Pages

Monday 1 July 2024

Payaar Na Dobara Ho Ga By Suhaira Awais Romantic Complete Short Story Novel

Payaar Na Dobara Ho Ga By Suhaira Awais Romantic Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Payaar Na Ho Ga Dobara By Suhaira Awais Complete  Romantic Novel 

Novel Name: Payaar Na Dobara Ho Ga

Writer Name:  Suhaira Awais

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وہ کیفیٹیریا میں ، اپنی بیسٹ فرینڈ "سدرہ" کے ساتھ بیٹھی، اپنے نوٹس کھولے ، آج کے اٹینڈ کیے گئے لیکچرز کے بارے میں، بڑے انہماک اور توجہ سے ، گفتگو کرنے میں مصروف تھی۔

وہ بی ایس زولوجی کے لاسٹ ایئر کے فائنل سیمیسٹر کی اسٹوڈنٹ تھی،

آج کل اس کے ایگزامز سر  پر تھے۔۔ سو وہ اپنی ساری توجہ ، صرف اور صرف، اسٹڈیز کو دے رہی تھی۔۔

وہ ابھی بھی، نوٹس میں سر دیے۔۔ کسی بہت ہی اہم پوائنٹ کو ڈسکس کررہی تھی کہ یکدم اسے ، اپنے قریب کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔

 اس کے دائیں جانب سے آنے والی کلون کی  وہ مخصوص خوشبو۔۔!!

وہ ایک لمحے میں آنے والے کو پہچان چکی تھی،

 وہ خوشبو اس کا تمام دھیان اپنی طرف لے گئی!!

ناچار۔۔!! اسے سر اٹھانا پڑا۔۔!!

اس نے خوشبو کی سمت میں اپنا رخ موڑا تو۔۔ اس کی توقع کے عین مطابق، جہانگیر آفریدی ، اس کے اپنی طرف متوجہ ہونے کے انتظار میں ہی کھڑا تھا۔۔

اس کے آتے ہی، سدرہ وہاں سے کھسک گئی،

 گویا وہ ان دونوں کی پرائیویسی ڈسٹرب کرنے کے موڈ میں نہیں تھی ،

اب انوشے اور جہانگیر ہی وہاں موجود تھے۔۔

"کیا مسئلہ ہے۔۔؟ کیوں آئے ہو اب؟؟" انوشے نے اپنی ناگواری چھپائے بغیر سوال کیا۔

"اپنا جواب لینے آیا ہوں۔" اگلے پر تو جیسے اس کے لہجے کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔۔ 

اس لیے تو اس نے ، بہت تحمل سے، اس کے لہجے کی ناگواری برداشت کرتے ہوئے، اپنے مخصوص، ٹھہرے ہوئے لہجے اور گھمبیر آواز میں ، اپنا، وہاں آنے کا مقصد بیان کیا۔

"کونسا جواب۔۔؟؟ میں نے، ہماری آخری ملاقات میں، تمہارے سامنے ہر بات کلئیر کر دی تھی۔۔ پھر کیسا جواب چاہیے تمہیں۔۔؟؟" اس نے شانے اچکاتے ہوئے، ناسمجھی سے پوچھا۔

"نہیں، انوشے میڈم۔۔ میں نے تمہیں آج تک کا وقت دیا تھا۔۔ کہ خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔۔!!" اس نے آواز پست اور لہجہ سنجیدہ رکھتے ہوئے کہا۔

" مسٹر جہانگیر آفریدی!! میں آپ کو ہزار بار بتا چکی ہوں اور آج پھر بتا رہی ہوں کہ میں اپنے اماں بابا کے فیصلے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹوں گی۔۔!!

انہوں نے مجھے پالا پوسا ہے۔۔ اور میری زندگی کے اتنے بڑے فیصلے کرنے کا اختیار صرف ان دونوں کو ہے۔۔!!"

انوشے نے دو ٹوک انداز میں بات ختم کرنا چاہی۔

اس کا یہ ضدی پن جہانگیر کو غصہ دلا رہا تھا۔۔ 

وہ، آخری حد تک۔۔ اپنے آپ کو کنٹرول کرنے ہر ممکن کوشش میں لگا ہوا تھا۔۔

"تو تمہارا مطلب ہے کہ تم اپنی اس شادی سے۔۔ انکار نہیں کرنے والیں۔۔؟؟"  

"جی بالکل۔۔" 

انوشے کی ہٹ دھرمی، اب اس کی برداشت سے باہر تھی۔۔

"بس۔۔!! یہ آخری دفع تھا۔۔!!

 اب میں تمہیں دوبارہ فورس نہیں کروں گا۔۔!!

 "پر میری ایک بات ، اچھی طرح اپنے ذہن میں بٹھالو۔۔!!۔۔ تمہیں اپنی اس ہٹ دھرمی کا خمیازہ ساری زندگی بھگتنا پڑے گا۔۔!!  

انوشے حیدر۔۔!! تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم نے کس جہنم کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔۔!! اب دیکھنا۔۔ میں تمہارے ساتھ کرتا کیا ہوں۔۔!!" وہ اپنا آپا کھوتے ہوئے بری طرح غرایا۔۔

اپنی طرف سے اس نے ، بہت دل دہلا دینے والی وارنگ دی تھی۔۔ 

پر انوشے کا بے تاثر چہرہ۔۔ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اسے اس کی کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑا۔۔

"دیکھو۔۔!! مسٹر جہانگیر۔۔!! تم یہ تڑیاں۔۔ کسی اور کو جا کر دو۔۔!! مجھ پر اپنا وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔۔!! کیوں کہ انوشے حیدر کسی کی دھمکیوں سے ڈرنے والی نہیں۔۔!! اور پلیز۔۔!! اب جب تک میرے پیپرز نہیں ہوجاتے۔۔ میرا دماغ کھانے مت آنا۔۔ پہلے اتنی ٹینشن ہے۔۔ اور اوپر سے تم دماغ چاٹنے آ جاتے ہو۔۔!!" 

انوشے نے اپنی زبان درازی اور اپنی بے خوفی کا ایک چھوٹا سا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔۔ جہانگیر کو اندر تک جلایا۔۔ اور ساتھ ہی اپنی چیزیں سمیٹ کر وہاں سے رفو چکر ہوئی۔۔ کیوں کہ اس کے پاس مزید بحث کرنے کے لیے وقت نہیں تھا۔۔

وہ وہاں کھڑا ، ہتھیلیاں مسلتا رہ گیا۔۔

وہ خوب اچھی طرح سے یہ بات سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکی بالکل بھی نرمی کے لائق نہیں۔۔ 

اس کے جانے کے بعد وہ بھی۔۔ اپنا سا منہ لے کر وہاں سے غائب ہوا۔۔!!

.......

اس دن کے بعد۔۔ جہانگیر نے انوشے سے نہ کوئی بات کی اور نہ ہی رابطہ۔۔

وہ اس سے رابطہ رکھتا بھی کیوں۔۔؟؟

کیوں کہ آج تک ، انوشے کے ساتھ اس نے، جو ملاقاتیں کی تھیں۔۔ ان کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ وہ ہمیشہ اس کے آگے ، لاچاروں کی طرح، ہانک ہانک کر واپس آجاتا۔۔

اور اس محترمہ پر، نہ اس کی کوئی بات اثر کرتی تھی۔۔ اور نہ ہی اس کے لیے کوئی معنی رکھتی تھی۔۔۔

کیونکہ فی الوقت، اس کے نزدیک ، اس پر حق جتانے یا حکم چلانے کا حق صرف اور صرف اس کے والدین کو حاصل تھا۔۔۔

سو وہ۔۔ کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ کوئی اس پر اپنا حکم چلائے۔۔ یا اپنی مرضی کے مطابق کوئی بات منوائے۔۔!!

پھر وہ کیسے جہانگیر کی بات مان کر، اپنی شادی سے انکار کر لیتی۔۔!!

وہ کیوں۔۔ اپنے ماں باپ کی مرضی اور پسند سے طے پانے والے۔۔ ایک اچھے بھلے۔۔ رشتے سے انکار کرکے۔۔ ان دل توڑتی۔۔!!

جہاں تک بات تھی جہانگیر کی دھمکیوں کی۔۔ تو اسے ان کی بالکل پرواہ نہیں تھی۔۔

اسے اپنی قسمت پر، اور قسمت لکھنے والے خدا کی اپنے بندوں سے محبت پر پورا بھروسہ تھا۔۔

اسے بھروسہ تھا کہ اس نے، اس کے لیے جو لکھا ہے۔۔وہ بہترین ہوگا۔۔

اس لیے وہ جہانگیر کی کسی بھی تڑی یا دھمکی کو خاطر میں لائے بغیر۔۔ 

اپنا سارا دھیان صرف اور صرف اپنے ایگزامز کی تیاری میں لگائے رکھتی تھی۔۔

اپنی شادی کی طرف سے اس کا اطمینان اور سکون  دیکھنے لائق تھا۔۔ 

اور ایک جہانگیر تھا۔۔ جس کا سارا سکون۔۔ سارا سکھ۔۔ شادی کا سوچ کر ہی اڑن چھو ہو جاتا تھا۔۔

×××××××

اور ایک جہانگیر تھا۔۔ جس کا سارا سکون۔۔ سارا سکھ۔۔ شادی کا سوچ کر ہی اڑن چھو ہو جاتا تھا۔۔


××××


ایک ایک کر کے ، دن گزرتے گئے۔۔ نہ انوشے کے اطمینان میں کمی واقع ہوئی اور نہ ہی جہانگیر کی بے سکونی میں۔۔!!

××××


انوشے کے ایگزامز ختم ہوتے ہی۔۔ گھر میں شادی کے ہنگامے شروع ہوئے۔۔!!

اور ہر نئے دن کے ساتھ زور پکڑتے گئے۔۔۔


زندگی کو بھر پور طریقے سے جینے والی۔۔انوشے جیسی کسی بھی لڑکی کے لیے یہ دن بہت ایکسائیٹنگ ہوا کرتے ہیں۔۔۔

اس لیے انوشے بھی حد سے زیادہ ایکسائیٹڈ تھی۔۔


اس کی شادی کی بہت سی تیاریاں تو پہلے سے ہی مکمل تھیں۔۔

اور رہی سہی تیاریاں۔۔ انوشے میڈم۔۔ بڑے جوش و خروش سے۔۔ خاص اپنی موجودگی میں۔۔ مکمل کرواتیں۔۔۔


وہ ان سب مصروفیات میں اتنی خوش۔۔ اور اتنی مگن تھی کہ اسے جہانگیر کی خاموشی۔۔ اس کی چپ تک کا احساس نہیں ہوا۔۔


لیکن جہانگیر کا معاملہ بالکل برعکس تھا۔۔وہ بھلے ہی کچھ کہتا نہ ہو۔۔!! لیکن ایک آگ تھی۔۔ جو ہر دم۔۔ اس کے اندر سلگتی رہتی تھی۔۔

وہ ہر دن۔۔ ہر رات۔۔ انوشے کی آئندہ زندگی کو اجیرن کرنے۔۔ اسے تکلیف پہنچانے اور اسے تڑپانے کے نت نئے منصوبوں پر غور کرتا رہتا۔۔۔


اس نے بہت بار چاہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر جا کر۔۔ انوشے سے۔۔ شادی سے انکار کرنے کی ریکوئسٹ کرے۔۔۔

پر انوشے کا ڈھیٹ پن۔۔ اور ہر دفع کا ایک ہی جواب اس کی ہمت توڑ دیتا۔۔


اسے انوشے پر غصہ تھا۔۔ اپنے آپ پر بھی غصہ تھا کہ وہ اپنے پیرینٹس کو اپنی محبت کے لیے راضی نہیں کر پایا۔۔

اسے غصہ تھا کہ وہ اپنی محبت پر۔۔ اپنے سارے اختیار کھو چکا تھا۔۔


××××


آج انوشے کی مہندی تھی۔۔

ان کے ہاں یہ رواج تھا کہ مہندی کا فنکشن لڑکے والے اپنے گھر میں۔۔اور لڑکی والے اپنے گھر میں کرتے تھے۔۔


سو اس لیے انوشے کے ہاں۔۔ صرف اور صرف اس کی فیملی، کزنز، کچھ ہمسایوں اور کچھ دوستوں نے رونق لگائی تھی۔۔


اس سب کے باوجود بھی۔۔وہ نظریں جھکائے۔۔ عام دلہنوں کی طرح۔۔ شرمائی ہوئی سی بیٹھی تھی۔۔ مگر پھر بھی۔۔وہ بہت انجوائے کر رہی تھی۔۔

اس کا خیال تھا۔۔ کہ دلہن بننے کا مزہ تو ایسے شرما شرما کر بیٹھنے میں ہی ہے۔۔



اسے ہر لمحہ۔۔ ہر پل اتنا۔۔ انوکھا ، اتنا خوبصورت اور اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ وہ مکمل طور پر۔۔ ہر مومنٹ۔۔ ہر سیکنڈ سے لطف اندوز ہوتی رہی۔۔۔


اور اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کیسے اس دلفریب رات کا ہر پل ختم ہوا۔۔!!

کب صبح ہوئی۔۔!!

کب اگلا دن آیا اور کب وہ نک سک سے تیار ہوکر۔۔ میرج ہال کے برائیڈل روم میں بیٹھی اپنے ہونے والے مجازی خدا کا انتظار کرنے لگی۔۔!!


وہاں بیٹھے بیٹھے اس کی کمر اکڑنے لگی تھی۔۔


کیونکہ اس کا انتظار کچھ زیادہ ہی طویل ہوتا جا رہا تھا۔۔ بلکہ اب تک تو کافی لمبا ہوگیا تھا۔۔


اب تو اسے تشویش ہونے لگی تھی۔۔


اسے لگا کہ کہیں جہانگیر نے کوئی گڑ بڑ نہ کردی ہو۔۔


وہ وہاں بیٹھی بہت پریشان ہورہی تھی کہ۔۔۔


اتنے میں۔۔ اس کی ایک کزن نے، اسے باہر سے آ کر اطلاع دی کہ بارات آ چکی ہے۔۔


وہ جو اس وقت تقریباً۔۔ بارات نہ آنے کے خوف سے رونے کو تھی۔۔ ایک دم اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔


اور وہ کوئی عام مسکراہٹ نہیں تھی۔۔

ایک بہت ہی خاص مسکراہٹ تھی۔۔ جس میں اس کا اطمینان۔۔ اس کا جوش ، اس کی خوشی اور دلہنوں والی مخصوص شرم ، سب بہت واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے تھی۔۔


اور پھر اس کے دل کی دھڑکن۔۔ وہ بھی الگ ہی لے میں دھڑکنے لگی تھی۔۔ جو بھی تھا۔۔ یا جو بھی ہو۔۔ یہ نکاح کا پیپر اور اس پر دستخط کرنے کا لمحہ۔۔ دھڑکنوں کو بے ربط کر کے ہی رہتا ہے۔۔!!


وہ بھی اسی لمحے کے اثر میں۔۔ اسی لمحے فسوں میں۔۔۔ اپنے بے ترتیبی سے دھڑکتے دل کو قابو کرنے کی ناکام سی کوشش کرتے ہوئے۔۔ کانپتے ہاتھوں سے۔۔ زندگی کو بدل دینے والے اس کاغذ پر۔۔ اپنے دستخط کر کے۔۔ اپنے سب حقوق اس پاگل کے نام کر گئ۔۔


ایک یہ تھی کہ اس کی خوشی اور فرحت سمٹ کر ہی نہیں دے رہی تھی۔۔

اور ایک اس کے دولہے میاں تھے۔۔ جو منہ پھلائے۔۔ اپنی نوک دار ناک پر غصہ سجائے۔۔ اپنے ہر انداز سے۔۔ ناخوش ہونے کا عندیہ دے رہے تھے۔۔


جہاں انوشے کو یہ وقت۔۔ زندگی کا حسین ترین وقت لگ رہا تھا۔۔

وہیں جہانگیر بیٹھا اپنی قسمت کے، اس ان چاہے فیصلے پر کڑھے جا رہا تھا۔۔ اسے یہ وقت۔۔ یہ لمحات۔۔ اسکی زندگی کے بدترین لمحات لگے۔۔


××××××


انوشے رخصت ہو کر۔۔ اپنے سسرال آ چکی تھی۔۔

وہ سرخ گلاب کی پتیوں سے ڈھکے۔۔ اس خوبصورت کمرے کے فرش پر۔۔ سہج سہج کر قدم رکھتی۔۔ بیڈ تک آئی۔۔


فریال بھابھی۔۔ یعنی دولہے صاحب کے بڑے بھائی کی بیگم نے۔۔ اسے سہارا دے کر۔۔ بیڈ پر ٹھیک طریقے سے بیٹھنے میں مدد اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے۔۔ اس کا لہنگا۔۔ بیڈ پر خوبصورتی سے پھیلایا۔۔ انوشے نے جوابی مسکراہٹ اچھالتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔۔


اس کی مسکراہٹ کا انداز خاصہ شرمیلا تھا۔۔

جس پر بھابھی کی ۔۔۔ بے ساختہ ہنسی چھوٹی۔۔

جس پر وہ مزید جھینپ گئی۔۔


بھابھی کا۔۔۔ایسے بار بار ، اسے شرمانے پر مجبور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔ اس لیے وہ۔۔ اسے تنگ کیے بنا ہی۔۔ مسکرا کر الوداع کہتی وہاں سے چلی گئیں۔


ان کے جاتے ہی۔۔ انوشے کچھ دیر تو شرمیلی سی بن کر۔۔ اپنے۔۔ سرتاج کے آنے کا انتظار کرتی رہی۔۔

پر آخر کب تک وہ ایسے رہتی۔۔!!

