ تھی تمہاری پسند یہ تھا تمہارا دھوکہ جو تم نے اور احان نے اس کی فیملی کے ساتھ ملکر اپنے ماں باپ کو دیا اس نے تمہاری غلطی کو ہوا دی تمہارے کرتوت چھپائے

تمہیں پتہ ہے تمہارے باپ نے مجھے سب سے پہلے عدالت میں کھڑا کرنا ہے یہ تربیت کی میں نے تمہاری"

آج نہی تو کل پتہ چلنا ہی تھا

لہحذا مزید چھپانا اس نے بہتر نہی سمجھا

آئ ایم سوری مما میں نے دانین سے نکاح پہلے ہی کر لیا تھا

مجھ سے غلطی ہو گئ تھی"

ہاتھ اٹھا تھا اور اس کے چہرے پر بائیں گال پر نشان چھوڑتے سرخ کر گیا تھا

ٹھاہ۔۔۔

تھپڑ کی گونج اتنی تھی کے دانین کو اپنے کان سن ہوتے لگے تھے وہ منہ پر ہاتھ رکھے تھی جبکہ ازہان کا جھکا چہرا تھپڑ سے مزید جھک گیا تھا

کتنی آسانی سے کہہ کے بری ہو رہے ہو غلطی کر دی"

میں ان ماوں میں سے نہی ہوں جو بیٹوں کی ہر غلطی کی پردہ پوشی کرے

ابھی جا کر تمہارے باپ کو تمہاری کرتو بتاتی ہوں"

پلیز مما آئ ایم سوری بابا کو نہی بتائیں میں نے اپنی غلطی مان لی ہے نہ مزید گلٹ نہی دیں

پلیز مما پلیز میں پریشان ہوں پہلے ہی۔۔۔"

ایک غلطی کا پچھتاوا اس کی جان عزاب کر رہا تھا

جبکہ ثانیہ خاموش نظر ڈالے چلے گئ تھی

------------------------------------------

گاڑی پورچ میں رکتے

اس کے آنے کا پتہ دے رہی تھی

تم تیار نہی ہوئ"

بھاری قدموں کی آواز سے وہ اسے اپنے عین پیچھے محسوس کر پائ تھی اس کا عکس آئینے میں روبرو تھا

کے بال برش کرتا ہاتھ تھما تھا

رات کے پہنے سفید شرٹ اور ٹراوزر پر دوپٹہ سے فلحال ندار تھی

اسکی نظریں وجود کے آر پار سی ہوتی محسوس ہوئیں تھیں

چہرا سرخ سا ہوا تھا

وہ دوپٹہ لینے کو فوری پلٹتے بیڈ تک جاتی کے کلائ اس کی گرفت میں تھی

تم اتنی بے اعتبار کیوں ہو میرے معاملے میں۔۔"

وہ دھڑکتے دل سے اس کی سرگوشی کان کے قریب محسوس کر پائ تھی اس کی دل کی دھڑکن خود میں اترتی محسوس کرتے وہ کسمساتے پلٹتی کے اس کی پشت وہ سینے سے لگاتے جائے فرار روک گیا تھا

ف۔۔فریش ہو جاو۔۔"

وہ مٹھی بھنچے اس کی بڑھتی مدہوش قربت میں خود کو نارمل کر رہی تھی

نائس پرفیوم۔۔۔"

اسکے کندھے پر لب رکھتے وہ مدہم سی خوشبو محسوس کرتا اس کی ایک ہاتھ سے کلائ جھکڑتے اپنے کندھے پر رکھ گیا تھا

بس یہاں پر اس کی جان نکل جاتی تھی کے وہ اس رشتے کو بڑھانا ہی نہی چاہتی تھی

نور نے شیشے میں دیکھا اس کی شرٹ کندھے سے سرکاتا کے نفرت سے آنکھیں پھیل گئ تھیں


اس کی مزید کاروائ پر ہاتھ اٹھا تھا

اور وہ جیسے ہوش میں آیا تھا چہرہ اور آنکھیں جلتی محسوس ہوئیں تھیں


وہ ہاتھ دیکھتے اس کا گال دیکھ رہی تھی

غازیان۔۔"

آئ ڈونٹ نو کیسے آئ۔۔

آئ ایم س۔۔سوری مجھے نہی کرنا چاہیے تھا پر کیسے ہو گیا۔۔"

وہ اپنا ہاتھ دیکھتے گہرا صدمہ لیے اس کا چہرا دیکھ رہی تھی


جبکہ اس لمحے وہ اسکی کلائ تھامتے مدمقابل کر گیا تھا

میں تمہیں محبت کا یقین کبھی نہی تھما پاوں گا شائد۔۔۔"

اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے دیکھتے اس لمحے اسے خود سے نفرت ہوئ تھی


آئ ایم سوری۔۔۔۔"

ندامت لیے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا تھا جو چھوٹتا جا رہا تھا


----------------------------------------------------


آفس سے آتے غیر معمولی خاموشی کا سامنا ہوا تھا

وہ فریش ہوتے سفید شلوار قمیض کے کف فولڈ کیے باہر آیا تھا

گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتے سنوارتے وہ باہر

لاونج میں آیا جہاں تقریبا سب کے روم بند تھے سیڑھیوں سے نیچے قدم رکھے تھے وہ نیچے بھی نہی تھی


وہ نیچے لان میں پڑے جھولے پر پر دونوں پاوں سمیٹے ہلکے پیلے دوپٹے کے حالے میں لپٹی نوٹس پر جھکی چائے کے گھونٹ حلق میں انڈھیل رہی تھی

شام کے سائے گہرے سے ہونے والے تھے


ہوش تو تب آئ جب اس کی خوشبو محسوس کی تھی وہ کپ تھامتے اپنے لبوں سے لگا گیا تھا

یہ میری چائے تھی"

خوشگوار حیرت لیے اسے شلوار قمیض میں دیکھ رہی تھی بے ساختہ اس کی نظر اتار گئ

جو اس پر اس قدر جچ رہی تھی کے وہ پلکیں جھپکانا بھول گئ تھی وہ کبھی کبھار ہی سوٹ پہنتا تھا

اور میں کس کا۔۔۔" وہ بوجھل سے لہجے میں اس کا ارتکاز توڑتے بولا

میرے۔۔۔" وہ اس کے کندھے سے لگتی دیھمی مسکراہٹ لیے آنکھیں موندھتے بولی تھی

پھر چائے کس کی۔۔" وہ دوبارہ کپ اسکی جانب بڑھاتے بولا تھا

میری۔۔"

وہ گھونٹ بھرتے کپ پر جھکے لبوں پر مچلتی مسکراہٹ روک گئ تھی

پکڑو واپس ویسے بھی مجھے اس کا ٹیسٹ کچھ خاص پسند نہی سارا زائقہ برباد کر دیا۔۔"

نظریں اس لمحے اس کے بھرے گلابی لبوں پر مرکوز تھیں

احان۔۔۔"

ہم روم میں نہی ہیں""

وہ جھجھکتے اس کی الجھتی نظروں سے گلابی پڑتا چہرا موڑ گئ تھی

اس ٹائم روم میں ملا کرو پھر مجھے"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے برسلیٹ کے کناروں پر لگے نگوں والے ٹسلز پر انگلی پھیرتے لب رکھتے بولا تھا

گھر میں کچھ ہوا ہے"

مما کہاں ہے اور باقی سب"

ازہان سے آفس میں ملنے کے بعد تو وہ چلا گیا تھا سناٹا سا محسوس کرتے وہ سیڑھیاں چڑھتے اس کے ہمقدم تھا

پتہ نہی بڑی مما لنچ کے بعد دانین کے روم میں تھیں

پھر میں روم میں چلی گئ تھی مجھے نظر نہی آئیں وہ۔۔۔"

کھانا گرم کروں آپ کے لیے۔۔"

بک کو ڈائینگ ٹیبل پر رکھتے پوچھا تھا

ہاں کرو تب تک میں مما کے روم سے ہو کر آیا۔۔"

وہ سر ہلاتے کیچن کی جانب چلی گئ تھی

وہ ریش ڈرائیونگ کرتے گھر سے نکلا تھا

غصہ اتنا شدید تھا کے سب تہس نہس کر جاتا وہ اس لمحے

پندرہ منٹ کی مسافت طے کرتے

گاڑی روکتے وہ چند قدم کے فاصلے پر بنے سنسان ایرے کی جانب رواں تھا

دبیز قدموں کی چاپ سے کتنے ہی دنوں بعد کسی کی آمد اس اندھیری سی بیسمینٹ کی جانب تھی

میری بیٹی"

وہ مبہم مسکرایا مطلب پہلی بات اپنی بیٹی کے بارے میں تھی

جبکہ کسی دوسرے کی بیٹی کی زندگی برباد کرتے وہ خاموش تھا

آزادی چاہیے"

گہری خاموشی میں آج کتنے دنوں بعد اس کی سرد چھبتی آواز گونجی تھی

وہ نڈھال سا بڑھی شیو ملگجے سے حلیے میں نظریں اٹھا گیا تھا

نکلنا چاہتے ہو یہاں سے باہر"

خطرناک مسکراہٹ ہونٹوں کا احاطہ کیے تھی

ائیر پیس سے آواز گونجی تھی

وہ کلب سے ابھی باہر نکلا ہے"

مٹھیاں بھینچتے سنا تھا اپنا چہرہ ابھی اس جلتا محسوس کرتے رگوں تک میں غصہ سمایا تھا وہ کسی کی نفرت اس پر اتارتی تھی

today final climax.."

بند آنکھیں کھولتے جملا دہرایا تھا کیا میرے لیے یہ آسان ہے

اس کو اپنے شدید عمل سے آشنا کراتے وہ اس کا کب سے سویا ہوا غصہ ابھار چکی تھی

گردن کو جھٹکتے خود کو نارمل کیا تھا

ڈرائیونگ کے دوران بیک سیٹ پر ایک اضافی شخص تھا اب"

--------------------------------------------------ڑھا تھا

مما۔۔۔"

احان نے حیرت لیے پکارا جو اس ٹائم بستر پر دراز تھیں جبکہ کمرا نیم اندھیرے میں ڈوبا تھا

سوئچ اون کرتے ان کا ماتھا چھوا تھا جو نارمل حدت کا پتہ دے رہا تھا


آپ ٹھیک ہیں۔۔؟

کسمسانے سے اندازہ کر پایا تھا کے وہ جاگ رہی ہیں وہ اب تشویش میں ہوا تھا


ٹھیک ہوں۔۔۔" سرد سا جواب تھا


وہ سائیڈ پر پڑی چئیر کینچھتے قریب بیٹھا تھا


مما کوئ مسلہ ہے بتائیں مجھے"

وہ ہاتھ تھامتے بولا تھا


تم دونوں بہت بڑے ہو گئے ہو اپنی زندگی کا اچھا برا جاننے والے ایک برائ کرے گا تو دوسرا پردہ پوشی کرے گا۔۔"

یہی سیکھ تو دی تھی میں نے

وہ ساکت ہوا وہ کس بات حوالہ دے رہی تھیں

مما کس کی بات کر رہیں ہیں آپ"

ازہان کہی ازہان کی بات تو نہی۔۔۔؟

اف"وہ لب پیوست کر گیا تھا


سمجھ گئے ہو میں کس کی بات کر رہی ہوں احان تم بڑے بھائ تھے تم نے اس کے گناہ کی پردہ پوشی کی۔۔"

وہ نم آنکھیں لیے تھی جیسے اپنی تربیت پر افسوس سا ہوا تھا


مما وہ سدھر گیا ہے جو وہ کر چکا تھا اس کی درستگی یہی تھی مجھے یہی مناسب لگا تھا

بات کو مزید بڑھانا بہتر نہی تھا

اس لڑکی کی بدنامی خود کی بدنامی کرنے کے مترادف تھا اور بابا بھی ناراض ہوتے پلیز بات ختم کر دیں۔۔"

یہ نارمل بات ہے تمہارے لیے۔۔" وہ ہاتھ جھٹک چکی تھیں

نہی نارمل بات پر بنایا جا سکتا ہے اس معصوم بچے کا کیا قصور تھا۔۔"

قصوروار وہ دونوں تھے نہ پھر سزا خالی دانین کے لیے کیوں مختص ہوتی"

خیر وہ اس سے نکاح کر چکا تھا

سوچ لیں آپ یہ باتیں کریدنے سے کیا ہو گا بابا کی مزید ناراضگی گھر میں تناو کا ماحول بڑھے گا کیا فائدہ ہو گا کیا یہ بات بدل جائے گی بات تو وہیں رہے گی نہ تو پھر واویلے کا کیا فائدہ۔۔"

وہ نرمی سے سمجھاتے قائل کر رہا تھا

گھر بھی قائل کرنے والے طریقے اپنا رہے ہو"

وہ اکتفا کر گئ تھیں

تو اور کیا فیس ہی اس چیز کی ملتی ہے"

وہ مسکراتے انہیں ساتھ لگا گیا تھا

مجھ سے تو نہی ناراض ہوں پلیز اور اس سے بھی مزید نہی ہوں کافی سزا دے چکا ہوں میں معاف کر دیں"

وہ اس بات پر چپ ہو گئیں تھیں

آئیں میرے ساتھ مجھے بہت بھوک لگی ہے اور یقین سے کہہ سکتا ہوں ناراضگی میں کھانا آپ نے بھی نہی کھایا ہو گا۔۔"

وہ ہاتھ تھامتے بولا

نہی مجھے نہی کھانا بھوک نہی ہے مجھے"

وہ نفی کرتے بولیں

تو پھر میں بھی نہی کھا رہا آپ چاہتی ہیں میں بھوکا رہوں"

پلیز یار برداشت سے باہر ہے" وہ چہرے کے زاویے بگاڑتے بولا تھا

ویسے مما آپ کی پھوہڑ بہو کو انڈا بنانے کے علاوہ گول روٹی بنانے کا عظیم کام کرنا آ گیا حیرت ہے مجھے"

وہ لب دبائے اس کے چہرے پر نظریں ڈالے بولا تھا جو انہماک سے کھانا ٹیبل پر لگا رہی تھی

مما حیرت تو مجھے بھی آپ کے سڑیل بیٹے پر ہے تعریف کے لیے چند جملاتی کلمے بھی نہی ادا کرنے آتے"

وہ چیئر کینچھتے اس کے برابر میں بیٹھ گئ تھی

محض تنگ کر رہا ہے تمہیں ورنہ ریحہ تو بہت اچھی ہے"

وہ اس کا چہرا تکتے بولیں تھیں

اس لمحے نظر اس کے مسکراتے لبوں سے زرا اوپر ناک پر ٹھہر چکی تھی جس میں وہ نگ جگمگا سا رہا تھا

جس پر وہ شخص فدا سا تھا

-------------------------------------------------

شام کے سائے گہری رات میں بدل گئے

وہ ابھی بھی اسی پوزیشن میں تھی شائد آج تو حد کر چکی تھی وہ

اس کے جانے کے بعد وہ ہاتھ دیکھ رہی تھی لفظوں کی گونج دماغ میں تھی

اب تک صرف نا انصافی کی تھی اس شخص کے ساتھ جو شائد اس کو اپنا کے غلطی کر گیا تھا

ٹائروں کے چڑچرانے سے مین ڈور کھلنے سے اندازہ ہوا تھا

کے وہ گھر واپس آ گیا پر ہمت کہاں تھی اس کے سامنے کی

وہ باہمت بنتے پندرہ منٹ بعد دبیز قدموں سے شرمندہ سی اس کی پشت تک رہی تھی جو کیچن میں کچھ کر رہا تھا

سب کچھ اچھا ہوتا ہے میں سب برباد کر دیتی ہوں نہ"

طویل خاموشی میں اس کی آواز گونجی تھی

I don't want to slap u

i dont know how could i do this.."

وہ بے تاثر رہا تھا خاموشی سے سلیب کی جانب منہ کیے کوفی بنانے میں ہنوز مصروف سا

آپ بے رخی دکھا رہے ہیں"

اس کی آواز لمحے میں رندھ گئ تھی


وہ سائیڈ سے نکلتا کے راستے میں حائل تھی


راستہ چھوڑو۔۔"

وہ سفید کوفی سے بھرا مگ ہاتھ میں تھامے سرد نظریں گاڑے تھا

اتنی سخت آواز نور کا دل کانپ اٹھا تھا


غازیان۔۔"

وہ اس پر سرخ جلتی نظریں ڈالتے سائیڈ سے نکلتا چلا گیا وہ سرگوشی میں نام ادا کرتی تھم سی گئ تھی


نور روک لو۔۔" دل سے آواز برآمد ہوئ تھی

آئ وانٹ۔۔"

نو اس کی ماں مجھے کبھی نہی اپنائے گی میری زندگی کا پھر مقصد کیا ہے

چیختے سلیب پر ہاتھ مارا تھا کے شیشے کی پڑی چند پلیٹس گرتے خاموش ماحول میں ارتعاش بھرپا کر گئیں تھیں


وہ لاونج میں بے حس و حرکت بیٹھا رہا تھا

آج بلکل بھی اسے تھامنا نہی چاہتا تھا

وہ خود سوچے اسے کیا کرنا ہے کیونکہ جب تک وہ اسے یہ یقین دلاتا رہتا کے وہ اسے دل سے اپنا گیا ہے وہ کبھی یقین نہی کرتی

یقین محبت اسے خود کرنا تھا

وہ اس سے طوفانی محبت ہرگز نہی کرتا تھا ہاں شائد شادی بھی اس نے محض چند لمحوں کی گرفت میں کی تھی پر اب تو رشتہ ہی بدل گیا تھا پھر محبت اور جائز مطالبات ابھارتے جزبات کیسے نہ پیدا ہوتے

رفتہ رفتہ مزید چیزین ٹوٹتی جا رہی تھیں

یہ تمہارے باپ کا گھر نہی ہے۔۔"

اس گھر کا میں گورنمنٹ کو جواب دے ہوں لہحذا توڑ پھوڑ اس گھر کے باہر جا کر کرو"

اس کی سرد آواز سمیت سنبھلتے ٹوٹی چیزوں پر سے احتیاط سے بھرتے قدم اس نے ماتھے سے ٹپکتے پسینے سے تر چہرا اٹھایا تھا

یہ گھر بھی میرا ہے۔۔۔"

وہ بھیگے ٹوٹے سے لہجے میں باور کرا رہی تھی

وہ سنی ان سنی کرتے کپ سنک میں رکھتے چلا گیا تھا

فرسٹیشن نکالتے اس کی نظر اندازی پر بکھری وہ روم میں داخل ہوئ تھی جہاں وہ بند آنکھوں سے خالی پیٹ اپنا کلیجہ جلاتے دھواں اڑانے میں مصروف تھا

میں آج آپ کو مار ڈالوں گی"

وہ تیزی سے پھیلتے دھوائیں کی ناگوار سمیل سے اس تک لڑکھڑاتے قدموں سے گئ تھی

سگریٹ پینا بند کریں۔۔"

اس کے ہونٹوں سے کینچھتے وہ اسے کافی حد تک غصہ دلا گئ تھی

گیٹ لوسٹ۔۔۔"

باہر چلی جاو ورنہ اس لمحے مجھ سے برا کوئ نہی ہو گا'

وہ سگریٹ دوبارہ سلگا چکا تھا

i kill u..."

ہر چیز کا حل یہ زہر ہے کیا"

ہونٹ دیکھیں ہیں اپنے گھر سے باہر بھی پیتے ہیں نہ"

اس کے ہونٹوں کے سیاہ کنارے دیکھتے وہ ڈر ضبط کیے غصے سے بولی تھی وہ اسے دیکھتے رہ گیا جو اس سے خود کو شال سے لپیٹے چھپائے سی لیکچر دے رہی تھی

تمہیں پتہ ہے تم نے مجھے کبھی نہی سمجھا غازیان تم بھی عام مرد ہی ہو"

وہ بھیگتی پلکیں اٹھاتے بولی تھی

اس لمحے اس لڑکی کو دیکھا تھا جو پتہ نہی کیا چاہ رہی تھی پر اس کا صبر اس لمحے ضرور آزما رہی تھی

نور چلی جاو۔۔۔" وہ درشتگی سے بولا تھا کے وہ کانپ اٹھی

نہی جاوں گی۔۔۔"

ہرگز نہی جاوں گی میں میرا گھر ہے اور بیڈ روم بھی میرا ہے۔۔"

وہ ڈھیٹ بنی صوفے کے پاس کھڑی ڈٹی رہی تھی

ٹھیک ہے میں ہی دفعہ ہو جاتا ہوں۔۔۔"

وہ مزید قدم بھرتا کے اس کی کلائ تھام چکی تھی

لاتعلقی نفرت سے زیادہ بدترین سزا ہے"

اس کی بازو سے سر ٹکا گئ تھی

مجھ سے نفرت نہی کرنا

مجھ سے لاتعلقی نہی برتنا

بابا کے بعد کوئ نہی ہے میرے پاس

غازیان اچھا ہے نور بری ہے میں نے قبول کر لیا ہے

پھر غازیان برا کیوں بن رہا ہے"

اپنی گرے شرٹ کندھے سے نم ہوتی محسوس ہو رہی تھی

ڈرامے بند کرو نور بیگم۔۔"

وہ سخت لہجے میں جھٹکتا کے وہ دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے بازو تھام گئ تھی

آئ پرومس مجھے ڈرامے لگانے نہی آتے۔۔"

مجھے مرد بہت برے لگتے ہیں

مجھے تم بھی برے لگتے ہو

وہ صاف گوئ کے مظاہرے کر رہی تھی

پر غازیان کا دل اچھا لگتا ہے"

وہ سوجھی آنکھیں لیے یک دم قریب ہوئ تھی اپنے قدموں پر اونچا ہوتے اسے سن کر گئ تھی

رات کی گہری خاموشی الجھی سی وہ لڑکی صدیوں پر محیط فاصلہ لمحے میں طے کرتے ہاں وہ اس کی دھڑکنیں ساکت ہی تو کر گئ تھی اس کے سینے پر اپنے تپتے لب رکھتے"

کے وہ نا چاہتے اس کو سینے سے لگے دیکھ گہرا سانس بھر گیا تھا جو اپنی دونوں بازو اس کے گرد حائل کر گئ تھی

وہ ساکت سا تھا

تمہیں میری قربت سے نفرت ہے تمہیں سکون نہی ملتا۔۔"

اس کے خود کے گرد حائل بازو ہٹائے تھے

اس لمحے تڑپتی نظریں اٹھائیں تھیں اس کے چہرے کے تنے نقش آنکھوں کے کنارے اور بھینچے لب اب نرمی اختیار کیے تھے

وہ اس کے ہاتھ تھام گئ تھی

مجھے تم سے ڈر لگتا تو اس لمحے تمہارے ساتھ نہی ہوتی

وہ اس کے ٹھنڈے ہاتھ تھامتے اپنی سلگتی آنکھوں پر لگا گئ تھی

دبیز معنی خیز خاموشی کو فون کی چیختی بیل نے توڑا تھا

سامنے نیوز میں واضع تھا

کے دانیال سبطین ڈرنک ہونے کی وجہ سے اپنے دو دوستوں کے علاوہ ایک کانسٹیبل۔کے ساتھ ریسینگ ٹریک پر بلاسٹ ہونے سے حادثے کا شکار ہو گیا

نیوز سب سے پہلے دیکھتے زبیر شوک میں تھے جبکہ حمدان نیازی بس اتنا چاہتے تھے اس کا ہاتھ اس میں نہ ہو

جو پہلے ہی محکمے کی نظروں میں آتے ڈس مس لسٹ میں شامل تھا


میر سبطین اس لمحے بھپرے شیر کی مانند تھا جو خود چند دن پہلے زخمی تھا اب بیٹے کو دیکھ رہا تھا


ہوسپیٹل میں واویلہ مچاتے ماں اور اس کا سرد تاثر لیے کھڑا باپ بے آسرا سا تھا


وہ پوسٹمارٹم کی رپورٹس کے بعد گلاسس آنکھوں سے ہٹاتے اس تک گیا تھا

یہ کیا ہو گیا

آپ تو اسے بچانا چاہتے تھے"

بہت افسوس ہوا۔۔۔" وہ برابر میں کھڑا ہوتے بولا تھا

وہ اس جانب خون رنگ آنکھیں لیتے پلٹا تھا

میں تجھے چھوڑوں گا نہی یہ سب اس کمینے نے کیا اس نے بدلہ لیا ہے۔۔"

اپنی اس کمینی بیوی۔۔" وہ دھاڑا تھا کے گارڈز متوجہ ہوتے اس پر گن تان گئے تھے


آپ خود ہیں اپنے بیٹے کے قاتل"

وہ ایس ایچ او کی بات پر پھر سے بھپرا تھا

میں قاتل ہوں۔۔"

لاسٹ کال آپ نے اپنے بیٹے کو کی تھی اور اسکی گاڑی بھی اپنی گاڑی سے چینج کروادی

جب کے اس کی گاڑی سہی سلامت ٹریک کی پارکنگ میں پائ گئ تھی"


بکواس بند کرو میں نے اپنے بیٹے کو مارا۔۔"اس کی بلکتی ماں کو دیکھتے وہ دھاڑا تھا اس کی حالت اس قابل نہ تھی کے زیادہ دیر لاش کو رکھتے

کچھ ماں باپ خود ہوتے اپنی اولاد کے قاتل

جیسے کے تم ہو اپنے بیٹے کے قاتل۔۔"

رات کا واقعہ یاد آیا تھا

سر آپ سے کوئ ملنے آیا ہے"

کون سا بیکاری آ گیا ہے اب چندا اکھٹا کرنے"

وہ حقارت آمیز لہجے میں بولا تھا

جسٹس زبیر کا گارڈ۔۔"

بھیجو اسے کہاں سے یاد آ گئ تھی اب۔۔"

وہ کچھ سوچتے حامی بھر گیا ورنہ اس لمحے وہ کسی سے ملاقات نہ کرتا

یہ تم کہاں غائب تھے اس کے حلیے کو دیکھتے میر سبطین تشویش میں ہوا

اس بات کو چھوڑ دیں جو بات بتانی ہے وہ یہ ہے کے آپ کے بیٹے کی گاڑی اگلے پندرہ منٹ میں بلاسٹ ہونے والی ہے"

تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو"

وہ ماتھا مسلتے اٹھا تھا

میں جانتا ہوں مجھے پتہ ہے آپ بس ان کو سیو کریں۔۔"

اگلے دو سیکنڈ میں وہ فون کان سے لگا گیا تھا

کہاں ہو تم۔۔۔" بے ہنگم میوزک سے وہ اندازہ تو لگا گئے تھے پھر بھی تصدیق چاہی تھی

میں کلب ہوں۔۔" وہ نشے میں دھت سا تھا

گاڑی بھیج رہا ہوں اسی پر واپس آنا۔۔"

دوسری گاڑی پر ہرگز نہی آنا۔۔"

اپنی فضول حرکتیں بند کر لو۔۔"

اپنی گاڑی گارڈ کے حوالے کرتے وہ فون کال کرتے بے حال تھا پر اسے کوئ ڈھونڈ نہ پایا تھا وہ گاڑی سمیت غائب تھا وہ سمجھے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ نکل گیا ہو گا

جبکہ اس کا پوری رات ٹریک سے تو کیا کہی بھی نام و نشان نہی تھا

وہ سنبھل نہی پائے تھے جب یہ نیوز آ گئ تھی ڈرنک اور ریش ڈرائیونگ کرتے وہ برے حادثے کا شکار ہوئے ہیں



صرف وہ سکتے میں سر تھام گیا تھا وہ گاڑی خود اس کی گاڑی سے بدلوا گیا تھا

لاسٹ کال آپ نے کی تھی اور جو گاڑی آپ نے بھیجی بلاسٹ بھی اسی میں ہوا ہے"

آپ کا بیٹا ہیولی ڈرنک تھا

گاڑی کی سپیڈ حد سے زیادہ تھی

انسپیکٹر نے تفتیشی کاروائ مکمل کرتے کہا تھا

تم نے مجھے اوفر کی تھی چیک کی جتنی چاہے رقم بھر لوں۔۔"

آج میں اوفر کر رہا ہوں ڈونیشن کر دو۔۔"

وہ جھکتے پھر سے آگ لگاتے بولا تھا

پتہ ہے میں چاہتا تو اسے سب کے سامنے لا سکتا تھا کیس کر سکتا تھا

پر یہاں تو معاملہ ہی میری زندگی کا تھا اسے بے پردہ کرنا خود کو کرنے کے برابر تھا

تم جیسے کتے میں خودی ہینڈل کر لیتا ہوں

آئ ول شوٹ یو نیازی تم مجھے سے نہی بچو گے"

وہ چلا رہا تھا جبکہ پولیس اسے قابو کر رہی تھی

وہ جانتا تھا سکینڈل تو بنے گا فلحال میر سبطین صدمے میں تھا

گزشتہ رات کا واقع ابھرا تھا

اس لمحے اس لڑکی پر غصہ نہی آ رہا تھا یا وہ چاہ کے بھی نہی کر پا رہا تھا

وہ ہاتھ اس کی گرفت سے نکالتے فون تھامتے ڈریسر سے فون اٹھاتے کان سے لگا گیا تھا

وہ سامنے ہے کیا کرنا ہے"

وہ اس کے تاثرات جانچ رہی تھی جو پھر سے تن چکے تھے بھینچے سے لب ماتھے کی ابھری رگیں

اس کو بول اس کے باپ کو فون کر۔۔"

اور اس کو کہہ اس کے بیٹے کی گاڑی اگلے پندرہ منٹ میں ریسینگ ٹریک پر بلاسٹ ہونے والی ہے"

وہ اس کی نظروں سے بچتی چونگ گئ اس کی سیاہ آنکھوں میں سرخی بھانپی تھی نور کو خوف سا آنے لگا

اس کی فیلڈ ہی ایسی تھی شائد جو اپنا تاثر چھپانا جانتا تھا


لیکن سر آپ نے صرف اس ایریا کی چھان بین کرنے کو کہا تھا اور وہ ڈرنک ہے وہ ہمارے قبضے میں پھر بلاسٹ۔۔"

ریسینگ ٹریک وہ نا سمجھی میں تھا

فون سے ابھرتی آواز اور سامنے کھڑی لڑکی کا خوف دونوں وہ محسوس کر رہا تھا اس لمحے


کیونکہ ابھی وہ پہلے میرے ہاتھوں مرے گا۔۔"

وہ لمحے میں اس کی نظروں سے بچتے روم سے نکلتی کے وہ اس کی کلائ تھامتے اپنے روبرو کر گیا تھا

خوف کے مارے اس کی چیخ نکلتی کے وہ اسے اپنے سینے سے لگاتے ایک بازو کی گرفت سے خود میں بھینچ گیا اس کی چیخ اس کے سینے میں دب سی گئ تھی


میں آ رہا ہوں دو منٹ میں"

وہ فون بند کر گیا طویل خاموشی کا سامنا وہ دم سادھے تھی


ابھی تم میرے ناچیز دل کو سراہتے اپنی محبت دکھا رہی تھی

اس کے کان میں سلگتی سرگوشی کرتے وہ اس کی دونوں چھڑاتی کلائیاں تھامتے اس کی کمر پر باندھ گیا تھا

وہ بے آسرا کھڑی تکلیف ضبط کیے تھی دوپٹہ کندھے سے پھسلتے اب زمین پر تھا


میری آنکھوں میں دیکھو نور۔۔۔"

اس کے ستم پر برستی نظریں جھکائے ہی تھی


میں نے کہا میری آنکھوں میں دیکھو۔۔"

بازوں پر سختی کیے وہ دوبارہ غرایا تھا وہ خوفزدہ سی آنسووں سے دھندلی سیاہ آنکھیں اس کی سیاہ آنکھوں میں گاڑتے تھم گئ تھی


اس لمحے بنا پلکیں جھپکے وہ اس کی ضد کے آگے ہار گئ تھی

سرخ عارض لیے بھیگی پلکیں دیکھتے وہ اس کے ماتھے سے سر ٹکا گیا تھا وہ ڈھیلی پڑتی خود کو اس کے آسرے چھوڑ گئ تھی


جن کو ایک بار اپنا لیا جائے انہیں چھوڑا نہی جاتا پھر حالات کے تقاضے جو بھی ہوں"

اس کے عملی اعتراف کا ثبوت اپنے ماتھے پر محسوس کرتے وہ اس لمحے میں اس کی اور اپنی تیز چلتی سانسوں پر آنکھیں بند کر گئ تھی


ن۔۔نہی جاو پھر۔۔"

مجھے ڈر لگ رہا ہے غاز آئ ڈونٹ وانٹ ٹو لوس یو پلیز۔۔"

وہ اس لمحے اس کی شرٹ پر دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کرتے خوف میں مبتلا سی تھی


امید ہے اب روشن سویرا منتظر ہو۔۔"

اس کی پیشانی پر دوبارہ شدت بھرا لمس چھوڑتے وہ اسے اپنے محبت کے حصار میں چھوڑتے جا چکا تھا


اس کے باپ نے جو گاڑی بجھوائ تھی اس سےپہلے وہ اسے اٹھوا چکا تھا

اس لمحے وہ پھر اس کے سامنے تھا


میرا باپ چھوڑے گا نہی"

تیرا باپ یہاں پہنچے گا نہی"وہ تیز آواز میں بولا تھا


دو سیاہ موٹے لوگ تھے جو اس کے خاص بندے تھے

اس کی تبعیت آج ایسی صاف کرنی ہے یہ یاد رکھے کسی کی عزت سے کھیلنا۔۔"

وہ سرخ ہوتی نظروں سے اس کے آنسو اس کی تکلیف خود پر محسوس کرتے بولا اور جانے کتنی لڑکیاں تھیں جو اس واحیات کے شکنجے میں تھی

اس کے باپ کا دھیان بلکل اس سے ہٹ گیا تھا شائد اف کوئ نہی بچا سکتا تمہیں"

وہ تنزیہ بولا

دانیال کی آنکھیں باہر نکل آئیں تھیں وہ رسیوں میں جھکڑا خود کو چھڑواتا وہ اس پر پیاسے درندوں کی طرح جھپٹ چکے تھے

باقی دو مجرم اس کے سامنے بندھے اس کا حال بے حال ہوتے دیکھ رہے تھے

لیو جنگلی۔۔"

وہ اپنی کلائیاں چھڑوائے تھا جو اسے انجیکٹ کیے اس پر جھپٹے تھے

وہ اسکی چیخ پر سامنے چئیر پر بیٹھا اپنی موندھی آنکھیں کھول گیا تھا

مزہ نہی آ رہا اس کی چیخیں مزید ہوں۔۔۔"

اس کی زات کی دھجیاں اسی طرح بکھیرتے وہ اس کو دیکھ رہا تھا

تم جیسے شخص کی معاشرے میں کوئ جگہ نہی۔۔"

خون رستے وجود پر برف ملا پانی انڈھیلتے وہ اس کا خون جما گیا تھا

وہ خون کی کلوٹنگ ہونے سے نیم وا آنکھیں کھولتے ان وحشیوں کو دیکھ رہا تھا

جو اس کا وجود ادھیڑ رہے تھے

تیسری دفعہ خود کے ساتھ وہی کاروائ ہوتے دیکھ سارے لمحے زہن میں آئے۔۔"

اے کمینی مرنی نہی چاہی۔۔"

ساری اکڑ نکال دوں گا۔۔"

مختلف الفاظ گونجتے اسے اس تکلیف کا احساس ان وحشیوں کے ہاتھ دیتے دلا رہے تھے جو وہ دیتا تھا

ہر کوئ شائد نور نہی تھا جس کے والی وارث نہ ہوں اس کا تھا وہ شخص تھا

جو اس کی ازیت کا بدلہ لے گیا تھا

اس کی گاڑی میں ان تینں کو ڈالو۔۔"

ادھ مرے وجود دیکھتے وہ تیش میں مبتلا تھا

سر یہ رسکی ہے شک آپ پہ ہی ہو گا۔۔"

وہ رات کی سیاہی میں فرنٹ سیٹ پر دانیال کا وجود جبکہ بیک پر دو اس کے ان دوستوں کا وجود دیکھ رہا تھا

رپورٹ بناو۔۔"

ریسنیگ ٹریک پر میر سبطین کے بیٹے سمیت تین لوگ کار بلاسٹ میں مر گئے۔۔"

تین کیسے یہ تو دو ہیں۔۔"

وہ نوٹ پیڈ بند کرتے اس کی جانب دیکھتے تشویش میں ہوا تھا

کیونکہ تیسرے تم ہو۔۔"

وہ سرد لہجہ میں بولتے اس کی جان اٹکا گیا تھا

سر میں زندہ وں۔۔"

وہ ٹوٹتے لفظوں میں ادا کرتے اندھیری خوفناک ٹوٹی سڑک پر بامشکل قدم جماتے پیچھے ہوا تھا

لیکن تم مزید زندہ نہی رہنے والے" وہ گن اس کی کن پٹی پر رکھتے بولا تھا

میری ویڈیو میرے آفس سے اپلوڈ تم نے کی تھی نہ ورنہ میرے آفس کی اتنی پرسنل ویڈیو تمہارے علاوہ کون شئیر کر سکتا تھا

ویسے بھی بہت گناہ کیے تم نے بھی اس شخص کو بچانا چاہا۔۔۔"

اب تو میرا راز بھی ہے اور ثبوت بھی

سوری وہ ٹریگر دبا گیا تھا اور گن کی ٹھنڈی نال اس کے سر پر مارتے اس کو زمین بوس کر گیا تھا

میر سبطین کی گاڑی کی بریکس فیل تھیں جو وہ گارڈ کے تھرو کروا چکا تھا ریسنگ ٹریک پر چھوڑتے ان تینوں کو انجام تک پہنچاتے وہ گارڈ کے سامنے تھا

تمہاری زات کو بچانے والی صرف تمہاری بیٹی ہے ورنہ میری زندگی کی زندگی برباد کرنے پر تمہیں بھی ایسے انجام سے ہمکنار کرتا کے تم جیسے لوگ سیکھ جائیں کے برائ کا انجام کیا ہے


خیر دعا کروں گا مکافات عمل نہ ہو ورنہ تم سوچ نہی سکتے عزت سے کھیلنے کا عزاب کیا ہوتا ہے"

اس سے بڑی سزا کیا تھی اس سے بڑا خوف کیا تھا کے وہ ساری زندگی اپنی بیٹی کے لیے خوفزدہ تھا

کیونکہ ہر ادل کا بدل ہے جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے"

وہ اس شخص کی دھواں اڑاتی گاڑی کے چند لمحوں بعد سنسان ٹریک پر پولیس لا رش دیکھ رہا تھا

وہ دبیز بوجھل قدموں سے نکلتا چلا گیا تھا


وہ رات دو بجے کے قریب گھر پہنچا تھا


شائد صبح ڈس مس لیٹر آتا یہ گھر گاڑی اس سے لے لی جاتی امید پر دنیا قائم تھی

پر اس لڑکی کا بدلہ وہ لے چکا تھا

وہ اس کے بستر پر دنیا جہاں سے بیگانی گہری نیند میں تھی


کچھ فارمل ڈریس۔۔"

وائٹ شلوار قمیض نکالتے وہ پہنتے شیشے کے سامنے دل سے تیار ہوتے سیاہ گلاسس نکال چکا تھا

معاملہ سمیٹتے اس کے سامنے آنا چاہتا تھا خاموشی سے گھر لوکڈ کرتے چلا گیا تھا


-----------------------------------------------------


دانین کو پورا دن روم سے نکلتا نہ دیکھ وہ اس سے رشتے میں بڑی ہونے کی حثیت سے یونیورسٹی سے فریش ہو کر آدھے گھنٹے بعد اس کے روم میں چلی آئ تھی


ہلکا سا نوک کرتے وہ داخل ہوئ تھی

دانین۔۔۔"

ریحہ نے اسے پکارا تھا یخ بستہ روم اندھیرے میں ڈوبا سا تھا خود وہ بیڈ پر کمفرٹر میں پڑی تھی

کیا ہوا آپ ٹھیک ہیں۔۔" وہ سائیڈ لیمپ اون کر گئ تھی

بس سر میں درد ہے۔۔" وہ بازو آنکھوں پر رکھے ہی بولی تھی

کھانا کھایا پ نے"

وہ نرم تبعیت کے باعث اس کے پاس تھی سانیہ جو فلحال اس سے ناراض تھی گھر کی فرد ہونے کی حثیت سے وہ اپنی ساس کی وجہ سے بھی اس سے بے اعتنائ نہی برت پائ تھی

نہی ریحہ بھابھی ایسی سچویشن میں بلکل دل نہی چاہ رہا اوپر سے آنٹی کی ناراضگی۔۔"

وہ اٹھ بیٹھی تھی

ٹھیک ہو جائیں گیں وہ تھوڑا ٹائم دو بڑی مما زیادہ دیر ناراض نہی رہ سکتی۔۔"

میں تمہارے لیے روم میں ہی کھانا بھیجتی ہوں کھا لینا۔۔"

وہ اٹھتی بولی تھی

نہئ آپ ایک کپ کوفی کے ساتھ کوئ پین کلر بھیج سکی ہیں"

پین کلر مگر کچھ کھا تو لو۔۔" وہ تشویش زدہ ہوئ تھی

اب وہ کیسے بتاتی وہ روم میں پڑی سنیکس کھا کر اچھا خاصہ پیٹ بھر چکی تھی

نہی بس کوفی کے ساتھ ٹیبلیٹ لوں گی۔۔" وہ ماتھا مسلتے بولی تھی

ٹھیک ہے" وہ کہتے چلی گئ

مائے فٹ مجھ سے نہی کسی کے نخرے دیکھے جاتے۔۔"

وہ سر دوبارہ تکیے پر پٹخ چکی تھی

چند لمحوں بعد اس کے روم میں داخل ہوئیں تھیں جہاں وہ بستر پر لیٹی تھی

ناشتہ کرنے کیوں نہی آئ تم صبح اور اب دوپہر میں بھی نہی تم باہر آئ"

ریحہ کی جگہ سانیہ کی آواز سنتے وہ لیٹے لیٹے ابرو اچکا گئ تھی

کچھ ٹائم تک ملازمہ ٹرے لے کر سانیہ کے پیچھے ہی دانین کے روم میں آگئیں تھیں


اب لاپرواہی نہی برتو تمہارے ساتھ ایک جان مزید جڑی ہے"

وہ کندھے پر بکھرے بال باندھتے ان کی بات سے اٹھ بیٹھی تھی پورا دن وہ روم سے اکڑتے نکلی ہی نہی تھی نہ ہی منانے کی کوئ کوشش کی تھی


آنٹی شکر ہے آپ کو میری بھی فکر ہے ورنہ مجھے تو لگا تھا آپ کی صرف ایک ہی بہو ہے"

وہ تلخی سے بولی تھی اپنی اہمیت کم سی لگی


ایسی بات نہی ہے تم دونوں برابر ہو میرے لیے"

میں نے کبھی فرق نہی کیا تم میں اور ریحہ میں چلو منہ ہاتھ دھو کر آو اور یہ کھانا کھاو

وہ سپاٹ سی بولیں تھیں نہ زیادہ نرم لہجہ تھا نہ ہی سخت

وہ سر ہلاتے اٹھی تھی

تب تک ریحہ نے ملازمہ کے ہاتھ کوفی اور پین کلر بھی بھیج دی تھی

سانیہ میڈیسن اور کوفی کا کپ دیکھتے واشروم کا بند دروازہ دیکھتے غصہ کرتی رہ گئیں تھیں

وہ نم چہرے سے باہر آئ تو بول اٹھیں تھیں

یہ کیا ہے تم خالی پیٹ کوفی کے ساتھ یہ میڈیسن لے رہی ہو تمہیں اندازہ نہی ڈاکٹر کی ہدایات کے بغیر ساری میڈیسن تمہارے لیے نقصان دہ ہیں

سانیہ نے مٹھی میں تھامی میڈیسن سامنے لہرائ تھی

کیا یہ نقصان دہ ہے لیکن مجھے ہرگز نہی اندازہ تھا یہ ریحہ بھابھی نے بھیجی ہے۔۔"

پتہ نہی ان سے ہی پوچھیں پتہ نہی کیا چاہتے ہیں آپ لوگ اب"

وہ ملبہ اس پر ڈال گئ تھی

ریحہ نے بھیجی۔۔" وہ لمحہ بھر کے لیے چپ ہو گئ تھیں

جی ریحہ بھابھی نے بھیجی مجھ سے پوچھنے آئ تھیں اور کوفی کے ساتھ یہ بھیج دی۔۔"

وہ اس لمحے حیرت کا بھرپور اظہار کر رہی تھی

بڑی مما آپ۔یہاں ہیں میں آپ کو ڈھونڈ رہی تھی

وہ دانین کے روم سے نکلتا دیکھ فوری بولی تھی

ریحہ میری بات سنو دانین کو ٹیبلیٹ تم نے بھیجی تھی"

وہ دروازے کی نوب سے ہاتھ ہٹاتے سیدھی ہوتی اب اس سے مخاطب تھیں

جی پر کیوں؟ وہ ناسمجھی کے عالم میں بولی تھی

تمہیں اندازہ ہونا چاہیے وہ نقصان دہ ہے اس حالت میں اس کے لیے"

تمہیں احتیاط کرنی چاہیے تھی ریحہ اور ہمیں لینے کے دینے پڑ جاتے۔۔"

سانیہ نے افسوس زدہ لہجہ اپنایا تھا

لیکن بڑی مما مجھے واقعی ہی نہی پتہ تھا ورنہ میں نہی بھیجتی اسنے ہی کہا تھا وہ بتا دیتی تو۔۔"

واو آپ کی برسلیٹ کتنی پیاری ہے"

وہ روم سے فریش سی نکلتے فوری بات بدل گئ سانیہ دونوں کو مصروف دیکھتے چلی گئ جبکہ دانین گہرا سانس بھرتے شکر کر گئ تھی

تیزی سے اس کی کلائ میں چمکتی برسلیٹ کے ٹسلز کو چھو رہی تھی

وہ حیران کن ہوئ تھی

میں ٹرائے کروں کیا۔۔" وہ بس بات بدلنے پر دیکھتی رہ گئ تھی

آئ ول ٹرائے میری کلائ میں پہن کے دیکھوں۔۔"

اس کے ہاتھ پیچھے کرنے سے پہلے کھولتے وہ اپنی کلائ میں ڈال چکی تھی کے اسے اس لمحے غصہ سا آیا تھا

یہاں اچھا لگ رہا نہ زیادہ میرے ہاتھ میں"

وہ اپنی سفید کلائ اس کی گندمی رنگت کی بازو کے ساتھ لہراتے بولی کے اس کا لہجہ اس لمحے تنزیہ سا لگا تھا

یہ مجھے واپس کریں دانین۔۔"

وہ اس کے ہاتھ سے خودی نکالتے اپنی کلائ میں دوبارہ پہن چکی تھی

کچھ زیادہ گولڈ آپ کی کلائ میں نہی چمک رہا ہے بائے دا وے میں یہ رکھنے نہی والی تھی ریحہ بھابھی اتنی بے اعتباری

صرف ٹرائے کرنا تھا"

ریحہ لب و لہجے پر حیران تھی جو نظر انداز کیے چلی گئ تھی

--------------------------------------------------

"لیپ ٹوپ کی سکرین سے پھوٹتی روشنی اس کے نقش نمایاں سی کر رہی تھی ایک گہری نظر ڈالتے اسے دیکھا تھا سفید ٹی شرٹ اور بلیو ٹراوزر میں اس کی نظریں اس کی بھوری بڑی شیو پر ٹھہر سی گئیں تھیں

حان۔۔"

ہممم"

وہ لیپ ٹوپ پر بزی تھا جب وہ اس کے گھٹنے پر سر رکھے تھی


یہ آپ کے ہاتھ میں زیادہ اچھی لگ رہی نہ"

وہ برسلیٹ کی ہک کھولتے اس کی مضبوط کلائ میں ڈال گئ تھی

کی پیڈ پر چلتا ہاتھ تھما تھا جب اپنا ایک ہاتھ اس کی گرفت میں اپنی کلائ پر تھا جس میں وہ اپنا پہنایا برسلیٹ ڈالے اس کے کناروں پر لٹکتے باریک نگوں والے ٹسلز پر انگلی پھیر رہی تھی

نظریں مرکوز کرنے پر پتہ چلا وہ خود کی رنگت کا موازنہ کر رہی تھی

تم کب سے کلر کمپلیکس ہو گئ"

یہ مجھے یہی اچھا لگتا ہے"

اپنی کلائ اس کی گرفت سے آزاد کراتے وہ اس کی کلائ میں ڈالتے لب رکھ گیا تھا کے اس کے لمس پر اس کے ٹسلز ہلے سے تھے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور فوری نظریں جھکا گئ تھی

باقی صبح پڑھ لینا"

اپنا لیپ ٹوپ شٹ ڈاون کرتے اس کی بک ہاتھ سے لیتے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے اسے اپنے حصار میں لے گیا تھا

مجھے چھوڑیں میرے ابھی دو ٹوپک ریوائز کرنے والے ہیں آپ سو جائیں میں کاوچ پر چلی جاتی ہوں تاکہ آپ ڈسٹرب نہ ہوں"

جانتی تھی اسے لائٹ میں نیند نہی آتی تھی

اس کے حصار سے نکلتی کے اس کی لمبی چٹیا مٹھی میں تھامتے خود پر جھکا گیا تھا

اپنے کام دن تک محدود رکھو۔۔"

رات میری ہوتی ہے"

اس کا بوجھل سا لہجہ اس کی سرائیت کرتی انگلیاں اپنے چٹیا کے بل کھلتے محسوس ہوئے تھے

صلی ہیں۔۔"

اس کو خود پر جھکائے اس کے بالوں سے آتی شیمپو کی بھینی سی خوشبو خود میں اتارتے وہ مبہم سا مسکرایا تھا

نہی کرائے پر وگ منگوائی ہے حد ہے آپ کو ابھی بھی یقین نہی مجھے لگتا ہے اب یہ آپ کی نظر لگنے سے زیادہ عرصہ میرے سر پر نہی رہیں گے۔۔"

وہ منہ بگاڑتے بولی تھی

نہی لگتی انہیں میری محبت بھری نظر۔۔"

لیمپ اوف کیے اس کے گرد حصار کینچھتے وہ اسے خود میں سمیٹ گیا 

آفٹر ون منتھ۔۔۔"


وہ کیچن میں کھڑی مصروف سی تھی

ایسا کرو سلاد تم بنا لو رائتہ میں بنا لیتی ہوں۔۔"

وہ ملازمہ سے بولی تھی


شام گہری سی ہو رہی تھی

آنچ تیز تھی وہ چولہے کے قریب کھڑی بے نیاز سی مصروف تھی اس کے آنے سے پہلے وہ سارے کام ختم کرنا چاہتی تھی اپنی تبعیت میں کل دن سے ہی شدید بوجھل پن سا محسوس ہوتے بھی وہ نظر انداز کیے تھی

دبیز قدموں کی چاپ سے وہ پلٹی تھی

آپ کو ماسی بننے کا بہت شوق ہے"

وہ کاونٹر کے قریب کھڑی ہوتے سلاد کی پلیٹ سے کھیرا اٹھاتے بولی تھی

گھر کے کام کرنے سے کوئ ماسی نہی بنتا۔۔"

وہ باور کراتے سلاد کی چیزیں کٹر بورڈ پر کترتے بولی تھی

دانین کندھے اچکا گئ تھی وہ تو جو تھوڑا بہت ہل کے کام کرتی تھی اب وہ بھی اپنی حالت کے بہانے سے نہ کرنے کے برابر تھا

ویسے بھی کام کونسا اتنے تھے کیچن کے کاموں کے علاوہ

دانین کی نظر اچانک چولہے کے نزدیک پڑی تھی وہ لب پھیلاتے لب وا کرتی جب اس کو دیکھا تھا وہ اتنی مصروف تھی کے اندازہ نہی ہو پایا

کمر پر گرم حدت محسوس کرتے وہ نا محسوس انداز میں پلٹتی جب وہ بھی چلائ تھی

ریحہ آپ کے دوپٹے کو آگ لگ گئ ہے"

وہ دور سے بولتے ہی اسے مزید ڈرا گئ تھی

کمرے سے نکلتے ملی جلی چیخوں سے تیزی سے وہ کیچن کی جانب آیا تھا

جہاں وہ آگ کی لپیٹ میں لپٹا دوپٹہ خود سے علیحدہ کرنے کی تگ ودود میں خوفزدہ تھی جب کے باقی ملازمہ اور دانین دور سے ہاتھوں سے آگ بجھانے کی سعی میں تھیں

وہ پہلے تو دیکھتا رہا تھا

ری اتارو دوپٹہ"

پاگل لڑکی جلدی اتارو اسے۔۔"

ازہان نے دیکھتے کہا جو ویسے ہی آگ بجانے کی سعی میں آنسو لیے نفی کر رہی تھی

اس کی بچکانی حرکت پر وہ دوپٹے پر پھیلتی مزید آگ دیکھتا رہ گیا تھا اگلے لمحے اس سے کینچھ کر دوپٹہ دور اچھالتے پھینکا تھا

ٹھیک ہو تم۔۔"

بولتے نظریں چراتے فوری سے باہر چلا گیا تھا جہاں دروازے پر سخت نظروں کا سامنا ہوتے

دانین بھی دیکھتی رہ گئ تھی جب پیچھے اسے کھڑے پایا تھا

اس کے دوپٹے پر آگ لگ گئ تھی۔۔"

وہ اس کی نظروں کا تاثر دیکھتے صفائ دے بیٹھا تھا جو شائد ابھی آیا تھا لاونج میں پڑے کاوچ پر ہی اسکا کوٹ اور لیپ ٹوپ بیگ سے وہ اندازہ لگا چکا تھا


دھیان کہاں تھا تمہارا۔۔۔"

اس کی دھاڑ پر وہ سہمتے سرخ آنکھوں سے آدھا جلتا دوپٹہ زمین پر پڑا ابھی بھی ماوف ہوتے زہن سے دیکھ رہی تھی


حان۔۔۔"

آنسو تیزی سے اس کو سامنے دیکھتے آنکھوں کے کناروں سے آزاد ہوئے وہ ناقابل فہم تاثرات دیکھتے سوچ کے ہی کانپ اٹھی تھی


کیا ہوا سانیہ کیچن میں آتی آوازوں سے آئیں تھیں

وہ الجھی بکھری چٹیا اور دوپٹے کے بغیر کھڑی حادثاتی کیفیت میں تھی جب وہ فوری اسے کسی کی بھی پروا کیے بغیر سینے سے لگا گیا تھا ریحہ کو لہجے سمیت اس کی پکڑ میں بھی سختی محسوس ہو رہی تھی

کے وہ ہاتھ پر جلن سے کرا اٹھی تھی جو شائد خود سے اگ بجانے کی سعی میں سرخ سا ہو گیا تھا


یہ سارے کام کیا تمہارے ہی زمے ہیں۔۔"

آئندہ مجھے تم کیچن میں نظر نہی آو۔۔"

وہ تیز آواز میں بولتے اس کی بازو تھامتے لے گیا تھا


دانین کیسے لگی تھی آگ"

سانیہ خود پریشان ہو گئیں تھیں اس کا آدھے سے زیادہ جلا دوپٹہ زمین پر دیکھتے


اچانک لگ گئ آنٹی پتہ نہی چلا شکر ہے ازہان آ گیا تھا پر توبہ آپ کے بیٹے کا ری ایکشن۔۔"

وہ سوچ سکی تھی


وہ اس کا غصے بھرا چہرا اور چھبتی نظریں دیکھتے پتہ نہی کیوں اس کیفیت میں ڈر سی گئ تھی جو کبرڈ میں سے کچھ ڈھونڈھ رہا تھا آنسوں گال نم کرتے جا رہے تھے


غصہ کیوں ہو رہے ہیں

آئ پرومس دوپٹہ نہی اتار رہی تھی میں۔۔"

اس کی بات اور سسکیاں محسوس کرتے وہ تاسف سے پلٹا تھا وہ کیا سمجھ رہی تھی


سیریسلی۔۔"

وہ آئنٹمینٹ بیڈ پر اچھالتے نرم پڑا تھا


تم اتنی لاپرواہ کیوں ہو ریحہ"

کب لاپرواہی والی حرکتیں کرنا چھوڑو گی میری جان

وہ ماتھا مسلتے دو منٹ پہلے کا واقع سوچتے خوفزدہ تھا

اب رو کیوں رہی ہو۔۔"

پریشانی میں جھکتے وہ فوری ہاتھ کے علاوہ اس کی گردن کے بعد اس کے کندھے سے شرٹ ہٹا کے دیکھتا وہ نا محسوس انداز میں پیچھے کھسکی تھی


جیسے میں نے جان بوجھ کر کیا تھا نہ

زہر لگ رہے ہیں مجھے"

وہ مزید تیزی سے روتے بولی تھی مطلب کوئ قدر ہی نہی تھی اس کی


ہاں تم نے تو ٹیسٹ کیا ہے نہ زہر"

تنز کرتے اس کو خود سے فاصلے پر جاتے اس کی نم آنکھیں دیکھتا رہ گیا تھا


لاتعداد بار۔۔"

اس پر نظریں ڈالتے وہ روانی میں بول تو گئ تھی احان نے نظریں اس کی جانب کی تھیں کے لب نا چاہتے ہوئے بھی اس کی شکل دیکھتے مسکراہٹ میں ڈھل گئے تھے

وہ خجل ہوتی بات سمجھتے سرخ ہوتے نظریں جھکا گئ تھی


پھر سے کراوں۔۔"

وہ ہاتھ تھامتے گہری نظروں سے اس کو دیکھتے بولا تھا

جب اس کی اچانک سسکی برآمد ہوئ تھی

اور اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے کینچھا تھا

اس کے ہاتھ کی پشت سرخ سی دیکھتے وہ جھکتے لب رکھ گیا تھا

یہ ہی ہوتا ہے دھیان نہ دینے سے"

وہ آئنٹمینٹ لگاتے تنز بھی کر رہا تھا وہ بس دیکھتی رہ گئ تھی اس شخص کو

کل صبح پھر ناشتہ آپ بنائیں گے"

وہ ٹیوب رکھتے اس کی بات پر پلٹا تھا

تم بس پاس رہنا۔۔"

ناشتہ میں بنا لوں گا۔۔۔"

میں ہیلپ بھی نہی کروں گی۔۔"

وہ سر مسلتے عجیب ہوتی تبعیت محسوس کرتے اسے بولتے اسی پوزیشن میں لیٹ گئ تھی

وہ واشروم سے واپس آیا اس کو دیکھا تو وہ آڑھی ترچھی پڑی تھی وہ ڈریسر کے سامنے کھڑا یہ ہی سمجھا تھا جاگ رہی ہے وہ اس کے بے حس وحرکت وجود کو دیکھتے بال بناتے وہ اس تک آیا تھا

ریحہ۔۔"

اس کو پکارتے اس کے نزدیک بیٹھتے وہ فکر مند ہوا تھا اسے اتنی جلدی بیڈ سے ٹانگیں نیچے ہی لٹکائے اسی کیفیت میں سوتے دیکھ"

کچھ کھانا نہی تھا کیا پاگل ویسے ہی سو گئ ہے۔۔"

گھڑی دیکھی جہاں سات بجنے میں بھی ابھی ٹائم باقی تھا

اسے سیدھا کرتے بازوں میں بھرتے سہی سے بستر پر لٹاتے وہ بڑبڑایا تھا

خود کو کتنا نقصان پہنچا لیتی ہے"

ہاتھ کی پشت سرخ دیکھتے اس کی کلائ سے برسلیٹ نکالتے سائیڈ ڈرا میں رکھا تھا جو اب اسے مزید تکلیف نہ دے خود روم سے باہر قدم بڑھائے تھے

-------------------------------------------------

صبح اٹھتے وہ اسے لیتے کیچن میں آئ تھی گھر کے باقی افراد ابھی شائد سو رہے تھے وہ اکثر جلدی جاتا جس کی وجہ سے وہ بھی جلدی اٹھتی شروع میں تو شدید کوفت تھی پر اب اسے عادت سی ہو گئ تھی

کاونٹر پر مزے سے بیٹھے ٹانگیں ہلاتے وہ آڈر دے رہی تھی

مجھے پہلے جوس بنا کے دیں۔۔"

کیسے۔۔؟ وہ عجیب تاثر دے گیا کے وہ حیران ہو گئ

کیسے مطلب ایک عدد جوسر لیں سوئچ لگائیں اس میں یہ کٹے ہوئے مینگوز اور دودھ ڈالیں۔۔"

وہ بولتی جا رہی تھی اس نے ویسے ہی کیا تھا

خود وہ شوگر پوٹ اسے ابھی تھماتی

واٹ دا ہیل۔۔"

اس کی بھاری جھنجلائ آواز سے ریحہ نے اس جانب دیکھا اور فلگ شگاف قہقہ تھا

جو ڈھکن بند کیے بغیر جوسر کا بٹن اون کر گیا تھا

او میرے ہیرو۔۔"

نہی میرا مطلب زیرو ایسے کرتے ہیں ڈھکن کس نے ہوائ مخلوق نے لگانا تھا کیا"

وہ کاونٹر سے اترتے اس تک آئ تھی جو چہرے اور شرٹ تک دودھ میں نہا گیا تھا

اور ہسی اس لمحے اتنی آ رہی تھی جسکا وہ بامشکل گلا گھونٹے تھی

ہسنا بند کرو۔۔"

وہ وارن کرتے کاونٹر سے چیزیں صاف کرتے بولا تھا

میں ناشتہ بناوں گا تم بس میرے پاس رہنا۔۔"

بچا دودھ سے چیزیں سمیٹنے کے بعد اس نے شیک کرتے رات کی بات پر جتایا تھا

تمہیں ابھی میں بتاتا ہوں۔۔"

چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتے شرٹ صاف کیے سنک سے وہ اس کے قریب بڑھتا چلا آ رہا تھا

نو حان۔۔"

وہ ناسمجھی سے دور ہوئ تھی

یس حان کی جان" پھرتی سے کمر سے کینچھتے وہ مسکراہٹ دبائے اسے اپنے قریب کر گیا تھا

ک۔۔کیچن ہے یہ شرم کریں۔۔"

اس کی ٹوٹتی آواز پر وہ جھکتے اس کے گال پر لب رکھ گیا تھا وہ لمحے میں گلنار ہوتا گال جھکا گئ

ہو کیئر بولتی بند ہو گئ ابھی دیکھنا مزید ہو گی۔۔"

اس کی ناک ہونٹوں سے چومتے وہ مزید ہونٹوں پر جھکتے کچھ کرتا کے وہ فوری سے ہاتھ رکھ گئ تھی

فوکس اون یور ورک ہری اپ۔۔۔"

ورنہ میں اپنے شوہر کو شکائت لگا دوں گی نیا کک بڑا ہی فلرٹی قسم کا ہے۔۔"

فریج سے انڈا اس کے ہاتھ میں تھماتے وہ اکڑتے پرے ہوئ تھی

تمہارے شوہر کو کہوں گا کے تم مجھے خود کی جانب راغب کرنے کو ادائیں دکھاتے مجبور کرتی ہو"

وہ چمچ اور باول پکڑتے بولا

میں نے کونسی ادائیں دکھائیں۔۔"

ریحہ کی بھوری آنکھیں پھیل گئیں تھیں

یہ جو اپنی بھوری آنکھیں چھوٹی بڑی کرتی ہو

شکلیں بگاڑتی ہو اپنے ناک کے لشکارے مارتے نگ سے کہو زرا تمیز کے دائرے میں رہے

نہی مطلب یہ سب کیا ہے مجھ پر لائن ہی تم مارنے کے لیے کر رہی ہو نہ مسز احان شاباش مان جاو اب۔۔"

ایسے حالات پیدا کرتے تمہارا گلہ بلکل جائز نہی اور میرا بہکنا لازم ہے۔۔"

وہ ساری خصوصیات گنوا چکا تھا

شرم کریں کسی کے بیوی کے بارے میں ایسے فضول جھوٹے تبصرے کسنے آپ کو بلکل شیوہ نہی دیتے مسٹر دو نمبر شیف"

وہ تو دھنگ رہ گئ تھی

آئ کانٹ۔۔۔" دوسرا انڈا توڑا نہی تھا ہاتھ میں تھا

ایسے اتنی زور سے چمچ سے توڑیں گے تو ایسے ہی ہو گا۔۔"

رہنے دے آپ سے نہ ہو پائے گا مان جائیں اب شاباش"

وہ کاونٹر سے ٹیک ہٹاتے اس کے قریب آتے بولی تھی

ریک کے قریب پڑے ٹشو باکس سے ٹشو لیتے اب اس کا ہاتھ صاف کیا تھا جو ٹی شرٹ اور جینز پر ایپرن پہنے ماتھے پر بکھرے بالوں سے اس کے دل میں اترتے اسے پاگل کر رہا تھا


بے بی یو ویٹ اینڈ واچ میں کر لوں گا۔۔"

وہ اکڑتے تیسرا انڈا بھی تھام چکا تھا آخر ہار ماننی کہاں سیکھی تھی


یا خدا میری نظر نہ لگ جائے میرے بندے کو۔۔"

وہ مسلسل اس کو دیکھنے سے اب زیر لب کچھ پڑھتے پھونک مار گئ تھی جو اب انڈا سہی سے توڑتے فرائ پین میں ڈال چکا تھا


ٹیبل پر ناشتہ لگایا تھا

وہ جلدی جاتا تھا تو اسے بھی اس کے ساتھ جلدی ناشتہ کرنا پڑتا تھا آج کل ویسے بھی اوف چل رہی تھی اور ایک ماہ بعد فائینل کے بعد ویسے بھی ہمیشہ کے لیے اوف ہی تھیں یہ سوچتے کے پڑھائ سے جان چھوٹ رہی ہے دل چاہتا تھا خوشی سے جھوم اٹھے


ایک گھنٹے بعد سارا کیچن گندا کرنے کے بعد تین انڈے ضائع کرنے کے بعد آپ کے ہاتھ کا ناشتہ نصیب ہوا۔۔"

لہذا اپنے شوہر سے بول کر میں یہ فارغ سا فضول کک چینج کر رہی ہوں"

وہ جوس گلاس میں ڈالتے اسے دیتے بولی تھی

یہ فضول کک تم پہ پوری طرح فدا ہے اب

ہاتھ دکھاو مجھے۔۔"

اس کے ہاتھ کو تھامتے چیئر پر اپنے مقابل بٹھا گیا تھا

آئنٹمینٹ لگا لینا اور پانی والا کوئ کام نہی کرنا۔۔"

ہاتھ کی پشت دیکھی جہاں اب سرخ لکیریں چھالوں میں بدل گئ تھیں

وہ لب رکھ گیا کے وہ مسکرا اٹھی تھی

چلو اب ناشتہ کرو۔۔"

پلیٹ اس کی جانب کھسکائ تھی

مجھے نہی کرنا میرا بلکل دل نہی چاہ رہا ابھی۔۔"

اس کا موڈ یک دم آملیٹ دیکھ بدل سا گیا تھا الجھن سی محسوس ہوئ تھی

رات میں بھی نہی کھایا تھوڑا سا چلو۔۔"

وہ اب زبردستی کر رہا تھا

میں نے شیک پی لیا ہے ناشتہ کرنے کو ابھی میرا نہی دل چاہ رہا پلیز ایسے مجھے تنگ نہ کیا کریں پھر مجھے بلکل بھی آپ اچھے نہی لگتے۔۔"

وہ الجھن سی محسوس کرتے پرے کرتے صاف گوئ کا مظاہرہ کر گئ تھی

دور سے کسی کی نظریں اسپر مرکوز تھیں جو اس طرح دیکھتے رہ گئ تھی

اتنے نخرے کبھی تم نے میرے اٹھائے۔۔"

ساری فیملی ٹیپیکل فیملی ہے یہ نہی کرو وہ نہی کرو ایسے نہی بیٹھو ویسے نہی کرو یہ نقصان دہ ہے یہ نہی کھاو حد ہے

مجھے حیرت ہے اتنی انٹرفیرنس کرتے ہیں یہ لوگ"

وہ شائد کچھ زیادہ ہی بول گئ تھی


میری فیملی تمہیں ٹیپیکل فیملی لگ رہی ہے"

اس کے ہاتھ تھامتے لاونج سے کمرے میں لاتے وہ سامنے آیا غصہ اس کی آنکھوں میں واضع تھا

دانین سٹپٹائ سی تھی

اگر تمہاری بھلائ کے لیے میری ماں یا کوئ اور تمہیں کچھ کہے تو وہ ٹیپکل ہے۔۔"

وہ اس کے کندھے سے جھنجوڑتے بولا تھا

تم بتا دو مجھے تم سے مجھے کیا نصیب ہوا ہے"

ازہان بتا دو مجھے پہلے تم مجھے ڈچ کر چکے ہو اوپر سے تم مجھے اس دن کسی کے حوالے۔۔۔"

شٹ اپ دانین بات ختم ہو گئ ہے وہ طنزو تعنہ نہی دو تو بہتر ہے۔۔"

وہ دانیال کی موت پر حیران تھا کیسا شخص تھا اپنی زندگی بے مقصد گزارتے چلا گیا تھا اس لمحے شدت سے احساس ہوا تھا زندگی کا کوئ پتہ نہی ہے آج سانس ہے تو کل نہی"

بات بدل نہی سکتے تم۔۔"

وہ جانے کیوں بات بڑھانا چاہتی تھی

او رئیلی تم کیا کر لیتی مس دانین اگر میں تمہیں نہ اپناتا بولو کیا ر لیتی بتاو

لیکن تمہیں اپنایا دانین شائد ضمیر مردہ نہی تھا میرا لیکن تم پر کوئ اثر نہی اگر میں چاہتا ہوں ہماری زندگی آسان ہو تو ساتھ کیوں نہی دے رہی ہو میرا۔۔"

ایک پرسکون زندگی ہے ہماری لیکن اس کے لیے کمپیرزن اور خودی کے زون سے تو کم از کم باہر آو۔۔"

وہ شدید سخت تیور لینے کے بعد اب نرمی سے بولا تھا

لیکن دانین کو کون سمجھاتا جو اپنے حسد میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی گنوا رہی تھی

------------------------------------------------------

اپنے سوشل اکاونٹ پر چلتا آرٹیکل پڑھتے وہ سن ضرور ہوئ تھی

مسٹ ریڈ دس آئ جسٹ کوپی اینڈ پیسٹ لٹرلی یہ آرٹیکل پڑھتے میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے

اور میں پڑھنے تک روتی رہی رہی تھی

Kitten Raped by 15 years old boys

This kitten was bought by a family in lahore, their son is 15 years old. This boy along with other boys (his cousins and friends) have been raping her since a week and damaged her organs to the point that she gave up last night. She could not walk, she could not eat, she could not sit, she never slept due to the pain and trauma. When she was taken to the vet he took out lots of sperm, blood, and lots of shoppers that were used by those boys for raping the kitten. Sperm and blood kept on leaking from her holes.

She was raped so much that her two holes turned into one. The vet also confirmed of what ever had happened to the kitten but refused to write it on the paper as he did not want to get involved in any of this. The girl who had been monitoring these kids always kept an eye on the kitten, and saw that she was in a terrible condition. She often offered help for taking in the cat but they refused, when they damaged her completely they gave the kitten to her after she insisted again.

The girl literally prayed for the kitten to be taken by God because she could not see her misery and pain.The kitten is buried and surely speaking to God up there about what ever happened to her in this cruel world. This is Pakistan, and these are Pakistani men.

Men are choosing animals for rape now after women and minors. Who will get justice for this hand sized little kitten when our women and children are not given justice after rape? I want to ask our politicians and officials, where are all the animal laws? here! When the mother of that boy was approached she said MY SON DID NOT DO THIS SOME ONE FROM THE STREET MUST HAVE DONE IT.

کیسی ماں تھی اپنے بیٹے کو اس کی غلیظ حرکت پر سزا دینے کی بجائے بات چھپا کر بڑھاوا دے رہی تھی ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے ایٹی پرسنٹ قصور ماں باپ کا ہوتا ہے جو اپنی اولاد کی غلطیوں پر پردہ ڈال کر انہیں اس بات کا یقین دلا دیتے ہیں

وہ ہر حال میں انہیں سپورٹ کریں گیں لہذا وہ گناہ کرنے سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اگلی بار بھی ڈھٹائ سے کرتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ان کے پیچھے بچانے والے لوگ موجود ہیں

today it's the case of a poor kitten later this boy become fearless rapist.."

