Pages

Wednesday 3 July 2024

Tarz E Muhabbat Novel By Zumer Ali Complete Romantic Urdu Novel

Tarz E Muhabbat Novel By Zumer Ali Complete Romantic Urdu Novel 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tarz E Muhabbat By Zumar Ali Complete Romantic Novel 

Novel Name: Tarz E Muhabbat  

Writer Name: Zumer Ali 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وہ زاروقطار روتی سڑک کہ بیچ-وبیچ چل رہی تھی

آس پاس سے گاڑیاں گزرتی اسے ہارن دیتی مگر وہ اپنے ارد گرد سے بیگانہ چلتی چلی جارہی تھی

اتنے میں ایک تیز رفتار گاڑی اس کہ برابر سے گزری تھی

کسی مضبوط ہاتھ نے اسے اپنی جانب کھینچا تھا

وہ بروقت صورتحال سمجھ نہ سکی۔۔

رو رو کہ وہ اتنی نڈھال ہوچکی تھی کہ ابھی ابھی وہ اس دوسرے شخص کہ سہارے کھڑی تھی۔

ذہن کچھ بیدار ہوا تو اسے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا

سر اٹھا کہ اس شخص کو دیکھا جو اسے بنا پلکیں جھپکاۓ ایک ٹک دیکھ رہا تھا 

جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔۔

"حنا"

وہ زیر لب بڑبڑایا

اور حنا کرنٹ کھا کہ اس سے دور ہوئ

"اس کو میرا نام کیسے پتہ"

وہ خود سے بولی

"تت۔تم کہاں تھی،کدھر چلی گئ تھی مجھے چھوڑ کہ"

وہ اپنے ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھامتے ہوۓ بولا

اور حنا رونا بھول کہ اس شخص کو حیرانی سے دیکھنے لگی۔۔

"بولو بھی چپ کیوں ہو،کدھر چلی گئ تھی مجھے چھوڑ کہ"

وہ دوبارہ بولا

"اچھا تو مطلب میں اس کو چھوڑ بھی چکی ہوں واہ حنا تو نے کتنے ہینڈسم بندے کو چھوڑا ڈوب مر"

وہ ایک نظر اس نوجوان کو دیکھ کہ خود سے بولی 

جو آنکھوں میں حیرانی لیۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا

حنا نے اسے غور سے دیکھا تو وہ اسے کسی ریاست کا شہزادہ لگا۔جو اپنی پرسنالٹی سے کسی کو بھی اپنے سحر میں جکڑلیتا ہو۔۔۔

"کیا ہوگیا ہے تمہیں،میں حازم پہچانا نہیں کیا"

وہ مایوسی سے پوچھنے لگا

"اوووہ حازم،نہیں معاف کیجیۓ گا میں نے آپکو نہیں پہچانا"

وہ ہونٹوں کو گول کرتی ہاتھ ہوا میں اٹھا کہ بولی

اور حازم نے غصے سے ایک آئ برو اٹھا کہ اسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ"تم نے کہہ دیا اور میں نے مان لیا"

"ایسے بھی اچھا لگتا ہے یار"

حنا اپنا ایک ہاتھ پہ اپنا دوسرا ہاتھ مارتی پرجوش سی بولی

"یہ تم اتنا کب سے بولنے لگ گئ ہو"

حازم فرصت سے اسے دیکھ کہ بولا 

دیکھنے میں وہ ابھی تک ویسی ہی تھی شوخ و چنچل سی لیکن وہ بول بہت رہی تھی جبکہ پہلے تو وہ اتنا بولتی ہی نہیں تھی 

"جب پیدا ہوئ تھی اس کہ کچھ ٹائم بعد سے ہی"

حنا منہ بنا کہ بولی،جبکہ اس کا جواب سن کہ حازم ہنس دیا

"یار یہ تو ہنستے ہوۓ بھی اچھا لگتا ہے"

حنا پھر خود سے بڑبڑائ،حازم اسے دیکھنے لگا

"یہ کیا منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی ہو"

"کچھ نہیں،مگر تھینکس بچانے کیلیۓ"

وہ ہلکا سا مسکرا کہ بولی

"تم اتنی رات کو گھر سے باہر کیا کررہی ہو"

حازم نے پوچھا

"آپ کو اس سے مطلب"

"حنا کیا ہوگیا ہے تمہیں چلو کہیں بیٹھ کہ بات کرتے ہیں"

حازم اس کہ رویہ سے پریشان ہوتا ہوا بولا

"دیکھو مسٹر مدد کیلیۓ شکریہ،اور کافی انٹرٹینمنٹ ہوگئ ہے،اب تم بھاگو اپنے راستے اور میں اپنے راستے"

حنا کہہ کہ جانے کیلیۓ پلٹی

جب حازم نے ایک جھٹکے سے اسکا بازو پکڑ کہ اپنی جانب کھینچا تھا،وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی

"کیا کررہی ہو تم میرے ساتھ"

وہ چلّایا حنا نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوایا

"کیا بھئ زبردستی کہ مہمان،جب بول دیا ہے کہ نہیں جانتی تو پھر"

"تم مجھے نہیں جانتی،مجھے؟"

"ویسے میں ٹرمپ کہ بیٹے کو بھی نہیں جانتی,کیوں تم ٹرمپ کہ پوتے ہو کیا"

"یار میں حازم ہوں،تم کیسے بھول سکتی ہو مجھے"

حازم بے بسی سے بولا

"اچھا یہ بتائیں آپ مجھے کیسے جانتے ہیں"

اب کی بار حنا نے سنجیدگی سے پوچھا

"ہماری فیسبک پہ بات ہوئ تھی تین سال پہلے،اس کہ بعد سے ہم ریلیشن میں تھے اور پچھلے ایک مہینے سے تم غائب ہو،میں نے کتنا ڈھونڈا ہے تمہیں،ذرا سا بھی احساس نہیں نہ تمہیں میرا"

وہ شکوہ کرنے لگا،اور حنا حیرت میں ڈوبی سوچنے لگی کہ ایسا کب ہوا ۔

"دیکھو بس بہت ہوا کچھ بھی کہانی بنا رہے ہو"

"حنا کیا ہوا ہے۔،ناراض ہو،کوئ بات بری لگی ہے جو ایسے کررہی ہو"

وہ نرمی سے بولا

"ارے عجیب بندے ہو یار۔،بس لڑکی دیکھی نہیں شروع ہوگۓ،جان بچانے کا شکریہ۔،اب میری جان بخشو"۔۔۔

وہ غصے سے بولی

"ٹھیک ہے تم جاؤ"۔۔۔

وہ مٹھیاں بھینچ کہ بولا اور

حازم کہہ کہ اسے وہیں چھوڑ کر چلا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بھئ دیکھو تو سہی کہاں رہ گئ میری بچی"

حبہ بیگم ٹہلتے ہوۓ بولیں

"یار ایک بلّی کہ کھو جانے پہ روتے ہوۓ گھر سے چلے جانا کہاں کی عقلمندی ہے"

ابریز بار بار حنا کا نمبر ڈائل کررہا تھا

"وہ بلّی نہیں اسکا نام ڈیزی ہے"

حنا گھر میں داخل ہوتے ہوۓ بولی

"کہاں چلی گئ تھی تم"

ابریز غصے سے بولا

"مما ان سے کہیں مجھ سے بات نہ کریں،میری ڈیزی لا کہ دیں پہلے"

حنا حبہ بیگم کو کہہ کہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ

جبکہ حبہ بیگم سر تھام کہ رہ گئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹہل رہا تھا

پھر تھک کہ بیٹھ جاتا،پھر دوبارہ ٹہلنا شروع کردیتا

"یار حازم اس طرح کرنے سے کیا ہوگا"

آئمہ بیزار ہو کہ بولی

"اس نے مجھے نہیں پہچانا کیسے،کیوں"

حازم بے بسی سے چلایا

"اوکے ریلیکس،یہ پانی پیو"

آئمہ نے پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھایا

جسے لے کہ اسنے دوسری جانب اچھال دیا

"وہ جانتی ہے مجھے اس کہ بغیر رہنا نہیں آتا،وہ جب ہوتی ہے،تو ہر چیز سہی رہتی ہے اور،اور جب وہ نہیں ہوتی مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا،میں نے اس ایک مہینے میں اسے کتنا ڈھونڈا ہے یار"

حازم نے کرسی کو ٹھوکر ماری

آئمہ اسے خاموشی سے دیکھتی رہی،

وہ اس لڑکی پہ رشک کررہی تھی جسے کوئ اتنا چاہتا تھا

اسے اکیلا چھوڑ کہ وہ کمرے سے نکل گئ 

"میں دھوکہ دینے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتا حنا،تم اب یاد رکھو گی مجھے،اب تم مجھے کبھی نہیں بھولوگی،حازم اسلم تمہیں مجھے کبھی بھولنے نہیں ديگا"

وہ سگریٹ پینے لگا،ایک کہ بعد ایک اسنے ناجانے کتنے سگریٹ پھونک ڈالے تھے،ایک مہینے سے اسکا یہی معمول بن گیا تھا،وہ ساری ساری رات پرانے میسجز پڑھتے اور سگریٹ پیتے گزار رہا تھا،اور ابھی بھی وہ یہی کررہا تھا۔۔

"شدید طلب ہے مجھے اسکی

اور وہ ہے کہ ذرا بھی میسر نہیں"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کہاں تھے آج آپ"

وہ خفا خفا سی بولی

"سو سوری یار آج میں ٹائم نہیں دے سکا"

وہ معذرت کرنے لگا

"ہاں آپکو کونسا میرا خیال ہے"

"ایسے روٹھی رہوگی تو کیسے چلے گا"

وہ پیار سے بولا

"جاؤ اب میرے پاس بھی ٹائم نہیں ہے"

وہ اب تک ناراض تھی

"اچھا نہ سوری کرتو رہا ہوں"

"اچھا ٹھیک ہے"

وہ مسکرا کہ بولی تو وہ بھی مسکرا دیا 

"میرے بیٹے نے اٹھنا نہیں ہے کیا"

فائزہ بیگم حازم کہ بالوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولیں

"اٹھ گیا ہوں"

وہ آنکھیں ملتے ہوۓ بولا

"کیا دیکھ رہے تھے خواب میں جو نیند میں بھی مسکرا رہے تھے"

وہ پوچھنے لگیں

"آپ کی بہو کو منارہا تھا"

حازم ہنس کہ بولا

"بدمعاش چلو جلدی نیچے آؤ ناشتے پہ انتظار کررہی تمہارا"

"بس کچھ گھنٹے اور مس حنا،مجھے بہت انتظار ہے اگلی ملاقات کا"

حازم سوچتا ہوا اٹھ گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہاۓ میری کیوٹی پاۓ تم کہاں چلی گئ تھی"۔۔۔

صبح حنا اپنے کمرے سے نکلی

تو ڈیزی کو دروازے کہ باہر بچھے میٹ پہ لیٹے پایا

وہ اسے ہاتھوں میں اٹھا کہ بولی۔۔

جس کہ جواب میں ڈیزی نے میاؤوں کیا تھا

"اب نہیں جانا مجھے چھوڑ کہ"۔۔۔۔

وہ اس کو بچوں کی طرح گود میں اٹھاۓ لاڈ سے بولی

پھر آس پاس نظر گھما کہ رازداری سے بولی

"کل اس سے ملی میں جس سے ملنے کا ایک عرصے سے انتظار تھا۔،اب وقت نزدیک آرہا ہے"۔۔۔

وہ اسکو کہہ رہی تھی جب ابریز وہاں آیا

"شکر ہے،تمہاری اولاد آگئ ہے"۔۔۔

وہ ہنس کہ بولا تو جوابا حنا نے اسے

گھوری سے نوازا۔۔

"چلو ناشتہ کریں"۔۔۔

وہ ڈیزی پہ ہاتھ پھیر کہ بولا

اور حنا کو ساتھ لے کہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"شٹ۔۔شٹ،کیا عذاب ہے یار"

وہ گاڑی بار بار اسٹارٹ کرنے کی کوشش کررہی تھی

مگر وہ چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی

"یار اب تمہیں کیا مصیبت ہوگئ ہے"

اسنے موبائل ڈیش بورڈ پہ پٹخا جو کہ بند پڑا تھا

"سنیۓ بھائ صاحب یہاں سے ہائ-وے کتنا دور ہے"

حنا نے وہاں سے گزرتے دو لڑکوں کو روک کہ پوچھا

"25 منٹ کا راستہ ہے یہاں سے کیوں کوئ ہیلپ چاہیۓ"

ان میں سے ایک لڑکا بولا


"کیا مصیبت ہے، یار اللہ تعالی کسی انسان کہ بچّے کو نہیں بھیج سکتے تھے آپ"

حنا اوپر آسمان کی جانب دیکھ کہ بولی

"چلو ہائ-وے تک ہم چھوڑ آتے ہیں"

"نہیں وہ کیا ہے نہ کہ۔۔۔


"حنا۔۔۔"

ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ کسی نے اسے آواز دی تھی

"اوۓ پیاری لڑکی"

حنا بھاگ کہ اس کی جانب گئ تو آئمہ گاڑی سے اتر کہ اس سے ملی

"کیسی ہو کہاں تھی تم اتنے وقت سے"

"بس یار نہ پوچھو"

"اچھا تم یہاں کیا کررہی ہو اور وہ دونوں کون ہیں"

آئمہ نے سامنے کھڑے دونوں لڑکوں کو دیکھ کہ پوچھا


"گاڑی اسٹارٹ نہیں ہو رہی اور یہ دو اور عذاب بن کہ نازل ہوجاتے اگر تم نہ آتی،اب جلدی چلو"

حنا اپنی کار لاک کر کہ بولی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ماضی)

"تم پھر سے بدل گۓ نہ"


وہ روتے ہوۓ بولی

"حنا تم پاگل ہو کیا،وہ اداس تھی اس لیۓ میں اس کہ پاس تھا"

منیب بیزار دکھائ دے رہا تھا

"اور مجھے جو تمہاری ضرورت تھی"

وہ روتے ہوۓ بولی


"تم نے مجھے صرف ضرورت ہی تو سمجھا ہے"

"تم میری محبت ہو منیب"

"غلط،میں تمہاری صرف ضرورت ہوں حنا،اور جس پہ تم شک کرتی ہو،اس سے محبت کیسے کرسکتی ہو"

"کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے"

وہ سانس روکے کھڑی رہی اس کا جواب جو سننا تھا


"میں نے کب کہا تھا،تم ہی میرے پیچھے مر رہی تھی،ورنہ تم جیسی لڑکیاں منیب کو نہیں بھاتیں"

وہ ہنستے ہنستے کہہ رہا تھا،اور حنا کو اپنا آپ زمین میں دھنستا ہوا محسوس ہورہا تھا

"مجھ جیسی۔۔؟"

اس نے سوال کیا

"بھئ سیدھی سی بات ہے،محبت کرنے اور اظہار کرنے میں

تم نے پہل کی تھی،ورنہ میرا تو کام چل ہی رہا تھا،اب اگر رہنا ہے تو رہو ورنہ تم جاسکتی ہو،اپنی لڑکیوں سے دوستیاں تمہارے لیۓ نہیں چھوڑ سکتا"

وہ صاف گوئ کی حد پہ تھا


"میں تم سے دور نہیں رہ سکتی منیب"

وہ محبت کی آڑ میں اپنی عزت نفس اپنے ہی پیروں تلے روند رہی تھی

"مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں ہے تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو،جھوٹی ہو تم"

"میں نے جھوٹ نہیں کہا"

اب کی بار وہ پھوٹ پھوٹ کہ رودی


"ٹھیک ہے پھر مجھ سے ملنے آؤ،ورنہ آج کہ بعد سب ختم"

منیب کہ کہنے پہ حنا کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا

"جاؤ منیب تمہیں تمہاری زندگی،اور آزادیاں مبارک ہو"


اس نے پل میں فیصلہ کرلیا تھا،وہ کیوں ایک ایسے رشتے کو بچاتی جہاں سب کچھ صرف ایک طرفہ تھا،وہ ملنے کہ بعد پھر بدل جاتا تب وہ کیا کرتی،وہ تب بھی اس پہ الزام لگا دیتا،وہ انا پرست لڑکی اس محبت کہ آگے اپنی انا،ضد،عزت نفس سب روند چکی تھی،بعض دفعہ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ سامنے والا ہمیں دھوکا دے رہا ہے،ہم پھر بھی خاموش رہتے ہیں،کیونکہ ہم جانتے ہیں ہم اس کہ دھوکے کہ ساتھ تو جی سکتے ہیں مگر اس کہ بغیر نہیں،حنا نے بھی منیب کہ دھوکے کو پہچان لیا تھا،وہ چپ تھی کہ وہ اس کہ بغیر کیسے رہ سکتی تھی،کیونکہ وہ تو خود کو بدل نہیں سکتا تھا۔،حنا نے اسے اڑنے دیا کیونکہ محبت جن سے ہو انہیں اڑنے دیتے ہیں کہ جن کو چاہ ہوتی ہے وہ خود ہی قید رہتے ہیں مگر جو رشتے خدا کی مرضی کہ خلاف بنتے ہیں انہیں تو ٹوٹنا ہی ہوتا ہے۔۔۔


وہ آج پھر ماضی میں کھوئ ہوئ تھی،وہ آج اسے پھر یاد آرہا تھا،وہ اسے بھولی ہی کب تھی،بظاہر وہ کوشش کررہی تھی اسے بھولنے کی مگر وہ دل سے نکلتا ہی نہ تھا،اسکا دل مردہ ہوچکا تھا کیونکہ ہر بچھڑنے والا رشتہ ہمارے اندر موجود کسی احساس یا شے کو مردہ کرجاتا ہے،کچھ لوگ ہمارا یقین مار جاتے ہیں،کچھ خوشیاں اور کچھ ہمارا دل۔۔

وجود اپنا،نہ روح اپنی

بس اک تماشہ یہ زیست ٹھہری

عجیب چاہت کہ مرحلے ہیں

نہ جیت پاۓ،نہ ہار پاۓ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کیسی ہو"

کرن نے پوچھا

"ٹھیک ہوں"

حنا نے مسکرانے کی کوشش کی

"لگ تو نہیں رہی ٹھیک،اب تک اس منہوس کی وجہ سے روتی ہونہ"

کرن غصے سے بولی،حنا سر جھکاگئ

"کیا حال ہے"

کشف وہاں آئ تھی

"ٹھیک تم بتاؤ،اتنی دیر سے کیوں آئ،دو کلاسس بھی نہیں لی تم نے"

کرن نے پوچھا

"گئ ہوئ تھی"

کشف ایک آنکھ دبا کہ بولی

"اوووووو کس کہ ساتھ"

مگر اگلی بات پہ حنا نے بمشکل اپنے آنسو ضبط کیۓ

"منیب کہ ساتھ"

"کون منیب"

کرن نے حنا کو دیکھا

"یہ ہے"

کشف نے منیب کی تصویر دکھائ جس میں وہ مسکرا رہا تھا۔۔اس کی تصویر دیکھ کہ حنا بھی مسکرادی تھی

"روؤگی ایک دن تم ایسے لوگ کسی کہ نہیں ہو سکتے"

کرن نے کہہ کہ موبائل کشف کی جانب اچھالا اور حنا کا ہاتھ پکڑ کہ اسے وہاں سے لے گئ

"میں اب سمجھی کہ وہ کیوں اس حد تک روٹھ گیا تھا"

حنا نے کہا

"کیوں"

"کیونکہ اسے کسی اور نے منالیا"

حنا نے آنکھیں خشک کیں،کرن نے اسے گلے سے لگالیا۔۔

"منایا نہیں گیا مجھ سے اس بار

اسکی ناراضگی میں آباد کوئ اور ہی تھا"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(حال)


"اور سناؤ کیسی گزر رہی لائف"

آئمہ جوس پیتے ہوۓ بولی

وہ دونوں اس وقت ریسٹورنٹ میں موجود تھیں

"اچھی چل رہی ہے"

حنا نے جواب دیا

"ہمم اسٹڈیز کیسی چل رہی"

"اب تو میں انٹرن شپ کرنے کا سوچ رہی ہوں"

"کہاں کروگی"

"ابریز بھائ کہ ساتھ ہی یار"۔۔۔حنا نے بتایا

"ہاہاہا تمہارا وہ اکڑو بھائ"۔۔۔۔آئمہ ہنس کہ بولی

"تم سناؤ تمہاری لو اسٹوری پار لگی کہ نہیں"

"کہاں یار،وہ کسی اور لڑکی پہ مرتا ہے،تم جانتی ہو مجھے اس لڑکی پہ رشک ہوتا ہے،اتنی شدّت سے کسی کو چاہنا،کہاں اتنی محبت ہوتی آجکل"

آئمہ نے بتایا،حنا مسکرادی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہفف تھک گئ"

حنا کمرے میں آ کہ بیڈ پہ گرنے کہ سے انداز میں لیٹی تھی

اور اسکی سوچوں کا محور پھر منیب کہ گرد گھومنے لگا تھا

تبھی کمرے کی لائٹ کسی نے بند کی تھی۔۔

حنا یکدم اٹھی تھی،اس کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا

"کون ہے"۔۔

بیگ اٹھا کہ موبائل ڈھونڈنے لگی

جبھی کسی نے اس کہ ہاتھ سے بیگ چھینا تھا

وہ چلّا کہ دروازے کی جانب بھاگی تھی

اور آنے والے نے پیچھے سے اس کہ منہ پہ ہاتھ رکھ کہ لائٹ آن کی۔۔اسے لیتا قدم قدم چلتا شیشے کہ سامنے آکھڑا ہوا

حنا کی خوف سے آنکھیں بند تھیں۔۔ ہاتھ ابھی بھی حنا کہ منہ پہ تھا اور حنا کا ایک ہاتھ اس کہ ہاتھ پہ تھا،،

"کہا تھا نہ دوبارہ ملونگا تیار رہنا"

حازم نے اس کہ کان کہ پاس سرگوشی کی

حنا نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔

حنا کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھ کہ حازم کہ ہونٹوں پہ خود بہ خود مسکراہٹ پھیل گئ

وہ مسکرا کہ پیچھے ہٹا،

"تم یہاں کیسے آۓ"

"کھڑکی سے"

وہ بیڈ پہ نیم دراز ہو کہ بولا

"نکلو ابھی یہاں سے ورنہ میں سب کو یہاں پہ بلالونگی"

حنا کھڑکی کی جانب اشارہ کر کہ بولی

"شوق سے بلاؤ پھر سب کو خود ہی جواب دینا"

وہ مزے سے بولا

"تم کیا چاہتے ہو"

"یار یہ تم تم کہنا اچھا نہیں لگتا،پیار سے بات کرو مجھ سے"

حازم نے کہتے ہوۓ اس کا ہاتھ پکڑ کہ جھٹکا دیا جس پہ وہ سیدھی اس پہ آ کہ گری۔۔

"تمہیں شرم و حیا چھو کہ بھی نہیں گزری"

وہ اپنا سرخ ہوتے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی

"نہیں میں اس نام کی کسی چیز کو نہیں جانتا"۔۔۔

حازم تسلی سے بولا

"نکلو ابھی کہ ابھی یہاں سے،کیا سمجھا ہوا ہے تم نے ایدھی خانہ ہے کیا جب بھی دل کیا منہ اٹھا کہ آگۓ"۔۔۔

وہ غصے سے بولی

"آرام سے کہو ڈر لگ رہا ہے مجھے"۔۔۔

حازم ٹانگ پہ ٹانگ چڑھا کہ ڈرنے کہ سے انداز میں بولا

"مطلب نہیں جاؤگے نہ"۔۔۔۔

حنا نے انگلی دکھا کہ کہا

"نہیں"۔۔۔حازم دونوں ہاتھ اپنی گردن کہ پیچھے لے جا کہ ٹانگ ہلاتا ہوا بولا

"اوکے"۔۔۔

حنا نے کندھے اچکا کہ کہا پھر دروازے کی جانب بڑھی

اس سے پہلے وہ دروازہ کھولتی

حازم دروازے کہ سامنے آکھڑا ہوا۔۔

"جارہا ہوں،مگر ہم دوبارہ ضرور ملیں گے"۔۔۔

وہ کہہ کہ کھڑکی کی جانب بڑھ گیا

کھڑکی کہ پاس پہنچ کہ ایک دفعہ پلٹ کہ حنا کو دیکھا

اور کود گیا۔۔

اسکے جاتے ہی حنا نے سکون کا سانس لیا

"ہاں حازم ابھی ہمیں بہت دفعہ ملنا ہے"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"تم نے کیا سوچا ہے پھر"

وہ تینوں ناشتے کی میز پہ موجود تھے تب ابریز نے پوچھا

"کس بارے میں بھائ"

"کمپنی کب جوائن کروگی آجکل اسلم گروپ آف انڈسٹریز کہ ساتھ بھی میٹنگ چل رہی ہے،تم جوائن کرو بس اب"

"ہاں گھر پہ رہ کہ کیا کروگی"

حبہ بیگم نے کہا

"ہمم اچھا"

حنا نے سر ہلایا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"مجھے معاف کرنا حبہ،مگر ہمارا ساتھ شاید یہیں تک تھا،"

اورنگزیب صاحب حبہ بیگم کا ہاتھ تھام کہ بولے

"بابا آپ ایسا نہیں کرسکتے ہمارے ساتھ"

ابریز نے روتے ہوۓ کہا تو اورنگزیب نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا

"ہمیشہ یاد رکھنا بابا اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں،اور میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں"۔۔۔

وہ ابریز کا ہاتھ پکڑ کہ بولے


"نہیں تم کہیں نہیں جارہے ہو،حنا ڈاکٹر کو بلانے گئ ہے"

حبہ بیگم اپنے آنسو صاف کر کہ بولیں

"میں یہ بال لے لوں"

ایک بچی نے اس سے پوچھا

تو حنا چونک کہ خیالوں کی دنیا سے باہر آئ

وہ اس وقت پارک میں موجود تھی

"ہاں یہ لے لو"

اس نے مسکرا کہ گیند اس بچی کی طرف بڑھائ

"تھینک یو"

بچی نے اس کا گال چوم کہ کہا تو وہ ہنسنے لگی

"دوست کہتا ہے کہ آپ اداس اچھی نہیں لگتی"

"کون دوست"

حنا نے پوچھا

"ارے دوست،آپ پھر بھول گئ انھیں"

تبھی حنا کا موبائل بجنے لگا،تو وہ اس کہ بالوں پہ ہاتھ پھیرتی وہاں سے اٹھ گئ۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"آپ یہاں کیا کررہے ہیں"

حازم نے کہا

"میرے بیٹے اس کمپنی کا پچاس پرسنٹ کا مالک میں بھی ہوں،تو میں یہاں کیوں نہیں ہوسکتا

گیلانی صاحب نے کہا

"مجھے دوبارہ آپکو یہ یاد کروانے کی ضرورت نہ پڑے کہ آپ صرف میری ماں کہ شوہر ہیں،تو میرا باپ بننے کی ضرورت نہیں ہے"

تبھی دروازہ بجا تھا

"یس کم ان"

"سر آپ کی میٹنگ فکس ہوگئ ہے شام کی ابریز ہولڈنگز کہ ساتھ"

"اوکے مس تمنّا اور کچھ"

"نو سر"

"تھینک یو،میری بات یاد رکھیۓ گا "ڈیڈ"،

حازم نے لفظوں پہ زور دے کہ کہا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"آج تم نے پھر اپنے ڈیڈ سے بدتمیزی کی ہے حازم"

فائزہ بیگم پرشکوہ لہجے میں بولیں

"وہ شخص میرا باپ نہیں ہے،وہ صرف آپکے شوہر ہیں"۔۔۔

حازم غصے میں چلایا

"وقت کہ ساتھ جب میں انہیں معاف کرچکی ہوں،تو اب تم بھی کردو،بہت ہوگیا اب"۔۔۔

فائزہ بیگم بھی چلائیں،حازم کی بدگمانیاں انہیں تڑپا رہی تھیں،بظاہر وہ ان کہ ساتھ ٹھیک تھا،مگر ان کہ درمیان اتنا فاصلہ آچکا تھا کہ اب وہ مٹنا مشکل تھا

"یہ آپکا ظرف کہوں یا دکھاوا،مگر مجھ میں نہ اتنا ظرف ہے،اور نہ مجھے دکھاوا کرنا آتا ہے"۔۔

حازم نے غصے میں کرسی کو لات ماری جو دور جا کہ گری

اور وہاں سے چلا گیا

جبکہ فائزہ بیگم سر تھام کہ بیٹھ گئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے ڈر لگ رہا بھائ"

حنا ابریز کہ ساتھ آفس میں داخل ہوتے ہوۓ بولی

"کیوں بھئ تمہارا اپنا آفس ہے کیوں ڈر لگ رہا ہے عیش کرو،لیکن کام بھی کرنا ہے"

ابریز نے ہنس کہ کہا تبھی اس کی سیکریٹری آئ تھی

"ہیلو سر،ہیلو میم"

"ہیلو،یس مس نیلم کیا اپڈیٹ ہیں آج کی"

ابریز نے پوچھا 

"سر اسلم گروپ آف انڈسٹریز کہ چیئرمین آنے والے ہیں،میٹنگ کی ساری تیاری ہوچکی ہے"

وہ ان کہ ساتھ چلتے ہوۓ ابریز کو تفصیلات سے آگاہ کررہی تھی،جبکہ حنا اس کو گھور رہی تھی 

"اوکے تھینکس دو کپ کافی بھجوادیں"

وہ اپنے روم میں داخل ہوا

"جی سر"

"کیا کررہی تھی یہ تم"

نیلم کہ جاتے ہی ابریز نے کہا

"کیا کررہی تھی میں"

حنا آنکھیں پٹپٹا کہ بولی

"اسکو کیوں گھور رہی تھی"

"ارے میں دیکھ رہی تھی آپ کہ ساتھ اچھی لگے گی"

حنا نے ایک آنکھ دبائ 

"تم یہاں بھی شروع ہوگئ نہ"

ابریز نے آنکھیں دکھائیں،تو وہ ہنس دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تم ابھی تک تیار نہیں ہوۓ حازم"

"کیوں کہاں جانا ہے"

حازم غائب دماغی سے بولا 

تو آئمہ نے اپنا سر پیٹ لیا

"تمہاری میٹنگ ہے نہ"

"اوووہ ہاں میرے ذہن سے نکل گیا تھا"

حازم نے بتایا

"ذہن میں کیا چل رہا ہے"

آئمہ اس کہ پاس جا کہ بیٹھی

"مما سے آج بہت بدتمیزی کرلی ہے"

حازم نے زمین کو دیکھتے ہوۓ کہا

"تو جا کہ معافی مانگ لو"

آئمہ نے حل پیش کیا،تو وہ نفی میں سر ہلانے لگا

"حازم جو گزر گیا،اسے گزر جانے دو گزرے وقت کو ساتھ لے کہ چلنے سے کچھ حاصل نہیں ہے"۔۔

وہ بیڈ پہ اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھتے ہوۓ بولی

"تمہیں اپنے پیرنٹس کی یاد نہیں آتی"

حازم نے پوچھا تو وہ افسردگی سے مسکرائ

"اب اتنی نہیں آتی،میں بہت چھوٹی تھی جب بابا اور مما کی علیحدگی ہوگئ اور اب وہ دونوں اپنی دنیا میں خوش ہیں ،مگر میری فیملی تم لوگ ہو،اب دیکھو اگر میں تم سب سے بھی دور رہوں تو میں رشتوں سے بلکل خالی ہوں،اب اٹھو بہت باتیں ہوگئ جا کہ تیار ہو"

آئمہ نے کہا تو وہ اٹھ  گیا

"ایک کام کرتے ہیں"،حازم شرارتی انداز سے بولا

"کیا کام"

"تمہاری شادی کروادیتے ہیں،پھر ایک اور رشتہ آجاۓ گا تمہارے پاس"

"تم کروگے مجھ سے تو میں کرلیتی ہوں"

آئمہ مسکرا کہ بولی جبکہ اسکی آنکھیں بلکل خالی تھیں

"استغفراللہ ابھی اتنے برے دن نہیں آۓ"

حازم نے کہا تو آئمہ نے کشن اسے دے مارا

اور وہ دونوں ہنسنے لگے،مگر حازم پہچان نہ پایا کہ آئمہ کی ہنسی بلکل کھوکھلی تھی۔۔۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"سر حازم سر آگۓ ہیں"

نیلم نے آ کہ بتایا اور حنا کہ ہاتھ میں موجود کافی کا کپ چھلکا

"کیا ہوگیا"

ابریز نے پوچھا

"کچھ نہیں"

وہ خود کو نارمل کرتے ہوۓ بولی

"تو چلو پھر"

"نن۔نہیں آپ جائیں،میں بعد میں آجاؤنگی"

حنا نے بہانہ بنایا 

"پھر آئ کیوں ہو اٹھ جاؤ فورا"

ابریز نے آنکھیں دکھائیں تو وہ برے برے سے منہ بناتی اٹھ گئ

میٹنگ روم کہ رستے تک وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتے ہوۓ آئ تھی کہ وہ،وہ والا حازم نہ ہو،

"ویلکم"

ابریز نے کہا تو حازم اسکی جانب پلٹا تھا۔

اور حنا لڑکھڑا گئ تھی

"ستیاناس،افف اللہ دنیا میں ایک یہی حازم رہ گیا تھا نہ"

حنا دل ہی دل میں کوسنے لگی

جبکہ حازم حیرت میں ڈوبا اسے دیکھنے لگا

لیکن جلد ہی اس کی حیرت کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی تھی

"ویلکم"

حازم نے مسکرا کہ ابریز سے ہاتھ ملایا

"she is my sister " 

ابریز نے حنا کا تعارف کروایا،

تبھی گیلانی صاحب میٹنگ روم میں آۓ تھے

"سوری میں لیٹ تو نہیں ہوگیا"

ابریز اور حنا پلٹے تھے

اور وہیں ساکت رہ گۓ تھے۔،

اس چہرے کو تو وہ لوگ کبھی نہیں بھولے تھے

اور نہ بھول سکتے تھے

"ویلکم مسٹر گیلانی"۔۔۔

ابریز نے آگے بڑھ کہ ان سے ہاتھ ملایا۔۔

"تم چاہو تو میرے کیبن میں چلی جاؤ"۔۔۔

ابریز نے حنا سے کہا تو وہ سرہلاتی وہاں سے چلی گئ

اسکا مسلسل گیلانی صاحب کو گھورنا سب نے محسوس کیا تھا۔۔

"وہ بعد میں آجاۓ گی"۔۔۔

ابریز نے حازم کو کہا تو وہ سرہلاگیا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہے تم کیوں رو رہی ہو"

وہ ٹیبل پہ سر ٹکاۓ رورہی تھی

"وہ کیوں آۓ یہاں واپس،ہم خوش تھے انکے بغیر"

حنا روتے ہوۓ بولی

"کم آن یار حنا،یہ بزنس ہے یہاں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے زبردستی ہی سہی ملنا پڑتا ہے اسے بزنس کی طرح لو"

ابریز نے اسے سمجھانا چاہا

حنا آنکھوں میں حیرت سموۓ اسے دیکھنے لگی

"وہ شخص کوئ اور نہیں ہمارے باپ کا قاتل ہے"

حنا کو لگا جیسے وہ کسی اور کہ بارے میں بات کررہا ہو

""مجھے اچھی طرح یاد ہے،لیکن ہمارا باپ سولہ سال پہلے ہمیں چھوڑ گیا تھا ایک ایکسیڈنٹ میں،بس یہ یاد رکھنا،بس باقی سب بھول جاؤ"

ابریز نے سختی سے کہا،حنا بس سر ہلا گئ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اوہ تم ہو،میں سمجھا ابریز ہوگا"

حازم ابھی ہی آفس پہنچا تھا

اور سیدھا ابریز کہ روم میں آیا تھا

توقع کہ برخلاف آج وہ دشمن جاں سامنے کھڑی تھی

جسے دیکھ کہ وہ کھل کہ مسکرایا تھا

"بھائ تھوڑی دیر میں آئیں گے"

حنا نے بتایا تو وہ سر ہلاتا وہیں بیٹھ گیا

"میں نے تمہیں کال کی تھی،تم نے ریسیو نہیں کی"

حازم نے کہا وہ کافی دن سے اسے کالز اور میسجز کررہا تھا

مگر وہ نہ تو کال ریسیو کررہی تھی اور نہ ہی میسج کا جواب دے رہی تھی

"کیونکہ مجھے بات نہیں کرنی"

حنا خود کو موبائل میں مصروف ظاہر کرتی ہوئ بولی

"جب میں بات کررہا ہوں تب تمہاری ساری اٹینشن مجھ پہ ہونی چاہیۓ"

حازم نے حنا کہ ہاتھ سے موبائل چھینا

"اور اب جب میں کال کروں اٹھا لینا"

حنا نے کچھ بولنا چاہا تو اسنے ہاتھ اٹھا کہ اسے بولنے سے روکا

"مجھے نہ سننے کی عادت نہیں ہے حنا،یہ تم ہی ہو جسے اتنی رعایت مل گئ،لیکن اب اور نہیں اسطرح تمہاری عادتیں بگڑ جائیں گی،اور بعد میں مجھے ہی مسئلہ ہوگا"

"تو عادت ڈال لیجیۓ مسٹر حازم کیونکہ میں آپکی پابند نہیں ہوں،اسلیۓ جو میرا دل چاہے گا میں وہی کروں گی،ہاں کچھ چیزیں لائف میں پہلی پہلی بار ہوتی ہیں،تو عادت ہوجاۓ گی 'نہ'سننے کی"

حنا تپ کہ بولی،وہ ایسی ہی تھی اسے بہت جلدی ضد چڑھ جاتی تھی

"تمہیں ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی نہ،سن لو پیار سے بول رہا ہوں"

حازم غصہ کنٹرول کرتے ہوۓ بولی

"تم ہو کون جسکی میں سنوں،تم جیسے بہت دیکھے ہیں اپنا یہ بھرم اپنے پاس رکھو"

"میں بتاؤں گا تم کو کہ میرا جیسا تم نے اب تک کہیں نہیں دیکھا ہوگا،پچھتاؤگی اپنے لفظوں پہ تم،بہت جلد تم میری پابند ہوجاؤگی"

حازم نے مسکرا کہ کہا تو حنا نے نخوت سے سر جھٹکا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن کہ بعد سے انکی کوئ ملاقات نہیں ہوئ تھی

حازم نے دوبارہ کوئ کال یا میسج نہیں کیا تھا

ایک مہینہ ہونے والا تھا،اس کی جانب سے بلکل خاموشی تھی

مگر وہ جانتی تھی یہ خاموشی کوئ طوفان لاۓ گی،وہ خود کو ہر طرح کی سچوئیشن کیلیۓ تیار کررہی تھی۔۔۔

وہ آفس پہنچی تو معلوم ہوا کہ حازم آیا ہوا ہے

ابریز میٹنگ کہ سلسلے میں دوبئ گیا ہوا تھا

"اس کو مجھ سے کیا کام ہے افف کیوں آگیا ہے یہ"

وہ خود سے بولتی ہوئ روم میں داخل ہوئ

"کیسی ہو"

حازم مسکرا کہ بولا،

مگر اسکی مسکراہٹ میں کچھ تھا جو حنا کو کھٹکا تھا

وہ چپ رہی

"مجھے پتہ چلا کہ تمہارے فادر کا بہت افسوس ہوا"

"اچھا اور کچھ نہیں پتہ چلا"۔۔۔

وہ سینے پہ دونوں باندھے کھڑی تھی

"کیا مطلب،اور کیا۔۔؟"۔۔۔

وہ سمجھ ناسکا

"کچھ نہیں،کچھ چیزیں اپنے وقت پہ پتہ چلیں تو بہت اچھی بات ہوتی ہے"۔۔۔

وہ مسکرا کہ بولی اور جانے کیلیۓ پلٹی،پھر واپس مڑی

"منیب کیسا ہے"۔۔۔

"تم اسے کیسے جانتی ہو"۔۔۔۔

وہ شدید حیران ہوا

"تمہارا سوتیلا بھائ ہے نہ"۔۔۔۔

اس کہ کہنے سے حازم اندازہ نہیں لگا سکا کہ وہ کیا کہنے کی کوشش کررہی تھی۔۔

"کھل کہ کہو حنا"۔۔۔

"ہاں مجھے پتہ چلا ایک بیرسٹر کی بیٹی کو دھوکا دینے پہ اسکی ایک ٹانگ کاٹ دی گئ ہے،اور ماشاءاللہ سے اب وہ اپاہج ہے"۔۔۔۔

وہ اپنی ہی بولی جارہی تھی۔۔۔

"بہت اچھا ہوا اس کہ ساتھ وہ یہ ڈیزرو کرتا تھا"۔۔۔

حنا کہہ کہ وہاں سے چلی گئ۔۔۔

پیچھے حازم حیران پریشان سا کھڑا تھا

وہ یہ سب کیوں کہہ رہی تھی،اسکی آنکھیں نم کیوں تھیں

اور جو اسکا دل کہہ رہا تھا وہ ماننے کیلیۓ تیار نہ تھا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کوئ ہے۔۔۔ہیلپ می"

وہ زور زور سے چلّا رہی تھی

"اے چپ ہو کہ بیٹھ جا،ورنہ ایک لگاؤں گا"

وہاں پہ موجود ایک آدمی نے کہا،جس کہ خود کی آنکھوں پہ پٹّی تھی،اور دونوں ہاتھ بھی آپس میں بندھے ہوۓ تھے

وہ ایک کرسی پہ بندھی ہوئ تھی،ہاتھ اور پاؤں رسّی سے بندھے ہوۓ تھے،اور آنکھوں پہ ایک کالی پٹّی باندھی گئ تھی

"تم لوگ یہاں کیوں لاۓ ہو مجھے میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا"

اب کی بار وہ بغیر چلّاۓ بولی

"ارے میری جان،ابھی تک تو کسی نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا"

حازم اس کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ بولا

"حازم"

حنا نے بنا آواز کہ اسکا نام پکارا

حازم نے وہاں موجود لڑکے کو پکڑ کہ دروازے کہ باہر کیا

"جا کہ کسی سے ہاتھ اور آنکھیں کھلوا لو"

جبکہ اس سب میں حنا خاموش تھی

جب وہ قدم قدم چلتا اس تک آیا،اور اس کی آنکھوں سے پٹّی نکالی،

"کیا حرکت ہے یہ"

حنا چلّائ، حازم نے کان بند کیا

"ابھی تک کیا حرکت کی ہے میں نے"

حازم اس کہ سامنے بیٹھا۔۔

"حازم کھولو مجھے،سر پھاڑ دونگی میں تمہارا"

وہ اپنے ہاتھ کھولنے کی کوشش کرنے لگی

اور حازم نے پستول نکال کہ اس کہ سر پہ رکھ دی

"اگر میں ہی تمہاری کھوپڑی اڑادوں"

حنا کی زبان کو تالا لگا،وہ بےیقینی سے اسے دیکھنے لگی

"تم مجھے گولی ماروگے"

وہ اپنا کانفیڈینس برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوۓ بولی

"ہاں کیوں نہیں"

حازم نے کہا،اسکہ ہاتھ میں موجود پستول ابھی تک اس کہ سر پہ موجود تھی

"چلو پھر مارو گولی"

حنا مسکرائ،جبکہ اس کا دل ڈر رہا تھا

"یا اللہ میں کہاں پھنس گئ ہوں،اگر میں مر گئ تو،میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئ"

حنا دل ہی دل میں بولی

"ایسے نہیں ماروں گا،اگر تم نے میری بات نہ مانی تووووو"

"اور کیا بات ہے تمہاری"

"کہ تمہیں میرا پابند ہونا پڑے گا"

"کیا مطلب"

حنا نے پوچھا

"مطلب کہ نکاح"

حازم نے اس کہ سر پہ بم پھوڑا

"پھر تم گولی ہی ماردو،کیونکہ تم سے نکاح سے بہتر ہے کہ میں مرجاؤں"

حنا نے منہ پھیرلیا

حازم کہ دل میں ایک ٹیس اٹھی تھی،وہ اسے ہرٹ کررہی تھی،وہ اس پہ اپنا آپ قربان کرسکتا تھا،اور حنا اس کہ ساتھ کہ بجاۓ موت کو ترجیح دے رہی تھی

"بےفکر رہو یہاں نہیں مروگی تم،یہ موت کی جانب پہلا قدم ہے تمہارا"

وہ ہرممکن کوشش کررہا تھا کہ وہ اس سے نکاح کرلے

"میں نکاح نہیں کرونگی"

حنا نے اتنا ہی کہا تھا کہ حازم نے اس کہ ہاتھ پہ گولی چلادی تھی،حنا کی چیخ نکلی تھی،

مگر وہ گولی اسنے سامنے دیوار پر ماری تھی

"یہ گولی تمہیں بھی لگ سکتی تھی"

"اب شرافت سے نکاح کرلینا،مجھے مجبور مت کرنا"

"وہ اس پہ سے نظر ہٹاتے ہوۓ بولا،کیونکہ وہ بری طرح رورہی تھی،

وہ وہاں سے نکل گیا تھا،اس کہ بعد حنا خاموشی سے نکاح کرلیا تھا،۔۔

اسکی نظریں بار بار حازم کو ڈھونڈ رہی تھیں

پھر اس کہ آدمی اسے واپس چھوڑ آۓ تھے،


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس واقع کو دو ہفتے گزرچکے تھے،نہ وہ اس سے ملنے آیا تھا،اور نہ حنا آفس گئ تھی

آج بھی وہ ابریز کہ باتیں سنانے پہ آفس جانے کیلیۓ تیار ہوئ تھی،

حنا آفس میں داخل ہوئ تو،ابریز میٹنگ کیلیۓ نکل چکا تھا

مگر حازم وہیں پہ تھا۔،وہ آفس روم کی جانب بڑھ گئ

حنا اندر گئ تو حازم اسے دیکھ کہ بولا

"اتنی جلدی تھی آپکو میرے پاس آنے کی"

وہ قدم قدم چلتا اس تک آیا

"مم-مجھے معلوم نہیں تھا تمہارا"

حنا دل ہی دل میں خود کو کوستے ہوۓ بولی

"کیا یار تھوڑی دیر سے آجاتی اسکی شکل تو نہیں دیکھنی پڑتی"

اسنے دل میں سوچا

"آپکا"

حازم نے جملہ ٹھیک کیا

"ہمممممم"

حنا نے سر ہلایا

"ایک کپ کافی اینڈ نو شوگر"

حازم کہہ کہ جانے کیلیۓ پلٹا،مگر حنا کی اگلی بات پہ مسکراتے ہوۓ واپس پلٹا

"اسی لیۓ اتنا کڑوا بولتا ہے"

حنا کہہ کہ پلٹ گئ ،حازم نے اسکا ہاتھ پکڑ کہ روکا

"میرے لہجے کی مٹھاس برداشت کرسکوگی؟"

حازم نے آنچ دیتے لہجے میں پوچھا

"میں تمہاری سرونٹ نہیں ہوں جو تمہیں کافی لا کہ دوں"

وہ یاد آنے پہ بولی

"بیوی تو ہو نہ"

کہتے ہوۓ حازم کہ چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ تھی

"زبردستی کی بیوی"

حنا نے منہ بنا کہ کہا اور کچھ سوچتے ہوۓ وہاں سے نکل گئ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"سر آپکی کافی"

نیلم نے کافی سامنے رکھی

"تھینکس،حنا میم کہاں ہیں"

حازم نے کافی کا کپ اٹھا کہ پوچھا

"سر کافی انہوں نے ہی بنائ ہے،اور وہ آرہی ہیں"

نیلم بتا کہ چلی گئ،تو وہ مسکراتے ہوۓ کافی پینے لگا

مگر پہلے ہی سپ پہ اس کہ چہرے کہ تاثرات بگڑ گۓ

اس کہ کہے کہ مطابق کافی شوگر فری تھی،مگر اس میں نمک بھرا ہوا تھا۔۔۔

تبھی وہ مسکراتی نظروں کہ ساتھ اپنی کافی کا کپ لیۓ وہاں آئ

"یہ کیا ہے"

وہ ضبط سے بولا،کیونکہ نمک کہ ذائقے سے اس کا حلق شدید حد تک کڑوا ہوگیا تھا

"کافی ہے، کیا دکھنا بند ہوگیا ہے تمہیں"

حنا مسکرا کہ بولی،حازم کہ چہرے کہ تاثرات وہ بہت انجواۓ کررہی تھی

"اسے تم کافی کہتی ہو"

وہ اٹھ کہ اس کہ سامنے آیا

"چاۓ تو کہہ نہیں سکتی نہ اسے"

اب کی بار وہ ہنسی تھی

اس کی شرارت سمجھتا وہ چلتا ہوا اس کہ قریب آیا،

حنا ایک قدم پیچھے ہونے لگی تھی،تبھی حازم نے اس کی کمر پہ اپنے دونوں بازو باندھے۔۔

"یہ کیا حرکت ہے"

وہ اس کہ حصار سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوۓ بولی

"اب کافی کی سزا ملنی تو چاہیۓ نہ"

وہ بظاہر سنجیدہ تھا،مگر اس کی آنکھوں میں شرارت صاف ظاہر تھی

"کک۔۔کیسی سزا"


"ڈرو نہیں سزا کافی کی طرح کڑوی نہیں ہوگی"

وہ اس کہ چہرے کہ تاثرات جانچتے ہوۓ بولا

"چھوڑو مجھے"

وہ اب تک اس کہ حصار میں تھی،تبھی وہ اس پہ جھکا تھا،وہ اس کی حرکت پہ تڑپ کہ مچلی تھی،مگر اسکی گرفت کمزور ہرگز نہ تھی،

حنا کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں پہ وہ ایکدم پیچھے ہٹا تھا،

اور اسکی گرفت سے آزاد ہوتے ہی وہ وہاں سے نکل گئ تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ مسلسل روتے ہوۓ ڈرائیو کررہی تھی آنسوؤں کی وجہ سے سامنے کا منظر دھندلا رہا تھا۔۔تبھی سامنے سے تیز رفتار آتی گاڑی کو دیکھ کہ حنا نے بمشکل گاڑی سنبھالی تھی۔۔۔

وہ سیدھا پارک میں گئ تھی، ایک خالی و خاموش جگہ پہ وہ سر تھامے بیٹھی تھی۔۔

آج صبح سے ہی وہ ہر بات پہ منیب کو یاد کررہی تھی۔۔ایسے میں حازم کی حرکت سے وہ اور زیادہ ڈسٹرب ہوگئ تھی۔۔۔

"تم نے کسی قابل نہیں چھوڑا مجھے"

وہ تصور میں منیب سے مخاطب ہوئ

-----------------

حنا اسے کب سے کال کررہی تھی مگر میٹنگ میں ہونے کوجہ سے اسکا موبائل سائلنٹ پہ تھا۔۔میٹنگ سے فری ہو کہ اسنے موبائل چیک کیا تو حنا کی مسڈ کالز دیکھ کہ چونکا۔،پھر جلدی سے اسے کال بیک کی۔۔۔

"مجھے ملنا ہے تم سے"

حنا نے پہلی بات ہی یہی کی،حازم کچھ اور پریشان ہوا

"تم ٹھیک ہو"،

وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا

"ایڈریس سینڈ کررہی ہوں وہاں آجاؤ"

حنا نے کہتے ہی فون بند کردیا

وہ حیران پریشان ساکھڑا سوچتا رہا کہ کیا بات ہوسکتی تھی۔۔

-------------------

وہ دونوں اس وقت ایک کیفے شاپ پہ موجود تھے

"حنا پلیز اب بولوگی کیا بات ہے"

حازم تنگ آ کہ بولا کیونکہ وہ جب سے آۓ تھے وہ تب سے خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی،اور وہ صرف اس کہ بولنے کا منتظر تھا

"مجھے طلاق دےدو"

وہ بہت ہمت جمع کر کہ بولی ،وہ ڈر رہی تھی کیونکہ جو شخص نکاح کرنے کیلیۓ گولی چلاسکتا تھا،وہ نکاح کو بچانے کیلیۓ کیا کریگا۔۔۔

"کیا۔۔کیا کہہ رہی ہو"

حازم نے ہنستے ہوۓ پوچھا،

"حازم میں سیريئس ہوں"

"تو پھر ایسا تم خواب میں بھی مت سوچنا"

حازم سنجیدگی سے بولا

"حازم پلیز سمجھو ہمارا ایک ساتھ گزارا نہیں ہے"

وہ ٹیبل پہ موجود حازم کہ ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کہ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔اور حازم اسکی بات کو اگنور کیۓ صرف اپنے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ دیکھنے لگا،جو کہ بہت حسین لگ رہے تھے،جو صرف بنے ہی اس کہ ہاتھوں کیلیۓ تھے۔۔۔

"میں تم سے کہہ رہی ہوں"

حنا نے اس کہ ہاتھ ہلاۓ،کیونکہ وہ صرف سر جھکاۓ ان ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا

"میں کسی قیمت پہ تمہیں طلاق نہیں دونگا"

حازم نے سخت لہجے میں کہا

"تو پھر اپنی مدر کو بھیجو،اور رشتے کی بات کرو،میں ہرگز ایسے نام نہاد اور زبردستی کہ رشتے میں نہیں رہنا چاہتی"

وہ جوس گلاس میں اسٹراء گھماتے ہوۓ بولی

حازم حیرانی سے اسے دیکھنے لگا،وہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ حنا کیا کرنے کا سوچ رہی تھی،پہلے نکاح نہ کرنا،اور اب شادی کی بات۔۔۔وہ سرجھٹک کہ سیدھا ہوا،

"میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہا ہوں،نکاح ہوچکا ہے،اور میں اسے چھوڑنے پہ تیار نہیں ہوں،تو اب اس کہ پاس کوئ چوائس نہیں ہے"

"آر-یو-شیور۔۔۔"

حازم نے یقین دہانی چاہی۔۔

"ہاں میں سیریئس ہوں"

حنا پراعتمادی سے بولی،حازم کی آنکھوں میں چمک ابھری،جسے محسوس کر کہ وہ نظریں چرا گئ۔۔۔

"ٹھیک ہے،میں آج ہی ممّا سے بات کرتا ہوں"

اس کہ لہجے میں بےحد خوشی تھی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تم کر کیا رہی ہو حنا"

کرن اس سے ملنے آئ تھی۔۔وہ دونوں کالج سے ساتھ تھیں۔،دونوں ایک دوسرے کی ہر بات جانتی تھیں۔

جب اسے حنا نے بتایا کہ وہ حازم سے شادی کی بات کر کہ آئ ہے تو کرن چیخ اٹھی۔۔

"تم اسے طلاق کی بات کرنے گئ تھی حنا۔رخصتی کی دعوت دے آئ ہو"

"مجھے لگا جیسے ابھی شروعات ہے ان سولہ سالوں کہ درد کو بھگتنے کی"

"تم پاگل ہوگئ ہو،حازم کو اگر سچ پتہ چل گیا۔۔۔

"پتہ چل جاۓ تو کیا کرلے گا وہ،کچھ نہیں کرسکتا وہ"

حنا روہانسی ہوگئ تھی

"تم جانتی بھی ہو کہ کیا ہوگا،حنا تم کچھ نہیں کرسکتی،وہ بھلے ہی تمہیں جتنا چاہتا ہو،یہ سب برداشت نہیں کريگا"

کرن اسے سمجھانے کی کوشش کررہی تھی۔۔

"اسے برداشت کرنا ہوگا،ہر بار ہم ہی کیوں برداشت کریں یہ خسارہ ہمارے ہی حصے میں کیوں آتا ہے،ان کہ حصے میں کیوں نہیں"

وہ روتے روتے چلّائ۔۔۔

"وہ وقت گزر گیا ہے تو اسے گزر جانے دو حنا،کیوں اسے واپس دوہرانا ہے"

کرن پھر سے بولی

"اسے بھی تو پتہ چلے محبت مل کہ چھن جاۓ تو کیا ہوتا ہے"

"اپنی محبت کہ چھن جانے کا بدلہ تم اس معصوم سے کیسے لے سکتی ہو"

"ہاہاہا معصوم ہاہاہاہا"

حنا ہنسنے لگی

"میں حازم سے بات کروں"

"نہیں تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے"

وہ سال جو گزر گۓ یہ واپس آئیں گے اپنی چمک و کوشش کہ ساتھ"


کرن حنا کہ آنسو پونچھ کہ بولی


"تمہیں معلوم ہے جب بھی کوئ سال گزرتا ہے تو اس کو الوداع کہتے ہوۓ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان اس مخصوص روایتی اور گنے چنے الفاظ کو دہرا رہا ہے جو اس نے پچھلے سال کہے تھے،حالانکہ ایسا بلکل نہیں ہوتا،یہ انسان کہ اس نۓ عمر کہ گزرنے والے سال کہ متعلق بلکل تازہ خیالات ہوتے ہیں جو بیتے ہوۓ سال میں اپنے قیمتی لمحوں کہ کھونے کا غم اور آنے والے سال کی آمد کی خوشی میں بےساختہ جن کا اظہار کرتا ہے،وقت ایسی چیز ہے جسے قرار نہیں،جو وقت گزر جاۓ وہ لوٹ نہیں سکتا"


حنا خالی آسمان پہ جانے کیا تلاشتی ہوئ بولی

شاید وہ لاشعوری طور پہ اپنا کھویا ہوا وقت

اس میں ڈھونڈ رہی تھی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"وہ شادی کیلیۓ مان گئ ہے"

حازم نے آئمہ کو بتایا،تو اس ہاتھ میں موجود چاۓ کا کپ چھلکا۔۔

"آرام سے کیا کررہی ہو"

حازم اس کہ ہاتھ سے کپ لے کہ ٹیبل پہ رکھتا ہوا بولا

"اچ۔۔۔اچھی بات ہے"

وہ مسکرا کہ بولی

"تھینکس،میں مما کو بتا کہ آیا"

آئمہ نے سر ہلادیا،تو وہ اسکا کندھا تھپکتا وہاں سے چلاگیا

اور اس کہ روکے ہوۓ آنسو نکل آۓ تھے

"اکیلا چھوڑ جاتے ہو

یہ تم اچھا نہیں کرتے

ہمارا دل جلاتے ہو

یہ تم اچھا نہیں کرتے"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اچھا کون سی لڑکی ہے جس کہ ذکر پہ ہی میرے بیٹے کی مسکان نہیں جارہی"

فائزہ بیگم مسکرا کہ بولیں

"حنا ہے،حنا اورنگزیب"

حازم نے بتایا،اور فائزہ بیگم کی مسکراہٹ سمٹی تھی

"کہیں یہ اسی اورنگزیب کی ہی بیٹی تو نہیں ہے"

انکو خدشہ لاحق ہوا

"جی،وہی ہے"

"پھر سوچنا بھی مت اس بارے میں"

وہ فورا ہی غصے میں آگئ تھیں

"میں اسی سے شادی کرونگا"

"تم جانتے بھی ہو اس شادی سے تم ہمارا کتنا نقصان کروگے"

"اوہ کم آن، آپ کا کیسا نقصان،نقصان تو پھر انکا ہوگا"۔

"حازم وہ باپ ہے تمہارا بس کردو"

"کیسا باپ مما،پیسوں کیلیۓ دوسری شادی کرلی انہوں نے،پاور اور پیسہ ملنے پہ چھوڑ دیا اس عورت کو،انکا دوسرا بیٹا آج کس حال میں ہے،اپاہج ہے وہ،اس آدمی کو نشے کی حالت میں گاڑی سے اڑا دیا انہوں نے،اور پیسہ کھلا کہ بچ گۓ،اور اس سب میں آپ نے انکا ساتھ دیا ہے،مت بھولیۓ گا"۔۔۔۔

وہ غصے میں چلا چلا کہ کہتا اپنے کمرے میں آگیا

"مجھے معلوم ہے حنا،تم سب جانتی ہو،یہ سب تم نے میرے باپ سے بدلے کیلیۓ ہی کیا،پہلے مجھے ڈھونڈا پھر چھوڑ دیا،اب ملی ہو نۓ عزم کہ ساتھ،مگر میں چپ ہوں میں دیکھنا چاہتا ہوں بابا کہ ساتھ کیا ہوگا،وہ کیا کیا بھگتیں گے،میری ہی فیملی سے تم لوگوں نے کیا کیا نہیں برداشت کیا،منیب کیلیۓ تمہاری کشش سے واقف ہوں میں،مگر میری محبت تمہیں سب درد بھلادیگی"۔۔۔۔

وہ سوچتا ہوا آخر میں کھل کہ مسکرایا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میری بیٹی اللہ تمہیں خوش۔۔۔۔۔"

گیلانی صاحب آگے بڑھ کہ حنا کہ سر پہ ہاتھ رکھنے لگے تو وہ دوقدم پیچھے ہوگئ۔۔

"بس ٹھیک ہے"

اسنے سر پہ ہاتھ نہیں رکھوایا۔۔حازم نے پلٹ کہ اسے دیکھا،وہ بیزار دکھائ دے رہی تھی،شاید اسکا ڈریس بہت ہیوی تھا اسلیۓ۔۔

"جاؤ آرام کرلو دونوں،آئمہ اسے کمرے تک لے جاؤ"

فائزہ بیگم تپے ہوۓ انداز میں بولیں،جبکہ حنا اپنی مسکراہٹ روک نہ سکی۔۔۔

"جی،چلو آجاؤ"

آئمہ اسے وہاں سے لے جانے لگی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس شادی سے کوئ رضامند نہ تھا،ابریز اور حبہ بیگم اس کی ضد کہ آگے ہار گۓ تھے،فائزہ بیگم ہر چیز سے لاتعلق ہوگئ تھیں،شادی بلکل سادگی سے کی گئ تھی،

حنا خوش تھی،وہ اپنے بدلے کی جانب بڑھ رہی تھی،مگر آئمہ کی آنکھوں کی اداسی اسے بےچین کررہی تھی،وہ وہاں سب کی خوشیاں مارنے گئ تھی،مگر آئمہ کی نہیں،

اسے جب سے علم ہوا تھا کہ آئمہ حازم کی کزن ہے وہ تب سے بےسکون ہورہی تھی،وہ اس بے قصور کو سزا دےچکی تھی،بلکہ سب سے بڑی سزا ہی اس بےقصور کہ حصے میں آئ تھی۔۔۔

ابھی وہ اپنی سوچوں میں تھی کہ کمرے کا دروازہ کھول کہ حازم داخل ہوا۔۔اسے دیکھ کہ حنا کا پہلے سے خراب موڈ اور زیادہ خراب ہوگیا تھا۔۔۔

"میری بیوی اتنی کیوں بیزار ہورہی ہے"

وہ مسکرا کہ کہتا بیڈ پہ جگہ بنا کہ اس کہ پاس بیٹھتے ہوۓ بولا

"کچھ نہیں،میں تھک گئ ہوں"

وہ اس کہ پاس سے اٹھنے لگی،جب حازم نے ہاتھ پکڑ کہ اسے روکا۔۔

"اچھا اپنی منہ دکھائ تو لے لو"

گولی ماردو اب

حنا نے ہاتھ اس کہ سامنے کیا،

"تم اب تک اسی بات پہ خفا ہو"

وہ یہی سمجھا،جبھی پیار سے بولا،اسے لگا وہ اسے منالے گا۔۔۔

"میرے پاس فالتو وقت نہیں تم سے خفا ہونے کا"

وہ پھر اسی ٹون میں بولی

"حنا مجھ سے بات کرنی ہے تو آرام سے بات کرنا،میں اس ٹون کو برداشت نہیں کرونگا"

"کچھ چیزیں پہلی پہلی دفعہ ہی ہوتی ہیں اب عادت ڈال لو"

وہ اس کہ ہاتھ جھٹک کہ واشروم میں گھس گئ۔۔۔

حنا چینج کر کہ آئ تو حازم سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔۔

حنا جی بھر کہ بدمزا ہوئ،

"یہ زہر باہر جا کہ پھونکو"

"میری مرضی میرا کمرا ہے"

حازم بیڈ پہ مزے سے لیٹے ہوۓ بولا

"ایڈیئٹ"۔۔۔۔۔

حنا بڑبڑائ

"کیا کہہ رہی ہو میں سن نہیں سکا"

وہ جان بوجھ کہ انجان بنتا ہوا بولا

حنا جواب دیۓ بغیر اپنے ہاتھ پہ لوشن لگانے لگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئمہ بالکنی میں کھڑی چاند کو دیکھنے میں محو تھی،

وہ بلکل خاموش تھی،حالانکہ یہ وقت اس کیلیۓ ماتم کا تھا

آج اس شخص کو اسکا عشق مل گیا تھا،جس سے وہ عشق کرتی تھی،وہ کتنا خوش تھا،اور آئمہ اس کی خوشی میں خوش ہونے کی ناممکن کوشش کررہی تھی،

آج بھی وہ خالی ہاتھ رہ گئ تھی۔۔۔

جس کا چہرا وہ صبح اٹھتے ہی دکھنے کی عادی تھی،

اب اس چہرے کہ ساتھ اس کی ہمسفر ہونی تھی۔۔۔

جس کہ ساتھ وہ رات دیر تک باتیں کرنے کی عادی تھی

اب اس کی راتوں کا کوئ اور حصّے دار بن گیا تھا۔۔

وہ پھوٹ پھوٹ کہ رودی تھی،اس کا ضبط ختم ہوگیا تھا


"وہ میری صبحوں کا تارا،وہ میری راتوں کا چاند

میرے دل کی روشنی تو تھا، مگر میرا نہ تھا"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کہ کسی پہر حنا کی آنکھ کھلی تو حازم کو بلکل اپنے قریب لیٹے پایا۔۔۔

وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی اور دوسری طرف کروٹ لے کہ لیٹ گئ

حازم کب سے سونے کی کوشش کررہا تھا۔۔ابھی اسکی آنکھ لگنے ہی لگی تھی کہ بیڈ ہلا تھا۔۔اسکی آنکھ کھل گئ تھی۔۔

آنکھ کھول کہ دیکھا تو حنا دوسری جانب کروٹ لے رہی تھی۔۔

"ویسے میرا تمہیں کھانے کا بلکل ارادہ نہیں تھا"

حازم نے بڑبڑاتے ہوۓ کروٹ بدل لی

اور حنا اس کی بات سن کہ مسکرادی تھی۔۔۔۔

----------------

"کیسی ہو"

ابریز نے اسے گلے سے لگایا

"ٹھیک ہوں بھائ آپ کیسے ہیں اور مما کیسی ہیں"

حنا مسکراتے ہوۓ بولی

"سب ٹھیک ہیں،تم بتاؤ خوش ہو"

ابریز اسے ساتھ لیۓ صوفے پہ بیٹھتا ہوا بولا۔۔۔

"سالے صاحب آۓ ہیں"

حازم مسکراتا ہوا اس سے آ کہ ملا

ائزہ بیگم منہ بناتے ہوۓ وہاں آئیں

"ناشتہ کرلیں یا پھر ابھی بھائ بہن کی محبت سے ہی پیٹ بھرلیں"

حنا نے کوئ جواب نہیں دیا،جبکہ حازم اٹھ کھڑا ہوا

"چلو ناشتہ کریں"

حازم نے اپنا ہاتھ حنا کی جانب بڑھایا تو اسنے مسکراتے ہوۓ اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔،

جبکہ فائزہ بیگم ہنکار بھر کہ رہ گئیں۔۔اور ان کہ تاثرات دیکھ دیکھ کہ حنا اپنی مسکراہٹ کو قابو نہیں کرپارہی تھی۔۔۔۔

------------------

"پانی پی لو یا شہد کھا لو تھوڑا سا"

حنا مسلسل کھانس رہی تھی،تب حازم نے کہا

"تو لا دو پانی یا شہد"

"میں نہیں لارہا خود جا کہ لے لو"

حازم ٹی-وی دیکھنے میں مگن بولا

"سردیوں میں گلا ایسے خراب ہوتا ہے جیسے اسکی تربیت میں کوئ کمی رہ گئ ہو"

حنا بڑبڑاتے ہوۓ کمرے سے نکل گئ پیچھے حازم اسکی بےتکی بات پہ ہنسنے لگا۔۔۔۔۔۔

-----------------

"اففف کیا پہنوں"

حازم صبح سے باہر تھا،اب اسنے حنا کو میسج کیا تھا کو وہ تیار ہوجاۓ،وہ اسے ڈنر پہ لے جارہا تھا،

اور وہ آدھے گھنٹے سے الماری میں سر دیۓ کھڑی تھی

"ہاں حنا تم نے بلایا"

جبھی آئمہ کمرے میں داخل ہوئ تھی

"شکر یار تم آگئ،مجھے بتاؤ میں کیا پہنوں"

وہ کنفیوز تھی،آئمہ مسکرائ

"یہ والا پہنو،حازم کو یہ رائل-بلیو کلر بہت پسند ہے"

آئمہ نے اسے رائل-بلیو کلر کی لانگ فراک تھمائ

"اچھا تھینکس"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بہت اچھی لگ رہی ہو"

حازم نے ستائشی نظروں سے کہا

"تھینکس"

حنا سنجیدگی سے بولی

"کیا تم بور ہورہی ہو"

"نہیں تو،ایسا کچھ نہیں"

اسنے ابھی بھی مسکرانے کی زحمت نہ کی

حازم سمجھ نہ سکا اسے ہوا کیا تھا،گھر سے تو وہ بہت خوشی خوشی نکلی تھی،وہ شادی والے دن سے ہی ایسی حرکتیں کررہی تھی،سب کہ سامنے خود کو بہت زیادہ خوش ظاہر کررہی تھی،اور اکیلے میں اس پہ نظر تک ڈالنا گوارا نہیں کرتی تھی۔۔۔

"حنا اب ہم کھل کہ بات کرسکتے ہیں یہاں کوئ نہیں ہے"

حازم نے بات کرنا چاہی

"بات کرنے کیلیۓ بھی کچھ نہیں ہے"

"اگر یہی سب تماشے کرنے تھے۔۔۔

ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ حنا بول اٹھی

"میں نے تماشے کیۓ ہی کہاں ہیں اب تک حازم،حالانکہ تمہارے پیرنٹس کو دیکھ کہ میرا خون کھول اٹھتا ہے،انکی مسکراہٹ دیکھ کہ مجھے میری ماں کہ آنسو یاد آجاتے ہیں،ان کا ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے،مجھے میری ماں کا اکیلا پن یاد آجاتا ہے،مگر میں نے اب تک کوئ تماشہ نہیں کیا"

حنا کی آواز میں نمی گھلنے لگی

"حنا کیا بکواس ہے یہ"۔۔۔

وہ غرایا۔،حنا ہنسنے لگی

"کیا ہوگا حازم آخر اب ایک وقت قریب ہے"۔۔۔۔

"میں ہماری بات کررہا ہوں"

حازم نے کہا

مگر وہ خاموش رہی

پھر کھانا کھا کہ وہ گھر واپس آگۓ

اس سب میں دونوں ہی خاموش تھے

"مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے"۔۔۔۔

حنا کچھ سوچ کہ بولی

"ہمم سن رہا ہوں"۔۔۔۔

اسکے کہنے پہ حنا اسے سب بتاتی چلی گئ

منیب سے ملنا اس سے دوستی،پھر محبت۔،اور پھر اختتام

وہ لفظ بہ لفظ اسے بتاتی چلی گئ۔۔

اور وہ خاموشی سے اسے سنتا چلاگیا

سب بتا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کہ رونے لگی

تو حازم نے آگے بڑھ کہ اسے خود سے لگا لیا

کافی دیر وہ روتی رہی اور روتے روتے سوگئ

حنا کے سونے کہ احساس پہ وہ اسے اسکی جگہ پہ لٹا کہ

صحیح طرح سے کمفرٹر اوڑھا کہ کمرے سے نکل گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ صبح 9 بجے کہ قریب کمرے میں آیا تو حنا کو زمین پہ بیٹھے بیڈ سے ٹیک لگاۓ سوتا پایا۔

وہ رات کہ کسی پہر اٹھ گئ تھی اور اسی کے انتظار میں وہاں بیٹھے بیٹھے سوگئ تھی۔۔۔۔،

وہ کچھ پل اسے یوں ہی دیکھتا رہا۔۔پھر گہرا سانس ہوا کہ سپرد کر کہ اسنے الماری سے کپڑے نکال کہ واشروم کی جانب بڑھ گیا۔۔دروازہ بند ہونے کی آواز پہ حنا کی نیند کھلی۔۔۔

وہ سر پکڑے وہیں بیٹھی رہی۔۔،ایک رات پہلے تک وہ ان سب کو اپنا مجرم مان رہی تھی مگر آج وہ خود اس کی مجرم بن گئ تھی۔۔

وہ چینج کر کہ آیا تو اسے جاگتا ہوا دیکھا۔۔اسے اگنور کر کہ وہ شیشے کہ سامنے جا کھڑا ہوا۔۔

"تم رات بھر کمرے میں کیوں نہیں آۓ"

وہ اس کہ سامنے جا کھڑی ہوئ

"تم نے میرا انتظار کیا"

اسنے جواب دینے کہ بجاۓ سوال کیا۔،وہ جانتا تھا وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے گی،اور وہی ہوا وہ چپ ہوگئ تھی

"حازم میں۔۔۔

ابھی وہ بولنے ہی لگی تھی کہ حازم نے ہاتھ اٹھا اسے بولنے سے روکا

"حنا ابھی تمہیں اور مجھے سوچنے کی ضرورت ہے سو پلیز"

کہہ کہ وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن کہ بعد سے حازم نے حنا سے کوئ بات نہیں کی تھی،بظاہر سب کہ سامنے وہ بات کرلیتے تھے،مگر اکیلے میں اب حازم بھی اس سے بات نہیں کرتا تھا

"بوا میرے لیۓ چاۓ لادیں"

حازم کہہ کہ کمرے میں چلا گیا

کچھ دیر بعد حنا چاۓ لے کہ کمرے میں داخل ہوئ

"یہ لو چاۓ"

"رکھ دو سائیڈ پہ"

وہ ٹی-وی دیکھتا ہوا بولا

"میرے ہاتھ سے لو"

وہ ہنوز کپ پکڑے کھڑی تھی

حازم نے ایک نظر غصے سے اسے دیکھا پھر کپ لے کہ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا

"اففف نخرا ہاں بھئ اتنے ہینڈسم تو ہو،ہاں نخرا تو ہوگا ہی"

وہ سنجیدگی سے بولی ہاں البتہ آنکھوں میں شرارت تھی

"تم کیا چاہتی ہو"

حازم تنگ ہوتے ہوۓ بولا

"

اب کی بار حنا ہنس کہ بولی

"اور میں تمہیں کبھی نہیں ملونگا"

حازم آنکھیں چڑھا کہ بولا

"ارے تم کتنے کیوٹ لگتے ہو غصے میں بھی"

حنا اپنا چہرہ اپنے ہاتھ پہ رکھ کہ بولی

"تم اتنی چھچھوری کیوں ہوگئ ہو"

"کسی کی تعریف کرنا چھچھورپن نہیں ہوتا"

حنا نے ایک آنکھ دبا کہ کہا

"بدتمیز بےشرم"

حازم نے آنکھیں دکھا کہ کہا

تو وہ گردن جھکا کہ ہنس دی

"ٹی-وی بند کرو اور مجھ سے باتیں کرو"

وہ اس کہ ہاتھ سے ریموٹ چھیننے کی کوشش کرنے لگی

"حنا دماغ نہیں خراب کرو"

"تمہارا دماغ صحیح ہوتا کب ہے چائنہ کہ پیس"

وہ غصے سے بول کہ چلی گئ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کہ ہاتھ سے ریموٹ چھیننے کی کوشش کرنے لگی

"حنا دماغ نہیں خراب کرو"

"تمہارا دماغ صحیح ہوتا کب ہے چائنہ کہ پیس"

وہ غصے سے بول کہ چلی گئ

"واپس چلو،فورا سے پہلے"۔۔۔۔

حازم اٹھ کر اس کے پیچھے گیا۔،اور بازو سے پکڑ کہ اسے کھینچتا ہوا کمرے میں لے جا کر بیڈ پہ پٹخنے کہ انداز سے چھوڑا۔۔۔۔

"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ"۔۔۔۔

حنا بازو مسلتے ہوۓ چيخی۔۔

"آواز نیچی کرو اپنی،اور یہ تو تم بتاؤ کیا مسئلہ ہے تمہارا،کیا کرنا چاہتی ہو تم"۔۔

وہ اسے وارن کرتا ہوا بولنے لگا

"میں نے کیا کیا،تمہارا ہی منہ بنا ہوا تھا"۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کہ کہتے ہوۓ سارا الزام اس پہ ڈال گئ۔۔۔

حازم کچھ پل اسے گھورتا رہا،پھر کنپٹی مسلتے ہوۓ اسنے غصے سے پاس پڑے اسٹول پہ لات ماری۔۔جو کہ تھوڑا آگے جاکہ گرا۔۔حنا نے ڈر کہ آنکھیں میچیں۔۔

"میری بات سنو حنا غور سے،اب بہت ہوگیا،اب تم اور تمہاری حرکتیں برداشت سے باہر ہورہی ہیں،مام ڈیڈ کہ ساتھ اپنا رویہ درست کرو،تمہارا جو مسئلہ ہے وہ مجھ سے ہے نہ،زبردستی تم سے شادی میں نے کی ہے،ان سے بلکل ٹھیک ہوجاؤ اب بس"۔۔۔۔

وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔۔


"اور اب کیا ہوا تم بور ہوگئیں۔۔؟مجھے یاد ہے کچھ دن پہلے تک 'سب کچھ ٹھیک ہے' کا ڈرامہ صرف دوسروں کے سامنے ہورہا تھا اب کیا ہوا ہے،جیسے چل رہا تھا ویسے ہی چلنے دو"۔۔۔

وہ بظاہر تو سنجیدگی سے بول رہا تھا مگر اندر سے وہی جانتا تھا اس پر کیا بیت رہی تھی۔،مگر حنا کو سدھارنے کیلیۓ یہ ضروری تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ صرف اپنے بدلے کی تکمیل کیلیۓ وہ سب کچھ برباد کررہی تھی۔،وہ حازم کو توڑ رہی تھی۔،وہ ابریز کو کھودیگی یہ سب کر کہ ایک بھائ کا غرور ملیامیٹ کردیگی وہ،ایک ماں کا سر نیچا کردیگی وہ۔،اور جس باپ کا وہ بدلہ چاہ رہی تھی وہ باپ بھی نہیں چاہے گا کہ اسکی اولاد دوسرے لوگوں کی طرح سفا ہوجاۓ۔،وہ اسے نقصان سے بچانا چاہ رہا تھا۔۔

"میرا مسئلہ ہی وہ لوگ ہیں،تمہیں نہیں پتہ،ہاں تم جانتے ہوۓ انجان بنے ہوۓ ہو شاید،کوئ بات نہیں میں تمہیں سچ بتاتی ہوں،سولہ سال پہلے تمہارے باپ نے نشے کی حالت میں جس کو اڑایا تھا،وہ میرا باپ تھا حازم گیلانی،پیسے کے دم پہ وہ بچ گۓ مگر اللہ سے کیسے بچیں گے وہ اور آخر کب تک،تم کیا جانتے ہو ہمارے بارے میں میرے بارے میں کون ہوں میں کیا ہوں میں،ہوں۔۔؟"

وہ پھٹ پڑی تھی حازم چپ چاپ اسے سن رہا تھا وہ اس کہ دل کا غبار نکال دینا چاہتا تھا۔۔۔

"کیسا وقت ہم نے گزارا ہے،ایک بیوہ عورت کو یہ معاشرہ سروائیو نہیں کرنے دیتا اور جب دو بچوں کا ساتھ ہو تو بس۔،کیسے میرے بھائ نے اسکول کالج کہ ساتھ دو دو پارٹ ٹائم جابز کیں،ایسے ہی ایمپائر نہیں کھڑا کیا اسنے،تم صرف اپنے باپ سے نفرت جتاتے ہو مگر یہ تم بھول گۓ کہ تم صرف انہیں دم پہ کھڑے ہو یہ سوٹ بوٹ،برانڈڈ واچ،پرفیوم،گاڑی حسین گھر اپنا بزنس ایک ایک چیز،کچھ بھی تو خود سے نہیں کیا تم نے،بلکہ انہوں نے بھی خود سے نہیں کیا،دوسری شادی کرلی اور آرام سے سب مل گیا کیسے اپنی خواہشات مارتے ہیں،کیسے پل پل کٹتا ہے،کیسے مرتے ہوۓ بھی جینا پڑتا ہے کون جانتا ہے،مگر یہ یاد رکھنا،اللہ کی لاٹھی بےآواز ہے،ہر عروج کو زوال ہے"۔۔۔۔

وہ مسلسل روتے ہوۓ بول رہی تھی۔۔جب بول بول کہ تھک گئ تو پھولے ہوۓ سانس کو سنبھالتے ہوۓ کھڑکی میں جاکھڑی ہوئ۔۔

حازم خاموشی سے بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔۔مگر دروازے کہ باہر کھڑے گیلانی صاحب سب سن چکے تھے۔۔حقیقت آشکار ہونے کہ بعد ان سے اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا محال ہوگیا تھا۔۔وہ جو حازم سے بزنس ڈیل کی بات کرنے آۓ تھے اب وہ دیوار کا سہارا لیتے ہوۓ واپس پلٹ گۓ تھے۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حازم نے پلٹ کہ حنا کو دیکھا وہ کھڑکی کہ پٹ سے سرٹکاۓ کھڑی تھی۔۔۔۔

تبھی کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹا تھا۔۔۔وہ دونوں چونکے

حازم نے آگے بڑھ کہ دروازہ کھولا۔۔۔سامنے آئمہ کھڑی تھی

"حازم انکل کو کچھ ہوگیا ہے وہ اٹھ نہیں رہے"۔۔۔۔

آئمہ کے بتاتے ہی حازم وہاں سے بھاگا۔۔اور پیچھے حنا حیرت میں ڈوبی کھڑی تھی۔۔۔

"اگر انکو کچھ ہوگیا تو"۔۔۔۔وہ اپنی سوچ کی نفی کرتی ہوئ وہیں زمین پہ بیٹھ گئ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ مسلسل پریشان تھی۔،اپنے لفظوں کی شرمندگی اسے ہسپتال جانے سے روک رہی تھی۔۔۔

شام سے رات ہوگئ اور رات سے صبح جب حازم تھکا ہارا گھر واپس آیا۔۔۔۔

حنا کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی جب حازم کو آتا دیکھ کہ اس کی جانب لپکی۔۔۔

"کیا ہوا"۔۔۔۔۔حنا اس کا ہاتھ پکڑ کہ بولی

حازم خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے گیا۔۔۔

"حازم کچھ تو بتاؤ"۔۔۔۔۔

وہ اپنے ذہن میں آتی سوچ کو جھٹک کہ نم آنکھوں سے بولی۔۔

اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب حازم نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے۔۔۔

"یہ تم کیا۔۔۔۔۔"

"انہیں معاف کردو حنا،وہ ٹھیک نہیں ہیں،تم معاف کردوگی تو شاید اللہ بھی انہیں معاف کردے"۔۔۔۔

بولتے ہوۓ اسکی آواز میں نمی گھلی۔۔

"ایسے نہیں کرو حازم"۔۔۔۔۔وہ اس کہ ہاتھ کھولتی ہوئ بولی۔

"انہوں نے تمہیں بلایا ہے"۔۔۔۔۔وہ سرجھکاۓکھڑا تھا۔۔

"کیوں"۔۔۔حنا حیران ہوئ۔۔۔

"وہ سب سن چکے ہیں شاید۔،جبھی سیڑھیاں اترتے ہوۓ انکو ہار۔۔۔ٹ۔ ہارٹ اٹیک ہوا ہے"۔۔۔۔۔۔

وہ بمشکل بولا۔۔

"تم چلوگی۔۔؟"

"چلو"۔۔۔اس کے پوچھنے پر حنا نے سرہلاتے ہوۓ کہا تو وہ تشکرانہ نظروں سے اسے دیکھتا کھل اٹھا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہسپتال کہ کوریڈور سے گزرتے ہوۓ روم میں داخل ہوۓ جہاں گیلانی صاحب بیڈ پہ لیٹے تھے

اور انکا وجود مشینوں سے جکڑا ہوا تھا۔۔۔ایک ہی دن میں وہ انتہا کے کمزور ہوگۓ تھے۔۔۔۔

ان دونوں کو دیکھ کر آئمہ زبردستی حبہ بیگم کو اپنے ساتھ آرام کرنے کیلیۓ گھر لے گئ تھی۔۔۔

قدموں کی چاپ پہ گیلانی صاحب نے ہلکی سی آنکھیں واکیں۔۔۔

حنا کو دیکھ کہ ان کی آنکھوں میں نمی اتری۔۔۔۔

حنا قدم قدم انکی جانب بڑھاتی ہوئ ان کے پاس گئ

"اب کیسے ہیں آپ"۔۔۔۔۔وہ بہت ہمت کر کہ بولی

"مجھے معاف کردو بیٹا،یہ سمجھ لو آج ایک باپ تمہارے سامنے ہے"۔۔۔۔۔وہ روتے ہوۓ مشکل سے اپنے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولے

وہ اس انسان سے شدید نفرت کرتی تھی۔۔۔مگر اسکا ضمیر ابھی مرا نہیں تھا۔۔۔۔ایک انسان اگر حد سے زیادہ پچھتاوے میں پڑ جاۓ تو سامنے والے کو خدا نہیں بننا چاہیۓ۔۔۔۔

حنا نے روتے ہوۓ ان کے جڑے ہوۓ ہاتھ کھولے۔۔۔۔

"مجھے معاف کردو بیٹا۔،مجھے معاف کردو"۔۔۔۔

"میں نے آپکو مع۔۔۔معاف کیا"۔۔۔۔۔

حنا کہ کہنے پہ جہاں حازم کہ چہرے پہ مسکان ابھری تھی،وہیں وہ خود بھی پرسکون ہوگئ تھی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کہاں تھے تم،کتنی دیر سے آۓ ہو،میں کب سے تمہارا انتظار کررہی تھی"۔۔۔حنا نے حازم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس پہ سوالات کی بوچھاڑ کردی۔۔۔

مگر وہ سنی ان سنی کر کہ وارڈروب کی جانب بڑھ گیا جس پہ حنا غصے سے بیچ و تاب کھاتی اس کہ سامنے جا کہ کھڑی ہوگئ۔۔۔

گیلانی صاحب کو گھر آۓ پندرہ روز بیت چکے تھے۔اس دن سے گیلانی ہاؤس میں سب کچھ معمول پہ آگیا تھا۔۔

بظاہر حنا سب کے ساتھ نارمل تھی،مگر وہ گھلی ملی نہیں تھی،یا شاید وہ چاہ کہ بھی ان سے گھل مل نہیں سکتی۔۔۔

اور ان پندرہ دنوں میں حازم نے اس سے مکمل لاتعلقی برتی ہوئ تھی۔۔۔وہ صبح جلدی گھر سے نکلتا اور رات دیر سے گھر آتا۔۔اور اگر کسی دن جلدی گھر آجاتا تو اپنا پورا وقت گیلانی صاحب کے ساتھ گزاردیتا۔۔۔

"کچھ پوچھ رہی ہوں یار حازم"۔۔۔۔حنا اسکا بازو پکڑ کہ اسے اپنی طرف موڑتے ہوۓ بولی۔۔۔

"سن لیا ہے بابا کے پاس تھا"۔۔۔۔۔

وہ اپنا بازو اس کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوۓ بولا اور واشروم کی جانب قدم بڑھانے ہی لگا تھا کہ حنا بڑبڑاہٹ سن کہ رکا۔۔۔

"بس بابا یا آفس اور کوئ نہیں،یہ بھی خیال نہیں کہ بیوی انتظار کرتی ہے"۔۔۔۔۔

اس کی بڑبڑاہٹ سن کہ حازم نے کپڑے بیڈ کی طرف اچھالے اور اس کا بازو پکڑ کہ اسے وارڈروب سے لگایا، جبکہ خود وہ اس کہ بلکل سامنے کھڑا تھا۔۔۔حنا ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔۔

"کیوں انتظار کررہی تھیں میرا"۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا

حازم جانتا تھا وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے گی

"ہمم بتاؤ نہ اب"۔۔۔۔

حنا کی خاموشی پہ وہ دوبارہ بولا

"مم۔۔میں کب تمہارا انتظار کررہی تھی،اپنی طرف سے نہ بناؤ"۔۔۔۔

حنا نے خود کو نارمل کرتے ہوۓ کہا۔۔۔وہ سمجھ نہیں سکی وہ کیا جواب دے،وہ کیوں اسکا انتظار کرتی تھی۔،کیوں اب اسکا نظرانداز کرنا کھل رہا تھا اسے۔۔۔۔

"پکّا نہ۔۔؟"۔۔۔۔حازم نے یقین دہانی چاہی۔۔

"ہوں۔۔ہاں ہاں"۔۔۔۔وہ زور زور سے سرہلا کہ بولی تو حازم سرہلاتے ہوۓ پیچھے ہوا اور اپنے کپڑے اٹھا کر واشروم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

وہ وہیں وارڈروب کے پاس کھڑی تھی جب حازم چینج کر کہ باہر آیا۔۔۔اور اس پہ ایک نظر ڈالے بغیر اپنی جگہ پہ جاکہ لیٹ گیا۔۔

حنا کی آنکھیں پل میں نم ہوئ تھیں۔۔اپنی ذات کی نفی پہ اسے جی بھر کہ رونا آیا تھا۔۔مگر وہ یہ ڈیزرو کرتی تھی۔۔جیسے بغیر غلطی کہ اسنے حازم کو سزا دی تھی تو اب اسکی سزا تو بنتی ہی تھی۔۔۔

حنا آنکھوں میں آئ نمی کو واپس دھکیلتی حازم کی دوسری طرف پشت کر کہ لیٹ گئ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کچھ لو نہ حنا"۔۔۔۔

وہ سب لان میں بیٹھے اس وقت چاۓ پی رہے تھے۔،چاۓ پینے کے ساتھ ساتھ کباب و نگٹس سے بھی لطف و اندوز ہورہے تھے

مگر حنا صرف چاۓ کا کپ ہاتھ میں تھامے بیٹھی تھی۔۔

جس پہ فائزہ بیگم نے اس کہ سامنے کباب کی پلیٹ کی۔۔۔

"نہیں یہ کافی ہے"۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرا کہ بولی۔۔

"کیا ہورہا ہے"۔۔۔۔۔تبھی حازم ایک ہاتھ میں آفس بیگ اٹھاۓ اور یک ہاتھ میں کوٹ اٹھاۓ وہاں آیا۔۔۔۔وہ آفس سے آرہا تھا۔۔

"آؤ بیٹھو نہ"۔۔۔۔آئمہ نے اسے جگہ دی۔۔۔

"کتنا کھاتی ہو تم فارمی چوزے کی طرح"۔۔۔۔۔حازم آئمہ کی پلیٹ سے فارک کی مدد سے کباب کا پیس اٹھاتے ہوۓ بولا

اس کے فارمی چوزا کہنے پہ آئمہ نے پلیٹ واپس کھینچ کہ اس کہ بازو پہ زور سے اپنی کہنی ماری۔۔ پھر وہ سب ہنسنے لگے

حنا جو اس سب سے لاتعلق بنی بیٹھی تھی۔تبھی اسکا فون بجا تھا۔

اسنے چونک کہ آگے کو جھک کہ موبائل اٹھایا ابریز کی کال تھی۔وہ ایکسکیوز کرتی وہاں سے اٹھ گئ۔۔

اس سب میں حازم نے نوٹ کیا اسنے ایک نظر تک حازم پہ نہیں ڈالی تھی۔۔۔

"میں زرا تمہارے بابا کو دیکھ لوں"۔۔۔۔

"کیوں خفا ہے تمہاری بیوی"۔۔۔۔۔ فائزہ بیگم کے جاتے ہی آئمہ بولی۔۔

"نہیں توووووو"۔۔۔۔۔حازم نے آنکھیں گھماتے ہوۓ کہا اور حنا کا چھوڑا ہوا آدھا چاۓ کا کپ اٹھالیا۔۔

"کیا نہیں تووووو۔،وہ خوش ہوتی ہے نہ تو اس کہ چہرے سے پتہ لگ جاتا ہے"۔۔۔۔۔

"اچھا بڑے چہرے پڑھے جارہے ہیں،تو بتاؤ میرے چہرے سے کیا پتہ لگ رہا ہے"۔۔۔۔۔۔

حازم بات بدلنے کیلیۓ اپنا چہرے عین آئمہ کہ چہرے کے سامنے کرتا ہوا شرارت سے بولا۔۔۔

آئمہ ایک پل اسے دیکھتی رہی،پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکہ اس کہ چہرے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھے۔۔

"بولو بھی"۔۔۔۔۔آئمہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی جب حازم نے اس کہ سامنے چٹکی بجائ۔۔

"تمہیں اپنی بیوی کہ یہاں سے اٹھ جانے کا افسوس ہے"۔۔۔۔۔آئمہ چونک کہ سیدھی ہوئ پھر ہنستے ہوۓ بولی تو حازم بھی ہنس پڑا۔۔۔

ان دونوں کو یوں دیکھ کر اس طرف آتی حنا ان سے کچھ فاصلے پہ ہی رک گئ تھی۔۔۔

وہ صاف دیکھ سکتی تھی ان دونوں کی مسکراہٹوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔۔۔حازم کھل کہ مسکرایا تھا۔۔اور آئمہ پھیکا مسکرائ تھی۔۔

وہ گہرا سانس ہوا کہ سپرد کر کہ قدم قدم بڑھاتی وہاں آئ۔۔

"کہیں جارہی ہو"۔۔۔۔۔اس کہ ہاتھ میں بیگ دیکھ کہ آئمہ نے پوچھا

"ہاں کچھ کام ہے"۔۔۔۔۔حنا نے سرہلا کہ کہا

حازم خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔

"میں بھی چلوں"۔۔۔

"تم نے کیا کرنا ہے جاکر"۔۔۔۔۔

آئمہ کہ پوچھنے پہ حنا کہ بجاۓ حازم بولا

"ہاں تم کیا کروگی چل کر،تم اس کہ ساتھ انجواۓ کرو اگر آج غلطی سے جلدی گھر آگیا ہے تو،پھر اسنے آدھی رات تک اپنے بابا کو بھی ٹائم دینا ہوگا نہ کچھ ٹائم تم لے لو"۔۔۔۔

حنا نے حازم کو مکمل نظرانداز کرتے ہوۓ کہا جبکہ اس کے طنز پہ حازم کو ہنسی آئ جسے وہ بروقت ضبط کرگیا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بیٹا حازم کو بھی لے آتی"۔۔۔۔حنا حبہ بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئ تھی۔۔۔حبہ بیگم کہ کہنے پہ تپ کہ اٹھی۔۔۔

"آپ کو مجھ سے نہیں ملنا تھا تو بھائ کو بول کہ ڈائریک اسی کو بلوا لیتیں نہ"۔۔۔۔۔

"ارے میں نے تو ویسے ہی کہہ دیا اگر حازم بھی آجاتا تو۔۔۔۔"

"تو کیا ما۔۔،حازم کیسا ہے،حازم کیوں نہیں آیا۔،حازم کیا کررہا تھا،حازم کو بھی لے آتی حازم یہ،حازم وہ،نہیں مطلب میں ہی بیٹی ہوں نہ آپکی"۔۔۔۔۔۔

وہ غصے سے بھری بیٹھی تھی اتنے دن کی فرسٹریشن ایسے نکل رہی تھی۔۔۔

"کیا ہوگیا حنا،اتنا کیا بھڑک رہی ہو"۔۔۔۔۔

حنا کی زور دار آواز پہ ابریز بھی آگیا تھا۔۔۔

"کچھ نہیں ہوا،ڈیزی کہاں ہے؟"۔۔۔۔وہ سرجھٹک کہ بولی۔۔

"سورہی ہے"۔۔۔۔حبہ بیگم نے بتایا۔۔۔تو وہ سرہلاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ۔۔۔

"اسے کیا ہوا ہے"۔۔۔۔حنا کے جاتے ہی حنا بیگم ابریز سے بولیں

"پتہ نہیں"۔۔۔۔وہ کندھے اچکا گیا۔۔

"تم پوچھو نہ"۔۔۔۔وہ فکرمند تھیں

"مما کچھ ہوگا تو وہ خود بتادیگی،آپ پریشان نہ ہوں"۔۔۔وہ انہیں اپنے ساتھ لگاکے بہلاتے ہوۓ بولا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کہاں سے آرہی ہو"۔۔۔۔

حنا رات کا کھانا کھا کہ اپنے گھر سے نکلی تھی اور جس وقت وہ گھر پہنچی گھڑی 11 کا ہندسہ بجا رہی تھی۔۔

وہ کمرے میں داخل ہوئ تو حازم ٹہل رہا تھا۔۔اسے دیکھ کہ غصے سے پوچھا

"کیوں تم میرا انتظار کررہے تھے کیا"۔۔۔۔۔

وہ دونوں بازو سینے پہ باندھتے ہوۓ بولی

"میں نے کیا پوچھا ہے حنا اسکا جواب دو"۔۔۔۔

اسنے دوبارہ پوچھا

"کیوں کوئ کام تھا کیا"۔۔۔وہ مسلسل اسے غصہ دلارہی تھی۔۔

"مرو یہیں پہ آج کہ بعد گھر سے نکلی تو ٹانگیں توڑ دونگا تمہاری"۔۔۔وہ غصے سے اسے بیڈ پہ دھکا دیتے ہوۓ بولا۔۔

"تمہارا دماغ ٹھیک ہے نہ حازم،میں تمہاری امی کو بتا کہ گئ تھی کہ اپنے گھر جارہی ہوں،تمہیں اپنے گھر والوں کہ علاوہ کبھی نظر آیا بھی ہے کہ میرے بھی ماں بھائ ہیں،نہیں کیونکہ جتنا مرضی اچھائ کا دھکاوہ کرلو اپنے ماں باپ اپنے ہی ہوتے ہیں،دیکھتی ہوں کیسے روکتے ہو تم مجھے"۔۔۔۔

وہ چیخ کہ کہتی اسے سائیڈ پہ دھکا دے کا بال سمیٹتی وارڈروب سے کپڑے نکالنے لگی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ نہیں ہوسکتا۔،نہ قطعی نہیں"۔۔۔۔۔حازم اپنے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھا کہ بولا

"کیوں نہیں ہوسکتا"۔۔۔۔حنا نے پوچھا

"بس نہیں ہوسکتا نہ حنا"۔۔۔۔

"آخر میرے بھائ میں کیا مسئلہ ہے"۔۔۔۔حنا اب تپ رہی تھی

"یہی تو مسئلہ ہے"۔۔۔۔حازم بڑبڑایا

"کیا بولے"۔۔۔۔حنا سن نہ سکی۔

"کچھ نہیں"۔۔۔۔۔

"یار حازم مسئلہ کیا ہے،آئمہ اور بھائ ساتھ اچھے لگیں گے۔،سب راضی ہیں تمہیں کیا مسئلہ ہے"۔۔۔۔۔

"حنا رشتے زور زبردستی پہ نہیں بنتے،سب راضی ہیں تو کیا،ابریز اور آئمہ راضی نہیں ہونگے،جب وہ دونوں ہی راضی نہیں ہونگے تو زبردستی کر کے انکی زندگی کیوں عذاب بنانی ہے"۔۔۔

حنا کی بات پہ حازم نے اسے تسلّی سے سمجھانا چاہا

"یہ سب تم اپنی طرف سے فرض مت کرو،بھائ کی رضامندی پہ ہی امی نے آنٹی سے بات کی تھی،اور آئمہ نے روایتی بیٹیوں کی طرح 'جو آپکو ٹھیک لگے' وہ کہا ہے،اب بولو"۔۔۔۔

"آئمہ،مان گئ،ناممکن،وہ نہیں مان سکتی،ابریز اسکا آئیڈیئل نہیں ہے"۔۔۔۔۔حازم کچھ پل سوچنے کے بعد بولا

"اگر آئیڈیئل کی بات ہے تو،تو پھر تم سے ہی شادی ہوسکتی ہے اسکی"۔۔۔۔حنا نے گہرا سانس لے کہ کہا

"کیا بکواس ہے یہ"۔۔۔۔حازم نے غصے سے کہا جس پہ حنا کندھے اچکا کہ وہاں سے اٹھ گئ

اس سے بحث کرنا فضول تھا۔،وہ ان ضدی مردوں میں سے تھا جو خود سے جو کچھ فرض کرلیں بس وہی ٹھیک ہے۔،اور اب کافی وقت کے بعد ان دونوں کے درمیان چیزیں نارمل ہونا شروع ہوئیں تھیں۔،وہ پھر سے بگاڑنا نہیں چاہتی تھی۔،وہ اس سے نہیں کہہ سکی کہ اگر آئیڈئیل کے مطابق شادیاں ہوتیں تو اس دنیا میں شادیاں برباد نہ ہوتیں۔،اگر آئیڈئیل کے مطابق شادیاں ہوتیں تو آج حنا کی جگہ آئمہ ہوتی۔،اور حازم کی جگہ شاید کوئ اور۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ میں کیا سن رہا ہوں آئمہ"۔۔۔۔حازم اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ بولا وہ بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگاۓ زمین پہ تصویریں پھیلاۓ بیٹھی ہوئ تھی

"یہ تم کیا سن رہے ہو حازم"۔۔۔۔۔وہ اسی کی ٹون میں بولی تو حازم نے اسے گھورا۔۔۔

"مجھے کیا پتہ تمہارے کان ہیں تم نے سنا ہے تم بتاؤ"۔۔۔۔آئمہ اس کے گھورنے کا نوٹس لیۓ بغیر ہنستی ہوئ بولی

"تم نے ابریز کے رشتے کیلیۓ رضامندی دے دی ہے۔؟"۔۔۔

حازم نے پوچھا

"ہاں"۔۔۔۔آئمہ نے اثبات میں سرہلایا

"کیوں"۔۔۔۔۔حازم اس سے زرا سے فاصلے پہ بیٹھتے ہوۓ بولا

"اس کیوں کا جواب نہیں ہے میرے پاس"۔۔۔۔آئمہ ایک تصویر اٹھاتی ہوئ بولی

"آئمہ تم سیدھی طرح بات کرو مجھ سے"۔۔۔۔

وہ اس کو بازو سے پکڑ کے اپنی جانب موڑتے ہوۓ بولا

"حازم پہلے تم مجھے یہ بتاؤ،تمہیں کیا مسئلہ ہے اگر میری شادی وہاں ہوتی ہے تو"۔۔۔۔۔آئمہ اپنا بازو جھٹک کہ بولی

"مجھے اس سے نہیں مسئلہ۔،مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ تمہاری کیا مرضی ہے،بس تم جو کہو گی وہی ہوگا،باقی کوئ فرق نہیں پڑتا"۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا

"حازم میں بتاچکی ہوں مرضی،جو سب کہیں گے وہی ہوگا۔،اور رہی بات دوسروں کی تو اس بات کا خیال رکھو کہ اب تم شادی شدہ ہو،رشتوں کو ساتھ لے کے چلنا سیکھو،تم جس کی بات کررہے ہو تمہاری بیوی کا بھائ ہے،ہاں مجھے پتہ ہے تم بھلے کیلیۓ سوچ رہے ہو مگر بات دوسرے طریقے سے بھی ہوسکتی ہے"۔۔۔۔۔

"تم کہہ رہی ہو میں رشتوں کو ساتھ لے کہ نہیں چل رہا۔؟"۔۔

حازم نے منہ بناتے ہوۓ پوچھا

"ہاں تم نہیں کررہے،جب سے شادی ہوئ تم ایک دفعہ بھی اپنے سسرال نہیں گۓ،حنا نے تمہیں کہا بھی نہیں ہوگا،کیونکہ رشتے احساس کے ہوتے ہیں حازم زبردستی کے نہیں،ایک وقت تک تم اپنے بابا سے بات تک نہیں کرتے تھے،اب تم آدھے سے زیادہ دن ان کے ساتھ ہوتے ہو کیونکہ تمہیں انکا احساس ہے اب صرف اسلیۓ"۔۔۔۔

"یہ سب حنا نے تم سے کہا ہے"۔۔۔۔۔وہ وہی باتیں بول رہی تھی جو حنا نے کہی تھیں،وہ یہی اخذ کرسکا۔۔۔

"میں بچی ہوں کیا،مجھے نظر نہیں آتا کچھ،وہ کیوں کچھ بولے گی"۔۔۔۔آئمہ کا دل چاہا وہ اپنا سر پیٹ لے

"ہوں۔۔۔اچھا،جیسے تمہاری مرضی"۔۔۔۔۔وہ سرجھٹک کہ کہتا ہوا اٹھ گیا۔۔

"اب تم مجھ سے کچھ شیئر نہیں کرتی"۔۔۔۔وہ جاتے جاتے پلٹا

"شیئر کرنے کیلیۓ کچھ ہے نہیں نہ اسلیۓ"۔۔۔۔۔آئمہ مسکرا کہ بولی

"تم بدل گئ ہو بہت"۔۔۔

"شاید"۔۔۔۔آئمہ نے کندھے اچکاۓ

"بہت بری ہو تم"۔۔۔۔۔حازم کے منہ بسور کے کہنے پہ آئمہ نے ہنسی ضبط کر کہ کہا

"سیم ٹو یو"۔۔۔۔جس پہ حازم وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔آئمہ کی نظروں نے تب تک اسکا پیچھا کیا جب تک اسکا سایہ تک وہاں سے ہٹ نہ گیا۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یار حنا میرا لیپ ٹاپ تو دینا"۔۔۔۔حا‍زم کی آواز پہ وہ جو ڈریسنگ ٹیبل سے چیزیں سمیٹ رہی تھی چونک کہ مڑی۔

اسکا چونکنا حازم نے بھی نوٹس کیا

عموما تو وہ کمرے میں آتا نہیں تھا جلدی،اور اگر کبھی آبھی جاتا تو اسکو بلاتا نہیں تھا۔،مگر آج وہ جلدی آگیا تھا۔،اور اب اسے بلا بھی رہا تھا۔۔۔یہ تبدیلی دیکھ کہ حنا من ہی من بڑبڑائ

"ارادے نیک نہیں لگ رہے جناب کے"۔۔۔۔۔

پھر لیپ ٹاپ اسے تھما کہ دوبارہ ڈریسنگ کی جانب بڑھی

دو سیکنڈ گزرے حازم پھر سے بولا

"حنا اس کا چارجر بھی دینا"۔۔۔۔حنا نے شیشے میں سے غصے سے اسکی جانب دیکھا۔۔۔۔مگر وہ لیپ ٹاپ پہ انگلیاں چلانے میں مصروف تھا۔۔حنا نے چارجر لے جا کہ بیڈ پہ رکھ دیا۔۔۔

وہ جانے کیلیۓ پلٹی۔۔،وہ پھر بولا

"چارجر لگا بھی تو دو"۔۔۔حنا نے ضبط کا گھونٹ پی کہ چارجر لگایا۔۔

"اور کچھ"۔۔۔۔۔وہ چارجر لگا کہ پلٹی

"نہیں بس"۔۔۔حازم نے مسکرا کے اس کی جانب دیکھا

وہ سرہلا کہ وارڈروب کی جانب بڑھی تبھی حازم نے پھر کہا

"اچھا وہ حنا۔۔۔"

ابھی اسکی بات مکمل ہوتی کہ حنا بیچ میں تڑخ کہ بولی

"مرگئ حنا"۔۔۔۔۔

اسکی بات پہ حازم کو ہنسی آئ وہ ہنستا ہوا اٹھ کہ چلتا ہوا اس تک آیا۔۔

پھر بازو سے پکڑ کہ اسے اپنے قریب کیا

"ایسے کیسے مرگئ،ابھی تو حنا نے جینا ہے میرے ساتھ"۔۔۔

اس کی بات پہ حنا جو غصے میں تھی حیرانی سے اسکی جانب دیکھنے لگی۔۔

اسکو حیرانی سے خود کو تکتا پاکر حازم نے حنا کے چہرے پہ آتی بالوں کی لٹوں کو کان کہ پیچھے کرتے ہوۓ سرہلایا

جیسے اسے اپنے ساتھ کا یقین دلایا ہو۔۔

"تمہیں بخار ہے کیا"۔۔۔۔وہ سوچتے ہوۓ بولی۔۔حازم ہنسا

"ہاں محبت کا بخار"۔۔۔حازم کے کہنے پہ حنا نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں۔۔اسے امید نہیں تھی وہ ایسے کہے گا۔۔۔

"سوری"۔۔۔۔حازم نے اپنے ہاتھوں کا پیالہ بنا کہ اسکا چہرہ تھاما

"کس لیۓ"۔۔۔۔۔

"ہر چیز کیلیۓ،میں دل سے شرمندہ ہوں،آئ ایم ریئلی سوری پلیز مجھے معاف کردو"۔۔۔۔۔حنا نے نظریں اٹھا کہ اسے دیکھا اسکی آنکھوں میں شرمندگی واضح تھی۔۔

"اٹس اوکے"۔۔۔۔وہ مسکرا کہ بولی جس پہ حازم نے پرسکون ہو کہ اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی جوڑدی

"آئ لو یو"۔۔۔۔۔اور اس کے اس حسین اظہار پہ وہ کھلکھلا کہ ہنس دی۔۔

آگے کا سفر یقینی طور پہ اس اظہار کی طرح حسین ہونے والا تھا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭~۔۔چار سال بعد۔۔~٭٭٭


"حائم تنگ نہیں کرو بابا کے پاس جاؤ اپنے اٹھاؤ انہیں کب سے سورہے ہیں"۔۔۔۔۔۔حنا سلاد کاٹتے ہوۓ بولی

"بابا نہیں اٹھ رہے وہ کہہ رہے ہیں مما کے پاس جاؤ،آپ کہہ رہی ہیں بابا کے پاس جاؤ،میں بیچارا جاؤں تو جاؤں کہاں"۔۔۔

تین سالہ حائم معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کہ بولا

حنا نے سب کام چھوڑ کہ ایک نظر اس بیچارے کو دیکھا

"جا کہ دادو کے پاس بیٹھو ابھی راحمہ لوگ آجائیں گے"۔۔۔۔۔

حنا نے کھیرا اس کہ ہاتھ میں تھمایا تو وہ سرہلا کہ کچن سے نکل گیا۔۔

کچھ دیر بعد حنا سارے کام سمیٹ کہ چینج کرنے کیلیۓ کمرے میں گئ تو حازم تب بھی مزے سے گہری نیند سو رہا تھا۔۔

"حازم۔۔،حازم اٹھو بھائ آنے والے ہونگے"۔۔۔۔۔وہ اسکا بازو ہلاتی ہوئ بولی

"ہوں۔۔۔دس منٹ"۔۔۔۔حازم کہہ کہ کروٹ بدل گیا

"کوئ دس منٹ نہیں اٹھو فورا"۔۔۔۔۔حنا نے اسکا بازو پکڑ کہ کھینچا۔۔۔

"بس خوش"۔۔۔وہ تنگ آ کہ اٹھ بیٹھا

"ہاں اب جا کہ فریش ہوجاؤ"۔۔۔۔۔

"ہم تو آپ کو دیکھ کہ ہی فریش ہوگۓ"۔۔۔۔حازم مزے سے ایک ہاتھ اپنے دل پہ رکھتا ہوا بولا

جس پہ حنا نے ہنستے ہوۓ اسے تکیہ کھینچ کہ مارا۔۔۔

حازم بھی ہنستے ہوۓ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

"حائم کہاں ہے"۔۔۔۔

"اپنی دادو کے پاس"۔۔۔۔حنا بیڈ کور درست کرتے ہوۓ بولی

حازم نے پہلے تو اسکی بات پہ سرہلایا پھر کچھ سوچتے ہوۓ صوفے پہ پڑا کشن اٹھا کہ اسے کھینچ کہ مارا جس سے پہلے حنا جوابی کارروائ کرتی وہ باتھ روم میں گھس گیا۔۔

"باہر آؤ پھر بتاتی ہوں"۔۔۔۔۔حنا چلاّئ

"میں نہیں آؤنگا"۔۔۔۔۔حازم نے دروازے سے زرا سا سر نکال کہ کہا ابھی حنا اسکا نشانہ لیتی اسنے جلدی سے دروازہ بند کرلیا۔۔

جس پہ حنا نے بےساختہ قہقہہ لگایا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"راحمہ جلدی کرو آپکے بابا آنے والے ہونگے،نہیں تو میں انکو آپکو شکایت لگاؤں گی"۔۔۔۔آئمہ دو سال کی راحمہ کو ڈپٹتے ہوۓ کپڑے پہنا رہی تھی

"ماما جے نی جے چب را ہے(یہ نہیں یہ چبھ رہا ہے)"

"کوئ نہیں چبھ رہا،سکون سے بیٹھو"۔۔۔۔آئمہ نے اس کے ڈرامے پہ مسکراہٹ ضبط کی۔۔۔

"ایک تو آپکے بابا پتہ نہیں کہاں رہ گۓ ہیں"۔۔۔۔وہ جھک کہ راحمہ کو پیار کرنے کہ بعد اپنا موبائل ابریز کو کال ملانے کی غرض سے اٹھاتے ہوۓ بولی

تبھی کسی نے پیچھے سے اسکی آنکھوں پہ ہاتھ رکھا تھا

آئمہ مسکرادی۔،وہ جانتی تھی کون ہوگا

"ابریز"۔۔۔۔

"جی میری جان"۔۔۔۔۔وہ ہر بار کی طرح اس کے پہچان لینے پہ ہنسا

"کہاں رہ گۓ تھے"۔۔۔۔آئمہ اسکے ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹا کہ اسکی جانب پلٹی۔

"اس میں دیر لگی قسم سے"۔۔۔۔ابریز نے فریش گلاب کا بکے اس کے سامنے کیا جسے دیکھ کہ وہ کھل کہ مسکرائ

"میلے لیۓ نی لاۓ،(میرے لیۓ نہیں لاۓ)"۔۔۔راحمہ منہ بسور کہ بولی تو وہ دونوں ہنس پڑے۔۔

"یہ میں آپ کیلیۓ ہی لایا ہوں نہ"۔۔۔۔ابریز نے ہنستے ہوۓ اسکا گال چوما۔راحمہ نے کھلکھلاتے ہوۓ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں وہ بکے تھاما۔۔

"چلو بیگم تیار ہوجاؤ اب ورنہ لیٹ ہوجائیں گے تمہاری وجہ سے"۔۔۔ان دونوں کو دیکھ کہ آئمہ کھڑی مسکرا رہی تھی تبھی ابریز نے کہا

"ہم آل ریڈی لیٹ ہیں وہ بھی صرف آپکی وجہ سے۔،ہے نہ راحمہ" ۔۔۔۔۔۔آئمہ نے کہا

"نی نی۔،(نہیں نہیں)۔۔۔۔راحمہ نے زور و شور سے سر نفی میں ہلایا جس پہ ابریز اور آئمہ کا قہقہہ گونجا تھا۔۔

"اب جاؤ جلدی"۔۔۔۔ابریز کہ کہنے پہ وہ سر ہلاتی جلدی سے وارڈروب کی طرف بڑھ گئ۔۔

آج رات ان لوگوں کا ڈنر حازم لوگوں کی طرف تھا۔،ہر اتوار کا یہ معمول تھا۔،ایک اتوار حازم لوگ آتے تھے اور ایک اتوار یہ لوگ جاتے تھے۔

وہ بہت خوش تھی اپنی زندگی میں ایک چاہنے والا شوہر،پیاری سی بیٹی خوشیوں اور سکون سے بھرا ہوا گھر۔،بےشک خدا نے اسے بہترین سے نوازا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

<۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔>


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tarz E Muhabbat  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tarz E Muhabbat  written by Zumer Ali  .Tarz E Muhabbat  by Zumar Ali  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

No comments:

Post a Comment