ان دو دنوں میں وہ۔۔ شرمانے کی اتنی ایکٹنگ کر چکی کہ مزید شرمانے کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔۔


اور اب وہ۔۔ اپنا سارا دلہناپہ بھلائے اپنے بیڈ سے اٹھی۔۔


بھلا کب تک وہ۔۔ اس کا انتظار کرتی۔۔!!

اسے پوری امید تھی کہ وہ جلدی سے تو کسی صورت کمرے میں نہیں آنے والا۔۔۔


سو۔۔ کیوں نہ اتنی دیر میں کمرے کا جائزہ ہی لے لیا جائے۔۔


فرش پر پاؤں رکھتے ہی۔۔ پیروں کے نیچے آنے والی ۔۔۔ گلاب کی نرم پتیاں۔۔ اس کے سارے جسم میں ایک لطیف سا احساس دوڑا گئیں۔۔


اس کمرے کا فرش۔۔ اس کا بیڈ۔۔ اس کی سیج۔۔ ہر چیز صرف اور صرف سچ گلابوں سے سجائی گئی تھی۔۔

جو سرمئی رنگ کی دیواروں اور بلیک فرنیچر سے مزین کمرے کو مزید حسن بخش رہی تھی۔۔


گلابوں کی دھیمی۔۔۔ اور بے انتہا دلفریب خوشبو۔۔ اس کی ہر سانس مہکا رہی تھی۔۔


وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی۔۔ ڈریسنگ ٹیبل تک گئی۔۔


وہاں آئینے میں اپنا حسین سراپا دیکھ کر تو جیسے اس کی اپنی نظریں۔۔ اس پر سے ہٹنے سے انکاری ہوگئیں۔۔۔


بلاشبہ وہ ناقابل بیان حد تک پیاری لگ رہی تھی۔۔


اور اے سی کی کولنگ سے یخ ہوتا کمرہ۔۔ وہ فضا کا معطر پن ۔۔ ماحول کو ۔۔ ایک الگ ہی انداز میں فسوں خیز بنا رہی تھی۔۔


×××××××

اور اے سی کی کولنگ سے یخ ہوتا کمرہ۔۔

وہ فضا کا معطر پن ۔۔ ماحول کو ۔۔ ایک الگ ہی انداز میں فسوں خیز بنا رہی تھی۔۔


وہ آئینے میں نظر آنے والے اپنے وجود کو محویت سے دیکھتے دیکھتے۔۔


اچانک سے کسی عجیب سوچ میں الجھی تھی۔۔


ایک ایک کرکے۔۔ جہانگیر کی سب دھمکیاں اس کے ذہن کے پردے پر گھومنے لگی تھیں۔۔


پہلے تو۔۔ ان دھمکیوں نے۔۔ اس پر رتی برابر بھی اثر نہ کیا۔۔


پر اب وقت بدل چکا تھا۔۔ اب وہ پہلے کی طرح آزاد نہیں تھی۔۔


جہانگیر کے نکاح میں تھی۔۔


یعنی ایک طرح سے اس کے رحم و کرم پر تھی۔۔


ابھی اس نے یہ سب سوچ سوچ کر پریشان ہونا۔۔ شروع ہی کیا تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ ایک کھٹکے سے کھلا۔۔


توقع کے مطابق جہانگیر اندر داخل ہوا۔۔


وہ فل بلیک شیروانی میں بے حد چارمنگ لگ رہا تھا۔۔


اتنا کہ ایک لمحے کے لیے۔۔ انوشے سب کچھ بھلائے صرف اسے گھورتی گئی۔۔


لیکن جہانگیر۔۔!! اس پر تو انوشے کے طلسمی حسن کے کوئی طلسم نہیں چل سکا۔۔


جہانگیر کے چہرے پر چھائے سخت تاثرات۔۔ اس کے سب خدشوں پر پورا اترے۔۔


یعنی وہ اپنی دھمکیوں پر پورا اترنے کے لیے اچھی طرح تیار تھا۔۔


لیکن فی الحال۔۔ اس نے انوشے سے کوئی بات نہ کی۔۔


بلکہ اس نے۔۔ انوشے پر ایک قہر آلود نظر ڈالی اور چہرے کے ایکسپریشنز کو حتی المقدور سخت رکھتے ہوئے۔۔ اس کے پاس سے ہوتا ہوا۔۔ اپنی واڈروب تک گیا۔۔


اپنے لیے ایک لوز سی ٹی شرٹ اور آرام دہ ٹراؤزر نکال کر۔۔ نہانے کے لئے ، واشروم میں گھسا۔۔


اور انوشے پیچھے کھڑی۔۔ سرد آہ بھر کر رہ گئی۔۔


وہ اپنے انداز سے۔۔ اپنے رشتے کی نوعیت۔۔ اس کا کھوکھلا پن اور اس کی کمزوری، بخوبی جتا گیا تھا۔۔


انوشے نے یہ بات زیادہ دل پر نہیں لی۔۔ بس ایک بے زاری تھی۔۔ جو اس کے موڈ پر غالب آ گئی۔۔

اسے کوئی خاص دھچکا بھی نہیں لگا۔۔ کیوں اسے یہ سب ہونے کا پہلے ہی سے ادراک تھا۔۔


اس کی ہمت تھی کہ اس نے جہانگیر کے متعلق ، سب کچھ جانتے بوجھتے۔۔ اور اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود، اپنے والدین کی خوشی کے لیے، اس شادی سے انکار نہیں کیا۔۔


اس کی زندہ دلی تھی۔۔ کہ اس نے ، ہر چیز جانتے بوجھتے بھی ، اپنی شادی ہر لمحہ بھرپور طریقے سے انجوائے کیا۔۔


وہ جانتی تھی کہ جہانگیر اسے خوش دلی سے ، شریک حیات کے طور پر قبول نہیں کر رہا۔۔ پھر بھی۔۔ وہ ایک لمحے کو یہ سب سوچ کر پریشان نہیں ہوئی۔۔

کیوں کہ یہ وقت۔۔ ابھی تک اس پر آیا نہیں تھا۔۔


وہ ان سب مصیبتوں سے گزری نہیں تھی۔۔

اور اس کے نزدیک۔۔ کوئی مشکل آنے سے پہلے۔۔ اس کے خوف سے۔۔ اپنے پر سکون لمحات تباہ کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہے۔۔


وہ "پیش از مرگ واویلا" کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔۔


اسی لیے تو۔۔ "جو ہوگا دیکھا جائے گا" کے مصداق۔۔ اس نے ابھی تک کسی چیز کی ٹینشن نہیں لی تھی۔۔


مگر اب ٹینشن لینے کا وقت آ چکا تھا۔۔

اب جہانگیر کی بے رخی اور اس کے سرد رویوں کا مقابلہ کرنے کا یا انہیں سہہ جانے کا وقت تھا۔۔


اور وہ اس کے لیے تیار تھی۔۔


وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی۔۔ تھکان زدہ انداز سے۔۔ اپنے آپ کو بھاری جیولری سے آزار کرنے لگی۔۔


اور یہ تھکان۔۔ اس پر ایک دم ہی غالب آئی تھی۔۔

شاید جہانگیر کا سرد رویہ تھا۔۔ جس نے اسے اچانک تھکا دیا تھا۔۔ کیوں کہ اسے ایک موہوم سی۔۔ بہت کمزور سی امید تھی کہ شاید وہ اسے خوش دلی سے قبول کر لے۔۔


××××


دراصل جہانگیر اور انوشے ایک دوسرے کے نیبرز تھے۔۔


ان دونوں کے گھروں میں۔۔ یوں سمجھ لیں کہ بس چند انچ کی دیوار کا ہی فاصلہ تھا۔۔


ان دونوں کی فیملیز کے آپس کو بہت اچھے تعلقات تھے۔۔


اور ان اچھے تعلقات میں انیسہ بیگم یعنی جہانگیر کی والدہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔۔


اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ شخصیت کے اعتبار سے نہایت ہی ملنسار خاتون تھیں اور دوسرا یہ کہ ، ان کو انوشے ، جہانگیر کی نسبت سے۔۔ ہمیشہ ہی بہت عزیز تھی۔۔


یعنی وہ ہمیشہ ہی سے۔۔اسے اپنی بہو بنانے کی خواہشمند تھیں۔۔


انہوں نے اپنی اس خواہش کا پہلے تو کسی کے سامنے اظہار نہیں کیا۔۔ مگر جب جہانگیر نے۔۔ اپنی کسی یونیورسٹی فیلو کے ہاں رشتہ لے جانے کو بولا تو انہوں نے جہانگیر کے آگے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے۔۔ اس کے کہے کو یکسر فراموش کیا۔۔


اور عام مدرز کی طرح مخالفت پر اتر آئیں۔۔


مگر جہانگیر کی بار بار کی ضد نے۔۔ انہیں۔۔ اسکی ضد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔۔


وہ ہار مانتے ہوئے۔۔اپنی خواہش کو ایک طرف رکھتے ہوئے۔۔ اپنے بیٹے کی پسند کو احترام بخشنے پر راضی ہوگئیں۔۔


اور اس کی منشا کے مطابق ردا کے گھر رشتہ لے کر پہنچیں۔۔


انیسہ بیگم۔۔ ردا کو دیکھتے ہی بہت خوش ہوئیں۔۔ کیوں کہ اس کے ساتھ ہوئی دو منٹ کی گفتگو کے ذریعے۔۔ اعتراضات کی لمبی لسٹ ان کے ہاتھ لگی۔۔


بے شک وہ جتنے اچھے اخلاق کی مالک ہوں۔۔ لیکن ردا جیسی لڑکی کو ۔۔۔ وہ کسی صورت اپنے بیٹے کی شریکِ حیات کے طور برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔۔

×××××××

بے شک وہ جتنے اچھے اخلاق کی مالک ہوں۔۔ لیکن ردا جیسی لڑکی کو ۔۔۔ وہ کسی صورت اپنے بیٹے کی شریکِ حیات کے طور برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔۔


ان کے گھر آتے ہی جہانگیر نے انہیں گھیر لیا۔۔ اور سامنے بٹھا کر۔۔ آنکھوں میں شوق لیے سوال کیا۔۔"کیسی لگی آپ کو ردا۔۔؟؟"


"ویسے تو وہ ٹھیک ہے۔۔ پر مجھے تمہاری بیوی کے طور پر اچھی نہیں لگی۔۔" انیسہ بیگم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ جیسے انہیں اپنے دل کی بات کہہ کر بڑی خوشی ملی ہو۔۔


جہانگیر ایک دم بگڑا۔۔ "کیوں امی۔۔ایسا کیا مسئلہ ہے اس میں۔۔؟؟"


"بیٹا۔۔ ایک تو وہ لڑکی حد سے زیادہ بے شرم ہے۔۔!! اب تم پوچھو گے کیسے۔۔؟؟؟ تو میں بتا دیتی ہوں۔۔ کہ دیکھو ابھی تو میں صرف اس کو دیکھنے ہی گئی تھی۔۔ اور وہ لڑکی اپنے ماں باپ سے زیادہ بڑھ چڑھ کر اپنی شادی کو ڈسکس کیے جارہی تھی۔۔ گویا۔۔ تڑپ رہی ہو شادی کے لیے۔۔

اب ایسی لڑکی کے بارے میں ، میں کیسے یہ رائے قائم کروں کہ وہ بہت با حیا اور شرم و لحاظ والی ہے۔۔!!"


جہانگیر کو۔۔ اپنی امی کی رائے اور ان کا اعتراض سن کر پتنگا لگا۔۔

"امی۔۔ اب یہ کونسا اعتراض کرنے والی بات ہے۔۔؟؟ وہ زمانہ نہیں ہے یہ کہ لڑکیاں ، رشتے والوں کے سامنے ، منہ میں دوپٹے کا کونہ لے کر شرمائیں۔۔ اور شرما شرما کر آدھا دوپٹہ ہی کھا جائیں۔۔ امی۔۔۔!! یہ نیا زمانہ ہے اور آج کل کی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔"


جہانگیر نے اپنی طرف سے۔۔ بڑی دلیل دے کر۔۔ اپنی امی کا اعتراض رد کیا تھا۔۔


"نہیں بیٹا۔۔ کوئی بھی زمانہ ہو۔۔ کوئی بھی دور ہو۔۔ لڑکی کی شرم و حیاء کا ۔۔ اس کے انداز و اطوار سے پتہ چل جاتا ہے۔۔ اور اس کے علاؤہ اس کا اوڑھنا پہننا۔۔ کہیں سے بھی اسے باحیا ہونے کا ثبوت نہیں دے رہا تھا۔۔"


"کیا امی۔۔ اب آپ نے یہ نیا نقص نکال دیا۔۔ دیکھیں۔۔ یہ تو آج کل کا فیشن ہے۔۔ اس کی مرضی جو بھی پہنے۔۔ اور مجھے اس کی ڈریسنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تو آپ کو کیوں اعتراض ہے۔۔!!"اس نے تڑخ کر جواب دیا۔


"جہانگیر۔۔!! کیا بکواس کر رہے ہو۔۔؟؟ آزاد خیالی کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ بندہ بے حیائی پر آنکھیں بند کر کے بیٹھے۔۔ جہاں تک آج کل کے فیشن کی بات ہے۔۔ تو بیٹا فیشن جس دور کا بھی ہو۔۔!! ایک مسلمان کو اپنی دینی اقدار کا لحاظ کرتے ہوئے اسے فالو کرنا چاہیے نا۔۔ فیشن کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ بندہ عریاں ہی ہو جائے۔۔!! بغیر آستینوں کا، چست اور ٹخنوں سے چھ چھ انچ اونچا لباس پہنے۔۔!!"


"اچھا۔۔۔لیکن امی یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔۔ویسے بھی بندے کو اس کے لباس سے نہیں پرکھنا چاہیے۔۔!! اور جو بھی ہے۔۔ میں اسی سے شادی کروں گا۔۔

آفٹر آل، شی از مائے لو۔۔!!"

جہانگیر نے اخیر ضدی لہجے میں کہا۔۔


ردا۔۔ اس وقت اتنی شدت سے اس کے حواسوں پر سوار تھی کہ کوئی دوسری بات اس عقل میں نہیں آئی۔۔


"بس جہانگیر۔۔!! بہت ہوگیا۔۔!! اب اور بکواس نہیں سنوں گی۔۔!! تم چاہے ناک سے لکیریں لگاؤ یا لاکھ منتیں کرو۔۔ میں قطعاً۔۔ اس لڑکی کو اپنی بہو نہیں بناؤں گی۔۔" انیسہ بیگم کے صاف انکار نے جہانگیر کو مزید بھڑکا دیا۔۔


"تو ٹھیک ہے۔۔ میں بھی آپ کی مرضی کے خلاف جا کر اس سے کورٹ میرج کروں گا۔۔ آپ کو وہ پسند نہیں تو نہ سہی۔۔" اس نے سب لحاظ بھلا کر۔۔ بھرپور تڑی دی۔۔


اس کی یہ بات۔۔ کمرے میں داخل ہوتے۔۔ فیضان آفریدی صاحب یعنی جہانگیر میاں کے ابا حضور نے سنی۔۔


اس کا تمیز سے عاری لہجہ۔۔ انہیں بہت برا لگا۔۔


"برخوردار۔۔!! اپنی ماں سے تمیز سے بات کرو۔۔ اور تحمل سے ان کی بات سمجھو۔۔ اگر وہ بچی واقعی اس لائق ہوتی کہ تمہیں سکھ دے پاتی۔۔ تو تمہاری امی کبھی انکار نہ کرتیں۔۔ میں خود بھی اس بچی سے ملا ہوں۔۔ اس لیے کہتا ہوں کہ چپ چاپ اپنی ماں کی بات مانو۔۔" فیضان صاحب نے اپنے سنجیدہ لہجے میں۔۔ غصے کی تھوڑی سی آمیزش کرتے ہوئے جواب دیا۔


"بہت غلط بات ہے۔۔!! آپ اپنی جوان اولاد پر ایسے اپنا فیصلہ مسلط نہیں کر سکتے۔۔" اس نے اپنے دفاع میں جواب دیا۔


"جہانگیر صاحب۔۔ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔۔ تمہیں ساری زندگی اتنے پیار سے۔۔ پال پوس کر اتنا بڑا کیا ہے۔۔۔ اب ایسے کیسے تمہاری یہ فضول ضد مان کر۔۔ تمہاری باقی کی زندگی برباد کریں۔۔؟؟

اس بچی میں۔۔ ایک بھی ایسا گن دکھائی نہیں دیا۔۔ جسے دیکھ کر ہم تمہاری خواہش پوری کرنے کی حامی بھریں۔۔؟؟" اب کی بار انہوں نے اچھے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔۔


"بابا جان۔۔!! مجھے نہیں پتہ کچھ۔۔!! میں اسی سے شادی کروں گا۔۔!!" وہ ان کی بات ان سنی کر کے وہاں سے جانے لگا۔۔


"اچھا تو پھر شوق سے کرنا۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں۔۔ اس کے گھر والے کیسے کسی فقرے سے اس کی شادی کراتے ہیں۔۔!!" فیضان صاحب نے بھی بڑے شاطرانہ انداز میں جہانگیر کو پھنسایا۔۔


"کیا مطلب۔۔!!" جہانگیر نے پلٹ کر نا سمجھی سے پوچھا۔۔


"مطلب یہ کہ تم نے۔۔ اگر میری اور اپنی ماں کی مرضی کے بغیر کہیں شادی کی تو تمہیں ساری زندگی کے لیے جائیداد اور بزنس سے عاق کردوں گا۔۔ پھر میں دیکھوں گا کہ آسائشوں میں پلی وہ لڑکی کیسے تم سے شادی کرے گی۔۔!!" انہوں نے مسکرا کر کہا۔۔


جہانگیر ان کی بات سن کر مچل کر رہ گیا۔۔


اب وہ محبت میں اتنا اندھا بھی نہیں تھا کہ جائیداد اور بزنس کی اہمیت بھلا کر۔۔ سب چھوڑ چھاڑ کر ردا کے پاس پہنچ جاتا۔۔


اس سب کے بعد انیسہ بیگم انوشے کے گھر اس کا رشتہ لے کر پہنچیں۔۔تو وہاں سے فوراً ہی ہاں ہوگئی۔۔اور دونوں طرف جھٹ پٹ شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔۔ بس شادی کی تاریخ انوشے کے پیپرز کے بعد کی رکھی گئی تھی۔۔


جہانگیر بے بس سا۔۔ اپنے والدین کے فیصلے کا شکار ہوگیا۔۔


وہاں اسے ردا فون پر ایموشنل بلیک میل کرتی کہ تم نے دھوکہ دے دیا۔۔ تم نے اچھا نہیں کیا۔۔۔فلاں فلاں۔۔!!


اور ساتھ ہی وہ، اسکو بار بار فورس کرتی۔۔ کہ اس لڑکی کو سب سچائی بتا کر کہو کہ وہ انکار کر دے۔۔

جب وہ خود سے انکار کرے گی تو تمہارے پاس اپنی بات منوانے کا ایک زبردست موقع ہوگا۔۔


تم اپنے پیرینٹس کو کہہ سکو گے کہ "دیکھ لی اپنی پسند۔۔؟؟ انکار کر کے چلی گئی ہے وہ۔۔"

اور اس کے بعد تم آرام سے اپنی مرضی چلا سکو گے۔۔


جہانگیر کو ردا کی یہ تجویز بہت معقول لگی۔۔


اس لیے وہ بار بار انوشے کے پاس پہنچ کر۔۔ اسے انکار کرنے کے لیے اکساتا۔۔


اس نے ہر بار۔۔ صرف منتوں سے ہی۔۔ اسے انکار کرنے کو بولا۔۔


لیکن اس کے ساتھ آخری دفع کی ملاقات پر۔۔ جب اسے ۔۔ ایک دفع پھر۔۔ انوشے کا ہزار دفع کا دہرایا جواب سننے کو ملا۔۔ تو سچ میں اس کا دماغ ابلا تھا۔۔


اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ لڑکی اس کی بات تو نہیں ماننے والی۔۔ اس لیے۔۔ اسے ۔۔ اس کے ڈھیٹ پنے اور ہٹ دھرمی کی سزا ضرور دے گا۔۔


جہانگیر نے سوچا کہ ٹھیک ہے۔۔ کرنے دیتا ہوں سب کو من مانی۔۔ لیکن سب کو اپنی اپنی من مانیوں کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور بھی میں ہی کروں گا۔۔!!


اس نے ، اس دن۔۔ انوشے کی یونیورسٹی سے آنے کے بعد ردا کو کال کی۔۔ اس نے کال ریسیو کرکے۔۔ جہانگیر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا۔۔ " مجھے پتہ ہے۔۔ تم آج پھر۔۔ اس لڑکی سے "نہ" ہی سن کر آئے ہوگے۔۔!! اب میری بات دھیان سے سنو۔۔!! مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ تم سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔ اس لیے میرا پیچھا چھوڑو اور اپنی شادی کی تیاریاں کرو۔۔"۔ ردا نے اس کی کوئی بات سنے بغیر غصے سے کہا۔۔ اور فون رکھ دیا۔۔


اس کے بعد اس نے۔۔ جہانگیر کی سینکڑوں کالز اور میسیجز میں سے کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔۔


جہانگیر اس سب سے بہت اپ سیٹ ہوا۔۔


اور وہ اس سب کا ذمہ دار انوشے کو سمجھتا تھا۔۔


اس کے خیال میں۔۔ اگر انوشے درمیان میں نہ ہوتی تو وہ کسی نہ کسی طرح۔۔ گھر والوں کو ردا کے لیے منا لیتا۔۔


پر اب تو ہر چیز اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔۔


اب تو اسے سب پر غصہ تھا۔۔۔

اور انتقام کی آگ سی لگ گئی تھی اس کے سینے میں۔۔


وہ سب کو ان کی من مانیوں کی سزا دینا چاہتا تھا۔۔


اس نے بارات والے دن بھی جان بوجھ کر لیٹ کروایا تھا۔۔


وہ اپنے گھر والوں سے ہی چھپ کر کہیں چلا گیا تھا۔۔


اور جس جگا وہ چھپا تھا۔۔ وہاں بیٹھا سب کی پریشانی امیجن کر کر کے خوش ہوتا رہا۔۔


اس کا دل کیا کہ وہ واقعی بارات میں جائے ہی نہ۔۔!!


پر اسے تو بدلہ لینا تھا ناں۔۔ اسے تو انوشے کو اس کی ہٹ دھرمی کی سزا دینی تھی۔۔!!


اس لیے وہ وہاں گیا۔۔!! اور انوشے کو لے کر آیا۔۔!! تاکہ اپنے گھر لا کر ۔۔ اسے اچھی طرح تڑپا سکے۔۔

اچھی طرح ستا سکے۔۔

اس لیے وہ وہاں گیا۔۔!! اور انوشے کو لے کر آیا۔۔!! تاکہ اپنے گھر لا کر ۔۔ اسے اچھی طرح تڑپا سکے۔۔

اچھی طرح ستا سکے۔۔


×××××


آج کے دن ولیمہ تھا۔۔

کل سے لے کر اب تک۔۔

دونوں کے درمیان ایک طویل خاموشی قائم رہی۔۔


اور دونوں ہی نے اسے توڑنے کی کوشش نہیں کی۔۔


انوشے۔۔ بس جہانگیر کے کچھ کہنے یا بولنے کے انتظار میں رہی۔۔


اور وہ خاموشی اختیار کیے بیٹھا رہا۔۔


ایسے وقت پر۔۔ وہ اس طرح خاموش رہ کر۔۔

انوشے پر اس کے غیر اہم ہونے کا احساس ظاہر کرنا چاہتا تھا۔۔

یہ سب جتانے کا۔۔ اس کا اپنا ہی انداز تھا۔۔


انوشے نے ابھی تک، اس لیے کوئی پیش قدمی نہیں کی تھی۔۔

کیونکہ وہ۔۔ جہانگیر کو آبزرو کر رہی تھی۔۔


وہ اس کا رویہ جانچ رہی تھی۔۔


وہ اس کی ذات کے اندر جھانک کر اسے سمجھنے کی کوشش میں تھی۔۔


××××


ولیمہ کے بعد سب لوگ گھر واپس آچکے تھے۔۔۔۔


اس وقت انوشے ، بیڈ پر بیٹھی۔۔ اپنا ڈل گرے کلر کا خوبصورت برائیڈل گاؤن سنبھالتے ہوئے۔۔

ہیلز کی اسٹریپس کھول کر، اپنے پاؤں کو ان جوتوں سے آزاد کرانے میں مشغول تھی کہ جہانگیر تن فن کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔


اس کے انداز میں جلد بازی صاف جھلک رہی تھی۔۔۔


وہ ہنوز بغیر کوئی بات کیے اور انوشے کے وجود کو یکسر فراموش کیے اپنی واڈروب کی طرف بڑھا۔۔


اس نے اس الماری کے ایک پورشن میں سے۔۔ ایک بڑے سائز کا سفری بیگ نکالا۔۔


اس کے اٹھانے کے انداز سے۔۔ وہ بیگ سامان سے بھرا ہوا معلوم ہوتا تھا۔۔


جہانگیر نے وہ بیگ کھسکا کر دروازے کے قریب رکھا اور تیزی سے ، کچھ دوسری ضروری چیزیں اکھٹی کر کے وہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھیں۔۔


انوشے اس کی ہر حرکت۔۔ بہت تعجب سے نوٹ کر رہی تھی۔۔


اس سے پہلے کہ وہ ایسے ہی بغیر بتائے کہیں جاتا۔۔


انوشے نے ہمت کر کے۔۔ خود سے ہی سلسلۂ کلام شروع کیا۔۔


"یہ تم کہاں جانے کی تیاری کررہے ہو۔۔؟؟" وہ دونوں ہاتھ کمر پر باندھے بہت استحقاق سے جہانگیر سے سوال کرنے لگی۔۔


جہانگیر۔۔ جو اپنا بیگ کھول کر۔۔ ان۔۔ سائیڈ ٹیبل پر موجود چیزوں کو ، وہیں بیگ میں ایڈجسٹ کرنے میں لگا ہوا تھا۔۔ اس نے اچنبھے سے انوشے کی طرف دیکھا۔۔اور انتہائی ناگواری سے گویا ہوا۔۔


" میں جہاں بھی جاؤں۔۔ میری مرضی۔۔!! تمہارا اس سے کیا لینا دینا۔۔!! اپنے کام سے کام رکھو۔۔ سمجیں۔۔!!"


"آف کورس۔۔!! تمہاری مرضی ہے۔۔!! جہاں مرضی جاؤ۔۔ لیکن ایک بات میں تمہیں بتادوں کہ ، میرا تم سے لینا دینا ہے۔۔ الحمدللّٰه ، تمہاری بیوی ہونے کی حیثیت سے۔۔ سوال و جواب کا حق رکھتی ہوں۔۔" انوشے نے اترا کر جواب دیا۔۔


"بیوی ہو تو کیا ہواا۔۔!! میرا نہیں خیال کہ میں نے تمہیں ایسے سوالات کرنے کا کوئی حق دیا ہے۔۔!! سو اس لیے اپنی اوقات میں رہو اور میرے معاملوں میں ٹانگ مت اڑاؤ۔۔۔اور ہو سکے تو اس وقت اپنی شکل۔۔ میرے سامنے سے دفع کرو۔۔" اس نے بے عزتی کرنے والے لہجے میں گُھرکا ۔۔


جہانگیر کا لب ولہجہ، اس کی منشاء کے مطابق انوشے کو جلانے میں کارگر ثابت ہوا۔۔


لیکن انوشے نے بے تحاشہ تحمل سے ، اس کی گھرکی برداشت کی۔۔


وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ جہاں کہیں بھی جا رہا ہے۔۔ اکیلے جارہا ہے۔۔!! اور اگر اس نے ساتھ جانے کو بولا تو وہ کبھی نہیں لے کر جائے گا۔۔


وہ اس کے ساتھ جانا چاہتی تھی۔۔


جو بھی تھا۔۔ وہ اس وقت اسے اکیلا چھوڑ کر۔۔ اپنے رشتے کو مزید کمزور نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔


اس لیے وہ فوراً ری ایکٹ کرنے کی بجائے ذرا سوچ کر بولی۔۔


"مسٹر جہانگیر۔۔!! میری بلا سے تم جہاں کہیں بھی جاؤ۔۔!! انفیکٹ جہاں کہیں بھی دفع ہو۔۔!! مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔

اور سنو۔۔ وہ تمہاری ساری دھمکیاں کہاں گئیں۔۔؟؟

آئی میں تم نے تو میری زندگی جہنم بنانی تھی۔۔ بٹ۔۔ تم تو میدان چھوڑ کر ہی بھاگ رہے ہو۔۔!!" انوشے طنزیہ ہنسی، ہنستے ہوئے بولی۔۔


اس کے انداز پر جہانگیر بھن کر رہ گیا۔۔


انوشے کو اس کے ایکسپریشنز دیکھ کر بڑا مزا آیا۔۔


وہ اسے قہر آلود پلس زہر آلود نظروں سے گھور رہا تھا۔۔


اس کا دل کیا کہ ابھی انوشے کو دو لگائے اور اس کی بولتی بند کرے۔۔


لیکن اب وہ اتنا بھی گیا گزرا نہیں تھا کہ نئی نویلی دلہن پر ہاتھا پائی شروع کر دیتا۔۔۔


سو اس لیے۔۔ صرف اپنے تاثرات سے۔۔ اسے وارن کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔


اسے خاموش دیکھ کر انوشے پھر بولی۔۔


"ویسے شکر ہے تم جا رہے ہو۔۔!! ورنہ تم جیسے سڑیل کے ساتھ رہنے سے اچھا۔۔ بندہ اکیلا ہی رہے۔۔۔


ہائے۔۔ مجھے تو ابھی سے سوچ کر مزہ آ رہا ہے۔۔!!

کیا سکون سے رہوں گی نا میں۔۔!!


میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ شادی کے بعد۔۔ مجھے ایسی کوئی نعمت ملے گی۔۔!!


اف۔۔!! جہانگیر۔۔ یو آر سو سوئیٹ۔۔!!

شاباش۔۔ جلدی سے اپنا سامان باندھو۔۔ اور جلدی سے جانا۔۔اوکے۔۔؟؟ لیکن سنو ، تم واپس جلدی۔۔ سے مت آنا۔۔"

اس نے دنیا جہان کی مسرت ، خود پر طاری کرتے ہوئے۔۔ ایک گہری مسکراہٹ سے۔۔ جہانگیر کو جال میں پھانسا۔۔


اور وہ سچ مچ ، پھنسا تھا۔۔

وہ سچ مچ اس کے دام میں آیا تھا۔۔


اس لیے تو۔۔ جہانگیر۔۔ انوشے کی مسکراتی شکل دیکھ کر۔۔ فوراً۔۔ اس کی خوشی پر پانی پھیرنے والے انداز میں بولا۔۔۔


"ایک بات بتاؤ۔۔!! تمہیں یہ کس نے بولا ہے کہ تم میرے ساتھ نہیں جارہیں۔۔۔؟؟"

جہانگیر۔۔ بے چارے نے فل۔۔ ظالمانہ انداز میں ، انوشے پر بم پھوڑا۔۔


انوشے کو اس وقت وہ بہت ہی بے چارہ لگا۔۔


وہ اتنی جلدی اس کی باتوں میں آ گیا تھا۔۔


انوشے کا دل کیا کہ اس کی بے وقوفی پر گلا پھاڑ کر قہقہے لگائے۔۔ پر وقت قہقہے لگانے کا نہیں تھا۔۔


سو اس نے اپنے جذبات پر کنٹرول کرکے۔۔

حیران ہونے کی زبردست ایکٹنگ کی۔۔!!

جیسے، اس پر سچ مچ کا بم پھوڑا گیا ہو۔۔!!


"نہیں جہانگیر۔۔!! یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔؟؟ ت تم تو اکیلے جارہے تھے۔۔ دیکھو۔۔ مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا۔۔ پہلے ہی تم نے مجھے اتنا دھمکایا ہوا ہے۔۔ وہاں تو تمہیں موقع مل جائے گا مجھ پر کھلے عام ظلم و ستم کرنے کا۔۔۔!! نہ بابا نہ۔۔ میں کہیں نہیں جارہی۔۔۔" وہ رونی صورت بنا کر بولی۔۔۔ جیسے وہ جہانگیر کی بات پر بہت سہمی ہو۔۔!!

وہ رونی صورت بنا کر بولی۔۔۔ جیسے وہ جہانگیر کی بات پر بہت سہمی ہو۔۔!!


"اوہ محترمہ۔۔ اپنے یہ ڈرامے بند کرو۔۔ آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس۔۔ یہ اپنا یہ "عروسی جوڑا" بدلو اور اپنی پیکنگ کرو۔۔ تم میرے ساتھ جاؤ گی۔۔!! میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔۔ اب میں اس کے آگے کوئی سوال نہ سنوں۔۔!!" اس نے "عروسی جوڑے" پر زور دیتے ہوئے، لہجے میں دہشت اور غصہ پیدا کرتے ہوئے کہا۔۔


"پر۔۔ جہانگیر۔۔!! مجھے نہیں جانا۔۔" انوشے نے آنکھوں میں آنسو تک بھر لیے۔۔


یہ دیکھ کر۔۔ جہانگیر کو ذرا سکون ہوا۔۔


وہ اسے رلانا ہی تو چاہتا تھا۔۔


انوشے نے کچھ دیر تک۔۔ اس سے یہی بحث جاری رکھی۔۔ اور آخر شکست تسلیم کرنے کا ناٹک کرتے ہوئے۔۔اپنی میکسی سنبھالتی۔۔ واڈروب کی طرف بڑھنے لگی۔۔ اور وہاں سے ایک آرام دہ سا ڈریس نکال کر۔۔ واشروم کی طرف بڑھی۔۔


"وہاں کہاں جارہی ہو۔۔!!" جہانگیر تیزی سے چل کر اس کے پاس آیا۔۔


"اپنا "عروسی جوڑا" چینج کرنے۔۔" انوشے کا انداز خفا اور مظلومانہ تھا۔۔


"رکو یہیں پہ۔۔" وہ کہتا جلدی سے واڈروب کی طرف بڑھا۔۔ اور وہاں سے اپنے لیے ، جلدی سے جینز اور ٹی شرٹ نکالی۔۔ اور بھاگ کر واشروم کے دروازے کے آگے کھڑا ہوگیا۔۔


انوشے اس کی، ان عجیب حرکتوں پر حیران ہوکر دیکھ رہی تھی۔۔

اور ساتھ میں الجھ بھی رہی تھی۔۔ ایک تو وہ اپنا اتنا بھاری ڈریس کب سے پہنے پہنے ، بالکل ہی تھک چکی تھی۔۔ اور جلدی سے۔۔ اس سے چینج کر کے ریلیکس ہونا چاہتی تھی۔۔ اوپر سے جہانگیر کی حرکتیں۔۔!!

اسے ، اس پر تھوڑا غصہ آیا۔۔ ہر سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے۔۔ وہ فی الحال۔۔ اسے پی گئی۔۔


جہانگیر اس کے اس کے ایکسپریشنز دیکھ کر بڑا خوش ہوا۔۔


اس وقت۔۔ وہ سچ میں تنگ ہوئی تھی۔۔ اور جہانگیر کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ انوشے کو ستائے اور انوشے اس سے تنگ ہو۔۔


"ہٹو نا سامنے سے۔۔ مجھے چینج کرنا ہے۔۔" اس نے بہت معصومیت سے۔۔ اپنی جھنجلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔


"نہیں میڈم۔۔ تم جاؤ۔۔ اپنی پینکنگ کرو۔۔ ویسے ہی ہمیں آدھے گھنٹے تک نکلنا ہے۔۔ تب تک میں ذرا نہا دھو کر فریش ہو جاؤں۔۔" وہ زہر خند مسکراہٹ اچھالتے ہوئے۔۔ جلدی سے اندر گیا۔۔ اور پٹخ کر دروازہ بند کیا۔۔


انوشے۔۔ وہاں غصے سے ناک پھلاتی۔۔ جل بھن کر رہ گئی۔۔


خیر اب کیا ہوسکتا تھا۔۔

سو اس نے، مشکل سے۔۔ اپنا ڈریس سنھبالتے ہوئے۔۔ اپنا بیگ نکالا۔۔ اور گھسیٹ کر بیڈ کے پاس لا کر رکھا۔۔


پھر اس نے۔۔ اپنی واڈروب میں لٹکے۔۔ سارے کپڑے اٹھا کر ، بیڈ پر پھینکے۔۔ اور ایک ایک کر کے۔۔ انہیں بیگ میں ٹھونسنے لگی۔۔


لیکن وہ بالکل بھی۔۔ آرام سے ، یہ کام نہیں کر پارہی تھی۔۔ آخر اسے ایک ترکیب سوجھی۔۔


اس نے جاکر اپنے کمرے کے دروازے کو اچھی طرح لاک کیا۔۔

جہانگیر۔۔اندر واشروم میں تھا۔۔ اور نہا رہا تھا۔۔

اس لیے انوشے نے مطمئن ہوکر۔۔

وہیں کپڑے چینج کیے۔۔

اور مزے سے۔۔ ہلکی پھلکی ہوکر۔۔ اپنی پیکنگ کرنے لگی۔۔


وہ ضرورت کی۔۔ تقریباً سبھی چیزیں۔۔ اپنے بیگ میں ٹھونس چکی تھی۔۔


جہانگیر جب باہر نکلا۔۔ تو اس وقت وہ بیگ کی زپ کررہی تھی۔۔


اور سادہ سے حلیے میں۔۔ اسے سکون سے بیٹھا دیکھ کر۔۔ جہانگیر کو تپ چڑھی۔۔ پر اس وقت وہ خود پر کنٹرول کر گیا۔۔


وہ غصے میں ، شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا۔۔ اور نظریں۔۔ گاہے بگاہے۔۔ بیڈ پر بیٹھے اس وجود کا محاصرہ کررہی تھیں جو ۔۔ وہاں سکون سے بیٹھی۔۔ جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے۔۔ میک ریمور، سے میک اپ ہٹانے میں مشغول تھی۔۔


اس کے چہرے کا سکون۔۔ جہانگیر کو بری طرح کھل رہا تھا۔۔۔

کیوں کہ اس کے حساب سے۔۔ تو اسے بہت اداس اور بے چین ہونا چاہیے تھا۔۔ آخر وہ اس کی مرضی کے خلاف اسے ساتھ لے کر جا رہا تھا۔۔


خیر۔۔ اس نے اپنے اس خیال کو وہم سمجھتے ہوئے جھٹکا۔۔


اور اس کی طرف پلٹ کر چلنے کو بولا۔۔


وہ جلدی سے اٹھی۔۔


"دو منٹ رکو۔۔ میں ذرا اپنا منہ دھو آؤں۔۔" انوشے نے کہا۔۔


اور پورے دس منٹ بعد۔۔ محترمہ۔۔ منہ کو ، تولیے سے۔۔ آہستہ آہستہ خشک کرتی ہوئی۔۔ جہانگیر کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی۔۔ "اب میں بالکل ریڈی ہوں۔۔چلو اٹھو۔۔ چلتے ہیں۔۔" انوشے سادگی سے بولی۔۔


اور جہانگیر غصے میں۔۔ سلگتا ہوا۔۔ اسے دیکھ رہا تھا۔۔


کہاں اس نے آدھے گھنٹے کا وقت دیا تھا۔۔ اور کہاں۔۔ ان سب چکروں میں۔۔ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔۔!!


وہ غصے سے تن فن کرتا۔۔ اپنے بیگ کا ہینڈل باہر نکال کر۔۔ اسے گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر نکلا۔۔

"یہ اپنا بیگ ، خود اٹھا کر لانا۔۔" وہ اونچی آواز میں۔۔ چڑ کر کہتے ہوئے۔۔ وہاں سے جانے لگا۔۔


اور انوشے ، مچل کر رہ گئی۔۔ " ہنہ۔۔ کھڑوس کہیں کا۔۔ شرم نہیں آتی۔۔ بیوی سے بوجھ اٹھواتے ہوئے۔۔" اس نے دل ہی دل میں جل کر کہا۔۔ اور اپنی نازک سی جان کو مشقت میں ڈالتی۔۔ جہانگیر کے حکم کی تعمیل کرتی اس کے پیچھے چلی۔۔


وہ لوگ لاونج تک آئے تھے ۔۔۔ کہ جہانگیر رکا۔۔

اس کے امی، بابا وہیں۔۔ وہاں بچھے صوفوں پر براجمان تھے۔۔ جو ان دونوں کے ہاتھوں میں سفری بیگ دیکھ کر۔۔ بری طرح ٹھٹکے۔۔


"بیٹا۔۔ اتنی جلدی۔۔ ہنی مون پر جارہے ہو؟؟"انیسہ بیگم انہیں دیکھ کر۔۔ فوراً حیرانی سے بولیں۔۔

بیٹا۔۔ اتنی جلدی۔۔ ہنی مون پر جارہے ہو؟؟"انیسہ بیگم انہیں دیکھ کر۔۔ فوراً حیرانی سے بولیں۔۔


جہانگیر نے چونک کر ان دونوں کو دیکھا۔۔


اس نے بے یقینی سے اپنی اماں حضور کو دیکھا۔۔


ان کی یہ بات۔۔ اس کی سوچ کے بالکل برعکس نکلی۔۔


اسے ایک دفع بھی خیال نہ آیا کہ اس کے اتنی سنجیدگی سے گھر چھوڑنے والے کام کو ہنی مون بنا دیا جائے گا۔۔


بہر حال۔۔ اس نے اپنی سوچوں میں وقت ضائع کیے بغیر۔۔

فوراً ہی ، اپنی امی کے اس غلط اندازے کی تصیح کی۔۔


"ہنی مون پر نہیں گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔۔" اس نے غضب ناک تیور لیے کہا۔۔


"کیا۔۔" انیسہ بیگم کا منہ حیرت سے کھلا۔۔


اور جہانگیر کے بابا الگ سرپرائز ہوئے۔۔


"جی۔۔ ہاں۔۔ غور سے سن لیں۔۔اور مجھے روکنے کی کوشش مت کیجئے گا۔۔ آپ لوگوں کی جائیداد۔۔ آپ لوگوں کا بزنس ۔۔ آپ لوگوں کو مبارک ہو۔۔!!

مجھے اب اس میں سے کچھ نہیں چاہیے۔۔!!" اس کے لہجے میں۔۔ اپنی ساری دولت۔۔ ساری جائیداد کے لیے تحقیر تھی۔۔


اسے واقعی اب ، اس سب میں سے کچھ نہیں چاہیے تھا۔۔


اس کے بابا۔۔ بے تحاشہ حیران ہوئے۔۔


جہانگیر کا یہ قدم۔۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔۔


"لیکن کیوں بیٹا۔۔؟؟ یہ سب تمہارا اور تمہارے بھائی کا ہے۔۔ پھر چھوڑنے کی کیا ضرورت۔۔؟؟" انیسہ بیگم نے تڑپ کر کہا۔۔


"نہیں امی۔۔ اگر میرا ہوتا۔۔ تو اس پر میرا حق مانا جاتا۔۔ مجھ پر یہ نہ جتایا جاتا۔۔ کہ کسی بھی وقت۔۔ آپ کے کسی فیصلے سے انکار پر یہ سب میرا نہیں رہے گا۔۔" وہ اپنے والدین سے بے حد ظن تھا۔۔اور شکوہ کناں نظروں سے اپنے بابا کو دیکھتے ہوۓ۔۔ گلہ کرنے لگا۔۔


اور فیضان صاحب۔۔ خاموشی سے سارا ڈارمہ دیکھتے گئے۔۔


"نہیں۔۔ بیٹا۔۔ وہ سب تو تمہارے بھلے کے لیے تھا۔۔ اب چاہو تو۔۔ ابھی کے ابھی تمہارا حصہ تمہارے نام کردیتے ہیں۔۔" انیسہ بیگم نے۔۔ اس کی بات سچ مچ دل ہرلی۔۔ اور تڑپ کر کہا۔۔


"میرا بھلا۔۔؟؟ ہنہ !! مائی فٹ۔۔!!

مجھ پر ۔۔ اپنی مرضی تھوپ کر کہہ رہے ہیں کہ میرے بھلے کے لیے کیا۔۔!!

ارے جائیں آپ لوگ۔۔!!

جھوٹے بہانوں کی کوئی ضرورت نہیں۔۔!!

اور میں نے کہہ دیا ناں۔۔ کہ میرا آپ کی جائیداد سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔!! جس کے لیے۔۔ یہ سب چاہیے تھا۔۔ اسے تو آپ لوگوں نے میری پہنچ سے دور کر دیا۔۔!!

اب بتائیں۔۔ میں اچار ڈالوں آپ کی جائیداد کا!!"

وہ بری طرح دھاڑا۔۔ اس کی آنکھوں میں غصے۔۔ اور دکھ کی شدت سے ، لال لکیریں ابھرنے لگی تھی۔۔


اسے دکھ تھا۔۔ ردا کو کھونے کا۔۔!!


"انیسہ بیگم خاموش۔۔!! ذرا مجھے بات کرنے دیں۔۔ برخوردار سے۔۔!!" فیضان صاحب آٹھ کر جہانگیر کے سامنے آ کر کھڑے ہوئے۔۔


انیسہ بیگم۔۔ بس پریشان سی۔۔ اپنے آنسو روکنے کی کوشش میں تھیں۔۔


اور انوشے۔۔ جہانگیر کے پیچھے۔۔ بت بنی کھڑی رہی۔۔۔


"میرے بچے۔۔ جہاں جاتا ہے چلا جا۔۔ تیری مرضی۔۔ تو جانے۔۔!! لیکن ہماری بہو تیرے ساتھ نہیں جائے گی۔۔خود تو خوار ہوگا کہہ ہوگا۔۔ ساتھ میں اس معصوم کو بھی کرے گا۔۔" انہوں نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس پر اپنا حکم صادر کیا۔۔


"بابا۔۔ یہ میری بیوی ہے۔۔ اور وہاں رہے گی۔۔ جہاں میں اسے رکھوں گا۔۔" اس نے بھی بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے ان کے حکم کی نفی کی۔۔


"فیضان صاحب نے اسے اگنور کیا اور انوشے کی طرف متوجہ ہوئے۔۔ وہ اس کی مرضی پوچھنا چاہتے تھے۔۔

کیوں کہ وہ تو بہو تھی۔۔ اس پر زبردستی حکم چلانا۔۔ انہیں شیوہ نہیں دیتا تھا۔۔

"بیٹا۔۔ تم بتاؤ۔۔ تم اپنی خوشی سے اس نکمے کے ساتھ جارہی ہو۔۔"

انہوں نے پیار سے پوچھا۔۔


اب مصیبت تو انوشے پر آئی تھی۔۔

اگر وہ کہتی کہ اپنی مرضی سے جا رہی ہے تو جہانگیر کے آگے جواب دینا پڑتا۔۔


اور اگر کہتی کہ اس مرضی نہیں ہے تو۔۔ فیضان صاحب۔۔ جہانگیر کو آڑے ہاتھوں لیتے۔۔


لیکن جو بھی تھا۔۔ وہ جہانگیر پر فی الحال یہ بات ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے جارہی ہے۔۔

اس لیے۔۔ وہ مظلوموں والی شکل بنا کر بولی۔۔


"نہیں انکل۔۔ میں نے تو جہانگیر کو بولا تھا کہ مجھے نہیں جانا۔۔"


اس کی مظلومانہ حالت دیکھ کر۔۔ جہانگیر کے کلیجے کے اندر تک ٹھنڈ پہنچی۔۔


فیضان صاحب۔۔ انوشے کی بات سن کر۔۔ ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولے۔۔

"ہاں تو بچے۔۔!! ہوگیا فیصلہ۔۔!!

یہ میری بچی تیرے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔۔!!

تجھے جہاں بھی جانا ہے۔۔ اکیلے جا۔۔" ان کا انداز بالکل اٹل تھا۔۔


"بابا۔۔!! آپ مجھ پر ۔۔ اب کوئی زبردستی نہیں کرسکتے۔۔!!

یہ میری بیوی ہے۔۔!!

اس حیثیت سے یہ میرے ساتھ ہی جائے گی۔۔!!

اور اگر آپ نے کوئی زور زبردستی کی۔۔ تو آپ کی اس بچی کو۔۔ یہیں کھڑے کھڑے طلاق دے دوں گا۔۔

میرا خیال ہے کہ اب مجھے دوبارہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔" جہانگیر نے ، کڑواہٹ بھرے لہجے میں سب کو سانپ سونگھا دیا۔۔


وہاں کھڑے سب لوگوں کو جہانگیر سے۔۔ اتنی سنگین دھمکی کی امید نہیں تھی۔۔ حتیٰ کہ انوشے کو بھی نہیں تھی۔۔


خیر۔۔ اب اسے روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔۔


لہٰذا اسے جانے دیا گیا۔۔


اس بدتمیز پر جانے کی اتنی جلدی سوار تھی کہ اپنے بھائی بھابھی سے بھی نہیں ملا۔۔


××××


وہ لوگ جانبِ منزل۔۔ رواں دواں تھے۔۔


جہانگیر۔۔ ہنوز، اپنے چہرے پر تاثرات کی سختی کو برقرار رکھے ہوئے ڈرائیونگ میں مشغول تھا۔۔


اور انوشے۔۔ سڑا ہوا منہ بنائے۔۔ کار کی ونڈو سے۔۔ مسلسل باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی۔۔


اسے جہانگیر پر بڑی تپ چڑھی ہوئی تھی۔۔

کیوں کہ وہ اس کی سوچ سے زیادہ بدتمیز نکلا تھا۔۔


کیسے آرام سے اس نے طلاق والی بات کہہ دی تھی ناں۔۔!!

اور اوپر سے۔۔ اس نے انوشے کو اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بھی نہیں بیٹھنے دیا۔۔


اس لیے انوشے۔۔ جلی بھنی بیٹھی۔۔ دل ہی دل میں اسے کوس رہی تھی۔۔


جہانگیر کو ڈرائیونگ کرتے ایک گھنٹہ ہوچکا تھا۔۔


دونوں کے درمیان خاموشی ابھی تک حائل تھی۔۔


جسے انوشے کی بےچین سی آواز نے توڑا۔۔


اب بھلا وہ کب تک خاموش رہتی۔۔ آخر کو لڑکی تھی۔۔ اور لڑکیوں کے لیے یہ کام ناممکنات میں سے ایک ہوتا ہے۔۔


"جہانگیر۔۔ پلیز۔۔ کہیں سے کچھ کھانے کو لے دو۔۔ قسم سے بہت بھوک لگی ہے۔۔ " وہ مرے مرے انداز میں۔۔ انتہائی آہستہ سپیڈ میں منمائی۔۔

"جہانگیر۔۔ پلیز۔۔ کہیں سے کچھ کھانے کو لے دو۔۔ قسم سے بہت بھوک لگی ہے۔۔ " وہ مرے مرے انداز میں۔۔ انتہائی آہستہ سپیڈ میں منمائی۔۔


"کیا۔۔؟؟ تمہیں کھانا چاہیے۔۔؟؟ ابھی ایک گھنٹہ ہی تو ہوا ہے، ہمیں نکلے ہوئے۔۔! اور ابھی سے تمہیں بھوک لگ گئی۔۔ گھر سے نہیں کھا پی کر آ سکتی تھیں۔۔؟؟" جہانگیر ناک پر بے وجہ کا غصہ دھرے۔۔ نان اسٹاپ ، انوشے پر چڑھ دوڑا۔۔


جیسے وہ کافی۔۔ دیر سے خاموش بیٹھا تنگ آ گیا تھا۔۔

اور بولنے کی تاک میں ہی بیٹھا تھا۔۔


اس کی بات پر انوشے نے اسے گھور کر دیکھا۔۔


"کہہ تو ایسے رہے ہو۔۔ کہ جیسے تم نے کھانے پینے کا وقت بہت زیادہ دیا تھا۔۔

میں کہہ رہی ہوں بہت ہوگا۔۔

کہیں کار روکو اور مجھے کچھ لے کر دو۔۔"

انوشے بگڑ کر بولی۔۔


ایک تو اس سے بھوک برداشت نہیں ہورہی تھی۔۔ اور اوپر سے جہانگیر کی بے تکی جھڑک۔۔!!


اسے بری طرح غصہ آ رہا تھا۔۔


"جو بھی ہو۔۔!!

میں نے تمہیں کچھ نہیں لے کر دینا۔۔

چھ گھنٹے کی ڈرائیو ہے۔۔ اور مجھے جلد سے جلد پہنچنا ہے۔۔!!

اس لیے اب مجھے ڈسٹرب مت کرنا۔۔

اور اب اپنی زبان بند رکھنا۔۔!!"


لو جی۔۔ ابھی تو وہ خود۔۔ خاموشی سے اکتایا ہوا لگ رہا تھا۔۔ اور اب خود ہی اسے بولنے سے منع کررہا تھا۔۔


"مطلب کیا ہے تمہارا۔۔ہاں؟؟

اتنی دیر میں بھوکی بیٹھی رہوں گی۔۔؟؟"

انوشے تڑخ کر ، بولی۔۔


"ہاں یہی سمجھ لو۔۔" اس نے لاپروائی سے کہا۔۔


اس کی بات سن کر انوشے منہ بنا کر بیٹھ گئی۔۔ اور ایک غصیلی نظر۔۔ کار کے بیک ویو مرر پر گاڑھے ہوئے۔۔ جہانگیر کو گھورنے لگی۔۔


جہانگیر کی نظر۔۔ مرر پر سے ہوتی ہوئی اس تک گئی۔۔

ایک دم ہی ، اس کے تنے ہوئے چہرے کے تاثرات ڈھیلے پڑے تو تھے۔۔


اور اسے اس وقت، انوشے کی شکل دیکھ کر، ہنسی آنے والی تھی۔۔ جسے اس نے بروقت روکا۔۔


اور کچھ دیر بعد ہی ، اس نے ایک جگہ کار روکی۔۔ خود باہر نکلا۔۔

اور انوشے کے نکلنے سے پہلے ہی۔۔ کار کو لاک کر دیا۔۔


انوشے ، بری طرح تلملائی تھی۔۔


اسے، جہانگیر کی یہ حرکت، بالکل سمجھ نہیں آئی۔۔


مگر وہ پھر بھی۔۔ اپنا غصہ پیتی۔۔ خاموشی سے بیٹھی رہی۔۔


پھر نجانے اسے کیا سوجھی تھی کہ وہ۔۔ اپنی جگہ سے ذرا ہلی۔۔ اور اٹھ کر ، فرنٹ سیٹ پر ہی جا کر بیٹھ گئی۔۔


"یہ بدتمیز۔۔ میری بات نہیں مانتا۔۔!! تو میں کیوں ، اسکی مانوں۔۔!! یہ اب کچھ کہہ کر دکھائے۔۔!! بدتمیز انسان۔۔!! جو مرضی کر لے یہ۔۔!! اب میں نے نہیں ہلنا یہاں سے۔۔!! آیا بڑا حکم چلانے والا۔۔"

بھوک سے بے حال ہوتی انوشے نے۔۔ سارا تحمل۔۔ بھاڑ میں بھیج کر۔۔ دل ہی دل میں ، خوب باتیں سنائیں۔۔


وہ جلتی کڑھتی۔۔ جہانگیر کا ویٹ کر رہی تھی۔۔

"اللّٰه جانے کہاں بھاگ گیا ہے۔۔

ابھی تو کہہ رہا تھا کہ ڈسٹرب مت کرو مجھے۔۔ میں نے جلدی سے پہنچنا ہے۔۔ اور اب خود ہی غائب ہوگیا۔۔"


وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے، سامنے سے۔۔ وہ آتا ہوا دکھائی دیا۔۔


اور وہ خالی ہاتھ نہیں تھا۔۔ بلکہ اس کے ہاتھ میں کے۔ایف۔سی کا پارسل موجود تھا۔۔


"ہائے۔۔!! یہ میرے لیے۔۔ کھانا لینے گیا تھا۔۔!!!" انوشے نے خوش ہوتے ہوئے۔۔ بہت محبت سے۔۔ جہانگیر کو دیکھتے ہوئے سوچا۔۔


اس کی ساری جلن، کڑھن رفو چکر ہوئی تھی۔۔


جہانگیر نے۔۔ کار میں بیٹھتے ہی پارسل اسے تھمایا۔۔۔


اور بالکل خاموشی سے کار اسٹارٹ کر کے پھر سے ڈرائیونگ کرنے لگا۔۔


اس نے۔۔ اس کے فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے پر بھی غصہ نہیں کیا۔۔ نہ اسے اٹھایا اور نہ ہی کوئی بحث کی۔۔


انوشے کو۔۔ اس کے رویے کی اس اچانک تبدیلی نے حیران کیا۔۔


مگر فی الحال ، اس سلسلے میں ، بحث کا ارادہ ترک کرتی۔۔ وہ بھی خاموش ہی رہی۔۔ اور پورے دھیان سے۔۔ اپنا زنگر، ٹھونسنے لگی۔۔


کیوں بحث تو اس نے ہر صورت کرنی تھی۔۔

لیکن اس کے لیے اسے انرجی درکار تھی۔۔

جو کھائے بغیر کہاں ملنے والی تھی۔۔


انوشے نے برگر چٹ کرنے کے بعد۔۔ اپنے ہاتھ ٹشو سے صاف کیے۔۔

"کولڈ ڈرنک" ،جو جہانگیر ساتھ ہی لایا تھا۔۔اس کو منہ لگا کر۔۔ ایک منٹ میں ختم کیا۔۔ اور دانت پھاڑتے ہوئے۔۔ اس کو تھینکس بولا۔۔


جہانگیر نے۔۔ کوئی رسپانس دیے بنا۔۔ ہنوز۔۔ خاموشی برقرار رکھی۔۔ اور دل میں کہا


"بھوکی نہ ہو تو۔۔!! کھا پی کر تھینکس بول رہی ہے۔۔!! بندہ جھوٹے منہ ہی دوسرے بندے کو پوچھ لیتا ہے۔۔!! لیکن یہ میڈم تو کوئی نرالی مخلوق ہے۔۔ پتہ نہیں کیوں میرے پلے پڑ گئی۔۔!!"


انوشے پر، اس کے "تھینکس" کا جواب نہ ملنا، خاصہ ناگوار ٹھہرا تھا۔۔


اس نے منہ بسورے۔۔ ایک پرشکوہ سی نظر جہانگیر پر ڈالی۔۔اور بولی۔۔

"بندہ جواب ہی دے دیتا ہے۔۔!!"


جہانگیر نے۔۔ اس کے اس شکوے کا بھی کوئی جواب نہ دیا۔۔


"منہ میں دہی جما رکھا ہے یا گونگے ہو گئے ہو۔۔ جواب تو دو۔۔!!" وہ تپ کر بولی۔۔

اس سے۔۔ جہانگیر کا اسے ، ایسے اگنور کرنا برداشت نہیں ہوا۔۔

اس سے۔۔ جہانگیر کا اسے ، ایسے اگنور کرنا برداشت نہیں ہوا۔۔


"جواب دوں ، نہ دوں، میری مرضی!

تمہارا پاپند نہیں ہوں،

اور تم ناں۔۔ اپنی حد میں رہو اور لہجہ سنبھال کر بات کیا کرو۔۔" جہانگیر بھی کہاں ادھار رکھنے والا تھا۔۔

سو اس لیے فوراً بھڑک اٹھا۔۔


"اوہو۔۔ یار۔۔ کبھی تو توے سے نیچے اترا کرو، ہر وقت کا جلا ہوا، بھڑکا ہوا لہجہ ، صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔۔"

انوشے نے اس کی ڈانٹ کا سارا اثر زائل کرتے ہوئے، الٹا اسے ہی دادیوں کی طرح مشورہ دیا۔۔


اور وہ بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔

اب کی بار اس نے جواب دینے کی غلطی نہیں کی۔۔جیسے اس سے بحث کرنا چاہتا ہو۔۔۔۔

شاید وہ سمجھ چکا تھا کہ انوشے سے بحث کرنے کا مطلب ہے اپنا خون جلانا۔۔


"یار۔۔!! ایک تو تم بات بات پر میوٹ ہوجاتے ہو۔۔!!

اگر خاموش بیٹھے رہو گے تو اتنا لمبا سفر کیسے کٹے گا؟؟" انوشے نے پریشانی سے پوچھا۔۔


اور جہانگیر اس کی بات سننے کے بجائے کسی اور ہی الجھن کو سلجھانے میں لگا تھا۔۔


وہ ذہن پر زور ڈالے یہ سوچ رہا تھا کہ۔۔

"گھر پر اس نے بولا تھا کہ یہ میرے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔۔ لیکن اب اس خرانٹ عورت کے کسی کے انداز بالکل بھی ایسا نہیں لگ رہا جیسے زبردستی جا رہی ہے۔۔!!

کہیں اس چڑیل نے مجھے بے وقوف تو نہیں بنایا۔۔!!"

جہانگیر نے معصومیت سے سوچا۔۔


جبکہ چہرے کے تاثرات ایسے تھے کہ انوشے کو لگا۔۔ پتہ نہیں اب کیا آفت ڈھانے لگا ہے۔۔


خیر ابھی وہ اس کے ایکسپریشنز ہی اینالائز کر رہی تھی۔۔ کہ جہانگیر نے۔۔ روڈ کے ایک طرف گاڑی روکی۔۔!

ایک گہرا سانس اندر کھینچتے ہوئے۔۔ خود کو ریلیکس کیا۔۔

اور اپنے پسندیدہ۔۔ یعنی غصے والے تیور لیے۔۔ انوشے کی طرف دیکھا۔۔


اتفاقاً ہی سہی لیکن انوشے کا تکا صحیح نکلا تھا۔۔

وہ واقعی آفت ڈھانے کے موڈ میں تھا۔۔


"کیا ہوا۔۔!! ایسے۔۔ ایسے کیوں گھور رہے ہو۔۔؟؟" انوشے نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔۔


"تم خود کو سمجھتی کیا ہو۔۔؟؟ ہاں۔۔؟؟

بہت عقلمند ہو۔۔؟؟

کوئی بھی کھیل کھیلو گی۔۔ اور کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔۔!

تم نے۔۔ تم نے مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے۔۔؟؟

تم میرے ساتھ زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے آئی ہو۔۔؟؟

بتاؤ مجھے!!

اس نے غصے سے اپنی نظر، انوشے پر گاڑھے۔۔ دھاڑتے ہوئے پوچھا۔۔


"جہانگیر۔۔!! یہ بات تم سکون سے بھی کر سکتے تھے۔۔

اور پتا ہے میں نے تمہیں بےوقوف بنانے کی کوشش نہیں کی۔۔

تم تو پہلے ہی سے بنے بنائے بے وقوف ہو۔۔!!"

انوشے کا لہجہ پہلے جملے میں ذرا سا دبا ہوا تھا۔۔ لیکن اس کا۔۔ اپنی آخری بات پر خود ہی ، جاندار سا قہقہہ نکلا۔۔

جسے اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ، قابو کرنے کی کوشش کی۔۔


پر جہانگیر کی تلملائی ہوئی شکل دیکھ کر۔۔ وہ ایک طرف کو گرتی ہوئی ، ہنستی چلی گئی۔۔


عجیب ڈھیٹ لڑکی تھی۔۔

یہاں شوہر اسے۔۔ اپنے غصے۔۔ رعب اور دبدبے سے ڈرانا۔۔ دھمکانا چاہ رہا تھا۔۔

اور وہ ڈرنے ورنے کی بجائے اسی کا مذاق اڑانے لگی تھی۔۔


جہانگیر نے۔۔ مزید قہر آلود نظروں سے اسے گھور کر باز رہنے کا اشارہ کیا ۔۔


لیکن اسے تو دورہ پڑا ہوا تھا۔۔

اس کی ہنسی کسی طرح بھی قابو نہیں ہوکے دی۔۔


اب جہانگیر کا پارہ مزید ہائی ہوا۔۔


"انوشے۔۔!! یہ اپنے دانت نکالنا بند کرو۔۔!! ورنہ یہ میرا ہاتھ دیکھ رہی ہو ناں۔۔؟؟ میں بالکل کوئی لحاظ کیے بغیر، تمہیں دو چار رسید کردوں گا۔۔!! " جہانگیر غرایا۔۔


مگر مجال ہے۔۔ جو انوشے بی بی کو ذرا بھی فرق پڑا ہو۔۔!!


ہاں بس، اس نے جہانگیر کا خیال کرتے ہوئے اپنے دانت اندر کیے اور بولی۔۔ "اچھا ناں۔۔ آئم سوری۔۔ اب نہیں ہنسوں گی۔۔ پکا!!"


لیکن، اسکی آنکھیں، شرارت بھری مسکراہٹ لیے، ابھی بھی جہانگیر کو سلگا رہی تھیں۔۔


اور وہ شدید غیظ کا شکار ہوتے ہوئے۔۔ اپنا رخ موڑ گیا، کہ کہیں وہ اس سرپھری کے ڈھیٹ پن سے تنگ آ کر ، اسے، سچ مچ ہی دو چار تھپڑ نہ لگا دے۔۔


وہ اپنی ڈرائیونگ سیٹ پر سر ٹکائے، آنکھیں موندے خود کو پرسکون کرنا چاہ رہا تھا۔۔


اور انوشے اس کی ہر حرکت کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔۔


جہانگیر نے یک دم آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا تو۔۔ چیخ کر بولا۔۔ " کیوں گھور رہی ہو مجھے۔۔؟کیا نظر آ رہا ہے میرے منہ پر؟؟"


"یار۔۔ میری مرضی کہ میں گھوروں یا نہ گھوروں۔۔!!

آئی تھنک اس بات پر تمہیں مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔۔!!

ویسے میں تمہیں بتا دیتی ہوں کہ میں کیا دیکھ رہی ہوں۔۔!!" اس نے مسکراتے ہوئے، ہاتھ آگے کر کے، اس کا گال کھینچ کر کہا۔۔


جہانگیر نے، اس کی اچانک عجیب ، حرکت پر حیرت زدہ ہو کر دیکھا۔۔


"یار۔۔ ایکچولی۔۔!! تم اتنے کیوٹ ہو مجھ سے ،تمہیں دیکھے بغیر رہا نہیں جاتا۔۔ غور سے سننا میری بات۔۔!!

اٹس آ کنفیشن۔۔!! دیکھو۔۔ تم جو مرضی کر لو۔۔ بدسلوکی، غصہ، یا پھر کچھ بھی۔۔ لیکن یہ بات یاد رکھنا۔۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ پاؤ گے۔۔!!

یو نو۔۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔ اور پتہ ہے اس وقت سے کرتی ہوں۔۔ جب تم نے فرسٹ ٹائم۔۔اپنے اور ردا کے بارے میں سب بتا کر ، شادی سے انکار کرنے کی ریکوئسٹ کی تھی۔۔

مجھے نہیں پتہ کہ یہ کیسے ہوا!! کیوں ہوا۔۔!! لیکن ہوگیا۔۔!!

پتہ نہیں تم میں، اس وقت مجھے ایسا کیا محسوس ہوا تھا کہ میں خود کو روک نہیں پائی۔۔

اور تمہیں پتہ ہے۔۔ مجھے یقین ہے کہ تم بھی جلد ہی میرے بارے میں۔ سیم فیلینگز رکھنے لگو گے۔۔!!

اس لیے میری مانو۔۔ یہ جلنا کڑھنا چھوڑ دو۔۔ اور ہمارے رشتے کے بارے میں ، سیریس ہوکر سوچو۔۔

جو ہونا تھا ہوگیا۔۔

ماضی کو دل پر لگا کر نہیں بیٹھا کرتے۔۔

آئی ہوپ۔۔!! تم میری بات سمجھو گے۔۔!!"


انوشے نے ایک ایک بات۔۔ پورے جذب کے ساتھ۔۔ جہانگیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے۔۔ بغیر ہچکچائے۔۔ اور بغیر گھبرائے، کہی۔۔


جہانگیر پھٹی پھٹی آنکھیں لیے۔۔ تعجب سے ، اس کے ہر لفظ کو سنتا گیا۔۔


اسے بالکل کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کے بارے میں کچھ ایسا محسوس کر سکتی ہے۔۔ یا کرتی ہے۔۔!!


اور اوپر سے۔۔ سچائی میں ڈھلا ہوا۔۔ اس کا صاف، بے دھڑک اور کھرا انداز۔۔ جہانگیر کے ناقابل یقین تھا۔۔


ایسے کیسے۔۔ آسانی سے وہ اپنی محبت کا اظہار کر گئی۔۔


ابھی۔۔ انہوں نے ساتھ میں وقت ہی کتنا گزارا تھا۔۔

جو اس نے ایسے۔۔ یونہی اتنا اچانک۔۔ سب کچھ کہہ دیا۔۔


مگر اس نے ، ضرور کچھ سوچ سمجھ کر ہی اس وقت یہ بات کہی تھی۔۔

بے شک وہ بہت عقلمند، ہوشیار اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔۔


جو بر وقت ہی۔۔ اپنے اور جہانگیر کے رشتے کے درمیان، حائل ، الجھنوں کو ختم کرنا چاہتی تھی۔۔

بے شک وہ بہت عقلمند، ہوشیار اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔۔


جو بر وقت ہی۔۔ اپنے اور جہانگیر کے رشتے کے درمیان، حائل ، الجھنوں کو ختم کرنا چاہتی تھی۔۔


وہ کسی موزوں موقع کا انتظار کرنے میں اپنا وقت نہیں گنوانا چاہتی تھی۔۔

اس کے نزدیک، اظہار اور اقرار کا یہی بہترین وقت تھا۔۔


اور وہ سب کچھ جہانگیر کے بھروسے چھوڑ کر رشتہ ، بگڑتا دیکھ سکتی تھی۔۔


سو اس نے بلا جھجک اور بلا تاخیر، اپنی ساری فیلینگز، جہانگیر کے گوش گزار کر دیں،

دل پر سے پردہ ہٹا کر۔۔ جیسے ایک بوجھ ہلکا ہوا تھا۔۔


جبکہ جہانگیر، تو بے یقین سا۔۔ ابھی تک اس کا اظہار ہی ہضم نہیں کر پایا۔۔ اور نہ ہی کوئی جواب دینے کی ہمت کر سکا۔۔


بھلا کیا جواب دیتا وہ۔۔؟؟

جھڑک دیتا۔۔؟؟

لیکن کیسے۔۔؟؟


انوشے کا مضبوط لہجا تھا۔۔ کہ جس نے جہانگیر کو کوئی بھی فضول رد عمل ظاہر کرنے سے باز رکھا تھا۔۔


انوشے کے لہجے کی سچائی تھی۔۔ جس نے جہانگیر کو ، اسے اور جزبوں کو جھٹلانے سے بعض رکھا۔۔

اگرچہ ، ابھی اس نے یقین نہیں کیا تھا لیکن وہ جھٹلا بھی نہیں سکا۔


بس ابھی تک۔۔ وہ یک ٹک سا ، انوشے کو تکتا گیا۔۔


انوشے۔۔ اپنے بہتے ہوئے جذبات کی رو سے باہر نکلی تو اسے، اپنے کہے لفظوں کا احساس ہوا۔۔


"اللّٰه۔۔!! کہیں ایموشنل ہو کر کچھ زیادہ تو نہیں کہہ دیا ۔۔۔؟؟" اس نے دانتوں میں زبان دباتے ہوئے سوچا۔۔اور ساتھ ہی تھوڑی خجل سی ہوکر ، دوسری طرف منہ موڑ گئی۔۔


اس کی ہارٹ بیٹ۔۔ اب بہت تیز ہونے لگی تھی۔۔

اور اسے اچھی خاصی شرمندگی بھی ہو رہی تھی کہ کیسے منہ پھاڑ کر اتنی بڑی بڑی باتیں۔۔ یوں آرام سے کہہ دیں۔۔!! اف اللّٰه۔۔ اب یہ میرے بارے میں کیا سوچے گا۔۔!! کتنی بے شرم ہوں میں۔۔!! اللّٰه جی۔۔!! اب میں کیسے نظریں ملا پاؤں گی اس سے۔۔!!

چلو کوئی نہیں۔۔ سوچتا ہے تو سوچے۔۔!! میں نے کونسا کوئی غلط کام کیا ہے۔۔!!


انوشے نے دو منٹ میں۔۔ ندامت سے ڈھٹائی کا سفر طے کیا۔۔ اور ساری شرمندگی، بھاڑ میں بھیجتے ہوئے۔۔ بڑے اعتماد سے۔۔ سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔


یہ الگ بات ہے کہ اس کا دل ابھی تک باہر نکلنے کو ہو رہا تھا۔۔


اور جہانگیر۔۔ وہ تو لاجواب سا ہو کر۔۔ ابھی تک انوشے کے چہرے کا طواف جاری رکھے ہوئے تھا۔۔


انوشے نے اپنا رخ اس کی طرف موڑا۔۔

اور وہ اس بار بڑی عزت سے مخاطب ہوئی۔۔ "ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔!! اور کب تک رکے رہو گے۔۔؟؟ چلنا نہیں ہے کیا۔۔؟؟"

ہائے۔۔ اس کے لہجے کی مٹھاس۔۔!!

کوئی اور وقت ہوتا تو۔۔ جہانگیر غش کھا کر گر جاتا۔۔


لیکن اب۔۔ کچھ دیر۔۔ پہلے ملنے والے جھٹکے کے سامنے تو اس کا یہ لہجہ کچھ بھی نہیں تھا۔۔


بہرحال۔۔ اس نے انوشے کے پوچھنے پر ۔۔ اپنی نظریں فوراً اس کے چہرے پر سے ہٹائیں۔۔


کیوں کہ اسے خدشہ تھا۔۔ کہ انوشے کی محبت سے آباد نظریں۔۔ کہیں اسے اپنی طرف نہ مائل کر لیں۔۔


اور اسی پل۔۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ اس کو اپنے ساتھ نہیں لے کر جائے گا۔۔۔

ورنہ یہ عورت کسی بھی لمحے۔۔ اس کو اپنے بس میں کر لے گی۔۔!! اس کو اپنا دیوانہ بنا کر چھوڑے گی۔۔


سو اس لیے اس نے کار ریورس کی۔۔اور واپس ، اپنے گھر کی راہ لی۔۔

حالانکہ وہ تقریباً آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکے تھے۔۔

لیکن۔۔ بس وہ یہ سب سننے کے بعد۔۔ انوشے کو جاننے کے بعد۔۔ انوشے سے ڈر چکا تھا۔۔ وہ ڈرا تھا کہہ کہیں وہ بھی۔۔ اس کے جذبوں پر ایمان نہ لے آئے ۔۔

وہ ڈرا تھا۔۔ کہ کہیں وہ اس پر یقین نہ کر بیٹھے۔۔

اور وہ ڈرا تھا کہ کہیں۔۔ وہ ردا کو بھلا کر۔۔ اس پر اپنا دل نہ ہار دے۔۔


اور اتنے خدشوں کے ہوتے ہوئے۔۔ کیسے وہ ۔۔ اسے اپنے ساتھ رکھنے کا رزک لے سکتا تھا۔۔!!


سو اس نے ، اسے واپس لے جانے کا فیصلہ کیا۔۔


اسے کار ، واپس موڑتا کرتا دیکھ کر۔۔ انوشے ایک دم کنفیوز ہوئی۔۔


"ارے۔۔ تم نے ریورس کیوں کر دی۔۔؟؟"


"تمہیں گھر چھوڑ کر ، اکیلے واپس جاؤں گا۔۔!!"

اس نے۔۔ سنجیدگی سے کہا۔۔


"کیوں۔۔۔؟" وہ حیران ہوئی۔۔


"سوال نہیں کرو مجھ سے..؟؟" اس نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔۔


"ڈر گئے مجھ سے۔۔؟؟" انوشے نے جانچتی نظروں سے، اس کا چہرہ ٹٹولتے ہوئے کہا۔۔


"شٹ اپ۔۔ انوشے۔۔!! ہر وقت فضول بولتی ہو۔۔!!

تھکتی نہیں ہو۔۔ بار بار الٹی سیدھی باتیں کرکے۔۔!! اب چپ ہو کر بیٹھی رہنا۔۔!! مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم سے۔۔!!" جہانگیر نے کتراتے ہوئے کہا۔۔


حالانکہ یہ حالت تو انوشے کی ہونی چاہیے تھی۔۔


پر وہ تھی ہی سدا کی ڈھیٹ۔۔!! وہ کب ایسے تکلفات میں پڑنے والی تھی۔۔!!


لیکن۔۔اب اسے تھوڑا افسوس ہوا تھا۔۔ کہ شاید اس نے کچھ زیادہ ہی جلدی اظہار کر دیا تھا۔۔


پر جو بھی ہو۔۔!! اب وہ جہانگیر کو ششیےمیں اتار کر آلو نہیں بنا سکتی تھی۔۔


سو۔۔ وہ اس کا لحاظ کرتے ہوئے خاموش رہی۔۔

اور گھر پہنچنے تک۔۔ کچھ نہ بولی۔۔


وہ لوگ جب گھر واپس پہنچے تو اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے۔۔


گھر کا واچ مین جاگ رہا تھا۔۔ سو اس لیے۔۔ وہ کوئی مشکل اٹھائے بغیر گھر میں داخل ہوئے۔۔


اس وقت سب سو رہے تھے۔۔ تو کسی کو ان کے آنے کا پتہ نہیں چلا۔۔

وہ دونوں اپنا اپنا سامان۔۔ کار میں چھوڑتے۔۔ خالی ہاتھ اندر گئے۔۔

جہانگیر بھی ساتھ ہی گیا تھا کیونکہ اس وقت۔۔ اس میں مزید سفر کی ہمت نہیں تھی۔۔

بہت تھک گیا تھا وہ۔۔

اس لیے اس نے سوچا کہ وہ آج رات گھر پر ہی گزار کر۔۔ صبح میں۔۔ دوبارا کراچی کے لیے نکلے گا ۔۔

اس لیے۔۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا۔۔ انوشے کے قدموں کی پیروی کرتا۔۔ اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔

اس لیے۔۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا۔۔ انوشے کے قدموں کی پیروی کرتا۔۔ اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔


انوشے نے اپنے کمرے کے آگے رک کر، اپنے پرس سے چابی نکالی اور دروازہ کھولا۔

اپنے کمرے میں پہنچتے ہی اسے ایک سکون سا ملا تھا، ظاہر ہے، آج کا دن ہی اتنا تھکا دینے والا تھا۔ خیر، اس نے اپنے اس سکون میں اضافے پلس گرمی کے خاتمے کے لیے جلدی سے اے سی آن کیا اور کمرے کی تاریکی کم کرنے کے لیے نائٹ بلب جلایا۔۔


جبکہ جہانگیر تو کمرے میں داخل ہوتے ہی، ایک لمحے کی بھی دیر کئے بغیر، اپنے بیڈ پر بالکل گرنے والے انداز دھڑام سے جا کر لیٹا، تھکن سے چور وجود، یکدم آرام محسوس کرنے لگا تھا، اس کی حالت یہ تھی کہ اس وقت وہ، اپنے ہاتھ بڑھا کر ، جوتے اتارنے کی زحمت بھی نہ کر پایا۔

وہ کسل مندی سے موندی گئی آنکھوں پر بازو رکھے، گہرے گہرے سے سانس لیتے ہوئے، اپنی تکان دور کرنے کی سعی کر رہا تھا۔ کیوں کہ اس وقت اسے صرف اور صرف آرام کی طلب تھی۔


انوشے ایک نظر، اس کے تھکے تھکے سے وجود پر ڈالتے ہوئے واشروم کی جانب گئی، ہاتھ منہ دھو کر، ذرا سا فریش ہوئی اور سونے کے لیے بیڈ پر پہنچی، وہاں دیکھا تو جہانگیر اتنی سی دیر میں سو بھی گیا تھا، انوشے کے لیے، پندرہ منٹ واقعی اتنی سی دیر تھی،

اس کی نظر، جہانگیر کےسارے وجود سے ہوتی ہوئی پیروں تک گئی، "جوتے بھی نہیں اتارے۔۔!! سست کہیں کا!!" اس نے مسکرا کر سوچا اور آگے بڑھ کر بڑے احتیاط سے جوتے اتارے، اس کی ایک طرف کو لٹکی ہوئی ٹانگ آرام سے بیڈ پر رکھا، ایک نظر اس کے نید میں کھوئے چہرے پر ڈالی اور خود اس کے برابر میں سونے کے لیے لیٹ گئی۔


اتنی تھکن اور سونے کی خواہش کے باعث بھی وہ سو نہیں پارہی تھی، اسے جہانگیر کے واپس چلے جانے کا خیال سونے نہیں دے رہا تھا، اسے بہت افسوس تھا کہ صبح وہ چلا جائے گا اور نجانے پھر کب واپس آئے گا۔۔!! وہ بے چینی سے بار بار کروٹیں بدل رہی تھی، پھر پتہ نہیں اسے کیا سوجھی کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور وضو کر کے آئی۔


اس نے جائے نماز بچھا کر اپنی آج کی ساری قضا نمازیں ادا کیں اور پھر ان کے علاؤہ میں دو رکعت نفل برائے حاجت کی نیت باندھی، نماز پڑھنے کے بعد ، اس نے بہت پر امید سے انداز میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، اور لب ہلائے بغیر، بہت شدت سے دعا کی "اللّٰه جی۔۔!! پلیز۔۔ کسی طرح سے جہانگیر کو روک لیں۔۔ دیکھیں ناں، ویسے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن میں اس فضول آدمی سے دور نہیں رہنا چاہتی۔۔ آپ پلیز ، کچھ کریں ناں، اس کو روک لیں ناں، یہ پاگل ہے، ایویں ہر بات دل پر لے لیتا ہے، اللّٰه جی پلیز۔۔ آپ کسی طرح اسے کچھ دن میرے ساتھ رہنے دیں، پھر دیکھئے گا کہ میں کیسے اس کا دماغ سیٹ کرتی ہوں، لیکن اس میں بھی آپ کو میری ہیلپ کرنا ہوگی۔۔ مجھے پتہ ہے آپ ضرور کریں گے میری ہیلپ، کیوں میں آپ کی اتنی کیوٹ سی، اتنی پیاری سی بندی ہوں، اور مجھے پتہ ہے کہ آپ اپنے پیارے بندوں گی ضرور سنتے ہیں، اس لیے آپ میری بھی سنیں گے،"

وہ یوں ہی کافی دیر ہاتھ اٹھائے، جائے نماز پر بیٹھے بیٹھے، بالکل بچوں جیسے انداز میں دعائیں مانگتی رہی اور کافی دیر بعد یہ شغل ختم کرکے واپس سونے کے لیے لیٹی۔


اتنی دیر دعائیں مانگنے کے بعد اسے تھوڑی تسلی ہوئی تھی کہ جو بھی ہو ، اللّٰه تعالیٰ ضرور اسے روک لیں گے آخر اتنی دعا جو کی ہے،


××××


صبح ، انوشے کی آنکھ جہانگیر سے پہلے کھلی تھی، اس لیے وہ جلدی سے اٹھ کر فریش ہوئی اور کمرے سے باہر نکل کر کچن تک گئی، وہاں پر حسب توقع اسے اپنی ساس صاحبہ اور جیٹھانی صاحبہ دونوں ہی مل گئیں،ان دونوں کو اسے وہاں دیکھ کر کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ پہلے ہی کچن کی کھڑکی سے، جہانگیر کی کار ، پورچ میں کھڑی دیکھ کر آپس میں حیرت کا تبادلہ کر چکی تھیں۔


انہوں نے اپنی مسکراہٹ سے اس کا خیر مقدم کیا۔ "کچھ چاہیے تھا انوشے؟؟ ناشتہ بنادوں تمہارا؟؟" بھابھی نے انڈہ پھینٹتے ہوئے پوچھا۔


"نہیں بھابھی، کچھ نہیں چاہیے" انوشے نے ڈائنگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر وہاں بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔


انیسہ بیگم ، ٹیبل پر کھانے کے برتن سیٹ کررہی تھیں،

انوشے کے بیٹھتے ہی وہ بھی اس کے ساتھ ، کرسی کھسکا کر بیٹھ گئیں۔


انہیں انوشے کے انداز سے محسوس ہوا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے، "بیٹا کوئی بات کہنی ہے؟ مجھے تم تھوڑی کنفیوزڈ لگ رہی ہو۔۔!! اور ابھی کل ہی تو وہ نکما پتہ نہیں کیا کچھ بکواس کرکے تمہیں ساتھ لے کر گیا تھا اور اتنی جلدی واپس بھی لے آیا، سب خیر تو ہے ناں بیٹا!!"


"ہائے، آنٹی!! ایک ساتھ اتنے سوال!!" اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے گالوں پر رکھتے ہوئے مصنوعی حیرت سے کہا۔


"ڈرامے نہیں کرو، بات بتاؤ" انیسہ نے بھی لہجے میں مصنوعی سنجیدگی پیدا کرتے ہوئے کہا۔


"آنٹی۔۔ وہ۔۔ دراصل بات یہ ہے کہ میں اپنی مرضی سے جہانگیر کے ساتھ جانا چاہتی تھی اور یہ بات میں نے بتائی نہیں تھی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے کر جائے گا۔ اب ہوا کچھ یوں ۔۔ اسے آدھے راستے میں یہ پتہ چل گیا کہ میں اسے بےوقوف بنا کر، اپنی مرضی سے اس کے ساتھ آئی ہوں اس لیے وہ بدتمیز مجھے واپس لے آیا۔۔" انوشے نے منہ بسورتے ہوئے ساری روداد بتائی۔


فریال بھی مسکراتے ہوئے ، اس کی کہانی سے لطف اندوز ہورہی تھی، ساتھ میں اس کے گھل مل جانے والے، فرینک اور بالکل کھرے انداز سے بہت متاثر بھی ہوئی تھی۔

اس نے زندگی میں پہلی بار اتنی اچھی، اسٹریٹ فارورڈ اور پیاری سی لڑکی دیکھی تھی جو شادی کے دوسرے دن ہی اپنی پرابلم، اپنی ساس صاحبہ سے اس طرح شئیر کر رہی تھی جیسے وہ اس کی ماں ہوں۔


"ہمم۔۔ تو یہ مسئلہ ہے۔۔!!" انیسہ بیگم نے پر سوچ انداز میں کہا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں۔۔ انوشے پھر سے بول پڑی۔


"جی جی۔۔ بالکل یہی مسئلہ ہے۔۔ اور مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔۔ بلکہ پورا مسئلہ تو یہ ہے کہ میں اسے واپس نہیں جانے دینا چاہتی۔۔یہ فیملی سے کٹ کر رہنے والی حرکتیں مجھے نہیں پسند!! آپ پلیز کچھ کریں ناں، اسے کسی طرح روکیں!! آپ کو پتہ ہے۔۔ وہ ناں۔۔! اٹھتے ہی جانے کی تیاری شروع کر دے گا ، پلیز کسی طرح روک لیں۔۔!!" اس نے لجاجت سے کہا۔


"بیٹا۔۔!! اب ہم لوگ کیسے روکیں اس کو ؟؟ تم نے دیکھا تھا ناں کہ کل کیا کیا تماشے کر رہا تھا وہ، اب ایسے کیسے روک لیں اس کو؟؟" انیسہ بیگم نے بے بس لہجے میں کہا۔


واقعی۔۔!! وہ بھلا کیسے اسے روک سکتی تھیں..!!

واقعی۔۔!! وہ بھلا کیسے اسے روک سکتی تھیں..!!


اتنے میں فیضان صاحب اور جہانگیر کا بھائی بھی وہاں تشریف لے آئے اور سب کو سلام کر کے ، وہیں اپنی اپنی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے، انیسہ بیگم کی زبانی، ان دونوں نے بھی انوشے کا مسئلہ سنا، اتنے میں فریال نے بھی ناشتہ سرو کر کے ان لوگوں کو جوائن کیا۔


فیضان صاحب نے انوشے کا مسئلہ سننے کے بعد بہت پیار سے اپنا مخلصانہ مشورہ دیا " بیٹا جانے دو اس بے وقوف ، نکمے انسان کو۔۔ کچھ دن وہاں رہے گا تو عقل ٹھکانے آ جائے گی اور پھر دوڑتا ہوا واپس آئے گا، تب تک کے لیے تھوڑا صبر کر لو۔۔!!"

اور ساتھ کی ناشتے میں مشغول ہوگئے۔


جبکہ انوشے ان کا مشورہ سن کر خوب بدمزہ ہوئی تھی، اب اس نے ایسے مشورے سننے کے لیے، اپنا مسئلہ تھوڑی شئیر کیا تھا۔۔!!


اور اوپر سے فیضان صاحب کا ، جہانگیر کو "نکما اور بےوقوف" کہنا بھی اچھا نہیں لگا، ان القابات میں تو ایسی کوئی خاص برائی نہیں بھی لیکن فیضان صاحب کا لہجہ ان القابات کو برا بنا گیا۔


"انکل۔۔!! ایسے کیسے میں ، اس کی عقل ٹھکانے لگنے کا انتظار کروں۔۔؟؟ اور دیکھیں اب آپ کا بیٹا اتنا بڑا ہوگیا ہے۔۔ اب تو اس کو نکما ، بے وقوف نہ کہیں، ویسے وہ ہے تو کچھ ایسا ہی لیکن پھر بھی آپ کو اب، اسے ایسا نہیں بولنا چاہیے۔۔!!" انوشے نے منہ بناتے ہوئے جہانگیر کے دفاع میں بات کی۔


سب کو اس کے انداز پر بھرپور ہنسی آئی،

فیضان صاحب بھی مسکرا کر بولے۔۔ "آہاں۔۔!! چلو صحیح ہے۔۔!! میری بچی کہتی ہے تو آئندہ نہیں بولوں گا۔۔"


"ویسے بیٹا ۔۔ وہ بہت ڈھیٹ ہے، ہم جو مرضی کرلیں، اگر اس نے جانا ہے تو نہیں رکے گا!!" فیضان صاحب نے کہا۔


"نہیں انکل۔۔!! ایسا بھی کوئی ڈھیٹ نہیں ہے وہ۔۔ اگر آپ چاہیں تو روک سکتے ہیں۔۔۔ دیکھیں ۔۔ آپ لوگوں نے اس کی مجھ سے زبردستی شادی کروائی ہے ناں۔۔ اسی لیے ناراض ہے، آپ اس کو پیار سے سمجھا کر منا لیں تو وہ مان جائے گا۔۔!! آپ خود دیکھیں ناں۔۔ اس نے ایک عرصہ، ردا کے ساتھ اپنا مستقبل پلین کیا ہوگا!! اور ایک دم آپ لوگوں نے اس کی مرضی کے خلاف جا کر اپنا فیصلہ اس پر مسلط کیا۔۔۔!! ایسے میں اس کا روٹھنا بالکل جائز ہے۔۔!!" انوشے نے، جہانگیر کی بھرپور سائیڈ لی۔


"توبہ لڑکی۔۔!! کیا جادو کیا ہے میرے دیور نے تم پر!! صبح سے اسی کو سپورٹ کر رہی ہو۔۔!!" فریال نے اس پر پیارا بھرا طنز کیا ، جس پر سب مسکرائے، اور انوشے نے گھوری سے نوازا۔۔


"بیٹا۔۔!! ہمیں ردا سے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی ہم اپنا فیصلہ، اپنے لاڈلے پر تھوپنا چاہتے تھے، لیکن دیکھو۔۔ ہم اس کے ماں باپ ہیں، اس کو زندگی بھر سکتی دیکھنا چاہتے ہیں۔۔ میں ردا سے خود ملی تھی ۔۔ اسے دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ میرے بیٹے جیسے آدمی کا گھر بسا سکتی ہے یا اسے زندگی بھر کا سکھ دے سکتی ہے۔۔!! اس لیے ہم نے اس کے تمہیں چنا !! یقین کرو کہ ہم نے یہ سب اس کی محبت میں کیا ہے۔۔!! " انیسہ بیگم نے صفائی دی۔


"یہی تو کہہ رہی ہوں میں۔۔!! میری پیاری آنٹی۔۔!! آپ اسے یہ ساری باتیں پیار سے سمجھائیں ناں۔۔ تھوڑا ایموشنل بلیک میلنگ کا تڑکا لگائیں، تھوڑا ڈرامہ کریں تو وہ بالکل مان جائے گا۔۔ بہت سیدھا سا ، معصوم سا بندہ ہے وہ۔۔" انوشے بار بار ، پتہ نہیں کونسے جذبات کی رو میں بہہ کر جہانگیر کی حمایتیں جاری رکھے ہوئے تھی۔۔۔

سب ہی کو بار بار اسکے انداز پر ہنسی آ رہی تھی پر موقع کے حساب سے، انہیں دانت پھاڑنا کچھ موزوں نہیں لگا اس لیے بے چارے ، ہنسی دبا کر ہی اس کی ٹرٹر سن رہے تھے۔


"اچھا چلو ٹھیک ہے۔۔ وہ نکما جاگ جائے تو کچھ کرتے ہیں اس کا۔۔" فیضان صاحب نے مسکرا کر انوشے کو زچ کرنے والے انداز میں کہا۔


"انکل۔۔۔۔!! پھر سے "نکما"؟؟؟" انوشے نے خفا ہو کر کہا۔۔


"اوہو۔۔!! سوری بیٹا۔۔!! غلطی سے نکل گیا منہ سے۔۔!!" فیضان صاحب نے جھوٹ گھڑا۔


"اچھا۔۔ اٹس اوکے۔۔!! اب میں چلتی ہوں۔۔!! جہانگیر جاگے گا تو اسے آپ کے پاس بھیجوں گی۔۔!!" انوشے خوشدلی سے کہتی ہوئی اپنی سیٹ سے اٹھی۔


"ارے ناشتہ تو کرتی جاؤ۔۔" فریال نے اسے روکا۔


"نہیں بھابھی ۔۔ ابھی بھوک نہیں۔۔ تھوڑی دیر بعد کروں گی۔۔" انوشے نے سادگی سے کیا۔


"آہممم۔۔ سمجھا کرو ناں۔۔ جہانگیر کے ساتھ ناشتہ کریں گی محترمہ۔۔" جہانگیر کے بھائی نے چھیڑا۔۔


انوشے نے پورا منہ کھول کر حیرت سے دیکھا۔۔ اور شرمانے کی بجائے، دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے "ہاں جی بالکل!!" کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔


وہ اپنے کمرے میں گئی تو جہانگیر کروٹیں بدل رہا تھا، گویا جاگنے والا تھا۔۔


انوشے نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔ اسے ابھی بھی ، اس کے واپس چلے جانے کی ٹینشن تھی۔۔


خیر وہ خود کو ریلیکس کرنے کے لیے۔۔ کمرے میں ہی ٹہلنے لگی۔۔ پھر کچھ سوتے ہوئے اپنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے گئی، اور اپنا ہلکا پھلکا سا میک اپ کیا۔۔ ذرا بالوں کو خوبصورتی سے سیٹ کیا۔۔ دوپٹہ ڈھنگ سے لیا ۔۔۔ اور ایک ستائش بھری نگاہ سے اپنا سراپا آئینے میں دیکھا۔۔


اب لگ رہی تھی وہ نئی نویلی دلہن۔۔ ورنہ تو اس نے، ایسے ہی خالی پانی سے منہ دھو کر ادھر اُدھر منڈلانا شروع کر دیا تھا۔۔


وہ تیار شیار ہوکر پلٹی تو جہانگیر آنکھیں پھاڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔


وہ ابھی دو منٹ پہلے ہی پوری طرح جاگا تھا۔۔ اور پورے دو منٹ سے وہ اسے مختلف پوز بنا بنا کر ، اپنا جائزہ لیتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔


اور یہ سب دیکھتے ہوئے بس ایک ہی بات اس کے ذہن میں آئی۔۔اور وہ یہ تھی کہ" کیا چیز ہے یہ لڑکی۔۔!!"


اصولاً ، انوشے کو اپنی الٹی حرکتوں کے پکڑے جانے پر سٹپٹانا یا خجل ہونا چاہیے تھا۔۔ لیکن ایسے اصولوں پر پورا اترنا۔۔ انوشے کے بس کا کام نہیں تھا۔۔


سو وہ بغیر ، کسی قسم کی خجالت کا شکار ہوئے مسکرا کر بولی۔۔ "جاگ گئے تم۔۔ چلو اب جلدی سے فریش ہو جاؤ۔۔!! میں تمہارا ناشتہ لاتی ہوں۔۔ ویسے ناشتہ یہیں کرو گے یا باہر۔۔؟؟"

انوشے نے اپنی تیز گام چلائی۔۔


اس کے پوچھنے کے ایسے انداز پر جہانگیر لٹتے لٹتے بچا تھا۔۔۔ اسے دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ ایسی پرواہ کرنے والی لڑکی ہوگی۔۔ پر وہ اس کی پرواہ کر رہی تھی۔۔ اور یہی چیز جہانگیر کو انجانے میں بھا گئی۔۔


"یہیں پر لے آؤ۔۔" جہانگیر نے، انوشے کی شوخ نظروں سے اپنی نظریں چراتے ہوئے جواب دیا۔۔


اور اٹھ کر فریش ہونے چل دیا۔۔


انوشے بھی اس کی حالت کا مزہ لیتے ہوئے ، اس کے لیے ناشتہ لینے گئی۔


×××××


وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔۔انوشے بالکل ریلیکس ہوکر مشورے پراٹھے پر ہاتھ صاف کر رہی تھی۔۔ لیکن جہانگیر کچھ جھجھک سی محسوس کر رہا تھا۔۔ اسے، انوشے کو سامنے بیٹھا دیکھ عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔۔ یا شاید۔۔ اس کا انوشے کے لیے احساس بدل رہا تھا۔۔ شاید اس کا دل انوشے کو قبول کرنے پر اکسا رہا تھا۔


پر اس نے بروقت اپنا دل سنبھالا۔

اس نے بروقت اپنا دھیان انوشے پر سے ہٹا کر، اپنے ناشتے پر لگایا۔

اس نے بروقت اپنا دھیان انوشے پر سے ہٹا کر، اپنے ناشتے پر لگایا۔


وہ لوگ ناشتہ کر چکے تھے، انوشے برتنوں کو کچن میں رکھ کر واپس آئی تو جہانگیر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا۔


انوشے ، بڑے دل جلے انداز میں اس کی تیاریاں ملاحظہ کر رہی تھی۔


جہانگیر، اس کی موجودگی سے بھرپور بے پروائی برت رہا تھا اور اس کی یہ حرکت انوشے کو مزید سلگا رہی تھی۔


وہ تقریباً تیار ہوچکا تھا اور بس اب واپسی کے لیے نکلنے کی تیاری کر رہا تھا، انوشے کا صبر، اب جواب دینے لگا تھا۔ وہ خود ہی آگے بڑھ کر جہانگیر کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی ورنہ جہانگیر کا انوشے کی طرف متوجہ ہونے کا اپنا کوئی موڈ نہیں تھا۔


اس کے ایسے اچانک سامنے آنے پر جہانگیر تھوڑا سٹپٹایا، پر اس نے فوراً ہی خود پر کنٹرول کیا اور اکڑ کر، انوشے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔۔ "کیا مسئلہ ہے۔۔؟؟ کیوں میرے آگے آ کر کھڑی ہوگئی ہو؟؟"

اس نے بہت اکھڑے لہجے میں کہا۔


"تم سچ مچ جارہے ہو؟" اس نے جہانگیر کی آنکھوں میں جھانک کر سوال کیا کہ شاید کہیں اسے اپنی مرضی کا جواب مل جائے، شاید وہ نفی میں سر ہلا دے۔


پر وہ تو جانے کے لیے تیار تھا، وہ کیوں نہ کہتا۔۔!!

اس لیے وہ اس کی خوش فہمیوں پر پانی پھیرتا، توقع کے عین مطابق، اس کے سوال کے جواب میں "ہاں" کہہ گیا۔


"بہت ہی بدتمیز ہو تم!! تمہیں اپنا گھر چھوڑ کر، اتنی حسین بیوی چھوڑ کر، اپنی فیملی کو چھوڑ کر، کرائے کے گھروں میں دھکے کھانے سے، اکیلے رہنے سے کیا ملے گا؟؟؟" انوشے نے غصے سے بھنویں سکیڑ کر کہا۔


"اوہ۔۔ شٹ اپ انوشے۔۔!! مجھ سے بات کرتے ہوئے اپنی ٹون ذرا لو رکھا کرو۔۔ کسی کا، مجھ سے اونچی آواز میں بات کرنا مجھے پسند نہیں۔۔" جہانگیر نے جواب دینے کی بجائے ، الٹا اسے ہی ڈانٹ دیا۔


پر انوشے کو کوئی فرق نہیں پڑا۔۔ وہ ایسی چھوٹی چھوٹی سی باتوں کو دل سے لگا کر فضول میں روٹھنے والوں میں سے نہیں تھی۔ اسے تو اپنا جواب چاہیے تھا۔۔ وہ جہانگیر کو سوال و جواب کے چکر میں ڈالنا چاہتی تھی، تاکہ اس کی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکے تاکہ اسے منا سکے۔


"اچھا ناں۔۔ نہیں کرتی اونچی آواز میں بات۔۔!! لیکن تم جواب تو دو۔۔" اس نے پیار سے کہا۔


اس کا یہ میٹھا سا انداز جہانگیر کو پگھلا رہا تھا۔۔ اس کا ایک دم سے بات مان جانا جہانگیر کو اچھا لگا تھا۔


اسے یاد آیا کہ ، اس کے اور ردا کے اتنے سالوں کے ریلیشن کے دوران، اس نے کبھی اس کی کسی بات سے ایگری نہیں کیا ، کبھی کس بات کو نہیں مانا، اور وہ کیسے پھر بھی دیوانوں کی طرح ، اس کے سب نخرے اٹھاتا تھا۔


اور ایک انوشے تھی۔۔ جو اس کے اس قدر اگنور کرنے کے باوجود بھی، ناراض ہونے کی بجائے اس کے کہے کو مان بخش رہی تھی، اس کی بات مان رہی تھی۔


"کیا جواب دوں؟؟ تم جانتی نہیں کہ میرے گھر والوں نے میرے ساتھ کیا کیا؟؟ بابا نے تو ردا سے شادی کرنے پر مجھے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دی۔۔!! انہوں نے مجھ پر اپنا فیصلہ مسلط کیا۔۔!! میں نے مان لی ہے ان کی بات، میں نے کھو دیا ہے اپنی محبت کو۔۔!! اب اور کیا کروں؟ اب کیوں رہوں میں یہاں؟؟" جہانگیر نے آخر میں لہجہ ایک دم تیز کیا۔


"Calm down Jahangir!

تمہیں اپنے ماں باپ کی محبت پر شک ہے کیا؟؟

انہوں نے کچھ دیکھ بھال کر، کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ لیا ہوگا ناں۔۔!! تم خواہ مخواہ ہی اتنے بدگمان ہو۔۔!!

چلو۔۔ رہنے دو۔۔!! میں بھی کیا باتیں سمجھانے بیٹھ گئی۔۔!! جو دل میں آئے کرو۔۔!! جہاں جانا ہے جاؤ۔۔ لیکن جانے سے پہلے ایک بار اپنے بابا سے مل لینا۔۔ کوئی ضروری بات کرنا چاہتے ہیں وہ۔۔!! اب پلیز۔۔ نہ مت کہنا۔۔!! تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ عمر رسیدہ لوگوں کے پاس زندگی تھوڑی ہوتی ہے۔۔ کسی بھی وقت اللّٰه کو پیارے ہو سکتے ہیں۔۔ اسلیے اگنور مت کرنا۔۔" انوشے نے غمگین سی شکل بنا کر کہا۔۔

اور آخری جملے پر تو غم کو مزید شدت بخشی۔۔


جہانگیر اچھا بھلا ان سنی کرنے والا تھا لیکن اس کی "تھوڑی زندگی" والی بات سن کر ذرا متوجہ ہوا۔۔اور غصے سے انوشے پر بھڑکا۔۔ "بات کرتے وقت ناں۔۔ اپنی عقل کو تھوڑا استمعال میں لایا کرو۔۔ آئیندہ تمہارے منہ سے یہ مرنے مرانے کی باتیں نہ سنوں۔۔!!" وہ وارنگ دیتا کمرے سے نکل کر فیضان صاحب کے پاس گیا۔


اور انوشے ایک گہرا سانس چھوڑتے ہوئے وہیں بیڈ پر بیٹھی۔۔اس نے ، دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں جکڑ کر ایک مٹھی سی بنائی ، اپنی آنکھیں زور سے میچیں اور پھر سے اپنی دعا شروع کی۔۔

وہ بس ایک ہی جملہ بار بار دہرا رہی تھی کہ "یا اللّٰه پلیز انکل کو مشن میں کامیاب کریں ، یا اللّٰه پلیز، اس بے وقوف کو روک لیں۔۔ یا اللّٰه پلیز۔۔!!"


×××××


جہانگیر اپنے بابا کے پاس گیا۔۔

"آپ نے بلایا تھا۔۔" اس نے روکھائی سے پوچھا۔


"ہاں بلایا تھا۔۔ بیٹھو یہاں۔۔" خلاف معمول، ان کا لہجہ بہت شیریں تھا۔


اس بات پر جہانگیر تھوڑا سرپرائز بھی ہوا۔۔ کہ وہ تو پہلے کبھی اس سے ایسے بات نہیں کرتے۔۔ اس کی حیرت بجا تھی۔۔ اگر انوشے نے خاص تلقین نہ کی ہوتی فیضان صاحب آج بھی اپنا رویہ کھردرا ہی رکھتے۔۔

اگر انوشے نے خاص تلقین نہ کی ہوتی فیضان صاحب آج بھی اپنا رویہ کھردرا ہی رکھتے۔۔


خیر وہ وہاں بیٹھ تو گیا تھا۔۔ پر اپنی ناراضگی کے پیش نظر، وہ اپنے بابا کی باتوں کو کچھ خاص توجہ سے نہیں سن رہا تھا۔


انوشے کے کہے کہ مطابق فیضان صاحب نے اسے بہت پیار سے ہر بات سمجھائی، اتنے میں انیسہ بیگم بھی وہاں آگئیں، انہوں نے بھی وہی ساری باتیں جو ہر دوسرا بندہ جہانگیر کے دماغ میں بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا وہ پھر سے دہرائیں۔


جہانگیر پھر بھی ڈھیٹ بنا کچھ نہیں سمجھ رہا تھا، اس کی تان پہلے کی طرح اب بھی وہیں آ کر ٹوٹی تھی کہ

" کیا کروں میں ان ساری باتوں کا؟؟ کیسے مان لوں کہ آپ لوگوں نے یہ سب میری محبت میں مجبور ہوکر کیا؟؟ آپ نے مجھ سے میری محبت کو جدا کر کے، کیا بھلا کیا ہے۔۔؟؟؟"

جہانگیر نے اپنا شکوہ بیان کیا۔


فیضان صاحب کا دل کیا کہ اس کی ان بےتکی باتوں پر، پاؤں سے اپنی پشاوری چپل اتار کر، دو چار لگا ہی دیں پر کیا کرتے۔۔!! بہو کو زبان دے رکھی تھی کہ اس کے شوہر پر زبانی یا عملی ، یعنی کسی بھی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوگا۔



اس لیے، وہ برداشت کرتے ہوئے ، بڑے تحمل سے گویا ہوئے۔۔ "دیکھ بیٹا۔۔ سیدھی سی بات ہے کہ وہ لڑکی تیری قسمت میں نہیں تھی، اگر تجھے اتنی ہی محبت تھی تو مار دیتا اپنی دولت کو لات!!"


"کیسے لات مارتا؟؟ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں، اس کے گھر والے کیسے کسی فقرے سے شادی کرواتے ہیں؟؟"


"تو بس بیٹا ، اب سارا قصور ہمارا تو نہیں ہے ناں، چل مان لیا کہ ہمارا قصور ہے تو پھر بھی وہ لڑکی اگر تجھ سے سچی محبت کی دعویدار تھی تو وہ تیرا ساتھ دیتی۔۔ کہتی کہ جس حال میں رکھو گے میں رہنے کے لیے تیار ہوں، اپنے ماں باپ کو منا لوں گی۔۔ لیکن نہیں۔۔ یہاں اس نے جائیداد سے عاق ہونے کی بات سنی اور وہاں تجھے انوشے کے پیچھے لگا دیا کہ اس سے انکار کروا، اور اپنے ماں باپ کو نیچا دکھا۔۔ کہ آؤ دیکھ لو اپنی پسند کی گئی لڑکی کی حرکتیں، انکار کر کے بیٹھ گئی ہے۔۔ بتا۔۔ تو ایسی لڑکی کے پیچھے مرا جا رہا ہے جس کے آگے ہماری کوئی عزت نہیں؟؟ بس اس بات کی فکر ہے کہ دولت ہاتھ سے نہ چلی جائے۔۔"

جہانگیر اس بار لاجواب سا ہو گیا۔

حقیقت اس کے سامنے رکھی گئی، اب مشکل میں تھا کہ تسلیم کرے یا رد کردے، رد کرنے کا تو کوئی جواز نہیں بنتا تھا اس لیے کڑوے گھونٹ پیتے ہوئے ماننا پڑا، لیکن وہ ابھی بھی اپنے تیوروں میں سختی لیے ایسا تاثر دے رہا تھا کہ جیسے اسے کچھ ہضم ہی نہیں ہوا۔


اس کی یہ ڈھٹائی دیکھتے ہوئے ، اس کے اماں بابا نے آخری داؤ کھیلا۔۔ یعنی ایموشنل بلیک میلنگ شروع کی۔۔ وہی مرنے مرانے کی باتیں ، دو چار آنسو، اور ایسی دوسری، چھوٹی موٹی ٹرکس کا استعمال کرتے ہوئے، جہانگیر کو ٹریپ کرنے کی کوشش کی اور اس مرتبہ وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔


جہانگیر ، ان کی باتوں میں آنے لگا تھا۔

ان کے بار بار گھر نہ چھوڑنے کے اصرار پر اس نے کوئی خاص رد عمل نہ دیا۔۔ اب وہ اپنے تھوڑا وقت دینا چاہتا تھا، اس نے دوبارہ کوئی فیصلہ کرنے کے لیے وقت طلب کیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔


وہ کمرے میں گیا تو انوشے اپنی اسی حالت میں آنکھیں میچے ، منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھی، حقیقیتاً تو وہ دعا کر رہی تھی پر جہانگیر یہ نہیں جانتا تھا۔اس لیے اس نے حیرت سے پوچھا۔۔

"یہ کیا کر رہی ہو۔۔؟؟"

اسکی آواز پر انوشے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔

اور بڑی آس سے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔۔

"رہنے دو۔۔ کیا فائدہ تمہیں بتانے کا۔۔"

اس کے ایسے انداز پر جہانگیر کو تھوڑا تجسس ہوا لیکن اس نے آگے سے کچھ نہیں کہا۔


انوشے نے دل جلے انداز میں سوچا "بندہ تھوڑا انسسٹ ہی کر لیتا ہے۔۔ اب ایک دفع اور پوچھ لیتا تو کیا چلا جاتا اس کا۔۔ بدتمیز کہیں کا۔۔!!" اور ساتھ ہی میں اپنے خیال میں سوچے گئے الفاظ کو ایکسپریشنز کا روپ دے کر، جہانگیر کو گھورنے لگی۔


جہانگیر شاید وجہ سمجھ چکا تھا، اسے اس کی شکل دیکھ کر ہنسی بھی آ رہی تھی لیکن فی الوقت، وہ بڑی مہارت سے اپنی ہنسی چھپا گیا۔۔

وہ تھی ہی ایسی۔۔!! اپنے دشمنوں کو بھی بس میں کر لیتی تھی جہانگیر تو پھر اس کی چاہت تھا۔


جہانگیر اسے پھر سے نظر انداز کرتا اپنے فون پر کچھ دیکھنے لگا۔۔۔ اور دیکھتے دیکھتے ایک دم اس کے ہوش اڑے۔۔ اس نے فوراً انوشے کو پانی لانے کے بہانے سے بھگایا، اس بیٹھ کر تسلی سے اپنی میلز چیک کی تو اسے اچھا خاصہ جھٹکا لگا۔


اصل میں اسے کمپنی کی طرف سے میل موصول ہوئی تھی جس میں لکھا تھا "چار دن پہلے سینڈ کیا گیا اپوائنٹمنٹ لیٹر در حقیقت کسی اور کے نام جاری کرنا تھا اور غلطی سے آپ کے نام جاری کر کے آپ کو بھیج کیا، اس کوتاہی کے لیے معذرت خواہ ہیں۔"


وہ تو بہت حیران و پریشان سا ،اپنی فون سکرین کو دیکھتا گیا، یعنی جس جاب کی بنیاد پر اس نے اپنا گھر بار چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا وہ اسے ملی ہی نہیں، شکر تھا کہ وہ ابھی تک گیا نہیں تھا ، ورنہ تو اس نے اپنی اسی جاب کی بنیاد پر، کسی جاننے والے کے توسط سے، کرائے کا اپارٹمنٹ تک بک کروا لیا تھا اور اس نے سوچا تھا کہ وہ کبھی پلٹ کر گھر نہیں آئے گا۔


مگر اس میل نے تو اس کے سارے پلینز چوپٹ کر دیے۔۔ اس نے سوچا کہ خدا ناخواستہ ابھی اگر وہ چلا جاتا تو اس کا کیا بنتا!! کیسے سروائیو کرتا۔۔ اس کا بینک بیلنس بھی اتنا تھا کہ جاب کے بغیر بمشکل دو مہینے ہی ٹھاٹھ سے گزرنے تھے۔۔ اور اگلی نوکری اللّٰه جانے کب ملتی۔۔!!


اف۔۔!! شکر ہے تھا کہ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا تھا۔۔!! اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں اپنا فیصلہ بدل کر سب کی بات مان لوں۔۔!! ورنہ اب وہاں جا کر میں مکھیاں ماروں گا۔۔!! اماں ابا نے بھی اتنے پیار سے سمجھایا ہے۔۔!! اب ان کی بات ایسے کیسے ٹالوں۔۔!! آخر میرے ماں باپ ہیں، میرا بھلا چاہتے ہیں۔۔ اور انوشے وہ بھی اتنا پیار کرتی ہے۔۔!! ردا کو گولی مارو۔۔!! اس سے شادی نہیں ہوئی تو ہوئی۔۔ اب کیا دل سے لگا کر بیٹھا رہوں۔۔!! ایویں۔۔!! کتنا پاگل ہوں میں۔۔!! چلو چھوڑو۔۔!! اب سب کو خوش کرتا ہوں۔۔!! کہہ دوں گا کہ آپ لوگوں کے کہنے پر رک رہا ہوں۔۔!! ہاں۔۔ اب اتنا سا ڈرامہ کرنا میرا حق ہے۔۔!! چلو جی ڈن ہوگیا۔۔!! اب میں کہیں نہیں جاتا۔۔!! بھلا کیا فائدہ گھر جیسی جنت کو چھوڑ کر جانے کا۔۔!!


ایک پیغام کیا موصول ہوا۔۔!! ایک میل کیا پڑھ لی۔۔!! جہانگیر میاں کا تو نقطۂ نظر ہی بدل گیا۔۔

لیکن یہ صرف میل کا کمال نہیں تھا۔۔ اس کی سوچ کے بدلاؤ میں سب سے بڑا ہاتھ تو برین واشنگ کا تھا۔۔ جو کہ اس کے گھر والوں نے بہت اچھے سے کی تھی۔


اب وہ بیڈ پر بیٹھا۔۔ پاؤں ہلاتا ہوا۔۔ انوشے کا انتظار کرنے لگا۔۔ "پتہ نہیں کہاں رہ گئی۔۔! پانی لینے گئی ہے یا کنوئیں سے نکالنے" جہانگیر نے سوچا۔


اس نے سوچا ہی تھا کہ انوشے گلاس لیے حاضر تھی۔۔

اس نے غٹاغٹ پانی پیا۔۔ گلاس انوشے کو تھمایا۔۔ اور اپنی شرٹ کی آستینوں کے بٹن کھول کر ، آستینیں اوپر چڑھائیں، اپنے بوٹ اور جرابیں اتاریں اور لمبا ہو کر سکون سے پھر سے لیٹ گیا۔۔


انوشے اس کی حرکات و سکنات بڑے تعجب سے ملاحظہ کر رہی تھی۔


"یہ کیا کر رہے ہو۔۔؟؟ تم نے تو ابھی ابھی نکلنا نہیں تھا۔۔؟؟ پھر لمبے ہوکر کیوں لیٹ رہے ہو۔۔؟؟" انوشے آلتی پالتی مار کر، بیڈ پر اس کی دائیں جانب بیٹھتے ہوئے بولی۔۔


جہانگیر نے اس کی جانب کروٹ لی، اور اپنی کونی بیڈ پر ٹکا کر،بازو کا سہارا لیتے ہوئے، اپنا چہرہ ایک جانب سے اپنی مٹھی پر رکھا اور تھوڑا اونچا ہو کر، انوشے کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔ "تم کیا چاہتی ہو۔۔؟؟ جاؤں۔۔!!"


انوشے، اس شوخ نظروں کا مفہوم سمجھ چکی تھی۔۔ کہ وہ کہیں نہیں جانے والا تھا۔۔ اس لیے مسکرا کر تنگ کرتے ہوئے بولی۔۔ "ہممم جانا ہے تو چلے جاؤ اب جانے والوں کو کون روک سکتا ہے۔۔"


جہانگیر تلملا کر باقاعدہ اٹھا۔۔ اور اسے، اپنا تکیہ دے کر مارا، "چڑیل کہیں کی۔۔!! کہیں نہیں جا رہا میں۔۔!! میں چلا گیا تو پیچھے تمہاری زندگی جہنم کون بنائے گا۔۔!!" اس نے چڑ کر کہا۔


انوشے نے بھی جواباً اپنا تکیہ اٹھا کر اسے مارا۔۔ "کیا کہا ؟؟ جہنم بناؤ گے۔۔؟؟ تمہاری ایسی کی تیسی۔۔!! ابھی تم نے انوشے حیدر کا پیار دیکھا ہے۔۔!! ذرا سا کچھ کہا ناں۔۔ تو میں تمہارے چودہ طبق روشن کر دوں گی۔۔!! " اس چہرے پر مصنوعی سختی لا کر۔۔پیار بھری وارنگ دی۔۔


"ہائے۔۔ تو کردینا روشن۔۔!! ویسے بھی ردا کے جانے کے بعد کافی اندھیرا ہوگیا ہے۔۔!!" اس نے آنکھ مار انوشے کو جلایا۔۔


اور انوشے اس کا گلا دبانے کے لیے، اپنے ہاتھوں سمیت خود بھی اس کے بہت قریب آ گئی۔

اف۔۔ اس اچانک کی قربت پر انوشے کی دھڑکنیں ایک دم بے ترتیب ہوئیں۔۔ جہانگیر بھی سانس روکے، اسے دیکھتا گیا۔۔ ایک لمحے کو جیسے وقت تھما تھا۔۔

پر وقت کا یہ ٹھہراؤ صرف لمحے بھر کا ہی تھا۔۔

وقت کا تو کام ہی گزرنا ہے۔۔ سو وہ گزرا۔۔ اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان دونوں کے رشتے کو مضبوط کرتا گیا۔

ان کے لیے کیوٹ کیوٹ سی نوک جھوک والی خوشیوں سے بھرپور زندگی تخلیق کرتا گیا۔

حتیٰ کہ سال بعد ، ننھی مشعل کی صورت میں ان کو انکی زندگی کا سب سے حسین تحفہ بھی دے گیا۔

اور یوں ان کی فیملی مکمل ہوئی۔۔ یوں ان کا اعتبار، ان کی محبت، انکی چاہت، ان کا اعتماد ایک دوسرے کے لیے مزید مستحکم ہوا، مزید مضبوط ہوا۔

××××

ختم شد

🎈🎈🎈🎈🎈

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Payaar Na Dobara Ho Ga Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Payaar Na  Ho Ga Dobara   written by Suhaira Awais. Payaar Na Ho Ga Dobara by Suhaira Awais is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment