Pages

Thursday 4 July 2024

Sun Saiyan Novel By Haram Shah Complete Romantic Urdu Novel

Sun Saiyan Novel By Haram Shah Complete Romantic Urdu Novel 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sun Saiyan By Harram Shah Complete Romantic Novel 

Novel Name: Sun Saiyan  

Writer Name: Haram Shah 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

یہ منظر بلوچستان کی تحصیل اوتھل کے گاؤں کا تھا جہاں خشک پتھریلے پہاڑوں سے دور کھلے میدان میں لگے ٹینٹ کے نیچے بہت سے لوگ جرگے کے دائرے میں سر جھکائے بیٹھے تھے، جبکہ دائرے کے گرد بہت سے آدمی بڑی بڑی بندوقیں پکڑے کھڑے تھے۔وہاں صرف ایک شخص کا سر اونچا تھا ،سردار میر داد عالم رند کا سر۔۔۔۔

وہ سرخ و سفید رنگت ، گھنی مونچھوں نارمل سی داڑھی انتہائی سخت ،سنجیدہ

اور خوبرو نقوش کے ساتھ وجاہت اور رعب کی مورت بنا سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔اسکے لمبے قد اور کسرتی وجود کو اسکی سفید شلوار قمیض اور دستار چھپانے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے۔

وہ ایسا شخص تھا جس سے ہر کوئی ڈرتا تھا یہاں تک کہ پاس بیٹھے چچا اور دادا میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ میر داد رند کی کوئی بات ٹال دیں۔اسی لیے باقی لوگوں کی طرح وہ بھی سر جھکائے سردار میر داد رند کا فیصلہ سننے کے انتظار میں تھے جبکہ میر داد کے ساتھ اسکا چھوٹا بھائی شاہ داد بیٹھا ہر چیز کو بے زاری سے دیکھ رہا تھا۔

ایک آدمی اس دائرے کے درمیان میں سر جھکائے گاؤں کے سردار کے سامنے کھڑا تھا۔

"انہوں نے امارا بیٹی کو مار دیا واجہ ابھی چند مہینہ پہلے ای تو ام  نے بیاہ کے بھیجا تھا اسے ۔۔۔۔۔۔ من لوٹگ انصاف واجہ  ۔۔۔۔(مجھے انصاف چاہیے جناب)"

اتنا کہہ کر وہ شخص دھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگا اسکی بات پر جہاں تیس سالہ سردار کی آنکھوں میں وحشت اتری تھی وہیں اسکے ساتھ بیٹھے چھوٹے بھائی شاہ داد نے اپنی آنکھیں گھمائیں جیسے اس سب سے اکتا رہا ہو۔

" باسط علی جواب دو اسکا۔۔ "

میر داد رند کی انتہائی رعب دار آواز پر وہ بوڑھا شخص جلدی سے واپس بیٹھ گیا اور اسکی جگہ ایک ستائیس سالہ مرد سر جھکائے کھڑا ہوا ۔

" ام نے اسے نہیں مارا سردار واجہ وہ تو امارا بیوی تھا بس تھوڑا غصہ آیا تو اسے دھکا دے دیا۔۔۔۔۔امیں نہیں پتہ تھا کہ میز سے لگ کر اسکا سر پھٹ جائے گا اور وہ مر جائے گا امیں نہیں پتہ تھا۔۔۔۔"

باسط علی کی اس بات پر میر داد نے اپنی مٹھیاں کس لیں اس آدمی کی اتنی جرات کہ وہ میر داد عالم رند کے سامنے کھڑا ہو کر جھوٹ بول رہا تھا۔حالانکہ میر داد کو بتایا گیا تھا کہ اس لڑکی کے مرنے کے بعد اسکے چہرے پر تھپڑوں اور جسم پر تشدد کے کئی نشان پائے گئے تھے۔۔۔ 

"اور وہ۔۔۔۔۔"

باسط کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی میر داد نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روکا یہ دیکھ کر شاہ داد مسکرایا اب کچھ دلچسپ ہونے والا تھا۔

"مجھے جتنا سننا تھا میں سن چکا ہوں اب فیصلہ سنانے کا وقت ہے ۔۔۔۔"

میر داد کی اس بات پر سب لوگ حیران ہوئے بھلا صرف اتنا سا موقف سن کر میر داد کیونکر کوئی فیصلہ لے سکتا تھا۔

"باسط علی تم نے اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بنایا جسکی وجہ سے اسکی موت واقع ہوئی اس لحاظ سے تم اسکے قاتل ہو اور میں سردار میر داد عالم رند تمہیں اس جرم کے لیے اس گاؤں سے ہی نہیں بلکہ تمہاری پوری جائیداد  سے تمہیں بے دخل کرتا ہوں اب سے تمہارا یہاں کچھ نہیں۔۔۔۔"

میر داد کے اس فیصلے پر سب لوگوں کے منہ حیرت سے کھل گئے تھے لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ سردار میر داد کے کیے فیصلے پر سوال اٹھا سکے۔۔۔۔

اپنا فیصلہ سنا کر میر داد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تو باقی سب لوگ بھی اسکے پیش قدم ہاتھ باندھ کر اٹھ کھڑے ہوئے میر داد اپنا  ہاتھ شاہ داد کے کندھے پر رکھ کر وہاں سے جانے کے لیے مڑا۔۔۔۔

"یہ غلط ہے ام اس فیصلے کو نہیں مانتا۔۔۔"

باسط کی بات پر جہاں میر داد کے چلتے قدم رکے تھے وہیں سب باقی سب مردوں نے گھبراہٹ سے ایک دوسرے کو دیکھا۔وہ جانتے تھے کہ باسط بہت بڑی غلطی کر چکا ہے۔شاہ داد نے تو آگے ہو کر اسے گریبان سے پکڑ لیا۔

"تیری اتنی جرات۔۔۔۔"

"نہیں شاہ۔۔۔۔"

میر داد کے منع کرنے پر شاہ داد باسط کو ایک جھٹکے سے چھوڑ کر دوبارہ اپنے بھائی کے پاس آیا۔

"تم میرے فیصلے پر سوال اٹھا رہے ہو۔۔۔؟؟

میر داد کے اس سوال پر ایک ہلکا سا شور برپا ہوا جو میر داد کی نظروں کے اشارے پر ہی خاموشی میں تبدیل ہو گیا۔

"ہہہ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔"

باسط نے بہت سوچنے کے بعد جواب دیا جبکہ اسکا جواب سن کر میر داد نے مسکراتے ہوئے اپنی گھنی مونچھوں کو بائیں ہاتھ کی انگلی سے چھوا اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا شاہ داد نے بھی اس شخص کو گھورتے ہوئے ایسا ہی کیا۔

"تو ٹھیک ہے پھر تمہاری سزا بدلی جاتی ہے ۔۔۔۔"

سب لوگوں نے حیرت سے میر داد کو دیکھا بھلا وہ پتھر انسان کس طرح کسی کے عتراض پر اپنا فیصلہ بدل سکتا تھا؟

"اب تمہیں اس گناہ کی وہی سزا ملے گی جو سزا ایک قاتل کو دینے کے لیے ہمارا دین ،ہمارا قانون ہمیں کہتا ہے۔باسط علی میں سردار میر داد رند تمہیں تمہاری بیوی کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سناتا ہوں کل صبح ہوتے ہی تمہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔۔۔۔"

میر داد کے اس فیصلے پر نہ صرف گاؤں والوں بلکہ میر داد کے چچا کلیم رند اور دادا شاہ میر رند نے بھی حیرت سے اسے دیکھا۔چچا نے تو اسے کچھ کہنا بھی چاہا تھا لیکن دادا کے خاموش رہنے کے اشارے پر اپنے ہونٹ بھینچ کر رہ گئے۔

"سردار میر۔۔۔۔"

"بس فیصلہ ہو چکا ہے اور میرے اس فیصلے کو کوئی طوفان بھی پلٹ نہیں سکتا۔۔ "

میر داد نے گرجدار آواز میں باسط کی بات کو کاٹ کر اپنا فیصلہ سنایا۔اسکی آواز پر باسط کی روح تک کانپ گئی تھی جبکہ شاہ داد نے مسکرا کر اپنے بڑے بھائی کے کان میں سرگوشی کی۔

"واہ بھائی کیا شان ہے آپکی۔۔۔"

اس سے پہلے کے میر داد پھر سے اٹھ کر وہاں سے جاتا ایک بوڑھی عورت زارو قطار روتے ہوئے جرگے کے دائرے میں داخل ہوئی اور  میر داد کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھ کر اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔ میر داد کے آدمی اس عورت کو وہاں سے ہٹانے کے لیے آگے بڑھے کیونکہ جرگے میں عورت کو شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی لیکن میر داد کے اشارہ کرنے پر وہ آدمی واپس اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔

"مم۔۔۔۔معاف۔۔۔۔۔کر دو واجہ ۔۔۔۔۔امار بیٹے کو معاف کر دو۔۔۔۔ ام اسے دور لے جائے گا یہاں سے بہت بہت دور امیں کچھ نہیں چاہیے بس اسے معافی دے دو۔۔۔۔اتنی بڑی سزا نہ دو وہ امارا ایک ہی بیٹا ہے مجھ بوڑھی پر رحم کرو واجہ رحم کرو۔۔۔ "

اس بوڑھی عورت کی آہ و پکار کسی پتھر دل کو بھی پگھلا سکتی تھی لیکن اس وقت اس کے سامنے میر داد رند تھا جسکا صرف دل ہی نہیں پورا کا پورا وجود ہی پتھر کا مانا جاتا تھا وہ شخص اپنے بہن اور بھائی کے علاوہ کسی سے پیار نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔خود سے بھی نہیں۔

سب لوگوں نے بہت امید سے میر داد کو دیکھا کہ شاید وہ اس لڑکے کی غلطی معاف کر دے شاید ایک ماں کی فریاد پر اپنا فیصلہ بدل دے۔

"کل صبح فجر کے بعد ہی باسط علی کو موت کی سزا دی جائے گی ۔۔۔۔"

اپنی بات کہہ کر میر داد اٹھ کھڑا ہوا اور اسکے آدمیوں نے آگے بڑھ کر باسط کو اپنی حراست میں لے لیا۔ باسط کی ماں ایک آہ کے ساتھ میر داد کے قدموں میں گری۔ شاہ داد نے تو باقاعدہ اسے ناک چڑھا کر حقارت سے دیکھا۔

"رحم کرو ۔۔۔۔۔سردار واجہ رحم کرو۔۔۔۔۔"

لیکن میر داد اپنے پاؤں چھڑوا کر مڑ چکا تھا اور اس کے ایسا کرتے ہی ہر کوئی باسط کی ماں کو رحم کی نگاہ سے دیکھتا وہاں سے جانے لگا۔

"خدا سے ڈر میر داد عالم تو اتنا بھی بڑا نہیں ہے ایک پل میں تیرے اس غرور کو مٹی میں ملا دے گا امارا اللہ۔۔۔۔"

بوڑھی عورت کی اس بات پر میر داد کے ساتھ ساتھ ہر آدمی رک کر اس عورت کو دیکھنے لگا۔نا جانے میر داد اب اس بوڑھی جان پر کیا ظلم ڈھاتا؟

"فیصلہ ہو چکا ہے مائی مجھے انصاف کرنا تھا اور میں کر چکا ہوں بہتر ہے یہاں سے واپس چلی جا۔"

اتنا کہہ کر میر داد آگے بڑھ گیا۔

"انصاف۔۔۔۔انصاف۔۔۔۔کاش میر داد رند کبھی تیرا کوئی اپنا یہاں کھڑا ہو کوئی ایسا جس سے تجھے سب سے  زیادہ محبت  ہے اور تو اسے وہی سزا دے جو تو نے امارے بیٹے کو سنایا ۔۔۔۔اس دن تجھے انصاف کا مطلب پتہ چلے گا ۔۔۔۔۔یہ اماری بدعا ہے۔۔۔۔۔بدعا ہے۔۔۔۔"

بوڑھی عورت اتنا بول کر زار و قطار رونے لگی ہر کوئی اس عورت کو رحم کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا لیکن میر داد اس کو نظر انداز کرتا وہاں سے جانے لگا تو شاہ داد بھی اسکے ساتھ چل دیا۔

"جرگہ ختم ہوا بھائی میں نے وعدہ پورا کیا کہ آپکے ساتھ یہاں آؤں گا مگر پلیز اب میں جاؤں مراد کب سے انتظار کر رہا ہے۔"

شاہ داد نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے بے چینی سے پوچھا تو میر داد رکا اور اپنے چھوٹے بھائی کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے مسکرا کر دیکھا۔سارا گاؤں جانتا تھا کہ میر داد کی جان اسکے بھائی اور بہن میں تھی۔

"ہاں جاؤ لیکن اپنا خیال رکھنا اور شام تک حویلی واپس آ جانا۔"

"جی بھائی۔۔۔۔"

میر داد کے اجازت دیتے ہی شاہ داد اسکے گلے لگا اور جلدی سے اپنی کالی جیپ کی طرف بڑھ گیا۔

شاہ میر رند اپنے دونوں پوتوں کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے جب انکا چھوٹا بیٹا کلیم انکے پاس آیا۔

"یہ میر داد نے اچھا نہیں کیا اسے اتنا سخت فیصلہ نہیں لینا چاہیے تھا جرگے کے معاملات اس طرح سے نہیں چلتے۔"

شاہ میر رند نے گہرا سانس لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

"تم صحیح کہہ رہے ہو لیکن تم یہ بھی جانتے ہو میر داد کسی کی بھی نہیں سنتا اگر تم  اسے کچھ کہہ بھی دیتے تو اسکا کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا۔۔۔۔"

شاہ میر نے اپنے پوتے کو جاتے ہوئے دیکھ کر کہا جو چلتے ہوئے اپنے خاص آدمی زمان کی کوئی بات سن رہا تھا۔انکے یہ پوتے ہی تو انکا  کل جہان تھے انکا غرور۔

میر داد کے دادا شاہ میر خود تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اور ان کو خدا نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔عالم رند، کلیم رند اور منیرہ رند۔

سب سے بڑے بیٹے عالم رند اور اسکی بیوی سکینہ کے چار بچے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا میر داد ،اسکے بعد ماہ گل جو اب اس دنیا میں نہیں تھی، اس سے چھوٹا بیٹا شاہ داد اور سب سے چھوٹی اور لاڈلی حورم جو نہ کہ صرف اپنے بہن بھائیوں بلکہ پورے خاندان میں ہی سب سے چھوٹی تھی۔عالم اور سکینہ کی موت کے بعد میر داد نے اپنے بھائی بہن کو بہت زیادہ محبت سے ماں باپ بن کر پالا۔

اسکے بعد شاہ میر رند کا دوسرا بیٹا تھا کلیم رند جس کی بس دو ہی بیٹیاں تھیں کشمالہ اور خوش بخت۔ہاشم خان کی بہت بڑی خواہش تھی کہ انکا بھی ایک بیٹا ہوتا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

پھر شاہ میر کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں منیرہ جس نے گھر سے بھاگ کر ایک پٹھان سے شادی کی تھی اور کوئی اسکا ذکر بھی کرنا گوارہ نہیں کرتا تھا بلکہ وہ پورے گاؤں میں ایک دھبہ مانی جاتی۔

شاہ میر رند کے پوتے ہی انکا کل جہان تھے لیکن پھر بھی ان سب سے بڑھ کر وہ جہانزیب شاہ سے محبت کرتے تھے جو انکی منہ بولی بیٹی اور عالم کی منہ بولی بہن  آمنہ کا اکلوتا بیٹا تھا اور میر داد سے دو سال بڑا تھا۔

اگر اس دنیا میں میر داد کسی کی بات سن کر اسے اہمیت دیتا تھا تو وہ صرف اور صرف جہانزیب شاہ ہی تھا۔جہاں میر داد انتہائی سخت اود غصے کا تیز تھا وہیں اسکا سب سے بہترین دوست اور ساتھی جہانزیب شاہ انتہائی نرم دل اور سمجھدار انسان تھا جو اپنے ہر فیصلے اور ہر بات کو کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ اسے سوچتا۔

"بابا۔۔۔۔" 

کلیم کے بلانے پر شاہ میر رند اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئے۔

"ہاں تم کچھ کہہ رہے تھے؟"

شاہ میر رند کے سوال پر کلیم نے ہاں میں سر ہلایا۔

"میں آپ سے یہ پوچھ رہا تھا کہ جہانزیب کہاں ہے اگر وہ یہاں ہوتا تو میر داد کو اتنا سخت فیصلہ نہیں لینے دیتا۔"

شاہ میر رند نے ہاں میں سر ہلایا ۔

"ہاں وہ حور کو کالج سے لینے گیا ہے میر داد نے اس کی ذمہ داری حور کو کو لے کر آنے پر پر لگائی ہے تمہیں پتہ ہے وہ حور کے معاملے میں کتنا حساس ہے کسی اور پر اعتبار نہیں کرتا"

کلیم نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر وہ دونوں بھی انکے انتظار میں کھڑی گاڑی کی طرف چل دیے۔

                          💕💕💕

"خان بھائی ۔۔۔۔خان بھائی۔۔۔۔۔"

تبریز کے دروازہ کھولتے ہی ان کی ہمسائی نصرت اپنے انیس سال کے بیٹے کا ہاتھ تھام کر ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی چلانے لگی۔حیدر صاحب اندر سے باہر آئے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔

"کیا ہوا بہن؟"

حیدر صاحب نے پریشانی سے پوچھا۔

"بھائی صاحب دیکھیں اب کوئی اتنا بھی مارتا ہے کیا حال کر دیا میرے بیٹے کا ۔"

حیدر صاحب نے حیرت سے سامنے موجود لڑکے کو دیکھا جسکی شرٹ کالر سے پھٹی ہوئی تھی جبکہ چہرے پر تھپڑوں کے اور گلے پر ناخنوں کے نشان تھے۔

"اتنا زیادہ تو نہیں مارنا چاہیے لیکن یہ کیا

کس نے۔۔۔۔؟"

حیدر صاحب نے پریشانی سے پوچھا۔

"آپ کے گھر آئی ہوں تو ہمسائے کی شکایت لے کر تو نہیں آئی ہوں گی نا میرے بیٹے کو آپ کی ہی اکلوتی صاحبزادی پریسا خان عرف پری نے مارا ہے۔"

اس عورت کی بات پر حیدر صاحب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

" پری نے؟؟؟ مگر ۔۔۔۔۔پری بیٹا"

حیدر صاحب کے بلانے پر پریسا جلدی سے کمرے سے باہر آئی وہ کالے رنگ کے موتیوں والے شارٹ فراک اور کیپری میں ملبوس تھی جس میں اسکی سفید رنگت دمک رہی تھی۔بھورے کھلے بالوں پر دوپٹہ اوڑھے وہ نیلی آنکھوں والی پری بہت خوبصورت تھی۔

"جی بابا۔۔۔۔"

"پری تم نے اس لڑکے کو مارا۔۔۔؟"

حیدر صاحب نے حیرت سے اپنی چھوٹی سی لاڈلی کو دیکھتے ہوئے پوچھا جس میں لگتا تو نہیں تھا کہ اتنی طاقت تھی۔

"جی بابا مارا میں نے بازار سے آتے ہوئے راستے میں جانے والی ہر لڑکی کو چھیڑ رہا تھا یہ حال کیا ہے تا کہ آئیندہ خیال رکھے۔"

پریسا نے اس لڑکے کو گھورتے ہوئے کہا جب کہ لڑکا تو اس کی آنکھوں سے ڈر کر ہی اپنی ماں کے پیچھے چھپ رہا تھا۔اس سے پہلے کہ حیدر صاحب کچھ کہتے پری بول اٹھی۔

"بابا سوال یہ نہیں ہے کہ میں نے اسے کیوں مارا مزے کی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسے کیسے مارا؟آپ دونوں نہیں جانا چاہتے کہ میں نے اتنے بڑے لنگور کو کیسے مارا؟"

اتنا کہہ کر پریسا نے مسکرا کر اپنی قمیض کے دونوں بازو اوپر کیے اور اس لڑکے کے پاس جا کر اس کی کلائی پکڑ کر کمر کی طرف لے گئی۔

"پہلے میں نے اسکا بازو پکڑا اور پھر دو تھپڑ لگائے کھینچ کھینچ کر۔"

ڈیمو کے طور پر پریسا نے دو تھپڑ بھی لگا دیے۔حیدر صاحب اور ساتھ آئی عورت بھی اپنا بیٹا بھلائے پھیلی آنکھوں سے پریسا کی ہمت دیکھ رہی تھے۔

"پھر میں نے اسے اس کے گریبان سے پکڑا اور دوسرے ہاتھ کہ لمبے والے ناخن ایسے اس کی گردن پر مارے اور کہا کہ اب عقل نہ کی تو اگلی بار جوتے سے ماروں گی۔"

پریسا نے سارا منظر دیکھا کر اسے جھٹکے سے چھوڑا تو لڑکا روتے ہوئے اپنی ماں کے پیچھے چھپ گیا۔

"بس بھائی صاحب میں یہاں شکایت لگانے آئی تھی اپنے بیٹے کو مزید مار پڑوانے نہیں۔"

عورت کے منہ بنا کر کہنے پر پریسا نے بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا جبکہ حیدر صاحب نے شرمندگی سے انہیں دیکھا۔

"اس کی طرف سے معافی مانگتا ہوں بہن آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔"

"آپ کے بیٹی ہے اس لئے چھوڑ رہی ہوں چل بٹو۔۔۔۔لڑکی سے پٹ گیا۔۔۔۔"

اس عورت نے حیدر صاحب کو کہا اور پھر اپنے بیٹے کو دھکے دیتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اس کے جاتے ہی پریسا کھلکھلا کر ہنس دی۔

"واہ مزہ آ گیا۔۔۔"

"پری۔۔۔۔"

حیدر صاحب نے مصنوعی خفگی سے کہا تو پریسا نے ان کے پاس آکر انکے گال کھینچے ۔

"میرے پیارے بابا جان فکر نوٹ آپکی بیٹی بہت بہادر ہے ایسے لڑکوں کو سبق ملنا ہی چاہیے اور جیسا سبق ملا ہے نا دیکھنا جب بھی سڑک سے گزروں گی تو مجھے پری آپی کہہ کر بلائے گا۔آپ جانتے ہیں نا کہ پریسا حیدر خان سے نا انصافی برداشت نہیں ہوتی۔اس آنٹی کو شکایت بھی لگائی تھی انہوں نے کچھ نہیں کیا تو مجھے ہی اسکی ماں بننا پڑا۔۔۔"

پریسا نے اپنی چھوٹی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔

"اور اب اسے چھوڑیں اور جلدی سے تیار ہو جائیں دیر ہو رہی ہے اگر میں شادی پر نہیں پہنچی نا تو دھرنے پر بیٹھ جاؤں گی۔"

پریسا نے کھلکھلا کر کہتی ہوئی اندر چلی گئی تو حیدر صاحب نے مسکرا دیے۔دس سال سے وہ کراچی کے اس چھوٹے سے محلے میں کرائے کے مکان میں رہ رہے تھے۔

انکی اکلوتی بیٹی پریسا ہی تو انکا سب کچھ تھی جسے پندرہ سال سے بیوی کی وفات کے بعد وہ ماں اور باپ دونوں بن کر پال رہے تھے۔ پریسا میں تو ان کی جان بستی تھی۔وہ چاہے بہت تھوڑا کماتے تھے لیکن اپنی بیٹی کو تو انہوں نے شہزادی بنا کر رکھا ہوا تھا۔

"بابا آ بھی جائیں وہاں کھڑے دیکھ کر ہم اوتھل نہیں پہنچیں گے اگر ہم نہیں گئے نا تو ثمینہ مجھ سے ناراض ہو جائے گی اور میں آپ سے۔"

پریسا نے اندر سے آواز دے کر کہا تو حیدر صاحب مسکرا دیئے آج اس کی ضد پوری کرنے کے لیے ہی وہ اسے اس کی دوست کی شادی پر لے کر جا رہے تھے وہ بھی وہاں ہاں جہاں وہ خواب میں بھی نہیں جانا چاہتے تھے۔

گزرے ماضی کے بہت سے سائے حیدر صاحب کے چہرے سے ہو کر گزر گئے جنہیں ایک مسکان سے چھپا کر وہ پریسا کی طرف چل دیے۔ 

                        💕💕💕

ازمینہ بلوچ اس سنسان راستے پر چلتے ہوئے سکول سے واپس آ رہی تھی۔ویسے تو روز اسکے بابا اسے لینے آتے تھے لیکن شاید وہ آج کسی کام میں مصروف تھے جو آ نہیں سکے۔ویسے بھی ازمینہ کو اس طرح سے انکا بوجھ بننا پسند نہیں تھا۔وہ چار بہنیں تھیں جو اکیلے باپ کی زمیداری تھیں اور ازمینہ تو ایک بیٹا بن کر زمیداری کا وہ بوجھ کم کرنا چاہتی تھی۔ 

چونکہ دوپہر کا وقت تھا اور گرمی کی شدت کافی زیادہ تھی اس لیے ازمینہ کی چادر جب چہرے سے ہٹ گئی تو سنسان راستے کو دیکھتے ہوئے ازمینہ نے اپنا چہرہ کھلا ہی رہنے دیا۔

اچانک ایک کالے رنگ کی بڑی سی جیپ ازمینہ کے پاس سے گزری پہلے تو وہ کافی آگے چلی گئی لیکن پھر وہ جیپ ایک پل کو رکی اور پھر پیچھے کی طرف چلنے لگی۔یہ دیکھ کر ازمینہ نے فوراً اپنا چہرہ چادر کے پیچھے چھپایا تھا۔

گاڑی سے سردار کے بھائی شاہ داد عالم اور اسکے دوست مراد بلوچ کو نکلتا دیکھ ازمینہ کی جان ہوا ہوئی تھی شاہ داد کی بدتمیزیوں سے ہر کوئی واقف تھا سوائے اسکے سردار بھائی کہ کیونکہ اسکے خلاف جانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔

گندمی رنگت والا بائیس سالہ شاہ داد اپنی موچھوں کو تاؤ دیتا اسکی طرف بڑھا۔

"کہاں جا رہی ہو لڑکی دیکھو کتنی گرمی ہے تم گاڑی میں بیٹھو میں چھوڑ دیتا ہوں۔"

شاہ داد کی بات پر ازمینہ مزید گھبرا گئی اور اس نے سائیڈ سے گزرنے کی کوشش کی لیکن وہاں سے مراد نے اسکا راستہ روک دیا۔

"نن۔۔۔۔۔نہیں واجہ اا۔۔۔ام پیدل چلا جائے گا۔۔۔۔"

"ارے ارے ایسے کیسے تم اکیلے چلی جاؤ گی تم تو ہمارے گاؤں کی لڑکی ہو نا اور اپنے علاقے کے لوگوں کا خیال رکھنا تو سردار خاندان کا فرض ہے۔گاڑی میں بیٹھو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔"

اتنا کہہ کر شاہ داد نے اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا اور انتہائی گھٹیا انداز میں اسکا کندھا سہلانے لگا۔اب ازمینہ بلوچ کی بس ہو چکی تھی۔

چٹاخ۔۔۔۔

ازمینہ نے اپنی پوری طاقت سے ایک زور دار تھپڑ اس امیر وڈیرے کے منہ پر مارا تھا جسکی گونج سے شاہ داد اور مراد دونوں ایک پل کو حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔

"تیری اتنی جرات کہ تو نے شاہ داد عالم پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔"

شاہ داد آگے بڑھ کر ازمینہ کو بازو سے دبوچ کر چلایا۔اسکے اس طرح سے چلانے پر ازمینہ کا دل ایک بار بند ہوا تھا لیکن پھر ہمت کر کے اس نے ایک زور دار دھکا شاہ داد کو مارا اور وہاں سے بہت تیزی سے بھاگ گئی۔

"رک مراد۔۔۔۔"

مراد اسکے پیچھے جانے لگا تو شاہ داد نے اسے روکا۔

"مجھے یہ لڑکی چاہیے مراد وہ چاہیے اور پھر اس تھپڑ کی گونج وہ ساری زندگی نہیں بھولے گی۔"

شاہ داد نے اپنے غصے سے اپنی مٹھیاں کستے ہوئے کہا اور غصے سے جیپ میں بیٹھا۔مراد کے جیپ میں بیٹھتے ہی وہ تیز رفتاری سے جیپ کو بھگاتا شہر سے باہر سنسان پتھریلی چوٹیوں میں لے آیا۔ 

وہاں پہنچ کر شاہ داد نے جیپ کی پچھلی سیٹ پر پڑی شراب کی بوتلوں میں سے ایک اٹھا کر  اپنے ہونٹوں سے لگائی اور ایک ہی سانس میں ساری شراب پی کر دوسری بوتل اٹھا لی۔

"سالی۔۔۔۔کمینی ۔۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گا میں اسے مراد نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔"

شاہ داد سنسان جگہ پر غصے سے چلایا۔مراد جانتا تھا کہ اسکا دوست اپنے بھائی کے لاڈ میں بگڑ کر جنونی اور خطرناک ہو چکا تھا۔اگر اس دوستی کے پیچھے اسکا مقصد نہ ہوتا تو وہ اس جیسے شخص سے دور ہی رہتا۔

"شاہ تو نے نشے میں ہے، تو رہنے دیں میں ڈرائیو کرتا ہوں ۔"

شاہ داد کے پھر سے جیپ سٹارٹ کرنے پر مراد نے کہنے کی کوشش کی لیکن شاہ داد نے اسکی ایک نا سنی اور گاڑی واپس شہر کی طرف موڑ دی۔اس وقت غصہ اور نشا اس پر سوار تھا۔۔۔

گزر جائے گا یہ دور بھی غالب

ذرا اطمینان تو رکھ

خوشی نہ ٹھہری تو

غم کی کیا اوقت ہے


دیکھیں کتنی بڑی بات کہی ہے مرزا غالب۔۔۔"


کلاس میں مس مریم اردو کا لیکچر دے رہی تھیں جبکہ انکی ہر بات سے بے خبر اٹھارہ سالہ حورم اپنی کتاب پر جھکی کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔


حور جہان۔۔۔


سفید مخروطی انگلیوں نے کتاب پر بہت محبت سے لکھا تھا۔


جہان حور۔۔۔


یہ الفاظ لکھ کر گلابی لبوں کو ایک شرمیلی سی مسکان نے چھوا۔جبکہ انتہا کی خوبصورت بھوری آنکھوں میں ایک چمک سی آئی تھی۔


گوری رنگت اور نازک وجود کے ساتھ حورم سچ میں کوئی حور ہی لگتی تھی اس سب پر اسکے انتہائی خوبصورت نقوش اور کمر تک آتے گھنگریالے بال اسے انتہائی خوبصورت بناتے تھے۔ مگر سب سے جان لیوا تو اسکی ٹھوڈی پر چمکتا کالا تل تھا جیسے قدرت نے اسکے حسن کی نظر اتاری ہو اسکی دوست ہادیہ تو اسے جنت کی حور کہتی تھی۔


"حورم۔۔۔۔حورم۔۔۔ "


مس مریم کی آواز پر حورم نے ہڑبڑا کر اپنا سر اٹھایا اور اپنی بھوری آنکھوں کو بڑا کیے انہیں دیکھنے لگی۔کالج میں جہاں باقی کی ٹیچرز اسکے خاندانی رتبے کی عزت کرتے ہوئے یا اسکے بھائی سے ڈرتے ہوئے حورم کو تلی کا چھالا بنا کر رکھتی تھیں وہیں بس ایک مس مریم تھیں جن کا رویہ اس نازک سی لڑکی کے ساتھ بہت زیادہ سخت تھا۔


"دھیان کہاں ہے تمہارا حورم میں کب سے تمہیں بلا رہی ہوں۔۔۔۔"


حورم نے ساتھ بیٹھی ہادیہ کو گھور کر دیکھا جو خود ایک بت بنے بیٹھی تھی۔


"بتا نہیں سکتی تھی ہادی کہ موت کا فرشتہ سر پر ہے۔۔۔۔"


حورم کی سر گوشی پر ہادیہ نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کو روکا۔


"یہاں دیکھو حورم کیا لکھ رہی تھی تم ؟"


مس مریم کی اس بات پر حورم نے فوراً اپنی کتاب کو سینے سے لگایا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔


"کچھ بھی تو نہیں موت۔۔۔۔میرا مطلب ہے مس آپ بتائیں کوئی کام ہے کیا آپکو ہم سے؟"


حورم کے اس سوال پر ساری کلاس میں ہلکی سی ہنسی کی آواز سنائی دی۔


"ششش۔۔۔کلاس اور مس حورم عالم رند اپنا یہ سرداروں والا ایٹیٹیوڈ اپنی حویلی میں چھوڑ کر آیا کریں۔ جانتے ہیں کہ یہ کالج آپ کے سردار بھائی ملکیت ہے انہوں نے بنایا ہے لیکن اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں آپ یہاں موجود ہر چیز کو اپنی جاگیر سمجھیں۔"


مس کی باتوں پر حورم سر جھکائے کھڑی رہی۔


"دیکھاؤ مجھے کیا لکھ رہی تھی تم اس کتاب میں؟"


مس مریم نے ہاتھ آگے بڑھا کر وہ کتاب پکڑنی چاہی تو حورم نے فوراً اس کتاب کو اپنے پیچھے چھپا لیا۔


"نہیں مس ہماری کتاب ہم نہیں دیکھائیں گے۔ "


حورم کی بات پر مس مریم نے اپنے ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے اور حورم کو گھورنے لگیں۔


"ٹھیک ہے مت دیکھاؤ لیکن تمہیں میں کچھ دیکھاتی ہوں۔۔۔"


کلاس ٹاپر کو اشارہ کرنے پر وہ جلدی سے سارے ٹیسٹ لے کر مس مریم کے پاس آئی اور وہ ان کے ہاتھ میں پکڑا دیے۔


"تو سردارنی حورم عالم رند یہ آپکا ٹیسٹ ہے جس میں سے آپ نے صرف دو نمبر حاصل کئے ہیں اور اس پر مجھے آپکے سردار بھائی کے دستخط چاہیں تا کہ انہیں بھی تو پتہ چلے کہ ان کی بہن کے سر میں دماغ نامی کوئی چیز ہے ہی نہیں، اس کلاس کی سب سے نالائق سٹوڈنٹ ہے اور بات کرتے دیکھو اسے تو ایسے ہم ہم کرتی ہے جیسے مغلیہ شہزادی ہو۔"


مس مریم کی اس بات پر ہادیہ کے علاؤہ ساری کلاس ہنس دی جبکہ حورم بس سر جھکا کر اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ضبط کرتی رہ گئی تھی۔ اس شہزادی کی بے عزتی کرنا تو دور کی بات ہے آج تک کسی نے اس سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی ۔


یہ تو بس ہادیہ جانتی تھی کہ وہ ایسے 'ہم' کہہ کر بات جہانزیب کی وجہ سے کرتی تھی۔جہانزیب کو اچھی اردو بہت سے پیار تھا اور حورم کو جہانزیب کی ہر بات سے۔


تبھی بیل کی آواز پر مس مریم نے وہ پیپر حورم کے سامنے پھینکا اور خود کلاس سے باہر چلی گئیں ان کے جاتے ہی سادی لڑکیاں بھی کلاس سے باہر چلی گئی تھیں جبکہ حورم نم آنکھوں کے ساتھ ابھی بھی وہیں کھڑی تھی۔


"حور تم رو مت دیکھو میں سردار واجہ کو بتا دوں گی کہ مس نے کتنی بدتمیزی سے بات کی تم سے پھر دیکھنا تم۔۔۔ابھی چلو ہم گھر چلتے ہیں۔"


حورم نے اپنا منہ مزید پھلا لیا۔


"ہم اس وجہ سے نہیں رو رہے۔۔۔"


"تو پھر کیا ہوا؟"


ہادیہ نے حیرت سے پوچھا۔


"ہمیں اس ٹیسٹ کی تیاری زیب سائیں نے کروائی تھی اور اگر اب انہیں یہ پتہ لگا کہ ہمارا یہ ٹیسٹ اتنا برا ہوا ہے تو وہ پھر بہت مایوسی سے ہمیں دیکھیں گے۔"


دو موٹے موٹے آنسو حورم کی خوبصورت آنکھوں سے بہے تھے جنہیں ہادیہ نے بے چینی سے دیکھا اگر سردار میر داد کو اس بات کو علم ہو جاتا کہ اسکی جان سے پیاری بہن رو رہی تھی تو نا جانے وہ کیا کر گزرتا۔


"اگر تمہیں جہانزیب بھائی نے پڑھایا تھا تو تمہارے نمبر اتنے برے کیوں آئے جہانزیب بھائی تو بہت زیادہ اچھا پڑھاتے ہیں۔"


حورم نے آنسو پونچھ کر اپنا بیگ سمیٹا اور چلنے لگی ہادیہ بھی اسکے ساتھ ساتھ چل دی۔


"ہاں ہادیہ وہ تو بہت اچھا پڑھاتے ہیں لیکن ان کے پڑھاتے ہوئے ہمارا دھیان تو پڑھائی پر ہوتا ہی نہیں بلکہ ہمارا سارا دھیان ان پر ہوتا ہے۔ان کے دھیمے انداز پر،انکے ہاتھوں پر،انکی آواز پر الفاظ سننے کا تو ہوش ہی نہیں رہتا ہمیں۔"


حورم ایک خواب کی کیفیت میں بولتی چلی گئی۔ہادیہ نے مسکرا کر اسے دیکھا وہ حورم کے احساسات سے اچھی طرح واقف تھی کہ جہانزیب شاہ ہی اسکی کل کائنات تھا۔اس نے جہانزیب کی خاطر ہی بہت محنت سے اتنی اچھی اردو بولنا سیکھی جو کہ اپنے ہلکے سے بلوچی لہجے میں بولتے ہوئے وہ انتہائی زیادہ دلکش لگتی۔


"اگر جہانزیب بھائی کو پتہ چل جائے نا تم انہیں کس قدر چاہتی ہو تو قسم سے اپنی قسمت پر رشک کریں گے وہ ۔"


ہادیہ نے ہنستے ہوئے کہا تو حورم کے لبوں کو بھی ایک شرمیلی سی مسکان نے چھوا۔


"تمہیں پتہ ہے ہم انہیں۔۔۔۔"


سامنے کا منظر دیکھ کر حورم بولتے بولتے جم سی گئی تھی۔کالج کے گیٹ کے بلکل سامنے سید جہانزیب شاہ گاڑے نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں سر جھکا کر گاڑی کے پاس کھڑا تھا۔سب کی نظریں گاڑی کے پاس کھڑے اس آدمی پر تھیں لیکن وہ سب سے بے نیاز سر جھکائے کھڑا تھا۔


حورم کے اس طرح سے رک جانے پر ہادیہ بھی حیران ہو کر سامنے دیکھنے لگی۔


"زز۔۔۔۔۔زیب سائیں آج کیوں آئے ہیں ہمیں لینے ۔۔۔۔ہادیہ دیکھو ہم اچھے تو لگ رہے نا ۔۔۔"


حورم جلدی سے ہادیہ کی طرف مڑ کر اپنی بڑی سی چادر درست کرکے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھنے لگی۔


"ہاں نا میری شہزادی تم بہت زیادہ اچھی لگ رہی ہو اب جلدی سے جاؤ نا جانے کب سے دھوپ میں انتظار کر رہے ہیں۔"


"ہہ۔۔۔ہاں۔۔۔"


ہادیہ کی بات پر حورم نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا اور چادر سے چہرہ چھپاتے باہر کی جانب چل دی وہ جانتی تھی کہ جہانزیب کو بے پردہ عورتیں بلکل بھی اچھی نہیں لگتیں۔


"اسلام و علیکم زیب سائیں۔"


حورم کی مسکراتی آواز پر جہانزیب نے اپنا دھیان اوپر کیا اور مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔


"و علیکم السلام حورم سائیں۔۔۔۔"


حورم اسکی سحر کن آواز مسکراتے چہرے میں کھو سی گئی تھی۔جہانزیب کوئی بہت زیادہ خوبصورت مرد نہیں تھا۔بلکہ گندمی رنگت والا عام سا دکھنے والا آدمی تھا۔چھے فٹ سے بھی زیادہ قد اور کسرتی جسم کے ساتھ نارمل سی داڑھی،عام سے نقوش اور سیاہ آنکھوں کو ہمیشہ عاجزی سے جھکائے وہ دنیا کے لیے ایک عام سا مرد ہو گا لیکن اگر کوئی اسے حورم کی نگاہ سے دیکھتا تو نظریں پلٹنا ہی بھول جاتا۔


"چلیں حورم سائیں؟"


جہانزیب کی آواز پر حورم اسکے سحر سے باہر آئی اور جلدی سے اس نے ہاں میں سر ہلایا۔


اسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب تیرہ سال کی عمر میں اس نے جہانزیب کو خود کو 'حورم بی بی' بلانے کی بجائے 'حورم' بلانے کا کہا جس پر جہانزیب بلکل بھی نہیں مانا تھا۔پھر بہت سوچ کر جہانزیب کے سندھی خاندان کا خیال آتے ہی حورم نے اس سے یہ فرمائش کی تھی کہ وہ اسے 'حورم سائیں' بلا لیا کرے اور بدلے میں وہ اسے 'جہانزیب سائیں' بلایا کرے گی۔جہانزیب نے اسکی بات پر ہنستے ہوئے ہامی بھر لی مگر 'جہانزیب سائیں' کب 'زیب سائیں' میں بدل گیا اسکا اندازہ دونوں کو نہیں ہوا۔


جہانزیب نے آگے بڑھ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازا کھولا تو حورم نے منہ بسور کر اسے دیکھا اور پھر فرنٹ سیٹ کا دروازا کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ جہانزیب دروازا بند کر کے خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلانے لگا۔


"آج آپ ہمیں کیسے لینے آ گئے زیب سائیں ہمیں تو غالب چچا نہیں لینے آتے تھے؟"


"جی حورم سائیں آتے تو وہی تھے لیکن اب سے میں آیا کروں گا۔"


"قربان باد تے توں۔۔۔"


حورم نے چہک کر کہا تو جہانزیب ہلکا سا ہنس دیا۔


"اتنی زیادہ خوش مت ہوں آپ حورم سائیں میں آپ کو باہر کی سجی یا ایسا کچھ نہیں کھانے دوں گا اور نہ ہی گھمانے لے کر جاؤں گا۔"


جہانزیب سمجھتا تھا کہ حورم کی خوشی کی وجہ صرف اتنی ہے کہ جہانزیب اس پر زیادہ روک ٹوک نہیں کرے گا لیکن سچ سے تو وہ واقف ہی نہیں تھا۔اسے حورم بلکل اسی طرح عزیز تھی جس طرح میر داد عالم کو تھی ایک لاڈلی بہن کی طرح۔


"نہیں وہ اب ہمیں پسند نہیں آپ نے بولا تھا نا کہ وہ ہمارے لیے اچھے نہیں اس لیے اب ہمیں وہ بلکل بھی پسند نہیں۔"


"واہ ہماری حورم سائیں تو سمجھدار ہو گئی ہیں۔"


حورم کی اس معصوم بات کا مطلب سمجھے بغیر جہانزیب مسکرا کر بولا جبکہ اسکے تعریف کے ان چند الفاظ نے حورم کو دنیا جہان کی ہر خوشی دے دی تھی ۔

💕💕💕

حورم اور جہانزیب جب سے گھر پہنچے تھے جہانزیب تب سے میر داد کا انتظار کر رہا تھا۔جبکہ حورم تو آتے ہی اپنے کسی بہت اہم کام میں مصروف ہو گئی تھی۔


جہانزیب کو راستے میں ہی شاہ میر نے فون کر کے سب کچھ بتا دیا تھا۔جس کی وجہ سے جہانزیب کافی پریشان ہوا۔کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد میر داد وہاں آیا تو جہانزیب جلدی سے اس کے پاس گیا۔


"اسلام و علیکم واجہ!"


"و علیکم سلام ! لے آئے تم حورم کو کالج سے؟"


میر داد نے جہانزیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا اور زمان کو جانے کا اشارہ کر کے خود جہانزیب کو لے کر لاؤنج میں موجود صوفے پر بیٹھ گیا۔


"جی واجہ انہیں تو لے آیا لیکن مجھے۔۔۔۔"


"میر داد واجہ پانی۔۔۔"


اچانک سے دو گورے ہاتھوں نے پانی کا گلاس ٹرے میں رکھ کر کہا تو میر داد نے نظریں اٹھا کر کشمالہ کو دیکھا جو سر پر دوپٹہ نفاست سے سجائے مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔میر داد نے پانی کا وہ گلاس پکڑا اور اپنا دھیان جہانزیب پر رکھتے ہوئے کشمالہ کو کہنے لگا۔


"میں نے کتنی دفعہ تمہیں کہا ہے کہ یہ کام تمہارا نہیں ہے اس کے لیے بہت سی ملازمہ ہیں گھر میں۔"


میر داد کے لہجہ کافی روکھا تھا لیکن کشمالہ ہمیشہ کی طرح اسے نظر انداز کر گئی۔


"لیکن مجھے آپ کا کام کرنا اچھا لگتا ہے۔میرے ہوتے ہوئے آپکا کام کوئی ملازمہ کیوں کرے گا؟"


کشمالہ نے مسکرا کر جواب دیا۔ایک ادا سے مسکراتے ہوئے وہ کافی دلکش لگ رہی تھی لیکن سامنے موجود شخص کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔


"لیکن مجھے اچھا نہیں لگتا بہتر ہے تم اس بات کو سمجھو۔"


اتنا کہہ کر میر داد نے وہ پانی کا گلاس میز پر رکھا اور جہانزیب کو اٹھنے کا کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔جہانزیب بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چلا گیا۔ان کے وہاں سے جاتی ہی کشمالہ کے چہرے کی وہ نرمی اور مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔


"سلمی خالہ ۔۔۔۔خالہ۔۔۔۔"


کشمالہ کے چلانے پر ایک بوڑھی ملازمہ گھبرا کر وہاں آئییں۔


"جی بی بی۔۔۔ "


"کہاں تھا تم کب سے بلا رہی ہے یہ پانی کا گلاس پکڑو اور لے کے جاؤ یہاں سے۔"


ملازمہ نے ہاں میں سر ہلایا اور پانی کا گلاس پکڑ کے وہاں سے جلدی سے چلی گئی۔ ملازمہ کی جاتے ہی کشمالہ منہ بنا کر صوفے کے اوپر بیٹھ گئی ۔


"بہت زیادہ بھاؤ کھاتا ہے آپ میر داد واجہ لیکن یہ بھی وعدہ ہے کشمالہ کلیم رند کا کہ وہ جلد ہی آپکی بیوی بنے گا اور پھر دیکھنا آپ کو یہ سارا سلوک ہر دن یاد کروائے گا ۔"


کشمالہ نے ایک شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

💕💕💕

میر داد نے اپنے کمرے میں آتے ہی ساری بات جہانزیب کو بتا دی جسے سن کر جہانزیب سر جھکائے کھڑا تھا۔


"اب تم بتاؤ جہان اگر میری جگہ تم ہوتے تو کیا کرتے؟"


میر داد نے جانچتی نگاہوں سے جہانزیب کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔جہانزیب نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولنا شروع کیا۔


"اپنے پہلے فیصلے پر قائم رہتا واجہ تا کہ نہ تو میری بات کا مان بکھرتا اور نہ ہی ایک ماں کے جزبات۔"


جہانزیب کی بات پر میرداد نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"اس نے میرے فیصلے پر سوال اٹھایا تھا اور وہ ایسا کرتے ہی سزا کا مستحق ہوچکا تھا بد سے بدتر سزا تا کہ آئندہ کبھی بھی کوئی میرے فیصلے پر سوال نہ اٹھائے۔"


جہانزیب جانتا تھا کہ میر داد غلط ہے لیکن اگر ابھی اس نے میر داد کی بات کی نفی کی تو اس کے غصے میں اضافہ ہو جائے گا اس لئے جہانزیب نے ابھی خاموش رہنا بہتر سمجھا۔


"جی بہتر واجہ۔"


جہانزیب نے عاجزی سے کہا تو میر داد کے چہرے کی سختی تھوڑی کم ہوئی۔


"یار یہ واجہ باہر کے لئے ہی رکھا کر یہاں تو میرا سب سے عزیز بچپن کا دوست ہے اور اسی انداز میں پیش آ مجھ سے۔"


دوستی کی بات کرتے ہوئے بھی میرداد کا انداز تحکمانہ تھا۔اس بات کو نوٹس کر کے جہانزیب کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔


"پھر تمہارا دوست تمہیں یہ کہے گا کہ شادی کر لو میر داد رند بوڑھے ہو رہے ہو اور ساتھ ہی ساتھ دیکھنا تمہارے اس غصے میں واضح کمی ہوگی بیوی اس بیماری کی سب سے بہترین دوائی ہے۔"


اس بات پر جہانزیب کے ساتھ ساتھ میرداد بھی ہلکے سے مسکرا دیا،اسکی آنکھوں کے سامنے دو نیلی آنکھیں آئیں جنہیں وہ چاہ کر بھی نہیں بھول پا رہا تھا۔دو سال پہلے میر داد نے اس پری کو دیکھا تھا لیکن ایک پل کے لیے اسے نہیں بھولا۔


"کرلونگا یار شادی بھی پہلے وہ مل تو جائے ۔۔۔۔صرف وہی اس دنیا میں ایسی لڑکی ہے جو میر داد عالم کے قابل ہے کیونکہ صرف وہی ایسی تھی جسے دیکھ کر میرے دماغ نہیں بلکہ دل نے کہا کہ وہ میری ہے اور صرف میری ہے۔"


بات کرتے ہوئے میر داد کے دماغ میں صرف اس نیلی آنکھوں والی پری کا خیال تھا میر داد کی بات پر جہانزیب ہنس دیا۔


"آپ شائید بھول رہے ہیں سردار میر داد عالم کہ آپکی منگ اس گھر میں ہی موجود ہے جس سے آپنے شادی کرنی ہے۔"


جہانزیب کا اشارہ کشمالہ کی طرف تھا اور اس بات پر میر داد کی مسکراہٹ ختم ہوئی۔


"میر داد عالم اپنی مرضی کا مالک ہے وہی کرے گا جو اس کے دل میں آئے گا ۔"


میر داد کے ضدی انداز پر جہانزیب گہرا سانس لے کر رہ گیا۔


"اب بھول بھی جاؤ اسے میر داد دو سال سے اسے ڈھونڈ رہے ہو اگر اس نے ملنا ہوتا تو اب تک مل جاتی بھلا صرف ایک ملاقات کو لے کر تم اتنے جذباتی کیسے ہو سکتے ہو جس میر داد کو میں جانتا ہوں وہ تو ایسا نہیں ہے اور ویسے بھی تم تو اس کا نام بھی نہیں جانتے۔"


میر نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"اسکا نام پری ہے اور اپنی پری کو میں ڈھونڈ کر ہی رہوں گا جہانزیب شاہ پھر چاہے ایسا کرتے میری ساری زندگی نکل جائے۔"


میر داد کے چہرے پر اس لڑکی کے لیے ایسا جنون تھا جو جہانزیب کو ڈرا رہا تھا جتنی میر داد کی نفرت خطرناک تھی اس سے کہیں زیادہ اس کی محبت جان لیوا تھی اگر کبھی وہ لڑکی میر داد کو مل گئی تو میرداد کا یہ جنون نا جانے اسکا کیا حال کرے گا۔


"جاؤ تم جہان مجھے کچھ دیر اکیلا رہنا ہے۔۔۔"


میر داد کے ایسا کہتے ہی جہانزیب اثبات میں سر ہلا کر باہر نکل گیا اور میر داد نے گہرا سانس لے کر اپنا سر کرسی کی پشت پر رکھا۔اسکے آنکھیں موندتے ہی وہ نیلی آنکھیں پھر سے اسے یاد آئیں۔انہیں بھولنے کے لیے اس نے کتنی جدوجہد کی تھی یہ صرف وہی جانتا تھا مگر اسے بھولنا وہ واحد کام تھا جو میر داد عالم کے بس سے باہر تھا۔

💕💕💕

انہیں ثمینہ کے گھر تک پہنچنے کے لئے تقریبا دو گھنٹے کا سفر کرنا پڑا تھا لیکن پریسا تو اسی میں بہت خوش تھی کہ وہ اپنی سہیلی کی شادی میں شمولیت کر سکی تھی۔ اسکی دوست ایک بلوچ تھی جو فیملی کے ساتھ کراچی میں رہتی تھی لیکن جب شادی کا وقت آیا تو انہوں نے واپس اپنے آبائی گاؤں میں جا کر شادی کی اور اس وجہ سے پریسا نے زندگی میں پہلی بار بلوچ طرز اور رسم و رواج کے ساتھ کوئی شادی دیکھی۔


سارا دن کافی سارا انجوائے کرنے کے بعد شام ہونے سے پہلے ہی ثمینہ کی رخصتی ہو گئی تو حیدر صاحب نے بھی پریسا کو چلنے کا کہا۔وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتے تھے اسی لیے ثمینہ کے بھائی کے ساتھ بس سٹیشن تک آ گئے جو مغرب کے وقت کافی سنسان سا تھا۔


"بابا یہاں ارد گرد کوئی نہیں لوگ زیادہ باہر نہیں نکلتے کیا؟"


پریسا نے ارد گرد سنسان ریتلی اور پتھریلی زمین کو دیکھتے ہوئے کہا پھر اسکی نظر دور موجود پتھریلے پہاڑوں پر پڑی جن کی اوٹ میں سورج چھپ رہا تھا اور وہاں سے آسمان لال رنگ کا ہو چکا تھا۔


"بلکل نکلتے ہیں لیکن یہ سٹیشن سنسان جگہ پر ہے اور یہاں گرمی بھی تو بہت ہے۔۔۔"


حیدر صاحب نے مسکرا کر اپنے جگر کے ٹکڑے کو بتایا اور پھر گھڑی کی طرف دیکھنے لگے۔


"ویسے کتنی خوبصورت جگہ ہے نا یہ اور بابا کتنا مزا آیا اگر آپ میرے ساتھ نہیں آتے تو میرا یہ دن بہت برا گزرتا۔"


پریسا نے ارد گرد کے خوبصورت نظاروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"اور آپ کے بابا آپ کا دن برا کیسے گزرنے دیتے؟"


پریسا نے آگے ہو کر انکا گال چوما۔


"آپ اس دنیا کے سب سے اچھے بابا ہیں۔"


پریسا نے مسکرا کر اس انہیں دیکھا لیکن تبھی ایک تیز ہوا کے جھونکے سے پریسا کے ہاتھ میں ثمینہ کا دیا ہوا لال شگن کا دوپٹہ چھوٹ کر اڑا اور سڑک کے درمیان میں جا کر گر گیا۔پریسا اسے لینے کے لیے جانے لگی ۔


"رکو بیٹا میں لے کر آتا ہوں۔اب میں اپنی پری کو کچھ کرنے تو نہیں دوں گا نا؟"


حیدر صاحب نے مسکرا کر شرارت سے کہا اور اٹھ کر وہ دوپٹہ لینے چلے گئے۔سڑک کے درمیان میں پہنچ کر انہوں نے وہ دوپٹہ اٹھایا اور مڑ کر مسکراتے ہوئے پریسا کو دیکھا۔جواب میں پریسا بھی مسکرا دی۔


لیکن تبھی ایک بہت تیز رفتار جیپ آئی اور حیدر صاحب کو زور دار ٹکر مار کر گزر گئی۔


"بابا۔۔۔۔"


حیدر صاحب کے وجود کو زمین چھونے سے پہلے پریسا نے درد ناک چیخ کے ساتھ چلا کر کہا اور اٹھ کر انکی طرف بھاگی۔اسے لگ رہا تھا اسکی سانسیں اسکی دھڑکن سب رک رہے ہیں۔

💕💕💕


مرکزی کرداروں کا تعارف


میر داد عالم رند


کہانی کا ہیرو ایک انتہائی سنجیدہ سا سردار جو اپنے بھائی اور بہن کے لیے ہی جی رہا ہے۔


ماہ گل عالم رند


میر داد کی چھوٹی بہن جو زندہ نہیں ہے۔


شاہ داد عالم رند


میر داد عالم کا چھوٹا بھائی جو اسی کے پیار میں حد سے زیادہ بگڑ چکا ہے۔


حورم عالم رند


کہانی کی دوسری ہیروئن ۔میر داد کی سب سے زیادہ لاڈلی اور چھوٹی بہن جسکی دنیا جہانزیب شاہ سے شروع ہو کر اسی پہ ختم ہو جاتی ہے۔


کلیم رند


میر داد کا چچا جسے اپنے وڈیرے خون پر بہت مان ہے۔


کشمالہ کلیم رند


کلیم صاحب کی بڑی بیٹی اور میر داد کی بچپن کی منگ جسے بس سردارنی بننا ہے۔


خوش بخت کلیم رند


کلیم صاحب کی چھوٹی بیٹی اور شاہ داد کی بچن کی منگ۔


شاہ میر رند


میر داد کے دادا اور ایک اصول پرست انسان۔


پریسا حیدر خان


ناول کی ہیروئن اور حیدر خان کی بیٹی جسکی دنیا اپنے بابا سے شروع ہو کر اپنے بابا پہ ختم ہو جاتی ہے۔


سید جہانزیب شاہ

شاہ داد جو نشے میں ڈرائیو کرنے کی وجہ سے گاڑی چلاتے چلاتے اونگھنے لگا تھا گاڑی کو لگنے والے ایک زور دار جھٹکے کی وجہ سے ہوش میں آیا۔


"شاہ۔۔۔"


ساتھ بیٹھے ہو مراد نے گھبراتے ہوئے موبائل سے دھیان ہٹا کر پیچھے زمین پر پڑے اس آدمی کو دیکھ کر کہا۔شاہ داد نے بھی گھبرا کر ایسا ہی کیا۔


"مراد کہیں مر۔۔۔۔"


مردا جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا اور اسکے نکلتے ہی شاہ داد بھی گاڑی سے نکل آیا۔ایک تو پہلے سے ہی وہ نشے میں تھا اور اس پر یہ حادثہ انکا دماغ مکمل طور پر ماؤف کر رہا تھا۔


وہ جو بھی آدمی تھا وہ اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔پاس ہی چادر میں لپٹی ایک لڑکی زاروقطار روتے ہوئے اس آدمی کو ہلا رہی تھی۔


"مراد یہ۔۔۔۔"


شاہ داد نے گھبرا کر اس طرف اشارہ کیا۔


"شاہ چل ورنہ پھس جائیں گے۔"


مراد نے جلدی سے کہا لیکن تب ہی وہ لڑکی اس آدمی کے پاس سے اٹھی اور بھاگتے ہوئے شاہ داد کے پاس آئی۔


"یہ کیا کر دیا تم نے۔۔۔۔بچاؤ میرے بابا۔۔۔۔کو۔۔۔۔ "


وہ لڑکی شاہ داد کو گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے چلا رہی تھی۔


"شاہ چل۔۔۔۔"


مراد نے بے چینی سے کہا تو اس لڑکی نے شاہ داد کو مزید مضبوطی سے پکڑ لیا۔شاہ داد اپنے آپ کو چھڑوانے کی مکمل کوشش کر رہا تھا لیکن وہ لڑکی سے نہیں چھوڑ رہی تھی۔


"نہیں میں تمہیں نہیں جانے دوں گی۔۔۔۔۔میرے بابا ۔۔۔۔۔ میرے بابا مر جائیں گے انہیں ہاسپٹل لے جاؤ۔۔۔۔"


"چھوڑ مجھے۔۔۔۔"


شاہ داد کے چلانے پر وہ لڑکی اس کے منہ سے آنے والی شراب کی بدبو کو محسوس کر چکی تھی۔


"نہیں ہمیں ہاسپٹل ۔۔۔۔۔"


اس لڑکی نے اس کے گریبان پر اپنی پکڑ مزید مضبوط کرتے ہوئے کہا۔شاہ داد کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے۔آہستہ آہستہ اس کا ضبط ختم ہو رہا تھا۔


تبھی اس کی نظر دور سے آتی ہوئی ایک بس پر پڑی تو اس نے اس لڑکی کو ایک زور دار دھکا دے کر خود سے دور کیا اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔


اس آدمی کے زور دار دھکے کی وجہ سے پریسا بہت زور سے زمین پر گری اور اس کا سر سڑک کے ساتھ موجود پتھر پر جا لگا۔


پریسا اٹھنا چاہ رہی تھی،اپنے بابا کے پاس جانا چاہ رہی تھی لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر پائی۔بس اپنی بند ہوتی آنکھوں سے حیدر صاحب کے بے جان وجود کو دیکھتی رہی۔


"بابا۔۔۔۔۔"


پریسا کے ہونٹوں سے یہی الفاظ نکلے تھے اور اس کے بعد وہ ہوش کی دنیا سے بیگانہ ہو گئی۔

💕💕💕

میر داد مغرب کی نماز کے بعد اپنے کمرے میں کھڑا ڈھلتی شام کے سایے دیکھ رہا تھا۔دو سال گزر چکے تھے اس واقعے کو لیکن آج بھی وہ دن میر داد کی یاد میں بلکل تازہ تھا۔


میر داد کو یاد تھا کہ وہ اپنے ایک کام سے کوئٹہ آیا تھا اور واپسی پر حورم کے لیے تحفہ لینے مائیلینیم مال رکا۔جب دکانوں سے گزرتے ہوئے اچانک اسکی نظر ایک گولڈ جیولری شاپ پر گئی۔


جہاں سفید یونیفارم میں ملبوس لڑکی اپنی نیلی آنکھوں میں چمک لیے ہر چیز سے بے نیاز شیشے کے کاؤنٹر میں قید پائلوں کو دیکھ رہی تھی۔وہ شائید وہاں ٹوور پر آئی تھی۔


میر داد کو ویسے تو لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اسی لیے اس نے وہاں سے جانا چاہا مگر میر داد قدم وہاں جم سے گئے۔وہ کھوئی کھوئی سی لگ ہی اتنی معصوم رہی تھی۔


"یس میم آپکو کچھ پسند آیا ہے کیا؟"


اچانک ہی ایک سیلز مین نے اسکے پاس آ کر پوچھا تو لڑکی نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور ان پائلوں کی طرف اشارہ کیا۔


سیلز مین نے ایک سنہری پائل نکال کر اسے دی جسے اس لڑکی نے چہکتے ہوئے اپنا سفید پاؤں اوپر کر کے اس میں پہن لیا۔


"اففففف کیا کچھ اتنا پیارا بھی ہو سکتا ہے؟"


لڑکی نے چہکتے ہوئے سیلز مین سے پوچھا تو اس کے سوال پر میر داد نے بھی اس کو دیکھتے ہوئے یہی سوچا اور پھر سے وہاں سے جانے کی کوشش کی۔


"کتنے کی ہیں یہ؟؟"


اس لڑکی نے مسکرا کر پائلوں کو چھوتے ہوئے پوچھا تو سیلز مین کی آنکھوں میں حیرت آئی شاید اس پاگل لڑکی نے اپنی ایکسائٹمنٹ میں پرائس ٹیگ ہی نہیں دیکھا۔


"دو لاک بیس ہزار۔۔۔۔"


قیمت سن کر وہ نیلی آنکھیں پھیل کر مزید بڑی ہو گئیں۔


"اففف اللہ ایسا کیا لگا ہے کہ اتنی مہنگی ہیں یہ؟؟؟"


لڑکی کے سوال پر سیلز مین نے الجھن سے اسے دیکھا۔


"میم یہ گولڈ شاپ ہے اور یہ ایک پائل ایک تولے سے بھی زیادہ ہے۔"


اس لڑکی کے چہرے کا ہر رنگ ،ساری رونق غائب سی ہو گئی جو کہ اسے میر داد کو بلکل بھی اچھی نہیں لگی خاموشی سے اس نے وہ پائل اسے واپس پکڑا دی اور وہاں سے جانے لگی۔


"پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتی ہیں ٹائم ضائع کرنے اپنی حیثیت دیکھنی نہیں ہوتی۔"


سیلز مین کے یہ الفاظ سن کر جہاں میر داد نے اپنی مٹھیاں کس لیں وہیں لڑکی نے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر اسے سیلز مین کو گریبان سے پکڑ لیا۔


"تمہاری حیثیت کیا ہے مسٹر مالک نہیں ہو یہاں کے جو خود کو کہیں کے راجہ سمجھ بیٹھے ہو مجھے حیثیت کا تانا دینے سے پہلے اپنی حیثیت تو دیکھ لو کہ ایک معمولی سے نوکر ہو ۔"


اس چھوٹی سی لڑکی نے اسے گریبان سے جھنجھوڑ کر کہا تو سیلز مین بوکھلا گیا۔


"سیکیورٹی ۔۔۔۔سیکیورٹی ۔۔۔۔۔۔"


لڑکے کے چلانے پر ایک گارڈ اندر آیا اور سیلز مین کے اشارہ کرنے پر لڑکی کو پکڑنے لگا۔اس سے پہلے کہ اسکا ہاتھ لڑکی کے بازو کو چھوتا میر داد نے وہاں پہنچ کر انتہائی سختی سے اس سیکیورٹی گارڈ کا ہاتھ دبوچ لیا۔


"نکلو یہاں سے۔۔۔۔"


میر داد کے دانت پیس کر کہنے پر سیکیورٹی گارڈ جلدی سے وہاں سے چلا گیا۔وہ لڑکی بھی سائیڈ سے ہو کر وہاں سے جانے لگی تو میرداد نے اس کا بازو کہنی سے پکڑ لیا اور غضب ناک آنکھوں سے اس سیلز مین کو گھورا۔


"رند سر آپ۔۔۔۔۔آپ بتائیں آپکو کیا۔۔۔۔.؟؟"


میرداد پر نظر پڑتے ہی وہ سیلز مین اسے پہچان چکا تھا اس لیے وہ کافی گھبرا گیا تھا۔میر داد کے مقام سے وہ اچھی طرح واقف تھا کیونکہ اس مال کا مالک میر داد کا بہت اچھا دوست تھا۔


"تمہاری اتنی اوقات نہیں کہ تم مجھے کچھ دکھاؤ فوراً اپنے مینیجر کو بلاؤ یہاں۔"


میرداد نے اس لڑکی کا نازک بازو چھوڑے بغیر کہا جبکہ وہ لڑکی خود کو چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔تھوڑی ہی دیر کے بعد مینجر وہاں آیا اور عقیدت سے ہاتھ باندھ کر میر داد کے سامنے کھڑا ہو گیا۔


"جی کہیے رند سر آپکو کیا چاہیے؟"


"تمہارے اس ورکر کی زبان۔"


مینجر کے سوال پر میر داد نے اس سیلز مین کو گھورتے ہوئے کہا جبکہ اسکی اس بات پر سب کے ساتھ ساتھ اس لڑکی نے بھی حیرت سے میر داد کو دیکھا۔


"سس۔۔۔۔سر۔۔۔۔"


"اس نے میری مہمان سے جس طریقے سے بات کی ہے اسکی سزا میں بتا چکا ہوں لیکن پھر بھی اسکی غریبی کا خیال کرتے ہوئے صرف اتنا چاہوں گا کہ اسے ابھی اور اسی وقت نوکری سے نکال دیا جائے ورنہ تم بھی کل سے نوکری پر نہیں آ پاؤ گے۔"


سیلز مین کی بات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے میرداد نے مینیجر کو کہا۔مینیجر جانتا تھا کہ میرداد جو کہہ رہا ہے وہ کرکے بھی دکھائے گا اس لیے اس نے غصے سے اس سیلز مین کو دیکھا۔


"You are fired get lost from here."


مینیجر نے اس سیلز مین سے کہا تو میر داد کے لبوں پر ایک مخصوص مسکان آئی۔


"ببب۔۔۔۔بٹ سر۔۔۔"


"گیٹ لاسٹ۔۔۔۔"


مینیجر سیلز مین کی کسی بھی بات کو سنے بغیر دھاڑا تو سیلز مین سر جھکا کر وہاں سے چلا گیا ۔لڑکی کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔مینجر نے ہاتھ باندھ کر میر داد کو دیکھا۔


"آپ بتائیے آپ کو کیا چاہیے سر؟"


مینجر نے سر جھکا کر پوچھا تو میر داد نے اپنی مظبوط گرفت میں کھڑی اس لڑکی کو دیکھا جو نیلی آنکھیں چھوٹی کیے غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"ویسے تو تمہاری اس دکان میں کوئی چیز بھی ان کے قابل نہیں ہے لیکن مجھے وہی پائلیں چاہیں جو انہیں پسند آئیں۔"


میرداد کہہ تو مینجر سے رہا تھا لیکن اسکا سارا دھیان لڑکی پر تھا اور لڑکی کا اپنے دانت پیسنے پر۔


"جی سر،، احمد ان پائلوں کو پیک کریں۔"


مینجر نے پاس کھڑے سیلز مین کو کہا تو اس اتنی جلدی سے وہ پائلیں پیک کیں اور مینجر کے ہاتھ میں پکڑا دیں۔مینیجر نے وہ بیگ میرداد کی طرف بڑھایا. میرداد نے اس لڑکی کا ہاتھ چھوڑ کر وہ بیگ اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے والٹ میں سے کریڈٹ کارڈ نکال کر اس مینجر کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔


پیمنٹ کا سارا کام مکمل ہو جانے کے بعد میرداد میں پھر سے اس لڑکی کا بازو پکڑا اور دکان سے باہر آگیا۔


"یہ لو۔"


اس لڑکی کا بازو چھوڑ کر میرداد نے وہ شاپنگ بیگ اس کی طرف بڑھایا۔پہلے تو نیلی آنکھیں حیرت سے پھیلیں پھر غصے سے سرخ ہو گئیں۔


"خود کو سمجھتے کیا ہو تم کہیں کہ راجہ ہو ۔اس بے چارے غریب کی روزی چھین لی۔کیا لگا تمہیں کہ میں بہت خوش ہو جاؤں گی اور یہ دے کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں میں سمجھے۔"


اس لڑکی نے اپنی انگلی میر داد کی طرف کرتے ہوئے غصے سے کہا۔میر داد نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔اسے نہیں یاد تھا کہ کبھی کسی نے بھی اس سے اس طریقے سے بات کی تھی۔


" لڑکی تمیز کے دائرے میں رہو اور ویسے بھی تمہیں یہ پسند ۔۔۔۔۔۔"


"کیا مطلب پسند تھا زیادہ فری مت ہو بتایا نا کہ میں اس قسم کی لڑکی نہیں اب لکھ کر دوں کیا۔بہت اچھے سے جانتی ہوں تم جیسے امیر زادوں کو لگتا ہے تھوڑی سی کوشش سے لڑکی پٹ جائے گی لیکن مجھے جانتے نہیں تم ۔"


اس لڑکی نے اس دفع اونچی آواز میں کہا اور اب تو میر داد کے ماتھے پر بھی بل آئے تھے۔


"پری۔۔۔۔"


مگر اس سے پہلے کہ وہ اس چھوٹے پٹاخے کو کچھ کہتا اچانک ہی یونیفارم میں ملبوس ایک دوسری لڑکی وہاں آئی اور اس نے جلدی سے پری کا بازو پکڑ لیا۔


"معاف کریے گا میں اسے لے جاتی ہوں یہاں سے۔"


وہ لڑکی اتنا کہتے ہوئے غصے سے لال ہوتی اس پری کو وہاں سے لے گئی۔میر داد کافی دیر وہاں کھڑا رہا تھا۔وہ حیران تھا کہ آج تک کوئی بھی اسکی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کر پایا تھا اور یہ چھوٹی سی پٹاخہ کیسے اسے گھور گھور کر بات کر رہی تھی۔


"پری۔۔۔۔"


میر داد نے آہستہ سے کہا گھنی مونچھوں تلے کٹاؤ دار لبوں پر ایک گہری سی مسکان آئی تھی۔

💕💕💕

حورم جلدی جلدی سے تیار ہو رہی تھی اپنے لمبے گھنگھریالے بالوں کی چوٹی بناتے ہوئے وہ مسلسل انہیں کوس رہی تھی۔۔۔۔


"کاش یہ سیدھے ہوتے باقی سب کی طرح گل آپو کی طرح لیکن نہیں انہیں تو سپرنگ بننے کا زیادہ شوق ہے۔۔۔۔!!!"


حورم نے منہ بسور کر کہا اور پھر جلدی سے سر پر اچھی طرح سے دوپٹہ ٹکا کر ہال کی طرف بھاگی جہاں جہانزیب روز رات کو اسے پڑھانے کے لیے اسکا انتظار کرتا تھا اور حورم نہیں چاہتی تھی کہ اسے زیادہ انتظار کرنا پڑے۔۔۔۔


"اسلام و علیکم زیب سائیں۔۔۔۔!!!"


"و علیکم السلام۔۔۔۔!!!"


جہانزیب نے اسکے چہرے کو بس ایک نظر دیکھ کر مسکرا کر جواب دیا اور پھر سے اپنی نگاہیں ہمیشہ کی طرح جھکا لیں۔حورم جلدی سے اسکے سامنے بیٹھ گئی ۔


"تو دیکھائے حورم سائیں آپکا ٹیسٹ۔۔۔!!!"


جہانزیب نے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا تو حورم نے اسے حیرت سے دیکھا۔


"آپ کو کیسے پتہ ٹیسٹ کا؟"


جہانزیب اس کے معصوم سوال پر مسکرایا اور حورم تو بس اسے صدمے سے دیکھتی جا رہی تھی۔


"بس یہ سمجھ لیں کہ آپ کو آپ سے بھی زیادہ جانتا ہوں میں۔"


حورم اس کی بات کی سچائی جانتی تھی اسی لیے اس نے منہ بنا کر ٹیسٹ کے ہاتھ میں پکڑا دیا جسے جہانزیب غور سے دیکھنے لگا۔


"واہ حورم سائیں 50 میں سے 48 نمبر کیا بات ہے؟"


حورم شرارت سے مسکرا دی کمرے میں جاکر وہ دو گھنٹے تک یہ نمبر ہی تو بدلتی رہی تھی۔


"لیکن جواب تو سارے غلط ہیں تو پھر اتنے نمبر کیسے اب یہ آپ کی ٹیچر کی غلطی ہے یا آپکی شرارت۔۔۔"


حورم نے پہلے منہ کھول کر اسے دیکھا اور جھوٹ بولنے کا سوچا لیکن وہ جانتی تھی کہ جہانزیب شاہ اس کا یہ جھوٹ بھی پکڑ لے گا اسے شرمندگی سے سر جھکا گئی۔


"بہت غلط بات ہے حورم سائیں آپ نے ایسا کیوں کیا؟اس سے تو سب یہی کہیں گے نا کہ آپکا ٹیچر ہی اچھا نہیں ۔۔۔۔۔!!!"


"نہیں نہیں آپ تو اتنے اچھے ہیں اس دنیا میں سب سے زیادہ اچھا آپ ہی پڑھاتے ہیں بس ۔۔۔۔ بس ہم ہی نالائق ہیں۔۔۔۔!!!"


جہانزیب کی بات کو کاٹتے ہوئے پہلی بات حورم نے بہت پرجوشی اور دوسری بات بہت افسوس سے کہی تھی۔جہانزیب نے گہرا سانس لیا۔


"یہ آپ سے کس نے کہا کہ آپ نا لائق ہیں؟"


جہانزیب نے حیرت سے پوچھا اور میر داد کو دیکھا جو کب سے حورم کے پیچھے خاموشی سے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔


"ہماری ٹیچر نے اور آپ کو پتہ ہے وہ بالکل اچھی نہیں ہے پوری کلاس کے سامنے انہوں نے ہمیں بہت ڈانٹا اور کہا ہم کسی قابل نہیں۔"


یہ بات سن کر میر داد کے ماتھے پر بل آئے اور وہ وہاں سے چلا گیا۔میرداد کو غصہ میں جاتا دیکھ جہانزیب پریشان ہوا اب اس ٹیچر کی خیر نہیں تھی وہ میرداد کی بہن کو نالائق کہہ کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر چکی تھی۔


"حورم سائیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپکو میرے پڑھانے کی سمجھ نہیں آتی اس لیے میں واجہ سے بات کرتا ہوں کہ آپکا ٹیچر بدل دیں۔۔۔۔!!!"


"نہیں۔۔۔ہہہ۔۔۔۔ہم پڑھیں گے اور بہت اچھے نمبر آئیں گے لیکن پلیز ہمیں آپ ہی پڑھائیں گے۔۔۔۔!!!"


حورم نے کافی بے چینی سے کہا۔جہانزیب مسکرایا وہ جانتا تھا کہ اس کا یہ طریقہ ضرور کام کرے گا۔


"ٹھیک ہے لیکن صرف ایک شرط پر۔۔۔۔آپکو اپنے فائنل ایگزیم میں کم از کم 70٪ نمبر حاصل کرنے ہوں گے ورنہ ۔۔۔۔!!!"


"اور اگر ہم نے 70٪ نمبر حاصل کر لیے تو؟؟؟


حورم نے اسے چیلنج کیا تھا۔جہانزیب کچھ دیر اس بارے میں سوچتا رہا پھر بولا۔


"تو پھر میں آپکی ایک خواہش پوری کروں گا جو بھی آپ چاہیں۔۔۔!!!"


"کیا سچ میں۔۔۔؟؟"


حورم نے اپنی آنکھیں بڑی کر کے پوچھا تو جہانزیب نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا۔وہ معصوم بھلا زیادہ سے زیادہ کیا مانگ سکتی تھی جہانزیب سے۔


"ہم کر لیں گے دیکھیے گا آپ بس ہمیں پڑھائیں گے۔۔۔!!!"


حورم نے بے چینی سے کہا۔اسکو بھلا کہاں گوارا تھا کہ جہانزیب کی جگہ کوئی اور لے لیتا۔جہانزیب کی خاطر تو وہ اپنی جان بھی دے سکتی تھی تو یہ تو صرف پڑھائی تھی جس سے حورم عالم رند کو صدا کا بیر تھا۔۔۔


"اوکے ڈن۔۔۔!!!"


جہانزیب نے اتنا کہہ کر کتاب کو پکڑا اور حورم کو پڑھانا شروع ہو گیا جبکہ حورم ہمیشہ کی طرح وہ سبق سننے کی بجائے جہانزیب شاہ کی آواز،اسکے انداز اور دھیمے سے لہجے کے سحر میں مبتلا ہو چکی تھی۔

💕💕💕

شاہ داد جب گھر آیا تو وہ کافی گھبرایا ہوا تھا۔مراد اس کو کیا حوصلہ دیتا اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب آگے کیا ہوگا۔


"شاہ یہ کیا ہو گیا اگر واجہ کو پتہ لگ گیا ہم کیا کریں گے؟"


مراد نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔شاہ داد نے اپنی لہو رنگ آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔


"نن۔۔۔نہیں بھائی کو پتہ نہیں چلے گا ہ۔۔۔ہمیں کچھ کرنا ہو گا۔"


شاہ داد نے بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے کہا۔


"ویسے تو کسی نے ہمیں نہیں دیکھا لیکن اگر پھر بھی انہیں پتہ چل گیا تو۔۔۔۔۔تو ہم بھائی کو جھوٹ بولیں گے تو ہم کہیں گے کہ ہم سے غلطی ہوگئی یہ صرف ایک حادثہ تھا۔"


مراد نے اثبات میں سر ہلایا۔


"بھائی مجھے کچھ نہیں ہونے دیں گے مم۔۔۔۔۔مجھے پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔میر داد کے ہوتے ہوئے کوئی شاہ داد کو چھو بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔"


شاہ داد نے اپنے بال نوچتے ہوئے بے چینی سے کہا تو مراد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


"ہاں شاہ لیکن تم اس وقت نشے میں ہو تمہیں کوئی بھی دیکھ کر بتا سکتا ہے ۔"


مراد کی بات پر شاہ داد کی بے چینی مزید بڑھ گئی۔


"ہہ۔۔۔ہاں نشہ اتارنا ہوگا۔۔۔۔نشہ اتارنا ہوگا۔۔۔۔"


شاہ داد نے اتنا کہا اور کچن کی طرف چل دیا مراد نے گہرا سانس لیا تھا اسے پتہ تھا کہ اس آدمی کی دوستی اسے مروائے گی کسی دن لیکن مراد کیا کرتا اسکا مقصد بھی تو شاہ داد سے ہی جڑا تھا۔اب وہ بس اب یہ دعا ہی کر سکتا تھا کہ میرداد کو کچھ پتہ نہ چلے۔

رات کے دو بج رہے تھے اور میرداد کو جو خبر ملی تھی وہ اس کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا گئی تھی۔وہ زمان بلوچ اور جہانزیب شاہ کے ساتھ بہت زیادہ غصے کے عالم میں ہسپتال داخل ہوا۔پیچھے ہی دوسری گاڑی سے شاہ داد اور مراد بھی نکل کر اس کے پیچھے چل دیے۔


اس کی نظر ہال میں کھڑے پولیس والوں پر گئی تو وہ مٹھیاں بھینچتا ان کی طرف چل دیا۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو پولیس والوں نے اسے فون کرکے بتایا تھا کہ سڑک پر ایک ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس میں ایک آدمی جان سے چلا گیا تھا اور ایک لڑکی بھی ابھی تک بے ہوش تھی مگر جو بات میر داد کو غصہ دلا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اس سب کا الزام شاہ داد پر آ رہا تھا۔


"کس ثبوت کی بنا پر آپ اس سب کا الزام میرے بھائی پر لگا رہے ہیں؟"


اپنی سیاہ آنکھوں سے ان پولیس والوں کو گھورتے ہوئے میرداد غصے سے دھاڑا۔


میر داد کے سوال پر پولیس والوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔وہ جانتے تھے کہ ان کا قانون سامنے کھڑے شخص کی مٹھی میں تھا پھر بھی ایک پولیس والے نے بہت ہمت کر کے ایک پیکٹ میں موجود چین میر داد کے سامنے کی۔


"آپ کے بھائی کی یہ چین ہمیں اس لڑکی کی بند مٹھی سے ملا اور یہی نہیں۔بس ڈرائیور کافی فاصلے سے گاڑی کا نمبر تو نہیں دیکھ سکا تھا لیکن اس نے گاڑی کی جو نشانیاں ہمیں بتائیں ہیں اس پورے علاقے میں ویسی گاڑی صرف آپ کے بھائی کے پاس ہے۔"


پولیس والے نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو گھورتے ہوئے میر داد کو دیکھا تھا۔


"اس شک کی بنا پر ہم نے آپ کے بھائی کی گاڑی کا معائنہ کروایا تو اس پر بھی کسی سے ٹکرانے کے اثرات واضح موجود تھے۔"


پولیس والا اپنی پوری بات کہہ کر خاموش ہو گیا میر داد نے اپنے ہاتھ میں موجود پیک شدہ چین کو دیکھا۔وہ سچ میں شاہ داد کی ہی تھی۔


میر داد پولیس والے کے پاس سے ہٹ کر شاہ داد کے سامنے آیا اور اس پیکٹ کو اس کے چہرے کے سامنے کیا۔


"کیا کہو گے اس بارے میں شاہ۔۔۔۔"


میرداد کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔شاہ داد نے شرمندگی سے اپنا سر جھکایا۔


"ببب۔۔۔۔۔بھائی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا سڑک بالکل خالی تھی اچانک ہی وہ آدمی اور لڑکی سامنے آ گئے۔میں نے گاڑی کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر۔۔۔"


اتنا کہہ کر شاہ داد اپنا سر جھکا گیا تو میر داد نے کھا جانے والے نظروں سے مراد کو دیکھا۔مراد نے اپنا تھوک نگلا تھا۔


"شش۔۔۔شاہ سچ کہہ ر۔۔۔رہا ہے واجہ۔۔۔۔"


میر داد نے اس بات پر اپنی آنکھیں بند کر کے کھولیں اس کو اسطرح اضطراب میں دیکھ کر شاہ داد اسکے قریب آیا اور اسکے دونوں ہاتھ تھام لیے۔


"غلطی ہوگئی بھائی پلیز معاف کر دیں۔"


"ہوں۔۔۔۔غلطی۔۔۔۔"


میر داد نے اپنے دانت کچکچا کر شاہ داد کو دیکھا۔


" شاہ تمہاری اس غلطی کی وجہ سے ایک جان جا چکی ہے اور دوسری بھی خطرے میں ہے۔جانتے ہو کیا سزا ہے اسکی اگر یہ پولیس والے تمہیں جیل میں لے جائیں نا تو ساری زندگی جیل میں سڑو گے تم"


میر داد کی آواز میں موجود غصے کو محسوس کر کے شاہ داد کی روح تک کانپ گئی مگر وہ اتنا جانتا تھا کہ اس مصیبت سے اگر کوئی اسے نکال سکتا تھا تو وہ صرف میرداد ہی تھا۔اسی لیے وہ زارو قطار روتے ہوئے میر داد کے پیروں میں گر گیا۔


"بھائی مجھے معاف کر دیں میری غلطی کی اتنی بڑی سزا نہ دیں پلیز معاف کر دیں مجھے۔"


اپنے چھوٹے بھائی کے وہ آنسو میر داد کے دل پر تیزاب کی طرح گرے لیکن پھر بھی وہ میر داد کو پگھلانے کے لیے نا کافی تھے۔


"ایک جان گئی ہے شاہ داد عالم اور اس بات کی معافی نہیں ہو سکتی۔۔۔۔"


شاہ داد نے اس بات پر روتے ہوئے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔


"معاف کر دیں بھائی ۔۔۔۔بس ایک آخری بار معاف کر دیں۔۔۔۔۔"


میر داد نے اپنے جان سے پیارے بھائی کی یہ حالت دیکھ کر اپنی آنکھیں موند لیں اس وقت وہ شدید کشمکش میں تھا ایک طرف معاملہ انصاف کا تھا تو دوسری طرف۔۔۔۔۔


"یہ تینوں تمہارے بہن بھائی نہیں میر تمہارے بچے ہیں جان سے زیادہ پیار کرنا انہیں بیٹا۔جان سے زیادہ خیال رکھا کرو گے تم انکا وعدہ کرو یہ مجھ سے۔"


میر داد کے ذہن میں اپنے باپ کے الفاظ گونجے تو اس نے ضبط سے اپنی مٹھیاں اور آنکھیں مزید سختی سے بھینچ لیں۔


"انسپیکٹر۔۔۔۔"


"جی واجہ۔۔۔۔"


میر داد کی آواز پر انسپیکٹر احترام سے آگے ہو کر بولا۔


"اس ایکسیڈنٹ میں سے میرے بھائی کا نام مٹا دو اس طرح سے کہ اس حادثے کا کوئی نام و نشان ہی نہ بچے بلکہ اس حادثے کا ذکر بھی کسی زبان سے سننا گوارہ نہیں کروں گا میں۔"


میر داد کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔جہانزیب کو میر داد کے فیصلے پر افسوس ہوا لیکن وہ جانتا تھا کہ اس معاملے میں میر داد کسی کی نہیں سنے گا اس لیے وہ خاموش رہا۔


"جی واجہ جیسا آپ چاہیں۔"


انسپکٹر کے ایسا کہتے ہی شاہ داد میر داد کے قدموں سے اٹھ کر اسکے گلے سے لگ گیا۔


"تھینک یو بھائی ۔۔۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا۔"


شاہ داد نے شدت سے کہا۔میر داد نے اسے بے رخی سے خود سے علیحدہ کیا اور اسکی بات کا جواب دیے بغیر انسپیکٹر کی طرف مڑا۔


"ان دونوں کے بارے میں کچھ پتہ چلا آپکو؟"


"سر ہمیں اس آدمی اور اس لڑکی کے پاس ایسا کچھ نہیں ملا جس سے ان کی شناخت کی جا سکتی۔"


"کیا مطلب؟"


انسپیکٹر کی بات پر میر داد کے ماتھے پر بل آئے جہانزیب نے بھی انسپیکٹر کو حیرت سے دیکھا۔


"جی سر ہمیں لگتا ہے بھیڑ کا فائدہ اٹھا کر بس کے کسی مسافر میں انکا تمام سامان چرا لیا۔وہ تو شاید اس نے لڑکی کے ہاتھ پر غور نہیں کیا ورنہ ہمیں آپکے بھائی کی یہ چین بھی نہیں ملتی۔"


میر داد نے ایک گہرا سانس لیا تھا۔


"ٹھیک ہے جاؤ یہاں سے۔"


میر داد کہ اجازت دیتے ہیں انسپکٹر باقی پولیس والوں کو لے کر وہاں سے چلا گیا میرداد نے اپنا رخ زمان کی طرف کیا۔


"اس لڑکی کے ہوش میں آتے ہی اس سے اس کے گھر کا پتہ پوچھنا اور اس کو وہاں پہنچا دینا اور اسکے ہوش میں آنے تک تم یہیں رہ کر اسکا خیال رکھو گے ۔"


"جی واجہ۔"


زمان نے اثبات میں سر ہلایا۔ تبھی ایک ڈاکٹر کمرے سے باہر آیا اور میر داد کو دیکھتے ہی اسے آ کر سلام کرنے لگا۔


"اب کیسی ہے وہ لڑکی؟"


میر داد نے کافی سنجیدگی سے سوال کیا۔


"چوٹ زیادہ گہری نہیں تھی واجہ لیکن اسے ہوش نہیں آیا ابھی تک۔"


میر داد نے ڈاکٹر کے جواب پر اثبات میں سر ہلایا۔


"اسے کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے ڈاکٹر اگر اسے کچھ ہوا تو تمہیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔"


ڈاکٹر نے تھوک نگلتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تو میر داد وہاں سے چل دیا۔ اس کے چلتے ہی جہانزیب بھی اس کے پیچھے چل دیا جبکہ زمان اس وارڈ کے باہر گارڈ کی طرح کھڑا ہو گیا۔


مراد دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے شاہ داد کے پاس آیا۔شاہ داد نے اسے مسکرا کر دیکھا اور جیب میں سے سگرٹ نکال کر سلگا لی۔


"کہا تھا نا تجھے کہ بھائی کے ہوتے ہوئے ہمیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔"


شاہ داد کے لہجے اور انداز سے بے تحاشہ غرور چھلک رہا تھا۔مراد نے کچھ سوچ کر انکار میں سر ہلایا۔


"میر داد واجہ نے تو تمہیں معاف کر دیا شاہ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ تم مکمل طور پر آزاد ہو۔اس لڑکی کو جب ہوش آئے گا تو وہ تمہیں پہچان لے گی اور اگر وہ یہ معاملہ جرگے میں لے گئی نا تو پھر کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا میر داد واجہ بھی نہیں وہ بھی جرگے میں انصاف کا ساتھ دیں گے۔"


مراد کی بات پر غور کر کے شاہ داد کو اس بات کی سچائی کا اندازہ ہوا تھا۔میر داد انصاف کو اس کے اور حورم کے جتنا ہی تو چاہتا تھا لیکن آج یہ بات غلط ثابت ہوئی تھی۔شاہ داد کی محبت انصاف کو مات دے گئی تھی مگر پھر بھی شاہ داد اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔


"پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟"


شاہ داد نے پریشانی کے عالم میں مراد سے پوچھا تو مراد بھی سوچ میں پڑھ گیا۔


"کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا شاہ۔کچھ ایسا جس سے وہ لڑکی واجہ یا اسکے گھر والے واجہ تک نہ پہنچ سکیں۔"


مراد کی بات پر شاہ داد کافی دیر تک غور کرتا رہا پھر اسکی نظر اپنے دفتر سے باہر نکلتے ڈاکٹر پر پڑی تو شاہ داد کے لبوں کو ایک شیطانی مسکان نے چھوا۔


"فکر مت کر مراد ایسا ہی ہوگا۔"


شاہ داد نے مسکرا کر کہا اور پھر اپنی جیب سے موبائل نکال کر فون ملانے لگا۔جبکہ مراد تو صرف اسکے دماغ میں آنے والی ترغیب کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

💕💕💕

ڈاکٹر اپنے کمرے سے کچھ ضروری سامان لینے آیا تھا لیکن وہ جیسے ہی واپس جانے کے لئے مڑا تو اسے شاہ داد رند اور مراد بلوچ کمرے کے اندر آتے ہوئے دکھائی دیے ۔اندر داخل ہوتے ہی مراد نے دروازہ بند کرکے لاک لگا دیا۔


"آپ دونوں کو کچھ چاہیے کیا؟"


ڈاکٹر نے دونوں کو طائرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا تو جواب میں شاہ داد خاموشی سے ڈاکٹر کے سامنے آ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔مراد دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔


"جی چاہیے تو بہت کچھ ،اس لیے بہتر ہے کہ آپ بیٹھ کر آرام سے میری بات سنیں۔


شاہ داد کی بات پر ڈاکٹر اثبات میں سر ہلا کر خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔شاہ داد نے اپنی جیب سے ایک چیک نکال کر میز پر رکھا اور اور پھر اپنی کمر کے پاس سے ایک ریوالور نکال کر اس چیک کے پاس رکھا دیا۔


"میں آپ سے ایک چھوٹا سا فیور مانگوں گا ڈاکٹر صاحب اگر تو آپ کا جواب ہاں میں ہوا تو آپ کو انعام مل سکتا ہے جتنا بھی آپ چاہیں ۔"


شاہ داد نے اس چیک پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ڈاکٹر اس کی باتوں کا مقصد نہیں سمجھ پا رہا تھا۔


"لیکن اگر آپ نے انکار کردیا تو آپ سزا کے مستحق ہو جائیں گے۔"


شاہ داد نے پاس پڑا ریوالور اٹھا کر کہا ڈاکٹر ایک پل میں گھبرایا۔


"کیا چاہتے ہیں آپ؟"


"صرف اتنا کہ وہاں کمرے میں جو لڑکی زندہ ہے وہ زندہ نہیں رہے۔بہت آسان کام ہے آپ کو بس اس لڑکی کو کوئی ایسی دوائی دینا ہوگی جو اسکی چلتی سانسیں روک دے۔اس کے بعد آپ بس اتنا کہہ دیجیے گا کہ آپ اسے بچا نہیں سکے۔"


بہت سے سایے ڈاکٹر کے چہرے پر آ کر گزرے تھے۔


"میں ایسا نہیں کر سکتا وہ میری پیشنٹ ہے اور ویسے بھی اگر کسی دوائی سے اسکی موت ہوئی تو پوسٹمارٹم میں پتہ لگ جائے گا۔۔۔۔نہیں میں اتنا بڑا رسک نہیں لوں۔۔۔۔"


شاہ داد نے ریوالور کو ڈاکٹر پر تانا تو ڈاکٹر بولتے بولتے رک گیا۔


"تو ٹھیک ہے مرنے کے بعد افسوس کر لینا کہ کاش تم نے میری بات مان لی ہوتی۔"


شاہ داد نے ریوالور کو ڈاکٹر کے ذرا قریب کیا تو وہ خوف کے مارے کانپنے لگا۔


"اگر میں آپ کی بات نہ مانوں تو آپ مجھے مار دیں گے اور اگر میں مان لوں ،اس لڑکی کو مار دوں تو آپ کے بھائی مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔میرے لئے تو ایک طرف کواں ہے اور ایک طرف کھائی ۔"


ڈاکٹر کی بات سن کر شاہ داد شیطانی سے مسکرایا۔


"وہ میرا مسلہ نہیں ہے ڈاکٹر کچھ بھی کرو لیکن وہ لڑکی ہوش میں نہیں آنی چاہیے اور اگر میری بات نہ ماننے پر موت مل سکتی ہے تو ماننے پر بہت بڑا انعام بھی تو مل سکتا ہے نا سوچ لو ڈاکٹر۔"


شاہ داد نے اپنا ہاتھ ٹیبل پر موجود چیک پر رکھا تو ڈاکٹر للچاتی نظروں سے اس چیک کو دیکھنے لگا پھر کافی سوچ کر بولا۔


"ٹھیک ہے شاہ داد صاحب ایسا ہی ہو گا مگر آپکو مجھے اس کام کی کافی زیادہ قیمت دینی ہو گی۔"


ڈاکٹر کی بات پر شاہ داد جہاں مسکرایا تھا وہیں مراد نے سکون کا سانس لیا۔


"ٹھیک ہے ڈاکٹر فلحال تم یہ چیک رکھو اور اگر وہ لڑکی نہیں اٹھی تو تمہیں تمہاری قیمت مل جائے گی۔"


شاہ داد اتنا کہہ کر وہاں سے اٹھا اور مراد کے ساتھ باہر چلا گیا۔ڈاکٹر نے کپکپاتے ہاتھوں سے اس چیک کو پکڑا جہاں پر بیس لاکھ کی رقم لکھی تھی۔ایک شیطانی مسکراہٹ نے اس ڈاکٹر کے لبوں کو چھوا۔

💕💕💕

کشمالہ صبح کے سات بجے حورم کے کمرے میں اس سے باتیں کرنے آئی تھی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر اسکی ہنسی چھوٹ گئی۔حورم عالم رند چاولوں کے آٹے میں ناریل دودھ اور ناجانے کیا کچھ ملا کر اپنے بالوں پر لگا رہی تھی۔


"یہ کیا کر رہی ہو حور ؟"


کشمالہ نے کھلکھلا کر پوچھا۔


"کشمالہ آپی یہ سپیشل ریمیڈی ہے ہمیں ہماری ایک سہیلی نے بتائی تھی۔اس کو بالوں میں لگانے سے بال سیدھے ہو جائیں گے بلکل آپ کی طرح پیارے سے۔"


حورم کے تعریف کرنے پر کشمالہ اترائی تھی۔


"او امارا بال تو بہت پیارا ہے لیکن لڑکی بال تو تمہارا بھی بہت اچھا لگتا ہے سب سے مختلف۔"


کشمالہ نے سامنے موجود کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔


" لیکن ہمیں پسند نہیں سب کہتے ہیں ہم بلکل اپنی گل آپا کی طرح دیکھتے ہیں لیکن ہمارے بال ان کے جیسے نہیں ۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہم بلکل آپی کی طرح دیکھیں۔"


کشمالہ نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے حورم کو دیکھا۔


"لیکن تم کیوں گل کہ طرح دکھنا چاہتی ہو؟"


حورم اسکے سوال پر بوکھلائی اور جلدی سے بول اٹھی۔۔۔۔


"بس یونہی۔۔۔۔"


کشمالہ نے اثبات میں سر ہلا دیا پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اچانک بولی۔


"ارے دیکھو نا میں بھی کتنی بے وقوف ہوں میں تو تم سے یہ پوچھنے آئی تھی کہ آج میر داد واجہ نے گھر آنا ہے یا نہیں رات کو پتہ نہیں اچانک کہاں چلا گیا۔"


کشمالہ کے سوال پر حورم سوچ میں پڑھ گئی۔


"ہمیں تو نہیں پتہ ضرور پیرک کو پتہ ہو گا۔"


"ٹھیک ہے پھر ام انہیں سے پوچھ لیتا ہے۔"


کشمالہ اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی اور حورم مسکراتے ہوئے اپنی سفید بلی چاندی کو دیکھنے لگی جو حورم کی بنائی ہو ریمیڈی کو چاٹ رہی تھی۔


"چاندی اس کے بعد تو ناریل کا تیل لگانا ہے وہ تو ہمارے پاس ہے نہیں رکو ہم کچن سے لے کر آتے ہیں اور تم اسے کھانا چھوڑو۔"


حورم چاندی کے سامنے سے وہ پیالی اٹھا کر کمرے سے باہر آئی اور کچن کی طرف چل دی۔جب اچانک کچن سے کچھ دوری پر ہی سلمیٰ خالہ کی آواز حورم کے کانوں میں پڑی جو شاید ملازمہ شیلا سے مخاطب تھیں جو ابھی چند ہفتوں پہلے سے ہی کام پر آنے لگی تھی ۔


"تم یہ کیا کر رہا ہے لڑکی؟ ناشتہ کا کام چھوڑ کے یہ کھیر کس کے لیے بناتا ہے؟"


"اماں جہانزیب واجہ کے لیے۔۔۔۔"


ملازمہ کی بات پر حورم کر بڑھتے قدم رکے تھے اور وہ دروازے کے پیچھے کھڑے ہو کر انکی باتیں سننے لگی۔


"ان کے واسطے کیوں بنا رہا تم یہ ؟"


سلمی خالہ نے حیرت سے پوچھا۔


"اماں وہ ام کو اچھا لگتا ہے بہت تم نے دیکھا نہیں کتنا پیارا ہے وہ اور جب ایسے آہستہ آہستہ بات کرتا ہے نا سچی دل میں اتر جاتا ہے۔اس لیے ام نے سوچا کہ یہ میٹھا سا کھیر ان کو کھیلائے گا اور اپنے دل کی بات کہے گا کہ زیبا تم ام کو بہت اچھا لگتا ہے۔"


شیلا کی شرمائی لجھائی سی آواز حورم کے دل کو جلا کر خاک کرنے کے لیے کافی تھی۔صرف اتنا سا خیال کہ کوئی اور جہانزیب کے دل میں اترنے کی،اسے پانے کی کوشش کر رہا ہے،حورم کی آنکھیں نم کرنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن پھر حورم نے اپنا مقام یاد کر کے اپنے آنسو پونچھے اور باورچی خانے میں داخل ہو گئی۔


"کیا ہو رہا ہے یہاں؟"


حورم نے کافی سختی سے پوچھا تھا اور اسکی آواز پر دونوں عورتیں گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔


"وہ۔۔۔وہ حورم سائیں ام کھکھ۔۔۔۔کھیر بنا رہا تھا۔"


شیلا نے سر جھکا کر جواب دیا۔حورم کی نرمی نے ملازمین کو کبھی بھی خود سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں دی تھی لیکن پھر بھی وہ سب جانتے تھے کہ حورم کس کی بہن ہے۔


"کس کی اجازت سے۔۔۔؟؟"


حورم کے سختی سے پوچھنے پر شیلا مزید بوکھلا گئی تھی جبکہ سلمی خالہ بھی حورم کو حیرت سے دیکھنے لگیں۔بچپن سے انہوں نے ہی حورم کو ماں بن کر پالا تھا اور آج تک حورم نے یوں کسی سے بات نہیں کی تھی۔


شیلا نے کچھ کہنے کے لیے اپنے لب کھولے لیکن اس سے پہلے ہی حورم بولی۔


"ابھی کے ابھی آپ یہ ساری کھیر ہمارے کمرے میں لے کر آئیں اور خبردار! آئیندہ آپ نے کچھ بھی اپنی مرضی سے بنایا تو ہم میر داد بھائی کو بتا دیں گے کہ ملازمین اپنی ہی مرضی کر رہے ہیں۔سمجھ گئیں نا؟"


"ججی حورم سائیں۔۔۔"


ملازمہ نے بے چینی سے کہا کچھ بھی ہو جاتا وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی شکایت میر داد کے پاس پہنچے اس لیے خاموشی سے سر جھکا کر حورم کی بات مان گئی۔


"فورا۔۔۔اور خالہ آپ ہمیں ناریل کا تیل دیں۔"


سلمیٰ خالہ نے ہاں میں سر ہلا کر حورم کو تیل کی بوتل پکڑائی تو حورم اپنے کمرے میں چلی گئی اسکے جاتے ہی شیلا منہ بسور کر ساری کی ساری کھیر ایک بول میں انڈیل کر حورم کے کمرے کی طرف چل دی۔


"آجاؤ ۔۔۔۔"


شیلا کے دروازا کھٹکھٹانے پر حورم نے آواز دی تو شیلا کمرے میں داخل ہوئی اور ٹرے حورم کے سامنے کی جس میں کھیر پڑی تھی۔حورم نے میز کی طرف اشارہ کیا تو وہ شیلا وہاں پر ٹرے رکھ کر وہاں سے جانے لگی۔


"سنو ۔"


حورم کی آواز پر شیلا کے چلتے قدم رکے تھے اور اس نے مڑ کر اس حسن کی مورت،اس شہزادی کو دیکھا۔


"مجھے حور بی بی بلایا کرو تم باقی سب کی طرح۔۔۔۔حورم سائیں مجھے ہر کوئی نہیں بلا سکتا سمجھی ؟"


"جج۔۔جی حور بی بی۔"


اتنا کہہ کر شیلا وہاں سے چلی گئی تو حورم اس کھیر کے پاس آئی اور اسے اٹھا کر چاندی کے سامنے رکھ دیا جو اس عنایت کے ملنے پر خوشی سے اس میٹھی کھیر کو چاٹنے لگی تھی۔


"دیکھا تم نے چاندی کیسے وہ ہمارے زیب سائیں کے دل میں اترنے کی کوشش کر رہی تھی۔اگر ہم اسکی باتیں نہ سنتے تو وہ تو زیب سائیں کے پاس جا کر سب انہیں بتا دیتی۔"


حورم کے معصوم چہرے پر پریشانی کے اثار نمائیاں ہوئے۔


"نہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے چاندی ہم نے سوچ لیا ہے بہت جلد ہی ہم زیب سائیں کو بتا دیں گے کہ ہم ان سے بہت محبت کرتے ہیں اتنی کہ انکے بغیر جینے سے بہتر ہزار بار مرنا لگتا ہے۔"


حورم کی معصوم بھوری آنکھیں نم ہوئی تھیں۔جہانزیب کے کسی اور کو چاہنے کا،حورم سے دور جانے کا احساس ہی حورم کی سانسیں روکنے کے لیے کافی تھا۔


"ہاں ہم ۔۔۔۔ہم سب بتا دیں گے زیب سائیں کو چاندی اگر وہ کسی اور کو چاہنے لگ گئے۔۔۔۔اور ہم سے دور ہو گئے تو ہم۔۔۔۔۔ہم تو مر کی جائیں گے۔۔۔"


بہت سے آنسو ان آنکھوں سے جدا ہو کر زمین بوس ہو گئے۔

💕💕💕

صبح کے سات بجے ہسپتال سنسان ہی تھا اور اب ڈاکٹر کی شفٹ بھی ختم ہونے والی تھی اس لیے اس نے اپنا کام جلدی کرنے کا سوچا۔


ہال میں آ کر ڈاکٹر نے ایک نظر زمان کو دیکھا جو وارڈ کے باہر آنکھیں موندے بینچ پر بیٹھا تھا۔ڈاکٹر خاموشی سے آگے بڑھا تو زمان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور پھر سے آنکھیں موند گیا۔شکر کا سانس لے کر ڈاکٹر پرائیویٹ وارڈ میں داخل ہوا اسکی کی نظر بیڈ پر پڑے اس وجود پر تھی جو ابھی بھی دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی۔


ڈاکٹر اس لڑکی کے قریب ہوا اور اپنے سفید کوٹ کی جیب سے ایک انجکشن نکال کر اسے بھرنے لگا۔وہ انجیکشن ایسا تھا جس نے اپنا کوئی اثر چھوڑے بغیر سیدھا دماغ پر اثر کرنا تھا اور ڈاکٹر نے سوچا کہ لڑکی کا دماغ یقیناً اتنا شدید جھٹکا نہیں سہہ پائے گا۔


وہ جانتا تھا کہ یہ انجیکشن لگانے کے بعد یہ لڑکی کبھی بھی ہوش میں نہیں آئے گی اور اسے اس بات کا دکھ بھی تھا مگر اس کا لالچ اس دکھ کے آڑے آ گیا۔


سوئی ہوئی لڑکی کا بازو پکڑ کر اس نے وہ انجیکشن اس کی نس میں لگا دیا۔


پھر جتنی خاموشی سے وہ اس کمرے میں آیا تھا اتنی خاموشی سے وہاں سے باہر چلا گیا۔

میر داد نے ساری رات اپنے ڈیرے پر گزاری۔ایک پل بھی اس نے سکون سے نہیں گزارا ایک بوجھ سا اسکے دل پر تھا جو کہ اتارے نہیں اتر رہا تھا۔صبح فجر پڑھ کے پریشانی کے عالم میں گھر واپس آیا اور واپس آتے ہی اسکا سامنہ کشمالہ سے ہوا میر داد گہرا سانس لے کر اسکے پاس سے گزرنے لگا۔


"واجہ کیسا ہے آپ پوری رات گھر نہیں آیا اور ویسے بھی زیادہ تر شہر ہی رہتا ہےآپ کا دل اداس نہیں ہوتا ہم سب کے بغیر؟"


"تم سے ہی تو دور جاتا ہوں۔"


میر داد نے آہستہ سے دانت کچکچا کر کہا کشمالہ اسکے قریب ہوئی۔


"کچھ کہا آپنے واجہ؟"


میر داد نے اسکو خود کے قریب آنے پر گھورا اور دونوں کے درمیان میں فاصلہ قائم کیا۔


"اپنی حد میں رہا کرو کشمالہ کلیم رند تمہیں کتنی بار سمجھانا پڑے گا؟"


میر داد نے غصے سے کہا لیکن کشمالہ ڈھیٹوں کی طرح مسکرا دی۔


"آپ تو ایسے گھبرا رہا ہے واجہ جیسے آپ لڑکی ہو۔"


کشمالہ نے ایک ادا سے ہنستے ہوئے کہا۔میر داد نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"جب تم میں لڑکی ہو کر حیا ختم ہو چکی ہے تو اس حیا کا مظاہرہ مجھے تو کرنا ہی ہو گا۔"


میرداد انتہائی زیادہ بے رخی سے کہتا وہاں سے چلا گیا اور اس کے جاتے ہی کشمالہ دانت کچکچا کر رہ گئی۔


"اس ساری بے عزتی کا حساب دینا ہو گا تم کو میر داد عالم بس ایک بار میرا مقصد پورا ہو جائے بس سردارنی کا عہدہ مل جائے پھر دیکھنا تم۔"


کشمالہ غصے سے کہتی اپنی ماں رخسانہ کے کمرے کی طرف چل دی ۔میرداد اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا جب اس کی نظر حال میں موجود شاہ میر اور کلیم پر پڑی تو وہ انکے قریب آیا۔


"اسلام و علیکم ۔"


"وعلیکم السلام آئیں سردار صاحب ہمیں بھی وقت دیں۔"


کلیم صاحب کے مسکرا کر کہنے پر میر داد خاموشی سے انکے پاس بیٹھ گیا۔


"کہاں تھے تم رات بھر ہمیں پتہ چلا کہ تمہیں پولیس کا فون آیا سب خیر تھی نا؟"


کلیم صاحب کے ایسا کہنے پر میر داد ہلکا سا مسکرایا اور شاہ میر صاحب کے حقے سے ایک کش لیا۔


"میرے خیال سے آپ میرے معاملات پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھیں چچا کیونکہ سردار میں ہوں آپ نہیں اپنا ہر معاملہ اچھے سے سمبھالنے کے قابل ہوں۔"


میر داد نے طنزیہ مسکان سے کہتے ہوئے کلیم کو آگ لگائی۔شاہ میر صاحب نے کلیم کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر میر داد کا دھیان اپنی طرف کیا۔


"حورم پر بھی دھیان دے لیا کرو واجہ ناراض ہے وہ آپسے۔"


شاہ میر صاحب کی بات پر میر داد نے گہرا سانس لیا اور ہاں میں سر ہلا کر وہاں سے اٹھ گیا۔تھکاوٹ،پریشانی اور غصے کے باوجود اس نے اپنے کمرے سے پہلے حورم کے کمرے کا رخ کیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔


اسکی لاڈلی نکمی سی بہن اتوار کے دن بھی کتابوں میں سر دیے رٹے لگانے میں مصروف تھی۔میر داد مسکرا کر اسکے پاس آیا۔


"آج سورج کہاں سے نکلا بھئی حورم عالم رند پڑھائی کر رہی ہیں وہ بھی اتنے دھیان سے."


میر داد نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے شرارت سے کہا جبکہ جواب میں حورم نے منہ بنا لیا۔


"پہلی بات ہم آپسے ناراض ہیں دوسری بات ہمیں 70% سے زیادہ نمبر لینے ہیں کسی بھی حال میں۔"


حورم نے کتاب میں سر دے کر کہا۔


"وجہ جان سکتا ہوں۔"


حورم نے پھر سے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"مسلئہ کیا ہے بھائی آپکا ہم پڑھائی کریں تو پرابلم نا کرین تو پرابلم۔"


حورم کی اس بات پر میر داد ہلکا سا مسکرایا اسکے کبھی کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا لیکن حورم جانتی تھی اسکے لیے یہ بھی بہت بڑی بات تھی۔


"اچھا ناراض کیوں ہو؟"


"ہم نے آپکو زمان واجہ کے ساتھ بات کرتے ان لیا تھا آپ نے ہماری ٹیچر کو کالج سے نکلوا دیا یہ اچھا نہیں کیا آپ نے."


حورم کی بات پر میر داد نے گہرا سانس لیا۔


"اسکے ساتھ وہی ہوا حور جسکے وہ قابل تھی تم اسکے بارے میں مت سوچو۔"


حورم نے منہ بسور کر اسے دیکھا۔


" بوئگ مہربان تاں دگہاں(دوسروں پر رحم کیا کریں۔ "


حورم نے اسکا گال چوم کر کہا اور پھر بڑے لاڈ سے اسکے پاس بیٹھی۔


"بھائی آپ شادی کر لینا ہمیں بہت شوق ہے آپ کی شادی کا۔"


حورم کے لاڈ سے کہنے پر میر داد نے کچھ دیر سوچا تو اسکی آنکھوں کے سامنے وہی نیلی آنکھیں آئی تھیں۔بے ساختہ طور پر ایک مسکان میرداد کے لبوں پر آئی اسکی پریشانی اسکے خیال پر ہی رفع ہو گئی۔


"تمہاری یہ خواہش بھی اب جلد ہی پوری کروں گا بس دعا کرو اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاؤں۔"


میر داد نے مسکرا کر کہا اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے زمین کھودے یا آسمان اب وہ اس کی پری کا پتہ لگا کر رہے گا اور اب جب وہ سے ملے گی تو اسکی ہو جائے گی۔

💕💕💕

"فکر مت کرو یہ سب جہانزیب دیکھ لے گا یہ کام وہ میر داد سے بہتر طریقے سے کر سکتا ہے ۔۔۔"


شاہ میر نے پاس بیٹھے کلیم سے کہا جنکے ماتھے پر جہانزیب کا نام سنتے ہی بل آ گئے۔


"مجھے یہ سمجھ نہیں آتا بابا کہ آپ اس ملازم پر اتنا بھروسہ کیسے کر سکتے ہیں کہ آپ نے آنکھیں بند کر کے اسے نہ صرف حویلی تک رسائی دی ہے بلکہ حورم کو پڑھانا ،کالج سے لانا یہ سب اس پر ڈالا ہے اتنا اندھا اعتماد؟"


شاہ میر نے کلیم کی بات اطمینان سے سنی لیکن انکی ہر گزرتی بات پر شاہ میر کے ماتھے پر بل آئے تھے۔


"جہانزیب ایک ملازم نہیں ہے کلیم وہ اس گھر کا حصہ ہے اسی لیے اسے حویلی تک رسائی ہے اور رہی حور کی بات تو وہ جہانزیب کے ساتھ اتنی ہی محفوظ ہے جتنی وہ میر داد اور شاہ داد کے ساتھ ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔شاید تم جہانزیب شاہ کا اس گھر سے تعلق اور مقام بھول چکے ہو۔۔۔۔۔"


شاہ میر نے بیٹے کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"کس مقام کی بات کر رہے ہیں آپ جس مقام کی سب سے زیادہ خلاف ورزی آپنے کی تھی۔جو مقام جہانزیب شاہ کو دینے کی وجہ سے دو سال تک آپ نے عالم سے بات تک نہیں کی تھی۔۔۔۔"


کلیم نے اپنی باتوں سے شاہ میر کو بہت کچھ یاد دلایا۔


"وہ میری جھوٹی انا تھی کلیم رند اور وہ جھوٹی انا جو بیٹی کو کھونے پر بھی ختم نہ ہوئی۔۔۔۔"


شاہ میر نے افسوس سے کہا جبکہ انکی بات کا اشارہ اپنی چھوٹی بہن منیرہ کی طرف دیکھ کر کلیم اٹھ کھڑے ہوئے۔


"جو بھی ہے بابا گھر میں میری بھی بیٹیاں ہیں آپ نے اور میر داد نے چاہے حورم کو لے کر آنکھیں بند کیں ہوں لیکن میں ایک غیر مرد کا سایہ بھی اپنی بچیوں پر برداشت نہیں کر سکتا بہتر ہو گا آپ جہانزیب شاہ کے اس مقام کے بارے میں سوچیں جو نو سال پہلے کا ختم ہو چکا ہے اور اب وہ بس ایک ملازم ہے۔"


کلیم اتنا کہہ کر وہاں سے چلے گئے اور شاہ میر گہرا سانس لے کر رہ گئے۔کڑوا ماضی انہیں پھر سے یاد آنے لگا تھا۔


"آپ نے بلایا پیرک ۔۔۔۔۔۔"


جہانزیب کی آواز پر انہوں نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور اسے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


جہانزیب بیٹا تم نے یہ سارے معاملات خود ہی دیکھ لینے ہیں تا کہ کوئی مسلہ نہ ہو۔"


"جی پیرک آپ فکر مت کریں میں ہر چیز سمبھال لوں گا۔"


جہانزیب نے عقیدت سے کہا تو شاہ میر رند نے اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔


"میر داد سے بات ہوئی کیا؟ تم نے شادی کی بات کی اس سے خود 30 کا ہو گیا ہے اور کشمالہ بھی 23 سال کی ہو چکی ہے اور کتنا انتظار کرنا ہے اسے پھر ہمیں شاہ داد اور خوش بخت کی شادی کا بھی تو سوچنا ہے۔"


جہانزیب مصنوعی سی مسکان مسکرایا وہ میر داد کی کہی بات شاہ میر کو کیسے بتاتا کہ میر داد کا کشمالہ سے شادی کرنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا بلکہ وہ دو سال تو کسی پری کی تلاش میں تھا جو اسکا جنون بنی بیٹھی تھی۔


"جی پیرک میں بات کروں گا۔"


جہانزیب نے اتنا ہی کہا شاہ میر صاحب نے ہاں میں سر ہلایا۔


"اور خود کا بھی تو کچھ سوچو تم تو اس سے بھی دو سال بڑے ہو۔"


شاہ میر صاحب نے شرارت سے کہا لیکن جہانزیب کے چہرے کی مسکان غائب ہوئی تھی۔


"مجھے شادی نہیں کرنی پیرک کبھی بھی نہیں۔"


جہانزیب نے سر جھکا کر کہا۔شاہ میر صاحب نے افسوس سے اسے دیکھا۔


"سب جانتے ہیں جہان کہ تم ماہ گل سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور وہ بھی تمہیں بہت چاہتی تھی لیکن ہم قسمت کا لکھا تو نہیں مٹا سکتے نا۔"


شاہ میر نے اسے سمجھانے کوشش کی۔جہانزیب نے اپنی بچپن کی منکوحہ ماہ گل کی موت کے بعد سے کسی کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا اور اس خاندان کی مرحوم بیٹی کا شوہر ہونے کے باوجود وہ خود کو انکا غلام ہی سمجھتا۔


"گستاخی معاف پیرک لیکن مجھے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی اجازت چاہتا ہوں۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب وہاں سے چلا گیا شاہ میر صاحب نے گہرا سانس لیا۔انہیں آج بھی وہ وقت یاد تھا جب عالم رند شاکرہ کو اپنی بہن بنا کر اس حویلی میں لایا تھا۔تب اسکی باہوں میں یہ چھوٹا سا جہانزیب تھا جو سب حویلی والوں کو بہت عزیز تھا۔


جہانزیب بچپن سے ہی ایسا تھا خاموش عاجز اور اس سے دو سال چھوٹا میر داد اسکا بلکل الٹ تھا لیکن پھر بھی دونوں میں کمال کی دوستی تھی۔


پھر میر داد کے تین سال کے ہونے پر ماہ گل پیدا ہوئی جسکے پیدا ہوتے ہی عالم رند نے یہ اعلان کیا کہ وہ جہانزیب شاہ کی منگ ہے اور اسکے بڑے ہوتے ہی انکا نکاح ہو گا۔


سب اس فیصلے سے حیران ہوئے تھے کیونکہ رند خاندان نے کبھی کوئی رشتہ خاندان سے باہر نہیں کیا تھا۔مگر پھر بھی عالم نے اپنی ہی مرضی کی اور جہانزیب کے نو سال اور ماہ گل کے چار سال کے ہونے پر دونوں کا نکاح کر دیا۔


جہانزیب ماہ گل کا اتنا خیال رکھتا تھا کہ اسکا بس چلتا تو وہ ماہ گل کو اپنی پلکوں پر بیٹھا کر رکھتا۔اگر کبھی تکلیف ماہ گل کو ہوتی تھی تو درد جہانزیب کو ہوتا تھا۔


سب جہانزیب کی محبت کو دیکھتے ہوئے ماہ گل کے مقدر پر رشک کرتے تھے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ماہ گل خدا سے بہت تھوڑی عمر لے کر آئی تھی۔


وہ دن آج بھی یاد کر کے شاہ میر رند کی روح کانپ جاتی جب میر داد اٹھارہ سالہ ماہ گل کی لاش دلہن کے جوڑے میں گھر لے کر آیا تھا۔


پرانی یادوں پر شاہ میر صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔وہ جہانزیب شاہ کی تکلیف اور دکھ نہیں سمجھ سکتے تھے شائید کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا ۔جس نے شادی کے دن ہی اپنی بچپن کی محبت ،بچپن کی منکوحہ کو کھویا تھا۔ہاں اسکا دکھ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا ۔

💕💕💕

شام کا وقت ہو رہا تھا اور میر داد اپنے کمرے میں بیٹھا ضروری کام کرنے میں مصروف تھا ۔


"بھائی میں آ جاؤں؟"


شاہ داد نے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر اجازت مانگی لیکن میر داد نے اسیے دیکھاوا کیا کہ وہاں کوئی ہو ہی نہ۔شاہ داد خودی چل کر میر داد کے پاس آیا اور اسکے پیروں میں بیٹھ کر اپنا سر اسکی گود میں رکھ دیا ۔


"ابھی تک ناراض ہیں آپ مجھ سے بھائی؟"


شاہ داد کے سوال پر میر داد نے ضبط کی انتہا سے اپنی آنکھیں میچ کر کھولیں مگر شاہ داد کو کوئی جواب نہیں دیا۔


"بھائی میں مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہو گئی مگر پلیز آپ مجھے معاف کر دیں میں نے جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیا نا۔"


شاہ داد نے سر اٹھا کر میر داد کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"تمہیں سزا سے بچا تو لیا شاہ اب مزید کیا چاہتے ہو تم؟"


میر داد نے ہاتھ میں پکڑے کاغزات پر دھیان دیتے ہوئے پوچھا۔


"صرف اتنا بھائی کہ آپ مجھے معاف کر دیں اور مجھ سے یوں بے رخی سے پیش نہ آئیں آپ کو پتہ تو ہے میں اور حور آپکی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتے۔"


شاہ داد نے اسکے ہاتھ پکڑ کر کافی محبت سے کہا میر داد نے ایک گہرا سانس لے کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔


"میں تم سے ناراض نہیں شاہ بس پریشان ہوں تم سوچ نہیں سکتے کہ جو فیصلہ میں نے لیا وہ میرے لیے کتنا مشکل تھا لیکن تم پریشان مت ہو میں ناراض نہیں تم سے بس مجھے کچھ وقت چاہیے اس سب کو بھلانے کے لیے۔"


میر داد کی بات پر شاہ داد نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


"شُکر کشئگاں شما شرٌيں براث ئن"(شکریہ آپ اس دنیا کے سب سے اچھے بھائی ہیں)


شاہ داد نے اسکے ہاتھ چوم کر کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔میر داد بہت دیر گہری سوچ میں ڈوبا رہا پھر کچھ زمینوں کے کاغذات ڈھونڈنے کے لیے اس نے ساتھ موجود دراز کھولا تو اسکی نظر ایک مخملی ڈبے پر گئی۔


بے ساختہ طور پر میر داد کے لبوں پر ایک مسکان ٹھہری۔ اس نے اس ڈبے کو پکڑ کر کھولا جس میں سونے کی وہی سنہری پائلیں جگمگا رہی تھیں ۔


وہ نیلی غصے سے بھری آنکھیں اسے یاد آئیں تو میر داد کی آنکھوں میں ایک چمک آئی اور اس نے ان پائلوں کو چہرے کے سامنے کیا۔


"بہت جلد تمہیں ڈھونڈ لوں گا پری یہ میرا وعدہ ہے اور اب جب بھی تم مجھے مل گئی نا اس دن تم میر داد کی ہو جاؤ گی۔"


میر داد نے ان پائلوں کو دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔


اور اگر وہ پہلے سے کسی اور کی ہوئی تو؟


میر داد کے دماغ نے اچانک ہی اس سے سوال کیا۔اسکی پکڑ اس مخملی ڈبے پر بہت سخت ہو گئی۔


تو چھین لوں گا اسے اس سے۔۔۔۔پری کے نصیب میں اب میر داد کی ہونا لکھا ہے۔

میر داد نے وحشت سے سوچا تبھی اسکا فون بجنے لگا تو وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور اپنا فون اٹھا کر کان سے لگایا۔

"ہاں بولو زمان سب ٹھیک ہے؟"

میر داد نے اس ڈبے کو واپس دراز میں رکھتے ہوئے پوچھا۔

"سب ٹھیک نہیں ہے واجہ وہ لڑکی۔۔۔۔وہ لڑکی کوما میں چلی گئی ہے۔"

زمان نے میر داد پر بم پھوڑا۔

"کیا مطلب اسے ہوش نہیں آ رہا؟"


ابھی کچھ دیر پہلے ہی زمان نے فون کر کے میر داد کو ہسپتال بلایا تھا جس لڑکی کے ہوش میں آنے کا وہ انتظار کر رہے تھے وہ ہوش میں ہی نہیں آئی تھی بلکہ اب کوما میں جا چکی تھی۔


"ابھی کل ہی تو تم نے کہا تھا کہ اسے جلد ہی ہوش آ جائے گا تو پھر یہ سب کیا ہے؟"


میرداد نے اپنے سامنے سر جھکا کر کھڑے ڈاکٹر سے کہا ۔میر داد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کچھ کر بیٹھے۔


"جی واجہ مجھے بھی یہی لگا تھا لیکن اسے ہوش آیا ہی نہیں چوٹ چونکہ اسکے سر پر لگی تھی اس لیے شاید دماغ میں کسی اندرونی زخم کی وجہ سے یہ سب ہوا۔"


ڈاکٹر کی بات پر میر داد نے اپنا ماتھا انگلیوں کے پوروں سے دبایا۔


"اب کب تک ہوش آئے گا اسے؟"


میر داد نے ڈاکٹر کو طائرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ڈاکٹر کچھ دیر سوچ میں پڑ گیا۔


"کچھ کہہ نہیں سکتا واجہ کتنا وقت لگے گا ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے،ایک مہینہ بھی،ایک سال یا کئی سال لگ سکتے ہیں آپ فکر مت کریں اسکے ہوش میں آنے تک میں اسکا بہت خیال رکھوں گا۔"


میر داد نے مسکراتے ہوئے ڈاکٹر کو تیکھی نگاہوں سے دیکھا۔


"آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ڈاکٹر صاحب میں نے کوئٹہ سے ایک بہت اچھی نیورو کو بلا لیا ہے اب اس لڑکی کا علاج وہی کریں گی۔"


میر داد کی بات پر ڈاکٹر نے تھوک نگلا وہ بہت زیادہ گھبرا گیا تھا لیکن پھر بھی خود پر قابو رکھتے ہوئے بولا۔


"جی بہتر."


ڈاکٹر میرداد کے اجازت دیتے ہیں وہاں سے چلا گیا۔ڈاکٹر کے جاتے ہی جہانزیب پریشانی سے میرداد کے پاس آیا۔


"واجہ اب ہم اس لڑکی کے گھر والوں کا پتہ کیسے لگوائیں گے۔اس کے علاوہ میری دوسرے ڈاکٹر سے بات ہوئی تھی وہ کہہ رہا تھا کہ اس آدمی کی لاش اس قابل نہیں کہ ہم اس کو زیادہ دن تک سٹور کرکے رکھیں۔"


جہانزیب کی بات پر میرداد کافی دیر غور کرتا رہا اور پھر زمان کی طرف مڑا۔


"کیا کچھ پتہ چلا تمہیں؟"


"نہیں واجہ یہ لوگ ہمارے علاقے کے نہیں ہیں ضرور کہیں باہر سے آئے تھے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کس کے پاس آئے تھے۔"


زمان نے سر جھکا کر جواب دیا تو میرداد بے چینی سے اپنی آنکھوں کے درمیان کا حصہ انگلیوں کے پوروں میں دبانے لگا۔


"تو ٹھیک ہے ہم لوگ خود اس آدمی کی تدفین کر دیتے ہیں۔"


میر داد نے سنجیدگی سے کہا جبکہ اسکی بات جہانزیب کو زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔


"مگر واجہ یہ انکے گھر والوں کا حق ہے ہم انہیں آخری بار بھی اگر اسکا دیدار نہیں کرنے دیں گے تو یہ زیادتی ہے۔انہیں صبر کیسے آئے گا؟"


جہانزیب کی بات پر میر داد نے مڑ کر اسے دیکھا۔


"یہ ہمارا مسلہ نہیں ہے جہانزیب شاہ وقت کا تقاضا یہی ہے۔"


جہانزیب نے کچھ دیر سوچ کر اثبات میں سر ہلایا۔میر داد ایک آخری نگاہ اس کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر خاموشی سے وہاں سے جانے لگا تو جہانزیب بھی اسکے پیچھے چل دیا۔

💕💕💕

حورم پڑھائی کرتے کرتے شدید بور ہو چکی تھی اسی لیے اس نے سوچا کہ وہ چھت پر چلی جاتی ہے شاید اس سے اس کا موڈ تھوڑا بہتر ہو جائے۔


اس لیے اس نے چاند کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور چھت کی طرف چل دی۔چھت پر آ کر ملنے والی تاذہ ہوا حورم کی روح کو سکون دے گئی ۔


"چلو چاندی ہم یہاں پر اپنا فیورٹ کام کرتے ہیں تم کھیلو اور ہم ہمیشہ کی طرح زیب جی کو یاد کر لیتے ہیں۔"


حورم نے آہستہ سے چاندی کو سہلاتے ہوئے شرارت سے کہا اور اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئی لیکن اسکی نظر چھت کے پچھلے حصے پر پڑی تو حیرت سے اسکی آنکھیں کھل گئیں۔


کشمالہ وہاں اکیلے بیٹھی چیلیم(حقے) کو اپنے لبوں سے لگا کر دھواں ہوا میں چھوڑ رہی تھی۔


"کشمالہ آپی۔"


حورم نے اس کے پاس جا کر آنکھیں بڑی کر کے کہا تو کشمالہ نے پہلے تو سہم کر اپنا ہاتھ دل پر رکھا لیکن پھر وہاں پر حورم کو دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔


"آپی آپ چیلیم کیوں پی رہی ہیں پتہ ہے کسی کو پتہ چلا۔۔۔۔۔"


"چھوڑو حور سب پیتا ہے یہ تو شوق ہے بلوچوں کا اور اتنا ڈر ڈر کے جیئے گا تو مزہ کب کرے گا۔"


کشمالہ نے ایک آنکھ دبا کر شرارت سے کہا تو حورم ہنستے ہوئے اس کے پاس بیٹھ گئی۔


"کسی کو پتہ ہے کہ آپ یہ پیتی ہیں؟"


حورم نے آہستہ سے پوچھا تو جواب میں کشمالہ نے انکار میں سر ہلا کر چیلیم کا ایک کش لیا اور دھواں ہوا میں چھوڑ دیا۔


"تم ٹرائی کرے گا؟"


کشمالہ نے وہ چھوٹا سا پائپ اس کے سامنے کر کے پوچھا تو حورم نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"چیک تو کرو مزہ نہ آیا تو کہنا۔"


کشمالہ کے چیلنج پر حورم جھجھکتے ہوئے اس پائپ کے پاس ہوئی اور اسے ہونٹوں سے لگا کر دھواں اندر کھینچا اور اسکے ایسا کرتے ہی اسکا سارا شوق اتر گیا اور وہ بری طرح سے کھانسنے لگی کشمالہ قہقہ لگا کر ہنسی۔


"عادت ہونے میں وقت لگتا ہے شہزادی صاحبہ۔"


کشمالہ نے ایک ادا سے کہہ کر وہ دوباہ اپنے ہونٹوں سے لگایا۔


"ایک اور کوشش کرتی ہوں۔"


حورم کے ایسا کہنے پر کشمالا نے وہ پائپ اس کے سامنے کیا جسے حورم نے آہستہ سے اپنے ہونٹوں سے لگایا مگر تبھی دروازے سے ہلکا سا کھانسنے کی آواز پر حورم نے ادھر دیکھا تو اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔


سامنے ہی جہانزیب چاندی کو اپنے بازوئوں میں اٹھائے کھڑا تھا۔حورم نے وہ پائپ چھوڑا اور جلدی سے کھڑی ہو گئی ۔


"ننن۔۔۔۔۔نہیں ہم تو وہ۔۔۔۔۔وہ تو ہم ۔۔۔۔۔"


حورم بہت زیادہ گھبرا گئی تھی اسی لیے آگے بڑھ کر ہکلانے لگی جبکہ کشمالہ نے تو جہانزیب پر دھیان ہی نہیں دیا تھا اس کے قریب جہانزیب کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔


"چاندی سیڑھیوں پر تھی سوچا آپکو بتا دوں۔"


جہانزیب کی آنکھوں میں موجود افسوس دیکھ کر حورم کا دل کٹ کر رہ گیا ۔جہانزیب نے چاندی کو فرش پر رکھا اور واپس سیڑھیوں کی طرف چل دیا ۔حورم نے دوپٹہ سر پر لے کے جلدی سے چاندی کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور اس کے پیچھے بھاگی۔


" زیب سائیں ۔۔۔۔۔زیب سائیں ہماری بات تو سنیں۔"


حورم کے گھبرا کر بلانے پر جہانزیب رکا لیکن اس نے مڑ کر حورم کو نہیں دیکھا حورم جلدی سے بھاگ کر اس کے سامنے آئی۔


"ہہ۔۔۔۔ہمیں معاف کر دیں وہ تو بس ہم اسے چیک کر رہے تھے ہم نے پیا نہیں۔۔۔"


حورم نے جلدی سے صفائی پیش کی جہانزیب نے ہاں میں سر ہلایا۔


"کوئی بات نہیں حورم سائیں آپ کی زندگی ہے آپ جو مرضی کریں میں کون ہوتا ہوں آپکو کچھ کہنے والا۔"


جہانزیب کی بات حورم کے دل پر لگی وہ جانتی تھی کہ جہانزیب جب بھی ناراض ہوتا تو ایسے ہی بات کرتا اور جہانزیب کی ناراضگی حورم کو کہاں گوارا تھی۔


"نہیں ہم ووو۔۔۔۔وعدہ کر رہے ہیں نا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے آپ معاف کر دیں۔۔۔"


حورم نے آنکھوں میں آنسو لے کر کہا تو جہانزیب نے گہرا سانس لیا میر داد کی طرح وہ بھی اس گھر کی لاڈلی کے آنسو برداشت نہیں کرتا تھا۔


"وعدہ؟؟؟"


"پکا والا۔"


جہانزیب کے سوال پر حورم نے پر جوشی سے کہا ۔جہانزیب نے مسکرا کر اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر سہلایا جیسا وہ ہمیشہ اسکے بچپن میں اسکے بال بکھیرتا تھا۔


"یہی امید ہے آپسے مجھے حورم سائیں آپ واجہ کا غرور ہیں اور کبھی یہ غرور ٹوٹنے مت دیجیئے گا۔"


جہانزیب اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو حورم نے ہلکے سے اپنے سر پر موجود دوپٹے کو چھوا اور مسکرا دی۔


"ہمیں تو بھائی کی طرح آپکا غرور بھی بننا ہے،پھر آپکی چاہت بننا ہے ،پھر خواہش،پھر محبت، پھر عشق ایک دن ہمیں یہ سب بننا ہے زیب سائیں۔"


حورم نے خواب کی سی کیفیت میں کہا اور پھر چاندی کو خود سے لگا کر چل دی۔

💕💕💕

جہانزیب حورم کے پاس سے واپس آیا اور اس وقت اپنے کمرے میں جا رہا تھا جب اسے لان میں شاہ داد ہنس ہنس کر کلیم صاحب سے باتیں کرتا نظر آیا۔شاہ داد کو دیکھ کر یہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ابھی کچھ دن پہلے اس کی وجہ سے ایک جان گئی تھی۔


جہانزیب انہیں نظر انداز کرتا سرونٹ کوارٹرز کی طرف بڑھ گیا میر داد نے تو اسے پیار اور غصے ہر طریقے سے کہہ کر دیکھ لیا تھا مگر جہانزیب وہیں رہتا تھا۔


"جہانزیب شاہ۔۔۔"


کلیم صاحب کہ وہ پکارنے پر جہانزیب پلٹا اور ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔


"جی واجہ۔۔۔۔"


جہانزیب میں عقیدت سے سر جھکا کر پوچھا تو کلیم صاحب کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکان آئی انھیں کبھی بھی جہانزیب دل سے اچھا لگا ہی نہیں تھا اسی لیے اسے ذلیل کرنے کا کوئی نہ کوئی موقع ڈھونڈتے رہتے تھے مگر میر داد اور شاہ میر کے ہوتے ہوئے یہ ناممکن تھا پر ابھی تو وہ یہاں نہیں تھے۔


"جوتے کافی گندے ہوگئے ہیں ہمارے اور یہ گندے جوتے ہم حویلی میں لے کر نہیں جانا چاہتے اس لیے یہ رومال پکڑو اور انہیں صاف کر دو۔"


اس بات پر جہاں جہانزیب نے انہیں حیران ہو کر دیکھا تھا وہیں شاہ داد ہلکا سا ہنس دیا لیکن جہانزیب نے کچھ دیر سوچ کر انکار میں سر ہلایا۔


"یہ ہمارا کام نہیں ہے واجہ۔۔۔۔"


کلیم صاحب کے ماتھے پر بل آئے۔


"کیوں تمہارا کام کیوں نہیں ہے کیا تم اس حویلی کے ملازم نہیں ہو یا پھر تمہیں دی جانے والی عزت کی وجہ سے تم خود مالک ہی سمجھ بیٹھے ہو؟"


کلیم صاحب کی آواز میں طنز بھرا پڑا تھا لیکن جہانزیب کو اس سب سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔


"نہیں واجہ میں اپنی حیثیت جانتا ہوں اور اپنا کام بھی مگر جو آپ کہہ رہے ہیں وہ میرا کام نہیں۔۔۔۔"


کلیم صاحب نے آگے بڑھ کر جہانزیب کو اس کے کالر سے پکڑا۔


"اپنی اوقات میں رہو جہانزیب شاہ مت بھولو کہ ایک ایسے کیڑے ہو جسے میرا بھائی سڑک سے اٹھا لایا تھا۔میرے بھائی کی بیوقوفیوں کی وجہ سے اس حویلی کی بیٹی کے تم شوہر ضرور رہ چکے ہو مگر اس کے مرنے کے بعد اب وہ رشتہ بھی نہیں رہا۔اب تم صرف ایک ملازم ہو سمجھے۔۔۔۔"


جہانزیب نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا اور اپنے ہاتھ کلیم کے ہاتھوں پر رکھ کر اپنا کالر چھڑوایا۔


"ملازم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں خود کو اپنی ہی نگاہوں میں گرا لوں۔سید ہوں میں واجہ اگر عاجزی ہمارے خون میں ہے تو عزت نفس ہمارا لبادہ ہے۔میری عاجزی کو کمزوری مت سمجھیں۔۔۔۔"


جہانزیب اپنی باتوں سے کلیم کو آگ لگائی اور خاموشی سے وہاں سے چلا گیا لیکن شاہ داد نے دلچسپی سے جاتے ہوئے جہانزیب کی بھینچی ہوئی مٹھیوں کو دیکھا۔


"جہانزیب کس کا بیٹا ہے چاچو؟"


شاہ داد میں دلچسپی سے پوچھا تو کلیم صاحب نے اپنا سر جھٹک دیا۔


"کوئی نہیں جانتا بس بھائی صاحب ایک دن اس کو اور اس کی ماں شاکرہ کو اٹھا کر یہاں لے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ یہ عورت میری بہن ہے اور اس بچے کو تو میرا بیٹا ہی سمجھیں۔بس تب سے یہیں ہے یہ ایک بوجھ کی طرح۔"


کلیم صاحب نے نفرت سے اس دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا جہاں ابھی جہانزیب گیا تھا۔


"مگر بابا نے اس سے ماہ گل آپی کا نکاح کیوں کر دیا یہ تو بلوچ بھی نہیں۔"


اس سوال پر کلیم صاحب نے گہرا سانس لیا۔


"میرے مرحوم بھائی صاحب بہت سے اصولوں کو فالتو سمجھتے تھے اور ذات میں شادی کرنا بھی انہیں میں سے ایک تھا۔ اسی لیے ایک مثال قائم کرنے کے لیے بے چاری ماہ گل کا نکاح اس سے تب کر دیا جب وہ صرف چار سال کی تھی۔"


شاہ داد نے افسوس سے اپنا سر جھٹکا۔


"بے چاری میری آپی۔۔۔۔"


"ہاں تب سے ہی یہ خود کو کچھ زیادہ ہی سمجھتا ہے لیکن جو بھی کر لے ہے تو ایک کیڑا ہی نا،ایک ملازم جسکی کوئی اہمیت نہیں."


کلیم صاحب کی بات پر شاہ داد نے ہاں میں سر ہلا دیا تبھی شاہ داد کا فون بجنے لگا تو وہ کلیم سے اجازت لے کر فون سننے چلا گیا۔


"ہاں بول مراد۔۔۔"


شاہ داد نے مراد کا فون دیکھتے ہی کان کے ساتھ لگایا۔


"شاہ ڈاکٹر کا فون آیا تھا وہ لڑکی مری نہیں بلکہ کوما میں چلی گئی ہے اور تو اور میر داد واجہ نے اس ڈاکٹر کی ڈیوٹی بھی وہاں سے بدل دی ہے اب وہ کچھ نہیں کر سکتا۔"


مراد کی بات سن کر شاہ داد کے ماتھے پر بل پڑھ گئے۔


"فکر مت کر مراد کوما میں گیا انسان اتنی آسانی سے ہوش میں نہیں آتا۔فلحال اس لڑکی کی پریشانی بھلا کر واپس عیاشی پر غور کرتے ہیں اور اگر ہوش میں آ بھی گئی تو دیکھ لیں گے اسے۔"


شاہ داد نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا۔میر داد سے معافی ملنے پر وہ مزید بہادر ہو گیا تھا اور اسکا مان پہلے سے بھی بڑھ گیا۔وہ سمجھ چکا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے میر داد اسے ہر مشکل سے نکال لے گا۔

💕💕💕

"مینہ او مینہ۔۔۔۔۔"


صدف کے پکارنے پر ازمینہ جلدی سے کمرے سے باہر آئی۔


"جی اماں۔۔۔۔"


"کیا ہو گیا ہے مینہ تم سکول کیوں نہیں جاتا ءِ چیز کُل ہر راست؟"(سب ٹھیک ہے نا؟)


صدف کے سوال پر ازمینہ کو وہ دن اور شاہ داد یاد آیا اب وہ ماں کو کیا بتاتی کہ وہ شاہ داد کے ڈر سے گھر سے نہیں نکل رہی تھی۔


"بس طبیعت ٹھیک نہیں اماں ۔۔۔۔کل چلا جائے گا سکول۔۔۔"


صدف نے اثبات میں سر ہلایا مگر اس سے پہلے کہ ازمینہ واپس مڑتی ارشاد بلوچ وہاں آیا اور ازمینہ کہ ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے۔


"چونے تو منی زاگ؟" (کیسا ہے میرا بچہ؟)


باپ کو دیکھ کر ہی سکون ازمینہ کے اندر اترا اس دنیا میں اسے اب سے زیادہ پیار اپنے بابا سے ہی تھا وہ غرور تھی اپنے باپ کا۔


"میں ٹھیک بابا۔۔۔۔"


"تو سکول کیوں نہیں جاتا یہ اچھا بات نہیں تمہارا وجہ سے کتنے بچوں کا نقصان ہوتا ہے۔۔۔۔"


ارشاد کی بات پر ازمینہ نے اثبات میں سر ہلایا۔


"میں سکول چلتی ہوں بابا مگر مجھے آپ چھوڑ کے آنا اور لانا بھی آپ ہی۔۔۔۔"


ازمینہ کی بات پر ارشاد کے چہرے پر سے مسکان غائب ہوئی اس نے پریشانی سے اپنی بہادر بیٹی کو دیکھا۔


"سب ٹھیک ہے نا مینہ؟"


ازمینہ نے ارشاد کے سوال پر کچھ دیر غور کیا پھر مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔ارشاد کے چہرے کی مسکان واپس آئی۔


"تو پھر تم تیار ہو جاؤ تمہیں چھوڑ کر بھی آئے گا اور لے کر بھی تمہارا باپ تمہارے ساتھ ہے تو پھر کیسا پریشانی۔"


ازمینہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور تیار ہونے کمرے میں چلی گئی۔ہاں اسکے باپ کے ہوتے ہوئے اسے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

💕💕💕

"السلام علیکم واجہ"


ایک خوشگوار سی آواز پر شاہ میر نے اپنا دھیان اخبار سے ہٹایا تو خوشگوار حیرت ان کے چہرے پر آئی۔


"سرمد رند۔۔۔۔۔۔بچک کیسے ہو تم؟"


انہوں نے اٹھ کر سامنے موجود شخص کو اپنے گلے لگایا سرمد رند عالم رند کا بہت اچھا دوست تھا جو کافی عرصہ پہلے بزنس کے سلسلے میں امریکہ چلا گیا تھا اور آج اسے سے اپنے سامنے دیکھ کر شاہ میر صاحب بہت خوش ہوئے تھے۔


"میں بالکل ٹھیک ہوں آپ بتائیں آپ کیسے ہیں ؟"


سرمد نے ان سے علیحدہ ہو کر پوچھا شاہ میر مسکرا دیے۔


"میں بلکل ٹھیک تم یہ بتاؤ تمہاری بیوی اور بیٹا کہاں ہیں؟"


شاہ میر کے سوال پر سرمد نے ہنستے ہوئے دروازے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے ایک عورت اور ایک انتہائی خوبرو 25 سالہ لڑکا آگے بڑھ رہے تھے۔سفید شرٹ اور نیلی جینز کی پیٹ پہنے،بالوں کو سیٹ کیے ،گوری رنگت اور کلین شیو والا وہ لڑکا بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔


"ارے تم دونوں وہاں کیوں ہو یہاں آؤ"


شاہ میر کے کہنے پر وہ دونوں مسکرا کر آگے بڑھے۔ شاہ میر نے غور کیا کہ ساتھ موجود لڑکے میں مغربی انداز تھا لیکن اس میں غرور یا ایسا کچھ بالکل بھی نہیں تھا بلکہ وہ کافی خوش اخلاق تھا۔


"واجہ یہ میری بیوی ہے انابیہ اور یہ صاحبزادے میرے اکلوتے بیٹے شہریار ہیں۔"


سرمد نے دونوں کی طرف اشارہ کیا تو دونوں نے باری باری شاہ میر کے سامنے جھک کر ان سے پیار لیا۔


"ماشاءاللہ ماشاءاللہ آپ دونوں کھڑے کیوں ہیں بھئی بیٹھیں۔"


شاہ میر کے ایسا کہنے پر وہ سب بیٹھ گئے۔شاہ میر نے ملازمہ کو اشارہ کیا تو وہ مہمانوں کی آؤ بھگت میں لگ گئیں۔


"اور بتاؤ کیسا چل رہا ہے تمہارا کام جس کے سلسلے میں تم امریکہ گئے تھے؟"


شاہ میر کے سوال پر سرمد مسکرا دیے۔


"ماشاءاللہ بہت اچھا چل رہا ہے جسے ایک چھوٹا سا بزنس لےکر میں امریکہ گیا تھا وہ کافی بڑا امپائر بن چکا ہے اب تو شہریار نے بھی ایم بی اے کر لیا ہے اور بزنس میں میرا ہاتھ بٹاتا ہے بس سوچ رہا ہوں کہ خود ریٹائر ہو جاؤں اور سارا کچھ اس پر چھوڑ دوں ماشاءاللہ بہت قابل ہے۔"


سرمد کی بات پر شاہ میر شہریار کو دیکھ کر مسکرائے ۔


"ہاں بالکل آخر سب سنبھالنا تو اسے ہی ہے۔"


تبھی پاس بیٹھے شہریار کا فون بجا تو وہ ایکسکیوز می کہتا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور چلتے چلتے فون سننے لگا فون سنتے سنتے وہ کب کافی دور ایک ہال میں آگیا اس کا اسے سے بھی اندازہ نہیں ہوا۔


"اوئے لڑکا ۔۔۔۔اوئے لڑکا۔۔۔۔"


ہلکی سی آواز پر شہر یار نے پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھا تبھی کسی نے اچانک آگے بڑھ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور ایک کرسی کے پیچھے زمین پر بیٹھا دیا۔


شہریار نے بوکھلا کر اس لڑکی کو دیکھا جو اپنی کاجل لگی بڑی بڑی آنکھوں اسے گھور رہی تھی۔


"کب سے بلا رہے ہیں ہم لیکن تم سنتے ہی نہیں ۔چاندی پہلے ہی ہم سے ناراض ہو کر نہ جانے کہاں چلی گئی ہے اسے کب سے ڈھونڈ رہے ہیں اور اب تم ڈرا دو اسے۔"


حورم بولنا شروع ہوئی تو بولتی چلی گئی۔جبکہ شہریار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہا تھا۔اس نے مغرب میں رہتے ہوئے ہر طرح کا حسن دیکھا تھا لیکن سامنے موجود لڑکی جیسی پاکیزہ خوبصورتی پہلی بار دیکھ رہا تھا۔


"تم۔۔۔"


چُپى، ریچ لنکک سرا شمئے دپ ۔(چپ، انگلی رکھو اپنے منہ پر)


حورم نے اپنے منہ پر انگلی رکھ کر اسے کہا تو شہریار نے بھی مسکرا کر ایسا ہی کیا۔تبھی وہاں ایک سفید رنگ کی بلی آئی جسے حورم نے جھپٹتے ہوئے اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔شہریار بھی یہ دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔


"آہ۔۔۔"


حورم کے منہ سے سسکی نکلی اور اس نے اپنی انگلی سامنے کر کے دیکھی جس پر ہلکا سا خون لگا تھا۔


"افف کسی کو مت بتانا کہ چاندی نے ہمیں کاٹا ورنہ آج اسکا جنازہ نکل جائے گا یہاں سے۔"


حورم نے شہریار کو گھورتے ہوئے کہا تو شہریار نے اثبات میں سر ہلایا۔


"تو یہ ہے چاندی؟"


شہریار کے سوال پر حورم مسکرا دی۔


"ہاں یہ ہے ہماری چاندی بہت پیاری ہے نا۔"


حورم نے چاندی کو بہت محبت سے دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ شہریار تو مبہوت سا ہو کر حورم کو دیکھ رہا تھا۔


"ہاں بہت پیاری ہے۔"


شہریار نے حورم کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"حور بی بی آپکی کلاس کا ٹائم ہو چکا ہے۔"


ملازمہ کے وہاں آ کر کہنے پر حورم کے چودہ طبق روشن ہوئے۔


"ہائے اللہ ہم کیسے بھول گئے ہمیں جانا ہو گا جلدی سے۔"


حورم اتنا کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی اور شہریار کی نظروں نے اسکے غائب ہونے تک اسکا پیچھا کیا تھا۔


"حور۔۔۔۔"


شہریار نے مسکرا کر ہلکے سے کہا اور واپس باہر کی طرف چل دیا۔

💕💕💕

کچھ پتہ چلا؟"


میر داد نے بے چینی سے سامنے کھڑے آدمی سے پوچھا جس کی ذمہ داری اس نے پری کو ڈھونڈنے پر لگائی تھی۔خود بھی کئی بار وہ اس کی تلاش میں شہر آ چکا تھا لیکن اس کا کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔


"نہیں سر میں نے کوئٹہ کے ہر کالج سے پتہ لگانے کی کوشش کی لیکن آپکے بتاۓ ہوۓ حلیے کے مطابق کوئی لڑکی نہیں ملی۔"


اس آدمی کی بات پر میرداد نے اپنی مٹھیاں کسیں۔کیوں ایسا ہو رہا تھا جسے وہ حاصل کرنا چاہ رہا تھا وہی اس کی بے چینی کو اتنا بڑھا رہا تھا۔


"تم نے مال سے پتہ کرنے کی کوشش کی؟"


میرداد نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے سوال کیا۔


"جی سر لیکن وہاں سے بھی کچھ خاص پتہ نہیں چلا اور ویسے بھی یہ کام کافی مشکل ہے کیونکہ میں اس لڑکی کے نام اور حلیے کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔ویسے بھی مجھے لگتا ہے پری اس کا اصلی نام نہیں ہے جس وجہ سے یہ کام اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔"


میر نے گہرا سانس لیا اور ہاں میں سر ہلایا۔


"ٹھیک ہے لیکن اسے جلد از جلد ڈھونڈو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔"


اس آدمی نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔میر دار نے ہمیں آنکھیں موند کر کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائی۔


آنکھیں بند کرتے ہی اسے وہ نیلی آنکھیں پھر سے یاد آئیں میر داد گہرا سانس لے کر رہ گیا۔


"اب بس کرو پری مل جاؤ مجھے۔تمہیں ابھی اندازہ نہیں میری تڑپ کا لیکن جب ملو گی نا تو ایک ایک لمحے کی تڑپ کا حساب چکانا ہوگا تمہیں۔"


میر داد کے لبوں پر ایک مسکان ٹھہر سی گئی۔وہ جانتا تھا کہ وہ پری کو ڈھونڈ لے گا کیونکہ پری ہی وہ لڑکی تھی جو میر داد کے دل کو دھڑکا کر گئی تھی اب اسے میرداد کا ہی ہونا تھا چاہے کچھ بھی ہو جاتا۔

💕💕💕

آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا مگر شہریار سونے کی بجائے لاؤنج میں بیٹھا خود میں ہی مسکرا رہا تھا۔


"اہم اہم۔۔۔۔ "


انابیہ بیگم کی آواز پر شہریار نے انہیں مڑ کر دیکھا۔انابیہ بیگم نے اسکے پاس آ کر اپنا ہاتھ اسکے سر پر رکھا۔


"آج اتنی دیر تک جاگ رہا ہے میرا بیٹا سب ٹھیک تو ہے نا؟"


شہریار نے گہرا سانس لیا۔


"جی مما بس نیند نہیں آ رہی تھی۔"


شہریار نے آہستہ سے کہا تو انابیہ بیگم مسکرا دیں۔


"اور اس نیند نہ آنے کی وجہ جان سکتی ہوں؟"


اس مرتبہ ان کے سوال پر شہریار مسکرایا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پاس بیٹھا دیا۔


"مما آپکو یاد ہے اس دن جب ہم شاہ میر انکل کے گھر گئے تھے تو مجھے وہاں ایک لڑکی ملی تھی۔۔۔۔۔"


"او ہو تو یہ لڑکی کا معاملہ ہے۔۔۔"


انابیہ بیگم کے شرارت سے کہنے پر شہریار نے ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔


"وہ بہت سویٹ تھی مما بلکل معصوم سی،پاکیزہ سی اور اسے دور ہو کر دل کر رہا ہے کہ بس وہ میرے سامنے میرے پاس آ جائے۔"


شہریار کی بے چینی سے کہنے پر انابیہ بیگم بھی پر جوش ہوئی تھیں۔


"تم نام بتاؤ مجھے بس اس کا۔"


اس بات پر شہریار کے ہونٹوں پر مسکان گہری ہوئی۔


"حور۔۔۔۔"


"ہائے سچی شہر یار تم حورم عالم کی بات کر رہے ہو نا؟تم نے تو میرے دل کی بات سن لی اور تمہیں پتا ہے تمہارے بابا کو یہ پتا چلے گا تو وہ کتنے خوش ہونگے اس گھر کے لئے حورم سے بہتر لڑکی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔"


انابیہ بیگم نے کافی بے چینی سے کہا جبکہ انکی بات نے شہریار کی خوشی بے انتہا بڑھا دی۔


"مام سچ میں آپ جائیں گی ان کے پاس بات کرنے؟"


شہریار نے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر ان کے ہاتھ تھامتے ہوئے بے چینی سے پوچھا۔


"ہاں بیٹا ضرور جائیں گے لیکن ابھی نہیں کیونکہ وہ بہت چھوٹی ہے اور ابھی ویسے بھی پڑھ رہی ہے مگر اس کے ایگزامز کا سلسلہ ختم ہوتے ہی ہم سب سے پہلے وہاں رشتہ لے کر جائیں گے۔"


اس بات پر شہریار نے چاہتے ہوئے انابیہ بیگم کو گلے لگایا۔


"تھینک یو مام آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔"


مگر پھر شہریار کو ایک نئی پریشانی لاحق ہوگئی۔


"وہ لوگ مان تو جائیں گے نا؟"


شہریار کے پریشانی سے پوچھنے پر انابیہ بیگم نے مسکرا کر اس کا ماتھا چوما۔


"کیوں نہیں مانیں گے اتنا پیارا بیٹا ہے شہزادوں جیسا تم دیکھنا وہ بھی اتنے ہی خوش ہوں ہوں گے جتنے ہم ہوئے۔"


انابیہ بیگم کی بات پر شہریار نے ہاں میں سر ہلایا اور بہت خوشی سے انہیں اپنے خیالات بتانے لگا۔اسے لگ رہا تھا کہ حورم کو پا کر وہ وہ پوری دنیا ہی جیت لے گا لیکن قسمت کو کیا منظور تھا یہ صرف وہی جانتی تھی۔

💕💕💕

حورم کے ایگزامز سٹارٹ ہو چکے تھے اور جتنا وقت ہو سکتا تھا وہ اپنی پڑھائی کو دے رہی تھی۔اسے تو صحیح معنوں میں کھانا اور پینا بھی بھولا ہوا تھا۔


اب کل بھی حورم کا انگلش کا پیپر تھا جس سے حورم کو ہمیشہ سے نفرت تھی مگر پھر بھی وہ رات کے بارہ بجے تک پڑھائی کرنے کی مکمل کوشش کرتی رہی لیکن پڑھتے پڑھتے کب اس کی آنکھ لگ گئی اس کا اسے بھی اندازہ نہیں ہوا۔


"حور پٹاخہ۔"


کسی کے کندھا ہلانے پر حورم ہڑبڑا کر اٹھی۔اس نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے شاہ داد کھڑا مسکرا رہا تھا ۔


"یہاں کرسی پر کیوں سو رہی ہو اس مقصد کے لیے تمہیں ایک عدد بیڈ دیا گیا ہے۔"


شاہ داد نے شرارت سے کہتے ہوئے اور اس کے سامنے پڑے انگوروں میں سے ایک انگور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالا۔


"ہم سو نہیں رہے تھے شاہ بھائی ہم پڑھ رہے تھے۔"


حورم نے زبردستی اپنی آنکھیں کھولتے ہوئے کہا تو شاہ داد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔


"تمہیں کیا ضرورت ہے پڑھنے کی۔لڑکیاں تو زیادہ تر اس لئے پڑتی ہیں تاکہ ان کے اچھے رشتے آئیں یا وہ نوکری کر سکیں اور تم میرداد کی بہن ہو تمہیں ان دونوں کی ضرورت نہیں۔اگر شوق کی بات کریں تو تمہیں پڑھنے کا خاص شوق بھی نہیں۔"


میرداد کی اس بات پر حورم نے منہ بنا لیا اسے واقعی پڑھنے کا شوق نہیں تھا مگر اسے کسی بھی حال میں 70٪ سے زیادہ نمبر لینے تھے۔


"ہم اس وجہ سے پڑھ رہے ہیں تاکہ سب کو بتا سکیں کہ ہم اتنے بھی لائق نہیں۔"


حورم نے ایک ادا سے کہا تو شاہ داد نے ہنستے ہوئے اس کی چھوٹی سی ناک دبائی۔


"اگر اگلی بار کوئی تمہیں نالائق کہے نا تو اسے میرے پاس بھیج دینا گڑیا اسے کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں چھوڑوں گا۔"


شاہ داد نے اتنا کہہ کر حورم کے سر پر بوسہ دیا میر داد کی طرح وہ اس کی بھی جان تھی۔


"اور اب اس سب کو چھوڑو اور آرام سے سو جاؤ اگر تم کہو نا تو دیکھنا پیپر دیے بغیر تمہارے سو فیصد نمبر آئینگے۔"


شاہ داد کے آنکھ دبا کر کہنے پر حورم کھلا کر ہنس دی۔شاہ داد بھی ہنستا ہوا وہاں سے چلا گیا مگر حورم سونے کے بجائے پھر سے اپنا دھیان کتاب پر لگا چکی تھی۔


"دیکھیے گا زیب سائیں ہم آپ کی خواہش ضرور پوری کریں گے اور پھر اپنی خواہش میں آپ کو آپ سے ہی مانگ لیں گے۔"


حورم نے ایک شرمیلی سی مسکان کے ساتھ کہا اور پھر سے کتاب کھول کر اسے پڑھنے لگی۔

💕💕💕


اس حادثے کو گزرے ہوئے اور اس لڑکی کو کوما میں گئے ہوئے تقریبا ایک مہینے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا لیکن میر داد کے آدمی اور زمان اس لڑکی کے بارے میں کچھ بھی معلوم کرنے میں ناکام رہے تھے۔مجبورا اس آدمی کی تدفین ان لوگوں کو خود ہی کرنی پڑی تھی۔


یہاں تک کہ اس نے ارد گرد کے سارے پولیس اسٹیشنز میں بھی بتا کروایا تھا مگر کہیں بھی کسی آدمی اور لڑکی کے غائب ہونے کی کوئی رپورٹ درج نہیں کی گئی تھی۔


ابھی اس وقت بھی زمان سر جھکائے میرداد کے سامنے کھڑا اس کے اگلے حکم کا انتظار کر رہا تھا۔


"واجہ میں نے کچھ سوچا ہے۔"


زمان نے کافی عقیدت سے کہا تو جواب میں میرداد نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"ہم اس لڑکی کی تصویر اخبار اور سوشل میڈیا پر دے دیتے ہیں پھر اس کے گھر والے ہم سے خود ہی رابطہ کر لیں گے۔"


میرداد نے کچھ دیر اس کی بات پر غور کیا اور پھر ہاں میں سر ہلایا۔


"ایسا کر کے بھی دیکھ۔۔۔۔"


"نہیں میر داد۔"


اچانک ہی جہانزیب نے میر داد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکی بات کو کاٹا۔زمان نے حیرت سے جہانزیب کو دیکھا۔اگر یہ حرکت جہانزیب کے سوا کسی اور نے کی ہوتی تو اب تک میر داد اسے کڑی سے کڑی سزا سنا چکا ہوتا۔میر داد نے سوالیہ نگاہوں سے جہانزیب کو دیکھا۔جہانزیب نے اسکے کندھے سے ہاتھ ہٹا کر اپنا سر جھکایا۔


"عورت کی عزت بہت نازک ہوتی ہے واجہ۔ایک ایسا آئینہ جس پر ہلکی سی دراڑ بھی اسے چکنا چور کر سکتی ہے۔اگر ہم اس لڑکی کی تصویریں پوری دنیا میں پھیلا دیں گے تو یہ معاشرہ اس کی عزت کا تماشا بنا دے گا۔"


جہانزیب کی بات میں چھپی حکمت کو دیکھتے ہوئے میر داد نے اثبات میں سر ہلایا۔اس کی آنکھوں میں جہانزیب شاہ کے لئے ایک اعلیٰ مقام اور عقیدت تھی۔


"صیح کہا تم نے جہان۔زمان تم اس لڑکی کے گھر والوں کو ڈھونڈو لیکن اس طرح سے کی اسکی عزت پر ہلکی سی بھی آنچ نہ آئے۔"


"جی بہتر واجہ۔"


زمان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا میر داد اپنی جگہ سے اٹھ کر جہانزیب کے پاس آیا۔


"تم صرف میرے دوست نہیں ہو جہان تم میرا مان ہو۔ایک انتہائی سمجھدار اور نیک انسان ہو۔تم مجھ سے بہتر سردار بن سکتے ہو۔"


میر داد کی بات پر جہانزیب مسکرا دیا۔


"شکریہ واجہ لیکن اس سے میری حثیت نہیں بدلے گی میں ایک غلام ہوں اور غلام ہی رہوں گا اور مجھے سرداری چاہیے بھی نہیں میں جیسا ہوں خوش ہوں۔"


میر داد نے جہانزیب کے کندھے کو تھپتھپایا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔

💕💕💕

شاہ داد اس وقت ایک جیپ ریلی میں موجود تھا جو کہ بلوچستان کا بہت مشہور اور پسندیدہ کھیل تھا اس میں بہت سے علاقوں کے لوگ اور سردار حصہ لیتے پھر جسکی جیپ ایک ٹریک کو سب سے کم ٹائم میں پورا کرتی وہ جیت جاتا تھا۔


"تو جیتے گا شاہ دیکھ لینا۔"


مراد نے مسکرا کر کہا تو جواب میں شاہ داد بھی مسکرا دیا اور پھر اپنی جیپ کی طرف چل دیا۔ریس بس شروع ہونے والی تھی۔


شاہ داد کی نظر ساتھ موجود مگسی سردار پر پڑی تو شاہ داد نے اسے انگلی سے گھٹیا اشارہ کیا اور جیپ کی طرف بڑھ گیا۔


مگسی سردار کا رکارڈ تین منٹ بارہ سیکنڈ تھا۔شاہ داد نے پوری رفتار سے جیپ دوڑائی ایک غرور سا اس کے سر پر سوار تھا اسے لگتا تھا کہ کچھ بھی ہو جاتا جتنا اس نے ہی تھا۔


مگر ریس ختم کر کے شاہ داد نے ٹائم دیکھا تو اسکا ٹریک تین منٹ چودہ سیکنڈ میں مکمل ہوا۔


"شٹ۔۔۔۔"


شاہ داد غصے سے چلایا اور گاڑی روک کر باہر نکلا۔مراد بھاگ کر اسکے پاس آیا۔شاہ داد کھا جانے والی نظروں سے اس مگسی سردار کو دیکھنے لگا جسکے نام کے نعرے سب لگا رہے تھے۔


"اگلی بار اپنے بھائی کو ساتھ لے آنا بچے شاید تمہیں یہ ریس پیسے دے کے جیتوا دے۔"


مگسی سردار نے طنز کیا۔شاہ داد نے آگے بڑھنا چاہا تو مراد نے اسے تھام لیا۔


"نہیں شاہ۔۔۔۔"


شاہ داد نے غصے سے اپنا بازو چھڑایا اور گاڑی کی طرف چل دیا۔مراد گہرا سانس لیتے ہوئے اس کے ساتھ چلا۔وہ لوگ ابھی گاؤں کی سڑک پر پہنچے تو شاہ داد کی نظر پیدل چلتے ارشاد اور ازمینہ پر پڑی تو کب سے بھولا ہوا وہ تھپڑ اسے یاد آیا۔


اس تھپڑ کی یاد نے ہار کے غصے پر تیل کا کام کر کے اسے مزید بھڑکا دیا


"مراد تیار رہنا میں لڑکی کو سنبھالوں گا اور تو اس کے باپ کو آج زرا اسے بھی اس تھپڑ کا مزہ چکھا دیتے ہیں۔۔۔"


شاہ داد میں ان دونوں کو دیکھتے ہوئے دانت پیس کر کہا جبکہ اس کے چہرے پر موجود غصہ دیکھ کر مراد گھبرا گیا۔


"شاہ چھوڑ نا یار۔۔۔۔"


مراد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی جو کہ شاہ داد کی گھوری پر ہی ختم ہو گئی۔شاہ داد نے گاڑی کے کیبنٹ میں سے کلوروفارم نکال کر اپنے رومال پر لگایا اور گاڑی کو آگے بڑھا کر ان کے قریب روکا۔


شاہ داد کو گاڑی سے نکلتا دیکھ ارشاد عقیدت سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا تھا جبکہ ازمینہ کی جان مٹھی میں آ گئی۔


"سلام واجہ ۔۔۔۔"


ارشاد نے آہستہ سے کہا لیکن شاہ داد اسے نظر انداز کرتا ازمینہ کی طرف بڑھا اور اپنا رومال اس کے منہ پر رکھ دیا ازمینہ شاہ داد کی پکڑ میں مچلنے لگی لیکن سب بے سود۔


ارشاد نے گھبراہٹ کے مارے آگے کر اپنی بیٹی کو بچانا چاہا تو مراد نے پیچھے سے اس کے منہ پر بھی ایک رومال رکھا اور وہ بھی اپنی بیٹی کی طرح ہوش کی دنیا سے بے خبر ہو گیا۔


"گاڑی میں ڈال ان دونوں کو۔۔۔۔۔"


شاہ داد نے مسکرا کر کہا مراد کو اس وقت وہ ایک انسان نہیں بلکہ شیطان ہی لگ رہا تھا لیکن پھر بھی مراد اس شیطان کی بات مانتا چلا گیا کیونکہ مراد بھی اپنی ایک خواہش کے ہاتھوں مجبور تھا ورنہ اس شیطان کو وہ خود ہی مار دیتا۔

💕💕💕

اس سنسان حویلی میں جو پرانی ہونے کی وجہ سے اجاڑ تھی اور گاؤں سے بہت دور تھی،وہاں ازمینہ کی چیخیں گونج رہی تھیں مگر اسے بچانے والا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔


"چھوڑ دو واجہ امارا بیٹی کو چھوڑ دو ام تمہارے پیر پڑتا ہے۔"


ارشاد بلوچ زارو قطار روتے ہوئے زمان کے پیروں میں گرا۔ مراد نے اس غریب انسان کو بے چارگی سے دیکھا۔


"تمہارا بیٹی نے بہت بڑی غلطی کر دیا چچا ۔۔۔۔اسے شاہ داد کو تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا۔۔"


مراد نے سامنے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا تو ارشاد کے رونے میں مزید اضافہ ہو گیا اسے نے دروازے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو مراد نے اسے پکڑا اور واپس زمین پر پٹخ دیا۔


تھوڑی دیر بعد ہی وہ دروازا کھلا اور شاہ داد شیطانی سے مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر آیا۔ازمینہ کی لال چادر اسکے کندھوں پر تھی۔ارشاد کے پاس آ کر وہ رکا اور مسکرا کر اسے دیکھا۔


"پتہ لگ گیا تمہیں کیا نتیجہ ہوتا ہے آواز اٹھانے کا اب تمہاری اس بیٹی کو میں نے بولنے تو کیا سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں چھوڑا۔"


شاہ داد نے حقارت سے پیچھے موجود کمرے کو دیکھا۔ارشاد کے رونے میں مزید شدت آئی۔


"تم لوگوں کے لیے ایک ہی چیز سب سے بہتر ہے۔"


شاہ داد جھک کر ارشاد کے قریب ہوا۔


"خاموشی۔۔۔۔"


ارشاد کا دل کیا کہ اس شیطان کو یہیں ختم کر دے لیکن وہ کمزور تھا بہت زیادہ کمزور۔شاید اسکی یہ کمزوری ،بے بسی شاہ داد بھی محسوس کر چکا تھا اس لیے وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔


"اگر تم سوچ رہے ہو نا کہ جرگے میں جاؤ گے تو یہ خیال اپنے دل سے نکال دو کیونکہ میر داد اپنے بھائی کو کچھ کہنے سے پہلے ہی اس پر سوال اٹھانے والے کی زبان کو ہی کاٹ دے گا۔اس لیئے اپنی اس بیٹی کو لے جاؤ اور آج کا دن بھول جانا ورنہ۔۔۔۔۔"


اچانک ہی شاہ داد نے ارشاد کو گریبان سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔


"ورنہ تمہاری تین بیٹیاں اور بھی ہیں۔۔"


اتنا کہہ کر شاہ داد نے ارشاد کو جھٹکے سے چھوڑا اور مراد کو چلنے کا اشارہ کر کے خود بھی آگے بڑھ گیا۔اسکی ایک غلطی کے چھپائے جانے کی وجہ سے اس میں گناہ کا خوف ختم ہو چکا تھا۔


ارشاد نے روتے ہوئے اس کمرے کو دیکھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کس چہرے سے وہ اپنی بیٹی کے سامنے جاتا کیسے وہ اسکا سامنا کرتا؟وہ تو اتنا کمزور تھا کہ اسکا محافظ ہونے کے باوجود اسکی حفاظت نہ کر سکا۔۔

💕💕

آج حورم کے پیپر ختم ہوچکے تھے اور اس خوشی کو بھرپور طریقے سے سیلیبریٹ کرنے کے لیے حورم نے کچن میں ہر ملازمہ کی جان عذاب کی ہوئی تھی۔


"حور بی بی آپ بنانا کیا چاہ رہی ہیں؟"


سلمی خالہ نے حورم کو بہت سی چیزیں آپس میں ملاتے دیکھا تو پوچھ بیٹھیں۔کیونکہ جو کچھ حورم مکس کر چکی تھی اس سے کچھ اچھا بننے کی امید بالکل بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔


"افف خالہ مت ٹوکیں نا ہم نہاری بنا رہے ہیں اور آپ دیکھئے گا اس دنیا کی سب سے بہترین نہاری بنے گی آج۔"


حورم نے ادا سے کہتے ہوئے گوشت میں وہ مصالحے بھی ڈال دیے جو اس میں نہیں ڈالنے چاہیے تھے۔


"حورم بیٹا نہاری ایسے نہیں بنتی ۔۔۔۔"


خالہ نے پریشانی سے اس شاہکار کو دیکھتے ہوئے کہا جسے نہاری کا نام دیا جا رہا تھا مگر حورم سن کہا رہی تھی وہ تو اپنی ہی مرضی کرتی جا رہی تھی ۔پریشانی کی بات تو یہ تھی کہ اس نے ساری کو بناتے بناتے حورم دو مرتبہ اپنا ہاتھ جلا چکی تھی ۔


"لو بن گئی خالہ جلدی سے چکھ کے بتائیں کیسی ہے؟"


حورم کے کہنے پر سلمی خالہ نے چمچ سے اسے چکھا اور انہیں لگا کہ اسے نگلنا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے۔


"کیسی بنی؟"


حورم نے بہت امید سے پوچھا تو سلمی خالہ اسکی معصومیت کو دیکھتے ہوئے اس کڑوی نہاری کو ضبط سے نگل گئیں۔


"بہت اچھی۔"


انہوں نے بہت محبت سے کہا اور ان کے ایسا کہتے ہی حورم نے جلدی سے اس نہاری کو پیالی میں نکالا اور سیدھا جہانزیب کے کمرے کی طرف چل دی۔


دروازے پر پہنچ کر اس نے دوپٹہ ٹھیک سے لیا اور دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔کچھ دیر بعد ہی دروازہ کھلا تو حورم نے جلدی سے وہ پیالی آگے کی۔


"ہم نے نہاری بنائی ہے خود اپنے ہاتھوں سے اب جلدی سے اسے کھائیں اور بتائیں کہ کیسی بنی ہے؟"


حورم کی اس بات پر جہانزیب مسکرا کر کمرے سے باہر آیا اور چمچ اٹھا کر اس نے اس نہاری کو چکھا۔اس کے چہرے کے آثار جوں کے توں رہے اور اسی طرح وہ تین چار چمچ نہاری کے لے گیا۔


"اچھی بنی ہے نا؟"


حورم نے خوشی سے چہکتے ہوئے پوچھا ۔


"بہت زیادہ اچھی بنی ہے بلکہ آپ ایک کام کریں آپ نے جتنی بھی نہاری بنائی ہے نا ساری کی ساری مجھے بھجوا دیں یہ ساری صرف میں ہی کھاؤں گا۔"


جہانزیب نے مسکرا کر کہا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور اسے چکھ کر حورم کا دل توڑے۔حورم نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔


"وہ تو ہم بھیجوا ہی دیں گے لیکن اس سے پہلے ہم خود تو چکھ لیں۔"


اتنا کہہ کر ہم نے جلدی سے وہ چمچ اٹھا کر سالن کا بھرا اور اس سے پہلے کہ جہانزیب اسے روکتا ہم نے وہ چمچ اپنے منھ میں رکھ لیا اور ایسا کرتے ہی وہ بری طرح سے کھانسنے لگی۔جہاں زیب نے آگے کر اس سے وہ پلیٹ پکڑ کر سائیڈ پر رکھ دی۔


"افففف۔۔۔۔ کتنی گندی۔۔۔۔۔ بنی ہے اور آپ۔۔۔۔۔۔اہو اہو۔۔۔۔۔ کہہ رہے تھے اچھی ہے یہ بلکل بھی اچھی نہیں ۔۔۔۔۔۔"


حورم کھانستے ہوئے بولی تو جہانزیب نے پانی کا ایک گلاس پکڑ کر اس کے سامنے کیا۔


"نہیں حورم سائیں میں سچ کہہ رہا ہوں یہ نہاری بہت زیادہ اچھی ہے کیونکہ اسے آپ نے بنایا ہے اور یہی اس کی سب سے خاص بات ہے۔"


جہانزیب کی اس بات پر حورم نے مسکرا کر اسے دیکھا۔کیسے ایک پل میں وہ حورم کا دل رکھ دیا تھا اس کے جذبات کو ایک پل کے لیے بھی مجروح نہیں ہونے دیا تھا اس نے۔


"آپ بہت اچھے ہیں۔"


بے ساختہ حورم کے منہ سے نکلا۔جہانزیب اس بات پر مسکرا دیا۔


"اتنا بھی زیادہ اچھا نہیں ہوں اس لیے اب آپ سے یہی کہوں گا اگلی بار کچھ کھانے کا دل کرے تو خالہ سے بنوائے گا۔"


جہانزیب نے شرارت سے کہا تو حورم کھلکھلا کر ہنس دی اور اسے ہنستے دیکھ وہ بھی ہنس دیا۔جب کہ وہ دونوں اس بات سے انجان تھے کہ انہیں یوں ہنستا دیکھ قسمت بھی دور کھڑے ہنس رہی تھی۔جو قسمت نے اپنی اوٹ میں چھپایا تھا وہ ان کی زندگی کی ہر خوشی ،چہرے کی مسکان سب چھیننے والا تھا۔

💕💕💕

میر داد نے فون بند کیا دو مہینے کا وقت ہو چکا تھا مگر ابھی تک وہ پری کو ڈھونڈ نہیں پایا تھا۔


پہلے تو اتفاقاً وہ خود ہی مل گئی تھی۔لیکن اب جب وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے پاگل ہو رہا تھا تب ہی وہ ایسے غائب ہوئی تھی جیسے وہ اس دنیا کی تھی ہی نہیں بلکہ سچ میں ایک پری تھی۔


مل جاؤ نا یار اب میری حد ختم ہوتی جا رہی ہے۔


میر داد نے دل میں سوچا تبھی اسکا دروازا بجا تو میر داد نے اندر آنے کا کہا۔


"اسلام و علیکم واجہ۔"


جہانزیب کو دیکھ کر میر داد ہلکا سا مسکرا دیا۔


"کیسے ہو جہان؟"


میر داد نے اسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔جہانزیب خاموشی سے وہاں بیٹھ گیا۔


"بلکل ٹھیک واجہ میں آج گاؤں کے معاملات دیکھنے گیا تھا اور بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر گاؤں والوں کو مشکل پیش آ رہی ہے۔"


میر داد نے جہانزیب کے ہاتھ میں موجود لسٹ لے کر ہاں میں سر ہلایا اور اس میں لکھی ہر بات پر غور کرنے لگا۔وہ ہمیشہ گاؤں والوں کی پریشانیوں اور سہولتوں پر کافی دھیان دیتا تھا۔


"واجہ آج کل آپ کافی پریشان لگ رہے ہیں سب ٹھیک تو ہے نا؟"


میر داد گہرا سانس لے کر ہاں میں سر ہاں میں سر ہلایا۔


"ہاں سب ٹھیک ہے۔"


میر داد نے ہلکے سے جواب دیا پھر اچانک اسے کچھ یاد آیا تو اس نے فورا جہانزیب کو دیکھا۔


"حورم کے ایگزامز ختم ہو گئے ہیں اور اس بار کافی خوش لگ رہی ہے لگتا ہے پیپرز اچھے ہوئے ہیں۔"


"جی واجہ بس میں نے انہیں کہا تھا کیا اچھے مارکس آئیں گے تو ان کی ایک خواہش پوری کروں گا اور اسی وجہ سے انہوں نے کافی زیادہ محنت بھی کی تھی۔


میر داد نے ہاں میں سر ہلایا۔


"تم حورم کا مجھ سے بھی زیادہ خیال رکھتے ہو جہان اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہت اچھے سے سمجھ لیتے ہو۔"


میر داد نے ہاتھ میں موجود کاغذ کو دیکھتے ہوئے کہا۔جہانزیب کے ہونٹوں پر ایک مسکان آئی تھی۔


"اس کی تو عادت ہوچکی ہے مجھے اب اور اسی وجہ سے تو آپ سے اور شاہ واجہ سے زیادہ میں ان کا فیورٹ ہوں ۔"


جہانزیب کی شرارت سے کہنے پر میر داد مسکرایا اور اپنی گہری نگاہوں سے جہانزیب کو دیکھا۔


"اگر آج گل زندہ ہوتی تو اس دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہوتی کیوں کہ تم اس کے شوہر تھے۔"


ماہ گل کے ذکر پر ہی جہانزیب کے چہرے کی مسکان غائب ہوئی تھی اور اس کی جگہ افسردگی نے لے لی۔


"کب تک اس کی یادوں میں جیو گے جہان زندگی میں آگے بڑھو اور کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر شادی کرلو۔"


میر داد نے اسے ہدایت دی مگر ایسا کرتے ہوئے اس کے اپنے چہرے پر سختی آئی۔وہ اپنی بہن کے شوہر کو دوسری شادی کرنے کا کہہ رہا تھا۔


"نہیں واجہ مجھے شادی نہیں کرنی اور آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھ سے اس بارے میں کوئی بات نہ کرئیے گا۔"


جہانزیب اتنا کہہ کر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے جانے لگا۔


"اور اگر تمہیں کوئی ایسی لڑکی مل گئی جس نے تمہارے دل میں ماہ گل کی جگہ اپنی جگہ بنا لی تو۔"


میر داد کے سوال پر جہانزیب نے اسے مڑ کر دیکھا۔


"ایسا نہیں ہوگا کیونکہ دل کا وہ حصہ میں نے مار کر ماہ گل کے ساتھ قبر میں دفنا دیا تھا۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب وہاں سے چلا گیا اور میر داد نے کرب سے گلاس اٹھا کر دیوار میں مارا۔وہ دن یاد کر کے آج بھی میر داد کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا کیسے انکی خوشیوں میں ڈوبی حویلی غم اور سوگ کی مورت بن گئی۔کیسے اسکی دلہن بنی بہن کو عروسی لباس اتار کر کفن پہنایا گیا۔ہاں آج بھی وہ دن یاد کر کے میر داد کا پتھر ہوا دل خون کے آنسو روتا تھا۔

💕💕💕

دو مہینے کے بعد وہ نیلی آنکھیں کھل رہی تھیں لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پہلی بار دنیا کو دیکھ رہی ہے۔تب ہی تو وہ ابھی ہر چیز کو حیرت سے دیکھ رہی تھی اسکو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔


اسکا دماغ ایک کورے کاغذ کی مانند تھا ۔حیرت بھری آنکھوں سے وہ ہر چیز کی مختلف ساخت اور مختلف رنگ کو دیکھ رہی تھی ۔


تبھی اچانک کوئی کمرے میں آیا تھا۔ان نیلی آنکھوں نے اس کو اور اس کی ہر ایک حرکت کو بہت غور سے دیکھا جیسے اسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔


"ارے تمہیں ہوش آگیا ؟"۔


اس نرس نے اس لڑکی کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو پچھلے دو مہینے سے بے ہوش تھی ۔مگر اس لڑکی نے عجیب سی خالی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا جیسے اسے سمجھ ہی نہ پا رہی ہو۔


"میں ڈاکٹر کو جاکر بلاتی ہوں۔"


نرس اتنا کہہ کر وہاں سے بھاگ گئی تھی اور سیدھا ڈاکٹر کے کیبن میں آئی۔


"ڈاکٹر صاحب اس لڑکی کو ہوش آگیا ہے۔"


"کس لڑکی کو ؟"


ڈاکٹر نے فائلوں سے سر اٹھائے بغیر پوچھا ۔


"وہی لڑکی سر جو پچھلے دو مہینے سے کوما میں تھی۔"


نرس نے ڈاکٹر پر بم پھوڑا۔


"کیا ؟"


حیرت کے مارے ڈاکٹر کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا وہ جلدی سے اٹھ کر بھاگنے والے انداز میں وارڈ کی طرف گیا۔


وارڈ میں سامنے کا منظر دیکھ کر ڈاکٹر کے اوسان خطا ہو گئے۔سامنے ہی زمان بلوچ اس لڑکی کے پاس کھڑا فون پر بات کر رہا تھا اور کوئٹہ سے آئی نیورو بھی اسکا معائنہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔


جبکہ وہ لڑکی خوف سے سمٹی ہوئی اس کو بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ڈاکٹر جانتا تھا کہ اس کا کھیل ختم ہو چکا ہے وہ جلدی سے اس لڑکی کی طرف بڑھا۔

💕💕💕

میر داد زمان کے فون کرتے ہی ہسپتال آیا تھا۔پچھلے ایک مہینے میں اس لڑکی کے بارے میں ہر بات میر داد کو معلوم ہوتی رہی تھی لیکن آج پہلی دفع میر داد اسے دیکھنے والا تھا۔


وہ بہت بے چین تھا اس سے بہت سے سوال پوچھنے کو اس لیے وہ جلدی سے اس لڑکی کے وارڈ کی طرف گیا۔زمان باہر ہی کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا۔


"اسلام و علیکم واجہ ۔۔۔۔"


زمان نے سیدھے ہو کر میر داد کو سلام کیا تھا۔میر داد نے جواب میں اثبات میں سر ہلا دیا۔


"کیسی ہے وہ؟کچھ بتایا اس نے؟"


"نہیں واجہ ابھی تو کافی ڈری ہوئی ہے اور کچھ بول بھی نہیں رہی۔"


زمان نے ہاتھ باندھ کر جواب دیا تھا۔میر داد نے گہرا سانس لیا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔بند دروازا کھولتے ہی اسکی نظر بیڈ پر سمٹی ہوئی لڑکی پر پڑی جو خوف کے مارے اپنے گھٹنوں میں سر دیے ہر چیز سے چھپنا چاہ رہی تھی۔


اس کے ارد گرد ڈاکٹر اور نرسیں بار بار اس سے سوال پوچھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔یہ منظر دیکھ کر میر داد کو غصہ آیا۔کیا وہ سب نہیں دیکھ پا رہے تھے کہ وہ لڑکی اس وقت جواب دینے کی کیفیت میں نہیں تھی۔


"خاموش ہو جاؤ سب۔"


میر داد کی گرجدار آواز پر جہاں سب لوگ خاموش ہوئے تھے وہیں اس لڑکی نے آنسوؤں سے بھری نیلی آنکھیں اٹھا کر میر داد کو دیکھا تھا۔


اس لڑکی کو دیکھتے ہی میر داد کو لگا کہ پوری کی پوری چھت اس پر آ گری تھی۔جس لڑکی کو وہ اتنے عرصے سے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا ،پل پل اسکے لیے تڑپ رہا تھا وہ سارا وقت اسکے پاس تھی اور میر داد اس سے واقف ہی نہیں تھا۔


"پری ۔۔۔۔۔۔"۔۔۔۔


بے ساختہ میر داد کے منہ سے وہ لفظ نکلا تھا اور وہ ایک لفظ سن کر نا جانے کیوں پری کی آنکھیں مزید بھر گئی تھیں۔


اسکے آنسو دیکھ کر میر داد آگے بڑھا اور پری کے پاس بیٹھ کر اسے خود میں بھینچ لیا اسے تو اپنی قسمت پر یقین نہیں ہو رہا تھا جبکہ سب اس کی اس بے اختیاری پر سب حیران ہوئے تھے۔


کسی کا سہارا ملنے پر پری پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔پھر میر کو اپنی اور اسکی حالت کا اندازہ ہوا تو میر نے اسے آہستہ سے خود سے جدا کیا اور نرمی سے بیڈ پر لیٹا کر اسکے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا ۔


"پری۔۔۔۔"


میر داد نے پھر سے وہی ایک لفظ ادا کیا تو ڈاکٹر نے پری کو اس طرح سے خاموش دیکھ کر ایک سکون آور انجکشن اسے لگا دیا۔


میر داد نے ڈاکٹر کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا اور اس کمرے سے باہر نکل گیا ۔اس بات سے بے خبر کہ اسکی ایک ایک حرکت ان نیلی آنکھوں نے بہت غور سے دیکھی تھی۔


"پپپ۔۔۔۔۔پری۔۔۔۔۔"


پری نے آہستہ سے لفظ کو ادا کر کے آزمایا جیسے کہ اسے یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہو اور پھر نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔


میر داد ڈاکٹر کے ساتھ اسکے آفس میں آیا اور کرسی پر بیٹھ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔


"کیا ہوا ہے اسے؟"


میر داد نے بے چینی سے پوچھا۔


"I am not sure but i think it's a case of Dementia."


ڈاکٹر کی بات پر میر داد کے ماتھے پر بل پڑھ گئے۔


"کیا مطلب؟"


"مجھے لگتا ہے وہ اپنی یاداشت مکمل طور پر کھو چکی ہیں اور انکی یہ حالت اس قدر خراب ہے کہ وہ کسی چیز کو بھی سمجھ نہیں پا رہیں۔اس وقت انکا دماغ بلکل ایک کورے کاغذ کی مانند ہے۔"


ڈاکٹر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور اسکی بات سن کر میر داد عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہو رہا تھا۔


"اسے کب تک سب کچھ یاد آ جائے گا؟"


میر داد کے سوال پر ڈاکٹر کے چہرے پر پریشانی مزید بڑھ گئی اس نے ایک نظر پاس کھڑی نیورو کو دیکھا۔


"کچھ کہا نہیں جا سکتا جس قسم کا سوئیر میمری لاس ہے انہیں تو بیسک چیزیں یاد کرنے میں وقت لگے گا۔مگر اتنا نہیں جتنا ایک بچے کو لگتا ہے۔ہر چیز کا نام اور پھر اپنی مادری زبان وہ بہت آسانی سے یاد کر لیں گی مگر باقی چیزیں کب یاد آئیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔"


ڈاکٹر نے ایک پل کو رک کر گہرا سانس لیا۔ڈاکٹر کی بات مکمل طور پر سن کر میر داد نے ہاں میں سر ہلایا۔


"مجھے لگتا ہے آپ کو انہیں کراچی لے جانا چاہیے وہاں پر بہت اچھا علاج ہو سکے گا انکا۔"


نیورو کی بات پر جہاں میر داد نے ہاں میں سر ہلایا وہیں ڈاکٹر نے اپنا ٹ

تھوک نگلا۔


"للل۔۔۔۔۔لیکن اسکا علاج ہم بھی تو کر سکتے ہیں نا اتنی قابلیت تو ہم ۔۔۔۔"


"ہو گے تم قابل لیکن اب پری کا میں بہتر سے بہترین علاج کروانا چاہتا ہوں اس لیے میں اسے شہر لے کر جاؤں گا۔تم اس کے ڈسچارج پیپرز تیار کرو میں اسے ایک پل کے لیے بھی یہاں نہیں رہنے دوں گا۔"


میر داد ڈاکٹر کی بات کاٹتے ہوئے اپنی بات کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔


"مم۔۔۔مگر واجہ ہم نے ابھی اسے آبزرو۔۔۔۔"


ڈاکٹر نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔


"کیسا معائنہ کر رہے ہو تم اسکا میں دیکھ چکا ہوں۔وہ یہاں سے بہتر میرے پاس ہی رہے گی۔ اب ایک پل کے لیے بھی اسے اپنی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہونے نہیں دوں گا۔"


میر داد اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا مگر ڈاکٹر کو بہت زیادہ بے چین کر گیا تھا۔شاہ داد نے اس لڑکی کو خاموش کرنے کے لیے ڈاکٹر کو بہت زیادہ پیسے دیے تھے اور اگر اب اسے یہ سب پتہ چل گیا تو وہ اسے نہیں چھوڑے گا۔


اسے اس سب کی خبر شاہ داد کو کرنی ہو گی۔اتنا سوچ کر ڈاکٹر نے جلدی سے موبائل اپنی جیب سے نکالا اور شاہ داد کو فون کرنے لگا ۔

💕💕💕

آآآآہ۔۔۔۔۔"


شاہ داد نے ڈاکٹر کی پوری بات سن کر اپنا فون دیوار میں دے مارا۔اس لڑکی کو ناصرف ہوش آ گیا تھا بلکہ اس وقت وہ میرداد کے پاس تھی کا مطلب میر داد کو سب کچھ سچ سچ بتا سکتی تھی۔اگر ایسا ہوا تو پھر شاہ داد کا کیا ہو گا؟


"شاہ داد کیا ہوا؟"


شاہ داد کے چلانے کی آواز سن کر مراد بھاگ کر وہاں آیا۔میر داد نے آگے بڑھ کر اسے اسکی گردن سے پکڑا۔


"اس لڑکی کو ہوش آگیا اور اس وقت وہ میرداد کے پاس ہے تو اور وہ ڈاکٹر دیکھ رہے تھے نا یہ معاملہ ۔تم دونوں نے مجھے کہا تھا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اس لڑکی کو ہوش نہیں آئے گا۔تو پھر یہ کیا ہے؟"


شاہ داد نے چلا کر کہا اور ساتھ ہی ساتھ اس کی گردن پر اپنا دباؤ بڑھایا۔مراد ہانپتے ہوئے شاہ داد سے اپنی گردن چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا۔


"ششش۔۔۔۔شاہ مم۔۔۔میری بات تو سن لے۔۔۔۔۔"


مراد کے بے چینی سے کہنے پر شاہ داد نے اسے ایک زوردار مکا مارا اور خود سے دور دھکیل دیا۔اس کے دور ہوتے ہیں مراد پوری طرح سے کھانسنے لگا.


"بول کیا بولنا ہے تجھے۔۔۔۔"


شاہ داد نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"ڈاکٹر نے مجھے بھی فون کیا۔۔۔۔تم نے اس کی پوری بات سنی ہی نہیں تھی ۔۔۔۔اس لڑکی کو ہوش تو آ چکا ہے مم۔۔۔۔مگر اسے کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔۔۔"


مراد نے کھانستے ہوئے بتایا اور یہ بات سن کر شاہ داد کا غصہ کچھ حد تک کم ہوا۔


"کیا مطلب اسے کچھ بھی یاد نہیں ہے؟"


شاہ داد نے اپنے ابرو اچکا کر سوال کیا۔


"ہاں شاہ اسے کچھ بھی یاد نہیں ہے اور اسے کب کچھ یاد آئے اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔"


شاہ داد کے لبوں پر ایک مسکان ٹھہری تھی۔


"پھر فکر مت کر مراد اسے کچھ یاد آئے گا بھی نہیں اور اس دفعہ یہ معاملہ میں تم پر یا کسی اور پر نہیں چھوڑوں گا بلکہ اس بات کا خیال میں خود رکھوں گا کہ اس حادثے کے بارے میں اسے کبھی بھی کچھ بھی یاد نہیں آئے۔"


شاہ داد چہرے پر شیطانی سجائے کہنے لگا۔اسکا شیطانی دماغ اتنی سی دیر میں بہت سے منصوبے بنا چکا تھا لیکن وہ اس بات سے واقف نہیں تھا کی برائی کا ایک وقت ہوتا ہے اور جب وہ وقت ختم ہو جاتا ہے تو اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔

💕💕💕

حورم بس آنکھیں بند کرکے آیت الکرسی پڑھتی جا رہی تھی جبکہ پاس بیٹھی ہادیہ اپنے موبائل پر رزلٹ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی.


"حور یار فکر مت کرو تمہارے بہت اچھے نمبر آئے ہوں گے۔"


ہادیہ نے حورم کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔


"بس کنئگ ٹوکا (بولنا بند کرو) اور چپ کر کے رزلٹ دیکھ کر بتاؤ کہ کتنے مارکس آئے ہیں۔"


حورم کے غصے سے چلانے پر ہادیہ ہنسی سچ بات تو یہ تھی کہاں سے حورم کی حالت پر بہت ہی زیادہ مزا آ رہا تھا۔


"ارے حورم یہ کیا ہو گیا تم نے تو زیادہ نمبر لینے تھے اور یہ تو ۔۔۔۔۔"


ہادیہ کی پریشان آواز پر حورم نے جلدی سے اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹنے والے انداز میں پکڑا مگر موبائل میں دیکھتے ہی اس کی خوشی سے بھرپور ایک چیخ نکلی۔


اس نے ستر فیصد ہی نہیں بلکہ پورے 81% نمبر حاصل کیے تھے۔حورم خوشی سے چلاتے ہوئے ہادیہ کے گلے لگ گئی۔


"افففف ہادی ہم کیا بتائیں کہ ہم کتنے خوش ہیں کہ بس۔۔۔۔۔"


حورم کی خوشی دیکھ کر ہادیہ ابھی بھی انتہا خوش ہوئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی دوست نے بہت زیادہ محنت کی تھی۔


"اب جہانزیب بھائی کو کب بتا رہی ہو؟"


ہادیہ کے خوشی سے پوچھنے پر حورم سوچ میں پڑ گئی۔


"جلد ہی بتائیں گے اور پھر جب وہ پوچھیں گے کہ انعام میں ہمیں کیا چاہیے تو ہادی ہم اپنا پورا دل کھول کر انکے سامنے رکھ دیں گے۔انہیں بتا دیں گے کہ انکو ہم تب سے چاہتے ہیں جب ہم محبت لفظ سے واقف بھی نہیں تھے۔وہی ہماری ہر سانس میں بستے ہیں ہمارے جینے کی وجہ ہیں اور۔۔۔۔۔۔"


حورم بولتے بولتے رکی اور پھر گھبرا کر اس نے ہادیہ کو دیکھا۔


"تم دعا کرنا ہادی کہ وہ مان جائیں کیونکہ اگر وہ نہیں مانے تو ہم مر۔۔۔۔"


ہادیہ نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے منہ پر رکھا۔


"پاگل ہے کیا ایسی باتیں نہیں کرتے۔"


حورم نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر سے ہادیہ کو ہر وہ بات بتانے لگی جو جو اس نے جہانزیب کو کہنے کے بارے میں سوچا تھا۔

💕💕💕

"کیا کہا تم نے تم میر داد کے پاس جائے گا مت مارا گیا ہے کیا تمہارا کیوں مرنا چاہتا ہے تم؟"


ارشاد کی بیوی صدف اسکی بات سن کر غصے سے چلا اٹھی۔ارشاد نے روتے ہوئے اپنے بالوں کو نوچا۔


"تو کیا کروں ایسے ہی چھوڑ دوں اسے تا کہ آج امرا بیٹی کے ساتھ جو ہوا وہ کل کو اور ۔۔۔۔"


"آواز نیچی کرو ارشاد بلوچ اگر تمہاری بات کسی نے سن لیا تو غضب ہو جائے گا امارا تینوں بیٹی سے کوئی شادی نہیں کرے گا وہ تینوں سارا زندگی کے لیے بدنام ہو جائے گا۔"


صدف نے اسکی بات کر کاٹتے ہوئے کہا تو ارشاد کے رونے میں شدت آ گئی۔


"چاہے کچھ بھی ہو جائے ام شاہ داد کو سزا۔۔۔۔"


"کیسا سزا ارشاد بلوچ کیسا سزا۔تم کو کیا لگتا ہے کہ تم جا کر میر داد کو کہے گا کہ تمہارا بھائی گناہگار ہے تو وہ مان جائے گا؟ وہ سب سے پہلے تمہارا زبان کاٹے گا اپنے بھائی کو کچھ بھی نہیں کہے گا کچھ بھی نہیں اور اگر پولیس کے پاس گیا تو وہاں بھی تو قانون انکا ہی چلتا ہے نا۔۔۔۔اس سب میں برباد بس ہم ہو گا ارشاد بلوچ۔۔۔۔"


صدف نے روتے ہوئے کہا اور اسکے ساتھ ہی اندر کمرے میں بیٹھی ازمینہ کی خشک آنکھوں سے بھی کئی آنسو نکلے۔اسے خود سے ،اپنی بے بسی سے سخت نفرت ہو رہی تھی۔کتنے عرصے سے وہ اپنے ہی گھر میں قید پل پل مر رہی تھی اور وہ گناہگار تو آزاد تھا۔


"شاہ داد نے صحیح کہا غریب کی عزت اور جان کا کوئی قیمت نہیں سب کچھ لٹ جانے پر بھی ان کے پاس بس ایک چیز ہوتا ہے خاموشی۔۔۔۔بس خاموشی۔۔۔"


صدف نے روتے ہوئے کہا تو ارشاد بلوچ بے بسی سے سر جھکا گیا وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی سچ کہہ رہی ہے وہ لوگ بے بس تھے آواز نہیں اٹھا سکتے تھے،اس ظلم کے خلاف وہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے تھے ،کچھ بھی نہیں۔۔۔

جب تک پری کو ہوش نہیں آیا میر داد اسی کے پاس بیٹھا اسکے جاگنے کا انتظار کرتا رہا تھا۔اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اتنا عرصہ وہ جس پری کو ڈھونڈتا رہا تھا وہ سارا وقت اسی کے پاس تھی لیکن وہ اسے دیکھ ہی نہیں سکا اور اب اگر وہ ملی ہی تو وہ لڑکی بن کر جسکا انکی وجہ سے نقصان ہوا۔


تقریباً شام کا وقت ہو چکا تھا جب پری نے پھر سے ہوش کی دنیا میں قدم رکھا۔بہت آہستہ سے اس نے اپنی نیلی آنکھوں کو کھول کر میر داد کو دیکھا۔


وہ اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔پھر آہستہ آہستہ اسے پہچاننے لگی۔


"اب کیسی ہو تم؟"


میر داد کے بولنے پر پری نے اسے ہونٹوں کی حرکت کو دیکھا اور پھر آہستہ سے اپنے ہونٹ کھول کر بند کرنے لگی جیسے اسکی کاپی کرنا چاہ رہی ہو۔


"پری میں تمہیں اپنے گھر لے کر جانا چاہتا ہوں کیا تم چلو گی؟"


میر داد اس سے بات کرنا چاہتا تھا، چاہتا تھا پری ویسے ہی بولے جیسے وہ پہلے بولا کرتی تھی مگر پری ابھی بھی اسکے ہونٹوں کی حرکت کو کاپی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔


تبھی میر داد کا فون بجنے لگا تو وہ اٹھ کر باہر چلا گیا ابھی وہ کال سن ہی رہا تھا جب پری کی ایک چیخ میر داد کو سنائی دی۔


میر داد فون کو بند کرتا واپس وارڈ کی طرف بھاگا۔سامنے ہی ایک نرس شاید پری کو کوئی دوائی دینا چاہ رہی تھی لیکن پری اسے دور ہوتے ہوئے چیخ رہی تھی۔


"پپپ۔۔۔۔ پری ۔۔۔۔۔پری۔۔۔۔"


پری چیختے ہوئے اتنا کہہ رہی تھی اور نرس سے خوف کے مارے دور ہو رہی تھی۔میر داد نے آگے ہو کر پری کو تھاما تو پری روتے ہوئے کانپتے جسم کے ساتھ میر داد کے بازو سے چپک گئی۔میر داد نے غضب ناک نظروں سے سامنے موجود نرس کو دیکھا۔


"واجہ میں تو انہیں دوائی۔۔۔"


"کوئی ضرورت نہیں اسکی جاؤ تم یہاں سے ۔۔۔"


میر داد کے غصے سے کہنے پر نرس ہاں میں سر ہلا کر وہاں سے چلی گئی۔میر نے مڑ کے زمان کو دیکھا جو شاید پری کی چیخ سن کر وہاں آیا تھا اور اب حیرت سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔


"زمان گاڑی تیار کرو ہم ابھی اپنے کراچی جا رہے ہیں اور تم ڈاکٹر سے پری کی ساری دوائیاں لے کر آنا۔"


"جی بہتر واجہ"


زمان نے اتنا کہا اور وہاں سے چلا گیا میر داد نے سر جھکا کر پری کو دیکھا جو اپنی مٹھیوں میں اسکی شرٹ کے بازو کو دبوچ کر اس سے چپکی ہوئی تھی۔وہ جانتا تھا کہ پری کو حویلی لے کر جانا اس کے لیے بہت برا ثابت ہو سکتا ہے اسر ویسے بھی اسکا علاج کراچی میں ہی ہونا تھا۔


میر داد اسے اپنے ساتھ لے کر گاڑی میں آیا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔اس سارے مرحلے کے دوران بھی پری نے اسکے بازو کو نہیں چھوڑا تھا بلکہ سارا راستہ بھی وہ اسکے بازو سے ایسے چپکی رہی تھی جیسے اسی کا ایک حصہ ہو۔


"زمان میں پری کو جانتا ہوں اسے کوئٹہ میں دیکھا تھا تو یقیناً اسکے گھر والے اسی شہر کے ہوں گے تم انکا پتہ لگاؤ۔"


میر داد نے کافی سنجیدگی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے زمان سے کہا۔


"جی واجہ میں اپنے آدمیوں کو کہوں گا کہ اس علاقے میں پتہ لگائیں۔"


میر داد نے اپنے بازو کے ساتھ چپکی پری کو دیکھا جو کھڑکی سے باہر گزرنے والے نظاروں کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔


"زمان ویسے تم ہر قدم پر میرے ساتھ رہے ہو لیکن اب میں چاہوں گا کہ تم پری کا خیال رکھو ہر وقت اسکی حفاظت کرو جب میں وہاں نہ ہوں تب بھی اور یاد رکھنا زمان پری پر ہلکی سی بھی آنچ نہیں آنی چاہیے ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔"


میر داد نے پری کا معصوم چہرہ دیکھتے ہوئے کہا تھا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اگر اس معصوم جان کو کچھ ہو جاتا تو وہ کیا کر گزرتا۔


باقی کا سفر خاموشی سے گزرا تھا۔میر داد گھر پہنچا تو سب ملازمین ہر طرف کام کرتے نظر آ رہے تھے۔اپنے مالک کے غصے سے وہ واقف تھے اس لیے وہ ہر چیز کو بلکل بہترین طریقے سے کرنا چاہتے تھے۔


میر داد کے ہال میں داخل ہوتے ہی سب ملازمین کھلے بکھرے بالوں والی لڑکی کو ہسپتال کے سفید گاؤن میں ملبوس میر داد کے بازو سے چپکے ہوئے دیکھنے لگے۔جو ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ میر داد کے اندر ہی گھس جائے گی۔


میر داد آ کر صوفے پر آ کر بیٹھ گیا تو پری بھی اسکے ساتھ چپکے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی اور اب سہم کر ہر ایک کو دیکھ رہی تھی۔


"آپا آپ پانی لے کر آئیں اور پری کے لیے سیکنڈ فلور پر کمرہ تیار کر دیں۔"


میر داد نے کونے میں کھڑی فردوس سے کہا تو وہ ہاں میں سر ہلا کر چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد ہی پانی کے ایک گلاس کے ساتھ وہاں آئی۔


میر داد نے اسکے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیا اور پری کے سامنے کیا تو پری آنکھیں بڑی کر کے حیرت سے کبھی اس کو تو کبھی اس گلاس کو دیکھتی۔


میر نے خود وہ گلاس پری کے ہونٹوں سے لگایا تو پہلے اس نے آہستہ سے پانی کا ایک گھونٹ بھرا اور پھر سارا پانی جلدی سے پی گئی جیسے وہ صدا کی پیاسی تھی۔


"کمرہ تیار کروا دیا ہے میں نے واجہ۔۔۔۔"


فردوس نے وہاں آ کر سر جھکا کر کہا میر نے ہاں میں سر ہلایا اور پری کی طرف دیکھا جو ابھی تک اسکے بازو سے چپکی ہوئی تھی۔


"پری تم آپا کے ساتھ جاؤ اپنے کمرے میں۔"


میر داد نے اسے بہت آہستگی اور نرمی سے کہا لیکن پری نے جواب میں بس آنکھیں اٹھا کر ہی اسے دیکھا۔


میر داد نے گہرا سانس لے کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا اور اپنا بازو چھڑوانا چاہا تھا لیکن پری تو اسکے بازو سے مظبوطی سے چپکی تھی۔میر داد نے زرا سختی سے اپنے آپ کو چھڑوانا چاہا تو پری کی آنکھیں لبا لب آنسوؤں سے بھر گئیں ۔یہ دیکھ کر میر داد نے پری کے ہاتھ چھوڑے اور فردوس کو چلنے کا کہا۔


میر داد خود پری کو لے کر اس کے کمرے میں آیا فردوس کو کھانے کا بول کر خود وہ پری کو کمرے میں لے آیا اور اسے بیڈ پر بیٹھا کر نرمی سے اپنا بازو چھڑوانے لگا لیکن پری کی پکڑ مزید سخت ہوتے دیکھ کر اپنا ارادہ ترک کر گیا۔


"اب تمہیں یہیں رہنا ہے اس لیے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور بہت جلد ہی میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گا۔ٹھیک ہے؟"


جواب میں پری نے بس پلکیں جھپکا کر اس کو دیکھا تھا۔تھوڑی دیر بعد فردوس کھانا لے کر آئی اور اسے پری کے سامنے رکھا۔پری کافی دیر اپنے سامنے پڑے لوازمات کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔


آخر کار میر داد نے آگے بڑھ کر نوالا توڑا اور پری کے منہ کی طرف بڑھایا۔پری نے اس نوالے کی جانچ کر کے اپنا منہ کھولا اور آہستہ سے نوالا منہ میں لے لیا۔


اسے کھاتے دیکھ میر داد نے سکھ کا سانس لیا اور آہستہ آہستہ اسے سارا کھانا کھلانے لگا۔

کھانا کھانے کے بعد میر داد نے برتن اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھے اور خود وہاں سے جانے لگا۔


مگر اسکا بازو ابھی بھی پری کی گرفت میں تھا میر داد نے بے بسی اسے دیکھا جسکی آنکھوں میں بہت زیادہ خوف تھا۔اسے اس بہادر لڑکی کو اس حال میں دیکھ کر افسوس ہو رہا تھا۔


"پپ۔۔۔پری؟؟


میر داد اسکے اس لفظ پر مسکرا دیا ضرور وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ پری میر داد کا نام ہے۔

میر داد خاموشی سے وہاں واپس بیٹھ گیا۔


"میرا نام پری نہیں ہے۔پری تمہارا نام ہے تم ہو پری۔"


میر داد نے اسکی طرف اشارہ کیا۔


"پری۔۔۔"


پری نے اپنی طرف اشارہ کر کے کہا تو میرا داد نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر اس نے اپنی طرف اشارہ کیا۔


"میرا نام میر داد ہے۔۔۔۔میر داد۔۔۔۔"


پری نے پہلے اسکے ہونٹوں اور پھر اسکے ہاتھ کی طرف دیکھا۔


"مم۔۔۔میر۔۔۔"


پری نے اسکی طرف اشارہ کیا تو میر داد کے ہونٹوں کی مسکان غائب ہو گئی۔آج اتنے سال بعد کسی نے اسے صرف میر پکارا تھا اور میر داد نے اپنے بابا کی موت کے بعد کسی کو بھی خود کو صرف میر نہیں بلانے دیا تھا لیکن ابھی وہ پری کو منع نہیں کر پایا۔


تھوڑی دیر کے بعد ہی پری کی آنکھیں بھاری ہو گئیں تو اپنا سر میر داد کے کندھے پر رکھ کر سو گئی۔


نا جانے کتنی ہی دیر میر داد اسکے معصوم چہرے کو دیکھتا رہا پھر اسکے گہری نیند میں جانے پر اس نے نرمی سے اسے تکیے پر لیٹایا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔

💕💕💕

حورم نے ساری تیاری کرلی تھی اب جس سے صبح ہونے کا انتظار تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ صبح ہوتے ہی وہ جہاں زیب کو اپنا رزلٹ کارڈ دکھائے گی ہاتھ جب اس سے اس کے انعام کے بارے میں پوچھے گا تب ہی وہ اپنی محبت کا اظہار کرے گی۔


یہ سب سوچ کر حورم کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی مسکان آئی۔


"ماوں۔۔۔۔"


چاندی نے اس کے قریب آ کر اس کی توجہ حاصل کرنا چاہی اس کو دیکھ کر حورم نے بہت پیار سے اس کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔


"چاندی تمہیں پتہ ہے صبح ہمارے لیے سب سے بڑا دن ہے یا تو صبح ہمیں ہماری زندگی کی سب سے بڑی خوشی مل جائے گی یا۔۔۔۔"


حورم نے ایک پل کو رک کر چاندی کو دیکھا جو اپنی چھوٹی سی زبان سے اس کی انگلی چاٹ رہی تھی۔


"یا ہمیں ہماری زندگی کو ختم کرنے کی وجہ مل جائے گی۔"


حورم نے کافی سنجیدگی سے کہا اور ایسا سوچتے ہوئے بھی اس کا دل دہل گیا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کیا ہوگا اگر جہانزیب نے اس کی محبت کو دھتکار دیا تو۔


"تم دعا کرنا چاندی کہ ایسا نہ ہو ۔۔۔۔۔بس تم دعا کرنا۔۔۔۔۔"


حورم نے بہت زیادہ زور سے دھڑکتے دل کے ساتھ کہا ویسے تو اپنی محبت کا اظہار کرنے پر بہت خوش ہے لیکن ایک ڈر تھا جو اسے بے سکون کر رہا تھا۔ چاندی کو باہوں میں اٹھا کر حورم کھڑکی سے باہر چاند کو دیکھنے لگی یہ رات وہ جاگ کر گزارنے والی تھی۔مستقبل نے اپنی اوٹ میں کیا چھپا رکھا تھا یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔

💕💕💕

صبح ہوتے ہی میر داد کی آنکھ موبائل بجنے کی آواز سے کھلی تھی۔فون سے اسے پتہ چلا کہ شاہ میر اسے گاؤں میں بلا رہے تھے۔میر داد نے انکے لہجے سے اندازہ لگایا کہ کام کافی ضروری تھا۔اسی لیے میر داد صبح اٹھتے ہی وہاں جانے کی تیاری کرنے لگا۔


"آپا آپ نے پری کو دیکھا؟"


میر داد نے نیچے آ کر فردوس کو دیکھتے ہی سوال کیا۔


"جی واجہ وہ سو رہی ہیں ابھی تک اس لیے میں نے انہیں پریشان نہیں کیا۔"


میر داد نے ہاں میں سر ہلایا۔


"اچھا کیا آپ نے اسے اٹھائے گا بھی مت سونے دیں بس آپ اسکا خیال رکھیے گا اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہو میں جلد از جلد واپس آنے کی کوشش کروں گا۔"


میر داد فردوس کو تاکید کرتا باہر آیا تو زمان اسکا انتظار کر رہا تھا۔


"زمان تم یہیں رہو گے اور پری کا خیال رکھنا۔"


زمان نے ہاں میں سر ہلایا لیکن وہ میر داد کے فیصلے سے خوش نہیں لگ رہا تھا۔


"واجہ میں نے آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا اور اب آپ میرے بنا جا رہے ہیں۔"


زمان نے سر جھکا کر کہا ۔


" مجھ سے زیادہ اس وقت پری کو تمہاری ضرورت ہے زمان بس اسکا خیال رکھنا اس وقت یہی میرے لیے سب سے اہم ہے۔"


زمان نے ہاں میں سر ہلایا تو میر داد گاڑی کی طرف بڑھا۔


"اگر کچھ گڑبڑ ہو تو فوراً مجھ سے رابطہ کرنا۔"


"جی واجہ"


زمان سے مثبت جواب لے کر میر داد گاڑی میں بیٹھا اور گاؤں کی طرف چل دیا نا جانے کیوں یہاں سے دور جاتے ہوئے اسکا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔

💕💕💕

شاہ داد پریشانی سے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا اور مراد اسے دیکھ رہا تھا۔وہ دونوں کافی پریشان تھے کیونکہ میر داد کے پاس موجود لڑکی نہ صرف ان دونوں کو پہچان سکتی تھی بلکہ شاید وہ یہ بھی جانتی تھی کی شاہ داد شراب پی کر گاڑی چلا رہا تھا اگر اسے کبھی سب یاد آگیا اور اس نے سب کچھ میرداد کو بتا دیا تو۔۔۔۔۔


یہ سوچ کر شاہ داد نے پاس پڑے گلدان کو اٹھا کر غصے سے دیوار میں مارا۔


"ہمیں کچھ کرنا ہوگا مراد ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔"


شاہ داد نے اپنے بالوں میں ہاتھ چلا کر کہا۔مراد بھی بے چین تھا لیکن انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں اس لڑکی کو میر داد نے اپنے شہر والے گھر پہنچا دیا تھا جہاں کی سیکیورٹی کافی مظبوط تھی اور اب وہ دونوں چاہ کر بھی وہاں پر اس لڑکی کو کچھ نہیں کر سکتے تھے۔


"ہم سے ہی غلطی ہوئی مراد اگر وہ ڈاکٹر اسے مارنے کے لیے مان نہیں رہا تھا تو ہمیں خود ہی کچھ کر لینا چاہیے تھا۔"


شاہ داد کی بات پر مراد نے بے دلی سے ہاں میں سر ہلایا۔


"اب ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا نا مراد۔۔۔۔۔


شاہ داد نے بے بسی سے کہا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔


"وہی ڈاکٹر۔۔۔۔ہمیں اسی ڈاکٹر کے پاس واپس جانا چاہیے اور پھر دیکھتے ہیں کہ کیا حل نکلتا ہے۔"


مراد نے ہاں میں سر ہلایا تو شاہ داد کمرے سے باہر چلا گیا۔مراد نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"اپنی کمینگی کی وجہ سے دھبہ ہو تو بلوچ کے نام پر اور اپنی بزدلی کی وجہ سے میں بھی دھبہ ہوں اس بہادر قوم کے نام پر۔۔۔۔۔ہم دونوں بلوچ کہلانے کے لائق نہیں شاہ داد عالم۔۔۔۔"


مراد نے مٹھیاں بھینچ کر کہا اور اسکے پیچھے چل دیا۔

💕💕💕

حورم جلدی جلدی سے تیار ہوئی کالے رنگ پر لال بلوچی کڑھائی والے شلوار کرتے میں وہ دمک کر مزید خوبصورت لگ رہی تھی۔پھر اس نے جلدی سے خود پر ایک سرخ شیشوں والی چادر اوڑھی اور باہر کی طرف بھاگی۔


ہال میں پہنچی تو سامنے ہی جہانزیب شاہ میر صاحب کے پاس کھڑا ہاتھ باندھے کوئی بات کر رہا تھا۔


"اسلام و علیکم پیرک۔"


حورم چہکتے ہوئے شاہ میر صاحب کے پاس گئی اور اپنا سر انکے آگے کیا۔شاہ میر صاحب نے مسکرا کر اسکا سر چوما۔


"و علیکم السلام میر شہزادگاںاں۔"


شاہ میر صاحب نے اسکا ماتھا چوم کر کہا۔


"کہیں جا رہی ہو کیا؟"


شاہ میر نے اسکی تیاری اور ہاتھ میں موجود کاغزات کو دیکھ کر پوچھا تو حورم نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔


"میں نے بازار جانا ہے چوڑیاں لینے تو میں زیب سائیں کے ساتھ جاؤں پلیز؟؟؟"


حورم نے بہت امید سے پوچھا تو شاہ میر قہقہ لگا کر ہنسے۔


"ضرور جاؤ اور دھیان سے جانا۔"


شاہ میر صاحب نے جہانزیب کی طرف ہاں میں سر ہلا کر کہا تو جہانزیب نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔


"چلیں حورم سائیں۔"


جہانزیب کے ایسا کہنے پر حورم جلدی سے شاہ میر سے دور ہوئی اور باہر آ کر اپنی پسند کی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔


"تو کہاں جانا ہے آپکو حورم سائیں۔"


جہانزیب نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔


"بس جہاں جہاں ہم کہتے ہیں وہاں وہاں چل پڑیں۔"


جہانزیب اثبات میں سر ہلا کر ڈرائیو کرنے لگا۔


"کیا بات ہے حورم سائیں آج آپ بہت خوش لگ رہی ہیں۔"


جہانزیب نے شرارت سے پوچھا حالانکہ اس کی خوشی کی وجہ وہ جانتا تھا کہ وہ اسے اپنے رزلٹ کا بتانا چاہتی ہے۔حورم نے اک ادا سے اس کو دیکھا۔


"جی خوش نہیں بہت زیادہ خوش ہیں اور یہ اب آپ پر ہے نا کہ آپ اس خوشی کو قائم بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔"


حورم نے ناک چڑھا کر کہا۔اس کی اس حرکت پر جہانزیب مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔


"پوری کوشش کروں گا حورم سائیں۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب ڈرائیو کرنے لگا اور اوپر اوپر سے کھلکھلاتی ہوئی حورم سہمے ہوئے دل کو دلاسے دے رہی تھی آج اسکی زندگی کا سب سے بڑا امتحان تھا۔

💕💕

حورم اسکو لیتی ہوئی دریائے کھراڑی تک لے آئی تھی۔پتھریلے پہاڑوں کی اوٹ میں سے پتھروں پر بہتا وہ دریا کافی خوبصورت تھا۔ اس علاقے میں ویسے بھی وہ حورم کی سب سے پسندیدہ جگہ تھی اور اس وقت وہ دونوں گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگا کر کھڑے سامنے پتھروں سے گزرتے شفاف پانی کو دیکھ رہے تھے۔


"ویسے یہاں پر کسی نے آپ کے لیے کوئی خاص چوڑیوں کا سٹال لگایا ہے کیا؟"


سامنے موجود دریا کے شفاف پانی میں پتھر پھینکتے ہوئے جہانزیب نے شرارتی انداز میں پوچھا۔


"ہم نے چوڑیاں کیا کرنی ہیں زیب سائیں وہ تو پہلے ہی ختم ہونے پر نہیں آتیں۔"


حورم نے اتنا کہتے ہوئے خود بھی ایک پتھر اٹھا کر پانی میں پھینکا جو جہانزیب کے مقابلے بہت پیچھے گرا ۔


"تو پھر ہم یہاں کیوں آئے؟"


جہانزیب نے اسکو دیکھتے ہوئے سوال کیا تو حورم مسکراتے ہوئے گاڑی کے دروازے کے پاس گئی اور ڈیش بورڈ سے کچھ پیپرز اٹھا کر لائی۔جہانزیب مسکرایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حورم اسے اپنے رزلٹ کے بارے میں بتانا چاہ رہی تھی جسکے بارے میں جہانزیب پہلے سے جانتا تھا۔


"یہ دکھانے کے لئے۔"


حورم نے ایک کاغذ اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا جہانزیب نے وہ کاغذ دیکھ کر مصنوعی حیرت اور اصلی خوشی کا اظہار کیا ۔


"واہ حورم سائیں آپ نے تو کمال کر دیا میں جانتا تھا کہ آپ بہت زیادہ ذہین ہے اور دیکھیں آپ نے اس بات کو ثابت بھی کر دیا۔"


ہاتھ میں موجود کاغذ کو دیکھتے ہوئے جہانزیب نے بہت زیادہ خوشی سے کہا۔حورم نے گھبرا کر اپنی پلکیں جھکا لیں۔


"آپ نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ہم نے ستر فیصد نمبر حاصل کیے تو آپ میری ایک خواہش پوری کریں گے۔"


حورم کی اس بات پر جہانزیب نے ہاں میں سر ہلایا۔


"بالکل مجھے اپنا وعدہ یاد ہے اور اگر آپ کی خواہش پوری کرنا میری طاقت میں ہوا تو وعدہ کرتا ہوں کہ ضرور پوری کروں گا۔"


جہانزیب نے عقیدت سے کہا تو حورم نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر گھبراتے ہوئے،کانپتے ہاتھوں سے ایک اور کاغذ جہانزیب کے مظبوط ہاتھ میں پکڑا دیا۔


"یہ رہی ہماری خواہش۔"


حورم کی آواز میں ایک لڑکھڑاہٹ سی تھی ۔جہانزیب نے مسکراتے ہوئے وہ کاغذ اسکے ہاتھ سے لیا اور اسے کھول کر دیکھا۔


"حورم سائیں کی زندگی کی سب سے اہم اور آخری خواہش۔۔۔"


جہانزیب نے اور لکھی تحریر کو بلند آواز میں پڑھنا شروع کیا۔مگر اگلی لائین پڑھ کر اسے لگا کہ پورا کا پورا آسمان اسکے سر پر آ گرا تھا۔یا کسی نے اچانک زمین ہی اسکے پیروں کے نیچے سے کھینچ لی۔اس نے کئی مرتبہ سامنے لکھی تحریر کو پڑھا جیسے کہ تسلی کرنا چاہ رہا ہو کہ وہ اسکی آنکھوں کا دھوکا نہیں۔


"یی۔۔۔۔یہ کیسا مذاق ہے حورم سائیں۔"


جہانزیب نے حورم کو حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا یقینا یہ کوئی مذاق تھا بھلا ایسی بات سچ کیسے ہو سکتی تھی ہاں یہ مزاق ہی ہو گا یہ سوچ کر جہانزیب نے خود کو حوصلہ دیا۔


"یہ سچ ہے زیب سائیں ہم آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور آپسے شادی کرنا چاہتے ہیں بلکہ محبت بھی چھوٹا۔۔۔۔۔"


"کیا ہو گیا ہے آپکو حورم سائیں یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔"


حورم کی بات کو کاٹ کر جہانزیب چلایا اور اس کے اس طرح سے چلانے پر حورم سہم کر ایک قدم دور ہوئی جبکہ معصوم دل ہزار ٹکڑوں میں بکھرا۔


"ہم سچ کہہ رہے ہیں زیب سائیں یہ کوئی مذاق نہیں ہے ہم سچ میں آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں ہر ایک چیز سے زیادہ۔"


جہانزیب کا دل کر رہا تھا کہ وہ خود کو مار دے یا اس لڑکی کا منہ بند کر دے وہ کیا کہتی جا رہی تھی اسے تو کبھی جہانزیب نے اس نظر سے دیکھا ہی نہیں تھا۔


"حورم سائیں کچھ شرم کریں کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ میں آپ سے چودہ سال بڑا ہوں اور یہی نہیں اپکی بڑی بہن کا شوہر ہوں کیا یہ سب بھول چکی ہیں آپ؟"


جہانزیب نے اسکو بری طرح سے گھورتے ہوئے سوال کیا تو کب سے حورم کے گلے میں اٹکا آنسوؤں کا پھندا آزاد ہوا تھا۔


"نہیں ہم نہیں بھولے یہ مگر شاید آپ بھول چکے ہیں کہ ہماری بہن اس دنیا میں نہیں ہے اور اس لحاظ سے ہمارے درمیان ایسا کوئی تعلق۔۔۔۔"


"ہمارے درمیان جو تعلق ہے نا حورم سائیں وہ بہت زیادہ پاکیزہ ہے اور میں یہی خواہش کرتا ہوں کہ آپ اسے پاکیزہ ہی رہنے دیں یوں اپنے بچپنے اور بیوقوفی میں اسے ناپاک مت کریں۔"


حورم کو اپنے اندر سب کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا جہانزیب کی باتوں سے سب کچھ بکھر کر رہ گیا تھا۔


"آپ کو ہماری محبت بچپنا لگ رہی ہے؟وہ محبت جو ہمارے لئے جینے کی وجہ ہے،جو ہم نے محبت لفظ کا مطلب سمجھنے سے پہلے آپ سے کی تھی آپ ایسے ہی بے وقوفی کا نام دے رہے ہیں؟"


حورم نے زار و قطار روتے ہوئے اس سے شکوہ کیا جبکہ جہانزیب کو تو اس کی ہر بات پاگل کر رہی تھی۔


"ہم یہ باتیں بھول جائیں گے میں بھول جاؤں گا کہ آپ نے مجھ سے ایسی کوئی بات کہی اور آپ بھی اس وقت کو اس پل کو بھول جائیں حورم سائیں۔۔۔۔"


حورم نے اپنے لہو رنگ آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا ۔


"کیا آپ سانس لینا بھول سکتے ہیں ؟جینا بھول سکتے ہیں؟نہیں نا ۔۔۔۔تو پھر ہم آپ کی محبت کو کیسے بھول جائیں جو ہمارے لئے ہر چلتی سانس سے زیادہ قیمتی ہے۔"


جہانزیب نے حیرت سے اپنے سامنے موجود لڑکی کو دیکھا تھا یہ اتنی بڑی بڑی باتیں کرتی لڑکی اس کی چھوٹی سی حورم سائیں تو نہیں تھی۔


"یہ محبت نہیں ہے حورم سائیں صرف ایک پل کی اٹریکشن ہے جو وقت رہتے نہیں رہے گی اور خدارا میں تو آپکے بارے میں ایسا سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہوں اور بہتر ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کریں۔"


حورم نے اس کو حیرت سے دیکھا وہ تو اس دنیا کا سب سے اچھا انسان تھا پھر کیسے ایک پل میں اس کو بکھیر گیا۔


"آپ ہم سے محبت نہیں کرتے؟"


حورم نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے اسے بہت امید سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔جہانزیب نے ایک گہرا سانس لیا جیسے کہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔


"نہیں حورم سائیں میں آپ سے محبت نہیں کرتا۔"


جہانزیب نے جان بوجھ کر بہت بے رخی اور سختی سے کہتے ہوئے اسکا دل توڑا کیونکہ اب اس کے پاس کوئی اور راستہ ہی نہیں بچا تھا۔کئی آنسو ٹوٹ کر حورم کی آنکھوں سے بہے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔


جہانزیب نے آگے ہو کر اس کو اس کے کندھوں سے تھام کر سہارا دیا۔


"خدارا بات کو سمجھیں اور یہ سب بھول جائیں یہ محبت نہیں ہے حورم سائیں ۔نہ تو میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور نہ ہی آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں یہ سب وقتی اٹریکشن ہے اور اس عمر میں ایسا اکثر ۔۔۔۔۔"


اچانک ہی حورم نے اسکے ہاتھوں کو اپنے کندھوں سے جھٹک کر دور کیا۔


"آپ نے ہماری محبت کو جو نام دینا ہے دیں لیکن ہمارے نزدیک یہ ہمارے جینے کی وجہ ہے اور دیکھیے گا سید جہانزیب شاہ ہماری یہ محبت آپ کو ہم سے محبت کرنے پر ضرور مجبور کرے یہ حورم عالم رند کا آپ سے وعدہ ہے۔"


اتنا کہہ کر حورم خاموشی سے آکر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی جبکہ جہانزیب بہت دیر باہر ہی کھڑا رہا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس مسئلے کا وہ کیا حل نکالے۔


پھر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اس نے گہرا سانس لیا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کو حویلی کے راستے پر چلانے لگا۔باقی کا سارا راستہ اس کا ان دونوں نے آپس میں کوئی بات نہیں کی تھی۔ایک پل میں ہی دونوں کے درمیان بہت کچھ بدل چکا تھا۔

💕💕💕


میر داد گھر آیا اور سیدھا شاہ میر کے پاس گیا۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ اسے یوں اچانک واپس بلانے کی کیا وجہ تھی۔


"سلام پیرک۔۔۔۔"


میر داد نے انکے پاس جا کر کہا تو حقہ پیتے شاہ میر نے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"و علیکم السلام۔کیسے ہو میر داد؟"


"بلکل ٹھیک پیرک آپ بتائیں آپ نے مجھے خیریت سے بلایا نا؟"


میر داد نے انکے پاس بیٹھتے ہوئے سوال کیا تو شاہ میر نے حقے کا گہرا کش لے کر ہاں میں سر ہلایا۔


"تم اپنے کام کی اور گاؤں کی زمہ داریاں بہت اچھے سے نبھاتے ہو میر داد مگر تم یہ بھول جاتے ہو کہ تم دو بچوں کے بڑے بھائی ہو اور ان کو لے کر بھی تمہاری کوئی زمہ داری ہے۔"


"سب ٹھیک تو ہے نا؟"


شاہ میر کی بات پر میر داد نے کافی پریشانی سے پوچھا۔


"ہاں سب ٹھیک ہے بس تمہیں وہ سرمد رند یاد ہے تمہارے باپ کا کافی اچھا دوست تھا۔"


میر داد کے سامنے ایک ملازمہ نے پانی کا گلاس کیا تو میر داد نے اسے پکڑتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔


"انکا بیٹا ہے شہریار رند،باہر کے ملک سے پڑھائی کر کے آیا ہے اور فلحال اپنے باپ کا کروڑوں کا بزنس سمبھال رہا ہے۔"


میر داد نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا وہ شاہ میر کی بات کا مقصد سمجھنا چاہ رہا تھا۔


"انہوں نے حورم کا رشتہ مانگا ہے اپنے بیٹے کے لیے۔"


میر داد نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے انہیں دیکھا۔


"لیکن پیرک ابھی حورم بہت چھوٹی ہے۔"


میر داد کی بات پر شاہ میر ہنس دیے۔


"بچیوں کے بڑے ہوتے کہاں پتہ لگتا ہے سردار صاحب وہ ایک پل میں بڑی ہو جاتی ہیں اور ہم انہیں ہمیشہ اپنی وہ چھوٹی سی گڑیا سمجھتے رہ جاتے ہیں جو کبھی ہمارے آنگن میں کھیلتی تھیں۔۔۔۔"


شاہ میر کے چہرے پر اداسی چھا گئی تھی انہیں ماضی میں گزرا بہت کچھ یاد آ گیا اپنی اکلوتی بیٹی یاد آ گئی۔


"ویسے بچوں کی شادی جلد ہی کر دینی چاہیے ہمارا دین بھی ہمیں یہی سیکھاتا ہے پتہ نہیں تم یہ بات کب سمجھو گے۔"


میر داد نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا اسکے دادا ٹھیک کہہ رہے تھے۔ شہریار سرمد واقعی میں کافی اچھا انسان تھا۔


"ٹھیک ہے پیرک آپ حورم سے اس بارے میں بات کریں ہم سب میں سے سب سے زیادہ قریب وہ آپکے ہی ہے۔"


"ہاں ٹھیک ہے میں آج رات اس سے بات کرتا ہوں پھر جیسا وہ چاہے گی ویسا ہی ہو گا۔"


میر داد پھر سے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔


"میں جب تک یہاں ہوں یہاں کے معاملات دیکھ لیتا ہوں۔"


میر داد اتنا کہہ کر باہر چلا گیا اپنے موبائل کو دیکھتے ہوئے وہ چل رہا تھا جب اچانک اسکی کسی سے ٹکر ہوئی اور موبائل اسے ہاتھ سے گر کر چکنا چور ہو گیا۔


یہ دیکھ کر میر داد نے کھا جانے والی نظروں سے کشمالہ کو دیکھا جو منہ کھولے اس ٹوٹے ہوئے موبائل کو دیکھ رہی تھی۔


"معاف کرنا واجہ وہ میرا دھیان۔۔۔۔"


"سامنے چلنے پر ہو تو بہتر ہے۔"


میر داد نے اسکی بات ختم کی اور باہر کی طرف چل دیا ۔کشمالہ نے منہ بنا کر موبائل اٹھایا اور ایک مسکان کے ساتھ اس میں سے سم کارڈ نکال لیا۔


"واہ اس سے پتہ چل جائے گا کہ واجہ کی زندگی میں کوئی اور لڑکی تو نہیں اور اگر ہوئی نا تو با خدا اسے اپنے پیدا ہونے پر افسوس ہو گا۔"


کشمالہ اتنا کہہ کر اندر کی طرف چلی گئی۔

💕💕💕

حورم گھر آتے ہی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اور کمرے میں داخل ہو کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔آج اسکے دل کا یہ حال ہو گا یہ اسنے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔


کیسے جہانزیب نے اسکی محبت کو دھتکارا تھا ۔اسکے جزبات کی اسکے دل کی زرا سی بھی پروا نہیں کی تھی اس نے۔جو محبت حورم کے روم روم میں سانس بن کر گردش کرتی تھی جہانزیب کی نزدیک وہ صرف اسکا بچپنا تھا ایک وقتی احساس تھا۔


اپنی سب سے پیاری سہیلی کو اس طرح روتے دیکھ شاید چاندی پریشان ہوئی تھی اسی لیے اسکے پاس آ کر اپنا چہرہ بہت محبت سے اسکے چہرے پر پھیرنے لگی۔


"چاندی انہوں نے بلکل۔۔۔۔۔ اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔سب۔۔۔۔۔ سب برباد کر دیا ۔۔۔۔۔۔میرا دل اتنی بری طرح سے توڑ دیا۔۔۔۔"


حورم نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے چاندی کو اپنے ساتھ لگایا۔چاندی بھی اسکے ساتھ لگی اسکا غم ہلکا کرنا چاہ رہی تھی۔


"وہ مجھ سے پیار نہیں کرتے یہ سوچ کر ہی میرا دل بند ہوتا ہے چاندی میرا سانس رکنے لگتا ہے۔۔۔۔۔"


حورم کو اسطرح سے روتے ہوئے اگر کوئی اس گھر میں دیکھ لیتا تو شاید قیامت آ جاتی اور اسکو رلانے والے کو اس وقت سزا دی جا رہی ہوتی۔مگر حورم نے تو محبت ہونے کے باوجود کبھی اسکا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لایا تھا،کبھی کسی کو اپنے جزبات کا احساس بھی نہیں ہونے دیا۔اس قدر عزیز تھا اسے جہانزیب کا مان اسکی عزت۔


مگر بدلے میں جہانزیب اسکا مان رکھنا ہی بھول گیا تھا۔تبھی تو اسکی محبت کو اس قدر زلیل کر گیا۔

💕💕💕

"شاہ ہم اسے زہر کیوں نہیں دے دیتے ؟"


مراد کے سوال پر شاہ داد نے اسے گھور کر دیکھا۔


"پاگل ہوگیا ہے کیا لڑکی مر جائے گی تو کیا میر بھائی خاموشی سے بیٹھے رہیں گے جیسے وہ اسے اپنے گھر لے کر گئے ہیں نا مجھے لگتا ہے کہ وہ اس کی ٹھیک سے حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور اگر اسے کچھ ہوگیا تو کسی بھی طرح ہمارا پتہ لگا ہی لیں گے اپنے بھائی کو جانتا ہوں میں۔"


مراد نے گہرا سانس لیا۔


"ہم دونوں نے اپنے آپ کو اس چکر میں کچھ زیادہ ہی پھنسا لیا ہے اب مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ ہم کیا کریں۔"


مراد نے بے بسی سے کہا لیکن شاہ داد کے ہونٹوں پر ایک خطرناک سی مسکان تھی۔


"تو فکر مت کر مراد میں سب کچھ ہینڈل کر لوں گا دیکھ میں نے تجھے کہا تھا نا کہ اس لڑکی کا باپ نہیں آئے گا بھائی کے پاس اسے اپنی عزت اور بیٹیاں پیاری ہیں تو دیکھ وہ نہیں آیا۔


شاہ داد نے بہت غرور سے کہا تو مراد نے ہاں میں سر ہلایا لیکن تبھی اس کی نگاہ حویلی سے باہر آتے میرداد پر پڑی ۔


"السلام علیکم واجہ ۔"


مراد نے ہاتھ باندھ کر کہا تو جواب میں میرداد نے صرف ہاں میں سر ہلایا اور اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔اس کے وہاں سے جاتے ہی میر داد شاہ داد کی طرف مڑا۔


"کیا بات ہے بھائی آپ بھی حویلی آگئے ورنہ میں تو آپ سے ملنے شہر والے گھر آنے کی سوچ رہا تھا۔"


شاہ داد نا مسکرا کر کہا لیکن میرے داد کے ماتھے پر بل آئے۔


"تم وہاں غلطی سے بھی نہیں آؤ گے شاہ ہو سکتا ہے وہ لڑکی تمہیں دیکھے تو اس کے دماغ پر برا اثر پڑے۔"


شاہ داد نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"بھائی اب آپ کو وہ لڑکی اتنی عزیز ہو گئی ہے کہ آپ اپنے بھائی کو وہاں نہیں آنے دیں گے اس کا مطلب تو یہی ہے نہ کہ آپ نے ابھی تک میری اس غلطی کو معاف نہیں کیا۔"


میر داد نے مسکرا کر اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"ایسی بات نہیں ہے شاہ بس میں نہیں چاہتا کہ وہ مزید کسی پریشانی سے گزرے فی الحال یہ اس کے لئے بالکل اچھا نہیں ہوگا۔"


شاہ داد نے ہاں میں سر ہلایا تو میر داد نے مسکرا کر اس کا ماتھا چوما۔


"تم جانتے ہو شاہ کہ تم صرف میرے چھوٹے بھائی نہیں ہو بلکہ تم اور حورم میرا سب کچھ ہو ۔میر داد اپنا سب کچھ قربان کر دے گا لیکن تم دونوں پر آنچ بھی نہیں آنے دے گا۔"


میر داد کی بات پر شاہ داد مسکرا کر اس کے گلے سے لگ گیا۔


"جانتا ہوں بھائی جانتا ہوں اور میر داد کا یہ پیار ہی شاہ داد کی طاقت ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بھائی کے ہوتے ہوئے کوئی اسے چھو بھی نہیں سکے گا ۔۔۔۔"


میر داد نے مسکرا کر اسے اپنے سینے سے لگایا اور پھر پیار سے اسکے چہرے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلا گیا۔وہ جو کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتا اپنے بہن بھائی پر آنکھ بند کر کے یقین کرتا تھا کاش تھوڑا شک وہ شاہ داد پر بھی کرتا۔


میر داد کے جاتے ہی مراد واپس شاہ داد کے پاس آیا۔


"ہمیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں مراد بھائی مجھے کچھ بھی ہونے نہیں دیں گے تو دیکھنا اگر وہ لڑکی سب یاد کر کے سوال اٹھا بھی لے نا تو بھائی میرا ساتھ دیں گے نہ کہ اسکا اس لڑکی سے مجھے کوئی خوف نہیں رہا۔"


شاہ داد غرور سے کہتا چلا گیا اسے لگتا تھا کہ اسکے بھائی کے ہوتے ہوئے اسے کوئی چھو بھی نہیں سکتا لیکن وہ پاگل گنہگار اس بات سے انجان تھا کہ خدا نے بس اس کی رسی دراز کی ہے جس دن خدا نے وہ رسی کھینچ لی اس دن اس کو اس کا بھائی تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں بچا سکے گی۔

💕💕💕

حورم کو رات ہوتے ہی شاہ میر نے اپنے کمرے میں بلایا۔وہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن پھر بھی چلی گئی۔


"آپ نے بلایا پیرک؟"


حورم نے دروازے میں کھڑے ہو کر پوچھا تو شاہ میر نے اسے اپنے قریب بلایا۔حورم انکے قریب آ کر انکے سینے سے لگی۔آنسوں کا پھندہ اسکے گلے میں کانٹے اگا رہا تھا۔


"کیسا ہے میرا بچہ؟"


شاہ میر نے بہت محبت سے پوچھا تو حورم نے مصنوعی مسکان کے ساتھ انہیں دیکھا۔


"میں بلکل ٹھیک پیرک آپ کیسے ہیں؟"


حورم کی مسکان اسکی آنکھوں میں چھپے درد کو چھپانے کے لیے ناکافی تھی۔


"کیا ہوا ہے حور سب ٹھیک تو ہے نا؟"


شاہ میر نے بہت محبت سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں پکڑ کر پوچھا۔حورم نے اپنی مسکان گہری کرنے کی کوشش کی۔


"ہاں مجھے کیا ہونا ہے آپ کو ایسا کیوں لگا؟"


"کیونکہ آج تم نے پانچ سالوں کے بعد خود کے لیے ہم نہیں میں استمال کیا۔"


شاہ میر کی بات پر حورم نے پھر سے اپنا سر انکے سینے پر رکھا اور اپنے آنسوؤں پر بند باندھنے لگی۔شاہ میر نے اسکے سر پر ہاتھ چلانا شروع کیا بلکل جیسے وہ بچپن میں کرتے تھے۔


"میں ٹھیک ہوں پیرک پکا وعدہ آپ بس مجھے بتائیں کہ آپ نے کیوں بلایا۔"


حورم نے آہستہ سے کہا تو شاہ میر نے اسکے سر پر اپنے ہونٹ رکھے اور پھر گہرا سانس لے کر بولنے لگے۔


"حورم تمہیں سرمد صاحب یاد ہیں جن کے ساتھ انکا بیٹا شہریار آیا تھا۔"


حورم نے ہاں میں سر ہلا دیا حالانکہ نہ تو اسے کوئی سرمد صاحب یاد تھا اور نہ ہی انکا کوئی بیٹا اسکا دل و دماغ ابھی بھی جہانزیب پر تھا۔


"انکا بیٹا تم سے شادی کرنا چاہتا ہے حورم انہوں نے تمہارا رشتہ مانگا ہے۔"


حورم نے انکے سینے سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔اتنی بات پر اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسکا دل بند ہو جائے گا۔وہ کیا جواب دیتی انہیں کیا کہتی وہ۔حورم انہیں دیکھتی ہوئی بس یہی سوچتی جا رہی تھی۔


"نہیں پیرک میں ان سے شادی نہیں کروں گی۔"


حورم نے شاہ میر کی توقع کے برعکس نا تو وقت مانگا تھا اور نہ ہی بچکانا گلے کیے تھے بلکہ صاف سیدھا انکار کر گئی تھی۔


"تم سوچ لو اس بات کے بارے میں حورم ابھی۔۔۔۔۔"


"نہیں مجھے کچھ نہیں سوچنا پیرک میں ان سے شادی نہیں کروں گی کسی سے بھی شادی نہیں کروں گی۔"


حورم کی اس بات پر شاہ میر نے اسے خود سے دور کیا اور حیرت سے اپنی پوتی کو دیکھنے لگے۔


"مگر کیوں؟ کیوں نہیں کرنی تمہیں شادی۔۔۔۔۔کیا تم کسی اور کو پسند کرتی ہو؟"


انہوں نے حورم کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔حورم نے جواب میں اپنا سر جھکا لیا۔


"دیکھو حورم جھوٹ مت بولنا۔سچ سچ بتاؤ مجھے۔"


حورم نے نظریں پھیرتے ہوئے کافی دیر سوچا اور پھر ہاں میں سر ہلا دیا۔


"کون ہے وہ۔۔۔؟"


نہ چاہتے ہوئے بھی شاہ میر کی آواز میں سختی اتر آئی۔


"وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔"


حورم نے گھبرا کر اپنے ہاتھوں کو مسلنا شروع کر دیا۔اسے لگا تھا کہ یہ کام بہت آسان ہو گا مگر یہ تو بہت مشکل تھا۔


"بتاؤ حورم کون ہے وہ؟"


شاہ میر صاحب نے اس مرتبہ زور دے کر کہا حورم نے زور سے اپنی آنکھیں میچ لیں اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔


"بتاو۔۔۔۔"


"جہانزیب۔۔۔۔۔سید جہانزیب شاہ۔"


حورم کے الفاظ پر شاہ میر صاحب سکتے میں آ گئے۔وہ حورم کو حیرت سے دیکھنے لگے ایسا کیسے ممکن تھا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے حورم کی آنکھوں سے کئی آنسو نکلے اور وہ انکے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"لیکن وہ مجھے پیار نہیں کرتے پیرک۔۔۔۔۔۔ بلکل بھی نہیں کرتے۔۔۔۔۔ کہتے ہیں میں پاگل ہوں جو ایسا سوچتی ہوں۔۔۔۔۔ بچی ہوں۔"


حورم بری طرح سے روتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ شاہ میر تو پتھر کے ہو چکے تھے وہ تو کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے۔


"پوری بات بتاؤ مجھے حورم پوری بات۔۔۔۔"


شاہ میر صاحب کے ایسا کہنے پر حورم نے اپنا سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور پھر ساری بات انہیں بتاتی چلی گئی ۔

💕💕💕

جہانزیب اپنے سر کو ہاتھوں میں تھامے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا جب سے وہ وہاں سے واپس آئے تھے تب سے جہاں سے وہ ایک پل کا بھی سکون نہیں لے پایا۔


وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسکا ایسا کونسا فعل تھا جس نے اس لڑکی کو ایسا سوچنے پر مجبور کر دیا ہاں کہیں نہ کہیں اس کی کوئی غلطی ہو گی نا اس سب میں، ورنہ حورم تو اس سب کے لئے بہت زیادہ معصوم تھی۔


اچانک جہانزیب کے فون بجنے کی آواز پر وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور فون کو اٹھا کر اسنے کان کے ساتھ لگایا۔


"ہیلو۔۔۔۔"


جہانزیب نے اپنے سر کو انگلیوں سے سہلاتے ہوئے کہا۔


"جہانزیب واجہ کہاں ہیں میں کب سے انکا فون ملا رہا ہوں مگر انکا فون بند ہے۔"


زمان کی آواز سن کر جہانزیب نے کچھ دیر اس کی بات پر غور کیا۔


"ہاں پہلے تو وہ گاؤں کے معاملات دیکھنے میں مصروف تھے اور اس وقت بھی شاید کسی کام میں ہی لگے ہیں۔اگر تمہیں ان سے کوئی کام ہے تو مجھے بتا دو میں انہیں کہہ دوں گا۔"


کچھ دیر دوسری طرف خاموشی چھائی رہی جیسے زمان یہ سوچ رہا ہوں کہ اسے بتائے یا نہیں۔


"نہیں تم میری واجہ سے بات کرا دینا۔"


"ٹھیک ہے"


جہانزیب نے اتنا کہہ کر اپنا فون سائیڈ پر رکھ دیا اور پھر سے اپنا سر دبانے لگا ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ بچنے لگا۔ایک گہرا سانس لے کر جہانزیب دروازے تک گیا۔


"جہانزیب آپکو پیرک بلا رہے ہیں۔"


ملازم کے بتانے پر جانزیب نے ہاں میں سر ہلایا لیکن اس بات پر اس کا دل کافی گھبرا گیا تھا۔


کہیں حورم نے تو۔۔۔۔


جہانزیب نے اتنا سوچا اور شاہ میر کے کمرے کی طرف چل دیا ۔


"آجاؤ جہان۔"


جہانزیب کے دروازہ کھٹکھٹانے پر شاہ میر صاحب کی آواز کمرے سے باہر آئی۔جہانزیب خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا اور ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔


"مجھے تم سے بات کرنی ہے جہان یہاں آ کر بیٹھو۔"


جہانزیب خاموشی سے جا کر ان کے پاس موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔شاہ میر اسے گہری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔


"سرمد بلوچ صاحب کے گھر سے حورم کا رشتہ آیا ہے۔"


جہانزیب نے اس بات پر صرف اثبات میں سر ہلا دیا جیسے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔


"لیکن وہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔۔وہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہے جہانزیب شاہ وہ تمہیں پسند کرتی ہے۔"


شاہ میر صاحب کی بات پر جہانزیب کا سر شرمندگی سے جھکا تھا جیسے کہ یہ اس کا قصور ہو۔


"میں نہیں جانتا پیرک کہ یہ کب ہوا وہ کب سے میرے بارے میں ایسی سوچ رکھنے لگیں مجھے اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوا اگر ہوا ہوتا تو میں بہت پہلے ہی ان سے دوری اختیار کر جاتا۔"

جہانزیب شرمندگی سے بولتا چلا گیا جبکہ شاہ میر صاحب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔

"میں نے تمہیں یہاں صفائی پیش کرنے کے لئے نہیں بلایا جہان یہ بتانے کے لئے بلایا ہے کہ مجھے حورم کی پسند قبول ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں کی شادی کر دی جائے۔"

شاہ میر صاحب نے اپنے الفاظ سے جہانزیب کے اعصاب پر بم پھوڑا۔۔۔۔

"کیا۔۔۔۔۔؟؟؟"


جانزیب نے حیرت سے سوال کیا شاہ میر صاحب نے ایک گہرا سانس لے کر اسے دیکھا۔


"وہ تمہیں پسند کرتی ہے جہان اور اس کی پسند بری نہیں، تم اس کا بہت اچھے سے خیال رکھ لو گے اور جب میں یہ بات میر داد سے کروں گا تو اسے بھی کوئی مسلہ نہیں۔۔۔۔۔"


"پیرک آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں وہ مجھ سے چودہ سال چھوٹی ہیں اور یہ سب انکے بچپنے سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے بے چینی سے شاہ میر کی بات کاٹ کر کہا۔


"وہ جانتی ہے جہان کہ تم اس سے کتنے بڑے ہو اگر اسے عمر کے فرق سے کوئی اعتراض ہوتا تو وہ تمہاری خواہش نہ کرتی اور ہم نے حورم کی ہر خواہش پوری کی ہے تو اسکی اتنی بڑی خواہش کیسے ادھوری رہنے دیں؟"


جہانزیب نے انہیں حیرت سے دیکھا آخر انہیں ہو کیا گیا تھا انہیں اس سب میں کچھ بھی معیوب نظر نہیں آرہا تھا؟


"یہ آپ کہہ رہے ہیں پیرک؟ مجھے یاد ہے جب عالم بابا نے میرا نکاح ماہ گل سے کرنا چاہتا تھا تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت آپ نے ہی کی تھی کیونکہ میں ایک بلوچ نہیں تھا اور اب آپ خود ہی کہہ رہے ہیں؟"


جہانزیب کے سوال پر شاہ میر گہرا سانس لے کر رہ گئے۔


"تب غلطی پر عالم نہیں میں ہی تھا جہان ان سب کچھ نہیں ہوتا محبت انا سے بڑی ہے یہ سبق تو مجھے اسی دن سیکھ لینا چاہیے تھا جب منیرہ نے ہمیں چھوڑ کر اپنی محبت کو چنا تھا لیکن دیکھو نا اپنی انا میں آج تک میں نے اپنی بیٹی کا چہرہ بھی نہیں دیکھا۔یہ میری غلطی تھی۔


شاہ میر نے بہت افسوس کے ساتھ کہا اور ان کے دکھ کو دیکھتے ہوئے جہانزیب کچھ دیر تو خاموش رہا پھر اس نے آگے ہو کر ان کے ہاتھ تھام لئے۔


"پیرک اگر حورم سائیں اپنے بچپنے میں کچھ غلط کرنا چاہیں تو کیا آپ ان کو کرنے دیں گے؟"


جہانزیب نے سوال کا جواب ایک نئے سوال سے کیا۔کچھ دیر سوچ کر شاہ میر نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں کبھی بھی نہیں مگر۔۔۔۔"


"یہی بات پیرک ابھی بھی وہ یہ سب اپنے بچپنے میں ہی کر رہی ہیں ایک وقتی احساس کی بنا پر جو ہمیشہ نہیں رہے گا اور جب یہ محبت کا وقتی احساس ختم ہو جائے گا نا تو تب انہیں یہ احساس ہو گا کہ انکا شوہر انکی طرح کہیں کا شہزادہ نہیں بلکہ ایک غلام ہے جسکے پاس اپنا کچھ بھی نہیں،نا ہی اسکا اپنا کوئی مستقبل ہے بلکہ انہیں کے بھائی کے ٹکڑوں پر پلنے والا ایک ملازم ہے ۔۔۔۔۔"


جہانزیب ایک پل کو رکا۔


"آپ بتائیں مجھے کیا شادی کروا کر وہ میرے ساتھ سرونٹ کوارٹر میں جائیں گی یا میں ان کے ساتھ اس محل میں آؤں گا جسکے بعد ہر انسان انکو یہی طعنہ دے کہ انکا شوہر ان کی دولت کے پیچھے ہے تو کیا یہ سب سن کر انکی محبت قائم رہے گی۔۔۔۔؟"


جہانزیب کی بات پر شاہ میر صاحب کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔


"ہم تمہیں اپنا بیٹا سمجھتے ہیں جہان اس گھر کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور تم اپنے بارے میں یہ سوچتے ہو؟"


شاہ میر صاحب نے اسے افسوس سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"یہ میری سوچ نہیں پیرک یہ سچائی ہے جسے ہم کتنے ہی پردوں میں کیوں نہ چھپا لیں وہ ہمیشہ سچ ہی رہے گا۔"


جہانزیب نے سر جھکا کر کہا تو شاہ میر صاحب کو اسکی بات کی حکمت نظر آئی وہ صحیح کہہ رہا تھا۔


"ہم نے تمہارا نکاح ماہ گل سے بھی تو کر دیا تھا نا تو اب۔۔۔۔"


"اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے پیرک اور میں نہیں چاہتا کہ تاریخ خود کو دو بارہ دہرائے ۔۔۔۔میں ماہ گل کے لئے اچھا شوہر ثابت نہیں ہو سکا ،اسے بچا نہیں سکا اور پھر سے نہیں چاہتا کہ حورم سائیں کا بھی وہی انجام ہو۔"


جہانزیب کی آواز میں بے پناہ دکھ تھا جو شاہ میر سے چھپا نہیں رہا۔


"اس سب میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا جہان۔"


جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا۔


"جی پیرک اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں تھا لیکن اب جو ہو رہا ہے اگر وہ میں نے ہونے دیا تو یہ میرا قصور ہوگا۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ حورم سائیں جذبات میں آکر اپنی زندگی تباہ کریں اور کل کو اپنے ہی فیصلے پر پچھتائیں۔"


جہانزیب کی بات پر شاہ میر صاحب نے گہرا سانس لیا۔


"لیکن وہ یہ سب نہیں سمجھتی بیٹا وہ کہتی ہے کہ وہ تمہارے بغیر نہیں رہ پائے گی اور میں نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کے اس کے ساتھ کوئی زبردستی نہ کی جائے اس لئے میں سرمد کو اس رشتے کے لیے منع کر دوں گا۔"


جہاں زیب کافی دیر ان کی بات پر غور کرتا رہا پھر اس نے انکار میں سر ہلایا۔


"اتنے اچھے رشتے روز روز نہیں ملا کرتے پیرک۔شہریار ہر لحاظ سے بہت اچھا انسان ہے وہ حورم سائیں کے لیے بہت اچھا شوہر ثابت ہوگا اور وہ انہیں پسند بھی کرتا ہے بہت آسانی سے انکا دل اپنی طرف مائل کر لے گا۔"


جہانزیب خواب کی سی کیفیت میں بولتا چلا گیا۔شاہ میر صاحب نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔


"لیکن حورم کا کیا جہان وہ تو اس سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔"


بہت دیر خاموشی سے بیٹھ کر جہانزیب ان کی بات پر غور کرتا رہا یہ ایک بہت حساس معاملہ تھا جسے بہت نرمی سے طے کرنا تھا۔


"میں حورم سائیں سے بات کروں گا اور پھر ان کا جو بھی جواب ہوگا ہم اسی بنا پر سرمد صاحب کو کوئی جواب دیں گے۔"


شاہ میر صاحب نے ہاں میں سر ہلایا انہیں جہان پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ تھا وہ جانتے تھے تھے کہ اس معاملے کو جہان بہت عقلمندی سے کر لے گا مگر وہ دونوں یہ بات سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہ معاملہ عقلمندی اور دماغ کا نہیں بلکہ دل کا تھا ایک معصوم چھوٹے سے دل کا۔

💕💕💕


میر داد اس دن چاہتے ہوئے بھی واپس نہیں جا سکا تھا۔اس پر اسکا موبائل بھی ٹوٹ چکا تھا۔ مگر صبح ہوتے ہی جہانزیب نے اپنا موبائل اس کے پاس اس پیغام کے ساتھ پہنچایا کہ زمان اس سے بات کرنا چاہتا ہے۔


"سب ٹھیک ہے نا زمان ؟"


زمان کے فون اٹھاتے ہی میر داد نے سوال کیا۔


"جی واجہ سب ٹھیک ہے لیکن پری بی بی ۔۔۔۔۔وہ انہوں نے اس رات سے کچھ نہیں کھایا پیا اگر ہم ان کے پاس جائیں بھی تو وہ ڈر کر رونے لگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔"


میر داد نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کس لیں۔اگر اس وقت زمان اسکے سامنے ہوتا نا تو سزا پا چکا ہوتا۔


"اس نے پورے ایک دن سے کچھ نہیں کھایا اور تم مجھے اب بتا رہے ہو؟"


میر داد غصے سے دھاڑا۔


"واجہ میں نے آپکو فون کرنے کی کوشش کی مگر آپکا فون بند جا رہا تھا۔"


میر داد نے گہرا سانس لیا اور اپنے ماتھے کو سہلایا۔یہاں حورم کو بھی اسکی ضرورت تھی ابھی تک اس نے خود حورم سے بات نہیں کی تھی اور جب تک وہ خود بات نہ کر لیتا اسے تسلی نہیں ہونی تھی اور ادھر پری کو بھی اسکی ضرورت تھی۔بہت سوچنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ فلحال وہ پری کے پاس جائے گا اور اسکے بعد یہاں واپس آ کر حورم سے بات کرے گا۔


"میں آ رہا ہوں زمان تم بس اسکا خیال رکھنا۔"


زمان نے جی واجہ کہہ کر فون بند کر دیا اور میر داد بھی اپنا ضروری سامان پکڑ کر گاڑی کی طرف چل دیا اسے جلد از جلد پری کے پاس پہنچنا تھا۔


کراچی اپنے گھر پہنچتے ہی وہ جلدی سے پری کے کمرے کی طرف بڑھا ۔اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی پری بیڈ کی ٹیک کے ساتھ سمٹی بیٹھی تھی۔


"فردوس آپا ۔۔۔۔فردوس آپا۔۔۔"


زمان کے چلانے پر پری پہلے تو سہم گئی پھر اس نے نظریں اٹھا کر میر جو دیکھا تو منہ بنا کر آنسو بہانے لگی جیسے ناراضگی کا اظہار کر رہی ہو۔


"جی واجہ."


فردوس کے وہاں آنے پر میر داد غصے سے انکی طرف پلٹا۔


"کل سے پری نے کچھ کھایا نہیں اور مجھے اسکی خبر بھی نہیں ہوئی آخر آپ لوگ اتنے لا پروا کیسے ہو سکتے ہیں؟"


میر داد غصے سے چلایا تو فردوس نے گھبرا کر اپنا سر جھکایا ۔آج پہلی بار میر داد ان پر اس طرح سے چلایا تھا وہ تو انکی بہت عزت کرتا تھا۔


"ابھی کے ابھی کھانا لے کر آئیں آپ۔"


میر داد کے ایسا کہتے ہی فردوس اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلی گئیں۔میر داد پری کے پاس آ کر بیٹھا تو پری اپنا منہ بسور کر دوسری طرف کر گئی۔شاید یہ اسکا ایک معصومانہ انداز تھا ناراضگی کا۔کٹاؤ دار لبوں پر بے ساختہ ایک مسکان ابھری تھی۔


"جانتا ہو پری کہ مجھ سے تمہارا خیال رکھنے میں کوتاہی ہوئی ہے اور وعدہ کرتا ہوں پری اب یہ کوتاہی پھر کبھی نہیں ہو گی۔میر داد عالم اپنی جان سے بھی زیادہ تمہارا خیال رکھے گا۔"


میر نے آہستگی سے کہا تبھی فردوس کھانے کی ٹرے لے کر کمرے میں آئیں میر داد نے نوالا توڑ کر پری کے ہونٹوں کی طرف کیا تو پری نے کچھ دیر اسے دیکھا اور پھر آہستہ سے نوالا اپنے منہ میں لے لیا۔


میر داد نے اسے کھاتا دیکھ سکھ کا سانس لیا اور پھر سارا کھانا اسے اپنے ہاتھوں سے کھلایا۔


"میں نے ڈاکٹر کو راستے میں ہی فون کر دیا تھا پری اور بس اب میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گا۔"


میر نہیں جانتا تھا کہ پری اسکی باتیں سمجھ بھی سکتی ہے یا نہیں لیکن پھر بھی اس سے باتیں کرنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔


"تم نہیں جانتی کہ میں نے تمہیں اس ملاقات کے بعد کتنا ڈھونڈا،ہر جگہ تمہیں تلاش کیا مگر تم نہیں ملی۔۔۔۔۔مجھے تو یہ لگنے لگا تھا کہ تم سچ مچ میں کوئی پری تھی۔۔۔۔"


میر داد اسے کھانا کھلاتے ہوئے کہہ رہا تھا لیکن پری کو تو کھانے کے علاوہ کسی چیز سے سروکار نہیں تھا۔


"اور اب تم مل تو گئی ہو تو بھی ایک ڈر سا ہے دل میں کہ تمہارا کوئی اپنا آئے گا اور تمہیں میرے پاس سے لے جائے گا ۔۔ "


میر داد نے اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔پری کا دوپٹہ کندھوں سے ڈھلکنے لگا تو میر داد نے ہاتھ آگے بڑھا کر دوپٹہ اچھی طرح سے اسکے سر پر دیا۔


"لیکن وعدہ ہے یہ میرا کہ اب میں تمہیں خود سے دور نہیں جانے دوں گا اب مل گئی ہو تو میرے پاس ہی رہو گی تم۔جب تمہیں کوئی تمہارا اپنا لینے آئے گا تو میں تمہیں اس سے مانگ لوں گا۔"


میر داد نے اسے گویا اپنا فیصلہ سنایا شائید پری کو اپنے سامنے پا کر وہ یہ بھول چکا تھا کہ وہ اسکا گناہگار ہے،وہ گناہگار جس نے بہت جلد اسکی عدالت میں کھڑے ہونا ہے۔۔۔۔ہاں پہلی نظر میں ہی ہو جانے والی محبت میں ڈوبا وہ شخص یہ بات بھول چکا تھا۔

💕💕💕

"تو کیسی ہے پری؟"


تقریباً دو گھنٹوں کے بعد پری کے سارے ٹیسٹ کمپلیٹ ہوئے تھے اور وہ ٹیسٹ میر داد نے کس طرح کمپلیٹ کروائے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا۔پری ایک سیکنڈ کے لیے بھی اسکے بازو سے علیحدہ نہیں ہوئی تھی۔


خاص طور پر سی ٹی سکین میر داد کے لیے سب سے زیادہ مشکل مرحلہ ثابت ہوا تھا۔پری تو اس مشین سے بے تحاشہ خوف زدہ ہو گئی تھی۔


"دیکھیں رند صاحب میں آپکو کسی دھوکے میں نہیں رکھوں گا۔میم کو بہت سوئیر قسم کا میمری لاس ہوا ہے۔جس میں وہ اپنے دماغ میں موجود ہر بات کو تقریباً بھول چکی ہیں اور جیسا آپ نے بتایا کہ انہیں سر پر چوٹ لگی تھی مگر دماغ کے بیرونی حصے میں ایسا کوئی زخم نہیں جس سے اتنا زیادہ نقصان ہوتا اسکا مطلب کے انکے دماغ کا اندورنی حصہ ڈیمج ہوا ہے اور وہ بھی بہت بری طرح سے میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ یہ کوما سے باہر کیسے آ گئیں۔

Its utterly a miracle."


میر داد نے گہرا سانس لے کر اپنے بازو سے چپکی پری کو دیکھا جو ڈاکٹر کے آفس میں موجود فش ٹینک کو اپنی نیلی آنکھیں بڑی کر کے دیکھ رہی تھی۔فردوس آپا کے گلابی رنگ کے کھلے کپڑوں اور سر سے ڈھلکی سفید چادر میں وہ مزید معصوم لگ رہی تھی۔میر داد نے ہاتھ بڑھا کر چادر اسکے سر پر دی۔


"تو کیا انہیں کچھ یاد نہیں آئے گا؟"


میر داد نے پریشانی سے پوچھا۔ڈاکٹر نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں ایسا نہیں کہا جا سکتا پراپر علاج ہونے پر وہ سب یاد کر لیں گی مگر اس میں کتنا عرصہ لگے گا اسکے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔"


ڈاکٹر ایک پل کو رکا۔


"انہیں آہستہ آہستہ مرحلہ وار سب یاد آنا شروع ہو گا۔سب سے پہلے تو اپنی Sub conscious میموری یاد آنا شروع ہو گی ۔یعنی بنیادی ضروریات ، بولنا وغیرہ وہ ایک بچے کی مانند آہستہ آہستہ سیکھ لیں گی۔"


"لیکن یہاں کچھ رول آپکا بھی ہو گا۔آپکو انکے ساتھ بہت محبت اور تحمل سے پیش آنا ہو گا۔وہ بہت بار سیکھی ہوئی باتیں بھی بھول جائیں گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ ابھی اپنے جاننے والوں کو تھوڑی مدت کے لیے بھول جائیں۔"


"مگر کچھ بھی ہو جائے آپکو ان پر سٹریس بلکل نہیں ڈالنا۔پرانے لوگوں سے ملنا بات کرنا انکے لئے اچھا ہے لیکن جن کو دیکھ کر یہ گھبرائیں یا اپنے دماغ پر زور ڈالیں۔انکو آپ ان سے دور ہی رکھیں۔"


ڈاکٹر کی ساری بات تحمل سے سن کر میر داد نے ہاں میں سر ہلایا اور پری کی طرف دیکھا جو ابھی بھی پلکیں جھپکائے بغیر مچھلیوں کو دیکھ رہی تھی۔اسکی آنکھیں مچھلیوں کی ہر حرکت کا پیچھا کرتے ہوئے حرکت کر رہی تھیں جبکہ چہرے پر اس وقت ایک مسکان تھی۔


"میں آپ کو دوائیاں لکھ دیتا ہوں جو آپکو انہیں دینی ہیں۔اس کے علاوہ انہیں ریگیولر چیک اپ کے لیے لانا ہو گا لیکن اس سب سے زیادہ ضروری چیز آپکی توجہ ہے جو انکو صحت دے سکتی ہے۔"


ڈاکٹر نے ایک فائل میں کچھ لکھتے ہوئے کہا۔میر داد نے ہاں میں سر ہلا کر اس فائل کو پکڑا اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔اسکے کھڑے ہوتے ہی پری بھی اسکے بازو سے چپکی کھڑی ہو گئی اور پھر دونوں ساتھ ساتھ چل دیے۔


باہر آ کر میر داد کا دھیان پری کے کھلے کپڑوں پر گیا تو اس نے ڈرائیور کا شاپنگ مال کی طرف چلنے کا کہا۔


شاپنگ مال پہنچ کر وہ گاڑی سے نکلنے لگا تو پری جلدی سے اسکے بازو سے چپکی۔


"لڑکی چھوڑ دو مجھے نہ تو میں کہیں گم جاؤں گا اور نہ ہی تمہیں کہیں گم ہونے دوں گا۔"


میر داد نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا تو اس بار پری نے اسکے بازو میں اپنے ناخن کے گاڑھ کر میر کو ایسے گھورا جیسے اپنی آنکھوں سے کہنا چاہ رہی ہو کہ یہ میری ملکیت ہے۔


"ٹھیک ہے چلو ایسے ہی چلتے ہیں۔"


میر داد نے اسکے سر پر چادر ٹھیک کر کے کہا اور اسے ساتھ لے کر چلنے لگا۔میر داد نے اسکے لیے کافی سارے کپڑے لیے مگر اس نے فوکس کیا کہ پری اب لوگوں سے ڈرنے کی بجائے ہر چیز کو کافی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔


جوتوں کی دکان پر آ کر میر داد نے پری کو بینچ پر بیٹھایا تو ایک سیلز مین جوتا لے کر اسکے پیر پکڑنے لگا جسے پری نے بری طرح سے جھٹکا۔


"یہ کیا کر رہے ہو تم؟"


"سر وہ میں تو بس سائز۔۔۔۔"


میر داد کے دھاڑنے پر سیلز مین گھبرا کر بولا تو میر داد خود پری کے پیروں کے پاس بیٹھ کر اسکو ہر جوتا پہنا کر دیکھنے لگا۔اس بات سے بے خبر کہ وہاں موجود ہر لڑکی میر داد کو ستائشی اور پری کو رشک کی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"how lucky his wife is

یار کاش کوئی میرا اتنا خیال رکھے۔۔۔۔"


ایک لڑکی نے تو سرد آہ بھر کر کہا۔میر داد نے جلدی سے ساری شاپنگ ختم کی جس میں آدھا وقت وہ پری کی چادر کو اس پر ٹھیک کرتا رہا تھا۔


تقریباً شام کے وقت وہ اسے لے کر گھر آ گیا اور اب رات کے کھانے کے بعد میر داد ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی پری کو دوائیاں نکال کر دے رہا تھا۔


"یہ لو اسے کھاؤ۔۔۔"


میر داد نے ایک گولی اسکے ہاتھ پر رکھ کر کہا اور پھر ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی گلاس میں بھرنے لگا۔


جب تک وہ پلٹا پری اس گولی کو منہ میں رکھ کر چباتے ہوئے کھانے لگی،پھر فوراً ہی کڑوے ذائقے پر اپنی ناک چڑھا کر زبان باہر نکالی اور پھر غصے سے میر داد کو دیکھنے لگی جیسے کہ یہ اسکا قصور ہو۔


اور پھر وہ ہوا جس نے گھر کے ہر ملازم کو حیران کر دیا۔سردار میر داد عالم قہقہ لگا کر ہنسنے لگا اور نہ جانے کتنی ہی دیر ہنستا رہا جبکہ اس کو ہنستا دیکھ پری کا منہ مزید پھولتا چلا گیا۔

💕💕💕

ازمینہ صبح نماز کے وقت ہی اٹھ گئی تھی۔نماز پڑھ کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس کے پاس مانگنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا کچھ بھی نہیں۔


جانے کتنی دیر وہ جائے نماز پر بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھورتی رہی تھی۔باقی سب کے بھی اٹھنے کی آواز پر وہ واپس اس دنیا میں آئی اور اٹھ کر تیار ہونے چلی گئی۔


تیار ہو کر باہر آئی تو سامنے ہی صحن میں صدف کھانا بنا رہی تھیں۔


"مینہ تم کہاں جا رہا ہے؟"


صدف نے ازمینہ کو چادر اوڑھے دیکھا تو پوچھنے لگی۔


"میں سکول جانا چاہتی ہوں اب جا کر پرنسپل سے کہوں گی کہ ۔۔۔۔۔"


"تم کہیں نہیں جائے گا تم گھر ہی رہا کرے گا امارے پاس ۔"


صدف نے اسکی بات کاٹتے ہوئے فیصلہ سنایا تو ازمینہ نے اپنی ماں کو حیرت سے دیکھا۔


"لیکن میری تنخواہ کے بغیر گھر کا خرچہ کیسے چلے گا؟"


ازمینہ نے حیرت سے پوچھا۔


"وہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے لڑکی ہم سنبھال لے گا لیکن تم گھر ہی رہا کرو۔"


صدف کی اس بات پر ازمینہ کی ساری بہادری ،ساری ہمت چکناچور ہوئی تھی بہت امید سے اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔


"بابا۔۔۔"


ازمینہ کے پکارنے پر ارشاد کا سر جھکا تھا۔


"تمہارا ماں صحیح کہتا ہے مینہ تم گھر ہی رہے گا خرچے کی فکر کرنا تمہارا نہیں میرا کام ہے میں کر لوں گا تم جاؤ۔۔۔"


ارشاد کے ایسا کہنے پر کئی آنسو ٹوٹ کر ازمینہ کی آنکھوں سے گرے۔پھر سے وہی ہوا تھا جو ہوتا آیا تھا ظلم کرنے والا مزید ظلم ڈھانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا تھا اور ظلم سہنے والے کو عزت کے ڈر سے قید کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔

💕💕💕

حورم نے پوری رات جاگ کر گزاری تھی۔رات شاہ میر کو ساری بات بتانے کے بعد انہوں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جہانزیب سے بات کریں گے۔


یہ سن کر حورم اپنے کمرے میں آگئی تھی اور ساری رات یہ دعائیں کرتی رہی تھی کہ جہانزیب مان جائے۔


ابھی صبح بھی اس کو کھانے کے لئے نیچے بلایا تھا لیکن حورم نہیں گئی تھی وہ کوئی ایک پل بھی ایسا نہیں گزارنا چاہتی تھی جس میں وہ جہانزیب کو خدا سے اپنے لئے مانگ نہ سکے۔


اچانک دروازہ کھٹکھانے کی آواز پر حورم نے اپنا سر میز پر سے اٹھایا اور اپنی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے دروازے کی طرف چل دی۔دروازہ کھولتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ سامنے ہیں جہانزیب کھڑا تھا۔


"زز۔۔۔۔زیب سائیں۔۔۔۔۔"


حیرت کے مارے حورم کے منہ سے بس یہی الفاظ نکلے۔


"بارہ بجے تک تیار رہیے گا حورم سائیں مجھے آپ کو کہیں لے کر جانا ہے اور آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔"


جہانزیب نے سنجیدگی سے بس اتنا ہی کہا اور وہاں سے جانے لگا.


"ککک۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔؟"


حورم نے بے چینی سے پوچھا تو جہانزیب کے چلتے قدم رکے اور وہ ایک پل کے لیے مڑا لیکن اس نے ایک نگاہ بھی حورم کو نہیں دیکھا۔


"ساتھ آئیں گی تو آپ کو پتہ لگ جائے گا اور آپ کو وہاں لے جانے کا مقصد بھی۔"


جہانزیب تو اتنی بات کہہ کر وہاں سے جا چکا تھا لیکن وہ ننھی سی جان اضطراب میں آ گئی بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے وہ بس یہی سوچ رہی تھی کہ جہانزیب اس سے کیا بات کرنا چاہتا تھا۔


ہو سکتا ہے پیرک نے اس سے شادی کی بات کی ہو اور اب وہ مان گیا ہو۔ہاں اسی لئے تو وہ اسے یہاں سے لے کر جانا چاہتا تھا تاکہ سب سے دور تنہائی میں اپنے دل کی بات کر سکے۔


حورم کے ذہن نے ایک خوش فہمی پیدا کی تو وہ جلدی سے اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔


ہاں ایسا ہی ہوا ہوگا آخر ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ اسکے پیرک اسکی کوئی خواہش ادھوری رہنے دیتے۔۔۔۔۔اور اگر ایسا ہے تو تو اسے بہت اچھا دیکھائی دینا ہو گا۔


اس سوچ کے ساتھ ہی حورم مسکراتے ہوئے اپنی الماری کی طرف بڑھی اور ایک ایک جوڑا دیکھ کر اسے باہر پھینکنے لگی آخر بہت دیر بعد اسے ایک جوڑا پسند آیا تو وہ اسے اپنے ساتھ لگا کر آئینے میں خود کو دیکھنے لگی۔


آج اسکی زندگی کا سب سے اہم دن تھا اس لیے آج اسے خوبصورت لگنا تھا بہت زیادہ خوبصورت۔


اس سوچ کے ساتھ ہی حورم خود کو آئینے میں دیکھ کر مسکرا دی۔

💕💕💕

حورم کے گاڑی میں بیٹھتے ہی جہانزیب نے اسکی تیاری محسوس کی وہ کافی خوش لگ رہی تھی شاید وہ کوئی نئی امیدیں باندھ بیٹھی تھی۔


سارا راستہ جہانزیب نے اس سے کوئی بات نہیں کی اور حورم کبھی بے چینی سے ہاتھ مسلتی تو کبھی ہلکی سی پلکیں اٹھا کر جہانزیب کو دیکھتی۔


"ہہ ۔۔۔۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں؟"


آخر کار حورم نے گھبراتے ہوئے سوال کیا۔


"وہیں جہاں کل گئے تھے۔"


جہانزیب نے عام سا جواب دیا اور حورم کی دھڑکنیں بڑھ چکی تھیں۔ایک ایک پل اس پر بھاری گزر رہا تھا۔


آخر کا وہ لوگ کھراڑی پہنچے تو جہانزیب نے ایک سنسان جگہ پر گاڑی روکی اور باہر نکل کر حورم کی طرف کا دروازا کھولا۔


حورم مسکرا کر باہر نکلی اور سامنے موجود نظارے کو دیکھنے لگی جو کہ ہمیشہ اسکا دل موہ لیتا تھا۔جہانزیب کافی دیر کھڑا اس کو خوبصورت نظارے میں کھوئے ہوئے دیکھتا رہا۔


"حورم سائیں۔"


جہانزیب کے پکارنے پر حورم نے اسے مسکرا کر دیکھا۔


"آپ نے ہم سے کچھ کہنا ہے زیب سائیں تو جلدی سے کہیں نا ہم بہت دیر سے انتظار کر رہے ہیں۔"


حورم نے بے چینی سے کہا اور اپنا سر جھکا گئی۔جہانزیب نے اسے دیکھتے ہوئے گہرا سانس لیا یہ کام اس کے لیے بہت مشکل ثابت ہونے والا تھا۔


"تو آپ کا کہنا ہے حورم سائیں کہ آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں کیا یہ سچ ہے۔"


حورم نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا جب کہ اس کی بے چینی بڑھتی ہی جارہی تھی۔


"تو آپ مجھے یہ بتائیں آئی کہ کیا آپ محبت لفظ کا مطلب سمجھتی ہیں؟"


حورم نے کچھ دیر سوچا اور پھر ہاں میں سر ہلایا۔


"محبت تو اس سے ہوتی ہے نا جو آپ کو بہت اچھا لگے جس کے ساتھ آپ اپنی ساری زندگی کا ایک ایک پل گزارنا چاہیں اور اس کے بغیر جینے کا خیال ہی سانسیں روک دے۔"


حورم مسکرا کر اسے اپنے دل کا حال بتاتی چلی گئی پھر ہلکی سی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا جو گہری نگاہوں سے نا جانے اس میں کیا تلاش کر رہا تھا۔


"نہیں حورم سائیں محبت کا مطلب اپنی خوشی نہیں ، محبت کا مطلب اپنے محبوب کی خوشی ہے اس کا سکون ہے۔صرف اس کو پا لینا محبت نہیں ہے اس کو زندگی کی ہر تکلیف سے بچانا،اسے دنیا کی ہر خوشی دینا محبت ہے۔"


جہانزیب نے ایک پل کو رک کر حورم کو دیکھا۔


"اب بتائیں حورم سائیں کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے؟"


حورم میں اس کی باتوں اور اس کے سوال پر کچھ دیر غور کیا پھر ہاں میں سر ہلایا۔


"تو پھر کیا آپ میری بات مان کر اس محبت کا مان رکھیں گی؟"


حورم نے کچھ دیر سوچا۔اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا وہ جہانزیب کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہی تھی لیکن پھر بھی اس نے ہاں میں سر ہلایا اپنے محبت کا مان رکھنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔


"تو پھر آپ شہریار سرمد سے شادی کر لیں۔"


الفاظ تھے یا انگارے جو حورم پر برسائے گئے تھے بہت سے آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے اور اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر اس نے جہانزیب کو دیکھا۔


"جی حورم سائیں اگر آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں تو اس محبت کو ثابت کریں آپ شہریار سرمد سے شادی کر لیں کیونکہ اسی میں میری خوشی ہے،میرا سکون ہے۔"


حورم تو کوئی جواب دیئے بغیر بس آنسو بہاتے ہوئے اسے دیکھتی جا رہی تھی کیسا محبوب تھا وہ جو اسے خود کسی اور کا ہونے کے لیے کہہ رہا تھا۔


"اور اگر میں آپ کی بات نہیں مانوں تو؟"


رندھی ہوئی آواز میں حورم نے سوال کیا۔


"تو میں سمجھوں گا کہ آپ کی محبت محبت نہیں خود غرضی تھی پھر میں آپ کو منع نہیں کروں گا بلکہ اپنے آپ کو آپکی اس خود غرضی کی نذر کر دوں گا۔"


حورم نے دل میں اٹھنے والے درد سے اپنی آنکھیں میچ لیں اسے ایسے لگا تھا کہ اس کے اندر بہت کچھ ہی ٹوٹ کر بکھر گیا تھا۔کس مشکل میں ڈال دیا تھا اس شخص نے اسے کہ اگر وہ انکار کرتی تو اسکی محبت بے لاج ہو جاتی اور اگر وہ ہاں کرتی تو محبت ختم ہی ہو جاتی۔


آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے شاید اس کی محبت جانتی تھی کہ وہ ہار چکی ہے کیونکہ اسے اپنی جان سے زیادہ اپنا مان پیارا تھا۔


"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ٹھیک ہے زیب سائیں اپنی محبت کی سچائی کے لیے ہم کچھ بھی کریں گے آپ جس سے بھی کہیں گے ہم شادی کر لیں گے خود اپنی مرضی سے۔۔۔۔"


حورم ایک پل کو رکی اور پھر اپنی لہو رنگ آنکھیں اٹھا کر جہانزیب کو دیکھا۔


"لیکن ہم پھر بھی اپنے خدا سے آپکو مانگتے رہیں گے اور یہ ہمارا حق ہے جس سے آپ ہمیں نہیں روک سکتے۔"


حورم دو قدم چل کر جہانزیب کے قریب ہوئی۔


"ہم اپنی محبت کو سچا ثابت کرکے رہیں گے لیکن دیکھیئے گا سید جہانزیب شاہ جس دن آپ کو اس کی سچائی کا اندازہ ہو گا نا بہت دیر ہو چکی ہو گی بہت زیادہ دیر۔"


حورم اتنا کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئی اور زارو و قطار رونے لگی اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اسے جتنا رونا ہے وہ آج ہی رو لے گی۔


"شاید ایسا ہی ہو حورم سائیں مستقبل میں آپکی کی محبت کو سمجھ کر پچھتا لوں لیکن وہ پچھتاوا آپ کو کبھی نہیں ہوگا کیونکہ تب تک آپ اپنی زندگی میں بہت زیادہ خوش ہوں گی اور آپکی وہی خوشی حورم سائیں میری محبت کی جیت ہو گی۔"


جہانزیب نے خود میں ہی آہستہ سے کہا اور پھر وہ بھی خاموشی سے آ کر گاڑی میں بیٹھ کر واپسی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔

💕💕💕

میرا داد اگلے ہی دن واپس آ جانے کی تیاری کرنے لگا وہ نیچے آیا تو اسکی نظر پری پر پڑی جو فردوس آپا کو کھانا بناتے ہوئے کافی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔یہ تین دن باقاعدگی سے دوائی کھانے اور اس کا خیال رکھنے کا یہ اثر ہوا تھا کہ پری بہت سی باتوں کو سمجھنے لگ گئی تھی اور یہ دیکھ کر میرا دل کو خوشی ہوئی تھی کیا آہستہ وہ کافی بہتر ہو جائے گی۔


"پری ۔۔۔"


میر داد کے پکارنے پر پری نے اسے مڑ کر دیکھا اور مسکرا دی تو میرداد خاموشی سے اس کے پاس موجود صوفے پر بیٹھ گیا۔


"میں جا رہا ہوں اور رات تک واپس آ جاؤں گا تم اپنا بہت خیال رکھنا اور ڈرنے کی ضرورت بلکل نہیں۔۔۔۔ٹھیک ہے؟"


پری نے کچھ دیر اس کی باتوں پر غور کیا اور پھر انکار میں سر ہلا دیا۔میرداد نے گہرا سانس لیا۔


"پکا وعدہ ہے کہ میں رات کو واپس آ جاؤں گا اور تم اکیلی تو نہیں ہو نا فردوس آپا تمہارے پاس ہیں۔"


میرداد نے فردوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا لیکن پری نے پھر سے انکار میں سر ہلایا تھا۔


"نہیں میر۔۔۔۔"


میر داد مسکرایا،نہیں میر اور ہاں میر آج کل پری کے پسندیدہ الفاظ تھے۔


"پری بی بی ہم انکے کے جانے بعد چاکلیٹ کیک کھائیں گے وہ جو آپنے کل کھایا تھا۔"


پری نے دماغ پر زور دیا جیسے کہ یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ کل اس نے کیا کھایا تھا پھر یاد آتے ہی ایک خوشی کی لہر اس کے چہرے پر آئی اور اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلا دیا۔


اس کی اس حرکت پر جہاں فردوس ہنسنے لگی وہی میرداد نے بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا اپنی نگرانی میں اس نے پری کو کھانا کھلایا اور گاؤں کے لیے نکل گیا۔


گاؤں پہنچتے ہی میرداد سیدھا شاہ میر کے پاس گیا اس کے پاس وقت کم تھا اسے اپنے تمام معاملات آج ہی حل کرنے تھے۔


"تم تو شہر کے ہی ہو کررہ گئے ہو یہاں بھی تمہارے کچھ فرائض ہیں میر داد ان پر دھیان دو۔"


شاہ میر کو اس کے واپسی کے پروگرام کا پتا چلا تو وہ بول اٹھے۔


"آپ فکر مت کریں پیرک میں اپنے تمام معاملات حل کر لوں گا آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ حورم نے آپ کو کیا جواب دیا۔"


میر داد مدے کی بات پر آیا اس کے یہاں آنے کا مقصد صرف حورم تھی۔


"اسے یہ رشتہ منظور ہے میر داد بہتر یہی ہے کہ تم خود بھی اس سے بات کر لو پھر میں سرمد کو کوئی جواب دیتا ہوں۔"


شاہ میر نے نگاہیں پھیر کر کہا۔میرداد نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے اٹھ کر حورم کے کمرے کی طرف چلا گیا۔


"آجائیں۔۔۔۔"


دروازہ کھٹکھٹانے پر حورم کی آواز آئی تو میرداد مسکرا کر اندر داخل ہوا۔حورم اسکو دیکھتے ہی بھاگ کر اسکے سینے سے لگ گئی۔


"حور بھائی کی جان۔۔۔۔"


میر داد نے اسکو دیکھ کر پکارا جبکہ اسکے اسطرح سے پکارنے پر حورم نے بہت مشکل سے اپنے آنسو ضبط کیے۔


"آپ اتنی دن تک نہیں آتے بھائی ہم بہت اداس ہو جاتے ہیں۔"


حورم کے شکوے پر میر داد نے اس کا چہرہ تھاما تو حورم نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


"میں کونسا تم سے دور ہوں بھائی کی جان تم بس مجھے ایک بار پکا کر دیکھو میں اسی وقت تمہارے سامنے ہوؤں گا۔"


حورم کی آنکھیں ہلکی سی نم ہوئیں اور اس نے ہاں میں سر ہلایا۔میر داد نے بہت نرمی سے اسکے سر پر بوسہ دیا۔


"حور۔۔۔۔"


"جی بھائی۔۔۔۔"


میر داد کے پکارنے پر حورم نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"تم اس رشتے سے خوش تو ہو نا ؟ دیکھو اگر تمہیں وہ شخص ذرا سا بھی نہیں پسند تو مجھے فوراً بتا دو میں ابھی کے ابھی اس رشتے سے منع کر دوں گا۔"


میر داد کی بات پر حورم نے کچھ دیر غور کیا وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اپنے بھائی کو اپنے دل کا حال بتاتی اسے اپنی خواہش کا اظہار کرتی تو ایک پل میں وہ جہاں زیب کو اس کا کر دیتا مگر پھر اس کی محبت کے مان کا کیا ہوتا؟ اسکی محبت ہمیشہ کے لیے خود غرضی بن جاتی۔


"میں خوش ہوں بھائی بہت زیادہ خوش ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ یہ جسکا فیصلہ ہے نا وہ میرے حق میں کبھی برا نہیں سوچ سکتا۔"


حورم نے بہت زیادہ خوشی سے کہا لیکن میرداد اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے نا جانے کیا تلاش کر رہا تھا۔


"تم سچ کہہ رہی ہو نا؟"


حورم نے ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔


"تو کیا میں انہیں ہاں بول دوں؟"


اس بار حورم نے اپنا سر جھکا لیا۔


"جیسی آپکی مرضی۔۔۔۔"


حورم کی ہلکی سی آواز پر میر داد نے مسکرا کر اسکا سر چوما اور کمرے سے باہر چلا گیا۔میر داد نہیں جانتا تھا کہ اسکے جاتے ہی بہت سے آنسو ان آنکھوں سے بہے تھے۔

💕💕💕

"کیا کہا آپ نے کیا وہ سچ میں مان گئے ہیں؟"


شہریار نے انہیں دیکھتے ہوئے بے یقینی سے سوال کیا تو سرمد صاحب اور انابیہ بیگم اپنے بیٹے کی خوشی دیکھ کر ہنس دیے۔


"جی ہاں اور بہت جلد آپکا نکاح بھی ہو جائے گا اس سے۔۔۔۔۔"


اس بات پر شہریار نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا جیسے اسے یقین ہی نا آ رہا ہو۔


"O My God you have no idea how happy I am.Thanks A lot mama baba."


شہریار ںے خوشی سے چہکتے ہوئے دونوں کو گلے سے لگا کر کہا ۔انابیہ بیگم نے اسکا سر چوما۔


"ہمیشہ خوش رہو۔۔۔۔"


شہریار کی خوشی کی انتہا نہیں تھی اسے لگ رہا تھا کہ اس نے سب پا لیا جبکہ اسے خوش دیکھ کر انابیہ بیگم اور سرمد صاحب بھی بہت خوش تھے اور آج پھر دور کھڑی قسمت ان تینوں کو ہنستا دیکھ خود بھی ہنس رہی تھی۔۔۔۔

میر داد کی محنت رنگ لائی تھی۔اسکی توجہ ، نرمی اور مناسب علاج کی وجہ سے پری آہستہ آہستہ سے بہت کچھ بولنا شروع ہو گئی تھی۔


ابھی اسے بولنے میں دقت پیش آتی تھی۔بہت سی باتوں اور چیزوں کو بھول جانا،بولتے بولتے رک جانا اور کبھی کبھار تو ہر دوسری چیز سے ڈرنا تو پری کے لیے عام بات تھی۔


پہلے پہل تو وہ صرف میر داد سے ہی باتیں کرتی تھی لیکن اب تو فردوس سے بھی مانوس ہو کر اسکے ساتھ بھی بات کر لیتی تھی۔


مگر اس سب میں جس بات کا نقصان ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ پری ایک پل کے لیے بھی میر داد کے بغیر نہیں رہتی تھی اور اگر وہ کہیں چلا جاتا تو پری نہ تو کھانا کھاتی اور نہ ہی کسی سے بات کرتی۔اسے اس وقت صرف ایک چیز چاہیے ہوتی تھی اور وہ تھا اسکا میر۔


ابھی بھی میر داد گاؤں میں بننے والے ہسپتال کو لے کر آفندی سے ملنے گیا تھا۔جاتے ہوئے چونکہ پری سو رہی تھی تو میر داد اس سے بتا کر نہیں گیا اور پھر پری نے اٹھنے پر جو بوال مچایا۔وہ شاید کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھی تھی کیونکہ اٹھتے ہی وہ چلانے اور

رونے لگی تھی۔فردوس اور زمان مل کر بھی اسے سمبھال نہیں پا رہے تھے۔


"زمان مجھے پری بی بی کی بہت فکر ہو رہی ہے اگر اتنا رونے کی وجہ سے انکی طبیعت خراب ہو گئی تو ہم واجہ کو کیا جواب دیں گے۔"


فردوس کی بات پر زمان نے بھی پریشانی سے پری کو دیکھا جو پچھلے ایک گھنٹے سے کانوں پر ہاتھ رکھے بری طرح سے رو رہی تھی ۔زمان یا فردوس کے چھونے پر تو وہ مزید سہم جاتی اور اونچی دردناک آواز میں میر میر چلانے لگتی۔


"میں واجہ کو فون کرتا ہوں۔"


زمان نے اتنا کہہ کر فون ملا کر اپنے کان سے لگایا لیکن میر داد نے فون نہیں اٹھایا۔ضرور وہ کسی ضروری کام میں

مصروف تھا کیونکہ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنا موبائل سائلینٹ کر دیا کرتا۔


زمان نے پریشانی سے پری کو دیکھا جو اب کانوں کی بجائے سر پر ہاتھ رکھ کر رو رہی تھی۔زمان نے گہرا سانس لیا اگر اس کی طبیعت زرا سی بھی خراب ہو گئی تو ان کی خیر نہیں تھی۔


"پری بی بی آپ چپ کر جائیں اگر آپ چپ کریں گی تو آپکو واجہ کے پاس لے کر جاؤں گا۔"


زمان نے آخری حربہ آزمایا۔لیکن پری ابھی بھی رونے میں مصروف تھی اور زمان کی بات پر تو اس نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔


"آپکو میر کے پاس لے کر جاؤں گا۔"


زمان نے دوبارہ کوشش کی اس بار پری نے اپنی سرخ ہوتی نیلی آنکھیں اٹھا کر زمان کو دیکھا اور ہاں میں سر ہلایا۔


فردوس نے ایک بڑی سی چادر پری کو اوڑھا دی اور زمان اسے اپنے ساتھ گاڑی میں لے بیٹھا۔وہ جانتا تھا کہ میر داد اس وقت آفندی کے پاس ہو گا کیونکہ ان معاملات میں آفندی کی پہنچ کافی تھی۔


"مم۔۔۔۔ مجھے میر کے پاس جانا ہے۔"


زمان کے گاڑی روکنے پر پری نے آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز میں کہا تو زمان نے گاڑی کا دروازا کھولا اور اسے لے کر آفندی کے آفس کی طرف چل دیا۔


زمان سامنے موجود سیکرٹری کے پاس گیا تو پری بھی اسکے پیچھے چل دی


"کیا میر داد عالم آفس میں ہیں؟"


زمان نے سنجیدگی سے سوال کیا۔


"جی آفندی صاحب کے پاس ہیں۔"


سیکرٹری نے سامنے موجود دروازے کی طرف اشارہ کیا۔اس سے پہلے کہ زمان پری کو روکتا پری جلدی سے اس دروازے کی طرف لپکی اور اندر داخل ہو کر ہر چیز کو نظر انداز کیے بھاگ کر آفندی سے باتیں کرتے میر داد کے بازو سے چپک گئی۔میر داد نے پہلے پریشانی اور پھر حیرت سے پری کو دیکھا۔


"مم ۔۔۔۔ میر ڈر لگ رہا تھا۔۔۔۔ میر وہ ۔۔۔۔وہ اسنے مجھے مارا تھا ایک گندے لڑکے نے مجھے۔۔۔۔دھک۔۔۔۔دھکا دیا۔۔۔۔"


پری اسکے بازو سے چپکی زارو قطار رو رہی تھی اور میر داد بھی کمرے میں موجود آفندی کو بھلائے اسکے کندھے تھپتھپاتا اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔اس بات سے بے خبر کہ آفندی بہت دلچسپی سے اسکی ڈھلکی چادر اور ریشمی بالوں کو دیکھ رہا تھا۔


"پتہ نہیں تھا میر داد بلوچ کہ تمہارے بھی اتنے حسین شوق ہیں کبھی ہم سے بھی بانٹ لینا یہ شوق۔"


آفندی نے پری کو للچاتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر ہی میر داد نے اپنا دھیان پری سے ہٹا کر لہو رنگ آنکھوں سے آفندی کو دیکھو۔


"زمان ۔۔۔۔"


"جی واجہ۔۔۔"


میر داد کی آواز میں موجود غصے کو محسوس کر کے زمان نے بھی غصے سے آفندی کو دیکھا۔


"آفندی صاحب کو آج شام اپنے ساتھ لے آنا ان کے ساتھ اپنے شوق بانٹنا چاہوں گا۔"


آفندی کی آنکھوں کی چمک بڑھی اور وہ خباثت سے مسکرا دیا۔کاش وہ جانتا ہوتا کہ میر داد نے اسے کہاں لے جانے کا کہا ہے تو اس وقت اسکے چہرے پر خوف ہوتا۔


میرداد پری کو وہاں سے لے کر چلا گیا۔باہر آ کر فوراً وہ اسے اپنی گاڑی میں لے آیا۔


"کیا ہو گیا پری تم تو بہادر ہو نا۔"


میر داد نے کافی نرمی سے کہا تو اسکے بازو میں چہرہ چھپاتی پری نے اپنی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"میں۔۔۔ڈڈڈ۔۔۔۔ڈر گئی تھی نا۔۔۔۔میر زیادہ ڈر گئی تھی"


پری نے اپنا مسلہ بیان کیا تو میر نے نرمی سے اپنا بازو چھڑوایا اور سامنے ڈیش بورڈ سے پانی کی بوتل لے کر پری کے ہونٹوں سے لگائی۔


"تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں پری تمہارے میر کے ہوتے ہوئے کسی کا سایہ بھی تمہیں نہیں چھو سکتا۔"


میر نے پری کو دیکھتے ہوئے یہ بات اپنے ہونٹوں سے نہیں بلکہ دل سے کہی تھی۔پری نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"آپا کہتی ج۔۔۔۔جھوٹ نہیں بولتے آپ ۔۔۔۔۔نہیں رکھتے میرا خخ۔۔۔۔۔خا۔۔۔۔خیال۔۔۔۔


پری نے مشکل سے لفظ یاد کر کے کہا۔میر داد نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"مجھ پر کوئی بھی الزام لگا لینا پری لیکن آئندہ کبھی یہ الزام مت لگانا۔صرف تین لوگ ہیں جن کی خاطر میر کچھ بھی کر سکتا ہے اور تم ان میں بھی سب سے خاص ہوتی جا رہی ہو۔۔۔۔"


میر داد نے اپنا دھیان اس پر سے ہٹا کر کہا۔یہ سچ ہی تو تھا کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وہ ایک دوسرے کے لیے ہر چلتی سانس کی طرح قیمتی ہوتے جا رہے تھے۔لیکن میر داد کو انتظار تھا تو پری کے کسی اپنے کے ملنے کا اور پھر میر داد نے بس ہمیشہ کے لیے پری کو اس سے مانگ لینا تھا۔مگر اب یہ انتظار ضرورت سے زیادہ طویل اور ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔


"بہت مم۔۔۔۔مشکل باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔ آپ مجھے سمجھ نہیں آتا۔۔۔۔"


پری کی بات پر میر داد مسکرا دیا۔


"سمجھ جاؤ گی وقت آنے پہ سب سمجھ جاؤ گی۔"


میر داد نے اتنا کہہ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔

💕💕💕

حورم کب سے چادر اوڑھے شاہ داد کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔


"کیا ہوا ہے بیٹا آپ کو کہیں جانا ہے کیا؟"


کلیم صاحب نے اسے اکیلے بیٹھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔


"جی چچا ہمیں دربار پر جانا ہے لیکن ہمارے ساتھ کوئی جا ہی نہیں رہا۔"


حورم نے بے بسی سے کہا کلیم صاحب نے مسکرا کر اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"کوئی بات نہیں چلو آؤ آپ کو میں لے جاتا ہوں۔"


کلیم صاحب کے ایسا کہنے پر حورم نے ہاں میں سر ہلایا اور کھڑی ہوئی۔وہ دونوں باہر آئے تو ان کی نظر جہانزیب پر پڑی جو شاید ابھی کہیں سے آیا تھا۔


"جہانزیب۔۔۔۔"


"جی واجہ۔۔۔۔"


کلیم صاحب کے پکارنے پر جہانزیب نے انکے قریب آ کر ہاتھ باندھ کر پوچھا۔


"تم حورم کو درگاہ پر لے جاؤ وہ کافی دیر سے جانا چاہ رہی ہے۔"


جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا اور خاموشی سے جا کر گاڑی کے پاس کھڑا ہو گیا۔کلیم صاحب نے حورم کے سر پر پیار دیا یا تو خاموشی سے آکر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔


اس کی یہ حرکت جہانزیب نے نوٹ کی مگر پھر بھی خاموش رہا کرنا عرصہ ہو گیا تھا حورم نے نہ تو اسے کبھی بات کی تھی اور نہ ہی وہ اس کے سامنے آتی تھی۔لیکن جہانزیب کو یہ پھر بھی بہتر ہی لگا۔


درگاہ تقریبا دس منٹ کی دوری پر تھی وہاں پہنچ کر جہانزیب گاڑی سے اترا اور حورم کے ساتھ درگاہ میں داخل ہوگیا۔


"مجھے دعا مانگنی ہے آپ باہر ہی کھڑے رہیے گا اندر مت آئیے گا۔"


حورم اتنا کہہ کر اس درگاہ میں داخل ہوگی اور جہانزیب باہر کھڑا اس کا انتظار کرنے لگا۔اس وقت درگاہ میں زیادہ رش تو نہیں تھا لیکن جو لوگ بھی تھے وہ حورم کی موجودگی میں اندر نہیں گئے بلکہ باہر کھڑے رہے تا کہ انکے سردار کی بہن کو کوئی مسلہ نہ ہو۔


حورم نے چند سورتیں پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔


"میں کیا منت مانگوں؟کونسی مراد کروں؟میری ہر منت زیب سائیں سے شروع ہوتی ہے اور ہر مراد انہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔مجھے بس اس شخص کی محبت چاہیے پھر ہر مراد پوری ہو جائے گی،ہر منت اپنی انتہا پر ہو گی۔"


حورم نے خاموش لبوں سے روتے ہوئے اپنے دل میں دعا کی پھر اس کی نظریں اٹھیں تو باہر کھڑے جہانزیب پر ٹھہر سی گئیں۔


"جانتی ہوں کہ ایک غیر محرم کو مانگنا گناہ ہے لیکن میں کیا کروں اس کی محبت میرے روم روم میں بسی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ محبت میری سانسوں کے ساتھ ہی ختم ہوتی گی۔"


اور میں اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھا جن پر پانی کے بہت سے قطرے پڑے تھے۔


"میرے ایک ایک آنسو کے صدقے اسے اس محبت کا احساس دلا دیں ،احساس دلا دیں۔"


حورم نے اپنے چہرے پر عقیدت سے ہاتھ پھیرے اور اس جالی دار کھڑکی کے پاس چلی گئی جس کے پاس جہانزیب کھڑا تھا۔


حورم نے ایک دیا پکڑا اور اسے جلانے لگی۔اس کے ایسا کرتے ہوئے حورم کی نظر اس پر پڑی تو کتنے ہی پل کے لیے وہ اپنی نم آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔


ہم نے جگنو جگنو کر کے

تیرے ملن کے دیپ جلائیں ہیں

اکھیوں میں موتی بھر بھر کے

تیرے حجر میں ہاتھ اٹھائے ہیں

تیرے نام کی حرف کی تسبی کو

سانسوں کے گلے کا ہار کیا

دنیا بھولی اور صرف تمہیں

ہاں صرف تمہیں ہی پیار کیا

💕💕💕

میر داد پری کو گھر چھوڑ کر رات گئے اس جگہ پر آیا جہاں زمان نے آفندی کو رکھا تھا۔کرسی سے بندھا آفندی میرداد کو وہاں آتا دیکھ خوف سے کانپنے لگا۔


"میر داد ۔۔۔۔غغغ۔۔۔۔غلطی ہو گئی۔۔۔میں وہ۔۔۔۔"


ابھی الفاظ اس کے منہ میں ہی تھے جب میرداد نے آگے بڑھ کر ایک زوردار گھونسہ اس کے منہ پر مارا۔


"غلطی۔۔۔۔؟؟؟ تو نے اپنی اس ناپاک زبان سے میری پری کی برائی کی میر کی پری کی۔۔۔۔یہ غلطی نہیں آفندی ایک گناہ ہے جسکی سزا یہ ہے کہ تو اب کھبی بھی کسی کے خلاف بھی بولنے کے قابل نہ رہے۔۔۔۔"


میرزا آدمی آفندی کا منہ کھولتے ہوئے کہا اور پھر پاس پڑے دہکتے کوئلوں میں سے ایک کوئلہ چمٹے سے اٹھا کر اسکے منہ میں دے دیا۔


پورا کمرہ دردناک چیخوں اور سسکیوں سے گونج اٹھا لیکن اپنی معصوم پری پر تہمت لگانے والے کو ایسی دردناک سزا دے کر میرداد کے پورے وجود میں سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔


میر داد نے اسے ایک جھٹکے سے زمین پر پھینکا اور کمرے سے باہر آ گیا۔زمان نے بھی اس کی پیش قدمی کی تھی۔


"یہ جہاں کا ہے اسے وہاں پھینکا آنا زمان اور میں نہیں چاہتا کہ پری کے کردار پر اس طرح سے کوئی کیچڑ اچھالے۔اس لیے اپنی کوششیں تیز کرو زمان اور جلد از جلد پری کے گھر والوں کو ڈھونڈو۔"


زمان نے ہاں میں سر ہلایا۔


"کوشش جاری ہے واجہ اور مجھے لگتا ہے کہ میں جلد ہی پری بی بی کے گھر والوں کو ڈھونڈ لوں گا۔"


زمان نے اسے یقین دہانی کروائی تو میر داد نے ہاں میں سر ہلایا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔زمان کی بات پر اسے جہاں حوصلہ ہوا تھا کہ وہ پری کے گھر والوں کے بہت قریب پہنچ چکا ہے وہیں اسے ایک خوف بھی تھا کہ اگر وہ نہیں مانے تو؟؟؟


تو چھین لے گا وہ پری کو ان سے چھپا کے دور لے جائے گا سب سے مگر پری اب بس میر کی تھی۔۔۔صرف اس کی۔۔۔

💕💕💕

زمان کو اس کے دوست کا فون آیا جو شاید پری کے گھر والوں کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا تھا یہ خبر ملتے ہی زمان ہر چیز چھوڑ کر اسکے پاس آیا۔زمان نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ پری کا ٹھکانہ یہاں کراچی میں ہی ہو گا۔زمان کا دوست اسے ایک گھر کے سامنے لے گیا لیکن وہاں پر تالا لگا تھا۔


"یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے؟"


زمان نے تالا لگے دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر ان دونوں نے مل کر اردگرد کہ لوگوں سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔زمان نے ساتھ والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ اسے ایک بوڑھا آدمی نکلا۔


"جی کہیے۔۔۔"


"بابا جی کیا اس گھر میں کوئی نہیں رہتا؟"


زمان نے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تو اس بوڑھے آدمی کے چہرے پر افسوس چھا گیا۔


"حیدر خان اور اس کی بیٹی پریسا خان رہتے تھے یہاں پر بس ایک دن وہ دونوں کسی شادی پر گئے تھے اور تب سے واپس ہی نہیں آئے کافی ڈھونڈا محلے والوں نے لیکن نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں وہ دونوں۔"


بوڑھے آدمی کی بات پر زمان نے پریشانی سے اپنے دوست کو دیکھا اور پھر اپنی جیب سے موبائل نکال کر اس میں موجود پری کی تصویر اس آدمی کو دکھائی۔


"کیا یہی ہے پریسا خان؟"


اس بوڑھے آدمی نے تصویر کو دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا۔


"ہاں بالکل یہی ہے پری بیٹی۔۔۔یہ اور حیدرخان تم لوگوں کے پاس ہے کیا؟"


بوڑھے آدمی نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا۔


"اچھا بابا جی ان دونوں کا اور کوئی رشتہ دار نہیں ہے کیا؟"


زمان نے جواب دینے کی بجائے اپنا ہی سوال پوچھا تو بوڑھا آدمی کچھ دیر سوچنے لگا۔


"جہاں تک مجھے لگتا ہے ان دونوں کا اور کوئی نہیں ہے کیونکہ حیدر نے ایک دن کہا تھا کہ پری کے علاوہ اسکا اور کوئی نہیں۔دس سال سے یہ دونوں یہاں رہ رہے تھے مگر ان دونوں سے تو کبھی کوئی ملنے بھی نہیں آیا تھا۔"


زمان نے ہاں میں سر ہلا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنے دوست کے پاس واپس آگیا۔


"ہم پریسا حیدر خان کے بارے میں جو جان سکتے ہیں ہمیں جاننا ہوگا اس کے بعد ہی میں واجہ سے اس بارے میں کوئی بات کر سکوں گا۔"


زمان کے دوست نے ہاں میں سر ہلایا اور وہ دونوں وہاں سے چل دیے۔

💕💕💕

میر داد اپنے دھیان اخبار پڑھ رہا تھا جب اچانک اسکی گردن پر اچانک سے کچھ لگا۔میر داد نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن وہاں کسی کو نہ پا کر اپنا چہرہ پھر سے اخبار کی طرف کر گیا۔


تھوڑی دیر بعد ہی ایک چھوٹا سا پتھر اسکے سر پر لگا اور اسکے ساتھ ہی ایک کھلکھلانے کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔میر داد کے لب مسکرائے اور وہ خاموشی سے اخبار پڑھنے لگا۔


جبکہ اسکے نظر انداز کرنے پر چھے سات چھوٹے چھوٹے پتھر اسکے سر اور گردن پر لگے تھے۔


آخر کار پری اکتا کر اسکے سامنے آئی اور اخبار کو اس سے چھین کر پھاڑ دیا۔


"پری یہ۔۔۔۔۔"


میر داد نے حیرت سے اسے دیکھا جو اب منہ پھلائے کھڑی تھی۔


"سس ۔۔۔۔سنتے نہیں آپ؟؟؟"


"تم نے بلایا کب؟"


پری کے سوال پر میر داد نے شرارت سے پوچھا۔پری نے کچھ دیر سوچا۔


"پتھر مار تو رہی تھی۔۔۔۔بلانے کے لیے۔۔۔۔"


پری کی بات پر میر داد قہقہ لگا کر ہنسا۔


"ان چھوٹے پتھروں سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔"


"ٹھیک ہی اگلی بار۔۔۔آآآ۔۔۔۔۔


پری نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہا لیکن وہ گلدان کا نام ہی بھول گئی تھی اسی لیے جا کر گلدان پکڑ لائی اور اسے میر داد کے سامنے کیا۔


"یہ ماروں گی۔۔۔۔"


"ارے نہیں تم بس کام بتاؤ۔۔۔۔"


میر داد نے ڈرنے کی ایکٹنگ کر کے کہا تو پری مسکرا کر اسکے پاس بیٹھی۔


"ببب۔۔۔۔باہر جانا ہے۔۔۔۔"


پری نے بہت لاڈ سے میر داد کے پاس بیٹھ کر کہا ۔میر داد نے مسکرا کر اسکا ڈھلکا ہوا دوپٹہ سر پر دیا بلکہ یہ تو اب اسکی عادت ہو چکی تھی۔


"اچھا تو پھر کہاں چلیں ہم؟"


میرداد نے دلچسپی سے پوچھا۔


"وہ ۔۔۔وہاں جہاں ہم پہلے گئے تھے مجھے نام یاد نہیں۔"


پری نے کافی ایکسائٹڈ ہوکر کہا اور اس کی پرجوشی دیکھ کر میر داد بےساختہ مسکرایا۔


"ہاں ہم چلتے ہیں تم جلدی سے جاؤ اور تیار ہو کر آ جاؤ۔"


میر داد کے ایسا کہنے پر پری جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔پری کے جاتے ہی زمان وہاں آیا اور میر داد کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔


"ہاں بولو زمان"


میر داد نے زمان کو دیکھ کر پوچھا ۔


"واجہ میں نے بری بی بی کے گھر کا پتا لگا لیا۔"


اچھا۔۔۔؟؟؟"


زبان کی بات پر میر داد نے پوچھا تو کچھ دیر کی خاموشی کے بعد زمان بولا۔


"واجہ ان کا نام پریسا خان ہے وہ ایک کلرک حیدر خان کی بیٹی ہیں۔انیس سال کی ہیں اور سائیکولوجی کی طالبہ تھیں۔"


زمان نے پریسا کے متعلق حاصل ہونے والی ساری انفارمیشن اسے بتا دی۔میر نے اسے بھوئیں اچکا کر دیکھا۔


"اور۔۔۔۔؟


"اور کچھ نہیں واجہ بس اتنا کہ ان کے باپ کے علاوہ ان کا اس دنیا میں کوئی رشتہ دار یا بہن بھائی نہیں ہے۔"


میر داد نے گہرا سانس لیا وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تب کیا ہوگا جب پری کو سب کچھ یاد آئے گا اور وہ اپنے باپ کے بارے میں پوچھے گی۔میر داد نے زمان کو جانے کا اشارہ کیا تو زمان وہاں سے چلا گیا۔


میر داد کافی بے چین ہوا تھا۔وہ پری کی تکلیف کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا وہ سہی معنوں میں اپنا سب کچھ کھو چکی تھی۔میر داد نے غصے سے اپنا ہاتھ دیوار میں مارا۔


تبھی پری ہلکے گلابی رنگ کے سوٹ پر سفید رنگ کی چادر لئے کمرے سے باہر آئی تھی۔وہ چادر ہمیشہ کی طرح اس سے سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔


"چچچ۔۔۔۔۔چلے۔"


پری نے ہلکے سے کہا تو میر داد نے اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے ایک ٹرانس کی کیفیت میں ہاں میں سر ہلایا۔اس گلابی لباس میں وہ خود بھی ایک دمکتا گلاب ہی لگ رہی تھی۔میر داد نے فوراً اپنی نظریں جھکائیں یہ اسکی غیرت کو گوارا نہیں تھا کہ وہ پری کو بغیر کسی حق کے پر شوق نگاہوں سے دیکھتا۔


میر داد اسے اپنے ساتھ سمندر کے کنارے پر لایا جہاں وہ کھلکھلاتے ہوئے اپنے پیروں کو چھونے والی سمندر کی لہروں کو دیکھ رہی تھی۔


"پری۔۔۔"


میر داد کی آواز پر اپنے پسندیدہ سمندر کے نظاروں میں گم پری خواب کی کیفیت سے باہر آئی اس نے مسکرا کر میر داد کو دیکھا۔


"اگر کبھی تمہیں میں برا لگنے لگ جاؤں یا تم سے کچھ ایسا چھینا ہو جو تمہارے لئے سب سے قیمتی تھا تو کیا تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ گی؟"


کافی دیر پری میر داد کے پوچھے گئے پیچیدہ سوال کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی وہ تو عام باتیں مشکل سے سمجھتی تھی۔مگر اس کی سمجھ میں صرف میر داد کو چھوڑنے والی بات آئی ۔


"میں آپ کو چھوڑ کر کیوں جاؤں گی آپ کو پتہ ہے مجھے سب سے ڈر لگتا ہے صرف آپ سے اور آپا سے نہیں لگتا ۔میں کسی کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔"


پری کی آواز میں ایک خوف سا تھا اور اپنے ڈر کی وجہ سے وہ پھر سے میر داد کے بازو کے ساتھ چپکنے لگی۔


"میں بھی تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا کبھی بھی نہیں ۔""


میر داد نے آہستہ سے کہا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ خود سے اور پری سے جھوٹ بول رہا تھا وہ کیسے اسے اس کرب سے بچا سکتا تھا اس نے اپنی زندگی کا واحد رشتہ بھی کھو دیا تھا۔زندگی میں پہلی بار میر داد خود کو بہت زیادہ بے بس سمجھ رہا تھا اتنا کہ اسے خود سے نفرت ہو رہی تھی۔

💕💕💕

حورم زیادہ تر اپنے کمرے سے نہیں نکلتی تھی لیکن آج شاہ میر کے بلانے پر وہ کمرے سے باہر آئی اور اس وقت وہ ان کے کمرے سے واپسی پر گھر کے پچھلے صحن کی طرف جا رہی تھی جب وہ اچانک ایک مضبوط سینے سے ٹکرائی اس سے پہلے کہ وہ گرتی دو مضبوط ہاتھوں نے اسے کندھوں سے تھام کے سہارا دیا۔


"دیکھ کے حورم سائیں دھیان کہاں ہے آپ کا؟"


جہانزیب کی آواز پر حورم نے اپنی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر نا جانے کتنی ہی دیر اسے دیکھتی رہی۔جبکہ جہانزیب تو اس کی سوجی ہوئی آنکھوں کی نیچے موجود سیاہ حلقوں کو دیکھ رہا تھا۔اتنی دیر میں اس لڑکی نے اپنا کیا حال کر لیا تھا۔آخر کار جہانزیب اسے چھوڑ کر دور کھڑا ہوا تو حورم ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔


"معاف کریے گا۔"


حورم اتنا کہہ کر واپس جانے کے لیے مڑی نہ جانے کیوں اس کے رویے سے جہانزیب کو بہت تکلیف ہوئی۔وہ جو گھنٹوں بیٹھ کر اسے دن کی گزری ہر بات بتاتی تھی آج اس سے غیروں کی طرح پیش آ رہی تھی۔


"یہ آپ نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے حورم سائیں اگر واجہ نے آپکا یہ حال دیکھا تو نہیں کتنی تکلیف ہوگی۔"


جہانزیب کے کہنے پر حورم رکی لیکن وہ مڑی نہیں۔


"آپ کو ہماری حالت سے فرق پڑتا ہے؟؟؟؟"


اس نے الٹا جہانزیب سے سوال پوچھا اس کی آواز میں موجود درد جہانزیب کے دل کو تکلیف پہنچا گیا۔


"خود کو تکلیف مت دیں حورم سائیں کچھ حاصل نہیں ہو گا آپ کو اس سے کل کو جب آپ اپنی زندگی میں خوش ہوں گی نا تو خدا کا شکر ادا کریں گی کہ آپ اسی وقت سمبھل گئیں اور اپنے آپ کو ایک وقتی احساس کی نذر نہیں کیا۔"


نہ جانے کیوں اب کی بار حورم کو بہت غصہ آیا وہ کتنے آسانی سے بار بار اس کی محبت کی توہین کر دیتا تھا۔ہر غصے سے مڑی اور اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔


"بس جہانزیب شاہ بس بہت ہوگیا آپ نے اسے جو سمجھنا ہے سمجھیں لیکن ہمارے لئے ہماری محبت ہمارا سب کچھ ہے مزید اس کی توہین برداشت نہیں کریں گے اس لیے بہتر یہی رہے گا کہ آئندہ اپنے خیالات اپنے تک ہی رکھیں ہر معاملہ آپ کی سمجھ داری سے حل نہیں ہو سکتا جہانزیب شاہ۔"


حورم اتنا کہہ کر غصے سے مڑی اور اپنے کمرے کی طرف چل دی۔دل تھا کہ ایک بار پھر سے ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔


ہمیں تھی غرض تم سے

اور تمہیں بے غرض ہونا تھا

تمہیں ہی لا دوا ہو کر

ہمارا مرض ہونا تھا

چلو ہم فرض کرتے ہیں

کہ تم سے پیار کرتے ہیں

مگر اس پیار کو بھی کیا

ہمیں پہ فرض ہونا تھا


حورم تو وہاں سے جا چکی تھی جبکہ جہانزیب حیرت سے اسی راستے کو دیکھ رہا تھا آج تک حورم نے اس سے اس طرح سے بات نہیں کی تھی اور سچ تو یہ تھا کہ اس کی گہری باتیں جہانزیب کو ڈرا رہی تھیں۔کہیں اسکا ہر جزبہ سچا اور گہرا تو نہیں تھا۔


نہیں۔۔۔نہیں ایسا صرف اسے ابھی لگ رہا ہے جہانزیب شاہ۔فکر مت کرو وہ سمبھل جائے گی شہریار بہت اچھا انسان ہے اس کی محبت پا کر وہ بے تحاشا خوش رہے گی۔شہریار اسے وہ سب دے سکتا ہے جو تم اسے نہیں دے سکتے کبھی بھی نہیں دے سکتے۔


خود کو تسلی دے کر جہانزیب بھی وہاں سے چلا گیا کاش وہ جانتا کہ اس کی تسلیاں کتنی جھوٹی ہیں کاش وہ جانتا۔۔

💕💕💕


آدھی رات کا وقت ہو رہا تھا اور حورم اس وقت تہجد ادا کرنے کی غرض سے اٹھی۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اتنی عبادت کرے گی وہ تو ہر چیز سے لاپروا سی لڑکی تھی۔


لیکن یہ عشق کا روگ بھی تو بہت ظالم ہوتا ہے انسان کو توڑتا ہے اور پھر اسے جوڑ کر ایک نیا انسان بناتا ہے۔حورم کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا تھا وہ ٹوٹ چکی تھی لیکن اسے نہیں لگ رہا تھا تھا کہ اب وہ کبھی بھی جڑ پائے گی۔


نماز ادا کرکے حورم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ہمیشہ کی طرح اس کے پاس جہانزیب شاہ کو مانگنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا اور اس بے بسی پر حورم کی خشک آنکھیں بہنے لگیں۔


"میرے مولا تو کہتا ہے کہ دل سے جو مانگو وہ ضرور قبول ہوتا ہے میں تو دل سے دعا بھی نہیں مانگتی بلکہ اپنے پورے وجود سے محبت کی بھیک مانگتی ہوں تو میری بھیک کی کیوں نہیں قبول ہوتی؟"


ایک سسکی حورم کے ہونٹوں سے نکلی وہ گھر میں موجود ہر فرد کے سامنے مسکرا لیتی تھی سب سے اپنا درد چھپا لیتی تھی لیکن تنہائی میں اپنے خدا کے سامنے وہ اسی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتی۔


"بس ایک التجا ہے میرے مولا کہ ان کے دل میں بھی وہی تڑپ پیدا ہو جو میرے دل میں ہے کہتے ہیں محبت سے محبت ہو جاتی ہے تو پھر انہیں کیوں نہیں ہوتی؟"


بہت سے آنسو ان معصوم آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔


"میرے مولا عبادتوں کے بدلے میں تو جنت ملتی ہے نا تو چاہے تو مجھے وہ جنت نہ دے بلکہ اس جنت کے بدلے میں مجھے ان کی محبت دے دے۔"


اتنا کہہ کر حورم زارو قطار رونے لگی اپنے عشق کی انتہا میں وہ دونوں جہاں کے بدلے جہانزیب شاہ کو مانگ چکی تھی اور جہانزیب شاہ کو اس کی محبت نادانی لگتی تھی۔کاش وہ اس کے جذبوں کی گہرائی سے واقف ہوتا کاش۔۔۔۔۔

💕💕💕

""اسلام و علیکم پیرک۔"


شاہ میر کا فون آتا دیکھ میر داد نے فون کو اٹھاتے ہی نرمی سے کہا۔


"و علیکم السلام۔۔۔!!!

کیا بات ہے میر دادا تم شہر کی ہی ہو کر رہ گئے ہو ہمارے پاس تو آنا گوارا ہی نہیں کرتے جانتے ہو نا کہ حورم کی شادی قریب ہے اور نا جانے کتنے ہی معاملات ہیں جو تمہاری غیر حاضری کی وجہ سے طے نہیں کیے جا سکے اب سب کچھ جہانزیب تو نہیں کر سکتا نا۔"


شاہ میر صاحب کی بات سن کر میرداد نے اپنے ماتھے کو انگلیوں کے پوروں سے سہلایا۔


"جی پیرک میں سمجھتا ہوں اور جلد ہی واپس آنے کی کوشش کروں گا۔"


میر داد کے ایسا کہنے پر شاہ میر صاحب خوش ہو گئے اور اسے بہت سے ضروری معاملات سے آگاہ کر فون بند کر دیا۔میرداد نے گہرا سانس لیا اس کے لیے سب سے مشکل امر تھا پری کو یہ بتانا کہ وہ یہاں سے جا رہا تھا۔


"میر۔۔۔۔میں آؤں؟"


پری نے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر معصومیت سے پوچھا تو میر داد نے مسکرا کر اس اثبات میں سر ہلایا۔پری بھاگنے والے انداز میں اندر داخل ہوئی۔


"کہیں جا رہے ہیں میر؟؟؟"


پری نے اس کے پاس آ کر آنکھیں بڑی کر کے پوچھا ۔میر داد نے نے ہاں میں سرہلا۔


"کام ہے پری مجھے جانا پڑے گا تم اپنا خیال رکھنا پھر فردوس آپا اور زمان بھی تو ہیں یہاں پر وہ تمہارا بہت خیال رکھیں گے۔"


پری نے کافی خوشی سے کہا لیکن پھر اچانک افسردہ ہو کر اسکے قریب ہوتے ہوئے بولی۔


"میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گی؟"


نا جانے کیوں اسکا یہ سوال میر داد کی روح تک جو جھنجھوڑ گیا۔وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہت زیادہ قیمتی ہوتے جا رہے تھے اور اب تو میرا داد نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ گاؤں جاتے ہی شاہ میر سے انکی شادی کے بارے میں بات کرے گا۔


"تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں جلد واپس آؤں گا ۔"


پری نے منہ بنا کر ہاں میں سر ہلایا۔


"ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔وہ۔۔۔۔لے کے آنا۔۔۔۔وہ۔۔۔۔"


پری ہمیشہ کی طرح چاکلیٹ کا نام بھول چکی تھی لیکن میر داد اچھی طرح سے جانتا تھا کہ وہ کیا مانگ رہی ہے۔


"لے آؤں گا فکر مت کرو بس اپنا خیال رکھنا۔"


میر داد نے اتنا کہہ کر اسکا سر سے ڈھلکا دوپٹہ واپس سر پر دیا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔

💕💕💕

ازمینہ دوپہر کے برتن دھو رہی تھی۔جبکہ صدف گرمی کی وجہ سے باہر صحن میں بیٹھی کڑھائی کر رہی تھی۔تبھی ارشاد گھر میں داخل ہو کر سیدھا صدف کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔


"سجاد بھائی ازمینہ کا رشتہ مانگ رہے ہیں انکے بیٹے فلک کو ہماری مینہ بہت پسند ہے "


ارشاد نے کوئی تمہید باندھے بغیر سنجیدگی سے بات شروع کی جبکہ ان کی بات سن کر ہی اندر کھڑی ازمینہ کا دل بند ہوا تھا۔فلک ارشاد کے بہت اچھے دوست کا بیٹا تھا اور ازمینہ نہ صرف اسے بچپن سے جانتی تھی بلکہ اسکی آنکھوں میں اپنے لیے پسندگی بھی دیکھتی آئی تھی۔فلک بہت اچھا انسان تھا۔


"تو تم نے کیا جواب دیا؟"


صدف نے آہستہ سے سوال کیا۔ارشاد نے گہرا سانس لیا۔


"ام نے ہاں بول دیا اب امارے حق میں یہی بہتر ہے کہ مینہ اپنے گھر کا ہو جائے۔"


صدف نے حیرت سے اپنے شوہر کو دیکھا۔


"اور اتنی بڑی بات چھپائے گا ہم ان سے؟"


سوال تو صدف نے کیا تھا مگر دھڑکن ازمینہ کی بڑھ رہی تھی۔


"ہاں۔۔۔۔۔"


ارشاد نے ایک ہی لفظ میں جواب دیا کچھ سوچ کر صدف نے بھی ہاں میں سر ہلایا اس کے شوہر کی بات میں حکمت تھی۔


"ٹھیک کہتا ہے تم یہی صحیح ہے۔"


صدف نے کڑھائی کرتے ہوئے آہستہ سے کہا اور اب ازمینہ کی بس ہوئی تھی اسی لیے اپنا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھتی وہ کمرے سے باہر آئی۔


"ابا۔۔۔۔"


ازمینہ کے پکارنے پر ارشاد نے اسے دیکھا۔ازمینہ ایک پل کو گھبرائی پھر اس نے گہرا سانس لیا۔


"مجھے یہ رشتہ منظور نہیں آپ انہیں منع کر دیں۔"


ازمینہ کی بات پر صدف اور ارشاد دونوں نے اس پاگل لڑکی کو حیرت سے دیکھا۔


"دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا بے عقل احمخ جنِک کیوں منع کر دے ہم اس رشتے سے۔"


صدف ازمینہ کو دیکھتے ہوئے غصے سے بولیں جبکہ ازمینہ نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے خود کو مضبوط کیا تھا۔


"ابا نے ہی مجھے ہمیشہ سچ بولنے کا کہا تو اتنا بڑا سچ کیسے چھپا کر یہ شادی کر لوں؟جس رشتے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے وہ رشتہ رشتہ نہیں اس سراب ہوتا ہے اور مجھے سراب میں نہیں جینا۔"


ازمینہ کی بات پر صدف وہ کڑھائی کا سامان زمین پر پھینک کر کھڑی ہو گئی۔


"پاگل لڑکی چاہتا کیا ہے تم کیوں ہماری عزت کے پیچھے پڑا ہے؟تمہاری وجہ سے کم بدنامی ہوا ہے امارا جو اب ساری زندگی کے لیے اب ایک داغ بن کر رہنا چاہتا ہے۔"


ازمینہ نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا۔


"بد نامی۔۔۔۔میری وجہ سے۔۔۔۔۔اماں تم مجھے بتاؤ کہ اس سب میں میرا کیا قصور تھا کیا قصور تھا میرا۔۔۔۔۔"


ازمینہ روتے ہوئے چلا کر پوچھنے لگی۔


"تمہارا کوئی قصور نہیں تھا لڑکی قصور تو امارا تھا جس نے چار چار بیٹی پیدا کیا سارا قصور امارا تھا کیونکہ اس جہان میں بیٹی پیدا کرنا ہی سب سے بڑا قصور ہے۔۔۔۔"


صدف اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں تھیں۔ازمینہ ان کو کیا دلاسہ دیتی وہ تو خود بکھر چکی تھی مگر پھر بھی اس نے بہت امید سے اپنے باپ کو دیکھا۔


"بابا۔۔۔۔"


ازمینہ کی رندھی ہوئی آواز اس آدمی کا دل چیر گئی تھی مگر پھر بھی اس نے اپنے دل کے گرد ایک پتھر کی دیوار بنا لی۔


"امارا فیصلہ نہیں بدلے گا مینہ تمہیں یہ شادی کرنا ہو گا ہر حال میں۔"


ارشاد کی بات ازمینہ کی آخری امید بھی ختم کر گئی۔بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر بے وقعت ہو گئے۔ازمینہ نے آنسو پونچھ کر ہاں میں سر ہلایا اور اندر کمرے میں بھاگ گئی جو بھی ہو جاتا وہ اپنے باپ کی بات کبھی نہیں ٹالتی تھی۔مگر آج جو اس پر بیتی تھی اسکے بعد وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو وہ آج خود کو ختم کر چکی ہوتی۔

💕💕💕

میر داد کو گاؤں آئے ایک دن ہو گیا تھا اور اس ایک دن میں اس نے سارے ضروری معاملات جہانزیب کو سمجھا دیے۔ویسے بھی جہانزیب نے ہر چیز بہت اچھے سے سنبھالی ہوئی تھی۔


"کیسی ہے اب وہ ؟"


اچانک ہی جہانزیب نے سوال کیا اور میرداد جانتا تھا کہ اس کا اشارہ کس طرف ہے۔میر داد نے اسکے بارے میں ہر بات جہانزیب کو بتائی تھی اور وہ تو میر داد کے جزبات سے بھی اچھی طرح واقف تھا۔


"ٹھیک ہے اب کافی بہتر ہے۔"


میرداد نے آہستہ سے کہا۔


"تم نے کیا سوچا ہے میر داد ایسے کب تک اسے اپنے پاس رکھو گے وہ تمہاری اپنی تو نہیں غیر ہے جانتے ہو کتنی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں اس کے کردار پر۔"


میر داد نے آنکھوں میں غصہ لے کر جہانزیب کو دیکھا۔


"وہ بیمار ہے اپنے اچھے برے سے واقف نہیں کیا چاہتے ہو تم کہاں چھوڑ دوں اسے؟"


جہانزیب نے گہرا سانس لیا ویسے تو میر داد کو غصہ آنے پر وہ اس معاملے کو چھوڑ دیا کرتا تھا مگر یہ بات اتنی بھی چھوٹی نہیں تھی۔


"کہیں چھوڑو گے نہیں تو کیا کرو گے یونہی اسے اپنا شوق بنا کر پاس رکھو گے کیا؟"


اچانک ہی میر داد نے جہانزیب کو کے گریبان سے پکڑ کر اپنے برابر کیا۔


"محبت ہے وہ میری جہانزیب شاہ، سب کچھ ہے وہ میرا۔تم نے ایسا کہنے کی جرات بھی کیسے کی،شائید ابھی تک تم ایک بلوچ کی غیرت سے واقف نہیں ہوئے۔ہمیں اپنی عورتوں کی عزت اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔آئندہ اس قسم کی بات کی تو بھول جاؤں گا کہ تم کون ہو۔"


جہانزیب نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں اسکے ہر جزبے کی سچائی تھی۔


"کس تعلق سے وہ تمہاری ہے کوئی تعلق نہیں ہے تمہارا اس سے میر داد۔۔۔۔"


جہانزیب نے اپنا گریبان چھڑواتے ہوئے کہا جبکہ میر داد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کچھ کر بیٹھے۔


" تو تعلق بناؤں گا شادی کروں گا میں اسے اور ایسا کرنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔۔"


جہانزیب نے مسکرا کر اسے دیکھا اسکا دوست جن الجھنوں میں پھنستا جا رہا تھا جہانزیب اب اسے ان سے بچانا چاہتا تھا۔


"اور کشمالہ کا کیا جو تمہارے انتظار میں بیٹھی ہے کیا کلیم صاحب اتنی آسانی سے تمہیں کسی اور کا ہونے دیں گے؟"


"مجھے کسی کی پروا نہیں۔۔۔"


میر داد نے دو ٹوک جواب دیا۔جہانزیب نے گہرا سانس لے کر اپنے سب سے اچھے دوست کو دیکھا۔


"شائید تم بھول رہے ہو کہ تم سے جڑے رشتے کی وجہ سے وہ اپنا واحد رشتہ کھو چکی ہے جب اسے سب یاد آ جائے گا تب کیا کرو گے میر داد۔۔۔؟؟"


جہانزیب نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔میر داد نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔


"سمجھاؤں گا اسے کہ شاہ نے وہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا وہ سب ایک حادثہ تھا۔"


میر داد نے آہستہ سے کہا تو جہانزیب نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"اپنا واحد رشتہ کھو دینے کے بعد کیا وہ اس بات کو سمجھے گی؟"


جہانزیب کے اس سوال کا میر داد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اسی لیے وہ خاموشی سے حویلی کی طرف چل دیا اسے اب واپس جانا تھا۔

💕💕💕

"تجھے پتہ چلا ازمینہ بلوچ کی شادی ہو رہی ہے۔۔"


مراد نے شاہ داد کو دیکھ کر کہا جو سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔


"مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جس کے پاس مرضی جائے اسکے جسم اور دماغ پر جو چھاپ شاہ داد عالم نے چھوڑی ہے نا وہ اسے کبھی بھی نہیں بھولنے والی۔۔۔"


شاہ داد نے ہنستے ہوئے کہا تو مراد گہرا سانس لے کر رہ گیا۔


"ہاں اچھا ہے نا وہ خاموش رہی اگر تو میر داد کے پاس چلی جاتی تو تمہارا نا جانے کیا ہوتا ویسے بھی تو اپنی ساری مصیبتیں بھلا بیٹھا ہے خیال رکھا کر شاہ یہ نہ ہو کہ اچانک ہی کوئی اٹھ کر تجھے تیرے کارناموں کی وجہ سے برباد کر دے۔۔۔۔"


شاہ داد نے گھور کر مراد کو دیکھا۔


"کہنا کیا چاہتا ہے؟"


شاہ داد کے سوال پر مراد ایک دم گھبرایا چار سال پہلے کا وہ واقعہ اسے یاد آیا جس نے آج تک اسے شاہ داد سے باندھ کر رکھا تھا۔


"اس لڑکی کی بات کر رہا ہوں جو میر داد کے پاس ہے آج اسے سب یاد آ جائے تو ۔۔۔۔"


مراد بات بدلنے کے لیے جلدی سے بولا مگر اسکی بات پر پریشان ہونے کی بجائے شاہ داد مسکرا دیا۔


"شاہ نے کبھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔اگر اس لڑکی کو سب یاد آ گیا تو وہ میرداد کو ہماری بدلی ہوئی کہانی کے بارے میں بتا دے گی اور تجھے کیا لگتا ہے کہ میں ایسا ہونے دونگا؟"


شاہ داد کی بات پر مراد نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"کیا مطلب کہیں تو اسے مروانے۔۔۔۔؟"


"نہیں یار میرے بھائی نے شوق بنا کر رکھا ہے پاس اسے اب اس سے اس کا شوق تو نہیں چھین سکتا نا اس لئے میں نے کچھ اور کیا۔۔۔۔"


شاہ داد کے چہرے پر ایک شیطانی مسکان تھی جسے دیکھ کر مراد ڈر گیا۔


"کیا۔۔۔؟"


شاہ داد نے مسکرا کر سگریٹ کو زمین پر پھینکا اور پاؤں سے مسل کر بجھا دیا۔


"ڈاکٹر سے بات کرکے میں نے اس کی دوائیاں بدلوا دی تھیں اب جو دوائیاں وو کھا رہی ہے نا ان کا مقصد اس کی یادداشت واپس لانا نہیں بلکہ اسے مٹانا ہے۔انہیں کھاتے ہوئے کم از کم اسے کبھی کچھ یاد نہیں آنے لگا۔۔۔"


شاہ داد نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو مراد آنکھیں پھاڑے اپنے سامنے موجود شیطان کو دیکھنے لگا۔


"اور اگر میر داد کو شک۔۔۔۔"


"نہیں ہو گا فکر مت کر۔۔۔۔بہت ہوشیاری سے یہ کام کیا ہے دوائیوں پر لیبل تک پرانی دوائیوں کے ہیں۔۔۔۔"


شاہ داد نے اطمینان سے کہا اور نئی سگریٹ نکال کر سلگا لی جبکہ مراد تو پریشانی سے یہ سوچ رہا تھا کہ خود سے کیا وعدہ آخر وہ کیسے نبھائے گا؟اس شیطان کو اسکے انجام تک کیسے پہنچائے گا؟

میر داد شام تک واپس آ چکا تھا ۔اس کے دماغ میں ابھی تک جہانزیب کی کہی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ایک بے سکونی تھی جو اس کے پورے وجود پر حاوی تھی۔


وہ پری سے اب سے نہیں دو سال سے محبت کرتا تھا۔جنونیوں کی طرح ہر جگہ اسے ڈھونڈ رہا تھا اور اب جب وہ پاس آ گئی تھی تو اب وہ جنون پاگل پن بن چکا تھا۔میر داد اپنی پری کے بغیر رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔


شائید تم بھول رہے ہو کہ تم سے جڑے رشتے کی وجہ سے وہ اپنا واحد رشتہ کھو چکی ہے جب اسے سب یاد آ جائے گا تب کیا کرو گے میر داد۔۔۔؟؟


جہانزیب کا سوال اسکے ذہن میں آیا تو وہ مزید بے چین ہو گیا۔تبھی اسے وہاں پر پری کے ہونے کا احساس ہوا۔


"میر آپ آ گئے۔۔۔۔"


پری نے اسے دیکھا تو ہنستے ہوئے اسکے پاس آئی اور اسے دیکھ جر جلدی سے دوپٹہ سر پر ٹھیک کیا اب تک تو وہ میر داد کی اس عادت سے واقف ہو چکی تھی۔


"تم نے کھانا کھا لیا؟"


میر داد نے اس سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے پوچھا تو پری نے انکار میں سر ہلا دیا۔۔


"اچھا چلو کھاتے ہیں۔۔۔"


میر داد اسے ساتھ لےکر کچن میں آیا جہاں فردوس ابھی کھانا لگا رہی تھیں کھانا کھانے کے بعد میرداد اپنے کمرے کی طرف جانے لگا لگا تو پری نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔


"مجھے ٹی۔۔۔۔ااا۔۔۔۔۔ٹی وی دیکھنا ہے۔۔۔"


پری نے کچھ سوچتے ہوئے ڈیمانڈ کی۔پہلے تو میر داد کا دل کیا کہ وہ اسے منع کردے لیکن پھر اس کے چہرے پر موجود امید کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں کر سکا۔


"چلو۔۔۔"


اسے ساتھ لے کر ٹی وی لاؤنج میں آیا اور ٹی وی لگا کر وہیں بیٹھ گیا۔


"مممم۔۔۔میر یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟؟"


پری نے ٹی وی سکرین کی طرف اشارہ کر کے پوچھا جہاں ایک شادی کا منظر چل رہا تھا اور بہت سارے لوگ خوشی سے ڈانس کر رہے تھے۔


"یہ ڈانس کر رہے ہیں پری ایسا شادی پر کرتے ہیں خوشی ظاہر کرنے کے لیے۔۔۔"


میر داد نے نرمی سے اسے بتایا پری نے اپنی چھوٹی سی ناک چڑھا کر اسے دیکھا۔


"شش۔۔۔شادی۔۔۔۔؟؟؟"


میر داد اس کے سوال پر مسکرا دیا


"ہاں شادی ۔۔۔یہ ایک ایسا بندھن ہے جو ایک لڑکے اور لڑکی کے درمان بندھتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کہ ہو جاتے ہیں اس جہان میں بھی اور اس جہان میں بھی۔۔۔۔"


میر داد کے بتانے پر پری نے خوشی سے چہکتے ہوئے اسے دیکھا


"اسکا مطلب میری بھی شش۔۔۔۔شادی ہو گی؟"


میر داد میں اس کے معصوم چہرے سے دھیان ہٹا تے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔اس جواب پر پری کی خوشی میں اضافہ ہوگیا۔


"لیکن میری شادی کس سے ہوگی؟"


"یہ تو تم پر ہے کہ تمہیں کس سے شادی کرنی ہے۔"


اس کے سوال پر میر داد نے ہلکے سے ہنستے ہوئے جواب دیا۔


"آپ سے۔۔۔۔"


پری کے عام سے جواب پر میرداد اسے دیکھتا رہ گیا جبکہ وہ معصوم ہر چیز سے بے نیاز ٹی وی دیکھنے لگی وہ تو شائید شادی کا مطلب ہی نہیں سمجھتی تھی لیکن پھر بھی اپنی بات سے میر داد کی دبی ہوئی خواہشات کو جگا گئی تھی۔


"اف میر مجھے بھی کرنی ہے شادی یہ بہت اچھی ہے میر آپ میری بھی شادی کر دو۔۔۔۔"


پری نے ٹی وی کی طرف دیکھتے ہوئے خوشی سے کہا لیکن تبھی کہیں باہر سے آنے والی زور دار آواز پر آنکھیں میچتے ہوئے میر داد کی بازو سے چپک گئی۔


"کچھ نہیں ہو گا پری میں ہوں نا یہاں میری طرف دیکھو۔۔۔۔"


میر داد کے پکارنے پر پری نے اپنا سر اٹھایا اور سہمی آنکھوں سے میر داد کو دیکھنے لگی میر داد بھی نا جانے کتنی دیر اسکی آنکھوں کو دیکھتا رہا پھر سے اس شور کی آواز پر پری اس بار میر داد کے سینے سے لگ گئی۔


میر داد نے بھی اپنا ہاتھ اسکی کمر پر رکھ کر اسے خود کے قریب کیا اور دوسرے ہاتھ سے اسکے بالوں کو پکڑ کر اسکا سر اونچا کیا۔میر داد کی نظر پری کے کپکپاتے ہونٹوں پر پڑی تو اسے اپنا آپ صحرا گمان ہونے لگا۔


اس کی پکڑ پری کے بالوں پر مزید مظبوط ہوئی اس سے پہلے کہ وہ بغیر کسی حق کے کوئی گستاخی کر گزرتا ایک بار پھر سے شور کی آواز پر میر داد کو ہوش آیا تو وہ ایک جھٹکے سے پری کو چھوڑ کر اس سے دور ہوا۔


"پری اپنے کمرے میں جاؤ ابھی اسی وقت۔۔۔۔۔"


میر داد کے ایسا کہنے پر پری گھبرا کر جلدی سے کمرے میں چلی گئی جبکہ میر داد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود کو کچھ کر لے۔


کیسے وہ اس قدر بے اختیار ہو گیا۔وہ تو معصوم تھی اچھا برا نہیں سمجھتی لیکن میر داد اسکی اس معصومیت کا فائدہ اٹھانے والا تھا۔


میر داد کو جہانزیب کا کہا ایک ایک لفظ سچ لگ رہا تھا۔وہ سچ میں بے اختیار ہو چکا تھا اپنی محبت کے سامنے ہار گیا تھا ۔


اپنا واحد رشتہ کھو دینے کے بعد کیا وہ اس بات کو سمجھے گی؟


جہانزیب کا سوال پھر سے اسکے دماغ میں آیا۔یہ سچ ہی تو میر داد کا بھائی پری کا گنہگار تھا جسے میرداد نے معاف کر دیا تھا لیکن پری کو جب سب یاد آتا تو وہ تو انصاف مانگے گی نا۔


میر داد نے اپنے ہاتھوں میں اپنے بالوں کو زور سے پکڑ لیا۔تبھی اسکی نظر پری کی دوائیوں پر پڑی جو اس نے یہاں آتے ہی اسے دیں تھیں۔


میر داد نے آگے بڑھ کر وہ دوائیاں اپنے ہاتھ میں پکڑی اور بہت دیر انہیں دیکھتا رہا۔کیا وہ صحیح کر رہا تھا۔


ہاں ۔۔۔ ہاں وہ صحیح کر رہا تھا تلخ ماضی کو مٹا کر وہ اسے خوشیوں بھرا مستقبل دینا چاہتا تھا جس میں میر ہو،اسکی پری ہو اور ان دونوں کی خوشیاں۔


جواب میرداد کے دل سے آیا۔میر داد بہت دیر تک سوچتا رہا وہ اپنی پری کو کھو نہیں سکتا تھا کسی حال میں نہیں۔یہ سوچ آتے ہی میر داد نے وہ دوائیاں ڈسٹ بن میں پھینک دیں اسکی خود غرض محبت جیت گئی تھی۔

💕💕💕

پری رات کو کمرے میں آتے ہی سو گئی تھی اور ابھی ناشتے کے بعد سارا دن میر داد کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ تو نا جانے کہاں جا چکا تھا۔


تبھی شام کے وقت فردوس کچھ لڑکیوں کے ساتھ اسکے کمرے میں آئی۔


'کک۔۔۔۔کون ہیں یہ؟'


پری نے گھبرا کر پوچھا۔وہ نئے لوگوں سے یونہی ڈر جاتی تھی۔


'پری بی بی یہ سیلون والی ہیں وہ آپ کو میک اپ کر کے دلہن بنائیں گی۔'


فردوس نے بہت نرمی سے کہا ۔نیلی آنکھوں میں حیرت آئی تھی۔


'دلہن؟'


پری نے پریشانی سے پوچھا پھر اسے اپنی وہ خواہش یاد آئی جو اس نے کل رات میر داد سے کی تھی۔


'تو تو۔۔۔۔کیا میری شادی ہو گی؟'


پری نے کافی پر جوشی سے پوچھا۔


'جی بلکل لیکن اس کے لئے آپ کو تیار ہونا پڑے گا پری بی بی۔'


فردوس کو وہ چھوٹی سی لڑکی بہت پیاری لگ رہی تھی جو اسکے واجہ کی زندگی کا حصہ بننے جا رہی تھی۔فردوس ان کے لیے بہت زیادہ خوش تھی۔


'پر میرے پاس تو۔۔۔۔۔دلہن والا وہ۔۔۔۔سوٹ۔۔۔۔نہیں ہے۔۔۔'


پریسا نے اپنا مسلہ بیان کیا۔


'وہ کوئی مسلہ نہیں میم ،جاؤ ڈریس لے کر آؤ ۔'


ایک لڑکی کے کہتے ہی دوسری لڑکی باہر گئی اور پھر ایک ریک کو گھسیٹتے ہوئے اندر لائی جس پر ایک انتہائی خوبصورت دلہن کا جوڑا موجود تھا۔آف وائٹ رنگ کے انتہائی زیادہ گھیر دار لہنگے پر سنہری کام بہت زیادہ نفیس اور خوبصورت تھا اس پر بھاری کامدار سنہری کرتی اور لال دوپٹہ جس کے چاروں اطراف انتہائی خوبصورت سنہری کام سے سجے ہوئے تھے۔


'یہ۔۔۔۔یہ میرا ہے۔۔۔۔'


پریسا جو کب سے اس جوڑے کو پلکیں جھپکے بغیر دیکھ رہی تھی آخر کار اس کے سحر سے باہر نکلی۔


'جی میم یہ آپکی ڈریس ہے اب آپ اسے پہن کر آئیں تا کہ آپکو ہم تیار کر سکیں۔'


لڑکی کی بات پر پریسا دل سے مسکرا دی اور پھر جلدی سے اس ڈریس کو اپنے ساتھ ڈریسنگ روم میں لے گئی مگر لہنگے کی کرتی کے پیچھے لگی ڈوریاں اس سے بند ہی نہیں ہو رہی تھیں۔


'یہ۔۔ یہ ڈڈڈ۔۔۔۔۔ڈریس اچھا نہیں۔۔۔۔یہ پھٹا ہوا ہے۔'


پریسا نے باہر آ کر اپنی کمر کی طرف اشارہ کیا تو ایک لڑکی ہنستے ہوئے اسکے پاس آئی اور ساری ڈوریوں کو ٹھیک سے باندھا۔پریسا اس عروسی جوڑے میں بلکل ایک گڑیا کی مانند لگ رہی تھی اور وہ بھی تو خوشی کے عالم میں گھومتے ہوئے اپنے لہنگے کو دیکھ رہی تھی۔


'یہ بہت اچھا ہے۔۔۔'


پریسا نے چہکتے ہوئے دل سے تعریف کی جبکہ وہاں موجود ہر لڑکی اسکے حسن اور قسمت پر رشک کر رہی تھی۔


'میم ابھی ہم آپکو تیار کریں گے تو پھر دیکھئے گا۔'


ایک لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر پریسا کو آئینے کے سامنے بیٹھا کر اسے تیار کرنے لگیں ۔انتہائی خوبصورت میک اپ کے بعد سونے کے بے حد خوبصورت زیورات سے پری کو سجایا گیا اور تیاری مکمل ہونے پر پریسا سچ مچ میں آسمان سے اتری پری ہی تو لگ رہی تھی اسے کوئی بھی دیکھ کر نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کوئی عام سی لڑکی وہ صیح معنوں میں ایک پری لگ رہی تھی صرف اور صرف اپنے میر کی پری۔۔۔


'پری بی بی جلدی چلیں باہر واجہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔'


ملازمہ کی آواز پر پریسا جو کب سے خود کو ہی حیرت سے آئینے میں دیکھتی جا رہی تھی چونک کر واپس دنیا میں آئی اور جوتا پہنے بغیر ہی لہنگا اٹھا کر باہر کی طرف بھاگنے لگی۔اسکے بھاگنے کے ساتھ ساتھ اسکے کپڑوں سے لگے گھنگروں اور پائلیوں کی آواز پورے گھر میں اپنی جھنکار سے گیت سنا رہی تھیں۔


'میر۔۔۔۔'


پریسا کی آواز پر میر داد کی نظریں اٹھیں تو پلٹنا ہی بھول گئیں۔وہ جو حسن کا پیکر بنی اسکے پاس آ رہی تھی کس طرح سے اپنے محبوب کا دل دھڑکا گئی تھی یہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی۔میر داد ایک خواب کے عالم میں آگے بڑھا اور اسکے دوپٹے کو سر سے سرکا کر آگے کر کے ایک گھونگھٹ سا بنا دیا۔


'یہ کیا بات ہوئی آپ مجھے۔۔۔۔چھ۔۔۔۔چھپا کیوں رہے ہیں۔میں پیاری نہیں لگ رہی کیا۔۔۔؟؟۔'


پری نے گھونگھٹ کے نیچے سے گھبرا کر پوچھا۔میر داد ضبط سے مٹھیاں کستا اسکے قریب ہوا۔


'صرف پیاری نہیں اس قدر خوبصورت لگ رہی ہو کہ مجھے اپنی ہی قسمت پر رشک ہو رہا ہے مہر میر اور میں نہیں چاہتا کہ اس حسن کا دیدار کوئی اور کرے پھر یہی رشک اسے بھی ہو۔نہیں مہر میر تم صرف میر داد عالم کی ہو تم پر تو کسی اور کی نظر بھی نہ پڑنے دوں میں۔'


میر داد نے بہت جزبات سے بھر پور آواز میں سرگوشی کی۔جبکہ پریسا تمام باتوں کو چھوڑ کر مہر میر کا مطلب سمجھنا چاہ رہی تھی۔


"مہر میر کون ہے میں تو پری ہوں۔۔۔۔"


میر داد نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


"مہر میر کا مطلب ہے میر کی محبت جو اسکی پری ہے صرف اور صرف پری۔


میر داد نے اتنا کہہ کر پری کو بازو سے تھام کر اپنے ساتھ لے گیا اور ایک گاڑی میں بیٹھایا۔


'تمہارے جوتے کہاں ہیں مہر میر؟'


میر داد نے مسکرا کر پوچھا۔


'وہ۔۔۔۔۔وہ۔تو میں بھول ہی گئی۔'


پریسا نے ہنستے ہوئے کہا تو میر داد بھی مسکرا کر اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔


'میر ہم کہاں جا رہے ہیں؟'


تھوڑی دیر بعد پریسا نے گھونگھٹ کے نیچے سے سوال کیا۔


'ہماری شادی ہے آج ۔'


میر داد نے عام سے جواب دیا ۔پریسا نے ہاں میں سر ہلایا۔وہ بھلا کیسے بھول گئی ابھی کل ہی تو میر داد سے اس نے خواہش کا اظہار کیا تھا۔


میرج حال میں پہنچتے ہی پریسا وہاں کی چکا چوند خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گئی۔پورا حال خوبصورت رنگوں اور لائٹوں سے سجایا گیا تھا۔ہر طرح کے رنگ برنگے پھول پورے میرج ہال کو سجا رہے تھے۔پریسا منہ کھولے کبھی یہاں دیکھتی تو کبھی وہاں۔سب انتہائی ذیادہ خوبصورت تھا۔


'میر مم۔۔۔۔مہمان کہاں ہیں؟ میں نے تو جو شادی دیکھی تھی اس میں تو اتنے سارے مہمان تھے۔'


پریسا نے نا سمجھی سے سوال کیا۔


'مہر میر وہ شادی عام لڑکیوں کی تھی تم خاص ہو اس لیے تمہاری شادی انکے جیسی تو نہیں ہو گی نا اس میں بہت سی چیزیں مختلف ہوں گی۔'


'اوہ اچھا پھر تو ذیادہ مزہ آئے گا نا۔'


پریسا نے معصومیت سے کہا تو میر داد نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا اور پھر اسے سٹیج پر لے آیا جہاں پر میر داد کے کچھ خاص آدمی مولوی صاحب کے ساتھ انتظار کر رہے تھے۔میر داد نے شاہی طرز کی ایک کرسی پر پریسا کو بیٹھایا اور خود دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔


'نکاح شروع کریں مولوی صاحب۔'


میر داد کے سنجیدگی سے کہنے پر مولوی صاحب نے ہاں میں سر ہلایا اور پری کے پاس موجود صوفے پر بیٹھے۔وہاں پر اور بھی آدمی موجود تھے جن میں سے پری صرف زمان کو پہچانتی تھی۔


'پریسا خان ولد حیدر خان آپکا نکاح

میر داد عالم رند ولد عالم شاہ میر رند کے ساتھ ستر لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت ہونا طہ پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے۔'


نا جانے کیوں اس سوال پر پریسا ایک پل کو گھبرا سی گئی تھی حالانکہ راستے میں اسے میر نے بتا دیا تھا کہ انکا نکاح ہو گا تو پھر اب اتنا وہ کیوں گھبرا رہی تھی یہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی۔


'جواب دو پری۔'


میر داد نے بے چینی سے کہا تو پریسا ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔


'قق۔۔۔۔قبول ہے۔۔۔۔'


پریسا کے جواب پر ایک سکون کی لہر میر داد کے پورے وجود میں دوڑ گئی تھی۔پریسا کے وہ الفاظ دہرانے پر میر داد کے جنون کو قرار ملا تھا اور پریسا کے وہ الفاظ تیسری دفعہ کہنے پر میر داد کو لگا تھا کہ وہ جیت گیا پورا جہان پا لیا اس نے اب کوئی کمی نہیں رہی۔


مولوی صاحب نے وہ سوال میر داد سے بھی پوچھے جن کا جواب میر داد نے بہت ہی بے چینی سے دیا۔نکاح کی رسم مکمل ہوتے ہی مولوی صاحب نے خود آگے بڑھ کر میر داد کو مبارکباد دی تھی۔


'اب آپ سب جا سکتے ہیں یہاں سے مجھے یہ جگہ بلکل خالی چاہیے۔'


میر داد کے سنجیدگی سے ایسا کہتے ہی سب وہاں سے خاموشی سے چلے گئے بھلا کون بے وقوف ہوتا جو میر داد عالم کو انکار کرنے کی جرات بھی کرتا۔سب کے جاتے ہی میر داد تھوڑا فاصلے پر کھڑے ہو کر ہاتھ مسلتی پری کے پاس آیا اور ہاتھ بڑھا کر اسکا گھونگھٹ چہرے سے ہٹا دیا۔


نا جانے کتنی ہی دیر میر داد یونہی کھڑا پری کا وہ حسین چہرہ دیکھتا رہا تھا۔آج پہلی بار وہ اسے بے اختیار ہو کر پورے حق سے دیکھ رہا تھا۔آخر کار اسکی نظروں کی تپش سے گھبرا کر پری سٹپٹانے لگی۔


"مم۔۔۔۔میر ۔۔۔۔'


پری کے پکارنے پر میر داد مسکرا کر اسکے مزید قریب ہوا اور اسکا چہرہ بہت استحقاق اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔میر اس پری پیکر پر تمام حقوق حاصل کر کے بہت ذیادہ خوش تھا۔


'بہت بہت ذیادہ خوبصورت لگ رہی ہو میری جان اس دنیا کی سب سے حسین لڑکی سب سے حسین پری۔'


میر داد نے جزبات سے کہتے ہوئے اسکے گال کو سہلایا تو پری شرما کر خود میں سمٹی۔


'آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔'


میر داد اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے آیا ۔ہال کے ایک کونے میں موجود میز پر بہت طرح کے کھانے موجود تھے میر داد نے اسے ایک کرسی پر بیٹھایا اور اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلانے لگا۔


"یہ مزے کا ہے بہت زیادہ۔۔۔۔"


پری نے کھانے سے خوب انصاف کرتے ہوئے کہا اور شرارت سے میر داد کی انگلی کو کاٹا تو میر داد نے آنکھیں چھوٹی کر کے اپنی بیوی کو دیکھا۔


"اگر یہ میں نے کیا نا تو سہم جاؤ گی تم مہر میر۔۔۔۔"


میر داد کی گھمبیر آواز پر پری خود میں سمٹی آج جس انداز میں میر داد اس سے بات کر رہا تھا وہ پری کی سمجھ سے باہر تھا۔وہ جو کبھی نگاہ بھر کر اسے نہیں دیکھتا تھا آج اسکی آنکھوں کی تپش پری کو بے چین کر رہی تھی۔


"بس۔۔۔۔"


پری کے ایسا کہتے ہی میر داد نے اٹھ کر اسکا ہاتھ پکڑا اور ہال کے سینٹر میں ایک گول سے بنے سٹیج پر لے آیا۔پری گھومتے ہوئے ارد گرد دیکھ رہی تھی۔ایک انتہائی بڑا اور خوبصورت سا فانوس چھت سے کافی نیچے لٹک رہا تھا اتنا نیچے کے وہ فانوس بلکل پری کے مقابل میں تھا اور اس سے نکلنے والی روشنی پری کے حسن کو مزید جگمگا رہی تھی۔


میر۔۔۔ہہہ۔۔۔۔ہماری شادی پہ ککک۔۔۔۔کوئی وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔ڈانس نہیں کرے گا کیا جیسے کل رات وہ لوگ کر رہے تھے؟؟؟'


پریسا نے ارد گرد کی تنہائی کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


'کریں گے نا ڈانس مہر میر۔۔۔ہم۔۔۔۔'


میر داد نے اسے دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا۔


'مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔نہیں مجھے تو نہیں آتا ڈانس۔۔۔۔ساتھ دلہن تھوڑی ڈانس کرتی ہے۔۔۔۔'


پریسا نے منہ بنا کر کہا میر داد جواب میں سینے پر ہاتھ باندھ کر مسکرا دیا ۔


'میری دلہن کرتی ہے۔۔۔۔'


میر داد اتنا کہہ کر پریسا کے پاس آیا اور اپنے دونوں ہاتھ اسکی نازک کمر کے گرد باندھ کر اسے اپنے قریب کیا۔تبھی فضا میں گانا بجنے کی آواز آنے لگی تھی۔


'میں نے جب دیکھا تھا تجھ کو

رات بھی وہ یاد ہے مجھ کو

تارے گنتے گنتے سو گیا۔

دل میرا دھڑکا تھا کس کے

کچھ کہا تھا تو نے ہنس کے

میں اسی پل تیرا ہو گیا۔


میر داد پریسا کو اپنے ساتھ آہستہ سے موو کروا رہا تھا اور اب تو پریسا بھی خوشی سے چہک رہی تھی۔پھر میر سے دور ہو کر اسے اسی طرح سے ادائیں دیکھانے لگی جیسا کل اس نے ٹی وی میں دیکھا تھا۔دلہن کے روپ میں ایسا کرتے ہوئے وہ میر داد کے دل کی دنیا ہلا گئی تھی۔


'آسمانوں پہ جو خدا ہے

اس سے میری یہی دعا ہے

چاند یہ ہر روز میں دیکھوں

تیرے ساتھ میں

آنکھ اٹھی محبت نے انگڑائی لی

دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں

تیری نظروں نے کچھ ایسا جادو کیا

لٹ گئے ہم تو پہلی ملاقات میں

ہو آنکھ اٹھی۔'


تبھی اچانک بہت سے چمکدار شرارے سٹیج کے ارد گرد سے اوپر کی طرف نکلے جن سے ڈر کے پریسا ایک چیخ کے ساتھ میر داد کے سینے میں چھپی ۔میر داد نے بھی مسکرا کر اس کے گرد اپنا گھیرا تنگ کیا۔


'کیا ہوا مہر میر تمہیں اچھا نہیں لگا یہ سب؟'


پری نے فوراً انکار میں سر ہلایا تو میر داد نے غصے سے اپنے اردگرد نکلتے ان شراروں کو دیکھا جو دکھنے میں حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے لیکن میر داد کے لئے وہ سب سے زیادہ قابل نفرت چیز تھی کیونکہ ان سے اسکی چہکتی ہوئی پری سہم چکی تھی۔


'چلو ہم چل رہے ہیں یہاں سے۔'


میر داد نے اتنا بول کر اسے کوئی موقع دیے بغیر اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور پھر باہر کی طرف چل دیا۔باہر آ کر اس نے پریسا کو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔


'اا۔۔۔۔۔اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟'


پریسا نے معصومیت سے پوچھا۔


'سرپرائیز ہے جان یونہی تو نہیں بتاؤں گا نا۔'


میر داد نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کہا اور پریسا مسکرا کر گاڑی سے باہر دیکھنے لگی اور وہاں دیکھتے ہوئے کب وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی اسکا علم تو اسے بھی نہیں ہوا۔


ہوش تو اسے تب آیا جب اسے احساس ہوا کہ وہ کسی کی باہوں میں ہے۔


ممم۔۔۔۔میر۔۔۔'


اس نے آنکھیں کھولے بغیر ہی سوال کیا۔میر داد نے مسکرا کر اسکے گرد اپنی پکڑ مظبوط کی۔


'اور کون ہو سکتا ہے مہر میر کس کی اتنی جرات ہے کہ وہ میر داد کی ملکیت کو چھو سکے۔یہ سوچ اسکے دماغ میں آتے ہی اسکی جان لے لوں گا۔'


میر داد کی آواز غصے اور جنون سے بھری ہوئی تھی۔پریسا نے گھبرا کر اپنی آنکھیں کھول کر میر داد کو دیکھا اور پھر اسکی نظر اپنے ارد گرد موجود جگہ پر پڑی تو اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔


وہ شاید سمندر پر کہیں تھے کیونکہ پریسا لہروں سے اٹھنے والا شور سن سکتی تھی۔لیکن غور کرنے سے اسے پتہ چلا کہ وہ سمندر پر ہی نہیں وہ سکی کشتی پر ہیں وہ کوئی بڑی سی yacht تھی۔


'آپ مجھے کہاں لے کر آئے۔'


میر داد اسے کوئی بھی جواب دیے بغیر yacht کے سب سے اوپر والے حصے میں لے کر آیا جہاں بہت سی لائٹنگ کی گئی تھی اور بہت سے پھول انکی راہ میں بچھائے گئے تھے۔میر داد نے پریسا کو اتارا تو پریسا جلدی سے بھاگتے ہوئے ریلنگ کے پاس گئی اور اس کشتی کو سمندر کی لہریں چیرتے ہوئے دیکھنے لگی۔وہ منظر سچ میں دل موہ لینے کے قابل تھا۔


اچانک سے میر داد نے اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں بھرا تو پریسا مسکرا کر اسکی طرف پلٹی۔


'آپ نے یہ سس۔۔۔۔سب ہماری شش۔۔۔۔شادی کے لیے کیا؟؟؟'


پریسا نے آنکھیں بڑی کر کے پوچھا تو میر داد نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور پھر اسکو کھینچ کر اپنی باہوں میں سمیٹ لیا ۔


'ہاں مہر میر یہ سب میں نے ہماری شادی کے لیے کیا۔چاہتا تھا کہ یہ سب تمہارے لئے اس قدر یادگار ثابت ہو کہ تم کبھی چاہ کر بھی مجھے اور میری محبت کو بھول نہ پاؤ۔'


پریسا اسکی بات پر مسکرائی۔


مم۔۔۔۔میں بھلا کک۔۔۔۔کیسے آپ کو بھول سکتی ہوں۔۔۔۔۔آپ کو ہی تت۔۔۔۔۔تو جانا ہے بس۔۔۔۔آپ کے علاوہ تو۔۔۔۔کک۔۔۔۔۔کسی کو بھی نہیں جانتی میں میر۔۔۔۔خود کو بھی نہیں۔۔۔۔۔'


میر داد نے بہت شدت سے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔


'وعدہ کرو مہر میر کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی تم چاہے کچھ بھی ہو جائے یہ پری اپنے میر کے پاس ہی رہے گی ہمیشہ۔'


میر داد کی آواز ،اسکے انداز میں بہت ذیادہ بے چینی ،بہت زیادہ جنون تھا۔


'نن۔۔۔۔نہیں میر مم۔۔۔۔میں آپ کو چھوڑ کے کیوں جاؤں گی بھلا۔۔۔۔'


'وعدہ کرو مہر میر۔۔۔۔'


اس بار صرف میر داد کی بات ہی نہیں اسکے لمس میں بھی عجیب سا جنون تھا۔


'وو۔۔۔۔وعدہ۔۔۔۔'


پریسا کے وعدے پر میر داد نے سکون سے اپنی آنکھیں مونند لیں۔


'تم میری ہو مہر میر صرف میری خود کی بھی نہیں ہو تم ہمیشہ یاد رکھنا یہ کبھی بھی مت بھولنا۔'


بہت شدت سے ان آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میر داد نے کہا۔پریسا نے گھبرا کر ہاں میں سر ہلایا۔میر داد کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی جس سے پریسا خائف ہو رہی تھی۔اسی لیے اس نے گھبرا کر ہاں میں سر ہلایا۔میر داد نے مسکرا کر پریسا کو دیکھا اور پھر اسے باہوں میں اٹھا لیا تو پریسا نے گھبرا کر میر داد کو دیکھا۔


'ابھی تو بہت کچھ سپیشل ہے دیکھنے کو مہر میر۔'


میر داد اسے ایک میز کے پاس لے کر گیا جہاں پر ایک کیک موم بتیوں اور پھولوں کے درمیان میں رکھا گیا تھا۔میر داد نے پریسا کو اپنے پاس کھڑا کیا اور پھر کیک کا ایک پیس کاٹ کر اسکے منہ کے پاس لے گیا۔پریسا نے مسکرا کر اس کیک کو کھایا۔


'اب میری باری ۔'


اتنا کہہ کر میر داد نے ایک اور پیس کاٹا اور اسے پھر سے پریسا کے ہونٹوں کے پاس لے گیا۔پریسا کو لگا کہ وہ اسے پھر سے کیک کھلانے لگا ہے لیکن میر داد نے وہ سارا کیک اسکے ہونٹوں پر لگا دیا اور اسے سے پہلے کہ پریسا کچھ سمجھتی وہ خود بھی ان نازک ہونٹوں پر جھک گیا۔


پریسا کی جان مشکل میں آ گئی وہ میر داد کی پکڑ میں مچلنے لگی لیکن میر داد نے بھی اپنی گرفت اسکے گرد مظبوط کر دی۔میر داد کی زرا سی شدت،زرا سی قربت پر پریسا کی سانسیں رکنے کے در پہ آ گئی تھیں۔جبکہ میر داد بے خود سا ہوا اس پر جکھا ہوا تھا جب اسے یہ احساس ہوا کہ اس کے عمل کو اسکی نازک سی جان جھیل نہیں پا رہی تو میر داد مسکرا کر اس سے دور ہوا۔


پریسا زور زور سے سانس لیتے ہوئے وہاں سے دور ہو کر ریلنگ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔میر داد نے اسکے پیچھے آ کر اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔


'نن۔۔۔۔نہیں میر۔۔۔'


پریسا نے گھبرا کر کہا اپنے میر کے ارادوں کو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔


'ششش۔۔۔۔مہر میر بلکل چپ۔۔۔۔تم تو میرے اتنے سے پیار سے گھبرا گئی اور ابھی تو پوری رات پڑی ہے ۔'


میر داد معنی خیزی سے کہتا اسے پھولوں اور لائیٹوں سے سجے کمرے میں لے کر آیا اور بہت نرمی سے اسے بیڈ پر بیٹھا کر اسکے دوپٹے کی پنز کھولنے لگا۔پریسا کی ننھی سی جان گھبرا کر رہ گئی تھی وہ بس میر داد سے، اسکی بولتی نظروں سے چھپنا چاہ رہی تھی۔


میر داد نے اسکے دوپٹے کے بعد اسکی جیولری بھی اتارنا شروع کر دی۔


میر۔۔۔میں۔۔۔'


'شششش ۔۔۔۔۔۔'


میر داد نے نرمی سے اسکے نازک پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا۔پریسا کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ میر داد کی پناہ میں ہی چھپ گئی۔میر داد نے بھی مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکی کمر پر لے جا کر اسکی کرتی کی ڈوری کو کھول دیا۔پریسا جی جان سے کانپی تھی۔


'پپ۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔میر میں۔۔۔۔سس۔۔۔۔۔سمجھ نہیں پا رہی۔۔۔۔۔ممم۔۔۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔'


پریسا کی بات پر میر داد نے اسے بیڈ پر لیٹایا اور پھر خود بھی اس پر جھک گیا۔


'صبح تک سب سمجھ جاؤ گی میری معصوم سی پری لیکن ابھی میں ان ہونٹوں سے مزید ایک بھی لفظ برداشت نہیں کروں گا۔'


اتنا کہتے ہوئے میر داد پھر سے ان ہونٹوں پر جھک گیا اور پریسا کی چلتی سانسوں کو اسکے حلق میں ہی روک گیا۔


پریسا نے مزاحمت کرنے کی بھرپور کوشش کی جو کہ میر داد کے جنون اور شدتوں کے سامنے ایک ایک کر بہت آسانی سے دم توڑ گئی۔

💞💞💞

صبح میر داد کی آنکھ کھلی تو اسکی پہلی نظر اپنی باہوں میں سوئی ہوئی پری پر پڑی۔میر داد کی نظر ان نازک ہونٹوں پر پڑی جہاں ابھی بھی اسکی کل رات کی جنونیت کے نشان تھے۔


اسے خود پر غصہ آنے لگا تھا کہ کیونکر وہ اپنی نازک سی جان پر اتنا حاوی ہو گیا۔ایک گہرا سانس لے کرر میر داد نے بہت نرمی سے اسکے ہونٹ کو اپنے انگوٹھے سے سہلایا تھا۔


"اب اٹھ بھی جاؤ جان ورنہ پھر سے تمہارا جنونی عاشق جاگ گیا تو تمہاری نازک جان ہی ہلکان ہو گی۔"


میر داد نے اسکے کان کے پاس ہو کر سرگوشی کی جبکہ اسکی گھنی مونچھوں کی چبھن کو محسوس کر کے پری زرا سا کسمسائی۔


"سسسونا ہے ۔۔۔"


پری نے آنکھیں کھولے بغیر ہی بہت لاڈ سے کہا ۔


"اور تمہاری یہ نیند جو میری نیت خراب کر رہی کے اسکا کیا؟"


میر داد نے اسکی بند ہوتی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔جواب میں پری نے اپنی ناک سکیڑی۔


"سونے دیں نا میر بہت نیند آئی۔۔۔۔"


پری کے معصومیت سے کہنے پر میر داد نے مسکرا کر اسکا سر چوما اور پھر وہاں سے اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔ آج اسکا دل خود بخود ہی خدا کا بے تحاشہ شکر کرنے کو کر رہا تھا شاید محبوب کا ملن ہوتا ہی ایسا ہے۔اسے بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے دنیا جہان کی ہر خوشی کو پا لیا۔


نماز پڑھ کر وہ واپس سوتی ہوئی پری کے پاس آیا اور اسکے معصوم چہرے کو دیکھنے لگا اسے دیکھتے دیکھتے کب اسکی آنکھ لگ گئی اسکا اندازہ اسے بھی نہیں ہوا۔


ہوش تو اسے تب آیا جب پری کے دور جانے کا احساس ہوا۔اس نے آنکھیں کھول کر پری کو دیکھا جو شرمائی شرمائی سی اس سے دور جانے کی کوشش کر رہی تھی۔


"ممم۔۔۔۔ میر مجھے جانا ہے۔"


پری نے آہستہ سے کہا تو میر نے اچانک ہی اسے سختی سے اپنی طرف کھینچا اور جنون سے بھری گستاخی کر گیا۔


"آج تو جانے کی بات کی ہے نا مہر میر آئیندہ ایسا سوچا بھی نا تو سزا سہہ نہیں پاؤ گی۔"


میر نے بوجھل سے لہجے میں کہا جبکہ پری تو اسکی شدتوں اور جنون سے سمبھل ہی نہیں پا رہی تھی۔جب کچھ سمجھ نہ آیا تو پری نے منہ بسور لیا۔اس کی اس حرکت پر میر نے مسکرا کر اس کی ناک کو چوما۔


"ابھی کے لیے جاؤ جان لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ لوٹ کر تمہیں میرے پاس ہی آنا ہے کیونکہ تمہاری منزل صرف اور صرف میرداد عالم ہے۔"


میرداد نے اتنا کہہ کر اس کے ہاتھ کو چوما اور اسے چھوڑ دیا پری اس موقع کو غنیمت جان کر واش روم کی طرف بھاگی اور پھر دروازہ بند کر کے اپنی دھڑکنیں شمار کرنے لگی۔

💕💕💕

آج وہ لوگ ازمینہ کی تاریخ پکی کرنے آئے تھے۔سب اس پیاری سی دلہن کے صدقے واری جا رہے تھے مگر اسکو تو کوئی خوشی ہی نہیں تھی بلکہ وہ ایسی تھی کہ اسکا پورا وجود خالی ہو چکا تھا۔جب دل ہی مر چکا ہو تو باہر کی رونقوں سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ازمینہ کا بھی یہی حال تھا۔


وہ بہادر ہونا چاہتی تھی اپنے گناہگار کو سزا دلانا چاہتی تھی،انصاف چاہتی تھی مگر ہر کوئی بس اسکا منہ بند کر کے اسے خاموش کروانا چاہتا تھا،اسے بہادر بنانے والے اسکے بابا بھی۔


لیکن وہ جھوٹ بول کے شادی نہیں کر سکتی تھی۔سچ چھپا کر کسی کو دھوکا دینا ازمینہ بلوچ کی عزت کو گوارا نہیں تھا۔اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سب سچ سچ فلک کو بتا دے گی۔


"تم کو پتہ ہی مینہ بھائی تو اس شادی کو لے کر اتنا بے قرار ہے کہ کیا کہوں بس ہر وقت اسکے دل میں یہی چلتا رہتا ہے کہ کب ہمارے مینا گھر آئے گا ۔"


اپنی ہونے والی نند کی آواز پر ازمینہ خیالات کی دنیا سے باہر آئی۔اتنا عرصہ ہو گیا تھا مینہ اور اسکی منگنی کو مگر وہ دونوں ابھی تک آپس میں بات نہیں کر پائے تھے۔


ازمینہ کے لیے تو یہ سب معنی ہی نہیں رکھتا تھا۔وہ بس ایک بات سے واقف تھی کہ وہ اس شخص کو دھوکہ دے رہی تھی۔اس سے فریب کر رہی تھی اور اس گناہ کی روز قیامت اسے بہت بری سزا بھگتنا پڑنی تھی۔


آخر کار ازمینہ کو ایک ہی حل نظر آیا اس نے ساتھ بیٹھی گل کو دیکھا۔


"گل تم مجھے اپنے بھائی کا نمبر بتاؤ گی؟"


ازمینہ کی بات پر گل نے ہونٹ گول کر کے سی ٹی بجائی۔


"یعنی آگ دونوں طرف برابر لگی ہے۔"


گل نے اسکے کندھے سے کندھا مار کر کہا۔مگر ازمینہ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔


"کان آگے کرو ۔"


گل کے ایسا کہنے پر ازمینہ نے اپنا کان آگے کیا تو گل نے جلدی سے نمبر اسکے کان میں بول دیا۔


"اب دیکھتے ہیں کہ تمہارا جزبہ کتنا سچا ہے تم میرے بھائی کا نمبر یاد بھی رکھتا ہے یا نہیں۔"


جواب میں بس ازمینہ نے ہاں میں سر ہلایا وہ اس نمبر کو کبھی بھی نہیں بھول سکتی تھی وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔دل پر یہ بوجھ لے کر وہ ازدواجی زندگی میں قدم نہیں رکھ سکتی تھی یہ اسکے ضمیر کو گوارہ نہیں تھا۔

💕💕💕

حورم کی شادی کی تیاریاں زورو شور پر تھیں ہر کوئی اس شادی کی تیاریوں میں خوش تھا سوائے حورم اور جہانزیب کے جسے اس دن کی باتیں ابھی تک بے چین کر رہی تھیں۔


"حورم دیکھو نا اس سب میں سے کونسا سب سے زیادہ پسند ہے تمہیں سچی اتنا اچھا ہے تمہارا ہر جوڑا لگتا ہے سسرال والے کچھ زیادہ ہی خوش ہیں ہماری حورم ہم سے چھین کر۔"


کشمالہ کے شرارت سے کہنے پر حورم ہلکی سی مسکان مسکرا دی جو اس کی آنکھوں تک نہیں پہنچی تھی۔اس وقت وہ کشمالہ اور رخسانہ کے ساتھ نکاح کے لیے سسرال سے آنے والے سوٹوں کو دیکھ رہی تھی۔


"یہ سفید والا سب سے اچھا ہے."


حورم میں سفید شرارے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو کشمالہ نے اسے حیرت سے دیکھا جب کہ پاس سے گزرتا جہانزیب وہیں رک گیا وہ جانتا تھا کہ حورم کو سفید رنگ سے سخت نفرت تھی۔


"تمہیں تو لال رنگ پسند تھا نا؟"


کشمالہ نے حیرت سے پوچھا۔تبھی حورم کی نگاہ سے کھڑے جہانزیب پر پڑی جو ہر چیز سے بے نیاز وہاں کھڑا بس سے دیکھ رہا تھا۔


"تھا اب نہیں رہا زندگی کے ساتھ ساتھ پسند بھی بدل گئی ہے ہماری ۔"


یہ جان کر جہانزیب کو بے تحاشا تکلیف ہوئی تھی جبکہ ان دونوں کے چہروں پر موجود جذبات کو دو آنکھوں نے بہت غور سے دیکھا۔


"نماز کا وقت ہو گیا ہے ہم کمرے میں جا رہے ہیں۔"


حورم اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی اور اس کے پیچھے کھڑی سلمی خالہ بھی اس کے پیچھے گئی تھیں۔


"میں اندر آؤں حور بیٹا؟"


سلمی خالہ کے سوال پر حورم نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے اور ہاں میں سر ہلایا سلمی خالہ نے پاس آ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔


"خود کو اتنی سی عمر میں کون سا روگ لگا بیٹھی ہو میری بچی؟"


"آپ کیا کہ رہی ہیں؟"


سلمی خالہ کے سوال پر حورم نے انجان بننے کی کوشش کی۔


"کس سے اپنا درد چھپا رہی ہو میں نے تمہیں ماں بن کر پالا ہے سب اچھے سے سمجھ سکتی ہوں۔"


یہ سن کر حورم کی بس ہوئی تھی وہ پلٹ کر سلمی خالہ کے سینے سے لگی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"وہ بہت برے ہیں خالہ ۔۔۔۔۔بہت زیادہ برے ہماری محبت کی ذرا قدر نہیں کی انہوں نے کہتے ہیں یہ ہمارا بچپنا ہے اگر بچپنا ہے تو عمر سے پہلے ہی بڑی کیوں ہو گئے ہم؟"


حورم کی آواز میں موجود درد محسوس کر کے سلمی خالہ کا دل کٹ کر رہ گیا مگر وہ جہانزیب کی حالت سے بھی اچھی طرح واقف تھیں۔


"وہ برا نہیں ہے حورم تم تب بہت چھوٹی تھی نہیں جانتی کہ آٹھ سال پہلے کیا ہوا تھا۔"


سلمی خالہ نے بے بسی سے کہا تو حورم نے شکوہ کناہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔


"تو بتائیں ہمیں خالہ کیا ہوا تھا ایسا کیا ہوا تھا جس نے انہیں اس قدر پتھردل کردیا کہ محبت کی آہ بھی اسے نہیں توڑتی۔"


سلمی خالہ نے گہرا سانس لیا اور حورم کا چہرہ بہت محبت سے تھام لیا۔


"کاش بتا سکتی تمہیں حور کاش بتا سکتی لیکن نہیں میں نے قسم کھائی ہے اسے نہیں توڑ سکتی۔"


سلمی خالہ نے بے بسی سے کہا۔

💕💕💕

نکاح کے بعد سے پری کی خوشی اور میر داد کی محبت میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔میر داد کا بس چلتا تو وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی پری کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔


ابھی صبح ہیں تو کھانے کے وقت پری میر داد کو بہت زیادہ نخرے دکھا رہی تھی اور میر داد اس کی ہر چھوٹی شرارت پر مسکراتا اس کا ہر نخرے برداشت کر رہا تھا ۔


"دیکھو پری اب شرافت سے میں تمہیں آخری بار کہہ رہا ہوں کہ کھانا کھا لو ورنہ۔۔۔۔"


میرداد نے مصنوعی غصے سے کہا تو جواب میں پریسا نے اپنی ناک سکیڑ لی۔


"غصے سے کہیں گے تو بالکل بھی نہیں کھاؤں گی۔"


اسکی بات پر میر داد مسکرایا۔


"اگر پیار سے کہوں گا تو کھا لو گی؟؟؟"


پریسا نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا تو میر داد نے آگے بڑھ کر اسکا سر بالوں سے پکڑ کر قریب کیا اور اسکے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔


پریسا مچلنے لگی تو میر داد دور ہو کر ہنسنے لگا۔


"اتنا پیار کافی ہے کیا؟؟؟"


پری نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا۔اس سے پہلے کہ میر داد اسے مزید تنگ کرتا زمان اجازت لے کر اندر داخل ہوا۔


"واجہ باہر پیرک واجہ آئے ہیں"


زمان کی بات پر میر داد کے ماتھے پر بل آئے مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا شاہ میر جہانزیب کے ساتھ بہت غصے اور رعب سے وہاں داخل ہوئے۔پری انجان لوگوں کو دیکھتے ہی میر داد کے بازو سے چپک گئی۔


"پیرک۔۔۔۔"


"مت بلاؤ ہمیں یہ میر داد عالم۔یہ حرکت کرنے سے پہلے تمہیں ایک بار بھی ہمارا یا ہمارے خاندان کی عزت کا خیال نہیں آیا۔کیا ثابت کرنا چاہا تم نے اپنی مرضی سے نکاح کر کے کہ ہم سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ "


شاہ میر میرداد کو غضب ناک سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے غصے سے چلائے جبکہ ان کے اس طرح سے چلانے پر پری سہم کر باقاعدہ اس کے پیچھے چھپنے لگی۔


"اگر میں آپ سے پوچھتا تو کیا آپ اجازت دیتے تھے؟"


میر داد نے ایک ابرو اچکا کر پوچھا شاہ میر صاحب نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"بالکل بھی نہیں کشمالہ تمہاری منگ ہے میرداد اور کسی ایک کو تمہارے لئے نہیں سوچا تھا۔"


شاہ میر صاحب کی بات پر میرداد کے لبوں پر ایک طنزیہ سی مسکان آئی۔


"اسی لیے آپ سے پوچھنے کی بجائے میں نے فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے اس فیصلے سے میں بہت زیادہ خوش ہوں۔"


میر داد نے پری کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔اسکی آنکھوں میں موجود محبت ہر کوئی دیکھ سکتا تھا۔


"ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں ۔۔۔۔"


"مجھے فرق نہیں پڑتا۔"


میر داد نے بے رخی سے انکی بات کو کاٹا تو ان لوگوں کے سامنے اپنی تذلیل پر شاہ میر کافی غصے میں آ گئے لیکن موقع کی نزاکت اور میر داد کی ضد کو دیکھتے ہوئے اپنے غصے پر قابو کر گئے۔


"چلو تم نے ہمارے بارے میں تو کچھ نہیں سوچا مگر مجھے یہ بتاؤ حورم کا کیا قصور تھا وہ تو تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے نا اور شاہ داد وہ تو تمہارا غرور ہے تو پھر اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے سے پہلے تم نے اپنے بہن بھائیوں کے بارے میں کیوں نہیں سوچا۔"


میر شاہ صاحب نے غصے سے کہا۔میر داد نے کچھ دیر انکی بات پر غور کیا اور پھر مسکرا دیا۔


"چلیں ٹھیک ہے اس مسئلے کا حل تو میں ابھی نکال دیتا ہوں۔۔۔۔۔ فردوس آپا ۔۔۔۔۔فردوس آپا۔"


میر داد کے بلانے پر فردوس فوراً وہاں آئی۔


"جی واجہ ۔۔۔۔۔"


" آپ پری کا سامان پیک کر دیں وہ اور اسی وقت میرے ساتھ حویلی چل رہی ہے تا کہ سب کو خبر ہو جائے کہ میر داد پر کس کا حق ہے۔"


میرداد کہہ تو فردوس سے رہا تھا مگر اس کی نظریں متواتر شاہ میر پر تھیں جیسے انہیں اپنی آنکھوں سے ہی چیلنج کر رہا ہو کہ آپ مجھے روک کر تو بتائیں۔


ان سے نظریں ہٹا کر میرداد پری کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے کر جانے لگا۔


"میر کیا ہوا ہے؟"


پری نے گھبرا کر پوچھا تو اسکے چہرے پر موجود پریشانی کو دیکھ کر میر داد نے بہت محبت سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔


"کچھ نہیں ہوا مہر میر ،میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی بھی چیز کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ہم لوگ بس حویلی جا رہے ہیں۔"


"حح۔۔۔۔حویلی۔۔۔۔؟"


پری نہیں آنکھیں بڑی کر کے پوچھا میر داد نے اپنے ہونٹ اس کے ماتھے پر رکھے تھے۔


"ہاں میری جان حویلی ،میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی جان جائے کہ میر اب صرف اپنی پری کا ہے اور کسی کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔اسکے دماغ پر پری کا جنون سوار ہے،اسکے جسم پر صرف پری کی محبت کا حق ہے اور اسکے دل میں ہر جگہ اپنی پری کا عشق ہے۔ میر داد خود بھی کہیں نہیں رہا ہر جگہ صرف اور صرف پری ہے۔"


اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں پکڑے میرداد محبت سے کہتا چلا گیا جبکہ اس کی آدھی باتیں پری سمجھ پائی تھی تو آدھی اس کے سر سے گزر گئی تھیں۔


"آپ بہت اچھے ہیں میر اور مجھے بھی آپکے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔"


پری کے معصومانہ سے اظہار محبت پر میرداد سرشار ہوکر اس پر جھکا اور اپنے ہونٹوں کا لمس بہت محبت سے اس کی دونوں آنکھوں پر چھوڑا تھا۔


"اب تیار ہو جاتے ہیں ورنہ سچ میں تمہیں اپنی محبت دیکھانے لگ جاؤں گا۔"


میر داد نے اسکے گال کر سہلاتے ہوئے معنی خیزی سے کہا تو پری نے گھبرا کر ہاں میں سر ہلایا اور کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔اب صحیح معنوں میں اسکی نئی زندگی کی شروعات ہو رہی تھی۔

💕💕💕

ازمینہ کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں لیکن اس کے لیے یہ تیاریاں جنازے کے برابر تھیں۔


اس نے بہت مرتبہ کوشش کی تھی اپنے ہونے والے شوہر سے بات کرنے کی مگر ہمت اکٹھی نہیں کر پائی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکی بات کا کیا انجام نکلے گا۔


مگر آج آخر کار سب سے علیحدہ ہو کر اسنے ارشاد کا موبائل پکڑا اور کانپتے ہاتھوں سے اس پر نمبر ملایا۔


فون کی ہر بیل کے ساتھ اسکا دل بھی بہت زوروں سے دھڑک رہا تھا پھر وہ بیل بجنا بند ہو گئی۔


"اسلام و علیکم چچا"


فلک کی گھمبیر آواز پر ازمینہ کا دل حلق میں آیا۔اسنے بہت مشکل سے اپنے آپ کو بولنے پر آمادہ کیا۔


"وو۔۔۔۔۔وعلیکم اسلام"


ازمینہ کی آواز پر کچھ دیر دوسری طرف خاموشی چھائی رہی۔پھر ایک شوخی سی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔


"ماشاءاللہ آج تو ہماری قسمت جاگ اٹھی ہے اففف دل ناداں زرا تو سمبھل جا۔۔۔۔"


فلک کی شرارتی آواز سن کر ازمینہ مزید کنفیوز ہوئی۔


"مم۔۔۔۔۔مجھے آپسے ب۔۔۔۔بات کرنی ہے۔۔۔۔"


ازمینہ نے کانپتی آواز میں کہا۔


"تو سنائے نہ ہم تو صرف آپ کو سننا چاہتے ہیں۔"


ازمینہ نے بے بسی سے ہاتھ کو دیکھا اتنی بڑی بات فون پر کیسے کہہ دیتی۔


" فون پر نہیں بتا سکتی کیا ہم کہیں مل نہیں سکتے اکیلے میں؟"


اس کی اس بات پر دوسری طرف بالکل خاموشی چھا گئی۔


"ٹھیک ہے ہم ضرور ملیں گے اگر آپ کی یہی خواہش ہے یہ خواہش ضرور پوری ہوگی۔"


فلک کی بات پر ازمینہ میں ہلکے سے شکریہ کہا اور فون بند کر دیا وہ جانتی تھی کہ وہ بہت بڑا قدم اٹھانے جا رہی ہے مگر اس کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی تھی کہ وہ اتنا بڑا سچ چھپاتی مگر دیکھنے کی بات تو یہ تھی کہ کیا مقابل میں اتنی ہمت تھی کہ وہ سچ برداشت کرتا۔

💕💕💕

وہ لوگ شام ہوتے تک حویلی پہنچ چکے تھے وہاں کافی سارے انجان لوگوں کو دیکھ کر پری کافی گھبرا گئی تھی اسی لئے اس کشادہ عمارت میں داخل ہونے سے پہلے ہی حسب عادت میر داد کے بازو سے چپک گئی۔


شاہ میر نے گہری نگاہوں سے پری کی اس حرکت کو دیکھا اور پھر غصے سے اندر کی طرف چل دئے۔میرداد بھی پری کو لے کر حویلی میں داخل ہوا۔


میر شاہ نے سب کو میر داد کی آمد کی خبر کی تھی شائید اسی وجہ سے سب ہال میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔


"مم۔۔۔۔میر۔۔۔۔"


پری نے جب سب کو اپنی طرف گھورتا پایا تو سہم کر میر داد کی پیچھے چھپ گئی۔وہاں موجود سب لوگ اس لڑکی کو غصے اور نفرت سے دیکھ رہے تھے۔


"کون ہے یہ میر داد اور کیوں لائے ہو اسے تم یہاں؟"


سوال کلیم صاحب کی طرف سے آیا جب کہ جواب میں میر داد نے انہیں گھوری سے نوازا تھا۔


"یہ میری بیوی ہے چچا اور اس حویلی کی نئی سردارنی۔"


اپنے الفاظ سے میر داد نے سب پر بم پھوڑا۔کشمالہ کو تو لگ رہا تھا کہ اس کی دھڑکنیں تھم جائیں گی۔اگر اس کا بس چلتا تو اس لڑکی کی سب کے سامنے ہی جان لے لیتی۔


"یہ کیا کہہ رہے ہو میر داد عالم تمہاری بیوی اس خاندان کی کوئی لڑکی ہو گی، ایک رند۔ کسی بھی لڑکی کو اٹھا کر تم اس تخت پر نہیں بٹھا سکتے ۔"


کلیم کی بات پر میرداد نے پریسا سے اپنا بازو چھڑا لیا اور چلتا ہوا آ کر کلیم کے بالکل سامنے کھڑا ہوا۔


"اچھا! اور ایسا کرنے سے مجھے کون روکے گا آپ؟"


ایک طنزیہ سے مسکان نے میرداد کے لبوں کو چھوا ۔


"میرداد عالم اپنی مرضی کا مالک ہے آپ تو کیا کوئی بھی اسے اس کی چاہت پانے سے نہیں روک سکتا اور پری تو میرداد کا عشق اور جنون ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں۔"


میرداد ایک آخری نگاہ کلیم پر ڈال کر واپس جانے کے لیے مڑا اور پھر رک کر اس نے دوبارہ کلیم کو دیکھا ۔


"اور ہاں میری پری کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچنا بھی مت کیونکہ اسے ایک خراش بھی آئی نا تو اس حویلی کی درو دیوار دہلا دوں گا ۔"


میر داد نے انہیں وارن کر کے پری کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے کمرے میں لے جانے لگا۔مگر سامنے ہی حورم کو کھڑے دیکھا جس نے میر داد کو دیکھتے ہی اپنا منہ بنایا اور اپنے کمرے میں جا کر دروازا زور سے بند کر دیا۔میر داد نے اسکے غصے پر مسکرا کر پری کو اپنے کمرے میں چھوڑا اور خود حورم کے کمرے کے باہر کھڑا ہو گیا۔


"بھائی کی جان۔"


میر داد نے بہت پیار سے پکارا لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا میر داد نے گہرا سانس لیا۔


"اتنا ناراض ہو کہ بات بھی نہیں کرو گی؟"


میر داد کے اس سوال پر بھی کوئی جواب نہیں آیا۔


"بھائی کی جان۔۔۔"


"مر گئی بھائی کی جان۔"


اچانک ہی اندر سے آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی آواز باہر آئی۔میر داد نے سختی سے اپنی مٹھیاں بھینچیں۔


"حور دروازا کھولو ابھی کے ابھی۔"


میر داد کے سختی سے کہنے پر کچھ دیر تو خاموشی چھائی رہی پھر کچھ دیر بعد نے دروازہ کھولا اور سر جھکا کر میرداد کے سامنے کھڑی ہو گئی۔


"خبردار آئندہ تم نے ایسی بات اپنے منہ سے بھی نکالی تو ۔۔۔۔"


میر داد کہ انتہائی غصے سے کہنے پر حورم ایک پل کو سہم گی پھر اچانک ہی اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔میرداد پریشانی سے اسے دیکھنے لگا ۔


"حور کیا ۔۔۔۔؟؟"


"آپ نہیں آئے نا بھائی ہم بہت اداس ہو گئے تھے،بہت زیادہ اکیلا، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم سے کوئی پیار ہی نہیں کرتا اور آپ نے ہمارے بنا شادی کر کے یہ ثابت کر دیا۔"


حورم نے روتے ہوئے کہا تو میر داد نے بہت نرمی سے اسے کندھوں سے پکڑ کر خود سے جدا کیا۔


"معاف کر دو بھائی کی جان غلطی ہوگئی مگر اب دیکھو میں آگیا ہوں۔تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جانے والا اور رہی میری شادی کی بات تو یہ گلا بھی جلد ہی ختم کر دوں گا۔"


میر داد کے بہت نرمی اور محبت سے کہنے پر حورم نے اپنے آنسو پونچھے۔


"لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم آپ سے ناراض نہیں ہم آپ سے بہت زیادہ ناراض ہیں۔"


حورم کے منہ بنا کر کہنے پر میرداد مسکرا دیا۔


"ٹھیک ہے ناراضگی تو مجھ سے ہے اپنی بھابھی سے تو نہیں اس سے بھی نہیں ملو گی کیا؟"


میر داد نے شرارت سے پوچھا۔حورم نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اپنے آنسو پونچھے۔


"ملوں گی نا اور آپ کی بہت سے شکایتیں بھی لگاؤ گی"


میر داد نے حورم کی بات قہقہہ لگایا اور اسے لے کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

💕💕💕

جہانزیب خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھا حورم کے بارے میں سوچ رہا تھا۔چند دن رہ گئے تھے اسکی شادی میں اور اس کے بعد اس نے ہمیشہ کے لئے یہاں سے چلے جانا تھا۔اس سے دور بہت دور ۔۔۔۔کسی اور کی ہو جانا تھا۔


ابھی تک تو وہ خود کو بہت مضبوط کرتا آیا تھا اپنے احساسات کو دل کے ایک ہونے میں قید کر کے رکھا تھا لیکن اب اس کی بس ہو چکی تھی۔آخر اسکی قسمت ہی ایسی کیوں تھی جسے بھی اس نے چاہا وہ ہی اس چھن گیا۔


"جہان۔۔۔۔"


میر داد کی آواز پر جہانزیب نے جلدی سے اپنی نم آنکھیں صاف کیں اور مڑ کر اسے دیکھا۔


"جی واجہ۔۔۔۔"


جہانزیب نے مسکرا کر پوچھا مگر میر داد اسے ایسی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جو جہانزیب کے اندر تک جا رہی تھیں۔


"کیا سب ٹھیک ہے جہاں زیب؟"


میر داد کے سوال پر جہانزیب نے ہاں میں سر ہلایا تو میر داد نے اسکے قریب آ کر اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔


"کوئی پریشانی ہے تو تم مجھے بتا سکتے ہو."


جہانزیب نے انکار میں سر ہلایا۔


"سب ٹھیک ہے واجہ بلکہ ایسے کہیں کہ سب بہت اچھا ہے حورم سائیں کی شادی ایک بہت اچھے انسان سے ہو رہی ہے وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ خوش رہیں گی اور اس سے بڑی خوشی بھی بڑھ کر کوئی ہو سکتی ہے؟"


میر داد نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا ۔


"مجھے۔۔۔۔ معاف کر دو جہان میں تم سے بہت زیادہ بدتمیزی سے پیش آیا تھا۔"


میر داد کی بات پر جہانزیب نے اسے آنکھیں بڑی کر کے دیکھا۔


"یہ بھی کانوں سے کیسی گستاخی ہو گئی سردار میر داد عالم رند کے منہ سے معافی کا لفظ؟"


اس کی اس بات پر میر داد قہقہ لگائے بغیر نہ رہ سکا جبکہ اس کو ہنستا دیکھ جہانزیب مسکرایا۔


"بولا تھا نہ کہ شادی کر لو میر داد تمہاری زندگی میں خوشیاں جائیں آ گی اور دیکھو ویسا ہی ہوا۔"


جہانزیب نے شرارت سے کہا تو میرداد مسکرا دیا۔


"یہ خوشی اپنی محبت کو پا لینے کی ہے جہان پتہ ہے جب کوئی محبت کو پا لیتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس نے پوری دنیا کو فتح کرلیا، ہر خوشی اس کے آنگن کی غلام ہو گئی ہے، دنیا کی ہر شے اچھی لگنے لگتی ہے۔"


میر داد خواب کی سی کیفیت میں بولتا چلا گیا جبکہ اسے دیکھ کر جہانزیب کی آنکھوں میں رشک آیا۔


"اور تم جانتے ہو میر داد محبت کو کھو دینا کیا ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ کوئی آپ سے آپ کی سانسیں لے جا رہا ہے اور اب بس خاموش تماشائی بنے کھڑے آپ کا سب کچھ لٹ رہا ہے اور آپ بس خاموشی سے کھڑے اپنی دنیا اجڑتے دیکھ رہے ہو۔۔۔"


جہانزیب نے ایسا کہتے ہوئے اپنا غم چھپانے کی کوشش کی لیکن اس کی باتوں سے میر داد اس کے غم اور کرب کا اندازہ لگا چکا تھا ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی اندازہ لگا چکا تھا کہ یہ غم ماہ گل کا نہیں بلکہ کسی اور کا تھا۔


"مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے جہان۔۔۔"


جہانزیب نے سوالیہ نظروں سے میر داد کو دیکھا۔میر داد نے گہرا سانس لیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ جو بات کرنے جا رہا تھا جہانزیب کے لیے سب سے زیادہ نا گوار تھی۔


"ابراہیم شاہ نے مجھ سے رابطہ کیا وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔"


ابراہیم شاہ کے نام پر ہی جہانزیب نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"لیکن مجھے اس شخص سے نہیں ملنا۔"


میر داد نے گہرا سانس لیا۔


"جہان وہ کافی زیادہ بیمار ہیں اور پچھتا۔۔۔۔"


"اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں واجہ اب کچھ ختم کر دیا اس نے مجھے تو حیرت سے کہ آپ اس شخص کا کیا دھرا بھول چکے ہیں؟"


جہانزیب نے غصے سے پوچھا۔


"جہان اس الزام کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا تو تم کیسے اتنے یقین سے۔۔۔۔"


"کیونکہ میری آنکھوں کے سامنے اس شخص نے عالم بابا کو مارنے کی دھمکی دی تھی اور جو اس نے کہا کر دیکھایا۔۔۔۔"


جہانزیب نے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔مید داد کو اندازہ ہو رہا تھا کہ اس وقت وہ بہت زیادہ غصے میں ہے۔


"لیکن جہان وہ تمہارا ۔۔۔۔۔"


"مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی واجہ وہ شخص میرے لیے اس دنیا میں سب سے زیادہ قابل نفرت ہے۔۔۔۔"


جہانزیب اتنا کہہ کر رکا نہیں بلکہ وہاں سے چلا گیا۔جبکہ میر داد گہرا سانس لے کر رہ گیا۔وہ جانتا تھا کہ کچھ بھی ابراہیم شاہ کے لیے جہانزیب کی نفرت کو نہیں مٹا سکتا تھا۔

پری کو یہاں آئے ہوئے دو دن ہو گئے تھے اور اسے یہاں کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔یہاں تک کہ میرداد بھی یہاں آنے کے بعد اسے زیادہ وقت نہیں دے رہا تھا اور اس وجہ سے پری کا موڈ بہت زیادہ آف تھا۔یہاں کوئی بھی اس سے پیار سے پیش نہیں آتا تھا سوائے حورم کے جو اس کا بہت خیال رکھتی تھی ۔


ابھی بھی وہ اپنے کمرے سے حورم کے کمرے میں جا رہی تھی جب اچانک ایک لڑکی اس کے سامنے آئی۔پری نے اسے ایک دو دفعہ حویلی میں دیکھا تھا اور اسے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے یہ لڑکی بالکل بھی اچھی نہیں۔


"تو کیسی ہیں آپ سرادرنی صاحبہ؟ اپنی سردارنیوں والی زمہ داری کب پوری کرو گی؟"


کشمالہ نے اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔پری نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔


"ممم۔۔۔۔۔میں حور کے پاس۔۔۔"


"ارے اتنی آسانی سے کیسے جا سکتی ہیں آپ پہلے مجھے دیکھنے تو دیں کہ آپ میں ایسی بھی کیا بات ہے جو میر داد واجہ اپنے چند دنوں کی رونق کے لیے تمہیں یہاں اٹھا لائے ہیں۔"


کشمالہ نے پری ہو کر سر سے لے کر پیر تک دیکھا تھا جبکہ پری تو بس وہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی۔


"ہوں ۔۔۔۔تمہیں کیا لگا تم یہاں کی سردارنی بن کر راج کرو گی۔۔۔۔ارے یہاں کی سردارنی تو صرف واجہ کے خاندان کی کوئی لڑکی ہو سکتی ہے جو ہر لحاظ سے ان کی بیوی بننے کے لائک ہو تم تو بس چار دن کی رونق ہو جسے دل بھر جانے پر پرانے سامان کی طرح اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیا جائے گا۔"


کشمالہ کی باتوں کی وجہ سے پری کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں جنہیں دیکھ کر کشمالہ کو اپنے اندر سکون اترتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔


"تمہیں ایک راز کی بات بتاتی ہوں۔۔۔"


"کشمالہ آپی.۔۔۔۔ بھابی"


کشمالہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی پری کو بائیں طرف سے حورم کی آواز آئی تو وہ روتے ہوئے اس کے پاس چلی گئی۔پری کے آنسو دیکھ کر حورم نے کشمالہ کو گھورا۔


لیکن پری نے جلدی سے حورم کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے کمرے میں کھینچ لائی۔


"آپ کا کشمالہ آپی کی باتوں کا غصہ مت کرنا وہ ایسی ہی ہیں۔بچپن سے انہوں نے یہی سوچا تھا کہ بھائی کی شادی ان سے ہوگی لیکن یہ تو قسمت کا کھیل ہے ضروری تو نہیں نا کہ ہم جسے چاہیں اس کے ہی ہوں۔جب محبت قسمت میں ہی نہ ہو تو اس کی بھیک بھی مانگ لو تو وہ نہیں ملتی"


حورم ایک نکتے پر کھوئی بولتی ہی چلی گئی جبکہ پریسا تو اس کی آدھی باتیں سمجھ ہی نہیں سکی۔


"کیا میر بھی ان کو پسند کرتے ہیں؟"


پری نے گھبراتے ہوئے پوچھا حورم نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا۔


"بھائی کی آنکھوں میں جو محبت ہم نے آپ کیلئے دیکھی ہے وہ کبھی کسی کے لیے نہیں دیکھی۔آپ پریشان نہیں ہوں وہ سب سے زیادہ پیار آپ سے ہی کرتے ہیں۔"


حورم کی بات پر پری کے گال دہک اٹھے تو حورم اسے دیکھ کر ہنس دی۔


"آپ بہت پیاری ہیں۔۔۔۔"


حورم نے اس کے دہکتے ہوئے گال کو چھو کر کہا۔


"آپ بھی پیاری ہو حورم اور تمہاری بھی شادی ہو رہی ہے نا تو تمہارے۔۔۔۔ش۔۔۔شوہر کی آنکھوں میں بھی پیار ہو گا۔"


پریسا کی بات پر حورم کہیں کھو سی گئی۔


"تمہیں پتہ ہیں میں میر سے بہت پیار کرتی ہوں تم بھی اپنے شوہر سے پیار کرتی ہوں نا؟"


پریسا نے شرماتے ہوئے پوچھا تو حورم کے چہرے کی مسکان غائب ہوگی اور اس کی جگہ افسردگی نے لے لی۔


"میں نے پیار نہیں بھابھی میں نے عشق کیا ہے اور اس عشق میں میں نے اتنی عبادتیں کیں اور ان سب کے بدلے صرف ایک شخص کو مانگا اور اسے مانگتے مانگتے خدا کو بھی ناراض کر بیٹھی۔میں جانتی ہوں کہ اللہ مجھ سے ناراض ہیں کیونکہ لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں مگر میری دعا تو کیا خدا سے مانگی ہوئی بھیک بھی قبول نہیں ہوتی۔"


پریسا حورم کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر گھبرا گئی وہ اس کی قدر پیچیدہ بات کو نہیں سمجھ پائی تھی اور نہ ہی اس کے رونے کی وجہ کو لیکن اتنا ضرور سمجھ چکی تھی کہ اس کا غم بہت بڑا تھا۔

💕💕💕

پری کمرے میں منہ بنائے بیٹھی تھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی حورم اس کے پاس سے گئی تھی اور اب وہ پھر سے خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی میر داد تو یہاں آ کر اتنا مصروف ہو چکا تھا کہ پری کے سونے کے بعد کمرے میں آتا اور اس کے اٹھنے سے پہلے وہاں سے چلا بھی جاتا۔اس وجہ سے پری اس سے بہت زیادہ ناراض تھی۔


اچانک دروازہ کھلنے اور بند کی آواز پر کی پری اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور دروازے کی طرف دیکھا مگر وہاں میرداد کو کھڑے دیکھ کر پری کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔اسی لیے اس نے پاس پڑا تکیہ اٹھایا اور اسے پوری طاقت سے میرداد کو دے مارا۔


"ابھی بھی کیوں آئے ہیں آپ چلے جائیں۔"


پریسا کی اس حرکت اور غصے سے چلانے پر میر داد پہلے تو حیران ہوا اور پھر اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اپنی بیوی کو دیکھنے لگا۔


"یہ نیا طریقہ ہے کیا استقبال کرنے کا؟"


میرداد نے سینے پر ہاتھ باندھ کر پوچھا تو جواب میں پری نے دوسرا تکیا بھی پکڑ کر اس کو دے مارا۔


"بلکل اچھے نہیں ہیں آپ بات بھی مت کرنا مجھ سے۔"


پری نے منہ بسور کر کہا تو میرے داد مسکرا کر اس کے قریب آیا اور اسکی نازک کلائی پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا پریسا بھی کٹی ڈال کی طرح اس کے سینے سے آ لگی۔


"مس تو میں نے بھی تمہیں بہت کیا ہے اس لیے بہتر ہے ہم دونوں ہی بات نہیں کرتے تم اپنی ناراضگی مٹا لو اور میں اپنی اداسی مٹا لیتا ہوں۔"


میر داد معنی خیزی سے کہتا پری پر جھکنے لگا تو پری نے اپنا پورا زور لگا کر اسے خود سے دور کیا۔


"کیا ہوا جان تمہیں اپنی ناراضگی نہیں مٹانی؟"


میرداد نے پری کے دہکتے گال کو محبت سے سہلاتے ہوئے پوچھا اس کی آنکھوں میں جذبات کا سمندر امڈ رہا تھا جو کہ پری کی نگاہوں کو جھکنے پر مجبور کر رہا تھا۔


"نن۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔"


پری نے سے انکار میں سر ہلا کر کہا۔گھنی مونچھوں تلے کٹاؤ دار لب شرارت سے مسکرائے۔


"لیکن مجھے تو اپنی اداسی میں مٹانی ہے۔"


اتنا کہہ کر میرداد پری پر جھکتا چلا گیا اور اس کی بے باکیوں پر پری کی نازک جان مشکل میں آ گئی تھی۔

💕💕💕

سلمی خالہ نے حورم کو بہت سمجھایا تھا۔


انکا کہنا تھا کہ جہانزیب خود کو اسکے قابل نہیں سمجھتا۔وہ سمجھتا تھا کہ شہریار حورم کو بے تحاشا خوشیاں دے سکتا ہے جو اسے دینا جہانزیب کے بس میں نہیں۔مگر وہ نہیں سمجھتا تھا کہ حورم کو دولت یا وہ خوشیاں نہیں بس جہانزیب کا پیار چاہیے تھا۔


وہ رات کے کھانے کے بعد کچن میں اپنے لئے چائے بنا رہی تھی جب اچانک سلمی خالہ وہاں پر آئیں وہ کافی پریشان لگ رہی تھیں۔


"کیا ہوا خالہ سب ٹھیک ہے نا؟"


حورم نے پریشانی سے پوچھا۔


"جہانزیب بیٹا کو بہت زیادہ تیز بخار ہوا ہے بس انہیں کے لیے پانی لے کر جا رہی ہوں۔"


حورم کا دل مٹھی میں آیا تھا۔


"تو انہیں ہسپتال لے کر جائیں نا۔"


حورم نے بے چینی سے کہا تو سلمی خالہ مزید پریشان ہوگئیں۔


"انہیں کتنا کہا ہے بیٹا لیکن وہ کسی کی بات ہی نہیں مان رہے سوچ رہی تھی کہ واجہ کو بتاتی لیکن جہان بیٹا نے منع کر دیا۔۔۔۔"


انکی بات پر حورم مزید پریشان ہوئی۔


"تم فکر مت کرو میں اس کا خیال رکھتی ہوں۔"


سلمی خالہ تو اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھیں لیکن حورم کی جان مٹھی میں آئی تھی۔وہ کب سے اپنے کمرے میں آکر بے چینی سے چکر لگا رہی تھی۔


آدھی رات تک وہ کھڑکی میں کھڑے ہوکر جہانزیب کے کمرے کو دیکھتی رہی۔کچھ دیر بعد ہی سلمی خالہ وہاں سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔


حورم نے خود کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن محبت کی بے چینی اس پر حاوی ہو گئی۔


اس نے کمرے سے نکل کر دیکھا تو باہر کوئی بھی نہیں تھا وہ خاموشی سے چلتی ہوئی سیدھا جہانزیب کے کمرے کی طرف چلی گئی۔


کمرے میں داخل ہو کر حورم کی نظر جہانزیب پر پڑی جو وہاں پڑا نیند میں بھی اونگھ رہا تھا۔حورم نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے ماتھے پر رکھا جو کہ بخار کی شدت سے تپ رہا تھا۔


"زیب سائیں۔۔۔۔"


حورم نے آنکھوں میں آنسو لے کر اسے بہت محبت سے پکارا تو جہانزیب نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور بس دیکھتا ہی رہا۔


حورم نے جھک کر اپنا ہاتھ پھر سے اسکے ماتھے پر رکھا تو جہانزیب نے اسکی کلائی کو پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچا۔حورم اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے اسکے سینے پر گر گئی۔جہانزیب کی نظر اسکی پونی سے باہر آتی آوارہ لٹوں پر گئی۔ جب سے حورم بڑی ہوئی تھی وہ آج پہلی بار اسے دوپٹے کے بغیر دیکھ رہا تھا۔


"زیب سائیں۔۔۔"


حورم نے گھبرا کر اس پر سے اٹھنے کی کوشش کی تو جہانزیب نے ایک ہاتھ سے اسکی نازک کمر کو پکڑا اور دوسرا ہاتھ سے اسکی آوارہ لٹ کو پکڑ کر اسے اپنے قریب کھینچا۔


"تمہیں تھوڑا سا بھی اندازہ ہے حورم کہ تم مجھے کس قدر عزیز ہو؟ ایک چھوٹی سی ،بہت پیاری سی شہزادی جو مجھ سے محبت کا دعوی کرتی ہے۔"


جہانزیب اس کے حسین چہرے کو دیکھتا خواب کی سی کیفیت میں بولتا چلا گیا جب کہ حورم تو پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی جا رہی تھی۔


"تمہیں پتہ ہے حورم اگر میں تھوڑا سا بھی تمہارے قابل ہوتا نا تو اس دنیا سے چرا کے تمہیں اپنے اندر چھپا لیتا۔۔۔۔کاش میں تمہارے قابل ہوتا حورم کاش۔۔۔۔"


جہانزیب نے اتنا کہتے ہوئے حورم کو مزید کے قریب کیا اتنا کہ حورم اور اس کے درمیان بس ایک انچ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔اس کی اس قربت پر حورم نے گھبرا کر اس سے دور ہونا چاہا تو جہانزیب کی پکڑ مزید مظبوط ہو گئی۔


"زیب سائیں۔۔۔"


حورم کی سانسوں کی مہک اپنے ہونٹوں پر محسوس کر کے جہانزیب کو ہوش آیا تو اس نے ایک جھٹکے سے حورم کو خود سے دور کیا جیسے کہ اس کے لمس سے وہ جل گیا ہو۔


حورم نے دور ہوتے ہی خود کو سمبھالا اور جلدی سے دوپٹا اپنے سر پر لیا۔جہانزیب نے اٹھ کر حیرت سے اسے دیکھا۔


"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں حورم سائیں؟"


جہانزیب کے سوال پر حورم اپنے ہاتھ بے چینی سے مسلنے لگی۔


"وہ ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔ہم آ آ۔۔۔۔آپکو دیکھنے وہ آپکو بخار۔۔۔۔۔"


حورم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی جہانزیب جلدی سے اٹھا اور اس نے دروازے سے باہر جا کر ادھر ادھر دیکھا۔


"آپکو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا حورم سائیں اگر کسی نے دیکھ لیا آپ کی کس قدر بدنامی ہوگی جلدی سے یہاں سے چلی جائیں آپ۔۔۔۔"


حورم نے نم آنکھوں سے اپنے اس محبوب کو دیکھا جسے ہر چیز سے زیادہ اسکی آبرو پیاری تھی۔اگر اسے وہ اتنی ہی عزیز تھی تو اپنی محبت کو کیوں چھپاتا تھا۔کیوں حورم کے احساس کا مزاق اڑاتا تھا۔


"کیا آپ ہم سے محبت کرتے ہیں زیب سائیں؟"


حورم کے سوال پر جہانزیب نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہو گئی ہو۔


"نہیں حورم سائیں ویسی محبت نہیں کرتا جیسی آپ سمجھ رہی ہیں۔"


جہانزیب نے بے چینی سے کہا وہ چاہتا تھا کہ کسی کے آنے سے پہلے حورم وہاں سے چلی جائے۔


تو پھر وہ کیا تھا جو حورم نے کچھ دیر پہلے دیکھا تھا۔حورم نے خود سے ہی سوال کیا اور پھر اسکے قریب ہو کر اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنے سر پر رکھا


"قسم کھائیں۔۔۔۔زیب سائیں ہمارے سر کی قسم کھا کر کہیں کہ آپ ہم سے محبت نہیں کرتے۔"


حورم نے اسے نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا لیکن جہانزیب کے دل پر شاید کوئی قفل لگا تھا۔اسی لیے اس نے حورم کے سر سے ہاتھ ہٹا کر اسے اس کے کندھوں سے تھاما۔


"چلی جائیں یہاں سے حورم سائیں چلیں جائیں اس سے پہلے کہ غضب ہو جائے آپ کو اندازہ بھی ہے آپ کی کس قدر بدنامی ہو سکتی ہے پلیز جائیں یہاں سے۔۔۔۔"


جہانزیب نے باقاعدہ اسے دروازے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا لیکن حورم اپنی ضد پر قائم تھی۔


"پہلے کہیں کہ آپ ہم سے محبت نہیں کر۔۔۔۔"


"ہاں نہیں کرتا محبت بلکل بھی نہیں کرتا ۔۔۔۔میں محبت کرنے کے لائق ہی نہیں ہوں ۔۔۔۔"


اچانک ہی جہانزیب نے تیز آواز میں کہا تو حورم نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔


"خوش ہیں اب جان لیا آپ نے؟؟؟؟ جائیں یہاں سے حورم سائیں خدا کے لیے چلی جائیں۔۔۔۔"


اس بار جہانزیب نے بے بسی سے کہا تو حورم اسکے ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹائے اور اس سے دور ہو گئی۔


"جا رہے ہیں زیب سائیں اور اتنا سمجھ چکے ہیں کہ آپ ہمیں نہیں ملیں گے لیکن ایک بات بتا دیں آپ کو کہ ہم پھر بھی ہمیشہ اپنی ہر دعا میں صرف آپ کو ہی مانگتے رہیں گے تو کیا ہوا کہ ہم لاحاصل مانگ رہے ہیں۔"


اتنا کہہ کر حورم وہاں سے چلی گئی اور جہانزیب اپنے گھٹنوں پر بیٹھتا چلا گیا۔


ہم نے دھڑکن کر کے

دل تیرے دل سے جوڑ دیا

آنکھوں نے آنکھیں پڑھ پڑھ کے

تجھے ورد بنا کے یاد کیا

تجھے پیار کیا تو تو ہی بتا

ہم نے کیا کوئی جرم کیا

اب جرم کیا ہے تو بھی بتا

بے جرم کے جرم کی کیا ہے سزا

💕💕💕

رات کو اس کی پھر سے فلک سے بات ہوئی تھی اور اس نے اسے صبح فجر کے وقت گھر کی پچھلی طرف ملنے بلایا تھا۔


وہ ساری رات ازمینہ نے جس طرح سے گزاری تھی وہ ہی جانتی تھی۔دل بری طرح سے سہم رہا تھا من میں بس یہی خیال آتے تھے کہ اگر وہ اسے نہ سمجھا یا باقیوں کی طرح وہ بھی اسے ہی گنہگار ٹھہرا گیا تو؟


لیکن ازمینہ نے ان وسوسوں پر دھیان نہیں دیا اسے اپنے اعمال کا جواب دینا تھا کسی اور کے نہیں اور اتنا بڑا دھوکا دے کر وہ زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔


فجر کی نماز ادا کرتے ہی وہ چپکے سے گھر سے نکلی اور اپنے گھر کی پچھلی طرف آ کر فلک کا انتظار کرنے لگی۔دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینا چیر کر باہر آ جائے گا۔


کچھ دیر بعد ہی ازمینہ کو فلک وہاں آتا دکھائی دیا۔ازمینہ نے سچ بولنے کے لئے خود میں ہمت پیدا کی۔


"اسلام و علیکم کیسی ہو؟"


فلک نے خوشگوار آواز میں پوچھا تو ازمینہ نے ہمت کرتے ہوئے بولنا شروع کیا ۔اس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا اور اگر انہیں کوئی دیکھ لیتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔


"وعلیکم السلام مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔"


فلک نے مسکرا کر اسے دیکھا جس نے کل ہمیشہ کے لئے اسکی ہو جانا تھا۔


"جی کہیں میں تو آپ کو ہی سننا چاہتا ہوں ۔"


فلک نے شرارت سے کہا جبکہ ازمینہ نے آنکھیں بند کر کے خود میں ہمت پیدا کی۔


"وہ۔۔۔۔میں۔۔۔۔"


ازمینہ سے بولا نہیں جا رہا تھا آخر اتنی بڑی بات وہ یونہی کیسے کہہ دیتی۔


"جی جی کہیے۔۔۔۔"


فلک کی آواز پر ازمینہ نے ابھی آنکھیں بند کیں اور خدا سے سچ بولنے کی ہمت مانگی۔


"میں نے سوچا تھا کہ میں آپ کو یہ نہیں بتاؤں گی لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی میں اتنا بڑا سچ آپ سے چھپا کر یہ شادی نہیں کر سکتی."


"کیسا سچ۔۔۔؟


فلک نے پریشانی سے پوچھا اور تبھی ازمینہ کی ساری ہمت ختم ہوئی تھی۔


"مجھے وہ۔۔۔۔شاہ داد۔۔۔۔ایک دن سردار کا بھائی شاہ داد مجھے راستے سے اٹھا کر پرانی حویلی لے گیا۔۔۔۔۔"


کچھ ہی دیر میں ازمینہ نے روتے ہوئے اسے اپنی آپ بیتی سنائی تھی جسے سن کر ایسا لگ رہا تھا کہ فلک پتھر کا ہو چکا تھا۔اس نے ازمینہ کو کچھ بھی نہیں کہا بس بت بنا وہاں کھڑا تھا۔


"آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتی لیکن پھر بھی میں اپنی سچائی کے امتحان پر کھری اتری۔۔۔۔"


ازمینہ نے اپنے سامنے بت بنے انسان سے آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔


"پرسوں آپ کی محبت کا امتحان ہے فلک بلوچ یہ بھی دیکھیں گے کہ وہ کتنی سچی ہے ."


ازمینہ تو اپنی بات کہہ کر آنسو بہاتی وہاں سے چلی گئی تھی جب کہ وہ شخص ابھی بھی وہی پتھر کا بنا کھڑا تھا۔

💕💕💕

ازمینہ کو دلہن بنایا گیا تھا وہ خاموشی سے بیٹھی ہر طرف ہونے والی گہما گہمی کو دیکھ رہی تھی۔بارات آنے میں کچھ ہی وقت بچا تھا اور اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔نا جانے آج اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہونا تھا۔


"زیبائیں ازمینہ تم تو بہت خوبصورت لگ رہا ہے۔۔۔۔"


ازمینہ کی ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا جبکہ ازمینہ کو کسی بھی قسم کی تعریف سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔


کافی دیر وہ کمرے میں ہی بیٹھی اپنی سہیلیوں کی باتیں سنتی رہی تھی۔کچھ دیر بعد ہی اس کے ماں باپ پریشانی کے عالم میں اس کمرے میں داخل ہوئے۔


"تم فون کرو نا ان کو اتنا دیر کیوں لگ رہا ہے سب لوگ پوچھ رہا ہے پھر رات کو سب نے حویلی بھی تو جانا ہے نا سردار کا ولیمہ پہ۔"


صدف کی بات پر ارشاد نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا موبائل نکال کر سجاد کو فون کرنے لگا۔کافی دیر فون بجتا رہا لیکن کوئی اٹھا ہی نہیں رہا تھا۔اب تو ارشاد بھی کافی پریشان ہونے لگا۔


"پتہ نہیں کہاں رہ گیا ہے فون بھی نہیں اٹھا رہا۔۔۔۔۔"


ارشاد کی بات پر جہاں صدف مزید پریشان ہوئی تھی وہیں ازمینہ کو لگ رہا تھا کہ کسی نے اس کا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہے۔


"دوبارہ فون کرو اگر پھر بھی نہیں اٹھاتا تو جاکر پوچھ لو کہ سب ٹھیک تو ہے نا۔۔۔۔"


صدف کی بات پر ارشاد دوبارہ فون ملانے لگا لیکن اس بار سامنے سے فون اٹھا لیا گیا۔صدف نے ازمینہ کی سہیلیوں کو باہر جانے کا کہا تو وہ خاموشی سے چلی گئیں۔


"کہاں رہ گیا ہے تم لوگ سجاد اتنی دیر سے ہم انتظار کر رہا ہے۔"


ان کے فون اٹھاتے ہی ارشاد بولنا شروع ہوگیا لیکن انہوں نے نہ جانے ایسا کیا کہا تھا جسے سن کر موبائل ارشاد کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرا اور وہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔


"کیا ہوا تم کو۔۔۔؟کیا کہتا ہے سجاد بھائی۔۔۔؟"


صدف نے شوہر کے پاس جا کر گھبرا کر پوچھا جب کہ ارشاد تو ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی بے ہوش جائے گا۔


"وہ بارات لے کر نہیں آرہا ان کو ایسی لڑکی کو اپنی بہو نہیں بنانا جس کی آبرو۔۔۔۔"


ارشاد بس اتنا ہی بول پایا اور یہ سن کر ازمینہ کا کب سے زوروں سے دھڑکتا دل تقریباً بند ہوا تھا۔

💕💕💕

آج پری اور میر داد کا ولیمہ تھا اور ساتھ ہی ساتھ حورم کی مہندی۔بہت سے ملازمائیں پری کو تیار کرنے آئی تھیں۔


پری کا لہنگا گلابی رنگ کا تھا جس پر بلوچ طرز کے بھاری کام والی گولڈن کلر کی لونگ شرٹ تھی اور اسکے ساتھ بھاری کام والا گلابی دوپٹہ۔


پری وہ کپڑے پہن کر واش روم سے باہر آئی تو سب ملازماؤں نے رشک سے اسے دیکھا۔ان کے سردار کی پسند واقعی میں لاجواب تھی ۔سامنے کھڑی لڑکی ایک پری ہی تو تھی جو کسی بھی قسم کے بناؤ سنگھار کے بغیر ہی ایک حور لگ رہی تھی۔


"آج تک سب حور بی بی کو اس گاؤں کی سب سے خوبصورت لڑکی مانتا آیا ہے لیکن اب حور کے مقابلے پر ایک پری آ گیا ہے۔"


ایک ملازمہ نے ہنستے ہوئے شرارت سے کہا تو سب اس کی بات پر ہنس دیں۔


"نہیں حور زیادہ پیاری ہے اور اسکے بال بھی زیادہ پیارے ہیں۔"


پریسا کی اس بات پر سب مزید ہنسنے لگیں۔


"بی بی جی حور بی بی سے پوچھ کے دیکھو انہیں بلکل نہیں پسند اپنے بال۔"


پریسا انکی بات پر حیران ہوئی پھر اسی طرح وہ سب ہنستے کھلکھلاتے پریسا کو تیار کرنے لگیں ۔مناسب سے میک اپ کے بعد انہوں نے پریسا کو ملٹی کلر کی بھاری جیولری پہنائی اور ماتھے پر چوڑی ماتھا پٹی لگا کر پریسا کو دیکھا تو نظریں پلٹنا ہی بھول گئیں۔


"اف زیبائیں بی بی جی زیبائیں۔"


ایک ملازمہ نے دل سے تعریف کی جسکی تعریف کو پریسا سمجھ تو نہیں پائی تھی مگر پھر بھی دل سے مسکرا دی۔


تھوڑی دیر بعد ہی رخسانہ کشمالہ اور خوش بخت کے ساتھ پری کو لینے کے لئے آئیں۔انہیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انہیں یہاں زبردستی بھیجا گیا ہے۔کشمالہ تو پری کو دیکھتے ہی اسکے حسن سے جل گئی تھی۔


"چلو نیچے وہاں سب عورتیں گاؤں کی نئی سردارنی کو دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔"


رخسانہ بیگم نے بہت زیادہ بے رخی سے کہا۔حورم انکے ساتھ جانا تو نہیں چاہتی تھی۔اسے ان سے بہت زیادہ ڈر لگ رہا تھا مگر کیا کرتی یہ سب کرنا اسکی مجبوری تھی۔


اس لیے خاموشی سے اٹھ کر انکے ساتھ چل دی۔حویلی کے وصیح صحن میں ٹینٹ لگا کر سارا بندوبست کیا گیا تھا۔پردے کی غرض سے مردوں اور عورتوں کی محفل بلکل علیحدہ رکھی گئی تھی ۔


پری جہاں جہاں سے گزر رہی تھی عورتیں اسے بہت پر شوق نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔سب میر داد کی پسند کی داد دے رہے تھے۔


سٹیج کے پاس پہنچ کر پری نے سٹیج پر دیکھا تو وہاں پیلے لباس میں ایک لڑکی لال رنگ کے کپڑے سے چہرہ چھپائے بیٹھی تھی۔ پری پہلے تو گھبرائی پھر حورم نے وہ کپڑا ہلکا سا ہٹا کر اسے دیکھا تو پری اطمینان سے مسکرا دی۔


محفل کافی دیر تک چلتی رہی جس میں بہت طرح کی رسمیں ہوئیں۔


سب عورتیں خوش نظر آ رہی تھیں سوائے گھر کی ہی عورتوں کے۔فنکشن ختم ہونے کے بعد پری کو کچھ لڑکیاں وہاں سے اٹھانے کے لیے آگے بڑھیں پری نے اترنے کے لئے جیسے ہی آخری سیڑھی پر پیر رکھا وہ سیڑھی ٹوٹ گئی اور پری لڑکھڑا کر گرنے کو تھی جب اچانک ہی کسی نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا۔


پری نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو وہ زمان تھا جو اسے سہارا دے کر مسکرا دیا تو جواب میں پری بھی مسکرا دی۔اس نے پری کو ٹکٹسیدھا کیا۔لیکن تبھی اچانک رخسانہ آگے بڑھیں اور زمان کو کھینچ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔


"آوئے لڑکا تم یہاں کیا کر رہا ہے؟آدمیوں کا یہاں آنا منع ہے آئی سمجھ اور کیسے تم نے ہماری بہو کو چھوا؟ اور تم بے حیا لڑکی کیسے اسکی باہوں میں جا کر مسکرا رہا تھا شرم نہیں آتا تمہیں۔"


رخسانہ نے پہلے زمان اور پھر پری پر الزام لگانا شروع کر دیے تو زمان نے گھبرا کر اپنا سر جھکا لیا۔


" من ماپی لوٹئگ بی بی۔۔۔۔(مجھے معاف کر دیں بی بی)


"چُپى۔۔وہ تمہارا سردار کا بیوی ہے اور اتنے گھٹیا ہو کے اپنے سردار کا بیوی۔۔۔"


رخسانہ بیگم اسکی بات کاٹ کر چلائیں جبکہ پری تو بس احساس تذلیل سے روئے چلی جا رہی تھی۔اسکا دل کر رہا تھا کہ بس وہ یہاں سے غائب ہو جائے۔


"کیا ہو رہا ہے یہاں؟"


میر داد کی گرجدار آواز پر سب عورتیں خاموش ہو گئی تھیں لیکن رخسانہ بیگم تو بس ایک موقع ملا تھا جسے وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھیں۔


"واجہ دیکھو تمہارا بیوی تمہارے ہی غلام کے ساتھ سب کے سامنے اتنی بے شرمی سے یارنا۔۔۔۔۔"


"بس۔۔۔۔"


میر داد نے ہاتھ اٹھا کر انکی بات کاٹی تو رخسانہ بیگم فوراً خاموش ہو گئیں۔میر داد چل کر پری کے پاس آیا جو اب ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔


"حورم اپنی بھابی کو کمرے میں لے کر جاؤ ابھی."


حورم نے اثبات میں سر ہلایا اور پری کو لے کر وہاں سے چلی گئی۔میر داد نے گہری نگاہوں سے رخسانہ کو دیکھا۔


"اگر آپ ہماری اپنی نہیں ہوتیں نا تو اپنی بیوی کے بارے میں اتنی گھٹیا بات کہنے پر ہم آپکی زبان ہی کاٹ دیتے۔"


میر داد نے انتہائی سفاکی سے کہا۔رخسانہ بیگم حیران ہو کر اسے دیکھنے لگیں۔غیرت کی خاطر مر مٹنے والا میر داد آخر ایسا کیوں کہہ رہا تھا؟


"میر داد وہ۔۔۔۔"


" چُپ کنئگ ۔۔۔۔۔ من باورکنئگ زمان گيشتر من وت ( چپ کریں میں زمان پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ کرتا ہوں۔)


میر داد نے چلا کر بلوچی میں کہا تا کہ سب کو یہ بات پتہ لگ جائے۔سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔


"اور میری پری میرا عشق ہے۔وہ میرا مان اور غرور ہے خود سے زیادہ اس پر بھروسہ کرتا ہے میر داد۔تم تو کیا آسمان سے کوئی فرشتہ بھی اتر کر میری پری کے بارے میں کچھ کہے تو میں اسکا بھی یقین نا کروں۔"


میر داد اتنا کہہ کر باقی کی عورتوں کی طرف مڑا۔سب نے اپنا سر جھکایا۔


" آ شمئے سروگ ءِ نون . آئی کنئگ ءِ بےعزت منی بےعزت کنئگ گڑا بوئگ دل گوش . "


(وہ اب سے تم سب کی سردار ہے اسکی بے عزتی میری بے عزتی ہے اس لئے محتاط رہنا)


میر داد نے سب عورتوں سے کہا جو کہ سر جھکائے کھڑی تھیں پھر اسکی نظر کونے میں کھڑی کشمالہ پر پڑی جو اپنے دانت پیس رہی تھی۔


"اور یہی اصول میرے گھر والوں کے لیے بھی ہے۔"


میر داد نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھ کر کہا اور وہاں سے چل دیا جب کہ اس کے جاتے ہی کشمالہ نے غصے سے پاس پڑی کرسی کو زمین پر پھینک دیا۔


اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اپنا خواب چھیننے والی کو وہ کبھی خوش نہیں رہنے دے گی۔

💕💕💕

میر داد کمرے میں آیا تو اسکی پہلی نظر اپنی بیوی پر پڑی جو کہ بیڈ پر الٹا لیٹے بری طرح سے رونے میں مصروف تھی۔


میر داد اس کے پاس آیا اور اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تو اس کا لمس محسوس کر کے پری جلدی سے مڑی اور اس کے سینے سے لپٹ گئی۔


"ممم۔۔۔۔۔میر میں گرنے لگی۔۔۔۔تو ۔۔۔۔مان بھائی نے مجھے پکڑا۔۔۔۔میر وہ ۔۔۔۔"


پریسا پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی میر داد نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر ہاتھوں کے پیالے میں تھام لیا اور بہت نرمی سے اسکے آنسو پونچھے۔


"ششششش میری جان بس ۔۔۔۔میں نے کچھ کہا تم سے؟مجھے تم سے جتنا عشق ہے میری جان اتنا ہی میں تم پر بھروسہ بھی کرتا ہوں۔"


میر داد نے اسکے آنسوؤں کو اپنے ہونٹوں سے چنتے ہوئے کہا ۔


"آآآ۔۔۔۔آپ نے ممم۔۔مان بھائی کو ڈانٹا کیا؟"


پری نے آنکھیں بڑی کر کے معصومیت سے پوچھا تو جواب میں میر داد نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا اس کے ایسا کرتے ہی پری اسکے سینے سے لگی۔میر داد نے اسکے گرد اپنا گھیرا تنگ کیا۔


"مم۔۔۔۔مجھے لگا آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔"


میر داد نے اسکا اچانک ہی اسکو پیچھے گردن سے پکڑ کر اسکا چہرہ اوپر کیا اور اسے غصے سے گھورنے لگا۔


"بولا تھا نا جان کہ چھوڑنے یا دور جانے کی بات کبھی بھی ان ہونٹوں پر نہ آئے۔تم سے ایک پل کے لیے بھی دور ہو کر سانسیں تھم جاتی ہیں میر داد کی اور تم چھوڑنے کی بات کرتی ہو؟ میں تمہیں کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا پری اگر کبھی تم نے ایسا کرنے کا کہا تب بھی نہیں قید کر لوں گا میں تمہیں ،چھپا لوں گا اس جہان سے۔"


میر داد اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جنون سے بولتا ہی چلا گیا پری نے اسکی بولتی آنکھوں سے گھبرا کر اپنی نظریں جھکائیں اور اسکی گرفت میں سٹپٹانے لگی ۔


"مم۔۔۔مجھے جانا ہے۔۔۔"


یہ کہہ کر پری بہت بڑی غلطی کر بیٹھی تھی تبھی میر داد بہت زیادہ جنونی انداز میں اسکے ہونٹوں پر جھکا اور اسکی سانسوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔


اسکے لمس میں اس قدر جنون تھا کہ پری اسکی باہوں میں تڑپ ہی گئی تھی۔اسے لگنے لگا تھا کہ وہ سانس ہی نہیں لے پائے گی۔


نا جانے کتنی ہی دیر بعد میر داد نے اسے چھوڑا تو گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے اپنی دھڑکنیں ہموار کرنے لگی۔


"یہ ان ہونٹوں کی سزا تھی دور جانے کی بات کرنے کی تو سوچو پری اگر کبھی تم نے دور جانے کی کوشش کی تو میں کیا کر گزروں گا۔"


میر داد کی انگلیاں پری کی کمر میں پیوست ہو گئیں تو وہ گھبرا گئی آج پہلی مرتبہ اسے اپنے میر سے ڈر لگ رہا تھا۔


میر داد نے اسے بیڈ پر لیٹایا تو پری نے اٹھنے کی کوشش کی جو میر داد کی گھوری پر ختم ہو گئی۔


"ممم۔۔۔۔میر۔۔۔۔"


"آج خود کو مظبوط کر لو مہر میر کیونکہ آج میرا رحم کھانے کا کوئی ارادہ نہیں۔"


میر داد نے اس کے خوبصورت سراپے پر جھکتے ہوئے کہا۔پری کی کوئی کوشش کوئی مزاحمت کام نہیں آئی تھی۔میر داد کے شدتوں کے سامنے وہ بہت آسانی سے ہار مان گئی تھی۔

💕💕💕

رات گہری ہو چکی تھی۔سب مہمان وہاں سے جا چکے تھے اور صدف کب سے صحن میں بیٹھ کر روتی جا رہی تھی۔جبکہ ارشاد کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں نکلا تھا۔


"کیا ملا۔۔۔۔۔بول کیا ملا تجھے یہ کر کے ؟؟ ہماری عزت کا جنازہ نکال کے خوش ہے تم؟"


صدف نے سامنے کھڑی ازمینہ کو دیکھ کر چلاتے ہوئے کہا جب کہ ازمینہ تو بس ایک بت بنی کھڑی تھی۔


"بول کیوں بتایا تو نے انہیں سب کیا مل گیا تجھے۔۔۔۔"


صدف نے ازمینہ کے قریب آ کر اسے کندھوں سے جھنجھوڑ کر پوچھا ازمینہ نے مردہ آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھا ۔


"اماں میرا ضمیر نہیں گوارہ کر رہا تھا جھوٹ بولنا اس لیے میں نے سچ۔۔۔۔۔"


"اور دیکھ اپنے سچ بولنے کا نتیجہ۔۔۔۔تیرا سچ آج ہماری عزتوں کا جنازہ نکال گیا کاش تو پیدا ہوتے ہی مر جاتا مینہ کاش ۔۔۔۔"


صدف نے جھٹکے سے ازمینہ کو چھوڑا اور پھر سے فرش پر بیٹھ کر رونے لگی۔ازمینہ ہمت کرکے ارشاد کے قریب گئی۔


"ابا۔۔۔۔تم نے ہی تو مجھ کو سیکھایا تھا نا کہ ہمیشہ سچ بولو تو بتاؤ ابا کیا میں غلط ہوں؟"


ازمینہ نے زاروقطار روتے ہوئے سوال کیا تو ارشاد نے کب سے جھکا ہوا سر اٹھا کر اسے خالی آنکھوں سے دیکھا۔


"ہاں۔۔۔۔ہاں تم غلط ہے مینہ ۔۔۔۔تم غلط ہے کیونکہ آج تمہارا اس سچ نے تمہارے باپ کو مار دیا۔۔۔۔"


ازمینہ نے تڑپ کر اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھوں رکھے اور زور زور سے انکار میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔


"ابا میری بات۔۔۔۔۔"


"تمہاری ماں صحیح کہتا ہے کاش تم پیدا ہی نہ ہوتا مینہ تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔۔۔۔"


عظمینہ نے اپنے ہاتھ ارشاد کے ہاتھوں پر سے ہٹائے تھے اس کا باپ کی تو اس کی ہمت تھا اس کی طاقت تھا اور اب اس کی وہ ہمت ہی ختم ہو گئی تھی۔


وہاں سے اٹھ کر مردہ قدموں سے چلتی ہوئی گھر کی چھت پر آئی اور وہاں فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔


تبھی اس کی نظر سامنے موجود سردار کی حویلی پر پڑی جہاں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ،ہر طرف شور اور روشنیاں۔


آخر ایسا کیوں تھا مظلوم کے گھر اندھیرا اور ظالم کے گھر خوشیوں کے چراغ کیوں جل رہے تھے۔دنیا میں یہ ناانصافی کیوں تھی آخر کیوں۔


"کیوں۔۔۔۔۔یا اللہ کیوں۔۔۔۔گناہ اسکا تھا سزا مجھے کیوں۔۔۔اسکے گھر خوشیاں اور میرے گھر ماتم کیوں۔۔۔۔کیوں یا اللہ کیوں۔۔"


حویلی سے اٹھنے والی روشنیوں کو آسمان کی طرف جاتا دیکھ ازمینہ چیخ اٹھی تھی۔وہ آہیں اس کی زبان سے نہیں اس کے دل سے نکل رہی تھیں۔


"کیوں۔۔۔۔۔"


ازمینہ کی کرب ناک چیخیں پورے گاؤں میں گونج رہی تھیں لیکن خوشیوں کے شور میں ڈوبی اس حویلی تک وہ چیخیں نہیں پہنچ پائیں۔


لیکن خوشیوں میں ڈوبے وہ حویلی کے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ مظلوم کی آہ عرش تک ہلا دیتی ہے اور آج وہ آہ عرش معلیٰ تک پہنچ گئی تھی۔

💕💕💕

ارشاد ساری رات ایک پل کے لئے بھی نہیں سویا وہ صرف اس چیز سے واقف تھا کہ اس کے کمرے میں آ کر لیٹنے کے بعد ازمینہ وہاں آئی تھی اور فرش پر بیٹھ کر ساری رات اس کے پیر پکڑ کر روتی رہی تھی۔


بہت دفعہ اس کے دل میں آیا تھا کہ اٹھ کر اپنی بیٹی کو خود کے سینے سے لگا لے اس کا درد کم کر دے مگر مجروح ہوئی عزت ایک بیٹی کے پیار پر حاوی ہو گئی تھی۔


فجر کے وقت ازمینہ نے اپنے ہونٹ ارشاد کے پیروں پر رکھے تو ان ہونٹوں کے لمس کے ساتھ بہت سے آنسو بھی ارشاد نے اپنے پیروں پر گرتے محسوس کیے لیکن مجروح ہوئی عزت کا وہ جن بہت طاقتور تھا۔


ارشاد نے اپنی آنکھیں موند لیں وہ ابھی تک ازمینہ کا سر اپنے پیروں پر محسوس کر سکتا تھا لیکن اب ازمینہ رونا بند کر چکی تھی۔


"ابا۔۔۔"


ارشاد کو اپنے کانوں نہیں بلکہ اپنے دل میں ازمینہ کی آواز سنائی دی۔ساتھ ہی ایک بے چینی سی پیدا ہوئی تھی اس کے دل میں۔


ارشاد اٹھا اور ازمینہ کو دیکھا جو ابھی بھی اسکے پیروں پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے تھی۔ارشاد کو بے ساختہ اپنی بچی کے حال پر رحم آیا۔اپنی بیٹیوں میں سب سے زیادہ پیار وہ ازمینہ سے ہی کرتا تھا۔


"مینہ۔۔۔۔"


ارشاد نے بہت محبت سے ازمینہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ جو بھی ہوا وہ سب بھول کر اپنی بیوی بچوں کو وہ یہاں سے دور لے جائے گا ۔


"مینہ میری۔۔۔۔"


ارشاد نے اسے ہلا کر جگانا چاہا تو اسکے چھونے پر ازمینہ زمین پر گر گئی۔ارشاد نے جلدی سے اٹھ کر ازمینہ کو تھاما اور اسے زور زور سے ہلانے لگا۔


"مینہ۔۔۔۔۔میرا بیٹا۔۔۔۔"


ارشاد بے چینی سے ازمینہ کو جھنجھوڑ رہا تھا لیکن ازمینہ کا پورا وجود ساکت تھا۔کانپتے ہاتھ سے ارشاد نے ازمینہ کی دھڑکن محسوس کرنا چاہی لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔دل،دھڑکن،سانسیں سب ساکت تھے بہت بہت ساکت۔


"مینہ۔۔۔۔۔۔"


ارشاد کی اس دردناک چیخ سے پورا گاؤں دہل گیا۔۔۔۔۔

میر داد صبح فجر کی نماز کے بعد سے ہی کام پر لگا تھا آخر آج اس کی جان سے بھی زیادہ پیاری بہن کی شادی تھی۔ہر چیز کا پرفیکٹ ہونا بہت زیادہ ضروری تھا۔


"جہانزیب سجاوٹ اور مہمانوں کی دیکھ بھال تمہاری نگرانی میں ہونی چاہیے میں اس معاملے میں کسی اور پر بھروسہ نہیں کرتا۔"


میر داد نے جہانزیب کو سمجھایا تو جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا میر داد مسکرا کر شاہ داد کی طرف مڑا۔


"شاہ تم استقبال میں رہو اور ملازموں کی نگرانی کرنا۔"


"بے فکر رہیں بھائی۔۔۔۔"


میر داد اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


"تمہارا شکریہ شاہ کہ میرے کہنے پر تم پری کہ سامنے نہیں آتے اور اپنے ہی گھر میں محتاط رہتے ہو۔"


شاہ داد مسکرا دیا۔


"کوئی بات نہیں بھائی آپ کے لیے کچھ بھی اب وہ لڑکی آپکی دل لگی ہے تو ٹھیک ہے بس یونہی خوش رہیں آپ۔۔۔۔"


شاہ داد نے شرارت سے کہا اس سے پہلے کہ میر داد اسے کچھ کہتا زمان کافی پریشانی کے عالم میں وہاں آیا۔


"واجہ آپسے بات کرنی ہے۔۔۔۔"


زمان نے عقیدت سے ہاتھ باندھ کر کہا تو میر داد نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"واجہ ہمارے گاؤں کا آدمی ہے ارشاد بلوچ آج صبح ہی اسکی جوان بیٹی کی موت ہو گئی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اچانک اسکا دل بند ہو گیا۔"


شاہ داد کا ارشاد بلوچ کے نام پر ہی رنگ اڑ گیا ایک خوف سا اسکے اندر آیا۔وہ لڑکی کیسے مر گئی اسکی تو کل شادی تھی نا۔۔۔شاہ داد نے پریشانی سے سوچا۔میر داد نے انا للہ پڑھا اور جہانزیب کی طرف مڑا۔۔۔۔


"جہان تم سب سمبھال لوگے نا میرا وہاں جانا بھی ضروری ہے لیکن میں جلد ہی واپس آ جاؤں گا۔"


جہانزیب نے میر داد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہاں میں سر ہلایا تو میر داد زمان کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔


زمان اور میر داد اس گھر میں پہنچے جہاں پر کہرام مچا تھا میر داد نے ایک نظر اس بوڑھے آدمی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں لال رنگ کا دوپٹا تھا اور وہاں بت بنا بیٹھا تھا۔


میر داد نے آگے ہو کر اسے حوصلہ دینا چاہا لیکن تب بھی اس کے ذہن میں ایک بات آئی۔


"زمان اس کی بیٹی کی تو کل شادی نہیں تھی ؟"


میر داد کے سوال پر زمان نے ہاں میں سر ہلایا۔


"جی واجہ لیکن نہ جانے کیوں اس کی بارات ہی نہیں آئی شاید اسی صدمے سے اسکا دل بند ہوا۔۔۔۔"


میر داد کی آنکھوں کے سامنے آٹھ سال پہلے کا منظر دوڑا۔دلہن بنی لڑکی کی لاش اس کی آنکھوں کے سامنے آئی تو میر داد کرب سے اپنی آنکھیں بھینچتا وہاں سے چلا گیا۔


آج پہلی بار وہ اپنے کسی گاؤں کے آدمی کے غم میں شریک نہیں ہوا تھا۔


"زمان خیال رکھنا ان لوگوں کو کوئی مسلہ نہیں ہو بلکہ حورم کی بارات خاموشی اور سادگی سے آئے شور شرابے سے نہیں۔"


"جی بہتر واجہ۔۔۔۔"


زمان کے ایسا کہتے ہیں میر داد وہاں سے چلا گیا جبکہ اس کا ماضی اب اس کے کرب کا باعث بن چکا تھا۔

💕💕💕

پریسا صبح اٹھی تو وہ کمرے میں اکیلی تھی ۔میر داد کے وہاں نہ ہونے پر اس نے شکر کا سانس لیا۔وہ میر داد کی محبت دیکھ کر خود پر ہی رشک کرتی تھی لیکن اسے میر داد کہ جنون سے بھی ڈر لگتا تھا۔


میرداد کی جنون کو یاد کر کے ایک شرمیلی سی مسکان نے پری کے ہونٹوں کو چھوا اور پھر وہ اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی۔واش روم سے باہر آئے ابھی اسے کچھ دیر نہیں ہوئی تھی جب دروازہ بجنے لگا۔


"آ جائیں۔۔۔"


پری کے اجازت دینے پر ملازمہ ناشتہ لے کر کمرے میں داخل ہوئیں۔


"بی بی جی واجہ نے بولا تھا کہ وہ گھر پر نہیں ہے اس لیے کھانا آپ کو آپ کے کمرے میں ہی دے دیا جائے۔۔۔"


میر داد کے اس حکم پر پری مسکرا دی وہ کس طرح سے اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتا تھا۔


"شش۔۔۔شکریہ۔۔۔۔"


پریسا کے ایسا کہنے پر وہ عورت وہاں سے چلی گئی پریسا کو ناشتہ کرتے ہوئے یاد آیا کہ آج تو حورم کی شادی تھی۔اس نے جلدی سے اٹھ کر الماری سے اپنے لیے ایک انتہائی خوبصورت نیلے رنگ کا جوڑا نکالا اور اسے حورم کو دکھانے کی غرض سے کمرے سے باہر نکلی۔


ابھی وہ کچھ دور ہی گئی تھی جب اچانک اس کی نظر اسی بوڑھے آدمی پر پڑی جو اس دن انکے گھر آیا تھا۔


"کیا نام تھا انکا۔۔۔پپپ۔۔۔"


پری نے دماغ پر زور دیا اور پھر یاد آنے پر مسکراتے ہوئے انکے پاس گئی اور انہیں خوش کرنے کے لیے پورے کانفیڈنس سے بولی۔


"اسلام و علیکم پارک۔۔۔۔"


پری کہ ایسا کہنے پر جہاں شاہ میر نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا وہیں ساتھ کھڑا ملازم منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس دیا۔


"کیا چاہیے تمہیں لڑکی۔۔۔؟"


شاہ میر صاحب نے بہت مشکل سے اپنا لہجہ سخت کیا اس لڑکی کو لے کر اپنے جذبات سمجھ نہیں پا رہے تھے۔شاید وہ میرداد کی پسند تھی اس لئے ان کا اس پر سختی کرنے کا دل نہیں کرتا تھا۔


"و علیکم السلام کہتے ہیں پارک جواب میں۔۔۔۔"


پریسا ان کی سخت آواز پر ایک پل کو ڈری لیکن پھر ہمت کر کے کہنے لگی۔جبکہ شاہ میر نے اب اسے چھوٹی سی لڑکی کو گھورا جسکی آنکھیں انہیں کسی کی یاد دلا گئی تھیں۔


"میرداد نے تمہیں سر چڑھا رکھا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سب بھی ایسا ہی کریں گے اپنے کام سے کام رکھو لڑکی۔"


شاہ میر غصے سے کہتے وہاں سے جانے لگے تو پریسا بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی اور ایک پانی کا گلاس لا کر ان کے سامنے کیا۔


"یہ لیں پارک آپ پانی پئیں اس سے وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔وہ جو ابھی آپ کو آیا ہے۔۔۔۔"


پری غصہ لفظ کو بھول چکی تھی لیکن پھر بھی اپنی بات کہنے کی کوشش کرتی رہی وہ خود سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے ان سے ڈر کیوں نہیں لگ رہا تھا۔


آخر کار شاہ میر نے خاموشی سے وہ گلاس پکڑا تو پری نے ان کا ہاتھ تھاما اور اس پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔


"اس سے بھی غصہ اتر جاتا ۔۔۔میر نے بتایا تھا ۔۔۔۔ہاں غصہ ۔۔۔"


پری کو لفظ یاد آنے پر وہ خوشی سے چہکی اور ہاتھ میں پکڑے نیلے جوڑے کو لے کر حورم کے کمرے میں چلی گئی۔


جبکہ شاہ میر ابھی بی سکتے کے عالم میں کھڑے اپنے ہاتھ کو دیکھ رہے تھے۔

💕💕💕

پالر والی نے پہلے پریسا کو تیار کیا تو وہ تیار ہوتے ہی اپنے کمرے میں چلی گئی اس کے جانے کے بعد پالر والی نے اپنی ساری مہارت حورم پر دکھائی۔


بلوچ طرز کے لال دلہن کے جوڑے میں بھاری زیوارات پہنے وہ پری پیکر آج سچ میں جنت کی حور ہی لگ رہی تھی۔


'خود کو تو دیکھو حورم کیا روپ آیا ہے تمہیں۔'


ہادیہ کی آواز پر حورم خیالوں کی دنیا سے باہر آئی تھی۔اس کی نگاہ ایک پل کے لیے اٹھ کر آئینے پر گئی اور پھر اس نے جلدی سے اپنا چہرہ ہاتھوں کے پیچھے چھپا لیا اور وہاں سے اٹھ کر باہر کی طرف بھاگنے لگی۔


'ارے کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔۔۔رکو۔۔۔۔۔۔'


ہادیہ کی آواز اسے سنائی دی تھی لیکن پھر بھی وہ پیا کی دیوانی دنیا جہان سے بے نیاز ہو کر دلہن بنی حویلی میں بھاگتے ہوئے ترستی نگاہوں سے پیا کو تلاش رہی تھی اور وہ پیا اسکی حالت سے بے نیاز اسکے نکاح کی تیاری میں مصروف تھا۔


'زیب سائیں۔'


حورم کی پر ترنم آواز پر جہانزیب اپنا کام چھوڑ کر اسکی طرف مڑا تھا جو دلہن کے لباس میں سجی مہندی لگے ہاتھوں سے چہرہ چھپائے اسکے سامنے کھڑی تھی۔


'تم سب جاؤ یہاں سے۔'


اس نے سختی سے کہا تو ہر کوئی اسکا حکم مانتے ہوئے اپنا کام چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔


'آپ کیا کر رہی ہیں یہاں حورم سائیں؟'


اسکے سوال پر حورم نے اپنے چھپائے ہوئے حسین چہرے سے ہاتھ ہٹائے تھے۔دلہن کے روپ میں سجا اسکا نو خیز حسن ہزاروں دل گھائل کر سکتا تھا مگر سامنے کھڑے شخص کی نظریں عقیدت سے جھک گئی تھیں۔


'ہم نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں دلہن کے روپ میں سب سے پہلے آپ ہی دیکھیں گے اور ہم خود سے کیا وہ وعدہ نبھانے آئے تھے۔'


حورم نے بہت امید سے ایک آخری بار اپنا دل کھول کر اس بے مروت شخص کے سامنے رکھا۔


'نہیں حورم سائیں ۔۔۔۔۔۔ ایسا کہیے کہ آپ اپنے ہونے والے شوہر کے حق کی حق تلفی کرنے آئی تھیں کیونکہ آپ پر پڑھنے والی ہر نگاہ کا پہلا اور آخری حق صرف آپکے شوہر کا ہے۔'


جہانزیب عقیدت سے اپنے ہاتھ باندھے ،سر جھکائے کھڑا تھا۔اف اس سنگ دل محبوب کی ادا جس نے دل انتہائی عقیدت سے توڑا تھا اور ان معصوم نگاہوں میں آنسو بہت احترام سے لائے تھے ۔


'اس دنیا میں تو آپ جیت گئے۔۔۔۔۔۔ بہت آسانی سے آپ نے ہماری محبت کا گلا گھونٹ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اسکی آواز چھین لی۔'


حورم اپنے آنسو پونچھ کر اسکے قریب ہونے لگی تو جہانزیب بے ساختہ طور پر دو قدم اس سے دور ہوا۔


'مگر یاد رکھیے گا روز قیامت ہم آپ کو اپنے عشق کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے اور وہاں تو نہ آپکی یہ عقیدت آپکے کام آئے گی اور نہ ہی ہمارے خاندان کی دولت اور عزت۔اس دن اللہ آپکا حساب ہمارے ہاتھ میں دے دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


حورم ایک پل کو خاموش ہوئی اور پھر آنسوؤں سے بھری انتہائی دردناک آواز میں بولی۔


'اور نہ ہم آپکو معاف کریں گے اور نہ ہی ہمارا عشق ۔۔۔۔۔ بہت بری سزا ملے گی آپکو سید جہانزیب شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہنم سے بھی ذیادہ بری۔'


ایک آخری بار اپنی ترستی نگاہوں کو دیدار عشقم بخش کر حورم وہاں سے جا چکی تھی لیکن جہانزیب ابھی بھی سر جھکائے کھڑا تھا۔


'چاہتا تو پوری دنیا سے چرا کر آپکو اپنے پاس چھپا لیتا مگر نہیں، آپ تو وہ چاند ہیں حورم سائیں جس کے احترام میں سب تارے مدھم چمکتے ہیں اور میں تو ان تاروں میں چمکنے والا سب سے مدھم تارا ہوں حورم سائیں،ایک انتہائ حقیر غلام پھر اس چاند کی خواہش کیسے کر لوں جو کہ میری اوقات سے باہر ہے۔'


وہ بے درد سجن مزید گلے میں اٹکی آنسوؤں کی گٹھری کو باندھ کر نہیں رکھ پایا تھا۔

💕💕💕

"شاہ تجھے پتہ چلا وہ لڑکی آج صبح ہی مر گئی کل رات کو اچانک ہی اسکا دل بند ہو گیا۔"


مراد نے پریشانی سے شادی کے انتظامات کرتے شاہ داد کو بتایا۔شاہ داد نے گہرا سانس لیا۔


"تو کیا ہوا؟؟؟"


شاہ داد کے عام سے انداز میں کہنے پر مراد نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"تجھے خوف نہیں آتا شاہ وہ ۔۔۔۔۔"


"کیسا خوف؟ اچھا ہے نا ایک ڈر ختم ہوا کہ وہ میر داد کے پاس آ جائے گی اب سکون سے رہ سکوں گا۔"


شاہ داد نے خباثت سے کہا اسکے چہرے پر ندامت کا سایہ بھی نہیں تھا مراد کو بے ساختہ طور پر اس سے نفرت ہوئی بے تحاشہ نفرت۔


"شاہ اگر کچھ ہو ۔۔۔۔"


"کچھ نہیں ہو سکتا تو فکر مت کر بھائی ہیں سنبھالنے کو تو بس جا کے کام دیکھ لے آج حور کی شادی ہے اور میں بے تحاشہ خوش ہوں میری خوشی مت کھا سمجھا۔۔۔۔۔"


مراد نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چل دیا۔کاش وہ شاہ داد کو بتا سکتا کہ جس بھائی پہ اسے اتنا مان ہے وہ بھی ایک انسان ہی ہے خدا نہیں اور جب خدا کی لاٹھی پڑنے پر آئے گی تو شاہ داد کو بچانے والے میر داد کی کمر بھی گھائل ہو گی۔


"بھگتے گا تو بھی شاہ داد عالم،،،"


مراد نے آہستہ سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

💕💕💕

بارات میر داد کے حکم کے مطابق واقعی خاموشی سے آئی تھی۔لیکن ایسا نہیں تھا کہ انکے استقبال میں کوئی کمی چھوڑی گئی تھی۔


ہر کوئی خوش نظر آ رہا تھا لیکن سب سے زیادہ خوشی تو سرمد صاحب اور انابیہ کو تھی جو آج ایک بہو نہیں بلکہ اس حویلی کے ایک ٹکڑے کو اپنی بیٹی بنا کر لے جا رہے تھے۔


مہمانوں کا خیال رکھتے ہوئے میر داد کا دھیان ایک کونے میں کھڑی اپنی پری پر پڑا جو وہاں سہمی نگاہوں سے اتنے زیادہ لوگوں کو دیکھ رہی تھی لیکن جو تشویشناک بات تھی وہ یہ تھی کہ اسکا دوپٹہ سر سے ڈھل کر کندھوں پر آ چکا تھا اور وہ اسے بے نیاز تھی۔بے ساختہ طور پر میرداد کے قدم اس کی طرف بڑھے۔


"مہر میر ۔۔۔۔"


میرداد کے پکارنے پر پری اس کی طرف مڑی تو میر داد نے فوراً اسکا دوپٹا اسکے سر پر ٹھیک سے دیا اور اسکے کان کے قریب جھکا۔


"جانتی ہو نا کس کی ہے امانت ہو۔۔۔خود کو چھپا کر رکھو ورنہ تم پر اٹھنے والی ہر نگاہ کو نوچنے کا دل کرے گا میرا اور تم خود بھی اس گستاخی کی سزا سہہ نہیں پاؤ گی۔"


میر داد کی گھمبیر آواز پر پری کے ہاتھ پیر پھول گئے اور اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔


میرداد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے مہمانوں کے درمیان لے آیا۔


"اسکا خیال رکھیے گا خالہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی اکیلا مت چھوڑیے گا اسے۔۔۔۔"


میر داد نے پری کا ہاتھ سلمی خالہ کو پکڑا کر کہا اور خود آدمیوں والی سائیڈ پر چلا گیا۔


آدمیوں اور عورتوں کے فکشن کے درمیان ایک پردہ حائل کیا گیا تھا اور میرداد بار بار اس پردے میں سے اپنی پری کے ہلکے سے عکس کو دیکھ کر سکون محسوس کر رہا تھا۔


پھر نکاح کا شور اٹھا تو شاہ میر نے میرداد اور شاہ داد کو حورم کو لانے کے لئے کہا۔


"حورم کو جہانزیب لے کر آئے گا کیوں کہ مجھ سے اور شاہ داد سے زیادہ تو حورم کو اس نے پالا ہے۔۔۔"


میر داد کی بات پر جہانزیب اپنی آنکھیں کرب سے میچ گیا اور شاہ میر جو ہر بات سے واقف تھے انہوں نے اس بات کی مخالفت کرنا چاہی لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے جہانزیب بول اٹھا۔


"میں انہیں لے کر آتا ہوں۔۔۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب اندر کی طرف چل دیا۔اگر کوئی اس کی تکلیف کا اندازہ لگانا چاہ رہا تھا تو اس کی حالت اس لاش کی مانند تھی جس سے کہا جائے کے اپنی قبر تک اسے خود ہی جانا ہے۔


حورم کے کمرے کے باہر وہ بہت دیر تک کھڑا رہا پھر اس نے گہرا سانس لے کر دروازہ کھولا تو سامنے ہی حورم دلہن کے روپ میں سجی خالی نگاہوں سے خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی۔پاس کھڑی ہادیہ نے کھا جانے والی نظروں سے جہانزیب کو دیکھا۔


جہانزیب آہستہ سے چل کر حورم کے پاس آیا اور اپنی چوڑی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔


"چلیے حورم سائیں نکاح کا وقت ہو چکا ہے۔"


حورم نے ایک نگاہ اس ہاتھ کو دیکھا اور بہت مشکل سے اپنے آنسوؤں پر بند باندھا۔ہاتھ بڑھا کر حورم نے اپنا گھونگھٹ چہرے کے سامنے کیا اور جہانزیب کا ہاتھ تھامے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی۔


"چلیے، آج ہمارے عشق کا وہ امتحان ہے جس کی سچائی کا اپنے ثبوت مانگا تھا ۔۔۔۔۔اور آج وہ ثبوت دینے کا وقت آ چکا ہے سید جہانزیب شاہ۔۔۔۔۔"


حورم اتنا کہہ کر چلنے لگی تو ہادیہ نے اسکا لہنگا سنبھالا اور جہانزیب بھی سر جھکا کر انکے پیچھے چل دیا۔


دل تھا کہ بغاوت پر اترا تھا چاہتا تھا کہ اسے ان سب لوگوں سے دور لے جائے بہت دور ،جہاں ان دونوں کے سوا کوئی تیسرا نہ ہو۔


ضروری تو نہیں کہ ہم جو چاہیں وہ ہمیں مل جائے لیکن کاش جو نصیب میں لکھا تھا چاہت صرف وہی ہوتا کاش۔۔۔۔۔


جہانزیب حورم کو باہر تک لے کر آیا اور وہاں سے اسے عورتوں نے لے جا کر اس پردے کے سامنے بٹھا دیا۔پردے کے دوسری طرف حورم کا ہونے والا شوہر تھا اس کا وہ نصیب جو اس کی چاہت نہیں تھا۔


جہانزیب مردوں کی طرف آ گیا اور اس پردے کے پار گھونگھٹ میں چھپی حورم کو دیکھنے لگا۔مولوی صاحب پہلے حورم کی طرف گئے۔


"حورم عالم رند ولد عالم شاہ میر رند آپکا نکاح شہریار رند ولد سرمد رند کے ساتھ حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟"


مولوی کے سوال پر حورم کی سانسیں اٹکیں،آنسوؤں کا ایک پھندہ اسکے گلے میں پھنس چکا تھا جسے اس نے بہت مشکل سے دھکیلا اور اپنی نگاہیں اٹھا کر دوسری طرف کھڑے جہانزیب کو دیکھا۔


اسے اپنے عشق کی سچائی کا ثبوت دینا تھا۔


"قبول ہے۔۔۔"


حورم کی آواز اس خاموش جگہ پر گونجی تو مولوی نے اپنا سوال دہرایا۔


"قبول ہے۔۔۔۔"


حورم نے اتنا کہتے ہوئے بہت بے دردی سے اپنی محبت کا قتل کیا۔جبکہ جہانزیب کو لگا تھا کہ حورم کے الفاظ اسے پتھر کا کرتے جا رہے ہیں۔


" قبول ہے۔۔۔۔"


سوال تیسری مرتبہ دہرائے جانے پر بھی وہی جواب آیا اور اب جہانزیب کی بس ہوئی تھی اسی لیے وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔


اس کی محبت ہار چکی تھی۔وہ ایسا شخص تھا جس نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا سب کچھ کسی اور کو سونپ دیا لیکن یہی تو بہتر تھا اس کے حق میں۔جہانزیب چلتا چلتا ڈیرے کی طرف جاتی سنسان سڑک پر آ گیا۔


وہ خوش رہے گی جہانزیب شاہ بہت خوش وہ شخص اسے ہر وہ خوشی دے گا جو تم نہیں دے پاتے۔۔۔


جہانزیب کے سمجھدار دماغ نے اس سے کہا لیکن دل جو مکمل طور پر بکھر چکا تھا،اپنا سب کچھ لٹا چکا تھا اس نے تو کچھ اور ہی کہا تھا۔


مر جاؤ تم جہانزیب شاہ کاش آج تک مر جاؤ۔۔۔۔


دل میں اٹھنے والے اس درد پر جہانزیب سڑک پر بیٹھتا چلا گیا اور پھر بتیس سالہ وہ مرد آج پہلی بار چیخیں مار مار کر رویا تھا۔

💕💕💕

"قبول ہے۔۔۔۔"


حورم کے آخری بار قبول ہے کہنے پر سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔حورم سے نکاح نامے پر دستخط لینے کے بعد نکاح خواں وہاں سے اٹھ کر مردوں کی طرف شہریار کے پاس آئے۔


"شہریار سرمد رند ولد سرمد علی رند آپ کا نکاح حورم عالم رند ولد عالم شاہ میر رند کے ساتھ حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"


مولوی کے اس سوال پر شہریار نے نگاہیں اٹھا کر گھونگھٹ میں بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا جس کا وہ پہلی نظر میں ہی دیوانہ ہو گیا تھا۔ایک مسکان شہریار کے ہونٹوں پر آئی۔


"نہیں ۔۔۔۔۔مجھے نہیں قبول۔۔۔۔"


شہریار کی اس بات پر سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔


"یہ کیا کہہ رہے ہو شہریار۔۔۔"


سرمد صاحب نے حیرت سے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو شاید پاگل ہو چکا تھا جبکہ میرداد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس لڑکے کا گلا دبا دے۔


"وہی کہہ رہا ہوں ڈیڈ جو سچ ہے مجھے یہ نکاح نہیں قبول۔۔۔۔"


شہریار اتنا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا تو شاہ داد نے آگے بڑھ کر اسکو گریبان سے پکڑا یہ دیکھ کر وہاں موجود سب عورتیں اور آدمی کھڑے ہو گئے۔صرف حورم ہی بیٹھی تھی جسے لگ رہا تھا کہ وہ پتھر ہو چکی ہے۔


"کیا کہا تو نے جانتا ہے نا کہ اس وقت کہاں کھڑا ہے تو۔۔۔۔؟"


شاہ داد اسکو جھنجھوڑتے ہوئے دھاڑا۔پری نے بولنے والے آدمی کو دیکھنا چاہا نہ جانے کیوں اس کی آواز سن کر پری کو کچھ ہوا تھا لیکن اس وقت پری کے سامنے اس کی کمر ہی تھی پھر اسکی آواز پر وہ بے چین ہو کر اپنا سر تھام گئی تو سلمی خالہ اسے حویلی کے اندر لے گئیں۔


"شاہ رکو۔۔۔"


میر داد کے ایسا کہنے پر شاہ داد نے اسکا گریبان چھوڑ دیا لیکن اس سے دور نہیں ہوا تھا۔


"بولو لڑکے کیوں انکار کر رہے ہو تم اس نکاح سے؟"


میر داد کی سخت آواز پر شہریار نے ایک نظر اپنے پریشان باپ کو دیکھا۔


"باہر کے ملک میں رہتے ہوئے بھی میری صرف ایک ہی خواہش تھی کہ میری بیوی ایک انتہائی با کردار،پاکیزہ اور معصوم لڑکی ہو جو پہلی نگاہ میں ہی مجھے آپ کی بہن لگی تھی۔ لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکی نہ صرف اس سب سے بہت دور ہے بلکہ بہت چلاکی سے اس سب کا دکھاوا بھی کر رہی ہے ۔"


شہریار نے ایک طنزیہ مسکان کے ساتھ کہا تو سرمد صاحب اپنے بیٹے کے سامنے آئے۔


"شہر یار یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟"


"وہی کہہ رہا ہوں ڈیڈ جو سچ ہے۔۔۔۔"


شہریار نے مسکرا کر کہا تو میر داد اپنی جگہ سے اٹھا اور شہریار کے سامنے آ کر اسے اپنی گہری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔


"اس بات کا کیا ثبوت ہے؟"


میر داد نے انتہائی زیادہ سنجیدگی سے پوچھا۔


"کیا سچ میں آپ ثبوت دیکھنا چاہیں گے؟"


شہریار نے سوال کا جواب اپنے ہی سوال سے کیا تو میر داد نے ہاں میں سر ہلایا۔


"بلکل دیکھنا چاہوں گا مگر ایک بات اگر تمہارے اس ثبوت میں کوئی سچائی ہوئی تو تم لوگ یہاں سے اپنی بارات واپس لے جانا لیکن اگر اس میں سچائی نہیں ہوئی نا تو یہاں سے آج ایک باپ اپنے اکلوتے بیٹے کی لاش لے کر جائے گا۔"


میر داد کی بات پر سرمد صاحب اور انابیہ بیگم کا دل بند ہوا لیکن شہریار کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکان آئی۔اس نے اپنی جیب سے اپنا موبائل نکالا اور اسے کھولنے کے بعد میر داد کے سامنے کیا۔


"میرے خیال میں یہ ثبوت آپ کے لئے کافی ہو گا۔۔۔"


میر داد نے موبائل میں موجود تصویریں دیکھیں تو ساتویں آسمان اس پر ایک ساتھ گرے تھے۔


وہ جہانزیب اور حورم کی تصویریں تھیں۔جن میں سے کچھ تصویروں میں حورم جہانزیب پر جھکی تھی اور کچھ میں وہ بیڈ پر اسکی باہوں میں تھی۔ایک تصویر میں تو جہانزیب اسکے ہونٹوں کے بہت زیادہ قریب تھا۔


"مل گیا ثبوت ۔۔۔۔"


شہریار نے مسکرا کر کہا جبکہ میر داد کے ہاتھ سے موبائل پکڑ کر شاہ داد وہ تصویریں دیکھ رہا تھا۔


"چاہتا تو کل رات جب یہ تصویریں مجھے کسی نے سینڈ کی تھیں تب ہی رشتے سے منع کر دیتا لیکن میں ایسی شرافت اور معصومیت کا لبادہ اوڑھنے والی لڑکی کی سچائی سب کے سامنے لانا چاہتا تھا۔"


شہریار نے حورم کی طرف اشارہ کیا جو ابھی بھی پتھر کی بنی بیٹھی تھی۔


"افسوس تو مجھے آپ پر ہوتا ہے سردار میر داد عالم ہر ایک کو دیکھ کر پہچان جاتے ہیں آپ کہ وہ کیسا ہے لیکن کاش اتنا غور آپ نے اپنے دوست اور بہن پر کیا ہوتا تو آج آپ کو اتنی ذلت سہنی نہ پڑتی۔"


میر داد نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کس لیں۔لیکن چاہتے ہوئے بھی وہ سامنے موجود شخص کو کچھ نہیں کہہ پایا تھا۔


"چلیں ڈیڈ جو ہونا تھا ہو چکا۔"


شہریار اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو سرمد صاحب اور انابیہ بیگم بھی شرمندگی سے سر جھکا کر وہاں سے چلے گئے اور ان کے جاتے ہی سارے باراتی بھی کے پیچھے چلے گئے جبکہ حویلی کا ہر فرد ایک سکتے کے عالم میں تھا۔


"کیا تماشہ دیکھ رہے ہو تم سب یہاں پر دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"


شاہ داد کے دھاڑنے پر گاؤں کا ہر آدمی اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔


"رکو۔۔۔۔"


شاہ میر کی آواز پر سب گاؤں والے وہیں رکھے تھے۔سب نے اپنی آنکھیں حیرت سے شاہ میر کی طرف کر لیں۔


"جہانزیب شاہ کو یہاں بلاؤ میر داد ابھی اور اسی وقت۔۔۔"


شاہ میر کی بات پر شاہ داد اور میرداد دونوں نے حیرت سے انہیں دیکھا۔


"لیکن پیرک۔۔۔"


"جتنا کہا ہے اتنا کرو میر داد عالم ورنہ آج تم میرا مرا منہ دیکھو گے۔۔۔۔۔"


میر داد نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کس لیں اور ایک نظر مڑ کر اپنی بہن کو دیکھا جو ابھی بھی بت بنی وہاں بیٹھی تھی۔میر داد نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور جہانزیب کو فون کیا۔


"جی واجہ۔۔۔۔"


کچھ دیر کے بعد ہی جہانزیب نے فون اٹھا کر کہا۔


"فوراً حویلی واپس آؤ جہانزیب ۔۔۔۔"


میر داد نے اتنا کہہ کر فون بند کیا اور سامنے موجود دیوار میں مار کر توڑ دیا۔

💕💕💕

جہانزیب بہت ہمت کر کے واپس آیا وہ کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتا تھا لیکن چاہے کچھ بھی ہو جاتا وہ کبھی بھی میرداد کا حکم نہیں ٹال سکتا تھا۔


واپس آتے ہی اسے کچھ گڑبڑ ہونے کا احساس ہوا صحن کے درمیان میں موجود پردہ ہٹایا جاچکا تھا اور وہاں گھر کی عورتوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔سب گاؤں والے ایک سائیڈ پر کھڑے تھے اور گھر کے مرد ایک جگہ خاموشی سے کھڑے تھے۔


جہانزیب پریشان ہو کر آگے بڑھا تو اس کی نظر وہاں پر موجود واحد لڑکی پر پڑی جو کہ اور کوئی نہیں اسکی حورم سائیں تھی۔جہانزیب بہت زیادہ پریشان ہوا وہ کسی بھی بات کو سمجھ نہیں پا رہا تھا اسی لئے سیدھا شاہ میر کے پاس گیا۔


"پیرک۔۔۔"


جہانزیب کے پکارنے پر شاہ میر نے اسے ایک نگاہ دیکھا اور پھر کھڑے ہو کر ایک زور دار تھپڑ جہانزیب کے منہ پر مارا۔


"خود سے بڑھ کر،اپنے پوتوں سے بھی بڑھ کر میں نے تم پر یقین کیا تھا جہانزیب شاہ اور مجھ سے بھی زیادہ یقین تم پر عالم کرتا تھا غرور تھے تم اسکا آج میں کہتا ہوں کے اچھا ہی ہوا میرا بیٹا زندہ نہیں ہے ورنہ آج ایک ہی پل میں وہ ہزار موت مرتا۔۔۔۔"


جہانزیب حیرت سے بس انہیں دیکھتا جا رہا تھا وہ کسی بھی بات کا مطلب نہیں سمجھ رہا تھا۔


"لیکن پیرک ہوا کیا ہے؟"


جہانزیب نے ان کے مارے تھپڑ اور بےعزتی کو بالائے طاق رکھ کر پوچھا تو میرداد نے آگے بڑھ کر شہریار کا فون اس کے ہاتھ میں تھما دیا جس میں موجود تصویریں دیکھ کر جہانزیب کی سانسیں اٹک گئیں۔


"پیرک میری بات۔۔۔۔"


اس سے پہلے کہ جہانزیب کچھ کہتا شاہ داد آگے بڑھا اور جہانزیب کو گریبان سے پکڑ کر بری طرح سے مارنے لگا لیکن اسے کسی نے بھی نہیں روکا۔


"دیکھ لیا آپ لوگوں نے اس کا اصلی روپ میں نے آپ کو کہا بھی تھا کہ ایک ملازم کو اس کی حد میں رکھیں اور اب نتیجہ آپ لوگوں کے سامنے ہے۔"


کلیم صاحب نے دانت پیستے ہوئے کہا تو جہانزیب نے پوری طاقت لگا کر خود کو شاہ داد سے چھڑایا اور آ کر شاہ میر کے قدموں میں بیٹھ گیا۔


"پیرک خدا کے لئے ایک بار میری بات سن لیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا آپ لوگ سمجھ رہے ہیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے بھیک مانگی لیکن شاہ میر نے خالی نگاہوں سے اس کو دیکھا۔شاہ داد نے آگے بڑھ کر اسے مزید مارنا چاہا لیکن شاہ میر نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے ایسا کرنے سے روکا۔


"کیا یہ سب دیکھنے کے بعد کچھ سمجھنا باقی رہ جاتا ہے جہانزیب شاہ؟"


شاہ میر نے جہانزیب کو دیکھتے ہوئے کہا جو متواتر اپنا سر انکار میں ہلا رہا تھا۔شاہ میر اس کے پاس سے ہٹے اور ابھی تک زمین پر بت بنی بیٹھی حورم کے پاس آئے۔


"کیونکہ تم دونوں کا گناہ برابر ہے اس لیے سزا بھی دونوں کو ایک جیسی ہی ملے گی۔۔۔۔"


شاہ میر نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر میر داد کو دیکھتے ہوئے بولے۔


"مولوی کو یہاں بلاؤ میرداد ابھی کہ ابھی ان دونوں کا نکاح کیا جائے گا لیکن اس کے بعد ان دونوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں رہے گا اگر کبھی اس گاؤں کی سر زمین کے قریب بھی نظر آئے تو دونوں کو مار دیا جائے گا۔"


"پیرک۔۔۔۔"


شاہ میر کے فیصلے پر میرداد نے تڑپ کر کہا وہ بھلا کیسے اپنی جان سے پیاری بہن کی جدائی برداشت کرسکتا تھا۔


"نہیں میرداد آج تم کچھ نہیں کر سکتے آج فیصلہ میرا ہوگا اور میں اپنا فیصلہ سنا چکا ہوں۔"


شاہ میر کی بات پر میر داد نے اپنا سر جھکا لیا جبکہ زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے دوست جھکا سر دیکھ کر جہانزیب کا دل کیا تھا کہ خود کی جان لے لے۔


"نہیں پیرک آپ مجھے سزا دیں چاہے تو جان سے مار دیں مجھے میں اف تک نہیں کروں گا لیکن آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں خدا کے لیے حورم سائیں پر اتنا بڑا ظلم مت کریں وہ بہت معصوم ہیں ،بے قصور ہیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے شاہ میر کے پیروں میں بیٹھ کر منت کی لیکن اس منت کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔


"فیصلہ ہو چکا ہے جہانزیب شاہ اور اب اس فیصلے کو کوئی بھی نہیں بدل سکتا۔۔۔مولوی کو بلاؤ میرداد۔۔۔۔"


میر داد ایک آخری نگاہ اپنی بہن پر ڈال کر مٹھیاں بھینچتا وہاں سے چلا گیا۔

💕💕💕

نکاح ہو چکا تھا حورم جہانزیب شاہ کے نام لکھ دی گئی تھی لیکن جیسا اس نے چاہا تھا ویسا تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔اس کی مانگی گئی ہر محنت ،ہر دعا قبول ہوئی تھی مگر اس دعا نے قبول ہوتے ہوتے سب کچھ تباہ و برباد کر دیا۔


شائید یہی ہوتا ہے جب ہم وہ مانگتے ہیں جو ہماری تقدیر میں نہیں لکھا ہوتا۔ہماری خواہش تو قبول ہو جاتی ہے لیکن تقدیر الٹ کر رہ جاتی ہے۔


حورم اس وقت بس ایک زندہ لاش تھی جس سے جو بھی بولنے کو کہا گیا تھا وہ بول کر مر چکی تھی۔کچھ بھی نہیں بچا تھا اس کے اندر ،کسی قسم کا کوئی جذبہ نہیں تھا،نہ غصہ،نہ ہی غم، نہ ہی کوئی خوشی، نہ ہی کوئی تکلیف وہ ہر جذبے سے عاری تھی بالکل ایک زندہ لاش کی طرح۔


"اب تم اپنی بیوی کو لو اور یہاں سے نکل جاؤ اگر کبھی غلطی سے بھی تم دونوں نے اس گاؤں کی دہلیز پار کی تو یہاں سے تم لوگوں کی لاشیں ہی جائیں گی۔"


شاہ میر نے آخری بات رندھی ہوئی آواز میں کہی جہانزیب نے کچھ کہنا چاہا تو انہوں نے اپنا منہ پھیر لیا۔


"چلے جاؤ تم دونوں یہاں سے اس سے پہلے کہ میں اپنا فیصلہ بدل کر اس غلاظت کو یہیں پر دفنا دوں۔دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔"


شاہ میر کے سختی سے کہنے پر جہانزیب پہلے تو خاموش رہا پھر اس نے آگے بڑھ کر حورم کو پکڑا۔تبھی سلمی خالہ اندر سے آئیں اور ان دونوں کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔


"آپ 30 سال سے یہاں ملازمت کر رہی ہیں سلمی بہن اور آپ ان دونوں کو چنیں گی؟"


شاہ میر نے حیرت سے ان کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"جی واجہ میں ہمیشہ انہیں ہی چنوں گی بلکہ اس گھر کے ہر بچے کو چنوں گی میری اپنی کوئی اولاد نہ سہی لیکن ان سب کو میں نے اپنی اولاد بنا کر ہی پالا ہے اور ایک ماں بچوں کو اکیلے کیسے جانے دے؟"


سلمی خالہ کی بات پر شاہ میر نے گہرا سانس لیا۔


"ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی لیکن پھر ان دونوں والا اصول آپ پر بھی لاگو ہوگا۔۔۔۔ اب آپ لوگ جا سکتے ہیں یہاں سے۔۔۔۔۔"


شاہ میر نے اتنا کہہ کر اپنی کمر ان دونوں کی طرف کر دی میر داد نے آگے بڑھ کر حورم سے ملنا چاہا اسے آخری بار اسے اپنے گلے سے لگانا چاہا مگر شاہ میر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔

"اب کسی کا بھی ان سے کوئی تعلق نہیں میر داد بھول جاؤ کہ تمہاری کبھی کوئی بہن بھی تھی۔"

شاہ میر کی بات پر میر داد نے ایک کرب ناک نگاہ ان پر ڈالی ،آنکھیں لہو چھلکا رہی تھیں۔وہ اپنا ہاتھ چھڑاتا حویلی کے اندر چلا گیا۔

"چلے جاؤ یہاں سے جہانزیب اور کبھی بھی لوٹ کر مت آنا۔۔۔"

"پیرک۔۔۔۔۔"

جہانزیب نہیں آنسوؤں سے ڈوبی ہوئی آواز میں کہا لیکن شاہ میر نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔اک آخری نگاہ جہانزیب نے اس حویلی کو دیکھا جہاں اس نے اپنی ساری زندگی گزاری تھی پھر اس نے اپنے ہاتھ حورم کے کندھوں پر رکھے اور اسے ساتھ لیتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

مظلوم کی آہ سچ میں عرش معلیٰ تک پہنچ چکی تھی اور اس آہ نے سب کچھ برباد کر دیا تھا تھا حویلی کی تمام خوشیاں ماتم میں بدل چکی تھیں اور یہ تو ابھی مظلوم کی آہ کا پہلا وار تھا۔

میر داد انتہائی زیادہ غصے کے عالم میں کمرے میں داخل ہوا۔پری جو ڈری سہمی سی بیٹھی تھی میرداد کو اندر آتا دیکھ کر اس کی جانب جانے لگی۔مگر تبھی میرداد نے انتہائی زیادہ غصے کے عالم میں شیشے کی میز کو پلٹ کر توڑ دیا تو پری سہم کر اس سے دور ہوئی اور ایک کونے میں کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔


"ممم۔۔۔۔میر۔۔۔۔"


پری نے سہم کر اسے پکارا تو میر داد گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا اور اپنا سر جھکا گیا۔


"میر۔۔۔۔۔"


پریسا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا وہ اپنے میر کو اس اذیت اور تکلیف میں نہیں دیکھ پا رہی تھی اپنے کندھے پر اس کا لمس محسوس کر کے میرداد نے پریسا کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایک جھٹکے سے کھینچ کر اپنے گلے سے لگا لیا۔


میرداد کی پکڑ میں اتنی مضبوطی تھی کہ پریسا کو لگ رہا تھا کہ وہ سانس بھی نہیں لے پائے گی۔لیکن پھر اسے اپنی گردن پر میرداد کے آنسو محسوس ہوئے تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ اسکی کمر پر رکھ کر اسے دلاسہ دینا چاہا۔


"میں ہمیشہ سب کچھ کھو دیتا ہوں پری جس سے بھی محبت کرتا ہوں وہ ہمیشہ مجھ سے دور چلا جاتا ہے ماما بابا کو تیرہ سال کی عمر میں کھو دیا اور اب دیکھو اپنی بہن اور سب سے اچھے دوست کو بھی کھو بیٹھا ہوں۔۔۔۔۔"


میرداد رندھی ہوئی آواز میں بولتا چلا گیا جبکہ پریسا اس کے آنسو محسوس کر کے خود بھی رونے لگی تھی۔


"ایسا کیوں ہوتا ہے پری میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟"


میر داد کے سوالوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔میر داد نے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا جو خود بھی زارو قطار رونے کا شغل فرما رہی تھی۔


"تم کیوں رو رہی ہو؟"


میر داد پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔


"کیونکہ آپ رو رہے ہیں۔"


پری نے روتے ہوئے جواب دیا اور ایسا کرتے ہوئے وہ میرداد کے دل میں اتری تھی۔میر داد نے سختی سے خود میں بھینچا۔


"چاہے تو مجھ سے سب چھن جائے،یہ ساری دنیا میرے ہاتھ سے نکل جائے لیکن کچھ بھی ہو جائے تم مجھ سے دور مت جانا پری ،کبھی بھی دور مت جانا ورنہ میں جی نہیں پاؤں گا۔"


پری نے اپنا ہاتھ اسکے منہ پر رکھا تو میر داد نے اسے پھر سے خود میں بھینچ لیا اور اپنی پری میں سکون تلاش کرنے لگا جو اسے مل بھی گیا تھا۔

💕💕💕

جہانزیب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ حورم کو لے کر کہاں جاتا ان دونوں کا تو کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا لیکن اس کی یہ مشکل سلمی خالہ نے آسان بنا دی وہ اسے۔۔۔۔۔اپنے بھائی کے گھر لے آئیں جو کہ کافی عرصے سے خالی تھا۔


وہ ایک چھوٹا سا مکان تھا جس میں بس دو ہی کمرے تھے۔جہانزیب حورم کو ایک کمرے میں لے آیا اور اسے وہاں موجود چارپائی پر بیٹھایا۔


حورم ابھی بھی اسی حالت میں تھی دلہن بنی نہ تو وہ کچھ بول رہی تھی اور نہ ہی آنکھوں سے ایک آنسو نکلا تھا۔


"حورم سائیں۔۔۔"


جہانزیب نے اس سے مخاطب کیا تو حورم نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔


تھوڑی دیر پہلے گزرا ایک ایک پل اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہا تھا۔قسمت نے یہ کیسا کھیل کھیلا تھا جسے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا۔


"جہان بیٹا کھانا۔۔۔۔"


سلمی خالہ کی آواز کر اس نے نظر اٹھا کر انھیں دیکھا جو ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے کھڑی تھیں۔جہانزیب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے کھانا لیا اور حورم کے پاس آیا۔


حورم اس وقت چارپائی پر لیٹی تھی اور شاید سو چکی تھی۔جہانزیب نے کھانا ساتھ موجود میز پر رکھا اور اسے اٹھانے لگا وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ بھوکی سوئے۔


"حورم سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے اس سے اٹھانے کے لئے ہاتھ لگایا تو اسے پتہ چلا کہ حورم کا پورا بدن سخت بخار میں تپ رہا تھا۔جہانزیب نے بے چین ہو کر اسے کندھوں سے پکڑ کر جگانے کی کوشش کی لیکن وہ اٹھ ہی نہیں رہی تھی۔


"خالہ خالہ۔۔۔۔"


سلمہ خالہ کو پکارتے ہوئے جہانزیب نے حورم کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور باہر کی طرف چل دیا۔تھوڑی دیر بعد ہی ان لوگوں نے ایک رکشہ لیا اور اسے ایک سیول ہاسپیٹل میں لے آئے۔


"ڈاکٹر صاحب سب ٹھیک تو ہے نا ؟"


ڈاکٹر چیک کر کے باہر آیا تو جہانزیب نے پریشانی سے پوچھا۔


"انہوں نے کسی چیز کا کافی سٹریس لیا ہے جس کی وجہ سے انہیں سخت بخار ہو گیا ہے۔"


جہانزیب کی جان مٹھی میں آئی۔


"وہ ٹھیک تو ہو جائے گی نا"


جہانزیب نے بہت زیادہ بے چینی سے پوچھا تو ڈاکٹر نے ہاں میں سر ہلایا۔


"جی آپ فکر مت کریں آرام اور علاج سے وہ ٹھیک ہو جائے گی بس آپ جائیں اور یہ دوائیاں لے آئیں۔۔۔۔"


ڈاکٹر نے ایک پرچی جہانزیب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ جہانزیب نے جلدی سے اسے پکڑ لیا لیکن پھر اس نے اپنی قمیض کی جیب میں دیکھا جہاں پر صرف دو ہزار روپے تھے۔


پتہ نہیں اتنے میں دوایاں آئیں گی بھی یا نہیں ۔۔۔


جہانزیب نے پریشانی سے سوچا لیکن تبھی سلمی خالہ نے اپنے دوپٹے سے تین ہزار روپیہ مزید نکال کر اس کے ہاتھ میں پکڑایا۔


"پریشان مت ہو بیٹا وہ ٹھیک ہو جائے گی تم جاؤ اور جلدی سے دوائیاں لے کر آؤ ۔"


جہانزیب نے انہیں شکر گزار نگاہوں سے دیکھا۔


"خالہ آپکا احسان تو میں مر کر بھی نہیں اتار سکتا۔"


جہانزیب کی بات پر سملی خالہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا اور جانے کا اشارہ کیا۔جہانزیب نے جلد ہی دوائیاں لاکر ڈاکٹر کو دیں اور چونکہ حورم زنانہ وارڈ میں تھی وہاں جہانزیب تو جا نہیں سکا لیکن سلمی خالہ اسی کے پاس تھیں۔


ساری رات جہاں زیب اسی وارڈ کے باہر بیٹھ کر اس معصوم کے لیے دعا کرتا رہا تھا۔


"میرے مولا تو جانتا ہے کہ وہ تیری بہت ہی پاکیزہ اور معصوم بندی ہے اس کی حفاظت کرنا میرے مولا اسے کچھ بھی نہ ہو اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں بھی جی نہیں پاؤں گا۔۔۔۔"


بے بسی سے سوچتے ہوئے کوئی آنسو جہانزیب کی آنکھوں سے گرے تھے۔۔۔۔

💕💕💕

شاہ داد غصے سے پاگل ہو رہا تھا آج جو کچھ بھی ہوا تھا اس نے دنیا کی نظر میں رند خاندان کی عزت کو داغدار کر دیا تھا۔مراد دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بے چینی سے پھرتے شاداد کو دیکھ رہا تھا۔


"آخر کس نے کیا ہوگا ایسا مراد۔۔۔۔۔بس ایک بار مجھے اس شخص کا پتہ لگ جائے۔۔۔۔پھر دیکھنا وہ حال کرونگا اس کا کہ اس کی روح تک کانپ جائے۔۔۔۔"


شاہ داد نے غصے سے مٹھیاں کستے ہوئے کہا تو مراد نے گہرا سانس لیا۔


"شاہ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ اسی لڑکی کی بد دعا کا اثر ہے میں نے تو تجھے کہا تھا نا کی تجھے ڈرنا چاہیے اور اب دیکھ۔۔۔۔۔"


"بکواس بند کر مراد یہ بد دعا وغیرہ قصے کہانیوں میں ہی ہوتے ہیں ایسا کچھ نہیں یہ کسی انسان کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور اس انسان کو تو میں مزہ چکھا دوں گا بس ایک بار مل جائے۔۔۔۔"


شاہ داد نے اتنا کہہ کر وہ غصے سے دیوار میں ہاتھ مارا۔


"اچھا ٹھیک ہے شاہ تو غصہ تو مت کر میں اپنی پوری کوشش کرتا ہوں اس شخص کا پتہ لگانے کی۔۔۔۔"


شاہ داد نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ہاں مراد پتہ لگا اور جلد از جلد لگا تاکہ اس کو بھی پتہ لگے کہ اس نے کس سے پنگا لیا ہے۔"


مراد نے اثبات میں ڈر ہلایا تو شاہ داد نے بے چینی سے سامنے پڑی شراب کی بوتل کھول کر ہونٹوں سے لگا لی۔


مراد حیرت سے اسے دیکھنے لگا جسے اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔وہ سچ میں ایک شیطان ہی تھا۔

💕💕💕

شاہ میر صبح ہال میں آ کر بیٹھے۔پوری رات وہ شخص ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں سو پایا تھا۔سوتا بھی کیسے اپنی جان سے پیاری پوتی کو خود ہی خود سے دور کر بیٹھا تھا۔


پھر عجیب سے وسوسے آنے لگے ان دونوں کے پاس تو جانے کی لئی کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا نہ جانے وہ دونوں کس حال میں ہوں گے یہ سوچ کر شاہ میر بہت زیادہ پریشان ہوئے۔


لیکن پھر ان کے دماغ نے انہیں ورغلا دیا کہ کیسے ان دونوں کی وجہ سے ان کی ہر جگہ بدنامی ہوئی تھی ان کی یہی سزا تھی کہ وہ سب کی محبت سے دور زندگی کی دھوپ برداشت کرتے۔


"پارک۔۔۔۔"


اس ہلکی سی آواز پر شامیر نے مڑ کر دیکھا تو پری نے مسکرا کر پانی کا ایک گلاس ان کے سامنے کیا۔


"آپ باہر سے آئے ہیں نا آپ کو پیاس لگی ہوگی۔"


اس لڑکی نے بہت زیادہ معصومیت سے کہا تھا ایک پل کو تو وہ انہیں بالکل اپنی حورم ہی لگی تھی۔


"نہیں چاہیے جاؤ تم یہاں سے"


شاہ میر نے بے رخی سے کہا مگر پری وہاں سے جانے کی بجائے مزید ان کے قریب ہوئی۔


"اچھا پارک آپ مجھ سے باتیں کر لیں نا اب حور بھی نہیں ہیں یہاں ،میر بھی صبح صبح چلے گئے تھے اور میرے سے کوئی بات نہیں کرتا۔


پری نے آنکھوں میں آنسو لے کر کہا تو ایک بار شاہ میر کا دل کیا کہ اسے بھی حورم کی طرح لاڈ سے بہلا دیں لیکن انا کے اس جن نے ایسا نہیں ہونے دیا۔


"باتیں اس سے کی جاتی ہیں جو اس قابل ہو اور تم اس قابل بالکل بھی نہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنے کمرے میں رہا کرو۔"


شاہ میر بے رخی کی انتہا سے کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔


"حور جھوٹ بولتی ہے آپ اچھے نہیں پارک۔"


پری نے روتے ہوئے اتنا کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی پتہ نہیں کیوں پر اس کی آنکھوں میں موجود آنسو نے انہیں تکلیف پہنچائی تھی۔


پری افسردہ ہو کر حورم کے کمرے میں آئی پہلے تو وہ اپنا سارا وقت حورم کے ساتھ گزار لیتی تھی لیکن اب نہ تو یہاں سلمی خالہ تھیں اور نہ ہی حورم۔


پری حورم کے کمرے میں آئی تو ایک سفید رنگ کی بلی آ کر اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔

پری کو یاد آیا کہ وہ حورم کی بلی تھی اور حورم اسے کسی نام سے بھی بلاتی جو پری کو بھول گیا تھا۔


"چچ۔۔۔۔چان۔۔۔۔نہیں چاند۔۔۔۔"


پری نام یاد کر کے مسکرائی اور اس بلی کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔اس بیچاری کی طرف کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا اس لیے پری اس کو دودھ پلانے کے لئے کچن میں چلی گئی۔

💕💕💕

حورم کو دو دن کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا تھا جہانزیب اور سلمی خالہ اسے واپس گھر لے آئے۔وہ ٹھیک تو ہو چکی تھی لیکن دونوں کی کوششوں کے باوجود ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا اس نے۔جہانزیب نے ان دو دنوں میں اپنے لیے ایک بینک میں نوکری بھی ڈھونڈ لی تھی جو اسکی بی کام تعلیم کو دیکھتے ہوئے اسے آسانی سے مل گئی۔


آج سلمی خالہ نے حورم کی پسند کا کھانا بنایا تھا لیکن حورم ابھی بھی ویسی ہی تھی نہ تو کچھ بول رہی تھی نہ ہی کسی سے بات کر رہی تھی اس کی آنکھوں سے تو ایک آنسو بھی نہیں نکلا تھا بس ایک بت بنی بیٹھی رہتی اور اس کی حالت جہانزیب کو بہت زیادہ پریشان کر رہی تھی۔


"حورم سائیں کھانا کھا لیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسکے سامنے کھانے کی ٹرے رکھ کر کہا لیکن وہ تو نہ جانے کہاں کھوئی بس ایک غیر مرئی نکتے کو دیکھتی جا رہی تھی۔


"حورم سائیں کچھ بولیں تو سہی۔۔۔۔"


جہانزیب نے دوبارہ سے کوشش کی لیکن وہ پھر بھی ویسی ہی رہی تھی۔جہانزیب کو اس کی یہ حالت بہت زیادہ پریشان کر رہی تھی۔وہ جانتا تھا کہ اسکا رونا بہت زیادہ ضروری ہے۔اسی لیے اس نے حورم کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔


"حورم سائیں جانتی ہیں کہ آپکے ساتھ کیا ہوا ہے سب کچھ برباد ہوگیا آپکا ہر رشتہ آپ سے دور جا چکا ہے کیا اس بات کا آپ کو ذرا سا بھی غم نہیں ۔۔۔۔"


جہانزیب کی اس کوشش کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا حورم ابھی بھی ویسی ہی حالت میں تھی۔جہانزیب بہت زیادہ بے بس ہو چکا تھا۔


"خود پر ظلم مت کریں حورم سائیں خدا کے لئے خود کو ایسے ختم مت کریں اگر آپکو کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔"


اس سے زیادہ جہانزیب کچھ نہیں کہہ پایا وہ وہاں سے اٹھا اور سلمی خالہ کو حورم کو کھانا کھلانے کا کہہ کر گھر سے نکل گیا۔


وہ ان سب کو حورم پر اتنا بڑا ظلم کرتے نہیں دیکھ سکتا تھا اس نے فیصلہ کیا کہ وہ میر داد کو جاکر ہر بات بتا دے گا پھر ایسا کرنے میں چاہے میر داد اسکی جان ہی کیوں نہ لے لے۔

میر داد رات کو کمرے میں ایا تو پری چاندی کو بیڈ پر لیے بیٹھی اس سے نہ جانے کون سی باتیں کر رہی تھی۔چاندی کو وہاں دیکھ کر میر داد کا ہر زخم دوبارہ ہرا ہوا۔


"پری اسے واپس چھوڑ آؤ۔۔۔۔"


میر داد کے سختی سے کہنے پر پری نے اسے منہ بنا کر دیکھا۔


"نہیں چھوڑ کے آؤں گی یہ اکیلی ہو جائے گی اور ویسے بھی یہ حور کی چاند ہے نا۔۔۔۔"


"چاندی۔۔۔۔"


بے ساختہ طور پر میر داد کے منہ سے بلی کو دیا گیا نام نکلا وہ پھر سے بہت زیادہ دکھی ہوا۔


"سترہ سال کی ہوئی تھی وہ جب میں نے اسے یہ بلی تحفے میں دی۔اس کے سفید رنگ کو دیکھ کر چاندی نام رکھا تھا اس نے اور کہتی تھی کہ یہ اسے جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔"


میر داد خواب کی سی کیفیت میں بولتا چلا گیا جبکہ پری نے اٹھ کر چاندی کو اسکے پاس لایا۔


"تو چلیں ہم حور کے پاس چلتے ہیں اور چاندی کو اسے دے آتے ہیں وہ تو اس سے بہت زیادہ پیار کرتی ہے نا۔"


پری نے چاندی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا لیکن میر داد نے اس کے ہاتھ سے اس بلی کو چھینا اور اسے کمرے سے باہر نکال دیا۔پری اس کے پیچھے جانے لگی تو میرداد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔


"نہیں پری ۔۔۔"


میر داد نے غصے سے اسے کہا تو پری نے اپنا منہ بسور لیا اور غصے سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔میر داد گہرا سانس لے کر اس کے پاس گیا۔


"پری میری بات تو سنو ۔۔۔۔"


لیکن پری اس کی کوئی بات سنے بغیر اپنا تکیہ پکڑ کر وہاں سے اٹھی اور جا کر صوفے پر لیٹ گئی اس کی اس حرکت پر میر داد غصے سے اسکے پاس گیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔


"اس گستاخی کی وجہ؟؟؟؟"


میر نے سوال پوچھنے سے زیادہ غرایا تھا جبکہ اس کی آنکھوں میں موجود غصہ اور اپنے بازوؤں میں پیوست ہوتی اسکی انگلیاں محسوس کرکے پری ڈر گئی۔


"ممم۔۔۔۔میں آپ سے ناراض ہوں۔۔۔۔"


پری نے سہم کر کہا تو جواب میں میر داد نے اپنا ہاتھ اس کے بالوں میں پھنسا کر اسکا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کیا۔


"ناراض ہو تو مجھے بتاؤ ہزار دفعہ مناؤں گا لیکن آئندہ کبھی دور جانے والی غلطی پھر سے مت کرنا تمہیں ایسا خواب میں بھی کرنے کا حق نہیں ہے۔


میر داد نے جنونی انداز میں کہا اور اس کے اس جنون سے پری بہت زیادہ ڈر گئی اور جلدی سے ہاں میں سر ہلانے لگی۔


میر داد اس پر جھکنے لگا تو پری نے اپنا چہرہ پلٹ لیا اور اسکی یہ حرکت بھی میر داد کو گراں گزری اسی لیے اسکا سر اپنی طرف موڑ کر بہت شدت سے اسکی سانسوں پر قابض ہوا جبکہ پری تو اسکی شدت پر مچل ہی گئی لیکن میر داد کو نا تو اس پر رحم آنا تھا اور نہ ہی آیا۔


جو گستاخی پری کر چکی تھی اب اسکی سزا اسے پوری رات سہنی تھی۔

💕💕💕

میرداد صبح ہوتے ہی اپنے ڈیرے پر سارے معاملات دیکھنے آیا۔اس نے سوچا کہ ابھی وہ ارشاد کے گھر جائے گا لیکن پچھلے دنوں میں جو ہوچکا تھا اس میں اتنی ہمت ہی پیدا نہیں ہوئی تھی۔


"واجہ۔۔۔۔"۔


زمان کے پکارنے پر میرداد نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"واجہ جہانزیب آیا ہے اور آپ سے ملنے کی ضد کر رہا ہے ہم نے تو اسے بہت روکا لیکن وہ کسی کی نہیں سن رہا۔"


زمان کی بات سن کر میر داد نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"بھیجو اسے یہاں۔۔۔۔"


زمان ہاں میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا اور کچھ دیر بعد ہی کچھ آدمی جہانزیب کو وہاں لے کر آئے۔میر داد نے انہیں جانے کا اشارہ کیا تو وہ جہانزیب کو اس کے پاس چھوڑ کر چلے گئے۔میر داد نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا۔


"تم یہاں کیا کر رہے ہو جہانزیب شاہ اگر تمہیں یاد ہو تو تمہیں کہا تھا کہ یہاں اب کبھی بھی مت آنا۔"


میر داد نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا جبکہ جہانزیب وہاں سر جھکا کر کھڑا تھا۔


"مجھے آپکی مدد چاہیے واجہ آپ صرف ایک بار حورم سائیں سے مل لیں وہ بلکل بھی ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات سن کر میرداد بہت زیادہ بے چین ہوا اس کا دل کیا کہ ایک پل میں اٹھ کر اپنی بہن کے پاس پہنچ جائے لیکن ضروری تو نہیں کہ جیسا ہم چاہیں ویسا ہی ہو۔


"وہ اب میری نہیں تمہاری ذمہ داری ہے اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا تمہارا فرض ہے۔۔۔"


میر داد نے بات ختم کرنا چاہی لیکن جہانزیب بے چین ہو کر آگے ہوا۔


"لیکن میں سب کچھ نہیں ہوں واجہ انہیں آپ کی ضرورت ہے میں اس قابل نہیں کہ ان کا خیال رکھ سکوں۔۔۔"


میر داد نے گہرا سانس لیا۔


"نہیں اسے ہماری کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہم سے بھی زیادہ اسے تمہاری ضرورت ہے تمہیں اس کا کل جہان ہو اس بات کو سمجھو۔۔۔۔"


میر داد کے سمجھانے پر بھی جہانزیب نے انکار میں سر ہلایا۔


"میں انکے قابل نہیں واجہ انہیں خوشیاں نہیں دے سکتا کیونکہ میں کچھ بھی نہیں۔"


جہانزیب نے افسوس سے کہا تو میر داد اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آیا اور اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا۔


"مت بھولو جہانزیب شاہ کہ تم کون ہو،مت بھولو کہ تم سید ابراہیم شاہ کے بیٹے ہو۔۔۔۔"


اتنی سی بات سے میر داد اسے بہت کچھ ظاہر کروا گیا مگر اس کی بات کا مطلب سمجھنے کے باوجود جود جہانزیب نے انکار میں سر ہلایا۔


"یہ آپ کہہ رہے ہیں واجہ اس شخص کا جرم آپ بھول گئے ہوں گے لیکن میں نہیں بھولا۔۔۔۔کاش واجہ۔۔۔۔ کاش میں بھول سکتا کہ میں کس کا بیٹا ہوں لیکن ایسا ناممکن ہے۔۔۔"


جہانزیب نے اپنا کندھا چھڑاتے ہوئے کہا۔


"اور صحیح کہا آپ نے حورم سائیں اب صرف میری ذمہ داری ہیں مجھے ہی ان کا خیال رکھنا ہوگا جو میں اپنی آخری سانس تک رکھوں گا۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب وہاں سے جانے لگا۔


"سنو جہانزیب ابراہیم شاہ میری بہن پر ہلکی سی آنچ بھی نہ آنے پائے ورنہ بھول جاؤں گا کہ تم میرے سب سے اچھے دوست ہو ۔۔۔۔۔"


میر داد کے الفاظ نے جہانزیب کے چلتے قدم روکے اس نے ایک بار مڑ کر میر داد کو دیکھا۔


"اگر انہیں کچھ ہو گیا نا تو آپکو سزا دینے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ اس سے پہلے ہی جہانزیب خود کو مٹا دے گا۔۔۔ "


اتنا کہہ کر جہانزیب تو وہاں سے چلا گیا مگر میر داد ابھی بھی بت بنا کھڑا تھا۔

💕💕💕

ارشاد خاموشی سے بیٹھا اپنے ہاتھ میں موجود لال دوپٹے کو دیکھ رہا تھا۔ازمینہ کی ہر بات اسے یاد آ رہی تھی۔اسکی شرارتیں،اسکی باتیں،اسکا روٹھنا،اسکا ارشاد کی ہر بات ماننا۔۔۔ہاں وہ ارشاد کی ہر بات مانتی تھی شاید اسی لیے جب ارشاد نے اسے مرنے کا کہا تو وہ خاموشی سے اس دنیا سے چلی گئی۔۔۔


"ارشاد بلوچ کھانا کھا لے ایسے تو تم بیمار ہو جائے گا۔۔۔۔"


صدف نے اسکے پاس کھانا رکھ کر کہا۔اپنے شوہر کی حالت دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہو چکی تھی۔ازمینہ کی موت کے بعد سے وہ ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔


"ارشاد مینہ کی خاطر کھا لے۔۔۔۔"


صدف نے آنسوؤں سے بھری آواز میں کہا تو ارشاد نے نگاہیں اٹھا کر بیوی کو دیکھا۔


"مینہ۔۔۔کہاں ہے مینہ۔۔۔۔"


اسکی حالت پر صدف مزید رونے لگی۔


"چلا گیا وہ ارشاد مر گئی مینہ ہمیں چھوڑ دیا اس نے۔۔۔۔اس شاہ داد کی وجہ سے مر گیا وہ۔۔۔۔"


صدف اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔


"ننن۔۔۔۔نہیں شاہ داد نے نہیں۔۔۔میں نے۔۔۔۔۔میں نے مارا ہے مینہ کو میں نے مارا ہے اپنی جان کو۔۔۔ وہ تو بہادر تھا صدف بہت بہادر تھا میرا بیٹی۔۔۔۔اسے میں نے کمزور کیا۔۔۔۔"


ارشاد نے بے چینی سے کہا اور پھر اپنے سر میں زور زور سے تھپڑ مارنے لگا۔۔۔


"میرا قصور ہے میں نے کیا سب میں نے کیا۔۔۔۔"


ارشاد چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا تھا اور صدف اسے سمبھالنا چاہ رہی تھی۔


"ارشاد بلوچ نہیں۔۔۔۔"


"ہاں صدف ہاں وہ بولنا چاہتی تھی اس شیطان کو سزا دلوانا چاہتی تھی میرے کہنے پر وہ چپ کر گئی۔۔۔۔۔لیکن نہیں ۔۔۔۔صدف اب نہیں۔۔۔۔"


ارشاد نے اپنے آنسو پونچھے اور صدف کو دیکھا۔


"اب میں اپنی بیٹی کی آواز بنوں گا۔۔۔۔دنیا کو چیخ چیخ کے شاہ داد کا سچ بتاؤں گا میں۔۔"


ارشاد کی بات پر صدف پریشان ہوئی۔


"لیکن ارشاد اماری باقی بیٹیاں وہ شاہ داد نے کہا۔۔۔۔"


"مجھے کسی کا ڈر نہیں نہ شاہ داد کا نہ ہی میر داد کا میں دیکھ کوں گا سب کو دیکھ لوں گا۔۔۔۔"


ارشاد نے اسکی بات کاٹتے ہوئے مٹھیاں بھینچ کر کہا تو صدف نے سر جھکا کر ہاں میں سر ہلایا۔


"تم اماری بیٹیوں کو اپنے بھائی کے گاؤں اسکے گھر لے جاؤ تب تک میں یہاں سب سمبھال لوں گا۔۔۔۔"


صدف نے اسے کچھ کہنا چاہا ،اسے بتانا چاہا کہ اسے اپنے شوہر کی بھی پروا تھی لیکن وہ خاموش رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب ارشاد کسی کی نہیں سنے گا۔

💕💕💕

جہانزیب گھر واپس آیا تو لائٹ گئی ہوئی تھی اور گرمی سے برا حال ہو رہا تھا لیکن اسے صرف حورم کی فکر تھی۔اسکی شہزادی تو بہت زیادہ نازک مزاج تھی۔


اسی سوچ کے ساتھ وہ کمرے میں آیا تو اس کی نظر حورم پر پڑی جو شاید گرمی سے گھبراتے ہوئے چارپائی کے ساتھ موجود کھڑکی پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی۔


جہانزیب خاموشی سے اس کے پاس گیا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔حورم اسکی پکڑ میں ہلکا سا کسمسائی اور پھر سے سو گئی۔


اسکی اس معصومیت پر جہانزیب مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔اسکی نظر حورم کے چہرے کے ہر نقش کا طواف کرنے لگی۔


"تم کہتی ہو کہ میں نے تمہیں چاہا نہیں مگر جانتی ہو کبھی بھی تمہیں نظر بھر کر نہیں دیکھا کہ کہیں دل بے لگام ہو کر خود سر نہ ہو جائے۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر اپنے مزید قریب کیا جبکہ حورم ابھی بھی ہر چیز سے بے خبر سوئی تھی۔


"میں نے خود کو کبھی بھی تمہارے قابل نہیں سمجھا جب بھی دل نے تمہاری خواہش کی تو اسے یہی سمجھایا کہ تم آسمان ہو تو میں زمین۔۔۔۔لیکن اب۔۔۔۔۔اب جب تم میری ہو گئی ہو تو یہ دل اب میرے بس میں بھی نہیں رہا حورم جہانزیب شاہ۔۔۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے بہت محبت سے کہا۔


"اب تمہیں اتنا چاہوں گا کہ اپنا ہر غم بھول جاؤ گی دیکھنا حورم تمہارا ہر خواب پورا کروں گا یہ وعدہ ہے جہانزیب شاہ کا تم سے۔"


جہانزیب نے اپنے ہونٹ اسکی بند آنکھوں پر رکھ کر کہا مگر تبھی اسکی نظر حورم کے چہرے پر آئے پسینے پر پڑی تو اس نے آہستہ سے اسکے چہرے پر پھونک ماری جسکے جواب میں حورم نے اپنی پلکوں کو ہلکی سی جنبش دی تو موچھوں تلے عنابی لب شان سے مسکرائے۔


"میں خود کو تمہارے قابل بناؤں گا حورم،زندگی کا ایک ایک پل محنت کروں گا تا کہ تمہاری ہر ضرورت پوری کر سکوں۔۔۔"


جہانزیب نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اور اپنے لب نرمی سے اسکے ماتھے پر رکھے۔


"بس ڈرتا ہوں کہ اتنی جلدی یہ سب کیسے کر سکوں گا تمہیں اتنا عرصہ اس دنیا کی سختی اور دھوپ سے چھت کے بغیر کیسے چھپاؤں گا؟"


جہانزیب نے پریشانی سے پوچھا۔یہ سب سچ بھی تو تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے کچھ بننے تک حورم یہ سب برداشت کرے۔


مت بھولو جہانزیب شاہ کہ تم کون ہو،مت بھولو کہ تم سید ابراہیم شاہ کے بیٹے ہو۔۔۔۔


اسے میر داد کی بات یاد آئی تو جہانزیب نے گہرا سانس لیا۔یہ سچ تھا کہ وہ ابراہیم شاہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔اسکی سلطنت کا وارث تھا، شہزادہ تھا اور یہ بھی سچ تھا کہ اسکا ابراہیم شاہ کی دولت پر حق تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ جہانزیب شاہ نے اپنی ماں کی میت پر قسم کھائی تھی کہ وہ کبھی بھی اس شخص کی شکل نہیں دیکھے گا۔


جہانزیب کی نظر پھر سے حورم پر پڑی۔وہی ہو رہا تھا جسکا اسے ڈر تھا۔حورم اسکے ساتھ رہ کر محل سے جھونپڑی میں آ چکی تھی ایک شہزادی ہونے کے باوجود وہ زندگی کی تپش سہہ رہی تھی اور یہ جہانزیب کو گوارا نہیں تھا۔


"تمہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتا حورم کبھی نہیں دیکھ سکتا عشق ہو تم میرا اور اب اس عشق کے لیے جہانزیب شاہ کچھ بھی کر جائے گا ۔۔۔۔خود سے کیا وعدہ بھی توڑ دے گا۔۔۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب نے بہت نرمی سے اسے بیڈ پر لیٹایا اور وہاں سے اٹھ کر باہر آیا۔


"خالہ میں کہیں جا رہا ہوں کل تک آ جاؤں گا آپ پلیز حورم کا بہت خیال رکھیے گا."


جہانزیب کی بات پر سلمی خالہ پہلے تو حیران ہوئیں پھر ہاں میں سر ہلایا ۔


"ہاں بیٹا فکر مت کرو میں اسکے پاس ہی ہوں۔"


جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا اور گھر سے باہر نکل گیا ۔آج جہانزیب شاہ وہاں جا رہا تھا جہاں کبھی نہ جانے کی اس نے قسم تھی۔آج جہانزیب شاہ اپنے ماضی کی طرف چل دیا تھا۔

💕💕💕

ابراہیم شاہ سندھ کے علاقے سجاول کے وڈیرے تھے جو تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اور ان کے پاس وہ سب کچھ تھا جسکی ایک انسان کو خواہش ہو سکتی ہے سوائے اولاد کے جو شادی کے سات سال بعد بھی انکی خاندانی بیوی رقیہ انہیں نہیں دے پائی تھیں۔


سات سال کی مایوسی کے بعد ابراہیم نے پھر سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے گاؤں کی ایک یتیم بے سہارا لڑکی شاکرہ سے شادی کر لی۔


شاکرہ جو کم عمر اور معصوم تھی اسے لگا کہ یہ رشتہ اسکی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا۔لیکن اس کی یہ خوش فہمی شادی کے بعد اس حویلی میں پہلا قدم رکھتے ہی دور ہو گئی تھی۔وہ اس حویلی کی بہو ضرور تھی لیکن اس کی حیثیت ایک ملازمہ کی تھی اور سارے اختیارات صرف رقیہ کو حاصل تھے۔


اسے لگا کہ جب وہ اس حویلی کو وارث دے گی تو سب کا سلوک اس کے ساتھ بہتر ہو جائے گا لیکن اس کی یہ خوش فہمی بھی اس حویلی کو وارث دیتے ہی ختم ہوگئی۔ابراہیم شاہ نے اس چھوٹے سے بچے کو ماں سے چھین کر رقیہ کی گود میں ڈالا اور شاکرہ کو طلاق دے کر گھر سے نکلوا دیا۔


وہ بے چاری خود پر ہوئے ظلم پر چیختی رہی ،اپنے بچے، اپنے جگر کے ٹکڑے کے لیے بھیک مانگتی رہی لیکن نہ تو کسی کو رحم آنا تھا نا آیا۔


ابراہیم شاہ نے تو صاف سیدھے الفاظ میں بتا دیا تھا کہ یہ شادی صرف اس نے اولاد کے لئے کی تھی اور چونکہ اس کا مقصد پورا ہو چکا تھا تو شاکرہ کے وجود کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔


اس بچے کو حویلی کا وارث مان کر اسے ایک شہزادے کی مانند رکھا گیا۔ابراہیم شاہ نے اسکا نام جہانزیب شاہ رکھا۔ابراہیم شاہ کو لگا کہ اپنی سازش کی وجہ وہ جیت چکے ہیں اپنی زندگی کی محرومی دور کر چکے ہیں۔


لیکن ایک رات شاکرہ بہت چھپکے سے اس حویلی میں داخل ہوئی اور جہانزیب کو اٹھا کر وہاں سے بھاگ گئی۔اسے بچے کے ساتھ حویلی سے نکلتے ایک ملازم نے دیکھا تو شور مچا کر سب کو بلا دیا۔


شاکرہ وہاں سے بچ بچا کر بھاگ رہی تھی اور ابراہیم شاہ کہ بہت سے آدمی اس کے پیچھے پڑے تھے بھاگتے بھاگتے ہیں ان کو ایک گاڑی سے ٹکرائی۔


"بہن اٹھو تم ٹھیک تو ہے نا؟"


گاڑی میں سے تیس سالہ ایک آدمی باہر آیا اور اس نے شاکرہ کو سہارا دے کر کھڑا کیا۔


"میرا بچہ ۔۔۔۔وہ مجھ سے میرا بچہ چھین لیں گے مجھے بچا لیں۔۔۔۔"


شاکرہ نے اس شخص کو دیکھ کر روتے ہوئے کہا تو اس شخص نے ایک نگاہ شاکرہ کی گود میں موجود بچے کو دیکھا اور اسے فورا اپنی گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔


گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ دونوں وہاں سے چل دیے اور شاکرہ ابھی بھی پریشانی سے پیچھے دیکھ رہی تھی۔


"دیکھو بہن اگر تم چاہتا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں تو تمہیں مجھے سب سچ بتانا ہو گا۔"


اس شخص کی آواز پر شاکرہ نے ننھے جہانزیب کو سینے میں چھپاتے ہوئے گھبرا کر اس آدمی کو دیکھا۔


"ڈرو مت بہن میں نے تمہیں بہن کہا ہی نہیں مانا ہے۔میرا نام عالم رند ہے اور اوتھل کا سردار ہوں۔۔۔۔"


سردار لفظ ان کر شاکرہ مزید ڈر گئی تھی۔


"فکر مت کرو بہن میں نے تمہیں اپنی بہن بولا ہے اب کوئی تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا کیونکہ ایک بلوچ کی بہن اسکی غیرت ہوتی ہے اور اپنی غیرت کی خاطر بلوچ جان دے بھی سکتا ہے اور لے بھی سکتا ہے ۔۔۔"


نا جانے کیوں مگر شاکرہ کو اس شخص کی بات میں سچائی نظر آئی اسی لیے روتے ہوئے اسے ہر بات بتاتی چلی گئی۔


"پریشان مت ہو بہن کوئی بھی تم سے تمہارا بچہ نہیں چھینے گا یہ میرا وعدہ ہے تم سے کیا تم مجھ پر بھروسہ کرکے میرے ساتھ چلو گی؟"


شاکرہ نے اس کے سوال پر کافی دیر غور کیا اور پھر ہم سر ہلایا ویسے بھی اس کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔اگر وہ لوگ اس سے اس کا بچہ چھین لیتے تو وہ اس کے بنا کیسے جیتی؟


سردار عالم رند اسے اپنے گاؤں لے آیا جہاں اس نے سب سے یہی کہا کہ وہ اسکی بہن ہے اور اب اسی حیثیت سے اس حویلی میں رہے گی۔


شاکرہ نے غور کیا کہ عالم اور سکینہ کا سلوک اس سے بہت زیادہ اچھا تھا اور جہانزیب کو تو ہر کوئی بہت زیادہ پیار کرتا تھا کیونکہ اس سے پہلے اس حویلی میں کوئی بھی بچہ نہیں تھا۔


شاکرہ کو لگا کے اس کی ساری پریشانیاں دور ہوگئیں لیکن ایسا نہیں ہوا تھا اسکے وہاں آنے کے ایک سال بعد ہی ابراہیم شاہ اسے ڈھونڈتا وہاں پہنچ چکا تھا۔


اسے حویلی کے صحن میں کھڑا دیکھ کر شاکرہ نے سہم کر جہانزیب کو اپنے سینے میں بھینچا۔عالم رند خود وہاں جا کر ابراہیم کے مقابل کھڑا ہوا۔


"اس حویلی میں میرا وارث ہے اسے مجھے دے دو عالم رند ورنہ۔۔۔۔۔


"ورنہ کیا ۔۔۔۔۔جسکی تم بات کر رہا ہے نا شاہ وہ میری بہن کا بیٹا ہے جسے میرے جیتے جی اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔"


عالم رند نے ابراہیم کی بات کو کاٹتے ہوئے اطمینان سے کہا۔


"دیکھ عالم رند ہماری کوئی دشمنی نہیں شرافت سے مجھے میرا بیٹا لوٹا دے ورنہ مجھے اور بھی بہت طریقے پتہ ہیں۔"


ابراہیم شاہ کی بات پر ایک طنزیہ سی مسکان نے عالم کے لبوں کو چھوا۔


"تو ٹھیک ہے ابراہیم شاہ اپنا ہر طریقہ آزماکر دیکھ لے لیکن یہ بھی وعدہ ہے عالم شاہ میر رند کا کہ میری بہن سے تو اسکا بیٹا نہیں چھین پائے گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر عالم وہاں سے چلا گیا اور ابراہیم شاہ انہیں دھمکیاں دیتا وہاں سے چلا گیا وہاں سے آنے کے بعد ابراہیم شاہ نے جہانزیب کو پانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن عالم رند نے اسکی ہر سیاسی ، قانونی، جاگیر دارانہ کوشش کو ناکام کر دیا۔


پہلا دھچکا تو انہیں تب لگا جب عالم کی بہن منیرہ نے کسی پٹھان سے محبت کا دعوہ کیا۔عالم نے شاہ میر کو بہت سمجھایا کہ وہ منیرہ کی خواہش کو سمجھیں لیکن شاہ میر کی ضد تھی کہ وہ بیٹی کا رشتہ خاندان سے باہر نہیں کریں گے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ منیرہ ان سب کو چھوڑ کر اپنی محبت کے ساتھ وہاں سے بھاگ گئیں۔بہت محنت کے باوجود منیرہ کا کچھ پتہ نہیں چلا۔


اس کی اس حرکت پر حویلی کی خوشیاں برباد ہو گئیں اور پھر دو سال بعد ہی ان کے اپنے ہاں میر داد پیدا ہوا جس نے اس حویلی کی خوشیوں کو واپس لوٹایا۔


میر داد اور جہانزیب کی دوستی اور پیار مثالی تھا۔جہاں میر داد ضدی لاڈلا اور غصے کا تیز تھا وہیں جہانزیب انتہائی زیادہ معصوم اور عاجز بچہ تھا۔


پھر ماہ گل کی پیدائش پر عالم صاحب نے جہانزیب کو خود سے جوڑنے کا فیصلہ کیا اور سب کی مخالفت کے باوجود ماہ گل کے چار سال کے ہوتے ہی انہوں نے اسکا نکاح جہانزیب سے کر دیا۔


نکاح کے دن ابراہیم شاہ عالم سے ایک بار پھر سے ملنے آیا تھا اور اسے اپنا بیٹا چھیننے کی وجہ سے خوب دھمکیاں دے کر گیا۔مگر عالم کو اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑا وہ جہانزیب کو ایک مقام دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔پھر تین سالوں کے بعد انکے ہاں شاہ داد کی پیدائش ہوئی اور چار سال بعد حورم کی۔


حویلی خوشیوں اور اطمینان سے بھری تھی مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ خود کچھ عرصے کے بعد کسی ضروری کام سے شہر گئے لیکن وہاں سے واپس ہی نہیں آ سکے۔


ایک سنسان جگہ پر دونوں کی لاش گولیوں سے چھلنی ملی تھی۔ایک قیامت اس حویلی پر آئی تھی ۔میر داد تب صرف تیرہ سال کا تھا اور اپنی ایک سال کی بہن کو باہوں میں اٹھائے مردہ آنکھوں سے اپنے ماں باپ کے جنازوں کو دیکھ رہا تھا۔


شاہ میر اور شاکرہ جانتے تھے کہ انکی موت کا باعث کون تھا بلکہ ابراہیم شاہ نے پہلا موقع ملتے ہی اپنی ہر دھمکی سچ کر دکھائی تھی۔لیکن کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ابراہیم شاہ کو کچھ بھی نہیں کہہ پائے ۔اسے مزید دشمنی مول لے کر وہ اپنے پوتے پوتیوں کی جان بھی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔


لیکن وہ دونوں نہیں جانتے تھے کہ ان کی ہر بات پندرہ سالہ جہانزیب سن چکا تھا اور اسی دن اس بچے کو اپنے باپ کے نام سے بھی نفرت ہو گئی تھی۔اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی بھی ابراہیم شاہ کو اپنا چہرہ بھی نہیں دکھائے گا۔


عالم رند کے جانے کے بعد گاؤں کو ایک سردار کی اشد ضرورت تھی جو کلیم نے خود بننا چاہا لیکن اس کی یہ خواہش میر داد نے ادھوری رہنے دی اس نے اپنے بچپن میں ہی ہر چیز کو بہت اچھے سے سنبھال لیا۔


سب کچھ ایک بار پھر سے توازن میں آ چکا تھا گل کے 18 سال کے ہوتے ہی میرے داد نے اس کی رخصتی کا فیصلہ کیا۔لیکن تب بھی انکی حویلی کو قسمت نے بہت بری مار ماری۔


گل کو ہمسایہ گاؤں کے سردار کے بیٹے نے شادی سے اگوا کر لیا۔وہ گل کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اسکا عاشق ہو چکا تھا۔میر داد اور جہانزیب بے چینی سے ہر طرف اسے ڈھونڈ رہے تھے۔دن سے رات ہونے کو تھی گل کا کسی کو بھی پتہ نہیں چل رہا تھا۔آخر کار اگلی صبح میر داد اپنے بازوؤں میں گل کے مردہ وجود کو لے کر حویلی میں داخل ہوا۔


گل کی لاش ایک کھائی سے ملی تھی ضرور اسے اس شخص نے ہی مارا تھا۔


ایک قیامت سی اس حویلی پر سے گزر گئی تھی سب لوگ سکتے کے عالم میں تھے لیکن گل کی موت کا سب سے زیادہ صدمہ شاکرہ کو ہوا اور دو دن بعد وہ بھی اس دنیا سے چل بسیں۔


میر داد نے اس لڑکے کو ڈھونڈ کر بہت بری موت مارا تھا لیکن پھر بھی اسکی شخصیت میں ماں باپ کی موت پر جو سنجیدگی آئی تھی بہن کی موت پر تو وہ شخص خود ہی پتھر کا بن گیا تھا۔اسے ہر دنیا میں ہر شخص سے نفرت ہوگئی سوائے اس کی چھوٹی بہن اور بھائی کے۔اگر میرداد کے اندر تھوڑے سے بھی جذبات تھے تو وہ شاہ داد سے شروع ہوکر حورم پر ختم ہو جاتے تھے۔


جبکہ جہانزیب نے خود کو گل کا گناہگار ہی سمجھ لیا تھا اسے لگتا تھا کہ اگر وہ امیر ہوتا طاقت ور ہوتا تو گل کی حفاظت کر سکتا۔اس کے بعد جہانزیب شاہ نے وہ بننے کا فیصلہ کیا جو کلیم اسے سمجھتے تھے۔۔۔رند خاندان کا غلام ۔۔۔۔۔

💕💕💕

(حال)

جہانزیب کب سے اس حویلی کے باہر کھڑا تھا اسنے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک دن یہاں پر کھڑا ہوگا۔میر داد نے اسے بتایا تھا کہ ابراہیم شاہ اس سے ملنا چاہتا تھا۔جہانزیب ضبط سے مٹھیاں بھینچتا حویلی کے دروازے تک گیا۔


"مجھے ابراہیم شاہ سے ملنا ہے۔۔۔"


جہانزیب نے چوکیدار کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔


"آپکا تعارف۔۔۔۔"


چوکیدار نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"سید جہانزیب شاہ۔۔۔۔"


اس بات پر چوکیدار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ گھبرا کر جلدی سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھولنے لگا۔


"جج۔۔۔جہانزیب سائیں آپ ۔۔۔۔آئیں۔۔۔۔"


چوکیدار کی ایسا کہنے پر جہانزیب خاموشی سے اندر کی طرف چل دیا جبکہ اس کے اندر پہنچتے ہی چوکیدار حویلی کے ہر ملازم کو اس کی پہچان بتانے لگا۔


"سلام سائیں۔۔۔۔میر نام نواز احمد ہے"


ایک آدمی نے آگے بڑھ کر جہانزیب کو سلام کیا تو جواب میں جہانزیب نے ہاں میں سر ہلایا۔


"مجھے ابراہیم شاہ سے ملنا ہے ۔۔۔۔"


جہانزیب کے سنجیدگی سے کہنے پر نواز اسے ایک کمرے کی طرف لے آیا اور پھر خود باہر کھڑے ہو کر جہانزیب کہ اندر جانے کا اشارہ کیا۔


جہانزیب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور حیرت سے ہر چیز کو دیکھنے لگا۔وہ کوئی حویلی کا کمرہ نہیں بلکہ ایک ہسپتال کا کمرہ لگ رہا تھا اور ایک بوڑھا سا وجود مشینوں میں جکڑا ہوا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شخص اپنی زندگی کے آخری پل جی رہا تھا۔


"شاہ سائیں دیکھیں کون آیا ہے۔"


نواز نے اندر آ کر کہا تو ابراہیم شاہ نے ہلکے سے اپنی آنکھیں کھول کر جہانزیب کو دیکھا اور اسے دیکھتے ہیں وہ اپنے بیٹے کو پہچان چکے تھے۔اسی لیے بے چینی سے خود پر لگی مشینوں کو نوچتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔


"جج۔۔۔۔جہان۔۔۔۔"


ابراہیم شاہ نے اپنا ہاتھ آگے کر کے ہلکے سے پکارا تو جہانزیب آہستہ سے اپنے اکلوتے رشتے کے پاس گیا اور انکا ہاتھ پکڑ کر انکے پاس بیٹھ گیا۔


"تم آ گئے بیٹا میں جانتا تھا کہ تم مجھے معاف کر دو گے۔۔۔۔۔"


ابراہیم کے ایسا کہتے ہی جہانزیب نے اپنا منہ موڑ کر ان کی اس بات کو غلط ثابت کرنا چاہا۔


"ججج۔۔۔۔جانتا ہوں بیٹا۔۔۔۔ میں معافی کے قق۔۔۔۔قابل ہی نہیں۔۔۔۔جو میں نے شش۔۔۔۔شاکرہ کے ساتھ کیا۔۔۔۔۔یہ سب ۔۔۔۔۔اسی کی سس۔۔۔۔سزا ہے۔۔۔۔"


ابراہیم شاہ آنسو بہاتے ہوئے بولتے چلے گئے جبکہ جہانزیب خاموشی سے اس تباہ حال شخص کو دیکھ رہا تھا۔


"تمہیں پتہ ہے۔۔۔۔شاکرہ کے جانے کے بعد میں نے وارث ۔ ۔ ۔۔۔۔کے لیے پھر سے ششش۔۔۔۔۔شادی کی۔۔۔۔خدا نے مجھے تین بیٹے بھی دیے۔۔۔۔۔مگر میرے گناہوں کا نتیجہ دیکھو۔۔۔۔۔وہ سب پیدا ہوتے ہی اس دنیا سے چلے گئے۔۔۔۔ یہ سب شاکرہ پر ظلم کی سزا ملی۔۔۔۔۔اور اب۔۔۔۔۔اور اب ۔۔۔۔ "


ابراہیم شاہ کا بولتے ہوئے سانس پھولنے لگا تو وہ کچھ دیر رک کر پھر بولے۔


"مجھے کینسر ہے جہان۔۔۔۔۔میں ۔۔۔مممم۔۔۔۔۔مر رہا ہوں بہت کم ۔۔۔۔۔وقت ہے میرے پاس ۔۔۔۔۔"


ابراہیم نے روتے ہوئے کہا اور اپنے کانپتے ہاتھوں سے جہانزیب کے ہاتھ پکڑے۔۔۔


"بس میری یہ گزارش ہے۔۔۔۔۔کہ تم مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ببب۔۔۔۔باقی شاکرہ کا تو میں اتنا بڑا گناہگار ہوں۔۔۔۔۔کہ۔۔۔ کہ معافی بھی نہیں مانگ سکتا۔۔۔۔۔"


ابراہیم شاہ نے اپنے کانپتے ہاتھ جوڑتے ہوئے جہانزیب سے کہا جہانزیب تو بس انہیں خالی نگاہوں سے دیکھتا جا رہا تھا۔


"آپ بس میرے اور اماں سائیں کے گناہگار نہیں بلکہ میر داد اور اسکے بھائی بہنوں کے بھی ہیں جن سے آپنے ماں باپ کا سایہ چھین لیا۔۔۔۔۔اس گناہ کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے آپ؟"


جہانزیب کی بات پر ابراہیم کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔


"تم کہنا کیا چاہتے ہو جہانزیب؟"


ان کے اس سوال پر ایک طنزیہ سی مسکان جہانزیب کے لبوں پر آئی۔


"اب اتنے بھی معصوم مت بنیں آپ نے ہی تو عالم بابا اور سکینہ ماں کی جان لی تھی مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب آپ نے عالم بابا کو دھمکی دی تھی اور پھر جو کہا وہ کر دیکھایا۔۔۔"


جہانزیب کی بات سن کر ابراہیم نے پریشانی سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔


"مجھے اپنا ہر گناہ قبول ہے جہاں میں شاکرہ کا مجرم ہوں،تمہارا مجرم ہوں اور عالم رند کو بھی میں نے دھمکایا تھا مگر میں نے اسکی جان نہیں لی جہانزیب۔۔۔۔"


جہانزیب کے ماتھے پر بل آئے اور اس نے بے یقینی سے اپنے باپ کو دیکھا


"آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔۔۔"


"نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔میرا یقین کرو۔۔۔۔"


ابراہیم شاہ نے بے چینی سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔


"تو ثابت کریں یقین دلائیں اپنی اس بات کا کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں۔۔۔"


جہانزیب کی بات پر ابراہیم پہلے تو گہری سوچ میں ڈوب گئے پھر انہوں نے اپنا کانپتا ہاتھ اٹھا کر جہانزیب کے سر پر رکھا۔


"میں اپنے خاندان کے اکلوتے وارث۔۔۔۔۔۔،اپنی واحد اولاد جو میرے لیے اس دنیا میں سب سے قیمتی ہے۔۔۔۔۔،اسکی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ عالم رند ۔۔۔۔۔۔اور اسکی بیوی کی جان میں نے نہیں لی اور نہ ہی۔۔۔۔۔ اس میں میرا کسی قسم کا کوئی ہاتھ ہے۔"


جہانزیب حیرت سے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔وہ ان کے چہرے پر سچائی دے سکتا تھا اس مرتے ہوئے آدمی کے پاس جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔


لیکن جو بات جہانزیب کو پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ اگر ان کی جان ابراہیم شاہ نے نہیں لی تھی تو پھر ایسا کس نے کیا تھا۔عالم صاحب کی تو کسی اور سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔


گہری سوچ کے عالم میں جہانزیب نے اپنے ماتھے کو انگلیوں کے پوروں سے سہلایا۔


"مجھے تمہیں کچھ اور بھی بتانا ہے جہان۔۔۔۔"


ابراہیم نے اتنا کہہ کر پیچھے کھڑے نواز کو اشارہ کیا تو اس نے الماری میں سے کچھ فائلز ابراہیم شاہ کو پکڑائیں۔


"یہ میری تمام جاگیر کے کاغذات ہیں۔۔۔۔۔میں تمام دولت،حویلی،زمینیں،کاروبار۔۔۔۔۔سب کچھ تمہارے نام لکھ چکا ہوں۔۔۔۔۔ کیونکہ اس سب پر واحد حق تمہارا ہے جہان۔۔۔۔۔۔اب یہ تم پر ہے کہ تم اسے قبول کرتے ہو یا نہیں۔۔۔۔ یا اس سب کا جو بھی کرتے ہو ۔۔۔۔۔لل۔۔۔۔لیکن یہ سب تمہارا تھا اور ہمیشہ تمہارا ہی رہے گا۔۔۔۔۔"


ابراہیم نے وہ فائلیں جہانزیب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا مگر جہانزیب نے انہیں نہیں تھاما۔بس خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔


"بس تم سے ایک گزارش ہے بیٹا کہ اپنے اس باپ کو معاف کر دینا۔۔۔۔۔ خدا کے لیے مرنے سے پہلے مجھ پر سے یہ ایک بوجھ ختم کر دو۔۔۔۔"


ابراہیم نے فائل سائیڈ پر رکھ کر اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔جہانزیب خاموشی سے وہاں سے اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا جب کہ وہ تباہ حال شخص آنکھوں میں آنسو لیے اپنے بیٹے کو وہاں سے جاتا دیکھ رہا تھا۔


"میں نے آپکو معاف کیا بابا اور دعا کروں گا کہ اماں سائیں بھی آپکو معاف کر دیں۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب اس دروازے سے باہر نکل گیا۔

💕💕💕

میر داد اب نہ صرف پری کو وقت دیتا تھا بلکہ وہ اسکا بہت زیادہ خیال بھی رکھ رہا تھا۔اب تو پری نے نرمی اور معصومیت سے شاہ میر صاحب کے دل میں بھی جگہ بنا لی تھی لیکن باقی گھر والوں کو نہ تو کبھی اس کی اچھائی نظر آئی تھی اور نہ ہی کبھی آ سکتی تھی۔


شام کا وقت تھا اور پری باہر کی سیڑھیوں پر بیٹھی میرداد کا انتظار کر رہی تھی۔سامنے ہی چاندی اٹھکیلیاں کر رہی تھیں جنہیں دیکھ کر پری بہت زیادہ خوش ہوتی۔


تبھی اچانک ایک گاڑی وہاں پر آئی جس نے سامنے دیکھے بغیر ہی گاڑی اس ننھی سی چاندی پر چڑھا دی۔


بے ساختہ طور پر پری کے منہ سے ایک چیخ نکلی اس نے آگے بڑھ کر چاندی کو دیکھا جو گاڑی کے نیچے آ کر مر چکی تھی۔


پری نے آنسوؤں سے بھری نگاہیں اٹھا کر سامنے موجود لڑکے کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا۔پری جلدی سے آگے بڑھی اور اسے اس کے گریبان سے پکڑ لیا۔


"یہ تم نے کیا کر دیا اسے بچا لو ورنہ وہ مر جائے گی۔"


پری کے اسطرح سے اسکا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑنے پر بہت پرانا منظر شاہ داد کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔


"چھ۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔"


"پپ۔۔۔۔۔پلیز اس کو بچا لو۔۔۔۔اسے

ہاسپٹل ۔۔۔۔۔لے جاؤ پلیز۔۔۔۔۔"


پری اسکا گریبان جھنجھوڑتے ہوئے بری طرح سے روتے ہوئے چلا رہی تھی۔


"چھوڑو مجھے۔"


شاہ داد نے اسے دھکا دیا جسکی وجہ سے پری سامنے موجود گاڑی سے ٹکرا گئی۔


تبھی کئی جھماکے پری کے دماغ میں ایک ساتھ ہوئے۔وہی شخص تھا، وہی گاڑی تھی بس جگہ اور ماحول الگ تھا۔ایسے ہی تیز رفتاری سے وہ آیا تھا اور وہ بوڑھا سا آدمی دوپٹہ زمین سے اٹھا کر اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا تبھی وہ گاڑی کا ٹکرانا اور۔۔۔۔


"بابا۔۔۔۔۔"


پریسا اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر چلائی جبکہ اسکی چیخ سن کر جہاں شاہ داد نے اسے گھبرا کر دیکھا تھا وہیں ہال میں بیٹھی کشمالہ بھاگ کر باہر آئی۔


"بابا۔۔۔۔۔مار دیا میرے بابا کو۔۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔مار دیا۔۔۔۔۔"


پریسا ابھی بھی زمین پر بیٹھے اونچی اونچی چلا رہی تھی جبکہ حویلی کا ہر ملازم اسکی غیر ہوتی حالت اور شاہ داد کے اڑے ہوئے رنگوں کو دیکھ رہا تھا۔


"بابا ۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔"


پریسا کی درد ناک چیخ گونجی اور پھر وہ بے سدھ ہو کر زمین پر گر چکی تھی۔

میر داد کو گھر سے فون آتے ہی وہ پاگلوں کی طرح ہاسپٹل بھاگا اور وہاں پر سب کو پریشانی کے عالم میں کھڑا دیکھ میر داد شاہ میر کی طرف بڑھ گیا۔


"پیرک کیا ہوا پری کو؟"


میر داد کے بے چینی سے پوچھنے پر شاہ میر خاموش ہی رہے وہ بھلا اپنے پوتے کو کیا جواب دیتے۔تبھی ایک ڈاکٹر کمرے سے باہر آیا اور میر داد بے چینی سے اسکی طرف گیا۔


"سوئر نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے انکا دماغ کو بہت زور کا جھٹکا لگا ہے بس آپ دعا کریں کہ جلد از جلد ہوش میں آ جائیں۔"


ڈاکٹر کی بات سن کر میر داد پریشانی سے زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔شاہ میر نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"ہمت کرو میر داد سب ٹھیک ہو جائے گا خدا پر بھروسہ رکھو اور ہمت سے کام لو۔۔۔"


شاہ میر نے میر داد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔جبکہ میر داد تو بس پلکیں جھپکائے بغیر اس دروازے کو دیکھتا جا رہا تھا۔


"ہمت اور بھروسہ ہی تو کیا ہے میں نے پیرک بابا اور ماما کے جانے پر بھی،ماہ گل کے کھونے پر بھی اور پھر حور کو کھونے پر بھی ۔۔۔۔"


میر داد بولتے بولتے خاموش ہوا اور پھر اپنا سر اٹھا کر شاہ میر کو دردناک آنکھوں سے دیکھا۔


"لیکن اگر اب اسے کچھ ہو گیا نا پیرک تو آپکا یہ مظبوط پوتا نہیں سہہ پائے گا بکھر جائے گا مکمل طور پر ٹوٹ جائے گا پیرک ٹوٹ جائے گا۔"


میر داد کی بات پر شاہ میر صاحب تڑپ اٹھے تھے۔

💕💕💕

ارشاد حویلی میں داخل ہوا تو سامنے ہی اسے ایک ملازم نظر آیا ارشاد خاموشی سے اسکی طرف چل دیا۔


"مجھے میر داد واجہ سے ملنا ہے۔۔۔۔"


ارشاد نے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔


"واجہ گھر نہیں ہیں انکی بیوی بیمار ہے تو ہسپتال گئے ہیں اگر آپ کو کوئی خاص کام ہے تو بتا دیں میں انہیں بتا دوں گا۔۔۔۔"


ارشاد نے کچھ دیر ملازم کی بات پر غور کیا اور پھر انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں مجھے واجہ سے ہی ملنا ہے جب وہ گھر آ جائیں تب آؤں گا۔۔۔۔"


ارشاد اتنا کہہ کر واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا۔آج وہ شخص ڈرپوک نہیں رہا تھا بلکہ بہت زیادہ بہادر ہو چکا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جاتا وہ شاہ داد کو اس کے انجام تک پہنچا کر ہی رہے گا۔


وہاں سے سیدھا ارشاد قبرستان ازمینہ کی قبر پر گیا اور اسکے پاس بیٹھ کر اپنے کانپتے ہاتھ ازمینہ کی قبر پر رکھے۔


"یاد ہے مینہ تمہیں جب تمہاری بہنیں پیدا ہوئیں تو تم کہتا تھا کہ وہ صرف اماں کی بیٹیاں ہیں اور میرا بیٹی صرف تم ہو۔۔۔۔"


ارشاد نے قبر کو چھوتے ہوئے مسکرا کر کہا۔


"پھر تم یہ بھی کہتا تھا کہ بابا میری ہمت ہیں،میرا مان ہیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر کئی آنسو ارشاد کی آنکھوں سے نکلے۔


"لیکن میں تمہارا مان نہیں بن پایا مینہ نہیں بن پایا۔۔۔۔"


ارشاد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا اسکے ہاتھ ابھی بھی قبر کی مٹی پر تھے۔


"اب بنوں گا میں تمہارا مان مینہ دیکھنا تم میں اس کو سزا دلوا کر رہوں گا۔۔۔۔دیکھنا تم مینہ۔۔۔۔"


ارشاد نے قبر کی مٹی کو اپنی مٹھی میں بھرتے ہوئے کہا۔بہت سے آنسو اس مٹی کو تر کر چکے تھے۔


"لیکن ایسا کرنے میں میں نے دیر کر دی مینہ بہت زیادہ دیر کردی۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ارشاد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور پھر نہ جانے کتنی ہی دیر روتا رہا۔

💕💕💕

"آپکو یاد ہے حورم سائیں جب آپکی تیرویں سالگرہ تھی اور شاہ داد نے آپکے تحفے میں مری ہوئی چھپکلی چھپا دی تھی۔۔۔۔ وہ تحفہ کھولتے ہی آپ زور زور سے چلانے لگیں تھیں اور پھر آپ نے پہلے سے مری ہوئی چھپکلی کو دس بار مزید مروایا تھا۔۔۔"


حورم گم سم سی کھڑکی سے باہر دیکھتے جا رہی تھی اور جہانزیب کب سے اسکے ساتھ بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن حورم تو ایسے تھی کہ جیسے کوئی بت ہو جسے کسی بھی چیز سے کوئی واسطہ نہیں۔


"حورم سائیں خدا کے لیے ایک بار تو کچھ بول دیں۔۔۔۔"


آخر کار جہانزیب نے بے بسی سے کہا لیکن ابھی بھی کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے حورم کے ہاتھ تھام لیے اور اسکا رخ اپنی طرف کیا۔


"گناہگار ہوں نا میں آپکا۔۔۔بہت دل دکھایا میں نے تو مجھے سزا دیں نا دنیا کی سخت سے سخت سزا سنائیں مجھے لیکن بس ایک بار مجھ سے بات تو کر لیں ۔۔۔۔"


جہانزیب بے بسی کی انتہا پر تھا اسکی ہر کوشش ناکام ثابت ہوتی جا رہی تھی اور اسے حورم کی بہت زیادہ فکر ہو رہی تھی۔


اب تو اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے کسی اچھے سے سائیکیٹرسٹ کو دیکھائے گا۔حورم جس سب سے گزر رہی تھی وہ یقیناً اسکے لیے اچھا نہیں تھا۔


"جہان بیٹا۔۔۔۔"


سلمی خالہ کے پکارنے پر جہانزیب نے اپنا دھیان حورم سے ہٹا کر انہیں دیکھا۔


"آپ سے باہر کوئی ملنے آیا ہے۔۔۔"


"اس وقت۔۔۔۔"


جہانزیب نے پریشانی سے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اٹھ کر باہر کی طرف چل دیا مگر سامنے ہی ابراہیم شاہ کو نواز کے ساتھ ویل چیر پر دیکھ کر جہانزیب کے قدم اپنے آپ رک گئے۔


"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"


جہانزیب نے حیرت سے پوچھا تو ابراہیم مسکرا دیے۔


"ایک بار اپنے بیٹے کو کھونے والی غلطی کی تھی میں نے جہانزیب لیکن اب بار بار وہ نہیں کروں گا۔تم یہاں رہنے کے لیے نہیں بنے ہو جہان ہمارے ساتھ حویلی چلو۔۔۔۔"


جہانزیب نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں شاہ سائیں ایک یتیم عورت کے بیٹے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اسے یونہی ایسی جگہوں پر رہنا پڑتا ہے آپ میری فکر مت کریں اور گھر چلے جائیں آپکی طبیعت ٹھیک نہیں۔"


جہانزیب نے اپنی جگہ پر کھڑے رہ کر نرمی سے کہا تو ابراہیم اپنی ویل چیر گھسیٹتے اسکے پاس آئے اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


"کیوں پرائے لوگوں والی باتیں کر رہے ہو۔معاف کر دیا ہے تو اپنا بھی لو۔۔۔۔"


ابراہیم کی اس بات پر جہانزیب خاموش ہی رہا مگر تبھی ابراہیم کا دھیان پیچھے کمرے میں چارپائی پر بیٹھی لڑکی پر گیا تو وہ اپنی ویل چیر کو گھسیٹتے اس طرف چل دیے۔جہانزیب انکے ساتھ کمرے میں آیا


"یہ میری بیوی ہے حورم جہانزیب شاہ۔۔۔۔"


جہانزیب نے حورم کو بہت محبت سے دیکھتے ہوئے کہا اور وہ محبت ابراہیم کی آنکھوں سے چھپی نہیں رہی تھی۔


"یہ عالم رند کی چھوٹی بیٹی ہے نا؟"


جہانزیب نے بے ساختہ ہاں میں سر ہلایا تو ابراہیم نے خفگی سے اسے دیکھا۔


"میری بہو یہاں نہیں رہے گی جہانزیب شاہ وہ محلوں کی شہزادی ہے اور وہیں رہے گی۔۔۔۔ آپا آپ میری بہو کو گاڑی میں بٹھائیں ہم اسی وقت حویلی جا رہے ہیں۔"


ابراہیم نے سلمی خالہ کو دیکھتے ہوئے فیصلہ سنایا۔


"مگر۔۔۔۔"


"کوئی اگر مگر نہیں جہانزیب شاہ اگر تمہیں یہاں رہنا ہے تو رہو مگر میری بہو یہاں نہیں رہے گی۔۔۔"


ابراہیم نے سملی خالہ کو پھر سے اشارہ کیا تو انہوں نے اگے بڑھ کر ایک چادر حورم پر ڈالی اور اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے ساتھ چلانے لگیں۔ابراہیم نے جہانزیب کے پاس آ کر اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


"گھر آ جاؤ بیٹا ضد مت کرو اسے ایک مرتے آدمی کی خواہش سمجھ کر پورا کر دو۔۔۔۔"


ابراہیم کی بات پر جہانزیب کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔اس نے اثبات میں سر ہلایا اور انکی کرسی کو گھسیٹتا باہر کی طرف چل دیا جہاں ایک نئی زندگی انکے انتظار میں تھی۔

💕💕💕

انہوں نے پوری رات بیٹھ ہسپتال میں بیٹھ کر گزار دی باقی سب تو رات ہوتے ہی حویلی واپس چلے گئے تھے اور اب وہاں بس میر داد کے ساتھ شاہ میر اور شاہ داد موجود تھے۔


شاہ داد تو اس وقت سے اپنے ہاتھ مسلتا اس لڑکی کے مرنے کی دعائیں کر رہا تھا۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسکی بے چینی بڑھ رہی تھی کیونکہ اس لڑکی کی زندگی سے شاہ داد کی سزا جڑی تھی۔


مگر میر داد تو بس خاموشی سے بیٹھا اپنے ہتھیلیوں کو دیکھ رہا تھا جن کی لکیروں میں شائید کسی کا ساتھ کسی کا پیار نہیں لکھا تھا۔


"واجہ اپ کھانا کھا لیں کل رات سے آپ نے کچھ نہیں کھایا۔۔۔"


زمان نے پریشانی سے میر داد کے پاس آ کر کہا تو میر داد نے انکار میں سر ہلا دیا اسے اس وقت کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔تبھی ایک ڈاکٹر جلدی سے کمرے سے باہر آئی ۔


"پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے۔۔۔"


یہ الفاظ سنتے ہی میر داد کا دل کیا کہ وہ سجدہ شکر میں گر جائے مگر شاہ داد تو ایسا لگ رہا تھا کہ سکتے میں ہی چلا گیا ہو۔


"اپ چاہیں تو انکے پاس جا سکتے ہیں مگر ابھی وہ نیند کی دوائیوں کے زیر اثر ہیں۔"


میر داد اتنا سنتے ہی دروازے کی طرف بڑھ گیا اور ہر ڈاکٹر کو نظر انداز کرتا ہوا بیڈ پر لیٹی پری کے پاس موجود کرسی پر بیٹھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔


نہ جانے کتنی ہی دیر اس کے پاس بیٹھا وہ اپنی پری کو دیکھتا رہا تھا۔اس نے ایک سیکنڈ کے لئے بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔


وہ بس اتنا چاہتا تھا کہ اس کی پری جلدی سے ٹھیک ہو کر اسکے ساتھ اسکے گھر چلے مگر یہ اب اس کا خواب ہی تھا کہ پری کبھی بھی اس کی ہوگی۔

💕💕💕

نا جانے کونسا وقت تھا جب نیند کی دوائیوں کے اثر سے نکل کر پریسا کو ہوش آیا۔پہلے تو وہ خالی نظروں اور خالی دماغ سے ہر چیز کو دیکھتی رہی۔وہ تو اپنی خام خیالی میں پاس بیٹھے میر داد کو بھی محسوس نہیں کر پائی تھی اور نہ ہی اپنا ہاتھ اسکی گرفت میں محسوس ہوا تھا جو وہ اپنے ماتھے سے لگائے سو رہا تھا۔


پھر آہستہ آہستہ اسکی زندگی کا گزرا ہر ایک منظر اسکے دماغ میں ایک فلم کی طرح چلنے لگا۔


حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اسکی ساری یادیں ایک ہی شخص سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہو جاتی تھیں۔۔۔ اس کے بابا پر ہاں اسکے بابا۔۔۔


"بابا۔۔۔۔"


پری کے ہونٹوں نے بے آواز سر گوشی کی پھر اس دن کا ہر منظر اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرا۔حیدر صاحب کا سڑک پر جانا۔وہ دوپٹہ اٹھا کر پریسا کو مسکرا کر دیکھنا اور پھر وہ جیپ۔۔۔۔


"بابا۔۔۔۔"


ایک دردناک چیخ پریسا کے ہونٹوں سے نکلی جسے سنتے ہی میرداد نے آنکھیں کھول کر بے چینی سے پریسا کو دیکھا جو وہاں سے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔


"بابا ۔۔۔۔میرے بابا کے پاس جانا ہے ۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔"


میر داد نے پریسا کو پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ جھپٹتے ہوئے بے چینی سے اپنے جسم پر لگی ڈرپ اور ہر دوسری مشین کو نوچ نوچ کر اتار رہی تھی۔


"پری ۔۔۔۔۔ڈاکٹر۔۔۔۔"


میر داد نے اسے خود میں بھینچتے ہوئے چلایا لیکن پری تو بس اپنے آپ کو چھڑوانے اور چیخنے میں مصروف تھی۔


"میرے بابا۔۔۔۔انہیں چوٹ لگی ہے ۔۔۔۔۔نہیں چھوڑو بابا۔۔۔۔۔"


پری کی تڑپ میر داد کے دل کو دہلا رہی تھی۔اتنا تو وہ سمجھ چکا تھا کہ پری جو سب یاد آ گیا ہے اور کہیں وہ اسے بھول۔۔۔۔


ڈاکٹر کی وہ بات میر داد کو یاد آئی جب ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ یاداشت واپس آنے پر اکثر مریض اس دوران کا ہر واقع بھول جاتے ہیں۔


"پری ۔۔۔۔"


میر داد میں نے اسکے تڑپتے وجود کو سختی سے خود میں بھینچتے ہوئے اسے پکارا جیسے اسے خود میں ہی چھپا لے گا۔


تبھی ڈاکٹر بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے اور ایک ڈاکٹر جلدی سے انجیکشن بھر کر پریسا کے قریب ہوا اور میر داد کی پکڑ میں مچلتی پری کو نیند کا انجیکشن لگا دیا۔


تھوڑی دیر بعد پریسا کے وجود کی جدوجہد بند ہوئی تو اس نے آنسوؤں سے بھری نیلی آنکھیں اٹھا کر میر داد کو دیکھا۔


"میر ۔۔۔۔۔۔میرے بابا ۔۔۔میرے بابا کو چوٹ لگی ہے میر انہیں بچا لیں انہیں بچا لیں ۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر پری اسکی باہوں میں بے ہوش ہو گئی۔ایک اطمینان سا میر داد کی روح میں اترا۔اسکی پری اسے نہیں بھولی تھی اسے ابھی بھی اسکا میر یاد تھا۔بے ساختہ طور پر میر داد کے ہونٹوں سے الحمد نکلا۔


مگر ابھی وہ مغرور سردار مستقبل کے اندھیروں سے ناواقف تھا۔

💕💕💕

شاہ داد پریشانی کے عالم میں گھر میں داخل ہوا تو اس کا سامنا کشمالہ سے ہوا جو اسے دیکھ کر مسکرا دی۔


"کیسی ہے وہ شاہ ٹھیک تو ہے نا۔۔؟"


کشمالہ نے ایک طنزیہ مسکراہٹ سے پوچھا جسے نظر انداز کرتا شاہ داد اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔


"تم نے مارا ہے نا اس کے باپ کو۔۔۔؟"


کشمالہ کے سوال پر شاہ داد کے چلتے ہوئے قدم رکے اور اس نے مڑ کر اپنی چچا زاد کو دیکھا۔


"ایسے کیا دیکھ رہے ہو میں نے اپنے کانوں سے سنا تھا لیکن فکر مت کرو تمہارا راز میرے ساتھ محفوظ ہے۔۔۔"


کشمالہ نے اس کے پاس آ کر مسکراتے ہوئے کہا تو شاہ داد اسے گھورنے لگا۔


"تم چاہے ساری دنیا کو بتا دو مجھے اس کی پرواہ نہیں۔۔۔"


شاہ داد کی بات پر کشمالہ مسکرا دی۔


"فرق تو پڑنا چاہیے نا آخر وہ لڑکی جانتی ہے کہ اس کے باپ کا قاتل کون ہے۔۔۔۔"


شاہ داد نے اپنے دانت کچکچا کر کشمالہ کو دیکھا۔


"چاہتی کیا ہو تم ؟"


شاہ داد کے پوچھنے پر کشمالہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


"تمہارا ساتھ چاہتی ہوں بس۔۔۔۔ہمارا دشمن ایک ہی ہے شاہ۔۔۔۔تم مجھے ہر بات بتا دو بدلے میں میں اس لڑکی سے تمہاری جان چھڑوا دونگی۔"


شاہ داد نے کشمالہ کو گھورتے ہوئے کچھ دیر اس کی بات پر غور کیا اور پھر گہرا سانس لے کر اسے ہر بات بتاتا چلا گیا۔

💕💕💕

پری کو ہوش آیا تو میر داد اسے پاس تھا اور ہوش آتے ہی پری پھر سے رونے لگی۔


"میر میرے بابا۔۔۔۔۔مجھے بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔"


پری نے بے چینی سے اسکے ہاتھ تھام کر کہا تو میر داد نے اپنا ہاتھ اسکے سر پر رکھا۔


"شش مہر میر رو مت ۔۔۔۔۔"


میر داد کے محبت سے کہنے پر پریسا کی آنکھیں مزید بہنے لگیں۔


"وہ ٹھیک تو ہیں نا میر انہیں کچھ ہو تو نہیں گیا انہیں بہت چوٹ لگی تھی آپ مجھے انکے پاس لے جائیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر پری نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن میر داد نے اسے کندھوں سے تھام کر واپس بیڈ پر لٹایا۔


"ہم چلیں گے ان کے پاس لیکن ابھی تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔۔۔۔"


میرداد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔


"نہیں وہ ٹھیک ہیں نا مجھے انہیں دیکھنا ہے میر ورنہ میں مر جاؤں گی۔"


میر داد اسکی اس بات پر تڑپ ہی اٹھا وہ کیسے اسے بتاتا کہ اسکے بابا اب اس دنیا میں ہے ہی نہیں وہ اپنا واحد رشتہ بھی کھو چکی ہے۔پری یہ نہیں سہہ پائے گی۔ میر داد نے اسکی طرف نرمی سے دیکھا۔


"ہاں ٹھیک ہیں بس انہیں چوٹیں کافی لگی تھیں تو کوئٹہ کے بڑے ہاسپٹل میں داخل ہیں وہ مگر اب ٹھیک ہیں۔"


میر داد کا جھوٹ سن کر بھی پری کو کچھ حوصلہ ہوا۔


"آپ نے مجھے ان کے بارے میں بتایا کیوں نہیں اتنا عرصہ ہو آپ مجھے ان کے پاس کیوں نہیں لے کے گئے؟"


پری نے نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا جبکہ اس کا غم دیکھ کر میر داد کا دل کر رہا تھا کہ وہ خود کو ختم ہی کر دے۔


"پری ڈاکٹر نے کہا تھا کہ تمہاری کوئی بھی پرانی یاد تمہارے لئے جان لیوا ہو سکتی ہے اس لیے میں نے تمہیں انکے بارے میں نہیں بتایا۔۔۔۔"


میر داد بہت محبت سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔جبکہ اسکا محبت بھرا لمس محسوس کر کے پری رونے لگی۔


"آپ مجھے انکے پاس لے جائیں گے نا ۔۔۔۔"


پری کے سوال پر میر داد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر چوما۔


"ہاں مہر میر کل ہی لے جاؤں گا۔۔۔۔"


پری نے آنکھیں موند لیں۔۔۔


"آپ بہت اچھے ہیں میر آپ نے ہم دونوں کا اتنا خیال رکھا مجھ سے اتنا پیار کیا آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔"


پری کے محبت سے کہنے پر میر داد نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔


"لیکن وہ اچھا نہیں تھا میر بلکل بھی اچھا نہیں تھا اس نے اتنی زور سے اس نے بابا کو گاڑی سے مارا انکا پورا چہرہ خون سے۔۔۔۔۔ میر مجھے بابا کے پاس لے جائیں۔۔۔۔"


پری اتنا کہہ کر پھر رونے لگی تو میر داد نے اسکا سر اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔


"لے جاؤں گا مہر میر لیکن ابھی تم آرام کرو۔۔۔۔"


میر داد نے اسکا ماتھا چوم کر کہا۔پری نے آنسو صاف کر کے اسے دیکھا۔


"آپ اس لڑکے کو سزا دینا میر ۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔کیا آپکو پتہ ہے کہ کون ہے وہ؟"


پری کے اس سوال پر میر داد نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کیں۔


"نہیں۔۔۔۔"


میر داد نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے جھوٹ بولا لیکن سچ بتا کر وہ پری کو نہیں کھو سکتا تھا۔


"اسے ڈھونڈنا میر پھر وہ جیل میں جائے گا نا تو اسے پتہ چلے گا۔۔۔۔"


پری نے اپنے ناک سکیڑ کر غصے سے کہا تو میر داد نے گہرا سانس لے کر اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"ٹھیک ہے لیکن ابھی سو جاؤ تم۔۔۔"


میر داد کے ایسا کہنے پر پری نے ہاں میں سر ہلا کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔


"صبح مجھے بابا کے پاس لے جائیں گے نا؟"


پریسا نے ایک آخری بار پوچھنا چاہا میر داد نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا تو پری اپنی آنکھیں بند کر گئی۔


میر داد کو اس وقت خود سے اور اپنی بے بسی سے کتنی نفرت ہو رہی تھی یہ وہی جانتا تھا۔

💕💕💕

"کیا لگتا ہے آپکو؟"


جہانزیب نے پریشانی سے سائکیٹرسٹ سے پوچھا جس نے دو گھنٹے تک حورم سے بات کرنے کی کوشش کی مگر جواب دینا تو دور کی بات ہے حورم نے کوئی تاثر تک پیش نہیں کیا تھا۔


"دیکھیں سائیں مسئلہ کافی گھمبیر ہے ایسے لگتا ہے کہ وہ دماغی طور پر مکمل ٹوٹ چکی ہیں اور اگر انہیں جلدی ٹھیک نہیں کیا تو وہ اس حالت میں زیادہ دیر تک نہیں رہ پائیں گی۔"


سائکیٹرسٹ کی بات پر جہانزیب مزید پریشان ہوگیا۔


"اس سب کا حل کیا ہے؟"


جہانزیب کے پریشانی سے پوچھنے پر سائکیٹرسٹ نے کچھ دیر سوچا۔


"محبت سائیں انہیں بہت زیادہ محبت اور توجہ کی ضرورت ہے ایسی محبت جو ان میں دوبارہ جینے کی تمنا پیدا کردے جو وہ مکمل طور پر چھوڑ چکی ہیں۔"


جہانزیب نے اس کی بات پر غور کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تو سائکیٹرسٹ اس سے اجازت لیتا وہاں سے چلا گیا۔


جہانزیب کا دھیان ابراہیم صاحب پر پڑا جو ایک ملازم کے ساتھ ویل چیئر پر اسی طرف آ رہے تھے۔


"سب ٹھیک ہے جہان کیا کہا ڈاکٹر نے۔۔۔۔"


ابراہیم نے جہانزیب کو دیکھتے ہوئے کافی پریشانی سے پوچھا۔


"سب ٹھیک نہیں ہے شاہ سائیں لیکن میرا وعدہ ہے خود سے کہ میں سب ٹھیک کر دوں گا۔"


جہانزیب نے سنجیدگی سے کہا تو ابراہیم نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے دلاسہ دینا چاہا۔


"انشاءاللہ۔۔۔"


جہانزیب نے انہیں مسکرا کر دیکھا تو ابراہیم بھی مسکرا دیے۔


"جہان مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی۔۔۔۔"


"جی کہیں۔۔۔۔"


ابراہیم کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے جہانزیب نے پوچھا۔


"دیکھو جہان مجھے غلط مت سمجھنا نہ ہی یہ سمجھنا کہ میں کسی لالچ کے عوض میں ایسا کہہ رہا ہوں۔۔۔"


ابراہیم نے گہرا سانس لے کر کہا تو جہانزیب انہیں پریشانی سے دیکھنے لگا۔


"میں جانتا ہوں کہ تمہیں میری دولت یا گاؤں کا سردار بننے میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن بیٹا ان سب لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے ایک سردار کے بنا یہ لوگ بکھر جائیں گے اور کل کو دوسرے گاؤں کے لوگ ان کی زمین پر قبضہ جما کر بیٹھ جائیں گے ۔۔۔۔"


"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔"


جہانزیب نے انہیں گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"میں چاہتا ہوں کہ میرے وارث ہونے کے ناطے تم اس گاؤں کے سردار بن جاؤ۔"


جہانزیب نے انکار میں سر ہلانا چاہا تو ابراہیم نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔


"دیکھو بیٹا انکار مت کرو تم ایک بہت رحم دل انسان ہو تو ان لوگوں کی خاطر مان جاؤ۔۔۔۔"


جہانزیب بہت دیر ان کی باتوں پر غور کرتا رہا اور پھر اس نے گہرا سانس لیا۔


"جیسے آپ کی مرضی شاہ سائیں پوری کوشش کروں گا کہ سب کی امیدوں پر کھرا اتروں۔۔۔"


ابراہیم نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تو جہانزیب بھی مسکرا کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا جہاں حورم بیڈ پر بیٹھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔جہانزیب آہستہ سے چل کر اس کے پاس آ کر بیٹھا اور اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔


"حورم سائیں آپ مجھ سے ناراض ہے نا بہت زیادہ ناراض ہیں آپ کا ناراض ہونا بنتا بھی ہے میں اسی قابل ہوں مگر جو آپ میری حورم سائیں کے ساتھ کررہی ہیں نا وہ اس قابل نہیں ہیں۔"


جہانزیب اس کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے نرمی سے کہنے لگا۔


"میری حورم سائیں بہت نازک ہیں آپ کا دیا اتنا غم برداشت نہیں کر سکتیں خدا کے لئے ان پر رحم کریں۔"


جہانزیب نے اسکا بے تاثر سا چہرہ تھام کر اوپر کیا جو ایسے لگ رہا تھا کہ کسی گڑیا کا ہو ایک دم ساکت۔


"آپ کو یاد ہے میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کے 70 فیصد نمبر لینے پر آپ کی خواہش پوری کروں گا لیکن وہ وعدہ میں نے پورا نہیں کیا۔۔۔۔"


جہانزیب نے بہت محبت سے اسکے گال کو سہلا کر کہا۔


"آج میں وہ وعدہ پورا کرنا چاہتا ہوں حورم سائیں بس ایک بار آپ کی خواہش کا اظہار کر کے تو دیکھیں قسم ہے جہانزیب شاہ کسی بھی حال میں وہ خواہش پوری کرے گا۔۔۔"


جہانزیب نے اس کے چہرے کو بے چینی سے دیکھتے ہوئے کہا جو ابھی بھی مکمل طور پر بے تاثر ہی تھا۔


"صرف ایک خواہش حورم سائیں۔۔۔۔۔ کوئی بھی خواہش۔۔۔۔۔۔"


جہانزیب نے محبت کی انتہا سے کہا لیکن حورم ابھی بھی خاموش ہی تھی۔جہانزیب بے بسی سے اس کے پاس سے اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا۔


"مجھے آپ سے طلاق چاہیے جہانزیب شاہ۔۔۔۔"


خالی کمرے میں گونجنے والی حورم کی آواز نے جہانزیب کو پتھر کا کر دیا۔یہ کیسی خواہش کی تھی اس نے؟"

💕💕💕

میر داد بہت زیادہ پریشان تھا دو دن ہو گئے تھے اور پری کو سمبھالنا ان سب کے لیے ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔


اسے زیادہ تر دوائیوں کے زیر اثر ہی رکھا جاتا کیونکہ جیسے ہی وہ نیند سے جاگتی تو اپنے بابا کو پکارنے لگ جاتی۔


"واجہ میرے خیال میں آپکو انہیں سب سچ سچ بتا دینا چاہیے کہ ان کے بابا اب اس دنیا میں نہیں۔۔۔۔"


زمان کے ایسا کہنے پر میر داد نے اسے گھور کر دیکھا۔


"ایسا کروں اور اپنی پری کو کھو دوں کبھی نہیں۔۔۔۔میں اسے دور لے جاؤں گا یہاں سے دور ہر چیز سے دور۔۔۔۔"


میر داد نے بند دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بے چینی سے کہا تین دن ہو گئے تھے اسے پری سے جھوٹ بولتے ہوئے وہ یہی کہہ رہا تھا کہ اسکے بابا زندہ ہیں اور ٹھیک ہیں مگر اب وہ تھک چکا تھا۔


"زمان تم یہیں پری کے پاس رہنا میں ڈاکٹر سے بات کر کے آتا ہوں۔"


میر داد کے ایسا کہنے پر زمان نے ہاں میں سر ہلایا اور میر داد وہاں سے چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد ہی زمان بھی وہاں بیٹھ گیا۔اسکا دھیان ایک نرس پر پڑا جو ماسک لگائے کمرے میں جا رہی تھی۔


زمان نے اسکے ہاتھ میں صرف ایک رجسٹر دیکھا تو اسے جانے دیا ضرور وہ پری کا چیک اپ کرنے آئی تھی ویسے بھی ابھی پری کو ہوش آ جانا تھا۔


کمرے میں آ کر اس نرس نے ایک نظر بند دروازے کو دیکھا اور پھر مسکرا کر بیڈ پر لیٹی اس لڑکی کو۔پھر اس نے چہرے سے ماسک ہٹایا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ کشمالہ ہی تھی۔


وہ مسکراتے ہوئے پری کے پاس آئی اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔پریسا کی پلکوں نے ہلکی سی جنبش لی اور پھر وہ آنکھیں کھول کر سامنے موجود لڑکی کو دیکھنے لگی۔


"کیسی ہو؟"


کشمالہ نے آہستہ سے اسے کہا تھا پہلے تو پریسا نے اسے پہچاننے کی کوشش کی اور پھر پہچانتے ہی اسے حیرت سے دیکھا۔


"آپ یہاں۔۔۔۔"


"شششش سنو میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے تم پر ظلم ہو رہا ہے لڑکی تم سے بہت کچھ چھپایا جا رہا ہے۔۔۔۔"


کشمالہ کی بات پر پریسا نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"ہاں تم اس ایکسیڈنٹ کے بعد ڈو مہینہ کومہ میں رہا اور جب ہوش میں آیا تو تمہیں سب بھول گیا تھا اور ایسا اس حادثے کی وجہ سے نہیں ہوا تمہیں ڈاکٹر سے دوائیاں دلوائی گئی تھیں تا کہ تم سب کچھ بھول جاؤ۔۔۔۔سب سے زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ایسا کرنے والا کوئی اور نہیں تمہارا شوہر میر داد ہی تھا۔"


کشمالہ کبھی دروازے کو تو کبھی پری کو دیکھتی بولتی چلی گئی اور پری حیرت سے آنکھیں کھولے اسے دیکھتی جا رہی تھی مگر پھر آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھنے لگے۔


"میں تمہارا یقین کیوں کروں؟"


"مت کرو لیکن اپنے میر داد سے یہ ضرور پوچھ لینا کہ تمہارے باپ کا ایکسیڈینٹ کرنے والا میر داد کا بھائی شاہ داد تھا یا نہیں۔۔۔۔؟"


کشمالہ نے پریسا پر بم پھوڑا وہ اٹھ کر حیرت سے سامنے موجود لڑکی کو دیکھنے لگی۔


"اس سے یہ بھی پوچھنا کہ اس نے پولیس والے کو کیس ختم کر کے شاہ داد کا نام اس میں سے نکالنے کا کہا تھا یا نہیں۔۔۔۔؟"


کشمالہ کی باتیں سن کر پریسا زور زور سے سانس لینے لگی۔نیلی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔


"اس نے تو اپنے بھائی کو ایک ہلکی سی سزا بھی نہیں سنائی بلکہ اسے آزاد چھوڑ دیا اور تمہارے ساتھ اتنا عرصہ جھوٹ بولتا رہا پوچھ لینا اس سے کہ یہ سچ ہے یا نہیں۔"


اتنا کہہ کر کشمالہ چپ ہو گئی اور ایک آخری نگاہ زاروقطار روتی ہوئی پری پر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔


"سنو ۔۔۔۔میرے۔۔۔۔میرے بابا کہاں ہیں کہاں ہیں وہ؟"


پریسا نے اپنے آنسوؤں پر ضبط کرتے ہوئے پوچھا تو کشمالہ نے رک کر پری کو دیکھا۔


"وہ مر چکے ہیں اس حادثے کو جھیل نہیں پائے تھے اور وہیں مر گئے تھے۔۔۔۔"


کشمالہ اتنا کہہ کر ماسک چڑھاتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی اور پری اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے روتی رہی اسے لگ رہا تھا کہ وہ مر جائے گی۔۔۔


لیکن نہیں اسے جینا تھا اور سزا اپنے باپ کے قاتل کو سزا دلوانی تھی ہاں یہ اسکا حق تھا۔

💕💕💕

میر داد واپس کمرے میں آیا تو پریسا رونا بند کر چکی تھی اور بس بیڈ پر بیٹھے خاموشی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی میر داد کو یہ عجیب لگا۔


"پری۔۔۔۔"


میر داد نے اسکے پاس آ کر اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔


"آپسے کچھ پوچھنا ہیں مجھے جواب ہاں یا نا میں دیجئے گا۔"


پری کے سنجیدگی سے کہنے پر میر نے اسے حیرت سے دیکھا اور پھر ہاں میں سر ہلایا۔


"پوچھو۔۔۔۔"


"کیا میرے بابا مر چکے ہیں؟"


پریسا کہ سنجیدگی سے پوچھے گئے سوال پر میر صاحب نے بہت حیرت سے اسے دیکھا اسے کچھ گڑبڑ ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔لیکن پھر بھی اس نے سوچا کس سچ کو بہت دیر تک چھپانے سے بہتر ہے کہ سب کچھ اسے بتا دیا جائے۔


"ہاں۔۔۔۔۔"


میر داد نے آہستہ سے کہا تو پریسا نے اپنی مٹھیاں اتنی زور سے بھینچ لیں کہ میر داد کو لگنے لگا اس کی ہتھیلیوں میں سے خون نکل آئے گا۔


"کیا وہ ایکسیڈینٹ کرنے والا آپکا بھائی تھا؟"


پری نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا جبکہ اس سوال نے میر داد کی دھڑکنیں روک دیں۔


"پری۔۔۔۔"


"ہاں یا نہ؟؟؟"


پری نے غصے سے کہا تو میر داد نے گہرا سانس لے کر سر جھکا لیا اسے اب اپنا بویا ہوا کاٹنا بھی تو تھا۔


"ہاں۔۔۔"


کافی دیر بعد میر داد نے کہا تو پری نے اپنی بہتی آنکھیں میچ لیں اور پھر بولی۔


"کیا آپ نے پولیس کو اسکا نام کیس سے مٹانے کا کہا؟"


میر داد نے پھر سے اسے دیکھا اور اپنے لب کھول کر پھر سے خاموش ہو گیا۔


"جواب دیں میر داد عالم مجھے جواب چاہیے۔۔ "


پریسا نے اسے سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔میر داد نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔


"ہاں۔۔۔لیکن پری۔۔"


اب پریسا کی بس ہوئی تھی اسے اور کچھ بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی کشمالہ کا کہا ہر لفظ سچ تھا۔پریسا نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھاما اور زمین پر بیٹھ کر چیخیں مار مار کر رونے لگی۔


میر داد نے آگے ہو کر اسے پکڑنے کی کوشش کی تو پریسا نے ایک جھٹکے سے اپنا آپ چھڑوایا۔


"مت چھوئیں مجھے اتنے زیادہ جھوٹ فریب ۔مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا اور اتنا عرصہ مجھے اندھیرے میں بھی رکھا۔کیوں میر داد عالم کیوں۔۔۔۔۔"


پریسا نے روتے ہوئے چلا چلا کر وہ سوال کیا جسکا میر داد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔


"پری میری بات۔۔۔۔"


"نہیں بہت سن لیا میں نے آج میں بولوں گی اور آپ سنیں گے میر داد عالم۔۔۔۔"


پری نے خود کو میر داد سے دور لے جا کر کہا اور پھر کھڑے ہو کر اسے غضب ناک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔


"سب یاد ہے مجھے میر داد عالم محبت کا دعویٰ کیا تھا نا آپ نے مجھ سے کہتے تھے کہ پری آپکا عشق ہے تو آج پری اس عشق کا ثبوت مانگتی ہے آپسے۔۔۔۔۔"


پری کی بات پر میر داد نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا اور پھر اٹھ کر اسکے پاس آیا۔


"کیا چاہیے تمہیں پری بولو ۔۔۔۔۔

میر داد نے اسے کندھوں سے تھام کر پوچھا۔

"انصاف میرے باپ کے قاتل کو سزائے موت دیں گے آپ ۔۔۔۔۔"

میر داد کے دونوں ہاتھ پری کے کندھوں سے چھوٹ کر نیچے گرے۔

"یہ کیا کہہ رہی ہو تم پری۔۔۔۔؟"


میر داد نے حیرت سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"صحیح کہہ رہی ہوں میرے بابا کا قاتل ہے وہ اور قتل کی یہی سزا ہے میر داد عالم۔"


پری کی بات پر میر داد نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"دنیا کا کوئی بھی قانون ایک حادثے،ایک غلطی کی سزا موت نہیں سناتا۔"


میر داد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی جبکہ اس کی بات سن کر پری کے ہونٹوں پر ایک گھائل سی مسکان آئی۔


"آپ کے لیے صرف یہ ایک غلطی ہے ۔۔۔۔۔ہاں

۔۔۔۔۔آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے آپ کے لیے تو اس سڑک پر صرف ایک آدمی کی موت ہوئی تھی لیکن میرے لیے۔۔۔۔"


پری غصے سے میر داد کے پاس آئی اور اسے اپنی سرخ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پری نے خود کی طرف اشارہ کیا۔


"میرے لیئے وہ میرا سب کچھ تھے میرے بابا،میری ماں،میرا بھائی،میری بہن،میرے سب سے اچھے دوست، سب کچھ تو وہی تھے ۔۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر پریسا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔


"آپ کے لیے اس دنیا سے صرف ایک آدمی کم ہوا ہے لیکن میرے لیے میر داد عالم میری پوری دنیا ہی اجڑ گئی ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ دنیا اجاڑنے والے کو معاف کر دوں؟"


پریسا نے اسے گھائل نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا جبکہ میر داد ان آنکھوں کی تاب نہیں لا سکا۔


"میں اسے سزا نہیں دے سکتا پری میرا بھائی مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔"


میر داد کی بات پر پریسا نے اپنے آنسو بہت بے دردی سے پونچھے۔


"تو ٹھیک ہے میرے داد عالم اگر آپ اس کو سزا نہیں دے سکتے تو مجھے طلاق دے دیں۔"


اچانک ہی میر داد اگے بڑھا اور پریسا کو کندھوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا۔


"یہ لفظ بھی مت آئے تمہاری زبان پر ورنہ تم میر داد عالم کے غصے سے واقف نہیں پری ہم بلوچ جب کسی کو اپنا لیتے ہیں نا تو اسکا ساتھ موت سے پہلے نہیں چھوڑتے اور تم تو میرا جنون ہو پریسا میر داد رند تمہیں میرے ساتھ ہی جینا ہے میرے ساتھ ہی مرنا ہے۔"


اس کی غصے سے بھری سڑک آنکھوں میں دیکھتے ہوئے میرداد نے گویا اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ پریسا نے اپنی پوری طاقت لگا کر اسے خود سے دور کیا۔


"یہ آپکا خواب ہے میر داد عالم کہ میں اس سب کے بعد بھی آپ کے ساتھ ہوں گی۔۔۔۔"


پریسا کی بات پر میرداد کے لبوں پر ایک مسکان آئی تھی اور اس نے اپنے مخصوص انداز میں انگلی سے مونچھوں کو چھوا۔


"اور یہ تمہارا خواب ہے پریسا میرداد رند کہ تم مجھ سے کبھی بھی دور جا سکو گی کوشش بھی مت کرنا پچھتاؤ گی۔۔۔"


اتنا کہہ کر میرداد وہاں سے چلا گیا اور اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ایک ڈاکٹر اور کچھ نرسیں کمرے میں آئیں جنہوں نے زبردستی پریسا کو ایک انجیکشن لگایا جسکے بعد وہ ہوش کی دنیا سے بے گانہ ہو گئی۔

💕💕💕

"کیا کہا آپ نے حورم سائیں۔"


جہانزیب نے اسکے پاس آ کر بے یقینی سے اسے دیکھا جو ابھی بھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔پہلے تو وہ خاموش رہی پھر آہستہ سے بولی۔


"طلاق ہے میری خواہش۔۔۔۔"


حورم کے آہستہ سے کہنے پر جہانزیب نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گا اس سے پہلے جہانزیب شاہ مرنا پسند کرے گا۔"


جہانزیب نے اسے دیکھتے ہوئے سختی سے کہا لیکن حورم اور بھی بے تاثر سی بیٹھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔


"آپ نے مجھ سے میری خواہش پوچھی تھی جو میں نے بتا دی اب یہ آپ پر ہے کہ آپ میری خواہش کیسے پوری کرتے ہیں۔"


حورم نے آہستہ سے کہا تو جہانزیب نے اسکے پاس بیٹھ کر اسکے ہاتھ بے چینی سے تھام لیے۔


"آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں حورم سائیں آپ میری غلطی کی سزا سنائیں ہے مجھے سزائے موت نہیں۔۔۔۔"


اس بات پر اتنے دنوں میں پہلی دفعہ حورم نے سر اٹھا کر جہازیب کو دیکھا۔


"سزا زندہ انسان دیتے ہیں مردہ انسان کسی کو سزا نہیں سناتے کیونکہ وہ نا تو محبت کے قابل ہوتے ہیں اور نہ ہی نفرت کے۔میں بھی اب زندہ نہیں ہوں تھوڑا تھوڑا کرکے بہت پہلے ہی مر گئی ہوں۔پہلے آپ کی محبت نے مارا ،پھر آپکی بے رخی نے مارا اور سانسوں کو روک دینے کا کام میرے اپنوں کی نفرت نے پورا کر دیا۔"


حورم کی باتوں سے جہانزیب کا دل کٹ کے رہ گیا لیکن افسوس کی بات تو یہ تھی کہ اتنی دردناک باتیں کرنے کے باوجود حورم کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہیں نکلا تھا۔


"اب آپ سے طلاق لے کر،خود کو اس آخری سہارے سے بھی توڑ کر میں اس جسم کو بھی ختم کر دینا چاہتی ہوں۔۔۔۔"


جہانزیب نے حورم کو کندھوں سے پکڑ کر خود میں بھینچ لیا بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے مگر حورم اپنے کندھے پر اس کے آنسو محسوس کر کے بھی بت ہی بنی رہی۔


"سارا قصور میرا ہے آپ سے آپ کی زندگی چھیننے والا میں ہی ہوں لیکن اب آپ کی زندگی کو میں ہی لوٹاؤں گا یہ وعدہ ہے میرا آپ سے حورم سائیں وعدہ ہے۔"


جہانزیب نے اتنا کہا اور ضبط سے مٹھیاں کستا اٹھ کر باہر نکل گیا۔

💕💕💕

پری کو ہوش آیا تو وہ ہاسپٹل میں نہیں بلکہ کسی گھر کے کمرے میں تھی جسے وہ دیکھتے ہی پہچان گئی یہ میر داد کے شہر والا گھر ہی تھا۔


پری جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی اس نے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازے کو لاک کیا گیا تھا۔


"راہ فرار نہیں ہے کوئی بھی مہر میر تم جانتی ہو یہ بات۔۔۔۔"


کمرے کے ایک کونے سے میر داد کی آواز سن کر پریسا نے غصے سے پلٹ کر اسے دیکھا جو دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔


"راہ فرار تو بہت ہوتی ہیں میر داد عالم جب یہ جسم قید سے فرار نہیں ہو پاتا نا تو اکثر روح جسم سے فرار ہو جاتی ہے۔۔۔۔"


پریسا کی اس بات پر میر داد کے ماتھے پر بل پڑ گئے وہ غصے میں پریسا کے پاس آیا اور اسے دونوں کندھوں سے تھام لیا۔


"جانتا ہوں کہ اس وقت تم بہت تکلیف میں ہو مگر تم ہم دونوں کو تکلیف کیوں پہنچا رہی ہو پری آخر کیا چاہتی ہو تم؟"


میر داد کے اس بچگانہ سوال پر پریسا کو حد سے زیادہ غصہ آیا اس نے خود کو ایک جھٹکے سے چھڑایا۔


"انصاف چاہیے مجھے دے سکتے ہو اپنے باپ کے قاتل کی لاش دیکھنا چاہتی ہوں میں۔"


پریسا بہت غصے کے عالم میں میر داد کے سے دور ہوتے ہوئے چلائی جبکہ میر داد ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچے اسے دیکھ رہا تھا وہ اس وقت اپنا غصہ کیسے قابو کر رہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔


"میرے بھائی سے غلطی ہوئی تھی پری گناہ نہیں اور غلطی کی اتنی بڑی سزا نہیں ہوتی۔۔۔۔!!!


میر داد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن پری پر تو جنون سوار تھا۔


"میرے باپ کو مار دیا اس نے اور تمہارے نزدیک یہ بس ایک غلطی ہے؟ اسے سزا دو سردار رند ورنہ۔۔۔۔


پری نے ایک پل کو رک کر اسے دیکھا۔میر داد نے اپنے ابرو اچکائے۔


"ورنہ کیا۔۔۔۔؟؟؟"


"ورنہ چلی جاؤں گی میں تمہیں چھوڑ کر۔۔۔۔!!!"


چٹاخ


اپنے چہرے پر پڑنے والے تھپڑ کو محسوس کر کے پریسا نے حیرت سے اسے دیکھا جس نے آج تک اس سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی تھی۔۔۔۔


"کچھ بھی برداشت کر لوں گا مہر میر لیکن دور جانے کی بات کی تو تمہاری اس زبان کو کاٹ کر پھینک دوں گا تا کہ ایسی بکواس کرنے کے قابل ہی نا رہو۔۔۔۔!!!"


میر کی آواز میں نا جانے ایسی کونسی آگ تھی جسے محسوس کر کے پریسا کی جان تک کانپ گئی تھی لیکن پھر بھی اس نے ہمت کی اور اسکے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔


"میں تمہارے پاس نہیں رہوں گی میر داد عالم رند۔۔۔۔اپنے باپ کے قاتل کے پاس نہیں رہوں گی۔۔۔۔ میں بھاگ جاؤں گی یہاں سے غائب ہو جاؤں گی۔۔۔۔پھر اپنی پوری دولت اور انا کا سودا بھی کر دو گے نا تو کبھی بھی نہیں ملوں گی تمہیں۔۔۔۔ بہت دور چلی جاؤں گی میں تم سے ۔۔۔۔ بہت بہت زیادہ دور۔۔۔۔یہ تمہاری پری کی نفرت کا وعدہ ہے تمہاری محبت سے"


اپنی لہو رنگ آنکھوں سے میر داد کو دیکھتے ہوئے وہ بولی جبکہ جواب میں میر داد کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکان آئی اس نے ایک جھٹکے سے اس نازک وجود کو کھینچ کر اپنے قریب کیا۔


'تم تو اپنے خواب میں بھی مجھ سے دور نہیں جا پاؤ گی پریسا میر داد رند۔تمہیں میرے پاس ہی رہنا ہے پھر چاہے اسکے لیے مجھے تمہیں قید ہی کیوں نہ کرنا پڑے یاد ہے نا تم صرف میر کی ہو خود کی بھی نہیں۔۔۔۔!!!"


میر داد اتنا کہہ کر دروازہ لاک کر کے وہاں سے چلا گیا۔پریسا اسکے جاتے ہی زارو قطار روتے ہوئے زمین پر بیٹھی تھی۔


"چلی جاؤں گی میں ۔۔۔۔دیکھنا تم چلی جاؤں گی۔۔۔۔نہیں تو مر جاؤں گی۔۔۔۔۔"


پریسا گھٹنوں پر بیٹھ کر روتے ہوئے خالی کمرے میں چلا رہی تھی لیکن اسکی آہ و پکار سننے والا وہاں کوئی بھی نہیں تھا کوئی بھی نہیں۔

💕💕💕


میر داد جلد ہی گھر واپس آ گیا تھا۔اپنی پری کے آنسو دیکھ کر گیا تھا وہ پھر بھلا اسے کیونکر چین ملتا۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اسکے سلگتے دل پر سکون بھری ٹھنڈی پھوار صرف اسکی پری کو دیکھ کر ہی پڑے گی۔اسی لیے اس نے اپنے قدموں کی رفتار بڑھائی۔کمرے کے قریب پہنچ کر اس نے لاک کھولا اور ایک گہرا سانس لے کر دروازا کھولا تو کمرہ بلکل خالی تھا۔ میرداد کی جان مٹھی میں آ گئی اس نے آگے بڑھ کر اس جگہ کو دیکھا تو وہاں پر صرف وہ پائل موجود تھی جو اس نے اپنی محبت کی نشانی کے طور پر پری کے پاؤں کی زینت بنائی تھی۔


میں تمہارے پاس نہیں رہوں گی میر داد عالم رند۔۔۔۔اپنے باپ کے قاتل کے پاس نہیں رہوں گی۔۔۔۔ میں بھاگ جاؤں گی یہاں سے غائب ہو جاؤں گی۔۔۔۔پھر اپنی پوری دولت اور انا کا سودا بھی کر دو گے نا تو کبھی بھی نہیں ملوں گی تمہیں۔۔۔۔ بہت دور چلی جاؤں گی میں تم سے ۔۔۔۔ بہت بہت زیادہ دور۔۔۔۔یہ تمہاری پری کی نفرت کا وعدہ ہے تمہاری محبت سے


پری کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے تو میر داد اپنے ان مغرور گھٹنوں کو زمین پر رکھ کر ڈھے گیا۔اسکی پری نے جو کہا تھا وہ سچ کر دکھایا تھا۔وہ پری اپنے میر کی قید سے نکل چکی تھی بلکل جیسا اس نے کہا تھا لیکن اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اپنے ساتھ وہ اپنے میر داد کی سانسیں بھی لے جائے گی۔۔۔۔ کئی آنسو میر داد کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے تھے۔ازیت کا ایک طوفان اسکے اندر امٹ رہا تھا۔


'پری۔۔۔۔۔!!!!'


میر داد کی چیخ اس خالی گھر میں گونجی ۔اسکی درد ناک،کرب ناک آہ و پکار سے حویلی کی درودیوار بھی دہل گئی تھیں۔ لیکن اسکو دلاسا دینے والا وہاں کوئی بھی نہ تھا۔کوئی اسکو دلاسا دیتا بھی تو کیسے اپنا لٹیرا بھی تو وہ خود تھا۔

💕💕💕

جہانزیب پورے ایک دن بعد گھر واپس آیا اور آتے ہی سیدھا حورم کے پاس گیا جو کل وہ باتیں کرنے کے بعد پھر سے خاموش ہو چکی تھی۔


اسکی حالت نے تو جہانزیب کو پریشان کیا ہی تھا لیکن اب اسکی باتوں نے تو اسے مزید ڈرا دیا تھا۔حورم اپنی جینے کی تمنا ہی چھوڑ چکی تھی۔


آج جہانزیب کی دستار بندی تھی اسے ایک نیا سردار بنایا جانا تھا۔جہانزیب کمرے میں آیا تو حورم ہمیشہ کی طرح خاموشی سے بیڈ پر بیٹھی تھی۔


"حورم سائیں آج ایک کافی خاص تقریب ہے جس میں تمام گاؤں والے شامل ہوں گے اور وہ سب یہ جانتے ہیں کہ میں شادی شدہ ہوں میں آپ سے نہ تو کوئی درخواست کروں گا اور نہ ہی آپ کو کوئی حکم دوں گا بس اتنا چاہوں گا کے اس موقع پر اس سردار کی سردارنی اس کے ساتھ ہو۔"


جہانزیب نے اس کے سامنے کھڑے ہوکر کہا لیکن حورم ابھی بھی بالکل خاموش تھی۔جہانزیب نے گہرا سانس لیا اور تیار ہو کر باہر کی طرف چل دیا۔


تقریب کا انعقاد حویلی کے بڑے صحن میں کیا گیا تھا جہاں اس وقت گاؤں کا تقریبا ہر فرد موجود تھا۔ویل چیئر پر بیٹھے کمزور سے ابراہیم شاہ بہت فخر سے اپنے اکلوتے بیٹے اپنے وارث کو دیکھ رہے تھے۔


"میں یہ تو نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کی مجھے لے کر کیا توقعات ہیں نہ ہی میں یہ جانتا ہوں کہ میں ان توقعات پر پورا اتر سکوں گا یا نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ میرا کام اس گاؤں پر حکومت کرنا نہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کی خدمت کرنا ہے اس لیے میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ آپ کا ہر مسئلہ پوری توجہ اور ایمانداری سے حل کر سکوں۔"


جہانزیب کی بات سن کر تمام گاؤں والوں نے بہت زور سے تالیاں بجائی تھیں رسم و رواج کو دائرے میں رکھتے ہوئے جہانزیب شاہ کی دستار بندی کی گئی اور اسے گاؤں کا نیا سردار بنایا گیا۔


"سنو سردار تو شادی شدہ ہیں نہ تو پھر ان کی بیوی کہاں ہیں؟کبھی دیکھا ہی نہیں انہیں"


سامنے کھڑی ایک عورت نے دوسری عورت سے دلچسپی سے پوچھا۔


"دیکھا تو میں نے بھی نہیں لیکن سنا ہے کافی خوبصورت ہے،ایسی کہ اس پر سے نظر ہٹانا مشکل ہو جائے اور تو اور یہ بھی سنا ہے کہ وہ بلوچن ہے۔۔۔۔"


اس عورت نے ہاں میں سر ہلایا مگر اسی وقت ان کا دھیان جہانزیب پر پڑا جس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت لڑکی سفید رنگ کے لباس پر اجرک کی چادر سر پر اچھی طرح سے اوڑھے اسکے بلکل مقابل کھڑی ہوئی۔


اس کو پہچانتے ہی سب نے اپنی نظر جھکا لی وہ ان کی نئی سردارنی تھی۔جب جہانزیب کی نظر اس پر پڑی تو پلٹنا ہی بھول گئی۔


نہ جانے کتنی ہی دیر وہ خاموشی سے حورم کو دیکھتا رہا جو اس کے پاس سے ہٹ کر عورتوں کے درمیان جا چکی تھی اور اب سب سے مسکرا کر ہاتھ ملاتے ہوئے باتیں کر رہی تھی۔


بے ساختہ طور پر جہانزیب کے ہونٹوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا۔اسکی بیوی اپنی ہر ناراضگی بھلا کر سب کے سامنے اسکا مان رکھنے وہاں موجود تھی۔


مان تو اب میں بھی رکھوں گا حورم سائیں آپکی محبت کا بھی اور اپنی محبت کا بھی۔۔۔۔یہ وعدہ ہے میرا آپ سے۔۔۔۔


جہانزیب نے مسلسل اسے اپنی نظروں کے حصار میں رکھ کر سوچا۔

💕💕💕

میر داد کل سے پری کو ہر جگہ ڈھونڈ چکا تھا ہر بس سٹیشن،ریلوے سٹیشن،ائیرپورٹ،ہر جگہ ناکہ بندی کی گئی تھی لیکن پری کا کچھ بھی پتا نہیں چلا ایسا تھا جیسے کہ وہ غائب ہو چکی ہو۔


تھک ہار کر میر داد اسے حویلی ڈھونڈنے آیا لیکن وہاں بھی پری نہیں آئی تھی یہ سن کر میرداد ہر چیز کو تہس نہس کرنے لگا۔شور سن کر سب لوگ حویلی کے ہال میں آ چکے تھے۔


"میر داد کیا کر رہے ہو تم۔۔۔؟"


شاہ میر اس کی حالت دیکھ کر پریشانی سے اس کے پاس آئے تو میرداد نے بے چینی سے ان کے ہاتھ تھام لیے۔


"پیرک اس سے کہیں کہ واپس آ جائے مجھ سے دور نہ جائے میں نہیں رہ سکتا اس کے بغیر پیرک میں مر جاؤں گا۔۔۔"


میر داد کی اس بکھری حالت کو دیکھ کر شاہ میر بھی پریشان ہوئے پھر انکا دھیان میر داد کے ہاتھوں پر پڑا جو شاید شیشے کی میز توڑنے کی وجہ سے زخمی ہوچکے تھے۔


"تم فکر مت کرو میر میں اپنے آدمیوں سے کہتا ہوں کہ اسے ڈھونڈ کر تمہارے پاس لے کر آئیں۔۔۔۔زمان ڈاکٹر کو بلاؤ جلدی سے۔۔۔۔"


زمان بھی پریشانی سے ہاں میں سر ہلا کر واپس چلا گیا۔جبکہ میر داد اپنے ہاتھ چھڑوا کر زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔


"وہ نہیں ملے گی اب وہ مجھے نہیں ملے گی۔۔۔۔اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ چلی جائے گی اور وہ چلی گئی۔۔۔۔"


میر داد نے آنسوؤں سے رندھی آواز میں کہا تو شاہ میر نے بے چین ہو کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔


"اس نے سزا دی ہے مجھے پیرک میرے گناہ کی سزا دی ہے لیکن یہ سزا بہت بڑی ہے۔۔۔۔بہت بڑی اس سے کہیں پیرک کہ میر داد عالم یہ سزا نہیں سہہ سکتا اسکی بجائے اپنے ہاتھوں سے اسے مار دے۔۔۔۔"


میر داد کی بات سن کر شاہ میر تڑپ اٹھے جبکہ میر داد زندگی میں پہلی بار یوں تڑپ کر رویا تھا۔

💕💕💕

جہانزیب بے چینی سے پوری حویلی میں حورم کو ڈھونڈ رہا تھا جو تقریب کے بعد سے اسے نظر نہیں آئی تھی۔ تبھی کھڑکی سے اسکی نظر حورم پر پڑی جو کہ حویلی کے پچھلے صحن میں موجود جھولے پر بیٹھی تھی۔


جہان باہر آیا اور خاموشی سے اسکے پاس بیٹھ گیا وہ ابھی بھی دوپہر والے کپڑوں میں ملبوس تھی مگر اب اسکے گھنگھریالے بال کھلے تھے جو کے ہوا سے اڑ کر اسکے چہرے پر آ رہے تھے لیکن وہ ہر چیز سے بے نیاز آسمان پر چھانے والے بادلوں کو دیکھ رہی تھی۔


"آپکو یاد ہے حورم سائیں آپکو بارش کتنی زیادہ پسند تھی ہر وقت آپکا ایک ہی گلا ہوتا تھا کہ اوتھل میں بارش نہیں ہوتی۔"


جہانزیب نے اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا لیکن حورم ابھی بھی خاموش ہی بیٹھی تھی۔


"پھر آپکی خواہش کو پورا کرنے کے لیے واجہ نے صحن کی دیواروں کے ساتھ شاور لگوا کر آپکے لیے نقلی بارش کروائی تھی کیونکہ انہوں نے سارا دن آپکے چہرے پر مسکان نہیں دیکھی تھی۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب کے ہونٹوں پر ایک مسکان آئی اس نے حورم کو کندھوں سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔


"اب وہ مسکان دیکھنے کے لیے میں بھی کچھ بھی کر جاؤں حورم سائیں کچھ بھی۔۔۔"


جہانزیب نے اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اوپر کیا تو حورم اسے اپنی خالی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔


"کیوں۔۔۔۔؟؟؟"


صرف ایک لفظ حورم کے ہونٹوں نے آہستہ سے ادا کیا۔


"کیونکہ آپ میرا سب کچھ ہیں حورم سائیں،دل کے دھڑکنے والی ہر دھڑکن آپ ہیں،سانسوں کے چلنے کی وجہ آپ ہیں،میری محبت کی ابتدا آپ ہیں اور میرے عشق کی انتہا بھی آپ ہیں۔۔۔۔"


جہانزیب اسے دیکھتے ہوئے اپنا اظہار محبت کرتا چلا گیا اور حورم تو بس اسے ایک تک دیکھتی جا رہی تھی۔پھر وہ ہوا جسکی جہانزیب کو امید نہیں تھی۔ایک انسو چھن سے ٹوٹ کر حورم کی آنکھ سے گرا تھا۔


"جھوٹ بلکل جھوٹ میری محبت تو جھوٹی تھی نا بچپنا تھی،میری بیوقوفی تھی اور آپکے لیے وہ ایک کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں تھی جہانزیب شاہ۔۔۔۔"


اسے وہ سب کچھ یاد دلا کر حورم وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے جاتی جہانزیب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


"تب مجھے آپ سے محبت کا حق نہیں تھا حورم سائیں مگر اب ہے آپ بیوی ہیں میری۔۔۔"


حورم نے انکار میں سر ہلایا۔


"میں بھی تو کسی حق کے بغیر آپ سے محبت کرتی رہی تھی نا میں نے تو یہ نہیں سوچا تھا کیونکہ میں محبت آپکی طرح دماغ سے نہیں بلکہ دل سے کرتی ہوں۔۔۔۔اور میں آپکی بیوی نہیں جہانزیب شاہ صرف ایک مجبوری ہوں جسے آپ سے زبردستی باندھا گیا اس لیے ابھی بھی آپکو کوئی حق حاصل نہیں۔۔۔۔۔"


حورم انتہائی زیادہ بے رخی سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑوا کر جانے لگی مگر تبھی جہانزیب نے اسے اتنی سختی سے کھینچا کہ وہ سیدھا اسکے سینے سے آ لگی۔جہانزیب نے ایک ہاتھ اسکی کمر پر رکھا اور دوسرا اسکے کھلے بالوں میں پھنسا کر اسکا سر اوپر کیا۔


"حق تو تمہاری ہر چلتی سانس پر حاصل ہے حورم جہانزیب شاہ اور اس حق سے دستبرداری کی بات بھی گوارا نہیں جہانزیب شاہ کو۔۔۔۔"


جہانزیب کے منہ اسکے کمرے والی رات کے بعد آج اپنے لیے 'تم' سن کر حورم کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔مگر جہانزیب کی اگلی حرکت پر وہ کانپ کر رہ گئی۔


ہر چیز کی پروا کیے بغیر جہانزیب بہت زیادہ شدت سے اسکے ہونٹوں پر جھکا اور اپنی بات کو ثابت کرتے ہوئے اسکی چلتی ہر سانس پر اپنی حکمرانی کرنے لگا۔تبھی اچانک سے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی جیسے کہ جہانزیب شاہ کی محبت کی گواہی پیش کرنا چاہ رہی ہو۔


حورم اسکی گرفت میں سٹپٹا کر رہ گئی لیکن اسکی مزاحمت پر جہانزیب کی پکڑ اور لمس کی شدت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔پھر اپنی نازک سی شہزادی پر رحم کر کے جہانزیب نے اسے چھوڑا اور اپنے منہ زور جزبات کو قابو کرتے ہوئے ضبط سے اپنی آنکھیں میچ گیا۔اب تک وہ دونوں مکمل طور پر اس بارش میں بھیگ چکے تھے۔


جہانزیب نے آنکھیں کھول کر حورم کو دیکھا جو ابھی بھی آنکھیں زور سے بند کیے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔


"میرے حق کا اندازہ ہو گیا ہو گا آپکو حورم سائیں۔۔۔ "


جہانزیب نے اسکے نچلے ہونٹ کو انگوٹھے سے سہلا کر کہا جو کہ اسکی شدت سے سرخ ہو چکا تھا۔حورم نے جلدی سے اپنی آنکھیں کھولیں اور خود کو چھڑوا کر اندر حویلی کی طرف بھاگنے لگی۔اپنے کمرے میں آ کر اس نے جلدی سے دروازا بند کیا اور اس کے ساتھ لگ کر اپنا ہاتھ زور سے دھڑکتے دل پر رکھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔


جبکہ ابھی بھی بارش میں بھیگتا جہانزیب گہرا سانس لے کر اندر کی جانب چل دیا۔اس نے خود سے وعدہ کر لیا تھا کہ اب وہ حورم کو زندگی کی طرف لوٹا کر رہے گا اور ایسا کرنے کے لیے وک کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔

💕💕💕

"دیکھا شاہ داد عالم میرا کمال کیسے ایک پل میں اس لڑکی کو کھینچ کر میر داد کی زندگی سے نکال دیا۔۔۔"


کشمالہ نے مسکرا کر کہا تو شاہ داد میں اپنے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔


"یہ تم نے کیا کیسے؟"


"کچھ زیادہ نہیں بس تھوڑا سچ بتایا اور تھوڑا جھوٹ بتایا جس پر یقین کر کے وہ بے وقوف لڑکی ہمارا راستہ بہت آسانی سے صاف کر گئی۔۔۔اب تم بھی سکون سے رہ سکتے ہو اور جلد ہی میں اسے میر داد کے دل سے بھی نکال دوں گی۔"


کشمالہ نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو شاہ داد بھی مسکرا دیا۔لیکن پھر اسے ایک نئی پریشانی لاحق ہوئی تو اس کے چہرے کی مسکان غائب ہوگئی۔


"لیکن اگر وہ پولیس کو لے کر یہاں آ گئی تو۔۔۔۔؟"


شاہ داد نے پریشانی سے پوچھا تو کشمالہ نے جواب میں اپنے کندھے اچکا دیے۔


"تم میر داد کے بھائی ہو وہ تمہیں کسی بھی مصیبت سے بچا سکتا ہے بس تمہیں اسے اپنے اطمینان میں رکھنا ہو گا۔"


شاہ داد نے کچھ سوچ کر اس بات میں سر ہلایا اور پھر سے مسکرا کر اپنی چچا زاد کو دیکھنے لگا جس نے ایک پل میں اس کی ساری مشکلات ختم کر دی تھیں۔پھر بھی اس نے یہ ضرور سوچا تھا کہ وہ میرداد کے ساتھ ہی رہے گا تا کہ اسے کوئی خطرہ نہ ہو۔


کاش وہ جانتا کہ اب اسکے گناہوں کا گھڑا بھر چکا تھا۔

💕💕💕

زمان پریشانی کے عالم حویلی میں داخل ہوا اسے جو خبر ملی تھی وہ اسے بہت زیادہ بے چین کر گئی تھی۔اس لیے زمان سیدھا میر داد کے کمرے کی طرف چل دیا لیکن دروازے پر ہی اس کا سامنا شاہ میر سے ہوا۔


"کیا ہوا زمان بلوچ سب ٹھیک تو ہے نا؟؟"


شاہ میر نے اس کے اڑے ہوئے رنگوں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"جی پیرک مجھے بس واجہ سے بات کرنی ہے۔۔۔۔"


زمان نے اپنے ہاتھ میں موجود کاغذات کو وہ چینی سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"میرداد بہت مشکل سے آرام کرنے کے لئے مانا ہے میں نہیں چاہتا کہ وہ مزید پریشان ہو تم مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟"


شاہ میر کی بات پر زمان نے گہرا سانس لیا اور اپنے ہاتھ میں موجود کاغذوں کی طرف اشارہ کیا۔


"میں پری بی بی کو ڈھونڈنے کی کوشش میں لگا تھا جب مجھے ان کے بارے میں مکمل معلومات ملی۔۔۔۔پری بی بی وہ ۔۔۔ان کی ماں"


زمان نے اتنا کہہ کر وہ کاغذات شاہ میر کی طرف بڑھائے تو شاہ میر نے وہ کاغذات کھول کر انہیں دیکھا۔سامنے موجود الفاظ کو پڑھ کر شاہ میر کو ایسا لگا کہ ساتوں آسمان پر ایک ساتھ گرے تھے۔انہوں نے بے یقینی سے زمان کو دیکھا۔۔۔۔


"جی ہاں پیرک پری بی بی کسی اور کی نہیں بلکہ منیرہ بی بی کی بیٹی ہیں وہ آپ کی نواسی ہیں۔۔۔۔"


زبان کی بات سن کر بہت سے آنسو شاہ میر کی آنکھوں سے گرے۔انہیں نیلی آنکھوں والی وہ لڑکی یاد آئی۔اب انہیں پتہ چلا کہ وہ کیوں انہیں اپنی اپنی سی لگتی تھی۔


"میری منیرہ کہاں ہے زمان کیسی ہے وہ۔۔۔؟"


شاہ میر نے بے چینی سے پوچھا تو زمان نے اپنا سر جھکا لیا۔


"وہ زندہ نہیں ہے پیرک آج سے سترہ سال پہلے کی وفات پا چکی ہیں ۔۔۔۔"


اس سے پہلے کہ شاہ میر گرتے زمان نے انہیں سہارا دیا۔


"کیسے ہوئی اسکی موت۔۔۔۔؟"


شاہ میر نے آنسوؤں سے رندھی آواز میں پوچھا۔


"حادثاتی موت ہوئی تھی اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ۔۔۔۔؟"


زمان کے خاموش ہونے پر شاہ میر نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔


"انکی موت اسی دن ہوئی تھی جس دن عالم واجہ کی موت ہوئی۔۔۔۔"


یہ بات سن کر شاہ میر کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور انہوں نے حیرت سے اپنے ہاتھ میں موجود کاغذات کو دیکھا۔جس میں پری کی ساری انفارمیشن تھی۔


"کیا تم جانتے ہو کہ منیرہ کو کہاں دفنایا گیا تھا۔"


زمان نے اثبات میں سر ہلایا۔


"تم کل ہی مجھے وہاں لے کر جاؤ گے۔۔۔"


شاہ میر نے نام آنکھوں سے حکم دیا تو زمان میں پھر سے ہاں میں سر ہلایا۔شاہ میر نے اپنے آنسو پونچھ کر سامنے موجود کاغذات کو دیکھا۔


"زمین کھودو زمان بلوچ یا آسمان چھانو تم میری پری کو ڈھونڈو گے وہ اس خاندان کی بہو ہونے کے ساتھ ساتھ میری منیرہ کی آخری نشانی بھی ہے کہیں سے بھی اسے ڈھونڈ نکالوں۔۔۔۔کہیں سے بھی۔۔۔۔"


زمان نے اثبات میں سر ہلایا۔اس نے ٹھان لی تھی کہ وہ پریسا کو ڈھونڈ کر رہے گا کیونکہ وہ میر داد کی خوشی کے لئے کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔۔۔

💕💕💕

جہانزیب نے ناشتے کے بعد ہی حورم کو ساتھ چلنے کے لئے کہا تھا۔جہانزیب نے حورم کو نہیں بتایا تھا کہ وہ لوگ کہاں جا رہے ہیں اور نہ ہی حورم نے اس سے پوچھا۔وہ تو بس خاموشی سے بیٹھی باہر کے نظارے دیکھنے میں مصروف تھی۔دو دن پہلے کے واقعے کے بعد اب وہ پھر سے جہانزیب سے بات کرنا چھوڑ چکی تھی۔


گاڑی اپنے گاؤں کی طرف بڑھتے دیکھ کر حورم نے حیرت سے جہانزیب کو دیکھا۔


"پریشان مت ہوں آپ حورم سائیں بس مجھ پر بھروسہ رکھیں میں سب ٹھیک کر دوں گا۔"


جہانزیب نے حویلی کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا اور پھر حورم کا ہاتھ تھام کر اسے گاڑی سے باہر نکالا۔حورم نے پریشانی سے اسے دیکھا۔


"چلیں۔۔۔"


جہانزیب کے ایسا کہنے پر حورم اثبات میں سر ہلا کر اسکے ساتھ چل دی۔حویلی میں داخل ہونے سے کسی نے انہیں نہیں روکا تھا۔نہ ہی ہال میں کوئی تھا اور نہ ہی صحن میں۔


جہانزیب اسے سیدھا شاہ میر کے کمرے کے باہر لے کر گیا اور دروازے کی طرف اشارہ کیا۔حورم نے پریشانی سے انکار میں سر ہلایا۔جہانزیب نے محبت سے اسکا چہرہ اپنے ہاتھ میں تھاما۔


"بھروسہ رکھیں حورم سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات پر حورم نے گہرا سانس لے کر کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا اور کمرے میں داخل ہو گئی۔سامنے ہی شاہ میر اسکی طرف کمر کیے کھڑے تھے۔


حورم گھبراتے ہوئے اندر داخل ہوئی اور انکے پیچھے جا کر اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔


"پپ۔۔۔۔پیرک۔۔۔۔"


حورم کی آواز پر شاہ میر نے مڑ کر اسے دیکھا تو حورم سہم گئی۔وہ بچپن سے ہی ایسی تھی۔سب سے زیادہ پیار وہ اپنے دادا سے کرتی تھی تو ڈرتی بھی انہیں سے تھی۔


"بولو۔۔۔۔"


انکی سخت آواز پر حورم کانپ گئی اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔بہت دیر تک انکے سامنے کانپنے کے بعد حورم رندھی ہوئی آواز میں بولی۔


"مممم۔۔۔۔معاف کر دیں۔۔۔۔"


شاہ میر کی ہمت ختم ہوئی تو وہ آگے بڑھے اور حورم کو خود میں بھینچ لیا جبکہ انکی اس حرکت پر حورم حیران ہوئی۔


"کوئی بات نہیں میر شہزادگاں میں نے تمہیں معاف کیا۔"


یہ سن کر حورم پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔اتنے عرصے کا بھرا غبار نکالنے لگی۔ شاہ میر نے اپنی جان سے پیاری پوتی کو مظبوطی سے خود سے لگایا مگر اسے خوب رونے دیا تھا۔بہت سارا رونے کے بعد حورم نے نگاہیں اٹھا کر انہیں دیکھا۔


"ممم۔۔۔۔میر بھائی اور شاہ بھائی نے بھی معاف کر دیا کیا۔۔۔۔؟"


میر داد کے ذکر پر ہی شاہ میر پریشان ہوئے اگر حورم اسے اتنا بکھرا ہوا دیکھتی تو اس پر نہ جانے کیا بیت جاتی۔


"اس نے تو کب سے تمہیں معاف کر دیا حورم بھول گئی تم جان ہو اسکی کیسے خفا ہو سکتا ہے وہ تم سے۔۔۔۔"


شاہ میر نے اسکا سر اپنے سینے پر رکھ کر بہت محبت سے کہا تو حورم نے ایک نگاہ دروازے کی طرف دیکھا۔وہاں جہانزیب موجود نہیں تھا شاید وہ وہاں سے جا چکا تھا۔


"پیرک میں یہیں رہنا چاہتی ہوں آپ کے پاس۔۔۔ "


حورم کے لاڈ سے کہنے پر شاہ میر مسکرائے۔


"ہاں میرا بچہ فی الحال میں بھی تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔۔۔"


شاہ میر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا لیکن حورم ان کو یہ نہیں بتا پائی تھی کہ وہ فی الحال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے یہاں رہنا چاہتی ہے۔


جہانزیب نے اپنی بے رخی سے جو تکلیف اسے پہنچائی تھی وہ اسے بھول نہیں پا رہی تھی۔آخر اتنی آسانی سے کیسے وہ اپنے محبت کے قاتل کو معاف کر دیتی۔


اس لیے اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ یہیں رہے گی اور جہانزیب کو اسکی بے رخی کی سزا دے گی۔

💕💕💕

رات کے دس بج رہے تھے اور میر داد بیڈ پر لیٹا چھت کو گھور رہا تھا پری ابھی تک نہیں ملی تھی اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسکی دوری میر داد کو بکھیرتی جا رہی تھی۔


میں بھاگ جاؤں گی یہاں سے غائب ہو جاؤں گی۔۔۔۔پھر اپنی پوری دولت اور انا کا سودا بھی کر دو گے نا تو کبھی بھی نہیں ملوں گی تمہیں۔۔۔۔ بہت دور چلی جاؤں گی میں تم سے ۔۔۔۔ بہت بہت زیادہ دور۔۔۔۔


پری کی کہی بات یاد کر کے میر داد نے کرب سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔جبکہ بہت سے آنسو ان آنکھوں سے نکلنے کے لیے بے تاب تھے۔پری نے وہ کر دیکھایا جو کوئی نہیں کر سکا اس نے میر داد عالم کو توڑ دیا تھا۔۔۔۔ہاں وہ مظبوط آدمی اب مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا بکھر چکا تھا۔


اچانک سے دروازا کھٹکنے کی آواز آئی تو میر داد نے گہرا سانس لے کر باہر موجود شخص کو اندر آنے کا کہا۔


"بھائی۔۔۔۔۔"


شاہ داد کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر میر داد نے اپنی آنکھیں پھر سے بند کر لیں۔شاہ داد نے اسکے پاس بیٹھ کر اسکا زخمی ہاتھ نرمی سے تھاما۔


"کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں۔۔۔۔؟"


شاہ داد نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا تو میرداد میں آنکھیں کھول کر اپنے بھائی کو دیکھا اور انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں شاہ میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔۔۔۔تم سے تو بس ایک غلطی ہوئی تھی شاہ جسکی میں تمہیں اتنی بڑی سزا نہیں دے سکتا تھا۔۔۔۔تم نے مجھ سے معافی مانگی تھی شاہ اور انجانے میں ہوئی کوتاہیوں کو تو ہمارا رب بھی معاف کر دیتا ہے پھر میں کیونکر نہ کرتا۔۔۔۔"


میر داد ایک پل کو خاموش ہوا۔


"گناہ تو مجھ سے ہوا تھا شاہ جس نے تمہاری اس غلطی کو چھپانے کے لئے بہت سے گناہ کیے، بہت سے جھوٹ بولے پھر اپنی محبت کی خود غرضی میں اپنی چاہت کو ہی دھوکا دیا۔۔۔۔مجھ سے بہت سے گناہ ہوئے ہیں شاہ جنکی سزا وہ مجھے دے کر جا چکی ہے ۔۔۔۔۔"


میر داد کے غم کو دیکھ کر شاہ داد ایک پل کو افسردہ ہوا۔


"یہ سب میری وجہ سے ہی ہوا نا بھائی نہ آپ مجھے معاف کرتے اور نہ وہ آپ کو چھوڑ کر جاتی ۔۔۔۔"


شاہ داد کی بات پر ایک گھائل سی مسکراہٹ نے میرداد کے لبوں کو چھوا۔


"نہیں شاہ سب غلطی میری تھی،ہر گناہ میرا تھا اور میں اسی قابل ہو کہ مرتے دم تک اپنے گناہوں کی سزا بھگتا رہوں۔۔۔۔"


میر داد نے اتنا کہہ کر پھر سے اپنی آنکھیں موند لیں۔


"آپ مجھ سے ناراض نہیں ہو نا بھائی۔۔۔۔؟"


شاہ داد نے نرمی سے پوچھا۔


"نہیں شاہ میں تم سے ناراض نہیں ہوں اور کبھی ہو بھی نہیں سکتا، میرے بھائی نہیں میرے بیٹے ہو تم۔۔۔۔بابا نے جانے سے پہلے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ انکی غیر موجودگی میں تمہیں اور حور کا بھائی بن کر نہیں بلکہ باپ بن کر خیال رکھوں گا۔۔۔اور یہ وعدہ میں مرتے دم تک پورا کروں گا شاہ۔۔۔۔۔تم پر کبھی بھی کوئی بھی آنچ نہیں آنے دوں گا۔۔۔۔"


میر داد کے یقین دلانے پر شاہ داد نے مسکرا کر اس کا ہاتھ چوم کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور اسے آرام کی تلقین کرتا کمرے سے باہر چلا گیا۔


باہر آکر وہ بے ساختہ طور پر مسکرایا اس کا سارا خوف مٹ چکا تھا ابھی بھی اس کا بھائی اس کے ساتھ تھا اور اس کے ہوتے ہوئے شاہ داد کو کوئی چھو بھی نہیں سکتا تھا۔


کاش وہ جانتا کہ وہ کتنا غلط تھا۔

💕💕💕

جہانزیب حورم کو چھوڑ کر واپس آ گیا تھا وہ ایک نیا سردار تھا اور گاؤں کے ایسے بہت سے معاملات تھے جو اسے دیکھنے تھے۔


اس وقت گاؤں کی بہت سی ضرورتیں پوری کرنے والی تھیں۔جن کو پورا کرنے کے لیے جہانزیب نے ہر طرح سے محنت کی۔


"شاہ سائیں آپ بہت اچھے سردار ہیں چند دنوں میں ہی گاؤں کے ہر شخص کے دل پر چھا گئے ہیں آپ۔"


نواز کی تعریف پر جہانزیب مسکرا دیا۔


"ایسا کرکے میں نے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ وہی کیا جو میرا فرض تھا۔ہم سردار اور حکمران خود کو لوگوں کا آقا سمجھ لیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے دراصل ہم ہی ان لوگوں کے غلام ہیں اور ہمارا فرض ان لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ کی خدمت کرنا ہے،انکا خیال رکھنا ہے۔"


جہانزیب کی بات پر ملازم میاں سے بہت عقیدت سے دیکھا۔


"شاہ سائیں آپ سچ میں بہت اچھے ہیں اگر کبھی بھی آپ کو ضرورت پڑی تو بندے کی جان بھی آپ کے لئے حاضر ہے۔۔۔۔"


جہانزیب اس بات پر مسکرایا۔


"یہ میرے الفاظ نہیں ہیں نواز یہ میرے سب سے اچھے دوست میر داد کے الفاظ ہیں جو میرے مطابق بہت اچھا سردار ہے بس انا اور غصے کا مارا ہے۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات پر نواز مسکرایا،تبھی ایک ملازم ہانپتے ہوئے وہاں آیا تھا۔


"شاہ سائیں وہ ابراہیم سائیں کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے وہ آپ کو بلا رہے ہیں۔۔۔۔"


اتنا سننا تھا کہ وہ دونوں حویلی کی طرف بھاگنے لگے۔ابراہیم کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں زیب جلدی سے ان کے پاس گیا اور ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہنے لگا۔


"نن۔۔۔۔نہیں جہان۔۔۔۔نہیں میری۔۔۔۔۔میری بات سنو۔۔۔۔میرا وقت پورا ہو چکا ۔۔۔۔۔۔ہے ۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔مجھے معاف۔۔۔۔۔معاف کر دینا بیٹا ۔۔۔۔۔۔معاف کر دینا۔۔۔۔۔"


ابراہیم نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ جوڑے تو جہانزیب نے بے چین ہو کر ان کے ہاتھ تھام لئے۔


"نہیں آپ فکر مت کریں میں ابھی آپکو۔۔۔۔۔"


"بب۔۔۔۔بس ایک آخری۔۔۔۔۔ خواہش پوری کر دو جہان۔۔۔۔۔۔ بس ایک آخری خواہش۔۔۔۔"


جان صاحب نے انہیں اٹھانا چاہا تو ابراہیم نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر کہا۔


"جی کہیں میں کچھ بھی کروں گا ۔۔۔۔"


جہانزیب نے بے چینی سے کہا ابراہیم کی حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی اور وہ ہسپتال بھی نہیں جانا چاہ رہے تھے۔


"ببب۔۔۔۔بس ایک آخری بار۔۔۔۔مجھے بابا کہہ دو۔۔۔۔"


ابراہیم نے آج جوڑ کر کہا تو جہانزیب نے تڑپ کر ان کے ہاتھ تھام لئے اور اپنے ہونٹ ان کے ہاتھوں پر رکھ کر زاروقطار رونے لگا۔


"بابا۔۔۔۔"


جہانزیب کی الفاظ پر ابراہیم کو اپنے اندر سکون اترتا ہوا محسوس ہوا۔ان کے ایک اشارے پر جہانزیب نے آگے بڑھ کر انہیں اپنے سینے سے لگا لیا۔


"مجھے معاف کر دیں بابا معاف کر دیں میں آپ کو غلط سمجھتا رہا۔۔۔کچھ بھی نہیں کر پایا میں آپ کے لئے۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔"


جہانزیب روتے ہوئے کہہ رہا تھا اور اس کو اس حالت میں دیکھ کر کمرے میں موجود دونوں آدمیوں کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھیں جب کہ ابراہیم کا وجود کب سے ساکت ہو چکا تھا مگر ان کے چہرے پر ایک سکون تھا،ایک اطمینان تھا جس کے ساتھ وہ اس دنیا سے جا چکے تھے۔

💕💕💕

ارشاد کو خبر ملی تھی کہ میرداد حویلی میں واپس آ چکا ہے اسی لیے وہ اپنا ہر کام چھوڑ کر سیدھا حویلی میں میر داد اس سے ملنے کے لیے آیا۔


"مجھے میر داد واجہ سے ملنا ہے۔۔۔۔"


ارشاد نے حویلی میں آکر ایک ملازم سے کہا تو اس نے ساتھ کھڑے زمان کو دیکھا۔


"واجہ بیمار ہیں وہ ابھی کسی سے مل نہیں سکتے آپ اپنا مسلہ مجھے بتا دیں میں انہیں خبر دے دوں گا۔۔۔۔"


زمان کی بات پر ارشاد نے کچھ دیر غور کیا اور پھر انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں میں یہ مسئلہ کسی اور کو نہیں بتا سکتا آپ مجھے واجہ سے ملنے دیں۔۔۔۔"


زمان نے گہرا سانس لے کر اپنے سامنے موجود آدمی کو دیکھا۔


"دیکھیں واجہ ابھی کسی سے ملنے یا گاؤں کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہیں آپ پھر کبھی آ جائے گا۔"


اتنا سن کر ارشاد نے پھر سے انکار میں سر ہلایا۔


"میرا مسئلہ بہت بڑا اور اہم ہے مجھے ان سے ابھی ملنا ہے۔۔۔"


ارشاد اپنی ضد پر اڑا تھا لیکن اس سے پہلے کہ زمان اسے کچھ کہتا انہیں میر داد کی آواز سنائی دی جو شاید کچھ دیر پہلے ہی حویلی سے باہر آیا تھا۔


"انہیں کمرے میں بھیجو زمان گاؤں کے مسائل حل کرنے کے لیے ابھی زندہ ہوں میں۔۔۔۔"


زمان نے میرداد کو دیکھا جس نے سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر یہ بات کہی اور پھر سے اپنے کمرے کی طرف واپس چلا گیا۔


"چلیے۔۔۔۔"


زمان نے ارشاد کو اشارہ کیا اور اسے لے کر میرداد کے کمرے میں داخل ہوا۔


"مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔۔۔۔"


ارشاد کے ایسا کہنے پر میرداد نے زمان کو باہر جانے کا اشارہ کیا لیکن زمان نے انکار میں سر ہلا دیا۔


"نہیں واجہ میں آپ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔۔"


زمان کی بات پر میرداد میں گہرا سانس لیا اور ارشاد کی طرف متوجہ ہوا۔


"آپ مجھے بے فکر ہو کر بتائیں زمان پر میں بہت زیادہ بھروسہ کرتا ہوں۔"


ارشاد نے گہرا سانس لے کر ان دونوں آدمیوں کو دیکھا اور پھر اپنی نم آنکھوں کو صاف کرکے بات کا آغاز کیا۔


"آج سے چھ مہینہ پہلے کا بات ہے واجہ ایک لڑکے نے میرا بیٹی ازمینہ بلوچ کو سکول سے واپس آتے ہوئے پریشان کیا اور جب اس نے اس کی پریشانیوں سے تنگ آکر اس پر ہاتھ اٹھایا تو بدلے میں اس شخص نے میرا بیٹی کو۔۔۔۔۔"


ارشاد ایک پل کے لیے رکا اس کی آواز میں بہت زیادہ نم ہو چکی تھی اور بولنا اس کے لئے بہت مشکل ہو چکا تھا۔


"وہ مجھے اور میرا بیٹی کو راستے سے اٹھا کر پرانی حویلی لے گیا اور وہاں اس نے۔۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے میرا بچی کو۔۔۔اسے اپنی ہوس ۔۔۔۔"


اس سے آگے ارشاد نہیں بول پایا اور زاروقطار رونے لگا جب کہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر میرداد اپنی مٹھیاں غصے سے کس چکا تھا۔


"کون تھا وہ۔۔۔۔؟"


میر داد نے بہت زیادہ غصے سے پوچھا اور پیچھے کھڑے زمان کی حالت بھی میرداد جیسی ہی تھی۔ایک بلوچ کی غیرت کو یہ گناہ کبھی برداشت ہی نہیں ہوا تھا۔


ارشاد نے نم آنکھیں اٹھا کر اپنے سردار کو دیکھا جو اس کی بات سن کر ہی غصے سے آگ بگولا ہو چکا تھ۔ارشاد نے گہر سانس لے کر اپنا سر جھکایا اور پھر آہستہ سے بولا۔


"ششش۔۔۔۔۔شاہ۔۔۔۔شاہ داد عالم رند۔۔۔۔"


یہ نام سن کر میر داد کو لگا کے آسمان پھٹ چکا تھا اور اس میں سے نکلنے والے تمام انگاروں کا رخ میر داد عالم پر تھا۔


میر داد نے بہت زیادہ غصے سے اپنے سامنے موجود آدمی کو دیکھا اگر وہ اس کی عمر کا لحاظ نہ کرتا تو ابھی تک وہ آدمی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوتا۔


"جانتے بھی ہیں آپ کہ کس کا نام آیا ہے آپ کی زبان پر۔۔۔۔میرے سامنے کھڑے ہوکر آپ کس پر الزام لگا رہے ہیں۔۔۔؟"


میر داد نے انتہائی زیادہ غصے کے عالم میں پوچھا تو جواب میں ارشاد نے بہادری سے سر اٹھا کر اس آدمی کو دیکھا۔


"آپ کا بھائی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے واجہ کہ وہ گنہگار نہیں ہو سکتا یا اسے ہر گناہ کرنے کا حق حاصل ہے جب بات انصاف کا ہو تو اسے بھی اسی کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا جس میں اس گاؤں کا ہر آدمی کھڑا ہوتا ہے۔۔۔۔"


ارشاد کی بات پر میر داد کے ماتھے پر بل پڑے ۔


"کیا اس بات کا آپ کے پاس کوئی ثبوت یا کوئی گواہ ہے؟"


میر داد کے سوال پر ارشاد نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں واجہ میرے پاس نہ تو کوئی ثبوت ہے نہ ہی کوئی گواہ غریب کا پاس یہ سب کچھ نہیں ہوتا اس کے ساتھ صرف اللہ کا سہارا ہوتا ہے جو میرے ساتھ ہے اور ان شاء اللہ اس کی مدد سے میں اپنا بات کو سچ ثابت کر کے رہے گا۔"


ارشاد کی بات پر زمان نے پریشانی سے میرداد کو دیکھا جو دانت کچکچاتے ہوئے سامنے موجود آدمی کو دیکھ رہا تھا۔


"آپ چاہتے ہیں کہ بغیر کسی ثبوت کے میں اپنے بھائی کو جرگے میں گھسیٹوں؟"


ارشاد نے جواب میں اثبات میں سر ہلایا۔


"جی واجہ بالکل اسی طرح جس طرح اس گاؤں کا ہر آدمی بغیر کسی ثبوت کی جرگے میں آتا ہے پھر اس جرگے میں آنے کے بعد اس پر گناہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔۔۔"


میر داد نے اپنی پہلے سے زخمی مٹھیاں اتنی شدت سے کسیں کہ ان میں سے خون رسنے لگا۔


"زمان شاہ داد کو یہاں بلاؤ ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔"


زمان ہاں میں سر ہلا کر کمرے سے باہر گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد شاہ داد کو لے کر کمرے میں داخل ہوا۔


"آپ نے بلایا بھائی۔۔۔۔"


ارشاد کو دیکھ کر شاہ داد بہت زیادہ گھبرا گیا تھا لیکن خود پر قابو پاتے ہوئے وہ میرداد سے مخاطب ہوا۔


"ہاں شاہ ان کا کہنا ہے کہ تم نے ان کی بیٹی ازمینہ بلوچ کے ساتھ زیادتی کی ہے تم اس بارے میں کیا کہنا چاہو گے۔۔۔۔؟"


میرداد کی بات پر شاہ داد نے اپنی آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھا۔


"استغفار بھائی اتنا بڑا جھوٹ میں ایسا کیوں کر کروں گا آپ نے اتنا گھٹیا الزام مجھ پر برداشت بھی کیسے کیا آپ کو تو اس شخص کو منہ توڑ دینا چاہیے تھا۔۔۔۔"


شاہ داد نے غصے سے ارشاد کو دیکھتے ہوئے کہا جو خود اس کو نفرت سے گھور رہا تھا۔


"تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ تم نے ایسا نہیں کیا؟"


میرداد کے سوال پر شاہ داد نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔


"بالکل بھائی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا کیا آپ کو یقین نہیں مجھ پر؟"


شہزاد کے جواب پر مرزا کے چہرے پر ایک اطمینان آیا۔


"بالکل تمہاری بات پر یقین ہے اور چاہتا ہوں کہ یہ یقین اس گاؤں کے ہر آدمی کو بھی ہو اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس الزام کو جرگے میں سب کے سامنے جھوٹا ثابت کیا جائے۔"


جرگے کا نام سن کر ہی شہزاد گھبرا گیا۔


"لیکن بھائی۔۔۔۔"


"اور یہ جرگہ کل ہی رکھا جائے گا۔اس لیے آپ دونوں اپنی دلیلوں کے ساتھ تیار ہو کر آنا۔"


اتنا کہہ کر میرداد میں ان کو جانے کا اشارہ کیا تو ارشاد اثبات میں سر ہلا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ابھی وہ تھوڑی دور ہی گیا تھا جب شاہ داد اس کے پیچھے آیا اور اچانک سے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔


"کہا تھا نا تجھے کہ چپ رہنا اپنی باقی بیٹیوں کی پرواہ نہیں ہے تجھے یا چاہتا ہے کہ اس کی طرح وہ بھی دنیا سے کوچ کر جائیں۔"


شاہ داد نے ارشاد کو دھمکاتے ہوئے کہا تو جواب میں ارشاد نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھے اور جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑایا۔


"میری بیٹیوں کا اللہ وارث ہے مجھے ان کا پروا نہیں لیکن اب کچھ بھی ہو جائے تمہیں میں نہیں چھوڑنے والا۔۔۔۔۔"


ارشاد کی بات پر شاہ داد نے دانت کچکچا کر اسے دیکھا۔


"تجھے کیا لگتا ہے کہ اپنے ماموں کے گھر وہ محفوظ ہیں؟کل تک کا وقت ہے نا میرے پاس آج رات ہی وہاں جا کر بہت کچھ کر سکتا ہوں میں۔۔۔۔"


شاہ داد نے مسکرا کر ارشاد کو دھمکایا اور اس کی اس دھمکی کا اثر بھی ہوا تھا ارشاد اپنی بیٹیوں کے ذکر پر ہی بہت زیادہ ڈر چکا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ شاہ داد کو کچھ کہتا چار آدمی ان دونوں کے پاس آئے۔


"شاہ واجہ آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہے۔۔۔۔"


ایک آدمی کے ایسا کہنے پر شاہ داد اسے گھورنے لگا۔


"کیا بکواس کر رہے ہو؟"


شاہ داد غصے سے دہاڑا۔


"یہ میر داد واجہ کا حکم ہے کہ آپ پر ایک الزام لگایا گیا ہے اور ہر ملزم کی طرح آپ کو بھی جرگے تک قید میں رکھا جائے گا۔۔۔۔"


اس بات پر شاہ داد انہیں گھورنے لگا۔


"پاگل ہو گئے ہو کیا بھائی ایسا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی میں تم لوگوں کے ساتھ ہی جا رہا ہوں۔۔۔۔"


شاہ داد کی آواز حویلی میں گونجی تو تین آدمی آگے ہوئے اور شاہ داد کو حراست میں لے لیا۔شاہ داد ان آدمیوں کی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گیا۔


"یہ اس گاؤں کا اصول ہے واجہ اور میرداد واجہ نے کہا ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے تو آپ کے ساتھ زبردستی کی جائے۔۔۔"


اس آدمی کے ایسا کہنے پر شاہ داد نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔


"یہاں سے چھوٹتے ہی سب سے پہلے تیرا بندوبست کروں گا۔۔۔"


شاہ داد نے دانت کچکچا کر کہا اور ارشاد کو دیکھا جو اب مسکرا رہا تھا۔


"بولا تھا نا شاہ داد عالم کہ میری بیٹیوں کا اللہ وارث ہے۔اب بس تو اپنی خیر منا کیونکہ خدا تیری رسی کھینچ چکا ہے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ارشاد وہاں سے چلا گیا اور وہ آدمی بھی غصے میں پھڑپھڑاتے شاہ داد کو وہاں سے لے گئے۔

💕💕💕

جہانزیب بہت زیادہ اکیلا ہو چکا تھا وہ اپنی زندگی کا واحد رشتہ بھی ہو چکا تھا اس سب پر اس کے پاس حورم ہی نہیں تھی۔


اتنا عرصہ ہو چکا تھا اسے دیکھے ہوئے نہ جانے وہ کیسی تھی۔یہ سوچ کر جہانزیب نے رات کے دس بجنے کے باوجود اپنی جیب سے موبائل نکالا اور شاہ میر کو فون کرنے لگا۔


"اسلام و علیکم پیرک"


شاہ میر کے فون اٹھاتے ہی جانزیب نے کافی محبت سے کہا۔


"و علیکم السلام بیٹا کیسے ہو؟"


"میں ٹھیک ہوں پیرک حورم سائیں کیسی ہیں؟"


جہانزیب نے بے چینی سے پوچھا تو شاہ میر گہرا سانس لے کر رہ گئے۔


"ٹھیک نہیں ہے جہان وہ پہلے جیسی نہیں رہی نا تو کچھ بولتی ہیں اور نہ ہی ہنستی ہے افسوس ہو رہا ہے مجھے خود پر کہ اس کی حفاظت کرنے کی بجائے میں نے اس پر ہی شک کیا اور اسے اتنا دکھ دیا۔۔۔۔اگر تم میرے پاس آ کے مجھے سب کچھ سچ نہیں بتاتے تو نہ جانے میری بچی اور کتنا کچھ برداشت کرتی۔"


جہانزیب نے ان کی بات پر گہرا سانس لیا۔


"ساری غلطی میری ہے پیرک میں ہی انہیں نہیں سمجھ سکا ان کی جس محبت کو میں نادانی سمجھتا رہا وہ تو انہیں اندر ہی اندر ختم کر رہی تھی ساری غلطی میری ہے۔"


جہانزیب نے افسوس سے کہا تو شاہ میر نے گہرا سانس لیا۔


"کوئی بات نہیں جہان جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب ماضی کا نہیں اپنے مستقبل کا سوچو تمہیں حورم کو واپس زندگی کی طرف لانا ہے اسے تمہاری محبت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔"


"جی پیرک میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔۔۔۔"


جہانزیب نے مسکرا کر کہا۔


"کیا آپ میری ان سے بات کروا سکتے ہیں؟"


"کیوں نہیں بیٹا۔۔۔۔"


شاہ میر نے اتنا کہہ کر موبائل ایک ملازمہ کو دیا اور اسے حورم تک پہنچانے کا کہا۔


"حورم بی بی آپکا فون ہے۔۔۔۔"


جہانزیب موبائل میں سے ملازمہ کی آواز سن سکتا تھا۔


"کون ہے۔۔۔۔؟"


حورم نے آہستہ سے پوچھا۔


"جہانزیب واجہ ہیں بی بی۔۔۔۔"


ملازمہ نے نرمی سے جواب دیا تو کچھ دیر کے لیے خاموشی چھائی رہی۔


"مجھے ان سے بات نہیں کرنی آپ ان سے اتنا کہہ دیں کہ وہ یہی سمجھیں یہاں ان کا کوئی بھی نہیں ہے کوئی بھی نہیں ۔۔۔۔"


حورم کی بات جہانزیب کے دل پر لگی اور اس نے خاموشی سے فون بند کر دیا۔اتنا تو وہ جانتا تھا کہ حورم اس سے ناراض ہے لیکن اس کی بے رخی اس حد تک بڑھ چکی ہے اس کا اندازہ نہیں تھا جہانزیب کو۔


لیکن اس نے یہ بھی ٹھان لیا تھا کہ کچھ بھی کر کے وہ اس بے رخی کو ختم کرے گا اور حورم کی پہلے والی محبت حاصل کر کے رہے گا۔

💕💕💕

شاہ داد بند کمرے میں بیٹھا خوف سے کانپ رہا تھا۔بہت سے وسوسے اسکے ذہن میں آ رہے تھے اور ان وسوسوں کے ساتھ خوف تھا بے تحاشا خوف۔۔۔۔


"اگر ۔۔۔اگر بھائی کو سب پتہ لگ گیا تو۔۔۔۔"


شاہ داد نے رندھی ہوئی آواز میں خود سے کہا۔


"نہیں۔۔۔۔نہیں کیسے پتہ چلے گا انہیں۔۔۔۔انہیں کچھ پتہ نہیں چل سکتا۔"


شاہ داد نے اپنے گرد بازو لپیٹتے ہوئے خود کو حوصلہ دلایا۔یہ حوصلہ ملتے ہی وہ مسکرا اٹھا لیکن کچھ دیر بعد پھر سے خوف نے اپنا گھیرا تنگ کیا۔


"لیکن اگر پتہ لگ گیا۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔"


شاہ داد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اسے اپنا آپ بہت بے بس لگ رہا تھا۔


"تو ۔۔۔۔میں پھر سے معافی مانگ لوں گا ۔۔۔۔وہ مجھے معاف کر دیں گے۔۔۔۔۔پہلے بھی تو کر دیا تھا نا۔۔۔۔"


شاہ داد نے پھر سے خود کو ہمت دلائی تھی۔


"جب تک بھائی میرے ساتھ ہیں مجھے کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔وہ مجھے سزا نہیں دے سکتے۔۔۔۔انہوں نے بابا سے وعدہ کیا ہے وہ مجھے۔۔۔۔۔کبھی بھی سزا نہیں دے سکتے۔۔۔۔ "


شاہ داد نے مسکرا کر کہا اور اپنی آنکھیں موند گیا۔وہ سکون میں تھا یہ سوچ کر کہ اسکے ساتھ اسکا بھائی تھا کاش وہ جانتا کہ وہ کتنا غلط تھا۔

💕💕💕

میر داد کل رات ہی سب کو شاہ داد پر لگے الزام اور جرگے کے بارے میں بتا چکا تھا جسے سن کر سب لوگ بہت زیادہ پریشان ہوئے تھے تے۔


خاص طور پر حورم جس نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا۔کلیم صاحب نے تو صاف سیدھے الفاظ میں کہا تھا کہ اس آدمی کی بات سننے کی کوئی ضرورت نہیں اس نے رند خاندان کے بچے پر الزام لگایا تھا لیکن میر داد نے ان کی بات نہیں سنی کیونکہ اس بار شاہ داد پر جو الزام لگایا گیا تھا وہ کسی غلطی کا نہیں بلکہ بہت بڑے گناہ کا تھا اور میر داد چاہتا تھا کہ وہ بے گناہ ثابت ہو کر سر اٹھا کے جئے۔


شاید اسی لیے اب فجر کی نماز کے بعد وہ خدا کی بارگاہ میں گڑگڑا کر اپنے بھائی کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔


"یا اللہ میں نے اپنے زندگی میں بہت کچھ کھویا ہے پہلے اپنے ماں باپ پھر گل کو بھی اور سب سے بڑھ کر اب تو میں نے اپنی پری کو بھی کھو دیا۔۔۔۔۔"


میر داد نے انتہائی زیادہ دکھ کے ساتھ کہا۔


"لیکن اب تیرے اس مظبوط بندے کی تمام ہمت ختم ہو چکی ہے میرے مولا اب مزید کچھ بھی برداشت کرنے کی ہمت نہیں مجھ میں۔۔۔۔"


دو آنسو ٹوٹ کر میر داد کی مظبوط ہتھیلیوں پر گرے۔


"شاہ پر لگا ہر الزام جھوٹا ہی ہو ورنہ۔۔۔۔۔ورنہ۔۔۔۔۔اس گناہ کی سزا بہت سخت ہے اور میں اتنا مظبوط نہیں کہ اپنے اس بھائی کو وہ سزا سنا سکوں۔۔۔۔اس بھائی کو جسے پانچ سال کی عمر سے میں نے بیٹا بنا کر پالا۔۔۔۔۔"


میر داد کی دعا تقریباً بھیک میں بدل چکی تھی۔


"اور اگر ۔۔۔۔۔اور اگر وہ الزام سچ ہوا۔۔۔۔۔۔"


میر داد فوراً خاموش ہوا یہ سوچ کر ہی اسکی روح تک کانپ گئی تھی۔


"تو ثابت قدم رہنے کی ہمت دینا مجھے۔۔۔"


اتنا کہہ کر میر داد نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرے۔دعا مکمل کرکے وہ اٹھا اور جائے نماز طے کیا تو اس کا دھیان اپنی سائیڈ ٹیبل پر موجود عالم رند کی تصویر پر گیا۔میر داد نے آ کر وہ تصویر اپنے ہاتھ میں تھام لی۔


"آپ بھی دعا کرنا بابا کی شاہ پر لگا ہر الزام جھوٹا ثابت ہو ورنہ۔۔۔۔"


میر داد نے گہرا سانس لے کر خود پر ضبط باندھا تھا۔


"ورنہ آپ سے کیے دو وعدوں میں سے ایک وعدہ مجھے توڑنا پڑے گا اور میں ہی ایسا نہیں کرنا چاہتا بابا۔۔۔۔ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔"


میر داد نے بے بسی سے کہا اور پھر اسکی نظر ساتھ موجود پری کی پائلوں پر پڑی جنہیں وہ ساری رات دیکھتا رہا تھا۔میر داد کے ہاتھ بے ساختہ طور پر ان پائلوں کی طرف بڑھے۔اسکی آنکھیں پھر سے نم ہوئیں۔


"دیکھ لو مہر میر تمہاری ہر بدعا لگ گئی ہے میرے بھائی کو۔۔۔اس نے تم سے تمہارا سب کچھ چھینا تھا اور شاید آج وہ مجھ سے چھن جائے۔۔۔۔اسے معاف کر دینا مہر میر پھر شاید خدا کو بھی اس پر رحم آجائے۔۔۔۔"


میر داد نے اپنی نم آنکھوں کو پونچھتے ہوئے وہ پائلیں واپس رکھیں اور باہر کی طرف چل دیا۔آج اسکی عدالت میں ہی اسکا اپنا بھائی کھڑا ہونا تھا اور آج پہلی بار اس عدالت کی طرف جاتے ہوئے میر داد کے قدم لڑکھڑائے تھے۔

💕💕💕

ارشاد صبح کی نماز کے بعد قبرستان ازمینہ کی قبر پر آیا تھا اور کب سے اپنی بچی کی قبر پر ہاتھ رکھے وہ آنسو بہا رہا تھا۔


"آج میں اسے سزا دلوا کر رہوں گا مینہ تم دیکھ لینا،آج میں تمہیں انصاف دلاکر رہوں گا۔"


ارشاد نے آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔


"تمہیں یاد ہے مینہ تم کہا کرتا تھا کہ تمہارا بابا تمہارا مسیحا ہے۔۔۔۔۔آج میں وہ مسیحا بن کے رہوں گا۔۔۔۔بس تم۔۔۔۔"


ارشاد نے ایک پل کے لیے رک کر گلے میں موجود آنسوؤں کے پھندے کو واپس اندر دھکیلا تھا۔


"بس تم مجھے معاف کر دینا۔۔۔اپنے مسیحا کو معاف کر دینا وہ تمہیں بچا نہیں سکا۔۔۔۔"


ارشاد نے اتنا کہا اور ہاتھ میں موجود ازمینہ کی قبر کی مٹی کو ہونٹوں سے لگا کر اٹھا اور جرگے کی طرف چل دیا۔


جرگے میں تقریبا پہلے سے ہی گاؤں کے تمام مرد موجود تھے اور سب اپنے سردار کا انتظار کر رہے تھے۔ارشاد بھی وہاں گیا اور خاموشی سے اس دائرے کے درمیان میں بیٹھ گیا۔


تھوڑی دیر کے بعد ہی شاہ داد کو وہاں لایا گیا اور اسے بھی اس دائرے کے درمیان میں ارشاد کے مقابل بٹھا دیا گیا۔


میرداد،کلیم صاحب اور شاہ میر وہاں آئے تو سب لوگ ان کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوئے۔سب کو بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی میر داد اس دائرے میں بیٹھ گیا۔شاہ میر اور کلیم بھی اس کے ساتھ بیٹھے جبکہ ان کی نظریں مسلسل شاہ داد پر تھیں۔


"آج کے اس جرگے کا مقصد ایک ملزم کو بے گناہ ثابت کرنا ہے یا ایک مجرم کو سزا دلوانا ہے۔۔۔۔"


میرداد تمام گاؤں والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگا.


"ارشاد بلوچ نے شاہ داد عالم رند پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ان کی بیٹی ازمینہ بلوچ کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد انہیں خاموش رہنے کے لیے دھمکاتا رہا۔تم کیا کہنا چاہو گے اس بارے میں شاہ داد عالم۔۔۔؟"


میر داد کے کہنے پر شاہ داد گہرا سانس لے کر کھڑا ہوا اور ارشاد کی طرف سے اپنا دھیان ہٹا کر میر داد کو دیکھنے لگا۔


"یہ الزام سراسر جھوٹا ہے بھائی میں تو۔۔۔۔"


"واجہ شاہ داد عالم واجہ۔۔۔۔یہاں ہمارا کوئی رشتہ نہیں۔۔۔۔"


میرداد میں کافی سختی اور بے رخی سے شاہ داد کی بات کو کاٹا تو شاہ داد نے گھبرا کر شاہ میر کو دیکھا۔


"جس وقت اور جس دن کی یہ بات کر رہے ہیں تب تو میں اس گاؤں میں تھا ہی نہیں واجہ میں اوتھل سے باہر چیپ ریلی میں تھا آپ چاہیں تو وہاں شرکت کرنے والے لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں۔"


میر داد نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنا رخ ارشاد کی طرف کیا۔


"آپ کیا کہنا چاہیں گے اس بارے میں ارشاد بلوچ؟"


ارشاد کھڑا ہوا اور عقیدت سے اپنے ہاتھ باندھ لیے۔


"جس وقت کی شاہ داد عالم بات کر رہا ہے اس وقت تو وہ ریلی ختم ہو چکا تھا آپ پوچھ لیں ان سب لوگوں سے کہ کیا دو بج کر بیس منٹ پر شاہ داد عالم اس ریلی میں تھا۔؟"


اس بات پر میرداد نے سوالیہ نظروں سے ریلی سے آئے لوگوں کو دیکھا۔ان میں سے ایک آدمی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا۔


"نہیں واجہ شاہ داد عالم ایک بج کر 25 منٹ پر ہی اس ریلی سے جا چکے تھے۔"


آدمی کی بات سن کر میرداد نے اثبات میں سر ہلایا اور شاہ داد کو دیکھا۔


"اب تم کیا کہنا چاہو گے اس بارے میں شاہ داد عالم۔۔۔۔؟


میرداد کے سوال پر شاہ داد نے اپنا تھوک نگلا اور بے چینی سے کھڑا ہوا۔


"ریلی سے یہاں تک کا فاصلہ بہت زیادہ ہے واجہ میں اتنی دیر میں یہاں نہیں پہنچ سکتا تھا۔۔۔"


میر داد نے اب اپنا رخ ارشاد کی طرف کیا اور انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ارشاد کچھ دیر خاموش رہا اور کافی دیر سوچنے کے بعد بولا۔


"شاہ داد ریلی میں جاتا ہے واجہ تو اس کی گاڑی کا رفتار اور چلانے کا طریقہ عام لوگوں سے زیادہ ہوگا وہ اتنی دیر میں بآسانی یہاں تک پہنچ سکتا تھا۔۔۔"


ارشاد کی بات پر شاہ داد بے چینی سے کھڑا ہوا۔


"میں یہاں نہیں تھا واجہ یہ شخص مجھ پر جھوٹا الزام لگا رہا ہے۔۔۔۔"


شاہ داد میں غصے سے ارشاد کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"اس کے پاس تم پر جھوٹا الزام لگانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے شاہ داد عالم؟"


میر داد نے سنجیدگی سے سوال کیا۔


"کیونکہ اس کی لڑکی مجھے پھانسنا چاہ رہی تھی واجہ بہت بار اس نے میری نظروں میں آنے کی کوشش کی اور جب میں نے اسے دھتکارا تو کہنے لگی کہ وہ مجھ پر یہ گھٹیا الزام لگا دے گی۔۔۔۔"


شاہ داد کی اس بات پر تمام گاؤں والوں کے درمیان ایک شور برپا ہوا جو میرداد کے ہاتھ اٹھانے پر ختم ہوگیا۔


"کیا یہ سچ ہے ارشاد بلوچ۔۔۔؟"


"نہیں واجہ یہ سراسر جھوٹ ہے میری بیٹی بہت زیادہ شریف اور معصوم لڑکی تھا اس نے تو کبھی ایک غیر محرم پر نگاہ بھی نہیں ڈالا۔یہ شخص اپنی غلاظت اور گناہ کا الزام اس معصوم پر لگا رہا ہے۔۔۔۔"


ارشاد نے سنجیدگی سے کہا۔


"کیا آپ کے پاس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ یا ثبوت ہے کہ شاہ داد عالم نے آپ کی بیٹی پر ظلم کیا تھا۔۔۔۔؟"


میرداد کے سوال پر ارشاد کچھ دیر کے لیے سوچ میں ڈوب گیا۔اس کو اس طرح سے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر شاہ داد کے چہرے پر ایک مسکان آئی۔


"ہے واجہ۔۔۔"


شاہ داد کے چہرے کی مسکان غائب ہوئی تھی۔


"فلک بلوچ جسے میری بیٹی نے خود سب کچھ بتایا تھا۔۔۔۔"


میر داد کے اشارے پر فلک بلوچ اٹھ کھڑا ہوا۔


"جی واجہ ہماری شادی سے ایک دن پہلے ازمینہ بلوچ نے مجھے ملنے کے لیے بلایا اور اس نے مجھے کہا کہ شاہ داد عالم نے اسکی آبرو ریزی کی تھی اور یہ سچ بتائے بغیر وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔"


میر داد نے ہاں میں سر ہلایا۔


"یہ بات تمہیں ازمینہ بلوچ نے خود بتائی تھی؟"


"جی واجہ۔۔۔"


میر داد کے سوال پر فلک نے عقیدت سے کہا۔


"جب شاہ داد عالم نے یہ گناہ کیا تب تم وہاں پر موجود تھے؟"


فلک نے کچھ سوچ کر انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں واجہ یہ سب مجھے ازمینہ بلوچ نے ہی بتایا تھا۔۔۔۔"


میر داد نے ہاں میں سر ہلایا اور اس کو بیٹھنے کا اشارہ کر کے اپنا رخ ارشاد کی طرف کیا۔


"کیا اس موقع پر آپ کے علاوہ کوئی اور چشم دید گواہ موجود تھا؟"


اس سوال پر ارشاد کافی دیر خاموش رہا پھر انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں واجہ۔۔۔۔"


میر داد نے ہاں میں سر ہلا کر باقی لوگوں کو دیکھا۔


"ہمارا دین اور قانون دونوں ایسےک الزام کے موقع پر چشم دید گواہ مانگتے ہیں اور اس کے بغیر کوئی بھی الزام سچ ثابت نہیں ہو سکتا۔اگر ارشاد بلوچ کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے تو اس جرگے میں شاہ داد عالم کو بے گناہ تصور کیا جائے گا۔۔۔"


میر داد کی بات پر شاہ داد شان سے مسکرایا۔جیسا اس نے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔اسکے بھائی کے ہوتے ہوئے کوئی اسے چھو بھی نہیں پایا تھا۔


"کیا آپ کے پاس چشم دید گواہ ہے ارشاد بلوچ؟"


اس سوال پر ارشاد انتہائی زیادہ بے بس ہو گیا بہت سے آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔اس نے بے بسی کے عالم میں اس نے انکار میں سر ہلایا ۔میر داد کچھ دیر خاموش رہا اور پھر اس نے سب لوگوں کو دیکھا۔


"چشم دید گواہ نہ ہونے کی وجہ سے شاہ داد عالم کو بے گناہ تصور۔۔۔۔"


"گواہ ہے واجہ۔۔۔۔"


اچانک ایک کونے سے آواز آئی تو سب نے اپنی نظروں کا رخ اس طرف کیا جبکہ بولنے والے شخص کو دیکھ کر شاہ داد کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

💕💕💕

سب کی نظریں مراد پر تھیں جو ابھی اس جرگے میں داخل ہوا تھا اور اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہا تھا۔مراد آ کر دائرے میں کھڑا ہوا تو شاہ داد نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔


"تو تم کہنا چاہ رہے ہو کہ وہ سب تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا؟"


میر داد نے مراد کو دیکھتے ہوئے سوال کیا جبکہ شاہ داد ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مراد کا گلا ہی دبا دے۔


"جی واجہ اس دن میں شاہ داد کے ساتھ ہی تھا اور وہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔۔۔۔"


مراد نے شاہ داد کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا جو غصے سے اسے گھور رہا تھا۔


"تو بتاؤ کیا ہوا تھا اس دن؟"


میر داد نے سنجیدگی سے پوچھا حالانکہ دھڑکنیں اس کی بھی بڑھ چکی تھیں۔


"میں اور شاہ داد جیپ ریلی سے واپس آرہے تھے شاہ داد بہت زیادہ نشے میں تھا اور جب اس کی نظر ازمینہ پر پڑی تو اس نے ازمینہ کے مارے گئے تھپڑ کا بدلہ لینے کا سوچا اور اسی ارادے کے ساتھ اس نے مجھے ارشاد بلوچ کو سنبھالنے کا کہا اور خود اس نے ازمینہ کو اغوا کر لیا۔۔۔۔"


مراد ایک پل کو روکا اور پھر گہرا سانس لے کر بولنا شروع ہوا۔


"شاہ داد اور میں ان دونوں کو اغوا کرکے پرانی حویلی لے گئے تھے جہاں شاہ داد عالم نے ہم دونوں کی آنکھوں کے سامنے اس لڑکی کے ساتھ ظلم کیا تھا۔"


مراد کی بات ختم ہونے پر جرگے میں موجود تمام لوگ سکتے کے عالم میں آچکے تھے جبکہ شاہ داد غصے سے اٹھا اور اس نے مراد کو گریبان سے پکڑ لیا۔


"کیا بکواس کر رہا ہے تو کیوں جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔۔"


شاہ داد نے مراد کو چھوڑ کر بے چینی سے میر داد کی طرف پلٹتے ہوئے کہا تو وہ واقعی میں پریشان ہو چکا تھا۔


"اور اس کے پاس چھوٹ بولنے کی کیا وجہ ہے شاہ داد عالم۔۔۔؟"


میر داد کے سوال پر شاہ داد نے کچھ دیر غور کیا اور پھر بے چینی سے ہاتھ مسلنے لگا۔


" کیونکہ یہ میرے دوست کے روپ میں دشمن ہے جلتا ہے یہ مجھ سے میری ہر بات سے اسی لیے یہ سب کر رہا ہے۔۔۔۔"


شاہ داد کے بے چینی سے کہنے پر پر میرداد نے مراد کو دیکھا۔


"اگر تم اس سے واقف تھے تو اتنا عرصہ میرے پاس کیوں نہیں آئے یا کسی اور کو اس بارے میں کیوں کچھ نہیں بتایا؟"


میر داد نے مراد سے کافی زیادہ سختی سے پوچھا۔


"کیونکہ میں ایک اچھا انسان نہیں واجہ بلکہ ایک ڈرپوک انسان ہوں ،انتہائی زیادہ ڈرپوک اگر بہادر ہوتا تو چار سال شاہ داد عالم سے دوستی کر کے اس کی کمزوری نہ ڈھونڈتا رہتا بلکہ بہت عرصہ پہلے ہی اسے اس کے ہر گناہ کی سزا دے چکا ہوتا۔۔۔۔"


مراد کی بات پر سب نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا جبکہ میرداد خود بھی اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


"چار سال پہلے کی بات ہے واجہ میں ایک عام سے باپ کی عام سی اولاد تھا کوئٹہ کے کالج میں پڑھ کر کچھ بننے کے مقصد سے آیا تھا۔لیکن شاہ داد عالم نے صرف ایک شرط جیتنے کے لیے میرے بیگ میں نشا آور پاؤڈر ڈال دیا اور اس کی وجہ سے مجھے کالج سے نکال دیا گیا اور میں پھر کبھی اپنی تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکا۔ میرا ہر خواب آپ کے بھائی کی شرارت نے چکنا چور کردیا۔۔۔۔"


سب لوگ یہاں تک کہ شاہ داد بھی بہت غور سے مراد کی باتیں سن رہا تھا۔


"پھر میں نے خود سے وعدہ کیا کہ شاہ داد کا انجام بہت زیادہ برا ہوگا اسے کسی نہ کسی طرح میں برباد کر کے رہوں ہوگا لیکن مجھے کبھی موقع ہی نہیں ملا کیونکہ میں ڈرپوک تھا بہت زیادہ ڈرپوک تھا۔لیکن اب بس اس شیطان کی شیطانی نے مجھے بہادر بننے پر مجبور کر دیا اسے سزا ملنی چاہیے واجہ۔۔۔۔"


مراد اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا تو شاہ داد غصے سے پاگل ہو گیا اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مراد بدلہ لینے کے لیے اس کے ساتھ تھا۔وہ تو سمجھتا تھا کہ مراد اس کی امیری دیکھ کر اسکا چیلا بننا چاہتا ہے۔


"دیکھا واجہ اس نے خود وجہ بتا دی جھوٹ بولنے کی یہ سب بس الزام ہے مجھ پر میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔۔"


شاہ داد بے چینی سے چلا رہا تھا جبکہ سب اسے گہری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے یہاں تک کہ شاہ میر بھی اب پریشان ہو چکے تھے۔


"مجھے لگتا ہے شاہ داد سچ کہہ رہا ہے۔۔۔"


کب سے خاموش بیٹھے کلیم نے گہرا سانس لے کر کہا جبکہ میر داد نے انکی رائے کو نظر انداز ہی کرنا بہتر سمجھا۔


"تو تم کہنا چاہتے ہو کہ تم نے ازمینہ بلوچ کے ساتھ کچھ بھی نہیں کیا بلکہ اس دن تم یہاں پر تھے ہی نہیں۔۔۔۔؟"


میرداد کے سوال پر شاہ داد نے بے چینی سے ہاں میں سر ہلایا۔اپنے بھائی کے یقین کرنے پر اسے اطمینان ہو چلا تھا۔


"بلکل واجہ۔۔۔۔"


"اگر ایسا ہے تو میرے آدمیوں کو ازمینہ کی کالی چادر تمہارے کمرے میں سے کیسے ملی۔۔۔؟"


میر داد کے سوال ہر شاہ داد بے چین ہوا۔


"نہیں واجہ آپ کے آدمی جھوٹ بول رہے ہیں میرے کمرے میں کوئی کالی چادر موجود نہیں۔"


شاہ داد حد سے زیادہ بے چین ہو چکا تھا۔جبکہ میر داد کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔


"میرے آدمیوں کو کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی وہ تو وہی بتائیں گے جو سچ ہے اور سچ یہ ہے کہ انہیں تمہارے کمرے سے ازمینہ کی کالی چادر ملی تھی۔"


شاہ داد نے انکار میں سر ہلایا۔


"ایسا نہیں ہو سکتا جو جھوٹ ہے یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔"


شاہ داد بے چینی سے کہہ رہا تھا جبکہ سب حیرت سے دونوں بھائیوں کو دیکھ رہے تھے۔


"کیوں نہیں ہو سکتا ایسا جب میں کہہ رہا ہوں کہ تمہارے کمرے میں اس لڑکی کی کالی چادر تھی تو تھی۔۔۔"


"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا جھوٹ ہے یہ۔۔۔۔"


"کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔۔؟


"کیونکہ ازمینہ کی چادر کالی نہیں لال تھی اور میں نے اسے اسی دن جلا دیا تھا۔۔۔۔"


شاہ داد غصے سے چلایا تو سب لوگوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے جبکہ میر داد ضبط سے اپنی مٹھیاں کس چکا تھا۔


"اگر تم یہاں تھے ہی نہیں شاہ داد عالم تو تمہیں کیسے پتا کہ اس کی چادر کالی نہیں لال تھی۔۔۔۔؟"


میر داد کی بات پر سب لوگ حیرت سے شاہ داد کو دیکھنے لگے جو کہ سکتے کہ عالم میں آ چکا تھا۔


"واجہ وہ۔۔۔۔"


"بس شاہ داد عالم بس۔۔۔۔۔"


میر داد کے دہاڑنے پر شاہ داد کی روح تک کانپ گئی تھی۔


"بہت جھوٹ سن لیا سب نے اور اب سچ سب کے سامنے آ چکا ہے۔۔۔اب تم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔"


میر داد کی بات پر شاہ داد کی دھڑکنیں بڑھ گئیں ۔یہ وہ کیا کر چکا تھا اتنی بڑی بے وقوفی کیسے کر دی اس نے لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا تھا فیصلہ کرنے والا میرداد تھا وہ اسے کچھ بھی نہیں ہونے دے گا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔وہ بس اسے چھوٹی موٹی سزا سنائے گا۔۔۔شاہ داد نے اپنے آپ کو حوصلہ دلایا۔


"تم کیا سوچ رہے ہو شاہ داد عالم کے سامنے تمہارا بھائی ہے تو تمہیں سزا نہیں ملے گی یا تمہاری سزا میں کمی واقع ہو جائے گی؟"


میر داد کی بات پر شاہ داد کی روح تک بے چین ہوئی۔


نہیں شاہ داد عالم نہیں۔۔۔۔سردار میر داد عالم انصاف ضرور کرے گا پھر چاہے سامنے اس کا بھائی ہی کیوں نا ہو کیونکہ انصاف ہر رشتے کا تقاضہ مٹا دیتا ہے۔۔۔"


میر داد نے اتنا کہا اور ضبط سے اپنی آنکھیں میچ گیا جو کہ سرخ ہو چکی تھیں۔


"واجہ اس سے پہلے کہ آپ اپنا فیصلہ سنائیں میں اپنے ایک گناہ کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔"


مراد نے گہرا سانس لیا اور پھر اپنی بات شروع کی۔


"مجھے شاہ داد سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا تھا لیکن اس پر براہ راست وار کرنے کے لئے میں بہت ڈرپوک تھا پھر ایک دن مجھے ایک موقع ملا تو میں نے بےعزتی کا بدلہ بےعزتی سے لینے کا سوچا۔۔۔"


مراد نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا تو سب لوگ حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔


"میں رات کے دو بجے شاہ داد کو حویلی چھوڑ کر واپسی کے لیے مڑا تو مجھے حورم بی بی نظر آئیں رات کے اس پہر کہیں جا رہی تھیں۔میں ان کا پیچھا کرنے لگا تو تب پتہ چلا کہ ان کا رخ جہانزیب شاہ کے کمرے کی طرف تھا۔میں ان کے پیچھے گیا اور کھڑکی کے پیچھے چھپ کر ان دونوں کو دیکھنے لگا"


مراد کی بات پر میر داد کے ماتھے پر بل آئے تھے۔


"جہانزیب شاہ کی طبیعت کافی خراب تھی شاید وہ بخار میں تھا اور حورم بی بی ان کا حال پوچھنے آئی تھیں۔مگر تبھی انکا پیر لڑکھڑایا اور وہ سیدھا جہانزیب شاہ پر جا گریں۔۔۔۔"


اسکی بات سن کر سب لوگ حیران ہوئے۔


"مجھے لگا یہ موقع میرے لئے بہت اچھا ہے اسی لیے میں نے اپنا موبائل نکال کر ان دونوں کی تصویریں بنا لیں حالانکہ جیسا ان تصویروں میں دکھایا جا رہا تھا ویسا کچھ بھی نہیں ہوا جہانزیب شاہ نے ہوش میں آتے ہی حورم بی بی کو خود سے دور کر دیا اور کمرے سے جانے کا کہا۔۔۔۔۔"


مراد اپنا سر شرمندگی سے جھکا چکا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اس نے بات کو مکمل طور پر بدل دیا تھا لیکن ان دونوں کی پاکیزہ محبت کو بدنام کر کے مراد کو ایک پل بھی سکون نہیں ملا تھا۔


"حورم بی بی بھی انکا حال پوچھ کر کمرے سے چلی گئی تھیں لیکن میں نے جو تصویریں بنائی تھیں، شاہ داد سے بدلہ لینے کے لیے انہیں ایک نیا رنگ دے کر شہریار رند کو بھیج دیں۔۔۔۔۔"


مراد ایک پل کو رکا اور اس نے گہرا سانس لیا جبکہ میرداد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کو زندہ درگو کر دے۔


"مجھ سے غلطی ہوگئی واجہ میں نے اس معصوم لڑکی پر الزام لگایا اور مجھے پتہ ہے کہ اس گناہ کے لیے میں سزا کا مستحق ہوں آپ جیسی چاہیں مجھے سزا دیں۔۔۔۔"


مراد کی بات سن کر تمام گاؤں والے خاموش ہو چکے تھے جبکہ میرداد بہت دیر تک مراد کو دیکھتا رہا پھر اس نے اپنی آنکھیں میچ کر کھولیں۔


"بہتان کی سزا کوڑے ہیں لیکن چونکہ تم نے سچ بتانے کی ہمت کی ہے تو تمہاری سزا میں کمی کی جائے گی ۔۔۔"


سزا سن کر بھی مراد کو کوئی خوف نہیں آیا بلکہ اسی نے خاموشی سے سر تسلیم خم کر دیا۔


اس کے بعد میر داد نے اپنا رخ شاہ داد کی طرف کیا جو بے چینی سے دائرے کو دیکھ رہا تھا شاید وہ کوئی راہ فرار چاہتا تھا۔اسکی سزا کا سوچ کر میر داد کانپ گیا تھا۔


"شاہ داد عالم پر ازمینہ کے ساتھ زیادتی کرنے کا جرم ثابت ہو چکا ہے جسکی سزا اسے آج ہی سنائی جائے گی۔۔۔۔اور اسی وقت دی بھی جائے گی"


میر داد کی بات پر شاہ داد بہت زیادہ سہم گیا اور اپنی نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔جبکہ اس کے چہرے پر موجود خوف کر ارشاد کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا اسے لگ رہا تھا کہ ازمینہ نے اسے معاف کر دیا۔


"معافی چاہتا ہوں واجہ لیکن مجھے کچھ کہنا ہے۔"


میر داد نے ارشاد کی بات سن کر ہاں میں سر ہلایا تو ارشاد اپنی جگہ سے اٹھ کر جرگے کے دائرے کے بالکل درمیان میں آ گیا۔


"میں مانتا ہوں کہ شاہ داد عالم نے میری بیٹی کے ساتھ ظلم کیا اس سے سر اٹھا کر جینے کا حق چھین لیا لیکن وہ میری بیٹی کا قاتل نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔اپنا بیٹی کا قاتل تو میں خود تھا اور مجھے وہ قاتل بنانے والا یہ معاشرہ۔۔۔۔"


سب لوگ بہت زیادہ خاموشی سے ارشاد کی بات سن رہے تھے جبکہ ارشاد نے بہت مشکل سے گلے میں موجود آنسو کے پھنڈے کو روکا۔


"میری بیٹی ڈرپوک نہیں تھا وہ تو بہادر تھا بہت زیادہ بہادر۔۔۔۔وہ ایک شاہ داد کا ہی نہیں بلکہ بہت سے شاہ داد کا مقابلہ کرسکتا تھا اس کی کمزوری تو میں بنا اور میری کمزوری یہ معاشرہ۔۔۔۔"


ارشاد کی بات پر سب لوگوں نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔


"جو ناجانے کیوں مظلوم پر ہی مزید ظلم کرتا ہے۔جب کسی عورت پر ظلم ہوتا ہے تو ہم اسے ہی کیوں گھٹیا تصور کر لیتا ہے اس میں اس کا تو کوئی قصور نہیں۔۔۔۔۔۔وہی تو سب سے زیادہ تکلیف میں ہوتا ہے اور ہم گناہگار بھی اسی کو ٹھہرا دیتا ہے کیا یہ ہمارا نا انصافی نہیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ارشاد اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پایا بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے گر کر بے مول ہو گئے۔


"خدارا مظلوم پر ظلم کرنا چھوڑو،اسکی آواز کو مت روکو،اسے قید مت کرو،چلا چلا کر اسے دنیا کو سچ بتانے دو تا کہ پھر کوئی لڑکا شاہ داد نہ بنے اور کوئی لڑکی ازمینہ نہ بنے۔۔۔۔ تا کہ پھر کبھی کسی ازمینہ بارات نہ آنے پر اسے برا نہ کہا جائے۔۔۔۔"


ارشاد نے فلک کو دیکھا جو سر جھکائے بیٹھا تھا۔


"سزا ظالم کو دو،اسے قید کرو تا کہ وہ پھر کبھی کسی معصوم کو نوچ کر وہ اسے ازمینہ بننے پر مجبور نہ کرے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ارشاد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا پھر اپنے آنسو بے دردی سے صاف کر کے اس نے میر داد کو دیکھا۔


"ساری رات میرا بچی میرے پیر پکڑ کر روتا رہا شائید اس امید سے کہ میں سمجھ جاؤں کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا،اس نے تو صرف سچ بولا جو اس بہرے معاشرے سے برداشت ہی نہیں ہوا واجہ۔۔۔۔"


ارشاد اب زاروقطار رو رہا تھا اور جرگے میں موجود ہر آدمی کی آنکھ اشکبار ہو چکی تھی۔جبکہ فلک تو اپنا سر شرمندگی سے اٹھا ہی نہیں پا رہا تھا۔


"کاش میں اس رات چپ کر کے نا لیٹا رہتا،کاش میں اٹھ کر اپنی بچی کو سینے سے لگا لیتا،کاش میں اس سے بتاتا ہے کہ اس کا کوئی قصور نہیں۔۔۔۔تو آج وہ زندہ ہوتا واجہ تو آج وہ زندہ ہوتا۔۔۔۔"


ارشاد اب زارو قطار رو رہا تھا اور اسے اس حال میں دیکھ کر ہر انسان کی انکھ اشکبار تھی۔


"میں کیسے بھول گیا کہ مینہ نے میرا کبھی کوئی بات نہیں ٹالا۔۔۔۔۔وہ اپنے بابا کا ہر حکم مانتا تھا۔۔۔۔تو میں نے کیوں کہہ دیا اسے کہ کاش تو پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔۔۔۔۔"


ارشاد اب باقاعدہ اپنے بال نوچ رہا تھا۔


"میں نے کیوں نہ یہ سوچا ۔۔۔۔۔کہ وہ ہر حکم کی طرح میرا یہ بات بھی مان لے گا۔۔۔۔۔سب غلطی میری تھی۔۔۔۔۔سب غلطی میری تھی۔۔۔۔۔"


ارشاد اتنا کہہ کر زمین پر بیٹھتا چلا گیا اور میر داد نے آنسو پونچھتے اپنی جگہ سے اٹھ کر ارشاد کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے ساتھ کھڑا کیا اور اسے ساتھ لگا کر دلاسہ دیتے ہوئے خود بھی آنسو بہانے لگا۔


شاہ داد ابھی بھی اس دائرے کے درمیان میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔میر داد ارشاد سے دور ہو کر نا جانے کتنی دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر ضبط سے آنکھیں میچ کر سب لوگوں سے مخاطب ہوا۔


"شاہ داد عالم رند ازمینہ بلوچ کا گنہگار ہے،اس نے نہ صرف اس لڑکی پر ظلم کیا بلکہ انہیں دھمکا کر خاموش رہنے کا بھی کہا۔"


میر داد نے سب سے کہا تو سب لوگ حیرت سے اپنے سردار کو دیکھنے لگے جسکے چہرے پر بے انتہا سنجیدگی تھی۔


"آج اسی جرگے میں شاہ داد عالم کو اسکے گناہ کی سزا دی جائے گی۔۔۔۔"


سزا کا سن کر شاہ داد نے کب سے جھکا سر اٹھا کر میر داد کو اپنی نم آنکھوں سے دیکھا۔اس وقت وہ میر داد کو وہی پانچ سالہ بچہ لگا تھا جسے اسکے بابا اسکے پاس چھوڑ کر چلے گئے تھے،جسے میر داد اپنا بیٹا ،اپنا غرور سمجھتا تھا۔جسے میر داد اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتا تھا۔


"شاہ داد عالم کو وہی سزا دی جائے گی جو میرے بابا اور اس گاؤں کے پرانے سردار عالم شاہ میر رند نے اس گناہ کی مقرر کی تھی۔۔۔۔"


میر داد کی بات سن کر سب لوگوں کے منہ حیرت سے کھل گئے جبکہ شاہ داد کی روح تک کانپ گئی تھی۔۔۔

سب لوگ حیرت سے میرداد عالم کو دیکھ رہے تھے۔جس نے سزا سناتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ سامنے موجود شخص اس کا اپنا بھائی ہے۔


"جو شاہ داد عالم نے کیا ہے وہ بہت بڑا گناہ ہے اور سب لوگ جانتے ہیں کہ اس گاؤں میں اس گناہ کی کیا سزا ہے۔وہ سزا جو سردار عالم شاہ میر نے خود اس گناہ کی رکھی تھی۔۔۔۔۔"


میر داد اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا جبکہ شاہ داد اب زمین پر بیٹھا زاروقطار رو رہا تھا۔میر داد نے ایک آخری نگاہ اپنے بھائی پر ڈالی تو بےساختہ طور پر اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔


"شاہ داد عالم رند ایک معصوم لڑکی کو تباہ کرنے کا جو جرم تم نے کیا ہے اس کی سزا یہ ہے کہ تمہیں تمام گاؤں والے پتھر ماریں گے تب تک۔۔۔۔۔"


میرداد نے ایک پل رک کر اپنی آنسو سے بوجھل آواز کو قابو میں کرنا چاہا۔


"تب تک جب تک تمہاری جان نہیں نکل جاتی۔۔۔۔یہی تمہاری سزا ہے شاہ داد عالم،یہی اس گناہ کی سزا ہے جو ہر اس انسان کو ملے گی جس نے یہ گناہ کیا ہو۔۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر میرداد مڑا اور انتہائی زیادہ بے دردی سے اپنے آنسو صاف کر کے شاہ میر کے پاس چلا گیا جو خود بھی وہاں بیٹھے رو رہے تھے۔میرداد نے انہیں کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا تو شاہ میرا اس سے دور ہوئے اور اپنے ہاتھ میرداد کے آگے جوڑ دیے۔


"ر۔۔۔۔رحم کر دو واجہ۔۔۔۔میری خاطر سزا کم کر۔۔۔ دو تمہیں خدا کا۔۔۔۔۔"


میرداد بے چینی سے آگے بڑھا اور ان کے جڑے ہوئے ہاتھ تھام لئے۔اس سے پہلے کہ شاہ میر مزید کچھ کہتے میرداد نے بہت زیادہ بےبسی سے انکار میں سر ہلایا۔


میر داد کا سر انکار میں ہلتا دیکھ شاہ میر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے تو میر داد نے انہیں اپنے گلے سے لگا لیا اور ایک گہرا سانس لے کر خود پر قابو کرتے ہوئے زمان کی طرف مڑا۔


"پتھروں کا انتظام کرو زمان اور سزا ختم ہونے تک یہیں رہنا۔۔۔۔جب۔۔۔۔۔جب وہ مرجائے تو اس کی لاش حویلی لے آنا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر میرداد آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو نہیں روک سکتا تھا۔جب کہ اس کی بات سن کر شاہ داد ہوش میں آیا اور بھاگ کر میرداد کے پیروں سے لپٹ گیا۔


"نہیں بھائی۔۔۔۔نہیں غلطی ہو گئی مجھ سے۔۔۔۔۔آپ معاف کر دیں بھائی۔۔۔۔خدا کے لیے معاف کر دیں۔۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب سے ۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں کرتا۔۔۔۔وعدہ کرتا ہوں ۔۔۔۔بس آپ معاف کر دیں۔۔۔۔۔"


شاہ داد بری طرح سے روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔اس کے بھائی نے تو ہمیشہ اس کی حفاظت کی تھی وعدہ کیا تھا کہ کبھی اس پر ایک انچ بھی نہیں آنے دے گا تو پھر آج سے اتنی بڑی سزا کیسے سنا دی۔


شاہ داد کو تڑپتا دیکھ میرداد نے ضبط سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔پھر اپنی لہو رنگ آنکھیں کھول کر ارشاد کو دیکھا جس نے اپنی بیٹی کھوئی تھی۔وہ معافی نہیں چاہتا تھا ،وہ سزا چاہتا تھا اپنی بیٹی کے مجرم کی سزا۔


"فیصلہ ہو چکا ہے اور اس فیصلے کو بدلہ نہیں جائے گا انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے کٹہرے میں سب برابر ہوتے ہیں۔۔۔۔"


میرداد نے شاہ داد کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اس کے پیروں سے لپٹا بری طرح سے رو رہا تھا۔


میر داد نے خود کو کمزور پڑتا دیکھ اپنا دھیان اس پر سے ہٹایا اور لوگوں کو دیکھا جنہوں نے ابھی تک پتھر نہیں اٹھائے تھے بس ہاتھ باندھے ہر چیز دیکھ رہے تھے۔


"پتھر اٹھاؤ۔۔۔۔"


میر داد نے اونچی آواز میں کہا لیکن کوئی بھی پتھر اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھا تو میر داد نے شاہ میر کو چھوڑا اور شاہ داد سے اپنے پیر چھڑوا کر ملازم کے پاس آیا جو پتھر اٹھائے کھڑا تھا۔


میر داد نے خود اس میں سے ایک پتھر اٹھایا اور اسے لا کر سر جھکا کر کھڑے ارشاد کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔


"اس وقت وہ نہ تو سردار کا بھائی ہے نا ہی رند خاندان کا حصہ،وہ اس وقت صرف آپکا مجرم ہے ارشاد بلوچ۔"


اتنا کہہ کر میر داد نے شاہ داد کو دیکھا جو اب شاہ میر کے سینے سے لپٹا رو رہا تھا اور شاہ میر نے بھی اسے یوں خود میں بھینچا تھا جیسے کہ اسے اپنے اندر چھپا لیں گے۔


میر داد نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تو انہوں نے شاہ داد کو اپنی پکڑ میں لے لیا اور اس سے پہلے کہ شاہ میر انہیں روکتے میر داد نے انہیں خود سے لگا لیا۔


"میں پہلے ہی بہت کمزور ہو چکا ہوں پیرک مجھے مزید کمزور مت بنائیں۔۔۔۔"


میر داد نے انکے کان میں سرگوشی کی تو شاہ میر بھی بے بس ہو گئے۔میر داد انہیں اپنے ساتھ لگاتا وہاں سے جانے لگا۔جبکہ کلیم صاحب تو خاموش تماشائی بنے سب دیکھ رہے تھے۔


"نہیں بھائی۔۔۔۔مجھے بچا لیں۔۔۔۔یہاں چھوڑ کے مت جائیں مجھے۔۔۔۔بچا لیں بھائی۔۔۔۔بچا لیں۔۔۔۔"


شاہ داد نے تڑپ تڑپ کر میر داد کو پکارا لیکن میر داد کچھ بھی سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔شاہ داد خود کو چھڑوانے کی مکمل کوشش کر رہا تھا لیکن اسے پکڑنے والے آدمیوں کی پکڑ کافی مضبوط تھی۔آخر کار بے بس ہوکر شاہ داد ارشاد کی طرف مڑا۔


"معاف کر دیں مجھے۔۔۔۔۔غلطی ہو گئی معاف کر دیں۔۔۔۔"


ارشاد کو ایک پل کے لیے اس لڑکے کے حال پر رحم آیا تھا لیکن پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی بیٹی کا چہرہ گھوما،اس کے کانوں میں صرف ازمینہ کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔


ارشاد نے ہاتھ پہ موجود پتھر کو دیکھا اور پھر پوری طاقت سے اسے شاہ داد کو دے مارا جبکہ اس کے ایسا کرتے ہی وہ دونوں آدمی شاہ داد کو جرگے کے دائرے میں چھوڑ کر دور کھڑے ہوئے اور اب گاؤں کا ہر آدمی پتھر پکڑ کر اس پر برسا رہا تھا۔


شاہ داد بچنے کی مکمل کوشش کی ،وہاں سے بھاگنے کی مکمل کوشش کی لیکن اس دائرے سے نکل نہیں پایا۔بس تڑپتے ہوئے اپنے وجود پر بڑھتے زخموں پر چیخنے لگا۔


پھر آخر کار وہ وقت بھی آگیا جب اس کی چیخیں تھم گئی تھیں اور وہ ایک بے جان وجود بن کر زمین پر گر گیا۔


اس کی لاش کو گاؤں کے ہر آدمی نے بے بسی سے دیکھا۔۔۔۔انصاف ہو چکا تھا تھا۔۔۔

💕💕💕

میرداد نے شاہ میر کو حویلی پہنچا دیا تھا لیکن خود وہ حویلی جانے کی بجائے قبرستان عالم کی قبر پر آیا اور اب اپنے باپ کی قبر پر ہاتھ رکھے زار و قطار رو رہا تھا۔


"سب میری غلطی ہے بابا۔۔۔۔سب میری وجہ سے ہوا۔۔۔۔۔"


میرداد بری طرح سے روتے ہوئے کہنے لگا۔


"میں ہی ایک اچھا سردار نہیں بن سکا۔۔۔۔شاہ کو بھی اتنی بڑی سزا میری وجہ سے ملی بابا ۔۔۔۔اگر میں اس سے اس کی غلطی پر چھوٹی سی سزا دے دیتا تو وہ اتنا بڑا گناہ کبھی نہیں کرتا۔۔۔۔"


میر داد نے بے بسی سے اپنے دونوں ہاتھ قبر پر رکھے۔


"کیوں نہیں سیکھا میں نے آپ سے کہ اچھا سردار کس طرح سے بنا جاتا ہے۔۔۔۔جب بچپن میں، اپنی طاقت کے نشے میں میں نے ایک لڑکے کو مارا تھا۔۔۔۔۔تو آپ نے سزا کے طور پر مجھ سے۔۔۔۔۔ پورے ایک دن مزدور کی طرح کام کروایا تھا ۔۔۔۔تاکہ میرا وہ غرور مٹ جائے۔۔۔۔مجھے پتا لگ جائے کہ ان میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔۔۔۔۔"


میر داد کی آواز میں بہت زیادہ درد تھا بہت زیادہ تکلیف اور کرب تھا۔


"کیوں نہیں سیکھا میں نے آپ سے بابا۔۔۔۔کاش میں آپ کے جیسا ہوتا۔۔۔۔ایک اچھا سردار ہوتا۔۔۔۔ایک مثالی بلوچ ہوتا۔۔۔۔تو آج شاہ داد اس مقام پر نہیں ہوتا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر میر داد پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔


"سب میری وجہ سے ہوا بابا۔۔۔۔سب میری وجہ سے ہوا۔۔۔۔"


میر داد نے بے چینی سے اپنا سر قبر پر رکھا جیسے کہ وہ اپنے باپ سے لپٹنا چاہ رہا ہو۔


"شاہ داد گناہ کی سیڑھی پر چڑھا تو اسے اتنی درد ناک سزا ملی لیکن اسے اس سیڑھی پر چڑھانے والا تو میں تھا نا۔۔۔۔تو میری سزا تو موت سے بھی بدتر ہونی چاہیے۔۔۔۔"


میر داد نے کرب سے کہا اور پھر کچھ سوچ کر خود ہی مسکرا دیا۔


"ہاں میری سزا زیادہ دردناک ہونی چاہیے۔۔۔۔۔اسی لئے میری سزا موت نہیں یہ زندگی ہے۔۔۔۔وہ زندگی جسے مجھے ندامت اور پچھتاوے کے ساتھ گزارنا ہے۔۔۔۔وہ زندگی جسے مجھے اپنی پری ۔۔۔۔۔اپنی محبت کہ بغیر گزارنا ہے۔۔۔۔"


بہت سے آنسو نے میرداد کی آنکھوں سے بہہ کر قبر کی مٹی کو تر کیا تھا۔


"اس نے اچھا کیا مجھے چھوڑ کر بابا میں اس کے قابل تھا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی بن سکوں گا۔۔۔۔"


میر داد نے اپنا ہاتھ قبر کی مٹی پر رکھا۔


"وہ جسے ایک لمحہ بھی دیکھے بغیر میں سانس نہیں لے پاتا۔۔۔۔اب اس کے بنا زندگی گزارنا ہی میری سزا ہے اور یہ سزا میں موت تک کاٹوں گا بابا۔۔۔۔۔"


میر داد نے بے بسی سے کہا اور پھر نہ جانے کتنی ہی دیر اسی طرح عالم کی قبر سے لپٹ کر روتا رہا پھر افق پر شام کے سائے لہرائے تو زمان نے وہاں آکر اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"واجہ۔۔۔۔"


زمان کے پکارنے پر اپنی آنسو سے تر آنکھیں اٹھا کر میرداد نے اسے دیکھا جب کہ اپنے مضبوط سردار کو اس حالت میں دیکھ کر زمان کو اپنے اندر بہت کچھ ٹوٹتا محسوس ہوا۔


"جنازے کا وقت ہوچکا ہے واجہ حویلی میں سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔آپ شاہ واجہ کا آخری دیدار۔۔۔۔۔"


"نہیں زمان ۔۔۔۔۔نہیں میں اس کا قاتل ہوں تو اس کے جنازے میں شرکت کیسے کر لوں یہی میری سزا ہے زمان کہ۔۔۔۔۔ اپنے بھائی کا آخری دیدار بھی نہیں کروں۔۔۔۔اسے میرے بنا ہی دفنا دو۔۔۔۔"


میرداد کی بات سن کر زمان تڑپ اٹھا تھا۔لیکن وہ کیا کرتا وہ اس وقت میرداد کے کرب کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا اس لئے خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔


میرداد مردہ قدموں سے قبر کے پاس سے اٹھا اور قبرستان سے باہر جانے لگا جب اسے ایک بوڑھی عورت نظر آئی جو ایک قبر کے سرہانے بیٹھی اسے اپنے ہاتھ سے چھو رہی تھی۔میرداد خاموشی سے اس کے پاس سے گزرنے لگا تو اسے اس عورت کی آواز سنائی دی۔


"انصاف کر دیا میر داد عالم؟"


بوڑھی عورت کی آواز پر میرداد رکا اور پلٹ کر اسے دیکھا جو نم آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔ایک پل لگا تھا میر داد کو اسے پہچانتے ہوئے۔وہ وہی بوڑھی عورت تھی جس کے بیٹے کو میر داد نے اپنی انا کی خاطر سزائے موت سنائی تھی۔


"ہاں اماں انصاف کر دیا۔۔۔۔"


میر داد کی بات سن کر عورت مسکرا دی۔


"ہاں میر داد عالم آج تو نے انصاف کر دیا۔۔۔"


اس نے اتنا ہی کہا اور پھر سے اس قبر کو محبت سے چھونے لگی۔


"مجھے تمہاری بدعا لگ گئی اماں۔۔۔۔"


میرداد نے اس عورت کو دیکھتے ہوئے بے بسی سے کہا۔


"نہیں میر داد عالم ،انصاف تو نے اس دن بھی کیا تھا میرے بیٹے کو جائز سزا دی تھی۔اس نے میرے بہت روکنے کے باوجود اپنی بیوی کو بہت مارا اتنا کہ وہ بے چاری سہہ ہی نہیں پائی۔تو نے اسے وہی سزا دی جو کہ ایک قاتل کی بنتی تھی،تجھے میری بددعا نہیں لگ سکتی کیونکہ بددعا صرف ایک مظلوم کی لگتی ہے۔۔۔۔تجھے بھی ایک مظلوم کی بددعا لگی ہے میر داد عالم۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر وہ بوڑھی عورت پھر سے اس قبر کو چھونے میں مشغول ہو گئی اور میرداد بھی ہاں میں سر ہلاتا وہاں سے خاموشی سے چلا گیا۔


وہ جانتا تھا اسے اسکی محبت کی بدعا لگ گئی تھی،اسکی بری کی بدعا۔

💕💕💕

شاہ داد کی لاش حویلی میں آتے ہی وہاں ایک کہرام مچ گیا تھا۔حویلی کے چھوٹے بیٹے کی موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی لیکن سب سے زیادہ تو حورم تڑپی تھی جس نے ماں باپ کے بعد اپنا دوستوں جیسا بھائی بھی کھو دیا تھا۔


شاہ داد کے جنازے میں ہر انسان نے شرکت کی تھی سوائے میر داد کے جو فیصلے کے بعد سے نا جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔


شاہ داد کے بارے میں خبر ملتے ہی جہانزیب بھی وہاں آ چکا تھا اور سارا وقت ایک کونے میں کھڑا بے بسی سے حورم کو روتے ہوئے دیکھتا رہا تھا۔


شاہ داد کو دفنا دیا گیا تھا اور رات کے اس پہر حویلی میں ہو کا عالم تھا۔ہر کوئی اپنے کمرے میں بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔


تبھی جہانزیب دروازا کھول کر حورم کے کمرے میں داخل ہوا جو کہ ہاتھ میں شاہ داد کی تصویر کو پکڑ کر زارو قطار رو رہی تھی۔


"حورم سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تو حورم نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر اس کے سینے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


"شاہ بھائی۔۔۔۔ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے زیب سائیں۔۔۔۔۔"


اس کے آنسو اپنے سینے پر محسوس کرکے جہانزیب نے تڑپ کر اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔


"بس حورم سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے بہت زیادہ بے بسی سے کہا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ حورم کی تکلیف کس طرح سے کم کرے۔


"اتنا درد، اتنی تکلیف میرے نصیب ہیں کیوں لکھی ہے زیب سائیں۔۔۔۔اتنے آنسو کیوں لکھے ہیں میری مقدر میں۔۔۔۔"


حورم کے سوالوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اسی لیے وہ حورم کی کمر کو سہلاتا اسے دلاسا دینے لگا۔


"اللہ تعالٰی امتحان انہیں کا لیتے ہیں حورم سائیں جنہیں وہ اس قابل سمجھتے ہیں۔"


اس بات پر حورم کے آنسو مزید روانی سے بہنے لگے تھے۔


"میں تو اس قابل نہیں۔۔۔۔میں تو کمزور ہوں بہت کمزور۔۔۔۔"


حورم کی بات سن کر جہانزیب نے اسکے گرد اپنا گھیرا تنگ کیا اس وقت وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ حورم کو کیسے دلاسہ دے۔


"کاش یہ سب نہ ہوا ہوتا کاش۔۔۔۔"


جہانزیب اسکی ہر بات پر خاموش رہا جبکہ حورم کہ کمرے کے باہر کھڑا میرداد اس کی باتیں سن کر بے بسی سے اپنے کمرے کی جانب سے چل دیا۔


کمرے میں پہنچ کر اس کی نظر عالم کی تصویر پر پڑی تو میر داد پر گزرا ہر غم حاوی ہونے لگا۔بہت سوچنے کے بعد اس میں ایک فیصلہ لیا۔

💕💕💕

صبح ہوتے ہی میر داد نے حویلی کے ہر فرد کو ہال میں بلایا تھا یہ کہہ کر کہ اسے ایک ضروری بات کرنی ہے۔اسی لئے اب سب لوگ خاموشی سے وہاں بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔


تھوڑی دیر بعد ہی میرداد وہاں آیا اور سب کے درمیان میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔


"میں نے ایک فیصلہ لیا ہے۔۔۔۔"


میر داد نے سب کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔


"میں سرداری چھوڑ رہا ہوں۔۔۔۔"


میرداد گی اس بات پر جہاں سب نے حیرت سے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا وہی کلیم صاحب نے بہت مشکل سے اپنی مسکراہٹ کو چھپایا۔


"میر داد یہ تم۔۔۔۔۔"


"میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے پیرک۔میں ایک سردار بننے کے قابل نہیں،ایک سردار میں جو خوبیاں ہونی چاہیں وہ مجھ میں نہیں ہے۔"


میرداد نے بات ختم کرتے ہوئے کہا تو شاہ میر نے حیرت سے اپنے پوتے کو دیکھا۔


"تو پھر تم اپنی زندگی سے کیا کرو گے میر داد۔۔۔۔؟"


شاہ میر نے اسے گہری نگاہ سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"اکیلا رہوں گا پیرک اب اس زندگی میں بالکل اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ہمیشہ کے لئے کراچی چلا جاؤں گا اور وہاں موجود ہماری چھوٹی سی فیکٹری کو اپنا وقت دوں گا۔"


میر داد کے فیصلے پر شاہ میر نے اسے غصے سے دیکھا تھا۔


"شاہ تو بہت دور جا چکا ہے اور اب تم خود کو بھی ہم سے دور کر لو گے؟"


شاہ میر کے سوال پر میرداد کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔


"مجھے معاف کر دیں پیرک کل میں نے آپ سے آپ کا ایک پوتا چھینا اور آج آپ سے دوسرا پوتا بھی چھیننے جا رہا ہوں۔۔۔"


میرداد کی باتوں سے شاہ میر کو عجیب سی بے چینی ہورہی تھی۔


"میر داد اگر تم نے خود کو کچھ۔۔۔"


"نہیں پیرک میں کبھی بھی خود کی جان نہیں لوں گا کیونکہ موت میرے لئے چھوٹی سزا ہے اسی لئے تو میں نے اپنے آپ کو اس سے بھی بڑی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔ایک لمبی تنہا زندگی کی سزا۔۔۔۔"


میر داد کی بات پر شاہ میر نے اپنا سر جھکالیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے جبکہ یہ سب سن کر حورم کی بس ہوئی تھی اسی لئے وہ جلدی سے میر داد کے پاس آئی اور اس کے سینے پر سر رکھ کر رونے لگی۔


اس حویلی نے بہت سے غم دیکھے تھے لیکن اب کی بار جو غم ملا تھا وہ سب سے بڑا تھا۔اب تو ایسا لگنے لگا تھا کہ خوشیاں کبھی بھی اس حویلی کا رخ نہیں کریں گی۔

💕💕💕

شاہ داد کی موت کو دو مہینے ہو چکے تھے۔میرداد اپنا فیصلہ سنانے کے بعد وہ حویلی چھوڑ کر چلا گیا تھا جب کہ اس کے جاتے ہی کلیم صاحب نے سرداری سنبھال لی تھی۔اگر اس حویلی میں کوئی خوش تھا تو وہ صرف کلیم صاحب تھے جن کی برسوں کی خواہش پوری ہو چکی تھی۔


حورم ابھی تک یہیں پر تھی اور زیادہ تر یا تو وہ شاہ میر کے پاس ہوتی یا پھر گم سم سی اپنے کمرے میں بیٹھی رہتی۔گزرے ہوئے حالات کو دیکھ کر جہانزیب بہت مرتبہ حویلی آیا تھا لیکن اس نے حورم کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ نہیں کیا۔وہ چاہتا تھا کہ حورم ابھی کچھ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزار لے لیکن اتنی لمبی دوری جہانزیب نے جس طرح سے کاٹی تھی یہ بھی وہی جانتا تھا۔


میرداد کے جانے کے بعد کلیم کو اس سے تو کوئی امید نہیں رہی اسی لیے انہوں نے کشمالہ کا نکاح ہمسایہ گاؤں کے سردار کے بیٹے سے کر دیا تھا اور اب خوش بخت کی منگنی اپنے دوست کے بیٹے سے کردی تھی۔


سب کی زندگی معمول پر تھی اگر کسی کا غم کم ہونے میں نہیں آرہا تھا تو وہ شاہ میر تھے۔جو سارا سارا دن شاہ داد اور میر داد کی تصویر کو دیکھ کر دکھی رہتے تھے۔


جب میر داد کو ان کی حالت کی خبر ہوئی تو اس نے انہیں اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا لیکن شاہ میر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی حویلی چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتے۔


ابھی بھی حورم اپنے کمرے میں بیٹھی گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔زندگی بھی کیا چیز تھی ایک پل میں کچھ سے کچھ ہو جاتی اور انسان اس کا کھلونا بنا بے بسی سے ہر چیز کو دیکھتا رہ جاتا۔


"حور بی بی۔۔۔۔۔"


ملازمہ کی آواز پر حورم اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور سوالیہ نظروں سے ملازمہ کو دیکھا۔


"پیرک آپکو بلا رہے ہیں۔۔۔۔"


حورم نے اثبات میں سر ہلایا اور ملازمہ کے جاتے ہیں خود بھی دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھتے ہوئے شاہ میر کے کمرے کی طرف چل دی۔


کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی پہلی نظر جہانزیب پر پڑی جسے آج وہ تقریبا ایک مہینے بعد دیکھ رہی تھی۔


"دیکھو حور کون آیا ہے۔۔۔"


شاہ میر نے جہانزیب کی طرف اشارہ کیا لیکن حورم نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنا رخ سلمی خالہ کی طرف کیا اور جا کر ان کے سینے سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی۔


"نہیں میرا بچہ رو مت میں آ گئی ہوں نا پھر سے تمہارے پاس۔۔۔۔"


سلمی خالہ نے اس کی کمر کو سہلاتے ہوئے دلاسہ دینا چاہا۔جب کہ اسے اس طرح سے دکھی دیکھ کر جہانزیب نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"پیرک مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔۔۔۔"


"ہاں کہو جہان کیا ضروری بات ہے۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات پر شاہ میر نے مسکرا کر کہا تو جہانزیب نے ایک نظر سلمی خالہ سے لپٹی حورم کو دیکھا۔


"میں حورم سائیں کو اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات سنتے ہی حورم ساکت ہو گئی جبکہ شاہ میر نرمی سے مسکرائے۔


"ہاں کیوں نہیں وہ تمہاری بیوی ہے تمہارا پورا حق بنتا ہے اس پر اور ویسے بھی ایک لڑکی کا اتنا عرصہ میکے رہنا اچھی بات نہیں تم اسے اپنے ساتھ لے کر جا سکتے ہو۔۔۔۔"


جہانزیب نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔


"لیکن میں ان کے ساتھ کہیں نہیں جانا چاہتی۔"


حورم کی بات پر کمرے میں موجود ہر فرد نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"حور بیٹا تم یہ کیا۔۔۔۔"


"میں ان کے ساتھ کہیں نہیں جا رہی پیرک مجھے یہیں رہنا ہے اور تو اور ان سے کوئی تعلق بھی نہیں رکھنا آپ ان سے کہیں کہ مجھے طلاق۔۔۔۔۔"


"حورم پاگل ہو گئی ہو کیا؟؟"


حورم کی پوری بات سنے بغیر شاہ میر غصے سے دہاڑے۔جبکہ جہانزیب بھی حیرت سے آنکھیں بڑی کی اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔


"جی پیرک پاگل ہوگئی ہوں جو ایسے شخص کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی جسنے میرا دل اتنی بے دردی سے دکھایا کہ میرے اندر جینے کی تمنا ہی ختم کر دی،میرے اندر سے محبت کا احساس ہی ختم کر دیا۔۔۔۔سب انکی وجہ سے ہوا تھا۔۔۔۔سب۔۔۔۔۔نہیں رہنا مجھے ان کے ساتھ۔۔۔۔۔آپ ان سے کہیں کہ یہاں سے چلے جائیں۔۔۔۔"


حورم جہانزیب کو لہو رنگ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی جبکہ جہانزیب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے زبردستی پکڑ کر اپنے ساتھ یہاں سے لے جائے اس نے سوچ بھی کیسے لیا کہ جہانزیب اسے کبھی چھوڑ دے گا۔


"حور بیٹا تم جزبات میں آکر اتنی بڑی بات کیسے کہہ سکتی ہو وہ تمہارا شوہر ہے تمہاری محبت۔۔۔۔"


"نہیں ہیں یہ میری محبت۔۔۔۔"


حورم شاہ میر کی بات کاٹ کر چلائی۔


"ایسا شخص میری محبت کیسے ہو سکتا ہے جو دل سے،دل کے جذبات سے واقف ہی نہ ہو ،محبت اور وفاداری کا جس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔۔۔۔نہیں ہیں یہ میری محبت پیرک۔۔۔انہیں سچ ہی لگتا تھا وہ محبت بس ایک وقتی احساس تھا، میرا بچپنا تھا جو میرے بڑے ہوتے ہیں ختم ہوگیا۔"


حورم نے انتہائی زیادہ بے رخی سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔شاہ میر نے اپنا ہاتھ جہانزیب کے ہاتھ پر رکھا جو ابھی تک اس دروازے کو دیکھ رہا تھا جہاں سے حورم گئی تھی۔


"وہ غصے میں ہے جہان تم فکر مت کرو میں اسے سمجھاؤں گا تو وہ سمجھ جائے گی۔۔۔۔"


جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا۔


"جی میں سمجھتا ہوں پیرک کوئی بات نہیں میں انہیں پھر کبھی لینے آ جاؤں گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب اٹھ کھڑا ہوا تو شاہ میر نے اسے مسکرا کر دیکھا۔جہانزیب کے باہر آتے ہی سلمی خالہ بھی اس کے پیچھے آئی تھیں۔


"آپ حورم کے پاس رہیں خالہ مجھ سے زیادہ اسے آپ کی ضرورت ہے۔"


جہانزیب اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا تو سلمی خالہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے جانے سے روکا۔


"اسے سب کچھ سچ سچ بتا دو جہان بیٹا وہ تمہاری محبت کو سمجھ جائے گی۔"


جہانزیب نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں خالہ وہ سچ کبھی بھی دنیا کے سامنے نہیں آ سکتا ۔"


جہانزیب کے چہرے پر ہی نہیں آنکھوں میں بھی سختی اتری تھی۔


"لیکن جہان بیٹا۔۔۔۔"


"نہیں خالہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ وہ سچ کبھی بھی کسی کو نہیں بتائیں گی اور آپ کو وہ وعدہ نبھانا ہو گا۔۔۔۔۔پیرک کا اور حورم کا خیال رکھیے گا۔"


جہانزیب اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ سلمی خالہ بہت دیر تک وہیں کھڑے رہ کر سوچتی رہی تھیں۔


"بعض اوقات حالات ایسے بن جاتے ہیں بیٹا وعدے توڑنے پڑھ جاتے ہیں۔۔۔۔اور آج حورم کو سچ بتانے سے کوئی قسم یا کوئی وعدہ مجھے نہیں روک سکتا۔"


سلمیٰ خالہ نے خود سے ہی کہا اور حورم کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔

💕💕💕

میر داد نے کراچی میں موجود اپنی چھوٹی سی فیکٹری کو سنبھال لیا تھا جس پر پہلے تو کسی کی کوئی توجہ نہیں تھی لیکن اب میرداد اپنا سارا وقت اسی کو دیتا تھا یا شاید یوں کہنا بہتر ہو گا کہ خود کو ایک پل کا سکون دینے کے لیے وہ اپنا دھیان بٹانا چاہتا تھا۔


وہ جو پہلے سے ہی بے سکون تھا اسکی مزید پریشانی تب بڑھی جب ایک مہینے پہلے مراد نے اسکے پاس آ کر اسے شاہ داد کی ہر بات بتائی تھی۔


کیسے حیدر صاحب کے ایکسیڈینٹ کے وقت شاہ داد نشے میں تھا اور کیسے اس نے نہ صرف پری سے پیچھا چھڑانے کے لیے اسے دھکا دیا تھا بلکہ کیسے اس نے ڈاکٹر سے پری کو ختم کرنے کا کہا تھا تا کہ یہ سچ کبھی کسی کے سامنے نہ آئے۔


یہ سب جان کر میر داد کو شاہ داد کی بجائے خود سے مزید نفرت ہوئی تھی۔شاہ داد ہر عمل کو اس نے اپنا قصور تصور کر لیا تھا۔


وہ بس اب پری کو ڈھونڈ کر اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔اس نے تو یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اگر پری اس سے آزادی چاہے گی تو میر داد اسے وہ ازادی دے دے گا لیکن اس کے بعد وہ خود کو یقیناً ختم کر لے گا۔


اگر اتنا سب ہونے کے بعد بھی وہ زندہ تھا تو صرف اس امید پر کہ قہ پری کو ڈھونڈ لے گا اور اس سے اپنے بھائی کے گناہوں کی معافی مانگے گا تب شاید اسکے دل سے بوجھ کم ہو جائے۔تب شاید وہ ایک رات سکون کی نیند سو سکے۔


ابھی بھی وہ فیکٹری کے دفتر میں بیٹھا ہر چیز کا ریکارڈ چیک کر رہا تھا جب زمان اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا۔


"ہاں کہو زمان کچھ پتہ چلا ۔۔۔۔"


زمان کو دیکھتے ہی میرداد نے بے چینی سے پوچھا۔


"نہیں واجہ میں نے ہر جگہ پتہ کیا ہے پری بی بی کا کہیں سے بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا۔۔۔"


زمان کی بات سن کر میرداد نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔اتنا عرصہ ہر جگہ تلاش کرنے کے باوجود پری کا کوئی نام و نشان نہیں ملا تھا۔ایسا تھا جیسے وہ کہیں غائب ہو چکی تھی۔


"واجہ اب بتائیں آگے کیا کرنا ہے؟"


زمان نے اس کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"بس اسے ڈھونڈتے رہو زمان،ہر جگہ تلاش کرو اسے،اگر وہ مل گئی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔"


میرداد نے بے بسی سے کہا تو زمان اثبات میں سر ہلا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔میر داد کا دھیان پھر سے اپنے کام سے ہٹ چکا تھا اور اب اس کی یادوں کا مرکز صرف اور صرف پری تھی۔


"پہلے بھی تم کھو گئی تھی تو دو سال تک مجھے نہیں ملی۔وہ دو سال تو جیسے تیسے میں نے گزار لئے لیکن اب تمہاری جدائی مجھے آہستہ آہستہ ختم کر رہی ہے۔۔۔۔"


میر داد ساتھ موجود دراز میں سے اسکی پائلیں نکال کر ہمیشہ کی طرح ان سے باتیں کرنے لگا۔


"معاف کر دو نہ یار۔۔۔۔بس ایک آخری بار معاف کر دو۔۔۔"


میر داد کی پلکیں اتنا کہہ کر بھیگ چکی تھیں۔اس نے عقیدت سے ان پائلوں کو اپنے ہونٹوں سے لگایا اور پھر انہیں واپس رکھ کر اپنے آپ کو کام میں مصروف کرنے لگا۔

💕💕💕

حورم کمرے میں آنے کے بعد بیڈ پر لیٹی رونے میں مصروف تھی۔ایسا نہیں تھا کہ وہ جہانزیب سے نفرت کرنے لگی تھی وہ تو مر کر بھی اس سے نفرت نہیں کر سکتی تھی لیکن جس طرح سے اس نے حورم کا دل توڑا تھا حورم اس سب کو چاہ کر بھی نہیں بھلا پا رہی تھی۔


"حورم بیٹا۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کی آواز پر حورم نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔سلمی خالہ نے اس کے پاس آ کر اپنا ہاتھ بہت محبت سے اس کے سر پر رکھا۔


"رو کیوں رہی ہو میرا بچہ۔۔۔؟"


سلمیٰ خالہ نے بہت زیادہ پیار سے پوچھا تو حورم نے جلدی سے اپنی آنکھیں پونچھ دیں۔


"نہیں خالہ رو تو نہیں رہی میں وہ تو بس یونہی۔۔۔"


حورم نے جلدی سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تو سلمیٰ خالہ اسے دیکھ کر مسکرا دیں۔


"کس سے اپنا غم چھپا رہی ہو جس نے تمہیں پالا ہے۔۔۔۔۔جب محبت کرتی ہو تو مان کیوں نہیں لیتی؟ کیوں اس کو بھی اور خود کو بھی تڑپا رہی ہو؟"


سلمیٰ خالہ کے سوال پر حورم کی آنکھیں پھر سے نم ہو گئیں۔


"انہوں نے مجھے کم تڑپایا تھا،مجھے کیا سے کیا بنا دیا انکی محبت نے اور اب جب خود پر آئی ہے تو برداشت نہیں کر پا رہے؟"


حورم نے آنسو بہاتے ہوئے شکوہ کیا۔


"مرد تو اس معاملے میں ہمیشہ سے کمزور ہے بیٹا لیکن پھر بھی جتنا غم جہانزیب نے سہا ہے نا اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید جی ہی نہ پاتا اسی لیے تم سے کہہ رہی ہوں بیٹا کہ ایک دوسرے کا غم مٹا دو اپنا لو تم اسے۔۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کی ساری بات سن کر حورم نے کچھ دیر سوچا اور پھر انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں خالہ اب بس بہت ہوگیا ان سے محبت کی بھیک مانگتی رہی تھی میں لیکن نہ تو انہیں مجھ پر یقین تھا اور نہ ہی خود پر ۔۔۔۔اب اُن کی بے وفائی کی سزا یہی ہے کہ وہ میرے بغیر زندگی گزاریں۔"


حورم کی بات سن کر سلمی خالہ کو اس پر غصہ آیا تھا۔کیوں وہ اپنے بچپنے میں ہر چیز کو برباد کرنے پر تلی ہوئی تھی۔


"تم کسے بے وفا کہہ رہی ہو حورم اس کی وفا کا عالم جانتی بھی ہو تم اگر جانتی ہوتی نا تو کبھی یہ بات نہیں کرتی۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ نے غصے سے کہا تو حورم نے حیرت سے انہیں دیکھا وہ تو بہت زیادہ نرم مزاج عورت تھیں۔


"میں وہی جانتی ہوں خالہ جو میں نے دیکھا ہے اور میں نے بس ان کی بیوفائی ہی دیکھی ہے۔۔۔۔"


حورم کی بات پر سلمیٰ خالہ نے اسکا بازو پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔


"نہیں حورم سائیں بے وفائی کیا ہوتی ہے یہ آج میں تمہیں بتاتی ہوں۔ارے جہان تو تمہاری مری ہوئی بہن کے ساتھ وفا نبھاتا رہا،بے وفائی تو وہ تھی جو تمہاری بہن نے اسکے ساتھ کی جسکی اسکے مرنے کے بعد بھی جہانزیب نے کسی کو خبر نہیں ہونے دی۔۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کی بات پر حورم کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ سلمی خالہ کی باتوں کا مطلب نہیں سمجھ پا رہی تھی۔

"ہاں حورم سائیں تمہاری بہن کو اگوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے شادی کے دن گھر سے بھاگی تھی۔"

سلمیٰ خالہ نے حورم پر بم پھوڑا اور انکی بات سن کر حورم سکتے کے عالم میں بیٹھتی چلی گئی۔

(ماضی)

چوبیس سالہ جہانزیب آج کافی زیادہ خوش تھا کیونکہ آج اس کی شادی بچپن کی منکوحہ ماہ گل سے ہو رہی تھی۔جہانزیب کو ماہ گل سے کوئی بہت زیادہ طوفانی محبت نہیں تھی بس اس کے لیے یہی اعزاز بہت تھا کہ ماہ گل عالم کی بیٹی تھی۔


اسی لئے تو جہانزیب نے ہمیشہ اسے اپنی پلکوں پر بٹھا کر رکھا تھا تھا۔اس وقت وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنی تیاری پر آخری نگاہ ڈال رہا تھا جب اسے دروازے میں دس سالہ حورم کھلے بالوں اور لہنگے میں نظر آئی۔


جہانزیب نے مسکرا کر اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔


"کیسا لگ رہا ہوں حورم بی بی؟"


جہانزیب کے سوال پر حورم نے ناک چڑھا کر اسے سر سے لے کر پیر تک دیکھا۔


"اچھے لگ رہے ہیں لیکن آپی جتنے نہیں پتہ ہے وہ تو چاند لگ رہی ہیں۔۔۔۔"


حورم کے معصومیت سے کہنے پر جہانزیب ہنسا اور اس نے اپنا ہاتھ حورم کے بالوں پر رکھ کر اسکے بال بکھیر دیے۔


"جہان بیٹا۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کافی پریشانی میں کمرے میں آئیں تو جہانزیب نے انہیں حیرت سے دیکھا۔


"جلدی میرے ساتھ چلو ۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کے ایسا کہنے پر جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا۔


"حورم بی بی آپ نیچے اماں سائیں کے پاس چلیں پھر میں بھی آتا ہوں۔"


حورم اسکی بات مانتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تو جہانزیب سلمیٰ خالہ کے پاس آیا تو وہ اپنے ساتھ ماہ گل کے کمرے میں لے آئیں جو کہ بلکہ خالی تھا۔


"کیا ہوا خالہ۔۔۔؟"


جہانزیب نے پریشانی سے پوچھا تو سلمیٰ خالہ نے میز سے ایک خط اٹھا کر جہانزیب کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔جہانزیب نے وہ خط کھول کر پڑھنا شروع کیا تو ساتوں آسمان پر ایک ساتھ گرے۔


اس میں ماہ گل نے صاف سیدھے الفاظ میں لکھا تھا کہ اس کے بابا نے اس کا نکاح بچپن میں کرکے اس پر ظلم کیا تھا اور وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی۔ اپنے آپ کو اس ظلم کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتی۔اسی لیے وہ ہر چیز کو چھوڑ چھاڑ کر اس کے ساتھ جا رہی تھی جس سے وہ محبت کرتی تھی۔جلد ہی وہ خلع لے لے گی۔


وہ خط پڑھ کر جہانزیب کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر گرا اس کا دل بہت زیادہ زور سے دھڑک رہا تھا اسے ایسا لگنے لگا کہ یہ سب کوئی ڈراؤنا خواب تھا۔


"جہانزیب دیر نہیں ہوئی وہ ابھی ابھی گھر سے نکلی ہے ہم اس کے پیچھے جاتے ہیں۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کی بات پر جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا اور وہ دونوں سب سے چھپ کر ایک گاڑی میں بیٹھے اور جہانزیب اس طرف کو گاڑی بھگانے لگا جہاں سلمیٰ خالہ نے اسے بتایا کہ وہاں ماہ گل گئی تھی۔


کچھ دیر بعد ہی انہیں ماہ گل ایک رکشے سے نکلتی نظر آئی جو ڈرائیور کو پیسے دے کر ایک گھر میں چلی گئی تھی۔یہ دیکھ کر جہانزیب نے بھی گاڑی روک دی۔


"خالہ آپ یہیں رکیں میں اندر جا کر ماہ گل سے بات کرتا ہوں۔"


جہانزیب اتنا کہہ کر گھر کے اندر داخل ہو گیا تھوڑی دیر تو سلمیٰ خالہ وہی رکی رہیں پھر جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو وہ بھی چپکے سے گھر کے اندر داخل ہو گئی۔


سامنے کا منظر سلمیٰ خالہ کے دل چکنا چور کر گیا۔ماہ گل اس وقت دلہن کے روپ میں اپنے محبوب کے ساتھ تھی اور جہانزیب سر جھکا کر ان دونوں کے سامنے کھڑا تھا۔


"کیا چاہتا ہے تم کہ اسے چھوڑ کر تمہارے ساتھ چلی جاؤں؟ اور ایسا کرنے کی وجہ بتا سکتا ہے تم؟مجھے میرے بابا نے تمہارے نکاح میں دے دیا تو تم خود کو میرا مالک سمجھ بیٹھا۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔ایک پل کے لئے بھی اپنی اوقات یاد نہیں آیا تم کو؟"


ماہ گل جہانزیب کو غصے سے دیکھتے ہوئے بولتی چلی جا رہی تھی جبکہ جہانزیب بس ان دونوں کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔


"تمہیں تمہاری اوقات میں بتاتی ہوں تم میرے قابل ہو ہی نہیں۔ہو کیا تم ایک غلام جو میرے ہی بھائی کے ٹکڑوں پہ پلتا ہے۔۔۔۔۔ ارے میں تو بس موقع چاہتی تھی کہ کب اور کس طرح سے تم سے جان چھڑوا سکوں۔۔۔۔اگر پیرک کا ڈر نہیں ہوتا نا تو بہت پہلے ہی میں یہ کر جاتی۔۔۔۔۔بابا کو تو ایک پل کے لیے رحم نہیں آیا مجھ پر مجھے اس فقیر کے ساتھ باندھتے ہوئے،جس کا اپنا کچھ بھی نہیں،نہ ہی کوئی پہچان ہے"


ماہ گل بولتی چلی جا رہی تھی اور جہانزیب بس شرمندگی سے سر جھکائے اپنے آنسو ضبط کرتا جا رہا تھا۔


"لیکن اب بس اب میں اپنی مرضی سے جیوں گی۔۔۔۔اس کے ساتھ رہوں گی جو میرے قابل ہے۔۔۔۔"


ماہ گل نے اترا کر اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھا جو ہمسایہ گاؤں کے سردار کا بیٹا امان تھا۔


"اب یہاں کھڑا کیا ہے اگر ذرا سی بھی عزت باقی ہے نا تو دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"


ماہ گل نے غصے سے کہا تو اسکا محبوب ہنستا ہوا اسکے مقابل آ کھڑا ہوا۔


"ارے ایسے کیسے گل یہ یہاں آ گیا ہے تو یہ اور اچھا ہو گیا۔اس سے بولو کے جانے سے پہلے تمہیں طلاق دے کر جائے۔۔۔۔"


اس بات پر ماہ گل کے ہونٹوں پر مسکان آئی۔


"ہاں سہی کہا تم نے امان۔۔۔۔۔سید جہانزیب شاہ طلاق دو مجھے ابھی کے ابھی۔۔۔۔۔"


یہ بات سن کر جہانزیب پہلے تو خاموش رہا پھر خود پر ضبط باندھتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر ماہ گل کے سامنے جوڑ دیے۔


"خدا کے لیے گل بی بی ایسا نہیں کریں واجہ کی عزت خاک میں مل جائے گی اور عالم بابا انکی روح کو بہت تکلیف ہو گی۔۔۔۔خدارا ایسا مت کریں۔۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں آپ سے میں خود کو آپ کے قابل بناؤں گا دن رات محنت کر کے آپکی ہر خواہش پوری کروں گا۔۔۔۔جیسا آپ چاہیں گی ہر کام ویسے ہی کروں گا بس آپ واپس چلیں گل بی بی۔۔۔۔۔"


جہانزیب ہاتھ جوڑتے ہوئے بھیک مانگ رہا تھا اور اسکی یہ حالت دیکھ کر بھی اس ظالم لڑکی کو رحم نہیں آیا جبکہ سلمیٰ خالہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔


"بس ہو گیا تمہارا ڈراما۔۔۔اب طلاق دو مجھے۔۔۔۔۔"


ماہ گل نے انتہائی زیادہ بے رخی سے کہا تو جہانزیب نے انکار میں سر ہلا دیا۔


"ٹھیک ہے پھر اگر تم طلاق نہیں دو گے تو میں کبھی بھی حویلی واپس نہیں آؤں گی بلکل منیرہ پھپھو کی طرح۔۔۔۔ پھر آپکے واجہ کی عزت کا کیا ہوگا وہ تو خاک میں مل جائے گی۔۔۔۔اس لیے شرافت سے میری بات مانو اور ابھی کے ابھی طلاق دو۔۔۔۔۔"


ماہ گل نے انتہائی زیادہ سختی سے کہا لیکن جہانزیب خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔


"دو۔۔۔۔"


ماہ گل چلائی تو جہانزیب نے گہرا سانس لے کر اپنے آنسو ضبط کیے پھر طویل خاموشی کے بعد بولا۔


"اگر آپ کو مجھ سے آزادی چاہیے نا گل بی بی تو دعا کریں کے میں مر جاؤں کیونکہ میرے جیتے جی ایسا ہونا ناممکن ہے۔"


یہ الفاظ بولتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے آنسو جہانزیب کی آنکھوں سے گرے اور ماہ گل تو دانت پیس کر رہ گئی۔


" دفع ہو جاؤ۔۔۔۔تمہیں خلع کے کاغذات پہنچ جائیں گے۔۔۔۔میری بلا سے جا کر سب کو بتا دو سب کچھ مجھے فرق نہیں پڑتا میری محبت میرے ساتھ ہے اور اتنی طاقت رکھتا ہے کہ سب کا مقابلہ کر سکے۔۔۔۔"


ماہ گل نے امان کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔


"گل بی بی۔۔۔"


"جاؤ اور اب ہمیشہ اپنی اوقات یاد رکھنا کہ تم کون ہو اور کیا ہو۔۔۔۔"


ماہ گل جہانزیب کی بات کاٹ کر چلائی تو جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ سلمی خالہ حیرت سے ماہ گل کو دیکھ رہی تھیں جو اب چہکتے ہوئے امان کی طرف مڑی۔


"ہممم۔۔۔۔۔ جانتی تھی کہ یہ اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑے گا"


ماہ گل نے دانت پیس کر کہا تو امان نے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگایا۔


"اتنا بھی غصہ مت کرو منی ۘوش رنگ ایک طریقہ ہے جس سے یہ بندہ خود تمہیں طلاق دے گا۔"


امان نے اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے کہا تو ماہ گل نے اسے دھکا دے کر خود سے دور کیا۔


"نہیں امان دور ہٹو پہلے نکاح کریں گے تم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم دونوں۔۔۔۔"


"کیا ہو گیا ہے گل کر لیں گے نکاح بھی۔۔۔۔"


امان نے واپس اسے اپنی طرف کھینچ کر اسے پھر سے چومنا شروع کر دیا تو ماہ گل نے پوری طاقت سے اسے خود سے دور کیا۔اچانک ہی امان نے اسے اپنی طرف کھینچ کر ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا۔


"بس بہت دیکھ لیے تیرے نخرے پہلے اس جہانزیب کی بیوی ہونے کا رونا ختم نہیں ہوتا تھا اور اب اتنی مشکل سے بھاگ کر میرے پاس آئی ہے تو مزید نکاح کا رونا لگا کر بیٹھ گئی ہے کر لیتا نکاح اگر وہ تجھے طلاق دیتا تو۔۔۔لیکن اب اتنا انتظار نہیں کر سکتا میں۔۔۔۔"


"امان۔۔۔"


"چپ چلا مت اور خاموشی سے قریب آ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔"


اتنا کہہ کر امان پھر سے اس پر جھکنے لگا تو ماہ گل نے روتے ہوئے اسے خود سے دور کرنا چاہا اور ایسا کرتے ہوئے وہ جھٹکے سے امان سے دور ہوئی اور اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے وہ لڑکھڑائی اور اس کا سر سیدھا شیشے کی میز سے لگا۔سلمی خالہ نے بے ساختہ طور پر اگے بڑھنا چاہا۔


"گل۔۔۔"


امان چلا کر اس کے پاس آیا اور اسے پکڑ کر سیدھا کیا۔ماہ گل کا پورا چہرہ لہو لہان ہو چکا تھا چوٹ شاید اس کے سر پر لگی تھی۔اس نے بمشکل تین یا چار سانس لیے ہوں گے اور پھر وہ ہوش کی دنیا سے بے خبر ہو گئی۔


"یہ ۔۔۔۔۔۔یہ تو مر ۔۔۔۔۔۔۔"


امان نے اسکی سانسیں چیک کرتے ہوئے کہا جو بند ہو چکی تھیں۔جبکہ یہ الفاظ سن کر سلمیٰ خالہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر بہت مشکل سے اپنی چیخ روکی تھی۔


امان بہت زیادہ گھبرا گیا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔پھر اس نے ہمت کر کے ماہ گل کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور گھر سے تھوڑے فاصلے پر جا کر اسے کھائی میں پھینک کر خود وہاں سے فرار ہو گیا۔اس بات سے بے خبر کہ یہ سارا منظر سلمیٰ خالہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھیں۔

💕💕💕

جہانزیب رات گئے ہمت کر کے گھر واپس آیا تو ہر کوئی پریشانی کے عالم میں ماہ گل کو ڈھونڈ رہا تھا۔


اب جہانزیب انہیں کیا بتاتا کہ جسے وہ ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو ان سب کی عزت کو داغدار کر کے کسی اور کے ساتھ چلی گئی تھی۔


جہانزیب نے سوچا کہ وہ پیرک کو سب سچ سچ بتا دے اور اسی مقصد کے لئے وہ ان کے کمرے کی طرف جانے لگا تو اچانک ہی سلمی خالہ ہانپتے ہوئے اس کے سامنے آئیں۔


"جہانزیب وہ اس آدمی نے ماہ گل کو۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ نے روتے ہوئے ساری بات جہانزیب کو بتا دی تو ان کی بات سن کر جہانزیب گھبرا گیا اور جلدی سے باہر کی طرف بھاگا جہاں سے میر داد پریشانی میں گھر آ رہا تھا۔


سلمی خالہ نے اسے ماہ گل کا ٹھکانہ بتایا اور وہاں پہنچ کر وہ لوگ بہت مشکل سے ماہ گل کی لاش کو اس کھائی سے نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔


صبح تک وہ لوگ اس کی لاش وہاں سے نکال کر حویلی میں لا چکے تھے۔جبکہ دلہن کی لاش دیکھ کر ان سب کی خوشیاں ماتم میں بدل چکی تھیں۔


جہانزیب نے سلمی کو اپنی قسم دی تھی کہ وہ سچ کسی کو نہیں بتائیں گی اور سلمیٰ خالہ نے بھی اس سے وعدہ کیا تھا کہ یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا۔


جہانزیب کسی بھی قیمت پر حویلی کی عزت پر آنچ بھی نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔


سلمی خالہ نے جہانزیب کے کہنے پر سب کو یہی بتایا تھا کے امان نے ماہ گل کو اس کی مرضی کے بغیر اگوا کیا اور اس سے زبردستی کرنے کی کوشش کی۔جبکہ ماہ گل اپنی آبرو بچاتے ہوئے اس دنیا سے چلی گئی تھی۔


یہ سن کر میرداد نے صرف دو دنوں کے اندر امان کو ڈھونڈ نکالا تھا اور اسکی کوئی بھی بات سنے بغیر اسے مروا دیا۔


جبکہ یہ راز صرف جہانزیب اور سلمی ہی جانتے تھے کہ ماہ گل کو اگوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ گئی تھی کیونکہ اسے جہانزیب جیسے غریب نہیں بلکہ امان جیسے امیر اور وڈیرے سے شادی کرنی تھی۔


اس سب کے بعد جہانزیب نے خود کو وہی بنا لیا جسکا ماہ گل نے اسے طعنہ دیا تھا،ایک غلام۔۔۔۔

💕💕💕

(حال)

سلمی خالہ کی پوری بات سن کر حورم زارو قطار رونے لگی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ سچ اتنا بھیانک ہوگا۔لیکن کم ازکم وہ جہانزیب کی بے رخی کی وجہ تو سمجھ چکی تھی۔


جہانزیب کو یہی لگتا تھا کہ کل کو جب حورم کو اس کی غربت کا اندازہ ہو گا تو وہ بھی اسے ماہ گل کی طرح ٹھکرا دے گی۔اسی لئے تو وہ حورم کی شادی شہریار سے کروا کر اسے خوشیاں دینا چاہتا تھا۔


جہانزیب تو حورم کی سوچ سے بھی زیادہ عظیم انسان تھا جس نے اس کی بہن کے دھوکے کے باوجود اسکی موت کے بعد بھی آج تک اس کا راز رکھا تھا اور اس کے نام پر ایک حرف بھی نہیں آنے دیا۔


بہت سے آنسو ٹوٹ کر حورم کی آنکھوں سے بہتے تھے۔


"میں بری ہوں خالہ بہت بری ہوں۔۔۔۔میں نے بھی تو ان کے ساتھ آپی کی طرح اتنا برا سلوک کیا۔۔۔۔"


حورم نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تو سلمی خالہ نے آگے بڑھ کر اس کے آنسو پونچھ دیئے۔


"نہیں بیٹا تم بہت اچھی ہو ،تم نے ہی تو اسے جوڑا ہے تمہاری محبت نے ہی اس میں جینے کی چاہت پیدا کی۔۔۔۔تم دونوں ایک دوسرے کے لئے بنے ہو ایک کے بغیر دوسرا ادھورا ہے۔۔۔۔۔اب بس ہر چیز کو بھلا دو حورم اور مکمل کر دو ایک دوسرے کو۔۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کی بات سن کر حورم نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے اور مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔


"مجھے ان کے پاس جانا ہے خالہ۔۔۔"


حورم نے خوشی سے کہا تو سلمی خالہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں۔


"ابھی تو وہ راستے میں ہی ہوگا اسے فون کرو پھر دیکھنا کتنی خوشی سے تمہیں لینے پہنچ جائے گا۔۔۔"


حورم نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور اپنا موبائل پکڑ کر جلدی سے جہانزیب کا نمبر ملانے لگی۔تیسری بیل پر ہی فون اٹھایا جا چکا تھا۔


"ہیلو زیب سائیں۔۔"


حورم نے آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔


"ہیلو آپ حورم بی بی ہیں نا۔۔۔"


دوسری طرف سے ایک آدمی کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر حورم پریشان ہوئی۔


"جی میں حورم۔۔۔۔"


حورم نے گھبرا کر کہا تو سلمی خالہ بھی پریشانی سے اسے دیکھنے لگیں۔


"حورم بی بی میں شاہ افضل بول رہا ہوں جہان سائیں کا بہت برا ایکسیڈینٹ ہوا ہے اور اس وقت وہ ہسپتال میں ہیں۔۔۔۔۔"


بس حورم اتنا ہی سن پائی تھی اور موبائل اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔

💕💕💕

وہ سب لوگ پریشانی کے عالم میں ہسپتال میں داخل ہوئے تھے حورم کو تو لگ رہا تھا کہ اس کی دھڑکنیں ہی رک جائیں گی۔وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اگر جہانزیب کو کچھ ہوگیا تو وہ بھی جی نہیں پائے گی۔


"ڈاکٹر کیسے ہیں وہ۔۔۔۔"


شاہ میر نے بے چینی سے آپریشن تھیٹر سے باہر آتے ڈاکٹر سے پوچھا۔


"ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں زیادہ نقصان تو نہیں ہوا ہلکی پھلکی چوٹیں ہی آئی ہیں لیکن کوئی نوکیلی چیز انکے سینے کی دائیں طرف لگ گئی جسکی وجہ سے بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے بس آپ دعا کریں۔"


ڈاکٹر اتنا کہہ کر واپس آپریشن تھیٹر میں چلا گیا اور حورم روتے ہوئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔سلمیٰ خالہ نے اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا تو حورم سہم کر انکے سینے سے لپٹی۔


"خالہ انہیں کچھ۔۔۔۔کچھ ہو گا تو نہیں نا۔۔۔انہیں کچھ ہوا تو میں مر جاؤں گی خالہ۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر حورم پھوٹ پھوٹ کر رو دی جبکہ شاہ میر بے بسی سے اپنی پوتی کو دیکھ رہے تھے۔وہ اس حادثے کی خبر میر داد کو بھی کر چکے تھے لیکن کراچی سے اوتھل تقریبا تین گھنٹے کے فاصلے پر تھا اور وہ جو یہ خبر سنتے ہی وہاں سے نکل چکا تھا ابھی اسے یہاں پہنچنے میں کافی وقت لگنا تھا۔


کلیم صاحب تو بس اپنا چہرہ دکھانے کو ہسپتال میں آئے تھے اور پھر مصروفیت کا بہانہ کرکے واپس چلے گئے۔


نہ جانے کتنی دیر وہ لوگ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھے رہے اور حورم تو بس روتے ہوئے خدا کے حضور دعائیں مانگنے میں مصروف تھی۔


صبح سے شام ہونے کو تھی جب میرداد بھاگتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوا اور اسے دیکھ کر حورم اس کے سینے سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگی۔


"نہیں نہیں۔۔۔۔بھائی کی جان کچھ نہیں ہو گا اسے فکر مت کرو۔۔۔۔"


میر داد نے حورم کو دلاسہ دیا لیکن اس وقت اسے کسی کے دلاسے کی نہیں بلکہ جہانزیب کی ضرورت تھی۔


آخرکار مزید ایک گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا۔


"مبارک ہو وہ اب خطرے سے باہر ہیں۔۔۔"


یہ سن کر سب کے منہ سے بے ساختہ طور پر الحمدللہ نکلا اور حورم کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہیں پر سجدہ شکر میں گر جاتی۔


"کیا ہم ان سے مل سکتے ہیں۔۔۔۔؟"


شاہ میر نے بے چینی سے پوچھا۔


"ابھی تو وہ ہوش میں نہیں ہیں لیکن کل صبح جب ہم انہیں ان کے روم میں شفٹ کر دیں گے تو آپ ان سے ضرور مل لینا۔"


شاہ میر نے اثبات میں سر ہلایا۔تو ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا۔


"مجھے ان سے ابھی ملنا ہے۔۔۔۔"


حورم کے چھوٹے بچوں کی طرح ضد کرنے پر شاہ میر مسکرا دیئے۔


"سب سے پہلے اس سے تم ہی ملو گی لیکن ابھی تمہیں گھر جانا ہے اور بہت سا آرام کرنا ہے ورنہ ہم تمہیں اس سے نہیں ملنے دیں گے۔"


شاہ میر کی بات پر حورم نے فوراً انکار میں سر ہلایا تو میر داد نے اسکا چہرہ تھام کر اپنی طرف کیا۔


"وہ ٹھیک ہے بھائی کی جان پکا وعدہ میں یہی ہوں اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس سے اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔"


میر داد کے ایسا کہنے پر حورم نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں مجھے گھر نہیں جانا۔۔۔۔پلیز ان کے پاس جانیں دیں۔۔۔۔"


حورم کے ضدی انداز میں کہنے پر میر داد نے گہرا سانس لے کر ہاں میں سر ہلایا وہ جانتا تھا کہ ابھی اس کی بہن کسی کی نہیں سنے گی۔


میرداد نے شاہ میر کو بھی گھر جا کر آرام کرنے کا کہا اور خود حورم اور زمان کے ساتھ وہیں پر رک گیا۔

💕💕💕

صبح ہوتے ہی جہانزیب کو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا اور حورم اس کے وارڈ میں شفٹ کیے جانے سے پہلے ہی وہاں پر موجود تھی۔


روم آنے کے بعد جتنی دیر وہ بے ہوش رہا اتنی دیر حورم اس کے پاس بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔آخر کار اسے ہوش آیا تو اس نے سب سے پہلے حورم کو دیکھا جو اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگائے آنسو بہا رہی تھی۔


"ححح۔۔۔۔حورم۔۔۔۔"


جہانزیب کے پکارنے پر حورم نے منہ پھلا کر اسے دیکھا اور اس کے سینے کے بائیں طرف سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"حورم سائیں۔۔۔۔ کیا ہو گیا بتائیں تو سہی۔۔۔۔"


جہانزیب نے گلا صاف کرتے ہوئے آہستہ سے پوچھا تو جواب میں حورم مزید رونے لگی۔تھوڑی دیر بعد ہی ڈاکٹر نے کمرے میں آکر جہانزیب کو چیک کیا لیکن اس سب کے دوران بھی حورم اس سے دور نہیں ہوئی۔


"میم فکر مت کریں اب وہ بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔۔"


ڈاکٹر نے حورم کو نرمی سے کہا تو ایک پل کے لیے حورم نے جہانزیب کے سینے سے سر اٹھا کر ڈاکٹر کو دیکھا۔


"اب ٹھیک ہو بھی گئے نا تو میں نہیں رہنے دوں گی انہیں ٹھیک بہت برے ہیں یہ۔۔۔۔"


حورم کی بات سن کر ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ جہانزیب کے ہونٹوں پر بھی مسکان آئی اور ڈاکٹر کے باہر جاتے ہی حورم پھر سے اسکے سینے پر سر رکھ کر آنسو بہانے لگی۔


نا جانے کتنی دیر حورم جہانزیب کے سینے پر سر رکھ کر روتی رہی اور کب سے اسکے آنسو برداشت کرتے جہانزیب کی اب بس ہو چکی تھی۔


'حورم اب بس رونا بند کرو جان ورنہ میں چپ کروانے پر آیا نا تو سہہ نہیں پاؤ گی۔'


جہانزیب کے سختی سے ایسا کہنے پر حورم نے اپنا سر اٹھا کر نم بھوری آنکھوں سے اسے دیکھا۔


'دھیان ڈے گاڑی نہیں چلا سکتے،آپ کو کبھی میرا خیال آیا بھی ہے اگر آپکو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا؟'


ایسا سوچتے ہی بہت سے آنسو حورم کی آنکھوں سے بہے تھے۔جہانزیب نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


'گاڑی میں نہیں ڈرائیور چلا رہا تھا۔۔۔۔۔اس کے سامنے اچانک ایک گاڑی آ گئی تو گاڑی کنٹرول نہیں ہوئی اس سے اور ویسے بھی اگر مجھے یہ پتہ ہوتا کہ میری ایسی حالت دیکھ کر تم مان جاؤ گی تو بہت پہلے ہی ہاسپٹل۔۔۔۔"


حورم نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا اور آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورنے لگی۔


"سوچنا بھی مت اب اگر پھر کبھی ہاسپٹل آئے نا تو کبھی بات نہیں کریں گے ہم آپ سے۔۔۔۔"


حورم کی زبان سے اتنے عرصے کے بعد خود کے لیے 'ہم' سن کر جہانزیب مسکرا دیا اور آہستہ سے اسکا ہاتھ پکڑ کر چوما تو حورم نے ناراضگی سے مزید منہ پھلا لیا۔


"تم نے مجھے معاف کر دیا نا حورم۔۔۔۔؟"


جہانزیب کے بہت زیادہ محبت سے پوچھنے پر حورم نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر سے اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔


"پھر کبھی مجھ سے خفا مت ہونا حورم کبھی بھی دور مت جانا۔مجھے اگر کوئی چیز ختم کر سکتی ہے تو وہ صرف تمہاری جدائی ہے۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات سن کر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ نے حورم کے لبوں کو چھوا۔اس نے اپنا چہرہ اٹھا کر جہانزیب کو دیکھا۔


"وعدہ کبھی دور نہیں جائیں گے آپ سے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر حورم نے اپنے ہونٹ نرمی سے اسکے ماتھے پر رکھے تو جہانزیب نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"اگر ہم ہاسپٹل میں نہیں ہوتے نا حورم سائیں تو ابھی آپ خود کو مجھ سے چھپا رہی ہوتیں۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات اور آنکھوں میں حرارت کو محسوس کر کے حورم گھبرا گئی اور جلدی سے اپنا سر اسکے سینے پر رکھ کر خود کو اس سے چھپا لیا۔

💕💕💕

جہانزیب کو تقریباً دو ہفتے بعد ڈسچارج کر کے گھر بھیج دیا گیا تھا۔شاہ میر تو اسے اپنے ساتھ ہی لے کر جانا چاہتے تھے لیکن جہانزیب نے انکار کر دیا وہ اپنے گاؤں واپس جانا چاہتا تھا۔اسکے بغیر وہاں پر معملات سنبھالنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔


میر داد شاہ میر کو اپنے ساتھ کراچی لے گیا تھا کیونکہ شاہ میر کی طبیعت اکثر ہی خراب رہی تھی اور میرداد کلیم صاحب پر اتنا بھروسہ نہیں کر رہا تھا کے شاہ میر کو ان کے بھروسے چھوڑ دیتا۔


گھر آنے کے بعد جہانزیب کا زخم کافی حد تک بھر چکا تھا لیکن حورم ابھی بھی اسے بیڈ سے اٹھنے بھی نہیں دیتی تھی۔اگر اسے تھوڑا سا بھی کام کرتے دیکھ لیتی تو نواز کی پکا شامت آ جاتی تھی۔


ابھی بھی وہ نواز کے لائے گئے زمین کے کاغزات کو جہانزیب کے ہاتھوں سے چھین کر نواز کے ہاتھوں میں پکڑا کر اسے کمرے سے باہر نکال چکی تھی۔


"حورم سائیں وہ بہت ضروری کام تھا ۔۔۔۔"


"ہمیں فرق نہیں پڑتا زیب سائیں،آپکی طبیعت ٹھیک نہیں اور نواز بھائی کو کاموں کی فکر ہے۔"


حورم نے منہ بنا کر کہا اور جہانزیب کے گرد موجود چیزوں کو سمیٹنے لگی۔


"اب میں کس طرح سے ثابت کرو کہ کام کر سکتا ہوں؟ویسے بھی اب تو زخم بھی کافی حد تک بھر چکا ہے میرا۔۔۔"


جہانزیب کی بات پر حورم ہاتھ میں پکڑا ٹاول پھینک کر اسکے پاس آئی۔


"ابھی ہفتہ ہوا ہے ہاسپٹل سے آئے ہوئے اور اتنی جلدی ٹھیک بھی ہو گئے ۔۔۔۔واہ۔۔۔۔دیکھیں زیب سائیں ہم آپکو بتا رہے ہیں آپ سدھر جائیں ورنہ۔۔۔۔"


"ورنہ۔۔۔۔؟"


جہانزیب نے دلچسپی سے ایک ابرو اچکا کر پوچھا۔


"ورنہ ہم آپکو سدھار دیں گے۔۔۔۔"


حورم نے اسکے پاس بیٹھے ہوئے کہا۔


"اچھا وہ کیسے۔۔۔؟"


جہانزیب نے اسے دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔اس وقت سرخ لباس میں وہ ایک دمکتا گلاب لگ رہی تھی۔جبکہ اسکی نظروں کی حرارت سے حورم سٹپٹا کر کھڑی ہو گئی۔


"ہہہ۔۔۔۔۔ہم رملہ آپی کو بھیجتے ہیں وہ آپکی ڈریسنگ کر دیں۔۔۔۔"


حورم ہائیر کی ہوئی نرس کا کہہ کر دروازے کی طرف جانے لگی تو جہانزیب نے اسے پکارا۔


"میرے زخم کی ڈریسنگ اگر کوئی دوسری عورت کرے گی تو اسکے سامنے مجھے شرٹ اتارنا پڑے گی کیا یہ آپکی غیرت کو گوارا ہے کہ آپکے شوہر کو کوئی اور بنا شرٹ کے دیکھے۔۔۔؟"


جہانزیب کے سوال پر حورم نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"تو ٹھیک ہے پھر آپ میری ڈریسنگ کریں۔۔۔۔"


"ہہہ۔۔۔۔ہم۔۔۔۔"


"جی آپ۔۔۔"


حورم نے کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلایا پھر اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔


"ٹھیک ہے للل ۔۔۔لیکن ایک شرط پر آپ اپنی شرٹ نہیں اتاریں گے۔۔۔۔"


حورم کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر جہانزیب مسکرایا اور اثبات میں سر ہلایا۔حورم فسٹ ایڈ باکس لے کر آئی تو جہانزیب نے اپنی شرٹ کے پہلے تین بٹن کھولے اور اپنے بائیں کندھے سے شرٹ ہٹا دی۔


حورم خاموشی سے اسکے پاس بیٹھی اور بہت نرمی سے اسکی ڈریسنگ کرنے لگی۔


جہانزیب مسکراتے ہوئے حورم کو دیکھ رہا تھا جو کہ دنیا جہان سے بے خبر اس کے سینے کی طرف اپنا دھیان کیے کانپتے ہاتھوں سے ڈریسنگ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔حورم نے کاٹن پر دوائی لگا کر آہستہ سے اسکے زخم پر رکھی تو جہانزیب کو شرارت سوجھی۔


'سس۔۔۔۔۔'


حورم فوراً اس سے دور ہوئی۔


'دکھا ہے کیا؟'


حورم نے بہت ذیادہ معصومیت سے پوچھا تو جہانزیب نے ہاں میں سر ہلایا۔حورم نے آگے ہو کر بہت نرمی سے اسکے زخم پر پھونک ماری۔


'دراصل مجھے اس دوائی کی وجہ سے درد نہیں ہو رہا کسی اور وجہ سے ہو رہا ہے۔"


'کس وجہ سے؟'


حورم نے حیرت سے پوچھا مگر تبھی جہانزیب نے اپنی شرٹ کے باقی کی بٹن کھول کر شرٹ اتار دی تو اسکے چوڑے سینے پر نظر پڑتے ہی حورم گھبرا کر چار قدم دور ہوئی اور اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔


'کیا ہوا حورم سائیں ڈریسنگ نہیں کرنی آپکو کیا؟'


جہانزیب کے سوال پر حورم نے آنکھیں کھولے بغیر ہی انکار میں سر ہلایا۔


"آآآ۔۔۔۔آپ خود کر لیں ۔۔۔۔۔ہم۔۔۔"


"ارے ایسے کیسے خود کر لوں اپنے ہاتھ سے بہت درد ہو گا، آپ ہی کر دیں پلیز۔۔۔۔"


لیکن حورم آنکھیں بند کیے متواتر انکار میں سر ہلا رہی تھی۔جہانزیب نے گہرا سانس لیا۔


'ٹھیک ہے پھر رہنے دیں سہہ لوں گا میں تکلیف ۔۔۔'


جہانزیب کے ایسا کہنے پر حورم نے گھبرا کر اپنی آنکھیں کھولیں اور پھر گہرا سانس لے کر آہستہ آہستہ سے جہانزیب کے قریب گئی اور اسکے سینے کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکے زخم کو صاف کرنے لگی اور پھر جلدی سے بینڈیج لگا کر وہاں سے جانے لگی۔


'حورم۔۔۔۔'


ابھی وہ کچھ دور ہی گئی تھی جب جہانزیب کی آواز اسکے کان میں پڑی حورم فوراً ہی رک گئی لیکن وہ پلٹی نہیں تھی۔


"آآ۔۔۔آپ اب سو جائیں اور کوئی کام نہیں کرنا۔"


حورم نے مڑے بغیر کہا تو اچانک ہی جہانزیب نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے بہت قریب کیا اور اسکا رخ پلٹ کر اپنی طرف کیا۔حورم نے گھبرا کر اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور اسکی گرفت میں سٹپٹانے لگی جبکہ اسکی اس حرکت پر گھنی موچھوں تلے عنابی لب مسکرا دیے تھے۔


'حورم۔۔۔۔'


'جی۔۔۔'


جہانزیب کے محبت سے پکارنے پر حورم نے آنکھیں کھولے بغیر پوچھا۔ابھی بھی وہ اسکی باہوں میں مچل رہی تھی۔جہانزیب نے اسکے چہرے پر پھونک ماری۔


'پیار ہو گیا ہے تم سے۔۔۔۔

خود سے زیادہ۔۔۔۔

حد سے زیادہ۔۔۔۔

سب سے زیادہ۔۔۔۔۔'


جزبات سے چور آواز میں جہانزیب نے کہا اور اسکے الفاظ کی شدت کو محسوس کر کے حورم کانپ ہی تو گئی تھی۔


"ٹٹٹ۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔۔"


حورم نے معصومیت سے کہا تو جہانزیب مزید مسکرایا اور اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔حورم جو اس اچانک حملے کے لیے بلکل تیار نہیں تھی جہانزیب کی گرفت میں سٹپٹا کر رہ گئی۔


جہانزیب اسکی حالت پر رحم کر کے اسکے ہونٹوں سے ہٹا اور فوراً ہی اپنے دہکتے لب حورم کی گردن پر رکھ دیے۔


'زز۔۔۔۔زیب سائیں۔۔۔'


حورم کی گھبرائی آواز پر جہانزیب نے اپنے بے قابو ہوتے جذبات پر بند باندھا اور حورم کو اپنی گرفت سے آزاد کر دیا۔


'بھاگ جاؤ حورم چھپا لو خود کو جان ورنہ ہر حد پار کر دوں گا پھر میری محبتوں کے طوفان کو نہ تو تمہاری معصومیت روک پائے گی اور نہ ہی میں خود۔'


حورم جو اسکے دور ہونے پر گہرے سانس بھر رہی تھی اسکے ایسا کہنے پر گھبراتے ہوئے وہاں سے بھاگ کر واش روم میں بند ہو گئی اور پھر دروازے کے ساتھ لگ کر اپنی دھڑکنیں شمار کرنے لگی۔باہر کھڑے جہانزیب نے گہرا سانس لے کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔


بس حورم اب مزید دوری ناممکن سی ہوتی جا رہی ہے اب اس دوری کو ختم کرنے کے لیے مجھے کچھ کرنا ہو گا۔


ایسا سوچ کر جہانزیب اپنے منصوبوں پر مسکرا دیا تھا۔

💕💕💕

"حور سائیں۔۔۔۔"


ملازمہ کی آواز پر حورم نے الماری میں کپڑے رکھے اور پلٹ کر اسے دیکھا۔


"حور سائیں یہ آپ کے لئے شاہ سائیں نے بھیجا ہے۔۔۔۔"


ملازمہ نے ایک باکس اسکے آگے کیا۔آج صبح ہی جہانزیب زبردستی اپنا کام دیکھنے کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔پہلے تو حورم کو اس کی کافی فکر ہوئی لیکن بعد میں اس نے اپنے آپ کو دلاسہ دیا کہ اس کا زخم اب تقریبا ٹھیک ہو چکا ہے اسی لیے وہ ہر چیز کو نظر انداز کرکے اپنے کام میں مصروف ہو چکی تھی۔


"یہ کیا ہے۔۔۔؟"


حورم نے حیرت سے پوچھا۔


"یہ تو مجھے نہیں پتہ حور سائیں بس شاہ سائیں نے اتنا کہا تھا کہ رات 8 بجے تک آپ کو اسے پہن کر تیار رہنا۔"


ملازمہ اتنا کہہ کر حورم سے اجازت لیتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اور حورم نے مسکرا کر اس ڈبے کو دیکھا پھر بیڈ پر بیٹھ کر اسے کھولنے لگی۔


اندر ایک انتہائی زیادہ خوبصورت ملٹی کلر کا فراک تھا جو اتنا لمبا تھا کہ پہننے پر حورم کے پیروں تک تو ضرور آتا۔


حورم نے مسکرا کر اس فراک کو پکڑا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اسے اپنے ساتھ لگا کر دیکھنے لگی۔بلاشبہ بہت زیادہ خوبصورت فراک تھا۔


حورم نے ڈبے میں دیکھا تو اس میں فراک کے ساتھ میچنگ جوتا اور جیولری بھی تھی۔اسے جہانزیب کا یہ سرپرائز بہت زیادہ پسند آیا اسی لیے ٹائم کو دیکھتے ہوئے جلدی سے تیار ہونے چلی گئی۔


فراک پہننے کے بعد اس نے اپنے گھنگھریالے بال کھلے چھوڑے اور ہلکے سے میک اپ اور جیولری کے ساتھ وہ سچ میں ایک حور ہی دیکھنے لگی تھی۔


ٹھیک آٹھ بجے دروازہ بجا تو حورم مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف گئی لیکن وہاں پر جہانزیب کی بجائے ملازمہ کو دیکھ کر حورم نے منہ پھلا لیا۔


"حورم سائیں آپ میرے ساتھ آئیں۔۔۔"


ملازمہ کی بات پر حورم مسکرا کر اسکے ساتھ چل دی جو اسے حویلی کی چھت پر لے جانے لگی۔حویلی کی چھت بہت زیادہ بڑی تھی اس کے علاوہ چھت کے گرد موجود دیواریں کافی اونچی تھیں۔اگر کوئی چھت پر چڑھا بھی ہوتا تو کسی کی اس پر نظر نہیں پڑتی تھی۔


ملازمہ اسے چھت کے دروازے کے پاس چھوڑ کر خود وہاں سے چلی گئی۔حورم دروازے کی جانب بڑھی تو اسکی آنکھیں حیرت سے بڑی ہو گئیں۔


پوری چھت کو پھولوں اور لائٹوں سے سجایا گیا تھا اور تو اور چھت کے درمیان میں پھولوں سے سجی ایک میز پڑی تھی جس پر ایک ٹوکری دیکھ کر حورم اس کی جانب بڑھی۔


حورم نے ٹوکری پر موجود سفید کپڑا ہٹایا تو اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔اس ٹوکری میں ایک انتہائی خوبصورت سفید رنگ کی بلی تھی جو چاندی تو نہیں تھی لیکن بالکل اس کے جیسی دکھائی دیتی تھی۔


حورم نے اس بلی کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا تو وہ دلچسپی سے حورم کی انگلی چاٹنے لگی۔اچانک ہی کسی نے پیچھے سے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو حورم گھبرا گئی۔


"کیسا لگا تحفہ؟؟"


جہانزیب کی آواز اپنے کان کے پاس محسوس کر کے حورم مسکرائی۔


"بہت پیارا ۔۔۔۔۔زیب سائیں ہم اسکا نام بھی چاندی رکھیں گے۔۔۔۔"


حورم نے چاندی کی سفید فر کو سہلاتے ہوئے کہا تو جہانزیب نے اسکے ہاتھوں سے بلی کو لے کر اسے واپس ٹوکری میں رکھ دیا اور حورم کا رخ اپنی طرف۔


اس وقت جہانزیب سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا اور بہت زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔


"آپ نے یہ سب ہمارے لیے کیا۔۔۔؟"


حورم کے محبت سے پوچھنے پر جہانزیب نے ہاں میں سر ہلایا اور اسکا ہاتھ تھام کر اسے چھت کے کونے میں لایا جہاں کھانے کا انتظام تھا اور ہر چیز حورم کی پسند کی تھی۔کھانا کھانے کے بعد جہانزیب اسے چھت کے درمیان میں لایا اور ایک نظر آسمان کو دیکھ کر ہاتھ پر موجود گھڑی دیکھنے لگا۔


"کیا ہوا زیب سائیں کسی کا انتظار ہے کیا؟"


حورم نے آسمان کو دیکھتے ہوئے سوال کیا جہاں کافی حد تک بادل چھا چکے تھے جبکہ اسکے سوال پر جہانزیب نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ہاں ایک سرپرائز ہے دعا کریں جیسا پلین کیا ہے ویسا ہی ہو۔۔۔۔"


حورم جہانزیب کی بات پر مسکرا دی۔


"اپنی آنکھیں بند کریں۔۔۔"


جہانزیب کے ایسا کہنے پر حورم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہی فضا میں ہلکا سا میوزک گونجنے لگا۔اچانک جہانزیب نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا تو حورم نے گھبرا کر اپنی آنکھیں کھول دیں۔


تبھی گانے کے بول انہیں سنائی دیے تو جہانزیب اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور اسے اپنے ساتھ گانے پر ڈانس کروانے لگا۔


"تارے اسکے ہاتھ میں ہونے ہی چاہیے

جگنو اسکے ساتھ میں سونے ہی چاہیے

او خوشبوؤں سے اس کی سفارش کی جائے

خوشبوؤں سے اس کی سفارش کی جائے"


جہانزیب نے حورم کو گھمایا تو حورم کھلکھلا کر ہنس دی۔


اے خدا تو بول دے تیرے بادلوں کو

اے خدا تو بول دے تیرے بادلوں کو

میرا یار ہس رہا ہے بارش کی جائے

یار ہس رہا ہے بارش کی جائے


تبھی اچانک سے بارش شروع ہو گئی تو حورم نے ایک نظر حیرت سے آسمان کو دیکھا اور دوسری نظر جہانزیب کو جو مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔اس سے پہلے کہ حورم اسے کچھ کہتی جہانزیب نے اسے گھمایا اور گھما کر اپنی باہوں میں لے لیا۔


یہ سورج سے بھی کہہ دو

کہ اپنی آگ بجھا کہ کرے

اگر اس سے باتیں ہیں کرنی

تو نظریں جھکا کے کرے

ہو یہ سورج سے بھی کہہ دو

اپنی آگ بجھا کے کرے

اگر اس باتیں کرنی ہیں

تو نظریں جھکا کے کرے

محبت جانی کی پوری خواہش کی جائے

محبت جانی کی پوری خواہش کی جائے


جہانزیب نے حورم کو اپنے اتنا قریب کر لیا کہ ان دونوں میں بس ایک انچ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔حورم کی سانسیں اسکے حلق میں اٹک گئیں۔اب تک تو وہ دونوں اس بارش میں مکمل طور پر بھیگ چکے تھے۔


اے خدا تو بول دے تیرے بادلوں کو

میرا یار ہس رہا ہے بارش کی جائے

یار ہس رہا ہے بارش کی جائے


تبھی جہانزیب نے اپنے ہونٹ بہت نرمی سے حورم کی ناک پر رکھے تو حورم کھلکھلا دی۔

جہانزیب نے اس سے دور ہو کر مسکراتے ہوئے اسکا چہرہ دیکھا جو اسکی قربت کے رنگ چھلکا رہا تھا۔


"ویسے تو عشق ممنوع ہے لیکن

جاؤ تمہیں مجھ سے کرنے کی اجازت ہے"


جہانزیب کی گھمبیر آواز سن کر حورم کا سانس حلق میں اٹک گیا۔جہانزیب نے اسکا چہرہ اوپر اٹھا کر اپنے سامنے کیا۔


"جانتا ہوں حورم کہ میں نے تمہارا بہت دل دکھایا،تمہیں بہت مشکل میں ڈالا لیکن میں ان میں سے نہیں حورم جن کے لیے سب کچھ محبت کو پا لینا ہوتا ہے۔میرے لیے سب سے زیادہ اہم میری محبت کی خوشی تھی،اسکا سکون تھا جو مجھے لگا کہ میں تمہیں نہیں دے پاؤں گا۔۔۔۔۔لیکن میں غلط تھا حورم ہم دونوں کی محبت کی جیت ،اسکا سکون ایک دوسرے کے ساتھ ہونے میں ہے،ایک دوسرے کا ہونے میں ہے۔۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات سن کر حورم کی آنکھیں نم ہو گئیں تو اس بارش میں بھی جہانزیب اسکے آنسو پہچان کر انہیں اپنے ہونٹوں سے چن چکا تھا۔


"جانتا ہوں تمہارے عشق کی بارگاہ میں معافی کے قابل نہیں میں پھر بھی گزارش ہے کہ تم مجھے معاف کرنے کی کوشش کر کے ایک موقع دو وعدہ کرتا ہوں حورم خود کو اس عشق کے قابل بنا کر رہوں گا۔۔۔۔"


جہانزیب کی بات پر حورم نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا اور اس کے سینے سے لپٹ گئی۔بھلا کیونکر وہ اسے معاف نہ کرتی وہ دونوں ہی ایک دوسرے کا حصہ تھے۔۔۔۔ایک کے بغیر دوسرا ادھورا۔


"آپ بھی ہمیں معاف کر دینا زیب سائیں۔۔۔۔ہم نے آپ سے اتنی بدتمیزی کی ۔۔۔۔۔"


جہانزیب نے مسکرا کر اسکے گرد اپنا گھرا تنگ کیا۔


"اب معافی کا وقت گیا حورم سائیں اب سزا کا وقت ہے۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور واپس کمرے کی جانب چل دیا۔


"ہہ۔۔۔ہم چینج کر کر آتے ہیں۔۔۔۔"


کمرے میں پہنچ کر جہانزیب نے حورم کو اتارا تو وہ اتنا کہتے ہوئے وہاں سے جانے لگی مگر تبھی جہانزیب نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے واپس اپنی طرف کھینچا اور جھک کر اسکے کان کے قریب ہوا۔


"نہیں حورم سائیں آپکا یہ بھیگا سا حسن اس نا چیز کے ہوش اڑا رہا ہے اور با خدا اب یہ ہوش اڑنے دیں۔۔۔۔۔"


جہانزیب کی گرم سانسیں اور مونچھوں کی چبھن اپنے کان پر محسوس کر کے حورم کانپ ہی تو گئی تھی۔


"نن۔۔۔۔نہیں۔۔ وہ ۔۔۔۔۔زیب سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے اپنے لب اسکی بھیگی گردن پر رکھے تو حورم کا روم روم کانپنے لگا۔


"حکم جان زیب۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسکی گردن سے چہرہ نکالے بغیر پوچھا اور آہستہ سے اسکی نازک گردن میں سونے کا نفیس سا پینڈٹ پہنا دیا۔


"ہہہ۔۔۔۔ہمیں جانے دیں۔۔۔۔"


جواب میں جہانزیب اس سے دور ہوا اور سینے پر ہاتھ باندھ کر اس سے دیکھنے لگا۔


"جاؤ۔۔۔۔"


اسے اتنا کہتے ہی حورم جلدی سے واش روم کی جانب چل دی لیکن تبھی زور دار بجلی کڑکنے کی آواز پر ایک چیخ کے ساتھ واپس آ کر جہانزیب کے سینے سے لپٹ گئی۔اسکی اس حرکت پر جہانزیب اسکے گرد بازو لپیٹتے ہوئے مسکرایا۔


"آج تو موسم بھی ہمارے درمیان دوری نہیں چاہتا حورم سائیں،اس لیے بہتر یہی ہے کہ آج تمام دوریاں مٹا دی جائیں۔"


اسکی بات پر حورم کانپ کر رہ گئی اس نے سر اٹھا کر جہانزیب کو دیکھا۔


"ہہ۔۔۔۔ہمیں ڈر لگتا ہے زیب سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب اچانک سے اسکے ہونٹوں کے بہت قریب ہوا۔


"میں سارے ڈر سمیٹ لوں گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب اس پر جھکا اور اپنی تشنگی مٹانے لگا۔حورم اسکی باہوں میں کپکپا کر رہ گئی۔


کچھ دیر کے بعد ہی جہانزیب نے اسے باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لا کر اس کے وجود ہر مکمل طور پر قابض ہو گیا۔


"زیب سائیں ۔۔۔۔"


اپنے زیب کا انوکھا روپ دیکھ کر حورم کی جان ہوا ہوئی۔جہانزیب نے مسکرا کر نرمی سے اسکی آنکھوں کو چوما۔


"اپنی سانسوں کے دامن میں چھپا لو مجھ کو

تیری روح میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے"


اتنا کہہ کر جہانزیب اس پر اپنی محبت برساتا چلا گیا اور حورم کی ہر معصوم مزاحمت آہستہ آہستہ بے مول ہو گئی۔آج ان کی محبت کو تکمیل حاصل ہوئی تھی۔

💕💕💕

صبح حسب معمول فجر کے وقت حورم کی آنکھ کھلی تو اسکی پہلی نظر جہانزیب پر پڑی جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔


رات کا گزرا ہر منظر یار کر کے حورم شرم سے پانی پانی ہوئی اور فوراً اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا جبکہ اسکی اس معصوم حرکت پر جہانزیب کا قہقہ کمرے میں گونجا اور اس نے جھک کر اپنے ہونٹ اسکے ہاتھوں پر رکھ دیے۔


"نئی زندگی کی پہلی صبح مبارک ہو حورم سائیں۔۔۔۔"


حورم اسکی آواز سن کر مزید خود میں سمٹ گئی اور اسکے ہونٹ اپنی گردن پر محسوس کر کے تو حورم کی جان ہوا ہوئی تھی۔


"ہم۔۔۔۔ہمیں جانا ہے۔۔۔۔"


حورم کے بہانا بنانے پر جہانزیب نے اپنا چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور نرمی سے اسکے ہاتھ تھام کر چہرے سے ہٹا دیے۔


"کہاں جانا ہے میری جان کو۔۔۔ ؟"


حورم کو کہاں جہانزیب کے اس روپ کی عادت تھی وہ جو اسکی کل رات کی شدتوں سے ہی نہیں سنبھلی تھی اب اسکی معنی خیز باتوں پر مزید خود میں سمٹ رہی تھی۔


"زیب سائیں تنگ نہیں کریں نا۔۔۔۔"


حورم نے منہ بنا کر لاڈ سے کہا تو جہانزیب نے ہنستے ہوئے اپنے ہونٹ اسکی تیکھی ناک پر رکھ دیے۔


"اتنی جلدی دور جانے کی بات تم کر رہی ہو اور تنگ میں کر رہا ہوں؟؟"یہ تو کہیں کا انصاف نہیں ہوا حورم سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب اتنا کہہ کر نرمی سے اسکے ہر نقش کو چومنے لگا اور حورم اسے خود سے دور کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔


"زیب سائیں۔۔۔۔"


حورم نے اسکی پھر سے بڑھتی جسارتوں پر گھبرا کر اسے پکارا تو خود پر ضبط کے بند باندھتا جہانزیب اس سے دور ہوا۔اس کی شہزادی بہت زیادہ نازک مزاج تھی اسی لیے اس پر رحم کر کے جہانزیب نے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے اور اس سے دور ہو کر اٹھ بیٹھا۔


حورم کی نظر اسکی برہنہ کمر پر پڑی تو وہ شرما کر خود کو چادر میں چھپا گئی۔اس حرکت پر جہانزیب مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔


"نماز کا وقت ہو چکا ہے حورم سائیں میں تو مسجد جا رہا ہوں آپ بھی اٹھ کر فریش ہو جائیں۔۔۔۔"


حورم نے چادر میں سے چہرہ نکالے بغیر ہاں میں سر ہلایا تو جہانزیب مسکراتا ہوا فریش ہونے چلا گیا۔


اسکے کمرے سے باہر جاتے ہی حورم نے سکھ کا سانس لیا اور خود بھی فریش ہو کر نماز پڑھنے لگی۔آج جب اسنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اسکی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے بلکہ ہونٹوں پر ایک مسکان اور زبان پر صرف الحمد تھا۔


نماز ادا کر کے اس نے جائے نماز طے کیا اور حسب معمول سورۃ یسین کی تلاوت کی۔ابھی قرآن مجید کو واپس غلاف میں لپیٹ کر اس نے اسکی جگہ پر واپس رکھا ہی تھا جب جہانزیب کمرے میں واپس آیا۔


حورم اسے نظر انداز کرتے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال سکھانے لگی جو لمبے لمبے سپرنگ کی مانند اسکی کمر پر بکھرے تھے۔


"حورم سائیں۔۔۔۔"


"جی۔۔۔۔"


جہانزیب کی پکارنے پر حورم نے اسکو آئنے میں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔وہ اس وقت بیڈ پر لیٹا اسے اپنے قریب آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔حورم نے انکار میں سر ہلایا تو جہانزیب خود وہاں سے اٹھا اور اسکے پاس آ کر اسکی کمر پر ہاتھ لپیٹ کر اسے خود کے قریب کر لیا ۔


"جب دور تھا تو پاس بلاتا

اب میری قربت سے کتراتا ہے

وہ ستم گر محبوب میرا مرشد

ہر لمحہ مجھے تڑپاتا ہے"


جہانزیب کی گھمبیر آواز سن کر حورم نے ایک جھرجھری لی اور جب اسکی نگاہوں کی تپش حورم پر حاوی ہو گئی تو وہ مڑ کر جہانزیب کی پناہوں میں چھپ گئی۔


"آپ ہمیں کل سے ستا رہے ہیں زیب سائیں۔۔۔۔۔اب زیادہ تو مت ڈرائیں نا۔۔۔۔۔"


حورم نے اسکی قمیض کے بٹن سے کھیلتے ہوئے لاڈ سے کہا تو جہانزیب نے اسکے سر پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔


"کیا کروں حورم سائیں آپ نے مجھے خود کا دیوانہ بنا لیا ہے۔۔۔۔اور اب اس دیوانے کو روکنا میرے بس میں بھی نہیں رہا۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسے خود سے لپٹا کر بہت محبت سے کہا اور ان دونوں کو یوں سکون میں دیکھ کر زندگی بھی مسکرا دی تھی۔

(دو سال بعد)

"خالہ زیب سائیں ہم سے ناراض ہیں۔۔۔"


حورم نے منہ بنا کر کچن میں کھانا بناتی سلمیٰ خالہ سے کہا تو انہوں نے اپنی آنکھیں حیرت سے بڑی کر کے اس پاگل لڑکی کو دیکھا۔


"میں مان ہی نہیں سکتی کہ جہانزیب تم سے ناراض ہوجائے حور بیٹا ضرور تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔"


سلمی خالہ نے اپنا دھیان واپس کھانے کی طرف کرتے ہوئے کہا۔


"نہیں خالہ وہ ہم سے ناراض ہیں ہمیں پتہ ہے۔۔۔۔"


حورم نے بے چینی سے کہا تو سلمی خالہ گہرا سانس لے کر اس کی طرف پلٹیں۔


"اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ تم سے ناراض ہے؟"


"کیونکہ کل رات جب ہم ان سے باتیں کرنے لگے تو کہتے ہیں سو جاؤ۔۔۔۔انہوں نے کبھی ہمیں سونے کا نہیں کہا جب تک ہم باتیں کرتے رہتے ہیں وہ سنتے ہیں۔۔۔۔"


حورم نے بے چینی سے کہا تو سلمی خالہ کا دل کیا کہ اپنا ماتھا پیٹ لیں۔


"اتنی سی بات سے تمہیں لگا کہ وہ تم سے ناراض ہے۔۔؟"


حورم نے منہ پھلا کر اثبات میں سر ہلایا تو اس کو اس طرح دیکھ کر سلمی خالہ کو شرارت سوجھی۔


"ایسا ہے نا تو آج رات باتوں پر دھیان دینے کی بجائے اس پر دھیان دینا مان جائے گا۔"


اس بات پر پہلے تو حورم نے نہ سمجھی سے انہیں دیکھا پھر ان کی بات کا مطلب سمجھ کر اسکا چہرہ گل نار ہو گیا۔


"خالہ۔۔۔!!"


حورم نے شرماتے ہوئے اتنا ہی کہا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی جبکہ اس کی اس حرکت پر سلمیٰ خالہ قہقہ لگا کر ہنس دیں۔


کمرے میں آ کر بھی حورم جہانزیب کے بارے میں سوچتی رہی۔پچھلے دو سالوں میں جہانزیب نے اسے جس قدر محبت سے نوازا تھا حورم کو اب اپنی ہی قسمت پر رشک ہوتا تھا۔


وہ اس کی بے تحاشہ محبت کی عادی ہو چکی تھی شاید اسی لیے اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی دل سے لگا لیتی تھی۔


بہت سوچنے کے بعد وہ اٹھی اور الماری میں سے بہت خوبصورت جوڑا نکال کر تیار ہونے لگی۔تھوڑی دیر بعد ہی ہلکے سے میک اپ

، کانوں میں چھوٹے سے ٹاپس اور ہاتھوں میں رنگ برنگی چوڑیاں پہن کر وہ بہت زیادہ حسین لگنے لگی تھی۔


پھر ہال میں گئی تو سلمی خالہ ملازمہ سے میز پر کھانا لگوا رہی تھیں۔


"خالہ میں یہ خود کر لیتی ہوں آپ ارام کریں۔"


حورم نے نرمی سے کہا تو سلمی خالہ اس کی تیاری کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر وہاں سے چلی گئیں۔حورم نے خود میز کو سجایا اور پھر وہاں بیٹھ کر جہانزیب کا انتظار کرنے لگی۔


"اسلام و علیکم۔۔۔۔"


تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے جہانزیب کی آواز سنائی دی تو وہ مسکرا کر اٹھی اور اس کے پاس جانے لگی جبکہ اس کی تیاری کو دیکھتے ہوئے جہانزیب نے فوراً ساتھ آئے نواز کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔


"ہم کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں کوئی اتنا وقت لگاتا ہے کیا؟"


حورم نے اسے گھورتے ہوئے شکوہ کیا۔


"اگر مجھے پتہ ہوتا کہ میری بیوی اتنی خوبصورتی سے انتظار کر رہی ہے تو سب کام چھوڑ چھاڑ کر دوپہر کوہی گھر واپس آ جاتا۔"


جہانزیب نے مسکرا کر کہتے ہوئے اسکے گال کو چھوا تو حورم کھلکھلا دی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھانے کی میز پر لے آئی۔


"چلیں اب کھانا کھاتے ہیں اتنی بھوک لگی ہے نا ہمیں۔۔۔۔"


حورم کے ایسا کہنے پر جہانزیب خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔


پہلے تو پوچھتے تھے ،تمہیں بھوک کیوں لگی ہے ؟ کھانا نہیں کھایا تھا کیا؟اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی تم؟میرے بغیر کیا بنے گا تمہارا؟ اور آج کیسے چپ کر کے کھانا کھانے لگ گئے ہیں...


حورم نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا اور منہ بنا کر کھانا کھانے لگ گئی۔بظاہر تو کھانا کھا رہی تھی لیکن اندر ہی اندر وہ اس انتظار میں تھی کہ جہانزیب کب اسے مخاطب کرے۔


"زیب سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب کے مسلسل خاموشی سے کھانا کھانے پر حورم نے اکتا کر کہا تو جہانزیب نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"آپ ہم سے ناراض ہے کیا؟"


اس سوال پر جہانزیب نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"نہیں تو آپ کو ایسا کیوں لگا حورم سائیں۔۔۔۔"


جہانزیب کے پوچھنے پر حورم نے منہ بنا کر تمام چھوٹے چھوٹے گلے کر دیے کہ کیسے وہ اس سے باتیں کیے بغیر سو گیا تھا،یا صبح جاتے ہوئے اسے اللہ حافظ نہیں کہا وغیرہ وغیرہ۔


"آپکو کیا لگتا ہے حورم سائیں کیوں ناراض ہوں میں آپ سے؟"


جہانزیب کے سوال پر حورم نے کچھ دیر غور کیا اور پھر سلمی خالہ والی بات بول دی۔


"کیونکہ ہم آپ سے زیادہ باتوں پر دھیان دیتے ہیں۔۔۔"


جہانزیب نے اس بات پر بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا پھر اسکے ذہن میں ایک خیال آیا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا ہاتھ حورم کے سامنے کیا۔


"چلو روم میں چلتے ہیں۔۔۔۔"


حورم نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسکے ساتھ کمرے میں آ گئی۔کمرے میں آ کر جہانزیب نے اسکا رخ اپنی طرف کیا اور اسکے کان کے قریب ہوا۔


"جہانزیب شاہ خود سے ناراض ہو سکتا ہے،اپنی زندگی سے ناراض ہو سکتا ہے،چلتی سانسوں سے ناراض ہو سکتا ہے لیکن اپنی حورم سائیں سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتا۔"


جہانزیب کی بات سن کر حورم بے ساختہ طور پر مسکرائی اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔


"آپ ہمیشہ ہم سے یونہی پیار کرتے رہیں گے نا؟"


حورم کے سوال پر جہانزیب نے اسکے گرد اپنا گھیرا تنگ کیا۔


"نہیں میری جان اس محبت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور پھر یہ اس قدر بڑھ جائے گی کہ ایک دوسرے کے بغیر سانس بھی نہیں آئے گا ہمیں۔"


جہانزیب کی بات پر حورم مسکرائی۔


"ویسے ایک بات ٹھیک ہے حورم سائیں۔"


"کیا؟"


حورم نے اسکی شرارتی نگاہوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"آپ باتوں سے زیادہ مجھ پر دھیان دیا کریں۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب اس پر جھک گیا اور حورم نے بھی شرماتے ہوئے خود کو اسے سونپ دیا۔

💕💕💕

"زمان میر داد ابھی تک گھر نہیں آیا کیا؟"


شاہ میر نے پریشانی سے پوچھا کیونکہ رات کے گیارہ بج رہے تھے اور میرداد کا ابھی تک کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔


"پیرک انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا تھا اور کہا تو یہی تھا کہ جلد گھر آجائیں گے اور فون بھی نہیں اٹھا رہے۔۔۔۔"


زمان نے پریشانی کے عالم میں کہا تو شاہ میر کی پریشانی مزید بڑھ گئی اس سے پہلے کہ وہ زمان کو میر داد کو ڈھونڈنے کا کہتے انہیں داخلی دروازے سے میر داد گھر میں آتا دکھائی دیا۔


"کہاں تھے تم میر دادا کب سے تمہیں فون کر رہا ہوں۔۔۔"


شاہ میر نے پریشانی سے پوچھا تو میر داد انکے قریب آیا۔


"فکر مت کیا کریں پیرک کہاں جا سکتا ہوں میں لوٹ کر تو گھر ہی آؤں گا نا"


میر داد کی بات پر شاہ میر نے اسے گھور کر دیکھا۔میر داد اب پہلے والا شخص نہیں رہا تھا وہ بہت زیادہ بدل چکا تھا۔نہ تو خود کا خیال رکھتا تھا اور نہ ہی وہ کبھی مسکرایا تھا۔ایسا تھا جیسے اسے زندگی سے پیار ہی نہیں رہا۔


"مجھے فکر تھی کہ تم ٹھیک تو ہو نا کہیں کسی مشکل میں تو نہیں۔"


میر داد کی آنکھوں میں کرب اترا۔


"مشکل انہیں ہوتی ہے پیرک جن کی زندگی آسان ہو مجھے کسی مشکل، کسی مصیبت سے ڈر نہیں لگتا۔آپ میری فکر مت کیا کریں فکر تو زندہ لوگوں کی جاتی ہے۔"


میر داد کی بات پر شاہ میر کا دل کٹ کر رہ گیا اور انکی آنکھوں میں بے ساختہ طور پر آنسو آئے تھے۔


"کل میں ٹھٹھہ جا رہا ہوں فیکٹری کے ضروری کام سے، ہو سکتا ہے مجھے کچھ دن کے لیے وہی رکنا پڑے آپ میری فکر مت کیجئے گا۔"


میر داد اتنا کہہ کر کمرے کی طرف جانے لگا تو اس کے کانوں میں شاہ میر کی آواز پڑی۔


"مجھے تمہاری فکر ہے میر بہت زیادہ فکر ہے تم جس تکلیف جس کرب سے گزر رہے ہو وہ تمہیں اندر ہی اندر ختم کر رہا ہے۔"


شاہ میر نے افسوس سے کہا تو میرداد نے مڑ کر انہیں دیکھا۔


"تو میری طرح دعا کریں پیرک کہ وہ مجھے مل جائے اور میں اس سے اپنے گناہ کی معافی مانگ لوں پھر یہ زندگی ختم بھی ہو جائے گی نا تو افسوس نہیں ہوگا۔"


اتنا کہہ کر میرداد کمرے کی طرف چلا گیا جبکہ شاہ میر پریشانی سے صوفے پر بیٹھے تھے۔دو سال ہو چکے تھے پری کو اس کمرے سے غائب ہوئے اور شاہ میر یہ بھی جانتے تھے کہ ان دو سالوں میں میرداد نے ہر نماز،ہر عبادت کے بعد خدا سے صرف پری کو مانگا تھا۔


"کیا اس کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چلا زمان؟"


شاہ میر نے مایوسی سے پوچھا تو زمان نے اپنا سر جھکا لیا۔


"ہر ممکن کوشش کی ہے پیرک لیکن پری بی بی کے بارے میں ایک سراغ بھی نہیں ملا۔ہر جگہ پتہ کیا لیکن نہ جانے وہ کہاں ہیں۔۔۔"


یہ سن کر شاہ میر کی آنکھیں مزید نم ہو گئیں انہوں نے اپنے کانپتے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔


"میرے مولا اگر تیرے اس بندے نے زندگی میں کوئی ایک ہی اچھا کام کیا ہے نا تو اس کے صدقے میرے پوتے کو اس کی محبت سے ملا دے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔"


شاہ میر نے نرم آواز کے ساتھ اتنا کہا اور ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر دیے۔زمان نے بھی انہیں بے بسی سے دیکھا۔اس وقت وہ دونوں میرداد کے سب سے زیادہ قریب تھے لیکن چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر پا رہے تھے۔

💕💕💕

صبح ہوتے ہی حسب معمول میرداد نے فجر کی نماز ادا کی تھی اور نماز کے بعد نہ جانے کتنی ہی دیر ہاتھ اٹھا کر دعا میں پری کی ایک ملاقات مانگتا رہا تھا۔


پھر دعا مانگ کر وہ اٹھا اور جلدی سے تیار ہو کر نیچے آیا جہاں ناشتے کی ٹیبل پر شاہ میر پہلے سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔


"کتنے دن کے لیے جا رہے ہو میر داد؟"


شاہ میر نے راشدہ نے اس کی طرف کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔


"ابھی پتہ نہیں پیرک کہ کتنے دن لگیں گے لیکن جلدی واپس آنے کی کوشش کروں گا۔"


شاہ میر نے اثبات میں سر ہلایا۔


"اپنا خیال رکھنا بیٹا۔۔۔"


اس بات پر میر نے خاموشی سے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا سارا دھیان ناشتے کی طرف لگا دیا۔


تھوڑی دیر بعد ہی زمان اجازت لے کر مراد کو اپنے ساتھ وہاں لایا۔مراد کو دیکھ کر ہی میر داد کے بہت سے پرانے زخم تازہ ہوئے۔


"مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے واجہ۔"


مراد کے اجازت مانگنے پر میرداد نے ہاں میں سر ہلایا۔


"واجہ میں جانتا ہوں کہ اپنی حیثیت سے زیادہ بات کرنے لگا ہوں لیکن آپ سے گزارش ہے کہ آپ واپس سردار بن جائیں۔"


مراد کی بات پر میر داد کے ساتھ ساتھ شاہ میر نے بھی حیرت سے اسے دیکھا۔


"چچا ہیں وہ سب سنبھال لیں گے۔"


میرداد نے بات ختم کرنا چاہی۔


"معاف کیجیے گا واجہ لیکن گاؤں کے لوگوں کی انتہا اب ختم ہوچکی ہے۔کلیم صاحب ایک بالکل بھی اچھے سردار نہیں ان کے لیے لوگوں کا سکون اور آرام کچھ معنی نہیں رکھتا۔یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے شروع کیے ہوئے بہت سی ترقیاتی کاموں کو بھی روک دیا ہے ان کے مطابق وہ پیسا حویلی کا ہے لوگوں کا اس پر کوئی حق نہیں۔"


اپنے بیٹے کے کارنامے سن کر شاہ میر کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا وہ گاؤں کے حالات سے اس قدر بھی ناواقف نہیں تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کلیم سرداری کے لحاظ سے صحیح نہیں۔مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا بیٹا اپنے لالچ میں غریب لوگوں کو بے سکون کر رہا تھا۔


"اس سب کے باوجود وہ مجھ سے بہتر سردار ہیں۔"


میر داد اتنا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا تو سب نے اسے حیرت سے دیکھا۔


"معاف کرئے گا لیکن میں ان لوگوں پر حکومت کرنے کے قابل ہی نہیں اور آپ سے گزارش ہے کہ میری زندگی کو مزید مشکل مت بنائیں۔"


اتنا کہہ کر میرداد داخلی دروازے سے باہر نکل گیا جبکہ شاہ میر گہرا سانس لے کر رہ گئے۔

💕💕💕

حورم کی طبیعت صبح سے ہی ٹھیک نہیں تھی لیکن اس نے اس بارے میں جہانزیب کو کچھ نہیں بتایا کیونکہ وہ جانتی تھی کے اپنا ہر کام چھوڑ کر جہانزیب اس کی فکر میں لگ جائے گا۔


وہ ایسا ہی تھا،اگر حورم کو ہلکا سا بخار بھی ہو جاتا تو جہانزیب اس کے ٹھیک ہونے تک بہت زیادہ بے چین رہتا۔


ابھی بھی تقریبا بارہ بجے حورم ناشتہ کرنے آئی تو اس کا سر بری طرح سے چکرایا۔سلمی خالہ نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔


"حور میری جان کیا ہوا ہے تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟"


سلمی خالہ نے اس کا چہرہ تھامتے ہوئے پوچھا جو کہ اب پیلا پڑ رہا تھا۔حورم نے نم آنکھوں کے ساتھ انکار میں سر ہلایا۔


"بہت دل گھبرا رہا ہے خالہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہوا ہے مجھے۔"


حورم کی بات پر سلمی خالہ مزید پریشان ہو گئیں۔پہلے تو انہوں نے سوچا کہ وہ اس سب کی خبر جہانزیب کو کرتی ہیں لیکن پھر یہ خیال اپنے ذہن سے جھٹک کر ملازم کو ڈاکٹر کو لانے کا کہنے لگیں۔


"چلو بیٹا کمرے میں چلتے ہیں میں نے ڈاکٹر کو بلایا ہے وہ کچھ ہی دیر میں آجائے گی تم فکر مت کرو۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کی بات حورم نے اثبات میں سر ہلایا اور سلمیٰ خالہ کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چل دی۔


تھوڑی دیر بعد ہی ملازمہ ایک ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں آئی جس نے حورم کا باقاعدہ چیک اپ کیا اور پھر مسکرا کر سلمیٰ خالہ کو دیکھا۔


"پریشانی کی کوئی بات نہیں بلکہ آپ مٹھائی منگوا لیں ماشاءاللہ سے اس حویلی میں نیا مہمان آنے والا ہے۔"


اتنا سننا تھا کہ سلمیٰ خالہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔بے ساختہ طور پر انہوں نے حورم کے پاس جا کر اسکا چہرہ چوما اور حورم تو اب شرم و حیا سے گلال ہو رہی تھی۔


"ہمیشہ خوش رہو بیٹا اور خدا تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔"


سلمیٰ خالہ نے حورم کا ماتھا چوم کر اسے دعائیں دیں۔


"میں نواز سے کہتی ہوں کہ مٹھائی کا بندوست کرے آخر اتنی بڑی خوشخبری ملنے والی ہے اس حویلی کو۔"


سلمیٰ خالہ نے مسکرا کر کہا تو حورم نے انکا ہاتھ تھام لیا۔


"نہیں خالہ ہم ۔۔۔۔۔ہم سب سے پہلے یہ خبر زیب سائیں کو سنانا چاہتے ہیں پھر باقی سب کو بتائیں گے۔۔۔۔شام کو جب وہ گھر آئیں گے ہم تب ہی انہیں یہ سرپرائز دیں گے"


حورم نے شرما کر کہا تو سلمیٰ خالہ نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔


"جیسا تم چاہو بیٹا۔۔۔۔بس اب اپنا بہت زیادہ خیال رکھنا ہے تمہیں۔۔۔"


حورم نے اثبات میں سر ہلایا تو سلمہ خالہ مسکراتے ہوئے ڈاکٹر کو چھوڑنے چلی گئیں۔حورم نے مسکراتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر موجود جہانزیب کی تصویر کو اٹھا کر دیکھا۔


"آج آپ کو بہت بڑا سرپرائز ملے گا۔دیکھیے گا زیب سائیں یہ دن آپ کی زندگی کا سب سے حسین دن ہوگا۔"


حورم نے مسکرا کر کہا اور اسے یوں مسکراتا دیکھ زندگی بھی مسکرا دی۔

💕💕💕

میر داد کو یہاں آئے ایک دن ہو چکا تھا اور سارا وقت اس نے اپنے آپ کو ہمیشہ کی طرح کام میں ہی مصروف رکھا تھا۔


وہ فارغ رہتا ہی نہیں تھا کیونکہ فارغ رہنے سے اس کا غم اس پر حاوی ہو جاتا تھا۔ابھی بھی وہ ایک آدمی سے مل کر واپس ہوٹل کی طرف جا رہا تھا جب اچانک اس کی نظر ایک پارک پر پڑی۔


نہ جانے کیوں وہ وہاں رک گیا تھا اور بے ساختہ طور پر اس کے قدم خود بخود اس پارک کی جانب اٹھے۔


پارک کے اندر آکر وہاں کے خوبصورت اور پر سکون ماحول میں وہ ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔


بہت دیر وہاں بیٹھے رہنے کے بعد اس نے اپنی جیب سے پری کی پائل نکالی اور نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھنے لگا۔


میں سمجھ نہیں پاتا مہر میر کہ تمہاری یہ نشانی میرے زخموں کو تازہ کرتی ہے یا ان پر مرہم کا کام کرتی ہے کیونکہ انہیں دیکھ کر مجھے اپنے اندر ایک سکون اترتا محسوس ہوتا ہے تو تمہاری یادیں بھی مزید شدت اختیار کر جاتی ہیں۔


اپنی کیفیت سے،اپنے آپ سے میں واقف نہیں ہوں مہر میر کاش تم میرے پاس ہوتی۔۔۔۔کاش۔۔۔۔


میر داد اس پائل کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا پھر اس نے بینچ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا لی اور اپنی آنکھیں سکون سے موند لیں۔


تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کی کوئی اس کے ہاتھ سے وہ پائل چھیننے کی کوشش کر رہا ہے، میر داد نے آنکھیں کھول دیں۔


اسکی نظر تقریباً ایک یا ڈیڑھ سال کی بچی پر پڑی جس نے گلابی فراک پہنا تھا اور کندھوں تک آتے سلکی بال چہرے پر بکھرے تھے۔وہ مسلسل میر داد کر ہاتھ میں جکڑی پائل کو اپنی مٹھی میں پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔


میر داد نے اپنا ہاتھ کھینچا تو بچی نے منہ بنا کر میر داد کو دیکھا۔اسکے دیکھتے ہی وہ ہوا جس کے لیے میر داد دو سالوں سے تڑپ رہا تھا۔سکون کی ٹھنڈی پھوار اسکے دل پر پڑی تھی۔


میر داد نے اپنا ہاتھ واپس اس کے سامنے کیا تو بچی چہکتے ہوئے پھر سے اسکی بند مٹھی کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔


"مہر بے بی۔۔۔۔۔مہر بے بی۔۔۔۔"


ایک عورت کی آواز پر اس بچی نے چہکتے ہوئے اپنا چہرہ میر داد کے گھٹنوں پر رکھ دیا جیسے کہ خود کو چھپا رہی ہو۔اس کی اس معصوم حرکت پر دو سالوں کے بعد ایک مسکراہٹ نے میر داد کے لبوں کو چھوا۔


تبھی اسکے جتنا ہی ایک بچہ بھاگ کر ان دونوں کے پاس آیا اور میر داد کو غصے سے گھورنے لگا۔


"نو میلا۔۔۔۔(نہیں میرا)"


اس بچے نے بچی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو وہ بچی چیخنے لگی۔تبھی ایک عورت بھاگ کر وہاں آئی۔


"معاف کرئے گا صاحب۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر اس عورت نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے بچی کو پکڑنا چاہا تو وہ مزید مظبوطی سے میر داد کی ٹانگ سے چپک گئی۔


"مہر بے بی چلیں نا ضد نہیں کریں۔۔۔۔"


اس عورت نے میر داد کی ٹانگ سے چپکی مہر کو کہا جبکہ بچہ ابھی بھی میر داد کو گھور رہا تھا۔


"یہ آپکے بچے ہیں؟"


میر داد نے بچی کو خود سے جدا کرتے ہوئے پوچھا اور اسکا ہاتھ اس عورت کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔


"نہیں صاحب جی میں تو بس انکی دیکھ بھال میں میم صاحب کا ہاتھ بٹاتی ہوں۔ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھیں تو وہ سو گئیں اور میں انکے ضد کرنے پر انہیں تھوڑی دیر کے لیے یہاں لے آئی اگر میم صاحب کو پتہ چلا نا تو بہت غصہ کریں گی۔"


وہ عورت اپنی مالکن کے غصے کی وجہ سے کافی پریشان تھی اسی لیے میر داد کو ہر بات بتاتی چلی گئی۔


مگر تبھی مہر نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور میر داد کے پیچھے چھپ گئی۔


"مہر بی بی گھر چلیں نا۔۔۔۔"


عورت نے اپنا ہاتھ اگے کیا تو بچی نے نہ میں سر ہلایا۔تبھی بچے نے بھی اپنا ہاتھ چھڑایا اور آگے بڑھ کر اپنی بہن کا ہاتھ تھام لیا جیسے کہ اسے میر داد سے بچانا چاہتا ہو۔


"حیدر بابا ۔۔۔۔مہر بے بی خدا کے لیے چلیں ورنہ بہت ڈانٹ پڑے گی۔۔۔۔"


ملازمہ نے آگے ہو کر بچوں کو پکڑنا چاہا تو اسکی نظر سامنے سے آتی اپنی مالکن پر پڑی جو چادر سنبھالتے غصے سے انکی طرف ہی آ رہی تھی۔


"ارے نہیں میم صاحب۔۔۔۔"


عورت کی گھبرائی آواز پر میر داد نے پلٹ کر ان بچوں کی ماں کو دیکھا تو اسے لگا کہ وہ پتھر کا ہو گیا تھا۔


اور یہی حالت پریسا کی بھی تھی جو اپنے شوہر کو دو سال بعد اپنے سامنے دیکھ کر وہیں رک گئی تھی۔

💕💕💕

پریسا دونوں بچوں کو اپنے ساتھ لے کر گھر میں داخل ہوئی جبکہ میرداد ابھی بھی اسے پکارتا ہوا اس کے پیچھے آ رہا تھا۔ملازمہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی پریسا نے میر داد کے منہ پر دروازہ بند کر دیا اور غصے سے ملازمہ کی طرف پلٹی۔


"تم انہیں گھر سے باہر کیوں لے گئی تھی مریم تم جانتی بھی ہو کہ میں یا میرے بچے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔۔۔ تو کس کی اجازت سے تم انہیں پارک لے کر گئی؟"


پریسا کے غصے سے پوچھنے پر مریم بہت زیادہ گھبرا گئی۔


"غغ۔۔۔غلطی ہوگی میم صاحب ۔۔۔۔آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔۔۔۔"


مریم کی گھبرائی آواز پر پریسا نے اسے وہاں سے جانے کا کہا اور خود زمین پر بیٹھ کر اپنے دونوں بچوں کو سینے سے لگا لیا۔


"وہ تم دونوں کو بھی مجھ سے چھین لے گا۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اب کی بار میں اسے خود سے کچھ نہیں چھیننے دوں گی۔۔۔۔تم دونوں ہی تو میرے جینے کی وجہ ہو کبھی بھی تم دونوں کو خود سے دور نہیں جانے دوں گی۔۔۔۔"


پریسا نے مضبوطی سے دونوں بچوں کو اپنے سینے میں بھینچتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں کہا جبکہ ماں کی آغوش ملتے ہی وہ دونوں سکون سے اسکی پناہوں میں چھپ رہے تھے۔


"پری خدارا ایک بار دروازا کھول کر میری بات سن لو۔۔۔۔"


کب سے دروازہ کھٹکھٹاتے میر داد کی آواز پر پریسا نے اپنے بچوں کو مزید سختی سے خود میں بھینچ لیا۔


"چلے جائیں یہاں سے۔۔۔۔!!! یہاں آپکا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔چلے جائیں۔۔۔"


پریسا نے اتنا کہا اور دونوں بچوں کو کمرے میں لے جا کر سلانے لگی۔وہ دونوں جو پارک میں کھیلنے کی وجہ سے پہلے ہی تھک چکے تھے ماں کا پیار ملنے پر فوراً ہی سو گئے۔


پریسا ابھی بھی دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سن سکتی تھی۔جب سب کچھ اس کی برداشت سے باہر ہوگیا تو غصے سے اٹھی اور کمرے سے باہر آ کر داخلی دروازہ کھول کر اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے میر داد کو دیکھنے لگی۔


"چلے جائیں یہاں سے،میں اپنی زندگی میں بہت خوش ہوں اور خدارا اسے ایسا ہی رہنے دیں۔۔۔۔"


پریسا نے میرداد کو گھورتے ہوئے کہا جبکہ اسے ہی اتنے سالوں بعد اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ کر میر داد کا دل کیا تھا کہ اسے اپنی پناہوں میں چھپا لے۔


"پری ایک بار میری بات تو۔۔۔"


"میں یہاں آپ کی سننے نہیں اپنی کہنے آئی ہوں،آپ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ یہاں سے چلے جائیں۔۔۔۔"


پریسا نے بے رخی کی انتہا سے کہا لیکن میر داد نے آگے بڑھ کر اس کا بازو پکڑا اور اسے گھر میں لے جا کر دروازہ بند کر کے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔


"میرا پورا جہان یہاں ہے اور تم کہتی ہو کہ یہاں پر میرا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔کیوں پری کیوں؟اتنی بڑی سزا دی تم نے مجھے۔۔۔۔خود کو تو مجھ سے چھین لیا اور میرے بچوں کو بھی مجھ سے چھپا کر رکھا تم نے۔۔۔۔؟"


میر داد کے منہ سے اپنے بچوں کا نام سن کر پریسا بہت زیادہ ڈر گئی۔اسی لئے اسے دھکا دے کر دور ہوئی۔


"نہیں ہیں وہ آپ کے بچے! وہ دونوں صرف میرے بچے ہیں،آپ کا ان پر کوئی حق نہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر پریسا کو لگا کہ میرداد اب سختی سے پیش آئے گا لیکن آگے جو ہوا اس کی پریسا نے توقع نہیں کی تھی۔میر داد اس کے سامنے اپنے گھٹنوں پر بیٹھا اور اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔


"مجھے معاف کردو۔۔۔۔بس ایک آخری بار میری ہر غلطی ہر گناہ کو معاف کر دو۔۔۔۔"


اس مغرور بادشاہ کو اس حال میں دیکھ کر پریسا کی آنکھیں نم ہوئیں۔وہ کمزور پڑنے لگی تھی لیکن پھر ہمت کرکے اس نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں میر داد عالم یہاں آپ کا کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہاں سے آپ کو کچھ ملے گا۔۔۔۔معافی بھی نہیں۔۔۔۔"


پریسا نے نم آنکھوں سے کہا اور وہ اسے جانے لگی۔


"بہتر ہے آپ بھول جائیں کہ آپ نے یہاں کسی کو دیکھا بھی تھا کیونکہ اگر آپ نے پھر سے میری زندگی میں شامل ہونے کی کوشش کی تو یہاں سے بھی غائب ہو جاؤں گی۔۔۔۔چلے جائیں یہاں سے میر داد عالم۔۔۔۔چلے جائیں۔۔۔۔"


پریسا اتنا کہہ کر کمرے میں آ گئی اور دروازہ لاک کر کے اسکے ساتھ ہی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔


"ابھی کے لئے جا رہا ہوں پریسا میرداد رند لیکن وعدہ کرتا ہوں میں یہاں پھر ضرور آؤں گا تب تک آؤں گا جب تک تم مجھے معاف نہیں کرو گی۔۔۔۔۔ڈوبتے آدمی کو تنکے کا سہارا ہوتا ہے پری اور مجھے میرا وہ تنکا مل چکا ہے اب اسے میں اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر میرداد وہاں سے چلا گیا اور پریسا اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپا کر رونے لگی۔دو سال پہلے کا ہر وہ منظر آج بھی اسکی یاد میں ویسے ہی زندہ تھا۔

💕💕💕

(دو سال پہلے)

میر داد کے کمرے میں قید کرنے کے بعد پریسا دروازے کے پاس بیٹھ کر روتی رہی تھی اس نے بہت مرتبہ دروازہ کھٹکھٹایا۔اتنا کہ دروازہ کھٹکھٹانے سے اس کے ہاتھ زخمی ہو چکے تھے لیکن کسی نے بھی وہ دروازہ نہیں کھولا اور اب اسے اپنی بے بسی سے نفرت ہونے لگی تھی۔


بہت دیر رونے کے بعد اس نے ایک فیصلہ کیا۔وہ میر درد عالم کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔اس نے خود سے قسم کھائی کہ وہ اس سے اس کا سکون اس کی ہر خوشی چھین لے گی۔


تم میری محبت ہی نہیں میرا عشق ہو پری۔۔۔۔میرا سکون ہو تم۔۔۔۔اگر میر داد کو کچھ ختم کر سکتا ہے تو وہ صرف پری کی دوری ہے۔۔۔


میرداد کے خود سے کہے الفاظ یاد کر کے پریسا زارو قطار رونے لگی اور ایک آخری بار دروازے کی طرف بڑھی۔


"کھول دو دروازہ۔۔۔۔جانے دو مجھے میر داد ورنہ پچھتاؤ گے۔۔۔۔"


پریسا نے آخری بار بند دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا اور پھر کافی دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بے بسی سے اس دروازے سے دور ہوئی۔


راہ فرار بہت ہوتے ہیں میر داد عالم جب جسم فرار نہیں ہو سکتے تو اکثر روحیں فرار ہو جایا کرتی ہیں۔۔۔۔


پریسا کو اپنی بات یاد آئی تو اس کی نظر میز پر موجود شیشے کے گلاس پر پڑی۔پریسا نے آگے بڑھ کر اس گلاس کو اٹھا کر دیکھا۔


"میں تم سے تمہاری ہر خوشی چھین لوں گی۔۔۔۔تمہیں مجھ سے سب سے زیادہ محبت ہے نا۔۔۔۔میں تمہارا جنون ہوں۔۔۔۔تو میں خود کو ہی تم سے چھین لوں گی۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر پریسا نے اس گلاس کو دیوار پر مار کر توڑ دیا اور ٹوٹے ہوئے گلاس کا نوکیلا کونا پکڑ کر اپنی گردن پر رکھ دیا۔


"ویسے بھی مجھ سے میرے جینے کی وجہ تو تمہارا بھائی چھین ہی چکا ہے۔۔۔۔جینے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا میرے پاس۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر پریسا نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور شیشے کے ٹکڑے پر اپنی پکڑ مضبوط کر لی۔اس سے پہلے کہ وہ اس تیز دھار ٹکڑے کو اپنی گردن پر چلاتی اچانک سے دروازہ کھلا اور کسی نے بہت تیزی سے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے وہ ٹکڑا پکڑ کر زمین پر پھینک دیا۔


"پاگل ہو گئی ہو؟ کیا کرنے جا رہی تھی تم۔۔۔۔؟"


ایک شخص کے چلانے کی آواز پر پریسا نے اپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ایک پل لگا تھا پریسا کو اسے پہچاننے میں۔وہ اور کوئی نہیں میر داد کا سب سے اچھا دوست جہانزیب شاہ تھا۔

💕💕💕

جہانزیب حورم کی بدتر حالت دیکھنے کے بعد میر داد سے ملنا چاہتا تھا۔وہ اسے حورم اور اپنے بارے میں ہر بات سچ سچ بتانا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سچ جاننے کے بعد میر داد سب ٹھیک کر دے گا۔


اسی سوچ کے ساتھ اس نے ڈیرے پر جا کر میر داد کا پوچھا تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے شہر والے گھر میں ہے۔


جہانزیب اس سے ملنے وہاں آیا تو اسے کچھ عجیب لگا۔حیرت کی بات تو یہ تھی کہ دروازے پر نگرانی کے لیے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔جہانزیب خاموشی سے گھر میں داخل ہوا۔


ایسا لگ رہا تھا کہ گھر میں کوئی بھی موجود نہیں لیکن جہانزیب کو تو یہی بتایا گیا تھا کہ میر داد یہاں آیا ہے۔


وہ واپس جانے لگا مگر تبھی اسے دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سنائی دی تو جہانزیب اس آواز کا پیچھا کرتے ہوئے بیڈ روم کے بند دروازے تک پہنچا۔لیکن تب تک وہ آواز بند ہو چکی تھی۔جہانزیب نے دروازے کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ لاک تھا۔


یہ جہانزیب کے لئے اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا وہ میرداد کے گھر کے چپے چپے سے واقف تھا۔وہ جلدی سے اس دراز کی طرف بڑھا جہاں پر پورے گھر کی ڈوپلیکیٹ چابیاں رکھی جاتی تھیں۔


وہاں سے جہانزیب نے جلدی سے بیڈ روم کے دروازے کی چابی ڈھونڈی اور دروازہ کھول دیا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر جہانزیب بجلی کی رفتار سے آگے بڑھا اور اس بےوقوف لڑکی کے ہاتھ سے وہ شیشے کا ٹکڑا چھین کر زمین پر پھینک دیا۔


"پاگل ہو گئی ہو؟ کیا کرنے جا رہی تھی تم۔۔۔۔؟"


جہانزیب غصے سے چلایا تو پریسا نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر رونے لگی۔


"مرنا چاہتی ہوں میں آپ کے دوست سے اسکی ہر خوشی چھین لوں گی پھر۔۔۔۔"


جہانزیب کو اسکی بے وقوفی پر افسوس ہوا لیکن وہ جانتا تھا کہ اس لڑکی کو سب یاد آنے پر یہی ہونا تھا۔


"پھر۔۔۔۔پھر کیا ہوگا۔۔۔ تمہارے مرنے سے ہر مسلہ حل ہو جائے گا؟"


جہانزیب کے سوال پر پریسا کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکان ابھری۔


"یہ میں نہیں جانتی لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں اب میں اس وقت سے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔۔۔کبھی بھی نہیں رہ سکتی۔۔۔۔اگر مجھے رہنا پڑا تو میں ختم کر دوں گی خود کو۔۔۔۔مار دوں گی میں اپنے آپ کو۔۔۔۔"


جہانزیب کو اس لڑکی کی باتوں اور آنکھوں میں سچائی نظر آئی تھی وہ ایسا غصے میں نہیں کہہ رہی تھی بلکہ سچ میں ایسا کرنے کا حوصلہ رکھتی تھی۔


"دیکھو میر داد تم سے بہت محبت کرتا ہے اگر تم اسے سمجھاؤ گی تو وہ تمہاری بات ضرور مان لے گا۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔


"مجھے اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ جو مرضی کریں لیکن آج جو سلوک انہوں نے میرے ساتھ کیا ہے نا میں اسے زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔"


جہانزیب سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ اسے کیا کہے۔وہ صحیح تو کہہ رہی تھی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرکے اس کا دوست بہت بڑی غلطی کر چکا تھا۔


پریسا جہانزیب کے سامنے آئی اور اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔


"کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی جان نہیں لوں؟"


پریسا کہ سوال پر جہانزیب نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔


"تو پھر مجھے یہاں سے لے جائیں بہت دور لے جائیں ورنہ میں سچ میں اپنی جان لے لوں گی۔۔۔۔"


جہانزیب نے بہت دیر اسکی بات پر غور کیا۔ابھی کے لئے یہی بہتر تھا کہ وہ اسے یہاں سے کسی محفوظ مقام پر لے جاتا پھر بعد میں وہ میر داد کو اس کا ٹھکانا بتا سکتا تھا۔


"چلو۔۔۔۔"


جہانزیب نے اتنا کہا اور اسے کمرے سے نکال کر دروازہ پھر سے لاک کر کے چابی اپنی جگہ پر واپس رکھی اور اسے وہاں سے لے گیا۔


جبکہ وہاں سے جانے سے پہلے پریسا اپنے پیروں میں پہنی وہ پائلیں اتار کر وہاں رکھنا نہیں بھولی تھی۔

💕💕💕

جہانزیب نے نواز سے ایک گھر کا بندوبست کرنے کو کہا۔تب ہی نواز نے ٹھٹہ میں ایک گھر کرائے پر لیا جہاں جہانزیب پریسا کو لے کر گیا تھا اور اس نے پریسا کی ہر سہولت کا خیال رکھا۔ایک ملازم اور ملازمہ ہمہ وقت پریسا کے ساتھ رہتے تھے۔


جہانزیب نے بہت دفعہ اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن پریسا اسے یہی کہتی تھی کہ اگر میر داد یہاں آیا تو وہ خود کی جان لے لے گی لیکن کچھ بھی ہو جائے وہ میر داد کے پاس نہیں رہے گی۔


جب جہانزیب اسے مسلسل سمجھاتا رہا تو پریسا نے اس سے کہا کہ اگر اس نے میر داد کی سفارش کرنا بند نہیں کی تو وہ یہاں سے بھی چلی جائے گی۔


جہانزیب نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایسے بے سہارا ہو اس لیے اس نے وقفے سے سمجھانے کا فیصلہ کیا۔


جب جہانزیب کو شاہ داد کے کارنامے اور اسکی موت کا علم ہوا تو اس نے پریسا کو ساری بات بتا دی۔


"جیسا تم چاہتی تھی اب تو ویسا ہی ہوا۔۔۔۔مل گئی تمہارے باپ کے قاتل کو سزا اور ایسا کرنے والا میر داد ہی تھا پری۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔


"میں نے آپ سے کہا تھا جہان بھائی کہ مجھے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا انہوں نے اپنے بھائی کو سزا سنادی لیکن یہ کر کے انہوں نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔۔جو ستم مجھ پر ڈھا چکے ہیں نا آپ کو اس کا علم نہیں اور نہ میں انہیں اس گناہ کی کبھی معافی دوں گی۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر پریسا اپنے کمرے میں آگئی اور بیڈ پر لیٹ کر زاروقطار رونے لگی۔اسے سب یاد تھا،اسکے یاداشت جانے پر میرداد کی محبت،اس کا چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا،اس کے سر پر بار بار دوپٹہ اوڑھا کر اس کے مان کا خیال رکھنا۔۔۔۔


لیکن جو گناہ اس نے کیا تھا وہ ان سب کی محبتوں اور اچھائیوں پر حاوی ہو رہا تھا۔


تم اس ایکسیڈنٹ کے بعد دو مہینہ کوما میں رہا اور جب ہوش میں آیا تو تمہیں سب بھول گیا تھا اور ایسا اس حادثے کی وجہ سے نہیں ہوا تمہیں ڈاکٹر سے دوائیاں دلوائی گئی تھیں تا کہ تم سب کچھ بھول جاؤ۔۔۔۔سب سے زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ایسا کرنے والا کوئی اور نہیں تمہارا شوہر میر داد ہی تھا۔۔۔۔


کشمالہ کے کہے وہ الفاظ آج بھی اسکے ذہن میں ذہر گھولتے تھے۔وہ کیسے اپنی بدتر حالت میں اس کی دی جانے والی عنایتوں اور محبتوں پر شکر گزار ہوتی،اس حالت کا ذمہ دار بھی تو وہی تھا۔


پریسا کی یہی سوچ اسے پتھر کا بنا چکی تھی جس پتھر کو نہ تو کبھی میر داد کی یادیں توڑنے میں کامیاب ہوئی تھیں اور نہ ہی جہانزیب کی منتیں۔


جہانزیب گھنٹوں بیٹھ کر اسے میر داد کی حالت کے بارے میں بتاتا رہتا تھا،اس امید سے کہ شاید پریسا کو اس کے حال پر رحم آجائے۔مگر پریسا اسے ہمیشہ والا ہی جواب دیتی تھی اور میرداد کے یہاں آنے پر یہاں سے بھاگنے والی اور خود کو ختم کر دینے والی دھمکی دینا نہیں بھولتی تھی۔


وہاں رہنے کے ایک مہینے بعد پریسا کو خود میں محسوس ہونے والی تبدیلیوں کا احساس ہوا۔اس نے ملازمہ کو ڈاکٹر بلانے کا کہا جس نے گھر آ کر پریسا کے انکشاف کی تصدیق کی تھی۔


اتنی بڑی خوشخبری ملنے پر بھی پریسا اپنی کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔وہ تو یہ بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ قدرت کے اس فیصلے پر وہ خوش بھی تھی یا نہیں۔


"پری تم مجھے اپنا بھائی سمجھتی ہو نا۔۔۔۔"


جہانزیب کو جب یہ خبر ملی تھی تو وہ سیدھا پریسا کے پاس آیا اور اب اس کے سامنے بیٹھا بہت نرمی سے پوچھ رہا تھا۔پریسا نے جواب میں خاموشی سے ہاں میں سر ہلا دیا۔


"تو ایک بھائی کی بات کا مان رکھو اور میر داد کے پاس واپس چلی جاؤ۔۔۔پری وہ بہت زیادہ ٹوٹ چکا ہے۔۔۔۔بہت زیادہ اکیلا ہے۔۔۔۔اسے تمہاری ضرورت ہے پری اور اس سے بھی زیادہ اب تمہیں اس کی ضرورت ہے۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔یہ ساری باتیں پریسا کے دل پر لگی تھیں لیکن اس کے ذہن میں ابھی بھی کشمالہ کا گھولا ہوا زہر گردش کر رہا تھا۔


"اگر آپ اس نئی زمہ داری سے گھبرا رہے ہیں جہان بھائی تو آپ فکر مت کریں میں کسی دارالامان چلی جاتی ہوں اپنے بچے کا خیال میں خود رکھ لوں گی۔۔۔۔"


پریسا کی بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی جہانزیب کو غصہ آیا تھا۔


"یہ کیسی باتیں کر رہی ہو تم۔۔۔۔میں کیوں گھبرانے لگا اس سے پری یہ بچہ رند خاندان کا حصہ ہے جس کے لیے جہانزیب شاہ اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔"


جہانزیب نے اس پاگل لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"تو ٹھیک ہے پھر آپ میرداد کو اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔۔۔۔"


پریسا اتنا کہہ کر اٹھنے لگی تو جہانزیب بھی غصے سے اٹھ کھڑا ہوا۔


"نہیں پری اب بس۔۔۔۔میں مزید تمہیں یا اسے اس حال میں نہیں رہنے دوں گا۔۔۔۔میر داد کا پورا پورا حق بنتا ہے اس بچے پر اور میں اسے اس حق سے دور نہیں رکھوں گا۔۔۔۔"


جہانزیب اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔


"اگر آپ نے ایسا کیا تو میں یہاں سے چلی جاؤں گی جہان بھائی۔۔۔۔"


پریسا نے اسے دھمکایا جسکا اب کی بار جہانزیب پر کوئی اثر نہیں ہوا۔


"نہیں پری اب کی بار مجھے تمہاری کوئی بھی دھمکی نہیں روکے گی۔۔۔۔"


جہانزیب دروازے کی طرف بڑھا تو پری کو ایک آخری راستہ نظر آیا۔


"آپکو حورم کی قسم جہان بھائی ۔۔۔۔آپکو اپکی محبت کی قسم ہے۔۔۔۔"


پریسا کی بات نے جہانزیب کے قدم روکے اور اس نے مڑ کر بھی بے بسی سے پریسا کو دیکھا۔


"ایسا مت کرو پری مجھے اتنی بڑی قسم سے مت باندھو۔۔۔۔"


جہانزیب بے بسی کی انتہا پر تھا۔


"اگر آپ چاہتے ہیں نا کہ میں اور میرا بچہ بے سہارا نہیں ہوں۔۔۔۔یہاں سے جا کر ہم در بدر کی ٹھوکریں نہیں کھائیں تو آپ میر داد کو کچھ نہیں بتائیں گے آپ کو آپ کی محبت کا واسطہ۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر پریسا روتے ہوئے کمرے میں چلی گئی لیکن جانے سے پہلے وہ جہانزیب نے اسے آواز دی۔


"اگر اس سے اتنی ہی نفرت کرتی ہو تو خلع کیوں نہیں لے لیتی؟"


جہانزیب کے سوال پر پریسا رکی ضرور تھی لیکن اس سوال کا تو اسکے خود کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا اس لیے خاموشی سے وہاں سے چلی گئی۔جہانزیب بہت دیر وہاں کھڑا اسکی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔


"معاف کر دینا یار۔۔۔۔میں دوستی کا حق ادا نہیں کر پاؤں گا۔۔۔۔"


جہانزیب نے بے بسی سے اپنے ذہن میں میر داد سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

💕💕💕

(حال)

پریسا نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اپنے دونوں بچوں کو دیکھ رہی تھی جو کہ اسکا کل جہان تھے اسکے جینے کی وجہ تھے۔


اسے آج بھی یاد تھا ان دونوں کے پیدا ہونے پر وہ کتنی خوش ہوئی تھی۔انہیں باہوں میں لے کر اسے ایسا لگنے لگا تھا کہ پورا جہان اس کی پناہوں میں آ سمٹا ہو۔


اس دن جہانزیب کو حورم کی قسم سے باندھنے کے بعد جہانزیب نے پھر کبھی میرداد کا ذکر نہیں کیا تھا لیکن اس کے مشکل وقت میں جہانزیب نے اس کا بہت زیادہ خیال رکھا تھا۔


اس کے پاس موجود ایک ملازمہ تین ملازموں میں بدل چکی تھیں جن کا کام 24 گھنٹے اس کے پاس رہنا تھا۔اس کے علاوہ ایک ملازم اور ڈرائیور ہر وقت گھر کے باہر رہتے تھے۔جہانزیب خود بھی اکثر وہاں آ کر اس کی خیریت معلوم کرتا تھا۔پریسا چاہ کر بھی اس کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی تھی۔


اس نے مسکرا کر اپنے بیٹے حیدر کا سر چوما جو بلکل میر داد کی طرح دکھائی دیتا تھا اور پھر اپنے ہونٹ ننی سی مہر کے بالوں پر رکھ دیے وہ بھی تو اپنے جڑواں بھائی کی طرح تھی۔پریسا نہیں جانتی تھی کہ اس نے اس کا نام مہر کیوں رکھا تھا۔


مہر میر کا کیا مطلب ہوتا ہے میر؟


پریسہ کو اپنا پوچھا ہوا سوال یاد آیا۔


مہر کا مطلب محبت ہوتا ہے اور مہر میر کا مطلب ہوا میر کی محبت۔۔۔۔


وہ سب یاد کر کے پریسا کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔


کیا کوئی اپنی محبت کے ساتھ ایسا کرتا ہے میر جیسا آپ نے میرے ساتھ کیا۔۔۔۔اتنی خود غرض کیوں تھی آپ کی محبت کہ اسے پانے کے لیے مجھ سے میری ہر یاد،میری پہچان ہی چھین لی آپ نے۔۔۔۔بہت خود غرض محبت ہے آپ کی میر داد عالم۔۔۔۔بہت خود غرض۔۔۔۔۔


یہ سب سوچ کر بہت سے آنسو پریسا کی آنکھوں سے جدا ہوئے تو اسکی نظر اپنے سوتے ہوئے بچوں پر پڑی۔

لیکن میں ان دونوں کو آپ کی خود غرض محبت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گی۔

اتنا سوچ کر پریسا نے اپنے آنسو پونچھے اور ایک فیصلہ کرتے ہوئے اٹھ کر پیکنگ کرنے لگی۔وہ جہانزیب سے کیا وعدہ توڑنے والی تھی۔وہ اپنے بچوں کو لے کر یہاں سے بہت دور جا رہی تھی جہاں ان پر میر داد یا اسکی خود غرض محبت کا سایہ بھی نہیں پڑے گا۔

💕💕💕

"میم صاحب آپ ایسے مت جائیں میں شاہ سائیں کو کیا جواب دوں گی؟"


مریم نے گھبراتے ہوئے پریسا کو دیکھ کر پوچھا جو کہ ملازم کو اسکا سامان باہر موجود ٹیکسی میں رکھنے کو کہہ رہی تھی۔


"جہان بھائی سے اتنا کہہ دینا کہ میر داد عالم یہاں آیا تھا وہ سمجھ جائیں گے۔"


پریسا نے مہر کو اٹھا لیا اور اپنا ہاتھ حیدر کی طرف کیا تو اس نے فوراً پریسا کا ہاتھ پکڑ لیا۔پریسا انہیں لے کر باہر موجود ٹیکسی میں بیٹھی۔


"میم صاحب میں نے انہیں کراچی کے ایک دارلامان کا پتہ بتا دیا ہے۔اچھی جگہ ہے وہاں آپ محفوظ رہیں گی۔"


شہباز کی بات پر پریسا نے اثبات میں سر ہلایا۔


"شکریہ شہباز لالا۔۔۔اب بس آپ مجھ پر ایک اور احسان کریے گا۔۔۔میرا پتہ کبھی بھی کسی کو نہیں بتانا کہ میں کہاں ہوں۔۔۔"


پریسا کی گزارش پر اس آدمی نے سر جھکا کر ہاں میں سر ہلایا تو پریسا نے ڈرائیور کو چلنے کا کہا۔


یہ دو گھنٹے کا سفر پریسا کے لیے کافی مشکل ثابت ہوا تھا۔اسکی معصوم سی مہر تو سارا راستہ کھڑکی سے چپکی باہر کے نظارے دیکھتی رہی تھی لیکن حیدر کی دلچسپی ایک چیز سے ہٹتی تو وہ دوسری چیز کو چھیڑنے لگ جاتا۔


کہنے کو تو وہ دونوں جڑواں تھے لیکن ان کی عادتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔مہر بہت زیادہ معصوم سی اور کافی محتاط بچی تھی جبکہ حیدر ہر دوسری چیز میں ٹانگ اڑاتا تھا۔وہ اتنا شرارتی تھا کے بعض اوقات پریسا کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔


"بیگم صاحبہ ہم پہنچ گئے۔۔۔۔"


ڈرائیور کی آواز پر پریسا نے حیدر کو گاڑی کے فرش سے اٹھایا اور مہر کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکلی۔ڈرائیور نے اسکا سامان باہر نکالا تو پریسا نے حیرت سے سامنے موجود گھر کو دیکھا جو کافی بڑا اور خوبصورت تھا۔


"یہ دارالامان تو نہیں لگتا۔۔۔۔"


پریسا نے ڈرائیور کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"شہباز بھائی نے تو مجھے یہیں کا پتہ دیا تھا۔"


ڈرائیور کے ایسا کہنے پر پریسا نے اثبات میں سر ہلایا۔کیونکہ وہ شہباز پر بہت بھروسہ کرتی تھی وہ کبھی بھی اسے غلط جگہ پر نہیں بھیجتا۔


"آپ جائیں بی بی جی سامان لے آؤں گا۔"


ایک ملازم نے کہا تو پریسا ہاں میں سر ہلا کر گھر کے اندر داخل ہوئی لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا اور حیدر اتنی بڑی جگہ کو دیکھ کر پریسا کے بازوؤں میں مچلنے لگا تھا۔


"یہ سچ میں دارالامان نہیں ہے۔۔۔"


پریسا نے گھبرا کر کہا اب اسے ڈر لگنے لگا تھا اسی لئے وہ فورا واپس جانے کے لئے پلٹی تو اس کی نظر سامنے کھڑے بوڑھے سے آدمی پر پڑی۔پریسا ایک پل میں گھبرائی تھی۔


دو سال بعد بھی شاہ میر کو دیکھ کر وہ ایک پل میں پہچان گئی تھی۔


"آآ۔۔۔۔آپ۔۔۔۔"


پریسا نے گھبرا کر کہا لیکن شاہ میر اسکے پاس آئے اور اسکی باہوں سے حیدر کو لے کر اپنے سینے سے لگا لیا۔حیدر انجان شخص کے پاس جا کر مچلنے لگا تھا لیکن پھر بھی شاہ میر نے اسے خود سے جدا نہیں کیا اور اسکے چہرے کو چومنے لگے۔


پھر انکی نظر مہر پر پڑی جو کہ پریسا کی ٹانگ سے چپک رہی تھی۔شاہ میر آہستہ سے اپنے گھٹنوں کے بل جھکے اور حیدر کو اپنے ایک شانے پر کر کے مہر کو بھی خود میں بھینچ لیا۔


"منی میر شہزادگاںاں۔۔۔"


شاہ میر نے مہر کا منہ چوما تو حیدر غصے سے چیخا اور اپنے چھوٹے سے ہاتھ میں شاہ میر کی داڑھی پکڑ لی۔


"نو میلا۔۔۔۔(نہیں میرا)"


اپنے پڑپوتے کے منہ سے یہ سن کر شاہ میر قہقہ لگا کر ہنسے اور پھر دونوں کا چہرہ چوم کر انہیں چھوڑا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ان کے چھوڑتے ہی مہر پریسا کے پیچھے چھپی تھی اور حیدر پریسا کے سامنے کھڑے ہو گیا جیسے کہ اپنی ماں اور بہن کا محافظ ہو۔


حیدر صاحب نے آگے بڑھ کر پریسا کا چہرہ اپنے کانپتے ہاتھوں میں تھاما اور آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لے کر اپنی نواسی کو دیکھنے لگے۔


"کیوں نہیں پہچانا میں نے تمہیں۔۔۔۔بلکل اس کے جیسی تو ہو تم۔۔۔۔۔اور آنکھیں بھی تو بلکل میری منیرہ کی طرح ہیں تمہاری۔۔۔۔"


حیدر صاحب کی بات پر پریسا انہیں حیرت سے دیکھنے لگی۔


"آپ۔۔۔۔۔آپ میری امی کو کیسے جانتے ہیں؟"


پریسا کے سوال پر شاہ میر مسکرائے۔


"تمہاری ماں کے ساتھ تو میرا وہ تعلق ہے بیٹا جو مرنے سے بھی ختم نہ ہو۔۔۔۔بیٹی تھی وہ میری۔۔۔۔سب سے چھوٹی۔۔۔۔سب سے لاڈلی ۔۔۔۔۔اور تم اسکی نشانی ہو۔۔۔۔پری میری منیرہ کی نشانی ہو تم۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر شاہ میر نے اپنے ہونٹ پریسا کے ماتھے پر رکھے تو بہت سے آنسو پریسا کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔وہ اس دنیا میں اکیلی نہیں تھی۔اس کا خونی رشتہ،اس کے نانا اس کے سامنے تھے۔


"آآ۔۔۔آپ میرے نانا ہیں؟"


پریسا نے روتے ہوئے پوچھا تو شاہ میر نے ہاں میں سر ہلایا اور آگے بڑھ کر پریسا کو اپنے گلے سے لگا لیا۔ان کا سہارا ملتے ہی پریسا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی جبکہ اپنی ماں کو روتا دیکھ حیدر شاہ میر کی ٹانگ کو اپنے نازک ہاتھوں سے دھکے دیتا انہیں پریسا سے دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔


پریسا اپنے احساسات سمجھ نہیں پا رہی تھی۔وہ ہمیشہ چاہتی تھی کہ کاش اس کا بھی کوئی اپنا ہوتا جو ایک ڈھال بن کر اس کے سامنے کھڑا ہوتا اور آج اسے وہ ڈھال مل گئی تھی۔


"نانا۔۔۔"


پریسا نے آہستہ سے کہا تو شاہ میر نے اپنے ہونٹ اس کے ماتھے پر رکھ دیے۔


"تم چاہو تو اب بھی مجھے پارک بلا سکتی ہو مجھے برا نہیں لگے گا۔۔۔"


شاہ میر نے شرارت سے کہا تو پریسا نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا دی لیکن پھر ایک خیال اس کے ذہن میں آیا تو اس کے ہونٹوں کی مسکان غائب ہوئی۔


اس کے نانا میرداد کے دادا بھی تو تھے۔اسکا مطلب میر داد بھی یہاں ہو گا۔


"پیرک مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔۔میں یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔۔"


پریسا نے بے بسی سے کہا۔


"کہاں جانا ہے تمہیں؟تمہارا واحد رشتہ تمہارے سامنے ہے بیٹا اور وہ تمہیں کہیں نہیں جانے دے گا۔۔۔۔۔"


شاہ میر کی بات پر پریسا کی آنکھیں پھر سے نم ہو گئیں۔کتنا تڑپتی تھی وہ محبت،اپنائیت اور تحفظ کے اس احساس کے لیے۔


"لیکن پیرک میں۔۔۔۔میں میر داد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔۔۔اس لیے میں۔۔۔۔"


"تم اپنے نانا کے گھر میں ہو۔۔۔۔میرداد کے گھر میں نہیں۔۔۔۔تم بے فکر ہو کر رہو یہاں تمہیں کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا۔۔۔۔"


شاہ میر نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔کچھ سوچ کر پریسا نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر بہت امید سے شاہ میر کو دیکھا۔


"آپ میرے ساتھ ہیں نا۔۔۔۔"


شاہ میر نے اثبات میں سر ہلایا اور پریسا کا سر اپنے کندھے پر رکھ لیا۔


"میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں میرا بیٹا۔۔۔۔سب جانتا ہوں کہ اس نے تمہارے ساتھ غلط کیا لیکن اسے معاف کرنا یا نہ کرنا تمہارا فیصلہ ہو گا۔کوئی بھی تمہیں مجبور نہیں کرے گا۔"


شاہ میر کی بات پر پریسا نے ہاں میں سر ہلایا۔


"لیکن ایک بات ضرور کہوں گا بیٹا کہ غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے۔۔۔۔میر داد سے بھی ہوئی۔۔۔۔اور جب انسان پچھتا کر معافی مانگے نا تو ہمیں اسے معاف کر کے دوسرا موقع ضرور دینا چاہیے کیونکہ ہمارا رب بھی ہماری ہر کوتاہی معاف کر دیتا ہے۔۔۔۔پھر ہمیں بھی تو اسکا بندہ بننا چاہیے نا۔۔۔۔"


پریسا نے ہاں میں سر ہلایا تو شاہ میر نے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"اور تم کہیں نہیں جا رہی۔۔۔۔یہ تمہارا گھر ہے اور تم آرام سے یہیں رہو گی۔۔۔۔اگر میر داد نے تمہیں تنگ کیا نا تو اسے اس گھر سے میں نکالوں گا۔۔۔۔"


شاہ میر نے شرارت سے کہا تو پریسا بھی اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔


"پیرک۔۔۔۔"


"جی پیرک کی جان۔۔۔"


شاہ میر کے انتہائی محبت سے کہنے پر پھر سے پریسا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔


"مجھے اپنے بابا کی قبر پر جانا ہے میں بس ایک بار وہاں گئی تھی۔۔۔اور مجھے میرے بابا کا سامان چاہیے ہمارے پرانے گھر سے۔۔۔۔"


پریسا نے رو کر کہا تو شاہ میر نے اثبات میں سر ہلایا۔


"میں خود تمہیں کل ہی وہاں لے کر جاؤں گا لیکن ابھی تم آرام کرو۔۔۔اور کل تک انکا سامان تمہارے پاس ہو گا۔"


پریسا نے ہاں میں سر ہلایا تو شاہ میر نے ملازم کو پریسا کا سامان کمرے میں رکھنے کا کہا۔تبھی انکا دھیان پھر سے حیدر پر گیا جو ابھی بھی انہیں گھور رہا تھا۔


"میلا ماما۔۔۔(میری ماما)"


حیدر کی بات پر شاہ میر قہقہ لگا کر ہنس دیے اور اسکے جھپٹنے کے باوجود اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔میلا ،ماما اور نو ہی تین الفاظ تھے جو حیدر کو بولنے آتے تھے جبکہ میر نے آج تک ایک لفظ نہیں بولا تھا۔


"بلکل اپنے باپ پر گئے ہو۔۔۔۔"


شاہ میر نے ہنستے ہوئے کہا لیکن انکی بات پر پریسا کے چہرے کی مسکان چلی گئی تھی۔

💕💕💕

حورم کافی زیادہ پر جوش تھی۔جہانزیب کے گھر آنے کا وقت ہونے والا تھا اور وہ اس کی آمد کے لیے سرخ لباس میں سجی کچن کی طرف چل دی تا کہ سب اسکی پسند کا بنوا سکے۔


"تمہیں پتہ ہے بنو شاہ سائیں زیادہ تر اپنے کام کے لیے ٹھٹھہ کیوں جاتے ہیں؟"


ایک ملازمہ کی آواز پر حورم کچن کے باہر کھڑی ہو کر انکی باتیں سننے لگی۔


"مجھے کیا پتہ؟"


دوسری ملازمہ نے مصروفیت سے سبزی کاٹتے ہوئے کہا۔


"کیونکہ وہاں شاہ سائیں نے ایک عورت کو رکھا ہوا ہے جسکے دو بچے بھی ہیں اب وہ عورت شاہ سائیں کی بیوی ہے یا نہیں یہ تو مجھے نہیں پتہ لیکن شاہ سائیں ہر تیسرے دن وہاں ان سے ملنے جاتے ہیں۔"


ملازمہ کی بات نے حورم کی چلتی دھڑکنوں کو اسکے سینے میں روکا تھا۔اسے اس ملازمہ پر بے انتہا غصہ آیا جو کہ اس کے شوہر پر الزام تراشیاں کر رہی تھی۔اس سے پہلے کہ حورم آگے بڑھتی دوسری ملازمہ نے پوچھا۔


"لیکن تمہیں یہ کیسے پتہ؟"


"میرا شوہر جو ہے نا وہ شاہ سائیں کا ڈرائیور ہے پچھلی بار وہی ان کو وہاں لے کر گیا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ وہاں پہنچتے ہی دو چھوٹے چھوٹے بچے بھاگ کر شاہ سائیں کے پاس آئے اور ان سے ایسے لپٹ گئے جیسے وہ انکا باپ ہو۔۔۔۔۔"


ملازمہ کی ہر بات کے ساتھ حورم کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی تھیں۔


"پھر۔۔۔"


دوسری ملازمہ نے دلچسپی سے پوچھا۔


"پھر ایک کافی خوبصورت سی لڑکی باہر آئی اور پھر شاہ سائیں ان تینوں کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہو گئے۔۔۔۔"


اب حورم کی حد ختم ہو چکی تھی اس کا دل کیا کہ جا کر اس ملازمہ کی زبان ہی کھینچ لے۔


"بات یہیں ختم نہیں ہوتی میرے شوہر نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک سال پہلے جب وہ بچے پیدا ہوئے تھے تو شاہ سائیں بہت زیادہ پریشان تھے اور دو دن تک وہاں اس کے ساتھ ہسپتال ہی رہے تھے۔۔۔۔"


حورم کا دماغ فوراً ایک سال پہلے کے واقعے کی طرف جانے لگا اس وقت ایک بار ہی ایسا ہوا تھا کہ جہانزیب دو دن تک گھر نہیں آیا تھا اور جب حورم نے فون کر کے اس سے پوچھا تو جہانزیب نے کہا کہ وہ ضروری کام سے کراچی میں ہے۔


وہ باتیں یاد کر کے حورم کی دھڑکن مکمل طور پر رکھی تھیں۔تو کیا جہانزیب نے تب جھوٹ بولا تھا؟ کیا وہ ملازمہ سچ کہہ رہی تھی؟


یہ سوچ کر ہی حورم کچن میں جانے کی بجائے واپس کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کر کے اس کے ساتھ بیٹھتی چلی گئی۔


نہیں۔۔۔۔زیب سائیں ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتے کبھی نہیں وہ تو ہم سے بہت پیار کرتے ہیں بہت زیادہ۔۔۔۔۔


حورم کے دل نے اسے کہا تھا۔


پیار مرد کو کب باندھ سکا ہے اگر اس کے دل کو کوئی اچھی لگ جائے تو اسے پانے کے لیے وہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے اپنی پہلی محبت کو بھی بھول سکتا ہے۔۔۔۔


حورم کے دماغ نے زہریلا بیج بویا جسکے زیر اثر حورم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔اس نے سوچ لیا تھا کہ آج جہانزیب کے گھر آنے پر وہ اس سے اس عورت کے بارے میں ضرور پوچھے گی اور اگر ملازمہ کی بات سچ ہوئی تو۔۔۔۔۔


تو حورم نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کر گزرے گی اور اسی سوچ کے ساتھ وہ رات تک روتی رہی۔رات کو جہانزیب کے کمرے میں آنے پر بھی وہ اپنے آنسو نہیں روک پائی۔


"حورم کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے نا جان؟"


جہانزیب نے اسکے پاس آ کر اپنا ہاتھ نرمی سے اس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے پوچھا۔حورم نے اس کا ہاتھ پیچھے کیا اور اپنی لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔


"کیا ہوا حورم۔۔۔؟"


جہانزیب مزید پریشان ہوا۔حورم اٹھ کر بیٹھی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا۔


"ہماری قسم کھا کر کہیں زیب سائیں کہ ہم جو بھی اسے پوچھیں گے۔۔۔۔آپ ہمیں سچ سچ بتائیں گے۔۔۔۔"


جہانزیب نے فوراً اپنا ہاتھ اس کے سر سے ہٹایا اور پریشانی سے دیکھنے لگا۔


"سچ بولنے کے لئے مجھے قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں جو پوچھنا ہے پوچھو میں کبھی بھی تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔۔۔"


جہانزیب نے اس کا چہرہ سہلاتے ہوئے محبت سے کہا تو حورم کے رونے میں شدت آگئی۔


"کیا۔۔۔۔کیا آپ نے دوسری ششش۔۔۔۔ شادی کی ہے زیب سائیں؟"


"کیا؟"


جہانزیب نے حیرت سے اپنی بیوی کو دیکھا جو شاید پاگل ہو چکی تھی اسی لئے تو اس قسم کی باتیں کر رہی تھی۔


"یہ کیا کہہ رہی ہو تم حورم میں دوسری شادی کیوں کروں گا؟"


جہانزیب کے سوال پر حورم نے اسکا ہاتھ پھر سے تھام لیا۔


"تو پھر ٹھٹھہ آپ کس کے پاس جاتے ہیں وہاں پر وہ بچے کس کے ہیں زیب سائیں؟"


حورم کے سوال سے جہانزیب نے اتنا اندازہ تو لگا لیا تھا کہ وہ پری کے بارے میں بات کر رہی تھی لیکن جو بات جہانزیب کو پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ حورم کو اس سے زیادہ کسی اور کی بات پر یقین تھا۔


"تم مجھ پر شک کر رہی حورم؟"


جہانزیب کے سوال پر حورم نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں زیب سائیں ہم تو بس۔۔۔"


"اگر تمہیں مجھ پر یقین ہوتا حورم تو یہاں بیٹھ کر مجھ سے سوال پوچھنے کی بجائے تم میرے خلاف بات کرنے والے کو جواب دیتی کیونکہ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا نا تو ایک پل کا وقت ضائع کیے بغیر یہی کرتا۔"


جہانزیب نے اسے سمجھایا لیکن حورم کے دماغ پر ابھی بھی اس عورت کی باتیں سوار تھیں۔


"تو کیا آپ نے واقعی اس سے شادی نہیں کی؟"


جہانزیب نے گہرا سانس لیا۔


"نہیں۔۔۔۔"


ایک لفظی جواب دے کر جہانزیب وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔


"تو کیا آپ اسے اپنے ساتھ شادی کے بغیر ہی رکھ رہے۔۔۔۔"


"حورم ۔۔۔"


جہانزیب کے چلانے پر حورم نے سہم کر اسے دیکھا۔جہان سے غصے سے اس کے پاس آیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔


"کس نے ڈالی ہے یہ خرافات تمہارے دماغ میں؟"


جہانزیب کو غصے میں دیکھ کر حورم سہم گئی تھی وہ تو ہمیشہ بہت آرام سے بات کرتا تھا اور اس وقت اس کا غصہ حورم کے دل پر لگا۔


"تو آپ کہہ دیں نا کہ یہ جھوٹ ہے۔۔۔"


حورم نے روتے ہوئے کہا تو جہانزیب نے اسے گھورا۔


"کیوں کہوں میں ایسا کچھ؟کیا تم مجھے نہیں جانتی؟ کیا تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے جو تمہیں صفائی چاہیے ؟"


جہانزیب کے سوال پر حورم خاموش رہی اور اس کی خاموشی دیکھ کر جہانزیب نے واپس اسے بیڈ پر بیٹھایا اور خود جا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔


"پہلے مجھ پر مکمل یقین کرنا سیکھو پھر تمہیں بتا دوں گا کہ وہ عورت اور بچے کون ہیں۔۔۔۔"


جہانزیب نے بے رخی سے کہا اور لائٹ بند کر کے صوفے پر لیٹ گیا جبکہ اسکی اس بے رخی کی وجہ سے حورم نے ساری رات رو کر گزاری۔

💕💕💕

پریسا نے شام کا کھانا شاہ میر کے ساتھ کھایا تھا اور اسی اس بات کا سکون رہا تھا کہ یہ سارا وقت اس کا سامنا میرداد سے نہیں ہوا۔


کیونکہ دونوں بچے رات کو جلدی سو جاتے تھے اس لیے پریسا انہیں رات کو جلد ہی کمرے میں لے آئی پھر دونوں کو سلا کر خود وہ نہانے چلی گئی۔اس بات سے بے خبر کہ یہ سارا وقت وہ میر داد کی نظروں کے حصار میں رہی تھی۔


جب سے وہ میر داد کو ملی تھی تب سے میرداد نے اسے ایک پل کے لئے اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔اس نے شہباز کو ساری بات بتائی کہ وہ اسکا شوہر ہے اور شہباز سے کہا کہ وہ اسے دارالامان کے بہانے سے اس کے گھر بھیج دے۔


شہباز نے اسے صاف صاف کہا تھا کہ وہ اپنے شاہ سائیں سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔میرداد نے اس سے اس کے شاہ سائیں کے بارے میں پوچھا تو اس کی زبان سے جہانزیب شاہ کا نام سن کر اسے حیرت کے ساتھ ساتھ اپنے دوست پر غصہ بھی آیا تھا۔


جہانزیب کو فون کرنے پر اس نے میرداد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے ہر بات بتا دے گا۔پھر ایک گھنٹے کے بعد جہانزیب وہاں آیا اور اس نے ساری بات میر داد کو بتائی۔پھر ان دونوں نے مل کر ہی پریسا کو یہاں پہنچانے کا یہ پلان بنایا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کے پریسا شاہ میر کی بات نہیں ٹال پائے گی۔


اب بھی میرداد بیڈ کے پاس کھڑا اپنے بچوں کو سوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔اس کا کھویا ہوا سکون ،یہ منظر اسے واپس لوٹا گیا تھا۔پھر دل میں خیال آنے پر میرداد نے جھک کر اپنے ہونٹ مہر کے سر پر رکھ دیے تو وہ ایک انگڑائی لے کر اٹھنے لگی۔


میر داد نے اسے اٹھا کر اپنے سینے پر لیٹا لیا اور اپنا ایک ہاتھ حیدر کے سر کے نیچے رکھا۔


پریسا نہا کر کمرے میں داخل ہوئی تو اسکی پہلی نظر میر داد پر پڑی جو بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اور اسکا ایک ہاتھ حیدر کے سر کے نیچے تھا جبکہ مہر تو اسکے اوپر لیٹ کر سو رہی تھی۔۔۔


"آپ یہاں پر کیا کر رہے ہیں؟"


پریسا نے غصے سے پوچھا تو میر داد نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر انتہائی زیادہ نرمی سے مہر کو بستر پر لٹا کر وہ پریسا کے پاس آیا۔


"انسان تو وہیں جائے گا نا مہر میر جہاں اس کا کل جہان،اس کے بیوی بچے ہوں۔۔۔۔"


پریسا نے اپنی نیلی آنکھیں چھوٹی کر کے میر داد کو دیکھا جبکہ میر داد تو دلچسپی سے اسکے بھیگے بالوں اور حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا۔


"پیرک نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں یہاں رہوں گی تو آپ مجھے پریشان نہیں کریں گے اب آپ مجھے ان سے آپکی شکایت کرنے پر مجبور نہیں کریں۔"


پریسا کی بات پر میر داد اسکے پاس آیا اور اسے بہت نرمی سے کندھوں سے تھام کر اپنے مقابل کیا۔


"جانتا ہوں کہ تم مجھ سے بہت زیادہ ناراض ہو۔۔۔۔لیکن ایک آخری موقع دے دو مجھے پریسا مجھے معاف کر دو۔۔۔۔"


میر داد کی آنکھوں میں موجود محبت دیکھ کر پریسا کا دل بے ساختہ طور پر نرم ہوا۔کئی آنسو اسکی آنکھوں سے بہے۔مگر پھر خود کو نرم پڑتا دیکھ پریسا نے میر داد کے بازو جھٹکے اور اس سے دور ہوئی۔


"نہیں کرنا مجھے آپ کو معاف۔۔۔۔جس شخص نے میرے بابا کو مارا اسے آپ نے ایک پل میں معاف کر دیا تھا یاد ہے آپ کو۔۔۔۔"


پریسا کی بات پر میر داد کی نگاہیں جھک گئیں شاہ داد کے ذکر پر ہیں اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔


"تب مجھ سے غلطی ہوئی تھی پری اور اس غلطی کی سزا شاہ داد کے ساتھ ساتھ مجھے بھی تو ملی۔۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے اپنے کسی عزیز کو اتنی بڑی سزا دینا بہت آسان کام ہے؟"


میر داد کی آواز میں نمی تھی لیکن پھر بھی پریسا کا دل اسکی طرف سے صاف نہیں ہوا۔


"ٹھیک ہے مانتی ہوں کہ آپ نے اپنی غلطی کو سدھار لیا اسے سزا سنا کر آپ نے انصاف کر لیا۔۔۔۔۔لیکن آپکے گناہ کا کیا میر داد عالم اس ظلم کا کیا جو آپ نے مجھ پر کیا؟"


اس بات پر میر داد نے حیرت سے پریسا کو دیکھا۔


"کونسا گناہ پریسا۔۔۔۔؟"


پریسا کے ہونٹوں کو ایک طنزیہ مسکراہٹ نے چھوا۔


"کہنا کیا چاہتی ہو پریسا صاف صاف کہو۔۔۔۔"


میر داد نے اسکے قریب آ کر کہا۔


"اوہ۔۔۔۔ تو صاف صاف الفاظ میں سننا ہے آپ کو تو سنیں۔۔۔۔میر داد عالم آپ نے اپنے بھائی کو بچانے کے لیے ڈاکٹر کو پیسے دے کر مجھے ایسی دوائیاں دلوائیں تھیں جن کی وجہ سے مجھے اپنے ماضی کی ہر بات بھی بھول گئی۔۔۔۔۔اتنی آسانی سے آپ نے مجھ سے میری ہر یاد چھین لی تا کہ میں کسی کو آپکے بھائی کے ظلم اور خود سے ہوئی زیادتی کے بارے میں بتا ہی نہ سکوں۔۔۔۔۔"


پریسا کی بات سن کر میر داد سکتے کے عالم میں آ گیا تو یہ وجہ تھی اس کی اس قدر نفرت کی وہ ایک جھوٹ کی وجہ سے اس سے اس قدر بدگمان ہو گئی تھی۔


میر داد نے آگے بڑھ کر پریسا کو دونوں کندھوں سے پکڑا اور اپنے مقابل کھڑا کیا۔


"کس نے کہا یہ تم سے؟بتاؤ مجھے کس نے کہا یہ۔۔۔۔؟"


میر داد کی بات پر پریسا نے اسکے بازو زور سے جھٹکے۔


"کیوں اب آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے یا اس شخص کو ہی جھوٹا ثابت کر دیں گے؟"


پریسا نے غصے اور نفرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا۔


"ہاں جھوٹ ہے یہ پری الزام ہے مجھ پر میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اتنا ضرور مانتا ہوں کہ تمہیں پا کر میں خود غرض ہو گیا تھا تمہاری خوشی کے لیے،تمہیں غم سے بچانے کے لیے میں نے تمہیں دوائیاں دینا چھوڑ دیا مگر اس کا پچھتاوا ہونے پر میں نے تمہارا علاج دوبارہ سے شروع کروا دیا تھا مگر تم جو کہہ رہی ہو وہ سراسر جھوٹ ہے۔۔۔۔"


میر داد کی تمام صفائی سن کر پریسا کے چہرے پر ایک گھائل سی مسکان آئی تھی۔


"میرا یقین کرو پری میں نے ایسا کچھ نہیں کیا مجھے اپنے ایمان کی قسم ہے۔۔۔۔"


اب کی بار اتنی بڑی قسم اٹھانے پر پریسا کی بدگمانی کا مینار ڈگمگایا تھا۔


"کس نے کہا تھا یہ سب تم سے؟"


میر داد نے دوبارہ سوال کیا۔


"کشمالہ نے۔۔۔۔"


کشمالہ کا نام سن کر میر داد نے اپنی آنکھیں ضبط سے بند کر کے کھولیں۔


"یہ جھوٹ ہے پری میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔۔"


میر داد نے بے بسی سے کہا۔


"میں کیسے مان لوں؟"


اس بات پر میر داد نے کچھ دیر سوچا اور پھر پریسا کو اپنی گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"اگر تمہیں لگتا ہے کہ کشمالہ سچ کہہ رہی تھی تو چلو اس کے پاس اور اس سے کہو کہ یہی سچ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے۔۔۔۔۔"


میر داد نے پریسا کو دیکھتے ہوئے کہا اور پریسا بھی اسکی آنکھوں میں سچائی دیکھ سکتی تھی لیکن اس کا دل اب کسی پر بھروسہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا،اس کا یقین تو محبت سے بھی اٹھ چکا تھا۔


میرداد نے بہت نرمی سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔


"جانتا ہوں کہ مجھ سے بہت غلطیاں ہوئیں لیکن میں انسان ہوں پری فرشتہ نہیں کہ جس سے غلطیاں نہیں ہو سکتیں۔جب انسان سے غلطی ہوتی ہے نا تو اس کو سب سے زیادہ حوصلہ معافی سے ملتا ہے۔۔۔۔"


پریسا اپنی نم آنکھوں سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔


"میں تم سے اپنی ہر غلطی،ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں ۔۔۔۔۔بس مجھے ایک موقع دے دو پری۔۔۔۔۔بس ایک مرتبہ معاف کر دو۔۔۔۔مجھے قسم ہے اپنی محبت کی میں اپنی ہر غلطی کی تلافی کروں گا"


میر داد نے رندھی ہوئی آواز میں کہہ کر اپنا ماتھا پری کے ماتھے سے جوڑا تو پری پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


وہ بھی تو محبتوں کی ترسی تھی۔اسکا دل ہر بات بھلا کر میر داد پر بھروسہ کرنا چاہ رہا تھا اس سے ملنے والے پیار کے لیے ترس رہا تھا۔


اس سے پہلے کہ وہ میر داد کو کچھ کہتی ان دونوں کے کان میں حیدر کے رونے کی آواز پڑی تو پریسا میر داد سے دور ہوئی اور آ کر حیدر کو اپنی باہوں میں لے کر چپ کروانے لگی۔


"اتنا آسان نہیں ہے میرے لیے معاف کرنا میر۔۔۔۔اتنا آسان نہیں ہے میرے لیے سب بھول جانا۔۔۔۔مجھے وقت دیں سب سمجھنے کا۔"


پریسا نے حیدر کو خود میں بھینچتے ہوئے بے بسی سے کہا۔


"میں اپنی محبت سے تمہارا ہر غم مٹا دوں گا مہر میر کیونکہ تم تینوں سے ہی تو میری زندگی جڑی ہے۔۔۔۔میں تمہیں تمہاری ہر خوشی لوٹا دوں گا وعدہ ہے میرا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر میر داد کمرے سے باہر چلا گیا اور پری روتے ہوئے حیدر کو چپ کروانے لگی۔

💕💕💕

پریسا اگلی صبح ہی شاہ میر کے ساتھ قبرستان اپنے بابا کی قبر پر گئی تھی۔وہ پہلے بھی ایک بار جہانزیب کے ساتھ یہاں پر آئی تھی۔


لیکن پھر اس ڈر سے نہیں آئی کہ کہیں میر داد ہو اس کے ٹھکانے کا پتہ لگ جائے۔


"تمہارے بابا کا سامان تمہارے کمرے میں ہے اور کوئی خواہش ہے میری شہزادی کی جو میں پوری کر سکوں؟"


شاہ میر کے سوال پر پریسا نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا۔وہ دونوں ابھی واپس گھر آئے تھے۔


مہر کو پریسا نے اٹھایا تھا جبکہ حیدر شاہ میر کی گود میں تھا جو کہ بہت حیرانی کی بات تھی کیونکہ حیدر کسی کے پاس بھی جانا پسند نہیں کرتا تھا۔


"چلو اب ان دونوں کو یہاں کھیلنے دو اور تم آرام سے میرے پاس بیٹھو۔۔۔"


شاہ میر نے حیدر کو نیچے اتارا تو پریسا بھی مہر کو نیچے اتار کر شاہ میر کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔


"اپنی ماں کے بارے میں مجھے بتاو پری کیا وہ یاد ہے تمہیں؟"


شاہ میر کے سوال پر پریسا نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں پیرک میں صرف دو سال کی تھی جب وہ اس دنیا سے چلی گئیں زیادہ تو ان کے بارے میں نہیں جانتی کیونکہ بابا بھی ان کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔اگر کبھی میں بھی ان کا ذکر کر دیتی تو بہت زیادہ دکھی ہو جاتے۔۔۔"


اپنے بابا کے بارے میں بات کرتے ہوئے پریسا کی آنکھیں پھر سے بھیگ گئی تھیں۔


"بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے جو میں نے منیرہ کے جذبات کو،اس کے احساسات کو نہیں سمجھا۔۔۔کاش میں اس سب کی قدر کرتا تو آج میری بیٹی میرے پاس ہوتی۔۔۔۔۔"


شاہ میر نے افسوس سے کہا تو پریسا نے اپنی آنکھیں پونچھ کر انہیں دیکھا۔


"میری آنکھیں بالکل میری امی جیسی ہیں نا۔۔۔بابا بھی اکثر یہی کہتے تھے کہ میری آنکھیں انہیں امی کی یاد دلاتی ہیں۔۔۔۔"


شاہ میر نے مسکرا کر اپنی نواسی کو دیکھا۔


"بلکل تمہاری آنکھیں ہو بہو منیرہ جیسی ہیں۔۔۔۔"


پریسا ہلکا سا ہنسی۔


"لیکن دیکھیں نا اب ان دونوں کی آنکھیں میرے جیسی نہیں بلکہ۔۔۔۔"


"بالکل اپنے بابا کے جیسی ہیں رات کی تاریکی کی مانند سیاہ۔۔۔۔"


پریسا میر داد کی آواز پر چونکی جو کہ دروازے سے ابھی گھر داخل ہوا تھا۔اس کے ہاتھ میں بہت سی چیزیں تھیں جنہیں لے کر وہ سیدھا بچوں کے پاس گیا۔


پریسا نے اٹھ کر اسے روکنا چاہا تو شاہ میر نے پریسا کا ہاتھ پکڑ لیا۔


"کچھ نہیں ہوتا میر داد کی کمائی پر حق ہے ان بچوں کا اور میں نہیں چاہتا کہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی حق تلفی کی جائے۔۔۔۔"


شاہ میر کی بات پر پریسا اثبات میں سر ہلا کر خاموشی سے بیٹھ گئی لیکن اس کی نظریں مسلسل اپنے بچوں پر تھیں جو اب چہکتے ہوئے میر داد کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے۔


"بچوں کو باپ کے پیار کی بہت ضرورت ہوتی ہے پری اور اس بات کو تم سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔۔اپنے لیے نہ سہی تو ان کے لئے میر داد کو معاف کر دو۔"


اتنا سن کر پریسا نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے کمرے میں آ گئی۔کیا اتنا ہی آسان تھا اس کے لئے میر داد کو معاف کرنا؟کیا وہ اتنی آسانی سے بھول جاتی کہ میر داد اسکے باپ کے قاتل کا بھائی تھا۔


یہ سب سوچتے اچانک پری کی نظر اس ڈبے پر پڑی جس میں حیدر صاحب کا سامان تھا۔وہ سامان شاہ میر نے اسکی فرمائش پر منگوایا تھا۔


اس سامان میں موجود حیدر صاحب کی چیزیں دیکھ کر پریسا کی آنکھیں نم ہوئیں۔اسے آج بھی یقین نہیں ہوتا تھا کے کسی کی الرغرضی کی وجہ سے وہ اپنے جان سے پیارے باپ کو کھو چکی تھی ۔


اس سامان کو دیکھتے ہوئے پریسا کی نظر حیدر صاحب کی ڈائری پر پڑی جسے وہ اکثر ہی لکھا کرتے تھے۔


پریسا کو یاد تھا کہ جب جب وہ اس ڈائری کو پڑھنا چاہتی تو حیدر صاحب اس ڈائری کو اس سے چھپا لیتے۔


"یہ میں تمہیں خود پڑھنے کو دوں گا بابا کی جان لیکن صحیح وقت آنے پر۔۔۔۔"


حیدر صاحب کی بات یاد کر کے پریسا کو مزید تجسس ہوا تو اس نے وہ ڈائری کھولی اور بیڈ پر بیٹھ کر اسے پڑھنا شروع کر دیا۔


حیرت کی بات یہ تھی کہ ڈائری میں حیدر صاحب نے پریسا کو ہی مخاطب کیا تھا جیسے یہ اسکے نام ایک پیغام ہو۔


پریسا میری جان۔۔۔


اس ڈائری میں تمہیں وہ باتیں پڑھنے کو ملیں گی جو تمہیں بتانے کی ہمت مجھ میں نہ تو کبھی ہوئی ہے اور شائید نہ ہی کبھی ہو گی۔


بیٹا انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے جانے انجانے بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں لیکن گناہ ایسی چیز ہے جو انسان جان بوجھ کر کرتا ہے۔۔۔۔


لیکن قسم کھاتا ہوں بیٹا وہ گناہ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا مجھ سے وہ گناہ غلطی سے ہوا تھا جو ہمیشہ کے لیے میرے لیے ایک المیہ بن گیا۔۔۔


اپنے اس ایک گناہ کی وجہ سے میں نے اپنی ساری زندگی پچھتاوے میں گزاری ہے ۔ہر دن بے سکونی سے گزارا ہے اور ہر رات ایک خوف کے سائے میں۔۔۔۔


اتنا پڑھ کر ہی پریسا بہت زیادہ پریشان ہوئی تھی پھر اس کی نظر اگلے صفحے پر لکھے لفظوں پر پڑی تو ساتوں آسمان اس پر ایک ساتھ گرے۔


میں تمہاری ماں کا قاتل ہوں بیٹا۔۔۔۔اسکی موت کی وجہ ہوں۔۔۔میں نے اپنی منیرہ کو مار دیا۔۔۔۔


اور صرف اسی کا نہیں میں تمہارے ماموں عالم رند اور اسکی بیوی کا بھی قاتل ہوں۔۔۔۔


یہی گناہ ہے میرا میرے بچے اور میں جانتا ہوں کہ میرا سچ جاننے کے بعد تم مجھ سے نفرت کرو گی بہت زیادہ نفرت۔۔۔۔۔


اتنا پڑھ کر پریسا کے دل کی دھڑکنیں رکنے لگیں تھیں بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلنے۔


دل پوری بات جاننے کے لیے بے چین ہو رہا تھا اسی لیے بہت بے چینی سے اس نے صفحے پلٹے اور انہیں پڑھنا شروع کیا۔

(ماضی)

منیرہ حیدر سے بہت زیادہ محبت کرتی تھی اسی لیے گھر والوں کے نہ ماننے پر اپنا گھر اور ہر چیز چھوڑ کر حیدر کے ساتھ چلی گئی۔


حیدر بھی اس سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا،اس کا بہت زیادہ خیال رکھتا تھا لیکن اس سے شادی کرنے کے بعد منیرہ کو حیدر میں موجود برائی کا اندازہ ہوا۔


حیدر کو شراب نوشی کی عادت تھی اور وہ عادت اتنی زیادہ مضبوط ہو چکی تھی کہ منیرہ کی محبت بھی اسے ختم نہیں کر پائی۔


لیکن جو بھی تھا اس کے ساتھ رہنا منیرہ کی اپنی مرضی تھی وہ اسے چھوڑ کر واپس نہیں جا سکتی تھی اس لیے اس نے ہر چیز اللہ پر چھوڑ کر حیدر کو اپنا لیا۔


پھر ان دونوں کی زندگی میں پریسا کی آمد ہوئی تو منیرہ کی پریشانی مزید بڑھ گئی اس نے حیدر کو پری کی قسم دے کر کہا کہ وہ شراب پینا چھوڑ دے گا لیکن یہ ایسی لت تھی جسے حیدر چاہ کر بھی چھوڑ نہیں پا رہا تھا۔


پھر ایک دن عالم رند کو اپنی بہن کے ٹھکانے اور اس کے بدتر حالات کا معلوم ہوا۔


حیدر خان بلوچستان کے ہی ایک چھوٹے سے گاؤں میں قرضہ سے بچنے کے لیے اپنا نام بدل کر رہ رہا تھا لیکن پھر بھی عالم رند اسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔


اس نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی بہن کو وہ اس شرابی کے پاس نہیں رہنے دے گا اس لئے کسی کو بھی بتائے بغیر وہ منیرہ کے گھر جانے کے لیے تیار ہوا لیکن اپنی بیوی سکینہ کو ساتھ آنے سے نہیں روک سکا۔


حیدر کا گھر گاؤں کی آبادی سے دور پہاڑ کی اوٹ میں تھا۔جب عالم وہاں پہنچا تو اپنی بہن کو صحن میں کام کرتا دیکھ اسکی کی آنکھیں نم ہوئیں۔


"منیرہ ۔۔۔۔۔"


عالم کی آواز سن کر منیرہ کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہو گئیں وہ بھاگ کر عالم کے پاس آئی اور اس کے سینے سے لپٹ کر رونے لگی۔


"مجھے معاف کر دیں بھائی مجھ سے غلطی ہوگئی۔۔۔۔۔میں آپ سب کی بدنامی کا باعث بنی۔۔۔۔مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔"


منیرہ نے روتے ہوئے کہا تو عالم نے اسے مضبوطی سے خود میں بھینچ لیا جبکہ ساتھ کھڑی سکینہ بھی اپنی اکلوتی نند کو دیکھ کر نرمی سے مسکرائی۔


"کون ہے منیرہ۔۔۔؟"


حیدر شراب کے نشے میں دھت کمرے سے باہر آیا تو عالم نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔


"تو یہ ہے تمہارا شوہر۔۔۔۔؟"


عالم نے منیرہ کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا تو منیرہ اپنی نظریں چرا گئی۔


"ہاں میں ہوں اور تم کون ہو؟"


حیدر نے عالم کو گھورتے ہوئے پوچھا۔


"بھائی ہوں میں منیرہ کا اور میں اسے اس حالت میں تیرے جیسے انسان کے ساتھ نہیں رہنے دے گا۔۔۔۔محلوں کا شہزادی ہے میری بہن۔۔۔۔چل منیرہ میرے ساتھ واپس چل۔۔۔۔"


اس سے پہلے کہ منیرہ عالم کو کچھ کہتی حیدر غصے سے آگے بڑا اور عالم کو گریبان سے پکڑ لیا۔


"تو مجھ سے میری بیوی کو دور لے کر جائے گا۔۔۔۔۔میری منیرہ کو چھینے گا تو مجھ سے؟"


حیدر غصے سے چلایا تو منیرہ نے آگے ہو کر اس سے اپنے بھائی کو چھڑوانا چاہا۔


"ہاں لے جائے گا اپنی بہن کو اس دوزخ سے نہ تو تیرا گھر اس کے قابل ہے اور نہ ہی تجھ جیسا شرابی۔۔۔۔"


عالم نے اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے غصے سے کہا اور آگے بڑھ کر منیرہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔


"چلو تم منیرہ۔۔۔۔"


"بھائی۔۔۔۔"


منیرہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن عالم اس کی سنے بغیر اسے اپنے ساتھ لے کر جانے لگا۔


"چھوڑ میری بیوی کو میں نے کہا چھوڑ۔۔۔۔"


حیدر غصے سے چلایا تو عالم نے اس سے مڑ کر دیکھا۔حیدر عالم پر ریوالور تانے کھڑا تھا یہ دیکھ کر منیرہ اور سکینہ کے منہ سے چیخ نکلی۔


"مار دوں گا میں تجھے۔۔۔۔اگر تو منیرہ کو مجھ سے دور لے کر گیا تو مار دوں گا میں تجھے۔۔۔"


عالم بے خوف ہوکر حیدر کو دیکھ رہا تھا۔


"تو کچھ بھی کر لے آج میں اپنی بہن کو یہاں سے لے کر ہی جائے گا۔"


اتنا کہہ کر عالم نے منیرہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے ساتھ گھسیٹنے لگا جب کہ اپنی بیوی کو خود سے دور جاتا دیکھ حیدر کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا اور نشے کے زیر اثر اس نے بنا سوچے سمجھے گولی چلا دی۔


گولی چلنے کی آواز پر ہی عالم زمین پر گرا۔۔۔۔گولی سیدھا عالم کے دماغ میں لگی تھی۔


"بھائی۔۔!!!"


منیرہ کی چیخ پر سکینہ نے اپنے شوہر کو دیکھا تو ایک دل دہلا دینے والی چیخ سکینہ کے ہونٹوں سے نکلی۔


"نہیں عالم۔۔۔!!!"


سکینہ روتے ہوئے چلا رہی تھی جبکہ حیدر تو پتھر کا ہو چکا تھا اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے سارا نشا ایک جھٹکے میں اترا تھا۔


"مار دیا تم نے ظالم۔۔۔۔میرے شوہر کو مار دیا۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی سزا دلواؤں گی موت کی سزا۔۔۔۔"


سکینہ روتے ہوئے چلا رہی تھی جبکہ منیرہ کو تو لگ رہا تھا کہ اسکا دل ہی بند ہو جائے گا۔ سکینہ کی باتوں پر حیدر خوف سے کانپنے لگا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔


"نہیں چھوڑوں گی میں تجھے دیکھنا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔"


سکینہ عالم کے سینے سے لپٹی روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔حیدر جو پہلے سے ہی بہت زیادہ ڈر چکا تھا اسے اپنی موت اپنے سامنے نظر آ رہی تھی۔اس نے سوچا اگر اس عورت نے اپنا منہ کھولا تو وہ نہیں بچے گا اسی لیے اس نے کانپتے ہاتھوں سے ریوالور اٹھایا اور سکینہ کی کمر پر گولی چلا دی۔


"آآآآ۔۔۔۔۔"


سکینہ پر گولی چلتی دیکھ منیرہ اپنا چہرہ چھپا کر چلائی اور پھر اپنے گھٹنوں پر بیٹھتی چلی گئی۔ اسکو لگا اسکا دل مکمل طور پر بند ہو چکا تھا۔


اس کے بعد حیدر جلدی سے دروازے میں کھڑی ہو کر روتی ہوئی پریسا کے پاس آیا اور اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔اس نے جلدی سے اپنا ضروری سامان اور کاغزات سمیٹے۔


اسی طرح چند ہی پلوں میں اس صحن میں دو لاشیں پڑی تھیں۔حیدر پریسا کو سینے سے لگا کر منیرہ کے پاس گیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچنے لگا۔


"چلو منیرہ ہمیں جانا ہے یہاں سے۔۔۔۔۔"


حیدر نے اسے کھینچتے ہوئے کہا تو منیرہ سکتے کے عالم میں اس کے ساتھ ایک زندہ لاش کی مانند کھینچتی چلی گئی۔


گاؤں سے دور آ کر منیرہ کو ہوش آیا تو اس نے اپنا ہاتھ حیدر کے ہاتھ سے چھڑایا اور زور زور سے چیخنے لگی۔


"قاتل۔۔۔!!!! قاتل ہو تم میرے بھائی کو مار دیا۔۔۔۔ظالم چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اسکے۔۔۔۔۔میرا قصور تھا سب میری غلطی تھی۔۔۔۔۔کہ میں نے تجھ جیسے آدمی سے شادی کی۔۔۔۔"


منیرہ اس سے دور ہوتے ہوئے چلائی اور اپنے ہاتھ زور زور سے اپنے سر پر مارنے لگی۔


"منیرہ۔۔۔۔"


"یہ کیا کر دیا تم نے حیدر کیا کر دیا۔۔۔۔۔غارت کرے حیدر خدا تمہیں غارت کرے۔۔۔"


منیرہ غصے سے چلاتے ہوئے حیدر سے دور ہوئی اور زارو قطار رونے لگی حیدر اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھا تو منیرہ مزید دور ہو گئی۔


"کبھی معاف نہیں کروں گی حیدر خان۔۔۔۔میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔برباد کر دیا تم نے مجھے۔۔۔۔۔تم نے سب برباد کر دیا۔۔۔۔"


منیرہ بری طرح سے روتے ہوئے چلا رہی تھی تبھی اس کی نظر سامنے سے آتے تیز رفتار ٹرک پر پڑی تو بغیر کچھ سوچے سمجھے منیرہ اس کے آگے کود گئی۔۔۔۔


"منیرہ ۔۔۔۔۔"


حیدر کرب سے چلایا اور اس کی چیخ پر ننھی پریسا بھی سہم کر رونے لگی تھی۔


حیدر کی نظر منیرہ پر پڑی جس کا لہو لہان وجود زمین پر کچھ دیر کے لئے تڑپا اور پھر مکمل طور پر ساکت ہو گیا۔حیدر کو تب احساس ہوا کہ وہ کیا کر گزرا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔۔۔۔بہت زیادہ دیر۔۔۔۔۔

💕💕💕

(حال)


پریسا زارو قطار روتے ہوئے ابھی بھی اس ڈائری کو پڑھ رہی تھی۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ ماضی کا سچ اس قدر خوفناک ہو گا۔


اس نے اپنی آنسوؤں سے دھندھلاتی آنکھیں پونچھ کر ڈائری کے اگلے صفحے کو دیکھا۔


اس دن مجھ سے ایسا گناہ ہوا جس کی تلافی میں ساری زندگی ہر عبادت میں مغفرت مانگنے کے بعد بھی نہیں کر پایا۔


بہت مرتبہ سوچا کہ خود کو پولیس کے حوالے کر دوں لیکن تمہارا کیا کرتا پری۔۔۔ میرا تو کوئی اپنا بھی نہیں تھا اور اگر تمہیں منیرہ کے گھر والوں کو سونپتا تو ساری زندگی تمہیں قاتل کی بیٹی کہہ کر تمہاری زندگی مشکل بنا دیتے۔


منیرہ کی لاش کو تو وہاں سے لا کر میں نے اس کی تدفین کروا دی اور پھر دنیا کے ڈر سے،پری بیٹا تمہیں بھی کھونے کے ڈر سے وہاں سے بہت دور جا کر رہنے لگا۔


میں نے بہت بار ہمت کی کہ تمہیں ہر چیز سچ سچ بتا دوں لیکن ایسا نہیں کر پایا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا اکلوتا رشتہ ، میری بیٹی مجھ سے نفرت کرے۔


میں ابھی بھی ایسا نہیں چاہتا پری۔۔۔۔جانتا ہوں تمہارے باپ کا گناہ معافی کے قابل نہیں پھر بھی تم سے ایک ہی گزارش کروں گا کہ مجھے معاف کر دینا بیٹا۔۔۔۔جانتا ہوں کہ روز قیامت میرا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔۔۔۔یہ بھی جانتا ہوں کے مرنے کے بعد جب دوسرے جہان جاؤں گا تو منیرہ بھی مجھے معاف نہیں کرے گی۔۔۔۔مجھے معافی ملنی بھی نہیں چاہیے۔۔۔۔پھر بھی تم سے یہ گزارش ہے بیٹا کہ اپنے باپ کو معاف کر دینا۔۔۔۔پھر شاید اس اطمینان سے مر جاؤں کہ میری بیٹی نے تو مجھے معاف کر دیا نا۔۔۔۔۔


اسے چاہے تم میری آخری خواہش سمجھو لیکن مجھے معاف کر دینا پری اور مجھ سے نفرت مت کرنا۔۔۔۔۔میں خود ہی خود سے نفرت کرنے کے لئے کافی ہوں۔۔۔۔تم بھی مجھ سے نفرت مت کرنا۔۔۔۔بس ایک ہی خواہش ہے مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔۔۔اس گنہگار کو معاف کر دینا۔۔۔۔۔


اس کے بعد ڈائری پر کچھ بھی نہیں لکھا تھا لیکن پریسا اب اس ڈائری کو سینے سے لگائے رو رہی تھی اور پھر نہ جانے کتنی ہی دیر روتی رہی۔


"میں نے آپ کو معاف کیا بابا۔۔۔۔معاف کیا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر پریسا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


اتنی آسانی سے معاف کر دیا اپنے باپ کو حالانکہ اس نے اپنے ہاتھوں سے جان بوجھ کر دو جانیں لیں اور تم نے معاف کر دیا۔ میر کو تو اسکے بھائی کی غلطی پر ابھی تک معاف نہیں کر پائی تم اس سے پھر بھی حادثہ ہوا تھا پریسا خان۔۔۔


پریسا کے ضمیر نے اسے ملامت کی تو پریسا اپنے آنسو پونچھ کر سوچ میں پڑھ گئی۔


تم کہتی ہو تم نے اپنے باپ کو معاف کر دیا۔ارے تم اسے معاف کرنے والی کون ہوتی ہو وہ تمہارا نہیں میر داد اور حورم کا گناہ گہار ہے۔۔۔۔۔


پریسا کا ضمیر غصے سے چلایا تو پریسا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


بولو ہے تم میں اتنی ہمت کہ میر داد کو اپنے باپ کے بارے میں بتا سکو۔۔۔۔بولو ہے تم میں اتنی جرات کہ اسکو یہ بتا سکو کہ تم اسکے ماں باپ کے قاتل کی بیٹی ہو۔۔۔۔بولو ہے تم میں اتنی ہمت پریسا خان۔۔۔۔۔؟


پریسا کا ضمیر اس سے وہ سوال پوچھ رہا تھا جسکا پریسا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔


خود کو میر داد کی جگہ پر رکھ کر سوچا ہے کبھی اگر تم اسکی جگہ ہوتی اور میر داد تمہیں اپنے باپ کو موت کی سزا دینے کا کہتا تو کیا تم دے پاتی؟


پریسا اب اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے رو رہی تھی۔


کیا تم نہیں چاہتی کہ میر داد وہ کڑوا سچ بھول کر تمہیں چاہے تم سے ایک پل بھی نفرت نہیں کرے اگر اس نے ایسا چاہا تو وہ گناہگار ہو گیا تو تم کیا ہو پریسا خان تمہارا باپ کیا تھا؟"


پریسا اپنے ضمیر کے سوالوں پر ابھی بھی سر جھکائے رو رہی تھی۔


روک تو وہ تمہیں ابھی بھی سکتا ہے شوہر ہے وہ تمہارا اگر تمہیں کبھی تمہارے باپ کا نام بھی نہ لینے دے۔۔۔۔اسکی قبر پر بھی نہ جانے دے تب تم کیا کرو گی بولو۔۔۔۔۔کر پاؤ گی انصاف کر پاؤ گی اپنے گناہگار باپ سے نفرت۔۔۔۔۔


"بس کر دو۔۔۔۔!!! خدا کے لیے بس کر دو...!!!"


پریسا غصے سے چلائی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔کتنی آسانی سے اس نے میر داد سے اسکے بھائی کے لیے سزا کا مطالبہ کیا تھا اور کتنی آسانی سے وہ مطالبہ پورا نہ کرنے پر پریسا نے اسے چھوڑ دیا تھا۔


مرد ایسا نہیں ہوتا پریسا خود کو چھوڑنے والی عورت کو تو وہ پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا۔۔۔ہمیشہ اس پر شک ہی کرتا ہے لیکن یہ تو میر داد کی محبت کی سچائی ہے کہ وہ آج بھی تمہیں اتنا ہی چاہتا ہے آج بھی تمہیں پانا چاہتا ہے۔۔۔وہ تم سے سچا پیار کرتا ہے پریسا کھوٹ تو تمہاری محبت میں تھا۔


اس سوچ کے ساتھ پریسا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


لیکن ابھی بھی سب برباد نہیں ہوا پری تم اپنے میر سے معافی مانگ سکتی ہو اسے سب سچ بتا سکتی ہو۔۔۔


پریسا کی روح تک بے چین ہوئی تھی۔


"لیکن کیا وہ مجھے معاف کر دیں گے۔۔ کیا وہ اس بات کو بھول جائیں گے کہ میں انکے ماں باپ کے قاتل کی بیٹی ہوں۔۔۔۔میں تو نہیں بھولی تھی نا کہ وہ میرے باپ کے قاتل کا بھائی ہے ۔۔۔۔اور انہیں دو سال تک اس گناہ کی سزا دی جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔"


پریسا نے خود سے سوال کیا۔


یہ تو اس کی محبت پر ہے تمہارا برا وقت آ چکا ہے پریسا میر داد رند۔۔۔۔یہ تمہاری محبت کا امتحان ہے۔۔۔۔۔


پریسا نے اپنے آنسو پونچھ کر اثبات میں سر ہلایا۔


"ہاں میں ایسا ہی کروں گی اپنے بارے میں سارا سچ میر کو بتا دوں گی پھر وہ جو بھی سزا دیں گے مجھے منظور ہو گی۔۔۔۔پھر چاہے وہ سزا ۔۔۔۔ان سے اور بچوں سے دوری ہی کیوں نا ہو۔۔۔۔؟


پریسا نے خود سے عہد کیا کہ وہ اپنا اور حیدر صاحب کا سارا سچ میر داد کو بتا دے گی اور اسی عہد کے ساتھ وہ اپنے آنسو پونچھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

💕💕💕

جہانزیب صبح ہوتے ہی اپنے کام سے چلا گیا تھا۔وہ جو حورم سے ملے بغیر یا اس سے بات کیے بغیر ایک قدم بھی نہیں ہلتا تھا آج اس نے جاتے ہوئے حورم کو دیکھا تک نہیں تھا۔


اس کی بے رخی کا سوچ کر ہی حورم بہت زیادہ روئی تھی۔بدگمانی اور افسوس اس کے دل میں جگہ بناتے جا رہے تھے۔


تبھی دروازہ کھٹکنے کی آواز پر حورم نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے اور دروازہ کھٹکھٹانے والے کو اندر آنے کا کہا۔


"کیسی ہو بیٹا طبیعت ٹھیک ہے اب تمہاری۔۔۔۔؟"


سلمیٰ خالہ جو کہ جہانزیب کے کہنے پر کھانا لے کر آئی تھیں حورم کو روتے ہوئے دیکھ کر پریشانی سے اس کی طرف بڑھیں۔


"حورم میری جان کیا ہوا ہے؟"


سلمیٰ خالہ نے پریشانی سے پوچھا تو حورم انکے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"زیب سائیں ہم سے ناراض ہو گئے خالہ بہت زیادہ ناراض ہو گئے۔۔۔۔"


حورم کی بات پر سلمیٰ خالہ مسکرا دیں۔ابھی صبح ہی جہانزیب نے جانے سے پہلے انہیں حورم کو ناشتہ کروا کر دوائی دینے اور ہر وقت اس کے ساتھ رہنے کی تلقین بار بار کی تھی۔اگر یہ جہانزیب شاہ کی ناراضگی کی تھی تو بلاشبہ بہت محبت بھری خفگی تھی۔


"ضرور تم نے کچھ غلطی کی ہو گی نا ورنہ وہ تم سے ناراض کیوں ہوتا؟"


حورم نے منہ بنا کر سلمیٰ خالہ کو دیکھا۔


"ہاں میں ہی بری ہوں بہت بری ہوں آپ کا بیٹا ہی اچھا ہے بس۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کا دل کیا کہ اس کی باتوں پر خوب ہنسیں لیکن اس کے جذبات کو دیکھتے ہوئے خود پر ضبط کر گئیں۔


"اچھا چھوڑو یہ سب میں تو تمہیں اتنی اچھی خبر دینے آئی تھی۔۔۔۔"


"کیا؟"


سلمیٰ خالہ کی بات پر حورم نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے سوال کیا۔


"پریسا میر داد کو مل گئی ہے۔۔۔۔۔"


"کیا سچ ۔۔۔۔۔شکر اللہ کا بھائی اتنے دکھی رہتے تھے ان کے بغیر۔۔۔۔"


حورم نے خوشی سے کہا تو سلمیٰ خالہ نے اثبات میں سر ہلایا۔


"لیکن بھابھی تھیں کہاں؟"


حورم نے حیرت سے پوچھا۔


"تمہارے شوہر جہانزیب کے پاس اس نے ہی پری کو سب سے چھپا کر ٹھٹھہ ایک گھر میں رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔"


اتنا سننا تھا کہ حورم کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں اور سانس سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔


"کک۔۔۔۔کیا بھابھی کے دو۔۔۔۔دو بچے بھی ہیں۔۔۔۔؟"


حورم نے ہکلاتے ہوئے سوال کیا اسکا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔


"ہاں میرداد نے مجھے بتایا کہ بہت پیارے ہیں بالکل میرداد کے جیسے دکھتے ہیں۔۔۔۔وہ تو تمہیں بھی فون کرتا رہا تھا لیکن تم نے فون اٹھایا نہیں۔۔۔۔"


سلمیٰ خالہ کی بات پر حورم کی آنکھیں بھر گئیں اسکا دل کیا کہ اپنا سر کسی دیوار میں دے مارے اس نے کیسے جہانزیب پر شک کر لیا۔حورم کی باتوں سے اسکا کتنا زیادہ دل دکھا ہو گا۔


"غلطی ہو گئی خالہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔۔۔۔"


حورم کے ایسا کہنے پر سلمیٰ خالہ نے اسکے آنسو پونچھے۔


"تو غلطی کو سدھار لو میری جان پیار سے منا لو اسے مان جائے گا وہ۔۔۔۔"


حورم نے بے بسی سے انہیں دیکھا۔


"بہت زیادہ ناراض ہیں وہ کیسے مناؤں میں انہیں؟"


حورم اتنا کہہ کر پھر سے رونے لگی۔


"کیا تم نے اسے اس خوشی کے بارے میں بتایا؟"


حورم نے انکار میں سر ہلا دیا تو سلمیٰ خالہ مسکرا دیں اور اسکے آنسو پھر سے پونچھ دیے۔


"تو بتا دو پھر دیکھنا ہر بات بھول جائے گا ۔یہ خوشی بہت بڑی ہوتی ہے میرا بچہ اس خوشی کے آگے انسان اپنی ہر رنجش بھلا دیتا ہے۔"


حورم نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تو سلمی خالہ نے اس کا ماتھا چوما۔


"چلو اب ناشتہ کرو اور خبردار اب روئی تو اپنا بہت زیادہ خیال رکھنا ہے تمہیں۔"


حورم نے ہاں میں سر ہلایا اور ناشتہ کرنے لگی جبکہ دماغ میں وہ اپنے شوہر کو منانے کا سارا منصوبہ بنا چکی تھی۔

💕💕💕

جہانزیب کو کام کرتے ہوئے کافی زیادہ وقت ہو گیا تھا اور اسے اس بات کا افسوس بھی تھا کیونکہ حورم کی طبیعت خراب تھی اور وہ جلد از جلد اسکے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔


حویلی پہنچتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔جہانزیب نے گہرا سانس لیا کیونکہ آج اسے پھر سے حورم کو بے رخی دکھانی تھی جو اس کے لیے بہت مشکل کام تھا لیکن وہ کیا کرتا اس بار حورم نے غلطی بھی تو بہت بڑی کی تھی۔


جہانزیب نے لائٹ جلائی تو کمرہ بلکل خالی تھا یہ دیکھ کر جہانزیب بہت زیادہ پریشان ہوا اور جلدی سے واش روم کی طرف جا کر دیکھا لیکن وہاں پر بھی کوئی نہیں تھا۔


جہانزیب باہر آیا تو اس کی نظر بیڈ پر پڑے ایک لال رنگ کے ڈبے پر پڑی۔جہانزیب نے حیرت سے وہ ڈبہ پکڑا اور اسے کھولا تو اندر ایک چھوٹا سا کیک تھا اور اس کیک پر ایک چٹ لکھی تھی جس پر آئی ایم سوری لکھا دیکھ جہانزیب کے ہونٹوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا۔


پھر اسے اپنے پیچھے سے چوڑیوں کی آواز آئی تو جہانزیب اپنی مسکراہٹ کو چھپا کر مڑا اور حورم کو دیکھا جو لال رنگ کے فراک میں،کھلے بالوں اور مناسب سے میک اپ کے ساتھ سجی اپنے کان پکڑے کھڑی تھی۔


جہانزیب کو اپنی معصوم سی جان پر ٹوٹ کر پیار آیا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ حورم پھر کبھی اس پر شک کرے۔وہ چاہتا تھا کہ حورم اس پر اتنا ہی یقین کرے جتنا کہ وہ حورم پر کرتا ہے۔


"یہ سب کیا ہے؟"


جہانزیب نے سختی سے پوچھا تو حورم نے کانوں سے ہاتھ ہٹائے اور اسکے ہاتھ میں موجود کارڈ کی طرف اشارہ کیا۔


"تمہیں کیا لگتا ہے اس سے تمہیں معافی مل جائے گی؟"


جہانزیب نے اسکے سنورے ہوئے روپ کو دلچسپ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تو حورم نے انکا میں سر ہلایا اور کارڈ کی طرف اشارہ کر کے اسے اوپر کھینچنے کا کہا۔


جہانزیب نے گہرا سانس لے کر اس کارڈ کو پورا کھینچا تو اس کارڈ کے ساتھ ایک اور جڑا ہوا کارڈ کیک میں سے نکلا جو کورا تھا۔


"یہ کیا ہے۔۔۔؟"


جہانزیب نے حورم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو حورم نے اس کارڈ کو پلٹنے کا اشارہ کیا۔


جہانزیب نے کیک کو ٹیبل پر رکھ کر کارڈ پلٹا تو اسکی پچھلی طرف کچھ لکھا تھا۔


"I love you papa ...."


جہانزیب نے تحریر با آواز بلند پڑی اور پھر اپنی آنکھیں بڑی کر کے حورم کو دیکھا جس کے چہرے پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ تھی۔


اسکی بات کا مطلب سمجھ کر وہ کارڑ جہانزیب کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گرا اور اس نے فوراً آگے بڑھ کر حورم کو اپنے سینے میں بھینچ لیا۔


"آئی لو یو حورم آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔"


حورم اسکی آواز میں موجود نمی محسوس کر سکتی تھی اور اسے محسوس کر کے حورم کی اپنی آنکھیں نم ہو گئیں۔


"تم نے مجھے مکمل کر دیا حورم مجھے ایک نیا جہان دے کر میری زندگی کو جنت بنا دیا۔۔۔اور آج۔۔۔۔آج تو تم نے مجھے سب سے بڑی خوشی دی ہے حورم۔۔۔۔بہت چاہتا ہوں میں تمہیں۔۔۔۔خود سے بھی زیادہ تم سے محبت کرتا ہوں میں میری جان۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکالا اور اسکے چہرے کے ہر نقش کو چومنے لگا۔حورم بے ساختہ طور پر خود میں ہی سمٹی تھی۔


"کیا ہوا آج ہماری حورم سائیں اتنی خاموشی کیوں ہیں؟"


جہانزیب کے سوال پر حورم نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"بہت برے ہیں آپ اتنا زیادہ ناراض ہوتا ہے کوئی ہمیں اتنا رلایا آپ نے اور ہم سے بات بھی نہیں کی۔۔۔۔پتہ ہے پوری رات روتے رہے ہم بار بار آپ کو اٹھ کر دیکھا کہ شاید آپ ہمارے پاس آ جائیں۔۔۔۔آپ کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہمیں آپکے بغیر نیند نہیں آتی۔۔۔۔ ناراض ہیں اب ہم آپ سے۔۔۔۔"


حورم بولنا شروع ہوئی تو بولتی چلی گئی جبکہ جہانزیب مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔


"تو تم نے غلطی بھی تو اتنی بڑی کی تھی نا حورم۔میاں بیوی کے رشتے میں پیار سے بھی زیادہ اہمیت اعتبار کی ہوتی ہے اگر اعتبار کمزور پڑھ جائے نا تو وہ دیمک بن کر انکے درمیان موجود محبت کو بھی چاٹ جاتا ہے۔"


جہانزیب نے اسے سمجھایا تو حورم نے ہاں میں سر ہلایا اور سوری بول کر اسے سینے سے لگ گئی۔


"لیکن ناراض پھر بھی ہیں ہم آپ سے۔۔۔۔"


حورم نے لاڈ سے کہا تو جہانزیب نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر اپنے سامنے کیا۔


"میں مناؤں گا نا۔۔۔۔"


جہانزیب نے اسکی ناک کو چوم کر کہا تو حورم خود میں سمٹ گئی۔


"یہ کیا کر رہے ہیں آپ زیب سائیں؟"


جہانزیب نے اپنے انگوٹھے سے اسکے ہونٹوں پر سجی لال لپسٹک ہٹا دی تو حورم نے گھبرا کر پوچھا۔


"تمہیں منا رہا ہوں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر جہانزیب اس پر جھکتا چلا گیا اور حورم نے شرماتے ہوئے خود کو اسکی محبت کی نذر کر دیا۔

💕💕

جی میں اپنے پورے ہوش حواس میں آپ کو بتا رہی ہوں میر۔۔۔۔میں آپکے ماما بابا کے قاتل کی بیٹی ہوں۔۔۔"


پریسا نے اتنا کہا اور پھر روتے ہوئے اسے ساری بات بتا دی جبکہ ساری بات سن کر میر داد اپنی مٹھیاں بھینچے بالکنی سے باہر دیکھتا جا رہا تھا۔


اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اپنے ماں باپ کے جس قاتل کو وہ آج تک ڈھونڈتا رہا تھا وہ اسکی اپنی بیوی کا باپ تھا۔


میر داد نے پری کو گہری نگاہوں سے دیکھا۔اس سے پہلے کہ میر داد اسے کچھ کہتا پری نے اپنے کانپتے ہاتھ اٹھائے اور انہیں میر داد کے سامنے جوڑ دیا۔


"مم۔۔۔میں جانتی ہوں کہ میرے بابا۔۔۔۔۔کا گناہ معافی کے قابل نہیں۔۔۔۔۔اور نہ ہی میں یہ کہوں گی کہ آپ انہیں معاف کر دینا۔۔۔۔لیکن میں اتنا ضرور کہوں گی کہ آج جب میں وہاں کھڑی ہوں جہاں دو سال پہلے آپ تھے تو اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ جب کوئی اپنا معافی مانگتا ہے نا تو اسے سزا دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔"


پریسا نے روتے ہوئے اتنا کہا اور پھر میر داد کو نگاہیں اٹھا کر دیکھا جو بس خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔


"آپ نے جو کیا تھا میر وہ بہت ظرف کا کام تھا۔۔۔۔لیکن میں نے آپکی کوئی بات سنے بغیر جزبات میں آ کر سب برباد کر دیا۔۔۔۔۔


اتنا کہہ کر پری پھر سے رونے لگی۔


"میں بری ہوں میر بہت زیادہ بری ہوں۔۔۔۔آپ مجھے سزا دیں میر جو چاہے سزا دیں۔۔۔"


پریسا ہاتھ جوڑ کر اتنا ہی کہہ پائی اور پھر زارو قطار رونے لگی۔

۔۔۔۔ختم شد>


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sun Saiyan Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sun Saiyan  written by Harram Shah  .Sun Saiyan by Harram Shah  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

No comments:

Post a Comment