انگلیاں کی پیڈ پر چلتے خود بخود کمینٹ کر گئ تھی

آرٹیکل پڑھتے اس کے آنسو اس کی گال بھگوتے جا رہے تھے

کیا تھا یہ معاشرہ جہاں جانور بھی سیو نہی تھے وہ تو اس سب کا شکار ہوئ تھی

اس لمحے اس شخص کی کمی اتنی شدت سے محسوس ہوئ تھی جسے پچھلے ایک ماہ سے اس نے نہی دیکھا تھا وہ کہاں ہے

وہ اس وقت میں اسے کافی مس کر چکی تھی جو اسے چھوڑتے شائد چلا گیا تھا وہ لاکھ دل کو سمجھاتی پر اس کے لفظ گونج جاتے تھے

جن کو اپنا لیا جاتا ہے انہیں پھر چھوڑا نہی جاتا پھر حالات کے تقاضے جو بھی ہوں"

آخری رات کے بعد وہ اس کے سامنے نہی آیا تھا وہ اگلے دن اپنے باپ کی زبردستی کرنے پر اپنے گھر تھی اس کا گھر تو لوکڈ تھا

اس کی زندگی کے اس بھیانک چیپٹر کے ختم ہونے کے ساتھ اسے لگا تھا وہ اس کا چیپٹر بھی کلوز کر گیا تھا

ہر آہٹ اس کا پتہ دیتی پر وہ نہی ہوتا تھا

ابھی انہی سب میں تھی ہر روز کی طرح آج بھی ایک ٹیکسٹ موصول ہوا تھا

relation ship is not about hug kiss

and romance it's all about trust and never giving up each other.."

started a new chapter

meet u soon💕

regarded GN

لائر ہو تم.."

وہ فون پھینکتے چلائ تھی بدگمانی کی انتہا ایک بار پھر سے زندگی میں عروج پر تھی

تم یہ سب چاہتے تھے اس ریلیشن شپ میں اور جب میں تمہیں نہ دے سکی یو لیو می الون جھوٹے انسان۔۔"

وہ خود بخود گرتے آنسووں پر خود کو سرزنش کرتے باز کر رہی تھی

سرخ چہرہ بکھرے پونی کی زد سے نکلے بال

وہ اس شخص کی اس حرکت پر سن تھی جس کا باپ بھی نہی جانتا تھا وہ کہاں گیا تھا

کسمساتے مندھی آنکھیں کھولیں تھیں

گھڑی پر نظر ڈالی دو بج رہے تھے

گیارہ بجے کی سوئ وہ دو بجے اٹھی تھی

میں اتنا زیادہ سوئ۔۔"

سہی احان کہتے ہیں مجھے بلکل اندازہ نہی ہے کے میں کتنا سوتی ہوں وہ اس کو سوچتے مسکرائ


دوپٹہ لیتے وہ بستر سے نکلتی ایک پیر ابھی زمین پر رکھتی سر بری طرح چکرایا تھا

بیڈ پیچھے ہونے کی وجہ سے وہ گرنے سے بچتے سر تھام گئ تھی


اتنی نیند کے بعد بھی مجھ پر بے ہوشی کے غلبے ہیں"

وہ آنکھیں وا کرتے مسلتے خود کو نارمل کرتے واشروم کی جانب بڑھی تھی


----------------------------------------------


دانی کہاں ہو تم۔۔"

ازہان نے روم میں آتے پکارا تھا

وہ روم دیکھنے کے بعد واشروم کا بند دروازہ دیکھتے سمجھ گیا وہ وہاں تھی


چند لمحوں بعد وہ وہاں سے نکلی تھی

شاور لیے بھیگے بال کندھوں پر گیلی لٹوں کی صورت میں تھے

وہ خاموشی سے اسے تکے گیا تھا

اس کا سرخ سیاہ امتزاج کی قمیض میں نکھرا سراپہ ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگ کو وہ پیچھے کر گیا تھا


وہ اندازہ نہی کر پائ تھی ازہان روم میں ہے

سیل پر بجتی رنگ سے وہ اس جانب متوجہ ہو گئ تھی


میں سینڈ کر دوں گی نہ ٹائمنگ۔۔"

فلحال ہرگز موڈ نہی

ابھی سہی ٹائم نہی۔ "

شیشے میں حیران عکس اسے ساکت کر گیا تھا

کس سے بات کر رہی تھی کونسی سہی ٹائمنگ۔۔" وہ نارمل مگر تیکھے لہجے میں استفار کر رہا تھا

ک۔۔کسی کا نہی تھا مما کا تھا مجھ سے ملنے کو گھر بلا رہی تھیں وہ بات سنبھالتے بولی

ت۔تم کب آئے۔۔"

وہ ڈریسر پر فون رکھتے لہجہ درست کر گئ تھی

جب تم کافی بزی تھی۔۔"

وہ قدم اس کی جانب بڑھا گیا تھا وہ ڈریسر کے ساتھ لگ گئ تھی

کچھ چھپا رہی ہو مجھ سے۔۔"

اس کی گیلی لٹ کینچھتے وہ اس کے حواس معتل کر گیا تھا

نہی تو۔۔"

اس کی نزدیکی سے زیادہ اس کی نظروں کی عجیب تپش اور استفہامیہ لہجے سے خوف آیا تھا

ہیپی انیورسری دانین۔۔۔

پچھلے سال آج کے دن ہم ملے تھے

اس کو خود سے لگائے پراسرار سا لہجہ تھا دانین کے حواس پوری طرح ساتھ چھوڑ گئے تھے

میں تمہارے لیے کچھ لایا ہوں۔۔"

وہ ساکت ہی تھی جب وہ وارڈروب کھولے ایک شاپنگ بیگ اس تک لایا تھا

یہ میری ڈیل کا پہلا پروفٹ تھا جو بابا نے آج مجھے دیا۔۔"

اس کا ہاتھ تھامتے وہ سرخ بوکس کھولتے دکھا گیا تھا

اور پہلا گفٹ مما کا اور تمہارا

یہ مما کے لیے لیا ہے اچھا ہے نہ۔۔" دوسرا بوکس کھولا تھا جس میں تھوڑے ڈیسینٹ سے چینج ڈیزائن میں تھے

وہ اپنا دیکھ رہی تھی جس میں سفید نگوں کے امتزاج کے نفیس سے ائیر رنگز تھے

اچھے لگے۔۔"

وہ اسے دیکھتے مسکراتے بولا تھا

وہ چپ تھی جب اچانک آنسو پلکوں کی باڑ سے آزاد ہو گیا تھا

دانی کیا ہو یار۔۔"

اچھے نہی لگے تمہیں۔۔" ازہان اس کی بھیگتی پلکیں دیکھ بوکھلا ہی گیا تھا

اچھے ہیں۔۔" وہ نمی لیے بولی تھی

پھر۔۔؟ وہ بوکس ڈریسر پر رکھتے اس کا چہرہ تھام گیا تھا

وہ بس اسے دیکھتے رہ گئ تھی

تم اظہار کے معاملے میں بہت کنجوس ہو

ازہان آئ نیڈ یو دس ٹائم لیکن تم نے ایک بار بھی اپنا احساس دلایا مجھے۔۔"

وہ احساس سے عاری لہجے میں بولی تھی

آئ ایم سوری"

اس کی کمر سہلا گیا تھا دانین فلحال اپنے جزبات نہ سمجھتے بے تاثر ہی رہی تھی

-------------------------------------------------------

وہ شیشے کے سامنے کھڑی جائزہ لے رہی تھی جب میسج کی ٹیون ہوئ تھی

اک نقش تمہارا ہے کہ وہ دل میں جما ہے

اک تـــم ہو کہ پـــہلو میں ٹھہرنا نہیں آتا


وہ سنبھلتی کے دوبارہ سے ٹون ہوئ تھی


need ur warm welcome"


نو۔۔"

اس کے لب نفی میں ہلے تھے


گہرے روئل بلیو ڈریس میں وہ بالوں کو کیچر میں جھکڑے بلکل سادہ سی تھی

نقش ہر آرائش سے اس لمحے پاک تھا

سوائے کانوں میں ایک نگ والے ٹوپس کے جو ہمیشہ اس کے کانوں میں تھے


میں اس کے لیے تیار ہو رہی ہوں۔۔"

وہ اپنے سادہ سے حلیے کو دیکھتے سوچ سکی تھی

وہ اپنے بیڈ روم میں کھڑی تھی گلاس وال سے شیشے میں نظر آتی شام سرکتے اب گہری رات میں بدل گئ تھی


نور۔۔"

زبیر کی آواز سے وہ چونک گئ تھی


اچھی لگ رہی ہو۔۔"

باپ کی تعریف پر وہ سادہ ہونے کے باوجود جھینپ سی گئ تھی

ہالہ زندگی میں تمہیں بس خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔۔"

ماضی کو بھول کر موجودہ لمحات پر غور فکر کر لو تھوڑی جو گزر گیا اسے بھول جاو۔۔"

وہ اسے سینے سے لگاتے سمجھاتے بولے تھے

وہ انہیں بتا نہئ سکی تھی کچھ چیزیں نہی بھولی جاتیں وہ دھندلانے کے بعد بھی زہن پر نقش ہو جاتی ہیں

وہ تمہیں لین آئے گا"

خاموش ماحول میں ساکت دل کی دھڑکن تیز سی ہوئ تھی

اس کا سامنا کرنے کو اس کا تیز دھڑکتا دل لزر اٹھا تھا پلیکں اٹھتے جھک گئیں تھیں وہ اپنے بارے میں سارے قائم شدہ مفروضے غلط ثابت کرنے میں ماہر تھا

وہ روم سے نکلتے نیچے آئ تو دوپہر میں

حمدان نیازی کو لاونج میں دیکھ کر وہ حیران تھی

نور بیٹے کیسئ ہو۔۔" وہ اس کو دیکھتے استفار کر گئے تھے

ٹھیک ہوں میں انکل ہوک سی دل سے نکلی ان کے آنےپر۔۔"

نور بات کرنی ہے مجھے تم سے"

زبیر نے حامی بھری وہ ان کے قریب بیٹھ گئ تھی

غازیان کے بارے میں"

وہ بند ہوتے دل سے ایک ماہ بعد اس کا زکر سن رہی تھی

وہ محکمے کی حراست میں تھا پچھلے ماہ سے"

میر سبطین نے کیس کر دیا تھا اس کے خلاف

وہ حیران سی سن رہی تھی

آپ نے مجھ سے کیوں چھپایا۔۔"

بابا آپ بھی۔۔" وہ زبیر کی جانب دیکھنے لگی جو نظریں چرا رہے تھے

اس نے منع کیا تھا نور۔۔" وہ دھڑکتے دل سےسنتی رہ گئ تھی

اب کہاں ہے وہ۔۔"

انشاللہ جلدی ہی وہ سامنے ہو گا۔۔"

اس کی جوب۔۔" وہ دھڑکتے دل سے پوچھ بیٹھی تھی

میر سبطین کا لگایا اگر کوئ الزام ثابت نہ ہوا تو مل جائے گی واپس۔۔"

انشاللہ آج کی فائنل ہیرنگ ہمارے حق میں ہو گی۔۔"

آج فائینل ہیرنگ تھی اس کی.."

اور اس ہیرنگ سے پہلے وہ اس سے ملنا نہی چاہتا تھا

اس کی محکمے کی جانب سے ملی گاڑی گھر سب محکمے نے ضبط کر لی تھی

تمام گواہوں اور ثبوتوں کو مدنظر رکھتے میڈیکل رپورٹس کی بنا پر

نتیجہ یہ نکلا ہے کے میر دانیال سبطین نشے میں دھت تھے اور اسی حالت میں وہ ریسنگ ٹریک پر تیز رفتار گاڑی کی بریکس کو ہینڈل نہی کر پائے جس کے نتیجے میں اپنے تین دوستوں اور ان کے ساتھ موجود کانسٹیبل سمیت حادثے کا شکار ہو گئے

عدالت اسسٹنٹ کمیشنر غازیان نیازی کو بری الزمان کرتی ہے اور جلد ہی محکمے کی جانب سے جاری ڈس مس لیٹر ایشو کی کاراوئ کلئیر ہوتے ان کے حق میں اچھا فیصلہ ہو گا

دا کوٹ از اوور۔۔"

ایسی کاروائیاں تو سالوں چلتی ہیں پر چلانے والا شخص شائد اپنے بیٹے کو کھونے کے بعد ہار گیا تھا

میر سبطین کے لفظ وہاں بیٹھے اس کے زہن میں گونجے تھے

تمہیں کوئ فائدہ حاصل نہ ہو گا کیس گا

تھک جاو گے میرا بیٹا باہر چلا جائے گا سالوں تم تم یہاں اپنی بیوی کو لیے پیشیاں بھگتے رہنا۔۔۔"

تنزیہ اس کی پارٹی کی جانب دیکھا تھا

زندگی میں دوسرا کیس تھا جو وہ ہارا تھا

ایک پہلا اور دوسرا یہ والا جسے جیتنا اسے اپنا مقصد لگتا تھا

پچھلے دنوں سے کتنی محنت کی تھی

تھک جاو گے کچھ ثابت نہی کر پاو گے ایڈوکیٹ صاحب۔۔"

میں ہارتا نہی ہوں

صرف دیکھنا الزام تم پر ثابت ہوں گیں اور تم اس جوب کے واقعی ہی قابل نہی ہو"

یہ ثابت کروں گا میں۔۔"

احان کو سارے ثبوت ملیا میٹ لگے تھے

جب اس شخص کا آخری گواہ جسٹس زبیر کا گارڈ اس کے بیٹے کے خلاف گواہی دے گیا تھا اس نے خود گاڑی اس کے ہاتھ تبدیل کروائ تھی اور جسٹس زبیر کی بیٹی کی کڈنیپنگ میں اس کا ہاتھ تھا وہ تو اس رات تھاہی نہی وہاں

وہ سارے ثبوت فراہم کر گیا تھا

ریسنگ ٹریک پر ڈرنک اور فاسٹ ڈرائیونگ کی وجہ سے ایکسیڈینٹ ہوا جبکہ کانسٹیبل ان کو روکنے میں جان گنوا بیٹھا تھا

محض الزام تھا کے وہ میر سبطین پر گولی چلانے کا بدلہ لے گیا تھا


کورٹ روم سے نکلتے اس سے سامنا ہوا تھا

کونگریچولیشنز نہی کہو گے"

وہ الوہی چمک لیے سیاہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ اڑیستے بولا تھا


احان نے مقابل پارٹی کے لوگوں سے بات کرتے ایک نظر دیکھا پراسرار سے تاثر تھے اس شخص کے وہ لب بھینچ گیا تھا


ایکسکیوز۔۔"

وہ پرے ہوتے اس کی جانب آیا جو قدرے بڑی شیو میں تھا

نقش تو اس شخص کے تعریف کے قابل تھے پر فلحال وہ اپنی قدرے بڑھی شیو اور بالوں میں گینگسٹر ہی معلوم ہو رہا تھا

میں جانتا ہوں یہ سب تم نے ہی کیا تھا زیادہ اچھلنے کی ضرورت نہی ہے"

وہ ناگواری سے بولا تھا چور مجرم اور پولیس کے کھیل سے وہ واقف ہی تھا آخر اس کا واسطہ بھی تو آئے دن اسی سب سے ہوتا

مقابل پارٹی سے تین ہیرنگز کے لیے اتنا پیسہ لے کر تم سراسر مجھے جانتا کہہ کر میر سبطین کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو"

اس کی بات پر لمحے میں چہرا سرخ ہوا تھا

اچھلو نہی زیادہ۔۔"

چاہتا تو آج کی ہیرنگ میں تم گناگار ثابت تھے

ٹرانسپیرنٹ لفافہ اس کے سامنے لہرایا تھا

یہ اس پوائینٹ سے پولیس کو ملی تھی

جو تمہاری گن سے ہی نکلی تھی اس میں گولی کا شیل تھا

یہ ثابت کرنے میں مجھے صرف دو سیکنڈ لگیں گے یہ تمہاری گن سے نکلی ہے

جو تم نے جس بھی وجہ سے چلائ تھی لیکن میں ایسا نہی کرنے والا"

سو ڈونٹ وری۔۔۔"

اس کے سمٹے لب دیکھتے وہ تنزیہ مسکراہٹ لیے دوبارہ بولا تھا

اور رہی بات گونگریچولیشنز کی اس کی مٹھائ تو تمہاری طرف ادھر رہی

امید ہے کبھی بھی تم سے دوبارہ میرا سامنا نہ ہو انشاللہ"

وہ پچھلا واقع نہی بھولا تھا جب وہ اسکی شادی کی رات اسکو اریسٹ کر کے لے گیا تھا

اور میں دعا کروں گا کے تمہارے انشاللہ الحمداللہ میں تبدیل ہو جائیں"

احان اس کی بات پر اس کی پشت تکتا رہ گیا تھا

-----------------------------------------------------

لاونج سے دوبارہ اپنی غیر ہوتی تبعیت محسوس کرتے وہ اٹھی تھی جب اٹھتے پھر اس کا سر بری طرح چکرایا تھا

ریحہ۔۔"

نائمہ اور سانیہ دونوں نے باتوں کے دوران اس کو اٹھتے دیکھ ٹھٹھکتے پکارا تھا

ٹھیک ہو تم۔۔"

بس مما سر پھٹنے والا ہو رہا ہے"

وہ ان کے سہارے پر ان کے کندھے پر ہی سر رکھے نڈھال سی صوفے پر بیٹھ گئ تھی

سانیہ سمیت اس لمحے روم سے نکلتی دانین کی زیرک نگاہوں نے اس کا زدر ہوتا چہرا دیکھا تھا

کب سے ہے یہ" نائمہ نے خوشگوار حیرت لیے پوچھا تھا

مما پرسوں دو تین دنوں سے"

میڈیسن بھی لی تھی پھر بھی عجیب دل متلا رہا ہے"

وہ ہنوز اسی پوزیشن میں بولی تھی

پاگل میرے ساتھ چلو۔۔"

سانیہ کی جانب مسکراہٹ اچھالتے انہوں نے اس کو دیکھتے کہا جو نا سمجھی سے ان خواتین کی مسکراہٹ دیکھ رہی تھی اس کے اوپر سے ہی گزر رہا تھا سب

اپنی ماں اور ثانیہ کا انکشاف درست ہونے پر چند لمحوں پہلے پیلا سا چہرہ اب سرخی اختیار کر رہا تھا

وہ اپنی خوشی اور عجیب کیفیت سے لب دبائے سب کی نظروں سے جھنپی پڑی تھی

جہاں بی جان سمیت گھر کے سب فرد اس شخص کے سوا آگاہ ہو گئے تھے

دو خوشیاں ایک ساتھ اس گھر میں ثانیہ تم ان دونوں کا صدقہ دے دینا۔۔"

بی جان نے دانین اور ریحہ کو دیکھتے محبت سے چور لہجے میں کہا تھا

جی بی جان میں تو بس کہتی ہوں سب اچھا اچھا ہو جائے۔۔"

ریحہ اب بلکل لاپرواہی نہی کرنی ۔۔"

خیال رکھنا اپنا۔۔" نائمہ کی تنبیہ پر وہ گردن ہلاتے تاسف سے بولی تھی

یہ مجھے بتائیں لاپرواہی کا کیوں کہتی ہیں میں خود نہی کرتی احان اور آپ دونوں مجھے ابھی بھی پتہ نہی نا سمجھ کنڈر گارڈن میں گھومتی چھوٹی سی بچی سمجھتے ہیں

وہ دل کی بات زبان پر لائ تھی

نہی بھئ ریحہ اب سمجھدار ہے کوئ بھی اسے ایسے نہی کہے۔۔"

بی جان نے جس انداز میں کہا تھا وہ ان خواتین کے درمیان خجل سی ہو گئ تھی

کونگریچولیشنز ریحہ بھابھی۔۔"

وہ پھیکی سی مسکراہٹ سے ان کے درمیان بولی تھی

تھینکیو دانین۔۔"

ریحہ کو اس کا لہجہ عجیب سا لگا تھا وہ سب میں بیٹھی بھی بیزار سی کھوئ سی لگی تھی

میری تو اب زرا بھی اہمیت نہی رہے گی"

وہ دھیمی سرگوشی میں بولتے اٹھی تھی جو وہ واضع سن گئ تھی

ریحہ نے اس کی پشت اوجھل ہونے تک تکی تھی

میں آتی ہوں وہ بولتے اس کے پیچھے گئ تھی وہ اب سیڑھیاں بھی چڑھ چکی تھی

دانین۔۔"

وہ ریلنگ کے قریب جھکی رہی تھی ریحہ کو لگا تھا وہ آنسو پی رہی ہے"

دانین آپ رو رہی ہیں آخر مسلہ کیا ہے اس کو وہ لڑکی الجھی سی لگی تھی۔"

وہ جھجکتے پوچھ بیٹھی تھی

اس کے دوبارہ پکارنے پر مڑی تھی

تم ہو میرا مسلہ۔۔"

وہ غصے اور آنسووں سے سرخ پڑتی آنکھوں سے ضبط چھوڑتے بولی تھی

میں۔۔" ریحہ کو سننے میں غلطی لگی تھی وہ کیسے مسلہ تھی

ہاں تم مہربانی سے پریٹنڈ نہی کیا کرو تم بہت معصوم ہو بہت اچھی ہو حالانکہ تم ایسی نہی ہو جو تم ظاہر کرتی ہو۔۔"

وہ تو اس کی تیز آواز سے اپنی زات کے حوالے سے چھبتے لفظ سمجھ رہی تھی

میری زات سے تمہیں کوئ تکلیف پہنچائ میں نے۔"

وہ اس اچانک اس سے ہمدردی کرتی سچویشن سے گھبرا گئ تھی

وہ بغیر جواب دیے چہرے کو رگڑتے چلی گئ تھی

جبکہ ریحہ کو وہاں کھڑے رہنا بے مقصد لگا تھا وہ سوچ بھی نہی سکتی تھی وہ لڑکی اس کی زات سے کیوں تکلیف محسوس کر گئ تھی

-----------------------------------------------------

وہ سہج سہج قدم بھرتے اپنا سیل فون تھامے گیراج میں گئ تھی

جہاں وہ پشت کیے تھا

قدموں کی چاپ سے پلٹتے وہ مڑا تھا

غازیان۔۔"

اس کو پکارتے اس لمحے اس کے ناقابل فہم تاثر تھے وہ حیرت میں تھی

وہ دیکھتی رہ گئ وہ قدرے لمبے بالوں میں تھا شیو بڑھی سی تھی

سیاہ ہی جینز پر سیاہ ڈریس شرٹ کے فولڈ سلیو میں اس کے مضبوط بازو نمایاں تھے

ہلکی روشنی جو لان کے پودوں سے ہوتی اس کے سراپے پر تھی وہ اس کی شکل نہی دیکھ پائ تھی

یہ حراست میں پورا ہی چین سموکر بن گیا۔۔"

اسکے لب سرگوشی میں ڈھلے تھے

وہ قریب بڑھا تھا

کے وہ دو قدم بے ساختہ پیچھے ہوتے اپنے باپ کی کھڑی گاڑی کے ساتھ لگ گئ تھی

u never change ur self.."

ایک ماہ میں بھی تم نے خود کو نہی بدلا۔۔"

وہ نفی میں گردن ہلا گیا تھا

اس کی خوشبو محسوس کرتے وہ یقین کر گئ وہ کوئ اور نہی وہ ہی تھا

ہتھیلی اس کی جانب پھیلائ تھی اس کے زرا سے پیچھے ہٹنے پر نور دیکھتی رہ گئ تھی وہ ہیوی بائیک پہ تھا

گ۔۔گاڑی کہاں ہے۔۔"

وہ حلق تر کرتے ہتھیلی نظر انداز کرتے بولی تھی

تم اتنی انجان تھی مجھ سے۔۔"

فلحال محکمے کی کسٹڈی میں ہے اسی پہ گزارہ کرو۔۔"

وہ لٹھ مار انداز میں جواب دے گیا

غازیان بابا کی لے لو نہی تو یہی رک جاو تم بھی"

وہ نئ تجویز پیش کرتے بولی تھی

میں اب گیا تو یاد رکھنا واپس نہی آوں گا۔۔"

اس کی بھاری آواز پر دل تھامتے رہ گئ تھی

میں کہاں جاوں گی پھر۔۔" وہ نم ہوتے لہجے سے انچ بھر قدم بڑھا گئ تھی

غازیان نے نوٹ کیا تھا

چل رہی ہو یا نہی۔۔" وہ بات بدل گیا

ہممم کوئ راستہ ہی نہی بچتا۔۔" وہ گہرا سانس بھرتے باہمت ہوئ تھی وہ دیکھتا رہ گیا تھا

بائیک پر اس کے پیچھے بیٹھتی وہ پھر سے ٹوک گیا تھا

دوسری طرح بیٹھو اس پر اڑ جاو گی ورنہ۔۔"

آہ اس کا دل چاہا تھا اس کے محکمے والوں کا سر پھاڑ دے اور کیا وہ اتنا غریب تھا اپنی زاتی گاڑی بھی نہی لے سکتا تھا

فلحال یہ بائیک بھی رینٹ پہ ہے"

نور کا ہاتھ اس کے کندھے پر تھم گیا تھا وہ اس کی سوچ جو پڑھ گیا

روڈ پر آتے وہ اس سے قدرے فاصلے پر تھی

تم میرے ساتھ نئ زندگی کی شروعات پر ہو۔۔"

وہ لب سیے بس آیتوں کا ورد کر رہی تھی

نور قریب ہو جاو۔۔"

وہ ان سنی کیے فاصلے پر ہی بیٹھی رہی تھی

اگلے لمحے اس کی چیخیں برآمد ہوئیں تھیں

غازیان سٹوپ مجھے نہی جانا تمہارے ساتھ

غازیان پلیز آہستہ کیوں میری جان لینے پر تلے ہو"

کیوں میری جان نکال رہے ہیں"

اس کی شرٹ سینے پر لپیٹے ہاتھوں کی مٹھیوں میں جھکڑتے اب وہ قدرے قریب آ گئ تھی

اس لمحے اس کے بال بکھر چکے تھے دوپٹہ بھی گلے میں جھول رہا تھا

ابھی لی کہاں ہے"

اس کی گھمبیر آواز بائیک کے شور میں بھی محسوس کر گئ تھی

مجھ پر یقین ہے" وہ اس کی تیز ہوتی سانسیں اپنے کندھے پر محسوس کرتے بولا تھا

نہی ہے۔۔" وہ بری طرح چلئ تھی

ٹھیک ہے پھر گیٹ ریڈی فار ڈائے۔۔" نور کا سر چکرایا تھا وہ کیوں اتنا بدتمیز تھا

تھوڑا سا یقین ہے خدارا اب تو سپیڈ سلو کر لو۔۔"

ڈرا دھمکا کر وہ اس کی آدھی جان نکالتے ہمیشہ اپنا مقصد پورا کروانے میں کامیاب ٹھہرتا تھا

بیس منٹ کا سفر دس منٹ میں طے ہوتے وہ اس لمحے ایک فلیٹ کے سامنے تھے

اترو گی یا اب بھی ایسے ہی رہو گی" وہ اسے خود سے چمٹے دیکھ سٹینڈ لگاتے بولا تھا

ایریا کافی خوبصورت تھا وہ کوئ سوسائٹی تھی نور نے تیز دھڑکنوں سرخ آنکھوں اور بکھرے بالوں سے دیکھا تھا

اندر قدم بڑھاتے اندھیرے سے سامنا ہوا تھا

وہ چھوٹے سے سیٹنگ ایریا کی لائٹ اون کیے اندر روم میں بڑھ گیا تھا جو صرف دو سنگل چیرز پر مشتمل تھا

یہ گھر کافی چھوٹا تھا بلکہ نور کو ڈربا ہی لگا تھا

صرف ایک روم ہی اسے فلحال نظر آیا تھا جس کے سائیڈ سے لکڑی کی سٹیرز نکلتے اوپر والے پورشن تک جاتی تھیں لگیزری سا فلیٹ جس میں سارا وڈن ورک ہوا تھا

وہ اتنا بے مروت تھا اسے چھوڑتے اندر چلا گیا تھا اور وہ وہی پڑی کرسی پر بیٹھ گئ بے بسی سے سب تک رہی تھی

کیا سکتے میں چلی گئ ہو۔۔"

وہ باہر نکلا تو شرٹ چینج کیے ٹی شرٹ میں تھا

وہ خوفزدہ ہو رہی تھی اس کے حلیے سے

دل چاہا تھا اس کے بال کینچی سے کتر ڈالے

تمہیں بھوک تو نہی لگی تم کچھ کھاو گی" وہ اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتے بولا تھا وہ اس کی نظروں سے بچتے سمہی سی بولی

نہی۔۔"

وہ شام میں کھانا کھا چکی تھی

پر مجھے شدید لگی ہے"

اس کے بولنے سے اس کا دل ہولنے لگا تھا

وہ اس تنہا سے گھر کو دیکھتے خوفزدہ ہوئ تھی

آ۔۔آڈر کر لیں۔۔" اس کے بڑھتے قدموں سے وہ پیچھے کھسکتی جا رہی تھی ہتھیلیوں میں پھوٹتا پسینہ وہ بے بس سی آنے والے لمحات کو سوچتے زمین بوس ہونے کو تھی

غازیان مجھے س۔۔سونا ہے میں روم میں جا رہی ہوں۔۔"

وہ گرتے پڑتے قدموں سے سامنے نظر آتے روم کی جانب چلئ گئ تھی

وہ نفی میں سر ہلاتے دیکھتا رہ گیا تھا

----------------------------------------------------

اس شخص نے ایک وکٹم کو اپنایا تھا اور بدلہ لیا تھا اس لڑکی کا۔۔"

جسٹس زبیر کو وہ اچھے سے جانتا تھا آخر اسی کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے اور یہ نیوز آئ بھی تھی جب اس کی بیٹی اغوا ہوئ تھی لیکن اس کے بعد کوئ بھی ایسی نیوز گردش نہی ہوئ تھی اور سب کچھ نارمل ہو گیا تھا یا شائد وہ شخص لانا ہی نہی چاہتا تھا

احان اس شخص کے بارے میں نہ چاہتے ہوئے بھی سوچنے پر مجبور تھا

میر سبطین کی فیملی سے تعلقات بھی تھے وہ دانیال کی موت کا گہرا صدمہ میر سبطین کی بیوی نے لیا تھا فلحال تو وہ خاموش تھا لیکن شائد اگر وہ صدمے سے نکل آیا تو اس کے لیے غازیان کو ٹریپ کرنا مشکل نہی تھا

آج انہی سب میں وہ لیٹ گھر پہنچا تھا

فریش ہوتے چینج کیے وہ اسے روم میں نظر نہی آئ تھی وہ باہر قدم بڑھا گیا تھا رخ فلحال اپنے باپ سے ملنے کا تھا

جہاں وہ فائل پر بزی تھے

آپ زمیداریوں سے ریٹائرڈ کر لیں خود کو اب۔۔"

احان نے فائل تھامتے خود دیکھی تھی

اس کا انٹرسٹ شروع سے بزنس میں نہی تھا بانسبت ازہان کے"

شروع میں کافی دیر اس کا شعبہ انہیں ہرگز پسند نہی تھا

ان کا خیال تھا یہ منتیں کرنے والا شعبہ ہے جس میں صرف زلالت جیسے کے آئے دن وکیلوں پر تششدد۔۔"

اور ایک بار تو اس کی گاڑی کا یہی حال ہوا بھی تھا

اور تب ریحہ نے جو اس شخص کے ریکارڈ لگائے تھے وہ الگ تھے

بڑی مشکل سے قائل کیا تھا خیر ان سب میں اب وہ عادی ہو گئے تھے

سکندر نے باغور دیکھا تھا وہ اپنی زمیداریاں نبھانے میں کوئ کوتاہی نہی کرتا تھا


ڈنر پر ریحہ کو خاموش پاتے وہ حیران تھا جو خاموشی سے پلیٹ میں چمچ چلا رہی تھی


کیا تماشے لگا رہی ہو سہی سے کیوں نہی کھا رہی۔۔"

وہ اسکی سخت آواز سے خیالات سے نکلی تھی جبکہ باقی ٹیبل پرموجود افراد کی نظریں اسے خود میں اترتی محسوس ہوئیں تھیں


ہاں ریحہ ٹھیک سے کھاو بیٹا۔۔"

ثانیہ نے بھی اب دھیان اس کی جانب مرکوز کیے اسے ٹوکا تھا


کونگریچولیشنز احان بھائ ترقی کر رہے ہیں آپ۔۔"

اس بات پر منہ میٹھا ہو جائے۔۔"

ازہان کی آواز سے سوئیٹ کا پیس اپنے ہونٹوں کے قریب محسوس کیا تھا


مجھے نہی پسند اور ویسے بھی کونسی ترقی"

حالانکہ آج تو کیس ہارا تھا وہ

ریحہ کو جان ہوا ہوتی محسوس ہوئ تھی وہ بس اب کسی طرح سے اٹھ جانا چاہتی تھی


خوشی کی بات یہ ہے کے میں چاچو بننے والے ہوں اور اس خوشی میں جلدی سے کھائیں تاکہ آپ کا مزاج بھی سوئیٹ ہو"

میرے مزاج۔۔

چاچو۔۔"

احان نے سمجھتے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا

مما یہ کیا بول رہا ہے" وہ ہاتھ پرے کیے نا سمجھی کے عالم میں تھا

یہ تو تم ریحہ سے پوچھو"

وہ مسکراتے لبوں سے سر ہلا گئی تھیں

سب کی باتیں اور خود پر توجہ مرکوز ہونے پر وہ دانین کی ساری باتیں بھلائے شرم محسوس کرتے وہ پلیٹ کھسکھاتے پرے کرتے تیزی سے بولی تھی

م۔۔میرا ہو گیا بس۔۔۔"

وہ پلک جھپکتے اٹھ گئ تھی احان نے اس کی ویسی ہی پڑی پلیٹ دیکھی تھی جس میں آدھی سے زیادہ روٹی بچی پڑی

یہ مجھ سے بچے اب۔۔" وہ زیر لب دہراتے اٹھا تھا

کچھ نہی کہنا اسے"

احان کی بات پر ثانیہ نے قہقہ لگاتے اسے شرمندہ کر دیا تھا

باہر اپنی ماں سے اور باقی گھر والوں سے گڈ نیوز سنتے اسے پورے روم میں ڈھونڈنے کے بعد بالکنی میں تھا جو اسسے چھپنے کی کوشش میں تھی

وہ بالکنی میں کھڑی تھی پشت پر بکھرے لمبے سیاہ بالوں کو کیچر میں باندھے تھی

مجھ سے چھپنے کی کوشش میں تھی"

اس کے گرد حصار باندھے اسے اپنی مضبوط بازوں میں بھر گیا تھا

میں آپ سے چھپ کے کہاں جاوں گی"

وہ اس کے حصار میں چند لمحوں پہلے والے اضطراب کی جگہ اب پرسکون احساس محسوس کرتے آنکھیں موند گئ تھی

تمہیں مجھے سب سے پہلے بتانا چاہیے تھا"

اس کا رخ اپنی جانب موڑتے وہ ماتھے پہ تیوری چڑھا گیا

بلیو می مجھے بھی کچھ دیر پہلے پتہ چلا تھا"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی سعی نہی کر رہی تھی اب سرخ چہرہ اس کے سینے میں چھپا گئ

اب بتا دو۔۔۔"

اس کے لب مسکراتے اس کے سینے میں چھپے سر کو چوم گئے

حان"

وہ سرگوشی میں اس کا نام ادا کر گئ تھی آنسو پلکوں سے آزاد ہو گیا تھا وہ نہی جانتی تھی اس موقع پر وہ ایسے کیوں ری ایکٹ کر گئ ہے"

شائد دانین کی باتوں کا اثر تھا

ریحہ کیا ہوا"

تم رو رہی ہو تم خوش نہی ہو"

وہ بے چین ہوتے اس کے چہرے کو روبرو کرتے بولا

آپ خوش ہیں"

وہ عجیب سوال کر گئ تھی اندھیرے میں اس کا چہرا ہاتھوں میں تھامتے اس کی۔پیشانی پر اپنے لب رکھتے سر ٹکا گیا تھا

الحمدللہ۔۔" وہ گہرا سانس بھرتے بولا

میں صرف یہ کہنا چاہوں گا

تم نے مجھے اپنی محبت کے حصار میں ہمیشہ کے لیے قید کر لیا۔۔"

تم نے ہمیں مکمل کر دیا آئ لو یو سو مچ احان کی جان"

اس لمحے اس کے اظہار پر موندھی آنکھوں سے مسکرائ تھی

اب بتا دو مجھے تم سے سننا ہے" وہ بوجھل لہجے میں بولتے اس کو خود میں چھپے دیکھ بولا

وہ گہرا سانس بھرتے اس کے قدموں پر اونچا ہوتے اس کے کانوں میں مسکراتے دھیمی سرگوشی کر گئ

کونگریچولیشنز فادر ٹو بی"

اپنے کندھے پر اس کے ہونٹ محسوس ہونے کے بعد وہ اسے بازوں میں بھر گیا تھا

مجھے اس لمحے آپ کی محبت کا اظہار ملا سہی کہتے ہیں مرد جب باپ بنتا ہے تب ہی اسے عورت کی محبت کا احساس ہوتا ہے"

اس کے سینے پر سر رکھتے وہ اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں جانے کیا تلاش کر ہی تھی

چلو پھر تم بھی اظہار کر دو۔۔"

میری تعریف میں کوئ دو جملے ہی ادا کر دو"

اس کا سر تکیے پر ڈالتے وہ اس پر جھک آیا تھا

اس کے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے چہرے کے نقوش اپنی انگلیوں کی پوروں پر محسوس کرتے وہ اس کی شیو تک ہاتھ لائ تھی

فقط اتنا ہی دنیا کے سب سے اچھے شوہر ہیں ریحہ آپ کے بغیر نا مکمل سی ہے"

وہ تکیے سے تھوڑا اونچا ہوتے اس کی کشادہ پیشانی سے بال ہٹاتے اپنے لب رکھتے اسے مسمرائز کر گئ تھی

اسے خود میں بھینچتے اپنے حصار میں لے

گیا تھا وہ اس لمحے اس کی خوشی محسوس کرتے اپنی زات اس کے حوالے کر گئ جو اپنی محبت کی نرمیوں سے اس پر چھاتا جا رہا تھا

------------------------------------------------------

وہ اندر آتے اس کے بیڈ روم کا جائزہ لے رہی تھی یہ اس کے دوسرے گھر سے کافی چھوٹا بلکہ سنگل بیڈ تھا

دیوار میں مرر نصب ہوتے اس کے آگے چیئر پڑی تھی

سائیڈ پر ایک حصے میں وارڈروب بنی تھی جبکہ واشروم کا سلائیڈنگ ڈور دوسری سائیڈ پر تھا وہ ان سوچوں میں جاتے فون کھولتے اس کی وال پیپر پر سیٹ پکچر دیکھتے مسکرا اٹھی جو اس نے خود اس کے فون پر سیٹ کی ہوئ تھی

لمبے بالوں میں بلکل ڈیسینٹ نہی لگ رہے۔۔"

وہ تصور میں اس سے مخاطب تھی

آہ تم ابھی تک سوئ نہی۔۔"

اس کی آواز سے فون چھوٹتے گود میں تھا وہ خامخاں شرمندہ ہوئ جیسے چوری پکڑی گئ ہو وہ کافی ٹائم بعد روم میں آیا تھا وہ نہی جانتی تھی اس کے روم میں آنے کے بعد وہ کیا کر رہا تھا باہر

وہ اس کو بیڈ پر بیٹھی کراون سے ٹیک لگائے فون پر بزی دیکھتے بولا تھا

وہ کیسے بتاتی آج ایک ماہ بعد وہ اس کو سامنے دیکھتے سکون سا محسوس کر رہی تھی کہی نہ کہی وہ خود کو زمیدار مانتی تھی

نور نے نظریں اٹھائیں وہ واشروم کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے سوال کر رہا تھا

۔نیند نہی آ رہی گھر چینج ہے نہ ہمارا۔۔"

وہ گھڑی کی رکی سوئیاں دیکھتے فون پر نظر ڈال گئ جہاں بارہ بج گئے تھے

سونا بھی مت آ رہا ہوں میں پاس۔۔"

لمحے میں نظریں اٹھاتے اسے صورتحال کا اندازہ ہوا تھا وہ پریکٹیکل زندگی میں قدم رکھے تھی

آہ سونا نہی بلکل بھی نہی۔۔"

وہ مسکراہٹ دبائے اس کو فوری سے لیٹتے دیکھ بولا تھا

م۔۔میں سو رہی ہوں۔۔"

وہ بند کرتی آنکھوں سے باور کراتے بولی تھی

چلو تب تک نیند پوری کر لو ڈئیر وائفی"

اس کی بھاری مسکراتی آواز کانوں میں گونجی تھی پل میں اس کے بدلتے رویے نور کو حیران کر دیتے

پانی گرنے کی آواز بند ہوئ تھی

ابھی وہ اسی کیفیت میں دھڑکتے دل سے تھی جب کلک کی آواز آئ تھی

وہ اندھیرا محسوس کر رہی تھی مزید بیڈ کے کنارے پر ہوتے وہ نیچے گرنے کو تھی جب وہ اسے کمر سے کینچھتے حصار میں لے گیا تھا سنگل بیڈ پر وہ اس کے سینے سے لگی اس کے بے تحاشہ قریب تھی

غاز۔۔زیان میں۔۔"

وہ لب تر کرتے بولتی چپ ہو گئ تھی وہ اپنا ایگو پرے کیے اس کا رخ اپنی جانب جو کر گیا تھا

اس کی انگلیاں چند لمحوں بعد اپنی گردن پر سرسراتی محسوس کیں وہ اس کا الجھا دوپٹہ گردن سے نکال گیا تھا اے سی کی ایل ای ڈی کی ہلکی لائٹ میں اس کے دل کی تیز دھڑکن اپنی دھڑکن میں اترتی محسوس ہوئ تھی وہ سن ہوتی جا رہی تھی

اس کی آنکھیں خودبخود بند ہو گئ تھیں اس کی اتنی قربت میں خوف سا محسوس ہوا تھا

تم نے مجھے مس کیا تھا۔۔"

اس کی بند آنکھیں انگلی سے چھونے کے بعد اس کے ہاتھ اسکے سر کے پیچھے کیچر میں مقید بالوں پر رینگ رہے تھے

نور کی آنکھ سے آنسو پھسلتے اس کی گال پر تھا

نور آنکھیں کھولو۔۔"

گھمبیر لہجے میں بولتے وہ اس پر جھک گیا تھا وہ اس کو بے تحاشہ قریب محسوس کرتے اتھل پتھل سانسوں میں تھی

جب اس کے ہاتھ اپنی کان کی لو پر محسوس ہوئے تھے

وہ سرخ آنکھیں کھولتی اس پر ٹکا گئ

میں آ۔۔آپ کو۔۔"

غازیان م۔۔میری بات۔۔"

غازیان میں آپ کو انکار نہی کروں گی آج

وہ نیم بند آنکھوں سے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامتی اس کی شیو کی چھبن انگلیوں کے پوروں پر محسوس کرتے بھیگتے لہجے میں لفظ جوڑتے بولنے کی سعی میں تھی وہ اسے ہرگز تکلیف نہی دینا چاہ رہی تھی پر دل کا کیا کرتی جو سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا

زبردستی سے ضد پوری ہوتی ہے دلوں میں محبت نہی۔۔"

آہ اس کو سانس رکتا محسوس ہوا تھا وہ جھکتے اس کے لب نرمی سے چھو گیا تھا

اس کی سانسیں اپنے ہونٹوں پر کئ لمحے محسوس ہوئیں وہ شکر کر گئ اس لمحے لائٹ نہ ہونے کے برابر تھی

وہ روتے اس کو قائل کرتے اس کی بازوں میں سماتی جا رہی تھی

ٹرسٹ می زندگی حسین ہے۔۔"

اس کو بازوں میں بھرتے اس کے ٹھنڈے پڑتے بکھرتے وجود کو کمفرٹر اڑا گیا تھا اس کی مزید کوئ کاروائ نہ دیکھتے وہ رکتے سانس سے اس کی پناہوں میں سکون محسوس کر رہی تھی

سو جاو بیوی۔۔"

اس کی نم ہوتی آنکھوں پر لب رکھتے وہ اس کے بالوں کی نرمی اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا وہ اس کے قریب ہو گئ تھی کافی تھا وہ اس کو محبت کرنا چاہتا تھا جس میں اس کی مرضی ہو زبردستی ہرگز نہی وہ جتنا بھی سخت ہو جاتا اندر سے نرم تھا وہ اپنے ماں باپ کی طرح بروکن فیملی نہی بنانا چاہتا تھا

جس نے ساری زندگی ان کے بروکن ریلیشن شپ کی وجہ سے تنہا گزاری تھی

صبح اس کی آنکھ نرم سے لمس سے کھلی نظر اپنے پہلو میں پڑی لڑکی پے ڈالی جو اس میں چھپی نیند میں تھی

جس کی سانسیں اپنی گردن میں محسوس کرتے وہ اس کی اتنی نزدیکی کے باوجود فاصلوں میں تھی

اس کے چہرے سے بکھرے بال ہٹاتے اس کی سوجھی آنکھیں دیکھیں جو بند ہونے کے بعد بھی کناروں سے سرخی کی رمق سے اپنے ساتھ ہوئ وحشت کا پتہ دے رہی تھیں


میں چاہ کے بھی تم پہ سختی نہی کر سکتا نور۔ "

اس کے گال کو سہلاتے وہ جھکتے اس کے بے داغ گال پر لب رکھ گیا تھا وہ مزید سمٹتے نزدیک آ گئ

اس کے بکھرے بال سمیٹتے وہ تکیے پر رکھ گیا تھا

اس پر کمفرٹر درست کرتے وہ بستر سے نکلتے واشروم کی سمت چلا گیا بند ہوتے دروازے کی آواز سے وہ نیم بند آنکھیں کھول گئ تھی

اسی لیے تو تمہارے دل سے محبت ہے"

سرکتے اسکی سلوٹ زدہ جگہ پر ہوتے وہ نم آنکھوں سے اس کا تکیہ مٹھی میں بھینچے کمفرٹر سمیت اپنے وجود میں چھائ اس کی خوشبو میں گہرا سانس بھرتے مسکرا اٹھی تھی

وہ واشروم سے باہر آیا تو وہ بستر پر بیٹھی بال سمیٹ رہی تھی

مارننگ۔۔"

وہ نرم مسکراہٹ اچھالتے گیلے بالوں سے شرٹ کے بغیر تھا

وہ سٹپٹاتے اس لمحے رات کی حرکت پر اس سے نظریں چرا گئ

ناشتہ کرنے چلیں باہر۔۔"

وہ وارڈروب سے سادہ مہرون ٹی شرٹ لیتے بولا

اس کی پشت دیکھتی رہ گئ اس کے نرم لہجے سے سکون اترتا محسوس ہوا جو وہ اپنے رویے پر رات کے حوالے سے پریشان تھی اس کے اس معاملے کو نہ دہرانے پر وہ اب کچھ زائل ہو گیا تھا

میرے پاس کپڑے نہی۔۔"

وہ بستر سے نکلتے پریشان سی بولی تھی

تم مجھے بلیو میں اچھی لگ رہی ہو۔۔"

اس کی جائزہ لیتی نظروں سے اس کے گال تپ اٹھے

فریش ہو کے آو آج اسی سے گزارا کر لو

کل جوائینگ دینے کے بعد ہم اپنے گھر ہوں گیں۔۔"

وہ بال کنگھی کرنے لگا

انشاللہ وہ زیر لب بولتے واشروم کی سمت گئ تھی

نم چہرہ اپنے اوڑھے دوپٹے سے خشک کرتے باہر آئ تو وہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے فون پر مصروف اپنی ماں سے محو گفتگو تھا

اس کو سانس رکتی محسوس ہوئ تھی


میں انتظار کروں گا۔۔"

وہ اس کی مسکراتی آواز سے کندھے سے نیچے جاتے بال سلجھاتے تھم گئ تھی وہ کیوں آ رہی تھی نور کو ابھی سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی

چلیں۔۔"

اس کا عکس اپنے پیچھے رونما ہوتے دیکھ وہ بال باندھتی وہ ہاتھ تھامتے پہلو میں گرا گیا اس کے گلے میں موجود دوپٹہ نکالتے وہ تھام چکا تھا

وہ پھر سے سانس روکے قدم زمین پر بامشکل جمائے ہوئے تھی پر وہ دوپٹہ اسکے سر پر ڈال چکا تھا

میں بائیک پر نہی جاوں گی گھر بنا لیں ناشتہ پلیز۔۔"

وہ بائیک کا سوچتے پھر سے پریشان تھی

یہاں سوسائٹی میں ایک واکنگ ڈسٹنس پر ریسٹورینٹ ہے"

پیدل چلتے ہیں یہ گھر کافی ٹائم سے میرے یوز میں نہی تھا اس لیے کوئ ناشتے کے انگریڈینٹس نہی فلحال"

وہ شکر کا کلمہ ادا کرتے اس کی بازو جھکڑ گئ تھی

غازیان نے پلٹتے دیکھا تو وہ جھجھکتے ہٹانے لگی

جب وہ خود اس کی انگلیاں اپنی انگلیوں میں الجھا گیا تھا

اس لمحے تشکر کرتے اس کا دل پگھلنے لگا تھا اس کے ہاتھوں سے ملتے نرم تحفظ سے اس کے برف بنے جزبات نرمی اختیار کر رہے تھے

اس کے ساتھ چلتے وہ موسم کی خوشگواریت دیکھ رہی تھی گرمی کا موسم تھا وہ کافی ٹائم بعد باہر کی فضا میں کھل کے سانس لے رہی تھی

ریسٹورینٹ میں بیٹھے وہ آڈر دے رہا تھا

خود تو وہ وہی ڈائیٹ فری براون بریڈ ایگ بغیر یوک لیے ناشتہ کر رہا تھا

نور نے جھرجھری لی تھی وہ اس کو بھی روکھا پھیکا کھلا کے مارنا چاہتا تھا

وہ کارڈ تھامتے اپنے لیے ہیوی ناشتہ آڈر کرن لگی

آئ ایم سوری۔۔۔"

وہ جھکی نظر سے بولی وہ ہاتھ میں تھاما نوالہ چھوڑ چکا تھا ریسٹورینٹ کے سیکنڈ فلور کے اوپن ایریا میں آمنے سامنے بیٹھے تھے وہ اس لمحے اسے دیکھتا رہ گیا تھا

کس لیے۔۔؟ اس کے ماتھے پر تیوری چڑھی تھی

میری زات میں پائے جانے والی ہر کمی کے لیے آپ مجھ سے بہتر ڈیزرو کرتے۔۔"

وہ اس کو دیکھتے ٹھہر ٹھہر کر بولی تھی

نور تم مجھے یہ احساس ہر بار کیوں دلاتی ہو کے میں تمہیں اپنا کے غلطی پر ہوں۔۔"

وہ دانت پر دانت جما گیا تھا

نہی ہرگز نہی غازیان۔۔"

آپ خاص ہیں میرے لیے میں نے اپنے رویوں کا حوالہ دیا ہے"

وہ اس کا میز پر دھرا ہاتھ تھامتے متانت بھرے لہجے میں بولی تھی

وہ ہاتھ چھوڑ گئ

جب اس کا ناشتہ ویٹر سرو کرنے آیا تھا

ناشتہ کرو۔۔"

اس کی آواز میں جارحیت محسوس کرتے وہ جھک گئ تھی وہ بل کلیر کرنے لگا

غازیان۔۔"

پہلا نوالہ لیتے ہی وہ کھانستے بے حال ہو گئ تھی اس کا چہرا تیزی سے سرخ ہو رہا تھا کے وہ فوری اس سمت آیا ویٹر بھی چونک گیا تھا

شٹ اس میں بلیک پیپر(کالی مرچ) یوز تھی

وہ ویٹر پر دھاڑا

نور آر یو اوکے۔۔"

پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگاتے وہ اس کو لے کر کھڑا ہو گیا تھا ان کی سائیڈ پر موجود ٹیبل پر فیملی بھی اس کی جانب متوجہ ہو گئ تھی

وہ پھر سے روتی جا رہیتھی

یار فار گاڈ سیک رونا بند کرو مر نہی گئ تم۔۔"

جب تمہیں پتہ تھا اس میں بلیک پیپر ہے تو کیوں کھایا تم نے"

بندہ اتنا نازک مزاج بھی نہ ہو۔۔"

سب کچھ ایسا میرے نصیب میں ہی آنا تھا۔۔"

وہ دل میں سوچتے تپ گیا تھا

گہرے سانس بھرو۔۔"

منرل واٹر کی بوتل ایک ہاتھ میں پکڑے اس کے ساتھ ریسٹورینٹ سے باہر سوسائٹی کی کھلی فضا میں چلتے وہ اسے تھامے تھا

جو بامشکل اب الرجیک ری ایکشن سے کچھ سنبھلی تھی

بہتر ہوں گھر چلیں۔۔"

وہ اس کی فکر مند آنکھوں میں دیکھتے اب سکون محسوس کر رہی تھی

------------------------------------------------------

وہ گارڈن میں بیٹھی فریش ہوا میں سکون محسوس کر رہی تھی

مما بس کر جائیں۔۔"

آج مجھے سچی افسوس ہو رہا ہے میرا مائیکہ اور سسرال ایک ہی کیوں ہیں۔"

جو اسے فورک سے زبردستی ڈیفرنٹ کٹے ہوئے فروٹس کھلا رہی تھیں

اچھی ڈائیٹ ضروری ہے تمہارے لیے ریحہ جان دیکھی ہے تم نے اپنی زرا سی ہے بس۔۔"

ماں صحت مند ہو گی تو بچہ بھی صحت مند ہو گا

وہ زبردستی اس کو کھلا رہی تھیں

اف دوسرے احان کی روح آ گئ آپ میں"

وہ منہ بگاڑتے ایپل کا زائقہ منہ میں محسوس کرتے ضبط کیے تھی

شرم کرو۔۔"

نائمہ نے اس کی بات پر گھورا تھا

فون کی رنگ بج اٹھی

دیکھ لیں آپ اب یہ شروع ہونے والے ہیں"

مسکراتے فون کی سکرین پر جگمگاتا نمبر دکھایا تھا

کیا ہے کیوں فون کر رہے ہیں۔۔"

تم ٹھیک ہو کہاں ہو اس ٹائم۔۔" وہ نظر انداز کیے فکر مندی سے بولا

آرام سے میں ٹھیک ہوں بلکل

مما کے پاس ہوں نیچے گارڈن میں۔۔"

وہ بولتے لب دانتوں میں لے گئ اس نے صبح سختی سے وارن کیا تھا نیچے نہ اترنے سے

ریحہ تم پر میری بات کا اثر تو نہی ہوا منع کیا تھا نہ میں نے سٹیرز اترنے سے۔"

چچی کو تم اوپر بلوا لیتی۔۔"

وہ سخت لہجہ اپنا گیا تھا

حان خدا کے لیے مجھے قید نہی کریں میں نے ناراض ہو جانا ہے پھر اگر آپ نے اپنی چلائ تو۔۔"

ویسے ہی میری تبعیت نہی ٹھیک میں اچھا نہی فیل کر رہی آپ اور مما مجھ سے اپنا رویہ لہذا درست کر لیں ورنہ میں نے پکا والا ناراض ہو جانا ہے

وہ روہانسے ہوتے اس پر چڑھ دوڑی تھی

جبکہ نائمہ اس کی زبان درازی پر دیکھتی رہ گئ جو روتی شکل بناتے ڈرامے لگا رہی تھی

اچھا سوری یار اگر تم نے نیچے آنا ہو تو میرا ویٹ کرنا میں خود شام میں تمہیں لے آیا کروں گا

let it be.."

اب یہ بتاو کیسی ہے حان کی جان"

وہ اس کی بات نظر انداز کرتے بولا۔۔"

وہ لمحے میں سرخ ہوئ تھی سامنے ہوا سے جھومتے پودے اور اپنی ماں کی موجودگی دیکھتے وہ کل رات سے کچھ زیادہ ہی کیرنگ بن رہا تھا

میں ٹھیک ہوں بلکل آپ ریلیکس رہیں۔۔"

وہ چند سانحوں بعد گھاس مٹھی میں موڑتے تھوڑا سا پرے کھسکھی تھی نائمہ نے مسکراتے اسکی اب کی حرکت نوٹ کرتے اس کے چہرے پر عیاں ہوتے ماں بننے کے رنگ دیکھے تھے


لیکن میں نے تو تمہارے بارے میں پوچھا ہی نہی میں نے تو حان کی جان کے بارے میں پوچھا ہے "

ریحہ کے ماتھے پر تیوری چڑھی وہ کس کے بارے میں پوچھ رہا تھا جبکہ وہ لب دبائے خاموشی سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ان لمحات کی خوبصورتی محسوس کر رہا تھا

احان کی نئ جان سے خودی پوچھ لینا وہ کیسی ہے وہ کچھ توقف کے بعد تپ کے بولی تھی

دور رہیں اور چپ رہیں اور کام پر دھیان دیں۔۔"

لیکن یار تم ہی تو مجھے اس کے بارے میں بتاو گی میں کیسے اس سے پوچھوں ابھی اس کے آنے میں ٹائم ہے۔۔"

وہ اس کے لہجے میں چھپی بات سمجھتے لب کچلتے خجل سی ہو گئ تھی شکر تھا اس کی ماں چلی گئ تھی

اچھا یہ تو بتا دو بے بی گرل ہے یا بے بی بوائے

خیر جو بھی ہے جلدی سے لے آو بس

پھر لا دو گی نہ مجھے"

وہ اس کے چپ ہونے پر مزید بولتے اسے مزید سرخ کر گیا تھا

رکھ رہی ہوں میں فضول باتیں مجھ سے نہی کریں"

وہ فون کان سے ہٹاتی کے اس کی آواز پھر سے گونجی تھی

اچھا آئ ایم سیریس ایک آخری بات بس بہت اہم ہے یہ۔۔" وہ لب دباتے سیریس ہوا تھا

جلدی بولیں۔۔" وہ روانی سے بولی تھی

اچھا بات یہ ہے کے سن رہی ہو نہ تم۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا

ہمم سن رہی ہوں بولیں وہ سنجیدہ تھی بلکل

پھر تم کب لا رہی ہو اسے۔۔"

حان۔۔" وہ چلائ تھی

میرے پاس کوئ جدید ٹیکنالوجی نہی ہے جو آپ کے ہاتھ میں آج کے آج ہی تھما دوں اتنی جلدی ہے تو خود پیدا کر لیں۔۔"

آہ شٹ۔۔"

بولتے وہ لب دانتوں تلے دبا گئ دوسری جانب وہ مزید قہقہ لگاتے اسے خونخوار کر گیا تھا

مجھے تنگ کر رہے نہ بہت زہر لگ رہے ہیں مجھے آپ اللہ پوچھے آپ کو۔۔" وہ اپنے ہی ادا کردہ جملوں سے خجل ہوتے روہانسی ہو گئ تھی

اچھا سنو تو حان کی عقل سے پیدل جان۔۔" وہ قہقہ لگاتے سیریس ہوا تھا

نہی سننا مجھے بائے۔۔"

وہ فون رکھ گئ تھئ

دوپہر میں اسے چھوڑتے وہ لوکڈ کرنے کا بولتے چلا گیا تھا

شام محسوس کرتے وہ اس گھر سے وحشت سی محسوس کر رہی تھی

یہاں تو ٹی وی بھی نہی ہے"

نور نے نظریں دوڑاتے بے بسی سے واپس بیڈ روم میں داخل ہوتے ڈالیں تھیں

کوئ کام نہ دیکھتے اپنے کپڑے دیکھنے لگی


بے ساختہ اس کا جملہ یاد آیا

نور تم نہاتی نہی ہو۔۔۔"

یا وحشت نور کپڑے تو کل سے تم نے ایک ہی پہنے ہیں"

کاش کے میں بابا کے گھر سے نکلتے ایک دو سوٹ ہی رکھ لیتی اپنے"

وہ سوچتے بیڈ سے اٹھی تھی نظریں اس کی کبرڈ پر تھیں

کیچر نکالتے بال جوڑے کی گرفت میں کرتے

وہ نچلا لب دانتوں میں دباتے کبرڈ کے ہینڈل پر پر دھڑکتے دل سے ہاتھ رکھ گئ


وہ ایسے خوفزدہ تھی جیسے وہ سامنے ہو اور اس کی نظریں اسی کی حرکات پرمرکوز ہوں

اس کے آنے سے پہلے میں اپنے کپڑے پہن لوں گی

وہ پرسوچ ہوتے اس کی سفید ٹی شرٹ اور ایک عدد ٹراوزر نکال گئ تھی

دھڑکتے دل سے اس کے کپڑے تھامتے وہ واشروم میں بند ہوئ

اپنے کپڑے واش کرتے

بیس منٹ بعد شاور لیے وہ گیلے بالوں سے باہر نکلی تھی

وہ الجھتے قدم اس کے بلیو لمبے ٹراوز میں سنبھالتے بامشکل بیڈ تک پہنچتے پائنچے فولڈ کرتے شیشے کے سامنے گئ

اس کی ٹی شرٹ کافی کھلی سی گھٹنوں تک تھی

نور نے جھنپتے اپنا عکس مرر میں دیکھا یک دم حواس جانے لگے تھے

وہ اس کے عین پیچھے تھا وہ حیرت سے ہوش میں آئ

اور چیختے بری طرح اسے ڈرا چکی تھی

اس کی کمر سے تھامتے اس کے ہونٹوں پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ چکا تھا


یہ گھر ساونڈ پروف نہی ہے کیوں مجھے سوسائٹی کے ہاتھوں مصیبت میں ڈالنا ہے"

اس کی اٹھتی گرتی پلکوں پر نمی کے قطرے دیکھتے وہ اپنی ہتھیلی کے نیچے دبا اس کا چہرہ دیکھتے کان میں غرایا تھا


وہ سانس بند ہوتا محسوس کر رہی تھی آنکھیں پھٹبے کے قریب تھیں جو ہنوز اسی پوزیشن میں اسے تکتے کنفیوز کر رہا تھا


چیخو گی تو نہی اب۔۔"

وہ لمحوں کے حصار سے نکلتے بولا

وہ نفی میں فوری سر ہلا گئ تھی اس کے بالوں کے نم قطرے اس کے چہرے پر پڑتے اس کی دھڑکنوں کو منتشر کر گئے تھے

وہ اسے مزید قریب کر گیا تھا کے دونوں کی سانسیں اس کے چہرے سے الجھنے لگیں تھیں


اس کی کمر کے گرد حصار باندھتے وہ اسے نزدیک کر گیا تھا

مجھ پر حق نہی جتاتی میری چیزوں پر کیوں حق جتاتی ہو

بوجھل سے لہجے سے وہ حواسوں میں لوٹی تھی

اسکے بالوں سے آتی اپنے شیمپو کی مہک میں گہرا سانس بھرتے وہ اس کے سراپے پہ نظریں ڈالتے سوالیہ لہجے میں بولا تھا

جو اس کی سفید ٹی شرٹ میں کھڑی لب کچلتے اس کے حصار میں تھی


ت۔۔تم انسان نہی میری جان لے لو گے تم۔۔"

کانپتے لہجے میں اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش میں باتوں کو بدلنے کی سعی میں تھی

اس کی اس طرح کی انٹری پر وہ واقعی ہی خوفزدہ ہو جاتی تھی


پھر بچ کے رہنا نور سیریسلی آئ ایم آ بیڈ بوائے

کھا جاوں گا تمہیں۔۔"

اس کی کان کی لو پر جھکتے وہ سلگتے لمس سے اس کی ریڈ کی ہڈی تک سنسنا گیا تھا

اس کا لہجہ مسکراتا تھا اندازہ اس کی سنجیدہ پڑتی کالی آنکھوں میں دیکھتے ہوا تھا جس کے کنارے مسکرانے کی کوشش کو ناکام کرنے میں محو تھے


د۔دارصل م۔۔میرے کپڑے گیلے ہو گئے تھے تو۔۔"

وہ اس کی گرفت نہ پاتے کھسکھتے دور ہوتے گھبراتے لہجے میں جواز دیتی کے وہ اس کی پہنی شرٹ کے گلے میں انگلی اٹکاتے قریب کر گیا تھا


دل چاہ رہا ہے آج ریسٹورینٹ میں جیسے تمہارا سانس بند ہوا تھا نہ اس سے برے طریقے سے تمہارا سانس روک دوں کیا خیال ہے

کیونکہ باتیں بہت اچھی بناتی ہو تم بیوی۔۔"

اس کی سرگوشی میں ڈھلتی آواز سے وہ کانوں سے نکلتے دھوئیں سے بھونچکا کے رہ گئ تھی


وہ جھکتا کے وہ پرے ہوتے دیوار میں نصب مرر سے لگتے لزرتے بدن سے آنکھیں موند گئ

ریلکیس کچھ نہی کرنے والا تھپڑ یاد ہے مجھے۔۔"


وہ سرخ سی ہوتے اس کو دور دیکھتے مسکراہٹ کا گلا گھونٹ گئ تھی


ڈیڈ کی طرف ڈنر ہے"

وہ جب پلٹا تھا تو اس کو خود سے مسکراتے دیکھ حیران ہوا تھا

اس کے چہرے کے رنگ مختلف سے تھے


میں کہہ رہا ہوں ڈیڈ کی طرف ڈنر ہے ہمارا۔۔"

وہ لب دبا گئ تھی


ان کپڑوں میں۔۔"

وہ دوپٹہ نہ ہونے پر اس کی نظروں کی تاب نہی لا پا رہی تھی


مجھے کوئ اعتراض نہی تم کوئ جواز دے دینا۔۔"

ویسے بھی پاگلوں کی سردار لگ رہی ہو"

ہاں اس کا کمپلیمینٹ کم مزاق واضع تھا۔۔"

نور منہ کھولے اس کی دلچسی بھری نظروں سے خائف ہوتی مٹھیاں بھینچ گئ تھی


میرے حسین خیالات سے نکلو تو کبرڈ چیک کر لینا"

وہ اس کی بات پر ناقابل فہم تاثر دیتے اس کو واشروم میں جاتا دہکھ رہی تھی

کبرڈ کھولنے پر اسے شاپنگ بیگ دکھا وہ تھامتے بیڈ تک آئ

کھولنے پر سیاہ رنگ کی نفیس شرٹ جس کے گلے پر گولڈن کام تھا اور گولڈن کیپری ہم رنگ سیاہ دوپٹے کے ساتھ تھی

وہ ہیوی ڈریس دیکھتے حیران تھی لیکن وہ کوئ بھی نقص نہی نکالنا چاہتی تھی

وہ کب لایا شائد آتے ہوئے کیونکہ کبرڈ میں اسے نظر نہی آیا تھا

وہ چینج کرنا چاہ رہی تھی

کپڑے تھامتے وہ واشروم کی سمت دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ جن کی طرح کبھی بھی نمودار ہو جاتا


آہ نور ہرگز نہی.."

وہ انتظار کرنے لگی تھی

وہ شاور لے کر نکلا تو وہ نظر انداز کیے کپڑے لیتے واشروم میں بند ہوئ تھی

کپڑے چینج کیے وہ مرر کے سامنے تھی بال سلجھاتے کیچر میں جھکڑے میک اپ کی کوئ چیز پاس نہ ہونے کی وجہ سے وہ خاص چینج اپنی شکل میں نہی محسوس کر پائ تھی


چلیں.."

اس کی آواز سے وہ پلٹتے نرم سی نظریں اپنے سراپے پر مرکوز محسوس کر چکی تھی

دوپٹہ درست کرتے اسے اپنی زندگی اب خوبصورت سی محسوس ہوئ تھی


وہ اپنے باپ کی گاڑی پر تھا شکر تھا گاڑی تھی نور پرسکون ہوئ


گاڑی اس کے باپ کے گھر رکی تھی

اس کی سائیڈ سے دروازہ کھولتے وہ اس کے ہمقدم ہوئ تھی


لاونج میں وہ اس کے انتظار میں تھے


میں نے تمہارا روم سیٹ کروا دیا ہے نور آپ فریش ہو جاو"

حمدان نے مسکراتے کہا


میں گاڑی آپ کی استعمال کر رہا ہوں کیا یہ کافی نہی ہم رک نہی رہے"

وہ صاف لہجے میں بولا نہ تو وہ اپنی ماں پر بوجھ بنتا نہ ہی باپ پر"

نور دیکھتی رہ گئ عجیب بروکن سی فیملی تھی


غازیان میرا سب کچھ تمہارا ہی ہے" وہ نرمی سے محبت سموئے بولے تھے


میں واشروم میں جانا چاہتی ہوں۔۔"

نور دونوں کی گفتگو سے انجان بنتے چلی گئ تھی

وہ اسے روم کا سمجھاتے خود اس کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئے تھے


وہ چہرہ دھوتے نم چہرے سے باہر آئ تھی

بھوک شدید لگی تھی پر جھجک تھی ملازم کے بلانے پر وہ تمیز کا مظاہرہ کرتے نیچے ڈائینگ پر آ گئ تھی


جہاں وہ اس کے انتظار میں تھے دو ملازم مختلف ڈشز ٹیبل پر لگا رہے تھے وہ دیکھتی رہ گئ جہاں تین چار قسم کے سالن بریانی اور مختلف لوازمات تھے

جیسے وہ تو صدیوں کے بھوکے ہوں خیر اس کے سسر کی خاطر مدارت پر وہ داد دیے بنا نہ رہ سکی

غازیان کے برابر جھجکتے چئیر کینچھتے وہ بیٹھ گئ تھی


نور یہ ساری ڈشز ٹرائے کرو میرا کک تمہارے کک سے خاصہ اچھا ہے"

وہ غازیان کو دیکھتے زو معنی لہجے میں بریانی کی ڈش اس کی جانب کھسکھاتے بولے تھے


نور کیا بتاتی وہ ڈائٹ کونشیس کا مارا اسے بھی روکھی پھیکی کھلاتا تھا

وہ اس کی پلیٹ کی جانب دیکھتی رہی جو بیف کا سالن خشک روٹی کے ساتھ کھانے میں مصروف تھا


وہ خاموش بیٹھی تھی جو اسے اکیلے چھوڑتے جانے کہاں چلا گیا تھا


نور اس کی ماں کو ہرگز نہی پتے چلے وہ میرے ساتھ ہے خیال رکھنا۔۔"

وہ ان کی زبان درازی سے واقف تھے بھونچال لے آتی وہ اگر اسے اس کی جوب کی بھی پتہ چلتا

نور سوچتی رہ گئ وہ اس سے تو جیسے بڑی بے تکلف تھیں جو اسے بتاتی


جی انکل۔۔" وہ دھیمے سے بولی


وہ سر ہلا گئے

آپ چائے یا کوفی لیں گیں۔۔"

کچھ توقف کے بعد اس کی جانب سے چپی پاتے وہ پھر سے پوچھتے بولے


ہم نکلتے ہیں ڈیڈ اب رات کافی ہو گئ ہے"


رک جاتے تو بہتر تھا وہ ٹھنڈی آہ بھر گئے تھے


پھر کبھی سہی۔۔"


وہ نور سے محو گفتگو تھے جو جانے کس چیز پر انکار کر رہی تھی

نور میں ویٹ کر رہا ہوں"

اس کی آواز پر وہ سر ہلاتے ان کے ہاتھ میں تھامی چیز بار بار اصرار پر لے گئ تھی


گہری اندھیری سڑک تھی

وہ لب بھینچے ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا گاڑی جھٹکے سے رکی

وہ خیالات سے نکلتے پٹرول پمپ پر دیکھتے شیشہ اوپر کر گئ


سر ٹو تھاوزینڈ..."

وہ شیشہ نہچے کرتے والٹ کھول رہا تھا

کیش نہی ہے کارڈ چلے گا"

وہ کریڈیٹ دے رہا تھا نور نے نظریں اس جانب اٹھائیں


شیور..."

وہ کارڈ لیتے اندر چلا گیا

سوری سر یہ اماونٹ نہی شو کر رہا یہ نہی چل رہا"

وہ چند لمحوں بعد کار کا شیشہ نوک کرتے واپس تھما چکا تھا

چیک کرو کیوں نہی چل رہا یے تم لوگوں کی مشین میں اشو ہے "

Check it again"


وہ ماتھا مسلتے سٹیرنگ سے ہاتھ ہٹاتے پریشانی سے بولا تھا اچھی خاصی اماونٹ تھی اس میں


سر ہم نے دھیان سے چیک کیا ہے مشین میں کوئ ایشو نہی ہے"

نور نے اس کی جانب دیکھتے گود میں پڑے فون کا کور ہٹایا تھا


یہ لو..."

وہ اس کی جانب متوجہ ہوا جو ہاتھ میں پکڑے پیسے اس کی جانب بڑھا رہی تھی

وہ پانچ ہزار کے دونوں نوٹ جو حمدان نے اسے اپنے گھر آنے پر دیے تھے اس کی جانب بڑھاتے بولی تھی

ایسی اکورڈ سچویشن بھی آنی تھی اس کی پے سمیت اس کا کھاتا بھی گورنمنٹ بلوک کر چکی تھی وہ آنکھیں بند کرتے مٹھی بند کر گیا


وہ نوٹ ڈیش بورڈ پر رکھتے رخ شیشے کی طرف کر گئ


گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز پر وہ پرسکون ہوئ تھی


-----------------------------------------------------


ریحہ ٹھیک ہو تم۔"

وہ کاوچ پر تھا جب سے وہ ڈائینگ ٹیبل سے آئے تھے

اسے بے چین سا چکر لگاتے دیکھ رہا تھا


ہاں جی۔۔"

وہ بولتے تیزی سے واشروم کی جانب گئ تھی

وہ ڈاکومینٹس سمیٹتے ڈریسر پر رکھتے اس کی حرکات نوٹ کرتے اب پریشان سا ہو گیا تھا


اس تک جاتا کے وہ نڈھال سی واشروم سے آئ تھی

ریحہ اتنا تو تم نے کھایا نہی جتنی بار تم واومٹ کر چکی ہو"

وہ بستر پر بیٹھتے خود کو نارمل کر رہی تھی اور اس بارے میں اسے یقین ہو گیا تھا یہ سب ہرگز آسان نہی

پچھلے چار ہفتوں میں اسے یہ یقین ہو گیا تھا آہ یہ پیریڈ بہت مشکل ترین ہے"


ریحہ ڈاکٹر کے پاس چلیں۔۔" وہ بستر پر اس کے نزدیک بیٹھا تھا


احان مشکل ہے یہ بہت مجھے۔۔"

وہ اکھڑتی سانسوں سے ابھی سنبھلی نہی تھی کے پھر سے واشروم کی جانب بھاگی تھی


اب کی بار بیسن پر وہ اس کی پشت پر اس کی کمر سہلا رہا تھا

اس کے فری ہونے کا ویٹ کرتے وہ اس کے ساتھ ہی تھا

چہرہ دھوتے وہ بیسن پر ابھی بھی نم آنکھوں سے بے حال سی جھکی تھی

میں مما کو بلاوں یہ ٹھیک نہی ہے

تم بلکل ٹھیک نہی لگ رہی مجھے"

اس کا ہاتھ تھامتے واشروم سے لاتے وہ بیڈ پر بٹھاتے اس کے بکھرے بال کان کے پیچھے اڑیستے بولا تھا

میں نے کہا تھا میرا نہی دل کر رہا تھا ڈنر کو آپ نے اور بڑی مما نے زبردستی کی نہ۔۔"

میرا بلکل دل نہی چاہ رہا تھا وہ سر مسلتے الجھی تبعیت سے روہانسی سی ہو گئ تھی

تو اس کا مطلب ہرگز نہی ہے نہ کے تم کھاو گی نہی یار پروپر ڈائیٹ تو ضروری ہے نہ تم دونوں کے لیے"

اس کا کندھے سے جھولتا دوپٹہ اس سے علیحدہ کرتے پرے کر چکا تھا

آپ صرف اپنی چلاتے ہیں آپ نہی جانتے یہ پیریڈ بہت مشکل ہے احان۔۔"

وہ اس کے نزدیک ہوتے اس کے کندھے پر سر رکھ گئ تھی

جنت بھی تو تمہارے قدموں میں ہی ہو گی نہ۔۔"

اس کے بالوں پر لب رکھتے وہ قدرے محبت بھرے انداز میں بولا تھا

میں جوس لاتا ہوں۔۔۔"

وہ اٹھتا کے اس کا ہاتھ تھام چکی تھی

ہرگز نہی دن کو جوس رات کو جوس دوپہر کو جوس۔۔"

اس کے علاوہ بھی زندگی ہے جوس ہی زندگی نہی ہے

وہ بگڑے منہ سے بولی تھی یہاں تک کے اس کی فیورٹ جان زندگی اور بقول اس کے اس کا نشہ چائے بھی چھوٹ چکی تھی

احان محض مسکرایا تھا اس کی بے ہنگم سانسوں کی ہل چل میں ہوتی گفتگو سنتے

مما کو بلاوں اگر تبعیت نہی سٹیبل تو۔۔"

وہ اس کے چہرے پر اضطراب کے آثار ابھی بھی محسوس کر رہا تھا

نہی ان کو اس ٹائم ڈسٹرب نہی کریں۔"

میں بس سونے کی کوشش کرتی ہوں"

نارمل بات ہے یہ۔۔"

وہ اس کے شانے سے سر ہٹاتے دونوں ٹانگیں اوپر کرتے تکیے پر سر رکھ گئ تھی

بند آنکھوں سے اس نے اس شخص کا لمس اپنی پیشانی کے بعد آنکھوں پر محسوس کیا تھا

وہ پرسکون ہونے کی کوشش کرنے لگی تھی

احان صبح ہونے والے کیس کے ڈاکومینٹس

لیتے صوفے پر آ گیا تھا

تاکہ وہ مزید ڈسٹرب نہ ہو

وہ فریش ہوتے واشروم سے آیا تو وہ ابھی بھی بستر میں پڑی تھی

پوری رات اس نے جاگتی سوتی کیفیت میں گزاری تھی وہ شرٹ پہنتے پرفیوم خود پر سپرے کرتے گھڑی پر نظر ڈال گیا جہاں آٹھ بجنے والے تھے

کف لنکس بند کیے ٹائ کی نوٹ درست کرتے کبرڈ سے ہینگ کیا کورٹ تھامتے وہ اسکے نزدیک آیا تھا

وہ اس لمحے گہری نیند میں محو تھی

لمبے سیاہ بال بستر اور تکیے پر بکھرے تھے


اف ریحہ اس ٹائم تم میری چڑیل حسینہ کا منظر پیش کر رہی ہو۔۔"

وہ اس پر جھکا سا تھا

اس کی ناک سے نکلتی گرم سی سانسیں محسوس کرتے اس کے عنابی لب زرا سے مسکرہٹ میں ڈھلے تھے سائیڈ سے اپنا سیل فون اٹھاتے وہ اس کے چہرے کے قریب لے گیا تھا

اس کی پیشانی پر نرمی سے لب رکھتے وہ اس کے نزدیک سے اٹھتا کے وہ ہاتھ تھام گئ تھی


میں نہی اٹھ رہی ہوں

سووں گی میں۔۔"

وہ کسمساتے کروٹ لیتے ماتھے پر تیوری چڑھاتے بولی احان نے ابرو اچکائ اسے نیند میں بھی یہ فکر تھی کے وہ اسے اٹھا نہ دے


تم اور تمہاری نیند موقعے مل گئے ہیں تمہیں

بے فکر رہو نہی اٹھا رہا۔۔"

روم کی جلتی لائیٹ اوف کرتے وہ خود کلامی کرتے دروازہ بند کیے باہر آ گیا تھا


وہ کورٹ ڈائنگ کی چیئر پر رکھتے کیچن میں ہوتے برتنوں کے شور سے اس جانب گیا تھا

وہ اپنی ماں کو سمجھتے کیچن میں آیا جہاں کیچن میں کھڑی دانین نظر آئ تھی

وہ اس کی جانب پلٹتے دیکھنے لگی

مما کہاں ہیں؟

وہ استفہامیہ لہجے میں بولا

آنٹی شائد روم میں ہیں وہ نظریں اس پر ڈالتے بولی تھی

ٹھیک ہے۔۔" بولتے وہ کیچن سے نکلتا کے اس کی آواز کانوں سے ٹکرائ تھی


سنیں۔۔"

وہ اس کی آواز سے پلٹا تھا

آپ انہیں نہی جگائیں شائد وہ سو رہی ہیں میں اپنے لیے ناشتہ بنا رہی تھی آپ کے لیے بھی بنا دوں گی"


نہی میں ان سے ملنا چاہتا تھا ناشتہ لیٹ آفس سے کر لوں گا"

وہ ٹھنڈے لہجے میں جواب دیے کیچن کی دہلیز سے نکلتا چلا گیا


ایروگینٹ۔۔۔"

وہ بولتے اپنے لیے سینڈوچ بنانے کے لیے سینڈوچ میکر کا سوئچ لگاتے مصروف ہو گئ تھی


احان بیٹے جا رہے ہو تم

تم نے ناشتہ نہی کرنا تھا۔۔"

سانیہ کی آواز سے پلٹتے وہ لاونج کی حدود سے نکلتے ان تک آیا تھا


آفس میں کر لوں گا مما فلحال دل نہی چاہ رہا" وہ ان کو مطمعین کرتے بولا


ریحہ نہی اٹھی ابھی تبعیت ٹھیک ہے اس کی۔۔"

وہ اس کے ساتھ ہی اٹھتی تھی بلکہ اس کا ناشتہ وہی بناتی تھی وہ تشویش زدہ ہو گئ تھیں


آہ نہی اسے ابھی نہی جگائیے گا رات سہی سے سوئ نہی وہ۔۔"

میں نکل رہا ہوں"


اچھا ٹھیک ہے خیریت سے جاو۔۔"

دانین نے کیچن سے اپنی پلیٹ تھامے نکلتے ابرو اچکائ تھی


آپ کی ایک بہو تو دنیا سے انوکھی ماں بن رہی ہے ایسا بھی کچھ خاص نہی ہے آپ نے بھی یہ سچویشن فیس کی میں بھی اسی سچویشن سے گزر رہی پر ریحہ بھابھی تو کچھ زیادہ ہی نازک مزاج ہیں

وہ دل کی بات کو لفظوں کی زبان دیتے سانیہ سے مخاطب ہوئ تھی


نہی ایسا نہی ہے وہ جلدی اٹھ جاتی ہے شائد تبعیت ٹھیک نہ ہو"

سانیہ نے بات پلٹی تھی وہ پہلو بدلتی رہ گئ تھی


دس بجے اس کی آنکھ کھلی تھی

شٹ احان چلے گئے۔۔"

پتہ نہی ناشتہ کیا تھا یا نہی"

وہ سوچتے سائیڈ ٹیبل پر پڑا فون چیک کرنے لگی تھی

موبائل ڈیٹا اون کرتے واٹس ایپ کے یونیورسٹی گروپ کے ڈھیروں میسجز کے علاوہ اس کا ٹیکس نظر آیا تھا

بلکہ پکچر تھی وہ حیرت زدہ سی لوڈنگ کے ویٹ میں تھی

وہ منہ کھولے دیکھنے لگی

زوم کرنے پر پتہ چلا وہ اس کی سوتی ہوئ کی پکچر تھی


سوتی ہوئ چڑیل اٹھتے روم سے حلیہ سنوارتے باہر جانا اور شرافت سے ناشتہ کرتے ہوئے اپنی پکچر سینڈ کر دینا مجھے"

اس کے ہسنے والی اموجی کے ساتھ ٹیکس تھا

یا اللہ میں سوتی ہوئ اتنی بری لگتی ہوں کیسے کیسے مطلب احان نے مجھے ایسے دیکھا اف۔۔"

ریحہ کو صدمہ ہی تو لگا تھا


اب خود کی تبعیت قدرے بہتر محسوس ہوئ تھی وہ فریش ہوتے آئ

بالوں کو چٹیا میں باندھتے دوپٹہ درست کیے وہ باہر نکلی تھی

وہ کیچن میں ہرگز نہی جانا چاہ رہی تھی

ملازمہ کو ناشتے کا بولتے خود فون تھامتے وہ کاوچ پر آگئ تھی

اپنے پیپرز کا سکیجول دیکھنے لگی

میں پیپر کیسے دوں گی۔۔"

سوچتے دل ہولنے لگا تھا جہاں فائینل پیپرز کی ڈیٹ شیٹ اسے منہ چڑھا رہئ تھی


ملازمہ ناشتہ رکھتے چلی گئ

وہ سوچیں جھٹکتے فون کا کمیرہ کھولتے پکچر لیتی کے ازہان وہاں آ گیا تھا


یہ کیا کر رہی ہو۔۔"

وہ حیرت زدہ ہوتے وہی کاوچ پر اس کے نزدیک بیٹھ گیا


پکچر لینے کی کوشش ڈسٹرب نہی کرنا اب"

وہ آنکھیں دکھاتے بولی


او مائے گاڈ تم واقعی ہی پاگل ہو گئ ہو ری

ڈونٹ سے اب تم یہ پکچر لے کر سٹیٹس لگاو گی

ہیش ٹیگ ہینگ آوٹ ود مائے ناشتہ"

مارننگ وائبز۔۔"

وہ ہنستے بولا ریحہ نے خونخوار نظروں سے دیکھا تھا

ہسنے والی کوئ بات نہی ویسے منہ بند رکھو اپنا۔۔"

وہ پکچر لینے کا ارادہ ترک کر چکی تھی اب اگر وہ جان جاتا احان کو سینڈ کرنی ہے تو وہ مزید ریکارڈ لگاتا ایسا ہونے نہی دینا چاہتی تھی

بہت مسکرا رہے ہیں آپ دونوں۔۔"

ریحہ بھابھی مجھے بھی ایسا لطیفہ سنا دیں جس پر خاصہ ہنسا جا رہا ہے"

ریحہ نے دانین کی جانب دیکھا تھا جو جانے کب آئ تھی سامنے تنز بھرے لہجے میں بولی تھی اس کی مسکراہٹ سمٹ سی گئ تھی اس کا رویہ خاصہ اکھڑا اکھڑا سا ہوتا تھا اب جو اس کی سمجھ سے باہر تھا

دانین کیا طریقہ ہے یہ۔۔"

ازہان اس کے رویے سے دن بدن پریشان تھا وہ سمجھتا تھا یہ موڈ سونگنز ہیں وہ نرمی برتتا پر اب اسے اس کی بدتمیزی کھلتی تھی

تم چپ رہو تو بہتر ہے"

وہ انگلی دکھاتے خونخوار لہجے میں وارن کر چکی تھی

میں جاتی ہوں۔۔" ریحہ نظر انداز کیے ناشتے کی پلیٹ اٹھاتے اٹھی تھی

کہاں جاتی ہیں یہی رہیں نہ مجھے دیکھ کر بھاگ کیوں رہی ہیں جیسے میں نے آپ کی کوئ چوری پکڑی ہے"

وہ سامنے آچکی تھی وہ خاصی حیران ہوئ وہ کہنا کیا چاہ رہی تھی

کیسی چوری میں کیوں بھاگوں گی دانین میں نے کہا میں بس روم میں جا رہی ہوں۔۔"

وہ لہجے میں آئ ناگواری کم کرتے ہی بولی تھی ورنہ دل چاہا تھا سنا ڈالے

دانین روم میں آو۔۔"

ازہان نے دانت پیستے ہاتھ تھامنا چاہا تھا جب وہ چھڑوا چکی تھی

ڈسکسٹنگ ہو تم ازہان سکندر

مجھے اگنور کرنا اس سے مسکرا کے باتیں کرنا یہ سب تمہیں بہت پسند ہے

میرے لیے تم بزی ہو تمہاری یونیورسٹی تمہارا آفس لیکن اس طرح تمہارا ٹائم بلکل نہی ضائع ہوتا رائیٹ

میں ہی نہی سمجھ پائ تمہیں۔۔" وہ زہر خند ہوتی جا رہی تھی

دانین شٹ یور ماوتھ۔۔"

وہ خاصہ تیز آواز میں سامنے کھڑی ریحہ کی غیر ہوتی حالت دیکھ رہا تھا

پتہ ہے تمہارے شوہر نے مجھے اپنے فلیٹ میں اس کے ساتھ دیکھتے کیا طعنہ دیا تھا

ریحہ نے بامشکل قدم زمین پر جمائے تھے

مجھے اپنی عزت کا خیال ہونا چاہیے یہ تو مرد ہے"

تم بتاو تمہیں نہی وہ یہ مشورے دیتا"

یا پھر آپ دونوں میاں بیوی دوسروں کو ہی پارسائ کے لیکچر دینا جانتے ہیں

اس لمحے زلت اور اہانت سے اس کا چہرا سرخ ہوا تھا"

دماغ کی نسیں پھٹنے والی ہوئیں یہ ساری باتیں اس نے اس شخص کے سامنے کر دیں تو

دانین ازہان ہاتھ اٹھا چکا تھا

وہ سب سمیٹے سٹور روم بند کر گئ

بشرا کی چلتی زبان پر وہ بس گھور رہی تھی

لاونج کی حدود میں مسکراتی آوازیں محسوس کر رہی تھی

آہ نور کی جان نکلتی جا رہی تھی جب عین سامنے اس کی ماں کو دیکھا

وہ خاموش ہو گئ دل وسوسوں میں گھر گیا

گھر اچھا ملا ہے ویسے مانی اسے"

مزید پیچھے انجان لڑکی کو دیکھتے اس کے حواس ختم ہوئے

باجی یہ کون ہے"

بشرا کی سرگوشی پر وہ چپ ہی رہی وہ خود نہی جانتی تھی اس کی ماں کے ساتھ موجود سفید چیک شرٹ اور بلیو جینز پر مفرل گلے میں لپیٹے ماڈرن شولڈر پر بکھرائے بالوں میں وہ لڑکی کون تھی

نور سامنے تھی

وہ سوٹ کیس رکھ رہا تھا مطلب وہ رکنے والے تھے اسے تو یہی چیز نظر آئ تھی بس

مہمانوں کے آداب بلکل نہی ہیں اسے۔"

اپنی ماں کی دھیمی کہی بات پر

غازیان لب بھینچ گیا اس لڑکی کا وہ کچھ نہی کر سکتا تھا جو ہونق بننے کے تاثرات دے رہی تھی

جبکہ وہ لڑکی بھی اس کا جائزہ لے رہی تھی

اسلام علیکم آنٹی۔۔"

وہ خود کو حوصلہ دیتے قریب گئ

وہ مروت میں جواب دے گئ ورنہ ایک آنکھ نہی بھا رہی تھی

نور یہ میری کزن ہے آئرہ میرے ماموں کی بیٹی جہاں ہم رہتے ہیں مطلب جہاں مما رہتی ہیں"

وہ تعارف کرا رہا تھا

نور غازی کا مطلب ہے ہمارا جوائینٹ گھر۔۔"

وہ بے تکلفی سے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے گلے لگتے بولی لیکن وہ پھر بھی ضبط کیے ہی تھی

بشرا ساتھ والا کا کمرہ صاف ستھرا درست حال میں ہے۔۔"

اگر نہی ہے تو مما کا سامان میرے روم میں رکھ آئیں۔۔"

وہ سیدھا کام والی سے اب مخاطب تھا

مما آپ اور آئرہ ریسٹ کریں چائے آپ کے روم میں بجھوا دیتا ہوں

اور پھر لنچ پر تھوڑی دیر میں ملاقات ہوتی ہے"

ہاں میں پہلے سووں گی پھر تمہارا شہر لاہور دیکھوں گی آخر ایسا کیا ہے جو منڈا یہی کا ہو کے رہ گیا"

وہ نور پر مسکراتی نظریں ڈالتے بولی اسے سرخ کپڑوں والی وہ لڑکی پیاری لگی تھی

وہ دونوں روم میں چلی گئیں

آپ مجھے بتا سکتے تھے ان کے آنے کا آخر کیوں نہی بتایا۔۔"

آداب کے تقاضے نبھاتے چائے بشرا کے ہاتھ بھجواتے وہ روم میں تھی خود تو اس کی ماں کی زبان سے ڈرتی تھی

وہ اس کو شاور لینے کے بعد اب مرر کے سامنے کھڑے شرٹ کے بٹن بند کرتے دیکھ رہی تھی

مجھےخود سرپرائز کیا ہے انہوں نے"

وہ اس کی جانب مڑتے بولا جو پچھلے دنوں سے اس سے مزید بے رخی بڑھاتے اسے چڑچڑا کر چکی تھی

جب تک وہ یہاں ہیں انسانوں والا بی ہیویر کرنا۔۔"

وہ بستر پر گرتے تکیے پر سر رکھ گیا

مطلب کیا میں جانور ہوں۔۔"

وہ اسکی جانب رخ کرتے خشمگیں لہجے میں بولتے دونوں پاوں اوپر کر گئ تھی

ایسا تم کہہ رہی ہو میں نے ایسا کچھ نہی کہا۔۔"

سمپلی صرف ہیپی کپل بننا ہے ہمیں

وہ بازو آنکھوں پر رکھ گیا مطلب مزید نہی بولنا

آپ کی کزن کیوں آئ ہے"

وہ بات نظر انداز کیے دل میں آیا سوال پوچھتے بولی وہ خاموش رہا تھا

میرے سوالوں کا جواب دیں پھر آنکھیں بند کریں"

وہ اس کا بازو ہٹا گئ تھی غازیان نے سرخ نیند سے بھری آنکھیں بامشکل کھولیں تھیں جو اس سے فاصلے پر ہوتے ہوئے بھی پتہ نہی کیا جاننا چاہ رہی تھی

اس کے عجیب تشویش دے تاثر دیکھتے اپنی جانب کینچھتے اپنے شکنجے میں لے گیا

فلحال سکون چاہیے مل سکتا ہے بعد میں فرصت میں سوال جواب کر لینا۔۔"

وہ بھاری آواز میں سرگوشی کر گیا

اس کی چلتی سانسیں اپنے چہرے کو چھوتی ہوئ محسوس کرتے نور سانس روکے اس کا چہرہ دیکھے گئ وہ کئ دنوں سے اس سے فاصلوں پر تھا

وہ اچانک نظروں کی تپش سے بند آنکھیں کھول گیا

وہ میں۔۔" شدید شرمندگی سے وہ نظریں جھکا گئ تھی

شش شور نہی۔۔"

وہ ہونٹوں پر انگلی رکھتے آنکھیں پھر سے بند کر گیا اس کا لمس ہونٹوں پر محسوس کرتے وہ حلق تر کرتے سکون محسوس کر گئ جو نیند میں جانے سے اس کی حرکت نہی بھانپ سکا

وہ شدید تھکا تھا پچھلے دو دنوں سے نیند کی شدید کمی تھی بامشکل ان جھمیلوں سے نکلتے وہ اپنے باپ کی سفارش سے ری جوائینگ دے گیا تھا لیکن نیا محاز ٹرانسفر کا تھا جسے آجکل وہ ہینڈل کر رہا تھا اور اگر ہوئ بھی تو وہ چاہ رہا تھا واپس اسلام آباد ہو جائے تاکہ اپنی ماں کو بھی واپس اپنے ساتھ رکھ لے جو کسی صورت اپنا شہر چھوڑنے پر قائل نہی تھیں

لائٹ اوف کر دینا۔۔"

اس کو اپنی گرفت سے کسمساتا نکلتے دیکھ کروٹ لے گیا تھا

سوئچ اوف کرتے اس کو سوتے دیکھ وہ چپل اڑیستے باہر آ گئ

بشرا کے ساتھ ملکر لنچ کی تیاری کرنے لگی تھی جو اسے بتاتی جا رہی تھی پچھلے دنوں سے بشرا ہی میڈ کے ساتھ کوکنگ کا کام بھی انجام دیتی

وہ بزی ہی شائد اتنا تھا کے بغیر اعتراض کے کھا بھی لیتا تھا بس روٹی بنانا نہی آتی تھی نہ وہ یہ سب سیکھنا چاہتی تھی اس معاملے میں وہ بلکل نہی پڑنا چاہتی تھی

خیر بشرا کی نیٹنیس دیکھتے وہ اپنی نگرانی میں اس سے روٹی بھی بنوا لیتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی غازیان کو اس چیز سے چڑ تھی لیکن وہ پھر بھی ریڈی ٹو کک ہی پریفر کرتا نور بس دیکھتی رہ جاتی کے اصل مزہ اسے گھر بنی روٹی کھا کر کی آتا نہ کے وہ مہینوں فروزن ہوئ چپاتی کھا کے پر وہ تو شائد عادی تھا

وہ کیچن میں ہنوز سوچوں میں مصروف تھی

بشرا کٹنگ بورڈ پر پیاز کاٹنے میں مصروف تھی

تم تو ٹوٹل چینج ہو۔۔"

وہ حیرت زدہ ہوئ آئرہ اس کا جائزہ لے رہی تھی

آپ کو کچھ چاہیے تھا۔۔'

وہ اسے اب سفید کرتے اور بلیو جینز میں بلکل فریش دیکھ رہی تھی کٹنگ شدہ بال پونی میں بند تھے چہرے ہر قسم کی آرائش سے پاک دھلا تھا

مجھے اگر کچھ بھی چاہیے ہوا میں خود لے لوں گی تکلف کی بات نہی

مجھے صرف سماب سے ملنا تھا تمہیں غور کرنا تھا۔۔"

وہ اس کو غور کرنے لگی

سماب۔۔؟

نور اس کی بات پر جھینپ گئ تھی

اس نے تمہارا نام یہی بتایا تھا بولا تھا ایک چھوٹی سی بچی کا ٹورر میں نے برباد کیا ہے"

جو ڈارک لپسٹک لگانا چاہتی تھی کیونکہ اس کے بابا نہی اسے لگانے دیتے تھے۔۔"

وہ اپنی بولی باتیں سوچتے شرمندہ ہوتی جا رہی تھی پر ایک بات تھی وہ اسے اب بلکل موڈی نہی لگی تھی

آئرہ گرمی میں کیا کر رہی ہو"

مانی یہ آپ کی بہو کا انٹرویو لے رہی تھی وہ کچن میں بنی ونڈو سے باہر دیکھتے بتانے لگی

نور نے دیکھا ان کے تاثرات ویسے ہی تھے

پہلے جیسے تنے سے جزبات سے بلکل عاری۔۔"

چلو نور میں تمہاری ہیلپ کرتی ہوں کیوں مانی آپ کی چھوٹی سی بہو پر اتنے بوجھ نہی ڈالتے۔۔"

وہ واپس کیچن میں چہکتے آئ تھی

وہ اتنا بول رہی تھی نور کو اس کی باتیں بتاتے مسکرانے پر مجبور کرتی جا رہی تھی

تمہیں پتہ ہے ایک دفعہ نہ غازیان ہوسٹل سے واپس آیا میں نے اس کی پیسٹ فیس واش سے بدل دی۔۔"

پھر اس نے غصہ کیا ہو گا۔ "وہ اس کو نفاست سے سلاد کاٹتے دیکھ بولی

ے تھے

اور پیسٹ کرنے کے بعد بھی اس کو اندازہ نہی ہوا کے یہ فیس واش ہے"

وہ ہستے بولی نور سوچ کے رہ گئ اتنا سیدھا تو وہ ہرگز نہی ہے

وہ بہت کامcalm بندہ ہے ہاں پر ریٹرن ریونج ضرور لیتا ہے"

اس نے پتا ہے کیا کیا ریٹرن میں میرے سنیکرز میں کیکٹس رکھ دیا تھا

ہش جسے پہنتے ہی میری چیخیں پورے گھر میں گونجی تھی

وہ ایسی حرکتیں بھی کرتا تھا وہ سوچ سکی تھی


---------------------------------------------------


آپ اس کی تربیت میں بہت کوتاہی کر گئیں ہیں آنٹی جی افسوس ہے مجھے آپ کی بیٹی پر

اس سے زیادہ آپ پر"

وہ چھبتے لہجے میں اسکی ماں کو دیکھتے بولا ریحہ کو اپنے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹتی محسوس ہوئ جس پر وہ مضبوطی کیے تھا وہ نم آنکھیں جھکائے خوفزدہ تھی مطلب وہ سب سن چکا تھا


دانین کی ماں خاموش رہی تھی اس بات کا مقصد کیا تھا وہ نہی سمجھ سکی ہاں پر شرمندہ ضرور ہو گئ تھی۔۔"


آپ بھی تو ایک ہی گھر میں رہتے تھے پھر آپ کا کیا کریکٹر ہے کیا سین تھا آپ دونوں کا آخر ہیں تو آپ بھی اسی کے بھائ۔۔"


ریحہ کو لگا تھا وہ اس کی زات کے پرخچے اڑاتے اس کی زات کو ہی دانستہ طور پر نشانہ بنا رہی ہے

کیا میں تم سے مخاطب ہوں۔۔"

وہ بھینچے جبڑوں سے دھاڑا کے ازہان جو اندر آ رہا تھا وہ وہی تھم گیا تھا

اپنا کریکٹر سرٹیفکیٹ اپنی ماں سے ہی لے کر دکھا دو اگر انہوں نے ہی تمہارے حق میں تائید کر دی پھر میرے سے میرے کریکٹر کے حساب کتاب کی بات کرنا

آئیندہ کوشش بھی نہ کرنا ورنہ رشتہ بھلائے سارے لحاظ بلائے طاق رکھ دوں گا مس دانین حیدر"

دانین جو بستر سے ٹیک لگا گئ تھی اس کے سخت الفاظوں سے سبکی محسوس کیے اپنے اندر مزید آگ لگتی محسوس ہوئ تھی

کل شام کی باتیں سوچتے صبح اس کو خاموشی سے بستر پر پڑی تیار ہوتا دیکھ رہی تھی

وہ ٹائ کی نوٹ درست کرتے ہنوز سنجیدہ تھا وہ جس تیش میں واپس آیا تھا وہ اس سے خوفزدہ تھی نہ وہ اس سے مخاطب ہوا تھا

وہ وہاں اس کو یقین کی ڈور تھماتے ایسے بے رخی کیوں دکھا رہا تھا

ریحہ کی جان پہ بنی تھی

حان۔۔"

بھیگی سی آواز تھی

وہ ہمت جمع کرتے اس کو پکارتے اس کی دھڑکن منتشر کر گئ وہ کف لنکس بند کرتا پل بھر کے لیے رکا اگلے لمحے پھر مصروف تھا

بستر سے نکلتے اس تک گئ جو خامخاں اینگری مین بنا تھا

آپ ناراض ہیں مجھ سے"

اس کے سامنے جاتے وہ سرخ آنکھوں سے بولی تھی

وہ اس کو رات والے کپڑوں میں ملگجے حلیے میں دیکھتا آرام سے سامنے سے پرے کر گیا

مجھے لگا میرے ساتھ وہی ہوا جو میں نے آپ کے ساتھ کیا تھا آپ بھی مجھ سے پوچھیں گے بلیو می احان ریحہ کے دل میں آپ کے علاوہ کوئ بھی نہی ہے۔۔"

اس کا ہاتھ تھامتے وہ روتے بولی تھی

وہ تاسف سے دیکھتا رہ گیا

دل چاہ رہا ہے تمہارا منہ تھپڑ سے سرخ کر دوں اس سے پہلے رونا بند کر لو ریحہ"

وہ ہاتھ چھڑاتے سخت تیور لیے دور ہو گیا تھا

وہ جلدی ماننے والوں میں سے ہرگز نہی تھا وہ جانتی تھی وہ بے تحاشا ضدی ہے

-----------------------------------------------------

شام میں موسم کے بدلتے رنگ دیکھنے کے بعد بھی سارا دن بوجھل سا گزرا وہ اس سے ناراض تھا کیوں وجہ وہ جاننے سے قاصر تھی

دانین گھر واپس آ گئ تھی وہ دکھتے سر کو دبا رہی تھی اپنی آنکھیں جلتی محسوس ہوئیں

ریحہ دانین کو سوپ دے آو کشیدگی بھی تم دونوں میں کم ہو"

وہ سانیہ کی آواز سنتے نفی میں گردن ہلاتے آنسو پینے لگی تھی

بڑی مما میں نے کشیدگی نہی پیدا کی مجھے اس سے ہرگز ابھی نہی ملنا۔۔"

وہ اپنے فضول کے فتور دماغ سے نکال دے پھر اس سے بات بھی کر لوں گی

وہ خود پہ ضبط کیے تھی

میں کچھ ٹائم مما کے پاس جا رہی ہوں۔۔"

وہ گھڑی پر نظر ڈال گئ جہاں چھ بجنے والے تھے اس کے آنے کا ٹائم بھی قریب تھا پر وہ اس سے سامنا نہی چاہتی تھی جو چھوٹی سئ بات پر اس سے اتنا زیادہ ناراض ہو جاتا تھا

وہ اٹھتی کے بری طر چکر آیا تھا

ریحہ۔۔" وہ فوری سے اسے تھام گئ

وہ دھندلاتی آنکھوں سے منظر دیکھنے گئ تبعیت زیادہ خراب محسوس ہونے لگی تھی

کہی نہی جا رہی بیٹھو یہاں ہرگز تمہیں نیچے جانے کی اجازت نہی ہے

اب میں کوئ بھی کوتاہی برداشت نہی کروں گی سنا تم نے"

وہ سخت لہجے میں بولیں تھیں

م نے۔۔"

وہ دوسرا نقصان ہرگز برداشت نہی کرنا چاہتی تھیں اسے ڈپٹتے ملازمہ کو سوپ کا باول دے گئیں اور اسے لیتے کمرے میں آگئیں

بڑی مما مجھے پین۔ "

چند لمحوں بعد وہ درد سے دہری ہو رہی تھی

ریحہ وہ اس کی جانب آئیں۔۔"

تم بلکل ٹھیک نہی ہو اتنی لاپروا واقعی ہی ہو تم آج مجھے اندازہ ہو گیا ہے"

میں ڈاکٹر کو کال کرتی ہوں۔ "

نہی مما۔۔" وہ نفی کرتے آنسوں سے اس کی گردان کیے تھی

حان کو فون کریں مما حان کو بس فون کر دیں۔ "

وہ ان کا ہاتھ تھامتے درد سے روتے بول رہی تھی

اسے روم میں لے جاتے وہ ڈاکٹر کو کال کرنے کے بعد اسے بھی کر گئیں تھیں جس کا فون بند جا رہا تھا

ڈاکٹر نے اس کا پراپر چیک اپ کیا تھا

بی پی بہت ہائ تھا اور سٹریس بھی بلکل نہی لینے دیں بلکل ٹھیک نہی ہے اس کنڈیشن میں"

باقی ان کاپراپر چیک اپ کلینک میں ہی ہو گا ویکیلی چیک اپ کرائیں۔۔"

کچھ وٹامنز سپلیمینٹ لکھ دیں ہیں وہ ٹائم سے لیں۔۔"

وہ پرسکرپشن دیتے پیشہ ورانہ انداز میں بولیں تھیں

نائمہ اسے کے سرانے بیٹھی تھیں

وہ ناراض ہے مجھ سے مما وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہو جاتا ہے۔۔"

پھر مجھ سے بات بھی نہی کرتا۔۔۔"

میری بات سنے بغیر اپنا شدید ردعمل دے دیتا ہے

اسی کی وجہ سے ہوا ہے یہ سب وہ خامخاں کا غصہ مجھ پر کر دیتا ہے۔۔"

میں ابھی شادی نہی کرنا چاہتی تھی مجھ سے نہی مما۔۔"

وہ مسلسل انہیں بتاتے روتے آنکھیں سرخ کر چکی تھی


ریحہ میری جان سر درد ہو گا نہ میں اس کی خبر لوں گی وہ کیسے میری بیٹی کو رلا سکتا ہے"

وہ جانتی تھی وہ اگر نہی ٹینشن لیتی تو بڑی بات کی بھی نہی لیتی اور اگر لے جائے چھوٹی بات کو بھی نہی چھوڑتی ہے"

اس لمحے احان پر غصہ آیا تھا


-----------------------------------------------


وہ سر تھامے لاونج مئں بیٹھا تھا

ازہان۔۔"

وہ اس کے پاس بیٹھ گئیں تھیں آواز میں فکر تھی


وہ تھکی شکل اور آنکھیں سانیہ کی جانب کر گیا تھا جو صوفے پر اس کے نزدیک بیٹھی تھیں


کھانا کھایا تم نے۔۔"

وہ ٹانگیں سمیٹتے ان کی گود میں سر رکھ گیا سانیہ کا دل نرم پڑ گیا تھا


مما میں بے سکون ہوں آپ مجھ سے ناراض رہتی ہیں۔۔"

وہ ان کا ہاتھ اپنے سر پہ رکھ گیا آنکھیں نم سی تھیں


مما وہ میری زندگی کو پرسکون کرنے کی بجائے عزاب بنا رہی ہے"

سانیہ نے اس کی پیشانی سے بکھرے بال ہٹاتے تھکی سی آنکھیں دیکھیں وہ اس کا حال جان گئیں تھیں


تمہاری پسند ہے"

وہ اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے بولنے لگیں تھیں


مما شدید افسوس ہے مجھے اس بات پر وہ خود کو پتہ نہی کیوں اپنی غلطی کے بعد بھی نہی سنوار رہی۔۔"

اس معاملے کی زمیدار بھی وہ مجھے سمجھ رہی ہے جیسے میں خوش ہوں نہ۔ "

وہ تھکی آنکھیں موند گیا تھا

سانیہ دیکھتی رہ گئیں وہ ان کا ہنس مکھ بیٹا تھا جو اپنی زندگی خود اپنے ہاتھوں محض اپنے نفس پہ قابو نہ کر کے بے سکون کر چکا تھا


اسے نرمی سے سمجھاو ازہان اپنی توجہ دو ہو جائے گی ٹھیک۔۔"

وہ نصحیت ہی کر سکتی تھیں اب بس


میں توجہ دینے کی کوشش بھی کروں تو وہ میری اپنائیتوں کا کمپیریزن کرتی ہے وہ اس چیز میں خوش نہی ہے جو اسے مل گئ ہے بلکہ جو اس کے پاس نہی ہے وہ اس کے رونے لے کے بیٹھ جاتی ہے۔"

مجھے کوفت میں مبتلا کرتی ہے وہ"

وہ بے حد مضطرب تھا وہ اس کی بیوی تھی جس سے سکون کی تمنا تو دور بلکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ اس کے لیے بھی ڈپریشن ضرور خرید رہی تھی


-----------------------------------------------------

موسم کی خرابی کے تیور دیکھتے سگنل پرابلمز تھی

وہ رکتی بارش دیکھتے اب نکلا تھا

فون سامنے لہرایا جو بند ہو گیا تھا کورٹ بازوپر ڈالے پارکنگ سے گاڑی نکالے وہ دوبارہ بارش سے پہلے گھر پہنچنا چاہتا تھا

بارش کے ہونے سے پہلے وہ پہنچ گیا تھا

لاونج میں سانیہ اور ازہان کو دیکھتے وہ خاموشی سے گزرتا کے سانیہ کی آواز نے قدم جھکڑے

کہاں تھے تم بندہ فون بھی چیک کر لیتا ہے"

ازہان اس سے نظریں چراتے روم میں چلا گیا تھا

سنگنل پرابلمز تھی خیریت۔۔"

وہ صوفے پر ریلیکس انداز میں بیٹھتے بولا

ریحہ کی تبعیت کافی خراب ہوئ تھی ڈاکٹر نے سٹریس لینے سے منع کیا ہے احان خیال کیا کرو اور تم بھی اسے سمجھاو۔۔"

اپنی ڈائیٹ کا خیال رکھا کرے"

مجھے اس کے معاملے میں کوئ نقصان نہی چاہیے"

وہ سختی سے اسے وارن کر رہی تھیں

اب کیسی ہے۔۔" وہ پریشان ہوتے اپنے روم کے بند دروازے کی جانب دیکھنےلگا

ٹھیک ہے اب میڈیسن وغیرہ دی ہے پر اس کی حالت نے مجھے پریشان کر دیا تھا

کھانا کھاو گے"

وہ اسے اٹھتا دیکھ بولیں

اس نے کھایا ہے کچھ۔ " وہ بے چین ہوتے بولا

ہاں زبردستی کھلایا ہے"

ابھی نائمہ اس کے پاس ہے" اسے جاتے دیکھ وہ اسے آگاہ کر گئیں

میں اس کو دیک لوں پہلے"

وہ گہرا سانس کینچھتے روم کی جانب چلا گیا

دبیز قدموں سے قدم رکھا تھا وہ بستر پر پڑی بند آنکھوں سے شائد نیند میں تھی

نائمہ اس کی چاپ سے پلٹی

ان سے سلام اور حال احوال دریافت کرتے اس کے نزدیک ہی بستر پر بیٹھا

بات کرنی ہے مجھے احان۔ "

جی۔ "وہ چونکتے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا گیا

اس کی نیند نہ خراب ہو ابھی سوئ ہے وہاں صوفے پر آ جاو"

کچھ بات ہوئ ہے کیا تم دونوں میں"

وہ نظریں چرا گیا

کیا تم دانین کی باتوں کے اثر میں ہو تو کیا تم میری بیٹی پر شک۔۔"

نہی چچی مجھے اس کے کریکٹر کے لیے کسی کی گواہی نہی چاہیے۔۔"

وہ درشتی سے بات کاٹ گیا تھا

احان وہ سختی برداشت کرنے والی نہی میں اس کی سائیڈ ہرگز نہی لے رہی جتنی وہ لاپرواہی دکھاتی ہے نہ پر کچھ چیزوں میں وہ بہت حساس ہو جاتی ہے"

اس کی کنڈیشن کا خیال کرو ورنہ پھر میں اسے ڈیلیوری تک ساتھ لے جاتی ہوں"

وہ اس کو دیکھتے قدرے سمجھاتے بولیں آخری بات وہ اس کے تاثرات کو دیکھتے بولیں تھیں

کوئ بات نہی ہوئ ایسی میں اس کا خیال خود رکھ لوں گا

مجھے اندازہ ہے

کیا اسنے شکایت لگائ میری"

وہ لب دباتے اس کی جانب دیکھے گیا جو بند آنکھوں سے بے خبر پڑی تھی

نہی زیادہ نہی لگائ" وہ مسکرا گئیں تھیں

پر بہت سٹریس لیا ہے اس نے"

اب ایسا نہی ہو گا"

ان کا ہاتھ دباتے یقین دہانی کرا رہا تھا

وہ اس کے روم سے چند باتیں کرتے چلی گئیں تو وہ شاور لیے فریش ہوتے اس کی جانب آیا تھا

وہ کھڑی یہ ہولناک صورتحال سمجھ رہی تھی جو اس کے آتے ہی وبال مچائے تھیں

لاونج کے سناٹے میں صرف ان کی آواز گونج رہی تھی اور وہ ہر بار کی طرح اپنے حق میں نہ بولتے خاموش تھی


میں کہہ رہی ہوں اسے ہرگز تمہاری زندگی میں نہی رہنے دوں گی۔۔"

آئرہ میری پسند تھی اور وہی میری بہو بنے گی سنا تم نے۔۔"

تمہاری پسند اس کی جگہ کوئ اپاہج لڑکی یا غریب بھی ہوتی وہ مجھے قابل قبول تھی پر یہ ہرگز نہی

آج فیصلہ کرو میں یا یہ لڑکی۔۔"

وہ اس کے دل پہ وار کر رہی تھی


اسے لگا تھا اس کی جان نکل رہی ہے۔۔"

وہ دل پہ ضبط کیے اسے دیکھے گئ جو کچھ نہی بول رہا تھا

یک دم ہاتھ پر گرفت محسوس کرتے وہ سکون محسوس کر گئ


تو ماں کی اہمیت نہی تمہاری نظر میں۔۔"

وہ چھبتی نظروں سے اس کا ردعمل دیکھتی بولیں وہ تیز آواز سے اس کی بازو تھامتے اس کے پیچھے چھپ گئ تھی


ہے بہت ہے آپ ماں ہیں ماں کا درجہ بلند ہے نہ مما"

وہ نرمی لیے بولا

نکاح معمولی بات نہی ہے یہ بیوی ہے میری میں کیسے اسے بغیر کسی بات کے چھوڑ سکتا ہوں مما میں اس کے لیے اللہ کے آگے جواب دے ہوں۔۔"

وہ اس کو سامنے کر گیا اسے دیکھنے لگا جو نفی کرتے اس کی بازو مضبوطی سے تھامتے رو رہی تھی


ٹھیک ہے تم اسے طلاق نہی دو گے"

میں اپنی جان لے لوں گی۔

وہ بری طرح چیختے اسے سن کر گئ جو ڈائینگ پر پڑی فروٹ باسکٹ سے تیز دھار والی چھری لیتے کلائ پر رکھ گئ تھی

مانی۔۔"

آئرہ کی چیخ زدہ آواز سے وہ نور کو دیکھتا ان جانب متوجہ ہو گیا


مما۔۔" وہ اس کا ہاتھ چھوڑ گیا تھا

وہ خوفزدہ سی اپنی کلائ اس کی گرفت سے آزاد دیکھتی رہی


دور رہو غازیان ورنہ ورنہ میں خود کو مار لوں گی

وہ روتے اسے بول رہی تھیں


کیا چاہتی ہیں آپ۔۔

"وہ بے بسی سے دور ہوتے بولا تھا


تمہارے باپ کے بغیر تمہیں پالا

تمہاری خاطر دوسری شادی نہی کی اور تم اپنی ماں کو یہ صلہ دے رہو۔۔"


مانی پلیز۔۔" آئرہ دور سے بولی تھی


اگر چاہتے ہو میں خود کو کچھ نہ کروں

طلاق دو اسے ابھی اور آئرہ سے نکاح کرو۔۔"

وہ سامنے انہیں دیکھتے لب بھینچ گیا


نو غاز نو۔۔۔۔۔"

نور کو دیکھنے لگا جو روتے نفی کرتے ہزیانی انداز میں بول رہی تھی


دو ابھی۔۔"

اس کی ماں پھر سے بولی تھی

وہ ایک نظر اس کو دیکھنے لگا دوسرے لمحے اپنی ماں کو دیکھتے وہ اسے بدحواس کر گیا تھا

میں غازیان نیازی اپنے پورے ہوش وحواس میں ہالہ نور زبیر کو اس رشتے سے دستبردار کرتا ہوں۔۔۔"

میں تمہیں۔۔۔۔"

نو نو غا۔غاز مجھے نہی چھوڑو۔۔۔۔ "

وہ چیختے پسینے سے تر چہرہ لیے چیختی جا رہی تھی

ہالہ۔۔۔"

سماب۔۔" وہ اس کو پکارتے اسکو اب جھنجوڑنے لگا جو مسلسل بند آنکھوں سے بستر پر اس کی بازوں سے نکلتے چیختی جا رہی تھی

خاموش۔۔"

پاگل ہو گئ ہو۔۔" اس کو سختی سے بولتے اس کا چہرہ تھپتھپانے لگا تھا وہ لیمپ کی ہلکی روشنی میں اپنی تیش ذدہ آواز سے خوفزدہ کر گیا تھا

وہ روتے اس کو خود پر جھکا دیکھنے لگی

دور ہو جاو تم جاو اس آئرہ کے پاس جاو

مجھے طلاق دے دی

تم نے مجھے طلاق دے دی ہے۔۔"

وہ چہرا ہاتھوں میں چھپائے اب اونچا اونچا پھر سے رونے لگی تھی

واٹ آئرہ۔۔"

کیا بکواس کر رہی ہو نور ہوش ہے تمہیں

وہ اس کو دیکھنے لگا جو بستر پر پڑی مسلسل رونے کا شغل بھی جاری رکھے تھی

ہم اس ٹائم روم میں ہیں تم سوئ ہوئ تھی۔۔"

کیا ہو گیا ہے"

وہ اس کے تیزی سے رونے پر سمجھ گیا وہ خواب دیکھ گئ ہے نیند سے جاگنے پر وہ خود بری طرح سٹپٹایا تھا

ابھی کچھ لمحے پہلے تو آنکھ لگی تھی یہ لڑکی واقعی اسے ستا رہی تھی

اس کی غیر ہوتی حالت پر تھوڑا پرے ہوتے سائیڈ ٹیبل سے جگ لیتے پانی گلاس میں انڈیلنے لگا

وہ خاموش سی ساکت خاموشی میں بجلی کی گرج کے بعد خوفزدہ سی تھی اسے اچانک سے اٹھا کے بٹھاتے وہ پانی کا گلاس اس کے خشک لبوں سے لگا گیا

مجھے نہی چھوڑنا۔۔"

دو گھونٹ بھرتے وہ گلاس ہٹاتے اس کی جانب اپنی نمی سے دھندلائ بڑی آنکھیں اٹھاتے اس کے کندھے پہ سر رکھ گئ تھی

باہر بارش تیز ہو رہی تھی

اندر وہ اس کا جینا حرام کر رہی تھی

میری غلطی نہی تھی

میں نہی چاہتی تھی ایسا میرے ساتھ ہو۔۔"

م۔۔میں نے خواب دیکھا آپ اپنی مما کے کہنے پر مجھے۔۔"

وہ اس کے کندھے میں چہرا چھپائے بری طرح رونے لگی تھی

ہالہ میں نہی چھوڑ رہا۔۔"

اس کی وجود کی نرمی محسوس کیے وہ نرم پڑتے جھکتے اس کے بکھرے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھ گیا

بارش ہو رہی ہے۔۔"

وہ ہلکی لمیپ کی روشنی میں خجل ہوتے گلاس وال پر پڑتے پانی کے قطروں پر نظر ڈالتے ہنوز اسی پوزیشن میں پوچھنے لگی

مم۔۔"

وہ دھیمی بوجھل سی آواز میں بولتے اس کا سر کندھے سے ہٹاتے لیٹ گیا

وہ چند پل تکلیف سے دیکھتی رہ گئ وہ آنکھیں بھی موند گیا تھا


مختلف وسوسوں میں گھری وہ اس کے برابر میں لیٹتے اس کو کروٹ لیے دیکھتی رہئ

وہ بند آنکھوں سے نیند کی ناکام کوشش میں گہرا سانس کھینچ کہ رہ گیا تھا اس کے بلاوجہ کے خوف پر۔


--------------------------------------------------------


خود پر بھاری چیز محسوس ہوتے وہ اب آنکھیں کھولنے کی سعی میں تھی

شعوری کیفیت میں آتے اس کی گرفت سے نکلتے اس کا ہاتھ ہٹایا

جب وہ اسے مزید خود میں بھینچ گیا


صبح ہو گئ ہے۔۔"

وہ اس کی مضبوط گرفت میں ہی کروٹ لیے سائیڈ ٹیبل سے فون لیے پانچ بجے کا ٹائم دیکھتے تیکھے لہجے میں بولتے اس کو جتاتے بولی


ہمم پر آج سنڈے ہے بھول گئ ہو لہذا قریب رہو۔۔"

وہ بوجھل لہجے میں بولتے اس کے بالوں میں چہرا چھپانے لگا

وہ گہرے سانس لیتے اس کی سانسیں اپنی کندھے پر محسوس کرنے لگی تھی


نماز سے نہی ہے"

وہ اس کا ہاتھ ہٹا گئ

احان کی گرفت کمزور پڑی وہ موقعہ کا فائدہ اٹھاتے بند ہوتی آنکھوں سے دور جاتے اسے دیکھنے لگا


وضو کیے وہ تسلی سے نماز ادا کرنے لگی

وہ مسکریا اسے ہلکی روشنی میں سجدے میں جاتے دیکھ جب وہ اس سے ناراض ہوتی اس کو جگانے کی محنت ہرگز نہی کرنی پڑتی تھی


دعا مکمل کرتے وہ اسے واشروم سے وضو کیا چہرہ لیے دیکھتے نظر انداز کیے بالکنی کا دروازہ کھولتے باہر قدم بھر گئ


بارش ہوئ تھی۔۔"

آپ کی وجہ سے مس کر دی"

وہ ناراض سی خود سے بولتے

ٹھنڈی پانی کی بوندوں کو ریلنگ پر انگلی سے کئ لمحے محسوس کرنے لگی

صبح میں ہلکی رات کی سیاہی کی رمق تھی بادل بھی چھائے سے تھے

ٹھنڈی ہوا محسوس کرتے نیچے جھکتے بھیگا سا گارڈن دیکھا

دل نیچے جانے کو مچلنے لگا اچانک افتاد پر وہ بری طرح بوکھلائ تھی وہ کندھے سے کینچھتے اسے مقابل کرتے گھورنے لگا جو ریلینگ پر آدھی جھکی تھی

وہ رف سے حلیے میں سرخ ٹی شرٹ اور سیاہ ٹراوزر میں بھی عجیب کشش رکھتا کے وہ اس کے وجود سے نظریں چرا گئ



سیاہ ماربل پر دھرے اس کے سفید پاوں دیکھتے نظریں موڑتے اس کے ہاتھ کندھے سے ہٹائے تھے


اپنی تبعیت کیوں خراب کی تھی جانتی ہو نہ اپنی کنڈیشن۔۔۔"

مجھے تمہاری اس معاملے میں لاپرواہی نہی چاہیے بدلے میں جتنی محبت چاہیے ہے میری لے لو"

وہ کینچھتے اس کو سینے میں بھینچتے بولنے لگا تھا


مجھے نہی چاہیے" وہ آنسوں پر قابو پا رہی تھی


پر مجھے تو کرنی ہے نہ۔۔"

وہ مسکراتے اس کی مزاحمت پر گرفت مضبوط کیے تھوڑی اس کے سر پر ٹکائے آنکھیں بند کر گیا


میں آپ کی باتوں میں نہی آوں گی فری کی نہی ہوں۔۔"

مجھے نہی بات کرنی نہ مجھے بلانے کی کوشش کریں سمجھے ہر بار اپنی مرضی سے غصہ کرتے ہیں

وہ اس کے سینے پر دونوں ہاتھوں سے مکے برساتے کئ دفعہ کا دہرایا جملہ بولنے لگی


افسوس نازک ہیں بہت بلکل اثر نہی ان میں۔۔"

وہ اس کی بھوری خفگی بھری آنکھوں میں جھانکتے ہلکا پھیلا سا کاجل محسوس کیے انگلی آنکھ کے کنارے پر مار گیا

بے ساختہ اپنی نکاح سے پہلے کی خواہش آج پوری کرتے وہ نچلا گلابی لب دانتوں تلے دبا گیا

آہ نکال دیں میری آنکھ اب باہر جیسے ناک کے پیچھے پڑے ہیں"

وہ چہرہ موڑتے آنکھ مسلنے لگی جس میں وہ انگلی مارنے کا کام کر گیا تھا

تم اس سے ملنے کے لیے اسی لیے بے تاب تھی کیا ہوا تھا کل ایسا جو اس نے یہ بکواس کی"

وہ کندھے سے تھامتے رخ اپنی جانب کرتے یک دم بات بدلتے سنجیدہ سا تھا

ریحہ بھیگی پلکیں اٹھا گئ اس کے چہرے کے بگڑے تاثرات دیکھے

بتاو مجھے۔۔" وہ دوبارہ تیز لہجے میں بولا

اس کے سخت لہجے پر وہ بولنے لگی

کل لاونج میں بیٹھی تھی ازہان وہاں آ گیا ہم نارمل بات کر رہے تھے وہ میرا کزن بھی ہے"

وہ تمہید باندھ رہی تھی

بچپن ساتھ گزرا ہے ہم نے احان ایک گھر میں رہتے میرا اس سے سامنا ہو بھی جاتا ہے اس میں اشو بنانے کی بات نہی تھی پر وہ بلاوجہ شور ڈالتے بنا گئ"

وضاحت کیوں دی تم نے اسے۔۔"وہ سخت لہجے میں بات سنتے پھر سے بولا

وضاحت اس لیے دی کیونکہ میں چاہتی تھی کے وہ آپ کے سامنے کوئ بکواس نہ کرے جو بھی ہے مرد کے دل میں زرا سا بھی شک آ جائے وہ عورت پر کبھی نہ کبھی انگلی اٹھا دیتا ہے میں یہ ہرگز نہی چاہتی تھی۔۔"

وہ اس کو مزید آنسو بہاتے دیکھ قریب کرتے اس کے ہاتھ دونوں ہاتھ مضبوط ہاتھوں میں لے گیا

ریحہ مجھے تمہاری کبھی وضاحت نہی چاہیے لیکن تم نے جب میں واپس آیا تب بھی بات بتانا گوارہ نہی کیا بلکہ اس سے ملنے کے لیے بے تاب رہی"

ہمیں اس رشتے میں یقین والی محبت کرنی ہے شک والی یا ڈرنے والی نہی تم مجھے یقین دو میں تمہیں یقین محبت دوں گا

مجھ سے کبھی اپنی کوئ بھی بات نہی چھپایا کرو سمجھی"

اس نے یقین میں ڈوبے سکون زدہ لفظ ادا کرتے ہی اپنی محبت بھری مہر اس کے ماتھے پر ثبت کی جو اس کی روح تک کو سکون زدہ کر گئ تھی

پتہ ہے مجھے فضول باتوں پر روتی لڑکیاں بلکل اچھی نہی لگتی مجھے غصہ آتا ہے جیسے کے تم کل سے یہ فضول حرکت کر رہی ہو۔۔"

اس کی سرخ آنکھوں پر لب رکھتے وہ ماتھا اس کی پیشانی سے ٹکرا گیا

حان آنسو تو آ جاتے ہیں نہ خودی۔ "وہ خفگی سے بولی

کل میری تبعیت خراب ہوئ تھی

آپ آئے بھی نہی۔۔"

فون بند تھا نہ سگلنز پرابلمز کی وجہ سے"

بارش کے ننھے قطرے چہرے پر محسوس ہوتے وہ دھیمی سرگوشی کرنے لگا

ہماری ساتھ میں پہلی بارش۔۔"

اب تو ناراضگی ختم کر لو

اس کے سفید دوپٹے کی حجاب کی گرہ تک ہاتھ لے جاتے وہ کھول گیا

ڈھیلے جوڑے کی زد میں بندھے لمبے سیاہ بال اس کی کمر پر بکھر سے گئے

آپس کی بات ہے ریحہ ایک بات تو بتاو لیکن سچ ہو۔۔۔"

وہ لب دبائے اس کی الجھی سانسیں اپنے دل کے قریب محسوس کرنے لگا

کیا۔۔؟

وہ چپل سے پاوں آزاد کرتے گیلے فرش سے سکون محسوس کرتے بولی

یہ اصلی ہیں۔۔"

وہ مسکراہٹ ضبط کرنے کے چکر میں چہرا جھکائے سر اس کے کندھے پر رکھ گیا۔۔"

حان۔۔۔"

وہ اس کے بالوں کو اپنی دونوں مٹھیوں میں لیتے چیخی تھی

جی حان کی جان ۔۔"

وہ سر سیدھا کرتے اس کی دونوں مٹھیاں اپنے بالوں سے نکالے چوم گیا اس کی حرکت پر اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری ہی تھی پر وہ پھر سے شدید غصہ دلا گیا تھا

سوچ لو ابھی بھی کہیں بارش کا اثر تمہارے بالوں میں چھپی ایکسٹینشن پہ نہ ہو جائے۔۔"

باقاعدہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے قہقہ لگا گیا تھا وہ

اسے غصے سے دھکہ دیتے دور ہوتی کے

آہ۔۔" پھر سے اس کی گرفت میں تھی جو اس کے بال نرمی سے مٹھی میں تھامے اسے خود کے ساتھ اب زور آور بارش میں بھگا رہا تھا

بات نہی کر رہی میں دور ہو جائیں۔ "

وہ انگلی سے وارن کیے اس کے ہاتھ اپنے بالوں سے ہٹا گئ

پر میں چاہتا ہوں احان کی ریحہ اس لمحے احان کو ٹائم دے"

وہ اسکے بھیگے سراپے کو نظروں میں اتارے سرخ عارض گندمی تیکھے نقوش والا چہرا دیکھتے خود میں سما گیا تھا

احان فضول میں مجھ سے ناراض نہی ہوا کریں"

وہ آسودگی سے آنکھیں بند کرتے ان لمحوں کا سکون خود میں اتارنے لگی

پرامس۔۔"

اس کی کمر پر گرفت کیے وہ اسکے چہرے کے نقوش کو برستی بارش میں محسوس کرنے لگا

وہ سوچ رہی تھی کے وہ اس سے ڈھیر سارا ناراض رہے گی پر اس کے قریب آتے ہی اس کے سارے دعوے دھرے رہ جاتے

اس لمحے اس کے لب مسکراتے جا رہے تھے جس کی محبت کی نرمیاں وہ اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی

-----------------------------------------------------

خوشبو محسوس کیے وہ جاگی وہ ڈریسر کے سامنے کھڑا پرفیوم سپرے کر رہا تھا

وہ گہرا سانس کینچھتے اس کی خوشبو خود میں اتارنے لگی

مارننگ۔۔"

آپ کا پرفیوم مجھے اچھا لگتا ہے حالانکہ مجھے الرجی ہے پر شائد اس کی عادت ہو گئ ہے۔۔"

وہ بستر پر بیٹھی بال باندھتے بند آنکھوں سے بول رہی تھی

غازیان نے چونک کے اس کی جانب دیکھا تھا جو آنکھیں بند کیے روم کی فضا میں گہرے سانس کھینچ رہی تھی


وہ رات کو سوچنے لگا عجیب ری ایکشن تھا اس کا۔۔"


بستر سے نکلتے وہ واشروم جاتی جب اس کی آواز نے قدم جھکڑے


مما کے پاس چلی جانا دن ان کے ساتھ اچھا گزارنا وہ کچھ دن ہی رہیں گی یہاں۔ "

حلق میں چھبن سی ہوئ وہ روم کے اندر بنا روم انلوک کرتے بتا نہی سمجھا رہا تھا شائد


وہ مجھے ناپسند کرتی ہیں۔۔"

اسے خواب یاد آنے لگا دل میں وسوسے جاگے تھے


کسی کی پسند بننا مشکل نہی ہوتا۔۔۔"

سب سے بڑا ہتھیار زبان ہے آپ کے پاس جتنی مٹھاس اور اپنائیت لاو گی لہجے میں اگلا بندہ خود آپ کا گرویدہ ہو جائے گا"

وہ اسکی پشت اس روم میں غائب ہونے تک دیکھتی رہی اور سر ہلاتے واپس کبرڈ کی جانب پلٹتے اپنا اچھا ڈریس نکالا تھا اور واشروم کی جانب چلی گئ تھی


بیس منٹ بعد وہ شاور لیے ڈریسر کے سامنے تھی وہ بیڈ پہ بیٹھا فون اور فائیل سامنے رکھے ہنوز مصروف تھا

جان بوجھ کے بلیو پہن کے نکلی تھی مسکراتے لبوں سے اپنے بال ٹاول کی زد سے آزاد کیے جو اب کندھوں سے نیچے تک جاتے تھے


پانی کے قطرے خود پر پڑتے محسوس کرتے وہ گلاس وال بند دیکھنے کے بعد اس کی موجودگی سے انجان سا اتنا مصروف تھا کے وہ سمجھا تھا کے بارش اندر کیسے آگئ

جب اس کو شیشے سے خود سے مسکراتے دیکھ ابرو اچکا گیا وہ خود میں اتنی مصروف تھی کے اندازہ نہی تھا کے وہ اب اسے دیکھ رہا ہے

وہ فائل میں بزی ہوا کے پھر اس کے بال جھٹکنے سے مٹھی بھینچ گیا تیکھی نظر اس کی نازک کمر سے بھیگتی شرٹ پر تھی

جہاں بالوں سے نکلتے قطرے اس کی شرٹ میں جزب ہو رہے تھے

نور پیچھے ہو جاو یا دور ہو جاو یہاں سے ڈسٹرب کر رہی ہو مجھے۔۔"

وہ ٹاول نیچے کیے چونکی تھی جو سخت لہجے میں بولتے اس پر گہری سخت نظریں جمائے تھا

میں کہاں جاوں روم میں ایک ہی ڈریسر ہےدوسرے روم میں آنٹی ہیں"

وہ اس کی جانب رخ کرتے پریشانی سے بولنے لگی اس کی بھیگی پلکیں سیاہ بڑی آنکھوں پر اٹھتے گرتے نظر اس کی گردن سے چہرے پر تھی جس پر پانی کے قطرے واضع تھے وہ نکھرے سراپے سے گہرے نیلے رنگ کے کھلے کرتے کے باوجود اسے خود کی جانب متوجہ کر رہی تھی

تم نہی جا رہی۔۔"

اس کی نظریں خود میں اترتی محسوس کرتے وہ بامشکل بولی

میں واشروم کے مرر کے سامنے چلی جاتی ہوں۔۔" وہ پریشان سی انجان بنتے گزرتی کے وہ اس کا ہاتھ تھامتے خود کی جانب کھینچ چکا تھا

کے وہ اس افتاد پر بامشکل چیخ کا گلا گھونٹے اس کے کندھے سے لگی تھی

اس کے لمس سے وہ ساکت اس کے کندھے سے لگی رہی آج کتنے دنوں کے بعد وہ اس کے پاس آ رہا تھا وہ ہلنا بھی نہی چاہتی تھی

پر بے ہنگم سانسوں کیا کرتی جو اس کے قریب آنے سے ہو گئ تھیں

تم مجھے مشکل میں ڈال رہی ہو۔۔۔"

پیچھے ہو مجھے جانا ہے"

وہ اس کے سحر سے نکلتے اسے پیچھے کرتا کے وہ نا سمجھی کے عالم میں تھی

گہری خاموشی میں بس دونوں کی سانسیں تھیں

اپس سوری"

وہ سیدھی ہوتی کے اندر آنے والی بھی بوکھلائ تھی

وہ فوری دور ہوئ تھی

آہ۔۔" اس کے بال اس کی شرٹ کے بٹن میں بری طرح الجھ سے گئے

کیا مسلہ ہے پیچھے کیوں نہی ہو رہی۔۔"وہ سخت لہجے میں بولا

ہو گیا۔۔"

وہ ایک آنکھ سے ہاتھ ہٹاتے بولی کے نور سرخ سی خجل ہو گئ تھی

او خاصی فلمی سچویشن ہے وہ رخ موڑے ہنسی دبانے لگی

نور۔۔۔"

اس کی تیز دھاڑ پر وہ نم آنکھوں سے زور زور سے الجھے بال کھینچنے لگی تھی غلطی بھی اس کی تھی کیوں اس کو کھینچا تھا بے بسی سے رونا آنے لگا تھا

وہ دیکھتے اور معاملہ سمجھتے گہرا سانس بھر گیا

آرام سے میں نکالتا ہوں۔۔"

نرمی سے ہاتھ ہٹاتے اس کی روئ آنکھیں دیکھتے نکالنے لگا

اس کے چہرے کے رنگ دیکھتا رہاجو اب بوکھلائ سی دوپٹہ دیکھ رہی تھی جو آدھا اس کے کندھے پر اور آدھا اس کے نیچے تھا

اسے بے بس نظروں سے دیکھے گئ جو سمجھتے بنا دیر کیے فوری اس کے حوالے کر گیا

بندہ دروازہ بند کر سکتا ہے۔۔"

تمہیں بھی مینرز ہونے چاہیے"وہ دانت پیستا رہ گیا تھا سچویشن اکورڈ ہی تھی

میں یہ دیکھو آج سپیشل ون کے لیے سپیشل کوفی لائ تھی

وہ اسکے بیڈ پر بیٹھ چکی تھی نور نے ٹھٹھک کر دیکھا تھا وہ اس کے نزدیک تھی

تھینکیو بٹمیں لیٹ ہوں"

وہ اٹھتا کے اس کا ہاتھ تھامتے اسے آگ لگا گئ تھی اتنا استحاق تو اس نے نہی دکھایا تھا اور ابھی اس پر کتنا غصہ بھی کر گیا تھا

یا اللہ یہ پینے سے نہی ہو گے پیو فاسٹ تمہیں کولڈ کوفی پسند تھی نہ

نور تمہاری آئسکریم یوز کی ہے"

وہ اسے مزے سے بتا رہی تھی

موسم بھی اچھا کوفی بھی مزے کی۔۔"

جب تک یہاں ہوں بندہ عیش کرے۔۔"

فائن دو۔۔"

وہ مسکراتے گھونٹ بھرنے لگا

اسے اپنا آپ وہاں بے معنی لگنے لگا تھا ان دونوں کی باتوں میں

اس کے جانے کے بعد وہ کئ لمحوں تک ان لمحات میں تھی

کمر پر ویسے ہی الجھے بکھرے بھیگے بال اب خشک ہو گئے تھے

نور تم غصہ ہو مجھ سے۔۔"

آئرہ اس کے ساتھ جگہ بناتے بیٹھی

وہ صبح سے اس کا اکھڑا رویہ دیکھ رہی تھی پہلے تو وہ کافی ٹائم سٹور روم میں رہی تھی جو اندر سے لوکڈ تھا

بشرا کے بتانے پر اسے پتہ چلا تھا اس نے نوک بھی کیا پر اس نے نہی کھولا

آئرہ تم نے اسے بتایا نہی کیسے یہ تمہارے حق پہ ڈاکہ مارے بیٹھی ہے"

مانی۔۔"

اس نے تنبیہ کی تھی جبکہ وہ دونوں کی جانب انجان سی دیکھ رہی تھی

اس کی اگنورنس دیکھی ہے اسی لیے مجھے تم بہو کے طور پر چاہیے تھی جو میرا ادب کرے لیکن یہاں تو سب الٹ ہے

وہ اس کی زات میں لگا داغ ہونے کے باوجود بھی اسے پتہ نہی کیوں مہارانی بنائے بیٹھا ہے

اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے مطلب اس کا راز وہ اس لڑکی کے سامنے بھی کھول چکی تھیں

وہ مزید کچھ بولتی کے وہ برداشت ختم ہوتے کھڑی ہو گئ تھی

پلیز خدا کے لیے معاف کر دیں مجھے آنٹی میں نے اس کی منتیں نہی کی تھی مجھے اپنائے"

وہ آنسو بے دردی سے رگڑتے وہاں سے نکلتے باہر آ گئ

مانی آپ کو میرے سامنے بات نہی دہرانی چاہیے تھی اس کا قصور نہی ہے"

وہ اس لڑکی کی غیر ہوتی حالت سوچتے افسوس سے وہاں سے اٹھے بولی تھی

ایک دن میں مجھے صرف چند لمحے سکون محسوس ہوتا ہے پھر سے مجھے وہی لے آتے ہیں سب"

مجھے یہاں نہی رہنا مجھے بابا کے پاس ہی جانا ہے"

وہ لڑکھڑاتے قدموں سے چھت پر آ گئ تھی

نیچے ہرگز نہی جانا چاہتی تھی جہاں اس کی ماں اس کی زات کی تزلیل کر رہی تھی

سپیشل کوفی فار سپیشل ون۔۔"

یہی وہ لمحہ تھا جب اسے اپنے بیڈ روم میں اس کے قریب دیکھتے نور کا دل چاہا تھا سامنے موجود لڑکی کی نظریں نوچ لے"

جو اس کو بغیر استحاق کے دیکھتے اس کے دل کو سلگا رہی تھی

تمہیں سرپرائز کرنا چاہتی تھی میں

پر وہ مجھ سے دور ہو گیا

اسے میری ضرورت بھی نہی اب"

مجھے کیوں اپنایا تھا پھر رقابت محسوس کرتے اس کی آنکھیں اس لمحے اس منظر کو محسوس کرتے جل سی رہی تھیں

گھٹنوں میں سر دیے وہ مسلسل رو رہی تھی

سب ختم ہوتا سا محسوس ہو رہا تھا

اپنی سانسیں بھی رکتی محسوس ہوئیں تھیں

پچھلے دس دن سے وہ اس کے قریب آنا چاہتی تھی

جب وہ ہر رات کروٹ کیے اس کے قریب ہونے کے بعد بھی اس سے دور ہوتا رات بھی وہ کتنا برا ڈری تھی پر وہ پھر بھی اس سے دور رہا

وہ اس کا خوف دور کرتے اس سے دور ہو گیا تھا اسے اپناتے اس سے دور ہو گیا تھا پچھلے کتنے مہینوں میں اس کے سنگ گزارا ایک ایک لمحہ اس کی نظروں کے سامنے تھا

کم اون بیوی میرے بازو وا ہیں۔۔"

trust me i don't leave u at any cost"

میری وارڈ روب کا ایک حصہ ہمیشہ تمہارے لیے خالی ہے"

بند آنکھوں میں آنسووں کی روانی میں اس کے لفظ گونجتے جا رہے تھے

میں تمہاری زندگی میں وہ شخص بننا چاہتا ہوں جس کے کندھے سے لگ کر تم سارے غم بھلا دو"

اپنی تھوڑی چھوئ تھی یہاں اس نے اس لمحے لمس چھوڑتے اس رشتے سے واقفیت دلائ تھی

کبھی ہم پہ بھی نظر کرم کر دیں"

اس کی پرشوق نظریں کہیں نہی تھیں ۔

کیا شاور لینا ہے

میں ریڈی ہوں دوبارہ لینے کو۔۔"

وہ سر تھام گئ تھی

نہی کچھ کر رہا تھپڑ یاد ہے

نور۔۔" وہ اس کے پاس بیٹھ گ تھی

وہ آنسو رگڑتے سوچوں کی گردان سے نکلتے اس کی موجودگی پر غصے سے چہرہ موڑ گئ

صبح کتنی پیاری لگ رہی تھی۔۔" وہ اس کا چہرا اپنی جانب کرتے نرمی سے بولی

میری زات میں موجود داغ میری خوبصورتی کو ظاہر نہی ہونے دیتا۔ "

وہ اسکا ہاتھ بری طرح جھٹک چکی تھی

اس نے بتایا نہ تمہیں

میرا راز نہی رکھا مجھے رسوا کیا اس نے وہ کہتا ہے کے مجھے نہی چھوڑے گا پر یہ اس کی ماں اس سے مجھے دور کر دے گی

میں اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔۔"

میں سکون چاہتی ہوں

میری غلطی نہی تھی۔۔"

تم اسے پسند کرتی ہو تمہاری آنکھیں۔۔" وہ اسے خوفزدہ دیکھنے لگی وہ نظریں چرا گئ تھی

اب تم بھی اسے چھین لو گی مجھ سے

میرے پاس کچھ بھی نہی رہے گا آئرہ۔۔"

وہ بے آواز روتی جا رہی تھی

نہی نور میری صرف یک طرفہ محبت ہے اسے تو پتہ بھی نہی ہے مانی چاہتی تھیں کے ان کے بھائ کی بیٹی ان کی بہو بنے

لیکن بابا کبھی بھی ایک شادی شدہ مرد کو اپنی بیٹی نہی دیں گے پھر چاہے وہ ان کا قابل اور آئیڈیل بھانجا ہی کیوں نہ ہو

وہ مجھے لائ بھی یہاں اسی لیے تھی لیکن یقین کرو جو تمہارے گھر کو خراب کرنے کا سوچا بھی ہو میں ایک عورت ہو کر کیسے ایک عورت کا گھر برباد کر سکتی ہوں

اور مجھے محض اپنی محبت کے لیے ایک بٹا ہوا شخص نہی چاہیے"

بلکہ ایسا شخص چاہوں گی جو مجھ سے محبت کرے چاہے پھر وہ میری محبت نہ ہو

وہ اس کا ہاتھ تھام گئ تھی


وہ شادی نہی کرنا چاہتا تھا اپنے ماں باپ کی وجہ سے۔ "

وہ ہمیشہ اکیلا رہا ہے نور اپنے خول میں سمٹا کبھی بہت پولائیٹ تو کبھی بہت روڈ

وہ اسے بتا رہی تھی پر وہ رونے میں مصروف تھی

تم خود اسے خود سے دور کر رہی ہو۔۔"

میں نہی جانتی تمہارے ریلیشنشپ کے بارے میں مگر تمہیں اس کے چھوڑنے کا خوف کیوں ہے جب وہ تمہاری خامی سمیت تمہیں اپنا گیا کیا تم ابھی بھی اپنے ریلیشنشپ میں نارمل نہی ہوئ"

وہ سرخ روتی نظریں اس لمحے چرا گئ تھی

او مائے گوڈ مطلب تم۔۔"

وہ اس کی نظریں چرانے سے حیران ہوئ تھی

نور میں جانتی ہوں تم جس فیز سے گزری ہو وہ ناقابل بیان ہے

لیکن تمہیں یہ سٹیپ لینا ہو گا اپنی جگہ مضبوط کرنے کے لیے تاکہ مانی ایسا کوئ قدم اٹھا ہی نہ سکیں اور غازیان وہ بھی کب تک برداشت کرے گا جب مرد کو گھر سے سکون نہ ملے تو باہر سکون کے زرائع ڈھونڈھتا ہے"

اور مانی کو قائل کرنا سیکھو میں یہ نہی کہہ رہی تم بدتمیزی کرو لیکن اپنے اور اس کے درمیان قائم رشتے سےاحساس دلاو کے وہ تمہارا شوہر ہے وہ تمہیں اس سے علیحدہ نہی کر سکتیں

وہ اس کا ہاتھ تھامتے سمجھا گئ تھی وہ اس کی باتوں کے مطلب سمجھتے مزید خوفزدہ ہو گئ تھی اس بارے میں تو وہ ابھی بھی اتنی سیریس نہی تھی وہ تو اس سے اچھا بولنا اور رونا دھونا نہ کرنا اسی کو اپنے رشتے کا اگلا مضبوط قدم سمجھ رہی تھی

تم صبح کوفی دینے کی وجہ سے ناراض تھی مجھ سے"

وہ نارملی بات بدل گئ تھی وہ خیالوں سے نکلی

جی۔۔" وہ شرمندگی سے کہتے نظریں جھکا گئ

وہ دیکھتی رہ گئ وہ اس کا نصیب بن چکا تھا وہ آئرہ سے کم از کم پانچ سال چھوٹی تھی وہ اس کی جلن سوچتے مسکرا گئ

چلو دوست بنا لو۔۔"

سوتن تو تم بنا نہی رہی اب" آخری بات وہ شرارت سے بولی تھی

وہ گھور کے رہ گئ

او واو یار نور کو شدید والا غصہ بھی آتا ہے"

وہ اس کو ہسانے کی خاطر گدگدی کرنے لگی

نو آئرہ نہی کریں۔۔" اس لمحے اس کی کھلکھلاہٹ گونجی تھی

سٹوپ آئرہ پلیز۔۔۔" وہ ہستے لوٹ پوٹ تھی کے آنکھوں میں پھر سے تیزی سے نمی بھرنے لگی تھی

کیا ہوا اب۔" وہ پریشان ہو گئ تھی

تھینکیو آپ اچھی ہیں۔۔"

میں آج عرصے بعد مسکرائیں ہوں

وہ اس کے کندھے پر سر رکھتے رندھی آواز بولی

My pleasure..."

اوئے تمہیں مجھ سے کہی غازیان والی فیلینگ تو نہی آ رہی"

اس کو یونہی کندھے سے لگے دیکھتے مسکراتے بول گئ وہ فوری سے اس کے نام پر تیز دھڑکن میں سر اٹھا گئ تھی

نور بلش کر رہی ہے"

وہ اس کا سرخ ہوتا چہرہ مہبوت زدہ ہوتے دیکھنے لگی کے وہ مزید حسین ہو گئ تھی

اس پر بلیو سوٹ کرتا ہے"

غازیان کی بات اس کے زہن میں اس لمحے آئ تھی

اچھا اب بتاو سٹور روم میں کیا کر رہی تھی۔۔"

کنویکس پہ اسے اتار رہی تھی کل سرپرائز کرنا تھا اسے"

وہ نظریں جھکائے بولی

آہا مطلب تم روتے ہوئے اس کا پوٹریٹ بنا رہی تھی۔۔"

وہ اس کے چہرے کے انوکھے سے رنگ دیکھتی جا رہی تھی

تھوڑا سا رہ گیا بس کافی ٹائم بعد آرٹ کی ہے نہ۔۔"

اوکے تو اسے آج ہی ختم کرو اور رات میں اسے سرپرائز کرو۔۔"

نہی آج کیسے۔۔"

کیوں نہی یار اٹھو میں ہیلپ تو نہی کرا سکتی پر تمہیں بک اپ تو کر سکتی ہوں۔۔"

نیک کام میں دیر نہی۔۔" وہ معنی خیز لہجے میں بولی کے وہ اس کے زکر پر سمٹتی رہ گئ تھی

---------------------------------------------

اس کے ساتھ گارڈن میں آہستہ قدم بھرتے اس کے ساتھ واک کر رہی تھی آج پورا دن اس نے اس کے ساتھ ایک خوشگوار سا گزرا تھا موسم کی خوشگواریت اس کی روح تک کو اس کے سنگ پرسکون کر رہی تھی

جو اس کے ساتھ جانے کونسی باتیں کر رہا تھا اور وہ بس مسکرائے جا رہی تھی

اتنے اچھے آپ ہیں تو نہی تھے آپ کو تو بارش بھی نہی اچھی لگتی تھی۔۔"

بلکہ ایک کونے میں بلی کی طرح خوفزدہ سے کھڑے ہوجاتے تھے

وہ اس کی جانب دیکھتے بولنے لگی

ٹائم ٹائم کی بات ہوتی ہے انسان کو اپنا ٹیسٹ چینج کرنا چاہیے"

وہ سنجیدہ سا بولتے اچانک سے اس کی کمر جھکڑتے نظریں اس کے لبوں پر جماتے بولا

باز آئیں۔۔" وہ اس کے بدلتے تیور پر کندھے پر مکہ مار گئ تھی

خودی تو پوچھا آپ پہلے ایسے نہی تھے اب تمہیں ٹیسٹ کی بات بتا رہا تھا تو تم۔۔"

وہ اس کے ماتھے پر لب رکھتے گھمبیر لہجے میں بولا

کوئ یہ منظر دیکھتے خاکستر ہو رہا تھا

بے بی آپ کے بابا بہت اچھے ہوتے جا رہے ہیں مجھے یقین نہی آ رہا ہے یہ وہی اٹینشن سیکر ہے جسے مجھے کبھی ڈانٹنے کا بہانہ چاہیے ہوتا تھا۔۔"

وہ اس کے کندھے پر سر رکھتے مسکراتے بول گئ تھی

پر بے بی کی مما بلکل بھی نہی اچھی مجال ہے جو کبھی ایسی حرکت کر کے بابا کو خوش کر دیں"

وہ خفگی بھرے لہجے میں بولا

کیونکہ یہ ڈیپارٹمینٹ آپ پہ ہی سوٹ کرتا ہے"

وہ نفی کیے مسکرانے لگی تھی

اس لمحے وہ ہاتھ میں تھاما فون نیچے دیکھتے ڈائل لسٹ کھولتے نمبر ملاتے فون کان سے لگا گئ

میں آپ سے ملنے کے لیے تیار ہوں

کل ڈیٹیل میں بات ہوتی ہے وہ سامنے کا منظر دیکھتے بولی تھی

میں نے ایسا نہی سوچا تھا پر وہ مٹھی دبا گئ تھی

میرا سکون برباد کر کے

تم بھی خوش نہی رہ سکتی ہرگز نہی۔۔۔"

وہ زہر خند نظروں سے دیکھتے اپنی تکلیف دبائے ٹیرس سے نیچے چلی گئ تھی

وہ خود کو شیشے میں دیکھتے جھینپ گئ تھی

آئرہ یہ کچھ ز۔۔ زیادہ ہے"

نہی زیادہ پرفیکٹ۔۔"

وہ انگوٹھا اور دونوں انگلیاں ملاتے مسکرا گئ

وہ کمرے پر طائرانہ نگاہ ڈالتے خوابناک ماحول سے نظریں چراتے اپنے حلیے کو دیکھتے سن ہوئ اتنا تیار بس وہ شائد اپنی شادی پر ہوئ تھی مگر تب خود کو دیکھنے کی فرصت کہاں تھی

ڈارک بلیو پیروں کو چھوتی سمپل فراک سی جس کے آستین پورے تھے

گہرے آگے پیچھے کے گلے سے دوپٹے کے بغیر اس لباس میں اسے آئرہ سے بھی شرم آ رہی تھی جو خاصہ فٹنگ میں تھا

ڈن۔۔"

وہ اس کا چہرہ خود سے کلینزنگ کی پروڈکٹس یوز کرتے سنوار گئ اتنا ٹائم نہی تھا وہ سیلون چلی جاتی اس کے رف سے بال کاٹتے نیچے سے برابر کر گئ تھی جو اب سٹریٹ کیے کندھے اور کمر پر بکھرے اس کی پشت کے گہرے گلے کو چھپا گئے تھے

نور ایک بات ہے تمہارے بلیو ڈریسس بہت ہیں کہی تم اس کی پسند سے واقف تو نہی تھی۔۔"

وہ اسے مسکراتے چھیڑ گئ وہ بری طرح سٹپٹائ تھی

نہی یہ محض اتفاق ہے۔۔"

وہ ایئر رنگ پہنتے بولی یہ سب تو اس کا دل ہی نہی چاہتا تھا کرنے کو مگر اب وہ اس کے لیے سجتے وہ شرما رہی تھی دل کی کیفیت عجیب سی تھی

سرخ لپسٹک سے سجے لب مسکارے سے سجی بوجھل پلکیں وہ سادہ فراک پر صرف کانوں میں جھمکے پہنے تھی

تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔"

وہ تو آج گیا کام سے"

وہ اس کا جائزہ لیتے آنکھ مارتے بولی

وہ دھڑکتے دل اور بھیگتی ہتھیلیوں سے وقفے وقفے سے اس کے جملے ڈریسر کے سامنے کھڑی سن رہی تھی

میں جاوں۔۔" اس پر مسکراتی نظر ڈالتے وہ اسے چھیڑ گئ

نور نے سٹپٹاتے گھڑی پر نظر ڈالی جہاں دس بج گئے تھے آج وہ صرف اس کے لیے خود کو سجائے اس کے انتظار میں تھی

آئرہ نہی جاو ابھی۔۔"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے عجیب ہی بول گئ

آہ بدھو میں یہی تم دونوں میں رہوں۔۔"

اور تمہارے کینڈل لائٹ ڈنر میں اپنے سنگل ہونے کا دکھ مناوں"

اس کی پہلی بات پر جہاں وہ سن تھی آخری بات پر ہائ لائٹ کیے گال مزید سرخ ہو گئے تھے

یار میرا جانا ضروری ہے ورنہ مانی نے مجھے ڈھونڈتے تمہارے روم میں آ جانا پھر مزید کوئ دمزگی ہو۔۔"

سمجھ رہی ہو نہ"

وہ اس کا ہاتھ دباتے بولی نور کاحلق تک کڑوا ہو گیا تھا

وہ اس کے جاتے گہرا سانس کھینچتے خود کو نارمل کرنے لگی سنگل سٹریپ والی ہائ ہیلز سے اس کے پاوں تھک گئے تھے

وہ بیڈ پر بیٹھی فون کھولے ویڈیوز نکالنے لگی

اور شوہر کو منانے کے کچھ طریقے دیکھنے لگی

ہش یہ سب میں نہی کر پاوں گی"

وہ ہر ویڈیو دیکھتے سرخ ہوتی جا رہی تھی

کے اچانک گاڑی کے ہارن سے اس کے ہاتھ سے فون چھوٹتے زمین بوس تھا

آہ نور نہی بی کونفیڈینٹ۔۔" وہ خود کو ہمت دیتے اسی پوزیشن میں رہی

وہ اندھیرے لاونج سے اپنے روم کے ساتھ والے روم میں ٹھہری اپنی ماں سے ملنے چلا گیا

نوک کیے وہ اندر بڑھا

آئرہ نوک کرنے سے فون استعمال کرتی کراون سے ٹیک لگائے سیدھی ہو بیٹھی تھی


مما سو رہی ہیں۔۔"

اور مجھ سے ناراض بھی ہیں

وہ ان کے چہرے پر نظر ڈالنے لگا جو ناراض ناراض سا تھا


مانی تم سے ناراض نہی ہو سکتی۔۔"

آئرہ نے اس کا جائزہ لیتے مسکراتے بات ٹالی تھی


ہوئ ہیں۔۔۔"

وہ ان کے ہاتھ کا تھامتے ہونٹوں سے لگانے کے بعد آنکھوں سے لگا گیا

اسی لمحے ان کے اندر ماں والی محبت جاگی وہ سونے کا ڈرامہ کرتیں پٹ سے آنکھیں کھول گئ


ماں اولاد جو بھی کر لے صبر ہی کر سکتی ہے"

وہ پہلے اٹھتے ہی اسے جتا گئ تھیں


کھانا کھایا آپ نے۔۔"

وہ ان کے چہرے کو دیکھتے نرمی سے بات بدل گیا


تمہاری بیوی نے کبھی ڈائینگ پر ہمارے ساتھ بیٹھنا گوارہ نہی کیا ملازمہ ہمیں سرو کرے نہ کرے مگر وہ بچی بنی اتنی ناسمجھ نہی ہے جتنی بنتی ہے اتنا خیال تو ہونا چاہیے نہ خود وہ ہمیں دیکھنا تک گنوارہ نہی کرتی ملازمہ سے اپنا کھانا روم میں منگوا لیتی ہے

وہ زہر خند ہوتے بول رہی تھیں ویسے ہی اس کے چہرے کے تاثر بدل رہے تھے وہ اسے سمجھا کے بھی گیا تھا مگر وہ لڑکی غازیان اپنا اشتعال دبانے لگا


مانی ایسا نہی ہے۔۔"

وہ بس تھوڑی شائے ہے"

آئرہ نے صورتحال سنبھالی کم ازکم آج وہ کوئ بھی بدمزگی نہی چاہتی تھی


بتانے دو مجھے آئرہ وہ اس کو دیکھتے تنبیہ کر گئ تھیں


آج تو اس کی بدتمیزی کی انتہا تھی

جانتے ہو کیا کہا میں نے اس کی منتیں نہی کی تھیں مجھے اپنائے مطلب تم زبردستی اس کو باندھ کے رکھے ہو مجھے تم پر قہر آتا ہے میری اکلوتی اولاد جس کی شادی کے مجھے اتنے ارمان تھے بلکہ ہر ماں کو ہی بیٹوں کے ارمان ہوتے ہیں

جو بھی ہے اپنا رویہ تو کم از کم درست رکھے مجھ سے میں کونسا یہاں صدیاں رہنے والی ہوں

جبکہ مجھے منہ توڑ جواب دیتے تن فن کرتی وہ چلی گئ

وہ اپنے جلتے دل کا سارا غبار نکالتے اس کو آتش فشاں بنا رہی تھیں


ایسی بات نہی ہے غازیان مانی آپ نے بھی آج اچھا نہی کیا تھا

جبکہ وہ وہاں سے بغیر سنے اشتعال میں ہی اٹھ گیا تھا


مانی۔۔" وہ صدمے میں تھیں جو بیٹے کے سامنے اپنی مظلومیت کے رونے رو گئ تھیں

بحرحال وہ اس کے پیچھے نہی جا سکتی تھی پر نور کو وہ سمجھ جائے اس چیز کی وہ دعا کر گئ تھی

دھاڑ سے دروازہ کھلنے کی آواز سے وہ دھڑکتے دل میں تھی

جو اس لمحے اندازہ نہی کر پا رہی تھی وہ اتنی دیر بعد کہاں سے آیا ہے وہ آنے والے طوفان سے بے خبر ہی تھی

روم کے ڈریسر پر جلتی بجتی کینڈلز کی روشنیاں اور گلاس وال کے نزدیک پڑے ٹیبل پر پڑی کینڈلز سٹینڈ پر جلتی کینڈلز اور دھیمی سی پرفیوم کی خوشبو سے اس کا سامنا ہوا

وہ بیڈ پر بیٹھی اس کی جانب پشت کیے ہنوز فون میں مصروف رہی یہ اسے مزید آگ لگا گیا تھا

کیا حرکت ہے یہ۔۔"

فون اس کے ہاتھ سے چھینتے وہ اس کا سجا سنورا دلکش روپ بغیر دوپٹے کے دیکھنے لگا

اس کی آنکھوں میں شرارے سے پھوٹنے لگے تھے

غازیان۔۔"

اس کی حرکت پر وہ سہمی سی بوکھلائ تھی

جب وہ اس کی کلائ جھٹکے سے کھینچتے اپنے برابر کر گیا

ہیل کی وجہ سے بامشکل خود کو سنبھالتے ایک ہاتھ سے اس کی کمر سے شرٹ مٹھی میں لے گئی جبکہ

دوسرا ہاتھ اس کی بازو کا سہارا لیے تھا وہ خوفزدہ ہو گئ تھی جو سیاہ شکن زدہ شرٹ میں سرخ آنکھوں سے اپنی جھلسا دینے والی سانسوں سے اسے روبرو کیے تھا

یہ سب تماشے کیا ہیں۔۔"

وہ دھاڑا تھا نور کو اس کی انگلیاں اپنی کمر میں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں

تمہیں اثر نہی ہوا تھا آج وہ میری ماں ہے نور

میں تمہاری اگنورنس اور بکواس برداشت کر لیتا ہوں کافی نہی ہے کیا۔۔"

اس کے مقابل بامشکل کھڑی تھی جو اپنے لہجے اور پکڑ سے خاصی تکلیف دے رہا تھا

یو ہرٹنگ می غازیان۔۔"

لیو۔۔" وہ اس کی گرفت میں مچلتے خوفزدہ ہونے لگی تھی

تم تکلیف میں نہی ہو میں ہوں سمجھی

تم تو سکون میں ہو۔۔"

اس کے چہرے پر نظر پڑتے وہ اس کے سرخ لب انگوٹھے سے مسل گیا کے وہ ہراساں سی اس کا عمل سہن کرنے لگی

ہ۔۔ہوا کیا ہے م۔۔میں نے کیا کیا ہے غاز آئ ڈونٹ نو۔۔"

مجھے بتا دیں پلیز میری غلطی۔۔"

وہ خوفزدہ سی بولی

غلطی۔۔" وہ اپنی پکڑ میں اس کے سراپے پہ گہری نظریں ڈالتے اسے مزید خوفزدہ کر گیا

چھوڑیں مجھے۔۔" وہ ٹوٹتے لفظوں میں

اپنی کمر اس کی گرفت سے چھڑانے لگی تھی جب وہ اسے پیچھے بیڈ پر بری طرح دھکہ دے گیا تھا

آہ۔۔وہ روتے اوندھے منہ بیڈ پر گری تھی

آی ہیٹ یو"

وہ بری طرح چیخی تھی

کیا کہا یو ہیٹ می۔۔۔"

اس پر جھکتے وہ اس کے بال مٹھی میں لیتے اس کی کمر سے پرے کر گیا تھا

ن۔۔نو نہی کرو۔۔۔"

وہ روتے سیدھی ہونے کی کوشش میں شیٹ کو دونوں مٹھیوں میں تھام گئ تھی جو خود میں تھا ہی نہی

اس کی شفاف گہرے گلے سے جھانکتی گردن پر اس کی انگلیوں کے لمس کے بعد وہ اس کے سلگتے لب محسوس کرنے لگی

غازیان آپ کو خدا کا واس۔۔واسطہ ہے۔۔"

وہ روتے بول گئ

اس کا ہوشربا حسن اسے غصے میں پاگل کر رہا تھا اس کی وجود سے اٹھتی خوشبووں میں گہرا سانس بھرتے وہ خود کے نفس پر ضبط کرتے اس کو سلگا گیا

میری ماں سے معافی مانگو ورنہ۔۔"

اس کی کان کی لو پر جھکتے سلگتے لہجے میں بولا وہ روتے چھبتے ائیررنگ سے زیادہ اسکی بات کی تکلیف محسوس کر گئ تھی

اپنی حرکت پر کنٹرول کرتے وہ اسے سیدھا کر گیا

جو بکھرے میک اپ میں بھی اسے خود کی جانب متوجہ کر رہی تھی

نہی مانگوں گی۔۔" وہ اس کے وزن سے آزاد ہونے پر چھت کو دیکھتے بے آواز روتے بولی تھی

نہی مانگو گی۔۔"

وہ اس کے جواب پر تیش زدہ سا پلٹتے اس کو پھر سے اپنے مقابل کھڑا کرتے وہ سنبھالتا کے وہ ہیلز کی وجہ سے پاوں مڑتے اپنی سسکی دبا گئ تھی

مانگو گی معافی تم نور۔۔"

تم نے مجھے کیا صلہ دیا ہے۔۔" اس کی بات پر وہ سن پڑتی جا رہی تھی

اپنی حرکت پر جب اگلے لمحے آوٹ آف کنٹرول غصہ پھر سے عود آیا تھا اور چلاتے وہ ساری حد پار کر گیا تھا

اگر تم نے آج معافی نہ مانگی تو میں تمہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں گا۔۔"

زہر خند لہجہ وہ بری طرح اس کے چھوڑنے پر نہ سنبھلتے پھر سے زمین پر گری تھی

میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔"

وہ بھیگی مسکارے سے بوجھل پھیلی آنکھیں اس کی جانب اٹھا گئ تھی

آج یہ آنسو کام نہی آنے والے۔۔"

وہ اس کے چہرے پر تلخ نظر ڈالتے واشروم چلا گیا

وہ چہرا صاف کرتے لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھتے کمرے سے باہر گئ تھی

ان کا روم کھولتے وہ سامنے تھی

آئرہ میری میڈیسن دے کر پھر لیٹنا۔۔"

جی مانی۔۔"

میڈیسن دیتے دیکھا جگ خالی تھا وہ جگ تھامتے سامنے دیکھتےحیران ہو گئ

نور۔۔"

آئرہ نے اس کا بکھرا حلیہ سپاٹ چہرا دیکھتے نظریں اٹھاتے ساکت تھی


آپ کیسے چاہتی ہیں میں معافی مانگوں۔۔"

وہ ان کے بیڈ کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھتے کھوئے انداز میں بولی


یہ کیا کر رہی ہو کیا ہوا ہے۔۔"

وہ پیچھے ہوئ تھیں

آپ سے ازالہ کر رہی ہوں آپ کے بیٹے کی زندگی میں آنے کی غلطی کا"

وہ اس کا بکھرا حلیہ دیکھنے لگی آئرہ کو افسوس ہونے لگا تھا


آئ ایم ریلی سوری آنٹی۔۔" وہ بولتے ویسے ہی کمرے سے نکل گئ تھی


اس کو کیا ہوا۔۔؟غازیان کی ماں حیران ہوتے بولی


جو گوہر افشانی آپ نے اپنے بیٹے کے سامنے کی اس کا نتیجہ۔۔"

وہ تنزیہ لہجے میں بولتے باہر قدم بھر گئ

وہ پیچھے سن پیشمان سی ہو گئ تھی


وہ روم میں واپس آئ وہ ابھی بھی واشروم میں تھا

اپنے کان سے نوچتے خود کو تکلیف دیتے جھمکے پھینکتے وہ ساری کینڈلز ہاتھ مارتے زمین بوس کر گئ تھی


وہ واشروم سے آیا تو بکھرا کمرا سامنے تھا پر وہ نظر نہی آئ


خالی کمرے پر غصے بھری نظر ڈالتے ڈریسر کے ڈرا سے لائیٹر اور سگریٹ کا ڈبہ لیے باہر لاونج میں آگیا

گہرے کش بھرتے آنکھوں میں اس کا سراپہ چھبنے لگا تھا

تم میری فیلنگس کا مزاق بناتی ہو

وہ دھوئیں میں اس سے مخاطب تھا


تم میرے غازیان نہی تھے وہ ایسا نہی تھا

وہ اس سے سامنا نہ کرتی روم میں بنے دوسرے روم کے فرش پر پڑی بے یقین سی اپنی سسکیاں دبائے تھی


افسوس ہے مجھے تم پر۔۔"

آئرہ کی آواز سے وہ سرخ آنکھیں کھول گیا تھا وہ سامنے کھڑی ہمیشہ کی طرح اس کا غصہ بڑھا رہی تھی

مجھے لیکچر نہی لینا آئرہ۔۔"

مجھے میری تنہائ چاہیے ابھی سو گیٹ لوسٹ۔۔"

وہ حد سے زیادہ روڈ ہو گیا تھا

سننا تو تمہیں ہو گا ہی

اس کا کیس کیوں نہی فائل ہونے دیا تھا۔۔۔"

میں اس بات کو کسی کے سامنے ڈسکس یا اکسپوز نہی کرنا چاہتا

سو سٹے آوٹ اوف دس میٹر

وہ اس کی بات پر قہر آلود نظروں سے دیکھتے بولا تھا

غصہ آیا۔۔۔۔" چلو چھوڑ دیا

ابھی کیا حرکت کی ہے تم نے اس کے ساتھ

جانتے بھی ہو مانی سے معافی مانگ کے گئ ہے اس کی غلطی بھی نہی تھی مانی اس کے مزید امتحان لے رہی ہیں

اب مجھے سمجھ آئ وہ نزدک کیوں نہی آئ۔۔"

کیا بکواس ہے یہ تمہیں کوئ حق نہی ہمارا پرسنل ڈسکس کرنے کا جسٹ لیو۔۔"

وہ تیز لہجے میں بولتے اسے مزید غصہ دلا گیا تھا

وہ ہمارے ساتھ نہی بیٹھتی کیونکہ مانی ایک موقع نہی چھوڑتی اسے اس کی زات کا تاریک پہلو دکھانے میں۔

مانی اس کے سامنے بولتی ہیں کے وہ تمہاری شادی مجھ سے کر دیں گی

کونسی بیوی برداشت کرتی ہے یہ۔۔"

وہ تو پھر نہی کچھ بولی غازی بلکہ وہ اس چیز سے خوفزدہ ہے"

how could u do this...

بتاو۔۔"

مما نے اسے کیا کہا۔۔"

وہ اس کی بات پر غصہ اترتا محسوس کرتے اب اضطراب سے سگریٹ جوتے کے نیچے مسل گیا تھا

میں سوچ نہی سکتی تم نے اس کو اپنانے کی ساری محنت آج ضائع کر دی جب وہ خود تمہارے لیے سجی سنوری تمہیں سرپرائز کرنے والی تھی

افسوس ہے مجھے تم پر

کہاں ہے وہ۔۔" وہ ناگوار لہجے میں دیکھتے بولی تھی

نور۔۔۔" اس کے لب اس کی نام کی سرگوشی میں ڈھلتے اس کی گزشتہ حرکتیں یاد کرا گئے وہ لمحے میں خوفزدہ سا اٹھا

میں خود دیکھ لوں گا اسے۔۔"

آئرہ کی کلائ کو اپنے روم سے اندر جانے سے پہلے جھٹکا دے گیا تھا

وہ تیکھی نظر ڈالتے چلی گئ

نور۔۔۔"

غصہ ختم ہوتے اسے خود پر غصہ آنے لگا تھا

پوری شدت سے چلاتے وہ روم میں داخل ہوا

جہاں وہ نظر نہی آئ بکھرا سا روم تھا

اس کی ہیلز سے وہ گرتے بامشکل سنبھلتا کے اپنے پاوں چپل سے آزاد کرتے اگلے لمحے فرش پر گرا اس کا ائیر رنگ اس کے پیر میں چھبا

جو اس کے بند روم کے باہر پڑا تھا

نور تم اندر ہو نہ۔۔

اوپن دا ڈور۔۔"

وہ دروازے کے ساتھ بیٹھ گیا تھا پر وہ اندر اس کی آواز سے خشک آنکھوں سے خوفزدہ سی مزید سمٹی تھی

ن۔۔نہی۔۔" وہ نفی کرنے لگی

سماب۔۔" میں تمہاری جان لے لوں گا اگر خود کو نقصان پہنچایا

وہ دھڑکتے دل سے پوری شدت سے چلاتے دروازہ پیٹنے لگا

آئ ایم سوری پلیز کھول دو۔۔"

تم نے نہی کھولا اور اگر تم نے اس بار خود کو نقصان پہنچایا بلیو می میں آج خود کو شوٹ کر لوں گا

وہ نم ہوتی آنکھوں سے پسٹل ڈراسے لے گیا تھا

ہاں وہ اس کے لیے رویا تھا وہ اس کو چند لمحے پہلے اپنی جانب سے پہنچائ تکلیف پر اس لمحے ملامت کر رہا تھا وہ اتنے مہینے اس کے ساتھ رہتے کیسے نہی اسے سمجھ سکا اور اس کی ماں کا رویہ۔۔۔

آنکھوں میں اس کا چمکتا سراپہ لہراتے اس کے ارمان جگا گئ تھی وہ جسے اس نے خودی بے دردی سے نوچ ڈالا تھا


فائن آج تم مجھ سے آزاد ہو جاو گی۔۔"

وہ اس کی سرد آواز سے کانپ گئ تھی

وہ پسٹل بند آنکھوں سے اٹھاتا کے کلک کی آواز ہوئ تھی


پہلے مجھے مار دو۔۔"

وہ اس کی آواز سے نم آنکھیں کھول گیا وہ سامنے بکھرے سراپے سے جو کھڑی تھی


پلیز اپنے لفظوں سے نہی جان لو میری مزید۔۔"

وہ دونوں بازو وا کر گیا تھا کے ریوالور اس کے ہاتھ سے گر گئ

آئ ایم سوری ۔۔" وہ پیشمان سا بولا


تم نے م۔۔مجھے آج میری اہمیت بتا دی۔۔"

وہ ضبط کرتے بولی تھی


پاس نہی آنا۔۔" وہ دو قدم پیچھے ہونے لگی تھی


روک سکتی ہو تو روکو۔۔"

اگلے لمحے وہ اس کی مضبوط بازوں میں تھی جو اس کو خود میں شدت سے بھینچ گیا تھا


وہ اسی پوزیشن میں اس کی بکھرے بالوں کو چومتے اسے سمیٹے آنکھیں بند کیے تھا وہ اس کی موجودگی محسوس کیے بکھرنے لگی تھی


میری خاموشی کا مطلب تھا میں ان سب سے لڑتے تھک گئ تھی

میری خاموشی کا مطلب تھا کے میں اپنے احساسات تمہیں نہی سمجھا پا رہی

میری خاموشی کا مطلب تھا


I adapted the changes in my life i dont want to complain any more


میری خاموشی کا مطلب تھا


i am on self healing process and i forget every thing just bcoz!!!


وہ اس کے سینے سے لگی خاموش ہوئ وہ جو اس کی سرگوشیاں سن رہا تھا اس کی خاموشی پر پوچھا


just bcoz..?

وہ بے چینی سے پوچھنے لگا


just bcoz i want to..."

وہ چپ ہو گئ تھی


نور ۔۔۔"

وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام گیا تھا

جسٹ بیکوز یو لو می۔۔"

وہ اس کے چہرے کو تھامتے اس کے ماتھے پر شدت سے لب رکھ گیا تھا


مجھے بابا کے پاس جانا ہے رائٹ ناو۔۔"

وہ پچھلے دو منٹ سے اس کے ماتھے پر لاتعداد بار لمس چھوڑ چکا تھا پر وہ بے اثر تھی اسے اس کی قربت سے بلکل فرق نہی پڑ رہا تھا


تمہیں آج مجھ سے محبت ہو جائے گی۔۔"

اس کے گال پر لب رکھتے وہ اس کی کان کی لو چومنے لگا


مجھے تمہارے ساتھ نہی ۔۔ "

وہ حواس بیدار ہونے پر بولتی کے وہ اس کے لبوں پر جھک گیا

وہ بری طرح خود کو سنبھالے تھی

اس کا ہاتھ اس کے چہرے تک جاتا کے وہ اس کو دیوار سے لگاتے اس کی کلائیاں جھکڑ گیا تھا

اس کے ہاتھ اس کے بالوں میں الجھنے لگے

تم مزید یہ حرکت نہی کر سکتی۔۔"

وہ اس سے دور جاتی جب وہ دوبارہ سے اس کے ہونٹوں پر جھکتے اس کی سانسیں خود میں انڈیلنے لگا

اس کے بال مٹھیوں میں لیتے وہ پاگل ہوتے اسے دور کر رہی تھی

آئ لو یو۔۔۔"

اس کے ماتھے سے سر ٹکا گیا تھا

وہ گہرے سانس بھرتے اس کی سرگوشیاں سننے لگی

نور آئ ایم سوری۔"

اس کا بکھرا سراپہ مٹی لپسٹک دیکھتے وہ اس کی نم آنکھیں چومنے لگا تھا وہ اندھیرے میں اس شخص کو خود کے مزید قریب دیکھنے لگی

جب اس کی اگلی حرکت سے اس کی جان نکلنے لگی تھی

وہ ایک ہاتھ سے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا تھا وہ اس کو نہ روکتے آنکھیں بند کرنے لگی

تم مجھے چھوڑ دو گے"

جائے فرار نہ پاتے اس کے سینے پر زور دیتے پھر سے رونے لگی تھی جو اس کے سامنے دیوار بن کے کھڑا تھا

ہلا لو مجھے۔۔"

آج نہی جانان۔۔"

وہ مسکراتی نظروں سے اس کو ایک ہی جست میں بازوں میں بھر گیا تھا

وہ نفی کیے اس کے سینے میں چھپنے لگی تھی جو اسے بیڈ پر ڈالتے دروازہ بند کیے اس کے قریب لیٹتے بکھرے بال ہاتھ پر لپیٹتے اس کی پشت دیکھنے لگا

اس کی انگلیوں کے لمس سے وہ روتے تکیے میں چہرا چھپا گئ تھی

نورے جان۔۔" اس کے لہجے کی کھنک پر وہ نفی کرتی رہ گئ

آئ لو یو سوئیٹ ہارٹ۔۔"

وہ اس کا رخ اپنی جانب کر گیا تھا

آج کے لیے سوری۔۔

میرے روڈ بی ہیویر کے لیے سوری۔۔"

وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے اس کے بکھرے بال چہرے سے ہٹا گیا وہ بھول گیا تھا کے وہ اس سے کتنے دنوں سے بے رخی اپنائے تھا اس لمحے تو بس اس کی محبت تھی جسے وہ دکھ دے گیا تھا

م۔۔میں تمہارے ل۔۔لیے تیار ہوتے سر۔۔پرائر پ۔۔پر آ۔۔آپ۔۔"

وہ اس کے حصار میں اسی کے سینے سے لگتے ہچکیوں میں روتے آپ اور تم کہتے اسے گھمبیر صورتحال میں بھی مسکرانے پر مجبور کر گئ

All that is mine is now urs..

My heart my hand my soul

my love from this moment on for as long as i am alive

sorry sorry sorrrrry۔۔۔۔"

اس کان کی سرخ لو کو چومتے

وہ اس کی گردن پر نرمی سے لب رکھتے بول رہا تھا وہ کچھ لمحے پہلے والا ہر ازالہ کر دینا چاہتا تھا جس میں وہ اس کو دکھ دے گیا اپنی گردن اسے اب نم ہوتی محسوس ہوئ

نو نہی چاہیے مجھے تم بلکل اچھے نہی لگ رہے۔۔"

تمہاری مما مجھے پسند نہی کرتی وہ تمہاری شادی آئرہ سے کروا دیں گی

میری کوئ غلطی نہی تھی پھر بھی میں نے سوری کی

اپنا چہرا تکیے سے اونچا کرتے وہ اس کی نم آنکھیں دیکھتے اس کا چہرا ہاتھ سے چھوتے شکوے کرنے لگی تھی

تم جانتے ہو

ہم کیوں کسی کو پسند کرتے ہیں۔۔

ہم کیوں کسی کو بغیر وجہ کے چاپنے لگتے ہیں

ہم کیوں کسی کی غیر موجودگی محسوس کرنے لگتے ہیں

ک۔۔کیونکہ کچھ رشتوں کی وضاحت نہی ہوتی پچھلے دس دن سے تم مجھ سے کروٹ کے فاصلے پر ہوتے تھے

تم میرے دل کا حال نہی جان پائے

کیونکہ کچھ رشتوں میں وضاحت نہی ہوتی تم پھر بھی ناراض رہے"

آئ نو دس مین یو لو می نورے جان۔۔" وہ اس کے بالوں میں چہرا چھپائے بے خود ہوتے بولا

نو دس مین مجھے غازیان چاہیے تھا"

وہ اس کے کندھے پر سر رکھتے بول رہی تھی جب وہ اس کی گردن پر رکھا اپنا سر اٹھا گیا

نور تم۔۔"

وہ نم مسکارے سے پھیلی آنکھیں اٹھا گئ تھی

کیونکہ م۔۔مجھے غازیان کا دل اچھا لگتا ہے"

آج والا غازیان ہرگز نہی"

وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اس کی تیز دھڑکن اپنی ہتھیلی پر محسوس کرتے بولنے لگی

اور اس کا سرپرائز تو وہی رہ گیا تھا

صبح کا سویرا روشن ہو گا۔۔"

وہ اس کی ہتھیلی چومتے اپنی مضبوط گرفت میں لیتے مسکرا گیا تھا

وہ بند آنکھوں سے اس کے محبت بھرے لمس محسوس کرتے اس میں سمٹ سی گئ

صبح کا روشن سویرا اور دھوپ کی پھوٹتی کرنیں گلاس وال سے ٹکراتے اسے کسمسانے پر مجبور کر گئیں

وہ کروٹ کے بل ہوتے اس کی سائیڈ پر ہاتھ بڑھاتے اسے تلاشنے لگا

نور پردے کیوں ہٹائے ابھی۔۔"

وہ چھبتی روشنی سے بند آنکھوں سے بوجھل لہجے میں بڑبڑایا تھا

ہاتھ سے اسے تلاشتے اس کے جواب نہ دینے پر اور اس کی سائیڈ خالی پاتے وہ بند ہوتی آنکھیں بے چینی سے کھول گیا

اس کی جگہ خالی پاتے وہ جھٹ سے نیند بھگاتے اٹھ گیا

مجھے بابا کے پاس جانا ہے رائٹ ناو۔۔"

اس کی رات کی بات پر فاصلے ختم ہونے کے بعد بھی گھبراتے وسوسوں میں ڈوب گیا تھا وہ

کہاں گئ یہ اتنی صبح۔۔"

وال کلاک پر نظر ڈالی جہاں ابھی سات بجنے میں بھی ٹائم تھا

دھڑکتے دل سے بستر پرے ہٹائے نکلا

جب سامنے روم میں اس کا سفید آنچل نظر آتے اسے زندگی کا عندیہ دے گیا تھا

شرٹ کے بٹن بند کرتے لبوں پر مسکراہٹ لیے سیدھا اس روم میں داخل ہوا

ے تڑپانے کا ٹھیکہ لیا ہے"

وہ اس افتاد پر بوکھلائ جو اسے پیچھے سے حصار میں لیے اس کے بھیگے بالوں پر پر لب رکھتے دھیمے لہجے میں بول رہا تھا

وہ سامنے سے ہٹی تھی

دور نہی ہو۔۔" وہ ابھی بھی بند آنکھوں سے اسے خود میں سمیٹے تھا

نورے جان کوئ چلاکی نہی۔۔"

وہ دور ہوتی جب وہ پٹ سے آنکھیں کھولتے سامنے دیکھتے منظر پر مہبوت زدہ ہوا۔۔

وہ آنکھیں انگلیوں کے پوروں سے مسلنے لگا

یہ یہ کیا او مائے گوڈ۔۔"

دس واز۔۔۔۔"

نور ۔۔۔" وہ بے پناہ خوشی محسوس کیے اس کو دیکھتے نچلے لب کو دانتوں تلے دبا گیا تھا

وہ سمجھ نہی پا رہا تھا وہ کیا کہے۔۔"

اس کی باقی کی نیند اس لمحے پوری طرح اڑ گئ تھی سامنے اپنا پورٹریٹ دیکھتے

جہاں وہ بلیو شرٹ کے فولڈڈ کف میں سحر انگیز پرسنالٹی کے ساتھ دو انگلیوں میں پکڑی سگریٹ ہونٹوں میں دبائے تھا

یہ لک اس کا دانیال کے واقع والے دن کا تھا جس میں وہ فل کٹ شٹ اور ہلکی بیریڈ میں تھا

وہ اس کو اس پورٹریٹ کو آنکھیں پھاڑتے دیکھ اس کے قریب ہوئ تھی

مجھے سگریٹ پیتا یہ شخص زہر لگتا ہے۔۔"

وہ قدموں پر اس کے برابر ہوتے اس کے کان میں بولتے ہوش دلا گئ تھی

سفید کپڑوں میں نکھری وہ پوری طرح اس کو اپنے سحر میں مبتلا کر رہی تھی

مجھے فرق نہیں پڑتا میں اسے اچھا لگوں یا نہ لگوں۔۔"

ویل تھینکیو میری مارننگ کو اس سرپرائز سے مزید خوبصورت بنانے کے لیے"

وہ اس کے ہاتھ تھامتے اس کی انگلیاں چومنے لگا

اس کی آنکھوں میں جھانکتے رات کے رنگ دیکھنا چاہتا تھا جب وہ اس کے بے تحاشہ قریب ہوتے اپنا آپ اس کے حوالے کر گئ تھی


نور اس کی گہری بولتی نظروں پر سرخ سا چہرا پھیرتے نظریں چرانے لگی تھی


میں نے تمہیں رات کو ہرٹ کر دیا۔۔"

وہ اس کے گرد گھیرا تنگ کرتے اس کے کندھے پر اپنے لمس چھوڑنے لگا

وہ چونکتے اس کی گرفت سے نکلنے کو تھی


مجھے بابا کی طرف ڈراپ کر دیں گے"

غازیان کے ہاتھوں کی گرفت چھوٹی تھی


تم ناراض ہو ابھی بھی۔۔"

اس کا چہرہ روبرو کیے وہ بے چین ہونے لگا


تم قریب نہی آنا چاہتی تھی میرے کیا۔۔؟

اس لمحے وہ حیران سا ہو گیا تھا


غازیان سٹوپ پلیز۔۔"

مجھے شرمندہ نہی کرو۔۔" وہ اس لمحے آنسو پیتے چیخی تھی

اس کا چہرہ شدت سے سرخ پڑ گیا تھا


خدا کے لیے یک دم اتنے اچھے نہی بنا کرو کے میں پھر تمہارا غصہ سہن نہی کر سکوں۔۔"

اعتدال میں رہا کرو۔۔"

میرے پاس کوئ جواز نہی تھا تم سے دور ہونے کا یاد رکھو اس بات کو

تمہارا بہت احسان ہے مجھے اپنانے کا بس فرق اتنا ہے کے میں نے تمہیں کوئ صلہ نہی دیا"

وہ رات کی بات تلخی سے دہرا گئ تھی

آنسو رگڑتے وہ دور ہوتے روم کے دروازے کے قریب جاتی جا رہی تھی

یہ شخص ایک پل میں اسے آسمان پر بٹھا دیتا اگلے لمحے اپنے موڈ سے اسے بری طرح دہلا بھی دیتا تھا

نور کیا چاہتی ہو میں مما سے لڑوں۔۔"

اس کے قدم رکے تھے وہ بے یقین سی پلٹی تھی

تم نے سوچ بھی کیسے لیا۔۔" وہ جھٹکے سے قریب جاتے اس کا کارلر پکڑ گئ تھی

اگر ایسا ہوتا میں ان سے معافی نہ مانگتی سمجھے تم"

بس آئیندہ میرے ساتھ وہ رویہ روا نہی رکھنا غازیان

آپ بس اتنا بتا دیں کیا آپ کو لگتا ہے جو لڑکی خود کی زات کے لیے نہی لڑ سکی وہ کیا جواب دے گی کسی کو

بحرحال مجھے اپنا کے آپ نے اپنے ساتھ تو ناانصافی کی تھی مگر آپ کی ماں کے ساتھ بھی بہو کے معاملے میں ناانصافی ہو گئ

اس کا کارلر چھوڑتی وہ ازیت میں تھی جب وہ اس کی وہی کلائیاں تھام گیا تھا

ناانصافی تم میرے ساتھ کرتی ہو خود کو ازیت دے کے۔۔"

تم کون ہوتی ہو یہ فیصلہ کرنے والی

رہی مما کی بات وہ غلط کیا انہوں نے اور تم بھی غلط تھی نور آپ کو کسی کے دل میں جگہ بنانی ہو آپ کو محنت کرنی پڑتی ہے"

اور وہ میں شائد کبھی نہی بنا سکتی" وہ نظریں جھکا گئ تھی

وہ گہرا سانس بھرتے اس کو دیکھنے لگا

تم نے کل کہا تھا میں دس دن تم سے کروٹ کے فاصلے پہ تھا تمہارے دل کا حال نہی جان سکا میں کیسے خود پہ اتنے عرصے ضبط کیے تھا تم اندازہ لگا سکتی ہو نور انسان تھا میں کوئ فرشتہ نہی تم پر جائز حق رکھنے کے باوجود میں تمہیں تمہاری مرضی کے خلاف جا کر ہرٹ نہی کرنا چاہتا تھا

میں ہمارے درمیان اگر رشتہ بنانا چاہتا تو زبردستی بھی بنا سکتا تھا اور تم چاہ کے بھی مجھے روک نہی سکتی تھی

لیکن میں محبت میں زبردستی کا قائل نہی

اس کی پیشانی پر لب رکھتے وہ اسے پرسکون کر گیا تھا

وہ اس کی گرفت سے نکلنے گی تھی

اب نہی نورے جان۔۔"

وہ اس کو اسی پوزیشن میں خود میں بھینچے مسکراتے روم میں لانے لگا

بھول جاو سب وہ ایک برا چیپٹر تھا جو ختم ہو گیا

اس کی نم پلکیں دیکھتے اس کا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھے دوسرا اپنے گرد حائل کرتے اسی پوزیشن میں کمرے سے باہر لاتے گھمبیر لہجے میں اس کے کان میں سر بکھیرنے لگا تھا

کچھ اس طرح تیری پلکیں

میری پلکوں سے ملا لے

آنسو تیرے سارے تو

میری پلکوں پہ سجا دے

وہ نم آنکھوں سے مسکراتی جا رہی تھی اس کی بے سوری بھاری آواز اپنے کانوں میں گونجتی سنتے

بلکل اچھی آواز نہی ہے باتھ روم سنگر"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے کھل کے مسکرائ تھی

کیا سب اچھا ہو گیا اتنی جلدی۔۔"

وہ اس کے کندھے پر سر رکھتے خواب کی سی کیفیت میں بولی تھی

ہممم۔۔"

کالج جوائن کرنے کے بارے میں کیا ارادہ ہے"

وہ اس کے ہاتھ کو تھامتے اس کی لمبی باریک سی مومی انگلیاں اور سونی کلائیاں دیکھنے لگا

غازیان آئ کانٹ۔۔"

میں کیسے سامنا کروں گی۔۔"

اس جگہ کو جہاں سے مجھے۔۔"

اس کے لبوں پر انگلی جما گیا تھا


ابھی میں نے کیا کہا تھا

ریڈیوس ری یوز اور ری سائیکل کا پروسس پڑھا ہے بائیولوجی میں

u should apply this"


تم مضبوط بنو گی وہ لڑکی جو مجھے مری میں ملی تھی ویسی کونفیڈینٹ اور خوبصورت۔۔"


یہ کہنا آسان ہے"

وہ اس کی گرفت سے نکلتے مرر کے سامنے تھی غازیان اس کو اس معاملے پر نظریں چراتے دیکھ رہا تھا


اگر تو تمہیں لگ رہا ہے اب تمہاری مرضی چلے گی تو تم بلکل غلط ہو۔۔"

کل رات کے بعد تم مجھے سارے اختیارات دے چکی ہو پھر وہ اختیارات تمہارے وجود پر ہوں یا۔۔"

اپنی کمر پر سرسراتی اس کی انگلیاں وہ شیشے میں اپنے پیچھے دیکھتے اس کی بات پر لمحے میں سرخ پڑتا چہرا جھکا گئ تھی

یا پھر۔۔"

وہ اس کے کان پر جھکتے اپنے ہونٹوں کی سرگوشیوں سے اسے حواس باختہ کر گیا تھا

تمہارے بارے میں کیے جانے والے سارے فیصلے کیوں نہ ہوں ۔۔"


میں شاور لینے جا رہا ہوں۔۔"

اس کی غیر ہوتی حالت پر وہ محفوظ ہوتے بات بدل گیا


یہ اطلاع دینے کی بات تھی دانت پیستے اس کی بات پر مٹھی بھینچ گئ تھی

اس کے وجود کی خوشبو خود میں اتارے وہ اسے باور کرا گیا تھا کے اس کی زات کے ہر فیصلے پر اختیار رکھ گیا ہے


نور پانی نہی آ رہا۔۔"

چند لمحوں بعد بیڈ شیٹ درست کرتے اس کی آواز واشروم سے باہر گونجتے اس کی جان نکال گئ تھی


غازیان نیازی میں نے آج تک شیمپو یا صابن سے کبھی کسی کا جانی نقصان ہوتے نہی سنا"

وہ دانت پیس گئ تھی


سوچ لو نورے جان آ جاوں باہر۔۔"

وہ بھیگا چہرا واشروم کا زرا سا دروازہ کھولے باہر نکال گیا


ہش ش۔۔شرم ہے آپ میں۔۔"

وہ دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھے دوسرے روم میں جاتے فوری سے خود کو لوک کر گئ تھی


بے شرم آدمی۔۔"

جبکہ اس کا قہقہ اسے وہاں پر بھی سنائ دیتے اچھا خاصہ خجل کر گیا تھا

---------------------------------------------------

وہ فیروزی شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا جب نرم سا لمس اپنے سینے پہ محسوس ہوا

احان کی مسکراہٹ گہری ہوئ تھی وہ اس کی پشت پر سر رکھے اس کے سینے پہ بازو لپیٹے تھی

صبح اتنی جلدی کیسے ہو گئ آج۔۔"

وہ ہنوز کف فولڈ کرتے شیشے سے اس کو چھپے دیکھتے بولا

آپ اٹھ گئے تو مجھے نیند نہی آئ تھوڑا شور ڈالتے ہیں آپ تیاری کے دوران۔۔"

آخری بات پر وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کر گئ تھی

میری نیند کے تو دشمن ہیں آپ صدا کے"

نیند کا دشمن یہ ورڈ اب سوٹ نہی کر رہا"

وہ واچ باندھتے اس کو اب اپنے عین سامنے ڈریسنگ پر بیٹھے اپنے درست کارلر سے چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھ گھور کے رہ گیا تھا

زیادہ تنگ کیا تھا رات میں آپ کو۔۔"

وہ مسکرا اٹھی تھی

احان نے اس کے سراپے پر نظر ڈالی پرپل ڈھیلی سی شرٹ اور سفید لیس لگے کھلے سے ٹرواز میں وہ لمبے بال کمر پر بکھرائے اس کے وجود میں آئ تبدیلی اسے اس کی نظروں میں مزید حسین کر گئ تھی

رات کی اس کی حرکت یاد آئ

احان اٹھیں نہ۔ "

وہ اس پر جھکی اسے مسلسل نیند سے جگا رہی تھی

کیا ہو گیا ریحہ تم ٹھیک ہو کہی پین تو نہی ہو رہی ہے

اچھا رکو تم پریشان نہی ہو

میں جوس لاتا ہوں میڈیسن لے لینا۔۔"

وہ نیند میں جاگنے سے ہڑبڑی میں جانے کیا کیا بول رہا تھا

اف کہی پین نہی ہو رہی"

اور خدا کے لیے یہ جوس پہلے میری زندگی میں سے سائیڈ پر ہٹائیں ۔۔"

اور غور سے سنیں۔۔"

ہاں بولو سن رہا ہوں میں۔۔"

وہ پرسکون ہوتے فوری لیٹے آنکھیں بند کر گیا

حان اٹھیں مجھے آئس کریم کھانی ہے"

وہ ہٹ دھرمی سے بولی

واٹ دماغ درست ہے تمہارا ٹائم دیکھو۔۔"

وہ نیند کی خماری لیے بامشکل گھڑی کی جانب دیکھنے لگا جہاں ایک بجا تھا

چاہیے تھا

وہ بری طرح سٹپٹایا تھا

بولتے ہوئے کم از کم سوچ لیا کرو۔۔

وہ فوری لب دباتے اپنی جلد بازی پر یہاں وہاں دیکھنے لگی تھی

وہ سر جھٹکتے چپل اڑیستے باہر نکل گیا

غیر ارادی طور پر پہلے وہ فریج چیک کر گیا

ہش شکر تھا فریج میں آئس کریم پڑی تھی

مینگو فلیور آئسکریم چھوٹے باول میں نکالتے روم میں داخل ہوا جہاں وہ بستر پر بیٹھی اس کے فون سے لگی تھی


فون دو میرا یہ پکڑو۔۔"

اور کھا کے فوری سے پہلے سو جاو۔۔"

باول اسے تھماتے فون اوف کرتے وہ سائیڈ ڈرا میں رکھتے اپنی جگہ پر لیٹتے بولا


کیا مطلب سو جاو میری تبعیت نہی ٹھیک

مجھے یہ فلیور ہر گز نہی کھانا پکڑیں اسے ونیلا فلیور سے چینج کر کے لائیں ابھی کے ابھی

اٹھیں۔۔"

وہ اس کے کندھے پر جھکتے دوبارہ جھنجوڑ گئ تھی


یہاں کوئ آئسکریم پارلر نہی کھولے میں نے جو ایک نہی پسند آیا تو دوسرا فوری سے پہلے حاضر ہو۔۔"

چپ کر کے کھاو اور سو جاو۔۔"

وہ سخت لہجہ اپنا گیا


چند لمحوں بعد اس کے رونے کی دبی آوازیں اسے محسوس ہوئیں تھیں


کیا ہو گیا ہے ریحہ اس ٹائم میری جان کوئ شوپ نہی کھلی۔۔"

اس کی جانب رخ کرتے وہ نیند کی خرابی کی وجہ سے اب لہجے کی سختی میں نرمی اپنا گیا تھا


آپ کو کیا پتہ ہو کتنا مشکل ہے یہ سب

آپ کو تو بس اپنی نیند کی پڑی ہے"

وہ نادیدہ آنسو صاف کرنے لگی


اف بتاو اب میں کیا کروں پھر۔۔" وہ جھنجھلایا اٹھ بیٹھا تھا


مجھے اب چاکلیٹ کھانی ہے۔۔" وہ سوں سوں کرتے بولی


ہیں چاکلیٹ۔۔"

ریحہ تم آئسکریم سے سیدھا چاکلیٹ یہ کیسے موڈ سوئنگز ہیں"

وہ منہ بگاڑتے فوری گھٹنوں میں سر دے گئ


اچھا رو تو نہی کچھ کرتا ہوں یار۔۔

وہ جھکی اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے لگی تھی

کریونگ کا کیا ہے کسی بھی وقت کسی بھی چیز کی ہو سکتی ہے"

ویسے آپ کی اطلاع کے لیے وہ کبرڈ میں پڑی ہیں وہاں سے لا دیں بس"

وہ اسے حیران پریشان سا دیکھتے مشکل حل کر گئ

وہ اٹھتے کبرڈ سے لاتے اسے دے گیا

ساری نہی کھانا۔۔"

ساتھ اسے وارن کر گیا تھا

نہی یہ بھی مجھے اچھی نہی لگی احان کچھ اور کریں نہ پلیز۔۔

میرا دل چاہ رہا ہے وہ ایک بائیٹ لیتے پیکٹ سائیڈ پر آئسکریم کے ساتھ رکھ گئ

میں پھر اب کیا کر سکتا ہوں۔۔" لہذا بہتری اسی میں ہے سو جاو

وہ دانت پیس گیا تھا اب

ہاں آپ مجھے نہ تھوڑا سا انٹرٹین کر دیں

جیسے کے کوئ جوک یا ڈانس کا سٹیپ۔۔"

پلیز اتنا تو کر سکتے ہیں نہ آپ رکیں میں گانا لگاتی ہوں

وہ اب حیرت سے دیکھنے لگا یک لخت غصہ بھی آنے لگا وہ اسے جان بوجھ کے زچ کر رہی تھی

سوری میں ابھی اتنا بھی زن مرید نہی ہوا۔۔"

کے بیوی کو انٹرٹین کرنے کے چکر میں پارٹ ٹائم جوکر بن جاوں

وہ جس طریقے سے بولا تھا ریحہ اس کے کیوٹ ایکسپریشنز پر اس پر جھکتے اس کا گال چوم گئ تھی

پر وہ بے اثر ہوتے کمفرٹر تان گیا

بہت برے ہیں بے بی آپ کے بابا بلکل بھی مما کی پروا نہی ۔"

وہ قہقہ ضبط کیے کمفرٹر سر تک تانے اسے دیکھتے بولی

میں رات کی تمہاری بے تکی حرکتیں نہی بھولا ابھی۔۔"

وہ جتا گیا تھا

مجھے نیند نہی آ رہی تھی سوچا تھوڑے کپلز گول کر لوں پر وہ اور ہی شوہر ہوتے ہیں میری ہی غلطی جو آپ کی نیچر سہی سے جانے بغیر اس رشتے کی حامی بھر دی

اسے شو ریک کے پاس جاتے دیکھ وہ اسے جلانے کو بولی

او تو پھر میری غلطی تم سے بڑی ہوئ دیکھو نہ تمہیں جانتے بوجھتے حامی بھر دی"

وہ دل جلانے والی مسکراہٹ دیتے بولا

تو پچھتا رہے ہیں"

حساب برابر کیے وہ اس کی اونچی آواز پر کانوں میں انگلی ٹھونس گیا تھا

تھوڑا تھوڑا۔۔۔"وہ لب دبائے مسکرایا

حان۔۔"

اس تک چیختے پہنچتی کے وہ روک گیا تھا

میں آ رہا ہوں رکو۔۔" وہ اسے سہارا دینے قریب جاتا کے پہلے بول اٹھی تھی

ضرورت نہی آپ صرف پچھتائیں۔۔"

منہ بگاڑتے وہ اس کو دکھانے کو ڈریسر کے کنارے پر ہاتھ رکھتے اترتی کے بری طرح اپنے ٹراوزر میں ہی الجھی تھی

حان۔۔"

اس کی دلخراش چیخ پر وہ فوری اس کی طرف بڑھتے قدم تیز کیے پیچھے کمر سے اس کو مضبوطی سے تھام گیا تھا


آنکھیں کھولتے اس کی چھبتی نظریں سامنے تھیں

فوری سے پہلے چینج کرو یہ ٹراوزر۔۔"


اس کے سیریس ہونے اور یک دم تیز لہجے پر وہ چند سانحے پہلے ہوا واقع سوچتے خوفزدہ سی ہونے لگی

وہ گہرے سانس بھرتی حواس باختہ تھی


اس کو بیڈ پر بٹھاتے وہ کبرڈ تک جاتا کے اس کی بازو تھامتے مضبوطی سے اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے گئ تھی


ابھی پاس رہیں پلیز۔۔"

اس کے کندھے سے لگے چند لمحوں پہلے والے مزاق کی رمق اب بلکل غائب ہوتے وہ بری طرح رو رہی تھی

اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو۔۔"وہ روتے بول رہی تھی

اسی لیے کہتا ہوں دھیان بھی دے لیا کرو

ریحہ تم جانتی ہو یہ نازک مراحل ہیں تمہاری جان کے لیے بھی۔۔"

کیوں مجھے خوفزدہ کر دیتی ہو یار۔۔"

اس کے بالوں پر لب رکھتے اس کو روتے دیکھ وہ نارمل ہونے لگا

بیڈ سے نہی اتر رہی تم۔۔"

ایک میڈ تمہارے لیے ارینج کرتا ہوں"

اس کا تنگ کیپری والا ہینگ ڈریس اس کے قریب رکھتے وہ اسے کراون سے گم سم سا ٹیک لگائے دیکھ اب وارن کر رہا تھا

آپ نے میری کوئ ایک شرط نہی مانی"

میں آپ کی باتیں کیوں مانو

میں نے شادی سے پہلے ایک چٹ دی تھی آپ کو یاد ہو تو"

وہ پیپرز فائل میں اٹیچ کر رہا تھا جب اس کی بجھی سی آواز گونجی

اور یہ صرف ایک جگہ سکون سے بیٹھنے کی وجہ سے نروٹھا سا لہجہ تھا

وہ تہہ شدہ چٹ جانے اسے کہاں سے مل گئ تھی وہ تو شائد کہی کسی ڈرا میں پھینک چکا تھا

سیریسلی۔۔"

اس لڑکی کے پل میں بدلتے تیور اسے سیریس حالت میں بھی اس کے پاگل پن کا ثبوت دیتے تھے

ہم بات نہی کر رہے اس ٹاپک پہ فلحال پوائینٹ از دیٹ اپنا خیال رکھ رہی ہو تم آئ سمجھ۔۔"

بیڈ سے نہی ہلنا ٹیک کیر یور سیلف"

اس کے قریب ہوتے ایک گھٹنا بیڈ پر فولڈ کیے اس کی پیشانی پر لب رکھتے اس کی بات نظر انداز کرتے بولا تھا

آہ سنیں میری آخری بات"

ایک گھنٹی میرے پاس رکھ جائیں پلیز۔۔"

یو نو واشروم۔۔"

اس کے سحر سے وہ تب نکلی جب وہ اس سے کافی دور اپنا سیل فون اور کیز لیتے دروازے کے قریب تھا

باز نہی آنا تم۔۔"

وہ پلٹتے اس کی بات پر بامشکل مسکراہٹ ضبط کر گیا تھا

-------------------------------------------------------

وہ اس کے فریش ہونے کے بعد ناشتے کی ٹیبل تک اس کے اسرار پر آئ تھی ورنہ تو اس کی ماں کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہی تھی

بشرا صبح ہی آ جاتی تھی

اب وہ سارا ناشتہ ٹیبل پر لگا چکی تھی جبکہ وہ اپنے ناشتے کی انگریڈینٹس لیتے کیچن سے نکلا تھا

ملیحہ نے اس کی جانب چونکتے دیکھا رات کی نسبت غازیان سمیت اس کے تیور بھی بدلے تھے

مارننگ مما۔۔"

اپنی ماں کے لیے چئیر کینچھنے کے بعد

وہ اس کے لیے بھی اپنے برابر میں چئیر ک

اس کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ آئ تھی

آئرہ نے اس کی جانب ہاف فرائ انڈے کے ساتھ ناشتہ سرو کیا جب وہ درمیان میں ہی اچک چکا تھا


نور کو بلیک پیپر سے الرجی ہے"

وہ دیکھتی رہ گئ جبکہ ملیحہ بھی یہ بدلاو خاصہ دیکھ رہی تھی


مجھے اندازہ نہی تھا"

آئرہ پلیٹ پیچھے کیے اس کے سرخ سے چہرے پر نظر ڈال گئ اس لمحے اس کے دل میں تکلیف کی شدید لہر ابھری جسے وہ اس پر مسکراتی نظر ڈالتے کم کر رہی تھی


اگر تم نے اپنے بابا کی طرف جانا ہوا تو مجھے بتا دینا"

وہ فلحال اس کی ماں کی جانب دیکھتے نفی کر گئ ان کی موجودگی میں اب وہ نہی جانا چاہتی تھی


ناشتہ کرنے کے بعد اپنی چیئر سے اٹھتے اپنی ماں سے ملنے کے بعد وہ اس کی چئیر پر جھکا تھا


مس یو ہول ڈے نورے جان۔۔"

اس کے سر کو چومتے ہلکی سی سرگوشی میں اس محبت بھرے مظاہرے پر جہاں نور کو سب کی موجودگی میں سرخ گیا تھا وہی اس کی ماں ضبط سے چہرا موڑ گئ تھی جبکہ آئرہ اپنی مسکراہٹ یہاں وہاں دیکھتے کم کر رہی تھی


اشو تو ابھی بھی بنا ہے یہ محکمے والے جس کے پیچھے پڑ جائیں جلدی جان نہی چھوڑتے اسی لیے کہا تھا تھوڑا حوصلہ رکھو

حمدان نے اس کی جانب دیکھتے کہا


وہ آفس میں بیٹھا آنکھیں بند کیے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے باتوں کے دوران مسکرا رہا تھا

فائینلی وہ اس کی زندگی میں پوری طرح شامل ہو گئ تھی


غازیان اپنی سیفٹی کا خیال کیوں نہی رکھتے

اپنے ساتھ پرسنل گارڈ رکھا کرو۔۔"

آج بھی تم اکیلے تھے

ڈیڈ آی کین ہینڈل۔۔" وہ ان کی موجودگی پاتے لب بھینچے سیدھا ہو گیا تھا

اور میرے ساتھ ہر ٹائم دو گارڈ ہوتے ہیں وہ الگ بات ہے وہ سیول یونیفارم میں نہی ہوتے

نور کی وجہ سے میرا سکیورٹی گارڈ گھر کے باہر ہوتا ہے

وہ سارا ایریا آفیسر کالونی کا تھا جہاں ہر گھر اتنے فاصلے پر تھا کے اندر اگر کوئ واردات ہو بھی جائے کسی کو کچھ پتا نہ چلے لہحذا اس کا گارڈ گھر میں ہونے کی بجائے باہر ہوتا تھا

نہی ابھی مشکلات ہیں تمہارے لیے وہ ابھی پرسکون نہی ہوا ہو گا۔۔"

فلحال مجھے اس کے زکر سے موڈ ہرگز نہی خراب کرنا مجھے آج جلدی نکلنا ہے کام ہے کچھ۔۔"

ارادہ اس کے لیے شاپنگ کرنے کا تھا

وہ گاڑی کی چابی لیے ان کی کندھے پر ہاتھ رکھتے دلاسہ دیے چلا گیا تھا

--------------------------------------------------------

میں اتنی دیر روم میں قید نہی رہ سکتی

وہ اس کی ہدایات سارا دن فولو کرنے کے بعد اب اکتا گئ تھی

صبح کے اس کی ماں نے اور ساس نے دو چکر اس کے روم میں لگا لیے تھے

سانیہ تو ویسے انسٹرکشنز میں احان سے بھی زیادہ سخت ہو گئ تھیں

آپ کے آنے سے پہلے میں روم میں آ جاوں گی"

وہ سوچتے باہر نکلی تھی

دھیمے قدم بھرتے اپنے برابر کے کمرے سے آتی آواز پر اس کے قدم جمتے خوفزدہ کر گئے تھے

وہ بامشکل سنبھلتے اس کی باتوں پر دیوار کا سہارا لیے تھی

غصے کی انتہا محسوس کیے وہ روم کے دروازے سے اندر چلی گئ تھی

پتہ ہے میں نے سنا تھا مخلصی ایک ایسا جزبہ ہے

اگر آپ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے

اُسے اچھے الفاظ تو دے سکتے ہیں

الفاظ لہجہ نہیں رکھتے

مگرتاثیر رکھتے ہیں۔

شاید آپکے الفاظ کسی کے لئے ہدایت بن جائیں۔

وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جو لوگوں کی دعاؤں میں شامل ہوتے ہیں

لیکن تم شائد لعنت لینے کے لیے اس دنیا میں آئ ہو

میں سوچ نہی سکتی تم اتنی گھٹیا ہو"

وہ اس کا فون کینچھتے چلائ تھی

تم سوچ نہی سکتی دانین میں تمہارا کیا حشر کروں گی۔۔"

ابھی ٹائم نہی تھا اس کی حالت ورنہ وہ درست کر دیتی

اس کے چہرے پر تھپڑ جڑتے وہ اسی فون کو لیے باہر بڑھتی جب وہ اس کا ہاتھ کینچھتے دروازے سے اندر کر چکی تھی

تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا چاہوں تو ابھی تمہارا حشر بگاڑ سکتی ہوں۔۔"

اس کے وجود پر نظریں ڈالے وہ چہرے پر ہاتھ رکھے غرائ

لیکن اس سے بڑی تکلیف میں تمہیں دوں گی

ریحہ کے ہاتھ پیر سن پڑے تھے

ناو لسن می ویری کیر فلی"

یہ معمولی سی شکل رکھنے والی لڑکی مجھے کتنی زہر لگتی ہے تم کبھی بھی اندازہ نہی لگا سکتی۔۔"

تمہارے پاس جو ہے وہ اگر میرے پاس نہی ہے تو تمہارے پاس بھی نہی ہونا چاہیے

رائٹ۔۔"

وہ تمسخر اڑاتے لہجے میں بولی

بڑئ مما۔۔" مما

ازہان۔۔" وہ بری طرح چلانے لگی تھی جو روم لوکڈ کرتے اسکے قریب تھی

وہ اپنی حالت کی وجہ سے اس سے گریز برت رہی تھی

کوئ بھی نہی ہے اوپر۔۔" وہ افسوس کرنے لگی تھی

دانین خدا کا واسطہ میری ساری چیزیں لے لو یہ برسلیٹ م۔۔میرے کپڑے

اور کیا چاہیے سب سب رکھ لو تم وہ بازو سے برسلیٹ نکالنے لگی تھی

اسے اس کی خود پر چھبتی نظریں اور حسد رفتہ رفتہ سمجھ آیا اس لمحے وہ بند دروازہ دیکھتے اسی کے فون پر نمبر ڈائل کرتی کے سکرین لوکڈ تھی

وہ بے بسی سے آنسوں کی راوانی میں اسے دیکھنے لگی جو سامنے کھڑی اس کی حالت پر خاصی محفوظ ہو رہی تھی

وہ ہمت کرتے جھٹکے سے اٹھتی جب وہ اسے بیڈ پر دھکہ دے چکی تھی

وہ تکلیف دبائے خوفزدہ سی اردگرد دیکھتے تحمل زدہ ہوئ وہ اپنی وجود سے جڑی جان کے لیے کوئ رسک نہی لینا چاہ رہی تھی

دانین میرا سب کچھ لے لو پر اسے کچھ نہی کرنا

دانین میں تمہاری جان لے لوں گی اگر احان کو کچھ ہوا۔۔"

اب وہ پوری شدت سے چلاتے پاگل ہوئ تھی وہ سوچ نہی سکتی تھی وہ کس سے بات کر رہی تھی بس اس کی جان نکلنے کے قریب تھی

وہ چائے کا کپ لیے ان کی جانب آئ

آئرہ گھر نہی تھی

کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں"

وہ ان کو دیکھتے تھری سیٹر صوفے کے قریب کھڑی حسرت سے دیکھنے لگی

اگر میں کہوں نہی تو کیا تم نہی بیٹھو گی"

وہ اپنے لہجے سے اس کی بندھی ہمت پھر سے توڑ چکی تھیں

نہی میں پھر بھی چاہوں گی آپ ایک کپ چائے میرے ساتھ پیتے مجھے کمپنی دیں

وہ ان کے نزدیک ٹکتے چائے کا کپ بڑھاتے بولی

ملیحہ نے ایک نظر ہاتھ میں تھامے میگزین سے ہٹا کر اس کے بڑھائے کپ کے بعد اس کے فریش سے چہرے پر ڈالی جو خاصی بدلی اور پرسکون سی تھی وہ کوفت زدہ ہوئیں جو ان کے بیٹے کی محبت کے زیر اثر تھی انہیں غصہ آنے لگا کے جیسے ان کے بیٹے کو لڑکیوں کی کمی تھی نہ

یقین کریں مجھے اچھوت کی بیماری نہی"

وہ بڑھایا کپ سامنے ٹیبل پر رکھتے اپنا کپ ہونٹوں سے لگا گئ

ملیحہ پہلو بدل گئ تھی

جانتی ہیں آپ کے بیٹے نے آپ کی بات پر پرسوں رات کیا سلوک کیا میرے ساتھ"

وہ گرم گھونٹ حلق میں انڈیلتے وہ لمحے یاد کرتے بولی

ملیحہ خاموش ہی رہیں

میری ساری تیاری پس پشت ڈالتے وہ آپ کی ایک کہی بات پر مجھ جیسی ریپ وکٹم کو اپنانے والا شخص جس نے مجھے کبھی اس چیز کا طعنہ نہی دیا آپ سے معافی نہ مانگنے پر مجھے چھوڑنے کی دھمکی دے گیا تھا

سوچ سکتی ہیں آپ اس کے رویے سے زیادہ یہ بات میری جان لے گئ تھی

آپ جانتی ہیں میں نے صرف اس کی وجہ سے معافی مانگی تھی

وہ یہ بات جتا گئ تھی

اور میں یہ اب ہرگز نہی برداشت کروں گی آپ اپنی طرح میرا گھر بھی برباد کرنے کی کوئ بھی کوشش کریں۔۔"

وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولی

مطلب کیا ہے تمہارا"

ملیحہ میگزین پٹختے بڑھکیں تھیں

میں آپ کی عزت کرنا چاہتی ہوں آنٹی مجھے مجبور نہی کریں

میں جانتی ہوں میں اپنی اصلیت باخوبی نہ ہی کبھی بھولوں گی میں ایک ریپ وکٹم ہوں اپنی حثیت سے باخوبی واقف ہوں گی

آپ کو بے شمار نفرت ہے مجھ سے اور یہ شائد کبھی بھی ختم نہ ہو

کیا میں یہ چاہتی تھی میرے ساتھ ہو کیا کوئ لڑکی چاہتی ہے اس کے ساتھ ایسا ہو"

وہ اپنا آدھا چائے سے بھرا کپ ٹیبل پر رکھتے اب نمی چھپا رہی تھی

اگر آپ کی بیٹی ہوتی اسے گھر سے نکال دیتی پھر اگر ماوں کی سوچ ایسی ہوتی ہے تو اچھا ہوا میری ماں زندہ نہی ہے"

ملیحہ ششدر تھی

میں نے سنا ہے یہاں سکون ملتا ہے"

وہ ان کی گود کی جانب اشارہ کرتے بولی

اگلے لمحے وہ سر رکھ چکی تھی ملیحہ صرف کھسکتی رہ گئیں فلحال لفظوں کی قلت لگی تھی

وہ کہتا ہے دل میں جگہ بنانا مشکل نہی

لیکن وہ یہ نہی جانتا ہر کوئ اس کے جیسا نہی

اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگتے جا رہے تھے

وہ کہتا ہے میں کون ہوتی ہوں خود کو برا کہنے والی لیکن وہ یہ نہی جانتا اصل میں میں نفرت کے قابل ہی ہوں

ملیحہ اس کی رندھی آواز سنتے بھی اس کے ہونٹوں کے کنارے مسکراتے دیکھ رہی تھی

وہ کہتا ہے تم کون ہوتی ہو اپنی زات کے بارے میں فیصلہ کرنے والی

لیکن میں اسے کیسے بتاوں اس کی ماں میرے بارے میں یہ فیصلہ کر چکی ہے کے میں اس کے قابل ہوں ہی نہی"

اور یہ سچ ہے میں اس بات کو کبھی نہی جھٹلاوں گی ہالہ نور غازیان کے قابل کبھی نہی تھی نہ ہے لیکن وہ کیوں اتنا اچھا ہے کے مجھے وہ کبھی کبھی اپنی اچھائ سے برا لگنے لگتا ہے

وہ آپ دونوں میں سے کس پر ہے میں نہی جانتی

لیکن ایک بات طے ہے"

وہ ان کی نظریں خود پر مرکوز کرتے اوپر دیکھتے بولی

اگر غازیان آپ کا لاڈلہ ہے تو ہالہ نور کی جان ہے اب اس میں"

تھینکیو آپ کا آپ کی وجہ سے وہ میرے پاس ہے"

اور یہی چیز آپ کو میرے نزدیک معتبر بناتے آپ کے تمام میری روح کو چھلنی کر دینے والے الفاظوں کو بھی پس پش ڈال دیتی ہے

وہ ان کے ہاتھ چومتے آنکھوں سے لگاتے نمی لیے مسکرائ تھی

ملیحہ صرف اس کی پشت دیکھتی رہ گئ جو انہیں سکتے میں چھوڑے کمرے میں چلی گئ تھی

--------------------------------------------------

کہاں ہو تم اس ٹائم۔۔"

وہ فون کان سے لگائے تھی جب اس کی تیز آواز سنی تھی

میں تمہارا شہر دیکھ رہی ہوں تم تو لے کر نہی آئے میں نے سوچا خودی آوٹنگ کر لوں"

وہ ایلویٹر سے سیکنڈ فلور پر جاتے بولی تھی

آئرہ تمہیں راستوں کا نہی پتہ۔۔"

کچھ خیال کرو مما کا فون ابھی مجھے آیا ہے۔۔"

تم یہاں میری زمیداری ہو فلحال سو کیر فل میں جواب دے ہوں تمہارا"

میں نہی ہوں تمہاری زمیداری تم نے مجھے کبھی دوست سے آگے سمجھا ہی نہی۔۔"

وہ عجیب لہجہ اپنا گی تھی"

اگلے لمحے وہ فون کان سے ہٹاتے اپنی جلد بازی پر گہرا سانس بھرتے پھر سے کان سے لگا گئ تھی

لیو غازیان میں آ جاوں گی یار بے بی گرل نہی ہوں"

وہ اب مسکرانے کی سعی کر گئ تھی

کیا بول رہی ہو اچھا میں یہاں شاپنگ مال میں آیا ہوں بتاو کہاں ہو پک کرتا ہوں تمہیں پھر وہاں سے اچھا سا لنچ کروا دوں گا

ڈن۔۔"

وہ پلان سیٹ کر گیا

نہی میں آلریڈی فوڈ کارٹ کی جانب جا رہی ہوں کچھ شوپنگ کرنی تھی تمہارے شہر سے"

وہ فون میں بزی تھی جب سامنے سے آتے شخص سے بری طرح ٹکرائ اپنی ہیلز سے توازن کھوتے وہ گرتی کے وہ بازو سے تھام چکا تھا

فون اس کا دور جا گرا تھا

آئم سو سوری۔۔" وہ خجل ہوتے پیچھے ہوئ تھی

اس کی فائلز کے پیجز سمیٹنے کو وہ نیچے جھکی تھی

جب وہ بھی اسی ٹائم جھکا اور دونوں کا سر بری طرح ٹکرایا تھا

اف میرا سر توڑ دیا میں کر رہی تھی نہ"

وہ گھور گئ تھی اور پیجیز تیزی سے سمیٹتے سامنے دیکھتے فائل سائیڈ پر کرتے بولی تھی

میں نے سنا ہے سر ٹکرا جائے تو دوبارہ پھر ٹکرانا چاہیے"

وہ دانت پیستے اپنا سر اس کے سر سے زور سے ٹکرا گئ تھی گویا بدلہ لیا تھا

اس وائٹ جینز پر گرے شرٹ والے شخص سے جو شدید بیزار سا لگا تھا

ازہان جو یہاں میٹنگ کے لیے آیا تھا اس لڑکی کی حرکت سے اپنا غصہ ضبط کرتے خاموشی سے اٹھ گیا تھا

جب اس کی واچ سے سٹولر کا کنارا الجھ گیا تھا وہ ابرو اچکا گیا یہ کیا تھا

ی تھی"

وہ نا چاہتے بھی مسکراہٹ روکے نکالنے لگی تھی

جب وہ اس کے آرام سے نکالنے پر کھینچتے نکالتا کے وہ بول اٹھی

میرا سٹولر پھاڑنا ہے"

برینڈڈ ہے معمولی نہی ہے"

وہ اس کا ہاٹھ ہٹائے خود نکالنے لگی تھی

آجکل کے بچوں میں بلکل مینرز ہی نہی رہے۔۔"

تھینکیو بھی کہہ دیتے ہیں"

وہ اس کو دور جاتے دیکھ بولی تھی

ویل یہ تھینکیو آپ کو مجھے کہنا چاہیے تھا کیونکہ آپ فون میں بزی تھیں سیکینڈلی میں بچہ نہی ہوں۔۔"

وہ پلٹتے چباتے بولا تھا

اف ایک تو آجکل کی ینگ جنریشن خود کو بائیس سال کی عمر میں ہی بہت بڑا سمجھتی ہے"

وہ اس کی فائلز میں سے گرے یونیورسٹی کے ایڈمٹ کارڈ پر انفارمیشن دیکھتے اس کو تمسخر اڑاتے لہجے میں بولتے کارڈ تھماتے گزر گئ تھی

وہ صرف کارڈ ہی نہی اس کی پشت بھی دیکھتا رہ گیا تھا

سر جھٹکتے ایلویٹر کی جانب بڑھا تھا

--------------------------------------------------

اس کو کال کرتے وہ پاگل تھا جو اس کا فون نہی رسیو کر رہی تھی

آج تم مجھ سے نہی بچو گی گھڑی پر نظر ڈالی جہاں پانچ بج گئے تھے

اس کی ڈاکٹر کے ساتھ اپوئینٹمینٹ تھی جو احان اسے یاد کروانا چاہ رہا تھا

وہ چابیاں تھامتے آفس سے باہر نکلا

------------------------------------------------

وہ ابھی روم سے باہر ہی نکلی تھی

کے اپنی جان جاتی محسوس ہوئ تھی

سامنے کھڑے شخص کو لاونج میں دیکھتے حیران ہونے کے ساتھ بے تحاشہ اپنے کمرے پر نظر ڈالتے پریشان بھی تھی

یہ یہاں تو پھر۔۔"

اسے چند لمحے پہلے فون سے سنی بات پر اپنی خوشی مانند لگتی محسوس ہوئ اگر وہ یہاں تھا تو پھر۔۔؟

ریحہ کہاں ہے مما۔۔"

مجھے روم میں نظر نہی آئ مجھے آفس میں یاد آیا تھا آج ڈاکٹر کے ساتھ اپوینٹمینٹ تھی

فون اس کا روم میں ہے تو وہ کہاں گئ ہے"

وہ سانیہ سے استفار کرنے لگا تھا

کیا مطلب وہ روم میں نہی ہے وہ وہی تو تھی صبح سے میں اس سے وہی مل کے آئ تھی

سانیہ نے حیرت کم کرتے کہا

مما ریحہ روم میں نہی ہے"

نیچے تو نہی گئ منع بھی کیا ہے اسے میں نے پھر بھی اگر یہ نیچے ہوئ نہ تو اس کی خیر نہی آج۔۔"

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے تھکاوٹ کے باوجود اس کے لیے پریشان تھا

احان وہ نیچے نہی گئ میں کچھ ٹائم پہلے نیچے سے آئ ہوں۔۔"

وہ جاتا کے پھر سے اس کے قدم روک چکی تھیں

روم میں چیک کرو

واشروم میں نہ ہو۔۔"

سانیہ کی بات پر وہ دوبارہ روم میں گیا تھا

ریحہ اندر ہو یا کہی چھپی ہو تو سامنے آ جاو۔۔"

مجھے پریشان نہی کرو

وہ روم میں داخل ہوتے بالکنی اور واشروم کا دروازہ نوک کرتے سخت آواز اپناتے بولا تاکہ وہ اگر مزاق کر رہی تھی تو باہر آجائے

پر آوازندار تھی

احان نے اب پریشانی سے نیچے دیکھنے کے بعد ٹیرس چیک کیا وہ اسے نظر نہی آئ

پانچ منٹ تک جب وہ اسے پورے گھر میں نہی ملی تو وہ اب پریشان سا تھا

مما ریحہ نہی ہے آپ لوگوں کو اتنا اندازہ نہی ہے گھر رہتے کے وہ کہاں گئ ہے"

جبکہ دانین روم پر نظر ڈالتے سن سی تھی

اسے فکر لاحق تھی

دانین تم سے کچھ کہہ کر گئ ہے وہ تم اوپر ہی تھی نہ"

تمہیں کچھ پتہ ہے"

سانیہ کے کہنے کی دیر تھی احان نے پلٹتے اس کے تاثرات نوٹ کرتے اس کے سر پر سوار تھا

اس کے ہاتھ میں بجھتا فون دیکھتے وہ فون کھینچ گیا تھا

اٹھاو اسے کس کا فون ہے"وہ تیز لہجے میں اس کی حرکات نوٹ کرتے بولا تھا

ک۔۔کسی کا نہی ہے آپ کو کیا ہے اپنے کام سے کام رکھیں۔۔"

وہ فون بند کر چکی تھی

ریحہ کہاں ہے"

وہ یک دم فون اس کے ہاتھ سے لیتے دور پھینک چکا تھا کے دانین کو جان جاتی محسوس ہوئ تھی

مجھے کیا پتہ ک۔۔کسی کے ساتھ چلی گئ ہوگی بغیر بتائے مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو"

وہ نارمل ہوتے بولی تھی

احان کے تھپڑ سے اسے منہ میں خون کا زائقہ محسوس ہوا تھا

احان۔۔"

سانیہ نے سختی سے تنبیہ ک تھی

آپ درمیان میں نہی بولیں گی آج

وہ انہیں دور رہنے کا اشارہ کر گیا تھا

میں پوچھ رہا ہوں ریحہ کہاں ہے"

دانین ساکت سی تھی جب وہ اسے پیچھے دھکیلتے اس کے روم کی جانب گیا

ریحہ کہاں ہو۔۔"

ریحہ کہاں ہے تم جانتی ہو بتاو مجھے کہاں ہے میری بیوی

اگر اسے کچھ ہوا دانین حیدر تو تمہارا وہ حشر کروں گا ساری زندگی یاد رکھو گی"

اس پر دھاڑتے اس کی نظر اچانک برسلیٹ پر پڑی جو بیڈ کے پاس گرا پڑا تھا

وہ یہی تھی مطلب تمہارے روم میں۔۔"

وہ برسلیٹ اٹھاتے سامنے کر گیا تھا

آخری بار پوچھ رہا ہوں ریحہ کہاں ہے"

وہ اس کا گلا پکڑ چکا تھا

کھانستے وہ برے حال میں تھی

احان کیا کر رہے ہو۔۔"؟

سانیہ سکندر کو لے آئیں تھیں کیونکہ احان ان کے قابو میں تو کبھی بھی اپنے غصے میں نہی آ سکتا تھا

اس کے ہاتھ دانین کی گردن سے ہٹائے تھے جو آپا کھو رہا تھا

ریحہ کہاں ہے"

دانین میں تمہیں زندہ نہی چھوڑوں گا۔۔"

اس تک جاتا جب سکندر نے اسے درمیان میں تھام لیا تھا

پاگل ہو گئے ہو شرم حیا بیچ دی ہے جانتے بھی ہو بھابھی ہے تمہاری کیا طریقہ ہے یہ"

سکندر نے دور رہتے بامشکل اپنا ہاتھ روکا تھا

وہ خوفزدہ سی بے حال کھانستے اس کی جنونیت دیکھ رہی تھی

تو تم نہی بتاو گی۔۔" وہ بھپرے لہجے میں سب کو نظر انداز کرتے بولا تھا

م۔۔مجھے نہی پتہ۔۔" وہ ڈھٹی رہی تھی

احان یہی ہو گی آ جائے گی"

کیا کر رہے ہو تم۔۔"

سانیہ اپنا سر تھا گئ تھیں


آ نہی جائے گی یہ بتائے گی" وہ روم سے تن فن کرتے نکلا تھا

کے وہ اٹکا سانس بحال کر گئ تھی

جب اگلے لمحے ہی جان جاتی محسوس ہوئ


اب بھی بتاو گی یا نہی" وہ گن ری لوڈ کرتے سامنے تان چکا تھا


سانیہ جو دانین کے جھوٹی باتوں میں اس کے آنسو صاف کیے ساتھ لگائیں تھیں

احان کے عمل پر خوفزدہ تھیں آخر اس گھر میں ہو کیا رہا تھا انہیں تو احان کی عقل پر شبہ ہو رہا تھا


میں چلانے سے گریز نہی کروں گا بول دو شرافت سے"

وہ دھاڑتے فائر کر چکا تھا

جو دیوار میں ہول کرتے گزر گئ


وہ خوفزدہ سی اٹھ گئ تھی

بتاتی ہوں۔۔" پلیز نیچے کرو وہ تیزی سے خوفزدہ بولی تھی

سانیہ کی گرفت اس پر سے چھوٹی تھی


بولو۔۔۔"وہ دوبارہ گن ری لوڈ کرنے لگا تھا


وہ کبرڈ کی جانب اشارہ کر گئ تھی


دیکھ لیے اس کے کارنامے"

اگر اسے کچھ بھی ہوا میں اسے زندہ نہی چھوڑوں گا

وہ کبرڈ کی جانب جاتے اسے دھکہ دے گیا تھا


چابی۔۔"

وہ دھاڑا تھا


فوری اسے ڈرا سے اسے تھماتے دور ہوئ تھی

تیزی سے کبرڈ کا ڈور کھولا سامنے وہ بے ہوش سمٹی سی نیچے گرتی کے وہ اسے تھام گیا تھا


ریحہ میری جان آنکھیں کھولو۔۔"

مما پانی لائیں۔۔"

وہ اس کے بے ہوش وجود کو بازوں میں بھرتے باہر لاونج میں لاتے چیخا تھا

اس کے ہونٹوں سے ٹیپ ہٹاتے وہ خونخوار نظروں سے اسے دیکھ گیا تھا


نکل جاو دانین میری نظروں کے سامنے سے اس سے پہلے میں تمہارا حشر بگاڑ دوں"

سانیہ کی بات پر تمسخر اڑاتے لہجے میں بولی تھی


میں ہرگز نہی جاوں گی یہ مری کیوں نہی

پچھلے آدھے گھنٹے سے بند ہونے کے بعد بھی

نائمہ نے روتی نظریں اپنی بیٹی سے اس کی جانب اٹھائیں تھیں جو جانے کونسی دشمنی لے رہی تھی


اسے کبرڈ میں بند کیے تھی وہ واقعی انہیں پاگل لگی تھی اس لمحے


میں ہوسپیٹل لے کر جا رہا ہوں آ کر تمہاری تبعیت درست کروں گا مینٹل سک عورت۔۔"

فرار ہونے کی کوشش بھی نہ کرنا۔۔"

ازہان سے پہلے تمہارا حساب کتاب میں کروں گا اب۔۔۔"

اس پر نظر ڈالتے وہ اپنا غصہ بامشکل ضبط کیے تھا ورنہ اس کی جان لینے میں وہ دیر نہ لگاتا


احان نے اسے بازوں میں بھرے فلحال ہوسپیٹل کا رخ کیا اس کی ہرٹ بیٹ کافی سلو تھی وہ ڈپریشن کی وجہ سے ہوش میں نہی آ رہی تھی


--------------------------------------------------


روڈ پر باقاعدہ اس تیز گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوتے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ گئ تھی


لوگوں کے ہجوم کو چیرتے وہ وہاں تک گئ

جہاں وہ شخص خون میں لت پٹ بے آسرا سٹیرنگ پر سر رکھے پڑا تھا


پتہ نہی کون ہے یہ شخص۔۔"

مجھے لگتا ہے زندہ نہی ہے"

اس کے زخمی وجود کو دیکھتے وہ گاڑی کے پچکے دروازے کو کھولتے بول رہے تھے


اگر آپ لوگ یہ چہ مگوئیاں کرنے کی جگہ ہوسپیٹل لے جائیں اور ایمبولینس کو فون کر دیں تو زیادہ بہتر ہو گا"

وہ تیز لہجے میں بولی تھی


میڈم تمہارا رشتے دار ہے نکال رہے ہیں نہ

پولیس کیس بھی ہو سکتا ہے کیا پتہ ہے نشہ کیا ہو

جو اتنی تیز گاڑی چلا رہا تھا

وہ سوچ کے رہ گئ تھی کیونکہ گاڑی کی رفتار تو اس نے بھی دیکھی تھی

ہٹیں پیچھے آپ اس کو نکالنے میں ہیلپ تو کر سکتے ہیں نہ۔۔"

فون ہو گا یہی کہیں چیک کریں اس کی فیملی کو انفارم کریں

وہ مزید نزدیک جاتے گاڑی کی اندرونی جگہ چیک کرنے لگی

وہ اس کو نکال چکے تھے

اس کے ہوسپیٹل لے جانے کو ایمبولنس میں کوئ ساتھ جانے کو تیار نہ تھا

وہ دیکھتی رہ گئ جب اس کو سیدھا کیا تھا ابھی ٹھیک پندرہ منٹ پہلے وہ اس شخص سے ٹکراو کے دوران ملی تھی

زیادہ سٹریس لینے کی وجہ سے بے ہوش ہیں ادر وائز شی از فائن کچھ دیر دیر تک ہوش آ جائے گا

اس کے پراپر چیک اپ کے بعد وہ پرسکون ہوتے اس کے پاس آیا جو بیڈ پر آنکھیں موندے سوجھی آنکھوں سے پڑی تھی

اس کا ڈرپ لگا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگاتے وہ اس کے نزدیک بیٹھتے گھمبیر معاملہ سوچنے لگا تھا آخر ایسا کیا ہوا تھا

گاڑی کا نمبر میں نے سینڈ کر دیا ہے"

میں نمبر دہراتی ہوں

وہ جو دروازے کے پار تھی نمبر پر غور کرتے سراسمگی کی کیفیت میں اندر بڑھی تھی

اسے تو رٹا تھا اس کی گاڑی کا نمبر

آپ نے سہی کہا تھا کچھ لوگوں کی اکڑ نکالنے کے لیے انہیں زندگی کے کسی مقام پر سبق دینا ضروری ہوتا ہے"

اس کاقہقہ اسے زہر لگا

وہ زہر خند لہجے میں بول رہی تھی

ریحہ کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئ

یہاں آنے کی غلطی تو تم کر چکی ہو جیٹھانی صاحبہ اپنے بچے کی جان پیاری ہے تو خاموشی سے بیٹھی رہو

وہ بے حس و ساکت تھی جبکہ وہ اس کا منہ ٹیپ سے بند کر چکی تھی

آنسو تواتر اس کی آنکھوں سے بہتے جا رہے تھے

اس شخص کو میں نقصان ہرگز نہی پہنچانا چاہتی تھی ڈیر جیٹھانی صاحبہ کیونکہ میری اس سے کوئ دشمنی نہی لیکن اس کی بیوی وہ معمولی سی لڑکی اس کو تکلیف میں دیکھتے مجھے بہت سکون ملے گا

جیسے اس گھر میں میری کوئ ویلیو نہی

ریحہ تو سب کچھ ہے نہ مجھے اپنا بچہ کھوئے ابھی چند دن نہی ہوئے لیکن اس گھر میں کسی کو بھی یاد نہی میں کس ازیت سے گزر رہی ہوں

لیکن ریحہ نیچے نہ جائے ریحہ کی ڈائیٹ کا خیال رکھا جائے کیونکہ اریحہ میڈم تو دنیا سے انوکھی ماں بننے جا رہی ہیں نہ

وہ ساری بھڑاس نکالتے بول رہی تھی

تم کچھ نہی کر سکو گی تمہاری آنکھوں کے سامنے اریحہ تمہیں وہی تکلیف دوں گی جو میں محسوس کرتی ہوں اب تک تو اس کی گاڑی کی بریکس فیل کی وجہ سے وہ کہی جا ٹکرایا ہو گا"

وہ گھڑی پر نظریں ڈالتے تمسخر اڑاتے لہجے میں بولی تھی

اٹھو تم ہوش میں رہتے یہ سب دیکھو گی تمہیں کچھ نہی ہو سکتا

بند ہوتی آنکھوں سے اس نے بس اسے خود پر جھکے اپنے چہرا تھپتپھاتے محسوس کرنے کے بعد گھٹن زدہ ماحول محسوس کیا تھا

وہ بے ہوشی میں بے چین ہونے لگی

ت۔۔تم حان کو کچھ نہی۔۔"

حان۔۔"

چھوڑو مجھے وہ اپنا ہاتھ لاشعوری میں اس سے چھڑوانے لگی تھی

ریحہ۔۔"

وہ اس کی بے چینی نیند میں محسوس کرتے اس کے نزدیک ہوتے نرمی سے بولا

حان۔۔"

حان وہ آپ کو مجھ سے چھین لے گی۔۔"

وہ بری ہے

وہ بند آنکھوں سے ابھی بھی تیزی سے بڑبڑا رہی تھی

میں پاس ہوں ریحہ۔۔"

وہ اس کے سلوٹ زدہ ماتھے پر لب رکھ گیا تھا

اس کا لمس اپنے چہرے پر پاتے وہ آنکھیں کھولتے اس کا خود پر جھکا چہرا دونوں ہاتھوں سے چھونے لگی تھی

میں ہی ہوں حان کی جان۔۔"

اس کے ہاتھ تھامتے وہ بولا تھا کے وہ خواب کی سی کیفیت سے جاگتے اردگرد کا جائزہ لیتے لمحوں میں خوفزدہ سی ہوتے اٹھتے اس کے سینے سے لگتے رونے لگی تھی

ایزی ریحہ۔۔"

وہ اس کے اس طرح اٹھ جانے پر بوکھلاتے پریشان ہی ہو گیا تھا کے ڈرپ کی لگی سوئ سے اسے تکلیف بھی محسوس ہوئ تھی

میں ایزی رہوں آپ سوچ سکتے ہیں"

میں اس کی حرکت پر اسے ہرگز نہی چھوڑوں گی

وہ مزید آپے سے باہر ہوتے اس کی گرفت سے نکل رہی تھی

کول یار ایزی رہو تم میری جان پر ترس کیوں نہی کھاتی ہو جب میں نے منع کیا تھا روم سے باہر نہی آو گی پھر

سوچ سکتی ہو چند لمحوں میں کیا حالت کر دیتی ہو تم میری"

وہ نا چاہتے ہوئے بھی لہجے میں سختی لے آیا تھا

وہ آپ کا ایکسیڈینٹ احان میری جان لے رہی تھی وہ۔۔"

وہ آپ کو نقصان پہنچاتے میری سانسیں چھیننا چاہ رہی تھی

آپ کہہ رہے ہیں میں ایزی رہوں"

وہ مزید ہائیپر ہوتی جا رہی تھی جب وہ اس کے لفظوں پر اٹکا تھا

تم اس کے ہر معاملے سے دور رہو گی میں خود ہینڈل کر لوں گا"

وہ اس کے پاس سے اٹھتے بولا تھا

----------------------------------------------------

ہوسپیٹل آتے وہ مزید پریشانی کا شکار تھی

ہم ٹریٹمینٹ اسی صورت میں دے سکتے ہیں ہوسپیٹل کا عملہ زمیدار نہی ہے پہلے پولیس کو انفارم کریں آپ

سینیر ڈاکٹر سے اسے ایسی توقع نہی تھی اسے جو باقی کسی ڈاکٹر کو بھی قریب نہی بھٹکنے دے رہے تھے

آپ کا دماغ درست ہے ایک شخص کی زندگی خطرے میں ہے آپ کو اپنی پڑی ہے"

وہ سٹریچر پر پڑے اس شخص کو دیکھنے لگی سفید چادر تیزی سے خون سے رنگتی جا رہی تھی

بحرحال آپ انہیں فوری ٹریٹمنٹ دیں رہی بات پولیس کی میں ہینڈل کر لوں گی"

پلیز انسانیت کے لیے"

وہ تیز آواز میں بولی تھی

اس کا سیل فون تھامے بلینک سکرین کے علاوہ کچھ نظر نہی آیا تھا

شٹ ۔۔"

اپنا سیل فون لیتے اس نے فوری سے کال کی تھی

کیا تم آ سکتے ہو فلحال۔۔۔"

ہمم میں تمہیں سمجھاتی ہوں

فلحال ہوسپیٹل آو۔۔"

----------------------------------------------------

مما ٹھیک ہے وہ اب پریشان نہی ہوں نائمہ چچی سے میری بات کروائیں فلحال"

وہ مسلسل اس کو اضطراب کی کیفیت میں ٹہلتے بات کرتے دیکھ رہی تھی

کال کرتے وہ مسلسل اب ازہان کا نمبر ٹرائے کر رہا تھا جو اوف جا رہا تھا


ریحہ مجھے بتاو گی اس نے ایسا کیا کہا تھا

وہ فون تھامتے اس کے قریب آیا تھا


مجھے نہی بتانا۔۔" وہ بازو آنکھوں پر رکھے پڑی رہی تھی

ریحہ ناراض ہونے کا ٹائم نہی ہے ازہان کے پاس میری گاڑی تھی یار پلیز مجھے بتاو گی

وہ بازو آنکھوں سے فوری ہٹا گئ


ازہان۔۔۔"وہ آپ کی گاڑی میں تھا وہ اب تک دانین کی دھمکی سمجھی تھی

وہ پریشانی سے اٹھ بیٹھی تھی


ہاں صبح میری گاڑی سٹارٹ نہی ہو رہی تھی جلدی کی صورت میں میں دوسری گاڑی میں گیا تھا

ازہان سے بول کے جو بھی مسلہ ہے وہ کلیئر کروا لے بعد میں"


وہ آپ کی گاڑی کا نمبر کسی کو سینڈ کر رہی تھی"


آئ سوئیر میرے بھائ کو اگر کچھ ہوا مجھ سے یہ عورت نہی بچنے والی۔۔۔"

وہ تیش زدہ سا فون لیتے نکلتا کے وہ اس کا بازو تھام گئ


میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔۔"

وہ ڈرپ کی سوئ نکالتی کے وہ روک گیا تھا


چچی تمہارے پاس آ رہی ہیں ڈرپ ختم ہو گی تو تم گھر آو گی"

ٹیک کیئر یور سلیف"

لہجے میں تنبیہ تھی وہ اس کے سر کو چومتے

ہاتھ چھڑواتے چلا گیا اور وہ بس دعا کرنے لگی

---------------------------------------------------

میں نے نمبر سہی سینڈ کیا تھا

وہ سہی سلامت میرے سامنے ہے۔۔"وہ فون پر بڑھکتے بولی تھی

اگر گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے تو پھر وہ کیسے سہی سلامت ہے"

وہ تیزی سے سیڑھیوں سے اترتی پورچ میں کھڑی گاڑی چیک کرنے جاتی کے سامنے موجود شخص کو دیکھتے اس کے حواس جانے لگے تھے

جو خونخوار نظروں سے شکن زدہ کپڑوں سے اس کے روبرو تھا

اس کاو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اس کا فون کھنچتے دو قدم پیچھے جاتے وہ سپیکر پر ڈال چکا تھا

یہ سب تمہاری وجہ سے ہی پوسیبل ہوا ہے

تم اب پیچھے نہی ہٹ سکتی

تمہاری وجہ سے آج وہ شخص زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے

میرے بھائ کا بدلہ پورا بہت ہواوں میں اڑ رہا تھا نہ وہ وکیل۔۔"

احان نے تاسف سے آواز پہچانی وہ کیسے بھول سکتا تھا

جاو نہی لے رہا کیس جو کرنا ہے کرو۔۔"

اسے اپنے الفاظ یاد آنےلگے تھے

وہ چند سانحوں پہلے اس کے توڑے فون کی ٹوٹی سکرین والا فون اس کے سامنے کر گیا تھا

کیا کہا تھا تم نے اسے کیسے جانتی ہو تم انہیں

تم میرے گھر میں رہ کر میرے ہی دشمنوں سے ہی رابطے میں تھی

وہ دو قدم پیچھے ہونے لگی تھی

ہاں تھی رابطے میں تم اور تمہاری بیوی ہے کیا چیز ہاں کیا چیز جو اس کے پیچھے پاگل ہو سب اور تم بیوی کے معاملے میں اتنا لو سٹینڈر ہے تمہارے ساتھ وہ بلکل سوٹ ایبل نہی لگتی

وہ تمسخر اڑاتے لہجے میں زہر اگل رہی تھی

شٹ اپ بکواس بند رکھو اپنی سٹینڈر تم مجھے نہ بتاو کیونکہ اس کے مقابلے میں تم جیسی کبھی پوری بھی نہی اتر سکتی سمجھ گئ میری بات اب اس کا زکر اپنی زبان سے نہی کرنا

جو سوال پوچھا ہے اس کا جواب دو کیسے جانتی ہو تم انہیں"

وہ بڑھکتے لہجے میں خود اس کا حشر بگاڑنے سے باز کر رہا تھا

تمہاری گاڑی پر حملہ کروایا تھا نہ شادی سے پہلے بی جان بات کر رہی تھیں

پھر میں نے ان کو پچھلے دنوں تمہارے پیچھے دیکھا تھا وہ تمہیں فولو کرتے تھے میری ملاقات سرسری ہوئ تھی جب اس نے تمہاری ٹائمنگ اور ہر ڈٹیل مجھ سے جاننی چاہی لیکن میں نے انکار کر دیا

کیونکہ مجھے خوف سا آیا تھا

لیکن جب میں نے اپنا بچہ کھویا تب مجھے اندازہ ہوا تمہاری اس بیوی کو بھی سبق سکھانا چاہیے

میں نے تمہاری کیز کی ڈپلیکٹ کیز بنوائیں

اور تمہاری گاڑی کا نمبر سینڈ کر دیا لیکن افسوس تم بچ گئے اور وہ تمہاری بیوی کتنی پکی ہے وہ عورت آدھا گھنٹہ بند رہی پھر بھی کوئ اثر نہ ہوا ہیٹ آف ٹو بوتھ آف یو۔۔"

وہ اپنا سارا زہر اگلتے اسے ہی نہی پیچھے کھڑی سانیہ کو بھی ششدر کر چکی تھی

تم نے میری گاڑی کے ساتھ۔۔" وہ کچھ بولتے اس کا انجام سوچتا اس کے فون پر رنگ ہوئ تھی

یس ازہان کا بھائ ہوں میں

ازہان۔۔"

وہ ٹھیک ہے"

دانین کے ہاتھ پیر سن ہوئے تھے

ازہان نہی ازہان کیسے"

کس چیز کا بدلہ لے رہی تھی تم مجھ سے"

وہ فون رکھتے چلایا تھا کے سانیہ نیچے اتریں

احان کیا ہو گیا ہے

ازہان کا ایکسیڈینٹ ہو گیا مما مجھے مروانا چاہتی تھی یہ لیکن میری گاڑی کی وجہ سے وہ اس حادثے کا شکار ہو گیا مما۔۔"

وہ نمی چھپا رہا تھا

میرا بچہ ازہان احان وہ ٹھیک ہے وہ تو پہلے ہی بے سکون تھا" سانیہ نے اس کو جھنجوڑا تھا

مما سنبھالیں پلیز کچھ نہی ہو گا اسے چلیں ہوسپیٹل۔۔"

وہ پیچھے ساکت تھی

وہ جب بھی اسے تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتی بدلے میں اسکا نقصان ہی کیوں ہوتا تھا

ان دونوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش میں وہ انہیں مزید قریب لے آئ تھی

اس کی پریگنینسی سے حسد محسوس کیا وہ اپنا بچہ کھو گئ تھی

اور اب اس کے شوہر کو نقصان پہنچاتے وہ اسے پہنچا بیٹھی تھی لیکن اب پچھتانے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا

وہ وہی سیڑھیوں پر ساکت سی بیٹھی تھی

نہی ایسا نہی ہو سکتا

وہ اکیلے لاونج میں بیٹھی اپنے بال نوچ چکی تھی

ہوسپیٹل ریسیپشن سے پتہ کرتے اس کا سامنا جس شخص سے ہوا تھا وہ سوچ بھی نہی سکتا تھا

کیسا ہے میرا بیٹا۔۔"

آنٹی اندر ہے وہ آئرہ کو سمجھ نہی آئ وہ کیا کہے

اس کے سر پر کافی چوٹ لگی تھی

بایاں بازو بھی ڈیفکیٹڈ تھا باقی انٹرنل انجیریز کے بارے میں وہ کچھ بتا نہی رہے"


تھینکیو۔۔"

وہ غازیان سے بولا تھا جو پولیس کیس ہینڈل کر چکا تھا وہ آئرہ کے بلانے پر وہاں تھا


فار واٹ ایک احسان تم نے کیا تھا بقول تمہارے"

ڈونٹ وری وہ ریکور کر جائے گا۔۔"

انکل کو سنبھالو۔۔"

وہ سکندر کو وہاں دیکھتے اس کا کندھے تھپھپاتے بولا تھا


آئرہ نے مڑ کر شیشے سے نالیوں میں جھکڑے اس شخص کے چہرے پر ازیت رقم دیکھتے قدم بڑھائے تھے


----------------------------------------------------------


وہ گھر آتے کافی لیٹ ہو گئے تھے

تم کیسے جانتی تھی۔۔"


یہ سوال تو میرا ہونا چاہیے تھا"

وہ گاڑی لوکڈ کرتے اس کے ہمقدم ہوتے بات پلٹ گئ

تم کیسے جانتے ہو"

وہ لاونج میں قدم رکھتے اس کی جانب دیکھتے بولی تھی


بس ایسے ہی ٹکراو ہو جاتا ہے ایک شہر میں رہتے"

خیر رات کافی ہو گئ ہے تم ریسٹ کرو"

آئرہ روم کی جانب چلی گئ تھی


وہ اپنے روم کی جانب بڑھا

دروازا کھولتے وہ دبیز قدموں سے داخل ہوا کے وہ حیران ہوا وہ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھی سیدھی ہو گئ تھی


تم ابھی تک جاگ رہی تھی" بارہ بجنے والے تھے


کیا مجھے اچھی بیوی کا مظاہرہ نہی کرنا چاہیے تھا

وہ شیشے سے دیکھتے شرٹ کے کف لنکس کھولتے مسکرانے لگا


مطلب تم میرا ویٹ کر رہی تھی

اورنج رنگ کے ڈھیلے کرتے میں ملبوس وہ بال کیچر میں جھکڑے اس لمحے اس کے دل میں اتر گئ تھی


مجھے لگا تھا ڈنر پر آپ کو کمپنی دینی چاہیے"

وہ بیڈ سے اترتے بولی جب وہ کبرڈ سے کپڑے لیتے سرعت سے پلٹا تھا


تم نے ڈنر نہی کیا ابھی تک"

وہ اس کے سر پر سوار تھا


آپ فریش ہو جائیں میں کھانا گرم کرتی ہوں۔۔"

وہ اس کی نظروں میں جھانکتے بیڈ سے شفون کا اورنج دوپٹہ لیتے اپنے کندھے پر پھیلاتے اس کی پہنچ سے دور چلی گئ تھی

غازیان سر جھٹکتے واشروم کی جانب چلا گیا

کھانا گرم کرتے ڈائینگ پر لگاتے وہ پچھلے پانچ منٹ سے اس کے ویٹ میں تھی

مما نے ڈنر کیا تھا"

ہمم۔۔" وہ اس کو فریش سا مہرون ٹی شرٹ اور سفید ٹراوزر میں دیکھتے بولی

آئرہ سے بھی پوچھ لیتی ۔۔۔" وہ چئیر کھسکھاتے بیٹھ گیا

وہ آپ کے ساتھ تھی۔۔"

نارمل لہجہ رکھتے وہ اس کی پلیٹ میں چاول ڈالنے لگی۔۔"

اس کے تاثرات نوٹ کر رہا تھا

بس کرو یار۔۔" وہ اسے لاشعوری میں تہہ لگاتے دیکھ ٹوک گیا

سوری۔۔" وہ ہوش میں آتے چمچ پیچھے کرتی سامنے والی کرسی پر جاتی جب وہ اس کی کلائ تھام چکا تھا

یہاں بیٹھو۔۔"

وہ اپنے ساتھ اس کی چئیر کھسکھاتے اشارہ کرتے دوسرا چمچ اپنی پلیٹ میں رکھ چکا تھا

وہ ہتھیلیاں مسلتے اس کے برابر میں بیٹھتے اپنی دلی کیفیت کو نظر انداز کرنے لگی تھی

میں کھلاوں۔۔"

وہ اپنا بھرا چمچ اس کی جانب بڑھا گیا تھا

نہی کیا کرو ایسے پلیز۔۔" وہ اس کا ہاتھ نیچے کرتے چہرا موڑ چکی تھی

اف میرے سامنے چہرا کر کے رویا کرو۔۔"

تاکہ میں بھی تم سے رونا سیکھوں۔۔"

اس کا چہرا اپنی جانب کر گیا تھا

رات کے اس پہر وہ سرخ ضبط کی آنکھوں سے اس کا چہرا غور کرنے لگی تھی بیرڈ ویسی ہی بڑھی تھی جبکہ بالوں کا وہ اب نارمل کٹ لے چکا تھا

ایسے نہی دیکھو نورے جان۔۔"

وہ چہرا نیچے کیے اب نم آنکھوں سے مسکرا گئ تھی

اب تم مجھ سے چھپ کر مسکرا رہی ہو۔۔"

نوٹ فیئر۔۔"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے اپنے ہاتھ میں لے گیا تھا

اس دنیا میں مجھ جیسے کتنے ہی کیسس ہوں گے پر مجھے تم کیوں ملے"

وہ اس کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا گئ تھی

اس کی بات یاد کرتے وہ گارڈن میں ٹہلتے سگریٹ سلگا چکا تھا وہ ابھی بھی اضطرابی کیفیت میں تھی

وہ کروٹ لیے کھانے کے برتن سمیٹنے کے بعد اس کے انتظار میں تھی

روم کا دروازہ بند ہوتے وہ دل تھام گئ تھی

جب وہ اس کے برابر میں آکر لیٹا تھا

وہ آنکھیں بند کرتے اس کی موجودگی محسوس کرنے لگی

u r perfect the way u r

ur imperfactions are what make u perfect to luv.."

don't forget that...

اس کی سرگوشیاں اس کی اضطرابی کیفیت کو کم کر دیتی تھی

اپنے گردن پر رینگتی اس کی انگلیوں سے وہ آنکھیں کھولتے ملگجھے اندھیرے میں اضافی چیز اپنی گردن میں محسوس کرنے لگی

وہ پینڈٹ اس کی گردن میں ڈالے اس کے احساس اب محسوس کرنے لگی تھی

دوسری شادی کا رائٹ دیا تھا تم نے مجھے۔۔"

وہ اسے حصار میں لیتے اس کی پشت اپنے سینے سے لگاتے گردن میں چہرا چھپائے بولا تھا

وہ سانسیں روکے سننے لگی


آفر ابھی ہے۔۔"

اس کا رخ اپنی جانب کرتے اس کے سادے نقوش لیمپ کی روشنی میں نہارنے لگا تھا


یہ دوسری شادی کے لیے رشوت تھی"

وہ پینڈت انگلیوں سے چھوتے نروٹھے لہجے میں بولی


نہی اس کے لیے نیا لوں گا" وہ مسکراہٹ ضبط کرنے لگا


سگریٹ پی کے آئے ہیں" وہ دانستہ بات بدل گئ تھی


تم میری دسترس میں سانسیں لے رہی ہو"

ہاو رومینٹک۔۔" وہ گہرا سانس بھرتے بول رہا تھا


شٹ اپ۔۔"

سگریٹ پی کے آئے ہیں۔۔" وہ اس کی شرٹ سینے سے مٹھی میں تھامتے ڈھٹی رہی تھی


کیونکہ تم مجبور کرتی ہو مجھے"

وہ اس کا تیز لہجہ محسوس کرنے کے بعد اپنے بال اس کی مٹھی میں کنچھے سے محسوس کرنے لگی تھی


مجھے آج تک سمجھ نہی آئ سگریٹ کیوں پی جاتی ہے غصے میں سگریٹ خوشی میں سگریٹ غمی میں سگریٹ۔۔"

مجھے بھی زائقہ اب چھکنا ہے آخر ہوتی کیسی ہے

وہ اس کے ہلتے ہونٹوں کے پاس جھکتے تھوڑی پر لب رکھ چکا تھا وہ اس کے عمل پر زہریلی خوشبو محسوس کیے بس خاموش ہو گئ تھی


نور تم مجھ پر یقین کرتی ہو۔۔" وہ اس کی آنکھوں پر سایہ فگن پلکیں چھونے لگا تھا


یہ بہت خوبصورت ہے"

وہ باریک چین میں لٹکتے سفید نگوں سے مزین انگلش کے ایلفابیٹ جی کو اپنے گردن میں دیکھتے بات بدل گئ تھی


میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔"

اپنی کمر پر اس کی گرفت سے اندازہ ہوا وہ غصے والے زون میں جا رہا ہے"


وہ بند آنکھوں سے اس کے سینے پر لب رکھ چکی تھی"

وہ پرسکون ہوتے اس کے سلوٹ زدہ ماتھے کی شکنیں مٹاتے بھینچے لب کے کناروں پر اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سی سمائل والے ایکسپریشن بنانے لگی


کیوں کرتی ہو مجھے ہرٹ پھر۔۔"

اس کو اپنے تکیے پر ڈالتے وہ اس پر جھک آیا تھا اس کی سگریٹ سے ملی جلی سانسیں وہ قریب سے محسوس کرنے لگی تھی


میں آج مما کے پاس بیٹھی تھی

تمہاری مما کے پاس میں نے ان سے دوستی کرنے کی کوشش کی تھی"

اب مجھ سے ناراض نہی ہونا

وہ بات بدل گئ تھی


میری ناراضگی کی بہت فکر ہے نہ جیسے"

میری بات صرف تمہیں اگنور کرنا اچھا لگتا ہے باقی سب سے سیٹ ہو جاو گی"

وہ کہنی کے بل ہوتے اسے اپنے پہلو میں دیکھنے لگا تھا


میری سانسوں میں تمہاری خوشبو بس چکی ہے مزید کیا چاہتے ہو"

وہ رخ اس کی جانب کیے اپنی جلد بازی پر چہرا فوری اس کے سینے میں چھپا گئ تھی


اس کے وجود کی نرمی اپنے سینے پر محسوس کرتے اس کی سانسوں کی تیز حدت اپنی شرٹ کے باوجود محسوس کرنے لگا تھا

وہ لزرتے وجود سے اس میں چھپنے لگی تھی

جو اس کے بالوں سے کلپ نکالے اس کی کنپٹی چومتے اس کی تھوڑی پر لب رکھ گیا تھا

وہ گہرے سانسیں بھرتے رخ موڑ گئ تھی

مجھے لگتا ہے رات کافی ہو گئ ہے"

وہ آنکھیں بند کرتے سونے کی کوشش میں اس سے کروٹ لے گئ تھی

فلحال اس لمحے مجھے محسوس کرو"

اس کی بوجھل آواز سے جھجک محسوس کرتی کے وہ دونوں پر کمفرٹر ڈالتے لیمپ بھی اوف کر گیا

---------------------------------------------------------

ساری رات ہوسپیٹل کے کوریڈور میں گزاری تھی

وہ ابھی تک ہوش میں نہی آیا تھا

احان کو اس لمحے اپنی زندگی جاتی محسوس ہوئ تھی

صبح فجر کی نماز کے ادا کرتے وہ کتنی دعائیں مانگتے اس کی زندگی کی دعا کر گیا تھا قریبی مسجد سے نماز ادا کیے وہ ہوسپیٹل 

اس لمحے اپنی ماں اور باپ کو سنبھالنا قدرے مشکل تھا جو بار ہا اس کے ہوش میں آنے کے خوہاں تھے

فون کی بجتی رنگ سے وہ رسیو کرتے کان سے لگا گیا تھا

اسی لمحے سامنے سے آتی لڑکی پر نظر پڑتے وہ آتش فشاں ہوا تھا

مجھے وہ لوگ حراست میں چاہیے جو یہ کاروائ کر چکے ہیں

ہولڈ اون ۔۔"

وہ اجڑے سے حال میں تھی

مم۔۔مجھے ملنے دیں پلیز۔۔"

وہ روتے بولی تھی

بہتری اسی میں ہے فلحال میری نظروں کے سامنے سے دور ہو جاو تمہیں اس کی زندگی میں ہرگز نہی آنے دینے والا دوبارہ

اس کے ہوش میں آنے تک تم سکون مار لو زرا۔۔"

چلی جاو یہاں سے دانین۔۔"

تم میرے بیٹے کی زندگی کی ہی دشمن بن گئ۔۔"

شرم حیا بھی نہی آئ تمہیں۔۔"

وہ اسے دیکھتے اپنا بی پی ہائ ہوتا محسوس کر رہیں تھیں رات سے اپنے بیٹے کے لیے روتی آنکھیں اب سوجھ سی گئ تھیں

دانین لب بھینچے اپنے آنسوں کو ضبط کیے ملگجھے سے حلیے میں منتظر سی تھی

مما چلیں اپنی تبعیت نہی خراب کریں آپ

اس کو ایسے ہرگز نہی چھوڑنے والا بے فکر رہیں اس کے لیے دعا کریں

احان سنبھالتے انہیں دانین سے دور لے جانے لگا تھا جو خالی خالی نظروں سے دھندلاتا منظر دیکھنے لگی تھی

-----------------------------------------------------------

کس کو صبح صبح تکلیف پڑ گئ ہے"

اس کی بھاری آواز سے

سائیڈ ٹیبل سے فون پر نمبر دیکھتے مندھی آنکھیں کھول گئ تھی اس کو خونخوار نظروں سے دیکھا جو اس کے باپ کو تکلیف ڈال چکا تھا

اس کی گرفت میں کسمساتے وہ ہلتی کے وہ گرفت مضبوط کرتے اس کی گردن میں مزید چہرا چھپاتے اس کی کمر پر مضبوطی کرتے اپنی ٹانگ بھی اس پر رکھ گیا تھا

بابا کالنگ لکھا مسلسل جگمگا رہا تھا اتنی صبح ان کا فون دیکھتے وہ پریشان ہونے لگی

خود کو اس پوزیشن میں دیکھتے خود سے بھی چھپنے لگی تھی وہ

غاز سائیڈ پر ہوں۔۔"

دانت پیستے اس کو پیچھے کرتے وہ ہلکان سی تھی جو اپنا پورا وزن اس کے نازک وجود پر ڈالے اس کی سانسیں رات سے بھی زیادہ برے طریقے سے روکے تھا

غازیان۔۔"

اس کے ہاتھ اس کی بازوں میں قید سے ہو گئے کے بجتا فون اب بند ہو گیا تھا وہ سانس کینچھتے پرسکون ہونے لگی تھی

غازیان آپ نے واک پہ نہی جانا"

اس کے گھنے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیرتے وہ اسے جگانے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی تھی

اس کے عمل سے پرسکون کرتا ہاتھ رکتے دیکھ وہ اس کا ہاتھ اپنے بالوں میں پھر سے رکھ چکا تھا

مطلب آپ جاگ رہے تھے۔۔"

وہ لب بھینچتے اس کی چند لمحوں پہلی کی جانے والی حرکت پر بال مٹھی میں اب کھینچ چکی تھی

نہی سونے کی پریکٹس کر رہا ہوں"

اب جاگا ہوں

چلو مارننگ کس دو مجھے۔۔"

اس پر جھکے وہ فرمائشیں کرتے دیکھ اس کے بکھرے بال اس کی نیند سے بھری آنکھوں کے سرخ عارض دیکھتے وہ بری طرح سٹپٹانے لگی تھی

ہٹ جائیں پیچھے اب سکون سے۔۔"

اس کو پیچھے دھکیلتے وہ اٹھتی کے وہ بول اٹھا تھا

چلو تمہارے لیے ایک فیور۔۔"

منظور ہے"

اس کی آنکھوں میں امڈتی شرارت وہ نہی دیکھ پائ

مجھے نہی چاہیے کوئ بھی فیور"

کائینڈلی آپ اب پیچھے ہو جائیں" وہ اپنا چہرا کمفرٹر میں چھپانے لگی تھی

لیکن میں اپنی مارننگ کو گڈ بنانے کے لیے پھر بھی فیور دوں گا ڈئیر وائف"

اس کے چہرے سے کمفرٹر کھینچتے اس کے چہرے پر جھک چکا تھا

پھر اس کی فیور لیتے وہ پچھتائ تھی جو اس کے چہرے پر اپنی شدت بھری جسارت کیے اسے سرخ کر چکا تھا

گاڑی کی خاموشی میں صرف اسے وہ پچھلے بیس منٹ سے ڈرائیو کرتے دیکھ رہی تھی


ہمیں کوئ گاڑی مسلسل فولو کر رہی ہے" وہ خاموشی توڑتے مضطرب سی بولی


گارڈ ہیں میرے۔۔"

مختصر جواب دیتے سگریٹ سلگاتا کے"

وہ اس کا ہاتھ ڈیش بورڈ تک جانے سے پہلے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سگریٹ کا ڈبہ تھامے شیشہ نیچے کیے ساری باہر پھینک چکی تھی

غازیان اس کی ہمت پر عش عش کر اٹھا


ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔؟

وہ فلحال خاموش رہا


میں پوچھ رہی ہوں ہم کہاں جا رہے ہیں" جواب ندار تھا

وہ اس کی کسی بات کا جواب نہ ملتے تھک ہار کر سیٹ سے ٹیک لگا گئ


اچانک آنکھیں کھولتے وہ کھڑکی کے پار منظر دیکھنے لگی راستوں کی شناخت ہونے لگی تھی وہ ازیت میں جاتے غور کرنے لگی


م۔۔میں نہی جاوں گی"

وہ ٹوٹتی آواز میں نفی کرنے لگی تھی وہ حقیقت کا عملی جامہ ہر چیز کو جلد ہی عطا کر رہا تھا


گاڑی جھٹکے سے پارکنگ میں رکی۔۔۔" وہ میڈیکل کالج کی عمارت وحشت ناک نظروں سے دیکھنے لگی


کم آوٹ نور۔۔"

وہ سخت لہجہ اپنا گیا تھا

وہ نفی کیے سیٹ سے چپک چکی تھی


میں بانہوں میں اٹھائے لے جاوں گا مگر پھر تم سب کو کلاسس میں کیا جواز دو گی"

اس کے ہاتھ کو جھٹکے سے کھینچتے وہ باہر نکالتے گاڑی لوک کر گیا


نو غازیان مم۔۔مجھے سب جانتے ہیں میں کیا جواز دوں گی اپنی ابسینٹ کا۔۔"

وہ اس کی شرٹ میں چہرا چھپاتے رونے لگی تھی


نور۔۔"

ہالہ۔۔" وہ نرمی برتنا نہی چاہتا تھا ورنہ وہ یہ سٹیپ بھی نہی لینے والی تھی


تم اپنی مرضی نہی چلا سکتے۔۔" وہ پینک ہوتی جا رہی تھی

پارکنگ میں قدرے سائیڈ پر تھے


میری جان تمہاری زندگی کے فیصلوں پر مرضی چلانے کے سارے اختیار تم پر رکھنے والے شرعی حق میں محفوظ ہیں

وہ اس کے آنسو صاف کرنے لگا جہاں لوگوں کی نظریں ان پر مرکوز نہ ہونے کے برابر تھیں


سیکنڈ ائیر کے لاسٹ کچھ منتھ چل رہے ہیں تمہیں سلیبس کوور کرنے میں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی ۔۔"

وہ اس کے برعکس مطمئین سا گاڑی سے ٹیک لگائے بولا تھا وہ حیرت زدہ سی تھی اس کی انفرمیشن رکھنے پر آنسووں کی روانگی میں اپنے نوکیلے ناخنوں سے اس کی گردن نوچ دینا چاہتی تھی پر وہ کہاں ایسا کچھ کر سکتی تھی


نور لوگ کچھ نہی دیتے۔۔"

موو اون تو کرنا ہے نہ یوں قید رہ کر زندگی نہی گزاری جاتی۔۔"

وہ سمجھانے والے انداز میں بولا لیکن ابھی اتنی جلدی یہ باتیں اس کے پلے نہی پڑھنے والی تھیں


رونا بند کرو میں ہمیشہ تمہارے پیچھے ہوں مگر اپنا ڈیفینڈ تمہیں خود کرنا ہے اب ہر معاملے میں ہمارے حال اور فیوچر دونوں میں۔۔"

وہ اس کی کلائ تھامتے قدم لینے لگا جبکہ وہ سٹل ہی تھی


میرا ہارش ری ایکشن ہو گا اب"

وہ سختی کر گیا تھا وہ چہرا جھکائے من بھر کے قدم اس کے ہاتھ میں قید اپنے ہاتھ پر دیکھتے بھرنے لگی


ایکچولی ہماری شادی فیملی نے اچانک طے کر دی

اسی لیے ہالہ نور کالج سکپ کر گئ تھی


لیکن میں نے تو کچھ اور سنا تھا"

پرنسپل کی بات پر وہ اپنی نظرین جھکائے مٹھی میں دوپٹہ بھینچ گئ تھی وہ ایک نظر اسے دیکھنے لگا


یہ آپ کا کنسرن نہی ہے"

پرنسپل خاموش ہو گیا تھا

وہ ایسے ڈیل کر رہا تھا جیسے وہ اس کا باپ ہو

خیر اس کی پوسٹ کی وجہ سے پروٹوکول تو اسے بھی مل رہا تھا


اس درمیان اگر مائیگریشن کا سین بنے تو ہو سکتی ہے"

وہ اونر سے پوچھنے لگا جبکہ وہ مائیگریشن پر اٹکی تھی


ہو سکتی ہے دوسرے میڈیکل کالج میں اگر یہ والا ائیر کلیر کریں گی اور اس کالج کی سی جی پی اے کے مطابق۔۔"


اوکے تھینکس سر یہ بریلینٹ سٹوڈنٹ ہے کوور اپ کر لی گی"

وہ مسکراتے بولا جبکہ وہ لب بھنچے بس ہونہہ ہاں کے جواب کے علاوہ زبان سیے تھی


گاڑی میں معمول کے مطابق اب بھی خاموشی تھی

اس کا لیکچر سکیجول اور باقی چیزیں لیتے وہ گاڑی تک آئے۔۔"


-------------------------------------------------


ہوش آ گئ ہے انہیں

ڈاکٹر کی بات سے وہ اطمینان میں ہوئے پچھلی پوری رات کوریڈور میں بے چین ٹہلتے گزرہی تھی


ہم کب مل سکتے ہیں۔۔"

احان نے ڈاکٹر سے پوچھا


فلحال داوئیوں کے زیر اثر انڈر ابزرویشن ہیں"


کوئ مسلہ تو نہی۔۔" وہ اس لمحے ان کے کیبن میں بیٹھا تھا


سر کی پچھلی سائیڈ متاثر ہوئ ہے

ہوش آنے پر پراپر چیک اپ ہو گا اس کے علاوہ ان کی بازو کندھے سے فریکچر ہوئ ہے

وہ شکر ادا کر گیا


اپنی ماں کو خبر دینے کے بعد وہ ان دونوں کو زبردستی گھر بھیج گیا ویسے بھی دوائیوں کا اثر شام تک زائل ہوتے اس کا وجود ہوش میں آنا تھا خود وہ وہی ہوسپئٹل میں تھا


وہ بینچ پر سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا جب اپنے کندھے پر لمس محسوس کیے چہرا موڑ گیا


ریحہ۔۔" وہ اسے دیکھتے خاصا حیران ہوا


رات سے کچھ نہی کھایا نہ۔۔" وہ اس کی حیرت کم کرتے بولی


تم کیوں آئ ہو۔۔"

کس کے ساتھ آئ ہو۔۔" اس کا حجاب میں لپٹا چہرہ دیکھتے وہ بے چینی سے پوچھنے لگا


بابا کے ساتھ آئ ہوں۔۔"

سامنے وہاج کو دیکھا جو ان کے قریب بڑھ رہے تھے وہ اس سے مل کر تسلی دینے کے بعد ازہان کو دیکھنے چلے گئے تھے


تمہیں نہی آنا چاہیے تھا مما کے ساتھ رہتی۔۔" وہ اب اس کی جانب متوجہ تھا


ان کے پاس مما ہیں

آپ کو بھی تو ضرورت تھی۔۔"

اس کے رات والے شکن زدہ کپڑے دیکھتے ہاتھ بڑھائے بکھرے بال پیشانی سے ہٹانے لگی تھی جو بینچ پر بکھرا سا بیٹھا تھا


وہ میری تکلیف خود پر لیے ہے"

اگر میری گاڑی اس کے پاس نہ ہوتی تو۔۔"

وہ اس کی آنکھوں میں چمکتی نمی دیکھ رہی تھی


حان خود کو بلیم نہی کریں۔۔"

وہ چوٹ اس کی قسمت میں تھی اور آپ نے ابھی تو بتایا ہے شام تک اسے ہوش آ جائے گی پھر ہم سب اس کا خیال رکھ کر اسے ٹھیک کر لیں گے

وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں تھام گئ تھی


آپ نے کل سے کچھ نہی کھایا نہ۔۔"

یار اریحہ کی جان کا تو خیال کیا کریں پھر۔۔"

وہ اس کی جانب رخ موڑتے گھورنے لگا تھا


تم نے کچھ نہی کھایا۔۔"

وہ نفی کرنے لگی تھی ڈرپ لگی تھی مجھے وہ یاد دلانے لگی تھی


یہاں میری ضرورت تھی

اسکے ہاتھ کی پشت پر وہ اس کی ڈرپ لگی ابھری نس پر انگوٹھا پھیرنے لگا


مجھ سے پہلے آپ کی فیملی کو آپ کی ضرورت ہے ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں"

اس کے مضبوط لہجے سے وہ سکون سا محسوس کرنے لگا


مجھے میرے شوہر سے ملنے دو ورنہ۔۔"

ابھی ایک فرد سے زیادہ اندر کوئ نہی جا سکتا۔۔"نرس کی تیز آواز سے وہ آئ سی یو کی جانب متوجہ ہوئے تھے جہاں دانین چیخ چلا رہی تھی


تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔" احان اسے پھر سے سامنے دیکھے خود پر کڑھا ضبط کیے تھا


تم مجھے نہی روک سکتے سمجھ آئ۔۔"

وہ دونوں کو دیکھتے وارن کر گئ تھی جبکہ ریحہ اس لڑکی کی ہمت کو داد دے رہی تھی جو اتنا سب کر کے بھی مقابلے پر اتری تھی


وہ فون نکالے کال ملانے لگا

دو منٹ میں مجھے اس آدمی سے ملی عورت کا اریسٹ وارنٹ چاہیے کل رات سے آپ کی ٹیم نے کوئ ایکشن نہی لیا وہ دندناتی پھر رہی ہے"

جبکہ اس کے فون کے سارے کال ریکارڈز آپ کے پاس موجود ہیں"

وہ ایریے کے ایس ایچ او سے بات کرتے اس کو سامنے دیکھتے پھر ایک بار بڑھک چکا تھا

ریحہ اس کا کندھا تھام گئ تھی


میں تمہاری بیوی کو چھوڑوں گی نہی اگر تم نے میرے شوہر سے نہ ملنے دیا۔۔۔"

تم یہ سب کر کے مجھے روک نہی سکتے

وہ بھپری ہوئ سی چلائ تھی


او ریئلی۔۔

اس کے ماتھے پر اب بے شمار بل آئے

اگلے لمحے وہ اپنے پیچھے کھڑی ریحہ کو جھٹکے سے اس کے سامنے کھڑا کر چکا تھا


یہ تمہارے سامنے ہے ہاتھ لگا کر دکھاو اسے۔"

ریحہ ششدر سی جھٹکے سے سنبھلی تھی


حان۔۔"

اس کی دبی سی آواز نکلی تھی

جب وہ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے بولا تھا

وہ سامنے کھڑی اس لڑکی کو دیکھنے لگی یک لخت نفرت غصہ اور بے بسی سی محسوس کرنے لگی تھی


یہ ساری میری بے بسی دیکھ کر خوش ہو رہی ہو نہ تو خوش تم بھی نہی رہو گی اریحہ دیکھ لینا۔۔"

اس کا دل کانپ گیا تھا


دانین بددعا دے کر کیا ثابت کر رہی ہو کے ہم تمہارے ساتھ غلط کر رہے ہیں جبکہ حقیقت سے تم بخوبی واقف ہو اپنی حالت کی وجہ سے سیرینڈر کر گئ میں اس دن تمہارا کیا جانا تھا نقصان تو میرا تھا نہ

تم نے میرے شوہر کو جان سے مارنے کا منصوبہ بنایا دانین تم اندازہ لگا سکتی ہو اپنی غلطیوں کا لیکن تم ابھی بھی صرف دوسروں کو بلیم کر رہی ہو"


میں تمہیں کچھ نہی کہوں گی دانین نہ کوئ برا لفظ کیونکہ تم خود اپنے ساتھ خاصہ برا کر چکی ہو میرا شوہر میرے پاس ہے خدا کی قسم اگر احان کو ایک خراش بھی تمہاری وجہ سے آتی تو تمہارے ہاتھ کاٹ ڈالتی لیکن اب تمہیں کچھ کہنے کا جواز ہی نہی ہے

باقی تمہارا معاملہ ازہان کے ساتھ ہے اب وہ ہی فیصلہ کرے گا اسے کیا کرنا ہے"

وہ پل کے لیے اس کی پتھرائ آنکھوں کو دیکھتے خاموش ہوئ تھی

جبکہ احان خاموش سا تھا


مجھے ایک آخری دفعہ ملنے دو بس اپنے شوہر سے کہہ دو۔۔"

وہ آنسو خود میں اتارتے بولی تھی


کبھی نہی ملنے دوں گا۔۔۔"

وہ کوئ جواب دیتی کے احان کا تیز لہجا اور چھبتی نظروں کا سامنا ہوا


ریحہ اس لمحے اس کا ہاتھ تھامتے اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی

پر وہ سختی سے نفی کرنے لگا تھا


----------------------------------------------------


اپنی بکس اور نوٹس وغیرہ آدھے گھنٹے تک کلیکٹ کرو میں لاونج میں ویٹ کروں گا۔۔"

زبیر کے گھر گاڑی روکتے وہ اسے ٹائم پہلے ہی باور کرا رہا تھا

ایک کان سے سنتے وہ دوسرے سے نکال چکی تھی

گاڑی سے نکلتے وہ اس سے پہلے اندر پہنچ گئ غازیان اس کی پشت دیکھتا رہ گیا


بابا کہاں ہیں۔" وہ لاونج میں پکارتے داخل ہوئ تھی جب وہ اپنے روم سے نکلتے مسکرا اٹھے


ہالہ کیسی ہے میری جان۔۔"

وہ ان کے سینے سے لگی آنسو پی رہی تھی غازیان باپ بیٹی کا ملاپ دیکھتے صوفے پر بیٹھ چکا تھا


غازیان بھی آیا ہے" وہ اس کے سر کو چومتے بولے


جی اگر آپ کی نظر بیٹی سے داماد پر پڑ جائے تو۔۔"

وہ تیز آواز میں بولا زبیر کی نظر لاونج میں بیٹھے شخص پر پڑتے مسکراہٹ میں بدلی

اس سے حال احوال پوچھنے کے بعد وہ ملازم سے چائے کا بولنے لگے تھے


چلو نور مجھے جانا ہے آفس۔۔ "

چند لمحوں بعد وہ اس سے بولا جو اپنے باپ کے ساتھ مصروف اسے بلکل بھلائے تھی وہ کوفت میں مبتلا ہوا تھا اب


تو جائیں روکا ہے میں نے۔۔" وہ پھر سے باتوں میں مصروف ہو گئ تھی


نور چلو آئ ایم گیٹنگ لیٹ پھر آ جائیں گے ہم۔۔" غازیان دانت پیس گیا تھا


مجھے بابا کے ساتھ رہنا ہے ابھی۔۔"

وہ باور کراتے بولی تھی


غازیان شام میں واپس آ جائے گی وہ رکنے دو اتنے دنوں بعد آی ہے۔۔"

زبیر کو مداخلت کرنی پڑی تھی خود وہ اٹھتے روم میں چلی گئ


نئ انرولمینٹ کروائ ہے کالج میں"

اس کے جانے کے بعد وہ دوبارہ مخاطب ہوئے تھے


نہی پرانی انرولمینٹ پر اس کی سیکنڈ ائیر سے ہی سٹارٹ لیا ہے

وہ خود کو پرسکون کرنے لگا تھا


وہ اسی لیے ہائیپر ہے فلحال تم سے شادی پر بھی یونہی ہارش رویہ اپنائے تھی اچانک کالج جوائینگ پر بھی ایسے ہی دے گی

تمہیں تحمل کا کس کس معاملے میں کہوں۔۔"

وہ شرمندہ سے ہوئے


میری زمیداری ہے آپ خود کو نہی تھکائیں۔۔"

وہ نرمی سے بولتے مطمعین کر گیا


شام تک خود تمہارے گھر ڈراپ کر دوں گا بیٹا۔۔"

آج چائے پینے سے انکار نہی کرنا۔۔"

وہ چائے سرو کرتے ملازم کو دیکھ اس سے بولے تھے وہ محض سر ہلا گیا

اور اب اسے داماد والا پروٹوکول دے رہے تھے


---------------------------------------------------


گیارہ بجے کے قریب وہ گھر داخل ہوا اس لمحے بھی اسے نور پر شدید غصہ تھا جو اس کی بات نہ مانتے وہی رکی تھی


تم کہیں جا رہی ہو"

لاونج میں آئرہ کو بیگ پیک کرتے دیکھنے لگا

وہ وہی صوفے پر نیم دراز ہو گیا خالی روم میں جانے کا اس کا بلکل دل نہی کیا تھا


ہاں صبح واپسی ہے میری۔۔"وہ اس کو تھکا سا دیکھتے بولنے لگی


اتنی جلدی غازیان کف لنکس موڑتے اٹھ بیٹھا تھا اب


جلدی نہی ہے یہ یہاں سے واپس جا کر مجھے آفس جوائن کرنا جو ڈیڈ سے میں نے پرامس کیا ہے"


بس کرو ماں باپ کی جان چھوڑ دو اب۔۔

اگلی زندگی کے بارے میں سوچو اب۔۔"


جیسے کے" آئرہ کے ماتھے پر بل آئے تھے


کہو تو میں تمہارے لیے لڑکا نہی انقل ڈھونڈ کر بچارے کی قسمت پھوڑوں"


نوازش ہے آپ کی لیکن انقل اگر تمہارے جیسا ہو تو منظور ہے مجھے"

وہ لب دبا گئ تھی

وہ غور کرنے لگا تھا


میری زندگی میں ایک جھنجھٹ کافی ہے دوسرا نہی چاہیے"

اشارہ نور کی جانب تھا


لیکن میں نے تمہیں نہی تمہارے جیسا کہا ہے" وہ لفظ چباتے بولی


پوائینٹ۔۔" اس کی تصیح پر وہ بڑبڑایا تھا


نور کا ری ایڈمیشن کروا کر اچھا کیا تم نے"

وہ کیچر میں جھکڑے بال رول کر کے رف جوڑے میں باندھتے سامنے صوفے پر بیٹھی


کوفی بنا کے دے سکتی ہو۔۔"وہ فلحال اس پاگل لڑکی کو بلکل ڈسکس نہی کرنا چاہ رہا تھا


عجیب ہے ویسے میں تمہاری مہمان ہوں بجائے مجھے اپنے ہاتھوں سے بنا کر کھلانے کا شرف عطا کرنے کے مجھ سے کام کروا رہے ہو"

وہ اٹھتی کے پیچھے سے آتی آواز سے دونوں بیک وقت چونکے


آئرہ آپ رہنے دیں میں بناتی ہوں۔۔"

غازیان منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا جو الہ دین کے چراغ سے حاضر ہوتے اب جن کی طرح کیچن میں غائب تھی


ایسے منہ کیوں کھولے ہو" آئرہ نے ٹوکنا مناسب سمجھا


یہ کس کے ساتھ آئ۔۔" وہ کیچن کی ونڈو سے جھانکتی دھندلی سی شبیہ پر نظریں گاڑے بولا


ڈونٹ سے تم لوگوں کا پھر سے جھگڑا تھا اور تم ٹیپیکل مردوں کی طرح اسے اس کے باپ کے گھر چھوڑ آئے"

آئرہ نے مسکراہٹ کا گلا گھونٹا جبکہ غازیان کو اس کے باپ کی بات یاد آنے لگی وہ شام میں اسے چھوڑ جائیں گے دل پرسکون سا ہونے لگا تھا مگر فلحال نور کا دماغ ٹھکانے لگانا تھا


مما سے ملے تھے نور کے بابا۔۔" وہ یاد آنے پر پوچھنے لگا


ہمم ملی تھیں مانی مگر وہ زیادہ دیر رکے نہی۔۔" وہ اس کو بتانے لگی جب وہ کوفی کے کپ ٹرے میں رکھے سامنے تھی

سیاہ شورٹ شرٹ اور کیپری پر وہ آتشی دوپٹہ اوڑھے تھی

غازیان نے پہلو بدلا


تھینکیو نور۔۔"

وہ آئرہ کو کوفی دینے کے بعد اس کی جانب متوجہ ہوئ تھی


مجھے نیند آ رہی ہے کوفی کا ارادہ ترک کر دیا۔۔"

وہ تنفر سے اٹھتے روم میں چلا گیا

وہ لب بھینچے اس کا ناراض ہونا دیکھتی رہی آئرہ کے سامنے اسے سبکی سی محسوس ہوئ تھی


لگتا ہے موسم آج ابر آلود ہے"

وہ کپ لیتے زومعنی جملہ ادا کیے کمرے میں گم ہو گئ جبکہ نور مسکرا بھی نہی سکی تھی

وہ شام میں اپنے باپ کے ساتھ واپس تو آ گئ تھی پھر غصہ کرنے کا جواز کپ لیے وہ روم میں جانے لگی بحرحال فیس تو اسے کرنا ہی تھا


روم میں داخل ہوئ وہ واشروم میں تھا

آدھے گھنٹے سے وہ شاور لے رہا تھا یا کیا کر رہا تھا ٹرے سمیت کپ سائیڈ ٹیبل پر اب پٹخا تھا

اسی لمحے وہ واشروم سے بھیگے وجود سے باہر نکلتے اسے نظر انداز کیے وارڈ روب سے ٹی شرٹ لینے لگا

بال سنوارتے وہ گلاس وال پر پردے برابر کرتے اے سی اون کر گیا


میری انسلٹ کی آپ نے۔۔"

وہ اس کو بستر پر دراز ہوتے دیکھ بولی


غازیان ابرو اچکائے فون پر آتی اپنئ محکمے کی کال پر بزی رہا

آپ سائیبر کرائم میں رپورٹ کریں

باقی اس کے باپ کو حراست میں لیا ہوا ہے ڈونٹ وری وہ خود سامنے آ جائے گا"

لیکن اس کے لیے آپ کو سائیبر کرائم میں رپورٹ درج کرانی پڑے گی تاکہ اس کے خلاف باقاعدہ رپورٹ ہو


آوزیں مدھم ہو گئ وہ روم سے باہر چلا گیا تھا

وہ غصہ ضبط کرتے اپنے نوٹس اور میڈیکل کی موٹی بکس بیڈ پر پھیلا گئ تاکہ اسے یقین آ جائے


روم میں واپس آتے داد دینے والی نظروں سے دیکھتے وہ اس کا فون چارجنگ سے اتارے اپنا سیل فون لگانے لگا وہ خاموشی سے اس کی کاروائیاں دیکھنے لگی


آپ کوفی لینا چاہتے تھے لیکن مجھ سے نہی لی جانتے ہیں آئرہ کے سامنے کتنی سبکی محسوس ہوئ مجھے"

وہ دکھتے دل میں آئ بات دہرا گئ تھی


رئیلی جو تم نے دن میں کیا تھا مجھے اگنور کر کے" وہ چباتے بولا


اس بات پر ناراض ہیں میں اگر اس ٹائم وہاں نہ رکتی تو کچھ غلط بول دیتی اسی لیے ہم میں سپیس دیے لیا تھا میں نے۔۔"

وہ صفائ دینے لگی تھی


لیکن تم نے میری اہمیت بتا دی تھی وہاں سے نہ آ کر۔۔"

وہ مرر سے اسے دیکھنے لگا تھا


غاز آپ کی اہمیت اور بابا کی اہمیت میں بہت فرق ہے۔۔"

یہ سب جلدی تھا میری پوزیشن سمجھیں پلیز اس کالج کو دیکھتے کیا میرا یہ ریایکشین نہی بنتا تھا ایک لڑکی جسے دن دہاڑے وہاں سے اٹھوایا گیا ہو وہاں پر دوبارہ یوں اچانک۔۔"

غاز آئ کانٹ آپ سمجھ کیوں نہی رہے مجھے

وہ پھر سے اس ازیت کو محسوس کرنے لگی تھی


ہالہ۔۔"

وہ نرم پڑتے اس کی جانب قدم بڑھا گیا تھا


یہ سچ ہے میں یہ کڑوا باب تمہاری زندگی سے نہی نکال سکتا لیکن پرانی یادوں کا عکس دھندلایا جا سکتا ہے"


وش میرے پاس ایک گیجیٹ ہوتا"

بٹن دباتے جس سے سب کچھ بلایا جا سکتا ہے۔۔"

وہ اس کے کندھے پر خودی سر ٹکا گئ تھی


مجھے اپنا گیجیٹ سمجھ لو جس کے نزدیک آ کر تم سب کچھ بھول جایا کرو"

وہ اس کی کمر کے گرد حصار قائم کیے مسکراتے بولا


مما کو روکنے کے لیے ان کا اور آپ کے بابا کا پیچ اپ کروا دیں

وہ سیدھی ہوتے بولی تھی غازیان کے ماتھے پر تیوری چڑھی


یہ ممکن نہی ہے نور۔۔"


کیوں ممکن نہی آپ ان کے بیٹے ہیں کوشش تو کریں؟ وہ زور دیتے بولی


موم اور ڈیڈ کی ڈئیوارس ہوئ ہے"

کیا؟؟؟؟ وہ انکشاف پر ساکت ہوتے اس سے پرے ہوئ تھی

آنٹی خدا کے لیے اپنی طرح میرا گھر خراب نہی کریں۔۔" اسے خود کے لفظوں سے زرا شرمندگی ہونے لگی


لیکن کیوں ہوئ تھی۔۔"وہ اس کے بگڑتے تاثرات سوچتے بھی پوچھ بیٹھی تھی


دونوں کو لگا ہم ساتھ کمفرٹیبل نہی ہیں تو لے لی ہو گی" وہ بے تاثر لہجے میں بولا


تم سیریس ہو۔۔" اس کے اتنے آرام سے جواب دینے پر اس کا حیران ہونا بنتا تھا


کیا اب ہماری بات ہو سکتی ہے۔۔" وہ اب سختی سے بولا تھا

کل کو تم میرے ساتھ کمفرٹیبل نہی ہو گے تو مجھے کیا طلاق دے دو گے"

وہ صدمے میں ہی تو گئ تھی


یو آر ایمپوسیبل۔۔" وہ بستر پر گرتے تکیہ چہرے پر رکھ گیا تھا


کہاں جا رہی ہو۔"

دبے قدموں کی چاپ سے وہ اچھنبے سے اسے بستر سے نکلتا دیکھنے لگا


آ رہی ہوں۔۔"

وہ پلٹتے بولی


لائیٹ اوف کر جانا

سوئچ اوف کرتے وہ دروازے کے پار غائب ہو گئ تھی غازیان سر جھٹکتے سائیڈ لیمپ اون کر گیا


وہ دبے قدموں سے لاونج کا اندھیرا چیرتے کیچن سے دودھ کا گلاس بھرتے ملیحہ جس روم میں ٹھہری تھی وہاں بڑھی


تم اس وقت۔۔"

آئرہ کراون سے ٹیک لگائے دروزا کھلنے سے کوئ بک لے کر بیٹھی سیدھی ہو گئ


دو منٹ میری ساس کے ساتھ مل سکتے ہیں تنہائ میں۔۔"

وہ ان کے کروٹ لیے وجود کو ہلتے دیکھ اونچا بولتے انہیں سنا گئ


محبتیں خاصی پروان چڑھ گئ ہیں"

وہ قریب سے گزرتے اس کی گردن میں دکھتے جی کے الفابیٹ پینڈت پر نظر ڈالتے اسے سر تا پاوں سرخ کر گئ تھی اس کے جاتے گہرا سانس کھینچتے وہ شرٹ کے گلے میں کر گئ


خاصا فلمی گفٹ ہے کچھ اور نہی ملا تھا" وہ بڑبڑا کے بیڈ کے جانب بڑھی


میں جانتی ہوں آپ جاگ رہی ہیں۔۔"

یہ میں آپ کے لیے لائ ہوں۔۔۔"وہ گلاس لیے ان کے سر پر سوار تھی


آپ صبح نہی جا رہی ہیں آپ کو یہی رہنا ہو گا آپ کی فیملی اب ہم ہیں۔۔"

وہ سیدھا مدعے پر آئ فارمیلٹی پورا کرتا گلاس پرے رکھتے بیڈ پر چڑھی آخر فرض تو پورا کرنا تھا نہ


اچھا لیکن میں تمہیں اپنی فیملی نہی مانتی۔۔" وہ شیٹ کو مٹھی میں لیے ضبط کیے رہ گئ تھی


نہ ماننے سے سچ ہرگز نہی بدلے گا"

میں آپ کے بیٹے سے گہرا تعلق رکھتی ہوں۔۔"

ملیحہ لب بھینچ گئ تھی جواب ہی نہی بن پڑا


آپ کی اور حمدان انکل کی ڈئیوارس کیوںں ہوئ جوانی میں آپ قدرے خوبصورت رہ چکی ہوں گی مجھے یقین ہے پھر بھی۔۔"

وہ ان کے سراپے پر نظریں ڈالتے بولی


آدھی رات میری زات پر تبصرے کرنے آئ ہو۔۔"

وہ اپنا پارا ہائ ہوتا محسوس کرنے لگی تھیں


وجہ جاننے آئ ہوں کیوں ڈئیوارس دی تاکہ میں آپ کے بیٹے سے فیوچر میں احتیاط برتوں آخر ہے تو وہ بھی حمدان انکل کا بیٹا نہ"

وہ مزے سے بولی وہ اس کے اعتماد پر عش عش کر اٹھیں جبکہ یہ اعتماد تو اس کی وجود کا حصہ بنتے ہی اس میں خودبخود آ گیا تھا جو پہلے خوف تھا وہ زائل سا ہو گیا تھا جیسے وہ اس سے اب دور نہی کر سکتی


اس کے باپ نے کیا کہانی سنائ اپنی بہو رانی کو۔۔"وہ تمسخر اڑاتے لہجے میں بولیں


آنٹی وہ اچھے ہیں کچھ نہی بتایا انہوں نے مجھے" اب وہ صدمے میں ہوئ تھی


مرد اچھے ہی ہوتے ہیں بری تو عورت ہی ہے"

وہ تلخ ہو گئیں


مے بی آپ بھی غلط ہوں۔۔" وہ بیڈ سےاترتی کے ان کی شروع ہوئ بات سے دوبارہ بیٹھ گئ


فیملی کی پرائیورٹی میں میں بھی تھی لیکن اس شخص نے صرف اپنی چلائ وہ اسلام آباد نہی رہنا چاہتا تھا اگر اس کی فیملی ایمپورٹنٹ تھی

جن لمحات میں غازیان اس دنیا میں آیا تھا وہ وقت صرف میں جانتی ہوں جب مجھے اس شخص کی شدید ضرورت تھی لیکن اسے تو اپنے فیوچر پلینز کرنے تھے نہ یہاں لاہور میں سیٹل ہونا تھا اس کی جوب اس کے لیے مجھ سے زیادہ اہم تھی

وہ تلخی سے ماضی کے دریچے کھولنے لگی تھیں


تو آپ نے بھی تو غازیان کو ان سے دور کر دیا"

کبھی ملنے نہی دیا زیادتی آپ نے بھی کی

وہ ان کی غلطی بتانے لگی


وہ میرا بیٹا تھا جسے تم اس کے باپ کے ساتھ ملکر مجھ سے بدگمان کر رہی ہو۔۔' وہ ابھی بھی اپنی بات پر اٹکی تھیں


آپ ایک چیز کیوں نہی سمجھتی ماں اور بیوی کا درجہ الگ ہے میں کیوں دور کروں گی آپ سے"

وہ خود کو نارمل کرنے لگی


جب خود ماں بنو گی نہ میری ہر تکلیف کا اندازہ ہو گا کیسے تمہیں اپنا کر اس نے مجھے اپنے ہی خاندان میں تمہارا تزکرہ کرنے سے پہلے کتنا جھوٹ بولنے پر مجبور کیا ہے"

وہ اپنی طرف اس کا حال دل جانے بغیر حقیقت پسند بن رہی تھیں


کیا آپ کو میں کبھی پسند نہی آوں گی" وہ اندر کچھ ٹوٹتا محسوس کر رہی تھی


نہی۔۔"

اسی لیے میں چاہتی ہوں تم اور میں ایک دوسرے کی نظروں سے دور ہی رہیں میں جہاں رہ رہی ہوں خوش ہوں کم از کم اپنی پسند کی بہو نہ لانے پر

چاہ کے بھی لہجے کی کڑواہٹ نہی کم کر پا رہی تھیں

وہ گرتے پڑتے بستر سے اٹھی تھی مزید ہمت نہی تھی وہ توڑ جو دیتی تھیں


دروازہ بند کرتے روم کے ملگجھے اندھیرے میں وہ بیڈ پر اس کی کروٹ لی سائیڈ کے نزدیک پہنچتے اس کی بیڈ پر دراز بازو کے حصار میں سما گئ تھی

دبی دبی سسکیوں سے وہ کچی نیند میں جاتا بامشکل اپنی آنکھیں کھولتے اپنی گردن گیلی محسوس کیے ہڑبڑانے لگا


نور۔۔"

اس کی نرم نیند سی بھری اپنے نام کی پکار پر وہ مزید تیزی سے رونے لگی تھی


ہالہ تم میرے قریب ہو" اس کے بالوں میں لب رکھتے پوچھنے لگا

اس کی گردن میں چہرا چھپائے وہ رندھی آواز میں بولنے لگی تھی


۔م۔۔میں تمہاری مم۔۔مما کے پاس نہی جاوں گی ہرگز نہی جاوں گی۔۔"

وہ گہرا سانس کھینچتے اس کو اندھیرے میں پھر سے روتے محسوس کرنے لگا


رحم کھا لو ان آنکھوں پر۔۔"

اس کی کمر کے گرد حصار باندھے اس کی نم آنکھوں پر لب رکھ گیا تھا


م۔۔میں نہی جاوں گی وہ مجھے کبھی نہی اپنانا چاہتیں۔۔"

وہ اس کی گردن سے چہرا نکالے سرخ آنکھوں سے ازیت میں مبتلا کرنے لگی تھی

میں تم سے ان سے زیادہ گہرا تعلق ہونے کے باوجود تمہیں کیوں نہی بری لگتی

وہ اس کا چہرا دیکھتے لفظ سمجھنے لگا تھا


پر میرا وجود ان کے نزدیک سوائے گند۔۔"

اس کے لزرتے لبوں کو نرمی سے چھو گیا کے گہری خاموشی میں اب آہستہ آہستہ اس کی سکون آور قربت میں لفظ ختم ہوتے محسوس کرنے لگی تھی


------------------------------------------------


آپ نے رات میں اسے بہت ہرٹ کیا ہے"

وہ لاونج میں نماز کے بعد تسبعی کر رہی تھیں جب وہ صبح کے نیم اندھیرے میں جوگنگ کے بعد ان کے نزدیک ٹریک سوٹ میں بیٹھا ان سے استفار کرنے لگا


جا رہی ہوں میں آج۔۔"

ملیحہ نے اس کی وجہہ پیشانی پر بل دیکھتے کہا


بات جانے کی نہی ہے بہو ہے وہ آپ کی میں ہر بار اسے سمجھاتا ہوں مما لیکن اس بار نہی آپ ہر بار اس کی ہمت آپ سے نزدیکی کی خود توڑتی ہیں

مجھے گھن چکر نہی بنائیں دونوں میں۔۔"

وہ اپنی تیز ہوتی آواز نیچی ہی رکھ رہا تھا


شاباش بہت اچھے غازیان۔۔"وہ طنزیہ بولیں تھیں


آپ کو کیا لگتا ہے اس کے پیچھے کوئ نہی ہے لاوارث خاندان سے ہے وہ آپ کی اطلاع کے لیے کوئ جاہل ان پڑھ نہی ویل ایجوکیٹیڈ باپ ہے اس کا

اس کی غلطی نہی تھی میں نے اپنایا ہے اسے لہذا اسے بار بار اس کی زات کا عیب نہی دکھائیں یاد رکھیں یہ آپ اسے نہی اپنے بیٹے کو ڈی گریڈ کرتی ہیں"

ان کے گھٹنوں کے قریب جاتے وہ تسبعی والا ہاتھ تھامتے لبوں سے لگاتے آنکھوں کو لگا گیا تھا


وہ لاونج میں پڑی چیزوں کو دیکھنے لگی

غازیان بغور اگنور کرنا دیکھ رہا تھا


کل کو میری اولاد سے بھی ایسی نفرت محسوس کیجیے گا۔۔"

ملیحہ کا چہرا ضبط سے سرخ پڑا تھا

نئے شہر کی آب ہوا اس کے وجود سے ٹکراتے مزید سردی کا احساس دلا گئ تھی

ہوٹل روم میں بھی اسے اس لمحے سردی سی محسوس ہونے لگی تھی کچھ لمحے پہلے چلائے گئے ہیٹر سے اب روم ٹمپریچر بیلینس ہونے لگا تھا


گلاس وال سے چند پل وہ نیچے دکھتے منظر دیکھنے لگا بلاشبہ اسلام آباد ایک خوبصورت شہر تھا

اونر سے ملاقات اسکی شام میں تھی جہاں ڈیل سائین کرنے کے ساتھ نیکسٹ کام پر پرزینٹیشن بھی تھی

سانیہ کو اپنے پہنچنے کی اطلاع کرنے کے بعد فلحال ریسٹ کرنے کا ارادہ تھا

نرم بستر پر گرتے ہی بغیر روم سروس لیے وہ بغیر فریش ہوئے ہی نیند کی وادیوں میں کھو گیا


-----------------------------------------------------


اچھا ابھی کیا کر رہی ہو۔۔"


پڑھنے کی کوشش۔۔"

وہ لیپ ٹوپ اور بک کھولے بیٹھی تھی



کیا تمہیں فلو ہوا ہے یا محبت کی سرخیاں ہیں"

وہ رات کی اس کی حرکت پر کڑھ گئ بک بند کرتے اب بلکل لیپ ٹوپ کی جانب سکائپ پر چلتی کال پر متوجہ ہو گئ تھی


کہاں کھو گئ ہو

آئرہ اس کے ایکسپریشن دیکھتے ہستے بولی تھی

یہ سات ماہ پہلے والی نور کی جگہ اس کی محبتوں کی سنگت میں رہنے والی خاصی بدلی ہالہ نور اس کے سامنے تھی

وہ اس لمحے بھی بلیو شرٹ اور سفید ٹروازر میں کندھے تک آتے سیاہ بالوں میں گرے شال میں لپٹی بلکل سادہ سی گلے میں سنگل سی چین پہنے تھی جس کا ڈیزائن نہ دکھنے کے بعد بھی وہ اچھے سے جانتی تھی جو اس کی شرٹ کے بند گلے میں چھپا سا تھا


یار میری بیوی کی جان چھوڑ بھی دیا کرو کبھی۔۔"

تمہیں کوئ کام وام نہی آفس میں"

اس لمحے وہ سردی میں بھی پسینے سے بھیگی شرٹ میں تھا لیپ ٹوپ کے آگے کب آیا وہ اندازہ نہی لگا سکی تھی کیونکہ پچھلے ایک گھنٹے سے اس بندے کی ایکسرسائیز نہی ختم ہو رہی تھی


کام ہے نہ پر ابھی فری تھی"

اور ویسے یہ سارا ٹائم تمہارے پاس ہی ہوتی ہے" آئرہ نے اس کی بات پر آنکھیں سکیڑتے کہا


خاک۔۔۔"

کالج کے بعد بکس کے ساتھ ہوتی ہے"

پھر بھی رزلٹ اچھا نہی آتا"

نور اس کے اس طنز کو بخوبی سمجھ گئ تھی پر وہ بلکل شرمندہ نہی ہوئ تھی


ویسے یہ والی بدلی سی بیوٹیفل نور کو کڈنیپ کرنے کا دل کر رہا ہے"

وہ شرارت آمیز لہجے میں بولی وہ جو اس کے قریب سے اٹھے اب کبرڈ کی جانب گیا تھا اس کے چہرے کے نکھرتے رنگ دیکھتے پرسکون ہو گیا بلاشبہ اس لڑکی کو زندگی کی جانب لانے میں وہ کافی حد تک کامیاب رہا تھا

وہ مسکراتے اس کی نظریں سامنے نہ ہونے کے باوجود خود پر مرکوز پاتے سرخی چھپانے کی کوشش میں مزید چہرہ جھکا گئ تھی


---------------------------------------------------


مجھے نہ بری بری وائیبز آ رہی ہیں۔۔"

آپ نہ مجھے بس تسبعی پکڑا دیں۔۔"

میں اللہ کو یاد کر لوں

وہ اپنی کیفیت پر دل تھامتے اسے تیار ہوتے دیکھ گھبرائے سے لہجے میں بولی تھی


تسبعی۔۔"

احان نے مسکراہٹ دبائے قدم اس کی جانب بیڈ کی طرف بڑھائے تھے


خود کو بس پرسکون رکھا کرو کچھ نہی سوچا کرو"

اس کے ٹھنڈے پڑتے ہاتھ تھامتے ڈھیلی ٹائ کی نوٹ کے ساتھ ہی وہ اس کے پاس تھا


احان مجھے ڈر لگ رہا ہے آپ آج نہی جائیں۔۔"

وہ اپنی طبعیت میں خاصہ بوجھل پن محسوس کر رہی تھی


آو تمہیں مما کے پاس چھوڑ دوں۔۔"

اس کا ہاتھ تھامتے وہ بستر سے اٹھاتے بولا


آپ ایک دن کی چھٹی نہی کر سکتے میرے لیے"

وہ بھرائے لہجے میں بولی تھی


میں جلدی آ جاوں گا نہ۔۔"

پریشان کیوں ہو رہی ہو سب اچھا ہو گا ویسے بھی تمہاری ڈیٹ منتھ کے لاسٹ میں ہے ابھی خود کو ریلیکس رکھو"

وہ قدرے نرمی سے پریشانی زائل کرنے لگا

آپ کو ہو نہ تو پتہ چلے" ہر بار کی طرح نون سٹاپ زبان چل ہی گئ تھی

ریحہ تم کتنا فضول بولتی ہو"

احان سوچتے ہی جھرجھری لے گیا تھا

ایک منٹ۔۔" وہ شیشے کے قریب سے گزرتی بری طرح چلائ تھی

کیا ہو گیا ہے"احان نے گھبراتے اسے کندھے سے تھامے ہی پوچھا

میں تب سے آپ کے سامنے ایسی تھی۔۔"

وہ روہانسے ہوتے اپنے بھرے سراپے پر کھلی سی پرپل گلابی پرنٹڈ شرٹ ٹراوزر پر شال کندھے پر جھولتی ملگجھی سی چٹیا میں نکلے بال دیکھنے لگی تھی

ابھی تم خود کو ڈل محسوس کر رہی تھی اور اب دیکھو۔۔"

وہ اس کے سنجیدہ معاملات میں بھی بدلتے تیوروں پر اچھا خاصہ حیران ہو جاتا تھا

میں خاصی بری لگ رہی ہوں نہ۔۔" وہ تشویش زدہ سی بھوری آنکھیں سکیڑ گئ تھی

نہی تو کس نے کہا میری جان تو بہت کیوٹ لگ رہی ہے"

اللہ اپنے بندے کو اس جھوٹ پر معاف کرنا وہ اس کے برابر جاتے دل میں بولے بہلانے والا انداز اپنا گیا ورنہ کوئ بھرم نہی تھا وہ رونے بیٹھ جاتی

جھوٹ بول رہے ہیں میں جانتی ہوں میں اچھی نہی لگ رہی"

بلکہ موٹی آنٹی لگ رہی ہوں اوپر سے یہ نوز پن۔۔"

اس کا زور اسی پر نکلنا تھا

میں تمہارا حلیہ ابھی پانچ منٹ میں درست کر دیتا ہوں

پر اس سے دشمنی نہی نکالا کرو یار۔۔"

وہ اس کی ناک پر لب رکھتے اس کے بالوں سے چٹیا کے بل نکالنے لگا

بیٹھو یہاں۔۔"وہ ڈریسر کی چئیر کھسکھائے بٹھا گیا تھا

آپ لیٹ۔۔" وہ بولتی کے وہ چپ کرا گیا تھا

آج مجھے یقین ہو گیا یہ اصلی ہیں"

اس کے الجھے بال درست کرتے وہ مسکراتے جھکتے بالوں پر لب رکھ گیا تھا

وہ شیشے سے گھور کے رہ گئ تھی

حان

ایسے نہی بناتے ہیں۔۔"

میرے بال کھینچ رہے ہیں آپ۔۔"

وہ الجھے بالوں میں زور سے کنگھا پھرنے سے سر پر ہاتھ رکھ گئ تھی

ایک منٹ تم چپ رہو گی"

وہ ضبط کیے رہ گئ جو اس کے بالوں کو اس کے پیچھے کھڑے جانے اب کیسے مڑوڑے دے رہا تھا

احان میں ٹھیک لگ رہی ہوں رہنے دیں آپ لیٹ ہو رہے ہیں۔۔"

ریحہ نے ہار مان لی لیکن احان کے بال بناتے ہاتھ نہی رک رہے تھے وہ جانتی تھی ضد کا مارا شخص نیا اپنی جانب سے ایجاد کردہ چٹیا کا ڈیزائن تو بنا کے چھوڑے گا

ڈن۔۔" پونی کہاں ہے" وہ اس کے ہاتھ میں تھما گئ

دیکھو اب" وہ اس کے کندھے پر رکھ گیا

اس کو آپ چٹیا کہتےہیں "

ریحہ صدمے سے دیکھنے لگی جو الٹ پلٹ کیے اس کے بال مزید الجھا گیا تھا

ی۔۔"

اتنے زیادہ میرے بال اتار دیے ہیں۔۔"

وہ خفگی بھری نظروں سے کنگھے کو بالوں سے بھرا دیکھنے لگی تھی


آہستہ آہستہ سیکھ جاوں گا"

آج اسی سے گزارا کرو

پریکٹس میکس آ مین پرفیکٹ کل اچھی بناوں گا نہ" وہ محبت سماتے بولا


شکریہ احان پر مجھے آپ کی پریکٹس کے چکروں میں گنجی نہی ہونا۔۔"

وہ آخری بل دیتے اس کے ڈراک کلون کی مہک محسوس کرتے بولی جسے وہ اس پر بھی سپرے کر گیا تھا


---------------------------------------------------


پارکنگ میں کھڑی گاڑی پر نظریں ڈالے وہ ہوٹل کی سمت کا ایڈریس دیکھے خود پر تنقیدی نگاہ فرنٹ مرر سے ڈالنے لگا


بالوں کو ہاتھوں سے درست کرتے وہ اس وقت آفس کے فارمل حلیے میں تھا

سیاہ تھری پیس میں وائیٹ شرٹ تراشیدہ شیو وہ اپنی عمر سے زیادہ سنجیدہ اور سوبر لگ رہا تھا


بابا میں پہنچ گیا ہوں

نہی آج پتہ چلا ہے ہماری دوسری پارٹنر ایک لڑکی ہے"

وہ صبح ملی ڈیٹیل دیکھنے لگا تھا

ایلیویٹر سے کانفرنس روم کا فاصلہ ایک منٹ کا تھا


میں اسے ایگری کرنے کی کوشش پوری کروں گا

اوکے بعد میں بات ہوتی ہے۔۔"

وہ فون سائیلنٹ پر لگا گیا


گلاس ڈور دھکیلے وہ اندر بڑھا جہاں اندھیرے میں پروجیکٹر پر سلائیڈز اون تھی مطلب وہ لیٹ تھا


سب نے ایک نظر ڈور کی جانب ڈالی محض ایک سیکنڈ میں نظروں کا تبادلہ ہوا تھا اگلے پل وہ سر ہلائے خالی نشست کی جانب بڑھا

اس دوران وہ کسی سے بات نہی کر سکتا تھا

وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھے گئ

ہلکی روشنی میں بھی وہ اسے پہچان گئ تھی

اس کے ماتھے پر واضع سٹیچز کے نشان دیکھتے وہ اپنی یو ایس بی کلچ سے نکالنے لگی تھی

نیکسٹ اس نے پریزینٹیشن دینی تھی

وہ اپنے پوائینٹس مائینڈ میں کلک کرتے سوچنے لگی

خاموشی میں ہیلز کی آواز سمیت اپنی چئیر کے نزدیک سے گزرتی اس کی ایلیگینٹ پرفیوم کی مہک اسے اپنے قریب سے گزرتی وہ محسوس ہوئ تھی

جبکہ وہ سنجیدہ سی پروفیشنل انداز میں پروجیکٹر سے یو ایس بی اٹیچ کرنے لگی

چند سیکینڈ بعد وہ پروفٹ ایبل اور لوس ایبل چارٹ سائیڈ پر شو ہوتے غور کرنے لگا

آ ہیو آ کوئسچین۔۔"

وہ بات بیچ میں کاٹ گیا

یس وہ اس کی جانب نظریں کر گئ تھی

لوس اور پروفٹ ایکول ہونا چاہیے پھر لوس خالی ڈیل کرنے والے کو کیوں ہو"

ویسے تو پریزینٹیشن کا رول ہوتا ہے درمیان میں انٹرپٹ نہی کرتے کوسچنینگ سیکشن ہمیشہ آخر میں ہوتا ہے"

لیکن آپ شائد نئے ہیں

اسی لیے مسٹر آپ بہت کونشئیس ہو گئے ابھی سے لاس اور پروفٹ کے معاملے میں"

اینڈ تک دیکھ تو لیں میں کلیئر کروں گی"

وہ سنجیدہ سا ٹکا جواب دے گئ تھی

وہ لب بھینچ گیا تھوڑی عزت افزائ تو ہوئ تھی جسے وہ اپنی پرزینٹیشن میں بہتر طریقے سے سمجھا گئ تھی

وہ اپنی پریزینٹیشن مکمل کرتے تھنیکیو کی سلائیڈ اون کرتے سامنے آئ

اینی کوئسچین۔۔" وہ اونچی بولتے اسے ضرور متوجہ کر گئ تھی

جبکہ وہ لب بھینچے رہا

---------------------------------------------------

وہ دکھتے سر سمیت شدید فلو میں اس وقت مبتلا ہو گئ تھی

اس کی حرکت سے غازیان پر شدید غصہ آنے لگا تھا بے ساختہ اسے آئرہ کی چند ماہ پہلے کہی بات بھی یاد آئ وہ ریٹرن ریوینج لیتا ہے اور وہ ہر بار ایسا ہی کرتا تھا

آپ کے لیے ناشتہ بنا دوں۔۔"

بشرا کی آواز سے وہ لاونج کے کاوچ پر نیم دراز سرخ آنکھیں کھول گئ

ہمم بنا دیں بوائل ایگ بھی لوں گی میں ساتھ۔۔"

وہ اسے بتاتے اٹھتی کے بشرا کی بات سے پلٹی

آپ کے ساتھ اچھا ٹائم گزرا۔۔"

میں آپ کو یاد رہوں گی نہ

اس کے بیگ گراونڈ کی چھان بین کر کے غازیان نے اسے ہائیر کر لیا تھا ہالہ کی سٹڈی سٹارٹ ہونے کے بعد سے فل ڈے ٹائم وہ وہی رہتی کیچن سے لیکر گھر کے کام بھی اس کی زمیداری میں تھے

لیکن میں کہا جا رہی ہوں بشرا میں یہی ہوں پھر بھلانے کی بات کا سوال ہی نہی۔۔"

وہ گھڑی پر نظر ڈالنے لگی آٹھ بجے کالج جانا تھا وہ روم میں تیاری کے لیے اٹھتے بولی

لیکن غازیان صاحب تو میرے حساب کتاب کی بات کر رہے تھے۔۔" وہ اپنی حیرت کم کرتے بولی

یں نہ"

اس کا مطلب یہ تو نہی کے ہم کہی جا رہے ہیں۔۔"

آپ ناشتہ بنائیں میرا جینا مرنا اسی گھر میں لکھا ہے اب"

وہ ڈائینگ ٹیبل پر پڑے ٹشو باکس سے تین چار ٹشو لیتے مزاق میں بات اڑاتے روم کی جانب چل دی

لیکن یہ تشویش روم میں جاتے ڈریسر پر پڑی چابیوں کے نیچے خاکی انویلیپ سے مزید بڑھ گئ تھی

روم میں چاپ سے وہ جان گئ وہ ہے

ہر بات مجھے کیوں آخر میں پتہ چلتی ہے"

وہ اسے واشروم میں جاتے دیکھ آواز میں سختی لائے پوچھنے لگی

بتانے والا تھا رات میں تم سو گئ اور میں بھول گیا تھا۔۔"

وہ کبرڈ سے کپڑے لیتے شاور لینے چلا گیا تھا

وہ بھی خاموشی سے اپنی تیاری کرنے لگی تھی

غازیان اسے لیمن کلر کی کھدر کی پرنٹیڈ شرٹ پر سفید لونگ کوٹ میں دیکھنے لگا

وہ سنجیدہ سی بکس سمیٹتے اوور آل ہینگر سے نکالنے میں مصروف تھی

نور۔۔"

میری جیکٹ تو دینا۔۔"

وہ ڈریسر کے سامنے بال بناتے دوران اسے مخاطب کرنے کو بولا

وہ خاموشی سے اس کی براون جیکٹ پکڑا گئ تھی

تمہیں فلو ہو گیا میں بھول گیا تھا بہت نازک ہے میری بیوی۔۔"

اس کی سرخ پڑتی ناک دیکھتے وہ بات بڑھاتے جیکٹ اسے تھما گیا تھا

یہ پہلی دفعہ تھا وہ اس سے کوئ فرمائش کر رہا تھا وہ اس کے نزدیک جاتے پہنا گئ تھی

تمہیں کچھ دنوں کے لیے ریلیف مل جائے گا مجھ سے"

ویسے بھی تم ہوسٹل شفٹ ہونا چاہتی تھی

وہ مسکرانے کی سعی کرتے اس کے ہر آرئش سے عاری نقش دیکھنے لگا

میری خواہشات کا احترام کرنے کا شکریہ۔۔"

وہ ہاتھ جھٹکتے پیچھے ہوتے اپنے الجھے بال برش کرنے لگی تھی

غصہ کس بات کا ہے نور میری جوب کا حصہ ہے تم بھی اس کے لیے تیار رہا کرو۔۔"

وہ اس کو بولتے اس کا چہرہ اپنی جانب کر گیا

حیرت اس بات کی ہے

میرے گھر کی ملازمہ کو بھی پتہ ہوتا ہے پر نور کو کچھ نہی پتہ ہوتا ہے"

وہ سفید ڈائیل والی رسٹ واچ پہنتے زہر خند ہوئ تھی

تو غصہ اس بات کا ہے پہلے ملازمہ کو بتایا"

وہ چڑ گئ تھی اس کے اتنے پرسکون ہونے سے بحرحال نور اپنے دل کی کیفیت غازیان کے حوالے سے اس پر ظاہر نہی کر سکتی تھی

رئیلی یو مس می بیوی۔۔۔"

اعتراف کر لو آج۔۔۔"

وہ شوز پہنے لگا تھا اب وہ دانت پیس گئ تھی

کہاں ہوئ ٹرانسفر۔۔" وہ مدعے کی جانب آئ تھی

او میرے جانے کے دکھ میں پورا لیٹر نہی پڑھا۔۔

وہ مزاق میں بات ٹال گیا

نور خاموشی سے ہینڈ واش کیے ڈائینگ پر چلی گئ تھی

ناشتہ بے دلی سے کرتے وہ گھر کو دیکھ رہی تھی

ہالہ کچھ دن کی بات ہے بس۔۔"

کاش کے تم ایک سبجیکٹ میں فیل نہ ہوتی تو ہم ساتھ جاتے۔۔"

میری جوائینگ ضروری ہے نہ

تمہارا تھرڈ ائیر سٹارٹ ہے اور مائگریشن پروسس کے لیے تمہیں وہ سبجیکٹ بھی کلیئر کرنا ہو گا ویسے تم نے مجھے خاصا شرمندہ کیا تھا فیل ہو کر۔۔"

وہ آخری بات پر مسکراہٹ روکے اسے سمجھاتے بولا تھا

میں لاسٹ مہینوں میں کیسے اتنے سارے سلیبیس کی تیاری کر سکتی تھی بتاو تم آئین سٹائن کی اولاد نہی تھی میں۔۔"

وہ شرمندہ ہونے کی بجائے غصہ ہو گئ تھی

میں تمہارا رونا بہت مس کروں گا نور اس خوشی میں آج نو ڈائیٹنگ۔۔"

وہ اس کا چیز سنڈوچ اپنی پلیٹ میں رکھتے بولا وہ ضبط کیے تھی

اس شخص کو اس سے جدائ پر بلکل فرق نہی پڑ رہا تھا وہ سوچ کے رہ گئ تھی

یہ گھر۔۔؟

سرگوشی میں نکلی آواز وہ آنسو پی رہی تھی

ہنی چلو کچھ یادیں بنائیں اس گھر میں خوبصورت سی"

اس کے مقابل چئیر لائے وہ اس کو دیکھنے لگا تھا

وہ جانتا تھا اس گھر کو لیکر خاصی اٹیچ ہو گئ ہے

جبکہ وہ شادی سے لیکر اب تک اپنا گزرا ہر لمحہ کسی فلم کی طرح سوچ رہی تھی

اگر کبھی ہم میں کوئ مسلہ آپ کی مما جیسا ہو تو آپ کیا کریں گے"

وہ دل کی حالت دبائے اس کو چڑانے والے سوال کرنے لگی

پتہ ہے میرا کیا دل چاہ رہا ہے تمہیں چھت سے نیچے پھینک دوں۔۔"

غازیان نے چئیر مزید قریب کرتے آمنے سامنے کر لی تھی

یہ میرا جواب نہی ہے"

بتائیں کیا کریں گے" وہ بضد تھی

اول تو میں حمدان نیازی نہی ہوں

اور اگر کبھی مزید اگلے آنے والے سالوں میں ایسا ہوا تو۔۔"

نور کا سانس رک گیا وہ اس کے نزدیک ہوتے اس کے لونگ اون کے کوٹ کے بٹن کھولنے لگا تھا

کالج جانا ہے مجھے وہ سرعت سے اٹھتی بٹن بند کرتی کے اس کو مضبوطی سے تھام گیا تھا

سنو اب پہلے۔۔"

میں حمدان نیازی کی طرح اپنے بچے ان کی پاگل ماں کے پاس ہرگز نہی رہنے دوں گا لہذا مجھ سے جدا ہوتے وقت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا

وہ سانس روک گئ جو اس کے قریب ہوتے اپنی بے حسی میں کہی بات سے بھی اسے سرخ کر گیا تھا

پیپرز پراپر سائن کرنے کے بعد وہ کانفرنس ایریا خالی ہونے لگا

وہ پیپرز سمیٹتی لڑکی کو دیکھتے قائل کرنے کے طریقے سوچ رہا تھا جب وہ اچانک خود پر مرکوز نظریں پاتے سامنے دیکھتے شخص کو دیکھتے بولنے لگی

آپ کو ٹھیک دیکھ کر خوشی محسوس ہوئ"

کیا آپ مجھ سے مخاطب ہیں"

بلیو جینز پر سفید اور بلیو چیک شرٹ اور اپنی اچھی خاصی ہائیٹ کے باوجود وہ ہائ ہیلز میں خاصی پروفیشنل لگی تھی

غالبا آپ ہی یہاں موجود ہیں" وہ خالی ایریا کو دیکھتے اسے جتا گئ تھی

او ہم اب پارٹنرز بھی تو ہیں " وہ حوالہ دینے لگا تھا

کیا ہم اس بارے میں کچھ بات کر سکتے ہیں" وہ مدعے کی جانب آیا ویسے بھی کل واپس جانا چاہتا تھا

وہ کچھ سوچتے بولا تھا

جی۔۔" وہ ہنوز کھڑی رہی تھی

میں لفظوں کی ہیر پھیر کا قائل نہی ہوں

اپنا ٹوئینٹی پرسنٹ شئیر مجھے بیچ دیں دس گنا زیادہ پرافٹ کے عوض۔۔"

وہ سیدھی بات کر گیا

جی۔۔" وہ حیرت لیے دیکھنے لگی تھی

میں نے آپ کی حالت پوچھی تھی پھیلنے کو نہی کہا تھا۔۔"

وہ چڑ گئ تھی

کیا ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔۔"

وہ سیدھا مدعے کی جانب آیا تھا اسے آسان لگا تھا لڑکی سے ڈیل کرنا

دیکھیں مس۔۔"

بات یہ ہے"

مس نہی آئرہ فیاض نام ہے میرا۔۔"وہ چباتے بولی تھی

اوکے آئرہ آپ تحمل سے میری بات سنیں آپ ہوٹل کا کیا کریں گی

دیکھیں وہ ہوٹل لاہور میں ہے اور آپ اسلام آباد کی رہائشی"وہ قائل کرنے لگا

پاگل ہیں آپ۔۔"

میں ہرگز آپ کی آفر قبول نہی کرتی اور ویسے بھی وہ اونر اسلام آباد کا ہے پھر آپ نے کیوں یہاں آنے کی زحمت کی"

او اب سمجھ آئ۔۔"

وہ آنکھیں سکیڑتے قریب چئیر کھسکھائے مقابل آئ کے ازہان اس کے عجیب تاثرات دیکھنے لگا

کل سے اس لیے تم مجھ پر نظریں گاڑے میری پریزنٹیشن میں بھی خلل ڈال رہے تھے

وہ ساری کڑیاں ملانے لگی

استغفار میں نے کب نظریں گاڑی۔۔" ازہان نے حیرت لیے پوچھا

سب پتہ ہے مجھے اسی لیے مجھے پریزینٹیشن میں انٹرپٹ کر رہے تھے بحرحال میں ہرگز اپنے شیئرز نہی دوں گی۔۔"

اتنا آسان بھی نہی تھا ازہان نے جائزہ لیتے سوچا تھا

ایک منٹ۔۔"

وہ پلٹی تھی

تم تئیس کے ابھی ہوئے نہی ہو رائیٹ"

ازہان نے حیرت لیے اپنی عمر کا اندازہ لگاتے اسے دیکھا لیکن وہ شائد اپنی ٹکر اس سے بھول گیا تھا

اور جہاں تک مجھے لگتا ہے مسٹر ابھی تمہارا ایم بی اے کمپلیٹ نئ ہوا ہو گا غالبا کیونکہ تمہاری عمر کے حساب سے فائینل سمیسٹر کے دوران تمہارا ایکسڈینٹ ہو گیا تھا

یہ ضرور تمہارے باپ کی کمپنی ہے جس نے تمہیں بغیر گریجوئیشن کے ہائر کر لیا۔۔

اور مجھے اپنی ڈگری کمپلیٹ کیے ماشااللہ سے تین سال ہو گئے ہیں سمجھے بچے تو آئندہ ایسی آفر مجھے نہی کرنا"

اب سکون سے گھر جاو"

جبکہ وہ تو وہی حیرت زدہ سا تھا

----------------------------------------------

وہ خاموشی سے اسے تیار ہوتے دیکھنے لگی تھی گھر کا سارا سامان وہ اپنے فلیٹ میں آج صبح شفٹ کروا چکا تھا ضروری کپڑوں کے علاوہ اس کا سامان بھی اسی فلیٹ میں سیٹ کروا چکا تھا

گلاس وال کی جانب گہری ہوتی شام کو دیکھتے خالی گھر اور اپنا بیڈ روم اس لمحے اس کی جان نکالنے کو کای تھا

نور۔۔ "

وہ خیالات سے نکلتے اس جانب متوجہ ہوئ

وہ اس کے آگے ہتھیلی پھیلا گیا وہ نا سمجھی کے عالم میں بلیو شرٹ اور گرے پینٹ میں اسے ہلکی شیو میں نفاست سے سیٹ کیے بالوں میں دیکھنے لگی

جو پرشوق نظروں سے ہاتھ پھیلائے اس کے وجود میں بے چینی پھیلائے تھا

غازیان نہی جاو نور مر جائے گی پلیز غازیان میری جان میرا دل نہی لگے گا"

زبردستی اس کا ہاتھ تھامے اپنے مقابل کرتے وہ باریک روتی آواز نکالے اس کی نقل اتارتے بولا

اسے مہرون رنگ میں بالوں کو کیچر میں جھکڑے اس کی سیاہ موٹی آنکھوں پر مڑی سیاہ خمدار پلکوں کو بھیگا سا محسوس کرتے وہ اسے اپنی باتوں میں الجھانے لگا تھا

میں اس گھر کو چھوڑنے پر بس دکھی ہوں سمجھے آپ۔۔"

وہ جھکڑا ہاتھ چھڑانے کی کوشش میں اس کی باتوں پر اسے باور کراتے بولی

انٹرسٹنگ کور اچھا کر لیتی ہو"

غازیان لب دبائے مسکراہٹ روکنے لگا تھا

اس کا ہاتھ دوبارہ تھامتے وہ ڈریسر کے قریب لایا تھا اس کے سنجیدہ تاثرات پر وہ فلو اور اپنی انجان تکلیف دے کیفیت سے سرخ ہوتی آنکھیں جھکا گئ تھی

وہ اس کے قریب ہونے لگا کے نور کو اس کی ہمیشہ سے سکون دیتی خوشبو قریب محسوس ہونے لگی جس کی وہ عادی سی ہو گئ تھی

نورے جان۔۔"

وہ دل تھام گئ تھی اس کے لبوں کی نرم سی سرگوشی کان کی لو تک سرخ کر گئ

اس سال فیل نہی ہونا پلیز۔۔" وہ قہقہ لگاتے دل کی بدلتی کیفیت ایک منٹ میں زائل کر گیا

پچھلی بار تو ایک میں تھی نہ اس بار سارے سبجیکٹس میں ہوں گی ۔۔"

اس کے سینے پر زور دیتے وہ نظروں سے دور ہوتے زہر خند ہوئ تھی

پیچھے اس کا قہقہ گونجا تھا

--------------------------------------------------

ریحہ کچھ کھا تو لو۔۔"

وہ اس کے نزدیک فریش جوس اور ڈیفرینٹ کٹے فروٹس کی پلیٹ لے کر آئیں تھیں سانیہ اس کا ہر لحاظ سے بہت خیال رکھتی

بڑی مما میرا دل نہی چاہ رہا ہے پلیز مجھے وامٹ آ رہی ہے۔۔"

وہ صبح سے آج پھر وامٹنگ کرتے نڈھال سی تھی

مجھے سمجھ نہی آ رہی اتنی الٹیاں کیوں آ رہی ہیں تمہیں" سانیہ اس کی حالت پر گھبرائ سی تھیں

بحرحال ایسے خالی پیٹ بلکل ٹھیک نہی ہے اگر وامٹ آ بھی رہی ہے پھر بھی کھاو۔۔"

یک دم وہ درد محسوس کیے کراہی تھی

وہ اس کے چہرے کا اچانک سے متغیر ہوتا رنگ دیکھنے لگیں

ریحہ ہم ابھی ہوسپیٹل چلتے ہیں میں تمہارے بابا کو گاڑی نکالنے کا بولتی ہوں"

وہ اسے سہارا دیے بیڈ کراون کے ساتھ ٹیک لگائے بٹھاتے گھبرائ سی بولیں

مما مم۔۔مجھے لگ رہا ہے میں مر جاوں گی

مما مجھے شدید درد ہو رہی ہے آپ پلیز احان کو کال کریں

کہا بھی تھا نہ جائیں۔۔"

وہ بے سکون سی ہوتے اپنی کیفیت انہیں سمجھا نہی پا رہی تھی وہ اسے اچانک سے شدید تکلیف میں مبتلا ہوتے دیکھ تیزی سے گھبراتے باہر گئیں تھیں

درد سے دہرے ہوتے اس کی نظر دانستہ سائیڈ ٹیبل پر پڑے اپنے فون پر پڑی

بامشکل کھسکھتے فون تک پہنچتے وہ کانپتے ہاتھوں اور جان نکلتی حالت میں دھندلی پڑتی سکرین پر نمبر ڈائل کرنے لگی تھی

فون تو اٹھائیں۔۔"

سانیہ کے ابھی تک نہ واپس آنے پر وہ دروازے کی جانب دیکھتے بستر پر پڑی اب بری طرح اپنی تکلیف پر رونا شروع ہو گئ تھی

یک لخت رسیو ہوتے ائیر پیس سے اس کی ہمیشہ والی شوخ آواز گونجی

حان کی جان کا دل نہی لگ رہا۔۔"

حان۔۔"

اسکی درد میں ڈوبی اپنی پکار پر وہ ٹھٹھکتے چونکتے پھر کچھ سمجھتے سر جھٹکتے بولتا کے اس کی رندھی آواز اس کے ہوش سہی میں اڑا گئ تھی


حان مم۔۔مجھے سنیں مجھے لگتا ہے مجھے سانس نہی۔۔"

وہ باقاعدہ اب اس کی روتی آواز میں لفظ سمجھتے پریشان ہوا


ریحہ تم ٹھیک ہو۔۔"


مما پتہ نہی کہاں چلی گئیں مجھے چھوڑتے وہ ابھی تک نہی آئ میں آج درد سے مر جاوں گی ورنہ۔۔"

وہ بہتی آنکھوں سے شیٹ کو ایک ہاتھ کی مٹھی میں لے چکی تھی


ریحہ مما کہاں ہے تم کہاں ہو میری جان میں

میں بس پانچ منٹ میں آیا۔۔"

وہ پھولتی سانسوں سے اس کی رونے کی آواز محسوس کیے اپنی چیزیں وہی چھوڑے چابیاں لیتے تیزی سے چیئر سے اٹھا


ریحہ میری جان اٹھنے کی ہمت کرے میرا بچہ۔۔"


وہ دردسے دہری ہوتے حواسوں سے بیگانی ہوتے ان کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی تھی

نائمہ اور سانیہ کی آواز فون سے محسوس کیے ان کی موجودگی سے وہ گاڑی کے قریب پہنچے تھوڑا پرسکون ہوتے چلتے فون کی کال کاٹتے تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ پر آیا تھا

-------------------------------------------------

مجھے فیرول اچھی دی"

تمہارے بابا نے"

ڈنر نور کے بابا طرف تھا جہاں حمدان نیازی بھی مدعو تھے وہ خاصے غمزدہ سے تھے پر وہ اس بات پر قائل تھے یہ اس کی جوب کا حصہ تھا ویسے بھی وہ میر سبطین کی وجہ سے بھی چاہتے تھے اس کی ٹرانسفر جلد ہی یہاں سے ہو جائے

اس لمحے وہ گیراج میں کھڑی اس کو گاڑی سے ٹیک لگائے گارڈن میں لگے درختوں سے ٹکراتی ہلکی روشنی میں دیکھ رہی تھی

تمہیں فرق پڑ رہا ہے کوئ۔۔"

وہ دھیمی سرگوشی میں مبہم لہجے میں اچانک سے پوچھنے لگا

نہی خوشی ہو رہی ہے۔۔"

وہ آنسو خود میں اتارنے لگی

میں جب ویک اینڈ پر آوں گا میرے لیے ڈشش بنانا۔۔"

آنسو ضبط کے باوجود بہنے لگے جسے وہ مہارت سے چھپاتی مضبوط بنی بولتے اسے مسکرانے پر مجبور کر گئ

میں ان میں آئل اور نمک زیادہ کرتے تمہارا سارا ڈائیٹ پلین خراب کر دوں گی"

ٹھیک ہے پھر روڈ پر وہ موٹے پیٹ نکلے پولیس والے دیکھتی ہو ویسا ہو جاوں گا میں"

مسکراتی نظروں کا تبادلہ ہوتے اچانک سے وہ موقع دیے بغیر خود میں بھینچ گیا

پیچھے سے ڈھیر ساری شاپنگ کرنا۔۔"

میرے لیے بھی کرنا اوکے" وہ اس کے بالوں میں انگلیاں الجھائے ان کی خوشبو خود میں اتارنے لگا

خود کے ساتھ لے کر گئے تھے کبھی خود کبھی مجھے کروائ تھی میں کیوں کروں۔۔"

وہ رندھی آواز میں بولی

تمہارے کالج کے ڈیوزز کون کلیئر کرتا ہے بتانا زرا مجھے"

وہ اپنی آنکھیں موندتے تھوڑی اس کے سر پر ٹکا گیا

تم احسان نہی کرتے فرض ہے تمہارا"

وہ اس کے سینے سے لگی گہرے سانس لیتے اس کی شرٹ سے اٹھتی خوشبو سانسوں میں اتارنے لگی

اوکے کیا چاہیے مجھے بتا دو"

بے ساختہ اپنے دل سے لگی اس لڑکی کے لیے آواز برامد ہوئ تھی وہ کہہ دے بس تم۔۔"

کچھ نہی۔۔"اس لمحے اس کا دل بری طرح ٹوٹا تھا

یقین دے دو گی مجھے" چند لمحے پہلے والی دل کی کیفیت کو دباتے بولا

کبھی نہی تم مجھ سے بدلہ لیتے ہو مجھے سردی میں شاور کے نیچے کھڑا کیا اور تمہاری فیوچر کی پلینگز کے بعد تو کبھی بھی نہی دوں گی۔۔"

وہ کل دن کی ڈائینگ پر کی باتیں یاد کرتے سختی سے بولی

وہ نہ بھی کہتا پھر بھی تم سے یہی امید تھی مجھے"

وہ گرفت ڈھیلی کرنے لگا پر نور کی گرفت سخت پائ تھی

چھوڑ دو ورنہ ابھی ٹائم نہی ہے جو تم میرے جزبات ابھار رہی ہو"

اس کی بوجھل آواز سے وہ چہرا اس کے سینے سے نکالے گھورنے لگی تھی جو فاصلہ پائے اب گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولے سیٹ پر جھکے ڈیش بورڈ کھولنے لگا

یہ پکڑو۔۔"چند لمحوں بعد وہ چھوٹا بوکس اس کے حوالے کر گیا

کیا ہے یہ۔۔" وہ حیرانی سے دیکھنے لگی تھی

اوپن اٹ۔۔" وہ کھولنے لگی

اندر چابیاں پیپرز اور کارڈ تھا


یہ کیا ہے۔۔؟ وہ چابیاں کریڈت کارڈ اور پیپرز نا سمجھی سے دیکھنے لگی تھی


یہ میرا کریڈت کارڈ تم سسر جی سے اپنی ضرورت کی کسی چیز کے پیسے نہی لو گی۔۔"


باپ ہے وہ میرا تمیز سے پکاریں۔۔" وہ انگلی دکھاتے وارن کر گئ


مس ہالہ نور سسر جی کو سسر نہی کہوں تو کیا چیف منیسٹر جی کہوں۔۔" وہ تپ گیا تھا


آپ ایک روڈ پلس عجیب انسان ہیں۔۔"

وہ اس شخص کے بدلتے چہروں سے دھنگ ہی تو ہوتی تھی


یہ پیپرز اور چابیاں وہ سٹام پیپرز دیکھتے عجیب ہونے لگی

یہ پیپرز میں نے ایک گھر خریدا ہے اس کے ہیں"

اور یہ چابیاں میرے فلیٹ کی جہاں ہم رکے تھے اگر تم وہاں رہنا چاہو تو۔۔"

وہ حتمی انداز میں بات ختم کرتے بولا


آپ کہاں جا رہے میں یہ سب کیا کروں گی۔۔" وہ اس کی حرکتوں اور چیزوں پر ششدر تھی


نہی چاہیے مجھے یہ سب۔۔" وہ یک دم ہزیانی انداز میں بولتے دور پھینک چکی تھی


نور کیا حرکت تھی یہ۔۔"وہ اس کا کندھا دبوچ گیا تھا


نہی چاہیے مجھے تمہارے احسان مجھے کیوں دے رہے ہو یہ سب رکھو اپنے پاس۔۔"

وہ گہرا سانس کھینچ کے رہ گیا تھا


پاگل لڑکی بیوی کو نہ دوں تو رشتے داروں کو دوں جا کر کیا۔۔" وہ دانت پیس گیا تھا


تمہاری ٹرانسفر میں کس کا ہاتھ ہے۔۔"

وہ خوفزدہ سی بولی۔۔"


کسی کا نہی ہے جس ایریا میں ہوئ ہے وہاں کا اے سی ریٹائیرڈ ہو گیا تھا اور میری ٹرانسفر کا مسلہ تو کب سے چل رہا تھا سیٹ خالی تھی بس اسی لیے وہاں ہو گئ

بحرحال وہ مطمئین نہی ہو رہی تھی


Now say good bye...!!


وہ اس کے مقابل ہوتے اس کا دھیان اپنی جانب متوجہ کرنے لگا


Good bye


وہ اس کی آنکھوں میں اپنی ساکن سیاہ آنکھوں سے جھانکتے بے خیالی میں نیچے بکھری چیزیں دیکھتے بولی تھی


واو ایمپریسیو یا اللہ مجھے ہمت دے"

وہ اسے کھینچتے قریب کرتے گڈ بائے کے مطلب اچھے سے سمجھانے لگا تھا کے وہ سرخ سی ہوتے اس کی قربت میں ہر فکر فلحال کے لیے بھلا گئ تھی

سرد قطرہ قطرہ پگھلتی رات ہوسپیٹل کے کوریڈور میں بے چینی سے ٹہلتے گزری چند لمحوں پہلے ازان کی آواز سے وہ مسجد نماز ادا کرنے چلا گیا

فجر کی نماز ادا کیے وہ دعا مانگتے اس کی زندگی اور نئ آنے والی زندگی کی خیریت کی دعا مانگتے چہرے پر ہاتھ پھیر گیا تھا

وہ رات سے تکلیف میں مبتلا تھی


اس لمحے عورت زندگی اور موت سے لڑتی ہے یہ بات اس کی جان نکالنے کو کافی تھی

ہوسپیٹل کی راہ کرتے مختلف وسوسے زہن میں ابر سے رہے تھے کاش وہ اس کے ساتھ ہوتا

وہ ہمت کیے رخ کر گیا


احان کتنی کالز کی تمہیں۔۔"

سانیہ کی اپنے پیچھے آواز سے وہ رخ موڑ گیا تھا


مما پتہ نہی چلا۔۔" وہ سکوت پاتے ہوسپیٹل رومز کا جائزہ لینے لگا


پتہ رکھنا تھا پچھلے آدھے گھنٹے سے کوئ مسلسل اپنے باپ کا انتظار کر رہا ہے"

اور بابا جانے کہاں غائب ہیں"

وہ اچانک بول گئیں


مما اندازہ نہی۔۔"

ایک منٹ ک۔کیا کہا آپ نے" وہ بری طرح چونکا تھا


وہی جو تم سمجھ گئے ہو۔۔" وہ مسکراتے اس کی پیشانی چوم گئیں تھیں

یا اللہ مما آپ سچ۔۔" وہ خود پر ضبط کرتے انہیں زور سے گلے لگاتے اپنی کیفیت پر دل تھام گیا تھا

مبارک ہو میری جان" وہ مسکراتے اس کی خوشی پر اس کا کندھا تھپک گئیں

آپ کو بھی۔۔" وہ نمی خود میں اتارتے مسکرانے لگا تھا

بیٹے سے تو مل لو پھر خوشی کا اظہار بھی کر لینا"

بیٹا۔۔وہ زیر لب دہرا گیا

نائمہ اس کے سامنے کمبل میں لپٹا نازک سا وجود سامنے لائ تھیں

وہ شکن زدہ کپڑوں میں تھا لمحوں میں اپنی ساری تھکاوٹ وہ منظر دیکھتے زائل ہوتی لگی

اس کی جانب نائمہ نے مسکراتے قدم بڑھائے تھے

کانپتے ہاتھوں سے وہ اس کو گود میں لے گیا اس کا چہرا دیکھتے بے یقین سا اس کے نقش نرمی سے چھونے لگا

اس کی ننھی سی انگلی کھولتے اپنے ہاتھ میں تھام گیا تھا

اس لمحے آنسو کا قطرہ اس ننھے وجود کے چہرے پر گرتے وہ کسمساتے مسکرا گیا

احان کی مسکراہٹ کچھ سوچتے گہری ہوئ

میں اسے پہلے دیکھوں گی۔۔" اس کی سرگوشی قریب ہوئ تھی

میری جان یہ اعزاز بھی آپ کی پاگل مما کی جگہ بابا کو حاصل ہو ہے"

وہ اس کے گلابی گال پر جھکتے لب رکھ گیا کے خاموشی میں اس نے اچانک رونا شروع کر دیا تھا

آہ میرے شہزادے بس ماں کو پاگل کہنا برداشت نہی ہوا۔۔"

وہ جھلانے لگا مگر اس کی باریک روتی آواز مزید تیز ہو گئ تھی

احان مجھے دو اسے بھوک لگی ہے۔۔"

سانیہ کے حوالے کیے وہ اسے تو بھول ہی گیا تھا جب وہ بے چینی سے دریافت کرنے لگا

مما ریحہ کیسی ہے؟ وہ اس کی جانب دیکھتے بولیں

ریحہ ابھی کچھ دیر میں روم میں شفٹ ہو گی"

سکندر اور وہاج اس لمحے ہوسپیٹل آ گئے تھے

ازان اس کے کان میں وہ خود دینے کے بعد

پوری وارڈ میں مٹھائ بانٹتے اپنی خوشی کا اظہار کیے وہ اب اس سے ملنے کو منتظر تھا جو اسے اس خوشی سے آشنا کرا گئ تھی

چند لمحوں بعد ڈاکٹر کی اجازت سے وہ اس کے روم میں داخل ہوئے

وہ داوئیوں کے زیر اثر ابھی بے ہوش تھی

جب اپنی پیشانی پر شدت بھرا لمس محسوس کیے وہ اسے محسوس کرنے لگی

حان۔۔"

حان کی جان۔۔"

اپنے لمس کی آشنائ پر اس کی سرگوشی میں ڈھلتی آواز سے وہ دوبارہ بولتے جھکا

وہ اس کی پیشانی پر مسکراتے پھر سے لب رکھے پیچھے آتی چاپ اور آوازوں سے اس کے بیڈ سے پیچھے ہوا تھا

ریحہ۔۔"

نائمہ کی پکار سے وہ مندھی آنکھیں کھولنے لگی تھی

مما میرا۔۔"

لاشعوری سی کیفیت میں بے ساختہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے پوچھنےکی سعی میں تھی

بیٹا ہے"

سانیہ اس کے قریب لائ تھیں احان کے کہنے سے اس نے کبھی بھی پہلے چیک اپ ہی نہی کروایا تھا بیٹا ہے یا بیٹی بحرحال ریحہ کی تکرار بیٹے پر ہوتی تھی

اور اس کا جواب پتہ نہی تم عورتیں خود عورت ہو کر بھی پہلی اولاد بیٹا ہی کیوں چاہتی ہو

اور ریحہ کا جواب میں کوئ فرق کرنے والی ماں نہی ہوں پر اب تو میں نے نام بے بی بوائے کا ڈیسائیڈ کر لیا ہے اب بے بی کی چینجینگ نہی ہو سکتی

وہ خیالات سی نکلی جب نائمہ اس کی گود میں تھماتی کے وہ سمٹی سی تھی

مما میں کیسے پکڑوں"

وہ نم آنکھیں لیے دھندلی پڑتی نظروں سے منظر نظروں میں اتار رہی تھی

ایسے میری جان میں بتاتی ہوں پکڑو اسے"

تمہیں ہی سنبھالنا ہے وہ اس کے سر کے نیچے ہاتھ رکھواتے اسے سمجھانے لگی

وہ چھوٹے سے ہاتھ کا انگوٹھا منہ میں لیے تھا

مما یہ کتنا پیارا ہے۔۔"

وہ نم آنکھوں سے گلابی رنگت لیے چہرے کو دیکھنے لگی تھی اس کے بال بھورے سے تھے بے ساختہ اس کا باپ یاد آیا تھا وہ سامنے دیکھنے لگی جو وہاج سے مسکراتے باتوں میں مصروف تھا۔۔

مما آپ پاس رہیں۔۔" وہ اس کو چھونے سے بھی ڈر رہی تھی جب نائمہ نے اس کی حرکت پر تکیہ اس کے پیچھے درست کیے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا

اس پرسکون لمحے کے لیے کتنی تکلیف سہی تھی وہ گہرا سانس کھنچتے اس کی سرخ و سفید چھوٹی سی پیشانی چہرا اور ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے نرمی سے چومنے لگی تھی

میری جان تو آج سہی سے سمجھدار سی ہو گئ ہے"

ریحہ نے ماں بننے کی ترقی کر لی ہے

بی جان کی آواز سے وہ ثانیہ کے سہارے کراون سے ٹیک لگاتے گود میں تھامے اپنے وجود کے حصے کو دیکھتے نم آنکھوں سے اسے قریب محسوس کیے مسکرا گئ تھی

اسے ڈیلیوری کے دوران ہی پتہ چل گیا تھا پھر بھی ایک خدشہ سا تھا

وہ سرخ سی اس کو ڈھونڈنے لگی جو سامنے دیوار سے ٹیک لگائے مسکراتی نظریں اس کی ہر حرکت پر گاڑے اس کی جانب فلائینگ کس اچھال چکا تھا

وہ سٹپٹاتی نظریں موڑ گئ

اس کا نام کیا رکھنا ہے"سانیہ نے اسے گود میں لیتے پیار کرتے پوچھا

اس کا نام ریحہ رکھے گی" اس کی موجودگی اپنے ساتھ محسوس کیے وہ مزید چہرا جھکا گئ تھی وہ جانتا تھا وہی اس کا نام رکھنا چاہتی ہے اور وہ یہ اختیار بھی اسے دینا چاہتا تھا جس نے اتنی تکلیف اسے دنیا میں لانے کے لیے اٹھاے تھی

ریحہ کیا نام رکھنا ہے"

بی جان نے مسکراتے پوچھا

وہ اس کی جانب رخ کر گئ تھی جو مسکراتے سر ہلا گیا

ارحان۔۔" وہ کچھ توقف کے بعد بولی

ارحان بہت پیارا نام ہے۔۔" احان سے ملتا جلتا ابھی وہ بول ہی رہے تھے ازہان کی ویڈیو کال آنے لگی تھی

مجھ سے زیادہ اب آپ جونیر احان کو پیار کیں گی"

وہ سانیہ کی گود میں موجود بچے کو دیکھتے اپنی تکلیف دبائے خفگی بھرے لہجے میں بول گیا

یہ تو ہے۔۔" سانیہ اسے چوم گئ تھی جو نیند میں بار بار وقفے وقفے سے پیار کی برسات ہونے پر ہڑبڑا سا جاتا

وہ سب اس جانب متوجہ تھے

یو کمپلیٹیڈ می۔۔"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے سرگوشی میں بول گیا اس لمحے سب کی موجودگی میں وہ سرخ چہرا جھکا گئ تھی

آج نہی آپ کو آفس جانا۔۔" وہ یاد آتے خفا چہرا موڑ گئ تھی

آج تو ابھی میرا بیٹا آیا ہے۔۔"

وہ اس کا ڈرپ لگا سوجھا ہاتھ تھامتے اس کی پشت پر اپنے لب رکھ گیا تھا

احان۔۔" وہ سب کی موجودگی میں گڑبڑاتے ہاتھ کھینچ گئ

حان کی جان سے سہی سے تھینکس بھی نہی کر سکتا۔۔"

چلو ادھار رہا۔۔"

وہ سب کی موجودگی کی وجہ سے مزید سرخ سی ہوتے اس سے نظریں چرانے لگی تھی

ارحان کیوں نام رکھا تم نے کبھی مجھے بتایا بھی نہی۔۔ "وہ کچھ سوچتے پوچھنے لگا۔۔

میں نے خاصا سوچا تھا یہ نام لیکن آپ کو اس لیے نہی بتایا اگر بیٹی ہوتی تو اسی لیے میں نے اپنے دل میں چھپائے رکھا

وہ ہم دونوں کے ناموں کا مکسچر ہے ار میرے نام کی شروعات اور حان آپ پر ختم۔۔"

--------------------------------------------

نور۔۔"وہ ناشتے کی ٹیبل پر اسے بلا گئے

جی بابا۔۔"

بیٹے اتنی آنکھیں کیوں سرخ ہوئ ہیں۔۔"

رات کو ٹھیک سے سوئ نہی

وہ اس کی ناشتے کی پلیٹ ویسے ہی پڑی دیکھ رہے تھے

بابا نئ بس یونہی۔۔"

اب وہ کیا بتاتی جگہ بدلنے کی وجہ سے اسے اپنے اتنے سال گزارے گھر میں بھی نیند نہی آئ تھی وہ اپنی کیفیت پر مضطرب تھی

اچھا غازیان کی کوئ خیر خیریت کی کال نی آئ۔۔"

وہ بات ختم کرتے بولے۔۔

وہ لیٹ پہنچے ہوں گے۔۔" اسی لیے شائد نہی کی

میں لیٹ ہو رہی ہوں۔ '

وہ کچھ سوچتے پلٹی تھی

ہمم کہو۔ "وہ اس کے بولنے سے پہلے مسکراتے بولے

میں پروپر ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں تو۔۔"

تاکہ ٹائمنگ کا مسلہ آپ کو بھی نہ ہو" وہ کچھ توقف کے بعد بولی

تو اس کی اجازت تم غازیان سے لو۔۔" وہ کچھ سوچتے بولے

وہ تو چاہتے تھے میں ہی نہی سیکھ رہی تھی" وہ افسردہ ہو گئ وہ بلکل اس پر ڈپینڈ کرنے لگی تھی لیکن وہ شائد ایسا نہی چاہتا تھا اسے لیے اسے اس کے حالر چھوڑ گیا

----------------------------------------

نور پردے نہی ہٹاو۔۔" وہ تیز آنکھوں میں چھبتی روشنی سے بولا

نور۔۔" وہ کسمساتے کروٹ لیتے اسے ڈھونڈتا کے کمرے میں خود کو بستر پر تنہا پایا

رات تین بجے کے قریب وہ پہنچا تھا اور بے خبری کی نیند میں ایسا سویا کے اب آٹھ بجے آنکھ لگی تھی

شٹ اسے کال بھی نہی کر سکا وہ فلحال گھر الاٹ ہونے تک اپنے انڈر ٹرینگ والے نارمل سرونٹ کواٹرز میں ہی ٹھہرا تھا

خود کا عادی بنا دیا ہے"

فون ٹٹولتے ٹائم دیکھا جو نو بج گئے تھے

وال کلاک غلط ٹائم شو کر رہی تھی

وہ کالج ہو گی لیکچر میں۔۔"

فون بعد کرنے کا فیصلہ کیے وہ جوائینگ کی تیاری کرنے لگا۔۔"

یہ سب کیا ہے۔۔"

ابھی ڈسٹرکٹ آفیسرز سے ملتے وہ سیدھا اپنے آفس میں آیا تھا جہاں پھولوں کے مختلف بکے دیکھتے وہ پیچھے کھڑے اپنے انڈر محکمے کے تین چار لوگوں سے پوچھنے لگا

سر ویلکم آپ کا۔۔" کانسٹیبل چہکتے قریب آیا تھا

اور ان کو کس دوکان سے صبح صبح چونا لگا گے لے کر آئے ہو"

وہ گڑبڑا گیا تھا

نہی سر یہ تو لوگوں کو پیار ہے آپ سے"وہ اس کی چئیر کھسکھاتے بولا

اچھا ایک دن میں مجھ سے پیار بھی ہو گیا۔۔"

ملنا چاہوں گا ایسے لوگوں سے جو پھولوں کی دوکان میرے آفس کو بنا گئے"

وہ تیکھے لہجے میں بولتے ٹیبل سے پھولوں کی پتیاں ہٹاتے فائلز دیکھنے لگا

وہ سر۔۔" وہ گڑبڑایا یہ سب تو وہ دھمکا کر لے آئے تھے

سب پتہ ہے مجھے یہ سب ویسٹ ہونے سے پہلے دے کر آو کام آ جائیں گے کسی کے جنازے میں۔۔" وہ بے اعتنائ برتتے بولا

استغفار سر۔۔" وہ تو اس کو دیکھتے حیرت زدہ سا تھا

سر دراصل لوگ آپ کی آمد سے خوش ہیں لوگوں کو آپ اچھے لگے ہیں اور ہمیں بھی۔۔"

وہ بتیسی نمایاں کرتے بولا

لیکن میں بلکل اچھا نہی ہوں تم مجھے خامخاں کا مکھن نہ لگاو"

وہ فائیل سے سرسری نظر اٹھاتے بولا

آئیندہ ایسی کوئ حرکت نہی چاہیے مجھے اپنے آفس میں "

وہ اس کو ایمپریس کرتا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا تھا

----------------------------------------------

وہ مسلسل آدھے گھنٹے سے کپڑوں کی سلیکشن میں مصروف تھی لیکن دماغ کے اکورڈنگ کچھ مل ہی نہی رہا تھا

مما بھی نہ یہ تارے موتیوں والے کپڑے سلیکٹ کرنا واقعی ایک مشکل کام ہے با نسبت کوئ بھی رنگ کی ٹی شرٹ لو اور کوئ بھی جینز لیکن یہاں تو ٹراوز کی میچنگ علیحدہ دوپٹے کا رولہ وکھرا"

بلیک اور وائیٹ۔۔"

ہمم نہی کچھ اور ۔۔" وہ جھنجھلاتے میچینگ میں کنفیو تھی

بلیک کے ساتھ ریڈ کا کمیبینیشن اچھا لگتا ہے۔۔"

نہی بلیک اور گرے بھی ڈیسینٹ ہی لگتا

وہ ریکس میں لگے ہینگرز پر شرٹس دیکھ رہی تھی اپنے پیچھے سی آتی آواز پر لاشعوری میں بولی تھی

یو شوڈ چیک دس اچھا میچ ہے" وہ ایک شرٹ نکالتے سامنے آتے تھما گیا تھا وہ ایک دم اس کی موجودگی سے حیرت زدہ سی تھی

تم ایسا کیسے کر سکتے ہو"

مطلب حد ہو گئ ہے اب تو۔۔" وہ کچھ سوچتے غصے سے بولتے روبرو ہو گئ تھی

کیا مطلب ہے اس کا میں سمجھا نہی"

وہ حیران ہو گیا تھا صاف رنگت کی حامل لڑکی کو مہرون چیک شرٹ اور بلیو جینز میں بالوں کو اونچا سا رفلی جوڑے میں باندھے بے ساختہ وہ جھرجھری لے گیا اسے اتنی سردی میں بغیر سوئیٹر اور جرسی کے دیکھتے جب کے خود وہ گرے ہائ نیک اور بلیک جینز پر بلیک ہی جیکٹ پر مفرل بھی لپیٹے تھا

تم مجھے مسلسل سٹوک کر رہے ہو" اس کی چھبتی آواز سے وہ ہوش میں آیا

غالبا مس آئرہ یہ شاپنگ مال ہے جہاں ہر بندے کو شاپنگ کا حق حاصل ہے"

وہ دو بدو جواب دے گیا تھا

گرلز کاونٹر پر۔۔" وہ طنزیہ بولی

کیوں میری ماں بہن نہی ہے جن کے لیے میں نہی کر سکتا۔۔"

وہ اب شدید اس کی بات پر حیران ہوا تھا مطلب اس کا دماغ کہاں پہنچ رہا تھا

ٹھیک ہے کرو لیکن میں نے مشورہ نہی مانگا۔۔"

I have my own dressing style

وہ ہینگر سمیت اس کی تھمائ شرٹ ریک میں لٹکا گئ تھی

میں نے تو سجیشن دیا تھا لیکن آپ تو جانے کیا سمجھ گئیں

وہ بے نیازی سے کہتے اب زرا دور جاتے اپنے شرٹس دیکھنے لگا

نہی ایک منٹ سمجھنے سے کیا مراد ہے تمہاری" سیلز بوائے اچانگ متوجہ ہو گیا تھا اس کی تیز آواز سے

میم اینی پرابلم۔۔"

یس یہ لڑکا مجھے مسلسل کانفرنس روم سے لیکر سٹوک۔۔"

نتھنگ آپ کام کریں میں دیکھ لوں گا یہ تھوڑی اپ سیٹ ہیں"

آپ دھیان نہی دیں شاپنگ نہی کرائ تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہیں۔۔"

وہ ششدر سی کچھ بولتی کے اس کی بازو کھینچتے قدرے پرے کپڑوں کی بھرمار لیے ریک کے قریب لے گیا تھا

واٹ کیا تھا یہ اب مجھے یقین ہو گیا تمہارا آفر دینا اور یہ۔۔"

وہ اس کے ہونٹوں پر ہاتھ جما گیا تھا

چپ ایک دم چپ۔۔"

وہ آنکھیں دکھا گیا

جانتی ہیں ابھی سکیورٹی مجھے باہر نکال دیتی میں آپ کو کہاں سٹاک کر رہا ہوں

یہاں سے جاتے گھر والوں کے لیے کچھ شاپنگ کرنا چاہتا تھا

آج صبح مجھے میرے بھتیجے کی خوشخبری ملی ہے

میں صرف اپنے نیو بورن بھتیجے کی کچھ شاپنگ کرنے آیا تھا بے بی ریکس ڈھونڈتے مجھے آپ نظر آئ دیٹس اٹ آئرہ۔۔"

اب آپ کچھ بولیں گی نہی گلٹ فیل کر رہی ہیں۔۔"

وہ آنکھیں پھیلاتے اس کے ہاتھ کے جانب اشارہ کر گئ جو اس کے منہ پر جمائے تھا

او سوری۔۔" وہ فوری ہٹاتے خجل سا ہو گیا

ہٹو پیچھے کل جیسے ڈاریکٹ تم نے ڈیلینگ کی بات کی تھی نہ وہ بے مروتی دیکھتے میں کچھ بھی سوچ سکتی تھی

وہ لب دبا گیا تھا جب وہ پلٹی تھی

اور ویسے بھی اس مال میں بے بیز کاونٹر تھرڈ فلور پر ہے۔۔"

اوکے تھینکیو۔۔" وہ سر ہلا گیا

ایکسکیوز می۔۔" وہ جھجکتے دوبارہ مخاطب کر گیا تھا

ہیلپ کر دیں گی۔۔"

وہ گہرا سانس کھینچ گئ تھی دل تو چاہ رہا تھا کہہ دے کس خوشی میں بحرحال وہ سر ہلا گئ

پنک۔۔"

نو بے بی بوائے ہے بلیو اچھا لگتا ہے۔۔"

ازہان نے تیسرا اس کا سلیکٹ کردو ڈریس بھی رد کیا تھا

خاصا تجربہ ہے آپ کو۔۔" اس کی بات پر تاریک سا سایہ لہرایا تھا وہ تکلیف دبانے لگا آج اس کا بچہ ارحان سے کچھ ماہ بڑا ہوتا اس کی مسلسل چلتی زبان سے وہ بس سر ہلا رہا تھا

وہ چھوٹا بچہ ہے اور یہ عجیب ہی کونسیپٹ ہے جبکہ کتنے کیوٹ ہوتے ہیں نہ چھوٹے بچے ان پر ہر رنگ بلکہ گلابی سے تو ہوتے ہیں گلابی کتنا زیادہ پیارا لگا ہے

وہ مسکراتے بولی تھی

ایکچولی مجھے آپ سے ایک بات بھی پوچھنی تھی۔۔"

لیکن میری طرف سے انکار ہے اسی لیے میں کسی کی مدد نہی کرتی ہٹو پیچھے"

اس کی ایکسرے کرتی نظروں سے الجھتی وہ اب پرے ہوئ تھی

آپ غلط رنگ کیوں دیتی ہیں سن تو لیں۔۔" ازہان نے قدم موڑتے اس کے سامنے جاتے رکا

کیونکہ مجھے تمہاری ڈیل منظور نہی ہے۔۔"

اف۔۔ازہان سر پر ہاتھ مار گیا

مجھے ڈیل کی بات نہی کرنی۔۔"

تو پھر۔۔؟ وہ حیرانی کم کر گئ تھی

یار آپ۔۔"

یونیورسٹی کی زبان نہ اپنے بوائے فرینڈز تک ہی محدود رکھو میرے ساتھ نہی بڑی ہوں سسٹر آپی کہہ سکتے ہو"

وہ انگلی سے وارن کر گئ


اف آپ کتنا بولتی ہیں بہن جی میری بات تو سن لیں" وہ تپ گیا تھا


بہن جی مطلب میں تمہیں کہاں سے بہن جی لگتی ہوں۔۔" وہ صدمے میں اپنا حلیہ چھوٹے ریکس کے نصب شیشے میں دیکھنے لگی


خودی تو کہا تھا ابھی۔۔" وہ مٹھی بھینچ گیا


میں نے آپی یا سسٹر کا کہا ہے بہن جی نہی"


میں صرف یہ کہہ رہا تھا میرے ایکسیڈینٹ والے

دن آپ نے میری مدد کی میری جان پر قرض ہے آپ کا۔۔"

مجھے پتہ چلا تھا ایک لڑکی نے مجھے ہوسپیٹل تک پہنچایا تھا کل جب آپ نے مجھ سے کہا آپ کو ٹھیک دیکھ کر خوشی ہوئ مجھے ایک شبیہ سی دماغ پر لہراتی محسوس ہوئ تھی

وہ درمیان میں اچک گئ


ایک زمیدار شہری کا ثبوت تھا وہ بس۔۔"


جو کئ لوگوں کی جگہ آپ نے ادا کیا لیکن صرف ایک چیز جب میں اس لمحے میں گیا تھا میں نے سوچا تھا میں بغیر اپنی زندگی میں مجھ سے سرزرد ہونے والے گناہوں کی معافی مانگے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو جاوں گا"

لیکن آپ کی وجہ سے اس ٹائم یہاں موجود ہوں۔۔"

سو تھینکیو مس آئرہ فیاض میں نہی جانتا تھا وہ لڑکی آپ ہیں آپ سے ملکر مجھے آپ کا شکریہ کرنے کا موقع ملا ہے"


کیا آپ کی آکسیجین کے پیسے میں اللہ کو پے کر رہی ہوں ۔۔"وہ سنجیدگی سی بولی


جی۔۔"

کیا کیا مطلب۔۔" وہ تاسف زدہ ہوا


میرا مطلب ہے اللہ سے شکریہ ادا کریں آپ کو سانسیں دینے والے وہ ہیں"

وہ اس کو دیکھتے سنجیدگی سے بولی


وسیلہ تو آپ تھیں نہ ویسے بھی کسی نہ کہا تھا بچوں میں مینرز نہی ہیں وہ سمجھتے کچھ یاد آتے لبوں پر مچلتی مسکراہٹ دباتے بولا


وہ اس کی لاہور میں شاپنگ مال کی ملاقات کا حوالہ دینے پر تیزی سی بولی

آپ کی شاپنگ ہو گئ تو میں چلتی ہوں۔۔"


رکیں ساتھ میں چلتے ہیں کیا آپ کچھ ٹام انتظار کر سکتی ہیں۔۔"


لیکن میں کیوں۔۔؟ وہ دانت پیستی بولتی کے تیزی سے نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا


وہ چند لمحوں بعد کاونٹر کی جانب پے کرتے شاپنگ بیگ تھامتے اس کے ساتھ آیا تھا


وہ مال سے اکھٹے نکلے تھے

ملکر اچھا لگا۔۔" ازہان کی بات پر وہ دوبدو بولی


ویل ازہان آپ سے بھی یہ ایک اچھی ملاقات تھی۔۔"

ازہان نے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا

وہ باہر نکلتے پارکنگ میں اب سردی محسوس کر رہی تھی جلد سے جلد وہ گاڑی تک پہنچتی کے اس کی آواز سے دوبارہ پلٹی تھی


آئرہ۔۔"

جی۔۔" وہ کندھے ہاتھوں سے مسلتے پلٹی

یہ آپ کے لیے ہو سکے تو اس کا استعمال آپ ابھی کر سکتی ہیں ضرورت ہے اس کی ابھی۔"

وہ ایک شاپنگ بیگ اس کی جانب بڑھا گیا تھا

میں کیوں رکھوں۔۔" وہ خشمگیں نظروں سے اب گھورنے لگی تھی

یو ریئلی نیڈ دس سمجھ لیں میری دو بار مدد کا فیور ہے"

مزید میں کچھ نہی کہوں گا۔۔"

ٹیکسی۔۔"

وہ تب تک ٹیکسی لے چکا تھا

وہ بیگ تھامے تھی جب اپنے سامنے گاڑی رکتی محسوس ہوئ۔۔"

بیٹھو۔"

وہ منہ کھولے تھی

میں نے کہا بیٹھو۔۔" اب اس کی آواز مزید تیز تھی

بیک سیٹ پر بیٹھے اسے دیکھتے لب ہلائے تھے

میری گاڑی کھڑی تھی۔۔"

وہ اس کی موجودگی کا یقین کر رہی تھی فرنٹ سیٹ پر فارمل ڈریس میں اس کا گارڈ تھا جبکہ خود وہ بیک سیٹ پر تھا

کیا کر رہی تھی اس شخص کے ساتھ۔۔"

وہ شاپنگ بیگ مٹھی میں بھینچ گئ

یہ سوال میرا ہونا چاہیے کب سے ہو تم یہاں۔۔"

وہ چہرا اس کی جانب موڑ گئ تھی

کل پوسٹنگ ہوئ میری یہاں۔۔"

واٹ۔۔؟ وہ چلائ تھی

آہستہ۔۔" گارڈ فرنٹ مرر سے انہیں دیکھنے لگا

سوری۔" وہ انگلی ہونٹوں پر رکھ گئ

اس شخص کے ساتھ کیا کر رہی تھی۔۔" وہ اپنا سوال دوبارہ دہرانے لگا

ڈیڈ نے ہوٹلز میں شیئرز لیے ہیں پارٹنر ہے۔۔"

اب تم بتاو گھر کیوں نہی آئے مانی کو پتہ چلا تو یہاں ہو۔۔"

وہ ایک ساتھ سوال کر گئ تھی

پہلی بات کا جواب دو پاٹنر تھا تو شاپنگ مال میں کیا کر رہی تھی۔۔"

ڈونٹ سے تم بھی مجھے سٹوک کر رہے تھے"

وہ مسکراتے بولی

شٹ اپ اس کے ساتھ آئیندہ نہ دیکھوں میں تمہیں۔۔"

وہ سخت لہجے میں بولا

ایسا کیا ہے غازی۔۔؟ ہی از آ نائیس مین۔۔"

وہ چند ملاقاتوں میں لگائے گئے اندازے کے مطابق بول گئ تھی

ایک لڑکی سے چھپ کے نکاح کیے ہوئے ہے۔۔"

وہ احان کی فلیٹ کی ملاقات یاد کرتے بولا

نکاح ہی کیا تھا کوئ جرم تو نہی"

غازیان گھور گیا تھا

او آئ سی اسی لیے جھوٹ بولا اپنے بچے کی شاپنگ مجھ سے کروا رہا تھا"

وہ بڑبڑائ تھی

تم گھر کیوں نہی آئے اور نور۔۔"

وہ کافی شوپ پر تھے جب وہ اس سے پوچھنے لگی

آئرہ میں ابھی سیٹل ہو جاوں ایک تو دن تک سول لائن میں گھر الاٹ ہو جائے گا مجھے۔۔"

پھر مما کو وہی شفٹ کر رہا ہوں ابھی یہاں سیٹل ڈاون ہونے میں ٹائم لگے گا تم سے بھی ملاقات اسی لیے کی تمہیں اس کے ساتھ دیکھ کر۔۔"

فلحال مما کو نہی پتہ چلے میں اسلام آباد ہوں۔۔"

ان سب میں اچانک کوفی اس کے کپڑوں پر چھلکی تھی

میں صاف کر کے آیا۔۔" وہ مزید سوال پوچھتی کے اس کو اٹھتے دیکھ خاموشی سے سپ بھرنے لگی

----------------------------------

وہ کالز لوگز چیک کرتے مایوس ہونے لگی

نور ایک کال کر لو

وہ مجھے بتا نہی سکتا میں پہنچ گیا ہوں۔۔"

وہ دلیلیں دینے لگی

نور تم بھی تو بیوی ہو

آہ ایگو بھی کوئ چیز ہے"

پر اس کے آگے۔۔"

وہ ناخن چھباتے سوچنے لگی

-------------------------------------------

وہ بلنک ہوتے فون کی جانب متوجہ ہو گئ تھی وہ مسکراتے اس کا فون اٹھا گئ تھی

ہیلو سوئیٹ ہارٹ کیسی ہو۔۔"

وہ فون کان سے ہٹائے سمجھنے لگی

کون یہ غازیان کا نمبر۔۔"وہ نمبر غور کرنے لگی

یس غازیان کا ہی نمبر ہے ایسے ری ایکٹ کیوں کر رہی ہو

وہ فون دیکھنے لگی تھی جو وہ کوئ بات کہے سنے بغیر بند کر چکی تھی

کیا ہوا میرے فون کے ساتھ کیا کر رہی ہو"

غازیان واپس جب آیا تو آئرہ کے ہاتھ میں اپنا فون دیکھتے دریافت کرنے لگا تھا

پتہ نہی نور نے کال کی تمہیں یہ نور کا ہی نمبر ہے نہ۔۔"

وہ کپ سائیڈ پر کرتے حیرت زدہ سی بند سکرین کی جانب دیکھتے پوچھنے لگی

نور کی کال تھی شٹ آج کے بزی سیکجویل میں اس سے بات کرنا ہی بھول گیا۔۔"

وہ کالز لاگز میں اس کی کال ہی دیکھتے افسردہ سا ہوا تھا

چلو تمہیں ڈراپ کر دوں۔۔"

وہ شام میں سکون سے کال کرنے کا سوچتے اپنی کیز ٹیبل سے اٹھانے لگا

لیکن آئرہ کو فکر کھانے لگی شائد نور کو اس کا فون اٹھانا ناگوار گزرا تھا پر وہ خاموشی سے وہ شاپنگ بیگ تھامتے مضطرب سی اٹھ گئ

------------------------------------------------

نور کیا ہوا یہاں کیوں ایسے بیٹھی ہو ۔۔"

وہ اچانک سے چکراتے سر سے بیٹھی سن سی تھی زبیر اس کا زرد پڑتا چہرا دیکھنے لگے تھے باہر شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اندر لاونج میں اس کا دل سورج کی طرح ڈوب رہا تھا

کچھ نہی بابا۔۔" وہ فون کی تاریک سکرین دیکھتے آنسو پینے لگی تھی

آج میں کچھ پوچھوں تم سے سہی جواب دینا۔۔"

وہ اپنی ماں کی کمی اس لمحے شدت سے محسوس کر رہی تھی

جی بابا۔۔" وہ صوفے سے زرا سا کھسکھتے ان کے کندھے پر سر رکھتے اپنے جلتے دل کو سکون پانے کو آنکھیں موند گئ تھی

غازیان کی ماں کا رویہ کیسا ہوتا ہے تمہارے ساتھ۔۔"

کبھی تمہیں ان کا زکر کرتے نہی سنا نہ کبھی فون پر تمہارا حال چال پوچھا

نہ کبھی بھی تم نے ان کے رویے کے بارے میں بتایا"

غازیان کے ساتھ تم خوش ہو اس کا اندازہ میں اس کے تم سے دور ہونے پر دیکھ رہا ہوں ۔۔"

لیکن اس کی ماں کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ

وہ دھیرے دھیرے سوال کرنے لگے تھے

بابا سب اچھے ہیں پر میں اچھی نہی ہوں۔۔" وہ ازیت محسوس کیے یک دم ہی بول گئ تھی

کس نے کہا ہے ہالہ نور بہت اچھی ہے میری بیٹی دنیا کی سب سے اچھی بیٹی ہے"

خود کے بارے میں آئیندہ نہی ایسا کہنا بابا کی آنکھوں کے نور۔۔"

وہ آنسو ضبط کرتے اس کو اپنے کندھے پر سر رکھے دیکھنے لگے تھے

بابا کیونکہ میں آپکی بیٹی ہوں اس لیے آپ کو اچھی لگتی ہوں لیکن غازیان کی مما حقیقی دنیا میں رہنے والی انسان ہیں۔۔"

وہ پلک جھپکتی تو آنسو کناروں پر ٹھہرتے

کیا غازیان کی مما۔۔" وہ چونکے تھے

ک۔۔کچھ نہی۔۔" وہ ان کے کندھے سے سر ہٹائے سیدھی ہو گئ تھی

غازیان کی مما کیا نور کیا آپ کی شادی کر کے میں نے واقعی ہی بیٹی کو پرایا کر دیا کے وہ مجھ سے اپنے دل کی باتیں چھپانے لگے۔۔" وہ صدمے میں ہوئے وہ اس کی دل کی باتیں ہی نہی جان پائے تھے

نہی بابا ہرگز نہی نور لوز یو مور۔۔" وہ ان کا نحیف ہاتھ تھامتے نفی کرنے لگی تھی

بابا میں نے تو نہی کہا تھا میرے ساتھ یہ سب ہو پر میرے ساتھ ہی کیوں ہوا۔۔"ان کے ہاتھوں پر سر ٹکا گئ تھی دانستہ کتنے عرصے بعد یہ بات دہراتے وہ ان کا دل پھر سے پرانے زخموں سے آشنا کرا گئ تھی

اب مجھے اگلی زندگی میں بھی کیوں سکون نہی مل رہا

بابا اس کی ماں کو میں کبھی اچھی نہی لگتی ان کے نزدیک میرا وجود بے معنی ہے۔۔"

وہ تیزی سے رونے لگی تھی زبیر مٹھی بھینچ گئے تھے

نور تمہارے ساتھ جو شخص موجود ہے نہ اس کے ہوتے مجھے فکر نہی ہوتی

وہ شخص مجھے قائل کر گیا تھا تم سے شادی کو وہ شخص تمہارے دشمنوں کو سزا خود دلا گیا بدلے میں اس کی جوب خطرے میں آئ وہ ایک ماہ حراست میں رہا۔۔"

میر سبطین ابھی بھی اس کے پیچھے پڑا ہے اس مردود شخص کی خاموشی سے حمدان کو ہی نہی مجھے بھی خوف آتا ہے اس کی ٹرانسفر میں تو اس کا ہاتھ تب ہی تھا لیکن اس کے بعد اپنے اس اکلوتے شطان صفت بیٹے کو کھونے کے بعد وہ ایک زخمی شیر بنا ہے جو کبھی بھی کہی سے وار کے لیے تیار بیٹھا ہے

لیکن غازیان ایک مضبوط شخصیت کا حامل ہے جس کے ہاتھ میں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ دیا اور میں بس اس لیے پرسکون ہو جاتا ہوں کے ہالہ نور میرے بعد ایک مضبوط سائیباں کے حوالے ہے"

اسے ساتھ لگائے نرمی سے بتانے لگے تھے اس کی الجھن کو وہ یہی سمجھ رہے تھے وہ اس سے دور ہونے سے الجھی سی پریشان اور افسردہ ہے

میں مائیگریشن کی بات پرنسپل سے کرتا ہوں۔۔"

سپلی والے سبجیکٹ کی تیاری کر کے پیپر یہاں دے دینا

سفارش کی بنا پر وہ لیٹر اشو کر دیں گے تاکہ اسلام آباد کے کسی بھی میڈیکل کالج میں تم انرول ہو جاو۔۔"

وہ اس کے دل کی کیفیت کے مطابق بولے

اسلام آباد۔۔" وہ اپنے باپ کے منہ سے بھی تصدیق ہونے پر اب ضبط کنے لگی تھی

آپ جانتے تھے غازیان کی ٹرانسفر اسلام آباد ہوئ ہے"

وہ چند لمحے پہلے اپنی کی جانے والی کال پر آئرہ کے فون اٹھانے کی وجہ سے جو اپنا سکون برباد ہوتا محسوس کر رہی تھی اس تصدیق پر صدمے سے بولی

ہاں کیوں اس نے بتایا تو تھا۔۔" وہ اس کا حیران ہونا اتنا محسوس نہی کر پائے تھے

میں سونا چاہتی ہوں بابا بہت زیادہ سونا چاہتی ہوں۔۔" وہ صوفے سے اٹھتی عجیب لہجے میں بولی یہاں رہتی تو ضبط کھو دیتی فلحال وہ بہت سارا رونا بھی چاہتی تھی

نور ڈنر۔۔" وہ بغیر سنے ہی روم کی جانب چل دی تھی

--------------------------------------------

روم لوکڈ کرتے وہ بستر پر گری تھی

تواتر آنسو بہنے لگے تھے

غازیان میں ک۔کیسے بتاوں میں اس کو کھونے سے ڈرتی ہوں میں اکثر اپنی باتوں میں عجیب ہو جاتی ہوں

وہ اپنی مما سے میرے لیے لڑ جاتا ہے بہت سی باتوں میں وہ اچھا ہے لیکن مجھے اپنی زات سے ہی نہی واقف کراتا"

وہ تکیے میں چہرا چھپائے اپنا ضبط آزما رہی تھی دل چاہ رہا تھا اس سے پوچھے

اگر مجھے محبت دیتے ہو میرا خیال بھی رکھتے ہو تو مجھ سے ہی کیوں اپنی باتیں چھپاتے ہو۔"

---------------------------------------------------

سمجھا لیں اپنی اس بیٹی کو اپنی کرتوت درست رکھے ورنہ اس بار میں اسے علی سے بول کے گھر سے نکلوا دوں گی"

اپنی بہو کی چیخ پکار پر وہ نفی کرتے روتی ہوئ اپنی بیٹی کو دیکھنے لگی تھی

مما میں نے کچھ نہی کیا مما مجھے نہی پتہ وہ کیوں آیا یہاں میں کیوں اسے بلاوں گی "

مجھے نہی پتہ تھا وہ گھر آیا ہے"

وہ روتے بولی تھی

دانین کی ماں نے افسوس بھری نظر اپنی بیٹی پر ڈالی تھی جو سرخ آنکھوں سے اپنا جرم نہ ہونے کے باوجود مجرم بنی سامنے کھڑی تھی

اپنے حسن کے جلوے اور ادائیں نہ دکھاو تو مرد خامخاں کسی عورت کے پیچھے پاگل نہی ہوتے"

اور وہ تمہارے بچھائے جھانسے میں آئے ایسے ہی نہی آتے تمہاری خوبصورتی کے قصیدے پڑھتے تمہارے پیچھے پاگل ہوا پڑا

انعم دانین کی بھابھی زہر خند لہجے میں تمسخر بھری نظر اس کی سادگی میں بھی گرے رنگ پر بلیو شال شانوں پر پھیلائے خوبصورت نقوش والے چہرے پر نظر ڈالے بولی جو سادہ بھی کسی کو بھی گھائل کرنے کا ہنر رکھتی تھی

افسوس ایسے حسن کا جس سے اپنے شوہر کو تو لبھا نہ سکی وہ طنزیہ مسکراتی نظریں ڈالے سوچ گئ

وہ نا واقف تھی اس کی ازہان کی علیحدگی کی وجواہات سے اس کے سامنے تو یہ اور ہی دانین تھی اگر وہ اس کے ماضی سے واقف ہوتی تو مزید زندگی حرام کر دیتی

غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی وہ اس لمحے مجرم بنی کھڑی تھی


سمجھا لیں اپنی بیٹی کو ساسو ماں اسے میں ہرگز اپنے بھائ پر ڈورے ڈالنے نہی دوں گی اس جیسی لڑکی کو تو کم از کم نہی"

جو اپنا گھر نہی بسا سکی

اس لمحے اسے لگا تھا پوری چھت اس پر آن گری ہے

جبکہ وہ اس کی سنے بغیر اس کے کمرے سے تنفر بھری نظر ڈالے نکلتی چلی گئ


کیا یہ میرا گھر ہے مما جہاں میں محفوظ نہی۔۔" وہ بستر پر بیٹھتے تکلیف زدہ سی بولی


دانین میں اس گھر میں سکون چاہتی ہوں کیوں تم اس کے بھائ کے سامنے گئ جب وہ آیا تھا تم کمرے میں نہی رہ سکتی تھی سمجھایا بھی تھا تمہیں کم از کم تم اپنی حسیت سمجھ جاو خدارا وہ تمہارے بھائ کے آگے بول گئ تو کیا عزت رہ جائے گی میری"

تمہاری پہلی غلطیاں اسے زہن نشین ہے کبھی تمہارا یقین نہی کرے گا کرے بھی کیوں تم نے کونسا ہماری عزت کا پاس رکھا تھا

وہ اس کے اجڑے حال کو دیکھتے بولی


میری غلطیاں تھیں میں اکیلی قصوار نہی تھی وہ بھی برابر کا شریک تھا پھر مجرم میں ہی کیوں وہ کیوں بری الزمان ہے۔۔۔"

وہ بال مٹھیوں میں لیتے بری طرح چلائ تھی


آہستہ دانین آہستہ انعم کو ابھی یہ راز نہی پتا خدارا اپنے ماضی کے کارنامے نہ دہرایا کرو جو عزت تم ہماری خاک میں ملا چکی تھی

جانتی ہو وہ بری الزمان کیوں ہے کیونکہ وہ مرد تھا لوگ مردوں کے گناہ نہانے کے بعد بھول جاتے ہیں لیکن عورت کی کوتاہیاں اس کی قبر تک ساتھ جاتی ہیں۔۔"

اس لمحے وہ شرمندگی کے درجے میں چلی گئ تھی


پھر بھی تم اس کے بھائ کی وجہ سے عزت سے رخصت ہو گئ تھی میں تو شکر ادا کرتے نہی تھکتی تھی دانین لیکن کیوں برباد کیا تم نے سب"

وہ تلخی سے اسے حقیت دکھانے لگی تھی


مما اب میں نے کچھ نہی کیا قسم کھا رہی ہوں میں کیچن میں کام ہی کر رہی تھی مجھے نہی پتہ وہ کب میرے پیچھے آیا اور مجھ سے بے ہودہ گفتگو کرنے لگا اور اچانک بھابھی آ گئ تھیں باخدا میرے دل میں کوئ ایسا خیال بھی نہی تھا"

وہ مٹھیاں بھینچتے یقین نہ کرنے پر دل چاہ رہا تھا خود کو کچھ کر جائے اس لمحے احساس ہوا تھا بے بنیاد الزام کتنا تکلیف دیتا ہے


آئ کانٹ بلیو مما یہ میرا گھر ہے آپ کو مجھ پر یقین نہی میں کیوں ایسی حرکت کروں گی۔۔" وہ تلخی سے دیکھتے بولی تھی


دانین لڑکی کی جب شادی ہو جائے نہ تو مائیکہ اس کے لیے پرایا ہی ہو جاتا ہے بھابیاں نہی برداشت کرتی دانین تم کیوں نہ سمجھ سکی کیوں اپنا گھر برباد کیا۔۔"


وہ مجھے لے جائے گا مما میں ابھی تو اس کے۔۔"

ایک موہوم سی امید کے تحت وہ خواب کی سی کیفیت میں بولی تھی

بھول ہے تمہاری دانین تم نے جو حرکت کی نہ وہ ناقابل معافی تھی تمہاری ماں نے تمہیں رخصت کرتے نصحیت کی تھی عورت گھر بنانے والی ہو تو جھونپڑی میں بھی بنا لیتی ہے لیکن نہ بنانے والی ہو تو اپنے محل میں بھی اپنی خودغرضیوں سے آگ لگا لیتی ہے"

وہ اسے زندگی کا پس منظر سمجھانے لگی تھی

مما کیا میری غلطی اتنی تھی کے معافی کی کوئ راہ نہی نکلتی۔۔"

وہ ان کی گود میں سر رکھ گئ تھی آنسو تواتر آنکھوں کے کناروں کو گیلے کرنے لگے

گزشتہ سات ماہ کی زندگی کی تلخیاں دماغ پر ابھرنے لگی تھی

تم نے فرار کی راہ چھوڑی ہی نہی۔۔" وہ اس کے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگی تھی وہ تو اس کی ماں تھی نہ جو اپنی بیٹی کی تکلیف ہر دن کے ساتھ دیکھ رہی تھی انعم کو اس کا وجود یہاں ہرگز برداشت نہی تھا وہ تو بس اس کی تزلیل کے بہانے ڈھونڈتی اسے نکالنے کے در پہ تھی

دانین میں ازہان کو کبھی نہی بلاوں گی خدارا مجھے میرے گھر والوں اور میرے شوہر کی نظر میں مجرم ثابت نہ کریں کے میں اپنی نظریں ان کے سامنے اٹھا ہی نہ سکوں

بے گناہ ہوتے بھی الزام لگنا کتنا ازیت ناک ہوتا ہے وہ گہرا سانس بھرتے کسی کے الفاظ اس کے دماغ میں گونجنے لگے تھے

مکافات عمل۔۔" وہ دکھتی آنکھیں بند کر گئ تھی

--------------------------------------------------------

فریش ہوتے وہ اس لمحے بستر پر نیم دراز تھا

سیل فون سے ہینڈ فری اٹیچ کیے وہ اسے مسلسل کالز کرنے لگا

وہ جو پچھلے دو گھنٹوں سے سوجھی آنکھوں کا حشر کر چکی تھی بیڈ پر پڑا اپنا فون بجتا دیکھتے بے حس و ساکت پڑی رہی تھی

ایک تو میری بیوی ناراض بہت ہوتی ہے"

اس کے ہاتھ تیزی سے کی پیڈ پر چلنے لگے تھے

آئ مس یو بیڈلی کم از کم فون تو اٹھا لو۔۔"

میں تمہارے بابا کو کال کرنے لگا ہوں وہ خود تم سے میری بات کروائیں گے۔۔"

وہ اسی پوزیشن میں لیٹے فون قریب کیے سارے ٹیکس پڑھنے لگی

مزید نظر اندازی نہی ہو سکی تھی

شائد رقابت اور محبت دونوں کا احساس دل میں جاگ رہا تھا

وہ تکیے پر پڑی خشک ویران آنکھوں سے فون کان سے لگا گئ تھی

وہ رسیو کال دیکھتے اس کی الجھتی بے ہنگم سانسیں کئ لمحے محسوس کرنے لگا

فون کیوں نہی رسیو کر رہی تھی

اس کی سانسیں اس کی گھمبیر آواز سے مزید بھاری ہونے لگی تھیں

ویڈیو کال کر رہا ہوں میں فریش سی میرے سامنے آو۔۔" اس کی طویل خاموشی پر وہ خود ہی بولا تھا

ایسے ہی کہیں جو کہنا ہے۔۔" وہ دکھتا سر تھامتے بولی تھی

وہ سنے بغیر ویڈیو کال کرنے لگا تھا

نور بال باندھتے آنسو صاف کیے اٹھ بیٹھی تھی کراون سے ٹیک لگاتی کے اس کی کال چند لمحوں بعد سکرین پر ابھرنے لگی

اٹینڈ کیے اس کو سفید ٹی شرٹ میں بستر میں نیم دراز کراون سے ٹیک لگائے دیکھا تھا

اتنا نہ یاد آیا کرو سو نہ سکے ہم

صبح سرخ آنکھوں کا سبب پوچھتے ہیں لوگ

وہ شوخ لہجے میں پہلا جملہ ادا کر گیا تھا وہ ازیت ناک نظریں اٹھاتے اس کو پرسکون دیکھتے تلخی سے مسکرائ

ان کا بکھرا حلیہ سرخ رت جگے کی چغلی کھاتی آنکھیں واللہ ہم سے عشق ہونے کا پتہ دے رہی ہیں"

اسے چپ دیکھتے وہ دوبار گھمبیر لہجے میں بولا

وہ اپنی اضطرابی حالت کی نسبت اسے پرسکون سا دیکھنے لگی اس کی مسکراہٹ زہر سے بری لگتے وہ چیختے بولی

جھوٹ بس کر جاو جھوٹ بولنا خدا کے لیے اپنے ساتھ ساتھ مجھے دھوکہ نہی دو۔۔"

وہ مزاق کی رمق ہٹائے ششدر سا ہوا

کونسا جھوٹ بولا میں نے تمہارے ساتھ۔۔"

غازیان صدمے میں جاتے بولا جب اس نے تلخی سے بولتے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا

جن چیزوں کے ساتھ دلی وابستگیاں ہونے لگے وہ ہمیں ازیت کیوں دیتی ہیں"

I admit my all faults...!

لیکن تم تو مجھے اس قابل بھی نہی سمجھتے کے مجھے کوئ پوچھے کے میرے شوہر کی ٹرانسفر کہاں ہوئ ہے تو میں بتا سکوں۔۔"

وہ آخر میں زہر خند ہوتے بولی

لیٹر تمہارے ہاتھ میں تھا۔۔" وہ کچھ کچھ سمجھتے نرمی سے بولا

واو لیٹر میرے ہاتھ میں تھا پلینگنز ایک ماہ سے چل رہی تھیں سب کو تمہارے متعلق سب پتہ ہوتا ہے لیکن نور کو ساتھ رہتے نہی پتہ چلا کتنی بے وقوف ہوں نہ میں یا تم مجھے پھر بناتے ہو"

آخری الفاظ خاصے تیز لہجے میں بولتے اس کا پارا خاصا ہائ کر گئ تھی

سٹوپ اٹ نور صرف تمہاری آواز اونچی برداشت کرتا ہوں میں۔۔" وہ یک دم ٹیک چھوڑے غصے سے سیدھا ہوا تھا

نہ کرو مزید چھوڑ دو مجھے۔۔۔"

وہ خود کو بستر پر ڈھیلا چھوڑتے دلی کیفیت دبائے بے خوفی سے بولی

جسٹ شٹ اپ آئیندہ اگر یہ بکواس کی نہ خود تمہاری جان لے لوں گا

خبردار جو کال کاٹی سنو مجھے آج بس۔۔"

وہ تھکی سی سانس ہوا کے سپرد کرتے بولا

پہلی بار جب مری میں تم سے ملا نہ تو وہ محض اٹریکشن تھی جو کسی بھی خوبصورت کم عمر لڑکی کو دیکھ کر بعض اوقات میچور انسان کو بھی ہو جاتی ہے

لیکن پھر تم مجھے اس معاملے کے دوران ملی نور

میں تمہارے باپ کو انصاف کے مشورے دینے والا یہ نہی جانتا تھا وہ میری کسی لمحے کی گرفت میں کی جانے والی فرضی محبت ہو گی

جس کے ملنے کا مجھے کبھی یقین بھی نہی تھا جس کے غلط نام سے میں واقف تھا

سماب میری فرضی محبت۔۔" وہ تلخی سے مسکرایا تھا

لیکن تم سے نکاح دل سے کیا تھا کیا اللہ کے جوڑے گئے رشتے میں کوئ ملاوٹ ہو سکتی ہے بتاو مجھے"

میں تمہیں کیوں بے وقوف بناوں گا کیا خود تم نے نوٹس لیا تھا میں نے بتایا تھا تمہارے بابا کے گھر کھانے کے دوران بھی لیکن تم کبھی مجھے اپنی زندگی میں اہمیت ہی نہی دیتی

تمہیں میرا کبھی خیال آیا کے میں تمہیں کس طرح دیکھنا چاہتا ہوں ہمیشہ روتی رہنا نور کوئ ایک ایسی بات کرتی ہو جو میرا دل ہمیشہ دکھا دیتی ہے جس کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی مجھے اپنے فیصلے پر افسوس ہوتا ہے اور میں وہ بات بول جاتا ہوں جو تمہیں تکلیف سے دو چار کر جاتی ہے

وہ سن ہو گئ تھی جب وہ دوبارہ بولنا شروع ہوا۔۔۔

نور غور کیا ہے کبھی تم نے پتہ ہے آج میں ایک سچ کا اعتراف کروں گا۔۔"

وہ لب تر کرنے لگی تھی سرد رات میں بھی وہ پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے دل میں اس کے اعتراف کو لے کر برے سے وسوسے جاگنے لگے

تھی تو عورت ہی نہ۔۔

شادی کی پہلی رات جب تم سب توڑ پھوڑ کر کے مجھے یہ جتا گئ تھی آج تم بھی اپنی حوس پوری کر لو تب مجھے پہلی بار احساس ہوا تھا آہ یہ میں ہینڈل نہی کر سکتا یہ مشکل لگا تھا مجھے مجھے ایک لمحے میں لگا تھا یہ سب جزباتی فیصلہ تھا میں خود کے ساتھ نا انصافی کر گیا ہوں"

اس کی باتیں اس کا دل چیرنے لگی تھی لیکن آج نور کی باری تھی سننے کی

میں۔۔" وہ بولتی کے وہ اچک گیا

سنو مجھے آج ہرگز کال کاٹنے کی یا میری باتوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہ کرنا

وہ سرخ نظروں سے بول گیا

میں تم سے کئ دن بے نیاز رہا نور اور جانتی ہو تم مجھے پھر سے اپنے جزبات میں کیے گئے فیصلے پر شدید غصہ آنے لگا تھا۔۔"

وہ اس کی خود کو ازیت دیتی باتوں کو کانوں میں انڈھیلنے لگی

لیکن جب تم خود کو نقصان پہنچا گئ اور ڈاکٹر کی بات تم کئ بار یہ کام کر چکی ہو با خدا وہ دن وہ لمحہ ملامت کا تھا میرے لیے نور کے میں کیسے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ سکتا ہوں۔۔"

تم نے کتنی بار میری ہمت توڑی کیا تم اندازہ کر سکتی ہو"

لیکن اپنے دل سے پوچھو کیا تم کبھی خود میری طرف خود سے پلٹی ہو ہمیشہ میں ہی کیوں نور۔۔"

چند پل خاموشی کی نظر ہوئے تھے

تمہیں پتہ ہے آج بھی تم ایک بات ایسی کر دیتی ہو جو میرے ضبط کو آزما دیتی ہے جیسے کے ڈائینگ ٹیبل پر تم مجھے کبھی نہی سمجھتی

انفیکٹ تم صرف خود کو سمجھتی ہو تمہیں لگتا ہے دنیا میں صرف تم مظلوم ہو نور دوسرے کا حال دل بھی جان لیا کرو۔۔"

but u don't know this reality how much i luv u Noor ghaziyan

وہ نظریں سامنے کیے خشک ساکت ویران چہرے سے دیکھنے لگی

ہمیں خوش خود رہنا ہوتا ہے میں کیسے تمہیں خوش رکھوں جب تک تم خوشی کے چھوٹے چھوٹے زرائع خود سے نہی ڈھونڈوں گی میں کیا کیا کوئ بھی کچھ نہی کر سکتا

میں محبت دے سکتا ہوں اس محبت کو محسوس کیے خوش رہتے مجھے محبت دینا کیا تمہارا فرض نہی ہے۔۔"

خاموشی نہی آج جواب چاہیے مجھے تم سے

وہ سکرین کی جانب دیکھنے لگا جو چہرا جھکائے تھی

ناو یور ٹرن بتاو مجھے کیا چیز ڈسٹرب کر رہی ہے"

دور سے تو صرف دیکھنے پر ہی اکتفا کر سکتا ہوں چلو چہرا اوپر کرو تاکہ تمہارے آنسو انجوائے کروں۔۔"

وہ اپنی دلی کیفیت دبائے بات مزاح کی جانب لے گیا

مجھے بات نہی کرنی۔۔" وہ نم آواز محسوس کر رہا تھا

پھر میں کس سے بات کروں کس سے محبت کروں۔۔" وہ نا چاہتے ہوئے نھی نرم لہجہ اپنا گیا تھا اب

نور۔۔"

وہ ششدر سا بے بس ہو گیا سامنے سکرین پر نظر آتا منظر یہ تھا وہ چہرا دونوں ہاتھوں میں چھپائے اب ہچکیاں بھر رہی تھی

نور ہوا کیا ہے یار۔۔؟ اس لڑکی نے اس کی تو کیا سننی تھی بلکہ ہمیشہ وہ اپنی سرخ آنکھوں سے اسے ہی جھکانے میں کامیاب ٹھہرتی تھی

تم پریشان کر رہی ہو مجھے۔۔" وہ مضطرب سا بولا

اگلے لمحے ہینڈ فری سے اس کی دل دہلانے والی باتیں کانوں سے ٹکرائیں

کسی کو نہی پتہ میں اندر سے کس تکلیف سے گزر رہی ہوں کیسے دیکھاوں تمہیں اپنی زات کا خلا م۔۔میں دو دن ہنس لوں نہ تو تین دن روتی ہوں مم۔۔مجھے خوش نہی رہنا کیونکہ اس سے زیادہ میں رو جاتی ہوں

مم۔۔ مجھے۔۔" اس کی ہچکیاں تیز ہوتے اس کے دل کو مزید اضطرابی کیفیت سے دو چار کر رہی تھیں

غاز مم۔۔مجھے یوں لگتا ہے میں صدیوں سے بیمار ہوں اور یہ بیماری ایسی ہے جو کبھی صحت یابی میں نہی بدل سکتی آئ نو آئ ہرٹ یو آ لوٹ۔۔"

پر م۔۔میں کیا کروں۔"

وہ بے لب بھینچے سننتے بولا

آئرہ نے میرا فون رسیو کیا یہ چیز سر پر سوار کی ہے نہ شک کر رہی ہو مجھ پر۔۔"

وہ سرخ انگارہ بنی رونے سے سوجھی آنکھیں اٹھا گئ تھی

غازیان کو اس کی وحشت ناک آنکھوں سے خوف آنے لگا

تم وضاحت مانگنے کے سارے حق رکھتی ہو میری جان خود کو ازیت دینے کی بجائے خدارا کبھی تو اپنا حق استعمال کر لیا کرو۔۔"

وہ اسی کے خاموشی سے رونے پر خودی وضاحت دینے لگا

میں صرف اسے راستے میں ملا تھا اور اس کی ضد پر کوفی شوپ پر کوفی پینے چلے گئے وہاں میری شرٹ پر کوفی گر گئ تھی میں وہ صاف کرنے گیا اسی دوران تمہاری کال میرے فون پر بلنک ہوتے دیکھ وہ رسیو کر گئ تھی

اس نے گاڑی میں معذرت کرتے شرمندگی سے یہ بات غازیان کو بتا دی تھی

میں صرف نور کا ہوں لیکن نور کبھی حق تو جتائے مجھ پر"

وہ سر تھام گیا تھا وجہ پوچھے بغیر وہ خود کو تب سے ازیت دے رہی تھی

میں شک نہی کر رہی۔۔" وہ روتے نفی کرنے لگی تھی

م۔مجھے بس ڈر لگتا ہے اپنی زات کے عیب سے

بلیو می م۔۔میری طبعیت نہی ٹھیک مجھے اچھا نہی فیل ہو رہا غاز۔۔

آئ پرامس مجھے تمہاری کوئ چیز نہی چاہیے کوئ کارڈز کوئ پیپرز اور کچھ بھی نہی ب۔۔بس۔۔"

رونے کے شغل میں مصروف وہ اچانک بول گئ

مجھے تم چاہیے ہو بس" طویل خاموشی اور سرد رات کے سناٹے میں وہ بس وقفے وقفے سے رو رہی تھی

مجھے نہی رہنا یہاں پاس آنا ہے تمہارے بہت پاس۔۔"

وہ ایک جملے میں بولتے اسے ساکت کر گئ تھی وہ کئ لمحے سکرین پر اسے اب روتے دیکھتا رہا تھا جو یہ گردان کیے تھی بے ساختہ لب مسکرائے تھے

ابھی کیسے آوں تمہارے پاس بائے روڈ کتنا ٹائم لگے گا۔۔" وہ نرمی سے بولا

ا۔۔اتنے پیسے کیا کرو گے"

ابھی ابھی لاہور کی فلائیٹ لو مجھے نہی تم سے دور رہنا"

وہ سامنے سکرین پر دیکھتے رونے سے بھاری ہوتی آواز میں شدت لائے بولی تھی فون اس کے چہرے کے بے تحاشہ قریب ہونے کی وجہ سے اس کا سفیدی لیے سرخ چہرا مسلسل رونے سے سوجھا سا تھا

وہ لب دبا گیا" تھا آخر اسے ایک دن کی دوری پر احساس تو ہوا

رائٹ ناو۔۔"

۔۔" وہ اس کی سنے بغیر دکھتی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے مسلتے اس کی شیو میں چھپی مسکراہٹ کو دیکھنے لگی تھی

ابھی تو فلائیٹ نہی ملنی سوئیٹ ہارٹ۔۔"

وہ گھمبیر لمحوں میں بھی اپنی مسکراہٹ نہی روک پا رہا تھا آئرہ نے دانستہ اپنی حرکت میں آج اس لڑکی کو احساس دلا دیا تھا آخر وہ اپنے زون سے تو نکلی تھی

پتہ تھا مجھے بہت برے ہیں آپ۔۔"

وہ سوجھی سرخ آنکھیں دکھنے کے باوجود اپنے دل کو پرسکون محسوس کر رہی تھی

جب تم آپ کہتی ہو نہ میں بات بھول جاتا ہوں۔۔"وہ قہقہ لگا گیا تھا

عزت راس نہی۔۔" وہ سکون رگوں میں محسوس

کیے چہرا موڑے بولی

ہائے یہ آپ اور تم کا کونسیپٹ کل فرصت سے سمجھیں گ آپ سے"

نور۔۔"

وہ اس کی بوجھل آواز محسوس کیے اس سے نظریں چرائے تکیے پر گرتے اس کے سکرین پر ابھرتے چہرے کو نہ دیکھتے فون کان کے قریب لے گئ تھی

یہ میری اب تک کی تمہارے ساتھ خوبصورت کنورزیشن تھی کل جب مجھے پک کرنے آو تو مجھے میری بیوی چاہیے"

گڈ نائٹ میری آنکھوں پر رحم کھا لینا۔۔" وہ لب دانتوں تلے دبائے منتشر دھڑکنوں سے کال کاٹ گئ تھی

میرے دل کو تم اچھے لگتے ہو"

اس کی واٹس ایپ پر سیٹ پکچر پر لب رکھتے مسکراتے آنکھیں موند گئ اس سے اس بار اپنی عجیب دلی کیفیت سے ملنے کی سرشاری پر ہی ایک پرسکون نیند نے جلد ہی آغوش میں لے لیا تھا

---------------------------------------------------

آئرہ کہاں ہو بیٹے۔۔"

آئرہ کی ماں کمرے میں داخل ہوتے خالی کمرہ دیکھتے اسے پکار گئیں

مجھے سمجھ نہی آتی اس کے باپ کو اس کی شادی کی بجائے بزنس کا برڈن سر پر ڈالنے کی کیا ضرورت تھی

وہ اس کا لیپ ٹوپ اور بکھرے کاغزات بیڈ سے اٹھانے لگی تھی

یہ کمرا مجھے کہی سے ایک لڑکی کا کمرہ نہی لگتا ہے وہ تھیم دیکھتے کڑھتے بولیں

چھبیسویں سال میں لگ گئ ہے یہ لڑکی مگر مجال ہے کوئ سلیقہ سیکھا ہو جانوروں سے پیار کروا لو

آفس کی آئے دن چینجنگ کروا لو۔۔"

پر گھر داری میں زیرو۔۔"

وہ چیزیں سمیٹتے بڑبڑا گئیں واشروم میں پانی گرتی آواز کو دیکھتے اندازہ لگا گئ کے وہ شاور لے رہی ہے

چیزیں سمیٹتے اچانک نظر صوفے پر ہینگ کپڑوں کے نیچے سفید شاپنگ بیگ پر پڑی

یہ کیا ہے؟ شاپنگ تو بول رہی تھی میں کچھ بھی نہی کر کے آئ"

وہ کھولتی کے کلک کی آواز سے اس جانب وہ رخ موڑے دیکھنے لگیں

میرے روم میں گھنٹے سے کھڑی میری برائیاں کر رہی ہیں۔"

وہ باتھ روب میں باہر آتے پیچھے سے حصار قائم کر گئ تھی

یہ کس نے دیا۔۔"وہ شاپنگ بیگ کھولتے مہرون سندھی گرم شال دیکھتے ستائشی نظروں سے دیکھنے لگی

اس کی آپ کو ضرورت ہے"

کمینا شخص یہ دیا تھا اس نے مجھے۔۔" وہ مرر سے نظر ڈالتے بال ڈرائے کیے بولی اس نے تو زحمت بھی نہ کی تھی دیکھنے کی

مطلب دیا ہے کون ہے وہ جس نے یہ نیک فریضہ انجام دیا جو آج تک ماں نہ کر سکی۔۔"

وہ اس کی جانب دیکھتے خشمگیں نظروں سے پوچھنے لگی

کم اون مما بزنس پاٹنر ہے میرا زیادہ اہمیت نہ دیں۔۔"

وہ پلٹتے شرٹ لیتے بولی

بزنس پاٹنر مطلب کوئ نیک سلجھا اچھا شخص ہی ہے آئرہ ملوا دو مجھے اس سے کیا پتہ میرا داماد ہی بن جائے" آئرہ کے ہاتھ تھمے تھے

ہو گئ ٹیپیکل ماں کی طرح شروع نظر آنے لگا اس میں فیوچر داماد۔۔"

وہ ہستے انہیں آگ لگا گئ تھی

تم اور تمہارا باپ دونوں ہی مجھے سیریس کبھی نہ لینا"

میں تو ترس گئ ہوں تمہیں دلہن کے روپ میں ڈھنگ کے کپڑوں میں سجی سنوری دیکھنے کو

پہلی بات مما وہ کم از کم مجھ سے تین سال چھوٹا ہے نمبر دو شادی شدہ"

وہ ان کی ایموشنل بلیک میلنگ نظر انداز کیے ہستے ہنگر سے ٹی شرٹ کی جگہ ان کا سلیکٹ کردہ کرتا فلحال بغیر چوں چرا کیے لیتے بولی

تو وہ نہی تو کوئ اور سہی کم از کم تم سنجیدگی تو دکھاو اس معاملے میں

تمہاری مانی کی وجہ سے پہلے ہی غازیان کے لیے عرصہ بٹھائے رکھنے پر خاصا افسوس ہے مجھے"

وہ ان کے قریب ہوتے ان کا ہاتھ تھامتے ان کی پریشانی دیکھتے نرمی سے بولی تھی

مما غازیان کا زکر کہاں آ گیا وہ اپنی زندگی میں خوش ہے جو ہوتا ہے بہتری کے لیے ہوتا ہے میں نے اپنا اس معاملے پر فیصلہ اللہ پر چھوڑا ہے

اور مجھے اللہ پر یقین بھی ہے کیونکہ وہ بہتر سے بہترین عطا کرنے والا ہے

وہ نرمی سے سمجھاتے ہر بار کی طرح قائل کیے روم میں بنے چینجینگ روم میں غائب ہوئ تھی

ہنہہ اللہ بھی کہتا ہے امید رکھنے کے ساتھ انسان ہاتھ پاوں بھی ہلائے

وہ کڑھتے ہر بار کی طرح یہی بولی تھیں

-----------------------------------------------------

آفس سے نکلتے وہ اس کے ہمقدم ہوئ تھی

کیا کہہ رہا تھا مسٹر امان کا بیٹا میرے بارے میں۔۔"

وہ تیکھے لہجے میں ازہان سے استفار کرنے لگی تھی وہ ابھی آج کی فائینل پیپرز پر سائن کیے ڈیل فائینل کر گئے تھے اور امان ان کا تیسرا پاٹنر تھا وہ خود آج نہی تھا پر اس کا بیٹا تھا

ازہان نے سیدھا یہاں سے لاہور کی فلائیٹ لیتے واپس جانا تھا جلدی سے ہوٹل جا کر اپنا سامان لے کر ائیر پورٹ تک جانا چاہتا تھا جبکہ وہ اس کا باقاعدہ راستہ روکے تھی

وہ آئرہ کو دیکھتے مسکراہٹ ضبط کر گیا تھا جو ابھی بھی دوپٹے سے الجھ رہی تھی

اگر اسے بتا دیتا وہ لڑکا اس کو پہلے دن دیکھنے کے بعد آج اس کے حلیے پر اس سے کیا تبصرہ کر گیا ہے تو وہ اس لڑکے کا سر ضرور پھاڑ دیتی اس کے مطابق یہ لڑکی صاف گوئ کے ساتھ اسے لڑاکی بھی لگی تھی

چھوڑیں مس آئرہ۔۔" وہ بامشکل گلاسس آنکھوں پر لگاتے لب دبا گیا تھا

کیوں وہ میری برائ تم سے کر رہا تھا اب تو مجھے یقین ہو گیا ہے"

وہ خفگی سے دبا سا غرائ تھی

مس آئرہ آج آپ نے یہ ڈریسنگ کس کے کہنے پر کی تھی"

وہ اس کو پیچ شرٹ اور سفید ٹراوزر پر پیچ ہی دوپٹے میں لپ بام سے ڈھکے گلابی رنگت لیے لب اور ہلکے ڈائ سنہری سی ہائ لائیٹنگ والے کندھے پر سیدھے بکھرے بالوں میں دیکھ رہا تھا

کیوں تمہیں کیا مسلہ ہے او تو تم مجھے اس کے ساتھ تاڑتے کمنٹ پاس کر رہے تھے

وہ سمجھ آنے پر غصے سے اور سردی سے سرخ سی ناک اور گال لیے بولی تھی

وہ مسلسل میٹنگ میں اس کو دبا دبا امان کے بیٹے کے ساتھ ہستا محسوس کر رہی تھی

آپ کیا سوچتی ہیں مس آئرہ میں ایسا بلکل نہی سوچتا وہ تو بس۔۔"

یہ لڑکی وہ سوچتے بس خاموش ہو گیا تھا

کیا وہ تو بس۔۔" وہ مزید بولتی کے وہ زرا سا قریب ہوا تھا

میرے بارے میں غلط اندازے نہی لگائیں مانا کے کسی زمانے میں فلرٹی تھا بٹ ناو آئ ایم آ میچور پرسن بٹ آئ وش"

وہ اس کے چہرے سے ایک انچ کے فاصلے پر ہوتے بولا وہ سانس روکے پرے ہوتی کے وہ کلائ تھام گیا تھا

کاش کے آپ تب مجھے ملتی کیونکہ آپ جیسی لڑکی ہرگز میری نظر میں فلرٹ کے لیے نہی ہے باے دا وے دوپٹہ سوٹ کیا ہے آپ پر"

وہ مدھم سا مسکراتے اس کی بولتی بند کیے اپنی باتوں کا جھانسہ دیے جا چکا تھا جب کے وہ خونخوار نظروں سے اس کی ڈارک پرفیوم کی مہک کو محسوس کیے فضا میں گہرا سانس بھرتے پارکنگ کی جانب بڑی جبکہ امان کے بیٹے کی بات تو وہی فضا میں خارج کی سرد سانس میں ہی غائب سی ہو گئ تھی

---------------------------------------------------

وہ پلین کی سیٹ پر آنکھیں موندے خامخاں مسکرا رہا تھا

کچھ ٹائم بعد فلائیٹ ٹیک اوف کرنی تھی

سیل پر بجتی ٹیون سے وہ فون کی جانب متوجہ ہوتے متغیر رنگ لیے نوٹس پڑھننے لگا

تو دانین حیدر تھک گئیں ہیں۔۔"

وہ سکرین پر ابھرتا نوٹس دیکھتے تلخ یادیں خود میں اتارنے لگا تھا

اسلام آباد سے آج اسکی واپسی تھی

جلد تمہیں آزادی ملے گی مجھے تو لگا مزید پلینینگز کرو گی تم۔۔"

وہ سیٹ سے ٹیک لگائے ٹیکس اسے سینڈ کرتے غصے میں موڈ برباد ہوتے فون بند کر گیا تھا

پوچھ سکتا ہوں تم نے جھوٹ کیوں بولا یہ ایکسیڈینٹ پری پلین تھا ازہان۔۔"

احان نے کونسٹیبل کے جانے کے بعد قدرے تیز لہجے میں ہوسپیٹل کے بستر پر موندی آنکھوں سے اسے لاپروا پڑے دیکھتے کہا

میں جانتا ہوں جاگ رہے ہو تم۔۔" وہ اس کے مسلسل بند آنکھوں کو دیکھتے اس کا کندھا جھنجوڑ گیا تھا

بیوی ہے وہ میری۔۔" وہ بند آنکھوں سے ہی بولا تھا

بیوی۔۔" احان نے طنزیہ دہرایا تھا

دیکھتا ہوں کون اسے میری سزا سے بچاتا ہے"

احان وہ اس کا معاملہ ہے پلیز آپ اسے حل کرنے دیں۔۔"

اریحہ اس کو شدید غصے میں جاتا دیکھ نرمی سے سمجھاتے بولی تھی

تم بھی اریحہ وہ دوبارہ یہی حرکت کرے گی میں اپنی فیملی کا مزید نقصان برداشت نہی کر سکتا اس بار سزا ضرور ملے گی تاکہ اگلی دفعہ سوچ کر غلطی کرے وہ"

وہ مٹھیاں بھینچتے اس لمحے ضبط کر رہا تھا

مختصر یہ ہے بھائ میں اسے جیل میں نہی دیکھنا چاہتا"

آپ یہ کیس واپس لیں"

ازہان کے ہوش میں آتے دیے گئے بیان پر احان خاصہ غصے میں تھا

میں اس سے ملنا چاہتا ہوں اب وہ آئ تو کوئ نہی روکے گا اسے"

یہ میرا حتمی فیصلہ ہے"

وہ بولتے اسے تکلیف سے دوچار کر گیا تھا


اور دانین اس بات پر ابھی بھی خوشفہمی میں مبتلا تھی کے ازہان نے اسکے خلاف کیس نہی ہونے دیا

اس کے لیے فریش پھولوں کا بکے لیے وہ اسکے سامنے تھی

وہ جو باتیں کرتی نہی تھکتی تھی طویل خاموشی میں اسے ہوسپیٹل کے بستر پر پڑے دیکھتے وحشت زدہ سی ہونے لگی

زندگی میں یہ مقام بھی آنا تھا دانین کو خود پر افسوس ہونے لگا

کیا کوئ بات نہی رہ گئ ہمارے درمیان کرنے کو"

وہ اس کے قریب کھسکھتے ہاتھ تھامتی کے وہ اپنی پلاسٹر والی بازو پرے کر گیا تھا

وہ اس کی آنکھوں میں غصہ ابھرتا دیکھنے لگی

بات کرنے کے لیے کسی موضوع کی ضرورت میاں بیوی میں نہی ہوتی لیکن تم نے کوئ موضوع گفتگو کے قابل چھوڑا ہی نہی"

نہی ازہان ایسے نہی کہو میں قسم کھا رہی ہوں تمہارے ساتھ یہ سب نہی کرنا چاہتی تھی۔۔" وہ سرخ ہوتی آنکھیں اٹھا گئ تھی

تم نے مجھے مارنا چاہا ہوتا تو دکھ نہ ہوتا تم نے تو میرے بھائ کو مارنا چاہا دانین حیدر۔۔"

تمہیں اندازہ بھی ہے"

سیدھا قتل کا کیس بن رہا ہے تم پر۔۔"

وہ نفی کیے نم آنکھوں سے اس کی پٹی چھونا چاہتی تھی جب وہ اس کے ہاتھ کو بری طرح جھٹک گیا تھا

معافی کی گنجائش ہے کوئ"

مم۔۔مجھے لے کر کہیں دور چلے جاو پلیز جہاں سکون ہو۔۔"

ہم دونوں ہوں گے بس سمجھ رہے ہو نہ ازہان

تمہاری فیملی تم سے ملنے نہی دیتی مجھے

وہ اس لمحے اسے بلکل پاگل سی لگی تھی

اور میری ماں اور میرے باپ کا کیا قصور ہے دانین جنہیں اس عمر میں چھوڑ جاوں میں"

اس کو دور جھٹکتے باور کرایا تھا

کبھی اپنی زات کے علاوہ کسی دوسرے کا بھی سوچ لیا کرو دانین کے تم کتنی خود غرض ہو

سوچنا ضرور لیکن سوچو گی کیسے تم کبھی بھی خودی کے زون سے نکل کر خود کو بدل ہی نہی سکتی"

آج مجھے نفرت ہو رہی ہے تم سے تمہاری اس خوبصورت شکل کے پیچھے چھپے حسد اور نفرت سے"

دور میرے قریب بھی نہی آنا۔۔" اس کو قریب آتے دیکھ وہ سخت تیز لہجے میں دھاڑا

تو تم نے سوچ لیا ہے کے اب تم مجھے طلاق دو گے۔۔"

وہ گہرا سانس بھرتے اس ملاقات میں حتمی فیصلہ چاہتی تھی

وہ سر اٹھا گیا تھا

بھول ہے تمہاری یہ سزا ہے تمہاری جو ایسے ہی رہے گی کسی خوش فہمی میں ہرگز نہی رہنا کے تمہیں بچا کے اپنے قریب ہونے کا کوئ راستہ فراہم کیا ہے"

وہ استہزایہ بولا

ازہان یو لو می آئ نو یو لو می تم مجھے چھوڑ نہی سکتے"وہ یک دم چیخی تھی

میں تمہیں چھوڑ کہاں رہا ہوں باندھ گیا ہوں مجھ سے دور ہو کر بھی میرے قریب"

وہ حیرت زدہ سی دیکھنے لگی تھی اس کے لفظ اسے روح پرواز ہونے کے مترادف لگ رہے تھے

اب نہ تم سارے پلینز بناو بیٹھ کر فرصت میں خود کو بیوہ کرنے کے"

آئیندہ ہوسپیٹل یا گھر میں مجھے کبھی اپنی شکل نہ دکھانا ورنہ دانین میں بھول جاوں گا سب کچھ اور تمہاری طرف نکلتے سارے حساب بے باک کر دوں گا

اور تلخی سے خود کی زات پر مسکراتے تہے دامن وہاں سے تھکے قدموں سے لوٹ آئ تھی جو اسے سزا نہ دیتے بھی سزا دے گیا تھا

دوسری جانب ٹیکس پڑھتے دانین کا رنگ بھی متغیر ہوا تھا

یو لو می ازہان محبت میں تم مجھے اتنی بری سزا نہی دے سکتے۔۔"

وہ چند لمحے پہلے سوچ رہی تھی اس سے ایک بار تو ملے گی مگر یہاں تو جواز ہی ختم ہوتا نظر آیا

تم نے کس سے پوچھ کر میری زندگی کا فیصلہ کیا ہے۔۔"

وہ بپھری سی اس کے سامنے تھی

اسے اندازہ نہی تھا اس کا بھائ ہی اس کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے

جبکہ انعم پرسکون سی اس کو دیکھتے لاپروا سی تھی

یہ طے ہے دانین میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے تم اس سے اب خلع لے رہی ہو"

وہ بے نیاز سا اس کی جانب دیکھتے بولا تھا

کیوں طے ہے میں نہی چاہتی یہ سب سمجھے تم اپنی بیوی کو سنبھالو تم سمجھ آئ جو تمہیں الٹ پٹیاں پڑھاتے ہم سے اس طرح منتشر کر رہ ہے"

وہ بیڈ پر بیٹھی نیل فوئیلر سے مصروف بظاہر بے نیاز تھی جبکہ دھیان کی سوچوں کا سارا مرکز اس پر مور تھا

اپنی زبان قابو میں رکھو دانین

مما اسے سمجھا لیں آپ بہتر ہو گا کیونکہ میں یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کر چکا ہوں"وہ سختی سے خود پر ضبط کیے بولا تھا

اچھا تو تم بتا دو اس کے بعد مجھے خلع لیتے تمہاری بیوی کی باتیں سننے کو صدا یہاں پڑے رہنا ہے"

وہ آنسوں پر بند باندھے تلخی سے اس کی جانب دیکھتے بولی اپنے شوہر کے سامنے وہ اچھی بیوی کا مظاہرہ کیے زبان تک نہی ہلاتی تھی

علی بہن سہی کہہ رہی ہے جب ازہان نے اسے اس رشتے سے خلاصی نہی دی تو ہم کون ہوتے ہیں شیطان کا کام کرنے والے کیا کرو گے اسے طلاق دلاوا کر پہاڑ جیسی زندگی اس کے آگے پڑی ہے"

وہ اب خود نرم لہجے میں بگڑتی بات سنبھالتے بولیں تھیں

نہی بلکل نہی مما

خلع لیتے جلد ہی اس کی شادی میرے ساتھ ایک ایمپلوئے ہے میرا دوست بھی ہے اچھے لوگ ہیں اس کی بیوی کی ڈیتھ ہو گئ ہے رشتہ دیکھ رہے ہیں وہ لوگ مجھے مناسب لگا ہے آپ کو ملکر کر بھی اچھا لگے گا۔۔"

جبکہ دانین صدمے میں جاتے چیخی تھی

تم ہوتے کون ہو۔۔"

بہتر ہو گا میرے ساتھ اونچی نہ بولو تو ویسے بھی وہ شخص تمہاری زندگی برباد کرتے موو اون کر گیا ہے اپنی زندگی میں

نہی یقین تو یہ تصویر دیکھتے فیصلہ کر لو۔۔"

یہ اسلام آباد کے شاپنگ مال کی ہے

میں جب اپنی کمپنی کی طرف سے وہاں گیا تھا وہاں میں نے ان لوگوں کو ساتھ دیکھا تھا

غور کر لو تم بھی تمہارے لیے ہی لی تھی"

وہ فون کی گیلری کھولتے اس کے سامنے کر گیا تھا جہاں وہ اسلام آباد کے شاپنگ مال میں بے بیز کاونٹر پر کھڑے خاصے قریب تھے

وہ تصویر زوم کرنے لگی تھی جان تو جیسے جاتی جا رہی تھی تو کیا وہ خود کے پاس موجود اپنی قسمت کا لکھا موجود ہونے کے باوجود دوسروں کی چیزوں سے حسرت محسوس کرتے ناشکری کرتے خالی ہاتھ رہ جائے گی

کیا اتنی سزا کافی نہی تھی کے پچھلے سات ماہ سے وہ اپنے خاندان میں ہی کتنے طنز و نشتر کا شکار ہو گئ تھی

جب سب اس سے پوچھتے یہ اپنے گھر کی بجائے یہاں کیوں ہے اس کی زات ایک سوالیہ نشان ہی بنی تھی

---------------------------------------------------

وہ اپنے روم میں ہوتی چاپ سے کچی نیند سے جاگ گئ تھی

کیسا ہے میرا شہزادہ۔۔"

وہ سفید نرم سے اون کے کپڑوں میں سفید ہی کمبل میں لپٹے ننھے گلابی وجود کی چھوٹی سی پیشانی پر لب رکھ گیا تھا کے وہ دھیما سا نیند میں کسمسایا

اب وہ اس کو ہوسپیٹل روم کے بے بی کوٹ سے نکالے گود میں بھرتے اس کے چہرے پر جھکتے جا بجا پیار جتا رہا تھا وہ دو قدم کے فاصلے پر بیڈ پر نیم دراز مسلسل اس کے پیار بھرے مظاہرے دیکھ رہی تھی

جب کے ریحہ کو وہ باپ بیٹا بلکل فراموش کیے تھے

اچانک اس کے رونے سے وہ پریشان ہوتا اسے جھلاتے بولا

بس بابا کی جان۔۔" پر اب وہ چپ نہی ہو رہا تھا

مما کہاں ہیں میرے بیٹے کی"

وہ اس کے رونے پر اسی پوزشن میں جھلاتے اس کی ماں کا یاد آتے بولا پر وہ چپ ہونے کا نام نہی لے رہا تھا

ریحہ۔۔" وہ یک دم پلٹ گیا کے وہ اس پر پہلے ہی گہری نظریں ڈالے ہوئے تھی

تم یہاں تھی بول کیوں نہی رہی تھی" وہ آنکھیں سکیڑے بولا

کیا مطلب میں یہاں تھی۔۔"

اتنی نظر اندازی کے آپ کو پتہ ہی نہی اس ہوسپیٹل روم میں آپ کے بیٹے کے علاوہ اس کی ماں بھی ہے"

وہ دبے سے خفگی بھرے لہجے میں ہنوز لیٹے ہی بولی تھی

نہی یار میرے بیٹے کی مما تو یاد تھی مجھے" وہ اس کے نزدیک قدم بھرتے نرم مسکراہٹ لیے بولا تھا حالانکہ روم میں داخل ہوتے اس کی نظر سیدھی اپنے بیٹے پر ہی تھی

ہوسپیٹل سے ڈسچارج اس نے کل ہونا تھا زبردستی ابھی اپنی ماں اور اس کی ماں کو گھر بھیجا تھا ورنہ وہ دونوں تو وہاں رکنے کو بضد تھیں لیکن فلحال وہ یہ ٹائم اسے دینا چاہتا تھا

یہ روتا کیوں ہے میرے پاس جب بھی پکڑوں۔۔۔" وہ اس کو تھماتے بولا جو اب اپنی ماں کی نرم سی سکون بھری گود میں مزے سے چپ سا ہو گیا تھا

کیونکہ اسے اپنے بابا جانی کے مسلسل پیار بھرے مظاہروں سے کوفت ہوتی ہے" وہ سنجیدگی سے بولتے اسے حیران کر گئ

مطلب اسے اب میں پیار بھی نہی کر سکتا۔۔"

وہ اس کے سر سے سفید ٹوپی نکالتے اس کے بھورے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیر رہا تھا جو ابھی اس کے سر پر فلحال قائم تھے

کر سکتے ہیں لیکن سوفٹ طریقے سے" وہ اس کی جانب چہرا موڑتے قدرے سمجھاتے بولی

اچھا تمہیں تو بڑا اندازہ ہے۔۔"وہ پرسوچ ہوا

چلو پھر پریکٹس کرواو۔۔" وہ لب دبائے بیڈ پر اب اس کے عین سامنے تھا جبکہ ریحہ بھوری سی آنکھیں سکیڑ سی گئ تھی

کیسے ایسے۔۔" وہ اس کا ارحان کے کمبل پر دھرا ہاتھ ہٹائے اپنی گرفت میں لیتے ہاتھ کی پشت پر لب رکھ گیا کے وہ ہڑبڑا گئ

یا ایسے۔۔"

اس کی ہتھیلی کی سیدھی سائیڈ پر بھی لب رکھتے بولا وہ ابھی پہلے لمس پر سنبھلی نہی تھی

یا پھر ایسے۔۔"

وہ اب کے اس کے دونوں گالوں پر باری باری لب رکھتے اسے ششدر کرتے مدھم سی مسکراہٹ بھرے لہجے میں بولا

کنٹرول احان۔۔"

وہ مزید کوئ حرکت کرتا وہ خجل سی سرخ ہوتے ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھے روک گئ تھی

یار سیکھ رہا ہوں محبت کے مظاہرے کرنا۔۔"

وہ اس کی اپنے ہونٹوں پر دھری ہتھیلی چومتے سنجیدہ سا آنکھوں میں چمکتی شرارت لیے تھا

آپ میری حالت سے مزا نہ لیں دور رہیں ورنہ۔۔" وہ اب ہاتھ سے دور رہنے کا اشارہ کیے روہانسی ہو گئ تھی

ریحہ ڈر رہی ہے مجھ سے۔۔"

وہ مزید قریب ہوا تھا کے بھوری شیو میں چھپی مسکراہٹ اس کے گلابی لبوں پر اب واضع چھاپ چھوڑ رہی تھی

حان۔۔" وہ بے بس ہو گئ تھی اس شخص کے کبھی کبھی اپنائے گئے شدید محبت بھرے رویوں سے وہ واقعی ہو جاتی تھی جیسے کے وہ آج اس کی حالت سے مزا لے رہا تھا

جی حان کی جان۔۔" وہ اب کے اس کی گلابی سی ناک پر لب رکھتے اس کی بے بسی پر قہقہ لگا گیا تھا

شرم کر لیں آپ کا بیٹا دیکھ رہا ہے۔۔"

وہ اس کو بیڈ پر اپنے برابر میں ڈالتے تھپکتے اب اس سے دو دو ہاتھ کرنے کو سیدھی سی ہوئ تھی

دیکھنے دو اسے کیونکہ آج انصاف ہو گا"

تم مجھے کتنا تنگ کر چکی ہو پچھلے نو ماہ کے عرصے میں اب میری باری۔۔"

وہ اس کے چہرے پر آئے بال کانوں کے پیچھے اڑیسے مدھم سے لہجے میں بولا

بدلہ لیں گے مجھ سے۔۔" وہ اس کے خود کو ستاتے ہاتھ تھام گئ تھی

میرے محبت بھرے مظاہرے بدلے ہیں تمہارے لیے"

اس کے ہاتھوں میں مقید اپنے ہاتھوں کو دیکھتے وہ الٹا سوال کرتے لہجے میں محبت کی نرمی لیے بولا

نہی۔۔"

وہ جھکی نظریں اس کے ہاتھ پر موجود اپنے سانولے سے ہاتھوں کو دیکھتے نفی کر گئ تھی

میں چاہ کے بھی ریحہ سے بدلہ نہی لے سکتا۔"

وہ اپنے ہاتھ اس کی نرم گرفت سے نکالتے اپنی بلیو جینز کی پوکٹ میں ڈال گیا کے وہ اسے دیکھتی رہی جب وہ سرخ چھوٹی سی ڈبی نکال گیا

کیا میرے بیٹے کی مما مجھے اتنا پریشیس گفٹ دینے پر یہ ایکسیپٹ کرے گی۔۔"

وہ سوئے بچے پر نظر ڈالتے وہ بوکس کھولے اس کے سامنے کھڑا ہاتھ پھیلائے تھا

وہ لب دانتوں تلے دباتی نم مسکراتی آنکھیں جھکائے تھی

میں جانتا ہوں میرا گفٹ آپ کے گفٹ کے آگے کوئ شان نہی رکھتا مگر پہن کے دیکھیں یقین مانیں آپ کے ہاتھ میں جاتے اس کی قیمت بڑھ جائے گی"

اس کے رسپونس نہ دینے پر وہ بوکس پیچھے کرتا کے وہ اس کا ہاتھ تھام گئ تھی

قبول ہے میرے بیٹے کے بابا جانی کا گفٹ۔" وہ رندھی سی آواز میں بولی

اف ایک بھی آنسو باہر نہ آئے ورنہ میں نے نہی پہنانی۔"

وہ سامنے بیٹھے آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھتے بولا وہ اس کے سینے پر مکہ مارتے قریب جاتے اپنا سر ٹکا گئ تھی

ہاتھ دینے کو کہا تھا پھیلنے کو نہی"

احان مسکراتے اپنے سینے پر ٹکی اس لڑکی کے سر پر لب رکھ گیا

میرا بندہ میری مرضی ایسے ہی پہنانی ہے تو پہنائیں ورنہ جائیں۔۔" وہ ہنوز اسی پوزیشن میں بولتے ہاتھ آگے کر گئ تھی

وہ اس کا ہاتھ دیکھے بوکس سے گولڈ کی رنگ نکالے اس کی رنگ فنگر کی زینت بنا گیا

ہمم اچھی چوائس ہے۔۔"

چند پل اسے دیکھتی رہی تھی

حان کیا آپ رنگ پہنانے کے بعد کے تقاضے نہی جانتے"

وہ اب سیدھے ہوتے اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں کے قریب لیتے آنکھوں سے اشاہ کر گئ تھی

اب بیٹا نہی دیکھ رہا۔۔" وہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے لب رکھتے سر کو نفی والی جننش دیتے بولا

نہی بے فکر رہیں وہ تو سویا ہے۔۔" وہ اس کی حاضر جوابی پر فورا ہستے بولی

ہاں تم کرو تو مرضی میں خود سے کروں تو بے شرمی"

ریحہ کی مسکراہٹ اس کی بات پر گہری ہوئ کے اچانک وہ اس کی گال کھینچ گئ تھی

اس کے ساتھ مزاق نہی۔۔" وہ وارن کرتے گال رگڑتے اسے ہسنے پر مجبور کر گیا تھا

------------------------------------------------

فون تھامتے وہ دھڑکتے دل سے اس کا نمبر ڈائل کر گئ تھی

وہ گہری نیند میں بجتے فون سے ہڑبڑاتے رسیو کر گیا کل سے وہ ہوسپیٹل میں ارحان کو سرسری سا دیکھنے کے بعد اسلام آباد سے واپسی پر صرف ریسٹ پر تھا

طویل خاموشی تھی وہ رسیو کر گیا تھا مگر بولا کچھ نہی تھا

بولنا نہی ہے تو کال کیوں کی"دانین کا نمبر مسلتی آنکھوں سے دیکھتے خاصا شوک میں تھا

او جاننے کے لیے"

اس کی طنز بھری آواز گونجی تھی

بے فکر رہو ایک دو دن میں آزادی کا پروانہ مل جائے گا مجھ سے"

ازہان نے تلخی سے کہا تھا

ایک آخری دفعہ مل لو۔۔" لہجے میں بے بسی ہی بے بسیتھی

بس ایک دفعہ پلیز۔۔"

وہ کھڑاک سے فون کر گیا تھا

وہ دل تھامتی رہ گئ تھی لیکن اگلے لمحے اس کا ٹیکس بلنک تھا

اگلے آدھے گھنٹے میں۔۔۔" وہ چپل اڑیسے فون بستر پر پٹختے واشروم کی سمت روانہ ہوا

جبکہ وہ وجود میں خوشی محسوس کیے شال لینے لگی تھی

پچھلے آدھے گھنٹے سے اس کے ٹیکس کیے ایڈریس والی کوفی شوپ پر تھی پر وہ آنے کا نام ہی نہی لے رہا تھا

آہ کسی دور میں وہ اسے ایسے ستاتی تھی۔۔"

تلخ سی مسکراہٹ بنجر ہونٹوں پر نمودار ہوتے وہ مینیو کارڈ پلٹنے خود کو مصروف ظاہر کرنے لگی تھی

اچانک وہ عجیب سی ہوتی حالت اور چاپ سے پیچھے مڑ گئ تھی

کے وہ سامنے تھا سات ماہ کا عرصہ اس کی نظروں کے سامنے گزرنے لگا کتنا بدل گیا تھا وہ سنجیدہ سا اس کی رنگت احان کی نسبت زیادہ صاف نہی تھی پر اٹریکٹو ضرور تھا کیا اس کی خوبیاں اس سے جدائ پر نظر آ رہی تھی یا احساس ندامت تھا

احان اپنی ماں پر تھا جبکہ ازہان کی رنگت اپنے باپ پر متناسب سی تھی

فیروزی شرٹ اور سفید جینز پر سیاہ فل سلیو والی جرسی میں فریش سا تھا اس کی بڑھی سی شیو اسے مزید سوبر اور سنجیدہ بنا رہی تھی

وہ بے نیاز سا اس کے سامنے آیا تھا

کیسے ہو۔۔" وہ تھوک نگلتے اپنی شخصیت بے معنی سی محسوس کیے متناسب لفظ تراشتے بولی تھی

تمہارے پلینگینز کے انتظار میں ابھی تک فلحال زندہ ہوں" وہ کہنیاں میز پر ٹکاتے اس کی شال میں لپٹی سادگی لی شکل کو دیکھتے حیرت کم کیے تلخی سے بول گیا تھا

ایک کوفی۔۔" وہ ویٹر کی جانب صرف اپنے لیے ایک کوفی کا آڈر دیتے اشارہ کر گیا کے وہ شرمندہ سی ہو گئ تھی

میں ایسا نہی چاہتی تھی ازہان۔۔"

میں نے وہ خلع کا نوٹس نہی بھیجا

واو یہاں تو ملاقاتیں عروج پر ہیں ہمیں تو منہ لگانا آپ گوارہ نہی کرتی اور یہاں تو۔۔"

انعم کا بھائ عین اس کے سامنے جانے کہاں سے براجمان تھا کے وہ خوف سے زرد پڑتی ازہان کے بگڑے تاثر دیکھے اسے دیکھ گئ تھی جو اس کے وجود پر نظریں گاڑے تھا

کون ہے یہ۔۔؟

وہ اس کی جانب دیکھتے سخت تیور لیے بولا

کیونکہ وہ اس کے رشتے داروں کو اچھے سے جانتا تھا جبکہ اس شخص کو وہ پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا

ازہان میں وہ یہ علی کا۔۔" وہ اس کی بات اچک گیا تھا

ارے اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہو تعارف کراتے مطلب تمہیں بھی اس نے جھانسا دیا ہے۔۔"

افسوس!

وہ اس پر نظریں ڈالتے اس کو دیکھ گیا تھا جو نفی کرنے لگی تھی کیا بے بسی تھی

چلو تم گھر تمہارے بھائ کو تمہارے کرتوت بتاوں میں۔۔"

وہ زبردستی اس کا ہاتھ تھام گیا تھا

کے ازہان سارا ڈرامہ دیکھتے اس کو دیکھنے لگا

جس کی آنکھوں میں آج عجیب بے بسی رقم تھی

وہ مٹھیاں بھینچ گیا تھا

وہ اس کو دیکھتے اس کی کسی حرکات پر عمل پیرا نہ ہوتے دیکھ زبردستی اسکا ہاتھ تھامتے قدم بھرتا کے وہ اب سامنے تھا

چھوڑ ہاتھ۔۔۔۔۔سرد آواز سے سامنے دیکھا

ازہان کی آواز سے دانین کے وجود میں خوشی سی پھوٹی تھی

کیوں تمہیں کیوں آگ لگ رہی ہے بھئ" وہ ان کے مابین قائم رشتے سے انجان ہی تھا

ہنوز اسی پوزیشن میں ویسے ہی کھڑا رہا تھا

مجھے کیوں آگ لگ رہی ہے" وہ لفظ چباتے سیدھا ہوا تھا

کے اگلے لمحے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ناک پر پڑنے والے مکے سے وہ دو قدم پیچھے ہوا تھا۔۔۔

ہمت کیسے ہوئ تیری اسے ٹچ کرنے کی بول"

ازہان نے بازو کو جھٹکا دیتے پیچھے اس کی کمر پر لے جا کر مڑوڑی تھی۔۔۔۔

چھوڑ مجھے کمینے پھر بتاتا ہوں تجھے جس کے لیے مجھے مار رہا ہے نہ تجھے بھی دھوکہ دے گی میرے ساتھ بھی تو یہ اپنے ہی گھر میں چھپ چھپ کر ملاقاتوں میں تعلقات قائم کر۔۔"

ابھی وہ اپنا فقرہ کمپلیٹ کرتا کے ازہان نے ایک زور دار تھپڑ مارا تھا

بکواس نہی سمجھا تیری جان ایک سیکنڈ میں لے لوں گا کمینے پھر دونوں میں بری طرح ہاتھا پائ شروع ہو چکی تھی۔۔۔۔

دانین تو اس شخص کی بات پر شرم میں گڑھ چکی تھی۔۔۔۔۔

ازہان سائیڈ پر ہو وہ چیخی جب پیچھے سے اس کا وہاں موجود کوئ دوست اس پر شیشے کا واص پھینکنے والا تھا۔۔۔۔۔

پر بر وقت دانین کی آواز سے پلٹا اور نیچے جھک گیا تھا۔۔۔

کیا ہو رہا ہے یہ ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو فون کیا تھا جو وہاں پہنچ چکی تھی۔۔۔

میری بیوی کو تنگ کرنے کی کوشش کی ہے اس نے لے کر جائیں"

ازہان نے اپنی ناک سے خون جرسی کی بازو سے صاف کرتے کہا اور اس کو دیکھا جو اب زمین پر کراہتے بیوی پر بری طرح ٹھٹھکا تھا

اوکے ہم دیکھتے ہیں آپ لوگ جائیں لوگوں نے بھی سارا کچھ بتایا جس سے وہ اسے چھوڑ کر اس کی طرف بڑھے۔۔۔۔

ازہان آئ ایم سوری میری وجہ سے" جو ہوٹل سے باہر جا رہا تھا دانین کی آواز سے رکا

لیکن جلد ہی طنزیہ نظریں ڈالتے اپنے قدم تیزی سے پارکنگ ایریا کی طرف بڑھائے اور گاڑی ان لوک کی۔۔۔

ازہان سنو تو پلیز میری بات سنو چوٹ آئ ہے تمہیں وہ شخص بکواس کر رہا تھا ۔۔"

میرا کوئ تعلق۔۔"وہ روتے ونڈو پر جھکی صفائیاں دینے لگی تھی

بیٹھو۔۔"

دانین جلدی سے اس کے پیچھے لپکی تھی جو انسنی کیے گاڑی اس کے سامنے روکتے سرد لہجے میں بولا تھا

وہ شال سنبھالتے ڈرتے فوری فرنٹ ڈور کھولے بیٹھ گئ تھی

آہستہ پلیز۔۔" وہ خوفزدہ سی تیز ڈرائیونگ پر لاشعوری میں اس کے کندھے تک لے جاتا ہاتھ مٹھی کی صورت میں واپس لیتے بولی تھی

نہی کہوں گی مجھے معاف کرو

بس تھوڑی سی جگہ دے دو مجھے۔۔"

ازہان آئ پرومس کسی کونے میں رہ لوں گی۔۔"

وہ انسنی کیے تھا

ازہان آئ نو تم موو اون کر گئے ہو لڑکی اچھی ہے پیاری ہے مجھ سے بھی کئ زیادہ اور تمہارے سٹیٹس کی بھی لگتی ہے"

وہ سٹیرنگ پر گرفت مضبوط کر گیا وہ پھر سے اسے کیسے الزام دے رہی تھی

میں تم دونوں کی پرسنل میں انٹرفیر بھی نہی کروں گی"

یہ مشکل تھا اپنا شوہر خود سے کسی اور کے ساتھ بانٹنا پر دانین حیدر بس اس کے نزدیک جگہ چاہتی تھی وہ جھک گئ تھی اس ازیت سے جو وہاں کبھی نہی ختم ہونی تھی

اترو۔۔"وہ چلایا تھا

ازہان۔۔" وہ تواتر آنسووں میں بے بس سی ہو گئ تھی

وہ خود فرنٹ ڈور کھولے جھٹکے سے اسے باہر کھینچ چکا تھا

وہ حیرانی لیے کسی ہوسپیٹل کے انٹرنس میں خود کو دیکھنے لگی تھی

دانین حیرت زدہ سی اس کی کاروائیاں دیکھنے لگی تھی

وہ اس کا ہاتھ تھامتے اپنے ساتھ تقریبا کھینچتے لفٹ کی جانب آیا

ازہان ک۔۔کہاں جا رہے۔۔" وہ خوفزدہ ہوئ تھی

بے فکر رہو تمہاری طرح میں بے حس نہی ہوں۔۔"

وہ اس کی سلگتی باتوں سے سہمتی جا رہی تھی

ایلویٹر سے نکلتے وہ اسے ایک روم کے سامنے لایا تھا وہ بامشکل سانس نارمل کرتے خاموش سی اب اس کی اگلی کاروائیاں دیکھ رہی تھی

دیکھ رہی ہو یہ۔۔" وہ گلاس ونڈو سے اندر کا منظر دکھا گیا

دانین ششدر سی دیکھنے لگی جہاں ریحہ کے گرد اس کی ماں اور سانیہ مسکراتے بیٹھی ایک بچے کو تھامی تھیں

یہ میرا گھر ہے۔۔" وہ اس کی جانب پلٹ گیا

جن لوگوں کو تم نے تکلیف پہنچائ دانین

وہ جو لڑکی ہے نہ وہ ماں بننے والی تھی جس سے تم نے جانے اپنی کس محرومیت کا بدلہ لینا چاہا تھا لیکن دیکھو تمہارے سامنے سہی ہے وہ افسوس تو ہو رہا ہو گا تمہیں

وہ اس کو خوش دیکھتے آنکھیں میچ گئ تھی

اور میرا بھائ سوچا ہے تم نے اگر اسے کچھ ہو جاتا تو میں کیا جواز دیتا

دانین حیدر مجھے ان لمحوں سے وحشت ہوتی ہے جن میں میرا وجود تمہارے نزدیک تھا

مانا کے ہم سے غلطی ہوئ تھی ہم سدھار سکتے تھے لیکن تم نے کیا کیا تھا

میرا ساتھ دینے کی بجائے ہمیشہ مجھے بے سکونی دی

جانتی ہو میری ماما کا میرے ایکسیڈینٹ کے وقت کیا حال تھا

سمجھ سکتی ہو تم ایک ماں کی فیلنگس۔۔"

کیا وہ تمہیں کبھی معاف کریں گے

نہی دانین میں کر بھی دوں نہ وہ نہی کریں گے""

وہ روتے نفی کرنے لگی تھی

ازہان تم نے کبھی مجھے اپنا احساس دلایا تھا

مجھے بھی تو تمہاری ضرورت تھی ازہان لیکن تم نے وہ احساس کبھی مجھے دیا ہی نہی

تم تو معافی تک کا حق نہی دے رہے مجھے۔۔"

ازہان اس گھر میں مر جاوں گی اس شخص کی غلیظ نظروں اور اپنی بھابھی کے روز کے لگائے الزامات سے۔۔"

پلیز۔۔" وہ ہاتھ تھام گئ تھی اس کے

تو کیا میں نے تمہیں کہا تھا تم نفرت کرو سب سے کرنی بھی تھی تو مجھ سے کرتی نہ کیا کبھی تم نے بیوی کا فرض نبھایا تھا

بتاو مجھے دانین۔۔"

میں۔۔" وہ گھٹنوں کے بل جھکی تھی


میں سب سے معافی۔۔"


یہ کیا کر رہی ہے یہاں۔۔" سانیہ کی تیز آواز سے وہ دونوں متوجہ ہوئے تھے


وہ آنسو صاف کیے سرخ چہرا لیے پلٹی تھی

کے تیز آواز سے ریحہ اور نائمہ بھی دروازے کے پار متوجہ ہوئے تھے


تم اسے طلاق دے کر فارغ کرو مجھے یہ دوبارہ تمہاری زندگی میں یا اپنے گھر میں نہی چاہیے" وہ اس کو دیکھتے خاصے تیز لہجے میں بولی


آنٹی لاکھ اختلافات سہی میں لاکھ بری سہی مگر آپ ایک عورت ہو کر یہ ظلم نہ کریں مجھ پر پلیز۔۔"

مجھے آپ کے بیٹا کا نام چاہیے بس تھوڑی سی جگہ دے بس میں کچھ نہی مانگوں گی

پلیز۔۔"


اچھا وہ شوہر جس کی جان لینے میں تم نے کسر نہ چھوڑی وہ شوہر جس کی بازو ساری زندگی کے لیے تمہاری وجہ سے ڈیفیکٹیڈ ہو گئ

جانتی ہو اس حادثے کے بعد وہ اپنی بازو سیدھی نہی کر سکتا اس کے سر میں درد رہتی ہے

تم کہتی ہو معاف کر دیں آسان ہے تمہارے لیے"


مما آپ خود کو ہائیپر نہی کریں پلیز۔۔"

وہ ان خو سنبھالتا اس پر سرسری نظر ڈال گیا تھا

تم اسے ہماری زندگی میں واپس نہی لاو گے سنا تم نے" وہ نم آنکھوں سے اس کو تنبیہ کر گئ تھیں


اچھا فلحال طبعیت نہی خراب کریں چلیں آپ۔۔"وہ سہارا دیے روم میں لے گیا اور وہی تھی اکیلی


-----------------------------------------------------


انتظار ایک مشکل چیز ہے۔۔" وہ سیل فون پر ٹائم دیکھے سوچ گئ دس منٹ بھی محال تھے

آپ رکیں یہی۔۔"


وہ اس کے پرسنل خاصے اعتماد والے گارڈ کے ساتھ ہی تھی جو وہ اس کو کالج ڈراپ کے لیے زبیر کے ڈرائیور کی جگہ اس کو ہائیر کیے تھا

پانچ بجنے میں دس منٹ باقی تھے جب وہ ائیر پورٹ پر پہنچے اس کے ویٹ میں تھی

ٹھیک دس منٹ بعد اس کی فلائیٹ لینڈ کر رہی تھی

وہ بلیو پر پنک دھاگے کے کام والی نفیس سی فراک پر ہم رنگ دوپٹہ گلے میں لیے جبکہ سردی کی وجہ سے سکن موٹی شال کندھے سے لاتے بازوں کے دونوں سروں پر پھیلائے سیدھے کھلے بالوں میں تھی گلے میں اس کی دی چین کے علاوہ چہرا ہر آرائش سے عاری اس سے ملنے کی چمک لیے ہی خاصا پرسکون اور محبت کی رنگت لیے گلابی سا تھا

اناونس مینٹ سے اس کی جان ہتھیلی میں آنے لگی تھی

کیا احساسات تھے وہ سمجھنے سے قاصر تھی بحرحال یہ احساس خوشکن تھا وہ اپنے اندر آئ تبدیلی محسوس کیے سرشار تھی

کیا تم ہمارے ولیمے میں آئ ہو۔۔" وہ مسکراہٹ روکنے کو نچلا لب دبائے سامنے اسے بے چین دیکھے ٹیکس کر گیا

وہ پلٹی پر وہ نہی تھا "

اچھی کوشش تھی۔۔" اس کا ٹیکس دوبارہ بلنک ہوا تھا وہ یک لخت تھمی تھی مطلب وہ اس کی حرکات پر نظر رکھے تھا

کہاں ہو۔۔؟ بے چینی سے اپنی جگہ پر کھڑے ہی چاروں اطراف میں گھومتے دھڑکن جیسے تھم سی گئ تھی شال کا ایک سرا کندھے سے بھی اب ڈھلک سا گیا تھا

تم مجھے مسلسل پچھلی تین راتوں اور ڈھائ دن سے تنگ کر رہے ہو۔۔"

وہ اردگرد سب رسیو کرنے والے لوگوں کو دیکھتے رندھی سی آواز میں بڑبڑائے دوبارہ ٹیکس کر گئ تھی وہ کل آنے کی بجائے بھی آج آیا تھا اور اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز کر رہا تھا

اور جو تم مجھے اتنے عرصے سے کر رہی ہو اس کا حساب کون دے گا" وہ مسکراتے ہجوم میں رخ موڑ گیا

دے لو ازیت۔۔" وہ فون پٹختی کے اگلا ٹیکس سکرین پر پہلے سے نمودار تھا

look behind sweet heart.."

وہ بورڈنگ ایریا میں کھڑی انتظار میں تھی

جب دور سے اس کی شبیہ اب واضع ہونے لگی

وہ گہرا سانس بھرتے اس کو گزرتے سیکنڈز میں نزدیک ہوتے دیکھنے لگی کے عکس اب بلکل صاف سا تھا

وہ قدم بھر کے فاصلے پر بلکل عین سامنے تھا نور کی پلکیں لمحے بھر کو جھکتے یقین کرنے کو اٹھی تھیں

وہ اس کے بلکل قریب تھا کے وہ اس کو ہاتھ بڑھاتے چھو سکتی تھی

گرے شرٹ پر سیاہ بلیزر اور سیاہ ہی جینز میں وہ اس کے روبرو لبوں پر گہری مسکراہٹ لیے کوٹ بازو پر ڈالے فولڈڈ کف میں اپنی مخصوص خوشبو میں بسا سا جان لینے ک در پر تھا

کیا تم مجھے نظر لگانے والی ہو۔۔"

وہ اس کے قریب زرا سا ہوتے جھکا کے وہ بے یقین سی ہاتھ بڑھاتے اس کا چہرا چھونا چاہتی تھی

ڈونٹ سے تم ساری رات اکسائیٹمنٹ میں جاگتی رہی ہو"

اس کی گلابی پڑتی عجیب سے تاثر والی سوجھی آنکھیں خاصی دلچسپی سے دیکھے جملہ ادا کرتے اس کا ہاتھ تھامتا کے وہ جہاں کئ لوگ ایک دوسرے کو رسیو کرتے مل رہے تھے وہ اس کے سینے سے لگتے ششدر کر گئ تھی

وہ ہمیشہ ہی اس کے الٹا ہی چلتی تھی

ہالہ۔۔" غازیان اس کی اور اپنی الجھتی سانسیں محسوس کیے محض یہ کہہ پایا تھا

یہ پبلک پلیس ہے۔۔" وہ اس کو ہنوز اسی پوزیشن میں دیکھے دھیمی سرگوشی کر گیا تھا

سب کا دھیان اس جانب ان دونوں پر ہوا تھا وہ بے خبر سی تھی جبکہ اس کی پوکیٹ میں مسلسل بلنک ہوتا فون ان دونوں کو ہی متوجہ نہی کر رہا تھا

------------------------------------------

غازی فون رسیو کرو۔۔"

حمدان نے خود سے بے بسی سے کہا

میں موقع دے رہا ہوں

اس شہر میں بہت سے لوگ حادثات میں مارے جاتے ہیں

کچھ لوگ تو بم بلاسٹ میں جس میں وجود کا نام ونشان نہی رہتا

جبکہ کچھ لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں"

کتنی دیر بعد وہ منظر پر سنبھلتے آیا تھا اس عرصہ میں وہ اپنی سیٹ تک کھو گیا تھا

میر سبطین کی آنکھوں کی تپش اور جملوں کی بازگشت سے وہ سنسا اٹھے تھے

وہ نمبر ڈائل کرتے اس کے گارڈ کا نمبر ڈائل کر گئے

اٹھا لو۔۔"

وہ گاڑی کا فرنٹ ڈور بند کرتے نکلتا کے بلنک فون کی جانب نظریں کر گیا

ہیلو سر۔۔"

غازی کہاں ہے"وہ پہلے سوال ہی یہ کر گئے تھے

سر تو ابھی ائیر پورٹ سے سے نہی نکلے"

وہ سامنے مین ڈور کی جانب دیکھ گیا

تم مجھے پاگل کر رہی ہو۔۔"

بلیو می آج کی رات خاصی یاد گار ہو گی"

وہ اس کو پانچ منٹ سے مسلسل اسی پوزیشن میں دیکھے کانوں میں خمار زدہ سی سرگوشیاں کرنے لگا

آ۔۔آئ ایم سوری

وہ ہاتھ ڈھیلے چھوڑے مسکراتے لبوں سے خجل سی سرخ ہوتے فوری پرے ہو گئ تھی

جبکہ اردگرد کے لوگ یہ منظر دلچسپی سے دیکھتے اسے خاصا شرمندہ کر گئے تھے جو اسے ناگوار گزرا تھا

کیا کوئ خاص مسلہ ہے بیوی ہے میری"

وہ قریب گزرتے لوگوں میں سے جو اس ینگ کپل پر خاصی توجہ دے رہے تھے قدرے اونچی آواز میں بولتے اس کی جانب پھر سے گھوم گیا تھا جو ان کی وجہ سے اس سے دور ہوتے اسے بدمزہ کر گئ تھی

کے اب ان کی محبت پر کسے جانے والے جملوں پر وہ چہرا نہی اٹھا پا رہی ھی

ہاں تم اور میں اور تمہارے آپ کا کونسیپٹ کہاں تھے ہم" وہ ہمقدم ہوےبولا

ائیر پورٹ کی حدود سے نکلتے وہ مگھن سے تھے

سر غازیان سر سامنے ہیں۔۔"

ہالہ میم کے ساتھ

وہ فوری ان کے آتے فون پر دوسری جانب بولا

میں تمہیں اپنا کوٹ بلکل نہی دینے والا۔۔" وہ ائیر پورٹ کی حدود سے نکلتے ٹھنڈ سے بازو مسلنے لگی تھی

پتہ ہے مجھے خاصے المینرڈ شخص ہو۔۔" وہ طنز کرتے اس کی بازو پر دھرا کوٹ دیکھتے گھوم گئ ھی

کیا چاہتی ہو مجھ سے"

وہ سامنے آتے اب الٹے قدم لینے لگی تھی جب وہ اس کو دیکھنے لگا اس کے قد کے برابر آنے کو وہ ہیلز میں بھی بامشکل اس کے سینے تک آ رہی تھی ہیلز سے پاوں مڑتے وہ گرتی کے وہ کلائ تھام گیا تھا

انسان کو نہ وہ چیزیں اختیار کرنی چاہیے جو انہیں کمفرٹ زون میں رکھیں۔"

وہ سلور سٹیپ والی خاصی اونچی ہیلز سے چھلکتے پاوں دیکھتے ناگوار لہجہ اپنا گیا

تم نے تھام لینا تھا مجھے پتہ تھا۔۔" وہ لاپرواہی سے کلائ اس کی مضبوط گرفت میں دیکھے کندھے اچکاتے اسے شوک پر شوک دے رہی تھی

کیا بچے کی جان لو گی اب"

وہ گھورتے ہنوز اس کا ہاتھ تھامے اس کے برابر نہ چلتے ہنوز اسی پوزیشن میں الٹے قدم لیتے اس کو نظروں سے ایک سیکنڈ کو بھی اوجھل تک نہی ہونے دینا چاہ رہی تھی

تم نے کہا تھا تمہیں تمہاری بیوی چاہیے۔۔"

وہ گاڑی کے نزدیک تھے جب وہ اس کے لیے بیک سیٹ کا دروازہ کھول گئ تھی

اف مجھے لگا تھا تم چھت پر کھڑی میرے انتظار میں بس آنسو بہاو گی"

مگر یہاں تو سین ہی اور ہے" وہ مدھم سا مسکراتے اسے پہلی دفعہ زہر لگتے ہوئے بھی حسین لگا تھا


گاڑی میں بیٹھ گیا ہے وہ سٹوپڈ۔"

ڈرائیور کی بتائ گئ ساری اس کی اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کردو حرکتوں پر وہ کھولتے غصے سے اس اچھے بھلے میچور تیس سال کے مرد کا بچپنا ائیر پورٹ جیسی پبلک پلیس پر اختیار کرنے پر بیچ و تاب کھا رہے تھے یہاں ان کی جان ہلکان تھی اور وہ جان بوجھ کر فون تک نہی رسیو کر رہا تھا

گاڑی کہی نہی روکنا سیدھا ان کو گھر ڈراپ کرنا۔۔"

جی سر" ڈرائیورنگ سیٹ پر بیٹھا وہ فون بند کر گیا


چلیں سر۔۔" وہ دونوں کو سیٹ پر بیٹھے پوچھنے لگا وہ شال سے الجھتی سیٹ سے سر ٹکا گئ تھی

جیسے ہی ان کی گاڑی ائیر پورٹ کی پارکنگ کی حدود سے نکلی سڑک پر رکی گاڑی ان کے پیچھے تھی


تم نے ویلکم کو پھول تک نہ لیے مجھے لگا تھا ان سب کے بعد مجھ پر پھولوں کی برسات بھی ہو گی"

وہ جو آنکھوں موندے اس کی موجودگی کو محسوس کیے اس کے پہلو میں تھی آنکھیں کھولتے دانت پیس گئ تھی

کچھ تقاضے آپ کے بھی تھے مسٹر نیازی" اس کی سیاہ آنکھوں میں آنکھیں گاڑنا مشکل سا تھا


میرے تقاضے تم آج رات مجھ سے فرصت میں استفار کرنا۔۔"

وہ اس کی جانب جھکتے مدھم سرگوشی لیے بولا


ابھی سے ڈر گئ۔۔"

وہ سیٹ پر ناخن گاڑتی کے اس کی مٹھی کو زبردستی کھولے وہ اپنی انگلیوں میں الجھاتے اس کی چلتی سانسیں مزید بے ہنگم کر گیا تھا وہ اپنے سردی سے یخ پڑتے ہاتھوں پر سلگتے لمس پر نظریں فوری کھڑکی کی جانب موڑتے تیزی سے گزرتے مناظر پر ڈالتے خود کو بے نیاز ظاہر کر گئ کچھ فاصلہ طے کرتے اسے اچانک پھولوں کی گزرتی لائن وائز کئ شاپ دکھنے لگی تھیں


ایک منٹ کے لیے گاڑی روکیں۔۔" وہ اچانک ڈرائیور سے بولی تھی


ڈونٹ سے تم اپنی جان چھڑوانے کو مجھے ان پھولوں پر ٹرخانے والی ہو۔۔"

وہ اس کے تعاقب میں دیکھتےاس کے وجود میں دھواں سا بھر گیا تھا


تم کسی حال میں نہی خوش۔۔"

وہ کڑھ گئ تھی اب

بھائ گاڑی روکیں" وہ اس کو ہنوز چلاتے دیکھ پھر سے بولی تھی


سوری میم حمدان سر نے منع کیا ہے گاڑی کہی بھی روکنے کو۔۔"

وہ پریشان سا جواز دیتے سپیڈ تھوڑی نارمل کیے اسے فرنٹ مرر سے دیکھنے لگا

وہ دونوں اس جانب متوجہ ہوئے تھے

ڈیڈ تم سے بھی رابطے میں تھے۔۔"

ٹھیک ہے رہنے دیں اگر وہ نہی چاہتے تو۔۔" وہ فوری حامی بھرتے بول گئ

نہی اب تو مجھے پھول چاہیے تم لے کر آو گی" اس کا لہجا اچانک بضد سا لگا

غازیان آپ کے ڈیڈ کو اچھا نہی لگے گا۔۔" اسے بھی مناسب نہی لگا تھا

تم لے کر آ رہی ہو یا نہی۔۔" وہ آنکھیں دکھا گئ تھی

وہ دروازا کھولے باہر نکلی شال درست کرتے روڈ کو پار کرنے کو کھڑی تھی

اچانک فون پر بلنک ہوتی کالز دیکھتے وہ جیب سے فون نکالتے صرف پل بھر کو اس سے نظریں ہٹا گیا تھا

میں مجبور ہوں۔۔"

مجھے معاف کر دینا۔"

وہ ششدر سا سکرین دیکھتے نظریں کھڑکی کے پار کرتا وہ پھولوں کا بکے لیتے اس کے ہاتھ میں تھامے سیل فون کی بیک سے اب پیسے لیتا منظر واضع دیکھتے ٹیکس دوبارہ پڑھتے ارگرد کا ماحول غور کرنے لگا جب سامنے سیاہ گاڑی کو دیکھ گیا تھا وہ

سر۔۔" ڈرائیور روکتا اسے

نور ابھی نہی۔۔" کے وہ ان سنی کیے دروازہ کھولتے چلایا

وہ چینج لیتے اس کی تیز آواز سے پلٹتی حیران ہوئ کے روڈ سے تیز گاڑیوں سے الجھتا بے ہنگم اپنی طرف بھاگتا دیکھ دل تھام کر رخ موڑ گئ تھی

نو غازیان تم و۔۔وہی رہو۔۔" وہ بال مٹھی میں لے گئ تھی یہ شخص کیا حرکتیں کر رہا تھا

لیکن وہ اس کی اس طرح کی ٹریفک میں سن کہاں رہا تھا

میم آپ کا چینج۔۔"

وہ نظر انداز کیے خود سے خوفزدہ سی ہیلز میں تیز قدم لیتے اپنے رگ وپے میں وحشت محسوس کرنے لگی تھی

او بھائ اندھے ہو

وہ لاہور کی تیز رفتار وہیکلیز والی روڈ پر اس فلاور شوپ سے فاصلے پر ونڈو سے نشانہ لیتے شخص کے تعاقب میں ہی نظریں ڈالے ہی اس کے نزدیک پہنچتا کے وہ اپنی آواز نہی اس تک پہنچا پا رہا تھا جو اسے وہی ہاتھ کے اشارے سے نا سمجھی سے رہنے کو بول رہی تھی

سوری وہ نظر انداز کیے اس کے مقابل تھا

کیا حرکت تھی یہ جان نکال دیتے ہو میری"

وہ اس کی بازوں میں بری طرح چیختے مچلی سی تھی

جب وہ اس کو اسی پوزیشن میں تھامے جھٹکے سے سائیڈ بدلے اچانک رخ موڑ گیا تھا

فضا میں گونجتی آواز اسے نزدیک محسوس ہوئ تھی

وہ منہ کھولے وہاں پھیلتی آنکھوں سے دیکھتی وہ ابھی جھکتا کے جب دوسرا فائر بھی ہوا تھا

وہ سن ہو گئ تھی

ارے دیکھو گولی کسے لگی ہے"

یک لخت لوگوں کے شور سے وہ اپنی شال کو تیزی سے سرخ ہوتے دیکھ اپنا ہاتھ جو اس کے کندھے پر دھرے تھی سرخ دیکھتے سائیں سائیں کرتے کانوں سے اس کے روبرو ہوتے اس کا چہرا دیکھ گئ تھی

وہ خوفوہراس سے ساکت سی اس پر گرفت ڈھیلی کر گئ کے وہ جو اس کا سہارا لیے تھا وہ درد سے زمین پر گرا تھا

اس کی شرٹ سے نکلتا خون روڈ پر دیکھے وہ سفید اور سرخ گلابوں والے پھول وہی اس کے ہاتھ سے چھوٹے چند پھول روڈ پر بکھر سے گئے تھے

غاز۔۔" وہ بے یقین سی روڈ پر گھٹنوں کے بل گری تھی

جو زمین پر ہلکی مندھی آنکھوں سے تھا

تم چیٹر ہو۔۔"

وہ سرخ ہاتھ کی ہتھیلی اس کے سینے پر رکھتے چلائ تھی کے وہ ہلکی بند ہوتی آنکھوں سے قریب ہوتے ہجوم اور شور کی پروا کیے بغیر مسکراتے لبوں سے کھسکھتے اس کی گود میں سر رکھے اس کا چہرا خود پرجھکا گیا تھا اس کے بکھرے بال اس کے چہرے کو ڈھک سے گئے کے مدھم سانسوں میں وہ اس کی آواز محسوس کرنے کی کوشش کرنے لگی تھی

کہا تھا نہ آ۔۔آج کی رات یاد گار ہو گی"

ک۔۔کیونکہ آج تم صرف م۔۔ میرے لیے رو گی

وہ اس کے لب اپنے کان کی لو سے مس ہوتے محسوس کیے اس کی ٹوٹی آواز سے پوری طرح ڈھے گئ تھی اردگرد اس کی مدھم دھڑکنوں کے علاوہ اسے کچھ نہی محسوس ہو رہا تھا جہاں لوگ چیختے چلاتے اسے ہٹانے کی کوشش میں ایمبولینس کو کال کرتے کے وہ گارڈ معاملہ کی واردات دیکھے اس نقاب پوش تک پہنچتا کے وہ خود کو خودی سیرینڈر کر چکا تھا

مار دو اس کی بیوی اور بیٹی دونوں کو

بچ گیا ہے وہ سالا کمیشنر۔۔"

میر سبطین غصے سے فون کے پار بولا

سر بچی کو بھی۔۔" وہ چھوٹی سی بچی کو اپنے سامنے بلکتے دیکھ تھوک نگل گیا

ہاں مجھے دھوکہ دینے میں اس کے باپ کا ہاتھ تھا میرے بیٹے کو اس شخص نے اس کے ساتھ ملکر ٹریپ کیا تھا مجھے دھوکہ دے کر اور دھوکہ دہی کا انجام میرے نزدیک موت ہی ہے"

وہ دانیال کی موت کی بھڑاس غصہ سب کچھ نکال رہا تھا

اور اگلے لمحے وہاں پولیس کا سائرن بجا تھا

اندر ہی ہے میری بیوی اور بیٹی آپ چاہیں تو دیکھ لیں انہیں کچھ نہ ہو" وہ ان کی کسٹڈی

میں ہی بے بس سا بولا

اگر ایسا نہ ہوا تم نے ہمیں گمرا کرنے کی کوشش کی تو انجام دیکھنا۔۔" ایس ایچ او گن اس کی کنپٹی پر رکھ گیا تھا

میں قسم کھا رہا ہوں میری فیملی میر سبطین کے بندوں کے قبضوں میں ہے اسی نے مجھے ہالہ میڈم کے شوہر پر گولی چلانے پر مجبور کیا۔۔"

میں مجبور تھا میں گولی ہرگز نہی چلانا چاہتا تھا

اس نے گاڑی میں ٹیکس بھی کر ڈالا تھا پر اس کی بیوی کی عزت اور اور بیٹی کی جان دونوں ان ظالم لوگوں کے سپرد تھی جو زمینی خدا بنے نہایت سفاک تھے

زبیر کا گارڈ اس لمحے پولیس کو ساری سچائ سے اگاہی کر گیا تھا

وہ اس جگہ تھے جو کچی آبادی میں تھی جہاں کی لوکیشن وہ پولیس کو بتاتے پولیس موبائیل میں ان کے ساتھ ہی آیا تھا

سر یہاں تو پولیس آ گئ ہے"

وہ دوسری جانب میر سبطین کو فون پر بے چینی سے آگاہ کرنے لگے

پولیس" وہ سمجھ گیا کے وہ شخص پھر سے دھوکہ دے گیا ہے اپنا منہ کھولتے بحرحال غازیان سے بدلہ لے کر اس کی جلتی جان کو کچھ سکون تو حاصل ہو گیا تھا

نکل جاو یہاں سے پچھلے راستے غائب کر لو خود کو اور میرا نام بھی اس معاملے میں آیا تو انجام اپنے پیچھے خاندانوں کا سوچ لینا"

وہ تیش زدہ سا بھڑک اٹھا وہ ویسے بھی دانیال کے مرنے کے صدمے سے اپنی بیوی کے پاگل ہونے پر ملک چھوڑنے کی تیاری میں تھا

جہاں اس کی کرسی چھوٹنے پر احتساب عدالت میں کیس کھلنے سے پہلے وہ اس ملک سے اب فرار ہی چاہتا تھا

پولیس کے چھاپے پر وہ تین لوگ فرار تھے جبکہ ایک ان کی حراست میں آ گیا تھا

جو اپنی فیملی کے ڈر سے میر سبطین کے خلاف زبان نہ کھولے مکر گیا تھا

گارڈ کی بچی اور بیوی اسی گھر سے برآمد ہونے پر وہ اس کا یقین کر گئے تھے جبکہ حمدان کے سخت آرڈرز پر اس گارڈ کو مکمل طور پر حراست میں لیتے اس پر کیس فائیل کر گئے تھے

وہ سوچ کے رہ گیا تھا کے میر سبطین کی رسی اتنی ڈھیلی تھی جو برابر کے گناہوں میں شریک ہوتے بھی اپنے بیٹے کو کھونے کے باوجود بھی خود کو سدھار نہی رہا تھا

شائد اسکی رسی ڈھیلی تھی جو کمزورلوگوں کا سہارا لیتے پیسے کا جھانسا دیے انہیں بھی گناہ کرنے پر مجبور کرتا اس کا حساب تو اب جانے کب تھا لیکن دنیا میں اس کے بیٹے کی بے راہ روی کی اپنائ گئ روش اس کی بیوی کا دماغی توازن کھونا کافی حد تک اس کے کس بل نکال گیا تھا لیکن کچھ لوگ پھر بھی یہ اللہ کی جانب سے منتخب کردو سزائیں سمجھ کر بھی نہ سمجھ ہی رہتے ہیں اور وہ بھی فلحال ان میں سے ہی ایک تھا جس کی رسی اللہ نے ایک ہی دفعہ کھنچنی تھی اور پھر معافی کا موقع بھی شائد نہی رہنا تھا

بے شک اللہ بڑا حساب لینے والا ہے"

زبیر کا گارڈ اس بار خود کو اس گناہ پر وہ تب ہی سڑک پر ہی اس پر گولی چلانے کے بعد ہئ سرینڈر کر گیا تھا اور اس شخص کی زندگی کی دعا کر گیا جسے اپنی فیملی کی خودغرضی کی خاطر وہ یہ ازیت دے گیا تھا

------------------------------------------------

پچھلے سات گھنٹے سے وہ ہوسپٹل تھے ہوسپیٹل آتے وہ اسے سیدھا ایمرجنسی آپریشن تھیٹر لے گئے تھے گولی کندھے اور کڈنی کے قریب لگنے سے اس کو وقت پر لانے کے باوجود بھی اس کا خون کافی ضائع ہو گیا تھا

فراز مجھ سے کچھ نہی چھپانا۔۔"

حمدان نے ڈاکٹر کو آپریشن تھیٹر سے نکلتے سر جھکائے دیکھتے پوچھا وہ سینیر ڈاکٹر ان کا پرانا دوست بھی تھا

حمدان جھوٹ نہی بولوں گا کندھے والی گولی ہم نے نکال دی ہے لیکن۔۔" وہ ہمت جھٹا رہے تھے

لیکن کیا ڈاکٹر؟ آپ صاف بتائیں زبیر نے بھی قریب جاتے اب پریشانی سے استفار کیا تھا

دیکھیں جو گولی ان کی ربز کے قریب لگی ہے نہ اس سے ان کی ایک کڈنی خاصی ڈیمج ہو گئ ہے۔۔"

وہ چپ ہو گئے تھے

تو۔۔" حمدان نے نا سمجھی سے سوالیہ انداز میں پوچھا

تو ہمیں وہ کڈنی ریموو کرنی پڑی ہے" وہ آرام سے بولتے ان کا سکون برباد کر گئے تھے

کیا ریموو تمہارا مطلب ہے میرا بیٹا ساری زندگی ایک کڈنی سے" حمدان کو لگا تھا کے وہ اس گھٹن زدہ ماحول میں سانس نہی لے پائیں گے پوری زندگی اس کے سامنے ابھی پڑی تھی

جی آپ کو یہ حقیقت فلحال تسلیم کرنی ہو گی

لیکن اگر کل تک زیادہ مسلہ ہوا تو حمدان ہمیں کڈنی ڈونر فوری چاہیے"

تو آپ خود کو مینٹلی ہر سچویشن کے لیے تیار رکھیں"

کیا تیار رکھیں تم نے ایسا بولا بھی کیوں فراز کچھ نہی ہو گا میرے بیٹے کو آئ سمجھ وہ حمدان نیازی کا بیٹا ہے مضبوط اعصاب کا مالک" وہ تیز لہجے میں غصے سے بولے

انشااللہ حمدان۔۔" وہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ گئے تھے

فلحال تم یہ بات کسی کو نہی بتانا اس کی ماں یہاں کچھ ٹائم بعد ہو گی اس کو تو ہرگز نہی"

زبیر نے چونکتے حمدان کی جانب دیکھا تھا وہ خود خاصے اس کے لیے پریشان تھے

کہاں ہے میرا بیٹا"

ڈاکٹر کے جاتے وہ سامنے آتی ملیحہ کو شدید غصے میں دیکھ رہے تھے جو ابھی وہاں ہوسپٹل پہنچی تھی

ابھی آئ سی یو میں شفٹ کر رہے ہیں بہتر ہے وہ اب" وہ جھوٹی تسلی سے موہوم سی امید دے گئے

یہ سب تم لوگوں کی وجہ سے صرف تمہاری وجہ سے حمدان۔۔"

وہ اس حال میں ہے تمہاری اس بہو کی وجہ سے"

آہستہ ملیحہ یہ ہوسپٹل ہے اردگرد دیکھتے وہ دبے لہجے میں زبیر کو ضبط کرتے دیکھتے بولے تھے

آئرہ خاموش سی ہی تھی جو ان کے ساتھ ان کی غیر حالت کی وجہ سے پہلی فلائیٹ لیتے لاہور پہنچی تھی

کیا آہستہ میرے بیٹے کی جان مصیبت میں ہے اور میں آہستہ ہاں میں آہستہ بولوں"

وہ مزید اونچا بولتے لوگوں کو متوجہ کر گئ تھی

ملیحہ وہ ٹھیک ہے آئ سی یو میں بس انڈر ابزرویشن ہے"وہ نرمی سے اس کو شیشے کے پار دکھانے لگے جہاں وہ آکسیجن کی نالیوں میں جھکڑا حواس کھوئے ان کا سکون برباد کیے تھا

میرا بیٹا میری جان ہے تمہں کیا اندازہ ہو گا میری تکلیف کا حمدان" وہ ان کی جانب دیکھتے آنسووں پہ بند کھو گئ تھی

میری بھی تو جان ہے اس میں ملیحہ کیا مجھے فرق نہی پڑ رہا۔۔"

بہت پڑ رہا ہے آپ سے زیادہ ابھی تو ملا تھا وہ مجھے آپ نے مجھ سے دور ہی اتنا کر دیا کے اس میں کبھی میری محبت کا احساس نہی جاگا"

آپ کو پتہ ہے ملیحہ جب وہ اکثر آپ کی فکر میرے سامنے کرتا تھا نہ مجھے بہت ازیت ہوتی تھی اس نے کبھی مجھے ویسے ٹریٹ نہی کیا جیسے وہ آپ کو کرتا ہے پھر بھی کیوں اتنے خدشے ملیحہ"

وہ آئ سی یو کے دروازے پر دونوں ہاتھ ٹکائے ازیت سے بولے

تمہیں پتہ ہے حمدان ساری زندگی اس کی ایک ورکنگ مشین جیسی گزری ہے

وہ ہاتھ شیشے پر رکھتے اس کو چھونا چاہتی تھیں جہاں دو ڈاکٹر اس کا چیک اپ کر رہے تھے

جب تم نے ہمیں چھوڑ دیا تھا تنہا۔۔"

اور وہ دیکھ رہے ہو اسے کبھی مجھ سے شکوہ نہی کیا

تم نے مجھے اس قدر تلخ بنا دیا کے میں اس کو بھی ویسی محبت نہی دے پائ جیسی وہ ڈیزرو کرتا تھا"

ساری زندگی ایک ورکنگ وومن بنی رہی اور اس نے وہ عرصہ بورڈنگ میں گزارا ہمیشہ اپنی ماں سے دور۔۔

اس سب کا جواز آپ دیں نہ ملیحہ سالوں پہلے آپ نے یہ حرکت کی تھی میری ماں کو میری ضرورت تھی میں بھی تو اکلوتا تھا نہ رشتوں میں توازن چاہتا تھا لیکن آپ اپنی ایگو میں اسلام آباد چھوڑنا نہی چاہتی تھیں میری جوب لاہور میں تھی کیا آپ نے کوئ کمپرومائیز کیا تھا بلکہ اختلافات بھرپا کیے تھے تو آج آپ ان دونوں کی زندگی میں یہ سب کیوں چاہ رہی ہیں

وہ توازن رکھ رہا ہے آپ میں نور میں پھر آپ کیوں قبول نہی کر رہی اسے اس کے ساتھ کیوں نہی سمجھ رہیں

بات پتہ ہے کیا ہے آپ کے لیے آپ کی ایگو ہر رشتے پر حاوی ہے"

وہ بے بس ہو گئے تھے اس عورت کو اس ٹوٹی حالت میں تھام بھی نہی سکتے تھے وہ ہر حق کا دروازہ ہی بند کر گئ تھی اعصاب پر بوجھ سا محسوس ہوا تھا

بیٹے آپ نور کو زرا سنبھال لیں جانے کہاں ہے اس لمحے ویسے تو یہ کام ان کا ہے پر میں نہی چاہتا غازیان کی ماں اسے کچھ سنائے۔۔"

وہ اس کنڈیشن میں نہی ہے کے ان کی سخت سنیں"

وہ راستے میں اس کی حالت کا سٹریس لیے بے ہوش ہو گئ تھی ڈاکٹر کا انکشاف جہاں انہیں خوش کر گیا تھا وہی غازیان کی حالت پر پریشان تھے وہ

نور۔۔" وہ پکارتے صدمے سے اس کے نزدیک آئ تھی

جو اس کو وہاں ڈھونڈتے اچانک ہی نظر ہوسپٹل کی تنہا لیب کے شیشے کے پار ڈال گئ تھی وہ وہاں سب سے الگ تھلگ بیٹھی تھی اسے لیب سے زیادہ اس کو دیکھتے وحشت ہونے لگی

میری دعا نہی قبول ہوگی اللہ کہے گا مطلب پڑا تو آ گئ میرے سامنے آپ دعا کریں گی۔۔"

وہ جو اس کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھی وہ اس کے دونوں ہاتھ سیدھے کیے جوڑ گئ تھی

کیوں ایسے بول رہی ہو تمہاری دعا قبول ہو گی وہ ٹھیک ہے نور" وہ اس کو ساتھ لگا گئ تھی

وہ آنسو خود میں اتارنے لگی تھی

آپ کو پتہ ہے میں سچی میں جیلس ہوئ تھی آپ سے اس کو نہی بتایا پر میں ہوئ تھی

مجھے آپ بری بھی لگی تھیں

آئرہ نے نم آنکھوں سے تکلیف دبا گئ تھی وہ اس شخص سے محبت کرتی تھی جو اب پوری طرح اس کا ہو چکا تھا

پھر م۔میں نے اسے ضد کر کے اسلام آباد سے بلا لیا اپنے پاس وہ میری ضد پر یہاں آیا اور"

میری وجہ سے"

وہ میری تکلیف خود پر یے ہے"

ڈاکٹر نے کہا جلدی ہوش ہو جائے گا تمہاری وجہ سے کچھ نہی ہوا نور"

میری ہی وجہ سے آئرہ میری وجہ سے

سنا آپ نے وہ میرے پیچھے آیا تھا

کیونکہ اسے مزہ آتا ہے مجھے تنگ کر کے آپ نے سہی کہا تھا وہ ریٹرن ریوینج لیتا ہے مجھ سے دیکھو نہ کتنا برا بدلہ لے رہا ہے"

پھر کہتا ہے مجھ پر یقین ہے

خاک!!! مجھے اس پر اب کبھی بھی یقین نہی آئے گا لائر شخص۔۔"

نور اپنی حالت کا تو سوچو یہاں سے تو اٹھو اکیلی کیوں بیٹھی ہو۔۔

وہ ہوسپٹل لیب دیکھنے لگی جہاں وہ زمین پر بیٹھی عجیب وحشت زدہ ہوئ تھی وہ اسے زبردستی باہر لائ جہاں ملیحہ کی اس پر سخت نظریں محسوس کیے اسے وہاں چھوڑتے ان کے قریب آئ

وہ سامنے جو لڑکی ہے نہ آپ کے اس کا اور آپکا دکھ ایک جیسا ہے"

کیونکہ اس لمحے آپ دونوں ایک ہی شخص کے لیے غمزدہ ہیں"

وہ کوئ بھی رسپونس نہ دیے حواسوں سے بیگانی سی تھی

میرا ضبط نہی آزماو لے جاو اسے دور"

وہ کچھ سخت سست سنانے سے خود کو تکلیف زدہ حالت میں باز رکھیں تھیں

ٹھیک ہے قائم رکھیں آج بھی اپنی نفرت کے پیمانے"

لیکن آج اسے مزید کچھ بھی کہنے یا سخت سنانے سے پہلے یہ سوچ لیجیے گا وہ اب صرف آپ کے بیٹے کی بیوی نہی رہی"

ملیحہ اس کو دیکھتے با مشکل ضبط کیے ہی تھی

بلکہ اس کی اولاد کی ماں بننے والی ہے"

وہ چونکتے اس کی بات مکمل ہونے پر اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ گئ تھی

جی۔" وہ سر ہلا گئ تھی

شی از ایکسپیکٹنگ۔۔"

کچھ بھی کہنے سے پہلے اس کی کنڈیشن کا سوچ لیجیے گا مانی ورنہ اللہ کے ساتھ ساتھ آپ اپنے بیٹے کو بھی اس بار جواب دے ہں گی"

ملیحہ نے چونکتے سرخ آنکھیں اس جانب اٹھائیں تھیں جو بکھرے بالوں میں اجڑے سے حال میں زمین سے ٹیک لگائے تھی

ڈاکٹر نے کہا ہے سٹریس بلکل نہ لے وہ۔۔"

اس کی جانب دیکھ گئ تھی جو اس کی سن کہاں رہی تھی

کیا میں سچ میں دادی بننے والی ہوں آئرہ۔"

اس پریشانی میں ایک لمحہ مسکراہٹ کا آیا تھا وہ چاہ کے بھی برا ریکٹ نہی کر پائ تھیں شائد اصل سے سود پیارا ہوتا ہے

اس خبر پر تو خوش ہونا چاہیے نہ مجھے۔۔"

آئرہ ان کو اس کے قریب جاتا دیکھ دھیما سا نم آنکھوں سے مسکرا گئ تھی

اٹھو یہاں سے۔۔" وہ اس کے قریب گئ تھیں

سنا نہی تمہیں۔" اس کے ٹس سے مس نہ ہونے پر وہ اس کو سخت آواز میں بول گئیں تھیں

ل گئ

میں یہاں سے نہی جاوں گی آپ کی بری باتوں سے بھی نہی کیونکہ وہ میرا شوہر ہے آپ مجھے اس سے دور نہی کر سکتی"

وہ چند لمحے پہلے والی سنائ گئ باتوں پر ہنوز اسی پوزیشن میں بولی تھی کے ملیحہ تکلیف سے دیکھ گئ تھی


میں کہی نہی بھیج رہی نور لیکن یہاں بیٹھی تم اچھی نہی لگ رہی اٹھ جاو شاباش۔۔"

ویسے بھی طبعیت نہی ٹھیک نہ ایسا بیٹھنا اچھا نہی ہے

وہ اس کے نزدیک جھکتے خود بخود نرم ہو گئ تھیں


میں ٹھیک ہوں کچھ نہی ہوا کاش اس کی جگہ ہو جاتا مجھے تو آج ہوسپٹل میں ہوتی"


ایسے نہی بولتے"

وہ اس کا ہاتھ تھامتے زبردستی اٹھاتے نیچے گری شال اس کے گرد لپیٹے اس کو بینچ تک لائیں تھیں وہ غور سے دیکھنے لگی جو اس کے بکھرے بال سیدھے کرتے اب چٹیا میں باندھ رہی تھیں وہ خاموشی سے ان کو دیکھنے لگی تھی


نہی اچھی بنیں میرے ساتھ آپ کو پتہ ہے وہ بھی اچھا بن کے ایسے ہی اچانک برا بن جاتا ہے۔۔"

وہ ہاتھ جھٹک گئ تھی

ملیحہ گہرا سانس کھینچتے لفظ تراشنے لگی تھی


نور خود کو ریلیکس رکھو۔" آئرہ نے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا کے وہ ازیت سے نظریں اٹھا گئ تھی


آئرہ اس کے لیے کچھ کھانے کے لیے لاو۔"

وہ ان دونوں پر نظر ڈالتی ہوسپیٹل کینٹین کی طرف گئ تھی


کیسی طبعیت ہے اب غازیان کی۔۔"

ڈیڈ اس کے کندھے اور کڈنی کے قریب گولی لگی ہے کریٹیکل سچویشن ہی ہے"

آئ سی یو میں ہے وہ"

آئرہ اپنی ماں اور باپ کی موجودگی پر بولی تھی جو ابھی لاہور ہوسپٹل پہنچتے اسے ہوسپٹل کے مین ڈور پر کینٹین سے واپسی پر ملے تھے

بیٹے ایسے کرو گی تو کیسے چلے گا آپ کے ساتھ تو دوسری جان بھی جڑی ہے" آئرہ کی ماں نے نرمی سے سمجھاتے کہا تھا جو کچھ نہی کھا رہی تھی

یہ کھاو نور۔۔" ملیحہ اپنی سخت طبعیت کے برعکس خود کو کافی پرسکون کر رہی تھی

مما کی بات نہی مانے گی ان کی بیٹی"

بیٹی" وہ ان کی بات زیر لب دہراتے ان کی جانب نظریں اٹھا گئ تھی وہ شرمندہ سی ہو گئ جیسے واضع ہو رہا ہو وہ مطلب کے لیے اس سے رویہ درست رکھیں ہیں


مجھے نہی پتہ تھا تم ماں بننے والی ہو ورنہ میں تمہیں کچھ نہ بولتی لیکن تم ایک ماں کی اپنی اولاد کی تکلیف کے بارے میں اندازہ لگا سکتی ہو اس کو لے کر میرے بھی تو ارمان تھے نہ پر وہ تم سے محبت کرتا ہے تمہیں اس حالت میں میری وجہ سے تکلیف میں دیکھے گا تو مجھ سے ناراض ہو گا اور میں اس کے آگے بے بس ہوں

اب چاہے تم مجھے خودغرض سمجھ لو یا جو بھی لیکن مجھے فلحال تمہارے ساتھ جڑی جان پیاری ہے"

وہ اس کے بال چہرے سے ہٹاتے خاصی صاف گوئ کا مظاہرہ کر گئیں تھیں


تو آپ مجھ سے کبھی محبت نہی کریں گی

صرف اپنے بچوں سے ہی کریں گی میری کوئ ویلیو کبھی نہی ہو گی"

وہ اب آنسو نہی روک پائ تھی


کروں گی اگر تم میری بات مانو گی"

وہ چند پل بعد بولتے سینڈوچ کھولتے اس کے آگے کر گئ تھیں


مجھے مما کا پیار چاہیے بہت سارا میں تھک گئ ہوں بہت زیادہ"

وہ ان کے کندھے پر سر رکھتے نم آنکھیں موندتے بول رہی تھی

آپ کا بیٹا بہت بدتمیز ہے بدلہ لیتا ہے مجھ سے آپ نے اس کو بلکل مینرز نہی سکھائے"


تم میرے اتنے اچھے بیٹے کی برائیاں نہی کرو شکایت لگاوں گی"

وہ سنجیدہ سی اس کی جانب سینڈوچ کھولتے کر گئ تھیں


روائتی ساس۔۔۔" وہ سیدھی ہوتے نوالہ چباتے بولی تھی


آئرہ مسکرا گئ تھی


-------------------------------------------------


تم نے ہماری جان نکال دی تھی غازیان۔۔"

وہ اس کے ہوش میں آنے پر اس کے روم میں اکھٹے تھے


حمدان اس کے نزدیک بیٹھے بولے جو محض تکلیف لیے ہلکا سا مسکرایا تھا

فلحال وہ اس کی دوسری کڈنی سہی سے رسپونڈ کر گئ تھی ڈاکٹر کے مطابق ابھی ڈونر کی ضرورت نہی تھی بحرحال وہ خود کو اس کے لیے تیار رکھ گئے تھے


ڈاکٹر کتنی بار تنبیہ کر گئ تھی کے اس کے قریب ابھی رش نہ کریں مگر پاکستانی فیملیز کہاں مانتی ہیں ایسے مفید مشورے جب تک سارا خاندان ہوسپٹل اکھٹا نہ ہو جائے مریض کی عیادت کو وہ کہاں یقین کرتے ہیں مریض تندرست ہے


وہ تکیلف زدہ سا ترچھی نگاہ اپنی ماں کے ساتھ مصروف خود سے بے نیاز بنی اپنی بیوی پر ڈال گیا تھا جو ہوسپٹل روم کے صوفےپر خاصی اس سے دور بیٹھی بھی اس کی نظریں خود پر جمی محسوس کیے تھی


چکر کیا ہے۔۔" وہ ماسک ہٹائے آئرہ سے دھیما سا بولا


یہ تم اپنی بیوی سے پوچھنا"

سرپرائز۔۔"

وہ مسکراتے لب دبا گئ تھی


مجھے ہضم نہی ہوا آئرہ ایسا کیا سرپرائز"

وہ سکون زدہ لمحے اتار گیا اس کو اپنی ماں کے ساتھ مسکراتے دیکھ


مما مجھے پتہ ہوتا میری حالت سے آپ دونوں کا پیچ اپ ہو جانا تو میں کب سے یہ کر لیتا۔۔۔۔"

وہ لیٹے اب ان کے ہاتھ سے گرم سوپ کے چمچ لیتے مدھم سی مسکراہٹ میں اپنی تکلیف دباتے بولا تھا

نور روم سے واک آوٹ کر گئ تھی


اس کو کیا ہوا۔۔" وہ مزید اضطراب میں مبتلا ہوا جو پچھلے دو گھنٹوں سے ہوش میں آ گیا تھا پر وہ اس کو مسلسل اگنور کیے منہ تک نہی لگا رہی تھی


ایسے فضول نہی بولا کرو ماں کی جان نکالنے کی کوئ کثر باقی ہے ابھی"

وہ اس کو دیکھتے سوجھی آنکھیں اس کے چہرے پر ٹکا گئیں جو ہوسپٹل کے سوٹ میں بستر پر نالیوں میں جھکڑا پڑا ان کی جان نکالتے بھی پرسکون نہی تھا


میں ٹھیک ہوں۔۔" اپنے ایک ہاتھ سے وہ ان کا ہاتھ تھام گیا تھا ابھی تکلیف سے سانسیں زرا الجھ سی رہی تھیں


اس کو تنگ نہی کرو میری بہو نے خبر ہی ایسی دی ہے کے میری اس سے صلح ہو گئ ہے تم بھی سدھر جاو"

وہ اس کے گھنے بال محبت سے انگلیوں سے سنوارنے لگی تھی


یار میں ایک سلجھا بچہ ہوں" وہ سیدھا ہونا چاہتا تھا سائیڈ بدلنا چاہتا مگر تکلیف رگوں میں سرائیت کر رہی تھی


میری جان پھر اب ایک سلجھے سے بچے سے ڈیڈی بننے کی پریکٹس کرے"

وہ اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی اس کی تکلیف وہ محسوس کر رہی تھیں


ڈیڈی بنا ہی نہ دے آپ کی وہ روتی بہو مجھے کبھی سنجیدہ تو لے وہ" وہ چڑچڑا ہوا جو اس کے نزدیک نہی تھی


وہ لے چکی ہے" وہ تیوری چڑھا گیا تھا

وہ ماں بننے والی ہے مجھے اب اس کا ڈھیر سارا خیال رکھنا ہے"

وہ ان کے لفظ سمجھنے لگا


کیا یہ سچ ہے مما مطلب نور۔۔" وہ لب دبا گیا تھا اس کے چہرے کی رنگت دیکھنے کو دل بے تاب ہونے لگا


اس کو احساس ہے مجھے بتانا بھی گنوارہ نہی کیا"

وہ بے سکون ہونے لگا تھا اب


پتہ ہے آج کے دن یہ خوشی دے کر مجھے تمہاری اتنی ٹیشن میں تھوڑی دیر کے لیے پرسکون کر دیا

جونئیر غازی میرا بیٹا ہو گا جسے میں ایک منٹ بھی خود سے دور نہی کروں گی"


اور اگر جونئیر نور ہوئ مما" وہ چہرا جانچنے لگا تھا


پھر بھی وہ میری بیٹی ہو گی بس یہ طے ہے" وہ اس کی بات پر گہری مسکراہٹ لے آئیں


پھر میرے ساتھ رہیں گی آپ مطلب ہمارے ساتھ۔۔"وہ مدھم سی مسکراہٹ لیے ان کا ہاتھ دوسرے ہاتھ سے تھامے چوم گیا تھا


جو میرا بیٹا کہے گا" وہ اس کی پیشانی سے بکھرے بال ہٹائے لب رکھ گئ تھیں


روم خالی کر دیں آپ صرف اگر رکنا ہے تو ایک بندہ رہے آپ میں سے اندر۔۔"

پیشینٹ کا چیک اپ کرنا ہے" ڈاکٹر کی ٹیمز نے آتے فیملی کی طرف اشارہ کیا تھا


مما نور کو اندر بھیج دینا"

وہ انسیتھیزیا کے زیر اثر تھا ابھی بھی ہلکی غنودگی سی وجود پر طاری ہو رہی تھی جب وہ اس کا زکر کر گیا تھا

وہ ملیحہ کے کہنے پر ہمت کرتے اندر بڑھی تھی

جہاں وہ ڈاکٹر اس کی کندھے سے بینڈج چینچ کر رہے تھے

وہ اس کے نزدیک جاتے لب دبائے ازیت دبانے لگی تھی

یہ میری نالائق سی بیوی ڈاکٹر بن رہی ہے"

وہ بند ہوتی آنکھوں سے بیڈ کے نزدیک اس کی موجودگی محسوس کیے بولا

ڈاکٹر پلٹی تھی" جہاں اسے دیکھتے وہ تسلی آمیز نظریں ڈال گئ تھی

وہ اس کے نزدیک خاموشی سے بیٹھتے اس کے بال سنوارنے لگی تھی

انشاللہ زخم جلدی ریکور کریں گے پیشینٹ نے خود بھی سروائیو کیا ہے"

ابھی انہیں زیادہ باتیں نہی کرنے دیں ریسٹ کریں"

ڈاکٹر کی بات پر وہ سر ہلا گئ تھی

ناراض ہو مجھ سے" وہ خاموشی محسوس کیے بند آنکھوں سے اس کی نزدیکی خود کے قریب محسوس کیے بول رہا تھا

کیا نہی ہونا چاہیے"

وہ اس کی پیشانی کو لبوں سے چھوتے بولی

پھر یہ کیا ہے" وہ دھیما سا مسکراتے اس کو خود پر جھکا محسوس کرنے لگا

میری آنکھیں کیوں نہی کھل رہی نور آئ وانٹ ٹو س۔۔سی یو" وہ الجھن محسوس کرنے لگا

دوائ کی وجہ سے غنودگی ہے"

وہ بولتے اس کی جلتی بند آنکھوں پر باری باری اپنے لب رکھ گئ تھی

افاقہ نہی ہ۔۔ہو رہا نور ۔۔"

درد ہو رہی مم مجھے۔۔" وہ اس کی آنکھوں سے نمی نکلتی محسوس کر رہی تھی

مجھے بھی ہو رہی ہے

تمہارا درد خود میں محسوس کر رہی ہوں پچھلے کتنے گھنٹوں سے تم نے مجھے بھی ازیت دی ہے۔۔"

اس کی پیشانی سے سر ٹکائے وہ اس کی شیو چھونے لگی تھی

تم نے مجھے کچھ بتانا تھا" وہ اس کی آنکھیں کھلی نہ ہونے کے باوجود بھی سرخ ہوئ تھی

تم جان تو گئے ہو۔۔" اس کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ چھا گئ تھی

م۔۔میں نور تمہیں قریب نہی کر پا رہا۔۔" وہ بازو نہ ہلاتے بے بس سا ہو رہا تھا نور محسوس کرنے لگی تھی

میں قریب ہو جاتی ہوں ۔۔"

بس مجھے سن لو آج" وہ اس کے نزدیک بغیر جنبش کیے احتیاط سے لیٹ گئ تھی

ur luv ur anger ur voice

ur soul ur sight

اور سب سے زیادہ تمہاری جان لیوا مسکراہٹ ہر چیز سے مجھے محبت ہو گئ ہے سوائے تمہاری پچھلے کتنے گھنٹوں سے اپنائ خاموشی اور غیر موجودگی کے مجھے تمہاری ہر چیز سے بے پناہ محبت ہے"

وہ پوری طرح اب غنودگی میں چلا گیا تھا نور اس کی پیشانی پر پھر سے لب رکھ چکی تھی

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Yaqeen E Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Yaqeen e Mohabbat  written by Mirha Shah. Yaqeen E Mohabbat  by Mirha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment